Dildaar Masihaye Dil By Faiza sheikh Romantic Complete Novel Story - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Wednesday 19 June 2024

Dildaar Masihaye Dil By Faiza sheikh Romantic Complete Novel Story

Dildaar Masihaye Dil By Faiza sheikh  Romantic Complete Novel Story 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Dildaar masihaye Dil By Faiza Sheikh Complete Novel 


Novel Name: Dildaar Masihaye Dil 

Writer Name:  Faiza sheikh 

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔


یہ منظر شاہ ہاوس کا ہے شاہ ہاوس  رنگ برنگی برقی قمقموں سے آراستہ تھا،مخروطی چھت کو ان ننھی منی لائیٹس سے اس طرح  آراستہ کیا گیا تھا کہ لگ رہا تھا روشنیوں کا کوئی  آبشار نیچے تک بہہ رہا ہو  باہر موجود ناریل کے بڑے سے درخت پر بھی پتوں کے  کے بیچ رنگ برنگے چھوٹے چھوٹے بلب جگمگاتے پھول لگ رہے تھے پورا شاہ ہاوس  اس قدر جگر جگر کر رہا تھا کہ پورا گاوں جگما اٹھا تھا ،راہدرای میں بھی روشنی کا اچھا اور خوبصورت انتظام  کیا گیا تھا 

مووی والے بھی اپنی لائیٹس سے رات کو دن بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے تھے ،ہلکی ہلکی خنک ہوا میں باربی کیو کی اشتہا انگیز مہک ہر سو پھیل رہی تھی ،کہیں گرما گرم کچوریوں کی خوشبو اٹھ رہی تھی تو کہیں مٹھائیوں کی سوندھی سوندھی خوشبو مٹھاس بکھیر رہی تھی اس قدر پر لطف انتظام آج دلاور شاہ کی چھوٹی بیٹی صنم کی بارت کی خوشی میں کیا گیا تھا بارات آنے میں ابھی تھوڑا ٹائم تھا لیکن ہلچل روج پر تھی ایک افراتفری تھی جو ختم ہونے کا نام ہی نہِیں لے رہی تھی ،مہمان بھی آنا شروع ہو گئے تھے ماحول میں ہنسی مزاق اور قہقہوں کا سنگم فضا کو مزید خوشگوار بنا رہا تھا 

یہ سارا اہتنام تو آج کل ہال اور میرج لان میں کیا جاتا ہے لیکن دلاورشاہ کی لاڈلی بیٹی کی شادی تھی وہ چاہتے تھے کہ صنم ان کے گھر سے رخصت ہو تاکہ رات گئے تک رخصتی کے بعد ان کے دل میں ویرانی نا آئے صنم ان کے جگر کا ٹکڑا تو تھی ہی لیکن ان کی لاج دلاری بھی تھی اس لیے سارا انتظام شاہ ہاوس  میں ہی کر لیا گیا تھا تین دن پہلے مایوں کی تقریب بھی اپنے انجام کا پہنچی تھی تب سے اب تک شاہ ہاوس  میں رونق ہی رونق تھی بیرون شہر سے آئے مہمان شاہ ہاوس  کے خاص کمروں میں ہی قیام پذیر تھے رنگ برنگے آنچل سے حویلی دمک اٹھی تھی لیکن ایک بات تھی تمام خواتین کے لباس انتہائی پر کشش اور با حیا تھے سب عورتوں نے خوبصورتی سے اپنے سروں پر تاج کی طرح دوپٹے لیے ہوئے تھے ویسے تو خواتین اور مرد وں کے لیے الگ انتظام کیا گیا تھا خواتین زنان خانے میں تھیں جبکہ مرد حضرات کی بیٹھک لگی ہوئی تھی 

باوردی بیرے ان سب کو ان کے پسندیدہ مشروب سرو کر رہے تھے کسی شے کی کمی نہ تھی ہر شے کی فراوانی تھی 

بس ایک بے اطمینانی تھی تو ماہ کے دل میں جس نے ذہن وروح کو عفریت کا شکار کر دیا تھا ہر طریقے سے آراستہ اور پیراستہ ہو کر بھی بہت مضمحل و دل گرفتہ بیٹھی تھیں بظاہر دنیا والوں کو دکھانے کے لیے ہنس بول بھی رہی تھی اور موقع کی مناسبت سے تیار بھی ہو گئی تھی   بار بار نظریں صنم کے کمرے کی طرف جارہیں تھیں یہ ساری رونقیں اور قہقہے بس ایک خدشے کا شکار نظر آرہے تھے کچھ یہی حال  ان کی ماں منیبہ بیگم کا بھی تھا 

وہ بھی بظاہر مہمانوں سے خوشدلی سے مل رہیں تھیں مگر جو دل میں دھڑکا لگا بیٹھا تھا اسے تو اپنے شوہر سے بھی نہیں کہہ سکتی تھیں کہ فوراً ان کی طرف سے سوتیلے پن کا لقب ملتا 

منیبہ دلاور صاحب کی پہلی بیوی اور ماہا ان کی بیٹی تھی ایک سکون کے عالم میں شب وروز گزر رہے تھے دلاور صاحب کی سخت طبیعت کے باوجود منیبہ کے مزاج کا ٹھراو زندگی کو باآسانی گزارنے میں سہل کر گیا تھا ماہا اکلوتی اولاد تھی اس کے بعد کچھ پیچیدگیوں کی وجہ سے وہ دوبارہ ماں بننے کے قابل نہ رہیں لیکن دلاور صاحب کی بیٹے کی خواہش نے اور ان کے رنگین مزاجی نے انہیں کسی باہر کی عورت کاایسا  اسیر بنایا کہ وہ انہیں بیاہ کر لے آئے منیبہ بے بسی سے چوخ و چنچل سی لڑکی کو فاتحانہ انداز میں مسکراتی دیکھتی گئیں جو ایک انداز دلبرانہ سے دلاور شاہ کا بازو تھامے اپنے آگے ایک مجبور عورت اور دوسالہ بچی کو دیکھ رہی تھی 

یہ دیواروں سے سر ٹکرانے کا ٹائم نہیں تھا سو بڑے حوصلے اور صبر کے ساتھ زندگی کے اس فیصلے کو قبول کیا ،کبھی جو شکوہ کیا تو دلاور شاہ کے اٹل لہجے نے باور کرا دیا کہ کچھ بھی بولنا بے سود ہے

" تمہیں برابر کا حق ملے گا کوئی کوتاہی ہوئی تب واویلا کرنا بس کائنات سے دوبدو کوئی سوال جواب نہ کرنا "

اب اس سے آگے وہ کہہ بھی کیا سکتی تھیں جب خوشبووں میں بسی کائنات ان کے سامنے  بیٹھے دلاور صاحب کے ساتھ بلند وبانگ قہقہے لگا رہی ہوتی اور اس کا انداز اور وضع قطع ہی کچھ الگ تھا مرد کو اپنی مٹھی میں کر لینے والا سو منیبہ بے بس منچھی کی طرح بس پر ہی پھڑ پھڑا کر رہ گئیں 

دلاورشاہ کو ہوش تو تب آیا جب دو ماہ کی بچی کو ان کے حوالے کرکے دوٹوک جواب دے کر رخصتی کا پروانہ طلب کر رہیں تھیں 

"دانش میری پہلی محبت تھا کچھ وجوہات کی بنا پر مجھ سے شادی نہ کر سکا لیکن اب وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے برائے مہربانی مجھے اس نام نہاد رشتے سےآزاد کریں اور مجھے آپ کی اولاد سے بھی کوئی  سروکا ر نہیں ہے اسے بھی اپنے پاس رکھیں مجھے میری غلطی پر معاف کیجیے گا  "

ننھی بچی کو ان کی طرف بڑھاتے ہوئے اس نے غلطی کا لفظ بڑی سفاکی سے ادا کیا جس کی شدت کا اندازہ دلاور شاہ کی سرخ آنکھوں سے ہورہا تھا جن میں شکست تھی ،کرب تھا احساس ندامت تھی تو کہیں ایک شرمسار قصہ اپنے تمام باب کھولے پڑا تھا 

"یہ بچی جوان ہو گئی تو اسے کس طرح اس کی ماں کی کہانی سناوں گا کہ کیوں اسے چھوڑ گئی ؟ اور کہاں گئی ؟بے وفا عورت "

جاتے وقت بس یہی ایک سوال انہوں نے خون فشاں ہوتی آنکھوں سے کیا تھا 

"یہ تمہاری اولاد ہے ،تمہارا خون ہے تم اس کی پرورش کے زمہ دار ہو اگر تم وفادار ہوتے تو منیبہ اور ماہا سے بھی وفا کرتے "وہ تسخر اڑانے لگی 

اب دیکھنا یہی ہے اس بچی کے ساتھ کتنی وفا کرتے ہو زرا سی بھی اس سے محبت ہوگی نا تو اسے احساس ہی نہیں دلواو گے کہ اس کی ماں کوئی اور تھی اور نہ ہی ماہا اور اس کے بیچ کوئی  فرق رکھو گے "

"غدار عورت !اولاد کو کبھی یوں بھی کوئی  چھوڑ کر جاتا ہے ،ارے اولاد کے لیے تو دنیا ایک طرف ہو جاتی ہے آخر دکھا دی نہ اپنی گھٹیا اصلیت "

تم کرو ،محبت اس سے ،میں جزباتیت میں اپنے ارمانوں جا گلا نہیں گھونٹ سکتی ،دانش واپس آگیا ہے میرے تمام خوابوں کی تعبیر بن کر اب عقلمندی یہی ہے کہ میرا پیچھا چھوڑ دو اللہ حافظ!

میں طلاق کے کاغذات کا انتظار کرونگی "کھٹ کھٹ کرتی وہ ان کی زندگی سے ایسے نکل گئی جیسے کبھی آئی نہیں تھی اس وقت بھی منیبہ اور ننھی ماہا زندگی کے اس تماشے کو دیکھتے رہ گئے بہت دنوں بعد منیبہ نے شوہر کے چہرے پر ملال دیکھا تھا ،جس کا رعب داب ہی اس شان تھا انہیں یہ تبدیلی اچھی نہیں لگی تھی شوہر تو اپنے فخروغرور میں ہی اچھا لگتا ہے  یہ کمزور پڑتا شکست خوردہ مرد۔۔۔۔۔۔وہ بے ساختہ آگے بڑھیں تھیں اور ننھی بچی کے لیے ہاتھ پھیلائے 

"اسے مجھے دیں آج سے میں ان دونوں بچیوں کی ماں ہوں انہیں جیسے جھٹکا لگا ،بہت خوفناک خواب سے جیسے بیدار ہوئے سیکنڈوں میں ان کا جاہ و جلال واپس آگیا جو کائنات جیسی عورت کے سامنے کبھی نہ ابھرا ۔۔

کبھی محسوس نہ کرنا کہ تمہاری بیٹی کون ہے اور اس بیوفا عورت کی بیٹی کون سی تاکہ زندگی کے کسی مقام پر اس سامنا ہو تو وہ بھی دھوکہ کھا کھا جائے کہ میری بیٹی کون ہے 

منیبہ نے اس کی پرورش میں کوئی کسر نہ چھوڑی جو کہا وہ کر دکھایا ۔۔ راتوں کو اس بن ماں کی بچی کے لیے جاگیں ،ماہا کی طلب کو نظر انداز کرکے صنم کی طلب کو پورا کیا پھر بھی دلاور صاحب کے دل کو قرار نہ تھا کبھی جو صنم روتی تو تیکھے جملے کی نوک ضرور ان کے دل میں گاڑھ دیتے 

دیکھو کیوں رو رہی ہے وہ ؟ کبھی ماہا سے نظریں ہٹا کر اس کی طرف بھی دیکھ لیا کرو ،،بیٹے کی طلب کہیں اور جا سوئی تھی اب تو ساری ضدیں منیبہ سے تھیں ،ساری محرومیوں کا حساب وہ صبردار عورت دیتی رہتیں ماہا اپنی ماں کی طرح کم گو اور معاملہ فہم لڑکی تھی ماں کی مجبوریوں کو خوب سمجھتی تھی اور سمجھوتہ کرنے کی عادت تو اس قدر پڑ گئی تھی کہ فوراً اس چیز سے دستبردار ہوجاتی جس کی خواہش سبز آنکھوں اور بے تہاشا گوری رنگت والی صنم کرتی ہر وقت کی خواہشات کی تکمیل نے اس کے مزاج کو ضد پن اور تکبر میں ڈھال دیا تھا اپنے سے کمتر لوگوں کو وہ منہ لگانا تو درکنار نظریں اٹھا کر دیکھنا بھی پسند نہیں  کرتی تھی 

گھر کے ملازموں اور ڈرائیوروں کو انگلی پر نچانے کے ساتھ ان کی ہتک بھی خوب کیا کرتی ،کبھی اس مسلے میں ماہا مداخلت کرتی تو وہ ہاتھ اٹھا کر خاموش کرا دیتی 

"ان لوگوں کو ڈھیل دینے کامطلب خود کو تزلیل کروانا ہے ،بہتر ہے مجھے اپنا کام کرنے دو " وہ خاموش کی خاموش رہ جاتی منیبہ بیگم شروع سے ہی اس کی چال ڈھال دیکھ کر چپ سادھ گئیں تھیں کہ جب ان کا شوہر اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ کر نظر انداز کر رہا ہے تو وہ کون ہوتی ہیں کسی مسلے میں دخل اندازی کرنے والی 

وقت کا پہیہ چلتا رہا اط دونوں کالج کی طالبہ تھیں ،صنم جس قدر خوبصورت تھی اتنا ہی تعلیمی میدان میں پیچھے ،جیسے تیسے بی ایس سی کے پارٹ ون میں پہنچی تھی اور ماہا ایم ایس سی کے پارٹ ون کی زہین ترین سٹوڈینٹ تھی 

ملیح رنگت ،بڑی بڑی آنکھیں ،بے تہاشا سیاہ بالوں والی ماہا اپنے وقار اور تمکنت سے پوری یونی کی ہر دلعزیز لڑکی تھی 

صنم کالج میں ہی رہ گئی تھی دونوں اکٹھی ڈرائیور کے ساتھ گاڑی میں نکلتیں ،صنم کا کالج راستے میں تھا سو وہ راستے میں اتر جاتی اور ڈرائیور ماہا کو لیکر آگے بڑھ جاتا واپسی بھی اسی طرح ہوتی آج کل کے حالات کے پیش نظر دونوں کو سیل رکھنے کی اجازت گھر سے ہی تھی جبکہ صنم اسے اپنا حق سمجھ کر مہنگا ترین فون ہاتھ میں پکڑے رہتی 

گزرے وقت کے ساتھ ایک حادثہ یہ ہوا کہ صنم کو ایک دن منیبہ بیگم اور دلاور شاہ کی گفتگو سے پتا لگ گیا کہ وہ منیبہ کی بیٹی نہیں  ہے اور ماہا کی بہن نہیں ہے فق ہوتے چہرے سمیت دھڑ سے اندر داخل ہو گئی جہاں دلاور صاحب منیبہ بیگم کو کھری کھری سنا رہے تھے 

"میں ان کی بیٹی نہیں ہوں تو پھر کس کی ہوں؟کون تھی میری ماں اور جب یہ میری ماں نہیں  ہیں تو کون ہیں ؟؟

ہر بات کا برملا اظہار اس کی خاصیت تھی تو پھر اتنی بڑی بات سے آگہی اسے مشتعل نہ کرتی ؟وہ تو جیسے موقع کے انتظار میں رہتی تھی آگ بگولہ ہونے کے لیے ابھی تو افسانے بنانے کے لیے بہت بڑا نقطہ اسے مل گیا تھا منیبہ سکتے کے عالم میں آگیئں تھیں دلاور صقحب جذباتیت میں کہے گئے جملوں کا الزام منیبہ بیگم پر ڈالنے پر تیار ہو گئے 

"تم ہماری بیٹی ہو غلط فہمی ہوئی ہے تمہیں ۔۔۔منیبہ کا جملہ خود ہء لڑکھڑا گیا 

اتنی بڑی غلط فہمی کیسے ہو سکتی ہے مجھے اپنے کانوں سے سنا ہے سب کچھ اور آپ تو چپ ہی رہیں مجھے ڈیڈ سے بات کر لینے دیں ،،بدتمیزی سے انہیں چپ کراتی رخ باپ کی طرف کت گئی 

تمہاری ماں ٹھیک کہہ رہی ہے ۔۔۔ انہوں نے نظریں چرائیں 

ان کی ہاں میں ہاں ملانے کی زیادہ ضرورت نہیں ہے مجھے دب کچھ صاف صاف بتائیں ،،وہ اتنی بڑی تباہی بن کر سامنے کھڑی تھی کہ انہیں جھوٹ کا سہارا لینا محال لگ رہا تھا اور جو کچھ انہیں نا چاہتے ہوئے بھی بتانا پڑا اس پر وہ قطعی یقین کرنے کو تیار نہیں تھی 

"یہ کیسے ہوسکتا ہے بغیر کسی وجہ سے میری ماں نے اپنا بسا بسایا گھر اپنے ہاتھوں سے اجاڑ دیا ،کوئی تو وجہ ہوگی جس کی بنا پر وہ اپنی اولاد کو چھوڑ کر چلی گئیں ،اس کی آنکھوں میں ناقابل یقین تاثر تھا 

''ہاں تمہاری سمجھ میں یہی کچھ آئے گا لیکن تمہاری ماں کی سوچ تم سے کئی زیادہ بلند تھی کہ اپنے عاشق کے سامنے گھر ،شوہر اور اولاد بھی ہیج لگے تھے اب کے وہ غصے میں آگئے تھے 

مت لیں ایسے ان کا نام ۔۔۔۔،،دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپائے چلا کر روپڑی تھی کبھی جو اس کی آنکھوں میں نمی برداشت نا کر پائے تھے آج وہ بن ماں کی بیٹی ایسے اشک بہا رہی تھی یہ کیسے برداشت کرتے اس کے غم کا ذم دار خود کو سمجھنے لگے ،شکوں کناہ ہوکر منیبہ کو دیکھا وہ کمرے سے باہر نکل گئیں ،پتا تھا کہ قصوروار ٹھرانے میں ایک پل کا تعامل نہیں کریں گے اور صنم کی نظروں میں تو وہ نا معتبر ہیں ہی _اس کے بعد تو صنم اپنے کمرے میں جو محصور ہوئی کسی کے بلانے پر بھی اس کا سکتہ نہ ٹوٹا 

منیبہ بیگم ،ماہا سب نے اپنے تئیں کوشش کر لی اس کا ایک ہی جواب تھا کہ اگر زیادہ ضد کی تو وہ کچھ کھا کر ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جائے گی دونوں بدنامی کے خوف سے پیچھے ہٹ گئیں دلاور صاحب دوسری صبح جب بے حد ملتجی ہوئے تب اس نے دروازہ کھولا 

متورم آنکھیں ،سپید چہرہ اور ایک روز کا بھوکا پیاسا نحیف وجود ان کی باہوں میں جھول گیا ان کے تو ہاتھ پاوں پھول گئے فوراً ہاسپیٹل لے کر گئے 

ڈاکٹر نے کسی صدمے کا اثر بتایا اور مزید کسی بھی قسم کی ٹینشن لینے سے منع کیا 

"دیکھ لیا اپنی زبان درازی کا نتیجہ ، تم لوگ اس بچی کی جان لے کر رہو گے ،،تنہائی ملتے ہی وہ کمزور حیثیت والی عورت کو داغ دے گئے منیبہ بیگم خالی خالی نظروں زے محض دیکھتی رہ گئیں 

💔💔💔💔💔

صنم گھر آچکی تھی پر اس کے رویے میں کوئی تبدیلی نہ آئی منیبہ اور ماہا کو تو وہ جیسے اپنا دشمن سمجھ بیٹھی تھی اس کی نظر میں اس کی ماں پاکباز تھی کن کے ساتھ منیبہ اور دلاور صاحب نے ظلم کیا تھا صنم اپنے کمرے میں جہازی سائز بیڈ پر آنکھیں موندے پڑی تھی جب دلاور صاحب روم میں آئے آہٹ پاکر صنم نے اپنی سرخ آنکھوں سے دروازے کی طرف دیکھا جہاں دلاور صاحب بکھرے حلیے میں ہاتھ میں کھانے کی ٹرے لیے اس کے پاس چلے آرہے تھے وہ سمجھ رہے تھے اس کی نفسیات کو وہ ذہنی طور پر بے حد ڈسٹرب ہو کر رہ گئی تھی ایسے میں کسی اپنے کی توجہ اسے پر سکون کر سکتی تھی دلاور صاحب نے اس کے ساتھ جگہ بنائی اور ٹرے اٹھا کر سائیڈ ٹیبل پر رکھی صنم بے تاثر چہرہ لیے لیٹی رہی یہی بات دلاور صاحب کے دل کو چاک کر گئی

دلاور صاحب نے ہولے سے صنم کا ہاتھ تھاما اور اسے ساری آپ بیتی بتانے لگے آخر میں بولے تو ان کی آواز انتہائی سرد تھی


"جس عورت نے تمہیں اپنی اولاد مانا ہی نہ ہو اس کے لیے یہ آنسو یہ لغزشیں اگر تم ہم سب سے ناراض ہو تو ٹھیک ہے لیکن ایک بات یاد رکھنا محبت نہ بہت ظالم ہوتی ہے آپ سے کچھ بھ کرا لیتی ہے میں بھی تمہاری ماں کی فریبی محبت میں بہک گیا تھا جس کا خمیازہ اب تک تمہاری بے رخی کی صورت بھگت رہا ہوں ۔ میرا روم روم گواہ ہے کہ کبھی تمہاری ماں کے ساتھ زیادتی نہی کی بلکہ اس بیوفا عورت کی وجہ سے ہمیشہ منیبہ اور ماہا کی حق تلفی کی یہی خداکا انصاف تھا میرے لیے تمہارا ہر فیصلہ مجھے قبول ہے پر دھیان رہے نہ ہی میں پہلے والا دلاور شاہ ہوں اور نہ ہی اب معاف کرنے کا قائل ہوں تمہارا ہر نخرہ سر آنکھوں پر پر اگر بغاوت پر اتر آئی تو بھول جانا کوئی دلاور شاہ تمہارا باپ تھا "


صنم دم سادھے ان کی ساری روداد سن رہی تھی جب وہ بنا کچھ بولے روم سے باہر نکل گئے


صنم کو اپنے باپ کا یہ سرد انداز ایک آنکھ نہی بھایا تھااسے لگا یہ سب بھی منیبہ بیگم نے ہی ان کو سکھایا ہو گا ورنہ وہ کبھی ایسا نہ کرتے

صنم کا غصے سے برا حال تھا کیا سوچ کر وہ ماں بیٹی یہ سب کر رہی ہیں اگر میں نے بھی ان کا سکون بر باد نہ کیا تو میرا نام بھی صنم نہی "

صنم اپنے دل میں حسد اور جلن کے پلتے جذبوں کے تحت مصم ارادے بناتے ہوئے بولی اور زہر مار کر سائیڈ رکھی ٹرے اٹھا کر کھانا کھانے لگی

اسے آج بھی یاد تھا کہ کیسے اس نے ماہا سے اس کا کمرہ چھینا تھا ماہا شروع سے ہی بے حد خاموش طبیعت کی مالک تھی ماہا نے اپنی ماں کی منتیں کر کے اپنا روم ڈیکوریٹ کروایا وہ روم ہر آسائش سے پر تو نہی پر دکھنے میں بے حد شاندار تھا یہ بھی منیبہ بیگم کی سلیقہ شعاری تھی روم میں ایک سنگل بیڈ جس پر گلابی خوبصورت سی چادر ہلکے گلابی کرٹنز اور پنک ہی وال پینٹس کی گئی تھیں ماہا اپنا روم بے حد صاف رکھتی تھی پر ماہا کی خوشی بھی اس سے کہاں برداشت تھی صنم نے دو جھوٹے آنسو بہائے اور دلاور صاحب نے اس کا سامان بغیر ماہا کی مرضی کے اس کے روم میں شفٹ کروا دیا اسی طرح صنم کو دن با دن صنم کا رعب ماہا پر بڑھتا رہا وہ ہر وہ چیز جو ماہا کو حاصل ہوتی چھین لیتی چاہے اس کے لیے اسے کسی بھی حد تک ہی کیوں نہ گزرنا پڑے صنم کی خودغرضی اب نہ جانے کیا قیامت ڈھانے والی تھی


_____________

کرتے کیا ہو۔۔۔۔۔۔۔؟

دلاور شاہ نے اپنے سامنے بیٹھے خوبصورت نوجوان سے پوچھا

سر بزنس مینجمنٹ کورس کیا ہے اور ۵منتھ کا اکسپیرینس ہے مجھے اس جاب کی بے حد ضرورت ہے سر یہ رہی میری سی _وی


نوجوان انتہائی مودبانہ انداز میں وہ اپنی فائل دلاور صاحب کے سامنے کرتے ہوئے بولا

دلاور صاحب نے اس کی سی وی دیکھی تو امپریس ہوئے بنا نہ رہ سکے وہ واقعی اس جاب کے قابل تھا دلاور صاحب نے اس کے ہر انداز کو نوٹ کرتے ہوئے سنجیدگی سے بولے

میری ریکوائرمنٹ تو تم پڑھ ہی چکے ہو گے اور ایگریمنٹ سے بھی بخوبی واقف ہو گے مجھے تم جیسے ہی پر اعتماد لوگوں کی ضرورت ہے لیکن خیال رہے مجھے جھوٹ سے سخت نفرت ہے

دلاور صاحب سنجیدگی سے بولے تو نوجوان نے خوش ہوکر ان سے ہاتھ ملایا اور فوراً کانٹریکٹ سائن کیا دلاور صاحب نے اسے مبارکباد دی اور اپنے لیپ ٹاپ پر جھک گئے


_________


"بتاو کہاں ہے تمہاری بہن ۔۔۔۔۔؟ بتاو ورنہ آج تمہاری یہ نازک سی جان مجھے برداشت نہی کر پائے گی روز اتنی تکلیف برداشت کرتی ہو اور پھر بھی ڈھیٹوں کی طرح منہ بند رکھتی ہو ۔۔۔۔ ہاہہااہا اب سمجھ آرہا ہے یقیناً تمہارا بھی تمہاری بہن کی طرح کوئی عاشق ہو گا جس سے کئی وعدے کیے ہونگے پر ۔۔۔۔۔ چچچچچچ تمہاری قسمت میں درمیاں آگیا ہے نہ ویسے کیا نام تھا اس عاشق نامدار کا ۔۔۔۔۔ ویسے ایک بات کی تو داد دینی پڑے گی بہت ہڈ دھرم واقعی ہوئی ہو ۔ تمہاری نس نس میں زہر بھرا ہے اور منہ پر اففففف نہی پر ڈونٹ وری ڈارلنگ تمہارے منہ کھلوانے کے اور بھی راستے ہِیں"


وہ ایک قدم مہر کی طرف بڑھاتا ہوا بولا

مہر کانپتی ٹانگوں سے پیچھے ہونے لگی پر ابھی اور پیچھے ہوتی کہ دھڑام سے بیڈ پر جاگری ۔۔۔۔۔ اس کے گرنے پر جہاں سامنے کھڑے شخص کو تمسخر بھری مسکراہٹ سجانے پر مجبور کیا وہیں اس کے لفظوں کے نشتر مہر کا کلیجہ چاک کرنے لگے


"اتنا تو گر چکی ہو اور کتنا گرو گی ویسے آپس کی بات ہے بتاوں۔۔۔ ہاہاہہا قہہقہ لگاتے ہوئے اس شخص کی آنکھوں میں ہلکی سی. نمی چمکی جسے وہ نا محسوس انداز میں صاف کرتا دوبارہ مہر کی طرف متوجہ ہوا جو خوفزدہ نظروں سے اسکی طرف دیکھ رہی تھی

"محبت کی شدت تو ہر کوئی دیکھتا ہے پر نفرت جانتی ہو کیا ہوتی ہے جب آپ کسی کی موجودگی میں گھٹن محسوس کرنے لگیں آپ کے سامنے بار بار ایک ناپسندیدہ منظر کسی فلم کی طرح چلنے لگے اور آپ کو لگے کسی نے کھینچ کر تھپڑ مارا ہو اندازہ کر سکتی ہو اس ازیت کا جب ایک ان چاہا شخص آپ کی مرضی کے خلاف آپ کی زندگی میں شامل کر دیا جائے "

مہر سسکنے لگی تھی اس کے سخت لفظوں پر کتنا عجیب شخص تھا جسے صرف اپنی تکالیف کا احساس تھا اس کے سوا کسی چیز کا نہی نہ کسی معصوم جان کا جو اس کی وجہ سے ہر لمحہ ایک ازیت میں گزار رہی تھی پر لب پر ایسی گہری چپ تھی کہ دیکھنے والے کو بھی پتھر کا گمان ہوتا وہ خو اکثر سوچتی تھی کہ کیا وہ واقعی اس قابل تھی جس سے زندگی نے نوازہ تھا


" ہے سِیاہ بخت کوئی مُجھ سا!؟ جو مُناسب نہ ہو کِسی کے لِیے! ۔ "


لمحوں کی قید کب مہر کے لیے صدیوں کی قید بن جائے کون جانے جس شخص سے رہائی پر وہ اپنی جان کی بازی لگا نے کو تیار تھی اسی کی دسترس میں کسی بے جان مورت کی طرح پڑی خود کو ڈھونڈ رہی تھی کہاں تھااس کا وجود۔۔۔۔۔۔


" ہے سِیاہ بخت کوئی مُجھ سا!؟ جو مُناسب نہ ہو کِسی کے لِیے! ۔ "


تمہاری جیت لکھوں گی اور اپنی ہار لکھوں گی

میں جب بھی ناول لکھوں گی تمہیں کردار لکھوں گی


میں اپنی زیست میں جاکر تمہیں بیحد سنواروں گی

تمہیں اچھا بنا کر خود کو میں بیکار لکھوں گی


مجھے معلوم ہے یہ کہ یہ سب جھوٹ ہے لیکن

میں ہر اک موڑ پر خود کو تمہیں درکار لکھوں گی


میں لکھوں گی کہ مجھ پہ آپ کی سب مہربانی تھی

میں خود کو عام سی اور تمہیں سرکار لکھوں گہ


میں لکھوں گی کہ مجھ سے تم نے اب تک نبھائی ہے

میں خود کو بے وفا اور آپ سے بیزار لکھوں گی


حقیقت عین اس کے الٹ ہی ہے جانتی ہوں پر

میں اپنے آپ کو لیکن تمہارا پیار لکھوں گی


یہ ایک ہی کردار میں سب بھول نہ جائیں

تبھی تو سوچتی ہوں میں تمہیں ہر بار لکھوں گی


میں لکھوں گی کہ مجھ کو آپ سے سب کچھ ملا تھا پر

میں خود اپنی ہی جانب سے تمہیں انکار لکھوں گی


اگر میں ایک ہی کردار میں کچھ لکھ نہ پائی یا تو

میں اس کو بعد میں لکھ کر اور پھر سو بار لکھوں گی


سبھی کردار کا جب فیصلہ ہوگا کہانی میں

میں تم کو زندگی دیکر خودی کو دار لکھوں گی


اور پھر عنوان کو لیکر سبھی سے بحث بھی ہوگی

"تمہاری ذات" ہی عنواں میں آخرکار لکھوں گی


کبھی کبھی آپ کا ہارنا ضروری نہی ہوتا لیکن کسی کی نظروں میں خود کے لیے نفرت دیکھنا دنیا کی ہر ہار سے پر ازیت ہوتا ہے انسان ایک بار میں سو بار مرتا ہے


________

صنم کی حرکتیں دن بدن خراب ہوتی جارہی تھیں کالج میں بھی اس کی دوستی غلط لڑکوں سے ہوگئی تھی جن سے اسے سگریٹ جیسی بری لت لگی صنم ہر وقت منیبہ اور ماہا کو ذہنی ٹارچر کرتی اور اپنے باپ کے سامنے اف تک نہ کرتی صنم کی چپ کسی بڑے طوفان کی آمد کا پتا دے رہی تھی جس سے دلاور شاہ شاید انجان تھے پر منیبہ بیگم تجربہ کار عورت تھیں اس کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر ہی سمجھ گئیں تھیں کچھ گڑبڑ ہے

پر شوہر سے ذلالت کے ڈر سے خاموش رہیں اور اکیلے میں صنم کو سمجھانے کی کوشش کرنے لگی پر نہ صنم نے سمجھنا تھا نہ وہ۔سمجھی بلکہ بے عزتی کرکے منیبہ بیگم کو اپنے روم سے نکال دیا ۔ صنم کی روٹین بن گئی تھی آئے دن کوئی نہ کوئی تماشا کرنے کی ۔۔۔۔۔


_______

آج صنم کے کالج کی فئیر ویل پارٹی تھی ۔ جس میں صنم نے ضد کرکے دلاور صاحب سے جانے کی اجازت لی دلاور صاحب بھی اس کی ضد کے آگے ہار مانتے ہوئے اجازت دے گئے

صنم اپنے روم میں ریڈی ہو رہی تھی۔۔۔۔ جب ماہا ناک کرکے اس کے روم میں داخل ہوئی

صنم نے ایک نظر اسے دیکھا اور دوبارہ سےا پنے کام میں مصروف ہو گئی ۔۔۔۔ ماہا تو صنم کی تیاری دیکھ کر دنگ رہ گئی تھی۔۔۔۔ شارٹ بلیک سکرٹ ۔۔ بلیک جینز اور گلے میں ریڈ سٹالر وہ قیامت خیز لگ رہی تھی ۔۔۔ ہر طرف سے اس کا حسن نمایاں ہو رہا تھا

ماہا نے حیرت سے اسے دیکھا ۔۔۔ جیسے کوئی اجوبہ دیکھ لیا ہو

"ماہا اپنی حیرت چھپاتے ہوئے صنم سے بولی

"صنم یہ تم نے کس طرح کے کپڑے پہنے ہیں ۔۔۔۔ تمہیں اندازہ بھی ہے کہ باہر کتنے مرد ہوتے ہیں ۔۔۔ کس کس کی مر کز نگاہ بنو گی ۔۔۔ "

ماہا کی بات پر ۔۔ صنم نے آئبرو اچکائی اور دو قدم چل کر اس کے قریب آکھڑی ہوئی

ماہا اس کی آنکھوں میں اترتی سرخی اور بغاوت دیکھ کر دھک سے رہ گئی


"تم جیسی لوئر کلاس کی لڑکی اب مجھے ڈریسنگ سینس سکھائے گی ۔۔ تم ہوتی کون ہو مجھے کچھ بتانے والی؟میرے دل میں جو آئے گا میں وہی کرونگی ۔۔۔ اور ہاں آئندہ کے بعد میرے راستے میں آئی تو ۔۔۔ مجھ سے برا کوئی نہی ہو گا "

صنم اس کی آنکھوں میں اپنی سرخ آنکھیں گاڑھیں ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولی اور اپنا بیگ اٹھا کر نکلتی چلی گئی

پیچھے ماہا تو اپنے حواس قابو میں ۔ کر رہی تھی اسے یقین نہی آرہا تھا کہ اس کی بہن بھی غلط راستے کی مسافر بن گئی ہے ایسا راستہ جو صرف ایک گہری کھائی ہے جس گند میں وہ جارہی تھی وہ راستہ صرف اور صرف ایک تباہی ہے


________


دٌنیا کے سب سے تیز اور اندر تک چیر پھاڑ دینے والے ہتھیار لفظ اور زبان ہیں، عمریں گزر جاتی ہیں لیکن لفظوں کے گھاؤ نہیں بھرتے ایسے ہی گھاو روز وہ مہر کی روح پر لگاتا تھا مہر اب تھکنے لگی تھی کیا سے ہو گئی تھی زندگی ۔۔۔۔ اس نے کبھی ایسا تو نہی چاہا تھا وہ تو کبھی کسی پرندے کو بھی دکھ میں نہیں دیکھ پاتی تھی اور اب خود ایک پھڑ پھڑاتی ہوئی چڑیا بن کر رہ گئی تھی جس کے پر کاٹ دیے گئے تھے سانسیں مختص کر دی گئیں تھیں

مہر اپنی سوچوں میں گم تھی جب انعم بیگم روم میں داخل ہوئیں انہیں دیکھ کر مہر دوڑ کر ان کے سینے سے لگی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی

انعم بیگم بھی اسے خود سے لپٹائے اسے سہارا دیکر بیڈ پر بٹھاتی پانی پلانے لگیں

مہر نے دو گھونٹ بھرے اور گلاس رکھ کر ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی مہر کو اپنی ماں کی خوشبو محسوس ہوتی تھی انعم بیگم سے پورے پیلس میں وہی تو تھیں جو اسے پیار کرتی تھیں


"میرا کوئی نہیں ہے ماں جان ۔۔۔۔ کوئی نہیں !۔۔۔۔۔ سب کے لیے مِیں ایک ناکارہ چیز ہوں جس کا جب دل چاہتا ہے توڑ دیتا ہے میرے وجود پر جو زخم ہیں ماں جان سب معاف ۔۔۔ روح کو گھاو کس کو دکھاوں ۔۔۔؟"


مہر عجب رندھے ہوئے لہجے میں بولی


اس کی بات پر انعم بیگم نے گہری سانس خارج کی اور دھیرے سے اس کے بالوں مِیں انگلیا ں پھیرتی ہوئے بولنے لگیں

پر ایک ساتھی ایسا رہا تھا اس سفر میں جس نے کبھی ساتھ نہی چھوڑا


یقین مانو تمہارا رب واقف ہر سسکی سے جو تم دل میں دبا لیتی ہو..

وہ جانتا ہے ہر آنسو کو جو تم خود سے بھی چھپا لیتی ہو..

تمہارا رب تم سے ناراض ہے وہ تمہیں کچھ دینا نہیں چاہتا واللہ تم یہ گمان اس سے کیسے بنا لیتی ہو..

تمہارا رب تو خزانوں کا مالک ہے اور تمہارا دل اسے ہر دولت سے قیمتی ہے.. پھر کیونکہ عام سے لوگوں کے لئے رو رو کے آنکھیں سجا لیتی ہو..

ہاں ابھی زخم تازہ ہے دل کو سنبھالنا مشکل ہے ٫مگر وہ بھر دیتا ہے ہر زخم جب تم تقدیر کا فیصلہ رب کو تھما دیتے ہو..

اللہ کی چاہت ہی سب کچھ ہے اس کی رضا میں ہی سکون ہے.. وہ ان قیامت سے عرصے کو بھی گزار دے گا جب تم اس کی چاہت کو اپنی چاہت بنا لو گی

تقدیر کچھ فیصلے بے حد ظالم ہوتے ہیں.. ان کو قبول کرنے کے خیال سے اذیت روح پہ طاری ہو جاتی ہے۔۔مگر پھر وہی لمحے محبت اور مسرت بن جاتے ہیں جب تم رب کی رضا کو اپنی رضا بنا لیتے ہو..

کبھی یوں لگتا ہے نا کہ دنیا میں کوئی ہے ہی نہیں ہمارا.... نہ کوئی دوست نہ تسلی کا ذریعہ ۔۔مگر پھر وہ رب خود ہی اپنے بندے کے لئے تسلی بن جاتا ہے جب تم اسے اپنے سارے دکھ سنادیتے ہو..


انعم بیگم کی باتوں سے مہر کو اپنے دل میں سکون اترتا ہوا محسوس ہوا جیسے کوئی بوجھ سینے سے ہٹ گیا ہو کتنا پیارا ہے رب ہمارا ہمیں نوازنے کے بہانے ترکیب دیتا ہے دکھ اور سکھ تو زندگی کا حصہ ہیں ۔۔۔۔ امتحان سے ہی کامیابی ممکن ہے شاید یہ بھی میرا امتحان ہے مہر سوچتی ہوئی نیند کی وادیوں می۔ اترتی چلی گئی


انعم بیگم نے اس کے سر کے نیچے تکیہ لگایا اور آہستہ سے روم سے باہر آگئیں


ابھی کچھ دیر ہی ہوئی تھی اسے سوئے ہوئے تبھی ابتہاج روم میں داخل ہوا

مہر کو آر ام سے اپنے بستر پر سوتے دیکھ اس کے ماتھے پر ہزاروں بل پڑے ایک جھٹکے میں ساری ٹیبل کی چیزیں زمیں بوس کرتا وہ اس کے سر پر آکھڑا ہوا

مہر اچانک آوازوں پر ہڑبڑا کر اٹھ گئی پر اپنے سر پر کھڑے شخص کو دیکھ کر اس کے چودہ تبک روشن ہو گئے ابتہاج نے ایک ہاتھ سے کھینچ کر اسے کھڑا کیا ۔۔۔۔۔ اور پھنکارتے ہوئے بولا


"بہت جلدی تھی میرے بستر تک آنے کی .

۔۔۔۔۔۔۔مجھے بتا دیتی ۔۔۔۔۔ ابتہاج کے لہجے میں آگ سی لپک تھی مہر کانپتی ٹانگوں سے خود کو اس ظالم سے بچانے لگی ۔۔۔۔ لفظوں سے گھائل کرنے میں تو وہ شروع سے ہی ماہر تھا

اچھا مجھے بتاو ۔۔۔ کہ تم کیسی لڑکی ہو ۔۔۔۔؟چھوڑو رہنے دو میں بتاتا ہوں


کبھی دیکھا ہے کپڑوں کی طرح بوائے فرینڈ بدلتے ہوئے لڑکیوں کو۔۔۔ اوپس سوری تمہیں تو خاصہ تجربہ ہوگا ۔۔آخر اسی کیٹگری کی ہو ۔۔۔۔ میری نظر میں تم ان سب سے بھی گئی گزری ہو سمجھتی ہو نہ ۔۔۔۔ کیسی لڑکیوں کا بول رہا ہوں

ابتہاج ۔۔مہر کی کمر میں ہاتھ ڈالے اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے بولا

ابتہاج کی گفتگو پر مہر کی آنکھوں میں کر چیاں سی چبھنے لگیں تھیں پورا وجود انگارے کی مانند جل رہا تھا وہ تو ایسی نہی تھی۔۔۔۔۔ جیسی اس کا شوہر دعوی کر رہا تھا وہ تو ہر لمحہ خود کو سینچ کر رکھنے والی لڑکی تھی تو کہاں چوک ہوئی کہاں ۔۔۔۔۔؟ یہ سوال مہر کے دماغ میں گردش کر رہا تھا

ابتہاج نے اسے کسی گہری سوچ میں گم پایا ۔۔۔تو ماتھے پر بل ڈالے گردن ہلکی سی ٹیڑھی کیے اسے گھورنے لگا جیسے مہر کا یہ عمل اسے سخت ناگوار گزرا ہو۔۔۔۔

ابتہاج نے سختی سے اس کی کمر پر اپنی انگلیوں سے دباو بڑھایا

درد کی شدت سے مہر ہوش میں آتی سسکی بھرتے ہوئے خود کو آزاد کرانے لگی ۔۔۔ ابتہاج مزے سے اب اس کے پر مزحمت تاثرات انجوائے کر رہا تھا یہی تو وہ چاہتا تھا اسے اپنی ذات میں گم کرنا ۔۔۔۔۔ جہاں اس کے سوا کوئی نہ ہو اس کی ذات کے علاوہ ہر شخص مہر کی زندگی میں بے معنی ہو ۔۔۔۔اور وہ ابتہاج بخوبی کر رہا تھا ۔۔۔ مہر پر اپنی حکومت جتا کر ابتہاج کے دیے زخموں کو مہر خاموشی سے برادشت کرنے لگی تھی یہی بات ابتہاج کو پسند نہی آرہی تھی وہ تو چاہتا تھا وہ ۔۔۔۔ آہ و بقا کرے ؛اس کے سامنے گڑگڑائے ۔۔۔۔۔۔پر ناجانے کس مٹی سے بنی تھی


ابتہاج اس کی مزاحمت کو نظر انداز کرتا مہر کی گردن میں جھک کر اس کی دلفریب مہک خود میں اتارنے لگا مہر نے اپنی پوری طاقت لگا کر اسے خود سے دور کیا اور اپنی سہمتی حالت پر قابو پانے لگی . . ۔۔۔۔۔۔


مہر کی حرکت پر ۔۔۔۔ابتہاج کا تو خون کھول اٹھا ۔۔۔۔۔ اس لڑکی کی اتنی اوقات ابتہاج کو خود سے دور کرے۔۔۔۔ لڑکیاں ترستی تھیں اس کی توجہ کو اور یہ ۔۔۔۔ ابتہاج نے ایک جھٹکے میں اسے خود سے قریب کیا اور ایک بھی لمحہ ضائع کیے اس کے کپکپاتے لبوں پر جھک گیا ۔۔۔۔۔ کمرے میں معنی خیزی بڑھتی گئی ۔۔۔ابتہاج اب سب بھول کر مہر کو محسوس کر رہا تھا ۔۔۔۔ دونوں کی دھڑکنیں ماحول می گڈ مڈ ہونے لگیں تھیں


_______________

ماہا اپنے کمرے میں بے چینی سے چکر کاٹ رہی تھی رات کے دس بج چکے تھے پر صنم کا اب تک کوئی اتا پتا نہیں تھا ناجانے کب سے وہ ایسے ہی چکر کاٹ رہی تھی ۔ دلاور شاہ کے خوف سے اس کی ٹانگیں بے جان ہو رہیں تھیں آخر اپنے باپ کی فطرت سے اچھی طرح واقف تھی جو اپنے جلال میں دنیا کی ہر محبت خو د پر حرام سمجھتا تھا ماہا ابھی باہر جانے لگی تھی جب منیبہ بیگم گھبراتی ہوئی کمرے میں آئیں

صنم آئی تم نے فون کیا اسے ؟منیبہ بیگم نے اپنے سامنے کھڑی ماہا سے پوچھا جو خود کافی پریشان تھی

صنم نے ان کے سوال پر نفی میں سر ہلایا

منیبہ بیگم بیڈ پر گرنے کے انداز میں بیٹھیں جانتی تھیں خدا نہ کرے کوئی بھی اونچ نیچ ہوگی تو مورد الزام ان کی ذات کو گردانا جائے گا

منیبہ بیگم نے دل میں رب سے صنم کو سلامت رکھنے کی ڈھیروں دعائیں مانگیں

ماہا ماں کے لیے پانی لاتی کہ اسے ہارن سنائی دیا

ماہا فوراً کھڑکی کی طرف لپکی اور پردے ہٹا کر سامنے کا منظر پھٹی آنکھوں سے دیکھنے لگی


جہاں صنم کسی اوباش ہولیے کے لڑکے کی باہوں کا ہار بنی اس سے مسکراتے ہوئے گفتگو کر رہی تھی ماہا کی سانسیں تھمنے کو تھیں یہ کیا قیامت تھی ۔۔۔ اس کی طویل خاموشی اور جگہ ساکت رہنے پر منیبہ بیگم بھی کھڑکی کے پاس آکھڑی ہوئیں

ان کی ذات بھی صنم کو کسی غیر مرد کے ساتھ دیکھ کر زلزلوں کی زد میں تھی ۔۔۔۔ منیبہ بیگم کا ہاتھ سیدھا اپنے کلیجے پر پڑا ۔۔۔۔ وہ کبھی نہیں سوچ سکتی تھیں کہ ان کی صنم ۔۔۔۔۔ ان غلط راہوں کی مسافر بنے گی ۔۔۔۔۔ انہوں نے تو کبھی اس کی تربیت میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی تو ۔۔۔۔ یہ منیبہ بیگم فوراً نیچے کی طرف دوڑیں ۔۔۔ ماہا بھی کپکپاتے جسم کے ساتھ ماں کے پیچھے ہی چلی آئی

پر جیسے ہی ان کی نظر سامنے سے آتے دلاور شاہ پر پڑی خون مانوں رگوں میں سرد پڑ گیا جسم لرزنے لگا۔۔۔۔۔

دلاور صاحب نے ایک نظر اپنی جان سے پیاری بیٹی کو دیکھا۔۔۔۔۔ اس ایک نظر میں کیا نہیں تھا ۔۔۔۔ مان ٹوٹنے کا افسوس ۔۔۔دکھ۔۔۔۔ ازیت ۔۔۔پر اگلے ہی لمحے ان کی آنکھیں آگ اگلنے لگیں تھیں صنم نے بھی باپ کا دھواں دھواں چہرہ دیکھا

صنم اب بھی اپنی جگہ سے ایک انچ نہیں ہلی تھی اود نہ ہی اس کے چہرے پر کوئی شرمندگی کے تعصرات تھے ۔۔۔۔ جس بیٹی کو صدا سینے سے لگا کر رکھا تھا آج وہی بیٹی ان کا غرور توڑ گئی تھی ۔۔۔۔ دلاور صاحب پھولے تنفس سے اس کے قریب چلے آئے اور گرجدار آواز میں استفسار کرنے لگے


"کون ہے یہ لڑکا ؟اور تم اس وقت ۔۔۔ اس کے ساتھ کیا کر رہی ہو دلاور صاحب نے ایک ایک لفظ چبا چبا کر ادا کیا ۔۔۔۔ضبط سے ان کا چہرہ سرخ انگارہ ہو گیا تھا ۔۔۔


صنم اب پرسکون مسکراہٹ چہرے پر سجائے بڑی دیدہ دلیری سے اس لڑکے کا ہاتھ تھامے ۔۔۔ باپ کے سامنے آکھڑی ہوئی ۔۔۔۔۔۔

اچھا ہوا آپ خود آگئے میں آپ سے ملوانے ہی والی تھی ۔۔۔۔ میٹ مائے لو ۔۔۔۔ مائے بوائے فرینڈ۔۔۔۔ راکی ۔۔۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے شادی کرنا چاہتے ہِیں ۔۔۔ راکی بہت اچھا ہے ڈیڈ ۔۔۔ یہ مجھ سے بہت پیار کرتا ہے ۔۔۔۔۔

صنم بنادلاور صاحب کی طرف دیکھے اپنے دل کا حال سنا رہی تھی ۔۔۔۔ دلاور صاحب پر منیبہ بیگم کو کسی پتھر کا گمان ہو رہا تھا ۔۔۔۔ اچانک دلاور صاحب کا بھاری ہاتھ اٹھا اور صنم کے نازک چہرے پر اپنا نشان چھوڑ گیا. ۔۔۔۔۔ تھپڑ اس قدر زور سے لگا کہ صنم دوفٹ پیچھے جاگری ۔۔۔۔منیبہ بیگم نے سختی سے منہ پر ہاتھ جمایا


ماہا اسے اٹھانے کے لیے آگے بڑھتی ۔۔۔ کہ دلاور صاحب کی گرجدار آواز نے اس کے قدموں کو پتھر کر ڈالا


ماہا دلاور ۔۔۔ اگر تم نے ایک قدم بھی اس لڑکی کی طرف بڑھایا ۔۔۔ تو اس سے پہلے تمہارا قتل ہوگا ۔۔۔۔۔ ماہا بت بنی وہیں کھڑی رہی جب کہ راکی آنکھیں گھماتے یہ فیملی ڈرامہ دیکھنے لگا اسے کیا انٹرسٹ تھا ۔۔۔۔


دلاور صاحب اور بھی کچھ بولتے جب راکی نے صنم کو سہارا دے کر اٹھایا اور دلاور صاحب کے سامنے تن کے کھڑا ہوا


دیکھیے انکل ۔۔۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے شادی کے خواہشمند ہیں ۔۔۔ آپ اس طرح میری محبت کو رسوا نہی کر سکتے ۔۔۔۔ راکی اپنی مکاری دکھاتے ہوئے افسردہ لہجے میں بولا


پلیز انکل صنم کو مجھ سے الگ مت کریں ۔۔۔ میں بہت پیار کرتا ہوں اس سے ۔۔۔۔ روکی اپنی چال چلتا ان کے سامنے ہاتھ جوڑنے لگا ۔۔۔۔


بسسسسس۔۔۔۔۔۔ لڑکے خبردار جو اپنی گندی زبان سے میری بیٹی کا نام بھی لیا تو ۔۔۔۔ بوٹیاں نوچ کر کتو ں کو کھلا دونگا ۔۔۔۔سمجھے تمہاری بہتری اسی میں ہے کہ ابھی کے ابھی یہاں سے نکل جاو ۔۔۔۔ورنہ اپنے پاوں پر نہیں جاسکوگے ۔۔۔۔۔


دلاور صاحب اسے دھکا دیتے صنم کے بازو دبوچتے ۔۔۔ اندر کی طرف بڑھ گئے ۔۔۔۔ پر راکی کی نظر اب ماہا پر تھی جو ۔۔۔۔ کب سے اپنی سسکیاں دبارہی تھی ۔۔۔ ماہا کو منیبہ بیگم اپنے ساتھ لے گئیں ۔۔۔ راکی کی نظروں نے دور تک اس کمسن کلی کا پیچھا کیا ۔۔۔۔۔


ہائے راکی ۔۔۔۔ تیرک تو لاٹری لگ گئی ایک کے ساتھ ۔۔ ایک فری ۔۔۔۔ چل بھئی تیرا کام تو ہو گیا ۔۔۔ اب باقی کا کام تو وہ ۔۔۔۔۔ لومڑی کر ہی لے گی ۔۔۔۔ راکی خود سے بڑبڑاتا مکروہ قہقہے لگانے لگا ۔۔۔ اور کچھ ہی دیر میں میں اس کی گاڑی میں گیٹ سے نکلتی چلی گئی


دلاور صاحب نے جھٹکے سے اسے چھوڑا صنم منہ کے بل زمیں پر جاگری ۔۔۔۔۔

دلاور صاحب ۔۔۔ آتش فشاں بنے منیبہ بیگم کے سر پر پہنچے اور بنا خطا ۔۔۔۔ چٹاخ ۔۔۔۔ تھپڑ کی آواز نے منیبہ بیگم کے کان سن کیے وہیں ماہا کے حلق سے چیخ برآمد ہوئی


کہتے ہیں کہ ;توجہ; اگر پتھر کو بھی دی جائے تو وہ بھی نکھر جاتا ہے ___ ہر وہ چیز پھلنے پھولنے لگتی ہے جِسے تھوڑی سی بھی ;توجہ; ملے،. انسان، حیوان، چرند، پرند سب آپ کے تابع ہونے لگتے ہیں ___ آپ کی تھوڑی سی توجہ; کسی کی زندگی کو بدل سکتی ہے ___ آپ کا تھوڑا سا کسی کو وقت دینا بھی اُسے پوری زند گی اسے خوش رکھ سکتا ہے. ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کی ایک تسلی اُسے دوبارہ جینے کے لیے آمادہ کر دے.

منیبہ بیگم نے اپنی زندگی کے نجانے کتنے سال اس شخص کو اور اس کی اولاد کو دیے تھے پر آج تک نارسائی ہی ہاتھ آئی تھی دلاور نام کے پتھر میں کوئی دراڑ نہیں آئی تھی


آئینہ صاف رہے ، ربط میں تشکیک نہ ہو

اس لیے روز تجھے کہتے ہیں نزدیک نہ ہو


ہے اگر عشق تو پھر عشق لگے ، رحم نہیں

اتنی مقدار تو دے،، وصل رہے ، بھیک نہ ہو


تجھ کو اک شخص ملے، جو کبھی تجھ کو نہ ملے

تجھ کو اک زخم لگے اور کبھی ٹھیک نہ ہو


چھوڑ کے جاؤ کچھ ایسے کہ بھرم رہ جائے

دل سے کچھ ایسے نکالو میری تضحیک نہ ہو


بے غیرت عورت۔۔۔۔ یہ تھی تمہاری تربیت ۔۔۔۔ کیسے ۔۔۔ کیسے یہ لڑکی ۔۔۔۔ اس حد تک آپہنچی ۔۔۔ کس نے دی اسے شے ۔۔۔۔ بتاو ۔۔۔۔ منیبہ بیگم بس خاموش کھڑی اپ۔ی کم مائیگی کے احساس تلے دبی تھیں ۔۔۔ ان کے چہرے پر کوئی تعصرات نہ تھے ۔۔۔ کیونکہ شاید اب تو ان کو عادت ہوگئی تھی ۔۔۔ اس حقارت کی ۔۔۔۔ نفرت کی ۔۔۔ بہتان تراشی کی


اب دلاور صاحب کا رخ واپس سے ۔ صنم کی طرف تھا جس کا چہرہ سوجھ چکا تھا گرنے کی وجہ سے ہاتھ اور پاوں پر بھی خراشیں آئیں تھیں ۔۔۔۔۔


بے حیاء ۔۔۔۔ لڑکی ۔۔۔ آخر دکھا ہی دی نہ اپنی اوقات ۔۔۔ تم بھی اپنی ماں کی طرح نکلی بدکردار . ۔۔۔۔ کس چیز کی کمی دی تھی بولوں ناہنجار۔۔۔۔۔ کس چیز کی۔۔۔۔ تمہارے ہر غلط سہی میں تمہارا ساتھ دیا ہر بات پر آمین کہا ۔۔۔ تمہاری وجہ سے کبھی اس لڑکی کو کوئی اہمیت نہ دی ۔۔۔ اس کے حصے کی محبت بھی تمہیں دی ۔۔۔ اور تم ۔۔۔ تم نے کیا کر کے دکھایا ۔۔۔۔ ایک بگڑے عیاش کو میرے سامنے لاکھڑا کیا


دلاور صاحب کی آواز میں بے پناہ درد ۔۔۔ پنہاں تھا ۔۔۔ ان کے تو پرانے زخم نوچ دیے گئے تھے ۔۔۔ ماں کی بیوفائی کم تھی جو ۔۔۔ بیٹی نے بھی ۔۔۔اس کے نقشے قدم پر چل کر کسر پوری کر دی ۔۔۔


دلاور صاحب نے صنم کا بازو دبوچا اور اس کے روم میں لاکر پٹخ دیا ۔۔۔۔

آج سے یہ کمرہ تمہاری ۔۔۔ حد ہے اس سے باہر آنے کی کوشش کی تو اپنی جان کی سلامتی بھول جانا ۔۔۔۔۔ یہ وعدہ ہے دلاور شاہ کا۔۔۔۔

صنم خونخوار بنی ۔۔۔ پورا کمرہ تہس نہس کر چکی تھی اسے ۔۔۔ نفرت ہو رہی تھی اپنے باپ سے ۔۔۔ ہر اس شخص سے جو اس کے اور روکی کے بیچ میں آرہا تھا


________


محبت کرتے ہو مجھ سے ؟

"حباء شیرازی " اپنی سرخ آنکھیں خود پر سایہ

کیے دراز قد شخص کی آنکھوں میں گاڑھ کر بولی


"اتنی محبت کرتے ہو کہ مجھے میرے وجود کو صرف اپنی طلب کا سامان بنا کر رکھنا چاہتے ہو ہے نہ ! جانتے ہو جتنی شدت سے تمہاری رگوں میں میری طلب ہے اس سے کئی زیادہ جنون میری نفرت میں ہے تم ہار جاو گے مت لڑو مجھ سے


حباء بنا ڈرے ارحام حیدر خان سے بولی

ارحام خاموش کھڑا حباء کے لفظوں کا زہر خود میں اتار رہاتھا اس کا چہرہ ہر جذبے سے عاری تھا

تبھی اچانک حباء کو لگا کہ اس کا وجود ہوا میں معلق ہو کر رہ گیا ہے ارحام اسے کمر سے جکڑ زمین سے اوپر اٹھا چکا تھا حباء اس کے سینے سے لگی کانچ کی گڑیا ہی لگ رہی تھی


ارحام کی حدرجہ قربت پر "حباء شیرازی" کا روم روم کانپ اٹھا تھا جسم میں جیسے چیونٹیاں رینگنے لگیں تھیں

""ارحام کی گرم سانسیں حباء کے حواس معتل کر رہیں تھی

"جتنی نفرت تمہارے اندر میرے لیے ہے تمہارے انگ انگ میں میری محبت خون کی روانی بن کر دوڑے گی میرا لمس تمہاری روح کی آواز بنے گا میری شدتیں تمہارے جھوٹے لفظوں کے آگے ہار جائیں گی تمہاری آتی جاتی ہر سانس صرف ارحام حیدر خان کی طلب مانگے گی تمہاری آنکھوں میں صرف ایک عکس ہوگا اور وہ ہوگا "ارحام حیدر خان "کا یہ وعدہ ہے تمہارےخان کا "

کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں نا!!

جن کی نظر اتارنے کا دل کرتا ہے

بالکل تمہارے جیسے ہوتے ہیں وہ لوگ۔۔۔۔♥

تمہیں پتا ہے تمہاری آنکھیں کتنی پیاری ہیں۔۔؟


غضب کا خمار لیے پھرتے ہیں آنکھوں میں

جو بھی نظریں ملاۓ گا مارا جاۓ گا..


اور تمہاری آواز

تمہاری آواز مجھے بہت پسند ہے۔۔۔♥

تمہیں دیکھ کر

تمہاری مسکراہٹ کو دیکھ کر

تمہاری آنکھوں کو دیکھ کر

تمہارے صدقے جانے کو جی چاہتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔♥


حباء بنا پلکیں جھپکائے ارحام کے جنون کی روداد سن رہی تھی ارحام کی باتوں سے اس کے جسم میں کرنٹ سا پھیل گیا تھا کیا تھا یہ شخص پل میں اتنی محبت اور اگلے ہی پل تزلیل ہتک

ارحام اسے حیرت زدہ دیکھ کر اچانک حباء کی طرف جھکا اور اس کی گلاب پنکھڑیوں جیسے لبوں پر اپنے تشنہ لب رکھے حباء نے ناجانے کس بے خود احساس کے تحت اپنی آنکھوں کو بند کیا ارحام بے حد نرمی سے حباء کے لبوں کی نرماہٹیں خود میں سما رہا تھا کتنا تڑپا تھا وہ ارحام کے انداز میں اب شدت آتی جارہی تھی حباء کی نازک سی جان بیحال ہو رہی تھی حباء نے اسے کالر سے دبوچ کر پیچھے ہٹانا چاہا مگر جتنا حباء اسے دور کرتی ارحام جنونی سا ہوکر اتنا ہی اس کی سانسوں پر قابض ہوتا حباء ارحام کی شدتیں اپنے نازک ہونٹوں پر برداشت کرتی سسکیاں بھرنے لگی

ارحام اپنے چہرے پر گیلا پن محسوس کرکے حباء سے الگ ہوا اور اس کی طرف دیکھا جس کے ہونٹ سوج چکے تھے وہ بے آواز رو رہی تھی ارحام نے اس کی حالت پر غور کیا تو اسے خود پر جی بھر کر تاو آیا کہ

"کیوں اپنی ساری شدتیں ایک پل میں اس نازک سی لڑکی پر انڈیل دی تھیں جبکہ ابھی تو وہ حباء شیرازی "کو اپنی چاہت کا مان بھی نہیں دے پایا تھا

ارحام نے کھینچ کر اسے سینے میں بھینچا اور اسے چپ کرانے لگا اسے معلوم تھا کہ حباء کس حد تک ارحام خان سے نفرت کرتی ہے


"ارحام حیدر خان "مجبور تھا اپنے عشق کے ہاتھوں وہی عشق جس نے اسے صحراوں کی خاک چھاننے پر مجبورکر دیا تھا وہی عشق جو" ارحام خان "کو "حباء

شیرازی کی روح سے تھا اس کی نیلی آنکھوں سے تھا، گھنے پھیلے سیاہ آبشار سے تھا ،عشق جب روح کو اسیر کرتا ہے تو انسان پر ہجر بھی واجب ہوتا ہے "ارحام خان "بھی انہی میں سے تھا جسے رب نے عشق جیسے پاکیزہ جذبے کے لیے چنا تھا

اسے بنایا ہی "ارحام حیدر خان"کے لیے گیا تھا حباء شیرازی کے بغیر ارحام حیدر مکمل نہیں تھا حباء شیرازی کا "جنون "ارحام حیدر خان کا "عشق "تھا

______

یسسسس میر ___یس یو کین ون ۔۔۔۔۔۔ عشم پوورے جوش کے ساتھ میر کی بائک کو سب سے آگے دیکھ کر چیخ رہی تھی چاروں طرف اس کے نام کی آوازیں گونج رہیں تھیں آج کی ریس" عشم خباب" کے لیے بہت اہم تھی کافی لڑکیاں اس بے پروہ شہزادے کو دیکھ رہیں تھیں جو سب سے آگے نکل چکا تھا کچھ سیکنڈز کا کھیل تھا اور" میر سکندر "بازی مار چکا تھا پورا گراوٴنڈ تالیوں سے گونج اٹھا تھا

میر اپنی بائک سے اتر کر اپنے دوستوں کی طرف آیا جہاں وہ سب چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ سجائے کھڑے تھے میر حنین اور احتشام سے گلے ملا

دراصل آج ان کی یونی رائیول گروپ نے انہیں چیلنج کیا تھا بائک ریسنگ کا تو عشم نے سکندر کو کسی نا کسی طرح منا لیا تھا وہ جانتی تھی کہ سکندر کبھی نہیں ہارے گا جس کا نام ہی "سکندر "ہو تو ناکامی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا

سکندر جیسے ہی اس کے قریب پہنچا عشم دوڑ کے اس کے سینے سے جالگی

میر نے حیرت سے اپنے سے چار سال چھوٹی کزن کو دیکھا جو آج بھی بلکل بچی ہی لگتی تھی اسے بس جیت کا جنون تھا کیونکہ ہارنا "عشم شاہ "کو پسند نہیں تھا عشم ایف _ایس _سی کی سٹوڈینٹ تھی جبکہ میر سکندر بزنس کی پڑھائی کر رہے تھے


عشم اور میر ایک دوسرے کے کافی کلوز تھے بچپن سے ہی ایک گھر میں رہتے ہوِئے خوب بنتی تھی میر اسے لیے کار کی طرف بڑھا اور دونوں شیرازی ولا جانے کے لیے نکل پڑے

کچھ ہی دیر میں گاڑی "شیرازی ولا"کے پاس رکی تو میر نے اسے کندھے سے ہلا کر ہوش دلایا


"گڑیا گھر آگیا ہے چلو اندر چلتے ہیں "میر انتہائی نرمی سے بولا تو عشم بھی ہوش میں آتی کار سے نکلتی گھر میں بھاگ گئی پیچھے کھڑامیر اس کے بھاگنے پر قہقہ لگا اٹھا

میر سمجھ گیا تھا اب "شیرازی ولا "کی دیواریں ہونگیں اور عشم کی چیخیں


مما ۔۔۔مما بابا کہاں ہیں آپ سب بڑے پاپا ،بڑی ماں

عشم اندر آتے ہی سب کو بلانے لگی

آمنہ بیگم (عشم کی والدہ )جو کچن میں کام کر رہیں تھیں عشم کی آواز سنتی دوڑتی ہوئی باہر آئیں جہاں وہ ہاتھ میں ٹرافی لیے کاوچ پر چڑھی ہوئی تھی

آمنہ بیگم نے سر سے پاوں تک اس کا جائزہ لیا جو اس وقت ریڈ کرتے پاجامے میں وائٹ سکارف لیے بہت پیاری مگر بقول آمنہ بیگم کے بے ڈھنگی لگ رہی تھی کیونکہ عشم جوتوں سمیت ہی کاوچ پر چڑھی چیخ رہی تھی اسے کوئی ہوش نہی تھا

آہستہ آہستہ سب باہر آچکے تھے خباب شیرازی اور تراب شیرازی سٹڈی روم سے کام کرتے ہوئے باہر نکل آئے تھے حرم بیگم بھی باہر آ چکی تھیں ۔۔۔اب حال یہ تھا کہ سب بڑے لاونج میں جمع تھے اور عشم میڈیم کاوچ پر ۔ چڑھی گنگنا رہیں تھیں


"آدیکھیں زرا کس میں کتنا ہے دم

،جم کے رکھنا قدم میرے ساتھیا ۔۔۔۔۔۔۔


سب اس کی حرکت پر لبوں پر مچلتی مسکراہٹ دبانے لگے کونکہ عشم کا ناراض ہونا شیرازی ہاوس میں کسی وبال سے کم نہی تھا


"تراب شیرازی "کی دو اولادیں تھیں "میر سکندر شیرازی "اور حباءشیرازی "حباء بڑی جب کہ میر دو سال چھوٹا تھا

حباء پچھلے دوسال سے لندن میں مقیم سٹڈی کر رہی تھی یہ اس کا آخری سال تھا اپنے بابا کی خواہش پر حباء نے میڈیکل میں داخلہ لیا اور خوب کامیاب ٹھہری حباء کی سمجھ میں آج تک یہ بات نہیں آئی تھی کہ اس کے بابا نے کیوں اتنا اچانک اسے لندن بھیجنے کا فیصلہ کیا

حباء غیر معمولی حسن کی مالک تھی نیلی گہری کانچ آنکھیں ،لمبی گھنی مڑی ہوئی پلکیں ،گلابی گال جو بنا کسی میک اپک کے ہمہ وقت سرخ رہتے ،گلاب کی پنکھڑیوں سے کھلتے پتلے لب ،صراحی دار گردن ،کمر سے نیچے آتے کالے بال وہ واقعی سراہے جانے کے قابل تھی

حباء کی خوبصورتی اسے مزید مغرور بناتی اسے زعم تھا کہ وہ تراب شیرازی کی اولاد ہے اس میں کوئی کمی نہی ہے وہ "دی پرفیکٹ وومن "ہے لیکن یہ تو وقت نے طے کرنا تھا کہ کس کا زعم ٹوٹنا تھا۔۔۔۔۔۔


میر سکندر کی آنکھیں اپنی ماں پر تھیں بھوری چمکتی آنکھیں جن میں کبھی شرارت تو کبھی چیر پھاڑنے والی خاموشی لبوں پر چھائی رہتی ایک رعب تھا اس کی شخصیت کا وہ صرف عشم سے ہی بات کرتا لڑکیوں سے اسے خصوصی چڑ تھی

اسے چبھتی تھیں لڑکیوں کی بے باک نگاہیں۔۔۔۔۔۔ ایسا نہی تھا کہ میر سکندر صنف نازک سے نفرت کرتا تھا مگر کالج ،یونی اور مختلف جگہوں پر خود کا منظر نگاہ بننا اسے معیوب لگتا تھا

میر سکندر کو حیرت تھی ناجانے کیسی لڑکیاں ہیں پل میں کسی کی بھی اسیر ہو جاتی ہیں ۔۔۔۔۔


عشم بھی کسی سے کم نہیں تھی لیکن اپنے چھوٹے قد کی وجہ سے وہ دب جاتی عشم کا قد نارمل تھا عشم کی خوبصورتی اس کی شوخ وچنچل طبیعت تھی جو اس کی زندگی کا حصہ بن چکی تھی

میدے جیسی رنگت ،کالی جھیل سی آنکھیں جن میں شرارت کوٹ کوٹ کو بھری ہوئی تھی نازک گداز لب ،شولڈر کٹ بالوں میں وہ گڑیا ہی لگتی میر اسے شروع سے ہی گڑیا پکارتا تھا


عشم کے بابا(خباب صاحب )نے عشم کو ہاتھ پکڑ کر نیچے اتارا اور کاوچ پر بٹھا کر سب کو بیٹھنے کا اشارہ کیا سب گہرا سانس بھرتے بیٹھ گئے کیونکہ ہر بار کی طرح اب عشم شیرازی کا میر نامہ اگلے دو گھنٹوں تک سننا تھا

عشم انہیں آج کی ریس میں ہوئی ساری روداد سناتی خود ہی قہقہے لگانے لگی

سب بڑے جہاں مسکرا رہے تھے وہیں آمنہ بیگم سر پھری بیٹی کو دیکھ کر رہ گئی جو بولتی تھی تو رکنے کا نام ہی نہی لیتی تھی


میر بھی اندر آیا اور سب سے سلام کرکے اپنے روم کی طرف بڑھ گیا

عشم نے غیر ارادی طور پر نظر ماں کی طرف ڈالی جو آنکھوں سے ہی اسے مخصوص اشارہ کر رہیں تھیں کہ عشم آج تیری خیر نہی ۔۔۔۔۔

عشم اپنے ارد گرد خطرے کی گھنٹیاں بجتی محسوس ہوئیں تو وہ بنا سوچے سمجھے بو لنے لگی


"بڑے پاپا میں کھانے میں شاور لے لوں پھر آپ سے بات کرتی ہوں "


عشم کی بے تکی بات پر آمنہ بیگم سر پیٹ کر رہ گئیں

اوہ ۔۔۔سوری میرا مطلب ہے کھانے سے پہلے شاور لے لوں جلدی سے پھر سب ساتھ کھائیں گے

عشم بولتے ہی چھپاک سے اپنے روم کی طرف بھاگ گئی "تراب شیرازی "اس کی بچگانہ حرکتوں پر مسکراتے ہوئے بولے

"میری عشو بہت معصوم ہے بھابھی اسے کچھ نہ کہا کریں یہی تو اس کے کھیلنے کودنے کے انجوائے کرنے کے دن ہیں اس کی شرارتوں سے ہی تو ہمارا یہ گھر آباد ہے اللہ میرے بچوں کے نصیب اچھے کرے اور انہیں ہر برے سائے سے دور رکھے "

جی بھائی پر وہ بھی تو سمجھے کہ اب بڑی ہو گئی ہے

آمنہ بیگم ان کی اتنی محبت دیکھ کر ہر بار اپنے رب کا شکر ادا کرتیں جو اتنے اچھے گھرانے میں ان کی شادی ہوئی آمنہ بیگم اور حرم بیگم دونوں سگی بہنیں تھیں ان کی شادی شیرازی صاحب کی مرضی سے ہوئی ان کا پورے ملک میں ایک نام تھا جسے ان کے جانے کے بعد دونوں بیٹوں نے بخوبی آگے بڑھایا تراب شیرازی اور خباب شیرازی کی دن رات کی محنت سے آج ہر دوسرے ملک میں شیرازی انڈسٹریز کی برانچز موجود تھیں

اس میں پورا ساتھ ان کی بیگمات کا بھی تھا جنہوں نے اپنے شوہر کے شانہ بشانہ ان چل کر ان کا حوصلہ بڑھایا آمنہ بیگم نہایت ملنسار خاتون تھیں پر حرم بیگم ان سے الٹ اپنا الگ مجازرکھتی تھیں انہیں بس اپنی اولاد سے محبت تھی

کبھی کبھی وہ چڑ جاتی تھیں عشم کے ہر وقت میر کے پاس رہنے سے انہیں ناجانے کونسا ڈر اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا وہ اپنی پوری کوشش کرتیں کہ عشم میر سے دور رہے

ابھی بھی آمنہ بیگم ان کی ناگوار نظریں اپنی بیٹی پر گڑھی محسوس کر چکی تھیں تبھی اسے گھورنے لگیں پر ساتھ ہی تراب صاحب بھی بھابھی کے اشارے دیکھ شکے تھے تبھی ٹوکے بنا نہ رہ سکے

آمنہ بیگم سب کے لیے ڈنر لگانے چلی گئیں تو حر م بیگم نے بھی کچن کی راہ لی

پورا کچن کھانے کی اشتہا انگیز خوشبووں سے مہک رہا تھا آج کا سارا کھانا حرم بیگم نے میر کی پسند کا بنایا تھا صبح جاتے ہوئے میر ان سے فش بریانی ود چکن چاومین کی فرمائش کر گیا تھا حرم بیگم نے بھی ہر چیز اعلی سے اعلی تیار کی

ڈائننگ ٹیبل پر کھانا لگ چکا تھا آمنہ بیگم کی نظر سیڑھیوں سے اترتی عشم پر پڑی جو گلابی فراک وائٹ کیپری میں گلاب کا پھول ہی لگ رہی تھی

آمنہ بیگم نے دل میں اس کی نظر اتاری

عشم ابھی چئیر پر بیٹھی ہی تھی کہ تراب صاحب نے اسے میر کو بلانے کا کہا

عشم بھی باپ کی بات پر اپنا رخ سیڑھیوں کی طرف کیا اور بھاگتی ہوئی بنا ناک کیے میر کے کمرے میں آگئی میر جو ابھی شاور لیکر آیا تھا اچانک آنے والی آفت کو دیکھنے لگا میر کا دل کیا اس کا گلا دبادے


عشم کی نظر جیسے ہی میر کے کسرتی بازوں شرٹ لیس جسم پر پڑی اس کی آنکھیں پھٹنے کے قریب ہوگئیں اس سے پہلے وہ پاگل لڑکی چیخ کر سب کو اوپر بلاتی میر نے اپنا مضبوط ہاتھ اس کے چھوٹے سے منہ پر رکھا اور اسے دیوار سے لگایا

"عشم شیرازی "یہ کیا بیہودگی ہے تم میں مینرز کب آئیں گے ہاں جاہل لڑکی کوئی تمیز نام کی چیز ہے یا نہیں یا ایسے ہی ہر کسی کے روم میں منہ اٹھا کر آجاتی ہو المینرڈ وومن اور ابھی چیخ کر کیا کرنے والی تھیں تم ۔۔۔۔۔۔ہاں

عشم اپنی آنسووں سے بھری کالی آنکھوں سے میر کو دیکھنے لگی سانسیں تو جیسے سینے میں دب کر رہ گئیں تھیں پور پور میر کی اتنی سی قربت پر جل اٹھا تھا عشم کو لگ رہا تھا اگر اگلے دو سیکنڈ میں میر نے اسے آزاد نہ کیا تو وہ مر جائے گی باقی رہی صحیح کسر میر کے سخت لفظوں نے نکال دی تھی اس نے ایسا جان بوجھ کر تو نہیں کیا تھا

سکندر اس کی کالی نمکین پانی سے بھری نگاہوں میں اپنا آپ ہارتا ہوا محسوس کر رہا تھا آج پہلی بار اسے عشم کے قریب آنے پر عجیب احساس ہوا جسے وہ فلوقت کوئی نام دینے سے قاصر تھا میر سکندر نے اسے مزاحمت کرتے دیکھ اپنے ہاتھوں کی سخت گرفت سے اس کا چہرہ آزاد کیا اور رخ موڑ کر اپنی شرٹ پہننے لگا

عشم دیوار سے لگی گہری سانسیں بھرتی اپنی کپکپاہٹ پر قابو پانے لگی اس نے کب میر سکندر کا یہ روپ دیکھا تھا عشم کے ہاتھ پاوں بری طرح کپکپا رہے تھے وہ چاہ کر بھی اپنی کپکپا ہٹ پر قابو نہیں کر پارہی تھی سانسیں الگ ڈول رہیں تھیں

میر سکندر نے شرٹ پہن کر اس کی طرف دیکھا جو بے آواز روتی ہوئی وہاں سے جارہی تھی میر کو شدت سے اپنے سخت رویے کا افسوس ہوا

کہاں وہ نازک سی جان اور کہاں میر سکندر وہ تو میر کی زرا سی ڈانٹ برداشت نہیں کر پاتی تھی اور اب میر کا یہ بے جا سخت رویہ عشم کے لیے ناقابل قبول تھا

عشو میری بات سنو یار ۔۔۔اس سے پہلے کہ میر اسے اپنی کوئی صفائی یا معذرت پیش کرتا وہ وہاں سے نکلتی چلی گئی


شٹ شٹ ۔۔۔۔میر غصے میں اپنی ہتھیلی پر مکے مارنے لگا میر نے خود کو گہرا سانس بھر کے پر سکون کیا اور نیچے چلا آیا

میر نیچے آیا اس کی نگاہیں عشم کو تلاشنے لگیں پر وہ وہاں موجود ہوتی تو دکھتی ۔۔۔۔

میر سکندر نے دل مار کے اپنے لیے پلیٹ میں بریانی نکالی اور چند نوالے ہی کھائے تھے کہ اس کی نظروں میں عشم کا روتا ہوا چہرہ گھوم گیا

میر نے چممچ پلیٹ میں پٹخی اور عشم کے روم کی طرف بڑھ گیا باقی سب سمجھے عشم اپنے روم میں چلی گئی ہے تو آمنہ بیگم نے سوچا اسے روم ہی بھجوا دیں کھانا ۔۔۔عشم کی عادت تھی کام کرتے بھول جاتی

میر سکندر دروازے کے باہر کھڑا ناک کر رہا تھا پر اندر سے کوئی آواز نہیں آرہی تھی میر نے ہلکا سا دروازہ وا کیا تو وہ تکیے میں منہ چھپائے رونے میں مصروف تھی

عشم کا روم بھی میر سکندر نے خود اس کی مرضی سے ڈیکو ریٹ کر وایا تھا پورا روم پنک اور وائٹ امتزاج کے فرنیچر سے مزین تھا ،پورے کمرے میں گلابی کالین بچھایا گیا تھا ،گلاس وال پر وائٹ پردے ،پرنسز والی بیڈ شیٹ ساتھ ہی رکھا خوبصورت بکس کا ریک جس میں ساری پرنسز کی سٹوریز اور بکس بھری پڑیں تھیں کمرے ہر چیز قیمتی سے قیمتی تھی عشم کو اپنا روم بے حد پسند بھی آیا تھا


عشم شیرازی کیا میر سکندر آپ کے اس پیارے سے روم میں آسکتا ہے ۔۔؟میر اپنی آوازمیں نرمی سموئے بولا

عشم نے جھٹکے سے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور اپنا دوپٹہ خود پر اچھی طرح پھیلا کر سرخ سوجی آنکھوں سے میر کو دیکھنے لگی

میر خو د ہی ہمت کرتا اس کے پاس آبیٹھا اور نرمی سے بولنا شروع کیا

"عشم آپ کو پتا ہے نہ کہ مجھے رولز توڑنے والے لوگ سخت نا پسند ہیں آپ تو میری سب سے اچھی دوست ہیں آپ نے رولز توڑے کسی کے روم میں جانے سے پہلے ناک کرنا بے حد ضروری ہوتا ہے خواہ وہ کسی کا بھی روم ہو ۔۔۔ آج تو آپ میرے روم میں آئیں ہیں بٹ کل کو آپ نے اگلے گھر جانا ہے تو لوگ کیا کہیں گے 'عشم شیرازی 'کومینرز بھی نہی سکھائے کسی نے "

میر بول کر اس کی طرف دیکھنے لگا جو سر جھکائے رونے میں مصروف تھی اسے واقعی احساس ہوا کہ کسی بھی لڑکے کے روم میں اس طرح جانا ۔۔ بلکل غلط بات ہے

عشم نے میر سے سوری کیا تو میر نے بھی کان پکڑ کر اس سے معافی مانگی

میر عشم کو ساتھ لیے ڈائننگ ٹیبل پر آیا اور اس کے لیے پلیٹ میں رائس نکالنے لگا

دور کھڑی حرم بیگم کی آنکھوں میں چنگاریاں بھرنے لگیں وہ جتنا عشم کو دور رکھنے کی کوشش کرتیں وہ لڑکی کسی نا کسی بہانے میر کو قریب کر ہی لیتی تھی آج بھی یہی ہوا تھا

میر کھانا کھا کر سٹڈی میں کام کے لیے چلا گیا

عشم جومزے سے رائس کے ساتھ انصاف کر رہی تھی خود پر نگاہوں کی تپش کا احساس کرکے اپنی نظریں اٹھا کر دیکھا

حرم بیگم کڑے تیوروں سے اسے گھور رہیں تھیں

عشم کا نوالہ حلق میں اٹک گیا

حرم بیگم نے پانی کا بھرا گلاس عشم کو پکڑایا اور خود اس کے ساتھ رکھی. چئیر گھسیٹ کر بیٹھ گئیں

عشم نے پانی پی کر گلاس ٹیبل پر رکھا اور جانے کے لیے پر تولنے لگی پر حرم بیگم کی آواز نے اسے بیٹھنے پر مجبور کیا

"بیٹھو عشم مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے "حرم بیگم نے اکھڑے لہجے میں حکم دیا

عشم ناچار واپسی بیٹھی اور اپنی مخروطی انگلیاں مروڑنے لگی

"میر سکندر شیرازی 'یہ نام رہتا ہے تمہاری زبان پر لیکن شاید تم نہی جانتیں اسے نفرت ہے تم سے اور تم جیسی لڑکیوں سے جو خود کو تھالی میں پیش کریں میں جانتی ہوں ابھی جو تمہیں ڈانٹا میر نے پر ایک بات یاد رکھنا آج جو میر نے تم سے کہا اس کا کہا ایک ایک حرف سچ ہے وہ الگ قسم کا بندہ ہے اگر اس کے قریب جاوگی تو خود کو بھول جاو گی وہ ایک گہرا کنواں ہے جس میں صرف تمہیں ڈبویا جائے گا "


حرم بیگم کے پتھریلے لہجے اور بدترین لفظوں نے عشم کے گلے میں آنسووں کا گولا اٹکا دیا تھا اب وہ اتنی بھی نا سمجھ نہی تھی کہ ان کی باتوں کا مطلب نہ سمجھ پاتی

حرم بیگم نے تھوڑی سے پکڑ کر عشم کا چہرہ اوپر کیا اور اس کے بہتے آنسووں کو اپنی پورو پر چن کر بولیں


"اگر اب اپنے قدم پیچھے نہ لیے تو میری جان یہی رونا تمہارا مقدر بن جائے گا تمہارے حصے میں نارسائی کے علاوہ کچھ نہیں آئے گا "

حرم بیگم اسے وارننگ دینے والے انداز میں بولتیں اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں


عشم کی آنکھیں اپنی تزلیل اور اس قدر برے الفاظو ں پر جھرنے کی طرح اشک بہانے لگیں اسے کیا پتا تھا کہ حرم بیگم اس سے اس قدر نفرت کرتی ہیں ایک پل میں اس کے کردار کے پر خچے اڑا کر چلی گئیں عشم نے اپنے آنسو صاف کیے اور اپنے روم میں آکر دروازہ لاک کیا

بیڈ پر گر کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی یہ پہلی بار نہیں ہوا تھا کہ بڑی مما نے اس کے ساتھ یہ کیا وہ ہر بار اسی طرح عشم کو تکلیف پہنچاتی کبھی اپنے تعنوں سے کبھی اپنے لفظوں سے پر عشم ہر بار چپ رہ جاتی پر آج تو انہوں نے اس کے کردار کو دو کوڑی کا کر دیا تھا اسے دوسری لڑکیوں جیسا بنا دیا تھا

یہ سوچ کر عشم پھر سے رونے لگی

لیکن آج عشم شیرازی سوچ چکی تھی اسے کیا کرنا ہے وہ بس اب کسی بھی طرح خود کو میر سے دور رکھے گی چاہے کچھ بھی ہو جائے

عشم روتے روتے سو گئی تھی اسے کوئی ہوش نہی تھا آمنہ بیگن کمرے میں آئیں تو اسے الٹا سیدھا سوتا دیکھ مسکرانے لگیں اس کی شرارتیں ہی تو تھیں جو انہیں ماضی یاد نہی کرنے دیتی تھیں

آمنہ بیگم سوچ کر ہی جھرجھری لے اٹھیں

انہوں نے عشم کا سر تکیے پر رکھا اور اسے بلینکٹ اوڑھا کر بالوں میں انگلیاں چلانے لگیں

ان کی جان بستی تھی اپنی نازک سی چڑیا میں وہ اس کی اداسی آمنہ بیگم کی جان نکال دیتی تھی پر وہ ڈرتی تھیں آنے والے وقت سے ۔۔۔ میر کی اور عشم کی دوستی سے ناجانے آگے کیا روپ لے ان کی دوستی اور حر م بیگم وہ کس نہج پر جا سکتی ہیں یہ آمنہ بیگم سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا تھا اسی لیے وہ سمجھاتی تھیں عشم کو کہ اتنا آگے نہ بڑھے دوستی میں کہ واپسی کے سارے راستے بند ہو جائیں آمنہ بیگم نے عشم کی پیشانی چومی اور روم لاک کرکے چلی گئیں


______

وہ پچھلے تین دن سے ان درندوں کی قید میں تھا پر کوئی اسے دیکھنے نہی آیا تھا اسے نہی پتا تھا کون لوگ ہیں ؟اسے کیوں لائے ہیں

وہ خوفزدہ ہوتا آنے والے کو دیکھنے لگا جو اس کے سامنے کرسی پر بیٹھا مگن انداز میں اپنا لاکٹ گھما رہا تھا جس میں بہت خوبصورت طریقے سے اے _کے لکھا ہوا تھا

اس کے پیروں کی دھمک میں طوفان پوشیدہ تھے وہ درندہ تھا بادشاہ تھا برائی کی دنیا کا لوگ اسے اے _کے نام سے جانتے تھے جس کی دہشت ہی اتنی تھی لوگ اس کا نام بھی نہیں لیتے تھے آج تک اسے کسی نے نہیں دیکھا تھا وہ کون ہے ؟کیسا ہے ؟ پولیس بھوکے شکاریوں کی طرح اس کے پیچھے تھی پر وہ اے _کے تھا اپنے انجام سے بے پرواہ

کرسی پر رسیوں سے بندھا شخص جان چکا تھا کہ کون ہے ؟یہ آواز یہی دھمک وہ پہلے بھی سن چکا تھا

اے _کے اس کے چہرے پر خوف دیکھ کر عجیب سی ہنسی ہنسنے لگا

یہ منظر ایک ریڈ روم کا تھا جہاں ایک شخص اندھیرے میں کرسی پر رسیوں سے بندھا ہوا تھا اس کی درد ناک چیخیں پورے ریڈ روم میں گونج رہیں تھیں اس کے سامنے ایک ٹیبل اور ٹیبل کے اس پار گہری سبز آنکھیں جن میں نرمی کا کوئی تاثر موجود نہیں تھا اس کی آنکھیں اتنی سرد تھیں کہ کر سی سے بندھے شخص کی روح تک کانپ اٹھی تھی وہ اپنے بچاو کے لئے ابھی کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ سامنے بیٹھے شخص کے لب بے ساختآ ایک طنزیہ مسکراہٹ میں ڈھلے

اس کی ہنسی نے کرسی سے بندھے شخص میں مزید خو ف پیدا کر د یا تھا اے _کے اپنی کرسی سے اٹھا اور اپنے سب سے خوب صورت لاکٹ سے ایک چابی نما چاقو نکالا اور اسے ھاتھ میں گھمانے لگا ٹھیک پانچ سیکنڈ بعد وہ چاقو کرسی سے بندھے شخص کی شہ رگ کاٹ چکا تھا اور وہ آدمی وہیں تڑپتا ہوا ڈھیر ہو گیا اے _کے کے رائٹ ہینڈ نے اس کے اتنے سرد انداز پر اپنے ماتھے پر آیا پسینہ صاف کیا اے _کے نے اسے لاش کو ٹھکانے لگانے کا حکم دیا اور ریڈ روم سے باہر آگیا


_____

حباء آج شاپنگ پر آئی تھی اگلے ماہ اسے پاکستان جانا تھا اسی لیے وہ سب کے لیے گفٹس خرید رہی تھی حباء شاپنگ کرکے باہر آئی تو اس کی نظر بیچ سڑک پر چلتے ہوئے بچے پر پڑی جو شاید بھیڑ میں اپنی ماں کو سے الگ ہو گیا تھا

حباء نے سامنے ایک نظر دیکھا جہاں تیز رفتار ہونڈا سیوک آرہی تھی حباءشیرازی کی دھڑکنیں تیز رفتار سے دھڑکنے لگیں حباء کبھی گاڑی کو دیکھتی کبھی بچے کو

حباء نے شاپنگ بیگ ایک طرف پھینکے اور گاڑی والے کو دور سے ہی ہاتھ ہلا کر سٹاپ ،سٹاپ چیخنے لگی

سٹاپ دی کار پلیز ۔۔۔۔۔پر سامنے والا بہرہ تھا شاید جو اسے ایک چھوٹا بچہ دکھائی نہیں دے رہا تھا

حباء بھاگتی ہوئی اس بچے کے پاس آئی اور متاع جان کی طرح اسے خود میں سمیٹ لیا تبھی بلکل اس کے پاوں کے قریب کار آرکی جس سے ٹکرا کر حباء نیچے جاگری

حباء نے کمر پر ہوتی تکلیف پر سختی سے لب بھینچے اور بچے کو دیکھنے لگی کہ اسے کہیں چوٹ تو نہیں لگی تب تک اس کی ماں بھی آچکی تھی اور روتے ہوئے حباء کا شکریہ ادا کرنے لگی

حباء اپنی تکلیف نظر انداز کرتی اٹھ کھڑی ہوئی اور گاڑی کا شیشہ بجانے لگی


"اوپن دی ڈور یو ڈیمڈ ہاو کلڈ یو ڈو دس یو باسٹرڈ "حباء شائستہ انگریزی میں کار میں بیٹھے شخص پر بری طرح گرج رہی تھی اس کا بس نہیں چل رہا تھا سب کچھ تہس نہس کردے

کار میں بیٹھے شخص نے شیشہ نیچے کیا اور بنا اس کی طرف دیکھے نوٹوں کی گڈی حباء کے منہ پر دے ماری

حباء جو پہلے ہی اس کے کار نہ روکنے پر بھری بیٹھی تھی اس کی اس حرکت نے جلتی پر تیل کا کام کیا "حباء شیرازی "کی انا بلبلا اٹھی تھی

حباء نے اپنا چہرہ شیشے سے اندر کیا اور کھینچ کراس کی شرٹ کا گریبان مٹھیوں میں دبوچا اور بولی


"یو باسٹرڈ تمہاری اتنی ہمت تم مجھے "حباء شیرازی"کو پیسے دو گے تمہاری یہ اوقات کہ تم میرے منہ پر پیسے مارو حباء بول رہی تھی جب کار میں بیٹھے شخص نے چہرے سے ماسک ہٹایا

حباء کی دھڑکنیں پل کو ساکت ہوئیں دل نے الگ تال پر دھڑکنا شروع کیا

سفید میدے سی رنگت ،عنابی لب جو سختی سے آپس میں پیوست تھے جیسے کبھی نہ بولنے کی قسم کھائی ہو ،کشادہ پیشانی پر بکھرے براون بال ہاتھ میں پہنی برانڈڈ گھڑی وہ ایک بھر پور مرد تھا وجاہت کا شاہکار

حباء اپنے خیال کو جھٹکتی اپنے ہاتھوں پر سخت گرفت محسوس کرتی ہوش میں آئی

آہہہہ حباء اپنے ہاتھوں پر بڑھتی گرفت پر درد سے کراہ اٹھی

اسے لگا اس کے ہاتھ کی ہڈیاں چٹخ جائیں گی ضبط سے اس کی آنکھیں چھلک پڑیں تب جاکر" ارحام حیدر شاہ" نے اسے آزاد کیا حباء روتی ہوئی اپنی کلائیاں سہلانے لگی

"آج تک کسی کی ہمت نہیں ہوئی 'ارحام حیدر شاہ 'کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کی اگر تم ایک لڑکی نہ ہوتی تو اس وقت تمہارے گھر والے تمہارے ٹکڑے اکٹھے کر رہے ہوتے "

ارحام کی سرد اٹھٹھرا دینی والی آواز سن کر حباء کے رونگٹے کھڑے ہوگئے جسم واضح کپکپاہٹ تھی حباء کو حقیقت میں اس سے خوف محسوس ہوا

ارحام نے اپنی آنکھوں سے گاگلز ہٹائے اور اپنی سبز آنکھیں حباء کی آنکھوں میں گاڑھ دیں

"دور رہنا مجھ سے دوبارہ کبھی میرے راستے میں آئیں تو بھاگنے نہیں دوں گا ہمیشہ کے لیے قید کر لوں گا مائنڈ اٹ "

ارحام سخت تعصرات چہرے پر سجائے کار بھگا لے گیا حباء اپنی گھبرا ہٹ پر قابو پاتی ماتھے پر آیا پسینہ صاف کرنے لگی اس کی سانسیں سینے میں الجھ گئیں تھیں اتنی سرد آنکھیں ،اتنی بے لچک آواز حباء کے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے

پر کوئی انسان اتنا بے مہر کیسے ہو سکتا ہے حباء کی جان مٹھی میں آگئی تھی وہ شاپنگ چھوڑ چھاڑ کر اپنے ہاسٹل کی طرف تیز تیز قدم بڑھانے لگی


حباء شیرازی کبھی کسی سے نہی ڈری تھی پر وہ شخص،اس کی آنکھیں اس کی آواز الگ ہی تھی ایک آگ سی لپک تھی اس کے لہجے میں سب کچھ جلا کر راکھ کرنے والی چمک دکھی تھی حباء کو اس کی سبز گہری آنکھوں میں جس میں کئی راز دفن تھے حباء کا رواں رواں کانپ اٹھا تھا


حباء اپنے روم میں آئی اور فریج سے بوتل نکال کر غٹاغٹ پانی پیتی اپنے خشک پڑتے حلق کو تر کرنے لگی وہ ایک ہی سانس میں پوری بوتل خالی کر چکی تھی حباء بیڈ پر بیٹھی اور خود کو کمفرٹر میں چھپائے آج ہوئے واقعے کے بارے میں سوچنے لگی


حباء ابھی اور بھی کچھ سوچتی جب فون پر بجتی رنگ اسے حواسوں میں لاِئی حباء نے اسے دیکھا تو پاکستان سے باباکا نمبر تھا

اپنے بابا کا نمبر اسکرین پر جگمگا تا دیکھ حباء کی ساری پرہشانی چھوہو گئی اس نے فوراً کال پک کی اور سلام کیا

السلام علیکم !ڈیڈا کیسے ہیں آپ ؟مامااور میر کیسا ہے ؟

ارے میری پرنسز رکو تو بریک لگاو اپنے سوالوں کو میں بلکل ٹھیک ہوں تمہاری مما آج اپنی فرینڈ کے گھر ڈنر پر گئیں ہیں اور میر آج اپنے دوستوں سے ٹریٹ لے رہا ہے آج پھر نکمے نے ریس ون کی ہے

تراب صاحب اسے تفصیل سے سب بتاتے ہوئے بولے


'ڈیڈا میرے میر کو نکما نہ کہیں یہ تو نکمے کی بھی بے عزتی ہو گی ' ہاہاہہا

حبا ء بولتے ہوئے قہقہے لگانے لگی تراب شیرازی بھی اس کی بات پر ہنسنے لگے

حباء ان سے عشم کے بارے میں پوچھنے لگی تو وہ آج کے اس کے کارنامے کے بارے میں بتانے لگے

ہاہاہہا ۔۔۔۔ ڈیڈا عشم ہاہاا سچ میں ماسٹر پیس ہے قسم سے اتنی معصوم سی پیاری سی گڑیا

حباء اس کی شرارتوں پر قہقہے لگاتی اپنے ڈیڈا سے بولی

'جی بیٹا واقعی وہ بہت معصوم ہے اس کا دل بھی معصوم بچے کی طرح ہے بلکل صاف اور کھرا اللہ آپ دونوں کے نصیب اچھے کرے '

تراب صاحب گہرا سانس بھر کر بولے

حباء کو ان کے انداز میں برسوں کی تھکاوٹ محسوس ہوئی


"کیا بات ہے بابا پریشان ہیں ؟


"نہی گڑیا بس تمہاری فکر رہتی ہے تم ہم سب سے اتنی دور ہو آج صرف میری بے جا ضد کی وجہ سے اگر ۔۔۔"


نہی بابا ایسا تو مت بولیں آپ تو میری زندگی ہیں آپ کے لیے حباء شیرازی اپنی جان دینے سے بھی دریغ نہیں کرے گی حباء کی آواز میں ایک فخر تھا ایک مان تھا

شیرازی صاحب حباء کی محبت پر دل سے نثار ہوئے واقعی انہیں حباء سے جتنی انسیت تھی حباء اس سے کئی زیادہ محبت کرتی تھی اور تراب صاحب کے کے بارے میں ایک لفظ برداشت نہی کر تی تھی بچپن میں اسکول میں ایک بار ایک لڑکی نے اس کے ڈیڈا کو کچھ بول دیا تھا تو حباء نے اس کا سر پھاڑ دیا تھا اپنے ڈیڈا کے بارے میں وہ بے حد پوزیسو تھی

یہاں تک کہ میر کے حصے کا بھی سارا پیار وہی لیتی تھی

تراب صاحب کا دل کیا اڑ کر اپنی پرنسز کے پاس پہنچ جائیں اور اسے سینے سے لگائیں پر ہائے۔۔۔۔ فلحال یہ ممکن نہی تھا

حباء نے ان سے کچھ ضروری باتیں کیں اور آج کے حادثے کی بات چھپانا بہتر سمجھا وہ نہی چاہتی تھی کہ تراب صاحب اس کی وجہ سے پرہشان ہوں


حباء نے جیسے ہی کال کاٹی اسے کھڑکی پر ایک ہیولہ دکھائی دیا

حباء جو ابھی کچھ ریلیکس ہوئی تھی کسی کی موجودگی محسوس کرکے پھر سے خوفزدہ ہوئی حباء نے حباء نے اپنے جسم کی لرزش پر قابو پاتے ہوئے بلینکٹ ہٹایا اور کھڑکی کی طرف قدم بڑھانے لگی

ابھی وہ کرٹنز ہٹاتی کہ اسے اپنی کمر پر کسی کی دہکتی گرفت محسوس ہوئی

حباء کی آنکھیں اور پھیل گئیں کسی کو اپنے روم میں اتنا قریب پاکر حباء اس انجان شخص کی گرفت میں مچلنے لگی

اس شخص نے حباء کی گردن کی مخصوص رگ دبائی اور اگلے ہی سیکنڈ میں حباء اس کی باہوں میں ڈھیر ہو گئی

اس شخص نے حباء کو بیڈ پر لٹایا اور اپنے چہرے سے ہڈی ہٹا کر اپنی نظروں کی پیاس بجھانے لگا

کتنا تڑپا تھا وہ اس چہرے کے لیے ایک جھلک پانے کے لیے پر سامنے ہوتے ہوئے وہ ہمیشہ ضبط کے کڑے مراحل سے گزرتا خود پر کڑے پہرے بٹھائے رکھتا اتنا آسان کہاں رہا تھا سب وقت ریت کی مانند ہاتھ سے نکلتا چلا گیا محبتیں اناوں پر وار دی گئیں اور وہ خالی ہاتھ رہ گیا

وقت کے ظالم وار نے اسے جو بنایاتھا وہ حباء شیرازی جیسی ناز ک جان شاید نہی یقیناً نہ جھیل پاتی وہ جتنا ٹوٹا بکھراہوا تھا اتنا ہی اسے توڑا جا رہا تھا نا جانے کب اس کی آزمائشیں ختم ہونگیں کب وہ بھی سب کی طرح کھل کے زندگی جی سکے گا

وہ بے خود سا اپنا مضبوط ہاتھ حباء کے بالوں میں پھیرنے لگا کانوں میں ایک معصوم سی آواز گونجی


"ہنی میری ایک بات مانو گی ؟وہ بارہ سالہ بچہ اپنی آنکھوں میں ایک خاص چمک لیے بولا

جی بنی میں ضلولللل مانو دی آپ تو میلے دوست ہیں نہ

وہ دو پونیوں والی نازک سی گڑیا اپنی توتلی زبان میں بولی

ہنی تم کبھی اپنے بال مت کٹوانا مجھے تمہارے بال بہت اچھے لگتے ہیں

اپنے دوست کی خواہش سن کر وہ اداس ہوگئی


"پل دوشت میلے ہیرز کومب نہی ہوتے مما تلتی ہیں مجھے نی پشند لانگ ہیرز مجھ سے نی بنتے "


وہ معصوم پری آنکھیں جھپکا کر بولی

"تو کیا ہوا آپ کا دوست ہے نہ میں کومب کیا کرونگا آپ کے بال ہمیشہ "وہ بارہ سالہ لڑکا پر جوش انداز میں اس کے گلابی گال چوم کر بولا


پتتتا (پکا)پرومس

وہ اپنا ننھا سا ہاتھ آگے کرتے ہوئے بولی

لڑکے نے بھی اپنا ہاتھ فوراً اس کے مخروطی ہاتھوں پر رکھا اور اس کی نازک سی انگلیاں اپنے ہاتھوں میں تھام کر لبوں سے لگالیں

اس کی حرکت پر ننھی پری کھلکھلا کر ہنسنے لگی


___

صنم نے اپنے پورے کمرے کی حالت بگاڑ رکھی تھی دلاور صاحب کا فیصلہ تھا کہ ایک ہفتے میں صنم کا نکاح ہر حال میں ہو کر رہے گا ۔۔۔۔ صنم کو جب باپ کے فیصلے کی خبر ملی تو وہ ہتے سے اکھڑ گئی ۔۔۔ کہ میں کسی کی زرخرید غلام نہیں جو اپنا سر جھکا دونگی ۔۔میں یہ نکاح بلکل نہیں کرونگی چاہے کچھ بھی ہو جائے صنم کی ہٹ دھرمی پر منیبہ بیگم اور ماہا بہت پریشان تھے منیبہ بیگم کو انجانے خدشات ستا رہے تھے صنم ناجانے اب کیا کرنے والی تھی ۔۔۔ آج دلاور صاحب کے ایک دوست نے کھانے پر آنا تھا وہ پہلے ہی کہہ گئے تھے منیبہ بیگم سے کہ سارے انتظامات کر کے رکھیں ۔۔۔۔گردیزی فیملی سے دلاور صاحب کے پرانے تعلقات تھے اور آج تو وہ کسی خاص مقصد سے آرہے تھے جس سے صرف دلاور صاحب ہی جانتے تھے یہ بھی دلاور صاحب کا ہی آرڈر تھا کہ صنم کو تیار کیا جائے منیبہ بیگم نے بڑی جدو جہد کے بعد اس کی منتیں کر کے تیار کیا صنم بلیو کرتا شلوار بلیک دوپٹے میں کافی خوبصورت لگ رہی رہی تھی ماہا اپنے کمرے میں بیٹھی کوئی کتاب پڑھ رہی تھی جب اسے دلاور صاحب کی گاڑی کا ہارن سنائی دیا ماہا کے فورا کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو دلاور صاحب کے پیچھے ملازم بہت سارے لوازمات لا رہے تھے

ماہا نے جلدی سے لائٹ پیچ کلر کی خوبصورت سی فراک نکالی اور جلدی سے چینج کرنے چلی گئی اگلے پانچ منٹ میں وہ تیار تھی میک اپ کا اسے ویسے ہی شوق نہ تھا میک اپ کے نام پر صرف پنک لپسٹک لگائی لمبے بالوں کی چوٹی بنا کر کندھے پر ڈالی اور سلیقے سے دوپٹہ اوڑھ کر ماں کی مدد کے لیے کچن میں آگئی تب تک دلاور صاحب کے مہمان بھی آچکے تھے لاونج سے ہنسی اور قہقہوں کی آوازیں آرہی تھیں ماہا نے ملازموں کے ساتھ سارا سامان ٹیبل پر لگوایا اور مہمانوں کو سلام کیا جن میں ایک خوبصورت سی عورت اور دلاور صاحب کی عمر کے ہی آدمی تھے دونوں ہی بہت رکھ رکھاو والے لگ رہے تھے ماہا نے ان کو سلام کیا تو مسز گردیزی ی نے اس کا ماتھا چوما ان کو یہ سانولی سی رنگت میں پر کشش لڑکی بہت بھائی تھی سب سے زیادہ جس چیز نے ان کو متاثر کیا تھا وہ ماہا کی حیاء تھی جو اس کے چہرے پر کشش کع مزید بڑھا رہی تھی بڑی بڑی آنکھیں کسی کے دل میں بھی گھر کر سکتی تھیں ماہا ان کی نظروں سے کنفیوز ہوتی بہانا بنا کر وہاں سے اٹھ گئی اور کچن میں آکر ہی دم لیا تبھی کاشان لغاری نے صنم کو بلانے کا کہا صنم کو جب منیبہ بیگم نیچے لائیں تو مسز گردیزی کے منہ سے بے ساختہ ماشاءاللہ نکلا واقعی وہ بہت خوبصورت تھی صنم کس ضبط سے وہاں کھڑی تھی یہ صرف وہی جانتی تھی ۔۔۔۔وہ اپنے باپ کا سارا مقصد سمجھ چکی تھی کہ یہ مہمان کس لیے بلائے گئے ہیں مسز گردیزی نے صنم کو بھی خوب پیار کیاکاشان گردیزی نے صنم کے ہاتھ پر نوٹوں کی گڈی رکھی اور اس کے سر پر شفقت سے بوسہ دیا ۔۔۔۔صنم اس درمیان بلکل خاموش تھی اسے اس سب سے شدید کوفت ہو رہی تھی ۔۔۔ وہ بس جلدی سے جلدی یہاں سے جانا چاہ رہی تھی ورنہ کوئی بیر نہ تھا اپنے غصے میں کیا کر جاتی ۔۔۔کاشان گردیزی اور دلاور شاہ دونوں بزنس پارٹنر تھے دونوں کے درمیان کافی گہری دوستی تھی کاشان گردیزی کا صرف ایک بیٹا تھا ابتہاج گردیزی جو اس وقت میٹنگ کے سلسلے میں لندن گیا ہوا تھا مسز گردیزی کب سے اس کی شادی کے پیچھے پڑی ہوئی تھیں پر وہ کوئی نہ کوئی بہانا بنا کر ٹال دیتا وہ بھی ان کی ماں تھیں اس بار سوچ چکی تھیں کہ کچھ بھی ہو جائے وہ ابتہاج کی شادی کرا کر رہیں گی ۔۔۔۔ کاشان صاحب کو جب پتا چلا کہ دلاور شاہ کو بھی بیٹی کے لیے رشتوں کی تلاش ہے تو وہ اپنا دامن پھیلائے چلے آئے ان کو کسی چیز کی ضرورت نہ تھی دولت شہرت سب تھا بس کمی تھی تو اپنے آنگن میں اترتی خوشیوں کی ۔۔۔ ہر وقت کے سناٹوں سے وہ تنگ آچکے تھے ابتہاج بھی ماں کی دھمکی پر سر جھکاگیا ورنہ اس کے کوئی بعید نہ تھی وہ کیا کر جاتیں ۔۔۔۔ ابتہاج کو وہ آنے سے پہلے بتا چکی تھیں کہ آج وہ لڑکی والوں کے گھر جارہی ہیں وہ بس ہنستے ہوئے اپنی ماں کے چہرے پر چھائی خوشی دیکھتا نفی میں سر ہلاگیا

صنم طبیعت خرابی کا بہانا بنا کر وہاں سے اپنے کمرے میں چلی آئی اور شدید تیش کے عالم میں روکی کو فون ملایا جو دوسری بیل پر ہی اٹھا لیا گیا

روکی جو اس وقت کسی لڑکی کے ساتھ نازیبا حالت میں موجود ۔۔۔ کسی کو میسج کر رہا تھا اسکرین پر چمکتے صنم کے نمبر دیکھتے ہی الرٹ ہوا اور فوراً سے پہلے اپنی باہوں میں لیٹی لڑکی کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور کال پک کی

صنم جو پہلے ہی بھری بیٹھی تھی روکی کے کال اٹھانے پر پھٹ پڑی ۔۔۔۔کہاں مر گئے تھے تمہیں پتا بھی ہے میں کس عذاب سے گزر رہی ہوں ۔۔۔ ڈیڈ نے میرا رشتہ طے کر دیا ہے اپنے دوست کے بیٹے سے تمہیں کوئی ہوش بھی ہے ۔۔۔۔۔ صنم پھولے تنفس سے اسے اپنے ساتھ ہوئی ساری رام کہانی سنا رہی تھی

روکی نے اس کے چیخنے پر ایک نظر غصے سے موبائل کو گھورا۔۔۔۔۔ اور دل میں سو صلواتیں اسے سنا کر ۔۔۔۔ انتہائی شیریں لہجے میں بولا

ڈارلنگ ٹینشن کیوں لیتی ہو ۔۔ میں ہوں نہ میرے ہوتے ہوئے کوئی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تمہاری شادی صرف مجھ سے ہوگی میری جان ۔۔۔۔ تمہیں مجھ سے کوئی الگ نہیں کر سکتا ۔۔۔۔ روکی اسے اپنے جال میں پوری طرح قید کر چکا تھا ۔۔۔ اب اسےآگے کا پلین اگزیکیوٹ کرنا تھا ۔۔۔۔ صنم نے روکی کو نکاح کے بارے میں ساری بات بتائی اس کی پوری بات تحمل سے سننے کے بعد روکی نے اسے جو کہا اسے سن کر صنم بے تہاشا خوش ہوئی ۔۔۔۔ روکی نے اس سے کہا کہ جس دن تمہارا نکاح ہوگا ٹھیک اسی دن ہم یہ ملک چھوڑ کر چلیں جائیں گے تم اپنی اس بیوقوف بہن سے مدد لینا اور آرام کا بہانا کرکے روم میں ہی رہنا میں تمہیں وہاں سے لیجاوں گا اور پھر ہم شادی کر لینگے ۔۔۔

روکی کی بات پر صنم متفق ہو گئی وہ بہت خوش تھی کہ آخر کار جسے چاہا وہ مل جائے گا اس نے ایک بار بھی دلاور صاحب یا اپنے گھر والوں کے بارے میں نہیں سوچا تھا

اوہ روکی ۔۔تم نے تو میری ساری پریشانی دور کر دی میں بہت خوش ہوں اب میں اس قید سے ہمیشہ کے لیے آزاد ہو جاوں گی اور ہم یہاں سے کہیں دور چلے جائیں گے جہاں صرف میں اور ہماری محبت ۔۔۔ ۔

روکی شاطرانہ انداز میں مسکرانے لگا اب صنم ہر طرح سے اس کے جال میں پھنس چکی تھی ۔۔ صنم نے کال کٹ کرنی چاہی جب روکی مطلب کی بات پر آیا اور صنم کو دلاور صاحب سے نکاح کے بدلے اپنی پراپرٹی نام کرنے کا بولا ۔۔۔ روکی نے صنم کو یہ کہہ کر مطمئن کر لیا تھا کہ ان کی نئی زندگی کی شروعات ہوگی تو انہِیں بہت زیادہ انکم کی ضرورت پڑے گی صنم بھی روکی کی بات پر سوچ میں پڑ گئی ۔۔۔اور کال کاٹ دی ۔۔۔


صنم اب یہ سوچ رہی تھی کہ کس طرح دلاور شاہ سے پراپرٹی کا مطالبہ کرے ۔۔۔۔


________

_کاشان گردیزی کو اور مسزگردیزی کو صنم بہت پسند آئی تھی وہ رشتے کے لیے ہاں کر گئے تھے دلاور صاحب نے دل سے رب کا شکر ادا کیا انہیں یقین تھا کہ اب صنم سدھر جائے گی ۔۔۔۔ مسز گردیزی نے منیبہ بیگم سے صنم کی ایک تصویر لی اور جلد ہی نکاح پر ملنے کا بول کر چلی گئیں

دلاور صاحب مطمئن سے صنم کے کمرے میں چلے آئے جہاں وہ ویسی ہی بیٹھی موبائل استعمال کر رہی تھی دلاور صاحب اس کے پاس بیٹھے اور سر پر ہاتھ رکھ کر سمجھانے لگے


زندگی ہر کسی کو یہ موقع نہیں دیتی کہ وہ سنبھل جائے لیکن تم خوش نصیب ہو آج یقینا تمہیں میرے فیصلے سے تکلیف ہوگی لیکن ساری زندگی اپنے باپ کو دعائیں دوگی ۔۔۔۔ جانتی ہو بیٹیاں صرف وہی معاشرے میں عزت پاتی ہیں جو باپ کے سائے میں گھر سے رخصت ہوتی ہیں ۔۔۔۔ ورنہ دنیا ٹھوکروں میں رول دیتی ہے ۔۔۔۔ تم میری پیاری بیٹی ہو امید کرتا ہوں میری باتوں کو سمجھو گی ابتہاج بہت اچھا لڑکا ہے وہ تمہیں بہت خوش رکھے گا۔ ۔۔۔

دلاور صاحب اپنی طرف سے اس کا دل صاف کرنے آئے تھے یہ جانے بغیر کہ رسوائی ان کے نصیب میں لکھ دی گئی ہے جس بیٹی پر جان نچھاور کر رہے ہیں وہی بیٹی زندگی کا سب سے بڑا روگ دے گی ۔۔۔۔۔

ان کی باتوں پر صنم کے ضمیر نے اسے ملامت کی کہ وہ اپنے باپ کے ساتھ اتنا بڑا دھوکہ نہیں کر سکتی لیکن دوسری طرف اس کے سامنے روکی کی محبت آکھڑی ہوئی اور دل جیت گیا ۔۔۔۔ صنم اہنے ضمیر کو تھپکی دیکر سلا چکی تھی ۔۔۔۔۔۔

__________

صباء گردیزی نے گھر آتے ہی ابتہاج کو ویڈیو کال کی ان کو بے حد خوشی تھی ابتہاج نے کال پک کی اور اپنی مام کا مسکراتا چہرہ دیکھ کر اس کی ساری تھکن کہیں دور جا سوئی تھی وہ میٹنگ سے فری ہو کر ابھی اپنے فارم ہاوس آیا تھا تبھی صباء گردیزی کی کال آگئی

صباء گردیزی نے جیسے ہی ایک نظر اس کی طرف دیکھا تو آنکھیں بھر آئیں وہ تھا ہی ایسا لمبا چوڑا قد سر خ وسفید رنگت ماتھے پر ہمہ وقت بکھرے بھورے بال گہری شہد رنگ آنکھیں جن میں ہمیشہ ایک ٹھٹھرا دینے والا تاثر ہوتا ۔۔۔ گلابی لب جو سختی سے آپس میں بھینچے ہوئے تھے

صباء بیگم نے دل سے اس کی نظر اتاری ابتہاج گردیزی وجاہت کا منہ بولتا ثبوت تھا باہر ملک پڑھائی کرنے کے باوجود اس نے کبھی اپنی حدود پار نہیں کیں تھیں اسے بس ایک چیز نے نفرت تھی وہ تھا جھوٹ اور دھوکا ۔۔۔ معاف کرنا اسے پسند نہ تھا وہ بس اپنی اصولوں پر جینے والا شخص تھا جس کی دنیا بس ۔ اس کی ماں تھی باپ کو تو وہ بس ۔۔۔۔ نام کا ہی سمجھتا تھا

دیکھو اے ۔بی میں آج تمہاری دلہن دیکھنے گئی تھی ماشاءاللہ بہت پیاری ہے بلکل میرے بیٹے کی طرح ۔۔۔ صباء بیگم اس کے سامنے صنم کی تصویر لہراتی ہوئی بولیں جس میں صنم ریڈ شارٹ فراک بلیک جینس اور بلیک سٹالر ڈالے بہت پیاری لگ رہی تھی ایک پل کو ابتہاج اس کے حسن سے نظریں نہ ہٹا پایا پر وہ اپنی جانتا تھا کہ مام کی نظریں اس کے تاثرات جاننے کے لیے بے چین ہیں ۔۔۔ ابتہاج نے ماں کی طرف دیکھا جو شرارت سے اسکی طرف دیکھ رہیں تھی ۔۔ ابتہاج ان کے مسلسل دیکھنے پر جھنجھلا گیا ۔۔۔ مامممممم

ابتہاج کے چڑنے پر صباء گردیزی قہقہہ لگا اٹھی اور بولیں پسند آئی میرے بیٹے کو اپنی بیٹر ہاف۔ ۔۔ ابتہاج نے ایک نظر ماں کو دیکھا اور گہرا سانس بھر کر بولا


"مام آپ جانتی ہیں کہ میری نیچر کیسی ہے مجھے خوبصورتی متاثر نہیں کر تی صرف کردار متاثر کرتا ہے میں چاہتا ہوں جیسے میں نے آج تک کبھی کسی کو اپنے دل میں نہیں آنے دیا تو میری بیوی کا کردار اتنا تو پختہ ہو کہ میں اس کی زندگی میں آنے والا پہلا مرد ہوں ۔۔۔ بس یہی میری ڈیمانڈ ہیں

بیٹے کی بات سن کر صباء بیگم بہت خوش ہوئیں آج انہیں فخر ہوا تھا اپنی پرورش پر ان کا بیٹا واقعی بڑا ہو گیا تھا ۔۔۔۔

ابتہاج نے ماں کو خیالوں میں گم دیکھ کر چٹکی بجائی اور کہا

ماما کل میں آرہا ہوں تو پھر فرصت سے بات کرتے ہیں ابتہاج نے صباء بیگم کو اپنا خوب خیال رکھنے کا کہا اور کال کٹ کی ۔۔۔۔ ابتہاج اپنے بستر پر لیٹا صنم کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا ۔۔۔اس کی نظروں میں بار بار اس کی من موہنی صورت گھوم رہی تھی ۔۔۔۔ابتہاج ساری سوچوں کو جھٹکتا اپنے بستر پر دراز موبائل یوز کرنے لگا ۔۔۔تاکہ کل کی ٹکٹ کنفرم کرا سکے ۔۔۔۔

______

ابتہاج پاکستان آچکا تھا اسے ریسیو کرنے صباء گردیزی آنا چاہتی تھیں لیکن ابتہاج نے سختی سے منع کر دیا کہ وہ خود آجائے گا وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی ماما کو ذرا بھی تکلیف ہو ۔۔۔ آدھے گھنٹے کی مسافت کے بعد ابتہاج اپنے پیلس پہنچ چکا تھا جیسے ہی ابتہاج نے پہلا قدم رکھا صباء گردیزی کو اپنے انتظار میں پایا یہ ان کی ہمیشہ کی عادت تھی جب بھی ابتہاج واپس آتا وہ اس کا انتظار کرتی پائی جاتیں ۔۔۔۔ ابتہاج ماں کی محبت پر جتنا ناز کرتا کم تھا ۔۔۔ صباء بیگم نے ابتہاج کو سینے سے لگایا اس کی پیشانی چومی ابتہاج ان کو آبدیدہ ہوتا دیکھ جلدی سے ان کو لیے کاوچ پر بیٹھا اور اپنی فلائیٹ کے بارے میں بتاتے ان کا موڈ فریش کر گیا صباء بیگم نے اسے فریش ہونے کا کہا اور خود کھانا لگانے چلی گئیں ۔۔۔ ابتہاج نے جیسے ہی روم کا درواز ہ کھولا ۔۔۔ دی ہیون کی خوشبو اسے پورے کمرے میں پھیلی محسوس ہوئی ابتہاج کا کمرہ بلیک اینڈ گرے کامبینیشن میں ڈیکور کیا گیا تھا جہازی سائز بیڈ ۔۔۔ ساتھ بنی خوبصورت دیوار گیر الماری دیواروں پر گرے ہی پینٹ ۔۔۔ گلاس وال پر ڈلے خوبصورت بلیک کرٹنز ابتہاج کا روم پورے پیلس میں سب سے زیادہ خوبصورت تھا ۔۔۔۔۔

ابتہاج فریش ہو کر نیچے آیا تو صباء بیگم کھانا لگا چکی تھیں انہوں نے ابتہاج کے پسند کی ساری ڈشز بنائی ۔ تھیں ابتہاج کو فش بریانی بے حد پسند تھی اس نے صباء بیگم کا شکریہ ادا کیا اور اپنے ساتھ ان کو بھی کھانا کھلانے لگا جانتا تھا کہ انہوں نے بھی کچھ نہیں کھایا ہو گا۔ ۔۔۔۔


_________


آج جمعے کا مبارک دن تھا دلاور صاحب نے آج کا نکاح مقرر کیا تھا ساری تیاریاں مکمل تھیں ابتہاج بھی بے حد خوش تھا اسے اپنی ماں کی پسند پسند تھی منیبہ بیگم مہمانوں کو دیکھ رہی تھیں ان کو برے برے خیالات ستا رہے تھے ان کا دل کہہ رہا تھا کچھ تو غلط ہونے والا ہے ۔۔۔۔ منیبہ بیگم نے اپنی گھبراہٹ کم کرنے کو ماہا کو ایک نظر صنم کو دیکھنے بھیجا ۔۔۔۔ ماہا جو آج گرے فراک پر ہوئی ہلکی سی کڑھائی اور بلیک ٹراوززیب تن کیے کافی خوبصورت لگ رہی تھی بلیک ہی کلر کا اسکارف اس کے چہرے کو الگ ہی خوشنما بنا رہا تھا ۔۔۔۔ ماہا کمرے میں آئی تو صنم کے ساتھ دلاور صاحب بیٹھے کچھ پیپرز پر سائن کر رہے تھے صنم بہت خوش دکھائی دے رہی تھی ۔۔۔ دلاور صاحب نے دروازے پر کھڑی ماہا کو ایک نظر دیکھا اور صنم کا خیال رکھنے کا کہتے چلے گئے ۔۔۔۔۔ ماہا نے صنم سے پوچھا کہ یہ بابا کس چیز کے پیپرز سائن کر رہے تھے صنم بات کو گول کر گئی ۔۔۔ ابھی ماہا کچھ اور کہتی کہ بیوٹیشن کمرے میں آئی اور صنم کو چینج کرنے کا کہا ۔۔۔ ابتہاج نے اپنی پسند سے صنم کے لیے بلڈ ریڈ کلر لہنگا اور گولڈن دوپٹا جس کے کناروں پر خوبصورت کڑھائی کی گئی تھی وہ لیا ۔۔۔۔ وہ صنم کو اپنی پسند میں ڈھلتے دیکھنا چاہتا تھا ۔۔۔ صنم چینج کر کے آئی تو بیوٹیشن اور ماہا کے منہ سے اپنے لیے تعریفی کلمات سن کر تمسخرانہ ہنسی ہنسنے لگی یہ تو اس کا معمول تھا ہر کسی سے تعریف سننا بیوٹیشن کے ماہرانہ ہاتھوں نے اس کے نقوش کو مزید نکھار دیا تھا صنم بلڈ ریڈ لہنگے میں گولڈن آئی میک اپ ریڈ لپسٹک سے سجے یاقوتی لب نیز وہ کسی بھی مرد کا ایمان ڈگمگا سکتی تھی ۔۔۔۔ ماہا نے منیبہ بیگم کو بتایا کہ صنم ٹھیک ہے اور بہت پیاری لگ رہی ہے منیبہ بیگم نے سکھ کا سانس لیا ۔۔۔ کچھ ہی دیر میں ابتہاج کی فیملی بھی آچکی تھی ابتہاج بلیک ڈنر سوٹ میں بہت وجیہہ لگ رہا تھا لڑکیوں کی نظریں اس پر سے ہٹ نہیں رہی تھیں ۔۔۔ کاشان گردیزی دلاور صاحب کے بغلگیر ہوئے اور ان کو نکاح شروع کرانے کا کہا ۔ دلاور صاحب نے منیبہ بیگم کو صنم۔ کو لانے کا کہا اور خود مولوی صاحب سے بات کرنے لگے ۔۔۔۔ دلاور صاحب بات کر ہی رہے تھے جب ماہا بھاگی ہوئی ان کے پاس آائی اور روتے ہوئے ان کو اندر چلنے کا کہا ۔۔۔۔۔ دلاور صاحب کو کسی بڑی انہونی کا احساس ہوا ۔۔۔۔۔ وہ بھاگنے کے انداز میں اندر آئے جہاں منیبہ بیگم سر ہاتھوں میں تھامے بیٹھی تھیں ۔۔۔۔ دلاور صاحب نے ان کو ایک نظر دیکھا اور بولے کیا ہوا ہے صنم کہاں ہے ۔۔۔۔ منیبہ بیگم نے کوئی جواب نہ دیا۔۔۔ دلاور صاحب دھاڑے ۔۔۔۔ میِں پوچھتا ہوں کہاں ہے صنم ۔۔۔۔ منیبہ بیگم نے ان کی طرف پرچہ بڑھایا اور بولیں دیکھ لیں

دلاور صاحب نے کپکپاتے ہاتھوں سے پر چہ تھاما اور جیسے جیسے پڑھتے جا رہے تھےا ن کی رنگت زرد پڑتی جارہی تھی ۔۔۔۔۔


"ڈیڈ میں جانتی ہوں کہ میرے اس قدم سے آپ کو تکیلف ہو گی لیکن میں روکی کے بغیر نہیں رہ سکتی میں اس سےبہت محبت کرتی ہوں ۔۔۔ اسی لیے آپ سے کہا تھا ۔۔۔۔۔ کہ میری شادی نہ کرائیں لیکن آپ نہ مانے مجبورا مجھے یہ قدم اٹھانا پڑے مجھے یقین ہے آپ مجھے سمجھے گے میں روکی کے ساتھ اپنی نئی زندگی کی شروعات کرنے جارہی ہوں امید ہے آپ مجھ سے بد گمان نہِیں یونگے آپ کی بیٹی ۔۔۔۔۔ صنم دلاور شاہ ۔۔۔۔۔

دلاور صاحب کی آنکھیں اس وقت خون برسا رہی تھیں سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں مفلوج ہو کر رہ گئی تھیں ۔۔۔۔ دلاور صاحب کی آنکھوں سے ضبط کے باوجود ایک آنسو ٹوٹ کر گرا ۔۔۔۔ احمد لغاری جو ان کے پیچھے ہی آئے تھے دوست کو اس حالت میں دیکھ کر تڑپ کر سہارا دیا اور کاغذ ان کے ہاتھ سے لیکر خود پڑھنے لگے ان کو دلی رنج ہوا صنم کے اس شدید عمل پر ۔۔۔۔ دلاور شاہ کی حالت اس وقت ہارے ہوئے جواری کی طرح تھی جس سے اس کا سب چھین لیا گیا ہو کاشان گردیزی نے ان کو حوصلہ دیا اور سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوئے بولے ۔ ۔دلاور یار میرے لیے تیری دونوں بیٹیاں برابر ہیں اگر صنم نہ سہی تو ۔۔ ماہا سہی میں اپنے ابتہاج کے لیے تیری ماہا کا ہاتھ مانگتا ہوں ۔۔۔۔ دلاور کے ساتھ ساتھ پیچھے آتے ۔۔۔۔۔ ابتہاج اور صباء بیگم نے بھی ششدر نظروں سے کاشان گردیزی کی طرف دیکھا ۔۔۔ ۔۔

دلاور صاحب نے آنکھیں میچ کر خود پر ضبط کیا ۔۔۔ اس سے پہلے کہ کوئی کچھ بولتا ۔۔۔ ابتہاج کی بھاری آواز کمرے میں گونجی ڈیڈ مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے ۔ ۔

پر کاشان صاحب نے ابتہاج کی بات پر توجہ نہ دی اور بیوی اور بیٹے کو لیکر باہر آگئے اب فیصلے کا اختیار وہ دلاور کو سونپ آئے تھے ۔۔۔۔ دلاور شاہ نے ایک نظر پتھر بنی بیوی اور بیٹی پر ڈالی اور بولے کہ جلدی سے ماہا کو تیار کر کے لاو منیبہ ورنہ میرا مرا منہ دیکھو گی ۔۔۔۔ان۔ کی بات پر ماہا ساکت سی باپ کو دیکھے گئی کہ واقعی یہ میرا باپ ہے ۔۔۔ دلاور صاحب فیصلہ سنا کر کمرے سے جاچکے تھے


ماہا نے ماں۔ کی بہت منتیں کیں کہ وہ نہیں کرنا چاہتی یہ نکاح لیکن منیبہ بیگم مجبور تھیں ہمیشہ کی طرح شوہر کے آگے ۔۔۔۔ کچھ ہی دیر میں صنم کی جگہ ماہا کو دلہن کی جگہ بٹھایا گیا ۔۔۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ ہوا کیا ہے ابتہاج بنا احتجاج کیے سختی سے لب بھینچے بیٹھا تھا

__________


ماہا دلاور ولد دلاور شاہ آپ کا نکاح ابتہاج گردیزی ولد کاشان گردیزی کے ساتھ ایک کڑوڑ حق مہر سکا رائج الوقت طے پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے "

ماہا کی سماعتیں مولوی صاحب کی بات سن کر ساکت ہو گئیں تھیں وہ ہر بات سے بے بہرہ ہو کہ جھٹکے سے سر اٹھا کر اپنے ماں باپ کو دیکھنے لگی


اکثر پگڑیوں کے فیصلے دوپٹوں کو بھگتنے پڑتے ہیں


کیا اس لیے اس سے عہد وپیمان لیے گئے تھے جسے وہ باپ کی محبت سمجھ رہی تھی وہ تو صرف اپنی بیٹی کے کیے کا بھگتان کرنے کے لیے ایک فریب تھا ماہا نے اپنی دکھتی آنکھیں باپ کے چہرے سے ہٹا کر ماں کی طرف دیکھا جن کے چہرے پر ہمیشہ کی طرح ہارے ہوئے جواری کی جیسے تعصرات تھے ۔۔۔۔۔ ماہا نے تلخی سے مسکرا کر ماں باپ کو دیکھا ۔۔۔۔ پر دلاور صاحب تو جیسے ساری دنیا سے بے خبر ہوئے چہرے پر سختی لیے کھڑے تھے

دلاور صاحب نے ماہا کے جواب نہ دینے پر منیبہ بیگم کے کان میں کچھ کہا جسے سن کر ان کا رنگ لمحوں میں زرد پڑا آنکھوں سے بھل بھل آنسو بہنے لگے

منیبہ بیگم تھکے قدموں سے ماہا کی طرف بڑھیں اور اس کے ہاتھ پر دباو بڑھا کر نکاح قبول کرنے کا کہا


مہر نے ایک نظر محض ایک نظر ۔۔۔ ماں کو دیکھا جن کی نظروں میں ایک التجا تھی مان تھا

مہر کو پتا ہی نہ چلا کیسے کب وہ اپنی زندگی ایک لمحے میں پردے کے اس پار موجود شخص کے نام کر بیٹھی


نکاح پر پوچھا گیا جب اس کی مرضی کا

تو کہنے لگی بابابہت خوش ہیں میرے


اب ابتہاج سے پوچھا گیا مولوی صاحب کے کلمات پر ابتہاج نے سختی سے مٹھیاں بھینچی اور سرد لہجے میں نکاح کے بول ادا کیے وہ بھی تو آج ٹوٹا تھا اس کا احساس کسی کو نہیں تھا

آج دو موتیں ہوئی تھیں دلاور صاحب کے یقین کی موت اور مہر دلاور کی محبت کی موت وہ چھوٹی سی لڑکی اپنی بہن کے قرض چکانے میں قربان کر دی گئی تھی یہ جانے بغیر کہ قسمت نے اس کے لیے کتنی ازیتیں لکھ رکھی ہیں ۔۔۔۔ ۔


ماہا کا نکاح ہو چکا تھا چاروں طرف مبارکباد کا شور تھا اس شو رو غل میں ایک معصوم کی سسکیاں گم ہو کر رہ گئی تھیں ۔۔۔ زندگی نے بھی عجیب کھیل کھیلا تھا کہ سارے پاسے ہی پلٹ دیے ۔۔۔۔۔ ابھی ماہا

اپنی قمست کی ستم ظریفی پر مزید ماتم کرتی جب ابتہاج گردیزی کی بھاری آواز گونجی ۔۔۔۔۔ ابتہاج دلاور صاحب کے سامنے سرخ آنکھوں سے ماہا کو دیکھتا فوری رخصتی کا مطالبہ کر رہا تھا ۔۔۔۔ ابتہاج کی بات پر ماہا سہم کر اپنی ماں کو دیکھنے لگی ۔۔۔۔ جو خود انجانے خوف لیے دلاور صاحب کو دیکھ رہیں تھیں کہ آخر وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں ۔۔۔۔ دلاور صاحب نے ایک نظر ماہا پر ڈالی اور ابتہاج کا شانہ تھپتھپاتے ہوئے بولے

"بلکل برخوردار لے جاو تمہاری امانت ہے "

ان کے لفظوں پر ماہا بے یقینی سے باپ کو دیکھ رہی تھی جو دو پل میں اس کی زندگی بدل چکے تھے اور اب ۔۔ ایک ان چاہے رشتے میں باندھ کر رخصت کر رہے تھے ۔۔۔۔ ماہا نے شکوہ کناں نظر روتی ہوئی ماں پر ڈالی اور بنا کسی کی جانب دیکھے ٹہرے ہوئے لہجے میں بولی ۔۔۔۔ میں تیار ہوں رخصتی کے لیے لیکن میری ایک شرط ہے۔۔۔۔۔ ماہا کی بات پر ابتہاج کے ماتھے پر بلوں کا اضافہ ہوا اس نے اوپر سے نیچے تک ماہا کو دیکھا ۔۔۔۔ اتنی سی لڑکی ا"ابتہاج گردیزی "کے سامنے شرائط رکھ رہی تھی

ماہا نے اس کی نظروں پر دھیان نہ دیا ور نہ کب کی بیہوش ہو جاتی


"میری یہ شرط ہے کہ اس گھر سے رخصت ہونے کے بعد میں اس گھر کے ہر فرد کے لیے مر جاونگی خواہ وہ کوئی بھی ہو ۔۔۔۔۔ میں مر بھی جاوں تو میرے گھر والوں کو میرا جنازہ نہ دیکھنے دیا جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ "


اس نازک سی لڑکی کی بات پر جہاں ابتہاج ششد ر سا اسے دیکھ رہا تھا وہیں دلاور صاحب اور منیبہ بیگم پتھر کی مورت بنے سامنے کھڑی ماہا کو دیکھ رہے تھے اس۔۔ وقت سب سے زیادہ برا حال دلاور صاحب کا تھا ۔۔۔۔۔ وہ تو کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے ماہا اتنی بڑی بات اتنی آسانی سے کر جائے گی ۔۔۔ اس کا چہرہ اس وقت ہر تعصر سے خالی تھا جیسے تمام حسیں ختم ہو چکی ہوں ۔۔۔۔

ماہا نے ایک غلط نگاہ کسی پر نہ ڈالی اور ابتہاج کے پیچھے قدم بڑھانے لگی ۔۔۔ دلاور صاحب نے سر پر ہاتھ رکھنا چاہا پر ماہا پیچھے ہٹ گئی ۔۔۔۔آج اس گھر میں اگر کسی کی موت ہوئی تھی تو وہ "ماہا دلاور شاہ"کے جذبوں کی اس کی امیدوں کی اس کے خوابوں کی ۔۔۔آہ ۔۔۔۔ بس یہ نازک سی گڑیا کسی مطلب پرست کی خودغرضی کی نظر ہو گئی ۔۔۔ منیبہ بیگم دروازے تک آئیں پر ماہا نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا

مسز گردیزی نے انہیں تسلی دی کہ جو ہونا تھا وہ تو ہو ہی چکا ہے اب بس اچھے نصیبوں کے لیے دعا کرو ۔۔۔

ماہا گاڑی میں بیٹھ چکی تھی ڈرائیونگ سیٹ پر ابتہاج اور کاشان گردیزی جبکہ بیک سیٹ پر ماہا اور مسز گردیز ی تھیں ۔۔۔۔۔پندرہ منٹ کی مسافت کے بعد گاڑی ایک شاندار محل کے آگے رکی ۔۔۔ ابتہاج بنا کچھ بولے جھٹکے سے دروازہ کھولتا باہر نکل گیا۔۔۔۔۔۔ مسز گردیزی کو ابتہاج کی حرکت پر جی بھر کے تاو آیا آخر کیسے وہ نئی نویلی دلہن کے ساتھ ایسا کر سکتا ہے ۔۔۔۔ کاشان گردیزی بھی پریشان تھے کہ کہیں جلد بازی میں غلط فیصلہ تو نہیں کر بیٹھے انہوں نے ماہا کے سر پر ہاتھ رکھا اور اسے بازوں کے گھیرے میں لیے اندر چلے آئے پورا گھر رنگارنگ روشنیوں سے جگمگا رہا تھا ۔۔۔۔ پر ماہا تو بے حس بنی ان کے ساتھ چلے جارہی تھی اسے کیا سروکار تھا ان چیزوں سے اس کے پاس کچھ ہوتا ۔۔۔ تو اسے محسوس ہوتا ایک ہی دن میں وہ تو ساری زندگی کی جمع پونجی اپنے ماں باپ لٹا چکی تھی ۔۔۔۔ اور ستم یہ کہ لب پر خاموشی کا قفل ضروری تھا ورنہ کہا ں جاتا ماں باپ کا مان ۔۔۔۔۔ جس کے خاطر یہ سب ہوا ۔۔۔۔۔ ماہا کے اندر باہر صرف تلخی پھیل چکی تھی ۔۔۔ ہوش تو اسے تب آیا جب صباء گردیزی اسے اپنے ساتھ لیے ایک سجے سجائے کمرے میں لے آئیں کمرہ اپنی خوبصورتی کا منہ بولتا ثبوت تھا ۔۔۔۔ ہر چیز یہاں رہنے والے شخص کے اعلی زوق کی نشاندہی کر رہی تھی ۔۔۔ ماہا کی نظر سیدھا گلاب کے پھولوں سے سجے بیڈ پر پڑی اس کی سانسیں سینے میں ہی کہیں دب گئیں ۔۔۔۔۔ یہ سوچ ہی اسے ختم کرنے کے لیے کافی تھی کہ آج وہ کسی اور کی نہیں اپنی بہن کی جگہ بیٹھی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ صباء بیگم نے ماہا کو بیڈ پر بٹھایا اور اس کے ہاتھ تھامتی سمجھانے کے انداز میں گویا ہوئیں ۔۔۔۔


"دیکھو میرا بچہ میری اپنی کوئی بیٹی نہیں لیکن ایک عورت ہونے کے ناتے اس وقت تمہاری جو حالت ہے میں اسے بخوبی سمجھ سکتی ہوں لیکن جو ہونا تھا ہو چکا اب اسے ایک برا خواب سمجھ کر بھولنے کی کوشش کرو ۔۔۔ ورنہ سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہیں آنا۔۔۔ میرا بیٹا غصے کا تیز ہے لیکن اس کا دل صاف ہے آئینے کی طرح ۔۔۔۔ اپنے دل میں کبھی کوئی بد گمانی مت لانا ۔۔۔ ہم بھی تمہارے والدین کی طرح ہیں ۔۔۔۔ "

ان کی باتیں ماہا کے دل کو خون خون کر گئیں تھیں سگے ماں باپ نے تو کوئی اہمیت نہ دی اور ۔۔۔ یہاں اب اس کے سامنے بیٹھی وہ پر وقار عورت اسے ماں کا لمس محسوس کرانا چاہ رہی تھی پر وہ تو ہر احساس سے عاری تھی ۔۔۔ کچھ محسوس ہوتا تو کرتی ۔۔۔۔

صباء بیگم نے اس کی پیشانی چومی اور ابتہاج کو بھیجنے کا کہہ کر چلی گئیں ۔۔۔۔۔

_______

صنم گھر سے نکل کر سیدھا روکی کے فلیٹ میں آئی تھی جہاں روکی بڑی بے چینی سے اس کا ہی انتظار کر رہا تھا صنم کو دیکھتے ہی روکی اس کی جانب لپکا اور اسے باہوں میں بھر لیا ۔۔۔۔۔ صنم اس کی اچانک پیش و رفت پر گڑ بڑا کر اپنا آپ چھڑا گئی روکی نے بھی بنا کوئی بات کیے اسے خود سے الگ کیا اور بیتابی سے اس سے پوچھنے لگا

"صنم تم پراپرٹی کے پیپرز تو لائی ہو نہ ۔۔۔"

روکی کی بات ہر صنم نے مسکراتے ہوئے کچھ پیپرز نکال کر روکی کے سامنے لہرائے جنہیں دیکھ کر روکی کی آنکھوں میں چمک بڑھ گئی تھی ۔۔۔۔ یعنی اس کا پلین کامیاب رہا تھا ۔۔۔۔

روکی نے جھپٹنے کے انداز میں اس کے ہاتھ سے پیپرز لیے اور غور سے دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔ پر جلد ہی سمبھل کر صنم کو دیکھا جو اسے ہی نہار رہی تھی ۔۔۔۔۔ روکی نے صنم کو کمر سے پکڑ کر اپنے قریب کیا اور اس کے چہرے پر جھولتی آوارہ لٹوں کو اپنے ہاتھ سے پیچھے کرنے لگا صنم اس کی حرکت پر ساکت سی اسے پیچھے دھکیلنے لگی جب روکی کی خمار آلود آواز اس کے کانوں میں پڑی ۔۔۔. .

"جانم میری صنم ۔۔۔ آج میں بہت خوش ہوں مجھے میری صنم مل گئی مجھےا ب اور کچھ نہیں چاہیے روکی صنم کو ایسے ہی اپنے حصار میں لیے کھڑا تھا صنم نے اپنی پوری طاقت سے اسے دھکا دیا ۔۔۔۔ وہ جتنی بھی بولڈ سہی لیکن اس طرح بغیر کسی رشتے کے روکی کے اس قدر قریب جانا اسے بری طرح جھنجھوڑ گیا تھا ۔۔۔

صنم روکی کی آنکھوں میں بڑھتی سرخی سے سہم کر اسے نرمی سے سمجھانے لگی

"روکی میں تمہاری ہی ہوں ۔۔۔۔ مجھے تم پر پورا یقین ہے لیکن. روکی بس تم میری خوشی کے لیے جلدی سے نکاح کر لو تاکہ میں اور تم اپنی ساری زندگی ایک ساتھ گزار سکیں ۔۔۔ پھر ہمیں کوئی بھی الگ نہیں کر پائے گا "

صنم۔کی آواز محبت سے چور تھی ۔۔۔ اس کے ارد گرد صرف روکی کی محبت تھی جس کی اسے بہت بھاری قیمت چکانی تھی ۔۔۔۔ محبتیں کبھی رسوا نہیں کرتیں رسوا انسان کی نیت کرتی ہے محبت میں آپ کتنے اچھے ہیں یہ ضروری نہیں لیکن آپ کی نیت آپ کا دل کتنا پاک ہے یہ ضروری ہے اور جب محبت ہی کھوٹ ہو کسی کے جذبات کا قتل کر کے اپنی نام نہاد محبت کا مینار سجایا گیا ہو ۔۔۔تو پھر رسوائی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا ۔۔


_______

ماہا ابتہاج کے کمرے میں سکڑِ ی سمٹی سی بیٹھی تھی جب اچانک کلک کی آواز سے دروازہ کھلا ۔۔۔ماہا کی سانسیں رک سی گئی تھیں بھاری قدموں کی چاپ اپنے قریب محسوس کرکے ۔۔۔۔ دل کے دھڑکنیں جیسے ساکت ہونے کو تھیں

ابتہاج نے خون آشام نظروں سے اپنی سیج پر بیٹھی ماہا کو دیکھا جو گھونگھٹ ڈالے اسی کے انتظار میں تھی ابتہاج کا خون فشار بلند ہو چکا تھا اسے رہ رہ کر صنم کی بیو فائی یاد آرہی تھی پہلی بار ۔۔۔۔ زندگی میں پہلی بار اس نے کسی شخص کو اپنی زندگی میں لانے کا سوچا تھا اس کے ساتھ سہانے سپنے بنے تھے پر ۔۔۔ آخر میں ملا کیا صرف دھوکا ۔۔۔۔ کیسے ۔۔۔ وہ کسی اور سے محبت کر سکتی تھی ۔۔۔ ابتہاج چار قدموں کا فاصلہ ایک قدم میں طے کرتا ماہا کے سر پر آکھڑا ہوا اور ایک ہی جھٹکے سے اس کا بازو کھینچ کر بیڈ سے اتار دیا ۔۔۔ ماہا کو ابتہاج کی انگلیاں اپنے بازو میں پیوست ہوتی محسوس ہوئیں ۔۔۔ تکلیف سے اس کی آنکھیں بھر آئیں تھیں ۔۔۔۔ جب ابتہاج گردیزی نے ماہا کے کان میں صور پھونکا


"ہمت تو بہت دکھائی ہے ویسے اپنی اوقات سے بھی زیادہ ۔۔۔۔ مجھے آج محسوس ہوا کہ میں کتنا بڑا بیوقوف تھا نہ جو تمہاری بہن کی محبت میں پڑا ۔۔۔ جبکہ حقیقت تو کچھ اور ہی تھی ۔۔۔۔ ارے تم بہنوں نے تو طوائفوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ۔۔۔ ایک بہن جو اپنے ہی نکاح سے اپنے یار کے ساتھ بھاگ گئی اور دوسری اسی کے ہونے والے شوہر کی سیج سجا کر بیٹھی ہے ۔۔۔۔. آفرین ہے تم بہنوں پر ۔۔۔۔ ویسے مجھ سے پہلے کتنے لوگوں کی منظور نظر رہ چکی ہو . . آخر ہو تو اسی نامزاد کی بہن ۔۔۔ جس نے میری روح کو ایسا زخم دیا ہے جس کی ٹیسیں اب ساری زندگی تم بھگتو گی ۔۔۔ بہت شوق چڑھا تھا نہ میری سیج سجانے کا تو آج میں صحیح معنوں میں تمہیں سیج سجانے کا مطلب سمجھاوں گا ۔۔۔۔

ابتہاج کے ایک لفظ نے ماہا دلاور شاہ کی ذات کے پر خچے اڑا کر رکھ دیے تھے اس کی ذات بے معنی کر دی تھی ۔۔۔۔ وہ بدکردار تو نہ تھی پر جو سزا ماں باپ نے چنی تھی اسے بھگتنا تو ہر حال میں تھا

ماہا کی ہچکیاں بندھ گئیں تھیں ۔۔۔ پر ابتہاج اب بھی خاموشی سے اپنی سرخ آنکھیں اس کے دلہن بنی سراپے پر ٹکائے ہوئے تھا کھڑی ستوان ناک ،بھیگی گھنیری پلکیں ،نازک پتلے ہونٹ گندمی رنگت ۔۔۔ آخر ایسا کیا تھا جو مام ڈید نے اسے میرے لیے چنا ۔۔۔۔ ابتہاج نے کوفت زدہ ہو کر اس کا رونا دیکھا اور بلکل اچانک ہی اسے باہوں میں بھرے اپنے بیڈ کی طرف لیجانے لگا ۔۔۔۔ ماہا کا دل اس کے اگلے قدم کو سوچ کر ہی پھٹا جا رہا تھا وہ بری طرح سے جھٹپٹاتی ابتہاج سے دور جانے کے لیے مزاحمت کرنے لگی پر ابتہاج نے اس کی چیخوں کو نظر انداز کرتے بیڈ پر پٹخا اور الماری کی جانب بڑھ گیا وہ جو سمجھ رہی تھی کہ ابتہاج آج اس سے صنم کا بدلہ لیکر رہے گا اسے الماری کی جانب بڑھتے دیکھ منہ پر ہاتھ رکھے اپنی سسکیاں دبانے لگی ۔۔۔۔ ابتہاج مڑا تو اس کے ہاتھ میں ایک خوبصورت لکڑی کا ڈبہ تھا ۔۔۔۔ ماہا نے اپنی بھیگی پلکیں اٹھا کرا س کی طرف دیکھا ابتہاج نے وہ بوکس ماہا کے سامنے رکھا اور پاسورڈ لگا کر وہ لاک کھولا ۔۔۔ جیسے ہی ماہا کی نظر بوکس کے اندر پڑی شے پر پڑی اس کی آنکھیں چندھیا سی گئیں وہ بیش قمیت لاکٹ تھا جو نیلے اور کالے ہیروں سے جڑا ہوا تھا بڑی خوبصورتی سے اس میں ابتہاج کا اے اور صنم کا ایس لکھا ہوا تھا ۔۔۔ ماہا اس کی ساری کاروائی بڑے غور سے دیکھ رہی تھی ۔۔ ابتہاج نے وہ لاکٹ بوکس سے نکالا اور ماہا کی گردن کی زینت بنا دیا ماہا ششدر سی اسے دیکھ رہی تھی جس کی آنکھیں سرد تاثر لیے اسی کو نہار رہی تھیں ۔۔۔۔

ابتہاج نے اس کی آنکھوں میں الجھن دیکھ خود ہی بولنا شروع کیا۔۔۔.

"اب تم جیسی کم عقل لڑکی سوچ رہی ہو گی کہ یہ بیش قیمت لاکٹ میں نے تمہیں کیوں دیا ۔۔۔ تو اب میرے ایک لفظ کو دھیان سے سننا ۔۔۔ یہ لاکٹ تمہاری بھگوری بہن کے لیے بنوایا تھا اب ظاہر ہے اس کی جگہ تم نے میری سیج سجائی ہے تو یہ لاکٹ بھی تمہارا ہوا۔۔۔۔ اور ہاں یہ لاکٹ کبھی تمہاری گردن سے اترا تو زندہ گاڑھ دونگا ۔۔۔ ارے ایسے کیوں دیکھ رہی ہو آخر تمہیں بھی تو پتا چلے تڑپ کیا ہوتی ہے ۔۔۔

ماہا بے یقین نظروں سے ابتہاج کو دیکھ رہی تھی یعبی وہ اسے صنم کے عوض ہر جذبے کو اس کی عزت نفس کو اپنے بدلے کی نظر کرے گا۔۔۔۔۔

ماہا کی نظروں میں بے یقینی تھی ۔۔۔ ابتہاج نے ایک ہاتھ ماہا کی کمر کے گرد ہائل کیا ماہا اگلے ہی پل اس کے حصار میں تھی ابتہاج کے کلون کی تیز مہک نے ماہا کے اوسان خطا کر دیے تھے ابتہاج کی گرفت ماہا کی کمر پر انتہائی سخت تھی ماہا کو لگ رہا تھا اس کی پسلیاں ٹوٹ جائیں گی ۔۔۔۔ ابتہاج نے ماہا کی گردن میں منہ چھپایا ماہا کی سانسیں اور حواس اس کا ساتھ چھوڑنے لگے ابتہاج کی گرم سانسیں ماہا کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑا گئیں تھیں ۔۔۔۔ ماہا کے آنسو روانی سے بہنے لگے اس نے کب سوچا تھا ابتہاج کی اس قدر قربت کا۔۔۔ اس کا سانس بری طرح اکھڑ رہا تھا اس سے پہلے کہ ابتہاج کوئی انتہائی قدم اٹھا کر اسے اپنے بدلے کی آگ میں جھلساتا ماہا ہو ش و حواس سے بیگانہ اس کی باہوں میں جھول گئی ۔۔۔۔ نازک سی جان پہلے ہی اپنوں کے ستم کی ماری تھی ۔ ۔ اوپر سے ہمسفر کے اس قدر بھیانک روپ نے اس کی ذات سے جینے کی خواہش چھین لی تھی ۔۔۔ وہ ہار کے اپنی آنکھیں موند گئی تھی ۔۔۔ جیسے کہہ رہی ہو کہ اپنے ستم کی ہر حد آزما لو میں ۔۔۔ حاضر ہوں ۔۔۔


__________

ابتہاج نے ماہا کے بیہوش ہونے پر نخوت سے سر جھٹکا ایک پل کو ضمیر نے ملامت کی کہ اس نازک سی جان کا کیا قصور ہے لیکن اگلے ہی پل سارے جذبات انتقام کے جذبے پر غالب آنے لگے ابتہاج نے سائیڈ ٹیبل سے پانی کا جگ اٹھایا اور اسے ماہا پر الٹ دیا پر یہ دیکھ اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ماہا کہ وجود میں بے نام سی جنبش بھی نہ ہوئی وہ ویسے ہی ساکت پڑی تھی اب ابتہاج کو واقعی پریشانی نے آن گھیرا ایک نظر اس کے بکھرے سراپے پر ڈالی ۔۔۔ اسے خود ٙ شرمندگی محسوس ہوئی کہ کیا کرنے جا رہا تھا ۔۔۔ ابتہاج کو یہ تشویش ہوئی کہ اگر اسے کچھ ہو گیا تو اپنے مام ڈیڈ ۔۔۔ کو کیا جواب دیگا

ابتہاج نے جلدی سے اپنے فیملی ڈاکٹر اریبہ کو کال کی جو کہ اس کی کافی اچھی دوست بھی تھیں ۔۔۔ ابتہاج کی ایک ہی کال پر اگلے دس منٹ میں ڈاکٹر اریبہ گردیزی ہاوس میں تھیں ۔۔۔ اریبہ ،ابتہاج کے کہے مطابق سیدھا اسی کے روم میں آئی اور جیسے ہی نظر. بے سدھ پڑی ۔۔۔ ماہا کی جانب اٹھی اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں ماہا کی ٹوٹی چوڑیاں ۔۔۔ پھیلا کاجل ،مدہم پھیلی لپسٹک ۔۔۔ اسے یقین کرنے میں دقت ہوئی کہ ۔۔۔ ماہا کی یہ حالت ابتہاج نے کی ہے اریبہ نے انتہائی افسوس سے ماہا کی حالت کو دیکھآ اور ابتہاج سے بعد میں نپٹنے کا سوچ کر ماہا کا ٹریٹمینٹ شروع کیا ۔۔۔۔ ماہا کا پورا جسم بخار کی شدت سے تپ رہا تھا ۔۔۔ اریبہ نے اس کا مکمل چیک اپ کیا اور انجیکشن لگا کر ابتہاج کے سامنے آکھڑی ہوئی ۔۔۔ ابتہاج اب بھی زمین پر نظریں گاڑھے نہ جانے کیا کھوج رہا تھا

"ابی ۔۔۔ مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی یہ کیا حیوانیت دکھائی ہے تم نے۔۔۔ کیسا جاہلوں والا سلوک ہے یہ ۔۔۔ تمہِیں زرا گلٹ بھی نہیں کہ تم نے کیا کیا ہے۔۔۔۔ "

اریبہ نے دکھ سے ماہا کو دیکھتے ہوئے کہا


ابتہاج نے سرخ انگارہ آنکھیں لیے اریبہ کی جانب دیکھا ۔۔۔۔ اور اسے ساری کہانی بتاتا چلا گیا .۔۔۔ جہاں اریبہ کو صنم کی خود غرضی پر ۔۔۔۔ اس سے نفرت محسوس ہوئی وہیں اس کی جگہ ماہا کی حالت دءکھ کر دل سے اس معصوم سی لڑکی پر رحم آیا کیونکہ وہ تو بے قصور تھی ۔۔۔۔ اور کم عمر بھی ۔۔۔ ابتہاج کے چہرے پر پتھریلے تعصرات بتا رہے تھے کہ اس کے ارادے کس قدر خطرناک ثابت ہونے والے ہیں ۔۔۔

ابتہاج نے اریبہ کو باہر تک چھوڑا اور واپس کمرے میں آکر دروازہ لاک کیا ۔۔۔۔

ابتہاج ماہا کے سرہانے بیٹھا اس کے سجے سنورے روپ کو خونخوار نظروں سے دیکھنے لگا ۔۔۔ کتنی چاہ سے لیا تھا یہ لہنگا میں نے میری خوشیوں کو ۔۔۔ نگل گئی تم ۔۔۔۔۔۔ اگر تم نہ ہاں کرتی نکاح کے لیے تو میں صنم کو ڈھونڈ لیتا ۔۔۔۔

ابتہاج دل میں خود سے مخاطب تھا ۔۔۔۔ جب ماہا۔نے کسمساتے آنکھیں کھولیں ۔۔۔۔ اس نے آنکھِیں کھولنی چاہیں پر اسے اپنی آنکھوں پر بھاری بوجھ محسوس ہوا ۔۔۔ جیسے کسی نے بھاری پتھر رکھ دیا ہو ۔۔۔ ماہا نے مشکل سے تھوڑی سے پلکیں اٹھا کر اپنے دائیں جانب دیکھا جہاں سے آتی مردانہ کلون کی خوشبو اس کے حواس سلب کر رہی تھی ۔۔۔ پر اپنے برابر میں لیٹے ابتہاج کو دیکھ ۔۔۔اس کا دل دھک سے رہ گیا ۔۔۔۔۔ابتہاج بڑی گہری نظروں سے اس کا جائزہ لے رہا تھا ماہا کی سانس سینے میں ہی کہیں دب کر رہ گئیں ۔۔۔ ابتہاج اسے آنکھیں کھولتا دیکھ اس پر جھکا بڑے غور سے اس کے نقوش میں گھلتی سرخی ملاحظہ کر رہا تھا ابتہاج نے بے درد ی سے ماہا کے کان میں لٹکے آویزے کھینچے ۔۔۔ماہا کی اچانک حملے پر چیخ نکل گئی ۔۔۔۔ ابتہاج کا ہاتھ اب ماہا کے دوسرے کان کی جانب بڑھ رہا تھا جب ماہا بری طرح روتے اسے خود سے دور کرنے لگی ۔۔۔۔ اس کا پورا چہرہ درد سے سرخ پڑ چکا تھا ۔۔۔۔۔ پر ابتہاج تو آج بے حسی کی تمام حدیں پار کر نے والا تھا ماہا کی سسکیاں اس کے کام میں خلل پیدا کر رہی تھیں ابتہاج نے اپنے لبوں سے ماہا کی سسکیوں کا گلا گھونٹا ۔۔۔۔ ابتہاج کے لب جیسے ہی ماہا کے لبوں سے مس ہوئے ماہا کے روم روم میں کرنٹ پھیل گیا سانسیں جیسے سینے میں دب کے رہ گئیں تھیں زندگی میں پہلی بار کوئی مرد اس کے اس درجہ قریب آیا تھا کہ اس کی سانسوں کی تپش اپنی سانسوں میں گھلتی محسوس کر رہی تھی ماہا کی جان تب آدھی ہوئی جب ابتہاج کی شدت میں جنونیت نے پناہ لی ابتہاج اپنا سارا غصہ اپنی تکلیف چھوڑے جانے کا دکھ سب کا حساب ماہا سے لے رہاتھا ماہا نے ہلکان ہوتی جان سے ہمت کر کے اسے خود سے دور دھکیلا اور لڑ کھڑاتے قدموں سے واش میں جاکر بند ہو گئی ۔۔۔۔ ماہا کے جانے کے بعد ابتہاج کو احساس ہوا کہ وہ کیا کر رہا تھا بے ساختہ اس کا ہاتھ اہنے لبوں پر گیا جہاں ٹھری نمی نے اسے ہوش کی دنیا میں لا پٹخا ۔۔۔۔ اس نے نخوت سے سر جھٹکا اور روم سے منسلک سٹڈی روم کی جانب بڑھ گیا واش روم میں بیٹھی ماہا اپنی بے بسی پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ماہا کپکپاتی ٹانگوں سے اٹھ کر آئینے کے سامنے آگئی اور جیسے ہی نظر اپنے چہرے پر پڑی تو ساکت رہ گئی بکھرا حولیہ پھیلا کاجل کان اور ہونٹوں سے بہتا خون ۔۔۔۔ وہ کسی اور دنیا کی باسی ہی لگ رہی تھی جس سے اس کا سب کچھ چھین لیا گیا ہو۔۔۔ ماہا خود میں چلنے کی بھی ہمت مفقود پا رہی تھی ۔۔۔۔ وہ وہیں دروازے سے ٹیک لگاکر بیٹھی اپنی قسمت پر ماتم کناں تھی پر حیرت کی بات تھی کہ سب اس کی آنکھوں سے ایک آنسو نہ نکلا اسے ابتہاج کے دیے زخموں سے زرا تکلیف نہ ہو ئی جتنا اس کے لفظوں نے اسے ازیت پہنچائی تھی ۔۔۔


اگلے دن ماہا کی آنکھ کھلی تو وہ بیڈ پر سوئی ہوئی تھی ماہا کے دماغ میں رات کی ساری باتیں کسی فلم کی طرح چلنے لگیں اس نے گہرا سانس بھر کر اپنے ساتھ لیٹے وجود کو نظر انداز کرنا چاہا پر ابتہاج گردیزی کی انا کو یہ بھی کہاں گوارہ تھا ابتہاج نے ایک ہی جھٹکے سے اسے خود ہر گرایا ۔۔۔۔ ابتہاج اپنی سرخ گہری آنکھوں سے ماہا کو دیکھ کم گھور زیادہ رہا تھا ایسا ماہا کو لگا کل کے اس کے لفظ ماہا کے دماغ میں گونجنے لگے ماہا نے نفرت سے ابتہاج کی طرف دیکھا اور ہر زور مزاحمت کرنے لگی


دور رہیں مجھ سے نفرت ہے مجھے آپ سے مت گرائیں خود کو اتنا۔۔۔۔ آپ کی شکل سے بھی گھن آتی ہے مجھے کیا چاہتے ہیں مر جاوں میں۔۔ کیوں بار بار میرے سامنے آکر میری روح کی دھجیاں بکھیرتے ہیں مر جاوں گی میں مت کریں۔۔۔۔


ماہابول رہی تھی جب ابتہاج نے گر جدار آواز میں اسے روکا۔۔۔۔۔بسسسسسس ماہاابتہاج بسس اب اگر تم نے ایک لفظ بھی اپنے ان خوبصورت لبوں سے ادا کیا تو میں انہیں کچھ بولنے کے قابل نہیں چھوڑونگا ۔۔۔نفرت کرتی ہو نہ مجھ سے بہت ۔۔۔۔۔ ہاہاہا پر یہ بھول گئی ڈارلنگ تمہارے پور پور پر صرف میرا حق ہے میرا جب دل چاہے کا تم سے راحت حاصل کرونگا اور تم مجھے نہیں روک سکتی۔۔۔۔۔ وہ الگ بات ہے کہ مجھے تم جیسی بدکردار عورت کے وجود میں کوئی کشش محسوس نہیں ہوتی۔۔۔۔ تم جیسی عورتیں تو بس دل بہلانے کا سامان ہوا کرتی ہیں ۔,۔۔۔۔جو کسی بھی مرد کی ضرورت پوری کرنے کو ہر وقت تیار رہتی ہیں۔۔۔۔ابتہاج اپنا سارا زہر لفظوں کے ذریعے مہر میں اتار رہا تھا

تم تو سرے بازارررر۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی ابتہاج کچھ اور بولتا جب اچانک کمرے میں چٹاخ کی آواز گونجی ابتہاج نے ششدر سا ماہا کی نظروں میں دیکھا جہاں صرف حقارت تھی ۔۔۔نفرت کی چنگاریاں تھیں اک پل کو ابتہاج کا دل زور سے دھڑکا ۔۔۔ پر دوسرے ہی پل ابتہاج مہر کوبالوں سے گھسیٹتے ہوئے واش روم میں لے گیا اور شاور اون کر دیا سردی میں ٹھنڈا یخ پانی مہر کے جسم کو لرزنے پر مجبور کر رہا تھا لیکن وہ بنا ڈرے ابتہاج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھ رہی تھی

ابتہاج نے داد دینے کے انداز میں آئبرو اچکائی اور کچھ سوچ کر لب تمسخرانہ مسکراہٹ میں ڈھل گئے ۔۔۔

بہت ہمت آگئی ڈارلنگ ۔۔۔۔پر میں جانتا ہوں کہ تمہیں کیسے ٹھیک کرنا ہے ۔۔۔۔۔ابتہاج بولتے ہوئے ماہاکی کان کی کو پر سختی سے اپنے دانت گاڑھ گیا۔۔۔۔۔اس کی حرکت پر ماہانے خاموشی کا قفل چڑھائے اپنے آنسو بہنے سے روکے اب وہ اس بے رحم شخص کے سامنے اپنے آنسو بہا کر بے مول نہیں ہونا چاہتی تھی ۔۔۔


____________________


کے ڈی آج اپنے پرسنل فلیٹ میں آیا تھا جس کا پتا صرف کے ڈی کو تھا یہ ایک کمرے کا منظر ہے جہاں ہر طرف ایک خوبصورت لڑکی کی تصاویر دیوار پر آویزاں ہیں اس کی خوبصورتی کسی بھی مرد کو پل میں گھائل کر سکتی تھی

تم محبت کی سب سے خوبصورت تصویر ہو ۔۔۔ آہہہ پر مجھے خوبصورتی کو قید کرنا پسند ہے بہت جلد تم بھی میری پسندیدہ چیزوں میں شامل ہو جاوگی ۔۔۔ تمہاری خوبصورتی کو ۔۔۔ تمہارا یہ محبوب دن رات سراہے گا ۔۔۔ کتنا دلکش ہوگا وہ لمحہ جب تم ٹوٹ کر مجھے چاہو گی اور میں تم میں اپنے رنگ بھر دونگا ۔۔۔۔۔ ہاہا کیسی پاگلوں جیسی باتیں کر رہا ہوں میں ۔۔۔۔

لیکن میںنن تووو پاگلللل نہی ہوں ۔۔۔ ہاں میں پاگل نہی ہوں میں ننے. تو میں نے تو پیار کیا ہے ہاں بہت پیار کرتا ہوں ۔۔۔ میں میں کبھی نہی چھوڑونگا اسے آنا ہوگا میرے پاس ہر حال میں ہر قیمت پر میری محبت کو اس کی منزل دینی ہوگی ۔۔۔۔۔ میری ہر سانس کو اپنی خوشبو سے مہکانا ہوگا میرے وجود کو اپنی پناہ گاہ بنانا ہوگا ۔۔۔۔۔

میری سانسوں کو جینے کی وجہ دینی ہو گی مجھے بتانا ہوگا کہ تم صرف میری ہو ۔۔۔ صرف میری ۔۔۔۔ میں آرہا ہوں میری ڈول اب تمہیں مجھ سے کوئی الگ نہیں کر پائے گا

______


دو ماہ بعد


روکی نے صنم سے کورٹ میرج کر لی تھی روکی روز صنم کو اپنی بر بریت کا نشانہ بناتا اور پھر استعمال شدہ ٹشو کی طرح ایک کونے میں پٹخ دیتا اس کی حالت بہت بری تھی صنم کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ روکی ایسا نکلے گا آج اسے اپنے باپ کی شدت سے یاد آئی تھی روکی کی ہر غلط حرکت وہ آج تک اپنی محبت میں برداشت کرتی آئی تھی لیکن آج اسی محبت کے ہاتھوں تباہ ہو کر رہ گئی تھی ایک نامحرم کی محبت میں اپنے باپ کو زندگی اور موت کے حوالے کر آئی تھی اس سے برا اور کیا ہو سکتا تھا محبت نے جو کیا ۔۔۔۔ وہ الگ روکی اب آئے دن اپنے ساتھ اپنے شرابی دوستوں کو بھی گھر لانے لگا تھا میری ازیت کا گواہ صرف میرا رب تھا جس کے سامنے میری سانسیں رو ز میرے جسم کا ساتھ چھوڑتیں اور میں ٹھری ڈھیٹ ہڈی کسی بھی طرح نہ مرتی


"درد "کی بہت سی قسمیں ہوتی ہیں


پر درد کی سب سے پر ازیت قسم وہ ہوتی ہے جب انسان کسی پر اعتبار کرتا ہے اس کی توجہ کا طلبگار بن جاتا ہے ہر آہٹ پر نظریں ٹکنے لگ جاتی ہیں محبت دور کھڑی ان منچلوں کے پاگل پن سے محفوظ ہوتی مسکرانے لگتی ہے درد سے۔۔۔ ایسا درد جس کی ابتداء بہت میٹھے زہر سے ہوتی ہے اور انتہا کسی کی سانسوں کے قہر پر ہوتی ہے ۔۔۔ جسم میں جان باقی رہے نہ رہے چاہے جانے کا ارمان باقی رہتا ہے جہاں۔۔ محبت کے باسی فضاوں میں گیت گاتے ہیں وہیں فریبی چہرے ۔۔۔ ان کی ہنسی اڑاتے ہیں ۔۔۔۔ طلب اور مان دو ایسی چیزیں ہیں جن کے لیے انسان کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہوتا ہے

پہلی چیز انسان کو خود سے باغی کرتی ہے تو دوسری ساری دنیا بھلا دیتی ہے ۔۔۔ کسی کی آگ جیسی محبت کسی معصوم کے خوابوں کو نوچ دیتی ہے تو کہیں ۔۔ کسی شہزادی کو موت کے حوالے کیا جاتا ہے

جب آپ کسی کو میسر آنے لگیں تو اس کی نظر میں آپ اپنی قیمت کھو دیتے ہیں پر ہر کسی کو فوری دستیاب ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم پاگل ہیں ۔۔۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کتنے اہم ہیں

صنم اپنے کمرے میں بیٹھی کسی غیر مرعی نقطے پر نظریں مرکوز کیے بیٹھی تھی عجب تھکان تھی اس کی آنکھوں میں جیسے کسی خشک صحرا میں ننگے ہاوں بھاگتے ہوئے کوئی شخص تھک جائے ٹھیک ویسی ہی تھکان اس میں سماچکی تھی یادوں کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا تو اس کے آنکھوں سے آنسو آبشار کی مانند بہنے لگے


صنم بیٹا میری جان کیا ہوا ۔۔۔ آپ کو کیسی لگی یہ چوٹ۔۔۔ ماہا اور صنم ابھی باہر سے آئے تھے جب صنم روتی ہوئی دلاور شاہ کے سینے آلگی دلاور شاہ نے کسی قیمتی متاع کی طرح صنم کو اپنے بازوں میں سمیٹا اور خوب پیار کیا دلاور صاحب بڑِ ی دلجمعی سے اس کے زخم پر مر ہم لگا رہے تھے صنم کا درد اب مسکراہٹ میں بدل چکا تھا کیونکہ دلاور شاہ اس کے پاس تھے اس کا سرمایہ اس کے پاس تھے کتنی عقیدت سے وہ پیشانی چومتے تھے آج تک کتنی بار فیل ہوئی لیکن انہوں نے کبھی مجھے ایک بار نہ ڈانٹا بلکہ ہمیشہ یہی کہا میرا بِیٹا بابا کا نام روشن کرے گا ۔۔۔۔۔ آہہہہہہہہ ری قمست ۔۔۔۔۔

صنم کی آنکھیں بہہ رہی تھیں دل خون کے آنسو رو رہا تھا تبھی دھاڑ کی آواز کے ساتھ دروازہ کھلا اور روکی اندر آیا صنم نے ایک نظر روکی کو دیکھا اور پھر تنفر سے سر جھٹک گئی اس کے روم روم میں روکی کی نفرت سفر کرنے لگی تھی وہ جب جب اس غلیظ شخص کا چہرہ دیکھتی تھی اپنے باپ کے ساتھ کیا دھوکہ یاد آرہا تھا ۔۔۔ بہت بڑی قیمت چکائی تھی نامحرم سے محبت کی سب خوشیاں اپنے ہاتھوں سے لٹا آئی تھی اب کھونے کو بچا ہی کیا تھا روکی مسکراتا ہوا صنم کے قریب چلا آیا اور بالوں کی لٹ کو اپنی انگلی پر لپیٹنے لگا صنم کا حال تڑپتی مچھلی سا تھا جسے سمندر سے باہر نکال کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے موت سے بڑی موت تھی اور پھر صنم دلاور شاہ تہی دامن رہ گئی تھی روکی نے کمر میں ہاتھ ڈال کر صنم کو قریب کیا ۔۔۔۔ صنم کی اچانک حملے پر دبی چیخ نکلی اسے شاید روکی سے قطعا اس دن کے بعد اس پیش قدمی کی امید نہیں تھی لیکن وہ شاید بھول گئی تھی وہ روکی تھا ۔۔۔۔ امیدوں کا خون کرنے والا ۔۔۔۔

صنم زبردست مزاحمت کرتی اپنا آپ روکی کی گرفت سے چھڑانے لگی لیکن روکی جیسے فولادی وجود کے آگے وہ تو تنکے کی مانند تھی ۔۔۔


"چھوڑو مجھے ۔۔۔ چھوڑو غلیظ انسان میں تمہارا خون پی جاوں گی ۔۔۔ مت چھوومجھے نفرت کرتی ہوں میں تم سے سنا تم نے تھوکتی ہوں تم پر "

کبھی کبھی انسان ایک نامعلوم سی کیفیت کا شکار ہو جاتا ہے اور سمجھ نہیں پاتا کہ وہ کس چیز سے ناخوش ہے۔ اپنی زندگی سے، حالات سے، لوگوں سے یا پھر اپنے آپ سے!

صنم کی بات پر روکی سرخ انگارہ آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا روکی نے اک دم بالوں سے گھسیٹ کر صنم کا سر دیوار میں دے مارا صنم کی زور دار چیخ پورے کمرے میں گونج اٹھی ایک خون کی لکیر اس کے ماتھے سے بہتی شرٹ میں جذب ہونے لگی صنم درد کی شدت برداشت نہ کرتے اپنے حواس گنوا بیٹھی ۔۔۔۔

اس کے دماغ میں اب صرف ایک ہی بات چل رہی تھی


"اب مجھے تکلیف نہیں ہوتی چاہے کتنی ہی اونچائی سے گرایا جائے کیونکہ مجھے ان ہاتھوں نے دھکا دیا جن پر مجھے یقین تھا "

وقت بہت بڑے اور گہرے زخم دیتا ہے

شاید اسی لیے۔۔۔!!!!

گھڑی میں پھول نہیں سوئیاں ہوتی ہیں

روکی گھٹنا فولڈ کرکے اس کے قریب بیٹھا اور غور سے اسے دیکھنے لگا روکی کے انداز میں ایک پاگلپن تھا روکی بنا رکے صنم کے زخمی نقوش کو چھو کر محسوس کر رہا تھا خود کو ہر سکون کر رہا تھا پر اچانک اپنے ہاتھوں پر لگا خون دیکھ کر حواسوں میں لوٹا فورا صنم کو بازو میں اٹھایا اور باہر کی جانب دوڑ لگا دی

زندگی ایک حسین وادی ہے جس میں والدین ایسا باغ ہیں جو اپنے بچوں کو ہر اس مالی سے محفوظ رکھتے ہیں جو ان کی جڑیں کاٹنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اکثر وہ باغ جھک جاتے ہیں کیونکہ جن بچوں کی بات ہوتی ہے وہ اپنی آبیاری خود کرنے لگتے ہیں والدین کے باغ کی چھاوں دنیا کی ہر چیز سے اعلی ہے ۔۔۔۔ جسے مل گئی وہ سنور گیا۔۔۔ جسے نہ ملی وہ بکھر گیا ۔۔۔۔


_________


میری بات سنو میں کبھی تمہیں ہرٹ نئی کروں گا پکا پلومس اللہ جی والا بسششش تم نہ جاو فیری ۔۔۔۔۔۔۔"


نیلی گہری آنکھیں سرخ و سفید دمکتی رنگت چوڑے مضبوط شانے وہ دیکھنے میں وجاہت کا شاہکار تھا جو کسی بھی لڑکی کی پہلی ترجیح ہوتا لیکن یہ صرف اس کے خاموش رہنے تک تھا اس کی باتوں سے اس کے لہجے سے سب دور بھاگتے تھے

وہ پچیس سالہ نوجوان بچوں کی طرح اس کے سامنے گڑ گڑا رہا تھا جب کہ وانیہ کو لگ رہا تھا اس کے جسم سے کوئی سانسیں نوچ رہا ہے

کیا وہ اتنی ارزاں تھی اپنے باپ کے لیے جو اسے ایک پاگل کے ساتھ ساری عمر کے بندھن میں باندھ دیا تھا وانیہ کا پورا وجود زلزلوں کی زد میں تھا اس نے اپنے ہمسفر کا ایسا خاکا تو تصور نہیں کیا تھا جیسا وانیہ نے سختی سے اپنی سبز آنکھوں کو بھینچ کر اپنی ازیت کو خود میں اتارا اور بنا کچھ بولے روم سے نکلتی چلی گئی

پیچھے کھڑا وجود اپنی نیلی آنکھوں میں آنسو لیے اسے جاتا دیکھ رونے لگا

_____،،

"کام ہو گیا شہباز _؟

بیسٹ نے اپنی سرد نظریں سکرین پر چلتے منظر پر جماتے ہوئے پوچھا

شہباز نے بیسٹ کی سرد آواز پر اپنے رونگٹے کھڑے ہوتے محسوس کیے

سسسسرررر وہ ہم۔۔۔۔۔۔۔۔شہباز آگے بھی کچھ بولتا جب بیسٹ نے ایک نظر اپنی سرخ نظروں سے اسے دیکھا ناجانے اس ایک نظر میں کیا تھا شہباز بری طرح جھر جھری لے اٹھا


"شہباز جسٹ شٹ اپ تم شاید بھول رہے ہو مجھے انکار سننے کی عادت نہیں ۔۔۔۔۔۔ اب اگر تمہارے منہ سے میں نے انکار سنا تو تمہاری لاش کے ٹکڑے بھی تمہارے گھر والوں کو نہیں ملیں گے "


جیییییی سر اوکے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شہباز جلدی سے سر ہلاتا ریڈ روم سے نکلتا چلا گیا

بیسٹ نے اپنی نظریں واپسی اسکرین پر مرکوز کیں جہاں اب ایک خوبصورت سبز آنکھوں والی دوشیزہ کی تصاویر چل رہیں تھیں کسی تصویر میں وہ سبز آنکھوں والی گڑیا مسکراتی ہوئی پھولوں کی طرح مہکتی گارڈن میں بھا گتے خرگوش کے بچے کے پیچھے بھاگ رہی تھی

محبت اور وہ بھی بیسٹ ۔۔۔۔ بڑا ہی عجیب لگ رہا تھا بیسٹ کسی دیوانے کی طرح اپنی گردن ٹیڑھی کیے اسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا اگر بیسٹ کو کوئی اس حالت میں دیکھتا تو یقیناً غش کھاجاتا

____


ابتہاج کی جنونیت حد سے سوا تھی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کس طرح ماہاکو تڑپائے بلکل ویسے ہی اپنوں کی نظروں سے دور کردے جیسے اس نے کیا تھا ابتہاج نے جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکالا اور سگریٹ نکال کر پینے لگا

وہ گھر میں سموکنگ بہت کم کرتا تھا یہ عادت اسے کالج کے بعد سے لگی تھی سب کی اگنورینس کے بعد اس نے سگریٹ کو ہی اپنا دوست بنا لیا تھا

ابتہاج نے سگریٹ کا دھواں ہوا میں اڑایا اور اس سے بنتے ماہادلاور شاہ کے عکس سے مخاطب ہوا


" اب تم جتنی نازک ہو سوچتا ہوں کیسے برداشت کرو گی میری سمندر سے زیادہ گہری شدتیں ،میری تلاطم خیز نفرت ،میرا جنون ہاہہاہاہا سب سوچ کو ابتہاج قہقہے لگانے لگا "

ابتہاج نے نو ک کی آواز پر شو ز تلے سگریٹ مسلی اور اندر آنے کی اجازت دی

ماہا کپکپاتی ٹانگوں کے ساتھ روم میں کھانے کی ٹرے لیکر داخل ہوئی

دل زخمی پرندے کی طرح پھڑ پھڑا رہا تھا نہ جانے اب ابتہاج کیا حال کرتا اس کا ابتہاج نے حیرت زدہ تعصرات چھپاتے ہوئے مسلسل اس پر نظریں جمائیں جو بلیو فراک اور گرے چوڑی دار پاجامے اور دوپٹے میں بے حد حسین لگ رہی تھی


وہ وہہہہ ببببابا نےےے کھاننننابھیجاااا ہے ماہا لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں رک رک کر بولی

ابتہاج اس کی جھکی نظریں لہجے میں کپکپاہٹ دیکھ کر متبسم سا مسکرایا شاید وہ پہلی بار اس طرح ماہا کے سامنے مسکرا رہا تھا


ابتہاج لمبے ڈگ بھرتا اس کے قریب پہنچا اور ایک ہی جست میں ٹرے اس کے ہاتھ سے لیکر ٹیبل پر رکھی

مجھے میرے نام سے پکارو ۔۔۔۔ وہ ماہا کی تھوڑی جکڑے اپنی سرخ آنکھیں اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں گاڑھے غرا رہا تھا اس کا لمس اپنی تھوڑی اور کمر پر پاکر ماہا کے حواس جھنجھلا اٹھے تھے اسے سمجھ نہیں آرہی تھی پاگل آدمی کی کبھی کہتا ہے میری نظروں سے دور ہو جاو اور اب ۔۔۔۔۔

مممری ببباتسننننے میممم کیسے آپ کا ننام لوںنن ۔۔۔۔ وہ لڑکھڑاتی آواز میں بولی

پکارو مجھے ابھی ورنہ میں جو کروں گا وہ تمہاری برداشت سے باہر ہو گا ۔۔۔

لیکنننن میں .کیسے بولو مما کہتی ہیں شوہر کا نام نہیں لیتی اچھی لڑکی ۔۔۔

تمہیں سمجھ نہیں آرہی کیا میں کیا کہہ رہا ہوں لڑکی میں آخری بار کہہ رہا ہوں نام لو میرا ورنہ ۔۔۔۔۔

ماہا کی بڑی بڑی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے اس کی سخت پکڑ سے

ابھی اس کے آنسو بہتے کہ اچانک وہ ماہا کےلبوں کی کپکپاہٹ کو قید کر گیا

ماہا کی آنکھیں پھٹ گئیں یہ پہلا لمس تھا جو ستمگر کا پہلا تڑپاتا لمس تھا رگ وجان میں سرد لہرے اٹھنے لگیں تھیں

وہ پاگل جنونی بنا اپنی وحشتیں شمار کر رہا تھا اسے نہی پتا تھا کہ کیا کر رہا ہے بس سکون چاہتا تھا جو اسے اس لڑکی کی خوشبو میں میسر تھا اس کی سانسوں میں تھا اچانک ابتہاج ہوش میں آیااور ماہا کو ہاتھ پکڑ کر دروازے سے باہر دھکیلا اور انتہائی تنفر سے بولا

"میری نظروں میں تمہاری یہی اوقات ہے سنا تم نے اور ہاں تمہارے ہاتھ سے لائے کھانا کھانے سے بہتر ابتہاج گردیزی بھوکا مرنا پسند کرے گا "

ابتہاج نے بولتے ہوئے دروازہ منہ پر بندکیا


ماہا بری طرح روتے ہوئے اپنی چھلی ہوئی کہنیوں کو دیکھنے لگی اور اپنی ساس کے روم کی طرف بھاگ گئی

اور بیڈ پر اوندھے منہ لیٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی


آج ماہا نے اپنے سسر کے سمجھانے پر ابتہاج کی طرف قدم بڑھایا تھا وہ نہیں سمجھ رہے تھے کہ مہر کی جان کس عذاب میں پھنس گئ ہےمہت بری طرح روتے ہوئے سسکیاں بھرنے لگی


"ماہا "___؟ دروازہ ناک کرتے صباء بیگم نے نام میں اپنی محبت سمائے پکارا پر جواب ندارد ___ایک بار پھر انہوں نے کوشش کی

تکیے میں منہ دیے سسکتی ماہا نے اپنے ہونٹوں پر مضبوطی سے ہاتھ رکھ لیا اور درد سے آنکھیں سختی سے میچ لیں


ماہس بیٹا مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے "ابتہاج "کے بارے میں

ابتہاج "کا نام سن کر مہر کا دل دھڑک اٹھا

آجائیں ماما ___اٹھ کر بیٹھتی وہ خود پر دوپٹا ٹھیک کرتی اپنا بھیگا چہرا صاف کرنے لگی

صباء بیگم اس کے روم میں داخل ہوئیں اور مہر کا سرخ متورم چہرہ دیکھ کر پریشان سی اس کے پاس آبیٹھیں

بیٹا کیا ہوا ہے آپ کو ؟ کیوں ایسی حالت بنائی ہوئی ہے


‏دل مضطرب۔۔!

کوئی اسم ہو،

جسے پڑھ کے کم ہو ملالِ جاں

جسے پھونک کر

یہ اداسیاں ذرا کم لگیں

وہ فشارِ رنج ہے روح میں

کہ فضائیں سبز قدم لگیں

میں ہنسوں تو سارے جہان کو

مری ہنستی آنکھیں بھی نم لگیں

دلِ مضطرب

کوئی چارہ گر

جو اسیرِ غم کی دوا کرے

ہو ذرا سکون خدا کرے۔۔۔!


ماہاکا دل چاہا ماں جیسی ساس کے گلے لگ کر خوب سارا روئے لیکن انہیں پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی اسی لیے زبردستی مسکان سجا کر ان کی گود میں سر رکھا


کچھ نہیں ماما بس آنکھوں میں انفیکشن ہو گیا ہے اس لیے پانی جارہا ہے آنکھوں سے

ماہا کی باتیں سن کر صباء بیگم نے سکون کا سانس لیا اور اس کے بالوں میں انگلیا ں چلانے لگیں

ماہا بس اپنے معصوم زہن میں ابتہاج کی نفرت کے بارے میں سوچ رہی تھی کس طرح وہ سب سے ہنس ہنس کر بات کرتا تھا سوائے اس کے آخر کیوں ؟صرف اس لیے کہ وہ زبردستی اس کے سر تھوپی گئی تھی

یہی سوال عشال کے زہن میں چل رہا تھا جب اس کے کانوں میں اپنی ساس کی آواز گونجی


بیٹا آپ کو کبھی کبھی چیزوں کو بہت پولاِیٹلی ہینڈل کرنا چاہیے پتا ہے کیوں ؟

مہر نے نفی میں سر ہلایا

کیونکہ ضروری تو نہیں میری جان کہ ہر کوئی آپ سے ویسی محبت کرے جیسے آپ اس سے کرتے ہیں ہر انسان کی فطرت ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے کسی کی فطرت میں مٹھاس ہوتی ہے تو کسی کہ کڑواہٹ یہ ہم پر ہے کہ ہم کیسے اپنی محبت سے اس کڑواہٹ کو دور کرتے ہیں


آج میں نے جب تمہیں ابتہاج کے کمرے سے نکلتے دیکھا تو مجھے لگا ضرور اسی نے کوئی بات کی ہے جو میری گڑیا اداس ہے تو آج کے بعد ساری زندگی کے لیے یہ بات گانٹھ باندھ لو


"نفرت کو کبھی نفرت سے ختم نہیں کیا جاسکتا

ہمیشہ کاری ضرب محبت کی ہوتی ہے "


ماہاصباء بیگم کی باتیں غور سے سن رہی تھی اور اسے سمجھ بھی آرہی تھی

"تو ماما اگر میں ابتہاج سے پیار کروں گی تو کیا وہ بھی مجھ سے پیار کریں گے "

ماہااپنی آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے بولی

صباء بیگم بہو کی معصومانہ بات پر مسکرانے لگیں اور ہاں میں سر ہلایا اور اسے فریش ہونے کا بول کر نیچے چلی گئیں

ماہا نے دل میں عہد کیا کہ وہ ابتہاج کو ضرور منا کر رہے گی چاہے کچھ بھی ہو جائے اسے نہیں پتا تھا کہ یہ سب کیسے ہوگا بس اسے کسی بھی طرح ابتہاج کی ناراضگی دور کرنا تھی

__________

ماہا اپنے کمرے میں بیٹھی ابتہاج کی شرٹ پریس کر رہی تھی جب اسے خود پر کسی کی چبھتی ہوئی نظریں محسوس ہوئیں ماہا نے چونک کر پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں کوئی لڑکا آنکھوں میں عجیب سا تاثر لیے لبوں پر مسکراہٹ سجائے اسے دیکھنے میں مصروف تھا دیکھنے میں وہ کوئی بیس سال کا تھا لیکن اس کی سر خ و سفید رنگت چوڑا سینا اسے اپنی عمر سے زیادہ ہی بتا رہے تھے وہ خوبرو نوجوان پوری مہویت سے ماہا کوتکنے میں مصروف تھا دوسری طرف ماہا تو خوفزدہ نظروں سے اپنے کمرے میں کھڑے اس انجان لڑکے کو دیکھ رہی تھی ماہا بے دھیانی میں پیچھے مڑی اور استری اس کے ہاتھ پر جاگری ۔۔۔ ماہا کی چیخیں پورے پیلس میں گونج اٹھیں سمیر جو اسے دیکھنے میں مصروف تھا ماہا کی چیخوں پر ہوش میں آیا ماہا کو درد سے تڑپتے دیکھ سمیر آگے بڑھا اور اس کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کرنے لگا ۔۔۔۔ ماہا نے سمیر کو قریب آتے دیکھ اپنی تھمتی سانسوں پر قابو پایا اور جھٹکے سے پیچھے ہوتی واش روم میں بند ہو گئی اس کی جان نکلتی جارہی تھی ۔۔۔۔ ناجانے کون تھا جع اس طرح منہ اٹھائے اس کے کمرے میں چلا آیا تھا کچھ ۔۔۔ عجیب تھا اس کی آنکھوں کی گہرائی ۔۔۔ کوئی بھی اسے دیکھتا لمحے کو ٹھٹھک جاتا ۔۔۔۔ ماہا واش روم میں بند تھی اس کی دبی دبی سسکیاں گونج رہی تھیں اسے اندازہ نہیں تھا کہ کہاں سے جلا ہے بس اپنے کردار کی پرواہ تھی کیونکہ اس وقت گھر میں سوائے ماہا کے کوئی موجود نہیں تھا ابتہاج اور کاشان صاحب میٹنگ کے لیے گئے ہوئے تھے ۔۔۔ اور صباء بیگم اپنی دوست کی عیادت کو ہسپتال گئی ہوئی تھیں ۔۔۔۔ ماہا کو بس یہی پریشانی کھائے جارہی تھی کہ ناجانے کون ہے وہ۔۔۔۔

سمیر باہر کھڑا حیرت سے واش روم کے دروازے کو دیکھ رہا تھا وہ بہت شوق سے امریکہ سے یہاں اپنے کزن سے ملنے آیا تھا اسے نوکر نے بتایا تھا کہ یہ ابتہاج کا کمرہ ہے وہ سیدھا وہیں چلا آیا لیکن یہاں کسی لڑکی کی موجودگی اس کے لیے حیرانی کا باعث تھی وہ ابھی سوچ ہی رہاتھا کہ کون ہوسکتا ہے ۔۔۔ جب اس لڑکی نے اپنا رخ اس کی طرف کیا اور اپنا ہاتھ جلا بیٹھی ۔۔۔۔۔ اس کی پر کشش صورت نظروں سمیر کو بہت بھائی تھی اس کا ڈرنا سہمنا چھپنا اندر تک ہلچلل مچا گیا تھا ۔۔۔۔ پر کون تھی وہ ۔۔۔ اور اس طرح ابتہاج کے کمرے میں کیا کر رہی تھی سمیر سوچتا ہوا باہر آرہا تھ کہ ابتہاج سے ٹکرا گیا ۔۔۔۔ ابتہاج نے جیسے ہی نظر اٹھا کر سامنے دیکھا سمیر کو اپنے سامنے اپنے روم سے نکلتے دیکھ اس کے ماتھے پر بلوں کا اضافہ ہوا . . سمیر صباء بیگم کا اکلوتا بھانجا تھا ۔۔۔ جو آج کافی برسوں بعد صرف اب سے ملنے ہی یہاں آیا تھا ۔۔۔ ابتہاج نے کڑے تیوروں سے اسے گھورا تو اک پل کو وہ گڑ بڑا گیا اور بولا ۔۔۔۔

"برو کیہاں تھی تھم ہم تمھارا ویٹ کھر ری تھی ۔۔۔ پر تمھارے روم میں کھوئی گرل ہے ۔۔۔ بوت کیوٹ ہے برو۔۔۔۔۔ "

سمیر اپنے انگریزی طرز میں کچھ اور بھی بول رہا تھا پر ابتہاج کی سوئیں تو صرف لڑکی پر اٹک گئی تھی یعنی وہ ماہا سے مل کر آرہا تھا یہ سوچ آتے ہی ابتہاج کے دماغ کی رگیں پھولنے لگیں ۔۔اس کی اہم میٹنگ تھی جس کی فائل وہ اپنے کمرے میں ہی چھوڑ آیا تھا وہ لینے آیا تو سمیر سے سامنا ہوگیا ۔۔۔ابتہاج ایک ہی جست میں اسے دھکا دیتا تیزی سے قدم اپنےکمرے کی طرف بڑھانے لگا

کمرے میں آتے ہی ابتہاج نے ہی ماہاکو آوازیں لگانا شروع کر دیں ناجانے کیوں. اس طرح سمیر کی زبان سے ماہا کے بارے میں سن کر اس کی سانسیں سلگنے لگیں تھیں ایک بھونچال سا دماغ میں آیا تھا جسے فلحال وہ سمجھنے سے قاصر تھا ۔۔

ماہا جو کب سے روتے ادھ موئی ہو گئی تھی ابتہاج کی آواز سن کر جیسے اس کے مردہ جسم میں کسی نے جان پھونک دی ہو ماہا لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے خود کو سنبھالتی باہر آئی ۔۔۔ اور ابتہاج کو اپنے سامنے پاکر اس کی آنکھیں بہنے لگیں ۔۔۔۔ ماہا اک لمحے کی بھی دیر کیے اس کی باہوں میں آسمائی ۔۔۔ ماہا کی حرکت پر جہاں ابتہاج کو حیرت کا شدید جھٙٹکا لگا وہیں اس کی ہچکیاں لیتے وجود نے اسے پریشان کر دیا ۔۔۔ ماہا دونوں ہاتھوں کو ابتہاج کی گردن کے گرد باندھے سسکیاں بھر رہی تھی ۔۔۔۔ اور بار بار یہی بول رہی تھی

"کہاں تھے آپ ۔۔۔ کہاں تھے ۔۔۔۔ ممممممیں ڈرررر گئییی تھیییی وہہہہہہ کوئی آیا تھا ہاں ۔۔۔ وہ ۔۔۔.

ماہا کا ہچکولے کھاتا نرم گداز وجود ابتہاج گردیزی کادل الگ لے پہ دھڑکایا تھا اک سرور سا اس کے جسم و جاں میں سما گیا تھا

ابتہاج اس نے اس کی کمر سہلائی گویا اپنے ہونے کا دلاسا دیا ہو . . اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیسے ماہا کو خاموش کرائے ماہا کا رونا اسے تکلیف میں مبتلا کر رہا تھا پر اس کا دماغ سب سوچنے سمجھنے کی کیفیت سے قاصر تھا ۔۔۔۔ ابتہاج نرمی سے ماہا کے بالوں کی جڑے سہلاتا اسے پر سکون کر گیا تھا ۔۔۔ اس کی نظر ماہا کے خوبصورت بالوں پر جمی ہوئی تھی ۔۔۔ ابتہاج کا دل چاہا ان گھٹاوں پر خود کو بکھرائے ان کی خوشبو وں میں بہک جائے ابتہاج نے نا محسوس انداز میں ماہا کے سر پر لب رکھے ۔۔ ۔ ایک بھر پور مسکراہٹ نے اس کے چہرے کا احاطہ کیا تھا ناجانے کونسے جذبے کے تحت ابتہاج اسے باہوں میں لیے بیڈ پر لٹایا ماہا بنا پلکے جھپکائے ۔۔۔ ابتہاج کی جانب دیکھ رہی تھی جس کی سرخ آنکھیں ایک انکہی داستان بیان کر رہیں تھیں مغرور اناپرست ۔۔۔۔ خودغرض لیکن نفرت میں بے حساب شخص ماہا ابتہاج کی آنکھوں میں دیکھتی سوچ رہی تھی جب ابتہاج نے اس کی سرخ سوجی آنکھوں پر لب رکھ کر انہیں بوجھل کر گیا ۔۔۔۔۔۔۔ ماہا نے سختی سے ا س کی شرٹ کو مٹھیوں میں دبوچا وہ کہاں عادی تھی ان نرمیوں کی ان عنایتوں کی ۔۔۔۔ روح تک جیسے اک سکون کی لہر دوڑ گئی تھی دونوں دھڑکنیں پورے روم میں گونج رہی تھیں ۔۔۔ابتہاج بہک رہا تھا ماہا کے بھیگے سراپے نے ابتہاج کو مبہوت کر دیا تھا ابتہاج نے ماہا کی تھوڑی کے خم پر اپنے سلگتے لب رکھے ۔۔۔۔ سرور ہی سرور تھا اک دوسرے کی قربت تھی وہ بھی توپیاسی تھی شوہر کے قرب کی اس کی محبت و عزت کی ۔۔۔۔۔۔ اس نے تو ناجانے کتنی دعائیں مانگی تھیں اپنے رب سے ۔۔۔ محبت کا اصول ہے جب کسی بے مہر بے رحم سے ہوجائے تو فائدہ یا نقصان دکھائی نہیں دیتا صرف چاہتا اور چاہتے جانا یہ آرزو ۔۔۔ زور پکڑتی جاتی ہے ابتہاج کے لبوں نے ماہا کے گالوں پر پھول کھلائے محبت کے طلسم میں جکڑا ابتہاج بہکتے ماہا کے لبوں پر اپنی گرفت جما چکا تھا وہ کسی صحرا کی مانند تھا ۔۔۔ جس کی پیاس کا ادراک ماہا کر ہی نہیں سکتی تھی ۔۔۔ ابتہاج کا دہکتا جھلساتا لمس ماہا کی سانسیں روک گیا تھا ماہا نے مزاحمت کرتے اپنے دونوں ہاتھ ابتہاج کے سینے پر رکھے پر ابتہاج مکمل مدہوش سا اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنی قید میں لے گیا ۔۔۔ ماہا اپنے ہاتھوں پر ابتہاج کی سخت گرفت پاکر سسک اٹھی اپنے چہرے پر ماہا کے آنسو محسوس کرکے ابتہاج ہوش میں آیا اور اس کی سیدھی نظر ماہا کے جلے ہاتھ پر پڑی ہاتھ کافی زیادہ جلا تھا ۔۔۔۔ابتہاج نے جلدی سے ڈرار سے آئنمنٹ نکالی اور بے حد نرمی سے ماہا کے زخموں پر لگانے لگا عجب انداز تھا مسیحائی کا ۔۔۔۔ درد اتنا دیتا کی روح تڑپ جاتی اور اب لمس میں جو نرمی تھی وہ کسی پگلی کے خواب کی مانند محسوس ہورہی تھی


کبھی جو بادل برسے میں

دیکھوں تجھے آنکھیں بھر کے

تو لگے مجھے پہلی بارش کی دعا

تیرے پہلو میں رہ لوں میں خود

کوپاگل کہہ لوں ۔۔ تو غم دے میں

خوشیاں سہہ ۔۔ لوں ساتھیا۔۔۔


ماہا کا دل بدل رہا تھا وہ ستمگر کی قید کی عادی ہو رہی تھی مگر کیا معلوم قمست کا کھیل ۔۔۔۔ کہاں لے جائے

پہلے کبھی نہ تونے مجھے غم دیا

پھر مجھے کیوں ۔ تنہا کر دیا

ماہا تو بس اس کی نرمی میں کھوئی ہوئی تھی ۔۔۔۔ ہر درد کا احساس مٹ سا گیا تھا پہلی بار دل کسی الگ لے پر دھڑکا تھا ایسا نہیں تھا کہ ابتہاج پہلے کبھی اسکے قریب نہیں آیا تھا لیکن آج تو ابتہاج کا ایک الگ ہی روپ سامنے آیا تھا ۔۔۔ یہ تو کوِئی اور ہی کئیرنگ سا ابتہاج تھا جس کے لیے اس کی بیوی کا ہر زخم معنی رکھتا تھا ماہا کی آنکھوں سے ٹوٹ کر دو آنسو بے مول ہوئے


جنہیں ابتہاج لغاری نظر انداز کر گی


"محبت کو اپنی جاگیر سمجھنے والے خالی ہاتھ ہی رہ جاتے ہیں ان کی قسمت میں فراق کے سوا کچھ نہیں آتا صرف وہ تنہائی کے ساتھی بن کر رہ جاتے ہیں ان کی روحیں پچھتاوں کی آگ میں ساری زندگی گزر جاتی ہے"

اور وہی ماہا نہیں چاہتی تھی وہ محبت چاہتی تھی اپنے شوہر کی اس کا ساتھ چاہتی تھی

ابتہاج کافی دیر سے خود پر ماہا کی نظریں محسوس کر رہا تھا پر کیا کہتا کہنے کو کچھ بچا ہی نہیں تھا۔ ۔۔۔ عجب بے قراری کا عالم تھا جس قدر پر شدت جذباتوں کا بہاو تھا اس سے زیادہ اابتہاج کا ذہن منتشر ہو چکا تھا وہ بنا کچھ بولے ماہا کو کمفرٹر اوڑھاتے باہر جانے لگا۔ ۔۔ ۔ پر ماہا نے سختی سے اس کا ہاتھ جکڑ لیا ابتہاج نے ماہامنت کرتی نگاہوں میں دیکھا جہاں اک خوف سا ہلکورے لے رہا تھا ابتہاج نے گہری سانس کھینچی اور خود سے بڑ بڑانے لگا


"یہ لڑکی میری جان لے کر رہے گی بیوقوف ۔۔

ابتہاج ماہا کے پاس بیٹھا اور اسے سمیر کے بارے میں بتانے لگا۔۔۔۔ماہا کے دل میں اطمینان ہوا لیکن وہ شرارتی سا لڑکا اس کی آنکھوں کی رنگت اسے ۔۔۔ ماہا کو لگا جیسے اس نے سمیر کو کہیں دیکھا ہو۔۔۔۔ پر وہ حیران اس بات پر تھی کہ ابتہاج نے اسے بتایا سمیر تو باہر ملک سے آیا ہے ماہا نے اپنا سر جھٹک کر ابتہاج کا تھاما ہاتھ ۔۔۔ اپنے قریب کیا اور دونوں ہاتھوں میں تھامے آنکھیں موند گئی

ابتہاج کو تو آج اس کی جرات پر جھٹکے لگ رہے تھے ۔۔۔۔ کیسے بے دھڑک وہ اپنا حق جتا رہی تھی ۔۔۔ لیکن ابتہاج کسی کمزور لمحے میں بہک کر اپنا نقصان نہیں کرنا چاہتا تھا جانتا تھا وہ نازک سی جان ابھی خوف کے زیر اثر ہے ورنہ کبھی اس کے اس قدر قریب نا آنے دیتی ۔۔۔۔ ماہا کی پیش قدمی نے پتھر میں دراڑ ڈالی تھی ۔۔۔ ابتہاج ماہا کی بھاری سانسیں محسوس کرتا گھڑی پر نظر ڈالنے لگا ۔۔۔۔ اور گھڑی پر نگاہ پڑتے ہی وہ بھونچکارہ گیا گھڑی دو کا ہندسہ عبور کر چکی تھی یعنی اسے آِئے تین گھنٹے ہو چکے تھے اسے آئے اور اسے احساس تک نہ ہوا ۔۔۔۔ ابتہاج ہولے سے ماہا کی پیشانی پر اپنا لمس چھوڑتا اٹھ گیا ۔۔۔۔ اور اپنے بابا کو کال ملانے لگا کاشان صاحب نے کال پک کرتے ہی اس سے میٹنگ پر نا آنے کی وجہ دریافت کی ان کا لہجہ کچھ شریر ساتھا جسے ابتہاج بخوبی محسوس کر رہا تھا۔۔۔

"بیٹا جی کونسی مصروفیات تھیں جو زندگی میں پہلی بار ابتہاج گردیزی کو وقت کا احساس تک نہ ہوا "


اک پل۔کو ابتہاج بھی ان کے سوال پر گڑبڑا گیا اسے سمجھ نہ آیا کہ کیا جواب دے۔۔۔۔اس نے جھینپتے باپ کو سمیر کی آمد کا بتایا ۔۔۔ اور وضاحت دینے لگا۔۔۔


"ڈیڈ ۔۔۔ میں گھر آیا تو ۔۔ مجھے سمیر اپنے کمرے میں ہی ملا ماہا اس کی وجہ سے کافی ڈر گئی تھی تو میں نے سمیر کو ۔۔۔۔

ابتہاج اور بھی کچھ بول رہا تھا جب فون پرکاشان صاحب ۔۔۔ قہقہہ لگااٹھے ابتہاج کے صفائی دینے پر کاشان صاحب قہقہے لگا رہے تھے ان کے لیے یہ ابتہاج لو جھینپتے دیکھنا پہلا تجربہ تھا۔۔۔۔ ورنہ وہ کہاں کسی کے ہاتھ آنے والا تھا ابتہاج کو زیادہ تنگ نا کرتے انہوں نے میٹنگ کے ڈیلے ہونے کا بتایا اور کال کٹ کر دی ۔۔۔۔


ابتہاج نے باپ سے بات کرتے اپنا پسینہ پونچھا بڑی عجیب حالت تھی اس نے ایک نظر بیڈ پر بے سدھ ماہا پر ڈالی اور دل میں خود سے مخاطب ہوا


"یہ لڑکی مروا کر رہے گی ۔۔۔ ڈیڈ کے سامنے خوامخواہ شرمندہ کر دیا ناجانے ڈیڈ کیا سوچ رہے ہونگے میرے بارے میں "

ابتہاج نے کچھ میلز چیک کیے اور پھر فریش ہونے چلا گیا ۔۔۔ ابتہاج فریش ہو کر آیا تو اسے نیچے سے اپنی مام کی آوازیں سنائی دی جو یقینا اپنے بھانجے سے گفتگو میں بیزی تھیں ۔۔۔ ابتہاج نے نفی میں سر ہلایا اور ڈریسنگ مرر کے سامنے آکھڑا ہوا۔۔۔ وائٹ کرتا شلوار ہاتھوں میں پہنی برینڈڈ گھڑی ،پیشانی ہر بکھرے بال ،عنابی لب ،خوشبووں میں مہکا وہ نیچے چلا آیا ۔۔۔ ابتہاج کی نظر سیدھا اپنی ماں کی گود میں سر رکھے سمیر پر پڑی جو اپنی ٹوٹی پھوٹی اردو میں بولتا ۔۔۔ انہیں اپنی تعریفوں کے قصے سنا رہا تھا ۔۔


ابتہاج نے اونچی آواز میں سمیر کو مخاطب کیا اور بولا


"جی تو سمیر انگریزی بندر ،خوبصورت بد نیتے گدھے اپنے جنگل کو چھوڑ کر یہاں میرے گھر کیسے تشریف آوری کی ۔۔۔ کیسے ہیں تمہارے جنگل کے واسی ارے کہیں تمہاری "


ابتہاج چہرے پر دل جلانے والی مسکراہٹ سجائے اس سے مخاطب تھا

سمیر ہونقوں کی طرح ابتہاج کی شکل دیکھ رہا تھا اسے اردو کچھ خاک پلے تو نہ پڑتی تھی پر پھر بھی بیچارہ کوشش کرتا ۔۔۔ پر ابتہاج کے ۔۔۔۔ جملوں کا مطلب وہ بخوبی سمجھ گیاتھا


"بگ برو تھم پھسرے وہ ہو"


سمیر نے منہ پھلاتے ہوئے اس پر بم پھوڑا ابتہاج آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔ جب ماہا کے قہقہے پر ہوش میں آتا اسے سخت نظروں سے گھورنے لگا جیسے سارا قصور اس کا ہے

ماہا کی من موہنی صورت دلکش ہنسی ابتہاج کے روم روم میں سرور بھر گئی تھی پر وہیں سمیر کے دھماکے نے اس کے چودہ تبک روشن کر دیے تھے


سمیر رررررر جنگلی آدمی ۔۔۔ کیا بکواس کر رہے ہو۔۔۔۔سب کی دبی دبی ہنسی محسوس کرکے ابتہاج اپنے ازلی انداز میں دہاڑا۔۔۔


سمیر منہ پھلائے اسے دیکھ کر بولا برو کیا ہوئی ہے ۔۔۔ تھم اینگری کیوں ہو ۔۔۔ میں نی کہا کہ تم پھسرے یار۔۔۔ وہ کہیا کیتے ہیں ہاں کمپلیٹ کواردو میں ۔۔۔۔ وہ دماغ پر زور ڈالتے ہوئے سوچنے لگا


اک بار پھر پورا لاونج قہقوں سے گونج اٹھا اب کی بار ابتہاج نے بھی ساتھ دیا۔۔۔۔


انگریزی بندر وہ پورے ہوتا ہے اللہ معاف کرے میرا جینڈر ہی تبدیل کر دیا ۔۔۔ ابتہاج اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے بولا صباء بیگم نماز پڑھنے جا چکی تھیں ۔۔۔


ماہا نے خود پر نظروں کی تپش محسوس کی ۔۔۔ پر وہ سر اٹھا کر دیکھنے کی ہمت خود میں مفقود پاتی کچن کی طرف بڑھ گئی اس کی آنکھ بھوک کے احساس سے کچھ دیر پہلے ہی کھلی تھی ۔۔۔۔ ماہا کچھ کھانے کا سوچتی کچن میں چلی آئی اس کا خیال تھا کہ اب تک تو ابتہاج جا چکا ہو گا۔۔۔۔ ابتہاج کی موجودگی اس کے لیے الگ ہی امتحان تھی . .


ماہا نے سب کچھ پس پشت ڈال کر کچن کا رخ کیا اور کچھ کھانے کو بنانے لگی ۔۔۔۔

صنم نے مندی مندی آنکھیں کھولیں تو اس نے خود کو ہاسپیٹل میں پایا سر میں اٹھتی درد کی ٹیسوں کو نظر انداز کرتی وہ اپنے ارد گرد دیکھنے لگی ساتھ بینچ پر بیٹھے روکی کو سوئے دیکھ صنم کی آنکھیں ضبط کے باوجود بہنے لگیں زندگی نے اسے جس مقام پر لاکھڑا کیا تھا جہاں سے واپسی نا ممکن تھی صنم کی سسکیوؑ پر روکی کی آنکھ کھلی ۔۔۔۔ صنم کو ہوش میں دیکھتے اس نے سکون کا سانس لیا۔۔۔۔۔ صنم یک ٹک روکی کو اپنی سرخ آنکھوں سے دیکھ رہی تھی اس کی آنکھوں میں عجیب سا دل دہلا دینے والا تعصر تھا جسے روکی نے دھڑکتے دل سے محسوس کیا ۔۔۔۔ مگر یہ احساس پل بھر کا تھا وہ واپس اپنے خول میں سمٹ چکاتھا ۔۔۔


"کیا ہے کیوں اس طرح دیکھ رہی ہو؟۔۔۔ ہاں بتاو مجھے کیا حرکت تھی یہ تمہاری یہ جو زبان ہے نہ ڈارلنگ اس کا یوز زرا کم ہی کیا کرو میرے سامنے وارنہ کسی دن بے موت ماری جاوگی ۔۔۔۔۔ میرے ہاتھوں "


روکی مسلسل صنم کو گھورتا دیکھ ۔۔۔ اپنا ہاتھ اس کے ڈرپ لگے ہاتھ پر رکھتا نیچی آواز میں غرایا ۔۔۔۔ روکی کے دباو پر صنم۔کے ہاتھ سے خون رسنے لگا تھا لیکن اس کو وجود میں درد کا زرہ برابر احساس نا جاگا ۔۔ روکی نے خود ہی اس کے ہاتھ سے خون صاف کیا . ۔۔۔ وہ بس یہی بات سوچ رہا تھا کہ صنم کوئی ری ایکٹ کیوں نہیں کر رہی ۔۔۔۔ اس کی آنکھوں میں موجود ویرانی نے اک پل کو روکی کی ۔۔۔ دنیا ہلا دی تھی مگر صرف ایک پل محض ایک پل ۔۔۔۔ روکی کت حساب سے محبت ہونے میں اور اسے ختم کرنے میں صرف ایک ہی پل لگتا ہے ۔۔۔۔۔ جو وہ بخوبی کرتا تھا


روکی شام اگلی صبح تک صنم کو ڈسچارج کرا کر اپنے فلیٹ لے آیا تھا ۔۔۔۔ صنم نے ویسے ہی چپی سادھ رکھی تھی اب تو روکی بھی اس کی خاموشی سے تنگ آگیا تھا ۔۔ اسے کچھ عجیب لگ رہا تھا بہت ۔۔۔ عجیب ۔۔۔ جو وہ محسوس کر رہا تھا ۔۔۔

روکی نے صنم کو اس کے حال پر چھوڑا اور اپنے پرائیویٹ روم میں آکر حرام شے خود میں انڈیلنے لگا ۔۔۔ کہ شاید اس سے ہی کچھ سکون حاصل ہوجائے ۔۔۔ پر کافی دیر شراب سے بھی جب سکون نہ ملا تو اس نے صنم کو اپنے سکون کا انتخاب کیا

روکی روم میں آیا ۔۔۔


تو صنم بیڈ پر چت لیٹی چھت پر ناجانے کیا تلاش کر رہی تھی روکی لڑکھڑاتے قدموں سے اس کے قریب چلا آیا صنم اب بھی نے حس و حرکت تھی اس نے اک نظر مڑ کر دیکھنا بھی گوارہ نہیں کیا تھا ۔۔۔ روکی بڑی دلجمعی سے ہاتھوں پر چہرہ ٹکائے اسے دیکھنے میں مصروف تھا ۔۔۔۔ اس کی نظروں کی تپش تھی یا برداشت کی آخری حد۔۔۔ صنم نے اک جھٹکے سے خود پر سے کمفرٹر دور اچھالا اور باہر کی جانب قدم بڑھانے لگی ۔۔۔

اپنے سامنے سے صنم کو۔جاتے دیکھ اس کے اندر کے حیوان نے پل میں انگڑائی لی


ایک ہی جست میں روکی صنم تک پہنچا اور شدت سے اسے خود میں بھینچتے اس کے چہرے پر جھک گیا ۔۔۔۔۔ صنم زخمی شیرنی بنی اس کی گردن میں اہنے ناخن گاڑھتی اسے تکلیف دینے لگی ۔۔۔۔ صنم پر زور مزاحمت کرتی خود کو آزاد کرانے لگی ۔۔۔ پر روکی پر تو جیسے جنون سوار تھا ۔۔۔ خود کا نظر انداز کیے جانا اس سائیکو سے کہا برداشت ہوا تھا ۔۔۔۔ دل چاہا تھا ساری دنیا کو آگ لگا دے ۔۔۔

صنم بے بس سی خود کو حالات کے دھاروں پر بہنے کے لیے چھوڑ چکی تھی ۔۔۔۔ اس کے وجود میں اب کوئی بھی مزاحمت کی طاقت موجود نہیں تھی ۔۔۔۔ روکی کی قربت آج اسے صرف ایک گہری کھائی لگی ۔۔۔ جہاں وہ اپنے ماں باپ کی عزت ۔۔ بہن کا پیار ۔۔۔ اپنوں کا ساتھ سب مردہ کر چکی تھی ۔۔۔۔ صنم کی نظروں میں اپنے باپ کا مسکراتا چہرہ گھومنے لگا ۔۔۔۔ اس نے اپنی پوری طاقت لگا کر خود کو روکی کی گرفت سے آزاد کرایا ۔۔۔۔ اور ڈریسنگ ٹیبل سے پر فیوم کی بوتل اٹھا کر روکی کو دے ماری ۔۔۔۔۔۔ روکی درد سے کراہتا نیچے بیٹھتا چلا گیا۔۔۔ صنم نے اسے ایسے ہی چھوڑا اور خود باہر کی جانب بھاگی ۔۔۔۔ آج اس کے پاس یہاں اس قید سے نکلنے کا آخری موقع تھا ۔۔۔۔ورنہ وہ جانتی تھی کہ جو وہ کر چکی ہے روکی بھوکے کتوں کی طرح اسے نوچ ڈالے گا ۔۔۔۔ پر اب وہ کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی ۔۔۔ اتفاق سے روکی آج لاک کر نا بھول گیا تھا صنم نے جلدی سے سٹڈی روم کے لاکر سے کچھ پیسے لیے تاکہ یہاں سے نکل سکے اور فلیٹ سے نکلتی چلی گئی ۔۔۔۔۔۔


کبھی ان کے در کبھی در بدر

غم عاشقی تیرا شکریہ میں کہاں کہاں سے گزر گئی ۔۔۔


____________________


ماہاکچن میں کھڑی اپنے لیے سینڈوچ بنا رہی تھی جب صباء بیگم کچن میں چلی آئیں ۔۔۔ اور ماہا کو کام۔کرتا دیکھ خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوئیں انہیں اچھا لگا تھا ماہاکا ایڈجسٹ ہونے کی کوشش کرنا عورت تھیں ۔۔۔ کیسے نا اس کے جذ بات سمجھتی


ماہا انہیں دیکھ کر دل سے مسکرائی اور بولی ۔۔۔


"ماما میں نے سب کے لیے چکن سینڈوچ بنائیں ہیں آپ بیٹھیں میں ابھی لاتی ہوں بس۔۔۔ "


صباء بیگم نے مسکراتے اس کی پیشانی چومی


میری بیٹی کوئی چیز بنائے اور وہ اچھی نہ ہو ایسا کیسے ہو سکتا ہے "

ان کی بات پر ماہا کی مسکراہٹ تھمی اسے شدت سے اپنی ماں کی یاد آئی ۔۔۔۔ انہوں نے ایک بار بھی تو فون نہ کیا تھا ۔۔۔۔ کیا وہ اتنی عر ضاں تھی ان کے لیے کہ ایک بار پوچھنا بھی مناسب نہ سمجھا ماہا زندہ ہے یا مرگئی ۔۔۔

ماہا نے اپنی آنکھوں میں آئی نمی کو پیچھے دھکیلا اور سینڈوچ ٹرے میں رکھتی باہر چلی آئی سب ہی ڈائننگ ٹیبل پر موجود تھے ماہا گھبرا گئی

کاشان صاحب کے علاوہ سب تھے سمیر کو ابتہاج مسلسل تنگ کر رہا تھا جس سے وہ منہ پھلائے بیٹھا بہت کیوٹ لگ رہا تھا۔۔۔.


ماہا نے سینڈوچ سرو کیے اور انگلیاں چٹخاتی اپنے اندر کے اضطراب کو کم کرنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔


صباء بیگم نے ایک بائٹ لیا۔۔۔ اور دل سے ماہا کی تعریف کی


"واہ بیٹا یہ تو بہت ذائقے دار بنے ہیں ۔۔۔ ماشاءاللہ ۔۔۔ خوش رہو ہمیشہ ۔۔۔۔۔ "

صباء بیگم ابھی بول ہی رہی تھیں جب ابتہاج زور سے اپنا سینا مسلتا بری طرح کھانسنے لگا۔۔۔۔

اس کا پورا چہرہ سرخ پڑ گیا تھا ۔۔۔

صباء بیگم پریشانی سے اس کی جانب بڑھی اور ماہا سے پوچھنے لگیں۔۔۔


"بیٹا کیا آپ نے اس میں بلیک پیپر ڈالی ہے ۔۔۔۔ "

ؓماہا نے پریشان صورت حال دیکھتے فورا ہامی بھری ۔۔۔۔ صباء بیگم نے ابتہاج کو سیدھا لٹایا اور جلدی سے اس کی میڈیسن لے آئیں ۔۔۔ ماہا تو حیرانی سے یہ سب دیکھ رہی تھی کہ آخر ابتہاج کو ہوا کیا ہے ۔۔۔۔

ماہا روتے ہوئے اپنے لب کچلتی ابتہاج کو دیکھ رہی تھی جو بلکل زرد پڑتا آنکھیں بند کیے پڑا تھا۔۔۔


صباء بیگم ماہا کو پریشان دیکھتیں اسے اپنے ساتھ لگاتی بتانے لگیں


"میرا بچہ ابتہاج کو بلیک پیپر سے الرجی ہے بہت سخت اس کی طبیعت خراب ہوجاتی ہے اسی لیے اس کا کھانا بھی میں الگ ہی بنواتی ہوں۔۔۔ بس آئندہ دھیان رکھنا ۔۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں تم نے جان بوجھ کر تو ایسا نہیں کیا نہ بس۔۔۔۔ میرا بچہ۔۔۔ بس"


ان کے نرم لہجے پر ماہا کا دل کرلانے لگا۔۔۔. شدت سے دل نے ماں باپ کو پکارا تھا۔۔۔۔


"ناجانے کیسے پرکھتا ہے مجھے میراخدا

امتحان بھی سخت لیتا ہے اور ہارنے بھی نہیں دیتا "


سمیر کی مدد سے ماہا ابتہاج کو کمرے میں لے آئی تھی ماہا کو شرمندگی ہوئی کہ جانے انجانے میں اس کی وجہ سے ابتہاج کو تکلیف ہوئی ابتہاج آنکھیں موندے لیٹا ہوا تھا ۔۔۔ جب اسے اپنے ہاتھ پر نمی محسوس ہوئی ابتہاج نے جھٹکے سے آنکھیں کھولیں تو ماہا کو سامنے پایا جو سر جھکائے رونے میں مصروف تھی ۔۔۔۔۔

ابتہاج اسے روتا دیکھ فورا اٹھ بیٹھا ۔۔۔۔ اسے یقین کرنامشکل لگ رہا تھا کہ ماہا اس کی تکلیف پر رو رہی ہے ۔۔۔


"کیاہو گیا ہے یار کیوں . . پانی کی ٹنکی بہا رہی ہو ۔۔۔ میں بلکل ٹھیک ہوں مرا نہیں ہوں ۔۔۔"

ابتہاج کی بات پر ماہا نے اپنی سرخ ہتھیلی اس کے لبوں پر رکھے اسے مزید بولنے سے روکا ۔۔۔

پاگلللل ہو گئے ہیں آپ ۔۔۔ کیسی باتیں کر رہے ہیں ابتہاج پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا جس کےتیور دھیرے دھیرے بدل رہے تھے ۔۔۔ ابتہاج کو گھورتے ماہا نے اپناہا تھ پیچھے کھینچا اور بولی


"تیس مار خان بننے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔۔اچھا میں ۔۔۔ نا منہ توڑ دونگی "

ابتہاج ماہا کی دھمکی پر آنکھیں بڑی کیے اسے دیکھنے لگا ۔۔۔ ماہا اس کی نظریں محسوس کرتی گڑبڑا گئی ۔۔ اور اٹھنے لگی

ابتہاج نے ایک ہی جست میں اسے خود پر گرایا اور کمر پر ہاتھ باندھے خود کے قریب کر گیا ۔۔۔ ماہا نے دھک دھک کرتے دل پر قابو پاتے اسے خود سے چھڑانا چاہا ۔۔۔۔ ابتہاج اسے مکمل خود پر جھکاتا اس کے گالوں پر لالی بکھیر گیا ماہا نے اپنی بکھرتی سانسوں کو سنبھالتے اسے دھکا دیا اور روم سے نکلتی چلی گئی

_____________

ماہا کمرے سے باہر آکر گہرے سانس لیتی بولنے لگی


" ناجانے کونسے جن کی روح گھس گئی ہے ان میں جب دیکھو ۔۔۔ چمٹ جاتے ہیں ۔۔۔ ہمہہہ ٹھرکی کہیں کہ ۔۔۔ ویسے ماہا ایک بات ہے یہ ٹھرکی ہے بڑا اچھا ۔۔۔ دیکھو تو کیسے طبیعت خراب ہوئی اور میاں جی کے منہ سے اف بھی نہ نکلا ۔۔۔ ہائے اللہ جی یہ خوبصورت جن مجھ پر عاشق تو نہیں ہوگیا ۔۔۔ مجھے تو شرم آرہی ہے ۔۔۔۔"

ماہا خود سے بڑ بڑا رہی تھی جب کسی نے پیچھے سے کندھے پر ہاتھ مارا. ۔۔ ماہا نے اپنے پیچھے جانی پہنچانی خوشبو محسوس کرکے زبان دانتوں تلے دبائی ۔۔۔

یعنی وہ وہ ساری گوہر افشانیاں سن چکا تھا ۔۔. ماہا نے حلق تر کیا اور پیچھے مڑ کر دیکھنے لگی جہاں ابتہاج آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھورنے میں مصروف تھا ماہا نے ۔۔۔ وہاں سے بھاگنا چاہا پر اگلے ہی لمحے خود کو اپنے جن کے حصار میں پایا ۔۔۔ ماہا کی دھڑکنیں ،ابتہاج کو اپنے سینے میں دھڑکتی محسوس ہورہی تھیں ۔۔۔ ماہا نے سخت مزاحمت کرتے خود کو آزاد کرانا چاہا۔۔۔

پر ابتہاج کی گمبھیر آواز اپنی سماعتوں میں رس گھولتی محسوس کرکے پورے جسم کا خون سمٹ کر چہرے پر آٹھرا ۔۔۔۔ ابتہاج ماہا کے کان کے قریب جھکا ناجانے کیا راز و نیاز کرنے میں مصروف تھا

"ہاں تو کیا کہہ رہی تھیں ۔۔۔ ہممم ۔۔۔ میں جن ہوں بتاو کب تمہِیں کھایا میں نے ۔۔ کب تمہاری روح میں اتر کر تمہیں معتر کیا کب ۔۔۔ تمہیں اپنے لمس کی شدتوں ست واقف کرایا ۔۔۔ ہمم بولو ۔۔۔۔


جب پیچھے سے تالیوں کی آواز گونج اٹھی ۔۔۔۔

ماہا ابتہاج کے پیچھے کھڑے سمیر کو دیکھ شرمندگی کے مارے فورا ابتہاج کو دھکا دیتی اوپر بھاگ گئی ۔۔۔۔

سمیر اب بھی شرارتی نظروں سے ابتہاج کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔

"برو یار تھم کسنے ہو ۔۔۔ ہاں ایسے کھوئی کھرتا ہے کییا ۔۔ مینے سنا تھی پاکھستانی پیپل مر شیلے ہوتی پر اپ تو اوہ گاڈ یہ میی کیا دیک ری ۔۔ برو اپ کو تھوری سی گھیا نہی آئی سب ان دی ہاوس ہے ابی اور تھم اپھنا سین بنا را ہے ۔۔ناٹ بیڈ"

سمیر کی زبان تیزی کے ساتھ چل رہی تھی ۔۔۔ ابتہاج اسے خونخوار نظروں سے گھورتا اپنے ماں باپ کو دیکھ رہا تھا جو سمیر کی ساری باتیں سن کر اپنی ہنسی دبارہے تھے __وہ بھی ابتہاج تھا کسی کی نا رکھنے والا ۔۔۔


"او انگریزی بندر گھٹیا آدمی "مرشیلے نہی!'شرمیلے 'ہوتا ہے اور وہ مجھ میں بچپن سے ہی موجود نہیں ہے ہاں تیری گارنٹی ہے تو دوپٹا اوڑھ لیا کر ایسا کچھ دیکھے تو۔۔اور ہم پاکستانی ہیں سب سے پہلے اضافے کا سوچتے ہیں اسی لیے ہماری آبادی بڑھتی ہے تمہاری طرح نہیں ہیں ۔۔۔ اور مجھ میں گھیا ہے یا کدو تو اس سے دور رہ یہ تیری سمجھ سے باہر کی بات ہے ۔۔لاسٹ تھنگ ۔۔۔ اردو کی ٹانگیں نا توڑا کر تو۔۔۔ توبہ ہے حیاء کو گھیا ہی بنا دیا ۔۔۔"

اللہ ہی بچائے ایسی اردو سے ۔۔۔ ابتہاج بولتا کھسیانا ہوتا وہاں سے نکل گیا جانتا تھا ورنہ باپ نے خوب ریکارڈ لگانا تھا ۔۔

پیچھے صباء بیگم اور کاشان صاحب کے قہقہے اسے دور تک سنائی دیے ۔۔۔


سمیر کی بولتی بند ہو چکی تھی کتنا سوچا تھا اس نے کہ برو کو بلیک میل کرے گا پر یہاں تو وہ ایشین بلا اس کی بے عزتی کیے جارہا تھا


میں ماما کو بتاتی کہ برو مجے ایسے کرتی "

سمیر بولتاہوا اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔۔۔

صباء بیگم نے دل سے اپنے گھر میں یہ ہنسی قائم رکھنے کی دعا مانگی


__________


صنم کو بھاگتے ہوئے کافی دیر ہوچکی تھی ۔۔۔ بھاگتے بھاگتے اس کے پاوں شل ہوچکے تھے ناجانے اس دوران کتنی بار وہ ٹھوکر کھاکر گری تھی ۔۔۔ پر اسے کوئی ہوش نہیں تھا ۔۔۔ اسے بس کسی بھی طرح روکی سے دور جانا تھا اس کی حوس زدہ نظروں سے بچنا تھا ۔۔۔ صنم ایک درخت کے نیچے کھڑی اپنی سانس بہال کر رہی تھی جب اسے اپنی طرف ایک گاڑی آتی دکھائی دی ۔۔۔ صنم کو خوف محسوس ہوا کہ کہیں وہ روکی نہ ہو ۔۔۔ صنم اپنے آپ کو اچھے سے چھپاتی درخت کی اوٹ میں ہوگئی ۔۔۔ وہ گاڑی وہاں سے گزری تو صنم نے باہر نکل کر جھانکا۔۔۔۔۔ پوری سڑک سنسان تھی اسے اپنے بابا کی شدت سے یاد آئی ۔۔۔ ۔۔۔ جس باپ نے کبھی زمین پر پیر نا رکھنے دیاتھا آج اسی کی بیٹی سڑکوں پر ماری ماری پھر رہی تھی ۔۔۔

صنم نے ہمت نا ہاری اور بھاگتے ہوئے ایک جھونپڑی کے قریب آگئی جو اس نے درخت کی اوٹ سے ہی دیکھی تھی صنم نے سوچا کہ شاید اسے وہاں سے کچھ مدد مل جائے ۔۔۔ صنم نے جھونپڑی کے باہر ایک بچے کو دیکھا جو مٹی میں کھیل رہاتھا ۔۔۔۔ صنم کو دیکھ کر وہ بچہ اس کی طرف آنے کے لیے ہمکنے لگا ۔۔۔ صنم نے جھٹ سے بچے کو اٹھا لیا بغیر اس کے میلے کچیلے کپڑوں پر دھیان دیے۔۔۔ بچہ صنم کے پاس آتا کھلکھانے لگا


اتنے میں بچے کی ماں باہر آئی اور صنم کے ہاتھ میں بچہ دیکھ اس سے پوچھنے لگی کہ کون ہے وہ؟یہاں کیوں آئی ؟

صنم نے اس کے آگے ہاتھ جوڑے اور روتے ہوئے بولی


"پلیز باجی میری مدد کریں مجھے ایک آدمی اغواء کرنا چاہتا ہے . . میں اسی سے چھپتی یہاں چلی آئی مجھے بس کچھ پیسے دے دیں میں اپنے بابا کے پاس جانا چاہتی ہوں ۔۔۔ وہ آپ کو بہت سارے پیسے دینگے "

صنم کی بات سن کر عورت کو بھی شاید اس پر ترس آگیا وہ اندر گئی اور ہاتھ میں دو نوٹ لے آئی

اور صنم کے ہاتھ میں پکڑاتی بولی

کہ دیکھو بی بی میں زیادہ امیر تو نہیں ہوں محنت مزدوری سے کماتی ہوں ۔۔۔ مگر تم واقعی مصیبت میں لگ رہی ہو ۔۔۔ یہ پیسے لو۔۔۔ اور صبح کی گاڑی یہاں سے جاتی ہے ۔۔۔ جہاں جانا ہو چلی جانا آج رات یہاں بسر کرلو۔۔۔

صنم نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اس جھونپڑی میں چلی گئی

__________

آج ابتہاج نے کسی میٹنگ کے سلسلے میں ہوٹل جانا تھا پر طبیعت کی وجہ سے ۔۔کاشان صاحب نے انکار کردیا ان کا کہنا تھا یا تو وہ خود ساتھ چلیں گے یا ماہا کو ساتھ لے جاو۔۔۔.

اب ابتہاج باپ کو تو ساتھ لیجا نہیں سکتا تھا جانتا تھا کہ وہ کبھی بھی اسے وہ ڈیل کرنے نہِِیں دینگے جس طرح وہ کرنا چاہتا ہے

مجبورا اس نے ماہا کو تیار ہونے کا کہا

ابتہاج مسلسل دس منٹ سے بلیک ڈنر سوٹ میں مکمل تیار کھڑا ماہا کا انتظار کرہا تھا ۔۔۔ اسے سخت غصہ آرہا تھا ماہا پر جو ناجانے کتنی دیر سے ڈریسنگ روم میں بند تھی ۔۔۔

آخر کار ابتہاج کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور اس نے دھڑا دھڑ ڈریسنگ کا دروازہ بجایا ماہا نے فوراً دروازہ کھولا ۔۔۔

ابتہاج جو اس پر غصہ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا ۔۔۔ ماہا کو دیکھتا اپنی جگہ سٹل کھڑا رہ گیا۔۔

ماہا بلیک کلر کی ساڑھی جس کا بلاوز نیوی بلیو پلین ویلویٹ کاتھا فل سلیو بلیک ساڑھی ،ڈیپ ریڈ لپسٹک سے سجے یاقوتی لب۔۔۔ کانوں میں پہنے بلیک ائیر رنگز وہ ابتہاج کے دل پر بجلیاں گرا رہی تھی ۔۔۔۔

ابتہاج بنا پلکیں جھپکائے اسے دیکھ رہا تھا وہ لگ ہی قیامت رہی تھی ایک بات جو ابتہاج نے غور کی تھی وہ تھی اس کے بال جو اس نے بلیک ہی سکارف میں اسٹائلش طریقے کور کیے ہوئے تھے ساڑھی کو بھی بہت اچھے سے کیری کیا ہوا تھا کہیں سے بھی اس کے جسم کے نشیب و فراز اتنے نمایاں نہیں ہو رہے تھے ۔۔۔ ابتہاج ٹرانس کی کیفیت میں اس تک آیا اور اس کی پیشانی پر اپنا دہکتا لمس چھوڑا ۔۔ ماہا نے سختی سے آنکھیں میچیں ۔۔۔۔ اور اس لمحے کو خود میں تحلیل ہوتا محسوس کرنے لگی کتنا پر سکون لمحہ ہوتا ہے نہ جب آپ اپنے ہمسفر کی نظروں میں اپنے لیے عزت و احترام دیکھیں چاہت دیکھیں ایک انوکھا جذبہ روح تک کو سر شار کر جاتا ہے ۔۔۔ جیسے اب کسی چیز کی کمی نہ رہی ہو سب مکمل ہوگیا ہو۔۔۔۔۔

ابتہاج پیچھے ہوا اور پورے استحقاق سے ماہا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامے باہر آیا سیڑھیوں سے اترتے ان کی نظر صباء بیگم پر پڑی جو کوئی ٹاک شو دیکھ رہیں تھیں ۔۔۔ ماہا نے ان سے اجازت چاہی ۔۔۔ ماہا اور ابتہاج کو شادی کے بعد پہلی بار اس طرح سجا سنورہ دیکھ بے ساختہ ان کے دل سے ماشاءاللہ نکلا ۔۔۔ وہ دونوں ایک ساتھ بے حد خوبصورت لگ رہے تھے جیسے ایک دوسرے کے لیے بنے ہوں۔۔۔ صباء بیگم نے دونوں کو خوب دعاوں سے نوازہ اور ابتہاج کو ماہا کا خیال رکھنے کی تاکید کی ۔۔۔ جو بھی تھا ماہا کو اپنی ساس سے بے پناہ محبت تھی ان کا منصفانہ رویہ ان کا احترام مزید بڑھا دیتا تھا ۔۔۔۔

ابتہاج نے ماہا کے لیے گاڑی کا فرنٹ ڈور کھولا ۔۔ ماہا کنفیوز سی فرنٹ سیٹ ہر بیٹھی اپنی انگلیاں چٹخانے لگی ۔۔ ابتہاج نے ایک نظر اس کے دلکش نقوش کو دیکھا پر ماہا کو اپنے لبوں پر تشدد کرتا دیکھ ابتہاج کی آنکھوں میں عجیب سی چمک پیدا ہوئی اسے ماہا کی حرکت اپنی جانب کھینچ رہی تھی ۔۔۔۔ ابتہاج بنا کچھ بولے ماہا کے یخ پڑتے ہاتھوں کو تھام کر اپنی طرف کھینچا اور اس کے ریڈ لپسٹک سے سجے لبوں پر اپنے لب ثبت کر دیے ماہا ابتہاج کے اچانک حملے پر بوکھلا کر اسے خود سے دور کرنے لگی پر تب تک ابتہاج اس کی سانسوں میں اپنی سانسیں بری طرح الجھا چکا تھا ۔۔۔ ناجانے ماہا کے پاس کونسا نشہ تھا وہ قریب آتے ہی مدہوش ہونے لگتا وہ لڑکی ابتہاج گردیزی کی عادت بنتی جارہی تھی ۔۔۔ ابتہاج گردیزی کو لمحہ لمحہ اس کی طلب ہونے لگی تھی ۔۔۔۔



ماہا اور ابتہاج جیسے ہی ہوٹل میں داخل ہوئے ہر طرف رنگ و بو کا سماں تھا

درمیان میں بنے راؤنڈ شیپ کے سٹیج پر لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالیں—ڈانس کرنے میں مصروف تھے

ڈم لائٹس اور میوزک ماحول کو فسوں خیز بنا رہا تھا

لڑکے لڑکیوں کی اتنی نزدیکی دیکھ ماہا نے نا محسوس انداز میں نظروں کا رخ بدل لیا

گال تو پہلے ہی ابتہاج کی شدت یاد سے دہک رہے تھے—اور کچھ سامنے کا منظر دیکھ شرم سے سرخ پڑ گئے تھے

ہے ابتہاج کیسے ہیں آپ—ابتہاج کے بزنس پارٹنر نے آکر اسے گلے ملتے ہوئے کہا تو ابتہاج نے بھی مروتا مسکرا کر حال پوچھا

"اس بیوٹی سے انٹرڈیوس نہیں کروائے گے آپ"اپنی نظریں ماہا کی من موہنی صورت پر گاڑھتے ہوئے کہا تو ابتہاج نے اپنی مٹھیاں غصے سے بھینچی

اور اپنا بازو ماہا کی کمر میں لپیٹ کر اسے خود کے قریب کر لیا

جبکہ ماہا اس اچانک افتاد پر بھونچکا رہ گئی

اپنی کمر کی جلد میں دھنستی ابتہاج کی انگلیاں کا لمس جسم میں کپکپاہٹ طاری کر گیا

"کیوں نہیں—شی از مائے وائف-- مائے لو آف لائف—سرد لہجے میں ایک ایک لفظ چبا کر ادا کیا جبکہ اس دوران ماہا کی کمر پر سخت بڑھتی جا رہی تھی

"اوو آئی سی—وہ شخص کھسیانہ سا ہنس کر ایک نظر ماہا کہ دلکش سراپے پر ڈال کر چلا گیا

"ابب-ابتہاج مجھے تکلیف ہو رہی ہے" ماہا کی نم آواز جیسے ہی کانوں سے ٹکرائی تو ابتہاج نے چونک کر اسے دیکھا

اس شخص کی نظریں ماہا پر مرکوز دیکھ کر ابتہاج گردیزی کو اپنے وجود میں شرارے پھوٹتے محسوس ہو رہے تھے اور خود پر ضبط کرنے کے چکر میں وہ ماہا پر اپنی گرفت سخت سے سخت کرتا چلا گیا تھا

اب ماہا کی نم آنکھیں دیکھ سرعت سے اپنی گرفت ہلکی کی اور ہلکے سے اس کی کمر سہلا کر تکلیف کا ازالہ کرنا چاہا

جس پر ماہا نے ایک جھرجھری لے کر ابتہاج کا ہاتھ اپنی کمر سے ہٹا کر دو قدم کا فاصلہ بنایا

"مم—میں ٹھیک ہوں"شرم سے دہکتے چہرے کو جھکا کر کپکپاتے ہونٹوں سے کہا تو ابتہاج گردیزی کے ہونٹوں پر دلکش مسکراہٹ اپنی رینگ گئی

ماہا کو ایک سائیڈ پر بٹھا کر ابتہاج اپنے کچھ بزنس پارٹنرز سے بات کرنے میں مصروف ہوگیا

لیکن وقتاً فوقتاً نظریں ماہا کے چہرے کا بھی طواف کر رہی تھی

کہ تبھی ڈانس کرتا ہوا ایک شخص ماہا کے پاس آیا اور اسے ہاتھ کے اشارے سے سٹیج کی طرف اشارہ کرتا دکھا

جس سے ابتہاج کو اندازہ ہوگیا کہ وہ اسے ڈانس کا کہہ رہا ہے

جس پر ابتہاج کو اپنے دماغ کی شریانیں پھٹتی محسوس ہوئی اس سے پہلے وہ جا کر اس شخص کا حشر بگاڑتا—اس سے پہلے ہی وہ شخص ماہا کے انکار پر پلٹ گیا تھا

ماہا کا انکار سے ابتہاج گردیزی کو اپنے رگ و پے میں سکون سرائیت کرتا محسوس ہوا

دھیمے مگر مضبوط قدم اٹھاتا وہ ماہا کی جانب بڑھا جو اب اپنے ہاتھ دیکھنے میں مگن تھی

"وڈ یو لائک ڈانس ود می" ابتہاج نے ایک ہاتھ پیچھے کمر پر اور دوسرا ہاتھ ماہا کے آگے کرتے ہوئے محبت سے چور لہجے میں ڈانس کی آفر کی تو

ماہا نے اپنی روشن آنکھوں سے اپنے سامنے کھڑے مغرور شہزادے کو دیکھا جو صرف اس کا تھا

مگر وہ ڈانس نہیں کرتی تھی—اور اتنے سارے لوگوں کے سامنے ماہا کو تو سوچ کر ہی پسینے آنے لگے

"ابتہاج ایکچولی میں ڈانس نہیں کرتی—سوری میں نہیں کر سکتی"نظریں جھکا کر مدھم آواز میں کہا تو ماہا کا صاف انکار سن کر ابتہاج نے ضبط سے اپنی مٹھیاں بھینچی

اور جبراً مسکرا کر ماہا کے جھکے سر کو دیکھا

اور اثبات میں سر ہلا کر لمبے لمبے ڈنگ بھرتا وہاں سے غائب ہو گیا

ساری لائٹس آف ہونے پر ماہا نے گھبرا کر اردگرد نگاہ دوڑائی ابھی وہ ڈر کے مارے چیختی کہ سٹیج کے درمیان میں سپوٹ لائٹ آن ہوئی

جہاں ایک کپل کھڑا ہوا تھا—لڑکے پر ماہا کو ابتہاج کا گمان ہوا—اور کچھ ہی دیر میں وہ گمان سچ ثابت ہوا جب ڈانس کرتے ہوئے ابتہاج نے اپنا رخ ماہا کی طرف کیا

جو پھٹی پھٹی نگاہوں سے ابتہاج کو دیکھ رہی تھی

جبکہ سٹیج کے پاس کھڑے لوگ تالیاں مارتے ہوئے ان کے ڈانس کو انجوائے کر رہے تھے

حسد اور رقابت کی لہر ماہا کو اپنے وجود میں سرایت کرتی محسوس ہوئی

جب کہ ابتہاج کی سرد نظریں خود پر محسوس کر کہ ماہا نے اپنا رخ کاؤنٹر کی طرف کر لیا

ایک چور نگاہ پیچھے دوڑائی تو اس لڑکی کو ابتہاج کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے دیکھا

جس پر ابتہاج نے قہقہہ لگایا اور اس لڑکے کو اپنی مضبوط بازو پر گرا کر اس کے کان میں سرگوشی کی

ماہا کی برداشت بس یہی تک تھی

اپنے سامنے رکھی ہوئی ڈرنکس کو پانی سمجھ کر وہ اپنے اندر ابلتے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے انڈیلنے لگی

مگر تھوڑی دیر میں اپنا سر گھومتا ہوا دکھائی دیا تو سر جھٹک کر دوبارا پیچھے دیکھا

جہاں ہر چیز ڈبل نظر آرہی تھی

اپنے لڑکھڑاتے قدم ڈی جے کی جانب بڑھائے

"اے سنو—ڈی جے کو اشارے سے اپنی طرف بلاتے ہوئے کہا تو وہ ماہا کی طرف جھکا

"یہ گانا بند کرو اور کچھ ایسا لگاؤ جو آگ لگا دے"لڑکھڑاتے ہوئے لہجے میں کہا تو ڈی جے نے ماہا کی سرخ ہو رہی آنکھوں کو دیکھ کر اثبات میں سر ہلایا

کہ تبھی گانا چینج ہونے پر اور لوگوں کے کسی کی جانب متوجہ پر ابتہاج نے پلٹ کر دیکھا

آنکھ سرمے نال لدی ہوئی نار دی

کھنچ کھنچ کے نشانے سیدھے ماردی

تیری تھوڑی بوتی داروں آج لگی سونیاں

تھوڑی بوتی داروں آج لگی سوہنیا

تایو گورا مکھ ہویا اگیار ورغا

منڈیاں نوں سولی اوتے ٹنگی رکھدا اے

میرا نکھرا اے تکھی تلوار ورگا

ماہا کو ڈانس کرتے اور سب مردوں کو اس کی جانب متوجہ دیکھ ابتہاج کی رگیں غصے سے تن گئی

تن فن کرتا ماہا کے پاس پہنچا اور اسے بازو سے پکڑ کر اپنی جانب کھینچا

جس سے ماہا لہرا کر کٹی ہوئی ڈال کی طرح ابتہاج کے سینے سے آٹکرائی

ابھی ابتہاج غصہ کرتا اس سے پہلے ہی ماہا نے اپنی بانہیں اس کے گلے میں ڈال کر اسے ساکت کر دیا تھا

مجھے چھوڑی لگے تُو انگار سی

کھنچ کھنچ کے نشانے تبھی مار سی

آجا میرے نال اک واری نچ سوہئینے

میرے نال اک واری نچ سوہنیے

تینوں فیل کروا میں سٹار ورگاں

میوزک کی تیز آواز – فسوں خیز ماحول اور اپنی پناہوں میں نرم نازک خوشبوؤں میں بسا وجود ابتہاج گردیزی کو اپنے حواسوں پر چھاتا محسوس ہوا

مدہوشی کے عالم میں اپنا بازو ماہا کی کمر میں لپیٹ کر اسے خود میں بھینچ کر چہرہ اس کی گردن میں چھپا لیا

اپنا دہکتا ہوا لمس ماہا کی گردن پر چھوڑا تو ماہا نے کسمکسا کر ابتہاج کو دور کرنا چاہا—ابھی ابتہاج گردیزی بہکتا کہ میوزک بند ہونے اور لوگوں کی ہوٹگ اور تالیوں کی آواز پر ہوش میں آکر ماہا سے دور ہوا

جبکہ خمار لیے ہوئی نظریں ماہا کے چہرے پر گڑھی ہوئی تھی

--------------

سب سے ایکسکیوز کر کہ جب ابتہاج باہر آیا تو اسے یقین ہو گیا کہ میڈم نے ڈرنک کی ہوئی ہے

ابھی ابتہاج گاڑی کا دروازا کھول کر ماہا کو اندر بٹھاتا کہ اس نے دروازا بند کر کہ اس سے ٹیک لگا کر ابتہاج کو اپنی جانب کھینچا

جس پر ابتہاج منہ کھولیں آج ماہا کا بے باک انداز دیکھ رہا تھا

"ماہا چلو—تم نے ڈرنک کی ہوئی ہے طبعیت خراب ہو جائے گی—ماہا کے ہونٹوں کے اردگرد انگلی پھیرتے ہوئے گھمبیر لہجے میں کہا کیونکہ ماہا کو اس طرح سجے سنورے دیکھ کر ابتہاج گردیزی کو اپنا دل بے قابو ہوتا محسوس ہورہا تھا

"مجھے نہیں جانا گھر یہی رہنا ہے آپ کے ساتھ"—ماہا نے منہ بسور کر کہا تو ابتہاج نے خمار آلود نظروں سے اسے دیکھا

اور ماہا کی کمر میں بازو لپیٹ کر اسے خود میں بھینچا

"آپ مجھ سے پیار نہیں کرتے نا"اپنی مخروطی انگلیوں کو ابتہاج کے وجیہہ چہرے کے نقوش پر پھیرتے ہوئے شکوے بھرے لہجے میں کہا تو ابتہاج نے چونک کر ماہا کو دیکھا

"اور تمہیں کیوں لگا کہ میں پیار نہیں کرتا"—ابتہاج نے مسکراتے ہوئے حیرت سے استفسار کیا

"کیونکہ ہمارا بےبی نہیں ہے نا"مایوسی سے ابتہاج کے کالر پر انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا تو ابتہاج نے منہ کھولے ماہا کو دیکھا

"اور یہ کس نے بتایا ہے کہ بےبی پیار کرنے سے آتا ہے"ابتہاج نے پوچھ کر ہونٹ دانتوں تلے دبایا

"میری فرینڈ کا بےبی ہوا تھا نا تو اس نے بتایا کہ اسے پری دے کر گئی ہے—تو میں نے کہا مجھے کب دے گی—تو اس نے کہا جب تمہارا شوہر تمہیں پیار کریں گا—نشے میں ڈوبی آنکھیں ابتہاج کی گہری آنکھوں میں گاڑھ کر کہا تو ابتہاج کے دل نے بیٹ مس کی

"کتنے بےبی چاہئے میری جان کو" اپنا سر ماہا کے سر سے ٹکاتے—ماہا کی مدھم سانسوں میں گہری سانس بھرتے ہوئے بوجھل لہجے میں سرگوشی کی

تو ماہا نے اپنے دونوں ہاتھ کھول کر بچوں کی تعداد کا بتایا جس پر ابتہاج کا مدھم قہقہہ گونجا

ماہا کے ہونٹوں کو نرمی سے چھو کر پیچھے ہٹا اور ماہا کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں قید کر لیے

اور یہ نہیں بتایا فرینڈ نے کہ پیار کیسے کرنا ہے—ابتہاج نے آنکھیں چھوٹی کرکہ پوچھا تو ماہا نے جھٹ ہاں میں سر ہلایا

تو ابتہاج نے اپنی مسکراہٹ چھپائی

"کیسے"سوالیہ لہجے میں آبرو آچکا کر پوچھا تو ماہا نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھی

جس پر ابتہاج نے اپنے ہونٹوں کو ؤاو کی شیپ میں کیا

اور سمجھ کر اثبات میں سر ہلایا

"تو تمہیں یہ نہیں بتایا جسے بےبی چاہئے ہوتا ہے وہ خود پیار کرتا ہے—ابتہاج نے ماہا کے چہرے پر انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا تو ماہا نے حیرانگی سے دیکھا

"میں آپ کو پیار کروں گی تو آجائے گا بےبی" ماہا نے خوشی اور حیرت کی ملی جلی کیفیت میں کہا تو ابتہاج نے جھٹ اثبات میں سر ہلایا تو

ماہا نے اس کا چہرہ ہاتھوں میں بھرا جس پر ابتہاج کو حیرت ہوئی—اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ بچوں کے پیچھے اتنی پاگل ہے

ابھی وہ اپنے خیالات سے چونکتا کہ اپنے ہونٹوں پر نرم لمس محسوس ہوا

ماہا ابتہاج کے ہونٹوں کو چھوکر جیسے ہی پیچھے ہٹنے لگی ابتہاج نے اس کی کمر میں ہاتھ لپیٹ کر اسے خود میں بھینچ لیا

اور اپنے ہونٹ ماہا کے ہونٹوں پر رکھ کر گرفت سخت کر دی

جس پر ماہا نے ابتہاج کے کالر کو دونوں ہاتھوں میں دبوچ کر خود کر گرنے سے بچایا

ابتہاج کی شدت پر ماہا کو اپنی جان نکلتی محسوس ہوئی

جبکہ ابتہاج مدہوش سا ماہا کے نازک پنکھڑیوں جیسے گلابی بھرے بھرے ہونٹوں پر اپنے شدتیں نچھاور کر رہا تھا

ماہا کی سانسوں میں اپنی دہکتی سانسوں کو ---اور ماہا کی مدھم سلگتی سانسوں کو قطرہ قطرہ خود میں انڈیلتے سب کچھ فراموش کر بیٹھا تھا

ماہا کے بگڑے تنفس کو محسوس کر کہ ابتہاج نے نرمی سے اپنے ہونٹ ماہا کے ہونٹوں سے جدا کیا

جس پر ماہا نے گہرے گہرے سانس لیتے اپنا سر ابتہاج کے سینے سے ٹکا دیا –اپنی مخمور نظروں سے ماہا کے کپکپاتے وجود کو دیکھا اور اس کی پشت سہلائی

"پہلے خود تو بڑی ہوجاؤ—اتنی سی شدت پر یہ حال ہے— ابتہاج نے تاسف سے سر ہلاتے ہوئے کہا اور ماہا کا چہرہ اپنے سامنے کیا

اپنی شدتوں کی وجہ سے ماہا کی بکھری لپسٹک کو ہاتھ کے انگھوٹھے سے صاف کیا اور اس کے ماتھے پر اپنے لب رکھ کر اسے گاڑی میں بٹھایا

اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر آکر بیٹھا تو ماہا نے ابتہاج کے کندھے پر سر ٹکا کر آنکھیں موند لی جسے دیکھ ابتہاج کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی

--------------------

صنم بس میں بیٹھی تو اتنے دن کی تھکن کے باعث اس کی آنکھ کب لگی اسے اندازہ ہی نا ہوا

تبھی ایک عورت اس کے ساتھ آکر بیٹھی جبکہ عورت کے ساتھ موجود لڑکا آگے بیٹھ گیا

عورت نے اردگرد نگاہ دوڑا کر اندازہ لگانا چاہا کہ وہ اکیلی ہے یا کسی کے ساتھ جب یقین ہو گیا کہ وہ اکیلی ہے تو مسکراتے ہوئے آگے بیٹھے لڑکے کو دیکھا

اور جب کنڈکٹر پیسے لینے آیا تو اس نے صنم کا کرایہ بھی اپنی طرف سے دیا کہ اسے بھی لگے کہ وہ ان کے ساتھ ہے جس پر کنڈکٹر پیسے لے کر چلا گیا

تھوڑی دیر بعد بس ایک ویران سی جگہ پر رکی تو عورت نے ہڑبڑا کر صنم کو اٹھایا

لڑکی اترو سٹاپ آگیا

جس پر صنم ہڑبڑا کر اٹھی اور اردگرد کا جائزہ لیے بغیر جلدی سے نیچے اتری اور اس کے پیچھے ہی وہ عورت اور لڑکا بھی اترے

حواس اس قدر سلب تھے کہ اسے کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا اور اپنے سامنے انجان جگہ دیکھ صنم کو اپنی جان نکلتی محسوس ہوئی

اسے لگا شاید کنڈکٹر نے غلطی سے اتار دیا ہو

ابھی وہ پلٹتی کے بس کے چلنے کی آواز آئی

نہیں روکو مجھے جانا ہے—بس کے پیچھے بھاگتے ہوئے صنم نے کہا تو ان دونوں نے اس کی حالت پر قہقہہ لگایا

جو زمیں بوس ہو چکی تھی

اپنے پیچھے کسی کی موجودگی محسوس کر کہ صنم نے پلٹ کر دیکھا تو ایک عورت اور لڑکا اس کے پاس کھڑے بغور اسے دیکھ رہے تھے

"یہ کک—کونسی جگہ ہے—مجھے اپنے گھر جانا ہے—اپنی تکلیف بھلائے سسکتے ہوئے کہا تو انہوں نے قہقہہ لگایا

"گھر نہیں رانی اب تجھے اپنے محل میں لے کر جائے گے"لڑکے نے صنم کے بال مٹھی میں دبوچتے ہوئے کہا

جس پر صنم نے سسکتے ہوئے خود کو چھڑوانا چاہا

تبھی اس لڑکے نے ایک رومال صنم کے ناک پر رکھا جا کے باعث وہ کچھ دیر میں ہی حوش خرد سے بیگانہ ہو گئی

کہاں رہ گیا کام چور ابھی تک گاڑی نہیں لایا—اس عورت نے جھنجھلاتے ہوئے کہا

جبکہ اس لڑکے کی حوس ذدہ نظریں صنم کے دلکش وجود کا طواف کر رہی تھی

---------------

ماہا کو بانہوں میں اٹھائے جیسے ہی ابتہاج لاونج میں داخل ہوا تو کاشان گردیزی اور صبا گردیزی کی اس پر نظر گئی تو انہوں نے مسکراتے ہوئے اپنے بیٹے کو دیکھا

"لو بیگم یہاں ہم اپنے پوتے پوتیوں کا انتظار کر رہے ہیں---اور یہاں یہ بیگم کو ہی بچہ بنائے گھوم رہے ہیں"—کاشان میں نے ہستے ہوئے کہا تو صبا گردیزی بھی مسکرا دی

"آپ کہ بہو تو پہلے بڑی ہو جائیں پھر بچے بھی آجائیں گے" ابتہاج نے سر جھٹکتے ہوئے کہا تو صبا گردیزی نے مسکراہٹ چھپائی

"تمہیں کیوں چھوٹی لگتی ہے—اچھی بجلی جوان جہاں ہے"—کاشان گردیزی نے بیٹے کو چھیڑتے ہوئے کہا

تو ابتہاج نے ہونٹ بھینچ کر اپنی بانہوں میں سو رہی بیوی کو دیکھا

"وہ انہیں کیا بتاتا کہ اس کی بیوی کس کر کہ پریوں سے بچے مانگ رہی ہے"سر جھٹک کر کاشان گردیزی کو دیکھا جو مسکراتی نظروں سے اسے ہی دیکھ رہے تھے

"یہ بچپنا کیا کم کے کہ آپ کی بہو کو پانی اور ڈرنک مین فرق نہیں پتا"ابتہاج نے تاسف سے سر ہلاتے ہوئے کہا

تو کاشان گردیزی نے قہقہہ لگایا

"مجھے لگا شاید کچھ اور"

کاشان گردیزی کی بات پر صبا گردیزی نے گھور کر انہیں دیکھا

"تم جاؤ بیٹا تھک گئے ہوگے"—صباء بیگم نے ابتہاج کو دیکھ کر کہا تو اس نے اثبات میں سر ہلا کر قدم سیڑھیوں کی جانب بڑھائے

کمرے میں لا کر ماہا کو بیڈ پر لٹایا اور خود ڈریسنگ روم میں جا کر کپڑے چینج کیے

اور کبرڈ سے ماہا کے کپڑے نکال کر لایا

بیڈ پر ماہا کے قریب بیٹھ کر اس کے سراپے پر نگاہ دوڑائی

ہاتھ بڑھا کر سر پر لپیٹا حجاب اتارا

تو جسم کی رعنائیاں واضح ہونے لگی جس پر ابتہاج کو اپنے گلے میں کانٹے چبتے محسوس ہوئے

اپنی بے لگام ہوتی آنکھوں اور جزبات پر بندھ باندھ کر لائٹ آف کہ اور پھر بنا کسی ہچکچاہٹ کے ماہا کا ڈریس چینج کیا

سائیڈ لیمپ ان کر کہ ماہا کے قریب ہی نیم دراز ہو کر اسے بانہوں میں بھنچ لیا

جبکہ ہونٹوں پر ماہا کی باتیں سوچتے دلکش مسکراہٹ رقص کرنے لگی

-----------------

صنم کی آنکھ کھلی تو خود کو ایک خوبصورت سے کمرے میں پایا بیڈ کے اردگرد سفید جالی لگی ہوئی تھی

اپنے چکراتے سر کو سنبھال کر صنم نیچے اتری اور اردگرد نگاہ دوڑا کر جگہ کا جائزہ لینا چاہا

قدم دروازے کے پار سے آتی آوازوں کی جانب بڑھائے

جیسے ہی دروازا تھوڑا سا کھولا تو نظریں سامنے کھڑی لڑکیوں کے ہجوم پہ گئی

جو بیہودہ لباس پہنے سر جھکائے کھڑی تھی

جبکہ سامنے صوفے پر تین مرد اور ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی

یہ لڑکی ہمارے کوٹھے کی سب سے مشہور لڑکی ہے

مرد کو کیسے خوش کرنا ہے بہت اچھے سے جانتی ہے

ایک رات کے پچاس ہزار لیتی ہے

وہ آگے بھی کچھ کہہ رہی تھی مگر صنم کو اپنا وجود بے جان ہوتا محسوس ہوا

جلدی سے دروازا بند کر کہ اس سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی

آنسو تواتر سے بہتے چہرہ بھگو رہے تھے

اپنی بدقسمتی پر دھاڑیں مار مار کر رونے کا دل چاہ رہا تھا

ذلت کا راستہ اختیار کیا تھا تو اب ذلت ہی مقدر بن گئی تھی

جتنا بھاگنے کی کوشش کرتی تھی قسمت اسی ذلت کے پاس لا چھوڑتی تھی

اپنی بے بسی پر روتی وہ سسکنے لگی

-------------------

ابھی ابتہاج کو آنکھیں موندیں تھوڑی سی دیر ہوئی تھی کہ اپنے سینے پر ماہا کے ہاتھوں کا لمس محسوس کر کہ آنکھیں کھول کر اسے دیکھا

جو ابتہاج کو گدگدی کرنے کی کوشش کر رہی تھی

ہاتھ بڑھا کر لیمپ اون کیا تو ماہا نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر منہ بسورا

اور اٹھ کر بیٹھ گئی

"تم سو کیوں نہیں رہی"ابتہاج نے نے سنجیدہ لہجے میں کہا کیونکہ ماہا کی نیند کا خمار لیے سرخ آنکھیں اور بہکا بہکا لاپروا سا انداز ابتہاج کے دل میں ہلچل پیدا کر رہا تھا

"باج میرا کھیلنے کا دل کر رہا" ابتہاج کے نام کا قتل کرتے ہوئے کہا تو ابتہاج نے خونخوار نظروں سے ماہا کو گھورا

"نشے میں ہو تو اس کا یہ مطلب تھوڑی ہوا کہ شوہر کا نام بھول جاؤ گی"ماہا کو گھورتے ہوئے کہا تو ماہا نے معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے ابتہاج کو دیکھا

"باج—باج—باج—باج—باج---ماہا نے بیڈ پر اٹھ کر چھلانگیں لگاتے—ابتہاج کو چراتے ہوئے زور زور سے کہا

تو ابتہاج نے اسے بازو سے پکڑ کر کھینچا اور خود کو پیچھے کو نیم دراز ہوگیا

جس کے باعث ماہا—ابتہاج کے سینے پر گری

"اب بول کے دکھاؤ پھر بتاتا ہوں تمہیں"ابتہاج نے گھورتے ہوئے کہا تو ماہا نے رونی شکل بنا کر اسے دیکھا

جس پر ابتہاج نے کمر سے اپنی گرفت ہٹا کر اٹھ کر بیٹھا

"کیا کھیلنے کا دل کر رہا ہے تمہارا"ماہا کے بال کان کے پیچھے اڑستے ہوئے محبت سے چور لہجے میں کہا تو ماہا نے سوچنے کے انداز میں تھوڑی پر انگلی رکھی

جس پر ابتہاج نے مسکراتے ہوئے سر جھٹکا

"پری اور بے بی والی"ماہا نے کافی سوچنے کے بعد جواب دیا تو ابتہاج نے اس کی سوئی ایک ہی جگہ اٹکے دیکھ تاسف سے سر جھٹکا

"کوئی اور گیم نہیں کے کیا"ابتہاج نے جھنجھلاتے ہوئے کہا تو ماہا نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے کو دھکا دیتے ہوئے نفی میں سر ہلایا

"آپ پیاری سی پری بنو جو بے بی دے کر جاتی ہے"ابتہاج کے سینے پر انگلیاں پھیرتے ہوئے—خمار آلود نظریں ابتہاج کی آنکھوں میں گاڑھتے ہوئے سرگوشی کی تو ابتہاج کو اپنا دل کانوں میں دھڑکتا محسوس ہوا

"یا مجھ سے بہت سارا پیار کر لو کہ مجھے ایک ساتھ کافی بے بی مل جائے ہم پری کو نا بلائیں"--- ابتہاج کی ٹی شرٹ کو گریبان سے کھینچتے ہوئے کہا تو ابتہاج نے اپنے خشک پڑتے حلق کو تر کیا

"آج یہ لڑکی اسے مارنے کا ارادہ کیے بیٹھی تھیں—وہ تو نشے میں بہکی ہوئی تھی مگر ابتہاج گردیزی کو بن پیئے اپنی قربت سے بہکا رہی تھی

"ابتہاج کو کھوئے کھوئے محسوس کر کہ اور اپنی باتوں کے اگنور ہونے پر ماہا نے اپنے دانت ابتہاج کی ناک پر گاڑھ دیے جس پر درد سے بلبلا تے ہوئے ابتہاج نے ماہا کو پیچھے کیا

"اففف ماہا مجھے کھانے کا ارادہ ہے کیا"اپنی ناک کو پکڑتے ہوئے ابتہاج نے کہا

تو ماہا کھکھلا کر ہنس پر

اور ابتہاج کا ہاتھ ناک سے ہٹا کر اس کے قریب ہوئی

"میرا سچی میں دل کرتا ہے آپ کو کھا جاؤ—اپ کہ اس مغرور ناک کو—گال اور ان ہونٹوں کو—بہکے بہکے لہجے میں کہتی ابتہاج کے نقوش کو دیوانوں کی طرح چھو رہی تھی

جس پر ابتہاج کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوئی

"تو روکا کس نے ہے کھا لو" ابتہاج نے خمار آلود لہجے میں کھوئے ہوئے کہا تو

ماہا نے اپنا حلق تر کر کہ ابتہاج کے ہونٹوں کو دیکھا

انہیں اپنی مخروطی انگلیوں سے چھوا تو گدگدی سی محسوس ہوئی

اپنے ہونٹ ابتہاج کے قریب کیے تو ابتہاج نے اپنی آنکھیں موند لی

مگر اگلے ہی پل نیند سے جھلاتی ہوئی ماہا اس کے سینے پر گری تو ابتہاج نے گہری سانس بھر کر اسے دیکھا

اور نفی میں سر ہلاتے لائٹ آف کی اور ماہا کو خود میں بھینچ کر سونے کی کوشش کی

-------------------

بابا مجھے بتا رہی تھی—کہ تم اور ابتہاج بھائی رات لیٹ نائٹ گھر پہنچی— سمیر نے ہمیشہ کی طرح انگلش کی ٹانگ توڑتے ہوئے کہا تو ماہا پل میں سرخ ہوئی

وہ صبح سے اٹھ کر ابتہاج سے چھپتی پھر رہی تھی اپنی کارستانیاں یاد کر کہ ڈوب مرنے کا دل کر رہا تھا

"ہاں وہاں ان کے کچھ دوست مل گئے تو دیر ہوگئی" ماہا نے نرم لہجے میں کہا تو سمیر نے مسکرا کر اسے دیکھا

میں سن رہی تھی خالا سے کہ برو تمہیں اپنا بازو میں اٹھا کر لائی تھی

سمیر نے سنجیدہ لہجے میں کہا تو ماہا کے چہرے پر پل میں گلال بکھرا

نن—نہیں—مطلب شاید میں تو سو رہی تھی—ماہا نے ہڑبڑا کر جو منہ میں آیا بول دیا

تو سمیر کا قہقہہ گونجا

تم سرمانے کا کوشش کر رہی ہے نا—سمیر نے تنگ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہتے اس کی ٹوٹی پھوٹی اردو سن ماہا کا دل کیا اپنا سر دیوار میں مار کے

اس کی باتیں ایسی تھی کہ نا وہ شرما سکتی تھی نا غصے سے چلا سکتی تھی

اس لڑکی کو تیار کر کہ باہر لاؤ آج اس کا شاندار قیمت پر سودا کرنا ہے

چندہ بائی نے منہ میں پان ڈالتے ہوئے گہری نظروں سے صنم کا جائزہ لیتے ہوئے کہا

تو صنم نے تڑپ کر انہیں دیکھا

نن—نہیں میں کہی نہیں جاؤ گی – میرے ساتھ یہ ظلم نہیں کر سکتے تم لوگ—صنم نے چلا کر کہا تو چندہ بائی اس کی جانب آئی

"تیرے نخرے نہیں چلے گے یہاں—جانتی ہوں تم جیسے پاک باز لڑکیوں کو—جب عاشقوں کے ساتھ آدھی رات کو ماں باپ کے منہ پر کالک مل کر گھر سے بھاگتی ہو—تب عزت یاد نہیں آتی – اور اب دیکھو ڈرامے ذرا—صنم کے چہرے پر بے دریغ نا جانے کتنے ہی تھپڑ مارتے ہوئے چلا کر کہا

اور صنم کو نیچے زمین پر دھکا دے کر اس پر ٹھوکروں کی بارش کر دی

جبکہ صنم اپنے بے جان ہوتے وجود کے ساتھ خود کو بچانے کی سہی کرتی رہی

اب اگر ڈرامہ کیا نا تو بیچنے کی بجائے—ویسے ہی ان درندوں کے آگے پھینک دوں گی—جو عزت کے ساتھ تیری بوٹی بھی نوچ نوچ کھا جائے گے

صنم کے پیٹ میں ٹھوکر مارتے ہوئے چلا کر کہا

اور ساتھ کھڑی لڑکی کو اسے تیار کرنے کا اشارہ کر کہ باہر چلی گئی

جبکہ وہ لڑکی چندہ بائی کے باہر جانے کے فوراً بعد صنم کی طرف بڑھی

اور اپنے دوپٹے سے صنم کے منہ سے بہتے خون کو صاف کرنے لگی

اب اس دلدل سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے—تو چپ چاپ وہ ہونے دو جو ہو رہا ہے – واپسی تو ممکن نہیں مگر دعا کر لو شاید قبول ہو ہی جائے"—صنم کو سہارا دے کر بٹھاتے ہوئے کہا تو صنم نے سسکتے ہوئے اپنے پھٹے ہوئے ہونٹ کو ہاتھ سے چھوا

آنسو لڑیوں کی صورت میں چہرے پر بہنے لگے

کبھی اس کی ماں نے اسے ڈانٹا تک نہیں تھا اور آج اپنے گناہوں کی وجہ سے وہ لوگوں کی ٹھوکروں پر آگئی تھی

جس عزت کو اپنے پاؤں تلے روند کر بھاگی تھی

اب اسی عزت کی حفاظت کے لیے گرگرا رہی تھی

جبکہ اس لڑکی نے بنا صنم کی درد کہ پرواہ کیے اسے واشروم میں دھکیلا

اور جلدی باہر آنے کا کہا

ابتہاج اور ماہا اپنے ہنی مون کے لیے ناران آئے ہوئے تھے

کیونکہ یہ جگہ ماہا کو بہت پسند تھی

ابتہاج کا ارادہ تو آؤٹ آف کنٹری جانے کا تھا

مگر جب اسے پتہ چلا کہ یہ جگہ ماہا کو پسند ہے تو اس نے بنا کسی اعتراض کے یہاں آنے کی حامی بھر لی

اپنا سامان روم میں رکھ کر ابتہاج نے ماہا کی تلاش میں نگاہیں دوڑائی تو ماہا ابتہاج کو

ٹیرس پر کھڑی نظر آئی

ماہا کی خوشی کا اندازہ اس کی آنکھوں کی چمک سے لگایا جا سکتا تھا

ابتہاج نے فریش ہونے کا ارادہ ترک کر کہ قدم ماہا کی جانب بڑھائے

جو اپنے بازو کھولے تازہ ہوا میں سانسیں لے رہی تھی

دبے قدموں سے چلتا وہ ماہا کے قریب آیا

ماہا کو اس قدر مگن دیکھ ابتہاج کے شرفنگی لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئی

اور نرمی سے ماہا کو اپنے حصار میں لے کر اپنی تھوڑی ماہا کے کندھے پر ٹکا دی

جبکہ ماہا اس اچانک افتاد پر بھونچکا رہ گئی

"ابت—ہاج—کک—کیا کک-کر رہے ہیں"—ماہا نے سٹںپٹا کر ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں کہا تو

ابتہاج نے اپنے دانتوں تلے ماہا کے کان کی لو کو زور سے دبا یا

جس پر ماہا نے سسک کر اپنی آنکھیں زور سے میچ لیں

جبکہ ابتہاج کی جان لیوا قربت پر ماہا کو اپنے رگ و پے میں سرد لہریں سرائیت کرتی محسوس ہوئی

"اپنے ہنی مون کا آغاز"—بوجھل گھمبیر لہجے میں سرگوشی کر کہ بنا ماہا کو سمجھنے کا موقع دیے اس کی کمر پر اپنی گرفت سخت کر کہ ماہا کا رخ اپنی جانب کیا

اور پوری شدت سے ماہا کے ہونٹوں پر جھک آیا

ایک ہاتھ ماہا کے بالوں میں الجھا کر جبکہ دوسرا ہاتھ ماہا کی کمر پر لپیٹ کر اسے خود میں بھینچ لیا

قطرہ قطرہ ماہا کی سانسوں کو شدت سے خود میں انڈیلتے ابتہاج گردیزی بہکنے لگا

اپنی بانہوں میں نرم و نازک خوشبوؤں میں بسے وجود کو محسوس کر کہ ابتہاج گردیزی اردگرد کو فراموش کر بیٹھا تھا

جبکہ ابتہاج کی شدت پر ماہا کو اپنی ٹانگوں سے جان نکلتی محسوس ہوئی

کپکپاتے ہاتھوں سے ابتہاج کی جیکٹ کو اپنی مٹھیوں میں دبوچا

جبکہ اپنے ہونٹوں پر ابتہاج کے آگ کی مانند دہکتے لمس کو محسوس کر کہ

ماہا کو اپنے پورے وجود میں کپکپی طاری ہوتی محسوس ہوئی

جبکہ ابتہاج مدہوش سا ماہا کی سانسوں کی خوشبو کو اپنے سینے میں اتار رہا تھا

ماہا کی اکھڑتی سانسوں کو محسوس کر کہ ابتہاج نے نرمی سے اپنے ہونٹ ماہا کے ہونٹوں سے جدا کیے

اور اپنا سر ماہا کے سر سے ٹکا دیا

ماحول میں چھائی معنی خیز خاموشی میں دونوں کی دھونکنی کی مانند چلتی سانسوں کا شور برپا تھا

ابتہاج نے اپنی خمار آلود نظروں سے ماہا کے خون چھلکاتے چہرے کو دیکھا

نظریں بھٹکتی ہوئی ماہا کے نم ہونٹوں پر آن ٹھہری ابھی ابتہاج پھر سے جھکتا کہ ماہا کسمکسا کر ابتہاج کے حصار سے نکلی

اپنی اتھل پتھل ہوئی سانسوں پر با مشکل قابو پایا

جبکہ نظریں ابھی بھی شرم سے جھکی ہوئی تھیں

"مم—میں چینج کر لو – پھر ہم نے باہر بھی جانا ہے نا" نظریں جھکائے کپکپاتے لہجے میں کہا اور پھر ابتہاج کا جواب سنے بغیر کمرے کی طرف دوڑ لگائی

جبکہ ماہا کی سپیڈ پر ابتہاج کا دلکش قہقہہ گونجا

مال کہا ہے ابھی تک آیا نہیں – تم جانتی ہو نا چندہ بائی کہ مجھے انتظار کرنے کا شوق نہیں – صالح خان نے سرد لہجے میں کہا تو چندہ بائی گڑبڑا گئی

نن—نہیں مال بس تیار ہے—اور اس قدر شاندار ہے کہ

آپ دیکھتے رہ جائے گے – اور آپ ہی اس کے پہلے گاہک ہے"—چندہ بائی نے خباثت سے آنکھیں دبا کر کہا

تو صالح خان نے ہنکارہ بھرا

کہ تبھی وہی لڑکی—پور پور سجی صنم کو زبردستی کھینچتے ہوئے باہر لائی

تو اس قدر حسن دیکھ کر تو ایک پل کو صالح خان بھی ساکت رہ گیا

گلابی رنگ کے لہنگہ چولی میں زیوارات سے پور پور سجی

وہ کوئی حور ہی لگ رہی تھی

جبکہ لمبے گھنے بالوں کو ہلکا سا کرل کر کہ کمر پر کھلا چھوڑ دیا گیا تھا

صالح خان نے اپنی خشک پڑتے حلق کو تر کر کہ نظریں پھریں جو بار بار صنم کے دلکش سراپے پر جا کر اٹک رہی تھیں

روئی روئی سرخ آنکھیں جبکہ ناک بھی رونے کی وجہ سے لال ہو رہی تھی

یہ لے صاحب آپ کا مال—چندہ بائی نے صنم کی کلائی پکڑ کر اسے صالح کی طرف دھکا دیتے ہوئے کہا

تو صنم لڑکھڑا کر صالح خان کے سینے پر گری

جبکہ اس افتاد پر صالح خان بھی حق دھک سا رہ گیا

اپنے سینے پر نرم روئی جیسے لمس کو محسوس کر کہ دل میں ہلچل سی محسوس ہوئی

نظریں سیدھا بھیگی آنکھوں سے ٹکرائی جو آنکھوں میں التجا لیے بے بسی سے صالح خان کو دیکھ رہی تھی

"ہم پہلے کچھ وقت اس لڑکی کے ساتھ گزارنا چاہے گے پھر فیصلہ کرے گے—صنم کی کمر میں اپنا بازو لپیٹتے ہوئے کہا

تو چندہ بائی نے قہقہہ لگایا

"بالکل نیا مال ہے—ان چھوئی کلی—آپ کو ض—ابھی چندہ بائی کچھ اور کہتی کہ صالح خان نے گھور کر اسے دیکھا

اور بنا صنم کے احتجاج کی پرواہ کیے اسے لیے کمرے کی جانب بڑھا

کمرے میں لا کر صنم کو بیڈ پر دھکا دیا اور دروازا بند کیا

یہ کمرہ چندہ بائی کا تھا

اور یہاں پھل کی ٹوکری میں چھڑی دیکھ صنم کی آنکھیں چمکی

اور وہ ایک دم سے بیڈ سے اتر کر ٹوکری کی جانب بڑھی

صالح خان جو اپنی پیشانی مسلتے کسی گہری سوچ میں مبتلا تھا

صنم کی حرکت پر چونکا—صنم کو اپنی کلائی پر چھری رکھے دیکھ ایک ہی جست میں اس تک پہنچا

اور صنم کے ہاتھ سے چھری پکڑ کر دور پھینکی اور ایک تھپڑ صنم کے چہرے پر رسید کیا

"یہ کیا حرکت تھی"—دھاڑتے ہوئے کہا تو صنم نے صالح خان کی گرفت میں تڑپتے ہوئے خود کو چھڑوانا چاہا

"مرنے دو ہمیں – کیونکہ یہ غلیظ کام ہم نہیں کرے گے"—صنم کے چلا کر کہنے پر صالح خان نے جبڑے بھنچ کر اسے دیکھا

اور ایک سوچ پر پہنچ کر قدم باہر کی جانب بڑھائے

"مجھے بھوک لگ رہی ہے ابتہاج"—ماہا اور ابتہاج باہر گھومنے ائے ہوئے تھے

ماہا نے شارٹ ریڈ فراک جس کے ساتھ بلیک نیٹ کا دوپٹہ گلے میں لیے اور سر پر بلیک ہی کلر کا حجاب کیے—ہونٹوں پر لائٹ سا پنک گلوز لگائے—اور سردی سے بچنے کے لیے بلیک ہی جیکٹ پہنے وہ بے حد دلکش لگ رہی تھی

جبکہ ابتہاج بلیک پینٹ کے ساتھ وائٹ شرٹ پہنے اور بلیک ہی جیکٹ پہنے اپنی چھا جانے والی شخصیت کے ساتھ بہت وجیہہ لگ رہا تھا

اور اب رات کے نو بج رہے تھے تو ماہا نے بھوک سے بے حال ہوتے منہ بسور کر ابتہاج سے کہا تو ابتہاج کو ٹوٹ کر ماہا ہر پیار آیا

ماہا کو اپنے حصار میں لے کر نرمی سے اپنے لب ماہا کے ماتھے کر رکھے

تو سر عام اس حرکت پر ماہا نے سٹپٹا کر ابتہاج کا حصار توڑ کر اردگرد نگاہ دوڑائی کسی کو اپنی جانب متوجہ نا پا کر سکون کی سانس خارج کی اور خفگی بھری نظروں سے ابتہاج کو دیکھا

جو مسکراتی نظروں سے ماہا کو ہی دیکھ رہا تھا

"آج تم اتنی خوبصورت لگ رہی ہو کہ میرا دل کر رہا ہے کہ تمہیں تفصیل سے بتاؤں کہ پریاں بچے کیسے دینے آتی ہیں"—ماہا جو ابتہاج کی بات کو بہت غور سے سن رہی تھی

ابتہاج کے زومعنی لہجے میں کی گئی بات پر بری طرح سے سٹپٹاگئی

جس پر ابتہاج نے اپنے دانتوں تلے لب دبا کر مسکراہٹ روکی

"مجھے تنگ مت کریں"—ماہا نے نظریں جھکا کر منمناتے ہوئے مدھم لہجے میں کہا تو ابتہاج نے استحقاق بھری نظروں سے ماہا کو دیکھا

"میں نے کب تنگ کیا" ابتہاج نے مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے کہا تو ماہا نے خفگی بھری نظروں سے ابتہاج کو دیکھا

ماہا کے دیکھنے پر ماہا کا ہاتھ تھام کر قدم کسی ریسٹورنٹ کی جانب بڑھائے

وہ دونوں ایک دوسرے کی سنگت میں خوبصورت پل گزار رہے تھے

کھانا کھاتے ہوئے ابتہاج کی بے باک نگاہوں اور معنی خیز باتوں سے ماہا کا چہرہ سرخ پڑتا جا رہا تھا

کبھی وہ ہمت کر کہ اسے گھورنے کی کوشش کرتی مگر ابتہاج کی بے باک نظروں میں دیکھ پانا ماہا کے بس سے باہر تھا

اسی لیے نظریں اپنی پلیٹ پر جھکائے کھانا کھانے لگی

کہ

تبھی ٹیبل کے نیچے سے اپنے ہاتھ پر ابتہاج کے ہاتھ کا لمس محسوس کر کہ ماہا کو پھندا لگ گیا

"ہے—آرام سے کھاؤ یار"—ماہا کہ پیٹھ سہلاتے ہوئے ابتہاج نے فکرمندی سے کہا

مگر ابتہاج کے مضبوط ہاتھوں کا لمس اپنی کمر پر محسوس کر کہ ماہا کے چہرے پر پل میں گلال بکھرا

ابتہاج نے جیسے ہی گلاس رکھتے بے ساختہ سامنے نظر اٹھائی تو چند پل کے لیے ساکت ہوگیا

ماضی کے کچھ حسیں اور دردناک لمحے آنکھوں کے پردے پر لہرا گئے

ابتہاج کی محویت اپنے چہرے پر محسوس کر کہ سامنے والے نے بھی اس طرف دیکھا تو حیرت کا جھٹکا تو اسے بھی لگا

مگر اپنے ہونٹوں پر دلکش مسکراہٹ سجا کر اپنے ساتھ موجود کی شخص کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر وہ ابتہاج کی جانب آنے لگے

ابتہاج کا ارادہ وہاں سے اٹھنے کا تھا مگر اس سے پہلے ہی وہ ٹیبل تک آگئی تھی

اور بنا اجازت لیے کرسی گھسیٹ کر اس پر بیٹھ گئی

جبکہ اس کے دیکھا دیکھی

ساتھ موجود شخص بھی بیٹھ گیا

جبکہ ماہا حیرت سے منہ کھولے سامنے بیٹھی حسین لڑکی اور لڑکے کو دیکھ رہی تھی

جبکہ ابتہاج اپنی مٹھیاں بھینچے سخت نظروں سے سامنے موجود ہستیوں کو دیکھ رہا تھا

"ہائے کیسے ہو ابتہاج – کافی ٹائم بعد دکھے ہو"لڑکی نے بے باکی سے اپنے دونوں ہاتھ ٹیبل پر رکھ کر ایک ادا سے پوچھا تو ماہا کو انجانی سی جلن محسوس ہوئی

"میں بالکل ٹھیک ہوں—منافقوں اور دھوکے بازوں سے دور بہت خوش"—ابتہاج نے دبے دبے لہجے میں غرا کر کہا

اور ماہا کا ہاتھ تھام کر اسے کرسی سے اٹھا کر اپنے حصار میں لیا

والٹ کھول کر پیسے نکال کر رکھے اور قدم باہر کی جانب بڑھائے

"تو تمہیں مل ہی گئی اپنے سوکالڈ سوچ سے ملتی لڑکی"اپنی پشت سے طنزیہ آواز سن کر ابتہاج نے جبڑے بھنچے

جبکہ آنکھیں ضبط کرنے کے چکر میں پل میں سرخ انگارا ہوئی

"اس سوکالڈ کا مطلب میری ڈکشنری میں—معصوم شریف اور عزت دار—اور سب سے بڑھ کر وفادار ہے" بنا پلٹے سپاٹ لہجے میں کہہ کر پیچھے موجود وجود کو انگاروں پر لوٹتا چھوڑ

تیز تیز قدم لیتا ماہا کو تھامیں گاڑی تک آیا

ماہا کو ہوٹل کے باہر چھوڑ کر خود نا جانے کہا چلا گیا

جبکہ ماہا ابھی بھی اس صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی

تھکے تھکے قدموں سے ہوٹل میں داخل ہو کر اردگرد نگاہ دوڑائی

کچھ دیر پہلے سب کتنا اچھا لگ رہا تھا

اور اب—گہری سانس فضا کے سپر د کر کہ قدم روم کی جانب بڑھائے

صالح روتی دھوتی صنم کو اپنے فلیٹ میں لے آیا تھا

چندہ بائی کو پچاس لاکھ دے کر وہ صنم کو لے تو آیا تھا

مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ آگے کیا کرنا ہے

یہ سب غیر ارادی طور پر ہوا تھا

وہ خود بھی اپنی کیفیت سمجھنے سے قاصر تھا

صنم کو اپنے روم میں بند کر کہ باہر لاؤنج میں صوفے پر سر گرا کر بیٹھ گیا

وقت گزرنے کا احساس ہوا تو صالح خان نے گھڑی پر نگاہ دوڑائی

جو رات کے ایک بجنے کا بتا رہی تھی

بیٹھ بیٹھ کر کمر بھی اکڑ چکی تھی

اپنی جگہ سے کھڑے ہو کر بند دروازے کو دیکھا

جس سے ابھی بھی دبی دبی سسکیوں کی آواز آرہی تھی

سر جھٹک کر کچن کا رخ کیا اور وہاں کھانا ٹرے میں نکال کر کمرے کا رخ کیا

چابی لگا کر دروازا ان لاک کیا

اند موجود صنم جو اب رو رو کر تھک چکی تھی

زمین پر بیٹھی پشت بیڈ سے ٹکائے غیر مری نقطے پر نظریں جمائے بیٹھی تھی

لاک کھلنے کی آواز پر چونکی

اور ایک دم سے اپنی جگہ سے کھڑی ہو کر اردگرد نگاہ دوڑائی

تو نظروں کے سامنے واس آیا

جلدی سے واس کو تھام کر دروازے کی آڑ میں ہوگئی

صالح خان جیسے ہی اندر داخل ہوا تو

تو سامنے موجود ڈریسنگ ٹیبل پر دروازے کے پیچھے کی صورتحال دیکھ ہونٹوں پر دلکش مسکراہٹ رینگ گئی جسے اپنے دانتوں تلے لب دبا کر روکا

ٹرے تو وہ باہر ٹیبل پر رکھ آیا تھا

کیونکہ اسے اس صورتحال کی توقع تھی

وہ جیسے ہی چند قدم آگے آیا تو صنم نے اس پر وار کرنا چاہا

جس پر صالح نے جھک کر اسے ناکام بنایا

اور اپنا بازو صنم کی کمر میں لپیٹ کر اس اپنے حصار میں قید کیا

جبکہ واس صنم کے ہاتھوں سے ٹوٹ کر زمین بوس ہو چکا تھا

اور صنم پھٹی پھٹی نگاہوں سے صالح خان کے سنجیدہ چہرے کو دیکھ رہی تھی

جس کے چہرے کے تو تاثرات سنجیدہ تھے مگر آنکھیں شرارت سے مسکرا رہی تھیں

"چھوڑو ہمیں—میں قتل کر دوں گی تمہارا گھٹیاں انسان"—بن پانی کی مچھلی کی طرح صنم نے تڑپتے ہوئے صالح خان کا حصار توڑ نے کی کوشش کرتے ہوئے چلا کر کہا تو صالح خان نے خونخوار نظروں سے اسے گھورا

"بکواس بند کرو اپنی –ورنی گدی سے زبان کھینچ لوں گا—اور میرے سامنے یہ ناٹک کرنے کی ضرورت نہیں – جس کام کے لیے لایا ہوں وہ انجام دے لو—پھر چھوڑ دوں گا—مگر اس سے پہلے تمہیں صالح خان کی پکڑ سے کوئی نہیں نکال سکتا"اپنی بانہوں میں مچلتی ہوئی صنم کے بالوں کو مٹھی میں بھر کر اس کے چہرے کر اپنے گرم سانسوں کو چھوڑتے دبے دبے لہجے میں غرا کر کہا

تو صنم کے مزاحمت کرتے ہاتھ ایک سے ساکت ہوئے

آنسو لڑیوں کی صورت میں بہتے ہوئے سفید روئی جیسے گال کو بھگوتے چلے گئے

جبکہ صالح خان نے اپنی آہنی گرفت میں صنم کا بازو دبوچ کر بیڈ کا رخ کیا

اور صنم کو بیڈ پر دھکا دیا جس کے باعث صنم اوندھے میں بیڈ پر گری

جبکہ صالح خان سپاٹ تاثرات چہرے پر سجائے اپنی شرٹ کے بٹن کھولنے لگا

"پل—پلیز مم—میں ہاتھ جوڑتی ہوں – میرے ساتھ یہ ظلم مت کرو"روتے ہوئے بے بسی سے گھٹی گھٹی آواز میں التجا کی تو صالح خان نے طنزیہ نظروں سے سر تا پیر صنم کے دلکش وجود کو اپنی بے باک نگاہوں سے دیکھا

جس پر صنم کا دل کیا زمین پھٹے اور وہ اس میں سماں جائے

"ظلم تو تم کر رہی ہو—یوں دور رہنے کی باتیں کر کہ"اپنی ہاتھ کی پشت کو صنم کے پاؤں پر پھیرتے ہوئے

گھمبیر لہجے میں کہا تو صنم کو اس لمس سے کراہیت محسوس ہوئی

ایک جھٹکے میں اپنے پاؤں سمیٹ کر خود کو پیچھے کو گھسیٹنے لگی

کہ صالح خان نے ایک ہی جست میں صنم کے پاؤں کو کھینچ کر دوبارا اپنی طرف کھینچا

اور اپنے ہاتھ صنم کے اطراف میں رکھ دیے

جبکہ صنم ہرنی کی مانند ڈری آنکھوں سے صالح خان کو دیکھ رہی تھی

"آپ کو خدا کا واسطہ میرے ساتھ ایسا نا کریں—مجھے ناپاک مت کریں"—پھوٹ پھوٹ کر روتی وہ اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا گئی

جبکہ صالح خان سنجیدہ نظروں سے صنم کے ہچکولے بھرتے وجود کو دیکھ رہا تھا

اپنی ہاتھ کو صنم کے کندھے پر رکھ کر اس سہلانا شروع کیا تو صنم نے بدک کر پیچھے ہونا چاہا جسے صالح خان نے ناکام بنا دیا

"اگر اب تم نے مزاحمت کی تو تمہارا جو حشر کرو گا ساری عمر نہیں بھولو گی"صالح خان کی دھاڑ پر صنم کو اپنی سانس روکتی محسوس ہوئی

جبکہ صالح خان کو خود پر جھکتے دیکھ صنم نے زور سے آنکھیں میچ لیں

"مم—را- --نن—نکاح—ہوا—ہے—مجھے—چچ—چھوڑ دیجیئے—ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں اپنی بات کہہ کر وہ سسک پڑی جبکہ صنم کی بات پر صالح خان نے بغور اس کا چہرہ دیکھا

ابھی وہ کچھ کہتا کہ صنم اپنے ہوش و حواس کھو کر بیڈ پر گر پڑی

تو صالح خان نے گہری سانس بھر کر اس کیمے رعنائیاں عیاں کرتے وجود کو دیکھا

صنم کو بانہوں میں بھر کر بیڈ پر لٹا کر اس پر کمفرٹر اوڑھ آیا

اور اس کے قریب بیٹھ کر اس کے چہرے کو دیکھنے لگا

جھیل سی آنکھیں اس وقت بند تھی—چہرے پر آنسو ابھی بھی بہہ رہے تھے جسے صالح خان نے اپنے پوروں سے صاف کیا

بھرے بھرے ہونٹوں پر لگی لپ اسٹک کو ہاتھ سے رگڑ کر صاف کیا گیا تھا

صالح خان بے خود سے ناجانے کتنی دیر سے اسے دیکھنے میں محو تھا

موبائل پر ہوتی تیز رینگ پر وہ ہوش میں آیا اور صنم کے قریب سے اٹھ کر قدم باہر کی جانب بڑھائے

دروازے پر رک کر ایک نظر صنم کے وجود کو دیکھا

اور لائٹ بند کر کہ باہر لاؤنج میں آیا

دماغ میں ابھی بھی صنم کی باتیں گونج رہی تھیں

سر جھٹک۔کر کال اٹینڈ کیا

رات کے دو بجے ابتہاج نے کمرے میں قدم رکھے تو نظریں بیڈ پر بے ترتیبی سے سو رہی ماہا پر گئی

ابتہاج نے قدم واشروم کی جانب بڑھائے اور بیڈ پر آکر لیٹ گیا

وہ ڈرنک کر کہ آیا تھا اور چاہتا تھا کہ ماہا سے اس وقت کوئی بات نا ہو

اسی لیے ماہا کو تنگ کیے بغیر کمفرٹر کے کر آنکھیں موند لیں

ماہا جو گہری نیند میں تھی

اپنے خواب میں اس لڑکی کو ابتہاج کے ساتھ ڈانس کرتے دیکھ

سر تا پیر الگ اٹھی اور اپنے قریب لیٹے ابتہاج کو گل سمجھ کر بالوں سے پکڑ لیا

جبکہ ابتہاج اس اچانک افتاد پر بھونچکا رہ گیا

نظریں گھما کر اپنے دائیں جانب دیکھا جہاں ماہا نیند میں چہرے پر خونخوار تاثرات لیے

کچھ بڑبڑانے میں مصروف تھی

"میں چھوڑوں گی نہیں تمہیں—بتمیز چڑیل گندی لڑکی – سائن کہی کی"ماہا کے چلا کر کہنے پر ابتہاج نے خونخوار نظروں سے اسے گھورا

اور ایک جھٹکے میں ماہا کو اٹھا کر بٹھایا

جبکہ ماہا حق دق سی اپنے سامنے سرد تاثرات لیے ابتہاج کو دیکھ کر حیران رہ گئی

"پاگل ہو کیا—جو نیند میں جنگلی پن دکھا رہی ہو" ابتہاج سرد لہجے میں غرایا تو ماہا نے اپنی آنکھیں زور سے میچ لیں

"اور گالیاں بھی دینی آتی ہیں—میں تو بہت معصوم سمجھ رہا تھا تمہیں"ماہا کے بازؤں کو اپنی آہنی گرفت میں لے کر خود کے قریب کرتے کہا تو

ماہا نے معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے ابتہاج کو دیکھا

"وہ مجھے لگا کہ—وہ لڑکی آپ کے ساتھ ہے"ماہا نے معصومیت سے مجرم کہ طرح سر جھکائے کہا تو کچھ دیر تو ابتہاج اس کا جھکا سر دیکھتا رہا

اور پھر ماہا کو سب کچھ بتانے کا فیصلہ کیا

ابتہاج کی خاموشی پر ماہا نے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا

جو خاموش نظروں سے ماہا کو ہی دیکھ رہا تھا

جس سے ماہا کو عجیب بے چینی سی ہوئی—ابتہاج کی نظروں سے بچنے کے لیے

نظریں گھما کر گھڑی کو دیکھا

تو رات کے دو بج رہے تھے

وہ ناجانے کتنی دیر سے ابتہاج کا انتظار کرتی کرتی نیند کی وادیوں میں گم ہوگئی تھی

اور اب ابتہاج کو خود کے اتنے قریب دیکھ

اتنی سردی کے باوجود بھی ماہا کا جسم پسینے میں نہا گیا

ابھی وہ اٹھتی کہ ابتہاج کی بات پر اس کا وجود ساکت ہوگیا

"تمہیں پتہ ہے بہت محبت کرتا تھا میں گل سے—اسے کسی کے ساتھ دیکھ نہیں سکتا تھا—مگر اس نے—اس نے مجھے چھوڑ دیا—اسے میری سوچ ٹیپیکل لگتی تھی –میرے ہی دوست سے افئیر چلا کر –میری پیٹھ پر وار کیا—دونوں نے مجھے دھوکا دیا"—نم لہجے میں کہتا آخر میں ابتہاج دھاڑا تو ماہا نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے ابتہاج کو دیکھا

جو خون چھلکاتی آنکھوں سے ماہا کو دیکھ رہا تھا

"پھر تم ائی—اور مجھے تم سے محبت ہوگئی—اب تم کہی نا جانا—گل کی طرح مجھے مت چھوڑنا"—ابتہاج کی باتیں ماہا کے دل کو چیرتی جا رہی تھی

اسے لگ رہا تھا کہ کسی نے پگھلتا ہوا سیسہ اس کے کانوں میں انڈیل دیا ہو

ایک ہی جھٹکے میں ابتہاج کو خود سے پڑے دھکیل کر بیڈ سے اتر کھڑی ہوئی

نم آنکھوں سے سامنے دیوار کو دیکھتی وہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی کوشش کر رہی تھی

کہ تبھی اپنی کمر سے رینگتی ہوئی ابتہاج کی انگلیاں اپنے پیٹ پر محسوس کر کہ ایک دم سے ساکت ہوئی

"آئی نیڈ یو ماہا—پلیز مجھے سمیٹ لو –میں نہیں سہہ پا رہا—بہت تھک چکا ہوں—یہ تھکن اتارنے دو"—ماہا کی گردن سے بال ہٹا کر وہاں اپنا دہکتا ہوا لمس چھوڑتے بوجھل گھمبیر لہجے میں سرگوشی کی تو ماہا نے کرب سے آنکھیں میچ لیں

وہ خود کو کتنا خوش قسمت محسوس کر رہی تھی

کہ اس کے شوہر کے دل میں صرف وہی ہے—مگر کتنی جلدی یہ خواب ٹوٹ چکا تھا—اس کا شوہر نشے مں میں چور اپنی پہلی محبت کا غم ہلکا کر رہا تھا – اسے بھلانے کے لیے ماہا کی قربت مانگ رہا تھا "—ابھی وہ انہیں خیالوں میں گم تھی کہ اپنی شرٹ کی زپ کر ابتہاج کی انگلیوں کا لمس محسوس کر کہ کانپ گئی

"نن—نہیں ابتہاج پلیز نہیں "—رخ موڑ کر ابتہاج کو روکنا چاہا

تو ابتہاج نے اپنی سرخ ہوتی آنکھوں سے ماہا کو دیکھا

ابتہاج کی آنکھوں میں آگ سی تپش دیکھ ماہا کا رواں رواں کانپ گیا

"بیوی ہو میری—جب چاہے—جیسے چاہے تمہاری مرضی کے بغیر اپنا حق وصول کر سکتا ہوں "—ماہا کے بالوں کو مٹھی میں دبوچتے ہوئے غرا کر کہا

تو اپنے چہرے پر ابتہاج کی آگ کی مانند دہکتی سانسوں کی تپش محسوس کر کہ ماہا کے قدم لڑکھڑا گئے

اپنے ہاتھوں میں ابتہاج کی شرٹ دبوچ کر خود کو گرنے سے بچایا

جب کہ ابتہاج اپنی سرد آنکھوں سے کچھ پل تو ماہا کو گھورتا رہا

اور پھر شدت سے اس کے ہونٹوں پر جھک آیا

شدت سے اپنی سانسیں ماہا کی سانسوں سے الجھا کر اسے پل میں بے بس کر گیا

جبکہ ماہا اپنے ہونٹوں پر لمحہ بہ لمحہ بڑھتی شدت پر کپکپا گئی

جبکہ ابتہاج آج سب کچھ بھلائے ماہا کی روح میں اتر جانا چاہتا تھا

اپنے منہ میں خون کا ذائقہ محسوس کر کہ ابتہاج نے اپنے ہونٹ ماہا کے ہونٹوں سے جدا کیے

اور بنا ماہا کو سنبھلنے کا موقع دیا اسے بیڈ پر دھکا دے کر اپنی شرٹ اتارنی شروع کی

جبکہ ماہا سرد چہرہ لیے اپنی اتھل پتھل ہوئی سانسوں کو سنبھالنے کی کوشش میں ہلکان ہو رہی تھی

مگر جب نظریں ابتہاج کے شرٹ لیس سینے پر پڑی تو ماہا کی سانسیں سینے میں تک گئی

جبکہ ابتہاج خمار آلود نظروں سے ماہا کے سراپے کو دیکھتے اس پر جھکنے لگا

"آج میں چاہتا ہوں کہ میں تمہارے وجود کی گہرائیوں میں اتر کر ساری دنیا کو بھول جاؤ –یہ بھی بھول جاؤ کہ میں کون ہوں –میں صرف اور صرف تمہیں محسوس کرنا چاہتا ہوں—اپنی سانسوں سے بھی زیادہ قریب تمہیں خود میں بسانا چاہتا ہوں"بوجھل گھمبیر لہجے میں سرگوشی کرتے اپنا چہرہ ماہا کی گردن میں چھپا کر

ماہا کی دونوں کلائیوں کو اپنی آہنی گرفت میں لے کر بیڈ سے ٹکا دیا

جبکہ ابتہاج کی جان لیوا قربت میں ماہا تڑپ کر رہ گئی

نم آنکھوں سے خود پر جھکے ابتہاج کو دیکھا

جو بے خود سا ہوا ماہا کی بیوٹی بون پر اپنا دہکتا لمس چھوڑ رہا تھا

اپنی گردن پر جابجا ابتہاج کے ہونٹوں کا لمس محسوس کر کہ

ماہا نے اپنی مٹھیاں بھینچ لی

کہ تبھی ابتہاج نے ماہا کی کمر میں ہاتھ لپیٹ کر کروٹ بدلی تو ماہا ابتہاج ہر جھک آئی

ماہا کے بال بکھر کر ابتہاج کے چہرے پر گرے تو

ابتہاج نے گہری سانس بھر کر ان کی خوشبو کو اپنی روح میں اتارا

کمرے کی معنی خیز خاموشی میں دونوں کی دھونکنی کی مانند چلتی سانسوں کا شور رقص کرنے لگا

ماہا کے چہرے سے بال ہٹا کر ابتہاج نے جزبات سے سرخ ہوتی آنکھوں سے ماہا کے خون چھلکاتے چہرے کو دیکھا

"ادھر میری طرف دیکھو ماہا—محبت سے چور لہجے میں کہا تو ماہا نے قربت کی لالی لیے سرخ ڈورو والی آنکھوں سے ابتہاج کو دیکھا

وہ جانتی تھی کہ وہ اس کی قربت سے رہائی نہیں حاصل کر سکتی تو اس سے بہتر ہے وہ خود سپردگی دے دے – وہ ابتہاج کی محبت میں رنگ جانا چاہتی تھی – وہ چاہتی تھی کہ جتنی محبت اسے ابتہاج سے ہے اسے بھی ماہا سے ہوجائے—وہ جس بھی وجہ سے ماہا کے قریب آیا – اب وہ اسے خود سے دور نہیں جانے دے سکتی تھی "—

ماہا کے یک ٹک دیکھنے کر ابتہاج کے شنگرفی لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئی

"زیادہ پیارا لگ رہا ہوں کیا "ابتہاج نے مسکراتے لہجے میں کہا

تو ماہا کا سر ایک ٹرانس کی کیفیت میں اثبات میں ہلا

جس پر ابتہاج نے اس کے بولوں میں ہاتھ ڈال کر اسے خود پر جھکا لیا

ماہا کے نرم لبوں کو اپنی شدت بھری گرفت میں لے کر اس کی سانسوں کو قطرہ قطرہ خود میں انڈیلنے لگا

جبکہ کمر پر لگی زپ کو ایک ہی جھٹکے میں کھول کر شرٹ کندھوں سے کھسکائی

ماہا کو بیڈ پر لٹا کر اس پر جھک آیا

ہونٹوں سے کندھوں تک کا سفر ابتہاج نے اتنی جلدی طے کیا

کہ ماہا ابتہاج کی شدت پر سسک پڑی

"اب—ت-ابتہاج مجھے ڈر لگ رہا ہے "ابتہاج کو گہرایوں میں اترتے محسوس کر کہ ماہا نے کپکپاتی آواز میں کہا

تو ابتہاج نے اپنا سر اٹھا کر ماہا کے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھا

شدت سے ماہا کے دل کے مقام پر اپنا لمس چھوڑ کر

اس کے چہرے کے قریب ہوا

"مجھ سے محبت ہے نا—خمار آلود لہجے میں سرگوشی کی تو ماہا نے آنکھیں کھول کر خود ہر جھکے ابتہاج گردیزی کو دیکھا

جو آنکھوں میں جذبات کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر لیے اسے ہی دیکھ رہا تھا

ماہا نے اپنے خشک پڑتے ہونٹوں کو تر کر کہ اثبات میں سر ہلایا تو ابتہاج نے جھک کر اپنے تشنہ لب اس کے ماتھے کر رکھے

ہاتھ بڑھا کر سائیڈ لیمپ آف کیا

اور ماہا پر کسی گھٹا کی طرح چھا گیا

اپنے وجود پر رینگتے ابتہاج کے بے باک ہاتھوں کے لمس پر ماہا نے تڑپ کر ابتہاج کو خود سے دور کرنا چاہا

جس پر ابتہاج نے ماہا کے ہاتھ کی انگلیوں میں زبردستی اپنی انگلیاں الجھا کر بیڈ پر سر کہ اوپر پن کر دی

اور پوری شدت سے اس کے ہونٹوں پر جھک آیا

جبکہ کھڑکی سے نظر آتا چاند ان کے ملن پر شرما کر بادلوں کی اوٹ ہو گیا

جبکہ ساری رات ماہا نے اپنے نازک وجود پر ابتہاج گردیزی کی جان لیوا بڑھتی قربتوں کو سہا

جبکہ ابتہاج مدہوش سا سب کچھ فراموش کیے ماہا کے وجود کی گہرائیوں سے روح تک اترتا چلا گیا

ابتہاج ماہا کو کمرے میں چھوڑتا بالوں میں ہاتھ پھیرتا خود روم سے باہر نکل آیا تھا جو کچھ بھی رات میں ہوا وہ اس کی وجہ سے کافی پریشان تھا وہ چاہ کر بھی خود پر کنڑول نہیں کر پایا تھا تبھی اس کے وجود کو خود میں شامل کر گیا تھا جبکہ۔ ماہا کمرے میں آئینے کے سامنے خاموش سی کھڑی تھی وہ تو بس اس کے لفظوں میں اٹک گئی تھی


"کیا کہا آپ نے ایسا ابتہاج ۔۔۔ آخر کیوں"

وہ روتے ہوئے اٹکتے لہجے میں بولی رات تک جو اس کے پیار کا نشہ تھا آج صبح وہ اپنے لفظوں سے ماہا کے سر سے اتار چکا تھا ماہا کو لگا وہ تپتے صحرا میں پیاسی کھڑی ہو چکی ہے ۔

آئینے کے سامنے اپنے بے مول ہوتے وجود کو دیکھتے وہ شدت سے آنکھیں میچ گئی تھی آنکھوں سے آنسو موتیوں کی طرح ٹوٹ کر زمین پر گرے تھے

وہ اس کے لفظوں سے نکل ہی نہیں پا رہی تھی اگر اس نے رات کو طلسم پھونکا تھا تو آج وہ سب ختم کر چکا تھا اسے اپنی ہی زندگی بے مول لگنے لگی تھی وہ ابتہاج کی زندگی میں اس کے دل میں اور خاص کر اس کے لیے ایک غلطی تھی فقط ایک غلطی اس سے زیادہ کچھ نہیں آنکھیں رونے کی وجہ سے سرخ ہو رہی تھی لیکن آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔


ماہا نے صوفے گے آگے رکھے میز کی جانب دیکھا جہاں پھلوں کے درمیان چھری پڑی ہوئی تھی وہ نا سمجھی اور ٹرانس سی کیفیت میں چلتی ہوئی اس تک پہنچی تھی چھری اٹھائی اور واپس اپنی جگہ پر آگئی ایک نظر اپنے وجود کو دیکھا وہ کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی اس کے لیے اس کا ہونا یا نہ ہونا ایک برابر تھا پھر کیا فائدہ تھا اس کی زندگی کا آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے

چھری اپنی نس پر رکھتی وہ خاموشی سے لرزتے وجود کے ساتھ آنکھیں بند کر گئی تھی شدت سے اس کے کانوں میں ابتہاج کے کہے الفاظ گونجے تھے اس کے ذہن میں منفی سوچیں پیدا ہوئی تھی مطلب وہ غلطی تھی یعنی وہ اس سے محبت نہیں کرتا تھا کتنی تکلیف دے رہی تھی کہ بات اسے !۔

وہ چھری ہاتھ پر رکھے چھری کر دباؤ ڈالنے لگی تھی جب دروازہ کھولتے سامنے کا منظر دیکھ ابتہاج کی آنکھوں میں حیرت اور پریشانی بیک وقت آئی تھی جبکہ وہ ہر چیز سے پیگانہ بس دنیا سے اپنے وجود کو ختم کرنے کے در پر تھی ۔

"ماہا "۔

وہ خوف کی شدت سے دھاڑتا ہوا ایک جست میں سیکنڈوں میں اس تک پہنچا تھا ساتھ ہی اس کی بھری پکڑے ہاتھ کو دوسرے ہاتھ سے جھٹکے سے دور کیا تھا ۔۔۔۔۔


"یہ کیا کر رہی تھی تم پاگل ہو گئی ہو "۔

ابتہاج کو خوف اور غصے نے ستایا تھا یعنی وہ جو زبردستی حق اس پر جتا چکا تھا اس وجہ سے ماہا یہ سب کر رہی تھی اسے شدت سے خود پر غصہ آیا تھا جبکہ حالات کچھ اور ہی تھے ۔


"ہاں ہو گئی ہوں پاگل دور ہٹے مجھ سے"

وہ غصے سے آنکھوں میں آنسو لیے بولی ساتھ ہی ایک جھٹکے سے اسے خود سے دور کیا جبکہ اس کی دونوں حرکتوں پر ابتہاج کی ماتھے کی رگیں پھولی تھی غصے سے سختی سے ہونٹ ایک دوسرے میں پیوست کیے تھے۔۔۔۔۔

"بکواس بند کرو اپنی ماہا یہ سب کر کیا رہی تھی تم ہاں بہت شوق ہے تمھیں مرنے کا "۔

ابھی اگر منٹ بھی دیر ہو جاتی تو وہ خود کو کیسے معاف کرتا پہلے ہی وہ اس سے شرمندہ تھا اس کی وجہ سے یہ سب ہوا تھا اس کی وجہ سے وہ اس مقام پر پہنچی تھی کہ سیدھا خود کو مارنے نکلی تھی اوپر سے اس کی بات پر وہ مزید پریشان ہو گیا تھا ۔

"اب۔تہاج "۔

وہ آنکھوں میں حیرت لیے بولی وہ انچ بھر کے فاصلے سے کھڑا تھا نظریں اسی پر ٹکائی ہوئی تھی ماہا کا لہجہ لڑکھڑا گیا تھا وہ تھوڑی دیر پہلے اسے غلطی بول رہا تھا اور اب وہ اس بچا رہا تھا اس کی زندگی کے لیے اسے ڈانٹ رہا تھا آخر وہ انسان کیا چاہتا تھا اس سے ماہا نے شکوہ کناہ نظروں سے اسے دیکھا تھا ۔

"ماہا میں شرمندہ ہوں اس سب پر "۔

اسے بغور دیکھتے وہ ایک انچ کا فاصلہ بھی مٹا چکا تھا اس کا بکھرا حلیہ ،سرخ چہرہ اور چہرے پر مٹے ہوئے آنسو ابتہاج کو نجانے کیوں برا لگا تھا وہ اس کے آنسوؤں کی وجہ خود کو ہی مان رہا تھا ۔

"ماہا پلیز کچھ بولو دیکھو رونا بند کرو "۔

اسے روتا دیکھ وہ جھکتا ہوا اپنے لبوں سے اس کے آنسو بن گیا تھا ماہا نے زور سے آنکھیں بند کی دھڑکنیں پھر سے تیز ہوئی کمرے میں مکمل خاموشی چھا گئی تھی وہ جو پھر سے اس میں الجھ رہا تھا نجانے وہ کیوں اس لڑکی سے اتنا اٹریکٹ ہوتا تھا وہ کشش ہی عجیب تر تھی ۔


"اب۔تہاج پلیز نہیں چاہیے آپ کی ہمدردی مجھے"

وہ لڑکھڑاتی آواز میں بولتی کمرے کا سکتہ توڑ گئی تھی ابتہاج کی گرفت اس کے گالوں پر سخت ہوئی تھی وہ شدت سے اپنے ہونٹ وہاں رکھ کر پھر سے اس کے وجود کو بے جان کر گیا تھا وہ ابھی اس سے اپنی غلطی کے لیے معافی مانگ رہا تھا اور اب پھر اسی غلطی کو کر رہا تھا۔۔۔۔۔

"ماہا میں سب ٹھیک کر دو گا "۔

ابتہاج کے لب اور اس کا جلتا سلگتا لمس ماہا کو اپنی گردن پر محسوس ہوا تھا وہ سختی سے اس کے کندھے کو مظبوطی سے تھام گئی تھی اسے خود سے دور کرنا چاہا تھا ۔

"آئی پرامس پلیز بلیو می "۔

اس کے ہونٹ ماہا کی گردن پر تھے جبکہ اب ابتہاج نے خمار آلود نظریں اٹھا کر اسے آس سے دیکھا تھا آنکھوں میں واضع سرخی چھائی ہوئی تھی


"آئی نو کہ یہ سب اچانک ہوا میں ایسا نہیں کرنا چاہتا دکھ ہو رہا ہے تمھیں "۔

اس کی کمر پر ہاتھ رکھتے وہ اسے خود سے قریب تر کرتا بولا تو ماہا کا سانس سینے میں الجھا اس کی قربت پر وہ گھبرا گئی تھی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھی ۔

وہ شدت سے اس کی سانسوں کو خود میں جکڑ چکا تھا اس کی وجود کی خوشبو کو خود میں انڈیلتے وہ پھر سے وہی غلطی کر رہا تھا ایک احساس نے اسے ماہا سے دور کیا کہ ماہا کا سانس اب بند ہونے کو تھا ۔

وہ اس سے دور ہوا تھا چہرہ جھکا گیا جبکہ وہ گہرے سانس بھر کر رہ گئی تھی وہ کتنا بے حس تھا ۔


"مانتا ہوں کہ کل رات غلطی ہو گئی مجھ سے "

اس کے منہ سے نکلنے والے لفظوں پر ماہا کا وجود جو اس کی پناہ میں کچھ سکون میں تھا بے چینی سے دو چار ہوا یعنی وہ صبح والے روایے پر اس سے معافی نہیں مانگ رہا تھا وہ تو کل والی بات کو ابھی بھی غلطی۔ غلطی گردان رہا تھا ماہا نے قہر زدہ آنکھوں سے اسے دیکھا ایک جھٹکے سے اپنی پوری طاقت سے اسے خود سے دور کیا تھا ۔


"سٹے آوے فرام می غلطی ہوں نہ آپ کے لیے یہاں کیا کر رہے ہے پھر "۔

وہ غصے سے چینخ کر بولی آنسو پھر بہہ نکلے وہ کس غلط فہمی میں چلی گئی تھی بھاگنے کے سے انداز میں سیدھا جا کر واشروم میں بند ہوئی تھی اس کی خوشبو ابھی بھی اپنی سانسوں میں محسوس ہوئی تھی جبکہ وہ بے بسی سے دروازے کو دیکھا ہوٹل روم سے باہر نکل گیا تھا ۔


____________________________!!


وہ گہری سانس بھرتا واپس روم میں آیا تھا کمرہ تاریخی سے بھرا پڑا تھا ابتہاج نے آگے بڑھ کر لائٹ آن کی روم خالی تھی اب اسے ایک اور فکر نے گھیرا وہ واش روم چیک کرنے لگا تو وہ وہاں بھی نہیں تھی آہستہ آہستہ ابتہاج کا دل گھبرانے لگا تھا ۔


وہ ہوٹل روم سے باہر نکلا تمام ہوٹل کو چیک کا آدھا گھنٹہ ہو رہا تھا وہ کہی نہیں ملی دل میں عجیب سے خیالات آنا شروع ہوئے تھے اسے خود سے ہی اب نفرت ہونے لگی تھی۔۔۔۔


ریسیپشن سے پتہ لگا کہ وہ ایک میم باہر تو گئی ہے ابتہاج فکری مندی سے ماتھا مسلتا باہر نکل گیا تھا آس پاس جنگل تھا وہ اسے کہاں ڈھونڈے اگر اسے کچھ ہو گیا یا وہ باہر نکلی ہی کیوں وہ شرمندہ تھا اس سے پریشانی سے ماتھے پر لکیریں واضع تھی

وہ جنگل میں پہنچ چکا تھا ادھر دیکھا وہ کہی نہیں تھی مزید فکر ہوئی تھی اسے شدید غصہ بھی آیا تھا ماہا پر کیا ضرورت ایسے جانے کی اگر غلطی ہو گئی تھی تو بیٹھ کر بات کر لیتی ۔


تھوڑی دور چلنے پر ہی اس کے اوپر جیسے حیرتوں کے پہاڑ گرے تھے وہ زمین ہر بے جان پڑی نظر آئی تھی وہ منٹوں میں اس تک پہنچا اس کا چہرہ تھپتھپایا لیکن جواب نہیں ملا تھا وہ بے ہوش تھی اسے بازوؤں میں بھرے وہ واپسی کی جانب چل پڑا تھا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا تھوڑی دیر بعد وہ ہوٹل کے روم میں موجود تھا اس کے وجود کو بیڈ پر لٹاتے وہ اندر سے تھوڑا خوف زدہ ہو گیا تھا ۔

"ماہا اٹھو پلیز ماہا "۔

اس کے چہرے ہر ہاتھ رکھتے وہ دھیمی آواز میں بولا پھر پانی کے چھینٹے اس کے چہرے پر مارے تھے ۔


"ماہا نے مندی مندی آنکھیں کھولی تھی کسی اپنے کو نظروں کے سامنے پا کر جان میں جان آئی تھی ہوش سنبھالتے وہ جھٹ سے اس کے گلے لگی تھی اس اچانک ہوتی کاروائی کر وہ محظوظ سا ہوا تھا ناسمجھی سے اپنے ساتھ لگے وجود کو دیکھا شاید وہ ڈر گئ تھی ۔


"ہیے ماہا میں ہوں کچھ نہیں ہو گا تمھیں پلیز ڈونٹ پینک"۔

وہ نرمی سے اس کے وجود کو خود میں سمیٹے اس کے بالوں میں انگلیاں پھنساتے ہوئے بولا فلحال اس سے کسی بھی قسم کا سوال کرنے کا ارادہ ترک کیا تھا ۔


"تم کی جنگل کی رانی ہو یار وہاں جو گئی تھی حکم چلانے سب پر"۔

وہ آہستہ آواز میں مسکراتا ہوا بولا اور اسے خود سے دور کیا جبکہ ماہا نے ابھی بھی اپنے بازوؤں کا حصار اس کے گرد باندھا ہوا تھا ۔

"کس چوہے سے ڈر کر بے ہوش ہوئی تم ویسے "۔

وہ اس کا مائنڈ دوسری جانب کرنے کو مسکراہٹ دبا کر بولا تھا ۔

"جی نہیں میں بہت بہادر ہوں میں چوہے سے نہیں ڈرتی"۔۔

وہ اترا کر اسے دیکھتے بولی تھی جبکہ وہ اب کامیاب ہو گیا تھا تو خوش تھا ۔

"ہممم ایسی بات ہے کیا پکا نہیں ڈرتی کسی سے "۔

وہ چہرہ اس کے چہرے کے قریب کرتا معنی خیزی سے بولا کہ ماہا اچانک اسے دیکھتی سرخ ہو گئی تھی کانوں سے دھواں نکلتا محسوس ہوا تھا ۔


"ابتہاج مجھے نیند آ رہی ہے سونا ہے طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی "۔

وہ سر جھکائے بولی تھی تو وہ مسکراہٹ دبا کر اثبات میں سر ہلا گیا تھا پھر اسے لیٹنے میں مدد کی اور خود بھی لیٹ گیا تھا جبکہ ماہا جلد ہی نیند کی وادیوں میں جا چکی تھی ابتہاج نے ایک نظر اسے دیکھا کتنا مرجھا گیا تھا اس کا دلکش روپ صرف اس ک وجہ سے ۔


"ایم سوری ماہا "۔

جلد ہی اس کی بھاری سانسوں کی آواز پر وہ اندازہ لگا گیا کہ وہ گہری نیند میں ہے تبھی دھیمی آواز میں بولتا وہ آخر میں اپنے ہونٹوں سے اس کے کان کی لو کو چھو گیا تھا ۔


_________________________!!


وہ زندگی کے تلخ موڑ پر تھی کہ وہ نہ اپنی قمست کو قصوروار کہہ سکتی تھی نہ وہ اللّٰہ سے کوئی گلہ شکوہ کو سکتی تھی یہ کانٹوں بھری راہ جو اس کا مقدر تھی وہ اس نے خود طے کیا تھا اپنی عزت کو خود کے ہاتھوں۔ خود روندھا تھا ۔

اس کا چہرہ ستا ہوا تھا مرجھایا سا بے جان چہرہ آنکھوں کے گرد حلقے واضع تھے اب تو اسے آنسوؤں پر بھی شدید غصہ آیا جو اتنا رونے کے باوجود ختم نہیں رہا رہے تھے تبھی دروازہ کھلا وہ گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی تھی جب وہ بڑی شان اور کافی سکون سے چلتا ہوا آیا اور کھانے سے سجی ٹرے اس کے قریب رکھی صنم نے ایک نظر سہمی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا تھا ۔

"کھانا کھاؤ"۔

وہ کھانے کی جانب اشارہ کرتا سرد سی آواز میں بولا تھا جس پر صنم نے بھی ایک نظر کھانے کو دیکھا ۔

"م۔مجھے ۔ن۔نہیں۔ک۔ک۔کھانا "۔

وہ اٹکتے لہجے میں بولی اس انسان کا سحر کی ایسا تھا جو اسے خوف میں مبتلا کر دیتا تھا ۔


"اووو تو بھوکے پیٹ گڈ نیوز سننے کا ارادہ ہے یا یہ کہہ لو کہ تمھیں میری لائی ہوئی گڈ نیوز پہلے سننی ہے "۔

چہرے پر استہزاء مسکراہٹ سجائے وہ پوری طرح اسے سلگانا چاہتا تھا یا یوں کہہ لے وہ اسے زچ کر رہا تھا صنم نے سہمی ہوئی خوف بھری نظروں سے اسے دیکھا دل میں عجیب وسوسے آئے تھے وہ اندر تک مکمل ڈر گئی تھی ۔


"آپ کے شوہر کا ایکسیڈنٹ ہو چکا ہے مر گے ہے وہ ".

وہ بڑے عزت سے اس کے پاس جاتا ہوا بولا تھا اس کی بات پر صنم نے بے یقین نظروں سے اسے دیکھا جب بھی وہ سوچتی تھی اس سے برا اس کی زندگی میں کچھ نہیں ہو گا تبھی زندگی اسے شدید قسم کا جھٹکا دے کر مسکراتی تھی ۔


آنکھوں سے آنسو جاری ہو گے جو سالح نے ناگواری سے دیکھتے تھے ۔


"آپ۔ج۔جھ۔وٹ ب۔بول۔ر۔ ہے ہے "۔

وہ اس کی جانب دیکھتی آنسوؤں سمیت بولی تھی وہ یقین نہیں کر پار رہی تھی پھر بھی وہ محبت کرتی تھی روکی سے اور اس کی موت نے صنم کی آنکھوں۔ میں آنسو کا دیے تھے ۔


"آہاں لک ایٹ "۔

وہ موبائل کی جانب اشارہ کرتا ہوا بولا تھا کہاں صاف روکی کو دفنایا جا رہا تھا صنم نے مظبوطی سے اپنے چہرے ہر ہاتھ جمائے آنسوؤں کا گلہ گھونٹنا چاہا تھا جو کہ ناکام تھا ۔

صالح غصے سے وہاں سے باہر نکل گیا تھا وہ روتی ہوئی یوں ہی بیڈ ہر گر گئی تھی جیسے کسی کی ہوش تک نہیں رہی تھی اس کی زندگی میں صرف دکھ تھے یا وہ دکھ خود اس نے اپنے ہاتھ سے بنائے تھے اور انہیں سکھوں کی جگہ رکھ آئی تھی ۔


_________________________!!!


کمرے میں پڑے اسے کئی دن گزر چکے تھے کھانا رکھ دیا جاتا تھا وہ کبھی کھا لیتی تو کبھی نہیں کھاتی خود کو اندر ہی اندر سمبھال لیا تھا لیکن یہ بہت ہی زیادہ مشکل تھا ۔صالح اس دن کے بعد واپس نہیں تھا اس کی عدت گزر رہی تھی ۔

وہ زندگی سے جیسے اوب گئی تھی لیکن پھر بھی اسے جی رہی تھی ۔


آج آخری دن تھا وہ بھی گزر گیا تھا ماریا نے اس کا بہت اچھے سے خیال رکھا تھا وہ فریش ہو کر باہر آئی تھی کھانا ابھی تک نہیں آیا تھا ۔


بیڈ ہر بیٹھتے وہ بھاری بوٹوں کی مخصوص آواز سن پا رہی تھی خوف سے آنکھیں پھیل گئی دل بری طرح دھڑک گیا تھا وہ یہی آ رہا کتنے مہنوں بعد ۔


وہ اس بار بھی کھانے کی ٹرے ہی لے کر آیا تھا ٹرے سائیڈ پر رکھی جب اس نظر جھکائے پتلا بنے وجود پر نظریں پڑی تھی۔


"In a short time, our marriage is ready. Get ready and there is no reason to forbid۔So go and get ready. And don't cry anymore. Keep some tears for the future"


وہ سنجیدگی سے بولتا اسے چونکنے پر مجبور کر گیا تھا صنم نے آہستہ سے نفی میں گردن ہلائی تھیں وہ اب ہرگز شادی کے حق نہیں تھی آنکھوں میں نمی جھلکی تھی اس کی بات کو سرے سے نظر انداز کرتے وہ الماری سے ایک جوڑا نکال چکا وہ خوبصورت لباس اس کی الماری میں کیسے آیا صنم تو اس پر حیران ہوئی تھی ۔


"سوچ لو اتنے دن سے تم غائب ہو کیوں رہی ہو میرے ساتھ یہ سب ہاں کس کو بتاؤ گی کیا رشتہ ہے میرے ساتھ تمھارا "۔

وہ ذرا سختی سے بولا تو اس کی باتوں کو سمجھتے وہ اب سر جھکا گئی تھی وہ کہی سے غلط نہیں تھا ہر اتنی جلدی اچانک وہ نہیں کرنا چاہتی تھی پھر یہ انسان اس کے ساتھ زبردستی کیوں کر رہا تھا آخر ۔


"تیار ہو جاؤ بس کچھ وقت میں "۔

وہ بیڈ پر ایک نفیس سی فراک پھینکتا انتہائی سرد آواز میں بولا کہ صنم اندر تک خوف زدہ ہو گئی تھی روتی آنکھوں سے بہتے آنسو بھی اس ستم ظرف کا دل نہیں پگھلا پائے تھے ۔ 

صبح ماہا کی آنکھ کھلی تو خود کو ابتہاج کی گرفت میں قید پایا

کچھ دیر تو غائب دماغی سے ماہا ابتہاج کے چہرے کو تکتی رہی جس کی جھلساتی سانسیں ماہا کو اپنی سانسوں میں محسوس ہو رہی تھیں

پھر نرمی سے ابتہاج کا حصار توڑ کر باتھ روم کا رخ کیا

تھوڑی دیر بعد وہ وضو کر کہ باہر آئی

تو نظریں ابتہاج پر گئیں جو منہ کے بل تکیہ بانہوں میں دبوچے سو رہا تھا

کمرے میں ملگجہ سا اندھیرا چھایا ہوا تھا

کبرڈ سے جائے نماز نکال کر ماہا نے قبلہ رخ بچھا کر فجر کی

نماز پڑھنی شروع کی

دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو وہ خالی خالی نظروں سے اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھتی رہی

"یا اللہ میں تیری گنہار بندی ہوں – مجھے معاف فرما دے—اور مجھ سے راضی ہو جا—میں بہت تکلیف میں ہوں اللہ –مجھ پر رحم کردے—میں نے کبھی تجھ سے شکوہ نہیں کیا—میرے ماں باپ نہیں رہے تو میں نے صبر کیا—تیری پاک ذات پر یقین رکھا—لیکن اس بار میں ٹوٹ چکی ہوں—میرا شوہر—مجھے اس سے محبت ہے – مگر اس کے لیے ہمارا رشتہ ایک غلطی ہے—مم—میں یہ نہیں سہہ پا رہی—میرے مولا میرے شوہر کے دل میں میرے لیے محبت ڈال دے –

اسے میرا کردے"—ہچکیوں سے روتی سر سجدے میں جھکا کر سسکنے لگی

ماہا کی سسکیوں پر ابتہاج نے مندی مندی آنکھیں کھول کر اردگرد نگاہ دوڑائی

تو نظریں سجدے میں سسکتی ماہا پر گئی

تو ابتہاج نے سختی سے اپنے جبڑے بھنچ لیے

اپنی سرخ ہوتی آنکھوں سے ماہا کے ہچکیاں بھرتے وجود کو دیکھتا رہا مگر جیسے ہی

ماہا کو سجدے سے اٹھتے دیکھا

تو آنکھیں بند کر کہ سوتا بن گیا

یہ جوڑا پہن کے تیار ہو جاؤ—صالح نے ایک شاپنگ بیگ صنم کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا

تو صنم نے اپنی رو رو کر سرخ ہوئی آنکھوں میں التجا لے کر صالح کو دیکھا

جس نے صنم کے دیکھنے پر لب بھنچ لیے

"مجھے پر رحم کرو—مجھے جانے دو—میں نہیں کر سکتی تم سے نکاح"—صنم نے روتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر کہا

تو صالح نے اپنی سرخ آنکھوں سے صنم کو گھورا

"یہ تم پر رحم ہی ہے کہ تم سے نکاح کر رہا ہوں—ورنہ بھولو مت کہا سے لایا ہوں تمہیں—ناکح کے بغیر بھی بہت کچھ کر سکتا ہوں—

تو اسی لیے شرافت سے نکاح کے لیے تیار ہو جاؤ ورنہ نکاح کے بغیر رشتہ بنانے کے لیے خود کو تیار کر لو"—صنم کے جبڑے کو اپنے ہاتھ میں دبوچ کر دبے دبے لہجے میں غرا کر کہا

تو صنم کو اپنی جان نکلتی محسوس ہوئی

چہرے پر پڑنے والی صالح کی تیز دہونکنی کی مانند چلتی سانسوں سے حلق تک خشک پڑ گیا

کہ تبھی صالح نے ایک جھٹکے سے صنم کا جبڑا چھوڑا اور تیز تیز قدم بڑھتا باہر چلا گیا

جب کے صنم ہچکیوں سے روتی اپنی قسمت پر ماتم کناہ تھی

صالح اپنے دوستوں اور قاضی کو دروازے تک چھوڑنے گیا تھا

جبکہ صنم بت بنی ساکت سی لاونج میں بیٹھی تھی

اسے نہیں ہوش تھا

کب وہ تیار ہوئی کب اسے دلہن بنا کر لاونج میں لایا گیا

کب وہ صنم سے مسسز صالح بن گئی

صنم کو تو اپنے سبھی احساسات منجمد محسوس ہو رہے تھے

دل اور دماغ تو بالکل ساکت ہو چکے تھے

صالح جو اپنے دوستوں کو چھوڑ کر واپس آیا تھا

صنم کو ساکت بیٹھے دیکھ اپنے جبڑے بھنچے

اور ایک ہی جست میں صنم کے قریب پہنچ کر اس کے بائیں بازو کو اپنی آہنی گرفت میں لیا

اور قدم روم کی جانب بڑھائے

صنم ایک بے جان پتلے کی مانند صالح کے ساتھ گھسیٹتی جا رہی تھی

صنم کو بیڈ پر بٹھا کر صالح کچن میں گیا اور صنم کے لیے کھانا ٹرے میں نکال کر روم کا رخ کیا

"پانچ منٹ میں یہ سب ختم کرو"—صالح کی سخت آواز پر صنم نے چونک کر اسے دیکھا

جو اسے کھانے کی طرف اشارہ کر رہا تھا

صنم نے نم آنکھیں لیے نفی میں سر ہلایا

تو صالح نے جھک کر صنم کے بال جو کہ دوپٹے میں چھپے ہوئے تھے انہیں اپنی سخت گرفت میں لیا

"اپنے ڈرامے بند کرو—تمہارےنخرے اٹھانے کے لیے نہیں لایا—کھانا کھاو—کیونکہ اس کی بہت ضرورت ہے تمہیں"—صنم کے چہرے پر اپنی گرم سانسیں چھوڑتے—ایک ایک لفظ چبا کر کہا

اور اپنے دانت صنم کی گال پر گاڑھ دیے

جس پر صنم نے سسک کر آنکھیں میچ لیں

صالح کے دور ہونے پر صنم کھسک کر بیڈ کے اوپر ہوئی

صالح نے ٹرے آگے کی تو

صنم نے اپنے کپکپاتے ہاتھوں سے کھانا شروع کیا

صالح سامنے صوفے پر بیٹھا اپنی سرخ انگارا ہوتی آنکھوں سے صنم کو دیکھ رہا تھا

جو لال جوڑے میں اپنا سوگوار حسن لیے سیدھا صالح کے دل میں اتر رہی تھی

صرف لال جوڑا اور ہاتھوں میں لال ہی چوڑیاں پہنی ہوئی تھی

گال اور ناک رونے کے باعث سرخ ہوئے پڑے تھے—اور گہری جھیل سی آنکھوں کے پپوٹے سوجھے ہوئے تھا

صالح نے ایک گہری سانس فضا کے سپرد کر کہ

صوفے سے ٹیک لگا دی

صنم کو کھانا ختم کرتے دیکھ صالح اپنی جگہ سے اٹھا

اور دروازے کی جانب قدم بڑھائے

دروازا لاک کر کہ

اپنا رخ صنم کی جانب کیا

جو اب اپنے ہتھیلیوں کو مسل رہی تھی

اپنی شرٹ کے بٹن کھول کر اسے صوفے پر اچھالا

تو صالح کی حرکت پر صنم نے تڑپ کر اس کی جانب دیکھا

جو سپاٹ چہرہ لیے قدم قدم چلتا صنم کے قریب ہی آرہا تھا

"نن—نہیں—آپ—مم-میرے ساتھ ایسا –نن—نہیں کر سکتے"نفی میں سر ہلاتے سسکتے ہوئے کہا

تو صالح نے آبرو آچکا کر صنم کو دیکھا

اور ایک ہی جست میں صنم کے قریب پہنچ کو اسے اپنی آہنی گرفت میں قید کیا

"کیوں نہیں کر سکتا میں—بیوی ہو میری—اب تو حق رکھتا ہوں تم کر—اور تمہاری یہ بے کار کی مزاحمتیں مجھے روک نہیں سکتی"—صنم کی گردن پر اپنا دہکتا لمس چھوڑ کر

بوجھل لہجے میں

کہا تو صالح کی سخت گرفت میں صنم بن پانی کے مچھلی کی طرح پھرپھرا کر رہ گئی

صنم کو بیڈ پر دھکا دے کر صالح اس پر جھک آیا

تو صنم نے اپنی آنکھیں زور سے میچ لیں

"تمہاری قربت کے لیے پہلی بار صالح نے خود پر—اپنے جزبات پر قابو کیا ہے—ورنہ آج تک جو بھی چیز صالح نے حاصل کرنی چاہی—اس کے لیے انتظار نہیں کیا—

مگر آج میں ایک بھی لمحہ ضائع کیے بغیر تمہارے وجود سے روح تک اتر جانا چاہتا ہوں"—صنم کی مزاحمت کرتی کلائیوں کو اپنی سخت گرفت میں لے کر

صنم کی گردن میں چہرہ چھپاتے ہوئے گھمبیر لہجے میں کہا

تو صنم کو اپنے رگ و پے میں سرد لہر سرائیت کرتی محسوس ہوئی

"نہیں—میں اس رشتے کو نہیں مانتی سمجھے آپ"—چلاتے ہوئے کہا

اور بنا صالح کو سمجھنے کا موقع دیے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے خود سے دور دھکیلا

اور بیڈ سے اتر کر دروازے کی جانب دوڑ لگائی

صالح جو حق دق سا اس صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا

صنم کو دروازے کھولتے دیکھ

--غصے کی ایک شدید لہر اپنے رگ و پے میں سرایت کرتی محسوس ہوئی

تن فن کرتا دروازا کھولتی صنم کے قریب پہنچا اور—صنم کو اپنی بانہوں میں بھر کر

بیڈ پر لا کر پٹکا

"بہت ہوگیا تماشا تمہارا—اب تمہیں بتاتا ہوں کہ صالح ہے کون—بہت اٹھا لیا تم نے میری نرمی کا فایدہ"—صنم کے سر سے دوپٹہ کھینچ کر اتارے ہوئے نیچے پھینکا اور دھاڑتے ہوئے کہا

تو صنم نے تڑپ کر صالح کی جانب دیکھا

جو خونخوار تاثرات سجائے صنم ہر جھک رہا تھا

صالح کے غصے کے ڈر سے صنم کو اپنا رواں رواں کانپتا ہوا محسوس ہوا

کہ تبھی بنا صنم کو سمجھنے کا موقع دیے صالح نے اس کی

کلائیاں اپنی مضبوط گرفت میں لے کر

بیڈ پر سر کہ اوپر ٹکرائی

اور پوری شدت سے صنم کے ہونٹوں پر جھک آیا

صالح کی شدت پر صنم کو لگا کسی نے دہکتا ہوا

کوئلہ اس کے ہونٹوں پر رکھ دیا ہو

اپنے ہونٹوں پر صالح کی شدت محسوس کرکہ

صنم نے سختی سے اپنی آنکھیں میچ لیں

ناجانے کتنے ہی آنسوں اپنی بے بسی پر صنم کی آنکھوں سے بہہ گئے

ہونٹوں سے گردن تک کا سفر صالح نے پل میں ہی طے کرتے صنم کو سسکنے پر مجبور کر گیا

ہاتھ صنم کی کلائیوں سے ہوتے ہوئے

اس کی کمر پر لگی زپ پر آئے

تو صنم تڑپ کر رہ گئی

کمرے کی معنی خیز خاموشی میں صالح کی دہونکنی کی مانند چلتی سانسوں

اور صنم کی سسکیوں کا شور برپا تھا

اپنی کلائیاں آزاد محسوس کر کہ صنم نے اپنے ہاتھ صالح کے کندھے پر رکھ کر اسے روکنا

چاہا

جبکہ صالح بے خود سا ہوا صنم کی زپ ایک ہی جھٹکے میں کھولتے اس کی شرٹ دونوں اطراف سے کندھوں سے سرکا چکا تھا

"صا—لح—پپ—لیز – مم—میں—مر جا—ؤ—گی" صنم نے ہچکیوں سے روتے ہوئے کہا

تو صالح نے اپنی آنکھیں جو کچھ غصے اور کچھ صنم کی قربت کے خمار سے اس وقت سرخ ہو رہی تھی—صنم کے سرخ چہرے کی جانب دیکھا

اپنے چہرے پر صالح کی بے باک نظروں کو محسوس کر کہ صنم نے اپنی آنکھیں زور سے میچ لیں

صالح کی نظریں پلکوں سے ہوتی کپکپاتے گلابی لبوں پر آئی—جو صالح کی شدت سے سرخ ہو چکے تھے--- ہونٹوں سے نظریں سرکتی ہوئی سفید گردن پر آئی جس پر جا بجا

صالح کی شدتوں کے نشان واضح ہو رہے تھے"—لب بھنچ کر صنم سے دور ہوا

اور کمرے کی لائٹ آف کر کہ سسکتی ہوئی صنم کو گھور کر دیکھا

بیڈ پر بیٹھ کر کمفرٹر کھول کر اپنے اوپر کیا

اپنی بازو صنم کی کمر میں حائل کر کہ ایک ہی جھٹکے میں اسے اپنی گرفت میں لیا

"صرف ایک ہفتے کا وقت ہے—جتنا رونا دھونا کرنا ہے کر لو—اس کے بعد تمہاری کوئی بھی مزاحمت مجھے تمہاری قربت سے دور نہیں کر سکتی"—اپنی ٹانگوں میں صنم کی ٹانگوں کو قید کرتے دبے دبے لہجے میں غرا کر کہا

تو صنم نے جلدی سے اثبات میں سر ہلایا

جسے محسوس کر کہ صالح کہ ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی

"اب سوجاؤ اس سے پہلے میرا موڈ بدل جائے"—صنم کے پیٹ پر اپنے دونوں ہاتھ باندھتے ہوئے کہا

تو صنم نے کپکپا کر ان ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھ کر ہٹانا چاہا تو صالح نے اپنی گرفت سخت کر دی 

ماہااپنے رب کے سامنے درخواست کر کے اٹھی اور چلتی ہوئی بیڈ کے پاس آ گئی وہ آرام سے ابتہاج کے سرہانے بیٹھی اور اس کے پیشانی پر بکھرے بالوں میں نرمی سے اپنی انگلیاں چلانے لگی اس کی آنکھوں سے زار و قطار آنسو بہہ رہے تھے پر آج اس نے اپنے آنسووں کو روکنے کی بلکل کوشش نہیں کی تھی جانے کیسی کشش تھی جو اسے ابتہاج کی جانب کھینچ رہی تھی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی اس کا دل ابتہاج کے لئے اس قدر نرم کیسے ہو سکتا ہے زندگی نے بھی اسے عجیب دوراہے پر لا کھڑا کیا تھا جہاں ماں باپ بھی ساتھ چھوڑ چکے تھے اور شوہر سے اس نے کسی بھی طرح کی امید لگانا چھوڑ دی تھی خود ہی اس کے دل میں اپنی محبت جگہ کر اسے غلط قرار دے گیا ۔۔۔۔ مہا انتہائی نرمی سے اس کے بالوں میں انگلیاں چلا رہی تھی نہ جانے اس کے دل میں کیا سمائی ۔۔۔وہ ہلکے سے ابتہاج کی جانب جھکی اور اس کی پیشانی پر اپنے دہکتے لب رکھ دئیے

صحیح کہتے ہیں لوگ جب محبت اپنا اسیر کرتی ہے تو انسان سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے اسے اپنے محبوب کی ہر غلطی قبول ہوتی ہے بشرط محبت کا ساتھ ہو ماہا نے اپنے آنسو صاف کیے اور پھر سوچ نظروں سے ابتہاج کی جانب دیکھنے لگی


"پہلے مجھے لگتا تھا کہ تم ایک پتھر دل انسان ہو پر جب سے تم نے مجھے اپنے رنگ میں ڈھالا ۔۔۔مجھے اپنا آپ خوبصورت لگنے لگا میرے سارے دکھ درد صرف تمہاری ذات میں ہی سمٹ آئے تھے مجھے امید تھی کہ تم کبھی بھی مجھے تکلیف نہیں پہنچاؤگے پر کل کی تمہاری بات تو نے تمہارے لفظوں نے مجھے وہ زخم دیے ہیں جنہیں شاید ہی کبھی بھلا پاؤ ں ۔۔۔۔تم میری زندگی میں آنے والے پہلے مرد تھے جب سے تم ہی سمجھا تمہیں جانا تم سے محبت ہوئی ۔۔تمہاری ہر غلطی تمہاری ہر زیادتی پر آمین کہا کبھی سوال نہیں کیا تمہارے درد کو اپنا سمجھا اپنے کردار پر بھی کبھی تمہیں لفظ نہ کہا ۔۔۔ پر ابتہاج گردیزی اب میری بس ہو گئی تمہاری قربت کی طلبگار نہیں تھی ۔۔۔۔ تمہاری نظروں میں محبت و عزت دیکھنے کی خواہاں تھی وہی عزت جو ایک شوہر اپنی بیوی کو دیتا ہے ۔۔۔ پر تم نے ہر بار میرا مان توڑا میں پھر تمہارے در پر جھک گئی محبت بھی تو نبھانی تھی ۔۔۔۔ تم کبھی نہیں سمجھ سکتے ٹھکرائے جانے کی ازیت ۔۔۔ میرا دکھ بڑا ہے پر تمہیں یہ بھی معاف ۔۔۔۔ "

اس سے زیادہ ماہا سے بولا نہ گیا اور وہاں سے اٹھتی نیچے چلی آئی جہاں صباء بیگم کچن میں ملازمہ کو کچھ ہدایات دے رہی تھیں ۔۔۔ وہ دونوں کل ہی واپس آگئے تھے شام کی فلائیٹ سے ۔۔۔

ماہا نے صباء بیگم کو سلام کیا ۔۔۔۔ جس کا جواب انہوں نے خوشدلی سے دیا ان کی نظر ماہا کے پر مثردہ چہرے پر پڑی جو کسی بھی تعصر سے عاری تھا ان کو تشویش ہوئی ۔۔۔۔ ابتہاج کا موڈ بھی ان کو ٹھیک نہ لگا تھا ۔۔۔۔

انہوں نے ماہا سے پوچھا

کیا بات ہے ماہا بیٹا پریشان لگ رہی ہو؟ابتہاج نے کچھ کہا ہے کیا ؟۔۔۔۔

ان کے سوالوں پر ماہا گڑ بڑا گئی اور جلدی سے بولی ۔۔

"نہیں ایسی کوئی بات نہیں بس سفر سے تھک گئی ہوں

صباء بیگم نے گہرا سانس بھرا جانتی تھیں وہ نہیں بتا پائے گی ۔۔۔۔ اور بات بھی یہی تھی ماہا اس وقت اکیلے رہنا چاہتی تھی


ماہا بے دلی سے کچن میں اپنے لئے ناشتہ بنانے لگی اس کا دل نہیں کر رہا تھا کچھ بھی کھانے کا لیکن کیا کرتی ۔۔۔۔ کچھ کرنا بھی تو تھا۔۔ ماہا اپنی سوچوں میں گم تھی کہ اسے سمیر کے آنے کا پتہ ہی نہ چل سکا سمیر نے ایک دم سے پیچھے آکر اسے ڈرایا ۔۔۔۔ماہا کے منہ سے بے ساختہ چیخ نکلی

سمیر اسے ڈرا کر ہنسنے لگا

ماہا اپنے دھک دھک کرتے دل پر ہاتھ رکھتی غصے سمیر کو گھورنے لگی

سمیر اب بھی ڈھیٹوں کی طرح مسکراہٹ سجائے اسے دیکھ رہا تھا


"تھم در گئی ویسے تم بوت در پوت ہے ۔۔۔۔ برو سے نی درتی تم ۔۔۔۔وہ تو ایسے ایلیپہینٹ ہیں یار۔ ۔۔ مج سے درتی یو ناٹ فئیر ۔۔۔۔"

سمیر شرارتی نظروں سے دیکھتا اسے زچ کر رہا تھا ۔۔۔ ماہا نے گھور کر اسے دیکھا اور بولی


"تم ۔۔۔ تم بندر مجھے ڈراتے ہو ۔۔ رکو زرا میں تمہارے بھائی کو بلاتی ہوں ۔۔ انگریزی جھینگے میں ۔۔۔ کسی سے نہیں ڈرتی تمہارے۔ ۔۔۔ اس جنگلی بلے بھائی سے بھی نہیں ۔۔۔۔ جب دیکھو چیختا ہی رہتا ہے اور۔۔۔ تم ۔۔۔ ان سے بھی آگے اتنے کوئی فالتو آدمی ہو جب دیکھو ۔۔۔۔ سستی ہی پھیلاتے ہو مانا کہ باہر ۔۔۔ ملک سے سست لوگ ہی آتے ہیں پر اب تم ہماری کنٹری یو نو ملک میں ہو ۔۔۔ انسان بنو ۔۔۔۔ اب نکلو کہاں سے۔۔۔۔ "


ماہا اپنے دل۔کی بھڑاس سمیر پر نکالتی جیسے ہی پیچھے مڑی دل دھک سے رہ گیا جہاں ابتہاج کڑے تیوروں سے گھور رہا تھا ۔۔۔۔

ماہا آنکھِیں پھیلائے اسے اپنے سامنے دیکھتی پلکیں جھپکتی اس کے ہونے کا یقین دلانے لگی ۔۔۔۔

سمیر تو ابتہاج کو دیکھتے ہی وہاں سے کھسک گیا تھا ۔۔۔ اب بس ماہا اور ابتہاج ہی تھے ماہا نے اپنے چہرے پر کوئی تعصر دیے بنا اپنے لیے جو بنانے لگی ۔۔۔۔

ابتہاج جو اس کی چیخ سن کر نیچے آیا تھا اپنے بارے میں اس کے نادر خیالات جان کر جی جان سے جل اٹھا پرا س کی بے نیاز ی دیکھ اسے جی بھر کے تاو آیا

پر فلحال اس کا موڈ خراب کرنے کا ارادہ بلکل نہی تھا

ماہا اپنی پشت پر اس کی نظروں کی تپش بخوبی محسوس کر رہی تھی ۔۔۔

ابتہاج کا دل کیا ایک بار اسے دیکھے ۔۔۔۔ سمجھ رہا تھا بہت ڈسٹرب ہے اس کی ساری باتیں وہ کمرے میں ہی سن چکی تھی ۔۔۔ ابتہاج کو افسوس سا ہوا تھا اپنا کیا یاد کرکے کتنی ذلت و رسوائی دے چکا تھا وہ اسے ۔۔۔ وہ واقعی اس لڑکی کی محبت کے قابل نہیں تھا


ابتہاج نا محسوس انداز میں اس کے پیچھے آکھڑا ہوا ۔۔۔ اس کا دل پر سو سے اس کے قرب کا طلبگار ہو رہاتھا پر وہ ماہا کو تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا


ماہا جیسے ہی گلاس اٹھانے کے لئے پیچھے کی طرف مڑی تو اپنے پیچھے کھڑے ابتہاج سے ٹکرا گئی ۔۔۔اس ابتہاج نے بے ساختہ ہی اپنا بازو اس کی کمر میں اپنا بازو حمائل کیا ۔۔۔ ابتہاج اس کی گردن پر جھکا اس کے جسم سے اٹھتی مسحورکن خوشبو اپنی سانسوں میں اتارنے لگا ۔۔۔

ماہا کی سانسیں اکھڑنے لگیں اسے کہاں توقع تھی ۔۔ابتہاج کی اس رات کے بعد پہلی پیش قدمی تھی وہ سٹپٹا کر اس سے الگ ہونے لگی پرا بتہاج نےا س کی کوشش کو ناکام کرتے اسے کمر سے پکڑ کر شیلف پر بٹھایا ۔۔۔۔

ماہا سرخ چہرہ لیے اپنی سانسیں ہموارکرنے لگی ۔۔۔۔ اس کا دل دو سو کی سپیڈ سے بھاگ رہا تھا ۔۔۔ جیسے سینے سے باہر نکل آئے گا

ابتہاج اس کے ارد گرد اپنے بازو ٹکائے ۔۔۔ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا

"مجٙھے لگتا ہے تم مجھے بیوقوف سمجھتی ہو۔ ۔۔۔ کیا سمجھتی ہو میں تمہاری ان باتوں سے بہل جاوں گا ۔۔۔ مجھے پتا ہے جو کچھ تم نے سمیر سے کہا وہ سب تمہارے دل کی بات تھی جو لبوں پر آگئی ۔۔۔۔ "

ابتہاج بہکے لہجے میں اس کے لبوں پر اپنا انگوٹھا پھیرتے ہوئے بولا ۔۔۔


ماہا نے تڑپ کر خود کو اس کے حصار سے آزاد کرانا چاہا پر ابتہاج کی فولادی گرفت سے خود کو آزاد نہ کراپائی آخر جھنجھلا کر بولی


کیا چاہتے ہیں آپ ۔۔۔ ہاں کل تو آپ کے لیے ایک غلطی تھی اور آج مجھے اپنے چند لمحوں کی قربت بخش کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہِیں ۔۔۔ بہت مہربان ہیں آپ ۔۔۔ چند لمحوں کی کرم نوازیاں اورا س کے بعد ۔۔۔۔ بتائیں اس کے بعد کیا کریں گے پھر سے مجھے اپنی غلطی کے کٹہرے میں لاکھڑا کریں گے ۔۔۔۔

ماہا جو کب سے خود پر ضبط کیے ہوئے تھی ابتہاج کے اس طرح حق جتانے پر اسے غصہ آگیا

ابتہاج نے آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھورا اور پھر کچھ سوچتے بنا کسی کی پرواہ کیے اسے کندھے پر ڈالتا کمرے کی طرف بڑھ گیا

ماہا اچانک افتاد پر گڑ بڑا گئی اور مزاحمت کر تی خود کو اس کی باہوں سے چھڑانے لگی ابتہاج نے اس کی ان سنی کرتے سیدھا کمرے میں لاکر اسے چھوڑا


ماہا تو اس کے تیور دیکھ حیران تھی ۔۔۔ ابتہاج اس کی ذہنی کیفیت کا اندازہ تھا تبھی وہ بنا کچھ کیے اسے اپنے سینے میں بھینچ گیا ماہا اس کا لمس محفوظ حصار اپنے گرد محسوس کرتی نئے سرے سے بکھرنے لگی ۔۔۔۔ ماہا پھوٹ پھوٹ کر روتی اس کی شرٹ کو مٹھیوں میں جکڑ گئی ۔۔۔

ابتہاج کا ایک ہاتھ نرمی سے اس کے بالوں کی جڑیں سہلا رہا تھا تو دوسرا ۔۔۔ کمر کے گرد تھا ماہا اب سسکیوں سے روتی اس کی غلطیاں بتا رہی تھی ۔۔۔

ماہا بہت زیزروڈ نیچر کی مالک تھی پر ابتہاج کی چند دن کی محبت اور قربت نےا سے ایک الگ ہی جذبے سے روشنا س کرایا تھا جسے سمجھنے سے وہ خود بھی قاصر تھی ۔۔۔ ا سکا دل چیخ چیخ کر گواہی دے ریا تھا کہ اسے محبت جیسے مرض نے جکڑ لیا ہے جس سے چھٹکارا نہ ممکن ہے ۔۔۔۔ محبت کا مرض دنیا کے ہر مرض سے جان لیوا ہوتا ہے ۔۔۔ اور ابھی ماہا کو یہ بات سمجھنے میں وقت تھا ۔۔۔۔

ابتہاج نے ماہا کو خود سے الگ کیا اور اس کی سرخ سوجی آنکھوں پر بوسہ دیا ۔۔۔۔ ماہا کو اپنا آپ اس کی سانسوں سے جھلستا ہوا محسوس ہوا ابتہاج نے دھیرے سے اس کی سرخ تیکھی ناک پر لب رکھے

۔۔۔ ماہا سرخ چہرہ لیےا سے دور کرنے کی تگ ودد میں تھی پر جتنا وہ دور جاتی ابتہاج کی گرفت اس کے بازوں پر سخت ہو جاتی ۔۔۔۔


ماہا نے تھک ہار کر اپنا آپ اس کے حوالے کر دیا جو کسی بادل کی طرح اس کے وجود پر چھایا ہوا تھا ۔۔۔ ابتہاج اپنی تین دنوں کی وحشتیں ماہا کی سانسوں کو خود میں الجھا کر نکال رہا تھا ۔۔۔

ابتہاج محبت سے اس کے لفظ چن رہا تھا اس کی سانسیں سینے میں اترتی محسوس کرکے ابتہاج کے دل و دماغ میں ایک سکون سا اترتا محسوس ہوا تھا

ماہا نے سانسیں بند ہونے پرا بتہاج کے کا لر کو دبوچ کر اسے خود سے دور کرنا چاہاپر ۔۔۔ اس کی بڑھتی جنون خیزی کے آگے ہار گئی اپنی مرضی سے خود کو سیراب کرتے ابتہاج پیچھے ہوا ۔۔۔۔ دونوں کا سانس بری طرح ہھول چکا تھا ۔۔۔ محبت اپنا آپ منوا رہی تھی ماہا بھول گئی تھی کہ اسے ابتہاج سے کوئی شکایت تھی ۔۔۔۔ وہ ناراض تھی اس کی زرا سی قربت نے ماہا کو دنیا بھلا دی تھی ماہا کو اپنے تن بدن میں رنگیں تتلیاں اڑتی محسوس ہو رہیں تھیں ۔۔۔وہیں ابتہاج بڑے دلفریب انداز میں ماہا کا سرخ پڑتا چہرہ دیکھ رہا تھا

ابتہاج کو شرارت سوجھی

اس نے ماہا کے کان میں جھک کر جان لیوا سر گوشی کی

ماہا سر تا پیر سرخ انگارہ ہوتی اپنا تپتا چہرہ اس کے سینے میں چھپا گئی ۔۔۔۔

ابتہاج نےا س کی حرکت پر قہقہہ لگایا۔۔۔

ماہا اس کے سینے میں سر چھپائے آنکھِیں موند گئی ۔۔۔ دنیا جہان کا سکون صرف اس ایک شخص کی باہوں میں آسمایا تھا جس کی محبت اس کی رگ و پے میں خون کی روانی بن کر دوڑ رہی تھی محبت ۔۔۔۔ دل کی دنیا ایسے بدلتی ہے اسے یقین نہیں آرہا تھا وہ تو روتی تھی اپنی بد قمستی پر ۔۔۔۔ لیکن اپنے شوہر کی محبت پر وہ خود کو دنیا کی سب سے خوش نصیب لڑکی تصور کر رہی تھی جس کا کل جہان اس کا شوہر تھا ۔۔۔۔

ماہا نے مسکراتے اس کے سینے پر اپنے لب رکھے اور اسکے گرد حصار بناتی اپنے آپ میں سمٹ گئی ۔۔۔۔

ابتہاج ابھی اور کچھ کرتا جب سیل فون کی آواز پر چونک کر ماہا کو خود سے الگ کیا

ماہا جھپاک سے وہاں سے نکل کر ڈریسنگ روم میں چلی گئی ۔۔۔۔ ابتہاج کی حرکت کے بعد اس کا سامنا کرنا اسے مشکل ترین کام لگا تھا۔۔۔ وہ کہاں اس کی لو دیتی نظروں کا سامنا کر پاتی تھی ۔۔۔۔ وہ کچھ ہی سیکنڈ میں اس کی حالت غیر گیا تھا ۔۔۔۔


___________


صنم کی آنکھ کھلی تو خود کو اکیلا پایا اس کا دل چاہا اپنی بے بسی پر پھوٹ پھوٹ کر روئے ۔۔۔۔ اور کتنے زخم تھے جو جھیلنے باقی تھے ۔۔۔ رات صالح کا اس قدر جنونی روپ دیکھ کر وہ اندر ہی اندر سہم چکی تھی ۔۔۔ اسے اب سچ میں خوف محسوس ہو رہا تھا صنم جلدی سے بیڈ سے اٹھی اور الماری سے اپنے لیے خوبصورت فراک نکالی اور واش روم۔چلی گئی وہ صالح کے آنے سے پہلے نماز ادا کرنا چاہتی تھی اسے نہیں پتا تھا کہ کوئی ہے جو اس کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھے ہوا ہے ۔۔۔صنم فریش ہو کر باہر آئی اور مرر کے سامنے کھڑی اپنا سراپا بغور دیکھنے لگی بلیک فراک گرے چوڑی دار پاجا مے میں اس کی رنگت خوب دمک رہی تھی ۔۔۔۔ صنم نے اپنی پشت پر بکھرے بالوں کوہیئر ڈرائیر کی مدد سے سکھایا اور کمرے سے باہر چلی آئی جب سے وہ آئی تھی ایک ہی کمرے میں قید تھی صالح نے تو کبھی اسے منع نہیں کیا تھا بس اس کا خود کا دل ہی ہر چیز سے بے زار ہو گیا تھا

صنم جیسے ہی نیچے آئی ۔۔۔ سامنے ہی کچن میں کھڑے صالح کومصروف انداز میں سبزیاں کاٹتے دیکھ آنکھیں پھیل گئی جس آدم خور ٙسے بچنے کی کوشش کر رہی تھی وہ تو یہیں تھا ۔۔۔۔ صالح کو دیکھ صنم واپس جانے لگی جب اس کی سرد آواز کانوں میں پڑی ۔۔۔

"اپنے قدم واپس لو اس سے پہلے میں کچھ کروں ۔۔۔ ناشتے کے لیے پلیٹس لگاو ۔۔۔ اتنا تو پتا ہی ہے کہ اول درجے کی پھوہڑ ہو ۔۔۔۔ ناشتہ میں برباد کرنا نہیں چاہتا اب ۔۔۔۔ جلدی کرو"

اس کا دوپٹہ جو سنبھالنے میں وہ ہلکان ہو رہی تھی ۔۔۔ صالح نے چوٹ کی ۔۔۔ صنم کی آنکھیں بے ساختہ آنسووں سے بھر گئیں

صنم نے مرے قدموں سے پلیٹیں ٹیبل پر رکھیں اور جیسے ہی واپسی کے لیے مڑی دوپٹے میں مڑ کر پلیٹ چھناک سے ٹوٹ گئی

صنم کی ایک دم چیخ نکلی کیونکہ پلیٹ کا کونا بری طرح اس کے پاوں کی اوپری سطح زخمی کر چکا تھا

صالح دوڑ کے اس تک پہنچا اور اس کے پاوں کا معائنہ کرنے لگا

ساتھ ساتھ سنابھی رہا تھا

"اندھی ہو دیکھ کر نہیں چل سکتیں جاہل لڑکی ۔۔۔۔ تم سے تو کوئی کام کہنا ہی فضول ہے ۔۔"

صنم جو پہلے ہی درد برداشت کرتے سسکیوں کو دبا رہی تھی اس کی سرد مہری پر دھاڑے مار کر رونے لگی


صالح تو ۔۔۔ ہونق بنا منہ کھولے اس مہا رانی کو دیکھ رہا تھا جو زرا سے زخم پر گلا پھاڑ کر رو رہی تھی ۔۔۔۔

جب وہ کافی دیر چپ نہ ہوئی تو صالح گہرا سانس بھرتا اسے باہوں میں بھر گیا

صنم اس کے سینے پرمکے نرساتی اس سے خود کو دور کرنے لگی صنم کو اس نے لاونج کے صوفے پر لاکر بٹھایا اور پاوں کی پٹی کرنے لگا

دواِئی لگاتے ہی صنم۔کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اس کا جلن سے برا حال تھا

صالح نے ایک نظر اس کے چہرے پر دیکھا

لال ناک ،سرخ ہونٹ جو اس کے دانتوں کی پر تشدد گرفت میں تھے ،بھیگے رخسار پر چھلکتی سر خیاں صالح ضبط کھوتا اس کے چہرے پر جھکتا اس کے لبوں کو اپنے لبوں کی گرفت میں لیتا اس کی نرم گرم سانسوں کو اپنی سانسوں میں اتارنے لگا ۔۔۔

اس کی گرفت اچانک صنم کو تکلیف دینے لگی ۔۔۔ صالح بنا اس کی پرواہ کیے بڑی چاہت سے اس کی سانسوں میں بسی خوشبو خود میں اتار رہا تھا ۔۔۔۔ اسے نشہ ہونے لگا تھا ۔۔۔۔ صالح خان کی زندگی میں آنے والی وہ پہلی لڑکی تھی جو صالح خان کی سرد مہری کو اپنے نین کٹوروں سے مات دے جاتی تھی وہ جتنا بچنے کی کوشش کرتا اتنا ہی دل اس کی جانب راغب ہوتا ۔۔۔۔ صنم اس کی شرٹ کو دبوچتی خود سے دور کرنے لگی پر صالح کو یہ بھی کہاں منظور تھا وہ تو پاگل سا اسے خود میں الجھا رہا تھا ۔۔۔۔ صنم اپنا درد بھولتی اس کی شدت بھری گرفت میں تڑپ کر رہ گئی ۔۔۔ عجب انداز تھا دلداری کا ۔۔۔۔۔ صنم کی سانسیں رکنے پر صالح نے اپنی مرضی سے اسے آزاد کیا اور اس کے ماتھے سے ماتھا ٹکائے اپنی گرم سانسوں سے اس کی بچی کچی سانسین خود میں انہیل کرنے لگا۔۔۔


صنم کا پورا چہرہ سرخ تھا صالح سمجھنے سے قاصر تھا کہ یہ غصے سے تھا یا اس کی قربت سے صالح نے اس کی پیشانی چومی اور پاوں کی ڈریسنگ کرنے لگا

صنم محتاط انداز میں اسے اگنور کرتی ادھر ادھر نظریں دوڑانے لگی جیسے اس کے سوا وہاں کوئی ہو ہی۔نا ۔۔۔۔

صنم۔کی حرکت پر صالح اپنی مسکراہٹ چھپانے لگا۔۔۔۔ پر وہ دیکھ چکی تھی وہ اس بندے کا مقابلہ کبھی نہیں کر سکتی تھی

"مممجھے کمرے میں جججانا ہے ۔۔۔ میرے سر میں درد ہے "

صنم اپنی بکھری حالت پر قابو پاتی لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں صالح سے مخاطب ہوئی جو پہلے ہی پوری طرح اس کی جانب متوجہ تھا

صنم اسے خود کو دیکھتا پاکر سٹپٹا گئی

صالح دھیما سا مسکراتا ہوا پھر اسے اپنی باہوں میں بھر گیا ۔۔۔ اس بار صنم نے کوئی مزاحمت نہیں کی تھی اس کے احساسات عجیب ہو رہے تھے ۔۔۔۔ صنم نے اس کی گردن میں اپنے دونوں بازو ہائل کیے اور سینے سے سرٹکاتی آنکھین موند گئی ۔۔۔

اس کے ذہن میں روکی کے ساتھ گزرے لمحے گزر رہے تھے کیسے وہ روز زخم دیتا اور دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتا تھا ۔۔۔ اور اس کے برعکس صالح اس کی زرا سی چوٹ پر تڑپ اٹھا تھا

اس کی زندگی بہت الگ رنگوں سے روشناس کرا رہی تھی جن رنگوں سے اب وہ ملنا نہیں چاہتی تھی ۔۔۔۔۔ وہ ان جزبوں سے بھاگنا چاہتی تھی ۔۔۔ خود کو چھپانا. چاہتی تھی ۔۔۔۔ ایک بار ہھر لٹنے کی ہمت نہیں تھی ۔۔۔ بچا ہی کیا تھا کھونے کو ۔۔۔سب کچھ تو لٹ گیا تھا ۔۔۔

ہر عورت سمجھتی ہے کہ وہ اپنے لیے فیصلہ لیتی ہے تو وہ سو فیصد درست ہوتا ہے اسے کسی کی دخل اندازی اپنے معاملوں میں برداشت نہیں ہوتی پر ۔۔۔ ہر بار صحیح ہو یہ بھی ضروری نہیں کیونکہ زندگی بڑے بڑے سور ماوں کو خاک چھاننے پر مجبور کر دیتی ہے ہم تو پھر بنے ہی خاک سے ہیں


_____


یہ ماہاکی رخصتی کے اگلے دن کی بات ہے جب منیبہ بیگم کمرے میں داخل ہوئیں تو دلاورشاہ کو نیچے زمین پر پڑے پایا وہ۔ لپک کر ان کی جانب گئیں اور انہیں جھنجھوڑنے لگیں ۔۔۔۔ پر بے سود ان کا وجود ٹھنڈا پڑ چکا تھا منیبہ بیگم نے جلدی سے ملازموں۔ کی مدد سے انہیں ہسپتال لیکر گئیں

وہاں کے لوگ دلاور شاہ کی شخصیت سے بخوبی واقف تھے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا ۔۔۔۔ کچھ دیر بعد ڈاکٹر نے منیبہ بیگم کو جو خبر دی انہیں لگا آسمان سر پر آگرا ہو دلاور شاہ کو ہارٹ اٹیک آیا تھا ۔۔۔ ذہنی دباو کی وجہ سے ان کا یہ حال ہوا منیبہ بیگم ان کی حالت پر آہ و زاری کرنے لگیں ان کا تو سارا گھر ہی برباد ہو گیا تھا بچا ہی کیا تھا دونوں بیٹیوں کو دلاور شاہ خود اپنے ہاتھوں سے دفنا چکے تھے ۔۔۔۔ منیبہ بیگم کے کانو ں میں اب بھی ماہا کی سسکیاں اس کی آنکھوں میں چھپی التجا تڑپا رہی تھی ۔۔۔۔ کیسے انہوں نےصبر کیا یہ صرف وہ یا ان کا رب ہی جانتا تھا سب ختم ہو گیا تھا انہوں نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا ان کے گھر کا شیرازہ اس طرح بکھر کے رہ جائے گا ۔۔۔۔۔ منیبہ بیگم نے کچھ نا سوجھتے صباء بیگم کو فون کیا جو دوسری ہی بیل پر اٹھا لیا گیا

منیبہ بیگم میں صباء بیگم کو دلاور شاہ کی ساری حالت کے بارے میں بتایا اور ان سے درخواست کی وہ کسی بھی طرح ماہا کو منا کر ہسپتال لے آئیں صباء بیگم خود بھی اچانک صورت حال پر پریشان ہو گئی تھی اب وہ ماہا کو کیسے بتاتیں ۔۔۔وہ تو کب کا اپنے ماں باپ سے رشتہ توڑ چکی تھی کس طرح سے کہتیں کہ ان کے ساتھ چلے ۔۔۔۔۔صبا بیگم نے ہمت کر کے ابتہاج کے کمرے کا رخ کیا ۔۔۔اور دروازے پر دستک دی ابتہاج کچھ دیر پہلے ہی آفس جا چکا تھا ماہا نے دروازہ کھولا تو صباء بیگم کی پریشان صورت دیکھ کر متوتش ہو گئی ۔۔۔۔صبا بیگم نے اسے اپنے ساتھ بیڈ پر بٹھایا اور اس کے ہاتھ تھام کر بولنے لگی

"ماہی میرا بچہ میں جو بات تم سے کرنے جا رہی ہوں تمہیں انتہائی تحمل سے میری ساری بات سننی ہے اور پریشان نہیں ہونا ۔۔۔۔تمہارے بابا کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے ماہایہ سنتے ہی منہ پر ہاتھ رکھتی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔۔۔۔

صباء بیگم نے اسے اپنے ساتھ لگایا اور بتایا کہ اب وہ بہتر ہیں بس تم سے ملنا چاہتے ہیں ۔۔۔ ماہا فورا سے بیشتر اپنی شال نکالتی جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی صباء بیگم نے نہایت محبت سے اسے دیکھا واقعی بیٹیاں محبتوں سے گندھی ہوتی ہیں ماں باپ بہن بھائی کے دکھوں پر اپنا آپ وار دیتی ہیں ۔۔۔۔ صباء بیگم کے ساتھ ماہا سب بھول کر ہسپتال چلی آئی تھی ۔۔۔اپنے باپ کو مشینوں میں جکڑا ہوا دیکھ دل سکڑ کہ پھولا تھا ازیت کیا ہوتی ہے درد کیا ہوتا ہے کوئی اس وقت ماہا سے پوچھتا اس نے تو کبھی اپنے باپ کے بارے میں برا نہیں سوچا تھا۔۔۔۔ وہ بس ناراض تھی ۔۔۔۔۔ ماہا دوڑ کر دلاور شاہ کے بیڈ کے پاس آئی ۔۔۔ آنسو آبشار کی طرح آنکھوں سے بہہ رہے تھے کیسی سزائیں ملیں تھیں اسے نا ختم ہونے والی ۔۔۔۔ماہا نے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھاما اور انہیں دیکھنے لگی دل میں ایک ہوک سی اٹھی تھی باپ کو اس حالت میں دیکھ کر ۔۔۔۔ وہ تو سوچ رہی تھی کہ اس کا باپ بہت خوش ہو گا اسے بدا کر کے پر یہاں تو وہ خود کو روگ لگائے دنیا سے بے نیاز بستر پر پڑے تھے ۔۔۔۔ ان کا غرور تنتنا سب چھپ گیا تھا یہ دلاور شاہ تو بہت ٹوٹا بکھرا سا وجود لگ رہا تھا جسے بیٹیوں کے روگ نے اجاڑ ڈالا تھا۔۔۔۔


_________،

ابتہاج کو بھی صباء بیگم ہاسپیٹل بلوا چکی تھیں دلاور شاہ کو ہوش آیا تو وہ تب بھی صنم کو ہی پکار رہے تھے ماہا کا دل پھٹنے کے قریب تھا انہیں اب بھی صنم یاد تھی ۔۔۔۔ ماہا نہیں وہ روتے ہوئے باہر نکلتی ابتہاج سے ٹکرائی ۔۔۔۔ابتہاج اس کی سرخ آنکھیں دیکھتا نرمی سے اسے خود میں سمو گیا۔۔۔۔

ماہا تو جیسے کسی سہارے کے انتظار میں تھی ابتہاج کا شانہ ملتے ہی اپنی قسمت پر آہ و بقا کرنے لگی ۔۔۔۔اس کے نصیب میں کبھی باپ کی محبت نہیں آئی تھی ۔۔۔۔ اسے تو اب یہ بھی بھول گیا تھا کہ آخری بار کب باپ کا محبت بھرا لمس محسوس کیا تھا

دل کا درد آنکھوں سے بہتا دل میں اتر رہا تھا وہ سوچ رہی تھی کہ آخر کب تک وہ ایسے ہی ترستی رہے گی کیا اس کے نصیب میں باپ کی محبت تھی ہی نہیں ۔۔۔۔وہ اکیلی دکھ سہنے کے لیے ہی بنی تھی ۔۔۔

ابتہا ج ماہا کا سر سہلاتا اسے چپ کرانے لگا۔۔۔۔ پر اسے کیا معلوم تھا سالوں کی تکلیف ہے ۔۔۔ نہ ختم ہونے والی ۔۔۔۔ ماہا کی نازک سی جان اپنوں کی محبتوں کو ترس ترس کے خود ہی احساس کمتری کا شکار ہرہونے لگی تھی اس کی کمزوری بن گئے تھے اس کے رشتے اس کی محبت اسے اپنے رشتوں میں مان اور عزت نہیں دلا پائی تھی یہی بات اسے کھائے جارہی تھی ۔۔۔وہ تو انا زادی نہیں تھی وہ تو باپ کی نظروں میں تقدس دیکھنے کی خواہاں تھی ویسی ہی بلکل جیسی صنم کے لیے تھی وہ اتنا سب کرکے بھی باپ کے حواسوں پر سوار تھی ۔۔۔۔۔

وقت ۔۔۔ بڑی بری چیز ہے بکھرے لوگوں کو بکھیرنے کا ہنر پاس رکھتا ہے ۔۔۔۔ محبتیں دامن میں سمنٹنے سے پہلے دامن خالی کر دیتا ہے ۔۔۔۔جب کسی کی محبت کا طلبگار کوئی اور نکلے اور آپ کا وہ کل سر مایہ ہو تو روح تک کانپ جاتی ہے ۔۔۔۔ والدین کی محبت تو ازل سے ابد تک ہوتی ہے اپنی اولاد کے لیے وہ تو اولاد کو بکھرنے سے پہلے سنبھال لیتے ہیں

ہر ماہا ہار گِئی تھی خود کو مضبوط کرنے کے چکر میں خود سے لاپتا ہو گئی تھی 

صالح ایک آرمی آفیسر تھا صنم کی حفاظت کا ذمہ اس کے ڈی آئی جی نے اسے دیاتھا وہ منیبہ بیگم کے سگے بھائی تھے دلاور شاہ کی طبیعت کے پیش نظر انہوں نے بھائی سے مدد مانگی اور اس طرح صالح خان کوٹھے پر جا پہنچا ۔۔۔ اور وہاں نکاح وہ سب قیمت سب ڈرامہ کیا ۔۔۔ پر کب اس نازک سی جان کے لیے دل میں جذبات پیدا ہوئے نا جان سکا یہ سکرٹ میشن تھا جسے صالح خان ہر حال میں پورا کر نا چاہتا تھا کل ہی وہ کوٹھے کو بند کر وا چکا تھا اور اب صنم کو لیے ایک خاص جگہ کسی سے ملوانے لایا تھا پورے راستے اس نے کوئی بات نہ کی تھی ۔۔۔ صنم ہچکیوں سے روتی شدید خوفزدہ تھی کہ صالح اسے کہاں لیجا رہا ہے

صالح اسے ایک خوبصورت طرز کے بنے گھر میں لایا اب وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے تھے


کیا دیکھ رہی ہو، میں جانتا ہوں کہ میں بہت ہینڈسم ہوں، بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ ایک ادا سے اسے خود کو گھورتا پاتے بولا کہ وہ غصے سے سر جھٹکتے نظریں پھیر گئی۔۔۔"

" کیا ہوا پہچانا نہیں تم نے،،،، اسے حقیقتاً برا لگا تھا کہ کیسے وہ اسے اگنور کر رہی تھی، اسی کے عشق میں بیحال تھا اور اب وہی اسے نخرے دکھا رہی تھی اسے اپنی توہین پر رج کر غصہ آیا مگر فلحال موقع کی نزاکت دیکھتے چپ ہو گیا ۔۔"

" آج کی زبان ادھار دے آئی ہو ، یا پھر بول بول بیچاری پہلے ہی اپنی ساری انرجی ختم کر چکی ہے کہ اور اب بولنا ہی نہیں چاہتی، وہ مزے سے اسے چھیڑ رہا تھا ، اپنی عادت کے خلاف جاتے وہ اسے اکسا رہا تھا کہ وہ بولے اس سے باتیں کریں ، جو ہنوز آنسو بہاتی خاموش بیٹھی تھی۔۔۔"

" صالح کی باتیں اسے اور بھی دکھ دے رہی تھیں۔۔ اپنی محرومی کا سوچتے اسکی آنکھیں پھر سے بھیگی تھیں۔۔۔"مگر وہ اس کی بات پر ٹھٹککتے اسے دیکھنے لگی، وہ تو پہلی بار اس کو ایسے روپ مِیں دیکھ دہی تھی اور اب اسے یقین تھا کہ وہ اسے دوبارہ سے قید کر لیں گے۔۔

" کیا ہوا ڈر لگ رہا ہے ، اس کی حیرت سے زیادہ پھیلی آنکھوں کو دیکھ وہ اسکا سوال پڑھتے ہوئے بولا تھا کہ وہ آنسو رگڑتے منہ پھیر گئی۔۔۔"

"ارے آئیے ائیے، صد شکر کہ آپ ائے۔۔۔ جب سے آپ کا ہی انتظار کر رہا ہوں ، میں۔۔۔ اچانک سے سامنے سے آتے عاصم کو دیکھتے وہ اٹھتا پرجوش سا انکی جانب بڑھا تھا۔۔ کہ صنم سنتی ایک دم س زرد پڑی، اسکی آنکھوں کے سامنے پھر سے وہی سب کچھ کسی فلم کی مانند چکنا شروع ہوا تھا

پورا وجود کپکپا رہا تھا۔۔۔ کہ اچانک سے اپنے سر پر کسی کے ہاتھ کو محسوس کرتے و خالی خالی نظروں سے سامنے دیکھنے لگی مگر سامنے شناسا سا چہرہ اتنے عرصے کے بعد دیکھتے وہ ایک سے اٹھتے انکے سینے سے لگی تھی اور بے آواز ہچکیوں میں رونے لگی ، پہلے تو پاس کھڑا حیران ہوا تھا ،

مگر پھر برے سے منہ بناتے ایک جانب دوبارہ سے کرسی پر بیٹھتے ٹانگیں ہلانے لگا۔۔""

کیسی ہو میری بچی۔۔ اسکے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے وہ ایک دم سے بھرائی آواز ، نم آنکھوں سے اسے دیکھتے بولے کہ وہ نم آنکھوں سے سر کو ہاں میں ہلا گئی کہ جیسے کہہ رہی ہو کہ ٹھیک ہوں، وہ سمجھتے ایک دم سے اسے پھر سے خود سے لگا گئے، "

کتنے عرصے سے وہ اسے دیکھنے ، محسوس کرنے کو تڑپے تھے۔۔ کس قدر عزیز تھی وہ انہیں ، کہاں سوچا تھا کہ اسکے بغیر بھی رہنا پڑے گا اسے خود سے دور کرتے اپنے دل پر خود سے پتھر رکھنا پڑے گا۔۔۔"

اگر آپ دونوں کا یہ ملنے کا ڈرامہ ہو گیا ہو تو کام کی بات کریں۔۔۔ انکے پیار کو دیکھتے وہ اکتاتے ہوئے لہجے میں بولتا پانی کا گلاس منہ کو لگا گیا۔۔۔"

ورنہ دل تو اسکا ایک ساتھ دو تین سگریٹ لگاتے خود کو پرسکون کر چکا ہوتا۔۔۔۔"

بیٹا تمہارا بیت بہت شکریہ کہ تم نے میرے کہنے پر میری بیٹی کو مجھ سے ملوایا۔۔۔ وہ مسکراتے اسکی بات پر متفق ہوتے اسکے پاس بیٹھے کہ صنم پھٹی پھٹی آنکھوں سے کبھی اپنے ماموں تو کبھی صالح کو دیکھ رہی تھی جو اب احسان کا شکریہ کہتے گردن اکتائے بیٹھا تھا۔۔۔"

" میں اسے لے جا رہا ہوں اور اسکے رہنے کے لیے ایک مخفوظ مقام بھی تلاش لیا ہے میں نے ، تمہیں جو چاہیے ہو گا وہ میں بعد میں تمہاری خواہش سے بھی بڑھ کر دوں گا۔۔۔ اپنے وعدے کے مطابق وہ اسے خود سے ہی باور کراتے بولے اور اٹھتے صنم کا ہاتھ تھاما ، چلو میری بچی۔۔۔ میں تمہیں اس مکار ، فریبی دنیا سے چھپاتے کہیں دور لے جاؤں گا۔۔۔ "

" صنم کے ماما جی ۔۔۔" وہ بڑھتے کہ اچانک سے پیچھے سے آتی صالح کی آواز پر وہ ٹھٹھکتے ہوئے رکے ، اور انجان نظروں سے اسے دیکھنے لگے۔۔۔" گویا کہ ابھی ان کے پاس وقت بالکل ناں تھا کہ وہ اس سے بحث کرتے یا پھر کوئی سوال ہی پوچھتے کیونکہ ابھی وہ صنم کو چھپانا چاہتے تھے ، کسی مخفوظ مقام پر، کیونکہ کل ہی دو آدمی انکے ہوسپٹل میں آئے تھے اور انکے سئنیر ڈاکٹر کو رشوت دیتے صنم کی تصویر دکھائی کہ اس لڑکی کے بارے میں معلومات چاہیے ،

یہ تو شکر تھا کہ اس ڈاکٹر نے معاملے کو سمجھتے فوراً سے انکار کر دیا اور انہیں زبردستی ہوسپٹل سے نکالتے ہی وہ فورا سے عا کے پاس آیا تھا اور انہیں معاملے کی سنگینی سے واقف کیا ، اور وہ پریشانی میں کچھ بھی ناسوجھتے صالح سے ہی مدد مانگ چکے تھے کہ وہ جانتے تھے کہ ایسا کام صرف وہی کر سکتا تھا ۔۔۔۔۔"۔

منبیہ بیگم کو بتانے کا وہ رزک نہیں لینا چاہتے تھے کہ کہیں وہ غصے میں خود ہی ان سے پنگا ناں لے لے۔۔۔"

" میں نے آپ سے کچھ کہا تھا کال پر۔۔۔ وہ چلتا سگریٹ کا گہرا کش لگاتے دھواں نکل کی جانب جھکتے اسکے چہرے پر چھوڑتے ہوئے بولا کہ وہ کچھ فڑبڑائے اسکی غیر متوقع بات پر انکا دماغ اچانک سے سن پڑا تھا کہ وہ کونسی سی فرمائش کرنے والا تھا۔۔"

" دیکھو بیٹا ، میں جانتا ہوں کہ تم میری رضامندی چاہتے ہو ، اور میں نے تم سے کہا تھا کہ اگر تمہارا دل بدل گیا تو جو مرضی مانگ لینا ، مگر میں کہہ رہا ہوں کہ ابھی مجھے جانے دو ، میرا جانا ضروری ہے میں واپس آ کر تم سے بات کروں گا۔۔۔"

" وہ جانتے تھے کہ اگر وہ ضد پر اڑا رہا تو اسے منانا بیت مشکل ہے اسی لیے آرام سے مسکراتے اس کا کندھا تھپکتے ہوئے بولے۔۔۔"

" نہیں انکل اس بار میرا دل کسی اور چیز پر آیا ہے۔۔۔ وہ صالح کے وجود کو اپنی گہری نگاہوں کے حصار میں رکھتے مخنی خیزی سے بولا کہ عاصم سنتے ایک دم سے بھڑک اٹھے۔۔۔

" کیا کہہ رہے ہو تم ، صالح خان زبان کو لگام دو۔۔۔۔ وہ غصے سے صنم کو اپنے پیچھے کرتے اسکے سامنے آتے ہوئے بولا کہ وہ ہنسا انکی بے وقوفی پر۔۔۔۔"

" آپ کی سادہ سی زبان میں کہوں تو پسند آ گئی کے آپکی بھانجی اب یہ صالح خان کی ہے اور صالح اس سے شادی کرچکا ہے۔۔۔"

ٹھنڈے ٹھار لہجے میں ایک ایک لفظ پر زور دیتے وہ انکی آنکھوں میں دیکھتے مسکرایا کہ وہ سر جھٹکتے مٹھیاں بھینچ گئے ۔۔۔"

" یہ ناممکن ہے۔۔۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔ چلو میری بچی۔۔۔ وہ اسے دوبدو جواب دیتے اسکے کپکپاتے ہاتھوں کو تھامتے بولے جبکہ وہ تو اس کی فرمائش سنتے ہی مرنے والی ہوئی تھی کجا کہ اس سے ۔۔۔"

" یہاں سے اب ہم نہیں صرف آپ جائیں گے صنم۔ کے ماما جی ۔۔۔ آرام دہ انداز میں وہ کرسی پر لیٹنے کے انداز میں بیٹھتے اپنے ہاتھوں کو اوپر کرتے انگڑائی لیتے بولا تھا کہ وہ سنی ان سنی کرتے باہر کو بڑھے۔۔۔

راستہ چھوڑو میرا۔۔۔ وہ بڑھتے باہر کو جاتے کہ دروازے کر کھڑے گارڈز نے گن نکالتے ان کے سر پر تانی۔۔۔ صنم نے ڈرتے اپنے سامنے ان ہتھیاروں کو دیکھتے انکے بازوؤں میں منہ چھپایا ۔۔۔۔"

سوری سر۔۔۔ آپ تب تک یہاں سے نہیں جا سکتے جب تک سر نہیں چاہے گے۔۔۔۔ ایک گارڈ نے نہایت ادب سے کہا تھا کہ وہ ضبط۔ سے سرخ ہوتی آنکھوں کے ساتھ بمشکل سے گہرا سانس لیتے خود کو نارمل کرنے لگے۔۔

ادھر ۔۔۔ سسر جی ادھر آئیے ، وہاں کیا کر رہیں ہیں۔۔ وہ مسکراتے سیٹی بجاتا انہیں اپنی جانب متوجہ کرتے پیار سے بولا کہ وہ سنتے نفی میں سر ہلاتے دوبارہ سے صنم کو لیتے اسکے سامنے گئے۔۔۔۔"

کیا چاہتے ہو آخر کار تم۔۔۔۔" وہ غصے سے ضبط کھوتے اس پر دھاڑ اٹھے تھے۔۔ جبکہ وہ بنا برا منائے یونہی لیٹا رہا۔۔۔"

آپ کی بیٹی سے شادی نکاح تو پہلے ہی کر چکاہوں ۔۔۔۔ ببل میں میں ڈالتے وہ نارمل سے انداز میں بولتے آنہیں سر تا پاؤں سلگا گیا۔۔۔۔"

" جانتے بھی اسکے بارے میں کچھ جو شادی کرنا چاہتے ہو ، اسکا کل ، اسکا ماضی کچھ معلوم نہیں تمہیں۔۔۔۔۔"

مجھے پرواہ نہیں۔۔۔ اسی عام سے انداز میں جواب دیا تھا مگر نظریں ابھی بھی اس نازک سے وجود پر اٹکی ہوئیں تھیں۔۔۔۔"

چھ ماہ یہ ، چھ ماہ تک یہ گھر سے باہر رہی ہے اغوا کیا تھا اسے گنڈوں نےایک کوٹھےپر وقت گزار کے آئی ہے ، پوری دنیا اسے بدچلن ، کہتی ہے اسکی ماں کو بھی وہ لوگ مار چکے تھے اور اسکی ماں کی موت کی زمہ دار بھی یہ مانی جاتی ہے۔۔۔ کیا اب بھی کرو گے اس سے شادی۔۔۔۔؟"!!!

کیا الفاظ تھے ، یا وخشت۔۔ وہ بولتے اپنے دل پر جبر کر رہے تھے ، انہیں تو یقین تھا اپنی معصوم بچی پر، مگر یہ دنیا ، یہ دنیا کیونکر یقین کرتی انکی کسی بات پر۔۔۔ وہ جانتے تھے کہ یہ سب کچھ سنتے ہی وہ خود سے انکار کر دے گا۔۔ "

" جبکہ وہ ہاتھ کو منہ پر رکھتے ، پھر سے رو رہی تھی۔۔ اپنی کم مائیگی اپنی قسمت ، اپنے نصیبوں کے لکھے پر۔۔۔۔۔"

" اگر میں کہوں کہ یہ سب مجھے پہلے سے معلوم ہے اور اس سے بڑھ کا جانتا ہوں میں سب کچھ ، اور پھر بھی اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں تو۔۔۔۔۔ کیا آپ اپنے ہاتھوں سے اسے میرے نام کریں گے۔۔۔"

نہایت آرام دہ سے انداز میں کہے اسکے الفاظ وہ سنتے ہی حیرت زدہ سے اسے گھورنے لگے، '

حیران ناں ہوں ، مجھے میرے سوال کا جواب چاہیے۔۔ وہ مسکراتے انکی حیرت کو دیکھ۔ جھکتے رازداری سے بولا کہ وہ لب بھینجتے سوچ میں پڑ گئے۔۔ دراصل اس آفت وہ خود شش و پنج میں مبتلا تھے کہ آخر اسے سب کچھ کیسے معلوم اور اگر معلوم بھی تھا تو پھر بھی وہ کیونکر نمل سے شادی کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔"

" اگر میں مان بھی جاؤں ، تو تمہارا خاندان تمہیں اس کی اجازت نہیں دے گا،۔ وہ ہاتھ پشت پر باندھے کچھ سوچتے ہوئے بولے کہ وہ سر جھٹکتے مسکرایا۔

آپ کو لگتا ہے کہ وہ سو کالڈ نام نہاد خاندان والے مجھے میرے ارادوں سے روک سکتے ہیں ۔۔ "

وہ مسکراتا انکی بات کا مزاق اڑاتے ہوئے بولا کہ عاصم چونکے اسکے کہنے پر۔۔۔ مگر پھر سے کچھ سوچتے ہوئے بولے ۔۔۔۔"

"اور تمہیں یہ کیوں لگتا ہے کہ تمہارے کہنے پر میں یقین کر لوں گا کہ تم واقعی میں میری بیٹی کو پسند کرنے لگے ہو۔۔۔

انکے کہنے پر وہ ایبرو اٹھاتے ہوئے انہیں داد دینے والے انداز میں دیکھنے لگا وہ واقعی ان کے اس سوال سے متاثر ہوا تھا۔۔"

اور اب انکے کہنے پر وہ زرا سا گردن کو ترچھا کرتے انکے پیچھے دبکی چھپی ہوئی نمل کو دیکھتے مسکرایا۔۔۔۔"

" آپ کو اپنی بیٹی کی خفاظت کرنی ہے رائٹ۔۔۔ اسکے لیے کوئی ابھی سی جگہ تو آپ نے ڈھونڈ ہی کی ہو گی مگر اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ وہ وہاں پر مخفوظ ہو گی۔۔۔ مگر میں آپ کو گارنٹی دیتا ہوں ، اگر آپ اسے خود سے میرے نکاح میں دینے کو رضامند ہیں تو اس پر کسی کا برا سایہ بھی ناں پڑنے دوں گا۔۔ اور آپ تو جانتے ہی ہوں گے کہ میں اپنے قول کا کتنا پکا ہوں۔۔۔"

باقی اگر آپ نہیں بھی چاہتے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں کیونکہ نکاح تو ہوچکابہے ا چاہے آپ کی رضامندی شامل ہو یا ناں مگر آج یہ نکاح میں دوبارہ کرنا. چاہتا ہوں ہر صورت ہ باقی آپ مجھ سے زیادہ سمجھدار ہیں سسر جی۔۔۔۔ انکے پاس جاتے وہ آرام سے انہیں سمجھانے کے ساتھ وارننگ بھی دیتے ہوئے بولتا آخر میں انکا کندھا تھپکتے ہوئے سامنے کی جانب بڑھا تھا ، جہاں سامنے ہی بشیر اپنے ساتھ ایک مولوی کو گھیسٹتے کا رہا تھا جو کہ دیکھنے میں درمیانہ عمر کا حاصل شریف دکھ رہا تھا۔۔۔۔"

ارے آئیے مولوی صاحب کب سے آپ کا انتظار کر رہا ہوں میں ، اتنی دیر لگاتے ہیں بھلا۔۔ مسکراتے اپنی گن کو جیب سے نکالتے وہ ہاتھ میں پکڑتے ہاتھ مولوی کے کندھے پر رکھ چکا تھا کہ مولوی کے دیکھتے ہی سارے تنے اعصاب ڈھیلے پڑے تھے اور وہ پل بھر میں اپنی شرافت میں آیا ۔۔۔۔۔"

جی جی آ گگ گیا میں بب بتائیں کک کس کا نکاح پڑھوانا ہے۔۔۔" " کپکپاتے ہوئے کہتے وہ ہاتھ سے اپنے کندھے پر رکھے صالح کے ہاتھ کو نیچے کرتے بولا کہ بشیر اس مولوی کی عقل ٹھکانے آنے پر فل بتیسی کی نمائش کرنے لگا، کتنی مشکل سے وہ اسے پکڑ کر لایا تھا جو جانے اس اللہ کے کون کون سے عذابوں سے روشناس کراتے اسکے ساتھ مجبوراً آیا تھا۔۔۔۔۔"

" یہ پرانی فلموں کے ہیرو کی طرح بتیسی دکھانا بند کر اور جا کر چھوراے لے کر ، ارے بھائی مولوی صاحب کو بھی تو کچھ کھلانا ہے اور تم سب کو بھی تو اپنے نکاح کے چھوراے کھلاؤں گا۔۔۔ چل مولوی آؤ بیٹھو اور نکاح شروع کرو۔۔۔۔۔"

وہ ہاتھ سے مولوی کو اشارہ کرتے بیٹھنے کا بولنے لگا کو کہ فوراً سے تابعداری سے بیٹھتے آگے پیچھے دیکھ رہا تھا۔۔۔"

" بیٹا بیٹا صنم ۔۔۔۔۔" اسے بھاگتے ہوئے دوبارہ سے اندر جاتا دیکھ وہ بے چین ہوتے اسکے پیچھے بھاگے۔۔۔"

توں کیا دیکھ رہا یے۔۔ آنکھیں نیچی کر اور کلمہ ٹھیک سے پڑھائیو۔۔۔۔۔۔" اسے اندر کی جانب گھورتا پاتے وہ غصے سے بولتے اسکے سامنے بیٹھتے ٹانگیں ۔یز پر پھیلاتے ہوئے بولا کہ وہ جی جی کرتا رہ گیا۔۔۔۔"

سس سائیں چھوراے تو میں لے آیا مگر گواہ وہ پریشانی سے اسکے کان میں سرگوشی کرتے بولا کہ صایام ایک نظر اسکے ہاتھ میں پکڑے چھوروں کے تھا ل کو دیکھتے اسے گھورتے دیکھنے لگا۔۔۔"

" یہ جو اتنے ڈارون کو پالا ہے اسی لیے تو رکھا ہے کہ

کام آ سکیں۔۔۔ بکا ان سب کو یہ رہے میرے باراتی اور میرے گواہان۔۔۔ سامنے کھڑے اپنے گارڑز کی نفری کو دیکھ وہ پہلی بار محبت سے بولا تھا کہ وہ سب ڈرتے اسکی اونچی آواز پر اتنی محبت برسانے ہر گھبراتے ایک دوسرے کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔

۔"

" آ جاؤ سارے۔۔۔۔۔۔"

وہ ہاتھ سے انہیں اشارہ کرتے بولا کہ وہ سب دبے دبے قدموں سے گن پکڑتے ہی اسکی جانب آئے تھے جبکہ مولوی ایک ساتھ ان سب کو اپنی جانب آتا دیکھ ، فل ہی دل میں اللہ کو یاد کر رہا تھا۔۔"

" صنم میری جان ، میری بات تو سنو۔۔۔۔ دیکھو صالح ایک اچھا انسان ہے ، وہ خوش رکھے گا تمہیں،

عاصم اسے بیڈ پر لیٹا روتا دیکھ اسکے پاس بیٹھتے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے تھے وہ جانتے تھے اسکی حالت مگر کبھی انہوں نے خود ہی تو خواہش کی تھی کہ کوئی انکی بیٹی جسیی بھانجی کا ہاتھ تھام لے اور اب جب وہ تھام رہا تھا تو وہ کیونکر مکمل اعتماد کرنے کے بعد بھی یہ نا چاہتے کہ انکی صنم ہنسی خوشی رہ پائے۔۔۔"

وہ روتے سنتی آٹھ بیٹھی تھی۔۔۔

دیکھو بیٹا ، اگر وہ اتنا ہی بتا ہوتا تو تم کل رات سے اسکے گھر پر ہو اور اسکے ساتھ ، تو سوچو وہ اگر برا ہوتا تو جو چاہے کر سکتا تھا مگر اس نے تمہاری خفاظت کی ، میرے ایک بار کہنے پر وہ اپنی جان حطرے میں ڈالتا تمہیں لے کر آیا تھا۔۔

اس کے سر پر ہاتھ رکھتے وہ اسے سینے سے لگاتے سمجھانے لگے ، مگر صنم کا دماغ تو اس ایک ہی بات ہر اٹکا تھا کہ وہ رات سے یہاں اسکے گھر ، اسکے ساتھ تھی۔۔۔ مگر وہ کیسے آئی تھی یہاں اور کیا کچھ ہوا تھا اور کیا اس پر پھر سے بہتان لگائے جائیں گے۔۔۔ وہ سوچتے لب بیھنج گئی۔۔ آنکھیں تو جیسے خشک ہونا ہی بھول چکی تھیں ۔۔۔"

" اپنے بابا مانتی ہو نا تو بابا کی بات مان لو ، مجھے یقین ہے کہ وہ تمہارا خیال رکھے گا اور اس وقت صرف وہی ہے جو تمہیں اس دنیا سے بچا سکتا ہے۔۔۔ ڈھکے چھپے الفاظ میں وہ اسے بتاتے ہونٹ اسکے سر پر رکھ گئے۔۔ وہ کیسے اسے کھل کر بتاتے کہ وہ دوبارہ سے کسی کی نظر میں آ چکی ہے، کیسے اسے دوبارہ سے اسی دلدل میں جانتے بوجھتے بھی بھیجتے ۔۔۔۔ اسی لیے انہوں نے صالح خان ہ کے حق میں فیصلہ کیا تھا ۔۔۔ اور بنا اسکی سنے وہ کہتے ایسے ہی اٹھتے باہر کو گئے تھے جبکہ کہ پیچھے وہ اپنی قسمت پر حیران سی اس اچانک سے آئے نئے طوفان اپنی زندگی کہ اس موڑ پر ششدر سی تھی۔۔۔۔"

مولوی صاحب نکاح شروع کریں۔۔ انکی آواز کر باہر ایک دم سے سناٹا چھایا تھا۔۔ سب نے مڑتے انکی جانب دیکھا مگر صالح خانب کی آنکھوں میں ایک الگ ہی چمک ایک الگ ہی منظر تھا۔۔۔"

وہ ہلکا سا مسکرایا اپنی منزل کو نزدیک سے دیکھتے۔۔۔"

*___________________________________________*

" سر ۔۔۔ وہ کہہ رہی ہیں کہ وہ آپکو نہیں جانتی۔۔۔"!!!

" اوکے آپ کانشکریہ آپ جائیں۔۔۔۔ وہ سنتے ہی فورا سے لب بھینجتے بولا کہ چپڑاسی جی اچھا کہتا وہاں سے نکلا۔۔۔'

" جبکہ وہ جبڑے بھینجتے ، ایک دم سے سپاٹ چہرہ ، لیے سرخ کالی آنکھوں پر سن گلاسز لگائے چلتا ہوا ، یونی کے گرلز پورشن میں داخل ہوا تھا۔۔۔

" کئییوں نے مڑتے اس اکڑو ، سے تلسم برپا کرتی پرسنٹالی کے مالی نے ابتہاج گردیزی کو مڑتے دیکھا تھا ، جبکہ کئی اسے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں۔ جو کہ ان سب سے کو اگنور کرتے بڑھتے سیڑھیاں چڑھتے اوپر کی جانب گیا تھا کہ پیچھے سے آتے چپڑاسی کی آواز نے اسے روکا ۔۔۔۔

وہ مڑتے قدم روکتا اسکی جانب دیکھنے لگا جو کہ اسکے دیکھنے پر دو سیڑھیوں کے فاصلے پر کھڑا اب عالی کو ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔

سس سر وہ بڑے صاحب نے کہا ہے کہ آپ ان سے مل لیں، وہ آرام سے بولتے اسکو اترنے کی جگہ دینے لگا ،

جب وقت کو گا تب مل لوں گا ابھی ایمرجنسی ہے بتا دینا ۔ وہ سن گلاسز لگاتے شان بے نیازی سے کہتا دوبارہ سے اوپر بڑھ گیا۔ وہ اچھے سے جانتا تھا کہ اب اس پرنسپل کو کیا کام ہو گا اس سے ، مگر اس وقت اس کا موڈ نہیں تھا کہ وہ اس فضول سے آدمی کے ساتھ بحث کرتا۔۔۔۔۔" اسی لیے وہ جس کام کو آیا تھا پہلے وہ سر انجام دینا تھا۔۔۔"

اکسکیوز می۔۔۔۔ کیا یہاں پر مس ماہا ہیں ۔۔ انہیں بھیجیں مجھے بات کرنی ہے ۔۔۔"

دروازہ کھولتے وہ سامنے کھڑے ہینڈسم سے ینگ سر کو دیکھ پہلے تو غصے سے مٹھیاں بھینچتے خود کو پرسکون کرنے لگا ، پھر ایک سرد آہ خارج کرتے وہ محاطب ہوا وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی بدمزگی کو اسینلیے دروازے پر ہی کھڑا رہنا مناسب سمجھا۔۔۔۔"

اسکی سرد بھاری مردانہ آواز کو سنتے ہی وہ ہاتھ میں پکڑے پین پر گرفت مضبوط کر گئی ۔ جبکہ سامنے کھڑے ابرہیم (سر) کا دھیان اب اس شحض پر سے ہوتا ماہا کی جانب تھا جسے وہ عجیب سی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔

" ابتہاج ایک میڈیا پرسن تھا جسے وہاں موجود ہر شخص اچھے سے جانتا تھا مگر وہ چونکا اس لیے کیونکہ جتنا اسے معلوم تھا ماہا ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی تو پھر ان کا آپس میں کیا ری ریلیشن ہو سکتا ہے۔۔"ماہا اسی کے کہنےطپر کالج آئی تھی پر اس نے ابتہاج کے سامنے شرط رکھی کہ وہ کسی کو بھی اپنا رشتہ نہیں بتائیں گے

مس ماہابکیا آپ جانتی ہیں انہیں۔۔ ایک نظر دروازے کے پاس کھڑے ابتہاج کو دیکھتے وہ ماہا۔سے محاطب ہوا تھا جو سب کی توجہ خود پر پاتے پک بھر میں شرمندہ سی سرخ ہوتے اٹھی تھی۔۔۔

نن نو سر میں نہیں جانتی۔۔۔ ایک نظر اس کے مسکراتے ہوئے چہرے پر ڈالتے وہ سر جھکائے غصے سے بولی ، جبکہ ابتہاج کا دھیان اسکی سانولی غصے سے تپی رنگت پر تھا۔۔۔۔"

" دیکھیں وہ ایکو نہیں جانتی تو آپ پلیز جائیں ابھی لیکچر کا ٹائم ہے اگر پھر بھی آپ کو پرسنل بات کرنی ہے تو انکے گھر پر جائیے گا۔۔۔ "

ابرہیم اسکے بھیجنے جبڑوں اور تنے اعصاب کو دیکھتا تحمل سے بولا تھا کہ وہ سنتا ایک نظر اس پر ڈالتے سن گلاسز اتارتا کوٹ کے سامنے لگا گیا۔۔۔۔۔"

" رشتہ تو ہے ہمارا مگر وہ کیا ہے ناں کہ شاید اتنا مضبوط نہیں اسی لیے یہ سب کو بتانے سے ڈرتی ہیں۔۔ میں شوہر ہوں انکا ، نام تو سنا ہی ہو گا آپ سب نے۔۔۔ اپنے تعارف پر اٹھتی ہلکی ہلکی سی سرگوشیوں کو سنتے وہ سب سے مخاطب ہوا تھا ،کئی لڑکیوں نے غصے۔ تنفر سے ماہابکو دیکھا تو کئی حسرت بھری آہ بھرتی رہ گئیں۔۔۔"

اور آج ہم اپنی شادی کی شاپنگ پر جا رہے ہیں۔ وہ کیا ہے ناں کہ میرے ہی فورس کرنے پر اس نے ایڈمیشن لیا ہے ورنہ یہ تو انکار کر چکی تھی اور اب ویسے بھی شادی کے بعد ز گھر اور بچوں کو ہی سنبھالنا کے تو ابھی کیوں نہیں ، اور میری ہونے والی مسز ناراض ہیں کیونکہ میں نے رات کو ک جلدی کاٹ دی تھی۔۔ اب میرا ارادہ شاپنگ کے بعد اسے منانے کا بھی ہے۔۔ تو بائے بائے ایوری ون۔۔ چلیں جان۔۔۔۔ وہ تفصیل سے سب کو بتاتے عشال کے ہاتھ کو تھامتے اپنے ساتھ گھیسٹتے لے جانے لگا ،

جبکہ وہ تو اسکی بے تکی باتوں کو سنتے پورے کللاس اور سر کے سامنے شرمندہ ہی ہوئی تھی اوپر سے اس بددماغ آدمی کے یوں کھینچتے اپنے ساتھ کے جانے پر حاصا غصہ بھی ہوئی تھی ۔۔۔'

چھوڑیں میرا ہاتھ مسٹر ابتہاج ۔۔۔۔۔ وہ غصے سے اپنے ہاتھ پر اسکی جان لیوا سخت گرفت پر مچلتے اسے توڑنے کی ناکام سی کوشش کرنے لگی ۔۔ مگر وہ بنا اسکی باتوں کا اسکی حرکتوں کا اثر لیے اسے کھینچتے ہوئے اپنے ساتھ لے گیا۔۔۔۔"

اگر ہلی ناں یہاں سے تو دو منٹ میں دماغ ٹھکانے لگا دوں گا۔۔۔ ڈور کھولتے ہی اسے اندر پٹکھتے وہ سرد غصے بھری آواز میں بولا تھا کہ وہ اسکی غراہٹ پر دبکتی سیٹ کے ساتھ جا لگی۔۔۔۔

" جب میں بلایا تھا تو ملنے سے انکار کیا۔۔۔ اسے پکڑتے رخ اپنی جانب کرتے وہ اس کی بھیگی لرزتی پلکوں کو دیکھتے وہ آرام سے بولا تھا۔۔ جبکہ وہ بنا کوئی جواب دیے یونہی بیٹھی اب آہستہ آہستہ سے رونے لگی تھی۔۔"

ماہا ۔۔۔۔ میں کچھ پوچھ رہا ہوں۔۔ دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی اسکی تھوڑی کے نیچے ٹکاتے وہ ہلکا سا اسکے چہرے کو اوپر کرتے بغور دیکھنے لگا۔۔۔۔"

بڑی بڑی سی سرمئی آنکھیں، درمیانی سی چھوٹی ناک ، باریک خوبصورت سے ہونٹ ، جس پر متصادم سانولی رنگت اسکے چہرے کی کشش کو اور بڑھا دیتی تھی مگر وہ تو اسکی تھوڑی میں پڑتے اسکے گڑھے پر فدا تھا جو اسکے گولائی سے تراشے گئے خوبصورت سے چہرے پہ اور بھی خوبصورت دکھتا تھا۔۔۔۔"

رونا بند کرو، ورنہ اگر میں نے کوئی ایسی ویسی حرکت کی تو تمہی کو برا لگے گا۔۔۔"

مخنی خیزی سے اپنے پرتپش جھلسا دینے والی نگاہیں اسکے پورے چہرے پر دوڑاتے وہ گھمبیر لہجے میں بولتے اسکی ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ سی دوڑا گیا کہ وہ فوراً سے اپنے آنسو صاف کر گئی۔۔۔"

کیوں آئے ہو، وہ رندھی آواز میں بولتے اسکے وجیہہ چہرے کو دیکھنے لگی۔۔۔

بھول گئی خود ہی تو بلایا تھا۔۔ لب دانتوں تلے دباتے وہ مسکراتے اسے چھیڑتے ہوئے بولا ، انگوٹھی انگوٹھی لینے کو آیا ہوں، اسکی پھیلی آنکھوں دیکھتے وہ قدرے جھکتا اسکی جانب ہوتے

ابتہاج ماہا کے لیے انگوٹھی لایا تو اس نے جھجھک کر منع کردیا یہی بات ابتہاج نے پکڑلی تھی اور ماہا کے پیچھے چلا آیاتھا

رازدارانہ بولا کہ وہ حیرت و بے یقینی سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔"

" یہ لو۔۔۔ اسکی مسکراتی آنکھوں میں دیکھ وہ فوراً سے ہاتھ بڑھاتے ایک نظر اپنی ہاتھ میں دھمکتی اس نازک سی ڈائمنڈ رنگ کو دیکھتے اتارنے لگی . کہ وہ سر جھٹک گیا اس کی بے وقوفی پر۔۔۔ کیوں ہر بار یہ بے وقوفی کرتی ہو۔ جب جانتی ہو کہ تمہارے یہ ننھے ننھے مشنز۔ بھی تمہیں مجھ سے بچا نہیں پائیں گے۔۔۔۔ سو ریلکس رہو اور اگرررررر۔۔۔۔۔ یہ رنگ تمہارے ہاتھ سے اتری تو آئی سویر ، بہت براہوگا

'عجیب سرسراتے سے لہجے میں وہ اسکے ہاتھ کو پکڑتے رنگ پر اپنی انگلی گھماتے ہوئے مخنی خیزی سے بولا تھا کہ وہ سنتے آنکھیں حیرت سے پھیلائے منہ کھول گئی۔۔۔

کیا کوئی شک ہے ، :" اس کی حددرجہ پھیلی آنکھوں میں دیکھتے وہ کچھ جانچتے ہوئے لہجے میں بولا کہ وہ ہاتھ چھڑاتے گردن نفی میں ہلا گئی۔۔۔۔"

کک کہاں جج کا رہے ہیں ہم۔۔۔۔ اچانک سے اسے گاڑی سٹارٹ کرتے دیکھ وہ کپکپاتے ہوئے لہجے میں بولی تھی سارا غصہ ، تو اسے سامنے دیکھ پل بھر میں جھاگ کی طرح بیٹھا تھا اور اب اسے ڈر تھا کہ کہیں وہ سچ میں ہی تو اسے مارنے نہیں لے جا رہا

سرپرائز ہے جان۔۔۔۔۔۔ اور اس کے بعد ہم گھر جائیں گے اور آج میں تمہارے ساتھ رہنا چاہتا ہوں ۔۔ سو پلیز اب یہ پڑھائی کا بہانہ بنانا بند کرو ، کیونکہ میں اچھے سے جانتا ہوں یہ سراسر مجھ سے بچنے کی پلینگ ہے ، مگر اب میں اور ویٹ نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔ '"

تو خود کو تیار کر لو ۔۔۔ اسکی گود میں رکھے ہاتھ کو تھامتے وہ ہونٹوں سے چھوتے مسکراتے ہوئے سے لہجے میں بولا کہ وہ ہاتھ ایک دم سے پیچھے کرتے، اسکی نظروں کا رخ خود کر پاتے دوپٹہ ٹھیک کرتے پہلو بدل کر رہ گئی۔۔۔ See less

بہت بہت مبارک ہو میرے شیر ۔۔۔۔۔ میرا سر فخر سے بلند کر دیا ہے تم نے۔۔۔۔۔!"۔ آفس سے واپس آتے اپنی جانب بڑھتے ابتہاج کو دیکھتے کاشان صاحب فخر سے کہتے کھڑے ہوئے تھے۔۔۔۔۔ ابتہاج ہلکا سا مسکرایا ۔۔اور قدم آگے بڑھائے اپنے پاپا کی جانب بڑھا۔۔۔ ابتہاج مسکراتے انکے گلے ملا جنکی آنکھوں میں اپنی بیٹے کی کامیابی پر خوشی کی نمی جھلک رہی تھی۔۔۔


اسے سینے میں بھینجے کاشان صاحب نے اسکا ماتھا چومتے اپنے سامنے کیا ۔۔ تو ابتہاج خوبصورتی سے ہلکا سا مسکراتا سر جھکائے صوفے پہ منتظر اپنی مام کی جانب بڑھا۔۔۔۔

جہنوں نے محبت سے اسکی پیشانی پہ بوسہ دیے اپنے پاس بٹھایا تھا۔۔۔اور ساتھ ہی جانے کتنی دعائیں پڑھ کر دم کیں کہ انکی محبت پر ابتہاج نے عقیدت سے انکے ہاتھ کو تھامتے بوسہ دیا اور ہاتھ آنکھوں کو لگائے سکون اپنے اندر تک اتارا۔۔۔


برو بہت بہت ببارک جاد آپ کو۔۔۔۔۔۔۔" سمیر جو بغور سب کو دیکھ رہا تھا اپنی باری کا انتظار کیے بنا ہی وہ مسکراتے بولا تھا۔۔۔۔


ابتہاج نے ٹھٹکتے اس انگریزی بندر کو دیکھا۔۔۔ اور پھر ایک ساتھ سب کا قہقہہ فضا میں بلند ہوا تھا۔۔۔ جہاں سمیر ہونقوں کی طرح منہ کھولے سب کو دیکھ رہا تھا وہیں ابتہاج کا ہنس ہنس کے برا حال تھا۔۔۔


مجھے تیری ببارک جاد نہیں چاہیے انگریزی بندر اور توبہ تجھ سے اللہ پناہ دے۔۔۔۔ یہ زبان بول بول کے توں نے ہم سب کو پاگل بنا دینا ہے ۔۔۔"


ابتہاج نے سر ترچھے کیے اپنی مام کے کاندھے پر رکھا ۔۔۔۔ جسے وہ نرمی سے تھپکنے لگی۔۔ یہ بیت غلط بات ہے برو۔۔۔۔۔" سمیر نے خفا خفا سی نظر سے سب کو دیکھتے اختجاج کیا ،


" بس کر انگریزی بندر تجھے بڑا پتہ ہے کیا ٹھیک ہے کیا غلط۔۔۔۔ زیادہ سمارٹ مت بن۔۔۔۔۔" ابتہاج نے اسے گھرکا جس پہ وہ پہلوں بدلتا خاموش ہو گیا۔۔۔۔


بیٹا آج رات کو میں نے اپنے بیٹے کی کامیابی پر پارٹی رکھی ہے گھر پر۔۔۔ آخر کار پاکستان کی سب سے بڑی ڈیل ہماری کمپنی کو ملی اور یہ سب میرے بیٹے کی محنت کے سبب ممکن ہوا۔۔۔ساری مارکیٹ رشک کر رہی ہے مجھ پر۔۔۔ کرے بھی کیوں ناں آخر کار ایسی اولاد ہر کسی کو نہیں ملتی۔۔۔


کاشان صاحب کے کہے ایک ایک لفظ میں ابتہاج سمیت سب کو محبت جھلکتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔


جی پاپا میں نے خود بھی پارٹی ارینج کرنے کا سوچا ہے۔۔۔۔ اچھا ہوا کہ آپ نے گھر پر ہی رکھ لی۔۔۔ بیک یارڈ میں انتظامات کرواتا ہوں میں ذرا فریش ہو لوں۔۔۔


آج کا دن کافی تھکا دینے والا تھا۔۔۔ اتنی بڑی ڈیل کے اوپر اسنے بے حد محنت سے پراجیکٹ بنایا تھا۔۔ اور اسکی محنت کا صلہ اسے ملا تھا۔۔ جس پہ ابتہاج کا موڈ کافی خوشگوار تھا۔۔۔


ہاتھ میں پکڑے شاپنگ بیگ کو مضبوطی سے دبوچتے وہ ایک کندھے پر اپنا کوٹ لٹکائے رف سے حلیے ماتھے پہ بکھرے بالوں سے کافی حسین دکھ رہا تھا۔۔۔۔


مسز کاشان نے دور تک اسے جاتے دیکھ دل ہی دل میں نظر اتاری تھی۔۔۔۔

ہمیشہ کی طرح وہ دروازہ کھولتا اندر داخل ہوا تو حالی کمرہ دیکھ دل میں بوجھ سا بنا۔۔۔ مگر دروازے کو لاک کرنے پر ابتہاج نے ترچھی نظر سے باتھروم کے دروازے کو دیکھا اور لاک لگاتے اب وہ سیدھا کھڑا ہوتے اسے سر تا پاؤں گہری نظروں سے دیکھنے لگا۔۔۔۔۔


" جو اس وقت پنک کلر کے ڈھیلے سے سوٹ میں بالوں کو تولیے سے خشک کرتے باہر نکلی تھی۔۔۔ مگر ایک دم سے وہ ٹھٹکی جب سامنے ہی اسے دروازے کے پاس بت بنا کھڑا دیکھا۔۔


" اپنے بھیگی قیمض کو دیکھ وہ نظریں دوڑائے دوپٹے کو تلاشنے لگی۔۔۔ جبکہ ابتہاج کی نظریں اسکے وجود کی خشر سامانیوں میں اٹک سی گئی ۔۔۔۔۔ ماہا نے کانپتے قدموں سے قدم بیڈ کی جانب بڑھاتے اپنے دوپٹے کو تھاما مگر ابتہاج نے تیزی سے آگے بڑھتے اسکے دوپٹے کو درمیان سے پکڑتے گرفت مضبوط کی ۔۔۔ کہ ماہا اسکے بھاری سرخ ہاتھ کے گرد لپٹے اپنے دوپٹے کو دیکھ خلق تر کرنے لگی۔۔۔


ماہا نے دوپٹہ کھینچا مگر ابتہاج نے آہستہ آہستہ قدم آگے بڑھاتے اسکے سارے دوپٹے کو کھینچتے اپنے ہاتھ میں لپیٹا ۔۔۔۔ کوٹ وہ صوفے پہ اچھال چکا تھا۔۔۔ اسکے تیور دیکھ ماہا کو سچ میں اب اس سے خوف محسوس ہونے لگا۔


آنکھوں میں دھری اسکی شریر نظروں کی تپش پر شرم و حیا کا بھار پڑ گیا کہ اسے اس آدمی سے نظریں ملانا دنیا کا سب سے مشکل کام لگا۔۔۔۔۔۔۔


ابتہاج نے ایک دم سے اسکے قریب جاتے ہاتھ اسکی کمر کے گرد لپیٹتے اپنی جانب کھینچا۔۔۔ ماہا اسکے سینے سے لگی بری طرح سے کپکپاتی اسکے کندھوں کو تھام چکی تھی ۔۔ ابتہاج کی لو دیتی تیز نظریں اسکے وجود پہ ٹکی تھی۔۔۔۔ جسے محسوس کرتی وہ خود میں سمٹنے لگی۔۔۔۔۔


" اببب ابتہاج ۔۔۔۔۔۔" ابتہاج کے دہکتے ہونٹوں کا لمس اپنی شہہ رگ پہ محسوس کرتے ماہا نے اٹکتے اسکا نام لبوں سے ادا کیا۔۔۔۔ ابتہاج نے خمار سے سرخ ہوئی نظروں کو اٹھائے اسکے کپکپاتے وجود کو دیکھ نرمی سے بازوؤں میں بھرا۔۔۔۔


جب جب تم یوں اٹک اٹک کے میرا نام لیتی ہو۔۔۔میرا دل چاہتا ہے کہ اپنے ہونٹوں سے تمہارے ہونٹوں کے سارے الفاظ کو چن لوں۔۔ تمہیں اپنی سانسوں میں بھر لوں کہ تم کبھی مجھ سے دور نا جا پاؤ۔۔۔اسکی بے باک سرگوشیاں اسکی ہونٹوں کا لمس اپنے کان پہ محسوس کرتے ماہا کا سانس سینے میں الجھنے لگا تھا۔۔۔۔


ابتہاج کی شدت بھری باتوں سے وہ گھبرا گئی تھی۔۔۔ اسکی جان لیوا قربت میں وہ ہمیشہ کی طرح اپنا آپ اسکے سامنے ہار گئی تھی۔۔ جسے دیکھتے ابتہاج نے اسکے چہرے کے نقوش کو محبت سے چھوتے اسکے ہاتھوں کو نرمی سے اپنے ہاتھوں میں الجھا دیا کہ ماہا کا سانس بھاری ہونے لگا۔۔۔۔


ابتہاج نے آنکھیں موندے اسکے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں کی قید میں لیا تھا۔۔۔ اسکے ہونٹوں کی نرمی اسکی نرم گرم سانسوں کو خود میں اتارتے ابتہاج بے خود سا ہوتے اپنے لمس کی شدت سے اسے پاگل کر دینے کے در پے تھا۔۔۔۔۔


ماہا نے تڑپتے اختجاج کرنا چاہا تھا۔۔۔اسکا سانس اسکے سینے میں اٹکا جب ابتہاج کی شدت پہلے سے بھی زیادہ جنونیت سموئی ہوئی۔۔۔۔ ماہا کا پورا وجود جیسے بے جان ہونے لگا تھا۔ جبکہ ابتہاج تو جیسے اسکے وجود کی خوشبو کو خود میں اتارتے بے بس سا ہونے لگا ۔۔۔۔۔ ماہا کی قربت اسے پاگل کر دینے والی تھی ۔۔


یہ لڑکی اسکی سوچ سے بھی زیادہ اسکے حواسوں پر طاری ہوئی تھی کہ اب ابتہاج اسکی سانسوں میں سانسیں بھرتا اپنے اندر ایک سکون اترتا محسوس کرتا تھا۔۔۔اسکی قربت ابتہاج گردیزی کو مدہوش کر دیتی تھی۔۔۔۔


اس وقت کیوں نہائی۔۔۔۔۔" اسکی اکھڑتی سانسوں کو محسوس کرتے ابتہاج نے نرمی سے اسکی ہونٹوں کو آزادی دی اب اسکا شکار ماہا کی گردن اور کاندھے تھے۔۔۔جن پر اپنی شدت لٹاتے وہ اسکے کان میں سرگوشی کرتے پوچھنے لگا۔۔۔۔


ماہا نے گھبراتے اپنی تیز تیز چلتی سانسوں سے بیڈ شیٹ کو دونوں مٹھیوں میں بھینچا تھا ۔۔۔۔ ابتہاج کے ہاتھ اسکے بھیگے نم بالوں میں تھے۔۔ جن کی نرماہٹ اپنی انگلیوں پہ محسوس کرتا ابتہاج بےبس سا ہونے لگا۔۔۔۔۔


"ووو ویسے ہی ۔۔۔۔۔" ماہا نے اپنے سرخ پڑے ہلکے سے زخمی ہونٹ پر زبان پھیرتے کہا تھا۔۔۔۔۔ جس پر ابتہاج نے سر اسکی گردن سے نکالتے گھور کر دیکھا۔۔۔


آج کے بعد مجھے ایسے بے وقت باتھ لیتی ناں ملو اور ایک بات۔۔۔۔ ایک ڈریس لایا ہوں تمہارے لئے۔۔۔۔ آج رات پارٹی میں وہی پہننا۔۔۔۔ ۔


ابتہاج نے اسکے برابر تکیے پر کہنی جمائے کہا اور دوسرے ہاتھ سے اسکے سرخ نچلے ہونٹ کو سہلانے لگا۔۔۔۔


پ پارٹی وہ کیوں۔..!" ابتہاج کی نظروں سے گھبراتی وہ پلکیں جھپکتے بولی تو ابتہاج کا دل چاہا کہ اسے خود میں کہیں چھپا لے۔۔۔ ابتہاج نے جھکتے اسکے ہونٹوں کو شدت سے چھوا تھا اور ماہا کے سمجھنے سے پہلے ہی وہ پہلی پوزیشن میں آ چکا تھا اور اب مزے سے اسکے چہرے پہ اپنی قربت کے رنگ دیکھ رہا تھا۔۔


" آج تمہارے شوہر کو کامیابی ملی ہے اسی وجہ سے آج پارٹی ہے گھر میں ۔۔۔۔ میں فریش ہو لوں ۔۔۔ تم بھی اٹھ کے تیاری پکڑو جلدی سے ۔۔۔۔۔ ماہا کے دونوں سرخ پڑتے گالوں کو چومتے وہ اٹھا تھا دروازے کے پاس پڑے شاپنگ بیگ کو اٹھائے وہ واپس آتے ماہا کے پاس رکھ گیا۔۔


ایک بار دیکھ لو میں آتا ہوں۔۔۔۔" بیگ اسکے قریب رکھتے ابتہاج نے بمشکل سے نظریں چراتے کہا اور ساتھ ہی وہ فریش کیلئے کبرڈ سے کپڑے نکالتے چینجنگ روم میں گیا ۔۔۔۔


______________


تمہیں کچھ کہا تھا میں نے صنم۔۔۔۔۔ کیا ایک بار بولی بات تمہیں سمجھ نہیں آتی۔۔۔۔۔۔!" روم میں داخل ہوتے اسے یونہی گم سم سا بیٹھا دیکھ صالح دھاڑا تھا ۔۔۔۔۔ صنم نے ایک دم سے خوف سے اچھلتے آنکھوں میں ڈر سموئے صالح کی جانب دیکھا۔۔


جو اب ہاتھ سینے پہ باندھے اسے گھور رہا تھا۔۔۔ صنم نے فورا سے کھڑے ہوتے انگلیاں چٹخاتے نظریں جھکا دیں۔۔۔۔ جبکہ اسے یوں بت بنا دیکھ۔۔۔ صالح اپنے بھاری قدم آگے بڑھاتا اسکی جانب آیا تھا۔۔ ۔۔صنم نے نا محسوس انداز میں قدم پیچھے کو لیے تھے۔۔۔۔


اسکے ہر بڑھتے قدم پر وہ سہمتی پیچھے دیوار سے جا لگی ۔۔۔۔ صالح نے ہاتھ اسکے دائیں بائیں جمائے اسکی آنکھوں میں دیکھا ۔۔ جو خوف سے کالی پڑ رہی تھیں۔۔۔۔


تمہیں کہا تھا میں نے کہ اچھے سے تیار ہو جانا تو پھر ابھی تک تیار کیوں نہیں ہوئی۔۔۔۔۔۔ اسکے سرخ پڑتے گال کو اپنے ہاتھ کی پشت سے سہلاتا وہ بھاری مدہوش لہجے میں بولا تھا ۔۔


صنم کا دل اسکے ہاتھ کے لمس پہ کپکپانے لگا۔۔۔ وہ خوف و وخشت سے بھری آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔۔ جس کی بے تاثر نظریں صنم کی آنکھوں سے ہوتے اسکے ہونٹوں پہ رکی تھی۔۔۔۔۔۔


" مم میں بب باہر نہیں جانا چاہتی۔۔۔۔۔۔۔!" اسکی بے تاثر غصے سے لبریز نظروں سے ڈرتے وہ نم لہجے میں بولی تھی کہ صالح نے ایک دم سے اسکی آنکھوں میں دیکھا جو کافی پریشان سی لگی اسے۔ ۔۔۔ صالح سمجھ گیا شاید وہ اب دنیا کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔


تمہاری مرضی پر چلوں گا کیا اب میں۔۔۔۔۔" اسکے چہرے کے قریب تر اپنا چہرہ کیے وہ دبے دبے غصے سے بولا جبکہ اسکی غصے بھری آواز اوپر سے اسکی ناک کو اپنی ناک سے مس ہوتا محسوس کرتے صنم کا دل بری طرح سے دھڑکنے لگا۔۔۔۔۔


" بولو۔۔۔۔" صالح نے ہاتھ اسکے بالوں میں پھنساتے اسکا چہرہ اونچا کرتے پوچھا تو ناں چاہتے ہوئے بھی صنم نے سرخ آنکھوں نے گردن نفی میں ہلائی۔۔۔۔

صالح نے ناک اسکی گردن سے سہلاتے اسکا چہرہ اونچا کیا تھا۔۔۔۔ جہاں صنم اسکی قربت اسکے خوف سے سہم سی گئی تھی وہیں صالح اسکے قریب مدہوش سا ہونے لگا تھا۔۔۔جبھی بے اختیار اسکے ہونٹوں کو اپنی گرفت میں لیتے صالح نے اسے خود میں بھینجا تھا۔۔۔۔


صنم کے کپکپاتے ہاتھ صالح کے سینے پہ تھے ۔۔ جبکہ صالح اسکی سانسوں کو خود میں اتارتے اسکے ہاتھ تھامے اپنے سر پہ رکھ گیا۔۔۔۔ اسکی سخت گرفت ہونٹوں پہ محسوس کرتے صنم نے ڈرتے اسکی وارننگ پہ اسکی بالوں کو اپنی مخروطی انگلیوں سے سہلایا تھا۔۔۔۔۔


جسے محسوس کرتا صالح اپنے اندر تک سکون اترتا محسوس کیے صنم کو یونہی اٹھائے اسکی سانسوں کو قید کیے بیڈ کی جانب بڑھا۔۔۔۔۔ نرمی سے جھکتے صالح نے اسے بیڈ پہ لٹاتے ہاتھ اسکے قریب تکیے پہ رکھے اور نرمی سے اسکی بند ہوتی سانسوں کو محسوس کیے وہ پیچھے ہوتا اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔


جو سرخ چہرے سے کپکپاتے وجود کے ساتھ صالح کے دل میں اتر رہی تھی۔۔۔۔۔


اب خود سے تیار ہو جاؤ گی کہ یہ کام بھی میں ہی کروں۔۔۔۔۔۔" صالح نے کاٹ دار لہجے میں بے باکی سے پوچھا تھا۔۔۔ جسے سنتی وہ سر فورا سے ہاں میں ہلا گئی ۔۔ ایک مدہم سی مسکراہٹ نے صالح کے ہونٹوں کا احاطہ کیا ۔۔۔۔ وہ جھکتے ایک بار پھر سے ہلکی سی جسارت کرتا اسے چھوڑ کمرے سے باہر نکلا۔۔۔۔۔


_______________



" وہ رات دس بجے کے قریب سارے اریجمنٹس اپنی نگرانی میں کرواتا اب اپنے کمرے کی جانب آیا تھا۔۔۔۔ مہمان آنا شروع ہو چکے تھے اور ویسے بھی ابتہاج کے دل میں ماہا کو اپنے لائے ڈریس میں دیکھنے کی چاہ اسےمسکرانے پر مجبور کر گئی ۔۔ جبھی وہ بالوں میں ہاتھ چلاتے دروازہ کھول اندر آیا ، مگر جیسے ہی نظر ماہا پہ پڑی ابتہاج کے ماتھے پہ ایک ساتھ کئی بل نمودار ہوئے۔۔۔۔۔


ابتہاج تیزی سے چلتا آگے بڑھا تھا اور سنجیدگی سے ماہا کو دیکھنے لگا جو ابھی تک اسی حالت میں آرام دہ انداز میں کوئی اسلامک بک ریڈ کر رہی تھی ۔ ابتہاج نے تیزی سے جھپٹنے والے انداز میں اس سے بک چھینی تھی۔۔۔ ماہا نے اچانک سے ہڑبڑاتے ابتہاج کو دیکھا جس کا چہرہ سرخ پڑا تھا جبکہ تاثرات بالکل سخت تھے ۔۔


ماہا نے سہمی نظروں سے اسے دیکھا تو ابتہاج اسکے قریب ہوتے ہاتھ سے تھامتے اپنے روبرو کر گیا۔۔۔

" جب میں نے کہا تھا کہ تم مجھے تیار ملو میرے لائے ڈریس میں تو پھر یہ سب کیا ہے ماہا۔۔۔۔۔۔" دانت پیستے ابتہاج نے خود کو قابو کرنے کی کوشش کی وگرنہ اسکا دل کافی دکھا تھا۔ ۔


" اببب ابتہاج وو وہ اس ڈریس کا پیچھے والا گلا کافی ڈیپ ہے میں کیسے۔۔۔؟ میرا مطلب میںں نہیں پہن سکتی اسے۔۔۔۔۔اسکے قریب کھڑی وہ آنکھوں میں نمی سموئے کہتے ساتھ ہی نظریں جھکا گئی۔۔۔


ابتہاج نے سنتے ہی سکون سے آنکھیں موندیں، سارا غصہ ایک دم سے ہوا ہوا تھا جیسے۔۔۔ جبھی اسنے مضبوطی سے ماہا کے دونوں کندھوں کو تھامتے اسکے ماتھے پہ شدت سے اپنے ہونٹ رکھے ماہا نے آنکھیں بند کیے سکون اپنے اندر تک اترتا محسوس کیا تھا۔۔۔


" تمہیں ہر روپ میں میں ہی دیکھ سکتا ہوں ۔۔ ماہا تم تو ویسے بھی حجاب اوڑھتی ہو اور اس میں سے کوئی بھی تمہیں یا تمہارے وجود کو میرے سوا نہیں دیکھ سکتا۔۔ ابتہاج نے نرمی سے اسکے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے اسکی نمی سموئی آنکھوں پہ بوسہ دیا تو ماہا کو کچھ راحت ملی۔۔۔


" اببب ابتہاج میں تیار ہو لوں۔۔ ۔" ماہا نے اٹکتے اسکے حصار کو توڑنا چاہا مگر ابتہاج کے حصار سے اسکی رضا کے بنا نکل پانا کہاں ممکن تھا ۔ ماہا کے اختجاج پر ابہتاج نے وقت دیکھ اپنے بے لگام ہوئے جذباتوں کو تھپکا تھا اور نرمی سے اسکے چہرے کو چھوتے وہ پیچھے ہوا۔۔۔۔


یہ لو چینج کر کے آؤ۔۔۔۔۔اب کی بار ابتہاج نے خود سے ڈریس نکالتے اسکے سامنے کی ۔۔ جسے تھامتے ماہا چینجنگ روم میں گئی۔۔۔ ابتہاج خود بھی جلدی سے وارڈروب سے اپنا بلیو ڈنر سوٹ نکالتے باتھروم کی جانب بڑھا تھا۔۔۔


" ڈارک بلیو ڈنر سوٹ میں ملبوس وہ جلدی سے باہر آتا مرر کے سامنے کھڑا ہوا۔۔۔ اپنی رسٹ واچ پہنتے ابتہاج نے بال بناتے خود کو مرر میں دیکھا نظریں بار بار بٹھک کر ڈریسنگ روم کے دروازے پر جاتی جہاں اسکی بیوی اسی سے چھپے بیٹھی تھی۔۔۔



ابتہاج کے عنابی لب مسکرائے۔۔۔۔ پرفیوم اسپرے کرتے ابتہاج نے ایک آخری تنقیدی نظر اپنی تیاری پر ڈالی اور مڑتے ڈریسنگ روم کے پاس آیا۔۔۔۔۔


بیوی کیا آپ اسی تاریخ میں باہر آ کر اپنے معصوم شوہر پر احسان کریں گی۔۔۔ ورنہ سوچ لیں مجھے کوئی ایشو نہیں اگر میں اندر آیا تو آپ کا آج پارٹی میں جانا کینسل۔۔۔۔۔" ابتہاج کی شرارت سموئی شریر لہجے میں کہی بے باکی کو سنتے ماہا جو آگے ہی کافی کنفیوز سی کھڑی تھی وہ اور بھی سہم گئی۔۔۔



اسنے دھک دھک کرتے دل کے ساتھ کپکپاتے ہاتھوں سے دروازہ کھولا وہ نہیں چاہتی تھی کہ ابتہاج اندر آئے۔۔۔ جبھی وہ خود اسکے سامنے جانے کو راضی ہوتے باہر ائی۔۔۔۔


ڈارک بلیو پاؤں کو چھوتی میکسی جس کے گلے پر نفیس گولڈن کام ہوا تھا۔۔۔۔ فل سلیو بازوؤں جو بالکل چوڑی دار تھے۔۔۔ دونوں بازوؤں پر بھر بھر کے گولڈن تاروں کا خوبصورت نفاست سے ہوا کام۔۔۔۔۔ اوپر سے ماہا کا دو آتشہ روپ ابتہاج گردیزی کی نظریں جیسے پلٹنا بھول گئی ہوں۔۔۔۔۔ وہ لمحوں میں ساکت بت ہوا اسکے حسن کو اپنی نظروں سے خراج دیتا رہا مگر اسکی نظریں ماہا کو گھبراہٹ میں مبتلا کرنے لگی ۔۔۔


میکسی کی فیٹنگ تنگ ہونے کی وجہ سے ابتہاج کی نظریں ماہا کے وجود کی تمام تر رعنائیوں ہے تھی۔۔۔جبکہ ماہا کا دل چاہا کہ کہیں چھپ جائے۔۔ اس بندے کی نظریں اسے ہمشیہ سے ہی گھبرانے پر مجبور کر دیتی تھی۔۔۔۔ اسی لیے اب بھی وہ دروازے کے بیچ اسے یوں بت بنا دیکھ ہاتھ مسلتی ایک سائڈ سے نکلنے لگی مگر ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں اس کھینچتے ابتہاج نے شدت سے اسکے لبوں کو اپنی قید میں لیا۔۔۔


ماہا ابتہاج کے اس ردعمل پہ سن سی پڑتی بری طرح سے کپکپاتے وجود کے ساتھ اسکے سینے پہ ہاتھ رکھے آنکھیں موند گئی۔۔ جبکہ ابتہاج تو جیسے اسکی سانسوں کو قید کرتے رہا کرنا بھول گیا تھا۔۔۔۔ ابتہاج نے ماہا کی رکتی سانسوں کو خیال کرتے نرمی سے اسکے ہونٹوں کو آزادی بخشی تھی ابھی وہ کھل کے سانس بھی ناں لے پائی تھی ۔۔ ابتہاج کے ہاتھ اسکی کمر میں حائل ہوئے تھے ۔


اور جھٹکے میں ابتہاج نے اسے نزدیک کرتے اسکا رخ موڑے پشت اپنے سینے سے لگائی۔۔۔۔ ماہا کا دل دھک سے رہ گیا ۔۔۔۔ جب ابتہاج کے سلگتے ہونٹوں کا نرم گرم لمس اسکی دہکتی سانسوں کو اپنی پچھلی گردن پہ محسوس کیا۔۔۔


جبکہ ابتہاج تو ماہا کے وجود میں کھویا تھا اور اب اسکے ہونٹ ماہا کی گردن سے ہوتے نیچے کا سفر طے کرنے لگے۔۔۔ ماہا کا وجود بالکل سن سا پڑ گیا مگر ابتہاج کی شدتوں میں جھلکتی بے تابی , چاہت ماہا کے لئے یقین کر پانا مشکل ہو گیا۔۔۔۔


"ابتہاج نے جھکتے اسکی کمر کو اپنے سلگتے ہونٹوں سے چھوا تو ماہا مچلتے مڑی تھی اور اپنے ڈر سے کانپتے وجود کے ساتھ اسی ستمگر کے سینے میں منہ چھپایا۔۔۔ ابتہاج کا قہقہ بےساختہ بلند ہوا۔۔۔۔ اسنے محبت سے اسکے گرد اپنے مضبوط ہاتھوں کا حصار قائم کیا تھا۔۔۔۔۔


ماہا کے سر پہ ہونٹ رکھتے ابتہاج نے اسکا چہرہ تھوڑی سے پکڑتے اونچا کیا اور بڑی محبت سے اسکی چہرے پر بکھرے اپنی محبت کے رنگ دیکھتا وہ پھر سے اسکی گلابی ہلتے ہونٹوں پہ جھکنے لگا کہ معا دروازے پر دستک ہوئی ابتہاج نے کھا جانے والی نظروں سے دروازے کو گھورا تھا۔۔۔جبکہ ماہا کا رکا ہوا سانس بحال ہوا۔۔۔اسنے جلدی سے اسکے حصار کو توڑا اور مرر کے سامنے کھڑے ہوتے اپنے بالوں کو سلجھانے لگی۔۔۔۔


ابتہاج نے ایک نظر اسے دیکھا جس وجود ابھی تک کپکپا رہا تھا وہ دلکشی سے مسکراتے دروازے کی جانب ہوا تھا ۔۔۔


برو تھم کو نیچے انکل بلا رہی ہے۔۔۔"سمیر نے ابتہاج کو دیکھتے بتایا تھا جبکہ ابتہاج نے باہر آتے دروازہ بند کیا اور چلتا اسکے قریب ہوا۔


توں یہ بتانے کو آیا تھا۔۔۔ اسنے غصے سے سمیر کی پچھلے گردن کو ہاتھ میں دبوچا تو سمیر اچھل پڑا۔۔۔۔


سوری برو تھم غصہ کیوں ہو۔۔۔ انکل سن رہی کہ پیپل تھم کو دیکھ رہی۔۔۔۔ " ابتہاج کے ڈر اور کچھ اپنی بگڑی زبان سے وہ توڑ موڑ کے لفظ ادا کرتا ابتہاج کے ہاتھ کو کندھے سے ہٹانے لگا۔۔۔ ویسے آج تو انگریزی نہیں بلکہ پاکستانی بندر لگ رہا ہے۔۔ بلیک تھری پیس میں ہلکا سا تیار سمیر کو سر تا پاؤں دیکھتے ابتہاج نے اسکی تعریف کہ تھی جس سنتا وہ منہ بسور گیا۔۔


سمیر نے بدلے میں اسکا پورا جائزہ لیا مگر وہ بھرپور شاہانہ وجاہت کے ساتھ اسکے سامنے کھڑا تھا کہی سے کوئی بھی کمی نہیں دکھی سمیر کو جبھی وہ دل مسوستے رہ گیا۔۔۔

تو جا نیچے میں آتا ہوں۔۔۔" ابتہاج نے اسکی گردن کو ہلکے سے چھوڑا جس پہ وہ اپنا سوٹ ٹھیک کرتا کالر کو پکڑتے برابر کرتا آگے پیچھے دیکھنے لگا مگر کسی کو بھی ناں پاتے سمیر نے ایک ادا سے سیٹی بجائے ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈالے اور اکڑا کر چلتا وہاں سے نکلا۔۔۔۔


ابتہاج سر ہلاتا دوبارہ سے روم میں آیا تو نظریں سامنے کھڑی ماہا پر پڑی۔۔ جو سر پہ ڈارک بلیو خجاب اوڑھے بالوں کا اونچا جوڑا بنائے ، کاجل سے لبریز آنکھوں اور لبوں پہ ڈارک ریڈ لپ اسٹک لگائے سیدھا ابتہاج کے دل میں اتر رہی تھی۔۔۔۔

ابتہاج چلتا اسکے قریب آیا۔۔۔۔۔

اسکی نیت بھانپتے ماہا نے منہ بنائے خود پہ جھکتے ابتہاج کو دیکھا اور ہاتھ اسکی ہونٹوں پر رکھا۔۔ ابتہاج نے سرخ ہوتی نظروں سے اسے ہاتھ کو چومتے پیچھے کرنا چاہا تھا۔


" اببب ابتہاج میری تیاری خراب ہو جائے گی ہمیں نیچے جانا چاہیے۔۔۔۔۔۔ ماہا نے منت سموئے لہجے میں کہا تو ابتہاج کو ٹوٹ کر اس کے پیار۔۔۔ اوکے میری جان۔۔۔۔" اتنی آرام سے اسکے مان جانے پر ماہا کو حیرت بھی ہوئی مگر یہ زیادہ دیر قائم ناں رہ سکی جب ابتہاج نے فورا سے جھکتے اسکے ہونٹوں کو نرمی سے چھوا تھا۔۔۔ ماہا سٹپٹا گئی مگر اپنی کاروائی کے بعد وہ کافی پرسکون تھا۔۔۔


ٹیسٹ اچھا ہے اسکا رات کو دوبارہ سے لگانا۔۔۔۔ ہاتھ اسکی کمر کے گرد حائل کرتے ابتہاج نے جھٹکے سے اسے ساتھ لگائے اسکے کان میں سرگوشی کی تو ماہا کا چہرہ اسکی بے باکی پر گلنار ہوا۔۔۔ ابتہاج اسے استحقاق سے خود سے لگائے نیچے اترا ۔۔۔۔۔


ہائی ہیل کی وجہ سے ماہا ابتہاج کے سہارے پر تھی مگر یوں سب کے سامنے ایسے جانے ہر اسے شرم بھی محسوس ہو رہی تھی۔ مگر ابتہاج کو کسی کی کوئی پرواہ نہیں تھی ۔۔۔۔


جبھی وہ شان سے سیڑھیاں اترتا نیچے آیا ۔۔۔۔ جبکہ نیچے موجود مہمانوں کی نظریں بھی ان دونوں کے پرفیکٹ کپل پر ٹکی تھی ۔۔


مسز کاشان نے مسکراتے ان دونوں کو دیکھا تھا۔۔۔ ابتہاج سب سے ملتا ساتھ ماہا کا تعارف بڑے وثوق سے کروا رہا تھا۔۔۔ ماہا خود بھی گھبرائی ہوئی سی تھی۔۔ جسے دیکھ ابتہاج چلتا اپنی مام کے قریب آیا تو انہوں نے ماشاءاللہ کہتے ان دونوں کا سر ماتھا چوما ۔۔۔ مام میں سب سے مل لوں آپ ماہا کا خیال رکھئے گا۔۔۔


ماہا کو دیکھ وہ مام سے کہتے باقی لوگوں کی طرف بڑھا۔۔کاشان صاحب نے پرجوش ہوتے اسے سینے میں بھینجا تھا ۔۔۔


_______________


صص صالح مم مجھے نہیں جانا پلیز۔۔۔۔۔ گاڑی کے رکنے پہ ایک بار پھر سے صنم نے منت کرتے اسکے ہاتھ کو تھاما ۔۔ صالح نے ابرو اچکاتے اسکے ہاتھ اور پھر اسکے قاتل حسین روپ کو دیکھا۔۔۔۔

" میرے فرینڈ نے بے حد اصرار سے بلایا ہے صنم۔۔۔۔ اگر تم پھر بھی نہیں جانا چاہتی تو کوئی مسئلہ نہیں آج کی رات ہم ایک دوسرے کے ساتھ ایک دوسرے کی بے انتہا قربت میں گزاریں گے۔۔۔۔۔ ابتہاج نے ایک دم سے فاصلے مٹائے اسکے ہونٹوں کو اپنی گرفت میں لیا اسا انداز جنونیت بھرا تھا۔۔


صنم کا دل خوف سے تیز تیز پھڑپھڑانے لگا مگر صالح کا اسے چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔۔۔۔۔ جبھی اسکے ہونٹوں سے جام پیتا وہ پھر سے اسکے حسن میںں کھونے لگا۔۔

" اب بتاؤ کیا ارداہ ہے۔۔۔۔۔ " اپنی من مانی کرنے کے بعد وہ اسکے کھینچتے اپنے اوپر گرا گیا کہ صنم نے نظریں جھکائے سر ہاں میں ہلایا۔۔۔

جسے دیکھ صالح کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگی۔۔۔


لیٹس گو مائی لو۔۔۔۔ بلیک میکسی میں بالوں کا اونچا جوڑا کیے کانوں میں خوبصورت کندھوں تک جاتے آویزے ڈالے وہ ہلکے سے میک اپ کے بعد بھی بے حد حسین دکھ رہی تھی۔۔


صالح نے گاڑی سے اترتے اسکا ہاتھ تھاما تھا۔۔ جبکہ صنم اندر سے خوفزدہ تھی اگر کسی نے اسے پہچان لیا تو پھر ۔۔۔۔ آگے کی سوچ ہی اسے خوفزدہ کر رہی تھی۔۔مگر صالح کے سامنے وہ مجبور ہو گئی تھی۔۔۔


ہائے صالح یار کیسا ہے تو اتنی دیر کر دی آنے میں۔۔۔ دروازے کے پاس کھڑا سفیان جو اسی کا انتظار کر رہا تھا اسے دیکھ شکوہ کرتے اسکے گلے ملا تھا۔۔۔۔ صالح مسکراتے اس سے الگ ہوا۔۔ کیا بتاؤں بیگم نے تیار ہونے میں وقت لگا دیا۔۔۔۔


کندھے اچکاتے وہ سارا الزام صنم پہ ڈال گیا۔۔۔اسکی بات پر صنم کا منہ حیرت سے کھل گیا۔۔۔ وہ حیرت سے اس میسنے کو دیکھ رہی تھی جس نے اپنی من مانیوں کی وجہ سے اسے بھی تیار ہونے میں لیٹ کیا تھا اور اب کیسے سارا الزام اسی کے سر پر ڈال دیا۔۔۔۔


اسلام علیکم بھابھی کیسی ہیں آپ۔۔۔۔۔ سفیان نے صنم کو دیکھتے عزت سے کہا تھا۔۔ صنم نے سہمی نظروں سے صالح کو دیکھا جس کا دھیان اسی پہ تھی وہ گردن ہلاتے ہلکی آواز میں بولی جس پہ سفیان ان دونوں کو لیے اندر گیا۔۔۔


آؤ تمہیں کاشان صاحب اور انکے بیٹے سے ملواؤں۔۔۔ صالح کا ہاتھ تھامے وہ اسے اپنے بزنس پارٹنر کے پاس لے جانے لگا۔۔ صنم تم ویٹ کرو میں آتا ہوں ۔۔۔۔ صالح صنم کو ایک جانب کھڑا کرتے اب اسکے ساتھ کاشان صاحب کی طرف گیا ۔۔


کاشان صاحب ملیں میرے سب سے اچھے دوست صالح سے اور صالح یہ ہیں کاشان صاحب میرے بزنس پارٹنر آج انکے بیٹے مسٹر ابتہاج گردیزی کی وجہ سے ہمیں یہ اتنی بڑی ڈیل ملی ہے۔۔۔۔"

سفیان نے پرجوش انداز میں انکا تعارف کروایا ابتہاج بھی اسی طرف آیا تھا۔۔ صالح سے ملنے کے بعد وہ ادھر ادھر کہ باتیں کرنے لگے۔۔۔


صنم دور کھڑی اس پارٹی میں خود کو اکیلا محسوس کیے کافی بور ہو رہی تھی ۔ اس نے نظریں آگے پیچھے دوڑائی تو سامنے ہی ایک طرف ماہا کھڑی نظر آئی جو یقینا کسی بات پر مسکرا رہی تھی۔۔


صنم نے اسکے پاس جاتے ماہا کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو ماہا نے مسکراتے مڑی مگر جب نظریں صنم پر پڑی۔۔۔ ماہا کا وجود سہم سا گیا۔۔۔مسز کاشان بھی حیرانگی سے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ صنم یہاں کیسے۔۔۔


ماہا کیسی ہو تم ۔۔۔۔" ان سب سے انجان آج اتنے دنوں کے بعد کسی اپنے کو دیکھتے صنم نے بے قراری سے اسے کھینچتے اپنے ساتھ لگایا تھا۔۔


جبکہ ماہا کا دماغ جیسے سناٹوں کی ضد میں تھا۔۔۔۔ وہ پھر سے آ گئی تھی اسکے ابتہاج کو اس سے چھیننے ۔۔۔۔۔ وہ کیسے رہے گی ابتہاج کے بنا۔۔۔۔ وہ کیوں آئی تھی ۔۔۔۔ "


ماہا کا دماغ اپنی ہی سوچوں میں الجھا ہوا تھا۔۔۔ اسنے جھٹکے سے صنم کو خود سے دور دکھیلا تھا جو لڑکھڑاتی پیچھے ہوئی۔۔۔۔ پارٹی میں موجود ہر کسی کی نظر اب ان دونوں پر تھی۔۔۔۔۔ ۔

کیوں آئی ہو تم واپس۔۔ کیوں میرا سکون چھیننے آ جاتی ہو۔۔۔ چلی کیوں نہیں جاتی میری زندگی سے۔۔ ماہا نے روتے ہوئے چیخ کر کہا تھا جب اندر زخمی ہو تو انسان کا لہجہ بھی اسکی کرواہٹ کو نہیں چھپا سکتا۔۔۔


مسز کاشان نے آگے بڑھتے ماہا کو سنبھالنا چاہا تھا مگر وہ سب سے دور ہونے لگی اسے لگ رہا تھا اب کوئی نہیں اسکا صنم سب کو چھین لے گی اس سے۔۔۔۔


ماہا کی حالت دیکھ صنم کی آنکھیں خود بھی بھیگ گئی تھی۔۔۔ کتنا دور کر دیا تھا اسنے اپنی ہی ذات میں کھوئے ، اپنی بہن کو خود سے۔۔۔۔۔


ماہا۔۔۔۔۔ ماہا کو روتے اوپر کی جانب جاتا دیکھ ابتہاج نے ایک تیز نفرت بھری نظر صنم پر ڈالی ۔۔۔ جو بت بنے کھڑی تھی ۔ ماہا کو پکارتا وہ بے قرار سا اسکے پیچھے ہی اوپر گیا۔۔۔۔

ابتہاج بے چینی سے کمرے میں آیا تھا ماہا کے اس طرح سے رونے پر اسکا دل بری طرح سے ڈر گیا تھا۔۔۔۔ جبھی وہ کسی کی پرواہ کیے بنا ہی ماہا کے پیچھے کمرے میں آیا مگر کمرے میں آتے ہی اسے یوں بیڈ پہ اوندھے منہ پڑا بلکتا دیکھ وہ تڑپتے اسکے قریب آیا ، جو بے تہا شہ رو رہی تھی۔۔۔ ابتہاج نے آگے بڑھتے نرمی سے اسے کھینچتے اپنے سینے سے لگایا ۔۔۔۔۔ ماہا یوں اچانک ابتہاج کے سینے سے لگتی اسکی اچانک آنے پہ سانس روکے اسکے سینے سے لگی تھی۔۔۔

ابتہاج نے نرمی سے اسکے بالوں اور پشت کو سہلاتے اسے پرسکون کرنا چاہا تھا ۔ مگر دل میں اٹھتے خوف و وحشت نے اسے بری طرح سے سہما دیا تھا۔۔ ابتہاج اسکی زندگی کا کل سرمایہ تھا جس کے بغیر وہ اپنی زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔۔ جبھی ماہا نے ڈرتے ابتہاج کی شرٹ کو کاندھوں سے اپنی مٹھیوں میں جکڑتے اسکے ہونے کا یقین کیا تھا۔۔۔۔

ابتہاج اسکی حالت سے بخوبی واقف تھا، وہ جانتا تھا یوں ایک دم سے صنم کا واپس آنا ماہا کے اندر بھری احساس کمتری کو جگا گیا تھا۔۔ اسے کسی مضبوط سہارے کی ضرورت تھی جس کے کندھے سے لگے وہ اپنا ہر دکھ ہر غم بھلا دیتی ۔۔۔


“ سبب ابتہاج آپ پلیز اسے کہیں وہ چلی جائے واپس وہ کیوں آئی ہے ۔۔۔۔ جب بھی میری زندگی میں سکون ہوتا ہے وہ دوبارہ سے آ جاتی ہے میری خوشیوں کو نظر لگانے۔۔۔“

مگر اب اور نہیں میں یہ سںب کچھ نہیں برداشت کر سکتی ابتہاج آپ پہ صرف میرا حق ہے میں کسی سے بھی نہیں بانٹ سکتی آپ کو۔۔۔۔۔" ماہا نے روتے ہچکیوں سے کہا ___ ابتہاج اسکی یوں اس طرح سے حق جتانے پہ جی جان سے مسکرایا تھا۔۔۔۔۔۔ اسکا یوں استحقاق جتانا کتنا بھایا تھا اسے۔۔۔۔۔ ابتہاج کے عنابی لبوں پر ایک خوبصورت مسکراہٹ تھی۔۔۔۔


اببب ابتہاج آپ جانتے ہیں کہ بابا مجھ سے ذرا بھی محبت نہیں کرتے بچپن سے ہی وہ صنم سے محبت کرتے تھے ، صنم کے لئے روز کھلونے لاتے تھے اسکے ساتھ کھیلتے تھے اور رات کو بھی اسے اپنے پاس سلاتے اسے کھانا بھی اپنے ہاتھوں سے کھلاتے تھے، مگر مجھے ۔۔۔ مجھے وہ اپنے پاس بھی نہیں آنے دیتے تھے، اگر کبھی مجھے دیکھ لیتے تو نفرت سے جھٹک دیتے، مجھے کبھی محبت سے نہیں دیکھا ۔۔


مجھے بہت دکھ ہوتا تھا میں اکیلے کمرے میں بیٹھ کر روتی بھی تھی ، کئی بار اپنے چہرے کو چھوتی کہ میرے بابا صرف اس وجہ سے مجھ سے نفرت کرتے تھے کیونکہ میں بدصورت تھی۔۔۔ مگر اس میں میرا کیا قصور تھا ، مجھے بنانے والے اس خدا نے جب کسی میں تفریق نہیں کی تو پھر اس دنیا میں آئے اس کے بندے کیونکر تفریق کرتے ہیں کیوں اپنی ہی اولاد کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں ۔۔۔


جب میری بیٹی ہو گی ناں تو چاہے وہ مجھ جیسی ہو خوبصورت ناں بھی ہوئی مگر میں پھر بھی اسے وہ محبت اور شفقت دوں گی جس پہ اسکا حق ہو گا۔۔۔۔۔۔


میں اسکے بہن بھائیوں کو بتاؤں گی کہ یہ تمہاری بہن ہے اس سے بھی تم نے ویسے ہی محبت کرنی ہے جیسے کہ میں تم سے کرتی ہوں ۔۔ کبھی بھی اسے دھتکارنا اسے احساسِ کمتری کا شکار مت ہونے دینا ۔۔۔۔ اسکے سینے سے لگے وہ اپنے اندر چھپے احساس وہ سب محرومی جس کی وجہ سے وہ اپنی ذات سے ناآشنا ہو گئی تھی۔۔۔۔ اسکے سامنے عیاں کرنے لگی۔۔۔۔۔ جو اسکا شریکِ حیات اسکی زندگی کا ہمسفر تھا۔۔۔۔۔


ماہا میری جان تم کسی سے بھی کم صورت نہیں ہو اپنے اس چھوٹے سے دماغ سے یہ خیال نکال دو ۔۔ کیونکہ مجھے یہ سب چیزیں ناں تو پسند ہیں اور ناں ہی میں اہسا سوچتا ہوں۔۔ میرے لئے اس دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی میری ماہا ہے ماہا ابتہاج گردیزی۔۔۔۔۔"

اسکے کان میں سرگوشیاں کرتا وہ اسے مان سونپ رہا تھا۔۔۔ کتنا سکون تھا اسکے ان لفظوں میں جیسے اتنے سالوں کی ہر تکلیف کا ازالہ ہو گیا تھا۔۔۔


میرے ہوتے ہوئے تمہیں کسی دوسرے کی مانگی محبت کی ضروت نہیں ۔۔۔۔ " اسکے معصوم چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے ابتہاج نے اپنے سلگتے ہونٹ ماہا کی پیشانی پہ رکھے تھے۔۔۔۔

ماہا نے آنکھیں بند کیے سکون کو اپنے اندر اترتا محسوس کیا تھا ۔۔۔۔۔ ابتہاج نے باری باری اسکی آنکھوں پہ بوسے دیے اسکے ہونٹوں کو قید کیا ۔۔۔۔ مگر آج ماہا اسکے لمس اسکے یوں چھونے پہ گھبرائی نہیں تھی بلکہ دل میں ابھرتے اس نئے جذبے کے سبب وہ خود کو ابتہاج کے آگے ہار گئی تھی۔۔۔


ابتہاج اسکی خود سپردگی محسوس کرتے دل سے پرسکون ہوا تھا۔۔۔ وہ جانتا تھا ماہا کو ایک مضبوط سہارے کی ضرورت تھی ایک ایسا سہارہ جو اسکے بکھرے وجود کو اپنی محبت سے سمیٹ لے۔۔۔۔۔ ابتہاج خود بھی تو اس نازک وجود کو پناہوں میں لیتے ہر غم ہر دکھ بھول جاتا تھا۔۔۔


ابتہاج کی بڑھتی جسارتیں ماہا کا سانس سینے میں اٹکنے لگا تھا ۔۔۔ اسے یوں شرٹ اتارتے دیکھ ماہا کی آنکھیں خوف سے پھیلی۔۔۔۔ ماہا نے آنکھیں پھیلائے اسے دیکھا جو اپنی نظروں میں اسکی قربت کی کا خمار لئے ماہا کو لرزنے پہ مجبور کر گیا۔۔۔۔ وہ شرم و حیا سے گھبراتے نظریں جھکا گئی ۔۔۔۔۔

جسے دیکھ وہ مسکراتا اسکے اوپر سایہ سا کر گیا۔۔ ماہا نے ابتہاج کے ہونٹوں کا دہکتا لمس گردن پہ محسوس کرتے تڑپتے اسے پکارا تھا۔۔۔۔ جو بالکل مدہوش اسکی سانسوں سے اسکی روح تک میں رسائی چاہتا تھا۔۔۔

ابتہاج نے ہونٹ ماہا کی تھوڑی پر رکھے تو وہ مچل اٹھی تھی، جبھی ہاتھ اسکے سینے پہ رکھتے ماہا نے اسے دور کرنا چاہا تھا۔۔۔ مگر مقابل نے اسکے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے الجھاتے اسکے ہاتھ تکیے سے لگائے ، ماہا نے اپنی بھاری سانسوں سے دھک دھک کرتے دل کے ساتھ اسے پکارا ۔۔۔


ابب ابتہاج باہر پارٹی ہے سب کیا سوچیں گے۔۔۔۔۔۔۔“ ماہا جو کب سے اسے سمجھانا چاہ رہی تھی اب بمشکل سے ہمت کرتے وہ بولی تھی ۔۔۔۔ ابتہاج نے ہونٹ اسکے گردن سے سرکاتے کان کے قریب کے قریب لے گیا کہ اس کے لمس پہ ماہا کے اندر کپکپی سی طاری ہوئی ۔۔۔۔

” پاپا سنبھال لیں گے تم بس میری فکر کرو ، تمہاری سوچ میں صرف اس وقت میرا خیال ہونا چاہیے ، جیسے میری سوچ میری روح پہ اس وقت صرف تم چھائی ہو۔۔۔۔ یہ دل صرف تمہاری بے انتہا قربت کے لیے بے تاب ہے۔۔۔۔ تم ان لمحوں کو محسوس کرو بھول جاؤ سب کو۔۔۔۔ بھول جاؤ کوئی دکھ ہے تمہاری زندگی میں۔۔۔۔۔"

اسکے کان میں جھکتے وہ میٹھی سرگوشیاں کرتا ماہا کو اپنے آپ میں سمٹنے پہ مجبور کر گیا ۔۔۔۔۔ ابتہاج نے نرمی سے جھکتے اسکے دائیں کندھے سے میکسی سرکاتے اپنےدہکتے ہونٹ اسکے کندھے پہ رکھے تو ماہا نے آنکھیں میچتے ابتہاج کی گردن کے گرد اپنا ہاتھ لپیٹا۔۔۔۔۔۔


اببب ابتہاج پلیز۔۔۔۔۔۔۔ “ابتہاج کے ہونٹوں کے لمس کو اپنے پور پور پہ محسوس کرتے ماہا نے منت بھرے لہجے میں کہا تھا ۔۔ مگر ابتہاج کا ارادہ اسے محبت کی اس نئی دنیا سے واقف کروانا تھا۔۔ اپنی محبت سے اسکے پور پور کو بھگونا تھا۔۔۔۔


”خود ہی تو کہا تھا کہ ہماری بیٹی ہو گی تو تم اس سے سب سے زیادہ محبت کرو گی۔۔۔۔ تو میری جان اسے اس دنیا میں جلدی سے لانے کے لئے ہمیں ہی محنت کرنی پڑے گی۔۔۔۔ اب بس فضول سوچوں کو اپنے دماغ سے نکال دو اور محسوس کرو ان لمحوں میری محبت کو ۔۔۔۔۔۔۔“ ابتہاج نے ہونٹ اسکی گردن پہ جابجا رکھتے بےباکی سے اسکے کان میں جھکتے سرگوشی کی تھی کہ ماہا کا پور پور لرز اٹھا۔۔۔۔


اسکے وجود کی کپکپاہٹ اسکا ڈر ابتہاج بخوبی واقف تھا اسکے احساسات تھا مگر اس وقت اپنے جذبات پہ بندھ باندھنا ابتہاج کے دنیا کا سب سے زیادہ مشکل کام تھا۔۔۔۔

جبھی ابتہاج نے جھکتے اسکے لرزتے گلابی ہونٹوں کو اپنی دہکتی گرفت میں لیتے اسکے پور پور کو اپنی محبت سے بگھونے لگا۔۔۔۔۔

ابتہاج کی قربت ، اسکے لمس کو اپنے وجود پہ جابجا پاتے ماہا کو اپنا آپ آج پھر سے قیمتی لگنے لگا تھا۔۔۔۔ دل نے پھر سے ابتہاج پہ اعتماد کرنا چاہا تھا۔۔۔۔

جبکہ اسکے نرم و ملائم وجود میں کھوتے ابتہاج نے ایک سکون کو اپنے اندر تک اترتا محسوس کیا۔۔۔۔۔


_________________

صنم اٹھو یہاں سے۔۔۔۔۔۔" صالح جو دور کھڑا یہ سب ہوتا دیکھ رہا تھا اب سب کی عجیب نظریں صنم پہ پاتے وہ غصے پہ قابو کیے اسکی جانب بڑھا تھا جو فرش پہ بیٹھی پھوٹ پھوٹ کے رو رہی تھی،

صنم نے صالح کا ہاتھ غصے سے جھٹکا تھا۔۔۔۔۔ ماہا کا رویہ اسے مزید دکھی کر گیا تھا۔۔۔۔ صالح نے جبڑے بھیجتے اسکی حرکت کو دیکھ اب کی بار صالح نے غصے سے اسے بازوؤں سے گھسیٹتا باہر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔


آج کی یہ پارٹی یہی پہ ختم ہوتی ہے آپ سب پلیز کھانا کھا کر جائیے گا۔۔۔ ماحول میں ہوتی چین گوئیوں کو سنتے کاشان صاحب نے بآواز بلند کہا تھا کئی لوگ تو ویسے ہی عجیب و غریب باتیں کرتے غصے سے وہاں سے چلے گئے تھے جبکہ باقی سب کو ویٹر اپنے ساتھ لے جاتے پیچھے لان کینجانب گئے ۔۔۔۔


کاشان آپ پلیز پریشان ناں ہوں۔۔۔۔ صبا بیگم نے پریشان سے کھڑے کاشان صاحب کے پاس جاتے انکے کندھے پہ ہاتھ رکھتے کہا تھا وہ سر ہلاتے اپنے کمرے کی جانب بڑھے۔۔۔۔۔۔۔


پورے راستے صالح اسے یونہی روتا دیکھتا رہا تھا۔۔۔۔ جس کی آنکھوں سے بہتے آنسوں تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔۔۔ اب بھی وہ کمرے میں آتے غصے سے ہوتا کمرہ تہس نہس کر چکی تھی ۔۔۔۔۔ مگر اپنے اندر اٹھتے طوفان کو کسی بھی طور وہ کم نہیں کر سکی تھی۔۔۔


صالح جو گیٹ بند کیے اب کھانا ٹرے میں نکالتے اندر آیا تھا ایک دم سے ٹھاہ کے ساتھ کشن اسکے منہ پر لگا تھا۔۔۔ وہ غصے سے آنکھیں بند کیے کھولتا اپنی سرخ ہوئی آنکھوں سے صنم کو دیکھنے لگا۔۔۔۔


جو بکھرے بال رونے سے سرخ ہوئی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔ صالح نے آگے بڑھتے ٹرے ایک جانب میز پہ رکھی اور چلتا صنم کے قریب ہوا۔۔۔

” میرے قریب مت آئین صالح میں بہت بری ہوں میں نے سب کچھ ختم کر دیا اپنے رشتے اپنوں کا اعتبار سب کچھ توڑ ڈالا مجھے اسی ہی کی سزا مل رہی ہے آپ بھی چھوڑ دو گے مجھے ابھی چھوڑ دیں کیونکہ میں اسی قابل ہوں۔


وہ روتے اپنے قدم پیچھے کو لیتے اپنا چہرہ بری طرح سے نوچنے لگی ۔۔۔۔۔ صالح سنجیدگی سے اسکے قریب رکتے اسکے پاگل پن کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ جو اسے اپنے آپ میں نہیں لگی تھی ۔۔۔


ابتہاج نے کھینچتے اسے اپنے سینے سے بھینجا تو صنم سانس روکے اسکے سینے سے لگی بری طرح سے لرزنے لگی۔۔۔۔۔ ابتہاج نے اسکے کندھے پہ بکھرے بالوں کو ایک جانب کرتے اپنے سلگتے ہونٹ اسکی شفاف گردن پہ رکھے تو اسکے لمس پہ صنم کی جان سے لرز اٹھی۔۔۔۔۔

صنم نے اپنے لرزتے ہاتھوں سے اسے خود سے دور کرنا چاہا تھا۔۔۔ مگر صالح اسکی گردن کو اپنے ہونٹوں سے چومتے اب بےخود سا ہوتے اسکی کمر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔۔۔ صنم اسکے ہونٹوں کے کرشدت دیکھتے لمس پہ مچل اٹھی تھی۔۔۔۔


مگر اسکی قید سے رہا ہونا کہاں ممکن تھا اسکے لئے۔۔۔

صص صالح میں آپ کے قق قابل نہیں ہوں مم میں نا پاک ہوں آپ پپ پلیز مجھے چھوڑ دیں۔۔۔۔۔" اپنے کندھوں سے سرکتے ڈریس کو محسوس کرتی وہ آنکھیں میچتے ہی روتے ہوئے بولی تھی۔۔۔۔۔


اسے اپنا آپ صالح کے قابل نہیں تھا لگا۔۔۔۔۔ بھلا وہ لڑکی جس نے اپنی خوبصورتی کے غرور میں سب کو دھتکارتے اپنے وجود کو چھلنی کر دیا تھا وہ کیسے اسکی قابل کو سکتی تھی ۔۔۔۔۔


صالح نے ہونٹ اسکے کاندھے پہ رکھتے ہلکا سا اپنا دانتوں سے دباؤ دیا تو صنم لرز پڑی اسکی شدت اسکی گرفت پہ۔۔۔۔۔


صالح نے جھٹکے سے اسکے نازک وجود کو اپنی بانہوں میں سیمٹا تھا اور چلتے بیڈ کے قریب جاتے وہ بےحد نرمی سے اسے بیڈ پہ لٹائے اس پہ جھکنے لگا تھا کہ صنم نے خوف سے سہمی نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔ جس کی آنکھوں میں آج الگ ہی رنگ آباد تھے۔۔۔۔

صنم کے لئے اسے روک پانا مشکل ہوتا گیا ۔۔۔۔۔۔ جبکہ صالح کسی برستی بارش کی طرح اس پہ جھکتا اسکے ہور پور کو اپنے لمس سے مہکانے لگا۔۔۔۔۔

اسکے شدت بھرے مگر نرم لمس پہ وہ خود بھی پگھلتی اپنا آپ اس کے سپرد کر گئی تھی۔۔۔۔ گزرتی رات کے ساتھ صالح کی بڑھتی جسارتیں ، اسکی بے باک سرگوشیاں اپنے ہونٹوں کو اپنے کی قید میں محسوس کرتی صنم اپنا ہر غم بھلائے اپنا آپ اسکے سپرد کر گئی۔۔۔۔ جبکہ اسکی خود سپردگی کو محسوس کرتے صالح نے شدت سے اسے خود میں سمیٹتے اسکی روح تک رسائی کی تھی ۔۔۔


___________


آنکھوں میں پڑتی تیز روشنی پہ ماہا نے تھکاوٹ سے خود اپنی سرخ ہوئی آنکھوں کو کھولا اور منہ بسورتے وہ کروٹ بدلتے لیٹی تھی۔۔۔۔۔ اسے یوں خود سے دور ہوتا دیکھ ابتہاج نے ایک دم سے ہاتھ اسکی نازک۔کمر کے گرد لپیٹتے اسے کھینچتے اپنے نزدیک کیا تھا کہ وہ ایک دم سے اسکے سینے سے لگی حیرت سے اپنی نیند سے بوجھل آنکھیں پھیلائے اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔۔


جس کی آنکھوں میں شریر سی چمک تھی۔۔۔۔ماہا نے شرم سے دہکتے گالوں سے اپنا چیدہ ابتہاج کی گردن میں چھپایا تھا ۔۔۔

ابتہاج اسکے ناز وجود کے گرد گرفت مضبوط کرتا خود سیدھے سے لیٹے اسے سینے پہ ڈال گیا۔۔۔۔


اببب ابتہاج۔۔۔۔۔۔" اسکی نظروں کی معنی خیزی سے وہ گھبراتی غصے سے اپنے نازک ہاتھ کا مکہ بنائے اسکے سینے پہ مارتہ منہ بسور گئی۔۔۔ ابتہاج کا قہقہ بے ساختہ تھا۔۔۔۔

ابتہاج نے سر اٹھائے نرمی سے اسکے ہونٹوں کو چھوا تھا جو آگے ہی اسکی شدت پر سرخ ہوئے پڑے تھی۔۔۔۔ ماہا نے اسے غصے سے گھورا تو وہ آنکھ دبائے ایک دم سے کروٹ بدلتے اسے بیڈ پہ لٹائے خود پھر سے اسپہ جھک گیا ۔۔


”ابتہاج مجھے نیند آئی ہے پلیز مجھے سونے دیں” ماہا نے گردن سے سرکتے اسکے بے باک ہونٹوں کے لمس پہ تڑپتے اختجاج کیا تھا۔۔۔۔


ابتہاج نے سر اٹھائے اسے دیکھا جس کے پور پور میں ابتہاج کی خوشبو بسی ہوئی تھی۔۔۔۔ چہرے پہ پھیلی اسکی قربت کی سرخی اسکا راز عیاں کر رہی تھی۔۔۔ابتہاج نے لبوں کا کونہ منہ میں دبائے مسکراہٹ روکی تھی۔۔۔۔


" تمہارے معاملے میں میرے سارے جذبات بے لگام ہیں اس میں میرا قصور نہیں۔۔۔۔۔ اسکے سینے پہ دل کے مقام پہ ہونٹ رکھتے وہ بےخودی میں بولا تھا ۔۔ ماہا اسکے اس قدر حسین اظہار پہ پرسکون ہوئی تھی ۔۔۔۔۔


ابتہاج آپ جائیں ناں پلیز۔۔۔ " منہ بسورتے ماہا نے اپنے ہاتھ اسکی گرفت سے آزاد کرواتے کہا تھا اسکی آنکھیں نیند سے بوجھل تھی ایک رو ساری رات ابتہاج نے اسے سونے نہیں دیا تھا اوپر سے اب صبح ہی صبح اسکے دوبارہ سے شروع ہونے پہ ماہا تڑپ ہی تو اٹھی تھی۔۔۔۔


اوکے مگر میری شرٹ۔۔۔۔۔ " وہ معصومیت سے منہ بنائے سر اٹھائے ماہا کے وجود پر موجود اپنی ڈارک بلیو شرٹ دیکھتے بولا تھا۔۔۔۔ ماہا اسکی بات سنتے پل بھر میں خود میں سمٹی تھی۔۔۔۔۔۔۔ ابتہاج نے نرمی سے جھکتے اسکے ماتھے پہ بوسہ دیا تو ماہا نے سکون سے مسکراتے انکھیوں موندیں۔۔۔۔۔ کر کو آرام آج ضروری میٹنگ ںناں ہوتی تو تمہیں بتاتا میں ، چلو خیر ہے گھر واپس آ کر رات کو یہی سے کانٹینیو کریں گے۔۔۔۔"

" اسکے ہونٹوں کو ہلکے سے چھوتے وہ کان سرگوشی کرتے بیڈ سے اترا تھا وہیں اسکی بات سے وہ کان کی لو تک اپنا سرخ پڑتا چہرہ کمفرٹر میں چھپائے سوئی تھی۔۔۔۔

__________________


صالح بیڈ کروان سے ٹیک لگائے ایک ہاتھ میں پکڑے اپنے ساتھ سگریٹ کا کش لگائے اپنے برابر میں بکھری حالت میں کیٹی صنم کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

جو ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی اسکی من مانیوں کو سہتے سوئی تھی ۔۔ اسکے سونے کے بعد میں صالح کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔۔۔۔۔ وہ یونہی جاگتا اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔جس کے حسین چہرے پہ مٹے مٹے آنسوں کے نشانات تھے۔۔۔ گال اور لب اسکی شدتوں کے سبب سرخ ہو چکے تھے ۔۔۔۔۔۔

اسکے معاملے میں جانے کیوں صالح کو اپنا آپ بے بس لگنے لگتا تھا ۔۔۔۔۔ اس نازک وجود کے آگے جانے کیوں وہ ہر بار ہار جاتا تھا ۔۔۔۔ حالانکہ وہ ایسا نہیں تھا وہ اب وہ صالح خان نہیں رہا تھا جس کے سینے کی موجود خون کا لوتھڑا صرف نام کا دھڑکتا تھا کیونکہ اب وہ صنم کا صالح بنتا کا رہا تھا۔۔۔ اسکا دل اس لڑکی کر قربت کے لئے دھڑکتا تھا۔۔۔ ۔۔

اسے چاہ تھی تو صنم کی محبت کی اسکے ، اسکی قربت اسکے ساتھ کی۔۔۔ وہ خود غرض ہو رہا تھا اسکے معاملے میں ۔۔۔ صالح نے کب بھینجتے اپنے دکھتے سر کو ہاتھوں سے چھوا تھا۔۔۔۔۔


ایک نظر اپنی شرٹ میں چھپی صنم کے وجود پہ ڈالے وہ ناچاہتے بھی جھکتے ہلکی سی جسارت کر گیا۔۔۔۔۔۔ اسکے گھنی خمدار پلکوں کو دیکھ صالح کی آنکھہں نیند سے بوجھل ہونےلگی تھی۔۔۔۔ جبھی اسے مضبوطی سے اپنے بازوؤں میں لٹائے وہ خود میں بھینجتا آنکھیں موند گیا۔۔۔۔۔

_______________

ابتہاج کے جانے کے بعد ہی وہ تقریبا بارہ بجے سو کے اٹھی تھی اچھے سے فریش ہونے کے بعد جب اسنے آئینے میں اپنا آپ دیکھا تو بے ساختہ ہی گال شرم سے دیک اٹھے تھے۔۔۔۔اسکے ہور پور میں ابتہاج گردیزی کی خؤشبو بسی تھی ۔۔۔

۔

ماہا نے بمشکل سے اپنی گھبراہٹ پہ قابو کیے خود کو سنبھالتے قدم باہر کی جانب بڑھائے تھے۔۔۔۔۔

صبا بیگم تو ماہا کے نکھرے نکھرے روپ کو دکھتی ہی خوشی سے نہال ہوئی تھی۔۔۔۔ مگر ماہا کی گھبراہٹ کو محسوس کرتے انہوں نے بہت اچھے سے اسے باتوں میں الجھایا تھا۔۔۔۔

اسکے بعد ہی وہ دونوں اٹھتے کچن میں جاتے تیاری کرنے لگی تھی۔۔ کیونکہ کاشان صاحب کا حکم تھا کہ انکا کوئی دوست ڈنر پہ آ رہا تھا تو اسی لئے کھانے کا انتظام اچھے سے کیا جائے۔۔۔۔۔ صبا بیگم نے ماہا کو ڈانٹتے پہلے ناشتہ کروایا تھا اسکے بعد ہی وہ تیاریوں میں مگن ہوئی۔۔۔۔۔


ہیے آنٹ۔۔۔ تھم کیا کر رہی ہے۔۔۔۔" کافی دیر سے کام میں مگن صبا بیگم اور ماہا نے آواز پہ چونکتے سمیر کو دیکھا ۔۔۔۔ جو سر پہ کیپ ڈالے ہاتھ میں بیٹ اور بال پکڑے کھڑا تھا۔۔۔۔

کام کر رہی ہوں بیٹا تمہارے انکل کے کوئی دوست آ بریے ہیں آج۔۔۔۔۔" صبا بیگم نے اسے مخاطب کرتے بتایا تو سمیر کا منہ پھول گیا۔۔۔

مگر میں تو آیا تھا کہ چلو تھم اور ہم کھیلتی ہے ابی۔۔۔۔۔۔" وہ منہ بناتے افسردہ سا ہوتے بولا تو صبا بیگم کے ساتھ ساتھ باؤل میں چکن نکالتی ماہا کے ہونٹ بھی مسکرائے۔۔۔ "


بیٹا جی آپ ایسا کرو ماہا کے ساتھ کھیل لو ویسے بھی اس عمر میں میں کہا کھیل سکتی ہوں ۔۔۔۔۔۔"

سلاد کا سامان تیار کرتے صبا بیگم نے اسے مشورہ دیا تو سمیر کی انھیں چمک پڑی۔۔۔۔

نہیں میں نہیں ماما مجھے ابھی کام کروانا ہے آپ کے ساتھ۔۔۔ماہا نے جلدی سے نفی کی تھی مگر صبا بیگم نے اسے گھورتے ہوئے دیکھا ۔۔


" سب کچھ ہو گیا ہے ماہا میری جان۔۔۔ تم۔جاو تھوڑا سا کھیل لو دونوں کو ہی اچھا لگے گا۔۔۔۔۔ اور ویسے بھی ابھی مہمانوں کے آنے میں وقت ہے اور ابتہاج بھی اتنی جلدی نہیں آئے گا۔۔۔۔۔"


" صبا بیگم نے رسان سے اسے سمجھایا ۔۔۔ مگر وہ ضد پہ اڑی رہی جسے دیکھ صبا بیگم نے زبدستی مسکراتے اسے کچن سے نکالا تھا۔۔۔

اب زیادہ نصرے نہیں دکھاؤ ماہا آ جاؤ کھیلیں ۔۔۔۔" اسے یونہی کھڑا دیکھ سمیر نے روعب سے کہتے بال اسکے سامنے کی تھی۔۔۔۔۔

ماہا اسکی خراب اردو سے سخت بدمزہ ہوتے اسکے دوسرے ہاتھ میں تھامے بیٹ کو چھیننے لگی کہ وہ ایک دم سے ہڑبڑا اٹھا۔۔۔


ماہا پہلے میرا نمبر ہے مجھے دو بیٹ۔۔۔۔۔" اسکے آگے ہاتھ پھیلائے سمیر نے منہ بسورتے کہا تو ماہا نے آنکھوں میں شرارت سموئے اسے دیکھا ۔ ۔

جی نہیں اب تو میں ایک شرط پہ کھیلوں گی اگر پہلے مجھے بیٹنگ کرنے دو۔۔۔۔۔" ماہا نے گردن اکڑائے کہا تو سمیر چارو نا چار مان گیا۔۔۔۔


وہ دونوں خوشی خوشی باہر آئے تھے۔۔۔۔ جہاں سمیر کے پہلے سے وکٹ لگائے سارا انتظام کیا تھا۔۔۔۔۔

کیا ہو رہا ہے انگریزی بندر۔۔۔۔۔۔" ابھی سمیر بال کرواتا کہ پیچھے سے آتی روعب دار بھاری آواز پہ ان دونوں کی ہی آتی گم ہوئی تھی ماہا جو بیت تھامے فل فارم۔میں تھی ابتہاج کی آواز پہ خوف سے آنکھیں پھیلائے سامنے دیکھنے لگی۔۔ جہاں وہ آفس گیٹ اپ میں کھڑا کافی ہشاش بشاش دکھ رہا تھا ۔۔۔


کچھ نہیں ہم کھیل رہی ہے برو تھم بھی آؤ میرے برف تمہارا نمبر ہو گا ۔۔۔۔۔ سمیر نے مسکراتے اسے آفر کی تھی۔۔۔ جسے سنتا وہ ہاتھ سے ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتے نظریں ترچھی کیے ماہا کے وجود کو تیز نظروں سے دیکھنے لگا۔۔۔۔


اسکے یوں بےباکی سے سمیر کے سامنے دیکھنے پہ ماہا کے چہرے پہ ایک ساتھ جانے کتنے رنگ بکھرے تھے۔۔۔

یہ یہ کھیلے گی جسے بیٹ پکڑنا نہیں آتا۔۔۔۔" ابتہاج نے سر نفی میں ہلاتے اسکا مذاق بنایا تو ماہا کا چہرہ کو تھوڑی دیر پہلے اسکی نظروں کی تپش سے سرخ پڑا تھا اب کی بار اسکے یوں کہنے پہ غصے سے سرخ ہوا۔۔۔

آپ خود کو شاید آفریدی سمجھتے ہیں کیا ؟ بھولیں مت مجھے بھی کرکٹ کھیلنا کافی اچھے سے آتا ہے ۔۔۔ گردن اکڑائے ماہا نے سمیر اور ابتہاج کو دیکھتے کہا تو ابتہاج نے بھنویں اچھاظے متاثر ہوتے گردن ہاں میں ہلائی تھی۔۔۔۔


بکو دیکھ لیتے ہیں۔۔۔ جو جیتا اسکی ہر شرط مقابل کو ماننی پڑے گی ۔۔ ابتہاج نے انگوٹھے سے ماتھا مسلتے کہا تھا۔۔۔۔ ماہا اسکےنیوں چیملج کرنے پہ فورا سے سر ہاں میں ہلا گئی۔۔۔۔

اوکے منظور ہے ۔۔۔۔ سمیر ان دونوں کو دیکھنے لگا جو اسے گیم سے نکالتے اب خود ہی ایک دوسرے سے شرطیں لگا رہے تھے۔۔۔


“ ماہا نے بیت تیسری بار زمین پہ مارا اور فوکس ابتاہج کے ہاتھ میں تھامی بال پر کیا جسے وہ مسلسل رہا تھا۔۔۔۔ ماہا نے غصے سے ابتہاج تو دیکھا تو اسکے دیکھنے پہ ابتہاج نے آنکھ دبائے بال کی تھی ۔۔کہ ماہا اسکی ہوں کھلے عام حرکت پہ سٹپٹا گئی۔۔۔ اسکے ہاتھ میںں تھماما بیٹ لرز گیا تھا ہوش تو اسے تب آیا جب اسکے کانوں میں سمیر اور ابتہاج کی آواز گونجی۔۔۔۔


" اب تو میں جیت گیا بیگم کیا ارادہ ہے شرط یاد ہے ناں۔۔۔۔ سینے پہ ہاتھ لپیٹتے ابتہاج نے ایک ادا سے اسے دیکھتے کہا تو ماہا نے غصے سے اپنے نتھنے پھلائے اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا

۔۔

آپ چیٹر ہیں آپ نے چیٹنگ کی ہے ابھی ۔۔۔۔ وہ غصے سے انگلی دکھائے بولی تو ابتہاج نے امپریس ہوتے سر ہاں میں ہلایا۔۔۔۔

کیا کیا ہے میں نے ۔۔ بتانا پسند کریں گی آپ۔ ۔۔۔ اپنے کان کو ہاتھ سے مسلتے وہ مسکراتے ماہا کو زہر لگا تھا۔۔۔وہ جانتا تھا کہ یوں سب کے سامنے سرعام وہ کبھی بھی ایسا کچھ نہیں کیے گی کبھی اس نے یہ حرکت کی تھی۔۔۔


ماہا پیر پٹھکتے غصے سے اوپر اپنے کمرے میں گئی۔۔۔۔۔ ابتہاج اسکے یوں خفا ہونے پہ خود بھی سر جھٹکتا اسکے پیچھے گیا تھا۔۔۔ ۔

منا لو خوشیاں ابتہاج گردیزی دیکھتا ہوں کتنی دیر کی خوشیاں ہیں یہ سب ۔۔۔۔ بہت جلد تم سب کے چہروں پہ آنسوں نا لائے تو میرا نام بھی سمیر نہیں۔۔۔۔۔

ابتہاج کو سیڑھیاں چڑھتا دیکھ وہ زہر خند لہجے سے بڑبڑاتے وہاں سے نکلا تھا۔۔۔۔

___________


دلاور صاحب کے ٹھیک ہونے کی خوشی میں کاشان صاحب کے آج انکو ڈنر پہ انوائٹ کیا تھا۔۔۔۔۔

جس کا علم صرف ابتہاج اور کاشان صاحب کو تھا۔۔۔

بیٹا ادھر میرے قریب بیٹھو ۔۔۔۔۔۔ " اپنے سامنے خاموش بیٹھی ماہا کو یوں نظریں جھکائے بیٹھا دیکھ دلاور صاحب نے محبت سے کہا تھا۔۔۔

سیڑھیوں سے اترتے ابتہاج کے کب مسکرائے تھے۔۔۔ جبکہ ماہا نے بےیقینی سے اپنے پاپا کو دیکھ جنکی آنکھوں میں اج وہ نفرت نہیں تھی بلکہ کوئی اور ہی جزبہ تھا جسے فل وقت وہ سمجھنے سے قاصر تھی۔۔۔۔

ماہا نے ابتہاج کو دیکھا جو مسکراتے سر ہاں میں ہلا گیا۔۔۔۔ ماہا دھیمے قدموں سے اٹھتے انکے ساتھ والی کرسی پہ بیٹھی تھی۔۔۔ دلاور صاحب نے اسکے جھکے سر کو دیکھا تو دل میں ایک درد سے اٹھا۔۔۔احساس شرمندگی سے آنکھیں بھیگ گئی۔۔۔

ماہا بیٹا آپ اپنے پاپا کو کھانے سرو نہیں کرو گے ۔۔۔۔" دلاور صاحب نے لہجے پہ قابو پاتے محبت سے کہا تھا ۔۔۔ماہا تو آگے ہی انکے حکم کی منتظر تھی فروا سے کھانے پلیٹ میں نکالتے انکے سامنے کیا تھا۔۔۔۔

جہاں سب کی آنکھوں میں محبت خوشی کی چمک تھی وہی منیبہ بیگم ماہا کا خود سے کھنچاؤ محسوس کر چکی تھی مگر پھر بھی اپنی بیٹی کو یوں خوش دیکھ وہ دل سے مطمئن ہوئی تھیں ۔۔۔۔


______________


صالح ہم۔کہاں جا رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔" گاڑی میں بیٹھے وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے یہی سوال دہرا رہی تھی۔۔۔ صالح نے نظریں گھمائے سرخ رنگ کے سوٹ میں اپنی محبت سے دمکتے اسکے حسین روپ کو دیکھ نظریں سڑک پہ مرکوز کی تھیں ۔۔۔۔


سینیما ہال کے سامنے گاڑی روکتے صالح باہر آیا تھا اور صنم۔ہی سائڈ کا ڈور کھولتے اسے اترنے میں مدد کی تھی۔۔۔۔ جو کافی سہمی ہوئی تھی۔ صالح کی محبت اسکی قربت میں اسے اپنا آپ خوش قسمت محسوس ہو رہا تھا مگر دل میں کہی ایک سانپ بھی کنڈلی مارے بیٹھا تھا کہ کہیں صالح اسے چھوڑ نا دیں اگر ایسا ہوا تو کیا وہ جی پائے گی۔۔۔

وہ اپنی سوچوں میں گم تھی کہ صالح اسے لیے اندر داخل ہوا۔۔۔۔ صنم کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیتے صالح نے اسکے کان میں سرگوشی کی تھی صنم فورا سے ہوش میں آتے تھیٹر کے حالی کمرے کو دیکھنے لگی جسے صالح نے اپنے کئے بک کیا تھا۔۔۔۔ اسے ساتھ لئے وہ داخل ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ اور استحقاق سے اسکی کمر کے گرد ہاتھ لپیٹتے اسے اپنے سینے سے لگائے وہ ٹانگ پہنٹانگ جمائے مووی دیکھنے لگا۔۔ تھوڑی دیر کے بعد صنم بھی پرسکون ہو گئی تھی۔۔۔

یہ ایک فنی مووی تھی جو یقیناً صالح نے اسکا موڈ بہتر کرنے کو لگوئای تھی۔۔۔ مووی کے مزاخیہ سین پر صنم اور صالح کا ہنس ہنس کے برا حال تھا۔۔ بلآخر مووی کے ختم ہوتے ہے صالح یونہی اسے تھامے باہر لایا تھا اور آرام سے اسے گاڑی میں بتھاتا وہ اسکے برابر بیٹھا۔۔۔۔

صنم جانتی تھی وہ اسے کہیں ڈیٹ پہ لایا تھا مگر کہاں اور کیوں اس سے آگے ہی سوچ ہی اسکے گھبرانے پہ مجبور کر رہی تھی۔۔۔۔

اوپر سے رات اپنا آپ اسے سونپنا اسے صالح سے نظریں ملانے میں شرم محسوس ہو رہی تھی ۔مگر اسکے برعکس صالح کافی پرسکون۔ اور خوش تھا۔۔۔۔


صالح اسے ساحل سمندر پہ لایا تھا۔۔۔ شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے اوپر سے بنتی ٹھنڈی ہوائیں صنم کا وجود ٹھنڈ سے سببب کانپنے لگا تھا۔۔۔

صالح اسے ساتھ لگائے ایک جانب لے گیا۔۔۔۔ ڈیکوریشن پھولوں سے سجی دور اس سے ہٹ کو دیکھتے صنم کا منہ حیرانی اور بےیقنی سے کھلا رہ گیا تھا۔۔۔۔۔


صالح اسے کہتے اندر داخل ہوا تھا۔۔۔جہاں ایک جانب زمین پہ کافی اچھے سے میٹرس بجھائے اسکے پھولوں سے سجایا گیا تھا۔۔۔ایک جانب چھوٹا سا ایک عدد صوفہ پڑا تھا جبکہ ہر جگہ پھول ہی پھول بکھرے تھے۔۔۔


اندر کی تیاری کو دیکھ صنم کے ہاتھ پھولنے لگے۔۔۔۔ یہ سب اسکی سوچ سے بھی زیادہ کا تھا۔۔۔۔۔۔ جبکہ اسکے کمر کے گرد بازوؤں حائل کرتے صالح نے صنم کی پشت کو سینے سے لگایا تو صنم نے اپنی نم ہوتی آنکھوں کو بند کیا ایک آنسو بے اختیار ہی اسکی پلکوں سے بہتا صالح کے ہاتھ پر گرا تھا۔۔۔

صالح نے بے چین ہوتے اسکا رخ اپنے سامنے کیا تھا۔۔۔۔ میں آپکے قابل نہیں صالح می۔۔۔۔۔۔۔"

اشششش خاموش ایک لفظ بھی مت بھولنا میں نے رات کو تمہاری روح پہ اپنی مہر لگاتے یہ ثابت جر دیا ہے کہ تم ہر صرف اور صرف میرا یعنی صالح خان کا حق ہے اس لئے اب یہ سب سوچنا بند کر دو۔ ۔۔۔۔ تم میرے لئے ویسے ہی پاک ہو جیسے کہ ہر بیوی اپنے شوہر کیلئے ہوتی یے۔۔۔۔۔


جانتی ہو۔۔۔۔ میں کون ہوں۔۔۔۔اسکے حسین چہرے کو ہاتھوں میں بھرتے صالح نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے کہا تھا صنم نے گردن نفی میں ہلائی۔۔۔

” میں اپنے ماں باپ کا وہ ناجائز بچہ ہوں جسے جنم دے کر وہ لوگ پھینک گئے تھے میری پرورش ایک یتیم خانے میں ہوئی ہے ۔۔۔۔۔ جہاں مجھے پل پل اس بات کا احساس ہوتا رہا کہ ہاں میں ایک ناجائز اولاد ایک گناہ ہوں

۔۔۔۔

اب بتاؤ کون ناپاک ہے ہم دونوں میں سے۔۔۔۔۔ اسکی کہی باتیں اسکی انھکیں میں آتی نمی کو دیکھ صنم بے اختیار اسکے سینے سے لگی تھی۔۔۔۔


صالح نے مضبوطی سے اسے خود میں بھینج لیا تھا ۔۔۔ آپ ناجائز نہیں آپ بہت اچھے ہیں۔۔۔جانے کیوں مگر اسکا ماضی صنم جو کافی دکھ دے گیا تھا۔۔۔ صالح اسکے معصوم انداز پہ مسکرا دیا۔۔۔۔


نہیں صنم ہم دونوں ہی نامکمل تھے جن کی تکمیل رب نے ایک دوسرے کی ذات سے مکمل کی ہے۔۔۔۔ صنم کے لبوں کو چھوتے صالح نے محبت سے کہا تھا وہیں اسکے لمس پہ صنم نظریں جھکا گئی۔۔


اس کی رضا کو سمجھتے صالح نے نرمی سے جھکتے اسے اپنی گود میں بھرا تھا اور مڑتے اسے گرے میں لٹائے وہ خود میں اسکے قریب نیم دراز ہوتے اسکے خوبصورت نازک ہاتھ کو ہونٹوں سے چھونے لگا۔۔۔

صنم کی سانسیں تیز تیز تھیں جبکہ صالح نے ایک دم سے اسے خود پہ گرائے اسکے نازک لبوں کو اپنی گرفت میں لیا تھا۔۔۔ ہمیشہ کی طرح اسکی قربت میں خود کو پرسکون کرتے صالح نے اپنی شرٹ اتارنے دور اچھالی تھی اور جھکتے صنم کے ایک ایک نقش کو چھوتے وہ اسے خود میں قید کر گیا۔۔۔

مااہا۔۔۔۔۔۔” منیبہ بیگم کی آواز پہ ماہا جو کچن میں برتن سمیث رہی تھی اچانک سے اسکے ہاتھ تھمے تھے۔۔۔۔۔۔۔ وہ یونہی منجمد سی اپنی جگہ پر کھڑی کی کھڑی رہ گئی جب بہت اچانک سے وہ اسکے قریب آتی اسے پکڑتے اسکا رخ اپنی جانب کر گئی۔۔۔۔۔


کیا اپنی ماں کو معاف نہیں کرو گی” اسکے جھکے چہرے کو دیکھ منیبہ بیگم نے نم آنکھوں سے اسکی تھوڑی پکڑتے اسکا چہرہ اونچا کرتے کہا تھا۔۔۔۔


” میری ناراضگی معانی رکھتی ہے کیا آپ کیلئے....؟ وہ الٹا انکی آنکھوں میں دیکھتی انہی سے سوال پوچھنے لگی ۔۔منیبہ بیگم نے کرب سے آنکھیں میچیں۔۔۔۔۔


” بیٹا میں جانتی ہوں کہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے بلکہ گناہ ہوا ہے ۔۔۔۔ میں اپنی اولاد میں برابری ناں کر سکی تمہیں وہ محبت وہ حقوق نہیں دے سکی جسکی تم حقدار تھی۔۔۔۔” اسکے ہاتھوں کو تھامے وہ نم آنکھوں سے نظریں جھکائے بولیں۔۔۔۔


" مگر اب اب مجھے اپنے کیے کا احساس ہے مجھ سے تمہاری یہ ناراضگی برداشت نہیں ہو رہی میری جان ۔۔۔ ماں باپ بھی تو غلطی کر جاتے ہیں اگر تم اپنے باپ کو معاف کر سکتی ہو تو کیا تم مجھے معاف نہیں کرو گی۔۔۔۔"

انکے لہجے میں عاجزی تھی ، محبت سے بھرے لہجے میں وہ آنکھوں میں ممتا کی تڑپ لیے اس سے گویا ہوئی تھیں۔۔۔۔ ماہا انکے اس طرح سے رونے پہ دل سے شرمندہ ہوئی۔۔۔ وہ یہ تو نہیں چاہتی تھی ۔۔اس نے کبھی نہیں چاہا تھا کہ اسکے ماں باپ اسکے سامنے شرمندہ ہوں وہ تو بس اپنوں کی محبت انکا پیار چاہتی تھی۔۔۔۔۔


”ماما ایسا مت کریں پلیز میں نہیں ہوں آپ سے ناراض اور جہاں تک معافی کی بات ہے تو میرے ماں باپ مجھ سے معافی مانگی میں ایسا کبھی نہیں چاہوں گی۔۔۔۔۔ ” انکے ہاتھوں کو مضبوطی سے تھامے وہ آنکھوں میں محبت سموئے بولی تو منبیہ بیگم کی روح تک میں سکون اترا تھا۔ جبھی انہوں نے مسکراتے اسے مضبوطی سے اپنے سینے میں بھینجا۔۔۔۔۔۔۔


کتنا سکون تھا ۔ انکے سینے سے لگے جیسے وہ ہر قسم کی گرم ہواؤں سے دور آ گئی تھی۔۔۔۔ جیسے اب زندگی میں کوئی غم کوئی تکلیف باقی نہیں رہا تھا۔۔۔۔۔۔


_________________


صنم کیا کر رہی ہو۔۔۔۔۔۔” صالح بے چینی سے اسے پورے کمرے میں ڈھونڈتا اب نیچے آیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صنم کا رویہ اسکے ساتھ اب کافی اچھا تھا وہ اب آہستہ آہستہ اسکی محبت میں رنگتی جا رہی تھی۔۔۔۔ دل میں چھپے سارے اندیشے جیسے اب خودبخود ہی ختم ہو رہے تھے۔۔۔۔۔ صالح کی قربت اسکی چاہت میں وہ اپنا ماضی بھلا رہی تھی۔۔۔۔۔


” میں اوپر ڈھونڈ رہا تھا تمہیں۔۔۔۔میری جان یہاں کیا کر رہی ہو۔۔۔۔۔ اسے پیچھے سے حصار میں لیتے صالح نے ہاتھ اسکے پیٹ پہ باندھے اسے کھینچتے خود سے لگایا تو پل بھر کو صنم کا سانس سینے میں الجھا تھا۔۔۔۔


وو وہ میں نے سس سوچا کہ آپ روز میرے لئے کچھ بناتے ہیں آج میں ہی کچھ بنا لوں آپ کے لئے۔۔۔۔۔۔" ایک دم سے صالح کے یوں اپنے قریب تر ہونے اور اپنے کندھے پہ اسکے بےباک ہونٹوں کا لمس محسوس کرتے صنم کا چہرہ لال انگارہ ہونے لگا۔۔۔۔۔۔ آواز میں کپکپاہٹ سی دھر آئی۔۔۔۔۔


واو ڈیٹس گڈ ۔۔۔۔ ویسے بھی میں نے سنا ہے کہ شوہر کے دل میں اترنے کا راستہ اسکے پیٹ سے ہو کر جاتا ہے مگر تم تو اس دل میں بہت گہری طرح سے اتر چکی ہو ۔۔۔۔۔۔ اب بتاؤ یہ کھانا کھلا کر کیا مجھے اپنا غلام بنانے کا ارادہ تو نہیں۔۔۔۔۔۔۔”


وہ مسلسل اسکے کندھوں کو اپنے ہونٹوں سے چھو رہا تھا۔۔۔۔۔ صنم کا خود میں سمٹنا وہ واضح طور پر محسوس کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔ جبھی اسنے جھکتے اسکے کان میں سرگوشی کی ۔۔۔۔۔۔۔


صالح پپ پلیز تنگ ناں کریں۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکی شریر انگلیوں کی حرکت اپنے پچھلے گلے پہ محسوس کرتے صنم نے خوف سے دھڑکتے دل سے رخ موڑتے اسکے سینے پہ ہاتھ رکھتے اسے خود سے دور کرنا چاہا ۔۔۔۔۔۔


” ابھی تو بس تھوڑا سا ٹیسٹ کر رہا تھا۔۔۔۔۔ تنگ تو تھوڑی دیر بعد کروں گا۔۔۔۔۔۔۔" اسکے چہرے پہ پھیلے شرم و حیا کے رنگوں کو دیکھتے صالح نے نرمی سے اسکے چہرے پہ آتی لٹ کو کان کے پیچھے اڑسا۔۔۔۔۔


”صنم نے بے بسی سے اسے دیکھا ۔۔جس کی بےباک نظریں اسکے کھلے کھلے روپ میں اٹکی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔ صنم نے گہرا سانس بھرتے اسکی آنکھوں میں چھپی فرمائش کو پڑھتے اپنی آنکھیں مضبوطی سے میچیں تو صالح کو جیسے اسکی طرف سے اجازت مل گئی تھی۔۔۔


جبھی وہ بنا لمحہ ضائع کیے اسکے خوبصورت ہونٹوں پہ جھکتا اسکی سانسوں کو اپنی ہونٹوں کی قید میں لے گیا۔۔۔۔۔۔ صنم نے خود پہ کسی سائے کی مانند جھکے اس پاگل شخص کی شدت بھری گرفت محسوس کرتے اپنا آپ اسے سونپ دیا۔۔۔۔ صالح نرمی سے ہاتھ اسکی کمر کے گرد لے جاتے اسے خود میں بھینجتا وہ رفتہ رفتہ اسکی سانسوں کو خود میں اتارتا بےخود سا ہونے لگا۔۔۔۔۔


صنم نے بےساختہ اسکے کالر کو جھٹکے سے اپنی گرفت میں لیا تو صالح نے آنکھیں کھولیں اسکی بند پلکوں کو دیکھ نرمی سے اسکے ہونٹوں کو آزادی دی ۔۔۔۔۔ صنم نڈھال سی اسکے سینے سے لگے گہرے سانس بھرنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صص صالح کک کھانا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔" صالح کو یوں اپنے وجود پہ قابض ہوتا دیکھ صنم نے منمناتے اسے یاد دلایا تو صالح نے جن نظروں سے اسے دیکھا تھا صنم کا دل چاہا کہ وہ شرم سے کہیں ڈوب مرے۔۔۔۔۔


ہاہاہا آپ کا فون۔۔۔۔۔۔” اچانک صالح کے کام میں مداخلت کرتے اسکے جیب میں پڑا فون چنگھاڑ اٹھا۔۔ جس پہ کھلکھلاتے صنم نے اسکا حصار توڑتے فاصلہ قائم کیا۔۔۔۔ صالح نے غصے سے اسے دیکھا اور پھر اپنے فون کو غصے سے ہاتھ میں دبوچ لیا۔۔۔۔


" اسکرین پر جگمگاتے نمبر کو دیکھ صالح نے ایک نظر صنم پہ ڈالی جو مگن سی جانے کیا بنا رہی تھی۔۔۔ اور پھر خاموشی سے وہ کال اٹھائے باہر آیا ۔۔۔۔۔


یہ کہاں چلے گئے۔۔۔۔۔۔ صنم نے کھانا میز پہ رکھتے صالح کی تلاش میں نظریں دوڑاتے خود سے بڑبڑاتے کہا تھا۔۔ جبھی وہ دروازہ کھولتے اندر آیا۔۔۔۔۔۔


صالح ۔۔۔۔۔۔" صنم نے اسے پکارا جو کسی گہری سوچ میں ڈوبا تھا۔۔۔۔۔


ہممممم۔۔۔۔" صالح نے ماتھا مسلتے بے چینی سے کہا ۔۔۔۔۔


” کھانا ۔۔۔۔۔ صنم نے اسکا دھیان اپنی جانب کرتے کہا تو صالح نے سر جھٹکے اسکے حسین چہرے کو دیکھا اور پھر مسکراتے اسکی جانب بڑھا۔۔۔۔۔۔۔


” چلو دیکھیں تو سہی ، آج میری بیگم نے اپنے ان ہاتھوں سے کیا بنایا ہے۔۔۔۔ صالح نے کھینچتے اسے خود سے قریب تر کرتے اسکے ہاتھوں کو ہونٹوں چھوا تو صنم بلش کر اٹھی۔۔۔ صالح اسے ساتھ لیے آگے بڑھا اور چئیر کھسکاتے اسے بٹھائے وہ خود بھی اسکے قریب بیٹھا۔۔۔۔۔


واؤ بریانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔” ڈش میں سجی بریانی کو دیکھ صالح کی آنکھیں حیرت سے چمک اٹھی تھی جسے محسوس کرتی صنم دل سے خوش ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔


” چکھ کر بتائیے ناں پلیز ۔۔۔۔۔! اسکے کندھے کو تھامے وہ معصومیت سے بولی تو صالح نے جھکتے اسکی پیشانی پہ بوسہ دیا ۔۔۔۔۔۔ صالح نے ایک نظر صنم کے پریشان بھرے پہ ڈال چمچ سے پہلا نوالہ لیا۔۔۔۔ صنم اسکے تاثرات نوٹ کر رہی تھی۔۔ جو کافی سنجیدہ تھے۔۔۔


صنم نے خوف سے آنکھیں پھیلائے اسے دیکھا اسے لگ رہا تھا۔۔۔ کہ بریانی اچھی نہیں بنی ۔۔۔۔ اسنے نم آنکھوں سے صالح کو دیکھا جو اب اسی کی جانب متوجہ تھا۔۔۔۔


"اچھی نہیں بنی ناں ۔۔۔۔ مجھے پہلے ہی پتہ تھا۔۔۔ منہ بسورتے وہ رونے کو تھی۔۔۔۔صالح نے اچانک سے اسے کھینچتے خود میں بھینج لیا۔۔۔صنم یوں اسکے غیر متوقع ردعمل پہ سانس روکے اسکے سینے سے لگی تھی۔۔۔ صالح کا رویہ واقعی میں اسکی سمجھ سے باہر تھا۔۔۔۔



” آج پہلی بار کسی اپنے کے ہاتھوں کا کھانا کھایا ہے یقین مانو اتنی ٹیسٹی بریانی آج تک صالح خان نے کبھی نہیں کھائی۔۔۔۔۔۔۔۔


صالح نے محبت سے اسکے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں تھامتے کہا تھا۔۔صنم اسکی آنکھوں میں جھلکتی سچائی دیکھ اندر تک سرشار ہوئی تھی۔۔۔۔


سچی۔۔۔۔” حیرانگی سموئی آواز میں وہ صالح کو دیکھ بولی تو صالح نے محبت اسکے ہونٹوں کو چھوا۔۔۔۔۔ مچی۔۔۔۔”


اب اپنے ان ہاتھوں سے کھلاؤ مجھے۔۔۔۔” اسکے ہاتھوں کو تھامے وہ فرمائشی انداز میں بولا تو صنم نے جھینپتے کپکپاتے ہاتھوں سے اسے کھلانا شروع کیا۔۔۔۔۔۔


صالح بھی اسے ساتھ ساتھ کھلا رہا تھا ۔۔۔ جو نظریں جھکا ریی تھی بار بار۔۔۔۔۔۔۔


” صص صالح ۔۔۔۔۔۔" صالح نے کھانا ختم کرتے ہی جھکتے اسے بانہوں میں بھرا تو صنم کے اوسان خطا ہوئے۔۔


جی جاناں۔ ۔۔۔۔" سیڑھیوں کی جانب بڑھتے صالح نے محبت سے اسے دیکھا۔۔۔


مجھے برتن سمیٹنے ہے اور بھی کام کرنا ہے ابھی ۔۔۔۔۔۔۔ اسکی گردن میں ہاتھ ڈالے صنم نے خفا نظروں سے اسے دیکھتے آگاہ کیا۔۔۔۔۔


" بعد میں کر لینا فلحال اپنے شوہر کے خواہش کا احترام کرتے ہوئے چپ ہو جاؤ ۔۔۔۔۔۔” صالح نے شدت سے کہتے اسکے ہونٹوں کو اپنی گرفت میں لیا۔۔۔۔۔۔ پاؤں سے ڈور لاک کرتے صالح نے نرمی سے اسے بیڈ پہ لٹائے اسپہ سایہ سا کیا ۔۔۔۔


صنم کی پلکیں لرز پڑی ۔۔۔۔۔ جسے دیکھتا وہ مسکراتے اپنی شرٹ اتارتے دور اچھالتا اسکے دونوں ہاتھوں کو اپنی گرفت میں لئے پھر سے اسکے وجود پہ قابض ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ رفتہ رفتہ اسکی سانسوں کو خود میں اتارتے صالح نے اپنی شدت سے صنم کے پور پور پہ اپنا لمس چھوڑتے اسے خود میں سمیٹ لیا۔۔۔۔۔۔۔


______________



کاشان صاحب اور منیبہ بیگم کو الوداع کرتے وہ اداس سی بوجھل قدموں سے دروازہ کھولے اندر آئی۔۔۔۔

کتنا اچھا لگ رہا تھا اسے اپنی ماما پاپا کے ساتھ انکی محبت کو پاتے مگر وہ پھر سے چلے گئے تو ماہا سچ میں اداس ہو گئی تھی۔۔۔۔۔۔


ابتہاج جو کچھ ضروری کالز کرتا بالکونی کے گیٹ کو لاک کیے اندر آیا تو سامنے ہی ماہا تو بیڈ کے کنارے پہ یوں اداس بیٹھا دیکھ وہ منٹوں میں سمجھ گیا کہ آخر کیا مسئلہ ہے ۔۔۔۔۔۔


جبھی بنا آواز کیے وہ دھیمے قدموں سے چلتا اسکے پاس آیا تھا۔۔ اسکے پاس بیٹھتے ابتہاج نے بہت نرمی سے ماہا کے گرد حصار بنائے اسے سینے سے لگایا۔۔۔۔۔ ماہا نے نرمی سے پیچھے ہوتے سر اسکے کندھے پہ رکھا۔۔۔۔۔


ابتہاج نے مسکراتے اسکے سر پہ بوسہ دیا۔۔۔ کیا ہوا اتنی خاموشی ہضم نہیں ہو رہی مجھے۔۔۔۔۔” ابتہاج نے شرارت سے کہتے ماہا کی ناک کھینچی تو ماہا نے آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھورا ۔۔۔۔


” کیوں آپ کو کیا لگتا ہے میں ہمیشہ ہی چیختی رہتی ہوں؟

ماہا نے غصے سے ابتہاج نے ہاتھ اپنی کمر سے ہٹاتے کہا تو ابتہاج نے لب دانتوں تلے دبائے ۔۔۔۔


” تمہیں ایسا لگ رہا ہے تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا مگر میرا ایسا کہنے کا کوئی ارادہ نہیں۔۔۔۔۔ کندھے اچکاتے ابتہاج نے صاف انکار کیا ۔۔۔۔ ماہا نے غصے سے ناک پھولایا۔۔۔۔۔۔۔


کہاں جانم۔۔۔۔۔۔" اسے اٹھتا دیکھ ابتہاج نے اسے جھٹکے سے کھینچتے خود پہ گرایا ۔۔۔۔۔۔

” مجھے کام کرنا ہے اور آپ دور رہیں مجھے کوئی بات نہیں کرنی آپ سے۔۔۔۔۔" آنکھوں چھوٹی کیے وہ خفا خفا سی بولی۔۔۔۔۔۔۔


یہ تو ناممکن ہے تم سے دوری تو ابتہاج گردیزی کبھی بھی برادشت نہیں کر سکتا اور ناں ہی کبھی تمہیں یہ اجازت دوں گا کہ تم مجھ سے دور ہو جاؤ۔۔۔۔۔ ابتہاج نے اسے خود میں سموتے شدت سے کہتے ماہا کی آنکھوں میں دیکھا جو اسکی جنونیت پہ حیران سی گھبرا گئی ۔۔۔۔۔


ابب ابتہاج۔۔۔۔۔۔۔ ماہا نے آنکھیں پھیلائے اسے پکارا جبکہ ابتہاج جھٹکے سے کروٹ بدلتے اسکے ہونٹوں کو قید کرتے خود کو سیراب کرنے لگا۔۔۔۔۔ ماہا خود بھی اسکی قربت میں پرسکون سی آنکھیں موند گئی مگر ایک دم سے اسنے غصے سے ابتہاج کے سینے پہ ہاتھ رکھتے اسے خود سے دور کیا۔۔۔۔


ابتہاج نے سر اٹھائے اسے دیکھا۔۔جو بکھرے حلیے میں لمبے لمبے سانس بھرتی اسے مزید مدہوش کر رہی تھی۔۔۔۔


” میں ناراض ہوں آپ سے۔۔۔۔۔ آپ نے مجھے چیٹنگ کر کے میچ ہرایا تھا۔۔۔ ” اسے ناراضگی سے دیکھتی وہ رخ موڑتے لیٹی۔۔۔کہ ابتہاج نے ایبرو اچکاتے اسکی پشت کو دیکھا۔۔۔۔ کچھ سوچتے وہ اسکے قریب ہی نیم دراز ہوتے آنکھوں موند گیا۔۔۔


ماہا اسکی شرافت پہ حیران بھی تھی مگر پھر اپنی ناراضگی کا خیال آتے وہ گردن اکڑائے خود سے ہی دل ہی دل میں مخاطب ہوتے آنکھیں بند کیے سونے لگی۔۔۔


ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ اپنی گردن پہ ابتہاج کے دہکتے ہونٹوں کے لمس کو پاتے ماہا نے دھڑکتے دل سے رخ موڑنا چاہا۔۔۔۔ مگر اسے پیچھے سے حصار میں لیتے ابتہاج نے اسکی کوشش ناکام کرتے جابجا اپنے ہونٹ اسکی گردن پہ رکھتے اسے بے چین کر دیا۔۔۔۔۔


ابتہاج نے دھیمے سے اسے اپنے بازوؤں پے کیا اور جھکتے اسکے کندھوں پہ اپنی محبت کی بارش کرنے لگا۔۔ماہا کا سانس اسکی بڑھتی بےہودگی پہ الجھنے لگیں مگر ابتہاج کہاں اسے سانس لینے کا موقع دے رہا تھا۔۔۔۔۔ اسکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں سے الجھاتے اسے خود میں بھینجتے وہ شدت سے جھکتا اسکے ہونٹوں کو گرفت میں لے گیا۔۔۔۔۔


______________


صالح ہم یہاں کیوں آئے ہیں۔۔۔؟ ’ صالح کے مضبوط بازوؤں کے گرد اپنے نازک ہاتھ لپیٹتے صنم نے چاروں اطراف دیکھتے پوچھا تھا۔۔۔۔ صالح نے اسکے پریشان چہرے کو دیکھا ۔۔۔۔ اور مضبوطی سے اسکے گرد اپنا مضبوط حصار بنایا۔۔۔۔


کسی سے ملنے جا رہے ہیں ۔۔۔۔۔" صالح نے اسے دیکھ نرمی سے کہا تو صنم کی انکو میں خوف آ سمٹا۔۔۔ وہ قدم روکے صالح کو دیکھنے لگی۔۔۔۔


صالح نے ماتھے پہ بل ڈالے اسکے چہرے کو دیکھا۔۔۔۔ ابھی وہ کچھ کہتا کہ پیچھے سے آتی آواز پہ وہ دونوں ہی پیچھے کو مڑے۔۔۔۔۔


جہاں وہ ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈالے چہرے پہ بلا کی سنجیدگی لیے کھڑا تھا۔۔۔۔


ابتہاج کیسے ہو تم۔۔۔۔۔ ” صالح اسے دیکھ مسکراتے صنم کو تھامے اسکی جانب بڑھا تھا اور ہاتھ اسکے سامنے کرتے صالح نے خوشگوار لہجے میں اسے پکارا ۔۔۔۔۔۔


ہمممم ٹھیک ہوں۔۔۔۔ کہیں بیٹھ کے بات کریں" صنم کو نظر انداز کیے اسنے صالح کو مخاطب کیا ۔۔۔۔ جبکہ صنم خود بھی سہمی سی صالح کے اندر ہی سمٹ رہی تھی۔۔


ہاں چلو چلتے ہیں۔۔۔۔ بیچ پہ ایک جانب لگیں چئیرز کی جانب جاتے صالح اور ابتہاج مکمل خاموش تھے جبکہ صنم تو ابتہاج کے یوں آنے کے پیچھے کی وجہ پہ ہی ڈری ہوئی سی تھی۔۔۔ اسے لگا شاید وہ صالح کے سامنے اسکے کردار کا داغ دار کرے گا۔۔اسکا وجود سن سا پڑنے لگا ۔۔۔۔


صالح اسکی حالت سے واقف تھا۔۔۔۔ جبھی اسنے مضبوطی سے تھامتے اپنے ساتھ لگایا۔۔۔۔۔


بتاؤ ابتہاج تم نے رات کو کہا تھا کہ تم کچھ بات کرنا چاہتے ہو صنم سے۔۔۔۔” صنم کو اپنے ساتھ بٹھائے صالح نے ابتہاج کو متوجہ کرتے پوچھا۔۔۔ جو ٹانگ پہ ٹانگ جمائے ہوئے بیٹھا تھا۔۔۔۔۔


” دراصل میں چاہتا ہوں کہ صنم ایک بار ماہا سے مل لے تاکہ جو کوئی ان دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے غلط فہمیاں ہیں وہ نکل جائیں ۔۔۔۔۔ ” ابتہاج نے صنم اور صالح کو دیکھتے کہا تھا۔۔وہ جانتا تھا ماہا کے لئے اسکا ہر رشتہ اہم تھا جبھی وہ چاہتا تھا کہ وہ اپنی بہن کے پاس ہوتے ہوئے بھی اس رشتے سے دور ناں ریے۔۔۔


وہ چاہتا تھا کہ بچپن سے جن رشتوں کی محرومی وہ جھیلتی آئی ہے اب وہ اس سٹیج سے نکل آئے وہ بھی باقی سب کی طرح ایک مکمل فیملی کے ساتھ ہنسی خوشی وقت گزارے۔۔۔ جبھی اسنے رات کو ہی صالح کو کال کرتے صنم سے ملنے کا کہا تھا۔۔۔


وہ ماہا کو سرپرائز دینا چاہتا تھا جبھی اسے ان سب کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا۔۔۔۔۔


” مم مگر وہ تو مجھ سے نفرت کرتی ہے پھر بھلا کیسے۔۔۔۔۔۔۔”۔ صنم کا دل بھی ماہا کی محبت اسکے ساتھ کا طلب گار تھا وہ جانتی تھی آج تک اسنے غرور میں آ کر ہر رشتے کو روندھا تھا مگر اب وہ اپنی غلطیوں کی تلافی کرنا چاہتی تھی ۔۔

” تم شاید بھول رہی ہو صنم کہ ہم ناراض بھی اسی سے ہوتے ہیں جس سے ہمیں یہ امید ہو کہ وہ ہمیں منائے گا۔۔۔۔۔۔ تو پھر کیا ارادہ ہے تم کب مناؤ گی میری بیوی کو۔۔۔۔۔۔” ابتہاج نے بڑے اچھے طریقے سے مختصر سے جملے میں صنم کو ساری بات سمجھا دی تھی ۔۔۔۔ اور آخر میں صالح کو دیکھ شرارت سے پوچھنے لگا۔۔۔۔۔


” میرا خیال ہے کہ ہمیں کوئی اچھی سی جگہ پلین کرنی چاہیے۔۔۔۔۔ صالح نے فورا سے بولتے کہا تو ابتہاج نے سمجھتے سر ہاں میں ہلایا ۔۔۔۔


ٹھیک ہے میں ماہا کو کہیں بھی باہر لے آؤں گا اور پھر تم وہاں پہ صنم کے ساتھ آ جانا ۔۔۔۔۔ ابتہاج نے دونوں کو دیکھتے پلین بتایا ۔۔۔۔


ایک منٹ۔۔۔۔۔۔” صالح کا موبائل جو کب سے بج رہا تھا صالح نے جھنجھلاتے اسکرین کی جانب دیکھا سامنے موجود نمبر کو دیکھے وہ معذرت کرتے وہاں سے اٹھا تھا۔۔۔۔۔


" ماہا مان جائے گی کیا ۔۔۔۔۔ " صالح کے جاتے ہی صنم نے پھر سے ابتہاج جو دیکھتے یقین دہانی چاہی تو ابتہاج نے مسکراتے سر ہاں میں ہلایا۔۔۔۔

ابتہاج یار مجھے اس وقت کسی ایمرجنسی کی وجہ سے نکلنا ہے تم پلیز صنم کو گھر چھوڑ دینا۔۔۔”۔ صالح نے ابتہاج کو دیکھتے التجائیہ لہجے میں کہا تو ابتہاج نے سر ہاں میں ہلایا ۔۔۔۔۔۔۔


جبکہ صنم صالح کو دیکھ رہی تھی ۔۔ جو کافی پریشان تھا۔۔۔۔۔۔


تم آرام سے گھر جاؤ میں جلد ہی لوٹوں گا۔۔۔۔ صنم کے گال تھپتھپاتے وہ وہاں سے نکلا ۔۔۔اسکے پیچھے ہی ابتہاج بھی صنم کے ساتھ واپسی کے لئے روانہ ہوا تھا۔۔۔۔


صنم آؤ کچھ کھا لیتے ہیں ۔۔۔۔ ریسٹورنٹ کے باہر گاڑی روکتے ابتہاج نے اسے مخاطب کیا جو کافی نروس سی تھی۔۔۔۔۔

” نہیں مجھے نہیں کھانا آپ پلیز مجھے گھر ڈراپ کر دیں ۔۔۔۔۔ انگلیاں چٹخاتے ماہا نے بےچینی سے کہا تھا۔۔۔۔


” آج پہلی بار اپنے جیجا جی کے ساتھ آئی ہو میں ایسے ہی تھوڑے جانے دوں گا ڈونٹ وری میں تم سے ناراض نہیں ہوں بلکہ میں خوش ہوں جو ہوا شاید ٹھیک تھا ورنہ میری ماہا میرے نصیب میں کیسی آتی۔۔ ۔۔"


اسکے چہرے پہ ماہا کے نام پہ ایک دلکش سی مسکراہٹ آنکھیں میں محبت کا جہاں آباد تھا۔۔۔۔ جسے دیکھتے صنم نے دل سے اپنی بہن کی خوشیوں کی دعا کی ۔۔۔۔ ابتہاج کی ضد پہ وہ چارو ناچار اسکے ساتھ آئی تھی۔۔۔۔


ابتہاج مجھے آپ سے کچھ بات کرنی یے۔۔۔۔۔۔۔ ” صنم نے ابتہاج کو دیکھتے کہا تھا جو ویٹر کو آرڈر دیے کرسی سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔۔۔۔


ماہا تھم اندر چلو میرے ساتھ ہم برو کو سرپرائز کرتی ہے۔۔۔۔۔۔” ماہا کے سفید پڑتے چہرے کو دیکھتے سمیر نے چہرے پہ معصومیت سجائے کہا تھا۔۔۔جبکہ ماہا تو بس بے یقینی سے ہوٹل کے مرر سے نظر آتے صنم کے ساتھ بیٹھے ابتہاج کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔


آنکھوں سے بے اختیار آنسوں جاری ہونے لگے مگر دل میں کہیں اسے یقین تھا کہ اسکا ابتہاج اسے کبھی بھی دھوکہ نہیں دے گا۔۔۔۔۔ ابتہاج کی سرگوشیاں ماہا کے کانوں میں گونج رہی تھی ۔۔ اپنے ڈوبتے دل کو سمجھاتے ماہا نے کپکپاتے ہاتھوں سے موبائل نکالتے ابتہاج کا نمبر ملایا۔ ۔۔۔۔۔۔۔


” ماہا کا فون میں اسے بتاتا ہوں کہ تم اس سے ملنا چاہتی ہو ۔۔۔۔۔۔” ماہا کی کال دیکھ ابتہاج نے پرجوش لہجے میں کہا تھا۔۔


نہیں ابتہاج پلیز ابھی نہیں آپ اسے کچھ مت بتانا پلیز ۔۔۔۔۔ میں نہیں چاہتی کہ وہ مجھ سے مزید بد گمان ہو جائے جب تک مجھ میں ہمت نہیں بنتی اسکا سامنے کرنے کی تب تک آپ اسے ان سب سے انجان رکھیں گے ۔۔۔۔۔ پلیز وعدہ کریں مجھ سے۔۔۔۔۔۔”


صنم نے ڈرتے ابتہاج کو دیکھتے اپنے اندر چھپے خوف کا آشکار کیا تو ابتہاج بھی سوچ میں پڑ گیا مگر پھر صنم کو دیکھ اسنے حامی بھر دی ۔۔۔۔


ہیلو ہاں ماہا کہو ۔۔۔۔۔۔۔” ابتہاج نے کال پک کرتے موبائل کان سے لگاتے کہا تھا ۔۔۔۔۔


” آپ کہاں ہیں اس وقت ابتہاج۔۔۔۔۔۔؟" ماہا نے دھڑکتے دل سے خوف سے آنکھوں میں نمی لائے پوچھا تھا۔۔۔ اسکا دل مچل رہا تھا کہ ابتہاج اسے سچ بولے گا وہ اسکا مان نہیں توڑے گا۔۔۔۔

”میں اس وقت آفس میں ہوں ماہا کیوں کیا ہوا کچھ کام ہے؟'


ابتہاج نے ماتھا مسلتے جھوٹ بولا تھا۔۔۔ اسے خود بھی اس سے جھوٹ بولنا برا لگا تھا۔۔۔۔۔


” ایک پل میں ماہا کا سارا غرور ٹوٹا تھا۔۔۔ موبائل فون ہاتھ سے چھوٹتے اسکی گود میں گرا تھا۔۔۔۔ آنسو موتیوں کی طرح اسکی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔۔۔۔۔


” کیا ہوا ماہا۔۔۔۔۔۔۔؟” سمیر نے اپنی شیطانی مسکراہٹ چھپائے فکر مندی سے پوچھا ۔۔۔۔۔

” مجھے گھر جانا۔۔۔۔۔۔” وہ روتے ہوئے آنسوں پونچھتے بولی تھی جبکہ سمیر تو اسی دھماکے کا منتظر تھا جبھی فورا سے یوٹرن لیتے وہ واپسی کے لئے نکلا۔۔۔۔۔۔


گھر پہنچتے ہی وہ بنا کچھ کہے دوڑتے تیزی سے اپنے روم کی جانب بھاگی تھی ۔۔۔۔۔

صبا بیگم نے اسے بلایا بھی مگر وہ اپنے آپ میں ہوتی تو ہی کچھ جواب دیتی ۔۔۔۔۔۔۔


ماہا نے کمرے میں جاتے ہی دروازہ اندر سے لاک کیا تھا۔۔۔ وہ چلتے مرر کے قریب رکی تھی۔۔۔۔۔ اپنی چہرے کو دیکھ اسے صنم کا خوبصورت چہرہ یاد آیا۔۔۔ ماہا نے غصے بےبسی سے اپنا خجاب نوچتے خود سے دور پھینکا تھا۔۔۔۔


کیوں کیوں ۔۔۔۔ میں ہی کیوں آخر.....” وہ روتے چیختی ڈریسنگ مرر پہ ہاتھ مارتے سارا سامان نیچے فرش پہ بکھیر گئی۔۔۔ دل میں لگی آگ اسکے وجود کو خاکستر کرنے لگی۔۔ ماہا کا روم روم جھلنی تھی۔۔۔۔ جس شخص پہ اعتبار کر کے اس نے اپنا آپ اسے سونپ دیا اسنے بدلے میں کیا دیا تھا اسے ۔۔۔۔۔۔۔۔ دھوکہ صرف دھوکہ۔۔۔۔۔۔۔۔"


ماہا نے غصے سے چیختے پورے بیڈ کا خشر بگاڑ دیا تھا۔ ہر وہ چیز جو اسکے ہاتھ میں آئی تھی ماہا نے اپنا غصہ اپنے بےمول ہونے کا غم اس پہ نکالا ۔۔۔۔۔۔۔ ”


آخر کیا گناہ تھا اسکا ۔۔ یہی وہ کم صورت تھی۔۔۔۔ ” تم کامیاب ہو گئی صنم۔۔۔۔۔۔ تم ایک بار پھر سے کامیاب ہو گئی۔۔۔ تم نے چھین لیا ابتہاج کو مجھ سے۔۔۔۔۔ میرا تو پہلے ہی اسکے سوا کوئی نہیں تھا۔۔۔ اب کون ہو گا ۔۔۔۔۔۔ اب تو میرے ناں ہونے سے کسی کو بھی فرق نہیں پڑنے والا۔۔۔۔۔۔۔


کمرے میں ہر طرف تباہی مچی ہوئی تھی ۔۔۔ وہ پورا کمرہ تہس نہس کیے خود کمرے کے وسط میں بیٹھی بکھرے حلیے سوجھی آنکھوں ، بکھرے بال جو اسکے آنسوں سے تر چہرے سے چپک رہے تھے۔۔۔۔۔ اس وقت کوئی پاگل معلوم ہو رہی تھی ۔۔ جس کے نصیب میں آخر کار خسارہ ہی آیا تھا۔۔۔۔۔۔۔


ماہا کو خود سے نفرت ہونے لگی۔۔۔۔ ۔” اس دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی ہو تم ماہا ابتہاج گردیزی۔۔۔۔۔۔۔” گزری رات کے وقت مدہوشی میں۔۔۔۔ میں اس ظالم ، بےحس کی سرگوشیاں ماہا کے وجود سے جان کھینچنے لگی۔۔۔۔۔۔


ماہا کا دماغ سناٹوں میں چلا گیا ۔۔ جس احساس کمتری سے اسے ابتہاج نے رفتہ رفتہ اپنی محبت کے مرحم سے نکالا تھا آج وہ پھر سے اسی جگہ پہ کھڑی تھی۔۔۔۔۔ جہاں اسے چاروں طرف تپتا سہرا نظر آ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔


” تم اعتبار کے لائق نہیں ہو ۔۔۔۔ابتہاج گردیزی۔۔۔۔۔۔۔” ابتہاج کا حسین چہرہ اسکی آنکھوں کے سامنے لہراتا اسے بلکنے پہ مجبور کر گیا ۔۔۔۔

وہ نڈھال سی اڑھی ترچھی فرش پہ بےجان سے ہوتے ڈھے سی گئی تھی۔۔۔ عورت ہر چیز برداشت کر سکتی ہے مگر اپنی محبت کی تقسیم نہیں۔۔۔۔۔” آج سہی معنوں میں وہ ان لفظوں کا مطلب سمجھ پائی تھی۔۔۔


_________________


کیا ہوا ماما آپ اس قدر پریشان کیوں ہیں۔۔۔۔۔۔۔؟ صنم کو گھر ڈراپ کیے وہ سیدھا گھر آیا تھا ۔۔۔اس دشمنِ جاں کو دیکھے کتنے گھٹنے ہو چکے تھے جبھی وہ آفس جانے کا ارادہ ترک کیے سیدھا گھر آیا۔۔۔۔ جہاں صبا بیگم پریشان سی ٹہل رہی تھی۔۔۔۔


‘ ابتہاج میرے چاند ماہا دروازہ نہیں کھول رہی۔۔ پلیز دیکھو ہوا کیا ہے آخر۔۔۔۔۔۔۔” صبا بیگم نے اسکے بازو کو تھامتے اسے پریشانی سے آگاہ کیا تو ابتہاج کے ماتھے پہ ایک ساتھ جانے کتنے بل نمودار ہوئے۔۔۔۔


کیا کچھ ہوا ہے ماما۔۔۔۔۔” ابتہاج کو یوں ماہا کا کمرے میں بند ہونا کچھ سمجھ ناں آئی جبھی اسنے صبا بیگم سے جلدی سے پوچھا۔۔۔۔۔


پتہ نہیں بیٹا تھوڑی دیر پہلے روتے ہوئے گھر آئی تھی۔۔میں نے بلایا بھی مگر وہ بنا جواب دیے اوپر چلی گئی اب بھی کس وقت سے میں دروازہ کھٹکھٹا رہی ہوں مگر وہ جواب تک نہیں دے رہی۔۔۔۔۔۔۔


” ابتہاج سنتا پریشانی سے بھاگتے اوپر گیا تھا۔۔۔۔۔۔

ماہا دروازہ کھولو۔۔۔۔۔۔” ابتہاج نے بےچینی سے دروازہ ناک کرتے کہا تھا مگر اندر سے کوئی بھی جواب ناں آیا۔۔۔ ۔۔ ابتہاج نے پریشانی سے اپنے ہاتھ کا مکہ بنائے بند دروازے پہ مارتے اپنا غصہ نکالا تھا۔۔۔۔۔


دو تین بار وار کرتے ابتہاج نے غصے سے ایک آخری لات دروازے پہ رسید کی تو دروازہ کھلتا چلتا گیا۔۔۔۔۔ ابتہاج دھڑکتے دل سے اندر دوڑتے داخل ہوا تھا۔۔۔۔ مگر سامنے ہی فرش پہ بکھری ہوئی حالت میں پڑی ماہا کو دیکھ ابتہاج کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں دبوچ لیا تھا۔۔۔۔۔ ابتہاج بےچینی سے دوڑتا اسکے قریب گیا تھا۔۔۔۔۔ پورا کمرہ تہس نہس ہوا پڑا تھا۔۔ مگر ان سب میں ماہا کی حالت ابتہاج کو لرزا گئی تھی۔۔۔


جبھی اسکے پاس بیٹھتے ابتہاج نے نرمی سے اسکا سر اپنی گود میں رکھتے اسکا چہرہ تھپتھپایا۔۔۔۔۔”


ماہا جانم اٹھو یار گیٹ اپ۔۔۔۔ کیا ہوا_____؟ کیوں کر رہی ہو ایسے۔۔۔۔۔۔؟ پلیز میری جان آنکھیں کھولو..... " ابتہاج نے اسکے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے بےبسی سے کہا تھا۔۔۔ ماہا کی حالت ابتہاج کو خوف زدہ کر گئی تھی۔۔۔۔۔ مگر ماہا کو ہوش میں ناں آتا دیکھ ابتہاج نے اسے خود سے لگائے اسکے چہرے کو اپنے ہونٹوں سے چھوتے اپنے سینے میں بھینجا تھا۔۔۔۔۔۔


ماہا کی مدہم چلتی سانسیں ابتہاج کی دھڑکنوں میں انتشار برپا کر گئی۔۔۔جبھی اسنے کسی قیمتی متاع کی طرح اسے اپنے بازوؤں میں بھرا تھا۔۔۔۔ اور دوڑتے وہ نیچے کی جانب بڑھا۔۔۔۔۔۔

وہ سرخ ہوئی اپنی سرد نظروں سے شیشے کی دوسری جانب مشینوں میں جکڑے اس نیم مردہ وجود کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

جس کے چہرے پہ لگے آکسیجن ماسک کی بدولت وہ سانسیں آرام سے لے پا رہا تھی۔۔۔ ماہا کی شرارتیں اسکا معصوم سا چہرہ اسکے ساتھ گزارا ایک ایک پل ابتہاج کی آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی مانند چل رہا تھا۔۔۔۔۔ اسے اب محسوس ہوا تھا کہ وہ لڑکی کتنی آسانی سے اسکی سانسوں اسکے وجود کے ساتھ ساتھ اسکی روح پر بھی قابض ہو چکی تھی۔۔۔۔


کیا اسکے بغیر ابتہاج گردیزی کا وجود ممکن تھا ۔۔۔۔۔؟” بالکل بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔" ابتہاج نے اپنی نم ہوتی آنکھوں کو موندتے نمی اپنے اندر انڈیلی تھی۔۔۔۔۔ وہ مرد تھا ایک مضبوط مرد ۔۔۔۔ اور مرد کبھی روتے نہیں۔۔۔۔۔ آج اسے کسی کی کہی اس بات پہ ہنسی آئی تھی مگر وہ کیسے مسکراتا اسکے چہرے پہ خوشی بکھیرنے والا وہ معصوم سا وجود تو اس سے روٹھ گیا تھا۔۔۔۔


ابتہاج نے روم سے نکلتے ڈاکٹر کو دیکھ اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں کی پشت سے اپنی آنکھوں کو رگڑا۔۔۔۔۔


مسٹر گردیزی۔۔۔۔۔۔ " ڈاکٹر کسی فائل پہ سائن کرتے ہوئے اسکے سامنے آرکا اور پیشہ ورانہ انداز میں اس سے مخاطب ہوا۔۔۔ ابتہاج کا دل تیزی سے دھڑکا۔۔


یس ڈاکٹر کیسی ہے میری بیوی ۔۔۔۔۔ اسے کچھ ہوا تو نہیں ۔۔۔۔۔۔ پلیز مجھے بتائیں کیا اب وہ سیو ہے۔۔” ابتہاج نے بےبسی سے ڈاکٹر کے ہاتھوں کو تھامتے التجائیہ لہجے میں استفسار کیا ۔۔۔


” آپ کی وائف نے کسی قسم کی ٹینشن کو اپنے سر پہ سوار کر لیا ہے جس کی وجہ سے انہیں پینک اٹیک ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔ ” ابتہاج کے سن پڑتے وجود کو دیکھ ڈاکٹر نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا ۔۔


” ابھی وہ ٹھیک ہیں پریشانی کی کوئی بات نہیں مگر ۔۔۔۔۔ اب آپ کو انکی طبیعت کا زیادہ خیال رکھنا پڑے گا ۔۔ ہر قسم کی ٹینشن اور پریشانی کو ان سے دور رکھیں۔۔۔ اور سب س بڑی بات اپنے ہونے کا احساس دلائیں۔۔۔تاکہ وہ اس فیز سے جلد از جلد نکل سکیں۔۔۔۔۔”

ڈاکٹر نے اسکے سرخ پڑتے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھتے کافی اچھے سے اسے معاملے کی سنجیدگی سے روشناس کروایا تو وہ سنتا سر ہاں میں ہلا گیا۔۔


کیا میں مل سکتا ہوں اس سے۔۔۔۔۔” نظریں جھکائے ابتہاج نے بےچینی سے پوچھا۔۔۔


یس آپ مل لیں ۔۔۔ مگر ان کی طبیعت کا خیال رکھیں جتنا ہو سکے۔۔۔۔...”

ڈاکٹر نے اسے اجازت دیتے کندھا تھپکا اور واپس اپنے کیبن کی جانب گئے۔۔۔۔

وہ گہرا سانس فضا میں خارج کرتے خود کو پرسکون کرتا دروازے کی جانب گیا۔۔۔۔

دروازے کے ہینڈل کو گھمائے وہ آہستگی سے اندر داخل ہوا تھا۔۔۔ سامنے ہی وہ بےہوش نڈھال سی پڑی تھی۔۔۔۔۔ چہرے پہ آکسیجن ماسک کے علاؤہ باقی مشینیں ہٹا دی گئی تھیں۔۔۔۔


ابتہاج دھیمے قدموں سے چلتا ہوا اسکے قریب ہوا۔۔۔ اور آہستگی سے اسکے قریب آ بیٹھا ۔۔۔ ماہا کی بند آنکھوں سے ہوتے اسکی نظریں اسکے ہاتھ پہ گئیں۔۔۔۔ ابتہاج نے بےحد نرمی سے اسکے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں لیا۔۔۔۔


” جانتی ہو بالکل بھی اچھی نہیں لگ رہی یہاں لیٹے ہوئے ۔۔۔۔ مجھے تو تم میرا سر کھاتی ،فضول باتیں کرتی ہی اچھی لگتی ہو۔۔۔۔ ماہا۔۔۔۔” ابتہاج نے شدت سے اسکے ہاتھ کو اپنے ہونٹوں سے چھوتے محبت سے اسے پکارا۔۔۔۔۔


” جانتی ہو کس قدر ضروری ہو گئی ہو تم ۔۔۔ ان سانسوں میں بسنے لگی ہو تم۔۔۔۔۔ تمہارے بنا تو مجھے خود بھی سانس نہیں آتا دم گھٹنے لگتا ہے اس کھلی فضا میں بھی۔۔۔۔۔ میری روح میرے دل و دماغ پر بھی تم قابض ہو گئی ہو بری طرح سے ماہا۔۔۔۔۔ میرا جنون بنتی جا رہی ہو تم ۔۔۔۔۔۔۔ بتاؤ کیسے رہ لوں تمہارے بنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔”


ابتہاج اسکے قریب ہوتے اسکے چہرہ کو دیکھ بے تابی سے اپنے دل کا حال اپنا جنون اسکے سامنے عیاں کر رہا تھا جو اسکے کھو جانے کے خوف سے موت کو گلے لگانے والی تھی۔۔۔۔۔


اس کے دور جانے کی سوچ ہی ابتہاج کو تڑپا رہی تھی۔۔۔ وہ سرخ نظروں سے اسکی بند آنکھوں کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔ ابتہاج نے بےبسی سے اپنے لب کچلتے سر ماہا کے ہاتھ پہ رکھا تھا۔۔۔


سن ہوتے دماغ میں اٹھتی ٹیسوں پر وہ مندی مندی آنکھوں کو کھولتے اسے دیکھ رہی تھی جو سر بےبسی سے اسکے ہاتھوں پہ ٹکائے ہوئے تھا۔۔۔۔۔پل بھر میں اسکا دھوکہ ، اسکی دی اذیت سب ماہا کی نظروں کے سامنے لہرانے لگا ۔۔۔ ماہا نے ایک دم نفرت سے اسکا ہاتھ جھٹکا تھا۔۔۔ ابتہاج نے چونکتے اسکی جانب دیکھا جو آنکھوں میں نفرت کے انگارے لیے ابتہاج کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔


دور رہیں مجھ سے آپ ۔۔۔۔۔۔ کوئی حق نہیں ہے آپ کا مجھ پہ۔۔۔اپ بھی باقی سب کی طرح ہی نکلے جھوٹے دھوکے باز______” ابتہاج کو دیکھ وہ نفرت سے اپنے اندر بھڑکتی آگ کو اس پہ آشکار کرنے لگی۔۔۔


جبکہ مقابل تو حیرانگی سے اسکی آنکھوں میں اپنے لئے نفرت دیکھ اسکے لفظوں کو سنتا سکتے میں تھا۔۔۔۔۔


ماہا ۔۔۔۔۔ کیا ہوا کیا کہہ رہی ہو تم۔۔۔۔” ابتہاج نے ماتھے پہ بل سجائے اسکے ہاتھ کو اپنی گرفت میں مضبوطی سے تھاما تھا۔۔۔کہ وہ اسکی آہنی گرفت پہ سسک سی گئی ۔۔۔


اہہہ چھوڑیں مجھے ____ کوئی حق نہیں پہنچتا آپ کو مجھے تکلیف دینے کا۔۔۔ جائیں جا کر اس ہوتی سوتی کو چپ کرائیں اسے سنھبالیں جسکے لئے اتنا بڑا جھوٹ بولا مجھ سے ۔۔۔۔۔۔” اپنے اندر دبی اس جلن کو وہ ناچاہتے ہوئے بھی اسی ستم گر سے بیاں کرتی غصے سے اپنا ہاتھ چھڑواتے رخ پھیر گئی۔۔۔


اسکا یوں نفرت کا اظہار کرنا ۔۔۔۔ پل میں ہی ابتہاج کا دماغ گھوما تھا وہ جھٹکے سے اٹھتا اسکے قریب تر ہوتے کھینچتے آکسیجن ماسک اتار گیا۔۔۔۔


ماہا نے سہمی نظروں سے اسے دیکھا جسکی آنکھوں میں ایک الگ سی سرخی ایک جنون سا آباد تھا۔۔۔۔ ماہا کو ایک دم سے ابتہاج سے خوف آنے لگا۔۔


وہ ہرن کی مانند سہمی نظروں سے اسے دیکھنے لگی جو بنا توقف کے جھکتا ہاتھ تکیے پہ اسکے دائیں بائیں پھیلائے اسکی سانسوں کو قید کرگیا ماہا کو اپنے جنون اپنی عشق کی شدت سے روشناس کرانے لگا اپنی ساری اذیت اک پل میں ماہا پر انڈیلنے لگا ۔


وہ کمزور سی جان جو آگے ہی سن ہوئے دماغ کمزور وجود کے ساتھ بمشکل سے سانسیں لے رہی تھی اوپر سے اس ظالم کے تشدد اسکی ظالمانہ گرفت ماہا کا سانس سینے میں اٹک سا گیا مگر مقابل کو کہاں کسی بات کا ہوش تھا۔۔۔۔ وہ تو بس اسکی سانسوں کو قید کرتا جنون کی انتہا پہ تھا۔۔۔۔۔۔


”ماہا کی مدہم پڑتی سانسوں کو محسوس کرتے ہوئے ابتہاج نرمی سے اپنی دہکتی سانسیں اسکے سینے میں انڈیلنے لگا ۔۔۔۔ کہ ماہا نے دھڑکتے دل سے اسکے کالر کو دبوچتے اپنی آنکھیں سختی سے میچیں۔


اببب ابتہاج۔۔۔۔۔۔۔” اپنی گردن پہ اسکے شدت بھرے لمس کو محسوس کرتے ماہا نے تڑپتے اسے پکارا جو اپنے ہر عمل سے اسکی سانسیں خشک کرنے کو تھا۔۔۔ماہا کا نازک سراپا اسکی جنون خیزیوں کو سہتے ہلکا ہلکا لرزنے لگا تھا۔۔۔۔


مگر ابتہاج تو جیسے اسے اپنے جنون سے واقف کروا کے اپنے اندر ہی قید کر لینا چاہتا تھا۔۔۔۔


” تمہارے یہ الفاظ مجھے ہرٹ کرتے ہیں ماہا ۔۔۔۔۔ تم نے کیسے میری محبت پہ شک کیا۔۔۔ کیا تمہیں کبھی بھی میرے ساتھ میری قربت میں ایسا محسوس ہوا ہے کہ میرا پیار صرف دکھاوا ہے تمہارے لئے۔۔۔۔۔۔ یاد کرو ان سب راتوں کو جو تم نے آج تک میری بانہوں میں گزاری ہیں ۔۔۔ کہاں لگا تمہیں کہ ابتہاج گردیزی کی محبت اسکا ساتھ صرف دکھاوا ہے تمہارے لئے ۔۔۔۔”


اسکی آنکھوں میں جھانکتا وہ اس سے سوال کرنے لگا ۔۔۔۔ ماہا کی نظریں ایک پل میں جھکی تھیں وہ بھلا کیا کہتی وہ جانتی تھی اسکے ساتھ گزارا ہر ایک پل اسنے شہزادیوں کا سا تصور کرتے اسکی بانہوں میں قید ہوتے گزارا تھا۔۔۔۔۔ مگر جو بھی تھا اسنے خود دیکھا تھا اسے ۔۔۔۔”


وہ سوچتے اپنے ہونٹوں کو کچلنے لگی۔۔۔ ابتہاج بغور اسکے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھتا اسکی کمر کے قریب دونوں ہاتھ ٹکائے اسکے چہرے پہ جھک سا گیا۔۔

”صنم سے ملنے گیا تھا میں اگر تم خود بھی پوچھتی تو میں جھوٹ نہیں بولتا مگر اس وقت صنم نے مجھے اپنی قسم دے کر روک دیا تھا۔۔ وہ چاہتی تھی کہ وہ خود تم سے ملے اپنے رویے کی معافی مانگے ۔۔۔اس کے بعد ہی میں میں تمہیں اس بارے میں بتاؤں۔۔۔۔ میں ملا تھا اس سے کیونکہ میں اپنی ماہا کو اس حال میں نہیں دیکھ سکتا۔۔۔۔۔ میں اپنے کیے کی معافی نہیں مانگوں گا کیونکہ اس میں غلطی تمہاری ہے ناکہ میری۔۔۔۔۔۔”


ماہا جو آگے ہی یہ س سنتی شرمندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب چکی تھی اب اس ظالم کے یوں کہنے پہ اسنے تڑپ کے اسے دیکھا جس کی نظریں استحقاق سے اسکے شرمندہ سے سرخ چہرے پہ ٹکی تھیں۔۔۔۔۔۔




Dildaar_Masihaye_dil

#Episode_no20

#writer_Faiza_sheikh


کمرے کے خاموش ماحول میں سامنے بائیں جانب دیوار میں نصب کھڑکی جسکے پردے ایک جانب سرکے ہونے کی وجہ سے تیز سورج کی روشنی آنکھوں میں پڑتے ہی اپنا بایاں ہاتھ اٹھائےوہ آنکھوں پہ رکھ گیا ۔۔۔

معا ابتہاج نے سرخ آنکھوں سے گردن جھکائے اپنے سینے کی جانب دیکھا ۔۔ جہاں ماہا اسی کی شرٹ میں اسکی شدتیں سہتی بکھری سی حالت میں پڑی تھی۔۔۔۔ ماہا کا ایک ہاتھ ابتہاج کی گردن جبکہ دوسرا ہاتھ اسکے کشادہ شرٹ لیس سینے پہ تھا۔۔۔۔۔


سرخ چہرے پہ اسکی محبت کے سارے رنگ ابتہاج کو مزید بےخود کرنے لگے تھے ۔۔۔۔ دل ایک بار پھر سے جذبات کی آگ میں دہکنے لگا ۔۔۔ جبھی اسنے نرمی سے اسکے ہاتھ کو ہونٹوں سے لگائے ماہا کے چہرے پہ بکھرتے بالوں کو پیچھے کیا۔۔۔۔۔ اسکے لمس پہ وہ کسمساتے منہ بنائے اسکے سینے میں گھسنے کی کوشش کرتی وہ ابتہاج کو پاگل کر دینے کے در پہ تھی ۔۔۔۔


جبھی وہ جھکتے اسکی کمر کے گرد ہاتھ لے جاتے اسے تکیے پہ گرائے اسکے چہرے کو دیکھنے لگا جو اس اچانک سے ہوتی افتاد پہ بوکھلائی سی تیز تیز دھڑکتی دھڑکنوں سے ابتہاج کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔ جس کی آنکھوں میں شریر سی چمک ماہا کو اپنی نظریں جھکانے پہ مجبور کر گئی۔۔۔۔۔


ابتہاج نے اپنی بائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے اسکے ماتھے کے درمیان سے لیکر کھینچتے اسکے ناک سے ہوتے انگلی اسکے ہونٹوں پہ روکی تو ماہا خشک ہوتی سانسوں سے سہمتے اسے دیکھنے لگی۔۔۔ جس کی آنکھوں کی چمک اسکے چہرے پہ پھیلا سکون ماہا کے دل کو پرسکون کر گیا ۔۔۔۔ جبکہ ابتہاج اسکی نظروں کو اپنے چہرے پہ پاتے مسکراتا اسکے ہونٹوں پہ جھکا تھا۔۔۔۔۔


ماہا نے آنکھیں موندے اسکی خوشبو کو خود میں اتارا تھا۔۔۔ جو نرمی سے اسکے ہونٹوں کو قید کیے ماہا کی قربت میں اسکے لمس پہ مدہوش ہونے لگا ۔۔۔۔


اسکے اکھڑتی سانسوں کو محسوس کرتے ابتہاج نے نرمی سے اسکے ہونٹوں کو آزادی بخشتے لب اسکی تھوڑی پہ رکھے تو ماہا کا چہرہ شرم و حیا سے لال ہونے لگا ۔۔۔۔۔


اببب ابتہاج ۔۔۔۔۔۔۔" اسکی بڑھتی جسارتوں پہ سہمتی وہ اسے باز رکھنے لگی جو مکمل طور پہ اسکے وجود میں کھوتا جا رہا تھا ۔۔۔۔


ابتہاج نے اسکی گردن پہ شدت بھرا لمس چھوڑتے ماہا کو دیکھا ۔۔۔۔


گڈ مارننگ جان ابتہاج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔” ماہا کی گردن سے بال سمیٹتے وہ محبت سے بولا تھا جبکہ ماہا نے فورا سے اسکے کندھوں پہ ہاتھ رکھتے اسے جھنجھوڑ ڈالا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ٹائم دیکھیں مجھے چھوڑیں فریش ہونا ہے ۔۔۔۔ ماما کیا سوچیں گی۔۔۔۔۔” وہ ٹائم دیکھتے کافی پریشان سی ہوئی تھی جبھی اسے پیچھے کرتے اٹھنے لگی مگر ابتہاج کا فل وقت اسے یونہی چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔۔۔۔۔


” خود ہی تو رات کو دلہن بنی ہوئی تھی اب اپنی نئی نویلی دلہن کو ایسے کیسے چھوڑ دوں میں وہ بھی اتنی آسانی سے۔۔۔۔۔۔” ابتہاج نے کھینچتے اسے اپنے ساتھ لگائے اسکے کان میں سرگوشی کی تو ماہا کی پلکیں حیا سے لرزنے لگی ۔۔۔۔۔ رات کا ایک ایک پل ابتہاج کی بے خودی اسکی شدتیں یاد کرتے ہی وہ کانوں کی لووں تک سرخ پڑنے لگی جبکہ مقابل آرام سے بیٹھا اسکے چہرے پہ بکھرتی شرم و حیا کو دیکھنے لگا۔۔۔


آپ نے معاف کر دیا مجھے ۔۔۔۔۔۔” اسکے سینے سے سر ٹکائے وہ آنکھیں موندے پوچھنے لگی ۔۔۔۔جہسے یقین تھا کہ وہ معاف کر چکا ہو گا۔۔۔۔


ہممم۔۔تھوڑا معاف کردیا کے تھوڑا سا رہ گیا ہے۔۔۔اگر تم ابھی ایک بار پھر سے رات کی طرح راضی کرو گی تو ہو سکتا ہے مان جاؤں ۔۔۔۔۔۔


اسکے کندھے پہ ہونٹ رکھتے وہ گھیبر لہجے میں فرمائش کرنے لگا کہ ماہا سنتے ایک دم سے اسکے سمجھنے سے پہلے ہی اسے دھکا دیے بیڈ سے اتری تھی۔۔۔ ابتہاج سیدھا ہوتے اسے دیکھنے لگا جو اسکے سمجھنے سے پہلے ہی باتھروم میں بند ہو چکی تھی۔۔۔۔۔


کب تک بچو گی۔۔۔۔۔ آنا تو میرے پاس ہی ہے پھر دیکھتا ہوں۔۔۔۔۔۔ بند دروازے کو دیکھ وہ مسکراتا بڑبڑاتے ہوئے اٹھا تھا۔۔۔۔۔۔۔


💥💥💥💥💥💥


صالح ۔۔۔۔۔۔” صنم بے چینی سے اسے آوازیں دیتے روم سے نکلی تھی جو اسکی نیند کی وجہ سے فون اٹھائے نیچے آیا تھا ۔۔۔۔ اور اب اسکا ارادہ اپنی بیوی کیلئے اچھا سا کھانا بنانے کا تھا۔۔۔۔۔


صالح کے پیار میں وہ واقعی بدل گئی تھی۔۔۔۔ یا پھر وہ حساس ہوتی جا رہی تھی۔۔ اسکے لئے۔۔۔۔ اسکا نظروں سے اوجھل ہونا ہی صنم کو سہما دیتا تھا جبھی وہ بےچینی سے اسے ڈھونڈنے لگتی تھی۔۔۔۔ اور اب بھی ویسا ہی ہوا تھا۔۔۔۔


صبح نماز ادا کرنے کے بعد وہ اب دن کے گیارہ بجے اٹھی تھی مگر صالح کو اپنے قریب ناں پاتے وہ بےچینی سے تیز تیز سیڑھیاں اترتی اسے اونچی آواز میں پکارنے لگی ۔۔صالح آنچ دھیمی کیے کچن سے نکلا تھا۔۔۔۔۔ کہ اچانک سے صنم کا پاؤں تیزی سے سیڑھیاں اترتے پھسلا تھا۔۔۔۔

صالح کی نظروں کے سامنے ہی تو وہ ایک دم سے اوپری سیڑھیوں سے گری تھی کہ صالح کا سانس الجھ سا گیا وہ ڈر و وحشت سے فریز سا ہو گیا مگر پھر جانے کیسے اس میں ہمت آئی تھی کہ وہ دوڑتا سیڑھیاں چڑھتے اوپر گیا تھا ۔۔۔ بمشکل سے اسے تھامتے صالح نے اسے خود میں بھینجتے صنم کے سر کو دیکھا جہاں سے خون نکل رہا تھا۔۔۔۔


صنم تم ٹھیک ہو زیادہ چوٹ تو نہیں آئی۔۔۔۔۔ اسکے چہرے کو تھپتھپاتے وہ متفکر سا بےچینی سے پوچھنے لگا۔۔ن صنم کی درد سے سسکی سی نمودار ہوئی تھی۔۔۔ جبھی وہ سسکتے اسکے سینے سے جا لگی۔۔۔ صالح فورا سے اسے اپنی بانہوں میں بھرتے باہر کی جانب بڑھا تھا ۔۔۔۔


صص صالح میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔اسکے سینے سے سر نکالتے وہ سہمی ہوئی رونے سے سرخ ہوئی آنکھوں سے اسے دیکھتے بولی جبکہ وہ بنا کچھ کہے جھکتے اسے سیٹ پہ بھٹائے فرنٹ سیٹ پہ آیا۔۔۔۔۔۔


اششششش” خاموش ہو جاؤ اس سے پہلے کہ میں اس گھر کو آگ لگا دوں۔۔۔۔۔ اسکے پھر سے ہلتے ہونٹوں پہ اپنی بھاری ہاتھ کی انگلی رکھتے وہ آنکھوں میں غضب کی سرخی لیے بولا تو صنم کو اسکے انداز پر عجیب سی وحشت ہوئی وہ خاموشی سے سر جھکا گئی۔۔۔ سر سے خون ابھی تک بہہہ رہا تھا جبکہ درد سے اسکی آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔۔۔۔


صالح نے ٹشو نکالتے اسکے زخم کو انتہائی نرمی سے صاف کیا جبکہ صنم تو اسکے چہرے پہ پھیلی پریشانی کو شمار کر رہی تھی۔۔۔۔

خون کے بہنے کی شدت کم ہوتے ہی وہ اسے کئے ہاسپٹل پہنچا تھا۔۔۔۔۔۔


زیادہ اوور سمارٹ مت بنو ، تمہارے پاؤں میں موج آئی ہے جانتا ہوں ۔۔۔۔ اب خاموشی سے مجھے اٹھانے دو ورنہ تمہارا منہ میں اپنے طریقے سے بند کروں گا۔۔۔۔۔۔ ”


صالح نے آج پھر سے اسے اپنی پرانی ٹون میں سمجھایا تھا کہ وہ جو اسے گاڑی سے نکلتے اپنی جانب آتا دیکھتے ہی خود سے اترنے لگی تھی۔۔ ایک دم سے اسکی بات پہ شرمندہ سی ہوتے نظریں جھکا گئی۔۔۔۔۔۔ صالح نرمی سے اسے بازوؤں میں بھرتا ہاسپٹل میں داخل ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔


💥💥💥💥💥💥


ماما اپنی بہو سے کہیں میرے کپڑے نکال دے۔۔۔۔۔۔ وہ ریلنگ سے جھانکتے کچن کی جانب رخ کیے زور سے بولا تھا کہ صباء بیگم جو آگے ہی ماہا کے نکھرے ہوئے روپ اور چہرے پہ پھیلے شرم و حیا اور سکون کو دیکھتی کافی پرسکون تھی ابتہاج کی آواز پہ لب دانتوں تلے دبائے ماہا کو دیکھنے لگی ۔۔


جو کافی خفت زدہ سی ہوئی تھی۔۔۔


وہ ماما انکی عادت ہو گئی ہے ناں اس لیے بلا رہے ہونگے روز میں ہی کپڑے نکال کے دیتی ہوں مگر آج میں پہلے آ گئی تو شاید اس لئے بلا رہے ہیں۔۔۔۔۔۔


ہاں ہاں بیٹا تم جاؤ ۔۔میں نے کونسا تمہیں منع کیا ہے تم ضرور جاؤ بھلا تمہارا شوہر ہے وہ تم نہیں کرو گی اسکے کام تو اور کون کرے گا۔۔۔۔۔”


چائے کا پانی چڑھاتے وہ محبت سے اسکے گال کو تھپکتے بولی تو ماہا انکی محبت پہ مسکرا دی۔۔۔۔۔۔ وہ سر ہلاتے دھیمی قدموں سے اوپر روم کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔۔۔


ماہا نے گہرا سانس بھرتے دروازہ کھولا تھا مگر مقابل اسکے اندر داخل ہوتے ہی کھینچتے۔ اسے دروازے سے پن کرتے اسکے سمجھنے سے پہلے ہی اسکے ہونٹوں کو قید کر گیا کہ اس کے اچانک لمس پہ وہ گھبرا سی گئی۔۔۔۔

” تمہیں کیا لگا تھا کہ تم اتنی آسانی سے بچ جاؤ گی مجھ سے۔۔۔۔” خود کو سیراب کرتا وہ اسکے نچکے ہونٹ کو انگوٹھے سے سہلاتے بےباکی سے بولا تو ماہا کا چہرہ لال پڑنے لگا وہ نظریں جھکا گئی۔۔ جسے دیکھتے مقابل کو اس پہ ٹوٹ کے پیار آیا تھا ۔۔۔۔۔


” کپڑے نکال دو یار آج ایک بے حد ضروری میٹنگ ہے میری ۔۔۔۔۔ ابتہاج نے اپنے بےدھڑک بجتے موبائل کو دیکھتے جھکتے اسکے دونوں گالوں کو چومتے کہا تھا۔۔۔۔

موبائل اٹھائے وہ بالکونی کی جانب گیا جبکہ ماہا مسکراتے اسکے کپڑے نکالنے لگی۔۔۔۔


تھیکنس میری جان ۔۔۔۔۔۔۔” اسے پیچھے سے حصار میں لیتے وہ جھکتے ہونٹ اسکی گال پہ رکھتے شکریہ کرنے لگا ۔۔ماہا کے چہرے پہ ایک پرسکون مسکراہٹ تھی جیسے اب وہ مطمئن ہو گئی تھی اندر سے۔۔۔۔۔


” میرا ناشتہ رہنے دو بس کافی لے جاؤ اوپر روم میں ہی جب تک میں چینج کرتا ہوں۔۔۔۔۔ اسکی پیشانی کو چھوتے وہ جھکتے بیڈ سے کپڑے اٹھائے بولا تو ماہا سر ہلاتے نیچے آئی۔۔۔۔۔۔


” کیا ڈھونڈ رہے ہیں آپ ابتہاج سب ٹھیک تو ہے.....؟!”۔ ابتہاج کے چہرے پہ پھیلی بے چینی اور اضطراب کو دیکھتے وہ کافی ایک جانب رکھتے اسکے قریب آئی تھی جو وارڈروب سے جانے کیا ڈھونڈ رہا تھا۔۔۔


ماہا کیا تم نے میری بلیو کلر کی فائل دیکھی ہے کہیں ۔۔۔۔۔ماتھا مسلتے ماہا کو دیکھتے وہ بےچینی سے پوچھنے لگا ۔۔۔ ماہا کو وہ کافی پریشان لگا تھا۔۔۔


نہیں مجھے تو نہیں پتہ اس فائل کے بارے میںں کیوں کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے۔۔۔۔۔ ؟” وہ حیرت زدہ سی اسے دیکھتی سوال گو ہونے لگی ۔۔۔۔۔ ابتہاج کی پریشانی دیکھ وہ خود کافی پریشان سی ہوئی تھی۔۔۔۔۔


یار اس فائل میں میرا سارا کیرئیر ہے۔۔۔ اج کی میٹنگ کی اپ ڈیٹس اور پریزنٹیشن جو میں نے دو ہفتوں سے تیار کی ہے وہ سب کچھ اس فائل میں ہے مگر اب وہ نہیں مل رہی۔۔۔۔۔ ماہا کو دیکھتے وہ اپنی پریشانی سے آگاہ کرنے لگا جو خود بھی کافی پریشان ہو گئی تھی۔۔۔۔۔

تو اب کیا ہو گا ابتہاج۔۔۔۔۔۔۔؟” اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھتے وہ کافی ڈری ہوئی پوچھنے لگی


میں آفس جا کے چیک کرتا ہوں اگر گھر سے ملی تو پلیز مجھے آگاہ کر دینا ۔۔۔۔وہ کافی بےچینی سے اسے آگاہ کرتا تیزی سے کمرے سے نکلا تھا۔۔۔۔ جبکہ ماہا اسے جاتا دیکھ دل سی دعاگو ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔


_________________


آخر بتائیں تو سہی ہوا کیا ہے کیوں اس قدر پریشان ہیں آپ۔۔۔۔۔۔۔؟” رات کے دس بجے کاشان صاحب آفس سے تھکے ہارے قدموں سے گھر واپس لوٹے تھے اور آتے ساتھ ہی وہ غصے سے ٹہلتے منبیہ بیگم کو دیکھتے ہی ابتہاج کے خلاف شروع ہو چکے تھے۔۔۔۔۔


ماہا تو صبح سے ابتہاج کے جانے کے بعد پریشان تھی ۔۔۔ ابتہاج جو کئی بار کال کی مگر وہ فون آف کر چکا تھا۔۔۔۔


مجھ سے پوچھے بغیر ہی میری کمپنی کے ستر پرسنٹ شئیرز کو ایک ڈیل پہ لگا چکا تھا۔۔۔ اور آج جانتی ہو کیا ہوا۔۔۔۔ ساری بورڈ کی میںٹنگ میں جب ابتہاج گردیزی سے وہ پراجیکٹ مانگا گیا تو جناب خالی ہاتھ تھے۔۔۔۔۔

کچھ نہیں دیا اس نے بورڈ کو اور اس کا وہ ارائیول زین یوسف وہ پراجیکٹ کے ساتھ ساتھ آپ کے نالائق سپوت کی وجہ سے ہماری کمپنی کے ستر پرسنٹ شئیرز کا مالک بن گیا یے


۔نن مطلب کے ہماری کمپنی کا مالک اب سے وہ زین یوسف بن چکا ہے۔۔۔۔۔

کاشان صاحب کی بتائی بات پہ ماہا اور منیبہ بیگم دونوں ہی سکتے میں چلی گئی تھی۔۔ انکا دماغ جیسے ماؤف ہو گیا تھا۔۔۔ماہا خود دیوار کے سہارے سے کھڑی تھی۔۔۔۔


آئیے آئیے لاڈ صاحب ویلکم مسٹر ابتہاج گردیزی۔۔۔۔” کیسا لگ رہا ہے آپ کو کنگال ہو کر۔۔۔۔۔۔۔؟" دروازے سے بکھری سی حالت میں بےجان قدموں سے اندر داخل ہوتے ابتہاج کو دیکھ وہ غصے سے دانت پیستے بولے تھے۔


یقینا آپ کے لیے کونسا بڑی بات ہے۔۔ کونسا اپنی محنت کی کمائی تھی باپ کے خون پسینے کی کمائی تھی ساری جسے تم نے یوں یوں چٹکیوں میں خاک کر دیا۔۔۔۔۔۔” وہ غصے سے گرجتے کافی ہائپر یو رہے تھے جبکہ ابتہاج خاموشی سے کسی ملزم کی طرح سر جھکائے کھڑا تھا۔۔۔



” بس کریں کاشان صاحب طبیعت خراب ہو گی آپکی چلیں میرے ساتھ ۔۔۔۔۔ ” انکے چہرے پڑتے چہرے اور پھولتے تنفس کو دیکھ وہ دوڑتے انکے قریب ہوئی۔۔۔۔۔


میں پوچھتا ہوں کیا ایک بار بھی تم نے مجھے بتانا ضروری نہیں سمجھا کہ آخرکار اتنا بڑا فیصلہ ہے باپ کو پتہ ہونا چاہیے۔۔۔۔۔”


ابتہاج کے سامنے کھڑے ہوتے سی غراتے لہجے میں بولے۔۔۔ جبکہ ابتہاج خود ہی پریشان سا کھڑا انکی کر بات کو سہہ رہا تھا۔۔۔۔

صباء بیگم انہیں بمشکل سے تھماتے اپنے ساتھ لے گئی ۔۔ ابتہاج غصے سے تیز تیز قدم اٹھاتے اوپر اپنے کمرے کی جانب بڑھا ۔۔۔۔۔۔ ماہا پریشانی سے اسے دیکھ رہی تھی جو لمبے لمبے ڈھگ بھرتا اسکے پاس سے گزرتا اوپر چلا گیا۔۔۔۔۔


آخر کون کر سکتا ہے یہ سب۔۔۔۔۔۔ میری بنائی فائل آخر کیسے اس زین یوسف تک پہنچی۔۔۔۔۔ بالکونی میں کھڑا وہ شرٹ لیس سا سگریٹ پہ سگریٹ پھونک رہا تھا۔۔ مگر اندر لگی آگ کسی طور کم نہیں تھی ہوئی۔۔۔۔۔۔۔ سب کچھ پل بھر میں تباہ ہوا تھا۔۔۔ ابتہاج نے سگریٹ کا گہرا کش لیا سارا دھواں اپنے اندر انڈیلتے وہ دل میں اٹھتے درد کو تسکین دینے لگا۔۔۔


گہری رات کی تاریکی میں آسمان پہ چھائی کالی گھٹا کی وجہ سے موسم ابر آلود ہوا تھا۔۔۔ جبکہ وہ ہر ایک چیز سے بےگانہ اپنے اندر کے غصے اشتعال کو ختم کرنے کی کوشش میں اب دسواں سگریٹ سلگا چکا تھا۔ معا اپنے کندھے پہ کسی کے نرم و نازک ہاتھ کے لمس پہ وہ اچانک سے اپنی سرخ نظروں سے گردن گھمائے اسے دیکھنے لگا۔۔ جو کافی پریشان سی سردی سے ٹھٹھر تی ابتہاج کے پیچھے کھڑی تھی۔۔۔


” ابتہاج یہاں اتنی سردی میں کیوں کھڑے ہیں پلیز چلیں اندر ۔۔۔ اسکے چہرے پہ رقم تکلیف کو دیکھ ماہا کا سانس الجھنے لگا وہ بےچیی سے اسے بازوؤں کو پکڑتے بولی تو ابتہاج نے اپنے غصے کو کنٹرول کرنا چاہا جو فلحال اسکے بس سے باہر تھا۔۔ کاشان صاحب کی کہی باتیں ابھی تک اسکے دماغ میں گونج رہی تھی ۔۔


” کھانا کھا لیں پلیز ابتہاج ۔۔۔۔۔۔” اسکے غصے سے وہ تھوڑا بہت ڈری ہوئی بھی تھی مگر کیسے اسے اکیلا چھوڑ دیتی ، جب وہ اسکے ہر دکھ درد کی ساتھی تھی ،

ماہا جاؤ فورایہاں سے مجھے بھوک نہیں پلیز تم کھانا کھا کر سو جاؤ مجھے اکیلا چھوڑ دو ۔۔۔۔۔۔۔”


اسکے ہاتھ کو جھٹکتے وہ جبڑے بھینجتے رخ موڑتے کھڑا ہوا تو ماہا نے گہرا سانس بھرتے آسمان پہ نظر دوڑائی جہان سے بارش ہونے کا امکان واضح تھا۔۔۔

آپ جانتے ہیں ابتہاج جب تک آپ کھانا نہیں کھائیں گے میں بھی نہیں کھاؤں گی ۔۔ پلیز ضد مت کریں ۔۔۔۔ دیکھیں موسم خراب ہو رہا ہے پلیز چلیں اندر چلتے ہیں۔۔۔ ”


اسکے بھاری ہاتھ کو تھامتے وہ عاجز سی آتے بولی تھی ، ابتہاج نے سرخ ہوتی آنکھوں سے ماہا کو دیکھا اور جھٹکے سے کھینچتے اسے قریب تر کرتے ابتہاج اسکے ہونٹوں پہ جھکتا اسکی سانسوں کی خؤشبو میں اپنی دہکتی سانسوں کے ساتھ سگریٹوں کی ملی خؤشبو کو انڈیلتے وہ بےخودی سے اپنے بھاری ہاتھ اسکی کمر کے گرد حائل کیے اسے سینے میں بھینج گیا۔


رفتہ رفتہ ابتہاج کی بڑھتی تشنگی ماہا کی جان لبوں پہ لائی تھی، جبھی وہ ابتہاج کی گردن کے گرد بازوؤں لپیٹتے خود کو اس ظالم کے رحم و کرم پہ چھوڑ گئی۔۔۔۔ جو اسکی قربت میں اپنا ہر غم ہر پریشانی بھلا چکا تھا۔۔

آسمان سے برستی بارش ان دونوں کو چونکا گئی جو دنیا سے بےگانہ ایک دوسرے کی قربت میں مدہوش سے تھے۔۔۔


ماہا نے جھٹکے اپنا آپ اسکی گرفت سے آزاد کرایا اپنی بےخودی وہ کی جان سے شرمندہ اندر بھاگنے لگی کہ ابتہاج نے اسکے سنبھلنے سے پہلے ہی ہاتھ اسکے پیٹ کے گرد حائل کیے ماہا کو کھینچتے خود سے لگایا۔۔


آسمان سے برستی اس تیز بارش نے ابتہاج نے جذباتوں کو مزید بھڑکایا تھا۔۔۔ وہ بےخودی میں اسکی گردن سے گیلے بالوں کو سمیٹتے اپنے لب رکھتے اسے خود سے مزید قریب تر کر گیا۔۔


گزرتے پر ایک لمحے میں ابتہاج کی شدتیں اس نڈھال سے کرنے لگی جو بس خود پہ سایہ بنے اس ظالم شخص کی اپنی سانسوں میں گھلتی خوشبو کو محسوس کر رہی تھی۔۔


__________________


” تم سے کہا تھا کہ میرا کام جلد از جلد ہو جانا چاہیے۔۔۔” وہ غصے سے فون کو مٹھی میں دبوچتے غرا اٹھا ۔۔۔۔۔

دوسری جانب سے اس سے معافی مانگی جا رہی تھی کہ کام ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا تھا ۔


اس ابتہاج کی ہار دیکھنی ہے میں نے۔۔۔ تم نے کہا تھا کہ بہت جلد اسے بےآسرا کر دو گے مگر اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی اسکے سر پہ چھت موجود ہے ۔۔۔۔ اسکے اپنے اسکے ساتھ ہیں۔۔ن مجھے ابتہاج گردیزی کو جھکا دیکھنا ہے ۔۔۔۔ اگر اس ہفتے کام ناں ہوا تو بھول جاؤ کہ سمیر تمہارے کسی کام آئے گا۔۔۔۔۔۔”


اسنے غصے سے کہتے ساتھ ہی فون کاٹا تھا۔۔۔۔۔۔ اسکا بس نہیں تھا کہ وہ آگ لگا کے راکھ کر دیتا ابتہاج کو ۔۔۔۔۔ سمیر نے غصے سے پاس پڑے ٹیبل کو لات مارتے وہ اپنی اب تک ہوئی ناکامی پہ چیختے اپنے بالوں کو دبوچتا بےبس ہوا تھا۔۔۔۔۔


___________________


ڈاکٹر آپ دھیان سے چیک کریں کہیں کوئی زیادہ چوٹ تو نہیں آئی صنم کو۔۔۔۔۔”

وہ پریشان سا ڈاکٹر کو دیکھتا بولا تھا جو صنم کے پاؤں کا بغور معائنہ کرتے اب صالح کو دیکھ رہی تھی جو کب سے کھڑا ڈاکٹر کو ڈسٹرب کر رہا تھا ۔۔۔


مسٹر خان آپ ریلکس رہیں آپ کی مسزز بالکل ٹھیک ہیں بس انکے پاؤں موچ آئی ہے میں نے سٹیچز لگا دیے ہیں تھوڑی سی احتیاط کیجئے گا اب وہ بہتر ہیں۔۔۔۔۔”


صنم کے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھ ڈاکٹر مسکراتے بولی تو صالح نے گہرا سانس بھرتے سر ہاں میں ہلایا ۔۔۔۔


تھینکیو ڈاکٹر ۔۔۔۔۔” ڈاکٹر کی جانب دیکھتے صالح نے مسکراتے ہوئے کہا تھا جس پہ ڈاکٹر پیشہ ورانہ انداز میں مسکراتی وہاں سے نکلی ۔۔۔۔


” اب کیسا فیل ہو رہا ہے درد تو نہیں کہیں پہ ۔۔۔۔۔۔۔۔” اسکے قریب بیڈ پہ بیٹھتے صالح نے اسکے چہرے کو ہاتھوں میں بھرتے پوچھا تھا۔۔۔ صنم نے مسکراتے سر نفی میں ہلایا تو صالح نے جھکتے اسکی پیشانی پہ بوسہ دیا ۔۔۔۔۔۔


” ڈونٹ وری میں اپنی جان کا خود خیال رکھوں گا تو وہ جلدی سے ٹھیک ہو جائے گی ۔۔۔۔”


صالح نے شدت سے اسکے گالوں کو چومتے اسکی آنکھوں پہ بوسہ دیا تو صنم نے آنکھیں موندتے سکون اپنے اندر اتارا۔۔۔


صالح میں ٹھیک ہوں اب۔۔۔۔۔۔” صالح کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھتے صنم نے تسلی دیتے لہجے میں نرمی سے کہا تھا وہ سنتا سر ہلاتے اسے خود میں بھینج گیا۔۔۔۔۔ اسکے ساتھ پہ پرسکون سی وہ خود بھی آنکھیں موند گئی ۔۔۔۔۔۔


تم ویٹ کرو میں میڈیسن لے کر آتا ہوں اور پھر ہم چلتے ہیں۔۔۔۔۔ ” صنم کے سر پہ ہونٹ رکھتے وہ کہتے ساتھ ہی باہر نکلا تھا ۔۔۔۔ جبکہ وہ اسکے جانے کے بعد اسی کا سوچتے مسکرا اٹھی۔۔۔۔۔


کتنا اپنا پن کتنی محبت جھلکتی تھی صالح کے ہر انداز سے۔۔۔۔۔۔ اپنے آپ میں پیدا ہوتا خلا آج صنم کو بھرتا محسوس ہوا تھا۔۔۔۔۔


وہ گہری سوچ سوچتے اسکے ناں آنے پہ خود ہی بےقرار سے کچھ منٹوں کے بعد باہر نکلی تھی۔۔۔۔


صنم نے نظریں گھمائے اسے ڈھونڈا جو اسے کہیں بھی نہیں ملا تھا۔۔۔۔ صنم بےچینی سے منہ بناتے آگے پیچھے دیکھ لب کچلنے لگی ۔۔۔۔


اچانک سے اسکی نظر سامنے موجود دروازے سے نکلتے دلاور شاہ اورمنیبہ بیگم پہ پڑیں ۔۔۔۔ صنم کا چہرہ باپ کو دیکھتے زرد پڑنے لگا ۔ وہ آگے ہی ایک پاؤں پہ بوجھ ڈالے کھڑی تھی مگر اب اسکا وجود بری طرح سے کپکپانے لگا تھا ۔


اپنی جانب بڑھتے انکے قدموں کو دیکھ صنم کو اپنا کیا ہر گناہ یاد آنے لگا وہ بےچینی سے دھڑکتے دل سے گھبراتے رخ موڑے دوڑنے لگی پاؤں میں ہوتی تکلیف کو نظر انداز کیے وہ بس ان کی نظروں سے کہیں دور بھاگ جانا چاہتی تھی وہ انکا سامنا نہیں کر سکتی تھی کرتی بھی کیسے ۔۔۔۔ کیا اتنا آسان تھا ان سے ملنا۔۔۔۔۔۔ انکی آنکھوں میں بسی اس التجا کو یاد کرنا جو وہ کتنے مان سے اس سے کرتے تھے ۔۔۔۔


” پاؤں میں ہوتے درد کی وجہ سے صنم کا چہرہ آنسوں سے تر ہونے لگا وہ اندھا دھند بھاگ رہی تھی کہ اچانک سے وہ بری طرح سے کسی سے ٹکراتے گرنے لگی کہ معا مقابل جو اسے یوں بھاگتا دیکھ اسکے پیچھے لپکا تھا۔۔۔صالح نے اسے کھینچتے خود میں بھینجا ۔۔۔


صنم کیا ہوا ؟ تم ٹھیک ہو ......” اسکے سر کو تھپکتے صالح نے چینی سے پوچھا تھا جبکہ اسکے حصار اسکی آواز کو سنتے صنم کو یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے اسے تیز دھوپ سے نکالتے چھاؤں میں لا کھڑا کیا تھا ۔۔۔۔ جہاں اسکے اوپر انگلی اٹھانے والا کوئی نہیں تھا اسکا مخافظ تھا اسکے ساتھ۔۔۔۔


صص صالح وو وہ بب بابا کک کو کودیکھا میں نے۔۔۔صص صالح وہ مم میرے بابا وہ یہاں ہیں صالح بہت کمزور ہو گئے ہیں وہ صص صالح پلیز مجھے چھپا دو میں میرا دم گھٹ رہا ہے مرنا نہیں چاہتی پلیز مجھے کہہں دور لے جاؤ پپ پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔ ”


اسکے سینے سے لگی وہ ڈرتے اسکی شرٹ کو مٹھیوں میں جکڑتے سہمی ہوئی آواز میں بولی تھی ، اسکے خوف کو محسوس کرتے صالح نے نرمی سے اسکے بالوں میں ہاتھ چلاتے اسے پرسکون کرنا چاہا ۔۔ صنم کے خوف سے وہ بخوبی واقف تھا۔۔۔


اششششش ۔۔۔۔۔ تمہیں کچھ نہیں ہو سکتا میرے ہوتے ہوئے ۔۔۔۔۔ تم صالح خان کی عزت ہو میرا مان میرا غرور ۔۔۔۔۔ تم جانِ صالح ہو ۔۔۔۔۔ میری جان ۔۔۔۔۔ اور میرے ہوتے ہوئے تمہیں کسی بات کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔۔” اسکی گرفت میں مضبوطی شدت سی تھی کہ اسکے لفظوں میں دھری وحشت پہ صنم خود بھی پریشان سی ہوتے رہ گئی ۔۔۔۔


گھر چلیں جہاں میری صنم کو کوئی بھی جواب نہیں دینا پڑے گا وہ ہر قسم کے سوال و جواب سے آزاد ہو جہاں ۔۔۔ جہاں ہماری محبت کا ایک چھوٹا سا آشیانہ ہے۔۔۔۔۔۔”


اپنے لفظوں میں سکون پروئے وہ اسکی روح کو پرسکون کرتے جھکتے اپنی گود میں بھر گیا جبکہ وہ خاموشی سے اسکی گود میں سکون سے آنکھیں موندے سر اسکے سینے سے ٹکا گئی۔۔۔۔۔


__________________


رات کو ہوئی تیز بارش کے بعد صبح کا موسم کافی خوشگوار سا تھا۔۔۔۔۔ چاروں طرف پھیلا سبزہ گردیزی ہاؤس کو الگ سی رونق بخش رہا تھا۔۔ جبھی لان کے پچھلے ایریا سے وہ منہ پہ ماسک لگائے دیوار پھلانگتے کودتے اندر داخل ہوا ۔۔۔۔۔

چاروں اور نظریں دوڑائے وہ محتاط سا آگے بڑھا اور پائپ کی مدد سے اوپر چڑھتے وہ بالکونی کے راستے سے اندر داخل ہوا۔۔۔۔۔


ایک نظر بیڈ پہ اطمینان سے سوئے ماہا ابتہاج پہ ڈالتے وہ احتیاط سے بیڈ کے قریب رکھے میز کی نجانب بڑھا تھا۔۔۔ اور احتیاط سے دراز کھولتے وہ مطلوبہ چیز نکالتا ایک طرفہ مسکراتے دھیمے قدموں سے کھڑکی کی جانب بڑھا تھا ۔


ابتہاج ۔۔۔۔۔ ابتہاج اٹھیں ۔۔۔۔۔۔۔” نیچے سے آتی تیز آوازوں پہ ماہا جو اچانک سے ہربڑاتے اٹھی تھی ابتہاج کو سوتا پاتے ماہا نے اسے جھنجھوڑتے اٹھایا ، جو گہری نیند میں تھا ۔۔۔


یار سونے دو مجھے ڈسٹرب مت کرو ۔ ابتہاج دوبارہ سے اسے کھینچتے اپنے حصار میں لیتا آنکھیں موندے بولا ، جبکہ ماہا اسے جھنجھوڑتے پھر سے اٹھانے لگی جو گہری نیند میں تھا ۔۔۔


ابتہاج اٹھیں تو دیکھیں ذرا ہوا کیا ہے نیچے ۔۔۔۔” وہ کافی پریشان سی تھی۔۔۔اسکے حصار کو توڑتے ماہا نے اسکے نیچے آئے اپنے دوپٹے کو کھینچتے نکالا۔۔۔ تو ابتہاج بھی آنکھیں مسلتے اٹھا تھا ۔۔۔


اوکے چلو دیکھتے ہیں کہ آخر ہوا کیا ہے۔۔۔۔۔” ماہا کے چہرے پہ پھیلی پریشانی کو دیکھتا وہ حامی بھرتے اٹھا تھا۔۔۔۔۔


” بول سالے کیا کر رہا تھا توں اوپر ۔۔۔۔۔۔ ” سمیر بری طرح سے اس شخص کو پیٹ رہا تھا جبکہ صباء بیگم اور کاشان صاحب دونوں ہی پریشان سے ایک جانب کھڑے تھے۔۔۔



سمیر کیا ہوا کون ہے یہ ؟ اور کیوں مار رہے ہو اسے ۔۔۔۔۔۔”

ابتہاج نے آگے بڑھتے سمیر کو تھامنا چاہا تھا جو غصے سے اس شخص کو بری طرح سے پیٹ رہا تھا۔۔ ماہا بھی پریشان سے نیچے آئی تھی جہاں سامنے ہی ایک انجان شخص کو یوں سمیر سے مار کھاتا دیکھ وہ کافی پریشان ہوئی تھی ۔۔۔۔


” برو تھم نہیں جانتا یہ اوپر تمہارا کمرے سے اترے تھا ۔۔۔۔اور میں نے اسے دوڑ کے جکڑ لیا ۔۔۔۔۔” اپنے چہرے پہ آتے پسینے کو صاف کرتا وہ پھر سے اسے لاتوں سے پیٹنے لگا۔۔۔۔۔ جو آگے ہی آدھ مرا ہو چکا تھا۔۔۔۔


” کیا کر رہے تھے تم میرے کمرے میں بولو۔۔۔۔۔ ابتہاج غصے و اشتعال سے اسکی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔اسکا بس نہیں تھا کہ وہ اسے ختم کر دے۔۔۔۔ ابتہاج نے جھٹکے سے اسے گریبان سے کھینچتے کھڑا کیا تو مقابل نے جو فائل اپنی شرٹ کے اندر چھپائی تھی وہ ایک دم سے نکلتے باہر گری تھی۔۔۔۔


جسے دیکھ سب ہی حیران کن تاثرات سے اس فائل کو دیکھنے لگے ۔۔۔ ابتہاج کے ماتھے پہ ایک ساتھ جانے کتنے بل نمودار ہوئے تھے جبھی وہ غصے سے اسے کھینچتے مکوں سے مارنے لگا ۔۔۔۔۔


بول کمینے توں نے ہی میری فائل چوری کی تھی ناں ۔۔۔۔۔۔ کون ہو تم اور کیوں کیا ایسا۔۔۔۔۔" وہ غصے سے ہے درپے مکے مارتے اسکی جان لینے کے در پہ تھا ۔۔۔۔


برو چھوڑو اس کو ۔۔۔ میں نے پولیس کو بولا ہے وہ آ رہی ہے ۔۔۔۔۔۔ ” اسکے بپھرے روپ کو دیکھتا سمیر جلدی سے آگے ہوتے ابتہاج کو بازوؤں سے پکڑتے پیچھے لے گیا۔۔۔


چلو بیٹا اندر دیکھ لیں گے یہ سب۔۔۔۔۔۔۔۔ ” کاشان صاحب گیٹ سے داخل ہوتے پولیس اہلکاروں کو دیکھ ابتہاج کے قریب جاتے اسے سمجھانا چاہا جانتے جو تھے اگر وہ آپے سے باہر ہوا تو اسکو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔۔۔


ابتہاج اپنا آپ چھڑواتے وہاں سے اندر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔اسکی آنکھوں میں ابھی تک خون دوڑ رہا تھا جبھی خود پہ بمشکل سے قابو پاتے وہ غصے سے وہاں سے نکلا۔۔۔۔۔


لے جائیں اسے اور جتنی جلدی ہو سکے اس سے پتہ لگوائیں کہ اس نے کتنی بار اور کیا کیا چوری کیا ہے ہمارے گھر سے۔۔۔انسپیکٹر کو دیکھتے کاشان صاحب غصے سے بولے تو وہ سر کو حم دیے فرش پہ بےسودھ پڑے اس شخص کو اٹھائے وہاں سے نکلا تھا۔۔۔

تمہارا بہت بہت شکریہ بیٹا۔۔۔۔۔اگر اج تم ناں دیکھتے تو جانے کیا ہو جاتا ۔۔۔۔۔۔”


” سمیر جو ایک جانب سنجیدہ سی شکل لیے کھڑا تھا اسکے قریب جاتے منیبہ بیگم نے ہاتھ اسکے سر پہ رکھتے کہا تو وہ مسکرا دیا ۔۔


شکریہ والی کوئی بات نہیں آنٹی یہ تو میرا چرس تھا۔۔۔۔۔” وہ اپنائیت سے کہتا سب کو ہنسنے پہ مجبور کر گیا۔۔۔۔


چرس نہیں فرض ہوتا ہے بندر۔۔۔۔..” اسکی تعریف پہ ماہا جو اب اپنے روٹھے شوہر کے جانے کے بعد انکے قریب آئی تھی سمیر کو پھر سے اپنی غلط اردو استعمال کرتے دیکھ وہ منہ بناتے بولی تو سمیر نے منہ کے زاویے بگاڑے۔۔۔۔۔۔۔۔


جو بھی ہو مگر میں نے اسے پکڑ تو لیا۔۔۔۔” وہ اپنی بات پہ ڈٹا اترا کے بولا تو ماہا نے ناک چڑھائی جیسا کہہ رہی ہو کونسا احسان کیا ہے ۔۔۔


بیٹا ابتہاج نے کچھ کھایا ہے کہ نہیں۔۔۔۔ ” کاشان صاحب جو سمیر کا شکریہ ادا کر رہے تھے ایک نظر انہیں مصروف دیکھتے منبیہ بیگم ماہا کے قریب جاتے پوچھنے لگی۔۔۔۔

ماہا کو رات اسکی کی حرکتیں اسکا پاگل پن ایک بھر پھر سے جھرجھری لینے پہ مجبور کر گیا۔۔۔۔۔۔


نہیں ماما میں نے بولا تھا مگر وہ مانے نہیں۔۔۔۔۔ ابھی کچھ بنانے لگی ہوں میں۔۔۔۔” وہ انگلیاں چٹخاتے شرمندہ سی نظریں جھکا گئی ۔ اسکا شوہر بھوکا تھا اور اسکا فرض تھا اسکا خیال رکھنا کتنی شرمندگی ہوئی تھی اسے منیبہ بیگم کے سامنے___کیا سوچ رہی ہونگی وہ اسکے متعلق۔۔۔۔۔۔۔ ”


بیٹا تمہیں شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں وہ بچپن سے ہی ایسا ہے جس بات کو سر پہ سوار کر لے جب تک اسکا بھوت ناں اترے وہ سکون سے نہیں رہتا اور اب تو اسے اتنا بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔۔۔۔۔ اسی وجہ سے وہ خود کو تکلیف پہنچا رہا ہے ۔۔۔ تم ایسا کرو اسکے لئے کچھ ہلکا سا بنا لو۔۔۔۔۔ میں تمہارے باباکو دیکھوں رات سے کافی غصے میں ہیں۔۔۔۔


ماہا کو ہدایت دیتی وہ کاشان صاحب کے پیچھے ہی لان میں گئی جو سمیر کے ساتھ بات کرتے اپنا بی پی کنٹرول کر رہے تھے ۔ورنہ اپنی سالوں کی محنت کے یوں چٹکیوں میں کھو جانے کے صدمے سے انہیں پوری رات نیند نہیں آئی تھی۔۔۔۔۔۔


ماہا فورا سے کچن میں جاتے ابتہاج کے لئے ناشتے کا سوچنے لگی۔۔۔۔۔ چائے کا پانی چڑھاتے ماہا نے جلدی سے فریج سے انڈے نکالے تھے۔۔۔۔۔


اچانک سے آتے چکر پہ وہ ہاتھ اپنے سر پہ رکھتے آنکھیں بند کیے کھولتے دوبارہ سے سر کو زور سے ہلائے کاوئنٹر کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔۔۔ یہ کیا ہو رہا ہے مجھے اتنا دل کیوں خراب ہو رہا ہے۔۔۔۔۔” انڈے کو باؤل میں ڈال وہ فورا سے اسکی سمیل پہ عجیب سے منہ بنائے پیچھے ہوتے بڑبڑائ تھی۔۔۔۔۔۔۔ اسکی طبیعت کل شام سے ہی کافی عجیب سی تھی سر بھی کافی بھارا ہو رہا تھا مگر ابتہاج کی پریشانی کے پیچھے وہ سب کچھ بھلا چکی تھی ۔۔۔۔ اور اب یوں اچانک سے آتے چکروں پہ وہ بری طرح سے جھنجھلاتے ہوئے سر جھٹکتے دوبارہ سے اپنے کام میں لگی۔۔۔۔۔۔۔


مگر ایک دم سے اسکی آنکھوں پہ اندھیرا سا چھانے لگا ۔۔۔۔ بمشکل سے پوری کوشش کے باوجود بھی وہ پوری طرح سے آنکھیں نہیں کھول پا رہی تھی جبھی وہ نڈھال سی سر کو ہاتھوں میں تھامے کچن سے باہر نکلے ابتہاج کو پکارنے لگی ۔۔


مگر درد کی شدت سے اسکے ہونٹ بمشکل سے ہل پا رہے تھے۔۔۔۔۔۔


ماہا۔۔۔۔۔۔” منیبہ بیگم جو ماہا کا ہاتھ بٹانے آئی تھی اب یوں اسے زمین بوس ہوتا دیکھ وہ بری طرح سے چیختے اسکے پاس آئی ۔۔۔۔۔۔ انکی آواز پہ سمیر کاشان صاحب بھی دوڑتے کچن کی جانب آئے تھے۔۔۔۔۔۔


کیا ہوا ہے اسے پیچھے ہوں میں اٹھاتا ہوں اسے ۔۔۔۔۔۔” سمیر آگے بڑھتا منبیہ بیگم کی پریشان ہوائیاں اڑی رنگت کو دیکھ بولا تھا۔۔۔۔۔ ہاں بیٹا اٹھاؤ بچی کو۔۔۔کاشان صاحب نے اسے آگے کرتے کہا تو وہ سر ہلاتے جھکتے ماہا کو اٹھانے لگا۔۔۔۔ مگر اسکے ہاتھ ماہا کی طرف بڑھتے ہی کسی نے درمیان میں سے ہی تھام لیے تھے۔۔۔۔


سمیر نے حیرانگی سے نظریں اٹھائے دیکھا تو آنکھوں میں عجیب سے شعلے لئے اسکے ہاتھ کو بری طرح سے جھکٹتے ابتہاج خود جھکتا ماہا کو گود میں بھرتے اپنے روم کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔۔


________________


" کیا کر رہے ہیں آپ صالح ۔۔۔۔پلیز میں ٹھیک ہوں چھوڑیں میرا پاؤں ۔۔۔۔۔” اپنے پاؤں کا معائنہ کرتے صالح کو دیکھ صنم بری طرح سے جھنجھلاتے ہوئے بولی تھی۔۔۔۔۔۔ مگر مقابل کے ماتھے پہ ڈھیروں بل اور آنکھوں میں عجیب سے چمک تھی۔۔۔۔۔۔۔


” چپ رہو یار۔۔۔۔مجھے پورا یقین ہے اس ڈاکٹر نے کچھ غلط علاج کیا ہے ۔۔بھلا کوئی ایسے پٹی باندھتا یے۔۔۔۔ صنم۔کے پاؤں کو آگے پیچھے سے پکڑتے بغور دیکھتا وہ اپنا شک اسپہ عیاں کر گیا۔۔۔۔۔صنم نے گہری سانس فضا میں خارج کرتے اس عجیب سے پاگل شخص کو دیکھا۔۔۔۔۔۔


صالح ایسی ہی کرتے ہیں پٹی اور ظاہر سی بات سے پاؤں پر لگی ہے سوجھن تو گی ۔۔۔۔۔ صنم نے اسکا ہاتھ تھامتے اسے سمجھایا تو صالح نے آنکھیں چھوٹی کیے صنم کو گھور کے دیکھا اسکی نظروں پہ صنم ہڑبڑا اٹھی ۔۔۔ ۔


تمہیں بڑا پتہ ہے کیوں طرف داری کر رہی ہو اس پاگل ڈاکٹر کی۔۔۔۔۔۔ وہ دانت پیستے ائبرو اچکاتے بولا تو صنم کا دل چاہا کہ ماتھا پیٹ لے ۔۔۔


صالح خدارا بس کر دیں ۔۔۔۔۔میں بھلا کیوں طرف داری کروں گی اس ڈاکٹر کی ۔۔۔۔ ویسے بھی وہ ایک لڑکی ہے اور موچ آنے پہ سوجھن ہونا عام سی بات ہے ۔۔۔۔۔”


صنم نے محبت سے اپنے پاس بیٹھے صالح کے بالوں کو بکھیرا تو صالح کی آنکھیں چمک اٹھی ۔۔۔۔۔۔


تو کیا درد نہیں ہو رہا تمہیں ۔۔۔۔۔” وہ شیو کو انگوٹھے سے مسلتے گہرے لہجے میں پوچھنے لگا ۔۔۔۔


صنم نے اپنے گھٹنوں کے قریب بیٹھے اس خوبصورت مرد کو دیکھا جو اس کی تکیلف پہ گھل رہا تھا۔۔۔۔


نہیں ہو رہا درد سچی ۔۔۔” وہ آنکھیں میچتے اسے یقین دلانے لگی تو مقابل کے چہرے پہ ایک گہری دلچسپ مسکراہٹ بکھری۔۔۔۔


تو پھر ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ صالح ہاتھ صنم کے پاس رکھتے بھاری لہجے میں کہتا آہستہ آہستہ اٹھتے اسپہ جھکتا سایہ سا کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔ اپنے دوپٹے کے گرد لپٹے صالح کا بھاری ہاتھ اسکی دھڑکنوں کی آواز سنتے وہ سن سی پڑنے لگی ۔۔۔۔۔

صصص صالح مجھے پاؤں میں درد ہے سچی ۔۔۔۔۔” اپنی گردن پہ جھکے صالح کے بےباک لمس کو محسوس کرتے وہ تیز ہوتی سانسوں سے بولی تو صالح نے ہونٹ اسکی تھوڑی پہ رکھے ۔۔۔۔۔


مگر ابھی تو نہیں ہو رہا تھا تمہیں درر۔۔۔۔۔۔” صنم کی بند آنکھوں کو دیکھتا وہ ہونٹ اسکی ناک پہ رکھتے بولا ۔۔۔


ہہ ہاں مم۔مگر ہلانے سے تو ردد ہو گا ناں ۔۔۔۔۔۔” صالح کی قربت اسکے ارادے بھانپتے وہ شدید گھبراہٹ میںں جو منہ میں آیا بولتی چلی گئی۔۔۔۔مگر جب اپنی بات کا احساس ہوا صنم کا پورا چہرہ خفت و شرم سے سرخ پڑ گیا ۔۔۔۔۔۔


صالح نے مسکراتے اسکے سرخ ہونٹوں کو دیکھا جنہیں چھونے کی طلب اسے بےقرار کر رہی تھی۔۔۔۔۔


تو میری جان تم اسے حرکت ناں دینا باقی کام میں خود کر لوں گا۔۔۔۔۔۔ اسکے سرخ رخسار کو سہلاتے وہ شدت سے اسکے ہونٹوں پہ جھکتا اپنی من مانیاں کرنے لگا ۔۔۔۔۔ صنم اسکے آگے ہارتے اپنا آپ اسی کے سپرد کر گئی۔۔۔۔۔ جس کی شدتیں صنم کی جان پہ بن آتی تھی۔۔۔۔۔


_________________


بہت بہت مبارک ہو آپ کو مسزز گردیزی آپ کی بہو ماں بننے والی ہے۔۔۔۔۔۔۔ ”


وہ سب پریشان سے دروازے کے باہر ٹہل رہے تھے۔۔۔۔ابتہاج کے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے۔۔ وہ بےقراری سے ڈاکٹر کے باہر نکلنے کا انتظار کر رہا تھا مگر جو خبر ڈاکٹر نے اسے دی تھی ابتہاج کا وجود بالکل سن سا پڑ گیا۔۔۔۔۔۔۔


کیا آپ سچ کہہ رہی ہیں ڈاکٹر ۔۔۔۔۔۔۔ تھینکیو ڈاکٹر آپ کا بہت بہت شکریہ آپ نے اتنی اچھی گڈ نیوز سنائی ۔۔۔۔۔ منیبہ بیگم تو خوشی سے نڈھال سی ہو گئی تھی۔۔۔۔۔کچھ ایسا ہی حال کاشان صاحب کا بھی تھا۔۔۔۔مگر ان سب میں وہ جو باپ بننے والا تھا اس خوشی کی خبر کے بعد اسکا چہرہ مزید سنجیدہ ہو گیا تھا۔۔۔۔۔۔


آپ کو اب پہلے سے زیادہ خیال رکھنا ہے ماہا کا۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ سب کے پیار اور کئیر کی ضرورت ہو گی اسے اب سے۔۔۔۔۔ ابھی میں نے دوا دے دی ہے وہ تھوڑی دیر میں ہوش میں آ جائے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ اسے کل لے آئیے گا میں پراپر چیک اپ کروں گی ایک بار۔۔۔۔۔”


صباء بیگم کی جانب دیکھتے ڈاکٹر نے انہیں تفصیل سے آگاہ کیا تو وہ سر ہاں میں ہلاتے ڈاکٹر کے ساتھ ہی نیچے اسے چھوڑنے آئی تھیں۔۔۔۔۔۔۔


دن سے رات ہو گئی تھی مگر وہ یونہی آنکھوں پہ ہاتھ رکھے بےچین سے لیٹی تھی۔ کتنی خوش تھی وہ صباء بیگم، کاشان صاحب سب نے اسے مبارک دی تھی ،صباء بیگم نے اس کی پیشانی چومی اور اسے ممتا کے نئے احساس سے روبرو کرایا اسے بتایا تھا کہ وہ ماں بننے والی ہے ۔۔۔۔ ماہا تو جانے کئی لمحوں کے لئے سن سی ہو گئی تھی ۔۔۔۔ یہ احساس یہ رشتہ ۔۔۔۔۔ سب کچھ عجیب سا تھا کچھ الگ مگر بہت خاص دل کے ۔۔۔ روح کے قریب۔۔۔۔۔۔ ”

دو آنسوں اسکی آنکھوں سے گرے تھے اپنے رب کی اس نوازش پہ۔۔۔۔۔ جس نے اسے اس قابل سمجھا تھا کہ وہ آج ایک ماں کے رتبے پہ فائز ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔


صباء بیگم اسکا سر ماتھا چومتی خوشی سے جانے اپنی کتنی ہی پلیننگ سنا گئی تھی جسے وہ ہنستے ہوئے سن رہی تھی ۔۔۔۔۔ مگر اسے جس ظالم کا انتظار تھا وہ آنا ہی بھول گیا تھا ۔۔۔۔ وہ دن سے ابتہاج کا انتظار کر رہی تھی اسکے چہرے کے ایکسپریشن اسکی خوشی دیکھنا چاہتی تھی مگر اب گزرتے وقت کے ساتھ اسکا خوف بڑھنے لگا ۔۔۔ دل جیسے بیٹھ سا گیا تھا۔۔۔۔۔



” کیا اسے سب سے پہلے نہیں آنا چاہیے تھا۔۔۔۔۔ دل نے سوال کیا تو اسکے اندر درد کی ایک ٹیس سی اٹھی ۔۔۔۔جبھی اپنے آنسوں کو صاف کرتے وہ اٹھتے لائٹ آف کرنے لگی مگر نظریں سامنے سے دروازہ کھولتے بکھرے سے ملگجے حلیے میں اندر داخل ہوتے ابتہاج پہ پڑی۔۔۔۔


وہ شخص تو ہر روپ میں دلوں پہ قابض ہونے کے فن سے واقف تھا۔۔ماہا نے لب بھینجتے دوبارہ سے سر تکیے پہ گرائے کمفرٹر تان لیا ۔۔۔


ابتہاج اسکی ایک ایک حرکت کو دیکھ چلتا اسکی سائڈ پہ اسکے قریب بیٹھا تھا۔۔۔۔۔۔ ماہا کا دل اسکی موجودگی پہ تیزی سے دھڑکنے لگا ۔۔۔ عجیب سے کیفیت تھی وہ دونوں ہی خاموش تھے ۔۔۔۔۔۔۔


مگر ماہا اس کے منہ سے وہ خوشی کا اظہار وہ الفاظ سننے کو بے تاب تھی ۔۔۔۔


ماہا مجھے یہ بچہ نہیں چاہیے ۔۔۔۔۔۔” وہ جو آنکھیں مضبوطی سے بند کیے اسکے خوشی کے اظہار کو سننا چاہ رہی تھی ۔۔۔۔اچانک سے اسکی آواز اسکے الفاظ پہ وہ ایک دم سے کمفرٹر سے نکلتے اپنے قریب بیٹھے ابتہاج کو بےیقینی سے دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔


” میں جانتا ہوں تم سوچ رہی ہو گی کہ کیسا شخص ہے جو اپنی ہی اولاد کے لیے ایسا کہہ رہا ہے مگر ماہا میں اپنی اولاد کو دنیا کی محرومیوں کا سامنا نہیں کرنے دے سکتا ۔۔۔۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ کسی بھی چھوٹی چھوٹی سی چیز کیلئے ترسے روئے۔۔۔۔۔۔۔۔ ” ماہا کی بےیقینی سے پھیلی آنکھوں میں آنسوں دیکھ ابتہاج نے تڑپتے اسکے چہرے کو ہاتھوں میں بھرا مگر ماہا نے جھٹکے سے اسکے ہاتھوں کو خود سے دور جھٹک دیا۔۔۔۔۔۔


یہ صرف آپ کا بچہ نہیں ابتہاج یہ میرا بچہ ہے میری اولاد ۔۔۔۔۔۔۔” وہ غصے سے چیختے اس ظالم کی اتنی بڑی بات پہ بری طرح سے رونے لگی ۔۔۔ اسکے آنسوں ابتہاج کے دل پہ گرے تھے جبھی ابتہاج نے کھینچتے اسے خود سے لگایا جو اختجاج کرتے اس ظالم سفاک کی قربت سے بھاگنے لگی ۔۔۔۔


” میں سب جانتا ہوں ماہا مگر شاید تم نہیں جانتی کہ میری کمپنی مجھ سے چھن چکی ہے۔۔۔۔ میرے پاس اب کوئی بھی سرمایہ کوئی کاروبار نہیں سوائے اس چھت کے۔۔۔۔۔ میں نے اپنے بابا کا بنایا کاروبار تباہ کر دیا ہے ماہا۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر میں نہیں چاہتا کہ میری اولاد اس دنیا میں آئے تو اسے کسی قسم کی محرومی کا سامنا کرنا پڑے ۔۔۔۔


میں چاہتا ہوں کہ میں اسے ہر وہ خوشی دوں ہر وہ دنیا کی چیز دوں جو وہ مجھ سے ایک بار مانگے۔۔۔۔ اسکی پرورش بالکل ویسے کروں جیسے میرے ماں باپ نے میری کی ہے۔۔۔۔۔۔ میں خود اپنا بزنس بناؤں گا۔۔۔اپنے پاؤں پہ کھڑا ہو کے دوبارہ سے وہ سب حاصل کروں گا جو مجھ سے چھن چکا ہے۔۔۔۔۔


اپنے سینے میں اسے مضبوطی سے بھینجے وہ اپنا ڈر اپنی مجبوری اسکے سامنے بیان کرنے لگا۔۔۔ماہا کے انسںوں اسکے کندھے پہ گر رہے تھے ۔۔ ابھی وقت ہی کتنا گزرا تھا اسے یہ خوشخبری ملے ۔۔۔۔۔۔


” نہیں میں کچھ نہیں جانتی ابتہاج آپ چاہے جو مرضی کہہ لیں مگر میں محرومیوں کے ڈر سے اپنے بچے کو ختم نہیں کرنے والی یہ میرا بچہ ہے میں پال لوں گی اسے۔۔۔۔۔۔ میرے اللہ نے جو کچھ اسکے نصیب میں لکھا ہو گا وہ اسے مل جائے گا مگر میں اسے خود سے دور نہیں کروں گی ۔۔۔۔ کبھی بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔اسکے کندھے سے لگے ماہا نے روتے ہوئے اسے اپنا فیصلہ سنایا وہ کسی بھی حال میں اپنے بچے کو خود سے دور نہیں کر سکتی تھی ۔۔۔۔۔


اسکی پہلی اولاد ، وہ پہلا احساس جانے ان گھنٹوں میں اسکے کتنے احساسات جڑ چکے تھے اس آنے والی ننھی سی جان کے ساتھ ۔۔۔۔۔


اوکے ہم بعد میں بات میں کریں گے اس بارے میں تم ریلکس ہو جاؤ ۔۔" اسکی پشت سہلاتے ابتہاج نے اسے چپ کرونا چاہا تھا۔۔۔جس کا اثر بھی ہوا۔۔۔۔۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ اسکے حصار میں قید اسکے سینے سے لگی گہری نیند سو چکی تھی ۔۔۔۔۔۔


ابتہاج نے نرمی سی اسے بیڈ پہ لٹایا ۔۔۔اور جھکتے لب اسکی پیشانی پہ رکھتے، ابتہاج نے ایک نظر اسکے پیٹ پہ ڈالی اور آنکھیں میچتے وہ گھبراہٹ سے اٹھتا روم سے باہر نکلتا چلا گیا ۔۔۔۔۔۔۔


_________________


#Dildaar_Masihaye_Dil

#Epi_21

#writer_Faiza_Sheikh


ابتہاج کے مضبوط حصار میں کسمساتے ہوئے مندی مندی سے آنکھیں کھولتے ماہا نے سر اسکے کندھے سے اٹھائے اس کے حسین چہرے کو دیکھا۔۔۔۔۔


مجھے یہ بچہ نہیں چاہیے ماہا۔۔۔۔۔۔ اسکے چہرے کی جانب اٹھا ماہا کا ہاتھ تھم سا گیا تھا۔۔ جب رات کو ابتہاج کے کہے الفاظ اسکے کانوں میں گونجے ماہا کے کان جیسے سائیں سائیں کرنے لگے ۔۔ آنکھیں شدت درد سے بہنے لگی ،بھلا ایک باپ کیسے اپنی ہی اولاد کو ختم کرنے کا سوچ سکتا یے۔۔۔۔۔۔۔ اسکی سوچیں معاوف ہونے لگی۔۔۔سر درد سے دکھنے لگا ۔


آپ کیلئے یہ ضروری نہیں ہو گا ابتہاج مگر میرے لئے میری زندگی میرا بچہ ہے ۔۔۔ میں کبھی بھی اس معصوم کو دنیا میں آنے سے پہلے ختم نہیں کروں گی۔۔۔۔۔ آپ کا ساتھ ان سانسوں کیلئے ضروری ہے مگر میں اپنی اولاد کے لیے کچھ بھی کر جاؤں گی آپ کے بنا بھی رہ لوں گی میں۔۔۔۔۔ ”


اسکے چہرے کو ہاتھوں سے چھوتے ماہا نے جھکتے اپنے ہونٹ اسکی پیشانی پہ ثبت کیے ۔۔۔۔ انسںوں لڑی میں پروئے موتیوں کی مانند اسکے چہرے کو بھگو رہے تھے ۔۔۔۔ ماہا لب بھینجتے اس ظالم بے حس کو ایک نظر دیکھ اپنا آخری فیصلہ کیے آہستگی سے اسکی گرفت سے خود کو آزاد کرواتے نکلی تھی ۔۔۔


ہو سکے تو معاف کر دیجئے گا۔۔۔۔۔ کیونکہ ماہا اب سے اپنی اولاد کے لئے جیے گی آپ سے دور جا رہی ہوں بہت دور مگر ایک بات ہمشیہ یاد رکھیے گا آپ میرے دل میں میری سانسوں میں بس چکے ہیں آپ کو بھول پانا نا ممکن سا ہو گیا ہے مگر میں اس معصوم کو ختم کر کے نہیں جی پاؤں گی ۔۔۔۔ آپکی ماہا آپ کو دھوکہ دے رہی ہے ابتہاج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہو سکے تو معاف کر دینا۔۔۔۔۔۔”


اپنے آنسوں کو ہاتھ کی پشت سے رگڑتے وہ اذیتوں کی ماری بےحال سی بولی تھی۔۔۔۔


ماہا نے ایک گہرا سانس فضا کے سپرد کرتے اپنے پیٹ کو چھوا تھا ایک ہمت ایک حوصلہ سا تھا اسے وہ اکیلی نہیں تھی۔۔۔اپنی اولاد کیلئے تو وہ دنیا سے لڑ جائے گی۔۔۔۔ خود کو مضبوط بنائے وہ ایک آخری نظر اپنے اس ستم گر پہ ڈالتے دروازہ کھولتے ملگجے سے اندھیرے میں روم سے باہر نکلی۔۔۔۔۔۔


اپنے دوپٹے سے چہرہ ڈھانپتے وہ سہمی ہوئی اپنی درد سے چور آنکھوں سے آگے پیچھے دیکھ گھر سے باہر نکلی تھی۔۔۔۔ ایک خوف ایک ڈر تھا اسے وہ کچھ غلط کر رہی ہے مگر وہ جانتی تھی ابتہاج اسے مجبور کر لے گا اس بچے کو ختم کرنے کے لیے جبھی وہ کسی کے اٹھنے سے پہلے ہی وہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔


دور کہیں فجر کی اذان کی آواز اسکے کانوں میں گونجنے لگی وہ تیز تیز قدم اٹھائے گھر سے کافی دور نکل آئی تھی۔۔۔اس وقت وہ صرف ایک ماں بن کے سوچ رہی تھی کل سے ملا یہ نیا احساس وہ کبھی بھی نہیں کھو سکتی تھی۔۔۔۔۔


وہ ماں تھی قاتل نہیں بن سکتی تھی۔۔۔۔۔ اسکی سوچوں کے ساتھ اسکے قدم بھی تھمے تھے وہ سہمی نظروں سے حراساں سی اپنے سامنے رکتی اس سفید گاڑی کو دیکھنے لگی ۔۔ ماہا کے دل میں خوف سا دھر آیا وہ سہمتی لرزتے دل سے ایک جانب سے ہوتے تیزی سے چلنے لگی کہ معا گاڑی سے نکلتے ان نقاب پوشوں نے اسکے سمجھنے سے پہلے ہی اس پہ حملہ کیا ۔۔۔ وہ ڈر و وخشت کے زیر اثر تیز تیز قدم اٹھائے وہاں سے بھاگنے لگی مگر مقابل آتے دشمنوں نے اسے جلد ہی دبوچ لیا تھا ۔۔۔۔


اسکے مزاخمت کرتے وجود کو دیکھتے ایک نے انجیکشن نکالتے اسکی گردن پہ لگایا کہ ماہا سرخ ہوئی اپنی نم آنکھوں سے بےحال سی ابتہاج کو پکارتے بےہوش ہو گئی۔ ۔


لے چلو اسے ۔۔۔ پیچھے سے آتے سمیر نے مسکراتے ماہا کے بےجان وجود کو دیکھ کہا تھا وہ دونوں سر ہلاتے ماہا کو اٹھائے گاڑی کی جانب بڑھے ۔۔۔۔


اب آئے گا کھیل کا اصل مزہ ابتہاج گردیزی ۔۔۔۔ جب تمہاری پیاری سی بیوی تمہیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔۔۔۔ وہ گہری شیطانی سوچ سوچتا قہقہہ لگا اٹھا ۔۔۔۔۔


_______________


ماما ماہا کہاں ہے اسے بھیجیں مجھے کام ہے اس سے۔۔۔۔۔۔ صبح کے نو بجے وہ ماہا کو اپنے قریب نا پاتے جھٹکے سے اٹھا تھا۔۔۔۔۔ ماہا کو آوازیں دیے وہ بے چینی سے اسے بلانے لگا مگر اسکے ناں آنے پہ خود ہی بےچین سا ہوتے ابتہاج نے اٹھتے واشروم اور چینجنگ روم چیک کیا تھا۔۔۔۔ جہاں پہ ماہا کا نام و نشان تک موجود نہیں تھا ۔


جبھی وہ دوڑتے نیچے آتے منیبہ بیگم سے پوچھنے لگا مگر وہ خود اسکی بات پہ حیران ہوئی تھی ۔۔۔


ماہا ۔۔۔۔ وہ تو آج نیچے نہیں آئی بیٹا ذرا اندر چیک کرو ۔۔۔۔اوپر ہی کہی ہو گی ۔۔۔۔۔ ڈائننگ ٹیبل پر پلیٹس لگاتے منیبہ بیگم نے سرسری عام سے لہجے میں بتایا تھا ۔۔۔


وہ اوپر کہیں بھی نہیں ہے ماما ۔۔۔۔ابتہاج کی بےچینی مزید بڑھنے لگی۔۔ وہ تیزی سے آگے بڑھتا کچن اور سارے رومز چیک کرنے مگر ماہا کی غیر موجودگی اسکے وجود کو شل سا کرنے لگی ۔۔وہ ننگے پاؤں باہر لان کینجانب جاتے اسے پاگلوں کی طرح پکارنے لگا ۔۔۔۔ ماہا کی باتیں اسکے کہے آخری الفاظ اسکی شکوہ کرتی نظریں کیا کچھ یاد نہیں آیا تھا اسے ۔۔۔۔۔۔۔ ابتہاج کا دل جیسے پھٹنے لگا تھا کتنی سوچیں کتنے وہم تھے اسکے دل میں ۔۔۔


ابتہاج نے بےبسی سے اپنے بالوں کو نوچا تھا۔۔۔۔۔ وہ ہر اس جگہ کو چیک کر آیا جہاں پہ ماہا کے ہونے کا امکان تھا ۔۔ مگر وہ نہیں تھی نہیں ملی اسے ۔۔۔۔۔۔ پورا دن وہ اسے پاگلوں کی طرح ڈھونڈتے مارا مارا پھرا تھا ۔۔۔۔۔۔ اسے ہر جگہ وہ ہنستی کھلکھلاتی اپنی طرف بلاتی نظر آنے لگی ۔۔۔۔۔۔ اسکے دل میں ایک امید تھی کہ وہ ڈھونڈ لے گا اسے۔۔۔۔۔۔


________________


صالح بس کر دیں اب اور نہیں کھایا جاتا۔۔۔۔۔۔۔” منہ بنائے وہ صالح کے ہاتھ کو پیچھے کرتے بولی تو صالح نے باؤل ایک جانب رکھتے اسے غصے سے گھورا ۔۔۔۔

پاؤں میں درد کی وجہ سے اسے ہلکا ہلکا سا بخار ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔


صالح آج صبح سے ہی اسکے پاس تھا ۔۔۔اسکا شہزادیوں کی طرح خیال رکھتے وہ اسے ہر قسم کی تکلیف سے بچانا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔ ابھی بھی وہ سوپ بناتے اسکے لئے لایا تھا جسے وہ بمشکل سے اسکی ضد کی وجہ سے دو تین سپ لیتے اب مزید پینے سے انکار کر گئی ۔۔۔۔۔۔


جبھی صالح نے جھٹکے سے اسے گود میں بٹھایا ، صنم نے اپنی سرخ ہوتی ناک چڑھاتے اسے گھورا تو کھلکھلاتے اسکے گالوں کو شدت سے چومتا پیچھے ہوا ۔۔۔۔۔ غلطی تمہاری ہے کس نے کہا تھا اس صالح خان کے سوئے ہوئے ارمانوں کو اسکے جذباتوں کو جگاؤ ۔۔۔۔۔۔”


اسکی خفا نظروں کو ہونٹوں سے چھوتے وہ سارا الزام آرام سے صنم کے سر پہ ڈال دیا جو حیران سی ہکا بکا منہ کھولے اس میسنے کو گھورتے رہ گئی ۔۔۔۔۔۔۔


” ایک بار تم ٹھیک ہو جاؤ تو پھر تمہیں دوبارہ سے یونی میں داخل کروانے کا سوچ رہا ہوں میں۔۔۔۔۔۔ اسکے گرد گھیرا تنگ کرتے صالح نے ہاتھ بڑھاتے باؤل تھامتے چمچ میں سوپ بھرتے اسکے سامنے کیا تو صنم نے چاروں نا چار گھونٹ بھرا ۔۔۔۔۔۔۔


آپ بھی پیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ” چمچ اسکے ہاتھ سے پکڑتے صنم نے سوپ بھرتے صالح کے سامنے کیا تو صالح نے ایبرو اچکاتے صنم کے بخار سے تپتے انگارہ بنے سرخ چہرے کو دیکھا صنم نے الجھن سے صالح کو گردن گھمائے دیکھا مگر صالح نے جھکتے اسکے ہونٹوں پہ لمس چھوڑتے اسکے گلنار ہوئے چہرے کے خوبصورت رنگوں کو دیکھا۔۔۔


تم اپنا کھاؤ اور میں اپنا کھا لوں گا۔۔۔۔ ” اسکے کان میں شریر سی سرگوشی کرتے وہ اسے خود میں سمٹنے پہ مجبور کر گیا۔۔۔۔


صالح مجھے کہیں نہیں جانا بس جتنا پڑھنا تھا پڑہ لیا اب بس اور نہیں _______” منہ پھلائے وہ صاف انکار کر گئی۔۔۔۔۔۔ صالح نے شدت سے اسے خود میں بھینجا جو آگے ہی اسکی قربت میں موم سی ہوئی پڑی تھی ۔۔۔۔۔


پڑھائی تو لازم ہے جاناں۔۔۔۔۔ ورنہ تم میرے بچوں کو کسیے پڑھاؤ گی ۔۔۔۔۔۔۔ باؤل واپس میز پہ رکھتے ابکی بار صالح نے اسکا رخ اپنی جانب گھمایا _______ صنم کی پلکیں لرز پڑیں وہ عجیب سی کیفیت میں مبتلا ہوئی اسے سمجھ ناں آیا کہ وہ کیسا ری ایکشن دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔


وہ جانتی تھی صالح کی امیدیں بڑھ رہی تھی اسکے ساتھ مگر کیا وہ ان سب کی حقدار تھی ۔۔۔یہی سوچ اسے ہر وقت ایک انجانے سے خوف میں گھیرے رکھتی اسکی سمجھ سے بالاتر تھا خود اپنے ہی آپ کو سمجھنا ۔۔۔۔۔۔۔


” مجھے ایک پیاری سی بیٹی چاہیے صنم ۔۔۔۔۔۔۔ جو مجھے بلائے مجھے بابا کہے ۔۔۔۔۔۔ مجھے وہ احساس چاہیے جب کوئی میرا اپنے وجود کا ایک حصہ میری آنکھوں کے سامنے ہنستا مسکراتا کھلکھلاتا ہو۔۔۔۔۔ میں اسے چوموں اسے اٹھاؤں اسے دنیا کی ہر سرد و گرم سے بچاؤں۔۔۔۔ جن سے مجھے کوی بچانے والا نہیں تھا۔۔۔۔۔


وہ جب روئے تو تم سے پہلے مجھے پکارے ۔۔۔ جب پہلی بار بولے تو میرا نام لے ۔۔مجھے پکارے۔۔۔۔ جب آنکھیں کھولے تو مجھے دیکھے۔۔۔۔۔ وہ میری بیٹی ہو گی صنم میرا خون میری زندگی میرا سب کچھ ۔۔۔۔۔”


اسے سینے سے لگائے وہ اپنے گزرے وقت کی محرومیوں اپنے دل میں موجود احساسات کو صنم پہ عیاں کرنے لگا ۔۔۔۔۔ صنم۔خاموش سی اسکی کر بات کو سنتے سن سی پڑ گئی۔ بھلا کیا جواب تھا اسکے پاس ۔۔۔۔۔۔۔ وہ تو خود ہی حالی ہاتھ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔


___________________


آؤ زین ۔۔۔۔۔۔۔ بڑی دیر لگا دی مہرباں آتے آتے ۔۔۔۔۔۔۔” قدموں کی آہٹ سنتے ڈرنک کے گلاس کو اپنے دائیں ہاتھ میں ہلاتے وہ مسکراتا بولا تھا ۔۔۔۔۔۔


زین یوسف چلتے صوفے کی جانب بڑھنے لگا مگر نظریں جیسے ہی صوفے کے پیچھے پڑے اس بیڈ پہ گئیں اسکا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا ۔۔۔۔۔۔


” واہ واہ کمال کر دیا تم نے سمیر ۔۔۔۔۔۔ اب تو اس ابتہاج کو ختم کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی اسکی بیوی کے غائب ہونے پر ہی وہ مر جائے گا اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے ۔۔۔۔۔۔”


بیڈ پہ رسیوں میں جکڑی ماہا کے بےہوش وجود کے قریب جاتا وہ مسکراتا اپنی جیت پہ قہقہہ لگا اٹھا ۔۔۔۔ سمیر ایک طرفہ مسکراتے اسکی پشت کو دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔


” اتنی آسانی سے تھوڑے ناں مارے گے اسے ۔۔۔۔۔۔ ابھی اسکے تڑپنے کے دن ہیں۔۔۔۔وہ روئے گا چلائے گا اسے ڈھونڈے گا ۔۔۔۔۔مگر اس کی ماہا میرے برو کی ماہا اسے کہیں نہیں ملے گی۔۔۔۔کیوں ماہا تھم تو گھائب(غائب) کو گئی ۔۔۔۔۔


سمیر سرشار سا مسکراتا یوسف کے قریب جاتے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھتے جھکتے ماہا کے کان میں سرگوشی کرتا یوسف کو مسکرانے پہ مجبور کر گیا ۔۔۔۔۔


ماہا کا وجود ڈرگز کی ہیوی ڈوزز کی وجہ سے سن سا پڑا تھا سمیر کی اواز اسکے کانوں میں گونج رہی تھی مگر بھاری ہوتی آنکھیں کھول پانا نا ممکن تھا۔۔۔۔۔


اسکا سر درد سے پھٹ رہا تھا مگر وہ ہل نہیں پا رہی تھی ۔۔۔۔۔ سمیر اسے صبح سے اب تک جانے کتنے ہی ہیوی ڈرگز کی ڈوزز دے چکا تھا جس کے باعث اسکا پورا وجود سن سا ہوا پڑا تھا ۔۔۔۔۔۔


آہہہ ۔۔۔۔ِ ویسے حسین تو ہے یہ بھی مگر کیا کریں ہمارے کام کی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ” یوسف نے اسکے معصوم چہرے کو دیکھتے جلے انداز میں کہا تھا تو سمیر نے لب بھینجتے سگریٹ سلگایا۔۔۔۔۔۔

ہمممممم جانتا ہوں اس ابتہاج کے بچے کو لیے گھوم رہی ہے یہ ۔۔۔۔۔۔۔ وہ نفرت سے کہتا دھواں فضا میں خارج کرتے سر جھٹک گیا ۔ مگر اس میں اتنی بڑی بات تو نہیں ہم اس کے جسم کو اس قدر برا بنا دیں گے کہ اگر کبھی اس ابتہاج کو یہ ملے بھی تو اسے نفرت ہو جائے اس کے وجود سے وہ گھن محسوس کرے گا اس سے ۔۔۔۔۔ ”


سمیر نے کچھ سوچتے زین یوسف کو دیکھے آنکھ دباتے ہوئے کہا تو وہ بھی متجسسس سا اسے دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔۔


تبھی سمیر نے سگریٹ اسکے سامنے کیے ماہا کی گردن کے قریب اس قدر زور سے لگایا کہ اسکا سن بےسودھ پڑا وجود بھی اذیت درد سے لرزا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔اسکے خشک سفید پڑے ہونٹ ہلے تھے وہ اس ظالم کو شدت سے یاد کرنے لگی اسکی آنکھوں سے آنسوں بہنے لگے مگر اس میں ہلنے کی سکت تک نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔۔


وہ جانور وخشی اسکے وجود کو پوری طرح سے سگریٹ سے جلاتے راکھ کرنے لگے ۔۔۔۔۔ ماہا کا پور پور اذیت میں تھا۔۔۔۔۔۔۔ اسکی گردن بازوؤں پہ وہ حیوان سگریٹ سے تشدد کرتے اسکے ساتھ ساتھ اسکی روح کو بھی جلا رہے تھے بری طرح سے۔۔۔۔۔۔۔۔”


_________________


ماہا کہاں ہو تم۔۔۔۔۔۔۔؟”۔ پورا دن در بدر کی خاک چھانتے وہ پاگلوں کی طرح اسے ہر جگہ تلاشتہ اب رات کے ایک بجے نشے میں چور لڑکھڑاتے قدموں سے گھر آیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔


دیکھو ماہا تم یہاں بیٹھی ہو اور میں پاگلوں کی طرح تمہیں ہر جگہ تلاش رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔ ہلکا سا مسکراتے وہ فرش سے اٹھتا صوفے کی جانب بڑھنے لگا ۔۔۔۔۔ جہاں ماہا مسکراتی اسے ہی بلا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔


سوری یار ناراض ہو مجھ سے ۔۔۔۔۔ہو لو جتنا دل چاہے ڈانٹ لو مگر دور مت جایا کرو مجھ سے ۔۔۔۔۔۔ یہ دیکھو یہ یہاں ۔۔۔۔۔ یہاں پہ تکلیف ہوتی ہے بہت ۔۔۔۔۔” اسکے سامنے بیٹھا وہ روتے ہوئے اپنے ہاتھ سینے پہ رکھتے اسے نا دکھنے والے اپنے درد سے روشناس کروانے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔


وعدہ کرو کبھی نہیں چھوڑو گی ۔۔۔۔۔۔ ابتہاج نے نشے میں چور اپنی حدردجہ سرخ پڑتی آنکھوں کو کھولتے اسے دیکھ اسکے چہرے کو ہاتھوں میں بھرنا چاہا تھا مگر ایک دم سے وہ پھر سے غائب ہوئی تھی ۔۔۔۔۔ماہا مم۔ماہا ۔۔۔۔۔۔۔” وہ پھر سے اسکے دور جانے ہے درد تکیلف سے چلا اٹھا ۔۔۔۔۔۔۔۔


ابتہاج کا بکھرا حلیہ لڑکھڑاتی آواز اسکی بےبسی کی داستان سنا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔


جو ماہا کے جانے کے غم میں بالکل ٹوٹ سا گیا تھا۔۔۔۔۔۔ ماہا ۔۔۔۔۔۔۔” ابتہاج نے سامنے دیکھا اسے کر جگہ وہی دکھائی دے رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ وہ ناں ہوتے ہوئے بھی اس میں بسی تھی۔۔بھلا کیسے بھول جاتا اسے وہ۔۔۔۔۔۔ ”


” یہ تو شروعات ہے ابھی ابتہاج ۔۔۔۔۔۔ ابھی تو تمہیں اور ٹوٹنا ہے ۔۔۔۔۔۔ اور رونا ہے۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں تھوڑا تھوڑا کر کے مکمل برباد کر دوں گا میں ابتہاج گردیزی ۔۔۔۔۔۔۔۔” ریلنگ سے ٹیک لگائے وہ سارا منظر دیکھ اب سکون اپنے اندر تک اترتا محسوس کر رہا تھا۔


اپنی الٹی گنتی شروع کر دو ابتہاج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہاری تباہی کی شروعات ہو چکی ہے۔۔۔۔۔” فرش پہ گرے اسکے بےہوش وجود کو دیکھتا وہ نفرت سے پھنکارا۔۔۔۔۔۔

ابتہاج پاگلوں کی طرح ماہا کو ڈھونڈتا پھر رہا تھا اس کی سرخ آنکھیں اانگارے اگل رہی تھیں ماہا کو گھر سے غائب ہوئے آج چوبیس گھنٹے پورے ہو گئے تھے ابتہاج ساری رات لیپ ٹاپ پر کچھ کر رہا تھا کسی کو نہیں پتا تھا کہ ابتہاج کا اگلا قدم کیا ہوگا پر ابتہاج کی خاموشی نے سچ میں سب کو ڈرا دیا تھا صباء بیگم اس کی طبیعت سے بخوبی واقف تھیں جانتی تھیں ابتہاج کی خاموشی کسی طوفان کا پیشہ خیمہ ہے

ابتہاج نک سک سا تیار ہو کر روم سے نکلا تو سامنے ہی صباء بیگم اور سمیر کو ناشتے کی ٹیبل پر پایا ابتہاج کی نظریں چاروں طرف گھوم رہی تھیں چہرہ ہمیشہ کی طرح بے تاثر ۔۔ سمیر بڑی دلجمعی سے ناشتہ کر رہا تھا جب ابتہاج کی کرخت آواز اس کے کانوں میں پڑی جو کہہ رہاتھا کہ

"مسٹر سمیر کل کہاں تھے آپ ؟جبکہ گھر میں اتنی ٹینشن چل رہی ہے "

ابتہاج کی انتہائی سرخ آنکھیں سمیر پر مرقوض اس کے چہرے کے اتار چڑھاو کو جانچ رہی تھیں ۔۔۔۔ ابتاہج کے لہجے میں کانچ کی سی چبھن تھی

ابتہاج کی بات پر اک پل کو سمیر کا جوس حلق میں اٹکا تھا جب ابتہاج اک دم گھوم کےاس کے قریب چلا آیا اور ایک ہاتھ ٹکا کر اس کی کمر پر دے مارا سمیر تو اس کا بھاری ہاتھ پڑتے کراہ اٹھا تھا

اتنا زیادہ بھی مت کرو کہ برداشت سے باہر ہو جائے ۔۔۔ابتہاج اسے جوس کی جانب اشارہ کرتا باہر کی جانب بڑھ گیا

صباء بیگم خود ابتہاج کے رویے سے خائف تھیں مگر ان کو لگا کہ ابتہاج ماہا کی وجہ سے کافی پریشان ہے اس لیے اس طرح کر رہاہے

ابتہاج کب کیا کر جائے یہ کسی کو خبر نہیں تھی ۔۔اس کی عادت تھی وہ اپنی چیزوں کی بے تحاشا حفاظت کرتا تھا اور یہاں تو بات "ابتہاج گردیزی "کی بیوی کی تھی جو اس کے روم روم میں بسی ہوئی تھی ۔۔۔۔ تو کیسے ممکن تھا کہ ابتہاج بے خبر رہتا ۔۔۔

______

صالح آج صنم کو یونی لایا تھا جہاں آتے ہوئے صنم اس کی ہزار منتیں کی تھیں کہ اسے نہیں پڑھنا پر وہ صالح ہی کیا جو اپنے آگے کسی کی سن لے اپنی بات منوا کر ہی اس نے دم لیا صنم برے برے منہ بناتی تیار ہوئی اور بنا اس سے بات کیے روم سے نکلنے لگی نیوی بلیو شارٹ فراک اور وائٹ کیپری میں وہ بے حد معصوم سی گڑیا لگ رہی تھی سر پر خوبصورتی سے حجاب کیے وہ صالح خان کی دنیا تہہ وبالا کر گئی تھی

اس سے پہلے کہ صنم روم سے نکلتی صالح نےاس کی کمر کے گرد بازو حائل کر اسے خود کے قریب کیا انداز نہایت دلبرانہ تھا صنم اب بھی اس سے اپنا آپ چھڑاتی رخ پھیرنے لگی پر ۔۔ وہ بھی صالح خان تھا جس کی ملکیت کو کوئی اس سے دور کرنے کی کوشش کرے تو صالح خان اسے ایسی آگ میں جھونک دے جس سے بچنا نہ ممکن ہو

صالح نے اپنے مضبوط ہاتھ کی انگلیوں سے صنم کا چہرہ اپنی جانب کیا اور مسکراہٹ دباتے اس کے خفا چہرے کو دیکھنے لگا جو اسی کے دیے مان پر آج اس قدر نڈر بنی اس سے ناراض کھڑی تھی


"عورت کے دل میں گھر صرف وہی مرد کر سکتا ہے جس کے دل میں عورت کے لیے عزت ہو کیونکہ ایک عورت محبت سے سمجھوتا کر لیتی ہے اگر اسے اپنا پسندیدہ شخص نہ ملے تو وہ خاموش ہو جاتی ہے مگر اس کی عزت پر آنچ آئے تو وہ زندہ لاش بن جاتی ہے اصل مرد وہ ہے جو کبھی اپنی اپنے نکاح میں آئی عورت کو اس کے ماضی کے تعنوں سے داغدار نہ کرے"


یہی محبت اور عزت صالح خان نے اسے دی تھی زمین سے اٹھا کر آسمان بنا دیا تھاصنم کے روم روم کو اپنا اس قدر عادی بنا لیا تھا کہ اب وہ ذرا سی دوری پر تڑپ سی جاتی تھی رات کے کسی پہر صنم کی آنکھ کھلتی تو صالح کو قریب ناں پاتے وہ سہم سی جاتی تھی۔ صالح کی موجودگی اسکی سانسوں اسکی روح تک کیلئے ضروری تھی ۔ صنم کا اپنے لیے یہ حساس رویہ صالح بخوبی محسوس کر پا رہا تھا جبھی اسنے بہت سوچ سمجھ کے صنم کو یونی میں داخل کروانے کا سوچا تھا ۔۔

وہ نہیں چاہتا تھا کہ صنم پوری طرح سے اس پر ڈیپنیڈ ہو کے رہ جائے وہ چاہتا تھا کہ اگر کبھی صالح خان اسکے ساتھ ناں بھی ہو تو وہ خود سے اپنا بچاؤ کر سکے دنیا کی سرد و گرم سے خود کو مخفوظ رکھ سکے ۔۔۔۔


اگر ایسے منہ بناؤ گی تو قسم سے کچھ غلط کر بیٹھے گا یہ پاگل عاشق ۔۔۔۔۔۔” اپنے بائیں ہاتھ کی پشت سے صنم کے گلابی ہونٹوں کو چھوتے وہ مدہوشی سے بولا تو صنم نے خفگی سے اسے دیکھا ۔۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی مقابل نے ایک دم سے اسکے ہونٹوں پہ اپنے دہکتے ہونٹ رکھتے اسے خود سے بے انتہا قریب کر لیا۔۔ صنم آنکھیں میچے اس کی شدتوں کو سہتے بے دم سی ہونے لگی مگر صالح کا مضبوط ہاتھ اسکی کمر کے گرد حائل اسے گرنے سے روکے ہوئے تھا۔


تمہیں کچھ اچھا سوچنا چاہیے اپنے بچاؤ کیلئے جانم وگرنہ اس اکیلے سنسان گھر میں یہ صالح خان تو تمہاری جان پہ بن آئے گا۔۔۔۔۔۔ صالح کے ہونٹ صنم کے گال پہ گستاخیاں کر رہے تھے جبکہ صنم تو اسکے کندھوں کو تھامے گہرے سانس بھرتے رہ گئی۔۔۔۔ آخر کار بشمکل اس سے جان چھڑواتے وہ منت سماجت کرتے باہر آئی تھی۔۔۔ مگر صالح ادھار چھوڑتے احسان کرتا اسکے پیچھے ہی روم سے نکلا۔


اچھے سے دل لگا کے پڑھنا ۔۔۔۔ کسی سے بھی ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ، تم صالح خان کی بیوی ہو صنم صالح خان جو کوئی بھی تنگ کرے اسے منہ توڑ جواب دینا اور ایک اچھا سا دن گزار کے جلدی سے گھر واپس آنا تمہارا صالح تمہارا انتظار کرے گا۔۔۔


یونی جاتے ہی صالح فارمیلٹیز پوری کیے صنم کا ہاتھ تھامے کلاس تک آیا تھا۔۔۔جو بوجھل سے قدموں سے چلتی منہ پھلائے ہوئے تھی۔۔۔


بیسٹ آف لک اور اللہ خافظ______” صنم کہ پیشانی پہ بوسہ دیے وہ اسے وش کرتا تیزی سے وہاں سے نکلا تھا تھا۔۔۔


صنم نے مڑتے پانی بھری نگاہوں سے اس ظالم کو دیکھا جو اسے اپنی عادت لگائے اب یوں چھوڑ کے جا رہا تھا۔۔


________


” مسلسل دو گھنٹوں سے وہ جھنجھلاتے ہوئے گاڑی میں بیٹھا کب سے کال کے انتظار میں تھا کہ اچانک سے اس کا فون رنگ ہوا۔ ابتہاج نے سرد نظروں سے آس پاس دیکھ کال پک کی ۔۔


” تو میرا شک سہی تھا ان سب کے پیچھے یہی کمینہ تھا ۔۔ آج تجھے پتہ چلے گا توں نے ابتہاج گردیزی کی عزت پہ ہاتھ ڈال کے کتنا بڑا گناہ کیا ہے ۔۔۔ فون پہ گرفت مضبوط کرتے وہ غصے سے پھنکارتے موبائل ایک جانب پٹھکتے گاڑی سے نکلا۔۔۔۔۔


اسکے نکلتے ہی پیچھے موجود گاڑی سے دو افراد فورا سے نکلتے اسکے دائیں بائیں ہوئے ۔

ابتہاج نے سرد لہو مانند نظروں سے سامنے اس سنسان سی کھنڈر بنی عمارت کو گھورا اور ساتھ ہی بیلٹ سے گن نکالتے وہ لب بھینجتا آگے بڑھا تھا ۔۔ اسکے بھاری قدموں کے ساتھ ہی وہ دونوں بھی بشمکل سے اسکے ہمقدم ہو رہے تھے جو رات بھر سے کسی تپتی آگ میں جھلسا رہا تھا۔


عمارت کے قریب جاتے ہی ابتہاج نے ان دونوں کو اشارہ کیا اسکا اشارہ ملتے وہ دونوں ایک دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب گھومتے غائب ہوئے تھے ابتہاج نے ماتھے پہ بل ڈالے اس عمارت کے بند سیاہ فام دروازے کو عجیب سی نظروں سے گھورا اور ایک ہی وار کرتے دروازے کو جھٹکے سے کھولا تھا کہ اندر بیٹھے وہ سب بری طرح سے چونکے۔۔۔


اپنی اپنی بندوقیں پکڑتے وہ کھلے دروازے کی جانب رخ کرتے آواز لگائے پوچھنے لگے۔۔۔۔۔ سمیر پیچھے ہی حسب معمول اندر بنے ایک تاریک کمرے میں بیٹھا اطمینان سے ڈرنک کر رہا تھا۔۔ ابتہاج کا رات والا روپ اسکے رگ پہ میں سرور دوڑا گیا تھا مگر وہ ابھی تک ابتہاج سے صحیح طور پہ واقف نہیں تھا۔ وہ جانتا نہیں تھا کہ مقابل جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں تھا بھلا کیسے ممکن تھا کہ ایک چھوٹی سی چیز کے دور جانے پہ ہنگامہ کرنے والا شخص اپنی بیوی کے غائب ہونے پہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرا بیٹھا رہے۔۔۔


” وہ سب بندوقیں لیے اب دروازے کے عین سامنے کھڑے تھے جہاں وہ اطمینان سے ہاتھ پشت پہ باندھے کھڑا تھا۔۔۔۔


اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتے ابتہاج کے ساتھ آئے اسکے آدمی ایک دم سے جھپٹتے ان پہ حملہ آود ہوئے اور تیزی سے ان سب سے بندوقیں چھینتے انہیں ایک جانب جانے کا کہنے لگے۔۔۔


وہ سب ہی حیران سے تھے آخر یہ شخص کون تھا اور اس کے ساتھ آئے وہ پانچوں آدمی اب کافی اچھے سے انکی دھلائی کر رہے تھے۔۔


ابے کون ہے۔۔۔۔۔!” آوازوں سے ڈسٹرب ہوتے وہ غصے سے جھنجھلاتے باہر نکلا تھا ۔ ابتہاج نے گردن گھمائے سمیر کو خونخوار نظروں سے گھورا تو وہ ایک دم سے گڑبڑا گیا مگر پھر کچھ سوچتے وہ خود کو مضبوط بنائے آگے بڑھا۔۔


تجھے کیا لگتا ہے کمینے کہ اگر توں مجھ سے میری ماہا کو دور کرے گا تو میں ہاتھ باندھے بیٹھا رہوں گا کیا اتنا بچہ سمجھا ہے توں نے مجھے ۔۔۔ غصے ، نفرت سے قدم اسکی جانب لے جاتے وہ غراتے لہجے میں چلاتے ایک دم سے سمیر کو خوف میں مبتلا کر گیا۔۔


ابتہاج وہاں اس شاپ پر چلتے ہیں پلیز______ اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے الجھے ابتہاج کے ہاتھ پر دباؤ بڑھاتے وہ تقریباً اسے کھینچنے کے سے انداز میں ایک شاپ کی جانب اشارہ کرتے بولی تو ابتہاج نے محبت سے اسے دیکھا ۔۔۔ میں چلوں گا مگر بدلے میں مجھے کیا ملے گا ۔۔۔ اسکے ایک ہاتھ میں شاپنگ بیگز تھے جو ابھی ماہا نے سارا بازار گھومتے شاپنگ کی تھی ۔۔۔۔۔۔


'ایک تو آپ ہر بات میں ایسے شرطیں کیوں رکھ دیتے ہیں کبھی بنا کسی غرض سے بھی بات مان لیا کریں ۔۔۔وہ منہ بناتے ناراضگی سے کہتے منہ پھیرے کھڑی ہوئی تو ابتہاج نے لب کا کونہ دانتوں تلے دبائے اسے دیکھا ۔۔۔ " جب بیوی اتنی خوبصورت اور جان لیوا ہو تو پھر بندے کا دل بار بار فرمائشی تو ہو گا ہی ناں۔۔۔۔۔۔" وہ جھکتے اسکی گردن میں اپنا بازو ڈالے اسے کھینچتے اسکی پشت خود سے لگائے محبت سے سرگوشی کرتے بولا۔ ۔۔


تو ماہا بلش کرنے لگی ۔۔۔ اسنے خفگی سے اپنی گردن سے ابتہاج کا بازوؤں نکالنا چاہا ۔۔ " اوکے ایسا کرتے ہیں پہلے اس شاپ پر لے چلتا ہوں جو شاپنگ کرنی ہے کر لو اسکے بعد ہم سیدھا ہوٹل جائیں گے جہاں صرف میری مرضی چلے گی ۔۔۔۔ وہ محبت سے اسکی پیشانی پہ بوسہ دیے گہرے لہجے میں بولا تو ماہا کے گال دہکنے لگے ۔۔۔۔۔ابتہاج اسکے کندھوں کے گرد اپنا مضبوط حصار بنائے اسے خود سے لگائے شاپ کینجانب بڑھا ۔۔۔۔۔


صالح کوئی حد ہوتی ہے ہم یہاں ایک ساتھ گھومنے آئے ہیں مگر آپ نے مجھے ایک بار بھی اپنی بہن سے نہیں ملنے دیا ۔۔۔۔ صالح کے سامنے منہ پھلائے وہ کھانے کو گھورتے ناراضگی جتاتے اپنےدونوں ہاتھ سینے پر باندھے بولی تو صالح نے بغور اسکے روٹھے روٹھے تیور دیکھے، وہ یہاں پر ہنی مون منانے ایک ساتھ نکلے تھے مگر یہاں مری میں پہنچتے ہی صالح اور ابتہاج نے ان دونوں کو ملنے تک نہیں دیا تھا۔۔


صنم نے بارہا کہا تھا کہ صرف ایک مرتبہ اسے ملنے دے مگر صالح اپنی ضد پر قائم تھا وہ اپنے ہنی مون میں اپنی پرائیویسی میں کسی کا بھی ذکر یا پھر موجودگی نہیں چاہتا تھا ۔۔۔ اور کچھ ایسی ہی سوچ ابتہاج کی تھی جبھی وہ دونوں اپنے پلین کے مطابق ان دونوں کو گھمانے لے جانے سے پہلے آپس میں جگہ کنفرم کر لیتے تھے۔۔جانتے جو تھے اب کی بار ملی یہ بہنیں ان دونوں کا سارا ہنی مون سپائل کر دیں گی ۔۔۔۔


چلو جلدی سے ڈنر فنش کرو پھر کہیں گھومنے چلتے ہیں اسکے موڈ کو ٹھیک کرنے کی خاطر صالح نے پچکارتے ہوئے صنم کے گال کو چھوا تو وہ خفا سی نظروں سے اسے گھورتے خاموشی سے کھانا کھانے لگی_


_______________

ابتہاج مجھے لگتا ہے کہ اب ہمیں واپس چلنا چاہیے جتنے دن ہو گئے ہیں ، یہاں آئے۔۔۔۔۔۔۔ " ہاتھ میں پکڑے بیگز کو بیڈ پر رکھتے وہ تھکاوٹ سے چور لہجے میں بولی تو ابتہاج نے دروازہ لاک کرتے ائبرو اچکاتے مڑتے اسے گھورتے دیکھا۔۔ ابھی تو ہم نے ٹھیک سے انجوائے بھی نہیں کیا جان اور تمہیں واپس جانے کی پڑی ہے۔۔۔۔ابھی تو تمہیں شاپنگ کرواتے ہی یہ دو چار دن گزرے ہیں ۔۔ مگر میں نے سوچ لیا ہے کہ اب سے ہم کہیں نہیں جا رہے ، کیونکہ اب سے یہ سارا وقت صرف اور صرف میرا ہے ۔۔۔


ابتہاج نے کھینچتے اسے اپنے قریب تر کرتے گہرے لہجے میں کہا تو ماہا شرم سے دہکتا اپنا گلال چہرہ اسکے سینے میں چھپا گئی ۔۔۔ ابتہاج نے قہقہ لگاتے اسکے چہرے کو ہاتھوں میں بھرا تو ماہا کی پلکیں ہمشیہ کی طرح ابتہاج کی قربت میں لرزنے لگیں ۔۔۔۔ ابتہاج گہری بےباک نظروں سے اسکے معصوم چہرے کو دیکھتے جھکتے اسکے نازک ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں قید کرتے ماہا کی خؤشبو کو خود میں اتارنے لگا ۔۔۔۔۔۔ ماہا بھی اسکے لمس اسکی قربت پر آنکھیں موندیں خود میں اترتی اسکی دہکتی سانسوں اپنے ہونٹوں پر اسکی جنون بھری گرفت پہ اپنے دونوں ہاتھوں سے اسکے کالر کو دبوچے ابتہاج کے سہارے کھڑی تھی۔۔۔۔۔


ابتہاج نے اپنی شدتوں سے اسے نڈھال کرتے پیچھے ہوتے ماہا کا دہکتا سرخ چہرہ دیکھ اسے نرمی سے اٹھائے بیڈ پر لے جاتے لٹایا ۔۔۔۔ تو ماہا نے گہری سانس بھرتے آنے والے لمحات کے لئے خود کو تیار کیا۔۔۔۔ ابتہاج اسکی گردن پر جھکا اپنی محبت سے اسے بھگونے لگا ، ماہا کا سانس ابتہاج کی بڑھتی شدتوں پہ بھاری ہونے لگا ۔۔۔ ابتہاج اسکے نازک وجود میں کھویا بالکل مدہوش سا تھا۔۔۔۔۔ کہ اچانک کمرے میں گونجتی اسکے موبائل فون کی رنگ پر ابتہاج نے سخت گیر نظروں سے میز پر پڑے اپنے موبائل کو گھورا۔۔۔۔


وہ اگنور کیے پھر سے ماہا پر جھکنے لگا کہ ماہا نے اسکے ہونٹوں پر ہاتھ رکھا۔۔۔ابتہاج اسکے دائیں بائیں تکیے پر ہاتھ ٹکائے اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔ پہلے کال پک کریں۔ کیا پتہ کوئی ضروری کال ہو۔۔۔۔۔" ماہا نے معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے کہا تو ابتہاج نے سر کو نفی میں ہلاتے اسے گھورا ۔۔۔ جانتا ہوں بس مجھ سے بچنے کے بہانے تلاشتی رہتی ہو، دومنٹ رکو ابھی کرتا ہوں تمہیں سیٹ۔۔۔۔۔ ابتہاج نے وارن کرتے لہجے میں اسے سخت نظروں سے گھورا تو ماہا اپنا حلیہ ٹھیک کرتے کروان سے ٹیک لگائے ابتہاج کی چوڑی پشت کو دیکھنے لگی ۔۔جو اب فون پر کال بیک کر رہا تھا ۔۔۔۔


کیوں کیا ہوا ہے سب کچھ ٹھیک تو ہے ۔۔۔۔؟" ابتہاج کی آواز میں بے چینی فکر گھلی دیکھ ماہا اٹھتے اسکے قریب ہوئی اور نرمی سے ابتہاج کے کندھے پر ہاتھ رکھا ابتہاج جو دلاور صاحب کے یوں ایمرجنسی میں بلانے پر پریشان سا تھا اسنے جبرا مسکراتے ماہا کو ریلکیس کرنا چاہا جو کافی پریشان ہو چکی تھی ۔۔۔۔ اوکے انکل ہم ابھی نکلتے ہیں آپ پریشان ناں ہوں۔۔۔۔۔۔


وہ کال کٹ کرتے مرا تو ماہا کے خوف سے زرد پڑتے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں بھرا۔۔۔۔ کیا ہوا میری جان سب کچھ ٹھیک ہے پریشان ناں ہو تم۔۔۔۔۔۔ ضرور کوئی ایمرجنسی ہو گی بزنس کا ورک ہو گا کیونکہ ماما پاپا بھی عمرے کیلئے گئے ہیں تو پیچھے سے ہم بھی اتنا برڈن ڈال کر نکل آئے ہمیں یوں نہیں آنا چاہے تھے ۔۔۔۔ ماہا کو سینے میں بھینجتے ابتہاج نے اسکی پیٹھ سہلاتے اسے نارمل کیا۔۔۔۔


ویسے بھی اب گھوم پھر تو لیا ہے تم ایسا کرو سامان پیک کرو میں صالح اور صنم کو بلا لوں ایک ساتھ ہی واپسی پر نکلیں گے ۔۔ ماہا کی پیشانی کو چھوتے وہ اسکا گال تھپتھپاتا روم سے نکلا۔۔۔۔۔ پیچھے وہ سب بہتر ہونے کی دعا کرتی جلدی سے سامان سمیٹنے لگی ۔۔۔۔۔


اگلے آدھے گھنٹے میں وہ سارا سامان گاڑی میں رکھ چکے تھے صالح اور صنم بھی آ چکے تھے وہ ایک ساتھ ہی واپسی پر نکلنے والے تھے ۔۔۔۔۔۔


_____________


اببب ابتہاج۔۔۔۔۔۔" صبح کے چھ بجے تک وہ واپس گھر پہنچے تھے راستے میں صنم کی صحت کے باعث وہ کافی دیر سوئی رہی تھی مگر ماہا ایک پل کیلئے سو نہیں پائی تھی اتنا تو وہ جانتی تھی کہ ضرور کچھ بڑا ہوا تھا جبھی پاپا نے انہیں یوں اچانک سے واپس بلا لیا تھا ۔۔۔۔۔


جونہی گاڑی گیٹ سے اندر داخل ہوئی تو سامنے اپنے لان میں اتنے سارے لوگوں کو اکٹھا دیکھ ماہا نے ڈرتے ابتہاج کے بازوؤں کو مضبوطی سے تھاما تو ابتہاج نے چہرے پر حیرانگی خوف سموئے اپنے سامنے سے روتے ہوئے آتے دلاور شاہ کو دیکھا ۔۔۔ صالح اور صنم خود بھی پریشان تھے اخر ایسا کیا ہوا تھا کہ وہ یوں رو رہے تھے اور اتنے سارے لوگ کیوں اکھٹے تھے انکے گھر پر ______؟"


ابتہاج میرے بچے۔۔۔۔۔ دلاور شاہ سب کو حیرت زدہ چھوڑتے ابتہاج کے پاس آتے اسے گلے لگائے رونے لگے۔۔ ابتہاج کا دل خوف سے تیز تیز دھڑکنے لگا۔۔ اسنے بنا وقت ضائع کیے انہیں پکڑتے خود سے دور کیا اور انجان نظروں سے انہیں دیکھتا وہ ان لوگوں کے پاس جانے لگا۔۔۔۔ آپ سب کیوں اکھٹے ہوئے ہیں یہاں ۔۔۔ جائیں پلیز سب جاؤ اپنے اپنے گھر ۔۔۔۔وہ غصے سے کہتا دلاور شاہ کی جانب دیکھنے لگا ماہا کی ٹانگیں ڈر سے کانپ رہی تھی وہ کچھ بھی برا نہیں سننا چاہتی تھی ۔۔۔

" انکل بھیجیں ان سب کو_____" اسکی آنکھوں میں ایک ان دیکھا خوف تھا جیسے کچھ ہونے والا ہو بہت ہی برا ۔۔۔۔۔۔!"


بیٹا یہ سب تمہارے پاس تعزیت کیلئے آئے ہیں ۔۔۔۔۔!" دلاور شاہ نے آنکھیں پونچھتے ابتہاج کے کندھے پر ہاتھ رکھتے کہا تو سبھی حیرانگی سے انہیں دیکھنے لگے ۔۔۔ابتہاج نے حیرانگی سے زیر لب یہ لفظ دہرایا ، ککک کس لیے کک کس کی تعزیت ان سب کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے پلیز آپ سس سب جائیں اپنے گھروں میں۔ ۔۔۔۔ ۔۔ اسکے قدم لڑکھڑا رہے تھے دماغ سائیں سائیں کرنے لگا سینے میں ایک دم سے درد کی ٹیس سی اٹھی تھی وہ دل ہی دل میں اپنے رب سے دعا گو تھا کہ یا رب جیسا میرا دماغ سوچ رہا ہے ایسا ویسا کچھ بھی ناں ہو ۔۔۔۔۔۔


" بیٹا یہ سب تمہارے پاس آئیں ہیں کیونکہ کاشان صاحب اور منیبہ بھابھی اب اس دنیا میں نہیں رہے ان کا پلین کریش ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔ " خبر تھی کہ کوئی دھماکے جو ابتہاج کے اعصاب شل۔کر گیا۔۔۔۔اسے ایسا لگا کہ جیسے پورے کا پورا گردیزی ہاؤس اسکے سر کے اوپر گر گیا ہو۔۔۔ قدم ایک دم سے لڑکھرائے تھے وہ بے یقنی سے نیچے گرتا چلا گیا۔۔

ماہا ںے یقینی سے اپنے منہ پر ہاتھ رکھے تھے جبکہ صنم ایک دم سے سن پڑتی صالح کو تھامے کھڑی تھی سبھی اس قیامت پر ٹوٹ سے گئے تھے ۔۔۔۔ابتہاج نے روتے ہوئے اپنے بالوں کو بری طرح سے نوچنا شروع کر دیا ۔۔۔اسکی دھاڑیں اسکی چیخیں پوری ولا میں گونجتے ایک وخشت کربناک ماحول برپا کر گئی۔۔


صالح نے آگے بڑھتے اسے سنبھالنا چاہا تھا جو بری طرح ٹوٹ کے بکھرا تھا۔۔۔۔اسکی حالت دیکھ ہر آنکھ اشکبار تھی۔ ۔۔ ہر چہرہ اداس تھا مگر ماہا تو اپنی جینے کی وجہ کو اس حال میں دیکھتے ہی اندر سے ٹوٹ چکی تھی۔۔۔۔ وہ کیسے سنبھالتی خود کو اس کیلئے تو یہ سب یقین کر پانا بھی ناممکن تھا ۔۔


دلاور صاحب نے آگے بڑھتے اسے سہارہ دیا تو ابتہاج نے ضبط سے اپنی سرخ پڑی آنکھوں سے دلاور صاحب کو دیکھا ۔۔۔ لوگ حیرانگی سے اسے دیکھ رہے تھے وہ خود انجان تھے کیا ابتہاج اس خبر سے انجان تھا۔۔۔ ابتہاج نے اٹھتے دلاور صاحب کو دیکھا جو اسے سینے سے لگائے اسے دلاسہ دینے لگے۔۔۔۔


ابتہاج سرخ آنکھوں سے لب بھینجے اپنے آپ پر ضبط کرتے انکے ساتھ لگے کھڑا تھا ۔۔ یہ دلاسے یہ تسلیاں یہ افسوس اسکے غم کو کم نہیں کر سکتا تھا۔۔ وہ بظاہر تو ان سب کے بیچ کھڑا تھا مگر اسکا ذہن بری طرح معاوف ہو چکا تھا۔

________

صالح اور صنم یہی تھے ماہا کے پاس ۔۔۔۔ ابتہاج جانے کب سے اپنے آپ کو روم میں لاک کیے ہوئے بیٹھا تھا ۔۔۔ خوشیوں سے چہکتے اس پررونق گھر میں صف ماتم بچھا ہوا تھا۔ خاموشی نے ایسا ڈیرا ڈالا تھا کہ اب یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اس وخشت ناک ماحول میں کوئی ذی روح آباد نہیں تھا۔۔۔۔


ہر کوئی شاک میں تھا مگر ابتہاج کا غم ایسا تھا کہ وہ خود کو اس سے نکال نہیں پا رہا تھا ۔۔۔۔ ماہا _______ ماہا جو جانے کب سے اپنے کمرے میں اداس سی بیٹھی تھی صنم ہاتھ میں کھانے کا ٹرے لیے اندر آتے ہی اسے پکارنے لگی ۔۔۔۔ ماہا نے نم سرخ آنکھوں سے اسے دیکھا ۔۔۔۔۔ تو صنم گہرا سرد سانس فضا میں خارج کرتے اسکے قریب جاتے اسے خود سے لگایا ۔۔


صنم یہ سس سب۔۔۔۔۔ یہ سب کیسے ہو گیا پاپا ماما وہ کیوں چلے گئے ہمیں چھوڑ کے ۔۔۔۔اسکے سینے سے لگے وہ غم زدہ سی ہوتے بولی تو صنم نے اسکی پیٹھ تھپکتے اسے ساتھ لگایا ۔۔ماہا اس دنیا میں جو بھی انسان آیا ہے اسکے واپس جانا ہی ہے میری جان۔ خود کو سنھبالو اگر تم ہی ایسے ٹوٹ جاؤ گی تو کون سنبھالے گا ابتہاج کو اسے ضرورت ہے تمہاری ۔۔۔۔۔۔ صنم نے اسے پیار سے سمجھایا تھا۔۔ وہ خاموشی سے سنتی ابتہاج کے دکھ ہر پھر سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔۔


بس کرو ماہا میری جان صبح سے بھوکی ہو چلو کچھ کھا لو _____" اسکے چہرے سے بال سمیٹتے، وہ محبت سے بولی تو ماہا نے سر نفی میں ہلا دیا ۔۔۔ ابتہاج دکھی ہے صنم______ بھلا میں کیسے کھانا کھا سکتی ہوں ۔۔۔۔۔۔ اپنے آنسوں پونچھتے وہ صنم کو دیکھے معصومیت سے بولی تو صنم نے محبت سے اسکی پیشانی پر ہونٹ رکھے ۔۔۔

تمہاری اپنی طبیعت ٹھیک نہیں۔ تم اور صالح سو جاؤ میں ابتہاج کے پاس جا رہی ہوں ۔۔۔۔ وہ صنم کو بتاتے تیزی سے بیڈ سے اتری تو صنم نے دور تک اسکی پشت کو دیکھا ۔۔۔


___________


وہ جانے کب سے اپنے آپ کو لاک کیے اندر بیٹھا تھا ۔۔۔ بکھرے حلیے میں سرخ نظروں سے وہ ایک ہاتھ میں سگریٹ پکڑے بیڈ کے پاس نیچے بیٹھا اپنے دوسرے ہاتھ سے اپنی گود میں رکھی اپنے موم ڈیڈ کی تصویر کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ انکے ساتھ گزارا ایک ایک لمحہ اپنے پاپا کی خوشی سے چمکتی انکھیں انکے آخری لمس اپنی ماں کا محبت سے ماتھے کو چھونا ۔۔۔ اپنی گود میں رکھی اپنے ماما پاپا کی مسکراتی تصویر کو چھوتے وہ اذیت سے دوچار تھا ۔۔۔۔۔


کیسا بدنصیب بیٹا تھا وہ جو آخری بار انکو دیکھ بھی نہیں سکا تھا۔۔۔۔ ہاتھ میں جلتا سگریٹ اسکی انگلیوں کو جلا رہا تھا۔۔ مگر ہوش کسے تھا وہ تو بالکل بکھر سا گیا تھا ۔۔۔۔۔ بس وجود میں جان باقی تھی ۔۔۔۔ مگر تکیلف اور غم نے اسے بےموت اذیت سے دوچار کر دیا تھا۔۔۔۔


ماہا جو بے آواز دروازہ کھولتے اندر داخل ہوئی کمرے میں سگریٹ کے پھیلے بےتخاشہ دھوئیں کی وجہ سے اسکا سانس سینے میں الجھ سا گیا تھا ۔۔۔۔ آنکھوں میں اس قدر دھوئیں کہ وجہ سے پانی آنے لگا، وہ منہ پر کپڑا رکھتے آگے بڑھی تھی اور خاموش بت بنے ابتہاج کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ماہا نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا تو وہ حالی حالی نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔۔


اسکی بکھری اذیت ناک حالت ماہا کی آنکھوں میں ایک دم سے جانے کتنے آنسوں آئے تھے وہ تیزی سے اسکے قریب بیٹھتے ابتہاج کے چہرے کو ہاتھ کے پیالے میں بھرتے اسکے آنسوں صاف کرنے لگی۔۔۔۔ ابتہاج نے سرخ نظروں سے اسے دیکھا جو اسکے غم۔میں اسی کی طرح بے تخاشہ رو رہی تھی۔۔۔ ابتہاج نے ایک دم سے اسے کھینچتے اپنے سینے میں بھینجا کہ اس افتاد پر جہاں ماہا سہم گئی تھی وہیں ابتہاج کا جنون اسے مزید ہولا گیا تھا۔۔۔۔۔۔

ابتہاج کے انسںوں ماہا کے کندھے پر گرتے اسکی گردن میں جذب ہونے لگے۔۔۔۔اسکی بکھری حالت ماہا کو مزید بےچین کر گئی۔۔۔۔ ماہا نے اپنے نازک ہاتھوں سے اس چوڑے جوان مرد کے کندھوں کو تھامے اسے اپنے ہونے کا یقین حوصلہ مان دیا تھا۔۔۔۔۔ ماہا میری ماما پاپا وہ چلے گئے مجھے چھوڑ کر ۔۔مم ماہا ۔۔۔۔ دیکھو سب کچھ ختم ہو گیا ہے تمہارا ابتہاج اکیلا پڑ گیا بے بس ہو گیا میں ۔۔۔۔کتنی محبت کرتے تھے وہ دونوں مجھ سے تم سے ۔۔۔۔۔ مگر میں انہیں نہیں بچا پایا ۔۔۔۔


ابتہاج کا ہر لفظ ماہا کو مزید دکھی کر رہا تھا ، وہ آگے ہی اس غم سے بری طرح سے بے حال تھی مگر ابتہاج کہ حالت اسے مزید کمزور کر گئی تھی ۔۔۔ اج پہلی بار ابتہاج کو یوں روتا دیکھ اسکی تکلیف کو خود میں بھی محسوس کرتے ماہا کے ہونٹ جیسے سل گئے تھے کوئی لفظ نہیں بچا تھا جیسے اسکے پاس ۔۔۔۔۔ ابتہاج نے ایک دم سے اسے چھوڑتے اپنے آنسوں صاف کیے تو ماہا نے اسکے کندھے پر اپنا سر رکھ دیا۔۔۔۔۔۔


ابتہاج پلیز آپ خود کو سنبھالیں۔۔۔۔۔ یہ وقت خود کو مضبوط بنانے کا ہے ۔۔۔ اور آپ یہ تو سوچیں کہ وہ اللہ کی راہ کیلئے نکلے تھے کتنے خوش نصیب تھے ہمارے ماما پاپا جو ان کو اللہ پاک نے اس راہ میں جاتے ہوئے اپنے پاس بلا لیا ۔۔۔۔ کیونکہ مرنا تو ہم سب نے ہے مگر ایسی موت تو اللہ کے پیاروں کو نصیب ہوتی ہے۔۔


ابتہاج کے سینے سے لگی وہ اپنے لفظوں سے اسکے زخموں کو بھرنے کی کوشش کرنے لگی۔ ابتہاج نے آنکھیں موندے خود کو مضبوط بنانے کی کوشش کی۔۔۔۔۔


ماں باپ ہی اولاد کا سکون انکا سہارہ ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔ انکی محبت کی چھاؤں تلے ہمیں ہر دکھ ہر تکلیف چھوٹی سی بے ضرر لگتی ہے مگر یہی ماں باپ ہم سے دور چلیں جائیں انسان کو اپنا آپ حالی حالی سا لگنے لگتا ہے ۔۔۔ جیسے وہ سب کچھ پا کر بھی اپنی روح کو کھو چکا ہو۔۔۔


_____________


ماہا کیسی ہے اب۔۔۔۔۔" صنم کے پاس بیٹھتے صالح نے کھینچتے اسے اپنی گود میں بٹھائے پوچھا ۔۔۔۔ تو صنم نے سرد سانس خارج کرتے افسردگی سے اپنا سر صالح کے سینے سے لگایا ۔۔۔۔۔ وہ ٹھیک ہی ہے صالح مگر ابتہاج ٹھیک نہیں وہ اس اچانک ہوئے حادثے پر بالکل ٹوٹ سا گیا ہے ، ۔۔۔ " ہم کیسے سب کچھ ٹھیک کریں گے۔۔۔۔ " صنم کافی متفکر تھی وہ جانتی تھی کہ اس وقت ماہا اور ابتہاج دونوں کو ہی انکے سہارے اور انکے ساتھ کی ضرورت تھی۔۔۔۔


ہم کچھ بھی ٹھیک نہیں کر سکتے میری جان ۔۔۔۔وہ اوپر بیٹھا ہم سب کا مالک وہی ہے جو سب کچھ ٹھیک کر سکتا ہے۔۔۔۔ انشاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا ابھی اسکا غم تازہ ہے اسے وقت لگے گا ان سب سے نکلنے میں مگر تم پریشان مت ہو ۔۔۔۔سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔۔۔ ہم ساتھ ہیں انکے ۔۔۔۔۔ کچھ نہیں ہو گا ان دونوں کو۔۔۔۔۔۔ صنم کی پیشانی پر لب رکھتے صالح نے اسے محبت سے خود میں بھینجتے کہا تو صنم نے آنکھیں موندتے اپنے رب کا شکر ادا کیا جس نے اسے اتنا خوبصورت ہمسفر عطا کیا تھا ۔۔۔


بیڈ کے پڑے صالح کے موبائل فون نے ان دونوں کو کی اپنی جانب متوجہ کیا۔۔۔۔صنم نے چونکتے موبائل فون کو دیکھا۔۔۔ صالح نے فون اٹھائے نمبر دیکھا تو چونکتے اسنے ماتھے پر بل ڈالے صنم کو ایک جانب کیا تھا ۔۔۔۔

صنم اسے ہی دیکھ رہی تھی جو فون لیے بالکونی کی جانب بڑھا تھا ۔۔۔۔


ہمممم کہیے انسپکٹر صالح نے چونکتے فون کان سے لگائے انسپیکٹر کی کال کی بابت پوچھا ۔۔۔۔۔۔ " مسٹر صالح آپ کے مطابق ہم نے ابتہاج سر کو نہیں بتایا کہ سمیر جیل سے بھاگ نکلا ہے مگر ہم اسے کب سے ڈھونڈ رہے ہیں وہ ہمیں نہیں ملا ۔۔۔۔۔ ہمیں شک ہے وہ کہیں ابتہاج سر کے گھر پر ناں حملہ کر دے تو جب تک ہم۔پہنچتے ہیں پلیز آپ دیکھئے گا ۔۔۔حالات کنٹرول میں رہیں ۔۔۔۔ انسپیکٹر نے صالح کو کال کے متلعق بتایا تو صالح فورا سے کال کاٹتے تیزی سے باہر کی جانب بڑھا۔۔۔۔


کیا ہوا ہے صالح آپ پریشان کیوں ہیں۔۔۔۔؟_ اسکی متفکر سے چہرے کو دیکھتے صنم۔نے بےچینی سے استفسار کیا ۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتا باہر سے آتی چیخوں کی آواز نے اسے اپنی جانب راغب کیا۔۔۔۔۔ صنم اپنا خیال رکھنا اور کمرے سے باہر مت آنا۔۔۔۔ اسکے سر کو تھپکتے وہ تیزی سے کہتا روم سے نکلا تھا۔۔۔۔۔


" صالح صص صالح کیا ہوا ۔۔۔۔۔؟! وہ اسکے پیچھے تیزی سے بھاگتے جانے لگی مگر صالح نے جلدی سے دروازہ بند کیا تھا۔۔۔۔۔


سس سمیر یہ کیا کر رہے ہو تم ۔۔۔ نیچے کرو اسے ۔۔۔۔۔۔۔۔ " ماہا حواس باختہ سی سمیر کے وخشی روپ اسکی آنکھوں میں۔ جھلکتے خون کو دیکھ کر جلدی سے بولی تھی جس کی بے تاثر نظریں ماہا کے پیچھے کھڑے ابتہاج پر تھیں۔۔۔

چپ کر تُو ۔۔۔۔۔۔ اگر اب آواز کی تو پہلی گولی تجھے ماروں گا سمجھی۔۔۔۔۔۔ کتنا کچھ کیا میں نے تجھے برباد کرنے کیلئے سالے مگر تُو پھر بھی ویسے ہی آزاد ہے باکل ٹھیک ٹھاک ۔۔۔۔۔۔ تجھے لگتا ہے کہ سمیر تجھے اتنی آسانی سے چھوڑ دے گا۔۔۔۔ نہیں ابتہاج یہ تیری بھول ہے کہ تو مجھے جیل میں بھجوائے گا اور میں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا رہوں گا ۔۔۔


ابتہاج کی بے تاثر نظروں میں دیکھتا وہ گرجتے خونخوار لہجے میں بولا تو ماہا نے سہمتے ابتہاج کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے۔۔۔۔۔۔۔ وہ اسے کچھ بھی نہیں ہونے دے گی۔۔۔۔ ددد دیکھو سس سمیر ابتہاج کو کچھ مت کرنا پپ پلیز۔۔۔۔۔۔۔ تم مجھے مار دو مگر ابتہاج کو چھوڑ دو پلیز۔۔۔۔۔اسکے آگے بازوؤں پھیلائے وہ منت بھرے لہجے میں بولی تو سمیر بےساختہ ہی قہقہ لگا اٹھا۔۔۔۔


واہ واہ ۔۔۔اسے کہتے ہیں اصل محبت کیا تڑپ ہے۔۔۔۔۔؟ " سمیر ہنستا ماہا کا مذاق اڑاتے ہوئے بولا تو ابتہاج نے غصے سے ماہا کو ایک جانب کرتے اپنے قدم آگے بڑھائے تو اسے اپنی جانب بڑھتا دیکھ سمیر نے ایک دم سے بندوق کا رخ سامنے کرتے ٹھاہ ٹھاہ سے فائر کیے تھے۔۔۔۔۔ کمرے کے وخشت ناک ماحول میں ماہا کی دلدوز چیخیں گونج اٹھی ۔۔۔۔۔۔


______________


ابتہاججججججج__________ " وہ گہری نیند سے پیسنے سے شرابور چیختے ہوئے اٹھی تھی۔ صنم نے تڑپتے اسے سہارہ دیا جو پاگل سی دکھ رہی تھی ۔۔۔۔اسکی آنکھوں کے نیچے سیاہ ہلکے کھلے بال ۔۔۔۔۔۔ آنکھوں کی ویرانی دیکھ صنم کا دل دکھ سے بھر گیا۔۔۔۔۔ ۔

ااببب ابتایج کک کہاں ہے ۔۔۔۔۔ مم مجھے اسکے پاس جانا ہے ۔۔۔۔۔!" اپنے ہاتھ میں لگی ڈرپ کی پن نکالتے وہ چلاتے ہوئے بیڈ سے اٹھی تو صنم نے گھبراتے اسے سنھبالنا چاہا ۔۔ "

ماہا کیا ہو گیا ہے کیوں پاگلوں کی طرح کا برتاو کر رہی ہو ٹھیک ہے ابتہاج۔۔۔۔۔۔۔!"

اسکے بازوؤں کو جھنجھوڑتے وہ اسے ہوش دلانے لگی۔۔ماہا نے سہمی نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔۔ مممم مجھے درد دیکھنا ہے اسے ابھی اسی وقت۔۔۔۔۔۔" صنم کے ہاتھ کو بے دردی سے جھٹکتے وہ پھر سے کمرے سے جانے کو پر تولنے لگی۔۔۔۔


ماہا ہوش میں آؤ مر گیا ہے وہ ۔۔۔۔۔۔۔ " ابتہاج نہیں رہا اب اس دنیا میں مر گیا ہے وہ۔۔۔۔۔۔" اسے بازوؤں سے جھنجھوڑتے وہ اونچی آواز میں چیختے ہوئے بولی تو ماہا نے دہشت زدہ نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔۔۔ اسکی حالت پر صنم تڑپ کے رہ گئی تھی پورے چوبیس گھٹنوں کے بعد وہ ہوش میں آئی تھی صنم۔جانتی تھی کہ یہ سب ماننا ماہا کے لئے آسان نہیں تھا ۔


وہ اتنی جلدی اتنا سب کچھ قبول نہیں کر پا رہی تھی ۔۔۔۔ ایک ساتھ جانے کتنی قیامتیں اس معصوم کے سر پر ٹوٹی تھیں۔۔۔ ماہا۔۔۔۔" چپ کرو تم خاموش ہو جاؤ بالکل پاگل سمجھا ہے کیا مجھے ۔۔۔۔۔؟" خبردار جو میرے ابتہاج کو مرا ہوا کہا۔ ادھر دیکھو میں زندہ ہوں ناں سانسیں چل رہی ہیں میری تو پھر اسے بھلا کیا ہو سکتا ہے۔۔۔؟" میرا دد دل جانتا ہے کہ کہ وہ زندہ ہے ۔۔۔ اسے کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔۔"


وہ بری طرح سے روتی ایک دم سے زمین پر ڈھے سی گئی تھی۔ اسکی بکھری حالت کسی کو بھی تڑپا سکتی تھی۔۔۔صنم تو پھر اسکی بہن تھی۔۔۔۔ صنم نے اسکے قریب بیٹھتے اسے خود میں بھینجا تھا ۔۔۔۔ یہ وقت ان سب کیلئے بے حد مشکل تھا ۔۔۔۔۔صالح جانے کیسے یہ سب کچھ اکیلے سنبھال پا رہا تھا۔۔۔۔۔ مگر ماہا تو آج حالی دامن ہو کے رہ گئی تھی۔۔۔۔


_____________


دو ماہ بعد******


ماہا کھانا کھا لو۔۔۔۔۔" صنم اسکے قریب بیھٹے محبت سے اسکے چہرے پر آتے بالوں کو پیچھے کرتے بولی تھی۔۔۔۔ مگر ہمیشہ کی طرح وہ غصے میں کھانے کی ٹرے کو ہاتھ سے جھٹکتے منہ پھلائے اٹھنے لگی کہ صنم نے اسے ہاتھ سے پکڑتے واپس اپنے قریب بٹھایا ۔۔۔۔ ان دو مہینوں میں ماہا کی حالت دن بدن بدتر ہوتی جا رہی تھی ۔۔۔۔ابتہاج کی یادوں میں وہ اس قدر پاگل ہو گئی تھی کہ اب اسکا ذہنی توازن بگڑنے لگا تھا ۔۔۔ صنم اور صالح کے لیے اسے سنبھالنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔۔مگر وہ اسکے ساتھ تھے۔۔۔۔۔


ماہا تم نے صبح سے کچھ نہیں کھایا۔۔۔۔۔۔ اور جانتی ہو اگر تم نے اب بھی کھانا نہیں کھایا تو بے بی بہت روئے گا۔۔۔۔۔۔ کہ اسکی ماما نے کچھ نہیں کھایا تو وہ کیسے کھانا کھائے گا ۔۔ اسکی تھوڑی سے پکڑتے صنم نے ہمشیہ کی طرح اسے پھر سے سمجھایا تو وہ سوچ میں پڑ گئی ۔۔۔۔


اچھا۔۔۔۔۔ اگر میں کھانا کھاؤں گی تو بے بی کو بھی کھانا ملے گا۔۔۔۔۔وہ اپنے پیٹ کو چھوتے اپنی اداسی سے بھری بے رنگ آنکھوں سے صنم کو دیکھتے پوچھنے لگی تو صنم نے سر ہاں میں ہلایا ۔۔۔۔۔۔ ماہا کو سنبھالنا شاید اتنا مشکل ناں ہوتا مگر جب سے اسکے ماں بننے کی خبر ملی تھی صنم۔اور صالح کی مشکلات بڑھ گئی تھیں ۔۔۔۔ کیونکہ اسکا ذہنی توازن بگڑ چکا تھا۔۔ وہ ہر جگہ ابتہاج کو تلاشتی تھی ۔۔۔۔۔ پوری پوری رات روتے رہنا وقت پر کھانا ناں کھانا یہ سب کچھ اب عام ہو گیا تھا۔


اسکی دن بدن بگڑتی حالت کی وجہ سے اسکی پریگننسی مزید کومپلیکیٹڈ ہو گئی تھی۔۔۔۔۔ جس وجہ سے اب صالح اور صنم کو انکا خیال زیادہ رکھنا پڑ رہا تھا۔۔ صنم۔اسے کھانا کھلاتے اچھے سے کمفرٹر دیے اسے سلائے کمرے سے باہر نکلی تھی ۔۔۔۔


ماہا کتنی دیر تک یونہی کروٹیں بدلتی سونے کی ناکام سی کوشش کرتے آخرکار نیند کی وادی میں اتر ہی گئی تھی ۔۔۔۔


_____________


صنم روم میں آئی تو صالح جو فون پر کسی سے بات کر رہا تھا ایک دم سے صنم کو کمرے میں آتا تھا اسنے جلدی سے کال کٹ کرتے اسکے قریب جاتے اسے بانہوں میں بھرا تھا ۔ ۔۔۔۔ صنم خود بھی تھکی ہاری اسکے کندھے پر سر رکھے آنکھیں موند گئی۔۔۔۔۔

صنم خود بھی پرنگنٹٹ تھی ماہا کی وجہ سے وہ خود کا خیال نہیں رکھ پا رہی تھی ۔۔۔ صالح نے نرمی سے اسے لٹاتے اسکے ماتھے پر ہونت رکھے تو صنم آنکھیں بند کیے سکون اپنے اندر تک اترتا محسوس کرنے لگی۔۔۔۔۔۔ صالح نے اسکے پاس لیٹتے اسکا سر اپنے بازو پر رکھا اور نرمی سے اسکے بالوں کو سہلاتا اسے پرسکون کرنے لگا ۔۔۔


صالح آپ تھک جاتے ہونگے ناں سب کچھ سنبھالنا کتنا مشکل ہوگیا ہے۔ صنم نے رخ اسکی جانب کرتے اپنا نازک ہاتھ اسکی گردن میں حائل کیے اپنا چہرہ اسکی گردن میں چھپایا تھا۔۔۔۔۔اسکی فکر پر صالح کے ہونٹوں پر ایک خوبصورت سی مسکراہٹ بکھر گئی۔۔۔۔۔


جب تم ساتھ ہو تو میری جان کچھ مشکل نہیں ہے۔۔۔۔۔ بس ماہا جلدی سے اس حقیقت کو ایکسپٹ کر لے کہ ابتہاج اس دنیا میں نہیں رہا ۔۔ تاکہ ہم اسکی اور اسکے بچے کی اچھے سے دیکھ بھال کر سکیں۔۔۔۔ صالح اور صنم اسے اپنے ساتھ مری لے آئے تھے اس گھر میں رہتے وہ ایک ہفتہ ماہا نے جس اذیت میں گزارا تھا اسکے بعد ڈاکٹرز کے مشورے پر کچھ اسکی پریگنینسی کی وجہ سے وہ دونوں اسے مری لے آئے تھے۔۔۔


یہاں آ کر وہ رونا چیخنا تو کم۔کر چکی تھی مگر ابتہاج کو اج تک نہیں بھول پائی تھی ۔۔۔۔ جس کا سب سے زیادہ دکھ صنم اور صالح کو تھا ۔۔۔ان کی آنکھوں کے سامنے ہی تو سمیر نے ایک نہیں بلکہ دو گولیاں اسکے سینے پر مارتے اسکی جان لی تھی۔۔۔۔


سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا بس تم پریشان مت ہو ۔۔۔۔" نرمی سے اسکے ہونٹوں کو چھوتے وہ محبت سے بولا تو صنم اس اچانک افتاد پر بلش کرتے اپنی پلکیں جھکا گئی ۔۔۔ تنگ تو نہیں کیا میری بیٹی نے ۔۔۔ وہ اب پھر سے اپنے موڈ میں واپس آتا شرارت سے بولتے اسکے پیٹ کو چھوتے اپنے بےبی کو چھوتے اسے محسوس کر رہا تھا۔۔۔۔۔


صالح بس کریں اب آپ حد سے بڑھ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ صنم نے غصے سے اپنی کمر کی جانب بڑھتے اسکے بھاری ہاتھ کو محسوس کرتے صالح کو روکا تو وہ معصومیت سے اسے دیکھتے منہ بنا گیا ۔۔۔۔۔ تمھیں سکون دیا ہے کیا اب میں نہیں لوں اپنا سکون جو تم میں بسا ہے۔۔۔۔ ایک جھٹکے میں آسکی زپ کھولتے صالح نے ہونٹ اسکے کندھے پر ثبت کرتے گہرے لہجے میں کہا تو صنم نے تیز تیز سانس بھرتے اس شخص کو گھورا۔۔۔۔۔

جو ہمشیہ اسے زچ کر دیتا تھا۔۔۔۔۔ صالح می۔۔۔" صنم اسے ٹوکنے لگی کہ صالح نے ایک دم اسکے ہونٹوں پر ہونٹ رکھے اسکے لفظوں کو پی لیا۔۔۔۔۔ اسکے لمس میں نرمی تھی وہ محبت سے اسکے ہونٹوں کو چھوتا اسے اپنی محبت کی دنیا میں لے گیا۔۔۔

_________


اپنے چہرے پر کسی کے سلگتے پرتپش ہونٹوں کے لمس کو محسوس کرتے ماہا نیند میں ہی کسمسائی تھی۔۔۔ ایک دم سے اپنے آپ پر گہرا سایہ محسوس کرتے وہ جھٹ سے آنکھیں کھولے نیم اندھیرے میں اپنے ہونٹوں پر جھکے مقابل کی شدت بھری گرفت پر خوفزدہ سی ہوتے بری طرح سے ہاتھ چلاتے خود کو آزاد کرنے لگی۔۔۔۔ مگر مقابل موجود شخص کی گرفت میں وہ نازک سی جان کسمساتے ہوئے اپنے آپ کا بچاؤ کرنے کی ناکام سی کوشش کرنے لگی۔۔


کہ اسکی بند پلکوں کو دیکھتے ہی مقابل ہونٹ ماہا کی شفاف گردن پر رکھتے اپنا دہکتا لمس چھوڑتا اسے پاگل کرنے کے دم پر تھا ۔۔ وہ بری طرح سے چیختے خود کو آزاد کروانے کی کوشش کرنے لگی مگر یہ سب نا ممکن سا تھا۔۔۔۔


ایک دم سے ماہا نے دروازے پر ہوتی تیز دستک پر اپنی آنکھیں کھولے آگے پیچھے دیکھا وہ خوف سے بھاگتے دروازے کھولتے ہی صنم کے ساتھ لگتے بری طرح سے رونے لگی۔ ۔۔کیا ہوا ہے ماہا تم ٹھیک تو ہو میری جان ۔۔۔۔۔۔ کیوں رو رہی تھی اس طرح سے ۔۔۔" اسے ساتھ لگائے صنم نے محبت سے پوچھا۔۔۔۔


وو وہ وہاں کوئی یے۔۔۔۔؟" وہ ڈرتے اندر اپنے بیڈ کی جانب اشارہ کرتے پھر سے رونے لگی تو صالح نے ماتھے پر بل ڈالے وہ اندر جاتے ہی سارا کمرہ اور کھڑکی دیکھنے لگا جو اندر سے لاک تھی۔۔۔۔ اسے پھر سے ماہا کی ذہنی حالت پر افسوس ہوا جو ذہنی توازن ٹھیک ناں ہونے پر اپنے پاس سے ہی سب کچھ تصور کر لیتی تھی۔ ۔۔۔

کوئی نہیں یہاں پر ماہا۔۔۔۔۔!" صالح کے اشارہ پر صنم نے اسے گہری سانس بھرتے سمجھایا تو ماہا نے حیرانگی سے اپنے کمرے کو دیکھا۔ ۔۔ننن نہیں وو وہ تھا وہ پہلے بھی آتا ہے من مجھے معلوم ہے ۔۔۔" وہ روتے ہوئے اپنی بات کا یقین دلانے لگی تو صنم اسے ساتھ لیے اپنے کمرے کی جانب بڑھی ۔۔۔۔۔اج تم میرے پاس سو جاؤ اوکے ڈونٹ وری کچھ بھی نہیں یہ سب کچھ تمہارا وہم ہے ۔۔۔ اسکی بات کو آرام سے وہم گردانتے وہ اسے زبردستی ساتھ لیے اپنے کمرے کی جانب بڑھی ۔۔۔ صالح ایک گہری نظر روم پر ڈالتے دروازہ بند کرتا وہاں سے نکلا تھا ۔۔۔

ماہا بہت ماروں گی اب ۔۔۔۔۔۔خاموشی سے کھانا کھاؤ…. صنم ماہا کے ہاتھ پکڑتے اسے ڈانٹنے کے سے انداز میں بولی تو ماہا نے ہاتھ میں پکڑے گلاس کو مضبوطی سے تھامے اپنے سامنے بیٹھے صالح اور صنم کو دیکھا ۔۔۔۔۔ ۔

مجھے نہیں کھانا نہیں کھانا نہیں کھانا۔۔۔تم سب کے سب گندے ہو برے ہو تم لوگ ۔۔۔۔ میں ابتہاج کو بتاوں گی مجھے سب مارتے ہیں ۔۔ ڈانٹتے بھی ہیں۔۔ ہاتھ میں پکڑے شیشے کے گلاس کو زور سے فرش پہ پھینکتے وہ زور زور سے رونے لگی تو صنم نے ڈرتے اپنے چہرے پر بےبسی سے ہاتھ رکھا ۔۔۔۔۔


وہ چاہے جتنی بھی کوشش کر لیتی ماہا کی سوئی ابتہاج پر ہی اٹک جاتی تھی وہ خود کو اسکی یادوں سے نکالنا ہی نہیں چاہ رہی تھی جبھی تو اتنا سب کچھ ہو رہا تھا اسکے ساتھ مگر اسے ناں تو اپنی پرواہ تھی اپنے اندر سانس لیتے اس ننھے وجود کی۔۔۔۔۔


مممم ماہا ۔۔۔۔۔ واپس آؤ میری جان ماہا۔۔۔۔۔" اسے روتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب جاتا دیکھ صنم نے بے بسی سے اپنے ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینجتے میز پر پڑے اس کھانے کو دیکھا ۔ صنم یار تم تو کھاو پہلے پھر اسے بھی کھلا لیں گے۔۔۔۔" صالح اسے کندھوں سے تھامتے محبت سے بولا تھا مگر صنم کا دل ماہا کو ڈانٹنے اور اپنی وجہ سے اسے روتا دیکھ اب اچاٹ سا ہو گیا تھا ۔۔


مجھے نہیں کھانا کچھ بھی زہر لا دیں وہی کھا لوں ۔۔ تاکہ سکون سے مر تو سکوں گی۔۔۔ " وہ غصے سے اپنا آپ چھڑواتی روتے ہوئے تیزی سے اپنے کمرے کی جانب بڑھی تھی صالح نے جبڑے بھینجتے اپنے غصے اور خود پر کنٹرول کیا تھا ۔۔۔۔ اس کا بس نہیں تھا کہ وہ ابھی جا کر صنم کا دماغ ٹھکانے لگاتا۔۔۔۔۔


مگر اسکی کنڈیشن اوپر سے ماہا کی ذہنی حالت کی وجہ سے وہ مزید چڑچری سی ہو گئی تھی ۔۔۔۔ میڈم کے نخرے ہیں سب ہمیشہ کی طرح اب بھی مجھے ہی کھلانا پڑے گا ۔ وہ سر نفی میں ہلائے پلیٹ میں کھانا ڈالتے اپنے کمرے کی جانب بڑھا تھا۔ ۔ واشروم کے ب بند ڈور کو دیکھ اسنے کھانا میز پر رکھا ۔۔


صنم ٹاول سے چہرہ صاف کرتے باہر نکلی تو سامنے ہی صالح متفکر سا چکر کاٹتے گھوم رہا تھا ۔۔ صنم نے شرمندگی سے نظریں جھکا لیں جو بھی تھا اسے صالح سے ایسے بات نہیں کرنی چاہیے تھی وہ تو خود سے بھی زیادہ خیال رکھتا تھا صنم کا ۔۔۔ صص صالح ۔۔۔۔ اپنی جانب بڑھتے صالح کو دیکھتے صنم نے جلدی سے اسے پکارا جسکے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا ۔۔۔۔

صالح ان سنا کیے اسے بازو سے پکڑتے ساتھ لیے بیڈ کی جانب بڑھا تھا اور نرمی سے اسے بٹھائے وہ ٹرے اٹھائے اپنے ہاتھوں سے اسے کھانا کھلانے لگا ۔۔۔۔۔اسکے چہرے پر پھیلی سرد مہری صنم کو اپنے آگے پیچھے خطرے کی گھنٹیاں بجتی محسوس ہوئی تھی ۔ وہ بشمکل سے اسکے قہر سے بچنے کو خاموشی سے کھانا کھا رہی تھی۔


صصص صالح بس۔۔۔۔۔" دوچار نوالوں کے بعد صنم نے ڈرتے اسکے ہاتھ کو مضبوطی سے تھامے کہا تھا۔۔۔ صالح نے سرخ نظروں سے اسے دیکھا اور پھر گہرا سانس فضا میں خارج کرتے وہ اٹھتے ٹرے لیے باہر کچن کی جانب بڑھا تھا ۔۔ باہر شدید برفباری ہو رہی تھی۔۔ صنم نے کھڑکی سے پردہ کھسکاتے باہر کے موسم کا جائزہ لیا اور پھر جلدی سے پردہ برابر کیے وہ ہیٹر آن کیے بستر پر جاتے لیٹتے ہاتھ آنکھوں پر رکھے سونے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔۔


آہ صص صالح ۔ ۔۔۔۔۔" ایک دم سے صالح نے اسکے وجود سے بلینکٹ کھینچتے بیڈ سے نیچے پھینکا تو صنم کی خوف سے چیخ نکلی تھی وہ ڈرتی ہراساں نظروں سے صالح کو دیکھنے لگی جس کی آنکھوں سے غصے سے شعلے لپک رہے تھے ۔۔۔۔ زہر کھانا ہے تمہیں ۔۔ ۔۔ " صنم۔کی ٹانگ کو پکڑتے اسسنے سختی سے اسے اپنی جانب کھینچا تو وہ کھینچتے اسکے گھٹنے سے جا لگی ۔۔۔۔ صالح کا ایک پاؤں جو بیڈ کے اوپر تھا صالح نے اپنے ہاتھ میں صنم کا چہرہ دبوچتے آج پھر کافی عرصے بعد بےتاثر لہجے میں پوچھا تو صنم ڈر سے لرز کے رہ گئی۔۔۔


آج پھر سے صالح کا وہی سرد روہٹ اسکے سامنے اتنے مہینوں بعد آیا تھا جس سے وہ بری طرح سے ڈرتی تھی ۔۔ " بہت شوق ہے ناں تمہیں مرنے کا۔۔۔۔۔ صالح نے سختی سے اسکے قریب چہرہ لے جاتے سفاکی سے کہا تو صنم نے تھوک نگلتے اپنے خشک خلق کو تر کیا۔۔۔۔۔۔ صص صالح پپپ پلیز سوری آئی نو مجھے ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا آپ کو ہرٹ کیا میں نے پلیز سوری ۔۔ وہ روتے ہوئے منت کرتے اس سے معافی مانگنے لگی۔۔۔صالح کی سرد نظریں اسکے رونے سے سرخ پڑتے چہرے پر تھیں وہ بغور اسکا قاتل روپ دیکھ رہا تھا ۔۔


صالح نے بےیودی سے اسکے کانپتے سرخ ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں قید کیا تو صنم نے اسکے لمس پر آنکھیں بند کرتے اسکے گھٹنے پر مضبوطی سے اپنے دونوں ہاتھ رکھے ۔۔۔۔ صالح کے لمس میں وخشت تھی جنون ایک شدت ۔۔۔۔۔ صنم کو لگا کہ اج وہ اگلا سانس بھی نہیں لے پائے گی ۔۔۔۔۔ جب سے وہ ماں بننے والی تھی صالح کی شدتوں میں نرمی آئی تھی وہ اسے چھوتے ہوئے بھی اسکا خیال رکھتا تھا ۔۔۔

مگر آج صنم کو اسکی شدت پر اپنا آپ ختم ہوتا محسوس ہو رہا تھا جو کسی بادل کی مانند اس پہ سایہ کیے اسکی خوشبو کو خود میں انڈیل رہا تھا ۔۔۔ صنم نے سانس اٹکنے پر اپنے ہاتھ اسکے گھٹنوں پر مضبوطی سے مارے تو صالح نرمی سے اسکے ہونٹوں کو آزادی دیے صنم کو دیکھتا اپنی شرٹ اتارنے لگا۔۔۔


صنم کے خوف میں اضافہ ہوا تھا۔۔۔۔وہ ڈرتی سر کو نفی میں ہلانے لگی ۔۔ نن۔ نہیں صالح پلیز نہیں۔۔۔۔۔وہ روتے ہوئے اسے خود سے دور کرنے لگی کہ صالح نے اسے کھینچتے بیڈ پر لٹایا ۔۔۔۔۔ " شٹ اپ۔۔۔۔۔ تمہیں لگتا ہے کہ میں تمیں اتنی آسانی سے مرنے دوں گا۔۔۔ تمہارے لفظوں نے جو خوف میرے اندر پھیلایا ہے اسے تم ہی ختم کرو گی اب۔۔۔۔ صالح نے جھکتے اسکی گردن کو شدت سے چھوتے اسکے کان میں۔ سرگوشی کی تو صنم نے لب بھینجتے خود پر جھکے صالح کی پشت کو دیکھا ۔۔۔۔


صنم جانتی تھی وہ اسے کبھی بھی تکلیف نہیں دے سکتا ۔۔۔۔ ہاں مگر وہ اپنی وخشتیں ضرور اسکے وجود سے ختم کر رہا تھا ۔۔۔۔۔ رفتہ رفتہ اسکے لمس میں وہی پہلے والی نرمی دھر آئی تھی صنم اسکی قربت میںں اپنا آپ اسے سونپتے آسودگی سے آنکھیں بند کر گئی۔۔۔

____________


اشششششش______ آواز نہیں۔۔۔۔ اسکی خوف سے پھیلی آنکھوں میں دیکھتے مقابل نے اپنی شہادت کی انگلی اسکے سامنے لہراتے سرخ نظروں سے بوجھل بھاری لہجے میں کہا تو ماہا کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی ۔ اسے ایسا لگا جیسے یہ شخص اسے ابھی مار دے گا۔۔۔ ماہا نے اسکی بڑھی ہوئی داڑھی کو دیکھتے تھوک نگلتے فوراً سے گردن ہاں میں ہلائی تو مقابل اسکے قریب تر بیٹھے شخص نے ماہا کے چہرے کو دیکھتے جھکتے اسکی شہہ رگ پر ہونٹ رکھے تو ماہا نے سسکتے خوف سے ابتہاج کو پکارا۔۔۔


اسکی گردن پر اپنا دہکتا لمس چھوڑتے مقابل نے بغور یہ الفاظ سنے تھے ۔۔۔۔ کس کس کو بتایا میرے بارے میں۔۔۔۔۔۔ وہ اب انہماک سے ماہا کی خوفزدہ آنکھوں میں دیکھ کر پوچھ ریا تھا۔۔۔۔ماہا نے جھٹ سے سر نا میں ہلا دیا کہ میں نے کسی جو کچھ نہیں بتایا۔۔۔۔۔۔ میں نے کسی کو نہیں بتایا مگر اب تم نے پھر سے مجھے تنگ کیا ناں تو میں ، میں ابتہاج کو بتاوں گی وہ مارے گا تمہیں۔۔۔۔" اپنے چہرے پر بکھرتے بالوں کو پیچھے کرتے وہ اسے ڈرانے کے سے انداز میں بولی تھی ۔


مقابل نے بغور اسے گھورا ۔۔۔جو اسے ڈرا رہی تھی۔۔۔ " ماہا فورا سے بھاگتے باہر جانے لگی تاکہ۔صالح اور صنم۔کو بلا کر لائے انہیں بتائے کہ ماہا نے جھوٹ نہیں بولا تھا سچ میں کوئی تھا جو اسکے کمرے میں روز آتا تھا۔۔۔۔ اسے باہر کی جانب جاتا دیکھ مقابل نے اٹھتے اسکے قریب ہوتے اسکے بازو کو تھماتے جھٹکے سے اپنی جانب کھینچا تو ماہا ایک دم سے چیختے اسے خور سے دور کرنے لگی۔۔۔۔


ماہا کو پھر سے چیختا دیکھ مقابل نے کھینچتے اسے سینے سے لگائے اسکے ہونٹوں کو قید کیا تو وہ خوف سے تیز تیز دھڑکتے دل سے آنکھیں پھیلائے اس عجیب سے شخص کو دیکھنے لگی۔۔۔۔ جو روز اپنی من مانیاں کرتے اس معصوم کو تکلیف دیتا تھا۔۔۔۔۔۔ ماہا کی آنکھوں میںں آنسوں کی جھلکتی نمی کو دیکھتے مقابل نے دھیرے سے اپنا لمس اسکے ہونٹوں پر چھوڑا اور اسے نرمی سے گود میں اٹھائے وہ چلتا بیڈ کے قریب جاتے اسے بیڈ پر ڈالے بلینکٹ کھینچتے اس پر دیے اسکے قریب ںیٹھا۔۔۔


" کل رات تم گھر سے باہر کیوں نکلی تھی۔۔۔ اسے آنکھیں بند کیے تیزی سے سانس لیتا دیکھ مقابل نے نرمی سے اسکے ہونٹوں کو سہلاتے پوچھا تو وہ پٹ سے آنکھیں پھیلائے اسے دیکھنے لگی وہ تو ابتہاج کو ڈھونڈنے گئی تھی مگر پھر اس شخص کو کیسے پتہ چلا۔۔۔ اسنے فورا سے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے اس شخص کو دیکھا۔ ۔


مممم مجھے ابتہاج نے بلایا تھا ۔۔۔ وہ معصومیت سے اپنی آنکھوں کو صاف کرتے بولی تو مقابل کے ماتھے پر ڈھیروں بل نمودار ہوئے۔۔۔۔۔ " آج کے بعد اگر تم رات کو گھر سے نکلی تو اچھا نہیں ہو گا ۔۔۔۔۔۔" اسکے ہونٹوں پر انگلی رکھتے وہ چہرہ اسکے قریب لے جاتے دھیمی مگر سرد آواز میں بولا تو یخ بستہ ٹھنڈ میں بھی ماہا کا وجود پسینہ سے شرابور ہونے لگا ۔۔۔


" نن نہیں جاؤں گی۔۔۔۔۔۔ ماہا نے فورا سے سہمتے گردن ناں میں ہلاتے کہا تو مقابل نے سرد سانس فضا میں خارج کرتے اسکی سہمی ہرن جیسی نظروں میں دیکھا۔۔۔ اگر کسی کے سامنے میرا زکر کیا تو ۔۔۔۔ننن نہیں کروں گی پکا نہیں کروں گی۔۔۔۔"


اسکی بات کاٹتے وہ اسے پکا یقین دلاتے بولی تو مقابل نے نرمی سے اسکے رخسار کو اپنے ہاتھ کی پشت سے سہلایا ۔۔۔ ماہا اسکے عجیب سے سخت کھردرے ہاتھ کے لمس پر سانس روکے پڑی تھی۔۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر تک وہی عمل دہراتے وہ اسکی نیند سے بوجھل ہوتی آنکھوں میں دیکھتا کھڑکی کی جانب بڑھا تھا ۔۔۔


________________


صنم تم نے رات کو مجھے کھانا نہیں کھلایا تھا ۔۔۔ صالح کو بریک فاسٹ سرو کرتی صنم جو کہ ڈارک بلیو کلر کے خوبصورت سوٹ میں ملبوس تھی ۔۔ ماہا کی آواز پر اس نے حیرت سے مڑتے سیڑھیوں سے بےترتیب سے الجھے حلیے میں اترتی ماہا کو دیکھ گہرا سانس نفی میں خارج کرتے تاسف سے صالح کو دیکھا جو ماہا کے جھوٹ پر ہنسنے لگا۔۔۔۔۔


میڈم میں آئی تھی آپ کے پاس مگر آپ گہری نیند میں سوئی ہوئی تھی اور آپ کے رائٹ سائڈ کے ٹیبل پر ایک پلیٹ پڑی تھی جو کہ حالی تھی ۔۔ اس میں جو کھانا تھا وہ کدھر گیا۔۔۔۔وہ اب اسکے پاس جاتی کرسی کی پشت پر لٹکائے اپنے سویٹر کو اٹھائے ماہا کے دائیں ہاتھ پکڑے اسے پہناتے ساتھ ہی پوچھ رہی تھی۔۔۔۔


ماہا نے آنکھیں اوپر کیے گہری سوچ میں جاتے سوچا تو اسے یاد آیا تھا ۔۔۔ہاں تو مگر وہ میں نے نہیں کھایا تھا۔۔۔۔ وہ یاد کرتے ساتھ ہی بولی تو جوس کا سپ لگاتے صالح نے بغور ان دونوں بہنوں کو دیکھا۔۔۔۔ اچھا تو پھر کس نے کھایا تھا۔۔۔۔" ماہا کے سویٹر کے بٹن لگاتے صنم نے ایبرو آجاتے پوچھا ۔۔۔


وہ تو بے بی کو بھوک لگی تھی اس نے کہا کہ مجھے کھانا کھانا ہے اس لیے میں نے کھایا مگر اب دیکھو میں نے کچھ نہیں کھایا آں آں۔۔۔۔وہ منہ کھولتے ساتھ ہی اسے صفائی دینے لگی کہ اس نے نہیں بلکہ بے بی نے کھانا کھایا تھا ۔۔ ماہا کے یوں اچانک سے کہنے پر صالح جو سکون سے جوس پی رہا تھا ایک دم سے اسے اچھوکا لگا تھا ۔۔۔وہ بری طرح سے کھانستا سرخ چہرے سے صنم کو گھور رہا تھا ۔۔ جس نے بار بار ماہا کے سامنے بے بی کا ذکر کرتے اس کے دماغ میں یہ بات فٹ کر دی تھی۔۔۔


اچھا چلو ٹھیک ہے تم چلو میرے ساتھ آؤ میں اپنے ہاتھوں سے اپنی شہزادی کو کھانا کھلاؤں گی۔۔۔۔۔ صنم نے بات بدلتے اپنا کیچر اتارتے ماہا کے بال سمیٹے اور کرسی پر رکھا سٹالر اٹھائے اچھے سے ماہا کو پہنایا۔۔۔۔ یہ صنم کا روز کا معمول تھا وہ ایسے ہی اسکا کسی چھوٹے بچے کی طرح خیال رکھتی تھی۔۔۔۔ صنم نے آگے بڑھتے اسکی پیشانی پر لب رکھتے اسکا ہاتھ تھاما تھا ۔۔۔


صنم مجھے شہزادی مت کہا کرو ۔۔۔۔" چئیر پر بیٹھتے ماہا نے پھر سے شوشہ چھوڑا تو صالح نے ان دونوں بہنوں کو نظر انداز کرتے اپنے کب سے بجتے موبائل کو نکالتے میسجز چیک کیے۔۔۔ کیوں نہیں کہہ سکتی میں شہزادی اپنی شہزادی بہن کو شہزادی ہی تو کہوں گی۔۔۔ اسکے ساتھ والی چئیر گھیسٹتے صنم اسکے قریب بیٹھتے بولی۔۔۔


کیونکہ میں صرف ابتہاج کی شہزادی ہوں اور میرے شہزادے کے علاؤہ مجھے کوئی بھی شہزادی نہیں کہہ سکتا۔ " ماہا نے خود سے گلاس میں جوس انڈیلتے صنم کو آگاہ کیا تو صنم اسکی پھر سے وہی رٹ سنتے بشمکل سے خود پر ضبط کر سکی ۔۔ صالح نے افسوس سے اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا ۔۔اسے رشک ہو رہا تھا آج ابتہاج کی قسمت پر۔۔۔۔ بے شک وہ نہیں رہا تھا اس دنیا میں مگر اسکی چاہت میں پاگل یہ دیوانی لڑکی اسکی تو دنیا آج بھی اسی کے ارد گرد گھومتی تھی۔۔ صالح سمجھ ناں سکا کہ ماہا کی محبت کس حد تک گہری تھی ابتہاج کیلئے۔۔۔۔۔ مگر اسکی آنکھوں میں رشک کے تاثرات ضرور تھے۔۔۔۔


اچانک سے دروازے پر ہوتی بیل نے صالح کا دھیان بھٹکایا تھا۔۔۔۔ میں دیکھتا ہوں تم آرام سے ناشتہ کرو۔۔۔۔ صنم جو ماہا کو کھانا کھلانے بیٹھی تھی بدلے میں ماہا خود ہی اسے کھلا رہی تھی۔۔۔اسکا کہنا تھا کہ آج وہ اسے کھلائے گی کیونکہ ماہا کو پتہ تھا کہ صنم کھانا نہیں کھاتی تھی اور اس کا بے بی تو زیادہ بڑا تھا ماہا کے بے بی سے۔۔۔۔اسی وجہ سے آج صنم اپنی ہی بتائی باتوں میں بری طرح سے پھنسی اسکے پاس بیٹھی تھی جو اسے زبردستی کھلا رہی تھی۔۔ صنم کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا کیونکہ وہ اتنا ہیوی ناشتہ نہیں کرتی تھی مگر صالح اسکی حالت سے کافی پرسکون تھا۔۔۔اخر کار اسکی سالی نے آج اسکی نکمی بیوی کو قابو جو کر لیا تھا ۔۔۔


صالح آپ بیٹھیں ناں مجھے دیکھنے دیں۔۔۔۔ ماہا کے ہاتھ کو پیچھے کرتے وہ منت بھرے لہجے میں بولی اسکا اشارہ یہاں سے بھاگنے کا تھا کیونکہ ایسے تو ماہا اسے چھوڑنے سے رہی۔۔۔۔۔ نہیں میری جان تم نے سنا نہیں ہمارا بےبی زیادہ بڑا ہے اور اسکو زیادہ کھانے کی ضرورت بھی ہے تو پھر ماہا اپنی بہن کو کافی اچھے سے کھلاو اسے کافی زیادہ صحت بنانے کی ضرورت ہے۔۔


وہ اسے رات کے واقعے کی جانب سے چھیڑتے ہوئے بولا تو صنم نے اسکی بے باکی پر اپنا ایک دم سے لال پڑتا چہرہ جھکایا۔۔۔۔


ماہا صنم۔دیکھو کون آیا ہے۔۔۔۔۔؟ صالح کی پرجوش آواز پر ماہا اور صنم دونوں نے ہی مڑتے دروازے کی جانب دیکھا جہاں بلیک اوور کوٹ میںں ملبوس چہرے پر تھکاوٹ کے واضح تاثرات لیے وہ کوئی اور نہیں دلاور صاحب تھے۔۔۔ ماہا کے چہرے کے تاثرات بدل سے گئے تھے۔۔جبکہ صنم خوشی سے دوڑتے انکے قریب جاتے انکے سینے سے لگی۔۔۔


پاپا کیسے ہیں آپ۔۔۔۔ !" صنم نے محبت سے پوچھا تھا۔۔۔ٹھیک ہوں ۔۔۔ " انتہائی روکھے لہجے میں اسے جواب دیتے دلاور صاحب جو ماہا کو دیکھ رہے تھے فورا سے پیشتر صنم کو خود سے دور کیے ماہا کی جانب بڑھے تھے۔۔ ماہا عجیب سے تاثرات سے انہیں دیکھتی جھٹکے سے اٹھتے اوپر اپنے کمرے کی جانب بڑھی تھی۔۔۔


میں آتا ہوں۔۔۔۔۔" صالح اور صنم کینجانب دیکھتے وہ اداسی سے بولتے اوپر ماہا کے کمرے کی جانب بڑھے تھے۔۔ ماہا۔۔۔۔ میری بچی۔۔۔۔۔۔ " دلاور صاحب تڑپتے ہوئے اسکے قریب پہنچے تھے جو بیڈ کے پاس نیچے بے ترتیب حلیے میں بیٹھی تھی اسکا سر گھٹنوں کے اوپر ٹکا تھا وہ یقینا کسی گہری سوچ میں مبتلا تھی ۔۔۔۔


اسکی حالت دلاور شاہ کو مزید بے چین کر گئی تھی وہ آگے ہی شرمندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں تھے دن رات صرف ایک ہی خیال ایک ہی سوچ انہیں بے چین رکھتی تھی کہ ماہا کی یہ حالت صرف اور صرف ان کی وجہ سے تھی۔۔۔۔۔ وہ چلتے اسکے قریب جاتے گھٹنوں کے بل بیٹھے اور اپنے کپکپاتے ہاتھ اسکے سر پر رکھے۔۔۔۔۔۔ ماہا نے ویران نظروں سے انکی نم آنکھوں میں دیکھا ۔۔۔


اپنے پاپا سے بات نہیں کرو گی۔۔۔ آج انہیں محسوس ہوا تھا کہ جب والدین اپنے بچوں سے نفرت کریں تو ان بچوں کے دل پر کیا بیتتا ہے کیونکہ آج اپنی معصوم بچی کے پاس بیٹھے ہوئے بھی وہ اسکی خاموشی سے جانے کتنی بار مرے تھے ۔۔ یہ گہری خاموشی انہیں مزید تنگ کرنے لگی جبھی وہ تیزی سے اٹھتے وہاں سے بھاگے تھے۔۔۔۔

صالح اور صنم نے روکنا چاہا تھا مگر وہ ہمیشہ کی طرح ہی اپنے آنسوں چھپاتے وہاں سے چلے گئے۔۔


________________


رات کے تاریک اندھیرے میں وہ آنکھیں پھیلائے بغور اپنے اردگرد دیکھتے دھیرے دھیرے سے قدم اٹھائے آگے بڑھ رہی تھی ۔۔۔۔ ماہا کے گھنے سیاہ بال اسکی گردن کے دونوں اطراف پر ڈھلکے پڑے تھے ۔۔۔ وہ مڑتے ایک نظر گھر کو دیکھ تیزی سے باہر نکلی تھی۔۔۔ شام کے وقت ہوئی ہلکی برفباری کی وجہ سے موسم کافی خوشگوار اور سرد بھی تھا۔۔۔

وہ تیز تیز قدم لیتے کافی آگے بڑھ آئی تھی۔۔۔ ارے یار سامنے دیکھ۔۔۔۔۔۔" ماہا جو کہ ایک جانب گلی میں داخل ہوتے ابتہاج کو آوازیں لگا رہی تھی اس کی آوازوں پر وہاں بیٹھے کچھ لوفر لڑکے جو ڈرنک کر رہے تھے ان میں سے ایک۔نے مڑتے اسکے نازک سراپے کھلے بالوں کو دیکھتے سب کو پیچھے گلی کی جانب متوجہ کیا تھا وہ سب سڑک کی بائیں جانے بیٹھے ہوئے تھے جبکہ ماہا دائی جانب سے مڑتے گلی میں داخل ہوئی تھی۔۔


ابتہاج۔۔۔۔۔ لگتا ہے کہ چھپ گئے ہیں مگر کوئی بات نہیں میں ڈھونڈ لوں گی۔۔۔ وہ خود سے ہی اسکا تصور کرتے کہتے ساتھ آگے بڑھی۔۔۔

چلو یار اتنا اچھا موقع ہے چلو انجوائے کریں ان میں سے ایک نے قہقہ لگاتے سب کو اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی وہ سب بھی قہقہ لگاتے اس کے ساتھ چل پڑے ، کسے ڈھونڈ رہی ہیں آپ میڈم ۔ ہمیں بتائیں ہو سکتا کے ہم آپ کی کوئی مدد کر سکیں ۔ کیا آپ لوگ میری مدد کر سکتے ہیں مجھے نہ اپنے ابتہاج کے پاس جانا ہے کوئی مجھے لے کر نہیں جا رہا۔۔۔؟

کیا آپ لوگ لے جائیں گے اسکے پاس۔۔۔۔ مجھے پتہ ہے کہ وہ بھی مجھے ڈھونڈ رہا ہو گا ۔ وہ بھی نہیں رہ سکتا میرے بغیر۔۔۔۔۔ اپنی بڑی بڑی آنکھوں میں آنسو میں لائے وہ معصومیت سے بولی تو سب ہی خباثت سے ہنستے اسکے آگے پیچھے چکر کاٹنے لگے۔۔۔۔

ضرور پیاری ہم ضرور لے چکیں گے تم کو تمہارے ابتہاج کے پاس۔۔۔۔۔ان میں سے ایک نے ماہا کے بالوں کو چھوتے محبت سے کہا تو باقیوں نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی ۔اچھا تو چلو پھر چلتے ہیں ان میں سے ایک نے ماہا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے دبوچتے شیطانیت سے اسکے معصوم چہرے کو دیکھتے کہا تھا۔۔۔ ماہا کو اسکی گرفت پر اپنے ہاتھ میںں درد سا ہونے لگا مگر وہ سرد تاثرات سے اسے ساتھ کٹے جاتے قہقہے لگا رہے تھے ۔۔۔


اوئے کون ہے توں سالے۔۔۔۔۔" اپنے راستے میں اس عجیب سے حلیے میں کھڑے شخص کو گھورے وہ سب ہی غصے سے بولے ۔۔۔۔ مگر مقابل پر کوئ اثر نہیں ہوا تھا۔ وہ یونہی آنکھوں میں وخشت کے تاثرات لیے انہیں گھورتا اب ان میں سے ایک کے ہاتھ میں موجود ماہا کے ہاتھ کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔ پیچھے ہٹو ہمیں لڑکی کو ابتہاج کے پاس لے کر جانا ہے اسکے تاثرات کو دیکھتا ایک آگے بڑھتے نرمی سے بولا۔۔

ہاں ہاں ہم ابہتاج سے ملنے جا رہے ہیں۔ تم سائڈ ہو جاؤ۔۔۔ ماہا نے بیچ میں بولتے اس شخص کو غصے سے گھورا جو روز رات کو اسکے کمرے میں آتا تھا۔۔۔۔ دیکھ بھائی اب تو لڑکی نے بھی کہہ دیا چل۔اب پیچھے ہٹ ۔۔۔۔۔۔ماہا کا ہاتھ تھامے کھڑا وہ لڑکا اس سارے ڈرامے سے بےزار ہوتے چلتا ابتہاج کے قریب آیا تھا۔۔۔ اور اسکے سینے پر دباؤ دیتے وہ اسے دور کرنے لگا۔۔۔ مقابل نے ماہا کو آنکھوں میں سموئے ایک دم سے اپنے بھاری ہاتھ سے اسکے چہرے پر مکہ رسید کیا کہ وہ درد سے کراہتا نیچے کو گرا تھا ۔۔۔


اس کے منہ سے ابلتے خون کو دیکھ وہ سبھی ڈرتے واپس بھاگے تھے۔۔۔۔ ماہا خوف سے سہمی نظروں سے اپنی جاب بڑھتے اس شخص کو دیکھ رہی تھی۔۔

داڑھی والے ڈاکو جی مجھے چھوڑ دیں پلیز۔۔۔۔۔ دیکھیں میں نے تو کچھ برا بھی نہیں کیا مجھے تو بس اپنے ابتہاج کے پاس جانا ہے۔۔۔۔ اسکے بڑھتے قدموں سے وہ معصوم۔ خوف زدہ سی ہوتے ہولنے لگی۔۔۔ کس کے پاس جانا ہے۔ وہ اسکے قریب ہوتے اسے بازوؤں سے پکڑتے غصے سے دانت پیستے تقریبا اسکے چہرے پر جھکا تھا ۔ماہا نے بنا ڈرے اسے دیکھا۔


ڈاکو جی مجھے اپنے شوہر کے پاس جانا ہے ۔۔۔۔وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتی مضبوط لہجے میں بولی تو مقابل کے چہرے کے تاثرات ڈھیلے پڑے وہ اسے جھکتے اٹھائے تیزی سے واپسی کی جانب بڑھ رہا تھا۔ ماہا اسکی گردن میں ہاتھ حائل کیے اسکی عجیب سی شکل دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ " کیا گھور رہی ہو۔۔۔۔؟ ماہا کو یوں ٹکٹکی باندھے خود کو دیکھنے پر وہ زچ ہوے بولا۔۔۔


" وہ دیکھ رہی تھی آپ اتنے برے بھی نہیں بس یہ داڑھی ہٹا دیں تو بہت اچھے ہو جائیں گے۔ …میں نے مشورہ مانگا ۔۔۔اسکی بات کاٹتے وہ غصے سے دانت پر دانت جماتے بولا۔۔۔۔۔ اب ڈانٹا تو ابتہاج کو بتاوں گی۔۔۔وہ خوب ماریں گے تمھیں۔۔۔۔ وہ اسکی گود میں موجود اسے اپنے نا ہونے والے ابتہاج سے ڈرا رہی تھی۔۔۔مقابل کے ہونٹوں پر ایک گہری مسکراہٹ رقص کرنے لگی ۔۔


یہ ابتہاج کون ہے ۔۔۔۔۔؟" اسکے ہونٹوں کو دیکھ وہ چلتا دور کھڑی اپنی گاڑی کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔۔۔ میرے شوہر ہیں بتایا تو تھا۔۔۔ماہا نے ماتھے پر ہاتھ مارتے اسکی عقل پر افسوس کیا۔۔۔۔۔ تو وہ سر ہاں میں ہلا گیا ۔۔۔۔۔ ویسے کیا بہت زیادہ محبت کرتی ہو اس سے ، ہر وقت اس کا نام لیتی رہتی ہو ۔۔۔۔۔"


مقابل نے اسے نرمی سے گاڑی کی بونٹ پر بٹھائے اپنے چوڑے ہاتھ اسکے دائیں بائیں رکھے اور نرمی سے اسکے حسین بالوں کو چہرے سے ہٹائے وہ اپنا کوٹ اتارتے اسکے نازک کپکپاتے وجود کو ڈھانپنے لگا۔۔۔۔


ہاں ناں بہت زیادہ مگر وہ پتہ نہیں کیوں دور چلے گئے ہیں اتنا بلایا پھر بھی نہیں آتے ۔۔۔۔۔ اسکی آنکھیں آنسوں سے بھرنے لگیں ۔۔۔۔۔ وہ ہونٹ پھیلائے رونے لگی کہ مقابل اسکی کوشش کو بھانپتے ایک دم سے اپنا ہاتھ اسکی گردن میں حائل کیے اسے نازک ہونٹوں پر جھکا ۔۔۔ ماہا اسکی بڑھی ہوئی داڑھی کی چبھن اپنے ہونٹوں پر اسکے تیز لمس پر بری طرح سے سہمتے اسکے کالر کو دبوچ گئی۔۔۔۔

جب منع کیا تھا کہ گھر سے باہر ناں آنا پھر کیوں آئی تم۔۔۔اسکے ہونٹوں کو آزادی دیے وہ اسکے چہرے پر اپنی گرم سانسیں چھوڑتے استفسار کرتا اسے خوفزدہ کر گیا۔۔۔ مجھے ابتہاج کے پاس جانا ہے۔۔۔۔۔۔ اسکے غصے سے وہ روتی اپنے چہرے کو ہاتھوں میں چھپا گئ۔۔۔۔


وہ خود پر ضبط کرتے رخ موڑے گہرے سانس بھرنے لگا ۔۔۔۔۔ ڈاکو جی ۔۔۔۔!" چند پل کی خاموشی کے بعد ماہا کی آواز پر وہ گردن گھمائے اسے دیکھنے لگا ۔۔۔۔

میرے بے بی کو بھوک لگی ہے وہ کھانا مانگ رہا ہے ۔۔۔ معصومیت سے اسے دیکھ وہ اس انداز میں بولی کہ مقابل نے حیرت سے مڑتے اسے گھورا۔۔۔۔۔ کیا مطلب ۔۔۔۔۔۔۔ ؟' وہ چونکتے اس سے اسی بابت پوچھنے لگا ۔۔۔۔۔


میرا مطلب کہ بے بی رو رہا ہے اور مجھے کہ رہا ہے کہ میرے کو بھوک لگی ہے کچھ کھا لو ۔۔۔۔۔ کیونکہ اسکے بابا نہیں ناں پاس تو مجھے خود ہی اسکا خیال رکھنا پڑتا ہے ۔۔۔ رات کے تین بجے اسکی بات سنتے اسے لگا تھا کہ وہ بس بے ہوش ہونے کو تھا۔۔۔۔ ڈاکو جی۔۔۔۔۔اسے گاڑی کی جانب بڑھتا دیکھ وہ پیٹ پر ہاتھ رکھتے بولی تو مقابل نے رخ موڑتے اسے دیکھا اور پھر بنا کچھ کہے وہ کچھ نکالتے اسکے قریب آیا ۔۔۔۔۔


برگر واہہہ۔۔۔۔۔ ڈاکو بھی کھاتے ہیں برگر ۔۔۔۔۔۔ !" اسے برگر کا ریپ اتارتا دیکھ وہ اشتیاق سے آنکھوں میں چمک لائے بولی تو اسکی تیز تیز چلتی قینچی کی جیسی زبان پر مقابل نے اسے آنکھیں دکھائی جس کا اسے ذرا بھی اثر نہیں ہوا تھا۔۔۔

اسنے ریپ اتارتے اپنے ہاتھ میں پکڑا برگر اسکے سامنے کیا۔۔۔ اگر تمہیں یہ کھلاؤں گا تو مجھے بدلے میں کیا ملے گا۔۔۔۔۔ اپنے محسوس لہجے میں اسکی آنکھوں میں جھانکتے اسنے گہرے لہجے میں کہا ۔۔۔۔ ایک تو آپ بنا کسی غرض کے مان جائیں ایسا نہیں ہو سکتا ابتہاج ۔۔۔۔۔۔۔ وہ منہ بسورتے اپنی ہی روانی میں بولی تو مقابل کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھری ۔۔۔۔


تمہارا یہ ڈاکو بنا کسی غرض کے کچھ نہیں کرتا جان۔۔۔۔۔۔ اسکے خوبصورت ہونٹوں کو چھوتے اسنے لب ماہا کی گردن پر رکھتے گہرے لہجے میں کہا تو ماہا نے اسے پیچھے کرنا چاہا ۔۔۔۔ آپ دور رہ کے بات کیا کریں بار بار میرے لپس پر کس نہیں کریں ورنہ اگر ابتہاج کو بتایا ناں تو جان سے مار دے گا ۔۔۔۔۔۔ماہا نے اسکی حرکت پر نفرت سے اسے خود سے دور کیا تھا۔۔۔۔اسے بالکل اچھا نہیں لگا تھا اسکا یوں خود کو بار بار چھونا۔۔۔۔۔ پہلے یہ کھاؤ پھر بات کرتے ہیں کہ تمہیں اچھا لگتا ہے یا نہیں۔۔۔۔وہ۔معنی خیز لہجے میں برگر اسکے سامنے کرتے بولا مگر وہ معصوم بنا اسکے لہجے میں چھپی وارننگ کو سمجھے برگر سے انصاف کرنے لگی۔۔۔۔۔


وہ ہاتھ سینے پر باندھے اسے کھاتا دیکھ رہا تھا۔۔۔جو بالکل بچوں کی طرح دکھ رہی تھی۔۔۔۔ ٹشو بھی دے دیں جہاں اتنا احسان کیا ہے۔۔۔وہ اپنے گندے ہوئے ہاتھوں اور ہونٹوں کو دیکھ الجھن زدہ سی ہوتے بولی تھی۔۔۔۔ وہ سنتے مسکرایا۔۔۔۔ اور جھٹکے سے اسے بانہوں میں بھرتے وہ بیک ڈور اوپن کیے اسے نرمی سے بٹھائے خود بھی اسکے قریب بیٹھا۔۔۔۔۔۔


کیا ہے دور رہیں اور ٹشو بھی دیں۔۔۔۔۔ اسکی تیز نظروں کو اپنے ہونٹوں پر ٹکا پاتے وہ غصے سے بولی۔۔۔۔ مگر مقابل نے اسکی کمر کے گرد ہاتھ حائل کرتے اسے جھٹکے سے کھینچتے اپنی گود میں بھرا۔۔۔۔۔ اور اپنے ہونٹوں سے اسکے چہرے کو صاف کرتے وہ اسے لرزنے پر مجبور کر گیا۔۔۔۔


یہ بہت پسند ہے مجھے۔۔۔اسکی تھوڑی میں موجود گھڑے کو جنونی انداز میں اپنے ہونٹوں سے چھوتے وہ اسے ابتہاج کی یاد دلا گیا۔ اببب ابتہاج۔۔۔۔۔۔!" ماہا کے ہونٹوں سے ابتہاج کا نام ادا ہوا تھا ۔۔۔۔وہ اپنے چہرے پر شدتیں لٹاتے اس شخص کے لمس کو آنکھیں موندے محسوس کرنے لگی جسکی سانسوں میں اترتی خوشبو بالکل اسے اپنے ابتہاج کے جیسے لگی تھی ۔۔۔


مقابل نے اسکے ہونٹوں پر انگلی رکھتے اسے خاموش کیا تو وہ خاموشی سے اسکے کندھوں کو تھامے اسے دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔ آواز نہیں ۔۔۔۔۔! اپنے ہاتھ کے انگوٹھے سے اسکے نچلے ہونٹ کو سہلاتے وہ بھاری لہجے میں کہتا اسکے ہونٹوں پر جھکا اپنی شدتیں لٹانے لگا ۔۔۔اسکے شدت بھرے لمس پر وہ نازک سی جان بالکل لزر کے رہ گئی تھی ، جبکہ مقابل نے اپنا بھاری ہاتھ اسکی کمر کے گرد حائل کیے اسے خود میں بھینجا اور اسکے چہرے کو اپنے سلگتے ہونٹوں سے چھوتے وہ اسے اپنے جنون سے روشناس کروانے لگا ۔۔۔۔


ماہا اسکے لمس پر اپنے سینے میں الجھتے سانس سے خوف سے آنکھیں موند گئی جبکہ اسکی رکتی سانسوں کو محسوس کرتے اسنے نرمی سے اسکے ہونٹوں کو آزادی دی تو اسکے سینے سے لگتے گہرے سانس بھرنے لگی ۔۔۔۔ مقابل کے بھاری ہاتھ اسکی پشت کو سہلاتے اسے پرسکون کر رہے تھے ۔۔۔ جبکہ وہ پرسکون ہونے کی بجائے مزید سہم سی گئی تھی ۔۔۔


تم ایک نمبر کے بدتمیز ڈاکو ہو میرا ہونٹ بھی زخمی کر دیا ۔۔۔۔ میں ابھی جاؤں گی صنم کو بھی بتاؤں گی اور پھر ابتہاج کو بھی فون کر کے بتاؤں گی ۔۔وہ چھوڑے گا نہیں تمہیں ۔۔۔۔۔ اپنے ہونٹ سے بہتے خون کو صاف کرتے وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی تو مقابل نے سنجیدگی سے اسے دیکھا ۔۔۔ جس کا سانس ابھی تک بھاری تھا ۔۔ ۔۔۔


کیا کہو گی تم ابتہاج سے۔۔۔ اسکے بالوں میں اپنے ہاتھ چلاتے وہ اپنے اپ کو سکون دینے لگا ۔۔۔۔۔ ماہا نے اسے گھورا ۔۔۔ اسے بتاؤں گی کہ ایک داڑھی والا ڈاکو ہے جو مجھے بری بری کسی کرتا ہے اور رات کو روز تنگ بھی کرتا ہے اور اگر اب تم نے مجھے نہیں جانے دیا تو یاد رکھنا میرا جیجا فوجی ہے ۔۔۔۔۔ وہ انگلی اٹھائے اسے صالح سے ڈرانے لگی ۔۔ اسکی بات اور لہجے میں چھپے غرور پر مقابل نے اسکی نازک سی انگلی اور پھر اسکے چہرے کو دیکھا ۔۔۔۔۔


اچھا ایک بات بتاو کیا تمہارے ابتہاج نے کبھی تمہیں اچھی والی کس بھی کی ہے ۔۔۔۔!" وہ صاف اسکی بات کا مذاق اڑا رہا تھا جس پر ماہا نے اسے نتھنے پھیلائے غصے سے گھورا ۔۔۔۔۔ شٹ اپ۔۔۔ بدتمیز ڈاکو وہ مجھے چکس پر بھی کس کرتا ہے اور فور ہیڈ پر بھی۔۔۔۔۔۔۔ وہ پہلے گالوں اور پھر اپنے ماتھے پر انگلی رکھتے اسے جتانے کے سے انداز میں دیکھ بولی ۔۔۔

وہ تو میں بھی کر سکتا ہوں۔۔۔۔وہ کندھے اچکائے اسکے گالوں اور پھر اسکے ماتھے پر ہونٹ رکھتے بولا تو ماہا کا سانس الجھ سا گیا ۔۔۔وہی دہکتا لمس وہ تڑپ اٹھی۔۔۔۔اسکی آنکھوں میں ایک دم جانے کتنے ہی آنسوں آئے تھے ۔۔۔۔ اگر ایک آنسوں بھی گرا ناں تو اچھا نہیں ہو گا۔۔۔ " اسکی نم آنکھوں کو دیکھتے وہ وخشت بھرے لہجے میں بولا تو ماہا نے ہونٹ پھیلائے اسے گھورا۔۔۔۔


شرم کرو کچھ تو میرا بے بی بھی دیکھ رہا ہے۔۔۔۔ اسے خود سے دور کرتے وہ سوں سوں کرتے لہجے میں خفگی سے بولی تو مقابل نے تاسف سے سر نفی میں ہلایا ۔۔۔ کیا کہہ رہا ہے تمہارا بے بی ۔۔۔۔۔ اسنے داڑھی کو برابر کرتے پوچھا ۔۔۔۔ اور ساتھ ہی اسکے کندھوں سے اپنا کوٹ بھی برابر کیا۔۔۔۔۔


" کہہ رہا ہے کہ ماما اس ڈاکو کی داڑھی کو پکڑ کے کھینچ کے اتار دو۔۔۔۔وہ غصے سے کہتے ساتھ ہی اسکی داڑھی کی جانب ہاتھ پھیلائے اسے کھینچنے لگی کہ مقابل نے اسے تیزی سے اپنی جانب جھپٹتے ہاتھوں کو جلدی سے پکڑا ۔۔۔۔۔ یہ کیا کر رہی ہو پاگل لڑکی۔۔۔۔اپنے بازو پر اسے کاٹتا دیکھ وہ غصے سے دانت پیستے ہوئے بولا ۔۔۔۔ ہاتھ چھوڑو ڈاکو مجھے یہ داڑھی نکالنی ہے۔۔۔۔۔ وہ پھولتے سانس سے اسے دیکھتے اسکی داڑھی کو نوچنے لگی ۔۔۔۔ مقابل کے اس چھوٹی سے پٹاخہ کو سنبھالنا مشکل ہو گیا تھا ۔۔۔ وہ بشمکل سے اسکے تیز ہاتھوں کو تھام رہا تھا ۔۔جو اس پہ غصے سے وار کرتے اسکی داڑھی کو فوت کروانا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔


تم جھوٹ بول رہی ہو بے بی تو کہہ رہا ہے کہ داڑھی اچھی ہے۔۔۔۔وہ اسکے ہاتھوں کو پکڑتے اسکی پشت کو خود سے لگائے بولا ۔۔۔۔۔ " میرا بے بی صرف مجھ سے بات کرتا ہے داڑھی والے جھوٹے ڈاکو ۔۔۔۔۔۔" وہ تیزی سے کہتی اسکے پیٹ میں مارتے اپنا ہاتھ چھڑا گئی۔۔۔۔کہ مقابل نے جلدی سے اسکی گردن پر ہونٹ رکھتے اسے ایک دم سے خاموش کر دیا ۔۔۔۔ اگر اب تم نے میری داڑھی پر حملہ کیا تو سوچ لو میں کیاکر سکتا ہوں ۔۔۔۔؟"


مقابل نے اسکے کندھے سے بال ہٹائے اپنے دہکتے ہونٹوں کا شدت بھرے لمس کو اسکے کندھوں پر چھوڑا تو وہ لرز سی گئی ۔۔۔۔ نن نہیں کرتی کک کچھ چچ چھوڑو ۔۔۔۔۔۔" وہ لرزتے بمشکل سے بولی تو مقابل نے گیتا مسکراتے اسکے کندھے کو ہلکا سا دانتوں سے کاٹا۔۔۔۔۔ گڈ گرل۔۔۔۔۔۔ اسکے کان کی لو کو چھوتے وہ اسے شاباشی دینے لگا۔۔۔


اب آنکھیں بند کرو اور خاموشی سے سو جاؤ ۔۔۔۔۔!" اسکے بالوں کو سہلاتے وہ ہونٹ اسکے سر پر رکھتے کہا تو ماہا نے آہستگی سے اپنا رکا ہوا سانس بحال کیا۔۔۔۔۔۔ وہ مسلسل اپنی گود میں۔ بھرے اس نازک وجود کو خود میں بھینجا۔۔۔۔۔ ماہا کی بھاری ہوتی سانسوں کو محسوس کرتےہوہ گہرا سانس بھرتے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائی ۔۔۔۔

ماہا اٹھو میری جان کب تک سونا ہے ۔۔۔؟'' اسکے کمرے کا پھیلاوا سمیٹتے صنم نے ماہا کی جانب دیکھتے اسے پکارا تھا جو صبح کے نو بجے تک سو رہی تھی ۔۔۔ صنم نے گہرا سانس خارج کیا اور چلتے اسکے قریب جاتے وہ اسے بازوؤں سے پکڑتے اٹھانے لگی ۔۔۔ ماہا برے سے منہ بنائے بیٹھی تھی اور فورا سے صنم کی جانب دیکھا، جو کمرے کا پھیلاوا سمیٹ رہی تھی ۔۔۔ میں یہاں کیسے آئے میں تو ڈاکو جی کے پاس تھی۔

اپنے اردگرد دیکھتے وہ حیرت سے پوچھنے لگی کہ اندر صنم نے اسے گھورا کیا مطلب کیسے آئی تم اپنے کمرے میں نہیں ہو گی تو اور کہاں جاؤ گی۔۔؟ صنم نے اسے گھورا تو ماہا برے سے منہ بناتے بیڈ سے اتری ، تمہیں کچھ نہیں پتہ صنم میں یہاں نہیں تھی۔


میں رات کو ابتہاج کو ڈھونڈنے گئی تھی اور پھر مجھے وہ۔ڈاکو جی مل گئے جو ادھر میرے کمرے میں بھی آتا ہے اور پھر میرے بے بی کو بھوک لگی تھی تو اس نے مجھے اور بےبی کو برگر بھی دیا کھانے کو ، پھر اسنے مجھے گاڑی میں اٹھا کے بٹھایا اور پھر ۔۔۔۔۔" بس کر دو ماہا کیا اول فول کہہ رہی ہو کوئی نہیں ہے اپنے پاس سے چیزیں سوچنا بند کر دو کبھی کوئی چور آ جاتا ہے تمہارے کمرے میں تو کبھی تم خود سے ہی باہر چلی جاتی ہو اور پھر کوئی ڈاکو یہ سب صرف تمہارے دماغ کا وہم ہے اور کچھ بھی نہیں۔

جتنا سوچو گی اتنا ہی سب اپنے پاس سے تصور کرو گی تو اپنے اس چھوٹے سے دماغ پر زور ڈالنا بند کرو ، اور یہ لو وہ کپڑے اسے پکڑاتے ہوئے بولی۔۔ یہ کیا ہے؟" ماہا نے کپڑوں کی جانب دیکھا جو کالے رنگ کا کافی اچھا سا سوٹ تھا ۔۔ صالح کے پاس اسکا کوئی دوست آ رہا ہے اور میں نہیں چاہتی کہ میری بہن کو دیکھ کر کوئی بھی باتیں بنائے اسی لیے تم ابھی شاور لینے جا رہی ہو اور میں تمہیں اچھے سے تیار کروں گی۔۔

صنم نے اسکے بال کندھے سے پیچھے کرتے کہا ، تو صالح کا دوست آ رہا ہے میرا تو نہیں میں کیوں تیار ہوں اسکا دماغ صنم کی سوچ سے بھی زیادہ چلتا تھا صنم نے تاسف سے اسے گھورا۔۔ کیونکہ وہ ہمارے گھر آ رہا ہے پاگل لڑکی اور میں بھی اچھے سے تیار ہوں گی اور تم بھی۔۔۔۔ صنم نے اسے کندھوں سے تھامتے زبردستی باتھروم میں بند کیا ۔۔

صالح کی بیوی تو صنم ہے پھر میں کیوں یہ کپڑے پہنوں۔۔ وہ ہاتھ میں تھامے اس سوٹ کو گھورتے سوچ رہی تھی ۔۔۔ میں ابتہاج سے ملوں گی تو یہ اسے پہن کر دکھاؤں گی میں ایسا کرتی ہوں جلدی سے ریڈی ہو جاتی ہوں۔۔ وہ خوشی سے سوچتے ساتھ ہی کپڑے ہینگ کرتے شاور لینے لگی۔

____________


صالح آپ کا یہ دوست آخر ہے کون جسے آپ نے صبح ہی صبح انوائٹ کر لیا آپ اسے رات کو ڈنر پر بھی انوائیٹ کر سکتے تھے ، صنم جلدی سے بریک فاسٹ بنا رہی تھی اور صالح اسکا ساتھ دے رہا تھا میں مدد کر تو رہا ہوں جان ویسے بھی وہ دس بجے تک پہنچے گا اور تب تک ہم دونوں مل۔کر بریک فاسٹ بنا لے گے۔۔۔ وہ آملیٹ بناتی صنم کے کندھوں کو ہونٹوں سے چھوتے اسکے کان کی لو پر لب رکھتے سرگوشی نما آواز میں بولا۔۔

آپ رہنے دیں آپ سے میں کسی اچھی چیز کی توقع نہیں کر سکتی آپ مجھے ہی تنگ کریں گے ۔۔ صنم نے جھنجھلاتے ہوئے اسے پیچھے کرنا چاہا جسکے دونوں ہاتھ اب صنم کے پیٹ پر تھے۔

صالح کچھ تو خیال کریں دور رہیں نان تنگ کریں مجھے۔۔۔ وہ اسکے ہونٹوں کا لمس اپنے گالوں اپنے کندھوں پر پاتے اپنی پشت اسکے سینے سے لگی محسوس کرتے پور پور پسینے سے شرابور ہوئی بولی، میں اپنے بچے سے پیار کر رہا ہوں تمہیں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔۔

صنم کو ٹوکتے وہ پھر سے اسکے کندھے پر ہونٹ رکھتے بولا تو صنم نے جھرجھری لی یہ شخص اسے رات ہو یا دن۔کبھی بھی ستانے کا کوئی موقع نہیں جانے دیتا تھا اور اب بھی وہ وہی کچھ کر رہا تھا۔

صصص صالح۔۔۔۔ اپنی گردن سے سرکتے اسکے ہونٹوں کے لمس پر صنم۔نے لرزتے اسے پکارا تو صالح نے فورا سے اپنی انگلی اسکے ہونٹوں پر رکھی۔

اششششش_____ یہ بہت پرانا طریقہ ہے جانم کچھ نیا بھی ٹرائی کر لیا کرو جیسے تم۔اپنے ہونٹوں سے میرے ان بےباک ہونٹوں کو روک سکتی ہو۔۔۔ مجھے کافی خوشی ہو گی تمہاری اس مدد پر۔۔۔۔ " وہ مزے سے اسکے کان کے قریب جھکتا معنی خیز بےباک سی سرگوشیاں کرتا صنم کو دہلا سا گیا تھا ۔

اچھا اچھا غصہ ہونے کی ضرورت نہیں میں جانتا ہوں تم بہت بےتاب ہو مگر یہ کچن ہے اور کسی بھی وقت ہماری ماہا بے بی آتی ہی ہو گی تو ہم ایسا کرتے ہیں یہ سب روم میں کریں گے میں تمہیں پورا موقع دوں گا اپنے ان گستاخ ہونٹوں کو سزا دینے کا مگر شرط یہ ہے کہ یہ سزا تمہارے ان حسین ہونٹوں سے ملے۔۔۔۔ صنم کا رخ اپنی جانب کرتے صالح نے بےہودی سے اسکے ہونٹوں پر ہونٹ رکھتے گہرا سانس اپنے اندر کھینچا تھا اور پھر ایک دم سے پیچھے ہوتے صالح نے خمار آلود نظروں سے صنم۔کے دھواں دھواں ہوئے چہرے کو بے باکی سے دیکھا جو اپنی گھبراہٹ پر قابو پانے کی کوشش کرتے اسے پیچھے کی جانب دھکا دیے اپنے کام میں مشغول ہوئی تھی۔۔

کیا ہے یار اتنا لیٹ کر دیا تم نے میں جلدی سے ریڈی ہو جاتا ہوں ، وحید مراد قریشی آنے والا ہو گا ، پھر اسکے ساتھ مجھے آفس بھی جانا ہے کام کے سلسلے میں۔۔۔ وہ سارا الزام صنم پر ڈالے اب اطمینان سے اسے اپنی روٹین سا آگاہ کرتا اوپر کمرے کی جانب بڑھا تھا ۔۔۔اسکی پشت کو گھورتے صنم نے تاسف سے سر نفی میں ہلا دیا۔

_______________


کیا ہوا ہے دلاور آپ اتنے پریشان کیوں ہیں۔۔۔؟" صبا بیگم راکنگ چئیر پر خاموش بیٹھے دلاور شاہ کے کندھے پر ہاتھ رکھتے انکے قریب بیٹھی تھی جو کسی گہری سوچ میں مبتلا تھے۔۔ ہممممم_____ کچھ نہیں بس ماہا کا سوچ رہا ہوں۔۔۔ " انکے ہاتھ کے لمس پر وہ ہوش میں آتے تکلیف سے بولے ۔

آپ دعا کریں اللہ پاک ہماری بچی کو صبر دے دیں بس آمین ثم آمین______" وہ خود بھی کافی رنجیدہ تھیں انہیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر کو وہ کیا کریں ___ کیسے اپنی بچی کو اس غم اس تکلیف سے نکالیں۔۔ مجھے لگتا ہے میرے گناہوں کی سزا دی ہے میرے اللہ نے مجھے ۔۔۔۔ میری معصوم پھولوں جیسی بچی کو میں نے پوری زندگی کبھی سینے سے نہیں لگایا اسے کبھی محبت کی نظروں سے نہیں دیکھا ۔۔

اور آج میری بچی میری آنکھوں کے سامنے تڑپ رہی ہے اور میں کچھ نہیں کر سکتا۔ وہ بے بسی سے اپنی اندرونی کیفیت سے انہیں آگاہ کرتے بولے تو صبا بیگم مزید رنجیدہ ہوئی۔

میں نے سوچ لیا ہے کہ میں ماہا کو اپنے پاس لے آؤں گا ۔ وہ اپنی آنکھوں میں آئے آنسوں پونچھتے ہوئے اپنا فیصلہ صبا بیگم کو سناتے ہوئے بولے۔

نہیں دلاور ہم ایسا کچھ نہیں کر سکتے ، صنم اور صالح اسکا خیال دکھ رہیں ہیں۔۔۔ اگر وہ دوبارہ سے یہاں آئی تو اسکی حالت مزید بگڑ جائے گی ۔ اسے ابھی آرام کی ضرورت ہے اگر وہ یہاں آئے گی تو ابتہاج کی یادیں اسے مزید پاگل کر دیں گی اس وقت اسے وہاں ہی رہنے دیں۔۔ صبا بیگم نے انہیں آرام سے سمجھانا چاہا تھا مگر وہ مزید بےچین ہوئے تھے۔

تم جانتی نہیں میں نے اسے خود دیکھا ہے وہ مجھے دیکھ کر بھاگ گئی صباء جانتی ہو یہ کتنا اذیت ناک تھا میرے لئے ۔ وہ ایک دم تڑپ اٹھے صباء بیگم کی اپنی انکھںں اشکبار تھی ۔۔ وہ لاجواب ہو گئی۔۔۔ میں کل جاؤں گا مری چاہے جو بھی ہو میں اسے اپنے ساتھ لاؤں گا اسے وہ ساری محبت وہ لاڈ پیار دوں گا جس پر اسکا حق ہے میں اسے اپنے پاس رکھوں گا دنیا سے چھپا کر صرف اپنے لئے۔

صباء بیگم کینجانب دیکھتے وہ ایک پریقین لہجے میں بولے تو وہ خاموش ہو کے رہ گئی، انکی اذیت انکا دکھ وہ خود بھی جانتی تھی مگر وہ یہ بھی جانتی تھی کہ انکے اس فیصلے سے ماہا کی زندگی مزید مشکل ہونے والی تھی ۔


________________



مسٹر خان مجھے آپ کی ڈیل بے حد پسند ہے اسی وجہ سے تو میں آپ سے ملنے یہاں آیا ہوں آپ کے گھر ۔۔۔۔ صالح کی جانب دیکھتے وحید مراد قریشی نے اشتیاق سے کہا تو صالح گہرا مسکرایا ۔۔ آپ کا۔بے حد شکریہ مسٹر قریشی کہ آپ نے پوری انڈسٹری میں سے ہماری کمپنی کو اپنے لیے چنا مجھے آپ کے ساتھ کام کر کے بے حد خوشی ہو گی۔۔

صالح نے صنم کی جانب دیکھتے ہوئے محبت سے کہا تھا صنم صالح کے ساتھ بیٹھی خاموشی سے یہ سب کچھ سن رہی تھی ۔ مگر اسکا دھیان سارا ماہا کی جانب اٹکا تھا ۔۔ ماہا کو کپڑے تو وہ دے آئ تھی مگر اسے تیار نہیں کر پائی تھی اوپر سے یہ بزنس مین اچانک ہی وقت سے پہلے ٹپک پڑا تھا جس کی وجہ سے وہ کافی تپی ہوئی تھی۔۔

صنم صالح یہ دیکھو میں کیسی لگ رہی ہوں ۔۔۔۔ ' سیڑھیوں کے وسط میں کھڑی وہ اپنے ہاتھ میں دوپٹہ لہراتے ایک ادا سے بول رہی تھی ۔ اسکے بھیگے بالوں سے بہتی پانی کی بوندیں اسکی گردن میں گرتے مقابل کو اپنی جانب متوجہ کرنے لگی۔۔۔ چونکہ صالح اور صنم کی پشت اس جانب تھی وہ دونوں نہیں جانتے تھے کہ پیچھے کھڑی وہ مس کوین کونسا شوشا چھوڑ رہی تھی۔۔


اسکے نازک وجود کی نشیب و فراز دیکھتے مقابل کو اپنے حلق میں کانٹے سے اترتے محسوس ہوئے تھے وہ بمشکل سے اپنا چشمہ سیٹ کیے نظریں گھما گیا۔۔۔ ماہا یہ کیا کر رہی ہو سامنے دیکھو مہمان آئے ہیں۔۔۔۔ اسکے قریب جاتے صنم نے جھڑکتے اسکا۔دوپٹہ کھینچا تھا اور فورا سے خجاب بنائے اسکے سر پر پہنایا ۔۔۔۔

ماہا نے صنم کی پشت سے نکلتے سامنے دیکھا جہاں سرخ داڑھی میں آنکھوں پر بڑا سا چشمہ لگائے وہ کوئی آدمی تھی ۔۔


اب شرارت نہیں کرنی۔۔ اسکے گال کو چھوتے صنم نے تنبیہ کی اور اسے ساتھ لئے چلتے وہ میز کے قریب پہنچی ۔۔۔ یہ میری بہن ہے ماہا۔۔۔ صنم نے اسے اپنےساتھ والی کرسی پر بٹھاتے تعارف کروایا ۔۔۔۔ مقابل نے اسکے بھیگے چہرے نم ہونٹوں کو دیکھتے ایک سرد سانس فضا کے سپرد کیا اور جبرا مسکراتے سر ہاں میں ہلایا۔۔

ہیلو سرخ داڑھی والے انکل جی۔۔۔ ماہا نے خود سے اسے پکارا جو پیچارہ پانی پی رہا تھا۔

اسکی بات پر جہاں صنم۔اور صالح شرمندہ سے ہوئے وہیںں مسٹر قریشی کو اچھوکا سا لگا تھا ۔۔

اسکی چہرہ ایک دم سے سرخ پڑ گیا یہ سمجھنا مشکل تھا کہ یہ سب کس وجہ سے تھا۔ ماہا کے انکل کہنے پر یا پھر داڈھی والے انکل۔کہنے پر۔۔۔

ماہا ۔۔۔۔۔۔صنم نے دانت پیستے اسے خاموش کروانا چاہا جو صنم کو یوں گھور رہی تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔۔

ویسے مجھے ایک بات تو بتائیں کیا آپ کی یہ داڑھی بھی ڈاکو جی کی طرح اصلی ہے ۔۔ اسے تجسس ہوا تھا اور کل رات کا کوئی بھی سین وہ بھولی نہیں تھی اسکی ایک ہی رٹ پر صنم نے ماتھے پر ہاتھ رکھا تھا جبکہ صالح وحید مراد کو دیکھ رہا تھا جس کی نظریں ماہا پر تھیں ۔

جی نہیں یہ میری خاص پسندیدہ داڑھی ہے۔؟ اسنے ہاتھ سے شیو برابر کرتے کہا تو صالح کو ہنسی آئی اسکی حالت پر مگر پھر صنم کے آنکھیں دکھانے پر وہ خاموشی سے بیٹھا رہا۔۔ ابکی بار ماہا کچھ بولتی اس سے پہلے ہی صنم۔اسکا۔ہاتھ تھامے اسے واپس کمرے میں لے گئی۔


آج رات میں نے ایک پارٹی رکھی ہے مسٹر خان تاکہ سب کو پتہ چل سکے کہ ہم دونوں ایک ساتھ کام کر رہے ہیں۔۔ مسٹر قریشی نے جگہ سے اٹھتے صالح کو مخاطب کیا ۔۔۔۔ مجھے خوشی ہو گی میں ضرور آؤں گا مسٹر قریشی۔۔۔ صالح اسکے ساتھ ہی نکلتے مسکراتا ہوا بول رہا تھا۔۔ جی مگر مجھے زیادہ خوشی ہو گی جب اپ اپنی بیوی اور سالی کو بھی لائیں گے ساتھ ڈونٹ وری ایک چھوٹی سے گیٹ ٹو گیدرنگ ہے اور کچھ نہیں۔۔۔ ' اسکی پریشانی کو بھانپتے قریشی نے اسکا کندھا تھپکا۔


نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہم ایک مہینے سے ایک ساتھ کام کرتے آئے ہیں اور مجھے آپ ہر پورا یقین ہے مسٹر قریشی۔۔۔۔ اسکا۔کندھا تھپکتے صالح نے دل سے کہا تو وہ مسکرا دیے۔


_______________


صالح اور وحید مراد کے جانے کے بعد صنم نے کافی کوششوں کے بعد ماہا کو کھانا کھلاتے میڈیسن دی تھی ڈاکٹرز کے مطابق ماہا کی ریکوری اسکی نیند سے ہو سکتی تھی۔۔ صنم کافی دیر تک اسکے پاس بیٹھی رہی ماہا کو پرسکون سوتا دیکھ صنم نے جھکتے اسکی پیشانی پر لب رکھے اور بنا آواز کیے وہ روم سے نکلتے ہی دروازہ بند کرتے نیچے اتری تھی۔۔

میز پر برتن یونہی پڑے تھے اسے اس وقت کافی تھکاوٹ بھی محسوس ہو رہی تھی کیونکہ صبح سے وہ ناشتہ تیار کرتے کافی تھک گئی تھی اوپر سے ماہا کو سنبھالنا سب سے زیادہ مشکل کام تھا اسکے لئے جسے وہ محبت سے کر رہی تھی۔۔


اچانک سے دروازے پر ہوتی دستک پر وہ صالح کا سوچتے برتن چھوڑتے دروازہ کینجانب بڑھی تھی۔پاپا آپ۔۔۔۔۔۔۔ دروازے پر کھڑے دلاور شاہ کو دیکھتے صنم کو حیرت اور خوشی دونوں ہی ہوئی تھی وہ مسکراتے ہوئے انکے قریب گئی اور فورا سے انکے سینے سے لگی۔۔


اسکے سر پر ہاتھ رکھتے دلاور شاہ کا ہاتھ تھم سا گیا انہوں نے فورا سے ہاتھ کھینچ لیا صنم ان کی بے رکھی کے باوجودِ بھی مسکرا دی۔۔۔ آئیے پاپا اندر آئیں۔۔۔ انہیں ساتھ لیے وہ اندر داخل ہوئی۔

ماہا کہاں ہے ۔۔؟" صنم کی بات کا جواب دیے بنا وہ متلاشی نظروں سے ماہا کو ڈھونڈتے اسکی بابت پوچھنے لگے۔۔۔۔

پاپا وہ تو سو رہی ہے آپ بیٹھیں میں ناشتہ لاتی ہوں آپ کیلئے ۔ صنم کی آنکھوں میں خوشی کی چمک تھی کہاں سوچا تھا اس نے کہ اسکے پاپا اسے معاف نہیں تو کم از کم اب ناراض بھی نہیں تھے وگرنہ جو کچھ وہ کر چکی تھی ان سب کے بعد یہ سب کچھ ناممکن سا لگتا تھا اسے۔۔

نہیں مجھے کچھ نہیں کھانا میں بس ماہا کو لینے آیا ہوں اسے لے کر ہی جاؤں گا ۔۔۔۔ وہ اٹل لہجے میں کہتے ماہا کے کمرے کی جانب بڑھے تھے ۔۔۔

پاپا یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ۔۔۔ ماہا بھلا کہاں جائے گی وہ یہاں میرے ساتھ میرے پاس رہے گی۔ صنم نے انکے قریب جاتے انکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو دلاور صاحب نے مڑتے اسے دیکھا۔

وہ میری بیٹی ہے میں اسے لینے آیا ہوں اور لے کر ہی جاؤں گا۔۔۔۔ وہ کہتے ساتھ ہی اوپر کی جانب بڑھنے لگے۔۔کہ صنم نے آگے بڑھتے انکا ہاتھ تھاما اور انہیں ساتھ لیے وہ اپنے کمرے کینجانب چل پڑی دلاور صاحب خاموشی سے اسکے ساتھ جا رہے تھے، انہیں خود نہیں معلوم تھا کہ وہ کیا کرنے والی ہے۔

یہ لیں یہ دیکھیں ماہا کی رپورٹس ڈاکٹرز نے صاف صاف کہا ہے کہ اگر ماہا دوبارہ سے اس اسٹیج میں گئی جہاں اسے صرف اور صرف ابتہاج کی یادیں اسکے ساتھ گزارا وقت یاد آتا رہا تو پھر ماہا کے ٹھیک ہونے کے چانسزز زیرو ہو جائیں گے ۔۔۔ ہم اسے ہمشیہ کیلئے کھو دیں گے پاپا۔۔اپ چاہتے ہیں کہ وہ دوبارہ سے اسی جگہ جائے وہی سب کچھ یاد کرے۔۔۔

میں مانتی ہوں پاپا کہ میں نے بہت سی غلطیاں کی ہیں میں ایک نافرمان اولاد ہوں مگر کیا آپ کی بے رخی میرے خدا کی دی گئی سزا کیا میرا مکافات میرے گناہوں کو آپکی نظر میں کم نہیں کر سکتا ۔۔۔۔ انکے دونوں ہاتھوں کو تھامے وہ بے بسی سے بولی تو دلاور صاحب نے نظریں چرا لی۔۔۔

پاپا مجھے معاف کردیں پلیز میں نے آپ کی نافرمانی کی اس دنیا نے مجھے ریزہ ریزہ کر دیا ، میں بے حد شرمندہ ہوں اپنے کیے پر کیا آپ مجھے معاف نہیں کریں گے ۔ انکے ہاتھوں کو تھامتے وہ محبت سے ان پر بوسہ دیے بولی تو دلاور صاحب کا دل بھاری ہونے لگا۔؟

انہوں نے ضبط سے سرخ آنکھوں سے اپنے ہاتھوں پر سر رکھتے روتی اپنی لاڈلی کو دیکھا۔۔

جس کی ایک غلطی نے ان سے انکا مان غرور عزت سب کچھ چھین لیا تھا ۔پلیز ماہا کو مت لے کر جائیں۔۔ انکے سینے سے لگے وہ بری طرح سے رو رہی تھی ابھی تو اسنے ایک بہن کی طرح ماہا کا خیال رکھنا شروع کیا تھا اب جب وہ اسے چھوڑ کر چلی جائے گی تو صنم پھر سے اکیلی پڑ جائے گی ۔۔۔

پاپا مجھے معاف کر دیں پلیز۔۔۔ اسکے لرزتے وجود اسکے لہجے کی سچائی پر آخر کار دلاور صاحب نے اپنا ہاتھ صنم کے سر پر رکھا تھا ۔۔ جو اپنی سرخ نظروں سے انہیں دیکھنے لگی۔۔۔۔

میری بیٹی امانت ہے تمہارے پاس صنم۔۔۔۔اسکا بہت زیادہ خیال رکھنا اور اپنا بھی۔۔۔۔ وہ ضبط سے اپنے دل پر قابو کرتے نم لہجے میں بولے تو صنم نے سر ہاں میں ہلایا۔۔۔ دلاوہ صآحب اسکے سر پر ہاتھ رکھے بنا کچھ کہے وہاں سے چلے گئے ۔۔۔


_______________


اففففف بیگم اگر ایسے غضب کی تیاری کے ساتھ جاؤ گی تو یقین جانو میرا دل اور ارادہ دونوں ہی بدل جائیں گے۔ صالح جو صنم کو دیکھنے اندر آیا تھا اسے ریڈ کلر کی شارٹ فراک میں ملبوس دیکھ ، چہرے پر ہلکا سا میک اپ کے ساتھ بالوں کا اونچا جوڑے بنائے وہ اسکے قاتل حسن سے متاثر ہوئے پیچھے سے اسے ہگ کرتے بولا تو صنم نے آئینے سے اپنے ساتھ نظر آتے صالح کے عکس کو مسکراتے دیکھا۔

میں نے کہا تھا کہ میکسی پہننا ، اسکے چہرے پر جھولتے لٹ کو انگلی کے گرد لپیٹتے وہ شکوہ کرنے لگا کہ صنم نے سرد سانس خارج کرتے صالح کو آنکھیں چھوٹی کیے گھورا۔ صالح آپ جانتے ہیں کہ میکسی کتنی فٹ ہوتی ہے اور ایسی کنڈیشن میں میرا دم گھٹنا شروع ہو جاتا ہے ۔ اپنے ہونٹوں پر ریڈ لپ اسٹک لگاتے وہ صالح کو پیچھے کرنے لگی جس کی بے باک نظریں صنم کے ہونٹوں پر تھی ، ویسے جو آپشن میں نے تمہیں صبح دیا تھا وہ ابھی تک ویلڈ ہے تم اپنے ان خوبصورت ہونٹوں سے مجھے خاموش کروا سکتی ہو جانم کیونکہ یہ پھر سے کوئی گستاخی کرنے کا سوچ رہے ہیں۔

صنم کے گرد اپنی بانہوں کا حصار بناتے صالح کے اسکے کندھے پر ہونٹ رکھتے کان میں سرگوشی کی تو صنم نے تاسف سے سر ہلایا ۔

کبھی تو باز آ جایا کریں صالح ابھی مجھے ماہا کو تیار کرنے جانا ہے۔ اسکے ہونٹوں کی بڑھتی بے باکیوں سے وہ کسمساتی اسکے حصار کو توڑنے کی کوشش کرتے بولی تو صالح نے اسکی کمر کے گرد ہاتھ لپیٹتے صنم کا رخ اپنی جانب کیا ،

کس نے کہا تھا کہ ایسے قاتلانہ تیار ہو کر اپنے شوہر کے سامنے آؤ اور پھر جب اسکے جذبات دہکنے لگیں۔ تو آگے سے نخرے دکھانا شروع کر دیتی ہو، وہ خفگی سے اسکی تھوڑی پر ہونٹ ثبت کرتے اسے ڈانٹنے کے سے انداز میں بولا تو صنم نے اس ناٹک باز کو گھورتے خود سے دور کرنا چاہا۔

ایسے کیسے میڈم ۔۔ صنم کے دور ہونے پر صالح نے فورا سے اسکا ہاتھ تھامتے اپنی گردن کے گرد حائل کیے وہ اسکے نازک وجود کو اپنے قریب تر کرنے لگا۔

تھوڑا سا چکھنا تو بنتا ہے ظالم بیوی ۔۔۔۔ صنم کی ناک پر ہونٹ رکھتے وہ بے باک سرگوشی کرتے اسکے نازک ہونٹوں پر جھکتے اپنی من مانیاں کرنے لگا۔

اسکے لمس میں ہمشیہ کی طرح ہی وہی نرمی اور محبت آباد تھی کہ صنم اسکے لمس پر مدہوش سی ہو گئی۔۔۔صالح نے نرمی سے اسکے ہونٹوں کو آزادی دیے اسکی گردن پر اپنے ہونٹوں کی مہریں ثبت کیں تو صنم کا سانس اکھڑنے لگا۔۔۔

صصص صالح۔۔۔۔ صنم نے اسے خود سے دور کرنے کو پکارا تو صالح نے سر اسکی گردن سے نکالتے اسے دیکھا جو آنکھیں بند کیے گہرے سانس بھر رہی تھی۔

میرے جذبات میری چاہت تم پر بہت زیادہ ادھار بنتے جا رہے ہیں۔ میرا بے بی تمہیں بچا لیتا ہے ہر بار مگر ڈونٹ وری ایک بار بےبی کو آنے دو پھر فرصت سے اپنے سارے حساب اپنی فیورٹ سٹائل میں پورے کروں گا۔۔

اسکے ہونٹوں پر اپنا لمس چھوڑتے وہ پیچھے ہوتے اسے اپنے حساب کتاب کے متعلق بتانے لگا کہ صنم کا چہرہ شرم سے دہکتا انگارہ بن گیا۔

وہ بمشکل سے اسے خود سے دور کیے ماہا کو تیار کرنے اسکے کمرے کی جانب بڑھی تھی۔


______________


آئیے آئیے مسٹر خان میں آپکا ہی انتظار کر رہا تھا۔۔گہرے ڈارک بیلو کلر کے تھری پیس میں ملبوس اپنی شاہانہ وجاہت بڑھی ہوئی سرخ داڑھی اور آنکھوں پر چشمے لگائے وہ جو کب سے انکی۔راہ تک رہا تھا صالح کو اندر آتا دیکھ وہ فورا سے انکے قریب گیا۔۔

آپ نے اتنی محبت سے بلایا تھا مجھے تو آنا ہی تھا۔ صالح نے مسکراتے ہوئے کہا تو مسٹر قریشی سنتے سر ہاں میں ہلا گئے۔

بھابھی کو نہیں لائے آپ ساتھ کہاں بھی تھا کہ سب کو لائیے گا۔۔ " صالح کو اکیلا دیکھ مسٹر قریشی نے صنم۔اور ماہا کو ناں پاتے پوچھا ۔

نہیں وہ آئیں ہیں ساتھ بس صنم ماہا لے کر آ رہی ہے۔صالح نے باہر دروازے کی جانب دیکھتے اسے آگاہ کیا تو اتنے میں ہی صنم ماہا کا ہاتھ پکڑے اندر داخل ہوئی تھی۔

ڈارک بیلو کلر کی پاؤں کو چھوتی اس خوبصورت میکسی میں ملبوس ، سر پر خجاب کیے چہرے پر ہلکا سا میک اپ کیے وہ صنم کے ساتھ مسکراتے ہوئے اندر بڑھی تھی ۔

اسلام علیکم بھابھی مجھے خوشی کہ آپ لوگ بھی میری پارٹی میں آئے ویلکم ۔۔۔ صنم اور ماہا کینجانب دیکھتے اسنے گہرے لہجے میں مسکراتے ہوئے کہا تھا ماہا تو گردن گھمائے آگے پیچھے دیکھ رہی تھی جہاں پورا ہال ہی لڑکیوں اور مردوں سے بھرا ہوا تھا۔۔۔ اسنے ڈرتے صنم کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا تو صنم نے اسے خود سے لگایا۔۔۔ مسٹر خان آئیے میں آپ کو کچھ لوگوں سے ملواتا ہوں۔

صالح کو دیکھتے مسٹر قریشی اسے ساتھ لیے ایک جانب کھڑے بڑے بڑے بزنس مین کے پاس گئے اور صالح کا تعارف کروانے لگے۔

صنم مجھے وہ جوس لا کر دو بے بی نے پینا ہے۔۔۔ " صنم جو تھکاوٹ کی وجہ سے ایک جانب کرسی۔پر بیٹھی تھی ماہا نے اشتیاق سے ان بوتلوں کو دیکھتے کہا تھا ۔

تم کچھ زیادہ ہی شریر ہو رہی ہو ماہا ہر بار اس معصوم پر الزام لگا دیتی ہو اور کوئی جوس نہیں پینا یہاں سے پتہ نہیں کونسا جوس ہو گا اور کونسی شراب ۔۔۔ خبردار جو کسی بھی جوس کو ہاتھ لگایا۔۔ اسکو ساتھ بیٹھاتے صنم۔نے اسے حکم بھی دیا مگر ماہا کی نظریں ابھی تک ان بوتلوں پر اٹکی تھی۔

ڈانس پلیز۔۔۔۔۔ میوزک سٹارٹ ہوتے ہی صالح مسٹر قریشی سے اجازت لیے انکے قریب آیا اور اپنا ہاتھ صنم کے سامنے پھیلائے کہا تو صنم نے شرماتے سر ہاں میں ہلا دیا ۔۔۔

ماہا آنکھیں چھوٹی کیے انکو گھور رہی تھی ۔ صنم کو تھامے صالح وہاں سے جیسے ہی گیا۔۔وہ تیزی سے اٹھتے میز کی جانب گئی اور ایک دم سے ایک بوتل اٹھائے جلدی سے اپنے منہ کو لگائی۔۔

اسکا ذائقہ کڑوا کیوں ہے۔۔۔ اسنے منہ بسورتے بوتل کو دیکھا جو اسکے ہاتھ میں تھی ۔۔ ایک بار پھر سے چیک کرتی ہوں کیا پتہ اچھا ہو۔۔ اسنے چور نظروں سے صالح اور صنم کو دیکھا جو اب ڈانس کر رہے تھے ۔

اور پھر سے بوتل منہ کو لگائی۔۔اس بار اسے اس جوس کا ٹیسٹ اچھا لگا تھا ۔۔۔۔ارے واہ میں اسے چھپا کے گھر لے جاؤں گی اور اپنے کمرے میں بیٹھ کر پیوں گی وہ نشے سے جھولتی اس بوتل کو دیکھتے مسکراتے ہوئے بولی تھی ، ارے واہ یہ تو گول گول گھومتی بھی ہے اسنے سامنے بوتل کو غور سے دیکھا تو ہنستے خود سے ہی مخاطب ہوئی تھی۔

بہت اچانک کسی نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا ماہا نے صنم کے خیال سے فورا سے بوتل میز پر رکھتے مڑتے پیچھے دیکھا ۔۔ارے سرخ داڑھی والے انکل آپ۔۔۔ !" وہ ہنستی وحید قریشی کو دیکھتے ہوئے بولی تو مقابل نے اپنا ایک ہاتھ پینٹ میں پھنسائے اسکی سرخ آنکھوں میں دیکھا۔

ڈانس کریں گی میرے ساتھ۔۔اسکے نازک وجود کو آنکھوں میں بسائے وہ گھمبیر لہجے میں بولا ۔۔ اوکے مگر مجھے زیادہ تیز مت گھمانا۔۔۔ وہ اپنا نازک ہاتھ مقابل کے چوڑے سرخ و سفید ہاتھ میں رکھتے بولی تو وحید قریشی نے اسے چونکتے دیکھا وہ کیوں بھلا۔۔۔۔؟" اسکے ہاتھ کو مضبوطی سے تھامے وہ اپنے قریب تر کرتا اسکی خوشبو کو خود میں اتارنے لگا۔

کیونکہ اندر بے بی بیٹھا ہے اگر تم نے گھمایا تو وہ بھی گھومے گا اور اسے چوٹ بھی لگے گی۔

وہ دانشمندانہ انداز میں بولی تو مقابل نے گہرا سانس فضا میں خارج کرتے اسکے پیٹ کی جانب دیکھا اور پھر نرمی سے اسکے تھامے ہاتھ کو اپنے کندھے پر رکھتے وہ اسے ساتھ لیے آگے بڑھا تھا۔۔

توں آتا ہے سینے میں جب جب سانسیں بھرتی ہوں ۔

تیرے دل کی گلیوں سے میں ہر روز گزرتی ہوں۔

کون تجھے یوں پیار کرے گا جیسے میں کرتی ہوں۔"

اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے وہ گانے کے مدہوش کرتی تیز دھنوں پر اپنا ایک ہاتھ ماہا کی کمر کے گرد حائل کیے اسکے ساتھ احتیاط سے ڈانس کر رہا تھا۔۔ جبکہ ماہا تو مکمل۔ساتھ ساتھ گنگنا رہی تھی۔۔ جس پر مقابل اسکے ساتھ ڈانس کرتے وحید قریشی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھری ۔

مسٹر قریشی۔۔۔۔۔اچانک سے صالح کے بلانے پر وحید نے ماہا کو نرمی سے چھوڑا اور مڑتے پیچھے متفکر سے کھڑے صالح کی جانب دیکھا۔

صنم کی طبیعت خراب ہو رہی ہے مجھے اسے ہاسپٹل لے جانا ہو گا آپ پلیز آج ماہا کا خیال رکھ دیں گے کیونکہ اگر ماہا نے صنم کو اس حالت میں دیکھ لیا تو وہ مزہد پینک ہو جائے گی۔

صالح نے اپنی پریشانی سے آگاہ کیا تو مقابل جیسے یہی سننے کو بے چین تھا۔

ڈونٹ وری میں انکا خیال رکھوں گا آپ بھابھی کو لے جائیں۔۔

اسنے کھلے دل سے اجازت دی جس پر صالح مشکور ہوتا صنم کو ساتھ لیے وہاں سے نکلا تھا۔

مسٹر قریشی نے مڑتے ماہا کو دیکھا جو وہاں نہیں تھی اسکے ماتھے پر بل نمودار ہوئے ۔۔۔ وہ تیزی سے آگے بڑھتا اسے ڈھونڈنے لگا۔

ماہا سویمنگ پول کے قریب اپنے دونوں گھٹنے کھڑے کیے ان پر سر رکھے ابتہاج کو یاد کرتے رو رہی تھی ۔۔ اسے آج کتنی یاد آئی تھی ابتہاج کی مگر وہ تو جیسے اپنی ماہا کو بھول ہی گیا تھا۔

ماہا نے سوں سوں کرتے اپنے آنسوں صاف کیے اور شفاف پانی میں دیکھنے لگی۔۔ نشے سے اسکا سر بھاری ہو رہا تھا۔۔اسنے سر جھٹکتے پانی میں دکھتے اس عکس کو گھورا جو اسکے ابتہاج کا تھا

ماہا نے منہ کھولے حیرت سے مڑتے دیکھا تو ابتہاج اسکے پیچھے کھڑا تھا وہ دھڑکتے دل سے فورا سے اٹھی تھی کہ ایک دم سے لڑکھڑاتے وہ پیچھے پانی میں گری اس اچانک افتاد پر اسکے منہ سے چیخ نکلی تھی۔۔۔۔وہ ڈرتے انکھںں بند کیے خود کو بچانے کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے لگی کہ ابتہاج نے فورا سے چھلانگ لگاتے پانی میں جاتے اسے تھاما۔۔

جس کا پورا وجود ڈر سے کپکپا رہا تھا۔۔ ماہا۔۔" اسکی بند آنکھوں کو دیکھتے ابتہاج نے اسے سینے سے لگائے متفکر سا ہوتے پکارا تھا۔۔

ماہا نے آنکھیں مضبوطی سے میچیں ۔۔۔اسے لگا یہ اسکا خواب تھا جو آنکھیں کھولتے ہی ٹوٹ جائے گا۔۔

ماہا آنکھیں کھولو۔۔۔ابتہاج نے اسکی بھیگی گردن پر اپنے بھیگے ہونٹ رکھتے سرگوشی کی تو ماہا نے سر نفی میں ہلایا۔۔

" میں جانتی ہوں اگر آنکھیں کھولی تو یہ خواب ٹوٹ جائے گا۔۔ '

اسکی آنکھوں سے بہتے آنسوں اسکے کہے الفاظ ابتہاج نے اسے ایک دم سے خود میں بھینج لیا۔۔ابتہاج کا ایک ہاتھ ماہا نے کمر کے گرد حائل تھا جبکہ اپنے دوسرے ہاتھ سے وہ اسکے بالوں کو سہلاتا ماہا کو پرسکون کرنے لگا۔

کہاں چلے گئے تھے آپ مجھے چھوڑ کر سب نے کہا کہ آپ نہیں رہے مجھے چھوڑ کر بہت دور چلے گئے ہیں مگر میں جانتی تھی کہ آپ مجھے چھوڑ کر کبھی نہیں جا سکتے۔

وہ روتے ہوئے ابتہاج کو مضبوطی سے تھام گئی جیسے ڈر ہو کہ وہ پھر سے چھوڑ کر چلا جائے گا۔

میں کہیں نہیں جا سکتا ماہا میں تمہارے قریب ناں ہو کر بھی تمہارے قریب ہوں۔۔۔

میری ہر آتی جاتی سانس میں تم بستی ہو بھلا ابتہاج گردیزی تمہیں چھوڑ سکتا ہے تم میرا آکسیجن سلینڈر ہو جبھی تو روز آتا ہوں اپنی سانسیں لینے تم سے۔۔۔ ٹھنڈ سے کپکپاتے ماہا کے وجود کو اپنے ہونٹوں سے چھوتے وہ مدہوش سا بھاری سرگوشیاں کرنے لگا۔

ماہا کا وجود اسکے ہونٹوں کے شدت بھرے لمس پر کپکپانے لگا تھا۔۔وجود سے جیسے جان نکل رہی ہو۔۔ ابتہاج نے نرمی سے اسے بانہوں میں بھرا تھا اور پھر چلتے وہ اسے اپنے کمرے کی جانب لے جانے لگا۔۔

اسکی قربت میں وہ سب کچھ بھلائے اسکے سینے سے لگی ابتہاج کی دھڑکنوں کو سن رہی تھی۔

ابتہاج نے۔اندد آتے ہی ڈور پاؤں سے لاک کیا اور پھر چلتے بیڈ کے قریب جاتے وہ نرمی سے اسے بیڈ پر لٹائے اسکے قریب جھکا۔۔

ابتہاج۔۔۔۔اسے دور جاتا محسوس کرتے ماہا نے تڑپتے اسے پکارا تھا ابتہاج نے مسکراتے جھکتے اسکی پیشانی پر ہونٹ رکھتے اسے پرسکون کیا۔۔اور پھر اٹھتے وہ ڈرا کی جانب بڑھا۔۔

کمرے کی معنی حیز خاموشی میں ماہا کی تیزی سے دھڑکتی سانسیں ایک ہرفسون ماحول برپا کرنے لگی ماہا کا نازک بھیگا وجود کپکپا رہا تھا ہونٹ بھی سردی سے ٹھٹرے ہوئے تھے۔

ابتہاج اپنی مطلوبہ چیز نکالتے ماہا کی جانب بڑھا جو بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔

یہ میری جان اور میری آنے والی جان کیلئے ۔۔۔۔۔ اپنے ہاتھوں میں تھاما ایک خوبصورت سا پینڈنٹ جس میں اے ایم ہارٹ شیپ میں لکھا ہوا تھا ماہا کی گردن میں پہناتے ابتہاج نے جھکتے اپنے ہونٹ اس پینڈنٹ پر رکھے تو ماہا تیز تیز سانس لیتے آنکھیں موند گئی۔

ابتہاج نے ہونٹ اسکی بند آنکھوں پر رکھے تو ماہا نے تڑپتے اسکے کندھوں کو تھاما تھا ۔ مگر اب ابتہاج کا اس سے دور رہنا نا ممکن۔تھا ابتہاج نے نرمی سے اسکے بھیگے خجاب کو اسکے سر سے اتارا تو ماہا کے حسین بال لہراتے اسکے چہرے پر گرے جن کی خوشبو کو خود میں اتارتے ابتہاج نے اپنے دونوں ہاتھ ماہا کی نازک کمر میں حائل کیے اسے کھینچتے اپنے قریب تر کیا۔

بہت تڑپا ہوں میں تمہارے لئے اپنے بے بی کیلئے ماہا ۔۔۔ اب مجھے خود سے دور مت کرنا ماہا کے پیٹ پر ہونٹ رکھتے ابتہاج نے اسکے کان۔میںں سرگوشی کی تو اسکے جنون کو لفظوں میں محسوس کرتی ماہا نے اپنے خشک حلق کو تر کیا ۔

اپنی شرٹ اتارتے دور پھینکتا وہ ایک دم سے ماہا کے ہونٹوں پر جھکا خود کو سیراب کرنے لگا۔۔۔ اسکے لمس اپنی سانسوں میں اترتی اسکی گرم سانسوں کو محسوس کرتے ماہا کی ٹانگیں لرزنے لگی تھی مگر اسے خود سے دور کرنے کی سکت وہ خود میں نہیں رکھتی تھی۔

ابببب ابتہاج۔۔۔۔۔۔ اپنی کمر سے کھلتی زپ کو محسوس کرتے ماہا نے ڈرتے اسے پکارا تھا کمرے میں پھیلے اندھیرے اور معنی خیز سی خاموشی میں ماہا کی سانسوں کی آواز کو سنتے ابتہاج نے اسکے دائیں کندھے سے میکسی سرکاتے اپنا شدت بھرا لمس اسکے کندھے پر چھوڑا تو ماہا نے تڑپتے اسے خود سے دور کرنا چاہا تھا۔

ابتہاج نے اسکے دونوں ہاتھوں کو اپنے بھاری ہاتھوں میں الجھائے تکیے سے لگایا کہ ماہا اسکی جان لیوا قربت پر نڈھال سی ہو گئی ۔ جب اںتہاج نے اسکے ہونٹوں پر جھکتے اسکے فرار کے سارے راستے خود تک محدود کر لیے۔۔۔ اسکے نازک وجود کو اپنی محبت سے چھوتے وہ اسے محبت اپنی چاہت سے روشناس کروانے لگا۔

صالح آپ مجھے نیچے اتاریں میں ٹھیک ہوں کچھ نہیں ہوا مجھے۔۔۔" صالح کے کندھے پر ہاتھ رکھتے صنم نے جھنجھلاتے ہوئے کہا تو صالح نے سر جھکائے اپنی گود میں موجود اپنی معصوم جان کو دیکھا۔۔

نہیں ہو تم ٹھیک ، تمہاری وجہ سے میرا بے بی بھی ٹھیک نہیں ہے ۔۔ میں نے پہلے ہی تمہیں وارن کیا تھا صنم کہ چاہے کچھ بھی ہو مگر تم خود پر کسی بھی چیز کا بوجھ یا پھر سٹریس نہیں لو گی۔

مگر تمہیں میری کوئی بات کہاں سمجھ آتی ہے۔…؟" اسے گھورتے وہ خفا خفا سا بولا۔۔۔ آج کے بعد تمہیں میں اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاؤں گا۔۔۔۔ کمرے میں داخل ہوتے صالح نے پاؤں سے دروازہ بند کرتے ایک اور شوشا چھوڑا ، صنم نے منہ بنائے اسے دیکھا۔

میں ٹھیک سے کھاتی ہوں صالح آپ کو کوئی ضرورت نہیں مجھے کھلانے کی۔۔۔۔۔" وہ منہ بنائے بولی تو صالح نے اسے بیڈ پر لٹاتے گھورا۔۔

اچھا اسی وجہ سے اتنی ویکنیس ہوئی پڑی ہے تمہیں، حالت دیکھو اپنی بالکل کمزور ہو گئی مجھے اپنا بچہ بالکل سہی سلامت چاہیے صنم اور اپنی بیوی بھی ۔۔۔۔۔ صنم کے قریب دائیں بائیں اپنے دونوں ہاتھ رکھتے وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے مضبوط لہجے میں بولا ۔۔۔ تو اپنے ہونٹوں پر جھکتے صالح کو دیکھ صنم نے فورا سے اسکے ہونٹوں پر ہاتھ رکھا۔۔

اب کیا پروبلم ہے۔۔۔ صالح نے گھورتے اسکا ہاتھ اپنے ہونٹوں سے ہٹاتے پوچھا۔۔۔

"ووو وہ مم ماہا کہاں ہے ہم اسے کب لینے جائیں گے۔۔۔" صالح کی جذبات کی آنچ دیتی نظروں سے نگاہیں چرائے وہ منمنائی تو صالح نے لب بھینجتے اسے گھورا۔۔

وہ ابصام کے پاس ہے ہم صبح لے آئیں گے اسے۔۔۔۔ صالح نے جھکتے اسکی گردن پر ہونٹ رکھتے سرگوشی کی ۔۔ ابصام کے پاس کیوں وہ وہاں اسکے پاس کیسے رہے گی ساری رات صالح۔۔۔ ہمیں ابھی جانا ہو گا۔۔۔"

صنم کا دماغ ابھی تک ماہا پر اٹکا ہوا تھا وہ جانتی تھی کہ ماہا کسی دوسرے انسان کے پاس زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتی تھی ۔۔۔۔

کچھ نہیں ہو گا اسے وہ ٹھیک ہے میری بات ہوئی تھی فون پر کچھ دیر پہلے اب تک تو وہ سو گئی ہو گی۔۔۔"

صنم کے بالوں کو جوڑے سے آزاد کرتے وہ گھبیر لہجے میں بولا تو صنم نے سرد سانس فضا کے سپرد کیا۔۔۔

صالح نے جھکتے اپنے ہونٹ صنم کے ماتھے پر رکھے تو صنم اسکے لمس پر خاموشی سے آنکھیں موند گئی ، صالح کی نظریں صنم کے حسین چہرے سے ہوتے اسکے ہونٹوں پر ٹکی تھی۔۔

جبھی وہ بے ہودی سے اسکے ہونٹوں پر جھکتا صنم۔کی سانسوں کو اپنی سانسوں سے الجھا گیا ، اپنے ہونٹوں پر صالح کی دہکتی گرفت کو محسوس کرتے صنم کا سانس سینے میں اٹکنے لگا کہ صالح نے جھکتے اسکے ہونٹوں کو آزادی دیے اسکی گردن اور کندھوں کو اپنے ہونٹوں سے چھوا۔۔ صنم سرخ چہرے سے پڑی لمبے لمبے سانس لیتے خود کو پرسکون کرنے لگی کیونکہ وہ جانتی تھی صالح اپنی من مانیاں کیے بغیر پیچھے نہیں ہٹے گا ۔۔

جبھی وہ اسکی پناہوں میں خاموش پڑی تھی۔۔ صالح کی بڑھتی شدتوں پر وہ آنکھیں موندے ہمیشہ کی طرح اپنا آپ اسی کے سپرد کر گئی ۔۔۔

_____________

ابببب ابتہاج پلیز ناں کریں مجھے سونا ہے۔۔۔ " ماہا منہ بسورتے ابتہاج کو خود سے دور کرنے کی کوشش کرتے نیند سے بھری سرخ آنکھوں سے اسے دیکھتے بولی تو ابتہاج کے چہرے پر خوبصورت سی مسکراہٹ رقص کرنے لگی ۔

اتنے دنوں سے سوئی ہی رہی ہو میں نے کونسا تمہیں کچھ کہا ہے مگر آج اتنے دنوں کے بعد مجھے خود کو محسوس کرنے سے نہیں روکو تم ۔۔۔۔۔ " ماہا کی گردن پر اپنے ہونٹوں کا لمس چھوڑتے وہ بوجھل لہجے میں بولا تو ماہا خاموش سی رہ گئی ۔۔

کمرے کے ملگجے اندھیرے کے باوجود بھی وہ جانتی تھی کہ صبح ہو چکی تھی ،پوری رات ابتہاج کی من مانیاں اسکی شدتیں سہتے وہ اب خاصی تھکی ہوئی تھی مگر ابتہاج کا ابھی تک اس سے دور ہونے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔۔

وہ کسی پاگل جنونی شخص کی طرح اسے بار بار اپنی بانہوں میں سمیٹتے اسے خود سے قریب کر لیتا جیسے ڈر ہو کہ کوئی اسے دور ناں لے جائے۔۔

ابب ابتہاج وہ ڈاکو جی آپ ہی تھے ناں اور سرخ داڑھی والے انکل بھی۔۔۔۔۔ ماہا کے ذہن میں اچانک سے ہی اس ڈاکو کا چہرہ لہرایا۔جس کا لمس بالکل اسکے ابتہاج کی طرح کا تھا۔۔ ابتہاج نے مسکراتے اپنے ہاتھ کی انگلی سے ماہا کے چہرے پر آتے بالوں کو پیچھے کیا اور جھکتے اسکے گال پر اپنے لب رکھے ۔۔

ہاں میں ہی تھا ، تمہارا ڈاکو جی اور سرخ داڑھی والا انکل بھی ۔۔۔۔۔ اسکی تھوڑی کو محبت سے چھوتے وہ بھاری لہجے میں بولا تو ماہا کی آنکھوں میں آنسوں آنے لگے ۔۔اگر وہ آپ ہی تھے تو پھر کیوں مجھ سے اتنا عرصہ دور رہے کیوں مجھے یہ نہیں بتایا کہ آپ زندہ ہیں اور کیوں سب کو چپ نہیں کروایا جو مجھے بار بار کہتے رہے کہ تمہارا ابتہاج نہیں رہا ۔۔"

اسنے روتے اپنی بھیگی شکوہ کرتی نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔ ابتہاج نے گہرا سانس فضا کے سپرد کرتے جھکتے ماہا کے ماتھے پر لب رکھے۔۔۔ تو ماہا نے خفا ہوتے اسے خود سے دور کرتے رخ موڑنا چاہا۔۔ مگر ابتہاج نے ایک دم سے اسکی نازک کمر کے گرد بازوؤں حائل کیے اسکا رخ دوبارہ سے اپنی جانب کرتے اسے مضبوطی سے اپنے بازوؤں میں بھرا۔۔

کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ میری وجہ سے میری جان اور میرے بچے پر کوئی آنچ آئے۔۔۔ کوئی ہے جو مجھے تباہ و برباد کرنا چاہتا ہے اور میں اب تک اپنے اس دشمن سے انجان تھا مگر اب میں جانتا ہوں کہ میرا دشمن کون ہے اور اب مجھے کسی کا کوئی ڈر خوف نہیں میں اپنی ماہا کو اب کبھی بھی خود سے دور نہیں جانے دوں گا ۔۔۔۔ تم نہیں جانتی کہ یہ سارا عرصہ میں نے کیسے کانٹوں پر گزارا ہے ۔۔

تمہیں دیکھنے چھونے اور محسوس تک کرنے سے محروم رہا میں۔۔۔ کیا تم نہیں جانتی کہ میں تمہارے بنا سانس۔تک نہیں لے سکتا اور یہ سارا عرصہ میں نے جس طرح سے گزارا ہے یہ میں یا تو پھر میرا رب جانتا ہے۔۔۔۔

اببب ابتہاج میں خود بھی آپ کے بنا نہیں رہ سکتی آپ کبھی بھی مجھے چھوڑ کے مت جائیے گا۔۔۔۔ میں مر جاؤں گی آپ کے بنا۔۔۔۔۔"" اپنے نازک ہاتھوں کا حصار ابتہاج کے چوڑے وجود کے گرد بنائے وہ معصوم سی کوشش کرتے اسے اپنے جذبات اپنے خدشات سے آگاہ کرنے لگی مگر اسکی یہ معصوم حرکت ابتہاج کو پھر سے بہکنے پر مجبود کر گئی جبھی اسنے شدت سے جھکتے اسکے نازک ہونٹوں کو اپنی گرفت میں لیا کہ ماہا اسکے لمس پر کپکپاتے اسی کے مضبوط حصار میں مقید تھی۔

ابببب ابتہاج۔۔۔۔ ماہا نے سہمتے اسکی شدتوں سے نڈھال ہوتے اسے پکارا تو ابتہاج نے اپنی سرخ ہوتی نظروں سے اسکی سہمی آنکھوں میں دیکھا ۔۔۔۔۔

ابھی تو ملی ہو تمہیں محسوس کرنے کا وقت آیا ہے ابھی سے ہی سہم گئی ۔۔۔ ماہا کی آنکھوں سے نمی چنتے وہ ہلکا سا طنز کرتے بولا تو ماہا نے منہ پھولائے اسے گھورا، بہت برے ہیں آپ۔۔۔۔۔" ابتہاج نے محبت سے اسکے گالوں پر لب رکھے تو ماہا نے خفا سا ہوتے کہا۔۔۔

اچھا پھر سے چلا جاؤں۔۔۔" وہ شرارت سے اسکے کان میں سرگوشی کرتے بولا تو ماہا نے فورا سے گردن گھمائے اسے دیکھا ۔۔۔۔

ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔ مذاق کر رہا تھا یار ۔۔۔۔۔۔۔۔ ماہا کی آنکھوں میں جھلکتے خوف اور اور آنسوں کو دیکھ ابتہاج نے فورا سے کہا تھا۔۔۔

بات مت کریں مجھ سے مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی۔۔۔۔۔۔ وہ سوں سوں کرتے غصے سے اسکے سینے پر مکے مارتے اپنی بھڑاس نکالنے لگی کہ ابتہاج نے فورا سے اسکے ہاتھوں کو پکڑتے اپنی گردن کے گرد لپیٹتے اسکے ہونٹوں پر جھکتے اسے خاموش کروا دیا ۔۔

_____________


صالح ہم ماہا کو لینے کب جائیں گے۔۔۔۔ صنم نے منہ پھولائے صالح کا ہاتھ پیچھے کرتے کہا تو صالح نے اسے گھورتے دیکھا ۔ چپ چاپ کھانا کھاؤ آرام سے ماہا کو بھی لے آتا ہوں میں۔۔

آپ کیوں ہم دونوں چلیں گے ماہا کو لینے ۔۔۔۔ صنم نے پھر سے اسے ٹوکا تو صالح نے ایک دم سے اسکی کمر کے گرد ہاتھ لپیٹتے اسے کھینچتے گود میں بھرا۔۔ یییی یہ کیا صص صالح میں گر جاوں گی چھوڑیں تو مجھے۔۔۔۔۔" صنم نے ڈرتے اسکے کندھوں کو مضبوطی سے تھامتے کہا تو صالح نے ائبرو اچکاتے اسے گھورا۔۔۔۔۔ " تم جانتی ہو میرے پاس تمہیں چپ کروانے کا کافی وافر مقدار میں سٹاک موجود ہے۔۔۔کہو تو زخمت دوں تمہیں کیونکہ یہ کام تو میرا فیورٹ ہے مجھے بہت اچھا لگتا ہے تمہیں چپ کروانا۔۔"

اپنے ہاتھ کے بھاری انگھوٹھے سے صنم کے نچلے ہونٹ کو مسلتے وہ بے باکی سے گویا ہوا تو صنم نے اپنی لرزتی پلکوں کو گرا دیا۔۔۔

صص صالح۔۔۔۔۔۔صالح کے بےہودی سے اپنے ہونٹوں کو چھوتے دیکھ صنم نے اسکے کندھوں پر دباؤ دیتے اسے خود سے دور کیا ۔۔۔ کیا ہے مجھے بھی ناشتہ کرنے دو کیوں ڈسٹرب کر رہی ہو۔۔۔۔وہ جھڑکتے صنم کی کمر کے گرد ہاتھ لپیٹتے اسے قریب تر کر گیا کہ صنم نے آنکھیں پھیلائے اسے گھورا۔۔۔

تت تو کریں میں نے کک کون سا آپ کو روکا ہے۔۔۔۔؟" صنم نے اپنی کمر کے گرد بندھے صالح کے مضبوط ہاتھ کو نکالنے کی کوشش کرتے کہا تو صالح نے ہونٹ دانتوں تلے دبائے۔۔۔۔

اپنی فیورٹ ڈش کو ہی چکھ رہا تھا مگر تمہیں جانے کیوں مسئلہ ہوا رہتا ہے ۔۔۔

وہ گردن ناں میں ہلائے تاسف سے کہتے ساتھ پھر سے صنم کے ہونٹوں پر جھکا تھا۔۔۔ صنم نے اسکے کالر کو دبوچتے اسے دور کرنا چاہا مگر صالح نے سختی سے اسکی کمر کے گرد لپیٹے اپنے ہاتھ کی مدد سے اسکے نازک وجود کو دباؤ دیے خود کے مزید قریب ہے تر کیا کہ صنم بے بس سی اپنے ہونٹوں پر اسکی من مانیاں سہتی نڈھال سی اسی کی گود میں بیٹھی تھی ۔۔۔

یہ لو جوس۔۔۔۔۔ صنم کی رکتی سانسوں کو محسوس کرتے وہ پیچھے ہوا اور ایک دو منٹ سانس لینے کے بعد ہاتھ بڑھاتے میز سے جوس کا گلاس اٹھائے صنم کے ہونٹوں سے لگایا۔۔۔

مجھے نہیں پینا صالح ایسے کون کرواتا ہے ناشتہ خدارا مجھے معاف کر دیں میں آج کے بعد اپنی ڈائیٹنگ کا خاص خیال رکھوں گی کبھی کوئی بھی شکایت نہیں ہونے دوں گی۔۔۔۔

صنم نے التجائیہ لہجے میں کہتے ساتھ ہی معصومیت سے منہ بنائے اسے دیکھا ۔۔۔اسے کیا پتہ تھا کہ اس کی لا پرواہی کی وجہ سے اسے صالح خان کی بے باکیوں کو مزید جھیلنا پڑے گا ۔۔وہ۔شخص تو ویسے ہی اسکی ہر آتی جاتی سانس کا حکمران بنا بیٹھا تھا اور اب بھی تو وہ ایسا ہی کر رہا تھا۔اپنی من مانیاں ۔۔۔۔

ڈونٹ وری ڈارلنگ صالح خان اپنے رولز خود بناتا ہے میں کسی کے بنائے رولز پر نہیں چلتا اب سے تمہیں دونوں ٹائم کا کھانا میری گود میں بیٹھ کر کھانا ہو گا اور وہ بھی صالح اسپیشل طریقے سے۔۔۔۔۔۔ " صنم کے بالوں کو اسکے کان کے پیچھے اڑستے وہ آنکھ دباتا بے باکی سے بولا۔۔

"جوس۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ۔صنم کچھ کہتی صالح نے فوراً سے اسکے ہونٹوں سے جوس کا گلاس لگایا ۔۔۔ صنم نے منت بھری نظروں سے اسے دیکھا جس کا صالح پر کوئی اثر نہیں ۔ہوا تھا۔۔۔ جبھی نا چاہتے ہوئے بھی صنم کو سارا جوس پینا پڑا۔۔۔۔۔

تم تو ایک ہی دن میں ٹرین ہو گئی ہو ڈارلنگ ویری گڈ۔۔۔۔۔۔۔ صنم کے سرخ تپے چہرے سے ہوتے صالح کی نظریں پھر سے صنم کے ہونٹوں پر گئی جو ابھی تک جوس کی وجہ سے نم تھے۔۔۔

ارے ارے میرے ہوتے ۔۔۔۔۔ تمہیں ان سب کی ضرورت نہیں جان غلام خاضر ہے میں خود صاف کرتا ہوں ۔۔۔۔" اسکے ہاتھ سے ٹشو لیتے وہ نخوت سے واپس میز پر پھینکتے مسکراتے ہوئے بولا۔۔۔۔ صص صالح نو ۔۔۔۔۔میں کر لوں گی صاف۔۔۔۔۔اسکی بے باک نظروں کا پیغام پڑھتے صنم نے اسے خبردار کیا تو صالح نے مسکراتے ہوےاسے دیکھا۔۔۔

اس میں شرمانے والی کوئی بات نہیں ، مجھے خوشی ہو گی کہ میں تمہارے کام آ سکا۔۔ صنم کا سرخ تپا تپا چہرہ اسے مزید جسارتوں پر اکسا رہا تھا۔۔ جبھی وہ جھکتے صنم کے منع کرنے کے باوجود بھی اسکے ہونٹوں پر لگے۔جوس کو اپنے ہونٹوں سے صاف کرنے لگا۔۔۔۔

صص صالح باہر کوئی یے۔۔۔۔ اچانک ڈور بیل کی آواز سنتے صنم نے اسے کندھوں سے تھامتے پیچھے کرتے کہا تو صالح نے منہ بنائے دروازے کو گھورا جیسے ابھی اسے کھا جائے گا۔۔

میں دیکھتا ہوں تم تب تک ایک اور گلاس فنش کرو جوس کا۔۔

وہ اسے ہدایت دیتے اٹھتا دروازے کینجانب گیا ۔۔ صالح۔۔۔۔۔ میرا بچہ میرا بیٹا۔۔۔۔۔۔۔ دروازہ کھولتے ہی سامنے سے اندر آتے ارسم خان کو دیکھتا صالح ایک منٹ میں اگ بگولا ہوا تھا۔

رک جائیں خبردار جو اندر آئے تو۔۔۔۔۔ " صالح نے غصے سے آنکھوں میں نفرت سموئے تیز لہجے میں کہا تو ارسم خان نے حیرانگی سے اپنے بیٹے کو دیکھا جبکہ صنم بھی صالح کے یوں چلانے پر تیزی سے دروازے کی جانب آئی۔۔۔ جہاں پر صالح کے جیسے دکھتے ارسم خان کو کھڑا دیکھ وہ پہچان گئی تھی کہ یہی صالح کے بابا ہیں۔۔

کونسا بیٹا کہاں کا بیٹا آپ کا بیٹا آپکی بیوی کے ساتھ ہی مر گیا تھا تو پلیز اب یہ فضول کا ڈرامہ لگا کر مجھے مزید غصہ مت دلائیں مجھے آپ کی شکل تک نہیں دیکھنی۔۔۔۔۔"

صالح کا بس نہیں تھا کہ وہ ابھی کچھ کر دے اس شخص کو جو بد قسمتی سے اسکا باپ تھا۔۔

میں مانتا ہوں کہ مجھ سے بہت سی غلطیاں ہوئی ہیں ، میںنے اپنی بیوی اور بچے کو چھوڑ دیا مگر بیٹا مجھے اپنے کیے کا پچھتاوا ہے ، میں اتنے سالوں سے اسی شرمندگی میں رہا ہوں کہ میں نے اپنے بیٹے کو اور اپنی بیوی کو بےسہارہ چھوڑ دیا مگر میں شرمندگی کی وجہ سے تم سے معافی مانگنے تک نہیں آیا میرے بچے مجھے ڈر تھا کہ تم مجھے معاف نہیں کرو گے اور پھر میں زیادہ ٹوٹ جاؤں گا تمہاری نفرت میں برداشت نہیں کر سکتا تھا۔۔۔۔"

اپنے آنسوں صاف کرتے وہ مظلومیت طاری کرتے بولے تو صالح نے مٹھیاں بھینجتے انہیں گھورا ۔

تو آپ اب بھی یہی سمجھ لیں کہ میں نے آپ کو۔معاف نہیں کیا اور چلے جائیں واپس۔۔۔ صالح نے انتہائی نفرت سے انہیں دیکھتے وہاں سے جانے کا کہا تو صنم نے ایک نظر ارسم خان کو دیکھا جن کی حالت بالکل کسی لاچار باپ کے جیسی تھی۔۔

مجھے یقین تھا کہ تم۔مجھے معاف نہیں کرو گے اسی لیے میں نے پہلے ہی سوچ لیا تھا کہ تم اگر مجھے معاف نہیں کرو گے تو میں اپنی جان دے دوں گا۔۔۔۔ ارسم خان نے مضبوط لہجے کہتے ساتھ ہی اپنے پاکٹ سے گن نکالی تو صالح کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے۔۔۔

ہو سکے تو اپنا دل بڑا کر کے اپنے باپ کو معاف کر دینا۔۔ اپنی کنپٹی پر گن رکھتے ارسم خان نے آنکھیں موندے کہا۔۔۔۔

صصص صالح انہیں روکیں۔۔۔۔" صنم نے ڈرتے صالح کا بازو پکڑا۔۔۔۔۔۔

صالح نے آگے بڑھتے گن اوپر کی تھی کہ ٹھاہ کی آواز کی کے ساتھ گن سے نکلتی گولی چھت پر لگی ، یہ کیا کر رہے تھے اپ۔۔۔۔۔۔" صالح نے غصے سے انکے ہاتھ سے گن چھینتے نیچے پھینکی۔۔

اپنے گناہوں کا مداوا تو نہیں کر سکتا مگر میں اپنی جان تو دے سکتا ہوں۔۔۔۔۔ وہ اونچی آواز میں روتے ہوئے کہہ رہے تھے ۔۔۔

صالح نے جبڑے بھینجتے انہیں گھورا۔۔۔ ٹھیک ہے میں نے آپ کو معاف کیا مگر یہ بات یاد رکھیے گا کہ ابکی بار اگر آپ نے جھوٹ بولا تو اچھا نہیں ہو گا۔۔۔۔" صالح انہیں وارن کرتے تیز لہجے میں کہا جبکہ ارسم خان تو اسکے معاف کر دینے کا سنتے ہی خوشی سے نہال ہوتے اسے سینے سے لگا گئے۔۔۔۔

_______________

ابتہاج آپ بھی تو کھائیں۔۔۔۔۔۔ گلابی رنگ کے خوبصورت سے سوٹ میں ملبوس چہرے پر ابتہاج کی محبت کے سارے رنگ لیے وہ اپنی جانب بڑھتے ابتہاج کے ہاتھ کو تھامتے متفکر سی بولی تھی۔۔ اںتہاج نے مسکراتے اسے دیکھا، جان میں کھا لوں گا مگر اس وقت تمہیں اور ہمارے بے بی زیادہ ضرورت ہے کھانے کی۔۔۔ ماتھے پر بکھرے بالوں میں وہ آنکھوں میں محبت کی چمک لیے ماہا کو دیکھتے بولا ۔۔

آپ کو کیسے پتہ کہ بے بی کو بھوک لگی ہے۔۔۔۔۔ !" ماہا نے آنکھیں حیرانگی سے پھیلائے اںتہاج کو دیکھا تو ابتہاج نے مسکراتے ہوئے ماہا کے چہرے پر آتے بالوں کو پیچھے کیا۔۔ کیونکہ میں اسکا بابا ہوں اور مجھے سب کچھ پتہ ہے۔۔۔" ماہا کے معصومیت سے پوچھنے پر ابتہاج نے نرمی سے جھکتے اپنے ہونٹ اسکی پیشانی پر ثبت کرتے کہا تو ماہا نے سکون کا سانس لیتے ابتہاج کو اپنے قریب تر محسوس کیا۔۔۔ اسکا ابتہاج اسکے قریب تھا اسکے پاس۔۔۔۔۔

ابتہاج ہم اپنے بے بی کی شاپنگ بھی کریں گے ناں تو ہم کب چلیں شاپنگ پر۔۔۔اسکے ہاتھ کو تھامتے وہ چہکتے ہوئے بول رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ ماہا کے معصوم سوال اسکی خوشبو کو اپنے اردگرد پھیلتا محسوس کرتے ابتہاج کو اپنی زندگی میں خوشی کی بہار لوٹتی محسوس ہوئی تھی ۔۔۔

ہم چلیں گے شاپنگ پر مگر فلحال ہم ڈاکٹر کے پاس جائینگے۔۔۔۔۔ " ماہا کے ہونٹوں کو صاف کرتے وہ نرمی سے بول رہا تھا ۔اسکے لمس اسکی آواز میں بالکل نرمی تھی جیسے کہ اسے ڈر ہو کہ اسکے اونچے بولنے یا پھر چھونے سے بھی اسکی ماہا کو تکلیف ملے گی۔۔

مگر ہم ڈاکٹر کے پاس کیوں جائیں گے بے بی تو ٹھیک ہے اور ماہا بھی۔۔۔۔۔ ماہا نے منہ بناتے اسے آگاہ کیا اسے بالکل بھی اچھا نہیں لگتا تھا کسی بھی ڈاکٹر کے پاس جانا اور میڈیسن تو اسے بالکل بھی نہیں پسند تھیں۔۔۔

نہیں ہم صرف ایک بار دکھانے جائیں گے کہ بے بی ٹھیک ہے اسکے بعد ہم واپسی پر شاپنگ بھی کریں گے اور ڈنر بھی باہر کریں گے۔۔۔۔۔

وہ محبت سے اسے بچوں کی طرح سمجھا رہا تھا ۔۔۔ ابتہاج بس کر دیں میں کونسا بچی ہوں میں خود چلتی ہوں۔۔۔۔۔ اسے ناشتہ کروانے کے بعد ابتہاج نے نرمی سے اسے بانہوں میں بھرا تھا جس پہ وہ منہ بنائے بولی تو ابتہاج نے قہقہ لگاتے اسے دیکھا۔۔۔

جانم بچی تو نہیں رہی تم بلکہ ایک بچے کی ماں بننے والی ہو۔۔۔۔۔۔" ابتہاج نے اسے چھیڑتے اپنے ہونٹ ماہا کی تھوڑی پر رکھے تو ماہا شرماتے اسکے سینے سے جا لگی۔۔۔

تم میں جان بستی ہے ابتہاج گردیزی کی ماہا ۔۔۔۔۔۔۔ تمہاری ان چھوٹی چھوٹی حرکتوں ان معصوم باتوں کو میں نے کتنا مس کیا ہے تم سوچ بھی نہیں سکتی۔۔۔۔۔

ابتہاج کے لہجے میں وخشتیں آباد تھی۔۔۔۔ماہا سے دور گزارا ہر ایک لمحہ اسے کسی اذیت ناک سزا کی طرح لگا تھا۔

مگر آج اس کی موجودگی اسکے پاس ہونے پر ابتہاج کی ساری دنیا ہی پررونق ہوئی تھی ۔۔۔۔

ابتہاج میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں کبھی مجھ سے دور مت جائیے گا۔۔۔

ابتہاج نے جھکتے اسے بیڈ پر لٹایا تو ماہا نے اسکی گردن کے گرد اپنے بازو کو لپیٹتے ابتہاج کی آنکھوں میں دیکھتے محبت سے کہا تھا۔۔۔۔ ابتہاج کی آنکھوں میں ایک الگ سی چمک ایک جنون سا آباد ہوا تھا ماہا کا یوں معصومیت سے اپنی محبت کا اظہار کرنا ابتہاج کو بھایا تھا۔۔

کبھی بھی نہیں اب تو تم خود بھی چاہو تو میری قید سے رہائی نا ممکن ہے۔۔۔ "

ابتہاج نے گہری سرگوشی کرتے ماہا کی بند آنکھوں کو دیکھا جس کے ہونٹوں پر خوبصورت سی شرمیلی مسکراہٹ تھی۔۔

ابتہاج نے نرمی جھکتے ماہا کی گلاب کے پنکھڑیوں کی مانند خوبصورت ہونٹوں کو اپنی گرفت میں لیا اسکا لمس شدت بھرا تھا ۔۔۔ وہ مدہوش سا ماہا کے نازک ہونٹوں پر اپنی شدتیں لٹائے ماہا کو اپنی محبت سے روشناس کروانے لگا۔۔۔

ابتہاج نے نرمی سے ماہا کے بھیگے نم بالوں کو اسکی گردن سے ہٹاتے اپنے سلگتے ہونٹ ماہا کی گردن پر رکھے تو ماہا کی ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ سی دوڑی۔۔۔۔۔ ابتہاج نے ہونٹ ماہا کی شہہ رگ پر رکھتے اسکی بند آنکھوں لرزتی پلکوں کو دیکھا۔۔۔۔

جان تم جلدی سے ریڈی ہو جاؤ آج کا یہ سارا دن میں تمہاری قربت میں تمہارے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں۔۔۔۔ " ماہا کی آنکھوں کو چھوتے وہ دیوانگی سے بولا ماہا خاموش پڑی اسکی سرگوشیوں کو سن رہی تھی جس کے ہونے سے وہ تھی۔۔

میں نیچے ویٹ کر رہا ںوں میری جان آپ جلدی سے اچھے سے ریڈی ہو جاؤ اور ریڈ لپ اسٹک لگانا وہ بے باکی سے اسکے کان میں سرگوشی کرتے ماہا کے دھواں دھواں چہرے کو دیکھتے مسکراتا وہاں سے نکلا تھا۔۔۔۔

________________


آئیے آئیے آپ کا ہی انتظار کر رہا تھا میں۔۔۔۔ اپنے مخصوص روبعدار انداز میں وہ اونچی آواز میں شاہانہ چال چلتا سیڑھیوں سے اترتے اپنے سامنے کھڑے صالح اور صنم سے مخاطب ہوا۔۔

صالح اور صنم نے چونکتے ابتہاج کی آواز پر مڑتے سیڑھیوں کینجانب دیکھا جہاں ابتہاج گردیزی اپنے شاہانہ وجاہت انگیز پرسنالٹی کے ساتھ کھڑا ان دونوں کو حیرت میں مبتلا کر گیا۔۔

ابب ابتہاج۔۔۔۔۔" صنم اور صالح بے یقین سے کھڑے تھے یقین کر پانا نا ممکن تھا ان کا ابتہاج زندہ تھا ابتہاج تم ٹھیک ہو تھینک گاڈ یار۔۔۔۔" صالح ہربڑاتے کچھ بھی نا سمجھ آنے پر دوڑتے اسکے قریب جاتے اسکے سینے سے لگا جبکہ ابتہاج بنا کچھ بولی یونہی سپاٹ چہرے سے کھڑا تھا۔۔

ماہا کو پتہ ہے کہ تم زندہ ہو وہ کتنی خوش ہو گی ۔۔۔۔ صنم۔دیکھو ابتہاج زندہ ہے بالکل ٹھیک سہی سلامت۔۔۔۔۔صالح کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا وہ پرجوش لہجے میں صنم کو پکارتے اسے بھی بتانے لگا جس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسوں تھے۔۔۔۔

ہاں اللہ نے بچا لیا مجھے وگرنہ کئی لوگ تو مجھے جان سے مارنے کی پوری پلاننگ کے ساتھ تیار کھڑے تھے۔۔۔اسنے ہاتھ سے پکڑتے ابتہاج کو خود سے دور کیا۔۔۔۔ تو اسکے بدلے بدلے سے اندازپر صالح کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے۔۔۔ کیا بات ہے ابتہاج کھل کے کہو کیا ہوا ہے۔۔۔؟"

آپ دونوں بات کریں میں ماہا سے مل لوں۔۔۔صنم کب سے ماہا کو ڈھونڈ رہی تھی اب بھی وہ ان دونوں کو چھوڑے ماہا سے ملنے کا کہتے اوپر کی جانب بڑھی۔۔

نہیں صنم تمہیں کوئی ضرورت نہیں ماہا سے ملنے کی۔۔۔۔ تم نہیں مل سکتی اس سے۔۔۔" ابتہاج نے صنم کو روکتے کہا تو صالح کو اسکے یوں کہنے پر سخت غصہ آیا۔۔

ابتہاج آرام سے بات کرو وہ بہن ہے صنم کی اور یہ مت بھولو تمہارے یوں لاپرواہوں کی طرح چھوڑنے کے بعد صنم نے ہی اسکا خیال رکھا ہے۔'

صالح نے بنا لخاظ کے اسے سنائی تو ابتہاج نے قہقہ لگاتے صالح کو دیکھا۔۔۔

بہت بہت شکریہ صنم صالح خان آپ نے میری بیوی کا اتنے ماہ خیال رکھا ۔۔۔۔اسکے علاؤہ جو بھی خرچا آیا ہو گا میں پیسے ادا کر دوں گا۔۔۔ ڈونٹ وری میں ادھار نہیں رکھتا۔۔۔۔۔۔ وہ اطمینان سے اپنی پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالے کہتے ساتھ ہی کندھے آچکا گیا ۔۔۔

مائنڈ یور لینگوئج ابتہاج۔۔۔ " صالح نے شہادت کی انگلی اسکے سامنے لہراتے ہوئے کہا تو ابتہاج نے ایک دم سے بے تاثر سرد نظروں سے صالح کو دیکھا۔۔۔

تب کہاں تھے تم جب وہ پاگلوں کی روتی رہی تب کہاں تھے تم جب وہ بنا کھائے پیے صبح شام صرف تمہیں پکارتی رہی اب جب وہ خود کو سنھبال رہی تھی تو پھر سے آ گئے اسکی زندگی کو عذاب بنانے ۔۔۔۔ صنم کا اپنی جانب کھینچتے صالح نے دانت پیستے اسے آئینہ دکھایا۔۔۔۔

جس پر ابتہاج خود پر ضبط کرتا رہ گیا۔۔۔۔ میں کبھی بھی اپنی بیوی اور اپنے بچے سے غافل نہیں ہوا ماہا میری تھی میری ہے اور رہے گی جب تک میں زندہ ہوں اسے کوئی بھی مجھ سے دور نہیں کر سکتا۔۔۔"

اور جہاں تک رہی بات میرے گم ہونے کی تو سن لو صالح خان میں گم نہیں ہوا تھا بلکہ اپنے ماں باپ کے قاتل اور اپنی بیوی کو نقصان پہنچانے نہیں کوشش کرنے والے شخص کا پتہ لگا رہا تھا ۔۔۔۔جو کہ تمہارا باپ ارسم خان ہے۔۔۔۔۔ "

ابتہاج نے صالح کو دیکھ ایک دم سے غصے سے غراتے لہجے میں کہا تھا۔۔۔ ابتہاج۔۔۔۔۔ماہا جو شور کی آواز سنتے باہر نکلی تھی ابتہاج کو یوں صنم۔اور صالح سے لڑتا دیکھ اسنے ڈرتے اسے پکارا۔۔

ماہا میری جان آپ اندر جاؤ میں ابھی آتا ہوں۔۔۔۔۔ ابتہاج نے مسکراتے ہوئے گردن گھمائے اسے دیکھ کر کہا جبکہ ماہا سہمی نظروں سے صنم کو دیکھنے لگی جو اب ماہا کو دیکھتے رو رہی تھی۔۔۔

ماہا نیچے مت آنا ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔۔۔۔ابھی کے ابھی روم میں جاو۔۔۔۔ ابتہاج نے اسے تیز نظروں سے دیکھتے وارن کیا تو ماہا نے نم آنکھوں سے صنم کو دیکھا جو اسے چلے جانے کا اشارہ کر رہی تھی۔۔۔

مجھے بات نہیں کرنی تم سے اب اوپر کبھی مت آنا۔۔۔۔" وہ روتی ہوئی صنم کے یوں بےبس سا خود سے دور کھڑے ہونے پر ابتہاج پر چلائی جو جبڑے بھینجتے خاموش کھڑا اسکی پشت کو دیکھ رہا تھا۔۔۔

ہاں تو کہاں تھا میں۔۔۔۔۔ ہاں صالح خان ۔۔۔۔ تمہارا باپ قاتل ہے میرے ماں باپ کا ۔۔۔۔۔ اسنے میرے ماں باپ کو مارا ہے جسے میں اسکے کیے کی سزا دلوا کے رہوں گا۔۔۔۔"

ابتہاج نے کندھے اچکاتے صالح کو آگاہ کیا۔۔۔ تمہارے ماں باپ ایک پلین کریش میں مرے ہیں ابتہاج گردیزی۔۔۔۔۔۔ ان سب میں میرے باپ کا کوئی ہاتھ نہیں۔۔۔۔۔۔" اور اگر تم سزا کی بات کر رہے ہو تو میں بھی دیکھتا ہوں کہ میرے ہوتے کون میرے بابا کو سزا دلواتا ہے۔۔

صالح نے آگے بڑھتے اپنے اور ابتہاج کے درمیان موجود ان دو چار قدموں کے فاصلے کو بھی ختم کیا تھا اور اسکے چہرے کے قریب تر جاتے وہ مضبوط لہجے میں بولا ، " ابتہاج گردیزی اپنی بات کا بہت پکا ہے صالح خان اگر میں نے بھی تمہارے باپ کو سزا ناں دلوائی تو میرا نام ابتہاج گردیزی نہیں۔۔۔۔۔۔"

دیکھ لیں گے کہ کون کس پر بھاری پڑنے والا ہے کیونکہ تم نے میرے باپ پر نہیں صالح خان پر الزام لگایا ہے اب تم سے صالح خان اپنے طریقے سے پیش آئے گا۔۔۔۔۔۔ " چلو صنم۔۔۔۔۔ صنم کے ہاتھ کو مضبوطی سے تھامے وہ ایک نظر ابتہاج کے چہرے پر ڈالے تیزی سے وہاں سے نکلا تھا۔۔۔۔۔

_____________

تمہیں لگتا ہے کہ صالح تمہارا ساتھ دے گا۔۔" ملک ہاشم نے ارسم خان کی ساری بات سنتے اس سے پوچھا جو سنتے آگے سے قہقہہ لگا اٹھا۔۔۔۔۔

تمہیں کیا لگتا ہے کہ ارسم خان نے کچی گولیاں کھیلی ہیں۔۔ تم ابھی جانتے ہی کہاں ہو۔مجھے۔۔۔۔۔۔ میرا شق بالکل ٹھیک نکلا تھا وہ ابتہاج جانے کیسے میرے متعلق سب کچھ جان گیا کہ اس کے ماں باپ کو میں نے ہی مارا ہے اور اسکی کمپنی کو چھیننے کا پلین بھی میرا تھا۔۔۔

مگر اب مجھے اس سے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ اب صالح مجھے بچائے گا اس سے۔۔۔۔۔"

وہ ہنستا اپنے ہاتھ میں پکڑے مشروب کا گھونٹ لگاتے بولا ۔۔۔ تو ملک ہاشم نے اسے گھورا ۔۔۔۔۔۔ وہ جوانی سے اسے جانتا تھا اسکی فطرت سے کافی اچھے سے آگاہ تھا ۔۔۔۔۔ ملک ہاشم ،ارسم خان اور کاشان گردیزی تینوں ایک ساتھ ایک ہی کالج میں پڑھتے تھے۔۔۔

کاشان گردیزی سے ارسم خان کی نفرت اسکی جلن سے وہ شروع دن سے ہی آگاہ تھا مگر اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنا کچھ کر جائے گا۔۔۔اپنی اس نفرت میں وہ بہت آگے نکل آیا تھا۔۔

اگر صالح ناں آیا تو اگر اسنے ابتہاج کی باتوں کا یقین کر لیا تو۔۔۔۔ " ملک ہاشم نے ارسم خان کو دیکھتے پوچھا۔۔۔

ہاہاہاہا یہی تو بات ہے ابتہاج کے پاس اگر کوئی پکا ثبوت ہوتا تو اسوقت وہ مجھے پولیس کے حوالے کر دیتا۔۔۔۔ " اور بنا ثبوت کے صالح اسکی کسی بات کا یقین نہیں کرے گا ۔۔۔۔۔۔ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے وہ آرام دہ انداز میں بولا تو ملک ہاشم نے متاثر ہوتے سر ہلایا۔۔۔۔

اب آگے کیا کرو گے تم۔۔۔۔۔اسنے گھونٹ بھرتے اسے دیکھا۔۔۔۔ " اب آگے میں نہیں صالح خان کرے گا جو کچھ بھی کرنا ہو گا۔۔۔۔" اب دیکھو اس کھیل میں آگے کیا ہوتا ہے۔۔۔؟'

وہ شاطرانہ انداز میں سوچتا آخر میں قہقہ لگا اٹھا۔۔۔۔

ماہا دروازہ کھولو یار۔۔۔۔" صنم اور صالح کے جانے کے بعد وہ کب سے دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا مگر ماہا ناں تو دروازہ کھول رہی تھی ناں ہی کچھ بول رہی تھی۔۔ جسکی وجہ سے ابتہاج زیادہ پریشان تھا۔۔

ماہا اگر ابکی بار دروازہ ناں کھولا تو میں پھر سے چلا جاؤں گا اور تم چاہے جو مرضی کر لو میں واپس نہیں آؤں گا۔۔۔

ابتہاج نے آخری پینترا آزمایا اسے یقین تھا کہ ابکی بار وہ دروازہ کھول دے گی ۔ اور ایسا ہی ہوا تھا۔۔

ابتہاج نے لب بھینجتے ماہا کے چہرے پر مٹے مٹے آنسوں کے نشانات دیکھے۔۔

روئی کیوں تم۔۔۔۔۔" اپنے بھاری قدم اٹھائے وہ گھبیر بھاری لہجے میں بولتا ماہا کے قریب ہوا تو ماہا نے قدم پیچھے لیتے اسے دیکھا۔۔۔

کیوں بتاؤں ویسے ہی دل چاہ رہا تھا رونے کو اسی وجہ سے روئی ۔۔۔۔۔ وہ ناک چڑھائے بولی تو اسکے انداز اور یوں روٹھنے پر ابتہاج کے چہرے پر مسکان آئی، وہ قدم بڑھائے اسکے قریب ہونے لگا۔ کہ ماہا نے اسکی کوشش بھانپتے قدم پیچھے کو لیے۔۔۔۔۔ ابتہاج نے ایک دم سے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے اسے تھامنا چاہا مگر ماہا اسکی کوشش کو بھانپتے تیزی سے الٹے قدم چلتی پیچھے کو ہونے لگی کہ معا اسکے پاؤں بری طرح سے مُڑا تھا ۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ گرتی ابتہاج کا بھاری ہاتھ اسکی کمر کے گرد حائل ہوتے اسے گرنے سے بچا گیا۔۔۔

ابتہاج نے کھینچتے اسکے بائیں ہاتھ کو اپنی مضبوط گرفت میں لیتے گھومتے اسے سینے سے لگایا ۔۔ ماہا کا دل ڈر سے مسلسل کپکپا رہا تھا ۔۔۔ اگر ابتہاج اسے وقت پر ناں تھامتا تو آج ناں جانے کیا ہو جاتا۔۔۔

ابببب ابتہاج۔۔۔۔۔۔" وہ ڈرتے ابتہاج کے کندھوں کو تھامے حراساں سی بولی تو ابتہاج نے اسکی کمر کو سہلاتے اسے پرسکون کیا، جو اس وقت بالکل ڈری ہوئی تھی۔۔

اشششش کچھ بھی نہیں تم ٹھیک ہو ماہا کچھ بھی نہیں ہوا۔۔۔" اسکا ڈر بھانپتے ابتہاج نے نرمی اسکے معصوم چہرے کو ہاتھوں میں بھرتے کہا تھا جبکہ ماہا نے فورا سے کپکپاتے ہوئے سر نفی میں ہلا دیا۔۔۔

نننن نہیں اگر میں گر جاتی تو میرا ببب بچہ ۔۔۔۔۔ابب ابتہاج ممم مجھے کک نن نہیں یہ ہوتا مم مگر ممم میرا بب بے بی۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ ایک بار پہلے بھی اپنے بچے کو کھو چکی تھی ۔۔۔ اسکا دماغ بالکل سن سا پڑ گیا تھا اسکے دل و دماغ میں صرف ایک بات گھوم رہی تھی کہ وہ پھر سے اپنے بچے کو کھو دیتی۔۔۔۔ "

ماہا میری جان کچھ بھی نہیں ہوا ریلیکس رہو میری جان میری زندگی۔۔۔۔" اس وقت ماہا کو سنبھالنا بہت مشکل ہو رہا تھا ابتہاج کیلئے وہ جانتا تھا کہ وہ کس خوف ڈر کے تحت یہ سب کچھ کہہ رہی تھی۔۔ جبھی تو وہ اسے پرسکون کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔

ابتہاج نے نرمی سے اسکے گرد اپنا مضبوط حصار بنائے ایک دم سے اسکے پھڑپھڑاتے ہوئے ہونٹوں کو اپنی سلگتی گرفت میں لیا تو ماہا کے باقی کے الفاظ اسکے منہ میں ہی دم توڑ گئے ، ابتہاج نے اسکی کمر کو مضبوطی سے تھامے اسے خود میں بھینجا اور پھر نرمی سے اسے اٹھائے وہ بیڈ کی جانب جاتے اسے بیڈ پر لٹائے ماہا کی سانسوں کو خود میں اتارنے لگا۔۔

ماہا اپنے سینے میں اترتی ابتہاج کی دہکا دینے والی سانسوں کو محسوس کرتے پل بھر میں آسکی قربت میں ی۔۔۔۔ ابتہاج کے لمس میں نرمی تھی وہ اسے محبت سے چھوتے اسکا سارا ڈر خوف نکالنا چاہتا تھا جس میں وہ کامیاب بھی ہوا تھا۔۔


ماہا ابتہاج کی قربت میں سب کچھ بھلائے اسکی محبت کو محسوس کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔ ابتہاج اسے پرسکون ہوتا دیکھ نرمی سے اسکے ہونٹوں کو آزادی دیے پیچھے ہوا اور ماہا کے سرخ پڑتے چہرے پر آنسوں کے نشانات دیکھتے ابتہاج نے اپنے ہاتھ کی پشت سے ماہا کے رخسار کو سہلایا۔۔۔ ماہا ابتہاج کے ہاتھ کے سخت لمس کو محسوس کرتے بےچین سی ہوتے اسے دیکھنے لگی جو اسکی آنکھوں میں دیکھتا اپنے ہونٹ ماہا کے رخسار پر رکھتے اسکے انسںوں کے نشانات کو چھونے لگا۔

ماہا نے ڈرتے اسکے غیر متوقع ردعمل پر اچانک ہی اپنے ہاتھ میں بیڈ شیٹ کو دبوچا ،۔۔۔

ابتہاج ماہا کے رخسار کو اپنے ہونٹوں سے چھوتے اسکی تھوڑی پر ہونٹ رکھتے اپنا شدت بھرا لمس اسکی تھوڑی پر چھوڑتا اسے لرزا سا گیا ۔۔۔۔

آج کے بعد تم کسی دوسرے کے لئے تو کیا اپنے لیے بھی ان آنکھوں میں آنسوں نہیں لاؤ گی، ابتہاج نے شدت بھرے لہجے سے کہتے ماہا کی جانب دیکھا، جو آنکھیں موندے مجھے لمبے لمبے سانس لے رہی تھی ۔۔

ابببب ابتہاج آپ نے مجھے کیوں نہیں ملنے دیا تھا وہ آنکھوں میں آنسو لائے اسے خفا نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی تو ابتہاج نے گہرا سانس فضا کے سپرد کیا، میں نہیں چاہتا کہ میرے ہوتے ہوئے تم صنم یا پھر کسی بھی تیسرے انسان کے ساتھ ملو یا پھر ان کے ساتھ کوئی تعلق رکھو تمہارا تعلق ، ساری توجہ صرف اور صرف ابتہاج کی ہے میں تمہیں کسی بھی دوسرے انسان کی طرف صرف اپنی محبت کو بانٹنے نہیں دوں گا وہ ماہا کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا تو ماہا کو اس کے الفاظ پر شدید غصہ آیا اسے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ یہ اسی کا ابتہاج کہہ رہا تھا شاید آپ جانتے نہیں ہیں کہ اس سارے عرصے میں صنم اور صالح نے میرا کتنا خیال رکھا ہے اگر وہ میرا خیال نہیں رکھتے تو شاید ہی میں آپ کو سہی سلامت ملتی ، کیونکہ آپ کی دوری نے مجھے بالکل پاگل سا کر دیا تھا انہوں نے مجھے ٹوٹنے نہیں دیا تو پھر آپ کیسے مجھے اس سے ملنے سے روک سکتے ہیں وہ میری بہن ہے آپ ایسا کچھ بھی نہیں کر سکتے میرے ساتھ ۔۔"

ماہا کے لہجے میں بے بسی تھی اسے ابتہاج کے کہے پر یقین نہیں آرہا تھا وہ اسے کیسے صنم سے ملنے سے روک سکتا تھا صنم کی آنکھوں میں بے چینی ، بے بسی کو وہ اب تک نہیں بھولی تھی اس نے غصے بھری نگاہوں سے ابتہاج کو دیکھا جس کا چہرہ بالکل سرد و سپاٹ تھا جیسے اسے ان سب چیزوں سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا۔۔۔

اب جلدی سے اپنا موڈ فریش کرو ہم ابھی سب سے پہلے ڈاکٹر اور پھر شاپنگ پر جائیں گے۔۔۔ ماہا کے چہرے کو ہونٹوں سے چھوتے وہ بالکل نارمل لہجے میں بولا تو ماہا نے لب بھینج لیے بھلا وہ کیوں ایسا کر رہا تھا۔۔۔ اسکا ابتہاج تو ایسا نہیں تھا وہ تو سب سے محبت کرنے والا تھا مگر پھر وہ کیوں صالح پر چلا رہا تھا اور صنم سے ملنے بھی نہیں دیا ۔۔۔۔۔

بعد میں سوچ لینا جو کچھ بھی سوچنا ہوا میں پورا وقت دوں گا تمہیں سوچنے کا ۔۔۔۔ ابتہاج نے نرمی سے ماہا کے رخسار پر ہونٹ رکھتے کہا تو ماہا فورا سے اسے پیچھے کرتے اٹھی تھی۔۔

___________


صنم پلیز خاموش ہو جاؤ۔۔۔۔۔ وہ جب سے ابتہاج اور ماہا سے ملتے آئے تھے صنم مسلسل رو رہی تھی اسے ابتہاج کے لفظوں نے بہت تکلیف دی تھی۔۔۔ اسے کیا معلوم تھا کہ ابتہاج اسکے متلعق ایسی سوچ پالے ہوئے تھا۔۔۔

ابتہاج نے اچھا نہیں کیا صالح مجھے ماہا سے ملنے نہیں دیا آپ کو بھی کتنی باتیں سنائی۔۔۔ وہ بالکل بدل گیا ہے جانے کیوں وہ اتنی نفرت کرنے لگا ہے ہم سب سے ۔۔۔۔ کس نے اسکے دماغ میں یہ سارا ذہر بھرا ہے۔۔

صنم اسکے کندھے پر سر رکھے مسلسل رو رہی تھی ۔

کتنے مان سے اسنے دلاور شاہ سے کہا تھا کہ وہ ماہا کا خیال رکھے گی مگر ابتہاج تو ایسے اسکی بہن کو لے گیا جیسے وہ اسکے اپنے نہیں کوئ بے گانے ہوں جیسے ان سب کے ساتھ اسکا کوئی بھی تعلق نہیں تھا۔۔۔۔

تم خود سے خاموش ہو جاؤ گی کہ میں اپنے طریقے سے تمہیں خاموش کرواؤں صنم۔۔۔۔۔۔ صنم کا یوں رونا بار بار ماہا کو یاد کرنا صالح کو مزید غصہ دلا رہا تھا۔۔۔۔

وہ جن کا سوچ سوچ کے ہلکان ہو رہی تھی وہ تو صنم کے کئے احسان اسکی محبت کے بدلے بڑے اچھے سے پیسے دے کر اسکا احسان ختم کرنا چاہ رہا تھا۔۔

میں بری ہوں اسی وجہ سے میرے ساتھ برا ہو رہا ہے صالح ۔۔۔۔ مجھے ہر کوئی برا سمجھتا ہے میں مانتی ہوں کہ میں نے غلطی کی ہے اسکی سزا بھی تو مجھے مل چکی ہے اور آپ نے بھی تو مجھے اپنایا ہے پھر کیوں ابتہاج نے ایسا کہا کہ میں اپنی بہن سے نہیں مل سکتی ۔۔ کیوں مجھے معاف نہیں کرتے سب۔۔۔۔۔

وہ سسکتے صالح سے اپنا دکھ بانٹ رہی تھیں جبکہ اسکا یوں رونا صالح کو بالکل بھی اچھا نہیں لگا تھا ۔۔

کیا میں ہی کافی نہیں ہوں تمہارے لئے میں ہوں تمہارے ساتھ ہمیں کسی اور کی کوئی ضرورت نہیں اب بس خاموش ہو جاؤ ورنہ یہ ناں ہو کہ میں کچھ غلط کر دوں ۔۔

اپنے ہونٹوں صنم ہے آنسوں کو چنتے وہ گہرے لہجے میں وارننگ دیتے بولا تو صنم نے اپنی سوجھی ہوئی سرخ آنکھوں سے صالح کی جانب دیکھا ۔۔

جس سے آج تک اسے بے غرض محبت ملی تھی۔۔۔۔۔

اب کوئی رونا دھونا نہیں چلے گا ۔۔۔۔ تم صرف اور صرف ریسٹ کرو گی میں تھوڑی دیر میں واپس آ جاؤں گا تو میں خود ہی تمہارا خیال رکھوں گا مگر تب تک تم ناں تو کچھ فضول سوچو گی ناں ہی اپنے انسںوں ضائع کرو گی۔۔۔

صنم کے ماتھے پر ہونٹ رکھتے صالح نے محبت سے سمجھایا تھا ، جو آنکھیں موندے اسکی محبت کو محسوس کر رہی تھی۔۔

صالح نے نرمی سے اسکے گالوں کو سہلاتے اسے پرسکون کیا تو وہ تھوڑی ہی دیر میں اسکے سینے سے لگی نیند کی وادیوں اتری تھی۔۔۔

صالح نے نرمی سے اسے بیڈ پر لٹائے کمفرٹر برابر کیا ۔۔اور پھر کچھ سوچتے وہ دروازہ بند کیے باہر نکلا تھا۔

__________


اب بس مجھے اور نہیں کھانا۔۔۔۔" وہ منہ بگاڑتے سر زور شور سے نفی میں ہلاتے بولی تو ابتہاج نے محبت سے ماہا کے معصوم چہرے کو دیکھا اور پھر گہرا سانس فضا کے سپرد کرتے وہ پلیٹ اپنی جانب کھینچ گیا۔۔

ابتہاج ہم بابا ماما سے ملنے چلیں وہ کتنے خوش ہوں گے یہ جان کر کہ آپ واپس آ گئے ہیں ، ویسے بھی یہاں کافی سردی ہوتی ہے مجھے واپس جانا ہے ماما بابا کے پاس۔۔۔۔"

ابتہاج نے چئیر کی پشت سے ٹیک لگائے ماہا کو بغور دیکھا ۔۔۔۔ایسے کیا دیکھ رہے ہیں آپ ۔۔۔ وہ مشکوک سی کندھے اچکاتے ہوئے بولی ۔۔

" میں نے کہا تھا کہ میں تمہارے اور اپنے درمیان کسی بھی تیسرے کا ذکر نہیں سننا چاہتا میں اب بھی اپنے کہے پر قائم ہوں۔۔۔"

سرخ رنگ کے پاؤں تک جاتے خوبصورت سے اوور کوٹ میں ملبوس وہ ابتہاج کی بات پر ایک دم سے غصے سے لال پڑتے چہرے سے اسے گھورتے اٹھنے لگی مگر ابتہاج نے اسکا ہاتھ تھامتے اسے دوبارہ سے چئیر پر بٹھایا۔۔۔ ابتہاج اسے ڈاکٹر کے پاس لے گیا تھا اسکی ذہنی حالت کے متلعق سب کچھ جاننے کے بعد وہ اب کافی پرسکون تھا کیونکہ ڈاکٹر کے مطابق اب وہ مکمل طور پر ٹھیک تھی اور ویسے بھی ابتہاج کی موجودگی میں اسے کچھ بھی نہیں ہو سکتا تھا۔

ابتہاج اب کافی مطمئن تھا اسکے بعد وہ اسے بہت ساری شاپنگ کرواتے واپسی پر اپنے ساتھ ہوٹل لایا تھا ۔۔ ماہا اسکے ساتھ اسکی موجودگی میں کافی خوش تھی جیسے اب کوئی بھی دکھ تکلیف نہیں آئے گا اسکے قریب۔۔۔۔

ابتہاج آپ کو کیا ہو گیا ہے آپ ایسے تو نہیں تھے آپ کیوں مجھے کسی سے بھی ملنے نہیں دے رہے ۔۔۔ ماہا کی آنکھوں میں حیرت جھنجھلاہٹ تھی بھلا کہاں اس سے پہلے ابتہاج نے اسے روکا تھا یا پھر اسے کسی بھی اپنے سے ملنے نہیں دیا مگر اب اسکا رویہ اور وہ خود بالکل بدل گیا تھا ۔۔۔ ماہا جانتی نہیں تھی کہ یہ سب وہ اپنے خوف ڈر کی وجہ سے کر رہا تھا۔۔۔۔ اپنے ماں باپ کو کھونے کے بعد اب اس میں اتنی سکت نہیں بچی تھی کہ وہ ماہا کو بھی کھو دیتا ۔۔۔

تم چاہے جو مرضی سمجھو ماہا مگر میں کسی کو بھی تمہارے نزدیک آنے کی اجازت نہیں دے سکتا ، تمہارا ہر لمحہ ساری توجہ سب کچھ میرا ہے میں کسی بھی یہ حق نہیں دوں گا کہ وہ تمہیں مجھ سے دور کرے ، وہ بات گھمائے اپنے خدشات چھپاتے ہوئے بولا۔

جبکہ ماہا کا اب فلحال اس وقت اس سے بات کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا ۔ جبھی وہ نارضگی سے منہ موڑے اپنی جگہ سے اٹھی تھی ابتہاج نے گہرا سانس فضا کے سپرد کرتے اسے دیکھا اور پھر خود بھی اسکے پیچھے ہی وہ باہر نکل تھا۔۔

گاڑی میں بیٹھی اپنی خفا بیوی کو دیکھ اسنے لب دانتوں تلے دبائے اسے یقین تھا کہ گھر جاتے ہی ماہا کی یہ ناراضگی ختم ہونے والی تھی وہ مسکراتے اپنی آنکھوں پر چشمہ لگائے گاڑی کی جانب بڑھا ۔۔۔


______________


بابا کیا ہوا ہے آپ کو۔۔۔۔؟" وہ متفکر سا ارسم خان سے ملنے ہوٹل آیا تو اسے انکی خراب طبیعت کے بابت پتہ چلا کہ وہ کافی بیمار ہیں۔۔۔۔ جبھی وہ گھبراتا ہوا سا ڈرتے اندر داخل ہوا۔۔۔۔ جہاں بیڈ پر لیٹے ارسم خان تقریباً بے ہوش سے تھے۔۔۔

صالح نے ڈرتے انکے قریب جاتے انکے بازو کو ہلایا ۔۔۔۔ تو وہ بخار میں پھنک رہے تھے ، صالح انکی اس قدر خراب حالات کو دیکھتے گھبرا سا گیا۔۔۔

صالح نے جلدی سے ڈاکٹر کو کال کرتے انکے پاس بیٹھتے ارسم خان کو جھنجھوڑا تو وہ بمشکل سے آنکھیں کھولتا صالح کو دیکھنے لگا۔۔

صص صالح ممم میرے بچے ۔۔۔۔۔" انکی آواز میں گھلی نمی تڑپ کو محسوس کرتے صالح شرمندہ سا ہوتے رہ گیا۔۔

سوری بابا مجھے خیال کرنا چاہیے تھا آپکا ، آپ کو ایسے اکیلا نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔۔۔۔ وہ شرمندہ سا ہوتے بولا تو ارسم خان نے اپنے ہونٹوں پر آتی مسکراہٹ کو ضبط کیا ۔۔۔۔۔

نہیں میرے بچے ایسا مت کہو میں نے ہمیشہ سے تمہیں نہیں اپنایا کبھی پلٹ کر نہیں دیکھا شاید اسی وجہ سے میرا رب مجھے سزا دے رہا ہے۔۔۔ " اپنی بند ہوتی آنکھوں کو کھولنے کی سعی کرتے وہ رندھے ہوئے لہجے میں بے بسی سے بولا تو صالح نے انکے ہاتھ کو تھاما۔۔

ایسا کچھ بھی نہیں،، آپ میرے ساتھ چلیں گے ابھی آج کے بعد آپ اپنے بیٹے کے ساتھ رہیں گے ۔۔۔" صالح نے اسے خاموش کراتے کہا تو محبت بھری نگاہوں سے صالح کو دیکھنے لگے جیسے کہ انہیں یقین نہیں تھا کہ صالح انہیں ساتھ لے جائے گا۔۔۔۔

آئیے ڈاکٹر۔۔۔۔" دروازہ ناک کرتے ڈاکٹر کے اندر آنے پر صالح نے جگہ سے اٹھتے ڈاکٹر کو بلایا۔۔۔ جو ارسم خان کے پاس بیٹھتے ہی اسکا معائنہ کر رہا تھا۔

____________


گاڑی جیسے ہی گیٹ سے اندر داخل ہوتے پورچ میں رکی ، ماہا ایک دم سے بنا کچھ کہے دروازہ کھولتے بھاگتی اندر کی جانب بڑھی۔۔

پورے راستے وہ یونہی خاموش بیٹھی رہی تھی اسکی خاموشی ابتہاج کو بہت چھبی تھی مگر وہ فلوقت کچھ بھی کہتے بات مزید خراب نہیں کر سکتا تھا۔

جبھی وہ اسکی خاموشی اور ناراضگی پر چپ تھا۔۔

کبھی بات نہیں کروں گی اتنے برے ہیں آپ ، مجھے منایا بھی نہیں۔۔۔۔۔ " وہ بڑبڑاتے ہوئے اندر داخل ہوتے سیڑھیاں عبور کرتے اوپر اپنے کمرے کینجانب بڑھ رہی تھی ۔۔۔جو بھی ہو وہ ناراض تھی اور ابتہاج کا فرض تھا کہ اسے مناتا مگر وہ تو ایسے بنا تھا جیسے کوئی سروکار ہی ناں ہو۔۔۔

اپنے ہاتھ میں تھامے شاپنگ بیگز کو سامنے صوفے پر رکھتے ابتہاج نے اپنی سرخ نظروں سے سیڑھیوں سے اوجھل ہوتی ماہا کی پشت کو گھورا اور پھر کوٹ اتارتے دور صوفے کی جانب اچھالتے وہ چلتا اپنی محسوس دفتار سے ایک ہاتھ سے اپنی شرٹ کے اوپری بٹن کو کھولتا وہ سیڑھیاں عبور کرتے کمرے کی جانب بڑھا ۔۔۔

ابتہاج نے اپنے بھاری قدم دروازے کے قریب روکتے گردن گھمائے آگے پیچھے دیکھا پورے گھر میں عجیب سی خاموشی چھائی تھی۔۔۔۔

اسے اندازہ تھا کہ ماہا یقیناً اندر جاتے سن ہو گئی ہو گی جبھی اسکا ابھی تک کوئی ردعمل نہیں ملا تھا۔۔

وہ مسرور سا ہوتے اپنے لبوں پر دلکش سی مسکراہٹ لیے اپنے بائیں ہاتھ سے ہینڈل گھمائے اندر داخل ہوا۔۔۔

ابتہاج کی نظریں سامنے ہی اپنی جانب پشت کیے ساکن سی کھڑی ماہا کی پشت پر پڑی ۔۔۔

اسنے گردن کو ایک اسٹائل سے گھماتے مڑتے دروازہ لاک کیا ۔تو اچانک سے دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز پر ماہا ہوش میں آئی تھی۔۔اسنے سرخ چہرے سے ہربڑاتے پیچھے کی جانب مڑتے ابتہاج کو دیکھا جس کی سرخ جذبات کی آنچ دیتی گہری نظریں ماہا کے نازک وجود پر ٹکی تھی۔۔

اببب ابتہاج یییی یہ یہ سب ۔۔۔۔ وہ ابھی تک بے یقینی کی سی کیفیت میں تھی۔۔۔ ماہا نے ہاتھ اٹھائے اسے سامنے دیوار کی جانب اشارہ کیے پوچھا تو وہ لبوں پر دلکش سی مسکراہٹ سجائے اپنے بھاری قدم اٹھائے خود سے مخض چند قدموں کےفاصلےپر کھڑی ماہا کی جانب بڑھی ۔۔

یہ سب میری بیوٹیفل وائف کے لیے ایک چھوٹا سا سرپرائز ہے جو کہ مجھ پر ادھار تھا۔۔۔ابتہاج نے قریب جاتے جھٹکے سے اسے گھمائے ماہا کی پشت سینے سے لگائے اسکے کان میں سرگوشی کی تو ماہا۔کے چہرے پر شرمیلی سی مسکراہٹ رقص کرنے لگی۔۔۔

تھینکس آ لاٹ میری جان مجھے دنیا کی سب سے بڑی خوشی دینے کے لیے ، وہ دونوں ہی سامنے دیوار پر لگی بے بی کی خوبصورت سی تصویر کو دیکھ رہے تھے جب اںتہاج نے مسکراتے محبت سے چور لہجے میں اسکے کان میں سرگوشی کرتے اپنے دہکتے ہونٹ ماہا کے کان کی لو پر رکھے ۔۔۔

اسکے لمس پر ماہا کو جھرجھری سی آئی وہ بشمکل سے سرخ چہرے سے مسکرائی تھی۔

اور یہ میری جان کا انعام ______ ابتہاج نے اپنا ہاتھ ماہا کے پیٹ کے گرد لپیٹتے اسکا رخ اپنی جانب کیا ۔ اسکا اشارہ پورے کمرے اور بیڈ کی جانب تھا جسے بے حد خوبصورتی سے گلاب کی پتیوں سے سجایا گیا تھا۔۔

میں بہت خوش نصیب سمجھتا ہوں خود کو کہ میرے خدا نے تمہاری جیسی نیک صابر اور خوبصورت ہمسفر میرے نصیب میں لکھی۔۔۔۔۔

ماہا کے چہرے کو اپنے ہاتھوں کے پیالے میں بھرے وہ گہری سرگوشی میں کہتا اسکے نازک ہونٹوں پر جھکا اپنی طلب پوری کرنے لگا۔۔۔۔ ہوا میں پھیلی گلاب کے پھولوں کی تیز خوشبو، معنی خیز گہری خاموشی میں ماہا کی سانسیں دھوکنی کی مانند چل رہی تھی۔۔

ایک اور سرپرائز بھی ہے مگر وہ میرے لیے ہے۔۔۔ ابتہاج نے نرمی سے اسکے ہونٹوں کو آزادی دیے جھکتے اپنے ہونٹ ماہا کی گردن پر رکھے تو وہ مچل پڑی ، ابتہاج نے اپنی بڑھی ہوئی شیو ماہا کے گال پر سہلائی۔۔۔

تو ماہا نے مضبوطی سے ابتہاج کے کندھوں کو تھاما۔۔ ابتہاج نرمی سے اسے آزاد کیے واپس پلٹا تھا اور دروازہ کھولتے وہ باہر سے دروازے کے پاس رکھا شاپنگ بیگ اٹھائے واپس اندر آیا ماہا نے سوالیہ نظروں سے ابتہاج کو دیکھا جس کے ہاتھ میں شاپنگ بیگ تھا ۔۔

میں تمہیں اس ڈریس میں دیکھنا چاہتا ہوں ماہا ۔۔۔۔۔۔ پلیز جلدی سے پہن۔کے آؤ ۔۔۔۔۔۔ "

ابتہاج نے فرمائشی انداز میں ماہا کینجانب دیکھتے کہا تو ماہا کی پلکیں لرز پڑی گال ایک دم سے دہک پڑے وہ جانتی تھی کہ آج ابتہاج سے بچ پانا نا ممکن تھا۔۔

اببب ابتہاج ااسسس اس کی کک کوئی ضرورت نن نہیں

۔۔۔ ماہا نے شاپنگ بیگ کو دیکھتے انگلیاں چٹخاتے ہوئے کہا تو ابتہاج نے اپنے قدم مزید آگے بڑھائے۔۔۔

ضرورت ہے ماہا یہ میرا سرپرائز ہے میں تمہیں ان کپڑوں میں دیکھنا چاہتا ہوں اب کوئی ارگیو نہیں تم یہ ڈریس پہن کر ابھی باہر آؤ گی ۔۔۔

نہیں تو میں اندر آ جاؤں گا۔۔۔۔" ابتہاج نے بیگ اسکے ہاتھ میں دیے ماہا کے ہاتھ کو تھامتے اسے چینجنگ روم میں چھوڑا۔۔۔۔

میں انتظار کر رہا ہوں۔۔۔۔" اسکے کان میں سرگوشی کرتے وہ جھکتے ہونٹ اسکی گردن پر رکھتا باہر آیا تھا۔۔۔

ماہا نے کپکپاتے ہاتھوں سے دروازہ لاک کرتے ڈریس کھولا تو اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا تھا ۔۔۔۔۔ اسنے جھرجھری لیتے اس شارٹ سے سلیو لیس گھنٹوں تک جاتی میکسی کو دور پھینکنا چاہا۔۔۔ کہ ابتہاج کی بھاری آواز نے اسے روک دیا۔۔

" اگر ڈریس پھینکی یا پھر ایسے ہی باہر آنے کی کوشش کی تو پھر مجھ سے کسی بھی قسم کی شرافت کی امید مت رکھنا۔۔۔۔۔ " ماہا نے لب بھنجتے دروازے کو گھورا جیسے سارا قصور اسی کا ہو۔۔۔۔۔

ممم مگر اببب ابتہاج۔۔۔۔۔" شرم سے اسکا پورا وجود لال انگارہ ہوا پڑا تھا وہ کیسے اس چھوٹے سے ڈریس میں اسکے سامنے چلی جاتی۔۔

کوئی اگر مگر نہیں جلدی سے پہنو اور باہر نکلو۔۔۔۔۔۔ " ابتہاج نے اسے تیز اونچی آواز میں ٹوکا تو ماہا نے بے بسی سے اس ڈریس کو دیکھا۔۔۔

ابتہاج پچھلے بیس منٹ سے دروازے پر کھڑا ماہا کا ویٹ کر رہا تھا۔۔۔ جو ابھی تک باہر نہیں نکلی تھی۔۔۔۔

ابتہاج نے مڑتے دروازے کو دیکھا اس سے پہلے کہ وہ کچھ وارننگ دیتا دروازہ خود بخود ہی کھلا تھا۔

ابتہاج کی دھڑکنیں ساکت سی ہو گئی وہ ساکت نظروں سے ماہا کو دیکھ رہا تھا ، جو اپنے دونوں ہاتھ سینے پر باندھے خود کو چھپانے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔

ابتہاج کی نظروں میں ایک دم سی جذبات کی سرخی دھر آئی۔۔۔۔ کچھ ماحول میں رقص کرتی معنی خیز خاموشی کی وجہ سے وہ مزید بہک رہا تھا۔۔

ابتہاج نے اپنے بھاری قدم اٹھائے ماہا کے وجود کو حصار میں رکھتے اسکے قریب جاتے اسے ہاتھ سے تھامتے اپنے قریب تر کیا۔۔۔۔

ماہا کپکپاتے ہوئے وجود کے ساتھ ابتہاج کے مضبوط حصار میں کھڑی تھی ۔۔۔۔جس کی بے باک نظریں ماہا کے چہرے سے ہوتے اسکے کپکپاتے ہونٹوں پر تھیں۔۔۔ ابتہاج نے نرمی سے اسے اپنی بانہوں میں بھرا تو ماہا اپنے تیز تیز دھڑکتے دل کو پرسکون کرنے کی کوشش کرنے لگی۔۔

ابتہاج نے نرمی سے اسے پھولوں سے سجے بیڈ پر لٹایا تو ماہا خود کو مضبوط بنانے کی سعی کرتی اپنے دونوں ہاتھوں میں بیڈ شیٹ کو دبوچا تھا۔۔۔۔

ابتہاج نے اسکی اکھڑتی سانسوں کو محسوس کرتے اپنی شرٹ کے بٹن کھولتے اسے دور اچھالا۔۔۔ ابب ابتہاج نے اپنے سلگتے ہونٹ جھکتے ماہا کندھے پر ثبت کیے تو ماہا نے گھبراتے اسے پکارا ۔۔ ابتہاج کی شدتیں اسے خوفزدہ کر رہی تھی ۔۔۔۔

جبکہ ابتہاج اسکے کندھے سے سٹرپس اتارتے اپنے ہونٹوں سے ماہا کے وجود کو معتبر کرتے ماہا کی ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ سی دوڑا گیا۔۔

ماہا کے خوف کو محسوس کرتے ابتہاج نے نرمی سے ماہا کے ہاتھوں سے بیڈ شیٹ سے آزاد کرتے اپنی بھاری انگلیاں اسکی نازک انگلیوں سے الجھاتے ماہا کے ہونٹوں کو قید کرتے وہ اسے اپنی قربت میں اپنے نزدیک تر محسوس کرنے لگا۔۔۔ ماہا اپنی سانسوں میں اترتی ابتہاج کی دہکتی سانسوں کو محسوس کرتے بے جان سی ہونے لگی۔۔۔۔

رفتہ رفتہ ابتہاج کی شدتیں اسکی محبت میں وہ اسکے حصار میں قید اپنا آپ اسی کے سپرد کر گئی جو ماہا کے وجود کو اپنی محبت سے چھوتا اسے اپنی محبت سے روشناس کروانے لگا۔۔۔

_____________


صالح آپ ٹھیک تو ہیں۔۔۔۔۔!" صنم جو ابھی ابھی صالح کے ساتھ ارسم خان کو کھانا کھلاتے انکے کمرے سے نکلی تھی صالح کے چہرے پر پریشانی بھانپتے صنم نے صالح کے کندھے پر ہاتھ رکھتے متفکر سے لہجے میں پوچھا۔۔


ہاں کچھ نہیں بس بابا کی طبیعت کا سوچ رہا تھا۔۔۔۔تم پریشان ناں ہو میں ٹھیک ہوں میری جان ، تمہیں میری وجہ سے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں میں اپنا خیال رکھ سکتا ہوں۔۔۔۔۔

صنم کے چہرے پر اپنے لیے چھائی پریشانی دیکھ صالح نے اسے کھینچتے خود سے لگایا تھا جو ہر کسی کے لئے یونہی متفکر ہو جایا کرتی تھی۔۔۔ کتنی معصوم سی تھی اس کی شہزادی اسکی صنم۔۔۔۔۔ ہر کسی کیلئے ایسے ہی پریشان ہو جاتی تھی مگر ہر کوئی اسے غلط سمجھتا تھا۔

ایک بات تو بتاؤ کھانا کھایا تم نے۔۔۔۔۔صنم کے سر پر بوسہ دیے اسنے جانچنے کے سے انداز میں اسکے چہرے کو دیکھا۔۔۔۔جو کچھ دنوں سے مرجھائی ہوئی سی تھی ۔

نہیں آپ نے نہیں کھلایا اور آپ نے خود بھی تو نہیں کھایا۔۔۔۔

وہ آنکھیں موندے اسکے چوڑے بازو پر سر رکھتے ہوئے بولی تو صالح کو اس پر جی بھر کر پیار آیا۔۔

اوہہہ تو میڈم صالح اسپیشل طریقے سے کھانا چاہتی ہیں۔۔۔

وہ سر ہلاتے اسے ساتھ لیے کمرے کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔صنم کا چہرہ شرم سے لال پڑنے لگا ۔۔۔۔

میں نے ایسا تو نہیں کہا تھا ۔۔۔ وہ چوری پکڑے جانے پر منمنائی تو صالح کا قہقہ بے ساختہ تھا۔۔۔۔

میں جانتا ہوں میری بیوی بہت شریف ہے وہ کچھ بھی نہیں کہتی۔۔۔۔۔ صالح نے مسکراتے اسے بیڈ پر بٹھائے اسکی ناک پر لب رکھتے کہا۔۔۔۔

ہم باہر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں ۔۔۔۔۔" وہ اچھے سے جانتی تھی اس انسان کو۔۔۔جبھی جلدی سے اٹھتے بولی تو صالح نے اسے کندھوں سے تھامتے دوبارہ سے بٹھایا۔۔

نہیں میری جان اس گھر میں اب تمہارے ایک عدد سسر کی آمد بھی ہو گئی یے۔۔

اور اسی وجہ سے میں نہیں چاہتا کہ انکے سامنے کچھ ایسا ویسا ہو مطلب کہ ہم اپنے کمرے میں آرام سے کھا سکتے ہیں۔۔

وہ اسے صفائی دیتے آخر میں آنکھ دباتے ہوئے کہتا باہر کی جانب نکلا ۔۔۔

صنم اسکے آنے سے پہلے ہی جلدی سے کپڑے لیے شاور لینے گئی۔۔ تھکاوٹ کی وجہ سے اسکا پورا وجود دُکھ رہا تھا ۔۔۔ چہرہ بھی بالکل ذرد سا پڑ رہا تھا جبھی وہ جلدی سے شاور لینے گئی۔۔۔

صالح نے کمرے میں آتے ہی باتھروم کے بند ڈور کو گھورا۔۔۔۔۔ کیونکہ پانی گرنے کی آواز اسے صاف سنائی دے رہی تھی ۔

صالح ٹرے بیڈ پر رکھتے اسکا انتظار کرنے لگا۔۔۔ اس وقت کیا آفت آن پڑی جو تم ابھی شاور لے رہی ہو۔۔۔۔۔۔ اسکے نکلتے صالح نے غصے سے اسکے قریب جاتے استفسار کیا۔۔۔ تو صنم نے سرخ نظروں سے اسے التجائیہ دیکھا۔۔۔۔

طبیعت بوجھل ہو رہی تھی بس۔۔۔ اسی وجہ سے باتھ لیا۔۔۔۔ وہ نرمی سے اسے سمجھانے کے سے انداز میں دیکھتے بولی ، تو صالح کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے کیا ہوا ٹھیک ہو ناں ۔۔۔۔۔۔ "

صالح دوڑتے اسکے قریب گیا ۔۔۔۔ "ارے کچھ بھی نہیں ہوا مجھے میں ٹھیک ہوں بس تھوڑا سا دل بوجھل ہو رہا تھا۔۔ میں ٹھیک ہوں صالح۔۔۔ صنم جانتی تھی کہ وہ پریشان ہو گا جبھی وہ بتا نہیں رہی تھی۔۔۔

صالح بے چین سا اسے گود میں بھرتے بیڈ پر بٹھائے اسکے قریب بیٹھا۔۔۔

کتنی بار کہا ہے کہ میڈ رکھ لیتے ہیں مگر تمہیں میری کوئی بات سمجھ نہیں آتی ۔۔۔۔۔ مگر اب اور نہیں میں کل ہی کسی میڈ کا بندوست کروں گا ۔۔۔۔مگر صالح اسکی کوئی ضرورت نہیں میں ٹھیک ہوں۔۔ صنم اسکی بات کاٹتے منمنائی تو صالح نے اسے سختی سے چپ کروایا۔۔۔۔

بہت مان لی تمہاری مگر اب اور نہیں ۔۔۔۔۔میں تمہاری اور اپنے بچے کی صحت کے ساتھ کوئی رزک نہیں لے سکتا تو اب مجھے روکنے کی کوشش مت کرنا ۔۔۔۔۔ وہ سختی سے گھورتے بولا تو صنم خاموش سی ہو گئی۔۔۔

صالح بابا اور ماما آ رہے ہیں کل۔۔۔۔۔ صالح جو اسے کھانے کھلانے کے بعد اپنے سینے سے لگائے سلا رہا تھا ، اچانک سے صنم کے بتانے پر اسنے اسے گھورا۔۔

کل کی کل دیکھیں گے اب خاموشی سے سو جاؤ ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔۔۔۔ صالح نے اسکے سر پر ہونٹ رکھتے اسے چپ کروایا تو وہ خاموش سی ہو گئی۔۔۔ صالح نے گہرا سانس فضا میں خارج کرتے اپنے سینے سے لگی اپنی زندگی کو دیکھا جو اپنی ساری تھکاوٹ پریشانی اسکے حصار میں بھلائے آرام سے سو رہی تھی۔۔

صالح کو بے ساختہ ہی اس پر جی بھر کے پیار آیا۔۔۔۔۔ جبھی اسنے مسکراتے اسے خود میں بھینج لیا۔۔۔

ہاں بولو میں سن رہا ہوں۔۔ چہرے پر سرد مہری لیے وہ تیزی سے آگے بڑھتا اپنے آفس روم میں داخل ہوا ، سامنے ہی میٹنگ روم میں موجود لوگ جو اسی کا انتظار کر رہے تھے اسے آتا دیکھ سیدھے ہوئے بیٹھے ____ کئیوں نے اسکے بےتاثر چہرے کو دیکھا۔۔ جو سپاٹ چہرے سے چلتا اپنی سیٹ پر بیٹھا۔۔۔


بہت بہت مبارک ہو آپ کو اںتہاج گردیزی سر ۔۔۔۔۔ " ان میں سے ایک نے مسکراتے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے کہا، ابتہاج نے مصروف سے انداز میں موبائل سے نظریں اٹھائے اس شخص کے ہاتھ کو گھورتے ایبرو اچکائے اسے گھورا ، اور پھر بنا ہاتھ ملائے وہ اپنے فون میں مصروف ہوا ۔۔۔ وہاں موجود سبھی ڈیلرز اسکے بدلے رویے پر حیران سے تھے ۔۔۔ مگر وہ مجبور تھے اسکے ساتھ کام کرنا مانو دن دگنی ترقی حاصل کرنا تھا۔۔۔ اپنا نام چھپائے اسنے اس گزرے عرصے میں بورڈ کے علاؤہ آؤٹ آف کنٹری میں بھی بزنس میں اپنا مقام بنایا تھا کہ اب اسکے ساتھ کام کرنے کو لوگ مارے مارے پھرتے تھے مگر اب اسے کسی کی پرواہ نہیں تھی سوائے ماہا کے وہ سبھی کے لئے پتھر دل بن چکا تھا۔۔۔ بےحس احساس سے عاری ۔۔۔۔ !"


میٹنگ شروع کریں۔۔۔۔۔ اسنے نظریں وہاں موجود ان سبھی چہروں پر دوڑائی یہ سب وہی تھے جنہوں نے ایک وقت میں اسکی کمپنی اس سے چھینے زین یوسف کو دی تھی مگر اب وقت کا کھیل پلٹ چکا تھا اسکی طاقت اس قدر بڑھ چکی تھی کہ اب دلاور خان بھی پریشان تھا کہ آخر کیسے اس کا مقابلہ کرتے اسکی دولت کو چھینے۔۔۔۔۔۔


سر مارکیٹ کے ریٹ بہت بڑھ چکے ہیں اور یہ سب کچھ آپ کی اس کمپنی کی وجہ سے ہوا ہے مطلب کے شیئرز اس قدر اونچی جگہ پر پہنچ چکے ہیں کہ معمولی سا بزنس مین انہیں خرید ہی نہیں پا رہا اگر آپ اپنے شئیرز کی قیمت کم کریں گے تو مارکیٹ پھر سے پہلی والی جگہ پر آ جائے گی۔۔ "


مسٹر کاشف نے اسے حالات سے آگاہ کیا۔۔۔۔ تو ابتہاج سنتے گہرا مسکرایا۔ ۔۔ آپ کو لگتا ہے کہ کسی معمولی بزنس مین کی اتنی حیثیت ہے کہ وہ اںتہاج گردیزی کی کمپنی کے شئیرز کو خرید سکے۔۔۔ اسکی آنکھوں میں غرور تھا اور لہجے میں ٹہراؤ۔۔۔۔


میرے شئیرز ہاتھو ہاتھ جا رہے ہیں۔ مجھے تو کوئی پروبلم نہیں ہے اس سے۔۔۔۔ ہاں اگر آپ لوگوں کو ہے تو آپ ایسا کریں اپنی اپنی کمپنی کے شئیرز مجھے ففٹی پرسنٹ پرافٹ پر دے دیں باقی میں سب کچھ سنبھال لوں گا ۔۔۔ "


وہاں موجود سبھی لوگوں کی جانب دیکھتے وہ انہیں ایک دم سے خاموش کروا گیا ۔ وہ سبھی دم سادھے بیٹھے تھے ۔۔۔ ابتہاج کا لہجہ اسکا انداز ایسا تھا جیسے وہ سوچ کے آیا تھا کہ وہ اب کسی بھی قسم کا کوئی بھی رحم نہیں دکھائے گا۔۔


مجھے ابھی جانا ہے تو آج کی میٹنگ یہی پر ختم ہوتی ہے سی یو سون۔۔۔۔۔" وہ جلدی سے کہتے وہاں سے باہر نکلا تھا ۔۔۔اج اسے ماہا کے ساتھ واپس جانا تھا ۔۔۔۔۔ مگر پہلے میٹنگ میں آنا ضروری تھا اسے نوٹی ملا تھا کہ ماہا کے ماں باپ اس سے ملنے مری پہنچ آئے تھے اور اس سے پہلے کہ وہ ماہا تک پہنچتے وہ اسے ہمیشہ کیلئے سب سے دور لے جانا چاہتا تھا۔۔۔


اسنے گہرے پرسوچ انداز میں سوچتے سرد سانس فضا کے سپرد کیا۔


_______۔


لیٹی رہو آرام سے۔۔۔" ہاتھ میں پکڑا سوپ کا باؤل ایک جانب رکھتے وہ اسے جھڑکتے ہوئے غصے سے تیز انداز میں بولا تو صنم نے منہ پھولائے اسے گھورا۔۔۔ رات سے اسے تیز بخار ہو رہا تھا صالح اسکی حالت پر کافی گھبرایا ہوا تھا جبھی صبح ہوتے ہی ڈاکٹر کو بلاتے اسکا چیک اپ کروایا ۔۔ ڈاکٹر نے اسے تھکاوٹ اور ٹینشن سے دور رہنے کی ہدایت دی ۔۔۔ جس کے بعد صالح کوسکون تھا کہ کوئی بڑا مسلہ نہیں ہوا تھا، صالح میں ٹھیک ہوں میں کر لوں گی آپ رہنے دیں پلیز۔۔۔ صالح جو کہ روم میں بکھرا سامان سمیٹ رہا تھا صنم نے شرمندگی سے اسے دیکھتے کہا تھا اسے بالکل بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا صالح کا اسکے ہوتے یوں کام کرنا ۔۔۔ چپ چاپ لیٹی رہو ۔۔۔۔صالح نے اسے گھورتے کہا وہ لب بھینجتے اپنی دکھتی آنکھوں کو انگلیوں کے پوروں سے دبانے لگی۔۔۔ صالح نے گردن گھمائے اسکے بخار سے سرخ پڑے چہرے کو دیکھا، جو اپنے ہاتھ کی انگلیوں کے پوروں سے اپنی آنکھوں کو دبا رہی تھی۔ صالح سرد سانس فضا کے سپرد کرتے چلتے بیڈ کے قریب گیا اور نرمی سے اسکے پاس بیٹھتے اسکا سر اپنی گود میں رکھا۔۔ صالح۔۔۔۔صنم نے سرخ آنکھوں کو کھولتے صالح کو دیکھا جس نے انگلی ہونٹوں پر رکھتے اسے خاموش کروا دیا ۔۔۔ صنم اسے دیکھ سے خاموشی سے آنکھیں موند گئی۔۔۔ صالح نے جھکتے اپنے ہونٹ اسکی دونوں آنکھوں پر رکھے اور پھر نرمی سے اپنی انگلیوں سے اسکی آنکھوں کو دبانے لگا۔۔۔ صنم اسکے ہاتھ کے نرم لمس پر اب سکون محسوس کر رہی تھی اسکے ہونٹوں پر خوبصورت سی مسکان تھی، جیسے اسے سکون راحت ملی تھی۔۔ صالح کافی دیر تک اسکی آنکھوں کو دباتا رہا اور پھر نرمی سے اسے سہادہ دیے بٹھائے صالح نے سوپ کا باؤل اٹھائے آہستگی سے اسکے چہرے سے بال ہٹائے اسے سوپ پلانے لگا ۔صنم نے محبت پاش نظروں سے صالح کو دیکھا واقعی ایک اچھا شوہر بھی خدا کی نعمتوں میں سے ہوتا ہے ، اب پھر سے کچھ سوچ کے رونا شروع کر دیا ۔۔۔ اسکی آنکھوں میں آنسوں دیکھ صالح نے جھڑکتے کہا تو صنم بے ساختہ ہی ہنسنے لگی ۔۔۔ اسکی خوبصورت کھلکھلاہٹ پر صالح کئی لمحوں تک بےساختہ ہی اسکے حسین چہرے کو دیکھے گیا جو اب یوں صالح کی نظروں کو خود پر پاتے جھینپ سی گئی۔


صالح اسکے جھیپنے پر ہنستے فورا سے اسے خود سے لگائے صنم کی پیشانی پر بوسے دیے اسے خود میں بھینج گیا۔۔ بس ایسے ہی مسکراتی رہا کرو ۔۔۔ صالح نے اسکے بالوں میں ہاتھ چلاتے کہا تو صنم نے بےساختہ ہی اپنے ہونٹ اسکے سینے پر دل کے مقام۔پر رکھے اسکی معصوم سی حرکت پر صالح کو بےساختہ اس پر پیار آیا۔ ابھی تم ریسٹ کرو میں جلدی سے اپنا کام فنش کر کے آتا ہوں اور میڈ کا بندوست بھی کر دیا ہے میں نے۔۔۔۔ جب تک میں آؤں گا وہ بھی آ جائے گی پھر اسے تم کام سمجھا دینا اور باقی تم بیڈ سے قدم بھی نہیں اتارو گی۔۔۔وہ جلدی جلدی سے آگاہ کرتے اسے نرمی سے لٹائے اسپر کمفرٹر برابر کرتا باہر نکلا تھا۔۔


صنم نے دور تک اسکی چوڑی پشت کو دیکھ آنکھیں موندیں۔۔


______


ہاں صالح نکل چکا ہے گھر سے۔۔۔ تم اپنا کام مکمل کرو ۔۔۔۔۔ ارسم خان نے پردے برابر کرتے واپس بیڈ پر بیٹھتے کہا تو مقابل دوسری جانب موجود شخص نے سر ہاں میں ہلا دیا۔۔


اگر ابتہاج کو کچھ ہو گیا تو اسکی ساری پراپرٹی یا تو اسکے ہونے والے بچے کو ملے گی یا پھر ٹرسٹ کو ۔۔۔تو پھر آپ کو ان سب سے کیا حاصل ہو گا۔۔ عماد نے انکی بات سنتے پرسوچ انداز میں پوچھا۔۔۔۔ وہ ایک بہت بڑا غنڈہ تھا جو پیسوں کے عوض اپنا کام کرتا تھا ارسم خان سے اسکی کافی پرانی جان پہچان تھی اور اسی وجہ سے دلاور خان اپنے ایسے روشن کام۔اسی سے کرواتا تھا۔۔


نہیں اسے مارنا نہیں ہے اسے بس ڈراؤ ایسے کہ وہ اپنی بیوی کو کھونے کے خوف سے خود ہی ڈر جائے اور پھر جب وہ اس خوف میں مبتلا ہو جائے گا تو اسے شکست دینا آسان ہو گا، ارسم خان نے اپنا سوچا پلین عماد کو سنایا تو عماد اسے داد دیے بنا ناں رہ سکا۔


اب فون رکھو اور مجھے اچھی سی خبر دینا جلدی سے۔۔۔۔۔۔" اسے حکم دیے ارسم خان نے موبائل آف کیا تھا۔۔۔ صالح ابھی جانے سے پہلے ان سے مل کے گیا تھا۔ صالح کی فکر دیکھ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ اب اسکی مٹھی میں قید تھا ابتہاج چاہے کچھ بھی کر لے وہ کسی کی بات نہیں مانے گا۔۔۔


اب دیکھتے ہیں ابتہاج گردیزی تم کیسے میرے بنائے پلین سے بچتے ہو۔۔۔ وہ نفرت سے ابتہاج کو سوچتے قہقہہ لگاتے ہوئے بولا۔۔۔


________۔


ماہا چلو یار باہر آؤ۔۔۔۔۔۔۔ ابتہاج کب سے اسکا ویٹ کر رہا تھا ۔۔جبکہ ماہا تو اپنے ماما پاپا سے ملنے کی خوشی میں نہال شام سے تیار ہو رہی تھی ۔۔۔۔ وہ بے حد خوش تھی کہ کم از کم ابتہاج اسے آخر کار اسکے اپنوں سے ملانے کے لیے مان گیا تھا ۔۔۔


ماہا۔۔۔ ابتہاج نے فون آف کیے اسے آواز لگائی تو وہ بڑی سے چادر اپنے اردگرد لپیٹتے عجلت سے باہر نکلی۔۔۔۔ ابتہاج نے بغور اسے دیکھا جو اس وقت سکائی بلیو کلر کی گھٹنوں تک جاتی شرٹ کے نیچے وائٹ کیپری اور ساتھ میچنگ ہی وائٹ خجاب کیے اپنے اردگرد بڑی سی چادر لپیٹے میک اپ کے نام پر ہونٹوں پر صرف ریڈ لپ اسٹک لگائے بے حد خوبصورت دِکھ رہی تھی ۔


چلیں ۔۔۔ ابتہاج نے اسکے قریب کرتے اسکی تھوڑی کو چھوا تو وہ بلش کرنے لگی ۔۔۔ ابتہاج نے اسکے چہرے پر بکھرے حیا کے رنگوں کو مسکراتے اپنی آنکھوں میں قید کیا اور پھر نرمی سے اسکے ہاتھ کو تھامے وہ بوسہ دیے اسے لیے گاڑی کی جانب بڑھا اور پھر فرنٹ سیٹ کا ڈور کھولتے ابتہاج نے نرمی سے اسے اندر بٹھایا اور پھر جلدی سے اپنی جگہ سنبھالی۔۔۔۔


ابتہاج ہم آج رات ماما پاپا کے پاس رکے گے ۔۔۔۔ آپ کوکوئی اعتراض تو نہیں۔۔ اسکے مضبوط بازؤ پر اپنا نازک ہاتھ رکھے وہ محبت سے استفسار کرنے لگی ۔۔ ابتہاج نے گردن گھمائے اسکے چہرے کو دیکھا اور مسکراتے سر نفی میں ہلا دیا بھلا اسے کیا پروبلم ہو سکتی تھی جب وہ اسے ہمیشہ کے لیے سب سے دور لے کے جا رہا تھا تو پھر اسے کیسے کوئی پروبلم ہو سکتی تھی ۔۔


میری زندگی اب سے کوئی پریشانی کوئی مسلئہ نہِیں ہو گا۔۔۔ابتہاج نے اسکے نازک ہاتھ کو تھامے اپنے ہونٹوں سے چھوا ۔۔ ماہا نے مسکراتے نظریں جھکا لیں ، ابتہاج آپ نے۔مجھے کچھ بھی نہیں لینے دیا ۔۔۔ میرے سارے کپڑے اور بھی کتنا سامان تھا یہاں۔۔۔۔۔۔۔ وہ منہ بناتے بولی تو ابتہاج مسکرا دیا۔۔۔ وہ جان بوجھ کے رات کو نکلا تھا تاکہ اگر کہیں راستے میں اسکا سامنا دلاور صاحب سے ہو جاتا تو ماہا انہیں دیکھ ناں پاتی ۔۔۔۔


ڈونٹ وری ماہا کیا میں تمہارے لئے نئے کپڑے اور باقی کا سامان نہیں لے سکتا۔۔ اسکے ہاتھ کو مضبوطی سے تھامے وہ محبت سے پوچھنے لگا تو ماہا مسکرا دی۔۔۔ نہیں ایسا تو نہیں کہا میں نے۔۔۔۔" جو بھی کہا ہو اب سے نہیں کہنا کیونکہ تم ابتہاج گردیزی کی بیوی ہو اس دنیا کی ہر چیز میں تمہارے قدموں میں رکھ سکتا ہوں جو تم چاہو وہ سب۔۔۔۔۔" ماہا کے ہاتھ پر بوسہ دیے وہ مضبوط لہجے میں بولا تو ماہا نے آنکھیں موندے اپنے رب کا دل سے شکر ادا کیا جس نے اسے اتنا اچھا شوہر عطا کیا تھا۔۔۔۔ وہ کافی آگے نکل چکے تھے مری کی حدود سے باہر نکلتے ہی اب چاروں اطراف جنگل دکھائی دے رہا تھا ۔۔اونچی اونچی پہاڑیاں رات کے وقت بہت کم دکھائی دے رہی تھی۔۔۔جبکہ ماہا اسکے کندھے پر سر رکھے سکون سے آنکھیں موندے ہوئے تھی کہ معا گاڑی ایک جھٹکے سے رکی۔۔ ابتہاج اور ماہا دونوں ہی چونکے تھے ابتہاج کو کچھ غیر معمولی احساس ہوا اسنے ماتھے پر بل ڈالے چاروں اطراف نظریں دوڑائیں۔۔۔ وہ جان چکا تھا کہ گاڑی کا ٹائر پھٹ چکا تھا اور جس طرح جھٹکے سے گاڑی رکی تھی اسکا مطلب صاف تھا کہ ضرور کسی نے جان بوجھ کے ایسا کیا ہے ۔۔


ماہا تم باہر مت آنا میں ابھی دیکھتا ہوں کیا ہوا ہے۔۔۔۔؟" اسکا سر تھپکتے ابتہاج نے اسے پرسکون کیا تو ماہا کے اسکا بازو دبوچتے سر نفی میں ہلایا۔۔۔


ماہا میری جان میں دیکھوں گا تو ہی پتہ چلے گا کہ آخر کو ہوا کیا ہے ۔۔۔؟" تم یوں ڈرو مت میں ابھی دیکھ کے آتا ہوں ۔۔۔" اسکی پیشانی پر ہونٹ رکھتے وہ اسے پرسکون کیے گاڑی سے اترا تھا۔۔


ماہا کی خوف سے پھیلی سیاہ آنکھیں ابتہاج پر ٹکی تھیں۔۔


________


بابا کیسے ہیں آپ طبیعت ٹھیک ہے ۔۔؟" وہ آفس سے واپس تا سیدھا ارسم خان کے کمرے میں آیا تھا جہاں وہ چت لیٹے چھت کو گھور رہے تھے ۔۔صالح کو وہ پریشان لگے جبھی وہ متفکر سا ہوتے آگے بڑھتے ان سے پوچھنے لگا ۔۔۔ارسم خان نے حیرت سے مڑتے صالح کو دیکھا جیسے وہ لاعلم تھے اس کے آنے سے ۔۔۔ تم کب آئے بیٹا۔۔۔۔۔وہ اٹھتے سیدھا ہوتے ہوئے بولے تو صالح انکے قریب بیٹھا ۔۔ بس ابھی ہی واپس آیا ہوں۔۔ تو سوچا پہلے آپ کو دیکھ لوں۔۔۔ " صالح نے انہیں دیکھتے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔۔ تو ارسم خان رنجیدہ ہوئے۔۔۔۔۔ میں نے جانے کونسا نیک کام کیا ہے جو مجھے رب نے ایسا نیک بیٹا عطا کیا ہے ۔۔۔ وہ آنکھیں صاف کرتے دکھی لہجے میں بولا تو صالح نے سرد سانس فضا کے سپرد کرتے ارسم خان کو دیکھا ۔


بابا پریشان کیوں ہیں آپ کیا ہوا ہے____؟" انکا ہاتھ تھامے صالح نے متفکر سا پوچھنے لگا تو ارسم خان نے سر نفی میں ہلا دیا ۔۔ بس بیٹا میری وجہ سے تمہارا اور ابتہاج کا جھگڑا ہو گیا مجھے شرمندگی سی محسوس ہوتی ہے اللہ جانے کب سب کچھ ٹھیک ہو گا ۔وہ مصنوعی غم طاری کیے بولا تو صالح نے لب بھینج لیے آپ کا کوئی قصور نہیں ابتہاج کو سمجھنا چاہیے وہ غلط الزامات لگا رہا ہے۔۔ سب جانتے بوجھتے بھی وہ بنا کسی وجہ کے آپ پر الزام لگا رہا ہے اور اسے لگتا ہے کہ میں اسکی بات مان جاؤں گا ۔ مگر میں کبھی بھی غلط کا ساتھ نہیں دینے والا۔۔۔۔۔ اور آپ بھی اب اس بات کو سوچ سوچ کے خود کو۔ہلکان کرنا بند کر دیں۔۔۔۔ ابتہاج کو سمجھنا ہو گا کہ وہ غلط ہے نہیں تو میں اسکے لئے آپ کو کبھی بھی نہیں چھوڑوں گا۔۔۔"


اپنے ہاتھوں میں ارسم خان کے ہاتھوں کو مضبوطی سے تھامے وہ مضبوط لہجے میں بولا تو ارسم خان نے اسے خود سے لگا لیا۔۔۔ وہ جانتا تھا اب صالح کا یقین اور بھی مضبوط ہو گیا ہو گا۔۔


________


ہاتھ اوپر کرو خبردار جو کوئی ہوشیاری دکھائی ۔۔۔ " ابتہاج جو ٹائر چیک کر رہا تھا کہ اچانک سے کسی نے پھرتی سے اسکے قریب ہوتے اسکے سر پر گن طانے کہا ۔۔ ابتہاج ایک دم سے چوکس ہوا اسکے پہلے کہ وہ اپنی گن نکالتا مقابل کھڑے شخص نے تیزی سے اسکے ہاتھوں کو قابو کرتے اسے کھڑا کیا۔۔۔ ابتہاج نے سانس روکے اپنی گاڑی کی جانب دیکھا اسے ڈر تھا کہ کہیں ماہا کو کوئی نقصان ناں پہنچا ہو ۔۔۔۔۔۔ کون ہو تم لوگ اور کیا چاہتے ہو۔۔؟ اسے اندازہ تو تھا مگر وہ کسی بھی طور ان لوگوں کو خود پر حاوی نہیں ہونے دے سکتا تھا ۔۔۔۔


سب بتاتے ہیں اتنی بھی کیا جلدی ہے۔۔۔ ان کا لہجہ سخت تھا اںتہاج کو اندازہ ہوا کہ وہ پیسوں کے بدلے خریدے گئے حیوان ہیں جو اب اس پر ذرا بھی رحم نہیں دکھانے والے اسکا خوف مزید بڑھا تھا جب ان میں سے ایک کو گاڑی کی جانب بڑھتا دیکھا۔۔۔ ابتہاج نے نظریں گھمائے انہیں دیکھا وہ تعداد میں چھ تھے اور طاقتور بھی ان کا مقابلہ کرنا سرعام موت کو گلے لگانا تھا۔۔


اسی وجہ سے وہ خاموش تھا مگر وہ تیزی سے کچھ لائحہ عمل سوچ رہا تھا کہ کسی بھی طرح سے اس سچویشن سے باہر نکلا جا سکے۔۔۔۔


اببب ابتہاج۔۔۔۔ " ماہا کی خوفزدہ سی سسکی پر وہ دھڑکتے دل سے سامنے دیکھنے لگا جہاں وہ خوف سے زرد پڑتی ہاتھ اوپر کیے ابتہاج کو دیکھ رہی تھی ابتہاج نے اسے گردن ہلائے خاموش رہنے کا اشارہ کیا تو ماہا نے سمجتے گردن ہاں میں ہلائی ۔۔۔اسے اپنا خوف نہیں تھا اسے اپنے بچے کی پرواہ تھی وہ پہلے ایک بار اس درد سے گزر چکی تھی اب پھر سے وہ اس درد کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔


اگر چاہتے ہو کہ تمہیں آرام سے بنا کسی تکلیف کے ماروں تو چپ چاپ چلو۔۔۔۔۔ ماہا کو لاتے ابتہاج کے پاس کھڑا کیا گیا ۔۔۔۔ابتہاج نے فوراً سے اسے اپنے مضبوط حصار میں قید کیے سینے سے لگایا جو خوف سے کانپ رہی تھی۔۔۔۔


خاموش ہو جاؤ ماہا میرے ہوتے کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔۔ابتہاج نے مدہم سی سرگوشی کی تو وہ معصوم جھٹ سے سر ہاں میں ہلا گئی۔۔۔ا گر یہ رومینس ہو گیا ہے تو چلو آگے لگو۔۔۔ ان میں سے ایک نے پیچھے سے ابتہاج کی کمر پر لات مارتے کہا تو ابتہاج نے اپنے قہر بھری سرخ آنکھوں کو موندے اپنے آپ پر قابو کیا اسکا بس نہیں تھا کہ وہ ابھی سب کچھ تہس نہس کر دیتا۔۔۔۔


بس بس غصہ بعد میں کرنا پہلے چل یہاں سے ۔۔۔۔' وہ روڈ سے اترتے اب جنگل میں داخل ہوئے تھے۔۔۔۔۔ ابتہاج کی نظریں اپنے دونوں اطراف تھیں۔۔۔۔ وہ بالکل پرسکون سا ماہا کو سنبھال رہا تھا ۔۔۔ اسکے دماغ میں کیا چل رہا تھا کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔۔۔


ارے چھوڑ آگے ہو تم۔۔۔۔۔" معا ان میں سے ایک نے ماہا کو ابتہاج سے دور کرتے اسے جھٹکے سے آگے کیا تو خوف و دہشت سے ماہا کی چیخ نکلی۔ ابب ابتہاج۔۔۔۔ وہ روتے ہوئے گردن گھمائے ابتہاج کو دیکھنے لگی جس کی آنکھوں میں غصے کی سرخی تیزی سے بڑھی تھی ۔۔۔ ابتہاج نے ہاتھ کا مکہ بنائے خود کر ضبط کرنا چاہا کہ اچانک سے ماہا کو پیچھے کی جانب دیکھتا پاتے ان میں سے ایک نے اسے تھیٹر مارنا چاہا مگر ابتہاج نے ایک دم سے اسکے ہاتھ کو پکڑتے گردن نفی میں ہلائے دانت پیستے اسکا ہاتھ زور سے جھٹکا دیے گھمایا کہ درد سے اس کی چیخ نکلی ۔اپنے ساتھی کو تڑپتا دیکھ ان میں سے دو جو کے آگے اور دو جو کے پیچھے چل رہے تھے وہ سبھی تیزی سے اسکی جانب بڑھے ابتہاج نے ماہا کا بازو پکڑتے اسے خود سے قریب کیا اور پھر اپنی جانب آتے ان آدمیوں پر وار کیے وہ ماہا کو ایک جانب درخت کے پیچھے کھڑا کر گیا۔۔۔


ابتہاج اتنا تو جان چکا تھا کہ یہ لوگ اسے مارنے کو نہیں آئے کیونکہ اگر انکا ارادہ اسے مارنے کا ہوتا تو وہ بلا توقف کے اسے وہیں گاڑی کے قریب ہی مار سکتے تھے۔۔


تم یہاں رکو ماہا میں ابھی آتا ہوں ۔۔۔۔ ابتہاج نے اسکا چہرہ تھپتھپاتے کہا تھا اس سے پہلے کہ ماہا اسے روکتی وہ تیزی سے باہر نکلا ۔۔۔۔ اسے اپنی جانب آتا دیکھ ابکی بار سبھی نے اپنی اپنی گنز نیچے پھینکی اور پھر آگے بڑھتے اس سے لڑنے لگے۔۔۔۔


ابتہاج مہارت سے انکا مقابلہ کر رہا تھا مگر وہ ایک تو تعداد میں زیادہ تھے اسکے علاؤہ وہ اپنے کام کے ماہر تھے ابتہاج کے لئے اب مشکل ہونے لگا ۔۔۔ اچانک ان میں سے ایک نے ابتہاج کے سر پر اپنی گن کی پشت سے وار کیا درد سے اسکی سسکی سی نکلی تھی ۔۔۔


ابتہاج نے آنکھیں میچتے اپنے سر کو چھوا جہاں سے خون نکل رہا تھا ۔۔۔۔ اسکی آنکھیں دھندلانے لگیں۔۔ اب وہ باری باری اسکے چہرے پر مکے مارتے اسے مزید بےبس کر رہے تھے ۔


ماہا نے ڈرتے اپنا سر درخت کی اوٹ سے نکالا تو سامنے ہی ابتہاج لہو لہان پڑا تھا ۔۔ وہ ہذیانی سی کیفیت میں۔ چیختی اسکی جانب آئی تھی ۔۔۔ ابتہاج ابتہاج اٹھیں پپ پلیز۔۔۔۔۔" وہ گھٹنوں کے بل اسکے قریب بیٹھے اسکا چہرہ تھپتھپاتے اسے ہوش دلانے لگی۔۔۔ ابتہاج نے بشمکل سے آنکھیں وا کیے اسے دیکھا اور پھر اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہہ پاتا ایک نے آگے بڑھتے ماہا جو کھینچتے کھڑا کیا۔۔ کہا تھا ناں کہ چپ چاپ چل ہمارے ساتھ۔۔۔۔۔ مگر نہیں تجھے بھی ذرا چین نہیں ملتا۔ اب تو پچھتائے گا۔۔۔۔۔ اسکے پیٹ پر اپنے بھاری بوٹ سے وار کیے وہ غصے نفرت سے اپنے منہ سے بہتے خون کو صاف کیے غرایا۔۔


________


صالح آپ کب آئے ۔۔۔۔۔!" صنم جو خاموش بیٹھی بور ہو رہی تھی اچانک سے صالح کو اندر آتا دیکھ وہ خوشگوار حیرت سے بولی تو صالح نے اپنے بازو پر رکھا کوٹ صوفے کی جانب اچھالا اور پھر چلتے بیڈ کے قریب جاتے وہ نرمی سے اسکی پیشانی پر بوسہ دیے مسکرانے لگا۔۔۔


مجھے معلوم تھا کہ میری صنم اکیلی بور ہو رہی ہو گی تو بس اسی لئے میں جلدی سے واپس آ گیا۔۔ صالح نے اسکے ماتھے کو ہاتھ کی پشت سے چھوا اور پھر اسکی گردن کو چھوتے وہ بخار چیک کرنے لگا۔۔


ابھی ٹھیک ہوں بخار نہیں ہے ابھی ۔۔۔ وہ چہکتے اسکا ہاتھ تھامے بولی تو صالح نے مسکراتے اسکے حسین چہرے کو دیکھا۔۔۔اوکے اوکے میں کونسا کہہ رہا ہوں کہ بخار ہے میں تو بس چیک کر رہا تھا۔۔۔ صالح نے لب دبائے کہا تھا اور پھر جھکتے اپنے تشنہ لب اسکی گردن پر رکھے تو صنم اسکے لمس پر خود میں سمٹ گئی۔۔ کیا کھایا آج دن میں ۔۔۔۔ صالح نے اسے خود سے لگائے اسکے سر پر بوسہ دیے پوچھا۔۔۔۔ وہ کافی متفکر رہا تھا اسکے لئے۔۔ اب اپنی آنکھوں کے سامنے اسے سہی سلامت دیکھ اسکا ڈر پریشانی سب کچھ ختم ہو گیا تھا۔۔۔۔


میں نے آج بریانی کھائی تھی۔۔۔وہ پرسوچ انداز اپناتے بولی تو صالح نے اسکے چہرے کو گھورا ۔۔۔۔۔۔ یہ کونسا وقت تھا بریانی کھانے کا آگے ہی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی تمہاری۔۔۔۔ وہ غصے سے اسے جھڑکتے ہوئے بولا ۔ تو صنم نے لب دانتوں تلے دبائے۔۔۔ تو میرا دل چاہ رہا تھا کھانے کو اسی لیے کھائی۔۔ویسے بھی میں نے نہیں بنائی۔۔۔۔۔ صالح جو اسکے بالوں میں انگلیاں چلا رہا تھا اسنے چونکتے اسے دیکھا تو تو پھرکس نے بنائی____!" صالح نے حیرانگی سے پوچھا ۔۔۔


ارے آپ نے ہی تو کہا تھا میڈ کو وہی آئی تھی آج دن میں۔۔۔۔۔ میں نے کہا کہ کل سے آ جانا تو کہنے لگی کہ کام تو کرنا ہے چاہے کل سے کروں یا پھر آج سے تو پھر کیا تھا میں نے اسے سب کچھ سمجھا دیا اور پھر اس نے جلدی سے سارے کام بھی کیے اور میرے کہنے پر مجھے مزے کی بریانی بھی بنا کے دی۔۔۔۔۔ "


اوکے چلو یہ تو تم نے ٹھیک کیا ۔۔۔۔۔ مجھے اچھا لگا کہ تم نے کوئ کام اپنے ہاتھوں سے نہیں کیا ۔۔۔۔ یہ بتاؤ بے بی کیسا ہے تنگ تو نہیں کیا اس نے تمہیں۔۔۔۔۔!" صنم۔کے پیٹ پر ہاتھ رکھتے وہ متفکر سا محبت سے پوچھنے لگا۔۔۔۔ نہیں صالح اس نے تنگ نہیں کیا مجھے آرام سے رہا آج سارا دن۔۔۔۔ " وہ لاڈ سے اسکی گردن کے گرد بازوؤں حائل کیے بولی تو صالح نے اسکی کمر کے گرد مضبوط حصار بنائے اسکی خوشبو کو خود میں اتارا۔۔۔


معا دروازے پر دستک ہوئی صالح نے چونکتے دروازے کو گھورا اور پھر صنم کے ماتھے پر لب رکھے وہ اٹھتا دروازے کی جانب بڑھا۔۔۔


جی کوئی کام تھا۔۔۔صالح نے باہر کھڑی میڈ سے پوچھا ۔۔۔۔۔ جی صاحب باہر کوئی لڑکی آئی ہے کہہ رہی ہے کہ آپ سے ملنا ہے۔۔۔۔"


لڑکی کے نام پر صنم جو سیدھا ہوئے لیٹی تھی ایک دم سے جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔۔۔ جبکہ دوسری جانب صالح کے ماتھے پر بھی ایک ساتھ جانے کتنے ہی بل نمودار ہوئے تھے۔۔


________


جی کس سے ملنا ہے آپ کو۔۔۔۔۔" منیبہ بیگم اور دلاور صاحب کو دیکھ چوکیدار نے سوالیہ نظروں سے پوچھا تو دلاور صاحب مسکرا دیے۔۔۔ یہاں پر ابتہاج گردیزی اور میری بیٹی رہتے ہیں ہمیں ان سے ملنا ہے۔۔۔۔۔ ان کا لہجہ کافی خوشگوار تھا۔۔۔ آج صبح ہی صنم۔نے انہیں کال کرتے بتایا تھا ۔


کہ ابتہاج زندہ ہے اور ماہا اس کے پاس ہے۔۔۔۔۔ دلاور صاحب تو سنتے ہی خوشی سے نڈھال ہو گئے تھے ۔۔۔ جبکہ منیبہ بیگم کا بھی کچھ ایسا ہی حال تھا۔۔۔۔ اپنی معصوم بیٹی جی خوشیوں کو واپس اسکی جھولی میں دیکھ وہ دونوں ہی خوشی سے اپنے رب کو یاد کرتے اسکا شکر ادا کیے روئے تھے۔۔


وہ دونوں پہلے شاپنگ کرنے گئے تھے ماہا اور ابتہاج کیلئے ڈھیروں چیزیں خریدتے وہ دن کے وقت وہاں سے نکلے تھے۔۔


اور اب رات کے دس بجے وہ محتاط سے ڈرائیو کرتے مری پہنچے تھے ۔۔ صاحب لوگ تو کب کے نکل چکے ہیں ۔۔۔ یہاں سے، " چوکیدار نے انہیں ابتہاج اور ماہا کے متعلق آگاہ کیا تو دلاور صاحب چونک گئے ۔۔۔ کیا مطلب ہے کہ وہ نکل گئے ہیں کہاں گئے کس وقت گئے۔۔۔۔ انکا لہجہ حیرانی سموئے ہوئے تھا ۔۔۔ آخر ابتہاج ماہا کو لے کر کہاں گیا ہو گا۔۔


معلوم نہیں صاحب ہم خود غریب لوگ ہیں بھلا ہم کیسے ان سے پوچھتا کہ آپ لوگ کدھر جا رہا ہے ۔۔۔ چوکیدار نے انہیں مختصر سا آگاہ کیا تو منیبہ بیگم اور دلاور صاحب دونوں ہی پریشان ہوے تھے آخر یوں اس وقت ابتہاج ماہا کو کہاں اور کیوں لے کر گیا ہو گا۔۔


مجھے بے چینی ہو رہی ہے میری ماہا ٹھیک تو ہو گی۔۔۔۔۔ منیبہ بیگم نے صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھتے متفکر سا ہوتے پوچھا ۔۔۔


پریشان مت ہو تم منیبہ ابتہاج اسکے ساتھ ھے اسے کچھ نہیں ہونے دے گا۔۔۔۔ تم آؤ گاڑی میں بیٹھو ہمیں فلحال صنم کے پاس جانا ہو گا۔۔۔۔۔ صاحب نے انہیں تسلی دیے کہا تھا مگر حقیقتاً وہ خود کافی پریشان ہوئے تھے۔۔

میری بیوی کو چھوڑ دو چاہے تو مجھے جان سے مار دو____! اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرے ابتہاج نے ماہا کو دیکھ ضبط سے سرخ پڑتے چہرے سے کہا تو وہ سبھی سنتے قہقہ لگا اٹھے۔۔۔


اگر تجھے اتنی ہی پرواہ تھی بیوی کی تو پھر تجھے سوچنا چاہیے تھا پہلے ہی کہ توں اکیلا نہیں تیری خوبصورت بیوی بھی تیرے ساتھ ہے۔۔


اہاہاہا وہ سبھی اپنی بات کہتے ابتہاج کے غصے سے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھ لب بھینجتے رہ گئے۔ منہ بند کرو اپنا کمینو۔۔۔۔۔_ابتہاج سنتے ہی غصے سے اپنے پاس کھڑے آدمی کی ٹانگ پر لات رسید کیے سیدھا ہوا تھا اسکی غصے سے بھری تیز غراہٹ پر وہ سبھی قہقہ روکے اسے گھورنے لگے۔۔


تیری تو ۔۔۔۔" ان میں سے ایک نے آگے بڑھتے اسے مارنا چاہا تھا کیونکہ وہ اسے ڈرانے کو آئے تھے اگر جان سے مار دیتے تو ان کا پیسہ انہی کے گلے کا۔طوق بن جاتا۔۔۔۔


ابتہاج نے غصے سے اپنی جانب آتے شخص کے پیٹ پر لات رسید کی تو وہ پیٹ پکڑے درد سے کراہتا نیچے کو بیٹھتا چلا گیا۔۔۔ چھوڑو میری بیوی کو۔۔۔۔" ابتہاج نے اپنے ہونٹ کے کنارے سے بہتے خون کو انگھوٹے سے صاف کرتے ٹھٹرا دینے میں بھاری لہجے میں کہا تو وہ سبھی پہلے تو گھبرا تھے مگر پھر خود ہی سے قہقہ لگاتے وہ ہنسنے لگے۔۔۔۔


ماہا نے بےبسی سے خود کو چھڑوانے کی کوشش کی۔


ابتہاج ماہا نے ابتہاج کینجانب دیکھتے اسے اور غصے سے دانت پیستے اپنی جانب آتے غنڈوں کو بری طرح سے باری باری پیٹنا شروع کر دیا۔۔


ماہا دور کھڑی لمبے لمبے سانس لیتے ابتہاج کو دیکھ رہی تھی جو بری طرح سے ان لوگوں کو پیٹ رہا تھا۔۔۔


ابتہاج نے اپنی تسلی کرتے سر اٹھائے ماہا کو دیکھا جو کپکپاتے وجود سے بمشکل سے کھڑی تھی۔۔۔ ابتہاج نے جلدی سے اٹھتے اسکے قریب جاتے اسے خود میں بھینجا۔۔۔۔ تم ٹھیک ہو ماہا ۔۔۔۔۔۔ وہ متفکر سا اسکے چہرے کو چھوتے پوچھ رہا تھا ماہا نے ہچکی دبائے سر ہاں میں ہلایا ۔


چلو یہاں سے_____! ابتہاج اسکا ہاتھ تھامے تیزی سے آگے بڑھا تھا کیونکہ پیچھے جانا سراسر بے وقوفی تھی اسکی گاڑی کا ٹائر پنکچر تھا اور ایسے میں اگر وہ واپس جاتا بھی تو وہ لوگ اسے آسانی سے پکڑ لیتے ۔۔


ماہا کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے وہ گھنے جنگل میں گم ہوتا گیا۔۔


______________


ہائے صالح کیسے ہو _____!" صالح جو ماتھے پر بل ڈالے سیٹنگ روم میں آیا تھا اب اپنے سامنے امیشہ کو دیکھ صالح حیران سا ہوا۔۔۔۔


صالح کیسے ہو تم_____! امیشہ اسے اپنے سامنے دیکھ چہکتے جگہ سے اٹھی تھی ۔۔۔ صالح اسے یوں اچانک سے اپنے سامنے دیکھ حیران بھی تھا مگر اس سے پہلے کہ وہ کسی قسم کا کوئی ری ایکشن دیتا امیشہ ایک دم سے چہکتے صوفے سے اٹھتے اسکے قریب گئی ۔۔۔


میں نے اتنا مس کیا تمہیں صالح ۔۔۔؛" وہ منہ پھلائے افسردگی سے کہتے اسکے گلے میں آنے بازوؤں حائل کرنے لگی کہ معا صالح نے اسکے بازو کو پکڑتے اسے خود سے دور کیا ۔


امیشہ ہک بکا سی صالح کو دیکھ رہی تھی آخر کیا تھا یہ سب ۔۔۔۔ صص صالح میں میشہ ۔۔۔ تمہاری دوست۔۔۔۔۔ !" صالح کے یوں دھکا دیے پیچھے کرنے پر ایک ساتھ جانے کتنے ہی آنسوں امیشہ کے حلق میں اٹکے تھے وہ رندھی ہوئی آواز میں کہتے کب بھینج گئی ۔۔۔۔۔ صنم جو سیڑھیاں اترتے اضطراب سے نیچے آئی تھی سامنے ہی بلیو شرٹ سکرٹ اور بلیو میچنگ جینز پہنے کھڑی لڑکی کو دیکھ صنم کو عجیب سی بے چینی ہوئی۔۔۔۔


دوست ہو امیشہ تو میری عادتوں سے اچھی طرح واقف ہونا چاہیے تمہیں مجھے یوں کسی بھی عورت کا غیر محرم کے گلے لگنا سخت ناپسند ہے۔۔ صالح نے بنا توقف کے اسکے منہ پر سچ بولا تھا۔۔ امیشہ نے اپنی نم آنکھوں کو ہاتھ کی انگلیوں سے رگڑا۔۔


سوری میر ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا بچپن میں ہم اکثر ایسے ملتے تھے تو بس خوشی میں مجھے سمجھ نہیں آئی۔۔۔۔" اپنے ڈارک چاکلیٹ بالوں کو کندھے سے پیچھے کرتے وہ اس بار نم لہجے میں بولتے صالح کو شرمندہ کر گئی۔۔۔


سوری امیشہ میں تھوڑی زیادہ ہارش ہو گیا تھا مگر میرا ارادہ تمہیں تکلیف دینا نہیں تھا۔۔۔ صالح کو شرمندگی سی ہو دہی تھی وہ اس کی بچپن کی ساتھی تھی دونوں نے ایک ساتھ جانے کتنا عرصہ گزارا تھا اور اب وہ اچانک سے اتنے سالوں بعد اس سے ملنے آئی تھی۔ ۔۔


اٹس اوکے مجھے خیال کرنا چاہیے تھا۔۔ اپنی خفت مٹانے کو وہ جبرا مسکائی تو صنم چلتے صالح کے قریب پہنچی۔۔۔ امیشہ اس سے ملو یہ ہے میری بیوی صنم اور صنم یہ ہے میری بچپن کی دوست امیشہ۔۔۔۔" صنم کے گرد اپنے بازو حائل کیے صالح نے مسکراتے ان دونوں کا تعارف کروایا۔۔۔۔۔ امیشہ نے گہری نظروں سے صنم کے حسین چہرے اور پھر بھرے بھرے وجود کو دیکھا۔۔۔


کیسی ہو صنم ۔۔۔۔۔؟" امیشہ مسکراتے اسکے قریب آتے بولی تو صنم نے مسکرانے کینکوشش کرتے سر ہاں میں ہلا دیا ۔۔۔۔


میں ٹھیک ہوں آپ کیسی ہیں_____؟" صنم نے اسے بن غور سے دیکھتے پوچھا جو اب کافی آرام سے صوفے پر بیٹھی تھی ۔۔ بس پچھلے ہفتے اٹلی سے آئی ہوں تو سب سے پہلے آفیسر صالح خان کا پتہ ڈھونڈا تو پتہ چلا کہ جناب اجکل مری میں ڈیوٹی دے رہے ہیں تو پھر کیا تھا میں نے پیک کیا اپنا سامان اور پھر بھاگتے ہوئے یہاں تم دونوں کا سر کھانے پہنچ آئی۔۔۔


امیشہ انہیں اپنی کاروائی کی بابت بتاتے خوشی سے بولی تو صالح کے ہونٹوں پر مسکان بکھری۔۔۔۔


چلو آؤ بیٹھو یہاں تم ۔۔۔۔۔!" صالح نے صنم کو گھورا جو تججس کی ماری دوڑتے نیچے آئی تھی ۔۔ نہیں صالح میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔ صنم نے منمناتے ہوئے کہا حالانکہ اسکا دل خود بھی انکے پاس بیٹھتے انکی باتیں سننے کا تھا۔۔


امیشہ نے ایک تیز نظر صنم کے وجود پر ڈالی اور پھر چہرے پر مسکراہٹ سجائے وہ صالح کی جانب متوجہ ہوئی۔۔


عماد کام ہوا ہے یا نہیں ______! ارسم خان کب سے پریشانی سے چکر کاٹتے عماد کی کال کا انتظار کر رہا تھا ۔۔۔۔اسے بے چینی تھی کہ کہیں اتنا اچھا موقع اسکے ہاتھ سے ناں نکل جائے۔۔۔ ارسم خان دراصل وہ ابتہاج۔۔۔۔۔" عماد کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیسے اسے بتائے کہ اسکے آدمی بجائے اسے پکڑنے کے خود ہی اکسے ہاتھوں زخمی ہوئے اب اسی کو ڈھونڈ رہے تھے۔۔۔


کیا کیا ہے اس نے ابکی بار صاف صاف بتاؤ مجھے_____! ارسم خان کا دماغ پھٹنے کو تھا جہاں اتنی زیادہ محنت کی تھی اتنا انتظار تھا اسے اس۔ وقت کا اور اب عماد اسے ہری جھنڈی دکھا رہا تھا ۔۔۔


دراصل ابتہاج ماہا کے ساتھ جنگل میں کہیں گم۔ہو گیا ہے۔۔ میرے آدمی بھی اچھے خاصے زخمی ہوئے پڑے ہیں مگر پھر بھی وہ ڈھونڈ رہے ہیں اسے وہ مل جائے گا ۔ ۔ عماد نے اسے حوصلہ دینے کو کہا جبکہ ارسم خان سنتے بپھر گیا ۔۔۔۔ کیا کہا توں نے۔۔۔ تیرے اتنے ہٹے کٹے آدمی ایک لڑکے اور لڑکی کو قابو نہیں کرسکے۔۔۔۔ توں جانتا ہے کہ میری کتنی سالوں کی محنت لگی ہے اس کام کے پیچھے ۔۔۔۔۔۔ پہلے اسکا باپ وہ کاشان مجھے سکول کالج کر جگہ دی گریڈ کرتا تھا ہر کوئی اسکی ذہانت کی تعریف کرتا تھا اسکی وجہ سے میں دوسرے نمبر پر رہا ہمشیہ ۔۔۔ اسکے بعد وہ بزنس کی دنیا میں بھی مجھ پر بازی لے گیا میں نے پیسے کی حاطر دوسری شادی کی اپنے بیٹے اور بیوی کو چھوڑ دیا در در کی ٹھوکریں کھانے کو ۔۔۔ مگر پھر بھی مجھے کچھ حاصل نہیں ہؤا ۔۔الٹا اس کاشان کا نام اور بھی بلند ہو گیا لوگ اسے جاننے لگے میرا ہر حربہ بے کار رہا اور پھر جب میں نے دھوکے سے اسکا سب کچھ اپنے نام کرنا چاہا تب اسکا بیٹا وہ ابتہاج وہ آ گیا کمپنی سنبھالنے۔۔۔۔۔


مجھے زین یوسف کو اپنے ساتھ ملانا پڑا مجھے لگا تھا کہ میں کسی بھی طرح اسکی دولت کو چھین لوں گا مگر برا ہو اس روکی کا اور یوسف کا ۔۔۔۔ جہنوں نے ابتہاج کی بیوی کو قید کر کے اسے مزید بپھرا دیا۔۔۔۔اور جب وہ پولیس کے ساتھ وہاں پہنچا تو صاف ظاہر تھا ان دونوں کے ساتھ کیا ہونے والا ہے مگر میں بچ گیا کیونکہ میں نے کبھی بھی ان سے آمنے سامنے بات نہیں کی۔ میرے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا ۔۔۔


اسکے بعد کاشان کو ایک نہیں دو دو کمپنیاں مل گئی ۔۔۔۔میرا اندر جل کے بھسم ہونے لگا تھا کبھی میں نے کاشان اور اسکی بیوی کو مروا دیا۔۔


مر تو اس ابتہاج نے بھی جانا تھا مگر ایک تو اسکی قسمت اچھی نکلی اور دوسرا مجھے وقت پر خبر مل گئی کہ اس وقت اسکا کوئی بھی وارث نہیں جس کی وجہ سے ابتہاج کے مرنے کے بعد اسکی جائیداد حکومت ضبط کر لیتی۔۔۔۔۔


میں نے اتنے سالوں سے انتظار کیا اپنا اتنا صبر اتنے رشتے تباہ و بربار کیے اور اب جب مجھے میرے صبر کا پھل ملنا تھا تم مجھے حالی ہاتھ دکھا رہے ںو۔۔ عماد تو اسکا سارا منصوبہ۔اسکے کالے کرتوت سنتے ہی سن سا رہ گیا اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ کچھ ایسا بھی کر سکتا تھا ۔۔۔


یہ سب کچھ تم نے کیسے کیا ارسم خان۔۔۔۔؟" وہ خود بھی ایک غنڈہ تھا مگر اس وقت اسے ارسم خان زیادہ خطرناک لگا تھا ۔۔ حسد ____حسد سے ۔۔۔۔ برسوں سے اس حسد نے مجھے نگلا ہے اور تم کہہ رہے ہو کہ یہ سب میں نے کیسے کیا ہے۔۔۔۔؟


ڈھونڈو ابتہاج کو اسکی آنکھوں کے سامنے اسکی بیوی کو ٹارچر کرو کہ وہ خود ہی تڑپ کے خوفزدہ ہوتے اپنی ساری دولت میرے نام کر دے۔۔۔۔۔ " ارسم خان نے زہر خند لہجے میں ابتہاج کو سوچتے کہا تھا جبکہ عماد اسکے لفظوں کے زہر سے ڈر سا گیا۔۔۔ میں جلد اسے ڈھونڈ لوں گا۔۔۔۔ عماد نے جلدی سے کہتے ساتھ ہی کال کاٹی تھی وہ حیران تھا آخر ایسا بھی کیا دولت کا لالچ جو اتنی زندگیاں تباہ کرنے کے باوجود بھی اس شخص کو چین نہیں تھا ۔


مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ جب حسد انسان کے دلوں میں گھر کر جائے تو باقی کی محبتیں صرف فرضی لگتی ہیں۔۔۔


اب ابتہاج۔۔۔۔۔ مجھے ڈڈڈ ڈر للل لگ رہا ہے ۔ ماہا نے ڈرتے ابتہاج کی شرٹ کو مضبوطی سے گرفت میں لیتے کہا تو ابتہاج نے اسکی کمر تھپکتے اسے خاموش کروایا۔۔۔ اشش ڈونٹ وری میری جان میں ہوں ناں ساتھ۔ بس ڈرو مت ۔۔۔ وہ دونوں اس وقت ایک اونچی ڈھلوان کے نیچے تھوڑی ایک جانب ایسی جگہ پر چھپے تھے جہاں پر درختوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے انہیں ڈھونڈ پانا نا ممکن سا تھا۔۔۔۔


ابتہاج ممم میرے بچے کو کک کچھ ہہہہ ہوگا تو نہیں۔۔۔۔۔" اسکے لہجے میں خوف تھا ابتہاج کا دل چاہا کہ ابھی کے ابھی سب کجھ تہس نہس کر دے جن کی وجہ سے اسکی ماہا آج اس حال میں تھی۔۔کچھ بھی نہیں ہو سکتا ماہا ڈرنے کی ضرورت نہیں اس بار اگر کسی نے بھی میری ماہا یا پھر میرے بچے جو تکلیف دینے کا سوچے گا بھی میں اسکا خشر بگاڑ دوں گا۔۔۔۔


ابتہاج نے سرگوشی نما آواز میں اسکے کان کے قریب جھکتے کہا ابتہاج کا ساتھ ہونا ہی اسکے لئے سب سے بڑی طاقت تھی۔۔ ابتہاج نے جھکتے اپنے ہونٹ ماہا کی پیشانی پر رکھتے سکون سے آنکھیں موندے اسکی خوشبو کو خود میں اتارا ۔۔


معا بھاری قدموں کی تیز آواز پر ماہا کا پورا وجود ڈر سے لرزنے لگا۔۔۔۔۔ وہ لوگ ماہا اور ابتہاج کوڈھونڈ رہے تھے مگر ابتہاج جانتا تھا کہ وہ اس جگہ لازمی آئیں گے اسی وجہ سے وہ کافی دور چھپا تھا۔۔۔


ڈھونڈو یہیں کہیں ہونگے اس بار ملے تو دونوں کی قبریں بنا کر ہی واپس جائیں گے۔ وہ سبھی کافی غصے میں تھے ۔۔اوپر سے کچھ عماد کا فون کرتے انہیں ذلیل کرنا آگ لگا رہا تھا وہ کسی بھی طور ابتہاج کو پکڑنا چاہتے تھے جبھی وہ بھوکے کتوں کی طرح ان کی بو سونگھتے پھر رہے تھے۔۔۔۔


اببب ابتہاج وو وہ لل لوگ ادد ادھر ااا رر رہے ہیںں۔۔۔" ماہا خوفزدہ سی ہوتے اونچی آواز میں بولنے لگی۔۔۔۔ ابتہاج نے گھبراتے اسکا رخ اپنی جانب کیے اسے خاموش کروانے کی کوشش کی مگر اس وقت ڈر اسکے حواسوں پر طاری تھا۔ ماہا کچھ بھی نہیں وہ لوگ نہیں آ رہے یہاں تم پینک مت ہو ۔۔۔۔۔" ابتہاج نے اسکے چہرے کو ہاتھوں میں بھرتے کہا تھا جو مسلسل ایک ہی بات بڑبڑا رہی تھی۔۔


ابتہاج نے گھبراتے اپنا سر اٹھائے پیچھے کو دیکھا ۔۔شاید وہ لوگ ماہا کی آواز سے چوکس ہو رہے تھے ۔۔۔ابتہاج نے جھکتے ایک دم سے ماہا کی سانسوں کو قید کیے اسکے الفاظ کو چن لیا کہ وہ جو بولنے کی کوشش کر رہی تھی ایک دم سے ساکت سی رہ گئی ۔۔۔


ابتہاج نے اسکے نازک وجود کو اپنی گود میں بھرتے ماہا کی کمر کے گرد اپنا مضبوط حصار قائم کیا۔۔۔۔۔۔ اسکا دھیان اس وقت ان لوگوں کی جانب تھا ۔۔ فلحال ماہا کو چپ کروانے کا اس سے بڑا کوئی اور طریقہ نہیں ملا تھا اسے۔۔۔۔


ابتہاج کافی دیر بعد پیچھے ہوئے اسکے سرخ چہرے کو دیکھ ماہا کی پیشانی پر بوسہ دیے اسے خود میں بھینج گیا جیسے اسے دنیا جہاں کی گرم و سرد سے بچاتے وہ اسے ہمیشہ کیلئے اپنے مخفوظ حصار میں قید کر لے گا ۔۔۔ وہ جانتا تھا کہ یہ برا وقت بھی اللہ پاک کی آزمائش تھی ۔۔۔ جو جلد ہی ختم ہونے والی تھی مگر شرط یہ تھی کہ اسے ثابت قدم رہنا تھا۔۔


ابتہاج نے کافی دیر بعد سر اٹھائے دیکھا۔۔ تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا جبھی وہ لمبا سانس فضا کے سپرد کیے پیچھے ایک جانب گھاس سے ٹیک لگائے آنکھیں موند گیا۔۔۔ ماہا بھی تھکن اور خوف سے نڈھال اسکی گود میں سر اسکے سینے سے لگائے سونے لگی۔۔


امیشہ تم رہو۔ گی کہاں میرا مطلب ہے کہ یہاں مری میں۔۔۔۔۔!" صنم نے اسے چاہے سرو کرتے پوچھا تو امیشہ کھلکھلا اٹھی۔۔۔یار اتنی دور سے ائیی ہوں اسپیشل صالح سے ملنے اب تو تم سے بھی ملاقات ہو گئی ہے۔۔ تو بھلا میں اپنے دوست کے گھر کو چھوڑ کے باہر کیوں رہوں گی۔۔۔۔۔؟" وہ ٹانگ پر ٹانگ جمائے ہنستی صنم کو زہر لگی تھی۔۔


صالح اپنی بیوی کے نقوش میں گھلتی غصے کی سرخی پر بمشکل سے اپنے قہقہے کو دبائے بیٹھا تھا۔۔۔۔


کیوں صالح کوئی پروبلم ہے تمھیں۔۔۔۔۔ اب کی بار امیشہ نے ڈائریکٹ صالح سے پوچھا جو سنتے کندھے آچکا گیا بھلا اسے کیا مسئلہ ہو سکتا تھا۔۔۔ نہیں تم اتنی دور سے آئی ہو گھومو پھرو انجوائے کرو اور میرے ہوتے تمہیں کسی دوسرے کے پاس یا پھر ہوٹل میں رکنے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔۔"


صالح نے دل سے کہا تھا ۔۔۔۔ اگر وہ اسے اتنی دور سے ملنے آ سکتی تھی تو اسکا بھی فرض تھا کہ وہ اسے اچھے سے ڈیل کرتا۔۔۔۔


چلو یہ تو گڈ ہو گیا۔۔۔۔ اب ایک بات بتاؤ۔۔۔۔ شادی کو کتنا عرصہ گزرا۔۔۔۔"


وہ صنم کے تپے چہرے کو دیکھ آنکھ دبائے پوچھنے لگی کہ صالح نے بشمکل سے اپنی ہنسی پر ضبط کیا۔۔ بس زیادہ عرصہ نہیں ہوا چند ماہ گزرے ہیں۔۔۔۔۔ وہ بالوں میں ہاتھ چلاتا صوفے سے ٹیک لگائے پرسکون سا بولا۔۔۔


کیا واقعی ہار____!" کیا تھا جو کچھ مہینے صبر کر جاتے شادی ہی تو کرنی تھی میں کونسا کم ہوں۔ مجھ سے کر لیتے۔۔۔۔"امیشہ نے صنم۔کو دیکھ صالح کو آنکھ دباتے کہا تو صالح نے گڑبڑاتے صنم۔کو دیکھا۔۔۔ امیشہ کا یہ چھوٹا سا مذاق اسکے گلے کا طوق بن سکتا تھا مگر یہ صرف صالح ہی جانتا تھا کہ اسکی معصوم بلی اب شیرنی بنے اسپر اپنا حق جتاتی تھی۔۔۔ آؤر صالح خان کی۔جرت نہیں ہوتی تھی اپنی صنم خان سے کچھ کہنے کی۔۔ صنم۔کا حق جتانا اسے اچھا لگتا تھا خود میں ایک نیا سرور اترتا محسوس ہوتا تھا۔۔۔۔


ارے ارے کہاں جا۔رہی ہو صنم۔۔۔ صنم جو۔غصے سے اپنا ضبط کھوتے اٹھی تھی اسے کمرے کی جانب جاتا دیکھ صالح گڑبڑا سا گیا۔۔۔۔


یار وہ بہت پوزیسو ہے اور اوپر سے پریگنٹ بھی ______ آئندہ ایسا مذاق نہیں چلے گا کیونکہ میری روح کا حصہ صرف اور صرف وہی ہے۔۔۔۔۔۔"


صالح جھٹکے سے جگہ سے اٹھتے امیشہ کو آگاہ کیے اوپر اپنے کمرے کی جانب بڑھا تھا ۔امیشہ نے حیرت سے صالح کی چوڑی پشت کو دیکھ کندھے اچکائے۔۔۔۔


کیا ہو گیا ہے صنم تم اتنی ہایپر کیوں ہو رہی ہو ۔امیشہ نے صرف ایک چھوٹا سا مذاق کیا ہے صالح نے صنم کا ہاتھ پکڑے اسے روکتے کہا۔صنم


نے سرخ لال انگارا ہوتے چہرے سے صالح کی جانب دیکھا ۔یہ مذاق تھا صالح اگر یہ مزاق تھا تو بہت بیہودہ تھا ۔ صنم غصے سے اپنا ہاتھ صالح کی گرفت سے آزاد کرواتے اپنے کمرے میں داخل ہوئی تھی صالح نے جلدی سے کمرے داخل ہوتے صنم کو بازو سے پکرتے اس کا رخ اپنی جانب کیا ہو گیا ہے یار صنم تمھیں کیا لگتا ہے کہ میں اپنی اتنی پیاری بیوی کو چھوڑ کر اس چڑیل سے شادی کروں گا صالح نے فوراً سے صنم کو اپنی گود میں اٹھائے بیڈ پر بیٹھایا ۔اپ فکر ناں کریں میں کرنے بھی نہیں دوں گی ۔


صنم نے غصے سے نظریں اٹھائے صالح کی جانب دیکھتے کہا تو صالح نے قہقہ لگایے صنم کی پیشانی کو چھونا چاہا اس سے پہلے ہی صنم نے اپنا رخ دوسری جانب گھمائے اپنے غصے کا اظہار کیا


۔۔۔۔۔۔۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ


یہاں لینے کیا آئی ہے۔۔۔۔۔۔؟ صنم نے جلے دل سے کہا۔۔۔۔! کیوں تم جیلس ہو رہی ہو صنم صالح نے لب دبائے صنم کی جانب دیکھا ۔ تو صنم نے فوراً سے ہربڑاتے سر کو نفی میں ہلایا____ نہیں میں کیوں ہونے لگی اس سے جیلس صنم نے فوراً سے اپنی ہربڑاہٹ پر قابو پاتے صالح کی جانب دیکھا ۔ اچھا تمھیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں اس سے شادی کر لوں صالح نے قہقہ دبائے صنم کی جانب دیکھتے اسے چھیڑا تھا صنم جو کے آ گے ہی غصے سے بھری پڑی تھی صالح کے یوں کہنے پر وہ مزید غصے میں آئی تھی ۔صالحححححح۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صنم کے یوں کہنے پر وہ قہقہ لگاتے صنم کی پیشانی کو چومتے اس کی متوجہ ہوا تھا ۔ دیکھو صنم وہ صرف میری اچھی دوست ہے اس کے علاؤہ اور کچھ بھی نہیں ۔ میرا بچپن گزرا ہے اس کے ساتھ ۔ وہ اتنی دور سے اتنے سالوں بعد مجھ سے ملنے آئی ہے ۔تو اب تم حود سوچو کے وہ مجھ سے ملنے کے لیے یہاں آئی ہے اور میں اسے یوں ہوٹل میں ر ہنے دوں۔ وہ کہتے ساتھ ہی صنم کے بالوں کو ہاتھ سے سہلانے لگا ۔۔ ۔۔۔۔تو اپنی دوست کو اچھے سے سمجھا دیں کہ آئندہ آسیا کوئی مذاق میرے ساتھ نہیں کرے وہ مجھے نہیں پسند کہ کوئی مذاق میں بھی اپ کے متلعق کچھ کہے ۔۔ " صنم نے صالح کا ہاتھ پکڑتے مضبوط لہجے میں کہا تو اسکی پوزیسونیس پر صالح کا دل چاہا کہ اسے خود میں چھپا دے۔۔۔۔۔۔ اچھا اب تم ریسٹ کرو میں ذرا امیشہ کو اسکا کمرہ دکھا کے آتا ہوں پھر ہم یہی سے شروع کریں گے وہ مسکراتا بے باکی سے صنم کے گال پر ہونٹ رکھتے کہتے آخر میں آنکھ دبائے بولا تو صنم نے شرم سے دہکتا چہرہ جھکا لیا جسے دیکھ صالح قہقہ لگاتے اسکے سر پر بوسہ دیے کمرے سے نکلا۔۔


وہ کافی دیر سے وہیں چھپے بیٹھے تھے اگر ماہا کا ساتھ ناں ہوتا تو ابتہاج کیلئے ان کتوں سے لڑنا مشکل نہیں تھا مگر وہ ماہا کیوجہ سے کوئی بھی رِزک نہیں لینا چاہتا تھا۔ ۔ ابتہاج نے ایک نظر ماہا کو دیکھا جو اسکے سے سینے سے لگی دنیا جہاں سے غافل بے فکر سو رہی تھی۔۔


شاید ابتہاج کا ساتھ اسکے ساتھ ہونے کے احساس نے اسکے خوف ڈر کو ہرا دیا تھا۔ ابتہاج نے بےرازی سے آگے پیچھے دیکھا ، یہاں نیٹ ورک بالکل بھی نہیں تھا جسکی وجہ سے وہ کسی سے بھی کنٹیکٹ نہیں کر پا رہا تھا۔۔ مگر وہ جانتا تھا کہ اسکے آدمی جلد اس تک پہنچتے ہوں گے۔۔۔ ابھی وہ پرسکون تھا۔ اسے صرف ایک بات کا غصہ تھا وہ تھا آرام خان کا یوں قائروں کی طرح چھپ کے وار کرنا۔ اب جب اسکے شروعات کر ہی دی تھی تو پھر بھلا وہ پیچھے کیسے رہتا۔۔۔۔


ابتہاج نے اپنی سرد آنکھوں کی پتلیوں کو سکیڑتے متفکر سا سوچا اور پھر اپنے ہاتھ میں پہنی واچ کی جانب ۔۔۔۔۔ " اسے یقین تھا کہ اب تک اسکے آدمی اسکی لوکیشن سرچ کرتے استک پہنچ چکے ہونگے ۔۔۔ ابتہاج نے سرد سانس لیے ماہا کو نرمی سے اپنی بانہوں میں بھرا اور پھر اٹھتے وہ تیز تیز قدم اٹھائے اس جگہ سے باہر کینجانب نکلا۔۔۔


ماہا کی موجودگی اسکے غصے اشتعال کو دبا رہی تھی۔۔۔ بھلا اسکی موجودگی میں ابتہاج گردیزی کو کہاں کچھ یاد رہتا تھا۔۔ ابتہاج کے ہونٹوں پر ایک دلکش دل کو چھو لینے والی مسکراہٹ تھی اگر کوئی اسے اس قدر بھیانک صورتحال میں بھی مسکراتا دیکھ لیتا یقیناً شاک ہو جاتا مگر وہ ابتہاج گردیزی تھا دنیا کی سوچ سے بالاتر ۔۔۔۔وہ دنیا کو دیکھ کر نہیں بلکہ دنیا اسے دیکھ کر چلتی تھی۔۔


فضا میں خوشگوار ہوا کے ٹھنڈے جھونکے ماحول کو پرسوز بنا رہے تھے۔۔۔ رات کی گہری تاریکی میں آسمان پر صبح کی روشنی گھلنے لگی تھی ، اگر وہ اس بری حالت میں یا برے وقت میں ناں پھنسے ہوتے تو یقیناً اس قدرت کی خوبصورتی کو کافی اچھے سے محسوس کر سکتے تھے۔۔اپنے بھاری قدم اٹھائے وہ چوڑے قد و قامت مضبوط اعصاب کا مالک چلتے ڈھلوان سے باہر نکلا تھا ۔۔۔اسکا ہونٹ اور چہرہ زخمی تھا ۔۔


باقی بھی کافی چوٹیں اسکے وجود پر موجود تھیں مگر اسے اپنی پرواہ نہیں تھی جسکی تھی وہ پرسکون سی اسکی بانہوں میں دنیا جہاں سے غافل ابتہاج گردیزی کے جذبات کو دہکا رہی تھی۔۔۔


کہاں سوچا تھا اسنے کہ وہ خود کو اس طرح سے اس چھوٹی سی لڑکی کر عشق میں قید پائے گا۔۔۔۔مگر ماہا کی معصومیت اسکی توجہ اسکے ساتھ نے کیسے ابتہاج گردیزی کو خود میں۔ قید کیا تھا یہ وہ خود بھی نہیں جان پایا تھا۔۔۔


ابتہاج ڈھلوان عبور کرتے اوپر کی جانب آیا اسے اندازہ تھا کہ وہ لوگ اسے ڈھونڈتے کافی دور نکل گئے ہونگے______ ! ابتہاج نے گاڑی کی آواز پر گردن گھمائے پیچھے دیکھا ، اسنے جبڑے بھینجتے اپنے غصے پر قابو کرنے کی سعی کی۔۔۔


سوری سر لوکیشن ٹریس کرنا مشکل ہو گیا تھا بہت زیادہ۔۔۔!" وہ سبھی گاڑی سے نکلتے بھاگتے اسکے قریب آتے بولے تو ابتہاج نے بے تاثر نظروں سے انہیں دیکھا۔۔


تم سب کو کس چیز کے پیسے دیتا ہوں میں ۔۔۔۔۔لوکیشن سرچ کرنا کس کا کام ہے؟ اگر لوکیشن ٹریس نہیں کر پا رہی تھی ابھی کیسے ملی لوکیشن۔۔۔۔۔۔۔ تم سب کی لاپرواہی کی وجہ سے آج میں اپنی بیوی کو کھو دیتا کوئی احساس ہے تم۔لوگوں کو۔۔۔۔۔۔وہ دبے دبے لہجے میں غرا رہا تھا لوگو کے جاگنے کے خیال سے وہ ان لوگوں کو زیادہ سختی سے نہیں ڈانٹ رہا تھا ۔۔


تم سب کو میں ابھی اور اسی وقت جاب سے نکال رہا ہوں۔۔۔ ابتہاج نے بے تاثر لہجے میں پھنکارتے ہوئے کہا تو سبھی گڑبڑا سے گئے۔۔ سوری سر ہم سے غلطی ہو گئی آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔۔۔ وہ ڈرتے ابتہاج سے معافی مانگنے لگے اگر وہ جاب سے نکال دیتا تو ان سب کیلئے مشکل ہو جاتی۔ تمہارے اس سوری سے وہ ڈر ختم نہیں ہوسکتا جو میری بیوی کے دل میں بیٹھ چکا ہے۔۔۔ تمہارے اس سوری سے وہ غنڈے جنہوں نے میری بیوی کو ہاتھ لگایا میں انہیں جان سے نہیں مار سکتا۔۔۔۔ اسکا لہجہ انتہائی روکھا اور ٹھنڈا دینے والا تھا جیسے وہ اپنے غصے کو دبا رہا ہو۔۔


سر ہمیں ایک موقع دے دیں پلیز _____ اسے گاڑی کینجانب بڑھتا دیکھ وہ سبھی ہاتھ جوڑے معزرت کرنے لگے۔۔۔ ابتہاج نے گاڑی کا ڈور کھولتے ماہا کو اندر لٹایا اور پھر مڑتے ان سب کو دیکھا۔"جاؤ ان سب کو زندہ سہی سلامت پکڑ کے لے آؤ میرے سامنے اگر لے آئے تو میں تم سب کو جاب پر رکھ لوں گا۔۔۔۔۔


دروازہ بند کیے وہ چلتا انکے سامنے چند قدموں کے فاصلے پر رکا ____ ابھی تم جا سکتے ہو۔۔۔" ان سب کو دیکھے وہ اپنی بات کہتا گاڑی کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔


وہ سبھی ساکن بت بنے اپنی آنکھوں سے ہوا کی مانند اوجھل ہوتی گاڑی کو دیکھ رہے تھے۔۔


اسلام علیکم انکل آنٹی آئیے اندر آئیں پلیز۔۔۔۔۔۔!" صالح جو امیشہ کو اسکا روم دکھائے واپس اپنے روم میں کا رہا تھا کہ اچانک ڈور بیل پر وہ حیرانگی سے دروازے کی جانب بڑھا کہ اتنی رات کو کون ہو سکتا ہے بھلا۔۔۔۔


مگر سامنے ہی دلاور خان اور منیبہ بیگم کو دیکھ اسے خوشگوار حیرت ہوئی۔۔۔ کیسے ہو بیٹا۔۔۔" اسے سینے سے لگاتے دلاور خان نے محبت سے پوچھا وہ دل سے اپنے رب کے شکر گزار تھے جس نے انکی بیٹی کو اتنا اچھا ہمسفر عطا کیا تھا۔۔


بیٹا دراصل ہمیں آج صبح ہی پتہ لگا تھا ابتہاج کا تو ہم سے رہا نہیں گیا۔۔۔ مگر جیسے ہی ہم۔یہاں پہنچے تو ابتہاج اور ماہا نہیں تھے گھر۔۔۔۔


چوکیدار نے کہا کہ وہ دونوں کہیں چلے گئے ہیں تو اس وقت رات کو ہم یہاں آ گئے۔۔۔


دلاور صاحب کو یوں بنا بتائے آنا عجیب سا لگ رہا تھا جبھی وہ اسے تفصیل سے بتانے لگے ۔۔۔ انکل ایسے ناں کہیں یہ آپ کا ہی گھر ہے آپ آئیں اندر میں صنم کو بلاتا ہوں ۔۔۔۔ " صالح انہیں بیٹھنے کا کہتے صنم کو بلانے جانے لگا۔۔۔ نہیں بیٹا اسے آرام کرنے کو دو ہم صبح مل لیں گے طبیعت بھی نہیں ٹھیک اسکی۔۔۔۔۔ منیبہ بیگم نے صالح کو آواز دیے روکا تو صالح نے سوچتے سر ہاں میں ہلا دیا ۔۔۔


انٹی انکل آپ فریش ہو جائیں میں کھانے کا بندوست کرتا ہوں۔۔۔


صالح نے مسکراتے کہا تو دلاور صاحب نے اسے روکا۔۔۔ بیٹا ہم راستے سے کھانا کھا کر آئے تھے آپ پریشان ناں ہوں ۔۔۔ "اب بس ریسٹ کریں گے۔۔۔ "


اوکے انکل جیسے آپ کی مرضی آئیے میں آپ کو روم میں چھوڑ آتا ہوں، وہ انہیں ساتھ لیے گیسٹ روم میں چھوڑتا باہر آیا تھا۔۔۔۔


پتہ کرو کہ ابتہاج اور ماہا کہاں ہیں اگر وہ کسی مصیبت میں ہوئے تو چھوڑوں گا نہیں کسی کو بھی۔۔۔۔۔ غصے سے سرد آواز میں تنبیہ کرتے صالح نے فون آف کرتے آنکھیں موندی۔۔

لاؤ اسے۔۔۔۔۔۔!" کوریڈور میں داخل ہوتے اپنے بائیں بازو کے کف فولڈ کرتے چہرے پر حدردجہ سپاٹ تاثرات سجائے بھاری بوٹوں میں قید اپنے بھاری قدم آگے رکھتے بولا،


اسکا لہجہ بے لچک تھا۔۔۔ آنکھوں میں غضب کی سرخی منڈلا رہی تھی۔۔۔اسکا پور پور کسی زخمی ہوتے شیر کی مانند تھا جسکے کھجاڑ میں ہاتھ ڈالتے زور دار تمانچہ مارا گیا ہو۔۔۔۔


ان سب چیزوں سے وہ کئی بار پہلے بھی ٹوٹ چکا تھا مگر جو مزہ ٹوٹ کے جڑنے میں صالح خان کو ملتا تھا بھلا وہ دنیا کی وفاداری میں کہاں تھا ایسی لذت ایسا سرور تھا کہ اسکا پور پور اب لہو لہان ہو رہا تھا کرب کی انتہا تھی جسے وہ برادشت کرتا اپنے تنے اعصاب سے اس اندھیرے کمرے میں داخل ہوا۔۔۔۔


انسپیکٹر نے آگے بڑھتے احتراما جلدی سے دروازہ کھولا اور فورا سے ایک جانب ہوا۔۔۔۔۔ وہ دراز قد سے جھکتا اندر داخل ہوا۔۔۔۔کمرے میں پھیلے اس ملگجے سے اندھیرے میں واحد روشنی دیوار کی ایک جانب لگی لالٹین کی تھی جس کے آگے پیچھے مچھر ایسے منڈلا رہا تھا جیسے شہد کے اوپر مکھیاں منڈلاتی ہیں ۔


اہ۔۔۔۔۔۔" صالح خان جو سرد نظروں سے کمرے کا جائزہ لینے میں مصروف تھا اچانک سے اپنے پاؤں میں کسی کے گرنے کی آواز کے پر اسکا سینہ پھولا ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ گئیں۔۔۔


بہت شوق ہے تجھے لوگوں کی عزتوں کو ہاتھ لگانے کا۔۔۔۔۔" اپنے سیاہ ٹخنوں سے اوپر تک جاتے بھاری بوٹ کی نوک سے مقابل گرے اس شخص کی تھوڑی کو اونچا کیے وہ بھپرے لہجے میں غرایا، عماد سہمتے اپنی خون سے لت پت آنکھوں سے صالح خان کو دیکھنے لگا۔۔


جس کا لہجہ وخشیوں کی طرح بے تاثر تھا،انداز میں ایسی سرد مہری کے عماد کی ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہریں برپا ہوئیں، وہ نہیں جانتا تھا کہ آخر صالح خان کیسے اور کیونکر اس تک پہنچا تھا مگر پچھلے دو گھنٹوں سے اسے جانوروں کی طرح پیٹا گیا تھا اسکا انگ انگ درد سے لبریز تھا۔۔


ایسے جیسے جسم کے جس بھی حصے کو چھوا جائے گا وہ زخموں سے چور عماد کی موت کو اور قریب کر دے گا۔۔۔ دیکھ میں تجھے کچھ بھی نہیں کروں گا بس مجھے یہ بتا دے کہ تجھے کس نے سپاری دی تھی ابتہاج اور ماہا کو مارنے کی۔۔۔۔" وہ اب اسے لالچ دیتا آفر کرنے لگا۔۔۔


کککک کسی نے بھی نہیں میں نے کک کچھ بھی نہیں کیا۔۔۔۔!" صالح کی بات سنتا وہ لٹھے کی مانند سپید ہوا، یہ بات ہی اسکی ٹانگوں سے جان نکالنے کو کافی تھی کہ صالح خان کا ہاتھ اسکی گردن تک پہنچ آیا تھا اب اسے موت سے کوئی نہیں بچا سکتا تھا وہ خوف و دہشت سے زرد پڑنے لگا۔۔۔۔۔


اششش ری لیکس عماد لگتا ہے تمہاری یاداشت خاصی کمزور ہے تو تمہاری اطلاع کیلئے عرض ہے کہ تمہارے وہ کتے جو ابتہاج اور ماہا کی بو سونگھتے پِھر رہے تھے وہ غلطی سے صالح خان کے ہتھے چڑھ چکے ہیں۔۔ان کو ایک ہاتھ پڑا تھا طوطے کی طرح تیرا نام بک دیا اور اب تم بتاؤ کیسے خاطر مدارت کروں۔۔۔۔؟"


عماد کے بالوں کو مضبوطی سے سخت گرفت میں لیتے کھینچتا وہ ہنستے پوچھ رہا تھا جبکہ عماد کو اپنی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھاتا دکھائی دے رہا تھا دماغ جیسے کام کرنے سے مفلوج ہو چکا ہو۔۔۔


نننن نہیں ایسے کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔!" وہ موت کے خوف ڈر سے کرب ناک آواز میں چیختا کوئی پاگل دکھ رہا تھا۔۔


صالح کو اسکی حالت پر افسوس ہوا وہ تاسف سے گردن نفی میں ہلائے مڑا تھا، عماد کو لگا کہ شاید وہ اسے چھوڑ کر جا رہا تھا مگر اسکا وجود شل ہوتے نیلا پڑنے لگا جب سامنے سے دو کانسٹیبلز کو آتا دیکھا جن کے ہاتھ میں ایک موٹا سا ڈنڈا تھا ، اسکے ساتھ ساتھ نمک اور مرچ کے بڑے بڑے پیکٹ تھامے عماد کو باندھنے کا سامان لیے وہ سیدھا صالح کے پاس آئے ۔۔۔


قیامت تک لوگ یاد رکھے گے تمہیں عماد۔۔ کہ ایک شخص تھا جس نے وفاداری نبھائی وہ بھی ایسے کہ اسکے وجود پر جانوروں کی طرح تشدد کیا گیا مگر وہ اپنی وفاداری نبھاتا نبھاتا اللہ سے نبھا کر گیا۔۔۔"


صالح کا لہجہ اکھڑ تھا افسوس تاسف سے لبریز وہ ہاتھ میں اس بھاری ڈنڈے کو تھامے عماد کو الٹا لٹکانے کا اشارہ کیے اس ڈنڈے کو گھمائے دیکھنے لگا۔۔۔


ممم میرے پاس مت آؤ،ممم میں کچھ نہیں جانتا پپپپ پلیز۔۔۔۔ !" عماد خلق کے بل چیخا تھا وجود میں باقی ساری ہمت دم توڑ چکی تھی۔۔۔ مگر اسکی پرواہ کسے تھی۔۔


صالح جانتا تھا ک ابتہاج ماہا کو کسی سیو جگہ لے گیا ہو گا وہ مطمئن تھا ان دونوں کی جانب سے، مگر اس بار وہ خود ہی اس بات کی تہہ تک جانا چاہتا تھا کہ آخر ایسا کونسا شخص ہے جو ابتہاج کو برباد کرنا چاہ رہا تھا۔۔۔


نننن نہیں رررر رکو ببب بتاتا ہوں ممم مجھے مت مارو میں سب بتاتا ہوں۔۔۔۔!" خون سے لت پت وجود کے ساتھ وہ مزید ناں سہتے بے بسی کرب سے چیخا تھا۔۔۔ اسکی بات پر صالح کے ہونٹ مسکائے تھے ۔۔۔۔صالح نے گردن موڑے ان کانسٹیبلز کو اشارہ کیا جو سمجھتے سر ہلائے وہاں سے نکلے تھے۔۔۔


____________


سیاہ بھاری بوٹوں میں مقید اسکے پاؤں کی ٹک ٹک کی آواز سے ماحول میں عجیب سا ارتعاش پیدا ہو رہا تھا ۔۔۔۔ جیل کی کال کوٹھری جسے خاص طور پر ابتہاج نے مختص کیا تھا اندر بیٹھا وجود ہمیشہ کی طرح اسکی آہٹ پر دم سادھے عجیب بے تاثر نگاہوں سے دروازے کو دیکھنے لگا اسکے دونوں ہاتھوں زنجیروں سے بندھے ہوئے تھے۔۔۔۔ چہرے پر آنے والے کا خوف دخشت جانے کیا کیا سمایا ہوا تھا۔۔۔


معا وہ ڈر سے چیخا تھا جب چررر کی آواز کے ساتھ کوٹھری کا دروازہ کھلا۔۔۔ اسکی نظریں اندر آتے وجود کے سیاہ بوٹوں میں مقید پاؤں پر پڑی وہ خوف سے لٹھے کی مانند زرد ہونے لگا۔۔۔چہرے پر تاریک سائے لہرائے تھے۔۔۔۔۔


کیسی رہی اس بار کی انجوائے منٹ ڈئیر کزن۔۔۔۔۔۔۔!" مخصوص بھاری روبعدار آواز میں وہ ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈالے اطمینان سے سمیر کے سوجھے چہرے کو دیکھتے بولا۔۔ جو ابتہاج کے ڈر سے کانپ رہا تھا ۔۔


حالت دیکھ کر لگتا ہے کافی اچھا رہا ہو گا۔۔۔۔۔۔!" اسکی ادھڑی شکست خوردہ حالت دیکھ ابتہاج نے مسکراتے گہرہ طنز کیا۔۔۔ آنکھوں میں شریر سے تاثرات تھے۔۔۔


کیونکہ آج وہ سہی معنوں میں سکون میں تھا ۔۔اپنی ماہا کی تکلیف کا باعث بنے اس دردندے کو اذیت ناک زندگی میں دیکھ اسکا روم روم سکون میں تھا۔۔۔۔۔


مممم مجھے معاف کر دو ابتہاج پپپ پپلز جانے دو مجھے۔۔۔۔" سمیر ہمیشہ کی طرح روتا بلکتا اسے پاؤں پکڑنے کو آگے بڑھا تھا مگر دونوں اطراف سے بندھے ہاتھوں کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہو پایا تھا۔۔


معافی چاہیے تمہیں_____" ابتہاج جبڑے بھینجتا قدم قدم اٹھائے اسکے قریب تر ہوا۔۔۔۔ جو سنتے سر زور سے ہاں میں ہلا گیا۔۔


تو پہلے یہ بتا کہ تیرے ساتھ وہ تیسرا شخص کون تھا جس نے اتنی بڑی تیاری رچائی، تجھے جیل سے نکلوانے میں بھی اسی کا ہاتھ تھا اور میرے ماں باپ کو مارنے بھی۔۔۔۔" ابتہاج نے آگے بڑھے اسکے بالوں کو نوچتے چہرہ اونچا کیے غراتے ہوئے پوچھا ۔۔۔


اسکے انداز پر سمیر کانپ کے رہ گیا۔۔۔


نننن نہیں مجھے کچھ نہیں پتہ۔۔۔۔۔۔!" وہ نظریں چرائے جھوٹ بول گیا کہ ابتہاج نے سنتے تاسف سے اسے دیکھا۔۔۔۔


اچھا جب تجھے کچھ خبر نہیں ہے تو پھر تجھے زندہ رکھنے کا فائدہ۔۔۔۔۔؟" ابتہاج نے سرد لہجے میں کہا اور ساتھ ہی گن نکالتے سمیر کے ماتھے پر رکھی۔۔۔۔۔


گڈ بائے سمیر۔۔۔۔۔" وہ مسکراتا ٹریگر دبانے لگا کہ معاً سمیر نے ڈرتے اسے روکا۔۔۔


ببببب۔بتاتا ہوں۔۔۔۔۔!" وہ چیختے ہوئے بولا تو ابتہاج کے لبوں پر قاتلانہ مسکراہٹ بکھری۔۔


_________


وہ کچن میں کھڑی ایک ہاتھ کمر پر ٹکائے سنجیدگی سے پورے کچن کا جائزہ لے رہی تھی۔۔۔ ابتہاج کو گئے ہوئے کافی وقت ہو چکا تھا اور اب تک شاید وہ واپس بھی آ جاتا۔۔۔۔ مگر ماہا کو ابھی تک سمجھ نہیں آ سکا تھا کہ وہ کیا بنائے۔۔۔۔


پرپل کلر کی کھلی گھٹنوں تک جاتی شارٹ فراق کے ساتھ وائٹ کیپری پہنے بالوں کا ڈھیلا سا جوڑا بنائے دوپٹہ شانوں پر رکھے وہ رف سے حلیے میں بھی کافی خوبصورت دکھ رہی تھی ممتا کے اس نئے روپ نے اسے الگ ہی رنگوں سے مزین کیا تھا کہ وہ پہلے سے زیادہ خوبصورت دکھ رہی تھی۔۔۔


ماہا کا بھرا بھرا وجود ابتہاج گردیزی کے دل کی دھڑکنوں کو نئے سرے سے منتشر کرتا تھا اور وہ ہمیشہ کی طرح اپنی من مانیوں سے اسکی خوبصورتی کو سراہتا اپنی محبت سے اسکے پور پور کو بھگوتا تھا۔۔ ابتہاج کا سوچتے ہی ایک شرمیلی سی مسکراہٹ نے ماہا کے ہونٹوں کا احاطہ کیا۔۔۔۔!'


دماغ سے ساری سوچوں کو جھٹکتے ماہا نے آگے ہوتے فریج کھولا تو سب سے پہلی نظر اسکی تازہ فروٹس اور کھانے کے سامان پر پڑی جو کہ شاید ابھی ہی رکھا گیا تھا ۔۔۔۔وہ متاثر ہوئے بنا ناں رہ سکی ۔۔۔جانتئ تھی یہ سب ابتہاج نے کیا ہو گا۔۔۔۔


ماہا مسکراتے سر جھٹکتے مٹن کڑاہی بنانے کا سوچتے مٹن نکالے کاؤنٹر پر رکھتے اب باقی کا سارا سامان ایک جگہ اکٹھا کرنے لگی۔۔۔


ابتہاج کے ساتھ سے وہ بلکل بہتر ہو چکی تھی۔۔۔ابتہاج گردیزی نے اپنی محبت کا ایسا سحر ماہا پر پھونکا تھا کہ اسے ابتہاج کے سوا ساری دنیا ہی بےمعنی لگتی تھی۔۔۔


وہ محویت سے سارا سامان تیار کرتے دیگچی گیس پر رکھتے آئل ڈالتے اپنے کام میں مصروف ہوئی ابتہاج کے آنے سے پہلے وہ اچھے سے ہر چیز تیار چاہتی تھی تاکہ وہ ابتہاج کو سرپرائز کر سکے ۔۔۔جبھی وہ پھرتی سے ہاتھ چلا رہی تھی۔۔۔


آدھے گھنٹے کی مشقت کے بعد وہ گیس آف کرتے باقی کا سارا سامان سمیٹے باہر نکلی، روٹیاں وہ ساتھ ہی ڈال چکی تھی۔۔۔تھکاوٹ محسوس کرتے وہ دوبارہ سے اسی روم۔میں آئی جہاں وہ ابتہاج کے ہمراہ مقیم تھی۔۔


سرخ رنگ کا خوبصورت سا کرتا نکالتے وہ شاور لینے سوچ واشروم میں گھسی تھی۔۔۔ دس منٹ تک وہ فریش سی بالوں کو تولیے سے رگڑتے باہر آئی تو پہلی نظر مرر میں دکھتے اپنی عکس پر پڑی۔۔۔۔


یہ رنگ کافی جچ۔رہا تھا ماہا پر وہ بہت کم ایسے شوخ رنگ پہنتی تھی آج بھی فریش کلر کا سوچ اسنے پہن لیا تھا مگر اب خود کو دیکھتے وہ خود بھی حیران تھی۔۔۔


ابتہاج کی نظروں کا سوچتے ہی ماہا کے گال شرم سے گلابی ہوئے تھے وہ سر جھٹکتے بالوں کو خشک کرتے روم سے نکلی۔۔۔۔


ابتہاج جو ابھی اپنے ضروری کام نپٹاتے گھر واپس آیا تھا ایک ہاتھ میں کوٹ تھامے دوسرے سے موبائل کان سے لگائے وہ ٹرانس کی سی کیفیت میں سیڑھیوں سے اترتی اپنی نکھری نکھری بیوی کو دیکھ جیسے سن ہو گیا تھا۔۔۔۔۔


فون کال پر موجود شخص ہیلو ہیلو کرتے رابطہ منقطع کر چکا تھا مگر یہاں ہوش کسے تھا۔۔۔ ماہا جو اپنی ہی روانی میں احتیاط سے سیڑھیاں اترتے نیچے آئی تو پہلے نظر خود کو والہانہ نظروں سے دیکھتے ابتہاج گردیزی پر پڑی وہ چونکی بھی مگر اسے سامنے پاتے وہ اسکی نظروں سے خود میں سمٹتی اسی کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔


ابتہاج کی نظریں سر تا پاؤں اپنی بیوی کو سراہ رہی تھیں۔۔۔


آپ کب آئے۔۔۔۔؛" اسکے قریب جاتے ماہا نے معصومیت سے سوال کیا تو ابتہاج نے مسکراتے کوٹ پیچھے موجود صوفے کی جانب اچھالا۔۔


جب آپ اپنے قاتل روپ میں بنا ہتھیاروں کے اترتے سیدھا میرے دل میں اتری تبھی۔۔۔۔" ابتہاج نے بنا تردد اپنا بھاری ہاتھ ماہا کی کمر کے گرد حائل کیے اسے کھینچتے سینے سے لگایا تو ماہا کی سانسیں دھوکنی کی مانند تیز تیز چلنے لگی۔۔


ابتہاج نے چہرہ اسکے گیلے بالوں میں چھپایا تو ماہا نے تھوک نگلتے اپنا حلق تر کیا۔۔۔


ابببب ابتہاج۔۔۔۔۔۔؛" اپنے چہرے پر اسکے شدت بھرے لمس پر ماہا مچلتے اسے گریبان سے تھامے احتجاج کرتے بولی تو ابتہاج نے ہونٹ اسکے رخسار پر رکھے ۔۔۔۔۔


جی جانِ ابتہاج۔۔۔۔۔ابتہاج کا لہجہ مخمور تھا جزبات سے بھاری گھبیر لہجہ کہ ماہا کی ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ سی دوڑی۔۔۔ وہ تھوک نگلتے خود کو ابتہاج سے بچانے کی راہ تلاشنے لگی مگر وہ جانتی تھی آج ابتہاج سے بچ پانا نا ممکن تھا۔۔۔۔


مم میں نے کک کھانا بنایا ہے کھانا کھائیں_____!" ابتہاج کے ہونٹوں کا لمس اپنی تھوڑی پر محسوس کرتی وہ گھبراہٹ شرم کے ملے جلے تاثرات سے بولی تو ابتہاج کو اپنی نازک سی جان پر ترس آیا جبھی نرمی سے جھکتے اسے بانہوں میں سمیٹے وہ کچن کی جانب بڑھا ۔۔۔۔


مجھے کوئی اعتراض نہیں ڈارلنگ۔۔۔۔۔تم اپنا کھانا آرام سے کھاؤ اسکے بعد آج میری باری ہے۔۔۔۔" ماہا کو چئیر پر بٹھائے وہ مسکراتا اسکے پیشانی پر بوسہ دیے معنی خیز لہجے میں بولا تو ماہا کی پلکیں لرز پڑی۔۔۔وہ سر جھکائے سانس فضا کے سپرد کرتے خود میں ہمت پیدا کرنے لگی۔۔۔۔


ابتہاج اسکی حالت سے محفوظ ہوتے اسکے قریب۔ بیٹھا اور بے حد نرمی سے ماہا کا ہاتھ تھامے لبوں سے لگایا۔۔۔۔


ماہا اپنی بکھرتی سانسوں کو سنبھالتے ابتہاج سے نظریں چرائے اب کھانا ڈش میں نکالتے ابتہاج کے سامنے رکھتے اسے دیکھنے لگی جو ابھی تک ٹک ٹکی باندھے اسے ہی گھور رہا تھا۔۔۔۔ ابتہاج کھا کر بتائیں کیسا بنا ہے۔۔۔۔۔!"ابتہاج کے بازو کو تھامے وہ لاڈ سے بولی تو ابتہاج نے محبت سے ماہا کی پیشانی پر بوسہ دیے اسے خود سے لگایا۔۔۔۔۔۔


"ماہا نے بنایا ہے تو اچھا بنا ہو گا وہ مسکراتا اسکے گال کو اپنے ہاتھ کی پشت سے سہلاتے بولا تو ماہا نے اسے گھورا ابتہاج لب دبائے سرینڈر کیے اب کھانے کی طرف متوجہ ہوا تھا ماہا کا دھیان اسی کی جانب تھا جو محویت سے نوالہ بنائے کھاتا اب ماہا کے پریشان چہرے کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔


اچھا نہیں بنا کیا___؟" وہ رونے جیسے ہو چکی تھی۔۔۔


ابتہاج نے مسکراتے سر نفی میں ہلایا تو ماہا نے سکون کی سانس فضا کے سپرد کی۔۔۔


بہت زیادہ اچھا بنا ہے میری سوچ سے بھی زیادہ اچھا۔۔۔۔۔" ماہا کے ہاتھ کو تھامے وہ محبت سے چومتے اسے مسکرانے پر مجبور کر گیا۔۔۔۔۔


ابب ابتہاج_____" ابتہاج جو کھانے کے بعد جھکتے اسے گود میں اٹھائے اوپر کمرے کی جانب بڑھا تھا ماہا نے لرزتے اسکے گلے میں بانہیں ڈالے اسے پکارا۔۔۔۔


جی جانِ ابتہاج____" ابتہاج نے جھکتے ماہا کے ہونٹوں کو ہلکے سے چھوا تو ماہا کا چہرہ شرم و حیا سے دہکتا انگارہ بن گیا۔۔


الفاظ جیسے ختم ہو گئے تھے اسے سمجھ ناں آئی کہ وہ کیا کہے۔۔۔۔ اب اتنا اچھا کھانا بنایا ہے تو انعام تو بنتا ہے۔۔۔۔۔۔" وہ معنی خیزی سے اسکے کان میں جھکتے سرگوشی کرتے ماہا کو شرمانے پر مجبور کر گیا ۔۔


ماہا نے شرم سے دہکتا اپنا لال انگارہ چہرہ ابتہاج کے سینے میں چھپایا تو ابتہاج کا قہقہ خاموش فضا میں ارتعاش برپا کر گیا۔


__________


فون پر ہوتی مسلسل بیل پر ابتہاج نے ماتھے پر بل ڈالے مندی مندی آنکھیں کھول اپنے حصار میں دیکھا۔۔؟ جہاں وہ چہرے پر دنیا جہاں کی معصومیت لیے ابتہاج کے سینے سے لگی پڑی تھی۔۔


ابتہاج کے چہرے پر خوبصورت رنگ بکھرنے لگے۔۔۔۔۔ ماہا کے ساتھ گزارا ایک ایک خوبصورت لمحہ اسکی آنکھوں میں خمار کی سرخی تیزی سے بڑھا گیا۔۔ ایک دم سے کروٹ بدلتے ابتہاج نے ہاتھ تکیے پر دائیں بائیں رکھتے۔جھکتے اس پر سایہ سا کیا۔۔۔ ماہا کے چہرے پر پھیلی سرخی ابتہاج کے دل کی دھڑکنیں پھر سے منتشر ہوئی تھی۔۔ بے ساختہ ہی اسنے جھکتے ماہا کی تھوڑی پر لب رکھے، ماہا کسمسائی مگر آنکھیں بند تھیں۔۔۔


ابتہاج اسکی بند آنکھوں کو دیکھ اپنے ہونٹوں سے اسکے ایک ایک نقش کو چھوتا مدہوشی سے اسکے ہونٹوں کو قید کیے اسکی مدہوش کرتی خوشبو کو خود میں اتارنے لگا۔۔۔


اپنے ہونٹوں پر کسی کے دہکتے لمس، سینے میں اٹکتے سانس پر ماہا نے جھٹ سے آنکھیں کھولی تو خود پر سایہ بنے ابتہاج کو دیکھ وہ ہاتھ اسکے سینے پر رکھتے اسے پیچھے کرنے لگی۔۔ اسکی مزاخمت ابتہاج کو ناگوار گزری تھی جبھی ماہا کے دونوں ہاتھوں کو اپنی گرفت میں لیے وہ مدہوش سا اسکی سانسوں کو خود میں اتارنے لگا۔۔۔


گڈ مارننگ جان۔۔۔۔۔۔" ماہا کے سانس رکنے پر وہ پیچھے ہوتے محبت سے بولا جبکہ ماہا نے غصے سے اسے گھورتے رخ موڑا تھا۔۔ مجھے مارننگ وش نہیں کرو گی۔۔۔۔"ماہا کے رخ موڑنے پر وہ لب دانتوں تلے دبائے شریر لہجے میں گویا ہوا۔۔۔


ہو گئی آپ کی مارننگ کر لی اپنی من مانی اب پیچھے ہٹیں میں فریش ہو لوں۔۔۔۔"ماہا نے ناک چڑھاتے نروٹھے پن سے کہا تو ابتہاج نے قہقہ لگاتے اسے خود میں بھینجا۔۔۔


ابھی تو آغاز کیا تھا اور تم ہو کہ خفا ہو رہی ہو۔۔۔۔۔۔" ماہا کی گردن پر اپنے ہونٹوں کا سلگتا لمس چھوڑتے وہ اسے بے بس کرنے لگا۔۔۔ ابتہاج بب باہر کوئی ہے۔۔۔۔۔؛" معا ڈور بیل کی آواز پر ماہا نے شکر بھرا سانس لیتے اسے خود سے دور کرنے کی کوشش کی۔۔۔ ابتہاج نے سخت نظروں سے اسے گھور تو ماہا اسکے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھ کھلکھلا اٹھی۔۔۔۔۔


آتا ہوں ابھی رکو ذرا تم کرتا ہوں تمہیں سیٹ۔۔۔۔۔" وہ مصنوعی غصے سے اسے وارن کرتا وارڈروب سے شرٹ نکالتے باہر کی جانب نکلا۔۔۔جبکہ اسے نکلتا دیکھ ماہا جھٹ سے جگہ سے اٹھتے فریش ہونے واشروم میں گھسی تھی۔


____________


اسلام علیکم بیٹا۔۔۔۔۔!" صنم جو انہماک سے اپنے کمرے کی صفائی میں مصروف تھی اچانک سے ارسم خان کی متفکر آواز کو سنتے وہ چونکتے مڑی تھی سامنے ہی دروازے کے بیچ ارسم خان چہرے پر دنیا جہاں کی فکر لئے کھڑا تھا۔۔


صنم کا دل تیزی سے دھڑکا تھا وہ تیزی سے چلتے انکے قریب ہوئی۔۔۔


و علیکم السلام انکل ___ کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے آپ پریشان لگ رہے ہیں مجھے ۔۔۔۔!" وہ متججس سے ہوتے پوچھنے لگی۔۔۔۔ دل میں عجیب سے وسوسے بھی تھے کہ سب ٹھیک ہو۔۔۔۔


بیٹا کچھ بھی ٹھیک نہیں۔۔۔۔ " ارسم خان نے نم آنکھوں سے اسے دیکھتے کہا تو صنم مزید سہم سی گئی۔۔۔


انکل ہوا۔کیا ہے پلیز جلدی بتائیں مجھے۔۔۔۔۔۔" وہ پریشانی سے چلتے انکے قریب تر ہوئی تھی۔۔۔جو آنسوں پونچھ رہے تھے۔۔۔۔ بیٹا وہ ماہا اور ابتہاج کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے صلاح ادھر ہی ہے انکے پاس ۔۔۔۔۔۔۔ اور۔مجھے اس نے کہا ہے کہ میں آپ کو لاؤں اپنے ساتھ۔۔۔۔۔"


وہ پریشانی سے صنم کو دیکھتا سنجیدگی سے بولا تو صنم نے گھبراتے اسے دیکھا۔۔۔انکل کیا ہوا ہے میری ماہا ٹھیک تو ہے ۔۔۔۔؟" وہ متفکر سے ماہا کا سوچتے ہی دھڑکتے دل سے خوفزدہ سی ہوتے پوچھنے لگی۔۔۔۔


آنکھوں میں ایک۔دم سے جانے کتنے آنسوں آئے تھے۔۔۔۔ وہ لب بھینجتے اپنے آنسوں پر کنٹرول کرنے لگی۔۔۔۔۔۔ بیٹا وہ ٹھیک ہے بس تمہیں یاد کر رہی ہے چلو میرے ساتھ۔۔۔۔" نفرت سے ابتہاج اور ماہا۔کا۔سوچتے وہ جلدی سے بولا تو صنم نے فورا سے سر ہاں میں ہلایا۔۔۔۔


انکل میں صالح کو کال کر لوں۔۔۔۔صنم نے فون پکڑتے ان سے کہا تو ارسم خان گھبراتے اسکے نزدیک ہوا اور جھپٹتے اسکے ہاتھ سے فون چھینا۔۔۔۔۔


ییی یہ کیا کر رہی ہو بیٹا۔۔۔۔وہ آگے ہی پریشان ہے اور اب مزید ہو گا تم چلو ادھر جا کر ہی مل لینا۔۔۔" وہ اسے سمجھاتے فون آرام سے لیتے اپنی جیب میں رکھ گیا۔۔۔۔


صنم نے سر ہاں میں ہلایا اور پھر جلدی سے اپنی چادر نکالتے خود پر لپیٹتے وہ باہر کو نکلی۔۔۔۔


__________


تم کیا لینے آئے ہو یہاں۔۔۔۔۔!" اپنے سامنے کھڑے صالح کو دیکھ ابتہاج نے ماتھے پر بل ڈالے نفرت سے اسکے قریب جاتے کہا تھا۔۔۔۔صالح نے سنتے گہرا سانس فضا کے سپرد کیا، وہ جانتا تھا کہ ابتہاج کا اس پر یقین کر پانا نا ممکن تھا۔۔۔۔


بات کرنے آیا ہوں میں کیا ہم بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں۔۔۔۔؟" ابتہاج کو دیکھتا وہ نرمی سے بولا تو ابتہاج نے اسے گھورا۔۔۔۔ ہمممم کہو کیا بات ہے۔۔۔۔؟" کچھ سوچتے وہ گہرہ ہنکارہ بھرتے بولا۔۔۔۔۔تو صالح نے ماہا کو ڈھونڈنا چاہا جو کہ یہاں تھی ہی نہیں۔۔۔


ابتہاج تم اور ماہا خطرے میں ہو تم دونوں پر جان لیوا حملہ ہوا ہے اور اب بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔میں تمہیں اور ماہا۔کو لینے آیا ہوں تم چلو میرے ساتھ میں تمہیں کسی سیو جگہ پر چھوڑ آؤں گا۔۔۔۔۔"


صالح نے اسے جلدی سے حالات کی سنگینی سے آگاہ کیا وہ نہیں چاہتا تھا کہ ابتہاج خود اس۔معاملے میں پڑے وہ خود ہی سب کچھ حل کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔


مجھے معلوم ہے سب کچھ صالح خان۔۔۔۔ اور میں اپنی بیوی اور بچے دونوں کا خیال رکھ سکتا ہوں۔۔۔۔ ابتہاج نے دو ٹوک انداز میں لہجہ سخت بنائے کہا تھا۔۔۔ جبکہ صالح سنتے لب بھینجتے رہ گیا۔۔۔


کیا تم جانتے ہو کہ یہ سب کچھ کس نے کیا۔۔۔۔۔!" وہ ہنستا صالح کی لاعلمی پر طنز کرنے لگا۔۔۔۔۔صالح نے اپنی سرخ لہو ہوتی آنکھوں کو۔میچتے خود پر ضبط کیا۔۔۔۔


جانتا ہوں یہ سب کچھ کرنے والا میرا باپ ارسم خان ہے۔۔۔۔ " جس نے اپنی مظلومیت کا ڈھونگ رچا کر میرے جذبات کو تباہ کیا۔۔۔ تمہارے ماں باپ کی موت سے لے کر ماہا کی کڈنیپنگ ، سب میں میرے باپ کا ہاتھ ہے۔۔۔۔۔" وہ شرمندہ سا نظریں زمین پر گاڑھے ہوئے بولا جبکہ ابتہاج نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔۔


اور پھر سرد سانس فضا کے سپرد کیے اسکے قریب جاتے صالح کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔ یہ میری جنگ ہے صالح ،تم ان۔سب میں مت الجھو۔۔۔۔۔۔ میں سب کچھ ہینڈل کر لوں گا۔۔۔۔" ابتہاج نے اسے نرمی سے سمجھایا ۔۔۔۔ جانتا تھا کہ اس وقت وہ خود اپنے باپ کے دھوکے سے ٹوٹا ہوا تھا۔۔۔۔


اگر تم یہ سب جان چکے ہو تو یقینا وہ بھی جانتا ہو گا۔کہ۔تم سچ سے واقف ہو ۔۔۔۔۔۔ تمہیں سب سے پہلے صنم کو سیو کرنا ہو گا۔۔۔۔۔" وہ اسے سنجیدگی سے سمجھانے لگا کیونکہ اسے یقین تھا کہ کہ اب وہ کھل کر اپنی دشمنی نبھائے گا۔۔۔۔


صنم کے نام پر صالح کے دماغ میں جھماکا سا۔ہوا وہ تو ابتہاج سے بات کرنے کے چکر میں صنم کو بھول ہی چکاتھا۔۔۔


کیا ہوا صالح پریشان کیوں ہو ۔۔۔۔۔؟ صنم کہاں ہے۔۔۔۔؟"اسکے چہرے کی اڑی رنگت کو دیکھ ابتہاج نے جلدی سے پوچھا۔۔۔یہ مت کہنا کہ تم صنم کو گھر پر ہی چھوڑ کر آئے ہو۔۔۔..." ابتہاج کو خدشہ تھا کہ اگر وہ گھر میں اکیلی ہوئی تو اس وقت ارسم خان اسے کڈنیپ کر چکا ہو۔گا۔۔۔۔


اوہ شٹ ڈیم کال کرو گھر۔۔۔۔۔۔" ابتہاج نے جلدی سے کہا تھا صالح نے کپکپاتے ہاتھوں سے فون نکالتے گھر کال کی۔۔۔دلاور صاحب اور منیبہ بیگم واپس جا چکے تھے اس وقت صنم اکیلی تھی گھر پر۔۔۔۔


ہاں ہیلو صنم سے بات کروائیں۔۔۔۔" میڈ کے فون اٹھانے پر صالح نے دھڑکتے دل سے خوفزدہ ساہوتے کہا تھا۔۔۔۔ دل میں عجیب سے وسوسے تھے۔۔۔۔


صاحب وہ تو بڑے صاحب۔ کے ساتھ گئی ہیں۔۔۔۔۔؛" صالح سنتے ہی لڑکھڑا سا گیا۔۔۔۔۔۔ فون اسکے ہاتھ سے چھوٹتے زمین بوس ہوا تھا۔۔۔کیا ہوا ہے صالح۔۔۔۔۔؟" ابتہاج اسے یوں دیکھ گھبراتا اسکے قریب ہوا اور اسے بازوؤں سے جھنجھوڑتے صنم کی بابت پوچھنے لگا اگر صنم کو کچھ ہوا تو ماہا کیسے برداشت کرتی یہ غم۔۔۔۔۔


ابتہاج یہ صرف تمہاری نہیں اب سے میری بھی جنگ ہے ۔۔۔۔ میری صنم کو کڈنیپ۔کر کے اچھا نہیں کیا ارسم خان نے ابھی تک اسنے صرف اپنے بیٹے کو دیکھا۔ہے اب وہ صالح خان کا اصلی روپ دیکھے گا۔۔۔۔۔"


صالح نے نفرت سے دانت پیستے غراتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔ ابتہاج کا غصے سے برا حال تھا۔۔۔ اب تو معاملہ آر یا پار کا تھا۔۔۔۔۔


ابتہاج تم رکو ۔۔۔۔۔ ماہا کے پاس۔۔۔۔میں خود جاتا ہوں۔۔۔۔۔" صالح ماہا کو سوچ اسے رکنے کا کہنے لگا ۔۔۔۔ ماہا سیو ہے یہاں پر اسکی فکر مت کرو میری مرضی کے بنا کوئی پرندہ بھی یہاں پر نہیں مار سکتا ۔۔


وہ مسکراتا اسے آگاہ کیے ماہا کو آگاہ کرنے گیا۔۔۔


صالح بےچینی سے چکر کاٹتے خود کو۔پرسکون کرنے۔لگا۔۔۔۔۔ اگر میری صنم کو ذرا سی بھی انچ ائی تو پھر تمہارے اتنے ٹکروں کروں گا کہ گن پانا نا ممکن ہو گا۔۔۔۔۔"


وہ نفرت سے اسے سوچتے تنفر سے کہتا ابتہاج کا انتظار کرنے لگا۔۔۔۔۔


____________


کوئی ہے ۔۔۔۔ انکل____؟" کمرے میں پھیلے گھپ اندھیرے میں وہ حواس بافتہ سی ڈرتے آگے پیچھے پھیکے اندھیرے کو دیکھ بولی تھی۔۔۔۔۔۔ صنم نے ڈرتے خوف سے اپنے ہاتھوں کو ہلایا مگر اسکے دونوں ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔۔۔۔ اننن انکل۔۔۔۔؟" ڈر و دخشت سے اسکا برا حال تھا۔۔۔۔ وہ سہمی نظروں سے اپنے آس پاس دیکھتی اونچی آواز میں چیختے ارسم خان کو بلانے لگی۔۔۔۔۔


اسے یاد تھا کہ۔راستے میں اسے روتا دیکھ ارسم خان نے پانی کی بوتل اسے تھمائی تھی صنم۔نے صرف دو گھونٹ پانی پیا تھا اسکے بعد اسے خود بھی کچھ یاد نہیں تھا کہ کیا ہوا تھا۔۔۔۔؟"


اور اب جب وہ ہوش میں آئی تو خود کو یوں کرسی سے۔بندھا دیکھ اسکے حواس سلب ہو چکے تھے۔۔۔ صص صالح آپ کہاں ہیں۔۔۔۔؟" روتے ہوئے اسے بلانے لگی۔۔۔۔۔جو اس کا مسیحا تھا اسکا دلدار


۔۔۔۔۔۔۔۔" کمرے میں پھیلے اندھیرے۔کو دیکھ صنم کا سانس بند ہونے لگا تھا آنکھوں سے آنسوں بہتے اسکے رخسار کو بھگو رہے تھے۔۔ معاً دروازہ کھلنے کی آواز کے ساتھ پر صنم سانس روکے سامنے دیکھے گئی جہاں سے ایک دم سے تیز روشنی کے اندر داخل ہی صنم نے جلدی سے آنکھیں میچیں۔۔۔۔۔


کیسی ہو بہو۔۔۔۔۔۔؟" ارسم خان اسے آنکھیں ڈر سے میچے دیکھ مسکراتا اندر داخل ہوا۔۔۔۔ صنم نے آرام خان کی آواز سنتے جھٹ سے آنکھیں پھیلائے سامنے دیکھا جہاں کمرے میں ایک دم سے تیز روشنی کے پھیلنے کے ساتھ ہی سامنے کھڑے ارسم خان کو دیکھ صنم کی آنکھوں میں حیرانگی پھیلی۔۔۔


انن انکل یہی یہ سب کککک کیا ہے ممم مجھے کھولیں ممم میرے ہاتھوں میں درد ہے۔۔۔۔۔!" وہ روتے ہوئے ارسم خان کو دیکھے بولی تھی۔۔ جو سنتا قہقہ لگائے صنم کی جانب دیکھتے افسوس سے سر نفی میں ہلا گیا۔۔


آپ تو ممم مجھے مم ماہا کے پاس لے کر جانے والے تھے تو پھر یہ سب کک کیا ہے۔۔۔۔۔؟"اسکا چہرہ لٹھے کی مانند سفید پڑ چکا تھا۔۔۔ دماغ جس بات کی تصدیق کر رہا تھا دل اسے ماننے سے انکاری تھا۔۔۔۔


ہاہاہاہا یہی تو تمہاری معصومیت تمہیں آج یہاں تک لے آئی میری بچی۔۔۔۔۔۔"اسکا لہجہ مذاق اڑاتا تھا،۔ صنم کا چہرہ تاریک پڑا تھا وہ دم سادھے اسے دیکھے گئی۔۔۔۔ جانتی ہو سب کچھ اچھا جا رہا تھا مگر تمہارا شوہر وہ صالح اسے صبر نہیں ہے بلکل بھی ، ہر معاملے میں ٹانگ اڑانے کی عادت ہے، اب دیکھو ناں میں نے اگر ابتہاج کے باپ اور ماں کو مارا تو اس سے صالح کو کیا لینا دینا، اگر میں نے اسے مارا تھا تو اسکے پیچھے بھی تو وجہ تھی ناں ہر جگہ ہر کوئی بس کاشان کاشان کرتا تھا


اسکی وجہ سے میں ہمیشہ دوسرے نمبر پر رہا___۔ہر۔جگہ اسی کی تعریفیں اسی کا چرچا ، پھر بزنس میں بھی ہر جگہ وہ چھا گیا میں تو کہیں نہیں تھا۔۔۔ پھر میں نے سوچا کہ کیوں ناں میں اس کاشان کو ختم کر کے اس کی جائیداد کو اپنے نام کر لوں اور پھر پھر میں نے اسے مار بھی دیا۔۔۔۔


مگر وہ ابتہاج بچ گیا مجھے اسے بھی مارنا پڑا مگر وہ بڑا کمینہ نکلا۔بچ گیا سالا اور اب دیکھو مجھے اسکی وجہ سے اپنی ہی بہو کو کڈنیپ کرنا پڑا اور وہ بھی ایسی حالت میں۔۔۔"وہ سخت افسوس کرتے گردن نفی میں ہلائے صنم کے نزدیک کرسی کھینچتے بیٹھا۔۔


صنم نے لب بھینجتے آنکھیں مضبوطی سے میچ لیں۔۔۔۔ اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کچھ کر دے اس شخص کا۔۔۔"


کک کھولو مجھے۔۔۔۔۔۔"وہ روتی نفرت سے اپنے وجود میں اٹھتے درد کی وجہ سے چیخی۔۔ " ارے بیٹا صبر کرو، تمہیں تکلیف نہیں دوں گا۔۔۔ آخر کو تم میرے بیٹے کی بیوی ہو اوپر سے ماں بننے والی ہو۔۔۔۔ بس ایک بار مجھے اپنے خودسر بیٹے اور ابتہاج سے بات کرنی ہے جیسے ہی وہ اپنی جائیداد میرے نام کرے گا ویسے ہی میں تمہیں آزاد کر دوں گا۔۔۔"


وہ پچکارتا صنم کے رونے سے سرخ چہرے ہوئے چہرے کو دیکھ بولا۔۔۔ صنم نے اپنی سرخ نفرت بھری نظروں سے اسے دیکھ نفرت سے سر جھٹکا ۔۔۔۔۔


بھول ہے تمہاری۔۔۔۔۔ وہ ایسا کبھی نہیں کریں گے اور تم اپنے گندے ارادوں میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکو گے۔۔۔!" وہ نفرت سے شیرنی بنی بنا خوف ڈر کے غرائئ تھی۔۔۔۔۔اسے دیکھ ارسم خان داد دیے بنا ناں رہ سکا۔۔۔


کیا بات ہے بہو بیٹا موت کے منہ میں کھڑی ہو اور پھر بھی اتنا حوصلہ۔۔۔۔۔" وہ مسکراتا اسے داد دیتے تالی بجائے بولا۔۔۔۔ مگر تمہارے لئے کچھ خاص ہے میرے پاس، پہلے تو مجھے لگا تھا کہ ایسا کچھ نہیں کروں مگر اب تمہارے منہ سے اتنی تعریف سن کر مجھے مجبوراََ ایسا کرنا۔پڑے گا۔۔۔۔۔


وہ پل بھر میں پتھریلے تاثرات سے سرد لہجے میں چہرے پر وخشی سرد پن سجائے بولا تو صنم کا وجود سن سا ہوگیا۔۔۔۔ ارسم خان نے مڑتے دروازے کی جانب دیکھا جہاں دو بڑے بڑے آدمی کھڑے تھے۔۔۔۔ ذرا لے چلو میری بہو کو۔۔۔۔"


اسنے اشارہ کرتے صنم کو دیکھتے کہا تھا صنم نے شل۔ہوتے اعصاب سے سر نفی میں ہلا دیا۔۔ وہ دونوں آگے بڑھے تھا اور ایک ایک جانب سے کرسی کو مضبوطی سے تھامے وہ۔ہوا میں اوپر اٹھائے باہر کو نکلے۔۔۔


چھوڑو مجھے کمینے وخشی انسان۔۔۔۔۔ کچھ حاصل نہیں کر سکو گے تم دیکھنا۔۔۔۔ اس دولت کے لالچ میں تم نے اتنی زندگیاں تباہ کیں تمہیں تو موت بھی نصیب نہیں ہو گی۔۔۔۔اپنوں کو کھانے والے حیوان ہو تم درندے بے حس۔۔۔۔۔۔" صنم غصے سے چیختی اونچی آواز میں ارسم۔کو کوس۔رہی تھی ۔۔ جو سنتا تاسف سے سر نفی میں ہلائے ابتہاج کو۔کال کر رہا تھا۔۔۔


___________


پچھلے ایک گھنٹے سے وہ بے بس سی بندھی ہوئی تھی۔۔۔۔ اسکے اعصاب بری طرح سے شل ہو چکے تھے ، وجود میں جان باقی ناں رہی ہو جیسے، شاور سے گرتا یخ ٹھنڈا برف کی مانند پانی صنم کے وجود کو برف کا کر چکا تھا۔۔۔ اسکا سر بھاری ہوتے ایک جانب لڑکھ چکا تھا۔۔۔ ہاتھ اور پاؤں رسیوں سے بندھے ہونے کے باوجود بھی اس ٹھٹرا دینے والے پانی کے باعث سرخ ہو رہے تھے۔۔۔۔


پورا وجود ایسے تھا جیسے خون جم سا گیا ہو۔۔۔۔ صنم کی آنکھیں بند ہو رہی تھی۔۔۔۔ صالح کا چہرہ اسکی آنکھوں کے پردے پر لہراتا اسے مسکرانے پر مجبور کر رہا تھا۔۔۔ ایک ایک حسین پل صالح کی محبت اسکا جنون اسکا شدت بھرا لمس ، اپنی سانسوں میں اترتی اسکی دہکتی سانسوں کے وہ لمحات کیا کچھ نہیں تھا صنم کے پاس، صالح کو یاد کرتے اسکی محبت چاہت پر صنم کی آنکھیں اس ٹھنڈے پانی میں بھیگ رہی تھی۔۔۔


سرخ و سفید چہرہ بلکل نیلا پڑ چکا تھا ہونٹ نیلے سرخی مائل تھے،جیسے وجود میں موجود سارا خون کسی نے نچوڑ دیا ہو۔۔۔مگر چہرے پر ایک مسکراہٹ تھی اپنے صالح کو یاد کرتے ایک عجب سی مسکان تھی جو اس وقت اسکے چہرے پر دیکھ سامنے کھڑا ارسم خان بےچین ہو رہا تھا۔۔۔


اسے لگا تھا کہ وہ روئے گی گڑگڑائے بھی مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا بلکہ وہ تو خوش تھی بے حد خوش جیسے دنیا کی سب سے بڑی خوشی کو اسنے پا لیا ہو۔۔۔


معا آہٹ ہوئی تھی ارسم خان جو شیشے کے دروازے سے اندر صنم کو دیکھ رہا تھا اسنے مڑتے پیچھے کو دیکھا جہاں پر ابتہاج اور صالح دونوں ہی موجود تھے مگر اسکے آدمیوں نے انہیں گھیرا ہوا تھا گنز انکے چاروں اطراف تھیں۔۔


آؤ آؤ ویلکم ابتہاج گردیزی ویلکم صالح خان۔۔۔۔۔وہ خباثت سے مسکراتا بولا تو ابتہاج اور صالح نے اپنے بازوؤں ان آدمیوں سے چھڑواتے نفرت سے ارسم خان کو دیکھا۔۔۔۔


صنم کہاں ہے ارسم خان۔۔۔۔۔!"صالح خود کو چھڑواتا خون آلود نگاہوں سے قہر برساتے لہجے میں پوچھتا آگے کو بڑھا تھا مگر ارسم خان کے آدمیوں نے اسے فورا سے جھپٹ لیا تھا۔۔۔جو بری طرح سے غصے میں خود کو چھڑوانے کی کوشش کرتا ارسم خان کو مسکرانے پر مجبور کر گیا۔۔۔


اہا بیٹا باپ سے ایسے بدتمیزی سے بات نہیں کرتے۔۔۔۔وہ ہنستا اسے پچکارنے لگا جس کے سر پر خون سوار تھا۔۔۔وہ میری بھی تو بہو ہے وہ دیکھو کتنا خیال رکھا ہے میں نے اپنی بہو اور پوتے کا۔۔۔۔۔وہ مسکراتے اسے پیچھے موجود دروزے کی جانب اشارہ کرتے بولا تو صالح کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید پڑ گیا۔۔


وہ سانس روکے پیچھے دیکھنے لگا مگر جیسے ہی اسکی نظریں صنم کے پانی سے بھیگے بےہوش وجود پر پڑی صالح خان کی دلخراش دھاڑ سے سارا اپارٹمنٹ لرز پڑا۔۔۔۔ وہ چیختا کسی بھپرے شیر کی طرح خود کو چھڑوانے کی سعی کرنے لگا۔۔۔


میں چھوڑوں گا نہیں تمہیں ارسم خان تم باپ ہونے کے نام پر دھبہ ہو۔۔۔ایک گندے غلیظ انسان میں آج جان سے مار دونگا تمہیں۔۔۔۔۔۔وہ بھپرتا ارسم خان کو دیکھتے سرخ چہرے سے چیخا تھا۔۔۔


ارے ارے بیٹا اتنا غصہ وہ بھی اپنے باپ کیلئے چلو تم بیٹے ہو معاف کر دوں گا پہلے کام کی بات کرتے ہیں تو ابتہاج سائن کرو گے پراپرٹی کاغذات پر یا نہیں۔۔۔۔۔" وہ سپاٹ چہرے سے کسی جانور کی طرح ابتہاج کو دیکھتے غرایا۔۔۔۔۔


ابتہاج نے اپنی سرخ آنکھوں کو۔میچتے ماہا کو یاد کیا جو جانے کیسے صنم مصیبت میں ہے یہ جان چکی تھی ۔۔۔وہ جب صالح سے کہتا ماہا کے پاس گیا تھا تو آگے اسے روتا دیکھ وہ تڑپتے اسکے قریب گیا مگر وہ کسی بن پانی مچھلی کی مانند مچلتی اس سے اپنا آپ چھڑواتے صنم سے ملنے کی ضد کرنے لگی۔۔


جیسے تیسے اسے دلاسہ دیے وہ بمشکل سے خاموش کرواتا صالح کے ساتھ آیا تھا مگر وہ جانتا تھا کہ پیچھے اسنے رو رو کے خشر بگاڑ لیا ہو گا۔۔۔۔


کاغذ دو۔۔۔۔۔۔" وہ سپاٹ لہجے میں سرد سانس فضا کے سپرد کرتے بولا تو صالح جو اس وقت بکھرا ہوا تھا سرخ چہرے سے کھڑا تھا اسنے مڑتے بے یقینی سے اسے دیکھا۔۔۔۔


ابتہاج تم ایسا کچھ بھی نہیں کرو گے۔۔۔۔۔" وہ چیختے اسے منع کرنے لگا ۔۔۔ وہ جانتا تھا کہ ارسم خان اس کے بعد انہیں ذندہ نہیں چھوڑے گا۔۔۔


ارے چپ کرو تم ۔۔ورنہ وہ دیکھ رہے ہو بیوی کا حال اگر چاہتے ہو اسکی سانسوں کی ڈور جو لڑکھ چکی ہے وہ ٹوٹ ناں جائے تو چپ چاپ کرنے دو اسے۔سائن۔۔۔۔۔ ہاں ابتہاج ادھر آؤ اگے۔۔۔۔" وہ تفصیل سے صالح کو آگاہ کرتے پیپیرذ سامنے موجود ثیبل۔پر رکھتے ابتہاج کو بلانے لگا جو خود کو ان آدمیوں سے چھڑواتا اب آگے بڑھا تھا۔۔۔


کہاں کرنے ہیں سائن۔۔۔ " کاغذات دیکھتے وہ جبڑے بھینجتے پوچھنے لگا۔۔۔ ابتہاج رک جاؤ ۔۔۔۔۔" صالح نے اسے ٹوکا۔۔تو وہ گردن گھمائے اسے اشارہ کرتے پھر سے ارسم خان کی جانب متوجہ ہوا۔۔۔۔


یی یہاں کرو۔۔۔۔ " وہ خوشی س چہکتا اپنی آنکھوں میں دولت کی چمک لیے جلدی سے بولا۔۔۔ابتہاج نے ایک نظر میز پر رکھی اسکی گن کو دیکھا اور جھکتے سائن کرنے کے بہانے وہ جھپٹتے گن اٹھائے مڑتے ان آدمیوں کو شوٹ کرنے لگا۔۔


ایک۔دم سے ماحول میں سنسنی سی پھیل گئ۔۔۔ صالح خود کو چھڑواتے اب اپنی گن نکالتے جلدی سے ان آدمیوں کو سنبھلنے کا موقع دیے بنا ہے درپے وار کر رہا تھا۔۔


ارسم خان اپنے سامنے اپنے آدمیوں کی لاشیں دیکھ سن سا ہو۔گیا۔۔۔صالح بھاگتے صنم کی جانب بھاگا تھا ۔۔۔۔جبکہ ابتہاج کو اپنی جانب آتا دیکھ ارسم پھرتی سے وہاں سے بھاگنے لگا مگر ابتہاج نے دوڑتے آگے بڑھتے جھکتے اسکے پاوں پر وار کیا وہ اوندھے منہ زمین پر گرتے درد سے کراہنے لگا۔۔۔


ننننن نہیں اببب ابتہاج ممم مجھے معاف کر دو۔۔۔۔۔" اپنے پاؤں کو ابتہاج کے ہاتھ میں دیکھتے وہ ڈر سے سپید پڑا گڑگڑانے لگا۔۔۔ جبکہ ابتہاج نے سپاٹ چہرے سے اس شیطان کو نفرت سے دیکھا۔۔۔ اگر تجھے جائیداد کا ہی لالچ تھا تو توُ پہلے کہتا وہ انکار نہیں کرتا تجھے ، مگر توں نے مجھ سے میرا کل اثاثہ چھین لیا میرے ماں باپ کو چھین لیا اور تو اور میرے بچے کو ختم کیا میری ماہا کو مجھ سے چھیننے کی کوشش کی۔۔۔۔


گزرے وقت کی کرچیاں اسکی آنکھوں میں اشتعال کو بڑھا رہی تھیں ۔۔وہ بھینجے جبڑوں سے اسے دیکھ ایک دم سے گن اسکے پاوں کی ہتھیلی پر رکھتے فائر کر گیا کہ فضا میں ارسم خان کی دلدوز چیخیں گونجنے لگی۔۔۔۔وہ تڑپتا مچلتا خود کو چھڑوانے لگا مگر ابتہاج کی گرفت سخت تھی۔۔۔


ابتہاج نے کسی اچھوت کی طرح اسکے پاؤں کو تھاما اور پھر دوسرے پاؤں پر بھی ایسے ہی فائر کرے اسے چلنے سے معذور کر دیا۔۔۔۔۔ وہ چیختا بلکتا درد سے تڑپتے وجود سے خود کو چھڑوانے کی سعی کرتا معافیاں مانگ رہا تھا جسکا ابتہاج پر کوئی اثر نہیں تھا وہ اطمینان سے اسکے ہاتھوں پر پھر اسکی ٹانگوں پر وار کرتے اب اسے بلکل بے بس کر چکا تھا۔


ابتہاج نے مڑتے صالح ہو دیکھا جو بکھری حالت میں اپنی بانہوں میں صنم کے بے ہوش وجود کو بھرے باہر نکلا تھا۔۔۔ دیکھ لو ارسم خان تمہاری حوس تمہیں کہاں لے آئی ہے ۔۔دولت کے لالچ میں اندھا ہو کر تم نے اپنا سب کچھ گنوا دیا، بیوی بیٹے کسی بھی رشتے کا پاس نہیں رکھا اب دیکھو ناں تو یہ دولت تمہیں موت سے بچا رہی ہے اور ناں ہی یہ دولت تمہیں روزِ محشر میں اللہ سے بچائے گی۔۔۔".


وہ افسوس بھری آخری نظر ارسم خان کے تڑپتے وجود پر ڈالے سرد سانس فضا کے سپرد آگے بڑھا تھا۔۔۔ ارسم خان اسے جاتا دیکھ سن سا خاموش ہو گیا۔۔۔۔


ابھی وہ شکر بھرا سانس لیتا کہ اس سے پہلے ہی ابتہاج نے مڑتے اسکے ماتھے پر بیچوں بیچ نشانہ لیا۔۔ ہوا میں ٹھاہ کی آواز کے ساتھ ارسم خان کی آخری چیخ گونجی تھی۔۔۔۔


__________


****دو سال بعد*****


ابتہاج جلدی کریں ہمیں نکلنا بھی ہے،،،"ماہا جو اس وقت بلیک پاؤں تک جاتی میں ملبوس اپنی گود میں اپنے ڈیڑھ سالہ فیض گردیزی کو اٹھائے ہوئے تھی۔


ابتہاج کو دیکھ جلدی سے چلنے کا کہا جو کہ ابھی تک شیشے کے سامنے کھڑا بال بنا رہا تھا،،ماہا کی آواز سنتے ہی ابتہاج کے خوبصورت ہونٹوں پر دلکش سی مسکراہٹ بکھر گئی،


ابتہاج نے شیشے سے اپنے ساتھ نظر آتے اپنی بیوی اور چھوٹی شہزادی کے مکمل عکس کو دیکھ دل ہی دل میں۔ نظر اتاری، وہ تینوں اس وقت بلیک کلر میں تھے،


ناٹ فئیر ماہا بیٹی کو اپنے ہاتھوں سے تیار کیا تم نے مگر شوہر اسکا ذرا سا بھی خیال نہیں۔۔۔:"


اپنی ڈریس پینٹ کی جیب میں ہاتھ پھنسانے وہ گردن نفی میں ہلائے چلتا ان دونوں کے قریب آتا شکایتی لہجے میں بولا تو ماہا نے لب دانتوں تلے دبائے ابتہاج کو دیکھ فیض کے گال پر لب رکھے،


جو باپ کا سرخ چہرے دیکھ کھلکھلاتی ماہا کی گردن میں منہ چھپا گیی،،


بس کوئی کسر نہیں چھوڑنا تم مجھے اس کے سامنے جلانے کی،،،وہ جلا بھنا ماہا کو دیکھ تاسف سے گردن نفی میں ہلائے بولا،،


ابتہاج ایسا نہیں ہے فیض آپ کی بیٹی ہے آپ دیکھیں بالکل آپ پر گئی ہے آنکھیں دیکھیں اسکی اور بال دیکھیں بس کسی کی بری نظر ناں لگے میں بیٹی کو،،


ابتہاج کے بالوں کو اپنے ہاتھوں سے سنوارتے وہ پھر سے ان ڈائریکٹ وے سے اپنی شہزادی کی تعریف کرنے لگی،


فیض آنکھوں میں شرارت لئے اپنے باپ کو دیکھنے لگی اسکے دیکھنے پر ابتہاج نے گردن ہلائے اسے محسوس اشارہ دیا،


جسے وہ فورا سے سمجھ گئی یہ ان دونوں کا سیکرٹ تھا جو کہ اتنی چھوٹی سی عمر میں بھی فیض گردیزی اپنے باپ کی کہی ہر بات کو بنا اسکے بولنے کے بھی سمجھ جاتی تھی،


فیض نے جلدی سے اپنے چھرے پر اپنے چھوٹے چھوٹے سفید ہاتھ رکھتے آنکھیں بند ہونے کا اشارہ دیا جسے دیکھ ابتہاج مسکراتا ماہا کے قریب ہوا،


اس سے پہلے کہ ماہا ان دونوں باپ بیٹی کے اشارے کو سمجھتی،ابتہاج جلدی سے اسکے قریب ہوتے ماہا کے ہونٹوں پر جھکا، ماہا حیرت سے آنکھیں پھیلائے ابتہاج کو۔دیکھنے لگی جو مسکراتا اب پیچھے ہوتا اپنے بال سیٹ کر رہا تھا،


ماہا نے سرخ چہرے سے فیض کو دیکھا جو کہ ہنوز ہاتھ چہرے پر رکھے ہوئے اسے بے حد پیاری لگی مگر وہ بمشکل سے نظریں چرائے اسکے ہاتھوں کو پیچھے کیے فیض کو خود میں بھینچے ابتہاج کو دیکھنے لگی،


آپ سے تو کسی اچھے کام کی امید نہیں آپ ابھی سے میری بچی کو خراب کر رہے ہیں،وہ غصے سے ماتھے پر بل لائے بولی تو ابتہاج نے جلدی سے فیض کو گود میں بھرا،،


میرا شیر بیٹا ہے باپ کی کہی ہر بات کو اچھے سے سمجھتی ہے میری گڑیا،، اور ویسے بھی میری گڑیا جانتی ہے،کہ اسکی ماں خود تو میرے ہاتھ آتی نہیں تو کیوں ناں میں ہی باپ کی مدد کر دوں بس اتنی سی بات ہے،،


فیض کو اٹھائے اپنے سامنے کیے ابتہاج نے ماہا کو اپنے ساتھ لگایا، کتنی رونق ہوئی تھی صرف ایک ننھی سی جان کے انکے گھر آنے پر،،سب غم تکلیفیں مٹ گئی تھیں اور اب زندگی ایک نئے سفر پر گامزن تھی جہاں خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔۔


فیض اپنے ماں باپ کو دیکھ رونے کی تیاری میں تھی کیونکہ اسے عین کے پاس جانا تھا اتنی چھوٹی سی عمر میں۔ بھی ان دونوں کی محبت مثالی تھی،


چلیں صنم اور صالح بھائی انتظار کر رہے ہونگے،،" ماہا نے فیض کے گلابی گالوں کو محبت سے چھوتے اسے جلدی سے یاد کروایا کیونکہ آج صنم اور صالح کی چھوٹی سی جان عین کی سالگرہ تھی،


🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺


صالح درعازہ کھولیں خدا کیلئے ٹائم ہو رہا ہے کب سے آپ اندر گھسے ہیں، صنم کب سے دروازہ پیٹتے دانت پیستے اب تھکتے بولی تھی،


وہ دو گھنٹوں سے اندر تھے اور صنم کی نو اینٹری تھی اب تو وہ بھی دیکھنا چاہتی تھی کہ آخر ایسا کیا کر رہے ہیں دونوں باپ بیٹی کہ ابھی تک دروازے بند تھا،،


صالححح۔۔۔۔۔" صنم نے غصے سے زور دار آواز لگائی اسکی بات منہ میں ہی رہ گئی جب صالح نے جلدی سے دروازہ کھولا اور مسکراتے صنم کے غصے سے سرخ چہرے کو دیکھا،


کہاں ہے عین۔۔۔" صنم نے غصے سے آگے پیچھے دیکھتے عین کو ڈھونڈتے کہا تھا جو کہ صالح کے پیچھے چھپی ہوئی تھی،صنم نے گردن گھمائے پیچھے دیکھنا چاہا مگر صالح نے جلدی سے اسے پیچھے کیا ایسے کیسے اپنی پرنسز کو تمہارے سامنے کروں پہلے آنکھیں بند کرو،،


صالح کے نئے شوشے پر صنم نے ایبرو اچکائے اسے گھورا،، جب سے عین اس دنیا میں آئی تھی صالح کا دن اور رات ایک کے ساتھ شروع ہوتا تھا اور صنم کو ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ ان دونوں کے بیچ کوئی اجنبی ہو،،


اتنے نخرے مجھے نہیں دیکھنا وہ منہ پھلائے کہتے واپس جانے لگی کہ صالح نے اسے روک لیا،،


آج تو میری پرنسز کا دن ہے پلیز جانم۔۔۔" صنم کا گہری نظروں سے دیکھتا وہ التجائیہ ہوا تو صنم نے سینے پر ہاتھ باندھے سر ہاں میں ہلایا،،


اور جلدی سے آنکھیں بند کیں،،


ٹن ٹراں۔۔۔۔۔۔"عین کو اٹھائے صنم کے سامنے کرتے صالح اونچی آواز میں پرچوش سا بولا،تو صنم نے آنکھیں کھولے سامنے دیکھا تو ایک پل کو وہ آنکھیں جھپکنا بھول گئی تھی بلیک کلر کے باربی فراک میں ملبوس چھوٹے چھوٹے بالوں کا جوڑا بنائے سر پر پرنسز تاج پہنے وہ صنم کا۔عکس دکھ رہی تھی،


صنم نے نم آنکھوں سے مسکراتے اسے صالح سے لیتے خود میں بھینچا،


مما فیض آئی،، عین نے جلدی سے بےتابی سے فیض کے متعلق پوچھا تو صالح اور صنم دونوں ہی اسکی بےتابی پر مسکرا دیے،،


بیٹا وہ تو آ چکی ہے اپنی عین کا ویٹ کر رہی ہے،،اپ چلو اسکے پاس چکتے ہی،صنم اسے اٹھائے باہر جانے لگی کہ صالح نے اسے پیچھے سے پکڑا، عین آپ جاؤ پرنسز فیض کے پاس ڈیڈا اور ماما ابھی آتے ہیں ،


صالح نے اسکے ماتھے پر گواہ دیے کہا تو وہ سر ہلائے باہر کو نکلی تھی،،


اب کیا ہے چھوڑیں بھی صالح،،صالح نے صنم کو مضبوطی سے خود میں بھینچا تو وہ منہ بنائے بولی، ایسے کیسے چھوڑ دوں، میری محبت بہت حاصل ہے


صنم۔کیونکہ میرے پاس اتنی پیارے دل کی مالک میری معصوم سی صنم ہے جسے میں اپنی جان سے بھی بڑھ کر محبت کرتا ہوں، میں خدا کا شکر گزار ہوں کہ اسنے میرے نصیب میں تمہیں لکھا،،


صنم کے چہرے پر اپنا محبت بھرا لمس چھوڑتا وہ دل کی گہرائی سے بولا تھا،،


❤️❤️❤️❤️❤️❤️----------ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Dildaar Masihaye Dil  Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Dildaar Masihaye Dil written by Faiza Sheikh . Dildaar Masihaye Dil  by Faiza Sheikh  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages