Q Hai Tu Lazmi By Rimsha Hussain Complete Romantic Novel Story - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Friday 21 June 2024

Q Hai Tu Lazmi By Rimsha Hussain Complete Romantic Novel Story

Q Hai Tu Lazmi  By Rimsha Hussain Complete Romantic Novel Story 

Madiha Shah Writer: Urdu Novel Stories

Novel Genre: Rude Hero Based Romantic  Novel Enjoy Reading.....

Q Hai Tu Lazmi By Rimsha Hussain Complete Romantic  Novel 


Novel Name: Q Hai Tu Lazmi 

Writer Name: Rimsha Hussain

Category: Complete Novel 


دوپہر کا وقت تھا گرمیوں کی موسم تھی ایسے میں وہ اپنے کمرے میں بیٹھی انسٹا پہ پوسٹ لگا رہی تھی جب اُس کی دوست کا میسج آیا واٹس ایپ پہ محمل واٹس اپ پہ اُس کا میسج اوپن کیا جس میں اُس کی فرینڈ نے میسج کیا تھا۔ 

ایم ڈپریسڈ۔ محمل نے تعجب سے اُس میسج کو پڑھا پھر رپلائے کیا۔ 

وائے؟ 

وہ مجھے اگنور کررہا ہے۔ جواب فٹ سے آیا تھا جس کو سمجھ کر وہ گہری سانس لیکر رہ گئ۔ 

فرحان؟ 

ہاں۔ جواب آیا۔

تم بھی اگنور کرو۔ محمل نے مشورہ دیا۔ 

شاید وہ مجھے پاگل کرنا چاہتا ہے۔ دوسرا میسج آیا

غلطی تمہاری اپنی ہے۔ محمل نے میسج لِکھ کر سینڈ کیا۔ 

میرا دل نہیں مانتا اُس کو نظرانداز کرنے کا

کونسی غلطی ہے میری؟ ایک ساتھ دو میسجز آئے

ہر ایک کو اپنی جگہ پہ رکھنا چاہیے کسی کو اتنی اہمیت نہیں دینی چاہیے جو وہ آپ کو ڈپریسڈ کریں یا ہرٹ کریں

مطلب میری غلطی یہ ہے کہ میں مخلص ہوکر رشتہ نبھا رہی ہوں؟یا میری غلطی یہ ہے کہ میں نے اُس کو عزت دینی چاہی کیا کسی کو عزت دینا گُناہ ہے؟ اُسے کیوں نہیں آتا سمجھ؟وہ تو تہجد کا نمازی ہے تہجد پڑھتا ہے اللہ کے اتنے قریب ہوکر اُس کو کیا یہ نہیں پتا کے کسی کو تکلیف دینا گناہ ہے۔

محمل اپنی دوست یا میسج پڑھ کر اُس کی تکلیف کا اندازہ لگاسکتی تھی پر اُس کو سمجھ نہیں آتا تھا وہ اپنی دوست کو کیس طرح کس انداز سے سمجھائے جو وہ سمجھ جائے۔

اِنسان مومن نمازوں سے نہیں دل سے ہوتا ہے ایسے تو اِبلیس نے بھی نمازے اور سجدے بہت کیے تھے۔محمل نے کجھ سوچ کر میسج سینڈ کیا جس کے جواب پہ اُس کی دوست فاطمہ نے حیرانی والے ایموجی سینڈ کیے پھر اُس کا دوسرا میسج آیا جس کو پڑھ کر اُس کو کجھ ہنسی آئی۔ 

مجھے لگتا تھا کہ شاید میں غلط ہوں وہ تو تہجد بھی پڑھتی ہے شاید اللہ نے اُس کو خواب میں کہا کے مجھ سے دور رہے میں اچھی لڑکی نہیں۔ 

محمل کی نظر پھر دوسری میسج پہ پڑی جو شاید اُس نے پہلے نہیں دیکھا تو اُس کا رپلائے کیا۔ 

مخلص ہونا غلط نہیں کسی کو عزت دینا گُناہ نہیں ہے پر جو تکلیف دے اُس سے کنارہ کرنا چاہیے خود کو اتنا مضبوط بناؤ کے جب تک تم نہ چاہوں کوئی تمہارا کجھ نہ کرپائے کسی دوسرے انسان کا کوئی حق نہیں ہوتا وہ ہمیں تکلیف دے یہ ہم خود ہوتے ہیں جو پہلے اُس کو موقع دیتے ہیں پھر بعد میں روتے ہیں جو تمہیں چھوڑنا چاہے بہتر ہے تم اُس سے پہلے الگ ہوجاؤ۔

آزمائے ہوئے کو آزمانا بے وقوفی ہے۔ 

محمل کو لگا شاید اب اُس کو کجھ سمجھ آئے۔ 

اللہ کے نزدیک ہر انسان برابر کا مقام رکھتا ہے اگر اللہ کو تم پسند نہ ہوتی تو وہ کبھی تمہارے نماز کی توفیق نہ دیتا کیونکہ اللہ جب ناراض ہوتا ہے نہ تو رزق نہیں چھینتا سجدے کی توفیق چھین لیتا ہے۔محمل نے دوسرا میسج بھی سینڈ کیا۔ 

اگر سوچتی ہوں کہ وہ مجھ سے رشتہ ختم کردے گا تو روح کانپ جاتی ہے۔

بیشک۔ 

فاطمہ کے میسجز دیکھ کر محمل سوچنے لگی ایسے کیا کہے جو اُس کے خالی دماغ میں بات بیٹھ جائے تاعمر کے لیے۔ 

میں تو کسی کو اتنی اہمیت نہ دوں۔ محمل نے ناک چڑھاکر میسج لِکھا

ہاں پہلے مجھے پتا نہیں تھا نہ کے کسی کو اہمیت دینے سے انسان  ایڈیکٹو ہوجاتا ہے ورنہ تو میں کبھی کیسی دوسرے لڑکے سے بات تک نہیں کرتی اور نہ اہمیت دیتی ہوں۔ فاطمہ نے میسج سینڈ کیا

اب تو پتا لگ گیا نہ جس طرف گِیو رسپیکٹ گیٹ رسپیکٹ ہوتا ہے ویسے ہی میں گِیو لوِ اینڈ ٹرسٹ اور گیٹ لوٙ اینڈ ٹرسٹ پہ یقین رکھتی ہوں میں ایک سِکنڈ کے لیے بھی کسی کے لیے اپنے لیے ناگواری دیکھو تو پھر زندگی میں مڑکر نہ دیکھوں۔ محمل نے اپنی مثال دی اُس کو

تم بہت اچھی ہوں مجھے بھی اپنی طرف بنادو۔

میں اچھی نہیں ہوں تمہیں بس اتنا کہنا چاہوں گی کے کسی کے لیے رونا اچھی بات نہیں یہ دنیاوی رشتے ہی ایسے ہیں اُن سے اچھے اور وفا کی امید رکھنا حماقت کے سِوا کجھ نہیں اِس لیے اُن سے امیدیں نہیں لگانی چاہیے۔ محمل نے اُس کا میسج پڑھ کر رپلائے کیا

ٹھیک ہے۔جواب موصول ہوا۔ 

فاطمہ، میرا اباؤٹ چیک کرو۔

اوکے۔محمل اتنا کہتی اُس کا اباؤٹ دیکھنے لگی جو یہ تھا۔ 

اِنسان مومن نمازوں سے نہیں دل سے ہوتا ہے ایسے تو اِبلیس نے بھی نمازے اور سجدے بہت کیے تھے۔ 

اباؤٹ پڑھ کر اُس کے چہرے پہ مسکراہٹ آگئ۔ 

محمل، میری بات پسند آئی کیا؟ 

فاطمہ، ہاں بہتتتتت۔ 

محمل، اچھا کبھی کبھی میں اچھی باتیں کرلیتی ہوں جس کا یقین مجھے خود بھی نہیں ہوتا۔ محمل نے اُس کا دھیان دوسری طرف کرنے کی خاطر کہا۔ 

ہاہاہاہاہا اچھا کبھی کبھی اندر  کا پروفشنل رائٹر جاگ جاتا ہے۔فاطمہ نے یہ بات کیوں کی وہ جانتی کیونکہ حال میں ہی اُس نے کجھ ناولز لِکھی تھی جس کے بعد فاطمہ اُس کو رائٹر کا نام دے ڈالا تھا فاطمہ کو تو ناولز کا ذرہ بھی ناولز کا شوق نہیں تھا پر اُس کے برعکس محمل کو بہت کریز تھا ناولوں کا وہ سارا دن بس ناولز ہی پڑھا کرتی تھی۔ ایک دو اور باتیں کرنے بعد فاطمہ آف لائن ہوئی تو وہ بھی موبائل کو سائیڈ پہ کرتی دوپہر کی  نماز پڑھنے کے لیے واشروم کی طرف چلی گئ وضو کرنے کے لیے پندرہ منٹ کی نماز آدھے گھنٹے میں ادا کرنے کے بعد وہ باہر آئی جہاں اُس کی دادی کوئی رسالہ پڑھ رہی تھی۔ 

دادی میں پھوپھو کی طرف جارہی ہوں۔ محمل نے مبینہ بیگم کے پاس بیٹھ کر کہا اُس کے والدین کا انتقال کجھ سال پہلے ہوگیا تھا جس کے بعد وہ اپنی دادی کے پاس رہتی تھی جنہوں نے اُس کی ہر خواہش پوری کی تھی۔ 

روز روز مت جایا کرو۔ مبینہ بیگم نے کہا

روز روز کہاں پڑسو گئ تھی اور آج جانے والی ہوں۔ محمل نے منہ بسورتے کہا

وہاں ایک عدد منگیتر بھی رہتا ہے تمہارا اِس لیے ٹھیک نہیں لگتا وہاں جانا۔ مبینہ بیگم نے رسانیت سے کہا محمل کی منگنی دو سال پہلے ہوئی تھی اُس کی پھوپھو کا بیٹا تھا ارسلان جو اُس کی محبت کا داعویدار تھا اور ارسلان کی مرضی سے یہ رشتہ ہوا تھا محمل کو اُس سے محبت تو نہیں تھی پر پسند ضرور تھا۔ 

پہلے کی باتیں ہیں یہ دادو اب ایسا کوئی نہیں سوچتا آپ مزے سے رسالہ پڑھے میں جاکر آتی ہوں۔ محمل نے شرارت سے اُن کو دیکھ کر کہا اُس کو پتا جو تھا اُس کی دادی صاحبہ کو رسالے پڑھنے کا اور ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق ہیں۔ 

ٹھیک ہے جلدی آنا۔ مبینہ بیگم نے کہا تو وہ سرہلاتی باہر کی طرف جانے لگی۔ 

محمل اور فاطمہ کی دوستی کالج میں ہوئی تھی جس میں پہل فاطمہ نے کی تھی فاطمہ ایک خوش مزاج شوخ چنچل کی لڑکی تھی سنجیدہ تو وہ اب جب سے اُس کی زندگی میں فرحان آیا تھا تب سے ہوگئ تھی محمل کو زیادہ دوستیں بنانے کا شوق نہیں ہوتا تھا اُپر سے پہلے فاطمہ اُس کو اپنی عجیب و غریب سے زچ کیے رکھتی تھی جس سے اُس تو غصہ آتا تھا کیونکہ وہ غصہ کی بہت تیز تھی فاطمہ کو اُس سے غصے ڈر بھی لگتا تھا مگر باز پھر بھی نہیں آتی تھی جب موقع ملتا محمل کو غصے سے لال کرجاتی کیونکہ اُس کو بس محمل سے دوستی کرنی تھی زچ اِس لیے کرتی کے اگر گیھ سیدھی انگلی سے نہ نکلے انگلی ٹیڑھی کرنی چاہیے مطلب جب اُس نے ڈائریکٹ محمل کے سامنے دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا تو اُس نے کوئی خاص رسپانس نہیں دیا تھا کیونکہ اُس کی دو فرینڈز تھی اسکول کی جن کے ساتھ اُس کا بہت اچھا وقت گُزرا تھا ان کے علاوہ وہ کسی اور پہ دوستی کے لحاظ سے یقین نہیں کرتی تھی پر فاطمہ بھی اپنے نام کی ایک تھی اپنی منوا کر ہی دم لیا پر اُن کا رابطہ اب فون تک محدود ہوگیا تھا فاطمہ کی فیملی اسلام آباد سے لاہور شفٹ ہوگئ تھی جس سے اب بہت سال ہوگئے تھے اُن کو ملے ہوئے فاطمہ کا اسلام آباد آنا مشکل تھا پر ان کی دوستی مہں کوئی درار نہیں آئی تھی بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوگئ تھی۔ 

محمل اپنی پھوپھو کے گھر آئی تو اُس کی پھوپھو ملازمہ کے سامنے کھڑی ہوتی صفائی کروارہی تھی۔ 

اسلام علیکم!پھوپھو۔ محمل نے اُن کے پاس آتے سلام کیا۔ 

وعلیکم اسلام!!ناہید بیگم نے جواب دیا۔ 

فردوس ہے گھر پہ۔ محمل نے اپنی کزن کا پوچھا

نہیں وہ تو مارکیٹ تک گئ ہیں تم بیٹھو میں آتی ہوں یہ کجھ کام نپٹاکر۔ ناہید بیگم نے کہا تو محمل نے سراثبات میں ہلایا۔ 

محمل تم کب آئی؟ ارسلان لاوٴنج میں محمل کو بیٹھا دیکھا تو اُس کے پاس آتا بولا

بس کجھ دیر پہلے۔محمل نے بتایا۔ 

کل کا کیا پروگرام ہے؟ ارسلان نے پوچھا

کوئی خاص نہیں تم کیوں پوچھ رہے ہو؟ محمل نے بتانے کے بعد سوال کیا۔ 

وہ اِس لیے کے کل ہم پھر گھومنے جائے گے بہت دنوں سے ایک دوسرے کے ساتھ وقت بھی نہیں گُزارا۔ ارسلان نے کہا۔

کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو دیکھتے ہیں پھر کل۔ محمل نے نیم رضامند ہوکر کہا۔ 

💕💕💕💕💕

یہ منظر ڈائینگ ہال کا تھا جہاں کی سربراہی کرسی پہ التمش عالم بیٹھے تھے اور اُن کے دائیں بائیں دو جوان بیٹے بیٹھے تھے جن کی عمریں تیس بتیس کے درمیان تھی اور اُن کے ساتھ اُن کی زوجہ محترمہ تھیں تیسرے نمبر پہ اُن کی بیس سالہ بیٹی سجل بیٹھی تھی جب کی دو کُرسیاں خالی تھی ایک التمش عالم کی زوجہ بیگم کی تو دوسری اُن کے تیسرے بیٹے کی جس کا نام ماہ ویر عالم تھا۔ 

ویر کہاں ہیں اُس کو بلاؤ۔التمش عالم اپنے ازلی رعبدار آواز میں پیچھے کھڑے ملازم سے کہا جس پہ وہ سر کو خم دیتا وہاں سے باہر چلاگیا۔

بابا صاحب وہ نہیں آئے گا خوامخواہ صبح صبح بحث ہوگی۔التمش عالم کا بڑا بیٹا شمس عالم نے کہا

کیوں نہیں آئے گا کیا وہ اِس حویلی کے روایت کو بھول گیا ہے کہ صبح کا ناشتہ ہم سب ساتھ مل کر کرتے ہیں۔التمش عالم سخت لہجے میں بولے۔

بھول گیا ہے یا نہیں پر وہ نہیں آئے گا اِس لیے آپ اپنا ناشتہ شروع کریں پھر ہم نے زمینوں پہ بھی نکلنا ہے۔ماجد عالم اُن کا دوسرا بیٹا اُن کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر کہا جب کی رامین شمس عالم کی بیگم اور نرمین ماجد عالم کی بیگم خاموش بیٹھی تھی رامین اور نرمین آپس میں بہنے تھیں۔ 

صاحب چھوٹے صاف دروازہ نہیں کھول رہے۔ ملازمہ سر جھکاکر موؤدب انداز میں بولا جس پہ سب گہری سانس بھرکر رہ گیا۔

دیکھتا ہوں کیسے نہیں کھولتا دروازہ۔التمش عالم جلال میں آتے اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑے ہوئے اُن کو اُٹھتا دیکھ کر باقی سب بھی احتراماً اُٹھ کھڑے ہوئے التمش عالم سب کو نظرانداز کرتے ڈائینگ ہال سے نکل گئے اُن کا اِرادا اب اپنے چھوٹے سپوت کی طرف جانے کا تھا جس نے اُن کا سکون خراب کررکھا تھا۔

راہداری میں آتے سب کمروں کے سامنے سے گُزر کر وہ ایک دروازے کے پاس رُک کر دروازے پہ دستک دی۔ 

ایک بار

دو بار

بار بار

مگر اندر سے کوئی جواب نہیں ملا باقی سب سیڑھیوں کے وسط کھڑے تھے شمس عالم نے ملازم کو اِشارہ کیا تو وہ کجھ دیر میں ڈپلیکٹ چابی لیکر آیا شمس عالم وہ لیتا التمش عالم کے ساتھ کھڑا ہوتا دروازے کا لاک کھولنے لگا۔

چرررر کی آواز سے دروازہ کھولتا چلاگیا۔ 

التمش عالم شمس کو باہر رہنے کا اشارہ کرتے خود بھاری قدموں کے ساتھ اندر داخل ہوئے جہاں ہر چیز نفاست سے موجود تھی پورا کمرہ وائٹ کلر سے آراستہ تھا جب کی پردوں کا کلر ڈارک بلیو کلر کا تھا التمش عالم کی نظر بیڈ پہ کمبل میں لپٹے وجود میں تھی وہ بیڈ کے سامنے آتے کمبل ہٹایا تو اُن کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا کیونکہ بیڈ پہ کوئی وجود نہیں بلکہ تکیوں کا ڈھیر تھا التمش عالم نے غصے سے کمبل فرش پہ پھینک دیا شمس اندر آیا تو بیڈ پہ نظر پڑی تو اُس کی ہنسی نکل گئ پر اپنے باپ کو اتنے غصے میں دیکھا تو باہر نکل گیا جب اُس کے کانوں پہ باپ کی آواز آئی۔

پتا کرکے بتاؤ ساری رات کہاں آوارہ گردی کرتا پِھررہا ہے۔

💕💕💕💕💕

یہ تین کمروں سے مشتمل چھوٹا پر خوبصورت اپارٹمنٹ تھا پر ابھی وہاں کے لاوٴنج میں دیکھا جائے تو ہرجگہ برگر، چپس کے پیکٹ، پیزا کے ڈبے اور شراب کی بوتل یہاں وہاں بکھری پڑی تھی جیسے جن چڑیلے ناچ کے گئ ہو وہاں ڈبل صوفے پہ ایک ٹانگ صوفے پہ تو دوسری نیچے لٹک رہی تھی کوئی وجود اوندھ مُنہ لیٹا ہوا تھا

ایک سائیڈ پہ کارپیٹ پہ بھی ایک لڑکا سویا ہوا تھا ساتھ میں کجھ دوری پہ دوسرا لڑکا بھی تھا اور ایک سنگل صوفہ تھا جہاں ایک اور لڑکا موبائل ہاتھ میں لیے کال پہ بات کرنے میں مصروف تھا۔ 

ویر

طاہر

نادر

اُٹھ جاؤ دو پہر کے تین بجنے والے ہیں۔صوفے پہ بیٹھا لڑکا موبائل سائیڈ پہ کرتا اُن سب کو جگانے لگا دس پندرہ منٹ مشقت کے بعد انہوں نے اُٹھنے کی زحمت کی۔

میرے لیے لیموں پانی لیکر آؤ سر درد سے پھٹا جارہا ہے۔ماہ ویر کسمساکر اُٹھتا حکیمہ انداز میں جنید سے بولا

اور پیو دو تین چار بوتلیں شراب کی۔جنید بڑبڑاتا اُٹھ گیا۔

تیرے گھر سے پچاس کالز آچکی ہیں مجھ کو۔ طاہر نے اپنا فون چیک کیا تو ماہ ویر سے کہا

اور مجھے ستر کالز آچکی ہیں تیرے بڑے بھائی نے کی ہیں۔ نادر بھی حیرت سے بولا جس پہ ماہ ویر نے بیزاریت سے تاثرات چہرے پہ سجائے۔ 

کال بیک کرکے بتاؤ میں زندہ ہوں۔ماہ ویر اپنا فون ہاتھ میں لیتا بولا۔

یہ پکڑو اپنا لیموں کا پانی۔جنید گلاس ماہ ویر کے سامنے کرتا بولا۔

اپنا فون چیک کرنا۔ ماہ ویر نے گلاس پکڑ کر کہا

کیا چیک کروں صبح سے لیکر پانچ سو دفع تمہارے گھر سے کالز آچکی ہے جس سے میری نیند خراب ہوئی اپنے گھروالوں کو بتاکر آیا کرو ایسے پریشان ہوتے ہیں جیسے ایک سالہ بچہ گھر سے باہر گیا ہو۔ جنید نے اکتاہٹ بھرے لہجے میں کہا

اب اُن کو پریشان ہونے کی عادت ہے تو میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ماہ ویر کندھے اُچکاکر بے نیازی سے بولا۔ 

جو لوگ آپ کے لیے پریشان ہو اور فکرمندی ظاہر کریں اُن کی قدر کرنی چاہیے کیونکہ ایسے رشتے کم لوگوں کو میسر ہوتے ہیں اِس لیے بہتر ہے وقت ہونے پہ ان کی قدر کرنی چاہیے بعد میں جو ہو وہ قدر نہیں بلکہ پچھتاوا ہوتا ہے۔ جنید نے سنجیدگی سے کہا

صبح صبح میں تمہارے لیکچر سننے کے موڈ میں نہیں۔ماہ ویر نے بے زاری سے کہا

صبح صبح۔جنید صدمے کی حالت میں بولا

صبح صبح کا وقت نہیں ہے ویر دو پہر کے تین بج گئے ہیں۔ جنید نے اُس کو معلومات فراہم کی

میں تو اب اُٹھا ہوں اِس لیے میرے لیے صبح کا وقت ہے۔ماہ ویر اپنی جگہ سے کھڑا ہوتا بولا۔ 

آپ کے تو کیا ہی کہنے۔ طاہر نادر کے ہاد پہ تالی مارکر بولا۔ 

میں گھر جارہا ہوں۔ماہ ویر چھلانگ مار کر صوفے سے اُٹھتا بولا۔ 

انسانوں کی طرح اُٹھ سکتے تھے بندر بننا ضروری تھا۔ جنید جو اُس کے بہت پاس کھڑا تھا ماہ ویر کے ایسا کرنے سے اُس کی لات جنید کے سینے پہ لگی تھی تبھی جل بھن کر اپنا سینا سہلاکر بولا۔ 

تمہیں بڑا پتا ہے بندروں کا لگتا ہے پہلے بہت اچضا وقت گُزرا ہے اُن کے ساتھ۔ ماہ ویر دل جلانے کی مسکراہٹ چہرے پہ سجاکر بولا۔ 

فضول مت بکو۔ جنید نے گھور کر کہا ماہ ویر اُس کی ان سنی کرتا سیٹی کی دُھن بجاتا باہر کی طرف آیا۔ 

💕💕💕💕💕

کوئی مووی دیکھنے چلتے ہیں۔ ارسلان نے ڈرائیور کرتے فرنٹ سیٹ پہ بیٹھی محمل سے کہا

اوکے پر پاکستانی ہو ہیرو فواد خان ہو۔ محمل نے پرجوش آواز میں کہا۔ 

تمہیں تو فیروز خان پسند تھا اب فواد خان کیسے کیا اپنا کرش اپ ڈیٹ کیا۔ ارسلان نے ہنس کر کہا

ایسا کجھ نہیں فیروز خان میرا فیورٹ ہے پر فواد خان بھی ہے اور میری عادت نہیں پسند بدلنے کی مجھے جو چیز پہلے پسند آتی ہے اُس کے بعد چاہے کتنی ہی خوبصورت چیزیں نظروں کے سامنے آئے پر میری پسند نہیں بدلتی۔ محمل نے سنجیدگی سے کہا

چِل یار میں مذاق کررہا تھا تم تو سنجیدہ ہوگئ۔ ارسلان اُس کا چہرہ دیکھ کر بولا جس پہ محمل نے سب سرہلانے پہ اکتفا کیا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہ ویر اپنی جیپ پہ بیٹھا فل آواز پہ میوزک سن رہا تھا ساتھ میں اُس نے جیپ کو بھی تیز اسپڈ پہ چھوڑا تھا وہ گانوں سے لطف اُٹھتا جیپ ڈرائیو کررہا تھا جب سامنے گُزرتے لڑکے کو دیکھ کر اُس نے ہارن دیا پر اسپیڈ تیز ہونے کی وجہ سے جیپ لڑکے کی ٹانگ پہ لگی تھی جس سے وہ کجھ دور جا گِرا۔ماہ ویر نے بے زاری سے آس پاس رش کھڑی ہوتی دیکھی پھر بالوں میں ہاتھ پھیرا۔ 

محمل جو ارسلان کا انتظار کررہی تھی جب اُس کا ٹکڑ جیپ سے ہوتا دیکھا تو فورن سے گاڑی کا لاک کھولتی باہر آئی جہاں روڈ پہ ارسلان اپنی ٹانگ پکڑے بیٹھا تھا اُس کے چہرے پہ تکلیف کے آثار صاف نمایاں تھے۔ 

ارسلان آر یو اوکے۔ محمل نے پریشانی سے پوچھا 

مر نہیں گیا اب اِس کو دور کرو تاکہ میں جاسکوں۔ ارسلان کے بجائے پیچھے سے آتی مردانہ بھاری آواز سن کر اُس نے گردن موڑ کر دیکھا جہاں خاکی کلر کی گول شرٹ کے ساتھ وائٹ جینز پہنے بکھرے بالوں کے ساتھ ایک لڑکا چہرے پہ بے زاری سجائے کھڑا تھا۔ 

آپ کو نظر نہیں آرہا اِس کو چوٹ لگی ہے۔ محمل ارسلان سے دور ہوتی ماہ ویر کے روبرو کھڑی ہوتی بولی

آپ کو نظر نہیں آرہا وہ زندہ ہے میری جیپ بیچ راستے پہ کھڑی ہے۔ ماہ ویر اُسی کے انداز میں بولا

اوو تو وہ جیپ آپ کی ہے جس سے ارسلان کا ایکسیڈنٹ ہوا اُس پہ بجائے آپ شرمندہ ہونے کے ہمیں دور ہٹنے کا کہہ رہے ہیں۔ محمل ساری بات سمجھتی لڑاکا انداز میں بولی اِس سب میں وہ ارسلان کو فراموش کر بیٹھی تھی پر وہاں کھڑے کجھ آدمیوں نے اُس کو ایک بینچ پہ بیٹھا دیا تھا۔ 

دیکھو مس لڑاکا مجھے دیر ہورہی ہے اپنی لڑائی کا خیال بعد کے لیے رکھ لوں زندگی میں دوبارہ ملے تو اپنا شوق پورا کرلینا اور فرصت سے جتنی چاہے اُتنی لڑائی کرلینا پر ابھی سامنے سے ہٹو مجھے کام ہے ضروری۔ماہ ویر نے اُس کا چہرہ دیکھ کر کہا

آپ کی ہمت کیسے ہوئی مجھے لڑاکا بولنے کی آہ ہوتے کون ہے مجھے لڑاکا بولنے والے آپ میرے بارے میں جانتے ہی کیا ہے جو مجھے لڑاکا بول رہے ہیں ایک تو مظلوم کا ایکسیڈنٹ کیا ہے اُپر سے روعب جمارہے ہیں پر میں ایک بتادوں میرا نام محمل اشفاق ہے جس نے کبھی کسی کے روعب میں آنا سیکھا ہی نہیں۔محمل ایک سانس میں کہتی ارسلان کی طرف اشارہ کرنے لگی جو کہی سے بھی مظلوم نہیں لگ رہا تھا۔ 

ابے یار کوئی ہٹاو اِس کو۔ ماہ ویر اُس کی تقریر بے زاری سے سُنتا ایک آدمی سے بولا محمل کا منہ حیرت سے کُھلا کا کُھلا رہ گیا۔ 

محمل آجاو یہاں میں ٹھیک ہوں ہمیں گھر جانا چاہیے۔ ارسلان نے معاملہ رفع دفع کرنا چاہا۔ 

ایسے کیسے اِس نے تمہیں چوٹ پہچائی ہسپتال لیں جانا چاہیے تمہیں۔محمل ہتھے سے اُکھڑ کر بولی۔ 

تو تم سامنے سے نہیں ہٹوگی۔ ماہ ویر نے سنجیدگی سے پوچھا

نہیں ہٹوگی۔ محمل اٹل انداز میں بولی۔ 

پکا نہیں ہٹوگی۔ ماہ ویر نے چیلنج کیا 

پکے سے پکا نہیں ہٹوگی۔ محمل گردن ہلاتی بولی۔ 

سوچ لوں۔ 

سوچ لیا۔ محمل نے کہا

اوکے فائن۔ ماہ ویر ہاتھ جہاڑ کر کہتا اپنی جیپ کے پاس آیا سب تجسس سے اُس کو دیکھنے لگے کے کیا کرنے والا ہے مگر محمل نے اُس کو جیپ اسٹارٹ کرتے دیکھا تو ناسمجھی سے آس پاس دیکھنے لگا ماہر چہرے پہ گہری مسکراہٹ سجائے جیپ چلانے لگا محمل کی آنکھیں پھیل گئ جیپ کو اپنی طرف آتا دیکھ کر ماہ ویر نے اسپیڈ تیز کی تو محمل جھٹکے سے سائیڈ پہ ہوئی ماہ ویر نے پیچھے اُس کو دیکھا تو پھر اپنے ہاتھ کا انگھوٹا سیدھا کرکے اُلٹا کیا جس پہ محمل کو مزید تپ چڑھی پر ماہ ویر چہرے پہ مسکراہٹ سجاتا گُزر گیا۔ 

کمینہ انگھوٹا دیکھا کر گیا مجھے تمہارا ایکسیڈنٹ کرنے کے بعد میرا کرنے والا تھا۔محمل ارسلان کے ساتھ بینچ پہ بیٹھتی اُس کے ہاتھ میں موجود پانی کا گلاس لیکر خود ایک گھونٹ میں پی کر بولی اُس کا دل زور سے دھڑک رہا تھا اگر وہ وقت پہ دور نہ ہوتی تو آگے سے وہ سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی جب کی ارسلان اپنے خالی ہاتھ پھر محمل کو دیکھتا رہ گیا جس کو اب بس اپنی پڑی تھی۔ 

💕💕💕💕💕

کہاں تھے تم؟ماہ ویر جیسے گھر میں داخل ہوا التمش عالم کی گرجدار آواز نے اُس کا استقبال کیا اُن کی آواز پہ ماہ ویر نے زور سے اپنی آنکھیں میچ کر کھولی پھر پلٹ کر اُن کی طرف دیکھ کر زبردستی مسکراہٹ پاس کی۔

چمکتے دانتوں کا اشتعار بعد میں دینا پہلے جو پوچھا ہے اُس کا جواب دو۔ التمش عالم نے طنزیہ کیا جس پہ ماہ ویر کی مسکراہٹ پل بھر میں سمٹ گئ۔ 

باہر تھا۔ ماہ ویر نے شرافت سے جواب دیا ہال میں سجل اور شمس عالم بھی آچُکے تھے۔ 

ماہر ویر مجھے مزید غصہ مت دلاؤ اندھا نہیں ہوں نظر آرہا ہے مجھے تم باہر تھے باہر سے آرہے ہو میں پوچھ رہا ہوں کل پوری رات اور آج کا سارا دن تم کہاں گشت پہ نکلے تھے۔التمش عالم نے بہت غصے سے کہا پر سامنے بھی ماہ ویر تھا

گشت مطلب؟ماہ ویر نے اتنی معصومیت سے پوچھا جس پہ سجل کی ہنسی نکل گئ شمس عالم نے بامشکل اپنی مسکراہٹ دباکر کہا

گشت مطلب آوارہ گردی کہاں کہاں کی۔ 

اوو اچھا مطلب عزت سے بے عزت کیا بابا صاحب نے مجھے۔ ماہ ویر کی کان کی لو کھجاکر خود سے بڑبڑایا۔ 

باپ کجھ پوچھ رہا ہے۔ التمش عالم نے اپنی موجودگی یاد کروائی۔ 

بابا صاحب میں گشت پہ نہیں گیا تھا جنید کے اپارٹمنٹ میں تھا۔ ماہ ویر نے جواب دیا۔ 

دو ٹکے کے دوستوں کے ساتھ رہنے سے اچھا ہے اپنے گھر میں رہا کرو ہمارا ایک نام ہے ایک مقام ہے اِس سوسائٹی میں اُس کا لحاظ کروں اِس لیے آئیندہ لاوارثوں کی طرح کہیں اور نہیں اپنے گھر میں رہنا۔ التمش عالم نے حکیمہ انداز میں کہا۔

بابا صاحب معاف کیجئے گا پر آپ کا کوئی حق نہیں میرے دوستوں کے بارے میں ایسا کجھ کہنے کا وہ دوٹکے کے ہیں یا کروڑ ٹکے کے جیسے بھی ہیں میرے دوست ہیں اِس لیے آپ دوبارہ اُن کو کجھ مت کہیے گا۔ ماہ ویر اُن کی بات پہ مٹھیاں زور سے کس کے بولا پر اُس کے غصے میں کہی باتوں میں بھی مضحکہ خیز جملے شامل تھے۔ 

اب تم اپنے باپ کے سامنے بدتمیزی کروں گے۔ التمش عالم نے تیز آواز میں کہا

میں نے ایسا کجھ نہیں کہا۔ ماہ ویر سنجیدگی سے کہتا اُپر کی جانب چلاگیا۔ 

باپ کی یہ عزت ہے اِس کی نظروں میں کل آئے لڑکے اہمیت مجھ سے زیادہ ہے۔ التمش عالم صوفے پہ بیٹھ کر پاؤں جھلا کر بولے۔

بابا صاحب آپ کو پتا تو ہے ویر کا وہ کہاں کجھ سنتا ہے پھر آپ نے تو اُس کے دوستوں کے بارے میں بات کی تو وہ کیسے برداشت کرتا۔شمس نے آہستہ آواز میں کہا

باپ ہوں فکر ہوتی ہے مجھے اُس کی اُس کا لاپروانہ انداز دیکھ کر دل کٹتا ہے میرا وہ کوئی بچہ نہیں جوان ہوگیا ہے پر اُس کو کوئی احساس نہیں اپنی کسی زمیداری کا۔ التمش عالم نے کہا

ہم ہیں فلحال سارا کام دیکھنے کے لیے آپ پریشان نہ ہوا کریں آہستہ آہستہ ویر کو بھی احساس ہوجائے گا اُس کی زمیداریوں کا۔ شمس نے ان کو تسلی کروانی چاہی۔ 

کاش ایسا ہو بھی جائے پر آثار نظر نہیں آتے۔ التمش عالم بے یقین تھے۔ 

آثار بھی نظر آجائے گے اگر آپ اُس کی شادی کروائے گے تو بیوی ہوگی تو اُس کو پتا چلے گا زمیداریوں گا پھر آپ کو اُس سے کوئی شکایت بھی نہیں ہوگی۔ شمس نے اپنی طرف سے مخلصانہ مشورہ دیا۔ 

پہلے اپنی زمیداری نبھالیں پھر بیوی کی اُٹھالیں گا میں ماہ ویر کے چکر میں کسی لڑکی کی زندگی خراب نہیں کروں گا۔ التمش عالم نے کہا تو شمس کو چپ لگ گئ۔ 

💕💕💕💕💕💕

فاطمہ آج فرحان سے ملنے اُس کے گھر آئی تھی ملازم آدھے گھنٹے سے اُس کو ڈرائینگ روم میں بیٹھا کر گیا تھا پر ابھی تک فرحان نہیں آیا تھا فاطمہ کو اپنی ناقدری پہ رونا آرہا تھا پر ضبط کیے بیٹھی رہی دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر ورنہ دل کہہ رہا تھا ایسے انسان پہ سوبار لعنت بھیجے جس کو اُس کی قدر نہیں جو اُس کے جذبات جان کر انجان بن کر بیٹھا تھا۔ 

سنو تمہارے صاحب کہاں مصروف ہیں۔ ملازم اُس کے لیے کھانے کے لوازمات لیکر آیا تو فاطمہ نے پوچھا

اپنے کمرے میں ہیں میں نے اُن کو آپ کا بتایا وہ بس آتے ہوگے۔ ملازم بتاکر چلاگیا

فاطمہ کو دس منٹ مزید گُزرے وہاں بیٹھ کر جب خوشبوں سے نہایا فرحان وہاں پہچا۔ 

تم نے کجھ لیا نہیں اب تم۔ فرحان اُس کے ساتھ بیٹھتا بولا

میں یہاں کجھ کھانے نہیں بلکہ تم سے ملنے آئی ہوں تم خود تو نہیں آئے اور جب میں آئی ہوں تو انتظار کی سولی پہ لٹکا دیا۔ فرحان کے آتے ہی فاطمہ نے شکوہ کیا

کام ہوتا ہے مجھے اپنے دوستوں کو بھی زیادہ وقت نہیں دے پاتا۔ فرحان نے وجہ بتائی۔ 

میں ہونے والی بیوی ہوں تمہاری میری جگہ دوستوں سے الگ ہونے چاہیے تمہارے دل میں ضروری نہیں جیسا تم اپنے دوستوں کے ساتھ کرو میرے ساتھ بھی ایسا کرو۔ فاطمہ نے سنجیدگی سے کہا

اِتنے غصے میں کیوں ہو۔ فرحان نے وجہ جاننا چاہی۔ 

تم مجھے نظرانداز کیوں کررہے ہو۔ فاطمہ نے دل کی بات زبان پہ لائی۔ 

میں تمہیں کیوں نظرانداز کروں گا بلاوجہ کے وہم مت پالا کرو۔فرحان نے ہنس کر کہا

میں بچی نہیں ہوں اِس لیے مجھے بہلاؤ مت۔فاطمہ کو اُس کی بات پہ یقین نہیں آیا۔

اگر ایسا ہے تو تم بتاؤ کیا وجہ ہوسکتی ہے تمہیں نظرانداز کرنے کی۔فرحان نے سارا معاملہ اُس پہ چھوڑا

وہ تو تم بہتر بتاسکتے ہو نہ۔فاطمہ نے منہ کے زاویئے بگاڑئے۔

جو میں بتارہا ہوں اُس پہ تو تمہیں یقین نہیں تو میں اور کیا کہوں۔فرحان نے کندھے اُچکاکر کہا

پکی بات ہے تم مجبور نظرانداز نہیں کررہے۔فاطمہ کجھ پرسکون ہوتی بولی۔

بلکل پکی بات ہے اور تم سارے خدشات نکال دو انسان ہوں کاموں میں مصروف ہوتا کبھی کسی کو وقت دے پاتا ہوں اور کبھی کسی کو نہیں اِس لیے زیادہ مت سوچا کرو۔فرحان نے آرام سے کہا

ٹھیک ہے مان لیتی ہوں تمہاری بات پر دن میں کال نہیں تو ایک میسج ضرور کرلیا کرو۔فاطمہ اب رلیکس ہوتی بولی۔

کوشش کروں گا۔فرحان نے ہنس کے کہا تو فاطمہ نے آنکھیں دیکھائی۔

💕💕💕💕💕

بھائی آپ چل ایسے رہے ہیں جیسے ڈانس کررہے ہیں۔فردوس نے مسکراہٹ دباکر ارسلان سے کہا۔

اُڑالوں مذاق جتنا اُڑانا ہے جب ٹھیک ہوجاؤں گا تب میں تم لوگوں سے پوچھوں گا۔ارسلان نے محمل اور فردوس کو ہنستے دیکھا تو دانت پیس کر بولا

ناراض کیوں ہورہے ہو ہم تو بس مزاق کررہے ہیں۔محمل نے مسکراکر کہا

سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے نا تم آئسکریم کی فرمائش کرتی نہ میں باہر جاتا اور نہ یہ سب ہوتا۔محمل کی بات پہ ارسلان بھڑک اُٹھا۔

میرا کیا قصور تمہارا اور اُس جیپ والے کا قصور ہے ایک تو اندھوں کی طرح روڈ کراس کررہے تھے دوسرا وہ اندھوں کی طرح جیپ ڈرائیو کررہا تھا۔محمل نے اپنا دامن صاف کیا

ہاں تم تو اب ایسا ہی کہوں گی اِتنی بے عزتی جو اُس نے تمہاری کی۔ارسلان نے چِڑانے کے انداز میں کہا

اوہ ہیلو کوئی ماں کا لال ایسا پیدا نہیں ہوا جو مجھے محمل اشفاق کو بے عزت کرسکے ایک تو میں نے لڑکی ہوکر تمہیں ڈیفائینڈ کرنا چاہا اُس کے بجائے تم بھی میدان پہ اُترتے چوہوں کی طرح بلی کے ڈر سے چھپ کے بیٹھ گئے۔محمل نے ایک ہی جھٹکے میں حساب بے باک کیا۔

میں ضرور اُس لڑکے کی ہڈی پسلی ایک کرتا پر میری ٹانگ میں تکلیف تھی جس وجہ سے خاموش رہا ورنہ دل تو بہت کجھ کرنے کو چاہ رہا تھا۔ارسلان نے اپنا بھرم رکھنا چاہا۔

رہنے دو اب کہنے سننے کی باتیں ہیں۔محمل نے اُس کی بات ہوا میں اُڑائی۔

اب چھوڑے یہ باتیں جو ہوگیا سو ہوگیا بار بار پُرانی بات کرنے کا کیا فائدہ۔فردوس نے دونوں کو لڑتے دیکھا تو کہا

پُرانی کا کہاں کل کی تو بات ہے۔محمل نے ناک سکوڑتے کہا

تو میرے کزن رات گئ بات گئ۔فردوس نے اُس کا جوش ٹھنڈا کرنا چاہا۔

ہمم اب میں چلتی ہوں دادی گھر میں اکیلی ہیں۔محمل اُٹھتے ہوئے بولی۔

کل آنا۔ارسلان نے کہا

میں نہیں آؤں گی۔محمل اتنا کہہ کر وہاں سے چلی گئ۔

لگتا ہے آپ سے ناراض ہوگئ۔فردوس نے ارسلان سے کہا

کوئی بات نہیں منالوں گا اُس کو میں۔ارسلان نے جواب دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منہ کیوں بنا ہوا ہے تمہارا؟ منیبہ بیگم نے محمل سے کہا جو ابھی اُن کے پاس آکر بیٹھی تھی۔

یہ بڑے لوگ اتنے مطلبی کیوں ہوتے ہیں؟محمل نے اُن کی گود میں سررکھتے ہوئے پوچھا

کون مطلبی ہے کس کی بات کررہی ہو تم؟منیبہ بیگم نے جاننا چاہا۔

جس سے ارسلان کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا اُس آدمی کے چہرہ پہ زرہ ملال شرمندگی نہیں تھی مانا کے ایکسیڈنٹ زیادہ نہیں ہوا تھا پر جتنی اسپیڈ  سے وہ ڈرائیو کررہا تھا ارسلان کا بڑا نقصان بھی ہوسکتا تھا۔محمل نے سنجیدگی سے کہا

ہر بات کے بارے میں اِتنا مت سوچو اگر تم ایک ایک بات کو سوچنے لگوں گی تو اُس کا حل تو نہیں ملے گا پر اُلجھ ضرور جاؤں گی بہتر ہے فضول اور بے بنیاد باتوں کے بارے میں سوچا ہی نہ جائے اُس آدمی میں اگر پچھتاوا نہیں تھا تو بھول جاؤ تم بس اللہ کا شکر ادا کرو کے اُس نے ارسلان کا بڑا نقصان ہونے سے بچالیا۔منیبہ بیگم اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتی سمجھانے والے انداز میں بولی۔

بات کو سوچے گے تو حل ملے گا ارسلان نے کہا اُس کو میری وجہ سے چوٹ لگی بھلا مجھے کیا  پتا تھا ایسا کجھ ہوگا۔محمل نے کہا

حادثات بتاکر نہیں ہوتے اور نہ کسی وجہ سے ہوتے ہیں یہ سب انسان کی قسمت میں پہلے سے سے لکھا ہوتا ہے پھر ہم انسان ہوتے ہیں جو دوسروں کو اُس کا زمیدار ٹھیراتے ہیں۔منیبہ بیگم نے نرمی سے کہا

یہ تو میں جانتی ہوں بس ارسلان نے ایسا کہا تو بُرا لگا۔محمل نے گہری سانس لیکر کہا

ارسلان کا تو تمہیں پتا ہے مذاق کرتا ہے اب بھی ایسے کیا ہوگا تم نے خوامخواہ بات کو دل میں لیں لیا۔منیبہ بیگم اُس کی بات سن کر مسکراکر بولی۔

اب نہیں لیتی دل پہ۔محمل پرسکون ہوتی بولی

💕💕💕💕💕

ماہ ویر اُپر سیڑھیوں کہ ریلنگ کے پاس کھڑا تھا اور اُس سے دو سال چھوٹی سجل ہال میں سامنے والے صوفے کے پاس کھڑی ہوتی بال ماہ ویر کی طرف پھینک رہی تھی جو ماہ ویر بہت دوری پہ کھڑا آرام سے کیچ کرتا سجل کی طرف پھینکتا وہ دونوں اِس گیم سے لطف اندروز ہورہے تھے جب اپنے دھیان میں آتی نرمین کو بال لگی سر پہ بال لگنے کی وجہ سے اُس کو اپنا سر گھومتا محسوس ہورہا تھا ماہ ویر سجل کی طرف بال پھینک رہا تھا پر جب بال اُس کی بھابھی کے ماتھے پہ گول نیشان چھوڑ گئ تو وہ سٹپٹاگیا تھا سجل نے جلدی سے اُس کو صوفے پہ بیٹھایا وہ خود پریشان ہوگئ تھی نرمین نے اتنی چیخے ماری کے سب وہاں جمع ہوگئے ماہ ویر بھی خود پہ فاتح پڑھتا سب کے درمیان کھڑا ہوگیا ورنہ دل چاہ رہا تھا بنا دیر کیے یہاں سے نو دو گیارہ ہوجائے۔

کیا ہوگیا ہے نرمین کیوں بچوں کی طرح واویلا مچایا ہوا ہے۔التمش عالم وہاں آئے تو نرمین کو بین کرتا دیکھا تو کڑک آواز میں بولے۔

بابا صاحب میں بچوں کی طرح واویلا نہیں کررہے آپ کے دونوں بچے پورا لان چھوڑے بیچ چوڑاہے پہ کیچنگ کیچنگ گیم کھیل رہے تھے۔نرمین نے سوں سوں کرتے بتایا نرمین کے کیچنگ کیچنگ بولنے پہ ماہ ویر اور سجل کے منہ سے ہنسی کا فوارہ نکل گیا۔

التمش عالم نے تیز گھوری اُن دونوں پہ ڈالی جس پہ سجل اور ماہ ویر ادب کے ساتھ سرجھکائے کھڑے ہوگئے۔

شرم آنی چاہیے ویر خود تو فضولیات میں پڑتے ہو اب چھوٹی بہن کو بھی شامل کرلیا۔التمش عالم غیظ وغضب انداز مِیں گِڑائے۔

فضولیات کہاں بابا صاحب یہی تو عمر ہے زندگی جینے کی اور اُس کا مزہ لینے کا۔ماہ ویر سجل کے بال سہلاتا فخریہ انداز میں بولا۔

یہ تو طے ہے تم نے نہیں سُدھرنا۔التمش عالم تاسف سے اُس کو کہتے نرمین سے مخاطب ہوئے جو ابھی بھی رونے کا مشغلا کررہی تھی۔

نرمین بیٹے آپ اپنے ماتھے پہ بام وغیرہ لگالوں۔

نرمین نے بس سرہلانے پہ اکتفا کیا التمش عالم کا فون بجنے لگا تو وہ وہاں سے چلے گئے۔

بھابھی اگر اِجازت ہو تو کجھ عرض کروں۔ماہ ویر نے بڑی سنجیدگی سے نرمین سے کہا

کہوں۔نرمین اُس کے چہرہ پہ سنجیدہ تاثرات دیکھ کر اجازت دے ڈالی۔

آپ کے ماتھے پہ یہ گول گول بال جیسا نِشان کافی خوبصورت لگ رہا ہے۔ماہ ویر اتنا کہہ کر سجل کا ہاتھ پکڑتا وہاں سے واک آوٴٹ کرگیا جب کی نرمین کے رونے میں مزید روانی آگئ۔

برو پھر کب کھیلے۔سجل ماہ ویر کے ساتھ ٹی وی لاوٴنج میں آتی بولی۔

کیا کب کھیلے ماہ ویر ناسمجھی سے بولا۔

کیچنگ کیچنگ۔سجل اتنا کہہ کر پیٹ پکڑے کر زور زور سے ہنسنے لگی جس کا بھرپور ساتھ ماہ ویر نے دیا۔

جلد ہی پر بیچ چوڑاہے پہ نہیں بلکہ لان میں۔ماہ ویر ہنس کر کہتا سجل کے ہاتھ پہ تالی ماری۔

💕💕💕💕💕

کیسی ہو؟محمل نے خوشگوار لہجے میں کال پہ فاطمہ سے کہا

میں ٹھیک ہوں میری فرحان سے بات ہوئی اُس نے کہا وہ مجھے نظرانداز نہیں کررہا بس کام کی نوعیت بڑھ گئ ہے جس وجہ سے اُس کو وقت نہیں ملتا۔فاطمہ نے مسکراکر بتایا۔

چلو اچھا ہوا تمہارے بے سکون دل کو سکون میسر ہوا۔محمل ہنس کر بولی۔

ہاں نہ تمہیں تو پتا ہے میں اُس کے معاملے میں کتنا ٹچی ہوں اُس کا تھوڑی سا بھی نظرانداز کرنا مجھے برداشت نہیں ہوتا۔فاطمہ نے بے بسی سے کہا

کسی کے لیے اتنا سنجیدہ نہیں ہونا چاہیے ہر ایک کو ایک مقام دینا چاہیے تاکہ اگر وہ فاصلہ کرنا چاہے تو آپ کو تکلفی نہ ہو۔محمل نے سنجیدگی سے کہا

یہ دل کے معاملے ہوتے ہیں محمل تمہیں کبھی محبت نہیں ہوئی نہ اِس لیے ایسا بول رہی ہو ورنہ کس کو کتنی اہمیت دینی ہے یہ فیصلہ ہم نہیں کرتے سامنے والا خود اپنی جگہ بنالیتا ہے فرحان نے بھی میرے دل میں ایسا مقام بنالیا ہے جس کو میں چاہ کر بھی کم نہیں کرسکتی۔فاطمہ نے مسکراتے لہجے میں کہا۔

مجھے محبت کبھی ہونی بھی نہیں کیونکہ مجھے میرے دل پہ اختیار ہے۔محمل نے آرام سے کہا

یہ تو وقت آنے پہ پتا لگے گا تم بتاؤ اپنی مصروفیت۔فاطمہ نے بات بدل کر کہا

کجھ خاص نہیں ایک ناول لِکھنے کا سوچ رہی ہوں ویسے میری دوستی سے تمہیں ایک فائدہ ہوا ہے پہلے تم کبھی ناولز نہیں پڑھتی تھی اب میری وجہ سے تھوڑی بہت پڑھ لیتی ہو۔محمل نے شرارت سے کہا تو فاطمہ بھی ہنس پڑی۔

ہاں یہ بات تو تم نے سہی کی ورنہ پہلے تو مجھے ناول کا مطلب بھی نہیں تھا پتا۔فاطمہ نے صاف گوئی سے کہا۔

اسلام آباد آنے کا کب پلان ہے؟محمل نے پوچھا

پتا نہیں میں چاہتی ہوں شادی کے بعد فرحان کے ساتھ آؤں۔فاطمہ نے پرسوچ انداز میں کہا

فرحان شادی کرے گا مطلب اُس کا اِرادہ نہیں لگتا ایسا۔محمل نے خدشا ظاہر کیا

کیوں نہیں کرے گا امی بھی میری شادی کا سوچ رہی ہیں اگر وہ شادی کی بات نہیں کرتا تو میں کروں گی۔فاطمہ نے فورن سے کہا

تم اپنی شادی کی بات خود کروں گی؟محمل کو اُس کی دماغی حالت پہ شک ہوا۔

ہاں کیوں اِس میں کیا بُرائی ہے۔فاطمہ نے بے نیازی سے کہا تو محمل اپنا سرنفی میں ہلانے لگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمل صحن میں چہل قدمی کرنے میں مصروف تھی جب ارسلان اُس کے پاس آیا اب اس کو چلنے پہ دشواری نہیں ہوتی تھی۔

ناراضگی کا پروسس یا یوں کہا جائے سین کب ختم ہوگا۔ارسلان اُس کے ہمقدم ہوتا پوچھنے لگا

میں ناراض نہیں ہوں۔محمل نے جواب دیا

غصہ ہو؟ارسلان نے سوال بدل کر پوچھا

میں بلاوجہ ناراض نہیں ہوتی۔محمل نے اپنے چہرے پہ آتی لٹ کو کان کے پیچھے اریستے جواب دیا۔

پھر کیا ہو؟ارسلان نے جھنجھلا کر کہا

محمل ہوں۔بڑے آرام سے بتایا گیا

مجھے تو جیسے پتا نہیں تھا نہ میں تمہارے موڈ کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں نام کا بچپن سے پتا ہے۔ارسلان نے طنزیہ کرتے کہا

پہلے تھی اب نہیں۔محمل نے جواب دیا۔

پہلے کیوں تھی اور اب کیوں نہیں ہوں؟ارسلان نے دوسرا سوال کیا۔

پہلے تمہاری بات بُری لگی تھی جب تم نے کہا میری وجہ سے تمہیں چوٹ لگی ہے پر ختم ہوگئ یہ سوچ کرکے شاید سچ میں میری غلطی ہو۔محمل نے سنجیدگی سے کہا

میرا ارادہ تمہیں ہرٹ کرنے کا نہیں تھا میں نے بس مزاق میں تم سے یہ بات کی تھی اگر بُری زیادہ لگی میری بات تو میں معذرت چاہتا ہوں۔ارسلان نے شرمندگی سے کہا

کہیں باہر چلتے ہیں۔محمل نے مسکراکر کہا

جیسے کے کہاں جانا چاہیے؟ارسلان نے اُس کی مرضی جاننا چاہی۔

میلا لگا ہے وہاں چلتے ہیں۔محمل نے پرجوش ہوکر بتایا تو ارسلان نے سر کو جنبش دی۔

💕💕💕💕

کجھ پریشانی ہے کیا؟ماہ ویر نے نادر سے پوچھا جو خلافِ معمول آج چپ سا تھا

ہمم ایسا ہی ہے کجھ۔نادر نے مایوسی سے کہا

مجھے بتاو کیا پتا حل ہو میرے پاس۔ماہ ویر سگریٹ کا گہرا کش لیتے بولا

تارا کا رشتہ ہوگیا ہے اب شادی ہونے والی ہے تمہیں تو پتا ہے میں پیار کرتا ہوں وہ اب کسی اور کی ہوگی تو مجھ سے برداشت نہیں ہوگا۔نادر نے بتایا

ناکام عاشقوں کی طرح بین کرنے سے اچھا ہے اُس کو اپنے لیے راضی کرو ورنہ ہم اُس کو شادی کے دن اُٹھاکر تمہاری ساتھ نکاح کروادے گے اِس لیے بہتر یہی ہے وہ اب مان جائے۔ماہ ویر نے ایسے کہا جیسے عام بات ہو۔

میں کرتا ہوں دعا کرنا وہ مان جائے۔نادر اُس کی بات پہ اتفاق کرتا بولا

نہ بھی مانے تو ہم ہیں نہ۔ماہ ویر نے آرام سے اپنے ہونے کا بتایا۔

💕💕💕💕

فاطمہ اپنی یونی فیلو کے ساتھ ریسٹورنٹ آئی تھی جب وہاں اُس کی نظر فرحان کے ساتھ دوسری لڑکی کو دیکھ کر وہ پتھر کی بن گئ تھی اپنی یونی فیلو سے ایکسکیوز کرتی وہ فرحان کے سر پہ کھڑی ہوئی فرحان اپنے سامنے فاطمہ کو دیکھ کر گڑبڑا ساگیا تھا 

فرحان کون ہے یہ۔فاطمہ نے سنجیدگی سے پوچھا

آپ کون ہیں مس؟فرحان کے ساتھ بیٹھی لڑکی نے اُلٹا اُس سے سوال کیا

تم سے جب بات کروں نہ تب اپنی زبان کو زحمت دینا ابھی میں فرحان سے بات کررہی ہوں اِس لیے خاموش رہو۔فاطمہ بُری طرح اُس کو لتاڑ کر فرحان کو دیکھنے لگی۔

تہمیز نہیں تم میں اور میں فرحان کی منگیتر ہوں جلد ہماری شادی ہوگی۔پہلے لڑکی نے ناگواری پھر اِتراکر بتایا۔

یہ کیا بکواس ہے فرحان۔فاطمہ چیخ پڑی۔

ہم باہر چلتے ہیں لوگ متوجہ ہورہے ہیں۔فرحان خود پہ لوگوں کی نظریں محسوس کرتا فاطمہ سے بولا فاطمہ کجھ کہنے والی تھی اُس سے پہلے فرحان اُس کا ہاتھ تھامتا باہر لیں آیا جہاں کوئی نہیں تھا۔

کیا جاہلوں کی طرح سب کے سامنے تماشا لگا رہی تھی۔فرحان نے سخت لہجے میں کہا

یہ کس انداز میں مجھ سے بات کررہے ہو تم۔فاطمہ دنگ سی فرحان کا نیا روپ دیکھ رہی تھی جو آج اُس پہ آشکار ہوا تھا اگر اتفاق سے اُس کی نظر نہ پڑتی تو شاید وہ ابھی تک بے خبری میں رہتی اور فرحان جانے کب تک اُس کی آنکھوں میں دھول جھونکتا۔

وہ لڑکی کیا بول رہی تھی کیا سچ میں وہ تمہاری منگیتر ہے۔فاطمہ اپنے زخمی ہوتے دل سے یہ سوال پوچھا یہ پوچھتے ہوئے وہ کس اذیت سے گُزر رہی تھی بس وہ جانتی تھی۔

ہاں سچ ہے۔فرحان بے زاری سے بولا

تم میرے ساتھ ایسے کیسے کرسکتے ہو شادی کے واعدے پیار کے داعوے میرے ساتھ اور جب اُن کو نبھانے کا وقت آیا تو تم نے راستہ بدل ڈالا۔فاطمہ اُس کا گریبان دبوچ استفسار کرنے لگی

سوری پر اب میرا تم میں کوئی انٹرسٹ نہیں۔فرحان اُس کا ہاتھ اپنے گریبان سے ہٹاتا بولا

تم میرے ساتھ ایسا کیسے کرسکتے ہو فرحان میں پیار کرتی ہوں تم سے۔فاطمہ بے یقینی سی بولی

میں نہیں کرتا ضروری تو نہیں جس سے پیار ہو اُس سے شادی بھی ہو۔فرحان نے آرام سے کہا

کس بات کا بدلا لیا تم نے مجھ سے۔فاطمہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ کر گالوں پہ لڑھک گئے پر سامنے والا بے حس سا تھا جیسے اُس کو کونسل فرق نہیں پڑا تھا۔

بدلا نہیں بس پسند انسان کی بدلتی جاتی ہے حوریہ سے ملا تو پتا چلا میں اُس کو ڈیزرو کرتا ہوں تم میں ویسے بھی ایسا کیا ہے جو میں تم سے شادی کرتا بات بات پہ شک کرنا ایک دفع کال نہ اُٹھانے پہ آسمان سر پہ اُٹھالینا میں ایسی سائکوں لڑکی کے ساتھ ساری زندگی برباد نہیں کرسکتا۔فرحان زہر خند لہجے میں بولا فاطمہ کا وجود ساکت سا ہوگیا تھا اُس کو اپنی ٹانگوں سے جان جاتی محسوس ہورہی تھی۔

جس کے لیے تم نے مجھے چھوڑا ہے نہ میری بددعا ہے کسی اور کے لیے وہ تمہیں چھوڑ جاری اُس وقت تم گہرے ملال میں گہرے رہو پر کوئی سائبان تمہارے پاس نہ ہو کوئی تسلی کے دو بول تم سے نہ بولے۔فاطمہ نے بے دردی سے اپنی آنکھیں رگڑتے کہا۔فرحان تمسخرانہ نظر اُس پہ ڈالتا چلاگیا پیچھے فاطمہ اپنی حالت پہ ماتم کُناں تھی اُس کو خود پہ افسوس ہورہا تھا اپنے مخلص جذبات اُس نے بے قدر بے حس انسان پہ لُٹائے تھے۔

💕💕💕💕

ہائے۔محمل گروسری کرنے کے لیے باہر آئی تھی وہ ابھی بس اسٹاپ پہ جیسے ہی کھڑی ہوئی سامنے ایک جیپ رکی جس پہ بیٹھے انسان کو دیکھ کر اُس کا موڈ خراب ہوا تھا اِس لیے اُس نے نظرانداز کرنے لگی۔

یو اگنور می۔ماہ ویر دلچسپی سے اُس کا چہرہ دیکھتے سوال کرنے لگا۔

اپنا راستہ ناپو میرے منہ لگنے کی ضرورت نہیں تمہیں۔محمل نے پھاڑ کھانے والے انداز میں کہا

توبہ توبہ میں کیوں تمہارے منہ لگنے لگا۔ماہ ویر  باقاعدہ کانوں میں ہاتھ لگاتا بولا۔

میرا تم سے بحث کرنے کا کوئی موڈ نہیں۔محمل اتنا کہتی پیدل جانے لگی ماہ ویر بھی مُسکراتا آہستہ آہستہ جیپ چلاتا اُس سے باتیں کرنے لگا

تم کھانے مِیں لال مرچ کھاتی ہو یا کریلے؟ماہ ویر نے فرینک انداز میں پوچھا

میں لال مرچ کھاو یا لال بیگ تمہیں کیا۔محمل نے غصے سے کہا جب کی ماہ ویر تصور میں اُس کے ہاتھ اور منہ میں لال بیگ سوچتا جھری جھری لی اُس کو قے والی فیلنگ آئی۔

کتنا گندہ بولتی ہو تم۔ماہ ویر تاسف سے سرہلاتا بولا

میرا پیچھا کیوں کررہے ہو۔محمل نے رک کر پوچھا۔

پتا نہیں تم اکیلی ہو کہوں تو میں ڈراپ کروں کہاں جانا ہے تمہیں۔ماہ ویر نے اپنی خدمت پیش کی۔

جہنم میں جانا ہے۔محمل نے دانت پیس کر کہا

اوو ایسے کیا گُناہ کردیئے جو خود کو خود ہی جہنم میں ڈال رہی ہو۔ماہ ویر گہرے افسوس سے بولا۔

تمہارا مسئلا کیا ہے۔محمل نے جھنجھلا کر پوچھا

کیا تمہارے پاس کوئی جِن ہے جو چٹکی میں سارے مسئلے حل کرتا ہے یا تم خود الدین کا چِراغ ہو۔ماہ ویر نے رازدانہ انداز میں پوچھا

یااللہ کتنے فضول انسان ہو تم۔محمل کو اپنا سر گھومتا محسوس ہوا اُس کو ماہ ویر کی باتوں پہ حد سے زیادہ غصہ آرہا تھا۔

تم فضول تو بلکل نہیں۔ماہ ویر اُس کا جائزہ لیتا سنجیدگی سے گویا ہوا۔

کانوں کی سماعتیں خراب ہے یا اُلٹا سنتے اور سمجھتے ہو میں نے تمہیں فضول بولا ہے خود کو نہیں۔محمل اُس کی بات پہ تپ کے بولی

بڑے بزرگوں کا کہنا ہے جو انسان جیسا ہوتا ہے باقی لوگ بھی اُس کو اپنی طرح لگتے ہیں۔ماہ ویر نے آنکھیں ٹپٹپاکر کہا

بدتمیز۔محمل زیر لب بڑبڑاتی ٹیکسی کو رکنے کا اِشارہ کرنے لگی۔

مس میں آپ کو باحفاظت آپ کے ہُجرے میں چھوڑ آؤں گا۔ماہ ویر نے مسکراہٹ دباکر کہا

ہجرے میں تم رہتے ہوگے میں نہیں۔محمل نے غراتے ہونے کہا

اب تو پکا یقین ہوگیا لال کالی ہری نیلی پیلی مرچے کھاتی ہو تم ورنہ کوئی اِتنا غصے کیسے کرسکتا ہے۔ماہ ویر اپنا ہاتھ دوسرے ہاتھ پہ مارکر بولا۔

ہوگیا ہے یقین اب بھاڑ میں جاؤ۔محمل کہتی ٹیکسی میں بیٹھ گئ۔

واہ جی واہ کیا قسمت ہے مطلب اِس لڑکی کو مجھ سے زیادہ اُس ٹیکسی ڈرائیور پہ یقین تھا ہاؤ اسٹرینج۔ماہ ویر خود سے کہتا اپنی جیپ اسٹارٹ کرنے لگا۔

💕💕💕💕💕

محمل گھر واپس لوٹی تو اپنے سیل فون پہ فاطمہ کی اِتنی کالز دیکھ کر پریشان ہوگئ اُس نے پہلے گروسری کا سارا سامان کیچن میں سیٹ کیا اُس کے بعد اپنے کمرے میں آکر فاطمہ کو کال بیک کی۔

سوری یار میں آج مارکیٹ گئ تھی فون گھر پہ تھا جب گھر آئی تو پتا چلا تم نے اتنی کالز کی ہیں خیریت۔دوسری طرح سے فاطمہ نے جیسے ہی کال ریسیو کی محمل بولنا شروع ہوگئ تھی

فرحان نے چھوڑ دیا مجھے۔فاطمہ اتنا کہتی زاروقطار رونے لگ گئ اُس کے اِس طرح رونے کی آواز سن کر محمل کے اوسان خطا ہوئے۔

ہے فاطمہ رو کیوں رہی ہو فرحان کیسے تمہیں چھوڑ سکتا ہے۔محمل نے پریشانی سے کہا جس پہ فاطمہ نے روتے ہوئے سب کجھ بتادیا جس کو سن کر محمل کو افسوس ہوا۔

مجھے تو پہلے ہی فرحان اچھا نہیں لگتا تھا اور تم ایسے انسان کے لیے رو رہی ہو جس کو تمہاری فکر نہیں۔محمل نے تاسف سے کہا

پیار کرتی ہوں میں اُس سے اِتنی جلدی کیسے بھول جاؤں گی وہ آخر میرے ساتھ ایسا کیسے کرسکتا ہے۔فاطمہ نے بے بسی سے کہا

مرد ذات کی فطرت ہے دھوکہ دینا اُن کے لیے لڑکیاں ٹیشو پیپر کی مانند ہوتی ہے ایک استعمال کرلیا تو دوسرا پکڑلیا۔محمل نے سرد سانس کھینچ کر کہا

میری محبت میں کیا کمی تھی۔

تمہاری محبت سچی تھی پر جس پہ تم نے اپنے جذبات لُٹائے وہ اُس لائق نہیں تھا۔محمل نے اُس کی بات پہ کہا

پھر لوگ یہ کیوں کہتے ہیں محبت اپنا آپ منوالیتی ہے جس سے ہم محبت کرتے ہیں ایک نہ دن اُس کو بھی ہوجائے گی جب کی حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔فاطمہ نے اُس سے ایسا سوال کیا جس کا جواب وہ خود نہیں جانتی تھی۔

بے حس لوگوں سے محبت کا انجام یہی ہوتا ہے فاطمہ اِس لیے ایک بُرا خواب سمجھ کر بھول جاؤ۔محمل نے سمجھانا چاہا۔

بُرا خواب انسان نہیں بھول پاتا یہ تو پھر بھی مجھ پہ بیتی ہے تو کیسے کہہ سکتی ہو ایسا۔فاطمہ نے شکوہ کیا۔

تو اور میں کیا کہوں تم ہی بتاؤ۔محمل نے تھکی سانس خارج کی۔

میرا یہاں دم گُھٹ رہا ہے۔فاطمہ نے کہا

تو یہاں آجاؤ۔محمل نے فورن کہا

کیا وہاں آکر میں بھول جاؤں گی سب۔

تم یہاں آؤ میں تمہاری مدد کروں اُس کو بھول جانے میں۔محمل نے اُس کو پرسکون کرنا چاہا۔

میری پڑھائی ہے یہاں اور میں اِتنی آسانی سے فرحان کو کسی اور کے لیے نہیں چھوڑسکتی وہ میرا ہے بس۔فاطمہ نے دو ٹوک انداز میں کہا

اگر وہ تمہارا ہوتا تو کسی اور کے پاس جانے کا سوچتا بھی نہ بہتر یہی کے تم فرحان کی رٹ لگانا چھوڑ دو۔محمل نے اب کی سختی سے کہا

جس پہ ناچار فاطمہ کو اُس کی ماننی پڑی۔

💕💕💕💕💕💕💕

آفس جوائن کرو یا اپنے بھائی کے ساتھ زمینوں کی دیکھ بھال پہ جایا کرو۔التمش عالم نے رغبت سے کھانا کھاتے ماہ ویر سے کہا جس کے منہ کا نوالہ التمش عالم کی بات سن کر اٹک گیا تھا۔

بابا صاحب زمینوں کی دیکھ بھال پہ میں جایا کروں میں کیا کسان ہوں۔ماہ ویر صدمے کی حالت میں بولا۔

کِسان بننا کوئی عام بات نہیں اِس لیے تم کبھی بن نہیں سکتے اور میں نے پہلے اور بھی آپشن دیا ہے اُس پہ غور وفکر کرو میں اب تھوڑی بھی تمہیں چھوٹ نہیں دوں گا بہت کرلی تم نے اپنی منمانی۔التمش عالم حتمی انداز میں بولے

بابا صاحب سارے کام میرے بغیر بھی تو ہورہے ہیں تو اب میں آفس پہ آجاؤں گا تو کیا ہوگا بہتر میں یہی رہوں وہاں میرا ہونا اور نہ ہونا برابر ہوگا۔ماہ ویر نے اپنی طرح سے عقلمندی کا ثبوت دیا۔

کل کو اگر تمہاری شادی ہوگی تو اُس کی ضروریات کو کیسے پورا کروگے؟التمش عالم نے سنجیدگی سے سوال کیا۔

واٹ کل میری شادی ہے اور آپ مجھے اب بتارہے ہیں آپ کو کیا نہیں پتا دولہے کو کتنی تیاریاں کرنی ہوتی ہیں مجھے بھی تو شادی کے لیے شیروانی لینی تھی اپنے دوستوں کو انوائٹ کرنا تھا اور بھی بہت سارے کام ہے اور سب سے اہم بات آپ مجھے بتائے بنا اِتنا بڑا فیصلے کر کیسے سکتے ہیں لڑکی کون ہے میں نے تو نہیں دیکھا اور کیا پتا مجھے پسند نہ آئے آپ کو کم سے کم مجھے لڑکی کا تو بتانا چاہیے تھا تاکہ بعد میں مسئلہ نہ ہو۔ماہ ویر التمش عالم کی بات سن کر بولنے پہ آیا تو بولتا چلاگیا التمش عالم خشمگین نظروں سے اُس کو گھور رہے تھے باقی سب جو خود کو ہر گفتگو سے انجان ظاہر کرتے کھانے میں مصروف تھے ماہ ویر کی اتنی بڑی تقریر سن کر ہنسی سے لوٹ پھوٹ ہونے کے در پہ تھے۔

آپ لوگوں ہو ہنسی آرہی ہے یہاں میری پوری زندگی کا معاملہ ہے۔ماہ ویر سب کو ہنستا دیکھ کر ناراضگی ظاہر کرتا بولا

میں نے مثال پہ کہا کل مطلب کبھی تو شادی ہوگی نہ تمہاری پھر کیا کروگے تم۔التمش عالم نے ترحم بھری نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا

شکر میرے مالک کا آپ نے تو آج میرا ہارٹ فیل کروانا تھا پر چلو شکر ایسا کجھ نہیں۔ماہ ویر شکر ادا کرتا دوبارہ کھانا کھانے میں لگ گیا

اگر تمہاری فضول گوئی ہوگئ ہو تو کام کی بات کریں۔التمش عالم نے ضبط کرتے کہا

جی بابا صاحب ضرور کریں اِجازت کیوں مانگ رہے ہیں۔ماہ ویر اپنی طرف سے خوشدلی سے اجازت دیتا بولا

آفس کب سے جوائن کررہے ہو میری مانو تو کل سے آجاؤ۔التمش عالم نے کہا

آپ کا ہر حکم سر آنکھوں پہ پر مجھ سے کام کاج کا نہ کہا کریں۔ماہ ویر بے چارگی سے بولا۔

ہڈحرامی کی ڈگری نہیں لیکر دی میں نے تمہیں اب میں فیصلہ کرچُکا ہوں اگر تمہیں اختلاف ہوا تو میں تمہاری پاکٹ منی بند کردوں گا پھر دیکھتا ہوں کیسے تم عیاش بھری زندگی گُزارتے ہو اور سب سے پہلی میں تمہاری جیپ کی چابی اپنے پاس رکھوں گا۔التمش عالم نے ماہ ویر کی دُکھتی رگ پہ ہاتھ رکھا تھا وہ جان گئے تھے ماہ ویر سیدھے طریقے سے اُن کی بات ماننے والوں میں سے نہیں اِس لیے انہوں دوسرا راستہ اپنانے کا سوچا جو یقیناً کام آنے والا تھا

آپ میرے ساتھ ایسا مذاق مت کریں بابا صاحب۔ماہ ویر زبردستی مسکراہٹ چہرے پہ سجاکر بولا

مذاق کرنے کی عادت نہیں میری۔التمش عالم نیپکن سے ہاتھ صاف کرتے اُٹھ کھڑے ہوئے تھے ماہ ویر دنیا جہاں کی معصومیت اور بے چارگی سموئے اپنے باپ کو دیکھنے لگا جو اُس کا کندھا تھپتھپاکر ڈائینگ ہال سے نکل گئے۔

باپ باپ ہوتا ہے ویر باپ سے چلاکیاں کام نہیں آتی بابا صاحب نے بہت تمہیں تمہاری کرنے دی اب تم وہ کرو گے جو بابا صاحب چاہے گے۔شمس جلے پہ نمک چھڑکتا اُٹھ گیا جب کی ماہ ویر صدمے کی حالت میں چاول کا چمچمہ منہ میں ڈال کر کھانے لگا آج واقع اُس کو اپنا آپ بے بس لگ رہا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕

ناہید اب شادی چاہتی ہے۔منیبہ بیگم نے محمل کو بتایا۔

کس کی شادی؟محمل نے پوچھا

تمہاری اور ارسلان کی۔منیبہ بیگم جواب دیا

آپ نے کیا جواب دیا۔محمل نے اُن کی رضامندی جاننی چاہی۔

تمہاری رائے کے بنا میں کیا جواب دیتی۔منیبہ بیگم نے کہا

آپ کو جو ٹھیک لگتا ہے وہ کریں مجھے آپ کے کسی بھی فیصلے پہ کوئی اعتراض نہیں۔محمل نے مسکراکر بتایا۔

جیتی رہو۔منیبہ بیگم نہال ہوتی ہوئی بولی۔

اچھا میں پھوپھو کی طرف ہوکر آتی ہوں۔محمل کھڑی ہوتی ہوئی بولی جس پہ منیبہ نے سرہلاتے ہوئے اجازت دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا ہوا ہے تم دونوں کو۔محمل اپنی پھوپھو کے گھر آئی تو فردوس اور ارسلان کو خاموش بیٹھا دیکھا تو سوال کیا۔

تمہیں پتا ہے کل رات بھائی کے کمرے میں ناگ تھا۔فردوس نے اپنے لہجے میں تجسس ڈال کر بتایا۔

ناگ وہ کہاں اور کیسے آیا اب کہاں گیا وہ۔محمل نے تعجب سے پوچھا

اب کا پتا نہیں پر بھائی اپنے کمرے میں نہیں جارہے جب کی امی نے صبح سارے کمرے کی صفائی کروائی کوئی ناگ نہیں تھا۔فردوس نے ارسلان کی طرف اشارہ کیے بتایا

تمہارے کمرے میں ناگ تھا تو تم نے مارا کیوں نہیں ماردینا چاہیے تھا۔محمل نے آرام سے کہا

کیا پتا اِشاداری ناگن ہو۔فردوس نے محمل کی بات پہ گھمبیر لہجے میں کہا

وہ بھی سکتا ہے آدھی ناگن ہو اگر ارسلان تم اُس کو مارتے تو وہ دوسرا جنم لیتی تم سے بدلا لینے کے لیے اور شادی کرتی تم سے تاکہ آرام سے مار سکے پھر جب شادی ہوجاتی تو اُس کو تم سے پیار ہوجاتا اپنا اِرادہ وہ بدل ڈالتی پھر اچانک کہانی میں ٹویسٹ آتا تمہیں پتا چل جاتا کے جس سے تمہاری شادی ہوئی ہے وہ ایک ناگن ہے اور تم سے بدلے کے تحت شادی کی ہے پھر تم اُس سے بدزن ہوجاتے وہ تمہیں اپنے پیار کا یقین دلاتی پر تم نہ کرتے۔محمل نے بڑے مزے سے ارسلان کے نا ہونے والے مستقبل کا نقشہ کھینچ کے بتایا جس پہ فردوس تو ہنسنے لگی پر ارسلان بُری طرح اُن دونوں کو گھور رہا تھا

یہاں میری جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور تم دونوں کو مسخراپن سوجھ رہا ہے۔ارسلان نے دونوں پہ افسوس بھری نظر ڈال کر کہا

ارسلان تم پریشان بھی تو بلاوجہ ہورہے ہو جب ناگ اب نہیں تو بس بات ختم تمہاری جان کو اب سکون آنا چاہیے ناکہ لالے پڑنے چاہیے۔محمل نے آنکھیں گھماکر کہا

خود کے کمرے میں ناگ ہو تو پتا چلیں۔ارسلان نے جل کے کہا

اللہ کو مانوں کیوں مجھ معصوم کو بددعا دے رہے ہو۔محمل ارسلان کی بات سن کر بولی

تو اور کیا کہوں کل رات میں نے اِتنا بڑا ناگ دیکھا اور ایک تم دونوں ہو جو فکرمند ہونے پہ ایسا برتاؤ کررہی ہو۔ارسلان نے اُن کو شرم دلانی چاہی جس پہ دونوں ہنس پڑی۔

💕💕💕💕💕

فاطمہ محمل کے کہنے پہ اسلام آباد آچُکی تھی پر اُس نے ابھی محمل کو لاعلم رکھا تھا وہ ابھی خود میں ہمت نہیں کرپارہی تھی کے محمل سے ملے یا اُس کی کسی بات کا جواب دے پائے۔ 

💕💕💕💕💕

باپ باپ نہ رہا میں میں  پہلے کی طرح نہ ہوگا

اے زندگی ہمیں تیرے اعتبار نہ رہا

باپ باپ نہ رہا  اے زندگی ہمیں تیرا اعتبار

نہ رہا۔ 

صبح بارہ بجے کے بعد اُٹھنے والا ماہ ویر آج سات بجے آئینے کے سامنے کھڑا ٹائی باندھ رہا تھا اور اپنا غم گانا گانے کی صورت میں کم کررہا تھا بیڈ پہ بیٹھی سجل خوب ماہ ویر کی حالت سے لطف اندروز ہورہی تھی اُپر سے جس انداز میں ماہ ویر گارہا تھا سجل ہنس ہنس کے پاگل ہونے کو تھی۔ 

سجو جانی بھائی کو اچھا سا ناشتہ کمرے میں لاکر دو میں ناقدروں کے درمیان بیٹھنا اپنی توہین سمجھتا ہوں۔ ماہ ویر شاہانا انداز میں سجل سے بولا

مانو بھائی آپ کی معلومات فراہم کرنے کی خاطر میں عرض کرتی ہوں کہ اِس گھر کا اصول ہے جو سب پہ لاگوں کے وہ اُس کو پورا کریں وہ یہ ہے کے ناشتہ سب کو ایک ساتھ کرنا ہوتا ہے۔ سجل نے شریر لہجے میں ماہ ویر سے جس پہ ماہ ویر کے بگڑے تاثرات مزید بگڑ گئے تھے۔ 

ایک تو ہمارے گھر کے عجیب اصول۔ ماہ ویر نفی میں سر کو جنبش دیتا اکتاہٹ سے بولا

عجیب کہا یہی تو وقت ہوتا ہے جب ہم سب ساتھ بیٹھ کر ناشتے کے ساتھ باتیں کرلیتے ہیں ورنہ تو بھائی اور بابا صاحب زمینوں پہ نکل جاتے ہیں بھابھیاں اپنے کمروں میں ہوتی ہیں آپ سارا دن باہر ہوتے ہیں۔ سجل نے عقلمندی کا مظاہرہ کیا۔ 

صاف صاف کہو نہ یہی تو وقت ہوتا ہے جب آپ کی گردن بابا صاحب کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ ماہ ویر منہ بسور کر بولا۔ 

ہاہاہا کتنے کیوٹ ہیں آپ۔ سجل نے قہقہقہ لگاکر کہا۔ 

کیوٹ بچوں کے لیے ہوتا ماہ ویر عالم کے لیے ڈیشنگ ہینڈسم خوبرو باوقار شاندار شخصیت کا مالک کہا جاتا ہے۔ ماہ ویر گرد اکڑا کر بولا

مانو بھائی اگر ساری تعریف اردو میں کرلی تھی تو ہینڈسم اور ڈیشنگ بھی کیوں کہا۔ سجل نے میٹھا طنزیہ کیا۔ 

میں کیا بلی ہوں جو بار بار مانو بول رہی ہو۔ ماہ ویر نے گھور کر کہا

میں تو ناشتہ کرنے جارہی ہوں اگر آپ نے ناشتے کے آفس جانا ہے تو آپ کی مرضی۔ سجل دھپ کے کھڑی ہوکر اپنے ہاتھ جہاڑ کر بولی۔ 

مطلبی بہن رکو میں آتا ہوں۔ ماہ ویر مرر میں خود پہ ایک تنقیدی نظر ڈالتا سجل سے بولا

اسلام علیکم! ڈائینک ٹیبل پہ آتے سجل نے سلام کیا تو ماہ ویر نے بھی کہا۔ 

فل گرے کلر کے کوٹ پینٹ اور وائٹ شرٹ پہنے روزانہ معمول کے خلاف آج گھنے کالے بالوں کو نفاست سے جیل سے سیٹ کیا ہوا تھا بائیں ہاتھ  کی کلائی میں رولیکس کی گھڑی پہنے ماہ ویر کافی ڈیسنٹ اور ڈیشنگ لگ رہا تھا التمش عالم مُسکراتی نظروں سے ماہ ویر کو دیکھ اور اُس کا جائزہ لیں رہے تھے جو آج بہت الگ لگ رہا تھا مگر اُن کی خوشی کی مدت بہت کم عرصے تک رہی جب ماہ ویر نے اپنی زبان کے جوہر دیکھائے تو التمش عالم کی خوشی جھاگ کی طرح ہوگئ

بابا صاحب آپ نے میرے لیے الگ آفس تو کُھلوالیا ہوگا آفس کے سارے اسٹاف کو معلوم تو ہوگا نہ دا گریٹ ماہ ویر عالم آرہا ہے تو یقیناً آپ مجھے مایوس نہیں کرے گے جیسے میں نے نہیں کیا میرے آفس جانے کے پانچ منٹ پہلے سارا اسٹاف باہر دروازے پہ موجود ہوگا میرا استقبال کرنے کے لیے آخر کو ایک انمول ہستی موجود ہوگی اُن کے درمیان میں تو اپنے کیبن کا افتتاح بھی کروں گا ظاہر ہے اب روز روز تو پہلا دن نہیں ہوتا نہ آفس کا تو اِس لیے میں اِس فروسٹ ڈے کو مکمل طور پہ جینا چاہتا ہوں بہت ساری تصویریں کلک ہوگی اور بھی بہت کجھ۔بریڈ میں جیم لگاتا ماہ ویر نے اپنے خیالات سے سب کو آگاہ کیا شمس عالم اور ماجد عالم کا دل کیا ماہ ویر کی قیاس آرائی پہ اپنا سر پیٹ لے نرمین اور رامین نفی میں سرہلاتی رہ گئ جب کی سجل ہمیشہ کی طرح ماہ ویر کی بات پہ لطف اندروز ہورہی تھی۔ 

حج کرکے آفس آؤگے یا عمرہ کرنے کے لیے جو تمہارے استقبال کے لیے لوگ کھڑے ہو ہاتھ میں پھولوں کا تھال

ارے ہاں پھول کہنا تو میں بھول گیا اچھا ہوا آپ نے یاد کروا دیا۔التمش عالم کی بات بیچ میں روک کر ماہ ویر پرجوش آواز میں بولا

ویر بابا صاحب بات کررہے ہیں خاموش ہوکر سنو۔ماجد نے سنجیدگی سے اُس کو ٹوکا جواب میں ماہ ویر نے اپنے ہونٹون پہ انگلی رکھ لی۔

آفس میں تم کوئی پچکانہ حرکت مت کرنا ایسا نہ ہو جب تم آفس جاؤ تو اُن کو لگے کوئی سرکس والا جوکر آیا ہے۔التمش عالم کی سنجیدگی سے کہی بات پہ سب کی ہنسی نکل گئ ماہ ویر نے گھور کر سجل کو دیکھا باقی سب تو بڑے تھے جس وجہ سے روعب بس اُس پہ ہی چل سکتا تھا۔

بابا صاحب یو انسلٹنگ می بیڈلی۔ماہ ویر نے احتجاج کیا۔

اِس جملے کی ٹرانسلییشن اُردو میں تو کرنا ذرہ۔التمش عالم پوری طرح اُس کی طرف متوجہ ہوکر بولے جیسے وہ پرائمری کا اسٹوڈنٹ ہو۔

آپ بہت بُری طرح سے میری بے عزتی کررہے ہیں۔ماہ ویر نے اپنا کوٹ درست کرکے گردن اکڑائی التمش عالم نے تاسف سے گردن ہلائی

حیرت ہے تمہیں اپنی بے عزتی محسوس بھی ہوتی ہے۔نرمین نے مصنوعی حیرانکن لہجے میں کہا

جی کیا آپ کو نہیں ہوتی محسوس ہوتی۔ماہ ویر نے جھٹ سے جواب دیا نرمین میں پھر ہمت نہ ہوئی کے وہ ماہ ویر کو چھیڑے

بھائی آپ ایک لائن کہنا بھول گئے تھے۔سجل نے بڑی سنجیدگی سے کہا

اچھا وہ کیا۔ماہ ویر نے تشویش زدہ لہجے میں پوچھا

یہی کے آپ کو سارا سٹاف اپنے کندھے پہ اُٹھاکر کیبن تک چھوڑ آئے تاکہ آپ کو اپنے نازک قدموں کو زحمت نہ دینی پڑے۔ سجل نے آرام سے بتایا

ہممم پر ایسا کرنے کون دے گا۔ ماہ ویر ٹیرھی نظروں سے التمش عالم کو دیکھ کر بولا

چپ چاپ ناشتہ کرکے آفس جاؤ زمینوں پہ چکر لگانے کے بعد ہم بھی آجائے گے اُمید ہے کوئی گڑبڑ نہیں ہوگی۔التمش عالم نے ماہ ویر کو جیسے خبردار کیا۔

💕💕💕💕💕💕

آتی ہوں کون ہے؟ محمل واشنگ مشین میں کپڑے ڈال رہی تھی دھونے کے لیے جب باہر دروازے پہ دستک ہوئی۔ 

فاطمہ تم۔ محمل نے دروازہ کُھولا تو اپنی دوست کو دیکھ کر حیران ہوتی بولی

اب حیران ہوتی رہو گی بھی یا ملو گی بھی۔ فاطمہ نے اُس کو ایک جگہ پہ اسٹل کھڑا دیکھا تو مسکراکر بولی۔ 

کیسی ہو اور کب آئی یہاں۔ محمل فٹ سے اُس کے گلے ملتی سوالوں کی بوچھاڑ کرنے لگی۔ 

تمہارے سامنے ہوں اور آتے ہوئے اکیس سال ہوگئے ہیں۔فاطمہ نے جواب دیا

پتا ہے تم اکیس سال پُرانہ ماڈل ہو میں اسلام آباد کب آئی اُس کا پوچھ رہی ہوں۔ محمل نے اُس کے سر پہ چپت مارکر کہا

بس کجھ دن پہلے سوچا اچانک آکر تمہیں سرپرائز دوں۔ فاطمہ صحن میں آتی بولی۔ 

بدتمیز تو اتنے دن بعد کیوں آئی۔محمل نے گھور کر کہا۔

اب تو آئی ہو چائے پانی کا پوچھنے کے بجائے تم شکوے شکایت کرنے لگی ہو۔ فاطمہ نے اُس کو مہمان نوازی کے ادب سکھانے چاہے۔ 

اب آئی ہو تو سانس لو کجھ کیا آتے ہی چائے پانی مانگ رہی ہو۔ محمل نے شرمندہ ہونے کے بجائے اُلٹا اُس کو شرمندہ کردیا۔ 

💕💕💕💕💕💕

نائیس۔ ماہ ویر پورے آفس میں چکر لگاکر بس اِتنا بولا 

سر آپ کا کیبن تھرڈ فلور پہ ہے۔ ساتھ کھڑے ایک ایمپلائے نے آہستہ سے کہا

پتا ہے۔ماہ ویر نے تیکھی نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا تو وہ سرجھکا گیا۔ 

میں اپنے کیبن جارہا ہوں پانچ منٹ میں سموسا چاٹ اور گرما گرم چائے میری خدمت میں پیش ہونی چاہیے۔ماہ ویر نے حکیمہ انداز میں کہا

سر چائے تو ٹھیک پر سموسا اور چاٹ کیا آپ اِس وقت کھائے گے۔ سامنے لڑکے نے سوکھے ہونٹوں پہ زبان پھیر کر پوچھا

کیوں اِس وقت کیا روزہ رکھنا ہوتا ہے یا سموسا کھانا ممنون ہوتا ہے۔ ماہ ویر کمر پہ ہاتھ ٹِکاتا لڑاکا انداز میں پوچھنے لگا

نہیں سر وہ صبح کا وقت ہے نہ اِس لیے کہا صبح کے وقت ایسی چیزیں کھانا سہی نہیں ہوتا۔ لڑکے نے وضاحت دیتے کہا

نام کیا ہے تمہارا ؟ماہ ویر نے سنجیدگی سے پوچھا

شہزاد۔ شہزاد کو اپنی نوکری جاتی محسوس ہوئی۔

اچھا جن زاد

سر شہزاد۔ ماہ ویر کے منہ سے اپنے لیے جن زاد نام سن کر شہزاد تڑپ کے بولا۔ 

ہاں ہاں وہی شہزاد یا جن زاد کیا فرق پڑتا ہے آتا تو آخر میں زاد ہے نہ۔ ماہ ویر نے ناک سے مکھی اُڑانے والے انداز میں کہا شہزاد بے چارہ احتجاج میں کجھ کہہ بھی نہ سکا۔ 

جو کہا ہے وہ کرو میں کیبن میں جارہا ہوں۔ماہ ویر حُکم دیتا لفٹ کی جانب چلاگیا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سر مے آے کم اِن۔ شہزاد ماہ ویر کے حکم کے مطابق سموسا چاٹ کے ساتھ چائے رکھ گیا تھا جس سے ماہ ویر بھرپور طریقے سے انصاف کررہا تھا جب کیبن کا دروازہ ناک ہوا۔

یس۔ ماہ ویر بدمزہ ہوتا بولا

سر بڑے سر نے کہا تھا یہ فائل پڑھ کر آپ کے سگنیچر لیں۔التمش عالم کا مینجر ہاتھ میں فائل لیے ماہ ویر سے بولا۔ 

تو پڑھو پھر میں سائن کرتا ہوں۔ماہ ویر شانِ بے نیازی سے بولا

میں نے پڑھ لیا ہے سر پر آپ بوس ہیں آپ کا ایک دفع چیک کرنا ضروری ہے۔مینجر مسکراکر بولا اُس کو لگا شاید ماہ ویر کو سمجھ نہیں آیا

میں بوس ہو تو کیا سارا کام میں کروں پڑھوں بھی میں اور سائن تو چلو میں کرلوں گا پر سارا کام اگر بوس ہی کرے گا تو سارا سٹاف کیا شوپیز کی طرح سجانے کے لیے ہے۔ ماہ ویر کی کہی بات پہ مینجر بے چارہ بلاوجہ گڑبڑاگیا

سر سٹاف تو باقی کام کرتا ہے بوس کا کام تو ہوتا ہے نہ سٹاف مین جو کام کرے اُس پہ نظرثانی کریں اگر وہ کام غلط کرے تو اُس کی رہنمائی کریں۔مینجر نے جھٹ سے وضاحت دیتے کہا

لو اب یہ اور کام میرے سر پہ۔ماہ ویر ہاتھ نچاتا بولا

سر پھر آپ بتائے میں کیا کرو۔مینجر نے سب کجھ اُس پہ چھوڑا

کرنا کیا ہے تیز آواز میں پڑھو میں سنتا ہوں پھر سائن کروں گا۔ماہ ویر ہاتھ میں دوسرا سموسا پکڑتا حکیمہ لہجے میں بولا جس پہ مینجر ناچار اپنے نئے بوس کی متفق پہ عمل کرتا تیز آواز میں پڑھنے لگا جیسے کوئی بچہ اپنی ٹیچر کو سبق سناتا ہو۔۔ 

💕💕💕💕💕💕💕

تمہاری شادی کی تیاریاں شروع بھی ہوگئ ہیں؟ فاطمہ نے حیرت سے محمل کو دیکھ کر کہا جو بلکل نارمل تھی۔ 

ہمم بعد میں بھی تو ہونی تھی اِس لیے میں نے دادی کی بات کا پاس رکھا میرے والدین کے بعد ایک وہ ہی تو تھی جنہوں نے مجھے کڑی دھوپ سے بچایا اپنے ضحیف ہاتھوں سے میرے لیے کھانا بناتی تھی میری پسند کا جو عمر اُن کے آرام کی تھی وہ اُنہوں نے مجھ پہ قربان کردی تمہیں پتا ہے اُن کو ٹانگوں میں درد ہوتا تھا پھر بھی مجھے اسکول کی گیٹ تک چھوڑ آتی تھی بنا گرمی سردی بنا اپنی تکلیف کا سوچتی ارسلان اچھا لڑکا ہے میں نے اُس کے رشتے کے لیے اِس لیے ہاں نہیں کی تھی کہ وہ مجھے چاہتا ہے بلکہ اِس لیے کیونکہ دادی نے بڑے مان سے اُس کے پرپوزل کا بتایا تھا میرے انکار پہ وہ اصرار نہ کرتی پر دل میں مایوس ضرور ہوجاتی۔محمل نے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا

تمہاری اور دادی پوتی کی محبت مثالی ہے پر تم نے اپنی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ بنا اپنی مرضی اور خوشی سے کیا ہے۔فاطمہ کو اُس کی دماغی حالت پہ شک ہوا۔ 

میری مرضی ہے میں نے ایسا کب کہا پر دادی بھی خوش تھی میں نے تبھی انکار نہیں کیا ورنہ جس طرف کا میں ہمسفر چاہتی تھی ارسلان اُس پہ پورا نہیں اُترتا۔ محمل نے آہستگی سے کہا

اچھا تو تمہارا آئیڈل کیسا ہو کیا سوچا ہوا تھا تم نے اُس کے بارے میں۔ فاطمہ نے دلچسپی سے پوچھا

زیادہ نہیں بس مضبوط کردار کا اپنی نظروں کو قابو میں رکھنے والا عورتوں کی عزت کرنے والا اور کروانے والا خود کو ایک کے لیے محفوظ رکھنے والا تھوڑا سنجیدہ تھوڑا کھڑوس پر فرینک نیچر وہ بس میرے تک محدود رکھتا میں خوبصورت ہوتی یا نہ ہوتی پر اُس کو میرے علاوہ اور کوئی لڑکی نہ بھاتی میرے لیے وہ پوزیسیو ہوتا جنونی ہوتا میں اُس کا عشق ہوتی۔ محمل کسی اور کی دنیا کو سوچتی جذب کے عالم میں بتانے لگی۔ 

اِتنا کہنے کے بعد بھی کہتی ہو زیادہ نہیں۔فاطمہ سرجھٹک کر بولی

ہاں تو یہ خوبیاں ہر لڑکی اپنے ہمفسر میں چاہتی ہے۔محمل نے منہ بناکر کہا

انسان تو بہت کجھ چاہتا ہے پر ہوتا وہی ہے جو پیدا ہوتے ہی اُس کی قسمت میں لِکھا ہوتا ہے۔ فاطمہ نے سرد سانس کھینچ کر کہا

انسان کی قسمت ہر اُس وقت بدلتی ہے جب جب انسان اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے۔ محمل نے خوبصورت مسکراہٹ سے کہا

اللہ اپنے پسندیدہ اور نیک بندے کو کبھی مایوس نہیں کرتا گہنگاروں کی کون سنتا ہے۔ فاطمہ نے اُداسی سے کہا

اللہ اپنے کسی بھی بندے کو مایوس نہیں کرتا۔محمل نے پھر سے مسکراکر کہا

اچھا۔ فاطمہ بس یہ کہہ پائی۔

تمہیں پتا ہے اشفاق احمد کیا کہتے تھے؟محمل نے فاطمہ کا اُترا منہ دیکھ کر کہا

کیا کہتے تھے؟فاطمہ نے جاننا چاہا۔

اشفاق احمد کہتے تھے زندگی میں بہت ساری حماقتیں کرنا پر ایک نہ کرنا اور وہ ہے خُدا کی رحمت سے مایوسی خدا کی رحمت سے مایوس مت ہونا۔

فاطمہ اللہ جب دینے پہ آتا ہے نہ تو ہماری جھولی کم پڑجاتی ہے وہ دینے والا ہے ہماری دعائیں سننے والا ہے شرط یہ ہے ہم اپنے اللہ کو خلوص دل سے مانگے پورے یقین کے ساتھ مانگے کے وہ ہماری دعا سنے گا وہ سب کا رب ہے صرف نیک بندوں کا نہیں۔محمل نے ہمیشہ کی طرح ایک اچھی دوست ہونے کا ثبوت دیا اُس کو مایوسی کی دلدل سے بچانا چاہا 

میں ایک بات کہوں تم سے؟ فاطمہ اُس کی بات پہ مسکراکر بولی۔ 

کہو۔ محمل نے اجازت دی۔ 

زندگی میں اگر کہی محبت ملے نہ تو اُس کو قبول کرلینا ضائع مت کرنا محبت جس پہ نازل ہوتی ہے نہ وہ دل خاص ہوتے ہیں مقدر کی بات ہے محبت کرنا پھر اُس کو پانا تم نے ارسلان کو جس وجہ سے بھی اپنی زندگی میں شامل کرنے کا سوچا ہے اگر اُس کے علاوہ تمہیں ایسا کوئی مرد ملے جیسا تم چاہتی ہو تو اُس کی طرف بڑھ جانا تمہاری ڈیمانڈز بہت ہیں پر کیا پتا اللہ پوری کردے۔ فاطمہ پہلے سنجیدگی سے پھر شریر لہجے میں اُس سے بولی

بعض دفع زندگی میں اپنے لیے نہیں دوسروں کو جو آپ کے اپنے ہو اُس کو نظر میں کرکے فیصلے کیے جاتے ہیں کبھی کبھی انسان کو اپنی خوشیوں کے لیے نہیں اُن لوگوں کے لیے اپنی خوشیاں قربان کردینی پڑتی ہیں جن کی خوشی ہم میں ہوتی ہے۔ محمل کی بات نے فاطمہ کو اور کجھ کہنے کے لائق نہیں چھوڑا تھا وہ ہمیشہ سے اُس کو لاجواب کردیا کرتی تھی اپنی باتوں سے۔ 

💕💕💕💕💕💕

میرے لیے کوئی جوس لائے گا بھی یا نہیں اِتنا کام کرکے آیا ہوں بندے سے کوئی پوچھ لیں کھانے پینے کا۔ ماہ ویر شام میں گھر واپس آیا تو ہال میں سینٹر صوفے پہ بیٹھ کر دھائیاں دینے لگا۔ 

یہ لیں کنیز آپ کی خدمت میں پانی کا گلاس جوس کا گلاس پیش کرتی ہے مہربانی کرکے اِس کو قبول کریں۔سجل ٹرے میں دو گلاس سجاکر ماہ ویر کے سامنے کرتی مسکراکر بولی

ہائے میری سجو اگر تم نہ ہوتی تو میرا کیا ہوتا۔ ماہ ویر سجل کے گال کھینچ کر مسکراکر بولا

آپ پانی پیے پھر بتائے آج آپ نے کیا کام کیا اور دن کیسا گُزرا۔ سجل ماہ ویر کے ساتھ بیٹھ کر بولی۔ 

آفس میں کام تو میں نے بہت کیا ہاتھ ٹانگوں میں تھکاوٹ ہے۔ماہ ویر کی دھائیاں عروج پہ تھی۔ 

اچھا آپ نے کیا وہاں مزدوری کی۔ سجل نے مسکراہٹ دباکر کہا

کسی مزدور سے کم کام بھی نہیں کیا۔ ماہ ویر نے جتانے والے انداز میں کہا

اچھا اچھا اب بتائے زرہ اُس کام کی نوعیت اور تفصیل۔سجل متجسس ہوئی۔ 

میں نے پورے سٹاف کو تگنی کا ناچ نچوایا۔ ماہ ویر ایک گھونٹ میں جوس کا گلاس ختم کرتا بولا

واقع کیسے؟ سجل اشتیاق بھرے لہجے میں پوچھنے لگی جس پہ ماہ ویر آرام سے بتانے لگا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیسا لگا آفس جاکر۔ ڈنر کے بعد سب لاوٴنج میں جمع تھا تبھی التمش عالم نے ماہ ویر سے پوچھا

ٹھیک تھا۔ ماہ ویر نے بتایا

کام پہ فوکس کرو زمینوں پہ دل نہیں لگتا تو آفس میں لگاؤ۔التمش عالم نے سنجیدگی سے کہا

جی اب اور کوئی چارا بھی نہیں۔ماہ ویر بڑبڑاہٹ میں بولا

💕💕💕💕💕

محمل اِدھر آنا۔ منیبہ بیگم نے محمل سے کہا جو ٹی وی پہ کوئی ٹاک شو دیکھنے میں محو تھی

جی دادو کیا بات ہے۔ محمل ان کے پاس بیٹھ کر بولی۔ 

تیار ہوجاؤ ارسلان آنے والے ہے اُس کے ساتھ شاپنگ پہ جانا۔منیبہ نے کہا

شادی کی شاپنگ؟محمل نے کنفرم کرنا چاہا

ہاں اور کسی کسی شاپنگ تمہارے فرض سے سبکدوش ہوکر سکون سے مرنا چاہتی ہوں۔منیبہ بیگم شفقت مسکراہٹ سے بولی 

دادو ایسی باتیں مت کیا کریں ورنہ میں ناراض ہوجاؤں گی۔محمل اُن کے مرنے کی بات سن کر تڑپ کے بولی

اچھا نہیں کہتی میں کجھ تم جاکر تیار ہوجاؤ۔منیبہ بیگم نے نرمی سے کہا تو وہ بوجھے دل کے ساتھ اپنے کمرے کی طرف جانے لگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تمہیں کوئی سوٹ پسند آیا۔ارسلان نے جھنجھلاہٹ سے محمل سے کہا جو بس اُس کو پورے مال میں چکر لگوارہی تھی۔

ابھی کہاں۔محمل نے جواب دیا

تم نے مجھے آج بہت تھکادیا ہے۔ارسلان احتجاجاً بولا

شادی کی شاپنگ جھٹ سے تو نہیں ہوسکتی نہ۔محمل نے پرسکون ہوکر جواب دیا۔

ایک تو لڑکیوں کو دولہے میں دلچسپی ہو یا نہ ہو پر اپنے لیے شادی کے کپڑوں میں بڑی دلچسپی ہوتی ہے۔ارسلان کوفت سے بولا جس پہ محمل نے کان نہیں دھرے۔

آخر دو گھنٹے مزید ارسلان کو خوار کرنے کے بعد محمل کو ڈریسز پسند آگئے تھے جس پہ ارسلان نے ہزار مرتبہ شکر ادا کیا تھا

💕💕💕💕💕

سر کل ماہ ویر سر نے تین مرتبہ پورے آفس کا راؤنڈ لگوایا سارا آفس دیکھنے کے بعد انہوں نے بس نائیس کہا مجھے بار بار شہزاد کہنے کے بجائے جن زاد کہہ رہے تھے اب باقی سٹاف بھی میرا یہ نام لیں رہا ہے سر بہت شرمندگی محسوس ہورہی ہے مجھے آپ پلیز اُن سے کہے ایسا نام مت لے۔

سر ماہ ویر سر کو کل میں نے جتنی بھی فائلز دی وہ انہوں نے خود ریڈ نہیں کی بلکہ مجھ سے ایسے پڑھ وائی جیسے میں اُن کا اسٹوڈنٹ ہوں اور ان کو سبق پڑھ کر بتارہا ہوں۔

سر ماہ ویر سر ہر دس منٹ بعد چاہ اور کافی کی فرمائش کروا رہے تھے ساتھ میں اُن کو کھانے کے لیے کجھ نہ کجھ چاہیے تھا جیسے فرائز چپس سموسا چاٹ۔

التمش عالم اپنے کیبن میں ریوالونگ چیئر پہ بیٹھے مٹھیاں زور سے بھینچتے ایک کے بعد ایک ماہ ویر کی شکایات سن رہے تھے ابھی تو ایک دن ہوا تھا آفس جوائن کیے اُس نے سارے سٹاف کو حراسا کرلیا تھا تاعمر آنے کے بعد وہ پورے آفس کا نظام یقیناً اُلٹ پُلٹ کرنے کا ارداہ رکھتا تھا جیسے۔التمش عالم نے پریشانی سے اپنی کنپٹی سہلائی اُن کو ماہ ویر کے مستقبل کی فکر ہونے لگی تھی جس سے ماہ ویر خود لاپرواہ سا تھا

میں بات کرتا ہوں آپ سب جاکر اپنا اپنا کام کریں۔التمش عالم کی پاٹ دار آواز سن کر سب سر کس جنبش دیتے باری باری وہاں سے چلے گئے۔سب کے جانے بعد انہوں نے اپنے مینجر کو کال پہ ماہ ویر کو اپنا پیغام پہچانے کا کہا

آپ نے یاد کیا مجھے۔پانچ منٹ بعد ماہ ویر اپنی مخصوص مسکراہٹ چہرے پہ سجاکر بولا وہ واقف تھا التمش عالم نے اُس کو یہاں کس وجہ سے بلایا ہے۔

اگر تم یہ سب اِس لیے کررہے ہو تاکہ میں تمہیں آفس آنے سے روکوں تو تم غلطی پہ ہو۔التمش عالم نے سخت لہجے میں بولے

کیا آپ کا مطلب اب میں نے کیا کیا؟ماہ ویر چہرے پہ معصومیت سجاکر بولا

ویر تم کب سیریس ہوگے اپنے مستقبل کے لیے کیوں تم مجھے پریشان کرتے ہو بوڑھے باپ کا زرہ احساس نہیں تمہیں۔التمش عالم نے اُس کو شرم دلانے کی ناکام کوشش کی۔

بوڑھے کا کہاں آپ تو ابھی بھی ینگ لگتے ہیں کہے تو ہم آپ کی شادی کا سوچے۔ماہ ویر آنکھ ونک کرکے دوستانہ انداز میں بولا

لاحول ولاقوة۔دفع ہوجاؤ یہاں سے۔التمش عالم کی رنگت لال ہوئی تھی ماہ ویر جھٹ سے اپنی جگہ سے اُٹھتا کیبن کے دروازے تک پہچا۔

التمش عالم اپنا غصہ کم کرنے کی کوشش کرنے لگے جب ماہ ویر اُلٹے قدموں سے اُن کی طرف پلٹا۔

آفر اچھی ہے سوچیے گا ضرور۔اتنا کہہ کر ماہ ویر نو دو گیارہ ہوگیا التمش عالم نے سرخ آنکھوں سے بند دروازے کو دیکھا۔

💕💕💕💕💕

محمل آج فاطمہ کے گھر گئ تھی وہاں باتوں میں اُس کو وقت گُزرنے کا پتا نہیں لگا تھا جس سے اب وہ رات کے آٹھ بجے ٹیکسی کے لیے خوار ہورہی تھی مگر جب کوئی رکشہ ٹیکسی کیب نہ ملی تو اُس نے پیدل گھر جانے میں عافیت سمجھی اندھیرا چاروں طرف پھیل گیا تھا ہر طرف خاموشی کا راج تھا اُس کو اب اِس سناٹے سے ڈر لگ رہا تھا اِس لیے تیز تیز قدم اُٹھانے لگی پر سامنے سے آتی گاڑی کی ہیڈلائٹ نے اُس کی آنکھیں پہ پڑی تو بے ساختہ اُس نے اپنی آنکھوں کے سامنے ہاتھ رکھ دیا۔

ماہ ویر آفس کے بعد جنید کی طرف گیا تھا اُس کا ارادہ وہاں رکنے کا تھا پر التمش عالم نے اُس کے ارادوں پہ پانی پھیر دیا جس وجہ سے وہ اب واپس گھر کی طرف جارہا تھا جب سامنے سے اُس کو کسی وجود کا احساس ہوا تو اُس نے گاڑی سائیڈ پہ روک کر گاڑی سے باہر آیا جہاں ایک لڑکی چہرے پہ ہاتھ رکھ کر کھڑی تھی۔

میڈم ہاتھ ہٹالیں اندھی ہونے سے بچ گئ ہے۔ماہ ویر اُس کے سامنے آتا بولا۔

محمل نے کجھ جانی پہچانی آواز سنی تو فورن سے ہاتھ ہٹالیا پر سامنے ماہ ویر کو دیکھ کر اُس کو غصہ حیرت دونوں جذبات عود آئے اُس کے برعکس ماہ ویر کے تاثرات ایسے تھے جیسے اُس کو اپنا سالوں پُرانہ دوست مل گیا ہو۔

ہاؤ لونگ ٹائم۔ماہ ویر خوشگوار لہجے میں بولا

تم یہاں کیا کررہے ہو۔محمل نے سخت لہجے میں پوچھا

بریک ڈانس کررہا ہوں۔ماہ ویر پیروں کو حرکت دیتا گھوم کر بولا۔

فضول انسان۔محمل بڑبڑاتی پاس سے گُزرنے لگی تو ماہ ویر دیوار بن کر سامنے آگیا۔

مس لڑاکو پہلے بتانا پسند کرے گی اتنی رات اندھیری رات میں آپ یہاں کیا کررہی تھی اگر کوئی معصوم جن آپ کو دیکھ کر ڈر جاتا تو۔ماہ ویر شریر نظروں سے اُس کو دیکھ کر پوچھنے لگا۔

تم میرے ابے ہو جس کو میں بتاتی پھروں۔محمل نے ناگواری سے کہا

کیا ہورہا ہے یہاں۔ماہ ویر کجھ کہنے والا تھا جب پیچھے سے بھاری بھرکم آواز سن کر وہ اُلٹے پیر اُس کی جانب دیکھا جہاں ایک پولیس والے کے ساتھ کانسٹبل کھڑا ان دونوں کو مشکوک نظروں سے دیکھ رہا تھا اپنے سامنے پولیس والوں کو دیکھ کر محمل کو اپنی جان جاتی محسوس ہوئی۔

باتیں ہورہی ہیں پلیز جوائن اٙس۔ماہ ویر خوشدلی سے بولا

تھانیدار سے تھانیداری نہیں چلے گی بتاؤ کیا رشتہ ہے دونوں کا۔پولیس والے نے کڑک آواز میں پوچھا۔

میں نہیں جانتی اِس کو میں تو اپنے گھر جارہی تھی۔محمل نے جلدی سے اپنا دامن صاف کیا

میاں بیوی ہیں ہم موسم اچھا تھا تو رومانس کرنے کے لیے روک گئے مگر عین آپ لوگوں کی شرکت نے ہمارے درمیان خلل پیدا کرلیا۔ماہ ویر کی گوہر افشائی پہ محمل کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئ۔

جھوٹ بول رہا ہے یہ مجھے تو اِس کا نام تک نہیں معلوم۔محمل کھاجانے والی نظروں سے ماہ ویر کو دیکھتی بولی

میڈم نام نہیں پتا تو رات کے اندھیرے میں ملاقاتیں کیوں کی جارہی ہیں۔پولیس والے نے روعبدار آواز میں استفسار کیا 

لاحول ولاقوة۔ماہ ویر یہاں وہاں نظر گھماکر بولا

استففراللہ آپ سوچ سمجھ کر تو بولے۔محمل نے گڑبڑاکر کہا

ہیرو اگر یہ تیری بیوی ہے تو نکاح نامہ دیکھا۔پولیس والے کی بات پہ ماہ ویر کی سٹی گم ہوگئ محمل شیطانی مسکراہٹ سے ماہ ویر کو دیکھنے لگی

نامہ تو گھر ہے۔ماہ ویر نے اذر پیش کیا

فون تو ہوگا نہ اُس میں تصویریں بھی ہوگی مجھے دیکھاؤ تمہارے گھروالوں کو بھی خبر کرنی ہے رات کی تاریخی میں تم دونوں یہاں کر کیا رہے تھے۔پولیس والا مونچھوں کو تاؤ دیتا بولا جس پہ ماہ ویر کو پہلی دفع غصہ آیا

نکامہ نامہ ہے گلے کا پٹا نہیں جو میں یا میری بیوی گلے میں پہن کر گھومے گی نہیں ہے کوئی تصویر اور نہ نکاح نامہ ہم میاں بیوی ہے ہمیں پتا ہے اب آپ جاکر اپنا کام کریں۔ماہ ویر جل کے بولا

بکواس کیوں کررہے ہو مجھے تو تمہارا نام تک نہیں پتا انسپیکٹر کو سچ سچ بتاؤ۔محمل نے اُس کے پاؤں پہ اپنا پاؤں مار کر کہا

سویٹ ہارٹ مانا تم ناراض ہو پر سب کے سامنے تم مجھ سے اتنا اجنبی رویہ نہیں رکھ سکتی میں ماہ ویر ہوں ماہ ویر عالم جس کے پیار میں تم کالج لائف سے پاگل ہو۔ماہ ویر اُس کو آنکھوں سے اِشارہ کرتا بولا جو محمل عقل کُل کو سمجھ نہ آیا۔

بہت کرلیا تم دونوں نے ڈرامہ چلو اب پولیس اسٹیشن اب باقی باتیں وہی ہوگی۔پولیس والا تیش میں آتا بولا جو اُن کی موجودگی فراموش کیے خود لڑنے میں مصروف تھے

دیکھے سر آپ بنا کسی قصور کے مجھے اریسٹ نہیں کرسکتے۔محمل نے اپنا لہجہ مضبوط کیے کہا

میں ماہ ویر عالم ہوں سن آف التمش عالم اگر میرا بال بھی بیکا ہوا تو آپ اپنی وردی سے ہاتھ دھو بیٹھے گے۔ماہ ویر مغرور لہجے میں بولا

مذاق اچھا ہے لگاؤ اِس کو ہتھکڑی اور میڈم آپ خود چلیں ہمارے ساتھ۔انسپیکٹر ایک پل تو گھبراگیا پھر سنبھل کر کانسٹبل اور محمل کو مخاطب کیے بولا جس سے دونوں کے ہوش اُڑگئے۔

💕💕💕💕💕💕💕

منیبہ بیگم ہاتھ میں تسبیح پکڑے باہر صحن میں ٹہلتی پریشانی سے داخلی دروازے کو دیکھ کر محمل کا انتظار کررہی تھی جوں جوں وقت گزرتا جارہا تھا اُن کی فکر میں روانگی آرہی تھی پاس چارپائی پہ ارسلان بیٹھا کسی کو کال کرنے میں مصروف تھا

دادی محمل اپنی دوست کے گھر سے کب کی نکل چُکی ہے پتا نہیں یہاں کیوں نہیں پہچی اب تک۔ارسلان نے فکرمندی سے کہا

مجھے خود فکر ہورہی ہے تم جاکر دیکھ آؤ رات کے دس ہونے والے ہیں۔منیبہ بیگم نے پریشانی سے کہا

آپ فکر نہیں کریں میں جاتا ہوں۔ارسلان نے اُن کو پرسکون کرنا چاہا

💕💕💕💕💕

سر میری دادی پریشان ہورہی ہوگی آپ پلیز مجھے جانے دے۔محمل کو فکر لاحق ہوگئ تھی پر یہاں کوئی اُس کی سننے کو تیار نہ تھا انسپیکٹر ان کو اپنے تھا تھانے لایا تھا جہاں ماہ ویر رلیکس تھا کیونکہ التمش عالم پہچنے والا تھا۔

میڈم کجھ پیپرز پر آپ سائن کرے پھر جائیے گا جہاں جانا ہے۔انسپیکٹر ایک سخت نظر ماہ ویر پہ ڈال کر کہا جواب میں ماہ ویر نے سمائل پاس کی تھی جس پہ وہ صبر کے گھونٹ بھر کے رہ گئے کیونکہ وہ اب جان گئے تھے سامنے بیٹھا لڑکا کس کا سر درد تھا۔

کونسے پیپرز میں نہیں کروں گی سائن۔محمل کو تشویش ہونے لگی۔

سائن تو کرنا ہوگا ورنہ آپ کو لاکپ کے اندر کرے گے ضمانت بھی مشکل ہوگی۔انسپیکٹر نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا

یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے۔محمل کے اپنی توپوں کا رخ ماہ ویر کی طرف کیا

او مس لڑاکا اپنا کیا میرے سر پہ نہ ڈالو کیا ضرورت تھی رات کے وقت اکیلے جانے کی۔ماہ ویر نے گھور کر کہا

تمہیں کیا ضرورت تھی حاتم تائی بن کر میرے سر پہ پہچنے کی۔محمل نے دوبدو جواب دیا

چپ کرو تم دونوں اور سائن کرو۔انسپیکٹر اپنے بال نوچ کر کانسٹبل کے ہاتھ کی طرف اِشارہ کیا جہاں کاغذ موجود تھے۔

دیکھاؤ۔ماہ ویر کے چھننے والے انداز میں اُس سے پیپرز لیے۔

واٹ دا۔ماہ ویر پیپرز ٹیبل پہ پٹختے ہوئے بولا

کیا ہوا میاں بیوی ہو نہ تو کرو سائن۔انسپیکٹر نے کہا تو محمل نے ہاتھ بڑھا کر دیکھا تو شاک رہ گئ سامنے پیپرز نکاح نامے کے تھے۔

تو آپ کو کیا نہیں پتا نکاح کے اُپر نکاح نہیں ہوتا کیوں خود کی طرح ہمیں بھی جہنمی بنارہے ہیں۔ماہ ویر نے اپنی طرف سے پتے کی بات کی پاس بیٹھی محمل میں ہلنے جلنے کی سکت نہیں تھی۔

مجھے دین نہ پڑھاؤ سائن کرو ورنہ یہی رہو۔انسپیکٹر نے ہاتھ جہاڑ کر آرام سے کہا

ماہ ویر کے لیے یہ سب کسی ٹاسک یا ایڈوینچر کے سوا کجھ نہیں تھا اِس لیے گہری سانس بھرتا سائن کردیا تھا

محمل کے ناں ناں کہنے کے باوجود بھی دونوں کو اصل میں نکاح ہوگیا تھا جس میں دونوں کی نہ رضامندی تھی نہ کوئی اپنا یہاں موجود تھا التمش عالم سنجیدہ تاثرات لیے وہاں پہچ کر انسپیکٹر سے بات کرنے میں تھے

میری بچپن سے خواہش تھی میری زندگی میں کجھ ٹویسٹ ہو کجھ فلمی سا ہو اور دیکھا کیا ٹویسٹ آیا مطلب نکاح ہی ہوگیا۔ماہ ویر اپنی بات پہ خود ہی قہقہہ لگانے لگا۔

میری زندگی برباد ہوگئ ہے اور تمہیں ٹویسٹ کی پڑی ہے۔محمل نے اُس کو شرم دلانی چاہی

پریشان کیوں ہوتی ہو کونسا میں نے ساری عمر تمہیں اپنے ساتھ رکھنا ہے جیسے اِن کاغز کے ٹکروں پہ سائن کیا ہے ویسے ہی دوسرے کاغذ پہ کرلینا جو کہ طلاق کے ہوگے۔ماہ ویر نے عام لہجے میں کہا محمل بس گہری سانس بھر کے رہ گئ اُس کو بس ایک بات پریشان کیے جارہی تھی وہ اپنی دادی کو کیا جواز کیا جواب دے گی۔

ڈیڈ وہ

چٹاخ

التمش عالم کو آتا دیکھ کر ماہ ویر پرجوش سا کھڑا ہوا تھا پر التمش عالم نے آگے بھر کر ایک زوردار تھپڑ اُس کے خوبصورت چہرے پہ جڑدیا تھا محمل دنگ سی ہوگئ بے یقین تو ماہ ویر بھی تھا یہ اُس کی زندگی میں پڑنے والا پہلا تھپڑ تھا جو اُس کو ملا تھا اور وہ بھی سب کے سامنے ماہ ویر لب بھینچ کر التمش عالم کو دیکھنے لگا جن کا سانس پُھول گیا تھا

بیوی کے سامنے کون باپ تھپڑ مارتا ہے کوئی عزت رہنے دیتے نوا نویلے دولہا ہوں۔ماہ ویر اپنی جون میں آتا بولا محمل کو جو اُس پہ تھوڑی ہمدردی محسوس ہورہی تھی ماہ ویر کی بات پہ واپس غصے نے جگہ لی۔

بچی کو اُس کے گھر چھوڑ آوٴ تم سے گھر بات ہوگی۔التمش عالم نے جن نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا اُس پہ ماہ ویر کو فرمانبرداری سے سرہلانے پہ محبور کیا مگر ایک خیال کے تحت وہ اپنی زبان کو خاموش نہ رکھ پایا۔

اب تو یہ میری زوجہ محترمہ ہیں تو میرا گھر اِس کا ہوا تو کیا یہ ہمارے ساتھ چلے گی۔ماہ ویر نے سنجیدگی سے پوچھا ورنہ دل قہقہقہ لگانے کا کہہ رہا تھا۔

انکل آپ کا بیٹا دماغ سے فارغ ہے جس کنڈیشن میں ہمارا نکاح ہوا ہے وہ جائز ہے یا نہیں پر میں چاہتی ہوں یہ قصہ یہی پہ دفن ہو کجھ دنوں بعد میری شادی ہے تو پلیز مجھ طلاق بھی چاہیے۔محمل نے سنجیدگی سے کہا

ہمارے نکاح کو ابھی دو گھنٹے نہیں ہوئے اور تمہیں طلاق چاہیے پہلے مجھے یقین تو ہونے دو میں بھی ایک عدد زوجہ کا مالک ہوں۔ماہ ویر نے خشمگین نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا

آپ کے بیٹے کے لیے ہر بات مذاق ہوگی پر میرے لیے نہیں میں اپنی زندگی میں مسائل نہیں چاہتی۔محمل ماہ ویر کو مکمل طور پہ نظرانداز کرتی بولی

بیٹا آپ کی بات درست پر ایک مرتبہ آپ کے گھروالوں سے بات کرنے دو نکاح جس صورتحال میں ہوا ہو نکاح نکاح ہوتا ہے ایسے پھر علیحدگی اختیار کرنا ٹھیک نہیں یہ کوئی مذاق کی بات نہیں۔التمش عالم نے اُس کے سرپہ ہاتھ رکھ کر شفقت سے کہا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کے بارہ بجے کے درمیان التمش عالم اور ماہ ویر کے ہمراہ وہ اپنے گھر آئی تھی محمل کا دل کسی سوکھے پتے کی طرح لرز رہا تھا وہ خود کو کیسے ڈیفائن کرے گی یہ سوچ اُس کو پاگل کیے ہوئے تھی۔

دادی۔

محمل نے چارپائی پہ منیبہ بیگم کو دیکھا تو بھاگ کر اُن کی آغوش میں سمائی اپنی پھوپھو ارسلان فردوس التمش عالم اور ماہ ویر اِن سب کو نظرانداز کیے وہ منیبہ بیگم کے ساتھ چپک گئ تھی۔

میری بچی کہاں تھی تم اپنی بوڑھی دادی کا کوئی احساس ہے بھی کے نہیں۔منبیہ بیگم محمل کو سہی سلامت دیکھ کر شکرادا کرتی محمل سے بولی

آپ کا احساس ہے دادی۔محمل اپنی آنکھوں میں آتی نمی کو پیچھے دھکیلتی بولی

یہ دونوں کون ہے۔ناہید بیگم نے التمش عالم کے ساتھ کھڑے ماہ ویر کی جانب اشارہ کیے پوچھا

مجھے اِن کے شوہر ہونے کا شرف حاصل ہے اور جو یہ میرے بابا صاحب ہیں جن کو اِن کے سسُر ہونے کا شرف حاصل ہے۔ماہ ویر کی زبان میں کُھجلی ہوئی التمش عالم کیا دل کیا اپنا سر پیٹ لیں جانے یہ نکما کس پہ چلاگیا۔

کیا بکواس ہے یہ۔ارسلان آگ بگولہ ہوتا بولا باقی سب اپنی جگہ حیران پریشان تھے۔

بکواس نہیں تازہ ترین گرما گرم نئ خبر ہے۔ماہ ویر نے سکون سے جواب دیا۔

محمل تم خاموش کیوں ہو کیا کہہ رہا ہے یہ لڑکا۔ارسلان نے محمل کس جھنجھور کر پوچھا

بیٹا آپ شانت رہے میں بتاتا ہوں ساری بات۔التمش عالم نے گہری سانس کھینچ کر حقیقت ان کے سامنے کردی۔

ضرور چکر ہوگا اب بہانا ہے۔ناہید بیگم نے زہر اُگلا۔

بہو۔منیبہ بیگم نے سخت نظروں سے اُن کو دیکھا۔

محمل تم ایسا کیسے کرسکتی ہو۔ارسلان شاک سے باہر آتا بولا

آپ کو بار بار جلال میں دیکھ کر لگ رہ ہے آپ میری زوجہ کے بھائی ہیں۔ماہ ویر نے انجانے میں اُس کی دُکھتی رگ پہ ہاتھ رکھ گیا

ہونے والی بیوی تھی میری۔ارسلان نے دانت پہ دانت جمائے کہا

اووو۔ماہ ویر نے اپنے ہونٹوں کو گال شیپ دیا

محمل اگر تمہیں کوئی اور پسند تھا تو ارسلان سے شادی کے لیے ہاں کیوں کی۔ناہید بیگم نے سخت لہجے میں کہا

پھوپھو ایسا کجھ نہیں۔آنسو کا پھندا اُس کے گلے میں اٹک گیا بہت تکلیف دہ لمحہ تھا بے قصور ہونے کے باوجود بھی قصوار ٹھیرائی جارہی تھی بنا غلطی کے بھی صفائی دینی پڑرہی تھی مگر سب بے معنی لگ رہے تھے۔

بہن اِس بیٹی کا کوئی قصور نہیں آپ اُس کو مورد الزم نہ ٹھیرائے۔التمش عالم دھیمی مگر سخت آواز میں بولے۔

آپ تو ایسا کہے گے۔ناہید بیگم طنزیہ بولی

دادی آپ کو یقین ہے نہ مجھ پہ۔محمل نے اُمید بھری نظروں سے منیبہ بیگم سے پوچھا جنہوں نے سراثبات میں ہلایا تو محمل کو گونا سکون ملا۔

اگر تمہاری بات سچ ہے تو اِس لڑکے سے کہو ابھی کے ابھی تمہیں طلاق دے۔ارسلان آنکھوں میں جلن لیے ماہ ویر کو دیکھ کر بولا

میری اور زوجہ کے نکاح کو ابھی وقت کتنا ہوا ہے جو طلاق دوں گا ابھی میرا ایسا کوئی موڈ نہیں۔ماہ ویر منہ بناتا بولا

ہمیں اب اجازت دے۔التمش عالم ماہ ویر کی باتوں سے زچ آگئے تھے تبھی بولے

محمل آپ کے ساتھ جائے گی۔منیبہ بیگم کی بات پہ سب پہ کسی بم کی طرح گِڑی تھی محمل بے یقین نظروں سے اپنی دادی کو دیکھنے لگی

داد

محمل میں بات کررہی ہوں۔محمل کجھ کہنے والی تھی پر منیبہ بیگم نے ہاتھ کے اِشارے سے ٹوک دیا 

دادی یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں محمل سے میری شادی ہونے والی تھی۔ارسلان تیز آواز میں بولا

ہونے والی تھی ہوئی تو نہیں نہ ہوئی تو میری اب تم بار بار میری زوجہ کو اپنی ہونے والی بیوی کہہ کر میری غیرت مت لُلکارو۔ماہ ویر نے اپنا بولنا ضروری سمجھا۔

تم سے بات نہیں کررہا میں۔ارسلان نے غصے سے کہا

پر میں تم سے بات کررہا ہوں اِس لیے غور سے سنو اور عمل کرو۔ماہ ویر نے دانتوں کی نمائش کرتے کہا

تم

بند کرو یہ جاہلوں کی طرح لڑنا۔التمش عالم نے دونوں کو بُری طرح سے گُڑکا۔

اماں جی آپ کیا کہنا چاہتی ہیں۔التمش عالم نے ادب سے منیبہ بیگم کو مخاطب کرتے کہا

محمل آپ لوگوں کے ساتھ جائے گی۔منیبہ بیگم مضبوط لہجے میں بولی

جیسا آپ کہے گی ویسا ہوگا آپ اِس بچی کے لیے پریشان مت ہونا ہمارے گھر کسی چیز کی کمی نہیں ہوگی۔التمش عالم نے اُن کو یقین دلانا چاہا

مجھے کہیں نہیں جانا دادی کیا ہوگیا ہے آپ کو سب پہ یقین تو بس بات ختم ہوگا ایسے نکاح نہیں ہوتے آپ پلیز مجھے خود سے دور مت کریں۔محمل منیبہ بیگم کے دونوں ہاتھ تھامتی بولی۔

یہاں کیا سب کے طعنے سننے کے لیے رہوگی۔منیبہ بیگم کے سوال پہ محمل کی بے ساختہ نظریں اپنی پھوپھو پہ پڑی جو نخوت منہ موڑ گئ تھی۔

نکاح اللہ کا بنایا ہوا خوبصورت اور پاکیزہ رشتہ ہے اِس لیے اللہ کی رضا کی خاطر چلی جاؤ۔منیبہ بیگم نے دوبارہ کہا

💕💕💕💕💕💕💕💕

گاڑی التمش عالم کی حویلی کے پاس رکی تو محمل اُن کے ساتھ باہر آتی حیرت سے سامنے شاندار عمارت کو دیکھنے لگی۔کیا اِس شاندار محل نما گھر میں رہنے والوں کو دل بھی شاندار اور بڑے ہوگے؟محمل دل میں خود سے پوچھنے لگی۔

شاید نہیں کیونکہ جو لوگ جتنے بڑے گھروں میں رہتے ہیں اُن کے دل اُتنے ہی چھوٹے ہوتے ہیں۔محمل اپنی خود ساختہ سوچ پہ بے اختیار مسکرادی۔

گھر کا پوسٹ مارٹم کرلیا ہو تو اندر چلیں۔ماہ ویر نے اُس کو ایک جگہ جما دیکھا تو کہا التمش عالم پہلے ہی اندر جاچُکے تھے۔

کیا تم آرام سے سیدھے طریقے سے بات نہیں کرسکتے؟محمل نے ناگوار لہجے میں پوچھا

کرسکتا ہوں پر کروں گا نہیں۔ماہ ویر نے ٹکا سا جواب دیا۔

ڈسکسٹنگ۔محمل بڑبڑائی

آجاو اب۔ماہ ویر اتنا کہتا اُس کا ہاتھ مضبوطی سے اپنے ہاتھ جکڑلیا محمل حق دق اُس کی جرئت دیکھتی رہ گئ جو بے نیازی سے اُس کو اپنے ساتھ لیں جارہا تھا اُس نے اپنا ہاتھ آزاد کروانے کی کوشش کی پر ماہ ویر کی گرفت اُس کی سوچ سے زیادہ مضبوط تھی۔

ماہ ویر اُس کو اندر لیں آیا تو محمل کو مزید حیرت کا جھٹکا لگا اتنے سارے لوگوں کو اِتنی رات کے وقت سب کو جاگتا دیکھا تو۔

کیا یہ سب ایک فیملی کے لوگ ہے۔محمل نے پریشانی سے سوچا بچپن سے اُس کو جوائنٹ فیملی کا شوق ہوتا تھا پر اُس نے اپنے ارد گرد بس اپنی دادی کا سایہ اور ساتھ دیکھا مگر آج ماہ ویر کی فیملی کو دیکھ کر اُس کو رشک ہوا تھا اُس کی سوچ مطابق بڑے لوگ خود تک محدود رہتے تھے الگ الگ گھر ہوتے ہوگے ساتھ میں اُن کا ہونا ناممکن سا ہوتا ہوگا پر آج اُس کو اپنی سوچ غلط محسوس ہونے لگی

تو آپ ہے ہماری بھابھی۔سجل جو پہلے نیند میں جھول رہی تھی ماہ ویر کے ساتھ خوبصورت اور حیران پریشان لڑکی کو دیکھ کر پرجوش ہوتی بولی۔

نہیں باہر گیٹ پہ کھڑی چوکیداری کررہی ہے وہ۔جواب ماہ ویر نے دیا تھا۔

بھابھی آپ آئے میں سب سے آپ کا اور آپ کو سب کا انٹرڈیوس کرواتی ہوں۔سجل نے خوشدلی سے کہا جیسے بہت عرصے سے جان پہچان ہو محمل کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیسا ری ایکشن دے۔

دادی کا پھسادیا۔محمل کی حالت رونے والی ہوگئ تھی۔

سجل بیٹے ابھی اپنی بھابھی کو آرام کرنے دو رات بہت ہوگئ ہے آپ سب بھی سوجاؤ ملنا ملانا کل ناشتے پہ ہوگا۔التمش عالم نے سنجیدگی سے کہا جس پہ سجل کا منہ بن گیا

ہم سب بھی آپ لوگوں کا انتظار کررہے تھے آپ آگئے اب سکون سے نیند آئے گی۔ماجد نے نرم مسکراہٹ سے کہا

میں نے کہا بھی تھا دیر ہوجائے گی پھر بھی خوامخواہ جاگتے رہے۔التمش عالم نے کہا تو سب مسکرا پڑے۔

آپ کو پتا تو ہے غصہ ناراضگی اپنی طرف پر جب تک اِس گھر کا ایک فرد رات کے وقت اپنے کمرے میں نہ ہو ہمیں سکون نہیں ہوتا۔نرمین نے رسانیت سے جواب دیا

میں جو جانے کتنی راتوں کو اپنے کمرے میں نہیں ہوتا تب تو سب بڑے سکون سے سویا کرتے ہیں۔ماہ ویر نے سب کی طرف دیکھ کر کہا

کیونکہ آپ تب گھر سے نکلتے ہیں جب سب سوجاتے ہیں۔سجل نے شرارت بھرے لہجے میں کہا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں کہاں سوؤ گی؟محمل کمر پہ ہاتھ رکھتی ماہ ویر سے بولی جو صوفے پہ بیٹھا اپنے شوز کے تسمے کھول رہا تھا

میری گود میں۔ماہ ویر نے جل کے جواب دیا

تھمیز نہیں تمہیں بات کرنے کی؟محمل سرخ گالوں سمیت اُس کو دیکھتی بولی

آپ کو عقل نہیں یہ اتنا بڑا بیڈ نظر نہیں آرہا آپ جو سوال کررہی ہو۔ماہ ویر نے کمرے کی وسط میں موجود بیڈ کی جانب اِشارہ کیے کہا جو اِتنا بڑا ضرور تھا کہ سات سے آٹھ لوگ آرام سے سو سکتے۔

تو تم کہاں سوؤ گے؟محمل نے دوسرا سوال کیا

آپ کی گود میں۔ماہ ویر نے پہلے سے زیادہ تپ کے جواب دیا۔

بے حودہ انسان۔محمل اتنی کہتی بیڈ کی طرف آئی ماہ ویر اپنی مسکراہٹ دباتا وارڈروب سے اپنے لیے نائٹ ڈریس ہینگ سے نکالتا واشروم کی جانب بڑھا دوسری طرف نرم بیڈ پر محمل  لیٹتے ہی سوگئ تھی۔

پندرہ منٹ بعد ماہ ویر فریش ہوتا باہر آتا تو بیڈ پہ موجود وجود کو دیکھتے اُس نے گہری سانس خارج کی پھر سرجھٹکتا آئینے کے سامنے کھڑا ہوتا تولیہ سے اپنے بال خشک کرنے لگا مگر نظر بار بار محمل کی طرف بھٹک رہی تھی جو سکون کی نیند سو رہی تھی۔

سو تو ایسے گئ جیسے ہمیشہ سے یہاں ہوتی ہے مانا شادی کے بعد لڑکیاں ہر جگہ ایڈجسٹ ہوجاتی ہے پر اتنی بھی کیا جلدی تھی اِس کو۔خواب و خروش کے مزے لوٹتی محمل ماہ ویر کو ایک آنکھ نہ بھارہی تھی۔

ماہ ویر محمل کے اُپر کمبل ٹھیک سے ڈالتا خود بیڈ کی دوسری سائیڈ پہ کروٹ لیتا سوگیا۔

صبح سویرے اُس کی آنکھ کسی کے رونے کی آواز پہ کھلی ماہ ویر نے نیند سے بوجھل آنکھ کھولی تو محمل کو دیکھا جو ہاتھ سینے پہ باندھتی رونے کا شغل فرمارہی تھی ماہ ویر تعجب سے اُس کو روتا دیکھتا رہا پر اُس کے رونے کا والیوم تیز ہوتا گیا تھا بول پڑا

کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہے جو منہوسیت پھیلا رہی ہو۔

تم سوں ساری سوں رات سوں یہاں سوں سوۓ سوں ہوئے سوں تھے۔محمل نے روتے ہوئے سوں سوں کرتے اپنی بات مکمل کی۔

ہاں تو۔ماہ ویر کو اُس کا سوال سمجھ نہیں آیا

تم یہاں کیا کررہے تھے یہاں میں تھی تو تمہیں چاہیے تھا دوسری جگہ جاوٴ۔محمل اپنا رونا بھول کر بولی

اوو پلیز زوجہ اب یہ میلو ڈرامہ سٹارٹ مت کرنا کے میں نے تمہارے نیند میں ہونے کا فائدہ اُٹھا کر تمہاری عزت خراب کی ہے سچی بہت بودا اور پُرانہ ڈائیلوگ ہے لڑکیوں کا۔ماہ ویر نے بے زار تاثرات چہرے پہ سجاکر کہا

کیوں نہ کہوں۔محمل اُس پہ چڑھ ڈوری۔

کیونکہ میری زوجہ تمہاری عزت میں نے خراب نہیں اِس لیے اپنے فضول۔سوچو کے گھوڑے کو کم چلاو۔ماہ ویر کمبل خود سے پرے کرتا بولا

تمہیں پتا ہے تم واحیات انسان ہو۔محمل شرمندگی سے بچنے کی خاطر بولی

پتا تو نہیں پر تم نے بتادیا اب لگ گیا پتا۔ماہ ویر نے سکون سے جواب دیا

مجھے طلاق کب دوگے۔محمل نے اُس کو واشروم میں جاتا دیکھا تو چھلانگ لگا کر اُس کے سامنے کھڑی ہوتی بولی

کیوں چاہیے طلاق؟ماہ ویر نے سنجیدگی سے پوچھا۔

کیونکہ مجھے یہاں نہیں رہنا۔جواب جھٹ سے حاضر ہوا۔

کوئی بات نہیں میں بات کرتا ہوں بابا صاحب سے نیو گھر میں شفٹ ہوجائے گے۔ماہ ویر مسکراکر اُس کے پُھولے ہوئے گال کھینچ کر بولا

دیکھو مسٹر

ماہ ویر نام ہے میرا۔ماہ ویر بیچ میں ٹوکتا بولا

ماہ ویر مجھے طلاق دو تم جانتے ہو میری بات کا مطلب اِس لیے بات کو گھما پھیرا کر مت کرو۔محمل نے سختی سے کہا

زوجہ ناشتے کا وقت ہونے والا ہے اِس لیے مجھے فریش ہونے دو خود بھی ہوجاؤ۔ماہ ویر اُس کو سامنے سے ہٹاتا بولا پیچھے محمل کلس کے رہ گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام علیکم!محمل نے سب کو ایک ساتھ بیٹھا دیکھا تو کنفیوز ہوتی سلام کرنے لگی۔

وعلیکم اسلام بیٹھو ناشتہ کرو ہمارے ساتھ۔التمش عالم نرم مسکراہٹ سے بولے

اب باری باری سب اپنا تعارف کروائے پھر ناشتہ شروع کرتے ہیں۔سجل نے چہک کر کہا

میں ماہ ویر کا بڑا بھائی اور تمہارا بڑا دیور شمس عالم۔

اور میں تمہاری بڑی دیورانی رامیں۔

میں بابا صاحب کا دوسرا بیٹا ماجد عالم۔

میں تمہاری دیورانی نرمین۔

اور میں ون اینڈ اونلی آپ کی نند۔

سب نے مسکراکر باری باری اپنا تعارف کروایا تو آخر میں سجل نے کہا محمل جب کی سب کے نام یاد کرنے میں لگی ہوئی تھی۔

میں ون اینڈ اونلی آپ کا شوہر نامدار ماہر التمش عالم۔ماہر ڈرائینگ ہال میں آتا اُس کے پاس والی چیئر کھسکا کر بیٹھ کر مزے سے بولا

ناشتے کے بعد محمل کو شاپنگ کروانے لے جانا۔التمش عالم نے محمل کو کل والے سوٹ میں ملبوس دیکھا تو ماہ ویر کو حکم صادر کیا

سجو کے ساتھ چلی جائے گی۔ماہ ویر جگ سے جوس گلاس میں انڈیلتا عالم لہجے میں بولا

تمہیں کہا ہے میں نے۔التمش عالم نے سنجیدگی سے کہا

یہ لڑکی معصوم ہے یا ڈھونگ کررہی ہے۔رامین کے کان کے پاس جھکتی نرمین بولی

خاموش رہو بابا صاحب نے کل کیا کہا تھا کوئی بھی اِس لڑکی کو کجھ نہ کہے اور نہ اچانک نکاح ہونے کی بات کریں۔رامین نے اُس کو ٹھوکا مار کے کہا

ٹھیک ہے میں لے جاؤں گا۔ماہ ویر رضامند ہوتا بولا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جلدی شاپنگ ختم کرنا۔ماہ ویر گاڑی پارکنگ ایریا میں ڈالتا محمل سے بولا جو جانے کِن سوچو میں گُم تھی۔

مجھے کجھ چاہیے نہیں میرے گھر لے چلتے وہاں اپنے ضروری سامان اُٹھالیتی۔محمل آہستہ آواز میں بولی

واہ بڑا جلدی خیال آگیا آپ کو جب مال پہچ گئے ہیں تب۔ماہ وہر کا لہجہ طنزہ سے بھرپور تھا۔

تم اُس قابل ہو ہی نہیں جو تم سے آرام سے بات کی جائے۔محمل دانت پیس کر کہتی سیٹ بیلٹ کھولنے لگی۔

شکریہ مجھے بتانے کا۔ماہ ویر بنا اُس کی بات کا اثر لیے بولا

اب چلو یا یہی رہنا ہے۔محمل نے ماہ ویر کو گاڑی سے باہر آتا نہ دیکھا تو خود مخاطب کرتے کہا

پیار سے کہو تو آؤ ورنہ اکیلے جاؤ جب بڑے مال میں گم ہوجاؤ گی نہ تو میں ڈھونڈنے بھی نہیں آؤں گا۔ماہ ویر شانِ بے نیازی سے بولا محمل نے مٹھیاں بھینچ کر اپنا غصہ کنٹرول کرنا چاہا

ماہ ویر تنگ مت کرو چلو میرے ساتھ۔محمل نے دانت پیس کر کجھ نرمی اپناتے کہا

پیار سے کہو تو مانوں۔ماہ ویر موبائل میں خود کو مصروف ظاہر کرتا بولا

پلیز چلیں مجھے آپ کے بنا مال وبالِ جال لگے گا آپ کے بنا وہاں گم ہونے کا خدشہ رہے گا سو یو پلیز کم ود می۔محمل نے آنکھیں زور سے بند کرکے کھولی ماہ ویر کے چہرے پہ دلفریب مسکراہٹ نے احاطہ کیا

کتنی فرمانبردار ہو آپ زوجہ۔ماہ ویر گاڑی سے اُترتا اُس کو تنگ کرنے کی خاطر بولا

آپ اِس طرف چلیں یہاں سے لیڈیز کپڑے اچھے ہوتے ہیں نیو کلیکشن ہوگی۔ماہ ویر محمل کا ہاتھ تھامتا بولا محمل حیرت سے اپنا ہاتھ دیکھنے لگی جو ماہ ویر کے ہاتھ میں تھا اُس کو ماہ ویر کا اتنا رلیکس ہونا سمجھ نہیں آرہا تھا

تمہیں بڑا پتا ہے آج سے پہلے کتنی لڑکیوں کے ساتھ یہاں آنے کا شرف حاصل کیا ہے؟محمل اپنی سوچو کو جھٹکتی ہوئی پوچھنے لگی۔

ایمان سے سجو کے ساتھ آیا ہوں ورنہ میں بہت شدید قسم کا شریف لڑکا ہوں۔ماہ ویر نے مسکراہٹ سے کہا

شدید قسم کا شریف کیسا لڑکا ہوتا ہے۔محمل نے تعجب سے پوچھا

جیسا آپ کا شوہر نامدار ہے۔ماہ ویر اُس کے کندھ سے کندھا ٹکڑاتا بولا محمل نے گھور کر اُس کو دیکھا۔

محمل نے اپنی پسند کے بس ایک دو جوڑے ہی لیے تھے جب کی ساری ضرورت کی چیزیں ماہ ویر نے اپنی پسند سے کی تھی میچنگ جوتوں سے لیکر ہلکی پُلکی میچنگ جیولری تک محمل بس حیران پہ حیران ہوئے جارہی تھی ماہ ویر کا اِتنا مطمئن انداز دیکھ کر جو یہ شو کررہا تھا کہ اُن کی شادی لوٙ میریج ہو۔

ایک بات تو بتاؤ۔محمل مال سے باہر آتی ماہ ویر سے بولی۔

کونسی؟ماہ ویر نے پوچھا

تم اتنے مطمئن کیوں ہو جیسے سب ہماری یا تمہاری مرضی سے ہوا ہو تمہیں میرے ساتھ نکاح ہونے پہ کوئی مسئلہ نہیں مطلب سب اتنا اچانک ہوا تمہارا نکاح اُس لڑکی سے ہوا جس کا نام تک تمہیں نہیں معلوم تو تمہیں بُرا یہ غصہ افسوس نہیں ہورہا۔محمل کو سمجھ نہیں آرہا تھا اپنی بات کیسے کریں۔

نہیں کیونکہ میں بہت صابر شکر والا بندہ ہوں جس کا انداز آپ اِس بات سے لگالیں کے میں کل سے آپ کو برداشت کررہا ہوں دوسری یہ کے مجھے ایک بات کا بڑا افسوس ہے میں نے اپنے نکاح کی تصویریں نہیں کلک کی تیار نہیں ہوا بال سیٹ نہیں کروائے شیروانی تو دور کی بات کھسہ تک نہیں تھا۔ماہ ویر کے اپنے ہی انوکھے دکھ تھے محمل تو اُس کے جواب پہ جل بھن کے رہے گئ۔

💕💕💕💕

اِن بلیو ایبل۔فاطمہ حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھی۔

محمل کو ماہ ویر کے ساتھ رہتے ہوئے آج تیسرا دن تھا التمش عالم کی اجازت پہ وہ اپنی دادی سے ملنے آئی تو فاطمہ کو بھی اپنے پاس آنے کا کہا حقیقت کے سارے پننے اُس نے فاطمہ کے سامنے کھولے تو تب سے وہ حیران تھی۔

میں خود بے یقین ہوں یار زندگی عجیب ڈگری پہ چلنے لگی ہے کیا ایسا بھی کسی کے ساتھ ہوتا جیسا میرے ساتھ ہوا اِتنے بڑے گھر میں مجھے اپنا آپ اُضافی لگتا ہے سب کا رویہ میرے ساتھ ایسا ہوتا ہے جیسے میں اُس گھر کی من چاہی بہو ہوں۔محمل نے اپنی اُلجھن بیان کی

تو تم پریشان کیوں ہوتی ہو اگر تمہارے سسرالی اچھے ہیں تو شکر کرو ناکہ ایسے اُلٹی سوچے سوچنے لگو۔فاطمہ نے اُس کو مطمئن کرنا چاہا

پاگل ہو سب انجان ہیں اور انجان لوگوں کے درمیان رہنا کتنا مشکل ہے یہ سب میں جانتی ہوں۔محمل نے نخوت سے کہا

ماہ ویر نام ہے تمہارے شوہر کا۔فاطمہ نے پوچھا تو محمل نے سر کو جنبش دی۔

اُس کا رویہ کیسا ہے تمہارے ساتھ؟فاطمہ نے جاننا چاہا

ایسا جیسے عشق کی شادی ہو۔محمل نے جس انداز میں کہا فاطمہ کی ہنسی چھوٹ گئ۔

محمل ماہ ویر آیا ہے۔منیبہ بیگم اُن کے پاس آتی بولی

وہ کیوں آیا ہے؟محمل نے ناگواری پوچھا

کیا مطلب کیوں آیا ہے شوہر ہے وہ تمہارا صبح سے یہاں ہو اب شام کا وقت ہورہا ہے تو یقیناً تمہیں لینے آیا ہوگا نہ۔منبیہ بیگم نے بُری طرح سے ڈپٹا۔

میں آج آپ کے پاس رکوں گی۔محمل نے لاڈ سے کہا

نہیں بیٹا آج نہیں پھر کبھی رکنا شوہر کی اجازت سے ابھی وہ تمہیں لینے آیا ہے تو جاؤ اُس کے ساتھ۔منیبہ بیگم نے نرمی سے کہا

محمل کمرے سے باہر آئی تو لاوٴنج میں ماہ ویر ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے بیٹھا تھا

کل آجاتی تم کیوں آئے۔محمل نے جل کے پوچھا

ہر وقت کڑوا بادام کھاتی ہو کیا شوہر ہوں تمہارا ادب اخلاق سے پیش آیا کرو ورنہ حوریں لعنت بھیجے گی شوہر کے ساتھ ایسا رویہ اختیارات کرو گی تو۔ماہ ویر نے بڑے بزرگوں کی طرح اُس کو ہدایت کی

اب چلو۔محمل نے اکتاہٹ سے کہا جس پہ ماہ ویر فرمانبرداری سے کھڑا ہوا وہ جیسے ہی صحن کا راستہ عبور کرگئے تو ارسلان تیز قدموں سے محمل تک پہچ کر اُس کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھ کر بولا

محمل تم یہاں تھی آج سارا دن مجھے بتایا کیوں نہیں اور تم کب طلاق لیں رہی ہو میں تمہیں اپنانے کے لیے تیار ہوں بس جلدی سے میرے پاس آجاؤ۔ماہ ویر کے چہرے پہ ناگوار تاثرات آگئے تھے محمل کے ہاتھ کے اُپر ارسلان کا ہاتھ دیکھ کر جس پہ اُس نے اپنا چہرہ دوسری جانب کردیا۔

تم جاب پہ ہوتے ہو تبھی نہیں بتایا ورنہ میں آتی۔محمل ارسلان کی آخری بات نظرانداز کرتی مسکراکر جواب دینے لگی۔

تو اب میں فری ہوں باہر چلتے ہیں۔ارسلان ماہ ویر کو مکمل طور پر نظرانداز کرتا محمل سے بولا

چکر لگاتی رہوں گی پھر کبھی سہی اب تو میں جارہی ہوں۔محمل نے جواب دے کر باہر کی طرف جانے لگی تو ماہ ویر ارسلان کی طرف اپنا رخ کیا۔

میری زوجہ کو اگر کبھی دوبارہ چھونے کی یا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی تو ساری زندگی ایک ہاتھ کے لیے ترستے رہوگے۔ماہ ویر سخت لہجے میں بولا تو ارسلان کو ایک پل کو خوف محسوس ہوا ماہ ویر ایک اچٹنی نگاہ اُس پہ ڈالتا باہر کے راستے کی طرف بڑھا

💕💕💕💕

میرے لیے چائے بنا آؤ۔ماہ ویر کمرے میں آتا محمل کو حکم دیتا بولا

میں کیوں بناؤں اتنی فوج ہے ملازموں کی اُن سے کہو۔محمل نے گھور کر اُس سے کہا

نکاح تو میرا آپ کے ساتھ ہوا ہے نہ ملازموں کی پوری فوج کے ساتھ نہیں اِس لیے آپ بناکر لائے ورنہ میں آپ کی گود میں سر رکھ کر لیٹ جاؤں گا۔ماہ ویر نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا تو محمل پاؤں پٹختی کمرے سے باہر گئ ماہ ویر بھی مسکراتا بیڈ پہ سیدھا لیٹ گیا

ایسی چائے بناؤں گی زندگی بھر یاد رکھے گا۔کچن میں آتی محمل خود سے بڑبڑائی۔

پانی گرم کرنے کے بعد اُس نے دودھ ڈالا دودھ کے بعد پتی ڈالنے کے بعد چینی کے بجائے اُس نے کالی مرچوں کا ڈھیر اور لال مرچ ڈالی چہرے پہ شیطانی مسکراہٹ سجائے وہ کپ کو دیکھنے لگی جس پہ چائے کا رنگ کالا ہوگیا

اتنی ڈارک بلیک چائے تو نہیں پیے گا کمینہ بہت ہوشیار ہے ایسا کرتی ہوں رنگ ٹھیک کرنے کے لیے ہلدی کا استعال کرتی ہوں۔محمل خود سے پلان ترتیب دیتی خود کو شاباشی دینے لگی انتھنک محنت کے بعد چائے کے نام پہ جو اُس نے تجربہ کیا تھا اُس کا رنگ بہتر ہوگیا تھا

اب یہ چائے پینے کے بعد وہ آپے سے باہر ہوجائے گا مجھ پہ چلائے گا پھر میں انکل سے کہوں گی مجھے طلاق لیکر دے اُس کے بعد میں اپنی پہلے کی طرح زندگی گُزارنے لگوں گی۔محمل سوہانے خیالات سوچتی کمرے میں داخل ہوئی جہاں ماہ ویر اُس کے انتظار میں تھا ماہ ویر کو دیکھ کر اُس کے چہرے پہ معنی خیز مسکراہٹ آگئ ماہ ویر کو اپنے پاس خطرے کی گھنٹیاں بجتی سنائی دینے لگی محمل کا اُس کو دیکھ کر مسکرانا یہ بات ماہ ویر چاہ کر بھی ہضم نہیں کرپارہا تھا۔

زوجہ محترمہ اگر آپ اپنی خوبصورت مسکراہٹ سے مجھے گھائل کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے آپ کو زیرو مارکس ملے ہیں کیونکہ میرا کردار پہاڑ سے زیادہ مضبوط ہے۔ماہ ویر غرور سے بولا

چائے پیو۔محمل صبر کا دامن تھامتی بولی فلحال وہ ماہ ویر کو شک میں نہیں ڈالنا چاہتی تھی۔

یہ کس قسم کی چائے ہیں کیا تم نے ایجاد کی ہے کیونکہ آج سے پہلے تو میں نے اتنی پیلی چائے نہیں دیکھی۔ماہ ویر ہاتھ میں چائے کا کپ کیتا غور سے اُس کا جائزہ لیتا مشکوک نظروں سے محمل کو دیکھنے لگا جو اُس کے سوال پہ بوکحھلاہٹ کا شکار ہوئی تھی۔

پینا ہے تو پیو نہیں تو رہنے دو میں نے خاص چائے بنائی تھی تمہارے لیے  ادرک عرف کالے( مرچے) الائچی عرف(لال مرچ) تھوڑا سا گُڑھ عرف(ہلدی) یہ سب ملاکر۔محمل نے ایک سانس میں اپنی بنائی ہوئی چائے کے اندر موجود خصوصیات بتانے لگی کجھ زبان سے تو کجھ دل میں سوچ سکی

اچھا پیتا ہوں۔ماہ ویر نے کہہ کر ایک گھونٹ بھرا تھا اُس کو لگا جیسے زہر سے زیادہ زہریلی چیز منہ میں ڈال دی ہو ایک پل خیال آیا منہ سے نکال دے مگر محمل کی چیلنج کرتی نظروں کو محسوس کرتے خود پہ جبر کرتا وہ زہر آہستہ آہستہ اپنے حلق میں اُتارنے لگا محمل کی آنکھیں منہ دونوں حیرت سے کُھلی کی کھلی رہ گئ سامنے خالی کپ کو دیکھ کر اُس کو اپنے سارے خیالات غلط ہوتے ہوئے لگے۔

زوجہ آپ بہت کیوٹ ہو۔ماہ ویر زبردستی چہرے پہ مسکراہٹ سجاکر محمل کا گال سہلاکر بولا پھر اُس کو حیران چھوڑتا خود واشروم کی طرف پہلے آہستہ پر تیز قدموں میں داخل ہوا۔

یا وحشت۔ماہ ویر واشروم میں آتا یہاں وہاں ٹہلتا ہوا بولا اُس کا پورا منہ جل رہا تھا بیسن کے پاس آتے اُس نے جھٹ سے اپنا ٹوتھ برش لیا اُس میں پیسٹ ڈال کر جلدی سے برش کرتا بقول محمل کے خاص چائے کا اثر زائل کرنے لگا۔

لگتا ہے کام ہوگیا پر یہ چیخا کیوں نہیں۔واشروم کے دروازے کے پاس کھڑی محمل تانے بانے  جوڑنے لگی۔

شاید کجھ دیر بعد چلائے۔اپنی سوچ سے مطمئن ہوتی محمل آرام سے کاؤچ پہ بیٹھتی اُس کا انتظار کرنے لگی۔

آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت ہوگیا تھا پر ماہ ویر نہ آیا تو اُس کو کجھ پریشانی ہوئی۔

مر ور تو نہیں گیا۔محمل ناخن چپاکر اندازے لگانے لگی۔

دروازہ نوک کرنے والی تھی پر تب ماہ ویر بھیگے بالوں سمیت آتا دیکھائی دیا اُس کا سرخ چہرہ اندرونی انتشار بیان کررہا تھا۔

کیا ہوا۔محمل نے مصنوعی فکرمندی دیکھائی

کجھ ہونا تھا کیا؟ماہ ویر نے اُلٹا اُس سے سوال کیا تو محمل نے جھٹ سے سر کو نفی میں جنبش دی۔

تو سوجاؤ پھر۔ماہ ویر کہہ کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا ہوا۔

تم نے بتایا نہیں چائے کیسی تھی؟محمل اُس کے  پاس آتی پوچھنے لگی۔

بہت اچھی اتنی کے میں دوبارہ پینا کبھی پسند نہیں کروں گا۔ماہ ویر فکرمند سا اپنی سرخ رنگت دیکھ کر محمل کو جواب دینے لگا۔

تمہارا چہرہ اتنا لال کیوں ہورہا ہے۔محمل کو اُس  کو تنگ کرنے کی خاطر پوچھنے لگی۔

کیونکہ میری رنگت بہت گوری سفید چٹی دودھ ملائی جیسی ہے اور جس کی رنگت میں اتنی ساری خصوصیات عرف (تمہارے جیسی بیوی ہو )۔اُس کی رنگت پھر لال زیادہ رہتی ہے ۔ماہ ویر زچ ہوتا بولا

غصہ کیوں ہورہے ہو۔محمل اپنی ہنسی کنٹرول کیے بولی

تم سوجاؤ میرا سر مت کھپاؤ۔ماہ ویر اُس کے سامنے ہاتھ جوڑتا بولا۔

تمہیں نیند نہیں آرہی کیا۔محمل آج سارے حساب بے باک کرنے میں تھی 

جانے کہاں پھس گیا میں۔ماہ ویر کوفت سے کہتا کمرے نکل گیا اُس کی حالت پہ محمل ہنس پڑی۔

اپنے کمرے سے نکل کر ماہ ویر گیسٹ روم کی طرف آیا تھا وہاں لیٹ کر ابھی دومنٹ ہوئے تھے جب اُس کو اپنے پیٹ سے عجیب وغریب آوازیں آنے لگی۔

یا وحشت۔ماہ ویر پریشانی سے اپنے پیٹ پہ ہاتھ رکھتا بڑبڑایا۔

اللہ پوچھے آپ سے زوجہ۔ماہ ویر اتنا کہہ کر گیسٹ روم میں اٹیچ واشروم کی جانب گیا

پانچ منٹ بعد واپس آکر دوبارہ لیٹا تو پھر سے پیٹ سے گڑگڑ کی آوازیں آنے لگی ماہ ویر کی شکل رونے والی ہوگئ تھی اُس نے پاس پڑا تکیہ اُٹھا کر چہرے پہ رکھا جب مزید برداشت نہیں ہوا تو پھر سے واشروم کی طرف بھاگا

بلاشبہ ماہ ویر کی زندگی کی یہ پہلی رات تھی جو کمرے سے واشروم اور واشروم سے کمرے میں چکر لگانے میں گُزری تھی۔

💕💕💕💕💕

نیا دن شروع ہوا تو محمل بھرپور انگڑائی لیکر نیند سے بیدار ہوئی اُس نے مسکراکر بیڈ کی دوسری سائیڈ دیکھا تو وہ جگہ خالی تھی بے شکن چادر دیکھ کر اُس کو اندازہ ہوا کہ ماہ ویر ساری رات کمرے میں نہیں آیا تھا۔

یہ کہاں گیا۔محمل کو تعجب ہوا۔

میرا بلا سے جہاں بھی ہو۔محمل سر جھٹک کر کہتی فریش ہونے کے لیے واشروم کی طرف گئ

آدھے گھنٹے بعد وہ باہر آئی تو سب ہال میں موجود تھے سوائے ماہ ویر کے جب کی نرمین اور رامین ملازمہ سے مل کر ٹیبل پہ ناشتہ سیٹ کروا رہی تھی محمل نے آکر سب کو سلام کیا

بھائی نہیں جاگے کیا؟سجل نے اُس کو اکیلے آتا دیکھا تو پوچھا

وہ تو کمرے میں نہیں ہے۔محمل نے جواب دیا

لگتا ہے پھر کسی دوست کی طرف رُک گیا۔شمس نے التمش عالم کو لب بھینچتے دیکھا تو کہا۔

ویر صاحب گیسٹ روم میں ہیں۔ملازمہ نے بتایا تو سب نے سوالیہ نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا۔

میں بھائی کو اُٹھا کر لاتی ہوں۔سجل التمش عالم کے کھڑے ہونے سے پہلے اُٹھ کھڑی ہوئی

رکو تم محمل بیٹا آپ اُس کو یہاں لیکر آؤ۔التمش عالم نے کرخت آواز میں سجل کو روک کر محمل سے کہا

آپ مجھے گیسٹ روم دیکھائے۔محمل نے پاس کھڑی ملازمہ سے کہا تو وہ سرہلاتی ایک طرف چلنے لگی تو محمل بھی اُس کی معیت میں ایک کشادہ اور خوبصورت کمرے میں آئی جہاں ہر چیز وائٹ کلر سے ڈیکوریٹ تھی۔

ماہ ویر۔

ماہ ویر اُٹھ جاؤ تمہارے بابا صاحب انتظار کررہے ہیں باہر۔محمل ماہ ویر کے سر پہ کھڑی آوازیں دینے لگی جو بیڈ پہ اُلٹا لیٹ کر منہ کے اُپر تکیہ رکھ کے سویا ہوا تھا ایک ہاتھ بیڈ سے لٹک رہا تھا تو دوسرا ہاتھ تکیہ پہ تھا جب کی دونوں ٹانگیں پورے بیڈ پہ پھیلی ہوئی تھی ماہ ویر کے سونے کا طریقہ دیکھ کر محمل نے نفی میں سرہلایا۔

گدھے گھوڑوں سے شرط لگاکر سوئے ہو کیا۔محمل نے تپ کے کہا جس کے وجود میں ہلکی سی بھی جنبش نہیں ہوئی کی۔

تمہارے ہاتھ کی خاص چائے پی کر سویا ہوں۔جواب فٹ سے ملا محمل نے آنکھیں سکوڑ کر اُس کو گھورا جو اپنی جگہ سے ابھی تک ہلا تک نہیں تھا۔

جاگ رہے ہو تو اُٹھ کیوں نہیں رہے خوامخواہ میری انرجی ویسٹ کی۔محمل نے غصے سے کہا

زوجہ میں سویا کب تھا۔ماہ ویر سیدھا ہوکر اپنا ہاتھ اُس کی طرف بڑھاکر اُس کو اپنے پہلو میں بیٹھا کر بولا

محمل ماہ ویر کی پیلی ہوتی رنگت دیکھی تو اُس کو احساسِ شرمندگی نے جکڑا اُس کو اب محسوس ہوا کل وہ کجھ زیادہ ہی زیادتی کرگئ تھی ماہ ویر کے ساتھ اُس کی آواز میں بوجھل پن جب کی آنکھیں سرخ تھی جو اُس کے ساری رات جاگنے کی غمیازی کررہے تھے۔

کیا طبیعت زیادہ خراب ہے۔محمل کے فکرمندی سے پوچھے گئے سوال پہ ماہ ویر کے چہرے پہ مسکراہٹ چھاگئ۔

کونسا آپ نے خدمت کرنی ہے جو پوچھ رہی ہیں۔ماہ ویر اپنی پیشںانی زور سے محمل کی پیشانی سے ٹکڑا کر کہا محمل کو آنکھوں کے سامنے تارے ناچتے نظر آنے لگے۔

تم انتہا کے کوئی فضول سے فضول ترین انسان ہو۔محمل اپنا سر تھامتی غراکر ماہ ویر سے بولی اُس کے اندر جو کجھ منٹ پہلے ماہ ویر کے لیے ہمدردی جاگی تھی ماہ ویر کی حرکت پہ ختم ہوگئ تھی

میں آپ کا شوہر ہوں۔ماہ ویر مزے سے کہتا بیڈ سے اُترا۔

جاہل۔محمل بڑبڑاتی اپنا ڈوپٹہ ٹھیک کرنے لگی

جاہل۔ہوتا تو نکاح پیپرز پہ سائن کیسے کرتا۔ماہ ویر نے اُس کو مزید تپایا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گیسٹ روم میں قیام کرنے کی کوئی خاص وجہ؟ناشتے کے بعد ماہ ویر سرجھکائے اپنے باپ کے دربار میں حاضر تھا جو چہرے پہ سختی لائے اُس کو گھور رہے تھے۔

کل وہاں تھا تو نیند آگئ۔ماہ ویر نے بہانا بنایا۔

جیسے بھی نکاح ہوا پر اب تم شادی شدہ ہوا اِس لیے اپنی حرکتوں میں سُدھار لاؤ۔التمش عالم نے سنجیدگی سے کہا

کونسی حرکتیں کرلی اب میں نے۔ماہ ویر بے زاری سے بولا

آفس کیوں نہیں آرہے تم؟التمش عالم نے پوچھا

نیولی شادی ہوئی ہے میری۔ماہ ویر نے دانتوں کی نمائش کی۔

بہانے بہت ہیں تمہارے پاس تیار ہوکر آفس جاؤ ایک بہت بڑا پراجکیٹ ہے جس پہ تمہیں سنجیدہ ہوکر کام کرنا ہے اگر پراجیکٹ ہمارے ساتھ نکلا تو پروبلم ہوگی ہمارے لیے اِس لیے اپنا فوکس وہی پہ کرو میں اور شمس بہت سالوں سے اِس پراجکیٹ کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔التمش عالم نے اُس کو سمجھانے کی خاطر کہا

ڈونٹ وری ڈیڈ میں سب ہینڈل کرلوں گا اینڈ ایم شیور کنٹریکٹ پیپرز پہ سائن ہمارے ہوگے۔ماہ ویر مظبوط لہجے میں بولا۔

اللہ کریں بس تم اپنی شوخیہ ختم نہیں تو کم کرلوں۔التمش عالم نے کہا مگر وہ جانتے تھے سامنے والے پہ اثر نہیں ہونا

💕💕💕💕💕💕

جب سے دیکھا تم کو

ہم تو کھوئے کھوئے کھوئے

 رہتے ہیں

جب سے چاہا تم کو 

ہم تو کھوئے کھوئے کھوئے

رہتے ہیں۔

ماہ ویر بیڈ کی ایک سائیڈ پہ ٹانگیں سیدھے کیا گود میں لیپ ٹاپ لیے اپنے آفس کا کام کررہا تھا ساتھ میں گانا بھی گارہا تھا دوسری سائیڈ پہ ناخن منہ میں چباتی محمل بیٹھی ہوئی تھی۔

جانے کس کو دیکھ آیا ہے کمینہ جو ابھی تک کھویا ہوا ہے۔محمل نے ٹیڑھی نظروں سے اُس کو دیکھ کر جل کے سوچا

ماہ ویر نے محمل کی نظریں خود پہ محسوس کی تو لیپ ٹاپ سے نظر ہٹا کر اُس کی طرف رخ کیا جو گھور گھور کر اُس کو دیکھ رہی تھی۔

دیکھ مگر پیار سے۔ماہ ویر نے آنکھ ونک کرتے کہا تو محمل نے اپنی نظروں کا زاویہ بدلا۔

بات کرنی ہے تم سے۔تھوڑی بعد محمل نے کہا

میں سن رہا ہوں۔ماہ ویر نے جواب دیا

تم

محمل کی بات موبائل پہ آتی کال نے بیچ میں روک تھی محمل نے سائیڈ ٹیبل سے موبائل اُٹھایا تو ارسلان کالنگ لِکھا آرہا تھا جو ماہ ویر کی نظر سے پوشیدہ نہ رہ سکا

کال سن کر آکر کرتی ہوں بات۔محمل اتنا کہتی کمرے سے باہر نکل گئ کجھ پل تو ماہ ویر بند دروازے کو گھورتا رہا پھر سرجھٹک کر اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔

------------------------

محمل کیا تمہارا وہاں دل لگ گیا ہے جو طلاق نہیں لیں رہی تم کیسے اُس لڑکے کے ساتھ رہ سکتی ہو جس کے ساتھ تمہارا رشتہ محض ایک غلط فہمی کی بنیاد پہ بنا ہے۔محمل نے جیسے کال ریسیو کی ارسلان پھٹ پڑا۔

ارسلان رلیکس میں خود پریشان ہوں میں خود اُس سے علیحدگی اختیار کرنا چاہتی ہوں اب بھی اُس سلسلے میں بات کرنے والی تھی پر تمہاری کال آگئ۔محمل نے گہری سانس لیکر ارسلان کو جواب دیا۔

تو کرو بات اُس سے کہو آج ہی تمہیں طلاق دے۔ارسلان گہری مسکراہٹ سے بولا

بات کروں دیکھتی ہوں کیا کہتا ہے وہ۔محمل نے پرسوچ ہوکر کہا

اُس کو کیا کہنا ہے تم بس اُس پہ دباؤ ڈالو یا کجھ ایسا کرو جس پہ وہ مجبور ہوجائے تمہیں چھوڑنے پہ۔ارسلان نے پلان ترتیب دیا محمل کی آنکھوں کے سامنے گُزرا ہوا واقع گھوما جب اُس نے ماہ ویر کو مرچوں والی چائے پلائی تھی۔

میں پھر بات کرتی ہوں۔محمل نے کہہ کر کال ڈسکنکٹ کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تم خود مجھے طلاق دے رہے ہو یا میں انکل التمش سے بات کروں۔محمل نے دو ٹوک انداز میں ماہ ویر سے کہا جس کا پورا دھیان فائل ریڈ کرنے میں تھا۔

انکل التمش سے بات کروں فلحال میں بہت مصروف ہوں۔ماہ ویر نے آرام سے جواب دیا

تمہارا مسئلا کیا ہے آخر چھوڑ کیوں نہیں رہے مجھے۔محمل نے تنگ آکر کہا

یہ دیکھو۔ماہ ویر نے اُس کے سامنے فائل لہرائی

میں اِس کو پکڑ کے بیٹھا ہوں آپ چار قدموں کی دوری پہ ہیں۔ماہ ویر نے مسکراہٹ دباکر کہا

جس پہ محمل پاؤں پٹخ کر باہر نکل گئ

کجھ دن بعد!

محمل نے اپنی طرف سے ہر کوشش کی ماہ ویر کو زچ کرنے کی پر ماہ ویر نے بنا کوئی رد عمل لیے خاموش رہا محمل کبھی اُس کے استری شدہ کپڑے خراب کرتی تو کبھی اُس کی ضروری چیز خراب کرتی ماہ ویر تب بھی خاموش رہتا اِس لیے اب محمل کجھ بڑا کرنے کی سوچ میں تھی۔

فاطمہ کا رشتہ اُس کی ماں نے اپنی پسند سے طے کرلیا تھا جس پہ فاطمہ نے اپنا سرجھکا کر رضامندی دی تھی۔

تم سوچ لوں اگر شادی نہیں کرنی تو میں آنٹی سے بات کروں۔محمل آج فاطمہ سے ملنے آئی تھی تبھی اُس کو پریشان دیکھا تو کہا

میں نے سوچ لیا ہے محمل میں اب اپنی والدہ کے فیصلے پہ سرجھکالوں گی میں نے اپنی مرضیاں بہت کرلی جس کا انجام بہت بھیانک ثابت ہوا اِس لیے میں کوئی دوسری کوتاہی نہیں کروں گی تم بس دعا کرنا اللہ مجھے ثابت قدم رکھے۔فاطمہ نے مسکراکر کہا

میں تمہارے لیے دعا کرتی ہوں انشااللہ سب ٹھیک ہوگا۔محمل نے مسکراکر اُس کو تسلی دی

تم بہت اچھی ہو محمل مجھے ہر بار ڈیفائن کیا ہے تمہاری جیسی مخلص دوست کو میں کبھی کھونا نہیں چاہوں گی۔فاطمہ نے صدق دل سے کہا

میں بھی۔محمل نے ہنس کر کہا

💕💕💕💕💕

آپ کی طبعیت ٹھیک نہیں کیا؟محمل نے  لاؤنج میں بیٹھی رامین کو اپنا سر دباتے دیکھا تو پوچھا اُس کی بات پہ سجل کے ساتھ گیم کِھیلتا ماہ ویر بھی اُن کی طرف متوجہ ہوا۔

ہاں سر میں کجھ درد ہے۔رامین نے مسکراکر کہا

اوو میں چائے بہت زبردست بناتی ہوں آپ کے لیے بھی بناتی ہوں دیکھیے گا سر درد منٹوں میں ختم ہوجائے گا۔محمل نے فراخدلی سے کہا

اِن کی معصومیت پہ نہ جانا

اِن کے دوھوکے میں ہرگز نہ آنا۔

محمل کی بات پہ ماہ ویر کو اپنی حالت یاد آئی تبھی تیز آواز میں گانا گایا جس پہ محمل نے وارن کرتی نظروں سے اُس کو دیکھا

خوامخواہ تمہیں تکلف ہوگا میں نے ملازمہ سے کہا ہے وہ بنا رہی ہے۔رامین نے سہولت سے انکار کیا تو زور محمل نے بھی نہیں دیا۔

محمل کمرے میں آئی تو اُس کو ایک فائل ٹیبل پہ نظر آئی اُس کو جھماکا ہوا کجھ دنوں سے سارا وقت ماہ ویر اُس پہ سرکھپاتا تھا محمل پہ آنکھوں میں چمک اُبھری اُس نے سب سے پہلے دروازہ لاک کیا اُس کے بعد وہ فائل لیکر بنا دیر کیے وارڈروب کی طرف آئی وہاں کلرفل پینسلز لیکر بیچوں بیچ پیچز پہ بچوں کی طرح اُس فائل پہ نقش و انگارے بنانے لگی تاکہ ماہ ویر کو شک نہ ہو اپنی کاروائی سے مطمئن ہوتی فائل کو اپنی جگہ پہ رکھ لیا۔

اب تو ماہ ویر عالم مجھے ضرور چھوڑے گا۔محمل گہری مسکراہٹ سے سوچنے لگی۔

💕💕💕💕💕

سب ناشتے کی ٹیبل پہ موجود ناشتہ کرنے میں مصروف تھے محمل کی نگاہ خالی چیئر پہ اٹکتی تھی وہ جب سے یہاں آئی تھی اِس جگہ کو خالی دیکھا تو جو یقیناً ماہ ویر کی ماں کی تھی محمل اکثر سوچتی ماہ ویر کی ماں کے بارے میں پر کبھی کسی سے پوچھنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔

پریپئر تیاری ہے نہ تمہاری۔محمل کی سوچ کو اسٹاپ التمش عالم کی آواز نے لگایا جو ماہ ویر سے مخاطب تھے۔

یس بابا صاحب آپ فکر نہیں کریں میں نے آپ کے کہے مطابق اپنا سارا فوکس اُس پراجکیٹ پہ ڈالا تھا جو جس کو حاصل کرنا  آپ کے لیے ضروری ہے اور انشااللہ وہ ہمیں ملے گا آپ کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ماہ ویر کی چہکتی آواز پہ محمل کا دل ڈوب کے اُبھرا تھا دل کے دھڑکن اچانک تیز ہوگئ تھی۔

امید ہے یقین کا نہیں کہہ سکتا پر میں نے بہت امید سے تمہیں یہ کام دیا تھا تاکہ تم کجھ سیکھ سکھو یہ بہت بڑا پراجیکٹ ہوگا ہماری کمپنی کے لیے جس کا ملنا ہمارے لیے فائدہ ہوگا پر اگر نہیں ملا تو اُس سے زیادہ نقصان بھی ہوگا۔محمل کو اپنا وہاں بیٹھنا محال لگا اُس کو شدت سے اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا جو جانے انجانے میں وہ کرچُکی تھی۔

اچھا میں آفس جارہا ہوں۔ماہ ویر نیپکن سے ہاتھ صاف کرتا بولا اُس کے اُٹھتے ہی ملازم نے فائل ماہ ویر کی جانب بڑھائی فائل کو دیکھ کر محمل کا گلا خشک ہوا اُس نے ماہ ویر کو باہر جاتا دیکھا تو بھاگ کر اُس کے پیچھے آئی تاکہ اپنی بات اُس کو بتاسکے۔

ماہ ویر۔

اپنے نام کی پُکار پہ ماہ ویر جو پورچ کی طرف بڑھ رہا تھا پلٹ کر دیکھا جہاں ہانپتی محمل کھڑی تھی۔

زوجہ آج تو آپ اچھی بیویوں کی طرح اپنے شوہر کو سی آف کرنے آئی ہیں۔ماہ ویر شوخ لہجے میں محمل سے بولا

بات بتانی ہے ضروری۔محمل نے کہا

واپس آؤں تو آج میں آپ کو باہر لونگ ڈرائیو پہ لیں چلوں گا ڈنر بھی باہر کریں گے۔ماہ ویر اُس کی بات نظرانداز کیے بولا اُس کو لگا آج پھر محمل طلاق کی بات کریں گی۔

ضروری بات ہے پلیز سن لو

زوجہ کہا نہ بعد میں اچھے سے آپ کو بائے کہنا بھی نہیں آتا میں لیٹ ہورہا ہوں تو جارہا ہوں پر واپس آکر آپ کی ساری بات سنوں گا۔ماہ ویر اُس کا گال تھتھپاکر پچکارتے ہوئے کہا محمل نے بے بسی سے اُس کو دیکھا۔

💕💕💕💕💕💕

ایک بات پوچھو۔محمل نے پاس بیٹھی۔سجل سے کہا

جی پوچھے۔سجل نے مسکراکر کہا

تمہاری موم کہاں ہوتی ہیں؟محمل غور سے اُس کی طرف دیکھ کر پوچھا جس کے چہرے کا رنگ فق ہوگیا تھا

میری والدہ کا انتقال ہوگیا ہے آج سے کئ سال پہلے۔سجل نے سرد سانس کھینچ کر کہا

او سوری۔محمل کو شرمندگی ہوئی۔ا

آپ شرمندہ مت ہو۔سجل نے اُس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر کہا

💕💕💕💕

پریزیٹیشن تیار ہے نہ۔التمش عالم نے ماہ ویر سے پوچھا۔

یس بابا صاحب آپ پریشان کیوں ہورہے ہیں۔ماہ ویر نے اُن کو رلیکس کرنا چاہا۔

مجھے تم سے اچھے کی اُمید جو نہیں۔التمش عالم کی بات پہ ماہ ویر کا منہ بن گیا

دس منٹ بعد وہ سب کانفرنس روم میں تھے جہاں اور بھی نامور بزنس مین شام تھے تھوڑی دیر بعد جب ماہ ویر سے فائل لیکر التمش عالم نے زئی انڈسٹری کے اونر کی طرف بڑھائی جن سے اُن کو کنٹریکٹ کرنا تھا۔

یہ کیا مذاق ہے عالم صاحب۔انہوں نے فائل میز پہ پٹخ کر کہا ماہ ویر جو کرسی سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا یکدم سیدھا ہوا۔

کیا مطلب۔التمش عالم نے ایک نظر ماہ ویر پہ ڈال کر سنجیدگی سے استفسار کیا

سوری ٹو سے پر ہم یہ پراجکیٹ آفندی انڈسٹری کے ساتھ کریں گے۔مسٹر زئی نے کہا

بیس منٹ بعد جب سب کانفرنس روم سے باہر جانے لگے تو ماہ ویر نے اُن سے پوچھا تو زئی نے خاموشی سے فائل اُن کے سامنے کھول کر دیکھائی جس سے ماہ ویر کے چہرے کا رنگ اُڑا التمش عالم مٹھیاں بھینچ کر رہ گئے۔

ماہ ویر خاموش بت بن کے کھڑا وہ جانتا تھا یہ حرکت کس نے کی ہے اُس کو شدید غصہ آیا تھا محمل پہ۔

بابا صاحب 

ماہ ویر نے بس اتنا کہا تھا کہ التمش عالم باہر کی طرح بڑھے جس سے ماہ ویر بھی اُن کے پیچیدہ لپکا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمل سیڑھیوں سے نیچے اُتر کر آئی تو سب کو پریشان دیکھا۔

کیا ہوا۔محمل نے بس اتنا کہا تھا پر ہال کے داخلی دروازے سے تیز بھاری قدموں کی آواز نے اُس کو اپنی طرف متوجہ کیا التمش عالم کا سرخ رنگ اُن کے اشتعال کا پتا بتارہا تھا۔

بابا صاحب میری بات تو سنیں۔ماہ ویر کی اُڑی رنگت نے اُس کو سب سمجھادیا تھا کہ کیا ہوا۔

کیا سنوں ہاں کیا سنوں سالوں سے تمہاری نالائقی اور بدتمیزیوں کے قصے سنتا آیا ہوں پر آج تو میرا مان رکھا ہوتا۔التمش عالم نے دھاڑ کر سب کا دل اچھل کر حلق میں آیا تھا ماہ ویر کو پہلی دفع التمش عالم کا غصہ بُرا لگ رہا تھا ورنہ ہمیشہ تو وہ مسکراکر اُن کی ڈانٹا سنتا تھا

بابا ص

چٹاخ۔

التمش عالم کا بھاری ہاتھ اُس کے گال پہ نشان چھوڑ گیا محمل کی آنکھیں پھیل گئ تھی سجل نم آنکھوں سے ماہ ویر کو دیکھنے لگی

اپنی شکل مجھے مت دیکھانا ساری عمر تم سب عیاشی کرنا چاہتے ہو تو مبارک ہو جو کرنا ہے کرو پر میں کجھ نہیں کہوں گا۔التمش عالم کا غصے سے سانس پُھول گیا تھا ماہ ویر خاموش سا آگے بھر کر سجل کو اپنے ساتھ لگایا جس کا چہرہ آنسوؤ سے بھیگ گیا تھا۔

آپ میرے ساتھ زیادتی کررہے ہیں بابا صاحب۔ماہ ویر سنجیدگی سے بولا

آزاد کرتا ہوں پھر آج میں۔التمش عالم کہہ کر اُپر کی جانب بڑھے۔

ماہ ویر۔محمل ماہ ویر کے پاس آئی پر جواب میں ماہ ویر نے جن نظروں سے اُس کو دیکھا محمل اُس سے شرم سے پانی پانی ہوگئ۔

💕💕💕💕💕💕💕

ماہ ویر میں تم سے بات کرنا چاہتی ہوں۔محمل نے انگلیاں چٹخائے ماہ ویر سے کہا جو وارڈروب میں جانے کیا تلاش کررہا تھا۔

پہلے نہیں پر اب آپ فکر نہیں کرے آپ کی خواہش جلد پوری ہوجائے گی۔ماہ ویر بنا اُس کی طرف دیکھ کر بولا محمل ناسمجھی۔سے اُس کی جانب دیکھا۔

کونسی خواہش۔محمل نے اُلجھ کر پوچھا

طلاق چاہتی ہیں نہ آپ کرتا ہوں میں بات وکیل سے جلد آپ کو اپنے نام سے آزاد کردوں گا۔محمل کو لگا جیسے اُس کا دل کسی نے روند دیا ہوا ہمیشہ وہ یہ چاہتی تھی پر آج ماہ ویر سے یہ بات سن کر اُس کا دل بُلبُلا اُٹھا تھا۔

سوری ماہ ویر میری وجہ سے انکل نے تم پہ غصہ کیا میں شرمندہ ہوں صبح تمہیں بتانا چاہتی تھی پر تم نے میری بات نہیں سنی۔محمل نے سرجھکا کر کہا

جی میری غلطی۔ماہ ویر نے بے تاثر لہجے میں کہا

میں یہ نہیں کہہ رہی تمہاری غلطی ہے میں تم سے بس ایکسکیوز کرنا چاہتی ہوں انکل التمش کو میں بتادو گی تمہاری نہیں میری وجہ سے اُن  کا نقصان ہوا ہے۔محمل نے کہا

بڑا شکریہ پر مجھ ناچیز پہ ایسا احسان کرنے کی ضرورت نہیں آپ نے یہ سب اِس لیے کیا نہ تاکہ میں آپ کو طلاق دوں تو میں آپ کو طلاق دے دوں گا آپ کو میں میرے گھر والے پسند نہیں تو ٹھیک ہے میں بھی کجھ نہیں کہوں گا زبردستی کا قائل میں بھی نہیں آپ کے لیے مجھے قبول کرنا مشکل تھا آپ نے کبھی سوچا میرے لیے بھی مشکل ہوگا ایک ایسی لڑکی کو اپنی زندگی میں قبول کرنا جس سے میری دو حادثاتی ملاقاتیں ہوئی تیسری میں میرا نکاح اُس سے ہوگیا جس کا نام تک مجھے معلوم نہیں تھا پر میں جو بھی تھا جیسا بھی تھا فضول تھا نالائق تھا پر نکاح کا مطلب جانتا تھا اِس لیے دل سے آپ کو قبول کیا کوشش کی آپ کو خوش رکھنے کی آپ کو کوئی شکایت نہ ہو طلاق اللہ کی نظر میں ایک ناپسندیدہ فعل ہے آپ اپنے اللہ کے سامنے سرخرو ہونا چاہتا تھا آپ کو اپنے ساتھ زندگی بھر رکھنا چاہتا تھا آپ کے لیے جذبات رکھنے لگا تھا چاہنے لگا تھا آپ کو پر آپ کا بہت شکریہ مجھ حقیقت آپ نے آشکار کی آپ میری اپنے کزن ارسلان (کمینے) کی ہے مجھ سے تو آپ کو بس رہائی چاہیے جو جلد آپ کو مل جائے گی۔ماہ ویر بولنے پہ آیا تو محمل کو بولنے کے قابل نہ چھوڑا اور دنگ سی ماہ ویر کو دیکھنے لگی جس کے چہرے میں سوائے سنجیدگی کے کجھ نہ تھا پہلے کی طرح نہ شرارت تھی آنکھوں میں نہ چمک اور نہ لبوں پہ طیز کرنے والی مسکراہٹ 

تم غصہ ہو میری وجہ سے تمہیں تھپڑ پڑا پر ماہ ویر ایسی باتیں مت کرو۔محمل نے ماہ ویر کا ہاتھ تھامنا چاہا جو ماہ ویر نے جھٹک دیا

وہ میرے والد ہے اُن کا حق ہے مجھ پہ پر ایک بات میں کہوں گا زندگی میں مجھے دو تھپڑ پڑے ہیں وہ بھی آپ کی وجہ سے پر جب پہلی دفع تھپڑ پڑا تھا تب تکلیف نہیں ہوئی تھی پر اِس بار مجھے اپنے چہرے پہ ابھی بھی جلن محسوس ہورہی ہے آج میری بہن کی آنکھوں میں نمی اُتری تھی جو میرے لیے ناقابلِ برداشت تھی۔ماہ ویر سنجیدگی سے بھرپور لہجے میں بولا محمل کا دل کٹ کے رہ گیا تھا۔

ماہ

محمل پلیز نو ایکسپلینیشن۔ماہ ویر نے کہا تو محمل کو آج سے پہلے کبھی اپنا نام اتنا بُرا نہیں لگا جتنا ماہ ویر کے منہ سے زوجہ کے بجائے محمل سنا تو۔

سوری۔محمل نے ندامت سے کہا

آپ کے کزن کی کال ہوگی بتادے اُس کو جلد آپ اُن کے پاس آئے گی۔محمل کا فون رنگ کرنے لگا تو ماہ ویر عجیب مسکراہٹ سے بول کر کمرے سے باہر چلاگیا محمل کی آنکھوں سے آنسو گر کر کارپٹ میں جذب ہوگیا

💕💕💕💕💕💕💕

آپ کب سے بابا صاحب کے غصے کو اتنا سیریس لینے لگے۔سجل ٹیرس پہ کھڑے ماہ ویر کے پاس کھڑے ہوکر پوچھا

ایسی بات نہیں بس افسوس ہورہا ہے میری وجہ سے بابا صاحب کا کروڑوں کا نقصان ہوگیا۔ماہ ویر آسمان کی جانب دیکھتا بولا

یہ سب ہونا تھا اگر آپ کی وجہ سے نہ ہوتا تو کسی دوسری وجہ سے ہوجاتا اِس لیے آپ پہلے کی طرح ہوجائیں مجھے آپ کی کوجی شکل نہیں پسند۔سجل نے ناک سکوڑ کر لاڈ سے کہا

جو حکم میری سجو کا۔ماہ ویر سجل کے بال بگاڑتا بولا تو وہ ہنس پڑی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کے وقت ماہ ویر کمرے میں آیا تو محمل بیڈ پہ لیٹی سوئی ہوئی تھی ماہ ویر چلتا ہوا اپنی جگہ پہ لیٹ کر اُس کی طرف کروٹ لی غور سے محمل کو دیکھنے لگا جو کم عرصے میں رگوں میں خون کی گردش کی طرح ضروری ہوگئ تھی ماہ ویر کو پتا نہیں لگا تھا کب اُس کو محمل میں دلچسپی ہونے لگی کب اُس کی ضرورت ضروری لگی وہ تو اپنے آپ میں مگن رہنے والا تھا پیار محبت کے بارے میں اُس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا ماہ ویر یک ٹک اُس کو دیکھتا سوچو میں غرق ہوگیا تھا محمل کروٹ بدلنے لگی تو ماہ ویر نے جھٹ سے اپنی آنکھیں بندلی مبادہ وہ جاگ نہ گئ ہو۔

تھوڑی بعد ماہ ویر نے آنکھیں کھولی تو محمل ابھی بھی گہری نیند میں تھی ماہ ویر نے رشک سے اُس کی بند آنکھوں کو دیکھا

توں کریں آرام میری نیند حرام۔ماہ ویر بڑبڑاتا سونے کی کوشش کرنے لگا۔

💕💕💕💕💕

تمہیں کیا ٹینشن ہے اب خود تم چاہتی تھی اُس سے الگ ہونا اب جب وہ تمہاری بات مان رہا ہے تو تمہیں احتراز ہے۔فاطمہ نے سنجیدگی سے کال پہ محمل سے کہا جو ساری بات اُس کو بات چُکی تھی۔

ہاں میں نے یہ حرکت پہ اِس لیے کی تھی پر جب اُس کے منہ سے الگ ہونے کی بات سنی تھی مجھے تکلیف ہورہی ہے۔محمل اپنی آنسوؤ صاف کرتی بولی۔

تمہیں اُس سے پیار ہوگیا ہے کیا؟فاطمہ نے مسکراہٹ دباکر سوال کیا۔

پتا نہیں ہو بھی گیا ہے تو کیا ہوا شوہر ہے میرا۔محمل گڑبڑاکر بولی

ہاں تو میں نے کیا کہا اگر ایسا ہے تو اظہارِ محبت کرو اُس نے بھی تو کیا پھر تم کیوں لیٹ کررہی ہو رشتوں کو بچانے لیے جھکنا پڑتا ہے اُس میں کوئی بڑی بات نہیں اِس لیے میری مانوں اپنے دل کا حال اُس کے سامنے عیاں کروں وہ شوہر ہے تمہارا کوئی غیر نہیں ابھی ناراض ہے جو جائز ہے پر بعد میں اُس کا غصہ ٹھنڈا ہوجائے گا۔فاطمہ نے دوستی کا حق ادا کیا ہمیشہ محمل اُس کی سمجھاتی پر آج فاطمہ اس کو سمجھارہی تھی مخلص دوست کا ہونا بھی کسی نعمت سے کم نہیں جو ہر بُرے وقت میں آپ کا ساتھ دیتے ہیں آپ کو سہی غلط کا بتاتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انکل مجھے آپ سے ایک بات کرنی تھی۔محمل ہمت جمع کرتی التمش عالم کے پاس آکر بولی جو اسٹڈی روم میں کتاب کا مطالعہ کرنے میں مصروف تھے۔

آؤ بیٹھو کیا بات ہے۔التمش عالم نے مسکراکر پوچھا

انکل آپ پلیز غصے مت کیجئے گا پر آپ کا نقصان جو اُس میں ماہ ویر کا کوئی قصور نہیں ساری غلطی میری ہے اگر میں اُس کی فائل سے چھیڑ چھاڑ نہ کرتی تو ایسا بلکل نہیں ہوتا ورنہ ماہ ویر تو رات جگے تک کام میں مصروف رہتا تھا۔محمل سر جھکاکر  کسی مجرم کی طرح اعتراف کرنے لگی۔

کوئی بات نہیں نقصان ہونا تھا ہوگیا میرا تھپڑ ماہ ویر پہ لگ گیا کیونکہ میں اُس کے لیے ہمیشہ پریشان رہا ہوں ہر معاملے اُس کا غیرسنجیدہ پن مجھے کھٹکتا تھا میں باپ ہوں اپنی اولاد کے لیے بہتر چاہوں گا آپ نے ماہ ویر کے حق میں گواہی دی مجھے اچھا لگا پر اب یہ بات یہی پہ ختم کرلیں۔التمش عالم نے نرمی سے کہا تو محمل نے سر کو جنبش دی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تمہارے لیے چائے بناکر لائی ہوں۔محمل نے مسکراکر ماہ ویر کے سامنے چائے کا کپ رکھتے کہا۔

آج میرا کوئی موڈ نہیں ساری رات باتھروم میں گُزارنے کا۔ماہ ویر بنا اُس کی طرف دیکھ کر کہا محمل نے لب دانتوں تلے دبایا

اِس بار ایسی نہیں ہے۔محمل نے صفائی دینی چاہی۔

پہلے بھی خاص چائے تھی۔ماہ ویر سنجیدگی سے کہتا باہر کی طرف چلاگیا محمل نے افسردہ ہوکر کپ کی جانب دیکھا۔

💕💕💕💕💕💕

فاطمہ لاہور واپس لوٹ آئی تھی اور آج اپنے منگیتر حنان کے ساتھ ریسٹورنٹ آئی تھی حنان کال سننے گیا تو وہ باہر کھڑی اُس کا انتظار کررہی تھی جب اپنے نام کی پُکار پہ پلٹ کر دیکھا تو آنکھیں بے یقینی سے پھیل گئ کیونکہ سامنے کوئی اور نہیں تھا فرحان تھا جس کو بُھلاکر وہ اپنی نئ زندگی کی شروعات کرنا چاہتی تھی اور اُس نے حنان کو بھی ساری بات سے آگاہ کیا تھا تاکہ بعد میں غلط فہمیاں نہ ہو۔

تم یہاں۔فاطمہ نے بے تاثر لہجہ اپناتے ہوئے کہا

تم کہاں چلی گئ تھی تمہیں پتا ہے کتنا تلاش کیا میں نے تمہیں۔فرحان بے قراری سے اُس کے پاس آتا بولا

کیونکہ مجھے تلاش کرنے کی کیا ضرورت پڑگئ۔فاطمہ کا لہجہ طنزیہ سے بھرا تھا۔

فاطمہ میں جانتا ہوں تم ناراض ہو پر پلیز مجھے معاف کردو میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں پلیز میرا ہاتھ تھام لوں۔فرحان نے آس بھری نظروں سے اُس کو دیکھا فاطمہ کو اپنے دل میں فرحان کے لیے کوئی احساس محسوس نہیں ہوا ایک وقت تھا جب وہ اُس کے کھونے سے ڈرتی مگر آج وہ اُس کا طلبگار بن کر آیا تھا جانے کتنے سال وہ اُس کے در پہ سوالی بن کر گئ تھی ایک دن اُس نے اُس کو ٹھکڑاکر چلاگیا تھا پھر واپس آکر وہ اُس سے شادی کی بات کررہا تھا جس نے کبھی یہ کہا تھا پسند کرنے کا یہ مطلب نہیں کے ہم اُس سے شادی بھی کرلیں ساری بات سوچ لر فاطمہ کے چہرے پہ زخمی مسکراہٹ نے بسیرا کرلیا۔

سوری فرحان تم نے بہت دیر کردی میں اپنی زندہ میں بہت آگے چلی گئ ہو واپس آنا اب میرے اختیار میں نہیں۔فاطمہ نے سپاٹ انداز میں کہا

ایسا تو مت کہو تم تو مجھ سے پیار کرتی تھی۔فرحان تڑپ کے بولا

کرتی تھی پر اب میری ساری محبتیں ساری وفائیں میرے ہمسفر کے لیے ہیں میری منگنی ہوگئ ہے انشااللہ جلد شادی بھی ہوجائے گی۔فاطمہ مضبوط لہجے میں بولی

اُس کو چھوڑ دو فاطمہ ایک خوبصورت زندگی ہماری منتظر ہیں تم پُرانی باتوں کو یاد کرکے خود کے ساتھ اور میرے ساتھ یہ ظلم مت کرو۔فرحان نے اُس کو قائل کرنا چاہا

چھوڑنے کا شیوا تمہارا ہے میرا نہیں کجھ ماہ پہلے میں بھی بہت تڑپی تھی زندگی بہت بے رنگ لگنے لگی تھی دل ہر چیز سے اچاٹ ہوگیا تھا پر الحمد اللہ خدا نے مجھے صبر کی توفیق دی تمہاری محبت کا روگ نہیں لیا اور خود آج میں مطمئن ہوں جب کی تم وہاں ہو جہاں کجھ وقت پہلے میں تھیں بے قصور ہوکر بھی تم نے میرے جذبات کو روند ڈالا انجام سامنے ہے جس کے لیے تم نے مجھے چھوڑا لگتا ہے اُس نے تمہیں بھی چھوڑ دیا یہ دنیا مکافات عمل ہے جو جیسا کریں گا ویسا پائے گا اِس لیے کسی کو دھوکہ دینے سے پہلے ایک دفع ضرور سوچنا کل کو یہ دھوکہ تمہارے پاس لوٹ کر آسکتا ہے۔فاطمہ کہہ کر وہاں سے چلی گئ کیونکہ اُس کو حنان آتا دیکھائی دے رہا تھا فرحان حسرت بھری نظروں سے فاطمہ کو دور جاتا دیکھتا رہا۔

تم بہت اچھے ہو۔فاطمہ محبت بھری نظروں سے حنان کو دیکھتی بولی۔

خیر ہے آج اِس ناچیز کی تعریف کیسے کرلی۔حنان نے حیرت کا اظہار کیا

کیونکہ میں پاگل پہلے اللہ کی مصلحتوں کو سمجھ نہیں پائی پر اب اندازہ ہوا ہمارے ساتھ جو ہوتا ہے اچھے کے لیے ہوتا اِس لیے ہمیں شکوہ کرنے کے بجائے صبر کرنا چاہیے کیونکہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔فاطمہ نے جذب کے عالم میں کہا تو حنان نے مسکراکر اُس کی جانب دیکھا۔

ہم انسان بہتر کی تمنا کرتے ہیں پر اللہ ہمیں بہترین سے نوازتا ہے جو اللہ کے بندے نہیں سمجھ پاتے پر وقت اُن کو سمجھا دیتا ہے۔

بہت پہلے محمل کی بات اُس کے کانوں میں گونجی تو وہ بھی مطمئن ہوتی مسکرادی۔

💕💕💕💕💕💕

کیا ہوا رو کیوں رہی ہیں۔ماہ ویر کمرے میں آیا تو محمل کو بُری طرح روتا دیکھا تو فکرمندی سے اُس کی طرف اِس وقت وہ اپنی ساری ناراضگی بھول گیا تھا یاد تھا بس کہ محمل رو رہی ہے۔

محمل نے بھیگی نظروں سے اُس کی جانب دیکھا پھر اپنا ہاتھ آگے کیا جہاں انگلی پہ چھوٹا سا کٹ تھا ماہ ویر نے ایک نظر اُس کٹ کو دیکھا پھر محمل کو جو بُری طرح سے سُسک رہی تھی۔

رو تو ایسے رہی ہیں جیسے جانے کیا ہوگیا ہو جب کی ہے چھوٹا سا کٹ۔ماہ ویر کھڑا ہوتا بے نیازی سے بولا تو حیرت سے محمل کا منہ کُھل گیا۔

کتنے بدتمیز ہو تو تمہیں چاہیے تھا جھٹ سے میری انگلی منہ رکھ کر خون کو روکنے کی کوشش کرنی تھی پھر کہنا تھا دھیان کہاں تھا تمہارا کیسے خود کو چوٹ لگوالی۔محمل نے اُس کو شرمندہ کرنا چاہا۔

جی جی خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں یہاں تو جو میں دیکھ کر بوکھلاہٹ کا شکار ہوجاتا پھر آپ کی انگلی منہ میں ڈال کر یہ تقریر کرتا۔ماہ ویر نے گھور کر محمل سے کہا جو فل لڑنے کے موڈ میں تھی

فلموں اور ڈراموں میں تو یہی ہوتا ہے۔محمل مے شانے اُچکائے۔

زوجہ یہ کوئی فلم یا ڈرامہ نہیں ہے اِس لیے ہوش میں آئے اِس کو صاف کریں اتنا خون بہہ رہا ہے کہی اِس خون سے ڈوب نہ جائے۔ماہ ویر پہلے سنجیدگی سے پھر جب اُس کی نظر چھوٹے سے کٹ پہ پڑی جہاں خون کا کوئی نام ونشان نہیں تھا تو ہنس کے بولا۔

کتنے مین ہو تم۔محمل دھارے مار کر روتی بولی تو ماہ ویر سچ میں بوکھلاگیا۔

ہے زوجہ کیا ہوگیا ہے اتنا کٹ نہیں جو آپ رو رہی ہیں اگر آپ چاہتی ہیں تو میں بینڈیج کردیتا ہوں۔ماہ ویر محمل کا بازوں پکڑ کر اپنے سامنے کیے کہا۔

تم ابھی تک ناراض ہو؟محمل نے اُس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا

آپ کو کیا فرق پڑتا ہے۔ماہ ویر کا لہجہ پھر سے روڈ ہوا تو محمل نے تڑپ کے اُس کا چہرہ اپنی طرف کیا۔

پلیز اِس بار معاف کردو سچی دوبارہ ایسا نہیں کروں گی۔محمل نے یقین دلانا چاہا

آپ کو معاف کیا الگ تو ویسے بھی آپ ہونا چاہتی 

آآآ آ آآ

نہیں ہونا چاہتی میں اِس لیے بار بار ایسے نہ کہو۔محمل نے زور سے اُس کے بازوں پہ چٹکی کاٹ کر کہا جس سے اُس کی بات بیچ میں رہ گئ۔

ظالمہ ایسے کون اپنے روٹھے شوہر کو مناتا ہے۔ماہ ویر اپنا بازوں سہلاکر محمل سے بولا

شوہر تمہارے جیسا ہو نہ تو بیویاں ایسے کرتی ہیں بھلا چھوٹی چھوٹی بات پہ کون طلاق کی بات کرتا ہے۔محمل نے ہاتھ جہاڑ کر سارا الزام پہ ڈالا۔

نکاح کے بعد ہر وقت آپ ایک رٹ لگائے بیٹھی تھی طلاق کب دو گے طلاق کب دو گے اب اگر مصنوعی مان گیا ہوں تو بھی آپ کو پروبلم ہے یہ جانتے ہوئے بھی کے مجھے آپ سے محبت ہے یہ جانتے ہوئے بھی کے آپ کھانے پہ لال بیگ کھاتی ہیں۔ماہ ویر آخری بات پہ مسکراہٹ دبائی۔

بہت بُرے ہو تم۔محمل جھرجھری لیکر بولی

آپ بُری تو ہرگز نہیں۔ماہ ویر سرتا پیر اُس کو دیکھ کر بولا

کانوں کی سماعت سے محروم ہو یا اُلٹا سنتے ہو میں خود کو نہیں تمہیں کہہ رہی ہوں۔محمل نے مسکراہٹ ضبط کیے کہا۔

بڑے بزرگوں کا کہنا ہے جو انسان جیسا ہوتا ہے اُس کو باقی سب بھی ویسے لگتے ہیں۔ماہ ویر نے کہا پھر دونوں ہنس پڑے۔

💕💕💕💕💕💕💕

محمل صوفے پہ بیٹھی موبائل میں مصروف تھی پاس ماہ ویر غور سے اُس کی طرف دیکھ رہا تھا ایک خیال کے تحت ماہ ویر کی شرارتی آنکھوں میں چمک آئی اُس نے سائیڈ ٹیبل سے اپنا موبائل لیا۔

ہیلو۔

محمل جو ناول پڑھنے میں مصروف تھی واٹس ایپ پہ انون نمبر پہ میسج دیکھا تو تعجب ہوا پر ڈی پی پہ ماہ ویر کی تصویر دیکھ کر اُس نے ماہ ویر کی طرف دیکھا جو مسکراکر اُس کو دیکھ رہا تھا۔

اسلام علیکم۔محمل نے میسج ٹائپ کیا۔

میرا نام میک ہے اور میں اسپین کا رہائشی ہوں عمر میری بائیس سال ہے اور آپ؟

محمل گھور کر ماہ ویر کا میسج پڑھا پھر مسکراکر جواب لکھا

میں بیلا فرام پاکستان۔

آپ شادی شدہ ہیں۔ماہ ویر کا نیا میسج آیا

جی میں شادی شدہ ہوں تین بچے ہیں میرے۔محمل کا میسج پڑھ کر ماہ ویر فورن سے لاحول پڑھا۔

اوو دیٹس کول۔ماہ ویر نے پتھر دل سے میسج لکھا۔

یس۔محمل نے مسکراکر میسج لکھا

آپ کیا اپنی تصویر سینڈ کرسکتی ہیں؟ماہ ویر نے میسج سینڈ کیا

نہیں کیونکہ میرے شوہر بہت شدتپسند ہیں میرے لیے۔یہ میسج لکھتے ہوئے محمل نے بڑی مشکل سے اپنے امڈ آنے والے قہقہقہ کا گلا گھونٹا تھا۔

اوو آپ کی عمر کیا ہے؟ماہ ویر محمل کا میسج پڑھ کر عش عش کر اُٹھا مگر باز پھر بھی نہیں آیا۔

تیس سال ہے تین بچے ہیں۔محمل نے دوبارہ بچوں کا بتایا۔

میں آپ کو اپنی تصویر سینڈ کروں۔ماہ ویر نے پوچھا

نہیں کیونکہ میرے شوہر کے آنے کا وقت ہوگیا ہے اگر میں اُن کے انتظار میں گیٹ پہ کھڑی نہیں ہوئی تو وہ ناراض ہوجائے گے جو میں نہیں چاہتی۔

اتنی آپ میری پیاری زوجہ۔ماہ ویر نے جل کے سوچا۔

اچھا تو آپ ایک وقت بتادے جب آپ کے شوہر گھر نہ ہو تب میں آپ سے کجھ پرائیوٹ بات کرسکوں۔ماہ ویر کا یہ میسج پڑھ کر محمل کی بس ہوئی تھی تبھی زور زور سے ہنسے لگی جس کا ساتھ ماہ ویر نے بھرپور طریقے سے دیا تھا۔

💕💕💕💕💕

محمل تم آخر کب اُس سے طلاق لوں گی۔ارسلان نے اکتاہٹ سے کہا

کبھی بھی نہیں۔محمل نے گہری سانس ہوا میں سپرد کیے کہا

کیا مطلب کبھی بھی نہیں۔ارسلان نے سنجیدگی سے پوچھا

ارسلان میرا جوڑ تمہارے ساتھ نہیں ماہ ویر کے ساتھ ہے میں اُس سے طلاق نہیں لوں گی طلاق ایک بہت بڑا فیصلہ ہے اور میرے پاس طلاق کا کوئی جواز نہیں جس کی بنیاد پہ میں اُس سے علیحدہ ہونا چاہوں۔محمل نے جواب دیا۔

ساتھ رہنے کا جواز ہے۔ارسلان نے طنزیہ پوچھا

وجوہات ہیں جواز ہیں سب سے بڑی یہ کے اللہ نے ہمیں خوبصورت رشتے میں باندھا ہے وہ میرا شوہر ہے جو مجھے چاہتا ہے آخری بات یہ کے مجھے بھی اُس کی چاہت ہوگئ ہے۔محمل نے مسکراکر کہا جب کی دوسری طرف سے کال کاٹ دی گئ تھی محمل گہری سانس لیکر رہ گئ

💕💕💕💕💕💕

 تم تو کہتے تھے تمہارا کردار پہاڑ کی طرح مضبوط ہے کبھی میرے سے گھائل نہیں ہوگے تو پھر مجھ سے محبت کیسے ہوئی۔محمل ماہ ویر کے روبرو آتی مسکراکر سوال کرنے لگی۔

کردار کہا تھا دل نہیں۔ماہ ویر کے جواب پہ محمل دلکش انداز میں مسکرائی۔

اچھا یہ بتاؤ مجھے تم زوجہ کیوں بولتے ہو پہلے تو تم کہتے تھے پر جب سے میں یہاں ہوں آپ کہتے ہو۔محمل کے دوسرا سوال کیا۔

پہلے تو بس ایسے ملاقات ہوئی تھی نہ آپ مجھ سے ایک دو سال چھوٹی تھی اُپر سے ماشااللہ سے آپ کی زبان سے میرے لیے پُھول برستے تھے تبھی میں تم کہتا تھا پر اب تو آپ میری زوجہ ہے اِس لیے آپ کہتا ہوں۔ماہ ویر نے آرام سے جواب دیا۔

اچھا پر میں نے تو کبھی نہیں کہا تمہیں آپ۔محمل نے مسکراکر کہا

قیامت کے دن اِس کا حساب ہوگا آپ اتنے پیارے شوہر کی عزت نہیں کررہی۔ماہ ویر کے اُس کو شرمندہ کرنا چاہا پر وہ بھول گیا تھا محمل بھی اُس کی بیوی تھی۔

اب آپ اور تم سے کیا عزت تو دل میں ہوتی ہے۔محمل نے مزے سے بتایا۔

ویسے ایک بات ہے آپ ڈرائینگ بہت اچھی کرتی ہیں۔ماہ ویر نے کہا تو محمل اُس کی بات کا مطلب سمجھ کر کھسیانی ہوتی مسکرادی۔

بدتمیز۔محمل نے گھور کر کہا جواب میں ماہ ویر نے اپنی ایک آنکھ ونک کی۔

💕💕💕💕💕💕

ختم شد


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Q Hai Tu Lazmi  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Q Hai Tu Lazmi written by  Rimsha Hussain . Q Hai Tu Lazmi  by Rimsha Hussain is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stori es and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

   


No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages