Maarij By Suhaira Awais Romantic Complete Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Friday 14 June 2024

Maarij By Suhaira Awais Romantic Complete Novel

Maarij By Suhaira Awais Romantic Complete Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Maarij By Suhaira Awais Complete Romantic Urdu Novel 


Novel Name: Maarij 

Writer Name:  Suhaira

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔


وہ ململ کے سرخ لباس میں ملبوس، تتلیوں کے پیچھے پیچھے بھاگ رہی تھی۔ وہ یہاں پہلی دفع آئی تھی اور اسے نہیں معلوم تھا کہ اللّٰه کی بنائی بےشمار مخلوقات میں سے ، اس کی پسندیدہ مخلوق بھی یہاں پناہ گزین ہوگی۔ اس نے زندگی میں پہلی بار اپنی آنکھوں سے حقیقت میں تتلیاں دیکھی تھیں۔وہ دیوانہ وار، تتلیوں کے اس جھرمٹ کا پیچھا کرنے میں مگن تھی پر تتلیاں تھیں کہ اس کے ہاتھ میں ہی آ کر نہیں دیں۔ بھاگتے بھاگتے اس کا سانس پھول چکا تھا۔ وہ جھکی ہوئی، اپنے گھنٹوں کو تھامے سانس بحال کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ پیسنے کے قطرے، ماتھے سے ہوتے ہوئے اس کی آنکھوں میں گھس رہے تھے، اس نے اپنی آستین کی مدد سے چہرہ صاف کیا اور نظر اٹھا کر سامنے دیکھا۔

وہ حیرت کی اوج پر تھی، سامنے کا منظر اس قدر خیرہ کن تھا کہ اس کے لیے پلکیں جھپکانا مشکل ہوگیا ۔ وہ چند ساعتوں، یوں ہی مبہوت کھڑی رہی، وہ منظر اس پر اپنا طلسم پھونک رہا تھا اور ننھی عرشیہ سحرزدہ ہوتی جارہی تھی۔ وہ اس مسحور کن نظارے کے آگے بے بس تھی۔اس کا پورا وجود، اس کی ساری حسیں مغلوب ہو گئیں ، اسے بس نظر آیا تو سامنے ان تتلیوں کا جھومنا۔ 

اس کا وہاں سے ہلنا محال ہو رہا تھا اور وہ خود بھی تو یہی چاہتی تھی کہ اس حسن و سحر کے تماشے میں، خود کو قید کر لے اور کبھی باہر نہ نکل پائے۔

 پر اسے واپس بھی تو جانا تھا۔ اگر وہ جلد سے جلد حویلی نہ پہنچتی تو ممکن تھا کہ ہاجرہ خاتون، اس کی گمشدگی پر سارے گاؤں میں  کہرام کھڑا کر دیتیں۔ بس اسی ڈر کے ہاتھوں مجبور ہوکر اس نے واپسی کی راہ لی۔ پر وہ الٹا چل رہی تھی اور جب تک وہ منظر اس کی آنکھوں کے سامنے اوجھل نہ ہوا، وہ تب تک الٹا ہی چلتی رہی۔ 

×××××××××

"آیت نام ہے میرا ، میں بھی دیکھتی ہوں، کوئی مائی کا لال مجھے آپ کے دو ٹکے کے آوارہ ، نشئی بیٹے کے ساتھ کیسے بیاہتا ہے، ماں باپ سر پر نہیں ہیں تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ کوئی بھی ایرہ غیرہ، مجھے اپنی ناکارہ اولاد کے ساتھ باندھ دے گا۔" اس نے غصے سے لال ہوتے ہوئے ، اپنی ممانی سمیت سب کو سانپ سونگھایا۔

شمسہ بیگم کے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ اس وقت ان کی ساری منصوبہ بندی سے واقف ہوگی اور تو اور اتنے شدید ردعمل کا اظہار کرے گی۔

اس کے اس قدر گستاخانہ انداز و الفاظ، شمسہ بیگم کا پارہ ہائی کرنے کے لیے کافی تھے۔

انہوں نے اپنی نشت چھوڑی، اور آ کر آیت کے منہ پر زوردار طمانچہ مارنا چاہا مگر ان کا حملہ بیکار گیا۔ آیت، بہت پھرتی سے، ان کا اپنی طرف بڑھتا ہاتھ راستے میں روک چکی تھی۔

شاید شمسہ بیگم بھول گئی تھیں یا پھر جانتی نہیں تھیں کہ سامنے کھڑی مخلوق کوئی سادہ لوح اور دبو سی لڑکی نہیں بلکہ آیت ہے، وہ آیت جو دنیا کو اپنے جوتوں کی نوک پر رکھتی ہے، جو اپنے دشمنوں کو اپنی چٹکی سے مسل ڈالنے کا حوصلہ رکھتی ہے ، جو بدتمیزی پر اتر آئے تو پھر اسے کوئی حد پار کرنے سے روک نہیں سکتا۔

وہ ان کے سامنے پہلی دفع، اتنی شدّت سے، اپنے آپے سے باہر ہوئی تھی۔

شمسہ بیگم لال انگارا آنکھوں سے ،اس سر پھری کو دیکھ رہی تھیں۔

ملیشہ بیگم اور رفعت بیگم کا بھی یہی حال تھا۔

وہ سب کو اپنی لہو رنگ آنکھوں سے گھورتی اپنے کمرے کی طرف بڑھی تھی۔ غصے کے مارے اس کا تنفس بگڑ گیا تھا، وہ اسی غضب ناک حالت میں، جلدی جلدی اپنا سامان اکھٹا کر رہی تھی۔ نجانے وہ کیا کرنے والی تھی۔

بیرم ، شمسہ بیگم اور آیت کے جھگڑے کی آوازیں سنتا جائے وقوعہ پر پہنچا ، اور آیت کو وہاں سے جاتا دیکھ کر وہ بھی بھاگتا ہوا آیت کے پیچھے دوڑا تھا۔ وہ اس کے کمرے کے دروازے کی چوکھٹ پر کھڑا اس کے سب افعال کو ناسمجھی سے تک رہا تھا۔

×××××××××××××××××××××××××××

"انکل، آپ کیوں مجھے انگلینڈ بھیجنے پر بضد ہیں؟۔ یلماز نے رابرٹ کی بار بار کی تکرار پر الجھتے ہوئے پوچھا۔ 

"کیوں کہ تمہارا جانا ضروری ہے۔" انہوں نے ہاتھ میں موجود چائے کے کپ سے چائے کی چسکی لیتے ہوئے مسکرا کر جواب دیا۔

"لیکن کیوں؟؟۔" اس نے بحث کو بڑھاوا دیا۔

"مجھے نہیں پتہ، میں بس اتنا جانتا ہوں کہ میں نے تمہیں وہاں بھیج کر جارج سے کیا وعدہ پورا کرنا ہے۔" انکل رابرٹ نے یہ وعدے کا تذکرہ پہلی مرتبہ کیا تھا تھا ورنہ وہ ایک ہفتے سے اسے یہی کہہ رہے تھے کہ اسے اپنی پی-ایچ-ڈی انگلینڈ سے کرنی چاہیے۔ 

اس لیے انہوں نے اس سے زبردستی وہاں کی ایک مشہور، یونیورسٹی(کیمبرج) میں اس کی سکالرشپ کے لیے بھی اپلائی کروایا تھا۔

"کیسا وعدہ۔۔؟؟" یلماز نے بھنویں اُچکا کر پوچھا۔

"تمہیں وہاں بھیجنے کا وعدہ، اس نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ میں تمہیں، زندگی میں ایک دفع وہاں ضرور بھیجوں۔ میرے خیال میں ، اب وعدہ وفا کرنے کا وقت آن پہنچا ہے، اس لیے تمہیں جلد سے جلد وہاں جانا چاہیے۔" انہوں نے ساری بات بتائی۔

"انکل آپ مجھے الجھن میں ڈال رہے ہیں، آپ کو کیوں لگ رہا ہے کہ مجھے فی الفور وہاں جانا چاہیے، میں پھر کبھی بھی تو جا سکتا ہوں۔" یلماز الجھ سا گیا تھا۔

"بس یلماز، میں ابھی تمھارے سوال کا جواب نہیں دینا چاہتا، میں چاہتا ہوں تم وہاں سے ہو آؤ اگر تمہیں یاد رہا تو پھر مجھ سے ساری بحث کرنا۔ فی الحال مباحثے کو طول دینا مناسب نہیں، تم بس جانے کی تیاری کرو۔" انکل رابرٹ نے ہموار لہجے میں تنبیہ کی اور اپنا چائے کا کپ اٹھائے وہاں سے چلے گئے۔

×××××

"کیمبرج یونیورسٹی۔۔!!" وہ اپنے پلنگ پر لیٹا، چھت پر لگے پنکھے کو گھورتے ہوئے، مملکت متحدہ کی اس قدیم جامعہ کا نام دہرا رہا تھا۔ حالانکہ کمرے میں تاریکی کے باعث اسے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا مگر پھر بھی اس نے اپنی نظریں وہیں مرکوز کیے رکھیں۔

یونیورسٹی کا نام دہراتے دہراتے، پھر سے اس کا دماغ انکل کی باتوں میں الجھا تھا۔ 

وہ اکثر عجیب باتیں کیا کرتے تھے، ان کی باتیں سننے میں بالکل سادہ اور عام سی ہوتیں پر یلماز کو معلوم تھا کہ وہ کچھ بھی یوں ہی نہیں کہتے ، ان کی ہر بات کے پیچھے وجوہات کا سمندر ہوتا ہے۔ اسی لیے تو وہ الجھا تھا کہ وہ کیوں اسے وہاں بھیجنے پر بضد ہیں۔ خیر الجھنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا، کیوں کہ اسے یقین تھا کہ موزوں وقت پر ہر راز کھل جایا کرتا ہے، یہ تو پھر چھوٹی سی بات تھی اب نہ سہی، پھر کبھی وہ اس کا پتہ لگا ہی لے گا۔

سو اس نے اپنے خیالات کو جھٹکا اور پھر یونیورسٹی کے متعلق سوچنے لگا۔ کبھی اسے کس قدر جنون تھا ناں وہاں جانے کا۔ کتنی اچھی لگتی تھی اسے دریائے کیم کے کنارے واقع وہ قدیم سی یونیورسٹی۔۔!!

"کیمبرج" سچ میں یونائیٹڈ کنگڈم یا انگلینڈ کی ایک قدیم یونیورسٹی ہے جو کہ ایک قدرتی دلکشی سے بھرپور دریا، "دریائے کیم" کے کنارے واقع ہے۔ اسی کی مناسبت سے اس مقام کو "کیم" "برج" یعنی دریائے کیم کے پل کے نام سے موسوم کیا گیا تھا۔ یہ یونیورسٹی دنیا بھر میں مشہور ہے اور بہت سے طلباء ، اسے اپنے خوابوں کی یونیورسٹی بھی کہتے ہیں۔ 

کبھی یلماز کے لیے بھی یہ اس کے خوابوں کی یونیورسٹی تھی۔ اس کی اولین خواہش تھی کہ وہ اپنی اعلیٰ تعلیم وہاں سے حاصل کرے۔  پر اب نہیں، اب وہ اپنی عمر کے جس دور سے گزر رہا تھا اس میں عموماً لڑکپن کے سجائے گئے سبھی سپنے اپنی وقعت کھو دیتے ہیں، خواہشات بھی اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پاتیں، ایسے میں وہ اپنی ایک پرانی خواہش کے پورے ہونے پر کیسے خوش ہوتا یا ایکسائیٹڈ ہو پاتا۔

××××××

عرشیہ دوڑتے دوڑتے رکی تھی۔ جنگلی سیبوں  کی خوشبو اس کے نتھوں سے ٹکرائی تھی ، جنگل کے اس حصے میں، ان سیبوں کے چند ایک درخت موجود تھے جن کی ڈالیوں پر جھولتے سرخ سیب، اسے اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب رہے۔ جاتے وقت تو اس نے دھیان نہیں دیا تھا کیونکہ وہ پاگلوں کی طرح ان تتلیوں کا پیچھا کرنے میں مگن تھی۔ 

اس نے اِدھر اُدھر کا جائزہ لیا، اسے کوئی ایسی چیز نہیں ملی کہ جس پر چڑھ کر وہ سیب توڑ سکتی۔ حتی کہ کوئی صحیح سا پتھر بھی نہیں ملا جس کی مدد وہ سیب حاصل کر پاتی۔ درخت اس کے قد سے اونچے تھے تو اس کا ہاتھ نہیں پہنچ پایا۔ اس نے اچھل اچھل کر ڈالی تک پہنچنے کی کوشش کی مگر بے سود۔ اس نے  ان سرخ رسیلے سیبوں پر ایک للچائی ہوئی ، آخری نظر ڈالی اور وہاں سے چلی گئی کیونکہ وہ رک کر مزید وقت ضائع نہیں کر سکتی تھی۔

×××××

"مما ، آپ نے کہا تھا زیک آنے والا ہے، وہ کب آئے گا؟؟" ٹوئنکل، کیتھرین کے بازو سے لپٹی، اپنے گھر کی بالکونی میں پڑے کانوں سے بنے صوفے پر بیٹھی، منتظر لہجے میں پوچھ رہی تھی۔

"خدا جانتا ہے ٹوئنکل۔۔!! لیکن تم بتاؤ، تمہیں، اس کے آنے نہ آنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔۔؟" کیتھرین کو اس کا انتظار بری طرح کھلا تھا۔

"مام، کیا بات کر رہی ہیں آپ۔۔ آپ کو نہیں پتہ وہ میرا پہلا دوست تھا، اتنے سال ہو گئے اس سے ملے ہوئے، میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ وہ اب کیسا دکھتا ہوگا، اسے میں یاد ہوں بھی یا نہیں۔" وہ  کھوئی کھوئی سی کہنے لگی۔

"توبہ ہے ٹوئنکل، تم قصے کہانیاں کم پڑھا کرو،  تین سال کی تھیں تم ، جب وہ یہاں سے گیا تھا،مجھے تو حیرت کہ تمہیں وہ اب تک نہیں بھولا۔" کیتھرین نے، لہجے میں جھوٹ موٹ کی ترشی پیدا کرتے ہوئے مصنوعی سرزنش کی۔ اور پھر اس کی کمر پر دھپ سے دھموکا جڑتے ہوئے  اٹھ کر کچن میں کیک دیکھنے کے لیے چلی گئی جو اس نے کچھ دیر پہلے بیک کرنے کےلئے رکھا تھا۔

ٹوئنکل نے منہ کے زاویے بگاڑتے ہوئے کیتھرین کو جاتا دیکھا، اور پھر زیک کے خیالات میں مگن ہوگئی، اسے جب سے اسے زیک کے آنے کے متعلق پتہ چلا تھا تب سے وہ دن رات اس کے ساتھ پھرنے ٹرنے، لندن اور مانچسٹر گھومنے کے خیالی پلاؤ بناتی رہتی۔ اسے بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کیوں اس کے آنے پر اس قدر خوش ہے۔۔!!

×××××××××××××××××××××××××××

عرشیہ دھول مٹی میں اٹی، حویلی کی عقبی دیوار کے پاس موجود تھی۔ اس کے پیر گرد سے اٹے ہوئے تھے، اور بھاگتے بھاگتے، پاؤں مڑ کر گرنے سے کی وجہ سے اس کے کپڑوں کا تو ستیاناس ہوچکا تھا، ایک ہاتھ کی ہتھیلی بھی ہلکی سی چِھلی تھی۔

اب مسئلہ اندر جانے کا تھا، آتے ہوئے تو وہ مالی بابا کی سیڑھی کام میں لاتے ہوئے دیوار پر چڑھی تھی اور پھر  کود کر جنگل میں گھس آئی تھی۔ پر اب وہ واقعتاً مشکل میں پڑی تھی، کیوں کہ اسے صرف کودنا آتا تھا، کسی سہارے کو استعمال کیے بغیر وہ چڑھ نہیں سکتی تھی۔

ایک تو اس نے جنگل گھومنے کی جلدی میں،واپسی کے لیے اپنا کوئی انتظام بھی نہیں کیا تھا۔

وہ پریشان سی، اپنے دونوں ہاتھ کمر پر ٹکائے دیوار تک رہی تھی کہ اسے دیوار کے اُس پار موجود سیڑھی ہلتی ہوئی محسوس ہوئی ، جیسے کوئی اوپر چڑھ رہا ہو۔ عرشیہ کو پورا یقین تھا کہ  وہ ضرور، بیرم ہوگا۔

وہ منہ اوپر اٹھائے، سیڑھی پر چڑھنے والے شخص کا چہرہ دیکھنے کی منتظر تھی۔

دیوار کی اوٹ سے باہر نکلتے شخص کج شکل دیکھ کر عرشیہ کے چہرے کا رنگ فق ہوا۔

آج کچھ بھی اس کی توقع کے حساب سے نہیں ہوا، ہر چیز ہی الٹی ہو رہی رہی تھی ، پہلے وہ جنگل میں کچھ دیر رکنا چاہتی تھی پر ہاجرہ خاتون کے ڈر سے رک نہیں سکی، وہ چاہتی تھی کہ اپنا حلیہ خراب کیے بغیر صحیح سلامت حویلی پہنچ جائے مگر نہیں، اس کے مڑتے پیر نے اس کا یہ خیال بھی چکنا چور کیا۔ پھر اسے وہ سیب چاہیے تھے تو وہ اسے نہیں مل پائے اور اب اس نے خواہش کی تھی کہ سیڑھی پر چڑھنے والا شخص بیرم ہو۔۔ پر نہیں۔۔ قسمت کی لہریں کسی اور ہی سمت میں بہہ رہی تھیں۔ تبھی وہ گندا بندہ وہاں سے نمودار ہوا تھا۔ کم سے کم عرشیہ کے لیے وہ گندا بندہ ہی تھا۔

"نادر بھائی آپ۔۔!!" وہ ڈر کے مارے، دبی دبی آواز میں بولی ۔

"یا اللّٰه مدد کے بھیجا بھی تو کس کو۔۔۔!!" اس نے رخ آسمان کی طرف کر کے، دل ہی دل میں اللّٰه سے شکوہ کیا۔

اسے نادر سے شدید چڑ تھی، اسے سارے گھر میں یہ سب سے زیادہ برا لگتا تھا۔ وہ ہر دفع اس کی چوری پکڑ لیتا، وہ جو بھی کام جہاں بھی چھپ کر کرنے کی کوشش کرتی، نادر ضرور وہاں چھاپہ مار کر، اس کی پرائویسی اور اس کی رازداری کی دھجیاں اڑا دیتا۔

××××××××××××××

"یہ تم کیا کر رہی ہو۔۔؟؟" بیرم نے ، آیت سے پوچھا، جو اپنا سارا سامان بیڈ پر پھیلانے کے بعد  سوٹ کیس کی زپ کھول رہی تھی۔ اس کی گھنگھریالی لٹیں چہرے کے آگے جھول رہی تھیں۔ اس نے منہ اٹھا کر ایک نظر بیرم پر ڈالی اور پھر اپنے کپڑے اٹھا کر، ایک ایک کر کے اچھے سے تہہ کرنے کے بعد سوٹ کیس میں رکھنے لگی۔ 

"جارہی ہوں گھر چھوڑ کر۔" آیت غرّا کر بولی، غصہ، ابھی تک اس کی ناک پر دھرا تھا۔

"کیا۔۔۔؟؟" بیرم کا حیرت کے مارے منہ کھلا اور کھلا کا کھلا رہ گیا۔

"سنا نہیں تم نے۔۔؟" وہ مُتَغضِب ہو کر بولی۔

"لیکن کیوں۔۔؟؟ اور تم جاؤ گی کہاں۔۔؟؟" بیرم ہٹیلا بنا ، اس سے سوال و جواب کر رہا تھا۔ وہ جانتا بھی تھا کہ آیت کو اس کی مصروفیت میں خلل پیدا کرنے والے لوگ کتنے برے لگتے ہیں، پھر بھی وہ اسے تنگ کر رہا تھا، سکون سے کپڑے ہی نہیں تہہ رکھنے دے رہا تھا۔

"تم سب کی طرف سے بھاڑ میں، میں جاؤں، بھلا کسی کو میری کیا پرواہ۔۔؟؟"  وہ زچ ہوتے ہوئے چلائی۔

"سب ایک سے نہیں ہوتے، میں تمہاری پرواہ کرتا ہوں۔" بیرم نے اسے بہلانے کی کوشش کی۔

"تم بھی تو خالی مولی، زبانی کلامی پرواہ کرتے ہو، میں نے آج تک تمہیں ، میرے لیے کوئی اسٹینڈ لیتے نہیں دیکھا، صرف کہہ دینے سے پرواہ نہیں ہوتی، ثابت کرنا پڑتا ہے۔ میں جانتی ہوں کہ تم یہ ثبوت کبھی نہیں دو گے، کیوں کہ تم میں ہمت نہیں، تم بچپن والے بیرم ہو ہی نہیں۔ " وہ اپنے کلر باکس کی طرف بڑھتے ہوئے ، اسے آئینہ دکھا گئی۔ 

بیرم خاموش سا اس کے طعنے سنتا گیا۔

سچ ہی تو کہہ رہی تھی، وہ کب اس کے لیے کچھ بولتا تھا، وہ کب اس کا سہارا بنا تھا۔ 

وہ اس وقت بھی کچھ نہیں کرتا جب سارے گھر والے بات بات پر آیت کے گلے پڑتے ہیں، اس پر زندگی کا دائرہ تنگ کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں، اس سے بدسلوکیاں کی جاتی ہیں، اس کی مرضی پر اپنا حکم مسلط کیا جاتا ہے، اس کی کردار کشی کی جاتی ہے، اس نے واقعی، سوائے زبانی ہمدردی کے، اس کے لیے کچھ نہیں کیا۔ وہ تب بھی کچھ نہیں بولا جب اس کی بہن ماریہ نے اپنے کسی آشنا کے ساتھ چکر چلانے کے بعد پکڑے جانے پر سارا الزام آیت پر تھوپا تھا، اور سارے گھر والے آیت کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے۔ 

اس بات کا اسے آج احساس ہوا ، لیکن اب تو وہ احساس کرنے میں تاخیر کر چکا تھا، اب تو آیت ان سب کے ہر ہر رویے کو خاموشی سے برداشت اور نظر انداز کرنے کے بعد اس قابل ہوگئی تھی کہ دنیا کو جوتے کی نوک پر رکھ سکے، جو اس پر دنیا تنگ کرنے کی کوشش کرے یہ الٹا اسی کی دنیا تنگ کردے۔ وہ اس قابل ہو گئی تھی دوسرے کو اس کی اوقات بتا کر اس کی حد میں رکھ سکے۔ اسے اب کسی کی ضرورت نہیں تھی، وہ اب، اپنے آپ میں  اتنی صلاحیت رکھتی تھی کہ کسی پر بوجھ بنے بغیر، صرف اور صرف اپنے دم پر زندگی گزار پائے۔

اُس وقت بھی جب ساری حویلی نے ماریہ کے الزام لگانے پر اس کا جینا دوبھر کرنے کی کوششیں کیں، تب اس نے اپنی صلاحیتوں کو پہلی مرتبہ آزماتے ہوئے، ان کا عملی ثبوت پیش کیا۔آیت بھی پھر آیت تھی، اس نے الزام رد کرنے کی بجائے، اسے شوق سے قبول کیا، ایسا کرنے پر وہ بندہ جس کے ساتھ ماریہ چکر چلا رہی تھی ، مصیبت میں پڑ گیا، نتیجتاً، اسے ماریہ کا راز فاش کرنا پڑا، یہ تقریباً مہینے پہلے کی بات تھی، وہ دن تھا اور آج کا دن، گھر والوں میں سے کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ کوئی اس کے منہ لگے یا پھر اسے کچھ کہے۔ 

لیکن شمسہ ممانی کی بدقسمتی تھی یا پھر ان کی یادداشت کمزور تھی جو وہ اس واقعے کو بھلائے ، خواہ مخواہ ہی اپنے بیٹے کے سنگ اس کے ہاتھ پیلے کرنے کا ارادہ باندھ بیٹھیں۔ ان کا وہ بیٹا جو اپنی اوباش ، آوارہ طبیعت کے باعث سارے خاندان میں بدنام تھا۔ جو رہی سہی کسر تھی وہ اس کی بادہ نوشی نے مکمل کردی۔ اب سب  لوگ اُسے آوارگی کے طعنے دینے کے ساتھ ساتھ اسے نشئی یا شرابی ہونے پر بھی لتاڑتے۔ یہی وجہ تھی کہ اسے خاندان میں تو دور کی بات ، خاندان کے باہر بھی کوئی اپنی بیٹی دینے کو تیار نہ تھا۔ اسی لیے شمسہ بیگم نے منصوبہ بنایا کہ وہ کسی طرح بھی آیت کے ساتھ اس کا نکاح کردیں گی، ان کا خیال تھا کہ وہ بن ماں باپ کی بچی پر دباؤ ڈال کر اپنے منصوبے میں کامیاب ہوجائیں گی، کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہوگا، ملیشہ ممانی اور رفعت ممانی نے ان کی خوب حمایت کی۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں کے مصداق، شمسہ بیگم کو صرف بہو چاہیے تھی۔ اسی لیے انہوں نے سوچا کہ ان کو آیت کی صورت میں بہو بھی ملے گی اور لوگوں کی طنزیہ باتوں سے جان بھی چھوٹ جائے گی۔

لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے ناں۔۔ کہ انسان کا بنایا خیالی پلاؤ، سچ میں کسی تھالی میں پڑا ملے۔

××××××××××××××

نادر نے کافی باتیں سنانے اور اپنی دادو جو کہ عرشیہ کی نانو تھیں، ان سے ڈانٹ لگوانے کی ڈھیر ساری دھمکیاں دینے کے بعد، جیسے تیسے اس کی دیوار عبور کرنے میں مدد کی اور پھر اپنے کہے کے مطابق، ہاجرہ خاتون کے سامنے عرشیہ کو بطور مجرم پیش کیا۔ عرشیہ ان کی بے حد لاڈلی تھی، اس کے آنے کے بعد نادر کی اہمیت گھٹ کر رہ گئی تھی ورنہ پہلے تو وہ ہی اپنی نانو کا لاڈلا ہوا کرتا تھا۔

وہ ایک کی دو لگاتا، عرشیہ کو ڈانٹ پڑوانے کی پوری کوشش کر رہا تھا، اس کی اس حرکت پر عرشیہ کو شدت کا غصہ آیا، اس نے طرح مصالحے لگا لگا کر، بات کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا، عرشیہ کو لگا کہ آج تو وہ گئی۔۔۔ آج پکا اس کی ڈانٹ لگے گی، اور اس پر لگی پابندیوں میں مزید اضافہ ہوگا، نادر کی امی یعنی شمسہ ممانی بھی اسے لگے ہاتھوں باتیں سناتی جا رہی تھیں، وہ دونوں ماں بیٹا، جی بھر کے، اس معصوم کو خوب ذلیل کر رہے تھے،  یہ سارا تماشہ ہاجرہ خاتون کے سامنے پیش آیا، وہ عرشیہ کو تنبیہی نظروں سے گھورنے لگی ہی تھیں کہ اس کا ضبط ٹوٹا اور اس کی معصومیت سے بھرپور، بے پناہ خواب دیکھنے والی، خوبصورت آنکھیں کسی نمکین جھیل کا منظر پیش کرنے لگیں۔

ہاجرہ خاتون نے ہاتھ کے اشارے سے شمسہ بیگم اور نادر کو روکا۔ ان کے روکنے پر، ان کی، اہانت آمیز الفاظ اگلتی زبان فوراً ٹھہری۔

ہاجرہ خاتون نے تحمل سے کام لیتے ہوئے، ان دونوں کو یہ کہہ کر کمرے سے جانے کو بولا کہ وہ اسے خود سمجھا لیں گی۔ ان کے جانے کے بعد واقعی ، انہوں نے اپنی لاڈلی پر کوئی غصہ نہ کیا اور بہت پیار سے ، اسے یوں ، اکیلے باہر نکلنے سے منع کیا۔ 

 انہوں نے اس کو ، اس کی الماری سے اچھے سے ، صاف ستھرے کپڑے نکال کر دیے، اسے نہانے بھیجا اور اس کے بعد وہ سب ملازمین جو عرشیہ کی نگرانی پر معین تھے، ان کی خوب عزت افزائی کی۔

×××××××××××××××××××××

یلماز، ٹانگیں لمبی کیے،  اپنی گود میں رکھے لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھا ای-میل کا انتظار کر رہا تھا۔ انکل رابرٹ نے اس کے جانے کی ساری تیاریاں مکمل کر لی تھیں۔ یلماز کی عجیب حالت تھی، وہ وہاں جانا چاہتا بھی تھا اور نہیں بھی۔ وہ عجیب کشمکش میں تھا۔ انکل رابرٹ چند چھوٹے چھوٹے سے کلچوں سے بھرا شیشے کا مرتبان (یعنی جار) ، ایک خالی پلیٹ اور کافی کے دو کپ،ایک ٹرے میں  رکھے ، اسی کے پاس چٹائی پر بیٹھے، انہوں نے کافی کا ایک کپ یلماز کی جانب بڑھایا اور مرتبان سے دو کلچے نکال کر،  پلیٹ میں رکھے، چونکہ سکالرشپ فارم پر نتائج ملنے کی یہی تاریخ اور وقت درج تھا سو اب وہ بھی اس کے ساتھ میل ملنے کے منتظر تھے۔ 

انہوں نے کافی کا ایک کپ یلماز کی جانب بڑھایا اور مرتبان سے دو کلچے نکال کر،  پلیٹ میں رکھے، چونکہ سکالرشپ فارم پر نتائج ملنے کی یہی تاریخ اور وقت درج تھا سو اب وہ بھی اس کے ساتھ میل ملنے کے منتظر تھے۔ 

سکرین کے چمکنے کی دیر تھی ، وہ دونوں فوراً ہی میل کی طرف متوجہ ہوئے۔ یلماز تو یلماز، انکل رابرٹ کی بھی حیرت کی انتہا تھی، اتنی اچھی تعلیمی کارکردگی کے باوجود بھی وہ یہ سکالرشپ حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ انکل رابرٹ کو اچھا خاصا دھچکا لگا پر یلماز کو کوئی خاص فرق نہیں پڑا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ بے شک وہ لائق فائق ہے پر جنہیں سکالرشپ ملی ہے وہ اس سے کہیں زیادہ اُس کے اہل ہوں گے۔ اور دوسرا اسے سکالرشپ میں یا انگلینڈ جانے میں کوئی خاص دلچسپی نہ تھی، اس لیے ، اسے کوئی صدمہ بھی نہیں پہنچا۔ البتہ انکل رابرٹ کا صدمے سے برا حال تھا۔ ان سے اپنی کافی بھی نہیں پی گئی۔ یلماز نے اپنا لیپ ٹاپ بند کر کے،اسے ایک ہاتھ کے فاصلے پر پڑی چھوٹی سی، لکڑی کی بوسیدہ میز پر رکھا اور آ کر، انکل کو تسلی دینے لگا۔ انکل پریشان تھے کہ اب کہیں وہ انگلینڈ جانے سے منع نہ کردے۔ انہوں نے اپنے خدشے کا اظہار کیا، یلماز نے کوئی جواب نہ دیا، وہ خاموش رہا جیسے سوچنے کے لیے وقت چاہتا ہو۔ جس پر انکل اور متردد ہوئے۔

××××××××××××××××××××

 آیت، کندھے پر بیگ لٹکائے، ایک ہاتھ سے سوٹ کا ہینڈل تھامے، اور دوسرے ہاتھ میں کچھ آلاتِ مصوری سے سے بھرا بکسہ اٹھائے، حویلی کے بیرونی حصے کی طرف بڑھ رہی تھی، بیرم بھی اس کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ "سامان مجھے تھما دو، میں گاڑی تک لے چلتا ہوں۔" اس نے پیشکش کی۔

آیت نے رک کر اسے دیکھا۔ کچھ دیر یوں ہی خاموشی سے  دیکھتے رہنے کے بعد، اس نے اپنی ساری چیزیں اسے تھمائیں اور وہیں رکنے کا کہہ کر واپس کمرے میں گئی، وہاں دیوار کے ساتھ لگی، لکڑی سے بنا ایزل اسٹینڈ اٹھا کر لائی اور وہ بھی جیسے تیسے بیرم کو پکڑایا اور خود باہر کی طرف بڑھ گئی۔ ایزل اسٹینڈ دراصل تین پایوں والا ، ایک قسم کا اسٹینڈ ہے جو مصوری کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

بیرم بےچارہ اس کی حرکت پر بھونچکا کر ہی تو رہ گیا تھا۔ آیت نے بڑی بے رحمی سے، اس پر اپنا سامان لادا تھا۔ خیر اب وہ کیا کرتا۔۔ چار و ناچار، اسے آیت کی تقلید میں چلنا پڑا۔ 

آیت پورچ میں اپنی سستی سی آلٹو کا دروازہ کھولے اس کی منتظر تھی، ایسا نہیں تھا کہ وہ بڑی اور مہنگی گاڑی افورڈ نہیں کر سکتی تھی، بس اسے بڑی گاڑی کی ضرورت نہیں تھی اور اس کی عادت تھی کہ وہ بلا ضرورت کوئی چیز نہیں لیتی ، وہ شو آف یا نمود و نمائش سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتی، اسی لیے اس کا طرز زندگی بے حد سادہ تھا۔

بیرم اس کا سامان لیے گاڑی کے دروازے کے آگے کھڑا تھا، آیت نے سوٹ کیس ، اس کے ہاتھ سے لیا اور اس کا ہینڈل اندر کر کے، ڈگی میں رکھا، اور باقی سامان پچھلی سیٹوں پر دھر دیا ۔ سامان کو ایک نظر دیکھتے ہوئے اسے اچانک کچھ یاد آیا۔ وہ بھاگ کر دوبارہ اپنے کمرے میں گئی اور اپنی الماری سے وہ فن پارے جنہیں اس نے ایک ساتھ ہی رول کر کے، ربڑ بینڈ سے محصور کیا تھا ، اٹھا کر لائی۔ وہ رول اس نے بڑی احتیاط سے ڈرائیونگ سیٹ کے ساتھ والی سیٹ پر رکھا، پھر بیرم کا روکھا سا شکریہ ادا کیا اور اگنیشن میں چابی گھما کر گاڑی اسٹارٹ کی۔ اس کا غصہ کافی حد تک اتر چکا تھا۔ 

"اب تو بتادو ، تم جاؤگی کہاں؟؟ اور رہنا کدھر ہے تم نے۔۔۔؟؟" بیرم ، کار کی ونڈو کے پاس جھکا پوچھ رہا تھا۔ وہ بھی ضدی تھا، اسے کچھ دیر پہلے کی عزت افزائی بھول چکی تھی یا پھر وہ یاد نہیں رکھنا چاہتا تھا، وہ شرمندہ تھا کہ اپنی دوستی کا حق نہیں ادا کر پایا۔ اس لیے اسے، آیت کی کسی بات کا برا نہیں لگا۔

"جہاں میں ہمیشہ جایا کرتی ہوں، اپنے ٹری ہاؤس میں رہوں گی۔" آیت نے ، اس کی طرف دیکھے بغیر خود پر سیٹ بیلٹ سیٹ کرتے ہوئے کہا۔

 بیرم کو پھر حیرت کا جھٹکا لگا۔

"تمہارا دماغ جگہ پر ہے؟؟ تم جنگل میں رہو گی، وہ بھی اکیلے۔۔۔؟؟" بیرم متفکر ہوا۔

"وہ جنگل اس حویلی سے زیادہ محفوظ ہے بیرم۔۔!! وہاں کوئی مجھے کسی شرابی کے ساتھ شادی کرنے پر مجبور نہیں کرے گا اور نہ کوئی کریکٹر لیس لڑکی میرا کردار داغ دار کرنے کی کوشش کرے گی۔ " وہ اپنے ہاتھ پر چڑھا ربڑ بینڈ اتار کر، اپنے خوبصورت گھنگھریالے بالوں کی پونی ٹیل بناتے ہوئے تلخی سے، حویلی والوں کے سب رویے جتلا گئی۔

بیرم ایک بار پھر شرمندگی محسوس کرنے لگا۔

"آج نہیں تو کل میں نے حویلی چھوڑنی ہی تھی۔۔ اس لیے تم فکر مت کرو۔" آیت نے اسے شرمندہ دیکھ کر تسلی دی۔ وہ بھی جانتی تھی کہ بیرم زیادہ قصور وار نہیں، وہ بھی مصلحتوں اور حالات کے تقاضوں کے آگے مجبور ہو کر اس کے لیے کچھ نہیں کر پاتا۔ وہ اپنی امی کے حکم کے آگے مجبور ہوتا ہے۔ وہ تو بس غصے میں اس نے ، بیرم کو کچھ زیادہ ہی سنا دیا۔ 

"لیکن۔۔ پھر بھی ، اس طرح اکیلے وہاں رہنا سیف نہیں۔۔!!" بیرم اپنے نکتے پر قائم رہا۔

"میں کوئی اور اچھی جگہ ملتے ہی وہاں سے شفٹ ہو جاؤں گی۔۔ تم ٹینشن مت لو، اب مجھے دیر ہورہی ہے، تم خیال رکھنا اپنا۔بائے۔" آیت نے سنجیدگی سے کہتے ہوئے، اپنی گاڑی بھگائی۔

"تم بھی اپنا خیال رکھنا، اللّٰه حافظ۔۔!!" بیرم پیچھے سے چلایا۔ اور اداس اداس سا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔

×××××××××××××××××××××××××××××××

عرشیہ نہا دھو کر آئی تو نانو نے عرشیہ کی مرغوب، شوربے والی چوری اسے کھلائی۔ اس کے بعد اسے سونے کے لیے لٹا دیا۔ دوپہر کا وقت تھا اور وہ دن کو لازمی سوتی تھی۔ اس کی نانو کمرے کی بتی بجھا کر باہر جا چکی تھیں۔ اصل میں انہیں اپنی کسی ملنے والی کے ہاں جانا تھا ، اس لیے آج وہ اس کے پاس رکی نہیں۔ عرشیہ نے بھی شکر منایا کہ وہ اس کے پاس نہیں۔ کیوں کہ آج وہ بالکل سونا نہیں چاہتی تھی اور اس کی نانو اسے سلا کر ہی دم لیتی ہیں۔ وہ بس سوچنا چاہتی تھی، جو وہ دیکھ کر آئی تھی۔ کہنے سننے میں بھلے اس منظر کی کوئی وقعت نہ ہو لیکن عرشیہ کے لیے وہ سب کسی قیمتی خزانے کی سی اہمیت رکھتا تھا۔ 

وہ نادر اور شمسہ ممانی کی جلی کٹی بھول بھال کر، بس اسی طلسم کو محسوس کر رہی تھی جو اس پر شدت سے طاری ہو چکا تھا۔ وہ انتہائی مستحکم اور مضبوط تصور لیے، اپنی تخیلاتی دنیا میں ایسی مگن تھی کہ گویا وہ منظر پھر سے اسی کی آنکھوں کے سامنے ناچ رہا ہو، وہ نیلی، سنہری اور فیروزی رنگ کی تتلیاں، اسے اپنے آس پاس ہی منڈلاتی محسوس ہوئیں۔

کوئی قوت تھی جو اس کی انگلیوں کے پوروں میں ہلچل مچا رہی تھی۔ وہ اپنی اس عجیب کیفیت کے زیر اثر اٹھی، اس نے وہ نیا نکور کلر باکس، جو اس کے ماموں اس کے لیے شہر سے لائے تھے، اپنی الماری سے نکالا۔ اس نے باکس کی پیکنگ کھولی، اس نے کبھی بھی ، زندگی میں کوئی ڈرائنگ، کوئی پینٹنگ نہیں بنائی تھی، نہ اسے شوق تھا، سو اس لیے اسے لگا کہ یہ رنگ اس کے کسی کام کے نہیں تبھی اس نے ، ان کو اپنی الماری کے ایک کونے میں پٹخ کر رکھ دیا۔

وہ موم کے بنے رنگ تھے جنہیں عرف عام میں کرےینز (crayons) کہا جاتا ہے۔ اس نے اپنی ایک فٹ اونچی ریک پر ترتیب سے سجائی گئی کتابوں میں سے ڈرائینگ بک نکالی۔ اس پر بھی اس نے آج تک ایک نقطہ تک نہیں لگایا تھا۔ وہ، یہ دونوں چیزیں لیے اپنے پلنگ پر آ کر بیٹھی، اور صرف ڈیڑھ گھنٹے کی محنت میں اس نے وہ سارا نظارہ من و عن کاغذ پر چھاپ دیا۔ کوئی رنگ ادھر سے ادھر نہیں ہوا، وہی لمبی سی چٹان ، جس کی تہہ میں سے ابلتے چشمے نے اپنی اطراف میں، نسبتاً گہری زمین پر پھیل کر، ایک چھوٹا ، خوبصورت تالاب بنا ڈالا تھا۔ وہ ہی چھوٹے چھوٹے پھول اور پتھر جنہوں نے تالاب کا احاطہ کیا تھا، وہی درخت جو اس تالاب اور ان پھولوں، پتھروں کے قریب ایسے تنے تھے کہ گویا ان کی حفاظت پر مامور ہوں، وہی ننھے پرندے جو ڈالیوں پر بیٹھے ان جھومتی تتلیوں کے رقص سے لطف اندوز ہورہے تھے، وہی رنگا رنگ تتلیاں جو عرشیہ کو اپنے حصار میں محصور کر گئی تھیں۔۔اور وہی عرشیہ جسے یہ نظارہ بے تحاشا بھایا تھا۔ اس نے ہر ایک چیز، اس کی تمام تر جزئیات کے ساتھ صفحہ قرطاس پر نقش کی اور رنگ بھی اپنی ممکنہ کوششوں کو بروئے کار لاتے، ویسے ہی استعمال کیے۔

کوئی اس تصویر کو دیکھ کر کہہ نہیں سکتا تھا کہ یہ کسی بارہ سال کی بچی کی تخلیق ہے۔ بلکہ وہ تو کسی منجھے ہوئے مصور کا شاہکار لگ رہا تھا۔ وہ سرشاری کی کیفیت میں ، اپنی تخلیق کو ستائشی نظروں سے دیکھ رہی تھی اور بڑے جوش سے اپنی ڈرائنگ بک اٹھاتے، بڑے ماموں کے کمرے کی طرف دوڑ لگائی۔ وہ بہت لاڈ کیا کرتے تھے اس سے۔ وہ جانتی تھی کہ بڑے ماموں ضرور خوش ہوں گے۔ وہ کلر باکس بھی تو بڑے ماموں ہی لائے تھے اس کے لیے۔

وہ خوشی سے جھومتی ہوئی ماموں کے کمرے کی طرف بڑھ رہی تھی کہ نادر بلا کی آمد ہوئی۔ اس سے ٹکراؤ کا صاف مطلب تھا کہ ان دونوں میں لازمی پنگا ہو گا۔ نادر نے سب سے پہلے تو ڈرائنگ بک اس کے ہاتھ سے کھیچنے کی کوشش کی، عرشیہ نے زوردار دھکے سے ، اسے پیچھے دھکیلا، جس پر نادر کو مزید تاؤ آیا، وہ باقائدہ  مقابلے پر اتر آیا تھا۔

دونوں نے کھینچا تانی کے ساتھ ساتھ شور و غل بھی  جاری رکھا، رفعت ممانی انہیں روکنے کی غرض سے وہاں آئیں، ماریہ بھی تماشے کے مزے لوٹنے وہاں پہنچی ، ان دونوں کی مداخلت سے نادر کو یہ فائدہ ہوا کہ وہ بک اس کے ہاتھ لگ گئی۔ اس نے کھول کر پہلا صفحہ دیکھا تو وہی تصویر سامنے تھی۔ اس نے ایک نظر عرشیہ کے ہاتھ دیکھےجہاں کہیں کہیں لگے رنگوں کے دھبوں سے یہ پتہ چلتا تھا کہ وہ تعجب خیز حد تک کمال تصویر اسی نے بنائی ہے۔ اور پھر تصویر کو دیکھنے لگا، وہ تصویر ، وہ فن پارہ اسے دنگ کردینے کے لیے بہت تھا، اس نے زندگی تو کیا تصور میں بھی ایسی خوبصورت شے کا خیال تک نہیں کیا۔  چونکہ شور کی جگہ خاموشی نے لی تھی سو رفعت ممانی بھی وہاں سے چلی گئیں۔ انہیں شور بند کروانے سے مطلب تھا نہ کہ جھگڑا سلجھانے سے۔ ماریہ اور عرشیہ دونوں ہی نادر کو گھور رہے تھے، بس فرق یہ تھا کہ عرشیہ بے بسی سے اور ماریہ شوق سے نادر کو ملاحظہ کر رہی تھی، عرشیہ اس کو اس قدر غور سے ڈرائنگ دیکھنے میں محو پا کر الجھی جبکہ ماریہ اس کی کسی بھی قسم کی پیش رفت کے متعلق متجسس تھی۔ وہ جھگڑا ختم کر کے، وہ بک اسے لوٹانے لگا تھا کہ ماریہ نے وہ جھپٹ لی اور لمحے کی دیر کیے بغیر وہ صفحہ نوچ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ 

عرشیہ ہکا بکا رہ گئی، نادر نے پہلی دفع اس سے رعایت برتنا چاہی تھی پر ماریہ نے سب کام خراب کردیا۔ ماریہ اپنے کارنامے پر خوش ہوتی وہاں سے دفع ہوئی جبکہ نادر نے اس پر افسوس کرتے اور شرمندگی سے نظریں چراتے ہوئے، کچھ کہے بغیر ہی وہاں سے غائب ہوا۔ وہ دونوں اپنا کام دکھا کر بھاگ گئے تھے، پیچھے عرشیہ اپنے امڈتے آنسوؤں کو ہتھیلی سے رگڑتے ، وہ ٹکڑے اکھٹے کر کے روتی ہوئی اپنے کمرے میں گئی۔ وہ سارا دن روتی رہی ، اس نے اپنی نانو کے بار بار پوچھنے پر بھی ان کو وجہ نہیں بتائی۔ اس نے وہ ٹکڑے کہیں چھپا کر رکھے تھے، وہ انہیں پھینک نہیں سکتی تھی ناں۔۔ وہ کیسے انہیں پھینک دیتی۔۔!! وہ اس وقت بے تحاشا دکھ محسوس کر رہی تھی اسی لیے وہ یوں ہی بلک بلک کر آنسو بہاتی رہی۔

کیا تھی وہ۔۔؟؟ ایک معصوم بچی۔۔!! جسے اسی کی عمر سے تھوڑے سے بڑے،  دو بدتمیز بچوں نے رلایا تھا۔ وہ اس کی پہلی تخلیق تھی، پہلی تخلیق تو یاد گار ہوا کرتی ہے۔ انہوں نے اس کی پہلی تخلیق کا ستیاناس کر ڈالا تھا۔ ابھی تو اس نے کسی کو دکھائی بھی نہیں تھی۔ اپنے ماموں سے داد بھی نہیں وصول کی۔ ابھی تو وہ اپنے کام پر بھرپور طریقے سے خوش بھی نہیں ہوئی تھی کہ اس کا سارا کام، ساری محنت غارت کر دی گئی۔  اس کی محنت ضائع ہونے کی تڑپ بھلا کون محسوس کر سکتا تھا۔۔!! سوائے اس کے، کون اس معصوم کی تکلیف سمجھتا۔۔!! وہ اس وقت ان دونوں کے لیے شدید گھن محسوس کر رہی تھی۔۔ برے تو وہ، اسے ویسے ہی لگتے تھے۔۔۔  لیکن عرشیہ کے لیے اب وہ قابلِ نفرت بھی تھے۔ ایسی نفرت کے قابل جس میں کبھی کوئی کمی نہیں واقع ہونی تھی۔ جس نے وقت گزرنے کے ساتھ بس گہرا ہونا تھا۔ اتنا تو حق بنتا تھا ناں اس کا کہ وہ اپنا حق مارنے والوں سے بغض رکھ سکے۔۔!! ان سے نفرت کر سکے۔

~دروازوں پر پڑے ہوئے تھے ڈھیر شکستہ خوابوں کے

   دالانوں میں نفرت کے آسیب نے ڈیرا ڈالا تھا

اتنا تو حق بنتا تھا ناں اس کا کہ وہ اپنا حق مارنے والوں سے بغض رکھ سکے۔۔!! ان سے نفرت کر سکے۔

~دروازوں پر پڑے ہوئے تھے ڈھیر شکستہ خوابوں کے

   دالانوں میں نفرت کے آسیب نے ڈیرا ڈالا تھا

×××××××××

یلماز نے پورے چوبیس گھنٹے، انکل کی جان سولی پر لٹکانے کے بعد اپنا فیصلہ سنایا۔ وہ انگلینڈ جانے کے لیے تیار تھا پر ساتھ ہی اس نے ایک شرط بھی رکھی۔ اور  شرط پوری کرائے بغیر ملک سے باہر جانا تو دور کی بات وہ شہر سے باہر قدم رکھنے پر راضی نہیں تھا۔ اب فیصلہ کرنے کی باری انکل رابرٹ کی تھی، بے شک وہ پاکستان میں پیدا نہیں ہوئے پر انہیں اس جگہ سے محبت تھی، عقیدت تھی، ایسے کیسے وہ ہمیشہ کے لیے، یلماز کی شرط پوری کرنے کی خاطر، پاکستان چھوڑ کر واپس انگلینڈ ہی شفٹ ہو جاتے۔ انہوں نے متذبذب ہو کر سوچا اور یلماز پر بھی اپنا خیال آشکار کیا۔ " کم آن انکل، سالوں پہلے آپ اپنا ملک، اپنی فیملی بھی تو چھوڑ کر یہاں آئے تھے۔ اب آپ کو واپس جانے کے لیے کیوں اتنا سوچنا پڑے رہا ہے۔" یلماز ان کی ہمت بندھا رہا تھا۔

"لیکن بچے۔۔!!" وہ ابھی کچھ کہنے لگے تھے کہ یلماز نے بات کاٹی۔

"لیکن ویکن کچھ نہیں، بس میں پہلے ہی آپ کی فیملی کا کافی حق غصب کر چکا ہوں، اب اور نہیں۔" اس نے بہت ہی ہلکے پھلکے انداز میں، بات کو مزاح کا رنگ دیتے ہوئے کہا۔ اگر وہ سنجیدگی سے کہہ دیتا تو شاید انکل کی سالوں پر محیط، بے لوث محبت، پیار اور خلوص سے کی گئی پرورش کی قدر گرا بیٹھتا۔ اس کے ذرا سے سخت لہجے سے یہ تاثر پیدا ہوتا کہ وہ سب جو انکل اس کے لیے پورے دل سے کرتے آ رہے تھے وہ اسے خود پر بوجھ سمجھتا ہے۔ حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی، وہ انکل کو بالکل اپنے ڈیڈ کی طرح چاہتا تھا۔ اور انکل کے ہر احسان کی دل قدر کرتا تھا۔ہاں، اپنی ضدیں اور شرطیں پوری کرانے والا معاملہ الگ تھا مگر وہ ان سے بات کرتے ہوئے ، بعض اوقات معمولی سے معمولی چیزوں کا خیال رکھتا، وہ احتیاط کرتا کہ کہیں اپنے کسی رویے سے ان کو تکلیف نہ پہنچا بیٹھے۔ وہ محتاط رہتا کہ کہیں احسان فراموشی کا مرتکب نہ ہو۔ 

××××××××××

آیت ایک پیٹرول پمپ پر فیول ڈلوانے کے لیے رکی۔ اسی دوران اس نے رشنا کو فون ملا کر کسی مناسب سے ہوٹل میں روم ارینج کرانے کا بولا، اسے بھوک لگی تھی سو وہیں پمپ پر موجود ٹک شاپ سے اپنے لیے کچھ چیزیں لیں، انہیں کھانے کے بعد اس نے کچھ دیر رشنا کے میسج کا انتظار کیا اور ایڈریس ملتے ہی وہ ،اس لوکیشن پر پہنچنے کے لیے روانہ ہوئی جہاں اس نے قیام کرنا تھا بیرم کو تو وہ ایسے ہی جنگل میں رہنے کا بول کر آ گئی تھی ورنہ جنگل رہنے کے لیے تھوڑی ہوتا ہے۔وہاں، وہ تو بس سکون کی خواہش میں چند لمحے امن اور آسودگی کے گزارنے کی غرض سے جایا کرتی تھی۔ 

رشنا کے بتائے ایڈریس پر پہنچ چکی تھی، ہوٹل دیکھنے میں اچھا تھا، وہ اپنے بک کروائے گئے کمرے کی چابی ، ریسیپشن سے لیتی ہوئی سیدھا کمرے میں گئی۔ اپنا سامان وہاں رکھا اور بیڈ پر ڈھے گئی، وہ تھوڑی دیر سستانا چاہتی تھی ، آرام کرنا چاہتی تھی، پر اس سے ہو نہیں پایا۔ اور ہو بھی کیسے پاتا، اس کا جنگل، اس کا ٹری ہاؤس، اس کی تتلیاں انتظار جو کررہی تھیں، اتنے دن ہو چکے تھے، وہ وہاں گئی بھی تو نہیں تھی۔ یہ سوچتے ہوئے اس نے آرام کا ارادہ ترک کیا اور اپنی گاڑی کی چابیاں، اٹھاتی ہوٹل کی پارکنگ میں چلی آئی۔  

کار کا ڈور کھولتے ہوئے، اس کی نظر کسی اور گاڑی سے نکلتے ہوئے کپل پر رکی، اسے ایک لمحہ لگا تھا پہچاننے میں، اس بے ہودہ سی لڑکی کے ساتھ چلنے والا وہ رف سے حلیے میں موجود، خوبرو شخص نادر تھا۔ جسے دیکھ کر اسے بےتحاشہ گھن محسوس ہوئی۔ "غلیظ آدمی۔" اس نے جملہ کسا۔ "بھاڑ میں جائے ایسا حسن جو اچھے کردار کی نعمت سے محروم ہو۔" جب بھی نادر کا بلا کا خوبصورت چہرہ، وہ پر کشش، آنکھیں، وہ مخمور کر دینے والی شخصیت ، آیت کو اپنی طرف متوجہ کرتیں، وہ یہ جملہ بول کر ، اپنی غلطی کا ازالہ ضرور کرتی۔ نادر کی کوئی تعریف کرنا ، اس کے لیے کسی گناہ کے جیسا تھا۔ اسے شدید کراہیت محسوس ہوتی تھی اس شخص سے۔ ویسے بچپن کی نسبت ، اب وہ واقعی پیارا ہو گیا تھا۔ پر اس کے وجود پر لگے بداعمالیوں کے داغ، اسے برا بنا دیتے تھے، اس کا حسین چہرہ یک لخت مکروہ ہو جاتا۔ 

وہ اپنی کار پارکنگ سے نکال کر سڑک پر لا چکی تھی۔ "کیوں آیا ہو گا وہ یہاں۔۔؟؟" اس نے خود سے سوال کیا۔ حیرت کی بات تھی، وہ اس کے بارے میں سوچنے رہی تھی۔ "ضرور رنگ رلیاں منانی ہوں گی۔۔ بس اسی چیز کی تو کمی رہ گئی تھی۔۔" وہ بغیر کوئی لحاظ کیے، الٹے سیدھے گمان کر رہی تھی، پتہ نہیں کیا ہوا تھا اسے۔۔ وہ اس کے لیے غلط سے غلط بات سوچنے سے بھی نہیں کترائی۔ لاتعداد برائیوں اور بے تحاشا گناہوں کے باوجود بھی، وہ کردار سے اس حد تک نہیں گرا تھا کہ کسی غیر محرم کے ساتھ وہ سب کرتا، جس کا الزام، آیت نے اپنے اندازے کے طور پر، اس پہ دھرا تھا۔ اسے وہ اس لڑکی کے ساتھ بالکل اچھا نہیں لگا اور نہ وہ لڑکی اس کے ساتھ اچھی لگی۔ تبھی ، اس نے ناحق ہی رنگ رلیاں منانے والی رائے قائم کی۔ وہ بے چارہ تو بس اس لڑکی کو کھانا کھلانے لایا تھا۔

پر آیت کہاں باز آنے والی تھی، وہ ٹھہری ایک سائیکو پیتھ، ایک انتہائی عجیب ذہنی حالت کی حامل لڑکی۔ وہ شخص جس کو وہ حد درجہ حقیر سمجھتی ، اس کے بات کرنا، سننا تو دور کی بات، وہ اس کے بارے میں کچھ سوچنا بھی جرم تصور کرتی ، آج اپنے دماغ میں ابلتی سوچوں کے ہاتھوں مجبور، صرف اسی تخیل میں مگن تھی، اسے ہی اپنی سوچوں کا مرکز بنائے ہوئے تھی۔

اور یہ سلسلہ جاری رہا، جب تک کہ وہ واپس اپنے گاؤں نہیں پہنچی۔ اس کا محبوب جنگل وہیں تو تھا، اس کی حویلی کے عقب میں۔ 

ان کی حویلی گاؤں کے آخری کنارے پر موجود تھی۔۔ حویلی کی پچھلی دیوار کے دائیں بائیں، تا حدِ نظر، پتھر ہی پتھر تھے، وہ پتھر اتنے بڑے تھے کہ کوئی انہیں آسانی سے عبور نہیں کر سکتا تھا۔ اس پتھریلے سلسلے کے وسط میں ہی آیت کی حویلی موجود تھی، جس کی دیوار ٹاپ کر با آسانی جنگل میں جایا جا سکتا تھا۔ پر وہ حویلی کی دیوار تھی نہ کہ جنگل آنے جانے کا راستہ تبھی آیت نے ایک متبادل راستہ ڈھونڈ رکھا تھا، وہ وہیں سے جنگل آتی جاتی تھی، پر راستہ ایسا تھا کہ گاڑی اندر نہیں جاسکتی تھی اس لیے اسے اندر پیدل ہی جانا پڑتا تھا جو اس کے لیے باعث لطف تھا۔

وہ مخصوص جگہ پر گاڑی کھڑی کرکے  اندر بڑھی۔ ایک سرور اس کی رگ و پے میں دوڑا۔ وہ تیزی سے قدم اٹھاتی اپنی مطلوبہ جگہ پر جلد سے جلد پہنچنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس مانوس سے ماحول نے اس کے موڈ پر اچھا اثر ڈالا تھا۔ وہ خوبصورت قد آور درخت، مٹی ، کنکر اور خشک پتوں سے ڈھکی روش، اور پھر ایک چوڑے سے درخت کے مظبوط تنوں پر بنا ، اس کا گول سا ٹری ہاؤس۔۔۔ اس کے لیے یہ دنیا کی سب سے خوبصورت اور سب سے پرسکون جگہ تھی۔وہ بہت شوق سے ٹری ہاؤس کے ساتھ لگی، لڑکی کی سیڑھیوں کے ذریعے اوپر چڑھی، اس نے اپنے کندھوں سے بیگ اتارا۔۔ پیروں سے جوتے اتارے اور نیچے بچھے، سرمئی رنگ کے نرم گدے پر سہولت سے بیٹھی۔ وہ اس شیشے کی بنی گول ہی کھڑکی سے باہر جھانک رہی تھی۔ ڈھلتی شام نے ہر چیز پر ایک نیا حسن طاری کیا تھا۔ وہ اپنی ہر ٹینشن ، ہر سوچ، ہر خیال بھلائے بہت پرسکون تھی۔

××××××××

"کہاں ہے وہ لڑکی؟؟ اس کو بولو کھانا کھانا ہے تو ابھی آکر کھالے، بعد میں کچن میں ہاتھ مارتی ہوئی نظر آئی تو اچھا نہیں ہوگا، وقت کی پابندی کا کوئی احساس نہیں، اوروں کو باتیں سنانی آتی ہیں بس۔۔" وہ دوپہر سے ہی کسی کو حویلی میں نہیں نظر آئی تھی، شمسہ بیگم نے اس کی غیر موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے بیرم کو کہا۔

"وہ چلی گئی ہے۔۔؟؟" بیرم پیلٹ پر نظریں گاڑے، نوالہ بناتے ہوئے بولا۔

"کہاں گئی ہے؟؟ اپنے جنگل میں؟؟ اپنی حرکتوں پر تو اس کی نظر جاتی نہیں، خود کو دیکھا ہے، کس قدر آوارہ ہے، آئی بڑی میرے بچے کو آوارہ کہنے والی۔۔!!" شمسہ بیگم نے اپنی بھڑاس نکالی۔

"وہ حویلی چھوڑ کر چلی گئی ہے۔" بیرم سلگ کر بولا۔ آیت کے خلاف ، وہ کم ہی کچھ برداشت کر پاتا تھا۔

"حویلی چھوڑ کر چلی گئی۔۔ پر کہاں۔۔؟؟" ملیشہ بیگم کا ماتھا ٹھنکا تھا۔

رفعت بیگم بھی حیران تھیں۔

"پتہ نہیں،" بیرم نے انجان بن کر بات ہی سمیٹ ڈالی۔ ماریہ اسے کھوجتی نظروں سے گھور رہی تھی، اس نے دیکھا تھا جب وہ جاتے جاتے بھی اس کے پاس کھڑا ساری تفتیش کر رہا تھا۔ جو موضوع کھانے کی میز پر موجود ساری عورتوں کے درمیان چھڑنے والا تھا، وہ بیرم کی دلچسپی کے سراسر برعکس تھا، شدید بھوک کے باوجود بھی وہ کھانا چھوڑ کر وہاں سے جا چکا تھا۔

"توبہ، کدھر چلی گئی یہ لڑکی۔۔ اور اللّٰه جانے کیا کرے گی۔۔!!" ملیشہ بیگم نے پریشانی کا اظہار کیا۔

"ہماری طرف سے بھاڑ میں جائے، آپ کیوں ٹینشن لے رہی ہیں؟؟ کیا پتہ کوئی یار دوست بنا رکھا ہو اس نے شہر میں ،  وہ گھر میں کبھی ٹکتی بھی تو نہیں ہے۔ " ماریہ نے لاپروائی سے کھیرا چباتے ہوئے جواب دیا۔

"تم تو چپ کر کے بیٹھو، ہمیں اچھی طرح پتہ ہے، یار دوست بنانے کی عادت کس کی ہے۔۔ بھلے وہ لاکھ بدزبان، چڑچڑی یا بدتمیز ہو، پر وہ ایسی نہیں ہے۔" شمسہ بیگم کے منہ سے بے اختیار نکلنے والے الفاظ نے، ان سمیت سب کو حیران کیا۔ 

وہ ماریہ کی غلطی ابھی تک معاف نہیں کر پائی تھیں۔

"کر لیں چاپلوسی اس کی، مجھے پتہ ہے، گھی سیدھی انگلی سے نہیں نکل رہا ناں ، اس لیے آپ چاپلوسی سے کام لینے لگی ہیں، ڈر ہے آپ کو کہ کہیں وہ اس حویلی میں سے، دادا، دادو اور پھوپھو کی جائیداد میں سے حصہ نہ مانگ لے، چھوڑنے والوں میں سے تو ہے نہیں وہ، اسی لیے اس کی سائیڈ لے رہی ہیں ناں،" ماریہ نے لحاظ کی حدود پھلانگتے ہوئے زہر اگلا۔

شمسہ بیگم منہ کھولے ، حیرانی سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ 

ملیشہ اور رفعت کو بھی اس کی بدزبانی پر تاؤ آیا۔

"مجھے تو لگتا ہے، آپ اپنی اور اپنے بیٹے کی بےعزتی کرانے کے باوجود بھی ، اسے اپنی بہو بنانے کی خواہش مند ہیں۔ خیر آپ لوگ ڈیزرو کرتے ہیں کہ وہ جونک نما ، خون چوسنے والی لڑکی آپ کے متھے لگے۔" ماریہ ان کی خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پھر سے بولی، اور پھر وہ بھی وہاں سے اٹھ کر چلی گئی۔

شمسہ بیگم ، اپنے ہاتھ کھانے سے کھینچتے ہوئے سر تھام گئیں۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیں۔ ان کی اپنی اولاد، جس کی ہر جائز ناجائز کو وہ بچپن سے پورا کرتی آئیں تھیں، وہ ہی انہیں ایسی باتیں سنا رہی تھی۔ ان کا دکھ کے مارے برا حال تھا۔ ملیشہ اور رفعت نے انہیں سنھبالنے کی کوشش کی۔

وہ دونوں انہیں، ان کے کمرے تک لے کر گئیں اور کچھ دیر دلاسہ دینے کے بعد ایک ساتھ ہی باہر نکلیں۔ "شکر ہے اللّٰه کا، ہماری اولاد نہیں، ایسی اولاد سے تو بندہ بے اولاد ہی اچھا ہے۔" ملیشہ بیگم نے کہا۔ وہ جو ساری عمر اولاد کی نعمت کو ترستی آئیں تھیں وہ ایسی بات کہہ گئیں، رفعت کو خاصہ تعجب ہوا۔ اولاد تو رفعت بیگم کی بھی نہیں تھیں۔ لیکن اس سارے معاملہ نے، ان کے ذہن کے کسی اور ہی گوشے کو روشن کیا تھا۔

"بھابھی، آپ یہ چھوڑیں، اور یہ سوچیں کے ہمارا کیا ہوگا۔ وہ تو اس معصوم مسکین بچی کے ساتھ بدسلوکی کا خمیازہ اس دنیا میں بھگت رہی ہیں، ہم نے بھی تو کبھی اس کو اپنائیت نہیں دی، ساری زندگی اللّٰه سے سگی اولاد کا مطالبہ کیا، کیا ہوتا کہ اسی کو اپنی بچی سمجھ لیتے۔ شمسہ بیگم کا حساب کتاب شروع ہو چکا، میں سوچ رہی ہوں ہمارا کیا بنے گا، کل کو کیا منہ لے کر جائیں گے اللّٰه کے سامنے۔" رفعت بیگم لرز کر رہ گئی تھیں۔ ان کی بات نے ملیشہ کو بھی سوچنے پر مجبور کیا۔

××××××××××××××××××

آیت رات اپنے ٹری ہاؤس میں گزارنے کے بعد ، صبح صبح ہی ہوٹل واپس آ چکی تھی۔ وہ جمائیاں لیتے ہوئے اپنے کمرے کے کی ہول میں چابی گھماتے دروازہ کھول ہی رہی تھی کہ اسی لائن میں تین کمرے چھوڑ کر دو لوگ کمرے سے باہر نکلتے دکھائی دیے۔ اگر اس کی آنکھیں دھوکا نہیں کھا رہی تھیں تو وہ وہی دو لوگ تھے، نادر اور وہ لڑکی۔ آیت نے حیرت سے انہیں دیکھا، نادر بھی اسے دیکھ چکا تھا، اور اس کے تاثرات سے اندازہ لگا چکا تھا کہ اس وقت وہ کیا سوچ رہی ہے۔ اپنی صفائی میں کہنے کو کچھ تھا نہیں اس کے پاس تبھی وہ اسے نظر انداز کرتا ، اس لڑکی کے ساتھ چلا گیا۔

اس سب نے آیت کو بری طرح ڈسڑب کیا تھا۔ اس نے محض الزام لگایا تھا ناں، وہ جانتی تھی کہ اس کا الزام کس قدر سطحی تھا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اس کا کزن ، حویلی والوں کا سب سے بڑا بیٹا کچھ ایسا ویسا کرے گا۔ ہاجرہ خاتون کی وفات کے بعد تو حویلی ویسے ہی اپنا مرتبہ کھو چکی تھی، وہ لوگ گاؤں کے بڑے بے شک نہ تھے پر ہاجرہ خاتون کی اور ان کے خاندان کی چار لوگوں میں کچھ عزت تھی، جسے ان کی اولاد کی اولاد نے مٹی میں ملانے کی اپنے تئیں ساری کوششیں کر ڈالی تھیں۔ شمسہ بیگم کی اولاد نے تو خصوصاً، حویلی کا نام بدنام کرنے کی قسم ہی اٹھا لی تھی۔ آیت ہر چیز سے بری طرح ڈسڑب تھی۔ اسے لگ رہا تھا کہ وہ پاگل ہو جائے گی۔

پچھلے کچھ دنوں سے وہ ویسے ہی اس کا ذہن بکھرا ہوا سا تھا۔ پھر آج اور کل کے دن نے تو رہی سہی ذہنی آسودگی کو کہیں دفن ہی کر ڈالا تھا۔ وہ بہت پریشان تھی۔ اسے سمجھ نہیں آئی کہ وہ کیوں پریشان ہے۔ اس کا دل مچل رہا تھا۔ اسے لگا کہ جیسے کوئی بہت بڑی تبدیلی، کوئی بہت بڑا بدلاؤ رونما ہونے والا ہے۔ وہ بے قرار سی تھی، اسے ایسا لگا کہ اس کی زندگی کا کوئی پراسرار باب شروع ہونے والا ہے، اس کی ذات زندگی کے کسی نئے دور میں، کسی نئے پہر میں داخل ہونے والی ہے۔

بہت کچھ تھا ، اور نجانے وہ بہت کچھ ،  کیا تھا ، جس نے اس کی روح کو بےتاب کرڈالا تھا۔

اس کا دل مچل رہا تھا۔ اسے لگا کہ جیسے کوئی بہت بڑی تبدیلی، کوئی بہت بڑا بدلاؤ رونما ہونے والا ہے۔ وہ بے قرار سی تھی، اسے ایسا لگا کہ اس کی زندگی کا کوئی پراسرار باب شروع ہونے والا ہے، اس کی ذات زندگی کے کسی نئے دور میں، کسی نئے پہر میں داخل ہونے والی ہے۔

بہت کچھ تھا ، اور نجانے وہ بہت کچھ ،  کیا تھا ، جس نے اس کی روح کو بےتاب کرڈالا تھا۔

وہ یوں ہی مضطرب سی، اٹھی، اس نے وہ ڈبہ کھولا جس میں اس کے آلاتِ مصوری موجود تھے، اس نے وہ ایزل اسٹینڈ کھڑا کیا، اس پر پردۂ نقاشی (کینوس) صحیح سے بٹھایا، چند ٹیوبز کھول کر، کلر پیلٹ پر انڈیلیں، وہ ہاتھ میں برش پکڑے، اپنے تڑپتے وجود کو کسی طرح وہاں کھڑا کیے کچھ پینٹ کرنا چاہتی تھی۔ مگر وہ کچھ پینٹ نہ کر پائی۔ لیکن اسے کچھ پینٹ کرنا تھا، ایک ان دیکھی قوت اسے مجبور کر رہی تھی وہ کچھ پینٹ کرے ، ظاہر ہے، اللّٰه نے اسے مصوری کا ہنر بطور سپر پاور ، عطا کیا تھا۔ وہ کوئی عام مصورہ نہیں تھی۔ اس کا تمام  کام اس کی خدا داد صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت تھا۔

 اس نے بے بسی سے وہ برش ، کلر پیلٹ وہاں رکھی جہاں باقی سامان کھلا ہوا موجود تھا۔ وہ بے جان، سی ہوتی ہوئی فرش پر بیٹھتی چلی گئی۔ ایسا نہیں تھا کہ یہ پہلی دفع  ہوا ہو یا وہ ایسی کیفیت سے پہلے کبھی دوچار نہ ہوئی ہو۔ یقیناً وہ اس کیفیت سے پہلے کئی مرتبہ گزری تھی پر نجانے کیا تھا , یہ کیفیت اور اسے برداشت کرنے کا مرحلہ اس کی یاداشت میں محفوظ نہیں تھا۔ وہ اس حالت سے گزری  بھی تھی تو اسے یاد نہیں تھا۔ اور حقیقت تو یہ تھی کہ وہ پہلے بھی دس مرتبہ اسی حالت سے گزری تھی، لیکن پتہ نہیں ایسا کیا ہوتا تھا کہ وہ یہ سب اتنی مشکل سے برداشت کرنے کے باوجود بھی بھول جاتی۔ سننے میں یہ عجیب اور ناقابل یقین بات لگتی ہے، مگر اس کے ساتھ ایسا ہوتا تھا۔

وہ یوں ہی بلکتے ہوئے، اپنے حویلی چھوڑنے والے فیصلے پر از سر نو ، غور و خوض کرنے لگی تھی۔ آخر ایسا کون کرتا ہے۔۔؟ خصوصاً روتے ہوئے ایسی باتیں کون سوچتا ہوگا ، سوائے آیت کے، وہ تھی ہی ایسی ، یوں ہی تو اسے عجیب ذہنی حالت کی حامل  لڑکی نہیں لکھا گیا۔۔ وہ اس قدر منتشر اور بکھری ہوئی حالت میں بھی پورے سلیقے سے سوچ رہی تھی کہ آخر وہ حویلی چھوڑ کر ہی کیوں آئی ہے، حالانکہ وہ حویلی اس کی ہے، اس کی ماما کی، اس کی نانو کی، پھر وہ کیوں چھوڑ کر آئی ہے، اور کیا وہ اب تک اتنی کمزور ہے کہ اپنی ممانی کے ایک فیصلے کے اظہار سے ڈری ہے، یا ماریہ کا لگایا گیا بےبنیاد الزام اتنا طاقتور تھا کہ اسے،ا سی کی حویلی سے دور جانے پر آمادہ کر بیٹھا۔ 

ایسی کوئی بات نہ تھی، ان دونوں وجوہات میں ذرا بھر بھی سچائی نہ تھی، تو پھر آخر اس نے ایسا کیا ہی کیوں۔۔؟؟ یہ سوال اسے لاجواب کر گیا۔ وہ خود مختار تھی، اب وہ اس قابل تھی کہ کوئی اسے دبا نہیں سکتا، جب تک وہ خود اگلے کو اتنی ڈھیل نہ دے۔ پھر حویلی چھوڑنے کی تو کوئی تک ہی نہیں بنتی تھی۔

اسے تین دن لگے تھے، وہ ان تین دنوں میں مسلسل یہی چیز سوچتی رہی، وہ ان تین دنوں میں کمرے سے باہر تک نہ نکلی، ورنہ آیت سے تو ایک دن بھی ایسا نہیں گزارا جاتا تھا جس میں وہ باہر کی ہوا نہ کھائے۔ فون اس نے بند کر رکھا تھا، اس لیے کسی سے رابطہ بھی نہیں ہوا۔ بالآخر، وہ تین دن ، شدید کشمکش کی حالت میں گزارنے کے بعد فیصلہ لے چکی تھی۔

×××××××××××××××××××××××

اس نے فون آن کیا تھا تو بیرم اور رشنا کے ڈھیر سارے میسینجز موصول ہوئے۔  وہ بیرم کے میسجز کو نظر انداز کرتے رشنا (آیت کی اسسٹنٹ) کے میسجز کی طرف متوجہ ہوئ۔ جانتی تھی بیرم اس کی خیر خیریت معلوم کر رہا ہوگا اور ایسے تین دن تک غائب رہنے پر فکرمندی سے بھرپور سوال و جواب کیے ہوں گے سو اس نے نظر انداز کرنا بہتر سمجھا، اس نے سوچا تھا کہ وہ اسے چھوٹا سا سرپرائز دے گی۔ 

رشنا نے بالٹن (Bolton) میوزیم میں لگنے والی دنیا کی سب سے بڑی ویژول آرٹ (visual art) کی نمائش کی معلومات سے آگاہ کیا تھا۔ آیت اس سال اس نمائش میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتی تھی۔ بالٹن میوزیم ایک شاندار عجائب گھر ہونے کے ساتھ ساتھ، ایک کمال آرٹ گیلری کا حامل بھی تھا۔ آیت نے سوچا تھا کہ وہ وہاں سالانہ نمائش میں حصہ لے کر، ایک دنیا کو اپنے کمالات سے بھرپور، فن کے سحر میں جکڑے گی۔ مکمل معلومات پڑھ لینے کے بعد اس نے رشنا کا رسمی سا شکریہ ادا کیا۔ اور ایک بار پھر اپنا تمام سامان سمیٹ کر اپنی گاڑی میں ٹھونسا۔

وہ ہوٹل کے سارے واجبات ادا کر کے باہر پارکنگ میں آئی تھی۔ اسے نمائش کے لیے کچھ نیا تخلیق کرنا تھا۔ اس نے اپنے پاس موجود پہلے سے بنی پینٹنگز نمائش میں پیش کرنے کا سوچا ، پھر اسے یاد آیا کہ وہ تو وہاں انہیں پیش کر ہی نہیں سکتی۔ کیوں کہ پاکستان میں آیت ، اپنی مصوری کے بل بوتے پر اتنی معروف تھی کہ اس کے قدردان، اس کے بنائے گئے فن پارے، بننے سے پہلے ہی انہیں خرید لیا کرتے تھے۔ سو اسے ہر حال میں نئی پینٹنگز بنانی تھیں۔

ویسے اس کے فن پاروں کے خریدار صرف اس کے کام کی حیثیت سے جانتے تھے، اس نے دنیا پر یہ بات عیاں نہیں کی تھی کہ آیت کون ہے؟ کیسی دکھتی ہے؟ بہت کم لوگ تھے جو آیت کو اس کی اپنی ذات اور شخصیت کے اعتبار سے جانتے پہچانتے تھے، ورنہ وہ گمنامی کے لبادے میں لپٹی ناقابل یقین حد تک معروف مصورہ تھی۔

×××××××××××××××××××××

وہ زور زور سے چلاتے اور بار بار پیچھے مڑ کر دیکھتے ہوئے بھاگ رہی تھی کہ یک دم کسی سے ٹکرائی، اس کا منہ جا کر یلماز کے سینے پر لگا تھا، وہ بوکھلائی تھی پر پیچھے ہٹنے کی بجائے اس شخص سے لپٹ گئی، "پلیز، سیو می۔۔!!" وہ اس کے سینے سے لگی ابھی بھی چیخ رہی تھی۔ اگلا شخص، اس کے اس اقدام پر خوب بوکھلاہٹ کا شکار ہوا۔ وہ تو قصداً، کسی لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے سے بھی احتیاط برتتا تھا یہاں کوئی لڑکی اسی کے سینے سے لپٹی تھی۔ اس نے کوشش کر کے اسے ہٹایا، وہ معاملہ سمجھ چکا تھا۔۔ وہ اسے لے کر دیوار کے ساتھ ہوا، اب وہ ڈر کے مارے اس کے پیچھے چھپی تھی۔ یلماز نے نیچے سے بٹا اٹھا کر، ان دونوں کی طرف بڑھتے کتے کو ڈرایا،  کتا ان کی طرف آنے کی بجائے ، سائیڈ پر دوڑتے ہوئے بھاگ نکلا اور آیت کی جان میں جان آئی۔

"آ آئم۔۔ سو۔۔ سو سوری۔۔!!" آیت اٹکتے ہوئے بولی۔ وہ اپنی حرکت پر شرمندہ تھی۔ وہ یلماز کے وجیہہ چہرے پر نظریں گاڑھے بولی۔ حالانکہ شرمندگی کے بوجھ تلے دبا انسان، آنکھ اٹھا کر بات کرنے کی ہمت نہیں رکھتا اور وہ محترمہ نظریں گاڑھے، اپنی صفائی دے رہی تھی۔ وہ چاہ کر بھی اس کے چہرے سے نظر نہیں ہٹا پائی۔ اس نے اس کو کبھی نہیں دیکھا تھا، نہ ہی وہ ملی تھی، وہ اس کے لیے بالکل اجنبی تھا۔ اور آیت عموماً کسی اجنبی کے ساتھ ایسا رویہ روا نہیں رکھتی تھی، پھر بھی وہ یلماز کو دیکھتی گئی۔ وہ دیکھنے میں  خوبصورت مگر عام سا بندہ تھا پر آیت کو پل بھر میں  اپنا گرویدہ کر گیا۔ اسے دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ وہ پاکستان کی پیداوار ہے بھی نہیں، اس کے رنگ روپ میں کسی اور ہی سرزمین کی مٹی کی ملاوٹ دکھائی دیتی تھی یعنی لگتا تھا وہ کسی اور ملک کا باشندہ ہے۔ جیسے وہ خود شکل و صورت، رنگ روپ میں اپنے کزنز اور دوسرے لوگوں سے الگ تھلگ تھی، اسے وہ بھی ویسا ہی لگا۔ پر وہ تو پاکستان کا رہائشی تھا، یقیناً اس کے مختلف نین نقش اور امتیازی حسن کے پیچھے بھی کوئی راز تھا۔یلماز اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ "ٹھیک ہے، میں آپ کی معافی قبول کرتا ہوں، پر آئیندہ خیال کیجئے گا، یہ کوئی اچھی بات نہیں کہ بندہ کسی راہ چلتے اجنبی سے یوں لپٹ جائے، ڈر اپنی جگہ، حد اپنی جگہ۔" وہ جتاتی نظروں سے گھورتا وہاں سے چلا گیا۔ آیت دم سادھے اس شخص کو جاتا ہوا دیکھ رہی تھی۔ اگر، فی الوقت، اس شخص کی شخصیت، اس پر اپنے فسوں کا گھیرا تنگ نہ کرتی۔۔ تو اس کے بھون ڈالنے والے جملے پر آیت نے اس کی زبردست سی عزت افزائی لازمی کرنی تھی، وہ تو پنجے جھاڑ کر ایسے لوگوں کو سبق سکھاتی تھی۔ بھلے سبق سیکھنے کی ضرورت اسے ہی کیوں نہ ہو۔

خیر یلماز کے نظروں سے اوجھل ہو جانے کے بعد اس نے دھیمے دھیمے سے قدم اٹھاتے ہوئے، واپس ہوٹل کی راہ لی۔ دراصل اسے تجسس تھا، اس بڑے سے ہوٹل کے دائیں جانب، ملحقہ، پتلی سی گلی نے اسے متجسس کیا تھا، وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ تنگ گلیاں کیسی ہوتی ہیں، پہلے کبھی یہ دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا، اس لیے وہ حویلی تک جانے کا ارادہ تھوڑی دیر کے لیے ملتوی کیے، اس گلی میں گھس گئی، آگے چلتے چلتے، اس نے ایک کتے کو چھیڑ دیا۔ وہ جانوروں سے ڈرتی نہیں تھی پر وہ کتا جس طرح اس کے پیچھے پڑا تھا ، اسے بھاگنا پڑا۔ اس کے عجیب ،خطرناک طریقے سے بھونکنے پر اس کی وحشت مزید بڑھی، تبھی وہ بھاگنے کے ساتھ ساتھ مدد کے لیے بھی چلا رہی تھی۔

××××××××××××××××××××××××××××

یلماز نے بہت منتوں کے بعد، انکل کو، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے واپس انگلینڈ جانے کے لیے آمادہ کر لیا تھا۔ اب وہ جلد سے جلد ان کی کاغذی کاروائیاں، ویزہ پاسپورٹ وغیرہ انتظام اور دوسری ضروری چیزیں مکمل کر رہا تھا۔ وہ یہ سب کام کافی جلدی جلدی کر رہا تھا۔ 

وہ آج قریبی مارکیٹ تک جانے کے لیے گھر سے نکلا تھا ، جب اس کا ٹکراؤ آیت سے ہوا، تب سے وہ خاصہ ڈسٹرب تھا۔ اسے وہ لڑکی عجیب لگی تھی، بالکل ویسے جیسے آیت کو یلماز کچھ مختلف ، کچھ الگ لگا تھا۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ، اس واقعے کے متعلق سوچتا گیا۔ وہ کبھی کسی اجنبی کو لے کر اتنے سوچ اور تفکر میں مبتلا نہیں ہوا تھا پھر وہ نیلے، پیٹرن والے ٹینٹ ڈریس،  سلم فٹ جینز اور ڈینم کی جیکٹ میں ملبوس لڑکی، اس کی سوچوں پر اپنا تسلط کیوں قائم کر رہی تھی، اس نے بے بسی سے سوچا۔

××××××××××××××××××××××××××××

وہ اپنی گاڑی ، حویلی کے پورچ میں کھڑی کر کے، بڑے اعتماد سے اندر داخل ہوئی۔ بیرم جو اپنے کمرے کی کھڑی سے باہر جھانکنے میں مصروف تھا۔ اس کی گاڑی گیٹ سے اندر آتی دیکھ کر خوب حیران ہوا، اور بھاگتا ہوا کمرے سے باہر نکلا۔ جس وقت وہ حویلی کے لاونج میں داخل ہوئی، بیرم اس وقت ہانپتا ہوا اس کے سامنے کھڑا تھا۔ "تتت تم یہاں؟؟" پھولتے ہوئے سانس کو معمول پر لانے کی سعی کرتے ہوئے وہ شدید حیرانی سے بولا۔

"کیا ہوا؟ اتنے حیران کیوں ہو رہے ہو؟؟" آیت سادہ لہجے میں بولی۔

"تم تو چلی گئی تھیں ناں، حویلی چھوڑ کر، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے؟" اس کا استعجاب ہنوز برقرار تھا۔

"پاگل واگل تو نہیں ہوئے؟تم سے کس نے کہا؟ میں پاگل ہوں جو اپنی حویلی چھوڑ کر بھاگوں گی، اور تم راستہ چھوڑو میرا، میں نے اپنے کمرے میں جانا ہے۔" آیت نے اسے حیرت کا بت بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، وہ ڈھٹائی سے اپنی ہی بات سے مکری۔ اس نے بیرم کی طرف دیکھنے سے بھی احتراز برتا۔ اور اس کو یوں، متحیر چھوڑ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ اپنی حرکت پر، آیت کو ہنسی آ رہی تھی جس کا اظہار، اس نے ایک دھیمی مسکراہٹ، اپنے چہرے پر لا کر کیا۔ جو بیرم نہیں دیکھ پایا۔ وہ بےچارہ شش و پنج میں مبتلا تھا۔ آیت نے ، اتنی صفائی اور اتنے اعتماد سے جھوٹ گھڑا تھا کہ بیرم کو واقعی یہ لگا کہ چند دن پہلے کی ہوئی، آیت اور اس کی گفتگو حقیقت نہیں بلکہ اس کا وہم ہے۔

وہ اپنا وہم دور کرنے آیت کے پاس پہنچا ، "دیکھو، تم مجھے پاگل مت بناؤ، مجھے اچھی طرح یاد ہے، تم نے خود کہا تھا کہ تم حویلی چھوڑ کر جا رہی ہو۔۔!!" بیرم، وہیں دروازے کی چوکھٹ میں کھڑا، اسے عجیب نظروں سے گھورتے ہوئے بولا۔ 

وہ آرام کا ارادہ رکھتی تھی سو اپنی بیڈ شیٹ جھاڑ کر سیٹ کر رہی تھی ، وہ اپنا کام چھوڑ بیرم کی طرف متوجہ ہوئی۔

"ہاں تو تم پاگل بن ہی کیوں رہے ہو؟ بے وقوف انسان۔" آیت کا قہقہہ بلند ہوا۔

وہ بری طرح ہنسے جا رہی تھی ، بیرم اپنی بےوقوفی پر سر پیٹ کر رہ گیا۔(اب اس کا یہ مطلب نہیں، بے چارے نے سچ میں ہی سر پیٹا ہوگا، پچھتا رہا تھا وہ، کیسے مزے سے اس کے ہاتھوں الو بن گیا۔)

"ہنسو ، مت ، مجھے بتاؤ واپس کیوں آئی ہو۔" وہ خجل ہوتا ہوا بولا۔

آیت کی ہنسی کو بریک لگی۔

"ویسے تم حق نہیں رکھتے کہ مجھ سے سوال جواب کرو، آئیندہ خیال رکھنا اس بات کا۔ لیکن اب پوچھ لیا ہے تو بتا دیتی ہوں۔ دراصل مجھے احساس ہوا تھا کہ میرا فیصلہ درست نہیں ، اس لیے واپس آ گئی۔" وہ سنجیدگی سے بولی۔

"اچھا ، ٹھیک ہے۔" وہ اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔

"آئی۔۔۔ آئم سوری، میں کچھ زیادہ تلخ ہو گئی۔" آیت نے اس کے چہرے کے تاثرات پرکھتے ہوئے فوراً معذرت کی۔ اس کا ارادہ نہیں تھا کہ وہ بیرم کی بےعزتی کرتی۔ نجانے کیوں وہ ایسا کہہ گئی۔

بیرم ، بغیر کوئی جواب دیے وہاں سے چلا گیا۔

آیت نے گہری سانس لی ، پتہ نہیں وہ ایسی کیوں تھی۔ اس سے اپنا آپ ،اپنی سوچ، اپنے جذبات، اپنے الفاظ ہی نہیں سنبھلتے تھے۔ وہ اکثر بہت بے اختیار سی ہو کر، بہت کچھ غلط کر جاتی، کبھی اپنے ساتھ، کبھی کسی اور کے ساتھ۔

آیت نے گہری سانس لی ، پتہ نہیں وہ ایسی کیوں تھی۔ اس سے اپنا آپ ،اپنی سوچ، اپنے جذبات، اپنے الفاظ ہی نہیں سنبھلتے تھے۔ وہ اکثر بہت بے اختیار سی ہو کر، بہت کچھ غلط کر جاتی، کبھی اپنے ساتھ، کبھی کسی اور کے ساتھ۔

××××××

ٹوئنکل اپنی جیپ کو ایک سو بارہ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑاتی ہوئی، لگ بھگ تین گھنٹوں میں لندن کے فضائی اڈے پر پہنچی۔ وہ ایک ہاتھ میں ایک بڑا سا بوکے اور دوسرے ہاتھ میں سفید رنگ کا تختہ لیے آنے والوں کی منتظر تھی۔ 

 انکل رابرٹ، منتظرین کی قطار میں کھڑی اس بلا کی معصوم لڑکی کے ہاتھ میں موجود بورڈ پر "مسٹر رابرٹ نیلسن + زیک" لکھا دیکھ کر اس کی طرف بڑھے اور یلماز بھی پیچھے پیچھے چل دیا۔ ان دو لوگوں کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر ٹوئنکل کی خوشی دیدنی تھی۔ "مسٹر رابرٹ، زیک" وہ بے آواز بڑابڑائی۔  زیک یعنی یلماز کو دیکھ کر تو اس کے ہوش ہی اڑ گئے۔ اس نے سوچا نہیں تھا کہ وہ بڑا ہو کر اتنا ہینڈسم ہو جائے گا، یا پھر یہ ٹوئنکل کا حسنِ نظر تھا کہ وہ اسے حقیقت سے بڑھ کر پیارا لگا۔ 

وہ دیوانہ وار مسٹر رابرٹ سے لپٹی، مام کے علاوہ ایک یہ ہی تو تھے جن سے اس کا خون کا رشتہ تھا۔ "میں آپ سے بہت ناراض ہوں، بہت وقت لگایا آپ نے واپس آنے میں۔" وہ نم آنکھیں لیے، اپنے مخصوص مقامی، انگریزی لہجے میں بولی۔

"اوہ!! میری بچی، اب تو میں لوٹ آیا ہوں! کیا تم اپنی ناراضگی ختم نہیں کر سکتیں۔" انکل رابرٹ نے مسکراتے ہوئے اپنی لاڈلی بھانجی کو دیکھ کر کہا۔ نمی تو ان کی آنکھوں میں بھی تیر رہی تھی۔ 

"ہر گز نہیں۔" ٹوئنکل نے، سر دائیں بائیں ہلاتے ہوئے شرارتی انداز اپنا کر کہا۔

"کوئی بات نہیں، میں تمہیں منا لوں گا، خیر تم اپنے دوست سے تو ملو۔" انکل نے اس کا دھیان یلماز کی طرف دلایا، جو ان دونوں کو خاصی دلچسپی سے دیکھ رہا تھا، خونی رشتوں کی کشش، ان سے محبت کیا ہوتی ہے، وہ آج اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔

 گلوں شکوں میں تو وہ اسے بھلا ہی بیٹھی تھی۔

ٹوئنکل کے، یلماز کی جانب متوجہ ہونے کی دیر تھی کہ وہ فوراً ہی اس کے ساتھ بھی بغل گیر ہوئی۔ اس کی گرمجوشی دیکھنے لائق تھی۔ان کے ہاں رواج تھا کہ خاص لوگوں کو خوش آمدید، اسی طرح گرمجوشی سے بغل گیر ہوکر کیا جاتا۔ اور یلماز کو اس کا یہ اقدام کچھ خاص پسند نہ آیا اس لیے وہ ہچکچا رہا تھا، اسے ٹوئنکل کی اس حرکت پر بے ساختہ وہ گھنگھریالے بالوں والی لڑکی یاد آئی۔ 

 اس نے یاد کیا آنا تھا وہ تو اس کے ذہن کے پردوں پر اپنے نقش گاڑھ چکی تھی۔  وقت بے وقت، وہ اس کے خیالات پر مسلط رہتی۔ اب بھی وہ اسی کو سوچ رہا تھا اور پہلی مرتبہ اس کے خیال میں ایسا مگن ہوا تھا کہ اسے پتہ بھی نہیں چلا کہ ٹوئنکل اس سے دور ہو چکی تھی۔ بلکہ وہ اور انکل، یلماز کو اس طرح ، کسی اور ہی سوچ میں محو پا کر حیران تھے۔

ٹوئنکل، اس کا کندھا ہلا کر ، اسے ہوش کی دنیا میں واپس لائی۔

"خیر ہے دوست۔۔؟؟ کن سوچوں میں گم ہو؟ چلنا نہیں ہے کیا۔۔؟؟" ٹوئنکل پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔

وہ بھی تو حیران کن حد تک ، اپنی سوچوں میں کھویا تھا۔

"کیا۔۔؟؟ ہاں چلنا ہے ناں ، چلو چلتے ہیں۔" یلماز پہلے چونکا تھا اور پھر اس نے مصنوعی طور پر مسکرا کر، چلنے کا بولا۔

ٹوئنکل بہت خوش تھی۔ وہ سارا راستہ انکل اور یلماز کا دماغ چاٹتی ہوئی آئی تھی۔ وہ لوگ مانچسٹر پہنچ چکے تھے، ٹوئنکل کا گھر، گریٹ مانچسٹر کے ٹاؤن "بالٹن" میں موجود تھا۔ کیتھرین نے ان دونوں کا پر تپاک ویلکم کیا۔

کیتھرین کا تو ضبط ہی ٹوٹ گیا، اتنے سالوں بعد اپنے بھائی کو اپنی آنکھوں کے سامنے کھڑا دیکھنا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ ان کے دل کی عجیب حالت تھی خوشی کی زیادتی کے باعث ان سے اپنا آپ نہیں سنبھالا نہیں جا رہا تھا۔ وہ آنکھوں سے خوشی کے آنسو بہاتی کانپ بھی رہی تھیں۔ رابرٹ بھی اپنی بہن سے سالوں بعد، اس طرح ملنے پر بے حد خوش تھے۔ 

._._._._._._._._._._._._.

کیتھرین نے رابرٹ اور یلماز کے لیے ایک شاندار دعوت کا اہتمام کیا تھا، جسے کھانے بعد رابرٹ اور یلماز تو آرام کے لیے، گیسٹ روم میں چلے گئے جبکہ ٹوئنکل اور کیتھرین کو بیکری جانا تھا، اس لیے وہ ان دونوں کو گھر پر چھوڑ کر بیکری چلی گئیں۔

_._._._._._._._._._._._.

آیت شام کو اپنے کمرے سے نکلی تو شمسہ ممانی سے سامنا ہوا۔

"تم۔۔۔!! تم یہاں کیسے آئیں؟" ممانی نے تعجب سے پوچھا۔

"کیا مطلب کیسے آئی۔۔؟ میری حویلی ہے، میں ہمیشہ یہاں رہی ہوں، آپ کیسے مجھ سے یہ سوال کر رہی ہیں؟؟" آیت نے ایک ہاتھ کی پشت منہ پر رکھ کر جمائی روک کر کہا، وہ ابھی سو کر اٹھی تھی ناں۔

"بیرم بتا رہا تھا۔۔" 

"میں نے مذاق کیا تھا اس سے۔" آیت نے ان کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی ٹوکا۔

ممانی کو اس کی یہ حرکت کچھ جچی نہیں۔

"تو پھر تم چار دن سے کہاں غائب تھیں۔" اس بار ممانی کے لہجے میں فکر دکھائی دی۔ انہوں نے اپنا ظرف آزماتے ہوئے، اچھے طریقے سے پوچھا۔

"آپ کی جگہ نانو یا میری ماما ہوتیں تو میں ضرور جواب دیتی، آپ ناں صرف اپنے بچوں پر دھیان دیا کریں، آوارہ گردی، بیہودگی اور شرم و حیا کی حدیں پار کرتے  پھر رہے ہیں۔ کوئی معزز شخص آپ کے بچوں کی حرکتیں دیکھ لے ناں، تو پہلی فرصت میں زہر کی گولی پھانک کر، خود کشی کرنا پسند کرے گا، ایسے تو گل کھلاتے پھرتے ہیں وہ۔ " آیت نے بد لحاظی کا مظاہرہ کیا۔ نادر کا اس لڑکی کے ساتھ، ہوٹل کے کمرے سے باہر نکلتے وقت کا منظر، اسے بھولا نہیں تھا۔

شمسہ بیگم تو بھنا کر رہ گئیں۔ 

"تم ان کی فکر چھوڑو، خیر سے میں یعنی میرے بچوں کی ماں زندہ ہے، تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔" انہوں نے تڑخ کر جواب دیا۔

 اچھی بھلی نرمی جتانے کی کوشش کی تھی انہوں نے، آیت نے اپنی بد لحاظی کے مظاہرے دکھا کر ساری نرمی کو بھاڑ میں بھیج دیا۔

ممانی کی بات پر آیت کو ہنسی آئی اور اس نے باقاعدہ قہقہہ لگایا اور قہقہ رکا نہیں وہ چند لمحوں تک ، دل کھول کر ہنسی۔

"آپ کو لگتا ہے آپ اپنے بچوں کی فکر کرتی ہیں۔۔۔" وہ پھر سے، بری طرح ہنسی،  "لوگ اتنی مزاحیہ باتیں کیسے کر لیتے ہیں، ویسے ممانی جی، آپ کو غلط فہمی ہے، جن بے چاروں کی والدہ محترمہ ان سے لاپرواہ رہتی ہیں، ان کی میں کیوں پرواہ کرنے لگی۔" اس کا لہجہ تضحیک آمیز تھا۔ 

وہ اپنی بات کہہ کر وہاں سے جا چکی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ ان کی یہ ساری گفتگو نادر بھی سن چکا ہے۔ 

خیر کسی کے سننے نہ سننے سے اسے کیا فرق پڑتا تھا، دماغ تو ان لوگوں کے چکرائے تھے، جن کے متعلق اس نے اپنا موقف پیش کیا تھا۔

"بے ہودہ لڑکی، بات کرنے کی تمیز نہیں ہے۔" ممانی، منہ ہی منہ میں بڑبڑا کر رہ گئیں۔

ویسے اس بار ، زیادتی آیت کی طرف سے ہوئی تھی۔ اس نے فضول میں اتنی زبان چلائی۔

_._._._._._._._._._._._.

ٹوئنکل اور اس کی مام شام کو گھر لوٹی تھیں۔ ٹوئنکل نے اپنی مام سے پورے دو ہفتے کی چھٹی لی  ، اس نے کہہ دیا تھا کہ وہ کم سے کم دو ہفتے تک بیکری کی شکل نہیں دیکھنے والی۔ کیوں کہ اس نے زیک کے لیے کچھ خاص پلینز بنا رکھے تھے، وہ اسے مانچسٹر گھمانا چاہتی تھی۔ شام کی چائے اور پھر رات کا کھانا پکانے کھانے کے بعد ٹوئنکل زیک کو اپنے کمرے میں لائی۔ وہ اسے اپنی چیزیں دکھا رہی تھی، اپنی ہابیز کے متعلق بتا رہی تھی اور اس سے، اس کے متعلق کی بہت کچھ پوچھ رہی تھی۔ 

شعور کی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد ، یہ اس کا پہلا تجربہ تھا۔ اس نے سوچا نہیں تھا کہ کسی لڑکی کی صحبت ، اس کی کمپنی اس قدر پر لطف ہو سکتی ہے۔ وہ لڑکیوں سے بھاگنے والا آدمی تھا۔ اور لڑکی نام چیز سے خاصی جھجک بھی محسوس کرتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے یونیورسٹی کے دور میں بھی کبھی کسی لڑکی سے فرینک ہونے کی کوشش نہیں کی اور آیت والی حرکت بھی اسے خاصی معیوب لگی۔ 

پر یہاں معاملہ کچھ اور تھا۔ ٹوئنکل کی خوش مزاجی اور معصومیت تھی کہ جس نے یلماز کو اس کی جھجھک کے دائرے سے باہر نکالا تھا۔ اسی لیے اتنی سی دیر میں وہ اس سے خاصہ گھل مل چکا تھا۔ یہ بدلاؤ محض ٹوئنکل کی بدولت نہیں تھا۔ یہ ان تین سالوں کے اثرات تھے جو یلماز نے اپنے بچپن میں ٹوئنکل کے ساتھ گزارے تھے، ٹوئنکل کے پیدا ہونے سے لے کر اس کے پاکستان آنے تک،  وہ اپنا زیادہ وقت اسی کے ساتھ گزارتا تھا۔ اب وہ کیا کرتا، وہ اسے پیاری ہی اتنی لگتی تھی۔ کیوں کہ بچے تو ہوتے پیارے ہیں اور پھر وہ ٹوئنکل کو اپنی ننھی سی دوست بھی مانتا تھا ناں، اس نے ہی ٹوئنکل کے ذہن میں جاتے وقت یہ بات بڑھائی تھی کہ وہ دونوں دوست ہیں، ہمیشہ دوست رہیں گے، اس نے ٹوئنکل سے یہ بھی کہا تھا کہ وہ ٹوئنکل کو بہت پسند کرتا ہے۔ لیکن اس وقت وہ خود بھی بچہ تھا اور اسے وہ ایک بچی کی حیثیت سے پسند تھی، ایک ایسی بچی، جس کی معصومیت اور خوبصورتی پر وہ جان دیتا تھا۔ 

پر یہ اس کے بچپن کی باتیں تھیں۔ بہت سی دوسری تبدیلیوں کے ساتھ اس کا بچپن جوانی میں بدلا تھا اور بچپن کے جذبات جوانی میں کہاں جوں کے توں رہتے ہیں، اسی لیے اب وہ اسے ، بچپن کی طرح، بہت زیادہ تو پیاری نہیں لگتی تھی، مگر، چونکہ وہ پیاری تھی، اور لاکھ بدلاؤ آئیں پر انسان کا ماضی بہت نہ سہی تھوڑا سہی ، انسان کے مستقبل پر اپنے اثرات ضرور مرتب کرتا ہے اور یہ اثرات، عموماً تمام زندگی قائم رہتے ہیں۔

شاید اسی بنا پر وہ اس کے ساتھ گھل مل گیا تھا۔

 _._._._._._._._._._._._.

وہ حویلی کے ، بے تحاشا لمبے چوڑے لان کے ایک طرف بچھے، لکڑی کے جھولے پر بیٹھی تھی۔ رات نے اپنے پر پھیلائے تھے مگر چاند کی ، دل کو ٹھنڈک بخشتی چاندنی نے لان کی گھاس، کیاریوں اور وہاں موجود ہر چیز کو اپنی بساط کے مطابق روشن کیا تھا۔ آیت کا الجھنوں بھرا چہرہ بھی اسی روشنی کی زد میں تھا۔ وہ جھولے پر اس رخ میں بیٹھی تھی کہ وہاں اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا، گیٹ پر کھڑے چوکیدار بھی نہیں۔

اس لیے وہ خوب اطمینان سے، ہولے ہولے جھولتے ، جھولے میں جھول رہے تھی۔ وہ اپنی ایگزیبیشن کے متعلق بھی سوچ رہی تھی، یہ پہلی دفع تھا کہ اس کے ذہن میں کوئی ڈھنگ کا آئیڈیا ہی آ کر نہیں دیا، اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا بنائے، کیا نہ بنائے۔ وہ بہ یک وقت، الجھی ہوئی بھی تھی اور مطمئن۔ ماحول کا گہرا سکوت، اس کی تازگی، رات کا یہ پہر اور پہر کی مخصوص چاشنی، اس کی لذت، اس پہر کا خاص سکون، آیت کو اطمینان بخش رہا تھا۔

وہ وہاں بیٹھی کبھی چاند کو تکتی اور کبھی آنکھیں بند کیے وہاں پھیلی خاموشی کو محسوس کرتی۔ خاموشی بھی بھلی نعمت ہے، بلواسطہ، انسان کو تسکین ضرور مہیاء کرتی ہے۔

وہ اب بھی آنکھیں بند کیے ہی بیٹھی تھی کہ اسے ، اس کے قریب کسی اور کی موجودگی کا احساس ہوا، اس نے یک لخت آنکھیں کھولیں تو نادر اس کے سامنے موجود تھا، ابھی وہ پوری طرح متعجب بھی نہیں ہوئی تھی کہ وہ اس کے ساتھ، ذرا سے فاصلے پر ، جھولے پر آکر بیٹھ گیا۔

"تمہاری ہمت کیسے ہوئی؟؟ میرے ساتھ بیٹھنے کی۔" آیت بدک کر کھڑی ہوئی اور انتہائی غضب ناک ہوتی ہوئی، دبی دبی آواز میں غرائی۔ 

وہ پینٹنگ پھاڑنے والے واقعے کے بعد پہلی دفع، وہ نادر سے مخاطب ہوئی تھی، ورنہ تب سے اب تک، ان دونوں کے درمیان ایک گھر میں رہنے کے باوجود بھی ایک طویل خاموشی کا سلسلہ قائم رہا، جو اس دن کے بعد سے آج تک   بھی، برقرار ہی تھا مگر اب شاید چٹخا جا چکا تھا، ہاں وہ سلسہ ٹوٹ چکا تھا۔

" کیوں تمہارے ساتھ بیٹھنے میں کیا برائی ہے۔۔؟" نادر اس کا مطلب سمجھ چکا تھا مگر پھر بھی اسی پر ، اس کی بات الٹا دی۔

"زیادہ سمارٹ بننے کی ضرورت نہیں، تم بہتر جانتے ہو کہ برائیوں کا کنواں کون ہے اور کون نہیں، آئیندہ ایسی جرأت کی ناں، تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔۔!! سمجھ آئی کہ نہیں۔۔؟؟ گندے ، گھٹیا انسان، شرابی ، آوارہ ، عیاش۔۔!!" آیت کا غضب دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا، مگر اس نے وقت کا لحاظ کرتے ہوئے،اپنی آواز کو پست رکھا۔ اور طنز اگلتی ، وہاں سے پلٹ کر جانے لگی۔

"تم، تم ایسے نہیں جا سکتی یہاں سے، میں بات کرنے آیا ہوں، بات سن لو میری۔" نادر نے اس کے سامنے آ کر اس کا راستہ روکا۔ وہ بہت عجیب طرح سے بولا، نہ وہ دھونس جما رہا تھا نہ منت کر رہا تھا ، پر اس کا لہجہ ایسا تھا کہ وہ اس کی ایک غلط فہمی ہر صورت دور کرنا چاہتا ہے۔

"اچھا۔۔ اب تم جیسے لوگ آ کر مجھ سے ایسی بات کہیں گے؟ سمجھتے کیا ہو تم خود کو؟ اوقات دیکھی ہے اپنی، نہیں شاید بھول گئے ہو، مگر میں نہیں بھولی، مجھے معلوم ہے میرا اسٹینڈرڈ۔۔!! میرا معیار اتنا گھٹیا نہیں کہ تم جیسے تھرڈ کلاس بندے سے بات کروں۔" آیت کے لہجے میں حقارت ہی حقارت تھی۔ 

اس کی تضحیک آمیز گفتگو سن کر نادر کا پارہ ہائی ہو رہا تھا، بھلا کوئی قاتل بھی بھلا اپنے ذمے الزام تسلیم کرتا ہے۔اسی طرح بےشک، لاکھ عیب تھے اس میں مگر یوں اپنے بارے میں باتیں سننا کہاں گوارا کر سکتا تھا، اس کے بدلتے تاثرات، آیت کی زبان کو لگام دینے میں ناکام رہے، وہ بولے جا رہی تھی، وہ برداشت کر رہا تھا، اور وہ برداشت کا بت بنا وہیں کھڑا سنتا رہا یہاں تک کہ وہ اپنی بھڑاس نکال کر چلی گئی۔ وہ جو بات کہنے آیا تھا وہ وہیں ادھوری رہ گئی۔

_._._._._._._._._._._._._._._._.

انسان اگر لڑ جھگڑ کر آیا ہو تو اکثر اس کا موڈ خراب ہو جاتا ہے، پر نادر کی بے عزتی کرکے، آیت کو بے تحاشا سکون پہنچا۔ وہ جو کب سے اپنی پینٹنگ کے متعلق سوچ سوچ کر الجھ رہی تھی ، اس وقت اتنا مزیدار سا آئیڈیا اس کے ہاتھ لگا تھا۔ وہ ایک نیا تجربہ کرنا چاہ رہی تھی، اس نے سب سے پہلے ، اپنے کمرے کی کھڑکی کو بھاری پردوں کے پیچھے چھپایا، دروازہ بند کیا، لائٹ تو کمرے کی آن ہی تھی ، اس نے ساری چیزیں سیٹ کیں اور اس کے بعد لائٹ بھی بند کردی، دیوار ایک لگا ایک برقی لیمپ، وہاں مدھم سی روشنی کا واحد ذریعہ تھا۔ وہ کلر پلیٹ اور برش ہاتھوں میں تھامے، کینوس کے آگے کھڑی تھی، اس نے ضرورت کے سب رنگ پہلے ہی ترتیب سے پیلیٹ پر نکال لیے تھے، اب اس نے ایک گہری سانس لی، اپنی آنکھیں بند کیں، اور آنکھیں بند کیے ہی اندازے سے کینوس پر ہاتھ چلانے لگی۔ وہ مسلسل تین گھنٹوں تک ، اسی حالت میں رہی اور رکے بغیر، پردۂ نقاشی پر رنگ بکھیرتی رہی۔ تین گھنٹوں کی مسلسل محنت کے بعد جب اسے لگا کہ وہ اپنی پینٹنگ بنا چکی ہے تو اس نے پینٹنگ کی طرف دیکھنے سے احتراز برتا اور اپنا فن پارہ دیکھے بغیر ہی ہاتھ دھونے چلی گئی۔ وہ واپس آئی تو تب بھی اس نے اپنی پینٹنگ کو نہیں دیکھا، آیت نے اس کے خشک ہونے کا انتظار کیا، اور جب اسے لگا کہ وہ خشک ہو چکی ہے تو آنکھیں بند کیے ہی اس نے جا کر ، ہاتھ لگا کر چیک کیا اور اس کے خشک ہونے کا یقین کر لینے کے بعد فوراً ہی بغیر دیکھے پیک کردیا۔ 

 بالکل اسی طرح، اس نے ایک ایک کرکے ، سات دنوں میں، سات پینٹنگز بنائیں۔ پتہ نہیں اسے کیا سوجھی تھی کہ بین الاقوامی نمائش میں پیش ہونے والی تصاویر کو اس نے دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا، یقیناً یہ بہت ہی احمقانہ حرکت تھی۔ اسے کم سے کم اپنی تصویر کو دیکھنا تو چاہیے تھا، ایسا بھی کیا اعتماد کے انسان اتنے بڑے پلیٹ فارم پر پیش کیے جانے والے کام کو ایک دفع پرکھنے کی زحمت تک نہ کرے، پرکھنا تو دور کی بات، اس نے تو اسے دیکھنے تک کی زحمت نہیں کی۔

._._._._._._._._._._.

آیت اپنی پینٹنگز رشنا کے حوالے کر آئی تھی تاکہ وہ انہیں آگے بھیج دے، ایک بوجھ اس کے سر سے اترا تھا، وہ آج بھی کچھ وقت اپنے ٹری ہاؤس میں گزار کر آئی تھی۔ آج تو وہ حویلی کے اندر سے وہاں گئی تھی، اب تو اسے کسی سیڑھی کی ضرورت بھی نہیں پڑتی تھی کیونکہ وہ دیواریں پھلانگنا جانتی تھی۔ واپسی پر، شمسہ ممانی نے اس کے دیوار پھلانگ کر اندر آنے پر اعتراض ظاہر کیا تو اس نے بھی دوبدو جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ حویلی اس کی بھی ہے، اس مرضی وہ جو کچھ کرے۔ آج کل اسی خناس نے اس کا دماغ ساتویں آسمان پر چڑھایا تھا۔ اس لیے تو وہ کسی کو اپنے آگے کچھ سمجھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی تھی، اسی لیے تو کسی کو بھی نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی تھی۔ سچ تو یہ تھا کہ اس نے بیرم اور نادر کے علاؤہ سب گھر والوں کی ناک میں دم کر رکھا تھا۔ 

بیرم کو وہ اس لیے کچھ نہیں کہتی تھی کیونکہ اس نے کبھی باقیوں کی طرح، آیت کے ساتھ کسی دشمنی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اور نادر، اسے تو اپنی گفتگو کے لائق نہیں سمجھتی تھی، تبھی وہ اس کے عتاب سے محفوظ رہتا تھا۔ ویسے وہ زیادہ تر گھر پر ہوتا بھی نہیں تھا کہ آیت کی زبان کے تیروں سے گھائل ہو سکے۔ اب تو ماریہ بھی آیت کو ایک لفظ تک کہنے کی جرأت نہیں کر پاتی تھی۔ 

صحیح دہشت پھیلائی تھی اس نے۔ ایک شمسہ ممانی میں دم خم تھا جو اس کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتی تھیں، باقی سب تو اپنا آپ بچا کر، اس کے آگے بحث ہی نہیں کرتے تھے۔

._._.._._.._._.._._.._._.._._.

رات کے دو بج رہے تھے، آیت اپنے کمرے کی کھڑکی کے آگے کھڑی باہر جھانک رہی تھی، اس کا کمرہ تاریکی میں ڈوبا تھا، حویلی کے لان کا آدھا حصہ بھی ایسی ہی تاریکی کے زیر اثر تھا۔ آج چاند کہیں غائب تھا ناں۔

وہ بے مقصد ہی وہاں کھڑی تھی کہ اس نے چوکیدار کو حویلی کا گیٹ کھولتے ہوئے دیکھا۔ نادر ، اپنی لینڈ کروزر لیے پورچ تک آیا۔ وہ وہیں بیٹھا رہا۔ پورچ کی لائٹس آن تھیں، تبھی وہ اس کی ہر حرکت بخوبی دیکھ سکتی تھی۔ وہ پہلے ہی اپنے حواس میں نہیں لگ رہا تھا کہ آیت نے اسے ایک کے بعد ایک بوتل ، غٹکتے ہوئے دیکھا۔ وہ اپنی سیٹ کے ساتھ موجود سیٹ پر پڑی چاروں بوتلوں میں سے شراب کا آخری قطرہ، اپنے معدے میں انڈیل چکا تھا۔ اس نے،  ہوش سے بیگانہ ہوتے ہوئے ، اسٹیرنگ پر اپنا سر رکھا۔ ملازم، جو احترام سے کھڑا، اس کی طرف کا دروازہ کھولے، اس کی بوتلیں ختم ہونے کا انتظار کر رہا تھا، وہ حرکت میں آیا۔ اصل میں نادر نے پہلے ہی اسے ہدایات دی ہوئی تھیں کہ ایسی حالت میں وہ یوں اس کے پاس کھڑے رہا کرے۔ اور بالکل ہی بے ہوش ہونے کے بعد اسے کمرے تک چھوڑ آیا کرے۔ ملازم اپنے کندھے کا سہارا دیے، اسے پکڑ کر حویلی کے اندرونی حصے میں لایا۔ آیت ، اپنے کمرے سے نکل کر، وہاں ملازم سے پہلے ہی پہنچ گئی۔ پر وہ چھپ کر، سب دیکھ رہی تھی۔ اس کے وجود سے آتی ، شراب کی گندی بدبو کے باعث ، ملازم کا سانس لینا مشکل ہو رہا تھا۔  وہ اتنی ہمت نہیں کر سکا کہ اسے کمرے تک چھوڑ آئے، تبھی اس نے، نادر کو وہاں کسی صوفے پر لٹایا اور وہاں سے چلا گیا۔ گھر والوں کو کونسا پتہ چلنا تھا کہ اس کو کمرے تک پہنچانے کی ڈیوٹی ملازم کی ہے، اور وہ اس کے گھر آنے جانے کی کونسا فکر کرتے تھے، انہیں اس بات سے بھی فرق نہیں پڑتا تھا کہ وہ اپنا مخملی بستر چھوڑ کر، ساری رات کسی صوفے پر بے آرام ہو کر سوئے۔

خیر ملازم جا چکا تھا، اور اس کے جانے کی دیر تھی کہ آیت اپنے دماغ میں آئی شرارت کو انجام دینے کے لیے آگے بڑھی۔ ویسے تو وہ اسے دنیا جہان کا غلیظ آدمی سمجھتی تھی پر اس وقت شرارت، اس کے سر پر سوار تھی، سو وہ اس کے قریب گئی۔وہ اپنی ناک بند کیے، منہ سے سانس لے رہی تھی، کیوں کہ شراب کی بدبو، واقعی دم گھونٹنے والی تھی۔

قریب آ کر سب سے پہلے اس نے اپنی ایک انگلی سے، نادر کو چھوا، پھر اس نے بہت زور سے اس کے بازو پر چٹکی بھری۔ وہ ہولے سے کسمسایا تھا، پر آیت کو اس سے کیا لینا دینا۔ وہ جانتی تھی کہ اس وقت تو وہ کسی صورت نہیں اٹھنے والا تبھی اس نے اپنے ہاتھ ، اس کے سر کی طرف بڑھا کر بال کھینچے، دو چار تو ٹوٹ کر اس کے ہاتھ میں بھی آئے تھے، جنہیں اس نے چن چن کر اپنی ہتھیلی سے ہٹایا اور پھر نادر پر ہی گرا دیے۔ اس کے بعد ، وہ اس کی ہلکی ہلکی سی اگی داڑھی کو نوچتی کبھی پھر سے چٹکیاں کاٹتی اور ایک دفع تو اس نے اپنا تھپڑ لگانے والا شوق بھی پورا کیا۔ 

وہ ہوش سے بے گانہ، بے سدھ سا وجود لیے، آیت کو کوئی کھلونا لگ رہا تھا، جس سے وہ بڑے متشددانہ طریقے سے کھیل رہی تھی۔ کتنی عجیب حرکتیں کر رہی تھی ناں وہ۔۔!!

نادر نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ کسی لڑکی کے ہاتھوں یوں پٹے گا۔ خیر سوچنے سے کیا ہوتا ہے، اب تو وہ آیت کے عجیب کھیل کا نشانہ بن چکا تھا۔ آیت نے جی بھر کر اسے چٹکیاں کاٹی تھیں۔ اس کی داڑھی نوچی، اس کے بال کھینچے ، اسے تھپڑ لگایا، اس کے بازوؤں کو کوئی پنچنگ بیگ سمجھ کر مکے بھی مارے۔ اور جی بھر جانے کے بعد ملازم کو باہر سے بلا کر اسے کمرے تک پہنچایا، ملازم کے تو پیر کانپے تھے، جس وقت آیت نے باہر جا کر اپنی غصب ناک آنکھوں سے دیکھتے ہوئے، اس کی کام چوری پر لتاڑا تھا۔

اس نے اپنی نگرانی میں نادر کو کمرے تک پہنچایا، وہ اس کے پلنگ سے تھوڑی دور کھڑی، اس ملازم کو ہدایات دے رہی تھی۔

"یہ اس کی ٹانگیں سیدھی کرو۔"

"اس کے جوتے اتارو، وہاں اس ریک میں جا کر رکھو،"

"وہ۔۔ وہاں سے اے سی کا ریموٹ اٹھاؤ۔" اس نے اشارہ کر کے بتایا۔

"میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو، اے سی آن کرو، اور ٹمپریچر بائیس ڈگری پر سیٹ کرو،" 

"گڈ" ٹمپریچر سیٹ ہوجانےکےبعد، آیت نے اسے شاباشی دی، 

"چلو، شاباش، اب ریموٹ واپس رکھو، یہ کمفرٹر ، اس پر صحیح سے ڈالو اور یہاں سے جاؤ، لائٹ میں خود بند کر دوں گی۔" وہ گردن یہاں وہاں موڑتے، اس کے کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے بولی۔ 

ملازم ادب سے ہاتھ باندھتا وہاں سے چلا گیا۔

اسے بھی عجیب لگا تھا، آیت نادر کے لیے کوئی کام کروا رہی تھی، حیرت کی بات تھی۔۔!!

وہ کچھ دیر یوں ہی کھڑی اِدھر اُدھر دیکھتی رہی پھر اس کی نظر اس پردے پر پڑی، کمرے کھڑکی تو اس کے ساتھ والی دیوار میں تھی، جس پر الگ سے پردہ ڈلا تھا، پھر یہ اس دیوار پر اضافی پردہ کیوں؟ اسے حیرت ہوئی۔ 

وہ آگے بڑھ کر پردہ اٹھانے والی تھی کہ اسے کسی کونے سے، کسی تصویر کے موجود ہونے کا شائبہ ہوا۔ 

"اوہ، تو یہاں یہ گند بھرا ہے، ویسے تم سے توقع بھی یہی کی جا سکتی ہے۔" اس کا دل خراب ہوا تھا، وہ پردہ ہٹا کر مزید دل خراب نہیں کرنا چاہتی تھی، اس نے وہ تصویر بھی پوری نہیں دیکھی تھی، اسے یقین تھا کہ اس دیوار کو اس نے ضرور، غلاظت کے ڈھیر سے سجایا ہوگا۔

اس کے سارے موڈ کا خوشگوار پن غارت ہوا، وہ ایک طیش سے بھرپور نظر، نادر پر ڈالتی وہاں سے جانے لگی تھی، اس کے کمرے کی لائٹس آف کر کے اور دروازہ بند کر کے وہاں سے چلی گئی۔

اس کے سارے موڈ کا خوشگوار پن غارت ہوا، وہ ایک طیش سے بھرپور نظر، نادر پر ڈالتی وہاں سے جانے لگی تھی، اس نے کمرے کی لائٹس آف کیں اور دروازہ بند کر کے سچ میں وہاں سے چلی گئی۔

وہ عجیب غصے اور غیظ کی حالت میں تھی، کچھ تھا جو اس سے برداشت نہیں ہو پا رہا تھا، وہ اپنے کمرے میں جانے کی بجائے کچن میں گئی اور فریزر سے پانی کی ٹھنڈی یخ بوتل نکال کر، ایک سانس میں پی گئی، اس کا سانس پھول رہا تھا، وہ اسی کیفیت سے دوچار، تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی اپنے کمرے میں آئی۔

~×~×~×~×~×~×~×~×~×~×~

وہ ، اپنا نرم تکیہ، بازوؤں میں دبوچے، بے آواز سسکیاں بھر رہی تھی، اسے رونا آ رہا تھا، وہ پھر سے تڑپ رہی تھی شاید ، وہ ایک بار پھر اسی کیفیت میں ڈھلنے والی تھی کہ جس سے وہ پہلے بھی دس مرتبہ گزری تھی ، نہیں، بلکہ وہ تو ایک بار اور بھی، اس حال سے گزری تھی، ہاں! جب وہ ہوٹل میں تھی، تب بھی تو اس کی یہی حالت تھی اور اسے یاد تک نہیں تھا، اب یہ بارہویں دفع تھا، اور وہ پھر سے بے قرار تھی، اسے لگ رہا تھا کہ وہ کوئی گیلی لکڑی ہے، جسے کسی ظالم نے آگ کے الاؤ میں دھکیل دیا ہو، گیلی لکڑی میں تو جان ہوتی ہے ناں ، وہ خشک لکڑی کے جیسے مردہ نہیں ہوتی، تبھی آگ اُسے زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے، تبھی وہ زیادہ اذیت سے گزر کر راکھ میں تبدیل ہوتی ہے۔ پر اسے راکھ نہیں بننا تھا، اسے خود کو اس آگ سے باہر نکالنا تھا، اسے خود کو اس ظالم کے نرغے سے بچانا تھا جو اسے آگ میں پٹخ رہا تھا، جو اسے مفقود کرنا چاہتا تھا اور جو اسے معدوم کرنا چاہتا تھا، اس نے بچانا تھا خود کو۔۔!! اور یقیناً وہ بچا سکتی تھی، بس ذرا سی کوشش، ذرا سی آگہی درکار تھی، بس اسے پہچاننا تھا ، اسے پتہ لگانا تھا کہ وہ ظالم کون ہے، کون ہے جو اسے تکلیف سے دوچار کرنا چاہتا ہے۔۔۔!! بس آیت نے اب، اس کی کھوج لگانی تھی۔

_._._._._._._._._._.

ابھی وہ سسکتے ہوئے اسی شش و پنج میں تھی کہ اس کے دماغ میں درد کی لہر دوڑی، اس نے روتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو کنپٹی پر مسلتے ہوئے درد کی شدت کم کرنا چاہی، پر درد تھا کہ کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ رہا تھا، وہ مزید تکلیف سے دوچار ہو رہی تھی۔ اس کا جی چاہا کہ حلق پھاڑ کر چیخے پر درد کی اخیر شدت نے اس کی پہلے والی آواز ہی دبا ڈالی تھی پھر وہ کیسے چیختی؟ وہ کیسے چلا سکتی تھی؟

 اس کے آنسو بھی مزید تیزی سے بہنے لگے، آنسوؤں کا تسلسل تھمنے کا نام نہیں لیتا تھا، وہ اشک بہت روانی سے اس کا چہرہ بھگونے میں سرگرم تھے۔

_._._._._._._._._._._._._._._.

کچھ دیر اُسی درد اور کرب میں رہنے کے بعد وہ شناسا سی ہلچل، پھر سے اس کی انگلیوں کے پوروں میں دوڑی تھی، وہ کسی ان دیکھی قوت کے زیرِ اثر، رنگوں کی طرف بڑھی، وہ بے خودی کی حالت میں تھی، اسے نہیں پتہ چلا کہ وہ کیا کررہی ہے، کیسے کر رہی ہے، وہ اسی بے اختیار حالت میں، پینٹنگ برش اور رنگ اٹھاتی اس کینوس کے پاس گئی اور جا کر کھڑی ہوئی۔

اس وقت آیت کے آنسو تھم چکے تھے،ہاتھ کانپ رہے تھے، سر ،درد کی شدت سے پھٹنے کو ہو رہا تھا، اس نے تکلیف کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے سختی سے آنکھیں بند کیں، وہ کچھ دیر اسی حالت میں کھڑی رہی۔ اسی دوران اسے کچھ بدلتا ہوا محسوس ہوا۔

 اس کے سر کا درد دھیرے دھیرے زائل ہو رہا تھا اور شاید اس کی یاداشت بھی کیوں کہ جب اس نے اپنی آنکھیں کھول کر، خود کو ہاتھ میں پینٹنگ برش پکڑے، کینوس کے سامنے کھڑا پایا تو وہ تذبذب کا شکار ہوئی، وہ  اپنے،اس طرح ، کینوس کے آگے کھڑے ہونے کا مقصد نہیں سمجھنے سے قاصر تھی۔

 اس کی کم بختی تھی کہ وہ چند لمحوں میں پھر سے اپنی برداشت کردہ اذیت کے متعلق سب بھول چکی تھی۔  اسے یاد تھا تو نادر کے کمرے سے نکلنے کا منظر۔۔!! 

اس کے بعد جو ہوا، جو کچھ اس نے سہا، وہ سب بھول چکی تھی، اسی لیے تو اسے اپنے یہاں کھڑے ہونے کی وجہ نہیں سمجھ آئی۔ ویسے یہ عمومی سی بات ہے کہ اس نے پینٹنگ کی غرض سے ہی، اس حالت میں یہاں موجود ہونا تھا، پر اتنی رات کو اس نے پینٹنگ کا کیا کرنا تھا، اور پینٹنگ کیوں کرنی تھی، وہ جیسے جیسے اپنے حواس میں لوٹی ویسے ویسے، وہ سب بھولتی جا رہی تھی،اسی لیے تو اسے ، ذہن پر لاکھ زور دینے کے باوجود بھی کچھ یاد نہیں آیا۔ اسے تھوڑی تشویش ہوئی، اس نے بار بار گزشتہ واقعے کو ذہن میں لانے کی کوشش کی، یادداشت پر زور ڈالا اور بہت کوشش کے بعد، بس وہ اتنی سی بات یاد کر سکی تھی کہ وہ کچھ دیر پہلے روئی تھی۔ لیکن کیوں؟ یہ تو اسے بھی سمجھ نہ آیا ، اس لیے وہ الجھی تھی اور اسی الجھن میں اسے ہوٹل والا واقعہ یاد آیا، اور تسلسل کے ساتھ اسے پچھلی دس مرتبہ کی بھی ساری سرگزشت یاد آتی گئی۔

_._._._._._._._._._.

وہ بالآخر کامیاب ہوئی تھی، وہ سب یاد کرنے میں جو اس پر بیتا تھا، اسے ہر وہ لمحہ یاد آیا جو بہت مشکل، بہت اذیت سے اس نے سہا تھا۔ اور جیسے جیسے اسے وہ سب یاد آیا ویسے ویسے اس کے ہاتھ کینوس پر چلتے گئے۔ ویسے ویسے وہ اپنی الجھنوں کو ، اپنے اندر سر اٹھاتی کہانیوں کو پینٹ کرتی گئی۔ 

ہاں کہانیاں ہی تو سر اٹھا رہی تھیں اس کے وجود میں،ایسی کہانیاں جو اس کے احساسات کی تخیلاتی شکل تھیں، ایسے تخیلات، ایسے تصورات،جنہیں اس پر گزرے تکلیف کے لمحات اور اس کی برداشت کردہ اذیتوں نے حسن بخشا تھا اور بے پناہ جاذبیت سے نوازا تھا۔

وہ بہت تیزی سے،اپنی قابلیت کا بھرپور اطلاق کرتے ہوئے،اُن تصورات کو رنگوں کا جامہ پہنا کر،  تصویری شکل میں ڈھال رہی تھی۔ وہ وجد کی سی کیفیت میں تھی، جیسے اسے اپنا کوئی ہوش ہی نہ ہو، ایک سرور ، اس کے قلب اور دماغ پر چڑھا تھا۔

یہ پہلی دفع ہوا تھا کہ وہ اپنی تصویروں میں کوئی خاص کہانی بیان کر رہی تھی یا کسی کہانی کے مخصوص ابواب کو ایک ایک کر کے، اپنی تصویروں میں قید کر رہی تھی، ورنہ پہلے تو وہ صرف کسی خاص منظر، یا کسی خاص خیال کو صفحہ قرطاس پر منتقل کیا کرتی تھی۔ 

وہ یوں ہی اپنے کام میں مگن، کسی غیر معمولی تیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، دو گھنٹوں میں، صرف اور صرف دو گھنٹوں میں بارہ فن پارے تخلیق کر چکی تھی۔ یقین کرنا ذرا مشکل ہے پر اس نے یہ کام ، واقعتاً، اس قدر تندی سے انجام دیا تھا۔ اس نے نہ صرف وہ فن پارے، تخلیق کیے تھے بلکہ ان کے وجود میں مقید داستان کے حساب سے عنوانات بھی دیے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ تصویریں، کسی ایک قصے کی کڑیاں ہوں، وہ ساری تصویریں، کسی ایک کے  بغیر بھی ادھوری معلوم ہوتی تھیں، وہ بارہ فن پارے، باہم ربط رکھتے تھے، ان میں سے ہر ایک کے لیے دوسری کا ساتھ لازم تھا کیوں کہ ہر ایک کی کہانی دوسری سے منسلک تھی۔

~×~×~×~×~×~×~×~×~×~×~

گزشتہ رات، آیت کے لیے بہت عجیب سی تھی، کیا کچھ ہوا تھا اور کیسے ہوا تھا، وہ ابھی تک حیران تھی۔  اگرچہ وہ رات بھر جاگنے کے باعث فجر کی اذان سے چند منٹ پہلے ہی سوئی تھی، جس کی وجہ سے وہ آج خاصی دیر سے جاگی تھی، پر جاگنے کے بعد بھی، گزری رات کا ہر لمحہ اس کے ذہن پر سوار تھا۔ اس کے تعجب میں کسی طور بھی کمی نہیں آئی، وہ یہ سرگزشت کسی کو سنانا چاہتی تھی لیکن کون یقین کرتا۔۔!! اسی لیے وہ متذبذب تھی اور متحیر بھی کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ بے شک اسے تھکن کے باعث نیند آسانی سے آئی تھی مگر وہ نیند، اس کے دماغ پر سے ، اس کی حیرت کا بوجھ اتارنے میں ناکام رہی تھی۔

ایسا ہوتا ہے ناں کہ اکثر جی بھر کر سو لینے کے بعد، ذہن ہلکا ہو جاتا ہے، ذرا تسلی سی ملتی ہے، پریشانی ہو تو اس میں کمی واقع ہوتی ہے، کوئی الجھن ہو تو بھی دل ذرا مطمئن ہو جاتا ہے، لیکن آیت کے ساتھ تو کچھ ایسا نہیں ہوا۔ اس کی ذہنی حالت اب بھی ویسی تھی ، جیسی وہ لے کر سوئی تھی۔

اس نے خود کو زبردستی، بستر سے اٹھنے پر مجبور کیا۔وہ اٹھی، واشروم گئی، فریش ہوئی ، اس نے کپڑے بدلے اور خلافِ معمول، اپنے بالوں کی اچھی سی پونی ٹیل بھی بنائی۔ ورنہ وہ زیادہ تر، اپنے بالوں کو کھلا رکھتی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ یہ سب کرنے سے اس کے موڈ پر اچھا اثر پڑے گا، واقعی ایسا ہوا تھا۔ وہ اپنے صاف ستھرے، اور سادگی سے سنوارے گئے وجود کا ، آئنے میں خوبصورت سا عکس دیکھتے ہوئے خاصی مطمئن ہوئی تھی۔

_._._._._._._._._.

"رکو، ایک سیکنڈ یہ کیا ہے؟" یلماز نے رک کر ٹوئنکل سے، اس عجیب سی سٹور نما جگہ کے متعلق پوچھا جو چیزوں سے لدا ہوا تھا۔ 

"وہاں دیکھو، وہ بورڈ، یہ آرَرکے کی شاپ ہے، " ٹوئنکل نے اس تختے کی طرف اشارہ کیا ، جہاں "آرَرکَیز شاپ"(Ourerke's Shop) لکھا تھا۔

"اوہ اچھا۔" وہ سمجھتے ہوئے بولا۔

"کیا تم اندر چلو گے؟" ٹوئنکل نے، اس کی طرف اشتیاق سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ وہ جب بھی یہاں آتی تھی، لازمی کچھ نہ کچھ لے کر جاتی تھی، اس نے، اپنے گھر میں، جو عجیب و غریب چیزوں کا ڈھیر لگا رکھا تھا ناں، وہ سب یہاں سے ہی خریدا تھا۔

"تم کہتی ہو تو چل لیتا ہوں۔" یلماز تھوڑا شریر ہوتے ہوئے بولا۔ جانا تو وہ خود بھی چاہتا تھا پر ٹوئنکل کی خوش آمد کر کے، اسے مزہ آیا کیونکہ وہ بھولی اپنی خوش آمد پر بے تحاشا خوش ہوا کرتی تھی۔

 خیر اگر اس شاپ کی بات کی جائے تو وہ جگہ یلماز کو اپنی جانب کھینچ رہی تھی، جیسے اسے کچھ دینا چاہتی ہو۔ پر کوئی جگہ ،بھلا کسی کو کچھ دے سکتی ہے؟ نہیں ناں۔ 

پر۔۔ یہ تو ہمارا اندازہ ہے۔ کیا پتہ وہاں اس کے لیے سچ میں کوئی خاص چیز موجود ہو۔

_._._._._._._._._._.

خیر ٹوئنکل خوش ہوتی ، اس کا ہاتھ تھامے اندر چلی گئی۔ "ہائے انکل!" اس نے اندر داخل ہوتے ہی، اس عمر رسیدہ، سیاہ فام کو دیکھ کر جوش سے کہا۔

"ہائے، پیاری لڑکی!! کیا حال ہیں تمہارے؟" انہوں نے بھی جواباً خوش اخلاقی سے کہا۔

"میں بالکل ٹھیک، آپ یہ بتائیں کہ آپ نے میرے لیے کچھ نئی چیزیں جمع کیں؟؟۔" وہ آنکھوں میں چمک لیے بہت شوق سے سوال کر رہی تھی، انکل اس کے لیے، ہمیشہ اس کی پسند کے حساب سے، چند چیزیں الگ کر کے رکھتے تھے۔  

"ایسا ہو سکتا ہے کہ میں نہ کروں؟" وہ الٹا سوال کرنے لگے۔

"آہاں، تو پھر دکھائیں ناں!!" وہ بے صبری ہو کر بولی۔

"کیوں نہیں, پیاری لڑکی، مجھے خوشی ہوگی، میں ابھی تمہارے والا صندوق لاتا ہوں۔"وہ مسکرا کر کہتے ہوئے، وہاں لکڑی کے کسی بوسیدہ شو کیس کے نچلے خانے میں جھکے صندوق نکالنے لگے۔

_._._._._.

"یہ کیا انکل، آپ نے پھر یہ بک، میرے باکس میں رکھ دی۔" ٹوئنکل نے منہ بسور کر آرَرکے کو دیکھا۔

"میں کیا کروں، میں جب بھی یہ بک یہاں سے نکالنے کی کوشش کرتا ہوں یا اس کتاب ٹھکانہ بدلنے کی کوشش کرتا ہوں، تو مجھے خواب آنے لگتے ہیں۔" آرَرکے نے بالآخر وہ راز بتا ہی دیا تھا کہ وہ کیوں اس کتاب کو اس کے باکس سے الگ نہیں کر پاتے۔

"خواب؟ کیسے خواب؟" ٹوئنکل کو حیرانی ہوئی۔

جبکہ انکل کو یلماز کی شکل دیکھ کر حیرت ہوئی تھی، وہ آرَرکے اور ٹوئنکل کی گفتگو نظر انداز کرتا، ٹکٹکی باندھے اس کتاب کو دیکھ رہا تھا۔

"تم خوابوں کو چھوڑو، یہ بتاؤ یہ لڑکا کون ہے؟ تمہارا بوائے فرینڈ ہے کیا؟" آرَرکے نے مسکرا کر پوچھتے ہوئے بڑی مہارت سے بات پلٹی اور ٹوئنکل کا دھیان بھٹکایا۔

"اوپس، میں  تو اس کا تعارف ہی کرانا بھول گئی۔" ٹوئنکل نے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ 

"یہ زیک ہے، بوائے فرینڈ نہیں، میرا دوست ہے، بچپن کا دوست۔" ٹوئنکل نے اس کا کندھا پکڑ کر کہا، وہ ابھی بھی اسی کتاب کی طرف متوجہ تھا۔

"زیک، تم ٹھیک تو ہو۔" وہ اس کے فعل سے پریشان ہوئی تبھی اس نے یلماز کا کندھا ہلایا اور وہ اسے ہوش کی دنیا میں واپس لائی۔

"ہاں، ہاں، میں ٹھیک، میں ٹھیک ہوں، مجھے کیا ہونا ہے۔" وہ یک دم ہڑبڑایا تھا۔

"امممم، مسٹر آرَرکے، مجھے یہ کتاب چاہیے، کیا قیمت ہوگی اس کی؟" وہ ٹوئنکل کی بات کا جواب دینے کے بعد فوراً بولا۔

ٹوئنکل نے اس کی طرف حیرت سے دیکھا، "ایک سیکنڈ، ذرا باہر آ کر میری بات سننا۔" ٹوئنکل نے ہونٹوں پر مصنوعی مسکراہٹ پھیلا کر، آرَرکے کو دیکھتے ہوئے یلماز سے کہا، اور اس کا بازو پکڑ کر باہر لائی۔

"میری بات سنو! تم کیوں وہ کتاب خرید کر پیسے ضائع کرنا چاہتے ہو! مام کہتی ہیں کہ پیسہ دیکھ بھال کر خرچ کرنا چاہیے۔" وہ دونوں ہاتھ باندھے، اس سے سوال کر رہی تھی،اور آخر میں اس نے بڑے وثوق سے مام کی کہی نصیحت دہرائی جیسے وہ خود تو بڑی کام کی جگہ پر اپنے پیسے خرچ کرتی ہے ناں، دادی کہیں کی۔

"تمہیں کیوں لگتا ہے کہ اس کتاب کو خریدنے سے میرے پیسے ضائع ہوجائیں گے؟؟" یلماز کو تعجب ہوا۔

"پتہ ہے، انکل کے پاس وہ کتاب چار سال سے اور کسی نے نہیں خریدی، تم نے اس کا سر ورق دیکھا ہے؟ کتنا بھدا ہے!  تم نے اس کتاب کی حالت دیکھی ہے؟ شکل سے پرانی معلوم ہوتی ہے، اب تم پرانے دور کی دقیانوسی کتابیں پڑھ کر کیا کرو گے؟ میری مانو، اسے چھوڑو ، اس کی جگہ کسی اچھے مصنف کی جانی مانی کتاب پڑھنا۔" وہ اسے سہولت سے سمجھا رہی تھی۔

"حد ہے، ٹوئنکل، تم مجھے باہر تو ایسے کھینچ کر لائی ہو، جیسے خدا جانے، اس کتاب میں کوئی جان لیوا راز ہے۔" یلماز نے گہرا سانس کھینچ کر کہا۔ اور ٹوئنکل کو پیچھے چھوڑ کر واپس اندر گیا۔ 

"کیا قیمت ہے اس کتاب کی؟" یلماز نے خوش اخلاقی سے پوچھا۔

"تم اسے مفت لے جا سکتے ہو۔" آرَرکے نے اس کا لہجہ لوٹاتے ہوئے بتایا۔

"نہیں آپ ، پلیز قیمت بتائیں۔" اس نے اصرار کیا۔

"ہاااا۔۔، انکل! کتنی غلط بات ہے، آپ اسے یہ کتاب مفت دے رہے ہیں، آپ نے آج تک مجھے تو کوئی چیز مفت نہیں دی۔" وہ کمر پر ہاتھ ٹکائے، حیرت زدہ ہوتے ہوئے خفگی سے بولی۔

بات حیرت انگیز ہی تھی کیونکہ آرَرکے بھلے ایک خوش اخلاق انسان تھا پر اس نے کسی گاہک کو مفت چیز تو کیا، کبھی ڈسکاؤنٹ تک بھی نہیں دیا تھا۔

"بس ہر کسی کی قسمت زیک جیسی نہیں ہوتی جو آرَرکے کی دریا دلی سے فائدہ اٹھا سکے۔" اس کے سیاہ چہرے پر پھیلی گہری مسکراہٹ نے ٹوئنکل کو اندر تک تپایا۔

آرَرکے نے یلماز کو زبردستی وہ کتاب، کوئی قیمت وصول کیے بغیر ہی تھمائی۔ ٹوئنکل کا معصوم ناراض چہرہ دیکھتے ہوئے، اس نے ٹوئنکل کی پسندیدہ چیزیں بھی اسے مفت میں ہی تھما دیں۔ ٹوئنکل کا تو حیرت کے مارے برا حال تھا اور خوشی بھی بہت ہوئی، اس نے دل سے انکل کا شکریہ ادا کیا۔

"بہت شکریہ انکل، اب دیکھیئے گا، اس سب کے بدلے ٹوئنکل آپ کو کتنی اچھی ٹریٹ دے گی۔" وہ آنکھوں میں چمک لیے معصومیت سے خوش ہو کر بولی۔

"ارے واہ، اور ٹوئنکل مجھے ٹریٹ میں کیا دے گی،" آرَرکے نے اپنی دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے ٹوئنکل کا شوق بڑھایا۔

"یہ تو سرپرائز ہے ناں، جب دوں گی تب ہی بتاؤں گی۔" وہ شرارت سے کہنے کے بعد، آرَرکے کا ایک مرتبہ پھر شکریہ ادا کرتی، یلماز کو ساتھ لیے وہاں سے چلی گئی۔

_._._._._._._._._._._._._._.

آیت ڈائنگ ہال کی بجائے کچن میں رکھی میز پر اپنا ناشتہ سجائے اسے تناول فرمانے میں مصروف تھی، یہ اور بات ہے کہ وقت دوپہر کے کھانے کا تھا۔ وہ ابھی کھا ہی رہی تھی کہ کچن میں داخل ہوتے شخص کو دیکھ کر اس کا دل خراب ہوا۔ ڈھیلے ڈھالے ٹراؤزر، شرٹ میں ملبوس وہ خاصا تازہ دم لگ رہا تھا، شاید نہا کر آیا تھا تبھی اس کے بال گیلے تھے۔ اس نے ایک نظر آیت پر ڈال کر فریج کھولا۔

اپنے لیے جوس اور ڈبل روٹی نکال کر وہ آیت کے سامنے ہی آ کر بیٹھا۔ "جیم ملے گا؟" اس نے آیت سے کہا۔ 

وہ اس کو نظر انداز کیے، اپنی اپنے بریڈ سلائس پر جیم لگا رہی تھی۔

آیت نے اسے گھور کر دیکھا۔ "بالکل، اور تم جیم کے ساتھ ساتھ یہ بریڈ بھی پکڑو، تمہاری گندی نظر پڑنے کے بعد یہ میرے کھانے کے قابل نہیں رہی۔" وہ حقارت سے بولی۔

"میں نے تمہیں یا تمہاری کسی چیز کو کبھی بری نظر سے نہیں دیکھا۔" وہ اس کا بریڈ سلائس اٹھاتے ہوئے، اس کی طرف دیکھے بغیر بولا۔ لہجہ دبا ہوا سا تھا، جیسے خود کو کسی الزام سے بری کرنے کی کوشش میں اپنی صفائی دے رہا ہو۔

اس کا انداز آیت کے دل کو لگا تھا۔ "آخر ہوا کیا ہے اس کو؟ اتنی عاجزی؟" آیت نے گُھل کر سوچا۔ وہ گھلی ہی تو تھی، نادر کا اچھا برتاؤ، آیت کو اس کے بے وجہ تلخ رویے کے لیے شرمندگی پر اکسا رہا تھا۔ پر وہ اس کی بے جا بےعزتی کرنا اپنا حق سمجھتی تھی، اسی لیے شرمندگی اسے چھو کر بھی نہیں گزری۔

وہ حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی، کتنے شوق سے وہ اس کے حصے کا سلائس کھا رہا تھا۔ 

وہ حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی، کتنے شوق سے وہ اس کے حصے کا سلائس کھا رہا تھا۔ 

وہ پلکیں جھپکائے بغیر اس کا انہماک ملاحظہ کر رہی تھی۔ نادر اسے ایک اور الجھن میں دھکیل چکا تھا۔ آیت سمجھ گئی تھی کہ کچھ تو بدلا ہے، پر کیا؟ اس کا جواب اسے نہیں چاہئیے تھا، وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس نے جو اخذ کر لیا ہے وہی حقیقت ہو۔ 

آیت اب تک اس کے سر پر کھڑی تھی۔ وہ سلائس ختم کر لینے کے بعد اس کی طرف متوجہ ہوا۔ وہ متحیر سی اسے دیکھتی گئی۔ نادر کیسے یہ موقع ضائع کرتا، اس نے بھی جواباً اپنی دیوانگی لٹاتی آنکھوں سے اسے دیکھا، کچھ لمحوں تک یوں ہی دیکھنے کے بعد وہ بولا "بس کرو، ایسے دیکھو گی تو کچھ ہو جائے گا۔ بائے دا واے تھینکس فار دا بریڈ۔" وہ نرمی سے مسکرایا اور سرگوشی نما آواز میں کہہ کر جانے لگا۔

"کیا۔۔؟؟ کیا ہوگا؟؟" آیت کے ہونٹ خشک ہوئے اور اسے لگا کہ جیسے اس کا خون بھی خشک ہو گیا ہو۔ نادر کی گمبھیر آواز، اس کے احساسات میں ارتعاش پیدا کرنے لگی تھی۔

"کچھ بہت اچھا۔"اس نےمڑ کر کہا۔

"ک۔۔کس کے ساتھ۔۔؟؟" حیرت ہے، ایک طرف تو وہ کچھ جاننا نہیں چاہتی ، دوسری طرف اس کے سوالات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔

"میرے ساتھ۔" آیت کا کنفیوژ سا انداز نادر کو مسکرانے پر مجبور کر گیا۔

"میرے گھورنے سے تمہارے ساتھ کیا اچھا ہوگا؟" وہ بھنویں اچکا کر، ذرا درشتی سے بولی، اسے اپنے آپ پر بھی غصہ آیا کہ وہ خواہ مخواہ نادر سے الجھ رہی ہے، اس سے بات کر رہی ہے۔ وہ خود کو روکنے کی کوشش کرنا چاہتی تھی پر کوشش سے پہلے ہی بات اس کے منہ سے نکل کر سوال کی صورت میں نادر کے سامنے ہوتی۔

نادر، صورتحال خوب اچھے سے سمجھ رہا تھا۔

"رہنے دو، پھر کبھی بتاؤں گا، کسی صحیح وقت، کسی مناسب موقع پر۔" وہ ایک انداز سے کہتا وہاں سے جا چکا تھا۔

آیت نے اپنا تھوک نگلا، وہ ڈھیلی ہوتی ہوئی واپس کرسی پر بیٹھی۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے سر تھاما۔ "یا اللّٰه، یہ کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ۔۔!!" وہ ہمت ہارتی ہوئی بڑابڑانے لگی۔ نادر کے انداز نے، اسے بہت کچھ باور کرایا۔ وہ کچھ جس پر وہ بالکل یقین نہیں کرنا چاہتی تھی۔اس کے سامنے یوں بے ساختگی سے سوال پہ سوال کرنا، آیت کو شرمندگی میں مبتلا کر رہا تھا۔ "اففف آیت ، کیا ضرورت تھی تمہیں اتنا فری ہونے کی۔'' اس نے خود کی سرزنش کی۔

_._._._._._._._.

انکل اپنے کسی پرانے دوست سے ملنے گئے تھے، ٹوئنکل اور اس کی مام بیکری پر تھیں، یلماز فارغ بیٹھا بور ہوا تو اس نے اپنے سامان میں سے وہ کتاب نکالی جو اس نے آرَرکے سے لی تھی۔ اور لے کر چیئر پر بیٹھ گیا۔

کتاب کی جلد اس کے صفحات کی نسبت نئی معلوم ہوتی تھی۔  "ونڈرز بائے کلارا" (wonders By Clara) سرورق پر تحریر تھا۔ کتاب اور مصنفہ کا نام غیر معروف تھا۔ یعنی وہ کسی جانے مانے مصنف کی تحریر نہیں تھی۔ پر یہ یلماز کا ناموں سے کیا لینا دینا۔ اسے تو کتاب پڑھنے سے مطلب تھا۔ تو اس نے پہلا صفحہ کھولا جہاں ابواب کی فہرست لکھی ہوئی تھی۔ اس نے ایک نظر ابواب کی فہرست پر ڈالی اور پہلا باب کھولا۔ 

صفحے کے شروع میں ہی بڑے حروف میں ، "چیپٹر ون، دا بیگنیگ" (Chapter one: The Beginning) لکھا تھا۔

اس نے بہت شوق سے اسے پڑھنا شروع کیا۔ وہ کتاب مطالعے سے پہلے ہی یلماز سے اپنا تعلق باندھ چکی تھی اس لیے عدم دلچسپی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، تبھی وہ بہت منہمک ہو کر کتاب کے مطالعے میں مگن تھا۔

وہ جیسے جیسے پڑھ رہا تھا اسے لگا کہ جیسے یہ اسی کی کہانی ہے۔ خیر کہانی "جیری" نام کے کردار کی تھی، جو پڑھنے میں کہانی کا مرکزی کردار معلوم ہوتا تھا۔ ابھی اس کے بچپن کا تذکرہ چل رہا تھا۔ وہ پورے انہماک سے مطالعے میں مصروف تھا۔ دو گھنٹے لگے تھے اسے یہ چیپٹر ختم کر نے میں۔ اور چیپٹر ختم کرنے کے بعد اسے کچھ عجیب سا محسوس ہوا۔ اسے وہ کتاب کچھ پراسرار سی لگی۔

 کیا تھی وہ کتاب؟ اسے کیوں لگ رہا تھا کہ کتاب میں موجود جیری، جیری نہیں بلکہ یلماز ہے۔ ویسے تو اس میں اور بھی بہت کچھ تھا پر لیکن جیری کے کریکٹر نے اسے حیرت میں ڈالا تھا۔ دو گھنٹوں کے مسلسل مطالعے کے باعث اسے تھکن محسوس ہوئی تو اس نے وہ کتاب رکھ دی۔

وہ کتاب اس پر تذبذب کی کیفیت طاری کر چکی تھی جسے اس نے اپنا وہم کہہ کر رد کرنے کی کوشش کی۔

._._._._._._._.

نادر سے ملاقات کے بعد وہ خاصی عجیب کیفیت میں مبتلا تھی، اسے ہر چیز سے بیزاری محسوس ہورہی تھی۔ وہ اپنی اور اس کی گفتگو کا سوچ سوچ کر کوفت کا شکار ہورہی تھی۔ اور تو اور نادر کا بے تکلف سا رویہ اسے پریشان کر رہا تھا۔ کہاں کئی سال تک، اس نے نادر کو کبھی مخاطب بھی نہ کیا تھا اور کہاں آج کل وہ نہ چاہتے ہوئے بھی کسی نہ کسی بہانے، اس سے گفتگو کر لیا کرتی تھی۔ آخر وہ خاموشی اور سکوت کا خول کیوں چٹخا تھا۔ کیوں ان دونوں کی گفتگو کے اسباب بنتے چلے جا رہے تھے، کیوں ان کے درمیان کے تکلفات معدوم ہو رہے تھے! وہ پریشان تھی کہ ایسا کیوں ہو رہا تھا۔ صرف یہ نہیں بلکہ دوسری بہت سی الجھنیں، بہت سی پریشانیاں بھی اس کی سوچوں کا احاطہ کیے ہوئے تھیں۔ وہ یوں ہی سب کچھ سوچتے سوچتے ساری حویلی میں منڈلاتی پھر رہی تھی۔ اس کا کہیں ٹک کر بیٹھنے کو دل نہیں کیا۔وہ کچھ دیر تو اِدھر اُدھر پھرتی رہی پھر تھک کر لاونج میں موجود صوفوں میں سے ایک پر بیٹھ گئی۔ اب وہ بےکار بیٹھی، ریموٹ ہاتھ میں لیے چینل بدلنے میں مصروف تھی۔ وہ عموماً ٹی وی دیکھتی نہیں تھی، بس آج ایسے ہی ریموٹ اٹھا لیا تھا، اب اسے سمجھ نہیں آیا کہ کیا دیکھے۔ اسے کچھ پسند ہی نہیں آیا۔ ابھی اس کا مشغلہ جاری ہی تھا کہ ماریہ آ دھمکی۔ 

"اٹھو یہاں سے، امی بول رہی ہیں آیت کو بولو آ کر کچن میں مدد کرائے۔" اس نے اپنی امی کا پیغام پہنچایا۔

"کیوں؟ کچن میں ایسا کونسا ایٹم بم تیار ہو رہا ہے جو میری مدد کے بغیر نہیں بن سکتا؟ اور تم خود مدد کیوں نہیں کر لیتیں؟" وہ تڑخ کر بولی۔

"کبھی تو تمیز سے بات کر لیا کرو! خصوصاً جب سامنے والا تمیز کے دائرے میں رہ کر تم سے مخاطب ہو !" ماریہ نے اس کے ترش لہجے پر چوٹ کی۔

"ایک بار تمیز کے دائرے میں آجانے سے سابقہ بدتمیزیوں کا ازالہ نہیں ہوتا ماریہ میڈم، ویسے بتادو ممانی کو، میں نہیں آ رہی کچن میں۔ پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے حویلی کی عورتوں کو، درجنوں ملازم ہونے کے باوجود بھی کھانا خود پکانا ہوتا ہے!!" وہ چڑ کر بولی۔

"تم سے تو بات کرنا ہی فضول ہے! خیر امی اس لیے بلا رہی تھیں کہ کل کو تمہاری کہیں شادی ہوتی ہے تو کم سے کم تمہیں کھانا پکانے کا ہنر آنا چاہیے، باقی تمہاری مرضی۔" ماریہ آنکھیں دکھاتے ہوئے آیت والے لہجے میں بولی اور بول کر جانے لگی۔

"ان کو بولو، میری شادی کی فکر کرنا چھوڑ دیں، میں نے کوئی شادی وادی نہیں کرنی۔ ان شاءاللّٰه مرتے دم تک حویلی چھوڑ کر نہیں جاؤں گی۔" آیت نے اسے روک کر، بڑے وثوق سے باور کرایا۔

"اوہ، اچھا؟ تو اس کا مطلب ہے کہ تم نادر بھائی سے شادی کے لیے تیار ہو، ہاہاہا، صرف یہی صورت ہے جس میں امی کو تمہاری شادی کی فکر نہیں ہونی اور تمہاری حویلی سے بےدخل ہونے سے بچت بھی ہو جائے گی۔" ماریہ کا طنز بھرا قہقہہ بلند ہوا۔ آیت کی شکل کے تاثرات دیکھ کر ٹھنڈ پڑی تھی اس کے کلیجے میں! جیسے اس نے آیت کی بدکلامیوں کا ٹھیک ٹھاک بدلہ لے لیا ہو۔

ماریہ کے جانے کے بعد بھی وہ کچھ لمحے اپنی جگہ پر ساکت رہی۔ اس پر ماریہ کا یہ مذاق بہت گراں گزرا تھا، اتنا کہ وہ کچھ ساعتوں سکوت کا شکار رہی، اس کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ ہل پاتی۔ وہ حیران تھی کہ اتنے بھونڈے مذاق پر، اس نے کوئی جارحانہ رد عمل نہیں دیا، ورنہ وہ تو اس بات پر اس کا منہ توڑنا چاہتی تھی۔ 

پھر کیوں رکی تھی؟ کیوں وہ اس کو جواب دینے سے باز رہی؟ یہ واقعہ اس کی الجھنوں میں ایک اور کا اضافہ کر چکا تھا۔

  _._._._._._._._.

"کیا ہوا؟ آیت کدھر ہے؟" رفعت بیگم نے ماریہ کو اکیلے آتا دیکھ کر پوچھا۔

"نہیں آئی وہ!" ماریہ نے کندھے اچکا کر کہا۔

"بھابھی دیکھ رہی ہیں، اس لڑکی کے کام!! آپ نے بلاوا بھیجا تھا، پھر بھی نہیں آئی۔۔ بڑا پن ہے آپ کا جو اسے برداشت کرتی ہیں۔" رفعت نے، ہنڈیا میں چمچہ چلاتی شمسہ سے، چاپلوسی بھرے انداز میں کہا۔ 

جو بھی تھا، وہ اور رفعت، شمسہ کے سامنے ان کی خوب چاپلوسی کرتی تھیں۔

"اس کی مرضی، ہم کیا کہہ سکتے ہیں یا پھر کیا کر سکتے ہیں۔۔!!" شمسہ بیگم لاپروائی سے بولیں۔ وہ اب آیت کی حرکتوں کو زیادہ دل پر نہیں لیتی تھیں۔

"یہ کیا بات ہوئ۔!! آپ اس کی شادی کرا سکتی ہیں! وہ بھی نادر بھائی سے، ایمان سے مزہ آجائے گا، وہ چڑیل تو چڑ چڑ کر ہی اللّٰه کو پیاری ہو جائے گی۔" ماریہ کڑھتے ہوئے بولی۔

" کبھی تو ڈھنگ کی بات منہ سے نکال لیا کرو، جب بھی بولو گی بے کار بولو گی! دیکھا نہیں تھا اس کا پہلے والا تماشا؟؟" شمسہ بیگم نے اسے جھڑکا۔ جس پر وہ اپنا سا منہ لے کر رہ گئی۔ اس کا دل کیا کہ وہ آگے سے زبان درازی کرے۔ مگر پھر اپنے آپ پر جبر کرتے ہوئے خود کو اس بدتمیزی سے باز رکھا۔

×××××××××××××

"شہزادے صاحب! کہاں جانے کی تیاری ہے؟" شمسہ بیگم نے نادر کو تیار شیار دیکھ کر طنز سے پوچھا، پہلے وہ نادر سے ایسے سوال جواب نہیں کیا کرتی تھیں۔ یہ آیت کی لعن طعن کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے نادر کو آڑے ہاتھوں لیا۔ "دوستوں کے پاس جا رہا ہوں۔" اس نے رک کر سنجیدگی سے کہا۔ "خیر سے آپ کو میرا خیال کیوں آیا؟" وہ طنزیہ مسکان لیے دھیمے لہجے میں بولا۔

"اس بکواس کا مطلب؟ تمہیں لگتا ہے کہ مجھے تمہارا خیال نہیں؟" شمسہ بیگم سیخ پا ہوتے ہوئے بولیں۔

"میں نے ایسا تو نہیں کہا۔" وہ کندھے اچکاتا، بے نیازی سے گویا ہوا۔

"ایسا ہی کہا ہے، افسوس ہوتا ہے خود پر، میرے اپنے بچے اتنے بدگمان ہیں۔" ان کے غصے میں کہیں کہیں دکھ بھی جھلک مار رہا تھا۔

"آپ کی بات مکمل ہو گئی ہو تو میں جاؤں؟؟" وہ اکتایا کیونکہ اسے بے چینی محسوس ہو رہی تھی۔

"ہاں ہاں جاؤ بچے۔حویلی کی، زمینوں کی کوئی ذمہ داری تو ہے نہیں تم پر، بیرم پاگل ہے ناں جو دن رات زمینوں پر کھپتا ہے، حویلی کا انتظام سنبھالتا ہے۔ تم سے چھوٹا ہے پر پھر بھی اتنا ذمہ دار ہے، پڑھائی مکمل کر لینے کے باوجود بھی آگے سے آگے نئی چیزیں پڑھتا رہتا ہے۔ تمہارے کرنے والے بھی سارے کام وہ بےچارہ اکیلا دیکھتا ہے، تم جاؤ آوارہ گردیاں کرو،  نشے میں جھول جھول کر بھائی کی محنت حرام کرو۔ آیت تمہارے لیے جو کہتی ہے ٹھیک کہتی ہے۔ نکما کہیں کا، نہ پڑھائی کرتا ہے نہ زمینوں کی دیکھ بھال۔ کچھ اندازہ ہے، تمہاری ان خراب عادتوں کی وجہ سے کوئی ہمارے ہاں رشتے پر بھی راضی نہیں ہوتا، ماریہ کے لیے بھی کوئی رشتہ نہیں آتا نہ تمہیں کوئی لڑکی دیتا ہے۔ اچھی بھلی عزت تھی گاؤں میں، سب خاک میں ملا دی تم نے۔"

 بات کہاں سے نکلی تھی اور کہاں تک پہنچ گئی۔ آج تو شمسہ بیگم نے اپنا سب غبار نکالنے کی ٹھانی ہوئی تھی۔

 پر نادر اسے کوئی خاص فرق نہیں پڑا، بس اپنی شادی والی بات پر ایک حسین چہرہ اس کے تصور میں لہرایا تھا۔ باقی اس وقت اسے شراب کی شدت سے طلب محسوس ہو رہی تھی، اس لیے وہ اپنے دوستوں کے پاس، پارٹی کرنے کے لیے جلد سے جلد جانا چاہتا تھا۔ تبھی اپنی امی کوئی بات خاطر میں نہ لایا۔

شمسہ بیگم اتنا بول لینے کے بعد ہانپنے لگی تھیں۔

"امی میں جا رہا ہوں۔" اس نے اپنی امی کی باتیں نظر انداز کیں، وہ بے چینی سے، اپنی ہتھیلی سے گردن مسلتا ہوا بولا اور تیز قدم اٹھاتا وہاں سے رفو چکر ہوا۔

شمسہ بیگم کا تو دماغ ہلا تھا۔ مطلب اس پر کسی بات کا اثر نہیں ہوا۔ ہوتا بھی کیسے، اس وقت وہ شدید بے چین تھا، چار دن ہو گئے تھے شراب کو ہاتھ لگائے۔ اب اس سے اور برداشت نہیں ہو پایا۔

شمسہ بیگم کا تو دماغ ہلا تھا۔ مطلب اس پر کسی بات کا اثر نہیں ہوا۔ ہوتا بھی کیسے، اس وقت وہ شدید بے چین تھا، چار دن ہو گئے تھے شراب کو ہاتھ لگائے۔ اب اس سے اور برداشت نہیں ہو پایا۔

شمسہ کافی بے بسی سے اس کی حالت پر افسوس کر رہی تھیں، انہوں نے پہلی دفع صحیح معنوں میں نادر کی فکر اور اس کے لیے پریشان ہونے کا درد اٹھایا تھا۔ یہ درد انہیں اندر تک جھنجھوڑ رہا تھا۔  "کیا کر رہا ہے وہ اپنے ساتھ! اگر ایسا چلتا رہا  تو ضرور ایک دن وہ اپنا بہت نقصان کر بیٹھے گا۔" نادر کی کیفیت انہیں گھائل کر رہی تھی۔ انہوں نے دکھ سے سوچا۔

خیر اس نے آگے چل کر جو نقصان کرنا تھا سو کرنا تھا پر اب بھی وہ کسی منافع بخش عمل میں اپنا وقت صرف نہیں کر رہا تھا۔

آیت ان کی سب باتیں سن چکی تھی، وہ ان لوگوں سے تھوڑا دور ایسے رخ پر کھڑی تھی کہ وہ اسے نہیں دیکھ پایا۔ اسے اندازہ تھا کہ نادر کو باہر جانے کی اتنی جلدی کیوں ہے۔

 نادر کے وہاں سے چلے جانے کے بعد آیت، شمسہ کے سامنے سے ہوکر گزری۔ اور کوئی وقت ہوتا تو وہ اس سارے واقعے پر ضرور اپنی کوئی جلی کٹی سی رائے پیش کرتی، شمسہ پر طنز کرتی یا ان کی حالت کا مزہ لیتی پر اس وقت ، نجانے کیوں اس کا دل نہیں کیا کہ وہ اپنی ممانی کا دل جلائے، الٹا ان کی پریشانی نے اسے بھی سوچ میں مبتلا کیا۔

" اس کی گندی عادتیں، اس کے مستقبل پر اثرانداز ہو سکتی ہے ہیں۔ یہ وقت اس کے لیے کتنا قیمتی ہے، شاید یہ نہیں جانتا، جوان خون تو بے بہا صلاحیتوں کے ہجوم سے لدا ہوتا ہے۔ اس کی توانائیاں۔۔دنیامیں انقلاب پیدا کرنے کی طاقت رکھتی ہیں۔ پھر وہ کیوں خود کو ضائع کر رہا ہے! کیا مل رہا ہے اس کو اپنا وقت، اپنی صحت ، اپنی قوت برباد کرنے سے!!" وہ دل سے متفکر ہوئی تھی اس کے لیے۔

_._._._._._._._.

یلماز نے جب سے وہ کتاب پڑھی تھی سب سے اس کا وہ باب اس کے ذہن میں گردش کر رہا تھا۔ انکل نے اس کا الجھا الجھا رویہ نوٹ کیا پر اس نے یہ کہہ کر ٹال دیا ایسی کوئی بات نہیں، بس وہ فارغ رہنے کی وجہ سے تھوڑا بور ہو گیا ہے۔ اس کا یہ جواب سننے کے فوراً بعد ہی ٹوئنکل صاحبہ نے اپنا دماغ لڑایا اور اس کی بوریت دور کرنے کا کوئی معقول حل نکالنے لگی۔ تھوڑا سا سوچنے کے بعد ہی اس کے ذہن میں ایک زبردست سا خیال کوندا۔

وہ گلا کھنکارنے کے بعد ، کھانے کی میز پر عین اپنے سامنے بیٹھے یلماز سے مخاطب ہوئی۔

"کیا تم بہت امیر ہو۔۔؟؟" اس نے بچوں جیسے انداز میں پوچھا۔

"نہیں تو، پر یہ کیسا سوال ہے ؟" وہ سرپرائز ہوا تھا، ٹوئنکل سے ایسے سوال کی توقع نہیں تھی اسے۔

"اچھا، پھر تمہارے پاس اتنے پیسے تو ہوں گے کہ دو تین مہینوں تک یہاں، مانچسٹر میں بغیر کچھ کمائے گزارا کر سکو۔" اس نے بات بڑھائی۔

"نہیں، ان فیکٹ میری تو ساری سیونگز بھی ختم ہو چکی ہیں۔" وہ پر سوچ انداز میں بولا۔

رابرٹ اور کیتھرین ، ٹوئنکل کے سوالات کا مقصد سمجھنے سے قاصر تھے۔

"بیٹا کھانے کے وقت کیسی باتیں کر رہی ہو؟؟ کھانا تو کھانے دو اسے۔" کیتھرین نے ٹوکا۔ 

ان کے ٹوکنے پر یلماز مسکرایا تھا، کیوں کہ ٹوئنکل کے چہرے پر چپ ہونے والا کوئی تاثر نہیں تھا۔

"ارے مام، آپ صبر تو کریں، میں اس کی بوریت کا حل نکالنے لگی ہوں!!" ٹوئنکل نے مام کو چپ کرایا۔

"ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ تم اپنی بوریت بھگانے کے لیے کوئی کام کیوں نہیں کرتے؟ دیکھو اگر تمہیں یہ مسئلہ ہے ناں تم کوئی کام نہیں ڈھونڈ سکتے ، تو میں تمہیں پہلے سے کام آفر کر رہی ہوں، وہ کیا ہے ناں کہ ہماری بیکری کے لیے ایک سیلز بوائے کی ضرورت ہے، اگر تم چاہو تو میرے پاس نوکری کر سکتے ہو، ویسے مجھے یقین ہے تم منع نہیں کرو گے اس لیے سمجھو تم نے جوائن کر ہی لیا۔ اب تمہارے لیے اتنا تو کر سکتی ہوں میں، شکریہ کہنے کی ضرورت نہیں، ایک دوست ہی دوست کے کام آتا ہے، ہیں ناں؟؟" وہ کھانا چھوڑ کر ، آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے بغیر رکے ایک ہی سانس میں ساری بات کہہ گئی۔

کیتھرین اس کی فضول فضول سی باتوں پر اچھی خاصی خجل ہوئیں اور وہ ٹوئنکل کو پھاڑ کھانے والی نظروں سے گھور بھی رہی تھیں، جیسے کہہ رہی ہوں، بچے اکیلے میں مل، پھر تیری پھینٹی لگا کر، تجھے ٹھوک پیٹ کر سیدھا کرتی ہوں۔

انکل رابرٹ دبی دبی ہنسی ہنستے کھانے میں مشغول تھے۔ اور یلماز اپنی دونوں بھنوؤں کو اوپر کی طرف اٹھائے بڑے  مزے سے اس کی باتیں ملاحظہ کر رہا تھا کہ محترمہ کتنی خوش فہم ہیں، سب کچھ اپنے آپ سے ہی سوچ لیا۔

"تمہاری سب باتیں ٹھیک ہیں، پر تم ایسے کیسے مجھے اپوائنٹ کر سکتی ہو؟ اوررر تم سے کس نے کہا کہ میں کوئی جاب نہیں ڈھونڈ سکتا یا تمہارے پاس جاب کرنا چاہتا ہوں؟ ہیں؟" اس نے سہولت سے ٹوئنکل کی ساری شوخیاں کچی کرنا چاہیں۔

کوئی اور ہوتا تو اسے اچھی خاصی بےعزتی محسوس ہوتی۔ پر یہ ٹوئنکل تھی جسے یلماز بے حد پیارا تھا، وہ ایسے کیسے اس کی بات کا برا منا لیتی، اور وہ اپنا زیادہ زیادہ وقت اس کے ساتھ گزارنا چاہتی تھی، اسے اچھا لگتا تھا ہر وقت یلماز کے ساتھ رہنا ، تبھی وہ چاہتی تھی کہ یلماز اس کا کہا مان لے۔

"گاڈ!! تم کیسے ہر بات کی دم پکڑ رہے ہو!! دیکھو سیدھی سی بات ہے۔ تم بیکری میں میرے ساتھ کام کرو گے تو مجھے اچھا لگے گا ناں، میں بھی اکیلی وہاں بور ہی ہوتی ہوں۔" اس نے اپنے آپ کو خود ستائی سے باز رکھتے ہوئے سچ اگلا۔

"افف ٹوئنکل!! تم اکیلی کب ہوتی ہو!! آنٹی ہوتی ہیں ناں ساتھ تمہارے۔" یلماز نے مسکراتے ہوئے ایک اور بات ماری۔

 آج شاید کسی دیوار میں سر مار کر آیا تھا وہ، جو ٹوئنکل کے ساتھ ایسی مغز ماری کر رہا تھا۔

 ٹوئنکل آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھور رہی تھی۔

"بچے!! یہاں آ کر کافی بدل گئے ہو۔۔!! پاکستان میں لڑکیاں تمہیں کسی اور سیارے کی مخلوق لگا کرتی تھیں۔ یاد ہے بات کرنا تو دور، تم دیکھتے بھی نہیں تھے، اور یہاں کا تو معاملہ ہی الٹا ہے، ادھر بڑے شوق سے گپے ہانکتے رہتے ہو۔" انکل نے چھیڑنے والے انداز میں کہا۔ جس پر یلماز کا قہقہہ بلند ہوا۔ یہ بھی ایک نئی تبدیلی تھی، ورنہ وہ کہاں قہقہے لگاتا تھا۔

واقعی آج تو اس کی حسِ مزاح ضرورت سے زیادہ سرگرم تھی۔ 

"ہممم، ایسا ہی تھا۔ پر کیا کروں!! اب مزاج بدل رہا ہے تو ایسا ہی سہی، مجھے لگتا ہے کہ مانچسٹر کی چڑیلیں اپنا جادو چلا رہی ہیں۔" اس کا اشارہ ٹوئنکل کی طرف تھا۔ پر ساتھ ہی اسے گھنگھریالے بالوں والی لڑکی بھی یاد آئی۔ اس کا مدد مانگنا، اس کا لپٹنا، سب اس کے ذہن پر گردش کرنے لگا۔

اب ٹوئنکل بے چاری، اس کی اس بات پر بھی گھور کر ہی رہ گئی کیونکہ جواب تو اس سے کوئی بن نہیں سکا۔

__________

جیری، یلماز کے ذہن پر مسلط تھا۔ اسے تعجب تھا کہ وہ یلماز جیسا کیوں ہے، اس کی مام بھی پاکستان سے تھیں، وہ بھی مانچسٹر میں رہتا تھا، اس کی بھی ٹوئنکل جیسی دوست تھی، اسے بھی وہی کھیل پسند تھے جو یلماز کھیلا کرتا تھا۔ جیری بھی ٹھیک انہی جگہوں پر جانا پسند کرتا تھا جہاں جہاں یلماز گھوما تھا۔ حتیٰ کہ جیری کو بھی کھانے میں اپنی مام کے ہاتھ کا بنا فش کیک اچھا لگتا تھا جو یلماز کا بھی حد سے زیادہ پسندیدہ تھا۔

آخر اتنی مماثلت کیسے تھی ان دونوں میں۔ خیر وہ کوششیں کرتا تھا کہ خود کو حتیٰ الامکان، کسی بھی وہم میں مبتلا ہونے سے محفوظ رکھے۔ سو اس نے اپنی قوتِ ارادی کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے، اس کہانی کے واقعات کو اتفاق کا نام دے کر، کسی طرح خود کو مطمئن کیا۔ وہ یہ یقین کرنا چاہتا تھا کہ اس کتاب سے اس کا کوئی واسطہ نہیں، وہ کسی کلارا کو نہیں جانتا اور نہ ہی کسی ایسے شخص کا پتہ ہے جو اس کے بچپن کو اتنی گہرائی سے جانتا ہو اور کوئی کتاب بھی تحریر کر سکے۔ سو اس لیے اسے وہ سب صرف اتفاق لگا۔ 

اس نے یہ سوچ کر بھی خود کو تسلی دینے کہ کہانی میں صرف جیری تو نہیں، وہاں اور بھی بہت سے کردار ہیں، وہاں کسی اور بچی کا بھی تذکرہ ہے۔ وہاں اور بھی بہت سے لوگ ہیں۔  یقیناً یلماز کی سوچ بالکل درست تھی، وہاں بہت کردار تھے، وہ کردار جو اس کے لیے محض فرضی تھے پر حقیقت ان کا کوئی تو ربط تھا، کوئی تو تعلق تھا، کہیں نہ کہیں وہ اس سے منسلک ضرور تھے۔

_________

"حیرت ہے، جب دیکھو محترمہ گھر پر نظر آتی ہیں! خیریت تو ہے؟ اب تمہارا باہر نکلنے کو جی نہیں چاہتا؟" عصر ، مغرب میں ڈھل رہی تھی جس وقت بیرم اس کی اجازت کے بغیر، اس کے پاس، لان والے جھولے میں آ کر بیٹھا تھا۔

شکر تھا کہ آیت نے برا نہیں منایا۔ وہ ویسے بھی اس حالت میں نہیں تھی کہ برا مناتی اور کوئی فساد برپا کرتی۔ وہ خود بھی بجھی بجھی ، الجھی الجھی تھی۔ اور اپنے متاثرین پر بھی ایک سوگ سا طاری کر رہی تھی۔ شاید ماحول بھی اسے سے متاثر تھا کہ یہاں کسی کو کوئی دلکشی محسوس ہی نہیں ہوئی۔ شاید حویلی بھی اس سے متاثر تھی جو یہاں کی ساری رونقیں آیت کی اداسی کی نذر ہو گئیں۔ ورنہ آیت کے مچائے جانے والے شور و غل سے تو صاف پتہ چلتا تھا کہ یہاں ابھی زندگی کی رونقیں باقی ہیں۔

یہی بات بیرم کو کھٹکی تھی، کچھ دنوں سے وہ مصروف ہی اتنا تھا کہ آیت کی احوال گیری نہیں، اب اسے دو دنوں سے مسلسل اتنا بجھا بجھا دیکھ کر اس سے رہا نہیں گیا تبھی وہ اسے پوچھنے چلا آیا تھا۔

بیرم کے سوال پر آیت نے چند لمحوں تک اسے اپنی پریشان نظروں سے گھورا۔ اور پھر رخ بدل کر،گھاس پر نظریں جمائے بولی،"خیریت تو مجھے تمہاری دریافت کرنی چاہیے۔ کیوں کہ حیرت کی بات تو یہ بھی ہے کہ میں اتنے دنوں سے میں واقعی گھر پر ہوں اور تمہیں مجھ سے بات کرنے کا اب خیال آیا ہے۔" 

"سو سوری،!!! مصروف تھا ناں میں! یقین کرو ان دنوں اپنے لیے وقت نہیں نکال پایا۔" اس نے صفائی پیش کی۔

"پھر بھی، اتنی لاپروائی ، چلو خیر، چھوڑو اسے۔" آیت نے خود سے ہی بات کو ختم کیا۔ 

"ہاں، اسے چھوڑتے ہیں، میں تم سے پوچھنے آیا تھا کہ تمہارے ساتھ کوئی مسئلہ چل رہا ہے؟ مطلب کافی ڈسٹرب دکھائی دے رہی ہو کچھ دن سے۔۔!!" 

"نہیں، ایسا۔۔ایسا تو کچھ نہیں۔" اس کا اٹکتا رویہ بتا رہا تھا کہ وہ کتنا سچ بول رہی ہے۔

"کیا واقعی؟" بیرم نے بھنویں اچکائیں۔

"شاید میری نظر کمزور ہو گئی ہے جو تم مجھے ایسی دکھا رہی ہو۔" وہ اس کا جھوٹ پکڑتے ہوئے بولا۔

آیت منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھی۔ ہاں وہ نہیں چھپا پا رہی تھی، اس کہرام کو جو تباہ کن تو تھا پر بہت خاموشی سے اس کی ذات کو جھلسا رہا تھا۔

"دراصل۔۔!!"

 "دراصل مسئلہ ہے!" وہ بیرم پر اپنی پریشان سی نظر گاڑھے بول رہی تھی۔ اس نے بے اختیار بیرم کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔

اس کے اس اقدام پر ، بیرم کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھری تھی۔ جسے اس نے پل بھر میں سمیٹ کر سنجیدگی کا لبادہ اوڑھا۔

 "تو بتاؤ ناں؟ کیا مسئلہ ہے؟" 

"یہی تو پتہ نہیں چل رہا، پتہ ہے میں بہت بے چین ہوں، دل پر کو بوجھ سا آ کر ٹھہر گیا ہے، ہر چیز سے بیزاری محسوس ہوتی ہے، اپنا آپ بالکل بےفائدہ سا لگنے لگا ہے، اب تو زندگی بھی فضول لگنے لگی ہے، کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کروں، کیسے لڑوں اپنی الجھنوں سے؟ آخر میں ہوں کیوں؟ میرا مقصد کیا ہے دنیا میں آنے کا؟ کیا میں یونہی اپنے آپ سے، اپنے قریبی رشتوں سے لڑ لڑ کر مر جاؤں گی، بس یہی میری زندگی کا اختتام ہوگا! بیرم!! مجھے اپنا آپ چبھنے لگا ہے! میرا دل بدل رہا ہے!! اور ،اور بھی بہت کچھ، بہت کچھ مجھے تنگ کر رہا ہے، میرے ذہن پر بوجھ بنا ہوا ہے پر میں کہہ نہیں پا رہی، سہہ نہیں پا رہی، میں کیا کروں۔۔؟" وہ بہت دھیمے، کسی گہرے درد سے دوچار لہجے میں آہستہ آہستہ بولتی گئی اور جیسے جیسے وہ بول رہی تھی ویسے ویسے اس کے دل کا بوجھ بڑھتا جا رہا تھا، آنکھیں بھی نمی اگل رہی تھیں۔ اور جیسے ہی اس نے اپنی بات مکمل کی تو شدت سے آنکھیں بھیچنے کے باعث وہ نمی ننھے قطروں کی صورت، اس کی آنکھوں سے باہر امڈ آئی۔

لوگ تو کہتے ہیں کہ کسی کو اپنے غم میں شریک کرنے سے غم ہلکا ہوجاتا ہے پھر اس کا غم کیوں بڑھ رہا تھا۔

اب وہ باقائدہ سسکیاں لینے لگی، بیرم کی تو پریشانی دیکھنے لائق تھی ۔ اسے سمجھ نہیں آئی کہ وہ کیا کہے؟ کیسے دلاسہ دے!

آیت کی سسکیاں بڑھتی جا رہی تھیں، دل پھٹنے کو ہو رہا تھا۔ وہ گھٹی گھٹی سی سسکیاں لیتی اس جھولے سے اٹھی اور تیزی سے قدم اٹھاتی ہوئی اندر جانے لگی، بیرم ابھی بھی حیرت کا مجسمہ بنا اسے جاتا دیکھ رہا تھا۔

آیت کی سسکیاں بڑھتی جا رہی تھیں، دل پھٹنے کو ہو رہا تھا۔ وہ گھٹی گھٹی سی سسکیاں لیتی اس جھولے سے اٹھی اور تیزی سے قدم اٹھاتی ہوئی اندر جانے لگی، بیرم ابھی بھی حیرت کا مجسمہ بنا اسے جاتا دیکھ رہا تھا۔

وہ حویلی کی راہداری تک پہنچی تھی کہ اس کا سامنا نادر سے ہوا۔ اسے دیکھ کر، آیت کی بہتی آنکھیں ذرا توقف کا شکار ہوئیں، وہ چند لمحے، اپنے آنسو روکے اسے حیرانی سے دیکھنے لگی، وہ تھوڑی متعجب ہوئی، کیوں کہ نادر دو دنوں سے گھر پر نہیں تھا، اس لیے، ایسے اچانک سامنے پر آیت چونکی تھی ۔

 وہ متعجب نہیں ہونا چاہتی تھی پھر بھی ہوئی۔ وہ چاہتی تھی کہ اسے نادر کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہ پڑے، پر اسے فرق پڑ رہا تھا۔

سچ تو یہ تھا کہ وہ دو دنوں سے اسے شدید مس کر رہی تھی،  کیوں کہ وہ دو دنوں سے غائب جو تھا۔ شمسہ بیگم کے سوال و جواب سے کوفت کھا کر، مچلتا ہوا، اُس دن کا گھر سے نکلا آج لوٹا تھا۔  

آیت کو اس کی آمد کا علم نہیں وہ پایا اور وہ اس لیے نہیں ہوا تھا کیونکہ جس وقت نادر اپنی لینڈ کروزر پورچ میں پارک کر رہا تھا اس وقت وہ بیرم کے ساتھ گفتگو میں مصروف تھی۔ اس نے ہارن بھی نہیں بجایا تھا، اس وجہ سے بھی آیت کا دھیان اس طرف نہیں گیا۔ 

ورنہ شاید وہ کب سے اسی کی منتظر تھی۔ کہنے کو اسے، نادر کے ساتھ اٹھنا، بیٹھنا یا بات کرنا پسند نہیں تھا پر اس سے نادر کی غیر موجودگی بھی ہضم نہیں ہو پا رہی تھی۔ اسے ٹھیک ہی لگتا تھا کہ وہ بدل رہی ہے۔ 

خیر، نادر کو اپنی آنسوؤں سے تر آنکھوں میں جھانکتا پا کر آیت نے فوراً ہی خود کو اس بے وجہ کی حیرت سے باہر نکالا۔ گو کہ وہ کچھ دیر کے لیے اپنا رونے کا شغل بند کر چکی تھی پر نمی تو ابھی بھی وہیں ٹھہری تھی ناں، جہاں سے اس نے بہنا تھا اور نجانے کب تک بہنا تھا۔

 بہر کیف اس نے اپنے آپ کو زیادہ دیر تک نادر کے سامنے کھڑا نہ ہونے دیا۔ بلکہ اپنے تھمے ہوئے آنسوؤں کو پھر سے جاری کرتے ہوئے وہ اپنا رخ بدلے آگے بڑھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ اس آدمی کو دیکھے جس کے بارے میں اس کی رائے تھی کہ اسے دیکھنے سے اس کی آنکھیں میلی ہوجاتی ہیں، گندی ہوجاتی ہیں۔ کتنا عجیب خیال تھا ناں!! کسی کو دیکھنے سے آنکھیں کیسے میلی ہوسکتی ہیں؟؟

کیا اس کا یہ تجزیہ، محض نادر سے اس کی نفرت کے باعث تھا یا پھر خود کو اس کے وجیہہ چہرے پر نظر ڈالنے سے باز رکھنے کے لیے،اس نے یہ فضول سی منطق ایجاد کی تھی۔۔؟؟ یقیناً اس نے خود کو باز رکھنے کے لیے ہی اس کے متعلق ایسا سوچا تھا ورنہ وہ بچپن کی نفرت تو کب کی وہیں کہیں اس کے بچپن میں کھو چکی تھی، اب تو کچھ نئے ہی جذبے اس کے وجود میں پنپنے لگے تھے۔

__________

وہ اپنی معصوم آنکھوں پر ظلم کرتی، بے جا آنسو بہاتی، اپنے کمرے تک پہنچی تھی کہ اس کے پیچھے پیچھے چل کر آتے ہوئے نادر کے آواز دینے پر وہ رکی۔ وہ اس کے پہلی دفع پکارنے پر ہی اپنے قدم روک چکی تھی۔

"کیا مسئلہ ہے؟؟" اس نے پھاڑ کھانے والی نظریں لیے، نادر کی جانب رخ پھیر کر ،درشتی سے سوال کیا۔

اب معاملہ اتنا بھی سیدھا نہیں تھا، یہ آیت تھی۔ کوئی دوسری لڑکی نہیں جو پلوں میں جذبوں کا ادراک، اعتراف اور پھر اظہار کردیتی۔

"تم۔۔"

"تم رو رہی ہو!" اس کے لہجے کے پیشِ نظر ، نادر نے محتاط سے انداز میں کہا۔ 

"ہاں تو میری مرضی!! میں روؤں! ہنسوں! تمہیں کیا مسئلہ ہے۔" وہ مرچیں چباتے بولی۔

"مسئلہ تو ہوتا ہے مجھے!! تم تکلیف میں ہو اور مجھے مسئلہ نہ ہو! ایسا ممکن نہیں اب!!" وہ لہجے میں انتہا کی نرمی سموئے،  دانستہ اپنے دل کی بات کہہ گیا۔ اس کی بات اور اس کا لہجہ آیت کو تیلی لگانے کے لیے بہت تھا اوپر سے اس کی آنچ دیتی نظریں۔۔!!

اس کی بات سن کر آیت کو تاؤ آیا پر اس کی نظروں کے سامنے وہ بری طرح سٹپٹائی، لیکن اس نے اپنی سٹپٹاہٹ ظاہر نہیں ہونے دی، الٹا وہ غصب ناک ہوئی۔

آنسو اپنی جگہ بہہ رہے تھے ، گو کہ روانی کچھ زیادہ نہ تھی، آنکھیں ، خود بخود، بے اختیار، اپنے اندر کی ساری نمی باہر انڈیل رہی تھیں۔ اور اس عمل کے زیرِ اثر، اس کے لہجے میں بوجھل پن تھا ، اس کا لہجہ بھیگا ہوا سا تھا۔

"اس۔۔ فضول بکواس کا مطلب؟" وہ غصے کی شدت سے مٹھیاں بھینچ کر بولی۔

"یہ بکواس نہیں ہے!!"

اس کی کنپٹی کی رگوں میں تناؤ آیا۔

" احساس کرنے لگا ہوں اپنے سے جڑے لوگوں کا۔۔!! یا پھر یہ سمجھ لو کہ ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہوں ،اور تم یہ چھوڑو، بتاؤ کیا ہوا ہے؟" وہ سنجیدگی سے بولا۔

"ہنہہ،"

 "احساس؟"

 "اگر تمہیں واقعی کسی کا احساس ہونا ہوتا تو سب سے پہلے اپنی امی کا احساس کرتے! میں نے دیکھا تھا ، تم کتنی تمیز سے پیش آئے تھے ممانی کے ساتھ۔" آیت کو تو جیسے نادر کی کہی ہر بات میں کیڑا نکالنے کی جلدی تھی۔

"دیکھو! آیت تمہاری ہر بات اپنی جگہ ٹھیک ہے پر تم مجھے اس چیز کی تبلیغ کا حق رکھتی ہو، جس پر تم خود عمل پیرا ہو!!"

" باقی میں کوئی بات نہیں سن سکتا!!"

 نادر کا اشارہ اس کی بدتمیزیوں کی طرف تھا جو وہ اس کی امی سمیت گھر کے ہر فرد کے ساتھ کرتی تھی۔

آیت کھول کر رہ گئی، اسے نادر سے اس قدر صاف گوئی کی امید نہ تھی۔ وہ منہ پھیر کر ، مزید کوئی بات کہے سنے بغیر اپنے کمرے میں گھسی اور زور سے دروازہ بند کیا۔

اور دروازہ بند کرنے کے بعد بیڈ پر بیٹھ گئی، کرتے کراتے اس کے آنسو بالکل اسی تھم چکے تھے۔ نادر اسے اپنے ساتھ الجھا کر، اس کا رونا بند کرا چکا تھا۔ اس کی توجہ بھٹکا چکا تھا۔

دروازہ پٹخنے کی آواز اتنی تیز تھی کہ نادر کے کان ، چند لمحوں کے سن ہوئے۔ 

"پاگل لڑکی!!" وہ گردن جھٹک کر کہتا وہاں سے چلا گیا۔

اور آیت اپنا مسئلہ بھلائے، کمرے میں بیٹھی، ناک سے سوں سوں کی آوازیں نکالتی، شدید غضب ناک ہوتی ، نادر کو دل ہی دل میں صلواتیں سنا رہی تھی۔ 

××××××××××××××××

یلماز نے ، ٹوئنکل کی آفر قبول کر لی تھی۔ ٹوئنکل کی تو جیسے عید ہو گئی۔ اسے زندگی میں ، بیکری میں کام کے دوران ،  کبھی اتنا مزہ نہیں آیا کہ جتنا یلماز کی سنگت میں آرہا تھا۔ اب وہ دن بھر اس سے باتیں کر کر کے اس کا دماغ چاٹا کرتی۔ اور وہ بےچارہ اس کی خوشی کی خاطر سنتا رہتا۔ ایسا نہیں تھا کہ اسے ٹوئنکل کا بولنا برا لگتا تھا۔ وہ خود بھی اس کی باتوں سے بہت لطف اندوز ہوتا تھا۔

______________________

رات کا وقت تھا۔ آج کافی دنوں بعد اسے وہ کتاب پڑھنے کا خیال آیا۔ دن بھر کی مصروفیات میں گِھر کر، تو وہ اسے بھلا ہی چکا تھا۔ خیر یاد آنے پر اس نے کتاب اٹھائی۔ اور لے کر بیٹھ گیا۔

پہلے تو جیسے تیسے، اس نے خود کو سمجھا لیا تھا کہ اس کتاب کی میں درج واقعات محض فرضی ہیں پر اب جو اس کی آنکھیں دیکھ رہی تھیں وہ اتفاق تو نہیں لگتا تھا۔ وہاں لکھی تحاریر خیالی نہیں لگتی تھیں۔ پر یہ سب تھا کیا؟

"خدایا!! یہ ، یہ کیا چیز ہے!! یہ کیا چیز ہے!!" یلماز منہ کھولے، آنکھیں پھیلائے، اس کتاب کے کسی صفحے کو گھورتے ہوئے بولا۔

 وہ شدید تعجب کا شکار تھا کیونکہ وہ کتاب ایک بڑا عجوبہ اور لکھنے والے کے ہاتھوں سے نکلا ایک عظیم اور عجیب شاہکار لگتی تھی۔ 

مانا کہ وہ سب فرضی ہی تھا پر سالوں پہلے، اس کی آج کی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات کا پتہ کون لگا سکتا ہے!! وہ کیسے سب کچھ بالکل ویسے فرض کر سکتا ہے جیسا اس کے ساتھ آج ہو رہا تھا؟

یہ بات یلماز کی سمجھ سے باہر تھی۔ اور ہوتی بھی کیوں نہ!! آخر یہ معاملہ ہی ایسا تھا جو کسی بھی انسان کا ذہن جکڑ لیتا، اسے الجھا دیتا۔

اب تک یلماز نے، اس کتاب کا جتنا مطالعہ کیا تھا وہ انتہائی حیران کن تھا۔ ایسا کیسے ہوسکتا تھا کہ اس کا سارا ماضی اس کتاب میں تحریر کیا گیا ہو۔ 

 اس کتاب کا پہلا چیپٹر، اس کے بچپن یا پھر اسی کے جیسے بچپن پر مبنی تھا اور اس کا دوسرا چیپٹر، "تریش ہولڈ آف کیوراسٹی"( threshold of curiosity) اپنے عنوان کی طرح ، تجسس سے بھرپور تھا۔ 

ایسا تجسس جو مطالعے کے دوران یلماز کی سانسوں پر حاوی ہو رہا تھا۔ اس کے تصور کو خیرہ کررہا تھا۔ ایسا تجسس جو کہانی کے آگے بڑھنے کے ساتھ خود بھی بڑھ رہا تھا۔

 وہ تجسس ہر ایک کردار کی پوری شخصیت، ایک ایک حرکت میں تھا۔ اس چیپٹر میں جیری کا زیادہ تذکرہ نہیں تھا جیسا کہ پہلے چیپٹر میں ہوا تھا، یہاں کسی اور لڑکی کے متعلق لکھا تھا اور یلماز کو یہ جیری سے بھی زیادہ دلچسپ لگی۔ وہ لڑکی، اس کا جنگل میں جانا۔ اس کا تتلیوں کو اور وہاں موجود ہر چیز کو محویت سے گھورنا۔ پھر کہیں آگے جا کر اسی منظر کو رنگوں میں قید کرنا۔ یہ سب یلماز کے لیے خاصہ دلچسپ تھا۔

وہ جیسے جیسے پڑھ رہا تھا، اس کا انہماک ، اس کی توجہ کہانی کے گرد مزید پختہ ہو رہی تھی۔ اس لیے اسے پڑھتے پڑھتے احساس ہی نہیں ہوا کہ وہ دوسرا چیپٹر پڑھتے پڑھتے کب تیسرے پر پہنچا۔ 

حالانکہ اس کی طوالت بھی اتنی ہی تھی کہ جتنی پہلے والے کی۔ اسے ، اس مرتبہ تھکاوٹ کا احساس بھی نہیں ہوا۔ 

اس چیپٹر میں سب سے پہلے تو اسے اس بچی کی پینٹنگ پھٹنے کا دکھ ہوا، جو اس نے جنگل سے واپس گھر آنے کے بعد بنائی تھی۔ وہ بچی اپنی پینٹنگ، پری کو دکھانے لے جارہی تھی۔ وہ پری جو جنگل میں اس کی سہیلی بنی تھی۔

وہ خوشی خوشی، اسے لہراتے ہوئے پری کو ڈھونڈ ہی رہی تھی کہ وہاں پر گندا شرارتی سا بندر اچھلتا کودتا ہوا آیا۔ اسے بندر نا پسند تھے ، شدید ناپسند، جیسے عرشیہ کو نادر برا لگتا تھا۔

وہ اس بندر کے پیچھے بھاگتی جا رہی تھی اور روتے ہوئے پری کو پکار رہی تھی۔ پر پری کے آنے سے پہلے ایک لنگور وہ پینٹنگ جھپٹ چکا تھا۔ جنگل کے سارے جانور پری کا احترام کرتے تھے۔ اگر وہ وقت پر پہنچ جاتی تو یقیناً اس کی محنت ضائع ہونے سے بچ جاتی مگر۔۔ مگر اس کے آنے سے صرف ایک، صرف ایک سیکنڈ پہلے وہ کمینہ لنگور اس کی پینٹنگ کا ستیاناس کر چکا تھا۔ بالکل ویسے جیسے ماریہ نے عرشیہ کی پینٹنگ کا کیا تھا۔

یلماز کو کافی دکھ محسوس ہوا۔ وہ اس بچی کے لیے بہت اداس ہو گیا تھا۔ پر جہاں اسے دکھ محسوس ہوا وہیں اسے خوشی بھی ہوئی کہ کم سے کم وہ بچی اپنا ہنر دریافت کر چکی تھی۔ بے شک وہ اپنا پہلا فن پارہ کھو چکی تھی مگر اس نے فن پا لیا تھا، وہ اپنا ہنر پہنچان گئی تھی۔

یلماز کو ایسی بچوں والی کہانیاں پسند نہیں تھیں پر کہانی کا یہ جز چونکہ اس کتاب کا حصہ تھا، اس لیے، اسے ناپسند کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

_____________

تیسرا چیپٹر "ٹائم ٹو بی امییزڈ" (time to be amazed) اسے مکمل طور پر حیرت میں گھیر لینے میں کامیاب ٹھہرا۔

کہانی کچھ آگے بڑھی تو جیری کا کردار پھر سے نمایاں ہوا، آگے چل کر یہاں صرف جیری کی کہانی تھی۔ 

یہیں سے یلماز کی باقاعدہ حیرتوں کا آغاز ہوا۔ وہ ششدر تھا۔ یعنی وہ جس چیز کو محض اتفاق کا نام دے رہا تھا وہ اتفاق نہیں تھا۔ وہ جیری۔۔ وہ جیری کوئی فرضی تخلیق نہیں بلکہ اپنے آپ میں یلماز  کا کردار نبھا رہا تھا۔ لیکن کیسے؟؟ وہ کیسے ہوبہو یلماز جیسا ہو سکتا تھا۔ اتنی مشابہت کیسے تھی دونوں میں۔ وہ کیوں ایک دوسرے کا عکس معلوم ہوتے تھے۔ یلماز کو کیوں لگ رہا تھا کہ وہ۔۔ وہ اس کی اپنی کہانی ہے۔

جیری کا پاکستان میں پلنا بڑھنا۔ اپنے عیسائی انکل کی زیر نگرانی پرورش پانے کے باوجود عقیدے کے اعتبار سے مسلمان ہونا۔ عام بچوں کی نسبت الگ تھلگ سا مزاج، لڑکیوں سے اجتناب، پڑھائی میں مضامین کا انتخاب اور جیری کی دیگر دلچسپیاں ، رہن سہن سب کچھ تو یلماز جیسا تھا۔ 

اور تو مانچسٹر آنے کی تیاریوں سے لے کر اس پرنٹڈ ٹینٹ ڈریس، ڈینم کی جیکٹ، سلم فٹ جینز اور سلپ آن شوز میں ملبوس لڑکی سے اس کا ٹکراؤ۔۔ ہر ایک چیز پوری جزیات کے ساتھ وہاں درج تھی۔

پھر وہ کیسے متحیر نہ ہوتا۔۔!! کیسے اس کا ذہن پریشان نہ ہوتا۔۔!! آخر کیسے وہ یہ سب آرام سے قبول کر لیتا۔ اس کتاب کا ایک ایک حرف، اسے کسی بوجھ تلے دبا رہا تھا۔ وہ بوجھ اس کے اعتراف کا تھا۔ یلماز نہیں چاہتا تھا کہ وہ جیری کی اپنے آپ مماثلت کا یقین کرلے۔

 پر ایسا کہاں ممکن ہوتا ہے کہ حقیقت رد ہو جائے۔ سچ کو بھلا کیسے جھٹلایا جا سکتا ہے۔ حقائق کو بھلا کس کے اعتراف کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ ہر صورت، اپنا آپ منوانا جانتے ہیں۔ اس لیے یلماز کے بس میں نہیں تھا کہ وہ یہ سب مزید جھٹلا پاتا۔

××××××××××××××××

پر ایسا کہاں ممکن ہوتا ہے کہ حقیقت رد ہو جائے۔ سچ کو بھلا کیسے جھٹلایا جا سکتا ہے۔ حقائق کو بھلا کس کے اعتراف کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ ہر صورت، اپنا آپ منوانا جانتے ہیں۔ اس لیے یلماز کے بس میں نہیں تھا کہ وہ یہ سب مزید جھٹلا پاتا۔

××××××××××××××××

وہ کافی دنوں بعد یہاں آئی تھی۔ اسے اچھا لگ رہا تھا اُس خشک پتوں سے ڈھکے راستے پر آہستگی سے قدم رکھتے ہوئے دھیمی رفتار میں چلنا!

 اسے اچھا لگ رہا تھا، اپنے پیر کے نیچے آتے پتوں کی چرچراہٹ سننا!

 اسے اچھا لگ رہا تھا وہاں پرندوں کے میٹھے نغمے سننا!

 وہ گھر میں رہ رہ کر بہت بور ہورہی تھی اور مزاج تھا کہ ہر وقت ہی اکھڑا رہتا۔ اسی لیے اس نے آج جنگل کا چکر لگایا ۔ تاکہ موڈ پر کچھ اچھا اثر پڑے اور اس کا دل بہل جائے۔

آیت، آہستہ آہستہ سے، گہرے سانس لیتی، اپنے اندر تازگی بھرا سکون منتقل کررہی تھی۔ یوں ہی گہرے سانس لیتے ہوئے تازہ سیبوں کی وہ جانی پہچانی سی خوشبو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی۔ وہ دوڑتی ہوئی درختوں کے اس جھنڈ کے پاس گئی۔

اس نے اپنے لیے ان بڑے بڑے، سرخ رسیلے، جنگلی سیبوں میں سے ایک سیب توڑا اور اپنی ہتھیلیوں سے رگڑ کر اچھی طرح صاف کر کے کھانے لگی۔ ساتھ میں وہ پہلے کی طرح چل بھی رہی تھی۔

چلتے چلتے اس  کا ذہن دور کہیں ماضی میں کھو گیا۔ بظاہر وہ آس پاس کی چیزوں کا نظارہ کر رہی تھی۔ پر دماغ سالوں پہلے، اس جنگل میں پہلی مرتبہ آنے پر ، وقوع پذیر ہونے والے واقعات کے گرد گھومنے لگا۔

وہ یاد کر رہی تھی کہ کیسے پہلی مرتبہ یہاں آئی تھی۔ اور واپسی پر اسے کتنی مشکل ہوئی۔ نادر نے کتنا ڈرا دھمکا کر اس کی مدد کی۔ اس کا اپنی نانو سے ڈرنا اور نانو کا ڈانٹے کی بجائے پیار سے پیش آنا۔ وہ سب اسے یاد آیا اور ساتھ میں کچھ اور بھی اس کے ذہن کے پردوں پر گردش کرنے لگا تھا۔ کچھ ایسا جو بہت ہولناک تھا۔

_________

آیت کی حویلی میں چار سال پہلے ایک دل پھاڑ دینے والی اذیت کا دور، اِس وقت اس کے حواس کو شدید غم میں جکڑ چکا تھا۔

اس کی جان سے پیاری نانو، اس کے تینوں ماموں ایک کار ایکسیڈنٹ کا شکار ہوئے، ان میں سے تین ہلاکتیں موقع پر ہی واقع ہوئیں۔ اور اس کے سب سے چھوٹے ماموں ہفتہ بھر اسپتال میں رہنے کے بعد اس دنیا کو خیر باد کہہ گئے۔

اس حویلی پر تو گویا قیامت ہی ٹوٹ چکی تھی۔ 

______

حادثے والے دن وہ جب اپنا بارہویں جماعت کا آخری پرچہ دے کر گھر لوٹی تو اس کا دل عجیب سا ہو رہا تھا۔ وہ پانی پیتی تو پیاس نہ بجھتی، بیٹھتی تو بیٹھا نہ جاتا ، کھڑی ہوتی تو کھڑی نہیں ہو پاتی ، جسم پر بھی لرزش سی طاری تھی۔

 ائیر کنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھنے کے باوجود پسینوں سے بھیگ رہی تھی۔ اس کی چھٹی حس کچھ بہت برا ہونے کا اشارہ دینے لگی تھی۔ اس کے دل میں انجانے وسوسے اٹھ رہے تھے۔ اور پھر حویلی کے لان سے آنے والی دلخراش چیخوں نے اس کے خوف میں مزید اضافہ کیا۔ 

وہ کالج کی یونیفارم میں ملبوس، پاؤں میں جوتے اڑسنے کی زحمت، گوارہ نہ کرتے ہوئے ننگے پیر دوڑ کر لان تک گئی۔

وہاں جو منظر اس کی آنکھوں نے دیکھا وہ ناقابلِ یقین تھا۔ کفن میں لپٹی تین لاشیں، اس کے حواس سلب کر گئیں۔ اس نے تھوک نگلتے ہوئے، حیرت کے مارے منہ پر ہاتھ رکھا۔ اسے اپنا سانس بند ہوتا محسوس ہوا اور پھر حلق میں، کسی پھندے کی ماند اٹکے ہوئے آنسو ، اس کی آنکھوں کے رستے باہر آنے لگے۔

"نانو۔۔!!"

"نانو۔۔!!"

"نانو۔۔!!"

"ماموں!! ماموں جان!! ، نانو!! ماموں جان !!"

وہ بری طرح چلانے لگی تھی۔ وہ اپنی پوری طاقت سے دھاڑ رہی تھی۔ چیخ رہی تھی۔ سبھی اسے سن رہے تھے، پر وہ کسی اور کو کہاں سنانا چاہتی تھی۔ اسے تو اپنی نانو کو اپنی آواز سنانا تھی۔ اسے تو ہاجرہ خاتون کو نیند سے جگانا تھا۔

پر جن کے کانوں پر موت کا فرشتہ تھپکی دے کر جاتا ہے وہ کب کسی کی آواز سننے کے قابل ہوتے ہیں۔ 

پھر وہ کیسے جاگ جاتیں؟

وہ کیسے اپنی لاڈلی نواسی کی درد سے لبریز چیخ و پکار سنتیں؟

______

حویلی میں تقریباً سب لوگوں کی ہی یہ حالت تھی۔ سارے کے سارے اسی درد، اسی کرب سے گزر رہے تھے۔ مگر آیت کا درد، شاید ان سب سے بڑھ کر تھا۔ اس نے اپنا واحد سہارا کھو دیا تھا۔ وہ اکیلی ہو گئی تھی۔ اسے لگا کہ جیسے کوئی اس کا دل نکال کر لے گیا ہو۔

باقی لوگ تو کچھ دن تک جیسے تیسے صبر کر گئے پر آیت کی حالت خراب سے خراب تر ہوتی گئی۔ وہ اپنے آپ سے، اپنے آس پاس سے بیگانہ ، ہر وقت صدمے میں رہتی ، اسے رہ رہ کر نانو یاد آتیں، ماموں یاد آتے۔ وہ دن رات، انہیں یاد کر کر کے خود کو اذیت پہنچاتی۔

وہ ایک سال تک اپنے کمرے سے بھی باہر نہیں نکلی۔ ویسے آیت کو گھومنے پھرنے کا بہت شوق تھا پر ہاجرہ خاتون اسے اپنی آنکھوں سے دور نہیں ہونے دیتی تھیں۔ اس لیے وہ حویلی سے زیادہ باہر نہ نکل پاتی۔

 اسی لیے اس نے اپنی اب تک کی تعلیم بھی حویلی پر رہ کر حاصل کی تھی، بس وہ امتحان دینے کے لیے یہاں سے باہر نکلتی تھی۔ اب تک وہ دوبارہ جنگل بھی نہیں گئی۔ بس وہ جو بچپن میں پہلی دفع گئی تھی، اس کے بعد موقع ہی نہ ملا۔

تینوں ممانیاں، اس کی غائب دماغی، اس کے پاگلوں جیسے طور طریقوں پر خوب باتیں سناتیں، ماریہ بھی اپنے حصے کی بھڑاس جی بھر کر نکالتی تھی۔ آخر اب انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا جو نہیں تھا۔

گھر میں ہوئی ان اموات کا اثر جیسے ہی حویلی کے مکینوں کی ذات سے اڑن چھو ہوا، ویسے ہی وہ ہاتھ دھو کر آیت کے پیچھے پڑ گئے۔ ہر ایک آتا اور کچھ نہ کچھ کہہ کر جاتا۔ 

ان دنوں اسے ضرورت تھی ، کسی ایسے شخص کی جو اس کا درد دوا کر سکے، جو اس کا سہارا بنے۔ پر کوئی سامنے نہیں آیا اور نہ ہی کسی کو آنا تھا۔ بیرم سے جتنا ہو پاتا وہ اس کے لیے کرتا۔ باقی وہ خود بھی بہت مصروف رہا کرتا تھا۔ کیوں کہ اتنے بڑے حادثے کے بعد ساری ذمہ داریاں اس کے کاندھوں پر آ گئی تھیں۔

______

نادر نے اس خود کو اس صدمے سے نکالنے کے لیے نشے، شراب نوشی ، سگریٹ نوشی میں پناہ لی۔ یوں کرتے کراتے وہ اس کا عادی ہوگیا۔ اس کی پڑھائی کا آخری سال تھا، پر اس میں کوئی کام کرنے کی ہمت اور سکت نہیں تھی۔ تبھی اس نے یونیورسٹی جانا بھی چھوڑ دیا تھا۔ پر ایک اچھا کام جو اس نے کیا وہ یہ تھا کہ اس نے سیمیسڑ فریز کروا دیا۔ اس طرح اس کی گزشتہ سالوں کی محنت ضائع ہونے سے بچ گئی ۔ پر افسوس! وہ خود کو ضائع ہونے سے محفوظ نہیں رکھ پایا۔

وہ سارا سارا دن گھر سے باہر رہتا، آوارہ گردیاں کرتا، برے دوستوں کی صحبت میں اٹھتا بیٹھتا۔ اس کے دوستوں میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہی تھے۔ اس کی ہر دن بڑھتی آوارہ گردیوں اور غیر ذمہ دار مزاج کی وجہ سے یہ سب کی نظروں میں برا بن گیا۔ سب لوگ اس کا مذاق اڑاتے، تذلیل کرتے اور بہت برا سمجھتے۔

 اس کے گھر والے بھی اب اسے کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے تھے۔ 

ایک آدھی دفع اس نے اپنی عادتیں ترک کرنے کے متعلق سوچا مگر پھر وہ اپنا ارادہ ہی ترک کر گیا۔ اگر اسے کوئی ڈھارس بندھانے والا ، کوئی اہمیت دینے والا، اس کے لیے پریشان ہونے والا یا اسے انسان بنانے والا ملتا تو شاید وہ واقعی یہ سب چھوڑ دیتا۔

اسے کوئی ایسا نہیں ملا، تبھی وہ ویسا ہی رہا جیسا کہ بن چکا تھا۔ سب اسے فراموش کرتے ہوئے اپنے زندگی کے دھندوں میں لگے رہتے۔ وہ بھی سب کی بےرخی بھلانے کے لیے اپنے حال میں مست و مگن رہتا۔

ان دنوں، آیت بھی اپنے آپ میں اتنی گم ، اتنی غمگین اور اتنی کھوئی ہوئی رہتی تھی کہ اسے نادر کے متعلق کچھ خبر نہ ہوئی۔ اور جب خبر ہوئی تو اسے کوئی فرق نہیں پڑا۔ آخر پڑتا بھی کیوں؟ وہ تو اس کی بچپن کی نفرت تھا ناں۔

____________

آیت اپنے دل پر سختی سے ہاتھ رکھے، گزرے وقت کو یاد کرتے ہوئے، بلک بلک کر رو رہی تھی اور ساتھ ہی سست روی سے قدم بڑھا رہی تھی۔

"آیت!"

اس نے کانوں میں پڑتی، اپنے نام کی میٹھی سی پکار پر مڑ کر دیکھا۔

"آیت۔۔!!"

 "تمہیں کیا ہوا۔۔!!"

"تم۔۔!! تم پھر رو رہی ہو!! مگر کس لیے؟" نادر اپنی تفکر بھری نظریں، آیت کی برستی آنکھوں میں گاڑھے، اس کے نزدیک آتا پوچھ رہا تھا۔

آیت ابھی بھی، ویسے ہی اپنا دل تھامے بلک رہی تھی۔

وہ پوچھنا چاہتی تھی کہ وہ یہاں کیسے آیا؟ کیوں آیا۔۔؟؟ پر لفظ تھے کہ زبان سے برآمد ہونے پر تیار نہ تھے۔

سو وہ اسی طرح روتے ہوئے جواباً نادر کو دیکھنے لگی۔ اس نے نادر کی پیش قدمی پر بھی کوئی سخت ردِعمل نہ دیا۔ اس کے قدم جہاں رکے تھے، وہیں ٹھہر چکے تھے۔ نادر کے قریب آنے پر بھی وہ اپنی جگہ سے نہ ہلی۔ شاید اسے چاہ تھی کہ وہ اس کے قریب آئے۔ 

اور اس وقت وہ کونسا اپنے دماغ کی ہدایات پر عمل پیرا تھی۔ دماغ ذرا سا ہوش میں ہوتا تو اس نے نادر کو دیکھتے ہی آفت برپا کردینی تھی۔ پر اس وقت اس کی سبھی کیفیات، اس کا دل، اس کے احساس اور اس کے جذبات کے قابو میں تھیں۔ اس کی یہ حالت، ہرگز بھی اس کے دماغ کے ماتحت نہ تھی۔

"کچھ تو بولو!! آخر ہوا کیا ہے۔۔!!" 

کوئی جواب نہ پاتے ہوئے، وہ لہجے میں حد درجہ مٹھاس، فکر اور دھیمہ پن سموئے، پھر سے بولا۔

"ممم۔۔مجھے نانو۔۔ نانو یاد آ رہی ہیں۔۔ مجھے سب یاد آ رہے ہیں نادر!! مجھے سب یاد آ رہے ہیں۔۔!! اور بہت تکلیف محسوس ہو رہی ہے۔۔!! ان کو یاد کرنا، میں برداشت نہیں کر پارہی۔۔!!" وہ رندھی ہوئی آواز میں اٹک اٹک کر بولی۔

آیت، نادر کے اس قدر خلوص کی تاب نہ لا سکی۔ وہ کہنا چاہتی تھی کہ "میری نظروں کے سامنے سے دفع ہو جاؤ، تم مجھے زہر لگتے ہو۔۔!!" پر کہا نہیں۔ کیوں کہ دماغ جو سویا ہوا تھا۔ وہ کیسے جھوٹ بولتی۔ وہ کیسے اپنا درد چھپا لیتی۔ 

انسان کا ذہن بہت دوغلا ہوتا ہے، مضبوط قوتِ ارادی کے نام پر وہ اسے اندر ہی اندر غموں میں ڈھلنے اور گھلنے کے اکیلا چھوڑ دیتا ہے۔

پر دل یہ طریقے، یہ شاطر باتیں نہیں جانتا، اسے تو بس احساسات کی زبان یاد رہتی ہے۔ وہ تو بس خالص جذبوں کی تلاش میں رہتا ہے، جہاں کہیں اسے ہمدردی کے چند ایک اشارے موصول ہوں، وہیں اپنا آپ کھول کر رکھ دیتا ہے۔

اس لیے تو آیت نے من و عن بتایا کہ کیا بات اسے اس قدر تکلیف پہنچا رہی ہے۔ اس لیے وہ کچھ اور نہیں کہہ پائی۔ کوئی جھوٹ نہیں گھڑ پائی۔ نہ ہی وہ اپنی حالت چھپانے کے لیے، نادر پر بے جا بھڑکی۔

 اس نے سچ سچ بتایا کہ اس کا خون جوش مار رہا ہے، اسے خود سے بچھڑے اپنوں کی یاد ستا رہی ہے، اس لمحے اس کا ہر درد تازہ ہو رہا ہے۔

آیت کی حالت بگڑ رہی تھی۔ اس کی سسکیاں بلند سے بلند تر ہوتی جا رہی تھیں۔

نادر نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا اور بہت آرام سے ، بہت نرمی سے، اس کے بہتے آنسو صاف کرنے لگا۔ 

اسے حیرت ہوئی کہ آیت کو مزاحمت نہیں کر رہی تھی۔ بلکہ وہ مزید رو رہی تھی، اتنا کہ نادر کو لگا جیسے سچ میں اس کا دل پھٹے گا اور باہر آ جائے گا۔

اس کے ماتھے پر بھی چند شکنیں ابھری تھیں۔ شاید اسے بھی کرب محسوس ہو رہا تھا۔ نادر بغیر رکے، آیت کے مسلسل بہتے ہوئے آنسوؤں کو صاف کر رہا تھا۔ 

اور وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو مٹھی کی صورت، ایک دوسرے سے باہم ملائے، اپنے دل پر زور ڈالتی، سسک رہی تھی۔ لگ رہا تھا کہ جیسے اس نے اپنا آپ ہی جکڑ لیا ہو۔ اس قدر شدت سے رو رو کر ہلکان ہونے کے باعث اس کا جسم اکڑ سا گیا تھا۔ 

آیت کی صراحی دار گردن کی رگیں بھی سختی سے تن چکی تھیں۔ وہ بے حال سی خود پر قابو پانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔پر سب بے سود، سب بے کار تھا۔ 

وہ کسی طور بھی خود کو روک نہ پائی۔  نادر کو اس کی حالت پر بہت دکھ محسوس ہوا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اسے کیسے بہلائے۔ کیا کرے کہ اس کی تکلیف کا ازالہ ہو۔

وہ کسی طور بھی خود کو روک نہ پائی۔  نادر کو اس کی حالت پر بہت دکھ محسوس ہوا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اسے کیسے بہلائے۔ کیا کرے کہ اس کی تکلیف کا ازالہ ہو۔

"کام ڈاؤن آیت!! پلیز ایسے مت رو!!" 

اس نے پھر سے ایک کوشش کی۔ آیت کا رونا اب تو نادر کی برداشت سے باہر ہو رہا تھا۔

اس میں اتنا ظرف نہیں تھا کہ وہ اسے مزید تڑپتا ہوا دیکھ پاتا۔

اس لمحے، اس کے دل میں شدت سے یہ خواہش ابھری کے کاش وہ اس کے آنسو اپنے لبوں سے چن سکتا۔ 

پر اس کے پاس یہ اختیار تھا ہی کہاں!!

اختیار تو اپنے ہاتھوں سے آنسو صاف کرنے کا بھی نہیں تھا پر وہ کر رہا تھا۔

اس نے سوچا کہ اگر وہ یہ کرسکتا ہے تو کچھ اور کیوں نہیں۔

یہ سوچتے ہی اس نے نرمی سے ہاتھ کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور بہت آہستگی سے اس کے لرزاں وجود کے گرد اپنے بازو پھیلا کر خود میں محصور کیا۔

آیت اس کے اقدام پر شدت سے سسکی تھی۔

نادر کو ایک مرتبہ پھر حیرت ہوئی۔ کیوں کہ آیت نے اب بھی کوئی مزاحمت نہ کی بلکہ وہ تو الٹا اس کی طرف کھینچی چلی آئی۔ 

شاید اسے بھی ضرورت تھی، کسی کاندھے کی۔۔ جس پر وہ اپنا سر ٹکا کر بے تحاشا رو سکے۔ شاید وہ چاہتی تھی کہ اسے کوئی تو اس کے آنسو اپنے سینے میں جذب کرنے کی اجازت دے۔ 

وہ سالوں سے اکیلی تھی۔

سال بیت گئے تھے پر اسے ایسا کوئی نہیں ملا جو آگے بڑھ کر اسے سنبھالے۔ اس لیے ، ایسا شخص اسے آج اپنے رو برو ملا تو وہ خود کو روک نہیں پائی۔

کہنے کو تو وہ اسے دنیا جہان کا غلیظ آدمی کہتی تھی۔ اسے وہ نہایت گندا اور برا لگتا تھا پر اب۔۔ اس وقت۔۔ شاید اسے اپنی کوئی منطق یاد نہیں تھی۔ 

وہ مفروضے جو آیت نے بڑے وثوق سے، نادر کے متعلق قائم کیے تھے ، اس لمحے اس کے گمان میں بھی نہ تھے۔

اس وقت وہ سب فراموش کیے، سب کچھ بھلائے نادر کے ساتھ لپٹی، شدت سے سبکیاں بھر رہی تھی۔

وہ اس کے ساتھ لپٹی رہی جب تک کہ اس نے اپنا سارا غبار نکال نہ لیا۔ 

آیت نے اس کا حصار توڑنے کی ذرہ بھر بھی کوشش نہیں کی۔

_____________

جیسے ہی آیت کا دل ہلکا ہوا، آنسو تھمے ویسے ہی وہ ہوش کی دنیا میں واپس آئی اور انتہائی سرعت سے، عجیب سے انداز میں نادر سے الگ ہوئی۔ اس نے اپنی ہتھیلی کی پشت سے گال پر ٹھہری نمی کو خشک کیا۔اور پھر اپنے بے ترتیبی سے بکھرے گھنگھریالے بالوں کی ایک لٹ، اپنی انگلی کی مدد سے کان کے پیچھے کی اور رخ پھیر گئی۔

اس کے اچانک ردعمل پر ، نادر ایک لمحے کو چونکا پھر اس کی حالت سمجھتے ہوئے ایک دلفریب مسکان نے، بلا کا دھیما پن لیے، نادر کے لبوں کا احاطہ کیا۔

وہ چلتی ہوئی کہیں آگے آگے جارہی تھی، نادر بھی اس کے پیچھے ہو لیا۔

_________

"میرے پیچھے کیوں آ رہے ہو!! واپس جاؤ۔۔!!"

وہ دانت پیستے ہوئے بولی۔

اسے رہ رہ کر شرمندگی کا احساس ستانے لگا۔

"اممم، وہ میں ایک کام سے تمہارے پاس آیا تھا۔"

وہ اس کے ساتھ چلتے ہوئے بولا۔

آیت کا چہرہ شرم کے مارے سرخ ہو رہا تھا۔ 

"کیا ضرورت تھی اس بے ہودہ انسان سے لپٹنے کی۔۔!!" وہ اپنے آپ کو کوستے ہوئے دل میں  بولی۔

"خیر ہے، میں پھر بھی چاہوں گی کہ تم یہاں سے چلے جاؤ۔"

وہ اسے نظر انداز کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ کیوں کہ سامنا تو اس کے لیے مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ 

پاگل کہیں کی، اگر تھوڑا پہلے ہی سوچ سمجھ لیتی،  تو ایسے شرمندگی نہ ہوتی۔ 

پر وہ تو پاگل تھی ناں، ایسے کیسے آسانی سے عقل کی بات اس کے خبطی ذہن میں سما جاتی۔

"نہیں کام تھوڑا ضروری ہے۔" 

اس نے آیت کا بجتا ہوا فون اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔

اسکرین پر "رشنا کالنگ" لکھا آ رہا تھا۔

آیت ناسمجھی سے نادر کا منہ تکنے لگی۔

"ہاں، یہ فون آ رہا تھا، وہ بھی بار بار ، میں نے سوچا ضروری کال ہوگی، اس لیے تمہارے پیچھے چلا آیا۔ ویسے مجھے پکا نہیں پتہ تھا کہ تم یہیں ہوگی، میں تو رسک پر چلا آیا تھا، شکر ہے تم یہیں مل گئیں۔" 

پتہ نہیں وہ کیوں اتنا پرجوش ہوگیا تھا۔

"کال اٹھا لوں۔۔!!"

اس کی پٹر پٹر چلتی زبان پر وہ طنز کرتے ہوئے بولی تو وہ ایک دم چپ ہوا۔ اور ہاتھ لہرا کر"اجازت ہے" کا اشارہ دیا۔

"ہاں ، رشنا!! کیسے فون کیا۔"

فون اٹھاتے ہی بولی، اور ساتھ میں نادر کو اشاروں سے ہی، وہاں سے جانے کا کہہ رہی تھی۔ وہ تو ہلا نہیں اس لیے آیت خود ہی سرک گئی۔ پر اسے غصہ آ رہا تھا کیونکہ نادر اسی کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔

"کیا سچ میں۔۔؟؟" 

وہ رشنا کی بات کا جواب دیتے ہوئے ذرا سی حیران ہو کر بولی، چہرے پر خوشی کے نرم تاثر واضح دیکھے جا سکتے تھے۔

"ٹھیک ہے!! بیسٹ آف لک فور یو!! اور اگر ہوسکا تو لازمی آؤں گی۔" 

اس نے خوش دلی سے کہا اور پھر ان کے درمیان چند ایک اہم باتیں ہوئیں۔ رشنا نے جب ساری بات مکمل کرلی تو اس نے گڈبائے کہہ کر فون کاٹ دیا۔

نادر نے اپنی نظریں اسی پر جمائی ہوئی تھیں۔

"کیا کہہ رہی تھی کال والی اور کون تھی یہ۔"

نادر نے پوچھا۔ اسے کال یا کال والی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی وہ تو بس آیت سے بات کرنا چاہتا تھا۔ اس کا دل بے چاہ رہا تھا بات کرنے کو۔

"تمہیں بتانا ضروری ہے کیا؟؟"

آیت نے بھنویں اچکا کر پوچھا۔

"نہیں، پر تم ویسے بھی بتا سکتی ہو۔" 

وہ مسکرا کر بولا۔ وہ چاہتا تھا کہ اپنے اور اس کے درمیان موجود تکلفات کی ہر دیوار گرا دے۔ وہ بس اس کو اپنی جانب مائل کرنا چاہتا تھا، وہ چاہتا تھا کہ وہ اس کی اسیر ہو جائے، اسے بھی محبت اپنی فلک بوس عمارتوں میں قید کرلے۔ جیسے کہ نادر کو کر چکی تھی۔۔۔!! 

ہاں، وہ بھی تو قیدی تھا۔۔!!

  آیت کی محبت کا قیدی۔۔!!

 یہ اسے کب ہوئی کیسے ہوئی کچھ پتہ نہ چلا۔۔ بس ہوگئی اور اب تو بڑھتی ہی جارہی تھی۔۔۔ بلکہ اس پر حاوی ہونے لگی تھی۔

 خیر فی الوقت۔۔!!

 فی الوقت تو وہ۔۔ وہ بس اس سے بات کرنا چاہتا تھا۔ 

آیت نے اس کی شکل دیکھی۔ پتہ نہیں کیا احساس تھا کہ وہ اس کا سوال ٹال نہیں سکی۔

"میری اسسٹنٹ رشنا کی کال تھی۔ وہ میرے ہاں سے کام چھوڑ رہی ہے ، کیوں کہ اچانک اس کی شادی طے ہو گئی ، وہ انوائٹ کر رہی تھی مجھے۔"

"واہ!! تمہاری اسسٹنٹ بھی ہے، مجھے نہیں پتہ تھا"

"ہمم ہے، آخر کو اتنی معروف آرٹسٹ ہوں،اور تمہیں تو تب پتہ لگے گا ناں جب تمہیں اپنا اور اپنے ارد گرد کی کسی چیز کا ہوش ہوگا۔" وہ تلخی سے بولی۔

ہوٹل میں اس لڑکی کے سنگ کمرے سے باہر نکلنے کا منظر اور اس رات، اس  کا نشے میں دھت وجود، اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔ 

ایک کڑواہٹ، اس کے وجود میں گردش کرنے لگی تھی۔ ایک اذیت سے چور کڑواہٹ۔۔!!

دیکھتے دیکھتے اس کا اچھا بھلا موڈ تپ گیا۔

غصہ۔۔!!

شدید غصہ۔۔ چہرے پر لہرانے لگا تھا۔

~آگیا غصہ تو اس کا رنگ گہرا ہو گیا

 تھا گلابی‘ تاؤ کھا کر اب سنہر اہو گیا

نادر اس کی کیفیت سمجھتا۔۔ اس سے پہلے وہ اس پر تل پڑی۔

"تم، تم دفع ہو جاؤ، دور ہو جاؤ میری نظروں سے بہت ہی گھٹیا، بہت ہی زیادہ گھٹیا آدمی ہو۔۔!!" وہ کبھی اس کے سینے پر مکے برساتی تو کبھی دھکے دیتی۔ اس وجہ سے نادر کے قدم پیچھے کو سرک رہے تھے۔

وہ حیران ہوا۔۔ کہ آخر یہ کر کیا رہی ہے۔ 

مزاج میں اس قدر تیز بدلاؤ اس کی سمجھ سے باہر تھا۔

اس کے باربار کے طعنے نادر کا ضبط آزما رہے تھے۔

اور اس کے حملے اس کو درد پہنچا رہے تھے۔

صبر انتہا پار کر چکا تھا۔ نادر نے لبوں کو شدت سے بھینچا اور اس کے تیزی سے مکے برساتے دونوں ہاتھوں کو اپنے مضبوط ہاتھوں میں سختی سے جکڑا، اور پھر زور سے جھٹک کر خود سے دور کیا۔

اس کی حرکت پر آیت نے ٹھٹھک کر اُسے دیکھا، اِس کی تیزی سے چلتی زبان، لمحے کو توقف کا شکار ہوئی پر اس کی ہٹ دھرمی نے مکمل خاموش ہونے کی اجازت نہیں دی، تبھی وہ بغیر رکے نادر کو طعنے مارنے میں مشغول تھی۔ پر اس نے مکے برسانا بند کردیے تھے۔

اب وہ، آیت سے قدرے فاصلے پر موجود تھا۔ وہ لب بھینچے، اپنا سینہ مسلتے ہوئے درد کا احساس زائل کرنے کی کوشش کررہا تھا جو کہ آیت کے مکوں کے باعث ہوا تھا۔

 اس کی سحر انگیز آنکھیں، اپنے اندر کسی جذبے کو شدت سے سموئے، آیت کے چہرے کو اپنی برما دینے والی نظروں کے حصار میں لیے، آیت کو سہمنے پر مجبور کر رہی تھیں۔

وہ شدت، محض کسی ایک جذبے کی نہ تھی۔ بہت سے احساسات ، ایک ساتھ ہی جلنے لگے تھے اور آیت ان کو نادر کی نظروں میں دہکتا ہوا دیکھ سکتی تھی۔

 اس کے انداز سے ان سلگتے جذبوں کی آنچ محسوس کرسکتی تھی۔ اور وہ محسوس کر بھی رہی تھی۔

پر ساتھ میں طعنے دینے والا مشغلہ بھی جاری تھی۔

"بس!! آیت بس!! اب تم ایک لفظ اور نہیں کہو گی۔۔!! جا رہا ہوں میں، دھیان رکھنا۔ یوں نہ ہو کہ تمہیں اپنے الفاظ پر پچھتاتا پڑے۔" 

وہ اپنی انگلی سے چپ رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے ٹھہر کر بولا۔ اس کے لہجے میں آیت کو ایک عجیب سا سردپن محسوس ہوا۔

وہ اپنی بات مکمل کر کے لوٹ گیا تھا۔ اسے تکلیف پہنچی تھی، وہ اتنی کوشش کرتا کہ کچھ تو بدل دے مگر نہیں، وہ اپنی محنت جہاں سے شروع کرتا، آیت کی تلخیاں اسے پھر سے وہیں لا کر پٹخ دیتیں۔

آیت ٹھٹھکی ہوئی سی اسے جاتا دیکھ رہی تھی۔ اسے احساس ہوا کہ شاید ، اس نے کچھ زیادہ ہی تلخ رویہ اپنایا ہے۔

اسے اپنے آپ پر غصہ آ رہا تھا۔ اس نے خود ہی اپنے بالوں کو اپنی مٹھیوں میں سختی سے جکڑا۔ وہ چلانا چاہتی تھی۔ پر سب چیخیں جیسے نکلنے سے پہلے ہی دم توڑ گئی تھیں۔ تبھی وہ ذرا سی بھی آواز حلق سے باہر نہ نکال پائی۔

وہ یوں ہی فضول میں بھڑکتی ہوئی اس جگہ کی جانب بڑھی جہاں اسے جانا تھا، وہ جگہ جہاں اس کا ٹری ہاؤس تھا۔ وہ جگہ جہاں اس کی تتلیاں تھیں، وہ جگہ جہاں پہنچ کر اسے اپنا آپ پر امن سا محسوس ہوتا تھا۔ 

_________ 

"زیک یہ کھاؤ ناں!! دیکھو اتنی محنت سے میں نے بنایا ہے۔" 

 ٹوئنکل پیزے کی ٹرے اس کے سامنے کرتے ہوئے بولی۔

"بس کرو یار، تمہاری مام کیا گئی ہیں تم نے تو ساری ڈشز بنا کر میرے سامنے رکھ دیں۔"

وہ اپنے ایک ہاتھ سے اس ٹرے کو دور کرتے ہوئے بولا۔

اسے محسوس ہورہا تھا کہ آج ٹوئنکل کا انداز کچھ بدلا بدلا سا ہے۔

اس کی مام اور رابرٹ، دونوں کسی سے ملنے لندن گئے ہوئے تھے۔ تقریباً تین دن بعد کی ان کی واپسی تھی۔ اور آج صبح صبح ہی وہ گھر سے نکلے تھے۔

یلماز کافی دنوں سے محسوس کررہا تھا کہ ٹوئنکل کی دلچسپی اس میں بڑھتی جارہی ہے۔ وہ پہلے سے بڑھ کر اس کا خیال رکھنے لگی تھی۔ وہ اپنی پوری کوشش کرتی کہ اپنا بہت سا وقت ، صرف اور صرف یلماز کے ساتھ گزار سکے۔

 بلاشبہ وہ ایک اچھی اور مہرباں لڑکی تھی۔ پر یلماز کے لیے اس کی مہربانیاں حد سے زیادہ بڑھتی جارہی تھیں۔ وہ جو کہہ دیتا، ٹوئنکل کے لیے حرفِ آخر ہوتا۔ اس کی کسی بات سے اعتراض تو گویا وہ گناہ کے مترادف سمجھتی تھی۔

یہ سب بالکل سچ تھا۔ ٹوئنکل واقعی ایسا کررہی تھی۔ اور وہ بہت دنوں سے ایک بات، یلماز کو بتانا چاہتی تھی۔ ایک بہت ہی خاص بات، بہت ہی خاص انداز میں۔ اس نے اس بارے میں کافی کچھ سوچ رکھا تھا اور جو کچھ سوچ رکھا تھا اس پر عمل کرنے کا آج بھرپور موقع میسر آیا۔ اس نے اپنی استعداد کے مطابق، موقع سے استفادہ کیا۔

وہ آج صبح سے ہی کچن میں گھسی ، تیاریوں میں مگن تھی۔ 

یلماز کو اکیلے ہی بیکری پر بھیجا ہوا تھا۔ اس نے یلماز کو دوپہر کے کھانے کے لیے بھی منع کردیا تھا، وہ بتا چکی تھی کہ آج وہ بہت ہی زبردست سا عشائیہ یعنی ڈنر تیار کررہی ہے۔

کھانے کی سب تیاریاں مکمل تھیں۔ وہ بہت اچھے سے سب تیار کر چکی تھی۔اس نے میز بھی لگا دی تھی، اور اسے بہت خوبصورتی سے سجایا تھا۔ اس نے وہاں چھوٹی چھوٹی موم بتیاں جلائی تھیں۔ ایک چھوٹا سا۔۔ انتہائی خوبصورت گلدان جس میں، تین سرخ گلاب موجود تھے، میز کے وسط میں رکھا تھا۔

کرسیوں کو ریشمی چادروں سے خوبصورتی سے کور کیا۔ کچھ پھول، کچھ موم بتیاں، اس نے فرش پر بھی پھیلا رکھی تھیں۔ اور اس نے ان سب کاموں سے فراغت حاصل کرنے کے بعد اپنی تیاری کے متعلق سوچا۔

______

ٹوئنکل اپنی واڈروب کے سامنے کنفیوژ سی کھڑی تھی۔ اسے سمجھ نہیں آیا کہ کیا پہنے۔ بلآخر، بہت سوچ بچار کے بعد، ایک کالے رنگ کا سادہ سا سوٹ ،اس نے اپنے پہننے کے لئے منتخب کیا۔ اصل میں وہ بہت عام سی ڈریسنگ کرتی تھی۔ اس لیے اس کے پاس کوئی زرق برق لباس نہیں تھا۔

اس لیے جو اس نے اپنے لیے شیتھ(sheath) سٹائل کا لباس منتخب کیا تھا وہ بالکل سادہ تھا۔

_____

کھلے بالوں کو سنوارتی، گھٹنوں سے ذرا اونچا ڈریس پہنے وہ خاصی کیوٹ لگ رہی تھی۔ اس نے، اس پر سنہرے رنگ کا، تھوڑا گلٹر بھی چھڑک دیا تھا۔ بالوں کو سیدھا کر کے، کمر پر کھلا چھوڑا، اور ایک ڈبے میں سے خوبصورت سا ہئیر کلپ نکلال کر، بالوں میں ایک طرف کو لگایا۔ 

چہرے پر زیادہ میک اپ کرنا کچھ ٹھیک نہیں لگا تو بس سکن موائسچرائزر لگا کر، گہری سرخ رنگ کی لپ اسٹک سے ہونٹوں کو بڑی نفاست سے رنگا۔ 

گلے میں نفیس سا ہار، ہاتھ میں باریک باریک سے چار کنگھن اور کانوں میں کندھے تک آتی ، پتلی پتلی سی بالیاں پہنے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔ 

وہ مکمل تیار تھی۔ پر اسے کچھ کمی محسوس ہوئی۔ لباس مختصر ہونے کی وجہ سے ٹانگیں عریاں تھیں۔ اسے یہ صحیح نہیں لگا۔ اسے معلوم تھا زیک یعنی یلماز کی طبیعت کا کہ وہ مختصر لباس نہیں پسند کرتا۔ 

ویسے وہ بھی کبھی ایسے کپڑے نہیں پہنتی تھی، نہ ہی خریدتی تھی۔ یہ تو اس کی کسی سہیلی نے اسے تحفہ دیا تھا، اور وہ تب سے اب تک یوں ہی اس کی الماری میں لٹکا ہوا تھا۔ آج بھی اسے منتخب کرنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ نیا تھا، باقی سب کپڑے اس نے پہلے ہی پہنے ہوئے تھے، وہ چاہتی تھی کہ کچھ نیا زیب تن کرے۔ پر اب اسے عجیب سی جھجھک محسوس ہورہی تھی۔ 

بہت سوچنے کے بعد، اس نے، اسی کے اوپر، اپنی سلک کی، آف وائٹ رنگ کی، لمبی سکرٹ نکال کر پہنی۔ اب وہ بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی۔

اس کی طبیعت بھی عجیب تھی، وہاں کی دوسری لڑکیوں کی طرح، اسے بالکل بھی اپنے جسم کی نمائش پسند نہیں تھی۔ وہاں لڑکیاں جس بےہودہ فیشن کو دل و جان سے سراہتی اور اپناتی تھیں، اسے ٹوئنکل کو شدید چڑ تھی۔

________

"اچھا جیسے تمہاری مرضی۔۔!! نہیں کھانا تو۔۔مت کھاؤ۔"

وہ پیزے کو گھورتی ہوئی کندھے اچکا کر بولی۔

اسے کچھ خاص فرق نہیں پڑا۔

"ویسے کیتھرین آنٹی ، آکر اچھے سے سیدھا کریں گی تمہیں۔۔!!"

یلماز نے اس کی شکل دیکھتے ہوئے، ٹرے واپس اپنی جانب کھینچی اور اس میں سے سلائس نکلاتے ہوئے بولا۔

"اچھا جیسے تمہاری مرضی۔۔!! نہیں کھانا تو۔۔مت کھاؤ۔"

وہ پیزے کو گھورتی ہوئی کندھے اچکا کر بولی۔

اسے کچھ خاص فرق نہیں پڑا۔

"ویسے کیتھرین آنٹی آکر اچھے سے سیدھا کریں گی تمہیں۔۔!!"

یلماز نے اس کی شکل دیکھتے ہوئے، ٹرے واپس اپنی جانب کھینچی اور اس میں سے سلائس نکلاتے ہوئے بولا۔

"کیوں میں نے کیا کیا ہے۔۔؟؟؟" 

وہ پریشان ہوئی۔ 

ایک تو وہ کافی دیر سے پریشان تھی، وہ جو کہنا چاہتی تھی، کہا نہیں جا رہا تھا۔ اور اوپر سے یلماز اس سے ایسی باتیں کررہا تھا۔ 

مجال ہو جو اس نے اس کی اتنی تیاریوں پر ذرا بھی تعجب کا اظہار کیا ہو یا وجہ پوچھنے کی زحمت کی ہو۔ وہ تو بس دعوت اڑانے میں مگن تھا۔

 یا شاید اسے پہلے سے ٹوئنکل کے ارادوں کی خبر تھی۔

 شاید وہ اس لیے پرسکون تھا۔

 ہاں، اس کی وہ کتاب، وہ کتاب اسے، اکثر وقت سے پہلے بہت کچھ بتا دیتی تھی۔ 

وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ جیری درحقیقت یلماز ہی ہے۔ اب اسے بس کھوج لگانا تھی کہ آخر وہ اس کتاب کا حصہ کیسے بنا یا کس نے اس کے ماضی اور مستقبل کو وہاں تحریر کیا۔۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ یہ جان لے۔

اسے یقین تھا کہ وہ اپنا جواب پا لے گا۔ اسے یقین تھا کہ وہیں اس کتاب میں ، اسے اپنا جواب ملے گا۔ اس لیے اب وہ بے چین نہیں تھا۔

ہاں لیکن۔۔ متجسس ضرور تھا۔۔ اور اس کی بے چینی۔۔ وہ تو سرے سے ہی ختم ہو چکی تھی۔

"تم نے ہفتے بھر کی ساری گروسری کو آج کے ڈنر پر جو وقف کر دیا۔۔ اب دیکھنا آنٹی کیسی درگت بنائیں گی تمہاری۔۔" 

وہ پیزے کے مزے لیتے ہوئے بولا۔ جانتا تھا کہ اس وقت وہ اس کی بے تکی باتوں سے کوفت میں مبتلا ہورہی ہے۔ اس لیے وہ اور بھی زیادہ محظوظ ہوا۔

"زیک۔۔ !! تم بہت بدتمیز ہو۔۔!!"

 "ایک تو میں نے اتنی محنت کی ہے۔۔ اوپر سے محنت کرنے کی وجہ پوچھنے یا چلو۔۔ کھانے کی تعریف کرنے کی بجائے تم۔۔ ایسی فضول باتیں سنا رہے ہو۔۔۔!!"

ٹوئنکل کا معصومانہ شکوہ حاضر تھا۔

" تو تم بھی کب سے مجھے کھانے پر کھانا کھلا رہی ہو۔۔ تم وجہ بتا دو نا، اور دیکھ رہی ہو کہ میں کتنی اچھی طرح کھا رہا ہوں، اس کا یہی مطلب ہے ناں کہ کھانا شاندار ہے۔"

اس نے تعریف کی بجائے الٹا سنایا۔ ویسے حد تھی ہٹ دھرمی کی۔۔!!

"فضول۔۔ بہت ہی فضول بات تھی یہ آخر والی۔ مطلب میری اتنی محنت کے بدلے تم اپنے منہ سے تھوڑی سی تعریف بھی نہیں کرسکتے۔"

ٹوئنکل نے منہ بنا کر کہا۔ کتنا بے مروت تھا وہ۔۔

"اچھا۔۔!! تمہیں تعریف سننی ہے۔۔؟؟"

یلماز نے بڑے پیار سے پوچھا۔

"ہممم"

اس کا اشتیاق دیکھنے لائق تھا۔

"لیکن۔۔۔!! میں نہیں کرنے والا۔"

یلماز نے انگلیاں چاٹنے کے بعد کہا اور زور دار قہقہہ لگایا۔

 ٹوئنکل کی شکل دیکھنے والی تھی۔وہ بے چاری کلس کر رہ گئی۔

"بدتمیز۔۔!!" 

تپے ہوئے لہجے میں دانت پیستے ہوئے بولی۔

"ارے ، اتنی جلدی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، ابھی تو تم نے کچھ کہنا بھی ہے۔۔ اس لیے پر سکون رہو۔۔!!"

وہ مسکرایا۔

"افف۔۔!! ہاں مجھے کچھ کہنا تھا ناں۔۔ تم بھی پوری فلم ہو۔۔!! جان بوجھ کر میرا دھیان بھٹکا رہے ہو۔۔۔ ہے ناں۔۔؟؟"

اس نے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے، الجھ کر کہا۔

"پر میں خود ہی تو یاد دلایا ہے، پھر دھیان کیوں بھٹکانے لگا۔۔!! ویسے اب بتا دو۔۔ آخر مجھے کوئی جواب بھی تو دینا ہوگا۔۔!!" وہ لہجے میں تھوڑی پراسراریت پیدا کرتے ہوئے بولا۔

"ہاں بتاتی ہوں۔۔"

"ایک سیکنڈ۔۔ ایک سیکنڈ۔۔ تمہیں کیسے پتہ کہ جو بات میں کرنے والی ہوں اس کا تمہیں جواب دینا ہوگا۔۔؟؟؟" 

وہ شدید حیران ہوئی۔

اور حیرت سے یلماز کے وجیہہ چہرے کو تکنے لگی۔

"آ۔۔۔ وہ۔۔ بس میں نے اندازہ لگایا ہے۔۔"

وہ میز کے وسط میں پڑے گلدان سے ایک پھول نکالتے ہوئے بولا۔

 یلماز اس کی طرف متوجہ تھا پر دیکھ نہیں رہا تھا اور خود کو پھول کو الٹ پلٹ کرنے مصروف ظاہر کررہا تھا۔

ٹوئنکل شدید نروس ہورہی تھی۔۔ اور اس کی دھڑکنیں بھی مسلسل تیز ہوتی جارہی تھیں۔

وہ چپ تھی، اپنی بات کہنے کو لفظ نہیں مل رہے تھے۔ وہ کنفیوژ سی لبوں پر زبان پھیر رہی تھی۔

"اب بولو بھی۔۔۔!!"

انداز ایسا تھا کہ جیسے اس کا اظہار سننے کے لیے بےچین ہو۔

"وہ۔۔

 وہ ۔۔ دیکھو تم پلیز ناراض مت ہونا۔۔"

ٹوئنکل گھبرا سی گئی۔

اس کے ہاتھ گھبراہٹ کے مارے ٹھنڈے ہو رہے تھے۔ عقب میں کھلی کھڑکی کے پردے ہوا سے سرسرا رہے۔ بالٹن کی فضا میں سرسراتی ہوائیں جہاں ٹوئنکل کے خوبصورت بالوں سے بھی چھیڑ چھاڑ میں مصروف تھیں وہیں ارد گرد پڑی موم بتیوں کی لووں کو دہلا رہی تھیں جیسے کبھی بھی ان کو بجھا دیں گی۔

"بول دو ٹوئنکل۔ دیکھو تم کچھ بھی کہو، میں ناراض نہیں ہوں گا اور اپنے لیے بھی تم سے یہی امید رکھتا ہوں۔"

اس نے ہمت بندھائی۔

وہ لاکھ کوشش کرتا کہ حیران نہ ہو۔۔ پر وہ کتاب ایک حیرت کدہ تھی۔۔ اور اس کی کوششوں کو رد کرتے ہوئے اسے حیرت میں ڈال ہی دیتی تھی۔

یہ بات درست تھی کہ وہ پہلے کی طرح چونکتا نہیں اور نہ ہی بہت زیادہ متعجب ہوتا تھا۔۔ مگر کچھ کچھ حیرانگی تو اسے ہو ہی جاتی تھی۔

ٹوئنکل کی تیاریوں سے لے کر، ان کی اب تک کی ساری گفتگو، ہوا کے تیز جھونکے پر، ٹوئنکل کے بالوں کا بکھر کر چہرے پر آنا، موم بتیوں کی بھڑکتی لووں کا ڈگمگانا، ایک ایک چیز اس کتاب میں موجود تھی، ہر منظر بالکل ایسے تحریر تھا جیسے کے اس وقت اس کی آنکھوں کے سامنے واقع ہو رہا تھا۔

"مجھے۔۔ مجھے تم سے محبت ہے زیک۔۔ بہت محبت۔۔!!"

بلآخر اس نے بول ہی دیا جو وہ کہنا چاہ رہی تھی۔ اتنا جملہ کہہ کر وہ تھوڑا رکی۔ یلماز جانتا تھا کہ اس کی بات مکمل نہیں ہوئی اس لیے خاموش رہا۔

ٹوئنکل کی حالت عجیب ہورہی تھی۔ اس نے اپنی نظریں جھکائیں اور اپنے ہاتھوں پر ان کا نکتہ مرکوز گیے پھر سے گویا ہوئی۔

"تم۔۔ یقین مانو۔۔ ایسا لگتا ہے کہ میری رگ رگ میں بس چکے ہو۔۔ میں ساری زندگی تمہارے ساتھ، تمہاری ہوکر گزارنا چاہتی ہوں، تم شادی کروگے مجھ سے۔۔۔؟؟" 

آخر ہمت کر ہی لی تھی اس نے۔

جہاں اس کے اظہار پر ایک مدھم مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیلی تھی وہیں اس کی آخری بات پر کچھ سنجیدہ ہوا۔ 

مسکرایا تو وہ اس کے انداز پر تھا۔

پر خود پر سنجیدگی اس لیے طاری کی کہ اگلی کسی جھوٹی آس اور امید میں مبتلا نہ ہو جائے۔

وہ اپنا جواب دینے والا تھا کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔ ٹوئنکل کو اس مداخلت پر رہ رہ کر غصہ آیا۔

گھنٹی بجانے والا شاید بٹن پر ہاتھ رکھ کر ہٹانا بھول گیا تبھی ڈنگ ڈانگ،ڈنگ ڈانگ کی آواز بند ہونے میں نہیں آئی۔

"پہلے دروازہ دیکھ لوں۔۔؟؟" 

یلماز نے بغیر کچھ کہے صرف نظروں کے اشارے سے پوچھا۔

اس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اجازت دی۔

_______

"آسٹِن !!! اتنے گھبرائے ہوئے کیوں ہو؟؟"

یلماز نے دروازہ کھولا تو سامنے انہی کے ساتھ والے گھر سے ننھا آسٹن انتہائی بوکھلائی ہوئی حالت میں موجود تھا۔ یلماز نے غور کرنے پر جانا کہ وہ رو رہا تھا اور کپکپا رہا تھا۔ تبھی اس نے تشویش سے پوچھا۔

"آسٹِن !!! اتنے گھبرائے ہوئے کیوں ہو؟؟"

وہ جھک کر اس کے سامنے بیٹھا۔

"مسٹر زیک۔۔ وہ میری گرینی۔۔ گرینی۔۔ انہیں۔۔ ان کو کچھ ہوگیا ہے۔۔ وہ سانس نہیں لے پا رہیں ۔۔" 

اس نے لرزتے ہوئے جلدی جلدی بولا۔ معصوم بچہ تھا، اپنی دادی کہ طبیعت بگڑنے پر گھبرا گیا تھا۔

"اوہ، پھر تو یہاں کھڑے رہ کر وقت ضائع ہورہا ہے۔۔ تم نے ایمبولینس کو کال کی۔۔"

وہ یک دم کھڑا ہوا اور آسٹن کو ساتھ لیے تیزی سے چلتے ہوئے پوچھا۔

"نن نہیں۔۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا ، میں ان سے سٹوری سن رہا تھا ،پھر وہ اچانک کھانسنے لگیں۔۔ میں نے دیکھا کہ ان کا سانس بند ہورہا ہے تو میں یہاں دوڑا چلا آیا۔" 

وہ بوکھلا کر ساری تفصیل بتا رہا تھا۔ 

اتنے میں یلماز نے ایمبولینس بلانے کے لیے نمبر ڈائل کیا۔

نمبر مل چکا تھا، اس نے آسٹن کو خاموش رہنے کا اشارہ کر کے فون پر گھر کا پتہ بتایا اور بتانے کے بعد اس کے گھر میں داخل ہو کر اس کی گرینی کو دیکھنے لگا۔

وہ خود بہت پریشان ہو گیا تھا۔

_______

ٹوئنکل اس کا انتظار کررہی تھی۔ کچھ دیر تک وہ نہ آیا تو اسے تشویش ہوئی۔ پھر قریب سے کسی ایمبولینس کے سائرن کی آواز سن کر وہ دروازے پر دوڑی۔

دو لوگ آسٹن کی گرینی کو ایمبولینس میں منتقل کرکے دروازہ بند کر چکے تھے، یلماز اور آسٹن بھی ان کے ساتھ اندر ہی گاڑی میں موجود تھے۔

معاملہ فوراً ہی ٹوئنکل کی سمجھ میں آیا۔۔ سو اس نے افسوس بھری گہری سانس لی اور ان کے وہاں سے جانے کے بعد  دروازہ بند کرتے ہوئے سب پھیلاوا سمیٹنے اندر چلی گئی۔ 

پھیلاوے سے پہلے اس نے اپنا حلیہ نارمل کرنے کے متعلق سوچا۔

کالی جینز کے ساتھ نارنجی رنگ کی ایک ڈھیلی سی ٹاپ پہن کے اس نے برتن وغیرہ سمیٹے، سجاوٹ کا سارا سامان ٹھکانے پر لگایا۔۔

اور یلماز کے بارے میں سوچنے لگی، وہ اتنا مطمئن سا تھا، اسے اس کے اظہار سے کوئی شاک نہیں لگا نہ اس نے کوئی سخت ردِعمل ظاہر کیا پھر بھی اس کی چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ اس کا جواب، اسے اپنے حق میں نہیں ملے گا۔

اسے ایک اندیشہ محسوس ہوا۔۔

وہ چلتی ہوئی اسی کھلی کھڑکی کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔

بازوؤں کو آپس میں بل دے کر سینے پر باندھا اور آنکھیں موند لیں۔ خنک ہوا کے نرم تھپیڑے چہرے پر پڑ رہے تھے اور اس کے کھلے بال پیچھے کو اڑ رہے تھے۔ 

وہ مسلسل یلماز کے متعلق سوچ رہی تھی، اس کے جواب کے متعلق سوچ رہی تھی،اپنے متعلق سوچ رہی تھی اور اس نے سوچتے رہنا تھا جب تک کہ وہ واپس نہیں آتا یا

جب تک کہ وہ اسے جواب نہیں دیتا

_________

"تم یہاں کہاں سے آ رہے ہو؟؟"

شمسہ بیگم نے نادر کو دیوار پھلانگتے دیکھ کر حیرت سے سوال کیا۔

 ملیشہ، وقت گزاری کے لیے کچن سے سبزی کی ٹوکری اٹھا لائی تھیں، چونکہ کھانے کا وقت تھا اس لیے انہوں نے جلدی سے ساری سبزی چِھیل کر کاٹیں۔ وہ اٹھنے کو تھیں کہ شمسہ پہلے ہی ان سے وہ لینے وہاں حویلی کے عقبی لان میں پہنچ گئیں۔

اور اب وہ نادر کو وہاں سے آتا دیکھ کر حیرت زدہ ہوئیں۔

ملیشہ کو کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ وہ ان کے سامنے ہی وہاں گیا تھا۔

"کچھ نہیں، آیت کے پاس گیا تھا۔".

وہ آستینیں جھاڑتا ہوا بے نیازی سے بولا۔

"کیوں۔۔؟؟"

سرسری سے انداز میں کیا گیا سوال نادر کو ناگوار گزرا۔

"میری مرضی۔۔" وہ نخوت سے جواب دیتا آگے بڑھا۔

آیت کے الفاظ نے اسے تڑپا کر رکھ دیا تھا۔

ٹھیک ہے کہ وہ کوئی پاک صاف فرشتہ نہیں پر بار بار اتنی تحقیر اور تذلیل کے ساتھ اس بات کا احساس دلانا ضروری ہے۔ اس نے تڑپ کر سوچا۔

شمسہ بیگم ، اس کے سڑے سے جواب پر صبر کے گھونٹ پی کر رہ گئیں۔ 

وہ مفت میں ہی اس کی بےرخی کا شکار ہورہی تھیں۔

جبکہ ملیشہ نے تنبیہی نظروں سے نادر کو گھورا ، جیسے ماں سے بات کا سلیقہ بتلا رہی ہوں۔

شمسہ بیگم بھی نادر کو ہی گھور رہی تھیں جیسا کہ کچھ کہنا چاہتی ہوں۔

"کوئی بات ہے کیا۔۔؟؟"

وہ کمر پر ہاتھ ٹکائے، اپنی دائیں طرف موجود کیاری میں لگے پھولوں کو گھورتے ہوئے بے زاری سے بولا۔

"وہ سردار محمد خان کی حویلی سے پیغام آیا تھا، کل وہ لوگ اپنے بیٹے مصطفیٰ کے لیے ماریہ کا رشتہ دیکھنے آ رہے ہیں، ہو سکے تو گھر پر رہنا۔"

انہوں نے سادہ سے لہجے میں کہا۔

مصطفیٰ کا نام سن کر اس کے ماتھے پر بل پڑے۔

"جی اچھا۔۔ ویسے آپ کو نہیں لگتا، میری موجودگی بات بگاڑ سکتی ہے۔۔ آخر کو ایک آوارہ، شرابی بھائی ہوں۔"

اب کی بار اس نے اپنی بات کہتے ہوئے کچھ لحاظ ملحوظِ خاطر رکھا۔

 اس نے بہت آرام سے اپنی بات کہی اور کوئی تاثر دئیے بغیر جانے کو قدم بڑھائے۔

نادر برآمدے تک پہنچا تھا کہ شمسہ بیگم نے آواز دی تو اسے رک کر مڑنا پڑا۔

"اب کیا کہنا ہے۔۔!!" 

اکتا کر دیا گیا جواب شمسہ بیگم کو پھر سے تکلیف دے گیا۔

ملیشہ کو تو غصہ آنے لگا تھا۔

"بیٹا ماں ہیں تمہاری۔۔ کچھ عزت و احترام سے بات کیا کرو، ایسا نہ ہو کہ یہ بےادبی تمہیں لے ڈوبے۔"

وہ خود ہی سبزی اٹھائے، اس کے قریب سے گزرتے ہوئے اچھا خاصا جھڑک کر اندر چلی گئیں۔

شمسہ نے خاموشی سے ان کو جاتا دیکھا اور کچھ توقف کے بعد بولیں۔

"آیت نے کل سے کچھ نہیں کھایا پیا، جنگل گئی ہے تو پتہ نہیں کب واپس آئے گی۔ میں تمہیں کھانا دیتی ہوں، اسے دے آؤ۔۔!!"

وہ حیرت سے اپنی ماں کو سن رہا تھا۔

آیت کی اتنی پرواہ۔۔ وہ کر رہی تھیں۔۔ اسے یقین نہیں آیا۔ اس نے ایک نظر اپنی ماں کے چہرے پر ڈالی اور خاموشی سے نظریں پھیر گیا۔

شمسہ وہاں کھڑیں، نادر کے حامی بھرنے کی منتظر تھیں۔

"اچھا لادیں آپ۔۔!!"

وہ کچھ دیر بعد ، وہاں بچھی کرسیوں کی طرف جاتے ہوئے بولا۔ 

اب وہ سکون سے ٹانگیں پھیلائے وہاں بیٹھا تھا۔

نظریں بے وجہ ہی کیاری کے پھولوں پر ٹکی تھیں۔

اتنا بےعزت ہو کر آیا تھا، اس کے با وجود، ایک مرتبہ بھی، اس کے دل نے کوئی مزاحمت نہ کی۔ 

وہ پھر سے اس کے پاس جانے کو جی جان سے تیار تھا۔

حالانکہ کتنے غصے سے وہاں سے نکلا تھا۔

وہ بیٹھا بیٹھا، اپنے متعلق یہی سب سوچ رہا تھا کہ سوچتے سوچتے اس کا ذہن کسی اور طرف بھٹکا۔

ایک دم، کوئی چیز اس کے ذہن پر کلک ہوئی تھی۔۔

ایک بہت ہی گہری اور بامعنی بات اس کے شعور میں ابھری تھی۔

ایک دم ایک بہت ہی بامعنی بات اس کے شعور میں آئی۔

اسے احساس ہوا کہ وہ کیسے ایک لڑکی کے سامنے اپنی عزت نفس کو رسوا ہونے دیتا ہے جسے اس کی یا اس کی محبت کی قدر نہیں،اگر وہ اتنی محبت اُس ہستی سے کرتا جو اسے پیدا کرنے اور مارنے پر قادر ہے تو کیا وہ بھی اس کی عزت نفس کو مجروح کرتا۔

نادر ہونق بنا محوِ تفکر تھا، اس سوچ نے جیسے اس کا باطن جھنجھوڑا تھا۔

تو اسے محبت تھی آیت سے۔ آج اس نے باقاعدہ خود سے ایک باضابطہ اظہار کیا۔ لیکن اب تک میں نے اسے صحیح طرح جتایا نہیں، کیا پتہ جب اسے یقین آ جائے تو وہ ایسا نہ کرے۔ 

ہاں یقین۔۔!! میں نے یقین دلوانا ہے اس کو۔۔!!

اپنی محبت کا یقین۔۔!! لیکن اس سے پہلے مجھے اپنے آپ سے پوچھنا ہوگا کہ واقعی محبت ہے بھی یا نہیں اور محبت ہوتی کیا ہے؟ کیا میں اس کے تقاضوں پر پورا اترتا ہوں۔۔ کیا میں اس لائق ہوں کہ کسی سے محبت کرسکوں۔۔؟؟

سوالوں کی ایک جنگ اس کے اندر چھڑنے لگی تھی۔ 

وہ عجیب پاگلوں کے جیسے بے تحاشا الجھ کر ایک ناسمجھی کی سی کیفیت میں اپنے سوال لبوں پر بڑبڑا رہا تھا۔

سوچوں کا تسلسل ایک خاص نکتے سے شروع ہوتا کہیں اور ہی بھٹک گیا۔

بامعنی نکتے سے ہٹ کر بے مقصدیت کی طرف نکل گیا۔

ایسے جیسے کسی خزانے کی جستجو کرتے کرتے کوئی وہاں تک پہنچے اور پہنچتے ہی قدم واپس پھیر لے اور اپنا سفر ضائع کردے۔

لیکن قدم پھیر لینے سے سفر ضائع تو نہیں ہوتے ناں۔

راستہ یاد رہتا ہے، پھر جب کبھی دوبارہ جستجو ہو تو خزانے تک پہنچنا آسان ہو جاتا ہے۔

اس لیے جو بھی تھا، اس کے وجود میں ایک دفع تو اللّٰه سے محبت کا سوال ابھر چکا تھا۔

یقیناً اب اس کی ذات میں اپنے خالق کی محبت کی طلب کا شور اٹھنے والا ہوگا۔

لوگ پتہ نہیں کیا کچھ مفروضے گھڑ دیتے ہیں کہ فلاں کے بغیر ذات نامکمل ہے یا فلاں چیز کے مل جانے سے ذات کا خلا پُر ہوجائے گا۔۔!!

میں کہتی ہوں کہ کسی انسانی وجود اگر واقعی کوئی قابلِ تشویش محرومی ہے تو وہ محرومی اللّٰه سے محبت کا نہ ہونا ہے۔ 

اُس سے محبت نہیں تو سمجھو اُس سے وفا نہیں۔

اُس سے وفا نہیں تو سمجھو خود سے وفا نہیں۔

اور جب خود سے ہی وفا نہ ہوگی تو کسی اور سے کیا ہوپائے گی۔۔!!

وفا کے بغیر محبت کا کوئی مقدر نہیں۔

اس کے بغیر تو کسی سے محبت نہیں ہو ہی نہیں سکتی۔

جو ہوگا وہ فریب ہوگا، دھوکہ ہوگا یا وہم ہوگا محبت نہیں ہوگی، نہ ہی ہو سکتی ہے۔

اُس   "نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ" کی محبت تو ایک منصب ہے، ایک معراج ہے، جس تک پہنچنا ہی زندگی کا مقصد ہونا چاہیے۔

وہ منصب پا لیا تو سب پا لیا اور نہ پا سکے تو سمجھو تباہ ہوگئے۔

_____

نادر کی بڑبڑاہٹ جاری تھی جب اس کی امی جب چھوٹا سا ٹفن باکس لئے اس کے سامنے آئیں۔

 اس نے اپنی سوچ کو جھٹکتے ہوئے بالکل سنجیدگی سے ان کے ہاتھ سے وہ ٹفن باکس لیا اور کرسی سے اٹھا۔

کیونکہ تازہ کھانا تو ابھی بنا نہیں تھا اس لئے شمسہ بیگم جلدی سے کل والا ہی گرم کر کے لے آئیں۔

اپنی ماں کے لیے کوئی نرم جذبہ اس کے طرزِ عمل میں نہیں جھلکتا تھا۔ یہی بات ان کا دل زخمی کرتی۔

انہیں نادر کا رویہ بری طرح کھٹک رہا تھا۔ انہیں پریشانی ہو رہی تھی کہ آخر وہ کیوں اتنا اکھڑا اکھڑا رہتا ہے۔ کیوں وہ ان سے اتنی دور رہتا ہے، انہیں نظر انداز کرتا ہے، کیا دشمنی ہے آخر اس کی۔۔!!

وہ اپنی سوچوں میں گم، نادر کو منظر سے غائب ہونے تک دیکھتی رہیں۔

×××××××××

"زیک کہاں رہ گئے ہو۔۔!! اب آ بھی جاؤ۔"

وہ کاؤچ پر بیٹھی کافی کا مگ لبوں سے لگائے تصور میں زیک کو آنے کا کہہ رہی تھی۔

کافی وقت ہوگیا تھا اور وہ ابھی تک نہیں لوٹا۔ اتنا انتظار ٹوئنکل کے صبر سے باہر تھا مگر پھر بھی اس کے علاوہ وہ کرتی بھی کیا۔۔۔!!

"گئے ہو تو ایک فون ہی کر دیتے"

وہ کافی پیتے ہوئے اپنے فون پر نظر ڈالتے ہوئے اپنے آپ سے کہہ رہی تھی کہ اس کے ضمیر نے جھنجھوڑا۔

"شرم کرو ٹوئنکل پتہ بھی ہے وہ کہاں گیا ہے کیا کر رہا ہے پھر بھی تم ایسی باتیں سوچ رہی ہو ، بدتمیز، بے حس لڑکی۔۔!!"

ضمیر کی اس ملامت پر، اس نے فوراً ہی اپنی سوچ کا زاویہ درست کیا. اسے اپنے آپ پر کچھ شرمندگی سی محسوس ہوئی۔ آخر اپنی آنکھوں سے اس نے آسٹن کی گرینی کو ایمبولینس میں منتقل ہوتے دیکھا تھا۔

ٹھیک ہے، وہ لمحات اس کی اب تک کی زندگی کے سب سے زیادہ اہم اور فیصلہ کن لمحات تھے، اسے یلماز کا جواب جاننا تھا پر کسی انسان کی زندگی اس کے جواب جاننے سے زیادہ اہم ہے۔

اس بات احساس کرتے ہوئے اس نے زیک زیک کا راگ الاپنا بند کیا اور کچھ سوچتے ہوئے کافی کا آخری گھونٹ بھرتی کاؤچ سے اٹھی۔۔ اسے کوئی کام یاد آیا تو اس لیے وہ کپ قریب رکھی پر میز پر رکھتے ہوئے وہ کام انجام دینے چلی گئی۔

______

وہ کمر کو خم دیے، زمین سے پھوٹتے چشمے کے جمع شدہ پانی سے بننے والے اُس خوبصورت تالاب کے کنارے ایک بڑے ، چپٹے پتھر پر بیٹھی تھی۔

تالاب کے حد درجہ شفاف پانی میں ٹیڑھے میڑھے ، مختلف طرح کے پتھروں کا  جھلکتا عکس، کہیں کہیں جمی ہوئی کائی کا رنگ اور اوپر تیرتے ہوئے رنگ برنگے کنول کے پھول بے حد خوبصورت لگ رہے تھے۔

اس نے اپنی جینز کو اوپر کی طرف تہہ کر کے ذرا اونچا کیا ، اپنے پیروں کو تالاب کے شفاف پانی میں اتارا ، اور ٹانگوں کو ہلا کر پانی میں ہلچل مچاتی وہ بہت اداس اور مرجھائی ہوئی سی لگ رہی تھی۔

اس نے اپنے دونوں بازوؤں کو ذرا سا پیچھے کرکے، ہتھیلیاں اُسی پتھر پر ٹکا رکھی تھیں کہ جس پر وہ بیٹھی تھی۔

بال حسبِ معمول کمر پر، کندھوں پر اور چہرے کے دائیں بائیں جھول رہے تھے۔

حیرت تھی کہ آج اسے یہاں بھی سکون نہیں مل رہا تھا۔ وہ پہلی مرتبہ ارد گرد کے مناظر سے بے نیاز خود پر ڈھیروں اکتاہٹ طاری کیے سکوت زدہ سی تھی۔

اس کے اطراف میں منڈلاتی، سنہری،سبز، نیلی گلابی تتلیاں بھی آیت کو متوجہ کرنے میں ناکام رہیں، نہ پرندوں کی مترنم چہچہاہٹ میں لطف محسوس ہوا اور نہ ہی مختلف انواع کی خوشبوؤں سے معطر، سرسراتی ہواؤں میں کوئی سرور محسوس ہوا۔

وہ بس اٹکی ہوئی تھی۔

اس واقعے میں جو کچھ دیر پہلے پیش آیا۔

وہ اپنی نظریں یک ٹک، تالاب کے بےسکون پانی پر گاڑھے اپنے الفاظ یاد کررہی تھی کہ کیسے اس نے پھر نادر کی تذلیل کی۔

ضمیر ملامت کررہا تھا کہ آج وہ بے وجہ ہی اس پر برسی ہے اور دماغ تھا کی حق بجانب ہونے کا جھوٹا دلاسہ دینے پر مصر تھا۔

اسے رہ رہ کر اپنی بےساختگی پر افسوس ہوا، آخر وہ کیسے اتنی بےخود ہوگئی کہ اسے اپنے آنسو پونچھنے کی اجازت دی۔ 

"ٹھیک ہے، میں آپ کی معافی قبول کرتا ہوں، پر آئیندہ خیال کیجئے گا، یہ کوئی اچھی بات نہیں کہ بندہ کسی راہ چلتے اجنبی سے یوں لپٹ جائے، ڈر اپنی جگہ، حد اپنی جگہ۔"

اس موقع پر بے ساختہ اسے یلماز کے کہے الفاظ یاد آئے۔

نادر بھی تو اجنبی ہے، نا محرم!! 

ٹھیک ہے مذہب کی تقلید سے میرا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں پر پھر بھی، مجھے اتنا بےخود نہیں ہونا چاہیے تھا کہ کسی اجنبی کا کندھا پانے پر اپنا سب درد اس کے حوالے کردوں۔

خاص طور پر ایسے شخص کے حوالے جس کی میرے سامنے دو کوڑی کی وقعت نہیں۔

یا پھر وقعت ہو یا نہ ہو، پھر بھی میں ایسا کیسے کر سکتی ہوں۔

میں نے اپنے ساتھ یہ ظلم کیوں کیا۔۔!!

کیا آیت اتنی کمزور ہے کہ اپنا درد تک نہیں سنبھال پاتی۔۔!!

کیا مجھ میں اتنا حوصلہ بھی نہیں کہ میں خود پر قابو پا سکتی۔۔!!

اس نے تڑپ کر سوچا، وہ اپنے آپ سے شرمندہ تھی، خود سے نظریں ملانا مشکل تھا۔

صرف وہ جانتی تھی کہ وہ اس وقت کیا محسوس کررہی تھی۔۔!! 

اس کے اندر پچھتاوا سا سلگنے لگنا تھا۔

آج کل سب لوگ ایسی چیزوں کو چھوٹی سی بات سمجھتے ہیں، ایسے عمل، ایسے فعل پر کوئی اعتراز نہیں اٹھاتے، جیسے شریعت کی نافذ کردہ حدود کی کوئی اہمیت ہی نہ ہو۔

حیرت تھی اسے یہ سب باتیں اسے یلماز سے لپٹنے کے وقت یاد نہیں آئیں۔

اور یہ بھی حیرت تھی کہ وہ ایسی باتیں سوچ رہی تھی۔

خود کو اپنے آپ میں بلا کا آزاد خیال سمجھنے والی لڑکی اچانک کیسے اپنی سوچ بدل گئی۔

وہ جتنا سوچتی اتنا الجھتی۔ 

قرآن، سنت، دین، مذہب۔۔ اس سب کو ترک کیے ایک عرصہ ہوا تھا۔

پھر کیوں نانو کے۔۔ شرم و حیا، حدود اور نسوانیت کے تقاضوں پر پڑھائے گئے اسباق ذہن میں تازہ ہو رہے تھے۔

ایک معمولی سا واقعہ کیوں اسے اتنا جھنجھوڑ رہا تھا۔

وہ پریشان تھی۔

آخر اس کا دماغ اسے چین کیوں نہیں لینے دیتا۔۔۔

کیوں اس کا ذہن اس کے ساتھ کھیل کھیلتا ہے، اس پر الجھنوں کا بوجھ سوار کیے رکھتا ہے۔۔

وہ کشمکش میں تھی، کیا صحیح ہے کیا غلط، کون اچھا ہے کون برا، اسے کچھ سمجھ نہیں آیا۔

وہ اپنی الجھنوں میں الجھی ، نادر کی موجودگی سے لاعلم پانی میں پیر ہلاتی رہی۔

اور نادر ٹھیک اس وقت اسی جگہ پر، ٹھیک ویسے ہی کھڑا بالکل مسحور سا لگ رہا تھا، بالکل ویسے جیسا کہ عرشیہ اپنے بچپن میں پہلی مرتبہ وہاں آنے پر ہوئی تھی۔

وہ ساحرانہ منظر اسے بھی اپنے بس میں کررہا تھا۔

اس لمحے بے اختیار اسے وہ پینٹنگ یاد ائی جو اس کی وجہ سے تہس نہس ہوئی تھی۔

تو کیا اس نے یہ جگہ پینٹ کی تھی۔۔؟؟

منظر کو مزید مسحورکن بنانے والی ساحرہ کے اداسی میں مبتلا وجود کو تحسین بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے اس نے اپنے آپ سے پوچھا۔

اور اس کا اپنے آپ سے پوچھا گیا سوال اسے افسوس میں مبتلا کر گیا۔

آج صحیح معنوں میں اسے عرشیہ کا دکھ محسوس ہوا۔

کہ کیسے اس کی وجہ سے وہ اپنی زندگی کا پہلا شاہکار ٹکڑے ٹکڑے ہوتا دیکھنے کی اذیت سے دوچار ہوئی۔

کچھ دیر یوں ہی کھڑا رہنے کے بعد اسے یہاں آنے مقصد یاد آیا تو وہ احتیاط سے ، کوئی چاپ پیدا کیے بغیر، بے آواز قدم اٹھاتا آیت کے قریب گیا۔

اسے کسی گہری سوچ میں منہمک پا کر ، اپنا گلا کھنکارا اور توجہ، اپنی جانب مبذول کرنے کی کوشش کی۔

کسی آدم زاد کی گلے کی کھنکار سننے پر وہ یک دم چونکی تھی، لمحے بھر میں اس کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹا، وہ تعجب بھری نظروں سے، منہ کھولے نادر کی شکل دیکھ رہی تھی۔

جیسے اس پل اس کی موجودگی کا یقین نہ آیا ہو۔

نادر اسے تاثرات سمجھنے کی کوشش کررہا تھا جبکہ وہ اس کی یہاں دوبارہ آمد کی۔۔!!

ابھی تو اس نے مار پیٹ کر، گالیاں دے کر یہاں سے بھگایا تھا۔

وہ پھر کیسے دوبارہ ادھر ٹپک سکتا ہے۔

اس کی عقل جواب دینے سے قاصر تھی۔

 پر اچھا ہوا ہے کہ نادر خود ہی بول پڑا۔

ظاہر ہے اسے بھی کوفت ہونے لگی تھی جس طرح حیرت سے وہ اس کا معائنہ کررہی تھی۔

"امی نے تمہارے لیے کھانا بھیجا ہے، یہ لو، بول رہی تھیں کہ تم نے کل سے کچھ نہیں کھایا۔۔!!"

 ٹفن بڑھاتے ہوئے وہ عام سے انداز میں بولا۔

یعنی یہاں کوئی ناراضگی اور کوئی غصہ نہیں تھا۔

"امی نے تمہارے لیے کھانا بھیجا ہے، یہ لو، بول رہی تھیں کہ تم نے کل سے کچھ نہیں کھایا۔۔!!"

 ٹفن بڑھاتے ہوئے وہ عام سے انداز میں بولا۔

یعنی یہاں کوئی ناراضگی اور کوئی غصہ نہیں ہے۔

وہ بھونچکا کر رہ گئی۔

"ممانی نے میرے لیے دیا؟؟"

وہ اس کے ہاتھ سے ٹفن لیے بولی،انداز بے اعتبار سا تھا۔

"ہاں، مجھے بھی یقین نہیں آیا تھا۔"

وہ کہہ کر جانے لگا۔ 

دل نے خواہش کی کہ وہ پکار کر روک لے۔

اس کا دل نہیں چاہتا تھا کہ وہ اس سے دور جائے، جانتا تھا وہ تو روکنے والی نہیں اس لیے اس  نے سوچا کہ کیوں نہ ڈھیٹ بن کر خود ہی حصہ مانگ لیا جائے تبھی وہ رک کر پلٹا۔

کیا پتہ یہ اب بےعزتی نہ کرے، کیوں کہ آج کا کوٹہ تو محترمہ پورا کر چکی ہیں۔ آیت کو دیکھتے ہوئے نادر کو خیال آیا۔

ٹفن ایک طرف کو پتھر پر رکھا اور پاؤں تالاب سے باہر نکال کر اس نے اپنے جوتے پہنے وہ نادر کو پکار کر روکنے لگی تھی، مگر بروقت اس نے اپنے ارادوں پر بند باندھتے ہوئے خود کو اس عمل سے باز رکھا، ابھی کچھ دیر پہلے تو اس نے اپنی اتنی سرزنش کی تھی، وہ کیسے اُس طرح کی کوئی حرکت دوبارہ کرتی جس سے نادر اس کے حوالے سے پر امید ہوتا۔ 

 اتنے میں نادر خود ہی پلٹ کر اس کے پاس آیا اور آکر بیٹھا۔

"شکر!! نہیں پکارا!! ابھی تم نے خود کو کیا کہا تھا، نامحرم، اجنبی اب بھول گئیں سب!" اس نے خود کو ڈپٹا۔

اگر پکار لیتی تو اپنے سامنے اس کا کیا بھرم رہ جاتا۔

وہ ٹفن کھولتے ہوئے سوچ رہی تھی۔

"تم جا نہیں رہے؟؟"

اس کو پلٹتا دیکھ رکھائی سے بولی۔

"تم سے زیادہ بے مروت انسان دنیا میں نہیں دیکھا، پتہ ہے پہلے ڈاکیے سے تمہارا میگزین وصول کر کے تمہارے کمرے میں رکھنے گیا۔ وہاں اس لڑکی کی کالز دیکھ کر فون تمہیں دینے آیا۔ تم سے اتنی زیادہ بےعزتی کروائی اس کے باوجود تمہارے لیے کھانا لے کر دوبارہ یہاں آیا۔ تم میری اتنی محنت کے صلے میں اپنے ساتھ کھانے کی بھی پیشکش نہیں کررہیں۔ پیشکش قبول کرنا نہ کرنا الگ معاملہ ہے۔ مگر تمہیں پوچھنا تو چاہیئے تھا۔"

نادر حیرت کی تصویر بنا اس کے کرتوت گنوا رہا تھا۔

"پہلی بات یہ کھانا میرے لیے تھا اس لیے میں نے تمہیں مدعو کرنا مناسب نہیں سمجھا، دوسری بات تمہیں خود ہی بےعزتی کروانے کا شوق ہے، جانتے ہو مجھے پھر بھی منہ اٹھائے چلے آتے ہو، کوئی اثر نہیں لیتے میرے الفاظ کا اور تیسری بات تم سے میرا کوئی ایسا رشتہ نہیں کہ میں مروت نبھاتی پھروں یہ کام مجھ جیسی لڑکی کو جچتا نہیں۔"

وہ اچھی بھلی، شگفتگی سے بات کرتے کرتے آخر میں طنزیہ لہجہ اپنا گئی۔

لفظ "مجھ جیسی" میں اپنے لیے غرور اور اس ہوٹل والی کے لیے حقارت ہی حقارت تھی۔

جب جب وہ ہوٹل والا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے آتا وہ نہ چاہتے ہوئے بھی، ایسا حقارت آمیز انداز اپنا لیتی جو نادر کے دل میں چبھ سا جاتا پر وہ برداشت کر لیتا۔

بچپن والا نادر ہوتا تو اسے دو لگاتا، پر اب اس کے پاس نہ بچپن تھا اور نہ ہی بچپن والا طنطنہ۔

اس کا تلخ مزاج تو کہیں کھو کر رہ گیا تھا۔

اس کی بارعب اور مردانہ وقار  سے مزین شخصیت کی تو دھجیاں اُڑ چکی تھیں۔

بس جو تھوڑی بہت اکڑ تھی وہ ماں کو دکھاتا تھا۔ باقی سب سے تقریباً وہ خاصے دبے ہوئے اور دھیمے لہجے میں بات کرتا۔ دھیماپن بھی ایسا جو اس کی ذات کا آپ ہی تمسخر اڑاتا کہ وہ کیا تھا اور کیا بن گیا۔

شخصیت میں دھیما پن جہاں ایک مثبت وصف ہے وہیں اس کی ایک منفی شکل بھی ہے۔

ایک بردباری وہ ہوتی ہے جو انسان کی توقیر بڑھاتی ہے۔ اس کی شخصیت کو شاندار بناتے ہوئے شہرت اور رتبے میں اضافہ کرتی ہے۔ جبکہ دوسری وہ ہے جو کسی اچھے بھلے انسان کا مرتبہ تک مسمار کردیتی ہے۔ انسان اپنی موجودہ حیثیت کا دفاع کرنے کے قابل نہیں رہتا، پھر نئی حیثیت بنانا، اسے قائم رکھنا تو گویا دیوانے کا خواب ہوگئی۔ اس کی عزت دوسروں کے رحم و کرم پر ہوتی ہے۔ کوئی کردے تو ذات پر احسان، نہ کرے تو بے حرمتی پر مبنی وہ بد رویہ اُس کا حق بن جاتا ہے۔ 

بیرم کی شخصیت میں بھی دھیماپن اور شائستگی تھی پر وہ پھر بھی نادر سے مختلف تھا۔ کیونکہ بیرم کے اطوار میں جو ملائمت اور بُردباری  تھی اس کی آن بان ہی اور تھی، گزرتے وقت کے ساتھ اس کا ملائم لب و لہجہ اس کی توقیر میں بڑھوتری کا سبب تھا۔ جبکہ نادر کی نرم مزاجی کا حال یہ تھا کہ وہ اپنی عزتِ نفس کا سودا، کسی بھی جواز کے بغیر کرنے پر تلا رہتا۔ خصوصاً آیت کے سامنے تو اسے یاد ہی نہیں رہتا تھا کہ وہ انسان ہے اور ایک غیر مند انسان کی سب سے بڑی املاک اس کی خودداری ہوتی ہے، پر نادر کے لیے پاسِ ناموس تو جیسے کچھ تھا ہی نہیں۔

بار بار دنیا والوں کے طعنے ، طنز سن کر بھی اس کی غیرت نہیں جاگتی تھی، بار بار آیت سے بےعزتی کروانے کے باوجود اسے شرم تک نہیں آتی تھی۔

سچ ہے غیرت ہی انسان کو اس کا مقام دلواتی ہے ورنہ بےغیرت انسان میں اپنی آبرو کا پاس رکھنے تک کی حمیت تو ہوتی نہیں پھر وہ کسی دوسرے کو کیا مقام وہ مرتبہ بخش سکتا ہے۔

 علامہ اقبال نے کہا تھا ناں،

~غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں

 پہناتی ہے درویش کو تاج سرِ دارا

•••••••

"مطلب جان سکتا ہوں تمہاری اس آخری بات کا۔۔"

وہ ناسمجھی سے بولا۔ 

"تم مجھے بتاؤ میگزین میں سے کچھ پڑھا تو نہیں؟"

اس طرح اس کا سوال گول کر کے، تفتیشی نظروں سے گھورتے ہوئے ایک نیا سوال اس کے گوش گزار کرتی وہ نادر کوئی تھانے دارنی لگ رہی تھی۔

آیت بھوکی نے ٹفن کھول کر اکیلے ہی کھانا تناول فرمانا بھی شروع کردیا تھا۔

نادر بھی اسی کا ماموں زاد تھا ، یہ ڈھیٹ تھی تو وہ مہا ڈھیٹ اس لیے وہ باتوں کے دوران اس کا سوال ادھورا چھوڑے نوالہ بناکر منہ میں ڈال چکا تھا۔

آیت اسے دیکھ کررہی گئی۔

"میں بے مروت اور تم بے غیرت، بنا بلائے ہی شروع ہوگئے۔" 

وہ اس کی حرکت پر خاموشی سے بڑبڑائی تبھی نادر، اپنے متعلق اس کے نادر خیالات جاننے سے قاصر رہا۔

"جواب دو ، کچھ پڑھا تو نہیں۔"

اس نے ٹفن سامنے سے کھنچتے ہوئے دوبارہ پوچھا۔ 

بے چارے کا دوسرا نوالہ وہیں گر گیا۔

"نہیں کچھ نہیں پڑھا، بس سر ورق دیکھا تھا جس پر تمہارے انٹرویو کے متعلق بڑھی شاندار سی تشہیر تھی۔"

اس نے جواب دے تو دیا پر آیت مطمئن نہیں تھی۔

لیکن وہ سچ کہہ رہا تھا ، اب تک اس نے کچھ نہیں پڑھا، بس اس کے انٹرویو کی تصویریں لے کر موبائل میں محفوظ کرلیں تاکہ فرصت سے بعد میں پڑھ پائے۔

"اب بتاؤ ،اُس تیسری بات سے تمہارا کیا مطلب تھا؟"

"رہنے دو ، خواہ مخواہ میرا موڈ خراب ہو جائے گا۔"

ٹفن واپس اس کے سامنے رکھتے ہوئے اس نے کڑوا کسیلا سا منہ بنایا۔

انداز ایسا تھا کہ جیسے اس نے نادر پر احسان کیا ہو۔ ویسے وہ احسان ہی تھا۔ آیت نے اس کو بات کریدنے سے منع کر کے اسے اپنے عتاب سے محفوظ رکھنے کی راہ نکالی تھی۔

"اچھا ٹھیک ہے۔۔ جیسے تمہاری مرضی۔۔!!"

اس نے کندھے اچکا کر کہا۔

"کیسا آدمی ہے! تھوڑی سی ہٹ دھرمی نہیں دکھا سکتا، بندہ تھوڑی ضد کرلیتا ہے، اصرار کر لیتا ہے، لیکن یہ بے وقوف ایسی بات فوراً مان جاتا ہے۔" 

آیت نے رائے قائم کی۔

•••••••

"افف!! شکر ہے تم آ گئے، کیسی ہیں آسٹن کی گرینی!! اور تمہارے لیے کچھ لاؤں، بلکہ میں کافی لے ہی آتی ہوں تم ایسا کرو تازہ دم ہو جاؤ، پھر میں کچھ کھانے کو بھی لے آؤں گی۔"

دروازے کی گھنٹی بجتے ہی وہ دوڑ کر دروازہ کھولنے گئی  اور آئی ہول میں سے یلماز کو باہر کھڑا دیکھ کر اس نے دروازہ کھولا،ل۔ اندر آنے کا راستہ دینے کے بعد اس کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے وہ بولتی جا رہی تھی۔

"کافی بہتر ہیں وہ، اپنے گھر پر ہیں، میں نے آسٹن کو ان کے لیے اب ایک نرس ملازمت پر رکھ کر دی ہے ، ڈاکٹر نے ہسپتال سے خارج تو کردیا پر اب بھی انہیں دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔"

یلماز نے جوتے کے تسمے کھولتے ہوئے صورت حال سے آگاہ کیا۔

"بہت تھک گئے ہو نا!! کوئی کھانے پینے کی چیز لاؤں؟؟"

ٹوئنکل اسے دیکھتے فکرمندی سے بولی۔

"نہیں، بہت شکریہ! میں نہانے کے بعد آرام کروں گا تب تک تم گرینی کو پوچھ آؤ۔"

"ٹھیک ہے، پھر تم آرام کرو۔"

وہ اسے چھوڑ کر کچن کی طرف آئی ، وہاں سے ایک ٹوکری اٹھا کر نعمت خانے سے کچھ پھل، ڈبل روٹی اور دودھ کے دو ڈبے ٹوکری میں رکھے اور گرینی کی عیادت کو چل دل۔

ٹوئنکل نے تیمارداری کا یہ طریقہ اپنی ماں سے ورثے میں لیا، کیتھرین بھی کسی کی عیادت کو ایسے ہی جاتی ہے۔

(نعمت خانہ لکڑی یا لوہے کی چادر سے بنی ہوئی چھوٹی الماری جس میں جالی لگی ہوتی ہے، اس میں کھانے پینے کی اشیا سنبھال کر رکھی جاتی ہیں تاکہ یہ چیزیں مکھیوں اور دوسرے حشرات الارض سے محفوظ رہیں اور خراب نہ ہوں۔)

••••••

"بیٹا پھر وہ لوگ آ رہے ہیں ناں کل؟"

دوپہر کے کھانے کے دوران شمسہ بیرم سے مخاطب ہوئیں۔

"جی امی۔"

 بیرم نے مختصر سا جواب دیا۔

انہوں نے ابھی ہی کھانا شروع کیا تھا۔

"آیت نہیں آئی ابھی تک، کل بھی اسے نہیں دیکھا کھانے پر، خیر تو ہے؟"

اس نے سرسری سے انداز میں آیت کی بابت پوچھا۔

"غالباً، وہ اس وقت نادر بھائی کے ساتھ اپنے جان سے پیارے جنگل میں کھانے میں مصروف ہوگی۔۔!!"

ماریہ نے اپنے ازلی روکھے انداز میں جواب دیا۔

"نادر بھائی کے ساتھ؟"

بیرم کی آنکھیں حیرت سے کھلیں۔

"ہمم"

ماریہ نے ہنکارا بھرا۔

"حیرت ہے۔"

بیرم کو یقین نہیں آ رہا تھا۔

"سچ میں؟؟ اب تو آپ کو اس عجوبے کی کسی بات پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔"

ماریہ آیت کو اس لقب سے نوازتے خود ہی ہنسی۔

"صحیح کہہ رہی ہو۔ عجوبہ ہی ہے وہ لڑکی!! عجیب ترین!! کسی کی سمجھ میں نہ آنے والی، پہیلی جیسی!!"

بیرم بظاہر پلیٹ کی طرف نظریں کیے بیٹھا تھا پر دھیان کسی غیر مرئی نقطے پر مرکوز تھا، اور آیت کی صفات گنواتے دلفریب مسکراہٹ نے لبوں کو چھوا۔

"بس بیٹا واپس آ جاؤ۔"

ملیشہ اسے اس قدر کھویا ہوا دیکھ کر ہنستے ہوئے بولیں۔

باقی سب بھی ان کے کہنے پر مسکرا اٹھے اور وہ کھسیانا ہوا۔

" پہیلی نے آپ کو گھما دیا۔۔!!"

وہ اس کے حال پر چوٹ کرتی کھلکھلا کر ہنسی۔

"بس کردو تم، اس معصوم سے خواہ مخواہ کا بیر پالا ہوا ہے، اب کل رشتہ آ رہا ناں، یہاں وہاں دماغ بھڑانے کی اپنے بارے میں سوچا کرو بس!!"

بیرم اسے میٹھی میٹھی سی ڈانٹ پلاتا اُٹھ کھڑا ہوا۔

"لو جی اب تو میں نے کچھ ایسا کہا بھی نہیں۔"

وہ منہ بسور کر بولی۔

"اپنی خجالت مٹانے کو تمہیں ڈانٹ کر گیا ہے۔"

رفعت نے اسے پچکارا۔

ماحول میں کوئی بھاری پن نہیں تھا، آج سب نے خاصے خوشگوار موڈ میں کھانا کھایا۔ یہ نعمت انہیں دنوں بعد نصیب ہوئی تھی۔

•••••

"بس ہو گیا ٹفن خالی، اب بھاگو یہاں سے۔"

نادر کھانا کھانے کے بعد بھی اس کے ساتھ بیٹھا رہا اور وہاں بیٹھنے کے بہانے ڈھونڈ رہا تھا۔ 

کچھ نہ ملا تو انگلیوں کی مدد سے ٹفن چاٹنا شروع کر دیا۔

"یہ دیکھو، تھوڑا تھوڑا لگ رہا ہے، رزق ضائع نہیں کرنا چاہیے۔"

وہ انگلی چاٹتے ہوئے بولا۔

"اور حرام مشروب بھی پیٹ میں نہیں انڈیلنا چاہیے، باپ دادا اور بھائی کی محنت سے کمائی دولت پر عیاشی بھی نہیں کرنی چاہیے۔یہ سب تو تمہیں یاد نہیں رہتا۔"

وہ سوچ کر رہ گئی، اس بار اس نے اپنی سوچ کو لفظوں کا لبادہ اوڑھا کر نادر تک منتقل نہیں کیا۔

وہ اسے خاموشی سے دیکھ رہی تھی۔

"بس کرو، اب اور چاٹو گے تو اس میں سوراخ ہو جائیں گے۔"

اب اسے ہنسی آ رہی تھی نادر کی حرکت پر۔

"واقعی۔"

اس نے اتفاق کیا۔ اور قہقہ لگاتے ، اسے ایک جانب رکھا۔

"مجھے یقین نہیں آ رہا کہ میں نے اتنا عرصہ لگا دیا یہ جگہ کھوجنے میں، اس قدر خوبصورت نظارہ شاید ہی میری آنکھوں نے پہلے کبھی دیکھا ہو!"

پرکیف سا لہجہ لیے اس نے اعتراف کیا۔وہ اس جگہ کہ حسن کو باقاعدہ محسوس کررہا تھا۔

"تمہیں دوسرے قسم کے حسن سے فرصت ملتی تو یہاں آتے۔"

وہ وجیہہ چہرے کو اپنی شعلہ بار اور شک بھری نظروں سے گھورتے ہوئے بے آواز بڑبڑائی۔ 

نادر اس کے تاثرات سے بے خبر بس آس پاس کی چیزوں کو دیکھے جا رہا تھا۔

"شاید یہی وجہ ہے جو تم اس حادثے کے بعد خود کو سمیٹنے میں اچھی طرح کامیاب ہوئی ہو۔"

اس کا اشارہ اپنی دادو اور ان کی اولاد کی موت والے حادثے کی طرف تھا۔

سچ تھا یہ جگہ اس کے لیے مرہم ثابت ہوئی تھی۔ اس کے لیے ایک نعمت تھی جسے یہ جتنا محسوس کرتی اتنا سکون حاصل ہوتا۔

واقعی اس نے بہت حد تک اس حادثے کے برے اثرات سے جان چھڑالی تھی، جو بچی کچی کسک تھی وہ بھی نادر کی بدولت اس کے وجود کو اپنی گرفت سے آزاد کر گئی۔

ہر چیز نادر کے گوش گزار کردینے کے بعد ایک بوجھ اس کے اعصاب سے ڈھلکا تھا۔

آیت چپ بیٹھی اپنی سوچوں میں گم تھی کہ نادر اس کی جانب متوجہ ہوا۔

اسے لگا کہ اس نے ذکر چھیڑ کر اسے دکھی کر دیا۔

تبھی دھیان بٹانے کی غرض سے وہ موضوع سے ہٹا۔

"آہ کتنی خوبصورت مچھلی تھی۔" 

تالاب میں پھدک پھدک کر تیرنے والی وہ ننھی مچھلی واقعی بہت پیاری تھی۔

"مچھلی سے یاد آیا، تمہیں پتہ ہے مچھلی ذبح نہ کرنے کے باوجود حلال کیوں ہے؟"

"کیوں کہ اللّٰه نے اپنے حکم سے اسے ہمارے لیے حلال کیا ہے۔"

آیت نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

"ہاں، وہ تو ہے پر میں تم سے اس حکم کے پیچھے چھپی حکمت کے متعلق سوال کررہا ہوں۔"

"نہیں میں نہیں جانتی، تم بتاؤ۔"

وہ اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے متجسس انداز میں بولی۔

"اللّٰه نے ہر چیز ہی بہت شاندار بنائی ہے، مچھلی اللّٰه کی تخلیق ہے اس لیے یہی معاملہ اس کا بھی ہے۔ اس کا نظام کچھ ایسا ہے کہ پانی سے باہر آنے کے کچھ دیر بعد اس کا تمام خون، ایک ایک قطرہ اس کے کوّے (یعنی epiglottis) میں جمع ہو جاتا ہے، اس طرح اس کا باقی سارا گوشت خون سے پاک ہو کر خالص اور حلال بن جاتا ہے، اسی لیے ذبح کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ باقی حلال جانوروں کو ذبح کرکے کھانے کا حکم بھی اسی لیے ہے تاکہ گوشت خون سے پاک ہو جائے۔ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮐﻮ ﺫﺑﺢ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻝ ﺍﻭﺭ ﺩﻣﺎﻍ ﮐﺎ ﺭﺍﺑﻄﮧ ﺧﺘﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻝ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮐﯽ رگوں ﺍﻭﺭ ﺷﺮﯾﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﻤﺎﻡ ﺧﻮﻥ ﮐﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﺗﮏ ﺩﮬﮍﮐﺘﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮔﻮﺷﺖ ﺧﻮﻥ ﺳﮯ ﭘﺎﮎ ﺍﻭﺭ ﺣﻼﻝ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ۔"

"واہ، کمال ہے۔ مجھے نہیں پتہ تھا۔"

"ہاں مجھے بھی کل پتہ چلا، ایک آرٹیکل نظر سے گزرا تھا وہیں لکھی تھی یہ بات۔"

"حیرت کی بات ہے بھئی تم ایسی چیزیں بھی پڑھتے ہو۔"

آیت نے عجیب انداز میں بولا۔ 

"کیوں؟ میں نہیں پڑھ سکتا؟"

وہ پھیکی ہنسی ہنستا بولا سمجھ چکا تھا کہ پھر سے کوئی طنز اس کی زبان سے باہر نکلنے کو بے تاب ہے۔

"پڑھ سکتے ہو! پر مجھے لگا تھا تم صرف ڈرگز، نشہ، اور دوسری فضول چیزوں کے متعلق اپنے مطلب کی معلومات پڑھتے ہوگے!!"

آیت کے کہنے پر وہ جواب دیے بغیر بس سر ہلا کر رہ گیا۔ 

"اچھا۔۔ تم نے بہت علم بانٹ لیا، اب جاؤ یہاں سے۔"

اس نے بے زاری سے نادر کو اٹھنے کا اشارہ کیا۔ کہہ تو یوں رہی تھی جیسے جگہ کی مالکن ہو۔ 

"جاتا ہوں!! تم نہیں چلو گی؟"

وہ بھی ہار مانتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا آخر کب تک بہانے کرتا۔


ختم شد

🎈🎈🎈🎈🎈

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Maarij Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Maarij written by Suhaira Awais. Maarij  by Suhaira Awais is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages