Ahram E Junoon By TS Writes Romantic Complete Urdu Novel Story - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Friday 21 June 2024

Ahram E Junoon By TS Writes Romantic Complete Urdu Novel Story

Ahram E Junoon By TS Writes Romantic  Complete Urdu Novel Story 

Madiha Shah Writer ; Urdu Novels Stories

Novel Genre : Romantic Urdu Novel Enjoy Reading…

Ahram E Junoon By TS Writes Complete Romantic Novel 


Novel Name :Ahram E Junoon 
 Writer Name : TS Writes 

New Upcoming :  Complete 

یہ منظر ہے ایک بڑے سے فارم ہاؤس کا ، جہاں اندر جنت کا سا منظر تھا ہر رنگ اور ہر خوشبو کے پھول اُس لان کے مالک کی شخصیت کا منہ بولتا ثبوت تھے ، فارم ہاؤس کی خوبصورتی ایک الگ مثال قائم کر رہی تھی، ,,,


وہ ہیلز میں مقید پاؤں اٹھاتی نہایت ہی حسین سوئمنگ پول عبور کرتی اندر کی جانب بڑھ رہی تھی ,,,

گندمی رنگت ، ہری بڑی آنکھیں ، شہد رنگ بال جو مشکل سے اُسکے کندھے تک پہنچ رہے تھے,,

، بالوں کو کھلا چھوڑے چست جینز اور شرٹ پر بلیک کوٹ پہنے وہ ہیلز کی ٹک ٹک کی آواز کے ساتھ فارم ہاؤس کے اُس بڑے سے کمرے میں داخل ہوئی ،

پورا کمرہ روشنی میں نہایا ہوا تھا ، نہایت قیمتی فانوس کمرے کی چھت پر نصب ہوا پورے کمرے کو روشنی بخش رہا تھا,,,

صوفے ، پردے ، فرنیچر سب ہی ترتیب سے رکھے ہوئے تھے مختصر یہ کہ اُس فارم ہاؤس میں موجود تمام قیمتی چیزیں خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھی ،


بلیک پینٹ پر وائٹ شرٹ پہنے جس کے اوپری بٹن کھلے ہونے کے باعث اُسکے سفید کسرتی بازو نمایاں تھے,,,

ماتھے پر بکھرے بال سُرخ سفید رنگت ، کنگ سائز بیڈ پر براجمان وہ شخص رنگت سے ہی کوئی پٹھان معلوم ہو رہا تھا ,,

ہیلز کی ٹک ٹک کے ساتھ اُسے اندر آتا دیکھ وہ بیڈ سے اٹھ کھڑا ہوا ،

عنایہ نے کمرے میں آتے ہی مُسکراتے ہوئے سامنے موجود شخص کی طرف قدم بڑھاتے اُسے اپنی باہوں کی جال میں گھیرا ,,,

،اُس نے اپنا حصار تنگ رکھا تھا ، لیکن شاید مقابل کو ناگوار گزرا تھا,,,اس لئے اُس نے حقارت سے اُسے خود سے دور کرتے پیچھے دھکیلا ،


یہ کیا طریقہ ہے ، عنایہ اُس کے بگڑے تیور دیکھ کر بولی ،


یہی سوال میرا بھی ہے آپ سے ، کیا طریقہ ہے یہ کیا مذاق بنایا ہوا ہے میری محبت کا آپ نے ، عجیب تماشا بنا دیا ہے میرے جزباتوں کا ، آنکھوں میں جلتی چنگاریاں لئے وہ اپنا اشتعال دباتا گویا ہوا ،،


ہے ہے کول ڈاؤن ...! میرا قصور کیا ہے کچھ بولو گے ؟ اُس نے نہ سمجھی سے اُسکی طرف دیکھتے ہوئے مصلحت سے پوچھا ، اُس کے تیور اُسے کسی بڑی انہونی کا پتہ دے رھے تھے ،


تو یہ بھی میں بتاؤ ؟ مسز عنایہ ثمر ۔۔۔۔ اوہ لیٹ می کريکٹ مس عنایہ سکندر وہ اپنی ہی بات کی تصحیح کرتے تقریباً گرایا ،،،


دیکھو تم مجھ سے اس طرح بات نہیں کر سکتے ، بیوی ہوں تمھاری ، اُس نے اُنگلی اٹھاتے تنبی زدہ انداز میں کہا ،


اوو شٹ اپ ،،، کونسی بیوی کہاں کی بیوی ؟ وہ پھر گرایا ،


ہم تسلی سے بیٹھ کر بھی بات کر سکتے ہیں ، اس بار عنایہ نے ایک لمبی سانس خارج کرتے اپنا غصہ دباتے بگڑتی بات بنانی چاہی،


بیٹھ کر بات کرنے کے لئے کچھ چھوڑا ہے آپ نے ،،، جان سکتا ہوں میری پیٹھ کے پیچھے میرے ہی بھائی کے ساتھ کیا گل کھلا رہی ہیں آپ؟ اُس نے قریب آتے اسے کندھوں سے تھامتے ہوئے کہا ، ایک آنسو پلکوں کی باڑ توڑتے گالوں سے پھسلتا اُسکی ہلکی بڑھی ہوئی شیو میں جذب ہوا تھا ،


اُسکے الفاظ عنایہ کو اپنے سینے میں خنجر کی طرح چبھتے محسوس ہوئے ، وہ دنگ سی ساکت کھڑی آنکھوں میں حیران تاثرات سجائے اُسے دیکھ رہی تھی ، اُس نے آنکھیں جھپکتے خوف سے تھوک نگلا تھا ، ماتھے پہ ننھے پسینوں کی بوندیں چمکنے لگی تھی ،

ثمر خان اُسکی حالت دیکھ ، جھٹکے سے اُسے چھوڑتا طنزیہ مسکرایا ،


آپکی خاموشی نے میرے شک پر حقیقت کی مہر لگا دی ہے عنایہ ،،،،اُس نے افسوس سے اُسے دیکھتے کہا ،،،،

میری بات سنو ثمر ،،، تم جیسا سوچ رہے ہو ایسا کچھ نہیں ہے ،، اُس نے جلدی سے خود کو کمپوز کرتے اُسکے کندھیں پر ہاتھ رکھتے اُسے اپنا یقین دلانا چاہا ،


پلیز اب مزید جھوٹ میرے سامنے مت بولنا مزید آپکے منہ سے جھوٹ سننے کی سکت نہیں اب مجھ میں میں نے آپکو ٹوٹ کر چاہا تھا ، آپکے اس دھوکے نے مجھے توڑ کر رکھ دیا ہے ، میں نے اپنی فیملی سے چھپ کر آپ سے نکاح کیا آپکو اپنا نام دیا اپنی عزت بنایا ,, وہ رکا اور ازیت سے اسکی طرف دیکھتے پھر گویا ہوا اسے خود کے وجود سے چھن سے کھ ٹوٹتا ہوا سنائ دیا,,


میں چاہتا تو آپکو بھیلا پھسلا کر بھی بہت کچھ کر سکتا تھا ، پر میں نے کبھی آپکی معصومیت کا غلط فائدہ نہیں اٹھایا عنایہ میں نے آپ سے جتنا مضبوط اور پاک رشتہ جوڑا تھا آپ نے اتنا ہی کھوکھلا کر دیا ہے,,,

اسکے ہر لفظ سے ازیت جھلک رہی تھی,,,


آپکی ہر بات پر میں آنکھ بند کر کے ایمان لاتا رہا ہوں ، اور آپ نے کیا کیا عنایہ ،،، میری آنکھوں میں دھول جھوکتے آپ نے ایک بار بھی میرے سچے جذبوں کے بارے میں نہیں سوچا ، وہ بے حد ٹوٹے بکھرے انداز میں کہہ رہا تھا اُسکی حالت قسمت سے ہارے جواہری کی طرح لگ رہی تھی ، وہ خوبرو جوان مرد ہو کر رو رہا تھا ، شاید اسی لئے کہتے ہیں کہ عورت مرد کو بنا بھی سکتی ہے اور مٹا بھی سکتی ہے،،،


بس بہت سن لی تمھاری بکواس ،، یہی بکواس سنانے کو بلایا تھا تُم نے ،، اور میری ایک بات کان کھول کر سن لو ،، میرے کردار پر اُنگلی اچھالنے کا تُم کوئی حق نہیں رکھتے ،،، وہ تقریباً چلاتے بولی ، غصے کی شدت سے اُسکا چہرا سُرخ تھا ،


حق رکھتا ہوں،،،،، تمام تر حق محفوظ ہیں میرے پاس خود کو اتنا آزاد مت سمجھیں ابھی بھی میرے نکاح میں ہیں عمر میں بڑی ضرور ہیں آپ مجھ سے مگر رشتے میں مزاجاِ خدا کا رتبہ رکھتے ہیں ہم آج بھی،، وہ دوبدو اُس سے دگنی آواز میں چیخا کہ کمرے کی درو دیوار ہل کر رہ گئی ،،


آگر تُم سچ سننے کی ہمت نہیں رکھتے ، تو میری کردار کشی کرنے کی بھی ضرورت نہیں ، اپنی آواز اونچی کر کے میری آواز کو دبانے کی کوشش مت کرو میں اُن لاچار لڑکیوں میں سے نہیں ہوں کہ تمھاری مردانگی کے زعم میں آجاؤنگی,,,


اگر خود کو اتنا ہی پارسا سمجھتے ہو تو جاؤ اپنے بھائی سے سوال کرو ،،، مجھے ابھی کے ابھی طلاق چاہیئے ، اگر تُم یہ نہیں کر سکتے تو میں خود تُم سے طلاق لینا جانتی ہوں ، وہ زخمی شیرنی کی مانند اُس پر گراتی کھوکھلی دھمکیاں دینے لگی جو مقابل پر کار آمد بھی ٹھہری ،،،


اسے اس دیدا دلیری سے طلاق کا مطالبہ کرتے دیکھ ثمر کی شریانے پھٹنے کے قریب تھی وہ بھینچے ہونٹ اور تنے نقوش کے ساتھ اُسے دیکھ رہا تھا ،،،

میں آج تمہارا قتل کر دوں گا ،، وہ یک دم ہی آپ سے تم کا سفرہ طے کر گیا,,,

میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ ہمارے خاندان میں غیرت کے نام پر قتل کیوں کیئے جاتے ہیں پر آج مجھے میرے ہر سوال کا جواب مل گیا ہے،،،،

اسکا پٹھانی خون جوش مارنے لگا,,


وہ اُسے ایک بار پھر کندھوں سے تھامتے اُسکے چہرے پر چلایا ،، اُسکی انگلیاں عنایہ کو اپنے بازوؤں میں دھستی ہوئی محسوس ہوئی ،،


میں نے کچھ غلط نہیں کیا نہ ہی تُم سے بے وفائی کی ، میں مظلوم ہوں ، تمہارا بھائی صرف تُمہیں مجھ سے جُدا کرنا چاہتا ہے اس لئے میرے خلاف کر رہا ہے وہ تُمہیں ، عنایہ نے اُسکے سینے پر ہاتھ رکھتے اُسے پھر اپنے جال میں پھانسنا چاہا ،،


وہ کیوں کریں گے ایسا ، ثمر نے اپنی گرفت کچھ سخت کرتے کہا ، اُس نے تکلیف کی شدت سے آنکھیں میچی تھی ،،

تمھارے خاندان والے کبھی تمھارے اور میرے رشتے کو قبول نہیں کریں گے ، وہ اِس لئے یہ سب کر رہا ہے ، تُم فکر نہ کرو ہم مل کر منا لیں گے تمھاری فیملی کو ، اپنے نرم و ملائم ہاتھوں کے پیالے میں اسکا چہرا تھامے نم آواز میں کہتے اُس کے سینے پر سر رکھا تھا ،،،


میرا بھائی ایسا نہیں ہے عنایہ ،،،،، اُس نے ایک سرد سانس خارج کرتے کچھ پُر سکون انداز میں کہا ۔۔۔


پھر کیا میں ایسی ہوں ؟ میرا بھروسہ کرو ثمر میں نے اپنے گھر والوں سے چھپ کر تُم سے نکاح کیا تا کہ تا قیامت ہمیں کوئی جُدا نہ کر سکے میں تُمہیں دھوکا دینے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی ، سینے سے سر اٹھاتی وہ آنسوں سے تر چہرے کے ساتھ بولی ،،،


ہم منا لیں گے اپنے گھر والوں کو عنایہ ، وہ اُسے سینے میں بھیجتا تسلی دینے لگا ،، کہاں گیا اُسکا غصہ سب اُسکی ذرا سی قربت میں جھاگ کی طرح بیٹھ گیا تھا ، وہ ایک بار پھر اُسکی جھوٹی محبت کے جھانسے میں آگیا تھا ،،،،


************

نام کیا ہے انکا ؟ چیئر پر بیٹھے بلیک پینٹ پر سفید شرٹ اور وائٹ لیب کوٹ پہنے ، سفید رنگت ہلکی بڑھی داڑھی ، بلا شبہ وہ مردانا وجھ کا شاہکار تھا ،، اُس نے قلم سے کاغذ پر روانی سے کچھ لکھتے ، اپنے سامنے بیٹھے سکندر صاحب سے پوچھا ،،،

حرم نور ۔۔۔۔ سکندر صاحب نے آنکھوں سے ہی حرم کو تسلی دیتے ڈاکٹر کو جواب دیا ،،،،،

حجاب کے ہالے میں چمکتا سفید اور سُرخ چہرہ شہد رنگ آنکھیں ، وہ سادگی میں بھی کسی بھی زی روح کا ایمان ڈگمگا سکتی تھی ،

بخار کب سے ہے آپکو ؟؟ ڈاکٹر نے اُسکے بخار کی وجہ سے سُرخ ہوتے چہرے کو دیکھتے تھرمامیٹر منہ کے قریب لے جاتے پوچھا ،


آج صبح سے ہے بخار ۔۔۔۔ سکندر صاحب نے حرم کو خود کو تکتا دیکھ مُسکراتے ہوئے جواب دیا ،،،۔۔۔


ہمم بخار تو ہے,,,,

ڈاکٹر نے تھرمامیٹر دیکھتے ہوئے کہا ،،،


ہاتھ آگے کریں ۔۔۔ اُنہوں نے اب باقاعدہ رُخ حرم نور کی طرف کرتے کہا ،،،

حرم کنفیوز سی ڈاکٹر کو دیکھتی ہاتھ آگے کر گئ ،،، ڈاکٹر ساحر خان اور حرم کی نظریں ٹکرائی تھی ، نظروں کا تصادم ساحر کے لئے اتنا شدید تھا کہ بے ساختہ اُسکی ہرٹ بیٹ مس ہوئ تھی ،،،،

یہ نشان کیسے ہیں آپ کے ہاتھ پر ؟؟ ساحر نے اُسکے سفید ہاتھ پر سُرخ لکیروں کو دیکھتے سوال کیا اور بلڈ پریشر مانیٹر کرنے لگا ،،،


یہ مٹھو کے ناخنوں کے نشان ہیں ، پر اب میں نے کاٹ دیئے ہیں ،،، حرم نے معصومیت سے جواب دیا البتہ مٹھو کا ذکر کرتے اُسکے گلابی لب مسکرائے تھے ،،،


مٹھو ۔۔۔۔ یہ کون ہے ؟ ڈاکٹر ساحر نے خاصی حیرانی سے پوچھا ،


میرا طوطا ہے ، میں اُسے سوہنا یہ مٹھو کہتی ہوں ، اب آپ زیادہ سوال نہ کریں دوائی لکھ کر دیں تا کہ ہم جا سکیں ،،،، مٹھو کا خیال آتے ہی اُسے اب گھر جانے کی جلدی پڑ گئی تھی اس لئے شانِ بے نیازی سے کہتی وہ چھٹانک بھر کی لڑکی ساحر کو حیران کر گئ تھی ،،،،


یہ میڈیسن آپ صبح شام لیں گی ، اور ٹھنڈے پانی ، تلی ہوئی چیزوں سے پرہیز کیجئے گا ،، دوائیوں کا نسخا حرم کی طرف بڑھاتا پروفیشنل انداز میں گویا ہوا ،،،

نرس ۔۔۔۔۔ ساحر نے ابھی نرس کو آواز ہی دی تھی کہ وہ بول اُٹھی ،،،


یہ انجکشن کیوں لکھا ہے ؟؟ آپکو پتہ نہیں کیا بخار میں انجیکشن لگانے سے پیشنٹ مر بھی جاتا ہے ۔۔۔۔

بابا میں یہ انجکشن نہیں لگواؤں گی ،،، وہ ساحر سے بولتی ، سکندر صاحب کو مخاطب کرتی ضدی لہجے میں گویا ہوئی ،،،


آپ انجیکشن رہنے دیں ڈاکٹر ، انجکشن کی جگہ کوئی پین کلر لکھ دیں ، سکندر صاحب نے حرم کا اُترا چہرا دیکھ فوراً کہا ،،،


ٹھیک ہے,,,, وہ حرم کے ہاتھ سے دوائی کا نُسخہ لیتے ہوئے ایک چور نظر اس ضدی حسینہ پہ ڈالتا اپنے کام میں مگن ہوا ،،،،

**********


ممجھے تمہیں کچھ بتانا ہے اسکے سینے سے اپنا سر اٹھاتے جھجکتے ہوئے بولی،،،

ہاں بولو کیا بات ہے تم کچھ پریشان لگ رہی ہو،،،

ثمر میں آپکے بچے کی ماں بننے والی ہوں ایم پریگنینٹ ،،،،،

اسکی آنکھوں میں دیکھتے وہ کھوئے کھوئے انداز میں بولی،،،

وہ دنگ سا اسے دیکھ رہا تھا وہ سمجھ نہیں سکی کہ وہ خوش ہے یا اسے اس بچے سے اعتراض ہے،،،

تم فکر مت کریں میں ابورشن کروالونگی کسی کو کچھ پتا نہیں لگے گا،،،

اسکے تاثرات دیکھتے اسنے ہوا میں تیر چلایا تھا،،،


یہ کیسی باتیں کر رہی ہو عنایہ میں بابا بننے والا ہوں آپ سوچ بھی نہیں سکتی میں کتنا خوش ہوں اس خبر سے او مائی گاڈ یار کتنی بڑی خوشی سے نوازا ہے آپ نے مجھے تھینکیو سو مچ زماز ڑگیہ،،،


وہ سارے گلے شکوے بھلائے شدت جزبات سے اسے خود میں بھینچتے بول رہا تھا،،،چہرے پہ خوشی صاف دکھائی دے رہی تھی،،،

وہ اسکے سینے میں منہ دیتے مسکرائ طنزیہ مسکراہٹ،،،،


ثمر میں خود اپنے بچے کو خود سے جدا نہیں کرنا چاہتی لیکن میں اپنے بچے کو در بدر بھٹکنے کیلئے اس دنیا میں نہیں کرونگی ،،،،

وہ اس سے الگ ہوتی آنکھوں میں آنسوں لیئے دوٹوک انداز میں بولی،،،

یہ آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں میرا بچا در بدر کیوں بھٹکے گا جب اسکا باپ زندہ ہے،،،

اسکی بات اور حالت کے پیش نظر وہ سلجھے ہوئے انداز میں بولا وہ سمجھ نہیں سکا تھا اس وقت اس بات کا مطلب،،،


میں کچھ نہیں جانتی اگر تم یہ بچا چاہتے ہو تو ابھی اور اسی وقت اپنے گھر والوں کو ہمارے رشتے کے بارے میں سب بتانا ہوگا ورنہ مجبوراََ مجھے پی سخت قدم اٹھانا پڑیگا ورنہ ابھی کے ابھی میں خود کو اور اپنے وجود میں پلتی اس ننھی جان کو ختم کردونگی،،،


وہ کچھ سخت اور اٹل انداز میں بولتے پاس رکھی کانچ کی ٹیبل پہ پھلوں کی ٹوکری سے چھری اٹھاتے اپنی کلائ پہ رکھ گئ وہ اس وقت کوئ پاگل لگ رہی تھی،،،


ییہ کیا پاگل پن ہے عنایہ نیچے رکھو وہ چھری کٹ لگ جائیگا آپکو,,

روز روز کی ذلت سے بہتر حرام موت ہے ثمر میں اپنے گناہوں کی سزا اپنے بچے کو نہیں دے سکتی تم مجھے صرف اتنا بتاؤ کیا تم مجھے میرا حق دلواؤگے,,,


وہ تیش سے وحشیانہ چلائی,,, چھری بلکل اسنے اپنی نس کے قریب رکھی تھی لیکن اسے اپنی جان بے حد عزیز تھی وہ چاہ کر بھی کبھی خود کو نقصان نہیں پہنچا سکتی تھی یہ سب تو محض ایک چال تھی اپنا بدلہ پورا کرنے کی وہ جانتی تھی وہ اسکی محبت میں اندھا گھٹنے ضرور ٹیکے گا کیونکہ اسنے مقابل کی کمزوری پہ گہری ظرب لگائ تھی,,,


بولو ہاں یا نہ ؟؟ وہ ہاتھ پہ تھوڑا زور دیتی پھر پوچھنے لگی,,

ہاں ہاں میں آج ہی سبکو ہمارے رشتے کے بارے میں سب بتادونگا پلیز یہ پاگل پن مت کرو ,,,,

اسکا پاگل پن دیکھتے وہ مصلحت سےبولا تو اسکی گرفت چھری سے کچھ ہلکی ہوئ,,

اسنے فوراً آگے بڑھتے چھری اپنے ہاتھ میں لیتے اسے خود سے لگایا,,,

وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی,,,

شش ریلیکس میں کرلونگا راضی کچھ بھی کرنا پڑے چاہے مجھے میری جان کی بازی ہی کیوں نہ لگانی پڑے میں ہر ممکن کوشش کرونگا آپ بلکل فکر نہیں کریں,,,

وہ اس سے زیادہ خود کو تسلی دے رہا تھا,,,

کیسے کروگے ثمر تم اپنے باپ کے سامنے ٹھیک سے نہیں بول پاتے کجا کہ اپنے دادا شیر خان کے سامنے اس بات کا اعتراف کرسکوگے ,,,,,

وہ کافی سخت مزاج ہیں وہ اتنی آسانی سے تمہاری بات نہیں مانے گے,,,

وہ پریشانی سے بولی,, ,,

تو تم ہی بتاؤ میں ایسا کیا کروں,,,,

اسنے ہار مانتے عاجزانہ پوچھا اور بیڈ پہ ڈھے سا گیا اس وقت اسے اپنا دماغ ماؤف ہوتا محسوس ہورہا تھا


ثمر تمہارے دادا تم سے بہت پیار کرتے ہیں تم انسے مقابل کھڑے رہ کر بات نہیں کر سکتے لیکن دور رہ کر تو اپنی بات منوا سکتے ہونا,,,,

کچھ سوچتے اسنے اپنی بات کہی ناجانے اب کونسا کالا عمل چل رہا تھا اسکے شیطانی دماغ میں,,,

کیا مطلب آپکی اس بات کا میں سمجھا نہیں,,, اسکی طرف دیکھتے ناسمجھی سے پوچھا,,,


دیکھو ثمر تھوڑا مشکل ہے لیکن تمہیں اپنی جان کی بازی لگانی ہوگی,,,

تھوڑا جھجکتے اپنے دماغ کے فتور سے اسے آگاہ کیا,,,

عنایہ آپ جو بھی کہنا چاہتی ہیں کھل کے کہیں پلیز میں آپکی بات نہیں سمجھ پارہا ہوں,,,

وہ پوری طرح اسکی طرف متوجہ ہوا,,,


دیکھو ثمر اپنی بات منوانے کیلئے ہمیں کچھ بڑا کرنا ہوگا تم ایک سوسائیڈ اٹیمپ کرو تمہیں حقیقت میں اپنی جان نہیں لینی محض ایک میسج اپنی فیملی تک پہنچانا ہے,,, اور اپنی بات کا مطالبہ کرنا ہے,,,


آپکو پورا یقین ہے یہ پلان کام کریگا؟؟

اسکی پوری بات توجہ سے سنتے اور سمجھتے بولا,,,

کچھ تو کرنا ہوگا نہ ہم یوں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے تو نہیں بیٹھ سکتے,,, اسنے نارمل انداز میں کہا,,,


ٹھیک ہے کرنا کیا ہوگا,,,,

اپنی رضا مندی ظاہر کرتے پوچھا,,, یہ لو ,,,وہ اٹھی اور پاس گری چھری اسے لاکر تھمائ جو کچھ دیر قبل اسکے ہاتھ میں تھی,,,,

تم سجھ گئے ہو نا کیا کرنا ہےکوئ گڑ بڑ نہیں ہونی چاہیئے,,,

وہ اپنا جال ڈال چکی تھی اسے نہیں معلوم تھا وہ جو کر رہی ہے اسکا انجام کیا ہوگا وہ خوفِ خدا بھلا چکی تھی اسے صرف اپنے بدلے سے مطلب تھا اپنے بدلے کی آگ میں وہ نا جانے کتنی زندگیاں جلا کر راکھ کرنے والی تھی,,,

ریڈی ؟ اسنے موبائل پہ ویڈیو اون کرتے پوچھا ,,,

ثمر نے محض ہاں میں سر ہلاتے چھری اپنی الٹے ہاتھ کی کلائ پہ رکھی,,,

اوکے ون ٹو اینڈ تھری اسٹارٹ ,,,

اسنے انگھوٹا دکھاتے ویڈیو بنانا شروع کی,,,


دادا جان میں نے شادی کرلی ہے میں جانتا ہوں ہمارے خاندان میں باہر شادی کرنے کی اجازت نہیں ہے مگر,,,

وہ رکا اسکی آنکھوں میں آنسوں تھے,,,


میں مجبور تھا عشق کے ہاتھوں ، مجبوری میں شادی کرچکا ہوں اگر آپ لوگ میری بیوی اور بچے کو قبول نہیں کرینگے تو میں اپنی جان لے لونگا وہ ازیت سے آنکھیں میچ کر کھولتے ہوئے بولا ,,,,


اسے یہ سب کرنا بلکل بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا لیکن اپنے بچے کیلئے اسے یہ کرنا پڑ رہا تھا اور کوئ راستہ بھی تو نہیں تھا,,

اب فیصلہ آپکے ہاتھ میں ہے دادا جان آپکو اپنی برسوں سے چلتی آئ روایتیں عزیز ہیں یا اپنا پوتا وہ تیش میں بولا,,,


اور اسے دھمکی سمجھنے کی غلطی ہر گز مت کیجیئے گا کیونکہ اب میں آپکا بچپن والا ڈرپوک پوتا نہیں ہوں اسکی گرفت چھری پر کچھ سخت ہوئ جسکے نتیجے میں خون رسنے لگا,,,

درد برداشت کرتے اسنےأ اپنی بات جاری رکھی,,

میں اپنی محبت کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہوں میری بہادری کا ایک نمونہ آپ ابھی دیکھ سکتے ہیں,,,


کہتے ہی اسنے تیزی سے اپنی کلائ پہ چھری چلائ تھی جسکی بدولت تیزی سے خون نکلنے لگا,,, درد کی شدت سے اسکا اپنے پیروں پہ کھڑے رہنا مشکل ہوا وہ لڑکھڑاتے نیچے زمین پہ گرا,,,


ویڈیو اوف کرتی وہ تیزی سے مصنوعی متفکر تاثرات چہرے پہ سجائے اسکی طرف بڑھی,,


عنایہ بببہت درد ہورہا ہے ایم ایمبولینس کو کال کرو,,,

اسنے اٹک اٹک کر الفاظ ادا کیئے وہ اسکا سر اپنی گود میں رکھ گئ,,


درد کہ شدت سے اسکا چہرہ خون چھلکانے کو تیار تھا اسکا وجود میں ہولے ہولے لرز رہا تھا,,, خون تیزی سے اسکے ہاتھ سے نکلتا زمین پہ پانی کی طرح بہہ رہا تھا اسکی آنکھیں بند ہونے لگی تھی وہ آہستہ آہستہ غنودگی میں جا چکا تھا,,,

لیکن وہ بے حس بنی بیٹھی تھی یا شاید اسکے مرنے کا انتظار کر رہی تھی,,,

اسکی آنکھوں کو بند ہوتا دیکھ وہ پرسکون ہوتی اسے زمین پہ لٹاتے وہاں سے فرار ہوگئ,,,

بہت احتیاط سے اسنے یہ سب کیا تھا کہ ایک خون کا دھبا بھی اسکے کپڑوں پہ نہیں لگا تھا,,,

وہ اپنے بدلے کی آگ میں تقریباً کامیاب ہوچکی تھی ، اسکی خوشی ہی الگ تھی ایک جیتے جاگتے انسان کی جان اسکے لیئے بےمول ٹہری,,

وہ ساحر کے ریکشن کے بارے میں سوچتی مسکرائی تھی یہ تو بس ابتدائ مراحل ہے ساحر خان اپنی ہر ایک تذلیل کا بدلہ میں تُم سے سود سمیت وصول کروں گی ,, وہ شیطانیت سے مسکراتی اپنے ہی خیالوں میں اُس سے مخاطب ہوئی ,,,,


واقف ہیں جہاں کے رواجوں سے

میں نظروں سے تیری ہر نظر اتاروں

ہم نے بندھا ہے تیرے عشق میں احرامِ جنوں

ہم بھی دیکھیں گے تماشا تیری لیلائ کا


°°°°°°

وہ سکندر صاحب کے ساتھ ہسپتال سے ابھی گھر پہنچی تھی,,, راستے میں ٹریفک کی وجہ سے انہیں آنے میں دیر ہوگئی تھی ,,,


لو پھر آگیا تمھاری ماں کا فون سکندر صاحب نے اپنے بجتے فون کی سکرین پر راحیلہ بیگم کا نمبر دیکھ کر مُسکراتے ہوئے کہا ,,,

ماما پریشان ہونگی ہمیں دیر ہوگئ ہے نہ ,, حرم نے ماں کی پریشانی محسوس کرتے فوراً کہا ,,,

ہاں دیر تو ہوگئ ہے ، ایسا کرو تُم اندر جاؤ مجھے کچھ کام ہے وہ نپٹا کر آتا ہوں اپنی بیٹی کے پاس,, سکندر صاحب نے اُسکے ماتھے پہ لب رکھتے ہوئے شفقت زدہ لہجے میں کہا ،،،


آتے ہوئے آئسکریم بھی لانا بابا ،اُس نے لبوں پر زبان پھیرتے فرمائشی انداز میں آنکھوں کو چھوٹا کرتے کہا ,,


نہیں ہر گز نہیں ،،،، آج آئسکریم بلکل بند ہے,, ڈاکٹر نے منع کیا ہے یاد نہیں , اُنہوں نے اُسکی چھوٹی سی ناک دباتے ہوئے صاف انکار کیا،،،


اوف بابا ڈاکٹر تو کچھ بھی کہتے ہیں پلیز آپ لے کر آنا نہ , وہ اب ضدی لہجہ اپناتے بولی ,,,

پلیز نہ بابا ,, آپ میرے پیارے سے بابا ہیں نہ ,,, سکندر صاحب کے کوئی جواب نہ دینے پر وہ منت کرنے لگی,,,


اوکے اوکے ,،


اچھا ٹھیک جاؤ تُم آرام کرو اب جا کر ,, سکندر صاحب نے ہتھیار ڈالتے حامی بھری،،،،


وہ اثبات میں سر ہلاتی گاڑی سے نکل کر لون عبور کرتے گھر کے داخلی راستے کی طرف پہنچی ہی تھی کہ اُسے سڑھیوں پر ہی طوطا ادھر سے اُدھر چکر کاٹتا نظر آیا ،،،،

مٹھو کو اپنے لئے اس قدر فکر مند دیکھکر اُس کے گلابی لب مسکرائے تھے,،،,,


مٹھو بھی حرم کو دیکھتا بےتابی سے اڑتا اُسکے کندھے پر جا بیٹھا تھا ,,,,


واقعی جانور انسانوں سے زیادہ وفادار ہوتے ہیں ,,,


میرا سوہنا مجھے مس کر رہا تھا؟؟ حرم نے اُسے اپنے ہاتھ کی دو انگلیوں پر اٹھاتے پوچھا ,,,


ہاں ,,,


روانی سے اُردو بولنے والا آج صرف مختصر جواب کیوں دے رہا ہے ؟

حرم نے مصنوئی حیرانی سے پوچھا اور اپنے قدم اندر کی طرف بڑھائے ,,,


روزہ رکھا ہے میں نے خاموشی کا دو گھنٹے کے لئے ,,, طوطے نے صاف اُردو زبان میں جواب دیا,,,,


اچھا ,,, مسٹر مٹھو آپکا روزہ ٹوٹ چُکا ہے بولنے سے ،،، حرم نے اپنے نازک ہاتھوں کی انگلیوں سے اُسکے سر کے بال سہلاتے کہا ،،,,,


ابھی طوطا کچھ کہتا کہ سامنے سے آتی عنایہ کو دیکھ اُسکی آنکھیں سکڑی تھی اور آنکھوں کا رنگ سفید کرتا وہ عنایہ کو ایسے دیکھ رہا تھا جیسے ابھی اُس پر حملا کر دے گا,,,


حرم طوطے کو یوں اچانک غصہ ہوتے دیکھ اُسکی تقلید میں نظریں پھیرنے لگی, پر سامنے سے آتی عنایہ کو دیکھ وہ اپنے مٹھو کے اچانک غصے کی وجہ کو سمجھ گئ تھی ,,

مٹھو اور عنایہ دونوں کو ہی ایک دوسرے سے نفرت تھی ,,,

مٹھو کو عنایہ اس لئے نہیں پسند تھی کہ وہ اُسکی پیاری مالکن حرم سے ہر وقت لڑتی تھی ،

اور عنایہ کو مٹھو سے اس لئے نفرت تھی کہ اُسکی پاگل اور بیوقوف بہن ہر وقت اس جانور کے ساتھ باتیں کرتی اور اپنے راز بتاتی تھی ,,

دونوں کی ایک دوسرے کی نفرت سے گھر کے سب ہی لوگ واقف تھے ,,,,


,,,,,,,

کہاں تھی تم عنایہ صبح کی گئ ہوئی اب آئی ہو گھر ، لاؤنچ میں بیٹھی راحیلہ نے سخت لہجہ اپناتے سوال کیا ,,,


کہیں نہیں ماما میں سعدیہ کے گھر تھی ,, عنایہ نے جھوٹ کا سہارا لیتے جواب دیا ,,,اور بغیر کسی کے بھی طرف دیکھے وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی,, اُسے اب اگلا پلین ترتیب دینا تھا کیونکہ وہ ثمر کے فیملی بیک گراؤنڈ سے بخوبی واقف تھی وہ یہ اچھے سے جانتی تھی کہ اُسکی فیملی آرام سے نہیں بیٹھے گی ,,


,,,

راحیلہ بیگم نے اُسے جاتے دیکھ افسوس سے گردن ہلائی تھی ,,, وہ اُس سے بات کرنے کے لئے صوفے سے کھڑی ہوتی اُٹھی ہی تھی کہ ,,

حرم کو لاؤنچ میں داخل ہوتے دیکھ اُنہوں نے عنایہ کی خبر بعد میں لینے کا سوچتے حرم کی طرف قدم بڑھائے ,,,

اتنی دیر کیوں لگا دی بیٹا اور بابا کہاں ہے تمھارے ؟ حرم کے ماتھے پہ اپنے ہاتھ کی پُشت رکھتے اُسکا ٹیمپریچر چیک کرتی گویا ہوئی,,,

ماما بابا کام سے گئے ہیں, کہہ رہے تھے تھوڑی دیر تک آجائے گے, وہ مسکرا کر کہتی لاؤنچ کے صوفے پر دراز ہوگئ ,,


اچھا میں نے تمہارے لئے سوپ بنایا ہے تُم یہی بیٹھو میں لے کر آتی ہوں پھر دوائی لینی ہوگی تُمہیں ,,, راحیلہ بیگم نے فکر مندی سے کہتے کچن کی راہ لی ,,,


°°°°°°°


وہ ہسپتال سے آکر فریش ہونے کے بعد کب سے ثمر کا نمبر ڈائل کر رہا تھا پر ہر بار بند جا رہا تھا,,,

اب اُسے شدید فکر ہورہی تھی اپنے بھائی کے لئے کیوں کہ وہ عنایہ کو اپنے معصوم بھائی کے ساتھ دیکھ چُکا تھا وہ اُس ضدی جنونی اور پاگل لڑکی سے اچھی طرح واقف تھا ,,,

اُس نے سخت لہجے میں بھی ثمر کو سمجھا دیا تھا کہ وہ اس لڑکی سے دور رہے پر اپنے بھائی کی آنکھوں میں وہ عنایہ کے لئے محبت کو بھی بھانپ چُکا تھا,,,


آخری بار نمبر ڈائل کرتے اُس نے کان سے لگایا پر ہر بار کی طرح اس بار بھی بند ملا ,, وہ غصے میں سائڈ ٹیبل سے گاڑی کی چابیاں اٹھاتا اپنے فلیٹ سے نکلتا پارکنگ میں آیا تھا,,,

اُسکا دل بہت عجیب ہو رہا تھا دل انجانے خدشوں سے دھڑک رہا تھا,,


اپنے سارے خدشات کو تھپکتے اُس نے گاڑی فارم ہاؤس کے راستے پر ڈالی ,,,,


°°°°°°


فارم ہاؤس کے پورچ میں زن سے ایک ہی جھٹکے میں گاڑی روکتا وہ تیز قدم اٹھاتا لاؤنچ عبور کرتے ثمر کے کمرے کی طرف بڑھا,,,


کمرے میں داخل ہوتے ہی فرش پر سُرخ خون پانی کی مانند پڑا دیکھ اُسے جیسے سکتا سا طاری ہوا تھا,,,

دل نے شدت سے خواہش کی تھی کہ جیسا وہ سوچ رہا ہے ویسا کچھ نہ ہو لیکن ہر بار یہ ممکن نہیں کہ جو انسان سوچے ویسا ہی ہو,,


ثمر اُٹھو کس نے کیا .... اُٹھو ثمر میرے بھائی دیکھو میں آیا ہوں ,,, وہ پاگل بنا اُسے پُکارا رہا تھا پر ثمر زندہ ہوتا تو سُنتا نہ وہ تو کب کا اپنی ناکام محبت کے آگے مر چُکا تھا ,,,

وہ اپنے بھائ کو بےجان زمین پہ پڑا دیکھ شتاب کاری سے اسکی طرف آیا اور اسے جھجوڑنے لگا اسکا دل چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا ایسا نہیں ہوسکتا اسکا بھائ اسکی جان اسے چھوڑ کر نہیں جاسکتی, ,, اسکی آنکھوں میں خون اترنے لگا,,,


وہ اپنے بھائ کو بےبسی سے پکارتا کوئ پاگل لگ رہا تھا,,,

اسکی آہیں عروج پر تھی مگر سب بے سود,,,


ثمر ہمیں اتنا بڑا دُکھ نہ دو اُٹھ جاؤ پلیز ,,, اُس خوبرو نوجوان کی آنکھوں سے لڑیوں کی مانند آنسو رواں تھے,,,,

وہ خود کو بے بسی کی انتہا پہ محسوس کر رہا تھا,,,

وہ چیختا پکارتا رہا لیکن ثمر نے اپنی آنکھیں نہیں کھولیں,,,

جانے والوں کو کون روک سکتا ہے مگر کچھ لوگ اپنی موت کو خود دعوت دیتے ہیں,,, اور ثمر کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا تھا وہ اندھی محبت کر بیٹھا تھا ایسی محبت جو اسے اپنے بدلے کی نظر کر گئ,,,

°°°°°°

نہیں مٹھو میں اس وقت ہر گز نہیں جاؤ گی آپی کے کمرے میں,,, حرم نے اپنے ہاتھ پر بیٹھے مٹھو کو دیکھتے کچھ ڈرتے ہوئے کہا جو کب سے نیل پولیش کی ضد لیئے اسکا سر کھا رہا تھا,,,


پر مجھے وہ نیل پولیش چاہیئے,, مٹھو نے اُسکا انکار سنتے کچھ ضدی لہجے میں کہا,,,


تُم نہ جاؤ میں چلا جاتا ہوں بھلے ہی وہ کالی بلی مجھے کچا کھا جائے,,, اپنے لمبے پر پھیلاتے آنکھوں کو سرخ کرتے دھمکی آمیز لہجے میں گویا ہوا,,, غصے میں وہ اور بھی زیادہ پیارا لگتا تھا چھوٹی چھوٹی آنکھوں کو مزید چھوٹا کرتے بہت پرکشش لگتا تھا


نہ نہیں تُم نہ جاؤ میں جاتی ہوں ، پر مجھے یہ تو بتاؤ تم وہ نیل پولیش کیوں لگانا چاہتے ہوں تم طوطے ہو طوطی نہیں , حرم نے اُسے سہولت سے سمجھانا چاہا ورنہ رات کے اس وقت عنایہ کے کمرے میں جانا یعنی کسی بھیس کو یہ بولنا کہ آ بھینس مجھے مار,, وہ اُسکا ریکشن سوچتے ہی جھرجھری لے اُٹھی ,,,


کیوں نیل پولیش پر لکھا ہوتا ہے کیا کہ صرف لڑکیاں یا پیاری پیاری طوطیاں ہی لگا سکتی ہیں ؟ مٹھو نے اُسکے ہاتھ سے اوپر چڑھتے کندھے پر بیٹھتے ہوئے آنکھوں کو مٹکا مٹکا کر کہا,,


یہ باتیں تُمہیں سکھاتا کون ہے مٹھو ؟ حرم دانت پیستے ضبط سے بولی ,,


کوئی نہیں سکھاتا میں بچپن سے ہی اتنا ہوشیار ہوں اب تُم جا رہی ہو یا میں جاؤں ؟؟ اُس نے آنکھوں میں کچھ غصہ لاتے دھمکایا ,,,


ڈرامے دیکھ دیکھ کر تُم پورے اداکار بن گئے ہو ,, حرم نے لمبی سانس خارج کرتے اپنا غصہ ضبط کرتے کھڑے ہوتے ہوئے کہا,,,


بس کر پگلی رولائے گی کیا ؟ ڈرامائی انداز میں پھر سے بولا اور سائڈ ٹیبل پر چڑھتا بسکیٹ کھانے لگا ,,,


حرم اُس عجیب مخلوق کی حرکتوں پر افسوس سے گردن نفی میں ہلاتی اپنے لمبے کھلے بالوں کا رف سا جوڑا بناتے شانوں پر دوپٹہ درست کیئے کمرے سے باہر کی طرف قدم بڑھانے لگی پنک رنگ کی شلوار کمیض میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی ,,مٹھو سے سر مارنا فضول تھا وہ بہت ضدی ہوگیا تھا لیکن یہ بھی اسی کے بے جاں لاڈ پیار کا نتیجہ تھا, چار ناچار وہ عنایہ کے کمرے کی طرف چلی گئ, ,,


اُس نے عنایہ کے کمرے میں قدم رکھا تو کمرے میں ملگجا اندھیرا چھایا ہوا تھا ,,


وہ بیڈ پر چادر منہ تک اوڑھے بے خبر سوئے عنایہ کے وجود کو دیکھتی لبوں پہ زبان پھیرتے دبے دبے قدموں سے اُسکے ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھی عنایہ کا وجود کچھ کمزور معلوم ہورہا تھامگر وہ دھیان دئیے بغیر دوسری طرف رخ کر گئ,,


موبائل کی ٹورچ روشن کرتے ہلکی پھلکی سی روشنی میں وہ نظریں پھیرتے مطلوبہ نیل پولیش تلاش کرنے لگی,,, جو جلد ہی اُسے مل گئی تھی نیل پولیش اٹھاتے ایک ہی جست میں وہ تقریباً دوڑتی ہوئی اُسکے کمرے سے باہر نکلتی اپنے کمرے میں پہنچی تھی,,,


اسکے نکلتے ہی دروازے کی اوٹ میں چھپی عنایہ ایک لمبا سکون بھرا سانس خارج کرتے باہر آئ,,,


الماری سے سفری بیگ نکالا اور اس میں کپڑے ٹھونسنے لگی پیکنک مکمل ہوتے ہی اسنے کچھ جیولری نکالی تقریباً پانچ لاکھ کی جیولری کے بعد بھی اسے ہیسوں کی ضرورت محسوس ہوئ,,, وہ دبے قدموں چابیوں کی تلاش میں اپنے ماں باپ کے کمرے کی طرف بڑھی,,,


نا محسوس طریقے سے دروازہ کھولتے اندر داخل. ہوئ راحیلہ اور سکندر بے خبر گہری نیند میں تھے,,,

اسنے ڈرتے ہوئے قدم اپنی ماں کی طرف بڑھائے,,, کیونکہ وہ تمام چابیاں اپنے برابر دراز میں رکھتی تھیں,,,

اسنے آہستہ سے ڈرار کھول کر وہاں سے مطلوبہ چابی لی

راحیل نے اچانک کروٹ اسکی طرف لی تو اسنے گھبراہٹ میں چابیوں کا گھچہ ہاتھ سے چھوڑ دیا ہلکی سی آواز کمرے میں ارتعاش پیدا کر گئی لیکن سوئے ہوئے وجود میں کوئ جنبش نہیں ہوئ وہ دونوں ہنوز سوئے ہوئے تھے وہ سکون بھرا سانس ہوا میں تحلیل کرتی چابی ہاتھ میں لیتی جس طرح آئ تھی ویسے ہی واپس چلی گئ,,,

لاکر سے پیسے لینے کے بعد وہ اپنے کمرے میں آئ اور کچھ دیر سب کے سوجانے کا انتظار کرنے لگی ,,,,,


کچھ ہی دیر کے انتظار کے بعد وہ مطلوبہ سامان لیتے نقاب سےاپنا چہرا ڈھانپا اور اپنے کمرے کی کھڑکی کی طرف بڑھتے سامان نیچے پھینکا جہاں ایک اسی کے ہم عمر لڑکا کار کے پاس کھڑا تھا اسکے سامان پھینکتے ہی اسنے بیگ کو کینچ کیا,,,


عنایہ رسی کو کھڑکی سے باندھتے اسکا باقی سرا نیچے پھینکا اور خود کھڑکی سے چھلانگ لگاتی رسی کہ مدد سے نیچے اترنے لگی,,,

نیچے آتے وہ دونوں عجلت میں کار کی طرف بڑھے اور اسمیں سوار ہوتے یہ جا وہ جا,,,


*********


اُوش شا وشے...! جیتی رے میری شیرنی ,,, مشہور ٹی وی سیریل بلبلے کی اداکار مومو کی آواز سے مشابہت کرتے آواز میں ادا ہونے والے یہ الفاظ سنتی وہ ہر گز حیران نہیں ہوئی تھی کیونکہ وہ اپنے مٹھو کی مومو کو لے کر پسندیدگی سے واقفیت رکھتی تھی, اور یہ مومو کی آواز بھی اُسکے لاڈلے مٹھو نے ہی نکالی تھی,,,


مٹھو تُم خود تو عنایہ آپی سے پٹنے والے کام کرتے ہی ہو کسی دن تُم مجھے بھی مرواؤ گے اُن سے,, بھاگنے کی وجہ سے پھولے سانس سے بولتی وہ بیڈ کے سائڈ پر جا بیٹھی ,,


کِس کی مجال کہ میری حرم کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھے اُسکی آنکھیں نہ ان اپنے لمبے لمبے اور پیارے پیارے ناخنوں سے نکال دوں,,,

آنکھوں کو چھوٹا اور سفید رنگت میں بدلتا پیر پٹختا شدید تیش میں بولا ,, آخر حرم میں اُسکی جان بسی تھی , حرم کی محبت کے آگے اُس نے کبھی آزادی نہیں مانگی پر ہوتے ہوئے بھی کبھی وہ حرم کو چھوڑ کر نہیں أڑا ،،


اب جلدی آؤ نیل پولیش لگاؤں اور واپس آپی کے اٹھنے سے پہلے رکھکر بھی آؤں وہ اُٹھ گئ اور اُنہیں پتہ لگ گیا تو آج ہم دونوں کی خیر نہیں ,,,


حرم نے نیل پولیش کے برش کو بوتل میں ڈیپ کرتے ہوئے کہا,,


مٹھو بنا کچھ بولے خاموشی سے سائڈ ٹیبل پر بیٹھا اپنے چھوٹے چھوٹے ناخونوں پر نیل پولیش لگوانے لگا ,,


ہائی اللہ میں اتنا پیارا کیوں ہوں ,,, اپنے نیل پولیش لگے پنجے دیکھ وہ پھر شرارت سے بولا ,,,

اُسکے ان الفاظوں پر حرم نے بے ساختہ قہقہ لگایا تھا,,


کہاں جا رہی ہو بلو رانی ,,, اُسے کمرے کے دروازے کی طرف بڑھتا دیکھ مٹھو نے اُسکے پیچھے سے ہانک لگائ,


نیل پولیش رکھکر آرہی ہوں اور تم بھی اپنی تشریف کا ٹوکرا اپنے پنجرے کی طرف لے جاؤ .. وہ کچھ سخت لہجے میں کہتی آگے بڑھ گئی,,,

مٹھو بھی منہ بسورتے اڑتا ہوا اپنے پنجرے میں جا بیٹھا ,,,


°°°°°°°

ارے ساحر تُم آگئے,,, ثمر کو بھی لے آتے ساتھ تُمہارے داجی بہت یاد کر رہے تھے تُم دونوں کو ,,, گل بانو نے اپنے بڑے بیٹے کو دیکھ خوشی سے نہال ہوتے لہجے میں کہا,, ساحر کے سُرخ چہرے اور سرد آنکھوں کو دیکھے بغیر وہ مسکرائ,,,


مور.....! ساحر نے تڑپ کر اپنی ماں کو پُکارا ایک آنسو پلکوں سے چھلکتا ہوا گالوں پر پھسلا تھا,,,


ک کیا ہوا ساحر ,,, ابھی وہ اُس سے اُسکے رونے کی وجہ ہی پوچھ رہی تھی کہ صحن میں کچھ لوگوں کو چارپائی رکھتے دیکھ اور اُس پر سفید کفن میں لپٹے وجود پر اُنکی نظر پڑتے ہی جیسے اُنکے لفظوں پہ کفل لگ گیا,,,


یہ ک کو کون ہے ؟؟ اُنہوں اُنگلی کے اشارے سے چارپائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ساحر سے پوچھا جو خود کافی ٹوٹی بکھری حالت میں لگ رہا انکا دل کسی بے تہاشہ تیزی سے دھڑکنے لگا وہ سانس روکے ساحر کے جواب کی منتظر تھیں,


مور ثمر نے خود کُشی کر لی ہے,,, اسنے بہت مشکل سے یہ الفاظ ادا کیا تھے یقین کرنا مشکل تھا کہ وہ اپنے کم سن بھائ کو کھو چکے ہیں,,


ساحر کے الفاظوں نے جیسے اُن کے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی تھی,, وہ لڑکھڑائی تھی ,, ساحر نے بر وقت اُنہیں شانوں سے تھامتے سنبھالا ,,

یہ میرا ثمر ہے ؟؟؟ وہ اپنے سینے پر اُنگلی رکھتے غیر دماغی سے گویا ہوئی,,,


ساحر نے محض گردن اثبات میں ہلائی اور اپنی لہو ٹپکاتی آنکھیں ازیت سے موندی تھی ,,,


یہ کیا بکواس کر رہے ہو خانہ خراب کے بچے ,,, یہ ہمارا ثمر نئی ہے وہ حلال اور حرام کا فرق جانتا ہے وہ کبھی حرام موت نہیں چن سکتا اپنے لئے,,,


اُنکے سامنے ہی کھڑے اُنکی باتیں سنتے داجی نے شدید تیش میں جڑهکا ,,,


داجی کی روبدار آواز سنتے ہی ساحر نے اپنی مندی آنکھیں کھولی تھی ,, اور اُنکی طرف قدم بڑھائے تھے,,


یہ دیکھیں پھر یہ کیا ہے ؟؟ اُس نے کہتے ہی ہاتھ میں تھامے ثمر کے موبائل میں ویڈیو اُون کرتے اُنکے چہرے کے سامنے کی ,,,


دادا جان میں نے شادی کرلی ہے میں جانتا ہوں ہمارے خاندان میں باہر شادی کرنے کی اجازت نہیں ہے مگر,,,

وہ رکا اسکی آنکھوں میں آنسوں تھے،،،


میں مجبور تھا عشق کے ہاتھوں ، میں شادی کرچکا ہوں اگر آپ لوگ میری بیوی اور بچے کو قبول نہیں کرینگے تو میں اپنی جان لے لونگا وہ ازیت سے آنکھیں میچ کے کھولتے ہوئے بولا ,,,,

اب فیصلہ آپکے ہاتھ میں ہے دادا جان آپکو اپنی برسوں سے چلتی آئ روایتیں عزیز ہیں یا اپنا پوتا ,,

اور اسے دھمکی سمجھنے کی غلطی ہر گز مت کیجیئے گا کیونکہ اب میں آپکا بچپن والا ڈرپوک پوتا نہیں ہوں اسکی گرفت چھری پر کچھ سخت ہوئ جسکے نتیجے میں خون رسنے لگا,,,

درد برداشت کرتے اسنےأ اپنی بات جاری رکھی,,

میں اپنی محبت کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہوں میری بہادری کا ایک نمونہ آپ ابھی دیکھ سکتے ہیں,,,


کہتے ہی اسنے تیزی سے اپنی کلائ پہ چھری چلائ تھی


ثمر کے منہ سے ادا ہونے والے الفاظ تھے یا گویا کوئی خنجر تھا جو سیدھا اُنکے سینے میں پیوست ہوتا اُنکے سینے کے ٹکڑے کرتے اُنہیں چھنی کر چکا تھا ,,,


ااُنہوں نے ایک نظر اپنے سامنے کھڑے پوتے پر ڈالی جو لہو چھلکاتی انکھوں سے اُنہیں ہی گھور رہا تھا,, اُسکے ہاتھ سے موبائل جھپٹتے ہی زور سے دیوار پر دے مارا تھا جو کئی حصوں میں بٹ گیا تھا,,,


گل بانو پلر کا سہارا لئے کھڑی تھی ,, ثمر کے ابھی ویڈیو میں کہے الفاظ اُنکے دماغ میں کسی ہتھوڑی کے مانند لگ رہے تھے,, پہلے دشمنی میں اُنہوں نے اپنا شوہر کھویا اور اب اپنا بیٹا ,, وہ اپنے بالوں کی جڑوں کو ہاتھوں میں جکڑتی رو رہی تھی ،،،


یہ یہ سب کیا ہے اماں اوپر سے آتی دوپٹے میں چہرا ڈھانپے درخنے نے سحن میں رکھی میت کو دیکھتے پوچھا,,,


مر گیا تیرا بھائ ,,,,, نگل گئ کوئ ڈائین میرے معصوم بچے کو کہا تھا میں نے میرے بچے کو شہر پڑھنے مت بھیجو وہ معصوم ہے اب دیکھ لیا نہ نتیجہ ساحر یہ سب تیری چھوٹ کا نتیجہ ہے تو نے لی تھی اسکی زمیداری,,,,


ابکی بار مورے حقارت سے عنایہ کو دھتکارتی روتی دھاڑتی بولی کے حویلی کے درو دیوار ہل کر رہ گئے,,,

پوری حویلی میں کہرام سا مچ گیا تھا,,,

اچانک جوان بچے کی موت کی خبر یہاں موجود تمام نفوس کے دلوں پہ گہرا اثر کر گئ تھی,,,


ثمر کی ماں پاگلوں کی طرح ثمر کے مردہ وجود جو جھجھوڑ رہی تھی,,,

نہییں میرا بچا مجھے چھوڑ کر نہیں جاسکتا ساحر اسکو بولو یہ اٹھ جائے میرا کلیجہ پھٹ رہا ہے,,


لفظ لفظ میں ازیت جھلک رہی تھی,,. ساحر نے آگے بڑھتے اپنی ماں کو سمبھالا اسکے لیئے بھی اپنے چھوٹے بھائ کو دفنانا آسان نہیں تھا لیکن جانے والوں کو کون روک سکتا ہے زندگی موت تو اللہ کی امانت ہے,,,


خود کو مظبوط ظاہر کیئے وہ سارے انتظام دیکھنے لگا داجی کی حالت بھی کسی مردہ وجود سے کم نہ تھی انکے جگر کا ٹکڑا انکا لاڈلا پوتا تھا,,,


یہاں سب ہی ثمر کو چیخ چیخ کر بلانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن کبھی مرے ہوئے لوگ واپس آئے ہیں کیا,,,


کفن دفن کے بعد حویلی کی ساری لڑکیاں قرآن خانی میں مشغول تھی,, اسکی ماں بہن سب ہی ٹوٹی بکھری حالت میں تھے سبکو ہی جیسے اس موت پہ سکتا طاری ہوگیا تھا,,,


داجی کے سر پہ تو بس انتقام کا بھوت سوار تھا,,, ساحر بدلہ نہیں چاہتا تھا لیکن وہ داجی اور باقی گھر والوں کی حالت کے پیشِ نظر خاموش تھا,,


وہ عنایہ کو جانتا تھا لیکن وہ اس قسم کی لڑکی ہوگی یہ بات وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا,,

لمبے سفر کے بعد گاڑی ایک بڑے سے ہوٹل کے سامنے روکی,,,, جہاں بڑے بڑے لفظوں میں ہوٹل کا نام لکھا تھا,,

اندر سے ہوٹل کافی پرکشش تھا وہ لڑکا جو دکھنے میں کوئ بیس بائیس سالہ لگ رہا تھا وائیٹ جینس پہ بلو شرٹ پہنے اور آنکھوں پہ سن گلاسیس ،، دکھنے میں تو وہ کسی اچھے گھر کا معلوم ہورہا تھا لیکن کرتوت کچھ اور ہی پتہ دے رہے تھے,,


ریسپشنسٹ سے چابی لیتے وہ لڑکا مطلوبہ کمرے کی طرف بڑھا پیچھے عنایہ بھی اسکی تقلید میں قدم اٹھانےلگی,,,


کمرے میں پہنچتے ہی عنایہ نے خود کے گرد لپٹی چادر الگ کرتے کنگ سائیز بیڈ پہ اچھالی, ,,

اور خود بھی گرنے کے انداز میں بیڈ پہ لیٹ گئ,,,

کمرا کافی وسعی تھا پردے کشن سب ترتیب سے لگے ماحول کو فسوں خیز بنا رہے تھے,,,

بیڈ کی ایک طرف سیاہ رنگ کے صوفے رکھے گئے تھے ساتھ کانچ کی ٹیبل جسپے لال رنگ کے پھولوں کا واس رکھا تھا,


اسکے ساتھ آیا وہ لڑکا روم لاک کرتے اسکی طرف مڑا,,,


آر یو اوکے تمہیں کوئ پروبلم تو نہیں ہوئ گھر سے نکلنے میں,,, اسنے عنایہ کے پاس بیٹھتے لہجے کو متفکر بناتے پوچھا,,,


فلحال توکوئ پروبلم نہیں ہوئی لیکن ثمر کی فیملی خاموش ہر گز نہیں بیٹھے گی ہمیں جلد سے جلد یہاں سے نکلنا ہوگا تم نے باقی کا انتظام کرلیا ہے نہ,,,


فکر مت کرو سارا انتظام ہوگیا ہے ہماری صبح جلدی کی فلائیٹ ہے اس وقت کوئ فلائیٹ نہیں تھی اسلیئے مارنگ کی ٹکٹس ہوئی ہیں,,,

مقابل لڑکے نے تفصیل سے جواب دیا,,, اور اسکے برابر لیٹ گیا,,,


کنجی آنکھیں سیاہ بال گندمی رنگت وہ کافی حد تک پرکشش تھا,,


لیکن اسکی غلیظ نگاہیں عنایہ کے وجود پہ ٹکی تھی وہ بھرپور اسکے سراپے کا جائزہ لے رہا تھا,,

چست جینس شرٹ میں اسکے سراپے کے تمام دلکش خدو خال نمایا ہورہے تھے,, جو مقابل کو مدہوش کر رہے تھے لیکن مقابل بھی عنایہ تھی اتنی آسانی سے کسی کے جال میں پھنسنا نا ممکن وہ تو پھانسنا جانتی تھی تو کیا مقابل کی نظریں نہیں محسوس کر پا رہی تھی یا پھر جان بوجھ کر اسکے سامنے اپنے وجود کی نمائیش کر رہی تھی,,,


اسکے پاس سے اٹھتے وہ دروازے کے پاس آئ,,


مجھے نیند آرہی ہے صبح فلائیٹ کے وقت مجھے اٹھا دینا اب تم جا سکتے ہوباقی باتیں کل ہونگی,,,دروازے کا لاک کھولتے اسنے عام سےانداز میں جانے کا کہا,,,


لیکن مقابل کو یہ کسی حد تک توہین لگی,,, وہ ضبط کرتا وہاں سےچلا گیا,,,

اسکے جاتے ہی وہ تنزیہ مسکرائ,,,,


**********

صبح کی روشنی رات کی سیاہی کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی ہر طرف پرندوں کی چہچہاہٹ عروج پر تھی,,, صبح کا سورج آج سکندر مینشن میں ایک الگ کہرام لے کر آیا تھا کیا ہونا تھا اس حسین صبح کے آغاز کے ساتھ کتنوں کی زندگی بدلنے والی تھی ,,,,کس کے نصیب میں کیا ہونا لکھا تھا اسکا علم تو صرف اوپر بیٹھی پاک زات کو ہی تھا جسکے ہاتھ میں دونوں جہانوں کی ڈور تھمی تھی,,,


********

الارم کہ آواز پہ اسکی آنکھ کھلی تو اسنے ٹائم پیس اٹھاتے وقت دیکھا جہاں گھڑی آٹھ کا ہندسا عبور کر چکی تھی,,, وقت کا احساس ہوتے ہی وہ جلدی سے اٹھ بیٹھی,,


او نو اتنا لیٹ مما نے بھی نہیں اٹھایا پتہ نہیں آپی اٹھی ہیں یا نہیں,,


خود سے چادر ہٹاتی وہ پیروں میں سلیپرز پہنتے فریش ہونے کی گرز سے واشروم میں بند ہوگئ,,,

لباس تبدیل کرتے وہ نکھری نکھری سی گیلے بالوں کوسکھاتی باہر نکلی شیشے میں اسکا صاف شفاف چہرا واضح تھا,, جلدی جلدی تیار ہوتے کمرے سے باہر نکلی تو اسکے کانوں سے اپنی ماں کی چیخنے کی آوازیں ٹکرائ,,,


جو قریب عنایہ کے کمرے کے پاس کھڑی اسے دروازہ کھولنے کا بول رہی تھیں لیکن اندر سے کوئ جواب موصول نہیں ہورہا تھا,,, کیا ہوا ہے مما وہ بھی دوڑتی ہوئ اس طرف آئ اور اپنی ماں سے سوال کیا,, ,

پتہ نہیں عنایہ دروازہ نہیں کھول رہی ہے معلوم نہیں یہ لڑلی آخر چاہتی کیا ہے,,,


وہ کچھ جھجلائ سی بولی,,,


عنایہ کا رویہ بہت وقت سے خراب تھا وہ کسی کی نہیں سنتی تھی اول تو وہ گھر میں بہت کم آتی تھی زیادہ تر اپنے دوستوں کے ساتھ پارٹیز میں رہتی تھی اسکا یوں رات دیر تک گھر سے باہر رہنا راحیلہ کو ناگوار تھا لیکن سکندر صاحب عنایہ کو آزادی دینے کے چکر میں وہ حرام حلال صحیح غلط کا فرق کروانے میں کوتاہی کر گئے بے جاں لاڈ پیار سے وہ اس قدر بگڑ گئ کہ اب اپنے ماں باپ کو بھی کسی خاطر میں نہیں لاتی تھی اور کچھ دن سے مسلسل اسکا مشکوک انداز سب ہی گھر والوں کو شک میں مبتلا کر رہا تھا,,,


آپ پریشان نہیں ہو میں دوسری چابی سے کھولتی ہوں,, حرم اپنی ماں کو کہتے چابی لینے چلی گئی,,,


لاک کھولتے وہ دونوں اندر داخل ہوئی,,, ادھر ادھر نگاہ گھماتے یک دم ہی حرم کی نظر کھلی ہوئ کھڑکی کی جانب گئ جہاں سے روشنی چھنکر کمرے میں آرہی تھی اور ایک رسی کھڑکی کے دروازے سے بندھی تھی,,


وہ دونوں تیزی سے اس طرف آئی تھیں اور سارا معاملہ سمجھ چکی تھی,,,


نہیں عنایہ ایسا نہیں کر سکتی ,,,راحیلہ غائب دماغی سے کہتی دل تھامے دیوار سے لگتے نیچے بیٹھتی چلی گئ,,,


پاپا............... اپنی ماں کو ایسے بیٹھا دیکھ اسنے ایک زور دار آواز اپنے باپ کو لگائ جو ابھی اپنے کمرے سے نکلتے ڈائینگ ٹیبل کی طرف بڑھ رہے تھے حرم کی آواز پہ وہ تقریباً بھاگتے ہوئے کمرے میں آئے تھے,,


ککیا ہوا ہے,, راحیلہ وہی بیٹھے بیٹھے حرم کی گود میں سر رکھےبیہوش ہوچکی تھیں ,, سکندر صاحب اپنی بیوی کی طرف بڑھے اور حرم سے سوال گو ہوئے,,


پاپا عنایہ آپی یہاں سے کود کر بھاگ گئ,,

اسنے بچوں کی طرح روتے ہوئے کھڑکی کی طرف اشارہ کرتے بتایا,,,


اسکے الفاظ تھے یا پگھلتا ہوا سیسہ,, سکندر کو اپنے پیروں تلے زمین کھسکتی محسوس ہوئ,,, جوان بچی یوں باپ کی عزت کو مٹی میں ملا کر بھاگ گئ یہ صلہ دیا تھا اسنے اپنےماں باپ کی محبت کا,,,


خود کو سمبھالتے اپنی بیوی کو گود میں اٹھاتے بیڈ پہ لٹایا اور ڈاکٹر کو کال کی,,,


جلد ہی انکی فیملی ڈاکٹر ہاتھ میں بیگ تھامے آتے ہوئے دکھائ دی,,,.

انجیکشن اور دیگر علاج کے بعد ڈاکٹر واپس جا چکا تھا ,,,

حرم مسلسل رو رہی تھی سکندر کا حال بھی راحیلہ سے کم نہیں تھا وہ دل پہ شدید بوجھ محسوس کر رہے تھے,,,


°°°°°°°

وہ ظہر کی نماز کے بعد مسجد سے نکلتا حویلی کی طرف بڑھ رہا تھا کہ اُسکا موبائل وائبریٹ ہوا ,,,

اسکرین آنکھوں کے سامنے کرتے دیکھ اُس نے موبائل کان سے لگایا,,,


جو کام کہا تھا وہ ہوگیا ؟؟ کال یس کرتے ہی اُس نے مقابل سے سوال کیا,,

جی سر ہم نے اُٹھا لیا تھا اُسے ۔۔۔۔ مقابل کی بات سنتے اُس نے ایک سرد سانس ہوا کے سپرد کی تھی۔۔۔۔۔


زبان کھولی اُس نے؟؟ آس پاس کا خیال کرتے اُس نے نیچی آواز میں پوچھا ۔۔


سر بہت خاطر تواضع کے بعد کھولی ہے زبان,, مقابل نے سامنے رسیوں میں جکڑے نیم بے ہوش وجود کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔


کیا کہا ہے اِس نے اُس دِن فارم ہاؤس میں عنایہ ہی آئی تھی؟؟ ساحر نے حویلی میں قدم رکھتے ہوئے کہا ....

نہیں سر ثمر کے خودکشی والے دن عنایہ نہیں آئی تھی بلکہ کوئ اور لڑکی آئی تھی اُس نے لمبی سفید چادر اوڑھے نقاب کیا ہوا تھا,,جس کی وجہ سے اُس خاتون کی صرف شہد رنگ آنکھیں ہی دیکھ رہی تھی ,,,


مقابل نے سامنے وجود سے حاصل کی ساری معلومات ساحر کو بتائی ...

ٹھیک ہے اِسے جانے دو ۔۔۔۔ ساحر نے کہتے ہی بنا مقابل کی سنے کال کاٹ دی ۔۔


شہد رنگ آنکھیں اور چادر ،،، ابھی وہ یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ اُسکے سامنے حرم کے معصوم چہرے کے ساتھ اُسکی شہد رنگ آنکھیں اور چادر میں چھپا وجود یاد آیا,,,,


اِس سوچ کے آتے ہی جیسے اُسکے دل کو کسی نے مٹھی میں دبوچا تھا ۔۔۔

وہ ایک دم سے ہوش میں آتا اپنے بیڈ کے سائڈ ٹیبل کی طرف بڑھا تھا,,,

سائڈ ٹیبل کا ڈرار کھولتے ہی سامنے ڈائیمنڈ کا خوبصورت بریسلیٹ پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا جو اُسے فارم ہاؤس سے ثمر کے کمرے سے ملا تھا ,,,

بریسلیٹ کو اُلٹ پلاٹ کر دیکھتے وہ گہری سوچ میں نظر آرہا تھا,,,


یہ نشان کیسے ہیں آپ کے ہاتھ میں ؟؟؟ حرم سے کیا سوال یاد کرتے ہی اُسے حرم کے سفید ہاتھوں پر سُرخ لکیروں کے نشان کے ساتھ اُسکے ہاتھ میں پہنا سیم ایسا ہی بریسلیٹ یاد آتے جیسے اُسکے اوسان خطا ہوئے تھے,,,


نہیں وہ کیسے ہو سکتی ہے اس طرح کے بریسلیٹ تو لاکھوں لڑکیوں کے پاس ہوتے ہیں,,, وہ اپنے ہی خیال کی نفی کرتا خود سے گویا ہوا,,,,

سر نقاب کے باعث اُس خاتون کی بس شہد رنگ آنکھیں ہی واضح تھی،،، ہر شک حرم کے خلاف جاتا دیکھ وہ سر تھامے بیڈ پر بیٹھ گیا,,,

کُچھ یاد آتے اُس نے موبائل نکالتے اُس بریسلیٹ کی تصویر لیتے کسی کو بھيجی اور ساتھ ہی کچھ ٹائپ کرتے میسیج بھی بھيجا ،،،،،


دفعتاً کمرے کا دروازہ بجتا دیکھ وہ بریسلیٹ واپس ڈرار میں رکھتا ، خود کو کمپوز کرتا دروازے کی سمت بڑھا ۔۔۔۔۔


لالا آپکو حجرے میں بولا رہے ہیں داجی ملازمہ اُسے موؤدب انداز میں داجی کا حکم سناتی آگے بڑھ گئی,,,


وہ بھی ایک لمبی سانس خارج کرتے خود کو پُر سکون کرتا کمرے سے نکلتا گیا ۔۔۔۔


°°°°°°°°

ثمر کے انتقال کو دو روز گزر چُکے تھے اور آج حویلی میں اُسکا تیجا تھا,,, سب کو ہی کافی حد تک صبر آچکا تھا,, پر داجی بدلے کی آگ میں جل رہے تھے اُنکا بس نہیں چل رہا تھا کہ کہیں سے اپنے لاڈلے کی قاتلہ کو ڈھونڈ کر مار دیں,,,

گل بانو تو جیسے اپنے جوان بیٹے کی موت پر ڈھے سی گئ تھی,, وہ بار بار ثمر کو پُکارتی اُسکی استعمال میں آنے والی ہر چیز چومتی اپنے ثمر کو پُکار رہی تھی,, پر مرے ہوئے لوگ کبھی کسی کی پُکار پر واپس لوٹے ہیں جو ثمر اپنی تڑپتی ماں کی پُکار پر لوٹ آتا،،،


°°°°°°

حاجی سمندر خان اگر تُم اپنا بدلہ لینا چاہتے ہو تو یہ تمہارا حق ہے لیکن اگر تُم اُنہیں معاف کر دو تو اللہ کے نزدیک تمہارا یہ عمل بہت بالا ہوگا,,, گاؤں کے دو تین بُزرگ سمندر خان اور ساحر کے ساتھ حجرے میں موجود جرگہ لئے بیٹھے تھے,,,

کہ اُن میں سے ایک بزرگ نے کہا,,


میں کسی صورت اپنے پوتے کے قاتلوں کو نہیں بخشوں گا,,, اُنہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا اُنکے ہر انداز سے بدلے کی آگ چھلک رہی تھی...


ساحر کیا تُم اُس لڑکی اور ثمر کے بارے میں پہلے سے ہی جانتے تھے ؟؟ ہمیں اُس کا پتہ دو اگر جانتے ہو تو ،،، داجی نے ساحر کو جانچتی نظروں سے دیکھتے استفسار کیا ,,


داجی مجھے بھی ویڈیو دیکھ کر ہی پتہ لگا تھا کہ ثمر عنایہ سے نکاح کر چُکا ہے,,, مجھے اس سے پہلے ثمر اور اُس لڑکی کے نکاح کا علم نہیں تھا,, میں نے بس ایک دفعہ ہی ثمر کو اُس لڑکی کے ساتھ دیکھا تھا,, پوچھنے پر ثمر نے محض یہی بتایا کہ وہ میری یونی میں میرے ساتھ پڑھتی ہے اور میری دوست ہے،، میں نے ثمر کو تنبی کیا تھا کہ وہ اِس لڑکی سے دور رہے پر,,,, ساحر نے ساری بات داجی کے گوش گذارتے آخر میں جملہ ادھورا چھوڑ دیا,,,


وہ داجی کے پھتریلے تاثرات دیکھتا پھر گویا ہوا ,,

داجی میرا خیال ہے کہ ہمیں اپنا معاملہ اللّٰہ کے سپرد کر دینا چاہیئے،، اور ویسے بھی غلطی ثمر کی ہی ہے کچھ بھی تھا اُسے خودکشی نہیں کرنی چاہئے تھی,,, ساحر نے اُنہیں سمجھانا چاہا,,


ہم نے تُم سے تمہارا خیال نہیں اُس لڑکی کا پتہ مانگا ہے ساحر ۔۔۔۔۔ اور تُم اپنا درس اپنے تک محدود رکھو ہم اکیلے ہی ڈھونڈ نکلیں گے,,, اُنہوں نے تنے جبڑے اور آگ چھلکتے لہجے کے ساتھ کہا,,, اُنکی آنکھوں سے ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ جیسے ابھی ہی لہو ٹپکنے لگے گا,,,,


داجی ۔۔۔۔۔ ساحر نے اُنہیں کُچھ کہنے کے لئے منہ ہی کھولا تھا کہ اُنہوں نے ہاتھ کے اشارے سے خاموش کروا دیا ,,,,,


تُم جا سکتے ہو اب ۔۔۔۔ وہ اپنا اشتعال دباتے گویا ہوئے ,,,


یہ تمہارا شہر میں آخری چکر ہے ساحر اِس کے بعد تُم بس گاؤں کے ہسپتال میں ہی ڈاکٹری کرنا ۔۔۔۔۔ ہم میں اب اور کچھ بھی کھونے کی سکت نہیں بچی ۔۔۔ اُنہوں نے اپنی روبدار آواز میں کہا ۔۔۔۔۔


پر داجی ۔۔۔۔

اگر تمہیں یہ منظور نہیں تو تم بھی ہمارے لئے ثمر کی طرح مر گئے آج سے ،،، وہ اُسے بولتا دیکھ دھمکی زدہ لہجے میں بولے ۔۔۔۔


ساحر ضبط سے ہونٹ اور مٹھیاں بھنچتے بغیر کچھ بولے وہاں سے نکلتا گیا ۔۔۔۔


سمندر خان تُمہیں اپنے پوتوں کو تعلیم کے لئے شہر بھيجنا ہی نہیں چاہئے تھا ۔۔۔ ثمر کے جاتے ہی ایک بزرگ نے داجی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔

سمندر خان نے محض اپنی سُرخ آنکھوں سے اُسے دیکھا تھا,,

وہ ہسپتال میں اپنے کیبن میں بیٹھا دماغ میں چلتی بہت سی سوچوں میں گُم تھا ۔۔۔

کیا میں جو سوچ رہا ہوں اگر وہ سچ ہوا تو میں کیا کروں گا ؟ وہ خود سے ہی سوال گو تھا ۔۔

نہیں نہیں ایسا نہیں ہوگا انشاءاللہ وہ ثبوت تُمہیں بے گناہ ہی ثابت کریں گے ،،، اُسکے دل نے فوراً دماغ کی سوچ کی نفی کرتے دعا کی تھی ۔۔۔


میری یہی خواہش ہے حرم کہ تمہارا اس سب سے کوئ تعلق نہ ہو ۔۔۔ ورنہ میں اپنی محبت کو اپنے بھائی پر قربان کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگاؤں گا ،،، اپنے ہی خیالوں میں حرم سے مخاطب ہوتے اُس نے اذیت سے آنکھیں میچی تھی ۔۔


کمرے کی خاموش فضا کو موبائل کی چنگاڑتی آواز نے توڑا ۔۔

اُس نے آنکھیں کھولتے ٹیبل سے موبائل اٹھاتے بنا نمبر دیکھے بیزاریت سے یس کرتے موبائل کان سے لگایا ۔۔۔


ہم تمہارے ہسپتال کے سامنے کھڑے ہیں جلدی سے نیچے آؤ موبائل کے اسپیکر سے داجی کی روبدار آواز اُسے اپنی سماعتوں سے ٹکراتی محسوس ہوئی ۔۔


خیر تو ہے داجی آپ گاؤں سے کب آئےسب ٹھیک تو ہے ۔۔۔۔ ساحر نے فکر مند لہجے میں نہ سمجھی سے پوچھا


تُمہیں جتنا کہا ہے اُتنا کرو جلدی سے نیچے آؤ ۔۔ داجی نے ایک بار پھر حکم سناتے فون کاٹ دیا ۔۔


ساحر بھی پریشانی کے عالم میں ٹیبل سے موبائل والیٹ اور مطلوبہ سامان اٹھاتا اپنے کیبن سے نکلتا گیا ۔۔۔


آپ نے اتنی عجلت میں بلایا سب خیر تو ہے داجی ۔۔۔ گاڑی میں داجی کے برابر بیٹھتے کچھ تشویش ناک انداز میں استفسار کیا,,, داجی کا رویہ اور گاؤں سے آئی اُنکے ساتھ یہ نفری اُسے کچھ سہی علامت نہیں لگ رہی تھی۔۔


ہم نے اپنے پوتے کی قاتلہ کو ڈھونڈ نکالا ہے اب ہم اُس سے اپنے گاؤں کے سب سربراہوں کے سامنے انتقام لیں گے ۔۔۔۔۔ داجی نے ڈرائیور کو گاڑی سٹارٹ کرنے کا حکم دیتے سامنے دیکھتے سپاٹ چہرے سے کہا ۔


ساحر کو تو جیسے داجی کے الفاظوں سے جھٹکا سا لگا تھا

۔۔۔ وہ آنکھوں میں حیران سے تاثر لئے اُنہیں دیکھ رہا تھا ،،پر اُس میں کچھ کہنے کی ہمت نہیں تھی اس لئے سارا معاملہ وقت کے سپرد کرتا وہ خاموشی سے بیٹھا کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا ۔۔


°°°°°°°°°°°

کون ہو آپ سب لوگ کہاں گھسے چلے جا رہے ہو؟؟

گارڈ نے تیزی سے سامنے سے آتے ان چھ نفوس کو دیکھتے کہا جن میں سے چار افراد ہاتھوں میں کلاشن تھامے سفید کلفدر شلوار قمیض میں ملبوس کندھے پر شال ڈالے سکندر مینشن کے اندر بڑھ رہے تھے,,,


اپنی جان پیاری ہے تو سائیڈ میں ہوکر کھڑے ہوجاؤ ورنہ رحم کی امید ہم...... سے مت کرنا,,,

ان میں سے سب سے آگے چلتے ایک بزرگ نے روبدار آواز میں اپنی چھڑی آگے کرتے غصے سے کہا,,,


لیکن آپلوگ ہیں کون گارڈ نے بھی الرٹ ہوتے اپنی گن کا ظعم دکھایا,, مگر بے سود,,,


سمبھالو اسے داجی ، اپنے برابر کھڑے آدمی سے کہتے آگے بڑھ گئے,,,

پیچھے اس آدمی نے آگے بڑھتے گارڈ کو خونخوار

نظروں سے دیکھا,,,


اور ٹھااا کی آواز, کیساتھ اُس نے ایک فائر گارڈ کے پیر پہ کیا گارڈ درد سے کراہتا اپنا پاؤں پکڑےوہی ڈھیر ہوگیا,,,,,


اور وہ آدمی گن اپنے ساتھ آئے گارڈ کو تھماتا اندر کی طرف بڑھا,,,


کون ہیں آپ لوگ سکندر سکندر,,,


نیچے آتی راحیلہ نے انجان لوگوں کو یوں دن دہاڑے ہاتھ میں کلاشن تھامے گھستے دیکھ اپنے شوہر کو بلند آواز میں پکارا,,,,


چیخ کی آواز پہ سکندر بھاگتے ہوئے لان کی طرف آئے تھے لیکن یہاں کامنظر دیکھ انکے پیروں تلے زمین نکل گئ تھی,,,,


جہاں دو سے تین بزرگوں کے ساتھ کئی آدمی کلاشن تھامے اُنکے لان کے بیچو بیچ کھڑے تھے


آؤ جناب سکندر ۔۔۔۔ داجی نے نیچے آتے سکندر کو دیکھتے ہوئے کہا ،،،،، وہ بھاگتے ہوئے نیچے آئے تھے اور اپنی بیوی کی طرف بڑھے, ,,


کون ہو تم لوگ ، سکندر نے بھی غرا کے کہا ،


کہاں ہے تمہاری بیٹی ہمارے معصوم پوتے کا بے دردی سے قتل کر کے کہاں مر کھب گئ ہے وہ ابھی کے ابھی بلاؤ اسے ورنہ ابھی ہی تمھاری اُسی بیٹی کو یتیم کر دیں گے ،،

وہ شیر کی طرح اپنی بھاری روب دار آواز میں گرّائے ,,,اس عمر میں بھی انکا روب دبدبہ وہی کا وہی قائم تھا,,,


میری بیٹی ایسا کچھ نہیں کر سکتی آپ لوگوں کو ضرور کوئ غلط فہمی ہوئ ہے,,, سکندر کو اب اپنی بیٹی کے لاپتہ ہونے کی اصل وجہ معلوم ہوئ تھی مگر وہ صاف انکار کر گئے,,,,آخر کو اولاد تھی اور ماں باپ اپنی اولاد کی ہر غلطی معاف کردیتے ہیں اور یہ اقدام اکثر بہت بڑے حادثے کی وجہ بنتی ہے اولاد کو غلطیوں کیلئے ہمیشہ تنبی کرنی چاہئے ,,,


ہمارے پاس تمہاری بدچلن بیٹی کے کرتوت محفوظ ہیں اگر تم اسے ہمارے حوالے نہیں کرنا چاہتے تو نہ سہی ڈھونڈ تو ہم اسے قبرستان سے بھی لینگے,,, داجی نے بے حد سفاکیت سے کہا,,


دیکھو میں کہہ رہا ہوں آپ لوگوں کو کوئ غلطی ہوئ ہے

بابا کون ہیں یہ لوگ,,, ابھی وہ سہولت سے انہیں سمجھا ہی رہے تھے جب پیچھے سے اپنی بیٹی حرم نور کی آواز پہ وہ خوف سے اسکی طرف دیکھنے لگے,,,


بیٹا تم اندر جاؤ وہ اپنی نازک سی بچی کی جان جانے کے ڈر سے چیخ پڑے ,,,


خبردار یہاں سے کوئ ہلا تو اے لڑکی نیچے آ اب کی بار پاس کھڑے مراد صاحب نے اپنی گرجدار آواز میں کہا, ,,


حرم نور کو دیکھکر وہاں کھڑے خوبرو نوجوان ساحر خان کا دل تیزی سے دھڑکا تھا، وہ حیران سے تصور سجائے اپنی شہد رنگ آنکھوں سے اُسے دیکھ رہا تھا ،،

وہ جس معصوم سی لڑکی پر اپنا دل ہار بیٹھا تھا کیا وہ اُسکے لاڈلے چھوٹے بھائی کی قاتل ہے؟؟ اُسکے دماغ میں چلتے سوال اُسکی دل کی دھڑکنیں بند کر رہے تھے ،، تو کیا داجی کو بھی حرم کے خلاف ثبوت ملا ہے ؟؟؟ اُس نے خود سے ہی سوال کیا ۔۔۔


کون ہیں آپ لوگ اور یہ کیا طریقہ ہے ، شریف لوگوں کے گھر آنے کا ، حجاب کے ہالے میں اُسکی سفید رنگت دھوپ کے باعث چمک رہی تھی وہ کانپتے دل کے ساتھ جلدی سے قدم اٹھاتی اپنے باپ کے سینے سے جا لگی ،، اُس نے ہمت کرتے بول تو دیا تھا پر سدا کا اُسکا ڈر پوک دل اب خوف سے دھڑک رہا تھا ،


تو یہ ڈائن ہے جس نے ہمارا پوتا کھایا ؟؟ داجی نے کبھی عنایہ کو دیکھا نہ تھا اس لئے وہ حرم کو عنایہ سمجھ رہے تھے۔ وہ سُرخ انکھوں سے اُس معصوم کو دیکھتے بولے ،،


خبردار ،،،،، اگر میری حرم کے لئے ایک بھی غلط لفظ منہ سے نکالا تو تمھارے ٹکڑے کر کے پشاور پہنچا دوں گا میں ،، اپنی لاڈلی چھوٹی بیٹی کے لئے غلط سنتے وہ اُنگلی سے تنبی دیتے ضبط کرتے بولے ،،،


ٹکڑے تو ہم کرنے آئے تھے تمھارے سکندر پر ہماری روایت کسی کو ناحق مارنے کی ترغیب نہیں دیتی ، حرم کا نام سنتے وہ کچھ ٹھنڈے ہوئے تھے وہ تو عنایہ کی تلاش میں یہاں آئے تھے ۔۔۔


ہمارے جرگے کے فیصلے کے مطابق تُمہیں اپنی چھوٹی بیٹی حرم نور کا نکاح ہمارے بڑے بیٹے ساحر سے کرنا ہوگا سمندر خان نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد کچھ سوچتے اپنے لہجے کو قدرے مضبوط کرتے اپنا اٹل فیصلہ سناتے سکندر اور راحیلہ دونوں کے سروں پر بم پھاڑا تھا ،،،


تُم جس قاتلہ کو ڈھونڈنے آئے ہو وہ موجود نہیں ہے ، اُسکی گناہوں کی سزا میں ہر گز اپنی حرم کو نہیں دینے دوں گا تُمہیں ، اپنے لئے یہ سب سنتی حرم کی آنکھوں سے آنسو نکلتا گالوں میں پھسلا تھا ،،


ہم نے تم سے رائے نہیں مانگی اپنا فیصلہ سنایا ہے ، اُنہوں نے گرجدار آواز میں اپنے الفاظ ادا کئے ،،


یہ سب تماشا دیکھتے ساحر کا اچانک موبائل بج اُٹھا وہ ایک آخری نظر وہاں سب پر ڈالتا سائڈ پر جا کر کھڑا ہوگیا اور موبائل کان سے لگایا ۔۔۔۔۔


کیا ہوا کچھ پتہ لگا ۔۔۔؟ ساحر نے ایک مہم سی اُمید کے تحت مقابل سے پوچھا ۔۔


سر جو بریسلیٹ آپ نے بھیجا تھا وہ پچھلے سال ہی کراچی کے مشہور جیولر سے خریدا گیا تھا بلکہ صرف یہ ایک ہی نہیں دو خریدے گئے تھے ایک ہی جیسے ڈیزائن کے ۔۔۔ اور مزید خبر یہ ہے کہ آپ نے فارم ہاؤس میں موجود جس خفیا کیمرے کا بتایا تھا ہم نے ڈھونڈ کر چیک کر لیا تھا سر اور وہ چادر میں آئی خاتون کی تصاویر آپکو بھیج دی ہیں دوسری طرف مکمل تفصیل سے اگاہ کیا گیا۔۔۔۔


لیکن مقابل کی تفصیل سنتے اُسے جیسے اپنے سینے میں درد سا اٹھتا محسوس ہوا تھا ۔۔ ۔ وہ ایک لمبی سانس ہوا کے سپرد کرتا بنا کچھ جواب دیئے کال کٹ کر گیا ۔۔


اپنے موبائل اسکرین پر موصول ہوئی تصاویر دیکھتے اُسکی چہرے سے ایک رنگ آرہا تھا تو دوسرا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔


سامنے ہی ایک سیاہ چادر اوڑھے ایک دراز قد لڑکی چہرے پر نقاب أڑھے ہوئی کھڑی تھی ۔۔۔ اس تصویر کو دیکھتے وہ گہری سوچ میں مبتلا تھا ۔۔

نہیں حرم کا قد چھوٹا ہے جبکہ اِس کا بڑا ہے ۔۔ اپنی نظروں کے سامنے اسکرین پر تصویر دیکھتے اُسکے دماغ میں پھر جھماکا ہوا ۔ ۔

اگر میں یہ مان بھی لوں کہ یہ سب عنایہ نے کیا تو ۔۔ اتنا بڑا کام وہ اکیلی نہیں کر سکتی یا اللہ مجھے ہمت دے اپنے بھائ اور خاندان کے دشمنوں کو ڈھونڈ کر نیست و نابود کرنے کی ۔

وہ موبائل بندھ کرتا جیب میں رکھتا دل ہی دل میں اپنے رب سے دعا گو تھا ۔۔۔


میں داجی اور گاؤں کے دوسرے بزرگوں کے فیصلے سے انکار نہیں کرسکتا مجھے یہ نکاح کرنا ہی پڑے گا اور ویسے بھی حرم اگر تمھاری بہن اس سب میں ملوث ہوئی تو اُسے میرے غضب سے کوئی نہیں بچا پائے گا اور تم بھی میرے لئے میرے بھائی کی قاتل کی بہن ہی رہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ خود سے ہی مضبوط ارادے سے کہتا اندر کی جانب بڑھا۔

^°°°°^^^^

باندھو اِس کو ،، اپنے آدمیوں کو سکندر کو باندھنے کا حکم دیتے وہ اندر بڑھ گئے ،،

سکندر صاحب نے خود کو باندھتے دیکھ ہر مزاحمت کی تھی ، پر بے سود رہی ، وہ سکندر کو رسیوں سے باندھتے اندر کی طرف لے گئے ،،،


سکندر کو اندر لے جاتے دیکھ اُنکی زوجہ راحیلہ اور بیٹی حرم نور بھی آنسو بہاتی اُنکے پیچھے اندر کی طرف بڑھی ،،،

ایک قیامت سی آج ان پہ ٹوٹ پڑی تھی,,


°°°°°°°°

تُم نے اِس دشمنی کو بڑھنے سے روک کر رشتے میں بدل کر بہت نیک کام کیا ہے اور بڑے دل کا مظاہرہ کیا ہے سمندر خان خدا اِس کا اجر تُمہیں دنیا میں بھی دے گا اور آخرت میں بھی دے گا ،،،، اُنکے ساتھ ہی آئے ایک بزرگ نے موچھوں کو تاؤ دیتے داجی کے فیصلے کو سراہا۔۔۔۔


دشمنی نہیں بیغرتی کہو ۔۔۔

دشمنی ہم ہمیشہ اپنے برابر کے لوگوں سے کرتے ہیں ۔۔۔ میری ہمیشہ سے خدا سے یہی دعا رہی ہے کہ خدا مجھے غیرت مند دشمن کی دشمنی عطا فرمائے۔

بے غیرت کتا اور بے غیرت دشمن ہمیشہ میدان میں دھوکا دیتے ہیں۔۔ داجی نے سرد آنکھوں سے سکندر کو دیکھتے ایک ایک الفاظ چبا چبا کر کہا ۔۔۔


سکندر اپنے بندھے وجود کو چھڑوانے کی کوشش کرتے سُرخ آنکھوں سے سمندر خان کو دیکھ رہے تھے ۔۔ وہ بلکل ایک زخمی شیر کی طرح لگ رہے تھے مگر بے بس,,,


اب کام کی بات کریں ۔۔۔ اُنہوں نے بزرگوں کے دیکھتے ہوئے کہا


بلکل ہم سب اس لئے ہی حاضر ہوئے ہیں ۔۔۔ اُن میں سے ایک بزرگ مراد صاحب،،، نے لاؤنچ میں قدم رکھتے ساحر کو دیکھتے کہا ۔۔۔


میں اپنے پوتے کا قتل اِس بے غیرت کی چھوٹی بیٹی کے بدلے معاف کرتا ہوں


اِسے اپنی چھوٹی بیٹی حرم نور کا نکاح میرے بڑے پوتے ساحر سے کروانا ہوگا ۔۔ چاہے راضی خوشی یہ زبردستی پر نکاح آج ہو کر رہے گا ۔۔۔


بیٹی کی شادی کے بعد اگر یہ شخص مجھے میرے علاقے میں نظر آگیا تو میں قسم کھاتا ہوں میں اِسکا سر تن سے جُدا کر دوں گا ۔۔۔

میں آج آخری بار دیکھ رہا ہوں اِسے اِسکے بعد کبھی نہیں دیکھنا چاہوں گا ۔۔۔ ۔۔۔ اُنہوں نے ایک ایک الفاظ ٹھنڈے ٹھار لہجے میں کہے ۔۔


تم چاہے میرے ٹکڑے کر دو سمندر خان پر میں اپنی بیٹی کے ساتھ یہ زیادتی نہیں ہونے دوں گا ،

صوفے پر مولوی صاحب کے ساتھ بیٹھے سمندر خان کو دیکھ رسیوں میں جکڑے سکندر نے گرجدار آواز میں کہا اس وقت وہ دوہری ازیت میں مبتلا تھے ایک طرف بڑی بیٹی کا کیا دھرا جو انکی عزت خاک میں ملا گئ تھی تو دوسری اپنی معصوم بیٹی کے لیئے فکرمند تھے اگر یہ نکاح ہوجاتا تو پٹھانوں کی سخت روایتوں سے وہ بخوبی واقف تھے انکی بڑی بیٹی کی سزا چھوٹی بیٹی کو ملنے والی تھی یا نہیں یہ تو محض خدا ہی جانتا تھا قسمت کیا رنگ دکھاتی ہے،


تو ٹھیک ہے یہ کام ہم تمھارے ٹکڑے کرنے کے بعد بھی کر سکتے ہیں سمندر خان نے اپنے ساتھ آئے آدمیوں سے کلاشن لیتے اُسکا رُخ سکندر کی طرف کرتے کہا ،،


نہیں نہیں انہیں نہ ماریں آ آپ جیسا ک کہیں گے ویسا ہی ہوگا پر انہیں نہ ماریں ،، راحیلہ بیگم نے آنسو بہاتے ہاتھ جوڑے تقریباً منت کرتے ہوئے کہا ،

ہاں حرم کریگی یہ نکاح ،، اُنہوں نے آنسوؤں سے تر چہرے سے اپنی بیٹی کو دیکھتے ہوئے کہا ،


نھُھیں پاگل مت بنو راحیلہ یہ لوگ عزت سے ہماری بچی بہانے نہیں آئے ہیں خون بہا کا مطلب تم اچھی طرح سمجھتی ہو......! سکندر صاحب سُرخ آنکھوں سے اپنی زوجہ کو دیکھتے دھاڑے تھے


میں تیار ہوں اِس نکاح کے لئے ، حرم نے اپنی ہاتھوں کی پُشت سے بے دردی سے آنسو رگڑتے سپاٹ چہرے کے ساتھ کہا ،

حرم کے ادا ہوئے اِس جملے پر صوفے پر داجی کے برابر بیٹھے ساحر نے بے ساختہ اُسکی جانب دیکھا تھا ۔۔۔


یہی بہتر ہے بچے ،، تمھارے خاندان کے لئے ، سمندر خان نے اثبات میں سر ہلایا ،

کُچھ ہی دیر میں نکاح کے لئے تمام تر تیاریاں مکمل کر لی گئی تھی ،،،،


،،،،

حرم نور ولد سکندر اعظم آپکا نکاح ساحر خان ولد شہروز خان سے تیس لاکھ روپے سکہ رائج الوقت ہونا قرار پایا ہے کیا آپکو قبول ہے ؟ مولوی صاحب نے نکاح کی سنت کا آغاز کرتے ہوئے حرم نور سے پوچھا ،


قبول ہے ،

اُس نے ایک نظر اپنے باپ پر ڈالتے ہوئے نظریں جھکاتے کہا دل کسی سوکھے پتے کی مانند لرز رہا تھا,,,

آنسو روانی سے اُسکی آنکھوں سے رواں تھے ، جنہیں وہ بار بار ہاتھوں کی پُشت سے بے دردی سے مسل دیتی ،

سکندر صاحب آنکھوں میں چنگاریاں لئے سمندر خان کی طرف دیکھ رہے تھے ،


آج اُنہیں اس بات کا شدت سے احساس ہوا تھا کہ اُنہوں نے اپنی بڑی بیٹی کو اتنی آزادی دے کر غلطی کی تھی ، اور اِس غلطی کی سزا اب اُنکی معصوم بیٹی نے بھگتنی تھی ،،،،،،،


°°°°°°°°°

حرم نور ولد سکندر اعظم آپکا نکاح ساحر خان ولد شہروز خان سے تیس لاکھ روپے سکہ رائج الوقت ہونا قرار پایا ہے کیا آپکو قبول ہے ۔۔۔ مولوی صاحب نے تیسری مرتبہ اپنا جملہ دہرایا ۔۔

قبول ہے ۔۔ ہتھیلیوں میں آئے پسینے کو رگڑتی دھیمی آواز میں بولی ۔۔ مولوی صاحب نے دستخط کے لئے نکاح نامہ اُسکی جانب بڑھایا جسے تھامتے اُسنے کپکپاتے ہاتھوں سے ٹیڑھا میڑھا دستخط کیا تھا ۔۔۔ ابھی تو اُسکی عمر اٹھارہ بھی نہیں ہوئی تھی اُسکی عمر اٹھارہ ہونے میں بھی ابھی ایک ماہ باقی تھا پر وقت بہت ظالم شے ہے وہ کسی پر رحم نہیں کھاتا اُسکا وجود خوف سے لرز رہا تھا۔

سکندر صاحب کی حالت آج کسی قسمت سے ہارے باپ کی جیسے لگ رہی تھی جس کی بڑی بیٹی اُن کے منہ پر کالک مل گئی تھی تو دوسری بیٹی اُنکی جان کے آگے خود کو قربان کر گئ تھی ۔۔ اُنکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ خود سے بندھی رسیاں توڑ کر اپنی حرم کو اپنے سینے میں چھپا لیں ۔۔۔


ساحر خان ولد شہروز خان آپکا نکاح حرم نور ولد سکندر اعظم سے تیس لاکھ روپے سکہ رائج الوقت ہونا قرار پایا ہے کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے مولوی صاحب نے ساحر سے پوچھا ۔۔۔۔

ساحر نے سرد آنکھوں سے حرم نور کی طرف دیکھا تھا جو نظریں جھکائے آنسو بہا رہی تھی ۔۔۔۔۔

قبول ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک طویل خاموشی کے بعد اُس نے سب کی نظریں خود پر محسوس کرتے ہوئے کہا ۔۔


کیا آپکو قبول ہے ۔۔ مولوی نے دوسری بار پوچھا

قبول ہے ۔۔ ایک بار پھر لاؤنچ کی خاموشی میں ساحر کی سنجیدہ آواز گونجی ۔۔۔


تیسری بار بھی پوچھنے پر مثبت جواب پاتے مولوی نے دستخط کے لئے نکاح نامہ اُسکے آگے بڑھایا ۔۔۔

اِس سب کے درمیان میں ہی داجی کے حکم پر اُنکے ساتھ آئے ایک آدمی نے آگے بڑھتے سکندر صاحب کو بھی رسیوں سے جُدا کر دیا تھا ۔۔۔ وہ رسیوں سے آزاد ہوتے ہی لہو ہوتی انکھوں سے اُس آدمی اور داجی کو دیکھتے حرم کی طرف بڑھے تھے جو اپنی ماں کے سینے میں سر چھپائے بیٹھی تھی ۔۔۔۔


ساحر نے دستخط کرتے حرم کے دستخط دیکھ اذیت سے ہونٹ بھینچے تھے ۔۔۔

سب دعا کے لئے ہاتھ کھڑا کریں مولوی صاحب نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے سب سے کہا ۔۔۔۔۔


°°°°°°°°

ان دونوں نے ابھی امریکا کی سر زمین پہ قدم رکھا تھا,,,

فلائیٹ لیٹ ہوجانے کی وجہ سے انہیں پہنچنے میں بھی دیر ہوگئی تھی,,,

عنایہ کو اپنی جان میں جان آتی محسوس ہوئی اسنے دونوں بازوں ہوا میں پھیلاتے ایک پرسکون سانس ہوا کے سپرد کیا,,, اور کیب میں جا بیٹھی

اسکے ساتھ آیا وہ لڑکا بھی عنایہ کے ہمقدم ہوا ,,,,

گاڑی ایک بنگلو کے سامنے رکی وہ آنکھیں پھاڑے اس بنگلے کو دیکھ رہی تھی جو تاج محل کو بھی مات دے رہا تھا,,

واؤ اسکے منہ سے بے ساختہ ہی الفاظ ادا ہوئے,,

بنگلہ بہت وسیع تھا جو دکھنے میں بلکل کانچ کا معلوم ہورہا تھا بے حد حسین اور پرکشش شیش محل بڑے بڑے لفظوں میں بنگلے کے وسط پہ کافی اونچائ پہ سنی بہت خوبصورتی اور نفاست سے لکھا گیا تھا,,,,

عنایہ نے باہر سے اس بنگلے کی خوبصورتی کو دیکھتے تھوک نگلا,,,

یہ باہر سے اتنا حسین ہے اندر سے تو جنت ہوگا لگتا ہے میری قسمت چمک گئی,,, وہ سوچ کر ہی مسکرا دی ,,,


کیا ہوا چلیں شیری نے آگے بڑھتے اسکے خیالوں میں مداخلت کی ,,,

ہاں ہاں چلو,,,

وہ کچھ گڑبڑا کے کہتی آگے بڑھی,,,

جیسے جیسے وہ آگے بڑھ رہی تھی اسکی آنکھیں حیرت سے کھلتی جا رہی تھی,,,

بیرونی دروازہ عبور کرتے وہ گارڈن ایریہ میں آئ جہاں چاروں اور فرش گھاس سے ڈھکا ہوا تھا رنگ برنگے پھولوں پہ حسین تتلیاں اڑتی ماحول کو مزید حسین بنانے میں مدد دے رہی تھی,,, گارڈن میں ایک لڑکی جو شاید بوٹینیکل کی معلومات رکھتی تھی بے حد نفاست سے پھولوں کا خیال رکھ رہی تھی تو ایک طرف مالی پودوں کو پانی دینے میں مگن تھا,,

کچھ آگے بڑھتے ایک سوئمنگ پول تھا جسمیں صاف شفاف پانی کے اوپر گلاب کی پتیاں بے ترتیب بکھریں پانی کی خوبصورتی اوربڑھا رہی تھی,,,

وہ کچھ اور آگے بڑھی تو ایک سفید رنگ کا پُتلا کھڑا تھا جو دکھنے میں پری لگ رہی تھی رنگ برنگا پانی اسپے گرتا ماحول کو خواب ناک بنا رہا تھا,,,

دن میں یہ سب اتنا حسین لگ رہا تھا تو رات میں کیا عالم ہوتا ہوگا وہ بس سوچ کر ہی رہ گئ,,,

اس سے دور تھوڑا اوپر ایک وجود ہاتھ میں کافی کا کپ تھامے بلیک ڈھیلے سے نائیٹ سوٹ میں ملبوس کھڑا عنایہ کے چہرے پر حیرانگی دیکھ اسکے چہرے پہ تبسم کھلا,,,


ابھی اُن دونوں نے گھر میں قدم رکھا تھا یہ گھر واقعی کسی جنت سے کم نہ تھا,,,,

ہال کے وسط میں لگے ایک بڑے سے حسین جھومر سے نکلتی لال روشنی چاروں طرف پھیلی ہوئ تھی,,


چاروں طرف سیاہ رنگ کے جالی دار پردے لگے تھے صوفے کشن کالین سب ہی سیاہ رنگ میں سلیقے سے سیٹ ہوا تھا,,,


حتٰہ کہ واس اور ان میں لگے مصنوعی پھول بھی سیاہ رنگ کے تھے,,,


اس گھر کے باہر سنی مینشن نہیں سیاہ مینشن ہونا چاہیے تھا لگتا ہے گھر کی مالکن نے سارا پیسا باہر کی سجاوٹ میں لگا دیا تو اندر کیلئے کچھ بچا نہیں ہوگا بچاری کے پاس,,,

اسنے پورے گھر کو سیاہی میں ڈوبا دیکھ دل ہی دل میں چوٹ کی,,,

اس سیاہی میں بھی یہ گھر کافی حسین اور پُر کشش منظر پیش کر رہا تھا,,,


ویلکم عنایہ سکندر بشاشت سے بھرپور نسوانی آواز پہ اسنے نگاہ آواز کی تقلید میں گھمائی,,,,

سامنے سیڑیوں سے اترتی سیاہ سوٹ میں ملبوس وہ چھوٹے چھوٹے قدم لیتی نزاکت سے نیچے آئ اور اپنی باہیں عنایہ کیلئے پھیلائی,,


عنایہ کے چہرے پہ یک لخت ہی تبسم کھلا,,, اور وہ دوڑتی ہوئ اسکے گلے لگی,,, کیسا لگا تمہیں تمہارا نیا گھر؟؟

دور ہٹتے اسنے عنایہ سے خوش اخلاقیات کامظاہرہ کیا,,,


بہت اچھا ہے قسم سے جنت ہے جنت لیکن ہر طرف سیاہ رنگ کیوں؟؟

عنایہ نے دل سے تعریف کرتے آخر میں الجھتے ہوئے سوال پوچھا,,


وہ مسکرائ اور بولنا شروع کیا,,,سیاہی کبھی ساتھ نہیں چھوڑتی عنایہ یہ ایسا رنگ ہے جو ایک بار چھڑ جائے تو چھوٹتا نہیں اور سنایہ کی نظر میں ہر انسان کو سیاہی کی عادت ہونی چاہئیے یہ دنیا یہاں کے لوگ سب فانی ہے ساتھ چھوڑ جاتے ہیں مگر یہ سیاہی ماں کے پیٹ سے لے کر قبر تک بھی ہمارا ساتھ نہیں چھوڑتی,,,,

عنایہ پوری توجہ سے اُسکی بات سن رہی تھی ,,,


کچھ توقف کے بعد اسنے پھر بولنا شروع کیا, بس اس سیاہی کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ناجانے کب مجھے یہ رنگ چھڑ گیا پتہ ہی نہیں چلا ,,,,اسنے کھوئے کھوئے سے انداز میں کہا عنایہ اب بھی الجھتی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی,,,


تم سوچ رہی ہوگی کے جو لڑکی سیاہی سے اس قدر عشق کرتی اسنے گھر سے باہر کیوں اس قدر روشنی پھیلائ ہوئ ہے,,,


وہ اسلیئے کیونکہ ہر چیز کا بظاہر حسین روشن ہونا چاہیے

اندر چاہے دوزخ کا سماء ہو مگر انسان ہمیشہ ظاہری خوبصورتی دیکھتا ہے اسے باطن سے غرض نہیں,,


او مائ گوڈ آپ کتنا اچھا بولتی ہیں مائنڈ بلوئینگ,,,

اسنے پوری توجہ سے اسکی بات سنتے پرجوش انداز میں کہا,,وہ مسکرا دی,,,تم فلحال آرام کرو لمبے سفر سے آئ ہو تھک گئی ہوگی,,,ہم باقی کی باتیں بعد میں کرتے ہیں,,,


سنایہ نے مسکا کر کہا اور ملازمہ کو آواز دی,,

عنایہ کا سامان ملازمہ کے حوالے کرتی اور ملازمہ کو اسے کمرے تک چھوڑنے کا کہا,,,

وہ بھی ایک مسکراہٹ اسکی جانب اچھالتی ملازمہ کی تقلید میں چلدی,,,


کمرا کافی وسیع تھا اسکے اپنے کمرے کے شاید دو کمرے بھی ملا دو تب بھی کم ہو یہ بات وہ سوچ کے ہی مسکرا دی,,,,کمرے میں ضرورت کی ہر چیز موجود تھی,,

فریش ہوکر اسنے فرصت سے کمرے کا جائزہ لیا,,,

کنگ سائیز بیڈ جو سیاہ بیڈ شیٹ سے ڈھکی ہوئ تھی سیاہ پردے صوفے,,,اسے اپنے کمرے میں ان سب سے کچھ وحشت سی ہونے لگی تھی ,,,,وہ نظرانداز کرتی کچھ دیر آرام کہ غرض سے بیڈ پ دراز ہوگئ,,,


******

کوئ گڑ بڑ تو نہیں کی اس احمق لڑکی نے؟؟سنایہ نے اسکے جاتے ہی پاس بیٹھے شیری سے پوچھا,,,

نہیں سنی کام تو ہوشیاری سے کیا ہے ,,,عمر سے زیادہ عقل ہے اس لڑکی میں,,,شیری نے کچھ پختگی سے جواب دیا,,,.عقل ہی تو نہیں ہے اس میں وہ تنزیہ مسکرائ اسکی بات پہ,,,


میں کچھ سمجھا نہیں شیری نے نہ سمجھی سے پوچھا,,,

محض نفرت انا بول رہی ہے اس لڑکی کی عقل تو ساری گھٹنوں میں ہے اسکی ورنہ اس جہنم میں قدم نہیں رکھتی,,,اسنے کچھ حقارت زدہ تاثرات چہرے پہ سجائے کہا,,,

شیری اسکی بات کا پس منظر سمجھتے مسکرا دیا,,,


°°°°°°°°


کب تک چلے گا یہ میلو ڈراما ... ؟؟؟ صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھے ساحر نے بیزاریت سے سامنے دیکھتے کہا ۔۔

جہاں حرم اپنے باپ کے سینے سے لگی رو رہی تھی راحیلہ بیگم بھی اُسکے سر پر ہاتھ پھیرتے آنسو بہاتے اُسے تسلی دینے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔


ساحر کے اِس قدر أکھڑ لہجے میں ادا ہونے والے الفاظوں پر سکندر صاحب نے اپنی لہو ٹپکاتی آنکھوں سے اُسے دیکھا ۔۔ اور اُٹھ کھڑے ہوئے...


اُنکے اُٹھتے ہی لاؤنچ میں موجود راحیلہ بیگم حرم نور اور ساحر تینوں ہی کھڑے ہوگئے ۔۔۔ داجی ساحر کو حرم کو ساتھ لانے کا حکم دیتے خود اپنے ساتھ آئے تمام بزرگوں کے ساتھ واپسی کے لئے روانہ ہوگئے تھے ۔۔۔


کیا چاہتے ہو تم اب ۔۔۔ سکندر صاحب نے اپنا اشتعال دبانے کی کوشش کی مگر وہ ایسا کر نہیں پائے اور دبے دبے غصے میں ساحر کہ منہ پہ پھنکارے,,,


رخصتی چاہتا ہوں اپنی بیوی کی ۔۔ ساحر نے آگے بڑھتے اُن کے سینے سے لگی حرم کا ہاتھ پکڑ کر اپنی جانب کھینچتے ہوئے کہا ۔۔۔ حرم کٹی پتنگ کی طرح اُسکی طرف کھینچتی چلی گئی ۔۔۔


نہیں جائیگی حرم کہیں بھی ۔۔۔ سکندر صاحب نے دھاڑتے کہا ، کہ سکندر مینشن کے درو دیوار ہل کر رھ گئے اُنکی دھاڑ سے ۔۔


ہوتے کون ہیں آپ روکنے والے ۔۔؟ ساحر اُنکے غصے کو دیکھتا بنا ڈرے دوبدو بولا ,,,


باپ ہوں اُسکا ۔۔۔


باپ تھے ۔۔۔۔ اب شوہر ہوں میں اِسکا جہاں اور جیسے میں چاہونگا ویسے رھے گی یہ ۔۔ ساحر نے اپنی شہد رنگ آنکھیں اُن کی آنکھوں میں گاڑھتے کہا اور آنکھوں پر سن گلاسز چڑھاتا حرم کا نازک ہاتھ اپنی سخت گرفت میں لیتا جانے لگا ۔۔


بابا ۔۔۔۔ ماما ۔۔۔ چھو ۔۔ چھوڑو حرم مزاحمت کرتے اُسکے ہاتھ سے اپنا نازک ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔ پر کیا ساحر شہروز خان کی گرفت سے نکلنا اُس کے لئے آسان تھا ۔۔؟؟


وہ پورچ میں آتا ایک ہی جھٹکے میں اُسے اپنی گاڑی میں ڈھکیلتا خود ڈرائیونگ سیٹ کی طرف بڑھا ۔۔ ۔


راحیلہ اور سکندر بھی باہر کی طرف لپکے پر اُنکی ہر منت سماجت بے سود رہی ساحر اُسے لیتا اپنی گاڑی سکندر مینشن سے نکالتا چلا گیا ۔

سکندر صاحب ٹوٹی بکھری حالت میں وہی زمین پر بیٹھتے چلے گئے وہ خود کو بے بسی کی انتہا میں محسوس کر رہے تھے ایک آنسو اُنکی آنکھوں سے نکلا تھا۔۔


***********

بس کردو بہت ہوگیا ہے اب اگر تُم روئی تو اِس چلتی گاڑی سے تُمہیں باہر پھینک دوں گا ۔۔

ساحر اُسے رونے کا شگل فرماتے دیکھ غصے میں دھاڑا

کہ ایک پل کو وہ نازک جان سہم گئی۔۔


نہیں جانا مجھے کہیں بھی آپ کے ساتھ مجھے گھر جانا ہے ۔۔۔ دوسرے ہی پل حرم نے ہمت مجمع کرتے بولا

واہ ماشااللہ سے اچھی زبان چلا لیتی ہو ۔۔

اور اب انجام سے بھاگنے کا تُمہارے پاس کوئی راستہ نہیں جانم اگر اتنا ہی خوف تھا انجام کا تو نکاح کے لئے خود حامی نہ بھرتی تُم ۔۔۔

ساحر نے سامنے روڈ کی طرف دیکھتے سپاٹ لہجے میں کہا ۔۔


حرم کیا کہتی ۔۔۔ وہ بس اپنی أمڈتی سیلاب جیسی شہد رنگ آنکھوں سے اُسے دیکھتی رہی ۔۔ ۔


سنا نہیں آپ نے میں نے کہا مجھے نہیں جانا آپ کے ساتھ ،،، ڈیش بورڈ سے ٹشو باکس اُٹھا کر اُسے مارتی تیش میں بولی ۔۔۔

اُسکی اِس حرکت پر ساحر نے جھٹکے سے گاڑی سائڈ کرتے روکی تھی ۔۔۔

اگر آئندہ تُم نے یہ حرکت کی تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا تُمہارے لئے ۔۔۔

گدی سے اُسکے بال جکڑتا گویا ہوا۔۔۔۔


سہہ ۔۔۔۔ آپ سے بُرا کوئی ہے بھی نہیں میرے لئے۔۔۔۔ سر میں اٹھتا درد برداشت کرتی وہ ایک بار پھر اُسکی آنکھوں میں دیکھتی بغیر کسی خوف کے بولی ۔۔۔

ساحر کو تو جیسے اُسکے ایک ایک الفاظ اور ایک ایک حرکت سے صدمہ سا لگ رہا تھا ۔۔ جیسے وہ معصوم اور ڈر پوک سمجھ رہا تھا وہ اُسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی باتوں سے اُسے تپا رہی تھی۔۔۔


اُس نے اِس چھٹانک بھر کی لڑکی کو سبق سکھانے کے لئے گدی سے جکڑے سر کو اپنی طرف کیا ہی تھا کہ پچھلی سیٹ سے طوطہ آڑتا ہوا آیا اور ساحر کے ہاتھ پر بیٹھا ۔۔۔۔


ہم شریف کیا ہوئے پورا زمانہ ہی بدمعاش ہوگیا ۔۔۔ ساحر کے ہاتھ پر اپنی سُرخ چونچ گاڑھ کر ایک ادا سے کہتے وہ حرم کے کندھے پر جا بیٹھا ۔۔۔۔ !!


مٹھو ۔۔۔۔۔۔۔ حرم طوطے کو دیکھتی تقریباً چیخی تھی ۔۔

ہاں میری بلو رانی ۔۔۔۔ وہ اُسکے دوپٹے سے اُلجھتے اُسکے آنسوؤں سے تر گالوں پر اپنی چونچ رکھتا بولا ۔۔


ساحر اپنے ہاتھ سے رستے خون کو دیکھتا اب انجانے تاثرات کے ساتھ اُن دونوں کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔


مٹھو ۔۔۔۔! حرم اپنا ضبط توڑتی ،، اپنے مٹھو کو خود میں بھنچتی زاروقطار رونے لگی ۔۔


کیا ہو رہا ہے یہ دور ہٹو تُم ۔۔۔ ساحر آنکھوں میں چنگاریاں لئے اُن دونوں کو دیکھتا آخر میں مٹھو سے بولا ۔۔۔


مٹھو بھی اپنی آنکھوں کو چھوٹا اور سفید رنگت میں بدلتا حرم کے ہاتھ سے اڑتا ساحر کی گردن پر جا بیٹھا ۔۔


تمھاری ہمت کیسے ہوئی میری حرم کو رلانے کی بنا پروں کے پنکھے ۔۔۔۔ اُسکے کالر کو اپنے پنجوں میں دبوچتا خطرناک تیوروں سے اُسے دیکھتے بولا ۔۔۔


اور اُسے کوئی بھی دوسرا موقع دیئے بغیر اُسکی گردن میں جگہ جگہ اپنی چونچ گاڑھنے لگا ۔۔۔

مٹھو۔۔۔۔۔ حرم پھٹی آنکھوں سے اپنے طوطے کے پاگل پن کو دیکھتی دہلتی اُسے پکارنے لگی


پر مٹھو پر تو جیسے کوئی جن سوار تھا ۔۔۔ ساحر کو اِس معصوم سے پرندے سے یہ اُمید نہ تھی پر شاید وہ ابھی اس پرندے میں موجود حرم کے لئے جنون سے ناواقف تھا ،،،


ساحر نے گردن پر جلن محسوس کرتے مٹھو کو ہاتھوں میں جکڑتے ڈش بورڈ پر پٹکا تھا ۔۔۔


مٹھو پھر سے خطرناک عزائم سے ساحر کو دیکھتا

اُس کی طرف بڑھ رہا تھا کہ ۔۔

مٹھو نہیں تُمہیں قسم ہے میری۔۔۔۔!

حرم اُسکا اگلا قدم سمجھتی فوراً بولی ۔۔۔

مٹھو وہی اپنے قدم روکتا ساحر کو گھورنے لگا ۔۔


یہ کیا چیز ہے نکالو اِسے ۔۔۔ ساحر گردن مسلتا حرم پر دھاڑا ,,

اُوئے آرام سے ہاں ۔۔ اور میں ساتھ جاؤگا اپنی حرم کے چاہے کسی کو اچھا لگے یا بُرا شان استغنا سے کہتا وہ آرام دہ انداز میں ڈیش بورڈ پر ٹانگ پر ٹانگ جما کر بیٹھ گیا ۔۔۔ انداز ایسا کہ نوابوں کو بھی پیچھے چھوڑ دے


پلیز لے چلیں مٹھو کو بھی ۔۔۔ حرم نے ساحر کی طرف دیکھتے مسکین سی شکل بناتے ہوئے کہا ۔۔


ساحر ایک لمبی سانس خارج کرتا خاموشی سے گاڑی سٹارٹ کر گیا ۔۔۔ وہ تو کبھی اس شیطان کے چيلے کو ساتھ نہ لے جاتا پر آدھے گھنٹے سے اِس روڈ پر گاڑی روکے بحث میں اُسے کافی وقت لگ گیا تھا وہ مزید بحث سے بچنے کے لئے خاموش ہوگیا اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اگر وہ نہ بھی لے جاتا اس عجیب مخلوق کو تو اُس نے أڑ کر آجانا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔


°°°°°°°°


گاڑی حویلی کے اندر لیتے اُس نے ایک چور نظر حرم پر ڈالی تھی جو خوفزدہ آنکھوں سے حویلی کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔


وہ گاڑی سے باہر آتا آس پاس پر سر سری سی نظر ڈالتا حرم کی طرف کا گیٹ کھولے باہر کھڑا ہوگیا ۔۔

خود نکلو گی یہ اُٹھا کر نکالنا پڑے گا مجھے ؟ اُسے وہی جما بیٹھا دیکھکر سختی سے گویا ہوا ۔۔

حرم گاڑی سے نکلتی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اندر کی جانب بڑھ رہی تھی دل کسی سوکھے پتے کی طرح لرز رہا تھا ۔۔ ہاتھوں میں بھی کپکپاہٹ طاری تھی ۔۔


ساحر بھی اُسے اندر داخل ہوتا دیکھ گاڑی سے مٹھو کو اٹھاتا پچھلے دروازے کی سمت بڑھ گیا تا کہ اِس شیطان کے چیلے کو سب کی نظروں سے بچا کر کمرے تک پہنچا سکے ۔۔


°°°°°°°°°


مجھے چوبیس گھنٹے میں وہ اِس دنیا سے رخصت چاہئے ۔۔۔ وہ فون پر مقابل سے مخاطب تھے کہ ، راحیلہ نے اُن سے فون جھپٹتے زمین پر پھیکا تھا ۔۔


یہ کیا کرنے لگے تھے آپ اپنی بیٹی کے شوہر کو مروائے گے آپ ؟؟ راحیلہ بیگم جو ابھی حرم کے طوطے کو پنجرے سے آزاد کرتی کمرے میں آئی ہی تھی کہ سکندر صاحب کو فون پر کسی سے محو گفتگو پایا، پر اُنکے الفاظوں نے اُنکا دل دہلا لیا تھا ۔۔


تو کیا کروں کیسے بچاؤں میں اپنی معصوم بچی کو اُن ظالموں سے پتہ نہیں کون کون سا ظلم کر رہے ہوں گے وہ ۔۔ سکندر صاحب غصے اور پریشانی کے ملے جلے تاثرات سے بولتے سر پکڑے صوفے پر ڈھے سے گئے اُنکا دل دھاڑیں مار مار کر رونے کا کر رہا تھا پر وہ جانتے تھے اُنہیں ابھی خود کو مضبوط رکھنا ہے ۔۔۔۔


آپ ہمت کریں ۔۔۔۔ ہم دعا کریں گے حرم کے لئے ویسے بھی سکندر ہماری بچی بہت صابر اور سمجھدار ہے دیکھنا وہ وہاں بھی اپنی معصومیت سے سب کے دل جیت لے گی ۔۔ ابھی وہ دُکھ میں ہیں اُنہوں نے اپنا جوان بیٹا کھویا ہے ۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا دیکھنا ۔۔ وہ سکندر سے زیادہ خود کو تسلی دے رہی تھی ۔۔۔


میں نے تو کبھی اپنی بیٹی پر کسی کو اُنگلی بھی نہیں اٹھانے دی پھولوں میں رکھکر اُسے ہر کانٹوں سے بچایا ہے ۔۔۔۔ سکندر صاحب رنجیدہ لہجے میں گویا ہوئے ۔۔۔


میں کہتی تھی سکندر آپ سے عنایہ کو اتنی چھوٹ نہ دیں ۔۔ پر آپ نے میری کبھی نہیں سنی ۔۔ وہ آنسو برساتی آنکھوں سے کہتی اُنکے سینے پر سر رکھتے رونے لگی ۔۔۔


خُدا عنایہ جیسی اولاد کسی دشمن کو بھی نہ دے ۔۔ کاش وہ میری بیٹی ہی نہ ہوتی ۔۔۔ اتنے سخت الفاظ استعمال کرتے اُنکی اپنی آنکھوں سے بھی آنسو رواں تھے ۔۔


°°°°°°°

رکو لڑکی ۔۔۔ وہ ابھی قدم اٹھاتی برآمدے تک ہی پہنچی تھی کہ اُسکی سماعتوں سے یہ الفاظ ٹکرائے۔۔ اُس نے گردن کو زرا جنمبش دیتے آواز کی تقلید میں گھمائ تو گل بانو کو کھڑا پایا ۔۔


کون ہو ۔۔کیا نام ہے ؟ حرم کو دیکھتے اُنہوں نے نہ سمجھی سے پوچھا ۔۔۔

السلام و علیکم..!

حرم نور سکندر نام ہے ۔۔۔ حرم نے کچھ کنفیوز سے انداز میں لبوں پر زبان پھیرتے جواب دیا ۔۔

وہ اثبات میں گردن ہلاتی حرم کی طرف بڑھی


حرم نے خوف زدہ ہوتے اپنے قدم پیچھے لئے تھے ۔۔


وعلیکم السلام ۔۔۔! حرم کے مقابل کھڑی ہوتی ماتھے پر شفقت بھرا بوسا دیتی وہ پیچھے ھٹی ۔۔ حرم جو اُنکی طرف سے کسی سخت رویے کی منتظر تھی۔ اُنکی اِس قدر شفقت سے وہ آنکھوں کو بڑا کئے اُنہیں دیکھ رہی تھی۔۔

ایسے مت دیکھو اور مجھ سے خوفزدہ نہ ہو میں جانتی ہوں تُم بے قصور ہو۔۔ آج سے تُم میرے ساحر کی بیوی ہونے کی حثیت سے میری بھی بیٹی ہو ۔۔۔ نور بانو نے اُسکا خوف بھاپتے نرمی سے کہا ۔۔۔

حرم نے محض اثبات میں سر ہلایا ۔ داجی وہاں سے آتے ہی سارا قصہ اُنکے گوش گزار چکے تھے اور اِس سارے قصے میں نور بانو کو حرم ہی مظلوم لگی ۔۔۔۔


تمھارے خاندان میں دلہن کو تیار کرکے رخصت کرنے کا رواج نہیں ہے کیا ۔۔ گل بانو نے اُسے سادہ سے پنک کلر کے کپڑوں میں سر سے پیر تک دیکھتے ہوئے کہا ۔ ۔۔


ہے پر میں تو فیصلے میں آئی ہوں نہ ۔۔۔ حرم نے تھوک نگلتے ہلکی آواز میں کہا ۔۔


فیصلے میں آئی ہو کسی کے جنازے پر نہیں ۔۔ خیر تُم یہاں بیٹھو میں تمھارے لئے لے کر آتی ہوں کوئی کپڑے وہ اُسے برآمدے میں موجود صوفے پر بیٹھنے کا کہتی خود اندر کی جانب بڑھ گئی ۔۔

اُنکی اِس شفقت کو دیکھتی وہ اب خاصی پُر سکون ہوگئ تھی


ابھی وہ صوفے پر بیٹھی بڑے انہماک سے ارد گرد کا جائزہ لے رہی تھی کہ کسی نے ہوا کی تیزی سے آتے بے رحمی سے اُسکا بازو دبوچتے اُسے کھڑا کیا تھا اور کچھ بھی سمجھنے یہ سوچنے کا موقع دیئے بغیر ایک زور دار تھپڑ اُسکے چہرے پر دے مارا,,,

یہ افتاد اس قدر جلدی میں ہوا کہ حرم کو اب اپنا گال جلتا محسوس ہوا تھپڑ پوری قوت سے مارا گیا تھا

حرم چہرے پر ہاتھ رکھے دھڑکتے دل کے ساتھ سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھ رہی تھی جو اُسکی ہی ہم عمر معلوم ہو رہی تھی ۔۔ اور حقارت سے اسکی طرف دیکھتی اُسے دوبارہ تھپڑ مارنے کے لئے ہوا میں ہاتھ بلند کیا لیکن کسی نے اسکا ہاتھ ہوا میں ہی پکڑ لیا ۔۔۔


یہ کیا حرکت ہے درخنے ؟؟ ساحر نے اُسکا ہاتھ جھٹکتے ہوئے غرا کر کہا ۔۔۔


یہ میرے بھائی کے قاتل کی بہن یہاں ہر گز نہیں رہے گی ۔۔ وہ ایک بار پھر حرم کی طرف لپکتی بولی پر اُسکے حرم تک پہنچنے سے پہلے ہی ساحر نے حرم کو بازو سے پکڑتے اپنی طرف کھینچا ۔۔

خوف سے حرم کا پورا وجود کپکپانے لگا۔


درخنے۔۔۔۔۔۔۔۔!!! ہاتھ میں تھامے کپڑے صوفے پر پھینکتے نور بانو نے با آواز بلند اُسے پُکارا۔۔۔۔


بیوی ہے تمھارے بھائی کی وہ۔۔۔۔۔۔۔۔ بھابھی ہے تمھاری معافی مانگو ابھی کے ابھی ۔۔


♥♥♥♥♥♥


نہیں مانگو گی میں معافی ،، نور بانو کے تیز لہجے کو نظر انداز کرتی وہ بھی دوبدو بولی ۔۔


نور بانو کب سے اُسکی بدتمیزی اور بد لحاظی سنتی اُسے تھپڑ مارنے کے غرض سے اُس کی طرف بڑھی ہی تھی کہ ۔۔

مور رہنے دو بچی ہے ۔۔۔ ساحر سمجھتا فوراً بولا ۔۔


بچی نہیں ہے اٹھارہ سال کی ہوگئی ہے لیکن ابھی تک اسے یہی نہیں پتہ کہ خود سے بڑوں سے کیسے بات کی جاتی ہے۔۔۔نور بانو نے اُسے غصے میں دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔


اصل آفرین تو آپ پر ہے بھائی ۔۔۔ کہاں جا سوئ ہے آپ کی غیرت جو اس جیسی کو اپنی دلہن بنا کر گھر لے آئے ہیں سر تا پیر حرم کو دیکھتی نفرت سے پھنکاری ۔۔ درخنے کے الفاظ تھے کہ گویا سیسہ جو ساحر کو اپنے کانوں کے آر پار ہوتا محسوس ہوا ۔۔۔


نور بانو نے آگے بڑھتے زور دار تھپڑ درخنے کے گال پر دے مارا ۔۔۔

یہ سب دیکھتی حرم نے اپنی چیخ کا گلا گھونٹتے سختی سے منہ پر ہاتھ رکھا ۔۔۔

درخنے منہ پر ہاتھ رکھے بھنچے ہونٹ اور انگارے برساتی آنکھوں سے حرم کو گھور رہی تھی ۔۔۔


تُم اندر جاؤ ۔۔ ساحر نے حرم کی طرف دیکھتے کچھ روب دار آواز میں کہا ۔۔

آؤ میں دیکھاتی ہوں تُمہیں کمرہ نور بانو کہتی اُسے کندھوں سے تھامے آگے بڑھ گئی ۔۔۔


شرم آتی ہے مجھے آپ کو اپنا بھائی کہتے ہوئے ۔۔۔ اُنکے جاتے ہی درخنے ایک بار پھر ساحر سے تیز لہجے اور اونچی آواز میں بولی ۔۔


آئندہ حرم پر ہاتھ کیا اُنگلی اٹھاتے ہوئے بھی یہ یاد رکھنا کہ وہ ساحر شہروز خان کی بیوی ہے ۔۔۔ وہ اسکے لہجے کو نظر انداز کرتا اُنگلی سے تنبی کرتا وہاں سے نکلتا چلا گیا ۔۔


وہ درخنے کی ثمر سے محبت سے واقف تھا اسلیئے اسکا اس قدر تضحیک آمیز لہجہ برداشت کرگیا لیکن جو اسنے حرم کیساتھ کیا وہ پتہ نہیں کیوں اسے شدید ناگوار گزرا ,,,


حرم کیساتھ درخنے کا اس قدر شدید عمل سے وہ خود حیران تھا ایسی تو ہر گز نہیں تھی اسکی چھوٹی بہن بڑوں سے آج سے پہلے کبھی اس لہجے میں بات نہیں کی تھی اسنے پھر آج ایسا ری ایکشن,,,,


نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اپنی لاڈلی چھوٹی بہن کیساتھ پہلی بار سختی سے پیش آیا تھا یا شاید اسکا عمل ہی نا قابل برداشت تھا,,,,


♡♡♡♡♡♡


لمبے سفر سے وہ قدرے تھک گئی تھی تقریباً دو گھنٹے سونے کے بعد وہ اب قدرے ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی انگڑائ لیتی وہ کفرٹر کو دور ہٹاتے اٹھی اور فریش ہونے کیلئے باتھروم میں بند ہوگئی,,,,


فریش ہوتے اسنے ڈھیلی ڈھالی سی شورٹ کرتی پہ ٹائیڈ جینس پہنتے بالوں کو پونی میں مقید کیا اور پنک لپسٹک کا شیڈ لگاتی نیچے جانے کیلئے پلٹی,,,


سیڑھيوں کے پاس پہنچتے یک لخت ہی اسے اپنا سر گھومتا محسوس ہوا,,,آنکھوں کے سامنے دھند چھانے لگی,, اسنے فوراُ ہی گرل کا سہارا لیا ,,,,


کچھ دیر یوں ہی کھڑے رہنے کے بعد وہ نارمل ہوئی,,,یہ کیا ہورہا ہے مجھے اپنا چکراتا سر تھامے وہ خود سے سوال گو تھی,,,


ہوسکتا ہے بھوک کی وجہ سے اب وہ نارمل محسوس کر رہی تھی ,,,,وہ ایک لمبا سانس فضا میں خارج کرتے چھوٹے چھوٹے قدم لیتی سیڑیاں اترنے لگی,,,


*************


میں نے تمہیں جایہ حادثہ پہ جانے کیلئے کہا تھا تم گئے تھے تصدیق کیلئے؟؟ کیا اس لڑکی نے اپنا کام مکمل کیا تھا کہیں کوئی ثبوت تو نہیں چھوڑا ,,,,,

سنایہ نے ہیزا کا بائیٹ لیتے کچھ سوچنے والے انداز میں پوچھا,,,,


وہ دونوں اس وقت ڈائینگ ٹیبل پہ بیٹھے تھے جہاں چائینیز کی کئی اقسام کے لوازمات ٹیبل پہ سجے اسکی خوبصورتی کو اور نکھار رہے تھے,,,


جی سنی میں گیا تھا کام تو پورا کیا ہے اس لڑکی نے مگر وہ ویڈیو بنانے والا آئیڈیہ مجھے کچھ کھٹک رہا ہے بس اسنے اس میں کوئ بیوقوفی نا کی ہو ,,,,


باقی سب میں چیک کر چکا ہوں سب پلین کے مطابق ہی ہوا ہے,,,

سامنے بیٹھے شیری نے منچورین سے ہاتھ روکتے تفصیل سے اسکی بات کا جواب دیا ساتھ درمیان میں اپنا خدشہ بھی ظاہر کیا,,,,


اس سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں اگر ویڈیو میں ایسا کچھ واضح ہو بھی جاتا ہے تو شک کے دائرےمیں عنایہ سکندر آئیگی ہم نہیں,,,,


وہ تنزیہ ہنسی ہنستے سفاکیت سے گویا ہوئی,,,,

سنی بھی اسکے شیطانی دماغ کا فطور سمجھتے مسکرا دیا,,,,


آپکے دماغ کا جواب نہیں سنایہ,,, میں تو کب سے اس بات میں دماغ کپھا رہا ہوں کہیں ہم اس لڑکی کہ غلطی کی نظر بہ ہوجائیں لیکن آپنے تو ایک جھٹکے میں ہی ساری گتی سلجھا دی,,,


وہ بھرپور مسکراہٹ کیساتھ داد دینے والے انداز میں گویا ہوا,,,

شیری اس چیز کا استعمال ہمیشہ کم کرنا چاہیے جو کم مقدار میں آپکے پاس پائی جائے,,,

وہ شان استغنا سے اسکے دماغ لگانے والی بات پہ چوٹ کرتی کھانے میں مگن ہوگئی,,,


شیری نے الجھتے اسے دیکھا اور پوچھنے کیلئے منہ کھولا ہی تھا جب سامنے سے عنایہ کو آتے ہوئے دیکھا,,,

اسنے سنایہ کو اشارہ دیا,,,تو سنایہ نے بھی سر اٹھاتے سامنے دیکھا,,,,


آؤ عنایہ کھانا کھاؤ ہمارے ساتھ اسنے لہجے کو مصنوعی ہشاش بشاش بناتے کہا اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا,,,

عنایہ نے مسکراتے ہوئے اپنی نشست سمبھالی,,,,


وہاں موجود لوازمات پر نگاہ اٹھائ تو اسکا جی متلی ہونے لگا,,ہالانکہ اسے پیزا بہت پسند تھا لیکن اس وقت اسے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا,,,


کیا ہوا تمہیں یہ سب پسند نہیں تو تم اپنی مرضی کا کچھ بھی آرڈر کر سکتی ہو,,,

سنایہ نے اسے کھانے کو دیکھتے ٹیڑے میڑے منہ بناتے دیکھ متفکر انداز میں پوچھا,,,انداز واقعی خاصی فطری تھا,,,


نہیں ایسی بات نہیں لیکن پتہ نہیں کیوں جی متلی ہورہا ہے شاید تھکن کے باعث,,,

اسنے اسکی غلط فہمی دور کرتے اپنا مثلہ بیان کیا,,,


پھر ایسا کرو تم یہ جوس لو اور روم میں جاکر آرام کرو شاید تھکن کے باعث ایسا ہورہا ہے میں تمہارے لیئے روم میں ہی سوپ بجھواتی ہوں,,,


سنایہ نے فکر مندی سے کہتے جوس کا بھرا گلاس اسکی طرف بڑھایا اور انٹر کوم پہ سوپ بنانے کا آرڈر دیا,,,,


♡♡♡♡♡♡♡


وہ نور بانو کے ہم قدم ہوتی ساحر کے کمرے تک پہنچی تھی ۔۔ دل عجیب ہی دھن میں دھڑک رہا تھا وہ تمام خوف ذہن سے دور دھکيلتی کمرے میں داخل ہوئی ۔۔


تُم آرام کرو ۔۔ کپڑے میں نے الماری کی میں رکھ دیئے ہیں ,, نئے کپڑے بھی منگوا لئے ہیں کُچھ ہی دیر میں آجائیں گے کچھ بھی چاہئے ہو تو مجھے بتا دینا ۔۔۔ نور بانو اُس کی سہمی سی شکل دیکھتی گویا ہوئی ۔۔


حرم محض اثبات میں گردن ہلا گئ ۔۔

اب تمہارا گھر یہی ہے اور اِس گھر کے لوگ ہی تُمہارے اپنے ہیں ۔۔۔ پریشان ہونے سے یا رونے سے کبھی کسی مسئلے کا حل نہیں نکلا بچے ۔۔۔


اللہ پاک سے دعا کرو اُس سے رجوع کرو اُس کے پاس ہر مرض کی دوا ہے ۔۔ نور بانو اُسے سنجیدہ دیکھ شفقت سے اُس کے گال پر ہاتھ رکھتی بولی....


اور میں درخنے کی طرف سے شرمندہ ہوں تم بے قصور ہو اور ویسے بھی سزا دینے کا حق اس پاک زات کو ہے میں نے اپنے بچے کا معاملہ خدا کے سپرد کیا بیشک وہ بہتر فیصلے کرنے والاہے۔۔


نور بانو کچھ ازیت سے اپنے بیٹے کو یاد کرتی پھیکی سی مسکراہٹ کیساتھ گویا یوئی,,,

حرم نور انکا دکھ سمجھتی نظریں جکھا گئی,,,جو بھی تھا انہوں نے اپنا بیٹا کھویا تھا وہ ایک ماں کا دکھ محسوس تو نہیں کر سکتی تھی لیکن سمجھ رہی تھی,,,


اچھا اب میں چلتی ہوں تُم بھی تھوڑا آرام کرو ۔۔۔ وہ اسکا جکھا سر دیکھتے شفقت سے سر پہ ہاتھ پھیرتی دھیمی مسکراہٹ سے کہتی کمرے سے باہر نکلتی چلی گئی ۔۔۔


حرم اُس کمرے میں موجود ہر چیز کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہی تھی سفید اور براؤن پردے کھڑکیوں کے آگے ڈالے ہوئے تھے ۔۔


سادہ سا گولڈن فرنیچر کمرے کو اور حسین بنا رہا تھا ۔۔ہرچیز اپنی جگہ نفاست سے سیٹ تھی کمرے کی ہر چیز یہاں رہنے والے کے زوق کا منہ بولتا ثبوت تھی,,,,


وہ یہ سب دیکھتی ساحر کی پسند کو داد دیئے بنا نہ رہ سکی ۔۔۔

پر اچانک ہی ماں باپ اور عنایہ کو یاد کرتی وہ بیڈ سے نیچے فرش پر بیٹھتی چلی گئی,,,


حرم .... ! اُسکے کانوں میں اپنے ماں باپ کی پُکار گونجنے لگی وہ کانوں پر سختی سے ہاتھ جما گئ اُن پکاروں سے بچنے کے لئے پر وہ جتنا ان پکاروں سے دور جانے کی کوشش کرتی اُسے اُتنی ہی اور سنائی دیتی۔۔۔۔


آخر تھک ہار کر وہ گھٹنوں میں سر دے کر ہچکیوں سے رونے لگی ۔۔ روتے روتے اُسے نہ جانے کتنا ہی وقت گزر چکا تھا ۔۔

کہیں قریب کی ہی مسجد سے آتی آزان کی آواز اُسکے کانوں سے ٹکرائی۔۔

نور بانو کی باتیں یاد کرتی وہ آنسو پونچتی وضو کے لئے واش روم کی طرف بڑھی ۔۔

وضو کر کے آتی وہ جائے نماز بچھاتی نماز ادا کرنے لگی ۔۔


°°°°°

نماز ادا کرتے اسنے دعا کیلئے ہاتھ اٹھایا تو خود بخود ہی اسکی آنکھوں سے آنسوں بہنے لگے,,,,

آللہ پاک پلیز مجھے ماما بابا کے پاس واپس جانا اللہ پلیز ان لوگوں کے دل میں رحم ڈالیں اللہ میرا کوئی قصور نہیں ہے یہ لو گ مجھے کیوں کسی ناکردہ گناہ کی سزا دے رہے ہیں وہ کسی چھوٹے بچے کی طرح زاروں قطار روتے اپنے رب سے دل کا حال بیان کر رہی تھی,,,,


اللہ اگر یہ تیری رضا ہے یا میری آزمائیش تو مجھے منظور ہ میں نہیں روؤنگی مما کہتی ہیں آپ آزمائش اپنے پیارے بندوں سے لیتے ہیں ,,,,


آزمائش پہ شکویٰ نہیں کرنا چاہیے اسپے ثابت قدم رہنے والا ہی اللہ کا پسندیدہ بندہ ہوتا ہے,,,

میں نہیں کرونگی شکویٰ اب آپ سے وہ اپنے آنسوں صاف کرتی کسی سمجھدار بڑے انسان کی طرح بول رہی تھی مگر آواز بلکل بچکانہ,,,


وہ بچی ہی تو تھی کم سن سی ابھی عمر ہی کیا تھی اسکی,,,


ساحر نے ابھی کمرے میں قدم رکھا تھا اسے یوں خدا کے آگے گڑگڑاتا دیکھ اسکے دل میں ایک ٹیس سی اٹھی,,,

کیا یہ سب جو میں اس لڑکی کیساتھ کر رہا ہوں وہ ٹھیک ہے,,,اسکے زمیر نے اسپے ملامت کی,,,


وہ درخنے جتنی ہی تھی,,,اسکے دل نے ایک اور وجہ بیان کی,,,

نہیں وہ میرے بھائی کی قاتلہ کی بہن اسکے دماغ نے فوراً ہی اسکی بات کی نفی کی,,,

بہن ہے خود قاتل تو نہیں دل کے کسی کونے سے ایک اور وجہ بیان کی گئی,,,


وہ دعا مکمل کرتی جائے نماز کو طے لگاتے اٹھی تو سامنے ہی ساحر کو مبہوت ساخود کو تکتا پایا ,,,,ساحر اسے ٹکٹکی باندھے اپنی جگہ ساکت سا اسے دیکھ اور سن رہا تھا اسکے مقابل ہونے پر بھی وہ ہوش میں نہیں آیا,,,


معصوم سا کسی بھی بناوٹی سجاوٹ سے پاک پرنور حجاب کے ہالے میں چمکتا چہرا سرخ سوجی ہوئی چھوٹی چھوٹی شہد رنگ آنکھیں ,,,,

وہ اسکی نظروں سے کنفیوز ہونے لگی,,,اور نظر انداز کرتے اسکے سائیڈ سے نکلتی جانے لگی,,,

نظروں کے سامنے سے اسکا حسین پرنور چہرا اوجھل ہوتے وہ ہوش کی دنیا میں لوٹا,,,


اور اسکی کلائی تھامتے اسے روکا,,,,

اتنی بھی تم معصوم نہیں ہو جو خدا کے آگے خود کو مظلوم اور ہمیں بے رحم ثابت کرنے کی کوشش کر رہی تھی,,,


ساحر نے ایک کوشش کے تحت اسکی معصومیت جانچنی چاہی اور اپنے منہ سے انگارے اگلنے لگا,,,

میری معصومیت سے میرا خدا واقف ہے وہ اپنے بندوں کو بہتر جانتا ہے مجھے آپ جیسے لوگوں کو اپنی معصومیت ثابت کرنے کی ضرورت نہیں,,


ساحر کے الفاظ اسے چابک کی طرح اپنے سینے پہ چلتے محسوس ہوئے,,,,وہ دوبدو بنا خوف کے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بولی,,,


ساحر کی گرفت اسکی کلائی پہ سخت ہوئی دائیں گال پر اب بھی درخنے کی انگلیوں کے سرخ نشان واضح تھے اسپے آنسوؤں کے مٹے مٹے نشان وہ کھونے لگا تھا اسکی معصومیت میں لیکن اسکے الفاظ اسے سبکی کا احساس دلا گئے,,,


میرے سامنے آئیندہ یہ زبان نہ چلے تو بہتر ہے ورنہ میں تھپڑ سے کام نہیں چلاؤنگا سمجھی,,,.دل میں اٹھتے تمام جزباتوں کو پش پشت ڈالتا وہ قدرے سختی سے بولا اور اسکے ہاتھ کو جھٹکے سے چھوڑتا باتھروم میں بند ہوگیا,,,.دل میں جلتی آگ بھی تو بجھانی تھی,,,

وہ بھرائ آنکھوں سے اپنے ہاتھ دیکھنے لگی جہاں اسکی دو دھیا رنگت پہ ساحر کی انگلیوں کے نشان ثبت تھے,,,

ایک آنسوں پھر اسکی آنکھ سے بہا وہ ہاتھ کی پشت سے آنسوں صاف کرتی بیڈ کی طرف بڑھ گئی,,,


**********


ٹھنڈ میں ٹھنڈے پانی سے شاور لیتا وہ کچھ حد تک اپنے اندر کی آگ کو بجھا چکا تھا ۔۔ تولیے سے بال رگڑتا وہ واش روم کا دروازہ کھول باہر نکلا ۔۔۔

حرم جو ابھی ہی سونے کے غرض سے لیٹی ہی تھی دروازے کی آواز پر فوراً اپنی مندی آنکھیں کھول گئ ۔۔۔ پر سامنے ہی چھے فٹ کے اپنے ترو تازہ شوہر کو بنا شرٹ کے دیکھ دوبارہ آنکھیں میچ گئ ۔۔


ساحر بھی اُسے ایسے اگنور کر گیا جیسے اُسکے اپنے علاوہ کمرے میں کوئی دوسرا وجود موجود ہی نہ ہو ۔۔۔


آئینے کے سامنے کھڑے شرٹ کے بٹن بند کرتے اُس نے آئینے سے ہی اپنے پیچھے کے عکس کو دیکھنا چاہا ، جہاں اپنی پلکوں کی جھالر گراے وہ بیڈ پر دراز تھی ۔۔۔


ساحر بالوں پر برش کرتا ، بیڈ کی دوسری طرف بڑھا ،


حرم ۔۔۔ اُس نے نیچی آواز میں پُکارا ، پر شاید وہ گہری نیند میں جا چکی تھی جو اُسکی آواز بھی نہ سن پائی ،


حرم ۔۔۔۔ اِس بار اُسکی آواز اتنی بلند تھی کہ حرم فوراً سہم کر اُٹھ بیٹھی ۔۔ آنکھیں نیند کی شدت سے سُرخ اور سوجی ہوئی تھی ۔۔


یہ نہ ہوا تُم سے کہ شوہر سے کھانے کا پوچھو آرام سے چڑھ کر سو گئی ہو ،،

اُٹھو اور مجھے کھانا لا کر دو,,,, بھر پور روبدر آواز میں حکم جاری کیا گیا ۔۔۔


وہ آنکھیں پھاڑے اُسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ کیا ہوا ہے ایسے کیوں دیکھ رہی ہو کھانا لانے کا کہا ہے کشمیر فتح کرنے کا نہیں جو ایسے قومے میں چلی گئی ہو ۔۔۔

ساحر اُسکو خود کو تکتا پا کر بولا ۔۔۔


حرم بنا اُسے کوئی جواب دیئے خاموشی سے سر پر سلیقے سے دوپٹہ پہنتی باہر کی طرف بڑھی,,,

اور سنو,,,اسکی آواز پہ وہ پلٹی ,,,,,

سیڑھیاں اتر کر دائیں ہاتھ پر سیدھا جاکر کچن ہے گھوم پھر کرخالی ہاتھ واپس مت لوٹ آنا ,,,,,


اسے تفصیل سے کچن کا راستہ سمجھاتے آخر میں تنز کا تیر چلایا,,,یا شاید وہ اسے بولنے پر اکسا رہا تھا,,,

مگر وہ ہونٹوں پہ قفل چڑھائے بنا اسکی بات کا جواب دئیے اسکے بتائے گئے راستے کی طرف بڑھ گئی,,,

وہ حیرت سے اسے جاتا دیکھنے لگا ,,,,


کمرے سے باہر نکلتے وہ سیدھا اسی راستے آئی تھی جہاں ساحر نے کہا تھا,,,


حویلی کافی بڑی تھی اور پرانے ترز سے تراشی گئی تھی,,,

اس وقت حویلی میں اکا دکا ہی لائیٹ روشن تھی رات ہوجانے کی وجہ سے سب ہی اپنے اپنے کمروں میں آرام کر رہے تھے اور کچھ ثمر کی موت کے بعد سے حویلی میں سناٹا سا چھایا رہتا تھا,,,,


کچن کے قریب پہنچتے اسے ملازمہ دودھ گرم کرتی دکھائ دی,,,ارے آپنے کیوں زحمت کی چھوٹی سردارنی ہمیں حکم جاری کیا ہوتا,,,ملازمہ نے بشاشت سے اسے دیکھتے کہا,,,,


یہ کیا کر رہی ہو تمہیں پتہ نہیں کیا یہ لڑکی ہمارے ثمر بابا کے خون بہا میں لائ گئ ہے, ,اسکے ساتھ کھڑی ایک معمر عمر کی ملازمہ نے کچھ نفرت زدہ لہجے میں کہا,,,.تو وہ ملازمہ وہی تھم گئی,,,,,

یہ لڑکی اسے بہت پیاری لگ رہی تھی مگر یہ بات بھی سچ تھی کہ خون بہا میں آئی لڑکی کو وہ عزت نہیں دی جاتی,,,,

وہ دونوں ہی ملازمہ دودھ ٹرے میں سجاتی باہر کی طرف بڑھ گئی,,,

حرم بھی انکے لفظوں کا زہر پیتی کھانا گرم کرنے لگی,,,


°°°°°°

کھانا گرم کر کے ٹرے میں رکھتی وہ دوبارہ کمرے میں داخل ہوئی ۔۔

ساحر اُسے کھانے کی ٹرے لاتے دیکھ موبائل سائڈ پر رکھتا کھانے کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔

پانی ۔۔۔۔ وہ بیٹھنے لگی تھی جب ساحر نے ایک اور حکم جاری کیا۔


سائڈ ٹیبل پر پڑے جگ سے گلاس میں پانی انڈیلتے اُس نے گلاس اُسکی جانب بڑھایا ۔۔۔

ساحر نے اُس سے گلاس تھامتے لبوں سے لگایا ہی تھا کہ فوراً ہٹاتے دوبارہ حرم کے ہاتھ میں تھمایا ,,,,


یہ پانی گرم ہے ٹھنڈا لے کر آؤ ۔۔۔ بغور اُسکی نیند کی وجہ سے سست روی دیکھتا بولا ۔۔

حرم لمبی سانس کھینچتی جگ اٹھاتی دوبارہ کچن کی طرف بڑھ گئی ۔۔


ٹھنڈے پانی کی بوتل سے گلاس میں پانی ڈالتے اُسے ایک بار پھر گلاس ساحر کی طرف بڑھایا جو ساحر نے تھامتے ایک ہی سانس میں ختم کرتے سائڈ پر رکھ دیا وہ کچھ پُر سکون ہوتی دوبارہ بیٹھنے ہی لگی تھی کہ پھر سے ساحر کی آواز کمرے کی خاموش فضا میں گونجی ۔۔۔۔


یہ کیسا ٹھنڈا کھانا لائی ہو،، دوبارہ گرم کر کے لاؤ ۔۔ اُسے دوبارہ بیٹھتا دیکھ اُس نے نیا حکم جاری کیا۔۔۔۔


حرم پیر پٹختی دوبارہ ٹرے لئے کچن کی طرف بڑھ گئی وہ جانتی تھی ابھی اس بندے سے بحث فضول ہے اور اس وقت تو اُسے بچانے والا طوطا بھی نہیں ہوگا ۔۔۔ اس لئے خاموشی سے اُسکے ہر حکم کے آگے سر جھکانے لگی ۔۔۔


وہ پھر کھانا گرم کر کے لائ تو کمرے میں ادھیرا تھا محض نائیٹ بلب کی روشنی کمرے میں روشن تھی اور ساحر جناب اوندھے منہ گہری نیند میں سویئے ہوئے تھا,,,.اسے پرسکون سوتا دیکھ وہ جل بھن گئ,,,.جب کھانا نہیں تھا تو پریشان کیوں کر رہے تھے,,,وہ غصے میں آہستہ آواز میں کہتی کھانا واپس رکھنے چلی گئی ,,,


پیروں میں شدید درد محسوس ہورہا تھا وہ بہت تھکن محسوس کر ری تھی اپنے اعصابوں پہ اسلیئے جلدی جلدی کھانا رکھتی اوپر آئی,,,ساحر اب بھی گہری نیند سویا ہوا تھا وہ شکر کا سانس لیتی اسکے برابر جگہ تلاش کرنے لگی مگر وہ پورا پھیل کے بیڈ کے بیچو بیچ سویا ہوا تھا ,,,


جان بوجھ کر ایسے سوئے ہونگے مجھے تنگ کرنے کیلئے,,,لیکن انہیں کیا پتہ میں ویسے بھی انکے ساتھ ایک ہی بستر پہ نہیں سوتی,,,


وہ دل ہی دل میں خود سے باتیں کرتی احتیاط سے اسکے برابر سے تکیہ اٹھاتی سامنے صوفے پر لیٹ گئی,,,اس صوفے پر وہ پوری آگئی تھی مگر کمرے میں اندھیرا ہونے کی وجہ سے اسے خوف محسوس ہونے لگا وہ کمرے میں روشنی کر کے سونے کی عادی تھی,,,,


وہ اندھیرے میں جب بھی سوتی تھی تو خود سے باتیں کرنے لگتی تھی,,,لائیٹ اون کرلوں اچانک اسنے سوچا,,,نہیں اگر یہ جلاد اٹھ گیا تو پھر میری نیندیں حرام کردینگے وہ ساحر کے خوف سے ایسے ہی سونے کی کوشش کرنے لگی مگر یہ اندھیرا اسے کاٹ کھانے کو دوڑ رہا تھا,,,خوف سے تھوک نگلتے اسنے منہ تک دوپٹا اوڑھا اور اللہ کے نام کا ورد کرتی آہستہ آہستہ نیند کی وادیوں میں اتر گئی,,,,,


°°°°°°°

اندھیری رات الٹے پاؤں لمبی سنسان سڑک پہ میں گھنگرو پہنے چلتی جارہی تھی ۔۔۔۔۔

رات کے تیسرے پہر اُسکی آنکھ کسی کی گھمبیر باتوں کی آواز سے کھلی تھی,,, نسوانی آواز میں کہے جانے والے یہ الفاظ سنتے ساحر کے چودہ طبق روشن ہوئے تھے۔۔۔۔۔

یا اللہ یہ کیسی عجیب و غریب آوازیں نکال رہی ہے ، کہیں میں کوئی جنی تو نہیں بیاہ لایا ، وہ اسکا *جملہ* میں اُلٹے پاؤں والا لفظ یاد کرتا کچھ سوچتا خود سے بولا ،،

اُلٹے پاؤں تو ڈائئن کے ہوتے ہیں وہ ذہن میں آتی اس بات پر جھرجھری لے اُٹھا ۔۔۔ ساحر تو کیوں یہ فضولیات سوچ رہا ہے تو تو ڈاکٹر ہے ،، ٹیک اٹ پوزیٹو۔۔۔۔ وہ اپنی ہی سوچ کی نفی کرتا خود سے گویا ہوا ۔۔۔۔۔


مٹھو مٹھو ۔۔۔۔ میں طوطا میں طوطا ہرے رنگ کا ہوں دیکھتا ، چونچ میری لال رنگ کی مٹھو مٹھو میں کرتا ۔۔۔ مٹھو مٹھو ۔۔۔


اندھیرے میں ڈوبے کمرے میں پھر سے سریلی آواز گونجی ،


، ساحر نے تھوک نگلتے ہاتھ بڑھاتے لیمپ اُون کیا جس میں کمرے میں اب ہلکی سی روشنی ہوگئ تھی وہ اٹھتا ہوا سوئیچ بورڈ کی طرف بڑھا اور بٹن اُون کیا۔۔ بلب اور کمرے میں موجود جھومر کے کھلتے ہی پورا کمرہ روشن ہوگیا تھا ۔۔۔


ساحر نے حرم کی تلاش میں نظریں گھمانی چاہی تو وہ سامنے ہی صوفے پر ٹیک لگائے آنکھیں موندے بیٹھی نظر آئی ۔۔۔


نیند میں بھی کمبخت اُس شیطان کے چیلے کو ہی پُکار رہی ہے ، کچھ کرنا پڑے گا اُسکا بھی ، طوطے کا سوچتے ہی اُسکی زبان حلق تک کڑوی ہوئی تھی ،،،


حرم ۔۔۔! اُس نے آہستگی سے اُسے پُکارا جو دوپٹے سے بے نیاز پلکوں کا جھالر گرائے بیٹھے بیٹھے ہی سو رہی تھی,,,

حرم ۔۔۔ اُس نے پھر پُکارا پر جواب ندارد ،،، شاید صوفے پر سونے کی عادت نہ ہو اِس لئے بیٹھے بیٹھے سو رہی ہے ،، اُسکا بغور جائزہ لیتا بولا ،،، اور ایک لمبی سانس کھینچتے اسکے قریب آیا,,,اسنے اسکی آنکھوں کے آگے ہاتھ ہلاتے اسکی نیند کی یقین دہانی کی وہ واقعی سو رہی تھی,,,اسے شدید رشک ہوا اسکی نیند پہ اس قدر بے خبر نیند ,,,,

ساحر کو اسپے ترس آنے لگا,,,,زرا سا جکھتے اُسے بازوؤں میں بھرتا بیڈ پر لٹا گیا ۔۔۔


بیڈ پر لٹا کر اُس پر کومفرٹر ڈالتا وہ پلٹ ہی رہا تھا کہ اُسکی نظر حرم کے چہرے پر گئ جہاں کچھ آوارہ لٹیں أڑتی ہوئی آتی اُسکی نیند میں خلل بن رہی تھی ،،


ایک لمبی سانس ہوا کے سپرد کرتا وہ عین اُسکے مقابل بیٹھا اور ہاتھ بڑھاتے اُسکے چہرے پر آئی لٹیں اپنی انگلیوں کے پوروں سے سلجھاتے کان کے پیچھے أڑیسنے لگا ،،، نظر اُسکی بند ہوئی آنکھوں سے ہوتی اُسکے خوبصورت چہرے کا طواف کرنے لگی تھی ،، معصومیت سے بھر پور چہرہ تھا اُسکا ، گلابی پتلے لب چھوٹی سی ناک اور اُس پر چمکتی نوز پین,,, وہ اُسکے نقوش میں جیسے کھو سا گیا تھا ۔۔۔ دل نے شدت سے خواہش کی تھی اُسکے نقوش کو چّھو کر محسوس کر سکے پر وہ چاہ کر بھی اسے محبت سے اپنا لمس نہیں بخشنا چاہتا تھا,,,خود پر ضبط کرتا وہ اپنا تکیا اٹھائے صوفے پر دراز ہوگیا,,,

,

نظریں ابھی بھی ہنوز اُسی پر ٹکی تھی,,,


اُسے دیکھتے ہی نہ جانے کب اُسکی آنکھ لگی اور وہ نیند کی وادیوں میں اُترتا گیا ۔۔۔


°°°°

ناک پر کسی چیز کی چبھن محسوس کرتے اُسکی آنکھ کھلی ۔۔۔


گڈ مارننگ میری بلو رانی ۔۔۔ اُسے آنکھیں کھولتا دیکھ وہ محبت سے چور باریک آواز میں بولا,,,


گڈ مارننگ مسکرا کر بولتی وہ بھی اُٹھ بیٹھی,,, وہ اٹھ کر اپنے بکھرے بالوں کو ہاتھ میں لیتی جوڑے میں قید کرنے لگی مٹھو بھی اڑ کر بیڈ پر بیٹھا اور ایک پر کھولتے معصومیت سے اپنے دائیں گال پہ ٹکاتا حرم کو دیکھنے لگا,,,


کیا ہوا آج مٹھو اداس ہے کیا,,اسنے یوں اسے خاموش بیٹھا دیکھ کر پوچھا,,یہ تو کنفرم تھا کہ کوئی بات تو ضرور تھی ورنہ مٹھو اور اتنا خاموش نہ ممکن


حرم تُمہیں نہ میری کوئی فکر نہیں ہے ۔۔۔مٹھو نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اسے خود کو تکتا دیکھ کچھ نروٹھے انداز میں کہا,,


کیا مطلب ؟ حرم نے اپنا رخ اسکی طرف کرتے نہ سمجھی سے پوچھا ،،


مطلب یہ کہ تمہارے کوئی ارمان نہیں میری شادی اور بچوں کے لئے,,, تُم نہیں چاہتی میری خوبصورت جیسی خوبصورت بیوی ہو جیسے میں جانو کہوں اور وہ مجھے شٹ اپ مٹھو کہے جیسے نبیل کو خوبصورت کہتی ہے ۔۔۔ خیالوں میں ہی خوبصورت سی اپنی زوجہ طوطی سوچتا بولا,,,


سنجیدگی سے اُسکی بات سنتے حرم منہ پر ہاتھ رکھے کھل کر ہنسنے لگی,,, تُم کبھی نہیں سدھروگے مٹھو ۔۔۔ ہنستے ہنستے سُرخ چہرے سے مٹھو سے گویا ہوئی ۔۔۔

میں سنجیدہ ہوں ۔۔۔ اُسے ہنستا دیکھ کچھ غصے سے بولا ۔۔۔۔

اچھا ۔۔۔ وہ کہتی دوبارہ ہنسنے لگی۔۔اور ہنستے ہنستے ہنستے اُسکی نظر سامنے صوفے پر اوندھے منہ لیٹے ساحر پر گئ جس کی ٹانگیں صوفے سے نیچے لٹک رہی تھی۔۔۔۔۔۔


پر میں تو صوفے پر سوئی تھی بیڈ پر کیسے آئی ؟؟ کچھ اُلجھتے اُس نے خود سے ہی سوال کیا ۔۔۔


کیا ہوا اس چمکادار کو کیوں دیکھ رہی ہو ، مجھے دیکھو نہ ۔۔۔۔۔ حرم کو ساحر کو تکتا دیکھ مٹھو نے ساحر کو دیکھتے اپنی چھوٹی آنکھیں اور چھوٹی کرتے کہا ۔۔۔


نہ نہیں میں تو نہیں دیکھ رہی تھی وہ فوراً نظروں کا زاویہ بدلتے بولی ۔ اور مٹھو کو کچھ اور بولتا دیکھ الماری سے کپڑے نکالتی واش روم میں بند ہوگئی ۔۔۔


اوئے ہوئے شرما گئ کیا ، فون کاٹ دیئے ممی آگئی کیا ،، تُم کو مار کھا گئی کیا ۔۔۔ اسکے جاتے مٹھوں نے باقاعدہ پر پھیلاتے ڈانس کرتے گانا گن گنایا آواز اتنی بلند تھی کہ اُسے واشروم میں بھی مٹھو کے گانوں کی آواز آرہی تھی پر وہ نظرانداز کر گئ کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ اگر ساحر کی آنکھ اس بے سورے کی وجہ سے کھل بھی گئ تو وہ مٹھو کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ،، وہ مٹھو کی باتیں اور کارنامے یاد کرتی ایک بار پھر مسکرائی تھی ،،، پر اگلا وقت اُسکے لبوں پہ یہ ہنسی رہنے دے گا یہ نہیں یہ تو اللہ ہی جانتا تھا ۔۔۔۔۔


°°°°°°°°°


اپنے سر پر کسی بھاری چیز کی اچھل کود محسوس کرتے اُسکی نیند میں خلل ڈلا ,,,, اور وہ کوئی چیز نہیں مٹھو صاحب تھے جو ساحر کے سر پر چڑھے اچھلتے اور اپنے بڑے بڑے ناخن اُسکے سر پر چبھا رہا تھا ۔۔۔۔

وہ ایک دم نیند سے بیدار ہوتا اُٹھ بیٹھا اُسکے اچانک بیٹھنے سے ہوا میں کودتا مٹھو ایک دم تکیے پر آکر گرا تھا ۔۔۔


ہائی اللہ کمر توڑ دی میری,,, اپنا ایک پر کمر پر رکھتا مظلوم سی شکل بناتے بولا,,


تُم ہو کیا طوطے یہ کھوتے ۔۔۔؟ اپنا اشتعال دباتا دبے دبے غصے میں گویا ہوا۔۔۔


اوو بنا لائٹ کے بلب آہستہ بہرا نہیں ہو میں ۔۔۔ اُسکا سُرخ چہرہ دیکھتا دل ہی دل میں خوش ہوتا وہ بظاہر تیوریاں چڑھا کر بولا ۔۔۔


ساحر نے سُرخ آنکھوں سے اُسے دیکھتے پکڑنے کے لئے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ وہ صوفے سے اڑتا ہوا بیڈ پر جا بیٹھا ۔۔۔

ساحر اب لہو رنگ آنکھوں سے دیکھتا آج اِسکا قصہ ہی ختم کرنے کے غرض سے اُسے پکڑنے کے لئے لپکا تھا

ساحر کو اپنی طرف آتا دیکھ وہ بیڈ کی دوسری طرف أڑ گیا ۔۔۔ ساحر بھی ہار نہ مانتے بیڈ کی دوسری طرف بڑھنے لگا پر اُسکا سارا دیہان مٹھو کی طرف تھا اس لئے سامنے سے آتی حرم کو بھی نہ دیکھ پایا اور زوردار طریقے سے دونوں کا ٹکراؤ ہوا۔

حرم جو اپنے نم بالوں سے تولیہ ہٹاتی بے دھیانی میں چل رہی تھی بری طرح ساحر سے ٹکراتی اپنا توازن نہ برقرار رکھ سکی اور بیڈ پر گر گئی خود کو بچانے کیلئے اُس نے ساحر کا بازو تھاما پر ساحر صاحب بھی شاید کسی اور ہی دنیا میں تھے جو وہ بھی اُس پر گر گئے ۔۔۔

وہ اپنی شہد رنگ آنکھیں پھاڑے اُسکی شہد رنگ آنکھوں میں دیکھ رہی تھی جو سایہ بنا اُس پر چھایا ہوا تھا ۔۔

ساحر تو اُسکے ترو تازہ ہر چیز سے پاک چہرا ، اُٹھتی گرتی گھنی پلکیں سُرخ ہونٹ اور گالوں میں گھلی گلابیاں وہ پوری طرح اُسکے حسن میں کھو سا گیا تھا ۔۔۔


حرم نے اُسکے سینے پر ہاتھ رکھتے دور دھکیلنا چاہا پر یہ کام اُس نازک کے بس کا ہر گز نہیں تھا ۔۔


کمر پر مٹھو کی چونچ کو گڑہتا محسوس کر وہ ہوش کی دنیا میں لوٹا تھا ۔۔ ایک دم حرم سے دور ہوتا وہ مٹھو کے کاٹی گئ جگہ مسلنے لگا ۔۔۔۔


ساڈے نال پنگا نوٹ چنگا ۔۔۔


مٹھو کا ڈائیلاگ ساحر کو ایک بار پھر تیش دلہ گیا تھا وہ سب کچھ بھول کر ایک بار پھر اُسکی طرف بھاگا پر بُرا ہوا اُسکی قسمت کا جو سامنے ٹیبل اُسے دکھ نہ پایا اور اُسکا پیر بری طرح ٹیبل سے ٹکراتا وہ منہ کے بل زمین پر گرا ۔۔۔۔


ساحر ۔۔۔۔! حرم نے بےساختہ اُسے پُکارا جو زمین پر اوندھا پڑا تھا۔۔۔۔


برے کا انجام بھی بُرا ،،،


اوو اینو کیندے گڈ لک ، گڈ لک۔۔۔۔ دونوں پر پھیلاتے خوشی سے جھومتا بولا ۔۔۔۔


ساحر کھڑا ہوتا ایک اچٹتی ہوئی نظر اُن دونوں پر ڈالتا بنا کچھ بھی بولے الماری سے کپڑے لیتا واشروم کا دروازہ ڈز کرکے زور سے مارتا واش روم میں بند ہوگیا۔۔۔۔۔

پتہ نہیں میں اُس کے آگے ہار کیوں جاتا ہوں ، کہاں اُسے سزا کے لئے لایا تھا اور کہاں میری اپنی زندگی سزا بن گئ ہے ،،،، ٹھنڈے پانی کا شاور کھول اُسکے نیچے کھڑا وہ خود سے ہی مخاطب تھا۔۔۔۔۔۔


°°°°°°°°°°

عنایہ اپنےکمرے میں آرام کی غرض سے گئی تھی مگر کمرے میں پہنچتے اسکا جی متلی ہونے لگا وہ منہ پہ ہاتھ رکھتی واشروم کی طرف بھاگی,,,


ایک کے بعد ایک قے کرتے وہ خود کو قدرے نڈھال محسوس کر رہی تھی,,,ملازمہ سوپ بھی دے کر گئی تھی مگر اسکا سوپ دیکھ کر ہی ہلک تک کڑوا ہوگیا تھا,,,


وہ اپنا لاگر وجود گھسیٹی بیڈ پہ ڈھے سی گئی,, اور اسی طرح وہ نیند کی وادیوں میں اتر گئی, ایک پل کیلئے اسے اپنے ماں باپ کی یاد آئی تھی,,,,


جو اسکے ہلکا سا بخار ہوجانے ہر بھی پوری رات اسکی خدمت میں حاضر رہتے تھے اور وہ اتنا ہی نکھرے اٹھواتی تھی اور آج وہ اتنے بڑے گھر میں بھی تن تنہا اپنی تکلیف سے جونجھ رہی تھی,,,


کیا انسان کے لئے پیسہ ضروری ہے یا اپنوں کا ساتھ پیار محبت رشتے شفقت ,,,,

یہ پیسا یہ گھر کیا وہ سکون دے سکتے ہیں جو کوئی اپنا رشتہ محض لفظوں سے دی گئ تسلی بھرے الفاظ سے دیتا ہے,,,


پیسے سے صرف دکھاوے کا سکون حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن ماں باپ کی محبت بہت انمول شے ہے جو کسی قیمت پہ خریدی نہیں جاسکتی ,,


آج اپنی حالت پہ اسے شدت سے اپنے ماں باپ کا خیال آیا تھا مگر وہ بٹھکی ہوئی انا کی ماری لڑکی کیا سمجھے گی محبت کو اسے تو محض اپنا بدلہ پیارا تھا,,,


وہ غلط راہوں پہ نکل آئی تھی کوئی سمجھانے پوچھنے والا نہیں ماں باپ تو دور وہ خوف خدا بھی شاید بھلا بیٹھی تھی,,,

بچپن میں پانچوں وقت کی نمازی پرہیزی لڑکی آج کسی اور کے بدلے کی نظر ہو رہی تھی,,,

اپنے ہی سوچوں میں وہ نڈھال سی ناجانے کب نیند کی وادیوں میں اتر گئی,,,


*********


اسے سوئے ہوئے کافی وقت ہوگیا تھا صبح کے دس بج رہے تھے مگر اب تک وہ ہوش میں نہیں تھی یا شاید کمزوری سے بیہوش ہوگئی تھی,,,کافی وقت گزرنے کا بعد بھی وہ نیچے نہیں آئی تو سنایہ نے کسی خدشے کے تحت کمرے میں جانے کا سوچا,,,


دروازہ نوک کرتے کمرے میں قدم رکھا,,,اسے یوں نڈھال زرد رنگت کیساتھ بیڈ پہ پڑا دیکھ عنایہ کو تشویش ہونے لگی وہ کل بھی اسکی بگڑتی حالت دیکھ کچھ حد تک سمجھ چکی تھی مگر وہ ایسا سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی,,,


سنایہ نے پاس آتے اسے اٹھانا چاہا مگر بے سود وہ بیہوش ہوچکی تھی,,اسنے عنایہ کا ہاتھ تھامتے نبض چیک کی جو قدرے ہلکی چل رہی تھی,,,


اسنے فوری طور پہ شیری کو ڈاکٹر کو بلانے کا کہا,,,


کچھ ہی دیر میں ایک امریکن ڈاکٹر ہاتھ میں بیگ تھامے آتا دکھائ دیا,,,


پوری طرح اسکا چیک اپ کرنے کے بعد ڈاکٹر نے بھی وہی کہا جو سنایہ کو لگ رہا تھا,,,وہ پریگنینٹ تھی,,,

گویا ڈاکٹر کے الفاظ نہیں پھگلتا ہوا سیسہ تھا جو شیری اور سنایہ کو اپنے کانوں میں گھلتا محسوس ہوا,,,


سنایہ نے بامشکل ہی اپنا اشتعال دبایا ورنہ دل تو ایسا چاہ رہا تھا کہ اس لڑکی کو یہیں زندہ دفن کردے ,,,غصے پہ قابو پاتے اسنے ڈاکٹر کی ہدایت سنی اور شیری کو اسے واپس لے جانے کا کہا,,,,


اور وہ خود عنایہ پہ ایک حقارت زدہ نگاہ ڈالتی اپنے کمرے میں آگئی,,,


پوری کوشش کی گئی تھی اشتعال دبانے کی مگر بے سود,,,کمرے میں آتے ہی اسنے سب سے پہلے واس اٹھا کر جنونی انداز میں شیشے پہ دے مارا ,,,,


چٹ کی آواز سے شیشے میں درارے پڑ گئی,,,

وہ تیزی سے بیڈ کی طرف بڑھی اور ترتیب سے بچھی بیڈ شیٹ کھینچ کر بے ترتیب زمین پہ پھینک دی لیکن اب بھی اسکا غصہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا,,,


وہ تیزی سے کمرے کی ایک ایک قیمتی چیز کو توڑتی کمرے کا حشر نشر کر رہی تھی,,,

اس اب کے باوجود بھی غصہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا پسینوں سے شرابور چیختی دھاڑتی وہ ایک ایک چیز پہ تیش نکال رہی تھی,,,


ٹیبل کے پاس آتے اسنے ایک ہی جھٹکے میں سارا سامان نیچے گرادیا,,,,

ایک جنون سا سوار تھا اس پر وہ کہیں سے بھی سلجھی ہوئی سنایہ نہیں لگ رہی تھی,,,

دونوں ہاتھ ڈریسنگ ٹیبل پہ جماتے اسنے ٹوٹے شیشے کے کئ حصوں میں اپنا عکس دیکھا,,,


.جو اس وقت کوئ خونخوار شیرنی وحشی پاگل رہی تھی,,,انگاریں برساتی آنکھوں سے خود کو ٹکڑوں میں دیکھتے اسنے نفی میں گردن ہلائ,,,

نہیں عنایہ تمہاری یہ بیوقوفی میرے بدلے کے راستے میں نہیں آسکتی میں زندہ درگور کردونگی تمہیں اور ہر اس شخص کو جو میرےہ انتقام کے بیچ آئیگا,,,


وہ پوری قوت سے ہلک کے بل چلائی,,,,

کوئی نہیں روک سکتا مجھے یہ بچہ کیا چیز ہے,,

اب یہ بچہ ہی میرا مہرہ بنے گا عنایہ سکندر تم دیکھنا اب,,,

شاید تم نے ابھی سنایہ وکٹوریہ کو ٹھیک سے جانا نہیں میری عدالت میں غلطیوں کی کوئی گنجائیش نہیں ہے اور اب تم اس غلطی کی قیمت اپنی جان کی بازی لگا کر ادا کروگی,,,,


وہ جنونی انداز میں شیشے میں دیکھتی ٹہر ٹہر کر بول رہی تھی اپنی بات کے اختتام اور دماغ میں چلتی سوچوں کو سوچتے اسنے زور دار قہقہ لگایا,,,

اس وقت وہ بلکل پاگل لگ رہی تھی,,,,

اسکے چہرے سے وحشت ٹپک رہی تھی,,,


°°°°°°°°°°°°


ایکسکیوز می ۔۔۔ مس عنایہ کیا میں بات کرسکتا ہُوں آپ سے ؟ کندھے پہ ٹانگے بیگ کے سٹیپس ہاتھ میں پکڑے وہ سعدیہ کے ساتھ بیٹھی عنایہ سے بولا۔۔۔۔۔


آواز پر عنایہ نے نظریں اُٹھا کر دیکھا تو سامنے ہی سُرخ سفید رنگت والا اور چمکتی گہری گرے آنکھوں والا ثمر مسکراتا کھڑا نظر آیا ۔۔۔


کیا میں آپکو جانتی ہوں ؟ اپنے کندھے پر آئے بال ایک ادا سے جھٹکتی تھوڑی پر ہاتھ رکھتے الٹا سوال کیا ۔۔۔۔


ثمر جو کئی ہفتوں سے اپنی سینئر عنایہ پر اپنا دل ہار بیٹھا تھا آج ہمت کرتے اُس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے آیا تھا ۔۔۔


نہ نہیں جانتی پر ۔۔۔۔ وہ اپنا جملہ ادھورا چھوڑتا ، مسکراتی آنکھوں سے اُسے دیکھنے لگا ۔۔۔


پر ۔۔۔۔ بیگ سے ببل نکال کر منہ میں ڈالتی خاصی لاپرواہی سے بولی,,,سمجھنا مشکل تھا وہ فطرتاً اتنی ہی معصوم تھی یا یہ کوئی اداکاری تھی,,,


میں آپ سے اکیلے میں بات کرنا چاہتا ہوں پلیز ۔۔۔ اُس نے عنایہ کے پاس بیٹھی سعدیہ کی نظریں خود پر مرکوز دیکھ اُسکی موجودگی کا احساس دلانا چاہا۔۔۔۔۔


ثمر شہروز خان اپنی یونی میں خوبصورتی کی وجہ سے ہمیشہ سے ہی لڑکیوں کی نظروں کا مرکز رہا تھا ۔۔۔ پر وہ اُن پر سرسری نظر ڈال کر ایسے نظر انداز کر لیتا تھا جیسے کوئی بڑی بات ہی نہ تھی کیوں کہ اب وہ اس سب کا عادی ہو چکا تھا ۔۔۔۔ پر شاید اُن لڑکیوں کی ہی بدعائیں تھی کہ وہ عانیہ جیسی لڑکی پر دل ہار بیٹھا تھا ۔۔۔ جو اس پر ایک نگاہِ غلط بھی ڈالنا اپنی توہین سمجھتی تھی ، وہ اتنی بے خبر اور معصوم نہ تھی کہ خود پر اُسکی نظریں نہ محسوس کر سکے,,,,


عنایہ کے اشارے پر سعدیہ ایک بھر پور مسکراتی نظر ثمر پر ڈالتی اپنا بیگ اٹھاتے وہاں سے چلی گئی ۔۔۔۔


کہو ۔۔۔۔ اُسکے جاتے ہی وہ اب پورا ثمر کی طرف متوجہ ہوتی بولی ۔۔۔۔


ثمر اثبات میں سر ہلاتے بلکل عین اُسکے سامنے والی کُرسی پر آبیٹھا ۔۔۔۔


دراصل میں آپ سے دوستی کرنا چاہتا تھا,,, کیا آپ میری دوست بنے گی ؟؟ کچھ کنفیوز سا حسرت زدہ نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔


کیا ہم پہلے دشمن ہیں ؟؟؟

جی,,,,؟؟؟ اُسکے غیر متوقع جواب پر اُس نے حیران ہوتے پوچھا ۔۔۔


کیا ہم پہلے دشمن ہیں جو دوستی کر لیں ؟ عنایہ منہ میں ڈالی ببل چباتی بغور اُسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بولی ۔۔۔وہ اس طرح بات کر رہی تھی جیسے یہ اسکا روز کا کام ہو,,,


نہیں ۔۔۔ یک لفظی جواب دیتے اُس کے چہرے کے نقوش سے اُلجھتی اپنی نظریں جکھا گیا ۔۔عنایہ سمجھ نہیں سکی یہ احترام تھا یا گریز


فرینڈز ۔۔۔۔ کچھ توقف کے بعد اپنا ہاتھ اُسکی طرف بڑھاتا اُسے خشمگیں نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا ,,,


عنایہ نے پہلے اسکے سرخ چہرے کو دیکھا اور پھر اسکے بڑھے ہوئے ہاتھ کو


فرینڈز ۔۔۔۔ کچھ سوچتے ہوئے وہ اُسکا دوستی کے لئے بڑھایا ہاتھ اپنے نازک ہاتھ میں لیتی مسکراتی گویا ہوئی ۔۔۔۔


تھینک یو سو مچ,, میں اتنے دنوں سے آپ سے دوستی کرنا چاہتا تھا پر خود میں ہمت نہیں جمع کر پا رہا تھا,,, اُسکے ہاتھ میں زور دیتا پُر جوش سا بولا ,,,


کیوں میں کیا کوئ ڈائین تھی جو تمہیں کھا جاتی آس پاس کے ماحول پر نظر گھوماتی بولی جہاں کئی لڑکیاں حیرت اور حسد سے اُسے ہی دیکھ رہی تھی,, وہ اُنکی جلن محسوس کرتے مسکرائی تھی,,,


اور کون کون ہے آپکے گھر میں ؟ میرا مطلب بھائی بہن ۔۔۔۔ ثمر نے خاصی دلچسپی سے پوچھا,,,


میری ایک ہی بہن ہے چھوٹی ، اینٹر میں ہے ابھی ۔۔ اُسکے سوالوں پر آبرو اچکاتی پھر بولی ۔۔


اچھا ۔۔۔ میری بھی ایک جڑوا بہن ہے درخنے ۔۔۔۔ ثمر اُسکے بغیر پوچھے ہی بتانے لگا ابھی وہ اپنی بات جاری ہی رکھا ہوا تھا کہ ٹیبل پر پڑا اُسکا موبائل رنگ ہوا,, وہ اپنی بات ادھوری چھوڑتا موبائل اٹھاتا کان سے لگا گیا ۔۔۔۔۔


اچھا اب میں چلتا ہوں دراصل میرا بھائی لینے آیا ہے پھر ملاقات ھوگی آپ سے موبائل رکھتے وہ عنایہ سے مخاطب ہوا,,,


عنایہ محض گردن اثبات میں ہلا گئ اور اپنے موبائل میں مصروف ہوگئ,,,


ثمر بھی ایک آخری بھر پور نظر اُس پر ڈالتا وہاں سے نکلتا چلا گیا,,,,


°°°°°°

ناشتے کرنے کے بعد اُس نے اپنا سامان لینے کے غرض سے کمرے میں قدم رکھا تو حرم کو شیشے کے سامنے کھڑا ڈرائر سے بال سکھاتے پایا ۔۔۔ حرم کے استعمال کی ہر چیز نور بانو نے کل ہی شہر سے ملازم کو بھیج کر منگوا لی تھی,,,

اُسے بغیر نوک کئے کمرے میں گھستا دیکھ ایک پل کے لئے حرم کا ننھا سا دل کپکپایا تھا ، پر وہ اگنور کرتی اپنے کام کی طرف متوجہ رہی،،،


وہ اُس پر ایک نظر ڈالتا بیڈ کے سائڈ ٹیبل سے اپنی گھڑی اُٹھا کر پہنتا اور وولٹ اُٹھا کر پوکٹ میں رکھتا مڑا ہی تھا کہ اُسکا فون بجا اسکرین پر نام دیکھتے اُس نے کال یس کرتے کان سے لگایا,,,


بولو ۔۔۔۔ نظریں سامنے کھڑی حرم پر ٹکائے مقابل سے بولا,, جو اب اپنے سیاہ کالے اور دراز بالوں میں بل ڈال رہی تھی,,, ہاتھوں کی لرزش صاف ساحر کے ڈر کا پتہ دے رہی تھی،،،،


اچھا ٹھیک ہے ، میں گاؤں کے ہسپتال سے فارغ ہوتے ہی پہنچ جاؤ گا۔۔۔۔ مقابل کو کہتے وہ فون کاٹتا حرم کی طرف بڑھا,,,, اُسکے قدم اپنی طرف آتے دیکھ حرم کا سانس رکا تھا ، وہ اُس کے پہنچنے سے پہلے ہی وہاں سے ہٹنے کے غرض سے مڑی ہی تھی کہ ساحر اُسے بازوؤں سے تھامتا اپنے مقابل کھڑا کر گیا ۔۔۔۔


کیا کیا بنا لیتی ہو ؟ کچھ دیر اُسکے چہرے کا دیدار کرنے کے بعد چہرے پر آئی لٹ اپنی اُنگلی میں لپیٹتا بولا ۔۔۔

آوچ ۔۔۔۔ لٹ کھینچنے کے درد سے اُسکے منہ سے فوراً سسکی نکلی,,, اُسکے سسکنے پر وہ آسودگی سے مسکرایا ,,,


سہ سب بنانا آتا ہے بنانا .... کُچھ توقف کے بعد اُسکے ہاتھ کندھے سے جھٹکتی بولی ۔۔۔۔


گریٹ سو مس انوسینینٹ حرم شہروز خان آج لنچ میں میرے لئے بریانی ریڈی رکھنا ,,, وہ اُسکے بازوؤں میں زور دیتا بولا ،

تکلیف سے حرم نے ایک پل کے لئے آنکھیں مندی تھی اور کھولتے ہی اُن خوبصورت شہد رنگ آنکھوں میں من من کا پانی جمع تھا,,,


اور اگر سہی نہ بنی یہ مجھے پسند نہیں آئی تو سزا کے لئے بھی تیار رہنا ، اُسکا گال تھپتھپاتے دھمکی آمیز لہجے میں گویا ہوا،،،

اور ایک مسکراتی نظر اُسکی بے بسی پر ڈالتا کمرے سے باہر کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔۔۔

●︿●●︿●●︿●


وہ آنسو پوچتی سر پر سلیقے سے دوپٹہ اوڑھتی کمرے سے باہر نکلی,,,,

حرم,,,,,,, وہ زینے سے گزرتی کچن کی طرف بڑھ رہی تھی کہ نور بانو نے اُسے کمرے سے گزرتے دیکھ پُکارا,,,,


جی آنٹی,,,, اُنکی پُکار پر کمرے میں آتے اُنکے مقابل کھڑی ہوتی بولی,,,


آنٹی نہیں مور,,, نور بانو نے اُسکی بات کی تصحیح کی لہجے میں شفقت اورمحبت شامل تھی,,

جی مور,,, اُنکی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتی گویا ہوئی,,,,


ایک منٹ یہی کھڑ رہو میں آتی ہوں وہ کہتے ہی الماری کی طرف بڑھ گئی, الماری کے لوکر سے لال مخملی باکس نکالتی واپس حرم کی طرف بڑھی,,,


ہاتھ آگے کرو ،، اُس باکس میں سے بھاری کنگن نکالتی مسکرا کے بولی ۔۔۔۔۔

حرم حیران تاثرات چہرے پر سجائے ، اُلجھی نظروں سے اُنہیں دیکھ رہی تھی,,,


دو ہاتھ ,,,, اُسے خاموش خود کو تکتا دیکھ وہ آنکھوں سے ہی پُر سکون کرتی بولی ۔۔۔۔۔۔۔


حرم نے خاموشی سے اپنا ہاتھ بڑھا دیا وہ بھی مسکراتی اُسے کنگن پہنانے لگی ۔۔۔۔ یہ کنگن مجھے میری سانس نے دیئے تھے ۔۔۔ میں نے ہمیشہ سوچا تھا کہ اس کنگن کے دو کڑے میں اپنی بڑی بہو ، ساحر کی بیوی کو دوں گی اور دوسرے دو ثمر کی بیوی کو تلخئ سے مسکراتی اُس سے گویا تھی ۔۔۔۔۔ حالانکہ ثمر کے ذکر پر اُنکا دل پھٹنے کے قریب تھا ۔۔۔ وہ خود پر ضبط کرتی اپنے آنسو پینے لگی ۔۔۔۔


اُنکے الفاظوں میں کانچ سی چھنک اور آنکھوں میں نمی دیکھ حرم کے گلے میں آنسووں کا پھندا سا اٹکا تھا ۔۔۔۔


مور ۔۔۔۔۔ اُس نے نم آواز میں پُکارا ،،،،


قربان ۔۔۔۔

هو زما ماشوم بچا ۔۔۔۔ وہ اُسکے ماتھے پر لب رکھتے ممتا سے بھر پور لہجے میں بولی ۔۔۔


آپ مجھ سے نفرت کیوں نہیں کر رہی ساحر اور درخنے کی طرح ۔۔۔۔۔۔؟

اپنے لہجے کو نارمل کرنے کی پوری کوشش کی تھی پر دل تھا کہ جو ساحر کی نفرت دیکھتے خون کے آنسو رو رہا تھا ۔۔۔۔ وہ اُنکے مقابل کھڑی سوال گو تھی


کیوں کہ تُم مجھے قصور وار نہیں لگتی ۔۔۔۔ تُمہیں پتہ ہے ، داجی نے جب تُمہارے بارے میں بتایا کہ کیسے تُم نے اپنے باپ بہن کے آگے خود کی جان کی بھی نہیں سوچی تب میں بہت حیران ہوئی تھی کہ کیا تم واقعی اُس عنایہ کی ہی بہن ہو۔۔۔۔۔


تُم جیسی بیٹیاں تو قسمت والوں کے گھر ہوتی ہیں بیٹا,,,


اور جہاں تک رہی ساحر کی نفرت کی بات ، تو میرا بچہ وہ بہت محبت کرتا تھا اپنے بھائی سے باپ کے انتقال کے بعد اُس نے اپنے دونوں بھائی بہن کو باپ بن کر پالا ہے وہ دل کا بُرا نہیں ہے ، اُسکا دل پانی کی طرح شفاف ہے ، وہ ایک عظیم دل کا مالک ہے اُسکے دل میں سب کے لئے احساس ہوتا ہے ، اُسے وقت دو وقت سے بڑا کوئی مرہم نہیں ، وقت سارے زخم بھر دیتا ہے,,,


تُم سچی ہو ، تُمہیں یہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں وقت خود تمھاری سچائی ثابت کرے گا دیکھنا ، میری یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا جسم پانی سے صاف ہوتا ہے اور دل سچائی سے ، تمھاری سچائی ایک دن ساحر کے دل کو بھی تُمہارے لئے پاک کر دے گی,,,,,


اپنی ذات میں خود اعتباری اور خود مختاری کی قابلیت پیدا کرو،،، وہ جو رب ہے وہ سب ہے وہ گرنے سے پہلے ہی تھام لے گا ۔۔۔ نور بانو اپنے الفاظوں سے اُسے کافی حد تک مضبوط کر چکی تھی، اُسکے چہرے کے تاثرات صاف پتہ دے رہے تھے کہ وہ اُنکی باتیں دل سے سمجھ اور سن رہی ہے,,,


تُم سمجھ رہی ہو نہ میری بات ؟ اُنہوں نے مسکراتے یقین دھانی چاہی,,,,,


حرم نے مُسکراتے اثبات میں سر ہلایا تھا،،، اُنکی باتوں نے اُس کے دل کو بہت پُر سکون کر دیا تھا,,,,


اچھا تُم کچن کی طرف جا رہی تھی؟؟ نور بانو نے یاد آتے ہی سوال کیا،،،


جی میں بریانی بنانے جا رہی تھی۔۔۔ یہ نور بانو کی نرمی کا ہی اثر تھا کہ وہ بنا ڈرے اُنہیں جواب دے رہی تھی۔۔۔۔


تو تم کیوں بنا رہی ہو۔۔ ملازمہ کو بول دو وہ بنا دے گی۔۔ نور بانو نے خاصی اپنائیت سے کہا اُنہیں نہیں لگتا تھا کہ اس چھوٹی سی شہری لڑکی کو کچھ بنانا آتا ہوگا ، تبھی اُنہوں نے اُسکی مشکل آسان کرتے ملازمہ کو بنانے کا کہا۔۔۔۔۔


وہ مور ساحر کہہ کر گئے ہیں بنانے کا۔۔۔ اُس نے نظریں جھکاتے دھیمی آواز میں کہا کہ بمشکل ہی وہ سن پائی,,,,,


کیا تمہیں بنانا آتی ؟ اگر نہیں آتی تو ۔۔۔۔ ابھی اُنکی بات جاری ہی تھی کہ حرم بیچ میں بول اُٹھی ،،،


مجھے سب آتا ہے بنانا مجھے کوکنگ کا بہت شوق تھا تو اس لئے میں ماما سے نئی نئی ڈشیز سیکھتی رہتی تھی ۔۔۔ حرم نے پُر جوش انداز میں بتایا پر اپنی ماما کے ذکر پر دل میں کچھ ہوا تھا,,,


یہ کاکننگ کیا بلہ ہے؟؟؟ نور بانو نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے سوال کیا ۔۔۔


کوکنگ مطلب کھانا بنانا ۔۔۔ حرم نے اُنکے کاکنگ لفظ پر ہنسی دباتے کہا ۔۔۔


اچھا اچھا جاؤ تُم بناؤ میں ہاجرہ سے کہتی ہوں وہ تمھاری مدد کروا دے گی ۔۔ ابھی وہ باتیں ہی کر رہی تھی کہ دروازے پر دستک دیتی ملازمہ اندر داخل ہوئی۔۔۔۔


بیگم صاحبہ آپکو خان زمان لالا نے بلایا ہے ملازمہ نے موؤدب سے انداز میں نور بانو سے کہا ۔۔۔

اچھا ۔۔۔ تُم جاؤ ہاجرہ کو بولو کہ حرم بیبی کی کھانا پکانے میں مدد کریں ۔۔۔

ملازمہ اثبات میں سر ہلاتے ایک نظر سامنے بیٹھی حرم پر ڈالتی واپس چلی گئی ۔۔۔


چلو تم کاکنگ بناؤ ۔۔ میں اپنے بھائی کے گھر سے ہو کر آئی اللہ خیر کرے ایسے اچانک بلاتا تو نہیں وہ ۔۔۔ نور بانو کچھ پریشان نظر آرہی تھی۔۔

حرم بھی اثبات میں سر ہلاتے کچن کی طرف بڑھ گئی کیوں کہ ساحر کے آنے سے پہلے اُس نےبریانی پکانی تھی ،

کچن میں آتے ہی اُسے ملازمہ منتظر ہی نظر آئی,,,۔


بیبی جی آپکو جو کچھ بھی چاہئے ہو مجھے بتا دیں میں نکال دیتی ہوں ، ملازمہ نے اپنی آواز کو شیریں رکھتے کہا ، وہ نور بانو کا حرم کے ساتھ رویہ دیکھ چکی تھی اب اُسے فکر ستا رہی تھی کہ کل رات جو اُن تینوں ملازمین نے حرم کے ساتھ سلوک کیا اور جلی کٹی سنائی وہ سب حرم نور بانو کو ہی نہ بتا دے ۔۔۔۔


تُم ایسا کرو مجھے یہ سب سامان نکال دو ،، حرم نے اُسے مطلوبہ سامان کا نام لیتے کہا اور خود دوپٹہ باندھتی پکانے میں مشغول ہوگئ تھی ۔۔۔۔۔


ایک گھنٹے کی محنت کے بعد آخر بریانی دم پر رکھتی وہ فریش ہونے کے غرض سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔


کمرے میں قدم رکھتے ہی اُسے بالکونی کے دروازے کے برابر میں ٹانگے جھولے میں مٹھو بیٹھا نظر آیا ۔۔۔ مٹھو اتنی دیر بعد حرم کو دیکھتا ایک ہی چست میں اڑتا اُسکی طرف آیا تھا ۔۔۔


حرم ۔۔۔ مٹھو نے پُکارا ۔۔۔

ہاں الماری سے کپڑے نکالتی مصروف سے انداز میں بولی ۔۔۔

میں نے کچھ کہا تھا ۔۔۔ مٹھو نے کچھ جھجکتے بولا ۔۔


تُم تو بہت کچھ کہتے ہو ، مصروف سا انداز جو مٹھو کو زہر سا لگا تھا۔۔


میری شادی کا کیا سوچا ہے کوئی طوطی دیکھنا شروع کی ہے کہ نہیں۔۔۔ مٹھو نے آنکھیں چھوٹی کرتے بنا شرم کے بولا ،،

نہیں میں کہاں سے طوطی لے کر آؤں تُم ساحر سے بولو وہ لا دے گا۔۔۔


وہ شتر مرغ ہر وقت مجھے کاٹنے کو دوڑتا ہے میری کیسے سنے گا۔۔۔ مٹھو نے بات کو بڑھاتے ہوئے کہا اُسکے انداز سے یہ صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ یہ سب صرف حرم سے باتیں کرنے کے لئے کر رہا تھا ۔۔ یہ اُسے خود سے باتوں کے لئے اُکسا رہا تھا ۔۔


اتنے شریف تو تُم بھی نہیں ہو اور کاٹتے وہ نہیں تُم کاٹتے ہو انہیں ، حرم نے نہ جانے کیوں ساحر کی سائیڈ لی ،،

مٹھو تُم اُن سے پنگے نہ لیا کرو پیار سے بات کیا کرو ، وہ اُسے سمجھا رہی تھی جو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال رہا تھا۔۔۔


حرم اُس پر ایک نظر ڈالتی گھڑی میں ٹائم دیکھتی جو بارہ بجا رہی تھی وہ وقت دیکھتی عجلت میں واشروم کی طرف بڑھی,,,


°°°°°°°°°

کیا کر رہی ہو یہاں ؟ ملازمہ سلاد بنانے میں مشغول تھی کہ اس اچانک آواز پر بدک کر سہم گئ۔۔۔


سلاد بنا رہی تھی۔۔۔ وہ درخنے کو دیکھتی مسکین سی شکل بنا کر بولی ورنہ ثمر کے انتقال کے بعد سے ہی اُسے دورخنے سے بات کرتے ہوئے بھی ڈر لگ رہا تھا ,,,


بن گیا ؟ جگ سے پانی گلاس میں انڈیلتی اپنے گلابی لبوں سے لگاتے پوچھا ۔۔


جی ۔۔۔ ملازمہ نے سلاد سائڈ رکھتے اب پورا اُسکی طرف متوجہ ہوتے کہا ۔۔۔


ٹھیک ہے جاؤ میرے کمرے کی صفائی کرو ۔۔ حکم زدہ لہجے میں گویا ہوئی۔۔

ملازمہ تابیداری سے جی کہتی کچن سے باہر کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔


ملازمہ کے جانے کی یقین دھانی کرتی وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی حرم کی بنائی بریانی کی طرف بڑھی ,,, ابھی اُس نے ڈھکن ہی ہٹایا تھا کہ لذیز بریانی کی بھاپ اڑاتی ہوئی خشبو اُسکی ننتھو سے ٹکرائی ،،،


وہ ڈھکن سائڈ رکھتی لال مرچ پاؤڈر کا ڈبا اُٹھا گئ اور دو تین چمچے بھر کر اُس بریانی میں ڈالنےلگی ,,,


كام ختم کرتے ہاتھ جھاڑتی سب ترتیب سے رکھتی شیطانیت سے مسکراتی وہ کچن سے نکل گئی۔۔۔۔


بلیک سادہ سے سوٹ پر ہم رنگ دوپٹہ پہنے وہ نکھری نکھری سی واشروم سے نکلی ،، نم بالوں کا ڈھیلا ڈھالا سا جوڑا بناتے اپنے گرد اچھے سے دوپٹہ پھیلاتی وہ کمرے سے سیدھا کچن کی طرف بڑھی جہاں اُسے ملازمہ ٹرے میں چائے کے کپ رکھتی نظر آئی,,,,


یہ کِس کے لئے لے جا رہی ہو کوئی مہمان آیا ہے کیا ؟ حرم نے خاصی نہ سمجھی سے پوچھا ۔۔۔۔۔۔


وہ بیبی جی حجرے میں بھجوا رہی ہوں داجی کے کچھ عزیز آئیں ہیں قریب کے گاؤں سے ، ملازمہ نے تفصیل سے بتایا ۔۔۔


اچھا حرم سمجھتی اپنے کام میں مصروف ہو گئی,,, اور ملازمہ بھی چائے اور دیگر لوازمات اٹھائے کچن سے باہر کی طرف بڑھ گئی,,,


ساحر عجلت میں قدم اٹھاتا گھر میں داخل ہوا اُسے آج ہاسپٹل میں کچھ زیادہ ہی وقت لگ گیا تھا,,, اُس نے بہت کوشش کی کہ جلد از جلد کام نپٹا لے پھر اُس نے اسلام آباد کے لئے بھی نکلنا تھا ۔۔۔


وہ آج کُچّھ زیادہ ہی پُر سکون تھا کیوں کہ جسے انویسٹیگیشن کے لئے کہا تھا ، اُسکے ہاتھ ایک بڑا ثبوت لگا تھا ۔۔۔۔ وہ انہیں سوچوں میں چلتا آگے بڑھ رہا تھا کہ اُسے سامنے سے آتی ملازمہ دکھائ دی ،،


مور کہاں ہیں ؟ ملازمہ کو مخاطب کرتا سوال گو ہوا ۔۔۔۔

بیبی جی خان زمان لالا کے گئ ہے ملازمہ نے موؤدب سے سر جھکائے جواب دیا ۔۔۔ باقی گھر کے لوگ ؟ گھر میں سناٹا دیکھ اُس نے پوچھا ۔۔۔


حرم بیبی کچن میں ہیں ، درخنے بیبی اپنے کمرے میں ہیں اور داجی حجرے میں ہیں ۔۔۔

ٹھیک ہے تُم جاؤ ، اُسے جانے کا کہتے اُس نے بھی اپنے قدم سیدھا کمرے کی طرف بڑھائے ، ٹھیک پندرہ منٹ بعد وہ فریش ہو کر کھانے کی میز کی طرف بڑھا ۔۔۔


وہ چلتا ہوا ڈائینگ ٹیبل پہ آکر براجمان ہوا,,,,سرخ و سپید رنگت پہ بلیک کلفدار شلوار قمیض کندھے پہ مہرون شال وہ واقعی پٹھانوں کی شان پہ پورا اترتا تھا,,,


ابھی وہ آکر بیٹھا ہی تھا جب حرم کچن سے بریانی کی ٹرے ہاتھ میں تھامے آتی دکھائی دی یہ بھی ساحر کا ہی حکم تھا کہ اسکے چھوٹے بڑے ہر کام وہ بزات خود اپنے ہاتھوں سے سر انجام دیگی ورنہ سزا کی کیلئے خود کو تیار رکھے,,,,


بے شک وہ اپنے حق میں بولنا جانتی تھی اور وہ کبھی غلط کا ساتھ نہیں دیتی تھی حرم نور کی نظر میں غلط کا ساتھ دینا تو ہمارے اسلام میں بھی اجازت نہیں تھی تو وہ کیوں انکے آگے جکھتی جو خود کو خدا سمجھ بیٹھے تھے,,,


لیکن وہ خاموشی سے اسکے کام کرنے پہ راضی تھی کیونکہ یہاں اسکے ماں باپ موجود نہیں تھے جو ہر سرد گرم سائے سے اسے محفوظ رکھ سکے ,,,دوسرا وہ شوہر تھا ااکا اور شوہر کے کام کرنے میں اسے کچھ غلط بھی نہ لگا اسلیئے اسنے بریانی بھی پورے دل سے بنائی تھی,,,ناچاہتے ہوئے بھی وہ ساحر کا دل جیتنے کی کوشش میں تھی,,,


قریب آتے بھاپ اڑاتی ٹرے ساحر کے سامنے رکھتے جانے لگی,,,او ہیلو مس انوسینٹ,,,

اسکے ترز مخاطب پہ وہ مڑی ,,,,


بڑا احسان ہے آپ نے شوہر کیلئے کھانا بنا دیا اگر آپ کے پاس وقت کی قلت نہ ہو تو کیا آپ مجھے کھانا نکال کر دینگی پلیٹ میں ,,,

طنز سے بھرپور لہجہ کہ حرم نور کی جان جل کر رہ گئی,,


میسنیٰ نہ ہو تو وہ دل میں کہتی مرتی کیا نہ کرتی آگے بڑھی اور اسے پلیٹ میں چاول لبالب نکالنے لگی،،،،،


تمہیں میں جنات کی اولاد لگتا ہوں یا کوئ آدم خور جو اتنا کھانا نکال رہی ہو کوئ تمیز و تہزیب پائی جاتی بھی ہے تم میں یا نہیں،،،،


اسکے پلیٹ بھر کر چاول نکالنے پر ساحر نے رج کر چوٹ کی،،،،

جناتوں کی بھی توہین ہوجائیگی اگر آپسے مشابہت کی تو,,,

یہ جملہ وہ صرف دل میں ہی ادا کر سکی منہ پہ بول کر وہ مزید اس سے اپنی جان نہیں جلا سکتی تھی،،،،

اسنے پلیٹ سے چاول کچھ کم کیئے اور پھر پلٹ کر جانے لگی،،،،


میں پانی بھی پیتا ہوں شاید وہ نکالنے کیلئے کسی ملازم کو آواز دیے دیتا ہوں اگر تمہیں شوہر کے کاموں میں بھی زور آرہا ہے تو،،،،


اس میں پوچھنے کی کیا بات ہے بلا لو میری جان کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو ظالم انسان ،،،،،


ابکی بار بھی اسنے دل کی بھڑاس دل میں ہی نکالی،،،وہ رات کو لگائے گئے بے وجہ کے چکر اب تک بھولی نہیں تھی اسلیئے چپ چاپ قریب آتے گلاس میں پانی بھرا اور اس سے تھوڑے فاصلے پر بیزار سی شکل بنا کر کھڑی ہوگئی ،،،،

کوئ ظلم کے پہاڑ نہیں توڑے ہیں اب تک میں نے تم پہ جو یوں مسکینوں جیسی شکل بنا رکھی ہے،،،،


ابکی بار اسنے شکوہ کناں نظروں سے اس بے حس کی طرف دیکھا،،،،


ایک تو پہلے ہی وہ کب سے کچن میں کام کرتے اسکی فرمائش پہ بریانی بنارہی تھی اور سب اسکی جلی کٹی باتیں سن کر مزید دل جلنے لگا اسنے خود بھی اب تک کچھ نہیں کھایا تھا ،،،


ساحر نے چاولوں سے بھرا چمچ جیسے ہی منہ میں رکھا تو تیز مرچ کے باعث اسکی آنکھیں سرخ ہوئی,,,,


اور پھر یک لخت زبردست پھندا لگا وہ بری طرح کھانسنے لگا حرم نور نے جلدی سے پانی سے بھرا گلاس اسکے منہ سے لگایا تو اسنے ایک ہی سانس میں گھٹاگٹ سارا پانی ختم کردیا,,,


,لیکن منہ تھا جو اب بھی جل رہا تھا اسے تیز مرچ سے الرجی تھی اور آج مرچ معمول سے بھی زیادہ تیز ہونے کی وجہ سے اسکی ایسی حالت ہوگئ تھی,,,


اسکی حالت پہ حرم کے ہاتھ پیر پھولنے لگے وہ سرخ ہوگیا تھا آنکھیں ناک سب خون چھلکانے کو تیار تھی حرم نے آگے بڑھتے گاجر کا حلوہ نکالتے اسکے آگے کیا,,,

اسنے وہ بھی جلدی سے ختم کرلیا اب وہ کچھ پرسکون ہوتا کرسی سے ٹیک لگا کر بیٹھا اور گہرے گہرے سانس لینے لگا,,,


آپ ٹھیک ہیں,,,حرم نے آگے بڑھتے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کچھ جھجکتے ہوئے پوچھا,,,آواز میں فکر کا عنصر نمایا تھا,,,

ساحر اسکی آواز پہ ہوش میں آیا اور جھٹکے سے چیئر پیچھے کھسکاتے اٹھا,,,

اسکے جارہانہ انداز میں اٹھنے پر حرم ڈر کر دو قدم پیچھے ہوئی,,,,


لیکن اگلے ہی لمحے ساحر نے اسکا ہاتھ تھامتے تقریباً گھسیٹتے ہوئے کمرے میں لایا اور جھٹکے سے اسکا بازوں چھوڑا وہ گرتے گرتے بچی,,,,حرم کا سانس پھولنے لگا,,,


ساحر کا غصے سے برا حال تھا اسنے دروازہ لاک کرتے خونخوار نگاہوں سے اسکی جانب دیکھا جو محض اسکے دیکھنے پر ہی لرزنے لگی تھی,,

جان بوجھ کر کی تھی نا مرچی تیز اندازہ ہے میری جان بھی جاسکتی تھی مرچ الرجک ہوں میں,,,,

وہ اسکا چہرا دبوچتے پھنکارا,,,,,

حرم کو اپنا منہ ٹوٹتا محسوس ہوا مقابل کی گرفت سخت جارہانہ تھی ,,,,


بولو ہاں پہلے تمہاری بہن میرا بھائی نگل گئی اور اب تم مجھے بھی جان سے مارنا چاہتی ہو اسی لیئے تمہاری کینچی کی طرح چلتی زبان آج بند تھی کیوں ٹھیک کہہ رہا ہوں نہ میں,,,

وہ دھاڑتے ہوئے اپنے منہ سے انگارے اگل رہا تھا,,,


ساحر نے جھٹکے سے اسکا منہ چھوڑا تو وہ زمین بوس ہوئی اآاہہ وہ کراہی اسکے ہاتھ پہ چوٹ آئی تھی,,,,

ننہیں مجھے نہیں پتہ مرچ ککیسے اتنی تیز ہوئی, ,

حرم نے روتے روتے بامشکل ہی اٹک اٹک کر الفاظ ادا کیئے,,,,

ساحر کی آنکھوں میں خون اترنے لگا ,,,,ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری وہ گھٹنوں کے بل بیٹھتے اسکا وہی ہاتھ پکڑتے بولا جسپے چوٹ لگی تھیی,,,


آااہ حرم کوشدید تکلیف محسوس ہوئی اسکی گرفت میں,,,

ساحر بنا اسکے کراہنے کی پروہ کیئے بغیر اسے اسی ہاتھ سے پکڑ کر واپس کھڑا کر گیا,,,


اسنے پھر ایک سسکی بھری آنسوں تیزی سے اسکی آنکھوں سے رواں تھے سساحر جی پلیز مرچی تیز نہیں تھی سچ میں,,,

وہ منت بھرے لہجے میں بولی مگر مقابل کے سر تو جیسے خون سوار تھا,,,


اسے کھڑا کرتا اسکی کمر میں ہاتھ ڈالتے اپنے قریب تر کیا,,,اسے مسلسل روتا دیکھ ساحر کے دل کو کچھ ہوا ایک ٹیس سی اسے اپنے دل میں اٹھتی محسوس ہوئی,,,

ششش اسکا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھا تھا,,,


وہ بے حد نزدیک سے اسکے چہرے کے نقوش کو دیکھ رہا تھا,,,ساحر کی گرم سانسیں خود پہ محسوس کرتے اسنے شدت سے آنکھیں میچی ہاتھ میں الگ درد محسود ہورہا تھا مگر اب ساحر کی گرفت نرم تھی,,,,


اسکی گرفت خود پہ کمزور محسوس کرتے وہ دونوں ہاتھ اسکے سینے پہ رکھتے دور ہوئی لیکن اگلے ہی لمحے ساحر نے کمر میں ہاتھ ڈالتے اسے اپنے قریب کیا اور جارہانہ انداز میں اسکے ہونٹوں پہ جھکا,,,


وہ مدہوش سہ پوری شدت سے اسکے ہونٹوں پہ جھکا ہوا تھا انداز بلکل وحشیانہ حرم نے مزاحمت کرنی چاہی تو اسکے انداز میں مزید شدت آگئی,,,

اسے اپنی جان نکلتی محسوس ہوئی جو پیر کچھ دیر پہلے تک لرز رہے تھے اب انکی جنبش یک لخت ہی موقوف ہوئی,,,


ساحر کو اپنے منہ میں خون کاذائقہ محسوس ہوا تو وہ کچھ ہوش میں آیا اور پیچھے ہوا مگر اسے آزادی اب بھی نہیں بخشی ,,,

وہ مکمل اسکے سہارے پہ کھڑی حرم گہرے گہرے سانس لینے لگی اسکی ہچکیاں بندھ گئی تھی دوسرا اس ستمگر کی قربت وہ نڈھال سی ہوگئ تھی,,,,


ساحر مخمور آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا اسکی پھولتی گرم سانسیں,,,

سیاہ پلکوں کا جھالر جو اسکی شہد رنگ آنکھوں پہ سائہ فگن تھی ,,,

نم کانپتے گلابی لب جن پہ ننھی ننھی خون کی بوندیں اب بھی لگی تھی,,,

سرخ ہوتے پھولے پھولے عارض جو یقیناً اسکی شدت بھری گستاخی کے باعث سرخ تھے,,,


اسنے سیدھے ہاتھ کے انگھوٹے سے اسکے نچلے ہونٹ پہ چمکتی بوندوں کو اپنے انگھوٹے سے مسلا,,,حرم کو یک لخت ہی جلن محسوس ہوئی اسنے آنکھوں کو سختی سے میچتے جلن برداشت کی,,,

مگر ابکی بار اسنے مزاحمت نہیں کی,,,نظریں جھکائے بس یوں ہی بت بنی کھڑی رہی,


آئیندہ اگر غلطی کرو تو اسے قبول کرنا میرے سامنے اگر اب تم نے جھوٹ بول کر مسکین بنبے کی کوشش کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا,,سمجھی,,,

وہ اپنی کی گئ گستاخی پہ ایک پل کیلئے شرمندگی کا شکار ہوا مگر اگلے ہی لمحے وہ ٹھنڈے ٹھار لہجے میں کہتا اسے یوں ہی چھوڑ بیرونی دروازے کی سمت بڑھ گیا,,,,,


اسکے جاتے ہی حرم نے بے دردی سے اپنے ہونٹ مسلے کی ان میں سے پھر سے خون رسنے لگا,,,,

وہ روتے ہوئے باتھروم کی طرف بھاگی ٹھنڈے پانی کا شاور اون کرتے اسکے نیچے کھڑی ہوئی,,,,اور ایک بار پھر وحشت سے اپنے ہونٹ مسلے اسکا بس نہیں چل رہا تھا ساحر کے لمس کو اکھاڑنے کیلئے وہ اپنے یونٹ ہی جڑ سے اکھاڑ لے وہ سخت وحشت زدہ لگ رہی تھی,,,,


شدت سے روتی وہ دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپائے وہی بیٹھتی چلی گئی,,,اسے رہ رہ کر ساحر کا جارہانہ انداز یاد آرہا تھا,,,


**********

وہ تیزی سے اندھا دھند ڈرائیونگ کرتا پشاور سے اسلام آباد کا سفر طے کرنے لگا,,,

ڈرائیونگ کے دوران بھی اسکی سوچوں کا مرکز حرم نور کیساتھ کیا جانے والا اہنا برتاؤ تھا اسے شدید شرمندگی ہورہی تھی,,,


مجھے اس حد تک نہیں جانا چاہیئے تھا اسکے ساتھ وہ دل ہی دل میں سوچنے لگا,,,

لیکن وہ بیوی ہے میری ان سب کا میں حق رکھتا ہوں میں کیوں اتنا شرمندہ ہورہا ہوں ابھی تو میں نے کچھ کیا بھی نہیں مسلسل اسی سوچ میں گھرا وہ آخری نتیجے پہ پہنچا ,,,,


مگر میں اسپے اپنی محبت نچھاور کرنے کے ارادے سے نہیں بیاہ کر لایا ساحر وہ ایک خون بہا میں آئی ہوئی لڑکی ہے بس اور اس سے زیادہ کچھ نہیں تمہیں جو اس سے تھا وہ صرف اٹریکشن تھی,,,,


دماغ نے فوراً ہی اسکے دل کی بات کی نفی کی,,,,

نہیں وہ محبت تھی دل کے کسی کونے سے ایک بار پھر آواز آئی,,,

لمبے سفر کے بعد اسنے گاڑی ایک ریسٹورینٹ کے آگے روکی,,,


پہنچتے پہنچتے آسمان پہ تاریکی چھا گئ تھی,,,


اپنی گاڑی سے نکلتا وہ اندر داخل ہوا,,,

ریسیپشنٹس سے مطلوبہ کمرے کے پوچھتے وہ لفٹ کی طرف بڑھ گیا,,,,

کمرے میں داخل ہوا تو سامنے ہی آفیسر عادل جو ثمر کے کیس کی چھان بین کر رہا تھا وہ صوفے ہر بیٹھا نظر آیا,,,


ساحر دروازے کو لاک لگاتا اسکہ طرف اضطرابی کیفیت میں بڑھا ,,,

کیا انفورمیشن ہے,,,,اسنے بیٹھتے ہی پہلا سوال بیچینی سے پوچھا,,,وہی جسکا ہمیں شک تھا عادل نے لیپٹوپ کی اسکرین اسکی طرف کرتے ایک ویڈیو اون کی,,,,


جس میں ایک وجود خود کو لیڈیز شال میں ڈھانپے کھڑکی کی طرف بڑھتا دکھائ دیا,,,

ساحر نے الجھتے ہوئے اسے دیکھا,,

کیونکہ یہ ویڈیو وہ پہلے بھی دیکھ چکا تھا,,,

.غور سے دیکھو تمہیں کچھ نظر آرہا ہے؟؟


آفیسر عادل نے اسکا دھیان پوری طرح اس ویڈیو پہ لگایا,,,.اسٹوپ زوم زوم ساحر کی نظر جیسے ہی اس وجود کے پیروں پہ پڑی اسنے تیزی سے اسٹوپ کہا تو عادل نے اسٹوپ پہ کلک کرتے زوم کیا,,,,.


یہی میں تمہیں دکھانا چاہ رہا تھا,,,اب منظر کچھ یوں تھا کہ لیڈیز شال میں وہ وجود پیروں میں جینٹس شوز پہنے یوئے تھا دوسرا اسکی چال میں نزاکت انہیں یہ کوئی اور ہی مخلوق لگی مگر یہ ہے کون,,,


ساحر نے اسکرین سے نگاہ ہٹاتے الجھتے ہوئے پوچھا,,,,

شیری نام ہے لڑکے کا عنایہ کیساتھ یونی میں تھا پتہ کرنے پہ معلوم ہوا کہ اسنے عنایہ کو پروپوزل دیا تھا مگر عنایہ نے سب کے سامنے اسکی انسلٹ کی تھی,,,اسنے تفصیل سے بتایا,,,,


لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس لڑکے کو عماماً تو انسلٹ کا بدلہ لینا چاہیئے تھے مگر میری انفورمیشن کے مطابق یہ عنایہ کا ساتھ دے رہا تھا,,,

عادل نے اسے اپنی سوچ سے بھی آگاہ کیا,,,


کیس مزید پیچیدہ ہورہا ہے ایک کڑی کھلتی نہیں ہے دو مزید راز فشاں ہوجاتے ہیں,,,

خیر کافی اچھا ہوم ورک کیا ہے تم نے مجھے امید ہے ہم جلد ہی کسی نتیجے پہ پہنچ جائینگے,,,,

ساحر نے عام سے لہجے میں کہا اور کچھ دیر مزید کیس کے مطلق بات کرتے وہ دونوں ہی اپنی اپنی منزل کی طرف گامزن ہوگئے,,,


*********

ساحر اپنے کیبن میں بیٹھا کیس میں الجھا ہوا تھا جب اسکا فون رنگ ہوا,,,,

موبائل اسکرین پہ نمبر دیکھتے وہ ایک پل کیلئے ساری سوچوں کو بھلائے کھل کے مسکرایا,,فون ریسیو کرتے کان سے لگایا تو دوسری طرف اپنے جگری دوست ملاہم کا حکم سنتے وہ سکتے میں گیا تھا,,,,


ابھی وہ اسی کشمکش میں تھا کہ کس طرح ملاہم کے حکم کی پاسداری کی جائے ,,,پھر اسکے دماغ میں جھماکہ ہوا اعر وہ ڈرار سے پسٹول نکالتا ایک نیا کارنامہ انجام دینے نکل گیا,,,سچ ہی ہے ہر ایک فرندڈ کمینہ ہوتا ہے,,,


︿●●︿●

عنایہ ہوش میں آتی ہی پلکیں جھپکاتی اُٹھ بیٹھی اور اپنے چکراتے سر کو دونوں ہاتھوں میں تھام گئ ، اُسے اپنی پلکیں بے تحاشا بھاری لگ رہی تھی اور سر بھی بُری طرح چکرا رہا تھا ۔۔۔۔

ہیل کی ٹک ٹک کی آواز پر اُس نے سر اٹھایا تو اپنے سامنے سنایا کو کھڑا پایا ۔۔۔


سنایا چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اُسکی طرف بڑھی,,,

اب کیسا فیل کر رہی ہو اپنی آواز کو انتہا کا سنجیدہ کرتے اُسے گھورتے ہوئے پوچھا لہجے کو کسی حد تک نرم رکھنے کی کوشش کی گئ تھی لیکن اسکے باوجود بھی سختی کا عنصر شامل تھا۔۔


پتہ نہیں بس سر گھوم رہا ہے ۔۔۔ عنایہ نے سر تھامتے جواب دیا۔

ہاں ہوتا ہے اس حالت میں یہ سب,,, عام سے انداز میں شانے اُچکا کر کہتی وہ سامنے پڑے صوفے پر جا بیٹھی ۔۔۔


لفظ ایسی حالت پر عنایہ کی ساری حسیسں بیدار ہوئی تھی وہ الجھتی نظروں سے سامنے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھی سنایا کو دیکھنے لگی ۔۔۔


ک کیسی حالت میں ؟؟ ایک سیکنڈ میں اسے ہزاروں خدشات نے آن گھیرا تھا ,,,,اُس کے الفاظ لڑکھڑائے تھے وہ اپنی تمام سماعتیں بچھائے اسکے جواب کی منتظر تھی,,,,


اُوہ تُمہیں نہیں پتہ حیرت ہے میں سمجھی تھی کہ پتہ ہوگا خیر میں بتا دیتی ہوں ۔۔۔وہ چونکنے والے انداز میں بولی چونکنے کی اداکاری خاصی فطری معلوم ہوئی,,,سو مس عنایہ سکندر یو آر پریگننٹ ۔۔۔۔ پُر سکون اور ٹھنڈے ٹھار لہجے میں کہے جانے والے الفاظ ۔۔ محض الفاظ تھے کہ گویا پگھلتا ہوا سیسہ جو عنایہ کو اپنے کانوں کے آر پار ہوتا محسوس ہوا ۔۔۔۔

وہ اپنی تیز ہوتی دھڑکنوں اور حیرت انگیز تاثرات کیساتھ سنایہ کو دیکھ رہی تھی ۔۔ اور سنایا اُسے سرد آنکھوں سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔


ایک کی آنکھوں میں غصے کی شدت سے پھوٹتی چنگاریاں تھی ۔۔ تو دوسری کی آنکھوں میں خوف اور حیرت تھی وہ ہراساں سی سنایا کو دیکھی جا رہی تھی,,,,,


نہ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ۔۔۔ وہ ایک دم تیز آواز میں گردن نفی میں ہلاتی بولی اور اپنے قدم بیڈ سے نیچے رکھتے کھڑی ہوگئ,,, سر چکرانے کے باعث ابھی وہ گرنے ہی لگی تھی کہ بر وقت اپنا توازن برقرار رکھ گئ,,,


تُم کیوں كہہ رہی ہو یہ ؟ ایسا نہیں ہے ائ ایم شیور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے تُمہیں,,, وہ کسی خدشے کے تحت بولی,,,


یہی سچ ہے عنایہ ۔۔۔ سنایا نے اُس کی اس قدر بے خبری پر دانت پیستے کہا ۔۔۔


نہیں ایسا نہیں ہوسکتا اب اب میں کیا کروں گی,,, نہیں میں اس دنیا میں آنے ہی نہیں دوں گی اسے مہ ۔۔ میں ابورشن کروا دوں گی ۔۔۔ وہ ہوش میں آتی ہہزیانی ہوتی چلائ وہ اس وقت کوئی پاگل لگ رہی تھی جو اپنے ہی بچے کو جان سے مارنے کی بات کر رہی تھی ۔۔۔

وہ پاگل بنی ایک ایک چیز اُٹھا کر نیچے پھینک رہی تھی وہ بلکل بھپری ہوئ کوئی پاگل لگ رہی تھی,,,,


سنایا کھڑی ہوتی اُس تک پہنچی تھی اور ایک ہی جھٹکے سے وہشیانہ طریقے سے اُسکی کلائی دبوچتی دیوار کے ساتھ پن کیئے اُس کے مقابل کھڑی ہوئی۔۔۔ وہ سایہ بنی عنایہ پر چھائی ہوئی تھی اور عنایہ مشکل سے اُسکے شانوں تک پہنچ رہی تھی ۔۔۔


شٹ اپ جسٹ شٹ آپ ۔۔۔۔ اگر تم نے اِس بچے کو ختم کرنے کا سوچا تو اُس دن سمجھنا تُم ختم ۔۔۔ لہو چھلکاتی آنکھوں سے عنایہ کو دیکھتی گرائی,,,


عنایہ غیر دماغی سے سنایا کو دیکھ رہی تھی جو آج بلکل کوئی وحشی لگ رہی تھی ۔ اُسے سنایا سے دہشت سی محسوس ہوئی,,,


میں اتنی آسانی سے نہ تُمہیں ہار ماننے دوں گی نہ ہی خود مانو گی,,, ساحر خان اور اُسکی خاندان کی تباہی اسی بچے کے ذریعے کریں گے,,,,

ہا ہا ہا,,,,, وہ قہقہ لگاتی ایک بار پھر گویا ہوئ ۔۔۔۔ یہ بچہ ہی تُمہیں ساحر کے گھر پہنچائے گا اس نے ہمارا کام اور آسان کر دیا ہے یہ آئیگا اس دنیا میں ضرور آئیگا مرحوم ثمر خان کا بیٹا ۔۔۔ ہا ہا ہا ۔۔۔۔۔۔

اُن سب کی تباہی بہت قریب ہے ۔۔۔

وہ اور بھی پتہ نہیں کیا کیا کہہ رہی تھی پر اس وقت یہ سب عنایہ کے سر کے اوپر سے جا رہے تھے اُسکے الفاظ وہ نہیں جانتی تھی کہ آخر سنایا کی کیا دشمنی ہے ساحر سے یا ساحر کے گھر والوں سے ، سنایا کہ یہ عجیب روپ اُس کے لئے بہت نیا تھا,,,,,


تُم آرام کروابھی تُم نے اور میں نے دشمنوں کی بہت سی تباہیاں کرنی ہے ۔۔۔۔

میں ملازمہ کے ہاتھ کھانا اور دوا دونوں بھیجتی ہوں جب تمھاری طبیعت بہتر ہو جائیگی تب اس معاملے میں ہم بات کریں گے ۔۔۔۔ وہ اپنے لہجے میں دنیا جہاں کی فکر مندی سجائے گویا ہوئی۔۔۔۔

اور مسکراتی نظروں سے اُسی دیکھتی گال تھپتھپاتے کمرے سے نکل گئی,,,,


کُچھ ہی دیر بعد ملازمہ ہاتھ میں کھانے کی ٹرے اٹھائے کمرے میں داخل ہوئی,,, عنایہ اپنی ساری سوچوں کو پسِ پشت ڈالتی خاموشی سے کھانا کھانے لگی کیوں کہ اُسے اس وقت بہت بھوک لگی تھی اور اس وجہ سے اُسکا دماغ بھی ماؤف تھا ،، کھانا کھانے کے بعد دوا لے کر وہ آرام کے غرض سے بیڈ پر دراز ہوگئ اور دیکھتے ہی دیکھتے دوا کے زیرِ اثر وہ نیند کی وادیوں میں اُترتی گئ,,,,


°°°°°°°°°°°°°

خود کو کچھ پرسکون کرتے وہ تہجد ادا کرنے کی غرض سے جائے نماز لیئے نماز میں مشغول ہوگئی, ,,,

مکمل نماز ادا کرنے کےبعد اسنے دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے اپنے ہاتھ میں اسے شدید تکلیف محسوس ہورہی تھی ,,,,

زرا سی جنبش سے بھی ہاتھ میں ٹیس اٹھ رہی تھی وہ درد برداشت کرتے نماز ادا کئے جائے نماز کو طے لگاتی اٹھی,,,,


اور پرسکون انداز میں بیڈ پر بیٹھ گئی,,,,

رہ رہ کر اسکی نظروں کے سامنے ساحر کا جارہانہ رویہ گھوم رہا تھا وہ چاہ کر بھی اپنے آنسوؤں پہ بندھ نہیں باندھ پارہی تھی,, ,,

بند آنکھوں سے آنسوں تیزی سے رواں تھے,,,جنہیں وہ بے دردی سے ہاتھ کی پشت سے رگڑ دیتی,,,


تب ہی کمرے کا دروازہ بجا تو اسنے دوپٹے سے اچھی طرح اپنے آنسوں صاف کیئے,,,

دروازہ کھٹکھٹاتی نور بانو ٹرے میں کھانا سجائے اندر داخل ہوئی,,,,


ملازمہ بتا رہی تھی کہ سارا کھانا ٹیبل پہ ایسے ہی ہڑا تھا ساحر اور تم نے کچھ نہیں کھایا,,,,ساحر کے نا کھانے کی وجہ تو میں بریانی کی سرخی دیکھ کر سمجھ گئی تھی لیکن تم نے کچھ کیوں نہیں کھایا بیٹا,,,

نور بانو نے ٹرے اسکے آگے رکھتے متفکر انداز میں پوچھا,,,,

وہ مجھے بھوک نہیں تھی,,,حرم نے انکی اس قدر شفقت پہ نظریں چراتے بہانہ تراشا,,,

ایسے کیسے بھوک نہیں تھی پہلے ہی اتنی کمزور ہو کوئی پھوک مارے تو اڑ جاؤ ساحر کو دیکھا ہے ماشااللہ کتنا تندرست ہے,,,,انہوں نے کچھ شریر انداز میں کہا,,,لیکن ساحر کے ذکر پہ حرم کے چہرے پہ مصنوعی مسکراہٹ بھی نہیں آئی,,,,


بیٹا تم ٹھیک ہو نہ میرا مطلب ساحر کا رویہ کیسا ہے تمہارے ساتھ,,,,

اسکی سوجی آنکھیں سرخ چہرہ وہ دیکھ چکی تھی,,,لیکن انہوں نے جان بوجھ کر اس سے کچھ نہیں پوچھا تھا,,,,انکے نزدیک شاید حرم نور کو اپنے گھر ماں باپ کی یاد ستا رہی ہوگی,,اسلیئے انہوں نے وجہ دریافت نہیں کی,,,

وہ اپنے طور اسے ماں کا پیار دینے کی پوری کوشش میں تھی مگر وہ چاہ کر بھی اسے اسکے ماں باپ سے نہیں ملا سکتی تھی کیونکہ وہ خون بہا میں آئ تھی اور انکے رواجوں کے مطابق ونی کی گئی لڑکیاں کبھی اپنی پرانی زندگی کی طرف نہیں لوٹ سکتی تھی ,,,,


انکے پوچھنے پر حرم نے خاموشی سے سر جکھا دیا ایک آنسوں پلکوں کی باڑ توڑتا ہوا سیدھا اسکے ہاتھ پہ گرا,,,,

بولو بیٹا کیا ساحر نے کچھ کہا,,,,وہ پھر تذبذب سی بولیں,,,,

انکا کہنا تھا کہ حرم نور بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی,,,,یک لخت ہی اسے بے تحاشہ روتے دیکھ وہ سراسیمگی سے اسے گلے لگا گئی,,,


حرم کچھ دور ہٹی اسے اپنے ہاتھ میں شدید تکلیف محسود ہورہی تھی,,,

کیا ہوا اسے ہاتھ پکڑ کر روتا دیکھ وہ آستین اوپر کیئے دیکھنے لگی جہاں ہاتھ میں کافی سوزش ہوگئ تھی,,,,

یہ یہ کیسے ہوا نور بانو نے فکر مندی سے پوچھا,,,

وہ وہ میں باتھروم میں گر گئی تھی,,,حرم نے خود کو سمبھالتے بہانہ بنایا,,,,وہ سچ بتا کر نور بانو کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی,,ایک پل کیلئے اسکا دل کیا کے سب کچھ نور بانو کو بتادے لیکن اسے ایک ماں کو اسکے بیٹے کا یہ روپ دکھانا مناسب نہ لگا اسلیئے اسنے خاموشی اختیار کی,,,,

چلو اٹھو ہم ابھی حکیم صاحب کے پاس جائینگے,,,,نور بانو حکم زدہ انداز میں کہتی اسے احتیاط سے اٹھانے لگی,,,

میں ٹھیک ہو آپ فکر نہیں کریں,,,,وہ انہیں مطمئن کرنے لگی مگر نور بانو نہیں مانی,,,,

وہ حکیم کو یہیں بلوا لیتی لیکن رات زیادہ ہوگئی تھی اور تقریباً سب لوگ سوچکے تھے اسلیئے وہ خود حرم کو پٹی کروانے لے گئی تھی


پاس کے حکیم نے ہاتھ کو دیھکتے ہلکا سا فریکچر بتایا نور بانو کو اسکی شدید فکر لاحق ہوئی,,,,حاکمہ نے سختی سے اسے اس ہاتھ کے استعمال کا منع کیا تھا ساتھ اسکی صحت کا خیال رکھنے کو کہا,,,,

نور تیری بہو تو بلکل کوئی حور لگ رہی ہے,,, تیرے ساحر کے معیار پہ پوری اتر رہی ہے ,,,مگر بہت کمزور ہے ساحر تو ہٹا کٹا ہے یہ معصوم تیری حویلی کو کیا وارث دے سکے گی اسے کھلا پلا صحت بنا اسکی تاکہ جلدی تو دادی کے رتبے پہ فائز ہوجائے,,,,

حاکمہ نے پٹی کرتے بغور اسکا جائزہ لیتے پاس بیٹھی نور بانو سے کہا بظاہر حاکمہ کا انداز سنجیدہ تھا لیکن وہ مذاق کر رہی تھی,,,,


انکی بات پہ وہ ایک بار پھر وحشت کا شکار ہوئی مگر بولی کچھ نہیں,,,پٹی کرواتے وہ نور بانو کے ہمرا واپس حویلی چلی گئی,,, اسے ہلدی والا دودھ پلاتے اور آرام کرنے کی سخت ہدایت دیتی وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی,,,

حرم نور بھی ہاتھ کی تکلیف میں کچھ آرام محسود کرتے آہستہ آہستہ نیند کی وادیوں میں اتر گئ,,


**********


ملاہم کے کام میں اسے کافی وقت ہوگیا تھا وہ مولوی کو گھر چھوڑتے سیدھا حویلی آیا تھا اسے پہنچتے پہنچتے 5 بج گئے تھے دور کہیں مسجدوں سے فجر کی آزانوں کی آواز گونج رہی تھی,,,,,

پوری حویلی میں سناٹے کا راج تھا وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا اپنے کمرے میں آیا کیونکہ اب سب حویلی والے فجر کی نماز ادا کرنے کی غرض سے اٹھنے والے تھے اور اگر نور بانو اسے اس وقت گھر میں گھستا دیکھتی تو انکے ہاتھوں اسکی درگت پکی تھی وہ سختی سے اسے اسپتال کی سرے سے ہی منع کر گئ تھی,,,


اسنے کمرے میں قدم رکھا تو کمرا روشنی میں نہایا ہوا تھا اور بیڈ پہ حرم نور پرسکون سی سوئی ہوئ تھی,,,,


پہلے فریش ہوتے وہ اسکی جانب آیا جو اب تک گہری نیند سوئ ہوئی تھی,,,,


اسے شدید بھوک لگ رہی تھی,,,ساحر نے اسے اٹھانے کیلئے ہاتھ بڑھایا مگر کچھ سوچتے رکا,,اور جھٹکے سے اس پہ سے کھینچ کر کمفرٹر اتارا,,,


تو وہ چونک کر اٹھی,,,اچانک نیند ٹوٹنے سے أسکا توازن بگڑا وہ سیدھی ہو کر بیٹھی اور ساحر کی طرف جیسے ہی نظر گئی وہ بیڈ سے اترنے لگی,,

اسنے مسکراتے حرم کا ہاتھ تھاما ,,,,


آاااہ وہ بری طرح کراہی ابھی ہی تو اسے درد میں آرام آیا تھا اب پھر اس ستمگر کی آمد ,,,,


ساحر نے گڑبڑاتے ہاتھ چھوڑا,,,وہ یک لخت ہی اپنا ہاتھ تھامے رونے لگی,,,

وہ سراسیمگی سے بیڈ سے اترتا اسکی جانب آیا, ,کیا ہوا ہے دکھاؤ مجھے وہ فکرمندی سے بولا,,,,

ککچھ نہیں اسنے کہتے ہی اپنا ہاتھ کھینچا مگر ساحر نے پھر سے اسکا دوسرا ہاتھ تھامتے بے حد نرمی سے آستین اوپر کی تو وہاں پٹی بندھی دیکھ وہ فکر مند ہوا,یہ کیا ہوا ہے,,,جان بوجھ کر سختی سے پوچھا گیا,,,


ففریکچر حرم کے الفاظوں میں لرزش نمایا تھی اسے اب بھی درد محسوس ہورہا تھا,,,


ساحر کو اسکے ساتھ اپنا گزشتہ سلوک یاد آیا تو وہ نا چاہتے ہوئے بھی شرمندگی کی گہرائیوں میں ڈوبنے لگا مگر اپنے تاثرات پہ اس قدر سختی سے دربان بٹھائے تھے کہ حرم کو زرا محسوس نہ ہوا ,,,


کتنی نازک ہو یار زرا سا گرنے پر فریکچر آگیا,,,اپنی غلطی پہ نادم ہونے کے بجائے وہ اسکی صحت پہ ٹونٹ کرنے لگا,,,


حرم نے بھرائ آنکھوں سے اسکی جانب دیکھا,,,

شہد رنگ آنکھوں میں من من بھر پانی دیکھ ساحر کے دل کو کچھ ہوا ایک پل کو وہ مبہوت ہوا,,,اچھا طریقہ ہے شوہر کے کاموں سے بچنے کا,,, دوسرے ہی لمحے وہ نظروں کا زاویہ دوسری طرف کرتے گویا ہوا,,,,

اور اسکا ہاتھ چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا,,,


ایک پل کے لیئے اسکی فکرمند لہجے کو دیکھتے حرم کو اپنے اندر سکون اترتا محسوس ہوا مگر دوسرے ہی پل اسکے الفاظ حرم کو تیر کی طرح اپنے سینے میں چھبتے محسوس ہوئی,,,مگر اس ستمگر سے اور امید بھی کیا کی جاسکتی تھی بس یہ سوچ کر ہی وہ خاموش یوگئی,,,,


ساحر بھی کھانا لینے کمرے سے باہر چلا گیا,,,,


وہ واپس آیا تو اسکے ہاتھ میں پاستہ سے بھرا ایک باؤل موجود تھا,,,,

حرم نور اب تک اسی پوزیشن میں بیٹھی تھی اسے اندر داخل ہوتا دیکھ ایک نظر اسپے ڈال کر واپس رخ پھیر گئی,,,

وہ چلتا ہوا آیا اور بیڈ پر اسکے برابر میں دراز ہوا,,,,

حرم چور نظروں سے اسکی ایک ایک حرکت دیکھ رہی تھی,,,اسکے بیٹھتے ہی وہ اپنا تکیہ اٹھائے اٹھ کر جانے لگی,,,کہاں جارہی ہو اب واپس بیٹھو,,,

ساحر نے اسے اٹھ کر جاتا دیکھ سختی سے کہا,,,

ممیں صصصوفے پہ سوجاؤنگی,,,خود کو مظبوط کرنے کے باوجود اب تک اسکے لفظوں میں مقابل کی موجودگی سے کپکپاہٹ تھی,,,


پوچھا نہیں ہے میں نے کچھ بھی چپ کر کے یہاں بیٹھو,,,,وہ قدرے سختی سے بولا,,,حرم بنا کچھ بولے سست روی سے واپس اپنی جگہ پہ بیٹھ گئی,,,


یہ بھی تم نے بنایا ہے؟ ساحر نے چمچ میں پاستہ بھرتے پوچھا,,,لہجا اب قدرے عام تھا,,,

ججی ,,,اسنے جکھے سر کے ساتھ بس اتنا ہی کہا,,,

ہمم وہ ہنکارہ بھرتے چمچ منہ رکھ گیا,,,


آہستہ آہستہ منہ چلاتے ایک دم رکا حرم نے اسکے رکنے پر خوف سے اسکی طرف دیکھا کہییں پھر کچھ تیز تو نہیں ہوگیا ,,,,یہ سوچ دماغ میں آتے اسکے اوسان خطا ہونے لگے,,,یہ پاستہ بنایا ہے تم نے؟؟ساحر نے پھر سختی سے پوچھا,,,

بلیک پیپر کتنا تیز ہے اس میں,,,وہ سڑا ہوا منہ بناتے بولا,,,سساحر جی معاف کردیں ممیں نے جان اسکےخوف سے وہ اٹک اٹک کر الفاظ ادا کرنے لگی تھی جب بیچ میں ہی ساحر نے پاستہ سے بھرا چمچ اسکے منہ میں ٹھوس دیا,,,باقی کے لفظ اسکے منہ میں ہی دم توڑ گئے,,,,


ہے نہ تیز,,,ابکی بار ساحر نے نارمل انداز میں پوچھا,,,

ننہیں تو,,,وہ منہ چلاتے بامشکل بول پائی,,,

اچھا .....ہوسکتا ہے میرا منہ کڑوا ہورہا ہو زخام کی وجہ سے اسلیئے مجھے لگا,,,وہ کندھے اچکاتے عام سے انداز میں بولا,,,منہ کھولو یہ ختم کرواؤ مجھ سے نہیں کھایا جائے گا اتنا کڑوا تم نے بنایا ہے تم ہی کھاؤ,,,ابکی بار وہ سختی سے بولا ,,,,


لیکن مجھے بھوک نہیں ہے اسکا نرم رویہ دیکھ وہ ضدی انداز میں بولی لیکن آواز قدرے آہستہ تھی کہ ساحر بھی بامشکل سن سکا,,,


چپ کر کے کھاؤ,,,وہ پھر سختی سے بولا,,,


حرم کی آنکھیں ایک بار پھر آنسوں چھلکانے کیلئے تیار تھی,,,اففف روتی شکل اب کیوں رو رہی ہو وہ خاصے چڑتے ہوئے بولا,,,


حرم نے اپنے سیدھے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر اپنی مجبوری بتائی جہاں پٹی بندھی تھی,,,,


سساحر جی آپ کھالیں ممجھے درد ہے,,,مور نے مجھے کھانا کھلا دیا تھا پپلیز,,,,وہ پھر منت بھرے لہجے میں منمنائ,,,


وہ بس یہی جاننا چاہتا تھا کہ حرم نے کھانا کھایا ہے یا نہیں,,,اسکے منہ سے سنتے وہ پرسکون ہوا,, اور باؤل اٹھاتے خود کھانے لگا,,,

پڑھتی تھیں تم؟؟پانی کا گلاس منہ سے لگاتے اسنے پوچھا,,,


ججی,,یک لفظی جواب پتہ نہیں کیوں وہ بات کو تول دے رہا تھا,,,ساحر کو خود بھی نہیں سمجھ آرہا تھا کہ وہ کیوں اس سے فضول گپے ہانک رہا ہے مگر اسے اچھا لگ رہا تھا اس سے بات کرنا,,,ہر وقت اسکے مقابل کھڑے ہوکر جواب دینے والی.لڑکی اسکے رویہ سے آج کافی خاموش تھی,,,,ساحر کو رہ رہ کر خود پہ ملامت ہورہی تھی,,,


کونسی کلاس میں ؟؟پرسکون انداز میں اسکے برابر بیٹھتے پوچھا,,,


فرسٹ ایئر میں ,,,,اسنے نہ محسوس طریقے سے ہیچھے کھسکتے جواب دیا,,,


ساحر کو اسکا فاصلہ رکھنا خوب محسوس ہوا,,

کونسا سبجیکٹ,,,اسنے پھر سوال کیا,,,

بائولوجی,,,وہ پھر لفظی جواب دے کر خاموش یوگئ,,,.سر اب تک جکھا ہوا ہی تھا,,,


ہممم ساحر نے ہاتھ کی دو انگلیوں سے ماتھا مسلتے ہنکارہ بھرا,,,


عمر کیا ہے تمہاری کچھ توقف کے بعد وہ سامنے دیوار پہ نصب ایل ای ڈی کی طرف دیکھتے پوچھنے لگا,,,


صحت سے تو وہ پندرہ کی لگتی تھی,,


اگلے مہینے اٹھارہ کی ہوجاؤنگی,,,

اسنے ابکی بار ساحر کی طرف ایک نظر دیکھتے جواب دیا۔۔۔۔


واٹ تم ابھی اٹھارہ کی بھی نہیں ہو,,

وہ ششدر سا اسکی جانب دیکھتے کچھ تیز آواز میں بولا کہ حرم نے چونکتے ہوئے اسکی طرف دیکھا,,,,


ساحر نے عجیب سی نظروں سے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھا,,,


وہ سٹپٹائ ,,,ممجھے سونا ہے ,,, اسنے لڑکھڑاتے الفاظ ادا کیئے اور ایک بار پھر اپنا تکیہ اٹھائے بیڈ سے نیچے قدم رکھا,,,


اسکے ارادے بھانپتے ساحر نے اسکی کلائی تھامی اور واپس اسے اہتیاط سے بیڈ پہ لٹاتے خود اسپے سایہ بنا,,,,


دونوں ہاتھ اسکے اعتراف میں رکھتا وہ بغور اسے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا جو سختی سے آنکھیں میچے اسکی پناہوں میں پڑی تھی,,,

گھنی موچوں تلے لب مسکائے,,,,نہیں ساحر وہ بہت چھوٹی ہے شاید میاں بیوی کی ازدواجی زندگی سے واقف بھی نہ ہو,,,وہ اسکی معصومیت میں بہکتے وہ جھکنے لگا تھا جب دل نے اسے سختی سے روکا,,,,ہ چاہ کر بھی اسکی معصومیت پہ داغ نہیں لگانا چاہتا تھا,,,بے شک وہ ایک بھرپور مرد تھا مگر یہ دھان پان سی لڑکی ابھی بچی ہی تھی,,,,وہ دل میں سوچتا اپنے بے لگام ہوتے جزباتوں پہ دربان بٹھاتا دور ہٹا,,,تو حرم نے اپنا اٹکا سانس بحال کیا,,یہی سو کیونکہ میں اندھیرے میں سونے کا عادی ہوں اور اگر تم اندھیرے میں سوئی تو نہ چاہتے ہوئے بھی میری نیند حرام کردوگی اسلیئے بہتر ہے میرے پاس ہی سو تاکہ میں تمہیں قابو کرتے جھانسی کی رانی بننے سے روک سکوں جو تم اکثر رات کو بن جاتی ہو,,,


ساحر نے عام سے انداز میں کہتے اسکا سر اپنے سینے پہ رکھ لیا,,,

حرم کچھ کہنا چاہتی تھی مگر اپنی کمر پہ اسکی سخت ہوتی گرفت محسوس کرتے خاموشی سے اسکے وسیع سینے پہ پڑی رہی,,,,اور آہستہ آہستہ ساحر کی انگلیاں اپنے سر میں محسوس کرتے وہ نیند کی وادی میں اتر گئ,,,


ساحر بھی اسکے سونے کی یقین دہانی کرتا اسے تکیہ پہ منتقل کیا اور پورے کمرے کی لائیٹ اوف کیئے خود اسکی طرف کروٹ لیتا حرم کی کمر میں ہاتھ ڈالے سختی سے اسے خود میں بھینچتے لیٹ گیا,,,,

اگر اسے ایسے ہی چھوڑتا تو وہ پھر رات میں اٹھ کر اسکے پسینے چھڑوا دیتی بس یہی خیال آتے وہ سختی سے اسے لیئے نیند کی وادیوں میں اتر گیا,,حرم نور کا نرم وملائم وجود اپنی پناہوں میں محسوس کرتے وہ قدرے پرسکون نیند سویا تھا,,


●︿●●︿●●︿●


عنایہ اور ثمر کی دوستی ہوئے کافی دن گزر چکے تھے,,,, گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ثمر کی عنایہ کے لئے محبت بڑھتی ہی جا رہی تھی ، اور اب تو شاید اُسکی محبت عشق کا رنگ اڑھ چُکی تھی,,,


عنایہ اُسکی خود کے لئے محبت با خوبی پھانپ چکی تھی ، پر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ عشق کی حد تک اُسے چاہنے لگا تھا ،، وہ ہمیشہ ایک دوست کی حثیت سے اُس سے بات کر لیا کرتی تھی ،،،


یونی کی چھٹی ہوتے ہی ڈرائیور کے انتظار میں یونی کی پارکنگ میں کھڑی تھی کہ ثمر بھی وہاں آن پہنچا,,,


کیا ہوا آپ گئ نہیں گھر اب تک؟ ثمر نے خاصا حیران ہوتے کہا ، وہ خود یہاں ساحر کے انتظار میں کھڑا ہوا تھا,,, ساحر نے فون کرکے خاص اُسے اپنے انتظار کی تلقین دی تھی کہ آج میں خود تُمہیں پک کرنے آؤں گا اس لئے اب وہ چار وناچار اُسکے انتظار میں تھا,,,


ہاں وہ ڈرائیور نہیں آیا اب تک عنایہ نے اُس پر ایک بھی نظر ڈالے بغیر عام سے انداز میں کہا,,, جبکہ ثمر اُسکو دیکھ اپنی بے قابو دھڑکنیں سنبھالے اُسکے جواب کے لئے اپنی تمام تر سماعیتں بھچائے منتظر تھا,,,,


اچھا میں بھی بھائی کے انتظار میں کھڑا ہوں,,, آج آپکی ملاقات ضرور کرواؤں گا اُن سے ، ثمر نے پُر جوش ہوتے کہا,,,


عنایہ نے محض اثبات میں سر ہلایا اور ہاتھ میں موجود گھڑی میں ٹائم دیکھتی بے دلِی سے آس پاس کے مناظر پر نظریں گھمانے لگی ۔۔۔۔۔۔


اپنے سامنے کھڑی ہوتی گاڑی سے نکل کر آتے وجود کو دیکھ جیسے اُسکی سانسیں تھمی تھی,,,,,


بلیک پینٹ پر سفید شرٹ پہنے ہلکی بڑھی بھوری داڑھی ، شوز میں مقیت اپنے بھاری قدم اٹھاتا آس پاس پر سرسری سی نظر ڈالتا وہ اُنکی طرف ہی بڑھ رہا تھا,,, اپنی شہد رنگ آنکھوں پر سن گلاسز چڑھائے اُنکی طرف آتا اور کوئی نہیں بلکہ ساحر خان ہی تھا,,,, اُسے دیکھتے عنایہ تو جیسے پلکیں جھپکانا ہی بھول گئ تھی,,,


شکر ہے ساحر بھائی آپ آگئے، ورنہ میں تو اس دھوپ میں پگھل ہی گیا تھا,,, ساحر سے بغلغیر ہوتے اُس نے شکوہ کن لہجے میں کہا,,,,


میں تو کلینک سے وقت پر نکلا تھا پر راستے میں ٹریفک بہت تھی اس لئے دیر ہوگئ آتے آتے ، اپنی آنکھوں سے سن گلاسز ہٹاتا مسکرا کر گویا ہوا,,,, اُسکی مسکراہٹ میں بھی نہ جانے کیا سحر تھا کہ ایک دم عنایہ کی دھڑکنیں دھڑک اُٹھی تھی,,,


اوہ میں تو بھول ہی گیا بھائی ان سے ملیں یہ میری کلاس فیلو اور دوست ہیں مس عنایہ سکندر ، ثمر نے جان بوجھ کر لفظ کلاس فیلو استعمال کیا تھا ، کیوں کہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ ساحر کو اس بات کا علم ہو کہ عنایہ اُس سے سینئر ہے,,,,,


ثمر کے تعارف کروانے پر ساحر نے گردن موڑتے دیکھا تو اُسے خود کو ہی تکتا پایا,,, ساحر کے دیکھنے پر ایک پل کے لئے دونوں کی نظریں ایک دوسرے سے ٹکرائی تھی,,, نظروں کا تصادم اتنا شدید تھا کہ عنایہ کو اپنے دل میں درد سا اٹھتا محسوس ہوا,, وہ ٹکٹکی باندھے اُسے دیکھ رہی تھی,,,


عنایہ یہ میرے بھائی ہیں ڈاکٹر ساحر خان ۔۔۔ ثمر نے اس بار ساحر کا تعارف کروایا ، ثمر کی آواز نے اُسے ہوش کی دنیا میں لاکر پٹکا وہ جو ہر چیز سے بے نیاز ساحر کے حُسن کے سحر میں جکڑی ہوئی تھی ثمر کا اسے مخاطب کرنا بھی نہ سن سکی ,,,


السلام و علیکم۔۔۔۔۔ ایم عنایہ سکندر ،،، اپنا تعارف کرواتے اُس نے اپنا ہاتھ بھی بڑھایا ۔۔۔۔۔

ساحر نے حیران ہوتے پہلے اُسکی طرف دیکھا اور پھر اُسکے بڑھے ہاتھ کی طرف,,,


وعلیکم السلام ۔۔۔ ساحر نے اُسکے بڑھے ہاتھ کو سرے سے نظر انداز کرتے اپنا سیدھا ہاتھ اپنے دل کے مقام پر سینے پر ہاتھ رکھتے جواب دیا ۔۔۔۔


عنایہ نے خجل ہوتے آس پاس پر نظر ڈالتے اپنا ہاتھ واپس پیچھے کر لیا نا چاہتے ہوئے بھی اسے شدید سبکی کا احساس ہوا,,,,


چلیں ثمر ،،، ساحر نے آنکھوں پر دوبارہ سن گلاسز چڑھاتے کہا ۔۔۔۔

جی بھائی ۔۔۔۔

عنایہ آپ بھی آجائیں ہم آپکو گھر ڈراپ کر دیں گے ثمر نے یونی کو خالی ہوتا دیکھ اسے پیشکش کی۔۔۔۔


نہ نہیں تُم جاؤ میرا ڈرائیور آتا ہی ہوگا ،،، عنایہ نے سہولت سے منع کرنا چاہا ۔۔۔


دیکھیں مس عنایہ یونی خالی ہو رہی ہے یہاں مزید انتظار میں کھڑا ہونا مناسب نہیں آپ آجائیں ہمارے ساتھ ثمر نے اُسے سمجھانا چاہا ،،،،،

نہیں میں کیب لے لوں گی ،، اسنے پھر انکار کیا ۔۔۔۔


دیکھیں مس آج پبلک ٹرانسپورٹ بند ہے آپ آجائیں ۔۔۔ اس بار ساحر نے اُنکی بحث سے تنگ ہوتے مداخلت کی۔۔

اُس کے کہنے پر عنایہ نے ایک نظر ثمر پر ڈالتے اثبات میں سر ہلایا اور اُن دونوں کی ہم قدم ہوتی گاڑی میں بیٹھ گئی,,,,ناجانے کیوں ساحر کے کہنے پر وہ چاہ کر بھی انکار نہ کر سکی,,,یک لخت ہی دل میں ایک دیا اسکے نام کا جلنے لگا تھا,,,


پورے راستے ثمر اور ساحر باتوں میں مشغول رہے جبکہ عنایہ ساحر کے دیکھنے میں ، اُسے دیکھتے ہوئے بھی اُسکی آنکھیں بس اُسے ہی دیکھنے کی بضد تھی ۔۔۔۔

گھر کے گیٹ کے قریب گاڑی رکواتی وہ اُن دونوں کا شکریہ ادا کرتی گھر کے اندر بڑھ گئی,,,,

اُسکے جاتے ہی ساحر نے بھی گاڑی اپنے گاؤں کے راستے میں ڈالی,,,,


بھائی آپ نے تو کہا تھا کہ لنچ ساتھ کریں گے یہ گاڑی گاؤں کے راستے کیوں ڈالی آپ نے ، طویل ڈرائیونگ کے بعد گاڑی کو گاؤں کے راستے دیکھ ثمر نے حیران ہوتے پوچھا,,,


میں نے سوچا آج کیوں نہ مور اور داجی کو سرپرائز دیں ۔۔۔۔ ساحر نے ڈرائیو کرتے مصروف سے انداز میں کہا ۔۔۔۔۔

واہ بھائی آپکی سوچ پر میں صدقے واری میرا سچ میں مور کے ہاتھ کا کھانا کھانے کا بہت دل کر رہا ہے ،،،،

ثمر کی بات سن اُسکے لب مسکرائے تھے,,,,


°°°°°°°

حال.......


دن کے دس بجے ساحر کی مظبوط پناہوں میں پڑی حرم نور کی آنکھ کھلی,,,خود کے گرد ساحر کا بھاری ہاتھ لپٹا دیکھ اسے الجھن سی ہوئی,,,


حرم نے آہستہ سے اسکی نیند کا خیال کرتے اسکا ہاتھ ہٹانا چاہا جسکے نتیجے میں ساحر نے اپنا ایک پیر بھی اسکے اوپر رکھتے اپنے وجود کا آدھا وزن اس نازک سی جان پہ منتقل کردیا,,,


اسنے رونی صورت بنا کر زرا سے گردن موڑ کر اسے دیکھنا چاہا مگر ہاتھ میں اٹھتی ٹیس کی بدولت وہ واپس اپنی سابقہ حالت میں لیٹ گئی,,,


ساحر کی گرم سانسیں اپنی گردن پہ محسوس کرتے وہ الجھن کا شکار ہونے لگی,,,لیکن وہ چاہ کر بھی ایک ہاتھ سے اس فولادی جسامت کے مالک کو خود سے دور نہیں کر سکتی تھی,,,


جب کوئی جائے فرار نہ دکھی تو آنکھوں میں من من بھر پانی لیئے آنکھیں موند گئی,,,


بے ساختہ ہی اسکی معصومیت پہ ساحر کی گھنی موچھوں تلے عنابی لبوں پہ تبسم بکھرا وہ بیدار تھا لیکن جان بوجھ کر اس نازک سی جان کو امتحان میں ڈال رہا تھا,,,


پتہ نہیں اس وقت اسکے زہن سے ساری حرم کے خلاف منفی سوچیں کہیں دور جا سوئی تھی یاد تھا تو بس اتنا کہ آج اسکی محبت اسکی مظبوط پناہوں میں قید تھی کوئی خلش بھی دل میں فلوقت محسوس نہ ہوئی ,,,,


اسکے عاجزانہ انداز پہ کچھ دیر بعد اسنے سر اٹھا کر دیکھا,,تو وہ واقعی دوبارہ سو چکی تھی اسنے آہستہ سے حرم کے حسین مکھڑے سے گھنے سیاہ گیسوؤں کا پردہ ہٹاتے اسکے معصوم نقوش کو دیکھنا چاہا,,,


نم سیاہ گھنی پلکوں کا جھالر اسکی آنکھوں پہ سائہ فگن تھا,,,

آنکھوں کے گرد سیاہ ہلکے اور آنسوؤں کے مٹے مٹے نشان صاف واضح تھے جو اسی کی ستم ظریفی کا پتہ دے رہے تھے,,,

وہ زرا سا کسمسائ شاید خود پہ اسکی نظریں محسوس کرتے اسنے ساحر کہ طرف کروٹ بدلی تو اسنے زرا سا پیچھے ہوتے اسے جگہ دی,,


پٹی بندھا ہاتھ پیٹ پہ رکھتے اور دوسرا ہاتھ ماتھے پہ بیزاریت سے سجاتے وہ شاید گہری نیند میں جا چکی تھی,,,چہرے سے ہوتی ہوئی اسکی شریر نگاہ بھٹکتی ہوئی گردن پہ ٹہری جہاں اسکی دودھ جیسی رنگت پہ ہری رگیں ابھرتی اسے مدہوش کر رہی تھی,,,,


وہ بے ساختہ ہی جھکا ابھی اسنے اپنے لب اسکی شہہ رگ پہ رکھے نہیں تھے جب دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز پہ اسنے تیزی سے شیشے کی طرف دیکھا جہاں سے درخنے اندر داخل ہوئی اور ایک نظر انہیں دیکھتی آنکھوں میں چنگاریاں لیئے الٹے پاؤں واپس مڑ گئی,,,


ساحر کو ایک پل کیلئے جھٹکا لگا درخنے کی اس غیر اخلاقی حرکت پہ اس سے حساب لینے کی غرض سے وہ آہستہ سے اٹھا کہ حرم کی نیند میں زرہ خلل پیدا نہ ہوا,,,

وہاں سے اٹھتے وہ اسکے پیچھے گیا,,,,


**********


درخنے گھڑی میں گزرتے وقت کو دیکھتے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوتی ساحر کے کمرے تک گئی تھی,,,,


لیکن وہاں کا منظر دیکھتے اسکے پیروں تلے زمین کھسک گئی تھی ساحر پوری طرح حرم پہ جھکا ہوا تھا طرح طرح کی سوچیں اسکے دماغ میں گردش کرنے لگی تھی وہ تیز تیز قدم اٹھاتی بلکل جنونی انداز میں اپنے کمرے تک آئی تھی اور اسکے پیچھے ساحر بھی اسکی تقلید میں قدم اٹھاتا اس تک پہنچا مگر اسنے کمرے میں جاتے ہی دروازے کو لوک لگا لیا ,,,,


ساحر باہر ہی کھڑا اسکا برتاؤ دیکھنے لگا وہ بعد میں اس سے بات کرنے کا سوچتا جانے کیلئے مڑا مگر کانچ ٹوٹنے کی آواز پہ رکا ,,,


درخنے نے بے قابو ہوتے دل میں جلتی آگ کی چنگاریاں آنکھوں میں بسائے پوری قوت سے واس شیشے پہ مارا تھا جو واس کے ٹکراتے ہی چھناکے کی آواز کیساتھ چکنا چور ہوتا چاروں طرف بکھرا,,,,


مجھے نہیں لگتا تھا ساحر بھائی کہ آپ اتنی جلدی اپنے بھائی کے قتل کو بھلا کر اس خون بہا میں آئی دو کوڑی کی لڑکی کیساتھ اپنی زندگی آگے بڑھائینگے وہ اپنے بال نوچتی ہزیانی ہوکر دھاڑی ,,,,


اسنے کسی خدشے کے تحت دروازہ بجانے کیلئے ہاتھ بڑھایا مگر جیسے ہی اسکے حقارت زدہ الفاظ ساحر کی سماعتوں سے ٹکرائے وہ اپنی جگہ ساکت ہوا,,,,


اس منہوس لڑکی کے آتے ہی میرے بھائی نے اپنی جان سے پیاری بہن کو پہلی بار ڈانٹا صرف اور صرف تمہاری وجہ سے حرم نور میرا بھائی مجھ سے چھن گیا,,,


ایک بھائی تمہاری بہن اپنی اداؤں سے نگل گئ دوسرا اب تم اپنی معصوم ادائیں دکھا کر چھینو لوگی,,,

وہ بیڈ کے پاس بیٹھتے روتے ہوئے شدید حقارت سے حرم کو تصور کرتی چلا رہی تھی,,,,


نہیں نہیں نہیں اپنے آنسوں پونچھتی وہ اٹھی,,,

میں اپنا بھائی تمہیں کسی قیمت پر نہیں دونگی اتنی تیز مرچ پر تو بھائی کو تمہارا گلا دبا کر قصہ ہی تمام کردینا چاہیئے تھا لیکن شاید تم دونوں بہنیں بہت تیز ہو اپنی معصوم شکل کا فائدہ اٹھاتی ہو لیکن میں بھی درخنے ہوں اتنی آسانی سے تمہیں اپنا بھائی نگلنے نہیں دونگی, وہ جنونی انداز میں خود ساختہ باتیں کرتی گہرے گہرے سانس بھرنے لگی,,,



ایسی نہیں تھی درخنے مگر حالات انسان کو فرشتے سے درندہ بنانے کا بھی ہنر رکھتے ہیں,,,


اسکی تمام باتیں سنتے اسنے ازیت سے آنکھیں میچی اسکی معصوم چھوٹی بہن کن راہوں کی مسافر بن گئی تھی وہ جانتی تھی کہ میں مرچ الرجک ہوں اسکے باوجود بھی وہ اپنے بدلے میں اندھی ہوتی اپنے ہی بھائ کی جان کی بازی لگا گئ ,,,


وہ اپنے مردہ قدم واپسی کیلئے اٹھاتا خود سے سوال گو تھا آج اسے ایک طرف افسوس تھا تو دوسری طرف شدید شرمندگی,,,


اُس نے کمرے میں قدم رکھا تو حرم کو بیڈ پر بیٹھا پاپا ۔۔۔۔ اور مٹھو کو اُسکے سفید پٹی میں مقیت ہاتھ پر بیٹھا دیکھ اُس نے اپنے قدم اُن دونوں کی طرف ہی بڑھا لئے,,,


حرم کے برابر بیٹھتے اُس نے اپنے ہاتھ کی دو اُنگلیاں مٹھو کی طرف کی,,,,, حرم اور مٹھو دونوں ہی حیرت سے منہ کھولے اُسے دیکھ رہے تھے ،,,,


مجھے کسی سازش کی بو آرہی ہے ، مٹھو نے اپنا ایک پیر اُسکے بڑھے ہاتھ پر اور دوسرا حرم کے ہاتھ پر ہی چھوڑتے آنکھوں کو مٹکا مٹکا کر بھر پور اداکاری سے کہا,,,,,


حرم بھی نہ سمجھی سے ساحر کے چہرے کو دیکھ رہی تھی ، مٹھو سے ہر وقت خار کھانے والا بندہ آج یہ سب,,,, پر گزرے واقعات میں کہیں نہ کہیں غلطی مٹھو کی بھی تھی اُس نے بھی تو کبھی تمیز سے بات نہیں کی تھی ساحر سے,,,,


تُم جاؤ فریش ہو جاؤ ۔۔۔ ساحر نے بنا اُسکی طرف دیکھے مٹھو کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے کہا ,,,,


حرم جانے سے پہلے مجھے ہاضمے کی گولیاں دے جانا مجھ سے اتنی عزت ہضم نہیں ہو رہی ، مٹھو نے اپنے بالوں پر ساحر کی سرسراتی انگلیوں کے لمس پر آنکھیں موندتے کہا,,,

حرم اثبات میں سر ہلاتی واش روم کی طرف بڑھ گئی,,,,


میں نے سنا ہے نیا نیا شادی کا شوق چڑھا ہے تُمہیں ؟ حرم کے جاتے ہی ساحر نے لہجے کو خوشگوار بناتے مٹھو سے پوچھا,,,


تُم میرے پیو لگے ہو جو تمہیں جواب دوں ۔۔۔۔ مندی آنکھوں سے ہی بولا گیا ۔۔۔


ساحر سرد سانس خارج کرتے دانت پیستے بامشکل مسکرایا تھا ۔۔۔ پیو تو میں خیر اپنے ہی بچوں کا بنو گا ،،، پر تمھاری شادی کروانے کے لئے ایک شرط ہے میری ، اگر تمہیں منظور ہے تو آج ہی سے تمھاری لئے مناسب طوطی ڈھونڈنا شروع کر دوں ؟


ساحر نے اپنی اُمڈتی ہنسی دباتے سیدھا مٹھو کی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھا ,,,,


فرماؤ کیا شرط ہے تمھاری ۔۔۔مٹھو نے احسان کرنے والے انداز میں کچھ توقف کے بعد کہا ۔۔۔مگر اندرونی خوشی ساحر پہ ظاہر نہ ہونے دی,,,


پہلی شرط یہ ہے کہ تُم مجھ سے پشتو سیکھو گے اور بولو گے بھی ۔۔۔۔ اسنے بھرپور چالالی کا مظاہرہ کیا ,,,,


ہا ہا ہا۔۔ دوسری شرط ,,,, مٹھو نے اپنی باریک آواز میں قہقہ لگاتے دوسری شرط پوچھی


دوسری شرط یہ ہے کہ اپنی طوطی کے ساتھ اپنا قیام تُم میرے کمرے میں نہیں بلکہ اپنے پنجرے میں کرو گے ،،،، ساحر نے اپنی دونوں شرطیں اُسے بتائیں ۔۔۔


ہمم سوچ کر بتاؤں گا ۔۔وہ اسکی طرف دیکھتے کسی دانش مند انسان کی طرح بولا ,,,,,


سوچ لو اچھی طرح کیونکہ ساحر شہروز خان کی آفر محدود مدت کیلئے فراہم ہے باقی اگر تم انتظار میں ہی کنوارے مرنا چاہتے ہو تو تمہاری مرضی,,,ساحر نےاسے پنجرے تک لے جاتے کندھے اچکاتے کہا,,,


مٹھو سچ میں کسی گہری سوچ میں غرق ہوگیا اور اسی کا فائدہ اٹھاتے ساحر نے اسے پنجرے میں قید کردیا,,,,


ہوش تو مٹھو صاحب کو تب آیا جب پنجرے کا لاک ساحر بند کر گیا,,,


مٹھو نے اسے کھاجانے والی نظروں سے دیکھا اور ساحر نے اسکے غصے سے محفوظ ہوتے چھٹ پھاڑ قہقہ لگایا,,,


باتھروم میں بند حرم نے بے ساختہ ہی دہل کر دل کے مقام پر ہاتھ رکھا,,,

اللہ جی کہیں جنات تو نہیں آگئے ان پہ پھر سے,, حرم نے معصومیت سے چھت کی طرف دیکھتے کہا, ,,


ریڈ بھاری زرک اور نگینوں سے کام ہوئے قمیض شلوار پہ بڑا سا دوپٹہ شانوں پر پھیلائے,,,


منہ پر حد سے زیادہ میک اپ تھوپے لبوں پر سُرخ لپ اسٹک لگائے,,, وہ ڈریسنگ ٹیبل پر ہاتھ رکھے شیشے میں اپنا عکس دیکھ رہا تھا.... ہلکی بڑھی داڑھی اُسکے روپ کو ایک الگ ہی خوفناک ہونے کی دلیل دے رہی تھی,,,


وہ ٹیبل پر دونوں ہاتھ جمائے اور سر جھکائے کھڑا تھا,,,


عنایہ کا چہرہ حواسوں پر دوبارہ گھومتے ہی ایک آنسو اُسکی مسکارے سے لدی پلکوں کا باڑ توڑتا گالوں پر گرا ۔۔۔۔۔

سیاہ سرخ آنکھوں میں آنسوؤں کیساتھ چنگاریاں موجود تھی ,,


اُسکے بناؤ سنگار سے یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ آخر وہ مرد ہے یا عورت وہ کوئی اور ہی مخلوق تھی۔۔۔۔۔


اُس نے پوری قوت سے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھے سامان کو نیچے پھیکا ۔۔۔۔کانچ ٹوٹنے کی آواز کمرے میں عجب ارتعاش پیدا کر گئی

اور وہ اپنے بال نوچتا زمین پر بیٹھتاچلا گیا,,,


آج اسکا دل خون کے آنسوں رو رہا تھا,,,


کیوں کیوں ہمیں محبت کرنے کا حق حاصل نہیں کیوں ہمارے اپنے ہی ہمیں دھتکارتے ہیں اتنی ازیت تو شاید روڈ پر بھیک مانگتے کسی بچے کو بھی نہیں ہوتی جتنی ہمیں لوگوں کی تندو تیز نگاہ اور زہریلے لفظ دے جاتے ہیں,,,,


وہ ازیت سے خود کے وجود سے مخاطب تھا آج اسے ناچاہتے ہوئے بھی خود میں کسی چیز کی کمی محسوس ہوئی ,,,,


دفعتاً بند کمرے کا دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوتی اُس وجود تک پہنچی اور گردن سے اُسے دبوچتی اپنے مقابل کھڑا کر گئ ۔۔۔۔


اس اچانک ہوئے افتاد پہ اسکے قدم لڑکھڑائے اس سے پہلے کے وہ مقابل کے جارہانہ رویہ کی وجہ دریافت کرتا,,,, وہ آنکھوں میں حقارت لیئے سفاکیت سے پھنکاری,,


کیا سمجھے تھے تُم کیا میں اتنی بیوقوف ہوں کہ مجھے کبھی تمھارے اور عنایہ کا پتہ نہیں چلے گا ۔۔۔۔۔


سنایا وکٹوریہ نام ہے میرا ۔۔۔۔۔۔


اور تُم یعنی شیریں,,,, اتنی آسانی سے میری آنکھوں میں دھول جھونک دوں گے اور مجھے پتہ بھی نہیں چلے گا ۔۔۔۔


دس سال کے تھے جب تمھارے خاندان نے تمہیں کنر جان کر در در کی ٹھوکریں مارنے کے لئے چھوڑ دیا تھا تب میں نے تمہیں پالا اس قابل بنایا کہ آج تُم ایک بھر پور مرد کی حثیت سے اس زمانے میں جی رہے ہو ۔۔۔۔۔۔


وہ بے حد حقارت سے اسکے منہ پہ پھنکاری اور جھٹکے سے اسکی گردن آزاد کی کہ وہ زمین پر اوندھے منہ گرا ,,,,آج تو یہ بھی اسے اسکی معاشرے میں اوقات یاد دلا گئی تھی یہ سوچ دل میں آتے ہی اسنے کرب سے آنکھیں میچیں ,,,,


شیریں ہوش کی دنیا میں قدم رکھو کھولو اپنی یہ بند آنکھیں اور یاد کرو ماضی کے دردناک مناظر یاد کرو کہاں تھے تم یاد کرو تم جیسے ناجانے کتنے ہی بچے بھوکے پیاسے آج بھی سڑک پر تن تنہا ہیں اپنوں کے ستائے ہوئے ہیں یہ زمانہ نہ کل تمہیں قبول کرتا تھا اور نا آج ,,,,

گھٹنوں کے بل بیٹھتے سنایا نے اسے زمانے کی تلخ حقیقت سے آشنا کرنا چاہا,,


شیریں کسی عام انسان کی محبت تمہارے نصیب میں نہیں کسی کے لیئے اپنی زندگی برباد مت کرو جس روز اس لڑکی کو تمہاری اصل حقیقت معلوم ہوگی تو وہ تھوکے گی بھی نہیں تم پہ اور تم ہو کہ کسی لاحاصل چیز کی ضد میں اپنی جان ہلکان کر رہے ہو ,,,,ابکی بار سنایہ کا لہجہ قدرے نرم تھا,,,مقابل کی آنکھوں سے مسلسل آنسوں رواں تھے,,,


محبت کا حق تمہیں حاصل نہیں ہے ,,,,


وہی تو میں پوچھ رہا ہوں میں ایسا کیوں ہوں اور کیوں نہیں حاصل مجھے محبت کرنے کا حق۔۔۔۔۔۔۔ میرے پاس بھی تو وہی دل موجود ہے کیوں یہ معاشرہ ہمیں جگہ نہیں دیتا کیوں ہمیں حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہےکیوں سنی آخر کیوں اتنی ناانصافی ہے,,,,


بسس کر پگلے یہ دنیا بہت ظالم و جابر ہے یہ آنسوؤں سے پھگلنے والی نہیں تمہارے سوالوں کے جواب میرے پاس موجود نہیں ہے لیکن جن راہوں کا مسافر تم خود کو بنا رہے وہ تمہیں جلا کر راکھ کردینگی اپنے جزباتوں پہ وقت رہتے قابو پالو اس سے پہلے کوئی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے,,,,وہ تنبی زدہ لہجے میں بولی


اور خُدا سے اتنے نہ اُمید نہ ہو ۔۔۔۔۔ اُسکی مخلوق بےرحم ہے پر وہ رحیم و رحمٰن ہے,,,,, وہ علم رکھتا ہے کہ کب کیسے اور کس چیز سے نوازنا ہے,,,,, وہ اس بار نرمی سے گویا ہوئ ۔۔۔۔۔۔۔۔


مقابل کے آنسو اُسے اپنے دل پر گرتے محسوس ہو رہے تھے وہ چاہ کر بھی اُسکی محرومیوں کو پورا نہ کر سکی تھی ۔۔۔۔۔


وہ خود کو رونے سے بعض رکھتی باہر کی طرف بڑھی ہی تھی کہ شیریں کے الفاظوں نے اُسکے قدم وہی جکڑ لئے ۔۔۔

اپنے کانوں کا دھوکا سمجھتی نہ سمجھی سے پیچھے مڑ کر اُسے دیکھنے لگی۔۔۔۔۔۔


میں جانتا ہوں میرا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے میں اکیلا تھا ہوں اور رہوں گا۔۔۔۔۔۔۔

مجھ جیسے شاید ایسے ہی ہوتے ہیں ۔۔۔۔ میں کل بھی لاوارث تھا اور آج بھی ۔۔۔


کتنی بڑی دنیا ہے نہ سنایا پر ہم اکیلے تن تنہا ہیں,,,, آنسو بہاتے وہ ہچکیوں سے گویا ہوا اُسکے الفاظ سنایا کو چھنی کر گئے تھے ۔۔۔۔



وہ مردہ قدم اٹھاتی واپس اُس تک پہنچی اور گھٹنوں کے بل اُسکے مقابل بیٹھتی گویا ہوئی,,,,


کب تھے تُم لاوارث ؟؟ کیا میں مر گئی ہوں ؟ کیا میں کافی نہیں تمھارے لئے جبکہ میں نے تو تمہیں ماں باپ بہن دوست ہر رشتہ کی محبت دی,,,


میرے ہوتے ہوئے پھر کیسے ہوئے تُم لاوارث ۔۔۔۔۔ وہ اپنا اشتعال دباتی دبے دبے غصے میں بولی۔۔۔


ہم دونوں ہی اپنوں کے مارے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔

مجھے دیکھو میں نے بھی تو کتنی محرومیوں میں زندگی بسر کی ہے ،، اُن محرومیوں میں ، میں نے اپنی ماں کو سسکتا دیکھا,,,,

باپ کے ہوتے ہوئے بھی میں لاوارث تھی ۔۔ میرے باپ نے کبھی شفقت بھرا ہاتھ رکھا ہی نہیں میرے سر پر ،،،،،


دونوں کا دُکھ سانجھا تھا ۔۔۔ دونوں ہی اپنوں کے ہاتھوں ان منزلوں کے مسافر بنے تھے ۔۔۔۔


سنایا کے تاثرات ایک دم رنجيدگی سے پھتریلی ہوئے تھے ۔۔۔


اُٹھو ہولیا دُرست کرو اپنا اور آئندہ کبھی تُمہیں دوبارہ اس ہوليے میں نہ دیکھوں ورنہ سمجھنا کہ سنایا بھی مر گئی تُمہارے لئے ۔۔۔۔۔

وہ اور بھی سخت الفاظوں سے گریز کرتی پھتریلے انداز میں کہتی کمرے سے نکلتی چلی گئ۔۔۔۔۔۔


شیریں بھی اپنے آنسو صاف کرتا اُٹھا تھا اور الماری کی طرف بڑھا تا کہ اپنا لباس تبدیل کر سکے ۔۔۔۔۔


°°°°°°°°°°°


ساحر داجی کیساتھ زمینیں دیکھنے گیا تھا ،،،


حرم نکھری نکھری سی شیشے کے سامنے کھڑی ایک ہاتھ کی مدد سے بامشکل ہی بال سنوارنے کی تگو دو میں محال ہوئے جارہی تھی ،،،،


حرم دیکھ لو اس بندر کو دھوکے سے مجھے پنجرے میں بند کرگیا ہے ،،،،


پنجرے میں قید مٹھو کی غصے سے بھرپور آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی تو اسنے ایک نظر مٹھو کی جانب دیکھا جو غصے سے لال پیلا ہوتا تصور میں ہی ساحر کو سبق سکھانے کے منصوبے بنا رہا تھا،،،



مٹھو ایسے نہیں بولتے کتنی بار سمجھایا ہے بڑے ہیں وہ آپ سے مٹھو کے طرز مخاطب پہ کسی چھوٹے بچے کی طرح سمجھایا لیکن وہ مٹھو ہی کیا جو باز آجائے,,,



واہ بھئ وہ بڑے ہیں تو کچھ بھی کرینگے اور تم کچھ نہیں جانتی اس میسنے کے بارے میں,,,,,

بہت معصوم ہو تم لیکن میں تو اڑتی چڑیا کے پر گن لیتا ہوں گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے میں نے اچھی طرح واقف ہوں میں اس پھپے کٹنے کی چال بازیوں سے،،،



مٹھو نے سینہ چوڑا کیئے اپنی خوبیاں گنوائ اور آخر میں ساحر کو تصور کرتے ایک بار پھر دانت کچکچائے ایسا کرتے ہوئے وہ بہت معصوم پرندہ لگ رہا تھا لیکن کہتے ہیں نہ قبر کے حال سے مردہ ہی واقف ہے اسی طرح اسکی معصومیت کے پیچھے چھپے شیطانی دماغ سے صرف ساحر ہی واقفیت رکھتا تھا,,,



اسکی بات پہ حرم کے بال بناتے ہاتھ تھمے اور اسنے حیرت سے اس چھوٹے پیکٹ کو گھور کر دیکھا جو اپنے قد سے بڑی بڑی باتیں کر رہا تھا,,,



یہ جو تم الگ الگ فضول ناموں سے ساحر جی کو بلاتے ہوں نہ اسی لیئے وہ تم سے اتنا چڑتے ہیں سدھر جاؤ مٹھو اور اب چپ کر کے بیٹھو پہلے ہی مجھ سے بال نہیں بن رہے ,,,



اسے جھڑکتی وہ پھر اپنے لمبے سیاہ گھنے بالوں کو سلجھانے کی تگ و دو میں لگ گئی,,,

اور پیچھے مٹھو نے منہ بسورا ,,,


تبھی کمرے کا دروازا بجا اور نور بانو مسکراتی داخل ہوئی,,,


ارے یہ تم کیا کر رہی ہو بیٹا اسے بالوں سے الجھتا دیکھ نور بانو فکرمندی سے کہتی آگے بڑھی,,,

ادھر آؤ,,,,,

ہاتھ کو حرکت دینے کی سختی سے منع کیا تھا حکیمہ نے چلو بیٹھو یہاں میں بناتی ہوں,,,


نور بانو نے اسے محبت سے کہتے کرسی پہ بٹھایا اور خود برش سے اسکے بال سلجھانے لگی,,,


حرم یہ کون ہیں حیرت سے نور بانو کو دیکھتے مٹھو نے اپنی باریک آواز میں سوال کیا,,,,


اسکی آواز پہ حرم اور نور بانو دونوں نے اسکی طرف دیکھا,,


مٹھو یہ مور ہیں,,,اسنے مزید مٹھو کے کچھ اول فول بولنے سے پہلے جواب دیا,,,


چووور یہ کیسا نام ہوا,,,


مٹھو نے قدرے حیرت زدہ ہوتے اپنے پر پھیلاتے ہوئے پوچھا,,,


تو بے ساختہ ہی نور بانو کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی,,


وہ جو مٹھو کی بات پہ گڑبڑائی تھی مور کے مسکرانے پر پرسکون ہوئی,,,,


مٹھو میں نے مور کہا ہے لگتا ہے تمہارے کان کھولنے پڑینگے مجھے گرم تیل سے,,,


حرم نے آنکھیں دکھاتے اسے دبے دبے غصے میں جھڑکا,,,مٹھو نے پھر سے سڑا سا منہ بنایا ,,,

ارے کیوں ڈانٹ رہی ہو کتنا پیارا تو ہے یہ,,,,


اسکے بالوں میں برش چلاتی وہ محبت سے بولی مور یہ بہت شرارتی ہے اسنے آنکھیں موندتے کہا,,


پتا ہے ایسا ہی ایک طوطہ میرے پاس بھی تھا میں نے بہت دل سے اسکا نام اشرفی رکھا تھا یعنی سونے کا سکہ ,,,,


بہت پیارا تھا پورا دن حویلی میں اڑتا اور اپنی پیاری پیاری باتوں سے سبکا دل بہلاتا تھا مگر وہ مر گیا,,


درخنے تو بہت روئی تھی اسکے جانے سے,,,

مور نے تفصیل سے اسے تصور میں اشرفی کو یاد کرتے بولا,,,


ماشااللہ نام تو بہت پیارا رکھا تھا آپ نے مور کیا میں اپنے مٹھو کا نام اشرفی رکھلو آپ اسے اپنا ہی سمجھیں,,,


حرم نے انکا دکھ سمجھتے بولا وہ اشرفی کو یاد کرتی کافی رنجیدہ ہوگئی تھی,,,

کیوں نہیں ضرور رکھو بیٹا,,,


بال تو ماشااللہ بہت حسین ہیں تمہارے لیکن کتنے روکھے ہورہے ہیں تیل نہیں لگاتی ہو بیٹا,,

نور بانو نے اسکے لمبے بال دیکھتے پوچھا جو کچھ دنوں سے توجہ نہ ملنے کے باعث روکھے ہورہے تھے,,


مور مما لگاتی تھی مجھ سے لگتا نہیں ہے کچھ دنوں سے....,,,


انکی بات کا جواب دیتے اپنی ماں کے ذکر پر اسکا دل بھر آیا اپنی بات ادھوری چھوڑتے وہ نور بانو کی گود میں منہ چھپائے کسی چھوٹے بچے کی طرح آنسوں بہانے لگی ,,,


ارے میرا بچہ روتے نہیں ہیں اللہ پہ کامل یقین رکھو وہ آسانی کریگا تمہارے لیئے,,,


اسے پھوٹ پھوٹ کر روتا دیکھ وہ فکرمندی سے بولیں ,,,,حرم کو نور بانو کے لہجے میں ممتا نظر آتی تھی وہ بے دھڑک انکے سامنے اپنا دکھ بیان کرنے لگی تھی اس گھر میں ایک وہ ہی تو تھیں جو اسے سمجھتی تھی ,,,


اچھا چلو چپ کرو میں بھی تو ماں ہوں نہ تمہارے بالوں کی مالش میں کردیتی ہوں میں خود بناتی ہوں ۔۔۔۔ درخنے کے بھی زبردستی لگانا پڑتا ہے مجال ہے جو لڑکی کبھی خوشی سے تیل لگوالے,,,


وہ مسکرا کر کہتی اپنے کمرے سے تیل لینے چلی گئیں,,,


حرم یہ کتنا بولتی ہیں لیکن مجھے یہ بہت پیاری لگی قسمے,,,نور بانو کے جاتے ہی مٹھو کا تبصرہ اسکی سماعتوں سے ٹکرایا,,,


حرم نے آنکھیں اوپر کرتے ماتھا پیٹا,,,ہاں لیکن تم سے کم بولتی ہیں,,,


وہ کہتی اسکے پنجرے کی طرف آئی اور اسکی چھوٹی سی پیالی میں پانی ڈالنے لگی,,,


اب تم چپ کر کے یہ پیو منہ نہیں دکھتا تمہارا پورا دن بولتے ہو,,,


اور آج سے تمہارا نام اشرفی ہے اگر کوئی تمہیں اس نام سے پکارے خاص کر مور تو تم اچھے بچوں کی طرح انکی سنوگے سہی,,,,


اسنے اشرفی کو اسکا نام بتاتے اپنی طور اسے سمجھایا تبھی نور بانو تیل ہاتھ میں تھامے اندر داخل ہوئی,,,


کیا باتیں ہورہی تھی,,,انہوں نے حرم کو سر میں تیل ڈالتے پوچھا,,,مور حرم بیبی مجھے میرا نیا نام بتا رہی تھی اشرفی ویسے نام تو اچھا ہے,,,


جواب مٹھو کی طرف سے آیا,,,


نور بانو ایک مسکراتی نظر اسپے ڈالتی حرم کے بالوں میں مالش کرنے لگی,,,


انکی سرسراتی انگلیاں بلکل حرم کو اپنی ماں کے لمس جیسا سکون بخش رہی تھی وہ پرسکون سی آنکھیں موند گئی,,,


ساحر رف سے ہلیے میں لمبے لمبے قدم اٹھاتا اپنے روم کی طرف آیا داجی کیساتھ زمینیں دیکھنے میں وقت بہت گزر گیا تھا,,,,


وہ کمرے کے پاس پہنچتے درخنے کو دروازے پہ کھڑا دیکھ کچھ ٹھٹکا ایک پل کیلئے قدم ساکت ہوئے ,,,,


کیا دیکھ رہی ہو درخنے اگلے ہی پل وہ دو قدم کا فاصلہ عبور کرتے عین اسکی پشت پہ کھڑے ہوتے کچھ سختی سے پوچھا,,,


اپنی پشت سے ساحر کہ آواز پہ اسنے گڑبڑاتے رخ بدلہ,,,


ساحر کی آنکھوں میں غصہ اور لہجے میں روب محسوس کرتے وہ کچھ سہمی تھی مگر دوسرے ہی پل وہ خود کے سمبھالتے تنزیہ مسکرائی,,,


میں نے پوچھا اپنے ہی گھر میں ایسے چورو کی طرح چھپ چھپ کر کیا دیکھ رہی تھی گڑیا,,,ہنوز اسے خاموشی کا لبادا اوڑھے دیکھ وہ اب کچھ اور سختی سے ہر لفظ چبا چبا کر بولا,,,


اشارہ صاف اسکی صبح والی حرکت کی طرف تھا مگر درخنے کو کک بھی سمجھ نہ آیا,,,


دیکھ رہی ہوں پہلے میرا چھوٹا بھائی پھر گھر پھر ماں اور پھر کمرا اور اسکے بعد میرے بھائی کا دل سب تو حاصل کرلیا اس لڑکی نے اسنے تنزیہ مسکراتے دروازے کی اوٹ سے جھلکتے حرم نور کی طرف اشارہ کرتے ٹہر ٹہر کر لفظ ادا کیئے,,


اسکی بات پہ ساحر نے سختی مٹھیاں بھینچی وہ کچھ بولتا اس سے پہلے وہ مزید بولنے لگی ,,,


اپنی معصومیت کہ آڑ میں سب کچھ حاصل کرلیا اسنے بس اس طوطے کی کمی تھی آج وہ بھی پوری ہوگئی کل کو ایک ونی کہ گئی لڑکی اپنے گھر والوں سے بھی مل رہی ہوگی کیونکہ میرا بھائی سب کچھ بھلا کر ایک اچھا شوہر ثابت ہونا چاہتا ہے,,,



ابکی بار اسکی آواز زرا اونچی تھی لیکن ساحر کی آنکھ میں اٹھتی چنگاریاں دیکھ وہ خاموش ہوئی,,,


پہلی بات تمہارا بڑا بھائی ہوں اور دوسری بات جس لڑکی کے بارے میں تم بات کر رہی ہو وہ بھابی ہے تمہاری سب سے پہلے بڑوں سے بات کیسے کی جاتی ہے وہ سیکھو آئیندہ میں تمہیں اس طرح حرم نور کے بارے میں بات کرتے نہ دیکھوں اسکی جانب دیکھتے کچھ سختی سے گویا ہوا,,,


لہجہ اتنا سخت تھا کہ درخنے کو اپنی روح فنا ہوتی محسوس ہوئی اس گھر میں وہ جتنے لاڈ ساحر سے اٹھواتی تھی اتنا ہی اسکے غصے سے ڈرتی تھی,,,


کیونکہ ساحر ان لوگوں میں سے تھا جو سونے کا نوالہ منہ میں دے کر شیر کی نظر رکھتے ہیں,,,


اپنی پڑھائ پہ توجہ دو کوئی کام ہو تو تم بلا جھجک مجھسے کہہ سکتی ہو حرم کا ہمارے بھائی کے قتل سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ بات اچھی طرح جتنی جلدی زہن نشیں کرلو تو بہتر ہے ,,,


دونوں بازوں نرمی سے تھامتے وہ کچھ نرم کچھ سخت لہجے میںَ بولا درخنے نے محض اثبات میں سر ہلا دیا,,,

جاؤ اپنے کمرے میں جاکر آرام کرو,,,


آخر میں وہ اسے محبت سے کہتا اپنے کمرے کی طرف بڑھا,,,.جہاں حرم نور نے پورے بیڈ پر اپنے کپڑے پھیلا رکھے تھے جسے وہ ایک ایک کر کے طے لگاتی الماری میں سیٹ کر رہی تھی,,,


ساحر کے سارے کپڑے وہ ترتیب سے لگا چکی تھی اب وہ اپنے کپڑے ترتیب دے رہی تھی ساتھ اشرفی اسکے پنجرے سے اپنی ہانکتا اسکا سر کھا رہا تھا,,,


ارے تم نے کیوں اس لنگور کے کپڑے سیٹ کیئے ہیں,,,

جان بوجھ کر ساحر کو کمرے میں داخل ہوتا دیکھ ہانک لگائی یا یوں کہنا بہتر ہوگا کھلا اعلان جنگ کیا گیا,,,


وہ ایک کینہ طوز نگاہ اشرفی پہ ڈالتے سیدھا حرم کی طرف بڑھا ,,,


یہ کیا کباڑا لگایا ہوا ہے تم نے میرے بیڈ پہ وہ اسکے کان کے پاس آکر اتنی تیز چیخا کہ حرم خوف سے دل تھامتی اچھل پڑی,,,


وہ وہ ساحر جی میں کپڑے ترتیب دے رہی تھی,,,

اسکے غصے سے ڈرتے لڑکھڑاتے جواب پیش کیا,,,,

اس بندے کے موڈ کا بھی کوئ پتہ نہیں پل میں ماشا پل میں سونا,,,


حرم نے نظریں جکھاتے دل میں سوچا,,,

اووو ہیرو لڑکی پہ کیا مردانگی دکھاتا ہے ہمت ہے تو مجھ سے بات کر نا,,,

اپنا نا دکھنے والا کالر کھڑا کرتے وہ اپنے باریک سی آواز سینہ چوڑا کیئے شان استغنا سے بولا,,,,


ساحر نے لب بھینچ کر ایک سیکنڈ کیلئے آنکھیں بند کرتے غصہ پیا,,,وہ فلحال اس عجیب مخلوق کے منہ لگنے کے موڈ میں نہیں تھا,,,


اسنے جیسے ہی آنکھیں بند کی حرم نے تیزی سے اشرفی کی طرف التجائی نظروں سے دیکھتے اشارے سے کہا بھائی پلیز چپ ہوجا زیادہ ہیرو نہ بن,,,

وہ اشرفی کی بات کو یکسر نظرانداز کرتے حرم کی طرف بڑھا,,,


اسکی کمر میں ہاتھ ڈالتے اسے اپنے قریب تر کیا,,,,


طوبہ طوبہ بے رحم بے قدر بے حیا بے مروت ,,,,

اشرفی نے اسے حرم کے اتنے قریب جاتے دیکھ اپنی آنکھوں پہ ایک پر پھیلاتے کہا انداز بلکل پارساؤں جیسا,,,


سساحر جی پپلیز میں ابھی سب صاف کردیتی ہوں,,,

آنکھوں کو سختی سے میچتے وہ اسکے کل والی ستمگری یاد کرتے جلدی سے بولی,,,


یہ سانڈے کے تیل کی بو کہاں سے آرہی ہے,,,

اسکے قریب ساحر کو کوئ بدبو آتی محسوس ہوئی,,

سڑا سا منہ بناتے وہ سونگتے ہوئے پوچھ رہا تھا,,,

حرم نور نے سر پر دوپٹا اوڑھ رکھا تھا جو تیل کی وجہ سے اسکے سر سے چپک کر رہ گیا تھا,,,


ساحر کی بات پہ اسنے اپنی میچی آنکھیں وا کرتے اسکی جانب دیکھا جسکے چہرے کے زاویہ ایسے تھے جیسے کڑوا بادام منہ میں رکھ لیا ہو,,,

وہ سساحر جی مور نے تیل لگایا تھا میرے سر میں شاید اسکی.....


معصومیت سے بولتی وہ آخری بات ادھوری چھوڑتے نظریں جکھا گئی,,

اسنے تیزی سے اسکے سر سے دوپٹا اتار کر بدبو سونگھی تو واقعی اسی تیل کی بدبو تھی,,,


پہلے تو اسکے زاویہ بدلے پھر چہرے پہ تبسم بکھرا شہد رنگ آنکھوں میں چمک ابھری اور وہ اسے باہوں میں اٹھاتا باتھروم کی طرف بڑھا,,,,


یہ سب اتنی تیزی سے ہوا کہ حرم کوئی مزاحمت بھی نہ کرسکی ویسے بھی یہ اکڑو انسان اس معصوم کی کوئی مزاحمت خاطر میں لاتا ہی کہاں تھا,,,


پیچھے اشرفی نے حرم کی زرا سی منمناہٹ پہ اپنی آنکھوں سے پر ہٹاتے دیکھا تب تک ساحر باتھروم کا دروازہ لاک کرچکا تھا,,,


اسے عین شاور کے نیچے کھڑا کرتے اسنے شاور اون کیا,,,,

شاور سے نکلتا نیم گرم پانی اسکے وجود کو چند سیکنڈ میں پوری طرح بگھو گیا,,,


اسنے شیمپو کی بوتل اٹھاتے پورے شیمپو کی بوتل ہی اس نازک سی لڑکی کے سر پی خالی کردی ,,,,

پانی مسلسل اسکے چہرے پہ پڑتا اسکا سانس روک رہا تھا,,,


دوسرا آنکھوں میں جاتا شیمپو جسکی وجہ سے وہ آنکھیں بھی نہیں کھول پارہی تھی,,,,

دو انچ کے فاصلے پہ کھڑا وہ مبہوت سا اسکا بھیگا طعبہ شکن سراپہ اپنی نظروں سے دل میں اتارنے لگا,,,


حرم کے منہ سے الفاظ بھی ادا نہیں ہوپارہے تھے,,,

اور مقابل اس بھیگی بھیگی نازک کے حسن کے سحر میں جکڑا فرصت سے اسے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا,,,


کچھ دیر سانس روکنے کے بعد جب برداشت سے باہر ہوا تو اسنے بند آنکھو ں سے ادھر ادھر ہاتھ مارتے ساحر کو تراشنا چاہا,,,


تو اسکی نازک سی کمر میں ہاتھ ڈالتے ایک ہی جھٹکے سے اسے اپنے قریب تر کرلیا,,,


ایک ہاتھ سے اسکے بال پونی سے آزاد کرتا دوسرے ہاتھ سے اسکی کمر پہ گرفت سخت کرتے وہ اسکے کانپتے گلابی لبوں پہ جکھنے لگا تھا,,,


جب حرم نے اسکے چوڑے سینے کو اپنی پناہ گا سمجھتے منہ چھپا لیا,,,


اپنی بے خودی پہ اسنے خود کو ملامت کی,,


اسکے بالوں میں بنتے شیمپو کے جھاگ دیکھتا نرمی سے بالوں میں ہاتھ چلانے لگا,,,

نیم گرم پانی کے باوجود بھی حرم کا وجود لرزنے لگا تھا یا شاید ساحر کی پر ہدت لمس کا اثر تھا جو وہ خود میں سمٹتی جارہی,,,


پوری طرح سے خود کو ساحر کے سہارے کھڑا کیئے وہ بامشکل اپنی پھولتی سانسیں اعتدال میں لانے کی تگو دو میں نڈھال ہورہی تھی,,


جب پوری طرح جھاگ ختم ہوئے تو اسنے شاور بند کرتے ہاتھ بڑھا کر سفید ٹاول کھینچی اور اسے کسی چھوٹے بچے کی طرح اسکے گرد لپیٹا,,,


اسکا چہرا اپنے مقابل کرتے اسنے اوپر سے نیچے تک اسکے بھیگے سراپے کو دیکھا جہاں کپڑے گیلے ہوتے اسکے وجود سے چپک گئے,,,


گھنے لمبے بال کچھ آگے تو کچھ اسکی پشت سے چپکے ہوئے تھے نازک سراپے سے ہوتی ہوئی اسکہ نظر چہرے پہ ٹہری جو سرخ تھا کپکپاتے نیلے پڑتے لب یکلخت ہی اسے احساس ہوا شاید پانی ٹھنڈا تھا اسلیئے وہ کانپ رہی ہے

اپنی مدہوشی میں وہ پانی کی حرارت کا بھی اندازہ نہ کرسکا,,,


چہرے پہ آوارہ سی لٹ کو اپنی انگلی میں لپیٹتے اپنے قریب کیا,,,

چمکتی آنکھوں سے اسے دیکھتے ماتھے پہ لب رکھے یہ اس قدر بے اختیار عمل تھا کہ وہ بنا اسکی جانب دیکھے باہر نکل گیا,,,


باہر آیا تو مٹھو صاحب دونوں آنکھیں پھاڑے اب تک باتھروم کے دروازے کو ایسی نظروں سے گھور رہا تھا جیسے دروازہ ٹرانسپیرینٹ ہو اور اندر کا سارا سین وہ اپنے چھوٹی چھوٹی آنکھوں سے دیکھ چکا ہو,,,


ساحر نے اسکی شکل دیکھ ایک نظر دروازے کو دیکھا اور پھر اسے دیکھتے اپنی امڈتی ہنسی دباتے اسکے قریب ہوا,,,


پنچرے کہ جالیوں میں اپنی انگلیاں الجھاتے عین اسکے مقابل ہوا سارے کپڑے اسکے بھیگے ہوئے تھے,,,


اسی لیئے کہتا ہوں تم بھی شادی کرلو یوں کسی کی پرائیوسی میں ٹانگ اڑانا تمہاری مردانگی پہ زیب دیتا ہے کیا,,,


بھرپور جلا دینے والے لہجے میں کہتا وہ چہرے پہ شریر مسکراہٹ لیئے اشرفی کو گہری سوچ میں مبتلا کرگیا تھا,,,


وارڈ روب سے اپنے کپڑے نکالتے وہ ایک نظر اشرفی کے پرسوچ چہرے پہ ڈالتا ڈریسنگ روم میں بند ہوگیا,,,


°°°°°°°°°°°°°°

وہ جو کپڑے تبدیل کرتا نکھرا نکھرا سا سفید کلفدار سوٹ میں نیچے آیا تھا لاؤنج میں داجی اور مور کو دیکھتا وہ انہی کی طرف بڑھ گیا,,,


بلند آواز میں سلام کرتا وہ بھی شان سے سوفے پر براجمان ہوگیا,,,


اسے بیٹھتا دیکھ نور بانو نے ملازمہ کو ساحر کیلئے ایک کپ چائے لانے کا حکم جاری کیا,,,

داجی مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے,,,


کچھ توقف کے بعد اسنے اپنی بات کی تمہید باندھی,,,


ہاں کہوں چائے کا کپ منہ سے لگاتے داجی نے رخ اپنے خوبرو نوجوان پوتے کی طرف کیا,,,


داجی میں چاہتا ہوں درخنے اور حرم نور کو شہر اپنی پڑھائی مکمل کرنے کی اجازت دی جائے,,,,


داجی کے سامنے اپنی بات رکھتا وہ بغور انکے تاثرات دیکھنے لگا جو ناگہاں پتھریلے ہوگئے تھے,,


دوسری طرف زہن میں درخنے کی حرکتیں کسی فلم کی طرح چل رہی تھی وہ جلد از جلد اپنی بہن کو اس دلدل سے نکالنا چاہتا تھا اور اسکے لیئے اسے یہی بہتر لگا کہ درخنے کا دھیان کہیں اور لگایا جائے وہ ایک ڈاکٹر تھا اور ایک انسان کے مزاج کی تبدیلیاں خوب محسوس کر سکتا تھا اسے اندیشہ ہوچلا تھا آخر درخنے کو اسی طرح نظرانداز کیا تو کسی بڑے حادثے کا شکار بھی ہوسکتے ,,,


تو کیا اب تُم ہمارے فیصلے کی خلاف ورزی کرو گے ؟؟؟

داجی نے کپ کو ٹیبل پہ پٹکنے کے انداز میں رکھتے اشتعال دباتے سُرخ آنکھوں سے ساحر کو گھورتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔۔


داجی میں آپکے ہر فیصلے کی دل و جان سے قدر کرتا ہوں۔۔۔۔ پر حرم میری بیوی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ وہ اپنی پڑھائی مکمل کرے ، ساحر نے داجی کی آنکھوں میں غصے کی زیادتی سے پھوٹتی چنگاریاں دیکھکر سلجھے اور نرم لہجے میں کہا ۔۔۔۔


وہ تمھاری بیوی ضرور ہے پر بھولو مت اس گھر کے سربراہ ہم ہیں اور ہم ابھی حیات ہیں ، اس لئے یہاں ہمارے فیصلے چلتے ہیں ۔۔۔۔۔۔


اس گھر سے اب کوئی بھی شہر پڑھائی یہ کسی بھی اور مسئلے سے نہیں جائیگا ۔۔۔،،،،،،

یہ ہمارا سوچا سمجھا آخری فیصلہ ہے ، داجی نے صوفے کے سائڈ پر پڑی اپنی چھڑی پکڑتے اٹل لہجے میں کہا ،،،،


داجی درخنے بھی تو پڑھ رہی ہے ، حرم بھی پڑھ لے تو اس میں کیا حرج ہے ،،،

اور ویسے بھی وہ نصیبوں کی ماری تو یہاں ناکردہ گناہوں کی سزا کے تحت آئی ،،،،

کسی پر اتنی زیادتی کے بعد کیا خدا ہمیں بخش دے گا ؟؟؟؟ اُن کے درمیان بیٹھی نور بانو بھی آخر ساحر کی بات سے اتفاق کرتے حرم کے حق میں بولی ۔۔۔،،،


تو کیا چاہتے ہو تم دونوں کہ گنتی کے جو چار پانچ افراد اس حویلی میں رہے ہیں اُن کو بھی گوا دیں ہم ؟؟؟


یہ دیکھو ہمارے جڑے ہاتھ اپنا جگر کا ٹکڑا اپنا لاڈلا پوتا سپردِ خاک کرنے کے بعد اب ہم میں سکت نہیں ہے اور کسی کو بھی دفنائیں ہم ۔۔۔

داجی کے لہجے میں کانچ سی چبھن تھی ، جس کی چبھن ساحر کو اپنے سینے میں چبھتی محسوس ہوئی تھی وہ ضبط کرتا اُنہیں دیکھ رہا تھا ۔۔۔


جبکہ نور بانو کو اپنے لاڈلے مرحوم سپوت کے ذکر پر اپنے کلیجہ کٹتا ہوا لگا اُنہیں ایسا لگ رہا تھا کہ کسی نے اُنکے زخموں کو کریدا ہو ،،،،،


داجی آپکا فیصلہ ہماری سر آنکھوں پہ ۔۔۔۔

پر داجی میری خواہش ہے یہ ۔۔۔ طویل خاموشی کی فضا میں سرد مہری کو ساحر کی آواز نے توڑا۔۔۔۔۔۔۔


اچھا ٹھیک ہے جیسا آپ چاہتے ہیں ویسا ہی ہوگا ، میں حرم اور درخنے کو پرائیویٹ پیپرز دلوا دوں گا ،،،، ساحر نے ایک آخری مہم سی اُمید کی اپنی بات منوانے کی۔۔۔۔۔۔۔


کان سیدھا کھیچو یہ اُلٹا حساب ایک ہی ہے ساحر ۔۔۔ داجی تلخئ سے مُسکراتے گویا ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ٹھیک ہے جو دل میں آئے وہ کرو۔۔۔۔۔ دونوں کے اُترے چہرے دیکھ دل پر پتھر رکھکر کہتے وہ اُٹھ کھڑے ہوئے ایک نظر اُن دونوں پر ڈالتے وہ وہاں سے نکلتے چلے گئے ۔۔۔۔


تُم فکر نہ کرو مان جائیں گے ۔۔۔۔۔ تُم دونوں کو داخلے کے لئے لے جاؤ کالج ،،،، داجی کے جاتے ہی نور بانو نے ساحر کو سر جھکائے بیٹھا دیکھ اُسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ممتا سے چور لہجے میں کہا ۔۔۔۔


ساحر نے محبت سے اُنکے جھریوں زدہ ہاتھوں کو لبوں سے لگایا تھا،،،،،


آپ درخنے کو بتا دینا کہ کل تیار رہے ۔۔۔ ساحر کہتا جانے کے لئے اُٹھ کھڑا ہوا ،،،

نور بانو بھی اثبات میں سر ہلاتے اُسکے جاتے ہی درخانے کے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔۔


°°°°°°°°

نور بانو نے کمرے میں قدم رکھا تو درخنے کو بستر پر دراز پایا ،،،

درخنے جو ابھی ساحر کی باتوں میں ہی اُلجھی سونے کے غرض سے لیٹی تھی یوں اچانک کمرے میں نور بانو کو داخل ہوتا دیکھ اُٹھ بیٹھی ۔۔۔۔


کیا ہوا مور آپ اس وقت یہاں خريت ؟؟ وہ اس وقت نور بانو کی آمد سے حیرت زدہ تھی اُسے ڈر لاحق تھا کہ ساحر نے اُنہیں کچھ بتا نہ دیا ہو ،،،،۔۔۔


کل سویرے تمھارے اور حرم کے داخلے کے لئے ساحر کالج لے کر جائیگا تُم دونوں کو تو صبح وقت پر تیار رہنا بس یہی بتانے آئی تھی ۔۔۔

وہ کہتی واپسی کے لئے مڑی ہی تھی کہ درخنے کے الفاظوں نے اُنکے قدم وہیں جکڑ لیئے۔۔۔۔


تو ونی میں آئی لڑکی اب اپنی تعلیم بھی مکمل کرے گی ۔۔۔

واہ مور واہ ۔۔۔۔


بس درخنے اپنے قد سے بڑی باتیں نہ کرو ، تُم میں عقل آخر کس دن آئیگی ؟؟ وہ غصے سے اُسے گھورتی سوال گو تھی ۔۔۔


اگر اب مجھے تمہاری کسی بھی ایسی ویسی حرکت کا پتہ چلا تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا ۔۔۔

وہ ایک تیش بھری نگاہ اُس پر ڈالتی کمرے سے نکلتی گئ ۔۔۔

صبح کا سورج پوری طرح اپنی حرارت لئے نکلا تھا ۔۔۔

حرم آج بے تحاشا خوش تھی اس لئے اُس نے صبح سویرے اٹھتے ہی اپنی تمام تیاری کر لی تھی۔۔۔۔ پر یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکتا تھا کہ اُسکی خوشی کب تک رہتی ہے۔۔۔۔۔


اشرفی حرم کو کمرے سے باہر جاتا دیکھ ، اپنے پر پھیلائے ساحر کے سوئے وجود تک پہنچا اُسکے کان کے قریب اپنی چونچ کرتا وہ شرارتاً مسکرایا ۔۔۔،،،،


پشاوری ککڑ کیسے گدھے گھوڑے بیچ کر سویا ہوا ہے ۔۔۔

اٹھانا تو بنتا ہے ۔۔۔۔ چمکتی انکھوں سے اُسے دیکھتا خود سے بولا ۔۔۔

گرم انڈے۔۔۔۔۔۔۔

اپنی پتلی آواز میں وہ ساحر کے کان میں تقریباً چلایا تھا کہ ساحر نے فوراً ہڑبڑاتے اپنی موندی آنکھیں کھولی ۔


چاہتے کیا ہو آخر کیوں جینا حرام کیا ہوا ہے تُم نے صرف میرا ۔۔۔ ضبط سے سرد سانس خارج کرتے وہ اشرفی کو دیکھتا بولا جو اب سائڈ ٹیبل پر چونچ میں چیزیں اٹھاتا نیچے پھیک رہا تھا ۔۔


شادی کرا دو میری ۔۔۔۔

ساحر کو خود کو تکتا دیکھ وہ مسکرایا اور پھر سے گنگنانے لگا ۔۔

شادی کرا دو میری ، ڈولی سجا دو میری

اپنے اندرونی خواہشات وہ گنگاہٹ کے ذریعے ساحر تک پہنچا رہا تھا ۔۔


اب تمہارا کچھ سوچنا لازمی ہوگیا ہے۔۔۔ ساحر بلانکٹ خود سے دور پھینکتا اُٹھ کھڑا ہوا ،،،


ہاں تو کرو نہ کر کیوں نہیں رہے۔۔۔۔ وہ اشرفی ہی کیا جو چُپ ہو جائے ۔۔۔


ساحر نے اُسے جواب دینے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ کمرے کا دروازہ کھول کر حرم اندر داخل ہوئی ۔ گرین سادہ سے فروک پر ہم رنگ دوپٹہ سر پر أڑھے نکھرا نکھرا چہرا اُسکی خوشی کی گواہی دے رہا تھا ۔۔


وہ ساحر کی نظریں خود پر مرکوز دیکھ کنفیوز ہوتی الماری کی طرف بڑھی تھی ، اُسے اپنا ہر قدم من من بھاری لگ رہا تھا ،،،


ساحر نے بھی مُسکراتے اُس کی طرف قدم بڑھائے ۔ الماری سے ہینگ ہوئے کپڑے نکالتا وہ حرم کی طرف مڑا ,,, اُسے سائے کی طرح اپنی طرف آتا دیکھ حرم نے تھوک نگلتے دو قدم پیچھے لئے ۔۔،،،


میں یہی ہوں اور اندھا نہیں ہوں ، ساحر جو مسمرائز سا اُسکی طرف بڑھ رہا تھا اشرفی کی پتلی آواز نے اُسے ہوش کی دنیا میں پٹکا ۔ ایک نظر اشرفی اور ساکت سی خود کو تکتی حرم کو دیکھتا وہ واش روم کی طرف بڑھ گیا ۔ حرم بھی سکون کا سانس لیتی کمرے میں بکھرا سامان سیٹ کرنے لگی ۔،،،،


°°°°°°°

وہ اپنے کمرے میں بیٹھی غوطے غوطے ساحر کے خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی،

وہ چند ملاقاتیں اس کم سن سی لڑکی پہ اس قدر گہرا اثر چھوڑ گئی تھی کہ وہ چیزیں بھولنے لگی تھی دن بہ دن جب بھی ثمر کے ذریعے اسکا ٹکراؤ ساحر سے ہوتا رہتا تھا وہ مزید اسکے سحر میں جکڑتی جارہی تھی جبکہ ساحر زیادہ سے زیادہ اس سے فاصلہ رکھتا تھا,,,


اور جب تک وہ اس سے دور رہتا تو وہ خالی نظروں سے اجڑی اجڑی سی اپنی متلاشی نگاہیں بار بار اسکے انتظار میں ٹکائے رکھتی تھی,,,


پچھلے ہفتے ساحر مسلسل ثمر کو یونی تک چھوڑنے آتا تھا جب وہ یونی کے دروازے پہ ہی کھڑی اسکی ایک جھلک کی منتظر رہتی تھی ,,,


مگر وہ جان بوجھ کر نظرانداز کرتا تھا لیکن وہ اناؤں کی ماری لڑکی محبت میں اس قدر اندھی ہوگئی تھی کہ اب اسے اپنے معیار عزت نفس کی بھی پروہ نہیں رہی تھی جو اسنے زندگی میں ہمیشہ بلند رکھا تھا,,,,


ایک ہفتہ ہونے کو آیا تھا اسنے ساحر کی ایک جھلک بھی نہیں دیکھی تھی,,,.دو دن سے اسکا کھانے پینے سے بھی دل اٹھ گیا تھا ,,,


راحیلہ کے پوچھنے پر اسنے چڑتے ہوئے طبیعت خرابی کا بہانہ بنا دیا ایگزام سر پہ تھے اور اسکے بدلتے تیور راحیلہ کو تشویش میں مبتلا کر رہے تھے فلحال اسے سوپ دیتی وہ سکندر صاحب سے بات کرنے کا فیصلہ کیئے باہر نکل گئی,,,


سوپ کا پیالہ سائیڈ میں رکھتے کچھ سوچتے اسنے موبائل نکالا اور فیس بک اون کرتے ساحر کو سرچ کیا,,,,


جہاں فرنٹ پہ ہی اسکی پروفائل پکچر کے ساتھ ڈاکٹر ساحر کی آئی ڈی دیکھ عنایہ کی اداس آنکھیں چمکی,


چہرے پہ مسکراہٹ رینگنے لگی,,,


اسے نہیں ہوش تھا کہ اسے بھوک لگی ہے,,,


کچھ ہی دن میں گول مٹول سے عارض والی عنایہ کوئی صدیوں کی بیمار معلوم ہورہی تھی مگر ساحر کو دیکھ جیسے وہ جی اٹھی تھی,,,


آپی میں اندر آجاؤں؟؟


وہ مدہوش سی اسکی تصویر دیکھنے میں مگن تھی کہ دروازے کی آواز بھی اسے سنائی نہ دی,,,


جب عنایہ کی طرف سے کوئی جواب نہ موصول ہوا تو وہ خود ہی دروازہ کھولتے اندر داخل ہوئی,,,


آپی طبیعت کیسی ہے اب آپکی اسکے پاس بیٹھتے معصومیت سے پوچھا وہ اس قدر مدہوش تھی اسکی موجودگی محسوس نہ کرسکی ہوش تو اسے تب آیا جب حرم نور تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوتی موبائل پہ جھانکنے لگی,,


کیا پروبلم ہے آرام بھی نہیں کرنے دیتے ہیں اس گھر میں تو کوئی پرائیویسی نام کی چیز ہی موجود نہیں ہے,,,


وہ اس قدر اونچی آواز میں پھنکاری کہ حرم نور سرعت سے بیڈ سے اٹھتی دو قدم پیچھے ہٹی,,,


ٹھیک ہوں میں زندہ ہوں دکھ رہا ہے؟؟ اب جاؤ یہاں سے ,,,,


وہ ایک بار پھر غصے میں گویا ہوئی کہ حرم نور کا ننھا سا دل کانپ کر رہ گیا,,,وہ بنا کچھ بولے اپنی شہد رنگ آنکھوں میں پانی لیئے اسکے کمرے سے نکلتی چلی گئی,,,


اور اپنے روم میں آتی وہ بیڈ پہ اوندھے منہ لیٹی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی,,,

عنایہ کا رویہ اسکے ساتھ آج پہلی بار ایسا ہوا تھا,,,


کیا ہوا میری بلو رانی پیچھے مٹھو کی آواز پہ وہ سیدھی ہوتی آنسوں صاف کر گئی,,,


ارے تم تو رو رہی ہو کس نے ہماری بلو رانی کی آنکھوں میں آنسوں لانے کی گستاخی کی ہم اسکا سر قلم کردینگے تم بس نام بتاؤ اور لاش اٹھانے کی تیاری کرو,,,


وہ شہنشاہوں والے انداز میں کہتا اسے ہنسنے پر مجبور کر گیا,,,


اسی دائرے میں تو محدود تھی حرم کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں,,,


°°°°°°

حال ۔۔۔۔۔


یہ تُم کیا کہہ رہی ہو سنایا ۔۔۔۔۔۔


مہ میں ہر گز پاکستان نہیں جاؤ گی ، سنایا کی بات سنتی وہ ایک دم آنکھیں پھاڑے اُسے دیکھتی گویا ہوئی سنایا کی بات سنتے اُسکے وجود سے جیسے روح فنا ہوئی تھی ۔۔۔۔۔


شٹ اپ جسٹ شٹ آپ ۔۔۔۔ میں نے تُم سے پوچھا نہیں ہے کہ تُم یہ کرو گی یہ نہیں بلکہ میں نے تمہیں حکم دیا ہے ۔۔۔۔ اُسکا انکار سنایا کو شدید ناگوار گزرا تھا ،،،،


پر سنایا تُم میری بات تو سمجھو ساحر کی فیملی مجھے جان سے مار دے گی تُمہیں مجھے مروانا ہی ہے تو یہی مار دو مجھے بھی اور اس معصوم کو بھی جس نے ابھی یہ کالی دنیا دیکھی ہی نہیں ۔۔،،،


عنایہ کی آنکھوں سے آنسو لڑیوں کی مانند رواں تھے ۔۔۔ وہ اب پوری طرح سنایا کے حکم کی غلام بن کر رہ گئی تھی پر یہ غلامی بھی اُس نے جانے انجانے میں خود کے لئے خود ہی چنی تھی ۔ ۔


مجھے تمہاری موت کی ضرورت اور خواہش نہیں مجھے سمندر خان کے خاندان کی موت کی خواہش ہے ، جوس کا گلاس لبوں سے لگاتی لاپرواہی سے بولی ۔۔۔


میں نے کیا بگاڑا ہے تمہارا تُم کیوں کر رہی ہو میرے ساتھ ایسا ۔ عنایہ ایک بار پھر ممنائ ۔۔،،،انداز عاجزانہ


عنایہ کی ممناہٹ پر شیری نے بے ساختہ نظریں اٹھاتے اُسے دیکھا تھا ۔۔


میں تمہیں مرنے کے لئے نہیں بلکہ تمھیں تمہارا ہُنر دیکھانے کے لئے وہاں بھیج رہی ہوں فکر نہ کرو شیری ہر پہر تمھارے ساتھ ہوگا ۔۔۔


اور کیا تُم اتنی جلدی بھلا گئ ہو اپنی تذلیل کو جس شخص نے تمھاری محبت تمھارے منہ پر دے ماری تھی آج وہی شخص تمھاری چھوٹی بہن کا شوہر بنا بیٹھا ہے ۔۔

سنایا کی الفاظوں سے عنایہ کے کان سائیں سائیں کر رہے تھے وہ غیر یقینی سے اُسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔

حرم اور سا ساحر۔۔۔۔۔۔۔ اُسکی زبان لڑکھڑائی تھی ،


ہا ہا ہا ۔۔۔ ہاں تمھاری محبت تمہارا جنون تمہارا عشق ساحر خان نکاح کر چکا ہے تمھاری بہن حرم سکندر سے ، وہ اُسکی لا علمی پر قہقہ لگاتی بولی


عنایہ کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا سارے الفاظ سارے آنسو شاید کہیں جا سوئے تھے وہ حیرت زدہ سی سنایا کو دیکھے جا رہی تھی جو شاید اُسکی بے بسی مُسکراتے انجواۓ کر رہی تھی ۔۔

۔

ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا عنایہ تُم اب بھی ساحر کو حاصل کر سکتی ہو ۔۔۔ اُس حویلی میں داخل ہونے کا تمھارے پاس یہ ایک سنہری موقع ہے ۔۔۔ سوچو عنایہ سوچو ۔ وہ تُمہیں مار سکتے ہیں پر اپنے لاڈلے مرحوم کی آخری نشانی کو نہیں مار سکتے تُم اس بچے کو ڈھال بنا کر اُنکی زندگیوں میں باآسانی داخل ہو سکتی ہو ۔۔۔۔ وہ اپنے الفاظوں سے اُسے اُکسا رہی تھی ۔


عنایہ خاموش تھی اُسکے لبوں پر تو جیسے كفل لگ گیا تھا ۔۔


میں تمہارے اور شیری کے ٹکٹ کنفرم کروا رہی ہو اب آگے کا فیصلہ تُمہارے ہاتھ میں ہے اپنا حق لینا چاہتی ہو یا یہاں بیٹھ کر بدلے کی آگ میں جلنا چاہتی ہو ۔۔


وہ کہتی ایک آخری نظر اُس پر ڈالتی وہاں سے نکلتی چلی گئی ۔

۔ اُسکے جاتے ہی شیری بھی ایک بھی نظر عنایہ پر ڈالے بغیر سنایا کے پیچھے لپکا ۔،،،،


پیچھے وہ اب تک اُسی پوزیشن میں بیٹھی گہری سوچ میں غرق تھی ۔۔۔


°°°°°°

ایڈمشن کی تمام تر فورمیلٹیز پوری کرنے اور شاپنگ کے بعد اب اُنہوں نے گاؤں کی واپسی کی راہ لی تھی ۔ اندھیرا اہستہ اہستہ پھیلتا جا رہا تھا ۔،،


حرم ساحر کے ساتھ آگے بیٹھی تھی جبکہ درخنے پیچھے ، درخنے کا غصے سے بُرا ہال تھا اُسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ حرم کو یہی کہیں گم کر دے خود پر ضبط کئے بیٹھی وہ کھڑکی سے سڑک پر بھاگتی دوڑتی گاڑیوں کو دیکھ رہی تھی۔۔۔


حرم نے تھوڑی سی نظر اٹھاتے ساحر کو دیکھا سپاٹ چہرے سے ڈرائیو کرتا شاید وہ گہری سوچ میں تھا ۔


کیا تھا یہ شخص اُس کے لئے کبھی نرم کبھی گرم ۔۔

کبھی تپتی دھوپ میں کسی شجر کے سائے جیسا تو کبھی زخموں پر نمک جیسا وہ اُسکے نقوش میں کھوئی گہری سوچ میں تھی۔۔


خود پر نرم سی نظروں کی تپش محسوس کر اُس نے گردن موڑتے حرم کو دیکھا

حرم ایک دم گڑبڑاتے نظریں جھکا گئ۔۔۔


ساحر نے موبائل کی بجتی آواز سن کر اپنی نظریں حرم سے ہٹاتے موبائل اُٹھایا جہاں "عادل کا نام جگمگا رہا تھا ۔۔


ٹھیک ہے میں بس قریب ہی ہوں آتا ہُوں مقابل کی بات سنتے جواب دیا اور کال کاٹتے موبائل رکھا ، کچھ فاصلے کی ڈرائیو کے بعد اُس نے گاڑی ایک ڈھابے نُما ہوٹل پر روکی تھی۔۔۔۔


حرم اور درخنے کو الگ ٹیبل پر بٹھاتے ویٹر کو مطلوبہ لوازمات لانے کا کہتا حرم کے برابر بیٹھا ۔۔۔

یہ سب دیکھتے درخنے نے ضبط سے مٹھیاں بھینچی تھی۔۔


پُر سکون ماحول میں کھانا کھانے کے بعد ساحر اُنہیں وہی بیٹھنے کا کہتا خود آفیسر عادل کو آتا دیکھ اُس کی طرف بڑھا ۔ سر مجھے ملاہم سر نے کچھ ضروری رپورٹ دینے کے لئے بھیجا ہے وہ خود کسی اور کیس میں اُلجھے ہوئے ہیں اس لئے آ نہیں سکے عین اُن کے ٹیبل کے سامنے بیٹھے عادل نے ساحر سے بغلگير ہوتے کہا ۔۔


رپورٹ کیا ہے ساحر نے اثبات میں سر ہلاتے سوال کیا ۔


ویسے تُم جتنی معصوم دکھتی ہو اُتنی ہو نہیں درخنے نے بغور اُسے دیکھتے طنز کیا ...


کیا۔۔۔۔۔حرم جو بے دلی سے آس پاس کے نظارے دیکھنے میں مگن تھی اُسکی بات پر نہ سمجھی سے اُسے دیکھنے لگی تھی ۔


نہیں میں تو یہی کہہ رہی تھی کہ تُم کتنی معصوم ہو زبردستی مسکراتے فوراً بات بدلی اور جوس کا گلاس لبوں سے لگاتی چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھرنے لگی ۔۔


حرم بھی اپنے آپ میں مگن اُسے اگنور کرتی سامنے بیٹھے ساحر کو دیکھنے لگی جو عادل سے محو گفتگو تھا۔۔


اُسکا دیہان بھٹکا دیکھ درخنے تھوڑا سا اُسکی طرف بڑھتی اُسکے برابر بیٹھ گئ ۔ اب تو ہم دونوں ساتھ پڑھیں گے ساتھ رہیں گے ایک گھر میں تو کیوں نہ دوستی ہی کر لیں ۔۔ شیطانی مسکراہٹ سے کہتی اب وہ اُسکے چہرے کے تاثرات دیکھنے لگی ۔


پہلے حرم نے اسکے بدلے بدلے تیور دیکھے پھر اثبات میں سر ہلاتے مُسکراتے اُسے دیکھنے لگی ۔ تُم جوس کیوں نہیں پی رہی جوس پیو نہ ٹیبل سے جوس کا گلاس اُٹھا کر اُسکی طرف بڑھاتی بولی۔۔


اُس نے گلاس تھامنے کے لیئے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اُسکے تھامنے سے پہلے ہی درخانے نے گلاس ہاتھ سے چھوڑ دیا ۔۔ جس کے باعث گلاس میں موجود سارا جوس حرم کے کپڑوں پر گر گیا ۔


اوو نو یہ کیا ہوگیا سو سوری ۔۔ تُمہارے تو سارے کپڑے ہی خراب ہوگئے ہیں ،،،


اب کیا کریں جوس سے اُسکے کپڑوں پر بنتے عجیب دھبے دیکھ وہ مصنوئی فکرمندی سے بولی ۔

ایسا کرو میرے ساتھ آؤ واش روم سے ٹھیک کر دیتے ہیں یہ وہ اُسے کہتی بغیر اُسکی سنے زبردستی اُسے لئے واشروم کی طرف بڑھ گئی ۔۔


تُم جاؤ اندر میں یہی کھڑی ہُوں واشروم کے باہر کھڑی وہ حرم سے گویا ہوئی حرم بھی چار و ناچار سست قدم اٹھاتے واشروم کے اندر داخل ہوگئی۔۔۔


سر رپورٹ یہی ہے کہ مس عنایہ اس وقت امیرکن خاتون سنایا وکٹوریہ کی پناہ گاہ میں چھپی ہوئی ہیں ۔۔۔ ہم ابھی زیادہ اُن خاتون کے بارے میں جان نہیں پائے خاصی با اثر خاتون ہیں اس لئے تھوڑا وقت درکار ہے اُن تک رسائی حاصل کرنے کے لئے عادل نے اب تک کی رپورٹ ساحر کے گوش گزاری ۔۔


کتنا وقت لگے گا ؟؟ طویل خاموشی کے بعد اُسکی سنجیدہ سی آواز برآمد ہوئی۔۔

کوشش جاری ہے ہماری ۔۔ وہ ابھی بول ہی رہا تھا کہ اپنے پیچھے سے آتی آواز پر خاموش ہوا۔۔


بھائی ۔۔۔ درخنے نے دونوں کو باتوں میں مشغول دیکھ کچھ جھجکتے ساحر کو پُکارا ۔۔


کیا ہوا درخانے اُس کے چہرے کے اڑے رنگ دیکھ ساحر کھڑا ہوتا اُسکی طرف لپکا تھا ۔۔


بھائی وہ حرم ۔۔ ساحر کو اپنے مقابل دیکھ وہ تھوک نگلتے گویا ہوئی


کہاں ہے حرم تمھارے ساتھ تھی نہ؟؟ پریشانی کے عالم میں آس پاس نظریں دوڑاتا دونوں کندھوں سے اُسے تھامتے پوچھنے لگا


بھائی وہ واشروم گئ تھی پر اب وہاں نہیں ہے پتہ نہیں کہاں گئ میں کب سے اُسکا باہر انتظار کرتی رہی جب اندر جا کر دیکھا تو وہ نہیں تھی اُسکی بات سن ساحر کے رگیں تنی ,,,,


وہ پریشان ہوتا بیرونی دروازے کی سمت بھاگا,,,


اسکے جاتے ہی درخنے کی نظر عادل کے سرخ خوبرو چہرے پہ پڑی درخنے کی آنکھوں میں مصنوعی آنسوں جمع تھے,,


ریلیکس آپ ادھر بیٹھے میں دیکھتا ہوں وہ اسکے چہرے پہ پریشانی دیکھتا سہولت سے گویا ہوا,,,

پتا نہیں کیوں یہ نازک سی لڑکی اسے اپنے دل میں اترتی محسوس ہوئی دوسرا حجاب کے حالے میں چمکتا چہرہ دیکھ وہ مبہوت ہوا ,,,مگر جلد ہی اسکے چہرے سے نظریں چراتا وہ اسے بیٹھنے کا کہتا باہر کی جانب بڑھا,,,


اسکے جاتے ہی درخنے نے آنسوں پونچھتے تنزیہ مسکرائی,,,,


وہ کپڑوں سے جوس صاف کرتی باہر آئی تو اُس نے اپنی متلاشی نظریں درخنے کی تلاش میں گھمائی جو اُسے وہاں کہیں بھی نظر نہ آئی ۔۔۔ وہ اُسے ڈھونٹتی راستہ بھٹکتی اب ڈھابے کے پچھلے سائڈ آگئی تھی ۔۔


ساحر اور درخنے دونوں کو نہ دیکھ ڈر سے اُسکا ننھا سا دل کانپ رہا تھا آنسو بھی آنکھوں سے چھلکتے گردن میں جذب ہو رہے تھے وہ چلتے چلتے بہت دور آگئی تھی ۔۔


کہاں جا رہی ہیں میڈیم اتنی رات میں اکیلی آئیں ہم چھوڑ دیتے ہیں ، اپنے پیچھے سے آتی آواز پر اُس نے فوراً گردن گھوماتے پیچھے دیکھا تھا جہاں تین سے چار ھٹے کٹے سیاہ رنگت کے آدمی کھڑے غلیظ نظروں سے اُسے ہی دیکھ رہے تھے ۔۔


وہ خوف سے تھوک نگلتی دو قدم پیچھے موڑتی بھاگنے لگی تھی ۔۔


ساحر تقریباً پورا ڈھابا دیکھ چکا تھا پر اُسے حرم کہیں نہیں ملی تھی ابھی وہ پلٹنے ہی لگا تھا سامنے جاتے راستے کو دیکھ وہ کچھ سوچتا اُسی راستے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔


ساحر ۔۔۔۔۔۔ قریب سے آتی آواز سن اُسکے بھاگنے میں زور آگیا تھا۔۔

اشرفی ۔۔ ساحر ۔۔۔ وہ بھاگتے ہوئے اپنی مدد کے لئے اُن دونوں کو پُکار رہی تھی جہاں سے وہ اس راستے آئی تھی واپس اُسی راستے پر بھاگ رہی تھی ۔۔


وہ بار بار پیچھے موڑتی اُنہیں بھی دیکھ رہی تھی جو اُسے پکڑنے کی تک و دو میں لگے تھے ۔۔ وہ آنسو بہاتے بھاگنے کے ساتھ پوری قوت سے ساحر کو پُکار رہی تھی ۔۔


بھاگتے بھاگتے وہ کسی بھاری وجود سے ٹکراتی زمین بوس ہوئی تھی ۔


خود سے ٹکراتے نازک وجود کو دیکھ ساحر کے قدم تھمے تھے ۔۔ ہلکی سی روشنی میں ساحر کو دیکھ وہ کھڑی ہوتی ایک دم اُسکے سینے سے لپیٹی رونے لگی خوف سے اُسکا پورا وجود لرز رہا تھا ۔۔۔


ساحر کو دیکھ حرم کے پیچھے بھاگتے آدمی ڈر سے اب اپنا راستہ بدلتے وہاں سے نو دو گیارہ ہوگئے تھے


حرم کو دیکھ ساحر کی بھی جیسے سانس میں سانس آئی تھی وہ اُسے خود میں بھینچے اپنے بے قرار دل کو قرار بخشنے لگا۔۔


ریلیکس حرم کچھ نہیں ہوا میں پاس ہوں تُمہارے اُسکے ہچکیوں کھاتے وجود کو دیکھ وہ اُسے پُر سکون کرنے کی کوشش کرنے لگا ۔۔


میں سمجھی اب میں شاید کبھی دوبارہ اشرفی سے نہیں مل پاؤں گی ۔۔ اُسکے سینے سے سر اٹھاتے وہ آنسو سے تر چہرے سے بولی,,,,,


ابھی ساحر اسے حصار میں لیئے آگے بڑھا ہی تھا جب سامنے سے تیزی سے آتا ٹرک دیکھ وہ ساکت ہوا,,,,


اس سے پہلے کے ٹرک اُن سے ٹکراتا وہ تیر کی تیزی سے حرم کو اپنے گھیرے میں لیتا گھوما جب اسکا پیر پتھر سے ٹکرایا توازن برقرار نہ رکھنے کی صورت میں وہ جھٹکا کھاتے سیدھا زمین پہ گرا اور حرم نور اسکے اوپر,,,


زمین پر پتھروں سے اسے اچھی خاصی چوٹ آئی تھی لیکن اسنے حرم نور کو خود سے الگ نہیں کیا تھا,,,


جس شدت سے اسنے ساحر کا کالر پکڑا تھا وہ صاف پتا دے رہا تھا کہ وہ شدید حراساں ہے اسکا دل کسی سوکھے پتے کی مانند لرزرہا تھا,,,


وہ ہولے سے اسے سہارا دیتے اپنی پشت پہ اٹھتا درد برداشت کیئے اٹھا,,,

تم ٹھیک ,,,,


دونوں ہاتھوں کے پیالے میں اسکا معصوم آنسوؤں سے تر چہرہ تھامے تفکر سے پوچھا,,,


اسکا پوچھنا تھا کہ حرم نور بے اختیار ہی اسکے سینے سی لگتی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی,,,

ارے کچھ نہیں ہوا ہے,,,

وہ اسکی پشت سہلاتا محبت سے بولا,,,


حرم آنسو پونچھتی اُس سے الگ ہوئی ۔۔

خون ۔۔۔۔۔ سا ساحر خون آپکو کتنی چوٹ آئی ہے ۔۔


اُسکے ماتھے سے خون کی لکیر کو نکلتا دیکھ وہ ہراساں ہوئی ،، اُسے اپنی فکر میں اس قدر مضطر دیکھ وہ ہولے سے مسکرایا تھا اور زمین سے کھڑا ہوتا اُسے بھی سہارا دیتے کھڑا کر گیا تھا ۔۔


گرنے کے باعث اُس کی سفید شرٹ مٹی سے خراب ہوگئ تھی اور بازو سے بھی خون نکلتا سفید شرٹ پر دھبے چھوڑ رہا تھا ۔۔۔


حرم وحشت زدہ سی اُسے دیکھ رہی تھی ۔

میں ٹھیک ہوں فکر نہ کرو ۔۔ اُسے پریشان دیکھ وہ بے ساختہ ہی اُسکے ماتھے پر عقیدت بھرا بوسا دیتا گویا ہوا ۔۔


چلو درخنے بھی پریشان ہو رہی ہوگی وہ اُسے اپنے حصار میں لئے آگے بڑھا ۔۔۔


وہ ڈھابے پر پہنچے ہی تھے کہ ساحر کو اس حالت میں آتا دیکھ درخنے بھاگتی ہوئی اُس تک پہنچتی تھی ۔۔


پر ساحر کے ساتھ کھڑی حرم کو دیکھ اُسکے قدم وہی ساکت ہوگئے تھے وہ جو سمجھ رہی تھی کہ اب حرم کبھی دوبارہ نہیں ملے گی پر ساحر کے پہلو میں اُسے دیکھ درخنے نے ضبط سے مٹھیاں بھینچی تھی۔۔۔


لالا آپ ٹھیک ہیں ۔۔ فکر مند لہجے میں ساحر کو دیکھتی بولی ۔

۔

میں ٹھیک ہوں گڑیا ، وہ مسکراتا اُسے مطمئن کرنے کی کوشش کرتے گویا ہوا ۔۔ کہاں ٹھیک ہیں دیکھیں اپنی حالت ۔۔ چلیں گھر چلیں جلدی وہ ڈبڈباتی آنکھوں سے اُسے دیکھتی بازو تھامتے بولی جبکہ اُسکا دوسرا بازو حرم نے پکڑا ہوا تھا ۔۔


ساحر تُمہیں چوٹ آئی ہے گاؤں دور ہے بہت اور رات بھی بہت ہوگئ ہے صبح چلے جانا ابھی میرے ساتھ میرے فلیٹ پہ ہی ٹہر جاؤ ۔۔ عادل نے بھی اپنی خدمت پیش کی۔۔


آپکا شکریہ پر ہم گھر جائینگے اپنے۔۔ ساحر نے کُچھ بولنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ اُس کے بولنے سے پہلے ہی درخنے بولتی ساحر کو دیکھنے لگی ۔۔


بہت شکریہ عادل پر میں ٹھیک ہوں ۔ ساحر نے بھی اُسے سہولت سے انکار کیا ۔۔


جیسے تُجھے مناسب لگے ۔۔ عادل نے شانے أچکاتے کہا ۔اسکی بیوی اور بہن ساتھ نہ ہوتے تو وہ فورس کرلیتا مگر فلحال اسے مناسب نہ لگا,,,

ہلکی پھلکی گپ شپ کرتے وہ لوگ گاڑی کی طرف بڑھ گئے ۔۔


اوو شٹ گاڑی کا تو ٹائر پنکچر ہے ۔۔ ساحر نے گاڑی کو دیکھتے پریشانی کے عالم میں کہا ۔۔

میں دیکھتا ہوں تُم کھڑے ہو یہاں ۔۔ عادل اُسے کہتا خود ساحر کی گاڑی کی طرف بڑھ گیا ۔۔


ٹائر تو بلکل خراب ہوگیا ہے ساحر ریپئرنگ میں بھی گھنٹے دو گھنٹے لگ جائیں گے تُم ایسا کرو میرے ساتھ میرے فلیٹ میں چل لو صبح تک گاڑی رپیئر ہو کر آجائے گی تُم صبح گاؤں کے لئے روانہ ہو جانا ۔۔ عادل نے اُسے سوچ میں ڈوبا دیکھ مشورہ دیا ۔۔


ٹھیک ہے ۔۔۔ تُم جاؤ اپنی گاڑی لے آؤ ساحر نے حامی بھرتے کہا ۔۔اس وقت لیڈیز کیساتھ اس جگہ دو پل بھی ٹہرنا مناسب نہیں تھا کچھ سوچتے اسنے ہامی بھر لی,,,


لیکن درخنے کے تاثرات سے ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے وہ رضا مند نہیں ہے اپنے بھائی کے اس فیصلے پہ دوسرا حرم نور اب تک ساحر کے بازوں سے چپکی کھڑی تھی اور وہ اسے اپنا حصار بخش رہا تھا یہ دیکھ درخنے اندر تک جل بھن گئی تھی,,,


مگر وہ چار و ناچار سست روی سے گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ براجمان ہوئی تو ساحر نے گاڑی کا دروازہ کھولتے حرم نور کو بھی پچھلی سیٹ پہ بیٹھنے کا اشارہ کیا,,


**********

آدھے گھنٹے کی ڈرائیو کی بعد وہ سب عادل کے فلیٹ میں موجود تھے,,,,


فلیٹ نہ زیادہ بڑا تھا نہ ہی چھوٹا محض دو کمروں اور ایک ہال میں مشتمل یہ فلیٹ خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھا ہر چیز نفاست سے سیٹ ہوئی عادل کے ذوق کا منہ بولتا ثبوت تھی....


ساحر اور عادل دونوں ہی عادل کے کمرے میں سوئے تھے جبکہ حرم اور درخنے ساتھ والے دوسرے کمرے میں ۔۔


ایک گھنٹا ہونے کو آیا تھا ساحر کروٹ پر کروٹ بدلتا سونے کی کوشش میں تھا پر نیند تھی جو آنے سے ہی انکاری تھی کم وقت میں ہی اُسے حرم کی عادت سی ہوگئ تھی ۔۔۔


حرم کو خود میں بھینچ کے سونے کی عادت نے آج اُسے سہی بے چین کیا ہوا تھا ۔۔ اب تو کروٹ پر کروٹ بدلتا بھی وہ تھک چُکا تھا ۔ پر نیند تھی کہ اُس سے روٹھی آنکھوں سے کوسو دور تھی ۔ ,,,


اپنے برابر گدھے گھوڑے بیچ کر سوئے عادل پہ اسنے رشک سے نگاہ گھمائی جسکے کھراٹوں کی آواز اس مزید الجھا رہی تھی,,,


وہ تو مزے سے تبیلے بیچ کر سویا تھا مگر اسکی نیند تو آج دوسرے کمرے میں آرام فرما رہی تھی,,,


آخر تنگ آتے وہ اُٹھ بیٹھا اگر میں نہیں سو سکتا تو تمہیں کیسے پُرسکون سونے دوں میری معصوم سی جان وہ دل میں ہی حرم کو سوچتے مخاطب ہوا اور کچھ دیر سوچنے کے بعد ایک آخری نظر عادل کے سوئے وجود پر ڈالتا وہ دبے پاؤں کمرے سے نکلا ۔اب کچھ تو جگاڑ لگانا تھا اپنی بے چینی کا,,,


شکر تھا کہ کمرا زیادہ دور نہ تھا وہ باآسانی ہی دروازے تک پہنچ گیا تھا مگر دروازے کے باہر کھڑا وہ اسی کشمکش میں تھا کہ اندر جائے یہ نہ جائے اگر درخنے جاگ رہی ہوئی تو کیا بتائے گا کہ رات کے اس پہر کیوں آیا ہے ۔۔


پر پوری رات یوں بے چینی میں گزارنے سے تو اچھا ہے کہ جو کرنے آیا ہے وہ کر ہی لے ۔۔۔۔


یہی سوچتے اُس نے کمرے کا دروازہ کھول آہستہ سے اندر قدم رکھا ۔

کمرا نائیٹ بلب کی وجہ سے تھوڑا روشن تھا ۔ اُس نے اپنے قدم بیڈ کی طرف بڑھائے تو سامنے ہی وہ دنیا جہاں کی معصومیت چہرے پر سجائے خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھی۔۔۔


اُسے اس قدر بے خبری سے سوئے دیکھکر ساحر نے داد میں آبرو اچکائے تھے ، یہاں میرا سونا محال ہے اور میڈم کتنے مزے سے سو رہی ہے گھر پر اس کا چہیتا نہیں سونے دیتا اور کہیں جاؤ تو محترمہ کے بغیر نیند نہیں آتی وہ گھٹنوں کے بل بیڈ سے نیچے بیٹھتا خود سے بولا ۔


حرم ۔۔۔ساحر نے اُسے بازو سے جھنجھوڑتے ہلکی آواز میں پُکارا ۔۔ پر مقابل شاید نیند کی پکی تھی اس لئے ٹس سے مس نہ ہوئی۔۔


حرم ۔۔۔ اپنی آواز کا حرم پر کوئی اثر نہ ہوتا دیکھ اُس نے پھر جھنجھوڑ کر پُکارا ۔۔


حرم جو کروٹ پر کروٹ بدلتی ساحر کے بارے میں ہی سوچتی کچھ دیر پہلے ہی نیند کی وادیوں میں اُتری تھی اپنی نیند میں خلل محسوس کر اُس نے اپنی مندی مندی آنکھیں کھولی ۔۔


سساحر جی۔۔۔۔ اپنے سامنے ساحر کو اس وقت دیکھ اُسے جیسا جھٹکا سا لگا تھا ۔۔۔اپنی معصومیت سے شہد رنگ آنکھیں پھیلائے سوال داغا

آہستہ بولو سب کو اٹھانے کا ارادہ ہے کیا ۔۔۔


اُسکے منہ پر اپنا بھاری ہاتھ رکھتے درخنے کی طرف توجہ دلائی۔۔


حرم نے ڈرتے گردن موڑے اپنے برابر دیکھا تو درخنے کو گہری نیند میں پایا ۔۔


وہ لمبی سانس خارج کرتی ساحر کی طرف مڑی ۔۔


آپ اس وقت یہاں کیا کر رہے ہیں سساحر جی ۔۔ اُسکے معصوم سے سوال پر ساحر نے ضبط سے مٹھیاں بھینچی تھی ۔۔ واقعی معصوم بیویاں بھی خوش قسمتوں کے حصے میں آتی ہیں وہ سوچتا مسکرایا تھا ۔۔۔


بتائیں نہ ؟؟ اُسے ہنستا دیکھ حرم کو اُسکی ذہنی حالت پر شبہ ہوا۔۔


پہلی بات میرا نام ساحر ہے سساحر جی نہیں کبھی تو میرا نام بنا ہکلائے لیا کرو کوئی جن نہیں ہوں ,,,


آج پھر اسے ہکلاتے دیکھ اسنے ٹونٹ کیا اسنے بے اختیار ہی نگاہیں جکھادی,,,


وہ ایک آخری سرسری سی نظر درخنے کے سوئے وجود پہ ڈالتا حرم کو مزید کچھ بھی بولنے کا موقع دیئے بغیر اُسے باہوں میں بھرتا کمرے سے نکلا ۔۔


یہ سب اتنی جلدی میں ہوا کہ وہ سمجھ بھی نہ پائی,,


حرم آنکھیں پھاڑے دھک دھک کرتے دل سے اُسے دیکھ رہی تھی جو بنا کسی کی بھی طرف دیکھے اب سیڑھیاں چڑھتا اوپر چھت کی طرف بڑھ رہا تھا ۔۔۔اسنے سختی سے اسکا کالر دبوچا ہوا تھا,,,


اُتاریں مجھے کہاں لے جا رہے ہیں ، حرم اُسکے سینے پر مکوں کی برسات کرتے خوف سے بولی ۔ چُپ ہو جاؤ ورنہ اوپر جا کر چھت سے نیچے پھینک دونگا اتنی اونچائی ہے ہڈیاں بھی نہیں بچینگی تمہاری ویسے ہی صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو تم,,,


اُسکی جرت پہ وہ عش عش کے اٹھا نہ جانے کیسے وہ ہمیشہ ڈری سہمی رہنے والی لڑکی آج اپنے نازک مکوں کا مزہ چکھارہی تھی اسکی جرت پہ ساحر نے مصنوعی سخت تاثرات سے کہا اور حرم پہ اسکی دھمکی کارآمد بھی ٹہری,,,,


آپ مجھے مار دیں گے ؟؟ انکھوں میں تیرتے پانی سے اُسے دیکھتی نم آواز میں بولی ۔۔ ساحر کو رج کر اُس معصوم پر پیار آیا تھا ۔۔


میں کیسے مار سکتا ہوں تُمہیں تُم میری زندگی ہو ، اور زندگی سب کو پیاری ہوتی ہے مجھے بھی ہے ۔۔۔ چھت پر پہنچتے اُسے اپنے مقابل کھڑا کرتا محبت سے چور لہجے میں گویا ہوا ۔۔ اور یہ تھا ساحر کا بے اختیار عمل مگر مقابل لڑکی کو اب اسکی کسی بات پہ شاید بھروسہ نہیں تھا,,,


حرم نے اپنی شہد رنگ آنکھیں اٹھاتے اُسکی شہد رنگ آنکھوں میں دیکھ جہاں محبت کا الگ جہان آباد تھا ۔۔


مجھے ڈر ہے تُم اپنی ان معصوم اور قاتلانہ اداؤں سے پاگل نہ کر دو ۔۔ اُسکی کمر میں ہاتھ ڈالتے اپنے قریب تر کیا اور ماتھے سے اپنا ماتھا ٹیکاتے آنکھیں موندتے گھبیرتا سے بولا ۔۔۔


حرم کو اسکی گرم سانسیں اپنے چہرے پہ پڑتی محسوس ہوئی,,,اسکی دھڑکنیں بھی رقص بسمل میں مشغول تھی,,,


بے تحاشہ نزدیک وہ مسرور سا اسکی تیزی سے چلتی سانسوں کے اٹھتے شور سے مدہوش ہونے لگا تھا,,,


°°°°°°


یہ بھی بڑا مسلا ہے شادی شدہ حضرات کا بیوی کے بغیر نیند ہی نہیں آرہی موصوف کو یہ ہوتے ہیں شادی کے سائڈ ایفیکٹ ۔۔۔ ساحر کے کمرے سے جاتے ہی اُس نے بیٹھتے ہوئے کہا انداز خاصا عاجزانہ تھا ۔۔۔۔


دیکھتے بھی نہیں کہ گھر میں کوئی شدید سنگل لوگ بھی ہیں ۔۔ ایسے لوگ تو واجب القتل ہیں اسنے شدید جلتے کٹتے خود سے ہی کہا,,,,اول فول مزید قصیدے پڑھتا اسنے خود سے ہی باتوں میں مشغول سائڈ ٹیبل پر موجود پانی کے جگ کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔


اپنی تو قسمت ہی خالی ہے اس جگ کی طرح جگ کو خالی دیکھ خود سے ایک بار پھر بیزاریت سے کہتا کمرے سے سست قدم اٹھائے کچن کی طرف بڑھا ۔۔۔ ۔


اتنے دنوں بعد شہر کی کھلی ہوا میں سانس لیتے وہ کافی خوش تھی پر اپنوں کے شہر میں ہوتے ہوئے اپنوں سے دوری پر اُسکا دل جیسے ہر خوشی سے بجھ سا گیا تھا ۔۔


اُسے اپنے ماں باپ بہت یاد آرہے تھے وہ بولنا چاہتی تھی ساحر سے پر ساحر کے غصے سے بھی ڈر رہی تھی اس لئے ہر خواہش اپنے سینے میں دباتی تاروں سے چمکتے آسمان کو دیکھ رہی تھی اُسکے چہرے سے اُسکے دل میں چلتی حالت کا اندازہ لگانا مشکل تھا پر مقابل بھی ساحر شہروز خان تھا اُسکی یہ افسردگی ساحر کی نظروں سے چھپی نہیں رہ سکی تھی۔ ۔۔

پر ابھی وہ اُسے نہیں ملوا سکتا اُس کے ماں باپ سے ۔۔۔ اُس نے یہ بھی ٹھانی تھی کہ جلد ہی وہ ملوا دے گا اُسے ۔۔۔


ساحر وہ دیکھیں حرم کی آواز نے اُسے سوچوں سے حقیقت میں پٹکا ۔ اُس نے آسمان کی طرف دیکھا جہاں ٹوٹتا تارا گر رہا تھا اُس نے نظریں وہاں سے ہٹاتے حرم کے کھلکھلاتے چہرے کی طرف پھریں ۔۔۔


ایسے کیا دیکھ رہے ہیں کوئی وش مانگے نہ ، اُسے خود کو تکتا دیکھ پہلے تو وہ پزل ہوئی پر جلد ہی خود کو کمپوز کرتی چہکتی ہوئی بولی ۔۔


وہ دونوں آنکھیں میچی دعا کی نیت سے ہاتھ اٹھاتے اپنی دعا رب تک پہنچا رہے تھے,,,


وہ پورے انہماک سے دعا مانگ رہی تھی جبکہ ساحر اس معصومیت کے پیکر کو مبہوت سا نظروں کے ذریعے دل میں اتار رہا تھا,,,


کیا مانگا تُم نے ؟؟ وش مانگنے کے بعد ساحر نے اُسے مُسکراتے دیکھ مشکوک نظروں سے دیکھتے پوچھا ۔۔۔


وش بتاتے نہیں ہیں ورنہ پوری نہیں ہوتی ۔۔ حرم نے مُسکراتے کہا ۔۔


اچھااا ا ۔۔۔۔ ساحر نے اچھا کو کھینچتے اُسے ایک بار پھر اپنے قریب تر کیا ۔۔ اب حرم کی پُشت ساحر کے سینے سے ٹکرا رہی تھی ۔۔

حرم نے بھی اُسکی قربت میں تھوک نگلتے مزاحمت کرنی چاہی پر اُسکی مزاحمت ساحر کی گرفت اور مضبوط کر گئ ۔۔۔۔


ساحر ۔۔۔ آخر تنگ آتے اُس نے مزاحمت ترک کرتے اُسکے کندھے پر سر رکھتے پُکارا ۔۔


ہاں جان ساحر ۔۔ ساحر نے بھی اُسکی پُکار پر نثار ہوتے کان کے قریب جھکتے بولنے کی اجازت دی ۔۔


آپ اشرفی کی شادی کروا دیں نہ ۔۔ حرم نے کچھ ڈرتے کہا ۔


تمھیں ابھی بھی اُسکی ہی پڑی ہے,,, ساحر نے اُس شیطان کے چیلے کی ذکر پر بد مزہ ہوتے کہا۔۔

پلیز نہ ساحر ۔۔ وہ اس بار لاڈ سے بولی ۔۔۔

ٹھیک ہے پھر میری شرائط پوری کرے گا تو میں سوچوں گا ۔۔ ساحر کی آنکھیں چمکی تھی ۔۔۔

آپ اُسے چھوڑیں پھر میرے لئے طوطی لے آئیں ویسے بھی آپ نے مجھے اب تک کوئی تحفہ بھی نہیں دیا ۔۔ حرم نے شکوہ کرتے کہا ۔۔

اُسکی اس بات پر ساحر کسی گہری سوچ میں ڈوبا تھا ،،،،

ہاں موقع اچھا ہے بدلے کا ۔۔ ساحر اپنے دماغ میں چلتی پلیننگ پر مسکرایا تھا ۔۔۔


بے چینی کے باعث اُسکی ابھی آنکھ کھلی تھی حلق میں بھی کانٹے چبھتے محسوس ہو رہے تھے سامنے بستر کو خالی دیکھ وہ اُٹھ بیٹھی تھی اُس نے حرم کی تلاش میں کمرے میں نظریں دوڑئی جو اُسے کہیں نہ ملی خود سے بلینکٹ ہٹاتی وہ بالوں کا رف سا جوڑا بنائے واشروم کی طرف بڑھی واش روم میں بھی اُسے حرم نہ ملی ۔۔۔

وہ پریشان ہوتی شانوں پر دوپٹا پھیلائے کمرے سے نکلی تھی ۔۔۔


°°′°°°°^°

ٹھنڈے پانی سے بھرا جگ لئے وہ کچن سے نکلتا اپنی ہی سوچوں میں گم آگے بڑھ رہا تھا کہ سامنے سے آتی درخنے سے ٹکرایا ۔

ٹکراؤ کی وجہ سے کانچ کا جگ اُسکے ہاتھ سے گرتا زمین بوس ہوا تھا اور کئ ٹکڑوں میں تقسیم ہوا جگ میں موجود ٹھنڈا پانی اُس پر گرتا اُسکے کپڑوں کو گیلا کر گیا تھا ۔۔


دیکھ کر نہیں چل سکتے آپ االلہ نے دو دو آنکھیں دی ہیں پھر بھی اندھوں کی طرح ٹکرا رہے ہیں ،،، درخنے پہلے ہی حرم کی غیر موجودگی دیکھ تپی ہوئی تھی اس لئے موقع ملتے ہی وہ مقابل پر چڑھ دوڑی ۔۔ عادل تو اُسکی زبان کے جوہر دیکھ عش عش اُٹھا تھا ۔۔


°°°°^

آپ کیوں اُٹھا کر لے آئے ساحر مجھے اب نیند آرہی ہے ۔۔ اسکی پناہوں میں قید حرم نے منہ بناتے کہا ۔۔ آنکھوں میں اب بھی نیند کا خُمار واضح تھا۔۔


کیوں کہ مجھے نیند نہیں آرہی تھی تُمہارے بغیر ۔۔ ساحر نے جھٹکے سے اُسکا رُخ اپنی طرف کرتے کہا۔۔۔


اس اچانک افتاد میں حرم کے سارے الفاظ حلق میں ہی اٹک گئے تھے۔۔

وہ مسکراتا اُسکا سُرخ چہرہ دیکھ جھکنے لگا تھا کہ

کانچ کے ٹوٹنے کی آواز سنتے ہی وہ ڈرتے ساحر سے الگ ہوئ ۔۔۔


یہ یہ آواز ساحر وہ اُٹھ گئے ۔۔ حرم نے آنکھیں پھیلائے لڑکھڑاتے کہا۔۔۔


ایک پل کے لئے حیران تو ساحر بھی ہوا تھا پر جلد ہی خود کو سنبھال گیا ۔۔۔


اب ہم نیچے کیسے جائیں گے ساحر ۔۔۔ وہ کیا سوچیں گے ہمارے بارے میں اُس نے منہ پر ہاتھ رکھے نم آواز میں کہا آنسو تھے جو دوبارہ اُسکی آنکھوں میں تیرنے لگے تھے ۔۔۔۔


کیا مطلب کیا کہیں گے ۔۔ بیوی ہو میری ، ۔ حرم کی بات ساحر کو سخت ناگوار گزری تھی اس لئے دوبارہ اُسے قریب کرتا سرد آواز میں پھنکارا ،،،


حرم ابھی تک ہراساں سی کبھی چھت کے دروازے کو تو کبھی ساحر کو دیکھ رہی تھی۔۔ آج تو یہ بندہ جھٹکے پر جھٹکے دینے پر تلا ہوا تھا۔۔۔

°°°°°

سوری میں نے دیکھا نہیں تھا آپکو اور آپ بھی شاید جلدی میں ہی آرہی تھی ۔۔ عادل نے ہوش میں آتے اُسکی غصے سے سُرخ آنکھوں میں دیکھتے کہا ۔۔۔

بھینچے ہونٹ اور بھینچی مٹھیوں سے اُسے دیکھتے درخنے نے ایک سرد سانس ہوا میں خارج کی اور ایک اچٹتی نظر اُس پر ڈالتی واپس روم کی طرف بڑھ گئ ۔۔

پٹھان ہے شاید خون کا اثر ہے یہ غصہ,,,, اُسکے خاموشی سے چلے جانے کے بعد ہوش میں آتا خود سے بولا ۔


اور پنجوں کے بل زمین پر بیٹھتا کانچ کے ٹکڑے چننے لگا ۔۔


وہ ایک آخری حسرت بھری نگاہ چھت کی طرف جاتی سیڑیوں پہ ڈالتا ابکی بار فرج سے پانی کی بوتل نکالتے روم کی طرف بڑھنے لگا جب کمرے کے پاس پہنچتے اسے درخنے کی چیخ سنائی دی پہلے تو اسنے سیدھا دروازہ کھولنے کیلئے ہاتھ بڑھایا پھر کچھ سوچتے ہوئے رکا,,,


ابھی اسنے ہاتھ واپس کھینچا بھی نہیں تھا جب ایک اور دلخراش چیخ اسکی سماعتوں سے ٹکرائی ابکی بار وہ بنا سوچے سمجھے شتاب کاری سے دروازہ کھولتے اندر داخل ہوا,,,


کیا ہوا ہے آپکو آپ چلا کیوں رہی ہیں,,,۔


کمرے کا منظر دیکھتے وہ دنگ سا اسے دیکھ رہا تھا جو بیڈ پہ چڑی سختی سے آنکھیں میچے بس بچاؤ بچاؤ کے نعرے لگا رہی تھی ,,,


..... وہ نہ آؤ دیکھ رہی تھی نہ تاؤ بس چڑیلوں کی طرح چیخے مار رہی تھی یہ تو شکر تھا روم سے آواز چھت تک نہیں پہنچ رہی تھی,,,


شٹ اپ ....عادل نے عین اسکے مقابل کھڑے ہوتے دونوں بازوؤں سے شدید جھنجوڑتے ہوئے کہا,,,

اسکی دھاڑ تھی کہ درخنے کی آواز یک لخت ہی حلق میں دب گئی,,,


مقابل کی آنکھوں میں تیش دیکھ وہ آنسوؤں سے تر اپنی بھوری آنکھیں جکھا گئی,,,

عادل کو محسوس ہوا شاید وہ کچھ زور سے چلا گیا ہے...

بتائیں کیا ہوا ہے کیوں چیخ رہی تھی آپ جلد ہی اپنی حرکت پہ خود کو ملامت کرتے بے حد سلجھے ہوئے لہجے میں سوال کرتا اسے بیڈ سے نیچے اتار گیا,,,


وہ وہ کاکروچ ہے آپکے گھر میں ممجھے کھا جائے گا وہ,,,وہ بھرائی آنکھوں سے اٹک اٹک کر بولی,,,عادل تو دیدے پھاڑے مقابل لڑکی کو دیکھ رہا تھا,,,


وہ جو سمجھ رہا تھا کہیں گر ور تو نہیں گئی لیکن یہاں تو میڈم کاکروچ سے ڈر رہی تھی,,,


عادل تو اسکی معصومیت پہ نثار ہوتا غش کھا کے گرنے کے قریب تھا,,,


آااہ ووہ وہ دیکھو ابھی باہر آیا تھا آنکھیں پھاڑ کر دیکھ رہا تھا مجھے,,,ایک بار پھر کاکروچ کو الماری کے پیچھے سے نکلتا دیکھ وہ چیخ مارتی پھر سے بیڈ پہ چڑھ گئی,,,


عادل کا دل کیا اپنا ماتھا پیٹ لے ,,,,کیونکہ اسکا نوکیا جیسا ساؤنڈ پھر سے شروع ہو چکا تھا,,,,

شٹ اپ اگر اب تم چیخیں تو اس کاکروچ کے آگے ڈال دونگا سمجھی بلکل خاموش اسکی چیخو سے تنگ آتے وہ ایک ہاتھ اسکے سر کے پیچھے تو دوسرا منہ پہ جمائے پھنکارا,,,


درخنے اپنی بھوری نم آنکھیں پھیلائے اس ظالم شخص کو دیکھ رہی تھی,,,,بولو اب نہیں چیخو گی؟؟ہاتھ ہٹانے سے پہلے اسنے یقین دہانی چاہی تو اسنے آنکھوں سے اسکے ہاتھ کی جانب اشارہ دیا,,,


پلکوں کو دو بارجھپکو وہ اشارہ سمجھتے پھر بولا درخنے نے معصومیت سے اپنی پلکوں کا جھالر گراتے اٹھایا نم ہوتی پلکوں کا رقص دیکھتے پھر سے عادل کا دل بے اختیار دھڑکا تھا ,,,اففف یہ نم آنکھیں میری جان لے کر چھوڑینگی,,,


وہ دل میں سوچتا نظریں چرا گیا,,,,

آگے بڑھتے اسنے سائیڈ ڈرا سے کاکروچ اسپرے نکالا مگر کاکروچ صاحب مزید ایک کاکروچ کے ہمقدم ہوتے خود ہی کھڑکی کے ذریعے باہر نکل گئے,,


اسنے شکر کا سانس خارج کرتے رخ اسکی طرف کیا,,لو چلا گیا وہ بچارا اپنی بیگم کیساتھ آپ ایسے ہی چیخیں مار رہی تھی مجھے تو ڈر ہے کہیں اس بچارے کاکروچ میاں کے کانوں سے خون نہ نکل آیا ہو,,,


بغور اسے دیکھتے بظاہر سنجیدگی سے بولا مگر اسکی سرخ تیش بھری نگاہ خود پہ اٹھتی دیکھ وہ پانی کی بوتل لیئے باہر نکل گیا,,,,,


نیند تو اب آنی نہیں تھی بیڈ پر لیٹا وہ اب بھی اسکی بھوری آنکھوں میں ڈوبا ہوا تھا اپنی سوچوں کو پس پشت ڈالتا وہ پھر سے کوشش کرنے لگا,,,


درخنے بھی حرم نور کا انتظار کرتے ایک آخری جائزہ پورے کمرے کا لیتے خود کو مطمئن کیا اور آنکھیں موندتی بیڈ پر لیٹ گئی,,,


**********


ساحر جی.....

ہمممم....

حرم نور اس وقت چھت پہ پڑے بینچ پر بیٹھی تھی اور ساحر اسکی گود میں سر رکھے سکون سا آنکھیں موندے لیٹا تھا جب حرم کی سوچ میں ڈوبی آواز سنتے اسنے ہنکارہ بھرا,,,


آپ اچھے ہیں۔۔۔۔۔۔ بس غصہ مت کیا کریں مجھ پہ,,,ساحر کی ایک کے بعد ایک مہربانیاں دیکھ آخر اسنے دل میں چلتی بات کہہ ہی ڈالی,,,دل میں کہیں یہ ڈر بھی تھا کہ ساحر غصہ ہی نہ ہوجائے,,


مگر اسکی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا,,وہ اسکی بات سن چکا تھا مگر جان بوجھ کر خاموش تھا وہ کیسے بتاتا کہ کتنا مشکل ہوتا ہے اپنے جان سے عزیز بھائی کو قتل ہوا دیکھنا کتنا دردناک تھا وہ منظر,,


لیکن اگر وہ بھولنا بھی چاہے تو چاہ کر بھی نہیں بھلا سکتا وہ قاتل نہ سہی قاتل کی بہن تو ہے خون تو وہی ہے نہ ، تو کیسے اتنی آسانی سے سب بھلا دے وہ تو اپنا درد بھی کسی سے بیان نہیں کرسکتا تھا,,,


وہ چاہ کر بھی بھائی اور محبت کے درمیان انصاف نہیں کر پارہا تھا,,,وہ ایسا ہر گز نہیں تھا لیکن حالات اور جذبات نے اسے ایسا کرنے پر مجبور کردیا تھا کہ وہ چاہ کر بھی اپنے غصے پہ بندھ نہیں باندھ پاتا تھا,,,


اسکی جانب سے ہنوز خاموشی محسوس کرتے وہ آسودگی سے چاند کی مدہم روشنی میں اسکا صبحیح چہرہ دیکھنے لگی,,,


انہیں کافی وقت یوں ہی گزر گیا تھا حرم کی بھی آنکھیں اب نیند کی شدت سے بند ہونے لگی تھی جب دور کہیں آزانوں کی آواز پہ وہ پوری طرح بیدار ہوتی ساحر کو اٹھانے لگی,,,


ساحر جی اٹھ جائیں مجھے نماز پڑھنی ہے اللہ ناراض ہوجائے گا پلیز,,,

وہ اپنے نازک ہاتھوں سے اسے ہلاتے منمنارہی تھی انداز بلکل معصومانہ,,,ساحر نے مسکراتے آنکھیں وا کی اور ایک نظر اسپے ڈالتا نیچے کی طرف قدم بڑھانے لگا,,,,


حرم نور کمرے میں آئی تو درخنےپہلے ہی جائے نماز بچھائے نماز کی نیت باندھ چکی تھی وہ بھی جلدی سے وضو بناتی رب کے آگے سجدہ زیر ہوئی,,,

******

دوسری جانب ساحر بھی عادل کے ہمرا مسجد گیا تھا نماز ادا کرنے ,,,


نماز سے فارغ ہوتے وہ دونوں ناشتہ لیئے گھر آئے تب تک حرم اور درخنے بھی نماز پڑھ چکی تھی ,,,,پرسکون ماحول میں ناشتہ کیا درخنے نے محض چائے پی تھی وہ بار بار عادل کی خود پہ اٹھتی نگاہیں دیکھتی اپنی رات کی جانے والی حرکت پہ شدید شرمندہ ہورہی تھی دوسرا مقابل کی بولتی نگاہیں ۔۔۔۔۔


چل اب اجازت دے اور میری کار ریپئر کروالینا میں رات تک ڈرائیور کے ہاتھ گاڑی بجھوا دونگا ,,,وہ عادل سے مصافحہ کرتے اسکی گاڑی کی چابی لیتا بیرونی دروازے کی سمت بڑھ گیا پیچھے حرم اور درخنے نے بھی اسکی تقلید میں قدم اٹھائے,,,


°°°°°°°

ماضی......


کیا خیال ہے ثمر اس بار ریس میں حصہ لینا ہے کہ نہیں ۔۔۔۔ ثمر کے دوست نے سامنے ریس کے لئے تیار کھڑے دوسرے لڑکوں کو دیکھ کر ثمر سے پوچھا ۔۔

بلکل لے گا یہ حصہ۔۔۔۔۔ اگر یہ نہیں ہوگا تو خاک مزا آئیگا ریس کا ، دوسرے نے بھی اپنی بات کہنی لازمی سمجھی ۔۔۔۔


اُن دونوں کی باتیں سنتے وہ ہولے سے مسکرایا تھا اور نظریں پاس کھڑی سفید شرٹ پر بلیک پینٹ اور بلیک ہی لونگ کوٹ پہنے عنایہ کی طرف کی ،۔


خود پر نظریں محسوس کر عنایہ نے جیسے ہی سر اُٹھایا تو ثمر کو تکتا پایا۔۔ کم وقت میں ہی اُن دونوں کی دوستی بہت گہری ہوگئ تھی ثمر اُسے دوست سے بڑھ کر سمجھتا تھا اور عنایہ صرف ساحر کے دیدار اور اُس تک رسائی کے لئے ثمر کو برداشت کر رہی تھی اور اس سے دوستی کا ڈھونگ رچا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔


مجھے کیا دیکھ رہے ہو ایسے میں نے تو منع نہیں کیا تُمہیں ریس میں حصہ لینے سے ، آج تمھارا برتھ ڈے ہے جو مرضی کرو۔۔۔ اُس نے گھورتے بگڑے تیوروں سے کہا ، وہ صرف یہاں ساحر کی منتظر تھی وہ جانتی تھی کہ آج ساحر ضرور آئیگا ثمر کو اُسکی برتھ ڈے وش کرنے ۔۔۔ اور یہی انتظار اُسکی جان آدھی کر گیا تھا۔۔


اس لئے بیذاریت سے وہ یہاں کھڑی سب دیکھ رہی تھی ،،،

ثمر ایک آخری مسکراتی نظر اُس پر ڈالتا اپنی ہیوی بائک کی طرف بڑھ گیا ،,,


یہ وہ بائک تھی جو ساحر نے اُسے اُسکے پچھلی برتھ ڈے پر سرپرائز گفٹ کے طور پر دی تھی ۔۔ اسی بائک سے کھیلتے وہ نہ جانے کتنی ہی رسیں جیتا تھا ۔۔۔۔۔۔


ہجوم سے نظریں پھیرتے اپنے بالوں میں اُنگلیاں پھیرتے اُس نے ہیلمیٹ پہنا ۔۔۔۔۔

پورا گراؤنڈ ہی ثمر ثمر ۔۔۔۔ کے نعروں سے گونج رہا تھا جن میں سب زیادہ آوازیں لڑکیوں کی تھی اُنہیں کوئی خاص دلچسپی نہ تھی ریس میں پر ثمر کا سن کر سب ہی آنکھیں چمکائیں اُسے دیکھ رہی تھی ،،،،


ریس کا آغاز ہوتے ہی تمام بائیکس آگے پیچھے مٹی اڑاتی آگے بڑھ رہی تھی ۔۔۔۔


شرٹ پر بلیک لیدر کی جیکٹ پہنے وہ سب سے آگے تھا۔۔۔

ایک زبردست مقابلے کے بعد آخر وہ فاتح ٹھہرا تھا ،

سب کی داد وصولتا وہ عنایہ کی طرف بڑھا جو بنا پلک جھپکئے سامنے دیکھ رہی تھی,,


ثمر نے اُسکی نظروں کی تقلید میں اپنی نظریں پھریں تو سامنے سے پوری شان سے ساحر کو آتا پایا ۔


وہ مسکراتا دوڑتا ہوا اُسکی طرف بڑھا اور گلے لگا ،،،

ہیپی برتھ ڈے میرے شہزادے ۔۔۔ زوردار جھپی دیتے اُسنے ثمر کی پُشت پر تھپکی دیتے کہا۔۔۔۔


یہ کیا بھائی خالی خولی وش ؟؟؟ میں تو سمجھا آپ بھول گئے ہو میرا برتھ ڈے اُس سے جُدا ہوتے ثمر نے شکوہ کن لہجے میں کہا ۔۔

میں بھلا بھول سکتا ہوں تیرا برتھ ڈے ساحر نے اُسکے شکوے پر قہقہ لگاتے کہا ۔۔۔۔

عنایہ بڑے انہماک سے دونوں ہاتھ باندھے اُن دونوں کو دیکھ رہی تھی ،،،


پھر کہاں ہے میرا گفٹ ۔۔۔ اُس نے ہاتھ آگے کرتے کہا ،

یہ لو اپنی سپورٹس کار ۔۔ جس کے لئے تُم داجی کو دھمکا کر آئے تھے اُسکی ہتھیلی دیکھ ساحر نے اپنے ہاتھ میں پکڑی چابی اُسے دینے کے لئے بڑھائی ہی تھی کہ کچھ سوچتے واپس پیچھے کر لی ۔۔


دھمکا کر نہیں بھائی ایموشنل بلیک میلنگ کر کے آیا تھا ۔۔ وہ تو بلکل مجھے کوئی بچا سمجھتے ہیں اب تک ۔۔۔ ثمر نے اپنی فرمائش پر اُنکا انکار یاد کرتے کہا ۔۔۔


اچھا آپ چابی دیں نہ اب ۔۔۔ ثمر نے پُر جوش ہوتے کہا

ایک شرط پر دوں گا ۔۔۔ ساحر نے ہاتھ باندھتے خوشی سے چھلکتے اُسکے چہرے کو دیکھتے کہا۔


کیسی شرط ۔۔؟ ثمر نے کچھ اُلجھتے پوچھا ۔۔۔

تُم اپنی برتھڈے حویلی میں مناؤ گے اس بار ۔۔۔ ساحر نے کہتے ہی اُسکے تاثرات جانچنے چاہے جو ایک دم کسی پریشانی میں بدل گئے تھے ۔۔۔


بولو منظور ہے ؟؟؟ اُسے خاموش دیکھ پوچھا

بھائی پر میں نے دوستوں سے وعدہ کیا ہے کہ میں اُن کے ساتھ مناؤ گا برتھ ڈے۔۔۔ اُس نے بجھے بجھے لہجے میں کہا۔


تو اس میں کونسی پریشانی والی بات ہے؟؟ تُم اُن دوستوں کو حویلی میں ہی بلا لو سیمپل ۔۔ ساحر نے اُسے پریشان دیکھ مشورہ دیا۔۔۔


ہاں یہ ٹھیک ہے ،، ثمر کا چہرہ ایک بار پھر کھل اُٹھا تھا ۔۔۔

یہ لو چابی ۔۔۔ ساحر نے مسکراتے چابی اُس کی طرف اچھالی جیسے اُس نے مہارت سے کیچ کر لی ۔۔۔۔۔

تھینک یو سو مچ بھائی ۔۔ یو آر دا بیسٹ ،،، خوشی سے ایک بار پھر اُسکے گلے لگتا گویا ہوا ۔۔


آئی نو ۔۔۔ ساحر نے بھی مُسکراتے کہا اور دونوں ہی مسکرا دیئے ۔۔۔

عنایہ ۔۔۔۔ عنایہ کو گزرتا دیکھ اُس نے پُکارا ۔

عنایہ نے پُکار پر گردن موڑی تو ثمر کو اشارے سے بلاتا پایا ۔۔

وہ دل میں مسکراتی اُس کی طرف بڑھی پر چہرے پر مسکراہٹ کی رمق بھی رقم نہ تھی ۔۔


اسلام و علیکم ۔۔۔ ساحر کو دیکھتے اُس نے سلام کیا ۔۔

وعلیکم اسلام ۔۔۔ ساحر بھی جواب دیتے آس پاس کے نظارے دیکھنے لگا ،،


سُرخ چہرہ اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ مقابل کی مداخلت اُسے سخت زہر لگی ہے,,, وہ بھولا نہیں تھا پچھلے دنوں سے کی گئی حرکتیں ۔۔۔۔


کبھی سوشل اکاؤنٹس پر اُسکے میسیجز تو کبھی نمبر پر میسیجز وہ شدید عاجز آگیا تھا اسکی اس قدر فری ہونے کی کوشش سے ۔۔۔۔۔


عنایہ حسرت بھری نگاہوں سے اُسے دیکھتی اُسکی دید کی پیاس بوجھا رہی تھی جو ظالم بنا ایک نظر بھی اُس پر ڈالنا اپنی شان کی توہین سمجھ رہا تھا ۔۔۔


عنایہ ۔۔۔ وہ اس قدر اُسے دیکھنے میں مگن تھی کہ ثمر کی آواز بھی نہ سن پائی ۔۔۔


عنایہ ۔۔ ثمر نے پھر پُکارا

ہاں ہاں جی ۔۔۔ ہوش میں آتی ہڑبڑاہٹ میں بولی ۔

تُم حویلی چلو گی ہمارے ساتھ میری برتھ ڈے پارٹی ارینج کی ہے داجی اور باقی گھر والوں نے ۔۔


ثمر نے اپنی بات کہتے اب اپنی سماعتيں اُسکے جواب کے لئے بچھا دی ۔۔۔

نہ نہیں ثمر میری طرف سے معزرت مجھے اکیلے اتنی دور جانے کی اجازت نہیں ملے گی ۔۔ عنایہ نے کچھ سوچتے انکار کیا ورنہ اُسکا دل تو ساحر کے ساتھ سات سمندر پار بھی جانے کے لئے تیار تھا ۔۔۔


تو تم اکیلی نہ آنا ، حرم کو لے آنا ساتھ ۔۔ ثمر نے مشورہ دیتے کہا وہ پچھلے دنوں ہی ایک مول میں عنایہ کے ساتھ آئی حرم سے مل چکا تھا جو اُسے بلکل اپنی بہن درخنے کی طرح چھوٹی اور معصوم لگی تھی ۔۔


تُم کیوں فورس کر رہے ہو ثمر ہو سکتا ہے کوئی مجبوری ہو اُسے ۔۔۔ ساحر نے اُسے مشورہ دیتے دیکھ تھوڑی سرد آواز میں کہا ۔۔۔


بھائی جب میرے قریبی دوست ہی نہ ہوئے پارٹی میں تو کیا فائدہ ۔۔ ثمر نے منہ لٹکایا ۔۔


اچھا تُم اُداس نہ ہو ، میں کوشش کروں گی ، عنایہ نے بات بگڑتی دیکھ فوراً کہا ۔۔


کوشش نہیں تُم پکا چل رہی ہو بس۔۔۔۔ اُس نے دو ٹوک انداز میں کہا ۔۔

ٹھیک ہے جو بھی ہو مجھے بتا دینا میں پک کرنے آجاؤ گا ۔ ثمر نے اُسے خاموش دیکھ کر مسکراتِے کہا ۔۔۔

ٹھیک ہے ابھی میں چلتی ہو وہ الوادی کلمات کہتی وہاں سے نکلتی چلی گئی ۔۔۔۔

●︿●●︿●●︿●


وہ دونوں اس وقت حویلی میں موجود تھی انہیں ثمر ہی لے کر آیا تھا,,,


راحیلہ تو سخت خلاف تھی یوں اتنی دور جوان بچی کو بھیجنے پر لیکن عنایہ کی ضد کو دیکھتے سکندر صاحب نے انہیں جانے کی اجازت دے دی تھی,,, لیکن راحیلہ کے کہنے پر حرم نور بھی اسکے ساتھ آئی تھی,,


ثمر نے وقت پر انہیں پک کرلیا تھا کیونکہ اسے خود بھی یونی سے حویلی کا سفر طے کرنا تھا اور اب وہ ان دونوں کو صوفے پر بٹھاتا روم میں کپڑے تبدیل کرنے کی غرض سے گیا تھا ثمر نے عنایہ کو اوپر کمرے میں جانے کیلئے کہا تھا جہاں گھر کی لیڈیز تیار ہورہی تھی مگر اسنے انکار کردیا ,,


تو وہ مسکرا کر اوکے کہتا اوپر کی طرف بڑھ گیا,,,


حویلی کے سبہی لوگ تیاریوں میں مشغول تھے مردان خانے میں تمام مرد کچیری جمائے بیٹھے تھے جبکہ حویلی میں بنے وسیع و عریز آنگن میں برتھ ڈے کی کافی اچھی سجاوٹ کی گئی تھی,,,


دوسرا یہاں کی ہر چیز نفاست سے سیٹ ہوئی تھی جو یہاں کے مکینوں کے ذوق کا منہ بولتا ثبوت پیش کر رہی تھی,,,بلیک اور بلیو گباروں سے پورے آنگن کو سجایا گیا تھا جگہ جگہ رنگ برنگی موم بتیاں لگائی گئی تھی کچھ قوس و قزح کے پھول بھی لڑیوں کے مانند لٹک رہے تھے ,,,


یہ ساری سجاوٹ ساحر کے کہنے پر خصوصی ماہرین کو بلا کر کروائی گئی تھی,,,


جو دیکھنے میں کافی سحر انگیز تھی,,,

عنایہ نے تو چند منٹس میں پورے لان کا جائزہ لے لیا تھا مگر حرم نور کسی چھوٹے بچے کی طرح سر جکھائے بیٹھی تھی ,,,


جیسے اسے کوئی فرق ہی نہ پڑتا ہو آس پاس سے بے نیاز وہ اپنے نازک گلابی ہاتھ گود میں دھرے بیٹھی تھی,,,


عنایہ نے یلو شورٹ کرتی پہ بلو جینس پہنی ہوئی تھی جبکہ حرم نور نے لیمن کلر کی فراک پہ چوڑی دار پجامہ اور اسپے بلو رنگ کا اسکارف پہنا ہوا تھا جو اسکے پرنور چہرے کو مزید نکھار بخش رہا تھا,,


,آہستہ آہستہ گھر کےافراد یہاں آنا شروع ہوچکے تھے نور بانو نے انہیں دیکھتے انکی طرف قدم بڑھائے ساحر پہلے ہی انہیں ثمر کی دوستوں کے بابت بتا چکا تھا اسلیئے وہ بنا چونکے بے حد محبت سے ان دونوں سے ملیں , ,,,,


مگر انکے دل کو عنایہ سے زیادہ اسکی چھوٹی بہن بہائی ,,,

سارے گھر کے افراد جمع ہوگئے تھے لان پوری طرح گھر والوں کی چہچہاہٹ سے جگمگارہا تھا ثمر بھی نک سک سا تیار سفید کرتا پجامہ زیب تن کیئے نیچے آیا,,,


ایک ایک کر کے سبہی لوگ بے حد اپنائیت سے ان دونوں سے ملے تھے حرم کا دل سبکی اتنی محبت پہ کھل اٹھا تھا وہ جو سوچ رہی تھی کہ مما نے زبردستی ہی اسے بور ہونے کیلئے یہاں بھیج دیا مگر یہاں کا خشگوار ماحول دیکھ آہستہ آہستہ اسکا موڈ بھی بحال ہوگیا تھا,,,


ثمر چھری ہاتھ میں تھامے ساحر کا منتظر تھا جو کسی کیس کے سلسلے میں فون پر ہدایت دے رہا تھا,,,سب ہی موجود تھے سوائے اسکے جسکے انتظار میں عنایہ پلکیں بچھائے بیٹھی تھی بے صبری سے اسے ساحر کا انتظار تھا جو دن بہ دن وبال جان بنتا جارہا تھا,,


کچھ ہی دیر کے بعد ساحر سینڑیاں اترتا اسی طرف آتا دکھائی دیا ، يک لخت عنایہ کے چہرے پہ مسکراہٹ رینگ گئی جیسے ہی ساحر کی نظر اسپے گئی تو اسنے ایک ادا سے بال جھٹکے ساحر نے بیزاریت سے نظروں کا زاویہ بدلتے ثمر کی جانب دیکھا,,,


ہیپی برتھ ڈے ٹو یو ............اسنے جیسے ہی کیک پہ چھری چلائی تو تمام موجودہ افراد گانا گنگنانے لگے جن میں سب سے بلند آواز درخنے کی سنائہ دے رہی تھی,,,


ثمر نے سب سے پہلے کیک داجی کو کھلایا اور پھر ایک ایک کر کے سارے گھر والوں کو,,,,


بھائی منہ کھولیں ,,,, ثمر نے آگے بڑھتے ساحر کو کہا جو چوکلیٹ کیک ناپسند کرتا تھا,,,


ارے بچوں تم لوگ کھاؤ مجھے پسند نہیں

درخنے اور ثمر دونوں کو ہی بضد دیکھ اسنے بہانہ تراشا,


,کوئی پیار سے زہر بھی کھلائے تو کھا لینا چاہیئے کب سے ساحر کو حسرت بھری نگلاہ سے دیکھتے پاس آکر گھمبیر لہجے میں کہا,,


اسنے ایک اچٹتی ناگوار سی نگاہ عنایہ کے مسکراتے چہرے پہ ڈالی مگر بدلے میں وہ ڈھینٹوں کی طرح مسکرادی ,,


,یار اسنے کچھ کہنے کیلئے منہ کھولا ہی تھا جب ثمر نے آگے بڑھتے کیک ساحر کے منہ پہ مل دیا,,,


ہاہاہاہا........درخنے کی کھلکھلاہٹ اور ثمر کا قہقہ حویلی کی فضاء میں گونجا,,,


اسکا پورا چہرا کیک میں ڈوب گیا تھا نور بانو کیساتھ آتی حرم یہ منظر دیکھتی منہ پہ ہاتھ رکھ گئی اپنی مسکراہٹ ضبط کرنے کے چکر میں,,,


ساحر نے جیسے ہی کیک صاف کرتے آنکھیں وا کی تو پہلی نظر حجاب کے ہالے میں چمکتے چہرے پہ پڑی چند سیکنڈ وہ مبہوت سا مقابل لڑکی کو دیکھے گیا,,,


ہاہاہاہا...ثمر کا ایک بار پھر زور دار قہقہ گونجا وہ دونوں بہن بھائی پیٹ پکڑے ہنسنے میں مشغول تھے جبکہ عنایہ ساحر کے نظروں کا مرکز حرم نور کو بنتا دیکھ سنجیدہ سی کھڑی تھی,,,


میرے خیال سے آپکو چینج کرلینا چاہیئے ساحر,,,,

وہ اسکا دھیان اپنی جانب کرنے کیلئے مشورہ پیش کر گئی جو مقابل کو شدید ناگوار گزرا ,,,

مگر ثمر کے سامنے وہ تماشہ نہیں لگانا چاہتا تھا ناجانے کیوں یہ لڑکی بنا بات کے اتنا چپکتی تھی,,,


وہ مسکرا کر اپنے بہن بھائ کی جانب دیکھتے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا کیونکہ اسکے کپڑے بھی سارے خراب ہوگئے تھے,,,,,


پیچھے باقی سب اب نور بانو کے کہنے پر ڈائینگ ٹیبل پہ موجود تھے جہاں سربراہی کرسی پر داجی براجمان تھے,, ابھی وہ لوگ کھانا کھا رہے تھے جب عنایہ نے نگاہ بچاتے ہاتھ میں تھاما جوس کا گلاس اپنے کپڑوں پہ انڈیل دیا,,


چونکنے کی اداکاری کرتے اسنے مصنوعی افسوس زدہ تاثرات چہرے پہ سجائے کپڑوں کی طرف دیکھا وہاں موجود تمام لوگوں کی توجہ وہ اپنی حرکت سے اپنی جانب کھینچ گئی تھی,,,,


کوئی بات نہیں بیٹا تم درخنے کے کمرے میں جا کر صاف کرلو پریشان نہ ہو,,,

نور بانو نے اسکا پریشان چہرہ دیکھتے مشورہ پیش .کیا اور ساتھ درخنے کو اشارہ دیا,,,


ارے نیں آپ بس مجھے بتایں کس طرف جانا ہے میں چلی جاؤنگی کھانے سے .اٹھنا اچھی عادت نہیں وہ بے حد شائستگی سے مسکرا کر بولی,,,تو درخنے نے مسکراتے اسے راستہ سمجھایا,,,


درخنے کے بتائے گئے راستے پہ سیدھا چلتے اسنے پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں سب کھانے میں مشغول تھے اور نامحسوس طریقے سے راستہ بدلتی ساحر کے کمرے کی طرف بڑھی,,,

کیونکہ وہ پہلے ہی ساحر کو اس طرف جاتا دیکھ چکی تھی,,,


,وہ آئینے کے سامنے کھڑا شرٹ کے بٹن بند کررہا تھا کہ کمرے کا دروازہ کھولنے کے ساتھ کسی کی قدموں کی چھاپ سن کر اُس نے فوراً گردن موڑی جہاں دروازے پر عنایہ کھڑی دروازہ لوک کر رہی تھی اُسکی اس غیر اخلاقی حرکت پر ساحر کو رج کر غصہ آیا تھا ۔۔۔


شرٹ کے اوپری بٹن بند کرتے وہ شدید تیش میں اُسکی طرف بڑھا ۔۔


ساحر کو تو جیسے جھٹکا سا لگا تھا اُسکی اس دیدہ دلیری سے ۔۔ وہ آنکھوں میں چنگاریاں لئے سرد آنکھوں سے اُسے دیکھ رہا تھا انداز ایسا تھا کہ مقابل کو آنکھوں سے ہی جلا کر راخ کر دے گا ۔۔۔


یہ کیا حرکت ہے عنایہ کِس کی اجازت سے آئی ہو اندر۔۔۔ وہ شدید تیش میں پھنکارا ،،

اُسکی پھنکار پر ایک پل کے لئے عنایہ سہمی تھی پر وہ ایک پر اعتماد بہادر لڑکی تھی اس لیے دوسرے ہی پل خود کو کمپوز کرتی گویا ہوئی ۔۔


مجھے بات کرنی ہے تم سے ساحر ۔۔۔ خود کو مضبوط کرتے اُسکی شہد رنگ آنکھوں میں اپنی سنہری آنکھیں گاڑھے اپنی بات کی تمہید باندھی ۔۔


کہو ۔۔۔۔۔۔ اُسکی اس غیر متوقع بات پر ساحر پہلے تو اُلجھا پھر ضبط سے اُسے دیکھتا بولا۔


مجھے نہیں پتہ مجھے کب کہاں اور کیسے تُم سے محبت ہوگئ ساحر,,,,, میں نہیں رہ پا رہی تُمہارے بغیر میرے دل پر میرا اختیار نہیں رہا ساحر اگر تم مجھے نہ ملے تو میں مر جاؤ گی۔۔۔۔ وہ اُسے دیکھتی ایک ہی سانس میں اپنی بات کہہ گئ ،،،،،


اُسکے اس بیباکی سے کہے گئے اظہار پر ساحر کے جبڑے تنے تھے ، غصے سے ابھرتی رگیں اس بات کی گواہی دے رہی تھی کہ اُسے مقابل کی بات سخت ناگوار گزری ہے وہ دو قدموں کا فاصلے پر عین اُسکے مقابل آ کھڑا ہوا ۔۔۔


تمھیں پتہ ہے عنایہ ابھی تُم ایک مرد کے کمرے میں کھڑی ہو اپنی عزت کو داؤ میں لگائے ، اگر کسی نے تُمہیں یہاں میرے ساتھ دیکھ لیا یہ میری زبان پھسل گئ تو تمہیں اندازہ ہے کہ ثمر اور باقی سب کے سامنے تمھاری یہ سو کولڈ صرف نام کی عزت کا جنازہ نکل جائیگا ،،، اسنے سرد آواز میں اُسے دھمکایا جو آج یہاں اس کا صبر آزمانے کھڑی تھی ۔۔


اُسکے الفاظ عنایہ کو خنجر کی مانند سینے پر پیوست ہوتے محسوس ہوئے وہ نم آنکھوں سے اُسے دیکھ رہی تھی ۔،


اب خود نکلو گی کمرے سے یہ میں دھکے دے کر نکلالوں ۔۔۔ وہ ایک بار پھر تضحیک آمیز لہحے میں کہتا رُخ دوسری طرف موڑ گیا ۔۔۔


اتنی تذلیل پر اگر کوئی اور لڑکی ہوتی تو شاید وہی زمین پر دفن ہو جاتی پر وہ عنایہ تھی جو مقابل کی محبت میں اپنی آنا عزت نفس سب کھو بیٹھی تھی ۔۔۔


لمبی سانس لیتے اُسکی کڑوی باتوں کا زہر پیتے وہ ہاتھ کی پُشت سے بے دردی سے آنسو رگڑتی اُسکی طرف بڑھی اور اُسکی پُشت سے اُسے گہرے میں لیتی کمر پر سر ٹکائے گویا ہوئی ۔۔۔


اگر تم نے میری محبت قبول نہ کی تو میں چیلا چیلا کر سب کو اکھٹا کر دوں گی اور تمھاری عزت پر بھی داغ لگا دوں گی,,,,

بس مجھے غلط نہ سمجھو یہی آخری راستہ بچا ہے میرے پاس ۔۔۔اپنی زبان سے زہر اُگلتی وہ ساحر کے غصے کو مزید ہوا دے گئ تھی ۔۔


ایک ہی جھٹکے سے ساحر نے اُس سے دور ہوتے رخ اُسکی طرف کرتے ایک زوردار تھپڑ اُسکے گال پر رسید کیا تھا,,,,


اس اچانک افتاد کے لئے وہ ہر گز تیار نہ تھی ، اس لئے لڑکھڑاتی زمین بوس ہوئی تھی ،


آنکھوں میں من من بھر پانی لئے وہ چہرے پر ہاتھ رکھے ، دھندلاتی نظروں سے سامنے کھڑے وجود کو دیکھ رہی تھی ، اُسکے بھاری ہاتھ کے تھپڑ نے عنایہ کے دماغ کو ہلا کر رکھ دیا تھا ،


وہ ابھی بھی آنکھوں میں پھوٹتی چنگاریاں لئے اُسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔

اٹھو اور دفعہ ہو جاؤ یہاں سے اور آئندہ تُم مجھے میرے معصوم بھائی کے آس پاس بھی نظر نہ آؤ ورنہ میں سارے لحاظ بھول جاؤ گا ،


اگر تم یہاں سے زندہ اور سلامت جا رہی ہو تو وہ صرف اس لئے کیوں کہ میں عورت ذات کی بہت عزت کرتا ہوں ، شکل گم کرو اپنی ،میں مزید یہ تمھاری منہوس شکل نہیں دیکھنا چاہتا ،


جھٹکے سے اُس کا بازو دبوچے اپنے مقابل کھڑا کرتے شدید نفرت سے گویا ہوا اور اُسے دروازہ کھول باہر کی طرف دھکیلتے ڈز کی آواز کے ساتھ کمرے کا دروازہ بند کیا ،


وہ بھی ہوش میں آتی آس پاس کے ماحول کا خیال کرتے آنسوؤں سے تر چہرا ہاتھ کی پُشت سے صاف کرتے حرم کی تلاش میں آگے بڑھی ،


حرم کے ملتے ہی سب سے الوداعی کلمات ادا کرتے وہ حرم کو لئے ڈرائیور کے ساتھ گھر کے لئے روانہ ہوگئی،

ثمر نے اُسے روکنے کی بہت ریکویسٹ کی تھی اور نور بانو نے بھی بہت مان سے روکنے کی دعوت دی پر وہ طبیعت کا بہانہ بناتی وہاں سے نکل آئی ،


واپسی کے راستے میں حرم گاڑی کی کھڑکی کے پاس بیٹھی معصومیت سے بھاگتے دوڑتے گاؤں کے ہرے بھرے راستے دیکھ رہی تھی ، جبکہ وہ ٹیک لگائے آنکھیں موندیں بیٹھی تھی ،آج اُسکا دل خون کے آنسو رو رہا تھا ، اُسکی سچی محبت تماچے کی صورت اُسکے چہرے پر ماری گئی تھی ،


اُسکا دل دھاڑے مار مار کر رونے کا کر رہا تھا ، اُسے ٹھکرایا گیا تھا ، پر وہ خاموش تھی شاید اُسکی یہ خاموشی کسی انجانے آنے والے طوفان کا اندیشہ تھی ،


°°°°°

وہ آنکھیں حیرت سے پھیلائے اپنی بالکونی کو دیکھ رہی تھی ، جو خوبصورتی سے پھولوں کی لڑیوں سے سجائے ایک الگ ہی منظر پیش کر رہا تھا ,,,


اُن پھولوں کو پنجرے کی شکل دی گئی تھی اور ساتھ ہی بیچ میں پیارا سا اشرفی کے لئے جھولا بھی رکھا ہوا تھا ، حرم اور ساحر کے جاتے ہی نور بانو نے اشرفی کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ حرم اور ساحر کے کمرے کی بالکونی میں ہی اُسکا چھوٹا سا پیارا سا گھر بنوا دیا تھا ،


اب اشرفی کو کوئی قید نہیں کر سکتا تھا کیوں کہ اُس پھولوں سے بنے پنجرے کا کوئی دروازہ نہیں بنایا گیا اشرفی جب چاہے جہاں چاہے جا سکتا تھا ،


کیسا لگا میرا نیا گھر ؟؟؟ حرم کو بالکونی کا جائزہ لیتا دیکھ اشرفی نے اپنے جھولے پر بیٹھتے پوچھا ۔۔۔


دیکھنا وہ تمہارا سسا ساحر جی مجھ سے جل جل کر کالا ہو جائیگا ، اشرفی نے خیالوں میں ہی ساحر کو سوچتے کہا ،


تُمہیں تمیز کس دن آئیگی اشرفی کتنی بار کہا ہے کہ ساحر جی کے خلاف نہ بولا کرو پھر بھی تُم باز نہیں آتے ، حرم اپنے سر تاج کے خلاف سن کر جیسے پھبر گئ تھی اس لئے اُنگلی سے اُسے تنمبی کرتے تیز لہجے میں بولی غصے کی زیادتی سے اُسکی چھوٹی سی ناک پھولی ہوئی اور سُرخ ہوگئ تھی ،۔


پتہ نہیں کیا گھول کر پلا دیا ہے تُمہیں اُس بنا آواز کے ریڈیو نے کہ تُم اپنے سوہنے پیارے راج دلارے سب کی آنکھوں کے تارے اشرفی پر غصہ کر رہی ہو ، ہائے میں یہ دن دیکھنے سے پہلے مر کیوں نہیں گیا ، اشرفی نے فل ڈرامائی انداز میں کہا ۔


اُسکے لفظ مرنے پر حرم نے تڑپ کر اُسکی طرف دیکھا تھا ، جو سر جھکائے رونے کا ڈراما کر رہا تھا ۔


تو ابھی کونسی دیر ہوئی ہے اب مر جاؤ ، اپنے پیچھے سے آتی مردانا آواز پر حرم نے فوراً گردن موڑ کر اپنے پیچھے دیکھا تھا جہاں ساحر بالکونی کے دروازے سے ٹیک لگائے ہاتھ باندھے اُسے ہی دیکھ رہا تھا ،


وہ مسکراتا حرم کو دیکھتے اُسکے مقابل ہی کھڑا ہوگیا ،

اشرفی نے بھی مانوس سی آواز پر سر اٹھاتے سامنے دیکھ تو ساحر کو حرم کے ساتھ کھڑا دیکھ جل کر رھ گیا تھا ،


اور سونے پر سہاگا ساحر کا ہاتھ حرم کے کندھے پر دیکھ اور حرم کو اُسکے حصار میں قید دیکھ آج تو اشرفی کا خون اندر تک جل کر رھ گیا تھا ، وہ آنکھوں کو سفید کرتا مانو آنکھوں میں چنگریاں لئے مقابل کو دیکھ رہا تھا ، جو اُسکی حالت سے محفوظ ہوتا مسکرا رہا تھا ،


سنو ہم ذرا گاؤں کی سیر کے لئے جا رہے ہیں تو اُمید ہے تُم اپنے نئے گھر میں انجواۓ کرو گے ، ساحر اُسے شدید غصے میں دیکھ جلا دینی والی مسکراہٹ چہرے پر سجائے گویا ہوا ،


دیکھ رہی ہو کیسے پکی عورتوں کی طرح مجھے مرنے کی بد دعائیں دے رہا ہے تمہارا نیک نامی شوہر ، اشرفی نے حرم کو دیکھتے باآواز بلند کہا ، اُسکی بات پر ساحر کی ایک دم مسکراہٹ سمٹی تھی ،


حرم کیا کہتی وہ تو خاموشی سے ساحر کے حصار میں دونوں کی زبانی جنگ ملاحظہ کر رہی تھی ،

اور تُم اب اکیلے کہیں نہیں لے کر جاؤ گے اسے میں بھی جاؤ گا ساتھ ، اشرفی نے اُن دونوں کو خاموش خود تکتا دیکھ سینے چوڑا کرتے کہا ۔۔


اشرفی صاحب ہم سیر کے لئے چڑیا گھر نہیں جا رہے جو تُم جیسے آلتو پالتو کو ساتھ لے کر جائیں ، ساحر نے اُسے بھی جانے کے لئے تیار دیکھ دانت پیستے کہا ،


میں التو پالتو ؟؟؟ اشرفی نے ایک پر سینے پر رکھتے حیرت سے کہا ، یہ عزت ہے میری ۔۔۔ ایک بار پھر اُسکا ڈراما شروع ہوا تھا، ساحر نے افسوس سے گردن نفی میں ہلائی ،

جاؤ نہیں جا رہا میں ، گردن موڑتے اُس نے اُنہیں جانے کا کہتے ساتھ ناراضگی کا بھی اعلان کیا ،


ساحر جی پلیز لے چلیں نہ اشرفی کو بھی ، حرم نے اُسے اُداس دیکھ ساحر کو التجائے نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ،


پلیز ،، میری خاطر ۔۔۔۔ حرم نے آنکھیں جھپکتے معصومیت سے کہا اور مقابل کو نئے امتحان میں ڈالا ،


ٹھیک ہے پر یہ شیطان کا چیلا تمھارے قریب بھی نہیں بھٹکے کا اگر اس نے جانا ہے تو میرے کندھے پر بیٹھے گا ورنہ گھر ہی اچھا ہے یہ ،


ساحر نے لمبی سانس خارج کرتے مجبوری میں اُسے ساتھ لے جانے کا فیصلہ سناتے کہا ،

منظور ہے ،، اشرفی کے بولنے سے پہلے ہی حرم بول اٹھی،

اشرفی بھی چار و ناچار اُڑ کر ساحر کے کندھے پر آبیٹھا اب جو بھی تھا اُس نے جانا ضرور تھا وہ کسی صورت اب ساحر کو حرم کے ساتھ اکیلا نہیں چھوڑ سکتا تھا ،


اُسکے معصوم ذہن کے مطابق ساحر ، حرم کو اُسکے خلاف کر رہا تھا ، اب اُس نے بھی ساحر کو اُسی کی طرح ہرانے کی سوچی تھی ،

حرم مسکراتی نظر اُن دونوں پر ڈالتی بالکونی سے نکلتی کمرے کی طرف بڑھ گئی ،


اشرفی بھی اُسکے جانے کی تسلی کرتا اپنے ناخن ساحر کے کندھے میں چبھا گیا ،


سیس۔۔۔۔ ساحر نے چبھن کی تکلیف سے ضبط سے ہونٹ بھینچتے آنکھیں مندی تھی اور دوسرے ہی پل کھلی تھی ، جو اب نارمل تاثر دے رہی تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو ۔۔۔۔


کُچھ بھی کر لو بھلے آج مجھے گنجا بھی کر دو پھر بھی اپنی بیوی کے قریب بھٹکنے بھی نہیں دوں گا ، دل میں ہی سوچتے وہ اُس سے مخاطب تھا ۔۔

چند لمحے قبل ہی انکی فلائیٹ لینڈ ہوئی تھی آخر کار وہ پاکستان کی سر زمین پہ قدم رکھ چکے تھے دل تو اسکا تیزی سے دھڑک رہا تھا اپنے وطن لوٹنے پر ، لیکن ایک ڈر تھا کہ کہیں پولیس کے حوالے نہ ہوجائے کہیں ساحر دیکھتے ہی اسکے وجود کے چتھڑے نہ اڑادے کیونکہ وہ خود گواہ تھی ثمر کے لیئے ساحر کی جنونیت سے وہ انتہا کی حد تک اپنے بہن بھائیوں کو چاہتا تھا,,,


عنایہ اپنا ہولیا بلکل تبدیل کرچکی تھی سر پہ عربیوں کے جیسے لال اور سفید رنگ کے امتزاج کا رومال کافی نفاست سے سیٹ ہوا تھا جس میں سے شولڈر کٹ گھنگرالے بھورے بال نظر آرہے تھے چہرے کو مہارت سے میکاپ کی مدد سے بلکل تبدیل کردیا گیا تھا کہ کوئی آسانی سے پہچان نہ سکے,,,


آدھے چہرے کو تو اسنے رومال کی مدد سے نقاب میں ڈھکا ہوا تھا محض آنکھیں ہی دکھ رہی تھی جس میں پرپل رنگ کے لینز اور سیاہ گھنی پلکوں کو مسکارے کی مدد سے مزید گہرہ کیا گیا تھا سیاہ مردوں جیسی شلوار قمیض کی آستینیں کہنی تک فالڈ کیئے وہ کیب کی تلاش میں آگے بڑھی,,,


اور اسکے ہمقدم شیریں اپنے مخصوص خواجہ سرہ کے روپ میں اسکے ساتھ ہم قدم ہوا,,,


وہ جان بوجھ کر نظر اسکے وجود پہ نہیں ڈال رہا تھا جو بے نیاز سی آگے بڑھتی جارہی تھی,,,,


عنایہ کا پاسپورٹ بھی سنایہ اپنی سورس کی مدد سے تبدیل کروا چکی تھی ورنہ اسے پکڑنا بہت آسان ہوتا اور عادل نے ویسے بھی تمام فلائیٹس بس اسٹوپ اسٹیشنز پہ خصوصی عنایہ کی تصویر تقسیم کی ہوئی تھی اور یہ انفورمیشن سنایہ کے پاس موجود تھی اسلیئے اسنے پہلے ہی اپنے طور تمام معاملات کو مد نظر رکھتے اسے ایک نئ تباہی کیلئے بھیجا تھا,,,


وہ دھڑکتے دل کے ساتھ آگے بڑھتی کیب میں پچھلی سیٹ پر براجمان ہوئی ساتھ شیریں بھی اسکے برابر بیٹھی,,,ڈرائیور بھی سامان ڈگی میں رکھتا ڈرائیونگ سیٹ سمبھال گیا,,,


گاڑی ایک ہوٹل کے سامنے رکی وہ گاڑی سے اترتی نقاب کو درست کرتے اندر بڑھی پیچھے شیریں نے ڈگی سے سامان نکالتے ڈرائیور کو پیسے دیئے اور وہ بھی اندر کی جانب بڑھا,,,


شیریں نے روم اپنے نام پر بک کروایا تھا وہ لوگ پوری احتیاط سے کام کر رہے تھے,,,


ایک روم چاہیئے یا دو؟؟ریزیپشنسٹ نے کمپیوٹر پہ کچھ ٹائیپ کرتے موؤدب انداز میں پوچھا عنایہ بار بار اپنی پلکیں جھپک رہی تھی کیونکہ سفر کے دوران اسکی آنکھ میں مٹی جا چکی تھی جسکی بدولت آنکھوں میں لگا لینز بری طرح چھب رہا تھا,,,


وہ نظریں جکھائے بار بار ہاتھ کی مدد سے آنسوں صاف کر رہی تھی مگر ریسیپشنسٹ کو کسی گڑ بڑ کا احساس ہوا,,,


دو روم چاہیئے جواب پیچھے سے آتے شیریں نے دیا ,,,


آر یو اوکے میم چابی اسکی طرف بڑہاتے ریسیپشنسٹ نے کچھ مشکوک انداز میں پوچھا,,,


یس وہ یک لفظی جواب دیتی چابی تھامے شیریں سے اپنا بیگ لیتی لفٹ کی طرف بڑھ گئی,,,


وہ بھی مطلوبہ کمرے کی چابی لیتا آگے بڑھ گیا, ,,,


کمرے میں آتے ہی اسنے سب سے پہلے لینز اتارا تھا جسکی وجہ سے آنکھیں خاصی سرخ ہوگئی تھی,,,اور فریش ہونے کی غرض سے باتھروم کی طرف بڑھ گئی,,,


°°°°°°°°°°

وہ پشاور کے مشہور میوزیم کی سیر کے بعد اب گاڑی میں سوار ہوئے ، کسی قدرتی سیاہی مقام کی طرف بڑھے تھے ، اشرفی کو تو مانو جیسے آج ساحر کو تپانے کا جنون سوار تھا وہ حرم کی نظروں سے بچتا بار بار اپنے لمبے ناخن اُسکے کندھے میں گڑھ رہا تھا ،


پر ساحر بھی بہت ہمت اور حوصلے سے اُسکے دیئے زخم سھ رہا تھا دونوں ہی حرم کو یہ ثابت کرنے میں تلے ہوئے تھے کہ اُن دونوں کو ایک دوسرے سے کوئی مسلا ہی نہیں ۔۔


حرم بھی اُن دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ خوش دیکھ انجواۓ کر رہی تھی ۔۔۔۔۔


ساحر نے ایک مسکراتی نظر حجاب کے ہالے میں چمکتے اُس کے چہرے پر ڈالتے گاڑی روکی تھی ،


اپنی سائڈ سے گاڑی سے نکلتا وہ اُسکی سائڈ بڑھا تھا ۔ اور اُسے سہارا دینے کے لئے اپنا ہاتھ بڑھایا ، وہ مسکرا کے ہاتھ تھامتے گاڑی سے نکلی ، ساحر نے براؤن شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی جبکہ اشرفی صاحب پوری شان سے اُسکے دائیں کندھے شریف پر براجمان تھے ۔۔۔


حرم نے رائل بلو گھٹنوں تک آتی فراک پر ہم رنگ پجاما پہنا ہوا تھا ہم رنگ دوپٹے سے سر پر حجاب کئے ، اپنے وجود کو سیاہ چادر میں چھپائے ساحر کے ساتھ ہم قدم ہوتی سڑک کے پار اُس دیور کے پاس پہنچی تھی ۔۔۔


وہ بنا پلک جھپکائے دیوار کے اُس پار کا خوبصورت منظر دیکھ رہی تھی جہاں نیچے بڑے سے دائرے میں خوبصورت سا تالاب بنا ہوا تھا اور اُسکے کناروں میں ہر قسم کے رنگ برنگی پھول تھے ، اور اُن کناروں سے آگے بڑے بڑے درخت لگے تھے یہ پیارا سا تالاب دراصل جنگل کے بیچو بیچ تھا ، اُسکی خوبصورتی بلکل ایک جنت سا منظر پیش کر رہی تھی اور ہوا میں آتی تازہ خوشبو حرم نے اُس خوشبو کو محسوس کرنے کے لئے آنکھیں موندے ایک لمبی سانس لی تھی ۔ وہ مہوبت سا خوشی سے چھلکتے اُسکے خوبصورت مکھڑے کا طواف کر رہا تھا جو سب بھلائے منظر کے سحر میں جکڑی تھی ،


تمھیں پتہ ہے مجھے بچپن سے ہی یہ جگہ بہت پسند ہے ۔ دیوار سے ٹیک لگائے ہاتھ باندھے کھڑا وہ اُسے دیکھتا گویا ہوا وہ اُسکے چہرے سے آج نظر ہی نہیں ہٹا پا رہا تھا ۔۔


یہ بھی کوئی جگہ ہے پسند کرنے کی مجھے تو وہ میوزم ہی اچھا لگا ، ساحر کی مخالفت کرتا وہ اپنی پتلی آواز میں گویا ہوا ،


اُسکی بات پر ساحر نے ایک لمبی سانس خارج کی تھی اور ضبط سے اپنے ہونٹ بھینچے تھے، وہ کیسے بھول گیا تھا کہ یہ صاحب بھی کباب میں ہڈی بنا اُن کے ساتھ تھا ۔


ہاں اور تُم بھی اُسے میوزم میں رکھے جانے کے قابل ہو ، بابا قائد کے زمانے کے بد تمیز اور بد اخلاق کھوتے ، ساحر نے بھی ضبط توڑتے دو بدو کہا ۔


ایک بار پھر اُنکی جنگ چھڑتے دیکھ ، حرم نے اپنا ماتھا پیٹا تھا ،


ہا ہا ہا ۔۔۔ پشاوری ککڑ ،،، اشرفی نے قہقہ لگاتے کہا ۔

ساحر نے اُسکی بکواس پر لہو چھلکاتی آنکھوں سے اپنے دائیں کندھے پر بیٹھے اس شیطان کے چیلے کی طرف دیکھا تھا ، اُسکے دل نے شدت سے خواہش کی تھی کہ کاش وہ اس دیوار سے ہی اسے نیچے پھینک دے پر مسلا یہ تھا کہ وہ ڈھیٹ پھر اڑتا پہنچ آتا ۔۔۔


تمھیں پسند آئی یہ جگہ ، اشرفی کو نظرانداز کرتا وہ حرم کو اپنے حصار میں لیتے بولا ،

اتنی تذلیل پر اشرفی نے ایک بار پھر اُسکے کندھے پر ناخن گاڑھے تھے جس کا ساحر پر کک بھی اثر نہیں ہوا ۔


وہ حرم کو حصار میں لئے دیوار کے پار کا منظر دیکھ رہا تھا ۔۔


بہت پیاری جگہ ہے یہ ، آپ کب کب آتے ہیں یہاں اب جب بھی دوبارہ آئے تو مجھے بھی لے کر آنا ، حرم نے سوال کرتے آخر میں فرمائشی انداز میں کہا ۔۔۔


پہلے آتا تھا یہاں جب جب سکون کی طلب ہوتی تھی میں یہاں آجاتا تھا اور اس خوبصورت منظر کو دیکھتے ہی مجھے اپنے اندر سکون اُترتا محسوس ہوتا تھا ، وہ آسودگی سے مسکراتا اُسے بتا رہا تھا ۔


پھر اب جب آپکو سکون چاہئے ہو تو کہا جاتے ہیں یہاں نہیں آتے تو ؟ حرم نے نہ سمجھی سے پوچھا ۔۔


اُسکے اس معصوم سوال سے ساحر کے چہرے پر نرم سی مسکراہٹ نے احاطہ کیا تھا ۔۔


پہلے مجھے اس خوبصورت اور دلفریب منظر کو دیکھ کر سکون ملتا تھا پر اب جب بھی مجھے سکون چاہئے ہوتا ہے میں تُمہیں دیکھ لیتا ہوں اور تُمہیں دیکھتے ہی مجھے اپنی روح تک سکون اُترتا محسوس ہوتا ہے ، وہ اُسکے کان کے قریب اپنے لب کرتا گھمبیر آواز میں بولا ۔۔۔


حرم نے کچھ ڈرتے اُسکے حصار سے نکلنا چاہا پر وہ اُسکی کوشش ناکام کرتا اُسے اپنے حصار میں لئے سامنے کا منظر دیکھنے لگا ۔۔


ایڈا تو سالار سکندر ،، اُنکی باتوں سے بیزار ہوتے اشرفی نے ہلکی آواز میں ہانک لگائ آواز اتنی تھی کہ صرف ساحر کے کانوں تک ہی پہنچ سکی تھی ۔۔۔


°°°°°°°°°

وہ اس وقت ایک پارک میں موجود تھا جہاں ایس ایس جی کمانڈو ملاہم حیدر علی پہلے سے ہی اسکا منتظر آرام سے اسٹول کی پشت سے سرٹکائے آنکھیں موندے بیٹھا تھا,,,


ہےے.. ہیرو سو سوری آ ایم ویری لیٹ,,,عادل نے آتے اسکے کندھے پہ ہاتھ مارتے کہا تو ملاہم ہوش میں آتے سیدھا ہوکر بیٹھا,,,


موسم خاصا خوشگوار تھا اسلام آباد کے پارک میں بھی کافی گہما گہمی لگی تھی بچوں کے شور اور بھاگنے دوڑنے کی آوازیں چاروں اور پھیلی ہوئی تھی,,,,


اٹس اوکے آپ بڑے لوگ ہیں ,,,ملاہم نے بھی مسکراتے کچھ شرارتاً کہا,,,


عادل کا قہقہ ساختہ ہی گونجا,,,,


کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد وہ اصل مدعے پہ آئے,,,


کیا انفورمیشن ہے مجھے تفصیل سے بتاؤ تھوڑا ساحر نے بس سرسری سا ہی ذکر کیا تھا اس کیس کے بابت,,,ملاہم نے اسکی جانب دیکھتے سوال پوچھا,,,


عادل نے اب تک کی ساری موجودہ معلومات اسکے گوش گزاری,,,,


ابھی خاص معلومات یہ ہے کہ جسکے پاس عنایہ نے پناہ لی ہے وہ کوئی عام ہستی نہیں ہے امریکہ کے نامور بزنس فہرست میں شامل ہے,,,ایک ایسی مغرور عورت ہے جو دنیا کو اپنی جوتی کی نوک پہ رکھتی ہے ، لیکن بزنس میں عبور حاصل ہے,,,


عادل نے ابکی بار تفصیل سے اسے عنایہ کیساتھ سنایہ کی بھی معلومات سے آگاہ کیا ,,,,


ہممم فیملی میں کون کون ہے؟؟

ملاہم نے کچھ سوچتے دوسرا سوال داغا,,,


کچھ خاص معلومات نہیں صرف ماں کے نام کے علاوہ کچھ نہیں پتہ لگ سکا ہے,,,لیکن ایک بات مجھے کچھ کھٹک سی رہی ہے,,,


عادل نے الجھتے ہوئے دماغ میں چلتے خدشات کا ذکر چھیڑا,,,


وہ کیا,,مقابل نے بھی سوالیہ نظریں اسکی جانب اٹھائی,,وہ یہ کہ سنایہ کے نام یا بزنس میں کہیں بھی باپ کا نام درج نہیں ہے ,,,,


ہر جگہ سنایہ وکٹوریہ نام درج ہے یہ معلومات مجھے سوشل ویب سائیڈز سے فراہم ہوئی ہے جو مجھے کچھ عجیب لگی کیونکہ عموماً باپ کا نام آتا ہے,,,


اسنے ابکی بار تازی معلومات سے بھی اسے آگاہ کیا یہ بات اسنے اب تک ساحر کو بھی نہیں بتائی تھی,,


نہیں اگر وہ فورن کنٹری سے تعلق رکھتی ہے تو یہ کوئی بڑی بات نہیں لیکن اگر پاکستان سے کوئی تعلق ہے تو یہ ہمیں کیس میں مدد کرسکتی ہے کیونکہ سنایہ ایک ایسا کومن نیم ہے جو نون مسلم لوگ بھی اپنے بچوں کا رکھتے ہیں اور مسلم بھی اسلیئے اس بات کی معلومات نکالنا ضروری ہے کہ سنایہ کا آبائی گھر کہاں ہے,,


اگر اسکے آباؤاجداد کے بابت ہمیں معلومات حاصل ہوجائے تو سنایہ وکٹوریہ تک پہنچنا کوئی مشکل بات نہیں,, ابکی بار ملاہم نے اسکی جانب دیکھتے کہا,,,سہی میں کوشش کرونگا تمام معلومات تک رسائی حاصل کرسکوں عادل نے تائید میں گردن ہلاتے جواب دیا,,,


اور بتاؤ سنا ہے شادی وادی کرلی ہے ہمارے کمانڈو نے,,,کافی دیر کیس کے بابت سنجیدگی سے بات کرنے کے بات عادل نے شرارتاً اسکی جانب دیکھتے سوال کیا,,,


شادی نہیں اپنی موت کو دعوت دی ہے بھائی میں نے شیطانوں کی سردار ہے آپکی بھابی صاحبہ,,ملاہم نے آج کی ماہی کی حرکت یاد کرتے جلتے ہوئے جواب دیا جسکے نتیجے میں عادل کا جاندار قہقہ پارک کی فضا میں گونجا ,,,


ہنس بیٹا ہنس تیرے بھی دن آئینگے تجھے بھی ایک ایسی ہی خونخوار شیرنی بیوی کے روپ میں اللہ دے گا میری دعا ہے یہ,,,


اسنے اسے ہنستا دیکھ جلتے کٹتے بدعاؤں سے نوازہ,,,یک لخت عادل کی نگاہوں کے سامنے چیختی چلاتی معصومیت سے بھرائی آنکھوں سے دیکھتی درخنے کا حسین چہرہ لہرایا,,,


ہونٹ بے ساختہ ہی متبسم مسکرا اٹھے,,,


ملاہم غور سے اسکے بدلتے تاثرات دیکھ رہا تھا,,کیا بات ہے لگتا ہے میرے مسکین دوست کو بھی بھابی مل گئی خیالوں میں کھو گئے ہیں جناب,,,


اسنے درخنے کے خیالوں میں کھوئے عادل کے آگے چٹکی بجاتے پھر ہوا میں تیر چھوڑا جو ٹکا کے جگہ پہ لگا,,,


ایسا کچھ نہیں ہےمجھے لیٹ ہورہا ہے ,, وہ اسکی نظروں سے پزل ہوتے جلدی سے کہتا اپنا سیل فون اٹھائے آگے بڑھنے لگا,,,


ارے ہم اڑتی چڑیا کے پر گن لیتے ہیں چھپے رستم,,


پیچھے سے ملاہم نے پھر ہانک لگائی وہ نفی میں گردن ہلاتے وہاں سے نکلتا چلا گیا,,,

پتہ نہیں کیوں دل بے اختیار سا دھڑک رہا تھا ناجانے کیوں اسکا چہرا نظروں کے سامنے لہرایا یہی سب سوچتے اپنی حالت سے بے خبر وہ ایک لمبا سانس خارج کرتے گاڑی اسٹارٹ کر گیا,,,,


°°°°°°°°

ساحر حرم نور کو تقریباً کافی حسین مناظر کی سیر کروا چکا تھا اب بھی وہ تیزی سے ڈرائیونگ کرتا گھر کی جانب گاڑی ڈال چکا تھا


حرم کا تو مانو دل ہی نہیں بھر رہا تھا پشاور کے حسین منظر سے یہاں سیرو تفریح کرتے وہ بہت لطف اندوز ہوئی تھی تو اب کافی تھک چکی تھی جسکی وجہ سے آنکھیں موندیں سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی,,,,


اشرفی ہنوز ساحر کے کندھے پہ چڑھ کر بیٹھا تھا اور اسے اب وہاں جلن محسوس ہورہی تھی کیونکہ پورے سفر میں وہ بار بار زرا زرا سی بات پہ اپنے ناخن چھبوتا رہا تھا,,,,


ساحر کی نظر بار بار بھٹک کر حرم کے چہرے پہ جارہی تھی وہ مصروف سا ڈرائیونگ کرتا گاہے بگاہے نظر اسکے کھلتے چہرے پہ بھی ڈال رہا تھا جو اشرفی کو سخت ناگوار گزر رہا تھا جیسے ساحر نہیں وہ خود حرم کا شوہر ہو,,,


کم از کم ساحر کو تو اس سے سوتنو والی ہہ فیلنگ آتی تھی ,,,,


ایک بار پھر جب ساحر نے نگاہ حرم کی طرف اٹھائی,,,

اوئے انسان دا پتر بن کھوتے دا نہیں تو باہر پھینک دونگا اب میں اپنی گردن پہ ایک بار پھر چھبن محسوس کرتے کھاجانے والے اندازمیں کہا گیا,,,


کم عقل آدمی انسان ہوتا تو انسان کا پتر بنتا نہ ,,,اشرفی نے بھی برجستہ جواب دیتے اسکی عقل پہ ماتم کیا,,,


ساحر محض دانت پیس کر رہ گیا اگر وہ شروع ہوتا تو پھر اشرفی چلا چلا کر حرم کو اٹھا دیتا جو وہ بلکل نہیں چاہتا تھا اسلیئے فلحاک خاموشی اختیار کرنا ہی بہتر جانا,,


کچھ دور بڑھتے اچانک گاڑی خود ہی بند ہوگئی,,, اسے کیا ہوا اسنے خود سے کہتے ایک بار پھر چابی گھماتے گاڑی اسٹارٹ کرنی چاہی مگر بے سود گرررررررر کے آواز کیساتھ گاڑی پھر بند ہوگئ ,,,,


لگتا ہے پیٹرول ختم وہ خود سے ہمکلام ہوتے اشرفی کو ڈیش بورڈ پہ بٹھاتے باہر نکلا اشرفی پورے انہماک سے یہ سب دیکھ رہا تھا یہ اسکی شرافت ہی تھی جو وہ بنا سوال کیئے چپ چاپ اسکے کندھے کی جان چھوڑ گیا تھا صرف اسلیئے کیونکہ وہ اکیلا باہر نکلا تھا اگر حرم ہوتی تو وہ ایکشن لیتے اچھا بھی لگتا,,,

°°°°°°

اُس نے گاڑی سے نکلتے سب سے پہلے گاڑی کا پیٹرول چیک کیا تھا جو کہ خاصی مقدار میں موجود تھا ۔


اُس نے کچھ سوچتے گاڑی کا بونٹ اوپر کرتے ایک نظر سوئ حرم پر اور ڈیش بورڈ پر بیٹھے اشرفی کی پُشت پر ڈالتے مسلا چیک کرنا چاہا پر اُسے کک سمجھ نہ آیا ، پر دفعتاً ہی اُسکے قریب ہی ایک خوبصورت گاڑی آ روکی تھی اور اُس گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ سے سیاہ کرتے میں کندھے پر کریمی کلر کی شال ڈالے کوئی ساحر کا ہی ہم عمر مرد نکلتا اُس تک پہنچا تھا ۔۔۔


ساحر لالا کیا ہوا ہے گاڑی کو ؟ اُس نے نوجوان نے ساحر کے مقابل آتے پوچھا ۔۔


ساحر نے آواز پر گردن گھماتے دیکھا تو سامنے ہی اپنے ماموں کے بیٹے کو کھڑا دیکھ وہ کچھ پُر سکون ہوا تھا پر اُسکے دائیں کندھے پر ہری رنگ کی طوطی کو بیٹھے دیکھ اُسکے لب مسکرائے تھے ۔۔


کُچھ نہیں یار پتہ نہیں چلتے چلتے بند کیوں ہو گئی ہے ، ساحر نے اُس سے گلے ملتے کچھ جھنجلاتے کہا ۔۔


رکو میں دیکھتا ہوں ، وہ سنتا بونٹ پر جھکا اب مکمل جائزہ لینے لگا ۔۔


اوہ ہو لالا اتنا سا تو مسلا ہے بس تار ھٹ گئ ہے وہ لگانی ہے ، میں لگا لیتا ہوں ویسے مجھے سمجھ نہیں آیا جب آپ ایک انسان کا گردہ دوسرے کو لگا سکتے ہو تو یہ تار لگانا کیوں مشکل ہے آپ کے لئے ، حارث نے تار جوڑتے، ہاتھ جھاڑ کر گاڑی کا بونٹ بند کرتے خاصی حیرت کا اظہار کیا۔۔۔


میں نے ابھی ہی بونٹ کھولا تھا ، تُم نہ آتے تو میں سہی کر ہی لیتا اپنی خجل مٹاتا بولا ۔

جس پر حارث اثبات میں سر ہلا گیا ۔۔


یہ طوطی ابھی تک ہے تمھارے پاس ؟؟ ساحر نے اُسکے کندھے پر بیٹھی طوطی کی طرف اشارہ کرتے کہا ۔


جی لالا ۔۔ پر یہ صرف پشتو سمجھتی ہے حارث نے اپنی دو انگلیوں پر اُس طوطی کو اٹھاتے ساحر کی طرف بڑھائ جیسے ساحر اُس کی انگلیوں سے اپنے بازو پر اُٹھا لیا ۔۔۔


حرم نے ابھی نیند سے جاگتے اپنی مندی مندی آنکھیں کھولی تھی ، اُس نے اپنی ساتھ ڈرائیونگ سیٹ خالی دیکھ ساحر کی تلاش میں نظریں گھمائیں جو سامنے ہی کسی سے محو گفتگو تھا ۔۔


یہ کون ہے اشرفی ؟ اُس نے ڈیش بورڈ پر بیٹھے اشرفی سے پوچھا جس کی ساحر کی طرف پُشت تھی ۔۔


اشرفی نے گردن موڑ کر دیکھا تو ساحر کے بازو پر بیٹھی اُس حسینہ کو دیکھتا رہ گیا ۔۔


وہ بنا پلک جھپکتے سامنے دیکھ رہا تھا ، جہاں اب ساحر اُس طوطی کو دوبارہ حارث کو دیتا الوداع کہتا اپنی گاڑی کی طرف بڑھ رہا تھا ۔۔


یہ یہ کون ہے ؟ اشرفی نے حرم کو دیکھتے کچھ ہکلاتے پوچھا ۔۔

مجھے کیا پتہ میں خود تُم سے پوچھ رہی ہوں ، حرم نے مشکوک نظروں سے اُسے دیکھتے کہا ۔۔

کیا ہوا تھا ساحر ؟؟؟ ساحر کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے ہی حرم نے ہے چینی سے پوچھا ۔۔

کُچھ نہیں بس گاڑی میں تھوڑا مسلا ہوگیا تھا اب ٹھیک ہے ساحر اُسے مختصر بتاتا گاڑی سٹارٹ کر گیا ۔


وہ جان بوجھ کر اشرفی کی طرف دیکھنے سے گریز کر رہا تھا ،


حرم بھی پُر سکون ہوتی سیٹ سے اپنا سر ٹکاتے آنکھیں موند گئ۔۔۔


اشرفی خاموش تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے اُس کے الفاظ ہی کہیں جا سوئے ہیں ، اُسکی یہی خاموشی ساحر کو خٹک رہی تھی۔۔

●︿●●︿●●︿●


وہ سیدھا اپنا منہ چھپائے کمرے میں بند ہوئی پیچھے راحیلہ اسکی پشت ہی تکتی رہ گئی سارے راستے حرم نے بھی توجہ نہیں دی تھی,,,


کیونکہ جب عنایہ غصے میں ہوتی تھی تو وہ کسی کا لحاظ نہیں کرتی تھی یہاں تک کہ وہ اپنی ماں کو بھی نہیں بخشتی تھی,,,


حرم سارے راستے اپنی نیند پوری کرتے ہوئے آئی تھی ,,,اسے کیا ہوا ہے....راحیلہ نے عنایہ کا ایسا رویہ دیکھ اباسی لیتی حرم سے سوال کیا,,,پتہ نہیں مما بس اچانک وہاں سے لے آئی جبکہ بہت مزہ بھی آرہا تھا,,,وہ منہ بسورتے بولی ,,,


اچھا بیٹا وہاں تو آپ جانے کیلئے راضی نہیں تھی اور اب آنے کا دل نہیں تھا,,,پیچھے سے آتے سکندر صاحب نے حرم کو اپنے حصار میں لیتے کہا,,,


ہاہاہا وہ مزید انسے چپکتی کھکھلا کر ہنستی اپنے چھوٹے چھوٹے موتیوں جیسے دانتوں کی نمائش کر گئی,, ,


آااااااہ ساحر شہروز خان چھوڑونگی نہیں میں تمہیں اس تھپڑ کا بدلہ تو تم سود سمیت دوگے مجھے,,,کمرے کا سامان تہس نہس کرتی وہ ظالم شیرنی کی طرح گرائی آنکھیں اور رخسار خون چھلکانے کیلئے تیار تھے ,,,


میری محبت کو شاید تم نے بہت کمزور سمجھ لیا ہے ساحر اپنی انا تک بھلائی تھی تمہاری محبت میں ، میں نے اور تم اسی انا کو سفاکیت سے پیروں تلے روندھ گئے,,


,بیڈ کے سہارے اپنی پشت ٹکائے وہ زمین پہ کسی مردہ وجود کی طرح ڈھے گئی تھی,,,


ننہیں اتنی آسانی سے تو میں تمہیں اپنے ہاتھوں سے نہیں جانے دونگی عنایہ سکندر نام ہے میرا آج تک جس بھی چیز کی فرمائش کی ہے وہ میرے باپ نے میرے قدموں میں ڈھیر کی ہے پھر تم کس کھیت کی مولی ہو,,,


آج تک تم صرف میری محبت میرا عشق تھے لیکن اب سے تم میرا جنون بن گئے وہ جنون جو ہر حد سے ناواقف ہے ,,,پرفیوم کی ٹوٹی ہوئی بوتل اٹھاتے وہ پوری طرح نظریں اس کانچ پہ گاڑے خود سے مخاطب تھی ,,


اب تک میری محبت دیکھی ہے تم نے کیونکہ میں بہت نرمی سے پیش آرہی تھی مگر اب تمہیں اپنے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہ کیا تو کہنا,,,,


سارے کمرے کا نقشہ بگاڑنے کے بعد وہ اب دل میں جلتی آگ کی جلن سے کچھ پرسکون ہوتی فریش ہوئی اور نائیٹ ڈریس تبدیل کرتے سرخ آنکھوں کے ساتھ چار گولیاں نیند کی لیں اور بیڈ پر درواز ہوتی نیند کی وادیوں میں اتر گئی,,,


*********


صبح کے وقت جب راحیلہ اسے اٹھانے آئی تھی تب کمرے کا حشر دیکھ انہوں دہلتے دل کے مقام پر ہاتھ رکھا تھا,,

انہوں نے اسے جھجوڑنے کی بہت کوشش کی مگر سب بے سود وہ یوں ہی بے سدھ پڑی تھی راحیلہ کو ہول اٹھنے لگے تھے انہوں نے جلدی سے سکندر سے کہتے ڈاکٹر کو بلایا تھا جب چیکاپ کے بعد ڈاکٹر نے بی پی کافی ڈاؤن بتایا,,,


حرم معمول کے مطابق کالج جا چکی تھی جبکہ عنایہ اب بھی غنودگی کا شکار تھی,,,


سکندر یہ ٹھیک نہیں ناجانے ہماری بچی کن راہوں پہ نکل پڑی ہے ایسی عجیب و غریب حرکتیں مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا ہمیں اتنی آزادی نہیں دینی چاہیئے اسے کو کل کلاں ہمارے ساتھ ساتھ اسے بھی نقصان اٹھانا پڑے,,,

وہ لاؤنج میں سکندر کے ساتھ بیٹھی تھی جب دل میں چلتے خیال سے انہوں نے سکندر کو آگاہ کیا,,,

وہ جو ابھی ہی اخبار پڑھنے بیٹھے تھے راحیلہ کی متفکر آواز پر اپنی توجہ انکی طرف کر گئے,,,

شاید تم ٹھیک کہہ رہی ہو میں خود اس بابت عنایہ سے بات کرتا ہوں,,,تم بلکل پریشان مت ہو وہ ایسا بھی کچھ نہیں کریگی,,,وہ انکی پریشانی سمجھتے دلاسہ دینے لگے ساتھ عام سے انداز میں اپنے طور زیادہ نہ سوچنے کی تاکید کی,,,


سکندر آپ ہر چیز کو اتنا بھی ہلکے میں مت لیں جوان لڑکی کا معاملہ ہے ہمیں بہت سوچ کر قدم اٹھانا ہوگا انہوں نے پھر ایک بار اپنا وہم ظاہر کیا راحیلہ تم زیادہ ہی فکر کر رہی ہو ابکی بار بھی وہ عام سے انداز میں کہتے اٹھ کر عنایہ کے کمرے کی طرف بڑھے, ,,, وہ فلحال.اپنے طور اسے سمجھانا چاہتے تھے انکے نزدیک وہ محض ضدی تھی وہ اس سے آگے سوچنا ہی نہیں چاہتے تھے اور انکی یہی لاپرواہی سب کی زندگیوں میں قیامت کا سبب بنی تھی,,,


°°°°°°°

اُن دونوں کو گھر پہنچتے پہنچتے تقریباً رات ہوگئ تھی سب گھر والوں کے ساتھ اکھٹے ڈنر کرنے کے بعد سب ہی اپنے اپنے کمروں میں آرام کے غرض سے چلے گئے تھے ،


نور بانو ساحر اور حرم کو ایک ساتھ خوش دیکھ کر خاصی مطمئن تھی ، داجی بھی اظہار نہیں کر رہے تھے پر اندر اندر وہ ساحر کے حرم کے ساتھ رویعے سے کافی خوش تھے، اُنہیں اپنے فیصلے پر ہمیشہ فخر ہوتا تھا ، وہ زیرک نگاہ رکھنے والے بزرگ تھے حرم کو پہلی نظر میں دیکھتے ہی اُسکی سیرت سے واقف ہو گئے تھے ۔۔

درخنے اپنے بھائی کی حرم کو لے کر محبت سے واقف تھی وہ سب ملاحظہ کر رہی تھی پر اب وہ خاموش تھی وہ سمجھ چُکی تھی اب وہ جو بھی کر لے حرم کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اس لئے اب وہ اس سب کو قبول کرتے ، اُنکی زندگیوں میں مداخلت سے باز آگئی تھی ۔

ابھی بھی وہ بستر پر لیٹے چھت کو تک رہی تھی ، اُسکی سوچ کا مرکز فلوقت عادل تھا جس کا لمس وہ آج بھی اپنے بازو پر محسوس کر سکتی تھی ،

افف کیا سوچتا ہوگا وہ میرے بارے میں کہ پٹھانوں کی بیٹی ہو کر ایک کاکروچ سے ڈرتی ہوں ، پر میں کیا کروں وہ کاکروچ ہے انسان تھوڑی ہے جیسے میں داجی کی رائفل سے أڑا دوں ، وہ خود سے ہی ہم کلام تھی ،

اُسکا غصیلی چہرا یاد کرتے وہ مسکرائی تھی ، میں کیوں ہنس رہی ہوں بلکہ میں اُس فضول انسان کو یاد ہی کیوں کر رہی ہوں اپنی ہی سوچ پر ملامت کرتے وہ تکیے میں سر دیئے آنکھیں موند گئ ، اور کچھ ہی دیر میں نیند کی پری اُس پر مہربان ہوگئ ۔۔۔


°°°°°°

حرم بیڈ کی چادر دُرست کرنے میں مصروف تھی ،


اشرفی اپنے نئے گھر میں آرام فرما رہا تھا اُس نے تب سے لے کر اب تک ساحر یہ حرم دونوں میں سے کسی سے کوئی بات نہیں کی تھی بس وہ خاموش تھا ، بھلے ہی اُس نے کچھ نہیں کہا تھا پر حرم اُسکی خاموشی کی وجہ جانتی تھی ، اور اب وہ اُسی بارے میں ساحر سے بات کرنے کے بہانے ڈھونڈ رہی تھی ۔۔۔۔۔

ساحر شاور لیتا بلیک بنیان پہنے واشروم سے نمودار ہوا ، نم بال اُسکی پیشانی سے چپکے تھے جس سے پانی کی بوندیں گر کر زمین بوس ہورہی تھی ،

سفید کسرتی بازو ، حرم اُس سے نظریں چراتی اپنے کام میں لگ گئی، پر اُسکے کندھے پر سُرخ پنجوں کے نشان دیکھ اُس نے بے ساختہ ہی ساحر کی طرف قدم بڑھائے ،

ساحر جی یہ کیسے ہوئے نشان ؟ اُس نے متفکر ہوتے پوچھا ۔

چھوڑو تُمہیں کونسا میری فکر ہے میں اگر بتا بھی دوں تو تم کونسا اُسے کچھ کہہ دو گی ، ساحر نے اُسکے چہرے پر پریشانی دیکھ عام سے انداز میں کہا اور ٹیبل سے کنگی اٹھاتا اپنے بال بنانے لگا ۔ انداز بلکل کسی چھوٹے بچے کی ناراضگی جیسا تھا۔

آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں ساحر جی مجھے سچ میں فکر ہو رہی ہے بتائیں نہ یہ نشان کس چیز کے ہیں ، حرم اشرفی کو تو سرے سے بھلا ہی چُکی تھی ، اس لئے آنکھوں میں پریشانی لئے وہ ساحر کے قریب کھڑے اُن زخموں کا معائنہ کر رہی تھی ،

میں اگر کہوں گا کہ یہ اشرفی نے کیا ہے تو اس نے اور تُم دونوں نے یہی سمجھنا ہے کہ میں تُم دونوں کو ایک دوسرے سے دور کر رہا ہوں ،۔ اور ویسے بھی تُمہیں شوہر سے زیادہ تو وہ عزیز ہے ،

خیر ٹھیک ہوں میں اتنی بڑی بھی کوئی چوٹ نہیں جو تمہیں میری اتنی فکر ہو رہی ہے ، ساحر نے اشرفی کے خلاف نیا محاذ تیار کیا تھا جس کا علم اشرفی کے فرشتوں کو بھی نہیں تھا ۔۔۔۔


ساحر کے انداز پر حرم نے تڑپتے اُسکی طرف دیکھا تھا، شہد رنگ آنکھوں میں آنسو جمع ہونا شروع ہوگئے تھے ۔۔۔

آپ ایسا نہ بولیں سا ساحر جی ، آج پھر اُسکی آواز لڑکھڑائی تھی ۔

میں معافی مانگتی ہوں اشرفی کی طرف سے ، وہ نہ سمجھ ہے ، حرم نے اُسکا دامن صاف کرنا چاہا ،

بس کردو وہ اور نہ سمجھ ، تُم سے زیادہ سمجھ ہے اُس میں ، ساحر نے طنزیہ مُسکراتے کہا ۔

پر ساحر جی وہ ایسا نہیں ہے آپ مجھ پر پہلے غصہ کرتے تھے نہ تو تب ہی وہ آپ کو تنگ کرتا تھا ، وہ شاید اب بھی یہی سمجھتا ہے,,, اس لئے آپ پر غصہ کرتا ہے ، وہ معصوم ہے آپ ایک بار اُس سے پیار سے بات تو کر کے دیکھیں ، وہ روتی نم آواز میں گویا ہوئی ،ساحر نے اُسے آنسو بہاتے دیکھ سارا مذاق بھولتا سٹپٹایا اُسکا سر اپنے سینے پر رکھتا اُسے پُر سکون کرنے لگا ،

مذاق کر رہا تھا یار رونا تو بند کرو ۔ وہ اُسکی کمر سہلاتا اُسے محبت سے پچکارنے لگا ۔۔۔

میں اب بات نہیں کروں گی اشرفی سے جب تک وہ آپ کے ساتھ اپنا رویہ دُرست نہیں کر لیتا ، حرم نے اُسکے سینے پر ہی سر رکھے بھیگی آواز میں اشرفی سے ناراضگی کا اعلان کیا ، اُسکی بات پر ساحر کے عنابی لبوں پہ تبسم کھلا تھا اور آنکھیں چمکی تھی ،

ٹھیک ہے بابا مت کرنا اب سو جائیں آج ڈرائیونگ کرتے میں تھک گیا ہوں ، وہ خود کی خوشی پر کنٹرول کرتے بولا ۔

ہاں آپ لیٹیں میں دوا لے کر آتی ہوں ، وہ کہتی ہی الماری کی طرف بڑھی اور فرسٹ ایڈ باکس نکالتی ساحر کے قریب بیٹھتے اشرفی کے بنجوں کے نشانوں میں دوا لگانے لگی ،

دوا لگاتے ہی فرسٹ ایڈ باکس واپس سائڈ ٹیبل رکھتی وہ اپنی طرف آکر لیٹ گئی ،

ساحر جی ، حرم نے اُسے آنکھیں موندے دیکھ پُکارا ۔۔

افففف اسکا جی میری جان لے کر چھوڑیگا,,دل میں سوچا گیا

جی بولیں جان ساحر وہ اب پورا اُسکی طرف کروٹ بدلتا بولا ۔

آپ کو درد تو نہیں ہو رہا نہ ؟ وہ جو تھکن سے بجھا بجھا تھا ، حرم کو لگ رہا تھا کہ وہ اس زخم کی تکلیف کی وجہ سے خاموش ہے,,,۔

اُسکی معصومیت پر وہ مسکرایا تھا اور ہاتھ بڑھاتے اُس کی کمر میں ڈالتے اپنے قریب کر کے سیدھے لیتے وہ اُسکا سر اپنے سینے پر رکھ گیا ۔

اب نہیں ہو رہا ، اُسکے نرم و ملائم بالوں کو انگلیوں سے سہلاتا بولا ۔

اچھا ساحر وہ کون تھے جنہوں نے گاڑی ٹھیک کر کے دی تھی؟؟ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد حرم کی پُر سوچ آواز اُسکے کانوں سے ٹکرائی ،

کزن تھا میرا مامو کا بیٹا تھا ؟ ساحر نے اُسکے بالوں سے اٹھتی شیمپو کی خوشبو کو اپنی سانسوں میں اُتارتے ایک لمبا سانس لینے کے بعد جواب دیا ۔

اچھا آپ اُس سے وہ طوطی مانگ لائیں نہ ہمارے اشرفی کے لئے ، حرم نے چہکتے فرمائیشی انداز میں کہا ۔


ساحر دوبارہ اشرفی کے ذکر پر شدید بد مزا ہوا تھا۔


میں کیا طوطی مانگتا اچھا لگوں گا ؟ ساحر نے صدمے سی آواز میں کہا


ارے نہیں میں مانگنے کا نہیں کہہ رہی میں یہ کہہ رہی ہوں کہ آپ اُسکا رشتا مانگ لیں ، اُس نے ساحر کی عقل پر ماتم کرتے کہا ،

پہلے تو ساحر نے اپنی معصوم بیوی کی فرمائیش پہ حیرت سے اسلی جانب دیکھا جو بلکل سنجیدہ تھی ,,,


نہیں دے گا وہ اُسکی طوطی بہت لاڈلی ہی ہے اس لئے وہ گھر داماد ڈھونڈے گا ، تُم بتاؤ اگر تیار ہو اشرفی کو گھر داماد بنوانے کے لئے تو بات کرتے ہیں ، اُسکی بات پر اپنی امڈتی ہنسی ضبط کرتے اُس نے مسئلہ اور ساتھ ہی اُسکا حل بھی پیش کیا۔۔۔


نہیں میں اپنا اشرفی کیوں دوں ، ہم بھی اُسے لاڈ سے رکھیں گے آپ بات کریں نہ پلیز ،،،،

حرم نے اُسکے سینے سے سر اٹھاتے ، التجائ نظروں سے دیکھتے کہا ۔


اچھا ٹھیک ہے کروں گا اب تُم بھی یہ اشرفی نامہ بند کرو اور سو جاؤ ، اُس نے کہتے ہی ہاتھ بڑھاتے لائٹ اوف کردی جس سے پورے کمرے میں اندھیرا چھا گیا،،،


حرم بھی اپنے بالوں ساحر کی انگلیوں کے لمس کو محسوس کرتی پُر سکون ہوتے سو گئ،

ساحر بھی اُسے اپنی باہوں میں بھینچتا ، نیند کی وادیوں میں اتر گیا , ,,,


°°°°°°°

اپنے کمرے میں بیٹھا وہ پوری طرح لیپ ٹوپ پہ جکھا ہوا تھا,,,


کافی دیر سے سوشل ویب سائیڈز پہ وہ سنایہ کے بابت جاننے کی تگو دو میں تھا مگر یہاں اسکے سو شل اکاؤنٹ پہ محض پکچرز کے کچھ حاصل نہیں ہوا تھا,,,وہ اب بھی اسکرولنگ کرتا تلاش میں مگن تھا,,,


جب ایک ویڈیو پہ نظر پڑتے وہ رکا اور ویڈیوں میں سنایہ کو دیکھ تیزی سے بٹن دباتے ویڈیو پلے کرگیا,,


جہاں سنایہ لوگوں کےہجوم میں کھڑی مائیک پہ کچھ کہہ رہی تھی مگر اُسکی آواز واضح نہیں تھی,,اسنے جلدے ہیڈ فون اٹھاتے کانوں پہ لگائے,,,


ویڈیوں میں چاروں طرف اسکے ارد گرد میڈیا دائرہ بنائے کھڑی تھی جیسے وہ کوئی خطاب کرنے والی ہو,,,اسکے ہاتھ میں ایک آوارڈ بھی تھا جو ضرور اسے وہاں کھڑے امریکہ کے ٹوپ بزنس مینز نے دیا تھا ,,,,وہ امریکہ کی پہلی وومین تھی جسنے بزنس میں اس قدر نام حاصل کیا تھا اور آج وہ فخر سے سر اونچا کیئے کھڑی تھی,,,آخر وہ اس اونچائ اس رتبے کو حاصل کر گئی تھی جس کے قابل وہ خود کو سمجھتی تھی,,جسکی شاید وہ مستحق بھی تھی,,,,


بہت شکریہ آپ سب کی اتنی محبت کا مجھے یعنی سنایہ وکٹوریہ کو کافی لوگوں نے اپنی حسد میں گرانے کی کوشش کی ہتہ کے اپنے باپ تک نے ساتھ نہ دیا مگر آج میں اپنے دم پہ یہ سب حاصل کر چکی ہوں ، بس اتنا کہونگی خود کو کسی قابل بناؤ کسی مرد چاہے وہ بھائی ہو باپ ہو یا شوہر پوری طرح کسی پر مبنی نہیں ہونا میرے آج تمام ادا ہونے والے الفاظ ان بے بس تنہا لڑکیوں کیلئے ہیں جو جلد زندگی کی مشکلات سے ہار کر بیٹھ جاتی ہیں ہمت کرو آگے بڑھو خدا کے سوا کسی پہ کامل یقین مت رکھو,,,


وہ ہلکی سی مسکراہٹ کیساتھ اونچائی پہ کھڑی اسپیچ کر رہی تھی,,,


میم آپ کے پاسٹ کے بارے میں کچھ بتائیں آپکے والدین آپکی فیملی میں اور کوئی کیوں نہیں,,

پاس کھڑے ایک ریپورٹر نے مائیک آگے کرتے سوال کیا,,,


مر گئے ہے سب میرا باپ دھوکے باز تھا میری ماں کو اسکے حقوق نہیں دے سکا تھا بزدل تھا ، مجھے اس بات کا بہت افسوس ہے کہ وہ اتنی جلدی مر گیا ، میں چاہتی تھی کہ وہ زندہ رہ کر آج یہ دن دیکھتا اور میں اُسکی آنکھوں میں بچتاوا اور افسوس دیکھ پاتی ،

وہ سفاکیت سے بس اتنا ہی بولی اور اپنے گارڈ کو اشارہ دیتی جھنڈ چھٹواتے وہاں سے نکلتی چلی گئی,,,,


وہ پورے انہماک سے دیکھنے میں مگن تھا مگر اب اسکے چہرے پہ کئی سوال رقم تھے

اسنے ای میل کے ذریعے یہ ویڈیو ملاہم کو فوروڈ کی,,,


اور خود لیپ ٹوپ بند کرتے بیڈ کی پشت سے ٹیک لگائے پرسکون ہوکر بیٹھا,,,

سر میں شدید درد محسوس ہورہا تھا کافی کی اشد ضرورت محسوس کرتے وہ کچن کی طرف بڑھا,,,


اففف تنہائ بھی مار دیتی ہے امّاں سہی کہتی ہیں بیٹا شادی کرلے کم از کم سر دبانے والی تو ہوگی وہ خود سے ہمکلام ہوتا ,,کافی مشین میں مطلوبہ سامان ڈالتے اسے اون کیا,,,


کاکروچ ....اچانک اسکی نظر سامنے سے گزرتے کاکروچ پہ پڑی....بے اختیار ہی ہونٹوں پہ تبسم کھلا ساتھ درخنے کا چہرہ آنکھوں کے سامنے لہرایا,,,


نہیں نہیں عادل یہ تو کیا سوچ رہا ہے مت بھول وہ ساحر کی بہن ہے خان ہے ہڈیاں بھی نہیں ملینگی میری ,,,,وہ سوچ کر ہی جھرجھری لے اٹھا,,,


پر میں اسلامآباد شہر کا ایس پی ہو کر اتنا ڈر رہا ہوں ، اپنا ڈر محسوس کرتے وہ سوچتے ہوئے بولا ۔۔

واہ رے ربا کہاں پشاور کی وادیوں میں میرا دل لے جا کر جوڑ دیا ہے آپ نے ، وہ آسمان کی طرف دیکھتا خدا سے فریاد کرنے لگا ،

کافی کپ میں نکالتے وہ واپس کمرے میں آتا لیپ ٹاپ اُون کرتا کام میں مشغول ہو گیا۔۔۔۔


°°°°°°°

تُم کیا پاگل ہو کیوں بنے بنائے کھیل پر پانی پھیرنا چاہتی ہو اپنے اس جذباتی عمل سے ، شیریں جو ابھی عنایہ کے کمرے میں آئی تھی اُسے بیگ پیک کرتے دیکھ اُس نے وجہ پوچھی تو عنایہ نے محض یہی بتایا کہ وہ اپنے باپ کے گھر جا رہی ہے ، اُسکی بات سن شریں کو جھٹکا سا لگا اس لئے وہ دبے دبے غصے میں بولی ،


پاگل نہیں ہوں ، بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے یہاں بیٹھ کر کیا اپنی موت کی آمد کا انتظار کروں کہ کب ساحر صاحب موت کے فرشتے کے ساتھ مجھ تک پہنچ کر میرا گلا دبا دے ، پولیس کتوں کی طرح ہمارے پیچھے پڑی ہے ساحر کوئی عام انسان نہیں ہے جو خاموش ہو کر بیٹھ گیا ہوگا مجھے پورا یقین ہے اب تک وہ بہت کچھ جان گیا ہوگا ، عنایہ نے اُسکے غصے پر توریاں چڑھائے اپنے خدشے سے آگاہ کیا ۔۔


وہ اُسے اگنور کرتی اب شیشے کے سامنے کھڑی اپنی سنہری آنکھوں میں پرپل لینز لگانے لگی ، لینز لگاتے ہی اُس نے رومال سے اپنا چہرہ ڈھک دیا تھا جس سے اب صرف اُسکی پرپل آنکھیں ہی واضح تھی ۔


شیریں بھی لمبی سانس لیتے خود کو پُر سکون کرنے لگی ، اور ایک نظر اُسے دیکھتی ، گلاس وال دھکیلتے بالکونی میں کھڑی ہوتی سنایا کو موجودہ صورتِ حال سے آگاہ کرنے لگی ،

چلو ،،،، سنایا کے حکم کے مطابق وہ اُسے لئے اُس ہوٹل سے نکلتا کیپ میں سوار ہوتے ، سکندر مینشن کی طرف بڑھ گیا ۔


وہ ٹیکسی سے نکلتی پورے شان سے کھڑے سکندر مینشن کو دیکھ رہی تھی ، جسے وہ اپنے ہاتھوں ویران کر گئ تھی ، پر اب کیا فائدہ تھا ماں باپ کی محبت کا احساس کرنے کا سب تو وہ ختم کر چُکی تھی ،


فکر نہ کرنا میں ہر وقت ہر لمحہ ہر پہر تمھارے پاس ہی ہونگا تُم چاہے سکندر مینشن میں ہو یا سمندر خان کی حویلی میں شیریں تُمہارے ساتھ ہر وقت ہوگا ، تمھاری جان کی حفاظت میری زمیداری ہے وہ اُسے اپنے ہونے کا احساس دلاتے بولی ،

عنایہ اثبات میں سر ہلاتے سکندر مینشن میں داخل ہوئی ، جہاں گیٹ پر ہی اُسے اپنے گھر کی پرانی ملازمہ کھڑی نظر آئی ،


جی بیبی کون ہیں اور کس سے ملنا ہے آپ کو ، ملازمہ نے سیاہ لڑکوں کے کرتے پہنے کھڑی عنایہ سے پوچھا عنایہ اپنے چہرے سے رومال ہٹا چُکی تھی پر اُسکے ہوليے سے ملازمہ اب تک نہیں پہچانی تھی کہ وہ عنایہ ہے ،


سکندر صاحب کو بلاؤ ۔۔۔۔ وہ مختصر بولی اور قدم اندر کی طرف بڑھا گئ ، ملازمہ ہونقوں کی طرح اُسے دیکھنے لگی ، پر جلد ہی ہوش میں آتے انٹرکوم کے ذریعے سکندر کو اسکی آمد سے آگاہ کیا ,,


°°°°°°°

حرم کے جانے کے بعد وہ بلکل بستر سے لگ کر رہ گئیں تھی,,,سکندر خود کو مظبوط ظاہر کیئے انکی پوری دیکھ بھال کر رہے تھے جو دن با دن اپنی بیٹیوں کی فکر میں ہلکان ہورہی تھی,,,


دوست احباب سب ہی نے ہی ان سے کنارہ کرلیا تھا جب کبھی آس پاس کے لوگ آتے تھے تو انکی کڑوی کسیلی باتوں سے مزید انکا دل جلنے لگا تھا,,,,ایک طرف عنایہ کی فکر ستائے جارہی تھی تو دوسری طرف اپنی معصوم سی بچی حرم کی سکندر کا حال بھی ان سے الگ نہ تھا مگر راحیلہ کی حالت دیکھتے وہ اپنا غم سینے میں دبائے ہوئے تھے,


ابھی بھی وہ سرہانے بیٹھے انکے بالوں میں انگلیاں چلا رہے تھے وہ دوا لے کر ابھی لیٹی تھی,,,انکا چلنا پھرنا سب موقوف ہوگیا ,,,


بیٹیوں سے گھر میں رونق تھی لیکن عنایہ کی نادانی ساری رونق کھا گئی تھی ہنستے کھیلتے گھر میں آج سکوت طاری تھا,,انکے بالوں میں انگلیاں چلاتے وہ خود بھی آنکھیں موند گئے اس سب میں انکے بزنس میں کافی نقصان ہوچکا تھا مگر وہ پوری کوشش کر رہے تھے کہ ایک بار پھر وہ اپنا بزنس بلندیوں تک پہنچا سکے,,,لیکن انکی بوڑھی ہوتی ہڈیاں یہ اجازت نہیں دے رہی تھی اور راحیلہ کی بگڑتی حالت انکی ہمت توڑ رہی تھی,, ابھی انکی آنکھ لگی ہی تھی جب انٹرکوم بجا,,,


انہوں نے پک کرتے کان سے لگایا,,صاحب نیچے کوئی لڑکی آئی ہے آپ سے ملنا چاہتی ہیں,,,


اوکے انہیں بٹھاؤ میں آتا ہوں ,,,


دوسری طرف جواب دیتے کھٹاک سے فون رکھا اور ہاتھ منہ دھوتے نیچے بڑھے,,,


کُچھ ہی دیر بعد سکندر صاحب سیڑھیاں اُترتے لاؤنچ میں آتے دیکھائ دیئے ،

پورے انہماک سے کھڑی وہ مقابل کھڑی لڑکی کو دیکھ اپنی جگہ ساکت و جامد ہوئے,,,


ماتھے پہ سلوٹیں ڈالے وہ دم سادھے مقابل کو دیکھ رہے تھے ، کیسے نہ پہچانتے اُسے باپ تھے وہ آخر پہلی نظر میں وہ اسکے بدلے ہلیے میں بھی پہچان چکے تھے ،۔


عنایہ,,,,,,,

عنایہ نے اپنی سرخ اور بھیگی پلکیں اٹھائی تو سامنے ہی اپنے باپ کو خود کو تکتا پایا ، جہاں اُس کے پاپ کی آنکھوں میں پہلے محبت اور شفقت ہوا کرتی تھی وہاں آج نفرت کی چنگاریاں تھی ، اپنے لئے یہ نفرت دیکھ عنایہ کا دل کرچی کرچی ہوا تھا ،


کیوں آئی ہو یہاں ؟ سکندر صاحب غصے میں اُسکی طرف بڑھتے پھنکارے ، اُنہوں نے آج تک اپنی بیٹیوں سے اونچی آواز میں بات نہیں کی تھی ، پر آج اُن کی اس پھنکار پر عنایہ ایک پل کے لئے سہمی تھی ،


بابا,,,,,


اُس نے ہاتھ کی پُشت سے بے دردی سے آنسو پوچتے پُکارا ، اُسکی پُکار میں بھی ایک تڑپ تھی ، جو سکندر نے بخوبی محسوس کی تھی کیسے نہ کرتے باپ جو تھے ۔۔۔


اب کِس کو برباد کرنے آئی ہو تُم کچھ نہیں بچا ، جہاں سے آئی ہو وہاں واپس چلی جاؤ اس بڑھاپے میں مجھے اور رسوا نہ کرو ، سکندر صاحب نے اُسکے بھیگے چہرے سے نظریں چراتے منہ موڑتے کہا ،


بابا میں نے کچھ نہیں کیا ، میں بے قصور ہوں میرا یقین کریں بابا ، وہ آنسو بھاتی اُنہیں یقین دلانے کی کوشش کرنے لگی ،


ہاں تُم کہاں قصور وار ہو ، قصور وار تو ہم ہیں ، قصور تو ہماری تربیت کا ہے ، قصور تو میری نرمی کا ہے ، قصور تو میرے اندھے اعتماد کا ہے جو میں تُم پر کرتا رہا ، اُسکی بات سنتے سکندر صاحب نے مٹھیاں بھینچے آنکھیں مندی تھی ، پر دوسرے ہی لمحے آنکھیں کھولتے وہ شدید افسوس سے بولے ، اُنکے لہجے میں افسوس اور پچھتاوا واضح تھا ،


بابا ایسا نہ بولیں میرا کون ہے آپ کے علاوہ آپ ایسا نہ بولیں ایک بار میری بات تو سن لیں میں نے کچھ نہیں کیا میں نے کسی کو نہیں مارا ، میں قاتل نہیں ہوں ، وہ ابھی بھی اُنہیں اپنی بات پر یقین کرنے کا کہہ رہی تھی ،نا جانے اب اُس کے شیطانی دماغ میں کس کی بربادی چل رہی تھی ،،،


اگر تم بے قصور ہو تو تُم نے ہم سب کی آنکھوں میں دھول جھونک کر نکاح کیوں کیا ، اور ہمیں اندھیرے میں کیوں رکھا ؟ اُنکے لہجے میں کانچ سی چبھن تھی ، اُنہیں یہی چبھن اپنے دل میں بھی محسوس ہوئی تھی ،اور اگر تمہارا ہمارے علاوہ کوئی نہیں ہے تو کہاں روح پوش ہوئی تھی اتنے وقت سے جہاں اتنے دن سے پناہ لی تھی اب بھی وہی چلی جاؤ ابھی اور اسی وقت میری نظروں سے اوجھل ہوجاؤ ,,,وہ پھر اپنی روبدار آواز میں دھاڑے,,,,


بابا میں اور ثمر پسند کرتے تھے ایک دوسرے کو میں نہیں تھی راضی ہم دونوں کی عمروں میں بہت فرق تھا میں نے بہت سمجھایا تھا ثمر کو پر ، اُس نے مجھے ڈرا دھمکا کر نکاح کر لیا ، اگر میں نکاح نہ کرتی تو وہ مجھے اغوا کر کے پشاور لے جاتا بابا میں ڈر گئی تھی ، میں بُری نہیں ہوں میرے ساتھ بُرا ہوا ہے کوئی سمجھتا کیوں نہیں ہے ، وہ ہزیانی ہو کر بولتی اپنے بال ہاتھوں میں نوچتی زمین پر بیٹھتی گئ ،


تو کیا میں مر گیا تھا مجھے بتاتی کِس کی ہمت تھی میری بیٹیوں کو دھمکا سکے ، وہ اُسکی بات سنتے بھپرے شیر کی طرح پھنکارے ،


وہ کچھ نہیں بولی بس سر جھکائے مصنوئی رونے کا شغل فرماتی رہی ، اب کچھ بھی تھا اُسے یہاں رہنا تھا تا کہ ساحر اور اُسکا خاندان اُس تک خود پہنچے ،


سکندر صاحب بھی مردہ قدم اٹھاتے صوفے پر ڈھے جانے کے انداز میں بیٹھتے چلے گئے ،

تُم گھر سے کیوں بھاگی اگر تمہارا اُس کی موت سے کوئی تعلق نہیں تھا تو ، طویل خاموشی کے بعد سکندر صاحب کی بھاری آواز گونجی ۔۔


میں بہت ڈر گئی تھی مجھے لگا سب مجھے ہی قصور وار ٹھہرائے گے اُسکی خودکشی کا,,,


مجھے ڈر تھا وہ مجھے اور میرے بچے کو نہ مار دیں ، جس معصوم کا کوئ قصور بھی نہیں تھا اس سب میں اس لئے اس وقت مجھے جو ٹھیک لگا میں نے کیا ، میں نے یہ سب بس اپنے بچے کے لئے ، عنایہ نے اپنی ہی دھند میں کہتے اُنکے سر پر ایک اور بم پھاڑا ۔۔


سکندر صاحب غیر یقینی انداز میں اُسے دیکھ رہے تھے ، اُنہیں لگ رہا تھا جیسے ان سے سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہو ،


مجھے گھر سے نہ نکالے، میرا کوئی دوسرا ٹھکانہ نہیں ، وہ اُنکے پیر پکڑتے، آنسو بہاتے بولی ،


اگر آپ نے بھی مجھے نہ رکھا تو میں اپنی اور اسکی دونوں کی جان لے لوں گی ، اُسکی دھمکی پر سکندر نے مندی آنکھیں کھولی تھی ،


دفع ہو جاؤ ، اپنے کمرے میں ، میں فلحال تمھاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا ، بظاھر تو انہوں نے سخت لہجے میں کہا تھا، پر اُنکا دل عنایہ کی کہی ایک ایک بات پر ایمان لے آیا تھا ،


بابا ،،،، اُس نے پھر کچھ کہنا چاہا ۔، پر سکندر نے اُسے ہاتھ بلند کرتے خاموش کروادیا ،


عنایہ چند منٹ بھیگی آنکھوں سے اُنہیں دیکھتی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ، کمرے میں آتے ہی اُس نے کمرہ لوک کرتے ایک لمبا سانس ہوا کے سپرد کیا تھا ، اور جوتے اُتارتے بیڈ پر دراز ہوگئ ، دل کچھ پر سکون ہوتے ہی وہ نیند کی وادیوں میں اُترتی گئ، اُسے کوئی فکر نہیں تھی اب وہ جانتی تھی اُسکا باپ اُسکی جھوٹی اداکاری سے پگھل گیا ہوگا ،


اُسکے جاتے ہی سکندر صاحب اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھام گئے ، دل اور دماغ دونوں میں ہی جنگ جاری تھی ، اُنہیں سمجھ نہیں آرہا تھا وہ دوبارہ کیسے اپنا گھر سمبھالیں ، پتہ نہیں کس کی نظر اُنکے ہنستے کھیلتے گھر کو نگل گئی تھی ، ایک آنسو پلکوں کی باڑ توڑتا گالوں پر پھسلا تھا ،


°°°°°°°°


حرم نے اشرفی سے اظہارِ ناراضگی کرتے اُسے صاف کہہ دیا تھا کہ اب جب تک وہ ساحر سے اپنا رویہ دُرست نہیں کر لیتا وہ اب اس سے ہر گز بات نہیں کرے گی ، اُسکی بات سنتے پہلے تو اشرفی کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھی پر وہ بولا کچھ نہ تھا ، وہ جانتا تھا کہ ساحر وقت کا فائدہ اٹھاتے اُس کے لئے جال بچھا چکا تھا اس لئے اُس نے جوش سے نہیں ہوش سے کام لیتے ، حرم کی ہر بات پر اثبات میں سر ہلاتے اُسے مطمئن کر دیا تھا کہ وہ ساحر سے محبت اور عزت سے پیش آئیگا ، اس میں بھی اشرفی کو اپنا ہی فائدہ نظر آیا تھا اُس حسینہ تک بھی اُسے آخر ساحر ہی پہنچا سکتا تھا ۔


حرم پہلے تو مطمئن نہ تھی اُسکی تسلیوں سے پر گزرتے وقت کے ساتھ ساحر اور اشرفی کو ایک دوسرے کے ساتھ نارمل دیکھ وہ اب پُر سکوں تھی ، اُس نے ساحر سے بہت دفعہ اُس طوطی کا پوچھا تھا ساحر نے یہی کہتے اُسے ٹالا تھا کہ وہ جلد لے آئیگا ۔۔۔۔۔


آج اسکا برتھ ڈے تھا اور وہ اداس سی گھٹنوں پہ سر دیئے گہری سوچوں میں گم تھی,,,دل میں بار بار ماں باپ کا چہرہ جھلملا رہا تھا,, آج اگر وہ ساتھ ہوتے تو اسکے برتھڈے کی تیاری میں مگن ہوتے کتنی دھوم دھام شاندار طریقے سے اسکا برتھ ڈے مناتے تھے ,,,,


گزشتہ لمحات یاد کرتے وہ بے حد افسردہ تھی ,,,دل میں موہم سی امید تھی ساحر سے کہ شاید وہ اسکا برتھ منائے یہ خیال آتے ہی دل بے تابی سےمچل اٹھا تھا ,,,,


نہیں وہ کیسے منا سکتے ویسے بھی انہیں میرے بارے میں کچھ پتا نہیں تو میری برتھ ڈے کیسے معلوم ہوگی حرم یہ کیا سوچ رہی ہے تو اگر ان لوگوں نے تھوڑی محبت اپنائیت دی ہے تو اسکا غلط مطلب مت نکال بھول مت تو ایک ونی کی گئی لڑکی ہے جو یہاں کسی اور کے گناہ کی سزا کیلئے لائی گئی,,,


اگلے ہی لمحے چہرے پہ اداسی چھاگئی وہ پل کی چمک ماند پڑگئی وہ بوجھل ہوتی پھر سے سر گھٹنوں میں چھپا کر رونے لگی آنسوں بے اختیار ہی پلکوں کا باڑ توڑتے چہرے پہ تواتر بہہ رہے تھے وہ چاہ کے بھی اپنے جذباتوں پہ بندھ نہیں باندھ پارہی تھی,,,


ٹک ٹک ابھی وہ بوجھل سی بیٹھی تھی جب دروازہ بجا,,,کون ہے اسنے تیزی سے آنسوں صاف کرتے پوچھا,,,بی بی جی آپکو بڑی مالکن اپنے کمرے میں بلا رہی ہیں ملازمہ موؤدب انداز میں نور بانو کا بیغام اسے دیتی واپس چلی گئی وہ بھی مردہ قدم اٹھاتی باتھروم کی طرف بڑھی اچھی طرح منہ دھوتے اسنے اپنے جذباتوں کو قابو کیا اور سر پر سلیقے سے دوپٹا ٹکائے نور بانو کے کمرے کی طرف بڑھ گئی,,,


مور میں آجاؤ ,,,,


کمرے کے پاس پہنچتے اسنے اجازت طلب کی,,,


ہاں بیٹے آجاؤ,,,


اندر سے نور بانو کی شفقت بھری آواز ابھری,,,


آپ نے بلایا مور,,,اندر داخل ہوتے ہی اسنے انکے پاس بیٹھتے سوال کیا,,, بیڈ پہ کپڑوں اور جیولری کا انبار لگا تھا شاید وہ خاندانی زیور نکال کے بیٹھی تھی,,


ہاں بچے تمہیں کچھ دینا تھا ,,,اسے کہتے ایک باکس سے انہوں نے رانی ہار نکالا,,,یہ دیکھو کیا ہے یہ؟؟ ہار اسکی طرف بڑہاتے انہوں نے پوچھا مگر اسکے سوجی آنکھیں اور چہرے پہ افسردگی چھائی دیکھ وہ ٹھٹکی,,,


کیا ہوا ہے بیٹا آپ روئ ہو؟؟


ننہیں تو وہ نظر بچاتی صاف انکار کر گئی,,,مجھے بتاؤ میرا بچہ کیا ہوا ہے ,,,


سچ میں کچھ بھی نہیں بس آج میرا برتھ ڈے تھا ماں بابا کی بہت یاد آرہی تھی,,,وہ مختصر کہتی پھر رنجیدہ ہوئی,,,ایک بار پھر شہد رنگ آنکھوں میں آنسوں جمع ہونے لگے

تھے,,,


ارے روتے نہیں ہیں میرا بچہ میں بات کرونگی ساحر سے وہ تمہیں ملوا لائے گا تمہارے ماں بابا سے فکر مت کرو میری جان ,,,,اسے رنجیدہ دیکھ وہ متفکر ہوتی آگے بڑھی اور پیار سے اسے سینے سے لگاتی پچکارنے لگیں,,


*********


اسنے ابھی گھر میں قدم رکھا تھا کچھ ضروری کام نمٹاتے وہ سیدھا راہداریاں عبور کرتے اپنے کمرے میں آیا تھا مگر کمرے کو خالی منہ چڑاتا دیکھ اسے فکر لاحق ہوئی,,,باتھروم کی جانب دیکھا پر وہاں بھی کوئی موجود نہ تھا,,,اسنے نظر اشرفی کی طرف اٹھائی جو شاید صدیوں کی نیند پوری کر رہا تھا پرسکون سا دنیا جہاں سے غافل صوفے پہ سویا ہوا تھا ,,,


اپنا گھر بنا کر دیا ہے اس بکھاری کو مگر پھر بھی کباب میں ہڈی بننے سے فرصت نہیں ہے اس عجیب مخلوق کو,, وہ اسے اپنے کمرے کے صوفے پہ سویا دیکھ دل ہی دل میں جلتے ہوئے سوچنے لگا,,,


ایک پل کیلئے اسکے دل میں خیال آیا کہ اسکی نیند میں مداخلت کر کے اسے پریشان کرنے کا مگر یہ سوچ کر خاموشی سے نکل گیا کہ اگر یہ اٹھ گیا تو اسکا سونا حرام ہوجائے گا بس یہی خیال آتے وہ پھر سے حرم نور کی تلاش میں کمرے سے نکل گیا,, کہاں چلی گئی یہ لڑکی جاتی تو کہیں نہیں ہے ایک کام کرتا ہوں مور سے پوچھ لیتا ہوں انہیں تو پتہ ہی ہوگا وہ دل میں سوچتا قدم نور بانو کے کمرے کی طرف موڑ گیا,,,


**********


نور بانو حرم کو پیار سے بہلا پھسلا کر اب زیور دکھا رہی تھی جو انکے خاندانی تھے,,,یہ دیکھو یہ میں نے ہمیشہ یہ اپنی بڑی بہو یعنی تمہارے لیئے سمبھال کر رکھا تھا لیکن آج یہ میں تمہارے سپرد کرنا چاہتی ہوں بہت جچے گا تم پہ رانی ہار آگے کرتی وہ بے حد خوشگواریت سے کہہ رہی تھی,,,


حرم نور نے ہار اپنے ہاتھ میں تھامتے داد دینے والی نگاہوں سے دیکھا جو واقعی بہت حسین اپنی مثال آپ تھا پورا ہیرو سے جڑا شکن تک آتا یہ ہار واقعی داد دینے کےقابل تھا بہت پیارا ہے یہ تو اور بہت قیمتی بھی حرم نے ہار کا مکمل جائزہ لیتے کہا ,,


یہ رانی ہار ہے جو برسوں سے ہمارے خاندان کہ روایت کے طور پہ چلا آرہا ہے اسکی خاصیت ہے یہ کبھی اپنی چمک نہیں چھوڑتا ,,,,


اہم اہم ابھی وہ اسے اور بھی اس ہار کے بابت بتا رہی تھی جب ساحر گلا کھنکارتے اندر داخل ہوا,,


لو تمہارا شوہر بھی آگیا آؤ بیٹھو بیٹا اور بتاؤ کیسا لگ رہا ہے یہ رانی ہار ہماری معصوم سی بہو پہ,,اسکی طرف متوجہ ہوتی وہ بشاشت سے بولیں ,,,

حرم نے بھی نگاہ ساحر کی طرف اٹھائی اب تک اسکی آنکھیں رونے کے باعث سرخ تھی وہ ایک نظر دیکھتے اپنا رخ واپس نور بانو کی طرف کر گئی مگر ساحر کی آنکھوں سے اسکا اداس چہرہ مخفی نہ رہ سکا وہ بے چین ہوا اسکی نم آنکھیں دیکھ ,,,,


جی بہت اچھا ہے,,, حرم وہ اشرفی تمہیں ڈھونڈ رہا تھا اب ماں کے سامنے وہ یہ تو کہہ نہیں سکتا تھا کہ تمہارا شوہر تمہارے بغیر ایک پل بھی نہیں گزارسکتا اسلیئے ڈھونڈتا ہوا یہاں تک پہنچا ہے اسلیئے جو بھی بہانہ منہ میں آیا بنا دیا,,,


میں دیکھتی ہوں وہ کہتی عجلت میں باہر نکل گئی کوئی پتہ نہیں اشرفی کے موڈ کا ویسے بھی وہ آدھی نیند سے کبھی اٹھتا نہیں تھا,,,اور آج وہ جب سے گھوم کر آئے تھے تب سے ہی کچھ اداس سا تھا لیکن معصوم حرم نہیں واقف تھی کہ وہ کیوں اداس تھا,,,


تم کہاں جارہے ہو بیٹھو مجھے کچھ بات کرنی ہے,,,,

اسکے جاتے ہی وہ بھی جانے کیلئے پلٹا تھا جب نور بانو کی آوازپہ رکا,,


جی جی بولیں مور نور بانو کے چہرے پہ سنجیدہ تاثرات دیکھ اسے تشویش لاحق ہوئی, وہ بیڈ پہ جگہ بناتے انکی گود میں سر رکھے لیٹ گیا,,,اسکے بالوں میں نور بانو کی سرسراتی انگلیاں اسے سکون بخشنےلگیں,,کتنا وقت گزر گیا تھا وہ اپنی ماں کی گود میں سر رکھے نہیں لیٹا کتنے وقت سے اسے یہ لمس میسر نہیں ہوا تھا ماں باپ وہ شے ہیں جنکی کمی زندگی کے ہر حصے میں شدت سے محسوس ہوتی ہے,,,


اور آج کتنے دن بعد اسے یہ سکون ملا تھا مگر دل کا ایک حصہ حرم کے مرجھائے چہرے کی فکر میں مگن تھا وہ جلد سے جلد اس تک پہنچنا چاہتا تھا تاکہ اسکی اداسی کی وجہ دریافت کرسکے,,,


بیٹا میں چاہتی ہوں تم حرم کو اسکے ماں باپ سے ملوا دو دیکھو بیٹا بیشک ہمارا غم بڑا ہے لیکن ہم کسی کو سزا دینے والے کون ہوتے زندگی موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے نہ داجی تو اس بات کو سمجھنے کیلئے تیار نہیں ہیں لیکن تم تو پڑھے لکھے میرے سمجھدار بچے ہو کسی معصوم کو سزا دینا کہاں کا انصاف ہے کیوں تم اپنی زندگی اور آخرت دونوں خراب کر رہے ہو اپنا معاملہ خدا کے سپرد کر کے دیکھو اسکی لاٹھی بے آوازہے وہ ہماری آواز ہمارا کرب ضرور سنے گا,,,اور اگر تم سزا دینا ہی چاہتے ہو تو گناہ گار کو دو کسی بے گناہ کو سزا دے کر خود گناہ گار مت بنو,,,,وہ مصلحت سے گویا ہوئیں ساحر نے بھی شرمندگی سے آنکھیں میچی تھی,,,


آج اسکا جنم دن ہے اور وہ بہت اداس لگ رہی تھی مجھسے اسکی اداسی نہیں دیکھی جاتی وہ اللہ کی پیاری بندی معلوم ہوتی ہے مجھے اور اللہ کے پسندیدہ لوگوں کو پریشان کروگے تو خدا ناراض ہوگا وہ کچھ نہیں کہتی کسی سے مگر اسکی آنکھیں اسکے اندر کے حال کا پتہ دیتی ہیں وہ بہت معصوم بھولی لگتی ہے مجھے جو ہم کر رہے ہیں وہ ظلم ہے اور خدا ظالموں کو کبھی معاف نہیں کرتا میرے بچے ,,,وہ بیوی ہے تمہاری اسے اسکے حقوق دو یہ تمہارا فرض ہے,,,اسے یوں شرمندگی سے نگاہیں جکھاتا دیکھ وہ پھر سمجھانے والے انداز میں بولیں,,,ہممم جی میں کوشش کرونگا مگر داجی؟؟


داجی کا خیال آتے وہ اٹھ بیٹھا اور سوالیہ نظروں سے اپنی ماں کی طرف دیکھنے لگا,,

,

اسکی فکر تم مت کرو میں سمبھال لونگی کہہ دونگی تم کسی دوست کی شادی پہ لے کر گئے ہو اور جاناضروری تھا,,,اسکی پریشانی دور کرتے انہوں نے حل پیش کیا,,,


وہ مسکراتے نفی میں گردن ہلانے لگا اور ایک عقیدت بھرا بوسہ اپنی ماں کی پیشانی پہ دیتا انہیں خیال رکھنے کی تلقین کیئے اپنی بیوی کی طرف بڑھا,,,


حرم کمرے میں آئ تو اشرفی کو ہنوز گہری نیند سوتا پایا ,,, وہ کپڑے تبدیل کرتی ایک آخری نظر اشرفی پہ ڈالتی اپنے بال سنوارنے لگی ,,,,جب پیچھےسے آتے ساحر نے اسے پشت سے جکڑتے اپنے حصار میں لیا,,,یک لخت وہ سٹپٹائی لیکن شیشے میں ساحر کا عکس دیکھ پرسکون ہوتی نگاہیں جکھا گئی,,,


اسنے مسکراتے اپنی ٹھوڑی اسکے کندھے پہ ٹکائ اور اسکی نازک کمر پہ گرفت مزید سخت کی,,,اتنی کہ وہ سانس روک گئی,,,


ان سانسوں کو تھمنے کی اجازت صرف تب ہے جب میں انہیں پینا چاہوں سانس لو فوراً....


گھمبیر آواز میں بلکل اسکے کان کے پاس سرگوشی کی اور آخر میں حکم صادر کیا گیا,,,اسکی بے باک معنی خیز بات پہ اسنے فوراً سانس باہر چھوڑا تھا,, وہ مبہم سا مسکرایا,,,


ہیپی برتھڈے ....اسکے کندھے پہ اپنے لب رکھتے وہ محبت سے چور لہجے میں بولا,,,حرم نے بے اختیار ہی نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا جو مسکراتی آنکھوں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا,,,وہ اسکی بولتی نگاہوں کی تاب نہ لاتے ایک بار پھر شرم سے نگاہیں جکھاگئی,,,


رو کیوں رہی تھی,,,اسکا رخ اپنی طرف کرتے بغور اسکے چہرے کو دیکھتا پوچھا گیا,,,


آپ کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے,,,وہ نا چاہتے ہوئے بھی شکویٰ کر گئی تھی,,


تو پھر کسے پڑتا ہے؟؟اسے خودمیں بھینچتے سوال کیا,, ککسی کو نہیں,,,سینے پہ ہاتھ دھرتی وہ لڑکھڑاتی آواز میں بولی,,,مقابل محویت سے اسکے لرزتے ہونٹ دیکھنے میں مگن تھا,,,


کس نے کہا مجھے فرق نہیں پڑتا؟؟ وہ پھر سوال کرنے لگا حرم کو جواب دینا مشکل لگنے لگا تھا وہ خاموش رہی لفظ جیسے انکاری تھے ادا ہونے سے,,,


بولو کسنے کہا ہے مجھے فرق نہیں پڑتا,,,ایک بار پھر سوال کرتے وہ اسے باہوں میں اٹھا چکا تھا اسے بیڈ پہ لٹاتے وہ خود بھی اسپے جکھا حرم نے سختی سے آنکھیں میچتے اسکا کالر دبوچا ,,,اسنے جکھتے حرم کے ماتھے پہ اپنے دہکتے لب رکھے,,,


تمہاری دل جلا دینے والی مسکراہٹ یہ آنسوں یہ ناراضگی ہر چیز سے مجھے فرق پڑتا ہے سرگوشی میں کہتے لب باری باری آنکھوں پہ رکھے ۔۔۔

جب جب تم مجھے چھوڑ کر اس طوطے کو توجہ دیتی ہو مجھے فرق پڑتا ہے آواز کچھ سخت ہوئی تھی یا یوں کہوں کہ تمہاری توجہ کا حقدار میں ہونا چاہتا ہوں تمہارے دل کی ریاست کا اکیلا بادشاہ بننا چاہتا ہوں جیسے تم اکیلی میرے دل پہ حکومت کرتی ہو بلکل ویسے ہی میں بھی تمہارے دل و دماغ پہ قابض ہونا چاہتا ہوں گھمبیر لہجہ سرگوشی میں کہتے اپنے لب اسکے سرخ ہوتے عارض پہ رکھے انداز بے حد نرم,,,

میرے علاوہ کسی اور کا خیال بھی تمہیں چھو کر نہ گزرے تمہیں اس قدر خود میں گم کرنا چاہتا ہوں ,,,تمہاری محبت تمہاری قربت ہر چیز سے مجھے فرق پڑتا ہے پھر کیسے کہہ دیا تم نے مجھے فرق نہیں پڑتا,,,,اپنے لب اسکی چھوٹی سی ناک پہ رکھتے سوال کیا آج تو جیسے وہ سراپائے سوال بن گیا تھا اسکی جان کیلئے ,,,

جب جب تم روتی ہو یہ موتیوں جیسے انمول آنسوں مجھے میرے سینے پہ گرتے محسوس ہوتے درد تمہیں ہوتا ہے مگر تکلیف مجھے بھی محسوس ہوتی ہے پھر کیسے کہہ دیا تم نے مجھے فرق نہیں پڑتا مجھے خود سے غافل سمجھنے کی غلطی مت کرنا جان ساحر تمہیں ہمیشہ دل میں سب سے اونچا مقام دیا ہے اپنی دھڑکنوں کا پہرے دار تمہیں بنایا ہے چاہ کر بھی کبھی تم سے غافل نہیں ہوسکتا,

اپنی بات گھمبیرتا سے کہتے لب اسکی شہہ رگ پہ رکھے ,حرم نے کالر چھوڑتے بیڈ شیٹ كو مٹھی میں دبوچا تھا,,,


شہہ رگ سے ہوتے ہوئے اسکے لب اب گردن تک کا سفر طے کرنے لگے,,,جا بجا اسکے کندھے پہ اپنا دہکتا لمس چھوڑتے وہ اسے سمٹنے پر مجبور کرگیا اسکے وجود میں لرز طاری ہونے لگی جب ساحر نے اپنے پیروں کا وزن اسکے پیر پہ منتقل کرتے لرزش کو قابو کیا,,,

مبہوت سا اسکے چہرے کو دیکھتے ہاتھ بڑہا کر لائیٹ اوف کرگیا حرم گہرے گہرے سانس لے رہی تھی اسکی قربت سے حرم کو اپنی جان نکلتی محسوس ہورہی تھی دوسرا مقابل کا انداز اسے بہت عجیب لگ رہا تھا ,,,,لیکن وہ اسے دور کر کہ خود پہ.کوئی تکلیف نہیں سہہ سکتی تھی,,, اسکی انگلیوں میں انگلیاں الجھائے وہ وہ مدہوش سہ گردن پہ جکھا ہوا تھا جان تو حرم کی تب ہوا ہوئی جب کندھے سے شرٹ کھسکتی محسوس ہوئی,,


سساحر جی یہ آپ کیا کر رہے ہیں پپلیز چچھوڑیں مجھے,, اپنے پورے وجود کی قوت مجمع کرتے اسنے اسے آہستہ سے خود سے پیچھے دکھیلتے رندھی ہوئ آواز میں کہا,,,,


وہ ہوش میں آتا پوری طرح پیچھے ہٹا اور لائیٹ اون کرتے واپس اسکی طرف متوجہ ہوا جو بری طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی اسے جی بھر کر خود کی بے اختیاری پہ غصہ آیا تھا وہ خود پہ ملامت کرتا اسکے ہاتھ چہرے سے ہٹا گیا وہ کیسے بھول گیا تھا کہ اسکی بیوی ابھی تک میاں بیوی کے رشتے سے پوری طرح واقفیت نہیں رکھتی وہ واقعی بہت معصوم تھی پتہ نہیں کیا سمجھ رہی ہوگی اسکی اس حرکت کا مطلب,,,.


شششش ریلیکس کچھ نہیں کر رہا تھا ساحر کی جان ایم سو سوری محبت سے کہتے آنسوں صاف کرنے لگا ,,,


آاپ ممجھے سزا دے رہے تھے نہ ممجھے پپتہ ہے میں نے مور کو اپنی ببرتھڈے کا بتایا نہ اسلئے سسوری وہ غلطی ہوگئی ممجھ سے پپلیز یہ نہیں کریں بہت گندہ ہے پپلیز, وہ اٹک اٹک کر شدت سے روتے یوئے اپنی ناکردہ غلطی کی معافی مانگنے لگی ساحر کو ایک بار ہھر خود پہ غصہ آیا تھا وہ کتنی بھولی تھی اسکی محبت کو سزا کا نام دے رہی اور ایک وہ تھا اففف اس قدر بے اختیار ہونے کی کیا ضرورت تھی ساحر تجھے,, وہ دل میں سوچتا پھر سے اسکے آنسوں صاف کرنے لگا,,


سچ میں کوئی سزا نہیں دے رہا تھا بس غلطی سے ایم سوری پلیز جان ساحر رونا تو بند کرو نہ اب کچھ نہیں کرونگا پرومس,, اسے پچکارتے آنسوں صاف کرنے لگا ,


پپکا ۔۔۔۔۔؟؟ یقین دہانی کیلئے پھر معصومیت سے سوال کیا گیا,,, اشرفی پرومس وہ بھی جلدی سے دوبدو بولا اور اسکے جلد مان جانے پر شکر کا کلمہ پڑھا,,,چلو آؤ سوتے ہیں ,,,محبت سے کہتا وہ اسکا سر سینے پہ رکھتا آنکھیں موند گیا , ,,


°°°°°°°°

سورج کی کرنیں ہر سو پھیلی رات کی سیاہی کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی ہر سو اپنی تیز روشنی بخشتے سورج ہنوز اپنی جگہ نکلا ہوا تھا,,,


وہ پرسکون سا اپنے آفس میں فری بیٹھا کسی فائل پہ تیزی سے قلم چلا رہا تھا سوچوں کا مرکز بھنور سنایہ کی ویڈیو کے گرد گھوم رہا تھا جب اچانک اسکا تیزی سے چلتا ہاتھ تھما دماغ میں ناگہاں جھماکہ ہوا اسنے تیزی سے قلم اور فائل سائیڈ کرتے لیپ ٹاپ اٹھانے اون کیا

لیپ ٹوم کے اسٹارٹ ہوتے ہی اُس نے وہی سنایا کے انٹرویو والی ویڈیو اُون کی جو تین سے چار دفعہ دیکھ چُکا تھا پر اس بار اُس نے سنایا کے برابر کھڑے شیری پر فوکس کیا ہوا تھا ، جو آنکھوں پر بلیک سن گلاسز چڑھائے سوٹ بوٹ میں کھڑا آس پاس پر چیل سی نگاہ ڈالے ہوئے تھا ، سنایا کے اشارے پر وہ رپورٹرز کے جھنڈ کو سائڈ کرتا سنایا کے ساتھ بوٹ میں مقیت اپنے بھاری قدم اٹھاتا آگے بڑھا ، ہليے سے وہ سنایا کا باڈی گارڈ یہ خاص آدمی معلوم ہو رہا تھا ، پر عادل تو اب پورا اُسکے شوز کی طرف متوجہ تھا ،


کچھ سوچتے اُس نے وہ ویڈیو سٹاپ کرتے اب موقع واردات یعنی ثمر کی خودکشی سے پہلے کی سی سی ٹی وی فوٹیج پلے کی جو وہ ساحر کو بھی دکھا چکا تھا ،


ویڈیو میں صاف دیکھا جا سکتا تھا کہ ، سیاہ چادر اپنے گرد ڈالے اور اُسی چادر سے اپنا چہرہ ڈھکے کوئی وجود کھڑا ہوا تھا ، چلنے کے انداز سے وہ کوئی عورت معلوم ہو رہا تھا پر پیروں میں پہنے شوز ،،، عادل نے کلوز کرتے اُن شوز پر فوکس کیا تو وہ اُنہی شوز سے مشابہت رکھتے تھے جو سنایا کے انٹرویو کی ویڈیو میں شیری نے پہن رکھے تھے ، اُسکو یہ سب سمجھنے میں صرف چند منٹ لگے تھے,,,


شیری نے دونوں موقعوں پر ایک ہی شوز پہن رکھے تھے جو اُسکے فیورٹ تھے ، کیوں کہ یہ شوز سنایا نے اُسے اپنی پسند سے لا کر دیئے تھے ،


اُس نے لیپ ٹاپ بند کر کے سائڈ پر رکھتے موبائل اٹھاتے ساحر کو کال کی پر اُسکا نمبر بند جا رہا تھا ، دو تین کالز کرنے پر بھی جب نمبر بند ہی ملا تو اُس نے حویلی کا نمبر ڈائل کیا ، پر وہ بھی کسی نے نہ اٹھایا ، خبر اتنی بڑی تھی کہ وہ بیٹھ کر ساحر کا انتظار نہیں کر سکتا تھا اس لئے میسج کے ذریعے ملاہم کو مختصر بتاتے وہ حویلی جانے کی تیاری کرنے لگا ،

ساحر کے بچپن کے دوست ہونے کی حثیت سے اُسکا اکثر ہی حویلی میں آنا جانا تھا ، پہلے اُسکی فیملی بھی پشاور میں رہائش پزیر تھی پر اب اُسکی فیملی کینیڈا شفٹ ہوگئ تھی ،


موبائل گھڑی والٹ اور مطلوبہ سامان اٹھاتا ، وہ اپنے آفس سے نکلتا گاڑی پر سوار ہوتا پشاور کی طرف نکلا ۔۔۔

●︿●●︿●●︿●

اتنا اداس کیوں ہو تم میں دیکھ رہی ہوں کل سے تم بہت خاموش ہو طبیعت تو ٹھیک ہے نا تمہاری اشرفی سے ناراضگی اپنی جگہ مگر اشرفی کی جانب سے کل سے اب تک خاموشی محسوس کرتے وہ ساری ناراضگی فلوقت بالائے تاک رکھتی متفکر سی اس سے سوال گو تھی جو پر پھیلائے اپنے چھوٹی چھوٹی ٹانگیں تلا اوپر رکھے روٹھا روٹھا سا رخ دوسری جانب کیئے لیٹا تھا حرم کو فکر ہونے لگی تھی ورنہ اسکا اسپیکر تو صبح سےشروع رہتا تھا اسے لگا شاید وہ بیمار ہے ,


اشرفی کہ طرف سے اب بھی کوئی جواب موصول نہ ہوا بولو نہ میرے پیارے مٹھو کیا ہوا ہے تمہیں,, وہ پھر اسے بولنے کیلئے اکسانےلگی مگر وہ اب بھی بے رخی کی چادر اوڑھے لیٹا تھا,,,


جلدی جلدی تیار ہوجاؤ ہم باہر جارہے ہیں ,,,ساحر صبح جلدی اٹھ کر زمینوں پہ چلا گیا تھا جبکہ حرم نور ابھی کچھ دیر پہلے ہی اٹھی تھی اور اب فریش ہوتے اشرفی سے باتوں میں مشغول تھی جب ساحر کہ آواز پہ وہ چونکتے ہوئے اسکی طرف دیکھنے لگی,,


وہ بھی اسے اشرفی کی طرف متوجہ دیکھ اسی طرف آگیا,,,اسے کیا ہوا ہے منہ کیوں لٹکایا ہوا اس نمونے نے اسے یوں دوسری طرف رخ کیئے دیکھ وہ اپنی ہی دھن میں بولا اشرفی نے لفظ نمونے پہ ایک جتاتی ہوئی نگاہ حرم کی طرف اٹھائی اسنے ایسی نظروں سے حرم کو دیکھا تھا جیسے کہہ رہا ہو دیکھ لو اب کیسے کروں میں تمہارے شوہر کی عزت جسے عزت راس ہی نہیں,,,


حرم نے آنکھوں سے ہی اسے جوابی کاروائ سے باز رہنے کا کہا,,,ساحر جی میرے اشرفی کو نمونہ تو نہ کہیں وہ نظر جکھاتی نروٹھے انداز میں بولی جو بھی تھا وہ ساحر سے آنکھیں ملا کر بات نہیں کر سکتی تھی,,,


دراصل تم ٹھیک کہہ رہی ہو جان ساحر بھلا اسے نمونہ کہنا نمونوں کی توہین ہوگا,,,وہ پھر اسے جان بوجھ کر چھیڑنے لگا اسکی خاموشی وہ محسوس تو کر ہی رہا تھا بلکہ وہ وجہ بھی بخوبی سمجھ رہا تھا لیکن وہ چاہتا تھا اونٹ خود پہاڑ کے نیچے آئے یعنی اشرفی اس سے خود اپنی پہلی نظر کی محبت کی التجا کرے ,,,


اپنے لیئے ساحر کی طرف سے اس قدر تضحیک آمیز جملے سنتا وہ ظبط کی اونچائیوں پہ تھا ,,,,


ساحر نے ایک نظر اسکی سفید آنکھیں دیکھ اپنی امڈتی ہنسی دبائی تھی,,

سساحر جی ہم کہیں جارہے ہیں آپ نے مجھے تیار ہونے کیلئے کہا تھا,, اسنے بھی اشرفی کو غصے میں دیکھ جلدی سے بات پلٹی اور ساحر کا دھیان اپنی طرف راغب کیا,,,


کیوں کبھی اپنے شوہر کیلئے تیار نہیں ہوسکتی کیا پیاری لڑکی وہ جھٹکے سے اسکی.کمر میں ہاتھ ڈالتے قریب کرگیا اور سرگوشی میں بولا حرم نے اسکی بے باک سی بات پہ شرم سے نگاہیں جکھائی تو دوسری طرف اشرفی نے اپنی آنکھوں پی ایک پر پھیلایا,,,

اسکی مردانگی اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ اپنی جان عزیز دوست ماں کو وہ کسی مینڈک کی باہوں میں دیکھنا گوارا کرے,,,


ننہیں میرا مطلب,,,حرم نے ہڑبڑاتے جملہ ادھورا چھوڑا,,,,


جی ہم جارہے ہیں تمہارے برتھ ڈے کیلئے سرپرائز پلین کیا ہے ,,,اسکی گھبراہٹ سمجھتا وہ بھی عام سے انداز میں بولا ویسے بھی اسکی اس بے باک حرکت کی وجہ اشرفی کو جلانا تھی جو وہ بخوبی کر چکا تھا,,, حرم سے کہتا وہ اپنے کپڑے لیئے ڈریسنگ روم میں بند ہوگیا,,,


وہ بھی سرپرائز کا سنتے کھل اٹھی تھی موقعے کی مناسبت سے لباس منتخب کرنے کیلئے الماری کی طرف بڑھی ,,,ایک کے بعد دوسرا دوسرے کے بعد تیسرا لباس وہ ایک نظر دیکھتی آگے کیئے جارہی تھی اپنے لیئے اسے کچھ بھی خاص پسند نہیں آرہا تھا الماری میں ڈھیروں کپڑوں کا انبار لگا تھا مگر آج اسے کچھ پسند ہی نہیں آرہا تھا,,,,


تم ابھی تک یہیں کھڑی ہو ؟؟ڈریسنگ روم سے بلیک جینس اور رویل بلو شرٹ پہنے وہ اپنی ڈیشنگ شخصیت کے ساتھ باہر نکلا اور اسے ہنوز اسی ہلیے میں دیکھ سوال کرنے لگا,,


وہ ساحر جی مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا کیا پہنوں,,,وہ بچارا سا منہ بناتے اپنا مثلہ بیان کرنے لگی اسکی معصوم سی شکل دیکھ ساحر کو ٹوٹ کر اسپے پیار آیا,,,

رکو میں بتاتا ہوں وہ کہتا اسکی طرف بڑھا اور کپڑوں کو سائڈ کرتے ایک شاپر نکالا شاپر سے ایک پیلے اور سیاہ رنگ کا سوٹ نکالتے اسے تھمایا,,,حرم کی آنکھیں خوشی سے چمکی تھی وہ پرجوش سی اسکے ہاتھ سے سوٹ تھام گئی,,,


یہ میرے لیئے ہے ساحر جی,, اسنے چہکتے ہوئے سوال.کیا,,,جی بلکل اب تک تو تمارے لیئے ہی ہے کیونکہ اب تک میری ایک ہی بیوی ہے باقی کی تین کا ابھی تک کوئی جگاڑ نہیں لگا ہے,,,اسنے بے حد سنجیدگی سے جواب دیا تھا حرم کو لگا وہ سچ بول رہا اسنے ایک شکویٰ بھری نظر اسکی طرف اٹھائی ,,,ساحر نے بھی جواباً آبرو اٹھاتے اشارے سے سوال کیا,,,


حرم بیبی ساحر صاحب کو ایک آپ مل گئی نہ وہی غنیمت ہے ورنہ ایسے لوگوں کے رشتے نہیں ہوا کرتے ,,,اس سے پہلے کے حرم کچھ کہتی سامنے سے اڑ کر آتے ہوئے اشرفی نے جوابی کاروائی کی اور آکر عین ساحر کے کندھے پہ براجماں ہوا جیسے یہ کندھا اسکی ریاست ہو,,,

ساحر نے ایک بار پھر اپنی ہنسی پہ ظبط کے پہرے بٹھائے کیونکہ ,اشرفی کے لفظوں میں اسے اپنے کچھ دیر قبل کیئے جانے والے عمل کے بدلے کا عنصر نمایا لگا,,,


حرم بنا کچھ کہے ان دونوں کو چھوڑتی ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گئی,,,وہ کپڑے بدلتی نکھری نکھری سی باہر آئی شاور وہ پہلے ہی لےچکی تھی لیکن بال اب تک نم تھے,,,آئینے کے سامنے کھڑی وہ اپنا مکمل جائزہ لے رہی تھی پیلے اور سیاہ رنگ کی شلوار قمیض میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی گھنے بالوں کو سلجھاتے اسنے اونچا جوڑا بنایا ساتھ اسکارف کو پنوں کی مدد سے سیٹ کیئے ہونٹوں پہ ہلکی گلابی لپسٹک لگائی آنکھوں کو کاجل سے بھرتی اب وہ خود کو آئینے میں دیکھ رہی تھی وہ سادگی میں بھی غضب ڈھا رہی تھی,,,


حرم تیار ہوگئ ہو تو چلیں وہ ابھی نور بانو کو اپنے جانے کی خبر دیتا واپس آیا تھا جب اسے آئینے میں نک سک سا تیار دیکھ اپنی جگہ ساکت ہوا لو جی میں بھی تیار ہوں ساحر مدہوش سا اپنی شریک حیات کو ٹکٹکی باندھےدیکھ رہا تھا لیکن اشرفی کی باریک آواز نے اسے ہوش کی دنیا میں پٹکا ، در حقیقت وہ چند پل کیلئے سٹپٹاگیا تھا,,

جی میں بھی تیار ہوں ساحر جی حرم نے بھی چہکتے ہوئے جواب دیا اور اپنا پرس کندھے پہ ڈالتی اسکے قریب آئی,,,وہ بھی ایک نظر کندھے پہ بیٹھے بقول اسکے کباب میں ہڈی (اشرفی) پہ ڈالتا حرم کا ہاتھ تھامے آگے بڑھ گیا,,,


°°°°°°°°°°

وہ اندھا دھند ڈرائیونگ کرتا دو گھنٹے میں اسلام آباد سے پشاور کا ٹول پلازہ عبور کرتا پشاور پہنچا تھا ، ذہن بہت سی سوچوں میں بٹا ہوا تھا ، کیس مزید اُلجھتا جارہا تھا ، اگر ثمر کی موت میں عنایہ اور سنایا کا ہاتھ تھا تو سنایا کی کیا دشمنی تھی ثمر سے یہ کیا رشتہ تھا اُسکا ،، وہ ہے کون اور اُسکا ماضی کیا ہے اور شیری آخر لگتا کیا ہے اُسکا ،،، وہ سوچتا ساتھ ڈرائیونگ بھی کر رہا تھا ، گاڑی سے اُترتا وہ حویلی کی طرف بڑھا ۔۔۔


عماماً تو عورتوں کا چھت پر جانا ممنوع تھا ، پر وہ ضد کر کے نور بانو سے گٹھن کا بہانہ کرتی چھت پر آئی تھی ، داجی بھی اس وقت گھر پر نہ تھا ، اس لئے نور بانو نے اُسے جلدی نیچے آنے کی ہدایت کرتے چھت پر جانے کی اجازت دے دی تھی ۔۔


وہ کھلی ہوا میں سانس لیتے کافی پُر سکون لگ رہی تھی ، ٹہلتے ہوئے وہ اپنی ہی سوچوں میں مشغول تھی ، وہ حرم کو قبول ہی نہیں کر پا رہی تھی جب جب وہ حرم کو دیکھتی تھی تو اُسے اپنے بھائی کا کفن میں لپٹا چہرا یاد آجاتا تھا ، پھر خود پر ضبط نہیں کر پاتی تھی ایک طرف اُسکا دل حرم کو معصوم تصور کرتے اُسکے ساتھ ہوئی زیادتی پر ترس کھاتا تھا تو دوسری طرف اُسے عنایہ کی بہن سوچتے ہی اُسکی آنکھوں میں چنگاریاں پھوٹنے لگتی تھی ،


وہ اپنی ہی سوچوں میں گم ٹہلتے چھت کے کونے میں أکھڑی ہوئی تھی ۔ چھت کی دیواریں نہ تھی اس لئے اگر اب وہ ایک بھی قدم اور آگے بڑھاتی تو چھت سے نیچے گر جاتی ، وہ ہنوز سب کچھ بھلائے گہری سوچ میں تھی ،سمجھنا مشکل تھا کہ آخر کیسے وہ حرم کو اپنی بھابی کے روپ میں قبول کرے,,,آج بھی ان دونوں کو کہیں جاتا دیکھ دل میں ٹیس سی اٹھی تھی وہ بہت خوش لگ رہے تھے ساتھ میں اپنے ایک بھائی کیلئے وہ دوسرے بھائی کی خوشیاں نہیں چھین سکتی تھی اسے یقین ہو چکا تھا ساحر پسند کرتا ہے حرم کو وہ حرم نور کے لیئے ساحر کی آنکھوں میں محبت دیکھ چکی اسکی نفرت بے مول ٹہری تھی یا شاید اسنے غلط شخص سے خدا واسطے کا بیر باندھا تھا,,,انہیں کشمکش میں گھری وہ چھوٹے قدم لیتی نا محسوس طریقے سے آگے بڑھی اسے زرا بھی احساس نہ تھا کہ اسکا پیر بلکل کنارے پہ ہے وہ تو بس اپنی ہی دھن میں مگن تھی,,,


اُس نے حویلی میں قدم رکھا تو مزدوروں کو صحن میں گائے بھینسوں کے چاروں کی بوریاں رکھتا پایا ،


مزدور کو آخری بوری رکھتے دیکھ اُس نے چوکیدار سے ساحر کا پوچھا ،جس پر اُس نے یہی بتایا کہ وہ کہیں باہر گیا ہے ،


اُس نے چوکیدار کو اپنی آمد کا نور بانو کو بتانے کا کہا

۔ جس پر وہ اثبات میں سر ہلاتا چلا گیا ۔۔


مزدور بھی کام ختم کرتے جا چُکے تھے ۔۔

وہ آس پاس پر نگاہ دوڑاتا اپنی کلائی میں بندھی واچ سے وقت دیکھنے لگا ، اسی دوران زمین پر کسی کا سایہ دیکھ اُس نے بے ساختہ ہی نظر اوپر اٹھائی تھی ، جہاں درخنے کو سامنے کھڑا پایا ،


شٹ ۔۔۔۔ یہ کیا کر رہی ہو ، خودکشی کرنے کا ارادہ ہے کیا ۔۔۔۔ وہ تیز آواز میں چیخا ، عادل کی آواز پر درخنے نے گڑبڑاتے نیچے دیکھا ، عادل کو دیکھ اُسکے اوسان خطا ہوئے تھے ۔۔

وہ ہوش میں آتی جلدی میں پیچھے مڑنے لگی تھی کہ پیر پھسلنے کے باعث وہ ہوا میں أڑتے نیچے گری تھی ،


اُسکا پیر سلیپ ہوتے ہی گرتے دیکھ عادل نے بے ساختہ منہ پر ہاتھ رکھا ،،


وہ اتنی اونچائی سے نیچے گرتے زمین بوس ہو کر اپنی ہڈیوں کا سرما بنواتی کہ بھلا ہو مزدوروں کا جو ابھی تازہ تازہ گائیں بھینسوں کے چارے کی بوریاں رکھ کر گئے تھے ،


وہ جو گرنے کے خوف سے آنکھیں موند گئ تھی پر خود کو سلامت بوریوں پر گرا دیکھ اُسکی آنکھیں حیرت اور صدمے سے کھلی تھی ، آنکھوں میں نمکین پانی جمع ہوتا گالوں سے ہوتا کن پٹی میں جذب ہوا تھا۔۔۔۔۔


عادل ہوش میں آتا اُسکی طرف لپکا تھا ۔ جو بوریوں پہ پڑی منہ پر ہاتھ رکھے خوف سے رونے کا شغل فرما رہی تھی ۔۔۔


کس بیوقوف نے تمہیں چھت سے کود کر خودکشی کرنے کا مشورہ دیا تھا ؟؟؟ وہ جو ابھی پوری طرح یقین بھی نہ کر پائی تھی کہ زندہ ہے مقابل کی آواز پر اُس نے بھیگی پلکوں سے اسکی سمت دیکھا تھا ۔۔


اف مجھے لگتا ہے جیسے تمھاری آنکھوں کے پیچھے کوئی سمندر ہے جو کچھ ہو نہ ہو آنکھوں سے پانی پہلے آجاتا ہے تمھارے , ایک پل کے لئے وہ ان بھیگی آنکھوں میں دیکھتا ڈوبا تھا پر جلد ہی ہوش میں آتے بولا ۔۔۔۔


وہ ایک کینہ توز نظر اُس پر ڈالتی بنا کچھ بولے ہمت کرکے اُٹھتی وہاں سے بھاگتی اپنے کمرے کی طرف بڑھی ، گرنے کے باعث اُسکی کمر میں موچ آئی تھی جس کی وجہ سے اُسے کافی درد ہو رہا تھا پر مقابل کی باتیں اُسکا خون جلا کر رکھ گئ تھی ۔۔۔۔


اُسے یوں روتے ہوئے جاتے دیکھ عادل نے کافی آوازیں دی تھی پر وہ بنا پلٹے وہاں سے بھاگتی جا چکی تھی ، عادل کو رج کر اپنی حرکت پر غصہ آیا تھا ، پر اب کیا فائدہ تھا شرمندگی کا اُسکی دشمنِ جاں تو ایک بار پھر اپنی بھیگی پلکوں سے اُس کی نیندیں حرام کرتی جا چکی تھی


وہ کھڑا اسی سوچ میں تھا کہ پیچھے سے آتی آواز پر پلٹا ۔

تُم کب آئے ، نور بانو نے اُسکے سر پر ہاتھ پھیر کر پیار دیتے مُسکراتے کہا ۔، وہ بچپن میں ہی یہ شہر چھوڑ کر جا چُکا تھا اور نور بانو کافی سالوں بعد اُسے دیکھتے پہچان چُکی تھی ، عادل کی فیملی پہلے پشاور میں رہتے ساحر والوں کے ہمسائے تھے جس وجہ سے نور بانو اور عادل کی والدہ کی خاصی دوستی اور آنا جانا تھا پر شہر چھوڑتے ہی نہ عادل کی ماں نے کوئی رابطہ کیا تھا نہ نور بانو نے ,


پر عادل کی خیر خبر اُنہیں ساحر کے ذریعے ملتی رہتی تھی ۔۔۔۔

بس ابھی ہی آیا ہوں مور ، ساحر سے ملنے ۔۔۔۔ اُس نے سلام کا جواب دیتے اورنور بانو کی شفقت پاتے کہا ۔


ساحر تو شہر گیا ہے قریبی رشتےدار کی شادی تھی تو وہ اپنی بیوی کے ساتھ وہی گیا ہے ، تُم آؤ آرام کرو لمبے سفر سے آئے ہو ، ساحر آجائے گا تو مل لینا ، ساحر کا بتاتے اُنہوں نے ساتھ ہی اُسکی تھکن کا اندازہ لگاتے آرام کا کہا ،


نہیں مور مجھے ساحر سے کام تھا چلیں پھر میں چلتا ہوں پھر آجاؤ گا ۔


ارے اتنا لمبا سفر طے کر کے آئے ہو ، جاؤ گے اور پھر آؤ گے رک جاؤ ساحر سے مل کر چلے جانا ، نور بانو نے پھر اپنائیت سے اُسے رکنے کا کہا ، اُسکا دل تو نہیں مان رہا تھا پر اُنکے اسرار کرنے پر وہ مجبوری میں رک گیا ، اور کچھ خبر بھی ساحر تک پہچانی ضروری تھی وہ بھی جلد از جلد ، اس لئے اس نے رکنے کی حامی بھر لی ، نور بانو نے بھی ملازم کو کہتے اُسے مہمان خانے میں بھجوا دیا ، اور خود کچن کی طرف بڑھ گئی تا کہ کچھ بنوا کر بھجوا سکیں اُسے ،


عادل کمرے میں آتا فریش ہونے کے بعد اب دوبارہ ساحر کا نمبر ڈائل کرنے لگا تھا جو اب بھی مسلسل بزی جا رہا تھا


آخر تنگ آتے اُس نے موبائل رکھتے کچھ دیر آرام کے غرض سے بستر پر دراز ہوگیا ،


°°°°°°°

نور بانو نے جب کمرے میں قدم رکھا تو اُسے ہچکیوں سے روتا پایا ، پہلے تو وہ اُسکے یوں اچانک رونے پر حیران ہوئی پر جلد ہی سنبھلتے پریشانی میں اُس سے رونے کی وجہ پوچھنے لگی جس پر روتے اُس نے سب کچھ اُسے بتا دیا لیکن عادل کی موجودگی وہ سرے سے گول کر گئی تھی,,,

نور بانو اُسکے سلامت بچ جانے پر خدا کا شکر ادا کرتی اُسکی کمر کی موچ پر مالش کرتی اور پین کلر اُسے دے کر سونے کا کہتی کمرے سے نکل گئی، پین کلر سے درد میں کمی محسوس کرتے وہ بھی نیند کی وادیوں میں اُترتی گئ۔۔۔


°°°°°°°°

اپنے کندھے سے اشرفی کو گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ بٹھاتا وہ نا محسوس طریقے سے اسکا پیر باندھ گیا تھا اشرفی بھی تعابداری کا مظاہرہ کرتے خاموشی سے پیچھے بیٹھ گیا آخر وقت پہ گدھے کو بھی باپ بنانا پڑتا ہے اور اشرفی کو کسی بھی طرح اس طوطی تک پہنچنا تھا جسکے لیئے اسے ساحر کی مدد درکار تھی ,,,


گاڑی اپنی رفتار سے خالی روڈ پر دوڑ رہی تھی تیز ہوتی ہوا کے باعث حرم نے کھڑکی کے دروازے بند رکھے تھے ساحر بھی ڈرائیونگ کیساتھ حرم اور اشرفی سے ہلی پھلکی باتوں میں مگن تھا,,,


.پشاور کا راستہ عبور کرتے اسنے گاٹی اسلام آباد کی طرف ڈالی تھی,,,


حرم تو بس پرسکون سی یہ سفر انجوائے کر رہی تھی ساتھ ساحر کی باتوں کا بھی جواب دے رہی تھی لمبے سفر کے بعد ساحر نے گاڑی کا رخ حرم کے گھر کی طرف کیا ,,,


جانی پہچانی جگہ دیکھتے اسکی آنکھیں چمکی تھی وہ اب تک راستوں سے لاعلم تھی مگر جیسے ہی اپنے گھر کے آس پاس کا علاقہ دیکھا وہ خوشی سے چہک اٹھی تھی اسنے مسکراتی پرجوش آنکھوں سے ساحر کی طرف دیکھا بدلے میں وہ ایک مسکراتی نظر اسپے ڈالتا گاڑی عین اسکے گھر کے پاس روک گیا,,,,


باہر نکلتے اسنے حرم نور کی طرف کا دروازہ کھولا جو بے چینی سے باہر نکلنے کی منتظر تھی,,,اور اسکا ہاتھ تھامے دروازہ بند کرتے داخلی دروازے کی سمت بڑھ گیا,,,


پیچھے اشرفی نے بھی باہر نکلنے کی کوشش کی لیکن چاروں طرف کے شیشے بند تھے اور دوسرا اسکا پیر بھی بندھا ہوا تھا جسکا احساس اسے اب ہوا تھا اس سے پہلے کو وہ اسکی چال سمجھتا ساحر حرم کا ہاتھ تھامے آگے بڑھ گیا تھا ,,,,


اللہ پوچھے ظالم جابر انسان معصوم پرندے کی بدعا لگے گی اس مینڈک کو اللہ کرے گنجا ہوجائے بکھاری نہ ہو تو,,,اب ہہاں تماشہ لگانا مطلب ساحر کو اب تک لگائے گئے مکھن پہ پانی پھیرنے کے مترادف تھا اسلیئے وہ خود سے ہی بولتا اسکی شان میں قصیدے پڑھنے لگا,,,


***********

سکندر اور عنایہ اس وقت دوپہر کا کھانا کھارہے تھے سکندر نے کل کے بعد سے اس سے کوئی بات نہیں کی تھی وہ خود ابھی کشمکش میں تھے کہ آگے کیا ہونا چاہیئے کیونکہ ایک طرف عنایہ تھی تو دوسری طرف حرم نور جو بے وجہ ہی عنایہ کے گناہوں کی بھینٹ چڑ چکی تھی نا تو وہ اسے سزا دے سکتے تھے اور نہ حرم کو وہاں مرنے کیلئے چھوڑ سکتے تھے,,,اب انہیں جو بھی کرنا تھا سوچ سمجھ کر کرنا تھا کیونکہ وہ خود بھی پٹھانوں کی سخت روایتوں سے بخوبی واقف تھے,,,

ایک بار جب لڑکی ونی کرلی جائے تو آخری سانس تک وہ انکی غلام رہتی ہے,,,لیکن وہ بھول گئے تھے اس دنیا کے لوگوں میں لاکھ برائی سہی لیکن انسانیت اب بھی باقی تھی ,,,


عنایہ پلیٹ میں چمچ چلاتے بار بار نگاہ اٹھا کر سکندر کو دیکھ رہی تھی جو اسے نظرانداز کیئے کھانا کھانے میں مگن تھی,,,

ویسے تو اسے کوئی خاص فرق نہیں پڑ رہا تھا انکی خاموشی سے مگر مسلسل بے رخی پاتے وہ اب کچھ افسردگی کا شکار ہوئی تھی لیکن یہ بھی بس چند ہی سیکنڈ کیلئے اسے محسوس ہوا تھا,,,


بابا.....سکندر کھانا کھاتے اٹھنے لگے تھے جب حرم نور کی چہکتی ہوئی آواز پر وہ سرگرداں سے پلٹے,,,

عنایہ نے بھی نگاہ آواز کی تقلید میں اٹھائی جہاں ساحر حرم کا ہاتھ تھامے کھڑا تھا,,,


ساحر کے ہاتھ میں حرم کا ہاتھ دیکھ اسے اپنے وجود میں چیونٹیاں سی رینگتی محسوس ہوئی جلن کی ایک شدید لہر بدن میں دوڑی تھی ,,,,

ساحر نے اب تک اسے نہیں دیکھا تھا کیونکہ اسکے آگے سکندر صاحب کھڑے تھے جیسے ہی سکندر نے اشکبار ہوتے حرم کی طرف قدم بڑہائے تو عنایہ کا چہرا ساحر کی آنکھوں سے ٹکرایا,,


وہ جو اب تک مسکرا رہا تھا یک لخت چہرے سے ہنسی سمٹتی سنجیدگی کا لبادا اوڑھ گئی,,,حرم کے ہاتھ پہ گرفت ڈھیلی پڑی اپنے ہاتھ پہ اسکی گرفت ڈھیلی محسوس کرتے اسنے بھی نگاہ عنایہ کی طرف اٹھائی


اپی...سرگوشی نما آوازمیں کہا گیا,, اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ساحر کے چہرے پہ چھائی سنجیدگی غصے کہ شکل اختیار کر گئی تھی,,


عنایہ خود پہ اسکی نظریں محسوس کرتے خوف سے تھوک نگلتی اٹھ کھڑی ہوئی,,,


یہ یہاں کیا کر رہی ہے قاتل عورت وہ تیش میں اسکی طرف بڑھا اور گردن کو دبوچتا اسکے منہ پہ پھنکارا,,,


ساحر چھوڑو اسے ساحر کو شدید غصے میں دیکھ سکندر صاحب نے آگے بڑھتے عنایہ کی گردن اسکے ہاتھ سے نکلوانی چاہی جسکی وجہ سے اسکا چہرہ سرخ ہوگیا تھا وہ اسکا ہاتھ اپنی گردن سے ہٹانے کیلئے پھپھڑا رہی تھی عنایہ کو اپنا سانس رکتا محسوس ہوا مقابل کی گرفت اتنی سخت تھی کہ وہ مر بھی سکتی تھی,,,


ساحر چھوڑو وہ تمہارے بھائی کے بچے کی ماں بننے والی ہے ہوش کرو کچھ اسنے نہیں مارا تمہارے بھائی کو وہ بے گناہ ہے


سساحر جی پلیز اپی کو چھوڑ دیں آپکو میری قسم,,,

سکندر کے لفظوں نے جیسے اسکے پیروں تلے زمین کھینچی تھی تو دوسری طرف حرم کے لفظوں پر اسنے جھٹکے سے اسکی گردن چھوڑی تھی,,,


وہ اس جھٹکے سے منہ کے بل گرتی لیکن بروقت سکندر نے اسے سمبھالا اپنی جان بخشی پر لمبے لمبے سانس لیتی بری طرح کھانسنے لگی تھی,,


سکندر نے تڑپ کر اسکے لبوں سے پانی کا گلاس لگایا تھا,,,


اسنے غصے سے لب بھینچتے اپنا ہاتھ ڈائینگ ٹیبل پہ مارا ٹھا کی آواز پیدا ہوئی اپنا غصہ قابو کرنے کے چکر میں اسکی رگیں پھول گئیں تھی,,,

حرم نے ساحر کے پاس جانے کی غلطی نہیں کی تھی,,,وہ دور سے ہی کھڑی اسکے غصے سے کانپ رہی تھی, ,,,


چھوڑونگا نہیں میں تمہیں سمجھی تم,,,

چند دن کی مہمان ہو جی لو اچھی طرح لیکن یاد رکھنا ساحر شہروز خان کی نظر میں ہو تم اور تمہاری بخشش نا ممکن ہے ایسی عبرت ناک سزا تیار کی ہے تمہارے لیئے کہ سوچ کر ہی میری روح کانپ جاتی ہے,,,وہ انگلی اٹھاتے دھمکی آمیز لہجے میں بولا اور یہ جسکا بھی بچہ اپنے وجود میں لے کر گھوم رہی ہو جلد ہی ثابت ہوجائے گا یہ بھی تمہاری کوئی نئی چال ہی ہوگی وہ پھر تیش میں پھنکارا پورا چہرا غصے کی زیادتی سے سرخ ہورہا تھا آنکھوں میں شعلے بڑھک رہے تھے وہ ایک نظر سکندر کو دیکھتا حرم کا ہاتھ تھامے تقریباً گھسیٹتے ہوئے لے گیا,,,


وہ بچاری بامشکل اسکے ہمقدم ہوتی آنسوں بہاتی چلنے لگی,,,پھینکنے کے اندازمیں اسے گاڑی میں بٹھایا اور زن سے گاڑی بگھا لے گیا


وہ جو اس طوطی کے خیالوں میں کھویا ہوا تھا,گاڑی کا دروازہ کھلنے کی آوازپہ ہوش میں آیا حرم کو روتا اور ساحر کو غصے میں دیکھ وہ نادان پرندہ پریشان ہوا ,,


اب کونسا کارنامہ کیا ہے تم نے یہ کیوں رو رہی ہے, ,اشرفی نے بنا ڈر خوف کے سیدھا سوال داغا بے بسی کی انتہا تو یہ تھی کہ وہ حرم تک بھی نہیں جاسکتا تھا,,,ساحر نے اسکے سوال پہ اسے ایسی نظروںسے گھورا تھا کہ اشرفی بھی ایک پل کیلئے سہم گیا تھا ,,,,


پورے راستے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی,,,زندہ ہوں ابھی مرا نہیں ہوں جو یوں پھوٹ پھوٹ کر رو رہی ہو بچا کر رکھو یہ آنسوں اپنی بہن کی قبر پہ بہانہ ,,,اسکے رونے پر وہ چڑ کر سفاکیت سے بولا حرم نے تڑپ کر اسکی طرف دیکھا تھا لیکن مقابل تو اپنی ہی دھن میں تھا,,,,


میری بہن قاتل نہیں ہے سنا آپ نے آپ کچھ نہیں کرینگے اسکے ساتھ سمجھے,,,وہ بھی بنا لحاظ کے پوری قوت سے چلائی تھی ساحر نے حویلی کے آگے گاڑی روکتے اسے بھی گاڑی سے نکالا اور جارحانہ انداز میں اسکا بازوں دبوچے گھسیٹتے ہوئے راہداریاں عبور کرنے لگا,,,


مجھے تو کوئی نکالو ظالم آدمی مجھے کچھ بتاؤ خبردار جو میری حرم کو کچھ کہا تھا مینڈک بندر ,,,,ساحر کا یہ روپ دیکھ وہ گھبرا گیا تھا لیکن حرم کیلئے اسنے ڈر خوف بھلائے آواز اٹھائی تھی مگر ساحر کے سر پر تو جنون سوار تھا وہ آس پاس سے بے نیاز بس حرم کا ہاتھ تھامے آگے بڑھتا چلا گیا,,


آنگن میں نور بانو کچھ ملازمین کو ہدایت دے رہی تھی جب ساحر کو روتی ہوئی حرم کو اس طرح گھسیٹتے ہوئے لیجاتے دیکھا ابھی وہ کچھ کہتی یا پوچھتی اس سے پہلے ہی وہ کمرے میں بند ہوتا دروازہ لاک کرگیا,,,

یا اللہ کونسا قہر نازل ہوا ہے,,,نور بانو ساحر کو اس قدر غصے میں دیکھ دل تھامتی صوفے پر ڈھے سی گئی تھی,,,


کمرے میں لاتے ہی اسنے حرم کو بیڈ پر پھینکا تھا,,,


آاخر چاہتے کیا ہیں آپ مجھ سے ککیوں ہر بار آپکو تذلیل کرنے کیلئے ممیری ہی زات ملتی ہے ببگاڑا کیا ہے ہمنے آپکا جو ہاتھ دھو کر ہمارے پیچھے پڑ گئے ہیں,,,وہ خود کو سمبھالتے بھپری شیرنی کی طرح گرائی تھی لیکن لفظوں میں لڑکھڑاہٹ صاف واضح تھی,,,


ساحر نے خونخوار نگاہ اسکی طرف اٹھائی تو چند پل کیلئے وہ سہمی,,,


کیا بگاڑا ہے تم نے ارے قاتل ہے تمہاری بہن میرے معصوم بھائی کی اور اب ناجانے کسکا گندہ خون اپنے وجود میں پال کر بیٹھی ہے اور الزام میرے مرحوم بھائی پہ تھوپ رہی ہے ,,, ساحر نے نے بھی دوبدو عنایہ کو حقارت سے تصور کرتے اونچی آواز میں کہا,,,


بہن ہے وہ میری ۔۔۔۔ نہیں ہے وہ کسی کی بھی قاتل سمجھے آپ ۔۔۔اگر اتنا ہی پارسا تھا آپکا بھائی تو کیوں ملتا تھا میری بہن سے چھپ چھپ کر آنسوؤں سے تر چہرے سے وہ تیز لہجے میں بولی ، آج تو تیز لہجے میں بات کرتے اُس کی زبان بھی نہ لڑکھڑائی کیسے لڑکھڑاتی زبان مقابل نے اُسکی جان سے عزیز بہن پر جو اُنگلی اٹھائی تھی ۔۔۔


چٹاخ ۔۔۔ ساحر کا بھاری ہاتھ اُٹھا اور اُسکے نازک گال کی زینت بنا تھا ۔۔ اس نازک دھان پان سی لڑکی کا تیز لہجہ ساحر کو تیش دلا گیا تھا لیکن اسنے ہاتھ جان بوجھ کر ہلکا ہی رکھا تھا شاید وہ اس عمل سے اسے محض ڈرانا چاہتا تھا نا کہ تکلیف دینا وہ عورت پہ ہاتھ اٹھانا مردانگی نہیں سمجھتا تھا ۔۔۔ مگر اسکے بھائ کی موت نے جیسے اسے پتھر کا کر دیا تھا دوسرا حرم کے لفظ اسے چابک کی طرح اپنے سینے پہ پیوست ہوتے محسوس ہوئے حرم کیلئے اسکے سارے جزبات کہیں دور جا سوئے تھے اسنے بنا سوچے سمجھے حرم کو تھپڑ دے مارا,,,


وہ قاتل ہے ۔۔۔۔ بولو وہ قاتل ہے ۔۔۔ اُسکا نازک جبڑہ دبوچے سُرخ آنکھوں سے اُسکے چہرے کے قریب پھنکارا ۔۔


دا درد ہو رہا ہے ۔۔۔نہ نہیں رہنا مجھے آپ کے ساتھ بامشکل ہی الفاظ ادا ہوئے مقابل کا یہ روپ اسے کپکپانے پہ مجبور کرگیا تھا,,,


مجھے بابا اور ماما کے پاس جانا ہے ۔۔ اسکا ہاتھ اپنے چہرے سے ہٹانے کی مزاحمت کرتے ,,, حرم نے ہچکیوں سے روتے کہا دائیں گال پر ساحر کی انگلیوں کے نشانات ثبت تھے اور جبڑے پر گرفت اتنی مضبوط تھی کہ اُسے اپنا جبڑا ٹوٹتا ہوا محسوس ہو رہا تھا ۔


ہا ہا ہا۔۔۔۔۔ درد....


پتہ بھی ہے کسے کہتے ہیں ۔۔۔

نہ نہیں پتہ تُمہیں پر بہت جلد تُمہارے ماں باپ اور بہن کو پتہ چل جائے گا درد کسے کہتے ہیں ۔۔۔


اپنوں کو کھونے کا دُکھ کیا ہوتا ہے ۔۔۔

وہ اُسکا چہرہ آزاد کرتا اذیت سے بھر پور قہقے کے ساتھ بولا ۔۔۔۔ وہ شدید اذیت میں تھا جس لڑکی نے اُسکے بھائی کو خودکشی پر مجبور کیا وہ اُسی لڑکی کی بہن کو اپنی بیوی بنا بیٹھا تھا۔۔۔شہد رنگ آنکھوں میں غصےکی زیادتی سے چنگاریاں پھوٹ رہی,,,


عنایہ ایسی نہیں آپ سب کیوں کہہ رہے ہیں اُس کے لئے یہ سب ۔۔۔۔ ایک بار پھر موہم سی امید کے تحت اسنے اپنی بہن کے دفاع میں بولنا چاہا,۔۔۔


نہیں ہے تمھاری کوئی بھی بہن اور نہ ہی ماں باپ ، آج سے تمھاری ماں میری مور ہے اور باقی سب تمہارا میں یعنی ساحر خان تمہارا شوہر ہے سمجھی۔۔۔۔ اُسکے بال جکڑتا تنے جبڑے اور سرد آنکھوں سے دیکھتا تیز آواز میں گویا ہوا ۔۔۔۔


اگر تُم نے دوبارہ اپنی ماں بہن اور باپ کا نام بھی اپنی زبان سے نکالا تو میں بھول جاؤگا کہ کبھی مجھے تُم سے محبت بھی ہوئی تھی ۔۔


اور یہ تمھاری زبان میرےسامنے جتنی کم چلے گی تُمہارے لئے اُتنا ہی بہتر ہوگا ۔۔۔ وہ اُسکی کمر میں ہاتھ ڈالتے کان کے قریب چہرہ کرتے اُسکے کان میں سور پھونکنے لگا ۔۔۔


لفظ محبت پر حرم نے ڈبڈباتی آنکھوں سے اُسے دیکھا تھا ۔۔۔

جب آپکو میری بہن اور ماں باپ سے اتنی ہی نفرت تھی تو کیوں کیا آپ نے مجھ سے نکاح ۔۔۔۔


وہ اُسکی جھلسا دینے والی گرفت میں تڑپتی ہوئی بولی ۔۔

وہ اِس لئے جانم کہ جو اذیت میں نے اور میرے گھر والوں نے برداشت کی ہیں وہ تُم اور تمھارے ماں باپ بھی کریں ۔۔۔۔


آئیندہ کے بعد تمہاری زبان سے ادا ہونے والے لفظ صرف میرے ہونے چاہیئے,,,ساحر خان کی اجازت کے بغیر تم اب سے کسی سے بات نہیں کروگی آج سے تمہاری سانسیں بھی تم پہ تنگ کردونگا,, وہ بے حد سفاکیت سے اسکے کانوں میں سور پھونک رہا تھا اور وہ بالوں میں اٹھتے درد سے نڈہال ہوتی مزاحمت بھی ترک کرچکی تھی


بہت دکھ دیئے ہیں نہ میں نے تمہیں آج سے تمہیں دکھ کی اصل حقیقت سے روشناس کرواؤنگا تاکہ تمہارے باپ کو بھی اندازہ ہو کہ انکی بیٹی کو ونی کیا گیا ہے نا کہ عزت سے بیاہ کے لایا ہوں,,,


جیسے جیسے وہ کہہ رہا تھا ویسے ویسے ہی حرم کی جان ہوا ہورہی تھی مقابل کا لہجہ بہت اٹل معلوم ہورہا تھا ,,,,


میری نرمی کا شاید تم بہت غلط مطلب نکال چکی تھی آج سے تمہارے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو روایتوں کے مطابق ایک ونی ہوئی لڑکی کیساتھ کیا جاتا ہے, ,آخری بات کہتا وہ ایک بار پھر اسے بیڈ پہ دھکا دیتا خود باہر کی طرف بڑھ گیا,,,,


پیچھے وہ اوندھے منہ پڑی سسکیاں بھرنے لگی آنکھوں کے سامنے اس ستمگر کے ساتھ گزارے خوشگوار لمحے کسی سائے کی طرح لہرانے لگے تھے بے دردی سے آنسوں رگڑتی وہ ساحر کے متعلق ساری سوچوں کو جھٹکنےلگی,,,


**********

حرم کا چہرہ اتنے دنوں بعد دیکھنا اُنہیں نصیب ہوا پر وہ جی بھر کر دیکھ بھی نہ پائے اُسے اپنے سینے سے لگانے کے لئے تڑپتا دل آخر آج بھی تڑپتا رھ گیا تھا وہ اُسے روکنا چاہتے تھے اُسے جی بھر کر دیکھنا چاہتے تھے اُس سے باتیں کرنا چاہتے تھے پر وقت نے اُنہیں مہلت ہی نہ دی ، وہ ابھی اسی غم میں بیٹھے تھے کہ عنایہ کی سسکیاں اُنکی سماعتوں سے ٹکراتی اُنہیں ہوش کی دنیا میں پٹخ گئ تھی۔۔۔۔۔


اب میں کیا کروں گی وہ مجھے اور میرے بچے کو دونوں کو مار دے گا ، میرے ساتھ ہی کیوں ہو رہا ہے یہ سب میں بے قصور ہوں میں کیسے یقین دلاؤں ، مجھے چھپا لیں بابا وہ مار دیں گے ۔۔۔ وہ چیختی روتی سکندر سے بولی ۔۔۔


کوئی کچھ نہیں کر سکتا ، تمہارا باپ زندہ ہے ابھی جاؤ آرام کرو میں دیکھ لوں گا تُم فکر نہ کرو۔۔۔، وہ اُسکی حالت کا خیال کرتے تسلی دیتے گویا ہوئے ،


وہ بھی سکندر کو اپنی طرف دیکھ مطمئن ہوتی سو سو مصنوئی رونے کا شغل کرتی کمرے کی طرف بڑھ گئی ، کمرے میں آتے ہی اُس نے کمرہ لوک کیا تھا ،


آنکھوں کے سامنے بار بار وہی لمحہ آرہا تھا جب ساحر حرم کا ہاتھ تھامے مسکراتا کھڑا تھا ، سوچتے ہی اُسکے وجود میں چیونٹیاں رینگنے لگی تھی جلن سے اُسکے وجود میں شولے اُٹھ رہے تھے وہ پاگل بنی اپنے بال دونوں ہاتھوں میں جکڑتی اِدھر سے اُدھر ٹہل رہی تھی پر غصہ تھا کہ کسی صورت کم نہیں ہو رہا تھا اُسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ حرم نور کو ختم کر دے ابھی بھی وہ بید شیٹ تکیے اور کشن زمین پر پھینکتے بے جان چیزوں پر اپنا غصہ اُتار رہی تھی ، پر آنکھوں سے سامنے بار بار وہی منظر آتے اُسے اور جنونی بنا رہا تھا ،،،


نہیں میں نہیں ہار سکتی ساحر کی محبت پر صرف میرا حق ہے ساحر شہروز خان صرف عنایہ سکندر کا ہے اگر کسی نے اُسے مجھ سے چھیننا چاہا تو میں اُسے سفا ہستی سے ہی مٹا دوں گی ، نہیں حرم بیبی تُم اس بار نہیں جیت سکتی مجھ سے ہر بار تُم نے مجھ سے سب کی ہی محبت چھینی ہے پر ساحر کو نہیں چھیننے دوں گی وہ صرف میرا ہے میرا ۔۔۔۔۔


جب اُسے پانے کے لئے میں اُسکے بھائی ثمر کو مار سکتی ہُوں تو تمہیں مارنا میرے لئے کوئی بڑی بات نہیں ،۔۔۔ وہ جنونی بنی شدید غصے میں خیالوں میں ہی حرم نور سے مخاطب تھی ۔۔۔۔۔۔


تُم فکر نہ کرو تُمہیں ساحر اپنا نام دے گا تُم یتیم نہیں رہو گے میں تمہارا اور اپنا حق کسی کو نہیں مارنے دوں گی ، مجھے اگر پوری دنیا کو بھی آگ لگانا پڑی تو میں لگاؤں گی پر ساحر کا نام تُمہیں اور خود کو دونوں کو دلواؤ گی ، وہ ہاتھ کی پُشت سے آنسو رگڑتی اب اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھتے اُس معصوم سے مخاطب تھی ، جو شائد اُسکی باتیں سننے اور سمجھنے سے ابھی قاصر تھا ، پر یہ بھی خدا ہی جانتا تھا کہ آگے اُس معصوم کی زندگی میں کیا لکھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔


°°°°°°°°°

وہ نیچے آیا تو ملازم نے اسے ڈرتے ڈرے عادل کی آمد کی خبر دی وہ جو فلحال کسی سے سامنا کرنے کی خواہش نہیں رکھتا تھا عادل کی آمد کا سنتے اثبات میں سر ہلاتا اپنی کنپٹی مسلنے لگا,, لمبا سانس کھینچتے خودکو پرسکون کرتے وہ عادل کی طرف بڑھا,,


کیا ہوا ہے سب ٹھیک تو ہے اس وقت یہاں کیسے,,,عادل اپنے لیپٹوپ پہ مصروف تھا جب ساحر نے اندر داخل.ہوتے سوال کیا,,,,


ہاں سب ٹھیک ہے لیکن تجھے کیا ہوا ہے اتنا سرخ کیوں ہورہا ہے,؟؟ فلحال وہ اپنی بات کو گول کرتا اسکے سرخ ہوتے چہرے کی جانب دیکھتے سوال گو ہوا ,,,


عنایہ واپس آگئی ہے اور بقول اسکے وہ ثمر کے بچے کی ماں بننے والی ہے,,,اسکے برابر بیٹھتے اسنے مختصر اسے بتایا,,

واٹ یہ کیسے ممکن ہے ,,,,عادل نے حیران ہوتے سوال کیا,,,پتہ نہیں مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا لیکن میں نہیں مان سکتا کہ وہ بچہ میرے ثمر کا ہوسکتا ہے, اسنے دونوں ہاتھ میں سر تھامتے جواب دیا,,,فلحال وہ کچھ بھی سوچنے ,سے قاصر تھا ساری سوچوں کا دائرہ حرم کے گرد جو گھوم رہا تھا ,,,,


مجھے سچ سچ بتا ہوا کیا ہے کیونکہ تیرے چہرے سے لگ رہا ہے تیری پریشانی کی وجہ کوئی اور ہے ,,,,اسےشدید مضطرب دیکھ عادل نے اسکے برابر صوفے پہ بیٹھتے مشکوک سے انداز میں سوال کیا,,,


کچھ نہیں ہوا ہے تو کچھ بتانے والا تھا ؟؟ اسکے سوال کو گول کرتے اسنے عادل کی توجہ کام کی طرف دلائی,,

ہمم بتاتا ہوں لیکن میری ایک بات کان کھول کر سن لے جو بھی مثلہ ہے وہ تیرا زاتی ہے اسکا حرم بھابی سے کوئی تعلق نہیں بنا وہ معصوم ہیں اور تیری بیوی بھی ہیں اگر عنایہ کا غصہ حرم بھابی پہ نکال کر آیا ہے تو تف ہے تیری مردانگی پہ سمجھا,,,,


وہ کچھ کچھ سمجھ گیا تھا اسکی پریشانی کی وجہ اپنی بات مصلحت سے کہتا آخر میں اسکی سوچ پہ ملامت کرتا وہ بیڈ سے لیپ ٹاپ اٹھا کر لایا ,,,


وہ نامحسوس طریقے سے ہی سہی لیکن ساحر کو شرمندگی کے سمندر میں غوطہ زن ہونے پہ مجبور کرگیا تھا,, وہ کچھ نہیں بولا کہتا بھی کیا حرم پہ ہاتھ اٹھا کر اسنے اپنی مردانگی کو ہی للکارا تھا,,,


یہ دیکھ ......

لیپٹوپ کی اسکرین سامنے کرتے اسنے دونوں ویڈیوں اسے دکھائی جیسے جیسے وہ ویڈیوں دیکھ اور سمجھ رہا تھا چہرے کے تاثرات میں تبدیلی ہو رہی تھی,,

یہ سنایہ وکٹوریہ آخر ہے کون اور ثمر سے کیا دشمنی ہےاسکی,,ساری بات سمجھتے ساحر نے سوال داغا,,,

وہ تو اب تک مجھے بھی نہیں پتا کہ آخر یہ ہے کون میں نے ملاہم کو کہا ہے اس تک رسائی حاصل کرنے کی وہ پوری کوشش کر رہا ہے,, ,

عادل نے مکمل تفصیل سے آگاہ کیا,,,,ساحر نے بھی اثبات میں سر ہلایا اور باقی کے سوال پوچھنے لگا,,,,


*********


کچھ دیر یوں ہی سوال و جواب کے بعد عادل کھانا کھا کر واپس جا چکا تھا ساحر نے نور بانو کو بھی ساری صورت حال سے آگاہ کردیا تھا مگر انہیں اسکا حرم کے ساتھ رویہ شدید ناگوار گزرا تھا جسکا اظہار بھی وہ اس سے کر چکی تھی وہ انہیں مطمئن کرتا سونے کی ہدایت دے کر آیا تھا اور اب اپنی حرکت پی شرمندہ ہوتے اسٹور روم میں بیٹھا تھا ٹھنڈے پانی کا گلاس منہ سے لگاتے ایک ہی سانس میں سارا پانی حلق میں انڈیل گیا مگر یہ ٹھنڈا پانی بھی دل میں جلتی آگ نہ بجھا سکا وہ گلاس ہاتھ میں تھامے راکنگ چیئر پہ سر ٹکائے آنکھیں موندے بظاہر پرسکون لیٹ گیا مگر دل میں اٹھتے شرمندگی کے طوفان سے محض وہ خود ہی واقف تھا بار بار اسے اپنی حرکت پہ غصہ آرہا تھا بس نہیں چل رہا تھا جس ہاتھ سے حرم کو تکلیف دی ہے وہ ہاتھ ہی جڑ سے اکھاڑ دے رہ رہ کر نظروں کے سامنے حرم کا روتا گڑگڑاتا سایہ لہرا رہا تھا,,,اور جیسے جیسے حرم کا چہرہ نگاہوں کے سامنے لہرا رہا تھا ویسے ویسے اسکی گرفت کانچ کے گلاس پہ سخت ہورہی تھی,,,


چھناک جب برداشت کا مادا ختم ہوا تو اسنے پوری قوت سے گلاس کو اپنے ہاتھ پہ توڑ دیا, خاموش کمرے کی فضاء میں کانچ ٹوٹنے کی آواز گونجی,,,ہاتھ سے تیزی سے خون بہنے لگا تھا اسنے گلاس زمین پہ پھینکا جب ایک بار پھر کمرے میں کانچ کی آواز ارتعاش پیدا کر گئی,,,تب بھی جب غصہ کم نہ ہوا تو اپنا خون سے لدا ہاتھ دیوار پہ دے مارا,,,خون اب ابل ابل کر ہاتھ سے گرتا زمین پہ بہہ رہا تھا لیکن اسے شاید تکلیف ہی محسوس نہیں ہورہی تھی دل کا درد اس درد سے کئی گنا بڑا تھا,,,,کچھ دیر یوں ہی اپنا خون بہاتے گھڑی میں وقت دیکھا جو دو کا ہندسہ عبور کر چکی تھی,,,اچانک حرم کا خیال آتے وہ کمرے کی طرف بڑھا,,,


**********

وہ روتے روتے ایسے ہی سوگئی تھی اسنے رات کا کھانا بھی نہیں کھایا تھا,, اسے اب تک اسی پوزیشن میں دیکھ ساحر کو ایک بار پھر شرمندگی ہوئی, ,وہ ایک نظر اسکے سوئے وجود پہ ڈالتا اپنے ہاتھ کی پٹی کرنے

لگا ,,,,پٹی کرتے اسنے نائیٹ ڈریس تبدیل کیا اور بیڈ کے قریب آیا جہاں سے حرم کا چہرا واضح تھا,,,


سرخ سپید چہرے پہ آنسوؤں کے مٹے مٹے نشان تھے تو دائیں گال پہ اس ستمگر کی انگلیوں کے ہلکے ہلکے نشان اب بھی ثبت تھے,


اسنے پھر سے اپنی حرکت پہ شرمندہ ہوتے اسے سیدھا لٹایا اور کمفرٹر اوڑاتے بیڈ کی دوسری طرف آیا,,,کمر میں ہاتھ ڈالتے حرم کو اپنے سینے پہ ڈالا پٹی بندھا ہاتھ اسکی کمر کے گرد لپیٹے دوسرےہاتھ کی مدد سے بالوں میں انگلیاں چلاتے پرسکون کرنے لگا,,,,


حرم کے وجود میں سوتے ہوئے بھی ہلکی ہلکی لرزش ہورہی تھی اسکے کھینچنے پر وہ سختی سے اسکی بنیان مٹھی میں دبوچ گئی تھی,,


***********

رات کے تیسرے پہر وہ نیند سے بیدار ہوئی خود کو ساحر کی گرفت میں دیکھ اسنے بے ساختہ ہی کینہ توز نگاہ مقابل کے چہرے کی طرف اٹھائی جو شاید گہری نیند سورہا تھا,,,اور ایک افسوس بھری نگاہ اسپے ڈالتی مقابل کا سخت گہرا توڑنے کی کوشش کرنے لگی , ,اسنے اپنی کمر میں لپٹا ساحر کا ہاتھ اٹھا کر خود کو اس بوجھ سے آزاد کرنا چاہا مگر ساحر کی گرفت مزید سخت ہوگئی,,,وہ بیزار ہوتی مزاحمت ترک کر گئی,,,

وہ پھر سے سینے میں منہ دیئے آنکھیں موند گئی,,,

چند ہی پل گزرے ہونگے کہ اسنے جھٹکے سے کچھ یاد آنے پر سر اٹھایا اور نگاہ سیدھا سامنے بنے اشرفی کے چھوٹے سے گھر کی طرف اٹھائی جہاں وہ گھر خالی منہ چڑا رہا تھا,,,,اشرفی کو وہاں نہ پاتے اسکی نظروں کے سامنے گزشتہ لمحات کسی فلم کی طرح چلنے لگے,,,اپنی پریشانیوں میں وہ اشرفی کو تو بلکل فراموش ہی کر گئی وہ اب تک گاڑی میں تھا,,,

پوری قوت سے ساحر کو خود سے پیچھے دکھیلتی وہ کمفرٹر جھٹکے سے دور پھینکتے بیڈ سے اتری ,,,,پہلا خیال اسے دوپٹے کا آیا جو پورا ساحر کے گرد لپٹا تھا,, دوپٹے کے بنا نکالے وہ الماری سے شال لیئے بیرونی دروازے کی سمت بڑھی ,,,,,


کہاں جارہی ہو؟؟وہ جو کب کا نیند سے بیدار ہوتا بند آنکھوں سے اسکی کاروائی دیکھ رہا تھا دروازہ کھلنے کی آواز پر اسنے تیزی سے آنکھیں کھولتے سوال کیا,,,جو شال میں لپٹی دروازے کی نوب پہ ہاتھ رکھے کھڑی تھی,,,


زہن میں اشرفی کو لے کر طرح طرح کی فکر لاحق ہورہی تھی,,,

ااشرفی گگاڑی میں ہے اب تک,,,اسنے بنا پلٹے ہی لڑکھڑاتے لفظوں کے ساتھ مقابل کو جواب دیا,,

او شٹ....ساحر بھی اپنی لاپرواہی پہ خود کو ملامت کرتا جلدی سے اٹھا,,,,


تم یہی رکو میں دیکھ کر آتا ہوں,,اسے حکم دیتا وہ خود قمیض پہنتا باہرکی طرف بھاگا,,,,


پورچ میں پہنچتے تیزی سے اپنی گاڑی کی طرف بڑھا ,,, پچھلی سیٹ کا شیشہ کھلا ہوا تھا جبکہ اشرفی وہاں موجود نہ تھا اسنے اچھی طرح گاڑی کی تلاشی لی مگر سب بے سود اشرفی تو اسے کہیں نہ ملا دل اسکی فکر میں تیزی سے دھڑکنے لگا تھا اسے یاد نہیں تھا کھڑکی کا دروازہ پہلے سے کھلا ہوا تھا یا کسی نے کھولا ہے,,,


لیکن چابی تو میرے پاس ہےتو کھڑکی کسنے کھولی ہوگی وہ گہری سوچ میں ڈوب رہا تھا کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا آخر اشرفی کیسے غائب ہوگیا,,,


شاید مور...ہاں مور لے جاسکتی ہیں نور بانو کا خیال آتے اسنے اشرفی کا پوچھنے کیلئے قدم انکے کمرے کی طرف بڑھائے,,,,

اتفاقاً نور بانو کی آج فجر کیلئے جلدی آنکھ کھل گئی تھی تو وہ قرآن پاک کی تلاوت میں مشغول تھی ,,,کمرے کی لائٹ روشن دیکھ ساحر اندر داخل ہوا جہاں نوربانو جائے نماز پر بیٹھی تھیں,,,


مور آپنے اشرفی کو کہیں دیکھا ہے؟؟اسنے اضطرابیت سے پوچھا, ,


نہیں بیٹا کیوں کیا ہوا کہاں گیا اشرفی , وہ اشرفی کی غیر موجودگی کا سنتے پریشان ہوتے پوچھنے لگی ,,

ارے ہوا کچھ نہیں مور شاید وہ شرارتی موڈ میں ہے گھر میں کہیں چھپ گیا ہے آپ فکر نہ کریں میں دیکھتا ہوں,,,

اپنے لہجے سے انہیں مطمئن کرتا وہ ایک بار پھر اشرفی کا سوچتے اپنے کمرے میں آیا تھا,,,


کہاں ہے اشرفی آپ لے کر کیوں نہیں آئے اسے,,,وہ جو بے چینی سے ساحر کی منتظر تھی اسکے آتے ہی سوال کرنے لگی,,,ساحر نے لمبا سانس کھینچتے کسی مجرم کی طرح گردن جکھائی تھی,,,

ممجھے میرا مٹھو چاہیئے سنا آپ نے لے کر آئیں اسے,,,ابکی بار اسکی خاموشی پر وہ بھرائی آنکھوں سے تیز لہجے میں بولی,,,


حرم میں لے آؤنگا اسے تم فکر مت کرو بھروسہ رکھو,,,.ساحر اسکی فکر سمجھتا مصلحت سے بولا,,,,

نہیں ہہے مجھے بھروسہ آپ پہ مجھے میرا اشرفی لاکر دیں کہیں سے بھی,,,,وہ بیڈ پہ گرتی روتے ہوئے بولی,,


دیکھو میں وعدہ کرتا ہوں اشرفی کل تک تمہارے پاس ہوگا پلیز سمجھنے کی کوشش کرو حویلی میں اسے کوئی جانور بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا ضرور کسی ملازمین نے اسے گاڑی سے نکال لیا ہوگا وہ گھٹنوں کے بل بیٹھا اسکے ہاتھ تھامتا پھر سنجیدگی سے بولا,,,,

حرم کے تو آنسوں تراتر چہرے پہ بہہ رہے تھے,,

اگر مجھے کل تک اشرفی نہیں ملا تو جان لے لونگی اپنی سمجھے آپ,,,,


اسکے ہاتھ کے نیچے دبے اپنے ہاتھ نکالتی وہ بے دردی سے آنسوں رگڑتے گویا ہوئی,,,ساحر بھی کچھ مطمئن ہوتا اسے دیکھنے لگا لیکن سوچوں کا دائرہ اشرفی کے گرد گھوم رہا تھا,,,,آخر مور نے نہیں اٹھایا تو گیا کہاں اشرفی اسکا تو پیر بھی بندھا ہوا تھا,,,,اپنی سوچوں کا جال تھامے وہ اسے آرام کی ہدایت کرتا خود باہر کی طرف بڑھ گیا اشرفی کی تلاش میں,,,

●︿●●︿●●︿●


سنو ، تُم نے حرم کے طوطے کو دیکھا ہے کیا کہیں ؟ اُسے زینے سے گزرتے دیکھ ساحر نے بغور اُسکا چہرا دیکھتے پوچھا۔۔

اس اچانک سوال پر درخنے کے چہرے کے تاثرات بدلے تھے، اور ذہن کسی گہری سوچ میں ڈوبا تھا

Flash back:


کوئی مجھے نکالو یہاں سے ۔....

وہ ابھی ٹہلنے کی غرض سے باہر تک آئی تھی کہ کانوں میں باریک سی آواز ٹکرائی,,,اسنے ادھر ادھر نگاہ گھما کر دیکھا مگر کوئی موجود نہ تھا,,,,


ارے نکالو ظالموں میرا دم گھٹ رہا ہے پرندے پہ ظلم ڈھاتے ہوخدا مّعاف نہیں کریگا,,

ایک بار پھر آواز ٹکرائی اسنے ابکی بار تیزی سے آواز کے تعاقب میں نگاہ گھمائی تو کچھ دور کھڑی ساحر کی گاڑی میں اشرفی کو تڑپتے دہائیاں دیتے پایا ,,,

وہ تقریباً بھاگتی ہوئی ساحر کی کار تک پہنچی تھی,,,,


ارے آپ یہاں کیا کر رہے ہو,,,درخنے نے کھڑکی سے جھانکتے ہوئے پوچھا بھاگنے کی وجہ سے سانس کچھ اوپر نیچے ہورہا تھا,,


پہلے تو درخنے کو دیکھ اشرفی نے شدید ناگوار منہ بنایا مگر اگلے ہی پل اپنی پوزیشن کا خیال کرتے فوراً چہرے کے زاویے بدلے تھے ,,,,

وقت پر تو گدھے کو بھی باپ بنانا پڑتا ہے,,,بس یہی سوچ کر اسنے ناگواریت میں بدلے تاثرات فوراً ہی معصومیت میں تبدیل کیئے تھے,,,


مجھے خود بھی نہیں پتہ میں یہاں کیا کر رہا ہوں پیاری لڑکی مجھے نکالو یہاں سے ,,,,ابکی بار اشرفی مکھن لگانے والے انداز میں مسکینیت سے بولا,,,

میں نکالتی ہوں .....وہ کہتی تیزی سے ہاتھ بڑھا کر اسکا بندھا ہوا پیر آزاد کر گئ ,,,,,

اشرفی کے چہرے پہ چمک ابھر گئی,,,,درخنے نے اپنا ہاتھ آگے کیا تو وہ چلتا ہوا اسکے کندھے پہ چڑھ گیا,,,


بہت شکریہ پیاری لڑکی,,,شکل و صورت سے تو درخنے اسے بہت پیاری لگی تھی,,,,

تم حرم نور کے طوطے ہو نا میں چھوڑ دیتی ہوں تمہیں بھائی کے کمرے تک,,,


درخنے نے اسے پیار سے دیکھتے ہوئے کہا,,,طوطوں سے تو اسے ہمیشہ سے ہی دلی لگاؤ تھا ,,, دل تو چاہ رہا تھا کہ اس سے باتیں کرے مگر حرم کا سوچتے وہ دل مارتی اسے چھوڑنے کا کہنے لگی,,,


میرا نام اشرفی ہے میں حرم نور کا ساتھی ہوں لیکن آج تو جیسے میری دوست مجھے بھلا ہی بیٹھی ہے مرنے کیلئے چھوڑ دیا ہے یہاں,,,,


اسکی بات سنتے اشرفی نے فوراً ہی احتجاج کیا,,,وہ ناراض تھا حرم سے,,

لفظ اشرفی پر درخنے کی نظروں کے سامنے اپنا طوطہ جھلملایا تھا بے ساختہ ہی خیال اپنے اشرفی کی طرف گیا تھا اور اگلے ہی لمحے اسے یاد کرتے چہرے پہ آسودگی چھائی تھی ,,,,مجھے نہیں جانا ہے ابھی حرم نور کے پاس ناراض ہوں میں اس سے کیا تم مجھے ایک رات کیلئے پناہ دے سکتی ہو تاکہ میں اپنی اہمیت حرم نور کو بتا سکوں,,,

درخنے کی مہربانیاں دیکھتے وہ پھیلنے لگا تھا,,,


کوئی بات نہیں تم جب تک چاہو میرے ساتھ رہ سکتے ہو

اسنے بھی اشرفی کی معصوم شکل دیکھتے اجازت دی,,,,اور قدم بڑہاتی اپنے کمرے تک آئی,,,

وہ بدل رہی تھی حرم نور سے جڑی چیزوں کو محبت کرنے لگی تھی,, انسان برا نہیں ہوتا وقت اور حالات اسے برا بنا دیتے ہیں شاید بے بسی اسے ہی کہتے ہیں جب ہم چاہ کر بھی اپنے جذباتوں پہ قابو نہیں رکھ پاتے,,,یہ لو پانی پیو اور غصہ ٹھنڈا کرو ہو سکتا ہے کوئی مجبوری ہو اسلیئے حرم بھابی تمہیں لے کر نہیں گئی,,,اسے صوفے پر اتارتے خود پیالی میں پانی لیئے اسکے سامنے رکھا اور سہولت سے اسے سمجھایا,,,


ہممم ہوسکتا ہے لیکن مجھے غصہ آیا ہوا ہے بس ,,,,اشرفی نے پہلے پرسوچ اور پھر نروٹھے انداز میں کہا,,,اوہو اور یہ غصہ کہاں سے آیا ہوا ہے,,,درخنے نے بھی آنکھیں مٹکاتے مصنوعی حیرت سے پوچھا,,,


یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں ، مٹھو بھی حیران ہوا تھا ،

ہا ہا ہا ،،، بہت پیارے ہو تُم اشرفی کاش کہ میں تمہیں ہمیشہ اپنے پاس رکھ پاؤ ، پر تُم حرم کے طوطے ہو وہ بہت محبت کرتی ہے تُم سے آؤ تُمہیں چھوڑ آؤ اُس کے پاس وہ پریشان ہوگی ، درخنے نے اُس سے متاثر ہوتے پہلے اپنی خواہش ظاہر کی پھر فکر مندی سے گویا ہوئ۔


نہیں ابھی نہیں ہونے دو اُنہیں تھوڑا پریشان ، ڈھونڈنے دو اُس پشاوری ککڑ کو مجھے ، اف میرے غائب ہونے سے حرم نے اب تک اُسکی ٹھکائی کر دی ہوگی ، اشرفی نے دل میں ہی ساحر کی حالت محسوس کرتے کہا ،


اشرفی تُم کیوں بول رہے ہو میرے بھائی کے بارے میں ایسا ، اتنے اچھے تو ہیں اپنے بھائی کے خلاف سن کر اُس نے نروٹھے انداز میں کہا،

ہاں وہ اچھا ہے تبھی تو اس نے ایک معصوم بے زبان جانور کو گاڑی میں باندھا تھا ، جلتا ہے وہ مجھ سے ، اشرفی نے کچھ غصے سے کہتے اپنا دایاں پر جھڑا تھا ،


پہلی بات تم بِے زبان نہیں اور دوسری بات معصوم تو تم کہیں سے نہیں لگتے ، درخنے نے اُسے آیئنہ دکھانا چاہا ،


سہی ہے پھر چھوڑ آؤ تُم مجھے وہی تا کہ وہ دوبارہ میرے ساتھ ایسا ہی کرے اور ایک دن میں مر جاؤ ، اشرفی کا میلو ڈراما ایک بار پھر سٹارٹ ہوا تھا ۔۔۔


اُس نے اشرفی کی مرنے والی بات پر دہل کر اُسکی طرف دیکھا تھا جو اُس سے منہ موڑ چکا تھا ،

اچھا ٹھیک ہے میں نہیں لے کر جا رہی تُمہیں تُم جب تک چاہو یہاں رھ سکتے ہو ، درخنے نے ہار مانتے حامی بھرتے کہا ۔


وعدہ کرو جب تک میں نہ چاہو تُم ساحر یہ حرم سے نہیں کہو گی کہ میں یہاں ہو ، اشرفی نے وعدہ لیتے کہا جس پر اُس نے پلکیں جھپکتے اثبات میں سر ہلاتے جواب دیا ،

پکا نہ ؟ پھر یقین دھانی چاہی ،

ہاں پکا آب سونے دو مجھے وہ ہاتھ میں اُسے اٹھاتے بیڈ کے کراؤن پر اُسے بٹھاتے بولی

ہاں میں سونا چاہتا ہو ، بہت نیند آرہی انگڑائی لیتا پتلي آواز میں بولا

درخنے بھی لائٹ اوُف کرتے لیٹ گئ ،


کیا ہوا ہے کہاں کھو گئی ہو بتاؤ نہ ؟؟؟ اُسے خیالوں میں گم دیکھ ساحر نے چٹکی بجاتے ہوش دلایا ،

جس سے گڑبڑاتے وہ حال میں لوٹی ۔۔۔

نہ نہیں بھائی میں نے ت تو نہیں دیکھا ، جھوٹ بولتے اُسکی زبان لڑکھڑائ تھی اُسے یہ سب اچھا نہیں لگ رہا تھا پر اشرفی سے وعدہ کر چُکی تھی وہ ۔


ساحر اثبات میں سر ہلاتے کمرے کی طرف بڑھ گیا ، ساحر کے جاتے ہی وہ بھی تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی ،

تُم نے بتا تو نہیں دیا میرا ؟؟ وہ دروازہ لوک کرتی لمبی سانسیں لے رہی تھی اشرفی کی آواز اُسکی سماعتوں سے ٹکرائی ،

نہیں بتایا تمھاری وجہ سے میں نے اپنے باپ جیسے بھائی سے جھوٹ بولا درخنے نے ندامت سے کہا

۔

اوہ خدا اِسکا اجر دے تُمہیں ، اشرفی نے رنگ بدلتے عام سے انداز میں کہا جیسے کوئی بڑی بات نہیں ہو ، وہ کیا کہتی خاموشی سے اُسے دیکھنے لگی ،


**********

وہ ہر جگہ اشرفی کو تلاش کر چکا تھا پر وہ اُسے کہیں بھی نہیں ملا تھا ، حرم کا سوچتے اُسکا دل اور پریشان ہو رہا تھا ، وہ مختصر وقت میں ہی حرم اور اشرفی کے رشتے سے واقف ہو گیا تھا ،وہ کیسے سنبھالے گا اُسے جو اُسکی بات سننا تو دور اُسے دیکھنا بھی گوارہ نہیں کر رہی تھی ، کمرے کے دروازے کے قریب پہنچتے اُس نے اپنی ہلکی بڑھی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ایک لمبی سانس لیتے خود کو پر سکون کرنے کی کوشش کی تھی ، جو بھی تھا اُسے ہی سنبھالنا تھا اب سب کچھ

دروازے کا لوک گھماتے اُس نے اندر قدم رکھا تو کمرے میں سکوت چھایا ہوا تھا اپنی نظریں اُس نے حرم کی تلاش میں پیھریں جو سامنے ہی جائے نماز میں اپنے رب کے حضور سجدہ زیر تھی ، وہ ایک نظر اُس پر ڈالتا الماری سے کپڑے نکالتے واشروم کی طرف بڑھ گیا ، جلدی سے فریش ہو کر وہ باہر آیا تو اُسے ہنوز سجدے میں پایا ،


حرم ،،، اُس نے بے ساختہ پُکارا ، پر وہ تو جیسے آج بہرِی ہوگئ تھی ،

حرم . , اُسکی طرف سے کوئی جواب یہ حرکت نہ پا کر اُس نے حرم کو پُکارتے شتاب کاری سے وہ اُسکی جانب بڑھا ،


اُس نے ہاتھ آگے بڑھاتے اُسے ہلایا تو وہ مردہ وجود کی طرح دوسری جانب گر گئی ،

سوجی سُرخ آنکھیں ، آنسوؤں سے تر بھیگا چہرا ، سُرخ لب بھیگی پلکیں اُسے دیکھ ساحر کے دل میں ایک ٹیس سی اُٹھی تھی یہ سب اُسکی وجہ سے ہی تو ہوا تھا وہ چاہتا تو خود کے غصے پر ضبط کر سکتا تھا ،مگر حرم پر ہاتھ اٹھا کر اُس نے بہت بھاری غلطی کی تھی ،


حرم کیا ہوا ہے تُمہیں حرم ، اُسکی پُکار میں بھی اُسکی تڑپ واضح تھی ، کپکپاتے ہاتھوں سے اُس نے اُنگلی کی مدد سے اُسکی گردن کی نس ٹٹولنی چاہی جو چل رہی تھی , رب کا شکر کرتے اُسکے بے ہوش وجود کو بازوؤں میں بھرتا بیڈ کی طرف بڑھا ۔۔۔۔۔۔۔


اُسے بیڈ پر احتیاط سے لٹاتے اُس نے قدم کمرے سے باہر نکالے تا کہ ملازمہ کو ناشتے کا کہہ سکے حرم نے کل صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا جس کے باعث بے ہوش ہو گئی تھی ۔۔۔


کچھ ہی دیر میں ملازمہ ناشتے کی ٹرے تھامے کمرے میں داخل ہوتی ہوئی نظر آئی ،

ملازمہ کے ہاتھ سے ٹرے لے کر ٹیبل پر رکھتے اُس نے کمرہ لوک کیا اور پانی کا گلاس ہاتھ میں تھامے حرم کی طرف بڑھایا,,,,

حرم .....

اُسے دنیا جہاں کی فکر اور ہوش و حواس سے بیگانہ دیکھ اُسکے سُرخ گالوں پر اپنے ہاتھ کی پُشت سہلاتے پُکارا ، پر وہ ہوش میں ہوتی تو سنتی نہ


ساحر نے گلاس سے پانی ہاتھ میں ڈالتے چند بوندیں اُسکے گال میں اچھالی ، پانی کی بوندیں چہرے پر پڑتے ہی اُس کی پلکوں میں جنبش ہوئی تھی ۔۔۔۔۔


اور پھر آہستہ آہستہ کر کے اُسے ہوش آنے لگا تھا ،

بھیگی اور بھاری پلکیں اٹھاتے اُس نے آنکھیں کھولی تو اپنے سامنے بیٹھے ساحر کو دیکھ وہ پوری اُٹھ بیٹھی تھی ۔۔۔۔


اُسے ہوش میں آتے دیکھ ساحر کی بھی جیسے سانس میں سانس آئی تھی , اُس نے حرم کے مومی نرم و ملائم اور نازک ہاتھ اپنے کھردرے ہاتھوں میں تھامتے لبوں سے لگانے چاہے ہی تھے کہ وہ اُسکے ہاتھوں سے اپنے ہاتھ چھڑاتے پیچھے کھینچ گئ ، اور منہ موڑ گئ ۔۔۔۔۔


وہ جتنا بھولنے کی کوشش کر رہی تھی اس تھپڑ کو پر ساحر کو دیکھتے اُسے دوبارہ یاد آجاتا تھا ،

حرم ایسا نہ کرو میرے ساتھ ، میں پہلے ہی بہت شرمندہ ہو تُم سے پلیز مان جاؤ اور بھول جاؤ اس سب کو ، اُسے یوں خود سے خفا دیکھ ساحر کی تو جیسے جان پر بن آئی تھی ابھی بھی وہ شدید ضبط سے بولتا ہونٹ بھینچ گیا ،


ایسا نہ کرو...

کیوں نہ کرو بتاؤ مجھے آپکی وجہ سے میرا اشرفی میری محبت ، میرا دوست میرا دُکھ سکھ کا ساتھی مجھ سے دور چلا گیا اور آپ کہہ رہے ہو میں ایسا نہ کروں، پتہ نہیں کس حال میں ہوگا وہ کس کے پاس ہوگا سب۔۔۔۔۔،


سب کچھ آپکی وجہ سے ہوا ہے جب سے میری زندگی میں آئے ہو آپ کچھ بھی اچھا نہیں ہوا میرے ساتھ ، حرم تو جیسے اشرفی کی جدائی سے پھٹ پڑی تھی تیز آواز میں بولتی وہ ساحر کو مٹھیاں بھینچے پر مجبور کر گئ تھی ، آنسو تراتر اُسکی شہد رنگ آنکھوں سے بہہ رہے تھے ،


ساحر آج خود کو برداشت کی آخری سیڑھی پر محسوس کر رہا تھا ،

میں ڈھونڈ لاؤ گا اُسے حرم تُم اُٹھو پہلے کچھ کھالو ورنہ طبیعت خراب ہو جائے گی تمھاری ، ساحر نے خود پر ضبط کے پہرے بیٹھاتے نرمی سے کہا ،


زہر دے دو مجھے تا کہ جان چھوٹے آپکی مجھ سے اُس معصوم سے تو جان چھڑا چُکے ہو آپ میں پوچھتی ہو ، آخر بگاڑا کیا تھا اُس نے آپکا،,,, حرم کی باتیں اب ساحر کی برداشت سے باہر ہوتی جا رہی تھی ، آپ نہ ڈھونڈو میں خود ڈھونڈ لو گی اپنے اشرفی کو ، وہ اور بھی بہت کچھ کہہ رہی تھی پر ساحر نے اُسکے لبوں پر اُنگلی رکھتے اُسے خاموش کر دیا تھا ۔۔۔۔۔


وہ ضدی نہیں تھی وہ تو معصوم تھی پر ساحر کے رویعے نے اُس سے معصومیت چھین کر ضدی کر دیا تھا ، پر مقابل بھی ساحر شہروز خان تھا اُسے ایک ہی چست میں اپنی باہوں میں بھرتا صوفے پر بٹھا گیا ،


یہ پیو ،،،، ٹرے سے جوس کا گلاس اٹھاتے حرم کی طرف بڑھاتے کہا پر وہ منہ موڑ گئ ، ساحر نے ایک لمبی سانس ہوا کے سپرد کی تھی اُسکے غصے سے سہمنے والی حرم نور آج اُس کے صبر کے لئے سراپا امتحان بنی ہوئی تھی ۔۔۔۔


حرم اگر تُم نے یہ جوس نہ پیا تو قسم کھاتا ہوں بہت بُرا پیش آؤں گا ، نہ چاہتے ہوئے بھی اُسکا لہجہ سخت ہوا تھا ، اُسکے لہجے کی سختی محسوس کر حرم کی روح فنا ہوئی تھی پر وہ خود کو مضبوط ثابت کرتے ڈٹی رہی البتہ اُسکی کانپتی انگلیوں سے ساحر اُسکے ڈر کا اندازہ لگا چکا تھا ،


حرم ۔۔۔۔ سخت آواز میں ایک بار پھر پُکارا گیا پر جواب ندارد ، ساحر نے ایک ہاتھ سے جوس کا گلاس اٹھاتے اور دوسرے سے اُسکا رُخ اپنی طرف کرتے گلاس اُسکے لبوں سے لگا لیا ، حرم ہٹانا چاہتی تھی پر اُسکی سُرخ آنکھوں میں دیکھ کر اُسکی ساری ہمت ہوا ہوگئ تھی ، خود کو بے بس دیکھ آنسو پھر سے بہنے لگے تھے ۔۔۔


تُم فکر نہ کرنا میں اشرفی کو ڈھونڈ کر ہی آؤ گا ، اُسکی پیشانی پر لب رکھتے وہ کہتا ایک نظر اُس پر ڈالتے کمرے سے نکلتا باہر کی طرف بڑھا ،،،،،


نہیں رہو گی میں آپکے ساتھ ساحر شہروز خان ، نہیں چاہئے مزید آپکا کوئی احسان میں خود ڈھونڈ لو گی اپنے اشرفی کو ، اُسکے جاتے ہی بے دردی سے آنسو رگڑتے عزم سے بولی ،



اب وہ اُسے تلاش کرتا بھی تھک چکا تھا ، ذہن مختلف باتوں اور سوچوں میں بٹا ہوا تھا ، ایک طرف عنایہ کی کہی باتیں دوسری طرف حرم کی فکر اور پھر اشرفی کی گمشدگی سوچ سوچ کر اب تو اُسکے دماغ کی نسیں پھٹنے کے قریب تھی ،


اگر عنایہ سچ کہہ رہی ہے تو وہ میرے بھائی کی امانت میرے بھائی کی نشانی ہے میرا خون ہے میں کیسے منہ موڑ سکتا ہوں بھلا اپنے ہی خون سے ، اور ثمر کے آخری ویڈیو پیغام میں بھی اُس نے ذکر کیا تھا اپنی اولاد کا ، وہ سوچتا لمبی سانسیں لیتا گاڑی کی سیٹ سے سر کی پُشت ٹکاتے آنکھیں موند گیا ،


يا اللّٰہ مجھے صبر دے ، خدا سے صبر مانگتا وہ کچھ سوچتے گاڑی سٹارٹ کر گیا ،

کچھ دیر کی ڈرائیونگ کے بعد اُس نے گاڑی قبرستان کے قریب سائڈ پر روکی ، گاڑی سے نکلتا وہ قبرستان کے اندر کی طرف بڑھ گیا ، وہ ابھی ثمر کی قبر کے قریب پہنچا ہی تھا کہ وہاں دوپٹے میں موجود کسی خاتون کو دیکھ وہ حیران ہوا تھا ، اُن کے ہاں عورتوں کا قبرستان آنا منع تھا تبھی سامنے کھڑی خاتون کی موجودگی سے وہ حیران تھا ،


بلیک چادر میں کھڑی اُس خاتون کی ساحر کی طرف پُشت تھی جس کی وجہ سے وہ اُسکا چہرا نہیں دیکھ پا رہا تھا ،،،


اپنے بھائی کی قبر پر آج پہلی دفعہ آتے اُس کے غم ایک بار پھر ہرے ہوئے تھے ، ڈھیر ساری باتوں کے بعد دعا کے لئے ہاتھ اٹھا کر فاتحہ پڑھتے وہ ثمر کے لئے دعائے مغفرت کرتی ابھی جانے کے لئے مڑی ہی تھی کہ اپنے پیچھے ساحر کو دیکھ وہ ٹھٹکی تھی ، ساحر کے لئے بھی یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ سامنے کھڑی لڑکی درخنے ہے ،


یہاں کیا کر رہی ہو تم تُمہیں پتہ ہے نہ یہاں آنا منع ہے تمہارا داجی کو پتہ لگ گیا تو جان لے لیں گے تمھاری کس کی اجازت سے آئی ہو یہاں ،؟ وہ اُسکے مقابل کھڑا ہوتا سوال گو تھا ،،

اپنے بھائی سے ملنے آئی تھی بس جا رہی ہوں ، بھیگی آنکھوں اور بھیگی آواز میں بولی ، یہ لو گاڑی کی چابی گاڑی میں بیٹھو میں آتا ہوں ، ساحر نے گھڑی میں وقت دیکھتے حکم صادر کیا جو چار کا ہندسہ عبور کر گئ تھی ۔۔۔


درخنے بنا کوئی بحث کئے چابی اُسکے ہاتھ سے تھامتے گاڑی میں بیٹھ گئی ، وہ ساحر کی پریشانی کی وجہ جانتی تھی پر وہ اشرفی سے کیا وعدہ بھی نہیں توڑ سکتی تھی اس لئے خاموش ہی رہی ،


اُسکے جاتے ہی ساحر بھی ثمر کی قبر کے قریب بیٹھا تھا ،

تُم کتنے دور جا سوئے ہو میرے بھائی کیا تمہیں یاد نہیں آتی ہماری تُم نے کیوں کیا یہ سب تُم مجھے اپنے بڑے بھائی کو بتاتے ، میں تمھاری ہر خوشی ہر خواہش تمھاری جھولی میں ڈال دیتا تُم کیوں گئے اتنے دور ، تُم وہاں کیوں گئے میرے بھائی جہاں سے کبھی کوئی واپس نہیں آیا ، تُم نے ایک بار بھی نہیں سوچا ہمارا ؟؟ وہ اُسکی قبر پر ہاتھ پھیرتا سوال گو تھا ، آنسو آنکھوں سے لڑیوں کی مانند رواں تھے ، سب کچھ اُسکے ہاتھوں سے نکلتا جا رہا تھا پر وہ کچھ بھی نہیں کر پا رہا تھا ، ایک طرف اُسکی محبت اُسکا عشق اُسکا جنون اُسکی معصوم سی حرم تھی تو دوسری طرف عنایہ سے انتقام اور ثمر کی اولاد اُسکی آخری نشانی تھی ۔۔۔۔


میں سنبھالوں گا تمھاری امانت کو تمھاری آخری نشانی میرے ثمر کی اولاد کو میں پالوں گا اپنا نام دوں گا سینے سے لگا کر رکھو گا اُسے میں جیسے تُمہیں لگا کر رکھا تھا میرے بھائی ، کچھ دیر کی خاموشی کے بعد وہ کسی نتیجے پر پہنچا تھا اور نم آواز عزم سے گویا ہوا ۔۔۔۔


وہ کافی دیر وہاں بیٹھنے کے بعد آنسو پونچھتا گاڑی کی طرف بڑھا تھا ، گاڑی میں بیٹھتے بنا درخنے کی طرف دیکھے وہ گاڑی نکالتا حویلی کے راستے میں ڈال گیا تا کہ درخنے کو گھر چھوڑتے وہ حرم کو بھی دیکھ لے ،،،،


پوری حویلی سناٹے میں چھائی ہوئی تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی ذی روح ہی موجود نہ ہو وہاں ، بلیک چادر میں اپنا وجود چھپائے وہ اپنی ہی دُھن میں آگے بڑھتی جا رہی تھی ،

میں ڈھونڈ لو گی میرے اشرفی تُمہیں تُم بلکل ٹھیک ہو گے تُمہیں لے کر میں بہت دور چلی جاؤ گی جہاں ساحر کا سایہ بھی ہم تک نہ پہنچ پائے گا ، بہت بُرا ہے وہ مجھ پر ہاتھ اٹھایا اُس نے تمہیں بھی چھین لیا مجھ سے میں کبھی اُسے معاف نہیں کرونگی کبھی نہیں ، اپنے خیالوں میں چلتی وہ نہ جانے حویلی سے نکلتی کہاں آگئی تھی ، عصر کی اذان ہو چکی تھی بارش بھی پورے زرو شور سے برسنے کے ارادے میں تھی ،

وہ چلتے چلتے کہاں آگئی تھی وہ نہیں جانتی تھی کیوں کہ وہ بلکل اپنے حواسوں میں نہیں لگ رہی تھی ،،،،


ساحر گاڑی حویلی کے باہر روکتے باہر نکلتے اپنے کمرے کی طرف بڑھا تھا ،

کمرے میں آتے ہی وہ پورے کمرے میں اُسے تلاش کر چکا تھا پر وہ کہیں نہیں تھی ،


تُم نہ ڈھونڈو میں خود ڈھونڈ لو گی اپنے اشرفی کو صبح حرم کے کہے جملے یاد کرتے اُسکے دماغ میں جھماکا ہوا تھا ،


کیا کیا یہ پاگل لڑکی اب کہاں گئ ہوگی تُم ؟ وہ تیزی سے کمرے سے نکلتا باہر کی طرف پہنچا تھا ، دس منٹ میں ہی وہ پوری حویلی میں اُسے ڈھونڈ چکا تھا پر وہ یہاں ہوتی تو ملتی نہ .....

●︿●●︿●●︿●


آنسو ترا تر آنکھوں سے بہتے گالوں پہ پھسل رہے تھے ، پر وہ بنا کسی کی پرواہ کئے اپنے ہی خیالوں میں آگے بڑھ رہی تھی ساحر کے مارے گئے تھپڑ کی چبھن اُسے اب تک اپنے گال پر محسوس ہو رہی تھی ،

یہ تھپڑ ساحر نے اُسکے گال پر نہیں بلکہ اُسکی پاک روح پر مارا تھا اس تھپڑ کے بعد وہ حرم کے دل میں اپنا مقام کھو چُکا تھا ۔


آہ,,,,, اپنے ہی خیالوں میں چلتی وہ اتنی بے خبر تھی کہ سامنے پڑا پتھر بھی اُسے دکھائی نہ دیا اُس پتھر سے پیر ٹکراتے وہ لڑکھڑاتی سامنے پڑے پتھر کی طرف گری تھی ، اوندھے منہ گرنے کے باعث اُسکا سر اُس پتھر سے ٹکرایا تھا جس کی وجہ سے خون کی ایک لکیر ماتھے سے نکلتی پتھر پر قطروں کی مانند گرنے لگی ہاتھ بیچ میں اُس پتھر پر رکھتے اُس نے خود کو بچانے کی پوری کوشش کی تھی پر شفاف کلائیوں میں پہنی کانچ کی چوڑیاں ٹوٹتے زمین پر گری درد برداشت نہ کرتے اُس کی آنکھیں بند ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


°°°°°°°°

بھائی سنیں تو بھائی ،،، ساحر غصے میں لمبے لمبے ڈگ بھرتا حویلی کے بیرونی دروازے کی سمت بڑھا تھا تا کہ حرم کو ڈھونڈ سکے ابھی وہ دروازے تک پہنچا ہی تھا کہ درخنے ہانپتی کانپتی اسے پُکارتی اُس تک پہنچی تھی ،


کیا مسلا ہے جلدی بولو ، وہ گردن اُسکی طرف موڑتے بولا


بھائی وہ ، وہ ساحر کی آنکھوں میں چنگاریاں دیکھ رکی تھی اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیسے بتائے جس چیز کے پیچھے وہ کل سے خوار ہوتا گھوم رہا ہے وہ دراصل ہے ہی اُسکے پاس ،،،


بولو بھی.... اُسے جملہ ادھورا چھوڑ کر سوچ میں ڈوبا دیکھ ساحر نے تھوڑے تیز لہجے میں کہا

یہ کیا ہو رہا ہے ، تُم دونوں دروازے پر کیوں کھڑے ہو ، حرم کو گھر میں تلاش کرتے وہ بیرونی دتوازے تک آئی تھی اوریہاں ساحر کے سخت لہجے کو سنتے نور بانو نے اُن کے پریشان چہرے دیکھ حیرت سے پوچھا ۔انکی آواز پہ وہ دونوں ہی اس طرف متوجہ ہوئے اور رخ نوربانو کی جانب کیا,,,


ساحر حرم کمرے میں نہیں ہے اور نہ ہی کچن میں ہے کہاں ہے حرم ؟؟ نور بانو نے اُنہیں خاموش دیکھ پھر سوال کیا اُن کی خاموشی سے نور بانو کو کھٹکا سا لگا تھا ۔۔۔۔۔۔


درخنے نے ہمت جمع کرتے ابھی کچھ بولنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ نور بانو کو وہاں آتا دیکھ وہ پھر خاموش ہو گئی ۔۔۔


بولو بھی ۔۔۔ساحر کی دھاڑ سے درخنے سہم کر آنکھیں میچتی خود میں سمٹ گئی۔۔۔


بھائی اشرفی میرے پاس ہے کل رات کو آپ بہت غصے میں تھے اور شاید بھول بھی گئے تھے اشرفی کو گاڑی سے نکالنا تو میں اُسے اپنے کمرے میں لے گئ تھی ، آنکھیں میچے اُس نے ایک ہی سانس میں کہا ۔۔۔


ساحر کے چہرے کے پریشان تاثرات اب پتھریلے ہو گئے تھے ، اُسے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے درخنے کا ۔۔۔۔


پھر تُم نے مجھ سے جھوٹ کیوں بولا ، کیا میں پاگل نظر آرہا ہو تمہیں ؟؟ درخنے کی بات سن پہلے تو اس پر سکتا سا طاری ہوا تھا پر جلد ہی وہ اُسکی بات سُنتا بلکل بھپرا ہوا شیر بن گیا تھا ،


میں نے تُم سے پوچھا تھا نہ کہ تُم نے اشرفی کو دیکھا ہے کیا ؟ تب تُم نے منع کیوں کیا درخنے اندازہ ہے کتنی بڑی غلطی کرچکی ہوتم ،،،،، وہ اُسکی طرف قدم بڑھاتے پوچھ رہا تھا ، غصے کی شدت سے آنکھیں لہو ٹپکانے کے قریب تھی ،


درخنے نے تھوک نگلتے دو قدم پیچھے لئے تھے اور خود میں ہمت جمع کرتے گویا ہوئی ، بھائی میں بتانا چاہتی تھی آپ کو ، بلکہ میں تو رات میں ہی لے کر آرہی تھی اُسے آپ کے کمرے میں پر,,,,


زندگی میں پہلی بار اُسے اپنے بھائی سے بات کرتے ڈر محسوس ہو رہا تھا وہ واقف تھی ساحر کی حرم کو لے کر فکر محبت کو تبھی حرم کے غائب ہونے کی خبر سن کر اُسکے ہاتھ پیر پھول گئے تھے ،


پر کیا درخنے ، اُسکی دھاڑ سے پوری حویلی گونج اٹھی تھی ،


بھائی ،،، بس درخنے بس اگر حرم کو ایک ذرر بھی پہنچا تو نہیں بخشوں گا کسی کو بھی ،، اگر اس سب میں تمہارا ہاتھ ہوا تو میں بھول جاؤ گا کہ میری کوئی بہن بھی ہے ، وہ کینہ توز نظر اُس پر ڈالتا مٹھیاں بھینچے لمبے لمبے ڈگ بھرتا دروازے سے نکلا تھا گاڑی میں بیٹھتے اُس نے حرم کی تلاش شروع کی تھی ، دل سے ایک ہی دعا بار بار نکل رہی تھی کہ خدا اُسے سلامت رکھے ۔۔۔۔۔۔۔۔


یہ سب کیا ہے درخنے جب اشرفی تمھارے پاس تھا تو تُم نے جھوٹ کیوں بولا ؟؟ ساحر کے جاتے ہی نور بانو نے درخنے سے اُسکے آنسو صاف کرتے نرمی سے پوچھا ۔

مُو مور ،، مجھے معاف کر دیں وہ ، وہ مجھے اچھا لگ گیا تھا درخنے ہچکیوں کی وجہ سے اٹک اٹک کر بول رہی تھی ،

اچھا بس چُپ کچھ نہیں ہوگا ، بس خدا حرم کی حفاظت کرے پتہ نہیں کہاں ہوگی اور کس ہال میں ہوگی ، نور بانو نے اُسے دلاسے دیتے سینے سے لگایا تھا پر اُنکا اپنا دل حرم نور کی فکر میں ہلکان ہو رہا تھا ،


°°°°°°°°


پتھر سے ٹکرانے سے ماتھے سے خون نکل رہا تھا تو ہاتھوں اور پیروں پر خراشیں آئی تھی ہاتھ کچھ گرنے کی وجہ سے سُرخ تھے تو کچھ چوڑیوں کے ٹوٹنے سے ، وہ دونوں ہاتھوں میں سر تھامتے اُٹھ بیٹھی تھی


پلکیں جھپکتے وہ اپنے آس پاس دیکھ رہی تھی انجان راستہ اور انجان راہ دیکھ اُسکے اوسان خطا ہوئے تھے ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تھی ، زمین گھانس سے ڈھکی تھی تو کہیں درخت لگے ہوئے تھے ، وہ بار بار گھومتی راستہ سمجھنے یہ واپسی کی راہ تلاشنے لگی پر یہ اب اُس کے لئے ممکن نہ تھا وہ ساحر کے سائے سے دور جانا چاہتی تھی وہ اتنی دور آگئ تھی کہ اُسے خود یہی محسوس ہو رہا تھا کہ ساحر اُسے نہیں ڈھونڈ پائے گا ،


سورج ڈوب چکا تھا ، آہستہ آہستہ ہر سو ہر چیز کو اب سیاہی اپنی لپیٹ میں لے رہی تھی ،

ساحر,,,,,,,,,, آسمان کی طرف منہ کرتے اُس نے پوری قوت سے اُسے پُکارا تھا ، جس کی دسترس سے وہ پناہ چاہتی تھی اور آنکھیں موندتی وہ ہنوز آسمان کی طرف منہ کر کے کھڑی ہوگئ ۔۔۔۔۔۔۔۔


یکلخت ہوا کا رخ بدلا تیز تھرتھراتی ہوا سیاہی میں لپٹا آسمان چاند کے روشن ہونے سے جو ہلکی پھلکی روشنی اسکے چہرے سے ٹکرا رہی تھی وہ بھی بادلوں کے سایہ فگن ہونے سے ماند پڑگئی تھی کالے بادلوں کا ڈیرہ تھا آسمانوں پہ اپنے آس پاس نگاہ گھمائی جہاں سناٹوں کا راج تھا اسے خوف محسوس ہونے لگا تھا آنسوں تیزی سے آنکھوں سے رواں تھے خوف تیزی سے رگوں میں گردش کرتا اسے کانپنے پرمجبور کر رہا تھا وہ کبھی اسطرح پہلے نہیں نکلی تھی تن تنہا , ,,,


تبھی بادل تیزی سے گرجا بجلی کڑکی وہ مزیذ خود میں سمٹنے لگی تھی ,,,اسنے پھر آسمان کی طرف دیکھا اُسی وقت بارش کی پہلی بوند آسمان پہ چھائے بادلوں سے گرتی اُسکے شفاف چاندی سے چمکتے گالوں پر گری تھی ،


ایک بوند گرنے پر اُس نے اپنا وہم سمجھا پر جب پہلی کے بعد دوسری اور پھر تیسری بوند گری وہ ہوش میں آتی آس پاس دیکھنے لگی ۔۔۔۔


آہ میرے خدایا اب کیا کروں میں ، میں کیسے جاؤں گھر اب منہ پر ہاتھ رکھتے وہ خود سے سوال گو تھی ڈر خوف پریشانی سب ہی اُسکے چہرے پر واضح تھے ۔۔۔۔


سامنے جاتا راستہ دیکھ اُس نے آنسو پونچھتے سامنے کی جانب قدم بڑھائے تھے ، وہ چلتی اور آگے اگئی تھی دل میں قرآنی آیات کا ورد کرتے وہ اپنے رب سے مدد کی دعا گو بھی تھی ،،،،

°°°°°°°


وہ گاڑی ادھر سے اُدھر دوڑاتا پورا گاؤں ہی اس ایک گھنٹے میں دیکھ آیا تھا پر حرم کیا اُسکے قدموں کے نشاں بھی نہیں ملے تھے ،


سامنے راستہ دیکھ وہ گاڑی سائڈ پر لگاتا گاڑی لوک کرتے آگے بڑھا تھا آگے گاڑی نہیں جا سکتی تھی اس لئے آگے کا سفر اُس نے پیدل ہی طے کرنا تھا ۔۔۔۔۔


وہ آس پاس پر نظر ڈالتے تقریباً بھاگ رہا تھا اُس راستہ پر راستہ قدرے سنسان تھا نہ بندہ نہ بندے کی ذات والا حساب لگ رہا تھا ، وہ حرم کا ہی سوچتے بس آگے بڑھ رہا تھا کہ قدموں تلے چوڑیاں ٹوٹتے ہی خاموشی میں بھی ایک ارتعاش سا پیدا ہوا اُس نے جھکتے چوڑیاں اٹھائی تو اُن چوڑیوں کو دیکھ اُسکی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھی ہاں وہ اُسکی حرم کی ہی چوڑیاں تھی اس نے ہاتھ مارتے اُس کی اور کوئی نشانی بھی تلاشنی چاہی پر پتھر پر گرے خون کے قطرے دیکھ اُسکا دل جیسے دھڑکنا بھول گیا تھا وہ غیر یقینی سے اُن سُرخ قطروں کو دیکھ رہا تھا ،

نہیں تُمہیں کچھ نہیں ہوا ہوگا تُم بلکل ٹھیک ہوگی حرم ، میں آرہا ہوں حرم تُمہارے پاس وہ اپنی سوچ کی نفی کرتے خیالوں میں ہی اُس سے مخاطب تھا ،


ایک منٹ بھی ضائع کیے بغیر وہ سامنے جاتے راستے کی طرف دوڑنے لگا ، بارش بھی آہستہ آہستہ اپنا زور پکڑنا شروع ہوگئی تھی،

**********


یہ سب ہو کیا رہا ہے ہماری حویلی میں ، بہو مجھے تُم سے یہ اُمید نہ تھی اور دو اُس لڑکی کو ڈھیل ، دیکھ لیا نہ ڈھیل کا نتیجہ بنا کسی کو بتائے بنا کسی سے اجازت لئے نکل گئی نہ گھر سے ایک بہو ہے تمھاری وہ بھی کنٹرول میں نہیں تُمہارے آفرین ہے تُم سب پر ، داجی جو اوپر کے صحن کی دیوار سے کھڑے ساحر اور درخنے کو دیکھ رہے تھے اُسکے گھر سے جاتے ہی وہ نیچے آتے ہی اب نور بانو کو جلی کٹی سنانے لگے تھے ،


وہ دور نہیں گئ ہوگی داجی ساحر لے آئیگا اُسے ، نور بانو نے اُنکے خوف سے تھوک نگلتے آہستہ آواز میں کہا۔۔۔۔


دعا کرو ایسا ہی ہو۔۔۔۔۔ وہ کہتے ایک جتاتی نظر اُن پر ڈالتے وہاں سے نکلتے چلے گئے ،


پیچھے نور بانو بھی لمبی سانس ہوا کے سپرد کرتی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ، درخنے تو ساحر کے گھر سے جاتے ہی روتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی ،،،


°°°°°°°°

وہ ابھی تھوڑا ہی آگے پہنچا تھا کہ موبائل بج اُٹھا جسے اُس نے بارش کے پانی سے بچانے کے لئے شوپر میں ڈالا ہوا تھا ،،،

سکرین پر حویلی کا نمبر دیکھ اُس نے جلدی سے کان سے لگایا تھا ،


ہیلو ساحر حرم ملی تُمہیں بیٹا ، وہ ٹھیک تو ہے نہ اُسے کچھ ہوا تو نہیں ، کال یس کرتے ہی فون کے اسپیکر سے نور بانو کی پریشان سی آواز برآمد ہوئی ۔

نہیں مور پر جلد مل جائیگی انشاء اللہ آپ فکر نہ کریں میں ڈھونڈ لونگا ، ساحر نے بھاگتے پھولی سانسوں کے ساتھ کہا ،


ٹھیک ہے بیٹا تُم مجھے فون کر کے بتاتے رہنا میں انتظار کر رہی ہوں، اُن کا دل کسی صورت ساحر کی تسلی سے مطمئن نہیں ہوا تھا وہ اُسے کہتے کال کٹ کرتے دعائیں مانگنے لگی ،،،،


ساحر نے بھی فون جیب میں رکھتے ٹیڑھی میڑھی گلیوں سے گزرتے سیدھے راستے پر آیا تھا جہاں سامنے ہی اُسے کالی چادر میں چھپا وجود آگے بڑھتے نظر آیا ،

حرم,,,,,,, اُس نے دور سے ایک زور دار چیخ مارتے اُسے پُکارا تھا ، اُسکی پُکار پر حرم کے آگے بڑھتے کپکپاتے قدم ایک دم ساکت ہوئے تھے ،


وہ گردن موڑے سامنے کھڑے وجود کو آنکھیں پھاڑے دیکھ رہی تھی اُسکے لئے یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ وہ آگیا تھا اُسکے پیچھے اُس نے ڈھونڈ لیا تھا اُسے ،

ساحر,,,,,, ایک سرگوشی نُما آواز اُسکے گلے سے برآمد ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔


ساحر دوڑتا ہوا اُس تک پہنچا تھا اور اُسے سینے سے لگاتے خود میں بھینچا تھا ،،،،

اُسکی خوشبو کو اپنی سانسوں میں اُتارتے اُس نے اپنے بے قرار دل کو راحت بخشنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔

۔

ہٹو دور مجھ سے ، ہاتھ بھی نہ لگانا مجھے کیوں آئے ہو آخر آپ میرے پیچھے جان کیوں نہیں چھوڑ دیتے آپ میری کیوں میری زندگی میں مسلط ہوئے ہیں؟؟؟ ساحر کو اپنے سامنے دیکھ اسے ہمت ملی تھی لیکن اگلے ہی لمحے اُسکے سینے پر ہاتھ رکھتے خود سے دور دھکیلتی وہ شدید قرب سے چلائی تھی ،


بارش کی وجہ سے اُسکے کپڑے اور چادر دونوں ہی بھیگ چُکے تھے سردی کی وجہ سے اُسکے جسم میں کپکپاہٹ بھی طاری تھی ، پر اپنی حالت سے بے خبر وہ شدید درد میں مبتلا تھی ، ساحر کو دیکھ ایک بار پھر زخم ہرے ہوئے تھے ،،


حرم کا یہ ردعمل ساحر کے لئے بلکل غیر یقینی تھا ، پر جلد ہی خود کو سبھالتے قدم اُسکی طرف بڑھائے تھے،

اُسے اپنی طرف قدم بڑھاتے دیکھ حرم نے دو قدم پیچھے لئے تھے،


میں تتُمہیں لینے آیا ہوں حرم ، چلو میرے ساتھ اشرفی بھی مل گیا ہے تمہارا پوچھ رہا ہے اور تُم نے یہ کیا حالت بنائی ہوئی ہے اپنی ؟؟؟ اُس نے اُسکی حالت کے پیشِ نظر نرمی سے کہا ،

کیوں آئے آپ مجھے لینے نہیں ہے بھروسہ آب آپ پر اور میری اس حالت کے زمیدار صرف آپ ہو صرف آپ ساحر ، وہ پوری شدت سے چلائ تھی اور گردن نفی میں ہلاتے وہاں سے بھاگنے لگی ،


حرم۔۔۔۔۔۔ حرم رکو بات تو سنو رک جاؤ حرم ۔۔۔۔

میں نے کہا رک جاؤ لگ جاۓ گی تُمہیں پاگل لڑکی بیوقوف نہ بنو ، وہ اُس کے پیچھے بھاگتے بول رہا تھا پر آج اُسکی دھمکیوں کا حرم پر کک بھی اثر نہیں ہو رہا تھا ، بس وہ ساحر کے سامنے نہیں آنا چاہتی تھی اُسکی نظروں سے اوجھل ہو جانا چاہتی تھی ,


وہ اُس سے دور جانے کی تک و دو میں بھاگ رہی تھی پیر موڑتے ہی زمین بوس ہوئی تھی ،

حرم,,, وہ تقریباً بھاگتے ہوئے اُس تک پہنچا تھا جو زمین پر اپنا پیر پکڑے بیٹھی درد سے کراہ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔


بارش تھم چُکی تھی پر بارش کی وجہ سے سردی مزید بڑھ گئی تھی ،

رات کی سیاہی ہر سو پھیلتی ہر چیز کو اپنے لپیٹ میں لیتی تاریکی میں بدل گئ تھی پر اُس رحیم و رحمن رب کے بنائے چاند اور ستاروں کی مدھم روشنی بھٹکے مسافروں کے راستے کے لئے روشنی کی باعث بن رہی تھی ،


تُم ٹھیک ہو ؟؟ ساحر گھٹنوں کے بل اُسکے پاس بیٹھتا فکر مند لہجے میں بولا ،


جب آپ ساتھ ہو میرے میں کیسے ٹھیک ہو سکتی ہوں میں ؟؟ میں نے تو آپ کو پہاڑ کی طرح مضبوط سمجھا تھا ساحر پر ,,,,, وہ کہتی کہتی رکی اُسکی آنکھوں میں آنسو تھے جو ترا تر اُسکے گالوں سے پھسلتے گلے میں جذب ہو رہے تھے ،


پرآپ تو میرے ہی راستے کا پتھر نکلے آپکی نفرت اور انتقام کی آگ اتنی بڑی ہے کہ اُسے میری محبت بھی نہ بجھا سکی۔۔۔۔


وہ سر جھکائے نم آواز میں کہہ رہی تھی ۔۔۔۔۔

اُسکے الفاظ ساحر کا سینا چیرتے کسی خنجر کی طرح دل پر لگ رہے تھے ۔۔۔


اگر اُسکی آنکھیں رو رہی تھی تو قرار مقابل کی آنکھوں اور دل میں بھی نہیں تھا اُسکی آنکھیں بھی نم تھی معصوم سادہ سی حرم کا یہ روپ اُس کے لئے بلکل نیا تھا وہ کھو چُکا تھا اپنی معصوم حرم کو ۔۔۔۔۔


حرم اُٹھو ہمیں گھر جانا ہے گھر جا کر جتنا لڑنا ہے اُتنا لڑ لینا پر ابھی چلو یہاں رات کے اس پہر رہنا مناسب نہیں ۔۔۔۔۔ ساحر نے اُسے سمجھنانے کی مبہم سی کوشش کی ،


مجھے نہیں جانا آپکے گھر حرم نے منہ موڑتے کہا ۔

اُسکی وہی ضد دیکھ ساحر نے ایک لمبی سانس ہوا کے سپرد کرتے اپنا غصہ پیا تھا ۔۔۔۔

اور اُسکی طرف دیکھتے گویا ہوا ، پھر کہاں جانا ہے تُم نے ؟


اپنے بابا کے گھر ،، اُس نے بھی بنا وقت ضائع کئے دوبدو کہا ،

دیکھو حرم میں بہت ہمت صبر اور ضبط سے کام لے رہا ہوں اس لئے تمھارے لئے یہی بہتر ہے کہ تُم میرا ضبط نہ آزماؤ ،، ساحر نے بنا لگی لپٹی کے صاف کہا اور اُسکی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا ،


نہیں تو کیا کرو گے پھر سے ہاتھ اٹھاؤ گے آپ مجھ پر ؟؟؟ اُسکے بڑھے ہاتھ کو سرے سے نظر انداز کرتی اُسکی آنکھوں میں اپنی آنکھیں ڈالتے بنا ڈر اور خوف کے بولی ،


ہاتھ تو نہیں اٹھا سکتا پر اگر اگلے دو سکینڈ میں تُم کھڑی نہ ہوئی تو تمہیں ضرور اُٹھا سکتا ہوں ،


اُسکی طرف بڑھائے اپنے ہاتھ کو دیکھتے اُسے دھمکانا چاہا ،

کچھ ہی دیر کی خاموشی کے بعد حرم اُسکے بڑھے ہاتھ کو پراں مارتی زمین پر ہاتھ رکھ کر خود کھڑی ہوگئ اُسے کھڑا ہوتا اور اپنی دھمکی کا اثر ہوتا دیکھ وہ بھی مسکراتا کھڑا ہوگیا ۔

کھڑے ہوتے ہی وہ لڑکھڑائی تھی ابھی وہ گرنے ہی لگی تھی کہ ساحر نے اپنے مضبوط ہاتھوں سے اُسے بازو سے تھامتے سنبھال لیا ،


دور ہٹو ہاتھ نہ لگاؤ مجھے ورنہ یہی ہاتھ کاٹ دوں گی اُسکی گرفت سے بازو چھڑواتی لنگڑاتی ٹانگ کے ساتھ اُس سے دور ہٹتے بولی

اُسکی دھمکی سے ساحر کے عنابی لبوں تلے تبسم کھلا تھا ،


ایک نظر اُس پر ڈالتے وہ دوبارہ آگے بڑھنے لگی ، ساحر بھی خاموشی سے اُس کے پیچھے قدم اٹھانے لگا واپسی کا راستہ وہ بھول چکا تھا شاید آگے چلتے ہائی وے مل جائے یہی سوچتے وہ اُسکے پیچھے چلنے لگا


بس مجھ سے نہیں چلا جّا رہا اور بڑے سے پتھر پر بیٹھتی وہ لمبی لمبی سانسیں لیتے بولی شام سے چل چل کر اب اُسکی ٹانگیں دکھنے لگی تھی ۔۔۔۔۔


بس تھوڑا سا اور چل لو اُٹھو ہمت کرو ، ساحر نے اُسکا حوصلا باندھتے کہا

حرم ایک أچٹی ہوئے نظر اُس پر ڈالتی اُٹھ کھڑی ہوئی ابھی وہ تھوڑا ہی اور آگے گئے تھے حرم کو دوسری طرف دیکھتا دیکھ ساحر نے اُسکی نظروں کی تقلید میں نظریں گھمائیں تو سامنے ایک جھونپڑی ٹائپ چھوٹا سا گھر بنا دیکھا ۔


وہ حرم کا ہاتھ تھامے اُس گھر کی طرف ہی بڑھ گیا ،

رات بہت ہو چکی تھی حرم مزید نہیں چل سکتی تھی اس لئے وہ کسی سے مدد کے لئے اُس گھر کی طرف بڑھ گیا ۔

قریب پہنچتے ہی اُنہیں احساس ہوا کہ وہ لکڑیوں سے بنا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا اور لوک بھی تھا ۔۔۔

حرم کو تو اس جگہ سے خوف سا آرہا تھا اس لئے خاموشی سے کھڑی تھی ۔۔۔۔۔


ساحر نے اپنی گن نکالتے اُس بڑے سے تالے کا نشانہ لیتے ایک فائر کیا تھا جس سے تالا ٹوٹتا نیچے گر گیا تھا

گولی کی آواز سن حرم نے بے ساختہ چیخ ماری تھی جس پر ساحر نے بیزار سا منہ بنایا تھا ۔۔۔۔۔۔


وہ پھٹی آنکھوں سے اُسے دیکھ رہی تھی جو اب دروازے کی کنڈی کھول رہا تھا ،

آپ گن اپنے ساتھ لے کر پھرتے ہو شرم نہیں آتی ، اُسے سوالیہ نظروں سے خود کو تکتا دیکھ حرم نے چیخ کر کہا


اپنی اور اپنے خاندان کی سیفٹی کے لئے رکھی ہےآجّاؤ اندر اب مزید کوئی سوال نہ کرنا ۔۔۔۔۔

●︿●●︿●●︿●


پہلے ساحر نے اندر قدم رکھا تھا پھر اُسکے پیچھے حرم نے ، جھوپڑی نُما وہ چھوٹا سا گھر ایک ہی کمرے میں مشتمل تھا چاند کی ہلکی سی روشنی کھڑکیوں اور دروازوں کے ذریعے اندر آرہی تھی پر وہ روشنی اُس گھر میں موجود اندھیرے کو مٹانے کے لئے ناکافی تھی ، ساحر نے موبائل نکالتے ٹورچ اُون کی تھی اور سوئچ بورڈ تلاشنا چاہا پر بجلی کا کوئی راستہ یہ چیز اُس گھر میں موجود نہ تھی ، سوئچ بورڈ کی تلاش کے دوران ہی ساحر کو موم بتیاں اور ماچس ٹیبل پر رکھے نظر آئے تھے اُس نے آگے بڑھتے اُس موم بتی کو روشن کیا اور اُس موم بتی کو تھامتے دوسری مومبتیاں اور لال ٹين جلائی جس سے وہ کمرا نُما گھر خاصا روشن ہوگیا تھا ،


حرم داخلی دروازے سے ٹیک لگائے کھڑی خاموشی سے اُسے دیکھ رہی تھی ،

کمرے کے روشن ہوتے ہی اُس نے اُس پورے کمرے کا جائزہ لیا....


ضرورت کا ہر سامان اُس چھوٹے سے گھر میں موجود تھا ایک سائڈ خوبصورت سا لکڑیوں سے بنا سنگل بیڈ تھا بیڈ پر سادی سفید بیڈ شٹ چڑھی ہوئی تھی اور ایک خوبصورت پھولوں سے بنا نرم کمفرٹر تہہ ہوا سلیقے سے رکھا ہوا تھا ، بیڈ کے سامنے ہی ایک ٹیبل اور دو کرسیاں رکھی ہوئی تھی۔۔۔۔۔


ایک طرف گیس سلینڈر اور چائے کا سامان پڑا تھا ، ایسا لگ رہا تھا جیسے یہاں کسی کی رہائش ہو۔۔۔۔۔


ساحر اُسے اُس چھوٹے مگر خوبصورت سے گھر کی خوبصورتی میں کھویا دیکھ اُسکی طرف بڑھا ہی تھا کہ ٹیبل پر رکھا اُسکا موبائل وائبریٹ ہونے لگا ,,,


جیسے ہی اُس نے اسکرین آنکھوں کے سامنے کی تو حویلی کا نمبر پایا اُس نے يس کرتے کان سے لگاتے سلام کیا ،،،،


تُم ٹھیک ہو ساحر ؟ حرم ملی تُمہیں ؟ سلام کا جواب دیتے نور بانو نے بے چینی سے پوچھا ، نور بانو کے کمرے کے باہر کھڑی درخنے نے دل پر ہاتھ رکھا تھا اُسکا دل بے تحاشا دھڑک رہا تھا ۔۔۔


مور میں ٹھیک ہوں اور آپکی بہو بھی ٹھیک ہے میرے ساتھ ہی ہے ، ساحر نے مسکراتے حرم کے ناراض چہرے کو دیکھتے کہا اُسے تو حرم کی یہ ادا بھی قاتلانہ لگ رہی تھی ,,,


ایک طرف اُسکے خوف سے کانپ بھی رہی تھی تو دوسری طرف اپنی ضد پر بھی قائم تھی ۔

تُم سچ کہہ رہے ہو نہ حرم تمھارے ساتھ ہے نہ ؟؟


نور بانو نے یقین دھانی چاہی ,,


، نور بانو کے الفاظ تھے کہ گویا ٹھنڈی ہوا کا جھونکا جو درخنے کے قریب سے گزرتی اُسے تازگی بخش گئ تھی ،

ہاں مور میرے پاس ہی ہے حرم,,,


ابھی وہ اور کچھ بھی بولتا کہ موبائل ایک مخصوص ٹیون بجاتا بند ہوگیا ، شٹ اسے بھی ابھی ہی بند ہونا تھا ، وہ موبائل کو دیکھتا دل میں سوچنے لگا اور ایک لمبی سانس لیتے اُس نے قدم حرم کی سمت بڑھائے ،,,,


اُسے اپنی طرف بڑھتا دیکھ حرم کے اوسان خطا ہوئے تھے ، دل کسی سوکھے پتے کی طرح لرز رہا تھا ، دماغ میں ساحر کو کہے الفاظ ہھتوڑے کی طرح بج رہے تھے ،


غصے میں وہ نہ جانے کیا کچھ اُسے کہہ چُکی تھی پر اب اُسے افسوس ہونے کے ساتھ ساحر سے خوف بھی آرہا تھا ،

مو مجھے گھر جانا ہے,,,,,,


اُسے اپنے مقابل کھڑا دیکھ اُس نے نم آواز میں کہا ،،

ابھی نہیں جا سکتے گھر صبح چلے جائیں گے ، الماری میں لیڈیز کپڑے پڑے ہیں تُم جاؤ چینج کر لو یہ کپڑے گیلے ہو رہے ہیں بیمار ہو جاؤ گی ، ,,


ساحر اُسکا خوف اور شرمندگی دونوں ہی بھانپ چکا تھا اس لئے انگلیوں کے پوروں سے اُسکا گال سہلاتا نرمی سے بولا ،


پر,,,,, حرم نے کچھ کہنا چاہا لیکن ساحر نے اُسکے لبوں پر اپنی اُنگلی رکھتے خاموش کروا دیا ،

بے بسی سے اُسکا آنسو آنکھوں سے ٹپکتا ساحر کے ہاتھ پر گرا تھا ،


جسے وہ بے دردی سے مسلتی الماری کی طرف بڑھ گئی ، ساحر بھی مسکراتا کمرے میں ہی موجود چھوٹے سے کچن کی طرف بڑھ گیا ، تا کہ حرم کے لئے قہوہ یہ چائے بنا سکے ، اُسے اس سب میں بس یہی فکر تھی کہ کہیں وہ بیمار نہ ہو جائے ،


آتشی کلر کی گھٹنوں سے نیچے آتی سادی سی فروک پر ہم رنگ دوپٹہ اور چوڑی دار پاجامہ پہنے وہ صاف اور نکھرے نکھرے چہرے کے ساتھ واشروم سے باہر آئی ، آنکھیں اور ناک دونوں ہی رونے کی وجہ سے سُرخ تھی ۔۔۔۔

۔

اُس چھوٹے سے گھر میں اُنکی ضرورت کا ہر سامان ہونا اور ساحر کو وہاں موجود ہر چیز کا علم ہونا کوئی اتفاق نہیں تھا بلکہ یہ گھر ساحر نے ہی بنوایا تھا ،


وہ حرم کو یہاں لا کر سرپرائزڈ کرنا چاہتا تھا پر ، انجانے میں ہی سہی حرم اُسے خود یہاں تک لے آئی تھی ، ابھی اس گھر میں کافی کام رھ چکا تھا جیسے بجلی اور کچن کا چھوٹا موٹا سامان ،


وہ سٹول اُٹھا کر بیڈ کے قریب رکھتا واپس چائے کے کپ لینے کے لئے پلٹا ہی تھا کہ حرم کو ٹاول سے نم بال سکھاتے دیکھ اُس کا دل زور سے دھڑکا تھا ،


یہ آتشی کلر اُس پر بہت جچ رہا تھا ، تبھی تو ساحر کی بھی نظریں اُس کے چہرے سے ہٹنے سے انکاری تھی , خود پر نظروں کی تپش محسوس کر حرم نے جیسے ہی سر اٹھاتے سامنے دیکھا تو ساحر کو خود کو تکتا پایا ،


دونوں کی نظریں ایک دوسرے سے ٹکرائی تھی ، ایک کا دل خوف سے دھڑکا تھا دوسرے کا اُسے اس روپ میں دیکھ ، حرم نظریں جھکاتے لرزتے ہاتھوں سے دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہوگئ ساحر بھی کچن سے چائے کے دو کپ اُٹھا کر اسٹول پر رکھ کر خود بیڈ پر بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔


حرم,,,, کمرے کی خاموشی کو ساحر کی گھمبیر آواز نے توڑا ، حرم کچھ نہیں بولی بس خاموشی سے اپنی دھڑکنوں کا رقص سننے لگی ۔۔۔


یہاں آؤ ،،،، اُسے خاموش دیکھ ساحر نے حکم زدا لہجے میں کہا ،

حرم نے اُلجھتے اُسکی طرف دیکھا تھا جو بڑے انہماک سے اُسے ہی دیکھ رہا تھا ،

حرم کی خاموشی پر اُس نے اس بار سوالیہ آبرو اچکائے تھے ، حرم نفی میں سر ہلاتے مردہ قدم اٹھاتی اُس سے کچھ فاصلے پر جا بیٹھی ۔۔۔۔۔۔


اُسکے بیٹھتے ہی ساحر نے چائے کا کپ اُسکی طرف بڑھایا جسے وہ خاموشی سے تھام گئی ، اُسکی خاموشی ، اُسکا ڈر ، اُسکا خوف ساحر کو خٹک رہا تھا وہ چاہتا تھا وہ اُس سے نہ ڈرے وہ بنا خوف اور ڈر کے اپنے ساحر کو جو چاہے وہ بولے چاہے اچھا یہ بُرا پر بولے ،


کچھ ہی لمحے پھر سے خاموشی کے نظر ہوئے تھے کہ ساحر نے چائے ختم کرتے کپ اسٹول پر رکھا جبکہ حرم ابھی بھی چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھرتے چائے پی رہی تھی ،


ابھی تک ناراض ہو ؟؟؟ اُسے چائے کا کپ اسٹول پر رکھتا دیکھ ساحر نے اُسکے اور اپنے درمیان کا فاصلہ مٹاتے اُسکے ہاتھ پر اپنے ہاتھ رکھتے پوچھا ،


بتاؤ ؟؟ اُسے خاموش دیکھ ساحر نے ہاتھوں پر ہلکا دباؤ ڈالتے کہا,, اسکا ہاتھ کا انگوٹھا بے دھیانی میں حرم کی کلائی میں موجود زخم پر مس ہوا تھا ، جس کا درد برداشت کرتے اُس نے آنکھیں میچتے سہن کیا تھا,,


سوری ،،،، ساحر نے فوراً ہی گرفت ڈھیلی کرتے کہا ۔۔

گرفت ڈھیلی ہوتے ہی حرم نے اپنے ہاتھ پیچھے کھینچے ,,

درد ہو رہا ہے ؟؟ اُس نے حرم کی آنکھوں میں نمی تیرتے دیکھ فکر مند لہجے میں بے قرار ہوتے پوچھا ۔۔۔۔۔


جو زخم آپ نے دیئے اُس درد کے آگے تو یہ درد کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔۔ یہ سب وہ محض دل میں ہی بول پائی اور خاموشی سے اُسے دیکھنے لگی آنسو بھی آنکھوں سے نکلتے ایک بار پھر بہنے لگے تھے ،


حرم کچھ تو بولو یار پلیز چاہے تو ڈانٹ لو سنا لو پر کچھ تو بولو تمھاری یہ خاموشی مجھے مار دے گی ، مانتا ہوں ہو گئی غلطی پر تُم بھی اب بس کر دو معاف کردو مجھے کیا تُم وہ سب بھلا نہیں سکتی ؟؟؟


وہ شدید كرب میں کہتا اُس سے سوال گو تھا جو بس خاموشی سے آنسو بہاتے اُسے تکلیف سے دوہرا کر رہی تھی,,,

حرم آنسوؤں سے لدی آنکھوں سے ایک نظر اُسے دیکھتی جانے کے لئے کھڑی ہی ہوئی تھی کہ اُس نے کلائی سے اُسے تھامتے دوبارہ اپنے مقابل بیٹھا دیا ۔۔۔۔۔


کیا تم آخری موقع نہیں دے سکتی مجھے ؟؟ میں وعدہ کرتا ہوں آئندہ کبھی تُم پر غصہ نہیں کروں گا ۔۔۔۔ میرا بھروسہ کرو حرم تُم میری زندگی میرا جنون ہو,,, وہ اپنے الفاظوں سے اُسے اپنی محبت کا یقین دلانے کی کوشش کر رہا تھا ،


کیا تھا آپ پر بھروسہ ، آپ پر بھروسہ کرتے میں نے سب کچھ چھوڑ دیا ماں باپ بہن سب تو چھوڑ دیا ، آپ نے جیسا کہا میں نے ویسے کیا ، یاد ہے آپ نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے محبت کا اظہار کیا تھا ،


میں نے بھروسہ کیا تھا آپ کی محبت پر پھر مجھ پر ہاتھ اٹھاتے آپ کی محبت کہاں گئ تھی ، وہ آنسو بہاتے روتے کہہ رہی تھی ساحر کا دل چاہا اپنا وہ ہاتھ ہی کاٹ دے جس سے اُس نے اس معصوم کو تکلیف دی تھی ،


آئے ایم سوری ۔۔۔۔۔ کہا نہ آئندہ نہیں ہوگا ایسا ساحر نے تڑپتے اُسے اپنے سینے سے لگاتے اپنے حصار میں لیتے کہا ، حرم نے بھر پور مزاحمت کرتے گھیرا توڑنے کی کوشش کی تھی پر وہ توڑ نہ پائی اور روتے اپنے نازک ہاتھ کے مکے اُس کے سینے پر برسانے لگی ،


ساحر اُسکی اس معصوم سی حرکت پہ مسکرا دیا اور خاموش اُسے حصار میں لئے بیٹھا رہا اُس پر مکوں کا بھی اثر نہ ہوتا دیکھ وہ تنگ آتے اُسکے سینے میں سر رکھتے رونے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔


آپ بہت بُرے ہیں اشرفی سہی کہتا تھا ،،، وہ کہتی اشرفی کو یاد کرتے ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی ، اشرفی کے ذکر پر ساحر نے دانت پیسے تھے کچھ بھی تھا یہ سب ہوا تو اُسکی ہی وجہ سے تھا ،


اچھا بس اب چُپ ہو جاؤ اب ایک آنسو نہ نکلے تمھاری آنکھوں سے ورنہ,,,,

انگلیوں کے پوروں پر اُسکے آنسو چنتا دھمکی آمیز لہجے میں بولا ۔۔۔۔۔۔۔


ساحر جی مجھے اشرفی کے پاس جانا ہے میں جب تک اُسے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ لیتی مجھے یقین نہیں آئیگا کہ وہ سہی سلامت ہے ،،


حرم کا جملہ ابھی مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ وہ نرمی سے اُسکے لبوں پر لب رکھتا پیچھے ہٹا ، حرم کے الفاظ تو جیسے حلق میں ہی اٹک گئے تھے اچانک ہوئے اس عمل پہ ، وہ شرم سے لال ہوتی اُسکے ہی سینے میں سر چھپا گئ,,,,


وہ بھی اُسکی کمر میں ہاتھ ڈالتے خود میں بھینچ گیا ۔۔۔۔ پر کچھ ہی دیر بعد اُسے اپنے سینے سے شرٹ نم ہوتی محسوس ہوئی ، اُس نے فوراً ہی اپنے سینے سے اُسکا سر اٹھاتے اپنے سامنے کیا تو اُسے پھر روتا پایا۔۔۔۔۔۔


اب کیا ہوا حرم تُم کیوں رو رہی ہو؟؟ اُس نے تڑپتے لبوں سے اُسکے آنسو چنتے پوچھا ،

سا ساحر جی,,,,, حرم کی نم اور سہمی سی آواز برآمد ہوئی ،


ہاں جان ساحر بولو ،

آپ عنایہ آپی کو مار دیں گے ؟ اُس نے کل ساحر کے عنایہ کو کہے الفاظ یاد کرتے کہا ۔۔۔۔۔۔

ساحر نے کوئی جواب نہ دیا ایک لمبی سانس لیتے غصہ پیتے بس اُسے دیکھتا رہا ،


آپ وعدہ کریں آپ نہیں ماریں گے کسی کو بھی ، اُس نے ہاتھ اگے کرتے وعدہ لینا چاہا ،


میں وعدہ کرتا ہوں حرم میں سب ٹھیک کر دوں گا ، وہ ایک نظر اُسکی نم آنکھوں میں دیکھتا اُسکی بات گول کرتا وعدے کے لئے بڑھا اُسکا ہاتھ اپنے لبوں سے لگاتا بولا ۔۔۔۔۔


پا پر۔۔۔۔۔۔ حرم نے کچھ کہنا چاہا تھا پر وہ اُسکی کوشش ناکام کرتا پوری شدت سے اُسکے لبوں پر جھکا تھا ، اُسکے عمل میں صدیوں کی تڑپ تھی ، وہ مدہوش سا اُس پر جھکا تھا ، جب دورانیہ بڑھا تو حرم کی سانسیں أکھڑنے لگی تھی ، ساحر بھی اُس کی حالت سمجھتا اُسکے لبوں کو آزادی دے گیا ، وہ بھی نڈھال سی اُسکے سینے پر سر رکھتے لمبے لمبے سانس لینے لگی ۔۔۔۔۔


وہ اُسے ایسے ہی اپنے حصار میں لئے بیڈ پر دراز ہوگیا ، کچھ ہی دیر بعد حرم اُسکے سینے پر سر رکھے ہی نیند کی وادیوں میں اُتر گئی ، ساحر بھی چھت کو تکتا اب آگے کا سوچنے لگا کچھ بھی کر کے اُسے حرم کو بھی تحفظ دینا تھا تو دوسری طرف اپنے مرحوم بھائی کی اولاد کو بھی اپنی آنکھوں کے سامنے لانا تھا ۔۔۔۔۔۔

رات آہستہ آہستہ سرکنے لگی تھی ، پر وہ اب بھی گہری سوچ میں ڈوبا تھا ،,,


**********


وہ اس وقت ملاہم کے گھر کے باہر گارڈن ایریہ میں کھڑا ملاہم کا انتظار کر رہا تھا,,,,جب اگلے چند منٹوں میں ہی ملاہم سامنے سے آتا دکھائی دیا,,,,


کیسے ہوکمانڈو,,,,پرجوش انداز میں ہاتھ ملاتے سوال کیا گیا,,,میں ٹھیک ہوں انسپیٹر تم بتاؤ,,,,اسنے بھی مصافحہ کرتے سوال داغا,,,


کیا پوزیشن ہے کیس کی تمہاری طرف سے؟؟

سامنے رکھی بینچ پہ بیٹھتے ملاہم نے سوال کیا,,,,


بہت کوشش کی لیکن کچھ خاص معلومات نہیں ملی ہے سنایہ وکٹوریہ کے خلاف یہ کافی سال پہلے ہی امریکہ شفٹ ہوگئی تھی پاکستان میں اسکے نام کی کوئی رجسٹریشن نہیں ہے نہ ہی کسی فیملی کی میرا تو خیال ہے اسکا نام کچھ اور ہی ہے,,,,عادل نے موجودہ معلومات سے اسے تفصیل سے آگاہ کیا,,,


نہیں میں نےاپنے سورسز سے پتا لگوایا ہے نام تو اسکا اصل ہے اور اسکے آباؤاجداد کا کوئی گہرا تعلق ضرور ہے پاکستان سے اب پتہ یہ لگانا ہے کہ آخر اسکا ساحر کی فیملی سے کیا تعلق ہوسکتا ہے اور اس سوال کا جواب ہمیں مور یا ساحر دے سکتے ہیں,,,,ملاہم کی بات مکمل ہوتے ہی عادل نے اپنا نقطہ پیش کیا,,,,


ٹھیک کہہ رہے ہو تم اگر کوئی گہرا تعلق ہے تو حویلی کے مکینوں کو تو معلوم ہونا ہی چاہیئے ہوسکتا ہے کوئی پرانی دشمنی ہو,,,,,اصل معلومات ہمیں سنایہ کے قریب رہ کر ہی معلوم ہوسکتی ہے کیونکہ اسنے اب تک جو بھی کیا ہے بہت صفائی سے کیا ہے پروپر پلاننگ کیساتھ اسلیئے ہمیں اسے ہلقے میں لینے کی غلطی نہیں کرنی جہاں تک ابھی ہمیں اسکی معلومات حاصل ہوئی ہے وہ ہم سے ایک قدم آگے چل رہی ہے اسی لیئے ہمیں بھی قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا,, ملاہم نے پرسوچ انداز میں کہا تو عادل نے بھی متفق ہوتے اثبات میں سرہلایا,,


پھر تم ملو جاکر ساحر سے صبح میں تب تک تمہارے امریکہ جانے کا انتظام کرواتا ہوں فرضی شناخت کیساتھ ,,,,,


اسے کہتا وہ الوداعی کلمات پڑھتے واپس اپنی منزل کی طرف بڑھ گئے,,,,

آگے کیا ہونا تھا یہ تو قسمت کی بات ہے,,,


°°°°°°°

صبح ہوتے ہی وہ جب ساحر سے ملنے حویلی جانے کے لئے تیار ہو رہا تھا تب ہی اُسی مکینک کی کال آگئی تھی جسے ساحر اپنی گاڑی ریپئر کروانے کے لئے دے گیا تھا اس لئے اب وہ ساحر کی ہی گاڑی میں سوار ہوتا حویلی کی طرف بڑھا تھا ، ساحر کو صورتِ حال سے آگاہ کرتے اور اُس سے معلومات لینے کے بعد اُسے اسی کیس کے لئے امریکہ بھی جانا تھا ، وہ بہت محتاط قدم اٹھا رہے تھے اُنکی ایک غلطی اُنکی مہینوں کی جدوہد تباہ کر سکتی تھی ،


°°°°°°°

صبح ہوتے ہی وہ دونوں بھی اُس گھر سے نکلتے جنگل کے راستوں سے ہوتے وہاں پہنچے تھے جہاں ساحر کل اپنی گاڑی کھڑی کرتے حرم کو ڈھونڈتے اُس تک پہنچا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


°°°°°°°

وہ اپنی نگاہیں حویلی کے دروازے پر ٹکائے بیٹھی تھی ، اُن دونوں کی خیریت کی خبر وہ سن چُکی تھی پر دل تھا جو بے چین تھا جب تک وہ اپنی آنکھوں سے اُن دونوں کو سہی سلامت نہ دیکھ لے اُس کے دل کو چین نہیں آنا تھا ،


حویلی کا دروازہ کھلتے اور ساحر کی گاڑی کو اندر آتا دیکھ وہ عجلت میں قدم اٹھاتے بھاگتی ہوئی پورچ تک پہنچی تھی پر گاڑی سے باہر آتے وجود کو دیکھ اُسکی خوشی ایک دم مانند پڑ گئی تھی ابھی جو چہرا خوشی سے چمکا تھا اب اُس چہرے پر ایک دم سنجیدگی چھا گئی تھی ،


عادل جو ابھی ہی گاڑی سے نکلا تھا اپنے مقابل درخنے کو دیکھ خاصا حیران ہوا تھا کیوں کہ حویلی کی خواتین کا غیر ضرورت یہاں آنا منع تھا ، اپنی سوچ جھٹکتے اُس نے گہری مسکراہٹ سے مسکراتے سلام کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔


جس پر درخنے نے روکھے سے انداز میں جواب دیا اور قدم واپس موڑ لئے ، ساحر کو بلادیں گی آپ ؟ اُسے جاتے دیکھ عادل نے نگاہ آس پاس دوڑاتے کہا ۔۔۔۔۔۔


گھر نہیں ہیں وہ ابھی ، وہ ہنوز منہ موڑے اُسکی طرف پُشت کیے بولی اور تیز قدم اٹھاتے وہاں سے دوبارہ لون کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔


عادل ہونقوں کی طرح اُسے دیکھتا رہ گیا جس نے نہ اندر آنے کی پیشکش کی اور نہ ہی آنے کی وجہ پوچھی کچھ دیر اور وہاں کھڑے ہونے کے بعد وہ واپس جانے کے لئے پلٹا ہی تھا کہ ایک اور گاڑی پورچ میں داخل ہوئی ،

گاڑی کے ایک طرف سے ساحر نکلا تھا تو دوسری طرف سے حرم ، عادل کو وہاں کھڑا دیکھ ساحر نے اپنے قدم اُسکی طرف ہی بڑھا دیئے ، عادل نے ساحر سے مصافحہ کرنے کے بعد حرم سے سلام کیا تھا حرم نے بھی خوش اخلاقی سے سلام کا جواب دیا اور دونوں کو باتوں میں مشغول دیکھ اُس نے حویلی کے اندر قدم بڑھا دیے ،


حویلی میں اس وقت کوئی موجود نہ تھا نور بانو اپنے کمرے میں تھی اور داجی حجرے میں مہمانوں کے ساتھ مصروف تھے ، اس لئے وہ سیدھا اپنے کمرے کی طرف ہی بڑھ گئی ،


درخنے جو اب تک لون میں بیٹھی اُن دونوں کی راہ تک رہی تھی اُنہیں خوش باش اور سہی سلامت گھر آتا دیکھ وہ بھی سکون کی سانس لیتے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ایک پل کو خیال آیا حرم سے اسکی خیریت دریافت کرے لیکن اپنا گزشتہ رویہ یاد کرتے وہ سوچ بدل گئی,,,,


خیریت تُم اچانک سب ٹھیک تو ہے؟؟ حرم کے جاتے ہی ساحر نے عادل سے فکر مند لہجے میں پوچھا ۔۔۔۔

ہاں خیریت ہی ہے بس تُم سے کچھ ضروری بات کرنی تھی ، عادل نے اثبات میں سر ہلاتے کہا ، ٹھیک ہے آؤ اندر وہ اُسے لئے مہمان خانے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔۔

●︿●●︿●●︿●

ماضی......


کیا ہوا آپ اس طرح اداس کیوں کھڑی ہیں گھر سے بھی اتنی جلدی میں نکل آئی تھیں کیا کچھ برا لگا تھا آپکو اور میں دیکھ رہا ہوں آپ صبح سے مجھے نظرانداز بھی کر رہی ہیں پلیز بتائں آخر بات کیا ہے کوئی پریشانی ہے تو شیئر کریں مجھ سے,,,,


ثمر جو صبح سے یسنیورسٹی کی خاک چھانتے عنایہ کی تلاش میں در در بھٹک رہا تھا لیکن وہ اسے کہیں نہیں ملی تھی اسے لگا شاید وہ آج آئی ہی نہیں ہے تبہی اسے وہ کینٹین کے پاس کھڑی نظر آئی جو کچھ اداس اور بیمار سے لگ رہی تھی,,,,


اسکے پاس آتے اسنے بے چینی سے سوال کیا تھا,,,,,


اایسی کوئ بات نہیں تمہیں لگ رہا ہے بس,,,,وہ نظر بچاتے کچھ ہکلاتے ہوئے بولی,,,,


ثمر کو دیکھ پہلا خیال زہن میں یہی آیا تھا کہیں ساحر نے اسے کچھ بتا تو نہیں دیا اسی لیئے وہ اب تک اس سے ملی نہیں تھی لیکن ثمر کا یوں اچانک سامنے آنا اور اس طرح سوال کرنا اسے کچھ کھٹکا تھا,,,


میں نہیں مان سکتا کوئی تو بات ضرور ہے مجھے بتاؤ آخر کیا بات ہے کیا چیز تمہیں پریشان کر رہی ہے,,,


ثمر اب بھی پریشانی سی سوال گو تھا مگر عنایہ اب اسکے چہرے کے تاثرات جانچ رہی تھی,,


اسکے چہرے سے صاف واضح تھا کہ ساحر اور اسکے درمیان ہوئی گفتگو سے ثمر ناواقف ہے یہ سوچتے ہی اسنے شکر کا سانس خارج کیا اور اگلے ہی.لمحے دماغ میں ساحر کے لفظ اور وہ تھپڑ یاد کرتے چہرہ سرخ ہونے لگا تھا ,,,,,ساحر سی ہوئی اپنی ذلت اور ثمر کی اپنے لیئے فکر دیکھ اسکا دماغ تیزی سے کام.کرنے لگا,,,,,


بولو یار آپ اتنا خاموش کیوں ہیں مجھے فکر ہورہی ہے,,,مسلسل اسے کسی خیال میں کھویا دیکھ وہ کچھ تیز آواز میں بولا آس پاس سے گزرتے اسٹوڈینٹس کی توجہ اسکی آواز پہ انکی جانب اٹھی,,,,عنایہ نے بھی اپنی سوچوں سے نکلتے پہلے اسے اور پھر آس پاس دیکھا,,,


کیا کر رہے ہو آہستہ بولو آس پاس سبکو اپنی طرف متوجہ دیکھ اسنے دبے دبے غصے میں کہا,,


ایم سوری آپ آئیں ہم بیٹھ کر بات کرتے ہیں ثمر نے شرمندہ ہوتے دھیمی آواز میں کہا,,,


نہیں ہم یہاں بات نہیں کرسکتے سب متوجہ ہوتے ہیں اور ناجانے کوئی کیا سوچے اور ویسے بھی تمہیں کچھ بتا کر بھی کیا فائدہ ہے یہ سب میری زندگی کا حصہ ہے کوئی کچھ نہیں کرسکتا میرے لیئے,,,,


عنایہ بے حد افسردگی سے بولی ,,,,پتہ نہیں کیا چل رہا تھا اب اسکے شیطانی دماغ میں وہ ثمر کے گرد ایک نیا جال بن رہی تھی ,,,,


ایسی باتیں نہیں کریں ہم آج اوف ٹائم میں کوفی شاپ پہ مل رہے ہیں بس ,,,,ابکی بار اسنے دوٹوک لہجےمیں کہا,,,


اچھا ٹھیک ہے فلحال میں کلاس لے لوں,,,بدلےمیں اسنے بھی مسکراتے جواب دیا اور کلاس کی طرف بڑھ گئی,,,,


********

ہیلو.....پہنچ تو گیا ہوں لیکن یہاں کچھ گڑ بڑ ہے سویٹی,,, فون کی دوسری جانب کچھ پوچھا گیا جسکے جواب میں اسنے عنایہ کی پشت کو دیکھتے مشکوک انداز میں کہا,,,


کیسی گڑبڑ,دوسری طرف سے پوچھا گیا,,,,


یہاں ثمر شہروزخان کیساتھ کوئی لڑکی موجود ہے دکھنے میں حسین ہے مگر عمر میں ثمر سے خاصی بڑی لگ رہی ہے اور سوچنے والی بات یہ ہے کہ وہ دونوں بات کرنے کے انداز سے کافی کلوز معلوم ہورہے تھے,,,,


مقابل شخص نے ہنوز اپنے مخصوص اندازمیں جواب دیا,,,

کیا باتیں کر رہے تھے کچھ سنا تم نے,,,دوسری طرف بے چین سی آوازبرآمد ہوئی ,,,


نہیں سویٹی میں خاصی فاصلے پر ہوں مگر میں جلد ہی یہ گتی سلجھا لونگا,,,,اسنے مطمئن کرنے والے اندازمیں کہا اور الوداعی کلمات پڑھتے فون رکھ دیا,,,

***************


اب بتاؤ کیاپروبلم ہے ,,,,ویٹر کو کافی کا آرڈر دیتے وہ مقابل بیٹھا پوچھنے لگا,,,,


لیکن عنایہ کی جانب سے جواب ندارد ناجانے وہ سر جکھائے کن سوچوں میں مستغرق تھی,,,


عنایہ کہاں کھوگئی ہو؟؟ اسے مسلسل خاموش دیکھ ثمر اپنی جگہ سے اٹھتا اسکے برابر آکر بیٹھا مگر جب بھی وہ کچھ نہ بولی تو اسنے گود میں دھرے اسکے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا,,,,


ثمر میں بہت پریشان ہوں میں اپنی پریشانی کسی سے شیئر نہیں کرسکتی ہوں کیونکہ کوئی میری بات کو تسلیم نہیں کرتا وہ یکلخت ہی اپنا سر ثمر کے کندھے سے ٹکاتی روتے ہوئے بولی پہلے تو اس عمل پہ ثمر کچھ سٹپٹایا مگر اگلے ہی لمحے اسکی حالت سمجھتے وہ اسکی کمر سہلاتے پرسکون کرنے لگا ,,,,


میری اپنی بہن بھی مجھ پہ یقین نہیں کرتی کوئی مجھ سے پیار نہیں کرتا سب صرف حرم نور کو چاہتے ہیں کیونکہ میں انکی سگی اولاد نہیں ہوں,,,,اسکے لفظ تھے گویا کوئی بم جو ثمر کو اپنے آس پاس پھٹتا محسوس ہوا,,,


کیامطلب ,,,,ثمر نے اسکا چہرہ اوپر کرتے حيرت زدہ انداز میں پوچھا,,,,


مجھے میرے والدین نے گود لیا ہے مگر جب تک انکی گود خالی تھی ان لوگوں نے مجھے بہت پیار دیا لیکن جب سے حرم یعنی انکی اصل حقیقی اولاد انہیں ملی ہے وہ لوگ مجھے کسی کچرے کی طرح ٹریٹ کرنے لگے ہیں میرا اٹھنا بیٹھنا کھانا پینا سب انہیں کھٹکنے لگا ہے اس دن بھی حرم کے کہنے پر مجھے تمہاری پارٹی میں آنے کی اجازت ملی تھی ورنہ میرے والدین کا بس چلے تو وہ مجھے گھر میں ہی قید کردیں میں پوچھتی ہوں آخر میرا قصور کیا ہے کیوں مجھے گھر میں سجے شاپیز کی طرح استعمال کیا گیا,,,,


وہ پھوٹ پھوٹ کر روتے اس طرح کہہ رہی تھی جیسے واقعی اسپے ظم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے ہوں,,,,ایک پل کیلئے بھی اسے اپنے لفظوں پہ خوف نہیں محسوس ہوا تھا,,,,


مقابل بیٹھے شخص کو وہ اپنی جھوٹی کہانی سناتی اپنے جال میں پھانس چکی تھی ثمر کے تاثرات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ وہ اسکی ایک ایک بات پہ ایمان لے آیا ہے وہ تو تھا ہی سدا کا بدھو ,,,


♡♡♡♡♡♡♡


ساحر دیکھ اب جو سوال میں تُجھ سے پوچھنے والا ہوں ، مجھے امید ہے تو اُن سوالوں کے جواب سہی سے دیگا مجھے ،,,


کمرے کی خاموشی میں عادل کی آواز گونجی ، کیسے سوال میں سمجھا نہیں ؟ ساحر نے اُلجھتے ہوئے پوچھا ،


میں جاننا چاہتا ہوں ، بلکہ میں نہیں ہم سب ہی جاننا چاہتے ہیں کہ آخر سنایا کا تیری فیملی یہ ثمر سے کیا تعلق ہے ، ماضی میں کچھ ایسا ہوا ہو جو ابھی ہمارے کام آ سکے ؟؟ عادل نے بنا لگی لپٹی کے سوال کیا ،


عادل کے سوالوں نے اُسے گہری سوچ میں ڈال دیا تھا ،

نہیں ایسا تو کچھ نہیں ہوا بلکہ سنایا کو کبھی میں نے اس سب سے پہلے دیکھا بھی نہیں نہ کبھی سنا اُسکے بارے میں ، ثمر مجھ سے ہر بات شیئر کرتا تھا ، اگر سنایا کا ثمر سے کوئی تعلق ہوتا تو ثمر مجھے ضرور بتاتا ، ساحر نے پُر سوچ سے انداز میں کہا وہ خود اس سنایا نامی مخلوق کو سمجھنے سے قاصر تھا ،


ساحر کے جواب پر عادل نے اثبات میں سر ہلایا تھا اور دو انگلیوں سے کنپٹی مسلنے لگا

،

ساحر مور,,, تُم مور سے پوچھو کیا پتہ وہ جانتی ہو کچھ ؟ دماغ میں ایک دم جھماکا ہوتے اُس نے بغور ساحر کو دیکھتے پوچھا ،


میرا نہیں خیال کہ مور کچھ جانتی ہونگی اُسکے بارے میں ، ساحر نے نفی میں سر ہلاتے صوفے سے اپنی پُشت ٹکائ تھی ،


پر پوچھنے میں کیا حرج ؟؟ وہ کسی مہم سی اُمید کے تحت بولا


نہیں وہ بھی سنایا کے بارے میں نہیں جانتی ہونگی اگر میں نے اُن سے پوچھا بھی تو ایک بار پھر اُنکے زخم تازہ ہو جائنگے , وہ پہلے ہی عنایہ اور ثمر کے بچے کو لے کر پریشان ہے میں مزید کسی ٹینشن میں نہیں ڈال سکتا اُنہیں ، ساحر نے صاف انکار کرتے کہا ۔۔۔


ملاہم سے کیا بات ہوئی تمھاری اُس نے کہا کہ سارا پلین ترتیب دے چُکے ہو تُم دونوں؟؟ اُس نے ملاہم سے ہوئی سرسری سی بات یاد کرتے پوچھا ۔۔۔


ہاں پلین تو پورا تیار ہے بلکہ آج رات ہی اس پلین کا آغاز بھی ہو جائیگا ، عادل نے کہتے ہی الف سے ے تک سارا پلین مختصر لفظوں میں اُس کے گوش گذارا ، بس آج نو بجے کی فلائیٹ ہے میری ۔۔۔۔ اُس نے پلین بتانے کے بعد اب اُسے اپنے جانے کا بھی بتایا ،،،


سہی پلین تو زبردست ہے بس بہت محتاط رہنا پڑے گا تُجھے اُس کے ساتھ وہ بہت شاطر ہے , ساحر کی بات پر عادل نے متفق ہوتے حامی بھری تھی ۔۔۔۔۔۔


چل اب میں چلتا ہوں بس جانے سے پہلے تُجھ سے اور مور سے ملنے آیا تھا وہاں پتہ نہیں رابطہ ہو سکے یہ نہیں ۔۔۔ صوفے سے کھڑے ہوتے اُس نے مسکراتے کہا ۔۔۔۔


ہاں ہاں بیٹا سمجھ رہا ہوں آج کل ویسے بھی بہت چکر لگ رہے ہیں تیرے اسلامباد سے پشاور ، ساحر نے تو اپنی طرف سے مذاق کرتے ہوا میں تیر چلایا تھا پر عادل کے چہرے سے ایک دم رنگ أڑا تھا ،


کیا ہوا تُجھے اتنا سیریس کیوں ہو رہا ہے میں مذاق کر رہا تھا ، ساحر نے اُسکے اڑے رنگ دیکھ مشکوک نظروں سے دیکھتے کہا ۔۔


تو اور تیری یہ ٹھنڈی جُکتیں ، اب مجھے سٹاپ تک چھوڑ کر آئیگا یہ میں جو تیری گاڑی لایا ہُوں وہ لے جاؤں ؟ بھلا ہو اُسکے پولیس والے شاطر دماغ کا جو فوراً ہی خود کو سنبھال گیا اور اُسکی بات ٹال گیا۔۔۔۔


چھوڑ آؤنگا ابھی کچھ دیر آرام کر لے سفر پر بھی جانا ہے تو نے اُسکا خیال کرتے ساحر نے آرام کا کہا ،


نہیں آرام کا وقت نہیں چار بج رہے ہیں نو بجے جانا ہے میں نے ، عادل نے انکار کرتے وقت کی کلت کا بہانہ بنایا ۔


ٹھیک ہے جیسے تیری مرضی ، دونوں ہلکی پھلکی باتیں کرتے نور بانو سے ملنے کے بعد وہ عادل کو بس اسٹاپ تک چھوڑنے چلا گیا ،


اُنکے جانے کے بعد نور بانو بھی وضو بناتی نماز ادا کرنے لگی حرم اور درخنے بھی اپنے اپنے کمروں میں تھی ۔۔۔۔ نور بانو حرم سے مل چکی تھی اور تھوڑی بہت ڈانٹ بھی لگا چُکی تھی۔


کیسی لڑکی ہو تُم ، شکل کی ہی خوبصورت ہو بس یہاں بیچارہ پرندہ پریشان بیٹھا ہے اور تُم کتابیں چاٹ رہی ہو ، اُسے کتابوں میں جھکا دیکھ وہ جلا بھونا سا بولا ,


تمہارا مسلا کیا ہے اشرفی ؟ تُمہیں کہا تو ہے میں نے کہ آؤ حرم کے پاس چھوڑ آؤ تُمہیں ، درخنے نے کتاب ٹیبل پر پٹختے دبے دبے غصے میں کہا وہ بار بار اشرفی کی بے تکی سی ضد پر جھنجھلا گئی تھی,,


نہیں وہ مجھ سے ناراض ہوگی پہلے کوئی آئیڈیا دو اسے منانے کے لئے ، وہ پر پھیلا کر اڑتا اُس تک پہنچتا بولا ، یہ پرندہ اب اُسکی برداشت سے باہر ہوتا جا رہا تھا اُسے سچ میں اپنے بھائی پر ترس آرہا تھا جو حرم کے لئے اس شیطان کے چیلے کو برداشت کر رہا تھا ،


ٹھیک ہے میں تُمہیں بہت سارے نوٹ لکھ کر دے رہی ہوں اگر وہ بات نہ کرے تو یہ نوٹ اُسکے سامنے چپکاتے رہنا کچھ دیر سوچنے کے بعد کچھ سوجھتے بولی اور قلم ہاتھ میں اٹھاتے نوٹ لکھنے لگی ۔


اشرفی بھی خاموشی سے اُسے یہ سب کرتا دیکھنے لگا ۔۔۔کُچھ ہی دیر بعد وہ اپنی کلائی پر اشرفی کو بیٹھائے ساحر کے کمرے کے باہر کھڑی تھی اندر جائے یہ نہ جائے دل اسی کشمکش میں تھا ،


ایک لمبی سانس لیتے وہ دروازہ نوک کرتی اندر داخل ہوئی جہاں حرم جائے نماز بچھائے نماز ادا کر رہی تھی ، وہ اشرفی کو نوٹس تھماتے اُسے کمرے میں چھوڑتے خود واپس پلٹ گئی اُس میں ہمت نہیں تھی حرم کا سامنا کرنے کی ہر بار وہ معصوم اُسکی وجہ سے ہی کسی نہ کسی مصیبت میں آجاتی تھی۔۔۔۔


وہ نماز ادا کرنے کے بعد جائے نماز جگہ پر رکھتی پلٹی ہی تھی کہ اشرفی اڑتا ہوا اُسکے کندھے پر آ بیٹھا تھا ، حرم کا دل تیزی سے دھڑکا تھا اُسکا دل چاہا کہ اپنے اشرفی کو سینے سے لگا لے پر دوسرے ہی پل اُسکے کارنامے یاد کرتے وہ اُسے نظر انداز کرتی منہ موڑ گئ ، اُسکی اس اعلانِ ناراضگی سے تو اشرفی کا چہرہ دھواں دھواں ہوا تھا ،


میں نے تمہیں بہت مس کیا حرم تُم نے مجھے کیا ، اشرفی نے اُسکے ایک کندھے سے اڑتے دوسرے پر بیٹھتے بات کرنے کی غرض سے کہا ، حرم نے کوئی جواب نہ دیا وہ اُسے اگنور کرتی بیڈ پر پڑے ساحر کے کپڑے ترتیب سے الماری میں ہینگ کرنے لگی ، اشرفی نے اپنی کسی بات کا اثر نہ ہوتا دیکھ منہ پھلایا تھا، پر درخنے کے بنائے نوٹ یاد آتے وہ اُسکے کندھے سے اڑتا ٹیبل پر پہنچا تھا اور ایک نوٹ اپنی چونچ میں پکڑے واپس پلٹا تھا ، حرم ہنوز اُسے اگنور کرتی اپنے کاموں میں مصروف رہی ، اشرفی نے چونچ میں پکڑا نوٹ الماری کے پٹ پر چونچ کی مدد سے چپکایا ،


حرم نے سرسری سی نظر اُس نوٹ پر ڈالی تھی جس پر بڑے بڑے الفاظوں میں سوری کے الفاظ جگمگا رہے تھے ،پہلے تو حیرت سے اسکی آنکھیں چمکی مگر اگلے ہی لمحے وہ پھر اگنور کرتی اب ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھ گئی تھی اور بال سلجھانے لگی ، اشرفی کو تو درخنے کا یہ پلین بھی فلاپ ہوتا نظر آرہا تھا پر اُس نے ہار نہ مانتے دوبارہ ایک نوٹ اٹھاتے ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے پر چپکایا اس بار اُس نوٹ پر ، میں ایک نمبر کا گدھا ہوں کہ الفاظ چمک رہے تھے حرم نے پہلے تو حیران ہوتے اشرفی کو دیکھا تھا جو آنکھیں جھپکاتے اُسے ہی دیکھ رہا تھا ، بات کچھ کچھ بنتے دیکھ اُس نے تین اور نوٹ شیشے پر چپکا دئیے تھے ، جن پر الگ الگ الفاظ لکھے تھے ، میں ہوں ہی اُلو کا پٹھا ، ایک نوٹ پر یہ جملہ پڑھ حرم کی ایک دم ہنسی چھوٹی تھی ، ہنسی تو پھسی ، اشرفی ٹیبل پر ہی کھڑا ہوتا گول گول گھومتا گانے لگا ،


اشرفی تُم بہت ہی بُرے ہو تُمہیں پتہ ہے تمھاری وجہ سے کیا کُچھ ہوا ہے درخنے کو کتنی ڈانٹ پڑی ، اور ساحر جی وہ کتنا پریشان تھے ، حرم نے اُسے اُسکی غلطیوں کا احساس کروانا چاہا ،


اچھا نہ سوری بول تو رہا ہوں ویسے بھی ساری غلطی میری نہیں کُچھ تو اُس ساحر جی کی بھی ہے ، اشرفی نے خود کو کچھ بھی ساحر کے لئے غلط بولنے سے باز رکھا تھا ، اچھا نہ سوری اب معاف کردو ، اُسے گھورتا دیکھ مسکین سی شکل بناتے بولا ، حرم اُسے دیکھ مسکرا دی ،


سنو اشرفی تُم کمرے میں ہی رہنا میں تھوڑی دیر تک آتی ہوں مور کو دیکھ کر ، وہ اُسے مزید ہدایتیں کرتی کمرے سے نکلتی مور کے کمرے کی طرف بڑھ گئی ،

●︿●●︿●●︿●


رُکو,,,,, وہ نور بانو کے کمرے کی طرف بڑھ رہی تھی کہ داجی کی آواز نے اُسکے قدم وہی ساکت کر دیے، اخبار فولڈ کر کے ٹیبل پر پھیکتے وہ صوفے سے کھڑے ہوتے اُسکی طرف متوجہ ہوئے جو آنکھوں میں انجانے تاثرات لئے اُنہیں ہی دیکھ رہی تھی ، انکے انداز سے صاف واضح تھا کہ وہ کسی بات پہ برہم ہیں,,,


کس سے پوچھ کر تُم نے حویلی سے باہر قدم نکالا تھا ، داجی کے اندازِ سوال پر اُس نے خوف سے تھوک نگلا تھا اور نظریں کسی مجرم کی طرح جھکائی تھی ،


میں نے پوچھا تمھاری ہمت بھی کیسے ہوئی حویلی سے قدم باہر نکالنے کی اُس کی طرف سے کوئی جواب نہ پاکر وہ تقریباً دھاڑے تھے ،


اُنکی دھاڑ سے حویلی کی دیواریں تک ہل کر رھ گئ تھی ، نور بانو اور درخنے بھی داجی کے شور پر اپنے کمروں سے ہال میں بھاگتی ہوئی پہنچی,,,,


میں نے کچھ پوچھا ہے تُم سے ،، اُو بیبی یہ تُمہارے آبا حضور کا مینشن نہیں بلکہ سمندر خان کی حویلی ہے ، یہاں اپنے ہر غلط قدم کا تُمہیں جواب دینا ہوگا مجھے,,,


اور سزا بھی بھگتنی ہوگی، وہ اپنے مخصوص روبدار آواز میں بولے ،


داجی میں سمجھاتی ہوں اِسے,,, نور بانو نے اُنکی آنکھوں میں تیش دیکھ حرم کی طرف قدم بڑھاتے کہا ۔۔۔۔۔کتنے عرصے بعد وہ داجی کا پہلے والا روپ دیکھتے سہم ہی تو گئیں تھی پھر حرم تو انکے کسی بھی انداز سے ناواقف ہی تھی,,,


وہی رک جاؤ نور بانو,,,,تُمہیں سمجھانا ہوتا تو سمجھا چُکی ہوتی اب تک ، اُنہیں حرم کی طرف بڑھتے دیکھ اُنہوں نے اب اپنی توپوں کا رخ نور بانو کی طرف کیا،


نور بانو حرم کے آنسوؤں سے تر چہرے پر ایک نظر ڈالتے خاموش ہوگئ ،


کیا تُم نے درخنے کو کبھی اکیلے کہیں جاتے دیکھا ہے ؟ وہ اب دوبارہ حرم سے سوال گو تھے ۔۔۔۔لہجہ اب بھی قدرے سختی لیئے ہوئے تھا جو کم از کم حرم کیلئے ناقابل برداشت تھا وہ تو انکی پہلی دھاڑ پر ہی سہمی سی لرزنے لگی تھی,,,


حرم نے ہلکا سا سر اُٹھا کر اُنکو دیکھتے نفی میں سر ہلاتے جواب دیا اور دوبارہ سر جھکا دیا اُسے اس وقت شدت سے ساحر کی کمی محسوس ہورہی تھی جو اُس کے لئے لڑ سکے یقیناً وہ ہوتا تو اپنے انداز میں سب سمبھال لیتا وہ کبھی اسپے آنچ نہیں آنے دیتا تھا، یہی وجہ تھی شايد جو وہ اب تک داجی اور حویلی کے بنائے گئے اصولوں سے ناواقف تھی,,,,


پر وہ یہاں موجود نہ تھا اس لئے اب سب کچھ اُس نے ایسے ہی خاموشی سے سہنا تھا ،

تو پھر تُم نے کِس کی اجازت سے حویلی سے باہر قدم رکھا ؟؟؟ پہلے تم قاتل کی بہن تھی یہ جو کوئی بھی تھی اُس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں پر اب تُم سمندر خان کی حویلی کی بڑی بہو ہو ، اگر تمھاری وجہ سے ہمارے نام پر ذرا سا داغ بھی آیا تو ہم بلکل رحم نہیں کریں گےتُم پر ذہن میں بیٹھا لو اپنے یہ بات تُم ،،،


اور رہی سزا کی بات تو وہ تو تمہیں مل کر رہے گی ،

اُنکی بات پر حرم نے بے ساختہ ہی ڈبڈباتی آنکھوں سے پہلے داجی اور پھر مدد طلب نظروں سے نور بانو کی طرف دیکھا تھا ،


اُنکے لہجے کی سختی کے آگے اس بار نور بانو کی ہمت بھی نہ تھی کچھ بولنے کی ، پر حرم کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو دیکھ انہوں نے ہمت کرتے کہا، داجی اس بار معاف کر دیں اسے آئندہ خیال رکھے گی یہ حویلی کے قائدِ قانون کا ، اس بار اسے علم نہ تھا ہمارے گھر کے ماحول کا ۔۔۔ وہ اور بھی کچھ کہتی کہ داجی نے ہاتھ اوپر کرتے اُنہیں خاموش کروا دیا ،


نور بانو تُم تو اس معاملے میں نہ ہی بولو تو اچھا ہے ، سمجھنے سمجھانے کا وقت گیا اب پانی سر کے اوپر جا چکا ہے ، کچھ عرصہ ڈھیل کیا دے دی تُم سب ہی اپنی منمانی کرنے لگے ہو ،


ہر کوئی خود کو حویلی کا بڑا سمجھنے لگا ہے ، داجی کے الفاظوں پر نور بانو نے شرمندہ ہوتے سر جھکا دیا تھا ، اس سب کے دوران درخنے بھی خاموشی سے یہ سب دیکھ رہی تھی ، پر داجی کے غصےکے آگے اُسکی بھی ہمت نہ تھی کچھ بولنے کی,,, ۔


ہاجرہ,,,,,,

نوری ۔۔۔۔۔۔ داجی نے چیختے دونوں ملازموں کو آواز دی جو فوراً ہی بھاگتی ہال میں اُنکے سامنے پہنچی ،

جی داجی,, دونوں موؤدب سے انداز میں سر جھکائے بولی


اِسے پکڑو اور اسٹور روم میں بند کردو چابی مجھے لا دینا جب تک میں نہیں چاہوں گا کوئی نہیں ملے گا اس سے,,,,


وہ ایک نظر وہاں موجود تمام نفوس پر ڈالتے ٹھنڈے ٹھار لہجے میں ایک نیا حکم سنا گئے۔۔۔


اپنی لئے سزا سن حرم نور کے تو رونگتے کھڑے ہونے لگ گئے تھے پر اپنی صفائی میں وہ ایک الفاظ بھی نہیں بولی تھی بولتی بھی کیسے داجی کے خوف سے اُسکا پورا وجود ہی لرز رہا تھا دل ڈر سے بے قابو دھڑک رہا تھا ،


اُنکے حکم پر ملازمہ اثبات میں سر ہلاتے حرم کی طرف بڑھی ، اُنہیں اپنی طرف آتا دیکھ اُس نے قدم پیچھے کی جانب لئے تھے ، پر ملازمہ بھی بنا ترس کھائے اُسے بازوؤں سے تھامتے تقریباً گھسیٹتے ہوئے سٹور روم کی طرف لے گئ اور سٹور روم میں پہنچتے ہی اُسے اندر دھکا دیتے دروازہ باہر سے لوک کر گئ ،


داجی یہ کیوں کر رہے ہیں آپ نہ کریں حرم کے ساتھ ایسا معاف کر دیں اس بار اُسے,,, ملازموں کو حرم کو لے جاتے دیکھ وہ اُنکے جانے کے بعد اپنے دادا سے بولی ، اُسکی بات پر جہاں آنکھوں میں چنگاریاں لئے داجی نے اُسکی طرف دیکھا تھا وہی نور بانو نے بھی حیران ہوتے اُسے دیکھا تھا جو آج پہلی بار کسی کے سامنے حرم کے لئے بول رہی تھی ،،،


تُم کب سے بڑوں کے فیصلے میں بولنے لگی ؟؟؟ سب ہی اپنی روایت اور تہذیب بھول گئے ہیں لگتا ہے یاد کروانا پڑے گا ، وہ درخنے کو کہتے ایک جتاتی ہوئی نظر نور بانو پر ڈالتے اپنی لاٹھی اُلٹے ہاتھ سے سیدھے پر منتقل کرتے وہاں سے نکلتے گئے ،


ملازمہ بھی اُنہیں چابی دیتی کچن کی طرف بڑھ گئی تھی ،


مور...... اُنکے جاتے ہی درخنے نے نور بانو کو پُکارا ،۔

ہاں۔۔۔۔ اُنہوں نے یک لفظی جواب دیا


ساحر بھائی کو پتہ چل گیا تو وہ داجی سے کیسے بات کریں گے ، اُسے اب ساحر کا ردِعمل سوچ کر ہی ہول اٹھنے لگے تھے ۔


پتہ نہیں خدا خیر کرے بس ، تُم جاؤ ساحر کو فون کرو اور بولو جلدی گھر آئے ، اُنہوں نے لمبی سانس لیتے کہتے حکم بھی دیا وہ بھی اثبات میں سر ہلاتے وہاں سے چلی گئی اور رسیور کے پاس کھڑی ساحر کا نمبر ڈائل کرنے لگی ، کہیں نہ کہیں یہ کسک بھی تھی کہ جو بھی کچھ ہو رہا ہے اسکی اصل وجہ وہ خود ہے,,,,

نور بانو بھی ایک بے بس سی نظر اسٹور روم کے دروازے پر ڈالتے کچن کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔۔


************

ماضی......


وہ ایک عالیشان دس منزلہ بنی آفس بلڈنگ کے باہر کھڑا تاسف سے دیکھنے میں محو تھا اس بلڈنگ کی خوبصورتی سے سنایہ وکٹوریہ کی شخصیت کا اندازہ لگانا مشکل تھا,,, اسنے خود کو اچھی طرح کمپوز کیا اور قدم داخلی دروازے کی سمت بڑھائے,,,,


بلیک تھری پیس میں ملبوس ایک ہاتھ میں کالے رنگ کی فائل تھامے دوسرے ہاتھ میں معمولی ترز کی واچ چمک رہی تھی آنکھوں پہ نظر کا چشما چڑھا تھا وہ ایک لمبا سانس ہوا میں تحلیل کرتے آفس میں داخل ہوا,,,


سر کس سے.ملنا ہے آپکو,,,,

ریسپشن پے کھڑی لڑکی نے اس انجانے سوٹ بوٹ میں ملبوث آدمی کو دیکھتے سوال داغا,,,,


یہاں جوب کے لیئے اونر سے ملنا ہے,,,

اخبار میں اس جگہ کیلئے جوب کی ویکینسیس پڑھی اسلئے چلا آیا,,,

اسنے چشمہ درست کرتے تفصیل سے جواب دیا,,,,


اوکے آپ ویٹنگ روم میں بیٹھیں انٹرویوز ابھی پینڈنگ میں ہیں لہذا آپکو کچھ دیر انتظار کرنا ہوگا,,,,

ریسیپشنسٹ نے بے حد موؤدب انداز میں جواب دیا,,,


وہ اثبات میں سر ہلاتا سامنے بنے ویٹنگ روم کی طرف بڑھ گیا,,,,


تقریباً دو گھنٹے کے انتظار کے بعد اسکی باری آئی تھی,,,,

اسنے کیبن میں داخل ہوتے سلام کیا,,,,


جسکا جواب سامنے وائٹ تھری پیس سوٹ میں ملبوس ہلکے سے میکپ کیساتھ بیٹھی لیڈی نے سر کو جنبش دیتے دیا دکھنے میں ہی وہ پروفیشنل لگ رہی تھی مقابل کی شخصیت بے حد متاثر کن تھی,,


مگر کچھ تو تھا اسکے نین نقوش میں جسے پہلی نظر دیکھتے عادل کچھ ٹھٹکا تھا مگر اگلے ہی لمحے خود کو کمپوز کرتے ایک مسکراہٹ چہرے پہ چپکائی,,,,


ہاتھ اور آنکھوں کے اشارے کی مدد سے بیٹھنے کیلئے کہا گیا,,وہ بھی چیئر کھسکاتے سامنے براجمان ہوا,,,


اس ملک کے تو نہیں لگتے آپ تعارف کروانا پسند کرینگے؟؟

اسکے بیٹھتے ہی پین گھماتے مقابل لیڈی نے اسکا جائزہ لیتے پوچھا,,,,


وہ مسکرایا,,,جی سہی پہچانا پاکستان سے تعلق رکھتا ہوں مگر جوب کے سلسلے میں لمبا عرصہ یہاں لگاچکا ہوں,,, اسنے بنا گھبرائے جواب دیا,,,,


ہممم....سی وی,, ہاتھ بڑھاتے مقابل کے ہاتھ میں پکڑی فائل کی طرف اشارہ دیا تو اسنے بھی فائل اسکے ہاتھ میں تھمائی,,,


اس آفس کی کتنی سیڑھیاں عبور کرتے یہاں تک پہنچے ہو؟؟ ہنوز نگاہیں فائل پہ ٹکائے جانچنے والے انداز میں پوچھا,,,,


لفٹ کے ذریعے آیا ہوں میم ,,,مقابل نے بنا گھبرائے بنا وقت لیئے جھٹ سے جواب پیش کیا,,,,

اور اگر لفٹ نہ ہوتی تو کتنی سيڑیاں چھڑھتے فائل کو پٹخنے والے انداز میں رکھتے دونوں ہاتھ باہم ملائے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے سوال کیا گیا,,,


تقریباً 90 سیڑیاں,,,,

وہ اب بھی بنا توقف کے بولا اور ہلکی سی مسکراہٹ پاس کی,,,,


ہممم امپریسو,,,

آپکی پیچھے والی دیوار پہ کونسا رنگ ہوا ہے,,,کچھ سوچنے والے انداز میں پوچھا گیا,,,


پہلے تو عادل کچھ سٹپٹایا پھر خود کو پرسکون کرتے آنکھ بند کر کے کھولی سیاہ ,,,,


اسنے یک لفظی جواب دیتے مقابل کی طرف دیکھا جو مسکرا رہی تھی ,,,,

مجھے سیلف کانفیڈنٹ لوگ بہت پسند ہیں آئی لائیک یوور کونفیڈنس,,,,


میری سیکریٹری سارا کام سمجھا دیگی کل اوفس کے مقررہ وقت پہ آپ یہاں موجود ہونے چاہیئے ہو ناؤ یو کین گو ,,,,


چیئر سے پشت ٹکاتے عام سے انداز میں اسے جانے کا اشارہ دیا,,,,وہ بھی اٹھتا وہاں سے نکلتا چلا گیا باہر نکلتے اسنے ایک لمبا سانس خارج کیا اور کیب میں سوار ہوتے وہاں سے نکلتا چلا گیا


°°°°°°°


ملازمہ اُسے سٹور روم میں بند کر کے روم لوک کر کے جا چکی تھی اُسے داجی کا اتنا خوف تھا کہ آب تک اُس نے دروازہ بجانے یہ کسی کو مدد کے لئے آواز نہیں دی تھی ، پر اب اُسے کمرے میں موجود اندھیرے سے خوف آرہا تھا دل بھی کسی بے لگام گھوڑے کی طرح دھڑک رہا تھا ، وہ آنسو بھاتی دل میں ہی ساحر کو پکارنے لگ گئی تھی ،


کافی دیر کے انتظار کی بعد بھی جب وہ یہ کوئی اور مدد کے لئے نہ آیا تو اُس نے مردہ قدم آگے بڑھائے ، ابھی وہ آگے بڑھ ہی رہی تھی کہ کوئی چیز اُسکے پاؤں کے اوپر سے گزرتی بھاگی تھی کھڑکی سے آتی ہلکی سی روشنی میں اُس نے اُس چیز کو دیکھنا چاہا ،


پر وہاں موجود موٹا اور کالا چوہا دیکھ اُسکی سانسیں تھمی تھی پہلے تو اُسکی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھی پر پھر ایک دم آنکھوں میں خوف نے جگہ لے لی تھی ،


ہوش میں آتے ہی اپنے سامنے چوہے کو دیکھ اُس نے ایک دل خراش چیخ ماری تھی ،

وہ خوف سے تھر تھر کانپتے اپنے قدم پیچھے لے گئ آنکھیں رونے کی شدت سے سُرخ تھی تو وجود میں خوف سے لرزش طاری تھی ،


وہ اُس چوہے کے خوف سے ایک خالی کونے میں گھٹنوں پر سر رکھ کر بیٹھ گئی ، اور سامنے دیکھتے تیز تیز رونے لگی ، ابھی تو وہ ایک چوہے کے خوف سے نہیں نکلی تھی کہ دوبارہ ٹوٹے پھوٹے صوفے کے نیچے سے چار پانچ چوہے نکل کر ادھر سے ادھر بھاگتے نظر آئے اب تو اُسے حقیقت میں سانس نہیں آرہا تھا وہ ہمیشہ سے ہی چوہوں اور کیڑوں مکوڑوں سے ڈرتی تھی پر آج اتنے قریب دیکھ اُسکا دل خوف سے پھٹنے کے قریب تھا ،


چوہوں کو ادھر سے ادھر دندناتے دیکھ وہ خوف سے ہوش حواس سے بیگانہ ہوتی نیچے زمین پر ہی ہی گر گئی


وہ درخنے کا فون سننے کے بعد سارے کام کاج چھوڑ کر فل سپیڈ میں گاڑی چلاتے وہ آدھے گھنٹے کا راستہ دس منٹ میں ہی طے کر کے حویلی پہنچا تھا ،

غصےسے اُسکی شریانیں پھٹنے کے قریب تھی،

داجی,,,, ہال میں پہنچتے ہی وہ دھاڑا ، اُسکی دھاڑ سے حویلی کی دیواریں تک ہل کر رھ گئ تھی ۔۔۔۔۔


******************

ماضی......


راحیلہ باہر پودوں کو پانی دے رہی تھی وہ اکثر ہی پودوں کیساتھ وقت گزارا کرتی تھی کیونکہ انہیں پودوں سے کافی انسیت تھی , ,


اتنی دیر سے کیوں گھر آئی ہو کہاں تھی اب تک؟؟ابھی وہ پانی ہی دے رہی تھی جب گھر کے مین گیٹ سے عنایہ کو عجلت میں اندر آتا دیکھ سوال کیا,,,,انکی آواز تو ثمر کی سماعتوں تک نہیں پہنچی لیکن ڈرائیونگ سیٹ پہ براجمان وہ راحیلہ کے تاثرات بخوبی ملاحظہ کر سکتا تھا جو کہ قدرے سخت تھے,,,


ٹائڈ جینس شرٹ پہ گلے میں اسٹالر ڈالے بالوں کی اونچی پونی بنائیں عنایہ نے اپنی ماں کے سوال پہ بیزار سا منہ بناتے انکی جانب دیکھا,,,,


کچھ پوچھ رہی ہوں سنائی نہیں دیا تمہیں,,,,اسکے ہلیے کو دیکھتے پہلے تو انہوں نے افسوس سے سر نفی میں ہلایا اور پھر اسکے بیزار تاثرات دیکھ وہ کچھ دبے دبے غصے میں بولیں,,,


مما آپ اتنا اوور ریایکٹ کیوں کرتی ہیں یونیورسٹی گئی تھی واپسی میں دوستوں کا کافی کا موڈ بن گیا تو بس کوئی چھوٹی بچی نہیں ہوں میں جو آپ اسطرح فکر کرتی ہیں میری,,,وہ شدید ناگوار لہجے میں بول رہی تھی لیکن تاثرات ایسے تھے جیسے دیکھنے والے کو لگے شاید منت سماجت کر رہی ہے,,,وہ پہلے ہی ثمر کی موجودگی بھانپ چکی تھی اسلیئے جان بوجھ کر تاثراتوں پر قابو کیا ہوا تھا,,,ثمر انکا رویہ دیکھ کچھ سوچتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کرتے وہاں سے نکلتا چلا گیا ایک طرف دل میں ہزاروں جزبات انگڑائی لے رہے تھے تو دوسری جانب گھر والوں کی عزت کی پرواہ,,,,


کیوں نہیں ضرور جب تم ماں بنوگی تب پوچھونگی یہ سوال میں تم سے زمانہ بہت خراب ہے بیٹا سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتی تم ,,,,وہ ثمر کو جاتا دیکھ خود بھی پلٹ کر جانے لگی تھی جب راحیلہ کے لفظوں نے چند لمحات کیلئے اسکے قدم ساکت کیئے تھے ایک عجیب سا خوف دل کے پردوں پہ لہرایا لیکن اگلے ہی لمحے وہ سر جھٹکتی بنا اپنی ماں کی طرف دیکھے آگے بڑھ گئی,,,,ہیچھے راحیلہ نے ازیت سے اپنے آنسوں صاف کیئے تھے,,,


اپی آج اتنی دیر سے آئی ہیں آپ؟؟ابھی اسنے لاؤنچ میں قدم رکھا ہی تھا جب حرم نور نے بے حد معصومیت سے پوچھا,,,حرم پلیز اب تم مت شروع ہونا میں پہلے ہی بہت تھکی ہوئی ہوں اپنے سوال بعد کیلئے رکھ لو,,,,

وہ خاصی چڑچڑے انداز میں کہتی اوپر کی طرف بڑھ گئی,,,پیچھے حرم افسوس سے اسکی پشت ہی تکتی رہ گئی,,,


*************

بولو کیا اپڈیٹ ہے ؟؟ فون کی اسکرین روشن ہوتے نسوانی آواز گونجی ساتھ سنایہ وکٹوریہ کا چہرہ اس جگنگاتی اسکرین پہ لہرانے لگا,,,بہت کچھ معلوم ہوگیا ہے سویٹی اور سب کچھ ہی ہمارے کام آسکتا ہے یہ لڑکی بہت کام کی ہے,,,,مقابل شخص نے مکروہ مسکراہٹ کیساتھ سامنے اسکرین پہ موجود لیڈی کو جواب دیا,,,,


پہلیاں مت بجھاؤ شیریں سیدھی طرح بتاؤ کس کام آسکتی ہے یہ لڑکی ہمارے۔۔۔


بتا رہا ہوں سویٹی تم تو فوراً ہی غصہ ہوجاتی ہو ناجانے اس چھوٹی سی ناک پہ ہمہ وقت اتنا غصہ کیوں رہتا ہے,,,, شیریں نے مسکراتے ہوئے اسے عنایہ کی ساری معلومات الف سے ے یہ تک اسکے گوش گزاری,,,جیسے جیسے وہ پہلے دن سے لیکر اب تک کی ساری معلومات اسکے گوش گزار رہا تھا ویسے ویسے ہی سنایا کے تاثرات خوشی میں تبدیل ہورہے تھے,,,,


گریٹ اسکا مطلب دشمن کا دشمن ہمارا دوست بن سکتا ہے اور جب سودا بچاری عنایہ سکندر کے مطلب کا ہوگا تو یقیناً مچھلی جال میں ضرور پھنسے گی ,,,,,


ہاہاہاہا,,,داد دینے والے اندازمیں کہتے آخر میں ایک جاندار قہقہ لگایا,,,,شریں بھی مقابل کو خوش دیکھ مسکرانے لگا انکی مسکراہٹ میں ابھی سے فتح مندی جھلک رہی تھی,,,,


************

رات تیسرے پہر وہ بیلکونی میں کھڑی اپنے اور ثمر کے درمیان ہوئی گفتگو یاد کرتے تنزیہ مسکرارہی تھی کب اچانک ہی ساحر کا تھپڑ یاد کرتے بے ساختہ ہی اسنے ہاتھ گال پہ رکھا آنکھوں میں خون اتر آیا تھا چہرے پہ سختی چھاگئی تھی ایک ہاتھ گال پہ رکھے دوسرا گریل کو سختی سے تھامے وہ ایک ایک گزشتہ لمحا یاد کر رہی تھی جو وہ بھلانا چاہتی بھی نہیں تھی,,,


جب اپنا سکہ کمزور ہو تو کسی کہ کمزوری پہ وارنہیں کرنا چاہیئے ساحر شہروز خان بہت عزیز ہے نہ تمہیں تمہاری غیرت عزت دیکھنا تمہارے ہی گھر کے چشمو چراغ سے اگر میں نے تمہاری یہ سو کال نام کی غیرت پہ کاری ضرب نہ لگایا تو,,,,وہ ہر لفظ چباچبا کر ادا کر رہی تھی,,,,وہ کہتے ہیں نہ گیئوں کیساتھ گُن بھی پستا ہے ہہم.....بس وہی حساب اب تمہارے ساتھ ہوگا تمہارے ہر عمل کی سزا تمہارا بھائی بھکتے گا جسکی نظروں میں عنایہ سکندر کیلئے محبت صاف جھلکتی ہے,,,وہ گریل سے ٹیک لگاتی مسکرا کر پرسکون انداز میں خود سے مخاطب ہوئی,,,,


ابھی وہ ناجانے کن ارادوں کے حصار میں قید تھی جب موبائل کی آواز نے اسکی سوچوں کا تسلسل توڑا,,,


بیڈ پہ پڑا موبائل اٹھاتے اسنے اسکرین کی طرف دیکھا جہاں ثمر شہروز نام پوری آب تاب سے چمک رہا تھا,,,.ایک مسکراہٹ پاس کرتے اسنے فون یس کرتے کان سے لگایا,,,,


ہیلو...دوسری جانب سے مردانہ آواز گونجی,,,

ہممم بولو,,,,لہجے کو قدرے اداس بناتے جواب دیا جبکہ بظاہر چہرے پہ مسکراہٹ چمک رہی تھی,,,

کیسی ہیں آپ عنایہ,؟؟دوسری طرف شائیستگی سے پوچھا گیا,,,


زندہ ہوں لیکن پتہ نہیں کب یہ چلتی سانسیں بھی ساتھ چھوڑ جائیں,,,اسنے بھی افسردگی سے کہاں کے دوسری طرف سنتے ثمر کے دل کو کچھ ہوا,,,


ایسی باتیں تو نہیں کریں اللہ آپکی عمر دراز کرے ,,,,

اسنے دہل کر جلدی سے بولا جیسے واقعی وہ مرنے لگی ہو,,,,


ہمممم.....کیا فائدہ اس ذلت سے بھرپور زندگی کا جہاں کوئی اپنا ہی نہ ہو,,,,,

ابکی بار وہ مصنوعی سسکیاں بھرتے بولی,,,


پلیز عنایہ آپ ایسی باتیں نہیں کریں میں ہوں نہ آپکا اپنا ,,,,وہ پھر سے کچھ اداسی سے تسلی دینے لگا,,,,


تم صرف دوست ہو لیکن ہو تو نا محرم ہی نہ کب تک ساتھ دوگے اور کس رشتے سے ثمر تمہارا ساتھ بھی میرے لیئے بدنامی کا باعث ہے میں عورت زات ہوں تم سمجھ رہے ہو نہ,,,وہ کہتے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی ,,,,


عنایہ پلیز آپ روئے تو نہیں مجھے بلکل اچھا محسوس نہیں ہورہا اگر ہم نامحرم ہیں تو محرم بن جائینگے آپ اجازت دیں تو,,,,


وہ بے چینی سے بولا,,,اسکی بات پہ عنایہ کی مصنوعی سسکیاں تھمی تھی,,,جیسے واقعی اسے شوکڈ لگا ہو,,,,


یہ یہ کیسی بات کر رہے یو ہم محرم صرف ایک ہی رشتے سے بن سکتے ہیں اور میں عمر میں تم سے بہت بڑی ہوں ہمارے گھر والے ہر گز نہیں مانے گے,,,,


وہ صاف انکار کر گئ,,,مگر چہرے پہ فتح مندی جیسی مسکراہٹ جگمگا رہی تھی,,,,


ہم کل یونیورسٹی میں بات کرینگے تفصیل سے ابھی بھائی آگئے ہیں اوکے بائے پلیز اب آپ رونا نہیں بلکل بھی,,,,

اسنے عجلت میں کہتے فون رکھ دیا اور تیزی سے بجتا دروازہ کھولا,,,,

●︿●●︿●●︿●


کیا کر رہے تھے اتنی دیر لگادی دروازہ کھولنے میں,, ثمر کے دروازہ کھولتے ہی ساحر نے کچھ سخت لہجے میںَ پوچھا,,,


وہ میں واشروم میں تھا بھائی,,, ساحر کے اچانک سوال پہ وہ گڑبڑا گیا تھا مگر بروقت اسنے بہانہ تراشا,,, ساحر نے کچھ مشکوک انداز میں اسے دیکھا جسکے ماتھے پہ اے سی کی کولنگ کے باوجود بھی پسینوں کی ننہی بوندیں چمک رہی تھی,,, وہ ناچاہتے ہوئے بھی اسکی بات پہ یقین کرتا بیڈ پہ دراز ہوا,,,,


خیریت بھائی آپ اس وقت یہاں میرے کمرے میں,,, شکر کاسانس خارج کرتے اسنے دروازہ بند کیا اور خود بھی بیڈ کی طرف بڑھتے ساحر سے سوال کرنے لگا,,,


عموماً ثمر جب بھی حویلی رکنے آتا تھا تو ساحر اکثر ہی رات اسکے ساتھ گزارتا تھا دونوں بھائیوں کی بونڈنگ کافی اچھی تھی مگر جب سے یہ عنایہ نامی لڑکی ثمر کی زندگی میں آئی تھی اسکے انداز و اتوار ہی بدل گئے تھے,,,

کیا مجھے اس وقت تمہارے کمرے میں آنے کی اجازت نہیں یہ ایسا پہلی بار ہوا ہے جو اس سوال کی ضرورت تمہیں پیش آئی,,,

ساحر نے اسے حیرت سے دیکھتے سوال داغا اسے ثمر کے یہ سوال بہت ناگوار گزرا تھا جسکا اظہار وہ اپنے لہجے سے بروقت کر چکا تھا,,,


ارے نہیں بھائی ممیرا وہ مطلب نہیں تھا آپ جب چاہیں یہاں آسکتے ہیں ویسے بھی ویکنڈز پہ تو ہم ساتھ ہی سوتے ہیں نہ,,,,

وہ فوراً ساحر کو بگڑتا دیکھ بات بنا گیا,,,


ہممم.... بیٹھو کچھ بات کرنی ہے....ساحر نے بات کو رفع دفع کرتے اسے بیٹھنے کیلئے کہا انداز کافی سنجیدہ تھا,,,

ثمر خاموشی سے اسکے پاس بیٹھ گیا,,,


ثمر میری بات پوری توجہ سے سننا اگر تمہیں لگے کہ میں کچھ غلط کہہ رہا ہوں تو بیشک تم مجھے ٹوکنے کا حق رکھتے ہو لیکن میں تمہارا بڑا بھائی ہوں تمہارا اچھا برا سوچنے کا حق محفوظ ہے میرے پاس اور میں کبھی نہیں چاہونگا تم جان بوجھ کر کسی کھائی میں چھلانگ لگالو وہ بھی تب جب تمہارا بھائی تمہیں اس کھائی کی گہرائی سے آگاہ کر چکا ہے,,,


اسنے اپنی بات کی شروعات سے پہلے تمہید باندھی ثمر الجھی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا,,,

ثمر بیٹا اس وقت تم ایک کچی عمر کے مسافر ہو اس عمر میں اکثر انسان سے نادانیاں ہوجاتی ہیں لیکن وہ شخص بہت مظبوط کردار کامالک ہوتا ہے جو اس عمر میں خود کو مظبوط رکھتے اپنے نفس پہ قابو پالیتا ہے ہماری چند ایک خواہش ہی کبھی کبھی ہماری بربادی کی وجہ بن جاتی اسلیئے سب سے پہلے ہمیں ہمارے جذباتوں پہ قابو رکھنا بہت ضروری ہے جنہیں انسان کی پہچان نہیں ہوتی لیکن ہم اندھے نہیں ہوتے بس کبھی کبھی کچھ لوگ سیدھا دل میں جگہ بناتے ہیں لیکن افسوس وہ ہمارے دماغ تک کب کیسے پہنچ کر ہماری سوچوں پہ حاوی ہوجاتے ہیں ہمیں اندازہ نہیں ہوتا اور ہمیں سہی غلط کی پہچان نہیں رہتی وہ بڑے بھائ کی طرح کچھ ڈھکے چھپے لفظوں میں اسے سمجھا رہا تھا,,,اور ثمر ہنوز اسکے چہرے کی جانب دیکھتے اس اب باتوں کی وجہ تلاش رہا تھا,,,,


کچھ لوگ جیسے دکھتے ہیں ویسے نہیں ہوتے اور میری نظر میں اگر آپکی زندگی میں کوئی شامل ہوجائے جسے آپ خاص رکھنا چاہتے ہو تو اسے بیشک اہمیت دو لیکن اس ایک شخص کیلئے اپنے پرانے عزیزوں کو بھلانا بے وقوفی ہے اپنے والدین بہن بھائ ان سے دستبرداری ناممکن ہے یہ وہ رشتے ہیں جوچاہ کر بھی چھوڑے نہیں جاسکتے ,, وہ اپنے طور سہولت سے لفظوں کا چناؤ کر رہا تھا بس وہ کسی بھی طرح عنایہ سے اسکا پیچھا چھڑانا چاہتا تھا تاکہ وہ کسی غلط راہ کا مسافر نہ بن جائے,,,


تم ماشااللہ جوان ہو لیکن میرے لیئے اب بھی بچے ہی ہو میں نہیں چاہونگا تم زندگی میں کبھی بھی کسی غلط راہ کاچناؤ کرو جو بھی مشکل پیش آئے اسے خودحل کرنے کی کوشش کرو بیشک تم کر سکتے ہو لیکن جس لمحے تمہیں احساس ہو یہ کرنا تمہارے بس کی بات نہیں تو سب سے پہلے آکر مجھے بتانا یا پھر کسی ایسے شخص کو جو تمہیں تم سےزیادہ جانتا ہو کبھی بھی خود کو کمزور مت محسوس کرنا

وہ ٹہر ٹہر کر بے حد دھیمے لہجے میں اسے سمجھا رہا تھا اور ثمر کو لگا شاید وہ اسے زندگی کی تلخیوں سے آگاہ کر رہا ہے وہ اپنے بھائی کی تلقین کو اسکی فکر سمجھتے مسکرایا تھا


کچھ توقف کے بعد وہ پھر بولنا شروع ہوا,,,,

کچھ پانے کیلئے کچھ کھوناپڑتا ہے ثمر یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا لیکن کچھ پانے کی خواہش سے پہلے اسے پرکھنا تسلی کرنا کیا وہ تمہارے قابل ہے کیا وہ تمہارے معیار تمہارے وقار پہ پورا اترتا ہے چاہت چھوٹی ہو یا بڑی ہر شخص کو عزیز ہوتی ہےثمر لیکن کچھ چاہتیں نقصان دہ ہوتی ہیں جنسے بچنا ہی مہارت ہے ,,,,


میں نے اپنی عمر میں خود پہ قابو رکھا تھا تو آج میں ایک بہترین کردار کا مالک ہوں نا صرف کردار بلکہ میرا اپنا ایک معیار ہے ایک نام ہے بیشک ہمیں ریاست میں باپ داداؤں کا کمایا نام ملنا ہو لیکن کبھی بھی اپنی خود کی پہچان سے پیچھے نہیں بھاگنا چاہیئے ہر انسان کیلئے اپنی پہچان بنانا ضروری ہے تاکہ کل کلاں کوئی سگا بھی اٹھ کر آپکی ہستی نا ہلا سکے خود کو اس قدر مظبوط بناؤ کہ لوگ آپکے بابت غلط بات کرنے سے پہلے ہزار بار سوچیں اپنی شخصیت کو اس قدر خوبصورتی سے سنواروں کے لوگ پہلی نظر سے تمہارے قائل ہوجائیں,,,

اسنے اپنی بات کے اختتام میں ثمر کے تاثرات جانچنے چاہے,,,ساحر نے صاف لفظوں میں اسے عنایہ سے دور رہنے کیلئے نہیں کہا کیونکہ ایسا کرنے سے وہ ان لوگوں سے دور ہوجاتا ,,,,اسکی نظر میں بچوں کو انہیں کی سوچ کے مطابق ہینڈل کرنا ضروری ہوتا ہے زور زبردستی سے اپنا حکم منوانے سے اکثر بچے باغی ہوجاتے ہیں اسی لیئے اسنے بہت احتیاط سے کام لیا تھا کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ,,,,


اکثر والدین یا بڑے بہن بھائی کسی چیز کیلئے روکتے ہیں لیکن بچے کے وجہ پوچھنے پر وہ ڈانٹ کر اسے چپ کروا دیتے ہیں ہم بھول جاتے ہیں انسان کو ہر اس چیز میں دلچسپی پیدا ہوتی ہے جس چیز کیلئے اسے منع کیا جاتا ہے یہ انسانی نفسیات ہے اسے جتنا دباؤ گے وہ اتنا نکل کر آئیگا ,,,

بہتر ہے ہم ہمارے بچوں کے تمام سوالات کا انکے دماغ کے مطابق جواب دیں نہ کہ انہیں جھڑک کر یا روک ٹوک کر کسی بات سے منع کریں انہیں سمجھائیں انکے سامنے دلائل پیش کریں تاکہ وہ غلط راہوں میں بھٹکنے سے محفوظ رہ سکیں ,,,,


ساحر کی نظر میں عنایہ کی دوستی ثمر کیلئے عزیز تھی لیکن وہ اسکے لیئے خطرناک ثابت ہوسکتی تھی کیونکہ عنایہ کے جس پہلو سے ساحر واقف تھا اس سے ثمر واقفیت نہیں رکھتا تھا,,,اور بیشک دل میں گھر کرنے والے کچھ لوگ پہلے ہمارے دماغ پہ ہی کاری ضرب لگاتے ہیں,,,,


آپ فکر نہیں کریں بھائی آپکا یہ چھوٹو بہت عقلمند ہے اڑتی چڑیا کے پر گننے کا ہنر ہے ان عقاب جیسی آنکھوں کو,,,,وہ ماحول کو ہلکا پھلکا کرنے کیلئے شریر انداز میں بولا,,,,

ساحر مسکرادیا,,,,


عقلمند لوگ ہی بے وقوف بنتے ہیں کیونکہ جنکا عقل سے واسطہ ہی نہیں انہیں کوئی بے وقوف کیسے بنا سکتا ہے بچے,,,,

ساحر نے اسکے بال بگاڑتے مسکرا کر کہا,,,,


یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں بھائی بات میں دم ہے آپکی,,,

وہ پر سوچ انداز میں بولا تبہی کمرے کا دروازہ بجا,,,,

لیں آگئی چڑیل اسی کی کمی تھی بس,,,


ثنر نے پہلے گھڑی کی طرف دیکھا اور پھر بجتے دروازے کی طرف دیکھتے بولا اور کھولنے کیلئے اٹھا ساحر کا قہقہ بے ساختہ تھا,,,

ثمر نے دروازہ کھولا تو درخنے ہانپتی ہوئی چادر میں لپٹی اندر داخل ہوئی ,,,,

تمہیں کیا ہوا کس کے گھر ڈاکا ڈال کے آئی ہو,,,,


اسے چوروں والے ہلیے میں دیکھ ثمر نے مشکوک انداز میں پوچھا جبکہ اسے اندازہ تھا وہ اس ہلیے میں کیوں موجود تھی,,,,


اب تک تو کہیں نہیں ڈالا لیکن اب ڈالونگی تمہارے کمرے میں ڈاکا,,,,

درخنے نے کہتے ہی گن نکال کر اسکے سامنے کی ,,,ثمر کی آنکھیں حیرت سے پھیلی ,,,,,ساحر بھی ایک لمحے کیلئے سکتے کا شکار ہوا,,,,


لڑکی سدھر جاؤ داجی کو پتہ چلا تو ہنگامہ کھڑا ہوجائے گا پہلے ہی وہ اب تک ثمر کی پڑھائی کو لیکر تانے دیتے ہیں مجھے پتہ نہیں اور کتنی دشمنی مول لینی ہوگی مجھے تم دونوں کیلئے داجی سے اگلے ہی لمحے اسکی شرارت سمجھتے وہ بیڈ سے اٹھ کر قریب آتے بولا,,,


تو درخنے نے منہ بسورا اسکا فائدہ اٹھاتے ثمر نے گن اپنے شکنجے میں لی,,,, داجی اس بندر کو تو کچھ نہیں کہتے بھائی بس میرے ہی پیچھے پڑے رہتے ہیں ابھی بھی آنگن میں بھی میری موت کا فرشتہ بنے گھوم رہے تھے خدا جانے داجی کو نیند کیوں نہیں آتی آپکو اندازہ بھی نہیں کیسے اپنی جان پہ کھیل کر میں یہاں تک پہنچی ہوں,,,,


اسنے ثمر کو ایک کچا چبانے والی نظر سے دیکھ ساحر سے شکایت کی,,,

ہاہاہاہاہا...اسکے انداز پہ کمرے کی فضاء میں ان دونوں کے قہقے گونجے,,,,,


ایسے نہیں کہتے گڑیا وہ بڑے ہیں ہمارے بھلے کیلئے ہی کہتے ہیں ,,,,,ساحر نے اسکے گرد حصار باندھتے محبت سے کہا,,,,


تم یہاں کیوں آئی ہو چڑیل اب کونسے چوہے اچھل رہے ہیں تمہارے پیٹ میں,,,,ثمر نے سلگانے والے انداز میں چوٹ کرتے پوچھا,,,.درخنے نے فوراً ہی اپنے چھوٹے چھوٹے موتیوں جیسے دانتوں کی نمائش کی,,,


ہائے......کتنا سمجھتے ہو تم مجھے بندر بنا کہے ہی میرے پیٹ اوپس مطلب دل.کی بات جان جاتے ہو اللہ ایسا بھائی اور کسی کے نصیب میں نہ لکھے ,,,,

اسنے بھی دوبدو جلا دینی والی.مسکراہٹ کیساتھ کہا,,,,


مجھے آئیسکریم کھانی ہے بھائی ......وہ ثمر کو جواب دیتی ساحر کی طرف رخ کرتے منت بھرے انداز میں بولی وہ جو پہلے ہی انکی نوک جھوک پہ مسکرا رہا تھا اسکے بولنے پر مسکراہٹ گہری ہوگئی,,,,


ٹھیک ہے چلو ......ساحر جھٹ سے مان گیا کیونکہ وہ جانتا تھا اگر آئیسکریم نہیں کھلائی تو اسنے جان نہیں چھوڑنی اور ساحر درخنے کے نکھرے بے حد لاڈ سے اٹھاتا تھا,,,,,


وہ انہیں باہر آنے کا کہتا خود اپنے کمرے سے والٹ اور گاڑی کی چابی لیتے باہر کی طرف بڑھ گیا,,,,

درخنے بھی واپس خود کو شال سے ڈھکتی ثمر کو گھسیٹتی باہر نکلنے لگی ,,,,


وہ دونوں جیسے ہی سیڑھیاں عبور کرتے نیچے آئے تو آنگن میں داجی اب تک پہرا دیتے نظر آئے درخنے کی تو جان ہی ہلک میں اٹک گئی تھی جبکہ اسکے حال پہ ثمر کی مسکراہٹ گہری تھی یہ تو شکر تھا کہ داجی کی انکی طرف پشت تھی ورنہ آج درخنے کا قتل پکا تھا,,,وہ تیزی سے پلر کی اوٹ میں ہوئی جبکہ ثمر بھی اسکی بے بسی سمجھتے اسکے ساتھ ہوا,,,,


اب داجی کا رخ انکی جانب تھا ایک چکر پورا کرتے وہ پھر پلٹے اور انکے پلٹتے ہی ثمر نے اسکا ہاتھ تھامتے ایک پلر سے دوسرے پلر تک کا فاصلہ عبور کیا,,,,,


دونوں نے چپلیں بھی شور کے ڈر سے ہاتھ میں تھامی ہوئی تھی اور وہ بنا شور پیدا کیئے اسی طرح ایک کے بعد ایک پلر عبور کرتے آخر کار باہر کی طرف نکلے ، جہاں پورچ میں ہی ساحر ڈرائیونگ سیٹ سمبھالے انکا منتظر تھا ,,,,


گاڑی کے پاس پہنچتے پہلے درخنے نے اپنی چپلیں کھڑکی سے اندر پھینکی اور پھر خود دروازہ کھول کر اندر بیٹھی اور شکر کا سانس بحال کیا,,,,


لیکن ثمر نے خود بیٹھنے کیلئے بھی دروازہ کھولنے کی زحمت نہیں کی تھی وہ داجی کے چمچے کو سامنے سے آتا دیکھ کھڑکی سے اندر کود گیا ابھی وہ پورا اندر داخل بھی نہیں ہوا تھا کہ ساحر نے گاڑی چلا دی ,,,کیونکہ ان دونوں کا کوئ مثلا نہیں تھا لیکن درخنے کو کوئی اس پہر باہر جاتے دیکھ لیتے تو فضول میں تماشا لگ جاتا,,,,


ساحر نے جیسے ہی گاڑی دوڑائی وہ بڑی مشکل سے چلتی گاڑی میں کھڑکی کے ذریعے اندر داخل.ہوا تھا اور درخنے مسلسل اسکی حالت پہ کھلکھلا رہی تھی ساحر کے لبوں پہ بھی مسکراہٹ تھی,,,,


♡♡♡♡♡


حال۔۔۔۔۔۔

داجی,,,,,

ساحر کی آواز اتنی بلند تھی کہ اسکی آواز سے اُسکے تیش کا اندازہ لگانا مشکل نہ تھا ،

ساحر آرام سے یہ کیا طریقہ ہے اپنے دادا کو پکارنے کا کچن سے دوڑکر آتی نور بانو نے اُسے اُسکی سنگین غلطی کا احساس دلانا چاہا ۔۔


مور حرم کہاں ہے ؟ نور بانو کو کندھے سے تھامتے وہ اُنکی آنکھوں میں اپنی شہد رنگ آنکھیں گاڑتے بولا ہر لفظ اُس نے ٹھہر ٹھہر کر ادا کیا تھا ، ایک پل کے لئے اُسکے لہجے کی سختی محسوس کر نور بانو کا دل زوروں سے دھڑکا تھا ، اُنہیں سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ اُسے کیسے قابو کریں


وہ سٹور روم میں ہے بھائی، داجی نے بند کروایا ہے اُسے,,, نور بانو کے کچھ بولنے سے پہلے ہی درخنے بول اٹھی ،


ساحر نے ایک لمبی سانس لیتے خود کو کنٹرول کرنا چاہا پر حرم کا خیال آتے ہی گرم خون ایک بار پھر جوش مارتا اُسے تیش دلا گیا ،


وہ بلکل ایک بھپرے شیر کی طرح دھاڑتا داجی کو پکارنے لگا ، اُسکے پاس کھڑی درخنے نے اُسکی دہاڑ پر سہمتے آنکھیں بند کرتے کانوں پر ہاتھ رکھا تھا وہ بلکل کوئی پاگل ہوا زخمی شیر لگ رہا تھا ۔


اور آخر اُسکی دھاڑ پر داجی بھی اپنے کمرے سے نکلتے ایک قہر آلود نظر اُس پر ڈالتے سیڑھیاں اُترتے ہال میں پہنچے۔۔۔۔۔


اگر تم بھول گئے ہو ساحر خان تو ہم یاد دلا دیتے ہیں کہ یہ گھر ہے ، کیوں اس طرح چلا کر ہماری عزت کے جنازے کے ساتھ ہماری تربیت پر بھی اُنگلیاں اٹھوا رہے ہو ، وہ اُس سے ڈبل آواز میں اپنے مخصوص روبدار لہجے میں پھنکارے۔۔۔۔


اسٹور روم کی چابی دیں,,,, وہ اُنکی آنکھوں میں اپنی غصے سے جلتی چنگاریوں بھری آنکھیں گاڑھے ٹھنڈے ٹھار لہجے میں بولا ، ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچے وہ بھر پور کوشش کر رہا تھا کہ داجی کی شان کے خلاف کچھ نہ بولے ۔۔


نہیں دوں گا ۔۔۔۔۔ جب تک میں نہیں چاہوں گا وہ اُس کمرے سے باہر نہیں نکلے گی اور نہ ہی کوئی نکالے گا اُسے ، اُنہوں نے بھی اُسکے غصے کو ہوا میں أڑاتے اپنے مخصوص انداز میں کہا ،


داجی مجھے میری حدیں پھلانگنے پر مجبور نہ کریں ، چابی دیں مجھے ,, ساحر نے تنے جبڑے کے ساتھ ایک بار پھر ضبط سے کام لیتے کہا ،

نہیں دیں گے کیا کر لو گے تُم ؟؟؟ وہ اُسے للکارنے والے انداز میں پوچھنے لگے ،


کیا کر کیا لو گے تم کل کی آئی اُس لڑکی کے لئے اپنے دادا کے مقابل آؤ گے شاباش بیٹا اس دن کے لئے ہی تُمہیں بڑا کیا تھا کہ اپنے ہی دادا کے سامنے کھڑے ہو کر اُنکی آنکھوں میں اپنی آنکھیں ڈال کر دھمکیاں دو ، آفرین ہے',,,


نور بانو اور درخنے دونوں ہی پریشان سی کبھی داجی کو دیکھتی تو کبھی ساحر کو دونوں کی ہی آنکھوں میں غصے کی زیادتی سے چنگاریاں پھوٹ رہی تھی ایک سیر تھا تو دوسرا سوا سیر تھا ۔۔

بتاتا ہُوں کیا کر سکتا ہوں۔۔۔۔ اُس نے اثبات میں سر ہلا کر کہتے ایک نظر وہاں موجود تمام نفوس پر ڈالتے لمبے لمبے ڈگ بھرتا سٹور روم کی طرف بڑھا ۔۔۔


ساحر,,,, نور بانو نے دہلتے اُسے پُکارا تھا اور ایک نظر داجی کے سپاٹ چہرے پر ڈالتے وہ ساحر کی طرف لپکی تھی ,


ساحر عین اسٹور روم کے دروازے کے پاس آکر رکا تھا ، ایک لمبی سانس لے کر ساری قوت جمع کرتے اُس نے ایک ہی زور دار دھکا دروازے کو دیا تھا جس سے اُس لکڑی کے دروازے کے دونوں پٹ کھل گئے تھے ، وہ ایک بھی منٹ ضائع کئے بغیر کمرے میں داخل ہوتا حرم کو تلاشنے لگا ، پر کمرے میں اندھیرا ہونے کی وجہ سے وہ اُسے کہیں بھی نہ دکھی اُس نے ہاتھ بڑھاتے سوئچ بورڈ سے ایک بٹن دبایا جس سے ایک بلب روشن ہوتا کمرے سے تاریکی کو نکال گیا ۔۔۔


حرم,,,, وہ اُسے پکارتا آگے بڑھا ، حرم کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر اُسے اور پریشانی لاحق ہونے لگی تھی دل میں بھی عجیب و غریب خیالات گھر کرنے لگے تھے ، تھوڑا آگے بڑھتے ہی کونے میں زمین پر پڑے حرم کے وجود کو دیکھ اُسکی دھڑکنیں تھمی تھی ، وہ غير یقینی سے آنکھیں پھیلائے سامنے اُسے دیکھ رہا تھا جو ہوش و حواس سے بیگانہ پڑی تھی ۔۔۔۔۔


حرم,,, وہ ایک دل خراش چیخ مارتا شتاب کاری سے اُسکی طرف دوڑا تھا ،

اُسکی چیخ سے نور بانو بھی کمرے میں داخل ہوتی اُن تک پہنچی تھی پر سامنے کا منظر دیکھ اُن کے بھی پیروں تلے زمین نکل گئی تھی ،

ساحر نے اُسے بازوؤں میں بھرتے کھڑے ہوتے باہر کی طرف قدم بڑھائے تھے ۔۔۔۔


ہال سے گزرتے ساحر کو اس حالت میں حرم کو لے جاتے دیکھ درخنے نے بے ساختہ ہی داجی کی موجودگی کا احساس کرتے منہ پر ہاتھ رکھتے اپنی چیخوں کا گلا گھونٹا تھا ،


اور دوڑتے اُسکے پیچھے گئی تھی

جبکہ داجی بھی انگشت بدنداں سے یہ منظر اپنی آنکھوں سے ملاحظہ کر رہے تھے,,,


انکا ارادہ حرم کو محض ڈرانا تھا لیکن اسکی یہ حالت ناقابل قبول تھی


وہ اپنے بھاری قدم اٹھاتا اُسے بازوؤں میں اٹھائے کمرے میں پہنچا تھا ۔۔۔

حرم اُٹھو دیکھو میں آگیا ، حرم اُٹھو پلیز ۔۔۔۔ وہ اُسے بیڈ پر لٹاتے اُسکے چہرے سے پسینہ صاف کرتے بولا ،

ساحر کیا ہوا ہے حرم کو ؟؟ کمرے میں داخل ہوتی نور بانو نے پریشان ہوتے سوال کیا ۔

پتہ نہیں مور ، وہ اُنہیں جواب دیتا الماری میں سے اپنا بیگ نکالنے لگا جو کلینک جاتے وقت وہ ساتھ لے کر جاتا تھا ۔


بیگ بیڈ پر سائڈ پر رکھتا وہ مطلوبہ مشینیں نکالتا اُسکا معائینہ کرنے لگا ، مکمل معائنہ کرنے کے بعد وہ ایک انجیکشن نکالتا حرم کے بازو پر لگا گیا ۔۔۔۔

کیا ہوا ہے اسے ساحر بتاؤ نہ مجھے ، کب سے اُسکی حرکتیں ملاحظہ کرتی نور بانو غصے میں تیز آواز میں بولی ۔۔۔

کچھ نہیں ہوا مور شکر ہے خدا کا سب ٹھیک ہے ، بس کسی چیز سے ڈر کر بے ہوش ہوئی ہے میں نے آرام کا انجکشن دے دیا ہے کچھ دیر آرام کرے گی تو اچھا فیل کرے گی ، وہ بکھرا سامان بیگ میں ڈال کر بیگ پیک کرتا ساتھ ساتھ اُنہیں تفصیل بھی دینے لگا ۔۔۔۔۔


اوہ شکر ہے خدا کا ، اُنہوں نے بے ساختہ ہی دعا کے لئے ہاتھ کھڑے کر رب کا شکر ادا کیا تھا ۔۔۔۔

داجی کو اس سب کا جواب دینا ہوگا مور۔۔۔۔ حرم پر بلنکیٹ دُرست کرتا وہ نور بانو کی طرف منہ کرتا بولا ۔۔۔


ساحر جو بھی بولو اُن سے اپنی حد میں رھ کر بولنا بھولنا نہیں کہ وہ تمھارے بزرگ تُمہارے داجی ہیں ، اُنہوں نے اُسے سمجھانا چاہا ،

ساحر نے کوئی جواب نہ دیا محض لب بھینچے اثبات میں سر ہلایا ،

وہ ایک آخری نظر سکون سے سوئ حرم پر ڈالتی کمرے سے نکل گئی ،

ساحر بھی حرم کی پیشانی پر لب رکھتا کمرے کی لائٹس بند کر کے نائٹ بلب کھولتا کمرے سے نکلا ۔۔۔


تو یہ عزت ہے ہماری اس گھر میں اب جس کا جو دل چاہتا وہ وہی کرتا ہے جیسے ہم تو صرف تُم سب کو اپنی منمانیاں کرتے دیکھنے کے لئے زندہ رھ گئے ہیں ، وہ ابھی لاؤنچ میں پہنچا ہی تھا کہ داجی کی آواز اُسکی سماعتوں سے ٹکرائی ،

میں پوچھتا ہوں وہ ہے کون جس کے لئے تُم نے اپنے داجی کا حکم رد کیا اور اُنکے مقابل آ کھڑے ہوئے ،


بیوی ہے میری ، اور میں پوچھتا ہوں آپ کون ہوتے ہیں اُسے سزا دینے والے ، میں اُسکا شوہر ہوں میں اُسکی سزا اور جزا کا فیصلہ کروں گا آپ کچھ نہیں کہیں گے اُسے آئندہ داجی ،


ورنہ ثمر کی طرح ساحر کو بھی کھو دیں گے آپ ، ساحر کے الفاظ تھے کہ گویا کوئی خنجر جو اُنکے سینے میں پیوست ہوا تھا وہ کچھ نہیں بولے بس کچھ دیر اُسے تکتے وہاں سے نکلتے اپنے کمرے میں بند ہو گئے ،


ساحر بھی تھکتا گرنے کے سے انداز میں صوفے پر بیٹھتا چلا گیا ، نور بانو نفی میں سر ہلاتے دوبارہ کچن کی طرف بڑھ گئی تا کہ حرم کے لئے کچھ ہلکا پھلکا بنا سکیں ، درخنے بھی اُداس سی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی


ایک شوارمہ مایو رول مینگو جوس اور ایک زنگر برگر ، ایک کام کرو جوس دو لے آنا,,,,وہ سنجیدگی سے ویٹر کو اپنا آرڈر لکھوا رہی تھی جبکہ سامنے بیٹھا شخص اور بذات خود ویٹر اسے ہونقوں کی طرح دیکھ رہا تھا جسے وہ خاطر میں لائے بغیر اپنا آرڈر لکھواتی موبائل پہ جکھی,,,


ویٹر جا چکا تھا جبکہ مقابل بیٹھا شیری ہنوز اسے دیکھ رہا تھا ,,,

پہلی بار کسی اچھے ریسٹورینٹ آئی ہو ؟؟

مقابل شخص نے سنجیدگی سے پوچھا


کیا مطلب ؟؟

وہ نہ سمجھی سے نگاہ اسکی طرف کرتے بولی,,,


تم واقعی اتنا کچھ کھالو گی؟؟اسکے آرڈر کی طرف توجہ دلاتے اسنے پھر صدمے سے چور انداز میں پوچھا,,,


اپنے کھانے پہ توجہ دو تمہارے پیسوں سے نہیں کھا رہی ہوں ,,,جب اسکی بات عنایہ کے سمجھ لگی تو وہ تند و تیز لہجے میں بولی لیکن آواز دھیمی ہی تھی بس نہیں تھا مقابل کو کچا چبا جائے جو اسکے کھانے پہ طنز کر رہا تھا,,,,


عنایہ ایم ڈیم سیریئس اتنی سی ہو تم کیا واقعی اتنا کچھ کھا لوگی,,,وہ پھر غیر یقینی سے پوچھ رہا تھا عنایہ نے پہلے کھ جانے والی نظروں سے اسکی جانب دیکھا,,,

اور اپنا اشتعال دبانے کیلئے آنکھیں بند کرتے ایک لمبا سانس خارج کیا,,,,شیری دم سادھے اسکے تاثرات دیکھ رہا تھا,,,


کاش تم پریگنینٹ ہوسکتے تو تمہیں میری بھوک میری حالت کا اندازہ ہوتا اب مزید کچھ اول فول نہیں سننا چاہتے تو سیدھی طرح مدعے پہ آؤ یہاں کیوں بلایا ہے مجھے اتنی گرمی میں وہ اپنا غصہ دباتی خود کو مزید کچھ کہنے سے باز رکھ گئی,,


اففف خدا نہ کرے یہ دن آئے کچھ بھی کم از کم سوچ سمجھ کر تو بولا کرو,,,

اسکی بات پہ وہ دہل ہی تو گیا تھا,


اب بولو بھی کیوں بلایا ہے,,,,وہ پھر جھنجلائی سی بولی پہلے بھی اسکا اخلاق کچھ خاص نہ تھا لیکن اب وجود میں ہوتی تبدیلی کے باعث مزید اسکے مزاج میں چڑچڑا پن شامل ہوگیا تھا وہ چہرے سے ہی خاصی اکتائی ہوئی لگ رہی تھی,,,,


سنی کی کال آئی تھی وہ برہم ہورہی تھی کہ اب تک تم نے کوئی کام سر انجام کیوں نہیں دیا ہے کب تک تم ساحر کے گھر تک رسائی حاصل کروگی ,,,,,اسنے سہی لفظوں کا چناؤ کرتے اپنی بات رکھی اتنے میں ویٹر بھی آرڈر مکمل کرتے ٹیبل پہ لوازمات سجا گیا,,,,


خوشبو سے ہی عنایہ کی بھوک چمک اٹھی تھی اسنے بنا اسکی بات کا جواب دیئے پہلے زنگر برگر اٹھاتے کھانا شروع کیا,,,,


وہ بھی خاموشی سے اسکے کھانا ختم کرنے کا انتظار کرنے لگا,,,,

پندرہ منٹ میں وہ ززنگر اور شوارمہ ختم کر چکی تھی اب جوس کا گلاس منہ سے لگائے گھٹا گھٹ پیتے گلاس ٹیبل پہ رکھا ,,,,,اور رول اٹھاتے اسے احساس ہوا کہ سامنے بھی کوئی بیٹھا ہے جو جوس پی رہا تھا


تم لوگ کیا چاہتے ہو انکے در پہ جاکر دروازہ کھکھٹاؤں بھیک مانگو کہ مجھے اور میرے بچے کو رہنے کی جگہ دے دو اور تمہیں لگتا ہے میرے ایسا کرنے سے وہ باآسامی مان جائینگے جیسے میرے ہی منتظر ہوں ایسا ہی ہے؟؟


پوچھنے کا تکلف اسنے نہیں کیا تھا وہ سیدھا رول کو ترسی نگاہوں سے جانچتی طنزیہ سوال گو ہوئی,,,

اس سب سے ہمیں غرض نہیں کہ تم کیا کرتی ہو کیا نہیں ہم نے محض تمہارے تحفظ کی زمیداری لی ہے,,,,وہ اسکے طنز پہ غصہ پیتے ٹہرے ہوئے لہجے میں بولا,,,.اووہ اور تمہیں لگتا ہے بلفرض میرے رونے گڑگڑانے سے وہ مجھے پناہ دے بھی دیتے ہیں تو کیا وہ لوگ مجھے ماہرانی بنا کر رکھینگے وہاں تحفظ تم دوگے مجھے؟؟؟ وہ پھر تندو تیز لہجے میں بولی,,,,

What ever what will.you do"


وہ بیزاریت سے بولا ,,,,,جو بھی کرنا ہے جلد کرو اور ریپورٹ دو سمجھ گئیں,,,,وہ جتانے والے لہجے میں کہتا وہاں سے اٹھ کر چلا گیا,,,,

ہنہ...پیچھے وہ منہ بگاڑتے اسپے لعنت بھیج رول کے مزے لینے لگی,,,,,


°°°°°°°°°°°


اُس نے کمرے میں قدم رکھا تو حرم کو ہنوز اسی پوزیشن میں سوتا پایا وہ ایک نظر اُسکے بے فکر سوئے وجود پر ڈالتا الماری کی طرف بڑھا بنا آواز پیدا کیے وہ الماری سے اپنے کپڑے نکالتا فریش ہونے کی غرض سے واشروم کی طرف بڑھا ہی تھا کہ اچانک ذہن میں اشرفی کا خیال آیا اس سب میں اب تک اُس نے اشرفی کو نہیں دیکھا تھا ، وہ اشرفی کی تلاش میں دبے دبے قدم اٹھاتے بالکونی کی طرف بڑھا ، بالکونی میں پہنچتے ہی اُس نے اشرفی کو اپنے چھوٹے گھر میں سویا ہوا دیکھا ،

کیسے بے خبر سو رہا ہے جیسے بھنگ پی رکھی ہو اس نے ، ساحر اُسے دیکھتا صرف دل میں سوچ ہی سکا ، چلو سکون تو ہے اُٹھ گیا تو میرا ہی دل جلائے گا یہ بھی کوئی میری ناکردہ گناہ کی سزا ہے وہ خود پر افسوس کرتا وہاں سے نکلتا واشروم میں بند ہوگیا ،


کچھ ہی دیر میں فریش ہونے کے بعد وہ واشروم سے نمودار ہوا سیاہ نم بال ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے ٹاول سے بال رگڑتے وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا اپنی قمیض کے بٹن بند کرنے لگا ،ابھی اُس نے بال بناتے کنگی ٹیبل پر رکھی ہی تھی کہ اس کے کانوں سے سرگوشی کی آواز ٹکرائی وہ فوراً بیڈ کی طرف دوڑا تھا جہاں وہ نیند میں بھی ڈری سہمی سی ساحر کو پُکار رہی تھی ،


سا ساحر چوہا,, مو مجھے کھا جائے گا ۔۔۔۔۔ سرگوشی نُما آواز میں بھی الفاظ اٹک اٹک کر برآمد ہوئے تھے ،


ساحر نے ضبط سے مٹھیاں اور لب بھینچے تھے

اے سی کی کولنگ میں بھی خوف سے حرم کے ماتھے پہ ننھے پسینوں کی بوندیں تھی وہ نیند میں بھی گزرے واقعے سے خوفزدہ ساحر کو پُکار رہی تھی ۔


حرم ,,,,, ساحر نے محبت سے ہلکی آواز میں اُسے پُکارا پر وہ اب بھی نہ اُٹھی ،


سا ساحر۔۔۔۔۔۔۔وہ بند آنکھوں سے ہی تکیے پر رکھے سر کو دائیں بائیں کرنے لگی جبکہ بلنکیٹ کو اُس نے مٹھیوں میں دبوچا ہوا تھا ،

حرم ،، کھولو آنکھیں دیکھو یہ رہا میں ، اُسکی حالت دیکھ وہ کچھ اونچی آواز میں اسے شانوں سے تھامتے بولا ،


ساحر کی کرخت آواز سے اُس نے فوراً آنکھیں واکی تھی ، آنکھیں پھیلائے وہ یہ سب سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی ،

وہ اُٹھ بیٹھتے ہی آس پاس دیکھتے یقین کرنے لگی کہ واقعی وہ اپنے کمرے میں موجود ہے نظر ساحر پر جاتے ہی وہ ساحر سے لپٹتی اُسکے سینے میں منہ چھپائے ہچکیوں سے رونے لگی,


ساحر وہاں بہت سارے چوہے تھے وہ میری طرف ہی آرہے تھے، وہ ہچکیوں کے دوران روتے ہوئے تڑپ کر بولی


کوئی نہیں آرہا دیکھو میں یہی ہوں حرم ، دیکھو کوئی چوہا نہیں ، وہ سینے سے اُسکا سر اٹھا کر ہاتھوں کے پیالوں میں بھرتا ماتھے پر لب رکھتے بولا ،


نہیں سا ساحر تُمہارے جانے کے بعد داجی نے مجھے سٹور روم میں بند کردیا تھا وہاں بہت اندھیرا تھا مجھے ب بہت ڈر لگ رہا تھا

، وہ آنسو بہاتی اپنے آپ پر بیتی اُسے بتانے لگی ،

ڈرو نہیں حرم تُم تو بہت بہادر ہو ، اور اب سب ٹھیک ہے دیکھو میں بھی تُمہارے پاس ہوں کِس کی مجال ہے میری بیوی کو کچھ بولے ، اب بس رونا بند کرو ، وہ اُسکے آنسو اپنے انگوٹھے سے صاف کرتے اُسے چُپ کروانے لگا ۔۔۔۔

حرم کچھ نہیں بولی بس خاموشی سے اُسے دیکھتے روتی رہی ،

اُو پشاوری ککڑ تُم باز نہیں آؤگے نہ ، میں تھوڑی دیر سو کیا جاؤ یہ کہیں چلا نہ جاؤ تُم میری حرم کو رلانے لگ جاتے ہو ،


بس بہت ہوگیا آج اگر تمہیں نہ رلایا تو میرا نام بھی اشرفی نہیں ، ابھی ساحر حرم کو کچھ اور کہتا کہ اپنے پیچھے سے آتی اشرفی کی آواز پر وہ پہلے تو ٹھٹکا تھا پر اُسکے الفاظ سن ساحر نے ایک سرد سانس خارج کرتے اپنا غصہ پیا تھا ۔۔


اشرفی بھی نہ آؤ دیکھتا نہ تاؤ ساحر کے سر پر کھڑے ہوکر اپنے پنجوں میں اُسکے نم بال لیتا کھینچے لگا ،


حرم رونا بھول حیرت سے آنکھیں پھیلائے یہ سب دیکھنے لگی وہ شاید سکتے میں تھی ،

پشاوری ککڑ آج تیرے چپلی کباب نہ بنائے تو بولنا ، جب سے میری زندگی میں آیا ہے حرم کو مجھ سے چھین لیا ہے تو نے ہر وقت کسی جن کی طرح اُسکے ساتھ چپکا رہتا ہے ڈاکٹر ڈھکن کہیں کا ، اشرفی ابھی بھی اپنی زبان سے اسکی شان میں قصیدے پڑھتے اُسکے بال کھینچنے میں مصروف تھا,


اشرفی چھوڑو انہیں ، انہوں نے نہیں رلایا مجھے ، حرم ہوش میں آتی ہاتھ کی پُشت سے آنسو رگڑتی بولی اور ہاتھ بڑھاتے اشرفی کو پکڑا ،

اس سب کے دوران ساحر نے بہت ہمت صبر اور ضبط سے کام لیا تھا ورنہ اُسکا دل تو آج اشرفی کا قصہ ختم کرنے کو کر رہا تھا پر وہ حرم کی حالت کے پیشِ نظر خاموش ہی رہا ،

چھوڑو حرم یہ نہیں بچے گا آج ، اسکی جرت بھی کیسے ہوئی تمھاری آنکھوں میں آنسو لانے کی اسکو میں نے خون کے آنسو رلانا ہے اب ، وہ حرم کی گرفت سے نکلنے کی تگ و دو میں بولا ،

اُسکے اس فلمی ڈائلوگز پر ساحر نے اُسے دیکھتے افسوس سے گردن نفی میں ہلائی تھی ،


شٹ آپ اشرفی ، دور رہو ساحر سے اُنہوں نے کچھ نہیں کہا مجھے ، حرم اُسے ایک بار پھر ساحر کی طرف بڑھتا دیکھ چیخ کر بولی ،


پھر کس نے رلایا تُمہیں اس گھر کے سب ہی لوگ اچھے ہیں مور درخنے ایک یہی ہی ، اشرفی نے کہتے ہی حرم کو غصے میں دیکھ اپنا جملہ ادھورا چھوڑ دیا ،


بتاؤ نہ حرم تمہارا اشرفی بینڈ بجا دیگا اُسکی ، وہ اُسے ایک بار پھر پوچھنے لگا ، حرم کچھ نہ بولی وہ کبھی اشرفی اور کبھی ساحر کے سُرخ چہرے کو دیکھتی ساحر کی خاموشی اُسے بہت وسوسوں میں ڈال رہی تھی ،


او ہاں ایک چنگیز خان کے زمانے کا اور اسی کا تربیت یافتہ ہستی بھی تو المشہور داجی کے نام سے رہتی ہے یہاں ، کہیں وہ تو نہیں اشرفی نے درخنے سے سن رکھا تھا داجی کے بابت اس لئے یاد آتے ہی بولا


حرم تُم جاؤ فریش ہو کر آؤ ڈنر کا وقت ہو رہا ہے سب انتظار کر رہے ہونگے,, وہ پوری طرح اشرفی کو اگنور کرتا حرم سے بولا ,

حرم بھی اثبات میں سر ہلاتے فریش ہونے چلی گئی ، ۔


حرم کے جاتے ہی ساحر نے ایک ہی جست میں ہاتھ بڑھاتے سوچ میں ڈوبے اشرفی کو پکڑا تھا ،

ارے چھوڑ مجھے ، کہاں لے جا رہا ہے مجھے وہ اُسکی گرفت میں مچلتا بولا


ساحر نے بنا اُسکی کوئی فریاد سنے اُسے بالکونی میں پٹکا تھا اور اُسکے سمجھنے سے پہلے ہی وہ کمرے میں پہنچ کر بالکونی کا گیٹ لوک کر گیا ، اور بالکونی میں بیٹھا اشرفی اُسے نئے نئے ناموں اور بد دعاؤں سے نوازنے لگا ،


وہ ہاتھ جھاڑتا ابھی مڑا ہی تھا کہ اُسے صاف شفاف اور بھیگے چہرے کے ساتھ واشروم سے باہر آتی نظر آئی ، ساحر نے مسکراتے قدم اُسکی جانب ہی بڑھا دیئے ،


تُمہیں کوئی صفائی دینے کی یہ کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں میری بیوی ہو سمجھی اُسکی کمر میں ہاتھ ڈالتے اپنے قریب تر کرتے وہ اُسکا نچلا ہونٹ نرمی سے مسلتا گویا ہوا ،

اس اچانک افتاد پر حرم نے کنفیوز ہوتے پہلے تو زبان سے لب تر کئے پھر اثبات میں سر ہلایا ،


ساحر اپنے قریب سے اُسکے نقوش میں کھوتا پوری شدت سے اُسکے لبوں پر جھکا تھا ، حرم نے کوئی مزاحمت نہیں کی تھی بس خاموشی سے اُسکے حصار میں کھڑی رہی اور جان لیوا قربت کو محسوس کرنے لگی وہ دھیرے دھیرے ہی سہی پر اپنے اور ساحر کے رشتے کو سمجھنے لگی تھی وہ جانتی تھی اب اُسکا محافظ اُسکا سب کچھ ساحر شہروز خان ہی تھا ،


وہ اُسکے لبوں کا جام پیتا ایک بار نرمی سے اُسکے لبوں کا چھوتا پیچھے ہٹا ،

چلو ڈنر کرنے چلیں پھر تُمہیں دوا بھی دینی ہے ، وہ اُسکے روپ میں حيا کی گلابیاں گھلتی دیکھ بولا ، حرم نے شرم سے نظر اٹھا کر ایک نظر بھی اُسے نہیں دیکھا تھا وہ سر جھکائے سر پر سلیقے سے دوپٹہ پہنتے اُسکے ہم قدم ہوتی نیچے کی طرف بڑھ گئی ،


وہ حرم کا ہاتھ تھامے ہی ڈائننگ روم میں داخل ہوا جہاں سب ہی اُسکے منتظر تھے ، سربراہی کُرسی پر بیٹھے داجی نے ایک نظر اُن دونوں کو دیکھتے نظروں کو زاویہ بدل دیا تھا یہ ساحر کو صاف ناراضگی کا اعلان تھا ، ۔


ساحر نے چیئر کھسکاتے پہلے حرم کو بٹھایا تھا پھر اُسکے برابر والی کُرسی پر خود بیٹھا تھا ، یہ منظر داجی کی آنکھوں میں بہت چبھا تھا پر وہ نظرانداز کرتے کھانے میں مصروف ہوگئے ،


حرم یہ سوپ پیو میں نے خاص تُمہارے لئے بنایا ہے تُمہیں اچھا لگے گا ، نور بانو نے اُسے داجی کے ڈر سے نظریں جھکائے بیٹھے دیکھ کہا اور پیالے میں اُسے سوپ نکال کر دیا ،


حرم ایک مسکراتی نظر نور بانو پر ڈالتی سوپ پینے لگی ، کھانے کے دوران کسی نے کوئی بات نہیں کی ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو سب اپنا کھانا ختم کرتے اپنے اپنے کمروں کی طرف بڑھ گئے ساحر بھی حرم کو لے کر کمرے میں چلا گیا تھا ، اور نور بانو ہی بس وہاں رھ گئ تھی وہ ملازمہ کو برتن اٹھانے اور کچن صاف کرنے کا کہتی وہ بھی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ،


کمرے میں آتے ہی ساحر نے حرم کو پہلے دوا دی تھی پھر اُسے اپنے حصار میں لئے ہی بیڈ پر لیٹ گیا ،

کیا سوچ رہی ہو سو جاؤ ، اُسے سوچ میں ڈوبا دیکھ وہ اُسکے بالوں میں نرمی سے اُنگلیاں چلاتے بولا ،


مجھے نیند نہیں آرہی اشرفی کو دیکھ لو ایک دفعہ ، وہ جانتی تھی اُسکی یہ بات ساحر کو تیش دلا سکتی ہے پر وہ کیا کرتی اُسکا دل پریشان تھا اشرفی کے لئے ،


حرم اگر تُمہیں نیند نہیں آرہی تو مجھے بتاؤ نہ میں ابھی حل نکال لیتا ہوں ، وہ شریر لہجے میں کہتا اُسکے اور اپنے درمیان کا انچ بھر کا فاصلہ بھی مٹا چکا تھا ،


مہ میں مذاق کر رہی تھی مجھے آرہی نیند ، وہ اُسکی باتوں کا مفہوم سمجھتے ہڑبڑاتے بولی ، اور اپنی آنکھیں موند گئ ، اُسکی اس حرکت پر وہ مسکرایا تھا ، اور بے ساختہ ہی لب اُسکی پیشانی پر رکھ گیا ، ماتھے پر اُسکا لمس محسوس کرتے حرم نے تھوک نگلا تھا ، وہ بھی مزید اُسے تنگ کرنے کا پلین ترک کرتا ہاتھ بڑھاتے لائٹ اوف کرگیا ،


حرم سو چُکی تھی پر اُسکی آنکھوں سے نیند کوسو دور تھی ، رات بھی ڈھل چُکی تھی دور کہیں مسجد سے اذانوں کی آواز سن وہ اُٹھ بیٹھا ، وضو بنا کر نماز ادا کرنے کے بعد ، وہ ایک نظر حرم کے سوئے وجود پر ڈالتا تازہ ہوا کھانے کے غرض سے کمرے سے نکلتا صحن میں پہنچا تھا ، صحن میں رکھی کُرسی پر بیٹھا وہ تازی ہوا میں سانس لینے لگا ،

نور بانو جو ابھی ہی نماز ادا کرنے کے بعد پرندوں کے لئے دانہ پانی رکھنے کے غرض سے صحن میں آئی تھی پر یہاں صحن میں ساحر کو گہری سوچ میں ڈوبا دیکھ وہ پرندوں کا کھانا ڈالنے کے بعد اُس کے پاس ہی آبیٹھی ،


کیا ہوا ساحر سوئے نہیں کیا، وہ اُسکی آنکھیں دیکھتے ہی سمجھ گئی تھی جو رت جگے کی چغلی کر رہی تھی ،


نہیں سویا تھا بس آنکھ جلدی کھل گئ آج ، اُس نے مسکراتے کہتے اُنہیں مطمئن کرنا چاہا ، وہ اثبات میں سر ہلا گئ ،


ناشتہ بناؤ تُمہارے لئے ؟ وہ اُسے سامنے دیکھتے دیکھ بولی


نہیں مور,,, ساحر ایک لفظی جواب دیتا دوبارہ خاموش ہو گیا

ساحر ، نور بانو نے ایک غیر مرئی نکتے میں غور کرتے اُسے پُکارا ،


جی مور,,, وہ جواب دیتا اُنکی بات کے لئے سماعتیں بچھا کر بیٹھ گیا،


بیٹا کیا سوچا ہے داجی کو بتانے کا اگر اُنہیں کہیں باہر سے پتہ چلا تو وہ خفا ہونگے اس لئے بہتر ہے کہ ہم خود ہی بتا دیں ،

وہ سمجھ گیا تھا نور بانو کس بارے میں بات کر رہی ہیں تبھی وہ خاموش رہا کچھ نہیں بولا

دیکھو ساحر ہم اپنے ثمر کی اولاد کو اُس کے پاس نہیں چھوڑ سکتے ، جو عورت ہمارے ثمر کو مار سکتی ہے وہ اُسکی اولاد کے ساتھ کچھ بھی کر سکتی ہے، اور وہ ہمارے ثمر کا بچا ہمارا خون ہے کيسے اُس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں ہم ،

تُم سمجھ رہے ہو نہ میں کیا کہہ رہی ہوں، وہ اپنی بات مکمل کرتے اُس سے پوچھنے لگی ،


اُنکے پیچھے کھڑے وجود کے سر پر جیسے ساتوں آسماں ٹھا ٹھا کر کے آ گرے تھے وہ بس ایک ہی جملے میں اٹک کر رھ گئے تھے ، ثمر کا بچا ،

میرے ثمر کا بچا ۔۔۔۔۔ اُنکی آواز بھر ائی سی برآمد ہوئی تھی ،


ساحر ابھی کچھ بولتا کہ اپنے پیچھے سے آتی داجی کی آواز سُن وہ فوراً مڑا تھا ،


داجی کو کھڑا دیکھ اُن دونوں کے ہی اوسان خطہ ہوئے تھے جس بات کا ڈر تھا آخر وہی ہو گیا تھا نا جانے اب کونسا طوفان آنا تھا ،


داجی,, ساحر اُنہیں پکارتا اُنکی جانب لپکا تھا جو ایک ہی جملہ دوہرا رہے تھے میرے ثمر کا بچا ، ساحر اور نور بانو دونوں ہی داجی کی ثمر کو لے کر محبت سے واقف تھے ،


پیچھے ہٹ جاؤ ساحر ,,,,

اُسے اپنی طرف آتا دیکھ وہ تھوڑا سخت لہجے میں بولے ،


ساحر کے قدم وہی ساکت ہوگئے تھے،

تُم لوگ کیا سمجھتے ہو مجھے ، مجھ سے اتنی بڑی بات چھپائ ۔۔۔۔۔ داجی کے الفاظوں پر اُن دونوں نے ہی اُن سے نظريں چراتے سر جھکایا تھا ، اور داجی نے افسوس سے گردن نفی میں ہلائی تھی ،

ہم نہیں رہنے دیں گے اپنے ثمر کو خود سے دور ہم یہاں لے کر آئینگے اُسے ہمارے ثمر کا بچا یا...میرے خدا ، تیرا شکر ہے میرے ثمر کا بچا,,,


وہ پہلے اُن دونوں سے دو ٹوک انداز میں کہتے خُدا کا شکر بھی ادا کرنے لگے، اُنکی آنکھیں نم تھی ایک آنسو اُنکی آنکھوں سے چھلکا تھا جیسے وہ فوراً صاف کر گئے ،


ہم ابھی لے کر آئینگے اپنے ثمر کے بچے کو ، وہ اپنے آپ سے کہتے ملازموں کو گاڑی نکالنے کا حکم دینے لگے ،

اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ گاڑی پر سوار ہوتے حویلی سے نکلتے چلے گئے ، ساحر نے اُنہیں روکنے کی بہت کوشش کی تھی پر وہ تو جیسے آج بہرے ہو گئے تھے ،


اُنکی گاڑی کے پیچھے ساحر نے بھی اپنی گاڑی نکالتے اُنکا پیچھا کیا ،

جبکہ نور بانو اُنہیں دیکھتی ہی رھ گئ


°°°°°°°°

وہ صبح سات بجے پی اٹھ چکا تھا رات بھر بھی اسے ٹھیک سے نیند نہیں آئی تھی ایک تو جگہ کی تبدیلی دوسرا کام کی فکر پوری رات ہی وہ بے چین سا کروٹ بدلتا رہا بس ایک ہی چہرہ تھا جسنے بار بار حواسوں پہ چھاتے اسے سکون بخشا تھا ابھی وہ جلدی جلدی ہاتھ چلاتے اپنے لیئے ناشتہ بنا رہا تھا تاکہ وقت پر آفس پہنچ سکے لیکن وہ سوچنا نہیں چاہتا تھا اس پری پیکر کے بارے میں لیکن گزری رات کہ حسین یادیں پھر سے زہن میں گردش کرنے لگی تھی وہ مسلسل مسکرا رہا تھا

رات بھی بار بار اسکا چہرا نگاہوں میں جھلملاتا اسے بے چین کر رہا تھا وہ اپنے جذبات سمجھ رہا تھا اپنی کیفیت سے واقف تھا لیکن وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا وہ پٹھان کی بہن تھی ساحر شہروز خان کی اگر اسے پتا لگ جاتا تو ناجانے کونسا قہر نازل ہوتا وہ ساحر کا بھپرا روپ تصور کرتے جھجھری لے اٹھا,,,


اففف کنٹرول عادل بچے کنٹرول پٹھان کو پتہ لگا تو تیری لاش پہ رونے کیلئے کوئی نہیں ہوگا اففف اس دل کو بھی اس پٹھانی پہ ہی جاکر اٹکنا تھا کمبخت اتنی لڑکیاں ہیں کہیں بھی لگ جاتا یار وہیں کیوں آخر,,, وہ انڈا پھینٹ کر توے پہ سلیقے سے ڈالتا دل ہی دل میں بے بسی کی انتہا کو چھو رہا تھا ,,,,


تیزی سے ہاتھ چلاتے اسنے بریڈ فرائیر مشین کی مدد سے اسنے دو بریڈ فرائے کیئے اور اب ہاتھ کے ہاتھ کچن کو سمیٹتے وہ ناشتہ ٹرے میں سجاتا ڈائینگ ٹیبل پہ آیا,,,


بڑی مشکل سے اسنے درخنے کے خیال کو جھٹکتے اپنے کام کی جانب توجہ مبذول کی تھی اب اسکی سوچوں کابھنور سانیہ وکٹوریہ تھی کہ کیسے اسنے اسکی زاتی معلومات حاصل کرنی ہے,,,


یہ ایک چھوٹا سا اپارٹمنٹ تھا جو ایک کمرے پہ مشتمل تھا یہ اپارٹمنٹ کافی عرصے سے بند تھا جو کہ اسی کا تھا اپنی پڑھائی کے سلسلے میں اسنے اپنا کافی وقت امریکہ میں ہی گزارا تھا وہ یہ اپارٹمنٹ خرید چکا تھا لیکن اپنی ماں کی طبیعت کے باعث اسے یہاں تالا لگا کر جانا پڑا اس جگہ کی حفاظت کیلئے وہ یہاں کے واچ مین کو تاکید کر کے گیا تھا جو آج تک یہاں کی حفاظت کر رہے تھے آج اتنے عرصے بعد اسنے اس اپارٹمنٹ کا فائدہ اٹھاتے یہاں شفٹ ہوگیا تھا تمام پیپرز سے یہ صاف واضح تھا کہ یہاں کے مکین کافی عرصے سے یہاں رہائش پزیر ہیں


اسنے یہاں کی صاف صفائی کروائی تھی جو اب رہنے کے قابل ہوگیا تھا دھول مٹی سے اسے ویسے ہی سخت چڑ تھی وہ خود کافی نفاست پسند تھا,,,,


شاور وہ لے چکا تھا اور اپنا لباس بھی تبدیل کرتے وہ ٹائی کی ناٹ فکس کر رہا تھا,,,

ہاف وائٹ شرٹ پہ بلیک ویسکوٹ پہنے اسپے بلیک ٹائی جو ویسکوٹ کے اندر تھی جیل سے سیٹ سیاہ بال ، آنکھوں پہ.ہنوز مصنوعی نظر کا چشمہ چڑھائے اسنے واچ پہنتے آئینے میں خود کا ایک آخری جائزہ لیا وہ مکمل تیار تھا اپنے روز مرہ کے ہلیے سے وہ کافی مختلف لگ رہا تھا,,,


اسنے شوز پہنتے مطلوبہ سامان لیتے باہر کی راہ لی اپارٹمنٹ کو لاک لگاتے اسنے قدم سیڑیوں کی جانب مبذول کروائے اور راہداریاں عبور کرتے وہ روڈ کی سائڈ آیا کیب روکتے اس میں سوار ہوا اور وہاں سے نکلتا چلا گیا,,,,


چشمہ آنکھوں پہ درست کرتے وہ آفس میں داخل ہوا آج اسکا پہلا دن تھا کل اسے سنایہ کی سیکریٹری نے سارا کام سمجھا دیا تھا,,,وہ آفس کی راہداریاں عبور کرتے وقت سے پہلے ہی آفس آگیا تھا اور سیدھا جاکر اپنی نشست سمبھالی جو عین سنایہ کے کیبن کے دائیں طرف تھی,,,


لمبا سانس خارج کرتے اسنے لیپٹوپ اون کیا اور جو فائل اسے کام کیلئے دی گئی تھی اسے مکمل کرنے لگا تیزی سے کیبورڈ پہ انگلیاں چلاتے وہ مہارت سے کام کر رہا تھا,,,,,


گوڈ ایونگ میم.....میٹنگ کے برخاست ہوتے ہی سنایہ وکٹوریہ اپنے کلائنٹس کو لفٹ تک چھوڑنے کے بعد اس طرف آئی تھی جہاں تمام ورکرز اپنے اپنے کاموں میں مشغول تھے سوائے دو لیڈی ورکرز کے جو مسکراتی باتوں میں مشغول تھی,,,,سنایہ کے قدم رکھتے ہی وہ دونوں بھی تیزی سے اپنی اپنی جگہ بیٹھی اور لیپٹوپ پہ کام کرتے خوف کے باعث ایک تویل سانس خارج کیا جیسے سامنے کوئی جن بھوت ہو,,,


سنایہ نے ایک تیز اچٹتی ہوئی نگاہ ان دونوں ورکرز پہ ڈالی,,,اٹس آ لاسٹ وارننگ وہ سنجیدہ لہجے میں کہتی اپنا رخ اس نیو ورکر کی طرف کر گئی,,,جو اسکی آواز پہ بھی متوجہ نہ ہوتے کام میں مگن تھا مسٹر آہان آپ میرے کیبن میں تشریف لائیں,,,وہ آہان (عادل) سے کہتی اپنے کیبن کی طرف بڑھ گئی پیچھے آہان اپنا چشمہ درست کرتے اسکے تعاقب میں گیا,,,,


میں نے بیٹھنے کیلئے نہیں کہا,,,اسے بیٹھتا دیکھ وہ فوراً بولی,,,,

ایم سوری لیکن آپ بولنے والی تھی آئ نو,,,وہ بھی مسکراتے ہوئے دوبدو بولا,,,


سنایہ نے نہ سمجھی سے اسکی جانب دیکھا جو مسکرا رہا تھا,,,

فائل کا کام آج آپ مکمل کر کے جائینگے از دیٹ کلیئر مسٹر آہان,,,


وہ اُس کے اوور کونفیڈینس پہ سر کو نفی میں ہلاتے حکم صادر کر گئی,,,

ایک لمحے کیلئے اسکی بات سن کے عادل کے پیروں تلے زمین کھسکی تھی کیونکہ جس فائل کے کام کے بابت وہ کہہ رہی تھی وہ قریباً تین دن کا کام تھا جو وہ آج کے آج ہی ختم کرنے کیلئے کہہ رہی تھی,,,,


لیکن اگلے ہی لمحے وہ خود پہ قابو پاتے اسکے چیلینج کو قبول کرگیا,,,


ہمارے تمام امپلوئز کو کمپنی کی جانب سے گھر اور گاڑی دی جاتی ہے آج سے یہ چابیاں لو اور کیب کا بہانہ بنانے سے ہمیشہ پرہیز کرنا,,,


سنایہ وکٹوریہ کو وقت پر کام کرنے والے لوگ پسند ہیں تمہارا اسکلز اچھا ہے مگر کام میں کوتاہی میں برداشت نہیں کرونگی,,,وہ کیز اسکے سامنے کرتی تقریباً دھمکی آمیز لہجے میں بولی,,,,

وہ محض اثبات میں سر ہلا گیا اور کیز تھامتے

اٹھ کر وہاں سے چلا گیا,,

●︿●●︿●●︿●


وہ جو پوری رات ساحر کی مضبوط پناہوں میں بے فکر سوئی تھی اپنے پاس اُسکی غیر موجودگی محسوس کر وہ اُٹھ بیٹھی تھی ، دونوں ہاتھوں کو ہوا میں اٹھائے ایک توبہ شکن انگڑائی لینے کے بعد کمفرٹر خود سے ہٹاتے اُس نے ساحر کی تلاش میں نظر پورے کمرے میں دوڑائی اُسکی غیر موجودگی کا یقین ہوتے ہی اُس نے مردہ قدم واشروم کی طرف بڑھا دئیے ، کچھ ہی دیر میں فریش ہونے کے بعد وہ آئینے کے سامنے کھڑی تیار ہو رہی تھی ، تیار ہوتے ہی اب وہ اسی کشمکش میں تھی کہ باہر جائے یہ نہ جائے پتہ نہیں ساحر گھر ہوگا بھی یہ نہیں اگر نہ ہوا تو داجی پھر اسے کوئی نئی سزا نا سنا دیں ،


نہیں .... لمبی سانس لیتے اُس نے خود کو پُر سکون کیا تھا اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی کمرے سے نکلی گھر کی ملازمہ روز کی طرح آج بھی اپنے اپنے کاموں میں مشغول تھی کُچھ صفائی کر رہی تھی تو کوئی کچن میں مصروف تھی وہ سرسری سی نظر اُن سب پر ڈالتی کچن کی طرف بڑھ گئی ،


ابھی وہ ڈائننگ ٹیبل کے قریب سے گزرتی کچن کی طرف ہی جا رہی تھی کہ اُسے ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھی نور بانو کسی گہری سوچ میں نظر آئی ، وہ اُنکو سلام کرتی وہی اُن کے برابر والی کُرسی کھسکا کر بیٹھ گئی ،


نور بانو داجی اور ساحر کے جاتے ہی یہاں آکر بیٹھ گئی تھی ، وہ شدید پریشانی میں مبتلا تھی ایک طرف ثمر کا بچا تھا تو دوسری طرف داجی اور عنایہ کے بارے میں تو سوچ سوچ کر اب اُنکا سر بھی پھٹنے لگا تھا ، وہ انہیں سوچوں میں بٹی تھی کہ حرم کی آواز نے اُنکی توجہ کھینچی ،


وہ حرم کے سامنے خود کو نارمل رکھنے کی پوری کوشش کرتی چہرے پر نرم سی مسکراہٹ سجاتے اُنہوں نے اُسکے سلام کا جواب دیا اور اب اُس سے طبیعت کا پوچھنے لگی,


اُنکے فکر مند ہوتے طبیعت کا پوچھنے پر حرم نے اُنہیں تسلی دیتے یہی کہا تھا کہ وہ فکر نہ کریں میں اب ٹھیک ہوں ،

مور ساحر جی نہیں مل رہے اور بتا کر بھی نہیں گئے کہاں گئے ہیں وہ ، حرم نے کچھ جھجکتے سوال کیا ۔۔

بیٹا وہ داجی کے ساتھ سویرے ہی گیا ہے کسی ضروری کام سے کچھ دیر میں آتا ہی ہوگا ، وہ اصل بات بتا کر حرم کو ٹینشن نہیں دینا چاہتی تھی اس لئے اس وقت اُنہیں جو بہانہ سوجا وہ کہہ دیا ،


جواب میں حرم اثبات میں سر ہلا گئ ، ابھی وہ دونوں ادھر اُدھر کی باتوں میں مشغول تھی کہ ملازمہ ناشتے کی ٹرے لاتی ناشتہ ٹیبل پر سجانے لگی ،

جاؤ درخنے کو کہو کہ ناشتہ لگ گیا ہے ، نور بانو نے ملازمہ کو جانے کا اشارہ کرتے کہا ،


ابھی بلا کر لاتی ہوں ملازمہ کہتی ابھی آگے بڑھی ہی تھی کہ درخنے سامنے سے آتی نظر آئی ،

نور بانو اور حرم کو مشترکہ سلام کرتی وہ بھی چیئر کھسکا کر اپنی نشست سنبھال گئ ،

حرم اور درخنے آنے والی قیامت سے بے خبر پُر سکون انداز میں ناشتہ کر رہی تھی جبکہ نور بانو آب بھی پریشان تھی کہ پتہ نہیں وہاں کیا ہوا ہوگا ،

بس میرا ہوگیا ناشتہ ، نور بانو مزید برداشت نہ کرتے کمرے کی طرف بڑھ گئی اور درخنے بھی اپنا ناشتہ ختم کرتی باہر لون کی طرف بڑھ گئی ،


بیبی جی آپ رہنے دیں ہم کر دیں گے آپ آرام کریں بڑی بیگم نے سختی سے منع کیا ہے کہ آپ سے کوئی کام نہ کروائے آپ آرام کریں ، حرم جو ملازمہ کی برتن سمیٹنے میں مدد کر رہی تھی کہ ملازمہ مؤدب سی بولی ،

حرم سمجھتی کمرے کی طرف بڑھ گئی ، تا کہ اشرفی کو بھی دیکھ سکے ،


کمرے میں آتے ہی اُس نے سب سے پہلے بالکونی کی طرف قدم بڑھائے تھے بالکونی میں پہنچتے ہی اُسے اشرفی منہ موڑ بیٹھا نظر آیا،

اشرفی,, وہ اُسے پُکارتی اُس کی طرف بڑھی

اشرفی اُسکی پُکار سن چکا تھا پر کچھ نہ بولا

اشرفی ناراض ہو کیا ؟ حرم نے اُسکے ہرے بال کھڑے ہوتے دیکھ سوال کیا ،


نہیں, ایک لفظی جواب دیا گیا

پھر ...؟ حرم نے نہ سمجھی سے پوچھا

تُم یہ بتاؤ میری شادی کب کرواؤ گی ...؟ اپنے اُس سانڈ سے شوہر کو بولو نہ کہ اپنے کزن کی طوطی کے لئے میرا رشتا لے کر جائے مجھے نہیں پتہ بس ۔۔۔۔اسنے دو ٹوک انداز میں. کہا

بس کرو اشرفی پہلے زمین سے تو نکل لو اتنے اوتاولے کیوں ہو رہے ہو ,,

ہو جائے گی شادی بھی ، حرم کو اُسکا ساحر کو سانڈ کہنا بہت بُرا لگا تھا اس لئے اُسے جھڑکتے بولی

اشرفی پھٹی آنکھوں سے حرم کو دیکھ رہا تھا ، وہ جانتا تھا اب اُسکی حرم اُسکی نہیں رہی پر آج حرم کا سخت لہجہ اُسے چھلنی کر گیا تھا ،


اچھا میں بات کرونگی ساحر جی سے ، اُسے اس طرح خود کو تکتا دیکھ وہ خود کو سنبھالتے بولی ،

اشرفی نے کوئی جواب نہ دیا ،


اچھا نہ سوری بس غصہ آگیا تھا ، وہ اُسے ہاتھوں میں لیتی پیار سے بولی اور اپنی نرم و ملائم اُنگلیاں اُسکے بالوں میں چلانے لگی ،

اشرفی بھی پگھلتا اُسکی گود میں پوری شان سے براجمان ہو گیا ،


°°°°°°°°

سنایہ اپنے کیبن سے نکلتی ایک سرسری سی نظر کام میں مشغول آہان پہ ڈالتی ہیل کی ٹک ٹک کیساتھ آفس سے نکلتی چلی گئی

اسے کام ختم کرنے میں رات کے 3 بج گئے تھے وہ جلدی جلدی سب کچھ وائنڈ اپ کرتے سکون کا سانس خارج کرتے باہر نکلا,,,


آخر وہ جلد کام مکمل کرنے میں کامیاب ٹہرا تھا وہ جانتا تھا یہ سنایہ کی جانب سے اسکی آزمائش ہے یقیناً یہاں موجود تمام امپلوئز کو وہ اپنے مطابق جانچ چکی تھی وہ ایک ایسی لیڈی تھی جو ضرورت کے وقت بھی کسی کا احسان لینا اپنی توہین سمجھتی تھی اسکی عزت نفس اسے جان سے زیادہ عزیز ہے وہ اپنی محافظ خود تھی اسکی نظر میں عورت کو اپنا آپ مظبوط رکھنا چاہیئے تاکہ زندگی کی ہر تلخی کو وہ باآسانی بنا ٹوٹے ہی برداشت کرجائے خود کو کسی کے سپرد کرنے سے بہتر ہے ہم اپنا دفاع خود کرنا سیکھیں, یہ سنایہ وکٹوریہ کی سوچ تھی یہ اسکے بنائے گئےاصول تھے جنہیں وہ خود بھی نہیں توڑتی تھی,,,,

اب تک عادل اسے جتنا سمجھ پایا تھا اتنا ہی اس سے متاثر تھا کیونکہ عادل کی نظر میں بھی ایک لڑکی کو اتنا مظبوط ہونا چاہیئے کہ وہ گھر قدم باہر نکالے تو اسکے چہرے پہ چھائی سختی سے غیر نظریں خود بہ خود جھک جائے,,,,

وہ تیزی سے فائل اپنے کیبن کی ڈرار میں رکھتا وہاں سے نکلا ابھی اسنے کیب بک کرنے کیلئے سیل نکالا ہی تھا جب اسے سنایہ کی دی گئی چابی یاد آئی اسنے چابی نکالتے گاڑی کی تلاش میں نگاہ آس پاس دوڑائی پارکنگ ایریہ میں محض ایک ہی سفید رنگ کی کورولا کار موجود تھی کیونکہ پورا آفس خالی ہوچکا تھا,,, وہ اس گاڑی کی طرف بڑھا اور کی گاڑی کو انلوک کرتے گاڑی کا دروازہ کھولتے وہ ڈرائیونگ سیٹ پہ براجمان ہوا اور وہاں سے روانہ ہوا,,,,


********

ابھی وہ. کچھ دور ہی پہنچا تھا جب دور سے سنایہ کی گاڑی کو روڈ پہ کھڑا پایا وہ تذبذب کا شکار ہوا تبہی سنایہ گاڑی سے نکلی اور آس پاس نگاہ دوڑا کر دیکھنے لگی,,, جب دور سے کسی کی گاڑی کو آتا دیکھ اسنے لفٹ کیلئے ہاتھ ہلایا,,,,,


عادل جو پہلے ہی تذبزب کا شکار تھا اسکے ہاتھ ہلانے پر تیزی سے بریک پہ پیر رکھتے گاڑی روکی,,,


ایوری تھنگ از اوکے میم ۔۔۔

شیشہ نیچے گراتے اسنے بے حد شائستگی سے پوچھا,,,


سب ٹھیک ہوتا تو میں یہاں نہیں کھڑی ہوتی مسٹر آہان,,,, اسنے اپنی پنکچر گاڑی کی جانب توجہ دلاتے کچھ تنظیہ کہا,,,


میں ڈروپ کردیتا ہوں آپکو اگر کوئی پروبلم نہ ہو تو,,,اسنے پیشکش کی,,,,


شیور وہ کہتی پچھلی سیٹ پہ براجمان ہوئی,,,,


نواب زادی پیچھے بیٹھنا ضروری تھا امپلائی ہوں ڈرائیور ہی سسمجھ لیا ہے ملکہ ترنم نے ,,,,وہ دل ہی دل میں اسکے پیچھے بیٹھنے پر چوٹ کرنے لگا دل تو ایسا کر رہا تھا جیسے یہی اس سنسان سڑک پر تنہا چھوڑ کر چلا جائے تب عقل آتی اس چڑیل کو,,,,


یہاں سے رائٹ لو.... سامنے دو ٹرن دیکھ اسنے ہاتھ کی مدد سے اشارہ دیتے کہا,,,

وہ دانت کچکچاتے اسکے بتائے گئے راستوں پہ گاڑی دوڑانے لگا یہ تو شکر تھا کہ وہ کافی حد تک یہاں کی سڑکوں سے واقفیت رکھتا تھا ورنہ آج تو اسکا بھٹکنا کنفرم تھا,,,,


کچھ دور کی ڈرائیونگ کے بعد اسنے گاڑی ٹھیک اسکے گھر کے پاس ہی پارک کی

اندر لے لو ,,,سنایہ کی جانب سے ایک اور حکم صادر ہوا,,,


وہ صبر کا گھونٹ پیتے گاڑی پورچ میں لےگیا,,,, دروازہ پہلے سے کھلا تھا مطلب ملازمین اسکے منتظر تھے,,,,


وہ گاڑی سے اترتی اندر کی جانب بڑھ گئی پیچھے وہ ہونقوں کی طرح اسکی پشت ہی تکتا رہ گیا جسنے شکریہ ادا کرنے تک کا تکلف نہیں کیا تھا,,,,


مقابل کے ایٹیٹیوڈ لیول پہ وہ عش عش کے اٹھا تھا,,. اور ایک نظر اس حسین بنگلے پہ ڈالی یہ بنگلہ واقعی قابل تحسین تھا,,, اسے رشک آیا تھا اسکی قسمت پہ لیکن یہ تو صرف سنایہ جانتی تھی کہ یہ نام دولت شہرت اسنے دن رات ایک کر کے بنائی ہے پھر بھی اسے سکون میسر نہیں تھا کسی چیز کی کمی نہیں تھی اس عورت کے پاس سوائے سکون کے,,,,

وہ گاڑی اسٹارٹ کرتے اپنے اپارٹمنٹ کیلئے مڑ گیا,,,,,


آج کے دن کی سختی نے اسکے مظبوط اعصابوں پہ تھکن سوار کردی تھی وہ گھر پہنچتے ہی بنا شوز اتارے بیڈ پہ چت لیٹ گیا تھا بیٹھے بیٹھے اسکی کمر ہی اکڑ گئی تھی رہ رہ کر سنایہ کیلئے دل سے کوسے نکل رہے تھے جسنے پتہ نہیں کونسے جنم کا بدلہ لیا تھا,,,,


کچھ دیر یوں ہی پرسکون لیٹنے کے بعد اسنے موبائل نکالتے سب سے پہلے تو کھانا آرڈر کیا ساتھ فرج سے پانی کی بوتل نکالتے منہ سے لگائی,,,, لیکن اسکی نظر ساحر کی مسکالز پہ نہیں پڑی تھی

کھانے کا آرڈر دیتے وہ کپڑے نکالتا باتھروم میں بند ہوا,,,,

پندرہ منٹ میں وہ تروتازہ نکھرا نکھرا سا سفید باتھ گاؤن میں وہ باہر آیا اور چلتا ہوا سفید ٹاول کی مدد سے بال رگڑتے آئنے کے سامنے آکر رکا,,,,


وہ بال اچھی طرح خشک کرتے ٹاول جگہ سے پھیلاتے آئینے میں اپنا سراپا دیکھنے لگا,,,, کسرتی جسم پہ ننھی ننھی پانی کی بوندیں اب بھی چمک رہی تھی بالوں میں ہاتھ پھیرتے اسنے کنگا کیا اور پرسکون سا جاکر موبائل ہاتھ میں تھامے بیڈ پہ دراز ہوا,,,,


گھڑی میں وقت دیکھا جو چار کا ہندسہ بھی عبور کر چکی تھی اسے شدید نیند آرہی تھی بار بار اونگھتے موبائل پہ نظریں ٹکائیں اور اپنا آرڈر چیک کیا جو راستے میں تھا خالی پیٹ تو وہ سونے سے رہا


نگاہ اسکرین کے اوپری حصے پہ پڑی تو وہ کچھ ٹھٹھکا جہاں واٹس ایپ پہ ساحر کی ویڈیو مسکالز تھی لیکن ان مسکالز کو آئے کافی وقت گزر چکا تھا کام کی الجھن میں وہ موبائل کو سائلینٹ سے ہٹانا تو بھول ہی گیا تھا


اسنے ہی رات ساحر اور ملاہم کو ویڈیو کانفرنس کال کی تھی تاکہ انفورمیشن دے سکے مگر ساحر نے کال نہیں اٹھائی تھی جبکہ ملاہم سے اسکی تفصیلی بات ہوچکی تھی,,,,


ابھی جاگ رہا ہوگا یقیناً نماز کیلئے اٹھا ہوگا وقت پہ توجہ دیتے اسنے دل میں سوچا اور یہی سوچتے اسنے ساحر کا نمبر ڈائل کیا,,,,


*****

درخنے جو ابھی ہی بیٹھے بیٹھے بور ہوتی کتاب میں جنت کے پتے پڑھنے لگی تھی ساتھ ٹہل بھی لگا رہی تھی اچانک موبائل کی آواز پہ متوجہ ہوتے وہ آواز کے تعاقب میں آئی جیسے ہی اسنے موبائل اٹھایا کال کٹ گئی,,,,


ناجانے کون تھا بھائی بھی موبائل گھر ہی چھوڑ گئے وہ سوچتی ابھی موبائل رکھنے ہی لگی تھی جب دوبارہ موبائل بجا اور اسکرین پہ عادل کی ویڈیو کال دیکھ وہ ہڑبڑائ اور اسی ہڑبڑاہٹ میں غلطی سے اسکا ہاتھ اسکرین سے مس ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے کال ریسیو ہوگئی ہڑبڑاہٹ میں موبائل بھی اسکے ہاتھ سے چھوٹ چکا تھا ٹیبل پہ موبائل سیدھا پڑا تھا جہاں سے عادل کا چہرا درخنے کی نظروں کے سامنے صاف واضح تھا ایک لمحے کیلئے وہ اپنی جگہ ساکت ہوئی نظریں بے اختیار ہی اسکے کسرتی سفید بازوں پہ ٹہری جو صاف اسکرین پہ واضح تھے,,,


دوسری جانب جیسے ہی عادل نے سامنے درخنے کاچہرا لہرایا ایک پل کیلئے تو وہ یقین کرنے سے قاصر تھا لیکن اگلے ہی لمحے وہ خود کو سمبھالتے جان بوجھ کر اسکی حالت سے لطف اندوز ہونے لگا,,,


طوبہ استغفراللہ لاحؤلا ولا قُوَتَ,,,,جیسے ہی درخنے کو اپنی بے اختیاری کا احساس ہوا وہ فوری طور بڑبڑاتی ہوئی کال کاٹ گئی جبکہ دوسری طرف اسکے لفظوں پر عادل کا بے اختیار ہی قہقہ گونجا تھا,,,


کال کاٹتے اسنے موبائل کو ایسے دور پھینکا تھا جیسے وہ کوئی اچھوت ہو اور دوڑتی ہوئی اپنے کمرے میں بند ہوئی,,,


قہقہ لگاتے اسکا چہرا تمتما اٹھا تھا,,,, اسنے بے اختیار موبائل کو دل کے مقام پہ رکھتے آنکھیں موندی تھی تبہی دروازہ بجا وہ اٹھا اور دروازہ کھولتے ڈیلیوری بوائے کے ہاتھ سے پارسل لیا اور دروازہ بند کرتے پرسکون سا کھانا کھانے میں مگن ہوا,,,,

°°°°°°°


پہلے داجی کی گاڑی سکندر مینشن میں آکر رکی تھی پھر ساحر کی دونوں ہی ایک ساتھ پہنچے تھے ، داجی اپنے دو گارڈز اور ڈرائیور کے ساتھ آئے تھے جبکہ ساحر اکیلا آیا تھا۔


داجی ہم مل بیٹھ کر بھی اس معاملے کا حل نکال سکتے ہیں اتنی جلد بازی ٹھیک نہیں، ساحر اُنکے مقابل آتا بولا


پیچھے ھٹ جاؤ ساحر تُم نے جو کرنا تھا وہ کر لیا ہے ، ہمیں اور کتنی دفعہ یاد دلانا پڑے گا کہ ہم فیصلہ کریں گے وہ آنکھوں میں چنگاریاں لئے اُسے بولتے آگے بڑھ گئے ، ساحر کو بھی چار نہ چار اُن کے پیچھے جانا پڑا ،


سکندر,,,,, سکندر مینشن کے لاؤنچ میں پہنچتے وہ پوری قوت سے بولے ، گھر کے دروازے کے باہر کھڑے واچ مین کو پہلے ہی اُنکے گارڈز قابو کرتے سائڈ کر گئے تھے اس لئے سکندر مینشن میں داخل ہوتے اُنہیں کوئی دکت پیش نہیں آئی تھی ،


*********

راحیلہ اور کتنا ستاؤ گی کیا پہلے دُکھ کم تھے میرے کہ تُم بھی بستر پر پڑ کر میرے دُکھ مزید بڑھا گئ ہو ، اُٹھ جاؤ یار,,,, وہ اپنی زوجہ کے سرہانے بیٹھے بولے آنکھوں کی نمی سے اُنکی بے بسی کا اندازہ لگانا مشکل نہ تھا ایک طرف اُنہیں اپنی دونوں اولادوں کا دکھ تھا تو دوسری طرف اپنی بیوی کا قوما میں چلے جانا ، ڈاکٹرز اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہے تھے اُنہوں نے بھی راحیلہ کے علاج میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی پر اُنکی طبیعت دن بہ دن بہتر ہونے کے بجائے مزید بگڑتی جا رہی تھی ،


تُم ایک دفعہ اُٹھ جاؤ ٹھیک ہو جاؤ پھر تمہیں اور اپنی دونوں بیٹیوں کو لے کر اتنی دور چلا جاؤں گا کہ کوئی ہمیں نہیں ڈھونڈ پائے گا ، وہ ابھی کچھ اور بھی کہتے کہ نیچے سے آتی اپنے نام کی دہاڑ پر اُنکے الفاظ منہ میں ہی رھ گئے،


وہ راحیلہ پر کمفرٹر درست کرتے عجلت میں نیچے کی طرف بڑھ گئے ،

داجی کی دہاڑ پر اپنے کمرے میں کھڑی عنایہ خباثت سے مسکرائی تھی داجی اور ساحر کو گھر میں داخل ہوتا وہ کھڑکی سے دیکھ چکی تھی یہ اُس کے لئے کسی فتح سے کم نہ تھا


اُسے یقین نہیں تھا کہ سنایا کا یہ پلین کام کرے گا ، پر آج داجی کی آمد سے اُسے سنایا کی ذہانت پر رشک آرہا تھا ، اُسے یاد تھا جب سنایا نے کہا تھا کہ جس دن سمندر خان کو پتہ چلا کہ تُم ثمر کے بچے کی ماں بننے والی ہو وہ خود تُمہیں اپنی حویلی لے جانے کے لئے لینے آئینگے اور آخر آج سنایا کی یہ بات بھی سچ ثابت ہو گئی تھی ، وہ کمرے سے نکلتے چھپ کر اُن کی باتیں سننے لگی ،


تمہارا اب یہاں کیا کام ہے سمندر خان اب کونسی گنڈا گردی کرنے آئے ہو یہاں ، لاؤنچ میں پہنچتے ہی سکندر صاحب داجی اور ساحر کو کھڑا دیکھ ایک بھپرے شیر کی طرح پھنکارے ،


تمیز سے بات کرو سکندر, ہم یہاں عنایہ کو لینے آئے ہیں ، اُنکے الفاظ تھے کہ گویا بم جو سکندر کی سماٰتوں میں پھٹا تھا ،

کوئی خوش فہمی نہ پالنا ہم صرف اپنے ثمر کی اولاد کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے ہمیں جو بھی کرنا پڑا ہم کریں گے,, داجی بنا لگی لپٹی کے بولے جبکہ ساحر اُن کے ساتھ خاموش کھڑا تھا شاید اب وہ بھی یہی چاہتا تھا ثمر کی اولاد کو اپنے سامنے دیکھنے کے لئے وہ عنایہ جیسی دشمن کا وجود بھی اپنی حویلی میں برداشت کرنے کے لئے تیار تھے شاید ثمر کی محبت اُن کے لئے تمام تر جذبوں سے بڑھ کر تھی ،


میں کیوں تُم پر یقین کرو ؟؟ تُم تو وہی ہو جو کل تک میری بے گناہ بیٹی کی جان لینے کے در پے تھے سکندر کو اُنکی بات بہت غصہ دلا گئ تھی پر وہ خود پر ضبط کرتے دبے دبے غصے میں گویا ہوئے ،


دیکھو سکندر مجھے تمہاری اُس قاتل بیٹی سے کوئی سروکار نہیں ہم اپنا فیصلہ اپنے اللہ کے سپرد کر چُکے ہیں ، ہمیں صرف اپنے خون سے مطلب ہے ، بچے کی پیدائش کے بعد وہ آزاد ہوگی جہاں چاہے جس کے ساتھ چاہے جا سکتی ہے ، داجی تفصیل سے گویا ہوئے ،


میں اپنی ایک بیٹی تُمہارے حوالے کر چکا اب دوسری نہیں کرونگا سمجھ لو میری یہ بات اور جن پیروں سے چل کر یہاں آئے ہو اُنہیں پیروں سے لوٹ جاؤ ، سکندر صاحب ہر لفظ چبا چبا کر بولے تھے ،


اُنکی زبان سے کئے حرم کے ذکر پر ساحر کے جبڑے تنے تھے جیسے لگا تھا کہ جسم کا سارا خون ٹھاٹے مارتا اُسے کچھ بھی کرنے کے لئے اُکسا رہا تھا وہ خود اپنی یہ کیفیت سمجھنے سے قاصر تھا ،

حرم کا ذکر اس سب معاملے میں آپ نہ ہی کریں تو بہتر ہے ، اُس نے تیش بھری نگاہوں سے سکندر کو دیکھتے کہا ۔


کیوں نہ کرو ذکر بیٹی ہے میری جسے قید کیا ہوا ہے تُم جیسے وقت کے فرعونو نے سکندر صاحب بھی اُسکے ہی لہجے میں دوبدو بولے ۔


نہیں ہے وہ بیٹی اب آپکی وہ بس بیوی ہے میری,,, وہ پوری قوت سے پھنکارا تھا ۔

اُسکی بات اب سکندر کے ضبط سے باہر ہوگئ تھی وہ ابھی اُس کی طرف بڑھے ہی تھے کہ عنایہ کی آواز اُنکے کانوں سے ٹکراتی اُنکے قدم ساکت کروا گئ تھی،


بابا رک جائیں ,,,,

●︿●●︿●●︿●


بابا مجھے کچھ کہنا ہے آپ سے ، عجلت میں سیڑھیاں پھلانگ کر نیچے آتی عنایہ بولی ،


کہو,,,, ایک اُچٹی ہوئی نظر ساحر کے ضبط سے سُرخ چہرے پر ڈالتے وہ عنایہ کی طرف رُخ کرتے بولے ،


یہاں نہیں بابا اکیلے میں کرنی ہے بات ، وہ داجی کی جلا کر راکھ کر دینے والی نظریں خود پر محسوس کرتی مصنوئی ہکلاہٹ کا شکار ہوتے بولتی سکندر صاحب کو دیکھنے لگی ،


آپ لوگ عزت سے خود چلے جائیں گے یہ دھکے دے کر نکالنا پڑے گا ، وہ عنایہ کو اپنے حصار میں لیتے داجی اور ساحر کو دیکھتے ہوئے بولے ،

بابا رک جائیں ، پہلے میری بات سن لیں پھر کوئی فیصلہ لے لینا مجھے آپکا ہر فیصلہ قبول ہوگا پر ابھی انہیں جانے کا نہ کہیں پہلے میری بات سن لیں ، وہ سکندر صاحب کو نم آواز میں کہتی اُنکا ہاتھ تھامے ڈرائنگ روم کی طرف بڑھ گئی ،


اب پتہ نہیں کونسی نئی چال چل رہی ہے یہ چال باز عورت ، ساحر اُسے سکندر کو لے جاتے دیکھ صرف دل میں سوچ ہی سکا ، جبکہ داجی آرام داہ انداز میں صوفے پر بیٹھ گئے تھے ، اُنہیں اُس سب کی کوئی فکر نہیں تھی کہ سکندر اُنہیں عنایہ کو لے جانے دینگے یہ نہیں وہ جانتے تھے عنایہ کو تو وہ لے جا کر ہی رہیں گے اب چاہے وہ خوشی سے بھیجے یہ اپنی جان گوائے۔۔۔۔۔


کیا بات ہے عنایہ ، کمرے میں آتے ہی وہ نہ سمجھی سے پوچھنے لگے،

بابا میں اُنکے ساتھ جانے کے لئے تیار ہوں ، وہ اُن سے نظریں چرا کر بولتی رُخ موڑ گئ ،

کیا۔۔۔۔۔۔ اُنہیں جھٹکا سا لگا تھا یہ سُن کر اس لئے حیرت سے وہ اُسے دیکھتے رھ گئے، جو بولنے کے بعد یوں رُخ موڑ گئ تھی ،


اگر تم اُنکے خوف کی وجہ سے یہ قدم اٹھا رہی ہو تو تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں عنایہ تمہارا باپ زندہ ہے ابھی ، میں حرم کو اُس جہنم میں برداشت نہیں کر پا رہا اپنی دوسری بیٹی کیسے اُس جہنم کی طرف دھکیل لو ، نہیں ہر گز نہیں تُم نہیں جاؤ گی اُنکے ساتھ ، وہ اس بات کی وجہ اُسکا خوف سمجھتے بولتے صاف انکاری ہوگئے ،


بابا سمجھنے کی کوشش کریں میرا وہاں جانا لازمی ہے ، میں مزید اپنی کوتاہیوں کی سزا حرم کو بھگتنے نہیں دونگی ، ہمیں نہیں پتہ وہ ہماری معصوم حرم کے ساتھ کیسا سلوک کر رہے ہونگے ، اُس بچاری کو تو پلٹ کر جواب بھی دینا نہیں آتا ، آپ نے دیکھا نہ ساحر کا رویہ جب وہ ہم سے اتنی بد لہٰذی سے بات کر رہا ہے تو ہماری حرم کے ساتھ اِسکا رویہ کیسا ہوگا بابا ، وہ مصنوئی فکر مندی کی اداکاری کرتے اُنہیں راضی کرنے لگی ،


عنایہ کی باتیں سن سکندر صاحب صوفے پر ڈھے سے گئے ، اُسکے الفاظ اُسکی باتیں اُنہیں سوچنے پر مجبور کر گئ تھی ،

بابا مجھ پر بھروسہ کریں یہ لوگ میرا بال بھی باکا نہیں کر سکتے میں حرم کو اُس جہنم سے چھٹکارا دلا کر یہاں آپ کے پاس ماما کے پاس لے آؤنگی پھر ہم پہلے کی طرح رہینگے ایک ساتھ جیسے پہلے رہتے تھے خوش ، وہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھتی اُنکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتی بولی ،

سکندر صاحب نے ازیت سے آنکھیں میچی تھی اور پھر گویا ہوئے ، پر میں ایک بیٹی کو بچانے کے لئے دوسری کو خطرے میں کیسے ڈال دوں میرے لئے تُم دونوں ہی برابر ہو ، وہ شدید کرب میں مبتلا تھے ،


بابا کچھ نہیں ہوگا مجھے جب تک اُنہیں اُنکا خون نہیں مل جاتا وہ مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے ، میرا وعدہ ہے بابا آپ سے حرم کو میں مزید ظلم برداشت نہیں کرنے دونگی ، وہ اُنہیں منانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی تھی ،

ٹھیک ھے ، ایک طویل خاموشی کے بعد سکندر صاحب کی آواز گونجی اور یہ دو الفاظ ادا کرتے اُنہیں اپنے دل میں درد سا اٹھتا محسوس ہوا تھا ، وہ آج بھی بے بس تھے ، اُنکے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ بھی متفق ہوگئے ہیں عنایہ کی باتوں سے ،


کچھ دیر اُنکی گود میں سر رکھ کر اُنہیں مطمئن کرنے کے بعد وہ اپنا ضروری سامان بیگ میں پیک کرتی ، نیچے لاؤنچ میں پہنچی ۔۔۔

سکندر صاحب نیچے نہیں آئے تھے بلکہ وہ عنایہ کو دعاؤں سے نوازتے حرم کے کمرے کی طرف بڑھ گئے ،

میں تیار ہوں آپ کے ساتھ چلنے کے لئے ، لاؤنچ میں داخل ہوتے ہی اُس نے داجی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ،

اُسکی بات سنتے داجی اور ساحر دونوں ہی حیران ہوئے تھے ، پر جلد ہی خود کو سنبھالتے داجی صوفے سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور ایک نظر عنایہ کو دیکھتے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتے باہر کی طرف بڑھ گئے ،


اُمید ہے یہ کوئی نئی چال نہیں ہوگی تمھاری ، اُنکے جاتے ہی ساحر نے ایک نفرت بھری نگاہ اُس پر ڈالتے کہا ، اور بنا اُسے کچھ بھی بولنے کا موقع دیئے آنکھوں پر سن گلاسز چڑھاتا باہر کی طرف بڑھ گیا ،


اُسکے جاتے ہی عنایہ مسکرائی تھی ، گھر پر ایک آخری نظر پھیرتے لمبی سانس خارج کرتے وہ خود کو پر سکون کرتے آگے بڑھی ، فتح مندی کی مسکراہٹ تا ہم ہونٹوں کے تلے دبی تھی ،

اُسکے باہر آنے سے پہلے ہی ساحر اپنی گاڑی وہاں سے دوڑاتا جا چُکا تھا ، وہ بھی داجی کی گاڑی میں پچھلی سیٹ پر بیٹھتی آنے والے وقت کے لئے خود کو تیار کرنے لگی وہ جانتی تھی آگے اُس نے بہت ہمت اور حوصلے سے کام لیتے حرم اور ساحر کو ایک ساتھ برداشت کرنا تھا ، بس کچھ دن حرم میڈم کچھ دن ، پھر دیکھنا کیسے تُمہیں ساحر کی زندگی سے باہر پھنکواتی ہوں ، ساحر صرف عنایہ کے لئے بنا ہے اُس کے ساتھ ہی اچھا لگتا ہے ، اندر ہی اندر سوچتے وہ حرم سے مخاطب تھی ، اب یہ تو خدا ہی جانتا تھا کہ کونسا نیا طوفان لے کر آنے والی ہے یہ ساحر اور حرم کے درمیان ، وہ اب بھی جنونیت کی حد تک پاگل تھی ساحر کے لئے,,,


°°°°°°°°

May i coming??


دوازےکے پار کھڑے عادل نے اجازت طلب کی,,,,

سنایہ جو کسی گہری سوچ میں مستغرق آنکھیں موندیں چیئر سے پشت ٹکائے بیٹھی تھی اسکی آواز پہ متوجہ ہوتے آنکھیں وا کی,,,

ہمم ...کمنگ ہنکارا بھرتے ساتھ سر ہلاتے اندر آنے کی اجازت دی,,,

یہ فائل جو کل آپ نے دی تھی وہ ریڈی ہے,,,, اسنے فائل ٹیبل پہ رکھتے عام سے انداز میں کہا,,,

سنایہ نے فائل تھامتے ہاتھ کی مدد سے اسےبیٹھنے کا اشارہ کیا,,,

گڈ جوب,,,, فائل کو سرسری سا دیکھتے اسنے مخصوص انداز میں کہا,,,,


تھینکیو,,, لیکن مجھے لگتا ہمیں لوگوں کیلئے آسانی پیدا کرنی چاہیئے,,,

عادل نے کچھ سوچتے ہوئے کہا,,,,


کیا مطلب؟؟سنایہ نے نہ سمجھی سےپوچھا,,,

مطلب یہ کہ آپکے ڈیزائن بہت فیمس کیساتھ مہنگے ہیں جو بہت کم لوگ افورڈ کر سکتے ہیں تو میرا خیال یہ ہے کہ ہمیں انکے لیئے بھی آسانی کرنی چاہیئے تاکہ وہ لوگ احساس کمتری کاشکار نہ ہوں,,,,


کہنا کیا چاہتے ہو؟؟ سنایہ نے اسکی بات سنتے سوال داغا,,,

مختصر یہ کہ ہمیں سیم یہی ڈیزائن ان لوگوں کیلئے پرنٹ کرنا چاہیئے جو لوگ ہمیں افورڈ نہیں کر سکتے ہم اپنی رینج کے مطابق چیزیں ارینج کر کے یہ ڈیزائن بناسکتے ہیں اس سے ہمیں وہ لوگ بھی جانے گے جو یہاں محض آنے کہ حسرت رکھتے ہیں لیکن آ نہیں سکتے,,,,


اپنی بات پرجوش انداز میں کہتے وہ اسکے تاثرات دیکھنے لگا جوکافی حد تک متاثر لگ رہے تھے,,,

ہمممم انٹرسٹنگ,,,, آج میری بہت ضروری میٹنگ ہے اور میں چاہونگی تم اپنا یہ آئیڈیہ وہاں میرے کلائینٹس کے سامنے پیش کرو دیکھتے ہیں وہ کتنا متاثر ہوتے ہیں,,,,

تمہارے پاس 2 گھنٹے ہیں اپنی پریزینٹیشن تیار کرنے کیلئے کیا تم کر سکوگے؟؟

ہاتھوں کو باہم ملائے وہ اپنے مخصوص انداز میں بغور اسے دیکھتے ہوئے بولی,,,,

عادل مسکرایا,, شیور,,,,میں کرلونگا اپنی طرف سے وہ کہتے وہاں سےچلا گیا,,,,


پیچھے سنایہ آخر تک اسکی پشت تکتی رہی,,,,ناجانے اسکے دماغ میں اب کیا چل رہا تھا ,,,,


********

میٹنگ کا آغاز ہوچکا تھا,,, عادل اپنے انداز سے مخالف فریقین کو کسی حد تک متاثر کرچکا تھا سنایہ بھی کلائینٹس کو متاثر دیکھ خوش نظر آرہی تھی,,,


پریزینٹیشن کے مکمل ہوتے ہی کمرے میں تالیوں کی آواز گونج گئی سب ہی خوش تھے اور عادل کی پریزینٹیشن واقعی قابل تعریف تھی,,, اسکا آئڈیہ کام کررہا تھا

سب کچھ اچھا جارہا تھا سنایہ اسکی زہانت سے متاثر ہوتے اسے مینجنگ ڈائریکٹر کی پوسٹ پہ فائز کر چکی تھی


°°°°°


ساحر حویلی میں پہنچتے ہی سب سے پہلے اپنے کمرے کی طرف بڑھا تھا ، وہاں سے آتے آتے اُسے شام ہوگئ تھی ، پورے راستے اسے بس حرم کی ہی فکر ستاتی رہی تھی ، وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا اپنے کمرے میں پہنچا ، پر یہ کیا کمرہ تو خالی تھا حرم نہیں تھی کمرے میں ،

شاید کچن میں ہوگی یہ مور کے کمرے میں ہوگی ، وہ خود سے کہتا ابھی واپسی کے لئے مڑا ہی تھا کہ بالکونی کا دروازہ کھلا دیکھ وہ فوراً سارا ماجرہ سمجھ گیا تھا ،

ایک تو پتہ نہیں یہ سوتن نُما طوطا کب ہماری زندگی سے جائیگا ، لکھ لے ساحر بیٹا جب تک یہ یہاں رہے گا تیری بیوی تُجھے چھوڑ کر اُسے ہی اہمیت دیتی رہے گی ، لگتا ہے اب وقت آگیا ہے کہ جو اس کے لئے سوچا ہے وہ کرنا پڑے گا ، خود سے کہتا وہ جلتا کڑتا آخر خود کو نورمل کرتا بالکونی کی طرف بڑھا ،

ارے میں پوچھتا ہوں آخر تُم نے اُسے اتنا سر پر کیوں چڑھایا ہوا ہے، اتنا سر پر چڑھاؤگی تو اسکی محبت کم ہوتی جائیگی تُمہارے لئے ، اشرفی اُسکی گود میں بیٹھا عورتوں کی طرح اپنے چھوٹے چھوٹے پنجے ہلاتے بولا ، اور بولتے ہی اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں سے اُسکے تاثرات ملاحظہ کرنے لگا ،


پھر میں کیا کروں اشرفی کہ ساحر جی بس میرے ہی رہیں بس ہمیشہ مجھ سے محبت کرتے رہیں ، حرم کی پُر سوچ اور مرجھائی سی آواز دروازے پر کھڑے ساحر کے کانوں سے ٹکرائی ،

گڈ کویزشن ویری گڈ کویزشن ، حرم کی بات پر اشرفی نے مسکراتے کہا،

میں بتاتا ہوں تُمہیں ، وہ ہنسی دباتا ابھی گویا ہی ہوا تھا کہ ساحر کو بالکونی میں داخل ہوتے دیکھ اُس کی چر چر چلتی زبان کو بریک لگا تھا ، وہ دم سادھے اُسے دیکھ رہا تھا جو ہنکارا بھرتے اندر داخل ہوا تھا ،


ساحر کو دیکھ حرم بھی گڑبڑاتے شانوں پر دوپٹہ دُرست کرتے سہی ہو کر بیٹھی ،

طبیعت کیسی ہے تمھاری؟؟؟ اسنے ایک نظر اُسکے شفاف چہرے کو دیکھتا اپنا ہاتھ اشرفی کی طرف رکھتے کہا تاکہ وہ حرم کی گود سے اُسکے ہاتھ پر بیٹھ سکے ، اشرفی تو حیرت زدہ سا اُسے دیکھ رہا تھا جو ہاتھ تو اُسکی طرف کئے ہوئے کھڑا تھا پر دیکھ حرم کو رہا تھا ،

اوہ اچھا بچو تو حرم کے سامنے ہیرو بننے کے لئے جھوٹا پیار کا ڈراما کر رہے ہو میرے ساتھ سستے عمران ہاشمی، پر مجھے بھی تُم جانتے نہیں اگر تم عمران ہاشمی ہو تو میں بھی ہمایوں سعید ہوں ، وہ اُسکی سیاست سمجھتا خود سے بولتا اُسکے بازو سے گزرتا پوری شان سے کندھے پر جا بیٹھا ،


میں ٹھیک ہوں اب ، آپ کہاں گئے تھے ساحر جی ؟؟

ناشتہ بھی نہیں کر کے گئے ، حرم فکرمندی سے بولی۔

اُسکی فکر محسوس کر وہ ہولے سے مسکرایا تھا ،

کیوں تُمہیں میری فکر ہو رہی تھی ؟ خود چیئر پر بیٹھتے وہ اُسے بھی اپنی گود میں بیٹھا گیا اور کان کے قریب جھکتے بولا، اس اچانک افتاد پر حرم اپنا سانس روک گئ تھی ، جواب دینا تو دور کی بات تھی ، جبکہ ساحر کے اس عمل سے اُسکے کندھے پر سوار اشرفی نے اپنے ناخن اُسکے کندھے پے گاڑھے تھے ، پر ساحر ایسا بیٹھا تھا جیسا کچھ ہوا ہی نہ ہو ، ڈھیٹ...... اشرفی کے دیئے خطاب پر وہ زیرِ لب مسکرایا تھا . اشرفی بھی آخر مزید جلنے جلانے کا پلین ترک کرتے دوسری طرف رخ کر گیا ،

ہا ہاں وہ صبح آ آپ نہیں تھے تو میں پریشان ہو گئی تھی ،۔ وہ اپنی ابتر ہوتی سانسیں نورمل کرتے بولی ساحر کی گرم جھلسا دینے والی سانسیں اُسے اب بھی اپنی گردن پر محسوس ہو رہی تھی جو اُسکی جان آدھی کر رہی تھی ،

اچھا ، ساحر نے ہنکارا بھرتے ہوئے کہا ، چلو مجھے کپڑے نکال کر دو فریش ہونا ہے , وہ پہلے اُسے کھڑا کرتا پھر خود کھڑا ہوگیا ، اور موقع ملتے ہی اشرفی کو نہ محسوس طریقے سے اپنے کندھے سے اُتار کر اُسکے گھر میں پٹختا حرم کو لئے کمرے میں چلا گیا ۔۔۔


اب کیا بُرا بھلا کہوں میں اب تک تو عادت ہو جانی چاہیئے مجھے زندگی برباد ہوگیا ۔۔۔۔۔، اُنکے جاتے ہی وہ خود سے مخاطب ہوتے بولا ۔۔


آپ نے کھانا کھایا ساحر ؟؟؟ الماری سے ہینگ ہوئے ساحر کے کپڑوں میں سے ایک سوٹ نکال کر ساحر کو دیتی بولی ،

نہیں , تُم کھلا دو گی ؟؟؟ وہ معنی خیز انداز میں اُسے دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔

ہاں آپ فریش ہوجائیں میں تب تک گرم کر لیتی ہوں کھانا ، وہ بنا اُسکے جواب کا مطلب سمجھتے بول گئ ،

نہیں ۔۔۔ میں فریش ہو کر آجاؤ پھر ساتھ ہی چلنا ، اُسکے تاثرات ایک دم سنجیدگی کا لبادہ اوڑھ گئے تھے ، آج کے بعد تُم میرے بغیر اس کمرے سے باہر نہیں جاؤ گی, سمجھی بات کو ؟؟؟ کہتے اُس نے یقین دھانی چاہی ،

حرم سمجھتے اثبات میں سر ہلا گئ ،وہ بھی فریش ہونے چلا گیا۔۔۔۔۔


°°°°°°°°°

ماضی,,,,,


آج پھر ثمر نہیں آیا تھا وہ اداس سی کینٹین میں بیٹھی جوس سے لطف اندوز ہورہی تھی سوچوں کا بھنور ثمر کے گرد گھوم رہا تھا اس رات کے بعد اسنے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا یہاں تک کے ٹرائے کرنے پر اسکا نمبر بھی مسلسل مصروف جارہا تھا,,,, سوچ سوچ کے اسکی شریانیں پھٹنے کے قریب تھی اسے ثمر کی توجہ یا نظراندازگی سے کک بھی فرق نہیں پڑتا تھا لیکن جس مقصد کے تحت وہ ثمر کا ساتھ چاہتی تھی وہ اب تک نا مکمل تھا,,,,,اس رات ثمر کا شادی والی بات کرنا اور پھر یوں غائب ہوجانا اسے ڈر تھا تو صرف اتنا کہ ساحر نے اسے سب کچھ بتا تو نہیں دیا وہ جتنے دن حویلی رکتا تب تک اسکی جان حلق میں رہتی تھی,,,,


داجی کی. طبیعت ٹھیک نہیں تھی جسکی وجہ سے انہوں نے اموشنل بلیک میل کر کے ثمر کو کچھ دن اور اپنے پاس ٹہرنے کا کہا تھا انکی گرتے حالت کے پیش نظر وہ بھی جلد ہی مان گیا اور کچھ ساحر نے بھی اسے سمجھایا تو اسے ناچاہتے ہوئے بھی حویلی ہی رکنا پڑا داجی روز اسے اپنے ساتھ سلاتے تھے اور سویرے سویرے وہ باقی گھر والوں کے گرد گھرا ہوا رہتا تھا اس سب میں وہ عنایہ سے چاہ کر بھی رابطہ نہیں کرپارہا تھا ,,,,,


اہم اہم...کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں ؟؟

مقابل کھڑے شخص نے شائستگی سے پوچھا,,,

بیٹھئے,,, مردانہ آواز پہ اسنے بیزاریت سے سر اٹھا کر دیکھا اور احسان کرنے والے انداز میں کہتی پھر جوس منہ سےلگا گئی,,,


ثمر کے بارے میں سوچ رہی ہو؟؟

کچھ دیر اسکا چہرہ دیکھنے کے بعد وہ بغور اسے دیکھتے ہوئے بولا,,,

عنایہ نے چونکتے ہوئے اس انجان شخص کی طرف دیکھا تھا,,,

تم میرے باپ لگے ہو؟؟

اسنے کاٹدار انداز میں پوچھا ,,,,اسکے اکھڑ لہجے پہ وہ کھل کے مسکرایا تھا عنایہ کو ایک لمحے کیلئے اسکی دماغی حالت پہ شبہ ہوئی,,,,


باپ تو نہیں لیکن تمہارے جزباتوں کے دشمن کا سب سے بڑا دشمن ضرور ہوں اگلے لمحے اسکے لفظوں پہ وہ حیران رہ گئی تھی,,,,


ککیا مطلب ہے تمہارا کون دشمن میرا کوئی دشمن نہیں ہے سمجھے تم,,,, مقابل کی بات پہ وہ حیران ہوئی تھی لیکن جلد خود کو سمبھالتے اکھڑ لہجے میں سوال کیا اسکے باوجود بھی لفظ لڑکھڑاہٹ کا شکار ہوئے,,,,


گھبراؤ مت تمہارے بارے میں سب جانتا ہوں تمہارے جزباتوں سے لیکر ثمر شہروز خان کے پورے خاندان کے بارے میں,,,,

وہ مظبوط لہجے میں بولا عنایہ کے تاثرات مسلسل تبدیل ہورہے تھے وہ مقابل شخص کی باتیں سمجھنے سے قاصر تھی لیکن وہ اتنا کچھ کیسے جانتا تھا یہ سوچ عنایہ کو پریشان کر رہی تھی,,,,

زیادہ مت سوچو ویسے بھی دشمن پہ وار کرنے سے پہلے اسکی کمزور نبض تلاشنی ضروری ہوتی یہ جنگ کا پہلا اصول ہے لیکن تم اب تک ساحر کی دکھتی رگ سے اچھی طرح واقف نہیں ہو,,,,

وہ پھر اسے دیکھتے ٹہر ٹہر کر مظبوط لہجے میں بولا


خود کو اوور اسمارٹ اور مقابل کو کمزور سمجھنے والے بھی اکثر جنگ میں مفتوح ٹہرتے ہیں ,,,اسے دیکھتے وہ کچھ جتاتے ہوئے لہجے میں بولی,,,,

جو بھی کہنا چاہتے ہو صاف صاف کہو ,,,,جوس کا پیکٹ سائڈ رکھتے وہ دوٹوک انداز میں بولی,,,,


اسکی ادا پہ وہ مسکرایا,,,,چلو پھر مدعے کی ہی بات کرلیتے ہیں تمہارا ہی فائدہ ہے,,,


ساحر سے بدلہ لینے میں ہم تمہاری مدد کرینگے لیکن تمہیں ہمارے پلان کے مطابق سب کچھ کرنا ہوگا,,,,

مقابل شخص نے کچھ سوچتے بنا لگی لپٹی بات کہی,,,,


یکلخت عنایہ کی تیوریاں چڑھی تھی,,,

اور میں ایسا کیوں کرونگی؟؟؟

کیونکہ تم ساحر شہروز خان سے بدلہ لینا چاہتی ہو لیکن تم اسکے چھوٹے بھائی کو پھانس کر انکے گھر میں داخل ہونا چاہتی ہو جبکہ اس سے تُمہیں سوائے زلت کے کچھ نہیں ملیگا جب ساحر تمہیں ابھی اپنا بنانے کیلئے تیار نہیں تو تب کیسے ہوگا جب تم اسکی بیوی کے رتبے پہ فائز ہوگی اور جہاں تک میں اسے جانتا ہوں وہ کبھی بھی تمہیں تمہارے مقصد میں کامیاب ہونے نہیں دیگا,,,اور سب سے بڑا جو تمہارا نقصان کہ ثمر کے آگے تمہاری ریپوٹیشن خراب ہوجائے گی اور جیسے ہی تمہارے ماں باپ کو تمہاری حقیقت معلوم ہوگی وہ بھی تمہیں ٹھکرا دینگے,,,,ابکی بار مقابل نے تفصیل سے اسے اسکے کارنامے گنوائے تھے ,,,,


عنایہ اسکی باتیں سن دنگ رہ گئی تھی وہ تو اب تک کچھ خاص سیرئیس نہیں لے رہی تھی لیکن مقابل کو تو اسکی ایک ایک حرکت کی خبر تھی وہ انگشت بد نداں سی اسے دیکھ رہی تھی جبکہ شیری اسکے حیران کن تاثرات سے لطف اندوز ہورہا تھا,,,,

مجھے کرنا کیا ہوگا

تمہارے لیئے کام کر کے کیا مجھے تحفظ ملیگا؟؟

خود کو سمبھالتے اسنے دل میں آیا پہلا سوال داغا,,

جڑیں کھوکلی مت کرو انہیں کاٹ دو تاکہ کوئی اور فصل اگنے کی گنجائش ہی نہ بچے,,,وہ ٹھنڈے ٹھار لہجے میں بولا,,,


اور تحفظ کی فکر مت کرو اسکی زمیداری ہماری ہے تمہیں تحفظ کے ساتھ آسائشیں بھی ملینگے جس سے تم کسی کی محتاج نہیں رہوگی تمہیں چند پیسوں کیلئے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانے ہونگے ,,,,

میں نے سنا ہے تمہارے باپ نے تمہارا کریڈٹ کارڈ بلاک کردیا ہے,,,,


نگاہوں کو مشکوک کرتے ایک اور راز فاش کیا ,,,,

تم اپنے کام سے کام رکھو میں تمہارے لیئے کام کرنے کو تیار ہوں ,,,,,

عنایہ کو لگا جیسے مقابل اسکی حالت پہ مزاق اڑا رہا ہے اسی لیئے وہ خاصی اکھڑ لہجہ اختیار کر گئی تھی ویسے بھی یہ تو اسکی فطرت میں شامل تھا پل میں رنگ بدلنا,,,,


گڈ باقی کی ڈیٹیلز تمہیں اس جگہ پتہ چل جائینگی ٹھیک وقت پہ پہنچ جانا سنی کو لیٹ لطیف لوگ پسند نہیں ,,,,

وہ کہہ کر وہاں سے اٹھا,,,


یہ سنی کون ہے اب ,,,سنایہ نے جلدی سے الجھتے ہوئے پوچھا,,,,

اس کھیل کی اصل کھلاڑی,,,,وہ نرم سی مسکراہٹ کے ساتھ کہتا وہاں سے نکلتا چلا گیا اور عنایہ ہاتھ میں پکڑا اسکا کارڈ غور سے دیکھنے لگی,,,,


وہ اپنے کمرے میں کمفرٹر میں دبکی چہرے پہ دنیا جہاں کی معصومیت سجائے میٹھی نیند کے مزے لوٹ رہی تھی گھنی سیاہ زلفیں تکیے پر بے ترتیب سی کسی آبشار کی طرح پھیلی ہوئی تھی پورا کمرا روشنی میں نہایا ہوا تھا جبکہ ٹھیک اسکے برابر میں اشرفی مزے سے سو رہا تھا دونوں ہی ساتھ میں بہت پیارے لگ رہے تھے سکندر اور راحیلہ نامحسوس طریقے سے کمرے میں داخل ہوئے


ہیپی برتھ ڈے ٹویو...... ٹھیک اسکے سرہانے بیٹھتے وہ دونوں اسکے کان کے پاس جکھتے ہوئے ہم آواز ہوکے بولے حرم جو شاید کسی خواب میں گم تھی انکی آواز پہ ہڑبڑا کے اٹھی ,,,,,


لیکن جیسے ہی سامنے اپنے والدین کو دیکھا بے ساختہ ہی وہ سکندر کے سینے سے لگی ,,,,

مما بابا آپ نے تو ڈرا ہی دیامجھے وہ لاڈ سے بھرپور شکویٰ کرنے لگی ,,,,

کیوں بھئی آج تو کمرا بھی روشن تھا پھر میری شہزادی ڈر کیوں گئی سکندر نے اسکا چہرہ یاتھوں کے پیالے میں بھرتے پوچھا,,,وہ میں ڈراونا خواب دیکھ رہی تھی نہ اسلیئے شاید ,,,

کیوں خواب میں ایسا کیا دیکھ لیا تم نے ,,,,,

ابھی حرم کی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی جب کمرے میں داخل ہوتی عنایہ نے مصنوعی سے انداز میں سوال کیا وہ پانی کیلئے کچن کی طرف بڑھ رہی تھی جب اسکے کانوں میں آوازیں ٹکرائیں اچانک دماغ میں جھماکہ ہوتے اسے یاد آیا کہ آج حرم نور کی برتھ ڈے ہے تو اسنے قدم اسکے کمرے کی طرف ہی بڑھا لیئے ,,,,,


ہیپی برتھڈے میری جان وہ اپنی ماں کی ناراض نظر کو نظر انداز کرتے حرم نور کے پاس آئی اور اسے خود سے لگاتے برتھڈے وش کیا,,,,

جو بھی تھا اسے حرم سے ہمیشہ محبت رہی تھی وہ تھی ہی اتنی پیاری اور معصوم کے کوئی اس سے سوائے محبت کے کچھ کر ہی نہیں سکتا اس پے تضاد اسکی معصومیت سے بھرپور پیاری پیاری باتیں,,,,


بس اسےاپنی ماں کی بے جاں فکر اور پابندیوں سے چڑ آتی تھی,,,,

وہ آزاد پسند لڑکی تھی لیکن ایک ماں کی فکر سے انجان تھی وہ زندگی کی رنگینیوں میں کھونا چاہتی تھی جبکہ ایک ماں کی خواہش تھی اپنی بیٹی کو ہر گرم سرد ہوا سے بچانا اور وہ اس فکر کو پابندیوں کا نام دے کر اس سے اکتانے لگی تھی,,,,


حرم بھی اتنے دن بعد عنایہ کا اچھا موڈ دیکھ کافی خوش تھی,,,,

.چلو تم دونوں باتیں کرو بیگم آپ بھی آجائیں,,

مجھے تو بہت نیند آرہی ہے بچوں ,,,

سکندر صاحب کہتے انکے ماتھے پہ بوسہ دیتے آخر میں راحیلہ کو ساتھ آنے کا کہتے کمرے سے باہر نکل گئے جبکہ عنایہ حرم کی ضد پہ اسکے ساتھ ہی خوش گپیوں میں مصروف ہوگئی,,,


********

باتیں کرتے کرتے ناجانے کب حرم نور کی آنکھ لگ گئی اسے احساس نہ ہوا عنایہ بھی تقریباً غنودگی میں جاچکی تھی لیکن بجتےموبائل کی آواز نے اسکی نیند میں خلل پیدا کیا,,,

اسنے بیزاریت سے آنکھیں وا کرتے موبائل اسکرین سامنے کی تو ثمر نام پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا نام پڑتےپل میں اسکی حسیس بیدار ہوئی تھی وہ حرم کو خود سے دور کرتے اٹھ کر اپنے کمرے میں آئی اور دروازے کو اچھی طرح لاک کرتے اسنے موبائل یس کیا جو ایک بار بندھ ہوکر پھر بجنے لگا تھا,,,,


بولو ,,,اکھڑ لہجہ,,,


پورا دن میں آج اسے وقت ملا تھا کیونکہ ساحر آج کھیتوں میں گیا تھا اور واپسی پہ کافی تھک چھکا تھا وہ کھانا کھا کر ایسا سویا تھا کہ اب تک ہوش نہ تھا رات کہ کوئی تین بج رہے تھے پہلے تو وہ اسی کشمکش میں تھا کہ کال کرے یا نہیں کیونکہ کل تو اسے واپس ہوسٹل چلے جانا تھا مگر دل کے ہاتھوں مجبور ہوتے اسنے عنایہ کو کال کی,,,,


کیا ہوا ناراض ہیں آپ مجھ سے,,,,


اسنے عنایہ کے لہجے میں سختی محسوس کرتے پوچھا,,,,


تمہیں کیا فرق پڑتا ہے,,

تمہیں کیا کسی کو نہیں پڑتا وہ پھر اسی لہجے میں بولی لیکن اس دفعہ آواز روندھی ہوئی محسوس ہورہی تھی,,,,


ایسی باتیں کیوں کرتی ہیں آپ مصروف تھا پلیز سمجھیں نہ مجھے آپکی بہت فکر ہے آپ یہ سب مت سوچا کریں,,,,

ثمر نے تقریباً منت بھرے اندازمیں کہا,,,,

عنایہ کے چہرے پہ تلخ مسکراہٹ ابھر کر مدعوم ہوئی,,,,

کہاں مصروف تھے کہ میری کالز تک نہیں اٹھا رہے تھے ,,,,

وہ پھر ناراضگی ظاہرکرتے بولی ,,,,

ارے بابا بس......اسنے محبت سے کہتے سارا گزرا قصہ اسے بیڈ پہ اوندھے منہ لیٹتے سنایا,,,,

آپکو پتہ ہے عنایہ جی گاؤں میں بہت مزہ آتا ہے لیکن جو بات یونیورسٹی کی زندگی میں ہے وہ یہاں نہیں ,,,,

عنایہ سن کےکھلکھلا کر ہنسی,,,,

آپکی ہنسی بہت پیاری ہے اللہ نظر بد سے بچائے,,,,


وہ بے ساختہ ہی مسرور سے اندازمیں جملہ ادا کرگیا,,,,

کس کی لگے گی یہاں تو میرے اپنوں کی لگی ہوئی,,,

وہ تلخی سے بولی جیسے ناجانے کتنے ظلم کے پہاڑ اس پہ ٹوٹ چکے ہوں,,,,


میں ہر نظر سے بچالونگا آپکو آپ فکر نہیں کریں, ,,,,

وہ مسرور اندازمیں بولا اور دونوں ہی مدہوش سے باتوں میں مگن ہوگئے اسی طرح ایک اور رات کسی نامحرم کی آوازسنتے گزری اور انہیں احساس تک نہ ہوا کہ وہ کن راہوں پہ چل رہے ہیں,,,,


**********

شیری اسے اپنے طور سب سمجھا چکا تھا کب کیسے اور کیا کرنا ہے اور وہ پوری طرح سے رضا مند بھی ہوچکی تھی,,,

ثمر بھی یونیورسٹی آچکا تھا اور دونوں ہی اپنی اپنی کلاس اٹینڈ کرتے لائبریری کی طرف بڑھ رہے تھے ثمر کو اسیگمنٹ تیار کرنا تھا جبکہ عنایہ جان بوجھ کر اسکے پیچھے گئی تھی لیکن انداز ایسا تھا جیسے یہ ایک اتفاق ہو,,,

آپ کہاں جارہی ہیں,,,,

ابھی وہ آگے بڑھ رہی تھی جب ثمر کی آواز پہ مصنوعی سا چونک کر پلٹی چونکنے کا انداز خاصی فتری تھا,,,

یہ راستہ ترکی جاتا ہے؟؟

اسنے ثمر کے سوال پہ سنجیدگی سے کہا,,,

عنایہ کے جواب پہ وہ مسکراتے اسکے پاس آیا,,,,

میرامطلب آپ کیوں جارہی ہیں,,,,وہ پھر غلط سوال کرگیا,,,,

عنایہ نے اسے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے کہہ رہی ہو کیا یہ سوال بھی پوچھنے کا ہے,,,

ارے یار میرا مطلب کوئی اسائمنٹ ہے یا ایسے ہی,,,,ابکی بار اسنے اپنی بات کی تصحیح کرتے درست جملہ بولا,,,,

نہیں بس ویسے ہی جارہی ہوں من نہیں لگتا میرا اس شور میں دم گھٹتا ہے,,,,

وہ شدید افسردہ لہجے میں بولی,,,,

اور دونوں ہی لائبریری میں داخل ہوگئے,,,,

میں سوچ رہا ہوں آج یونی سے واپسی پہ کہیں گھومنے چلتے ہیں ,,چیئر پہ بیٹھتے اسنے عنایہ کا موڈبحال کرنے کی غرض سے کہا,,,,,

نہیں میں گھر پہ کیا کہونگی اب تک کسی کو ہماری دوستی کا علم نہیں ہے,,,,,

اسنے فوراً انکار کیا ,,,,,

یہ بھی ہے چلیں پھر ہم کل ملتے ہیں ویسے بھی مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے,,,,

ثمر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا,,,,

کل آپ یونیورسٹی کے بجائے کنگ ریسٹورینٹ میں مجھ سے مل سکتی ہیں بس آپ وہاں تک پہنچ جائیں باقی آپکے تحفظ کی زمیداری میں خود لے لونگا,,,,

ثمر نے اپنے دماغ میں چلتا سارا پلان اسکے گوش گزارا,,,,

عنایہ کسی گہری سوچ میں مستغرق ہوچکی تھی,,,,.ثمر نے اسے ہوش میں لانے کیلئے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پہ رکھا,,,,

اپنے ہاتھ پہ اسکا لمس محسوس کرتے وہ سوچوں سےباہر آئی,,,,

ٹھیک ہے میں پہنچ جاؤنگی,,,,اسنے مسکراکے جواب دیا,,,تبہی لائبریری انچارج کی تنبی زدہ آواز گونجی اور وہ دونوں ہی خاموشی سے اپنے کام میں مشغول ہوگئے,,,


روز کی طرح وہ دیر رات کال پہ گفتگو کرتے نیند کی وادیوں میں اتر چکے تھے,,,,


اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ رات بھی گزر کر صبح کی شکل اختیار کر گئی ہر طرف روشنی جگمگارہی تھی حرم نور اور عنایہ اپنے مقررہ وقت پہ گھر سے جا چکی تھی اور سکندر بھی اپنے آفس چلے گئے تھے,,,حرم کالج گئی تھی جبکہ عنایہ یونیورسٹی کے نام پر ثمر کی بتائی گئی جگہ پہ گئی تھی,,,,,

اسنے کبھی اس ریسٹورینٹ کانام نہیں سنا تھا لیکن ثمر نے اسکی مشکل آسان کرتے اسکے لیئے کیب بھیج دی تھی

وہاں پہنچتے اسنے پہلے تو حیرت بھری نگاہ سے اس جگہ کو دیکھا کیونکہ ثمر نے کہا تھا وہ اس سے کسی ریسٹورینٹ میں ملنے والا ہے لیکن یہ تو کوئی فلیٹ معلوم ہورہا تھا,,,,اسے کچھ کھٹک رہا تھا وہ ابھی اسی کشمکش میں تھی کہ اندر جائے یا نہ جائے کہیں میں کوئی غلط قدم تو نہیں اٹھا رہی,,,,

اچانک دماغ میں سوال اٹھا دل میں ہزاروں وسوسے آنے لگے تھے وہ کوئی معصوم بچی تو نہ تھی جو وقت کی نزاکت کو نہ سمجھے کسی نامحرم سے اس طرح ملنا کس حد تک انہیں گناہوں کی راہ پہ دکھیل سکتا تھا وہ اچھی طرح واقف تھی لیکن معصومیت کا لبادہ اوڑھے ہر سمجھ سے بری الالزام ہورہی تھی معصوم تو خیر وہ کہیں سے بھی نہیں تھی میسنی تھی ایک نمبر کی جو جانتے بوجھتے اپنی ہی ہنستی کھیلتی زندگی تباہ کرنے کے در پہ تھی ,,,,,


ابھی وہ کچھ سوچتے واپسی کیلئے مڑی تھی اسے اندر جانا مناسب نہیں لگ رہا تھا تبہی اسکا موبائل بجا اور موبائل پہ ثمر کانام جگمگاتا دیکھ وہ کچھ ہلکی پھلی ہوئی,,,


یہ کہاں بلایا ہے تم نے مجھے,,,,وہ کال یس کرتے اس پہ چڑھ دوڑی,,,,.دوسری طرف سے کچھ کہا گیا جب اسنے سر اٹھا کر اوپر دیکھا جہاں ثمر ہاتھ ہلا رہا تھا وہ چندھیائی آنکھوں سے ایک نظر ثمر کو دیکھتے دھوپ کی تپش کے باعث نظریں جکھاگئی اور موبائل رکھتی اندر بڑھی,,,,,

ٹھیک ثمر کے بتائے گئے مطلوبہ فلیٹ میں داخل ہوتے اسنے نگاہ آس پاس دوڑائی جہاں سے کچھ مردوں کے ہنسنے کی آواز آرہی تھی وہ گھبرائی اسے پھر کچھ انہونی کا احساس ہوا لیکن یہ احساس بھی چند منٹوں کا ہی تھا اسنے ایک قدم پیچھے لیا تبہی کمرے کا دروازہ کھلا اور ثمر سامنے سے آتا دکھائی دیا ثمر کو اپنے سامنے دیکھ جیسے اسکی جان میں جان آئی تھی وہ بے ساختہ ہی بنا سوچے سمجھے بھاگتے ہوئے اس سے لپٹی تھی اسکے سینے سے چپٹی وہ گہرے گہرے سانس بھرنے لگی تھی ثمر کو پہلے تو جھٹکا لگا لیکن اسکا خوف سمجھتے وہ بھی اسے حوصلہ دینے کی غرض سے اپنا حصار اسکے گرد بچھاگیا,,,,

سسوری.....کچھ دیر یوں ہی اس سے لپٹے رہنے کے بعد اسے اپنی بے اختیاری کا احساس ہوا تو وہ ندامت سے معزرت کرتے پیچھے ہٹی,,,ثمر نے بھی فوراً ہی اپنا حصار اسکے گرد سے ہٹایا تھا,,,,


آپ پریشان نہ ہوں یہ میرا اپنا فلیٹ ہے میں ہوٹل پہ ہی بلاتا مگر وہاں کوئی محفوظ ریزرویشن نہیں ارینج ہوئی تو میں نے سوچا یہ جگہ بیسٹ رہے گی لیکن شاید آپ ڈر گئیں,,,,وہ دو قدم کا فاصلہ اپنے اور اسکے درمیان سے مٹاتا سہولت سے دھیمے لہجے میں بولا,,,

ہمم....وہ کچھ نہیں بولی محض اثبات میں سر ہلا گئی,,,,عنایہ کی نظریں جکھی ہوئی تھی جبکی ثمر کی نظریں مسلسل اسکے چہرے کا تواف کر رہی تھی,,,,,

عنایہ میں آپ سے نکاح چاہتا ہوں ,,,,,

کچھ دیر کی معنی خیزخاموشی کے بعد ثمر نے اسکا چہرہ دونوں ہاتھ میں لیتے محبت سے چور اندازمیں کہا,,,,

عنایہ نے بے ساختہ ہی حیرت بھری نگاہ اسکی جانب اٹھائی جو آنکھوں میں خمار لیئے اسے ہی دیکھ رہا تھا,,,,

لیکن....عنایہ نے کچھ کہنے کیلئے منہ کھولا ہی تھا جب ثمر نے اسکے نرم و ملائم سرخ ہونٹوں پہ انگلی رکھتے اسے خاموش کروادیا,,,,.عنایہ پلیز یہ مت کہیئے گا کہ میں تم سے بڑی ہوں ہم کیسے نکاح کرسکتے ہیں وغیرہ وغیرہ,,,,

وہ کچھ افسردہ لہجے میں بولا,,,


عنایہ نے اسکے ہاتھ اپنے چہرےسے ہٹاتے رخ بدلا,,,لیکن حقیقت تو یہی ہے نہ ثمر لوگ کیا کہینگے,,,,,وہ اسکی جانب پشت کیئے بظاہر سخت مگرفتح مندی سےمسکرا کربولی,,,,ثمر نے اسکی کلائی تھامتے پھر سے اسکا رخ اپنی طرف کیا,,,.عنایہ پلیز محبت عمر دیکھ کے نہیں کی جاتی اور نہ ہی لوگوں کے بارے میں سوچا جاتا ہے جیسے محبت میں ساری سوچیں مفلوج ہوجاتی ہیں کچھ ایسی ہی محبت میں آپ سے کرنے لگا ہوں,,,آپ میرے جذبات سمجھے جب آپکے سگے آپکو آپکے حصے کی محبت نہیں دے پارہے تو اس دنیا سے کیا توقع کر رہی ہیں آپ یہ دو دن باتیں بنا کر بھول جائے گی مگر میں آپکو اس طرح نہیں دیکھ سکتا عنایہ پلیز انکار مت کریں صرف اپنے بارےمیں سوچیں ایک بار بس ایک بار,,,, .وہ بھرائے لہجے میں کہتا اپنی بات پہ زور دینے لگا,,,,


آنسوں ناجانے کیوں بے اختیار ہی آنکھوں سے بہا تھا,,,,.عنایہ کی آنکھوں سے بھی آنسوں لڑیوں کی مانند برسنے لگے تھے مگر سارے آنسوں چیخ چیخ کر اسکی فریبی کا پتہ دے رہے تھے لیکن مقابل کھڑا یہ شخص انکی زبان سمجھنےسے قاصر تھا,,,


کیا تم میرا ساتھ ہمیشہ دوگے,,, عنایہ نے بھرائے لہجے میں پوچھا ثمر نے تیزی سے اثبات میں سر ہلایا,,,,


ٹھیک ہے میں تیار ہوں اس نکاح کیلئے,,,,

اسکے لفظوں پہ ثمر کے چہرے پہ تبسم کھلا عنایہ نے اپنی نگاہ جکھادی,,,,


شکریہ عنایہ بہت شکریہ آپکو نہیں پتہ آپ نے رضا مند ہو کر کتنی بڑی خوشی دی ہے مجھے ، اب کوئی دکھ قریب نہیں آنے دونگا آپکے ، وہ محبت سے اُسے دیکھتا گویا ہوا ۔


عنایہ محض مسکرا کر سر اثبات میں ہلا گئ ۔

ثمر اُسے روم میں چھوڑتا خود باہر آتا موبائل نکال کر ایک نمبر ڈائل کرنے لگا ۔

مقابل کے کال اٹھاتے ہی اُس نے مولوی کو لانے کا کہتے ، مختصر قصہ مقابل کے گوش گذارا ۔

کچھ ہی دیر میں اُسکے پانچوں دوست مولوی کو لئے وہاں موجود تھے ،


ثمر تو تھوڑی جلد بازی نہیں کر رہا کچھ دن رک جا داجی سے بات کر لے وہ مان جائینگے یوں چھپ کر نکاح کرنا ٹھیک نہیں ، ثمر کا کلاس فیلو فرہاد اُسے سمجھاتے بولا۔

نہیں داجی سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں وہ نہیں مانیں گے ، ثمر ایک لمبی سانس لیتا بولا

اچھا پھر کم از کم ساحر بھائی سے بات کر کے دیکھ لے وہ سنبھال لینگے سب ، مقابل کھڑے اُسکے دوست نے ایک بار پھر اسے یہ قدم اٹھانے سے روکنے کی کوشش کی تھی ،

پلیز یار تو میرا ساتھ نہیں دینا چاہتا نہ دے چلا جا بھلے ہماری دوستی میں کوئی فرق نہیں آئیگا ، ثمر اُسکے ان مشوروں سے تنگ ہوتا بولا ،

ثمر کی بات سن مقابل خاموش ہوگیا تھا ،۔ نہیں بتا سکتا میں ساحر بھائی کو بھی وہ تو ویسے بھی عنایہ کو پسند نہیں کرتے ، مجھے بھی ہمیشہ اُس سے دور رہنے کا كہتے میرے پاس یہ آخری راستہ بچا ہے بس ، وہ شدید کرب میں بولا

سب ٹھیک ہو جائیگا فکر نہ کر ہم ساتھ ہیں تیرے ، پیچھے سے آتے ذولقرنین نے ثمر کے کندھے پر ہاتھ رکھتے تسلی دیتے کہا ، یہ پانچوں دوست ثمر کے ساتھ ہی پڑھتے تھے وہ عنایہ کو بھی جانتے تھے ، ابھی بھی ثمر کی ایک کال پر ہی وہ سب انتظامات کرتے یہاں پہنچے تھے ،

کچھ ہی دیر میں عنایہ کو باہر لاتے ثمر نے صوفے پر بٹھایا تھا ، اور اُن دونوں کے آتے ہی مولوی صاحب نے تمام گواہوں کی موجودگی میں نکاح کی سنت کا آغاز کیا۔۔۔


عنایہ نکاح کے ہوتے ہی اٹھ کر وہاں سے جا چکی تھی مگر فرہاد کو اسکے چہرے کی مسکراہٹ کچھ کھٹک رہی تھی کیونکہ نکاح کے وقت بھی وہ مسلسل گھونگٹ کے اندر مسکرا رہی تھی مگر بظاہر اسکا وجود ہچکولے کھا رہاتھا,,,.فرہاد کو کچھ گڑبڑ کا احساس ہورہا تھا لیکن ثمر کی ضد کے آگے وہ کچھ نہیں کرسکتا تھا اسلیئے خاموش رہنے میں عافیت جانی,,,

اور اس طرح انکے نکاح کی سنت اختتام کو پہنچی,,,


♡♡♡♡♡♡


وہ فریش ہونے کے بعد حرم کو لئے نیچے ڈائنگ روم میں آگیا تھا جہاں گھر کے سارے افراد ہی موجود تھے سوائے داجی کے ، بھابھی کیا اپڈیٹ ہے کتنا یاد کر لیا ہے آپ نے پیپر ؟ حرم ابھی چیئر کھسکا کر ساحر کے ساتھ بیٹھی ہی تھی کہ درخنے نے اُسے اتنا پر سکون دیکھ سوال کیا ،


اُسکے سوال پر حرم کی آنکھیں پھیلی تھی اور انہیں پھیلی آنکھوں کو پھیرتے وہ ساحر کو دیکھنے لگی تھی ، اس سب گھر کے جھمیلوں کے درمیان وہ یہ تو بھول ہی گئ تھی کہ کل اُسکا پیپر ہے ، مُ مجھے تو کچھ بھی یاد نہیں درخنے اب کیا ہوگا ۔ اُس کے الفاظ لڑکھڑائے تھے ، ساحر اُسکی حالت سے محفوظ ہوتا لبوں تلے ہنسی دبائے بیٹھا تھا ۔

کوئی بات نہیں حرم ساحر تُمہیں تیاری کروا دے گا کل کے پرچے کی ،

نور بانو نے اُسے فکرمند دیکھ کہا ۔


حرم نے فوراً ہی اُمید وار نظروں سے ساحر کی طرف دیکھا تھا ، اُسکے اس طرح معصوم نظروں سے دیکھنے پر ساحر نے آنکھیں جھپکتے جواب دیا تھا ۔ پکا کروا دیں گے نہ ؟

حرم نے ایک بار پھر معصومیت سے پوچھتے یقین دھانی چاہی ، ساحر کی نظر اس بار بھٹکتی اُسکے ہلتے گلابی لبوں پر ٹک گئ تھی ،

بتائیں نہ ؟؟ اُسے یوں خاموش خود کو تکتا دیکھ حرم نے پھر کہا ، ہاں کروا دونگا ، وہ مختصر الفاظوں میں بولتا نور بانو اور درخنے کی موجودگی کا خیال کرتا خاموش ہوگیا ،


حرم ابھی کچھ اور کہتی کہ داجی کو آتا دیکھ وہ خاموشی سے سر جھکا گئ ، وہ وہاں موجود تمام نفوس پر نظر ڈالتے سر براہی کُرسی پر براجمان ہوگئے ۔ اُنکے آتے ہی سب ہی کھانا کھانے میں مصروف ہوگئے تھے ،


عنایہ آپی... کھانا کھاتے حرم کی غیر ارادہ سی نظر سامنے سے آتی عنایہ پر پڑی تو وہ خوشی سے اُسے پُکارتی چلائ، اُسکے پکارنے پر ساحر نے مضبوطی سے حرم کا ہاتھ اپنی گرفت میں لیا اور اپنی لہو ٹپکاتی نظروں سے عنایہ کو دیکھا تھا ، داجی عنایہ کو لاتے ہی کمرے میں بند ہوگئے تھے اور ابھی کھانے کی میز پر آئے تھے ، نور بانو نے ایک نظر غلطی سے بھی عنایہ کو نہیں دیکھا تھا ، درخنے کو بھی حرم کی طرح ابھی ہی عنایہ کو دیکھ شاکڈ لگا تھا ،


سا ساحر ہاتھ چھوڑیں مجھے آپی سے ملنا ہے ، حرم نے ساحر کی سخت گرفت سے اپنا ہاتھ نکالنے کی کوشش کرتے کہا ، اُسکی بات سن ساحر نے اپنی لہو رنگ آنکھیں حرم کی طرف اٹھائی تھی ، بیٹھی رہو یہی ۔۔۔ اپنا اشتعال دباتا اُسکے ہاتھ پر اپنی گرفت مزید سخت کرتا گویا ہوا ۔۔۔


تمہارا کھانا کمرے میں بھیج رہی ہوں میں جاؤ ، نور بانو نے بنا اُسکی طرف دیکھے سپاٹ لہجے میں کہا ۔

یہاں آکر بیٹھو اور سب کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاؤ گھر کے فرد کی طرح، داجی کی بات پر سب حیران سے اُنکی طرف دیکھ رہے تھے جو اپنے ہی پوتے کی قاتلا کو ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کا کہہ رہے تھے ۔۔


عنایہ چہرے پر مصنوعی خوف لاتی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ڈائنگ ٹیبل پر پہنچتی بیٹھ گئی ۔ اُسکے بیٹھتے ہی ساحر اُٹھ کھڑا ہوا تھا اور حرم کا ہاتھ ویسے ہی اپنے ہاتھ میں تھامے ایک خونخوار نظر عنایہ پر ڈالتا وہاں سے نکلتا گیا ۔ یہ تو بس محض شروعات ہے,,, اُسکے جاتے ہی وہ دل میں سوچتی دل ہی میں مسکرائی تھی۔ نور بانو اور درخنے بھی اُٹھتی وہاں سے نکلتی اپنی کمروں کی طرف بڑھ گئے ۔۔


پتہ نہیں سمجھ نہیں آرہا یہ آج کل تُم سب کونسی ہواؤں میں أڑ رہے ہو ،کس کی صحبت میں رہ رہے ہو جو ہمارے ساتھ گستاخی کر رہے ہو ، ہمارے فیصلوں کی نافرمانی کر رہے ہو۔۔ اُنکے جاتے ہی وہ غصے سے اگ بگولا ہوتے

ٹیبل پر ہاتھ کا مکہ بنا کر مارتے بولے ۔


داجی پلیز آپ میری وجہ سے ان سب کو کچھ نہ کہیں ۔ یہ سب ماحول دیکھ اُسے دلی سکون مل رہا تھا پر داجی کے سامنے شرمندگی کا ڈراما کرتے سر جھکا کر بولی ، تُم زیادہ ہماری ماں بننے کی کوشش نہ کرو ، تُمہیں ابھی اگر ہم یہاں برداشت کر رہے ہیں اور تُم جس وجہ سے یہاں موجود ہو تو وہ ہمارے ثمر کا بچا ہے ، ورنہ ہماری نظر میں بھی تمھاری وہی اوقات ہے جو ان سب کی نظر میں ہے ، وہ کہتے انکھوں میں چنگاریاں لئے اُسے دیکھتے وہ بھی وہاں سے اُٹھتے چلے گئے ۔ اُنکے جاتے ہی اُنکی پُشت کو دیکھ عنایہ مسکرائی تھی ، گہری مسکراہٹ اُسکے لبوں پر رقصاں تھی ، اپنی پلیٹ میں کھانا نکال کر وہ پر سکون انداز میں ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر بیٹھتی کھانے سے لطف اندوز ہونے لگی ۔


*****

چھوڑیں میرا ہاتھ ساحر جی مجھے درد ہو رہا ہے چھوڑیں نہ۔۔۔۔ ڈائننگ روم سے لے کر کمرے تک آتے مسلسل یہی جملہ دہراتی اُس ظالم کو اپنے نازک ہاتھ چھوڑنے کا كہہ رہی تھی ، جو بلکل اپنے حواسوں میں نہیں لگ رہا تھا ، آنکھیں اور چہرا غصے کی زیادتی سے سُرخ تھا اور نقوش میں بھی پھتروں سی سختی تھی ، کمرے میں آتے ہی جھٹکے سے اُسکا ہاتھ چھوڑ کر روم لوک کرتا وہ ہاتھ کی دو انگلیوں سے ماتھا مسلتا اپنا اشتعال دبانے لگا ۔


یہ کیا طریقہ ہے ساحر عنایہ آپی کب آئی مجھے کسی نے بتایا ہی نہیں اور آپ نے بھی ملنے نہیں دیا مجھے ۔ وہ اُسکی حالت سے بے خبر اپنی ہی بولتی جا رہی تھی۔۔


بس۔۔۔۔۔خاموش بلکل خاموش اب ایک لفظ نہ نکلے تُمہارے منہ سے سمجھایا تھا نہ تُمہیں کہ کوئی بہن نہیں تمھاری ۔۔۔ وہ بازوؤں سے اُسے تھامتے چہرے کے قریب پھنکارا ، ایک پل کے لئے حرم کا دل جیسے دھڑکنا بھول گیا تھا ساحر کا یہ روپ ہمیشہ اُس معصوم کو سہمنے پر مجبور کر دیتا تھا ۔ بازوؤں پر ساحر کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ اسے ساحر کی اُنگلیاں اپنے بازوؤں میں دھنستی ہوئی محسوس ہو رہی تھی ۔

سہہ ۔۔۔۔ درد سے سسکی لیتے اُس نے خوف سے آنکھیں میچی تھی ۔ اُسکی سسکی ساحر کو ہوش میں لا گئ تھی وہ فوراً ہی اُسکے بازوؤں پر گرفت ڈھیلی کرتے اُسکا سر اٹھا کر اُسکے ماتھے سے اپنا ماتھا ٹکاتا آنکھیں موند گیا ،

تُم ایسا کیوں کرتی ہو حرم ہر بار...؟ بھول جاؤ ماضی ، بھول جاؤ ماضی کے رشتے ، میرا یقین کرو بہت دُکھ دیتا ہے ماضی کا غم ، وہ اُسکی چھوڑی سانسیں خود بھرتا اُسکی سانسوں کی خوشبو سے خود کے وجود کو مہکاتا خُمار زدہ لہجے میں بولا ۔۔

سہ ساحر۔۔۔۔۔ حرم نے لڑکھڑاتے ابھی کچھ بولنا چاہا ہی تھا کہ وہ اُسکے لبوں پہ اُنگلی رکھتے ، اُسکی نم شہد رنگ آنکھوں میں اپنی سُرخ آنکھیں ڈالتا اُسکے لبوں کو اپنی گرفت میں لے گیا ,,,,

وہ قطرہ قطرہ کر کے اُسکے لبوں کا جام پی رہا تھا ۔ حرم سانس روکے بمشکل اُسکے سہارے ہی کھڑی تھی ۔ وہ ایک بار پھر نرمی سے چھوتا پیچھے ہوا تھا ، پر ابھی تک حرم کے گرد اپنا حصار نہیں توڑا تھا ۔

اسکی سانسیں دھڑکنیں سب ہی منتشر الگ ہی لے پہ دھڑک رہی تھی,,,,

عنایہ سے دور رہنا کوئی بات نہ کرنا اُس سے ، جب تک میں گھر نہ آجایا کروں تُم کمرے سے بلا ضرورت نہ نکلا کرو ، کبھی بور ہو جاؤ تو درخنے یہ مور کے پاس چلی جانا ، اور اب مزید کوئی سوال نہیں کروگی تُم اس موضوع پر ۔۔۔ حیا کی لالی سے ہوئے سُرخ گالوں پر اپنی ہاتھ کی پُشت نرمی سے رگڑتے دھیمے لہجے میں بولا ۔


سمجھ رہی ہو نہ میری بات تُم ...؟ اُس نے آبرو اٹھاتے سوال کیا حرم نے کوئی جواب نہ دیا بس خاموشی سے سر جھکا دیا ۔

بجتے دروازے کی آواز نے اُن دونوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی ۔


وہ حرم کو اپنی گرفت سے آزاد کرتا دروازے کی طرف بڑھا ، حرم بھی لمبی سانس لے کر خود کو پُر سکون کرتی چہرا صاف کرنے لگی ۔


ساحر نے دروازہ کھولا تو سامنے ہی ملازمہ کو کھانے کی ٹرے تھامے کھڑے پایا ، ملازمہ یقیناً نور بانو کے کہنے پر کھانا لے کر پہنچی تھی ، ساحر کے دروازہ کھولتے ہی وہ اندر داخل ہوتی کھانے کی ٹرے صوفے کے قریب ٹیبل پر رکھتے واپس مڑ گئ۔ وہ بھی دروازہ دوبارہ لوک کرتے مڑا اور حرم کا ہاتھ پکڑ کر صوفے پر اپنے ساتھ بیٹھا کر کھانا کھلانے لگا ، کھانا کھا لو پھر کل کے پیپر کی تیاری بھی کرنی ہی وہ نوالہ بنا کر اُسکے منہ کے قریب لے جاتے بولا۔


حرم خاموشی سے منہ کھول گئ ، ہلکی پھلکی باتیں کرتے وہ اُسے کھلانے اور خود کھانے کے بعد حرم کی کتابیں لئے اُسے کل کے پیپر کی تیاری کروانے لگا ۔


سا ساحر جی مجھ سے نہیں یاد ہو رہا یہ ، مجھے نیند آرہی ہے سونا ہے مجھے ، وہ آنکھوں میں نیند لئے رونی شکل بناتے بولی ۔

نہیں حرم بس یہ آخری سوال یاد کرلو امپورٹنٹ ہے یہ ، وہ اُسکے سامنے رکھی کتاب میں اشارہ کرتا بولا ۔

یار کتنی نکمی ہو تم کچھ بھی یاد نہیں تُمہیں تو ، فیل ہو کر تُم گھر میں بھی اور کالج میں بھی میری ناک کٹواؤ گی ، کیا کہیں گے لوگ کہ ڈاکٹر ساحر شہروز خان کی بیوی فیل ہو گئی ۔ ساحر جانتا تھا وہ ابھی تک عنایہ والی بات کو لے کر سوچ رہی ہے تبھی پڑھائی پر دیہان نہیں لگا پا رہی ، اُسکا دیہان بھٹکانے کے لئے شرارت سے بولا۔

ایسا کچھ نہیں ہے ساحر جی میں آپ سے زیادہ سمجھدار ہوں ، آپ تو آٹھ دس سرجریآں کر کے خود کو پتہ نہیں کیا سمجھ رہے ہیں، میں بھی بہت انٹیلیجنٹ ہوں دیکھنا پڑھے بغیر بھی میں ٹاپ کر سکتی ہوں ۔ اُسکی بات کو سیریس لیتی وہ بھی دوبدو بولی ،


میری جان بس بہت اوپر چلی گئی تُم نیچے آجاؤ ڈاکٹر کی بیوی ہو آئنسٹان کی بہن نہیں ۔ اُسکی بڑی بڑی باتیں سن دانتوں تلے لب دیتے وہ اپنی اُمڈتی ہنسی دباتا بولا ۔


یہ بات ہے پھر بس میں نہیں پڑھ رہی ، دیکھنا پھر بھی ٹاپ ہی کرونگی میں ۔ وہ گردن کھڑی کرتی ہاتھ میں پکڑی کتاب بند کرتی، چیلنجنگ انداز میں بولی ۔

اُسکی بات اور انداز پر ساحر کا قہقہ بے ساختہ تھا ۔ ویسے اگر تم فیل ہوگئ تو کس منہ سے اپنے بچوں کو پڑھنے کا بولو گی ؟؟ ساحر بغور اُسکا پھولا چہرا دیکھ سیریس ہوتے بولا ۔


کیا مطلب کونسے بچے ، میں تو خود ابھی بچی ہوں۔ وہ نہ سمجھی سے کہتی آخری الفاظ پلکیں جھپکتے بولی ،


ہمم ، اور یہ بچا پن تو تمہارا کل ختم کرونگا ، وہ اثبات میں سر ہلاتا بولا ،

کیا کرنے والے ہیں آپ ؟؟ آبرو کھڑے کرتے اُسے مشکوک نظروں سے دیکھتی گویا ہوئی ، ۔


اُسکے انداز پر ساحر کے عنابی لبوں تلے ایک بار پھر تبسم کھلا تھا ۔

وہ کل ہی پتہ چل جائے گا تُمہیں۔ وہ عام سے انداز میں بولتا اُسے سوچنے پر مجبور کر گیا تھا ، ۔

ایک تو آپ آپکی باتیں اور آپکا موڈ کا مجھے کبھی سمجھ نہیں آتا وہ کتابیں سمیٹ کر سائڈ کرتی سر تک کمفرٹر اوڑتے بولی۔ ساحر تو اُسکی جلد بازی دیکھتا ہی رہ گیا تھا ، ۔


ساحر نے اُسے تنگ کرنے کے لئے سر سے کمفرٹر کھینچا ہی تھا کہ حرم کے الفاظوں پر اُسکا ایک بار قہقہ برآمد ہوا ۔۔

آپ مجھے سونے دیں ، میرا کل پیپر ہے اور میں فیل ہو کر آپ جیسے دو نمبر ڈاکٹر کی ناک نہیں کٹوانا چاہتی ۔

اچھا لیکن بنا پڑھے تو تم اپنے دو نمبر ڈاکٹر شوہر کی ناک پکا کٹوا ہی دوگی,,,,,

ساحر نے پھر کمفرٹر کھینچتے شرارت سے کہا,,,


مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے آپ جان بوجھ کر مجھے سونے نہیں دے رہے تاکہ میں فیل ہوجاؤں اور پھر آپ میرا مذاق بنائیں,,,,

وہ کمفرٹر خود سے دور کرتی اٹھ بیٹھی اور آنکھوں کو چھوٹا کرتے دونوں ہاتھ کمر پہ ٹکائے لڑاکا عورتوں والے اندازمیں بولی,,,,,


ہاہاہا.....قہقہ لگاتے اسکی.کمر میں ہاتھ ڈالتے اپنے سینے پہ گرایا حرم نور یکدم ہی اسکی حرکت پہ سٹپٹائی,,,,


یہ الزام بھی قبول ہے مگر جو بھی کہنا ہے قریب رہ کر کہو ,,,,

وہ اسے دیکھتے دلکش انداز میں بولا حرم ایک نظر اسکی معنی خیز آنکھوں میں دیکھتے تمتماتے چہرے کے ساتھ اسکے سینے میں منہ چھپا گئی,,,


ہاہاہا....ساحر کا پھر قہقہ برآمد ہوا,,,,

اگر تم اتنے سے میں اتنا شرماؤگی میری جان تو آگے کیسے کام چلے گا,,,,

وہ اسکے بالوں میں انگلیاں چلاتے پھر شرارت پہ آمادہ ہوا,,,,

تو مت چلائیں نہ کام آپ,,,,وہ نروٹھے انداز میں بولی,,,,

کام تو چلانا پڑیگا نہ یار تم دوسری کی اجازت بھی تو نہیں دوگی نہ پھر تم سے ہی کام چلانا ہوگا,,,,

وہ مصنوعی افسوس بھرے انداز میں بولا,,,حرم نے بےساختہ ہی غیر یقینی سے اسکی جانب دیکھا,,,

کیا مطلب ہے آپکا,,,,وہ پھر آنکھوں کو چھوٹا کرتے اپنے معصوم نقوش میں سختی سمائے بولی,,,

چھوڑو تم ابھی بچی ہو پہلےبڑی ہوجاؤ پھر سمجھاؤنگا,,,,وہ بات اڑانے والے انداز میں بولا,,,.حرم نور ایک سخت سی نظر اسپے ڈالتی کروٹ بدل کر لیٹ گئی,,,شاید یہ ناراضگی کا اعلان تھا,,,,

ساحر نے مسکراتے اسے پشت سے اپنے حصار میں لیا,,,,


یار تم تو ناراض ہوگئی جبکہ میرا موڈ تو چاکلیٹ دینے کا تھا تمہیں چلو کوئی بات نہیں میں دوسری والی کو دے دونگا,,,,اسکے کان میں گھستے سرگوشی نما آواز میں کہا,,,,


میں ناراض نہیں ہوں,,,,حرم نے بلند آواز میں جیسے اعلان کیا تھا,,,,.وہ کھل کے مسکرایا اور اسکے گرد حصار مزید تنگ کرتا آنکھیں موند گیا حرم بھی اسکا حصار خود پہ محسوس کر نیند کی وادیوں

●︿●●︿●●︿●●


حرم اور درخنے دونوں کے پیپرز چل رہے تھے دونوں ہی رات دیر تک ساحر کے پاس بیٹھ کر پیپر کی تیاری کیا کرتی تھی ،

بلکہ یہ کہنا ٹھیک ہوگا کہ ساحر اُن دونوں کو زبردستی بٹھا کر پڑھاتا تھا ،

درخنے پھر بھی داجی کے ڈر سے پڑھ لیا کرتی تھی پر حرم میڈیم ساحر کے نرم لہجے اور محبت دیکھ اب اُس سے بھی ڈرا نہیں کرتی تھی ساحر کو یہی ڈر لگا رہتا تھا کہ کہیں یہ دونوں فیل ہو کر داجی کے آگے اُسے شرمندہ نہ کروالیں کیوں کہ اُنکی پڑھائی کیلئے جس طرح اُس نے داجی کو رضامند کیا تھا وہ وہی جانتا تھا ، نور بانو بھی اُن دونوں کا بہت خیال کر رہی تھی وہ ساحر کے ہتھے چڑھنے کے بعد پڑھنے میں اس قدر مگن ہوگئ تھی کہ دونوں کو ہی اپنے کھانے پینے کا ہوش نہیں ہوتا تھا نور بانو ہی اُن دونوں کا خیال رکھ رہی تھی آخر اُن پر ترس کھاتے نور بانو نے ساحر سے کہہ ہی دیا تھا کہ بس کرے اتنا ظلم نہ کرے اُنکی بیٹیوں پر ہر وقت کتابوں میں گھسی رہتی ہے لیکن وہ معصوم کہاں واقف تھی کہ یہ کتابیں منہ کے سامنے صرف اُنکی موجودگی یہ ساحر کی موجودگی میں کی جاتی ہیں ورنہ جب وہ دونوں اکیلی ہوتی تھی تو اشرفی کے ساتھ کھیلتی رہتی یہ اشرفی کی اداکاری پر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوتی رہتی تھی ،

عنایہ کو بھی گھر آئے پندرہ دن ہوگئے تھے اُس سے سب کے ہی روئیے پہلے دن جیسے ہی تھے کوئی بھی اُس سے بات کرنا یا مخاطب کرنا پسند نہ کرتا تھا ، وہ داجی حکم پر گھر کے فرد کی طرح کھانا کھانے ٹیبل پر آتی تھی مجبوری میں سب کو داجی کے حکم کی وجہ سے اُسے برداشت کرنا پڑتا تھا ،

حرم اب غیر ضروری کمرے سے نہیں نکلا کرتی تھی وہ جانا چاہتی تھی اپنی بہن کے پاس اُس کے گلے لگنا چاہتی تھی اُس سے اپنے ماں باپ کی خیریت کا پوچھنا چاہتی تھی پر ساحر کی بات یاد کرتے اُسکے قدم راستے میں ہی رک جاتے تھے ،

اور دوسرا آج کل ساحر بھی اپنے گاؤں والے پرائیویٹ ہسپتال سے آنے کے بعد گھر ہی ہوتا تھا اور جب وہ گھر ہوتا تھا تو حرم اور درخنے کی کلاس ہوتی تھی ، اس سب میں ابھی تک حرم کو عنایہ سے ملنے کا موقع ہی نہیں مل پایا تھا ، کل اُنکا آخری پیپر تھا اور روز کی طرح وہ دونوں کتابیں پھیلائے بیڈ پر بیٹھی اپنے سامنے بیٹھے ساحر کو سن رہی تھی جو اُنہیں ایکویشن سمجھا رہا تھا وہ ایک ایک چیز آسان لفظوں میں سمجھا رہا تھا پر اُن دونوں کے سر کے اوپر سے جا رہا تھا ،

اشرفی صاحب بھی رجُسٹر پر چڑھے اپنے قد سا بڑا قلم با مشکل پکڑے صفحے پر ٹیڑھی میڑھی لائنیں بنا رہا تھا ، سمجھ آیا یہ ایک بار اور سمجھاؤں ؟؟ سفید قمیض شلوار میں آستینیں کہنیوں تک فولڈ کئے ہاتھ میں قلم تھامے بیٹھا وہ ایکویشن سمجھانے کے بعد پوچھنے لگا ،

اُسکے سوال پر حرم اور درخنے دونوں نے ہی نظر اُس سے ہٹاتے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر ساحر کو دیکھتے ایک ساتھ اثبات میں سر ہلایا ،

پڑھو گے لکھو گے بنو گے خراب کھیلو گے کودو گے بنو گے نواب ، سفید صفحے کو اپنی ٹیڑھی میڑھی لائنوں سے رنگین کرتا وہ گنگناتا بولا ، ساحر نے ایک تیز نظر اُس پر ڈالی تھی جو اُسکی حالت سے محفوظ ہوتا دوبارہ یہی الفاظ گنگنانے لگا ،

بھائی بس چھٹی نہ اب ؟؟؟ ساحر کو خونخوار نظروں سے اشرفی کو دیکھتے دیکھ اُس نے توجہ اپنی طرف دلائی ، حرم نے مشکور نظروں سے درخنے کی طرف دیکھا یہی تو وہ کب سے ساحر کو کہنا چاہتی تھی پر وہ نہ جانے کون سے فارمولے اُنہیں یاد کروا رہا تھا ،

ہاں چھٹی پر پہلے مجھے فارمولا لکھ کر دو ، وہ ضبط کے گھونٹ پیتا اشرفی کو اگنور کرتا اُن دونوں سے بولا دونوں ہی چھٹی کا سنتی تیزی سے صفحے پر قلم چلاتی فارمولا لکھنے لگی ۔۔۔

یہ لیں ہو گیا پہلے حرم نے اور پھر درخنے نے نوٹ بک سامنے رکھتے کہا ، حرم کے لکھے گئے فارمولے پر سر سری سی نظر ڈالتا وہ درخنے کی نوٹ بک دیکھنے لگا جس پر بلکل درست فارمولا لکھا ہوا تھا ،

زبانی سنانا یہ فارمولا ،مشکوک نظروں سے وہ اُسے دیکھتا بولا ۔

اے اسکوائر پلس ٹو اے بی پلس بی اسکوائر ، بنا سانس لئے وہ ایک ہی سانس میں بولی ۔۔ ٹھیک ہے تمھاری چھٹی ، وہ نوٹ بک اُسے واپس کرتا بولا ، وہ جلدی جلدی اپنا سامان سمیٹتی تیر کی تیزی سے وہاں سے نکلی تھی ، اُسکے جاتے ہی حرم نے سہمی سی نظروں سے ساحر کو دیکھا تھا جو بغور اُسکے ہی چہرے کے تاثرات ملاحظہ کر رہا تھا ،

میں نے فارمولے کی اسپیلنگ لکھنے کو کہا تھا یہ فارمولا لکھنے کو ؟؟؟؟ سپاٹ چہرے سے تھوڑے سخت لہجے میں گویا ہوا وہ تو اُسکی عقل پر غش کھا کر گرنے کے قریب تھا جس نے صفحے پر فارمولے کی اسپیلنگ لکھی ہوئی تھی ،

ساحر جی وہ آپ نے ہی تو کہا تھا فارمولا لکھو ، اب مجھے کیا پتہ تھا آپ کونسا والا فارمولا بول رہے نیوٹن انکل والا یہ انگلش والا اس میں میرا کیا قصور ہے ؟؟؟مجھے تو دونوں یاد تھے ۔۔۔۔وہ اُسکی نظروں کی تاب نہ لاتے نظریں جھکاتے بولی ،

یاد ہے تو سناؤ پھر مجھے ، وہ اپنے تاثرات کچھ نورمل کرتا بولا

ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا,,,, بس اشرفی کے ان الفاظوں پر اب ساحر کا ضبط ٹوٹا تھا ۔۔۔

کیا مطلب ہے اب اس بات کا ، اشرفی کی طرف رخ کرتا خطرناک تیوروں سے اُسے دیکھتا بولا ۔

مطلب یہ کہ غلطی تمھاری اپنی ہے تُمہیں بتانا چاہیے تھا کہ کسکا پوچھ رہے تُم ۔۔۔ فٹیچر استاد پلس ڈاکٹر ڈھکن ۔۔۔ وہ اُس سے لڑنے والے انداز میں بولتا ساتھ اُسے نئے ناموں سے بھی نوازا گیا ،

حرم نے لب دانتوں تلے بہت مشکل سے اپنی ہنسی کنٹرول کی تھی ،

ساحر کے چہرے کا رنگ ایک دم سے ہی سفید سے سُرخ ہو گیا تھا وہ اشرفی کو اپنے ہاتھوں میں دبوچتا اُسے اُسکے گھر پٹخ کر واپس کمرے میں آتے ایک لمبی سانس لیتے حرم کی طرف متوجہ ہوا جس کے چہرے پر صاف دبی دبی ہنسی دیکھی جا سکتی تھی ۔

سناؤ فارمولا ؟؟ ایک جھٹکے سے اُسے بازو سے پکڑ کر اپنے مقابل کرتا بولا ،

اے اسکوائر اے بی اسکوائر,,,, وہ ہکلاتی بولی۔

ساحر ایک اور جھٹکا دیتے اُسے اپنے مزید قریب کیا تھا ، دونوں کے چہرے ایک دوسرے کے بہت قریب تھے ،

اے اسکوائر پلس ٹو اے بی پلس بی اسکوائر,,, وہ اُسکے نچلے ہونٹ پر ہاتھ کا انگوٹھا مسلتا سخت مگر گھمبیر آواز.میں بولا ہونٹ پر حرم کے دانتوں کے نشان دیکھ اُسکی توریاں چڑھی تھی ،

حرم کے وجود میں اسکی حرکت سے سنسنی دوڑ گئی

اے اسکوائر پلس ٹو اے بی پلس بی اسکوائر,,,, وہ اُسکی سہارے با مشکل کھڑی سانس روکتے بولی ، ہمم گڈ,,, سانس لو ۔۔۔ اُسے سانس روکے دیکھ اُس نے نرمی سے کہا ، پر حرم نے کوئی جواب نہ دیا ،

سنا نہیں میں نے کہا سانس لو۔۔۔۔ ہاتھوں میں تھوڈی پکڑتے اُسکا چہرا اوپر کرکے اپنے چہرے کے قریب کرتا سخت لہجے میں بولا ۔

حرم نے فوراً ایک لمبا سانس لیا تھا ، اور اُسکی چھوڑی سانسیں ساحر نے خود میں اُتاری تھی ۔۔۔

مزید اپنے جذباتوں پر لگام ڈالتا وہ نرمی سے اُسے چھوڑتا پیچھے ہٹا ، اور فریش ہونے کے لئے واشروم میں بند ہوگیا ۔۔۔

حرم کے چہرے پر ایک شرمگیں سی مسکراہٹ رکسا ہوئی تھی ،ساتھ جان بخشی پہ وہ اب گہرا سانس بحال کر گئی تھی,,,,


°°°°°°

وہ ایگزیمینیشن ہال کے گیٹ پر دونوں کو چھوڑتا گاڑی ریورس کرتا جیولر کی طرف بڑھا تھا ،

اُس نے کال پر ہی اُنہیں اپنا آرڈر تیار کرنے کے لئے دے دیا تھا ، اور یہ کام اُس نے حرم سے چھپ کر کیا تھا آج حرم کا آخری پیپر تھا اور وہ اب مکمل طور پر اپنے اور ساحر کے رشتے کو سمجھنے بھی لگ گئی تھی اس لئے آج ساحر اُس کے ساتھ نئی شروعات کرنا چاہتا تھا پرانے ہر زخم بھلا کر ، جیولر سے حرم کے لئے گفٹ لیتے اُس نے دوبارہ حرم اور درخنے کے کالج کی راہ لی تھی ،

راستے میں ٹریفک ہونے کی وجہ سے اُسے لگا تھا کہ وہ وقت پر نہیں پہنچ پائے گا پر جب وہ کالج پہنچا تھا پیپر تاہم جاری تھا ،

وہ شکر کا سانس لیتے گاڑی سائڈ پر پارک کرتا ، سیٹ کی پُشت سے سر ٹکاتے آنکھیں موند گیا ،

اُسے اس پوزیشن میں بیٹھے ابھی کچھ ہی پل گزرے تھے کہ اچانک اُسکے دماغ میں جھماکا ہوا ، آنکھیں کھولتے اُس نے موبائل تھامتے ایک نمبر ڈائل کرتے موبائل کان سے لگایا ، تیسری ہی بیل پر اُسکی کال اُٹھا لی گئ تھی ،

وائی میں قربان ساحر لالا ، مجھ جیسی نہ چیز کو کیسے یاد فرمایا آپ نے ، مقابل کی چہکتی ہوئی آواز فون کے اسپیکر سے نکلتی اُسکے کانوں سے ٹکرائی تھی ،


ایک کام تھا تُم سے حارث ، بلکہ کچھ مانگنا تھا تُم سے ، ساحر نے دو انگلیوں سے ماتھا مسلتے بات کی تمہید باندھی ، اُسے خدشہ تھا کہ وہ دینے سے انکار کر دے گا کیوں کہ جب وہ ساحر سے مدد مانگنے آیا تھا تب ساحر نے اُسے نہ صرف انکار کیا تھا بلکہ اچھی خاصی جھاڑ بھی پلائی تھی ، پر ساحر کیا کرتا اُسکی بات بھی اتنی عجیب تھی کہ اگر وہ اُسکے مامو کا بیٹا اور ماں کا لاڈلا بھتیجا نہ ہوتا تو ساحر اُسکی اس بات پر اُسکی اچھی خاصی دھلائی کرنے کے بعد پاگل خانے میں بھرتی بھی کروا آتا ،


ہوا کچھ یوں تھا کہ کچھ سال پہلے جب ساحر نے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اپنے پروفیشن کا آغاز کیا اُس نے ابھی تین چار سرجریاں ہی کی تھی جو کامیاب ٹھہری تھی ،

ایک دن وہ ہسپتال میں اپنے کیبن میں بیٹھا مریض کی فائل ہی اسٹڈی کر رہا تھا کہ انٹر کوم بجا اُس نے اٹھاتے کان سے لگایا تو ،


ڈاکٹر ساحر شہروز خان ایک نو جوان آدمی آئے ہیں اور اپنا گردہ بیچنا چاہتے ہیں ،

ریسیپشن لیڈی کی آواز پر ساحر نے نہ سمجھتے تیوریاں چڑھائی تھی ، تو ؟؟؟؟؟ اُس نے فائل بند کرتے رسیور ایک کان سے دوسرے کان پر منتقل کرتے پوچھا ۔۔


ڈاکٹر اُنکا کہنا ہے کہ وہ آپ سے ہی کروائیں گے یہ سر جری اور وہ کہہ رہے کہ مجھے پیسوں کی سخت ضرورت ہے مجھے آج ہی اپنا گردہ بیچنا ہے ، لڑکی نے پھر مقابل کھڑے شخص کی کہی بات ساحر کو کہی ۔

نام کیا ہے....؟ اُس نے پوری بات سنتے نام پوچھا ،


حارث زمان خان ,,, نام بتایا ہے اُنہوں نے ،

ساحر کو لگا تھا کہ اُسے سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہے ،

اچھا میرے کیبن میں بھیجیں ، ساحر نے خود کو سنبھالتے کہنے کے بعد رسیور رکھ دیا تھا۔

اُسکا دماغ اس بات کا یقین کرنے سے انکاری تھا کہ جس حارث کا وہ سوچ رہا ہے وہ نہیں ہو سکتا بھلا اُسے کیا ضرورت پیسوں کی اچھا بھلا پشاور میں اُسکے باپ کا کاروبار چل رہا ہے بلکہ چل کیا رہا کامیابیوں کی منزلوں پر تھا ،


اُسے کیا ضرورت ہو سکتی پیسوں کی ؟؟؟ وہ ابھی اپنی ہی سوچ میں مستغرق تھا کہ روم کا دروازہ کھول حارث مسکراتا ہوا اندر داخل ہوا ، ساحر اُسے ایسے گھور رہا تھا جیسے ابھی دو تین جڑ دے گا ،

وہ بھی ڈھیٹ بن کر ساحر کی گھوریوں کو اگنور کرتا اُسکے سامنے پڑی کُرسی پر بیٹھ گیا،

کیوں بیچنا ہے تُم نے اپنا گردہ؟؟؟ اُسکے بیٹھتے ہی ساحر نے سپاٹ چہرے سے پوچھا

مجھے پیسوں کی ضرورت ہے,,, فوراً ہی جواب حاضر ہوا

کیا کرنا ہے پیسوں کا ؟ اُس نے اگلا سوال کیا

کچھ لینا ہے ، پھر جواب آیا

کیا لینا ہے اور مامو کو بتایا تُم نے ؟

جی مجھے آئی فون لینا ہے ، داجی سے کہا تھا اُنہوں نے کہا اپنا گردہ بیچو اور لے لو ، اب میں اپنے باپ کی بات سے انکار تو نہیں کر سکتا تھا اس لئے آگیا گردہ بیچنے ، حارث نے جس قدر سیریس انداز میں کہا تھا ساحر کو اُس قدر ہی غصہ آیا تھا ،

ساحر نے اُسے دیکھ اثبات میں سر ہلاتے موبائل اُٹھا کر اپنے ماموں کا نمبر ڈائل کیا تھا ، بعد سلام اُس نے سامنے بیٹھے اُنکے لاڈلے سپوت کے سارے کارنامے میں بھی اُنکے گوش گذار لئے تھے

ان سب باتوں کے دوران ہی اس پر یہ انکشاف بھی ہوا تھا کہ پچھلا فون بھی اُس نے گھر کی تین بھینسیں بیچ کر لیا تھا ، ساحر نے اُسے دیکھتے افسوس سے سر نفی میں ہلایا تھا ۔


اس سے پہلے کہ میں تُجھے پاگل خانے چھوڑ آؤں دفعہ ہو جا یہاں سے مامو بلا رہے ہیں تُجھے وہ تُجھے پیسے دینے کے لئے تیار ہیں آئی فون کے لئے ،

ساحر نے خود پر ضبط کرتے عام سے انداز میں کہا ورنہ دل تو اسکا شدت سے کر رہا تھا کہ.مقابل بیٹھے اپنے کذن کو گّو پہنچا دے


ساحر کی بات پر مقابل بیٹھا حارث مسکرایا تھا ، شکریہ ساحر لالا ، میں کونسا اصل میں گردہ بیچنے آیا تھا مجھے پتہ تھا آپ میرے داجی کو فون ضرور کروگے اور وہ ڈر کر دے بھی دیں گے پیسے مجھے ، ہائے بھلا ہو ثمر کا جو اتنا اعلیٰ مشورہ دیا اُس نے ، حارث روانی میں بولتا ثمر کا راز بھی فاش کر گیا تھا ، وہ ایسا ہی تھا مست مولا

ساحر کو اللہ حافظ کہتا وہ ہسپتال سے سیدھا پشاور اپنے گھر پہنچا تھا جہاں زمان خان ڈنڈے سوٹے لئے اُسی کے منتظر تھے ، اچھی خاصی پھینٹی کے بعد وہ ساحر کی مدد سے شہر کے مشہور وکالت کے کالج میں اُسکا داخلہ کروا آئے تھے ،

اب حارث نے بھی ٹھان لی تھی کہ وہ آئی فون اب اپنے کمائے گئے پیسوں سے لے کر دکھائے گا ،عزت نفس بھی کوئی چیز ہے بھئی

لا کی پڑھائی کمپلیٹ ہونے کے بعد آج اُسکا پہلا کیس تھا جو وہ جیتا تھا ، وہ ابھی خوشی خوشی کورٹ سے نکلتا اپنی گاڑی میں بیٹھا ہی تھا کہ اُسکا موبائل بج اُٹھا اُس نے اسکرین سامنے کی تو اُسکے نئے آئی فون سکرین پر ساحر کا نام جگمگا رہا تھا ،

اب بولیں بھی ساحر لالا کیا مانگنا ہے بلا تکلف ہو کر مانگے ، دوسری طرف ساحر کو خاموش دیکھ اُس نے خوش اخلاقی سے کہا ،

مجھے تمہاری وہ طوطی مانگنی ہے ، ایک لمبی سانس لے کر تمام سوچوں کو جھٹکتا بولا


کون حُسن ارا ؟؟؟ حارث نے سیریس ہوتے نہ سمجھی سے پوچھا

ہاں اشرفی کے لئے چاہیے تمھاری بھابھی کے طوطے کے لئے,,, ساحر نے کچھ جھجکتے ہوئے کہا کیا دن آگیا تھا اب وہ طوطے طوطیوں کو ملوانے کا کام کریگا,,,


اوہ تو آپ رشتا مانگ رہے ہیں میری حُسن ارا کا ، دیکھیں لالا لڑکیاں تو ہوتی ہی پرایا دھن ہیں ایک نہ ایک دن تو جانا ہوتا ہے اُنہوں نے ، اور آپ سے اچھا کون ہوگا ، حارث کی بات پر ساحر نے مٹھیاں بھینچے خود پر ضبط کیا تھا ،

کب لینے آئیں گے آپ ؟ حارث نے اگلا سوال داغا ،

آج ۔۔۔ ساحر ایک لفظی جواب دیا ،

یہ تو بہت کم وقت ہے لالا ہمیں تیاری کا موقع تو دو کچھ نہ کچھ دے کر ہی رخصت کرونگا اپنی نازو سے پلی حُسن ارا کو ، حارث نے اپنی ہنسی دباتے ہوئے کہا ۔

نہیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ، دو کپڑوں میں رخصت کر لو اپنی حُسن جارا کو تُم ، میں جب کال کروں ملازم کے ہاتھ بھیج دینا حویلی اُسے ، ساحر نے اُسی کے انداز میں جواب دیتے بنا مقابل کی سنے فون کاٹ دیا ، اُسکے فون رکھتے ہی حارث نے ایک جاندار قہقہ لگایا تھا ،

ساحر موبائل ڈیش بورڈ پر رکھتا سیدھا ہی ہوا تھا کہ وہ دونوں بھی گاڑی کا دروازہ کھول اندر بیٹھی ،

کیسا ہوا ہے پیپر ؟ اُس نے دونوں سے سوال کیا ،

بہت اچھا بس اب نیند پوری کرینگے ہم دونوں جلدی سے گھر لے جائیں دونوں ہی پچھلی سیٹ پر بیٹھتی سیٹ سے پُشت ٹکا کر آنکھیں مندتی بولی ،ساحر نے بھی خاموشی سے گاڑی سٹارٹ کرتے گھر کی راہ لی تھی,,,


°°°°°°

ماضی...


ہر چیز سنایہ وکٹوریہ کے پلان کے مطابق چل رہی تھی جبکہ عنایہ کے ایگزامز شروع ہوچکے تھے تو فلوقت وہ وہاں مصروف ہوگئی تھی,,,,,,

شیری بھی ان دنوں سنایہ کے بلاوے پر امریکہ گیا ہوا تھا وہاں سنایہ وکٹوریہ کو اپنے بزنس میں کچھ لوس ہوا تھا جسکی بدولت اسے فوری طور امریکہ جانا پڑا وہ ویسے بھی یہاں محض اپنے مقصد کے تحت تھا اس دن کے بعد شیری سے اسکی بس سرسری سی ملاقات ہوئی تھی جس میں اسنے عنایہ کو خبردار رہنے کے ساتھ ساتھ ثمر کا بھروسہ پوری طرح جیتنے کی تاکید کی تھی,,,,


¤¤¤¤¤¤

آخری پیپر دیتے وہ اپنی سہیلی کیساتھ کلاس سے نکلی یہ وہ سہیلی تھی جسے عنایہ کی خوبصورتی اور دولت پسند تھی جسکی وجہ سے وہ اسکی ساری کڑوی کسیلی باتیں بھی برداشت کر جاتی تھی عنایہ کا جب دل کرتا تھا وہ اس سے بات کرتی تھی ابھی بھی اسے اتنا فری ہونے کی وجہ پیپرز تھے جو اسنے اپنی غیر ضروری ایکٹیویٹیز کے باعث بلکل یاد نہیں کیئے تھے مگر عریبہ پڑھنے میں کافی اچھی تھی زہین تو عنایہ خود بھی تھی مگر وہ اب غلط کاموں میں ملوث ہوچکی تھی اب تعلیم سے اسکا کوئی واسطہ نہیں رہا تھا,,,,


وہ خود کو آزاد سمجھنے لگی تھی مگر بھول گئی تھی یہ آزادی ایک دن ختم ہوجانی ہے تب اسے احساس ہوگا وہ زندگی کا کتنا قیمتی حصہ اپنی فضول ہی انا کے نظر کر رہی ہے,,,,


ثمر بھی کلاس سے باہر نکلا اور کچھ دیر اپنے دوستوں سے گپ شپ کرتا عنایہ کی طرف آگیا فرہاد نے اسے جان بوجھ کے باتوں میں لگایا ہوا تھا مگر عنایہ کو دیکھ جیسے ثمر کے پیروں میں پیّے لگ جاتے تھے ناجانے وہ کیوں عنایہ کی منافقت نہیں دیکھ پارہا تھا,,,


کیسی ہیں آپ بیگم,,,,وہ پاس آتے شریر انداز میں بولا,,,,عنایہ نے تیزی سے گردن آس پاس گھمائی,,,

پاگل ہو گئے ہو آہستہ بولو,, وہ گھبراتے ہوئےبولی,,, ارے کیوں آہستہ بولوں اب تو میں سب کو چیخ چیخ کر ہمارے بارے میں بتا سکتا ہوں,,,

وہ دلکش انداز میں بولا,,,,.

سب کو چھوڑو پہلے اپنے بھائی کو بتا کردکھاؤ تو مانو,,,,وہ بظاہر تو چیلینجنگ انداز میں بولی تھی مگر وہ اپنےطور سیدھا اسکی دکھتی رگ پہ وار کر گئی تھی,,,,

ابھی نہیں مگر جلد بتائینگے,,,,

کافی پہ چلیں,,,,.مسکرا کے بولتا وہ آخر میں پیشکش کرنے لگا,,,,,

عنایہ نے پہلے سوچا اور پھر اثبات میں سر ہلا دیا,,,,


ہے گائز ادھر آؤ یار کیا لو برڈز کی طرح اکیلے کھسر پھسر کر رہے ہو,,,

ابھی وہ اپنی سوچ پہ عمل کرتے اس سے پہلے ہی ثمر کے کلاس فیلونے آواز لگائی,,,جہاں سارےاسٹوڈینٹس جو انکے ہی گروپ سے تھے جھمگٹا لگائے کھڑے تھے,,,,

ثمر نے ایک نظر عنایہ کو اور پھر سامنے کھڑے اپنے کلاس فیلو کو دیکھا,,,,جو مسلسل اسے پکار رہا تھا

آتا ہوں دو منٹ,,,وہ معذرت بھرے لہجے میں کہتا آگے بڑھ گیا,,,

کیا ہوا ہے ,,,,اسنے آتے ہی عجلت میں پوچھا,,,

ہلکا ہوجا بھائی,,,,کل ایک گرانڈ پارٹی ارینج کر رہے ہیں اور تو نے آنا ہے فرنڈز سب اپنی گرلفرنڈز یا جسٹ فرینڈ کو بھی لاسکتے ہیں ہوٹل رینبو میں ساری ارینجمنٹ میں اور ریحان دیکھ لینگے بس تم لوگ مقررہ وقت پہ آجانا,,,

ثمر کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے عاسم نے بلند آواز میں کہا سارے بوائز کی اوٹنگ شروع ہوئی تھی,,,,ثمر نے پہلے انکار کرنے کا سوچا ,,,,

نہیں یہی سہی موقع ہے عنایہ کو سب سے انٹروڈیوس کروانے کا ویسے بھی وہ بیوی ہیں میری,,, اسنے دل میں فیصلہ کرتے ہامی بھرلی,,,,

تھوڑی دیر دوستوں کے ساتھ گپ شپ کے بعد وہ پھر عنایہ کی طرف چلا آیا مگر اب عنایہ اس جگہ موجود نہ تھی شاید وہ جاچکی تھی شاید ناراض ہوکر ثمر کے دماغ میں طرح طرح کی فکر لاحق ہونے لگی تھی,,,,

وہ اداسی سے واپس پلٹتا دوستوں کو بائے کہتا ہوسٹل روم کی طرف بڑھ گیا,,,,اسنے سوچا وہ رات کو کال پہ عنایہ کو منا لیگا ساتھ اسے پارٹی میں آنے کیلئے بھی راضی کر لیگا,,,


***********

یہ کہاں جارہی ہو تم اس بیحدہ لباس میں ,,,,,

راحیلہ نے اسے سرخ سلک ساڑی میں دیکھ سخت لہجے میں پوچھا جہاں آستینیں نا ہونے کے برابر تھی جسکی بدولت اسکے دو دھیاں بازوں صاف نمایا تھے اس پہ تضاد یہ سرخ ساڑی جو اسکے وجود سےچپکی ہوئی تھی اسکے وجود کی ساری رعنائیاں اس لباس میں صاف واضح تھی کہ کوئی ایک نظر دیکھے تو بہک جائے ہونٹوں پہ بھی اسنے مہرون سرخ لپسٹک لگائی تھی آنکھوں کو کاجل کی مدد سے خوب سوارا تھا,,,اسکی تیاری پہ راحیلہ کو جیسے صدمہ پہنچا تھا,,,,


سکندر صاحب بزنس میٹنگ کے سلسلے میں کچھ دنوں کیلئے گھر سے باہر گئے ہوئے تھے حرم نور اپنے کمرے میں تھی یہ کوئی سات بجے کا وقت تھا جب راحیلہ اسکے کمرے میں غیر ارادی طور آگئیں تھی مگر اسکا سجا سنورا روپ دیکھ وہ غش کھا کے گرنے کے قریب تھی,,,,

کلاس وائنڈ اپ ہوئی ہے بس اسی خوشی میں دوستوں نے پارٹی ارینج کی ہےمما وہ سرخ گالوں کو مزید بلش اون کی مدد سے سرخ کرتے عام سے انداز میں بولی وہ اپنی ماں کا سخت لہجہ اور نظریں دونوں ہی نظرانداز کر گئی تھی,,,,


اوہہہ تو اب اتنی بڑی ہوگئی ہو کہ پوچھنے کی زحمت بھی نہ سمجھی تم نے میں پوچھتی ہوں کس کی اجازت سے تم گھر سے قدم باہر نکال رہی ہو,,,,

اسکا لاپرواہ جواب راحیلہ بیگم کو آگ لگا گیا تھا وہ اسکابازوں دبوچتے غصے سے چلائی,,,,


میں نے بابا سے پوچھا ہےمما چھوڑیں میرا ہاتھ ,,,,وہ اپنی ماں کا ہاتھ جھٹکتے دوبدو بولی,,,,

باپ کو یہ بھی بتا دیتی اپنے کے کونسے لباس میں گھر سے باہر جارہی ہو,,,,

وہ اسکے لباس پہ چوٹ کرتے بولی عنایہ کی بدتمیزیاں اب حد سےبڑھ رہی تھی انہیں عنایہ سے زیادہ سکندر پہ غصہ تھا جو بے جاں لاڈ میں اسے بگاڑ چکے تھے اس قدر کے آج وہ اپنی ماں کا سامنہ کر رہی تھی,,,,


مماپلیز اس وقت اپنا میلو ڈرامہ بند کریں آپ کیا چاہتی ہیں چھوٹے بچوں کی طرح لباس بھی آپ منتخب کرینگی میرا یہ میری زندگی ہےمجھے میری مرضی سے جینے دیں آپ وہ پرس کندھے پہ ڈالتی راحیلہ سے ڈبل آواز میں بولی,,,,,

میں اس لباس میں تو تمہیں کہیں نہیں جانے دے سکتی,,,,,وہ جانے لگی تھی جب راحیلہ اسکے راستے میں حائل ہوتے مظبوط لہجےمیں بولیں,,,

اگر میں نہیں گئی تو قسم سے مما آپ مرا منہ دیکھینگی میرا,,,,وہ پوری قوت سے چلاتی اپنے لفظوں سے راحیلہ کا دل چھنی کرچکی تھی,,,

انکے قدم زرا سے لڑکھڑائے وہ غیر یقینی سے اسے دیکھنےلگی آنسوں بے اختیار آنکھوں سےبہنے لگے مگر عنایہ اپنا پتھر دل لیتی انکے جزبات احساسات نظر انداز کرتے ہیل کی ٹک ٹک کیساتھ وہاں سے نکلتی چلی گئی,,,

پیچھے راحیلہ اپنا سر پکڑتی وہی ڈھے گئیں

******

گھر سے باہر نکلتے ثمر اسے اپنی کار سے ٹیک لگائے کھڑانظر آیا ,,,,,

وہ چلتی ہوئی ساڑی کا پلو سمبھالتی مسکراتی ہوئی اسکے پاس آئی,,,,پہلے تو وہ اسکے دلکش وجودمیں کھو سا گیا تھا مگر اگلے ہی لمحے ماتھے پہ تیوریاں چڑھی,,,,

اس لباس میں پارٹی میں جاؤگی؟؟

اسنے گاڑی سے ٹیک ہٹاتے سنجیدگی سے پوچھا,,,,

ہاں کیوں میں اچھی نہیں لگ رہی تمہیں,,,,وہ بھی تیزی سے بولی اسے لگا شاید وہ زیادہ تیار ہوگئی ہے,,,,


اچھی تو آپ ماشااللہ سے بہت لگ رہی ہیں مگر اس لباس میں آپکو دیکھنے کا حق صرف مجھے یعنی آپکے شوہر کو ہے بسسس,,,,وہ قریب آتے دوٹوک انداز میں بولا,,,,


ناجانے کیوں ثمر کا یوں حق جتانا عنایہ کو اچھا لگا وہ مسکراتے نگاہ جکھا گئی,,,

اب آپ اتنا پیارا تیار ہوئی ہیں تو آپکی تیاری میں ضائع تو جانے نہیں دے سکتا اور نہ ہی اس طرح سب کے سامنے آپکے حسن کی نمائش ہونے دے سکتا ہوں,,,,وہ اسکے بال کان کے پیچھے کرتا محبت بھرے لہجے میں بولا عنایہ نے الجھی نظریں اسکی جانب اٹھائی,,,,


آئیئے ,,,,اسکی کمر میں ہاتھ ڈالتے وہ گاڑی کی دوسری طرف آیا اور مسکرا کر اسے بٹھاتا دروازہ بند کرتے خود ڈرائیونگ سیٹ پہ براجمان ہوا,,,,

اور موبائل نکالتے نمبر ڈائل کیا,,,,ہیلو عاسم سوری یار کچھ ایمرجنسی کی وجہ سے مجھے حویلی جانا پڑگیا پارٹی میں نہیں آسکونگا,,,,وہ عنایہ کو دیکھ آنکھ ونک کرتے جھوٹ بولنے لگا ، دوسری جانب سے کچھ کہا گیا جسے سنتے اسنے کال کاٹ دیا اور مسکراتے گاڑی اسٹارٹ کی,,,,


کیا کر رہی ہو؟؟کمرے میں ناک کر کے داخل ہوتے درخنے نے سوال کیا ,,,,,آج کالج سے آنے کے بعد دونوں اتنا آرام فرما چکی تھی کہ اب نیند انکی آنکھوں سے کوسوں دور تھی ساحر نے بھی آج رات ہوسپیٹل میں قیام کرنا تھا بس اسی وجہ سے درخنے کچھ وقت حرم کیساتھ گزارنے کی غرض سے اسی کے کمرے میں آگئی اور خصوصی ساحر نے درخنے کو کال کر کے حرم کیساتھ رہنے کیلئے کہا تھا کیونکہ اسکی بیوی ڈر جاتی تھی,,,, آج وہ کچھ ایمرجنسی کیس میں پھنس گیا تھا جسکی وجہ سے شاید اسکی واپسی صبح ہی ہونی تھی,,,,


کچھ نہیں بس ابھی ہی بیٹھی بور ہورہی تھی تم سوئی نہیں اب تک,,,, اسنے سائیڈ ہوتے اسے بیڈ پہ جگہ دی ساتھ جواب دیتے سوال بھی داغا,,,,

کہاں نیند آنی ہے پورا دن تو ہم گدھے گھوڑے بیچ کے سوئے تھے,,,, درخنے نے اپنے ہی سونے پہ چوٹ کی,,,,. ہاہاہاہا.... ہاں یہ تو تم نے ٹھیک کہا,,,,

حرم کو جب سے پتہ چلا تھا ساحر آج رات اسپتال میں رکنے والا ہے وہ جب سے ہی یہی سوچ رہی تھی کہ کسی طرح اپنی بہن عنایہ سے مل لے دن بھر تو اسنے سو کر گزارا تھا اسکی آنکھ ملازمہ کے دروازے بجانے سے کھلی تھی کھانا لے کر آئی تھی,,,,نو بجے کا وقت تھا جب وہ کھانا کھاتے باہر نکلنے لگی تھی تبہی ناجانے کیسے اشرفی اسکے کندھے پہ چڑھتا اپنی باتوں سے کان کھا گیا تھا,,,,اور اس سب میں وہ عنایہ سے ملنے کا ارادہ بھی ترک کر چکی تھی یا کہنا بہتر ہوگا وہ بھول چکی تھی,,,,ایک بج چکا تھا اور وہ بور سی اپنے کمرے میں بیٹھی تھی جب درخنے کا آنا اسے کسی فرشتے سے کم نہ لگا ,,,,


بہت بوریت ہورہی ہے حرم کیا کریں باہر بھی نہیں نکل سکتے حویلی میں بہت سناٹا ہے,,,,

درخنے نے بیزار سی شکل بناتے بولا,,,,

ہممم بلکل اگر باہر نکلے تو چڑیل چمٹ جائیگی ,,,,اسنے اپنی سوچ کے مطابق پرسوچ انداز میں کہا,,,,

چڑیل نہیں جن پگلی,,,,درخنے نے اسکی عقل پہ ماتم کرتے تصحیح کی,,,,

جو بھی ....وہ کچھ بیزاریت سے کہتی تکیہ دبوچے بیڈ کی پشت سے ٹیک لگاگئی,,,,

ایک کام کرتے ہیں ڈراما دیکھتے ہیں ,,,,درخنے نے کچھ سوچتے آئڈیہ دیا,,,,

کونسا حرم نے پوچھا,,,


میرے پاس ایک مووی ہے میری کلاس فیلو نے دی تھی رکو میں یو ایس بی لیکر آتی ہوں,,,چٹکی بجا کر پرجوش انداز میں کہا,,,,اور اٹھ کر اپنے کمرے سے یو ایس بی لینے چلی گئی

ہاں جی یہ ٹھیک ہے حرم بھی اسکی ہاں میں ہاں ملاتی سائیڈ ٹیبل پہ رکھا ساحر کا لیپٹاپ اٹھا لائی,,,اتنی دیر میں درخنے بھی یو ایس بھی لے آئی تھی

لیپٹاپ اون کرتے اسنے یو ایس بی لگائی اور دونوں ہی چہرے پہ پیاری سی مسکان سجائے چکھوٹا مار کے بیٹھ گئیں,,,,

یہ لو ,,,,چپس کا پیکٹ آگے کرتے درخنے نے کہا اور پرسکون انداز میں مووی کے شروع ہونے کا انتظار کرنے لگی,,,,

یہ کوئی فنی مووی تھی جسکے پہلے سین پہ ہی دونوں ہاتھ پہ ہاتھ مارتی کھلکھلا کر ہنسی جیسے جیسے مووی بڑھ رہی تھی آگے ویسے ہی انکے قہقے بلند ہورہے تھے,,,,,.پتہ نہیں کیا چکر تھا جو ہیرو ہیروؤن کی شادی ہی نہیں ہو کر دے رہی تھی ,,,,آخر کار ہیرو ہروؤن ملے اور بات شادی تک پہنچی ,,,,


اب ان دونوں کے چہرے بھی دیکھنے والے تھے جب دولہا شادی کی پہلی رات کمرے میں داخل ہوتا دولہن کے پاس بیٹھا,,,,حرم سنجیدگی سے اس سین کو دیکھ رہی تھی جبکہ درخنے ہونقوں کی طرح حرم کا چہرا دیکھ رہی تھی,,,,

مووی میں دولہے نے بیٹھتے ہی پازیب دولہن کے پیر میں پہنائی,,,,یہ تمہاری منہ دکھائی گھونگھٹ اٹھاتے ہی اسنے دلکشی سے کہا اور اپنی مسکراتی دولہن پہ جکھنے لگا,,,,حرم اب بھی پوری دلجمعی سے سین دیکھ رہی تھی جبکہ درخنے اسکے برعکس جھجھری لے اٹھی اس سے پہلے کے ہیرو پوری طرح اپنی کاروائی کرتا درخنے نے ہاتھ بڑہاتے شتاب کاری سے لیپٹوپ کی اسکرین گرائی تھی,,,,اسکے اس عمل سے حرم کا اتکاز ٹوٹا,,,,

یہ کیا کیا اسنے رخ اسکی جانب کرتے پوچھا لہجے میں خفگی شامل ہوئی وہ جو بدحواس سی بیٹھی تھی اسے سمجھ نہ آیا اس پاگل لڑکی کو کیا جواب دے,,,

وہ مجھ سے غلطی سے ہوگیا,,,,,

اسنے گڑبڑاتے بہانہ تراشا,,,

اچھا ........حرم نے اچھا کو لمبا کھینچا اور گہری سوچ میں مستغرق ہوئی,,,

اسکے مزید کوئی سوال نہ کرنے پر وہ گہری سانس بھر کر رہ گئی,,,,

کیا ہوا کس سوچ میں گم ہوگئی ہو,,,,

کافی دیر تک بھی جب حرم اپنی بیک پوزیشن میں بیٹھی رہی تو درخنے نے بغور اسے دیکھتے سوال کیا,,,,

میں سوچ رہی ہوں درخنے ساحر جی نے تومجھے ابھی تک منہ دکھائی دی ہی نہیں جیسے ابھی اس فلم میں ہیرو نے دی تھی,,,,

واٹ.....درخنے نے اسکے سوال پہ متحیر انداز میں پوچھا,,

حرم نے تقریباً رونی صورت بناتے اسکی جانب دیکھا تھا جیسے کوئی ظلم ساحر نے اس پہ کیا ہو,,,,

لیکن یہ تمہارا حق ہے حرم بھائی نے تمہارا حق مارا ہے,,,اسنے ایسے انداز میں کہا جیسے واقعی ساحر نے کوئی عظیم گناہ کردیا ہو جسکا ازالا اس پہ لازم ہے,,,,,حرم کا اسکی بات پہ نچلا ہونٹ ہی نکل آیا تھا چہرے پہ سرخی چھائی بس وہ رونے کے قریب تھی,,,,درخنے نے اسکی رونی صورت دیکھ اپنی ہنسی دبائی,,,,

ایک آئیڈیہ ہے حرم بہادر بنو بہادر,,,,,اسے رج کے حرم کی معصومت پہ پیار آیا تھا اور کچھ ندامت ہوئی کہ کیسے وہ اتنی معصوم لڑکی سے اس قدر نفرت کر بیٹھی تھی وہ تو بس محبتوں کی حقدار تھی کھلتا گلاب جہاں قدم رکھے وہاں اپنی خوشبوں سے آنگن مہکا دے,,,,معصوم کلی جسے ابھی اور کھلنا تھا ,,,,,وہ سوچ کے استہزائیہ مسکرائی,,,,


حرم نے فوری اسکی بات پہ اپنے ہونٹ اندر کرتے اسے دیکھا,,,,

تم اب بھی اپنی منہ دیکھائی وصول کر سکتی ہو ,,,,آلتی پالتی مارتے وہ پوری طرح اسکی طرف رخ کرتے بولی,,,,,اور حرم سماعتیں بچھائے اسکے لفظوں کی منتظر تھی,,,

کیا,,,حرم نے آبرو اچکاتے پوچھا,,,,


دیکھو بہت آسان ہے جیسے فلم میں ہیروؤن ہیرو کے کمرے میں سج دھج کے بیٹھی تھی ویسے ہی تم بھی تیار ہو بھائی کیلئے اور اگر تب بھی وہ منہ دکھائی خود سے نہ دیں تو گھونگٹ مت اٹھانے دینا تب تک نہیں جب تک وہ تمہیں تمہارا حق یعنی منہ دکھائی نہ دے دیں,,,

درخنے نے تفصیلی اپنا منصوبہ اسکے غوش گزارا,,,,,

حرم سوچ میں پڑ گئی,,,,مگر درخنے میرے پاس تو اس ہیرؤن جیسا لباس نہیں ہے میں کیسے تیار ہوں اب,,,,وہ پھر معصومیت کے ریکارڈ توڑتی اپنی پریشانی بتانے لگی,,,,

اسکی فکر تم مت کرو میں ابھی تمہیں بلکل اس ہیروؤن جیسا بنادونگی پھر دیکھنا بھائی منہ دکھائی کیا اپنی جان بھی دیئے بغیر نہیں رہ پائنگے ,,,,وہ پرجوش انداز میں کہتی گھڑی میں وقت دیکھتی کمرے سے نکل گئی,,,,

اور پیچھے حرم سراسیمگی سے اسکی حرکت دیکھنے لگی ,,,کچھ ہی دیر میں وہ اپنی ماں کا لہنگا اور بھاری بھرگم جیولری تھامے کمرے میں داخل ہوئی,,,,

اسکے ہاتھ میں یہ سب سامان دیکھ جیسے حرم کی تو بھانچے ہی کھل اٹھی تھی,,,,


درخنے نے ایک مسکراہٹ پاس کرتے سامان بیڈ پہ رکھا اور لہنگا چولی اسے پکڑاتے باتھروم کی جانب دکھیلا,,

کچھ توقف کے بعد وہ لہنگا بامشکل اپنے نازک ہاتھوں میں سمبھالے باہر آئی,,,,لال سرخ جوڑے میں اسکا ہوشربا سراپا اور نکھر رہا تھا آؤٹ فٹ اسکی جسامت پہ فٹ نہیں تھا مگر وہ لگ بہت حسین رہی تھی,,,,

یہ تو بہت بڑا ہے درخنے,,,,

بامشکل لڑکھڑاتے وہ قدم بڑھاتے بولی جب درخنے نے آگے بڑھتے اسے سہارا دیا اور شیشے کے سامنے چیئر پہ بٹھایا,,

کوئی بات نہیں تمہیں کونسا اسے پہن کر ڈانس کرنا ہے بس یہاں بیٹھنا ہے اور بھائی کے دل پہ بجلیاں گرانی ہے,,,,پہلا جملہ اسنے بیڈ کی جانب اشارہ کرتے بولا اور دوسرا شرارت سے دل میں بولا,,,

مگر وہ پھر بھی جھینپ گئی,,,

کچھ ہی دیر میں درخنے مہارت سے اسکے خوبصورت نقوش کو اپنے ہنر سے میک اپ کے ذریعے سوارتی سر پہ دوپٹا اوڑھانے لگی,,,

سرخ جوڑا سرخ لپسٹ سرخ عارض آج تو واقعی وہ ساحر کیلئے سراپا امتحان بننے والی تھی,,,,درخنے نے تو بامشکل ہی اپنی ہنسی پہ دربان بٹھائے تھے ورنہ بس نہیں تھا وہ ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہوجاتی,,,,


اسے مکمل تیار کرتے اُس نے آخری جائزہ لیا ,,,,,اور اسے سلیقے سے بیڈ پہ بٹھایا اور لہنگے کو بیڈ پہ پھیلاتے اسے تاکید کرتی کمرے سے نکلی,,,,


باہر آتے ہی اسے جھٹکا لگا وہ بد حواس سی سامنے کھڑی عنایہ کو دیکھ رہی تو جو دروازے سے چپک کر کھڑی تھی اور اسکے دروازہ کھولتے ہی بدک کر دور ہوئی,,,,.عنایہ درخنے کو حرم کے کمرے میں لہنگا لے جاتے متجسس ہوئی اور اسی کے ہاتھوں مجبور ہوتی بدستور عادت وہ کمرے کے دروازے پہ کھڑی اندر کی کاروائی سمجھنے کی کوشش میں تھی مگر اسکی جان تو تب جلی جب اسنے حرم کو سجتے سنورتے ساحر کی سیج سجاتے پایا,,,,تن بدن میں تپش کی شدید لہر دوڑ گئی تھی ,,جو اسکے چہرے سے واضح تھی,,,,مگر اس سے زیادہ اسکی اس بیحدہ حرکت پہ درخنے کا رنگ سرخ ہوا پل میں آنکھوں میں شعولے پھوٹنے لگے وہ دانت بھینچے آہستہ سے دروازہ بند کرتے اسے بازوں سے دبوچتی کچھ فاصلے پہ پلر کی اوٹ میں ہوئی,,,,

دیکھو لڑکی اس گھر میں بیشک داجی کی شے پہ رہ رہی ہو مگر اپنی اوقات مت بھولو اپنی یہ نیچ حرکتیں اپنے گھر تک محدود رکھنا حویلی میں اس طرح کی واحیات حرکت پہ تمھیں دکھے دے کر نکالنے سے بھی گریز نہیں کرونگی میں سمجھی ,,,,,وہ اسکا بازو جھٹکتی دبے دبے غصے میں پھنکاری عنایہ کو بھی اسکے لفظوں پہ غصہ عود آیا,,,,وہ کچھ کہتی مگر ساحر کی گاڑی کی آواز سنتی وہ خاموش ہوگئی,,,,درخنے بھی مزید اس پہ اپنا موڈ خراب کرنے کا ارادا ترک کرتی حرم کے کمرے کی جانب بڑھی جبکہ عنایہ نے قدم نامحسوس انداز میں دروازے کی طرف اٹھائے تھے جہاں سے ساحر داخل ہونے والا تھا,,,,

حرم بھائی آگئے ہیں جلدی سے گھونگٹ لے لو,,,,دروازے سے جھاکنتے جیسے منگولوں کے حملے کی خبر دی گئی حرم فوری عمل کرتی گھونگٹ ڈال کے بیٹھ گئی,,,,اور درخنے وہاں سے نکلتی ایک نظر عنایہ کو تراشتی اس پہ لعنت بھیج اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی,,,,


******

وہ گاڑی لاک کرتا اندرونی دروازے کی سمت بڑھا جب دروازے پہ ملازم ہاتھ میں طوطی تھامے کھڑا نظر آیا ,,,,

صاحب یہ حارث بابا دے کر گئے ہیں اس پیاری سی طوطی کو آگے کرتے ملازم نے ساحر کے کچھ پوچھنے سے پہلے کہا,,,,

اچھا اچھا,,,,حارث سے ہوئی بات یاد کرتے اسنے اثبات میں سر ہلایا اور بریفکیس ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل کرتے طوطی کو اپنے ہاتھ پہ بٹھایا اور ملازم کو کچھ تاکید کرتے اندر کی طرف بڑھ گیا,,,,

کیسے ہو ساحر؟؟ ابھی وہ دو قدم ہی بڑھا تھا جب عنایہ کی آواز پہ اسکے قدم ساکت ہوئے ,, جو سامنے ہی اس سے کچھ فاصلے پہ کھڑی بلا کی معصومیت چہرے پہ سجائے سوال گو تھی,,,, غصے سے ساحر کی رگیں پھٹنے کے قریب ہوئی شہد رنگ آنکھیں آگ برسانے لگی اسکا بس نہیں چل رہا تھا وہ یہی دفن کردے اس مکار عورت کو,,,,

آئیندہ میرے راستے میں حائل ہونے کی غلطی مت کرنا عنایہ سکندر ورنہ میں بھول جاؤنگا تم یہاں کس حیثیت سے آئی ہو,,,,

وہ ہلکی آواز میں اس پہ اچھی طرح اسکی حیثیت باور کرواچکا تھا مگر عنایہ نے جیسے اسکے لفظ سنے ہی نہیں,,,,اسنے کہہ کر قدم بڑھایا

کھانا لگادوں,,,,وہ اسکا تیش بھرا اندازنظر انداز کرتی خالصاً بیویوں والے انداز میں فکر مندی سے بولی,,,,

لسن ٹو می ویری کیئر فلی,,,,پہلی بات اپنی منہوس شکل آئیندہ مجھے مت دکھانا اور دوسری اپنی ان اداؤں سے کسی اور کو رجھانا مجھے کھانے کا پوچھنے میرا خیال رکھنے کیلئے میری بیوی موجود ہے تو بہتر ہوگا آئیندہ تم یہ کردار نہیں نبھاؤ گی ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا,,,,وہ اچھی طرح اسے ذلیل کرتے جاچکا تھا جبکہ عنایہ اسکی پشت تکتی استہزئیہ مسکرائی,,,,,

پہلے بھائی اور پھر بہن ,,,وہ سوچ کے مسکرائی اور قدم اپنے کمرے کی طرف بڑھا لیئے,,,,


وہ شدید تیش میں کمرے میںَ داخل ہوا مگر کمرے کو تاریکی میں ڈوبا دیکھ کچھ ٹھٹکا,,,,کمرے کی فضاء میں خوشبوں محسوس کر جیسے اسکے حواس بحال ہوئے اسنے ہاتھ بڑھاتے معاملہ سمجھنے کی غرض سے سویچ بورٹ پہ ہاتھ مارتے بٹن دبایا تو دیکھتے ہی دیکھتے کمرا روشن ہوا,,,,


ساحر نے پلٹتے بے ساختہ ہی بیڈ کی جانب دیکھا جہاں وہ سرخ گھونگھٹ ڈالے بیٹھی تھی,,,,.ساحر کو لگا جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہو اسنے متحیر سے اسے دیکھتے اس لمحے کو خواب سمجھتے آنکھیں میچ کر کھولی مگر منظر ہنوز ویسا ہی تھا,,,,پورے کمرے میں مصنوعی پھول بچھے ہوئے تھے جو اسی کے کمرے کی سجاوٹ سے اکھاڑ اکھاڑ کر بچھائے گئے تھے اس پہ تضاد ان سے اٹھتی خوشبوں جو اسی کے قیمتی پرفیومز کی تھی,,,,وہ کمرے کی سجاوٹ دیکھتے اب انہماک سے بیڈ پہ بیٹھے وجود کو دیکھنے لگا,,,

یہ ہے کون کہیں میں غلط جگہ تو نہیں آگیا,,,بدحواسی کے عالم میں سوچتے اسنے بے ساختہ نظر کمرے پہ دوڑائی جب یقین ہوا کہ ہاں اسی کا کمرا ہے تو وہ کچھ پرسکون ہوا,,,,


میری حرم کہاں ہے,,,,اس وجود کے سر پہ پہنچتے اسنے سنجیدگی اور غصے سے پوچھا,,,,.حرم کے تو پیر پہ لگی سر پہ بجھی مطلب وہ اتنا تیار شیار ہوکر اسکے لیئے بیٹھی تھی اور موصوف پہچاننے سے انکاری تھے واہ,,,,

میں ہی آپکی حرم ہوں,,,وہ دانت کچکچا کے بولی,,


پاگل سمجھا ہے لڑکی سچ سچ بتاؤ کون ہو تم,,,,اور میری حرم کہاں ہے,,,,پہلے تو وہ حیران ہوا حرم کی آواز پہ مگر پھر ایک چور نظر اسکے پیروں پہ ڈالتا بولنے لگا,,,,.


کیا واقعی حرم ہے اگر ہاں تو یہ کونسا دورا پڑا ہے اسے,,,,یہ بات وہ بس دل میں ہی سوچ سکا اسے بیک وقت یقین کرنا مشکل تھا مگر وہ اسکے چھوٹے چھوٹے نازک پیر دیکھ مطمئن ہوگیا تھا بریفکیس سائیڈ میں رکھتے ہاتھ میں پکڑے طوطی پہ ہاتھ پھیرا اسکے مقابل بیٹھا,,,,

سساحر جی میں حرم ہی ہوں مجھے پتہ ہے آپ جان بوجھ کر مجھے ورگلا رہے ہیں مگر اس بار میں بھی آپکی باتوں میں نہیں آؤنگی بلکہ نکالے میری منہ دکھائی ابھی کے ابھی,,,,وہ اٹل لہجے میں بولی ساحر تو ہکا بکا سا اسکا مطالبہ ہی سنتا رہ گیا,,,,


ہونقوں کی طرح اپنی بیوی کی عجیب و غریب فرمائیش سن رہا تھا,,,,

کیا ہوا اب دیں بھی ,,,,اسکے خاموش رہنے پر وہ اکتا کر خفگی سے بولی اور اپنی سرخ سپید ہتھیلی آگے پھیلائی جیسے منہ دکھائی نہیں بھتہ مانگ رہی ہو,,,ساحر ہوش میں آتا کچھ سوچتے ہاتھ میں پکڑی طوطی اسکے ہاتھ پہ رکھ گیا اور مشکل سے ہنسی کے پھوٹتے فوارے قابو کرنے لگا,,,,


حرم نے ہاتھ پہ حرکت محسوس کرتے بدک کر گھونگٹ ہٹایا تو ہاتھ پہ حسن آرا کو دیکھ دنگ رہ گئ وہ تو اسکی سوچ سے زیادہ اچھا گفٹ لایا تھا مگر وہ کیوں نہیں جو فلم میں ہیرو نے ہیروؤن کو دیا تھا,,,وہ سوچ میں پڑ گئی,,,,اب کیا ہوا پسند نہیں آیا تحفہ,,,,وہ اسکے چہرے پہ پرسوچ انداز دیکھ پوچھنے لگا,,,,

نہیں گفٹ تو بہت اچھا ہے مگر ویسا نہیں ہے جیسا فلم میں ہیرو نے ہیروؤن کو دیا تھا,,,,وہ طوطی کے سر پہ ہاتھ پھیرتی بیڈ سے اٹھتے ہوئے بولی,,,لفظ فلم میں ساحر کے دماغ کی بتی روشن ہوئی یعنی میڈم مووی دیکھ کر بیٹھی ہیں تبہی یہ کارنامہ انجام دیا ہے,,,,وہ سوچ کے مسکرایا,,,,ابھی وہ دو قدم ہی چلی تھی جب لہنگے میں الجھتی گرنے لگی ساحر نے بروقت آگے بڑھتے سہارا دیا ,,,,

اور اسے باہوں میں اٹھاتا بیڈ پہ لایا,,,,


اسکی نذدیکی سے حرم کی سانسیں خشک ہوئی,,,

سساحر جی یہ طوطی,,,,ساحر کی آنکھوں میں خمار اترتا دیکھ وہ سٹپٹاتی طوطی کی جانب متوجہ کرنے لگی,,

آہستہ سے بیڈ پہ اسے لٹاتے اس کے ہاتھ سے طوطی لی اور اسے اشرفی کے گھر میں سلاتا واپس کمرے میں آیا اور ایک نظر گھبرائی سی اپنی بیوی پہ ڈالتا باتھروم میں بند ہوا,,,,فریش ہوتے بال رگڑتا تولیہ جگہ سے لیتے اسکی طرف آیا,,,

وہ محض ٹراؤزر میں موجود تھا اور گلے میں سفید رنگ کا تولیہ لٹکا ہوا تھا ماتھے پہ بال بکھرے ہوئے تھے عنابی ہونٹ مسکرا رہے تھے جبکہ سینے پہ گھنے بالوں کا جال تھا کسرتی بازؤں پہ بھی پانی کی بوندیں چمک رہی تھی ,,,,اسکا ہلیہ دیکھ حرم نے نظریں چرائی تھی ,,,,وہ قریب آیا اور سر سے دوپٹا الگ کرتے سائیڈ پہ رکھا اور اسے لٹایا,,, حرم کی دھڑکنیں معمول سے ہٹ کر ڈھولکی کی طرح چلنے لگی,,,سانسیں خشک ہوئی پلیکیں لرزی ناجانے یہ کیسی کیفیت تھی,,,,


کسکا آئڈیہ تھا یہ سب,,,,ماتھے سے بندیا الگ کر کے سائڈ ٹیبل پہ رکھتے عام سے انداز میں پوچھا,,, وہ وہ مووی دیکھی تھی تو بس,,,


اسنے جکھی نظروں سے لڑکھڑاتے لفظوں سے کہا درخنے کا نام وہ جان بوجھ کر گول کر گئی,,, کیا کیا دیکھا مووی میں,,, اسنے ماتھے پہ عقیدت سے بوسہ دیتے پوچھا,,,,.حرم نے کچھ جھجکتے ساری کہانی لفظ بہ لفظ اسکی گوش گزاری,,,,

ہممم.....ساحر نے ہنسی قابو کرتے ہنکارا بھرا ساتھ اسکے کانوں سے جھمکے اتارتے سائیڈ پہ رکھا,,,اسکی انگلیوں کا لمس محسوس کرتے وہ کپکپا اٹھی سرخ ہونٹ بے اختیار لرزنے لگے دھڑکنیں سست ہوئی اچھا پھنسایا تھا درخنے نے اس نازک جان کو,,,,

بس منہ دکھائی تک ہی دیکھی اس سے آگے کچھ نہیں دیکھا,,,,

اسنے زو معنی لہجے میں پوچھا,,,حرم کو کک سمجھ نہ آیا وہ جھٹ سے نفی میں گردن ہلانے لگی کسی معصوم چھوٹے بچے کی طرح,,,,مگر نگاہیں مقابل کی نظروں کی تاب نہ لاتے ہنوز جکھی ہوئی تھی گھنی پلکیں ان شہد رنگ آنکھوں پہ سایہ فگن تھی,,,,


ساحر تو بس اسکی دھڑکنوں کا شور سنتے مدہوش ہورہا تھا,,,,,

سساحر جی ممجھے چچھوڑیں سانس نہیں آرہا,,,,وہ جو بہکتے جکھنے لگا تھا اسکی گرم دہکتی سانسیں جیسے ہی حرم کے چہرے پہ پڑی اسکا سانس اٹکا وہ مشکل سے لڑکھڑاتے لفظ ادا کر پائی,,,,مگر وہ بنا رکے اسکے ہونٹوں پہ شدت بھری گستاخی کرتے پیچھے ہوا,,,,اور مبہوت سا اسے گہرے گہرے سانس بھرتے دیکھنے لگا حرم کی گلٹی ابھر کر مدعوم ہوئی اسنے جکھتے بے اختیار ہی اسکی شہہ رگ پہ ہونٹ رکھے,,,وہ اسکے جھلسا دینے والے لمس سے کسمسائی,,,


اچھا ہوا منہ دکھائی کے بعد جو ہوتا ہے وہ تم نے نہیں دیکھا اب وہ میں تمہیں پریکٹیکل کر کے دکھاؤنگا میری جان,,,وہ گھبیرتا اور شرارت کے ملے جلے تاثرات سے کہتا کندھے سے شرٹ سرکاتے وہاں اپنے لب رکھ گیا,,,,حرم بری طرح مزاحمت کرنے لگی اسے ساحر کا ایک ایک لمس اپنے وجود پہ کسی آگ کے شعلے کی طرح نقش ہوتا محسوس ہورہا تھا,,,,

مگر اسکے انداز میں کہیں بھی سختی شامل نہیں تھی بے حد محبت سے اسے چھو رہا تھا جیسے کوئی نازک کلی ہو جو اسکے زور سے پکڑنے پر ٹوٹ نہ جائے,,,,


حرم نے بھی مزاحمت ترک کرتے اسکے گرد حصار باندھا خود سپردگی کا اعلان کرتے خود کو اسکے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا اور وہ پور پور اسے چھوتے نازک کلی سے کھلتا گلاب بنانے لگا اسکی گستاخیاں شدتیں حرم کو بے اختیار کرنے لگی تھی حرم کے ہاتھ پیر سن ہونے لگے,,,,

دن کا اجالا ہر سو پھیلنے لگا تھا مگر وہ تو پوری طرح اسکے وجود میں کھویا ہوا تھا ,,,,اسکے ماتھے پہ عقیدت سے بھرپور بوسہ دیتے وہ پیچھے ہوا

اسکی شدتیں برداشت کرتے وہ نڈھال سی اسکے سینے پہ پڑی تھی اور وہ پرسکون سا آنکھیں موندیں اسکے بالوں میں انگلیاں چلاتے اسے پرسکون کرنے لگا

●︿●●︿●●︿●


صبح کا سورج نکلتے ہی رات کی تمام تاریکی کو ختم کر چکا تھا ، آج موسم خاصا خوش گوار تھا ، سورج کی نرم سی گرمی بھی سکون بخش رہی تھی ،اور حویلی میں دو محبت کرنے والوں کی اب تک صبح نہیں ہوئی تھی جبکہ پرندہ اپنے معمول کے مطابق نیند سے بیدار ہوچکا تھا,,,,

اشرفی نیند سے بیدار ہوتا اپنی چھوٹی چھوٹی سی آنکھیں کھولے آسمان کی طرف دیکھتا پر پھیلا کر انگڑائی لینے لگا ، انگڑائی لینے کے بعد تمام سستی دور بھگانے لگا ،

یہ کو کون ہے ؟؟؟ لگتا ہے میں ابھی تک نیند میں ہوں ۔۔۔۔۔ نظر سامنے آنکھیں موند کر بیٹھی حُسن ارا پر پڑتے ہی وہ کچھ ہڑبڑاتے خود سے گویا ہوا ،

ہیلو میڈم ہو آر یو ؟؟؟

شدید حیرانگی میں مبتلا اپنی باریک آواز میں بولا ، دل تھا جو ماننے کو تیار ہی نہ تھا کہ یہ ایک حقیقت ہے کوئی خواب نہیں ،

اشرفی کی آواز پر حُسن ارا نے اپنی مندی مندی آنکھیں وا کی تھی اور تیش بھری نظروں سے مقابل کھڑے اشرفی کو دیکھا تھا ،

اس کے اس طرح کھا جانے والی نظروں سے دیکھنے پر اشرفی اور بوکھلاہٹ کا شکار ہوا تھا ، حسن ارا اُسے ایسے دیکھ رہی تھی جیسے اشرفی نے اُسے نیند سے اُٹھا کر ایک سنگین جرم اور اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کر دی ہو ،

ذہ چی سہ ھم یم دی نہ ھیس مطلب نہ

(میں جو بھی ہوں تُم کو اس سے کیا مطلب ؟ )چہرے کے زاویئے بدلتے وہ بگڑے تیور سے خالص پشتو میں بولی پر اُسکی بات کی اشرفی کو کک سمجھ نہ آئی وہ ہنوز اُسے ویسے ہی گھورتا رہا ۔

داسی نیغ نیغ راتہ سہ لہ گوری

(ایسے گھور کیوں رہے ہو ،) بدتمیز, اُسکے گھورنے پر وہ خالصاً انسانوں کی طرح اس پہ چڑھ دوڑی

اشرفی تو اُسکی اس زبان کو ہی سمجھنے سے قاصر تھا ، یہ کونسی زبان ہے بھلا ہائے یہ ساری خوبصورت طوطیوں میں اتنا نخرہ کیوں ہوتا ہے اب خدا جانے کون ہے کہاں سے آئی ہے ، یہ تو مجھے لگ رہا پشاوری ککڑ لایا ہے اسے مجھ سے شادی کروانے ، اب یہ اصل بات تو وہ دونوں ہی بتائیں گے ویسے ہے پیاری ہاں ، اُسی پوزیشن میں کھڑا اُسے گھورتا سوچنے لگا ،

اُسکی اس گھورنے والی ٹھرکی حرکت پر حُسن ارا کے چہرے پر ایک غصے کی لہر آرہی تو دوسری جا رہی تھی ،

دا سہ بدتمیزی دہ

(یہ کیا بدتمیزی ہے)

بھاڑ میں جاؤ,,,, اُس پر ملامت کرتی وہ رُخ ہی موڑ گئ ،

ہائے کتنا میٹھا بولتی ہے یہ ، اُسکے رُخ موڑتے ہی اشرفی نے مسکراتے کہا ، پر وہ سن کر بھی ان سنا کر گئ ،


°°°°°°°°°

شیشے کے سامنے کھڑی اپنے گیلے بالوں کو سلجھاتے جلدی جلدی ہاتھ چلاتی بالوں کا ڈھیلا سا جوڑا بنانے لگی اُس کی ایک ہی کوشش تھی کہ ساحر کے اٹھنے سے پہلے ہی وہ کمرے سے چلی جائے ، ساحر کی شدتوں سے اب تک اُس کے وجود میں کپکپاھٹ تھی ،

اعصابوں پہ سستی سوار تھی مگر ساحر سے نگاہ ملانا جیسے اسے دنیا کا سب سے عظیم کام لگ رہا تھا اُسے رھ رھ کر درخنے پر غصہ آرہا تھا جس نے اُسکی معصومیت کا استعمال کیا تھا پر ایک سچ یہ بھی تھا کہ اُس میں ہمت بھی نہ تھی درخنے سے اس بارے میں بات کرنے کی ، ایک چور نظر ساحر کے وجود پر ڈالتے دبے پاؤں قدم اٹھاتے وہ کمرے سے نکلتی کچن کی طرف بڑھی ، آج اُسکا اپنے ہاتھوں سے سب کے لئے ناشتہ بنانے کا ارادہ تھا کیوں کہ پیپرز کی وجہ سے اُسے کوکنگ کا موقع ہی نہیں مل پایا تھا پر اب تو نہ پیپرز تھے نہ اُنکی ٹینشن ۔


******

ساحر نے کروٹ بدلتے ہاتھ بڑھا کر اُسے ڈھونڈنا چاہا پر اُسکی جگہ خالی تھی یقین وہ اُس سے چھپتی پھر رہی تھی اب ، اُسکی شرم و حیاء اور معصومیت سوچ اُسکے لبوں پر تبسم کھلا تھا ،

کچن میں پہنچتے ہی اُس نے سب سے پہلے ناشتے کی تیاری شروع کی,,,

عنایہ کی پوری رات آنکھوں میں گزری تھی ، اُسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ جا کر حرم کو ساحر کی زندگی سے اتنا دور پھیک دے کہ حرم کو ساحر کا سایہ بھی میسر نہ ہو ، اُس نے روتے سنایا اور شیری دونوں کو کال کی تھی پر اُن دونوں میں سے کسی نے بھی اُسکی کال نہیں اُٹھائی تھی ، فریش ہونے کے بعد بھوک کا احساس ہوتے اُس نے ابھی کچن کا رخ کیا ہی تھا کہ حرم کو دیکھ اُسکے وجود میں ایک بار پھر غصے کی لہر دوڑی تھی ، حرم کی موجودگی پر تضاد آج اُسکا کھلا کھلا روپ سب کچھ عنایہ کو بتا گیا تھا ، ہاں وہ اُسے ایک نظر دیکھتے ہی پہچان گئ تھی ،وہ تو ابھی ہی حرم کو ساحر کی زندگی سے رفع دفع کر دینا چاہتی تھی پر سنایا نے اُسکے ہاتھ پیر باندھ رکھے تھے ، یہ بات وہی جانتی تھی کہ وہ کیسے اُسے ساحر کے ساتھ برداشت کر رہی ہے وہ ایک ایک لمحہ جو حرم اور ساحر ایک ساتھ ہوتے ہیں اُس ایک ایک لمحے میں عنایہ کو اپنا دل کٹتا محسوس ہوتا تھا ، ایک لمبی سانس لیتے تمام سوچوں کو جھٹک کر ضبط کرتے وہ ایک نرم سی مصنوعی مسکراہٹ سجاتے آگے بڑھی اور حرم کو پیچھے سے ہی اپنے حصار میں لے گئ ،

کیسی بہن ہو تُم حرم میں یہاں تڑپتی رہی تُم سے بات کرنے کے لئے اور تُم تُم تو ایک دفعہ بھی مجھ سے ملنے مجھ سے بات کرنے نہیں آئی ، آج پورے سولا دن ہوگئے ہیں مجھے یہاں آئیں کیا ایک بھی دن نہیں ملا مجھ سے ملنے آنے کے لئے ، وہ اُسکے کندھے پر سر رکھے مصنوعی خفگی اور لاڈ سے بولی ،

حرم نے کچھ بولنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ ساحر کی عنایہ سے دور رہنے کی ہدایت یاد کرتے وہ اپنے ہونٹ بھینچے اُس سے فاصلہ قائم کرتی پیچھے ھٹ گئ ،

حرم....... ساحر کو کچن کے دروازے پر کھڑا دیکھ عنایہ کے باقی الفاظ منہ میں ہی دم توڑ گئے ، وہ پھٹی آنکھوں سے سامنے کھڑے ساحر کو دیکھ رہی تھی ، جو ایک اُچٹی ہوئی نظر اُس پر ڈالتا حرم کی طرف دیکھنے لگ گیا تھا ،

سلام لالا,, گھر کی ملازمہ بھی ساحر کو سلام کرتی کچن میں داخل ہوگئی ،

حرم میری براؤن والی شرٹ نہیں مل رہی ذرا آؤ ڈھونڈ کر دو ، ملازمہ کے سلام کا جواب دیتے وہ حرم کی طرف متوجہ ہوتا بولا ،

جی بیبی جی آپ جائیں میں بناتی ہُوں ناشتہ ،

حرم کو پراٹھوں کے روٹیاں بیلتے دیکھ بولی ،

جی,,, حرم بھی عنایہ اور ساحر دونوں کی موجودگی میں خوف سے تھوک نگلتے یہاں سے چلے جانے میں ہی عافیت جانتی ساحر کے ہم قدم ہوتی کمرے کی طرف بڑھ گئی، جبکہ اسکے پیچھے ساحر نے عنایہ پہ ایک جتاتی ہوئی نظر ڈالی جسکے بدلے میں وہ تنزیہ مسکرادی,,,,

کب تک روکو گے ساحر شہروز خان بہن ہے میری اور خون ایک نہ ایک دن تو جوش مارے گا تمہاری ناک کے نیچے سے لے جاؤنگی میں تمہاری معصوم بیوی کو بٹھالو جتنے پہرے بٹھا سکتے میں بھی تو دیکھو آخر کتنا دم ہے ان مظبوط بازوؤں میں بھائی کو تو بچا نہیں سکے بیوی کو کیا بچاؤگے,,,,وہ دل ہی دل میں خود سے ہمکلام ہوتی تلخی سے سوچنے لگی ہونٹوں میں تنزیہ مسکراہٹ اب بھی برقرار تھی دور تک ساحر کی پشت کو تکتے وہ اسکے گم ہوجانے پر ملازمہ کو ناشتے کا آرڈر دیتی باہر نکل گئی,,,جبکہ ملازمہ نے اسکے طرز مخاطب پر ایسا منہ بنایا جیسے کڑوا بادام کھالیا ہو,,,


******

یہ سامنے تو رکھی ہے شرٹ ,,, الماری سے شرٹ نکال کر اُسکے سامنے کرتے بولی ، لہجے میں کن خفگی کا عنصر نمایا تھا

چھوڑو اُسے یہاں آؤ ، اُسکے ہاتھ سے شرٹ لے کر بیڈ پر پھینکتا وہ اُسکا ہاتھ تھامے خود سے قریب کر گیا,,,,اسکے کھینچنے پر وہ سیدھا اسکے مظبوط سینے کا حصہ بنی,,,,گال شرم سے سرخ ٹماٹر ہورہے تھے,,,,

ککیا کر رہے ہیں چھوڑیں نہ,,,,,

اسکی بےباک بولتی نگاہیں خود پہ مرکوز دیکھ وہ ہکلاتے بولی دل سینہ توڑ کر باہر آنے کو تھا,,,,

جو رات کو رہ گیا تھا,,,,,

وہ معنی خیز انداز میں کہتے جکھنے لگا,,,,

کچھ بھی نہیں رہا تھا رات کو سساحر جی,,,,,حرم کے منہ سے جزبات میں کچھ بھی نکل گیا جسکا احساس اسے ساحر کی مسکراتی نگاہیں جلد دلا چکی تھی اسنے ہاتھ کی ہتھیلی کو مظبوطی سے اپنے ہونٹوں پہ جماتے مسکین نگاہوں سے اسے دیکھا,,,,,حرم کی معصوم سی حرکت پہ ساحر کا قہقہ بے ساختہ تھا,,,,,,وہ مزید سرخ ہوتی نگاہیں جکھا گئی,,,,اور ساحر اپنی ہنسی ظبط کرتے فرصت سے اسکے چہرے پہ چھائے اپنے محبت کے رنگ دیکھ رہا تھا,,,


ساحر کو مسلسل خود کو تکتا دیکھ وہ ہوشیاری سے کام لیتی اسکا حصار توڑ کر نکلی,,,,اسکے عمل سے ساحر ہوش میں آیا اور تیزی سے اسکا ہاتھ پکڑ کر کھینچا,,,

اتنی جلدی کیا ہے میری معصوم بیوی ابھی بہت کچھ باقی ہے جونیئر حرم کیلئے,,,,,

اسے خود میں بھینچتا وہ گردن میں منہ چھپاتے شریر انداز میں بولا,,,,حرم کی پشت اسکے سینے سے لگی ہوئی تھی اس پہ ساحر کا انداز اسکا دہکتا لمس داڑھی کی چبھن وہ باآسانی اپنی گردن پہ محسوس کر رہی تھی اور اس پہ قیامت حرم کے مطابق اُس کی بنا سر پیر کی باتیں,,,,

اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوسکتا سساحر جی جو رات کو آپنے کیا,,,,

وہ اسکے حصار سےنکلنے کی تگ و دو میں رندھی ہوئی آواز میں بولی ,,,

ساحر کی گھنی مونچوں تلے لب پھیلے,,,,

میں نے کیا کیا ہے رات کو,,,,,,وہ پھر شرارت پہ آمادہ ہوا اور حرم کی سانسیں خشک ہورہی تھی رات کا منظر سوچتے ہی اسکے اوسان خطا ہورہے تھے تو اور وہ ظالم دیو بنا اسکے جزبات نہیں سمجھ رہا تھا,,,,

آپ بہت برے ہیں سساحر جی,,,,وہ ایک میں اسکے ہاتھ پہ رسید کرتی پھر رونے والے انداز میں بولی اور اگلے ہی لمحے دونوں ہاتھوں کو منہ پہ جمایا,,,,

ارے کیا ہوا,,,,

شرارتوں سے باز آتے اسنے اسکا رخ اپنی طرف کرتے پوچھا جو رونے کے قریب تھی,,,,,

ایک تو کبھی غلطی سے ہی میرا نام سہی لیتی ہو میں پھر بھی کچھ نہیں کہتا اور پھر تمہارا وہ نکلی دو نمبر اکشے کمار ناجانے کتنے ناموں سے مجھے نوازتا ہےاگر میرے گاؤں والے سن لیں تو میری ساری عزت کا جنازہ پوری شان سے اٹھ جائے مگر اپنی حسین معصوم بیوی کے خاطر میں یہ بھی صبر کے گھونٹ بھر کے برداشت کر جاتا ہوں ,,,,اور ایک تم ہو جو میری زرا سی شرارت پہ آنسوں بہا رہی ہو,,,,اسکی کمر میں گھیرا ڈالتے وہ مصنوعی خفگی سے بولا,,,

حرم نے مسکراتی نگاہوں سے اسے دیکھا دماغ میں اچانک ہی اشرفی کے ساحر کو دیئے القابات گھومے وہ باریک موتیوں جیسے دانت نکال کر ہنس دی ,,,,,

ہنسی تو پھنسی مطلب اب جونیئر پکی ہے آگے کام جاری رکھ سکتے ہیں ,,,,,وہ پھر شرارت سےآنکھ ونک کرتے بولا حرم کو اپنے کانوں سے دھواں نکلتا محسوس ہوا مگر مقابل تو جیسے گزشتہ شب کے بعد کچھ زیادہ ہی بیباک ہورہا تھا حرم نے پھر خفگی بھری نگاہ اٹھائی ,,


.اچھا ناراض مت ہو آؤ میرے ساتھ کچھ ہے تمہارے لیئے,,,وہ مزید تنگ کرنے کا ارادہ ترک کرتے ہاتھ تھامے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے لے آیا ،

ساحر نے ہاتھ بڑھا کر ڈریسنگ ٹیبل پر پڑا ایک سُرخ باکس اٹھایا اور اُس میں سے ایک خوبصورت ہارٹ شيپ میں بنا پینڈٹ نکالا ،

اس خوبصورت پنڈیت کو حرم کی سرخ صراہی دار گردن میں پہناتے اُسکے کندھے پر لب رکھ گیا ،

ایک شرم گیں مسکراہٹ حرم کے چہرے پر کھلی تھی ، گال ایک بار پھر شرم سے دہکتے سُرخ ہوئے تھے ،

ساحر نے ایک ہی جھٹکے میں اُسکا رُخ اپنی طرف کیا تھا ،

مُجھے اچھا لگا تُم سمجھنے لگی ہو مجھے باتیں ماننے لگی ہو میری ،اُسکی ٹھوڑی اوپر کرتا گالوں پر نرمی سے ہاتھ پھیرا ساحر کی بات کا رخ یقیناً عنایہ کی طرف تھا ،

حرم ایک نظر اُٹھا کر اُسے دیکھتی دوبارہ نظریں جھکا گئ

اور وہ ایک عقیدت بھرا بوسہ اسکے ماتھے پہ دیتا اسے ویٹ کرنے کا کہتے خود فریش ہونے چلا گیا,,,, ،

♡♡♡♡♡♥

ماضی.....

ہممم یہ یہ تمہارا فارم ہاؤس ہے,,,, ستائشی نگاہوں سے اس فارم ہاؤس کی خوبصورتی کو دیکھتے وہ خوشگواریت سے بولی,,,,,

بلکل میرا ہی ہے بیگم,,,, وہ پیچھے سے اسے حصار میں لیتے محبت سے بولا,,,, اسکے اچانک لمس میں عنایہ کو اپنے جسم میں کرنٹ لگا ہو وہ جھینپتی اس سے دور ہونے کی کوشش کرنے لگی ,,, کیا ہوا.... وہ آنکھیں میچے اسکے بالوں میں منہ چھپاتے پرسکون انداز میں بولا ,,,,

کچھ بھی نہیں,,,, مزاحمت ترک کرتے جھٹ سے جواب آیا,,,,

عنایہ میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں,,,, آہستہ سے اسکارخ اپنی جانب کرتے آنکھوں میں جزبات لیئے بولا,,,

عنایہ نے بھی توجہ اسکی جانب مبزول کی جبکہ دل اس فارم ہاؤس میں گھومنے پہ بضد تھا,,,,

ہالانکہ وہ خود بھی کوئی غریب غربا نہیں تھی مگر ثمر کے سامنے اسکی دولت کچھ نہ تھی اور یہی کشش تھی جو اسے غلط کرنے پر اکسا رہی تھی وہ نادان تھی ابھی وہ دنیا کی حقیقت سے روشناس نہیں تھی وہ اندھیرے میں تیر چلا رہی تھی ,,,,

میں سن رہی ہوں,,,, عنایہ نے ایک دلکش مسکراہٹ اسکی جانب اچھالتے کہا ساتھ اپنے ہاتھ اسکے گالوں پہ ٹکائے,,,,

ثمر نے بھی مسکراہٹ پاس کرتے اسکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں تھامتے چوما,,,

میں آپ سے بہت محبت کرتا ہوں عنایہ آپ میری زندگی کا قیمتی حصہ ہیں مجھے نہیں پتا میں کیسے سب کو بتاؤں ہماری شادی کے بابت مگر مجھے پتہ ہے آپکی محبت مجھے حوصلہ دیگی مجھے مظبوط کریگی چاہے کوئی مانے یا نہ مانے میں کبھی آپکو زندگی میں اکیلا نہیں چھوڑونگا,,, میری سانسوں پہ پہلا حق آپکا ہے بس مجھے ضرورت یے آپکی اور آپکی محبت کی میں بنا کسی غرض کے آپ سے محبت کرتا ہوں واقف ہوں تھوڑا مشکل ہے گھر والوں کو راضی کرنا مگر میں آپکے بغیر بھی نہیں رہ سکتا,,,,

مجھے امید ہے آپ ہمیشہ میرا ساتھ دینگی,,, بغور اسے دیکھتے وہ بہت امید سے اس سے کہہ رہا تھا عنایہ بھی کسی حد تک اسکے لہجے کی کشش میں کھو رہی تھی وہ دم سادھے اسے دیکھ رہی تھی جو اپنا دل کھول کر اسکے سامنے رکھ چکا تھا اور ایک وہ تھی جو خود غرضی کی انتہا کو چھو رہی تھی,,,


ایک لمحے کیلئے اسے اپنی غلطی کا احساس ہونے لگا تھا جب اگلے ہی لمحے شیری کا چہرا نظروں کے سامنے لہرایا وہ ساری درست سوچوں دل سے جھٹکتی پش ہشت ڈال گئی اور مسکرا کر اسے دیکھا,,, قریب آتے اپنا سر اسکے سینے پہ رکھ دیا,,,,

تھینکیو سو مچ عنایہ میری زندگی میں آنے کیلئے دیکھئے گا کوئی تکلیف نہیں ہوگی آپکو میری دنیا میں میں بہت محبت کرونگا آپکو,,,, وہ شدت سے اسے خود میں بھینچے کہنے لگا,,,,

تبہی بادل گرجا عنایہ کی آنکھیں چمکی,,,, ثمر باہر بارش ہورہی ہے,,, اسکے سینے سے سر اٹھاتے اسنے کسی بچے کی طرح خوش ہوتے کہا,,,

وہ اسکے چہرے کی خوشی دیکھ مسکرایا,,,,آپکو پسند یے بارش؟؟

ثمر نے مسکراتے سوال کیا,,,,

جی بہت چلو نہ پلیز باہر,,,,, وہ لاڈ سے اسکی شرٹ جھجھوڑتے بولی,,,

چلیئے.... وہ کہتا اسکا ہاتھ پکڑتے کمرے سے باہر نکلا,,,,

جہاں گارڈن میں پانی کی پھواریں تیزی سے پودوں اور زمین پہ گرتی خشگواریت بخش رہی تھی,,, اس پہ اٹھتی مٹی کی خوشبو ٹھنڈی سرسراتی ہوا,,, عنایہ ہاتھوں کو پھیلائے آسمان کی طرف منہ کیئے آنکھیں میچ گئ,,, جبکہ ثمر وہی کھڑا تھا بارش کی بوندوں سے دور,,,,

اور مسکرا کر دیوار سے ٹیک لگائے اسے دیکھ رہا تھا جو پوری طرح بارش سے لطف اندوز ہورہی تھی,,,

بارش کے پانی میں وہ پوری طرح بھیگ چکی تھی گھوم گھوم کر وہ بچوں کی طرح خوش ہورہی تھی جبکہ ثمر کی نظریں اسکے سراپے پہ الجھنے لگی تھی سرخ ساڑی جو بھیگنے کے باعث اسکے وجود سےچپک رہی تھی جس میں اسکے حسین خدو خال نمایا تھے کم سن سراپا گیلے بال وہ مخمور نگاہوں سے اسے دیکھتا بے اختیار ہی اسکی جانب قدم اٹھانے لگا ابھی اسنے ایک قدم ہی اٹھایا تھا جب کچھ سوچتے وہ رکا اور اپنے امڈتے جزباتوں پہ قابو کیا اور آنکھیں میچکر کھولی,,,,

تم بھی آؤ بہت مزہ آرہا ہے سچ میں,,, ابھی اسنے آنکھیں کھولی ہی تھی جب عنایہ قریب آتے اسکا ہاتھ تھامے کھینچ کر لے گئی,,,,

بارش کی بوندوں کو ہاتھ میں لیتے وہ شریر انداز میں ثمر کی طرف اچھالنے لگی ,,,,,,

ارے..... ابھی بتاتا ہوں اسکے آنکھ دکھانے پربھی جب وہ بعض نہ آئی تو ثمر نے ہاتھ بڑھاتے اسے قابو کرنا چاہا مگر وہ اسکے پکڑنے سے پہلے بھاگتی کچھ فاصلے پہ ہوئی ثمر بھی تیزی سے اسکے پیچھے بھاگا اسے پکڑنے کیلئے,,,, وہ ہیلز بھی اتار چکی تھی جسکے باعث وہ تیزی سے وہاں بھاگ رہی تھی,,, اسکی کھلکھلاہٹیں عروج پہ تھی,,,


عنایہ آپ گر جائینگی اسے اندھا دھند بھاگتے دیکھ ثمر نے تفکر سے بولا جبکہ وہ خود بھی اسے پکڑنے کی جدو جید میں تھا,,,,

میں نہیں گرونگی ثمر,,, وہ کھکلا کر بولی جب اگلے ہی لمحے ثمر نے قریب پہنچتے اسے ہاتھ بڑھا کر اسکا پکڑ کر اپنی طرف کھینچا مگر ہاتھ کی جگہ اسکی ساڑی کا پلو اسکے ہاتھ میں آیا,,, ناگہاں عنایہ کا پیر پھسلا اور وہ سیدھا پچھلی طرف ثمر کے اوپر گری بیلنس برقرار نہ رکھنے کی صورت میں ثمر بھی سیدھا زمین بوس ہوا,,,, اور عنایہ ساتھ ساتھ اسکے اوپر جبکہ اسکا پلو پوری طرح ہٹ کر پانی میں تیر رہا تھا,,,

بالوں کی لٹیں ثمر کے چہرے پہ تھی جبکہ عنایہ پوری ثمر کے اوپر تھی,,,, اسنے نظر اٹھا کر اسکی جانب دیکھا ثمر بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا بارش اب بھی پورے جوش سے انہیں بگھو رہی تھی

ثمر نے ہاتھ بڑھا کر اسکے بال کان کے پیچھے کیئے جبکہ دوسرا ہاتھ عنایہ کی کمر کے گرد لپٹا ہوا تھا,,,

عنایہ کی دھڑکنیں تیز ہورہی تھی جبکہ وہ خود خجل ہورہی تھی,,,, گلا بہت ڈیپ تھا ثمر کی نظریں اسکے بھیگے چہرے کا طواف کر رہی تھی,,, مقابل کی نظروں سے کنفیوز ہوتے اسنے ہاتھ سینے پہ جمائے اور اٹھنے کی کوشش کرنے لگی مگر بارش کی وجہ سے پھسلتے وہ پھر اسکے سینے پہ گری ثمر بھی ہوش میں آیا,,,, اور اسے اشارے سے رکنے کا کہتا کروٹ بدل گیا زمین پہ ہاتھ جما کر وہ اٹھا اور اسے بھی سہارا دے کر اٹھایا ساتھ اسکا پلو اٹھا کر عنایہ کے گرد لپیٹا,,, وہ اسکے سراپے سے نظریں چرا رہا تھا,,, اور عنایہ بھی اپنے حلیے سے کنفیوز ہورہی تھی,,,,

بارش زور پکڑ چکی تھی,,,چلیں اب اندر چلیں سردی لگ جائیگی,,, وہ اسکا ہاتھ پکڑتا اندر لے گیا جبکہ عنایہ بھی خاموشی سے اندر کی طرف بڑھ گئی,,,

کمرے میں پہنچتے ہی ثمر نے الماری سے ٹاول نکال کر اسے دیا اور خود بھی ٹاول کی مدد سے بال خشک کرنے لگا,,,, عنایہ شیشے کے سامنے کھڑی بال خشک کر رہی تھی,,,

آآآچھی.... بالوں کو خشک کرتے عنایہ نے چھینک ماری,,,

لگ گئ نہ سردی....وہ فکر مند لہجے میں کہتا قریب آیا,,,

میں دیکھتا ہوں کچن میں کافی کا سامان ہوگا بنا کر لاتا ہوں,,,,

اسکی فکر پہ وہ مسکرائی,,,,ابھی وہ پلٹا ہی تھا جب بادل زور سے گرجا,,

گڑڑڑڑ...... کی آواز اس قدر بھیانک تھی کے عنایہ نے گھبراتے ثمر کا ہاتھ کھینچا اور اسکے سینے میں خود کو چھپانا چاہا,,,

پہلے تو ثمر سٹپٹایا اسکے رد عمل پہ پھر اسکا خوف سمجھتے قہقہ لگا گیا,,,,

آپ ڈرتی ہیں بادلوں کی گرج سے,,, وہ اسے خود لگاتے پوچھا,,,,

گڑڑڑ...... ایک بار پھر آواز برآمد ہوئی عنایہ مزید خود کو اس میں چھپانے لگی,,,,اسنے بھی مسکراتے پوری طرح اسکے اپنے حصار میں لیا,,,

کچھ نہیں ہوا میں ہوں نہ ,,,,

اسکی کمر سہلاتے کہا جو پوری طرح کانپ رہی تھی شاید خوف سے,,,,,

ننہیں تم یہی رہو,,, وہ ضدی انداز میں کہتی اسکے ظبط کا کڑوا امتحان لے رہی تھی,,,


بادلوں کی گرج مزید بڑھتی جارہی تھی,,,, ثمر نے آہستہ سے اسے خود سے الگ کیا اور ساڑی کا بھیگا پلو اسکے وجود الگ کرتے جکھا اور اسے باہوں میں اٹھایا,,,,

وہ چلتا ہوا بیڈ پہ آیا اسے آہستہ سے لٹا کر کمفرٹر اوڑھایا ا,,,,آتا ہوں ویٹ,,,وہ کہہ کر پھر جانے لگا مگر عنایہ نے پھر اسکا ہاتھ سختی سےپکڑ لیا,,,,

نہیں پلیز,,,وہ رونی صورت بنا کر بولی ثمر بامشکل جزباتوں کو سمبھالیں اسکے قریب بیٹھا,,,,پلوہٹ جانے کے باعث اسکی دودھیا رنگت نمایا ہوتی اسے اپنی طرف کھینچ رہی تھی,,,,وہ خود بھی ایک ٹین ایجر تھا جسے جزباتوں پہ کوئی قابو نہیں تھا,,,,وہ بیٹھ تو گیا تھا مگر عنایہ کا نازک سراپا اسکے مچلتے جذبات اور دونوں کے بیچ قائم ہوا وہ پاک رشتہ ثمر کو اسکی جانب لا رہا تھا,,,

اسکے ماتھے سے بال ہٹاتے وہ وہاں جکھا اور اپنے لب رکھتا پیچھے ہوا جبکہ عنایہ اسکے لمس پہ سکون پاتی آنکھیں میچگئی سردی کی وجہ سے وہ پوری کانپ رہی تھی ہونٹ نیلے ہورہے تھے اور وہ اسے خود سے دور بھی نہیں جانے دے رہی تھی,,,,ثمر آہستہ آہستہ اسکے ہاتھ مسلتا اسے گرمائش پہنچانے لگا وہ کچھ کچھ پرسکون ہورہی تھی مگر لرزش اب بھی واضح تھی,,,

ثمر نے ہاتھ بڑھا کر اسکے گال پہ ہاتھ ٹکائے وہ آنکھیں موندیں تھر تھر کانپ رہی تھی,,,

سرخ ہونٹ نیلے پڑ گئے تھے جبکہ لپسٹک کا نام و نشان بھی اب ان لبوں پہ موجود نہ تھا,,,مسلسل اسکے چہرے کو تکتے وہ بے خود ہوتے پوری شدت کیساتھ جکھا اور ان ہونٹوں کو اپنی مظبوط گرفت میں لیتا اسے سکون بخشنے لگا,,,اسکی سرسراتی انگلیاں عنایہ کی کمر کے گرد گھوم رہی تھی عنایہ کی دھڑکنیں تیزی سے چل رہی تھی جبکہ وہ اسکے لمس سے سکون محسوس کر رہی تھی,,,,

لبوں کو چھوڑتے وہ اسکی شہہ رگ پہ جکھا اور جابجا وہاں بھی اپنا لمس چھوڑتے اسے کسمسانے پہ مجبور کر گیا مقابل کے لمس میں شدت نمایا تھی,,,,عنایہ کو سکون حاصل ہورہا تھا,,,

آہستہ آیستہ دونوں کے درمیان شرم جھجک کے پردے ہٹتے گئے اور وہ دونوں ہی ایک دوسرے میں دنیا جہاں سے بےخبر ایک دوسری کی قربت میں سکون ڈھونڈنے لگے ,,,

بارش بھی عروج پہ تھی تاریکی بھی چھاگئ تھی,,,

باہر خوشگوار ماحول تھا تو اندر وہ ایک دوسرے کے ہوچکے تھے,,,

♡♡♡♡♡♥

Hey david "sanaya Mem hasn't come to the office yet?

اسے آئے آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا وہ دو بار سنایہ کے کیبن بھی جا چکا تھا مگر سنایہ اب تک آفس نہیں آئی تھی کچھ سوچتے اسنے امپلوئے کو مخاطب کرتے پوچھا,,,

I don't know if she is the owner. How can we know, man?

اسنے بھی دوبدو مسکراتے جواب دیا,,,,.

عادل بھی مسکراہٹ اچھالتے اپنی سیٹ پہ براجمان ہوگیا,,,

Mem's call for you

ابھی وہ کمپیوٹر اون کرتے کام میں مصروف ہی ہوا تھا کہ اسکے سینئر امپلوئے نے اسے خبر دی,,,

وہ الجھتے اٹھا اور ریسیور کی طرف بڑھا,,,فون اٹھاتے کان سے لگایا,,,,

ہیلو ,,ریسیور کے دوسری جانب آواز ابھری,,,

یس میم ایم لسٹنگ,,,وہ شائستگی سے بولا,,,

میں آفس نہیں آسکونگی مگر واشنگ ٹون سے کچھ بزنس میمنز آدھے گھنٹے میں ہمارے آفس ہمارے موجودہ پروجیکٹ کا سروے کرنے کیلئے آناچاہتے ہیں میرا اس وقت آفس آنا ممکن نہیں مگر میں چاہتی ہوں,,,,

کھو کھو.......بات کے درمیان ہی سنایہ کو کھانسی کا زبردست دوہرا پڑا وہ دیوار کا سہارا لیتے صوفے پہ بیٹھی,,,

آر یو اوکے میم,,,,اسکی حالت سمجھتے عادل نے پوچھا

میں ٹھیک ہوں آپ انہیں اپنی پریزنٹیشن ری پریزینٹ کردیں تاکہ آگے کے کام شروع ہوسکیں,,,,کچھ دیر ٹہرنے کے بعد اسنے جملہ پورا کیا,,,,

شیور میم آ کین ہینڈل بٹ وہ فائل تو آپکے ہی پاس ہے,,,,اسنے ہامی بھرتے آخر میں الجھتے سوال داغا,,,

اووہہ یس وہ فائل آپ خود آکر یہاں سے لیکر جائینگے میک شیور کوئی گڑبڑ نہ ہو یہ پروجیکٹ ہماری کمپنی کیئے بہت ضروری ہے,,,,سنایہ نے اسے جتایا جبکہ آواز اسکی حالت کا پتہ دے رہی تھی عادل کو ایسا محسوس ہوا جیسے وہ بہت بیمار ہے اسکی آواز کہیں دور کھائی سے آتی محسوس ہورہی تھی,,,

اوکے میم ....اسنے کہتے ریسیور رکھا اور ایک پرسکون سانس ہوا کے سپرد کیا,,,,

اسی موقعے کی تو اسے تلاش تھی ایک مہینہ ہونے کو آیا تھا اسے یہاں جوب کرتے مگر کچھ ایسا ہاتھ نہیں لگا تھا جس سے وہ سنایہ کے بارے میں جان سکے,,,,

مگر آج آخر کار وہ موقع بھی مل ہی گیا تھا وہ خود کو اچھی طرح تیار کرتے آفس سے ن

تیزی سے ڈرائیونگ کرتے وہ پندرہ منٹ میں ہی اسکے گھر کے باہر کھڑا تھا,,,

کار سے اترتے چشمہ آنکھوں پہ درست کرتے اندر کی طرف بڑھا یہ گھر ہمیشہ کی طرح اپنی پوری خوبصورتی کیساتھ پوری شان سے واقع تھا,,,,

لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہ اس سیاہ گھر میں داخل ہوا,,,

●︿●●︿●●︿●●︿●


ککوئ ہے ......کھو کھو کھو.....کھانس کھانس کے اسکا گلا بیٹھَ چکا تھا وہ شدید بخار میں تپ رہی تھی نہ بیٹھ کے سکون تھا نہ ہی لیٹ کے وہ پیٹ پکڑے شدید کرب میں مبتلا تھی, آہ...پیٹ سے اٹھتی درد کی ٹیس سے اسکے منہ سے کراہ نکلی وہ تڑپ کر رہ گئی,,,,چہرا پسینوں سے شرابور تھا جسم میں اتنی بھی سکت باقی نہیں تھی کہ وہ اٹھ کر پانی پی سکے ناجانے اسے کیا ہوا تھا,,,,اسے لگا شاید آج وہ نہیں بچے گی,,,,اسکی عادت تھی وہ زرا بھی بیمار ہوتی تھی تو ملازمین کو چھٹی دے دیا کرتی تھی اپنے درد وہ تنہا سہنے کی عادی تھی مگر آج اسکی حالت معمول سے زیادہ بگڑ گئ تھی وہ سمجھ نہیں پارہی تھی آخر اسے ہوا کیا ہے یہ کیسی ازیت تھی,,,,


اللہ پاک مجھے ہمت دے مجھے محلت دے ,,,,ہمت کرتے وہ دل ہی دل میں رب سے مخاطب ہوئی,,,,اپنی ماں کا خیال آتے آنسوں تیزی سے آنکھوں سے رواں ہوئے وہ دوہری ازیت میں مبتلا تھی مگر سمجھنے کیلئے اسکے پاس کوئی نہ تھا,,

مما ممجھے بدلہ لینا مما پلیز مجھے اس ازیت سے نکالو کوئی,,,,,

پیٹ پکڑے بامشکل ہی کربناک انداز میں بول پائی تھی حالت نڈھال سی ہوگئی تھی,,,,,

اسے صرف کھانسی ہوئی تھی جو اسے اکثر و بیشتر رہتی تھی ڈاکٹرز کی ہدایت سے وہ دوائیاں لیتی تھی مگر آج جیسے اسے اپنی جان جاتی محسوس ہورہی تھی ,,,,,


************

وہ اس سیاہ گھر میں داخل ہوا جہاں ہنوز سیاہی اپنے پر پھیلائے ہوئے تھی گھر میں اس قدر سناٹا دیکھ دل تیزی سے دھڑکا عجب وسوسوں نے اسکے گرد گھیرا کیا,,,,,آس پاس نظر دوڑاتے کسی کو تلاشنا چاہا مگر بے سود ,,,,تعجب کی بات ہے کوئی ملازم نہیں اتنے بڑے گھر میں تنہا,,,,,

وہ اس گھر کی خوبصورتی دیکھ حیرانگی سے سوچنے لگا جب کوئی راہ نظر نہ آئی تو وہ صوفے پہ براجمان ہوا اور سیل نکال کر سنایہ وکٹوریہ کا نمبر ڈائل کیا,,,,,

کال لگاتے ہی اسکے سامنے پڑا ٹیلی فون زوروں شوروں سے بج اٹھا عادل نے الجھتے نگاہ بجتے فون کی جانب اٹھائی جہاں سامنے ہی فون رکھا تھا اور اسکے ساتھ سرخ فلاور کیساتھ فریم سجا تھا اسنے سرسری سے نگاہ اس طرف ڈالتے موبائل اوف کیا ناگہاں دماغ میں جھماکہ ہوا جھٹکے سے گردن کو جنبش دیتے اسنے پھر فون کی جانب دیکھا اور بے اختیار قدم اس طرف اٹھائے وہ قریب آتے فریم کو دیکھ جیسے ساکت ہوا جس میں ایک عورت اور بچی کہ تصویر نصب تھی اسنے بے خیالی میں اس تصویر کی جانب ہاتھ بڑھایا ,,,,,

چھناک......کچھ ٹوٹنے کی آواز پہ وہ ہوش کی دنیا میں لوٹا ہاتھ پیچھے کھینچا اور گردن گھماتے آوازکے تعاقب میں دیکھا,,,,یہ آواز اوپر سے آئی تھی گھر میں سنایہ کے علاوہ کوئی موجود نہ تھا ,,,,اسنے کچھ سوچتے قدم سیڑھیوں کی طرف اٹھائے اور تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتا ٹھیک آواز کی طرف پہنچا,,,کمرے سے روشنی چھن کے باہر آرہی تھی کسی انجانے خدشے کے تحت اسنے دروازہ کھولا جو کہ لاک نہ ہونے کے باعث آسانی سےکھلتا چلا گیا,,,,نگاہ جیسے ہی سامنے اوندھے منہ پڑے سنایہ کے وجود کی طرف اٹھای اسے اپنے قدم ساکت ہوتے محسوس ہوئے دھڑکن رکی یقین کرنا مشکل تھا,,


سسنایہ میم...اگلے ہی لمحے خود کو سمبھالتے وہ اسکے نیم مردہ وجود کی طرف بڑھا جو شاید آج واقعی مرنے کے قریب تھی,,,,

ددور....وہ ابھی اسے سیدھا کرتا اس سے پہلے ہی وہ رخ اسکی طرف کرتے شعلہ برساتی نگاہوں سے ہکلاتے بولی,,,,,درد کہ شدت چہرے پہ صاف واضح تھی,,,,,فرش پہ کانچ کے ٹکڑے پڑے تھے جو اسنے جان بوجھ کر توڑا تھا عادل کو متوجہ کرنے کیلئے,,,,بیشک وہ تنہا تھی اس دنیا میں تنہا آئی تھی تنہا ہی چلے جانا تھا مگر موت جب سر چڑھ کر بولتی ہے تو چٹان سے انسان کو بھی دہلا کر رکھ دیتی ہے مگر ایسے ایک خدا ہی ہے جو اپنے بندوں کو فرشتہ بنا کر بھیجتا ہے کہ جاؤ میرے بندے کی مدد کرو اسے بتاؤ وہ تنہا نہیں ہے اور آج سنایہ کیلئے وہ فرشتہ عادل تھا اسے دیکھتے ہی جیسے سکون کی ایک لہر دوڑ گئی تھی مگر وہ ایک مظبوط لڑکی تھی جو کسی بھی مرد کا سایہ اپنے گرد نہیں برداشت کرسکتی تھی اسے چڑ تھی مرد زات سے وہ مرد کو کبھی اپنا مسیحا نہیں مانتی تھی مگر آج شاید خدا نے اس پہ جتایا تھا کہ ہرمرد ایک جیسا نہیں ہوتا آج ایک مرد ہی چہرے پہ پریشانی لیئے کھڑا تھا جو کے دل سے تھی,,,,

میم آر یو اوکے,,,,وہ اسکے ہاتھ کا اشارہ سمجھتے قدم وہی جمائے بولا,,,,

ڈڈاکٹر ممیری ڈاکٹر کو کال کرو فاسٹ,,,, وہ بامشکل ہی لفظ ادا کرسکی بخار کی شدت سے چہرا تمتما رہا تھا تو آنکھیں آگ برسا رہی تھی اس پہ یہ ازیت ناک درد جو اسکی جان تل تل کر کے کھینچ رہا تھا اسے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے کوئی اسکی نسوں میں زہر گھول رہا ہے ,,,,,

عادل نے سمجھتے اسکا فون اٹھایا اور تیزی سے کی بورڈ پہ انگلیاں چلاتے ڈاکٹر کا نمبر تلاشا,,,,جلد ہی نمبر مل جانے پر اسنے کال کرتے کان سے لگایا,,,,,

ہیلو آپ سنایہ کی ڈاکٹر بول رہی ہیں؟؟ اسنے موؤدب انداز میں پوچھا لہجہ اضطرابیت کا شکار تھا ,,,,

آپکی پیشنٹ کی حالت بہت خراب یے انہوں نے فوری آپکو گھر بلایا ہے,,,,

دوسری طرف کے جواب میں اسنے تیزی سے کہا جبکہ سنایہ کی تڑپ بڑھتی ہی جارہی تھی اور عادل کے ہاتھ پیر پھول رہے تھے وہ جزباتی انسان نہیں تھا مگر اس وقت اس طرح سنایہ کی اس حالت میں اسکا یہاں ہونا کچھ بھی ہوسکتا تھا مگر وہ اس وقت اسے ہاسپیٹل لے جانا چاہتا تھا لیکن سنایہ اسے اپنے قریب بھی نہیں آنے دے رہی تھی کجا کے اسپتال لے جانا,,,,

ڈاکٹر سے بات کرتے اسنے فون رکھا اور اسکی حالت برداشت نہ کرتے کمرے سے باہر نکل گیا ,,,,

تقریباً پندرہ منٹ کے انتظار کے بعد لیڈی ڈاکٹر ہاتھ میں بریفکیس تھامے اندر داخل ہوئی وہ دیکھتے ہی اسکی جانب بڑھا اور رسومات کے طور پہ انہیں کمرے تک چھوڑا جبکہ ڈاکٹر نے اسے کمرے میں آنے کی اجازت بھی نہیں دی تھی وہ باہر ہی انتظار کرنے لگا,,,,


سنایہ یہ کیا ہوگیا ہے,,,

ڈاکٹر ماریہ متفکر ہوتی اسکے پاس بیٹھتے بولی اسکی حالت سے تو وہ خود بھی دنگ رہ گئیں تھی,,,

پپلیز کچھ کرو....سنایہ نے درد برداشت کرتے جواب دیا,,,.ماریہ نے انجیکشن نکالتے سب سے پہلے اسے درد کیلئے انجیکشن دیا,,,,,چند منٹ میں ہی اسکا درد کم ہونے لگا تھا وہ آہستہ آہستہ پرسکون ہورہی تھی

اب کیسا محسوس کر رہی ہو,,,, ڈاکٹر ماریہ نے دھیمے لہجے میں سوال کرتے ساتھ ٹیشو سے اسکے ماتھے کا پسینہ صاف کیا,,,,

سنایہ نے اثبات میں سر ہلایا,,,,

میں نے آگاہ کیا تھا سنایہ تمہیں یہ حالت تمہاری کبھی بھی ہوسکتی ہے جلد از جلد علاج ہونا لازم ہے تم سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہی ہو چندا,,,,,

ڈاکٹر ماریہ نے کچھ خفگی سے پوچھا وہ خاصی عمر رسیدہ تھی مگر چہرے اور شخصیت سے انکی عمر کا اندازہ لگانا مشکل تھا,,,,

میں ٹھیک ہوں ماریہ ڈونٹ وری,,,,,وہ سنجیدگی سے کہتی انکی گود میں سر رکھ گئی,,,,

دکھ رہا ہے کتنی ٹھیک ہو...وہ پھر خفگی سے بولی,,,سنایہ محض مسکرادی,,,,ایک یہی تو تھی جو اپنی مصروف زندگی کے کچھ سچے اور شفاف لمحے اسے دیا کرتی تھی اسکی ماں کے بعد سنایہ کو یہاں تک لانے میں انکا سب سے بڑا ہاتھ تھا زندگی کے جس بھی حصے میں وہ خود کو کمزور سمجھ کر ہاری تھی تب تب انہوں نے ہی ایک ماں کی طرح اسکا حوصلہ بڑھایا اسے امید دلائی ایک نام بنانے کی ایک پہچان بنانے کی مگر وہ اسکے دل سے بدلے کی آگ نہیں نکال سکی جو آج بھی دل میں دہک رہی تھی,,,,

وہ لڑکا کون ہے نیچے.۔.کچھ سوچتے ماریہ نے سوال کیا,,,,

امپلائے....سنایہ نے موندی آنکھوں سے مختصر کہا,,,,

وہ یہاں کیا کر رہا ہے چندا,,,,انہوں نے مشکوک لہجے میں پوچھا ,,,

فائل لینے آیا تھا ڈریسنگ ٹیبل پہ فائل رکھی ہے آپ اسے دے کر روانہ کردیں بہت لیٹ ہوچکا ہے وہ پہلے ہی,,,,کچھ یاد آتے سنایہ نے انکی گود سے سر اٹھاتے فائل کی جانب اشارہ دیتے کہا,,,

اووہ اچھا....خیر کافی فکرمند لگ رہا تھا تمہارے لیئے میں دیکھتی ہوں اسکو تم آرام کرو ,,,,,

وہ نارمل انداز میں کہتی اس پہ کمفرٹر درست کرتے ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھی وہاں سے فائل اٹھاتے وہ کمرے سے نکلتی عادل کے پاس آئی جو پریشان سا اضطرابی کیفیت میں چکر کاٹ رہا تھا,,,

یہ لو ......وہ قریب آتے فائل والا ہاتھ آگے کرتے بولیں,,,

سنایہ میم کیسی ہیں کیا ہوا تھا انہیں اب ٹھیک تو ہے نہ وہ,,,,,

عادل نے فائل تھامتے ایک ساتھ سوال کیئے,,,,

شی از فائن اب آرام کر رہی ہیں یہ فائل آپکو دینے کیلئے کہا تھا تو اسلیئے,,,,ماریہ نے اس خوبرو نوجوان لڑکے کے فکر مند تاثرات دیکھتے نرم سی مسکراہٹ کیساتھ جواب دیا,,,,.بدلے میں عادل نے بھی مسکراتے اثبات میں سر ہلایا اور فائل تھامتے وہاں سے نکلتا چلا گیا,,,,


♡♡♡♡♡

ماضی,,,,,,,


گہری نیند سے بیدار ہوتے اُس نے اپنی نیند کے خُمار سے لبریز مندی مندی آنکھیں واکی سر میں شدید ٹیس سی اُٹھتی محسوس ہو رہی تھی ، سر دونوں ہاتھوں میں تھامتے وہ اُٹھ بیٹھی اور آس پاس کے منظر پر نظر دوڑاتے وہ سمجھنے کی کوشش کرنے لگی کہ آخر وہ ہے کہاں ، مکمل طور پر نیند کا خُمار اُترتے ہی گزشتہ واقعہ اُسکی آنکھوں کے سامنے ناچنے لگا

نہ نہیں یہ کیا ہو گیا ، یہ کیا کر دیا میں نے نہیں ثمر نہیں میں ، میں تو ساحر کے لئے اوہ خدا یہ کیا ہوگیا ، وہ شدید بوکھلاہٹ کا شکار ہوتے ہاتھوں میں منہ چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ،

نا گہاں اُسکی غیر ارادی سی نظر اپنے دائیں طرف گئ پر وہاں ثمر موجود نہ تھا ، اُسکی غیر موجودگی اُسکی دھڑکنیں روک گئ تھی ، کئی خدشے اُسکے ذہن میں گھر کرنے لگے تھے ،

کہ کیا اُس نے بھی مجھ سے کھیل کھیلا تھا ، نہ نہیں وہ ایسا نہیں وہ محبت کرتا تھا مجھ سے ، اپنے دماغ کی اُول فول سوچ سے اُسکا دل انکاری ہوا تھا ، لفظ لڑکھڑائے جبکہ وہ تاثرات سے اپنے حواسوں میں نہی لگ رہی تھی ایک لمحے کیلئے اپنی عزت کا شدت سے احساس ہوا

یہ ہو کیا گیا ،، یہ پلین نہیں تھا میرا اب اب میں ساحر کو کیسے پاؤنگی وہ ہاتھوں میں بال جکڑتی ساری عزت کو بالائے تاک رکھتی اس حال میں بھی سفاکیت سے بولی ،

اپنے پلین کے بگڑنے پر وہ دل برداشتہ ہوتی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ، صرف ساحر تک پہنچنے کے لئے اُس نے سہی غلط سب کام کیا پر اب ، اب اُسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اُسکے پاس رونے کے علاوہ کچھ نہیں رہا تھا اور وہ رو رہی تھی پر وہ رونے والوں میں سے نہیں بلکہ رلانے والوں میں سے تھی اتنی آسانی سے ہار تسلیم کرنے والوں میں سے نہیں تھی وہ,,,

کمرے کا لوک کھولنے کی آواز کے ساتھ کسی کے بھاری قدموں کی چھاپ سن اُس نے فوراً اپنا جھکا سر اٹھایا ، سوچوں کا تسلسل مقابل کو دیکھتے چھناک سے ٹوٹا,,,

بکھرے بال سُرخ آنکھیں آنسوؤں سے تر چہرا وہ اس وقت ثمر کی وائٹ شرٹ میں ہی موجود تھی جس کے آستین میں اُسکے ہاتھ چھپے ہوئے تھے ،

اُسے اس طرح روتے دیکھ ناشتے کی ٹرے تھامے اندر آتے ثمر نے پریشان ہوتے عجلت میں ٹرے ٹیبل پر رکھتے اُسکی طرف قدم بڑھائے ، جس کی آنکھوں سے تاہم آنسو رواں تھے ،

کیا ہوا عنایہ آپکو ، آپ ٹھیک تو ہیں ؟ وہ اُسکے چہرے سے اپنے ہاتھوں سے آنسو صاف کرتا ہاتھوں کے پیالوں میں اُسکا چہرا بھرتا فکرمندی سے بولا ،

یہ کیا کردیا ثمر ہم نے ,, اب سب کو پتہ چل جائے گا اب کیا ہوگا ہمارا ہمیں نہ تمھارے گھر والے زندہ چھوڑیں گے اور نہ ہی میرے گھر والے ، اب سب کو ھمارے رشتے کا پتہ چل جائے گا ، وہ اپنے آپے سے باہر ہوتی روتے ہوئے ہچکیوں سے بولی اب اسے یہ فکر لاحق ہوئی تھی,,,

کچھ غلط نہیں کیا عنایہ ہم نے ہمارے درمیان پاک رشتہ قائم ہے کوئی کچھ نہیں بول سکتا آپ اتنا کیوں رو رہی ہیں کوئی گناہ نہیں کیا ہم نے ، ثمر اُسکے بالوں میں اپنی اُنگلیاں اُلجھاتے سمجھاتے ہوئے بولا ۔انداز بے حد نرم تھا

بس آب روئے نہیں بھروسہ کریں مجھ پر میں سب ٹھیک کر دونگا سب کو منا لونگا میں آنچ بھی نہیں آنے دونگا آپ پر آپ پر اُنگلی اٹھانے والے کے میں ہاتھ کاٹ دونگا اور آپکے خلاف بولنے والوں کے منہ میں زبان نہیں چھوڑونگا میں، آپ میری محبت ، میری عزت میری زندگی اور میری زندگی کا قیمتی سرمایہ ہیں ، وہ اُسکا سر اپنے سینے سے لگاتا محبت سے چور لہجے میں بولا ، اُسکے ایک ایک الفاظ سے اُسکی پاک محبت چھلک رہی تھی ، ہاں وہ چاہتا تھا اُسے نہیں چاہنا تو بہت چھوٹا لفظ ہے وہ عشق کرتا تھا عنایہ سے اور اسی عشق کی پٹی نے اُسے اندھا کر رکھا تھا جو وہ اُس دوغلی عورت کا بھیانک چہرا نہیں دیکھ پا رہا تھا ، اچھا بس اب رونا بند کریں ، میں ہر وقت ہر لمحہ ہر منٹ ہر پہر آپ کے ساتھ ہوں ، میری محبت آپ کے سارے دُکھ آپکے سارے غم حتٰی کہ آپ کے دل سے ہر خوف مٹا دیگی ، میں اس دل میں کسی کا خوف نہیں بلکہ اپنے لئے محبت دیکھنا چاہتا ہوں ، وہ اُسکے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ایک بار پھر محبت سے گویا ہوا ،

اُسکا ایک ایک الفاظ اُسکے سچے جذبوں کا پتہ دے رہا تھا ، اُسکا دل ایک خوبصورت اور نایاب دل تھا جس کی اُس بے قدر لڑکی کو قدر نہیں تھی ، وہ غلط صرف اُسکے ساتھ نہیں بلکہ در حقیقت وہ اپنے ساتھ کر رہی تھی ، جسکا احساس اُسے ابھی نہیں تھا پر ایک نہ ایک دن اُسے یہ احساس ضرور ہونا تھا کہ ثمر جیسے انسان کے دل کے ساتھ کھیل کر اُس نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا گناہ کیا تھا ،

کیا اس دل سے تمام خوف نکال کر میری محبت ڈال سکتی ہیں آپ ؟؟ وہ اُسکے ہاتھ ویسے ہی اپنی گرفت میں لئے سوال گو تھا ،

عنایہ نے اثبات میں سر ہلاتے اُسے جواب دیا,,, ثمر نے مسکراتے اُسکے مخملی ہاتھ اپنے لبوں سے لگاۓ تھے ،

چلیں آپ فریش ہوجائیں ناشتے کے بعد آپکو گھر ڈراپ کر دونگا ، وہ ایک عقیدت بھرا بوسہ اُسکے ماتھے پر دیتا پیچھے ہٹا,,

رکیں میں کپڑے لے کر آیا آپ کے لئے, وہ کہتا کمرے سے نکلا تھا اور ٹھیک پانچ منٹ بعد وہ درخنے کے کپڑے لاتے اُسے تھاما گیا ، یہ میری بہن کے کپڑے ہیں وہ ساحر بھائی اور مور اکثر یہاں رکنے آتے ہیں اس لئے اُسکے کپڑے موجود تھے ، وہ مسکراتا اُسے تفصیل سے بتانے لگا ۔

عنایہ کا دماغ جیسے ماؤف ہو چکا تھا وہ خود پر فلوقت ضبط کرتے مُسکراتے اُسکے ہاتھ سے کپڑے لیتی واشروم میں بند ہوگئ ،

کچھ ہی دیر میں اُسکے فریش ہو کر آتے ہی ناشتے کے بعد وہ اُسے ڈراپ کرنے کے لئے سکندر مینشن کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔۔۔


آج سنڈے تھا اُسکا دیر تک سونے کا موڈ تھا پر اشرفی کے مطابق جہاں اشرفی موجود ہو وہاں بھلا کوئی اتنا پرسکون کیسے رہ سکتا تھا ، ابھی بھی وہ گہری نیند میں رنگ برنگی تتلیوں کے میٹھے خواب میں تھی کہ اشرفی کی آواز نے اُسکی نیند میں خلل ڈالا ، جو اپنی بے سری پتلی آواز میں گانا گاتا پورے محلے کو جگانے کے در پے تھا ،

دل کو قرار آیا ، مجھے مجھ پے ہی پیار آیا پہلی پہلی بار آیا اُو یارا,,,, اچھے بھلے گانے کی ریڈ مارتے وہ با آواز بلند گا رہا تھا ۔۔

مٹھو پلیز سونے دو یار ,,,, حرم مچی آنکھوں سے ہی نیند میں بولی پر وہ اشرفی ہی کیا جس پر کسی بات کا اثر ہوجائے ،

اے ظالموں اُٹھو اور اپنے چہیتے لاڈلے راج دلارے سب کی آنکھوں کے تارے کو ناشتہ دو ، وہ حرم کی آواز سن کر بولا

یار تُم بھی نہ سونے نہیں دینا مجھے ، آخر تنگ آتے وہ اُٹھ بیٹھی ، ایک ناراض سی نظر اشرفی پر ڈالتی واشروم میں بند ہوگئی ،

ارے مجھے تو ساتھ لے جاؤ ، فریش ہونے کے بعد اُس نے قدم ابھی کمرے سے باہر نکالا ہی تھا کہ اشرفی اڑتا ہوا آیا اور اُسکے کندھے پر بیٹھتا بولا ،

آ تو گئے ہو تُم خود ، وہ کہتی آگے بڑھ گئی ،

کچن کی طرف بڑھتے اُسکی غیر ارادہ سی نظر لاؤنچ کے صوفے پر بیٹھی راحیلہ پر پڑی ، یقیناً اُنکی پوری رات یونہی لاؤنچ میں بیٹھے گزری تھی ، اتنی صبح صبح یوں اُنہیں پریشان دیکھ حرم اُنکی جانب بڑھی ،

کیا ہوا ماما آپ پریشان لگ رہی ہیں سب خیریت ہے ؟ اُنہیں بیرونی دروازے پر نظریں ٹکائے دیکھ وہ متفکر انداز میں بولی،

حرم کی آواز پر راحیلہ ایک دم سوچوں کی دنیا سے حال میں آئی تھی ، اشرفی بھی آنکھوں کو چھوٹا کرتا اُنہیں ہی دیکھ رہا تھا اس وقت خاموش رہنے میں ہی اُس نے عافیت جانی تھی ،

راحیلہ بیگم کو سمجھ نہ آیا کہ وہ حرم کو کیا جواب دیں کیا اُنکے دل میں چلتے وسوسے پریشانیاں حرم کو بتانا سہی تھا نہیں اُنکے دل سے فوراً نہ کی آواز آئی تھی ، وہ ابھی چھوٹی تھی معصوم تھی عنایہ کے بارے میں بتا کر وہ اُسے بھی پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی ،

آپی آپ کہاں گئ تھی اتنی صبح صبح ؟؟؟ راحیلہ بیگم ابھی کوئی بہانہ سوچتی حرم کو بتانے کے لئے کہ حرم کی آواز پر اُنہوں نے فوراً بیرونی دروازے کی سمت دیکھا تھا ، جہاں سے عنایہ اندر داخل ہو رہی تھی ،

رہنے دو حرم اس سے کوئی سوال نہ کرو یہ صرف اپنے بابا کے آگے جواب دے ہے ہم اس کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتے، کرنے دو اسے اپنی منمانی کوئی سوال نہیں کرو تُم ، عنایہ کے کچھ بولنے سے پہلے ہی راحیلہ بیگم سُرخ آنکھوں سے اُسے دیکھتی بولی اور نظر اُس سے ہٹاتی اپنا رخ پھیر گئ ،

عنایہ جانتی تھی اُس سے یہ سوال کیا جائے گا اُسے علم تھا اپنی ماں کے اس رویے کا اس لئے راستے میں ہی وہ ہر سوال ہر رویے کے لئے خود کو تیار کر گئ تھی ، ہاں وہ اتنی کمزور نہ تھی کہ ایک بات کو ہی لے کر کونے میں بیٹھ کر روتی رہتی اُسے حالات سے لڑنا آتا تھا اُسے گر کر اٹھنا آتا تھا ، وہ اپنی کمزریوں کو طاقت میں بدلنے کی ہمت رکھتی تھی ، اس لئے تو اتنے بڑے بڑے کام وہ بنا کسی خوف کے کر لیتی تھی وہ ایک خود عتماد لڑکی تھی جو چیز اُسے نہ ملے اُسے چھیننا یہ حاصل کرنا اُسے اچھے سے آتا تھا وہ ہر بات قسمت پر نہیں چھوڑتی تھی بلکہ اپنی قسمت خود بدلنا جانتی تھی یہی وجہ تھی کہ کبھی وہ خوش نہیں رھ پاتی تھی کیوں کہ اپنی قسمت پر اپنے خدا پر اور اُس کے فیصلوں پر یقین نہ رکھنے والوں کا انجام بہت بُرا ہوتا ہے، حاصل لاحاصل سب پاک پروردگار کے ہاتھ میں ہوتا ہے کسی کو بن مانگے وہ چیز مل جاتی ہے جو کسی اور کی چاہت ہوتی ہے اور کسی کو لاکھ منت مراد سے بھی نہیں ملتی وہ خدا واقف ہے جانتا ہے کسے کب کیسے اور کس چیز سے نوازنا ہے ، جو ہمارے لئے بہتر نہیں ہوتا وہ ہمیں نہیں دیتا پر ہم انسان ہی ہیں جو ہمیشہ اُسکے فیصلوں کو نہیں سمجھ پاتے وہ ستر ماؤں سے زیادہ چاہنے والا خدا بھلا ہمیں کیسے دُکھ دے سکتا ہے ،

میں مارننگ واک پر گئ ہوئی تھی,, وہ پُر عتماد سے حرم کو جواب دیتی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ، وہ بہت جلدی ہی خود کو سنبھال گئ تھی ،

اُسکے اس جھوٹ پر راحیلہ بیگم نے لب بھینچے تھے ، ماما آپ فریش ہو کر آجائیں میں آپکے لئے اور اپنے لئے مزیدار سا چیز آملیٹ بناتی ہوں ، عنایہ کے اس رویئے کی وہ عادی ہورہی تھی اس لئے اُسکے جاتے ہی وہ نورمل سے انداز میں وہ مسکراتی راحیلہ سے بولی ،

میرے لئے بھی ,,, پوری شان سے اُسکے کندھے پر بیٹھے اُس نواب زادے کی آواز برآمد ہوئی ،

اُسکی بات پر وہ دونوں ہی مسکرائی تھی ،

ٹھیک ہے تُم بناؤ میں آتی ہوں تھوڑی دیر میں ، وہ زبردستی مسکراتی اُس کے ماتھے پر لب رکھتی بولی اور اسے کچن کی طرف بڑھتا دیکھ وہ بھی اپنے آنسووں کا پھندا گلے سے اُتارتی عنایہ کے کمرے کی طرف بڑھی ،

کہاں سے آرہی ہو تُم ؟ کمرے میں آتے ہی وہ اُسکے مقابل کھڑی ہوتی سخت لہجے میں سوال گو ہوئی

کہا تو ہے مورنینگ واک پر گئ تھی ، کندھے اُچکاتی عام سے انداز میں بولی ،

اچھا دوست کے گھر سے کب آئی تھی رات کو ؟؟ اُسکے جھوٹ پر افسوس سے گردن نفی میں ہلاتی وہ بغور اُسے دیکھتی ایک بار پھر سوال گو ہوئی ،

رات کو اگئی تھی آپ سو رہی تھی اس لئے جگانا مناسب نہیں سمجھا میں نے ، موبائل کی سکرین میں تیزی سے اُنگلیاں چلاتی بولی جھوٹ اُس وقت بولنا جب میں سچ سے واقف نہ ہو, میں پوری رات تُمہارے انتظار میں لاؤنچ میں بیٹھی جاگتی رہی ہوں ، پر تُم ابھی آئی ہو ، راحیلہ کی بات پر اسکرین پر چلتے اُسکے ہاتھ ایک دم ساکت ہوئے تھے آنکھیں غیر یقینی سے پھٹی تھی ، ننھی پیسنے کی بوندیں ماتھے پر چمکی تھی ،

اب سچ سچ بتاؤ مجھے تُم کہاں تھی ؟؟؟ اسکے ہاتھ سے موبائل چھین کر بیڈ پر پٹختے بولی ، اُنکا دل تو عنایہ کا چہرا تھپڑوں سے سُرخ کرنے کا چاہ رہا تھا پر وہ خود پر اور اپنے ارادوں پر ضبط کر گئ ،

ماما اائی ایم سوری میں دوست کے گھر ہی رک گئی تھی رات آپ ناراض نہ ہوں صرف اس لئے آپ سے جھوٹ بولا کے رات میں ہی آگئی تھی ، عنایہ فوراً ایک اور بہانہ تلاشتی ایک بار پھر جھوٹ بولنے لگی ،

میری ناراضگی کی اتنی فکر ہوتی تو تُم جاتی ہی نہ وہاں ، اور مجھے تمہاری کسی بات کا اعتبار نہیں عنایہ ، تیش بھری نظروں سے اُسے دیکھتی بولی ،

ماما میں سچ کہہ رہی ہوں میرا یقین کریں ، اور پلیز نہ یہ ناراضگی چھوڑ دیں نہ وہ اُنہیں اپنے حصار میں لیتی لاڈ سے بولی ،

راحیلہ بیگم بُری طرح اُسکے ہاتھ جھٹکتے دور ہٹی ، وہ ابھی کچھ بولتی کہ حرم کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھ وہ خاموش ہو گئی ،

ماما آپی ناشتہ ریڈی ہے آجائیں ،وہ کمرے کے دروازے سے سر اندر کرتی بولی ،

تُم جاؤ بیٹا ہم آتے ہیں ، راحیلہ بیگم نے نرمی سے کہتے اُسے وہاں سے بھیجنا چاہا ، ۔

نہیں میرے ساتھ چلیں آپ دونوں ابھی ناشتہ ٹھنڈا ہو رہا ، وہ کسی ضدی بچے کی طرح معصومیت سے بولی ، راحیلہ بیگم بھی چار و ناچار عنایہ پر ایک آخری سُرخ جتاتی ہوئی نظر ڈالتی باہر کی طرف بڑھ گئ ، اور عنایہ بھی حرم کی آمد پر شکر کا سانس لیتی جان بخشی پر خوش ہوتی اُنکی تقلید میں آگے بڑھ گئی....

●︿●●︿●●︿●●︿●


آفس سے آتے اسے کافی وقت لگ گیا تھا کلائنٹس کو ناصرف کافی اچھے سے ہینڈل کیا تھا بلکہ پروجیکٹ بھی مکمل اپنے ہاتھ میں لے چکا تھا مگر اس سب میں اسے اپنے اعصابوں پہ کافی تکھن سوار ہوتی محسوس ہورہی تھی, کال کر کے اسنے آج کی میٹنگ کے بابت ساری ڈیٹیلز تفصیل سے سنایہ کو بتا دی تھی اور اب وہ اپنےفلیٹ پہ موجود ادھر سے ادھر چکر کاٹتا کسی گہری سوچ میں غرق تھا,,,,


آدھا گھنٹہ ہونے کو آیا تھا اسے یوں ہی کسی غیر مرئی نقطے پہ مسلسل غور کرتے ہوئے آفس سے آتے اسے نہ ہی کھانے کا ہوش تھا اور نہ ہی کوئی سوچ دماغ میں گردش کر رہی تھی سوائے سنایہ وکٹوریہ کے خیال کے,,,,

وہ اب بھی سرگردان تھا اسکی حالت کو سوچتے ,,,,,

آخر ایسی بھی کیا بیماری ہے سنایہ کو جو پل میں ٹھیک ہوگئی اور وہ ڈاکٹر یقیناً وہ بہت پہلے سے سنایہ کو جانتی ہیں یا شاید وہ اسکا علاج کافی عرصے سے کر رہی ہیں وہ مسلسل اپنی ہی سوچوں کا جال بن رہا تھا مگر کسی ٹھوس نقطے پہ نہیں پہنچ پارہا تھا,,,,,

ایک منٹ میں اتنی بڑی چیز کیسے مس کر سکتا ہوں,,,, قدم پلٹتے ناگہاں دماغ میں جھماکہ ہوا وہ خود سے مخاطب ہوتا ڈریسنگ ٹیبل پہ پڑے موبائل کی طرف بڑھا اور عجلت میں انگلیاں چلاتے اسنے فون کو کان سے لگایا,,,, بیل جارہی تھی مگر کوئی ریسیو نہیں کر رہا تھا,,,,

ریسیو ڈیمیڈ,,,, دبے غصے میں کہتا پھر نمبر ڈائل کرکے فون کان سے لگایا ,,,,جو دوسری ہی بیل پہ اٹھالیا گیا,,,,


ہیلو ساحر مجھے تم سے بہت ضروری بات کرنی ہے

کیا ہوا سب خیریت ؟؟ دوسری جانب فکرمندی سے سوال. کیا گیا,,,,

ہاں فلحال لیکن جو میں پوچھنے والا ہوں اسکا جواب تمہیں اپنے حواس بحال رکھ کر دینا ہوگا,,,, عادل نے بیڈ پہ دراز ہوتے کچھ عجلت بھرے انداز میں کہا کہ ساحر پوری طرح اسکی طرف متوجہ ہوا,,,,

مجھے یاد پڑتا ہے تمہارے بچپن کے ایلبم میں میں نے ایک لیڈی کی پکچر دیکھی تھی کیا تُم وہ پکچرز بھیج سکتے ہو ابھی ؟؟ عادل نے یاد کرتے ہوئے کہا ۔

دوسری جانب کلینک میں بیٹھے ساحر کو اس کے اس اچانک پکچرز مانگنے پر حیرت ہوئی تھی ،

اپنے سامنے بیٹھے مریض کو ضروری ہدایتیں اور دوائی کا نسخہ دیتے اب وہ مکمل عادل کی طرف متوجہ ہوتا گویا ہوا ،

ابھی تو میں کلینک پر ہوں ، گھر جا کر بھیج دونگا ، اچانک تُمہیں تصویروں کا خیال کیوں آیا ؟؟ ساحر نے اُسے جواب دیتے حیرت سے سوال کیا ،

ٹھیک ہے پھر تُم گھر جاتے ہی پہلے مجھے وہ پکچرز بھیجنا ، اُسکے بعد تفصیلی بات کرتے ہیں عادل نے لمبی سانس لیتے کہا

چل ٹھیک ہے پھر بات ہوتی ہے ساحر نے کہتے آخری کلمات پڑھتے کال کاٹ دی ۔۔۔


°°°°°°°°°°°


کیا ہوا حرم پھر مل گئی تُمہیں منہ دکھائی..؟ وہ ساحر کو کلینک رخصت کرنے کے بعد ابھی لاؤنچ میں بیٹھی ہی تھی کہ درخنے اچانک لاؤنچ میں نازل ہوتی اپنی ہنسی دباتے اُس سے کچھ فاصلے پر بیٹھتی بولی ، اُسے تو سوچ سوچ کر ہنسی آرہی تھی اب تک کہ کس قدر معصوم اور بیوقوف تھی حرم ۔۔۔۔

اُسکے سوال پر حرم نے اپنی شہد رنگ آنکھوں میں مصنوئی غصہ لئے اُسکی طرف دیکھا تھا ، پر اُسکے چہرے سے چھلکتی دبی دبی ہنسی اُسے بھی شرمانے پر مجبور کر گئ تھی رات کی گئ اُسکی شرارت سوچ حرم کے گال دہک اُٹھے تھے ، نظریں خود ہی جھک گئ تھی ،

کیا ہوا بتاؤ نہ دیکھو میں تو تمہاری دوست ہوں نہ مجھ سے کیا شرمانا ...؟ اُسکے گلابی گال اور جھکی نظر دیکھ وہ اُسے اپنی باہوں میں لیتی بولی ،

حرم نے ذرا سی نظر اُٹھا کر اُسکی طرف دیکھا جو اُسے ہی دیکھتی جواب کی منتظر تھی,,,,

یہ دیکھو ,,,, اُس نے احسان کرنے والے انداز میں بتاتے اپنے گلے میں پہنے پینڈنٹ کی طرف اشارہ کیا.....

ارے واہ,,,, آنکھوں کو بڑا کر کے مسکراتی اُسکے پینڈٹ کو دیکھتے اُس نے جیسے ہی ہرٹ بنے شیپ کو ٹچ کیا اُسکے چھوتے ہی ایک دم وہ ہرٹ دو حصوں میں تقسیم ہوگیا ، ایک سائڈ مائے لائف کے الفاظ لکھے تھے تو ہرٹ کے دوسری سائڈ ایک تصویر لگی ہوئی تھی جس میں حرم مسکراتی کیمرے میں دیکھ رہی تھی اور ساتھ ہی ساحر اُسے اپنے حصار میں لئے کھڑا مسکرا رہا تھا جبکہ اشرفی ساحر کے کندھے پر بیٹھا کیمرے میں ایسے دیکھ رہا تھا جیسے کسی نے زبردستی مار کر اُسے ساحر کے کندھے پر بٹھایا ہو ، یہ شاید اُس وقت کی تصویر تھی جب ساحر حرم کو گھمانے لے کر گیا تھا,,,,,

ہائی کتنا پیارا ہے ماشااللہ ، کتنے پیارے لگ رہے ہو تم اور بھائی ایک ساتھ ,,,,


اللہ پاک ہر بُری نظر سے بچائے ، ایسے ہی ہنستے مُسکراتے اور ایک ساتھ رہو,,,, اُس نے اپنے سامنے پلر کے اوٹ میں چھپے وجود کو دیکھ با آواز بلند کہا اور حرم کے پھولے گلابی گال لاڈ سے کھینچے ، آمین,,, حرم نے جھینپتے ہلکی آواز میں کہا ۔۔۔

پلر کے اوٹ میں کھڑی عنایہ کے وجود میں جیسے چیونٹیاں رینگنے لگی تھی ، دل میں ایک بار پھر حرم کے لئے نفرت کی چنگاریاں پھوٹنے لگی تھی ، جبکہ ساحر کو پانے کا جنون ایک نئے سرے سے اُسے للکار رہا تھا ، وہ سختی سے آنکھیں میچتی اور مٹھیاں بھینچے اپنے اندر بھڑکتی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرنے لگی ، دل تھا جو ابھی سب کچھ ختم کرنے کے لئے بضد تھا جبکہ دماغ اُسے جوش سے نہیں ہوش سے کام لینے کا کہہ رہا تھا ،

ریلیکس عنایہ ریلیکس ,,, بس کچھ دن ساحر نے آنا تُمہارے پاس ہی ہے,,,, خباثت سے مُسکراتے کہتی وہ ایک لمبا سانس لیتی خود کو پُر سکون کرنے لگی ،

دیکھتی ہوں کب تک بچاتے ہو تم دونوں بہن بھائی حرم کو مجھ سے ، کبھی تو اکیلی ملے گی نہ اور ویسے بھی بہن ہے میری میں جانتی ہوں کب کہاں کیسے وار کرنا ہے۔۔۔۔۔۔ وہ ساحر اور درخنے کی حرم کو اس سے دور رکھنے کی کوششیں سوچتی خود سے بولی ۔۔۔۔

ساحر کے لئے میں نے صرف ابھی ایک وجود کو خودکشی کیلیئے مجبور کر کے اس دنیا سے رخصت کیا ہے اگر ساحر کو پانے کے لئے مجھے دس قتل اور بھی کرنے پڑے تو بھی میں پیچھے نہیں ہٹونگی ، اور پہلا قتل تو میں تمہارا کرواؤنگی حرم نہ تُم ہوگی اور نہ ساحر کی تُمہارے لئے محبت ، بس ساحر ہوگا اُسکی میرے لئے محبت ہوگی اور میرا اُس کی محبت کا جنون ہوگا ، وہ خطرناک عزائم سے سوچتی ، دوبارہ چھپ کر اُنکی باتیں سننے لگی ،


کیا خیال ہے حرم کل کی مووی جو آدھی رھ گئ ہے وہ پوری نہ دیکھ لی جائے ,,,, چہرے سے ٹپکتی شیطانی مسکراہٹ دباتے وہ عام سے انداز میں کہتی اب اُسکے چہرے کے بدلتے تاثرات سے لطف اندوز ہونے لگی ۔۔۔۔

نہ نہیں وہ مجھے اشرفی کو کھانا دینے جانا ہے صبح سے نہیں گئ ، وہ تھوک نگلتے بامشکل بول پائی بھلا ہو جلد ہی اشرفی کا خیال اُسکے ذہن میں آگیا اور اُسے بہانہ سوجھ گیا ورنہ حرم کو ایسا لگ رہا تھا جیسے درخنے آج اُٹھی ہی اُسے تنگ کرنے کے لئے جو بار بار اُلٹے سیدھے سوال کر کے اُسے زچ کر رہی تھی ،

چھوڑو اُسے آؤ مووی دیکھیں میں بھی بور ہو رہی ہوں ، اُسکے بہانے دیکھ وہ منہ کے زاویئے بدلتے بولی ۔

نہیں بعد میں دیکھیں گے,,,,حرم کہتی کھڑی ہوگئ اور بغیر مزید اُسکی سنے کچن کی طرف بڑھ گئی ،

کیا ہوا بیبی کچھ چاہئے ؟؟؟ حرم کو کچن میں دیکھ ملازمہ موؤدب سے انداز میں بولی ۔۔۔

ہاں میں اشرفی کے لئے کھانا لینے آئی تھی ، حرم نے آس پاس نظر دوڑاتے جیسے کچھ تلاشتے کہا

بیبی جی جب آپ سب ناشتہ کر رہے تھے تب میں ساحر لالا کے کہنے پہ کھانا دے آئی تھی اشرفی کو ,,, ملازمہ کی بات پر حرم کو شدید حیرت ہوئی تھی بھلا ساحر نے ملازمہ کو کیوں کہا اشرفی کو کھانا دینے کو ، ہاں اسی لئے کہا ہوگا تا کہ میں نہ مل سکوں اُس سے پتہ نہیں کب یہ دونوں سدھرینگیں اور ایک دوسرے سے جلنا چھوڑیں گے ۔۔۔۔ حرم دل میں سوچتی ایک لمبی سانس لیتے ان سب باتوں کو ذہن سے جھٹکنے لگی ،

بیبی جی آج اشرفی کے ساتھ حارث لالا کی طوطی بھی تھی وہ کب ائی ۔۔۔۔ حرم کو گہری سوچ میں دیکھ وہ خوشگوار انداز میں بولی

ہاں وہ رات میں ہی آئی ہے اب یہی ہوگی ، تمام سوچیں جھٹکتے وہ نرمی سے مسکراتی بولی ۔۔۔۔

اچھا بیبی جی,,,, ہاجرہ اپا نے اُسکے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ دل میں ہی اُسکی اس مسکراہٹ کو دائمی رہنے کی دعا دی تھی ۔۔۔

آپ یہ کیا بنا رہی ہیں ؟؟؟ حرم نے اُنہیں سبزیاں کاٹتے دیکھ سوال کیا


میں دن کے کھانے کی تیاری کر رہی ہوں ، مہارت سے سبزیاں کاٹ کر سائڈ رکھتی گویا ہوئی ۔۔۔

اچھا آپ ہٹائیں میں بناتی ہوں آج کا لنچ ۔۔۔۔ حرم اپنی آستینیں فولڈ کرتی بولی

نہیں بیبی جی آپ آرام کریں میں بنا دونگی جلدی سے ابھی ساحر لالا ہسپتال سے اور داجی حجرے سے آتے ہی ہونگے ، جلدی جلدی ہاتھ چلاتے ساری مطلوبہ سبزیاں کاٹنے کے بعد کھانا بنانے کے لئے چولہا جلاتی بولی ۔۔۔


نہیں میں ہی بناونگی تُم مدد کروا لینا جلدی بن جائیگا کھانا ۔۔۔۔ حرم کہتی ہی اُسکو سائڈ کرتی خود چولھے کے آگے کھڑی ہو کر کھانا بنانے لگی ، ملازمہ کیا کرتی بیچاری وہ بھی آخر اُسکی ضد کے آگے ہار مانتی اُسکی مدد کروانے لگی ،

تقریباً ڈیڑھ گھنٹے میں اُن دونوں نے مل کر سارا کھانا تیار کر لیا تھا ، ملازمہ کو ٹیبل لگانے کا کہتی وہ فریش ہونے کے غرض سے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی ،

جلدی جلدی فریش ہوتے وہ ابھی واشروم سے نکلی ہی تھی کہ اپنے کمرے میں صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھے وجود کو دیکھ اُسے جھٹکا سا لگا تھا ، وہ آنکھوں میں حیرت ڈر محبت نہ جانے کیا کیا لئے سامنے بیٹھے وجود کو دیکھ رہی تھی

عنایہ آپی آپ یہاں ؟؟؟ شدید حیرت سے سوال پوچھا

عنایہ جو کب سے منتظر تھی کہ حرم اُسے اکیلی ملے, کچن سے اسے کمرے میں جاتا دیکھ وہ موقع نہ ضائع کرتے اُسکے کمرے میں پہنچ گئی تھی ،

ہاں میں,,,, تُم اتنا حیران کیوں ہو ؟؟؟کیا ایک ہی گھر میں رہتے میں اپنی بہن سے ملنے اُسکے کمرے تک نہیں آسکتی ، حرم کے ماتھے پر ننھے پسینوں کی بوندیں دیکھ وہ مسکراتی گویا ہوئی,,,

نہیں آپی ایسی بات تو نہیں,,, زبردستی مسکراتی گویا ہوئی ۔

مجھے پتہ ہے تُمہیں ساحر نے منع کیا ہوگا مجھ سے ملنے سے ، میں بھی تبھی ہمت نہیں کر پا رہی تھی تُم سے ملنے آنے کی پر کیا کرتی کب تک اپنی بہن سے دور رہتی دیکھو آج آگئی تُم سے بات کرنے ۔۔۔ آنکھوں میں مصنوئی آنسو لئے وہ نم آواز میں بولی ،

ساحر کیوں کر رہا ہے ایسا حرم ؟؟ تُمہیں نہ مجھ سے ملنے دیتا ہے نہ ماما بابا سے کیا تمھارا بھی دل نہیں کرتا مجھ سے ملنے کا بابا سے ملنے کا ؟؟ مصنوئی رونے کا شغل کرتی وہ روندی آواز میں پوچھنے لگی ۔۔

آپی ایسی بات نہیں ہے میرا بھی بہت دل کرتا ہے آپ سے ملنے کا آپ سے بات کرنے کا ، پر ,,, حرم کی آواز نم ہوئی تھی آنکھوں سے آنسو چھلکتے گالوں پر پھسلے تھے ،


پر کیا حرم ؟؟؟ حرم کے آنسو دیکھ اُسے جیسے اندر تک ٹھنڈک ملی تھی پر اپنے جذبات پر قابو کرتے وہ ایک بار پھر سوال گو ہوئی

پر میں جب بھی آپ سے یہ ماما بابا سے ملنے کا کہتی ہوں تو ساحر جی کو بُرا لگتا ہے ، اپنے آنسو صاف کرتے وہ معصومیت سے بولی

کتنے مہینے ہو گئے آپی میں نے ماما کو نہیں دیکھا بابا سے بات نہیں کی , میرا بہت دل چاہتا اپنے دل کی ہر بات بابا سے کروں پہلے کی طرح پر میں کیا کروں آپی کس کو چنو کِس کو چھوڑوں اور یہ سب میں نے یہ سوچتے قبول کر لیا ہے کہ ونی کی گئی لڑکی کا کوئی میکا نہیں ہوتا ، وہ رنجیدہ لہجے میں کہتی آخر میں تلخی سے مسکرائی تھی ، اُسکے آخری الفاظ سن دروازے پر کھڑی نور بانو کا دروازہ نوک کرنے کے لئے اُٹھا ہاتھ ساکت ہوا تھا ،


کیا مطلب ہے حرم تمھارا ونی لفظ سے نہیں کی گئ تُم ونی دھوکہ کیا ہے ان لوگوں نے تُم پر ظلم کیا ہے ، پہلے جب زندہ تھا انکا بیٹا پل پل مجھے ٹارچر کرتا رہا مر گیا وہ سائکو تو الزام مجھے دے دیا ۔ مجھ سے پوچھا کسی نے کہ کیسے بلیک میل کر کے اُس نے مجھ سے نکاح کیا اور نکاح کے بعد بھی مجھے منٹیلی ٹارچر کرتا رہا تھا وہ میں نے نہیں مارا اُسے حرم وہ پاگل تھا بہت عجیب تھا اُس نے خود خوشی کی تھی ،


میں بے قصور ہوں ..... تُمہیں بھروسہ ہے نہ مجھ پر حرم کیا میں کسی کی جان لے سکتی ہوں کیا ان سب کی طرح کیا تُم بھی مجھے ہی قصور وار سمجھتی ہو ؟؟ جھوٹے آنسو بھاتی وہ اُسکا نرم و ملائم نازک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتی پوچھنے لگی ،

حرم آنسو بہاتے نفی میں سر ہلاتے اُسکے گلے لگی تھی ، اور روتی نم آواز میں گویا ہوئی ، نہیں آپی میں جانتی ہوں آپ ایسا کچھ نہیں کر سکتی ، مجھے بھروسہ ہے آپ پر ، سب بہت اچھے ہیں آپی ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ساحر اور مور کو بھی ، حرم روتی اُسکے کندھے پر سر ٹکائے بولی ،

اُسکی بات پر عنایہ فتح مندی سے مسکرائی تھی ،

تُمہیں پتہ ہے حرم ماما کو اس قدر صدمہ پہنچا ہے تمہارا کہ وہ قومہ میں چلی گئی ہیں نہ کچھ بولتی ہیں نہ کچھ کھاتی ہیں بس آنکھیں بند کئے بنا کسی قسم کی حرکت کے بستر پر پڑی رہتی ہیں بابا بھی بہت پریشان ہیں وہ بھی ماما کی حالت دیکھ چھپ کر روتے ہیں ،

عنایہ کی بات سے حرم کا وجود ساکت ہوا تھا اُس نے عنایہ کی اور باتیں سنی چاہی پر اُسے ایسا لگا جیسے وہ بہری ہو گئ ہو ، اپنی ماں باپ کے ساتھ گزرا وقت کسی فلم کی طرح اُسکے ذہن میں گھومنے لگا تھا ، اُس نے اپنی دل کی دھڑکن سننی چاہی پر شاید اُسکی دھڑکنیں بھی ساکت ہو گئی تھی ۔۔۔

اگر ہو سکے تو تُم ماما بابا سے ملنے چلی جانا حرم کیا پتہ ماما اُٹھ جائیں بابا کا دل بھی تُمہیں دیکھنے کے لئے بے چین ہے ۔۔۔ وہ اُس سے دور ہوتی اُسکی ساکت آنکھوں میں دیکھتی گویا ہوئی ۔۔

حرم,,, اُسے خاموش دیکھ عنایہ نے پُکارا

حرم آنسو صاف کرتی اثبات میں سر ہلا گئ ،


نور بانو تو عنایہ کے کہے ثمر کے لئے الفاظ سن حیران تھی وہ اپنے آنسو پیتی اپنے کمرے میں بند ہوگئ تھی کمرے میں آتے ہی وہ دروازے کے ساتھ ٹیک لگائے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ،

نہیں تھا میرا ثمر پاگل ، وہ بلکل ٹھیک تھا۔۔۔۔ ہچکیوں سے روتی وہ خود سے کہہ رہی تھی ۔


چلو اب تُم رونا بند کرو , ساحر کے آنے کا وقت ہو گیا ہے میں بھی چلتی ہوں ورنہ فضول میں تُم پر غصہ کریگا ۔ عنایہ ایک بار پھر اُسے اپنے گلے لگاتے کمر سہلاتے بولی ، اور اُسکے کچھ نورمل ہوتے ہی وہ اُسے مزید ہدایتیں کرتی کمرے سے نکل گئی ، حرم کے کمرے سے نکلتے اُسکے چہرے پر فتح مندی کی مسکراہٹ رقصاں تھی اپنی طرف سے وہ تیر چلا گئی تھی اب دیکھنا یہ تھا اُسکا مارا تیر نشانے پر گیا بھی تھا کہ نہیں ،

حرم جتنا اپنے آنسوؤں پر بندھ باندھنے کی کوشش کر رہی تھی انسوں اتنی ہی روانگی سے چھلک رہے تھے ، واشروم میں جاتے اپنے چہرے پر پانی کی چھینٹیں مارتے اُس نے خود کے غم پر قابو پانے کی کوشش کی تھی ، کچھ ہی دیر میں وہ کافی حد تک خود کو سنبھال گئی تھی پر سُرخ آنکھیں صاف اُسکے شدت سے رونے کی گواہی دے رہی تھی,,,


♡♡♡♡♡

ماضی,,,،


عنایہ طبیعت خرابی کے باعث دو دن بعد یونیورسٹی آئی تھی راحیلہ نے تو سرے سے اس نافرمان اولاد سے بات چیت بند کردی تھی وہ بس سکندر صاحب کے گھر آنے کی منتظر تھی وہی سمجھا سکتے تھے بس اب عنایہ کو,,,,


*******

ثمر کچھ ہوگیا تو,,,, اس وقت وہ دونوں گارڈن ایریہ میں موجود تھے آس پاس کے ماحول سے بے خبر ثمر عنایہ کی گود میں سر رکھے آنکھیں موندے لیٹا تھا آس پاس اکا دکا ہی اسٹوڈینٹس نظر آرہے تو جو سرسری سا انہیں دیکھ اپنے راستے جارہے تھے یہاں تقریباً سب ہی لڑکے لڑکیاں اس طرح باہوں میں باہیں ڈالے بیٹھے ایک دوسرے میں گم تھے,,,

عنایہ پرسکون سی پیڑ سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی جب کچھ یاد آنے پر اسنے ثمر کے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے پوچھا,,,,


عنایہ آپ کیوں فکر کرتی ہیں کیا سب کو پتہ لگنے کے بعد میں آپکو چھوڑ دونگا ایسا تو نہیں سوچتی کہیں آپ,,,,

وہ اسکا ہاتھ اپنے سر سے ہٹاتے بغور اسے دیکھ پوچھنےلگا,,,,

ننہیں ایسا نہیں سوچتی مگر تمہاری فیملی مجھ جیسی لڑکی کو کیوں قبول کریگی ویسے بھی میرے گھر والوں کو بھی تم اچھی طرح جانتے ہو ثمر مجھے بہت ٹینشن ہورہی ہے اگر واقعی کچھ ہوگیا تو کیا ہوگا ثمر ہمیں اتنا بڑا قدم نہیں اٹھانا چاہیئے تھا,,,,

چہرے پہ بلا کی پریشانی لیئے وہ روندھے ہوئے لہجے میں بولی ثمر تیزی سے اٹھ بیٹھا,,,,


عنایہ پلیز جو ہوگا دیکھا جائے گا آپ بے فکر رہیں میں زندگی کے کسی موڑ پہ آپکو تنہا نہیں چھوڑونگا اور یہی وجہ ہے میں نے ہمارے رشتے کے لیئے جائز راستہ چنا ہے,,,,

دیکھیں میں پوری کوشش کرونگا گھر والوں کو منانے کی ویسے بھی داجی مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں وہ میرا کہا کبھی نہیں ٹالینگے وہ ضرور مان جائینگے,,,, عنایہ کے مومی ہاتھ اپنے مظبوط ہاتھوں میں لیتے ہوئے سمجھانے والے انداز میں بولا,,,,

عنایہ نے اثبات میں سر ہلایا,,,,

چلیں اب مسکرا کے دکھائیں ,,,,,وہ اسکا موڈ بحال کرنے کیلئے شریر انداز میں بولا,,, عنایہ پھیکی سی ہنسی مسکرا دی ,,,,


ہائےے اس مسکراہٹ پہ خان کا دل فدا ہے,,,,, وہ اسکا ہاتھ لبوں سے لگاتے دلکش انداز میں بولا,,,,عنایہ نے شرم سے سرخ ہوتے سر جکھایا,,,,

چلو اب کلاس کا وقت ہوگیا ہے چلتے ہیں,,,, عنایہ نے اپنی کلائی پر بندھی واچ میں وقت دیکھتے کہا اور اٹھ کھڑی ہوئی,,

ارے...ثمر نے اسے روکنا چاہا مگر عنایہ کے آنکھیں دکھانے پر وہ مسکراتے اٹھ گیا اور اسکا ہاتھ تھامے آگے بڑھا,,,,


ثمر ہاتھ تو چھوڑو میرا عنایہ نے دو قدم بڑھتے اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے نکالنا چاہا,,,

مگر ثمر بنا اسکی سنے یوں ہی مین گراؤنڈ کی جانب بڑھ گیا ابھی وہ دونوں ہی گراؤنڈ میں پہنچے تھے دونوں کے حسین چہرے پہ مسکراہٹ رقصاں تھی کہ اچانک سامنے ساحر کو کھڑا دیکھ عنایہ کے قدم ساکت ہوئے ,,,,


ثمر جو عنایہ کے کان میں کچھ کہہ رہا تھا اچانک عنایہ کو ساکت دیکھ نگاہیں اسکی نگاہوں کے تعاقب میں اٹھائی,,,, ساحر کو سامنے کھڑا دیکھ اسکے تاثرات بھی سنجیدہ ہوئے عنایہ کے ہاتھ پہ اسکی گرفت بھی ڈھیلی ہوئی اور ان کے برعکس ساحر کے تاثرات پتھریلے تھے آنکھوں میں سرخی نمایا تھی لیکن وہ ثمر کو نہیں بلکہ عنایہ جو شعلہ برساتی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا,,,

ببھائی وہ.... ثمر نے کچھ کہنے کیلئے منہ کھولا مگر ساحر کا اٹھتا ہاتھ دیکھ خاموش ہوگیا,,,,

داجی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے انہوں نے تمہیں یاد کیا ہے ملنا چاہتے ہیں وہ تم سے پرنسیپل سے میں بات کر چکا باہر گاڑی میں انتظار کر رہا ہوں جلد ہی پہنچو,,,, ثمر کی طرف دیکھتے بنا اسکی کوئی بات سنے وہ ٹھنڈے ٹھار لہجے میں کہتا عنایہ پہ ایک آخری کینہ طوز نگاہ ڈالتا بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا,,,,

ثمر کی تو جیسے سانسیں ہی خشک ہورہی تھی ساحر کا پٹھانوں والا روپ دیکھ ,,,وہ بھی اسکے پیچھے بڑھنے لگا تھا کہ عنایہ نے اسکے ہاتھ پہ گرفت سخت کردی,,,,

ثمر.... وہ بھرائی آواز میں بولی....

ڈونٹ وری عنایہ وقتی غصہ ہے میں سب سمبھال لونگا ہم رات کو کال پہ بات کرتے ہیں,,,, وہ دھیمے لہجے میں اسے تسلی دیتا اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے نکال گیا اور نرم سی مسکراہٹ اسے اچھالتا یونی سے نکلتا چلا گیا,,,

پیچھے عنایہ اسکی پشت کو دیکھ تنزیہ مسکرائی,,,,

ابھی وہ پلٹی ہی تھی کہ شیری کو سامنے دیکھ ٹھٹکی,, وہ اسی کی جانب بڑھ رہا تھا,,,

کیسی ہو عنایہ شیری نے اسے دیکھتے سوال کیا,,,, وہ آج ہی واپس آیا تھا مگر صبح سے اسکی ملاقات نہیں ہوئی تھی ابھی وہ اسے ڈھونڈنے کے غرض سے ہی نکلا تھا کہ عنایہ سامنے ہی ثمر اور ساحرکے ساتھ کھڑی دکھائی دی وہ انتظار میں تھا عنایہ کہ تنہائی کو اور اسکے لیئے اسے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا,,, وہ


میں ٹھیک ہوں,,,, کینٹین چل کے بات کرتے ہیں,,, وہ عام سے انداز میں کہتی کندھے پہ بیگ درست کرتی آگے بڑھ گئی,,,

وہ بھی اسکے تقلید میں چل دیا,,,,

*******


بھائی کیا ہوا ہے داجی کو؟؟؟ وہ جب سے گاڑی میں بیٹھا تھا ساحر نے اس سے کوئی بات نہیں کی تھی اسکے چہرے کی سختی کو دیکھتے ثمر نے بھی اس سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی تھی مگر کافی دیر گزر جانے کے بعد اسنے ہمت کرتے پوچھا,,,

بی پی ہائ ہوگیا ہے,,, وہ سنجیدگی سے بولا,,,,


اووہ اور مجھے دیکھ کر وہ بلکل ٹھیک ہوجائینگے وہ ماحول کو ہلکا پھلکا کرنے کیلئے بشاشت سے بولا,,,

ساحر نے سرخ نگاہیں اسکی طرف اٹھائی ثمر کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوئی,,,

وہ پھر ڈرائیونگ میں مصروف ہوگیا اور ثمر تھوک نگلتا موبائل نکال کر گیم کھیلنے لگا,,,,


بچے نہیں ہو ثمر اب تم سمجھدار ہوگئے ہو,,,, گاڑی کی خاموش فضاء میں ساحر کی بھاری سنجیدہ آواز گونجی ,,,,ثمر نے نظریں اٹھا کر اسکے تاثرات دیکھے جو اب بھی سنجیدہ تھے,,,,

ہر چیز سمجھانی ضروری نہیں ہوتی پہلے بھی تمہیں محبت سے سمجھا چکا ہوں کچھ لوگ جیسے دکھتے ہیں ویسے ہوتے نہیں ہیں تمہیں یونیورسٹی پڑھنے کیلئے کچھ بننے کیلئے بھیجا ہے تم اچھی طرح جانتے ہو داجی تمہیں اپنی نظروں سے زرا اوجھل نہ ہونے دیں بہتر ہے اپنے راستے بدل لو ورنہ مجھے مجبوراً سختی برتنی ہوگی,,,,, وہ تفصیل سے ٹھنڈے ٹھار لہجے میں بولا,,,,

ثمر اچھی طرح سمجھ رہا تھا ساحر کی باتوں کا اشارہ کس کی جانب ہے مگر اسکا غصہ دیکھتے وہ کچھ نہیں بولا,,,,, ساحر بھی ایک نظر اسکے چہرے پہ ڈالتا ڈرائیونگ کرنے لگا

●︿●●︿●●︿●●


ہممم کافی کلوز ہوگئی ہو ثمر سے سب ٹھیک تو جارہا ہے نہ,,,,اسے اوپر سے نیچے تک بغور دیکھتے شیری نے سوال کیا,,,,

ہاں سب ٹھیک جارہا ہے ثمر کو میں بہت اچھی طرح پھانس چکی ہوں اب بس مجھے کسی اچھے موقعے کی تلاش ہے ,,,,وہ اپنے اور ثمر کے درمیان قائم ہوئے تروتازہ رشتے کو گول کرتے ہوئے پرسوچ انداز میں بولی,,,,

اور ساتھ چہرے پہ آئی لٹوں کو پیچھے کیا جو تیز ہوا کے باعث بار بار حسین مکھڑے سے ٹکرارہی تھی,,,

شیری کا دل بے اختیار دھڑکا دل میں ایک عجب احساس نے انگڑائی لی شدت سے دل نے ایک لمحے کیلئے خواہش کی تھی کہ ان لٹوں کو وہ اپنی انگلیوں کے پوروں پہ محسوس کرے مگر عنایہ کے دیکھنے پر وہ نظریں چراتا ٹیبل کی جانب دیکھنے لگا,,,,کچھ توقف کو بعد وہ سر اٹھا کر بولا اپنے بہکتے بے لگام جزباتوں پہ وہ فلوقت بندھ باندھ چکا تھا,,,,


گڈ .....اب آگے جو کرنا ہے اس پہ دھیان دو,,,,شیری نے پین گھماتے ہوئے کچھ عجیب اندازمیں کہا,,,ناگہاں تاثرات بدل چکے تھے,,,,

مطلب,,,عنایہ الجھی,,,

اسے پھنساؤں اتنا کے وہ تمہارے قریب آئے اور مدہوش ہوجائے سب سے ضروری تھا نکاح جو کہ ثمر تم سے کرچکا ہے اب اسکے ساتھ تمہیں ایسا مظبوط رشتہ باندھنا ہے کہ گھر والوں کو سچ بتانے کے علاوہ اسکے پاس کوئی اور راستہ نہ بچے اور بس اسی کا فائدہ اٹھاتے تم نے ثمر نامی جڑ کو سرے سے اکھاڑنا ہے اور یہ ہوگا ساحر اور اسکے خاندان پہ کاری وار ثمر ایک ایسا مہرہ ہے جس میں حویلی

کے مکینوں کی جان بستی ہے اور سب سے زیادہ ثمر میں داجی کی جان قید ہے,,,, شیری کسی غیر مرئی نقطے پہ غور کرتے کچھ گھمبیر آواز میں بول رہا تھا,,,,

ایک لمحے کیلئے عنایہ کو اسکے انداز اسکے لفظوں سے خوف امڈ آیا مگر وہ عنایہ کے چہرے پہ چھائے خوف کے سائے لہراتے دیکھ خود کو کمپوز کرگیا اسکا انداز عنایہ کیلئے کافی نیا تھا اور کسی حد تک ہیبت ناک بھی,,,,


ککرنا کیا ہے....عنایہ نے کچھ ڈگمگاتے لہجے میں پوچھا,,,,مقابل کے ارادے اسے بہت بھیانک لگ رہی تھے,,,

کچھ خاص نہیں بس ثمر کو اتنا زچ کردو کہ وہ مجبور ہوجائے تمہارے بارے میں اپنے گھر والوں کو بتانے کیلئے راضی ہوجائے,,,,

شیری نے ابکی بار نارمل انداز میں جوس منہ سے لگاتے کہا,,,,عنایہ نے محض اثبات میں سر ہلا دیا اوکے اب چلتا ہوں ,,,,وہ کہہ کر بنا اسکی سنے نکلتا چلا گیا,,,,پیچھے عنایہ نے کچھ مشکوک اندازمیں اسکی پشت کو دیکھا اور اگلے ہہ لمحے سر جھٹکتی کندھے پہ بیگ ڈالتی اٹھ کھڑی ہوئی,,,,

♡♡♡♡♡♡♡♡


حویلی پہنچتے ہی وہ دونوں سب سے پہلے داجی کے کمرے کی جانب بڑھ گئے تھے,,, ساحر کے تاثرات بھی اب کافی حدتک نارمل تھے ثمر سے اسکے بعد کوئی بات نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی ثمر نے کوشش کی تھی اسکے لیئے یہی غنیمت تھی کہ ساحر نے اس سے کوئی سوال نہیں پوچھا ورنہ جس طرح ساحر کو تیش آرہا تھا اسے یہی لگ رہا تھا کہیں ساحر کو سب سمجھ تو نہیں آگیا مگر وہ اب بھی بس عنایہ اور اسکے درمیان محض وقتی کشش سمجھ رہا تھا اپنے طور وہ اسے سمجھاچکا تھا مگر ثمر جو قدم لے چکا تھا اب اسکی بربادی طے تھی,,,,

یہی نتیجہ ہوتا ہے جب ہم اپنوں کی بات نظر انداز کر کے غیروں پہ اعتماد کرتے ہیں اپنوں سے اپنا غم خوشی بانٹنےکے بجائے غیروں کو اپنا ہمدرد بناتے ہیں اور وہی غیر کبھی کبھی ہماری بربادیوں کی وجہ بن جاتے ہیں,,,,


**×***

ثمر..... داجی نے اسے کمرے میں داخل ہوتے دیکھ محبت سے پکارا انکی طبیعت واقعی کافی ناساز تھی ثمر دوڑتا ہوا انکے پاس آیا اور انکا ہاتھ تھامتے لبوں سے لگایا,,,,

یہ کیا حالت کرلی ہے داجی,,,

وہ متفکر لہجے میں پوچھنے لگا,,,,

بسسس تمہیں دیکھ لیا ہے اب دل کو ٹھنڈک ملی ہے میری یہ آنکھیں,,,وہ رکے,,,, میرے پوتے کو دیکھنے کیلئے ترس جاتی ہیں مگر یہ جو ساحر ہے نہ....... بڑا بے حس ہے.....کچھ توقف کے بعد وہ پھر ٹہر ٹہر کے بولے,,,


نہیں سمجھتا ہمارے جزبات ,,,,کیا بھروسہ ہے ہماری زندگی کا ,,,کب زندگی کی بازی ہار جائیں ,,,,

بس ایک یہی توخواہش ہے کہ,,,,سانس اکھڑنے کے باعث ایک لمبا سانس ہوا میں تحلیل کیا,,,اور پھر جملہ ادا کیا,, دم نکلے تو میرا پوتا میرے مقابل ہو میری روح کو تسکین حاصل ہو,,,, ,,,

جبکہ ثمر انکے انداز پہ مسکرا رہا تھا اور دروازے پہ کھڑا ساحر بھی مسکراتے نفی میں گردن کو جنبش دینے لگا,,,,

یہ ہمیشہ کا تھا جب بھی ثمر کو ایک مہینے سے زیادہ ہوجاتا تھا حویلی آئے داجی کی یہی حالت ہوجاتی تھی ایسا نہیں تھا وہ ناٹک کرتے تھے یا کوئی اور بات ,,,,بس یہ انکی محبت انکا لگن تھا جو اپنے چھوٹے پوتے ثمر سے بے حد تھا اسکے نقوش بلکل داجی کے مرحوم بیٹے شہروز سے میل کھاتے تھے ایک یہ بھی وجہ تھی ثمر سے اس قدر بے جاں لاڈ پیار کی,,,


داجی ایسی باتیں کیوں کرتے ہیں اللہ آپکی عمر دراز کرے ابھی آپکی عمر ہی کیا ہے ابھی تو ساحر بھائی کے بچوں کو کھلانا ہے آپ نے ,,,,ثمر نے داجی کو رنجیدہ ہوتے دیکھ شرارت سے کہاں,,,,اسکی شرارت سے کمرے میں چھائے رنجیدگی کے بادل چھٹے اور خنکی نے جگہ لے لی,,,,ساحر بھی گہری مسکراہٹ سے اپنے بھاری قدم اٹھاتا انکے قریب آیا,,,جبکہ داجی بھی نم آنکھوں سے مسکرا رہے تھے,,,

,,,,,,

داجی اسکے اچھے مستقبل کیلئے ہی اس قدر بے حس بنا ہوں آپ بجائے اس شیطان کو آخری لمحات میں دیکھنے کی خواہش رکھنے کہ اول کلمہ ادا ہو ایسی خواہش رکھیں اور یہ کیسی بات کہی زندگی کا پتہ نہیں اللہ نے چاہا تو عمر دراز ہے آپ اسکی شادی کروائیں گے موت کی وحی کس شخص کو نازل ہوتی ہے داجی یہ زندگی تو اللہ کی امانت ہے وہ بڑھاپے میں واپس لے یا جوانی میں کسے معلوم ہے,,,,داجی کا بی پی چیک کرتے وہ سلجھے انداز میں کہنے لگا,,,,ثمر بھی پوری توجہ سے ساحر کو سن رہا تھا اسکا انداز اس قدر متاثر کن ہوتا تھا کہ سننے والا مزید کی خواہش لازمی کرتا تھا,,,,,

,

بی پی اب ماشااللہ تقریباً نارمل ہے آپ دونوں باتیں کریں میں تب تک آتا ہوں بہت بھوک لگی ہے آپکے پوتے کو لانے کے چکر میں کچھ کھایا پیا بھی نہیں ہے اس بے حس پوتے نے ,,,,وہ ہدایت کیساتھ شرارتی سا شکویٰ کرتے کمرے سے نکل گیا اور ثمر سرجکھائے بیٹھا رہا ,,,,,

وہ یہی سوچ رہا تھا کہ کیسے ساحر بھائی پل میں نارمل ہوگئے,,,,

کیا ہوا میرے شیر کو کوئی پریشانی ہے؟؟اسے سرجکھائے خاموش دیکھ داجی نے کندھے پہ ہاتھ رکھتے پوچھا,,,ناگہاں ثمر کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹا,,,,,

نہیں داجی بس ویسے ہی یونی کے بارے میں سوچ رہا تھا جلد ہی خود کو سمبھالتے وہ مسکرا کے بولا,,,

ہمیں تو کچھ علم نہیں ان کالج یونی ورسیٹی جیسی بلاؤں کا ہمارے زمانے میں تو استاد گاؤں میں پیڑ کے نیچے تختی پڑھایا کرتے تھے کھلی تازی ہوا میں پڑھنے کا لطف ہی الگ آتا تھا,,,,داجی نے اپنا زمانہ یاد کرتے ثمر کو بشاشت سے بتایا جبکہ لہجے میں ابھی طبیعت کے باعث لڑکھڑاہٹ تھی ,,,,,,

تبہی ثمر کا موبائل بجا اسنے پوکیٹ سے موبائل نکال کر دیکھا تو اسکرین پہ عنایہ کا میسج جگمگارہا تھا,,,, جبکہ داجی بنا اسکے دھیان کی پروہ کیئے اسے گاؤں کے بابت بتانے لگے جو بھی کچھ اسکی غیر موجودگی میں ہوتا تھا,,,,مگر ثمر کا سارا دھیان عنایہ کے ساتھ تھا وہ ناسننے کے برابر ہی داجی کی بات سن رہا تھا مسکراہٹیں عروج پہ تھی اور داجی کو لگ رہا تھا شاید وہ انکی بات پہ مسکرا رہا ہے,,,,


°°°°°°

حال,,,,,


روتے روتے نہ جانے کب وہ الماری کی طرف بڑھی اور ثمر کی چیزیں نکال کر بیڈ کے قریب نیچے فرش پر بیٹھتی اُن چیزوں کو لبوں سے لگاتی رو رہی تھی ،

تُم پاگل نہیں تھے میرے بیٹے نہ ہی ظالم تھے تُم تو میرے سب سے پیارے بچے تھے معصوم سادہ سب کا خیال سب کا مان رکھنے والے ، وہ جھوٹ بول رہی ہے جھوٹی ہے وہ اُسکا ایک ایک الفاظ جھوٹا ہے ، وہ ہزیاتی ہوتی اُسکی تصویر پر اپنی جھریوں زدہ اُنگلیاں پھیرتے بولی ، بوڑھی آنکھوں سے اشک رواں تھے جبکہ دل خون کے آنسو رو رہا تھا ، ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے عنایہ کے الفاظ اُسکا دماغ ماؤف کر گئے تھے وہ کچھ بھی سوچ سمجھ نہیں پا رہی تھی ,

اللہ بہتر انصاف کرنے والا ہے بیٹا اُسکی لاٹھی بے آواز ہے ، وہ تمھارے قاتلوں کی رسی ضرور کھینچے گا اور جب وہ رب انصاف کرنے پر آئے گا دیکھنا تُمہارے مجرموں کو منہ چھپانے کی بھی جگہ نہیں ملے گی ، وہ اپنے آنسو صاف کرتی ثمر کی زندگی سے بھر پور مسکراتی تصویر کو دیکھتی بولی ، اُنکے لہجے اُنکے الفاظ سے صاف اُنکی بے بسی اُنکی تکلیف چھلک رہی تھی ، کیا آسان تھا اُن کے لئے اپنی جوان اولاد کا جنازہ دیکھنا ، وہ بھی اُس اولاد کا جسے ایک تنکا بھی لگ جائے تو اس گھر کے مکینوں کا سانس اٹک جاتا تھا ، نہیں ہر گز نہیں یہ اپنے جوان بیٹے کا جنازہ دیکھنا ہر گز اُس گھر کے لوگوں کے لئے آسان نہیں تھا پر اب رونے کے علاوہ رہا کیا تھا اُن کے پاس کچھ بھی تو نہیں جس نے جانا تھا وہ تو چلا گیا تھا ، انسان کو کسی پر اتنا اندھا اعتماد بھی نہیں کرنا چاہئے وہ مرا ہی اس اندھے اعتماد کی وجہ سے تھا جو اُس نے عنایہ جیسی لڑکی پر کیا تھا ، پر شاید ایسا ہونا بھی قسمت میں لکھا ہوا تھا ،

ہمیں ہر قدم اٹھانے سے پہلے یہ بات ضرور سوچ لینی چاہئے کہ ہماری زندگی محض ہماری نہیں ہوتی بلکہ ہماری زندگی تو ہمارے آس پاس کے لوگوں سے جڑی ہوتی ہے اور ہماری زندگی کے خاتمے میں کئی لوگ زندگی کو جینا بھول جاتے ہیں جیسے ثمر کی موت پر حویلی کے مکینوں کا حال تھا سب ہی ایک دوسرے سے یہ غم چھپائے گھوم رہے تھے پر یہ غم ابھی تک بھرا نہیں تھا اور نہ ہی کبھی بھرنا تھا اس نے ،

وہ ابھی بھی آنسو بھاتی ثمر کی تصویر سے باتیں کر رہی تھی ، پر اچانک کمرے کا دروازہ بجتا دیکھ وہ جلدی جلدی اپنے آنسو صاف کرتی شتاب کاری سے پھیلی چیزوں کو سمیٹنے لگی ۔۔۔

آجاؤ,,,, تمام چیزوں کو سمیٹنے اور اپنے آنسو پیتے خود کو کافی حد تک نورمل کرتے اُنہوں نے دروازے پر موجود وجود کو اندر آنے کی اجازت دی ،

مور کھانا کھانے چلیں ساحر بھائی اور داجی بھی آگئے ہیں ، اجازت ملتے ہی اندر کمرے میں داخل ہوتے بولی ،

نہیں تُم جاؤ مجھے بھوک نہیں ابھی ,,,, وہ ہمت نہیں کر پا رہی تھی ابھی کسی کا بھی سامنا کرنے کے لئے اس لئے اُنہوں نے بھوک نہ لگنے کا بہانہ کرتے سہولت سے اُسے ٹالنا چاہا ۔

ٹھیک ہے پھر آپ نہیں کھائینگی تو میں اور ساحر بھائی بھی نہیں کھائینگے اور جب ہم دونوں نہیں کھائینگے تو حرم اور داجی بھی نہیں,,,, اُسکا ابھی جملہ مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ نور بانو بول اُٹھی

ٹھیک ہے چلو تُم تو پیچھے ہی لگ جاتی ہو لڑکی,, اُسکی لمبی ساری تقریر سننے کا ارادہ ترک کرتی وہ اُسے بیچ میں ٹوکتے بولی ،

تو چلیں پھر ۔۔۔۔مُسکراتے کہتی وہ اُنہیں کندھوں سے تھامتے ڈائننگ ہال کی طرف بڑھ گئی ،

سب ہی اپنے اپنے کھانے پر متوجہ کھانا نوش فرمانے میں مصروف تھے کسی نے بھی حرم اور نور بانو دونوں کے موڈ کو خاص نوٹس نہیں کیا تھا ، یہ سب اس لئے تھا کیونکہ اُن دونوں نے ہی کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیا تھا ، پر ساحر کی گہری نظروں سے اپنی ماں کی آنکھوں میں دیکھتی سرخی اور حرم کا بجھا بجھا سا چہرا مخفی نہ رھ سکا تھا ، دونوں کا ہی موڈ اُسے کچھ غلط ہونے کا پتہ دے رہا تھا ۔

کھانے کے بعد سب ہی اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوگئے تھے ،

ساحر بھی حرم کو بعد میں دیکھنے کا سوچتے پہلے نور بانو کے کمرے کی طرف بڑھا تا کہ اُن سے فوٹو البم لے کر مطلوبہ تصویر وہ عادل کو بھیج سکے۔۔۔۔

وہ دروازہ نوک کرتا کمرے میں داخل ہوا ، نور بانو بھی اُسی وقت وضو کرتی واشروم سے نکلی تھی تا کہ نماز ادا کر سکیں ۔۔۔۔

کیا ہوا ساحر کچھ چاہئے ؟؟؟ ساحر کو اس وقت اپنے کمرے میں دیکھ اُنہیں حیرت ہوئی تھی کیونکہ اکثر ہی دوپہر کے کھانے کے بعد وہ داجی کے ساتھ زمینوں کے سلسلے میں ہاتھ بٹانے جاتا تھا ، داجی گاؤں کے سرپنچ ہونے کے ساتھ اب بوڑھے بھی ہوگئے تھے اس لئے اب یہ زمینوں کے مسائل دیکھنا اب اُن کے لئے ممکن بھی نہیں تھا اس لئے ساحر ہی دیکھ رہا تھا یہ سب بھی ،

ہاں چاہئے تو تھا پر پہلے یہ بتائیں کہ کیا ہوا ہے آپ کو اتنی خاموش کیوں ہیں آج ؟؟؟ ساحر نے کب سے پریشان کرتا سوال آخر کر ڈالا ،

نہیں بس تھوڑا جوڑوں میں درد تھا بوڑھی ہو گئی ہوں نہ,,,, درد تو ہوگا اب ، چہرے پر زبردستی مسکراہٹ لاتی وہ مضبوط لہجے میں بولی کہ ساحر کو شک بھی نہ ہو پائے اُنکی بات پر

تو آپ مجھے بتاتی نہ ، دوا لی آپ نے ...؟ وہ ایک دم پریشان ہوتا اُنکی طرف بڑھتے اُنکے ماتھے پر ہاتھ کی پُشت رکھتے ٹمپریچر چیک کرتا فكرمندی سے پوچھنے لگا ،

ہاں پریشان نہ ہو لے لی تھی میں نے اب آرام ہے ,,, تُم بتاؤ کیا چاہئے تھا ...؟ اُسے مطمئن کرتے اُنہوں نے اپنا سوال داغا

ہاں وہ مجھے فوٹو البم چاہئے اور کچھ پوچھنا بھی ہے آپ سے...... دو انگلیوں سے ماتھا مسلتا وہ کچھ جھجھکتے ہوئے بولا ۔۔

اچھا بیٹھو میں لاتی ہُوں ۔۔۔وہ اُسے بیٹھنے کا کہتی خود سائڈ ڈرور سے فوٹو البم نکالنے لگی ۔۔

البم لاتے ہی وہ وہ اُسے تھماتے خود اُسکے مقابل بیٹھی ،

ساحر نے جلدی جلدی پلٹتے اپنی مطلوبہ تصویر نکالی تھی ، اور پوری طرح نور بانو کی طرف متوجہ ہوا ،

مور میں جو بھی پوچھوں آپ نے سب کچھ سچ سچ بتانا ہے مجھے,,,, دیکھیں پلیز اب مزید کچھ بھی مت چھپانا مجھ سے ، جو بھی سچ ہے جس سے بھی منسلک ہے چاہے جتنا بھی تلخ ہے پلیز مور مجھے بتائیے گا ۔۔۔۔۔۔ تا کہ میرے بھائی کے قاتلوں کے گلے پھانسی کا پھندا ڈلوانے میں مجھے آسانی ہو ، ساحر نے بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا ۔

اُسکی باتیں نور بانو سمجھنے سے قاصر تھی کہ آخر وہ کس سچ کی بات کر رہا ہے پر اُسکا لہجہ اُنہیں پریشان کر رہا تھا ،

مجھے ماضی میں ہوا سب کچھ جاننا ہے مور آپ بتائینگی نہ...؟ ساحر نے پھر یقین دھانی چاہی ،

لفظ ماضی کے سچ پر اچانک ہی نور بانو کے چہرے پر پریشانی کے سائے لہرانے لگے تھے ، وہ دل میں اسی بات کی دعا گو تھی کہ جس سچ کے بارے میں وہ سوچ رہی ہیں وہ نہ ہو ۔۔۔ وہ دوبارہ اُس بارے میں بات کر کے اپنے زخم تازہ نہیں کرنا چاہتی تھی ، اُنہوں نے جواب میں غائب دماغی سے اثبات میں سر ہلایا ،

یہ کون ہیں مور....؟ ساحر نے فیملی فوٹو میں ایک خاتون کی طرف اشارہ کرتے پوچھا جو شہروز خان کے بائیں طرف کھڑی تھی ،

تصویر کچھ یوں تھی کہ داجی صوفے پر بیٹھے تھے داجی کے دائیں طرف ساحر جبکہ بائیں طرف ثمر بیٹھا ہوا تھا ، صوفے کے پیچھے ہی شہروز خان کھڑے تھے اور اُنکے دائیں طرف نور بانو ایک ماہ کی درخنے کو اٹھائے کھڑی تھی جبکہ شہروز خان کے بائیں طرف وہ خاتون اور ساتھ ہی ساحر کی ہم عمر ہی بچی اُس خاتون کے ساتھ کھڑی تھی ،

ساحر کے اچانک اس سوال پر نور بانو کی آنکھیں پھیلی تھی زبان پر جیسے کفل لگا تھا جس سچ کو وہ اپنے بچوں سے چھپاتی ائی ہے جس غم کو آج تک وہ برداشت کرتی ائی ہے ، اور جس سوال سے وہ آج تک بجتی آئی ہے آج وہی سوال دوسری بار ساحر کی طرف سے کیا گیا تھا پہلی بار ساحر کے کہنے پر انہوں نے جھوٹ کا سہارا لیتے یہ کہتے ٹال دیا تھا کہ یہ دور کی رشتےدار ہیں تمھارے بابا کی پر آج پھر وہی سوال اُنہیں کشمکش میں ڈال گیا تھا کہ وہ آخر کیا جواب دیں ، سچ بتا کر ساحر کی اور اپنی زندگی آسان کرتی یہ چھپا کر دوبارہ اپنی انا اور دل کو تسکین دیتی ۔۔۔۔

مور پلیز میں جانتا ہوں یہ کوئی رشتےدار نہیں ہیں اس لئے پلیز مجھے سچ بتائیں ۔۔۔ ساحر نے اُنہیں گہری سوچ میں ڈوبا دیکھ اُنکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا ،

تمھارے بابا کی دوسری بیوی ہے یہ ,,,,,, ایک طویل خاموشی کے بعد نور بانو کی سنجیدہ سی آواز کمرے کی خاموش فضا میں پھیلی ۔ اور یہ بات وہی جانتی تھی کہ یہ الفاظ ادا کرتے اُنکا دل کتنے ہی ٹکڑوں میں ٹوٹتے کرچی کرچی ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔


جو راز سالوں سے وہ اپنے سینے میں دفن کئے ہوئے تھی آج اُسکے سامنے آنے پر اُنکا ہال بے ہال ہوا تھا ،

نور بانو کے الفاظ کسی سرسراتی آواز کے ساتھ ساحر کے کانوں میں گونج رہے تھے اُسے لگا تھا شاید اُسے سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہے پر نہیں یہ الفاظ نور بانو کے منہ سے ہی ادا ہوئے تھے اور ہر ایک الفاظ صاف آواز میں ادا ہوا تھا ، ساحر کو سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا پوچھے اگلا سوال کونسا کرے اسی سوال کا جواب ہی اُسے حیرت میں مبتلا کر گیا تھا جیسے اُسکے الفاظ اُسکے سوال سب ہی کہیں گم ہوگئے تھے وہ غیر یقینی سے نور بانو کی طرف دیکھ رہا تھا جیسے پوچھ رہا ہو کیا واقعی یہ سچ ہے پر نور بانو کے چہرے پر چھائی تلخی اُسے اس بات کا بھی یقین دلا گئی تھی کہ ہاں یہی سچ ہے,,,, پر عادل کا اس سب سے کیا لنک..؟ اُسکے ذہن میں نیا سوال گردش کرنے لگا تھا ،


تمھارے بابا پڑھائی کے لئے امریکہ گئے تھے جہاں اُنہوں نے ایک لڑکی کو پسند کرتے اُس سے شادی کر لی تھی ، پر جب یہ سب داجی کو پتہ چلا تو اُنہوں نے فوراً ہی دھمکیاں دیتے اُنہیں واپس پاکستان بلا لیا تب ہماری شادی نہیں ہوئی تھی صرف ہمارے درمیان بچپن میں ہوئی منگنی کا رشتا قائم تھا ، سمندر خان نے یہ بات یہی دباتے سب سے چھپا دی تھی اور تمھارے بابا کو دھمکیاں قسمے دیتے مجھ سے شادی کرنے پر مجبور کر دیا وہ نہیں کرنا چاہتے تھے مجھ سے شادی وہ کہتے رہے کہ وہ دھوکہ نہیں دے سکتے مجھے وہ خوشیاں نہیں دے سکیں نگے پر سمندر خان نے اُنکی ایک نہ سنی اور بدنامی کے ڈر سے اس بات کو چھپاتے ہماری شادی کروا لی ، شادی کے پہلے دن ہی اُنہوں نے مجھ پر یہ باور کر دیا تھا کہ مجھ سے پہلے بھی اُنکی امریکہ میں ایک بیوی ہے,,,,, وہ بولتے بولتے رکی اور ایک پل کے لئے آنکھیں مندی اُنکے گلے میں آنسوؤں کا پھندا اٹکا تھا پر آنکھ سے ایک آنسو نہیں چھلکا تھا ،

آنکھیں کھولتے وہ دوبارہ گویا ہوئی,,,شادی کے شروع میں اُنکا رویہ بہت کھینچا کھینچا سا تھا مجھ سے ، پر میں نے یہ راز جانتے ہوئے بھی اپنے اپنے دل میں قبر بناتے اس راز کو دل میں ہی دفنا دیا ، پر آہستہ آہستہ وہ جیسے بھولنے لگے تھے اپنی پہلی بیوی کو ، خوش رہنے لگے تھے مجھے بھی خوش رکھنے لگے تھے تمھاری پیدائش پر وہ بہت خوش ہوئے تھے پورے گاؤں میں مٹھائی بانٹی تھی ، پھر ثمر کی پیدائش ہوئی اُسکا نام داجی نے تمھارے نام سے جوڑتے رکھا سب کچھ سہی چل رہا تھا وہ خوش اور مطمئن تھے میرے ساتھ پر پھر اچانک ایک دن اُنکی پہلی بیوی اپنی بیٹی کو لیتی جو تُم سے شاید سال بڑی تھی اُسے لئے حویلی پہنچ گئی اور داجی کے آگے کھڑی ہوتی اپنا حق مانگنے لگی ، میں نہیں تھی تب حویلی میں ، میں ہسپتال میں تھی کیونکہ درخنے کی پیدائش ہوئی تھی ، تُمہارے بابا بھی میرے ساتھ تھے اُس وقت بات کو پھیلنے اور بدنامی کے ڈر سے داجی نے اُسے یہی کہتے سب سے تعارف کرایا تھا کہ یہ اُنکی عزیز و کی رشتےدار ہیں اور گاؤں سیر کے لئے آئی ہیں ،

پر میرے گھر آتے ہی داجی نے تمھارے بابا سے کہہ کر اُسے طلاق دلوا دی تھی کیونکہ داجی کا یہی کہنا تھا کہ اگر وہ غیر مسلم نہ ہوتی تو وہ اُسے تمھارے بابا کی بیوی کے روپ میں حویلی میں قبول کر لیتے پر وہ ایک غیر مسلم تھی ، ایک بار پھر داجی کے آگے ہی مجبور ہوتے تُمہارے بابا نے اُسے طلاق دے دی , پر وہ صدمہ برداشت نہ کرتے بے ہوش ہوگئ اور ڈاکٹر کے چیک کرنے کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ اُسے کینسر ہے,,,, اور ڈاکٹر نے اُنہیں لمبے سفر سے سختی سے منع کر دیا ، داجی نے اُسکے علاج کروانے کا فیصلہ کرتے اُنکا علاج بھی شروع کردیا ، اور اُن کے لئے اسلام۔آباد میں ایک گھر لے لیا تا کہ وہ دونوں ماں بیٹی وہاں رھ سکیں ، کچھ ہی دنوں بعد حویلی میں درخنے کے عقیقے کی تقریب تھی ، جس تقریب کی یہ تصویر ہے ، تُمہارے بابا کی بےوفائی نے اُس عورت کو شاید توڑ دیا تھا ، اور ایک دن آخر وہ بنا کسی کو بتائے اپنی بچی کو لے کر کہیں چلی گئی داجی کو اُسکے جانے پر کوئی خاص فرق نہیں پڑا تھا ، پر تُمہارے بابا کا ضمیر پل پل انہیں ملامت کرتا رہا اور کئی سالوں تک حتٰی کہ مرتے دم تک اُنہیں ڈھونڈتے رہے پر وہ نہیں ملی ، پھر تمھارے بابا کے ساتھ جو ہوا وہ تُم جانتے ہو کیسے تمھارے داجی کے دشمن نے اُنہیں گولیوں سے لہو لہان کرتے موت کے گھاٹ اتار دیا ،

ساحر نے ازیت سے آنکھیں میچی تھی ، یہ سچ اُس کی برداشت سے شاید بہت بڑا تھا ، وہ اپنی ماں کا درد محسوس کر سکتا تھا پر کیا کرتا سچ جاننا بھی ضروری تھا

کمرے کے باہر کھڑے وجود کو بھی جیسے جھٹکا سا لگا تھا یہ سچ سن کر ، وہ بھی مزید اور کچھ سننے کی برداشت نہ پاتے اپنے کمرے کی طرف دوڑ گئ ۔۔۔۔۔

اور کچھ پوچھنا ہے...؟ نور بانو کی بات پر اُس نے نفی میں سر ہلایا تھا ،

اور وہ تصویر نکال کر اپنی پاکٹ میں رکھ گیا تا کہ عادل کو تصویر بھیج سکے , اور اُسکی طرف کی معلومات اور تفصیل سن کر کسی نتیجے تک پہنچ سکے۔۔

نہیں,,, آپ آرام کریں وہ اُنکے ماتھے پر بوسا دیتا کمرے سے نکل گیا ، اُسکے جاتے ہی نور بانو ضبط کرتے نماز ادا کرنے لگی ,,,

●︿●●︿●●︿●●︿●


یہ کیسی محبت ہے ساحر جی آپکی ..؟ میں اپنے ماں باپ بہن سے ملنا تو دور اُنکی بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی ، مجھے آپ نے محض خود تک اور اپنے گھر والوں تک ہی محدود رکھا ہوا ہے ۔ کیا میری کوئی فیلنگس نہیں میری ماں وہاں زندگی اور موت سے لڑتی مجھے دیکھنے کے لئے بے چین ہیں اور میں اتنی بے بس ہوں کہ اُن سے ملنے بھی نہیں جا سکتی ۔۔۔ ایک طرف آپ مجھ سے محبت کے دعوے کرتے ہیں اور دوسری طرف میری لئے آپ اپنی یہ انا قربان کرنے کو تیار نہیں ،کیسی محبت ہوئی...؟ نہیں یہ تو خود غرضی ہوئی ۔۔۔۔۔

عنایہ کی باتیں اُسکے ذہن میں گردش کرتی اُسے ساحر کے پاک اور سچے جذبوں پر بھی سوالیہ نشان بن کر اُسکے سامنے آرہی تھی ، اُس نے ہمیشہ سے ہی ساحر کا رویہ خود سے ٹھیک پایا تھا ورنہ ونی کر کے آئی لڑکی کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے وہ اچھے سے جانتی تھی ، وہ اب سے پہلے ساحر کے ساتھ خوش تھی پر اب ، اب عنایہ کی باتیں اُسے ساحر کے خلاف کر رہی تھی ، وہ معصوم اُس شاطر لڑکی کی باتوں میں آگئ تھی ،آتی بھی کیسے نہ وہ اُسکی باتوں میں آخر کو بہن تھی وہ اُسکی اور اُس پر تصادم عنایہ کا شکار کا طریقہ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا تھا کہ تیر سیدھا نشانے پر جا کر لگتا تھا ، ابھی بھی صوفے پر آرام داہ انداز میں سر صوفے سے سر ٹکائے چھت کو گھورتی گہری سوچ میں تھی ، ماں باپ کی یاد آتے اور خود کو یوں بے بس دیکھ آنسو اُسکی آنکھوں سے نکلتے کنپٹی میں جذب ہو رہے تھے ، اس سب کے دوران وہ یہ بات بھی تہہ کر چکی تھی کہ آج وہ ساحر سے بات کر کے اُسے ملوانے لے کر جانے کے لئے منوا کر ہی رہے گی ، وہ معصوم نہ واقف تھی کہ اپنی بہن کی باتوں میں آکر وہ انجانے میں ہی سہی پر ساحر اور اپنے رشتے کو کھوکھلا کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔۔۔ پر کسی حد تک اُسکی خواہش جائز بھی تھی اُسکا حق تھا ماں باپ سے ملنے کا ، ابھی بھی وہ ہنوز سابقہ پوزیشن میں بیٹھی گہری سوچ میں غرق تھی کہ اُسے کمرے کے باہر کسی کے قدموں کی چھاپ سنائی دی ، کوئی کمرے کی طرف ہی آرہا تھا ،

حرم نے فوراً سہی سے بیٹھتے اپنے آنسو صاف کئے تھے اور لمبی سانس لیتے فلوقت کے لئے ان باتوں کو اپنے ذہن سے جھٹکا ، اور خود کو نورمل کرتی بیٹھ گئی۔۔۔

ساحر نے کمرے میں قدم رکھا تو اُسے دروازے پر ہی نظریں ٹکائے صوفے پر بیٹھا پایا ۔


ہمم تو اسکا مطلب ہے تُم میری ہی منتظر تھی ۔۔۔۔۔ کمرے کا دروازہ بند کرتا کوٹ اُتار کر بیڈ پر پھیکتا وہ اُسی کی طرف قدم بڑھانے لگا ۔۔۔۔ نور بانو کے کمرے سے نکلنے کے بعد کافی حد تک خود کو سنبھالتا یہ راز کی صورت چھپا یہ بھیانک سچ وہ قبول کر گیا تھا وہ ایک مضبوط اعصاب کا مالک تھا ، کب کہاں کِس طرح چیزوں کا ہینڈل کرنا اُسے اچھے سے آتا تھا ، وہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا ، باپ کے بعد اُس نے بلکل ایک باپ کی طرح ہی اپنے بہن بھائی کی تربیت کے ساتھ اُس نے اُنہیں اس دنیا کے شر سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی ،پر ثمر کے معاملے میں اُس سے نہ جانے کہاں غلطی ہوگئ تھی ۔۔۔۔


اُسکی بات پر حرم محض مسکرا دی,,,,, اور وہ بھی مسکراتا اُسکے مقابل بیٹھتا ہآتھ بڑھا کر اُسے اپنے مضبوط حصار میں لے گیا ۔۔۔

کیا ہوا ہے حرم....؟ کوئی مسلا ہے کوئی پریشانی ہے تُمہیں تو بتاؤ مجھے.... اپنے سینے پر رکھے اُسکے سر پر اپنے لب رکھتا بالوں سے آتی خوشبو اپنی سانسوں میں اُتارنے لگا ۔۔۔ سمجھ تو وہ ڈائننگ ٹیبل پر ہی گیا تھا کہ کچھ نہ کچھ بات تو ضرور ہے جو حرم کو تنگ کر رہی ہے ، پر نور بانو کے پاس اُسے اتنا وقت لگ جائے گا اُسے نہیں معلوم تھا ،

حرم نے کوئی جواب نہ دیا ، وہ خاموشی سے اُسکے سینے میں سر چھپائے بیٹھی رہی ، شاید وہ سن بھی نہیں رہی تھی اُسے وہ تو اپنی ہی سوچوں میں مگن تھی۔۔۔۔

میں نے کچھ پوچھا ہے حرم....؟اُس نے اس بار سنجیدگی سے پوچھا ، اور آہستہ آہستہ اُسکے بالوں میں اپنی مضبوط اُنگلیاں چلانے لگا ۔۔۔۔

ساحر کی آواز پر حرم خیالی دنیا سے حال میں پہنچی تھی وہ اسی سوچ میں غرق تھی کہ کس طرح وہ ساحر کو منائے یہ کس طرح وہ اُس سے یہ بات کرے کیونکہ ساحر کے پچھلے الفاظ وہ بھولی نہیں تھی ، جب ساحر نے اُسے آخری بار تنبھی کی تھی کہ اُسکے سامنے وہ اپنے ماں باپ یہ بہن کا ذکر غلطی سے بھی نہ کرے ۔۔۔۔ اُسکی خاموشی اب ساحر کو بے چین کرنے لگی تھی اُسکے دل میں بے سکونی سی ہونے لگی تھی ۔۔۔۔

کّک کچھ نہیں,,,, اُسکے سینے سے سر اٹھاتے وہ نہ محسوس طریقے سے اُس سے کچھ فاصلہ قائم کرتی بولی ، ساحر نے اُسکی یہ حرکت نوٹس کی تھی پر وقت کی مناسبت سمجھتے نظر انداز کردی ،

دیکھو تُم جب تک مجھے نہیں بتاؤ گی تب تک وہ بات تُمہیں پریشان کرتی رہے گی ، اور اگر تم پریشان رھوگی تو سکون مجھے بھی نہیں آئیگا ۔۔۔۔ اس لئے شاباش اچھے بچوں کی طرح جو بھی بات ہے مجھے بتا دو ، دونوں ہاتھوں کے پیالوں میں اُسکا چہرا بھرتے وہ اُسے کسی چھوٹے بچے کی طرح ٹریٹ کر رہا تھا ،وہ تھی ہی بچوں کی طرح معصوم ۔۔۔۔

آپ غصہ تو نہیں کرینگے نہ ...؟ حرم نے بغور اُسکے چہرے کو دیکھتے پوچھا یہ بات کہتے ہوئے بھی اُسکے دل میں ایک ڈر سا تھا کہ کہیں وہ ساحر کو ناراض ہی نہ کردے ۔۔۔

نہیں کرونگا میں اب بھلا تُم پر غصہ کیسے کر سکتا ہوں ، اب جلدی سے بتاؤ بات کیا ہے .....؟ اُسکے ماتھے پر لب رکھتا بولا اُسکی اتنی توجہ اور محبت دیکھ ایک پل حرم کے دل میں یہ خیال آیا کہ وہ کچھ نہ کہے جو وہ سوچ رہی پر ,,,, عنایہ کی راحیلہ بیگم کی طبیعت کے بابت بتائے جانے والی بات یاد کر اُس نے دل کے خیال کو بھی جھٹک دیا ایک نظر اُسکی سوالیہ نظروں پر ڈالتی وہ دوبارہ اُسکے سینے پر اپنا سر رکھ گئ اور ایک لمبی سانس لیتے اُس نے بات کا آغاز کیا ،

ساحر جی ماما کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے وہ قومہ میں ہیں..... وہ کہتے روکی آنسووں کا پھندا سا اُسے اپنے گلے میں اٹکتا محسوس ہوا تھا ، ساحر جو بے چینی سے اُسکی بات کا منتظر تھا پر اُسکے منہ سے ادا ہونے والے جملے پر ایک پل کے لئے اُس نے آنکھیں میچی تھی اور دوسرے ہی پل کھولی تھی آنکھیں کھولتے ہی اُسکی شہد رنگ آنکھوں میں چٹانوں سی سختی تھی ۔۔۔

پلیز آپ مجھے اُن سے ملوانے لے کر چلے جائیں ... حرم کے اگلے الفاظ اُس کے کانوں سے ٹکرائے تھے ، کچھ دیر تو وہ خاموش اندر بھڑکتی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرنے لگا کیونکہ وہ جانتا تھا حرم اُس کے سامنے اب بھول کر بھی یہ بات نہیں کر سکتی ضرور کسی نے اُسے ,,,, اُسکا دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا اور اُسکا شک صرف عنایہ کی ہی طرف تھا ۔۔۔

تُمہیں کس نے بتایا کہ وہ قومہ میں ہیں ...؟ اپنے جذباتوں پر قابو کرتا وہ اُسکا سر اپنے سینے سے اٹھاتا چہرا مقابل کرتا نورمل سے انداز میں بولا ، اب اُن آنکھوں میں سختی کی کوئی رمق بھی ظاہر نہ تھی۔۔۔۔ وہ جانتا تھا سمجھ گیا تھا کہ یہ عنایہ کی چال ہے حرم کو اُس سے بد گماں کرنے کی اور اُسکی یہ چال وہ کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دینا چاہتا تھا ۔

حرم تُمہیں نہیں لگتا کہ تُمہیں مجھ سے کچھ نہیں چھپانا چاہئے۔۔۔۔۔ اُسکے نازک ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں لیتے بولا ۔۔۔


عنایہ آپی ائی تھی مجھ سے ملنے کمرے میں تو اُنہوں نے بتایا کہ ماما کی طبیعت بلکل ٹھیک نہیں وہ مجھے یاد کرتی ہیں ۔۔۔ حرم نے اُسکا اس قدر نرم لہجہ دیکھ بنا ڈرے سارا ماجرا اُسکے گوش گذار دیا ۔۔۔

ساحر نے سمجھتے اثبات میں سر ہلایا تھا اور اُسکا غم سمجھتے کمر سہلاتا اُسے حوصلا دینے لگا ، جبکہ اُسکا دل یہی چاہ رہا تھا کہ ابھی ہی جا کر اُس فساد کے مکمل درخت کو حویلی سے نکال باہر کرے ، پر خود پر ضبط کے پہرے بٹھاتے وہ ہوش سے کام لیتے حرم کو بہت ہی سمجھداری اور نرمی سے ہینڈل کر رہا تھا ۔۔۔

ہم چلینگے نہ ساحر جی ....؟ حرم نے ایک اور سوال کرتے اُسے کشمکش میں ڈال دیا ۔۔۔۔

ہاں پر ابھی نہیں کل کیونکہ راستہ لمبا ہے اور ابھی کچھ ہی دیر میں رات ہو جائیگی اس لئے کل چلینگے,,,,, وہ مسکراتا اُسکے گالوں پر ہاتھ پھیرتا گویا ہوا ،

حرم کے لب مسکرائے تھے ، وہ جانتی تھی وہ منا لیگی اُسے اس لئے تو اُس نے لڑائی جھگڑے کے بجائے سمجھدار بیوی ہونے کا ثبوت دیتے اُس کے آگے اپنی بات رکھی تھی ، کبھی کبھی ساحر کو دیکھ اُسے اپنی زندگی پر رشک ہوتا تھا کہ ساحر جیسا سمجھدار سلجھا ہوا محبت کرنے والا عزت دینے والا مان رکھنے والا شوہر اُسکی قسمت میں لکھا گیا اس سے زیادہ ایک لڑکی کو اور کیا خواہش ہو سکتی ہے .....


ارے ان سب میں اہم بات تو میں بھول ہی گیا کہ کیا تم نے اشرفی کو بتایا طوطی کے بارے میں ؟؟؟ اِسکا دیہان اس چیز سے ہٹانے کی کوشش کرتے اُس نے یاد کرنے والے انداز میں کہا ۔۔۔

نہیں میں نے نہیں بتایا میں ابھی تک ملنے بھی نہیں گئ اُس سے,,,, حرم نے فوراً اُسکے ہاتھوں سے اپنے ہاتھ نکالتے ہوئے کہا اور جانے کے لئے اُٹھ کھڑی ہوئی ،

رکو میں بھی چلتا ہوں,,,, اُسکا ہاتھ پکڑ کر روکتا وہ بھی جانے کے لئے اُٹھ کھڑا ہوا اور دونوں ہی بالکونی کی طرف بڑھ گئے ۔۔۔۔


*******


نہ جانے کون ہے کہاں سے آئی ہے کون لایا ہے کیوں لایا ہے اسے ,,,محترمہ بنی میرے گھر میں میرے جھولے میں بیٹھی ہے جیسے اسکے باپ کا گھر ہو اوپر سے پتہ نہیں کونسی زبان استعمال کر رہی ہے کچھ سمجھ نہیں آرہا اور دیکھتی ایسے ہے جیسے آنکھوں سے ہی کھا جائے گی ، اگر اس سے میری شادی کروانے کے لئے یہاں لائے ہیں تو اسے دیکھ کر میری شادی کی خواہش ہی مر گئی ہے ۔۔۔

پتہ نہیں وہ دونوں بھی کہاں ہے کچھ ہوش نہیں میرا ، اُنہیں ذرا فکر نہیں میری کہ میں زندہ ہو یہ مر گیا دروازہ بھی ایسے بند کیا ہوا ہے جیسے کوئی قیدی ہو میں ، مجھے کیا پتہ تھا حرم میری بلو رانی تُم اس پیشاوری ککڑ کے آتے ہی مجھے اس طرح نظر انداز کروگی,,,, یہ سب کچھ تمھاری وجہ سے ہوا ہے ساحر تُم نے کیا ہال کر دیا ہے جل ککڑے میرا مجھے میری ہی حرم سے دور کر دیا جلتے ہو تُم مجھ سے یوں ہی جل جل کر ہی کالے ہوگے تم دیکھنا لوگ تُمہیں افریقن پٹھان بولینگے,,,,, طوطی کو پوری شان سے اپنے گھر میں اپنے ہی جھولے میں آرام داہ انداز میں جھولا جھولتے دیکھ وہ جلا بھنا سا بولا صبح سے وہ عاجز آگیا تھا وہ میڈم نہ اُس سے بات کر رہی تھی نہ ہی اُسکی کسی بات کا جواب دے رہی تھی اگر وہ کچھ پوچھتا تو وہ اشرفی کو ایسے دیکھتی جیسے آنکھوں سے ہی اُسے جلا کر بھسم کر دے گی ،


♡♡♡♡♡♡♡♡


ماضی....


کل رات اسنے داجی کیساتھ ہی انکے کمرے میں قیام کیا تھا بلکہ ساحر بھی انکے ساتھ ہی ٹہرا تھا اور تینوں ہی رات بھر جاگ کر باتیں کرتے رہے تھے ساحر بار بار ہدایت دے رہا تھا داجی کو سونے کی مگر وہ تو بس مسلسل باتیں ہی کیئے جارہے تھے چار و ناچار تھک ہار کر ساحر بھی انکی باتوں سے لطف اندوز ہونے لگا تھا اور باتوں ہی باتوں میں وہ تینوں فجر پڑھ کر سوئے تھے دن کے بارہ بج رہے تھے داجی اور ساحر تو حسب معمول اپنے مقررہ وقت پر بیدار ہوگئے تھے مگر ثمر نیند کا بہت کچا تھا وہ اب تک گھوڑے بیچ کر سویا نیند کے مزے لے رہا تھا اور بس ایک وہی تو تھا جسے دن چڑھنے کے بعد بھی سونے کی. اجازت تھی ورنہ اٹھ بجے داجی کو حویلی کے مکین ناشتے کی ٹیبل پہ حاضر چاہئے ہوتے تھے اور یہ اس حویلی کا اصول تھا,,,,

داجی کی طبیعت کے پیش نظر وہ کچھ دن حویلی ہی ٹہر گیا تھا,,, رات داجی کے کہنے پر وہ موبائل بھی سائلینٹ کر چکا تھا ناجانے کب باتوں میں باتوں میں اسکی آنکھ لگ گئی اسے احساس نہ ہوا اور دوسری طرف عنایہ رات بھر کروٹ پہ کروٹ بدلتی رہی,,,,

اس وقت بھی وہ پرسکون سا سویا ہوا تھا کہ اچانک وہ نیند سے بیدار ہوا,,,, بامشکل نیند سے بوجھل آنکھوں کو وا کیا اور زہن میں پہلا خیال عنایہ کا ہی گردش کرنے لگا اسنے ہاتھ بڑھا کر موبائل تراشا مگر بے سود وہ پوری طرح بیدار ہوتے اٹھ بیٹھا اور اب پورے حواسوں میں ادھر ادھر ہاتھ مارتے موبائل ڈھونڈنے لگا جو لاکھ ڈھونڈنے پر بھی اسے نہ ملا کیونکہ اسکی نیند کا خیال کرتے داجی موبائل سرہانے سے اٹھا کر درخنے کو تھما گئے تھے اور وہ خود کھیت چلے گئے تھے سیر کیلئے,,,,,

تھک ہار کر وہ اٹھا اور باتھروم میں بند ہوا,,,, بنا فریش ہوئے بھی وہ باہر نہیں نکل سکتا تھا اسلیئے پہلے اسنے فریش ہونے کا سوچا ,,,,باتھ لیکر وہ فریش فریش سا باہر آیا اور آئینے میں سرسری سا خود کو دیکھتے عجلت میں باہر نکلا,,,,

اوئے لمبی چوٹی والی چڑیل,,,,, باہر نکلتے اسکا سامنا سب سے پہلے درخنے سے ہی ہوا جسکی دوپٹے میں سے بھی چوٹی دکھائی دے رہی تھی اور جب بھی وہ بالوں کی چوٹی کرتی تھی ثمر اسے اسی نام سے پکارتا تھا ,,,,درخنے نے اسکے ترز مخاطب پہ کھا جانے والی نگاہوں سے اسے دیکھا,,,, ثمر نے پورے بتیس دانت چمکاتے اسے مزید سلگایا,,,,,


تمہاری بیگم ہوگی چڑیل آئے بڑے جاؤ میں بات نہیں کرتی,,, وہ پہلے تیز اور پھر خفگی بھرے لہجے میں کہتی ٹرے اٹھانے لگی,,,,,

ہاں تو میں کونسا مرا جارہا ہوں تم سے بات کرنے کیلئے موٹی,,,, وہ کندھے اچکاتا دوبدو بولا اور فروٹ باسکیٹ سے کیلا اٹھا کر چھیلتے منہ میں رکھا,,,,

تمہارا موبائل میری حراست میں ہے بچے کہیں ایسا نہ ہو آج رات حویلی والے تمہارے مرحوم موبائل کی مغفرت میں فاتح پڑھ رہے ہوں ,,,,اسکی جانب شان استغنا سے پلٹتے وہ آنکھے پٹپٹا کے بولی,,,,,ثمر ایک لمحے کیلئے ساکت ہوا تاثرات ڈھیلے ہوئے اور درخنے مسکرا کے آنکھ ونک کرتی جانے لگی ثمر فوری ہوش میں آیا اور کیلے کا چھلکا سائیڈ پہ پھینکا,,,,


ارے میری پیاری بہن دنیا کی سسسببببب سے اچھی میری لاڈو سی بہن ہو تم تو یہ ستیلوں والی باتیں کیوں کرتی ہو بھئی اللہ نہ کرے ایسا ہو شب شب بولو نہ,,,,, اسے کندھوں سے تھامتے وہ نہایت شیریں لہجے میں بولا اور سب پہ خاصی زور دیا گیا,,,

درخنے کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی,,,

اچھا تو پھر وہ لمبی چوٹی والی چڑیل کس کو بول رہے تھے میرے بھائ جاان...... اسنے بھی اسی کے انداز میں سنجیدگی سے کہتے آخر میں جان کو لمبا کھینچا,,,,

ارے وہ تو میرے خواب میں آگئی تھی چلو اب پیاری بہن ہونے کا ثبوت دو اور میرا موبائل بتاؤ کہاں ہے,,,,

ثمر نے فوراً پینترا بدلا اور مدعے پہ آیا,,,,.

وہ تو میں ہوں نہ پیاری بہن مگر وہ موٹی کون تھی یہ تو بتاؤ,,,,

وہ پھر اسے زچ کرنے کیلئے بولی اسکا اتاولا پن وہ اچھے سے دیکھ رہی تھی,,,,, ارے وہ اپنے گاؤں میں شکیلا ہے نہ وہ محلے کے بچے کھاتی ہے یار بہت موٹی ہے سچ میں,,, خاصی ڈرامائی انداز میں تاسف سے سر ہلاتے کہا,,,,

اسکے انداز پہ درخنے کی ہنسی چھوٹی اور ساتھ ثمر کی بھی.....

چلو اب بند کرو نوٹنکی بتاؤ میرا موبائل کہاں ہے؟؟

درخنے کہاں رہ گئی ہو بیٹا,,,, ابھی وہ مزید اسے تنگ کرتی جب کچن سے آتی مور کی آواز پہ وہ ارادہ ترک کر گئی,,,

آپکے کمرے کی ڈرار میں رکھ دیا ہے عجلت میں کہتی وہ ٹرے تھامے کچن کی طرف بھاگ گئی,,,, پیچھے ثمر نے بھی شتاب کاری سے کمرے کی راہ لی,,,,,


***********


داجی اور ساحر بھی گھر آگئے تھے اور اب ساحر کو ہسپتال کیلئے نکلنا تھا اسکا ارادہ آج چھٹی کرنے کا تھا مگر ایمرجنسی کی وجہ سے اسے جانا پڑا,,,,

داجی آرام کی غرض سے کمرے کی طرف بڑھ گئے ساحر بھی تیار ہوتا باہر نکلا,,,,

بیٹا ثمر کہاں ہے,,,, درخنے کو گزرتا دیکھ ساحر نے پوچھا ثمر کافی دیر سے نہیں دکھا تھا اسے,,,,

بھائی وہ کمرے میں ہیں ناشتہ بھی نہیں کیا ہے اگر آپ جارہے ہیں انکے کمرے تک تو ناشتے کیلئے بھی کہہ دیجئے گا نواب صاحب کو میں تب تک آملیٹ بنا دیتی ہوں,,,,

درخنے ثمر کو بلانے ہی جارہی تھی ساحر کے پوچھنے پر وہ عام سے اندازمیں کہتی ساحر کا جواب پاتے کچن کی طرف بڑھ گئی,,,,

واچ پہنتے وہ اسکے کمرے تک پہنچا دروازہ کھلا تھا مگر ہمیشہ کی طرح اسنے بنا ناک کیئے ہی اندر داخل ہونا چاہا جب لفظ عنایہ پہ دروازے کی طرف بڑھتا ہاتھ ساکت ہوا قدم بھی اپنی جگہ جیسے پتھر کے ہوئے,,,,

آپ ناراض کیوں ہورہی ہیں عنایہ میں معافی مانگ تو رہا ہوں سچ میں بس آنکھ لگ گئی تھی,,,

میں بھلا آپکو کیسے نظرانداز کرسکتا ہوں جبکہ آپ واقف ہیں میری محبت سے,,,,

وہ منت بھرے لہجے میں کہتا اپنی محبت کایقین دلا رہا تھا ,,,,مگر دوسری طرف تو بے حسی کی انتہا تھی جیسے,,,,

ساحر کی برداشت لفظ محبت پہ اختتام کو پہنچی اور وہ دھاڑ سے درازہ کھول کر اندر داخل ہوا,,,

غصے کی زیادتی سے دو منٹ میں ہی چہرا سرخ ہوگیا تھا نگاہیں انگارے برسا رہی تھی مگر ان شعلا برساتی نگاہوں میں کئی سوال کئ شکوے رقم تھے جبکہ اسکے برعکس ثمر ساکت تھا کال بھی شاید منقطع ہوچکی تھی,,,


********


آپی آپکو بابا بلا رہے ہیں نیچے,,,, کال کے منقطع ہوتے ہی وہ بھی جیسے اظطرابی کیفیت کا شکار ہوگئی تھی ابھی اسی سوچ میں غرق تھی کہ آخر کون تھا تبہی کمرے کا دروازہ ناک کرتے حرم نور داخل ہوئی,,,, اور سکندر کا پیغام اس تک پہنچایا,,,.

آرہی ہوں,,,, وہ کچھ تلخ لہجے میں بولی اور اٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل کے پاس آتی بالوں کا جوڑا کرنے لگی,,,,

حرم ایک اداس سی نظر اس پہ ڈالتی کمرے سے باہر نکل گئی,,,,

سکندر صاحب پرسو رات ہی واپس آئے تھے مگر مسلسل راحیلہ کو خاموش دیکھ انہوں نے انکی پریشانی کی وجہ دریافت کی جسکے نتیجے میں راحیلا نے ساری رواداد من و عن اپنے شوہر کے گوش گزاری جسے سن انکا ردعمل کچھ سخت سامنے آیا عنایہ سے صبح بات کرنے کا کہتے وہ رات کو انہیں سلا چکے تھے اور صبح ضروری میٹنگ کے باعث انہیں آفس جلدی جانا پڑا اسکے بعد وہ اب ہالف ڈے میں تھکن کے باعث آفس سے جلدی آگئے تھے,,,,


********

جی بابا آپ نے بلایا؟؟عنایہ نے آتے ہی پہلا سوال داغا اپنے ماں باپ کے چہرے پہ چھائی سختی وہ بخوبی دیکھ چکی تھی مگر شاید اسے کسی قسم کا کوئی خوف نہیں تھا یہی وجہ تھی جو وہ پرسکون تھی دل میں کہیں خوف انگڑائی لے رہا تھا مگر وہ خود اعتماد لڑکی ڈر پہ قابو پارہی تھی,,,,

حرم بیٹا آپ اپنے کمرے میں جائیں,,,, اسکا سوال نظر انداز کرتے وہ محبت بھرے لہجے میں حرم نور سے مخاطب ہوئے,,,,, حرم اثبات میں سر ہلاتی مٹھو کو لیئے کمرے سے نکل گئی,,,,

سلام دعا بھی بھول گئیں ہیں آپ بیٹا,,,, حرم کے جاتے ہی کمرے میں سکندر صاحب کی بارعب آواز گونجی,,,


سسوری بابا "اسلام و علیکم" اسنے ندامت سے معزرت کرتے سلام کیا,,,,سکندر نے دھیمی آواز میں سلام کا جواب دیا اور اسے بیٹھنے کیلئے کہا وہ چھوٹے چھوٹے قدم لیتی بیڈ پہ انکے پاس سر جکھائے بیٹھ گئی,,,,

یہ کیا سن رہا ہوں میں,,, سکندر نے کچھ سختی سے پوچھا مگر آواز دھیمی ہی رکھی,,,,

عنایہ نے الجھتے نگاہ اٹھائی اپنی ماں کے تاثرات سے سمجھ تو وہ پہلے ہی گئی تھی سارا معاملہ مگر اداکاری بھی ضروری تھی,,,,

میری غیر موجودگی میں آپ ماما کے حکم کی نافرمانی کرتی ہیں انکے فیصلے کو رد کر کے آپ اپنے فیصلوں پہ چلنا گوارا کرتی ہیں ؟؟؟ سکندر صاحب نارمل انداز میں بولے مگر لہجے میں سختی کا عنصر نمایا تھا,,,,

عنایہ کی دھڑکنیں ڈھول کی طرح بج رہی تھی,,,, مگر وہ کچھ نہیں بولی باپ کے سامنے آواز نکالنے کی غلطی وہ کر بھی نہیں سکتی تھی,,,

آپکی خاموشی مجھے بتارہی ہے بیٹا کہ یہی حقیقت ہے کچھ توقف کے بعد سکندر صاحب کی بھاری آواز پھر کمرے میںَ گونجی ,,,,

مگر عنایہ کی جانب سے کواب ندارد,,, کہتی بھی کیا اپنی صفائی میں کوئی جھوٹی کہانی بھی تو نہیں بتا سکتی تھی بس یہ اسکی قسمت اچھی تھی جو راحیلہ رات بھر باہر رہنے والی بات سکندر سے چھپا گئی تھی اور شاید وہ یہیں غلطی کر گئی تھی مگر اب بتانے کا بھی کیا فائدہ ہونا تھا,,,

بس وہ خاموشی سے سر جکھائے پیر کے ناخونوں سے فرش کھرچ رہی تھی ہتھیلیاں مسلسل پسینوں سے بھیگ رہی تھی,,,,

مجھے شرمندہ کردیا ہے آپ نے اپنی ماں کے آگے اسی لیئے تو آپکو فریڈمز نہیں دیئے تھے کہ آزادیوں میں اندھی ہوکر آپ ماں باپ کے فیصلوں کے خلاف جائیں,,,,

اسے خاموش دیکھ وہ تاسف سے بولے لہجہ اب کافی سخت تھا آواز بھی زور پکڑ رہی تھی عنایہ کو ٹھنڈے پسینے آنے لگے تھے,,,جبکہ سکندر اپنے طور بے حد سلجھے انداز میں بات کر رہے تھے,,,

ایک مہینے تک آپ کہیں یا کسی قسم کی دوستوں کے ساتھ پارٹی میں نہیں جائینگی اور آئیندہ جس جگہ جانے سے آپکی مما منع کرتی ہیں وہاں جانے کیلئے کوئی بحث نہیں ہوگی میرے اکاؤنٹ سے بھی آپ ایک مہینے تک کوئی پیمنٹ نہیں نکالینگی,,,, دیکھا میں نے بینک کا بجڈ,,,,, اس قدر آزادیاں بھی اچھی نہیں پڑھائی پہ توجہ دیں اور ممما کیساتھ گھر کے کچھ کام کاج سیکھیں,,,,

وہ سخت اور اٹل لہجے میں اسے اپنا فیصلہ سناچکے تھے عنایہ کی اس حرکت سے وہ بہت مایوس ہوئے تھے مگر وہ پھر بھی بس یہی سزا سنا رہے تھے عنایہ کے سر تو جیسے دھماکہ ہی ہوا تھا مگر کسی قسم کا سوال اٹھانے کی اس میں ابھی سکت نہیں تھی وہ واقف تھی اپنے باپ کے غصے سے بھی اور محبت سے بھی,,,,

محض اثبات میں سر ہلاتی جیسے آئی تھی ویسے ہی واپس چلی گئ,,,,

مگر دل میں راحیلہ کیلئے نفرت کا بیچ اگ گیا تھا اس سب کی وجہ وہ راحیلہ کو ہی ٹہرا رہی تھی,,,,

●︿●●︿●●︿●

ببھائی وہ.... اپنے سامنے ناگہاں ساحر کو دیکھ اسکی سانسیں خشک ہوئیں تھی,,,,

وہ بولنے لگا تھا مگر ساحر کی آنکھوں میں تیش اترتا دیکھ لفظ حلق میں ہی دم توڑ گئے اور وہ ایک نظر ساحر کو دیکھ مجرموں کی طرح سر جکھا گیا,,,,

وہ اب تک دروازے پہ ہی کھڑا اسے تیش بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا دل کیا دو تھپڑ لگا کے نقشہ بگاڑ دےاتنی بار سمجھانے پر بھی وہ اسی راہ پہ چل رہا تھا,,,,

غصے کی زیادتی سے نسیں ابھر رہی تھی جبکہ اپنا اشتعال دبانے کیلئے اسنے مٹھیاں سختی سے بھینچ رکھی تھی,,,,


جو میں نے سنا وہ سچ ہے یا نہیں ؟؟؟

دو قدم میں فاصلہ عبور کرتے وہ عین اسکے مقابل آکر سخت لہجے میں بولا,,,,

ججی بھائی.... ثمر نے جکھے سر کے ساتھ ہی جواب دیا,,,, ناجانے کیوں وہ ندامت محسوس کر رہا تھا,,,,

منع کیا تھا نہ میں نے پھر بھی تم نے وہی انتخاب کیا اسلیئے بھیجا تھا یونیورسٹی ؟؟

وہ پھر دبے دبے غصے میں بولا,,,, چہرہ سرخ تھا آنکھیں انگارے برسا رہی تھی,,,

سوری بھائی..... ممیرے بس میں کچھ نہیں تھا سب کچھ میرے اختیار سے باہر تھا میں واقعی عنایہ سے محبت کرتا ہوں اور یہ کوئی وقتی جزبہ نہیں ہے بھائی پلیز سمجھنے کی کوشش کریں مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا میں بہت چاہتا ہوں انہیں وہ زندگی ہیں میری,,,,,

ثمر نے یکلخت ہی تڑپتے لہجے میں ساحر کی آنکھوں میں دیکھتے کہا,,,,

ساحر کی آنکھوں میں بے یقینی کے بادل چھائے وہ دم سادھے ٹکٹکی باندھے اسے دیکھ رہا تھا یقین مشکل تھا جو اسکی سماعتوں نے سنا وہ واقعی سچ تھا ثمر کے لہجے میں لفظوں میں وہ تڑپ محسوس کرچکا تھا اسکا بھائی اپنی بربادی کو خود دعوت دے چکا تھا,,,

واقعی یہ محبت ہے تو پھر تم نے شرمندگی سے سر کیوں جکھایا ہوا ہے ابکی بار ساحر کا لہجہ سختی کے ساتھ کچھ بلند ہوا,,,,

ثمر نے سرخ ہوتی آنکھوں سے ساحر کو دیکھا ,,,,

جانتے ہو اسکی حقیقت یا پوری طرح محبت کی اندھی پٹی بندھی ہوئی ہے ,,,,,

وہ اشتعال دبانے کی بھرپور کوشش کیساتھ بولا مگر غصہ تھا جو ہر انداز سے عیاں ہورہا تھا,,,,

ثمر نے الجھی نظروں سے اسے دیکھا وہ زرّہ برابر بھی اسکی بات کا مفہوم نہیں سمجھ سکا تھا,,,,,

مطلب کچھ جانتے نہیں ہو جس سے محبت کی ہے اسکے بارے میں کچھ جاننے کی خواہش نہیں تھی جو اب تک ہر بات چھپا رکھی ہے عنایہ جیسی پارسا لڑکی نے,,,,,ساحر کا لہجہ بے اختیار ہی تنزیہ ہوا,,,

بھائی آپ جو بھی کہنا چاہتے ہیں صاف صاف کہیں اور عنایہ کے کردار پہ داغ مت لگائے میری محبت اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ایک پاک باز لڑکی ہے آپ اسے نہیں جانتے بھائی وہ بہت اچھی ہے,,,,, لفظ پارسا پہ ثمر کی تیوریاں چڑھی تھی مگر وہ پھر بھی تہزیب کے دائرے میں رہ کر سر جکھا کے بولا یہ اسکی تربیت ہی تھی جو آج وہ سر نہیں اٹھا رہا تھا,,,,

ساحر کی آنکھوں میں کچھ بری طرح ٹوٹا تھا,,,,

دیکھو ثمر وہ ایک اچھی لڑکی نہیں ہے یہ سب اسکی چال ہے تم معصوم ہو اس عورت کے بہکاوے میں مت آؤ سمبھل جاؤ اب بھی وقت ہے,,,,,

ساحر نے آنکھوں کو بندھ کرتے کھولا اور اسکا کندھا تھامتے سلجھے انداز میں اسے مصلحت سے سمجھایا,,,,

مگر کہتے ہیں نہ محبت اچھے بھلے انسان کو غلام بنا دیتی ہے بس کچھ ایسا ہی حال تھا ثمر کا,,,,

بھائی پلیزز.... آپ عنایہ کے بارے میں ایسے لفظوں کا انتخاب مت کریں اور میں کوئی بچہ نہیں ہوں عقل و شعور رکھتا ہوں وہ بھلا مجھے کیوں بہکائینگی جبکہ میں خود بھی تو روٹی ہی کھاتا ہوں کوئی گھاس تو نہیں محبت کرتا ہوں کوئی گناہ تو نہیں,,,,

ثمر نے آہستہ سے اسکے ہاتھ پیچھے کرتے رخ بدل کر دھیمے لہجے میں کہا,,,

ساحر نے پھر غصے سے مٹھیاں بھینچی سہی تو کہہ رہا تھا ثمر وہ کیوں عنایہ کو بول رہا تھا جبکہ پتھر تو ثمر کی عقل پہ پڑھ چکے تھے جو کچھ سننے سمجھنے کیلئے تیار ہی نہ تھا,,,

پاگل ہوگئے ہو تم مجھے سمجھ نہیں آرہا آخر مجھ سے ایسی کہاں چھوٹ ہوئی ہے جو تم باغی بن گئے ہو اپنے بھائی کے سامنے ایک غیر لڑکی جس سے محبت کے دعویدار ہو تم اسکے لیئے سر اٹھا رہے ہو ,,,,,سچی محبتیں رسوا نہیں کرتی ثمر بچپنے سے باہر نکلو تم اچھی طرح جانتے ہو ہمارے خاندان کی روائیتوں کو داجی اس لڑکی کا سر قلم کردینگے جس کیلئیے تم داجی سے جفا کر رہے ہو انکے اصولوں کو نظر انداز کر رہے ہو وہ کبھی عنایہ کو قبول نہیں کرینگے بہتر ہے اپنی محبت کو یہی فراموش کردو ورنہ نتائج بہت بھیانک ثابت ہونگے,,,,

ساحر نے اپنی بات بہت سخت لہجے میں کہی وہ اچھی طرح اسے باور کروا چکا تھا,,,,,

ثمر نے رخ بدل کر آنکھوں میں آنسوں لیئے اسے دیکھا جبکہ ساحر ایک جتاتی ہوئی نگاہ ڈال کر غصے میں لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمرے سے نکل گیا,,,,

ثمر سر تھامے اپنے بکھرے جزبات سمیٹتا بیڈ پہ ڈھے سا گیا,,,,. وہ یہ سب نہیں چاہتا وہ پوری طرح سوچ سمجھ کے بعد ہی سب گھر والوں کو بتانا چاہتا تھا اسنے نہیں سوچا تھا ساحر کا ری ایکشن اس قدر سخت ہوگا اگر ساحر کا یہ حال ہے تو داجی تو واقعی اسے دنیا سے رخصت کردینگے مگر یہ بھی حقیقت تھی کہ داجی اسے کوئی سزا نہیں دینگے مگر عنایہ کی زندگی خطرے میں پڑھ سکتی ہے وہ اس انداز سے اسکی نسلیں تباہ کردینگے یہ ثمر سوچ بھی نہیں سکتا تھا مگر واقف تھا اپنے داجی کے غصے سے سن رکھے تھے اسنے داجی کے سخت غیر کے قصے وہ سونے کا نوالہ دے کر چیل کی نظر رکھنے والوں میں سے تھے,,,,

ثمر خود کو اس پل بہت بے بس محسوس کر رہا تھا اسے کہیں نہ کہیں اس بات کا گماں تھا کہ ساحر اسکا ساتھ دیگا وہ سب سمبھال لیگا اور شاید اگر عنایہ کی جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو وہ ایسا ہی کرتا مگر عنایہ کیلئے نا ممکن,,,,,,,, اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ اب کیا کرے کس طرح سبکو راضی کرے,,,اب تو جیسے سب کچھ ہی ہاتھ سے نکلتا محسوس ہورہا جو موہم سی امید تھی وہ بھی دم توڑ چکی تھی کچھ دیر یوں ہی گہری سوچوں میں غرق وہ اٹھا اور باتھروم میں بند ہوگیا,,,,

ساحر غصے میں سیدھا اسپتال کیلئے نکل گیا تھا ,,,,

اگر وہ گھر میں رکتا تو نور بانو اسکا غصہ منٹوں میں بھانپ لیتی اسلیئے فلحال اسنے گھر سے جانا ہی بہتر جانا,,,,,


*********

اپنے باپ کی سزا سن کر وہ بظاہر تو شرافت سے اپنے کمرے میں آگئی تھی مگر آتے ہی اسکا بس نہیں تھا ہر چیز کو تباہ کردے,,,,

سب آپکی وجہ سے ہورہا ہے مما پتہ نہیں میں واقعی آپکی سگی بیٹی ہوں بھی یا نہیں ہمیشہ میرے ساتھ ہی سختی کرتی ہیں آپ مما,,,,

وہ روتے ہوئے تکیہ مٹھی میں بھینچے خود سے مخاطب تھی چہرہ آنسوؤں سے تر تھا مگر آنکھوں میں جنون اترا ہوا تھا دل تھا جو ہر چیز تہس نہس کرنے پر آمادہ تھا مگر فلحال وہ کسی قسم کا شور برپا نہیں کرسکتی تھی کیونکہ سکندر اٹھے ہوئے تھے,,,,,

اور اپنے باپ کے سامنے وہ اپنا غصہ قابو میں رکھتی تھی,,,,

چلی جاؤنگی اس گھر سے ایک دن دیکھتے رہ جاؤگے سب میری زندگی اتنی مشکل کردی ہے کسی کو نہیں چھوڑونگی یہ میری زندگی ہے مجھے اپنی شرطوں پہ جینے کا پورا حق ہے ناجانے سب اپنے فیصلے مجھ پہ کیوں تھوپتے ہیں لڑکی ہوں کوئی غلام نہیں,,,,

وہ پھر بدگمانیوں کی اتہا گہرائیوں میں ڈوبنے لگی تھی جب کسی طرح غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا تو وہ تکیے میں منہ دے کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی,,,

ایسا کیوں سوچتے ہیں ہم کے ہماری زندگی پہ صرف ہمارا حق ہے کیوں بھول جاتے ہیں اس ماں کے احسان کو جسنے اتنی تکلیف سہہ کر ہمیں جنم دیا کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ دودھ بھی ہم پہ قرض ہے کیوں بدگماں ہوجاتے ہیں کیا دنیا کی رنگینیاں اس قدر گہری ہیں جو ہم اپنے ماں باپ سے بدگماں ہوجاتے ہیں انکی عزت کو مٹی میں ملانے سے پہلے ایک بار بھی نہیں سوچتے کیوں بھول جاتے ہیں خدا نے مکافات عمل بھی رکھا ہے,,,,,


°°°°°°°°°

آہ شکر ہے کہ آخر تُم لوگوں کو مجھ غریب کا بھی خیال آیا,,,, اُن دونوں کو بالکونی میں داخل ہوتے دیکھ وہ باواز بلند بولا پر ساحر کا ہاتھ حرم کے کندھے پر دیکھ اُسکی آنکھیں سکڑی تھی لیکن آج یہ دیکھ اُسے جلن نہیں ہوئی تھی بلکہ خواہش جاگی تھی کہ وہ بھی اس طرح اپنی طوطی کے کندھے پر اپنے پر رکھ پاتا پر سامنے بیٹھی مخلوق کے عجیب تاثرات دیکھ اُسکے دل میں ٹیس سی اٹھی تھی یہ نہ ہو جائے اشرفی کہ تُجھے دو تین لگا کر ساحر کے سامنے تیری عزت کا کچرا کر دے ،،، وہ اپنی ہی خواہش کی نفی کرتا خود سے گویا ہوا ، پر نہ جانے اُسے کیا سوجی کہ وہ حرم کی موجودگی میں خود کو شیر سمجھتا طوطی کی طرف بڑھا اور جھولے پر اُسکے برابر بیٹھا ، لیکن فلوقت اُس نے کندھے پر ہاتھ رکھنے کی ہمت نہیں کی تھی ۔۔


تُم کیسے ہو اشرفی اور تُمہیں تمھاری دوست کیسی لگی ...؟ حرم نے اُسکی بات گول کرتے خوشگواریت سے پوچھا ، جبکہ ساحر نے اشرفی کی حرکتوں پر لب بھینچے کسی طرح اپنی ہنسی دبائی تھی ، وہ حرم کی خواہش کے مطابق طوطی لا کر ہیرو تو بن گیا تھا پر اُسکا اصل ہدف تو اشرفی سے بدلہ تھا شادی کے شروع دن سے لے کر جتنا خون اُسکا اس اشرفی نامی طوطے نے جلایا شاید ہی کسی اور نے اس حرکت کی جرت کی ہوگی پر اب باری بھی انتقام کی تھی اپنی طرف سے وہ تیر کمان سے چھوڑ چکا تھا ۔۔۔۔

حرم کی بات پر اشرفی کو جیسے خود میں کسی ہیرو کی روح اُترتی نظر آئی تھی , وہ ساحر کو دیکھتے حرم کو آنکھ مارتے اپنا ایک پر اُس طوطی کے اوپر رکھ گیا ،

اُن سب کی باتوں سے بیزار سا منہ بنائے بیٹھی طوطی تو اشرفی کی ہمت پر غش کھا کر گرنے کے قریب تھی وہ حیران تاثرات لئے پھٹی آنکھوں سے اُسے دیکھ رہی تھی ، حرم بھی نہ سمجھی سے اُن دونوں کے تاثرات نوٹ کر رہی تھی ، جبکہ ساحر پر سکون سا کھڑا نرم سی مسکراہٹ چہرے پر سجائے پورے انہماک سے دیکھتا طوطی کے ردِعمل کا منتظر تھا ، وہ اپنے کزن حارث کی حرکتوں ، اور طبیعت سے اچھی طرح واقفیت رکھتا تھا اور ایسا کیسے ممکن تھا کہ حارث کی قریبی طوطی جیسے اُس نے چھوٹا سا پالا تھا اُس میں وہ اپنی حرکتیں اپڈیٹ نہ کرتا نہ ممکن,,, سوچتے ہی ساحر کے چہرے پر مسکراہٹ ایک بار پھر مچلنے لگی تھی ،


بہت اچھی لگی یہ بہت پیاری ہے حرم,,,, اشرفی نے چہکتی آواز میں کہا ، وہ ساحر کے سامنے حرم کو نہیں بتا سکتا تھا کہ اب تک وہ اس سے دوستی تو دور کی بات ، کوئی بات بھی نہیں کر پایا تھا ،

طوطی کی حیرانگی سے پھٹی آنکھیں اب شولے برسا رہی تھی وہ آنکھوں کو مزید چھوٹا اور سفید رنگ میں بدلتی اشرفی کو دیکھ رہی تھی ، اور اشرفی حرم کو دیکھ رہا تھا ، ساحر تو یوں کھڑا تھا جیسے ابھی کوئی بنا ٹکٹ کا شو لگنے والا ہو اُسکی بے صبری قابلِ دید تھی ۔

طوطی نے ایک ہی جست میں اُسکا پر پریں مارتے اپنے چھوٹے سے پیر میں اُسکی گردن دبوچی تھی ، اور اُسے جھولے سے نیچے پھینکتی خود بھی نیچے گری تھی اور یہی نہیں رکی تھی وہ ,,, اُسکے اُوپر بیٹھکر اُسکی آنکھ کے قریب اپنا پنجا ڈال کر اُسے زخمی کرتی دوبارہ جھولے پر چڑھ کر بیٹھ

گئ تھی ، یہ اس قدر پھرتی سے انجام دیا گیا تھا کہ حرم کی تو آنکھیں ہی پھٹی رہ گئیں جبکہ ساحر کا چہرہ ہنسی ضبط کرنے کے چکر میں سرخ ہوچکا تھا,,,,


(له نن څخه په خپل وخت کې پاتې شه، که په هیرولو پیل وکړې، هغه زخم چې ما درکړی دی، د اوږدې مودې لپاره به ستاسو په مخ پاتې شي، نو کله چې تاسو وختونه هیرول پیل کړئ، په شیشې کې وګورئ.)

( آئندہ سے اپنی اوقات میں رہنا ، اگر بھولنے لگو تو جو زخم میں نے ابھی تمھیں دیا ہے وہ کافی عرصے تک تمھارے منہوس چہرے پر رہے گا اس لئے جب اوقات بھولنے لگو تو شیشہ دیکھ لینا ،) وہ کہتی شان استغنا سے اپنی سابقہ پوزیشن میں بیٹھ گئی اور جھولے جھولنے لگ گئی ،

اس اچانک ہوئے حملے پر اشرفی کو سنبھلنے یہ کچھ سمجھنے کا موقع ہی نہیں مل پایا تھا وہ تو جیسے صدمے میں چلا گیا تھا ، چُپ بلکل خاموش تھا وہ جبکہ آنکھ سوج چُکی تھی اُسکی اور آنکھ کے قریب سے ایک بوند خون کی نکلی تھی پر اس زخم سے بڑا زخم اُسکے دل پر لگا تھا اُس معصوم پیاری سی طوطی کے انداز سے ،

طوطی کی حرکت پر ساحر کا قہقہ بے ساختہ برآمد ہوا تھا ، حرم تو کبھی ساحر کو دیکھتی تو کبھی زمین پر لیٹے آسمان کو تکتے اشرفی کو دیکھتی ،

آپ میرے اشرفی پر ہنس رہے ہیں,,,, حرم کی روندھی سی آواز گلے سے برآمد ہوئی ،

نہیں تو,,, ساحر نے سُرخ چہرے سے با مشکل کہتے منہ پر ہاتھ جمایا تھا ،

حرم تڑپتی ہوئی اشرفی کی طرف بڑھی تھی اور پنجوں کے بل زمین پر بیٹھتے اشرفی کے ڈھیلے پڑے وجود کو اپنی ہتھیلیوں میں بھر گئ ،

اشرفی تُم ٹھیک ہو..؟ حرم نے فکرمندی سے کہا جبکہ آنکھوں میں آنسو چھلکنے کے لئے تیار تھے اُسکے ۔۔۔

ہائے میں مر گیا حرم ،،، مار دیا مجھے ہائے میں گیا آج نہیں بچنا میں نے ، ہائے شریکو خوش ہو جاؤ میں چلا آج,,,,, حرم کی ہتھیلی میں تڑپتے اُس نے ساحر کو طنز کیا تھا وہ بہترین اداکاری کر رہا تھا پر اس وقت بھی ساحر سے پنگے لینے سے وہ باز نہ آیا ۔

اُسکی سسکتی بلکتی آواز پر ایک پل کے لئے اُس طوطی کا بھی دل دھڑکتا شرمندہ ہوا تھا کہ کہیں اُس نے جان سے ہی تو نہیں مار دیا اُس سنکی کو پر وہ اُسکی اداکاری سے کہاں واقف تھی اُسکا اصل چہرا تو صرف ساحر ہی جانتا تھا رقیب جو ٹھہرے ایک دوسرے کے ۔۔۔


نہیں کچھ نہیں ہوگا اشرفی بیٹا میں ابھی فرسٹ ایڈ باکس لے کر آتا ہوں تمھاری پٹی کے لئے ، ساحر نے کہتے ہی اندر کی طرف قدم بڑھایا تھا حرم کی نظر میں خود کو بالا تر بنانے کے لئے دونوں ہی ہر ہربا استعمال کرتے ایک دوسرے سے آگے تھے ۔

ساحر کے رویے سے اشرفی کو ایک اور صدمہ لگا تھا اُسکا یہ روپ ,,,, سالہ نقل چور ڈرامے باز کہیں کا ایسے ہی ڈاکٹر بن گیا اداکاری کرتا تو کہاں سے کہاں ہوتا ، ساحر کے لئے یہ الفاظ وہ بس دل میں سوچ ہی سکا تھا ، بول کر اپنی اداکاری خراب نہیں کر سکتا تھا ،

اتنے میں ساحر کمرے سے فرسٹ ایڈ باکس لے آیا ,,,,اور اب روئی سے اُسکی آنکھ کے قریب زرا برابر زخم صاف کرنے لگا ،

حرم تُم جاؤ دروازے پر جاؤ اور دیکھو کون ہے میں کر رہا ہوں اِسکا زخم صاف ، کمرے کا دروازہ بجنے کی آواز سن ساحر نے ہلکے ہاتھ سے اشرفی کی آنکھ کے قریب سے خون صاف کرتے ہوئے کہا ،

ہاں حرم جاؤ دیکھو کون ہے یہاں ساحر ہے میرے پاس ، اچھا سنو اگر درخنے یہ چور ہو تو اُنہیں میرے بارے میں مت بتانا میں نہیں چاہتا میری وجہ سے وہ پریشان ہوں ، اشرفی نے اٹکتی ہوئی آواز میں کہا ، اُسکی بات پر ساحر نے افسوس سے گردن ہلائی تھی ، جبکہ حرم لفظ چور پر ٹھٹکی تھی ،

کون چور..؟ حرم نے نہ سمجھتے پوچھا ،

ارے اما جی جنہوں نے میرا نام رکھا تھا اشرفی ، اسنے اُسکے سوال پر تفصیل سے بتایا جبکہ ساحر بھی اُسکی بات پر تیوریاں چڑھائے معاملہ سمجھنے کی تگ و دو میں تھا ،

چور نہیں مور کہتے ہیں اشرفی اُنہیں ,,,, حرم نے سمجھتے اُسکے لفظ کی تصحیح کرتے نرمی سے کہا ،

دروازہ ایک بار پھر بجا تھا ، وہ ساحر کو اشرفی کا خیال رکھنے اور ساتھ ہی رہنے کا کہتی دروازے کی طرف بڑھ گئ ،

کیا زیادہ درد ہو رہا ہے تُمہیں ؟؟؟ اُسکے نہ ہونے کے برابر زخم پر روئ سے دباؤ ڈالتے پوچھا ۔

نہیں ٹھیک ہُوں میں,,, وہ بھی اُٹھ بیٹھتے بولا

ہمم,,,,, ساحر اثبات میں سر ہلاتے

سامان باکس میں ڈالنے لگا ۔۔۔


(ډیر ښه ماشومه تاسو ډیر ښه کار کړی دی ته ډیر زړور یې زه ستاسو په انتخاب ویاړم)

بہت اچھے بچے تُم نے بہت ہی زبردست کام کیا ہے تُم بہت بہادر ہو مجھے فخر ہے اپنے انتخاب پر,,,, ساحر نے خالص پشتو میں کہا تا کہ اشرفی کی سمجھ نہ آسکے ،


(مګر زه ډیر شرمیږم ما فکر کاوه چې مړ دی مګر شکر چې ژوندی دی،،،،)

(پر میں بہت شرمندہ ہوں مجھے لگا کہ یہ مر گیا پر شکر ہے کہ یہ زندہ ہے,,,,) طوطی نے بھی پشتو میں ہی جواب دیا ،


اوہ بند کرو اپنا پشتو ریڈیو ، دیکھ نہیں رہے کوئی بیمار بھی بیٹھا ہے یہاں ۔۔۔۔ اُنکی پشتو زبان اشرفی کی سمجھ سے باہر تھی اس لئے تقریباً چیختے ہوئے بولا ،

ساحر اُسکی اگنور کرتا طوطی کی طرف متوجہ ہوا ۔

نه، تاسو د شرمیدلو په اړه اندیښنه نلرئ، دا اوس سمه ده، دا ډیر زړور دی.

( نہیں تُمہیں شرمندہ ہونے کی یہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں یہ ٹھیک ہے اب ، بہت بہادر ہے یہ ,,,,) ساحر نے شہد کن لہجے میں اشرفی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ،

ضرور میری برائیاں ہی کر رہا ہوگا ، اُسکی پشتو اشرفی بیچارے کی سمجھ سے باہر تھی ۔۔

ساحر کی بات پر طوطی خاموش ہو گئ تھی اور چور نظروں سے اشرفی کو دیکھنے لگی جس کا فلوقت سارا دیہان ساحر کی باتوں پر تھا ،

نام کیا ہے اِسکا ...؟ اشرفی نے اُس طوطی کی طرف اشارہ کرتے ساحر سے ایک دم دوستانہ لہجے میں پوچھا ۔۔

حسن جارا,,,, ایک منٹ کی خاموشی کے بعد ساحر نے باکس بند کرتے مصروف سے انداز میں جواب دیا ۔۔

یہ کیسا نام ہے خیر مجھے کیا,,,,, اُسکے نام پر حیران ہوتے کہتے اُس نے فوراً اپنی حیرت پر قابو پاتے کندھے اُچکائے تھے ۔۔۔۔۔

********


حرم نے کمرے کا دروازہ کھولا تو ملازمہ کو کھڑا پایا ، بیبی جی آپکو مور بلا رہی ہیں,,,, اُسکے دروازہ کھولتے ہی ملازمہ نے اُسے نور بانو کا بلاوا دیا ۔

۔ٹھیک ہے میں آتی ہُوں ۔۔۔۔ وہ ملازمہ سے کہتی سر پر سلیقے سے دوپٹہ پہنتے لاؤنچ کی طرف بڑھ گئ ، جہاں اُسے سامنے ہی ایک صوفے پر نور بانو اور سنگل صوفے پر عنایہ بیٹھی نظر آئی ، عنایہ نے اپنے پھولتے وجود کو ڈھکنے کے لئے نور بانو کی دی گئی شال سے خود کو ڈھکا ہوا تھا ، ٹائم کے قریب آتے ہی اُسکا وجود پھیلتا جا رہا تھا ، وہ دونوں ہی وہاں بیٹھی کہیں باہر جانے کے لئے تیار لگ رہی تھی ،

حرم بیٹا میں ہسپتال تک جا رہی ہوں روٹین چیک اپ ہے نہ آج عنایہ کا اس لئے تُم ہاجرہ کو دیکھ لینا کہ رات کا کھانا وقت پر تیار ہو جائے ، بلکہ ایسا کرو درخنے کو بھی ساتھ لو اور تھوڑی گھر داری سکھاؤ اُس پھوڑ لڑکی کو دن سے اپنے کمرے میں پتہ نہیں کس ایٹم کا فورمالا بنا رہی ہے، نور بانو نے اُسے ہدایتیں دی ساتھ درخنے کی ستھری بھی کی

جی مور آپ بے فکر رہیں میں دیکھ لونگی سب کچھ,,, حرم نے اُنہیں مطمئن کرتے مسکرا کر کہا ،

جیتی رہو,,,, وہ اُسے پیار سے بولی ،

حرم نے پلکیں جھپکتے مسکرا کر اشارے سے ہی عنایہ کو اپنے ہونے کا یقین دلایا تھا ، بدلے میں عنایہ بھی مسکرا دی ، اور نور بانو کے ہم قدم ہوتی باہر کی طرف بڑھ گئی جہاں ڈرائیور اُنکا ہی منتظر تھا ،


°°°°°°

ساحر بھی ایک آخری نظر اشرفی اور حُسن ارا پر ڈالتا اپنی اُمڈتی ہنسی کنٹرول کرتے کمرے کی طرف بڑھ گیا پر بالکونی کا دروازہ بند کرنا نہیں بھولا تھا وہ ۔۔۔

اُسکے جاتے ہی حُسن ارا اسی کشمکش تھی کہ وہ اشرفی سے معزرت کرے یا نہ کرے ، آخر ہمت کرتے وہ جھولے سے اڑتی اشرفی کے ساتھ بینچ پر آکر بیٹھ گئی ۔۔۔۔

اشرفی نے اپنے پاس اُسکی موجودگی محسوس کر لی تھی پر کوئی خاص ردِعمل نہ دیا وہ اُسے اگنور کرتا سامنے دیکھنے لگا ،


بخښنه غواړم زه نه پوهیدم چې تاسو به دومره خپه یاست، زه یو څه په غوسه وم.

( مجھے معاف کردو مجھے نہیں پتہ تھا کہ تُمہیں اتنی لگ جائیگی ،،، بس مجھے غصہ آگیا تھا تھوڑا,,,, ) وہ ہمت کرتے ایک بار پھر اپنی پشتو زبان میں بولی اُسے اُردو بولنی نہیں آتی تھی اور نہ ہی سمجھ آتی تھی ،


اُسکے الفاظ تو اشرفی کی سمجھ سے باہر تھے پر اُسکا شرمندہ سا لہجہ صاف بتا رہا تھا کہ وہ اُس سے معافی مانگ رہی ہے ،

کوئی بات نہیں ، میں ٹھیک ہوں,,, اس نے ایک نظر اُسے دیکھتے ہوئے کہا ،

اُسکی بات پر طوطی بھی مسکرا دی


حُسن جارا ,,,,, ایک طویل خاموشی کے بعد اشرفی نے اُسے پُکارا ،

اب تک اُسکی آنکھیں جو مسکرا رہی تھی اب اُن میں سختی آنے لگی تھی اُسے لگ رہا تھا جیسے وہ اُسکے اچھے بھلے حُسن ارا کے نام کو بگاڑ رہا تھا ، اور سدا کی غصے کی خراب اُس طوطی نے اب اشرفی کی دوسری آنکھ کے قریب اپنا ناخن ڈالا تھا پر اس بار اُس نے ہلکا ہاتھ رکھا تھا ، اشرفی جو دلکشی سے مسکراتا اُسے دیکھ رہا تھا اچانک اُسکی آنکھوں میں سختی دیکھ وہ ایک دم الرٹ ہوا تھا پر بُرا ہو وقت کا کہ اُس کے بچاؤ سے پہلے ہی وہ اپنا کام کر گئ تھی ۔۔۔


ته د دې مستحق یې، خره،،،،،

( تُم ہو ہی اسی لائق ، گدھے,,,,,) وہ منہ سے شولے برساتے کہتے ایک بار پھر جھولے پر بیٹھ گئی اور منہ موڑ گئ ،

ہائے سالہ قسمت ہی خراب ہے اپن کا اب پتہ نہیں کیوں مار کر گئ ہے,,, دھندلاتی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے تقریباً رونتی شکل بناتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

اُنہیں ہسپتال سے آتے آتے کافی وقت لگ گیا تھا ڈاکٹر نے عنایہ کی کمزوری کی پیشِ نظر اُسے ڈرپ لگا دی تھی ، اور اس ڈرپ کو ختم ہوتے ہوتے رات ہو گئی تھی نور بانو نے ساحر کو کال کرتے بتا دیا تھا کہ وہ لیٹ ہو جائیگی اور وجہ بھی بتا دی تھی ساحر نے آنے کا کہا تو نور بانو نے منع کر دیا کہ بس ڈرپ کے ختم ہوتے ہی وہ آجائينگی عنایہ کو لے کر ،

رات کے کھانے کے بعد سب ہی اپنے اپنے کمروں کی طرف بڑھ گئے تھے ،

حرم اور درخنے دونوں ہی ساحر کے لیپ ٹاپ میں درخنے کے کمرے میں فلم دیکھنے اور ساتھ ہی پوپ کارن کھانے میں مصروف تھی یہ کوئی ایکشن مووی تھی جس میں ہیرو سب کی دھلائی کر رہا تھا اور وہ دونوں پوری دلجمعی سے لیپ ٹاپ کی سکرین پر نظریں جمائے دیکھ رہی تھی ، حرم مووی دیکھنے میں اس قدر مصروف تھی کہ اُسے اس بات کا خیال نہ تھا کمرے میں اُسکا شوہر ادھر سے اُدھر ٹہلتا اُسکا منتظر تھا اور دوسری طرف بالکونی میں صدموں اور زخموں سے چور اشرفی بھی اُسکی ہی راہ تک رہا تھا ،

ملازمہ آئی تھی کھانا دینے حُسن ارا نے تو خاموشی سے کھا لیا تھا پر اشرفی اُس ملازمہ کے آگے بھی یہی ضد لئے بیٹھا رہا کہ اُسکی حرم کو بلایا جائے ،پہلے ملازمہ نے اپنے طور اُسے ٹالنے کی پوری کوشش کی تھی پر مقابل بھی اشرفی تھا جہاں سے اُن سب کی سوچ ختم ہوتی تھی ٹھیک وہاں اشرفی کی سوچ شروع ہوتی تھی ۔۔۔۔

وہ آخر تنگ آتِے حرم کو بلانے جا ہی رہا تھا کہ بجتے موبائل نے اُسکی توجہ اپنی طرف مبذول کی ، اُس نے اسکرین پر حارث کا نمبر دیکھ کال یس کرتے کان سے لگایا ،

کیسے ہیں ساحر لالا آپ....؟ فون کو کان سے لگاتے ہی حارث کی آواز اُسکے کانوں سے ٹکرائی ۔

ٹھیک ہوں تُم کیسے ہو ۔۔۔؟ ساحر نے مروتاً پوچھا ، ورنہ وہ واقف تھا کہ ضرور حارث نے اپنا اُسکا وقت ضائع کرنے کے لئے ہی کال کی ہوگی ۔۔

میں ٹھیک نہیں ہو ، جیسے لگ رہا ہے میرا دل گردہ جگر کہیں گم ہو گیا ہے,,مجھ سے کہیں دور چلا گیا ہے، حارث نے سنجیدگی سے روندھی ہوئ آواز میں کہا،

یہ ایک ڈاکٹر کا نمبر ہے حارث پولیس والے کا نہیں بہتر ہے کہ اپنی مطلوبہ گمشدہ چیزوں کو ڈھونڈنے کے لئے تُم پولیس سے ہی رابطہ کرو ، اُس نے حارث کی بات سنتے بیزاریت سے ماتھا مسلتے اُسی کے انداز میں سنجیدگی سے کہا ،

ایک پل کے لئے حارث سٹپٹایا تھا ، پھر گویا ہوا ،

ساحر لالا کیسے انسان ہیں آپ میری حُسن ارا کو گئے دو دن گزر گئے اور آپ نے ایک بار بھی میری خیریت نہیں پوچھی ، یہ اُسے مجھ سے ملوانے نہیں بھیجا ، ایسا ظلم کیوں کیا آپ نے ، میں مانتا ہُوں کہ لڑکیاں اپنے سسرال میں ہی اچھی لگتی ہیں پر میکےوالوں کا بھی کوئی حق ہوتا ہے,,, اُس نے سنجیدگی سے کہا ،

اُسکی اس بے تکی سی بات پر ساحر نے لب بھینچے تھے اور ضبط سے گویا ہوا ،

کیا چاہتے ہو ۔۔۔؟ اُس نے دو انگلیوں سے ماتھا مسلتے پوچھا ،

زیادہ کچھ نہیں بس میری حُسن ارا کو ایک دو دن کے لئے بھیج دیں ، اُس نے ساحر کا سرخ چہرا سوچ لب دباتے ہنسی کنٹرول کرتے ہوئے کہا ،

ٹھیک ہے کل بھیج دونگا ، اُس نے کہتے ہی کھٹک سے فون کاٹ دیا ،

موبائل ٹیبل پر رکھتے وہ خود صوفے پر بیٹھا حرم کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا ،وہ جتنی نرمی سے اُس سے پیش آتا تھا وہ اتنا ہی اُسے نظر انداز کر رہی تھی ابھی بھی وہ درخنے کے ساتھ مووی دیکھنے میں لگی تھی ، کمرے میں مانوس سی آہٹ اور خوشبو محسوس کرتے اُس نے اپنی نظریں اٹھائی اور آہٹ کے تعاقب میں سامنے دیکھا جہاں وہ کمرے کا دروازہ بند کرتی اندر داخل ہو رہی تھی ، وہ نور بانو کے آتے ہی درخنے کو نیند کا بہانہ کرتے نور بانو اور اُسے شب خیر بولتی عنایہ سے ملنے کے بعد کمرے میں آئی تھی وہ فکرمند تھی عنایہ کو لے کر پر اُسے سہی سلامت دیکھ پر سکون ہوتی کمرے کی طرف بڑھ گئی ، اُسے اندازہ تھا ساحر کے انتظار کا پر وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اگر وہ عنایہ اور نور بانو کے آنے سے پہلے کمرے میں گئ تو شاید عنایہ سے کل ہی مل پائے ، اُسے اندازہ تھا کہ ساحر اُس پر غصہ ہوگا وہ یہی دعا کرتے کمرے تک پہنچی تھی کہ ساحر سوگیا ہو پر اُسے جاگتا دیکھ وہ ایک ہی نظر اُسے دیکھتے سمجھ گئ ہے کہ وہ غصے میں ہے ، اُس نے ڈرتے ڈرتے قدم اندر کی طرف بڑھائے ، وہ بھی اُسے ہی دیکھ رہا تھا ، دیکھ نہیں گھور رہا تھا ،

آپ سوئے نہیں ساحر جی..؟ اُسنے ڈرتے ہوئے سوال کیا ،ساحر نے اُسے ایسے دیکھا تھا جیسے اُسنے کوئی غلط سوال کر دیا تھا ،

اسکا جواب شاید ساحر کے پاس بھی نہیں تھا کیا وہ سو سکتا تھا اُسے اپنی باہوں میں بھرے بغیر ، نہیں وہ سکون تھی اُسکا جو اُسکی سانسوں حتٰی کہ نسوں میں بھی نشا بن کر گردش کرتی تھی , پر وہ ہمیشہ ہی ساحر کی محبت اور خلوص اُسکے منہ پر کیوں مار دیتی تھی جس توجہ اور وقت کا وہ حقدار تھا وہ کیوں کسی اور کو دے دیتی تھی ، جس کے بغیر اُسکا سونا تو دور ایک پل رہنا محال تھا اُسکا یہ رویہ کیا جائز تھا ؟؟؟

ساحر اُسکے سوال اور اسکا وجود نظر انداز کرتا وہاں سے اٹھتے کمرے سے نکلنے لگا تھا کہ وہ جلدی سے اُسکی راہ میں حائل ہو گئی ،

کیا آپ خفا ہیں ساحر جی...؟ اُسکے مقابل کھڑے ہوتے اُس نے معصومیت سے سوال کیا ، مگر اندر سے دل کسی سوکھے پتے کی مانند لرزرہا تھا کیونکہ زرا سے غصے میں بھی ساحر کی آنکھیں سرخ ہوجاتی تھی اور اب ان آنکھوں میں سرخی اتری ہوئی تھی اگر وہ ساحر کی نسو میں نشے کی طرح تھی تو ساحر بھی اُسکے لیئے کسی آسمان سے کم نہ تھا ، وہ اُسکا سائبان اُسکا رہنما اُسکی محبت حتٰی کہ اُسکی زندگی تھا پر کبھی کبھی وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اُس کو خفا کر دیتی تھی ،

حرم ہٹو میرے راستے سے , ساحر نے ایک لمبی سانس خارج کرتےکہا وہ نظریں چرا رہا تھا اس سے اس وقت وہ اُسکی معصومیت کے اگے کمزور نہیں پڑنا چاہتا تھا آج وہ ناراض ہوکر اُس سے دور ہو کر اُسے جدائی کی تڑپ بتانا چاہتا تھا ۔۔۔۔

ایک پل کے لئے دونوں کی نظریں ایک دوسرے سے ملی تھی ، دونوں کے دل تیزی سے دھڑکے ، حرم اُسکا غصہ دیکھ کچھ نہ سوجتے اُسکے سینے پر سر رکھتی اپنے دونوں ہاتھوں سے وہ اپنے کمزور سے حصار میں لے گئ ، ساحر نے بہت کوشش کی اُسے ہٹانے کے لئے ہاتھ بڑھانے کے لئے ، پر نہیں کر پایا ہمت ۔۔۔

حرم ہٹو دور یہ کیا بچپنا ہے ، ساحر نے سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا ،

جواب میں وہ بھی اُسکے سینے میں منہ چھپائے سر نفی میں ہلاگئ ،

اچھا نہ سوری اب نہیں کرونگی وہ مووی ہی اتنے مزے کی تھی کہ میرا دل ہی نہیں کیا آنے کو ,,,, وہ اُسکے سینے سے سر اُٹھاتے بولی پر ساحر کی آنکھوں میں پھر سے سختی دیکھ اُسے جلد اندازہ ہو گیا تھا کا وہ کیا بول گئ ہے ،

دل نہیں کر رہا تھا تو کیوں آئی ہو اب بھی نہ آتی,,, اُسے خود سے دور کرتا بولا لہجے کی چھنک صاف واضح تھی ,

آئے ایم سوری نہ,,, وہ ایک بار پھر انچ بھر کا فاصلہ سمیٹتی اُسکے سینے میں چھپتے بولی ،

ساحر نے کوئی جواب نہ دیا بس خاموش کھڑا اُسکی حرکتیں ملاحظہ کرنے لگا ،

ہٹو حرم,,,,, وہ ایک بار پھر سختی سے بولا ،

نہیں,,,,, جتنی سختی سے اُس نے کہا تھا اُسی پر سکون انداز میں حرم نے اُسکی گردن پر لب رکھتے انکار کیا ، پر اُسکی معمولی سی بڑھی داڑھی کی چبھن پر سی کرتے سسکی بھری,,,

اُسکے لمس کو گردن پر محسوس کرتے ایک لمبی سانس لی تھی آج وہ خود اُس تک آئی تھی اور اب اُسکے لئے ضبط کا کڑوا امتحان بنی ہوئی تھی , ساحر نے اپنی ناراضگی بھلائے ، اُسے اپنے حصار میں لیتے شدت سے خود میں بھینچا,,,,

اگر کبھی دوبارہ تُم نے اس طرح مجھے نظر انداز کرنے کی جرت بھی کی تو جس کے لئے نظر انداز کروگی اُسے نظر آنا بند ہو جائوگی ، سمجھ رہی ہو نہ ..؟ اُسکی گدی میں ہاتھ ڈال کر بالوں میں اُنگلیاں پھساتے اُسکا چہرا اپنے قریب کرتا چہرے کے قریب گھماتے بولا ، حرم تو سہمی سی آنکھوں سے اُس جنونی انسان کو دیکھ رہی تھی جبکہ دل کے دھڑکنيں اس قدر تیز تھی کہ ساحر صاف اُنہیں اپنے سینے میں سن رہا تھا ،

سمجھ رہی ہو ..؟ اپنا چہرہ مزید اُسکے چہرے کے قریب کرتے بولا۔

ج جی,,, حرم نے اُسکی قربت میں ہکلاتِے ہوئے کہا ,

ہمم ، وہ کہتا اُسکی سہمی سی آنکھوں میں دیکھتا لبوں پر جھکا ، حرم منتشر دھڑکنوں کیساتھ بامشکل اُسکے سہارے پر کھڑی تھی اُسے اپنی ٹانگوں سے جان نکلتی محسوس ہو رہی تھی ، ہاں اُسکے سامنے مقابل موجود اُس کے مطابق ایک پہلوان ہی تھا ، وہ جو نازک سی کلی جو مشکل سے اُسکے سینے تک پہنچتی تھی ،

ساحر اپنی تمام تر شدتوں سے اُس پر جھکا ہوا تھا ، جب اُسے اسی طرح جھکے دیکھ حرم نے اُسکے سینے پر ہاتھ مارتے بھر پور مزاحمت شروع کی ، وہ اُسکے ہاتھ سینے سے ہٹا کر اپنے ہاتھوں میں قابو کرتا اُسکے لبوں کو آزادی بخش گیا ، حرم لمبے لمبے سانس لیتی اپنی ابتر ہوتی سانسیں بہال کرنے لگی۔ اُسکی قربت ہمیشہ حرم کی سانسیں روک لیتی تھی ، وہ تھی ہی اتنی نازک کہ اُسے چھوتے ہوئے بھی ساحر کو یہی ڈررہتا تھا کہ ٹوٹ نہ جائے ، اس لئے وہ قطرہ قطرہ کرکے اُسے اپنے آپ میں سمیٹتا تھا ۔۔۔۔

اُسکی حالت سے محفوظ ہوتا وہ ایک مسکراتی نظر اُس پہ ڈالی جو لمبے لمبے سانس لے رہی تھی نفی میں سر ہلاتا اسے یوں ہی چھوڑ واشروم کی طرف بڑھ گیا ،

اُسکے جاتے ہی حرم بھی ٹرین کی سپیڈ سے بھاگتی بیڈ پر دراز ہوتی کومفرٹر میں خود کو چھپا گئ جبکہ اپنی دھڑکنیں اب تک اُسے کانوں میں بجتی محسوس ہو رہی تھی ،

کچھ ہی دیر میں فریش ہونے کے بعد ایک نظر اُس کے کمفرٹر میں دبکے کپکپاتے وجود پر ڈالتا ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا ہوتا بال بنانے لگا ، اور بال بناتے ہی بیڈ کی دوسری جانب اپنی سائڈ کی طرف بڑھا، قدموں کی آواز پر حرم نے کنفرٹر مٹھی میں دبوچا,,,,

کمرے میں جلتے لیمپ کو بھی بند کرتا وہ اپنی سائڈ پر لیٹتا ہاتھ بڑھا کر حرم کو بھی اپنے قریب کر گیا ،

ریلیکس سو جاؤ ,,, اُسکے بالوں کی خوشبو کو اپنی سانسوں میں اُتارتا کان کے قریب بولا ،

کچھ ہی دیر بعد حرم کی معمول سے چلتی سانسیں سن وہ بھی سختی سے اُسے خود میں بھینچے پُر سکون سا سو گیا تھا ،

******

ایک نئی صبح اُنکی منتظر تھی ، پر اس بات سے وہ انجان بنے سو رہے تھے صبح کونسا نیا غم کونسا نیا دُکھ اُن تک پہنچنے کے لئے تیار تھا ,

وہ ناشتے کے بعد سیدھا اپنے کلینک ہی آگیا تھا ، ابھی بھی وہ اپنے مریضوں کو نپٹانے کے بعد موبائل کی بند اسکرین کو دیکھتا گہری سوچ میں تھا ، دل اور دماغ دونوں ہی سوچ کی جنگ میں مستغرق تھے ، سیٹ سے سر کی پُشت ٹکا کر وہ چھت کو گھورنے لگا ،

وہ حرم سے وعدہ تو کر گیا تھا کہ اُسکی ماں سے ملوانے لے جائیگا پر اب اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ لے کر جایا جائے یہ نہیں اُسے کسی سے کوئی سروکار نہیں تھا اُسے بس حرم سے مطلب تھا اور یہ مطلب اتنا مطلبی تھا کہ اسکو کھونے کا ڈر ہر وقت اُسکے سینے میں کسی کھٹکے کی طرح کھٹکتا اُسکا دل خالی کر دیتا تھا ، دل آمادہ تھا اُسکی خواہش کی تکمیل کے لئے پر دماغ ، دماغ صرف اپنے بارے میں سوچ رہا تھا ،

اگر دیکھا جائے تو اُسکے ماں باپ سے ملنے کا اِسکا حق تھا ، وہ پریشان تھی تڑپ رہی تھی ایک نظر اپنے ماں باپ کو دیکھنے کے لئے اور اُسکی یہ فکر تڑپ فطری تھی ، اگر ساحر اپنے اوپر رکھ کر سوچتا تھا تو یہ سب اُسے ظلم ہی لگتا ، اور ویسے بھی ماضی میں جو کچھ بھی ہوا اس میں اُسکے ماں باپ کا کیا قصور تھا صرف یہی نہ کہ وہ عنایہ کے بھی ماں باپ ہیں,,, اس ایک قصور نے حرم اور اُسکے ماں کے درمیان میلوں کے فاصلے پیدا کر دیئے تھے ، ساحر بُرا نہ تھا نہ ہی وہ اتنا ظالم تھا کہ ماں باپ کو اُنکی اولاد یہ اولاد کو ماں باپ سے دور کر دیتا ، وہ سمجھ رہا تھا حرم اور اُسکے ماں باپ کا دُکھ بلکہ وہ سمجھتا تھا ہمیشہ سے وہ جب جب اپنے ماں باپ کے ذکر پر حرم کے چہرے پر اُداسی دیکھتا تھا وہ اُسکا درد دُکھ محسوس کرتا تھا ، آخر ایک لمبی سانس ہوا میں تحلیل کرتے اُس نے ٹیبل پر باہم ہاتھ ملا کر بیٹھتے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھاما تھا کچھ دیر یو ہی بیٹھے رہنے کے بعد نتیجے پر پہنچتے اپنا سیل اٹھایا اور سکندر مینشن کا نمبر ڈائل کیا بیل جا رہی تھی ، پر کوئی اُٹھا نہیں رہا تھا

°°°°°°°

سکندر صاحب فجر کی نماز کے بعد ہی گھر کے لون میں ہی ایکسرسائز کر رہے تھے یہ ایکسرسائز اُنہیں اُنکے ڈاکٹر نے پابندی سے کرنے کو کہا تھا وہ بھی خود کو سمبھالنے اور حالات کا مقابلہ کرنے کی پوری کوشش کر رہے تھے ، وہ جانتے تھے اب اُنہیں خود کو سنبھال کر اپنی فیملی کو دوبارہ جوڑنا تھا اور سہارا دینا تھا ، ملازمہ کو راحیلہ بیگم اور اور اپنا ناشتہ بنانے کا کہتے وہ کمرے کی طرف بڑھ گئے ، راحیلہ بیگم کے پر سکون سے آنکھیں مندے چہرے پر ایک نظر ڈالتے وہ واشروم میں فریش ہونے کے لئے چلے گئے ، فریش ہونے کے بعد وہ جلدی جلدی آفس کے لئے تیار ہونے لگ گئے ، عنایہ کے جانے کے بعد ہی اُنہوں نے ایک دو دن بعد آفس جانا دوبارہ شروع کر دیا تھا ، راحیلہ بیگم کی دیکھ بھال کے لئے اُنہوں نے اپنی غیر موجودگی میں ایک نرس ہائر کر لی تھی جو روز اپنے مقررہ وقت پر آکر راحیلہ بیگم کی دیکھ بھال کرتی تھی اب اُنکی طبیعت میں بھی بہتری آنے لگی تھی ، وہ اب دن میں ایک سے دو دفعہ سے انگلیوں میں ہی حرکت کرتی تھی باقی وجود اب بھی ویسا ہی ساکت تھا ،

وہ تیار ہونے کے بعد راحیلہ کے بستر کی طرف بڑھے ،

راحیلہ,,,, وہ اُنکے ماتھے سے بال ہٹاتے محبت سے بولے ، پر آج راحیلہ نے کوئی حرکت نہ کی وہ ویسے ہی ساکت رہی ،

راحیلہ,,,,, اُنہوں نے پھر پُکارا پر جواب ندارد,,,,,

اُنکا دل کسی خدشے کے تحت تیزی سے دھڑکا تھا ۔۔۔۔

اُنہوں نے اپنے ہاتھ کی دو اُنگلیاں اُنکی ناک کے نیچے رکھتے سانسوں کو محسوس کرنا چاہا پر آج اُنکی سانسیں بھی اُنکے وجود کی طرح ساکت تھی ۔۔۔۔۔

راحیلہ بیگم اپنی حرم کی راہ تکتی آج دنیا فانی سے رخصت ہو گئی تھی ، اُنکا انتظار انتظار ہی رھ گیا تھا حرم تو نہ آئی پر موت آگئ تھی ، وہ آج ہر دکھ ہر غم ہر صدمے سے آزاد ہو گئ تھی ، ۔۔۔۔۔۔

پر وہ سکندر صاحب کو ایک گہرا صدمہ دے گئ تھی ،

راحیلہ,,, وہ ایک دلخراش چیخ مارتے اُنکے سینے پر سر رکھتے دھڑکنیں سننیں لگے پر دھڑکنوں میں گہرا سکوت تھا ،

نہیں تُم مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتی راحیلہ اُٹھو آنکھیں کھولو ، وہ اُنہیں جھنجھوڑنے لگے ، اُنکی آوازیں سن ملازم بھی بھاگتے ہوئے اُنکے کمرے میں پہنچے تھے ، جہاں سکندر صاحب آنسو بہاتے مسلسل راحیلہ کو پُکار رہے تھے ، گھر کے بزرگ خان ساماء نے فوراً آگے بڑھتے سکندر کو سنبھالا ،

صبر کرو صاحب ہمت سے کام لو,,, اُنہوں نے سکندر کا کاندھا تھامتے کہا ،

بابا اب کیا جواب دونگا میں اپنی بچیوں کو کہ کہاں گئ اُنکی ماں ، سکندر صاحب بھیگی آنکھوں سے گویا ہوئے وہ بلکل اپنے حواسوں میں نہیں لگ رہے تھے ، یہ ایک شدید صدمہ تھا جو آج اُنہیں بلکل چھلنی کر گیا تھا ،

ہمت کرو بیٹا خدا کی چیز تھی اُس نے لے لی ایک نہ ایک دن تو سب نے جانا ہے ، وہ اُنہیں تسلی دیتے بولے پر اُنکے دل میں اٹھتا درد کسی تسلی سے کم ہونے والا نہ تھا ، صبر تو پھر وقت کے ساتھ ہی آتا ہے ،

*******

بابا ایک نظر اُن پر ڈالتے باہر کی طرف بڑھ گئے ، وہ لاؤنچ سے گزر ہی رہے تھے کہ ٹیلیفون کی آواز اُنکے کانوں سے ٹکرائی ، پر اُنکے وہاں تک پہنچنے تک ٹیلیفون بند ہو چکا تھا ، اُنہوں نے رسیور کان سے لگاتے اُسی نمبر پر کال بیک کیا ،

°°°°°°°°

دوسری طرف فون نہ اٹھاتے دیکھ اُس نے فون کاٹ کر موبائل ٹیبل پر رکھ دیا ، پر اُسکے فون رکھتے ہی موبائل کی سکرین چمکی تھی اور سکندر مینشن کا نام جگمگایا تھا , اُس نے ایک ہی کال پر فون اٹھاتے کان سے لگایا

اُس نے فون کان سے لگاتے اپنے مخصوص لہجے میں سلام کیا ،

سلام کا جواب پاتے اُس نے فوراً راحیلہ بیگم کی طبیعت کا پوچھا ،

تُم حرم بیٹی کے شوہر بول رہے ہو نہ ؟؟؟ اُن بابا نے ساحر کی آواز سنکر کہا ،

جی,,, کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ حرم کی والدہ کی طبیعت کیسی ہے اب؟؟؟ ساحر نے اُنکی بات کا جواب دیتے سوال کیا ،

کیا بتاؤ اُنکی طبیعت کا بیٹا تُمہیں ، یہاں تو قیامت ٹوٹ پڑی ہے ، اُن بابا نے سکندر صاحب کی راحیلہ کو پُکارتی آوازیں سنکر افسوس بھری آواز میں کہا ،

کیا ہوا ہے...؟ اُنکے لہجے سے ساحر کی حسیسں بیدار ہوئی تھی ،

راحیلہ بیگم کا انتقال ہو گیا ہے ، آپ پلیز حرم بیبی اور عنایہ بیبی کو لے کر آجائیں ، صاحب بہت پریشان ہیں رو رہے ہیں ، وہ بابا اور بھی بہت کچھ کہہ رہے تھے پر , ساحر اُنکے جملے راحیلہ بیگم کا انتقال ہوگیا پر ساکت ہوگیا تھا ، فون کٹ چکا تھا پر ، وہ ابھی بھی ساکت سا ہاتھوں میں پکڑے موبائل کو دیکھ رہا تھا ، حرم کا سوچتے اُس نے کرب سے آنکھیں میچی تھی وہ واقف تھا اپنوں کو کھونے کے دُکھ سے اُس نے بھی جان سے عزیز باپ اور بھائی کی موت دیکھی تھی تو بھلا ایسا کیسے ممکن تھا کہ وہ اس دُکھ سے واقف نہ ہوتا ، وہ دونوں ہاتھوں میں سر تھامتے سوچنے لگا کہ کیسے اور کب حرم کو یہ بتائے ، بالوں میں ہاتھوں کی اُنگلیاں پھیرتے وہ اپنے ماتھے سے پسینہ صاف کر کے خود کو کمپوز کرتا کھڑا ہوا ٹیبل سے موبائل اور چابیاں اٹھاتا کلینک سے نکلتا اپنی گاڑی میں سوار ہوتا حویلی کی طرف بڑھا ۔۔۔


♡♡♡♡♡♡♡


عادل کا کام ختم ہوچکا تھا جس انفورمیشن کیلئے وہ یہاں آیا تھا وہ اسے حاصل ہوچکی تھی اب اسکا یہاں کوئی کام نہیں تھا مگر عقل سے کام لیتے وہ جان بوجھ کے مزید ایک دن اس شہر میں ٹہرا تھا تاکہ سنایہ وکٹوریہ کی آنکھوں دھول جھونک سکے وہ یہاں کے سخت قانون سے واقف تھا سنایہ نے بھی کوئی کچی گوٹیاں نہیں کھیلی تھیں جو وہ اتنی آسانی سے اسے اپنی زاتی معلومات لے جانے دیتی وہ ہر قدم سنایہ کی سوچ کے مطابق ہی رکھ رہا تھا,,,, وہ پھر آج آفس آیا تھا اور سنایہ پہ ناجانے کیسا سحر پھونک چکا تھا جو وہ اسکے خیالوں میں گم بیلکونی میں کھڑی کافی پی رہی تھی,,,,

کس طرح عادل نے مشکل وقت میں اسکے درد میں اسکا ساتھ دیا تھا شاید ایسا پہلی بار ہی ہوا تھا کہ کسی مرد کے چہرے پہ اسنے اپنے لیئے فکر محسوس کی تھی اور آج بھی جس طرح آفس میں عادل نے اس سے طبیعت دریافت کی تھی اسکا دل بےساختہ ہی دھڑکا تھا وہ دل جسکے چاروں اور اسنے مظبوط لمبی دیوار کھڑی کی ہوئی تھی جہاں کم ازکم کسی مرد کا رسائی حاصل کرنا نا ممکن تھا آج عادل کے محض طبیعت پوچھنے پر ہی جیسے وہ مظبوط دیوار میں درار سی پڑی تھی دل نے شدت سے خواہش کی تھی کہ وقت اسی طرح اپنی جگہ تھم جائے جو سامنے ہے بس وہی اسکی حقیقت بن جائے ,,,,مگر کچھ حقیقت بھی خواب بن کر ہوا میں ہی تحلیل ہوجاتی ہیں,,,ہونٹوں پہ بےبس سی تلخ مسکراہٹ تھی شاید وہ مسکرانا بھی نہیں جانتی تھی کسی کی ہمدردی بھی اسے فریب لگتی تھی برسوں کی تھکاوٹ تھی اسکے اعصابوں پہ مگر کوئی نہیں تھا زندگی میں جو اس تھکن سے چور بکھری لڑکی کو آغوش میں لیکر سمبھال سکے وہ مظبوط تھی دنیا کیلئے مگر اندر سے بلکل کھوکلی جسکی شاید جینے کی خواہش بھی دم توڑ رہی تھی ,,,,

جس پراجیکٹ کیلئے وہ پچھلے ایک سال سے جدوجہد کر رہی تھی وہ پروجیکٹ عادل نے اسے ایک ہی جھٹکے میں لے کر دے دیا تھا اسکے بدلے میں اسنے آج ہی عادل کو سی ای او کی پوسٹ پہ فائز کردیا تھا وہ کسی کے احسانوں تلے دبنے کی قائل نہیں تھی اسے اپنی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں تھا جس بیماری کی ریشے اسکے جسم میں پائے گئے تھے اس لحاظ سے وہ زندگی کی بچی کچی سانسیں ہی گن رہی تھی مگر ان بچی سانسوں میں بھی بس یہی خواہش تھی کہ وہ شہروز خان کے خاندان سے بدلہ لے سکے مرنے سے پہلے بس اسکی یہی آخری خواہش تھی اسکے بعد بیشک اسے پھانسی بھی ہوجاتی تو بھی اسے پروہ نہیں تھی مگر ان لوگوں کو برباد ہوتا دیکھنا چاہتی تھی جسنے اسکا بچپن تباہ کردیا جس باپ نے انہیں مرنے کیلئے چھوڑ دیا اور خود اپنے بیوی بچوں کیساتھ عیش و آرام کی زندگی بسر کرنے لگا تھا وہ شخص آج بھی اسکے زہن میں نقش تھا جو ایک باپ کے روپ میں انکی زندگی میں زہر گھول چکا تھا,,, راتوں تڑپٹی تھی وہ کتنے ہی دن اسنے بھوک پیاس سے بلکتے ہوئے گزارے تھے اور اسی سب کے درمیان اسے اس ازیت ناک بیماری نے آن گھیرا بچپن تو جیسے اسنے دیکھا ہی نہیں تھا انتہائی مشکلات کا سامنہ کرتے آج وہ اس مقام پہ پہنچی تھی ناجانے کب سوچوں کا رخ ناگہاں عادل سے ہوتا ہوا اپنے ماضی میں اٹک گیا تھا ,,,, آنسوں بے اختیار ہی لڑیوں کی صورت آنکھوں سے بہہ رہے تھے مگر نگاہیں ہنوز گریل پہ ٹکی شاید کسی غیر مرئی نقطے پہ غور کر رہی تھی کافی بھی ٹھنڈی ہوچکی تھی مگر دماغ کے ارد گرد صرف ازیت بھرے گزشتہ لمحات کسی فلم کی طرح چل رہے تھے یہ سوچیں یہ خیال کبھی اسکا پیچھا نہیں چھوڑتے تھے زندگی نے چھوٹی سی عمر میں ہی اسے دنیا کی درندگی سے روشناس کروا دیا تھا اعتبار اٹھ چکا تھا اسکا خوشیوں سے اب وہ مسکرانے کی خواہش بھی نہیں کرتی تھی,,,,

دروازہ بجنے کی آواز پہ اسکی گہری سوچوں کا تسلسل ٹوٹا تو وہ ہوش میں آئی کافی کا مگ ٹیبل پہ رکھتے اسنے ٹیشو سے آنسوں صاف کیئے,,,,

کون ہے.... ٹیشو کو ڈسٹپن میں ڈالتے پوچھا رونے کے باعث چہرہ سرخ تھا وہ سیاہ ٹراؤزر اور ڈھیلی سی شرٹ میں موجود تھی بال کھلے ہوئے تھے اور چہرہ میکاپ سے پاک معمول سے زیادہ سرخ تھا,,,,

میڈم نیچے کوئ آپکے آفس سے ملنے آیا ہے ,,,ملازم نے موؤدب انداز میں جکھے سر کیساتھ کہا,,,سنایہ کچھ ٹھٹکی کوئی رات کے دس بج رہے تھے اس وقت کسی کا آنا اسکے لیئے غیر متوقع تھا ,,,,,

ٹھیک ہے آپ بٹھائے میں آتی ہوں,,,,ملازم کو سنجیدگی سے کہتے جانے کا حکم دیا اور خود ہاتھ اوپر کرتے بکھرے بالوں کو جوڑے کی شکل میں قید کیا اور پیروں میں چپل پہنتے نیچے کی طرف بڑھ گئ,,

تتم یہاں اس وقت؟؟؟سنایہ نے کچھ گھبراتے ہوئے پوچھا لفظوں میں زرا سی لرزش تھی,,,

زہن میں عجیب وسوسے خدشات گردش کرنے لگے,,,,

وہ آپکا بریسلیٹ گاڑی میں ہی رہ گیا تھا بس وہی ریٹرن کرنے کی غرض سے یہاں کا رخ کیا ہے,,,,عادل نے فوراً ہاتھ میں پکڑا بریسلیٹ اسکی طرف کرتے صفائی پیش کی اسکی شکل سے اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ وہ کسی غلط فہمی کا شکار ہورہی ہے,,,, 

عادل کے جواب پہ جیسے اسکا اٹکا سانس بحال ہوا تھا دل پرسکون ہوا,,,سنایہ نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر بریسلیٹ کو,,,, 

عادل نے آگے بڑھتے بریسلیٹ کو ٹیبل پہ رکھا اور مسکرا کے اسکی طرف دیکھا,,,, 

چلتا ہوں معزرت اس وقت ڈسٹرب کیا,,,,,وہ کہہ کر جانے کیلئے آگے بڑھا,,,,

 مگرر باہر بہت آندھی چل رہی ہے تم کیسے جاؤگے,,,,سنایہ نے سنجیدگی سے کہا ناجانے کیوں دل بے اختیار ہوا تھا شدت سے دل نے خواہش کی تھی وہ کچھ دیر اور یہاں ٹہر جائے ,,,,,موسم بہت خراب ہورہا تھا ہوا بہت تیز چل رہی تھی,,,,

کوئی بات نہیں اس سے پہلے بارش ہوجائے مجِھے نکلنا ہوگا پھر ایسا نہ ہو میں پھنس جاؤں یہاں,,,, عادل نے بھی عام سے انداز میں کہا اور قدم آگے بڑھادیئے,,,, ابھی وہ دو قدم بھی نہیں چلا تھا کہ ناگہاں لائٹ چلی گئی,,,, امریکہ جیسے ملک میں یوں لائٹس نہیں جایا کرتی تھیں یقیناً مین سویچ میں شارٹ سرکٹ ہوا تھا,,,,. عادل کے قدم اپنی جگہ ساکت ہوئے اور سنایہ صوفے کا سہارا لیتی وہی بیٹھتی چلی گئی,,,,, عادل نے موبائل کی لائیٹ اون کی اور سنایہ کی جانب دیکھا اسکا چہرا پسینوں سے شرابور تھا چہرے پہ خوف کے سائے لہرارہے تھے سیاہی میں رہنے والی لڑکی اندھیرے سے ڈر رہی تھی,,,,, صوفے پہ دونوں پیر فولڈ کر کے بیٹھی تھی دونوں ہاتھ پیروں کے گرد لپٹے ہوئے تھے,,,, اور وہ مسلسل ہل رہی تھی عجیب سی حالت تھی اسکی ہونٹ مسلسل کسی چیز کا ورد کر رہے تھے آنکھیں اشکبار ہوتی سرخ ہوگئی تھی چند سیکنڈ میں اسکی حالت کسی وحشی کی طرح ہوگئ تھی ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے کوئی گہرا ڈر ہے جو من میں بیٹھا ہوا ہے,,,, 

سسنایہ جی,,,, کیا ہوا ہے آپکو,,,, 

عادل بےساختہ ہی اسکی طرف بڑھا مگر ہاتھ لگانے کی غلطی نہیں کی تھی اسنے,,,, 

اسکا کہنا تھا کہ سنایہ برق رفتاری سے اٹھتے اسکے سینے سے لگی اسکا انداز شدت لیئے ہوا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اپنا وجود اسکے سینے میں چھپا رہی ہے وہ پوری طرح تھر تھر کانپ رہی تھی باہر بارش بھی زور پکڑ چکی تھی بادل تیز آواز میں گرج رہے تھے,,,, عادل تو اپنی جگہ جیسے ساکت ہی ہوگیا تھا حسیس کام کرنا چھوڑ گئیں تھی اسنے اسے دور نہیں کیا تھا مگر اپنا حصار بھی اسکے گرد نہیں باندھا تھا,,,,وہ ساکت ضرور تھا مگر حواس باختہ نہیں اب تک جو اسے سمجھ آرہا تھا وہ بس اتنا ہی کہ ضرور وہ اندھیرے یا بارش سے ڈر رہی ہے اسکی حالت کافی گیر ہورہی تھی,,,, ہمیشہ اس موسم میں شیریں ساتھ ہوتی تھیں جو اسکی حالت سے واقفیت رکھتی تھی اسلیئے انہیں سنایہ کو سمبھالنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی تھی مگر آج وہ جسکے سامنے بکھر رہی تھی اسکے لیئے یہ سب نیا تھا وہ غیر تھا مگر اپنوں سے زیادہ سکون تھا اسکے پاس ہونے کا احساس ہی کافی حسین لگنے لگا تھا اور آج وہ ایک بار پھر اسکے لیئے مسیحا ثابت ہوا سنایہ کا یہ عمل اسکے حواس جھجوڑ رہا تھا عادل کو سمجھ نہیں آرہا تھا اسے خود سے لگا کر آرام دے یا دور ہٹادے کہیں وہ اسکی ہمدردی کو غلط رخ نہ دے دے یہی سوچتے وہ مجسمہ بنے کھڑا رہا نہ دور ہوا نہ ہی اسے حصار بخشا,,,, اسکی حالت اس مظبوط اعصاب کے مالک کو بھی اندر تک سے ہلا رہی تھی ناجانے کیا تھی یہ عورت باہر سے لوہے کی مانند سخت تو اندر سے ہرنی جیسی ڈرپوک کیا تھی وہ,,,, 

وہ مسلسل کچھ بڑبڑارہی تھی,,, ممجھے بچاؤ ممجھے بچاؤ.... ممجھسے دور رہو تم درندے ہو,,,,, اچانک بڑبڑاہٹ زور پکڑ گئ وہ بوکھلائی سی اسے پیچھے دکھیلتے چلائی آنکھوں میں خوف سمایا ہوا تھا وجود لرز رہا تھا بال بکھر رہے تھے عجیب جنونی حالت ہوگئی تھی اسکی,,,,

سنایہ میم..... عادل نے اسکی آنکھوں میں انجان تاثر محسوس کرتے پکارا,,,, مگر وہ اپنے حواسوں میں نہیں تھی,,,. 

ننہیں تم برے ہو تم درندے ہو تم مجھے نوچ لوگے میری عزت کو پامال کرنے آئے ہو تم بھی ہر مرد کی طرح نفس پرست ہو,,,,, وہ ہزیانی ہوکر حلق کے بل چلائی تھی,,,, اور قدم بےاختیار پیچھے لینے لگی قدم ڈگمگا رہے تھے,,,, 

اسکے لفظوں پہ عادل کے تو پیروں تلے زمین ہی کھسک گئی تھی اسے اپنی دنیا ختم ہوتی محسوس ہوئی کان سائیں سائیں کرنے لگے,,,, 

سنایہ لڑکھڑاتے گرنے لگی.... 

سنایہ,,,,, اسنے بےساختہ شدت سے اسے پکارا مگر وہ اپنی ہی چلاتی اندھا دھند سیڑھیاں چڑھتی اپنے کمرے میں بند ہوگئ,,,, جبکہ عادل اپنی جگہ ساکت سرگردان سا کھڑا تھا وہ بھونچکا رہ گیا تھا اسکے اس عمل سے اسکے لفظ تیر کی طرح چھب رہے تھے اسے,,,,

 عادل نے ایک لمباسانس خارج کرتے سکون کا سانس لیا اور ایک تاسف بھری نگاہ سنایہ کے بند دروازے پہ ڈالی اسکا اوپر جانا فضول تھا ناجانے وہ اب کیا کیا  الزام اسکے سر ڈالتی اسلیئے یہاں سے جانا ہی اسنے بہتر جانا ویسے بھی نیکی گلے میں آتی محسوس ہورہی تھی اسے ملال ہورہا تھا اس وقت پہ جب اسنے یہاں آنے کا سوچا تھا,,,,, 

 لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہ باہر نکل گیا,,,,, بارش ہنوز تیزی سے برس رہی تھی باہر نکلتے ہی وہ پورا بھیگ چکا تھا بھاگتے ہوئے وہ گاڑی میں بیٹھا اور ڈرائیونگ سیٹ سمبھالتے گاڑی اسٹارٹ کی مگر بےسود گاڑی اسٹارٹ ہی نہیں ہورہی تھی چاروں طرف تاریکی چھائی ہوئی تھی اور بارش کی وجہ سے دور دور تک کوئی زی روح موجود نہ تھی کئی بار گاڑی اسٹارٹ کرنے کی کوشش کی مگر ہربار بےسود شاید بارش کی وجہ سے انجن میں پانی جاچکا تھا جسکے باعث گاڑی اسٹارت نہیں ہورہی تھی,,,,,

 بادلوں کی گرج ماحول کو ہیبت ناک بنا رہی تھی,,,,, جب بار بار کوشش کے باوجود بھی گاڑی اسٹارٹ نہ ہوئی تو اسنے زور دار مکا اسٹیرنگ پہ مارا اور گاڑی کے شیشے چڑھاتا وہ پشت ٹکائے یہی پناہ لیتے آنکھیں موند گیا اور کوئی راستہ بھی تو نہ تھا,,,,, 

 *********

دروازے کے سہارے وہ وہی بیٹھتی چلی گئ منہ کھولے گہرے گہرے سانس بھر رہی تھی ہاتھ پیر بری طرح کانپ رہے تھے,,,,, ناگہاں کمرہ روشن ہوا شاید کسی ملازم  نے لائٹ ٹھیک کی تھی,,,, سارے. ملازم کواٹر میں موجود تھے آج کوئی بھی چھٹی پہ نہیں تھا شکر تھا کمرا روشن ہوگیا تھا,,,,, روشنی دیکھتے جیسے اسکی جان میں جان آئی تھی,,, وہ جو گہرے گہرے سانس بھر رہی تھی اب نارمل ہونے لگی تھی مگر حالت اب بھی کچھ بکھری ادھڑی سی معلوم ہورہی تھی,,,, وہ روشن کمرے کو ایسی نظروں سے دیکھ رہی تھی جیسے اسے کچھ دیر قبر کے اندھیرے سے روشناس کروا کر یہاں پھینک دیا گیا ہو وہ خود کو زندہ محسوس کر رہی تھی,,,,, جب سانس اپنے اعتدال میں آیا تو وہ دروازے کا سہارا لیتے اٹھی اور تیزی سے بلینکٹ میں دبک گئ,,,,, وجود میں اب بھی لرز طاری تھا تو کچھ رونے کے باعث ہچکولے بھر رہا تھا,,,,

کچھ ہی دیر میں اسے نیند نے آگھیرا تھا مگر وہ آج پھر دوائی لینا بھول گئی تھی خوف اسکی رگوں میں گردش کر رہا تھا فلحال تو وہ سو گئی تھی ,,,,اور دوسری جانب عادل کی نیند حرام ہورہی تھی,,,, وہ گاڑی میں بیچین سے پہلو بدل رہا تھا نیند بھی شدید غالب آرہی تھی مگر اتنی سی جگہ میں اتنا لمبا چوڑا وجود ایڈجسٹ کرنے میں دشواری ہورہی تھی آخر تھک ہار کر وہ پچھلی سیٹ پہ جاکر جیسے تیسے آنکھیں موند گیا,,,,, 

°°°°°°°°

وہ برق رفتاری سے ڈرائیونگ کرتا اپنی کلینک سے سیدھا حویلی پہنچا تھا پورے راستے وہ یہی سوچتا آیا تھا کہ آخر کس طرح وہ حرم کو بتائے گا اسکی ماں کی موت کا ، حویلی پہنچتے ہی وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا سیدھے اپنے کمرے کی طرف بڑھا ،  اُس نے کمرے میں قدم رکھا تو حرم کو نماز پڑھتے ہوئے پایا حجاب کے ہالے میں چمکتی اُسکی سفید رنگت دیکھ اُسکا دل بے اختیار ہی دھڑکا تھا دل نے شدت سے خواہش کی تھی کہ اس چہرے پہ چھایا سکون اسی طرح برقرار رہے پر ایسا ہوسکتا تھا...؟  نہیں ,,, 

اُسکا دل آج بھی اسی شدت سے دھڑکا تھا جیسے اُسے پہلی بار دیکھ کر دھڑکا تھا ، 

وہ قدم بڑھاتا کھڑکی کی طرف بڑھ گیا نیچے باغیچے کو دیکھ وہ تازہ ہوا میں سانس لیتا خود کو پر سکون کرنے لگا ، دل نے شدت سے یہ خواہش کی تھی کہ کاش وقت یہی پر تھم جائے کوئی دُکھ کوئی پریشانی اُسکی حرم تک نہ پہنچ جائے ، پر ہم کیوں ہمیشہ بھول جاتے ہیں کہ دُکھ پریشانی تو زندگی کا حصہ ہوا کرتے ہیں ہمیں چاہئے کہ ہر دُکھ ہر پریشانی کو اپنے خدا کی طرف سے آزمائش اور امتحان سمجھ کر مقابلہ کریں نہ کہ اُن سے چھپ کر بیٹھ جائیں رہی زندگی اور موت کی بات تو وہ تو خدا کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے بے شک ہمیں زندگی دینے والی وہی پاک ذات ہے اور ہمیں اُسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے ، کسی نے آج جانا ہے تو کسی نے کل ,,,, 

حرم دعا مانگتے جائے نماز تہہ کرتی جیسے ہی پلٹی ساحر کو کھڑا دیکھ کُچھ ٹھٹکی  تھی، وہ ساحر کی اس وقت موجودگی پر حیران ہوتی چہرے کے گرد لپٹے دوپٹے کو ڈھیلا کرتے  اُسکی طرف بڑھی 

ساحر جی,,, حرم نے اُسکی پُشت پر کھڑے ہوتے پُکارا پر شاید ساحر  وہاں غیر دماغی سے کھڑا تھا وہ وہاں موجود ضرور تھا پر اُسکا دماغ کسی گہری سوچ میں غرق تھا ، اپنی پُکار پر بھی اُسے متوجہ نہ دیکھ حرم نے اس بار اُسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے پُکارا ، 

کندھے پر حرم کا ہاتھ محسوس کر وہ حال کی دنیا میں لوٹا  اور ہوش میں آتے پلٹا ، 

سب ٹھیک تو ہے ساحر جی؟؟؟ اُسکی سُرخ آنکھیں دیکھ حرم کو خدشہ سا لگا تھا ،

ساحر کچھ لمحے تو خاموشی سے اُسے تکتا رہا ، پھر کچھ سوچتے وہ گویا ہوا ۔۔۔

جلدی تیار ہو جاؤ ہم تمھارے بابا کی طرف جا رہے ہیں ، تُمہارے پاس دس منٹ ہیں تیاری کے لئے ، ساحر نے یہ بات اُس سے نظریں چراتے کہی تھی ، کیا وہ اُسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جھوٹ بول سکتا تھا یقیناً نہیں,,,, 

سچ میں ساحر جی ہم ماما بابا سے ملنے جائینگے,,,, حرم کو جیسے اپنے کانوں پر شبہ ہوا تھا وہ بے یقینی اور خوشی سے دمکتے چہرے سے پوچھنے لگی 

ساحر نے ایک پل کے لئے اپنی سُرخ آنکھیں میچ کر کھولی تھی اور تلخی سے مسکراتا اثبات میں سر ہلاگیا ، 

میں بس پانچ  منٹ میں تیار ہو کر آئی,,,, وہ چہکتی ہوئی آواز میں بولی جبکہ چہرے پر خوشی سے پھوارے پھوٹ رہے تھے ۔۔۔ 

ساحر لب بھینچتے محض اثبات میں سر ہلا گیا ، اُس نے فلوقط سچ چھپا تو لیا تھا حرم سے پر یہ سچ چھپایا نہیں جا سکتا تھا ، وہ بس خدا سے دعا ہی کر سکتا تھا کہ جب یہ سچ حرم کو پتہ چلے تو وہ اُسے سنبھال پائے ، 

وہ واقف تھا حرم کی اپنی فیملی کو لے کر محبت سے  وہ نہ صرف واقف بلکہ گواہ تھا اس بات کا ، حرم نے اُسکے سخت سے سخت الفاظ اور روئیوں کو خاموشی سے برداشت کیا تھا پر جب بھی بات اُسکے ماں باپ اور بہن پر آئی تھی وہ ہمیشہ ساحر کے آگے ڈٹ کر کھڑی ہوئی تھی اُنکے حق میں بولتی تھی وہ ، 

سنو عنایہ کو بھی بول دو جا کر وہ بھی ساتھ چلے گی ہمارے,,,, اُس نے کچھ سوچتے مضبوط لہجے میں کہا

 ساحر کی اس بات سے حرم کو ایک دم جیسے جھٹکا سا لگا تھا اُسکا الماری کی طرف بڑھتا ہاتھ ساکت ہوا وہ کرنٹ کھا کر پلٹی تھی ، 

ایسے کیا دیکھ رہی ہو..؟ تمھاری ماما کی طبیعت ٹھیک نہیں اور عنایہ بھی اُنکی ہی بیٹی ہے, اب اتنا بھی سنگ دل نہیں میں وہ اُسکی طرف قدم بڑھاتے عین اُسکے مقابل کھڑا ہوتے بولا ،

میرا وہ مطلب نہیں تھا ساحر جی,,, حرم نے جھجھکتے ہوئے اٹکتی ہوئی آواز میں کہا ، 

جو بھی مطلب تھا گولی مارو , میں خود مور کو بول آتا ہوں بول دینگی اُسے,,, تُم جلدی سے تیار ہو جاؤ,,,, وہ اُسکے ماتھے پر لب رکھتے بولا اور ایک نظر اُسکے مُسکراتے چہرے پر ڈالتا باہر کی طرف بڑھ گیا ،، 

نور بانو کے کمرے میں جاتے ہی اُس نے ساری حقیقت نور بانو کے گوش گذار دی تھی ، نور بانو کو بھی اس خبر سے شدید رنج پہنچا تھا پر ساحر کی طرح اُنہیں بھی صرف حرم کی فکر لاحق تھی  , وہ ساحر کو حرم کا خیال رکھنے کا کہتی خود عنایہ کے کمرے کی طرف بڑھ گئی تا کہ اُسے بھی جانے کا کہہ سکیں ، 

اُنہوں نے عنایہ کے کمرے میں قدم رکھا تو عنایہ کو صوفے پر بیٹھا پایا ، جو آرام داہ انداز میں صوفے پر بیٹھی ایک ہاتھ میں جوس کا گلاس تھامے ہوئی تھی جو اُسے ابھی ہی ملازمہ دے کر گئ تھی ساتھ ہی دوسرے ہاتھ میں پکڑے موبائل پر جھکی وہ مُسکراتے کچھ ٹائپ بھی کر رہی تھی ، نور بانو نے ملازمہ سے کہہ کر اُسکی ڈائیٹ کا بہت خیال رکھوایا ہوا تھا ہر آدھے گھنٹے بعد ملازمہ کبھی اُسے فروٹس پیش کرتی تو کبھی جوس ، باقی سب کی طرح نور بانو کو بھی عنایہ سے سخت نفرت تھی اُنہیں کوئی سروکار۔ نہ تھا عنایہ سے پر ثمر کے بچے کو لے کر وہ کوئی رسک نہیں لے سکتی تھی ،

آپ یہاں مجھے بلا لیتی .... عنایہ کی اچانک ہی نظر دروازے پر کھڑی نور بانو پر پڑی تو وہ موبائل سائڈ کرتی مسکراتی بولی ۔

نہیں ضرورت نہیں تُمہیں زحمت کی میں صرف یہی بتانے آئی تھی تیار ہو جاؤ تُمہیں اور حرم کو ساحر تمھارے باپ سے ملوانے لے کر جارہا ہے ، وہ تفصیل سے سپاٹ چہرے سے کہتی جس خاموشی سے آئی تھی ویسے ہی چلی بھی گئ ، 

پر عنایہ پر جیسے سکتا سا طاری ہوا تھا دل خوف سے ایک دم دھڑکنے لگا تھا ۔۔۔

نہیں وہ نہیں مار سکتا مجھے اگر اُسے مارنا ہی ہوتا تو یہاں لاتا ہی نہیں وہ مجھے,,,, اپنی ہی سوچ کی نفی کرتی خود سے گویا ہوئی ، 

اور ویسے بھی حرم کے سامنے مجھے جان سے مارنے کی دور کی بات ہے وہ دیکھ بھی نہیں سکتا مجھے ، اه حرم بیبی کہیں تو تمہاری موجودگی میرے کام آئی وہ خباثت سے مسکرائی تھی ، 

چلو چل کر دیکھ ہی لیتے ہیں کہ آخر چاہتا کیا ہے یہ ،وہ ایک بار پھر خود سے مخاطب ہوتی جلدی جلدی ہاتھ چلاتے جانے کی تیاری کرنے لگی,,,, 

ساحر نور بانو کے کمرے سے نکلتا پورچ کی طرف بڑھ گیا اور اپنی گاڑی کے پاس کھڑا ہوتا وہ حرم نور کا انتظار کرنے لگا ، اسے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا تھا ٹھیک دس منٹ بعد لائٹ لیمن اور سفید لون کے سوٹ میں سر پر سفید سٹولر پہنے اور بلیک چادر میں خود کو لپیٹے وہ پورچ میں مسکراتی ساحر کی طرف ہی آرہی تھی ، ساحر نے اُسکے آتے ہی گاڑی کا دروازہ کھولتے اُسے اندر بیٹھایا اور دوسری طرف سے جانے کے لئے پلٹا ہی تھا کہ اُسکی نظر سامنے سے آتی عنایہ پر پڑی ایک نظر اُسے دیکھ کر بھی اندیکھا کرتا وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا ، 

عنایہ اُسکی اس حرکت پر جلتی بھنتی آخر خود ہی آگے بڑھتی گاڑی کا دروازہ کھول کر پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی ، 

سارا راستہ خاموشی کی نظر ہوا تھا ، حرم نے پورے راستے ہمیشہ کی طرح اپنی نیند ہی پوری کی تھی جبکہ عنایہ کا پورا راستہ ساحر کو دیکھتے ہی گزرا تھا ساحر ڈرائیونگ کے دوران وقفے وقفے سے حرم پر نظر ڈالتا رہا تھا پر عنایہ پر ایک بھی نگاہ ڈالنا اُسے اپنی شان کے خلاف لگا تھا ، عنایہ جب جب ساحر کو حرم کو دیکھتا اور اُس کا حرم کو دیکھ کر مسکرانا دیکھتے ہی اسے اپنے وجود میں چونٹیاں کاٹتی محسوس ہوتی تھی ،  

ساحر جی ہم کب پہنچیں گے..؟ حرم ابھی نیند سے جاگی تھی اور تھکن زدا انداز میں گویا ہوئی ، 

بس پہنچنے والے ہیں میری جان,,, ساحر نے گاڑی موڑتے کہا ، حرم اثبات میں سر ہلاتی پُشت سیٹ سے ٹکاتی بیٹھ گئی ، 

کچھ ہی دیر بعد ساحر نے گاڑی سکندر مینشن کے باہر روکی ، وہ گاڑی روک کر ایک لمبی سانس لیتے اپنا رُخ حرم کی طرف کر گیا پر حرم اُسکی طرف متوجہ نہ تھی وہ تو حیرت سے پھٹی آنکھوں سے گھر کے باہر کھڑی اتنی گاڑیوں اور لوگوں کو دیکھ رہی تھی ، عنایہ کا ہال بھی اُس سے جُدا نہ تھا وہ بھی حیرت سے سفید کپڑوں میں موجود لوگوں کے ہجوم کو دیکھ رہی تھی ، 

حرم,, ساحر نے اپنی گھمبیر آواز میں اُسے پُکارا ، 

ساحر کی آواز پر اُس نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا تھا 

تُمہیں مجھ پر بھروسہ ہے نہ ...؟ اُسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے سوال گو ہوا وہ شاید عنایہ کی موجودگی کو بھی بھلا گیا تھا ، 

حرم نے اُسکے سوال پر زورو شور سے کسی بچے کی طرح اثبات میں سر ہلایا جبکہ اپنے گھر کے باہر یہ سب دیکھ اُسکا دل کسی سوکھے پتے کی مانند لرز رہا تھا ، 

حرم کوئی درد ایسا نہیں ہوتا جس کی کوئی دوا نہ ہو ، اور کوئی دکھ ایسا نہیں ہوتا جس کا صبر نہ ہو میں ہر قدم ہر لمحہ ہر وقت تُمہارے ساتھ ہوں ، ہمت صبر اور مصلحت سے کام لینا اللّٰہ کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے ، اللّٰہ کے فیصلوں پر سوال نہیں اٹھاتے بلکہ صبر سے کام لیتے ہیں ...... وہ اُسکے ہاتھ اپنے لبوں سے لگاتا نرمی سے سمجھاتا دُرست لفظوں کا چناؤ کرتے بولا۔۔۔ 

ساحر جی ہوا کیا ہے میرا دل بیٹھا جا رہا ہے...... حرم نے روندھی آواز میں کہا جبکہ عنایہ  اُنکی باتوں سے بیزار ہوتی اپنا ضبط کھوتے دیکھ گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکل گئ تھی اور سیدھے گھر کے بیرونی دروازے کی سمت بڑھی ، 

پُر سکون رہو حرم میں ہوں نہ تمھارے ساتھ ,,, وہ عنایہ کی اس حرکت کو بھی نظر انداز کرتا حرم سے نرمی سے بولا اور گاڑی سے نکلتا حرم کی طرف کا دروازہ کھول کر اُسے بھی سہارا دیتا باہر نکال گیا ، 

حرم نے ایک نظر ساحر کے چہرے کو دیکھتے اُسکا ہاتھ تھامتے گھر کی جانب قدم بڑھائے ، اُسے اپنا ایک ایک قدم من من کا بھاری محسوس ہو رہا تھا ، دل بے تحاشا دھڑک رہا تھا جیسے ابھی وہ کچھ بھی ایسا جو  سننا یہ دیکھنا نہیں چاہتی اگر وہ دیکھ لے گی تو اُسکا دل پھٹ جائیگا ، وہ بمشکل ساحر کے سہارے چلتی لاؤنچ تک پہنچی جہاں آج صوفے ٹیبل نہیں تھے بلکہ دریاں بھچی ہوئی تھی اور اس پر بہت سے لوگ بیٹھے تھے کچھ آنسو بہا رہے تھے تو کچھ ہاتھ میں پکڑی تسبیح پڑھ رہے تھے لاؤنچ کے بیچو بیچ ہی کسی کا جنازہ دیکھ اُسکی سانسیں خشک ہوئی تھی دل جیسے دھڑکنا بھول گیا تھا اُسکے چلتے قدم وہی ساکت ہوگئے تھے ،

 نہیں ,,,,, وہ ایک دم چلاتی زرو شور سے سر نفی میں ہلاتی چیخی ، اس سب کے دوران ہی اُسکی نظر سامنے کھڑے سکندر صاحب کی طرف گئ جن کے سینے کے ایک سائڈ عنایہ لپٹی رو رہی تھی اور وہ بھی مسلسل روتے حرم کو ہاتھ کے اشارے سے اپنے قریب بلا رہے تھے حرم ساحر کا ہاتھ چھوڑتی فوراً روتی ہوئی اُنکی طرف بھاگی تھی ، ساحر بھی ایک نظر اُن پر ڈالتا باہر کی طرف بڑھ گیا ۔۔ اُس میں سکت نہیں تھی حرم کو روتا دیکھنے کی ، پر اگر وہ ابھی نہ روتی تو یہ غم ہمیشہ اُس کے سینے میں رہتا اُس کے لئے ابھی رونا بہتر تھا ، یہی سوچتے وہ باہر کی طرف بڑھ گیا ، سکندر صاحب کا کوئی بیٹا نہیں تھا اور وہ خود اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ تمام انتظامات دیکھ سکیں اس لئے سارے انتظامات ساحر نے اپنے ذمے لے لئے تھے ۔۔۔۔۔ 

حرم بھاگتی ہوئی سکندر صاحب کے سینے سے لگی تھی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تینوں  کی ہی آنکھیں اشک بار تھی ، حرم اور عنایہ دونوں ہی خود میں ہمت مجتمع کرتے اپنی ماں کا آخری دیدار کرنے کے لئے اگے بڑھی اُنہیں اس سفید کفن میں دیکھ جیسے اُنکا سارا ضبط ٹوٹ گیا تھا ، وہ چیختی روتی اپنی ماں کو پُکار رہی تھی پر آج اُنکی وہ ماں جو اُنکی ایک سسکی پر بھاگی چلی آتی تھی آج اُنکے زارو قطار رونے پر بھی اپنی آنکھیں نہیں کھول رہی تھی ، اُنہیں اس شدت سے روتا دیکھ وہاں موجود تمام نفوس کی ہی آنکھیں نم ہوگئ تھی ، اُن تینوں کا ہی رو رو کر بُرا ہال تھا ، اور آخر اب راحیلہ کو سپرد خاک کرنے کا بھی وقت آن پہنچا تھا ساحر اور کئی جوان جب راحیلہ کو لینے آئے تو لاؤنچ ایک بار پھر حرم اور عنایہ کی چیخوں سے گونج اٹھا ، 

سا ساحر جی,,۰,, پلیز مت لے کر جائیں ،حرم ساحر کا بازو پکڑتے ہچکیوں سے روتے بولی ، ساحر نے اپنے بازو سے اُسکا ہاتھ ہٹا کر بنا کسی کی بھی پرواہ کئے لبوں سے لگایا ، حرم صبر کرو ,,, وہ اُسکے آنسوں اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے چنتا ہوا بولا ، حرم کے پیچھے کھڑی خاتون نے آگے بڑھتے حرم کو سنبھالا ، راحیلہ بیگم کے جنازے کو اپنے کاندھے پر ایک طرف سے ساحر نے تو دوسری طرف سے سکندر نے تھاما تھا ، سکندر صاحب کی آنکھیں مسلسل برس رہی تھی ، 

کفن دفن کے بعد سب ہی لوگ اپنے اپنے گھروں کی طرف بڑھ گئے تھے پر کچھ قریبی لوگ ابھی بھی سکندر مینشن میں موجود تھے ، نور بانو نے بھی حویلی سے سکندر مینشن آتے جنازے میں شرکت کی تھی وہ عین اُس وقت آئی تھی جب راحیلہ کو لے جایا جا رہا تھا ، اُنہوں نے آتے ہی حرم کو سنبھالا تھا ابھی بھی وہ ڈرائنگ روم میں بیٹھی اُسے تسلیاں دے رہی تھی ، جبکہ عنایہ سکندر صاحب کے پاس تھی ، سب کی مناسبت عنایہ نے جلد خود کو سنبھال لیا تھا اور اپنے حواس بھی بحال کر دیئے تھے ۔۔۔

بابا آپ ایسا کرینگے تو مجھے اور حرم کو کون سنبھالے گا ہمارا ہے کون آپ کے سِوا ، عنایہ کی بات پر سر جھکائے بیٹھے سکندر صاحب نے سر اٹھاتے سُرخ آنکھوں سے اُسکی طرف دیکھا جسکی خود آنکھیں سرخ تھی ، 

بابا آپ سنبھالیں خود کو ہمت کریں ہمیں حرم کو نکالنا ہوگا اُس جہنم سے مجھے پتہ ہے بابا کہ یہ وقت نہیں اب باتوں کا پر پھر نہ جانے ہماری ملاقات ہو نہ ہو ، میں آپکو بتانا چاہتی ہوں بابا وہ لوگ بہت ظالم ہیں صرف دکھاوے کی محبت کرتے ہیں اصل میں انہوں نے حرم کی زندگی جہنم سے بھی بد ترین کی ہوئی ہے وہ نہ کہیں آ سکتی ہے نہ جا سکتی ہے پورا پورا دن اُسے کمرے میں قید رکھتے ہیں یہاں تک کہ اُسے مجھ سے ملنے کی اجازت نہیں میرا یقین کریں بابا مہینے سے اوپر ہو گیا ہے مجھے وہاں پر ,اور آج ملاقات ہوئی ہے میری حرم سے ,,،،، عنایہ اپنی زبان سے حویلی کے لوگوں کے بابت زہر اُگل رہی تھی ، 

سکندر صاحب کا چہرہ ایک دم سے ہی لہو ٹپکانے لگا تھا ، وہ ضبط کھوتے اُٹھ کھڑے ہوئے پر عنایہ نے اُنکا بازو پکڑ کر روک لیا ، 

یہ وقت جوش سے نہیں ہوش سے کام لینے کا ہے ابھی آپ اُنہیں کچھ بھی بولینگے تو حرم اُنکی طرف داری کرے گی میں نہیں جانتی اُنہوں نے حرم کو کیا دھمکی دی ہے جو وہ اتنی خاموشی سے سب سہ رہی ہے ، عنایہ نے اُنہیں جاتا دیکھ روک کر سمجھآتے کہا ۔۔ 

تو کیا کروں میں ہاتھ پر ہاتھ رکھکر بیٹھا رہو ؟؟؟؟ وہ تقریباًًًًً دھاڑے تھے یہ تو شکر تھا کہ کمرے کا دروازہ بند تھا اور کمرہ ساؤنڈ پروف تھا۔ 

نہیں بابا یہی وقت ہے حرم کو اُن ظالموں سے بچانے کا میں بتاتی ہوں آپ نے کرنا کیا ہے ، اس سے ساحر کبھی حرم کو نہیں ڈھونڈ پائے گا اور ہم ہماری حرم کو اُس جہنم سے بھی آزاد کروا دینگے ، وہ اب بھی اپنی اُوچھی حرکتوں سے باز نہ آئی تھی وہ کہتے ہی سارا بنایا پلین سکندر صاحب کے گوش گذار گئ ، اور سکندر صاحب کو بھی کافی حد تک اُسکا پلین سہی لگا تھا فلحال عنایہ کے پلین پر چلنے کے علاوہ اُنکے پاس کوئی دوسرا راستہ موجود بھی نہ تھا ، اس لئے وہ اُسکے پلین سے متفق ہوتے حامی بھر گئے ، اب اُنہیں کسی بھی طرح حرم کو یہاں روکنا تھا ، یہی سوچتے رہے وہ ,,,, پر آخر اس معاملے کا بھی حل نکال گئے تھے ہل بھی عنایہ نے ہی نکالا تھا ، دونوں ہی پوری پلاننگ کے بعد خود کو سنبھالتے نیچے کی جانب بڑھے تھے ۔۔۔۔۔

●︿●●︿●●︿●

آنٹی اگر آپ کو کوئی مسئلہ نہ ہو تو میں ماما کے تیجے تک بابا کے پاس ہی رکنا چاہتی ہوں ، ڈرائنگ روم کی خاموش فضا میں عنایہ کی آواز گونجی جو حرم نور کے ساتھ بیٹھی نور بانو سے مخاطب تھی ،

عنایہ کی اس اچانک بات پر نور بانو نے بے ساختہ ہی سامنے بیٹھے ساحر کی طرف دیکھا جو خود بھی عنایہ کی بات سن چکا تھا پر اُسے دیکھنا اس نے گوارا نہیں کیا تھا وہ جب جب عنایہ یہ اُسکا وجود اپنے آس پاس محسوس کرتا تھا بدلے اور انتقام کی آگ کسی شولے کی طرح اُسکے سینے میں بھڑکنے لگتی تھی ،

میں جانتی ہوں یہ ایک بہت بڑا صدمہ ہے آپ سب کے لئے پر ، میں کبھی بھی تُمہیں یہاں رکنے کی اجازت نہیں دے سکتی تُمہیں حویلی داجی لے کر آئے تھے اس لئے تُمہارے متعلق ہر فیصلہ اُن کے ہاتھ میں ہے اور یہ بات ہم سب اچھے سے جانتے ہیں کہ وہ کبھی اس چیز کی اجازت نہیں دینگے بہتر یہی ہے کہ تُم ہمارے ساتھ چلو, نور بانو نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے مناسب لفظ و لہجے کا چناؤ کرتے اپنی بات کہی,,

پر آنٹی,,,, عنایہ نے کچھ کہنا چاہا کہ سکندر صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا ،

عنایہ بیٹی یہ ظلم ہمارے نصیب میں لکھ دیا گیا ہے ، تمھاری ماں بھی حرم کی راہ تکتے بستر مرگ پر پڑی رہی اور دیکھو راہ تکتے تکتے ہی دنیا سے چلی گئی ، میں بھی چلا جاؤنگا ، سکندر صاحب نے سُرخ آنکھوں اور مُسکراتے لبوں سے کہا ، اُنکی مسکراہٹ میں بھی ایک درد سا تھا اور اُنکے لہجے میں کانچ سی چبھن تھی جو حرم کا دل چھلنی کر گئ تھی ،

اُنکی اس بات پر ساحر نے ضبط سے مٹھیاں بھینچی تھی ،

بابا,,,, حرم نے تڑپتے اُنہیں پُکارا اور دوڑ کر اُنکے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ گئ ،

ایسا نہ بولیں اللہ نہ کرے کہ آپکو کچھ ہو آپکو میری عمر بھی لگ جائے, ایسا نہ بولا کریں بابا میں یہی ہوں آپکے پاس نہیں جا رہی میں کہی بھی,,,, اُنکے ہاتھ اپنے نازک ہاتھوں میں لیتی وہ آنسووں سے تر چہرے سے بولی ، آنسوں کی ایک لڑی سکندر صاحب کی آنکھوں سے بہتی حرم کے ہاتھ پر گری تھی ،


حرم,,,,,,, ساحر کی غصے سے بلند آواز جیسے اُس کمرے کی دیواریں ہلا گئ تھی ۔۔

نور بانو نے اُسے غصے میں دیکھ دل تھاما وہی اپنے پلین کی آدھی کامیابی پر عنایہ زیرِ لب مسکرائی

، حرم ہاتھ کی پشت سے اپنے آنسو صاف کرتے اور پلکیں جھپکتے سکندر صاحب کو اپنی بات کی پختگی کا یقین دلاتی اُٹھ کھڑی ہوئی ،

چلو گھر .... ساحر نے کہتے ہی اُسکی طرف قدم بڑھائے وہ اُسکی کلائی دبوچے آگے بڑھا ہی تھا کہ حرم اُسکی گرفت سے اپنی کلائی چھڑاتی بولی ،

مجھے بات کرنی ہے آپ سے اکیلے میں ,,,, حرم نے اُسکی آنکھوں میں اپنی آنکھیں ڈال کر عجیب لہجے میں کہا ، آج اُسکی آنکھوں میں نہ محبت تھی اور نہ ہی کوئی خوف ، ساحر کو اُسکی آنکھوں میں آج اپنے لئے کچھ نہ دیکھ جیسے اپنا دل ویران ہوتا محسوس ہوا تھا ۔۔۔۔

ہم گھر چل کر بات کرینگے حرم,,,,,, اسنے ہمت سے کام لیتے ضبط سے نرم سے لہجے میں کہا ،

میں نے کہا نہ ساحر جی میں ماما کے تیجے تک بابا کے پاس ہی ہوں,,,, اُس نے اٹل لہجے میں اپنی کہی بات دہرائی ،

سکندر صاحب اور عنایہ دونوں ہی اپنے پلین کے مطابق سب کچھ ہوتا دیکھ خاصے پرسکون سے اُنہیں دیکھ رہے تھے جبکہ نور بانو کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ حرم کو سمجھائیں یہ ساحر کو,,,

ساحر ایک بار اکیلے میں بات کرلو حرم سے اُسے سن لو وہ کہنا کیا چاہتی ہے ، اور حرم بیٹی تُم بھی پر سکون ہو جاؤ شوہر سے اس لہجے میں بات نہیں کرتے ، نور بانو نے دونوں کو سمجھانا چاہا ،

نور بانو کی بات پر دونوں ہی خاموش ہو گئے تھے ، ساحر نے ایک نظر اپنی ماں کو دیکھتے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ایک لمبی سانس لی ،

آؤ....... حرم کو اپنے پیچھے آنے کا کہتا خود باہر کی طرف قدم بڑھا گیا ،

وہ بھی اُسکے پیچھے قدم بڑھاتے لاؤنچ کی طرف بڑھ گئ ،

کہو کیا بات کرنی تھی تُمہیں اکیلے میں..... اُسکے آتے ہی ساحر نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا یہ تو وہ تہہ کر چکا تھا وہ کسی صورت اُسے یہاں رکنے کی اجازت نہیں دیگا ,

میں کچھ دن یہی رکنا چاہتی ہوں ، حرم نے بھی بنا ڈرے مضبوط لہجے میں کہا ،

ساحر نے اُسے پھر اسی بات پر بضد دیکھ اپنی انگارے برساتی آنکھیں مندی تھی ، اور اگلے ہی پل کھول کر نرمی سے گویا ہوا ،

میں کل لے آؤنگا تُمہیں حرم اور دوبارہ جب بھی کہو گی تب بھی لے آؤنگا پر شاباش ابھی ضد نہ کرو اچھے بچوں کی طرح میرے ساتھ چلو ، اور ویسے بھی اشرفی اور حُسن ارا تمہارا انتظار کر رہے ہونگے ، اُسے کندھوں سے تھامتے ہوئے جیسے وہ اُسے اپنے ساتھ لے جانے کے لئے بضد تھا ،

ہاں ساحر جی معلوم ہے مجھے آپ ویسے ہی مجھے ملوانے لے آئینگے جیسے پہلے لاتے رہے ہیں ، اُسکا لہجہ تلخ ہوا,,لفظوں میں طنز نمایا تھا آج اُسکی ماں کی وفات نے اُسے اُسکی عمر سے بہت بڑا کر دیا تھا ، ساحر حیران سا اُسے دیکھ رہا تھا اُسکے لئے یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ یہ اُسکی حرم ہے وہ حرم جو اُسکی آنکھیں دیکھتے ہی سمجھ جاتی تھی وہ کیا چاہتا ہے وہ حرم جسکی معصومیت اُسکے زخموں پر مرہم کی طرح تھی آج اُسکے سامنے کھڑی لڑکی حرم تھی ، ہاں وہ حرم ہی تھی پر آج وہ اُسکی حرم نہ تھی ،

حرم غلطیاں کس سے نہیں ہوتی ، میں مانتا ہُوں ہوئی ہے مجھ سے غلطی معاف کردو ، میں وعدہ کر تو رہا ہوں میری جان کہ میں لے کر آؤنگا تُمہیں جب بھی تُم کہو گی ، پر میرے ساتھ آؤگی اور میرے ساتھ ہی جاؤ گی ، اُس نے ہمت نہ ہارتے دوبارہ نرمی سے کہا ، وہ غصے میں تھی خفا تھی سمجھداری کا تقاضا بھی یہی تھا کہ اگر وہ غصے میں تھی خفا تھی تو ساحر کو ضبط اور نرمی سے کام لینا تھا اور وہ بھر پور کوشش رہا تھا ،

غلطی نہیں ساحر جی آپ نے زیادتی کی ظلم کیا ہے حرم نے نفی میں سر ہلاتے تلخی سے مُسکراتے کہا

ہاں میں مانتا ہوں ہر گناہ مانتا ہوں اور سزا بھی قبول ہے ،میں مداوا چاہتا ہوں حرم مگر تم بھی میری بات کو سمجھو ساحر نے اُسکے بالوں میں ہاتھ ڈالتے گدی کے بال سہلاتے ہوئے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا ، ۔لہجے میں ندامت شامل تھی

حرم اُسکے لمس کے آگے ہمیشہ کی طرح پگھلنا نہیں چاہتی تھی ، پر مقابل واقف تھا اُسکی رگ رگ سے ،

ٹھیک ہے پھر میں بھی آپکا یہ ظلم معاف کرتی ہوں قسم کھاتی ہوں کبھی اس ظلم کا نام بھی نہیں لونگی آپ کے آگے پر ,,,, حرم کہتے کہتے رکی تھی ،

اُسے پُر سکون ہوتے اور اُسکی یہ بات سن ساحر مسکرایا تھا اور بے ساختہ ہی اُسکے ماتھے پر اپنے لب رکھ گیا ،

پر آپکو بھی میری بات مانتے مجھے اجازت دینی ہوگی رکنے کی,,, حرم کے اگلے جملے پر اُسکے بال سہلاتا ساحر کا ہاتھ تھما ، وہ ساکت آنکھوں سے اُسے دیکھ رہا تھا جسکی آنکھیں رونے کی شدت سے سُرخ تھی اور سوجی ہوئی تھی ، لب جو کبھی سُرخ ہوا کرتے تھے آج نیلے پڑے تھے چمکتی رنگت پر آج زردی پھیلی ہوئی تھی ،


ساحر نے اُس سے نظریں چراتے لب بھینچے تھے عجیب سی جنگ چھڑی ہوئی تھی دل اور دماغ کے درمیان حالانکہ اسے کوئی دکت نہیں تھی چند روز حرم کو یہاں چھوڑنے میں مگر دل عجب بیچین ہورہا تھا ناجانے کیوں وہ دماغ کی سوچوں سے انکاری تھا ،

ایک طویل خاموشی کے بعد وہ لمبا سانس خارج کرتے گویا ہوا ،

ٹھیک بس یہ تین دن ، اور ہر گز یہ مت سمجھنا کہ میں اس سے زیادہ برداشت کرلونگا ، اُس نے کہتے ہی ایک آخری نظر اُس کے چہرے پر ڈالتے باہر کی طرف قدم بڑھا دیئے وہ مزید اُسکے سامنے رک کر اپنی زبان سے نہیں پھرنا چاہتا تھا,, یہ سب جانے بغیر کہ شاید وہ حرم کو آخری بار دیکھ رہا تھا ، زندگی نہ جانے اُنہیں جُدا کرنے کے لئے اب کونسی نئی سازش رچ رہی تھی ،

اُسکے جاتے ہی حرم بھی ایک لمبی سانس لیتی آنسو صاف کرتے ڈرائنگ روم کی طرف بڑھ گئی ،

نور بانو حرم سے ملتی اور عنایہ اپنے باپ سے ملتی وہ دونوں بھی باہر کی طرف بڑھ گئی ، اور ساحر کے ساتھ حویلی کی طرف روانہ ہوگئی ،۔ اپنے پلین کی اتنی آسانی سے کامیابی پر عنایہ کا دل بھنگڑے ڈالنے کا کر رہا تھا اُس نے اُن سب کو اپنے دماغ سے مات دینے کا سوچا تھا ، پر ابھی بھی اُس نے بہت کچھ کرنا تھا جو اُسکے اسی پلین کا حصہ تھا ،

سکندر صاحب کو زبردستی کھانا کھلاتے سونے کے لئے کمرے میں میں بھیجنے کے بعد وہ خود اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ، مہمان بھی سب ساحر والوں کے جانے سے پہلے ہی جا چُکے تھے ،


°°°°°°°°°

پورا راستہ خاموشی کی نظر ہوتے آخر وہ بھی حویلی پہنچ گئے تھے ، حویلی میں داخل ہوتے ہی نور بانو نے ساحر سے بات کرنے کی کوشش کی تھی پر وہ بغیر اُنکو کچھ کہنے کا موقع دیئے لمبے لمبے ڈگ بھرتا اپنے کمرے میں چلا گیا ، کچھ ہی دیر بعد نور بانو نے کھانے کی ٹرے لئے اُسکے کمرے کا رُخ کیا پر کمرہ اندر سے لوک تھا اُنہوں نے نوک کرتے کھانے کا کہا تو ساحر نے بنا دروازہ کھولے کمرے سے ہی کہا کہ اُسے بھوک نہیں ، نیند آرہی تو وہ فلحال سونا چاہتا ہے لہذا اُسے ڈسٹرب نہ کیا جاۓ ، نور بانو بھی واپس اُنہیں قدموں سے مڑ گئ ،

کمرے میں آتے ہی وہ سب سے پہلے فریش ہوا تھا ٹھنڈا پانی جسم پر پڑتے ہی اُسے کچھ راحت دے گیا تھا ، بیڈ پر دراز وہ سونے کی تگ و دو میں تھا پر نیند تھی جو اُسکی آنکھوں سے کوسو دور تھی کروٹ پر کروٹ بدلتے اُس نے سونے کی ہر ممکن کوشش تھی پر نیند آنے سے انکاری تھی ، حرم کی سائڈ خالی دیکھ اُسے بار بار حرم کی زرد رنگت آنکھوں کے سامنے آرہی تھی اور اُسے مزید بے چین کر رہی تھی رات کے تین بج چُکے تھے پر وہ ابھی بھی آنکھیں موندے سونے کی کوشش میں تھا ، آخر تنگ آتے وہ اُٹھ بیٹھا اور پیروں۔ میں سلپرز پہنتا بالکونی کی طرف بڑھ گیا ،


°°°°°°°

جہاں ساحر کی آنکھوں سے نیند کوسو دور تھی وہی حرم بھی بیچینی سے کروٹ پر کروٹ بدل رہی تھی ساحر کے بغیر نیند اُسے بھی نہیں آرہی تھی ، وہ شرمندہ نہیں تھی اپنی بات سے پر اپنے لہجے سے وہ شرمندہ تھی جو اُس نے ساحر کے لئے اختیار کیا تھا ......


°°°°°°°

بالکونی میں کھڑا وہ تاریکی میں ڈوبے لون کو دیکھ رہا تھا ، کیا ہوا ہے مجنوں کمرے سے نکالے گئے ہو..؟ اشرفی کی آواز کے ساتھ ہی اُسکی پتلی آواز کا قہقہ اسکے کانوں سے ٹکرایا ، اُس نے نظر لون سے ہٹاتے گردن موڑتے اُسے دیکھا تھا جو جھولے پر مزے سے بیٹھا تھا ، یہ ایک واحد حرم سے جڑی چیز تھی جسے دیکھکر آج پہلی بار ساحر کا دل پر سکون ہوا تھا آج پہلی بار وہ اُسے دیکھ دل سے مسکرایا تھا ،

لگتا ہے سٹھیا گیا ہے یہ , ہنس کیوں رہا ہے مجھے دیکھکر ..؟ اشرفی کو اُسکی ہنسی مشکوک لگی ،

ہاں معلوم ہے میں اچھا لگ رہا ہوں اب تُم بتاؤ اتنی رات میں کونسا کارنامہ کیا ہے جو تُمہیں دھکے دے کر کمرے سے نکالا گیا اور تُم اپنی عزت کی وجہ سے یہاں بالکونی میں سر چھپانے آگئے ہو ،اشرفی کو ابھی بھی لگ رہا تھا کہ حرم کمرے میں ہی ہے کیوں کہ اشرفی کو راحیلہ کی موت کا اب تک پتہ نہیں چل پایا تھا ملازمہ آئی تھی اُسکا گھر صاف کرنے اور اُسکا کھانا پانی رکھتی چلی گئی تھی ، نہ اشرفی نے اس سے پوچھا تھا حرم اور ساحر کا اور نہ ہی اس ملازمہ نے اسے کچھ بتایا تھا ، پر ایک بات تھی جو صبح سے اشرفی کو پریشان کر رہی تھی اور وہ تھی یوں اچانک حُسن ارا کو لے جانا پر وہ کسی سے اس بارے میں پوچھ بھی نہیں پا رہا تھا ،

مجھے کسی نے بھی کمرے سے نہیں نکالا میں خود آیا ہُوں ، اور حرم کمرے میں نہیں ہے سکندر مینشن میں ہے,,,,, عام سے لہجے میں بتاتے اُس نے اشرفی کی طرف پُشت کر لی تھی ،

اشرفی کو جیسے شار سو چالیس وولٹ کا جھٹکا لگا تھا ، حرم وہاں ہے تو وہ یہاں کیا کر رہا ہے ؟؟ اور حرم وہ مجھے ساتھ کیوں نہیں لے کر گئ ؟؟ بہت سے سوال اُسکی ذہن میں گردش کر رہے تھے ، ساحر جانتا تھا اُس کے ذہن میں کیا چل رہا ہوگا ، اس لئے اُسکی مشکل آسان کرتے وہ خود ہی وجہ بھی اُس کو بتا گیا ،

راحیلہ کی موت کی خبر سن اشرفی کو بھی بہت افسوس ہوا تھا ، وہ بچپن سے حرم کے ساتھ اُس گھر پر رہا تھا حرم کے بعد اگر وہ اُس گھر میں کسی سے اٹیچ تھا تو وہ راحیلہ بیگم تھی ،

تُم حرم کو ساتھ کیوں نہیں لائے ؟؟؟ اشرفی اپنے جذبات پس پُشت ڈالتا اڑتا ہوا اُسکے کندھے پر بیٹھتا بولا ،

ساحر نے کوئی جواب نہ دیا بس خاموشی سے سامنے دیکھتا رہا ،

اچھا تُم فکر نہ کرو سکندر اچھا آدمی ہے بہت محبت کرتا ہے حرم سے اُسکا بہت خیال رکھے گا ,,, وہ سمجھ سکتا تھا ساحر کی حرم کو لے کر فکر کو اس لئے ہمدرد لہجے میں بولا

اس بار بھی ساحر نے اُسکی بات کا کوئی جواب نہ دیا ۔۔۔۔

اگر یہی دو کلو کا منہ بنانا تھا تو چھوڑ کر ہی نہ آتے ، اسے اپنی بات کا جواب نہ دیتا دیکھ وہ جلا بھنا سا بولا

وہ اجائیگی دو دن بعد,,,, ساحر نے یہ کہتے جیسے خود کو تسلی دی تھی ،

ہممم,,, اشرفی نے ہنکارا بھرا ,,,,

اچھا تُم نے ایک دفعہ پشتو سیکھنے کا ذکر کیا تھا ، اُسکا دیہان بٹانے کے لئے وہ اپنے مدعے پر آیا , ساحر نے ایک نظر اپنے کندھے پر بیٹھے اس دوغلے کو دیکھا تھا جو اب حسن ارا کے چکر میں پشتو سیکھنا چاہتا تھا ،

میں نے ذکر نہیں بلکہ تُمہیں اوفر دی تھی ، ساحر نے اُسے یاد دلایا

ہاں ہاں ایک ہی بات ہے,,,, اُس نے جیسے ناک سے مکھی أڑانے والے انداز میں کہا ،

اچھاااا..... اس نے لفظ اچھا کو کھینچا

کیا اچھا مجھے پشتو سیکھنی ہے ۔۔۔۔۔ اُس نے جیسے اعلان کیا تھا

سیکھا دونگا ابھی مجھے نیند آرہی ہے ، ساحر نے کہتے ہی اُسے کندھے سے اُترنے کا اشارہ کیا ،

کب سکھاؤ گے؟؟؟,,,, اُسکے کندھے سے ھٹ کر اپنے جھولے پر بیٹھتا پوچھنے لگا۔۔۔

اسنے کوئی جواب نہ دیا بس اُسکی جلد بازی دیکھ زیرِ لب مسکرایا تھا اور کمرے میں داخل ہوگیا ،

پیچھے اشرفی جواب کے انتظار میں اُسکی پُشت ہی دیکھتا رھ گیا ۔۔۔۔


♡♡♡♡♡♡♡♡

سنسان سی رات تیز ہوا چاروں اور برف ہی برف تھرتھراتے پیڑ اونچے لمبے پہاڑ وادیاں جہاں یہ جگہ جنت کامنظر پیش کر رہی تھی وہی اس جگہ یہ چھوٹا سا مکان کسی کی ہنستی کھیلتی زندگی کا سبب تھا,,,,

مما مجھے یہ گندا سا دودھ نہیں پینا ,,,,,,وہ جھنجلا کے بولی اور کمرے کی طرف بھاگی شارٹ فراک اور اسکرٹ میں یہ بچی بہت پیاری لگ رہی تھی,,,

مما کی جان دودھ نہیں پیوگی تو بڑی کیسے ہوگی بڑی نہیں ہونا میرے سنی کو؟؟

فکٹوریہ نے بے حد لاڈ سے اسے گود میں بٹھاتے کہا,,,

بڑے ہونا ہے مما بڑے ہوکر بہت سارے پیسے کمانے ہیں نام بنانا ہے آپکے سنی نے وہ بھی اپنے چھوٹے چھوٹے سرخ نرم و ملائم ہاتھ اپنے ماں کے چہرے پہ جماتے چمکتی آنکھوں سے بولی,,,,

تو بس اسکے لیئے یہ دودھ تو پینا ہی ہوگا نہ مما کی جان کو ,,,,وکٹوریہ نے محبت سے کہتے دودھ کا گلاس اسکے گداز لبوں سے لگایا ,,,,,

تبھی دروازہ بجا,,,,آواز پہ متوجہ ہوتے انہوں نے آواز کے تعاقب میں الجھ کر گردن گھمائی ,,,

آپ یہ پیو میں دیکھتی ہوں کون ہے,,, اس وقت کسی کی آمد پر وہ بری طرح ٹھٹک گئیں تھی کیونکہ کوئی نہیں جانتا تھا وہ اور انکی بیٹی کہاں روح پوش ہوئے ہیں پھر اچانک رات کے اس پہر مری کی ٹھٹرتی رات میں کسی کا آنا غیر متوقع تھا,,,,وہ جس جگہ رہتی تھی وہاں آس پاس بھی کوئی خاص رہائش نہیں تھی لوگوں کی اور وہ خود بھی محض ضرورت کے وقت ہی گھر سے باہر قدم نکالتی تھیں,,,

انہیں یہاں شفٹ ہوئے قریب سال ہونے کو آیا تھا وہ اپنا شوہر کسی اور عورت کیساتھ بانٹنے پر رضا مند نہیں تھی اور جہاں تک انکے سامنے تھا شہروز بھی اپنی بیوی بچوں کیساتھ خوش باش تھے ایسے میں اگر وہ وہاں رہتی تو سنایہ کا وجود اسکی شناخت بلکل دب کر رہ جاتی کیونکہ حویلی والے ہمیشہ سنایہ پر نور بانو اور شہروز خان کی اولاد یعنی ساحر کو فوکیت دیتے کیونکہ وہ پوتا ہونے کیساتھ حویلی کا بھی وارث تھا پھر ایسے میں اسکا یا اسکی بیٹی کا ان لوگوں میں رہنا نا ممکن تھا وہ اپنی بیٹی کیلئے اپنا حق چھوڑ آئی تھی انہیں کہیں نہ کہیں اس بات کا پچھتاوا بھی تھا کہ کہیں انہوں نے نور بانو کے حق پہ ہاتھ تو نہیں ڈالا اسی سوچ کے زیر اثر وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنی بیٹی کیساتھ ایک نئی دنیا بسانا چاہتی تھی وہ ایک اچھی عورت تھی مگر وہ شہروز کی جانب سے امید ہار بیٹھی تھی بس یہی وجہ تھی انکے روح پوش ہونے کی مگر زندگی کیا رنگ لانے والی ہے وہ اس بات سے صفا ناواقف ہی تھی,,,

ککوون ہے؟؟ سردی سے بچنے کیلئے خود کے گرد شال لپیٹتے کپکپاتے لبوں سے پوچھا,,,,

انکا پوچھنا تھا کہ دھاڑ کیساتھ دروازہ کھلا اور دو ہٹے کٹے توانا جسامت کے مرد اندر داخل ہوئے,,,

وکٹوریہ ہڑبڑا کر پیچھے ہٹی ,,,,,سنایہ نے بھی دھاڑ کی آواز پہ گردن گھمائی ,,,,,

وکٹوریہ حراساں نظروں سے مقابل مردوں کو دیکھ رہی تھی جنکی آنکھوں میں حیوانیت واضح تھی وہ شیطانی ہنسی ہنس رہے تھے,,,,,تو ان دونوں کو دیکھ میں باہر نظر رکھتا ہوں وہ آدمی اپنے ساتھی سے کہتا دروازے سے باہر نکل گیا ناجانے وہ کس مقصد کے تحت یہاں آئے تھے,,,,

مما,,,,سنایہ نے تڑپ کر اپنی مما کو پکارا اور گلاس پھینکتے قدم اپنی ماں کی جانب اٹھائے جو بامشکل ہی کانپتے وجود کیساتھ ہمت باندھے کھڑی تھی سنایہ کے قریب آنے پر انہوں نے تیزی سے اسے اپنے تحفظ میں لیا,,,

ککون ہو تم لوگ کیا چاہتے ہو؟؟وہ ان آدمیوں کو کوئی چور ڈاکو سمجھ رہی تھی مگر انکے خطرناک ارادوں سے وہ بچاری ناواقف تھیں,,,,

ان میں سے ایک آدمی نے پہلے انکی آغوش میں چھپی چھوٹی سی لرزتی روتی سنایہ پہ اپنی غلاظت سے بھرپور نگاہ ڈالی اور پھر خباست سے مسکراتے وکٹوریہ کی طرف دیکھا,,,

باراتی ہیں خان صاحب کی طرف سے ہیں بھابھی جی آپکو آپکی اصل جگہ پہچانے آئے ہیں,,, اس آدمی نے سر تا پیر گندی نظروں سے وکٹوریہ کو دیکھتے کچھ عجیب وحشت بھرے انداز میں کہا,,,

ککیا مطلب ہے صاف صاف کہو کون ہو اور کون خان,,,,

ابکی بار وہ پوری قوت سے چلائی لفظ خان پہ انکے پیروں تلے زمین کھسک گئی تھی مگر وہ ہمت کرتی بلکل دیوار کیساتھ لگ گئیں تھی اور سنایہ کو اپنے پیچھے چھپا لیا ,,وہ دونوں آدمی بہت پرسکون لگ رہے تھے جیسے انکے چہروں پہ خوف دیکھنے ہی آئے ہوں,,,,

مقابل نے اسکےچلانے پر ماتھے پہ تیوریاں چڑھائی اور قدم انکی طرف بڑھائے,,,,

تم حسین تمہاری بیٹی بلا کی حسین ارادہ تو تمہیں عزت کی موت دینے کا تھا مگر ہائے رے یہ کمبخت دل بدگمانیوں پہ اتر آیا ہے ,,,,,وہ چھچھورے انداز میں ہنستے دل کے مقام پہ زور سے ہاتھ رکھتے بولا,,,

دور رہو ہم سے تمہیں جو چاہیے لے جاؤ مگر اپنی گندی نظریں میری بیٹی سے دور رکھنا سمجھے,,,,,انکے غلیظ لفظوں پہ وہ بھپر ہی تو گئیں تھی سنایہ کیلئے مقابل کے لفظ اسکی نیت سمجھ سے باہر تھی مگر اسے خوف آرہا تھا جس طرح اسکی ماں کھڑی ان درندوں کا سامنہ کر رہی تھی وہ اسکے زہن کیلئے ابھی بہت زیادہ تھا,,,,

ہاہاہاہا.....بی بی جی پریکٹیکل دیکھنا چاہتی ہیں بیوڑے سن رہا ہے نہ,,,,اس آدمی نے پھر سے ہنستے انکی بات مزاق میں اڑائی اور عین انکے مقابل آتے ہاتھ بڑھایا اور کھینچ کر سنایہ کو انکی آغوش سے باہر نکال لیا,,,,

مما ممامما بچاؤ,,,,اسے کندھے پہ ڈالتا وہ کچھ دور ہی ہوا تھا جب وکٹوریہ نے جوش کے بجائے ہوش سے کام لیتے پاس پڑا واس اٹھاتے پوری قوت سے اس آدمی کے سر پہ دے مارا درد کی شدت کے باعث کندھے پہ لٹکی سنایہ پر اس آدمی کی گرفت ڈھیلی پڑی وکٹوریہ نے آگے بڑھ کر سنایہ کو شتاب کاری سے اپنی گود میں لیا اور اس خون میں لت پت آدمی سے دور ہوئی ابھی وہ ایک بلا سے جان نہیں چھڑوا سی تھی کہ دوسرا آدمی جو دروازے پہ کھڑا تھا کچھ ٹوٹنے کی آوازپہ بھاگتا ہوا اندر آیا اور اپنے ساتھی کو زمین پہ خون میں لت پت دیکھ اسکی آنکھوں میں خان اتر آیا,,,,


تیری اتنی ہمت دو ٹکے کی عورت وہ غلاظت بکتے قریب آیا اور پے درپے تھپڑ وکٹوریہ کے منہ پہ رسید کیئے تھپڑوں کی آواز پورے گھرپہ گونج رہی تھی ساتھ انکی چیخیں بھی عروج پر تھی سنایہ پہ انکی گرفت اب بھی سخت تھی حقیقت یہی ہے ماں اولاد کیلئے ہر چٹان سے ٹکرا جاتی ہے,,,,آخر کار وہ تھپڑوں کا درد برداشت نہ کرتے زمین پہ گری,,,,وہ آدمی بھی انکے وجود پہ ایک نظر ڈالتا اپنے زخمی ساتھی کی طرف بڑھا جو پانی پانی کی گردان کر رہا تھا اور یہی وہ موقعہ تھا جب وکٹوریہ نے اپنے پورے وجود کی ہمت مجتمع کرتے مہارت سے اس گھر سے بھاگنے کا فیصلہ کیا رات کی تاریکی میں ویسے بھی انہیں ڈھونڈنا نا ممکن تھا وہ دبے پاؤں بلکتی سنایہ کے منہ پہ ہاتھ جماتی اسکی اور اپنہ سسکیاں دبائے دروازے سے باہر نکلی اور اندھا دھند اس ٹھنڈے ٹھار برفیلے شہر پہ ننگے پیر زخموں سے چور بھاگنے لگیں,,,,,اندھا دھند وہ بھاگتی ہی جارہی تھی وہ گھر سے کافی دور آچکی تھی ہوائیں عروج پہ تھی شاید طوفان آنے والا تھا رات کا اندھیرا ہر سو پھیلا ہوا تھا وہ ہانپتے کانپتے اپنی عزت کی حفاظت کرتے گھر سے بہت دور نکل آئی تھی مگر اب اس انجانے شہر میں کون انہیں پناہ دیتا وہ کس کے در کا دروازہ کھٹکٹاتی جب بھاگنے کی سکت ختم ہوئی تو وہ تھک ہارتے وہی اس برفانی زمین پہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گئیں آنسوں تیزی سے آنکھوں سے رواں تھے سردی کے باعث وجود بھی سرد پڑرہا تھا سنایہ کی سسکیاں تھم چکی تھی شاید وہ ٹھنڈ نہ برداشت کرتے بیہوش ہوگئی تھی بیٹھتے ہی انہوں نے اپنی ہر تکلیف کی پروہ کیئے بغیر پہلے سنایہ کو اپنی مخملی چادر میں چھپایا اور اسکے ہاتھ رگڑتے اسے گرمائش دینے لگی مگر بے سود وہ پوری نیلی پڑنے لگی تھی نازک سی پھول سی بچی چند لمحوں میں ہی مرجھا سی گئی تھی,,,,,

اےےےے تو ہم سے بچ کر نہیں جاسکتی سامنے آ,,,,,وہ ابھی سنایہ کی حالت درست کرنے میں ہی لگی تھی جب قریب سے پھر وہی مردانہ آواز سنتے انکی روح فنا ہوئی,,,,

اس ٹھنڈ میں بھی ماتھے پہ پسینہ چمکنے لگا تھا وہ آنسوں پونچھتے پھر سے بھاگنے کی ہمت کرنے لگی مگر کب تک موت انہیں صاف اپنے سر پہ ناچتی نظر آرہی تھی اب اُنکا بچنا نہ ممکن تھا,,,,


●︿●●︿●●︿●

سنایہ نازک جان تھی وہ ہوش و خرد سے بیگانی ہوچکی تھی وکٹوریہ کو سمجھ نہ آیا وہ کیا کرے کیسے اپنی اور اپنی اولاد کی حفاظت کرے خوف اور ٹھنڈ سے اب تو وجود لرزنے لگا تھا مگر وہ دونوں ہاتھ بری طرح منہ پہ جمائے پیڑ کی آڑ میں چھپ گئیں ,,,جیسے جیسے وہ مردانہ قدم انکی جانب بڑھ رہے تھے خوف سر چڑھ کر بول رہا تھا ,,,

دیکھ ہوشیاری مت کر چپ چاپ سامنے آجا بچ کر تو ویسے بھی تو یہاں سے نہیں جاسکتی آسان موت چاہتی ہے تو یہ چوہے بلی کا کھیل بند کر اور نکل باہر ,,,,,

وہ لمبا چوڑا آدمی مہتاط سے قدم بڑھاتا تیز بھاری آواز میں بول رہا تھا,,,,

وکٹوریہ کو سمجھ نہ آیا کیا کریں کس سے بھیک مانگے بےبسی کی انتہا تو یہ تھی کہ وہ مدد کیلئے بھی کسی کو نہیں پکار سکتی تھی کیسے پکارتی کوئی ہوتا انکا خیرخواں مددگار تو پکارتی نہ وہ تو تن تنہا تھی اس انجانے شہر میں یہاں کی تو ہوائیں بھی شاید انہیں نہیں پہچانتی تھی کجا کہ کوئی شخص,,,,

جیسے وہ آدمی عین انکے قریب آیا وکٹوریہ نے اپنے وجود پہ لپٹی چادر اتاری اور اس میں ڈھیر ساری برف جمع کرتے اسے پتھر کی طرح گیند کی صورت بنایا اور اس آدمی کے مقابل آتے ہی اپنے وجود کی پوری قوت مجتمع کرتے اس گولے کو اس درندے کے منہ پہ مارا ایک نہیں دو نہیں اپنےطور انہوں نے پے درپے پوری قوت سے وار کیا تھا,,,,چند ہی وار میں اس آدمی کی ناک منہ سےخون بہنے لگا تھا توازن برقرار نہ رکھتے وہ منہ سے غلاظت بکتے زمین بوس ہوا ,,,مقابل کی چیخیں عروج پر تھی اور وکٹوریہ کی دہائیاں دل چیخ چیخ کر خون کے آنسوں رو رہا تھامگر کوئی انکی آہو پکار سننے والا موجود نہ تھا,,,

وکٹوریہ نے اس آدمی کو زمین پہ پثمردہ حالت میںَ دیکھ راہ فرار چاہی اور وہ بغیر لمحہ ضائع کیئے سنایہ کی جانب پلٹی ابھی وہ کچھ کرتی اس سے پہلے ہی دوسرے آدمی نے اسی واس سے انکے سر پہ بری طرح وار کیا ,,,,,وکٹوریہ کی نظروں میں یکلخت ہی دھند چھانے لگی سر چکرایا اور سر سے خون لکیر کی صورت نکلتا گردن اوربالوں میں جزب ہونے لگا کان سائیں سائیں کرنے لگے اچانک دہشت زدہ سے ماحول میں موت کا سا سکتا طاری ہوا مگر یہ سکتا اگلے ہی لمحے ٹوٹا جب وکٹوریہ زمین بوس ہوئی ,,,,

سنی...........اور پوری قوت سے پاس پڑی سنایہ کو پکارا انکی آنکھیں بند ہورہی تھی مگر وہ ہمت جٹاتے خود کو ہوش میں رکھ رہی تھی,,,,

انکی پکار پہ سنایہ چونک کر اٹھی تھی معصوم سی سنایہ کا پورا وجود ٹھنڈ سے کانپ رہا تھا وہ ننہی سی جان نیلی پڑچکی تھی جیسے بدن میں زہر پھیل گیا ہو,,,,

وہ بامشکل اپنا ننہا سا وجود سمبھالتے اٹھ کھڑی ہوئی مگر ایک اور قیامت اسکی منتظر تھی,,,,

وہ آدمی وکٹوریہ کو زمین بوس ہوتا دیکھ سنایہ کی جانب بڑھا,,,

مما......سنایہ اس وحشی آدمی کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ چلائی ننہا سا دل سوکھے پتے کی مانند لرزنے لگا ہرنی جیسی آنکھوں میں خوف واضح تھا,,

اگلے ہی لمحے وکٹوریہ ہمت کرتے اٹھی مگر بے سود انکے وجود میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ مزید اس درندے کا مقابلہ کرتی مگر مقابل انکی جان عزیز بیٹی تھی وہ کیسے اسے بربریت کا نشانہ بننے دیتی لیکن شاید قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا,,,,وہ ہمت کرتے اٹھی اور کھسک کر اس آدمی کے پیروں میں کسی ناگن کی طرح لپٹ گئی اس عمل سے وہ آدمی لڑکھڑایا مگر جلد خود کو سمبھال گیا اور خون برساتی آنکھوں سے انکے مردہ وجود کی طرف قہر آلود نگاہ اٹھائی اور دوسرے ہی پل انہیں بالوں سے دبوچتے پیچھے کی جانب دکھا دیا جہاں برف کی کھائی تھی,,,,

بس ایک چیخ ایک آخری چیخ انکے گلے سے برآمد ہوتی عرش تک ہلا گئی تھی اور وہ وہی جا دفن ہوئیں ,,,,,سنایہ نے اپنی ماں کی موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا مگر بدقسمتی ایسی کہ وہ آخری دیدار بھی نہ کر سکی,,,,

وہ آدمی وکٹوریہ کو ٹھکانے لگاتا ایک بار پھر اپنے وحشی ارادوں سمیت ہانپتی کانپتی سنایہ کی طرف بڑھا,,,


نہیں.۔..........

اچانک ہی اس بھیانک خواب سے اسکی نیند بیدار ہوئی اور وہ چلاتے ہوئے اٹھ بیٹھی دل شدت سے دھڑک رہا تھا وہ خوف کے زیر اثر گہرے گہرے سانس بھرنے لگی ,,,,,ماضی کی تلخ یادیں کبھی اسکا پیچھا نہیں چھوڑ سکتی تھی,,,,اسنے خود کو کچھ پرسکون کرتے نگاہ آس پاس دوڑائی پورا کمرا روشن تھا اے سی بھی اپنی جگہ چل رہا تھا ناجانے پھر بھی اسے ماحول میں گھٹن محسوس ہوئی,,,,وہ لڑکھڑاتے ہوئے اٹھی اور بالکونی کی جانب بڑھتے اسنے جھٹکے سے پردے ہٹائے امریکہ میں اس وقت صبح کے پانچ بج رہے تھے ہرسوں دھیمی دھیمی سی روشنی پھیلی ہوئی تھی سورج طلوع ہوتا آسمان کو حسین بنا رہا تھا ہلکی سی تھرتھراتی ہوا جیسے ہی اسکے وجود سے ٹکرائی تو اسنے اپنا سانس ہوا کے سپرد کیا اس ہوا سے اسے اپنی روح تک سکون اترتا محسوس ہوا,,,,مگر اگلے ہی لمحے دل بیتابی سے دھڑکا جب نگاہ سامنے گاڑی میں بیٹھے عادل کی طرف اٹھی کچھ لمحے وہ اپنی جگہ منجمد ہوئی ,,,,,

وہ پوری رات بیچین رہا تھا اور اب جیسے ہی روشنی ہوئی تو اسنے ڈرائیونگ سیٹ سمبھالی مگر گاڑی اب بھی اسٹارٹ نہیں ہوئی اسے شدید تیش آیا ایک زور دار مکہ اسنے گاڑی کے بونٹ پہ رسید کیا اور پیدل ہی کیب کی تلاش میں نکل گیا,,,,

سنایہ کا دل تیزی سے دھڑکا تھا شدت سے دل نے خواہش کی اسے کچھ دیر روکے,,,,رات ہوا سارا واقع کسی فلم کی صورت اسکی نظروں میں گھومنے لگا تھا اور اب اسے شدت سے اس سب کا احساس ہو رہا تھا,,,,

مگر اب سوائے ملامت کرنے کے رہ کیا گیا تھا,,,,

مجھے اس سے معافی مانگنی چاہیئے,,,دل سے فوراً صداء آئی ویسے بھی آفس کا وقت ہونے والا تھا وہی اس سے بات کرنے کا سوچتے وہ الماری سے لباس منتخب کرتی باتھروم میں بند ہوگئی,,,,

ناشتے کے بعد وہ عجلت میں اپنا مطلوبہ سامان لیتے گاڑی کی طرف بڑھی اور اس میں سوار ہوتے اپنی منزل کی جانب گامزن ہوگئی ,,,


**********

وہ تھکا ہارا کیب کے ذریعے اپنے اپارٹمنٹ تک پہنچا تھا کپڑے تو اب خشک ہوگئے تھے مگر جسم میں عجیب سی کچکچ اسے محسوس ہورہی تھی وہ کپڑے لیتا باتھروم میں بند ہوگیا,,,,

کچھ دیر بعد فریش ہوتے وہ تروتازہ سا باہر نکلا اور اب خود کو کافی ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا ,,,,رات بھر بیٹھے رہنے کے باعث گردن اور کمر اپنی جگہ اکڑ کر رہ گئی تھی,,,,ہاتھ کی مدد سے اسنے پہلے گردن کو جھٹکا دیا اور پھر ہلکی پھلکی ایکسرسائز کے بعد گھڑی میں وقت دیکھا جو 7 کاہندسہ بھی عبور کرچکی تھی اسے فوری وقت کااحساس ہوا اسنے جلدی جلدی ہاتھ چلاتے سوٹکیس میں اپنے کپڑے جمائے ساتھ وہ ملاہم سے کال پہ بھی محو گفتگو تھا جو شاید اسے ہدایتیں دے رہا تھا,,,,اسکے آجکے ٹکٹس بکٹ تھے آج اسے پاکستان کیلئے واپس نکلنا تھا اور دوسری طرف سنایہ اسکی منتظر تھی شاید اسکے لیئے یہ ایک اور جھٹکا ثابت ہونے والا تھا,,,,

اپنی تیاری مکمل کرتے واچ مین کو کچھ ہدایتیں دیتا وہ بک کی گئ گاڑی میں سوال ہوا اور ائیرپورٹ کی طرف روانہ ہوگیا,,,,,

♡♡♡♡♡♡


صبح اپنی کلینک جانے سے پہلے اُس نے سکندر مینشن کال کی تھی ملازمہ نے اُسکی کال سنتے ہی حرم کو بلا لیا تھا ، حرم سے بات کرنے کے بعد اُسکا موڈ کافی خوش گوار ہوگیا تھا ، رات بھر وہ سو نہ سکا تھا سُرخ آنکھیں صاف رت جگے کی چغلی کر رہی تھی پر اُسکی آواز سن جیسے وجود میں سکون کی لہریں دوڑ اٹھی تھی، اُس نے حرم سے پوچھا تھا کہ وہ لینے آجائے تو حرم نے یہی کہا تھا کہ کل تو اُسے چھوڑ کر گئے ہو ابھی دو دن اور وہ یہی رکے گی ، وہ مطمئن نہیں تھا پر اُسکی ضد اور خوشی کے آگے گھٹنے ٹیک گیا تھا ، محبت ایسی ہی تو ہوتی جو ایک دوسرے کو خوش رکھنا اور ایک دوسرے کی عزت کرنا جانتی ہو ، عزت کے بغیر ہر رشتہ بیکار اور بے معنی ہوتا ہے ، اور ان دونوں کی ایک دوسرے کو عزت دینے کی عادت نے ان کے رشتے کو مضبوط بنایا ہوا تھا ، پورے ایک گھنٹے تک اُس سے باتیں کر کے ہدایتیں دینے کے بعد اسنے کال کاٹتے اپنی کلینک کا رخ کیا، آج کلینک میں معمول سے زیادہ رش تھا جس کی وجہ سے وہ لنچ کے لئے بھی گھر نہیں جا پایا تھا اور جانے کا اُسکا اپنا ارادہ بھی نہیں تھا ، اُسے فارغ ہوتے ہوتے رات کے آٹھ بج چکے تھے ، گاڑی میں سوار ہوتے ہی گھر کی طرف گاڑی ڈالتے اُس نے دوبارہ سکندر مینشن کال کی جو حرم نے ہی ریسیو کی تھی ،

کیا تُمہیں پتہ تھا کہ میری ہی کال ہوگی...؟ حرم کی آواز سن جیسے اُسکی دن بھر کی تھکن اُتر گئ تھی بیزار سے چہرے پر ایک دم ہی رونق آگئی تھی ، چہرے پر اپنے آپ مسکراہٹ رقص کرنے لگی تھی ، واقعی کچھ رشتے قلبِ سکون بھی ہوتے ہیں ،

انتظار نہیں مجھے یقین تھا آپ کال کرینگے اِس لئے میں کھانا کھانے کے بعد سے یہاں انتظار میں ہی بیٹھی تھی ، اُس نے آنکھیں مٹکاتے فخریہ انداز میں کہا ،

جب خود کو اتنا انتظار تھا تو مجھے کیوں انتظار کروا رہی ہو ظالم لڑکی...؟ وہ اُسکی بات پر مسکراتے پوچھنے لگا

وہ اس لئے تا کہ آپکو میری قدر ہو.... نچلا ہونٹ دانتوں تلے دیتے وہ شرارت سے بولی

تو تُم یہ کہنا چاہتی ہو کہ مجھے تمہاری قدر نہیں ، واہ جی واہ شاباش ,,,,, کب کی ہے میں نے تمھاری بے قدری ...؟ پہلے نرمی اور پھر آخری الفاظ مصنوعی غصے سے ادا کئے ۔۔۔

میں تو مذاق کر رہی تھی آپ دل پر نہ لیں پلیز....... اب وہ مذاق چھوڑ سیریس ہوتے بولی


دل پر تو تُم لگی ہو اور ایسی لگی ہو کہ کمبخت اس دل کو نہ گھر پر چین ہے نہ ہی باہر چین ہے,,,,, اے میرے دل ناداں پر قابض حسینہ ہے کوئی ملاقات کی صورت ...؟ وہ دلکشی سے مسکراتا شوخ انداز میں بولا

اُسکے الفاظوں پر بے ساختہ ہی حرم کا دل دھڑکنے لگا تھا ، لب مسکرائے تھے ،

سا ساحر جی کل آجائیں لینے مجھے....... وہ ناخنوں کو دانتوں سے کترتی کچھ اٹکتے لہجے میں بولی

کیا ....... میرا مطلب پکا...؟؟؟ اُسکی اس اچانک بات پر ساحر نے فوراً چلتی گاڑی کو بریک لگایا تھا ، اور غیر یقینی سے پوچھنے لگا جیسے اُسے سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہو,,

ہاں پکا ، اب میں کال رکھ رہی ہوں بہت نیند آرہی ہے ۔۔۔شب خیر حرم نے جلد بازی دکھاتے کہا ، اُسکا دل اُسے مزید تنگ کرنے پر آمادہ تھا ،

ٹھیک ہے شب خیر خیال رکھنا اپنا,,,,, اپنی حیرت پر جلد ہی قابو پاتے وہ بھی آخری کلمات پڑھنے لگا ،

آپ اشرفی کا خیال رکھنا,,,, حرم نے کہتے ہی رسیور رکھ دیا ، پیچھے ساحر بیچارہ موبائل کو گھورتا رھ گیا ،

یہ بھی کہہ سکتی تھی کہ ساحر جی آپ بھی اپنا خیال رکھنا پر نہیں یہاں تو الٹا ہی حساب ہے ، بیٹا اشرفی تُجھ سے تو چن چن کر بدلے لونگا ویسے بھی تیری گردن میرے ہی ہاتھ کے نیچے ہے آجکل ,,,,, وہ جلا بھنا سا اشرفی سے مخاطب تھا ،

پر کچھ سوچتے ہی اُسکے لبوں پر مسکراہٹ نے احاطہ کیا تھا ، گاڑی سٹارٹ کرتے وہ حویلی کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔۔۔

سکندر صاحب کسی کام سے گھر سے باہر گئے ہوئے تھے ، اور وہ کام کیا تھا یہ تو بس خدا ہی جانتا تھا حرم بھی انتظار کرتے کرتے آخر تھک کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی ، کمرے میں آتے ہی اس نے بور ہوتے فوٹو البم نکال لیا تھا اور وہ پرانی تصویریں دیکھنے لگی ، ایک تصویر دیکھ اُسکا تصويرں کو پٹلتا ہاتھ تھما ، تصویر میں وہ اپنی ماں کی گود میں بیٹھی مُسکراتی کیمرے میں دیکھ رہی تھی اپنی ماں کی زندگی سے بھر پور مسکراتی تصویر دیکھ غم ایک بار پھر تازہ ہوا ,,,,آنکھیں بھیگنے لگی تھی ، پر وہ جلد ہی اپنے آنسووں پر بند باندھ گئ اور اپنی ماں کی تصویر پر لب رکھتے البم بند کر کے سائڈ پر رکھتے اُس نے گھڑی کی طرف دیکھا ، جو 12 کا ہندسہ بھی عبور کر گئ تھی۔۔۔۔

سکندر صاحب کو گئے چار گھنٹے گزر چُکے تھے حرم کا اب اس اکیلے گھر میں دل دہلنےلگا تھا ، ابھی وہ اُنہیں کال کرنے جانے کے لئے اُٹھی ہی تھی کہ دروازہ نوک کرتے سکندر صاحب کمرے میں داخل ہوئے ،

بابا آپ کہاں چلے گئے تھے پتہ ہے میں کتنا پریشان ہوگئ تھی ، اُنہیں دیکھتے جیسے حرم کی جان میں جان آئی تھی وہ دوڑ کر جاتے اُنکے سینے پر سر رکھتی لاڈ سے بولی ۔۔۔

تُمہیں ہر پریشانی سے دور لے جانے کے لئے انتظام کرنے گیا تھا ، چلو جلدی کرو ہم ابھی ہی نکلیں گے ، اُسکا چہرا اپنے ہاتھوں کے پیالوں میں بھرتے شفقت سے گویا ہوئے ۔

کونسی پریشانی سے دور بابا اور کہاں جا رہے ہم,,,,,؟؟؟ پھیلی آنکھوں سے انجان تاثرات سجاتے سوال گو ہوئی

تمھاری زندگی کی سب سے بڑی پریشانی ساحر شہروز خان سے دور جا رہے ہم ، جہاں وہ تو کیا اُسکا ناپاک سایہ بھی تُم پر نہیں پڑے گا میری بچی ، میں تُمہیں اُس سے اتنی دور لے جاؤ نگا کہ وہ کبھی تُم تک نہیں پہنچ پائے گا ۔۔۔۔ وہ مُسکراتے اُسے بتاتے اُسکے سر پر بم پھاڑ گئے تھے ، وہ آنکھوں میں خوف وحشت اور انجانے تاثرات سے اُنہیں دیکھ رہی تھی اُنکے الفاظوں نے تو جیسے اُسکے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی تھی ، دھڑکنیں ایک دم سست پڑ گئی تھی ، وہ دم سادھے سے اپنے باپ کو دیکھ رہی تھی

پر میں دور نہیں جانا چاہتی اُن سے بابا ، میں نہیں جاؤ نگی ,,,,۔ وہ نفی میں سر ہلاتے بولی شہد رنگ آنکھیں آنسوں چھلکانے لگی تھی ، دل فراق کے خوف سے دھڑکنے لگا تھا ، جبکہ اُسکے کان اب تک اپنے بابا کے الفاظوں پر سائیں سائیں کر رہے تھے ،

تُم کیوں ڈر رہی ہو اس سے حرم وہ کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہم میں سے کسی کا ، وہ اُسکے اس رویے کو اُسکا خوف سمجھ رہے تھے ،،،،

نہیں بابا پلیز ایسا نہ کریں ، اس نے سسکی لیتے باپ کے آگے فریاد کی تھی ، جن کی خود کی آنکھیں سرخ تھی لب بھی ضبط سے بھنچے ہوئے تھے ،

بابا آپ کیوں نہیں سمجھ رہے یہ کر کے آپ نہ صرف ساحر جی کو بلکہ مجھے بھی تکلیف دے رہے ہیں میرا بھروسہ کریں بابا جیسا آپ ساحر جی اور اُنکی فیملی کو سمجھ رہے ہیں وہ بلکل ویسے نہیں ہیں وہ سب بہت اچھے ہیں ، پلیز آپ دور مت کریں مجھے ساحر جی سے,,, اُس نے یہ سب کہتے ایک بار پھر کوشش کی تھی کہ شاید اُس کے باپ کی دل میں رحم آجائے ، پر وہ نادان بھی اپنے باپ کی فکر اور ڈر سے ناواقف تھی سکندر صاحب کو کسی چیز سے سروکار نہیں تھا اُنہیں بس اپنی بیٹی کی زندگی پیاری تھی اور وہ ایک بار پھر اسے حویلی بھیج کر اُسکی جان جھوکے میں نہیں ڈال سکتے تھے ،

بلکل خاموش ہو جاؤ , میں جو کر رہا ہوں تُمہارے لئے ہی کر رہا ہوں ، آواز کچھ سخت ہوئی تھی پر اپنی بچی کی آنکھوں میں من من بھر کے آنسو دیکھ وہ ایک لمبی سانس لیتے اُسے کندھوں سے تھامتے گویا ہوئے ، میری بیٹی میں نہیں جانتا کہ ایسی کونسی دھمکی ہے جو اُن درندہ صفت لوگوں نے تمہیں دے رکھی ہیں اور انہی دھمکیوں کے ڈر سے تُم بے بس ہو اُنکے ساتھ رہتے اُنکا ہر ظلم زیادتی برداشت کرنے پر ، لیکن اب ایسا نہیں ہوگا تمہارا باپ تُمہیں اتنی دور لے جاۓ گا اُنہیں تُمہارے قدموں کے نشان تک نہیں ملینگے میرا بھروسہ کرو میری بچی میں سب ٹھیک کر دونگا ، سکندر صاحب اُسکا کندھا تھامے سُرخ آنکھوں سے کہہ رہے تھے ، اُنہوں نے اور عنایہ نے سب پلین کر دیا تھا اُنہیں کسی بھی ہال میں آج رات ہی حرم کو یہاں سے لے کر جانا تھا ،عنایہ نے بھی بچے کی پیدائش کے بعد کسی بھی طرح راستہ بنا کر انکے پاس آجانا تھا اور سکندر صاحب واقف تھے کہ اگر اُسے کہیں جانا ہو تو دنیا کی کوئی زنجیر اُسے وہاں جانے سے نہیں روک سکتی جہاں وہ جانا چاہتی ہو ، سکندر صاحب باتوں میں آگئے تھے عنایہ کی وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ اپنی بچی کو ظلم سے بچا نہیں رہے بلکہ موت کی طرف دھکیل رہے ہیں ، وہ ایک باپ تھے اور اگر اُنکی طرف رکھ کر سوچا جائے تو وہ بھی اپنی جگہ ٹھیک تھے ،

چلو اب بس بحث بند کرو اور چلو ہمیں ابھی نکلنا ہے گلی کی نکڑ پر ٹیکسی ہماری منتظر ہے ، اُنہوں نے کہتے ہی حرم کا اور اپنا بیگ اٹھایا ، اور حرم کا ہاتھ پکڑتے ہی اُسکی ہر مزاحمت کے باوجود وہ رات کے اس پہر حرم کو لیتے چھپتے چھپاتے گلی کی نکڑ تک پہنچ گئے تھے ، اُسے ٹیکسسی میں بیٹھاتے وہ بیگ ڈگی میں رکھتے خود بھی آبیٹھے ،

بابا ابھی بھی وقت ہے بدل دیں اپنا فیصلہ ، ساحر جی کبھی نہیں چھوڑیں گے دیکھ لیجئے گا وہ ڈھونڈ نکالیں گے مجھے ، چاہے آپ مجھے دنیا کے کسی بھی کونے میں لے جائیں ، اُنکے اندر بیٹھتے ہی حرم نے مہم سی اُمید کے تحت کہا ، پر یہ سب بھی بے سود رہا وہ کچھ نہیں بولے سنکر بھی انسنا کر گئے ، گاڑی بھی رات کے اس سناٹے میں تیزی سے سڑک پر دوڑ رہی تھی ، وہ دور آگئی تھی ساحر سے بہت دور جہاں اُسے ساحر کیا اِسکا سایہ بھی نصیب نہ ہونا تھا ، زندگی اُنہیں شاید ہمیشہ کے لئے جُدا کر لیا تھا ، اب شاید یہ جدائی یہ دوری ان دونوں کے نصیب میں لکھ دی گئی تھی ۔۔۔۔۔


°°°°°°°°

وہ گھر پہنچتے ہی پہلے اپنے کمرے کی طرف ہی بڑھا تھا فریش ہونے کے بعد وہ نیچے لاؤنچ میں پہنچا جہاں درخنے صوفے پر چہرے پر اپنے دونوں ہاتھ جمائے اُداس سی بیٹھی تھی ،

مور کہاں ہیں ..؟ اور تُم کیوں آج اتنی خاموش بیٹھی ہو؟؟ ساحر نے سنگل صوفے پر بیٹھتے بغور اُسے دیکھتے پہلے نور بانو کا پوچھا اور پھر اُسکے اُترے چہرے کا ۔۔۔

مور کچن میں ہیں اور اُس لنگور کا پسندیدہ سوپ بنا رہی ہیں اور میں اُداس نہیں پریشان ہوں بھائی...... اس نے منہ کے زاویہ بدلتے جواب دیا ،

اُسکے اندازِ جواب پر ساحر مسکرایا تھا ،

اوہ کس بات پر پریشان ہو مجھ سے شیئر کرو کیا پتہ میرے پاس حل ہو تمھاری اس پریشانی کا ,,,, ساحر نے بھی ٹانگ پر ٹانگ رکھتے آرام داہ انداز میں بیٹھتے کہا ،

وہ حل آج آپکے پاس بھی نہیں .... نفی میں سر ہلاتے وہ دوبارہ سابقہ پوزیشن میں بیٹھ گئ

کیا مطلب ؟؟؟ ساحر نے تیوریاں چڑھاتے سوال کیا

بھائی مجھے یہ سب سہی نہیں لگ رہا آپکو یوں حرم کو نہیں چھوڑ کر آنا چاہیے تھا پتہ نہیں کیوں مجھے بہت کچھ غلط لگ رہا ہے ، درخنے اب اپنی مستی بھول کر سیریس ہوتی آس پاس پر نظر ڈالتے فکرمندی سے بولی

اُسکی بات پر سکون سے انداز میں سنتے ساحر نے ایک سرد سانس خارج کی تھی اور پھر گویا ہوا

وہ رکنا چاہتی تھی وہاں ، میں نے انکار کیا پر پھر آخر اُسکی ضد کے اگے مجھے حامی بھرنی ہی پڑی ، اور تُم پریشانی نہ ہو کل لے آؤنگا میں اُسے ساحر نے اُسکی فکر سمجھتے نرمی سے کہا اور اُٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔۔

درخنے بھی سمجھتے اثبات میں سر ہلا گئ اب وہ حرم کے لئے دعا کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتی تھی ،،

چلو آؤ کھانا کھانے چلیں ، وہ نرم سی مسکرہٹ سے بولا

نہیں بھائی آپ جائیں میں کھا چُکی ہاں البتہ حارث آپکے انتظار میں کھانا کھانے کے بعد اب سوپ بنوا رہا ہے مور سے ، درخنے نے دانت کچکچاتے کہا اُسکی بچپن سے ہی حارث سے نہیں بنتی تھی اور نہ ہی حارث کی اُس سے ۔ حارث اُسے خون پینے والی ڈائین کہہ کر پکارتا تھا جبکہ درخنے اُسے لنگور ، اُنکے اس بچپن کے ایک دوسرے سے بیر سے صرف ساحر اور ثمر ہی واقف تھے ۔ باقی گھر والوں کے سامنے وہ اُسی عزت سے حارث کو مخاطب کرتی تھی جس عزت سے وہ ساحر ثمر کو مخاطب کرتی ۔ اور حارث بھی اسی کی سیاست سے اُس سے کھیلتا تھا ،

تمیز سے بچے ، کل کو تمھارا شوہر بنے گا تب بھی ایسے ہی لنگور بولو گی اُسے.؟؟؟؟ ساحر نے مسکراتے اُسے سمجھانا چاہا تھا ،

ساحر کے منہ سے یہ الفاظ سن درخنے کا غم ایک بار پھر تازہ ہوا تھا وہ نہیں کرنا چاہتی تھی حارث سے منگنی اور نہ ہی حارث کرنا چاہتا تھا پر سالوں پہلے کئے گئے بزرگوں کے فیصلے کے آگے وہ دونوں ہی بے بس تھے ۔۔۔۔

چلو آئندہ دیہان رکھنا پتہ ہے نہ داجی کو پتہ چل گیا تو ایک طوفان آجائے گا حویلی میں ۔۔۔۔ ساحر نے اسے سر جھکائے دیکھ کہا اور وہ جھکے سر سے ہی اثبات میں سر ہلاتے کمرے کی طرف بڑھ گئی ، سر اٹھا کر دوبارہ اپنے بھائی کو دیکھنے کی اُس نے جرت نہیں کی تھی کیوں کہ اُسکی آنکھوں میں آنسوں تھے بے بسی کی آنسو جو وہ اپنے آپ سے بھی چھپا رہی تھی کسی اور کو کیا بتاتی۔۔۔

اُسکے جاتے ہی ساحر نے بھی ڈائننگ روم کی راہ لی ، کھانا کھانے اور حارث کے ساتھ رات دیر تک باتیں کرنے کے بعد وہ اسے گھر کے لئے رخصت کرنے کے بعد وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا , رات بہت ہو چکی تھی حویلی میں سب ہی سو چُکے تھے وہ بھی اپنے بھاری قدم اٹھاتا کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا عنایہ کے کمرے کے کھلے دروازے سے آتی آواز نے اُس کے قدم ساکت کیئے

عنایہ اپنے کمرے کی طرف آتے ساحر کو دیکھ اور پھر کمرے کے قریب اُسکے قدموں کی چھاپ سن وہ فون کان سے لگاتی کسی سے محو گفتگو ہوگئ یہ کہنا آسان ہوگا کہ وہ یہ باتیں سنوانا ہی ساحر کو چاہتی تھی ، آواز اور اُسکے لہجے سے ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ مقابل کی منت کرتی کسی کام سے روک رہی تھی ،

حرم میری جان سے عزیز بہن میری بات سنو دیکھو ایسا ظلم نہ کرو ساحر کے ساتھ وہ کتنا چاہتا ہے تُمہیں ، تُم کیوں اُسے توڑنا چاہتی ہو اُسے یو اُس سے دور جا کر ، دیکھو میں جانتی ہوں تُم دونوں کی شادی جس حالات میں ہوئی سب جانتی ہوں پر تُم بھی بس ایک غلطی کی اتنی بڑی سزا نہ دو اُسے ، غلطیاں سب سے ہوتی ہیں حرم پر غلطیوں کو لے کر نہیں بیٹھا جاتا ، تُم کیوں اپنا بسا بسایا گھر برباد کر رہی ہو , وہ فکرمند اور سمجھداری سے مقابل کو سمجھا رہی تھی اپنی بات ،

کمرے کے دروازے کے باہر کھڑے ساحر نے سہارے کے لئے دیوار کو پکڑا تھا ، اُسکے کانوں میں عنایہ کے حرم ساحر سے دور نہ جاؤ کے الفاظ سائیں سائیں کر رہے تھے ،

بابا آپ کیوں اس بیوقوف کی باتوں میں آکر اِسکا ساتھ دے رہے ہیں ، ایسا نہ کریں بابا ساحر پورے شہر کو آگ لگا دیگا ، اور یہ غلطی پر ہے آپ اسکو سمجھانے کے بجائے اِسکا ساتھ دے رہے ہیں ، اب وہ فون کی دوسری طرف سکندر صاحب سے مخاطب تھی ، دوسری طرف کچھ کہتے کال کاٹ دی گئی تھی، اور وہ دوبارہ نمبر ڈائل کرنے کی اداکاری کرنے لگی جبکہ حقیقت میں وہ کسی کال پر بات نہیں کر رہی تھی اُسے صرف ساحر کو اپنی بات سنوا کر حرم سے بدگماں کرنا تھا ، جو وہ کر چُکی تھی وہ جانتی تھی اب تک تو سکندر صاحب حرم کو لے کر اپنی منزل پر پہنچ بھی گئے ہونگے ،


ساحر کو سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کرے جیسے اُس میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو گئی تھی ،

نہیں یہ جھوٹ ہے میں کیسے اس چالباز عورت کی باتوں پر یقین کر سکتا ہوں یہ ضرور جھوٹ بول رہی ہے ، ماتھے سے پسینہ صاف کرتا وہ خود سے مخاطب تھا ، ایک آخری نظر وہ عنایہ کے کمرے کے دروازے پر ڈالتا اپنے کمرے کی طرف دوڑا ، دل ایک انجانے خوف سے دھڑک رہا تھا ، دماغ شک اور حقیقیت کی جنگ میں غرق تھا وہ تیزی سے بھاگتا اپنے کمرے میں پہنچتے ہی موبائل تلاش کرنے لگا ، اُسکا دل انکاری تھا اس سب سے پر حرم جس قدر معصوم اور بیوقوف تھی کچھ بھی سوچا جا سکتا تھا ۔۔۔۔

موبائل ملتے ہی اُس نے تیزی سے اسکرین پر اُنگلیاں چلاتے سکندر مینشن کا نمبر ڈائل کیا ، بیل جا رہی تھی پر کوئی اُٹھا نہیں رہا تھا ، وہ بھی ہار نہ مانتےدوبارہ نمبر ڈائل کرنے لگا ، آخر اُسکے ضبط کے ٹوٹنے سے پہلے کچھ ہی دیر میں کال اُٹھا لی گئی تھی اور آج بھی ملازم نے ہی اٹھایا تھا فون ۔۔۔۔

ہیلو میری حرم سے بات کروائیں.......مقابل کے کال اٹھاتے ہی وہ فوراً بولا

حرم بیبی تو صاحب کے ساتھ کہیں باہر گئ ہے صاحب ..... ملازم نے عام سے انداز میں کہتے اُسکے سر پر بم پھاڑا تھا ، اب حقیقت میں ساحر کا سانس قبض ہوا تھا ، موبائل بند ہو چکا تھا ،

حرم م م........... اس نے ایک دلخراش چیخ ماری تھی ، اور ضبط کھوتا اُلٹے قدم نیچے کی طرف بڑھا ، اور ایک ہی جھٹکے میں کمرے کے دروازے کو دھکا دیتا عنایہ کے کمرے میں داخل ہوا ،

کمرے میں اچانک غصے سے بھپرے ساحر کو داخل ہوتا دیکھ عنایہ کے ہاتھ میں پکڑا موبائل زمین بوس ہوا تھا ، وہ خوف زدہ سی اُسے دیکھ رہی تھی ،

ساحر جیسے جیسے اُسکی طرف قدم بڑھا رہا تھا ویسے ویسے وہ قدم پیچھے کی طرف لے رہی تھی ،

سا ساحر میری با بات سن لو پ پلیز........ وہ اٹکتے لہجے میں بولی چہرے سے صاف خوف ٹپک رہا تھا

پیچھے بڑھتے قدم اُسکے دیوار ہونے کی وجہ سے رک گئے تھے ۔۔۔۔

حرم کہاں ہے عنایہ.....؟ وہ ایک بار پھر گرایا تھا

دیوار سے چپکی کھڑی عنایہ نے بے ساختہ ہی اپنے کانوں پر ہاتھ رکھا تھا ،

میں نہیں جا جانتی ساحر مج مجھے کچھ بھی نہیں پہ پتہ....... وہ سہمے سے انداز میں اپنی صفائی میں بولی

میں آخری بار پوچھ رہا ہوں میری حرم کہاں ہے....؟ اُسکے مقابل کھڑا ہوتا وہ گردن دبوچتا سُرخ آنکھوں سے اُسکے چہرے پر پھنکارا عنایہ کے تو جیسے اوسان خطہ ہوگئے تھے اُسے لگا جیسے موت آج بلکل اُسکے سامنے ہو ،

ساحر کی آوازوں سے گھر والے بھی جاگ اٹھے تھے اور آوازیں عنایہ کے کمرے سے آتی سن وہ اُسی کی کمرے کی طرف آگئے تھے ،

ساحر چھوڑو اُسے,,,,, نور بانو کمرے میں داخل ہوئی ہی تھی کہ ساحر کو عنایہ کا گلا گھوٹتا دیکھ وہ چیختی ہوئی دوڑی اُنکی طرف اور عنایہ کو اُسکی گرفت سے آزادی دلوا گئ ،

داجی بھی پہنچ چکے تھے ، پر ابھی سب ہی مسئلا سمجھنے سے قاصر تھے

یہ سب کیا ہے ساحر...؟ داجی نے اُسکی ابھی عنایہ پر حملے والے حرکت کی طرف اشارہ کرتے سخت لہجے میں کہا

اس نے اور اسکے باپ نے مل کر پلین کر کے حرم کو کہیں چھپا دیا ہے داجی ، ساحر نے حقارت اور سُرخ آنکھوں سے عنایہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔

ایک بات یاد رکھنا عنایہ اگر ایک خراش بھی آئی حرم کو تو اپنے مرنے کی بھی تیاری کر لینا اور ڈھونڈ تو اُسے میں دوسرے سیارے سے بھی لونگا ۔۔۔۔ وہ اُنگلی اُٹھا کر تنبھی زدہ انداز میں بولتا وہاں سے نکلتا چلا گیا پیچھے داجی اور نور بانو اُسکی طرف دوڑے پر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا جا چکا تھا ۔۔۔۔وہ شدید غصے اور پریشانیِ کے عالم میں اپنی گاڑی میں سوار ہوتا زن سے حویلی سے گاڑی بھگا لے گیا ، اُسکے پیچھے داجی اور گارڈز بھی نکلنے کے لئے گاڑی میں سوار ہی ہوئے تھے کہ حویلی سے باہر آتی ملازمہ کو دیکھ وہ گاڑی رکوا گئے ،

داجی نور بانو کہہ رہی ہیں عنایہ کو ہسپتال لے جانا ہے جلدی ، ملازمہ نے گاڑی کی کھڑکی کے پاس کھڑے ہوتے پھولے سانس کے ساتھ داجی کو کہا ، داجی شدید کشمکش میں آگئے تھے ، ملازمہ کو اندر جانے کا کہتے وہ بھی گاڑی سے اتر گئے اور ہاتھ کے اشارے سے دو گارڈز کو ساحر کے پیچھے بیجھا اور خود واپس حویلی کی جانب بڑھ گئے,,


*******

ممیرا گلا ممجھے سانس نہیں آرہا ہسپتال ممیرا بچہ کوئی بچاؤ مجھے,,,, وہ شدید کراہتے ہوئے اپنا پیٹ پکڑ کر بولی جہاں ناگہاں اسے شدید درد اٹھا تھا ساحر کے گلا پکڑنے سے اسے اپنا سانس گھٹتا محسوس ہوا اور اچانک پیٹ میں شدید درد اٹھا اپنا بھرا بھرا وجود سمبھالتے وہ شدید کرب میں مبتلا تھی نور بانو جو ساد شکر سے کمرے میں ہی موجود تھیں اسکے کراہنے پر وہ فوری متفکر ہوتی اسکی طرف متوجہ ہوئی جو درد نہ سہتے زمین پہ بیٹھتی چلی گئی تھی اور اپنا پیٹ پکڑ کر بری طرح کراہ رہی تھی,,, اسکا ساتواں مہینہ تھا اور ایسے میں اسکی ایسی حالت دیکھ نور بانو کے ہاتھ پیر پھول گئے تھے انہوں نے ملازمہ کو داجی کے پیچھے بیجھتے عنایہ کے کراہتے وجود کو چادر میں لپیٹا اور سہارا دیتے اسے کھڑا کیا,,,, عنایہ کا وجود درد کی شدت سے پسینوں سے شرابور تھا آنکھیں ابل کر باہر آرہی تھی,,,,, نور بانو عمر رسیدہ خاتون تھی انہوں نے بھی اپنے بچے پالے اور پیدا کیئے تھے ایسے میں وہ اسکا درد خود پہ محسوس کرسکتی تھیں,,,,

داجی کے آتے ہی وہ اسے سہارا دیتی بامشکل اسے سمبھالتے حویلی سے نکلتی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر عنایہ کو لے کر براجمان ہوئی لیکن داجی انکے پیچھے دوسری گاڑی میں تھے,,

اسپتال پہنچتے ہی ڈاکڑ نے فوری اسکا معائنہ کیا تھا جو درد سے ادھمری ہوچکی تھی,,,

انکی کنڈیشن سیریئس ہے ہمیں فوری اوپریٹ کرنا ہوگا ڈاکٹرنی اپنے مخصوص انداز میں آگاہ کرتی نرس اور مزید انتظامیہ کی مدد سے اسے اسٹریچر پہ لیئے فوری آپریشن تھیٹر کی طرف بڑھ گئ,,,,

پیچھے نور بانو نے اسکی خیریت کیلئے رب سے دعا کی اور داجی اسپتال کی باقی فارمیلیٹیز پوری کرنے لگے ,,,,,


******

کچھ ہی دیر کے بعد آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلا اور نرس ہاتھ میں تولیہ میں لپٹا سرخ گول مٹول چھوٹا سا بچہ تھامے باہر نکلی ,,,,,مبارک ہو لڑکا ہوا ہے نرس نے مسکرا کر کہتے بچہ نور بانو کے ہاتھ میں تھمایا ,,,,ماشاءاللہ یہ تو بلکل ہمارے ثمر کے نین نقوش چرا کے لایا ہے ,,,,نور بانو نے خوشی سے نہال ہوتے مسکرا کے کہا ,,,,اور ننہے سے ثمر کے ماتھے پہ بوسہ دیا داجی بھی اپنی چھڑی کی مدد سے ان تک آئے اور بچے پہ نثار ہوئے,,,

یہ پکڑو اور سارے ہسپتال میں مٹھائی بانٹو ,,پاس ہی موؤدب انداز میں کھڑے اپنے ملازم کو پیسے تھماتے حکم صادر کیا انکی تو خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا وہ پر دادا بن گئے تھے اور نور بانو دادی,,,,

بچے کی ماں کیسی ہے,,,,نوربانو نے ڈاکٹرنی کو باہر آتے دیکھ پوچھا,,,,

خطرے سے باہر ہیں اور فلحال وہ انجیکشن کے زیر اثر بیہوش ہیں فکر کی کوئی بات نہیں کبھی کبھی کچھ کنڈیشنز کے باعث جلد ڈلیوری ہوجاتی ہے مگر اللہ کے کرم سے آپکا پوتا اور بہو دونوں ٹھیک ہیں ,,,,,

ڈاکٹرنی نے اپنے مخصوص انداز میں جواب دیا تو نور بانو نے بے ساختہ ہی خدا کا شکر ادا کیا تھا ,,,,,


°°°°°°°°°°

سکندر صاحب حرم کو لے کر اپنے ایک پرانے اور قریبی دوست کے گھر پہنچے تھے ، گھر میں کوئی موجود نہ تھا حتٰی کہ اُنکے دوست بھی کیونکہ اُنکے یہ دوست بہت پہلے ہی اپنے فیملی کے ساتھ کینیڈا شفٹ ہوگئے تھے اُنکا یہ گھر بہت وقت سے یو ہی خالی پڑا رہا تھا ، سکندر صاحب بزنس کے سلسلے میں جب بھی کینیڈا جاتے اپنے دوست سے ضرور ملتے تھے ، ابھی اس مشکل گھڑی میں اُنہوں نے اپنے دوست کو سارا معاملہ بتایا تو انہوں نے ہی حرم کو اپنے گھر لے جانے کا مشورہ دیا ، سکندر صاحب کی بہت کوشش کے بعد بھی انہیں آج کی کینیڈا کی فلائیٹ نہیں مل پائی تھی ، وہ حرم کو لے کر ہوٹل بھی نہیں جا سکتے تھے کیونکہ وہ واقف تھے ساحر اور داجی کی پہنچ سے وہ کوئی رسک نہیں لینا چاہتے تھے اور اُنہیں جو بھی کرنا تھا آج ہی کرنا تھا اپنے طور وہ یہاں حرم کو لانے سے پہلے تمام تر تیاریاں مکمل کر گئے اُنہیں بس آج کے لئے کوئی محفوظ جگہ درکار تھی جس میں وہ حرم کو چھپا سکیں اور اپنے دوست کے اس گھر کے علاوہ اُنہیں اور کوئی جگہ محفوظ نہیں لگی تھی ، حرم بے دلی سے کھڑی اس چھوٹے سے مکان کو دیکھ رہی تھی ،

نہیں ہے تمھارے کوئی ماں باپ بہن, تمہارا سب کچھ صرف تمہارا شوہر یعنی کہ میں ہوں ساحر شہروز خان ، اور اس بات کو تم جتنی جلدی تسلیم کر لو گی تُمہارے لئے اتنا ہی بہتر ہوگا ، ساحر کے الفاظ کسی ہتھوڑے کی طرح اُسے اپنے دماغ میں گونجتے محسوس ہو رہے تھے ، پہلے جب جب وہ ساحر کو اپنے ماں باپ سے ملوانے کا کہتی تھی اُسکے منع کرنے پر وہ ہمیشہ سے اسے اُسکی خودغرضی قرار دیتی تھی پر آج اُسے شدت سے احساس ہو رہا تھا کہ یہ رویہ ساحر کی خودغرضی نہیں بلکہ ایک خوف تھا اُسکا ایک ڈر تھا اُسکا کہ وہ اُسے کھو دیگا اور آج وہ کھو چُکا تھا ، ایک آنسو پلکوں کی باڑ توڑتا تیزی سے گال پر بہا تھا ، وہ مجبور تھی باپ کے آگے ، وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے اور آخر اسکی منزل کیا ہوگی پر وہ اتنا ضرور جانتی تھی کہ ساحر اُسے ڈھونڈ کر ہی دم لیگا چاہے اسے دنیا ادھر کی اُدھر کرنی پڑی وہ عادی تھا اُسکا ، وہ عادی ہو چکا تھا اُسکی قربت کا ، ساحر کا ہال سوچ کر اسکو ہول سے اٹھ رہے تھے ، ساحر کے جنون سے واقف تھی وہ گواہ تھی اُسکے دیوانے پن سے ، وہ آنکھوں میں آنسووں کا سمندر لئے اپنی ہی دھن میں اُس گھر کو دیکھ رہی تھی ،

حرم..... ٹیکسی سے سامان نکالنے کے بعد جیسے ہی سکندر صاحب پلٹے حرم کو ساکت کھڑا دیکھ انہوں نے پُکارا ،

اُنکی آواز پر وہ خلا کی دنیا سے نکلتی ہوش کی دنیا میں لوٹی ، چلو اندر اُس سے نظریں چراتے وہ اُسے اندر چلنے کا کہنے لگے ، وہ اپنے آنسو پیتے اثبات میں سر ہلاتی اُنکے ہم قدم ہوتی گھر میں داخل ہوئی ، گھر بھلے ہی چھوٹا تھا پر بہت سیلقے سے بنا ہوا تھا ہر چیز اپنی جگہ پر پڑی تھی گھر کی حالت دیکھ ایسا بلکل نہیں لگ رہا تھا کہ یہ گھر صدیوں سے بند ہے ،

حرم,,,,, اُسکا اُترا چہرہ دیکھ وہ اُسے کندھوں سے تھامتے اپنے مقابل کھڑا کر گئے،

حرم میری بیٹی ، میرا بھروسہ کرو مجھ پر اپنا اعتماد کرو میری بچی میں تمہارا باپ ہوں بھلا تُمہارے لئے کوئی غلط فیصلہ کر سکتا ہوں ؟؟؟؟ وہ نہایت ہی نرمی سے کہتے جملے کے آخر میں سوال گو ہوئے ،

حرم نے ایک نظر اٹھاتے اُنہیں دیکھا جو اپنی سُرخ آنکھوں سے اُسے ہی دیکھتے شاید جواب کے منتظر تھے۔

وہ نفی میں سر ہلاتے ایک دم ہی اُنکے سینے سے لپٹ کر رونے لگ گئی

بس پھر اب میرا ساتھ دو ، اور بھول جاؤ اُس جہنم کو ایک بُرا خواب سمجھ کر ہم وہاں ساتھ رہینگے میں تُم عنایہ ، ہم ساتھ بہت خوش رہینگے حرم کوئی دوری نہیں ہوگی میں جب چاہونگا اپنی شہزادی کو دیکھ سکو نگا عنایہ بھی جلد ہی ہمارے پاس پہنچ جائے گی ، وہ نرمی سے اُسکے بال سہلاتے بول رہے تھے، حرم اتنی بہادر نہیں تھی کہ اپنے باپ کے سامنے کہہ سکے کہ وہ بھی محبت کرتی ہے ساحر سے اس نے ہر ممکن کوشش کی تھی پر سکندر صاحب اُسکی کسی بات پر اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹے تھے اُنکی ایک خواہش تھی اور وہ تھی حرم کی آزادی , پر وہ یہ بات بھی نہیں سمجھ پا رہے تھے حرم خود بھی اسی قید میں قید رہنا چاہتی تھی ،

تُم جاؤ آرام کرو ہماری کل صبح کی فلائیٹ ہے ، وہ اپنے سینے سے اُسکا سر اٹھاتے اپنے مضبوط ہاتھوں سے اُسکے آنسوں صاف کرتے بولے ،

حرم بنا اُنکی طرف دیکھے سامنے موجود دو کمروں میں سے ایک میں جاتی کمرے میں داخل ہوگئی ، سکندر صاحب بھی ایک لمبی سانس لیتے صوفے پر بیٹھ گئے ، صبح ہونے میں چند ہی گھنٹے باقی تھے اور صبح دس بجے کی اُنکی فلائیٹ تھی ،

°°°°°°°°°°

جس تیز رفتاری اور اندھا دھند ڈرائیونگ سے وہ اسلامباد پہنچا تھا وہ صرف وہی جانتا تھا دل چیخ چیخ کر پُکار رہا تھا کہ نہیں ایسا نہیں ہوگا حرم نہیں گئ ہوگی اُسے چھوڑ کر پر دماغ ایک ہی بات دہرا رہا تھا کہ حرم کو وہاں رہنے کی اجازت دے کر اُس نے اپنے ہاتھوں سے اپنا چین سکون گوایا تھا اُسے سمجھ لینا چاہئے تھا کہ سکندر صاحب کچھ بھی کر سکتے ہیں اُس سے حرم کو چھیننے کے لئے وہ ہر حد پار کرسکتے ہیں ، وہ جذبات میں بہہ کر اُسے اجازت دے گیا تھا پر اب اُسکے اپنے ہاتھ خالی رھ گئے تھے ، وہ جا چکی تھی اُس سے بہت دور ، اُسکی حالت کسی قسمت سے ہارے جواہری کی طرح لگ رہی تھی جو اپنا سب کچھ کھو کر بیٹھ گیا تھا ، پر ابھی بھی اُسکے دل میں کہیں اُمید سی باقی تھی کہ وہ اپنی حرم کو ڈھونڈ لے گا اپنی امان میں لے ليگا اور اپنی اس اُمید کو توڑنا بھی نہیں چاہتا تھا ، اُسکی دلی خواہش تھی کہ کاش یہ سب جھوٹ ہو یا ایک خواب ہو جب اُسکی آنکھ کھلے تو وہ اُسکے پاس ہو اُسکے سامنے ہو پر حقیقت اسکے برعکس تھی ، قسمت کے رچائے اس کھیل میں وہ بُری طرح پھنس کر رھ گیا تھا قسمت کے ساتھ انسانوں نے بھی بھرپور طریقے سے اُنکے ساتھ کھیلا تھا اور اس کھیل کھیل میں وہ دونوں ٹوٹ کر رہ گئے تھے، ایک لمبی سانس لے کر خود کو کسی حد تک نورمل کرتا وہ گاڑی سے نکلتا سکندر مینشن میں داخل ہوا ، گارڈ نے کسی قسم کی کوئی روکاوٹ حائل نہیں کی تھی اُسکی راہ میں ، وہ گارڈ کو نظر انداز کرتا اپنے بھاری قدم اٹھاتا گھر کے اندر داخل ہوا ، دھڑکنیں سست چل رہی تھی ، اُسے یہی لگ رہا تھا کہ ابھی کہیں سے حرم مسکراتی نکلتی آئے گی ، پر ہوتی تو آتی نہ ،

صاحب آپ یہاں خیریت...؟ ملازم جو خود بھی اپنی پیکنگ کرنے کے بعد یہاں سے نکلنے کی تیاری میں تھا، ساحر کو دیکھ حیرت سے بولا ، ساحر کی حالت دیکھ اُسے کچھ غلط ہونے کا شبہ ہوا تھا ، کچھ ہی گھنٹوں میں اُسکی آنکھیں خطرناک حد تک سُرخ ہو چکی تھی ، پٹھانوں والے سفید رنگ و روپ پر بھی اُس وقت غصے سے سرخی پھیلی ہوئی تھی ، بکھرے بال بھی اُسکی حالت کافی حد تک خطرناک بنا رہے تھے ،

حرم کہاں ہے ؟؟؟؟؟ اُس نے بغیر لگی لپٹی کے اُسے خود کو عجیب نظروں سے گھورتے دیکھ سنجیدگی سے سوال کیا آواز کی سختی مقابل کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑا گئ ,,

بتایا تو تمہیں صاحب کہ حرم بیبی اور سکندر صاحب چلے گئے ہیں ، ملازم نے کچھ اکتاتے ہوئے کہا

کہاں گئے ہیں؟؟؟ اگلے ہی پل دوسرا سوال داغا

نہیں جانتا صاحب مجھے بھی چلے جانے کا کہا ہے صاحب نے کہ جب وہ آئینگے مجھے بھی بلا لینگے ، ملازم نے سکندر کی کہی بات دہرائی ،

ساحر نے غصے کی حالت میں پلٹتے ایک زوردار مکہ شیشے پر مارا تھا جس سے وہ شیشہ کئی حصوں میں تقسیم ہوا تھا ، کانچ کے ٹوٹنے کی آواز پورے مینشن میں ایک ارتعاش سا پیدا کر گئ تھی ،

وہ بنا ملازم کی طرف دیکھے جس آندھی طوفان کی طرح۔ آیا تھا ویسے ہی وہاں سے نکلتا چلا گیا ، وہاں سے نکلتے ہی اپنی گاڑی میں بیٹھے وہ سیٹ سے سر کی پُشت ٹکائے بیٹھا تھا کہ آگے کیا کرے کیسے حرم کو ڈھونڈے گھڑی کی سوئی کی ٹک ٹک اُسے اپنے کانوں میں ہوتی محسوس ہو رہی تھی جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا اُسکی بے چینی اور بے قراری اور شدت اختیار کرتی جا رہی تھی ، کچھ سوچتے ہی اُس نے گاڑی سٹارٹ کرتے ڈرائیونگ شروع کی ، اسکی گاڑی کے آگے بڑھتے ہی دو گاڑیاں اُسکے دائیں بائیں اُسکا پیچھا کرنے لگی تھی ، اُسکے بس سٹاپ پر رکتے ہی وہ دونوں گاڑیاں بھی رک گئ تھی اور ساحر کے گاڑی سے نکلتے ہی اُن گاڑیوں سے داجی کے بھیجے گارڈز بھی نکلتے آئے ، ساحر کے ساتھ وہ بھی بس اڈے کے ریکارڈز چیک کرنے لگے تھے ، پندرہ منٹ میں ہی وہ پورے ریکارڈز چیک کر چُکے تھے پر کوئی بھی ثبوت یہ راہ اُنکے ہاتھ نہیں لگا تھا ،

بس سٹاپ چیک کرنے کے بعد کئی ہوٹلز اور ایئر پورٹ میں بھی وہ دیکھ چُکے تھے ، دن کے تین بجنے کو ائے تھے پر ابھی تک کچھ بھی اُنکے ہاتھ نہیں لگا تھا ،

اِدھر پولیس اُسے تلاش کرنے میں مگن تھی اُدھر ساحر اور اُسکے گارڈز اُنہیں نے پورے شہر میں ناکا بندی بھی لگوا دی تھی ، پر پھر بھی اُنکے ہاتھ خالی ہی تھے ، جنہیں ڈھونڈنے کی وہ تگ و دو میں تھے وہ تو صبح دس بجے کی فلائیٹ سے ہی کینیڈا کے لئے نکل گئے تھے ، سکندر صاحب نے بہت سمجھداری سے کام لیتے ایئرپورٹ سے اپنا ریکارڈ صاف کروا دیا تھا ،

پولیس الگ چھان بین میں لگی تھی گارڈز الگ اور ساحر الگ ،

°°°°°°°°°

وہ اس وقت آفس میں موجود بار بار گلاس ڈور سے باہر کی طرف دیکھ رہی تھی اسکی بےچین نگاہیں عادل کی منتظر تھی اس بات سے بیخبر کے وہ کب کا اس ملک سے ہی جاچکا ہے ,,,,,,آدھا دن گزر گیا تھا وہ نہیں آیا تھا آخر تھک ہار کر اسنے عادل سے موبائل کے ذریعے رابطہ کرنے کا سوچا اور موبائل اٹھاتے نمبر ڈائل کیا,,,,

آپکا ملایا ہوا نمبر اس وقت کسی کے استعمال میں نہیں ہے,,دوسری طرف موبائل آپریٹر کی مخصوص آواز گونجی ایک لمحے کیلئے غصے سے اسکی رگیں تنی آنکھوں میں خون اترا ,,,,,وہ موبائل کو ٹیبل پہ پٹکنے کے انداز میں رکھتی اپنے دونوں ہاتھوں سے سختی سے کرسی کے دائیں بائیں ہینڈل کو تھام گئی ساتھ اپنی پشت کرسی سے ٹکاتے آنکھیں موند گئی ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے وہ اپنے اندر اٹھتے طوفان کو دبا رہی ہو,,,

مے آئی کمنگ میم,,,,وہ ابھی خود کو پرسکون کرنے کی کوشش میں تھی,,,,جب مردانہ آواز پہ اپنی سرخ ہوتی نگاہ اٹھائی,,,

آپ الریڈی اندر آچکے ہیں مسٹر جمی,,,,وہ کچھ تنزیہ لہجے میں انگریزی زبان میں بولی,,,,

اوہہ ایم سوری....ورکر نے معزرت کرتے شرمندگی سے سر جکھایا,,,,

ہممم .....اسنے بیزاریت سے ہنکارا بھرا اور سہی ہوتے اپنے مخصوص انداز میں بیٹھی,,,

مقابل بھی اسکی سرخ ہوتی نگاہوں کو دیکھتے پوری طرح اندر داخل ہوا,,,,

میم واشنگ ٹون کے بزنس مین جنکے ساتھ آپکی میٹنگ تھی وہ آچکے ہیں اور میٹنگ روم میں آپکے منتظر ہیں,,,,مقابل ورکر نے اسے موؤدب انداز میں بتایا,,,

اسنے ماتھا مسلا عادل کے چکر میں اسے میٹنگ کا تو بلکل زہن سے ہی نکل گیا تھا وہ اپنی زہانت پہ ملامت کرتی مطلوبہ سامان لیتے اٹھی اور کچھ عجلت میں میٹنگ روم کی طرف روانہ ہوگئی

°°°°°°°°°°

عنایہ اور ثمر کے سلامتی کے بعد اب نور بانو کی فکر کا رخ ساحر کی طرف تھا وہ جس قدر غصے میں گھر سے نکلا تھا انہیں سوچ سوچ کر ہول اٹھ رہے تھے کہیں ساحر کچھ غلط نہ کر بیٹھے وہ جزباتی نہیں تھا مگر غصے میں انسان اپنے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھودیتا ہے انہیں کافی وقت لگ چکا تھا یہاں داجی تو کب کے بچے سے مل کر گھر جا چکے تھے انکی بوڑھی ہڈیاں مزید انہیں یہاں رکنے کی اجازت نہیں دے رہی تھی مگر نوربانو کو اب بیچینی لگ گئی تھی ,,,,,

تم یہاں ٹہروں میں ڈرائور کیساتھ گھر جا رہی ہوں کسی بھی چیز کی ضرورت ہو باہر گارڈز موجود ہیں اور جیسے ہی عنایہ کو ہوش آجائے تو مجھے آگاہ کردینا,,,,,وہ ملازمہ کو اچھے سے تاکید کرتی خود ساحر کی فکر میں حویلی کیلئے روانہ ہوگئیں,,,,


°°°°°°°°°°

رات کے دس بھی بج چُکے تھے بادل بھی گرجتے بارش کی آمد کا پیغام دے رہے تھے پر یہاں کسی بھی چیز کی پرواہ کسے تھی ، ہر طرف سے ناکام ہونے کے بعد اُسکا دماغ اب سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھونے لگا تھا ، گاڑی فل سپیڈ میں خالی سڑک پر دوڑ رہی تھی پر دفتاً ہی گاڑی میں اُسے اپنا دم گھٹتا محسوس ہو رہا تھا سوچ سوچ کر دماغ کی نسیں پھٹنے کے قریب تھی ، گاڑی بیچ سڑک پر روکتا وہ باہر نکل کر لمبے لمبے سانس لینے لگا ، اُسکا ضبط ٹوٹتا جا رہا تھا آنسووں تیزی سے اُسکی آنکھوں سے بہہ رہے تھے ، قدموں میں صاف لڑکھڑاہٹ تھی اگر کوئی اُسے دیکھتا تو پہلی نظر میں ہی دیکھنے سے وہ اُسے اس وقت اس ہوليے میں نشئی قرار دے دیتا ، گاڑی سے ٹیگ لگاتا وہ زمین پر بیٹھ گیا اور آسمان کی طرف منہ کر کے بیٹھ گیا ، آسمان کی طرف دیکھتی اُسکی آنکھیں شاید اپنے رب سے مدد کی طلب کر رہی تھی رب سے کسی راستے کی فریاد کے رہی تھی ، آنسو بھی تیزی سے رواں تھے ،ناگہاں آسمان کے بادلوں سے بارش کی بوند اُسکے چہرے پر گری ,,, بارش ہوتے دیکھ بھی وہ اپنی جگہ سے نہ ہلا اور دیکھتے ہی دیکھتے بارش زور پکڑنے لگی تھی جس تیزی سے بارش ہو رہی تھی اُسی تیزی سے اُسکی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ، شائد آسمان بھی اُسکے غم میں خود کو شریک کرتا رو رہا تھا ۔۔۔۔۔۔

وہ مکمل بارش میں بھیگ چکا تھا پھر بھی وہ گاڑی سے ٹیگ لگائے زمین پر بیٹھا آسمان کو دیکھ رہا تھا ، رات ہونے اور بارش کی وجہ سے سڑک بلکل خالی تھی کوئی زی روح بھی وہاں موجود نہیں تھی پر ساحر کی گاڑی کے قریب سے گزرتی ایک ٹیکسی اسکی گاڑی کے قریب رکی ، اور ٹیکسی سے عادل نکلتا ہوا چھتری لئے اُس تک پہنچا ، عادل کی فلائیٹ ابھی کچھ دیر پہلے ہی لینڈ کر گئ تھی وہ ائیر پورٹ سے ٹیکسی لیتا گھر جا رہا تھا کہ بیچ راستے میں بیٹھے ساحر کو دیکھ وہ ایک دم حیران ہوا تھا ، اور ٹیکسی رکواتا اُس تک پہنچا ،

ساحر ,,,,, مانوس سی آواز پر ساحر نے گردن گھماتے اُسے دیکھا ، اُسکی یہ حالت دیکھ عادل کو جیسے جھٹکا سا لگا تھا ،

ساحر یہ سب کیا ؟؟؟؟ ابھی اُسکا سوال بھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ ساحر کھڑا ہوتا اُسکے گلے لگ کر رونے لگ گیا ، عادل سمجھنے سے قاصر تھا پر یہ سب اُسے بہت پریشان کر گیا تھا ،

وہ چلی گئی عادل چھین لیا مجھ سے اُسے ,,,, ساحر کی الفاظ اُسکے کانوں سے ٹکرا رہے تھے پھر بھی وہ نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ کون چلا گیا ،

کون چلی گئی ساحر اور یہ کیا حال بنایا ہوا ہے تو نے ....... وہ اُسے خود کے مقابل کھڑا کرتا پوچھنے لگا، شدید حیرت میں مبتلا تھا وہ پہلی بار وہ ساحر کو اس حالت میں دیکھ رہا تھا

حرم چلی گئی لے گیا اُسکا باپ اُسے ، صبح سے ہر جگہ اُسے ڈھونڈ چکا کوئی جگہ نہیں چھوڑی پر وہ کیا اُسکے قدموں کے نشان بھی نہیں ملے مجھے ، وہ بے بسی کی انتہا کو چھوتے بولا ، عادل کو سمجھ نہ آیا کہ اُسے کیا کہے کونسے الفاظ بولے جس سے وہ سنبھلے ،

ہم مل کر ڈھونڈ لینگے ساحر پر ابھی تو بلکل بھیگ چکا ہے میرے ساتھ چل ..... خود پر قابو پاتے وہ نرمی سے بولا اور ساحر کو سہارا دیتے گاڑی میں بیٹھا گیا ، ٹیکسی والے کو پے کرنے کے بعد بھیجتا وہ ساحر کی گاڑی میں بیٹھتا ڈرائیو کرنے لگا ساحر کی حالت بلکل ایسی نہ تھی کہ وہ ڈرائیو کر سکتا اس لئے وہ خود ہی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتا گاؤں کی طرف گاڑی ڈال گیا ،

چند گھنٹوں کی مسافت کے بعد آخر وہ حویلی میں پہنچ گئے تھے ، پر اُنہیں پہنچتے پہنچتے صبح کے چار بج چُکےتھے ،

تو جا چینج کر کے آ میں یہی ہوں پھر مل کر کوئی حل نکالتے ہیں ، گاڑی حویلی کے باہر روکتا وہ ساحر سے بولا ، ساحر اثبات میں سر ہلاتے اندر کی طرف بڑھ گیا ،اُس نے گھر میں قدم رکھا تو بلکل خاموشی تھی وہ سب کچھ اگنور کرتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔۔

کمرے میں داخل ہوتے ہی خالی کمرہ دیکھ اُسکے دل میں ایک ٹیس سی اُٹھی تھی ، وہ مردہ قدم اٹھاتا ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا ہوگیا ، شیشے میں صاف اُسکا عکس واضح تھا سوجی اور سُرخ آنکھیں بارش میں بھیگے کپڑے اب سوکھ چُکے تھے ، خود کو شیشے میں دیکھتے وہ ایک دم ہی بھپرے شیر کی طرح آپے سے باہر ہوتا توڑ پھوڑ کرنا شروع ہوگیا شیشے میں مکہ مارتے پہلے اُس نے شیشے کو اپنے غصے کی زد میں لیا ۔۔

پورے کمرے کی حالت ماحول میں وحشت برپا کر رہی جیسے کسی موت کے بعد ماتم کیا گیا ہو بیڈ شیٹ نیچے فرش پر پڑی تھی کشن تکیے نیچے زمین پر پڑے تھے کانچ کے ٹکڑے پورے کمرے میں پھیلے ہوئے تھے صوفہ بھی الٹا ہوا پڑا اپنی بے قدری پر رو رہا تھا کمرے میں پھیلی پرفیوم کی تیز خوشبُو ماحول کو ایک الگ ہی سور پھونک رہی تھی ، اُس ایک وجود نے پانچ منٹ میں ہی کمرے کی حالت بلکل ایسی کر دی تھی جیسے ابھی ہی یہاں جنگ لڑی گئی ہو ، ہر طرف حشر برپا تھا سب کچھ توڑ پھوڑ کرنے کے بعد بھی شاید اُسکے بے چین دل اور اُس دل میں چلتی جنگ کو امن نہ آیا تھا ، بس نہیں تھا اس دنیا کو ہی آگ لگا دے جب کسی صورت غصہ قابو نہ ہوا کوئی راستہ نہ دکھا تو وہ کمرے سے نکلتا لاؤنچ کی طرف بڑھا ، سفید شلوار قمیض جس پہ پرفیوم اور نہ جانے کتنی ہی چیزوں کے دھبے لگے تھے وہ شاید اپنے ہوش میں بھی نہ تھا، بال بکھرے ہوئے تھے شہد رنگ آنکھیں سُرخ اور سوجی ہوئی تھی ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے ابھی ان سے لہو ٹپکنے لگے گا کچھ وقت پہلے جن آنکھوں میں محبت کا جہاں آباد ہوا تھا آج ان میں ویرانی ماتم اور نہ جانے کیا کیا آسمایا تھا وہ حالت سے کوئ مجنوں معلوم ہورہا تھا

ہمہ وقت خود کو مینٹین رکھنے والا سمجھدار ، سلجھا ہوا ساحر شہروز خان آج ٹوٹی بکھری حالت میں تھا ، سُرخ گال آج ٹماٹر سے بھی زیادہ سُرخ تھے ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے کسی دشمن نے موقعے کا فائدہ اٹھاتے اُسکی دکھتی رگ پے ہاتھ رکھ لیا تھا ، آخر کون تھی اُسکی دکھتی رگ......؟

داجی....... داجی ۔۔۔۔۔۔۔۔

لاؤنچ میں آتے ہی وہ پوری قوت سے چلاتے داجی کو پکارنے لگا ۔۔۔۔

اُسکی آواز پر داجی اور باقی سب گھر والے بھاگتے ہوئے لاؤنچ کی طرف آئے تھے ،

اپنے بیٹے کی یہ حالت دیکھ نور بانو تو اپنا دل تھام کر رھ گئ تھی ، یہ حالت اُسکی پہلی دفعہ تھی اُنکے لئے یہ یقین کرنا بھی مشکل تھا سامنے ٹوٹی بکھری حالت میں کھڑا شخص اُنکا بیٹا ہے.....

یہ کیا حالت بنائی ہوئی ہے ساحر تُم نے اپنی...؟ ایک لمحے کیلئے اسکی مجنوں جیسی حالت پہ داجی بھی اندر تک دہل کر رہ گئے تھے مگر اگلے ہی پل وہ معاملہ سمجھتے اپنی روبدر آواز میں بولے,,,,

حرم داجی ۔۔۔۔۔۔۔ یہ دو الفاظ ادا کرتے وہ رکا تھا اُسکی آنکھوں میں آنسو تھے جبکہ گلے میں بھی آنسووں کا پھندا سا اٹکا ہوا تھا

داجی نے اُسکی یہ حالت دیکھ اپنی سُرخ آنکھیں اُس سے ہٹاتے لاؤنچ میں موجود گھر کے افراد کی طرف دیکھا تھا ، جو سب انگشت بدنداں سے اُس مضبوط اعصاب کے مالک کی آج یہ حالت دیکھ رہے تھے ۔۔۔

داجی مزید اپنے پوتے کی یہ حالت برداشت نہ کرتے اُسے بازو سے دبوچتے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے ، وہ مزید تماشہ نہیں چاہتے تھے,,,,

کمرے میں آتے ہی وہ ایک ہی جھٹکے سے اُسکا بازو چھوڑتے کمرے کا دروازہ لوک کرنے لگے ۔۔۔۔

یہ کیا حالت بنائی ہوئی ہے تُم نے اپنی کچھ خیال ہے تُمہیں کہ آخر ہو کون تُم جو ایک لڑکی کی وجہ سے مجنوں بنے پھر رہے ہو پورے علاقے اور حویلی میں ہمارا نام بدنام کر رہے ہو ساحر اپنی نہیں تو ہماری عزت کی پروہ کرو

وہ غصے سے تیز آواز میں اُسکے چہرے کے قریب پھنکارے ۔۔۔

وہ ایک لڑکی نہیں ہے داجی۔۔۔۔۔۔ وہ بھی سُرخ آنکھوں سے گرایا تھا آواز کچھ سخت ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔

وہ ایک لڑکی نہیں داجی میری محبت ، میری زندگی میری حیات تھی ، اب کی بار آواز نرم اور لہجے میں درد کا نمایاں عنصر واضح تھا ، آپ سمھجیں داجی آپکی عزت پ کو حرف نہیں آئیگا لیکن اگر مجھے حرم نہیں ملی تو یہ چلتی سانسیں ضرور بند ہوجائینگی داجی وہ لڑکی میری رگوں میں بہتی ہے ,,وہ مدہوش سا آج شاید اپنا دل کھول بیٹھا تھا آواز میں انداز میں جیسے صدیوں ک تڑپ واضح تھی,,,,,داجی کے پیروں تلے زمین کھسک رہی تھی اسکے لفظوں پہ انہیں اندازہ تھا ساحر کی حرم کو لے کر لگاؤ سے مگر اس حد ساحر پاگل ہوجائے وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے

ہوش کے ناخن لو ساحر ، تُم خان ہو ایک لڑکی کے پیچھے اس طرح روتے اچھے لگو گے ، اور ویسے بھی وہ خود چھوڑ کر گئی ہے اپنی مرضی سے گئ ہے ساحر۔۔۔۔۔۔ وہ اُسے سمجھاتے ساتھ ہی حقائق بھی اُسکے سامنے رکھ گئے ،

داجی وہ خود نہیں گئی ہوگی زبردستی لے کر گئے ہیں آپ کے پاس تو ہر اختیار ہوتا آپ تو سب کر سکتے ، اُسے ڈھونڈ دیں داجی وہ تکلیف میں ہوگی میرا انتظار کر رہی ہوگی اُسے میرے آنے کی آس ہوگی پلیز داجی میری مدد کریں .... وہ اب اُنکی منت سماجت پر اُتر آیا تھا آنسووں پر لاکھ کوششوں سے بندھا بندھ بھی ٹوٹ گیا تھا آنسو آنکھوں سے بہہ رہے تھے اپنے پیروں پر کھڑا رہنا اُس سے اب مشکل ہوگیا تھا وہ ابھی بھی داجی کی منت کرتے نیچے زمین پر اُنکے قدموں میں بیٹھتا گیا ,,,

اپنے پوتے کی یہ حالت دیکھ مقابل بھی دوہری ازیت میں مبتلا تھے ایک طرف اُنہیں اُسکی یہ حالت تیش دلا رہی تھی

دوسری طرف اُنکا دل کٹ رہا تھا اُسے یوں مایوس اور بے بس دیکھ اُنکا بس نہیں چل رہا تھا کہ حرم کو کہیں سے بھی لا کر اُس کے سامنے کھڑا کر دیں ، وہ فلوقت اپنا اشتعال بالائے تاک رکھتے اپنی بوڑھی ہڈیوں میں تکلیف برداشت کرتے گھٹنوں کے بل زمین پر اُسکے مقابل بیٹھے اور اپنی چھڑی سائڈ پر رکھتے ہاتھوں کے پیالوں میں اُسکا بھیگا چہرا بھرتے گویا ہوئے ، وہ آج انہیں بلکل بچپن والا ساحر لگا جو بہت کم کسی چیز کیلئے ضد کیا کرتا تھا مگر جب کرتا تھا تو پورا گھر سر اٹھا لیتا تھا,,,,

تُمہیں کیا لگتا ہے ساحر میں اپنے گھر کی عزت کو یوں چلے جانے پر خاموش بیٹھا رہو نگا ، وہ تمھاری بیوی ضرور ہے پر میرے گھر کی عزت بھی ہے ہاں میں یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ اپنی مرضی سے نہیں گئ ہوگی زبردستی لے جایا گیا ہوگا اُسے اگر اُسے جانا ہوتا تو بہت پہلے چلی جاتی ،

تُم بھی ہمت سے کام لو یو کر کے تُم صرف اس دشمن کا ہی بھلا کر رہے ہو ، ایسے رونے سے یہ کسی کی منت سماجت سے نہیں ملے گی وہ ، ٹھنڈے دماغ سے سوچو کہ آخر وہ کہاں لے کر جاسکتا ہے اُسے ، اُٹھو میرے شیر تُم میرا خون ہو ، تُمہیں بھی میری صلاحیتیں ورثے میں ملی ہونگی تُم ہی ہو میرے بعد اس گھر کے بڑے ،ہو اُٹھو اور ڈھونڈو اُسے اور یہ سب کرنے والے کو زندہ نہیں چھوڑنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

●●︿●

اسنے لڑکھڑاتے قدم اٹھائے ہاتھوں کی پُشت سے آنسو رگڑتے ایک لمبی سانس ہوا کے سپرد کی تھی، داجی کے الفاظ ایک نئے سرے سے اُس میں اُمید بھر گئے تھے ، دل خون کے آنسو رو رہا تھا جبکہ آنکھوں میں دو دن کے رت جگے کی وجہ سے سرخی پھیلی ہوئی تھی پر اب بھی نیند نہیں تھی اُن آنکھوں میں ، اُن آنکھوں میں صرف تڑپ تھی مفارقت کی تڑپ جو اُسے اندر ہی اندر سے کھوکھلا کر رہی تھی ، اگر کوئی اُسے انگاروں پر چلا کر اُسکے سینے پر وہ انگارے رکھ لیتا تو تب بھی شاید اُسے اتنی تڑپ اتنی تکلیف نہ ہوتی جس ازیت سے وہ ابھی گزر رہا تھا ، وہ ابھی اس وقت بے بس ضرور تھا پر خدا پر اُسے پورا بھروسہ تھا ، جو رب رات کو صبح ، صبح کو دوپہر ، دوپہر کو شام اور شام کو رات ، اور پھر رات کو صبح میں تبدیل کرسکتا ہے وہ ضرور اُسے اس درد اس تکلیف اس تڑپ سے نکال کر حرم سے ملوائے گا بے شک معجزے بھی اُنہیں لوگوں کے لئے ہوتے ہیں جو اپنے رب پر کامل یقین رکھتے ہیں اپنے درد اُسکے سامنے بیان کرتے ہیں ، سکھ کے لئے دُکھ سے لڑنا پڑتا ہے مقابلہ کرنا پڑتا ہے وہ چند گھنٹوں کے لئے اپنا آپ بھول ضرور گیا تھا کہ وہ کون اور کیا ہے پر داجی کے الفاظ اُسے بہت اچھے سے یاد دلا گئے تھے کہ وہ ساحر شہروز خان ہے ، وہ جو بڑے بڑے حادثوں میں نہیں ٹوٹا وہ اب کیسے ٹوٹ سکتا تھا ہاں اپنے بھائی کی موت پر وہ ٹوٹا تھا پر اپنے آپ کو جوڑا بھی اُس نے خود تھا ، ابھی بھی اُس نے خود کو خود ہی جوڑنا تھا ، اُسکی آنکھوں میں اب ایک عجیب سی چمک کی رمق تھی ایک نیا حوصلا ایک نیا یقین اُسکی روح میں اُترنے لگا تھا ، وہ جانتا تھا راستہ مشکل ہے کٹھن ہے پر جو لوگ رب کی رسی کو تھام لیتے ہیں اُنکے لئے کچھ مشکل نہیں رہتا ، رب خود اپنی مدد سے اُنکے راستے سے مشکلیں ختم کرتا منزِل کی راہ دکھا دیتا ہے ، اس سب کے لئے بس ایک سجدے کی ضرورت ہوتی ہے اپنے رب سے ہم کلام ہونے کی ضرورت ہوتی ہے ، وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا داجی کے کمرے سے نکلتا لاؤنچ کی راہ عبور کرتے باہر کی طرف بڑھ رہا تھا ، نور بانو کی پُکار پر اُسکے چلتے قدم رکے وہ اُنکی پُکار پر رکا ضرور تھا پر پلٹا نہیں تھا اُس نے اپنی ماں کی آنکھوں میں نہیں دیکھا تھا ، کیا اپنی ان آنکھوں سے دیکھ سکتا تھا اپنی ماں کو ، نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ وہ جانتا تھا اُسکی ماں کی آنکھوں میں بھی حرم کے متعلق سوال ہونگے ، اور ابھی اُسکے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہ تھے مور,, میں نہیں جانتا کہ کہاں ہے وہ پر میں اُسے ڈھونڈ کر ہی دم لونگا,,, وہ بنا اُنکی طرف دیکھے ٹہرے ہوئے لہجے میں کہتا بنا ایک بھی لفظ سنے لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر کی طرف بڑھ گیا ، نور بانو روتے ہوئے صوفے پر ڈھے سی گئ تھی وہ جانتی تو تھی ہی کہ ساحر اُسے ڈھونڈ لے گا پر اُنہیں خوف صرف اُسکے غصے اُسکے جلال سے تھا اگر حرم ساحر کو مل بھی جاتی ہے تو کیا وہ سکندر صاحب کو زندہ چھوڑ دیگا نہیں سکندر صاحب نے اُسے جس آگ میں جھونکا تھا ساحر نے اُسے اسی آگ میں جلا کر بھسم کر دینا تھا ، وہ جا چکا تھا پر پاس کھڑی درخنے نور بانو کو يوں آنسو بہاتے دیکھ ساحر کے پیچھے بھاگی تھی ،

ساحر تھوڑا آرام کر لیتے پھر آجاتے ، گاڑی سے ٹیگ لگائے کھڑے عادل نے اُسے حویلی سے باہر آتے دیکھ فکرمندی سے کہا

نہیں ضرورت نہیں اسکی میں ٹھیک ہوں اب چلو دیر ہو رہی ہے ، اسنے عام سے انداز میں کہتے گاڑی کا دروازہ کھولا اور اُس میں سوار ہوگیا ، تُم بیٹھو میں بس مور سے مل کر آیا وہ پریشان ہونگی تیری وجہ سے اس لئے بتا بھی آتا ہوں کہ میں ساتھ ہوں تیرے وہ فکرمند نہ ہوں ، عادل نے نور بانو کا سوچتے اسے کہا جس پر اُس نے بھی سمجھتے اثبات میں سر ہلایا ،

عادل اُسے انتظار کرنے کا کہتا خود حویلی کی طرف بڑھ گیا ، ہلکی ہلکی روشنی ہونے لگ گئی تھی پر سورج ابھی تک طلوع تھا دور سے کہیں اذانوں کی آوازیں اُس خاموشی میں گونجتی کانوں سے گزرتی روح کو سکون بخش رہی تھی وہ آنکھیں موند کر پُشت سیٹ سے ٹکائے لگائے ازان سن رہا تھا ،

عادل کے بھاری قدم حویلی میں داخل ہی ہوئے تھے سامنے سے آتی درخنے کو دیکھ اُسکے قدموں میں اپنے آپ ہی آہستگی آگئی تھی ، وہ بھی عادل کو دیکھ چکی تھی پر شاید ابھی وہ اُسکی موجودگی کو بھی نظرانداز کر گئ تھی وہ اُس کے پاس سے گزرتی آگے بڑھی ہی تھی کہ عادل اُسکی راہ میں حائل ہوگیا

کہاں جا رہی ہو..؟ وہ موقع کی مناسبت سے اپنے جذباتوں کو پسِ پشت ڈالتے سوال گو ہوا ، اُسکے سوال پر درخنے نے اپنی شعلا برساتی آنکھوں سے اسکی طرف دیکھا کتنے مہینوں بعد وہ آنکھیں دیکھ رہا تھا پر ان آنکھوں میں یہ اشتعال اور درد دیکھ اُسکے اپنے دل کو کچھ ہوا تھا ،

میں اپنے لالا ساحر بھائی سے ملنے جا رہی ہوں کچھ کہنا ہے اُن سے ,,,, درخنے نے اپنی آنکھیں آس پاس ڈالتے روکھے لہجے میں کہا ،

ویسے مجھے کوئی حق تو نہیں تُمہیں روکنے کا پر ابھی مت جاؤ ابھی کچھ نہ کہو اُسے وہ اپنے ہوش میں نہیں ہے ابھی پریشان ہے بہت ، تُمہیں جو کہنا اگر مناسب لگے تو مجھے بتا دو....... عادل نے بیحد نرمی سے کہا تھا کہ مقابل کی آنکھوں میں آنسو تیزی سے تیرنے لگے تھے ،

وہ ہوش میں نہیں ہیں تبھی تو کہنا ہے ,,, اُس نے چھلکتی آنکھوں سے کہا

کیا کہنا ہے ؟؟؟؟ اُسے بے دردی سے آنسو رگڑتے دیکھ اُس نے ضبط سے سوال کیا پر مقابل کی طرف سے کوئی جواب موصول نہ ہوا اُسے خاموش دیکھ وہ ایک سرد سانس ہوا کے سپرد کرتا آنکھیں ایک پل کے لئے موند کے کھول کر گویا ہوا ۔۔۔۔

دیکھو جو بھی بات ہے تُم مجھے بتا دو ایسے پریشان رہنے سے کوئی حل نہیں نکلے گا ، اُسکی طرف سے جواب نہ پا کر وہ نرمی سے بولنے لگا

بھائی بہت غصے میں ہیں مجھے اور مور کو بس یہی ڈر لگ رہا کہ,,,,, وہ کہتے کہتے رکی

کیسا ڈر..؟ وہ ناسمجھی سے بولا

درخنے تھوک نگلتے پھر گویا ہوئی ، بھائی کو بہت جلدی غصہ آجاتا ہے وہ کہیں حرم کے بابا کے ساتھ ہی کچھ غلط نہ کرلیں ,،، وہ ایک ہی سانس میں کہہ کر خاموش ہو گئ

اچھا یہ پریشانی ہے ، تُم فکر نہ کرو وہ ایسا کچھ نہیں کریگا ، میں ساتھ ہی ہوں اُسکے جب تک بھابھی نہیں مل جاتی تُم بس دعا کرو اور اپنا اور مور کا خیال رکھو ان شاء اللہ جلد ہی اچھی خبر ملے گی ہمیں ،،،، وہ اُسے مطمئن کرنے کی کوشش میں بولا ، چلو شاباش اندر جاؤ داجی یہ کسی اور نے دیکھ لیا تو مسئلا کھڑا ہو سکتا ہے پہلے ہی سب بہت پریشانی سے گزر رہے ہیں ، وہ آس پاس پر نظر دوڑاتے بولا

آپ پلیز مجھے انفورم کرتے رہیئے گا میں آپکی طرف سے اچھی خبر کی منتظر رہونگی ، درخنے اُسکی بات پر اثبات میں سرہلا کر کہتی ایک نظر اُسے دیکھتی اندر کی طرف بڑھ گئ ، سنو,,,,, اُسے جاتے دیکھ اسنے پھر سے پُکارا

جی,,,, درخنے نے قدم روکتے پیچھے موڑتے سوالیہ نظروں سے دیکھتے پوچھا

مور کو بتا دینا کہ میں ساحر کے ساتھ ہی ہوں میں ابھی اُن سے ہی ملنے آیا تھا پر ,,, وہ کہتے رکا اور پھر گویا ہوا وقت نہیں ہے ساحر باہر منتظر ہے اپنا اور مور کا خیال رکھنا ، وہ ایک بار پھر اپنے کہے الفاظ دوہرانے لگا

درخنے پلکیں چھپکتے سر ایک بار پھر اثبات میں سر ہلا گئی اور اندر کی طرف بڑھ گئی ، عادل بھی اُسکے جاتے ہی باہر کی طرف بڑھ گیا اور گاڑی میں سوار ہوتا ایک نظر آنکھیں موند کر بیٹھے ساحر کو دیکھتا گاڑی اسٹارٹ کر گیا ،

مسجد کے پاس روکنا ، ساحر نے مندی آنکھوں سے ہی کہا ،

ٹھیک ہے,,, وہ بھی مختصر جواب دیتا ڈرائیونگ پر دیہان دینے لگا ۔۔۔

تھوڑا سا آگے بڑھتے ہی اُس نے مسجد کے سامنے سائڈ پر گاڑی روکی تھی ، اور دونوں ہی گاڑی سے نکلتے مسجد کے اندر بڑھے ، فجر کی نماز کی ادائیگی کے لئے کئی لوگ موجود تھے کچھ لوگ وضو کر رہے تھے تو کچھ جماعت کے انتظار میں تھے وہ دونوں بھی وضو کرتے باجماعت کھڑے ہوگئے کچھ ہی منٹوں بعد جماعت بھی شروع کر دی گئی تھی ، وہاں موجود سب لوگ ہی اپنی میٹھی نیند اور نرم گرم بستر چھوڑ کر آتے اپنے رب کے آگے جھکے تھے ، نماز کی ادائیگی کے بعد اہستہ اہستہ کر کے مسجد بھی خالی ہونے لگی تھی سب ہی نمازی رب کے آگے حاضری کے بعد اب اپنے اپنے گھروں کی طرف بڑھ گئے تھے ، سوائے مولوی کے ، عادل کو بھی وہ کہتے باہر بھیج چکا تھا کہ وہ تھوڑی دیر میں آجائیگا ، عادل رضامند نہ تھا اُسے اکیلا چھوڑنے کے لئے پر اُسکی حالت کے پیشِ نظر وہ اُسے مسجد کے ہال میں چھوڑتا خود باہر کی طرف بڑھ گیا ، اب مسجد کے ہال میں وہ وہی بیٹھا تھا جہاں اُس نے نماز ادا کی تھی وہ خاموشی سے بیٹھا اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھ رہا تھا کئ منٹ اُسے اسی حالت میں بیٹھے گزر گئے تھے ، اُسکے سامنے ہی ایک کونے میں بیٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت کرتا مولوی کب سے تھوڑی تھوڑی دیر بعد اُسے ہی دیکھ رہا تھا اور آخر وہ قرآن پاک چوم کر رکھنے کے بعد اسی کی طرف بڑھے اور عین اُسکے مقابل آن بیٹھے ، اپنے سامنے مولوی کی موجودگی محسوس کر ساحر نے ہاتھوں سے نظر ہٹاتے اُنہیں دیکھا اور نظریں جھکا گیا ، مولوی مسکرائے تھے اور کچھ توقف کے بعد گویا ہوئے ، کیا بات ہے بچے تُم مجھے کچھ پریشان پریشان سے لگ رہے ہو .... وہ اُسکے جھکے سر کو دیکھ سوال گو ہوئے

اگر میں کہو کہ میں اپنی پریشانی آپکو نہیں بتا سکتا ؟؟؟ پھر کیا ہل بتا دینگے آپ ؟؟؟ اسنے سر اٹھاتے اُنکے سوال پر اپنا سوال داغ گیا ۔

نہیں میں تُمہاری پریشانی سنے بغیر تُمہیں حل نہیں بتا سکتا ، اگر تم مجھے نہیں بتانا چاہتے تو اپنے اللّٰہ کو بتا دو ، اُنہوں نے فوراً جواب پیش کیا ۔

پر وہ تو دل میں رہتے اپنے بندے کی شہ رگ سے بھی قریب ہوتے ، کیا اُنہیں کچھ بتانے کی ضرورت ہے ؟؟؟ میں یہاں بیٹھا کب سے یہی سوچ رہا ہوں میں کیا بتاؤ اُنہیں وہ سب دیکھ تو رہے سب جانتے تو ہیں ، پھر میری مدد کیوں نہیں کر رہے ؟؟؟ ساحر نے ایک پل کے لئے آنکھیں میچ کر کھولتے ہوئے کہا آنسو کی لڑی گالوں پر بہی تھی

اُسکی بات پر مقابل مسکرائے تھے نرم سی مسکراہٹ ،

تُمہیں پتہ ہے وہ تمھاری مدد کیوں نہیں کر رہے ؟؟؟ وہ مُسکراتے سوال کر رہے تھے ایک نور سا تھا اُنکے چہرے پر تھا

ساحر نے نفی میں سر ہلایا ،

وہ اپنے اُن بندوں کی بنا مدد کی پُکار کی مدد فرماتے ہیں جو اُنکے بہت قریب ہوتے ہیں ، اور جو لوگ اُسکے قریب نہیں ہوتے وہ اُنہیں اپنے قریب کرنے کے لئے مدد کے لئے پکارنے کا کہتے ہیں، وہ ساحر کی سُرخ آنکھوں میں اپنی پرسکون آنکھیں ڈالتے ٹھنڈے اور نرم سے لہجے میں کہہ رہے تھے ،

رب کے قریب کیسے اور کب ہوتے ہیں ؟؟؟ وہ اپنے آنسو رگڑتے پوچھنے لگا وہ اپنی پوری توجہ سے اُنہیں سن رہا تھا اُنہیں

بندہ اپنے رب کے قریب سجدے کی حالت میں ہوتا ہے , جتنا رونا ہے سجدےکی حالت میں رو لو اسے اپنی پریشانی بتاؤ اُس سے مدد مانگو وہ بہت رحمٰن اور رحیم ہے ، انہیں بتاؤ کہ تُمہاری مدد اُن کے علاوہ کوئی نہیں کرسکتا , اُنہیں بتاؤ کہ تُمہیں اُن پر کتنا بھروسہ ہے ، اُنہیں بتاؤ کہ تُم اُنکی رحمت اُنکی مدد کے طلب گار ہو ، وہی مشکل کشا ہے ، بے شک مصیبتیں اپنا ہل ساتھ لے کر آتی ہیں ، وہ فرما چُکا قرآن پاک میں میرے بچے کہ ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے ، وہ مُسکراتے کہہ رہے تھے پر ایک سحر سا تھا اُنکے اس پرسکون لہجے میں کہ ساحر اُنکے الفاظوں اور لہجے کے سحر میں جکڑ کر رھ گیا تھا ،

مجھے امید ہے اُنہیں اپنی پریشانی بتانے کے بعد تُمہیں بھلے ہی ابھی ہل نہیں ملے گا پر تُمہیں سکون ضرور ملے گا تمہارا یہ بے چین دل اپنے خُدا پر سب کچھ چھوڑنے کے بعد پرسکون ضرور ہوگا ، وہ اپنے مخصوص انداز میں کہتے جانے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے ، ایک نظر ساحر کے پُرسوچ چہرے پر ڈالتے وہاں سے چلے گئے ، کچھ ہی دیر میں ساحر سجدے میں تھا ، آنسو آنکھوں سے نکلتے اُس داڑھی میں جذب ہو رہے تھے پر زبان خاموش تھی وہ دل کی آواز سے اپنے رب کو پُکار رہا تھا اُن سے مدد کی بھیگ مانگ رہا تھا ، نہ جانے سجدے میں ہی اُسے کتنا وقت نکل گیا تھا ، صبح ہو چکی تھی چرند پرند کی آوازیں گونج رہی تھی پر جیسے ابھی اُسکے کان بھی بند تھے ، ایک طویل سجدے کے بعد وہ اُٹھ بیٹھا اور دعا کے لئے ہاتھ کھڑے کئے ، لب ہل رہے تھے جبکہ آنکھوں سے بہتے آنسو اب اُسکی اپنی ہتھیلیوں میں گر رہے تھے ، دعا کے بعد وہ اُٹھ کھڑا ہوا پانی کی چھینٹیں منہ پر مارنے کے بعد وہ مسجد سے نکلا جہاں سامنے ہی اُسے عادل اُسکے انتظار میں چکر کاٹتا نظر آیا وہ ایک نظر اُسے دیکھتا گاڑی میں بیٹھ گیا ، عادل بھی اُسکے آتے ہی گاڑی میں سوار ہوگیا ،

پہلے کہاں چلنا ہے ؟؟ میرے خیال سے پہلے پولیس اسٹیشن چلتے ہیں اپنی ٹیم کو تیار کر کے بھابھی کو ڈھونڈنا شروع کرتے ہیں ، عادل نے ڈرائیونگ کرتے پوچھا اور ساتھ ہی اپنا مشورہ بھی پیش کیا

نہیں ہم سکندر مینشن چلتے ہیں ، ساحر نے گاڑی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا

پر وہاں کیا مل سکتا ہمیں ؟؟؟ عادل نے اُلجھتے سوال کیا

پہلے گھر کے باہر کی سی سی ٹی وی فوٹیج اور پھر سکندر مینشن کا واچ مین یہ ملازم کسی نے تو کچھ دیکھا ہی ہوگا نہ ، اُس نے اپنے دماغ میں چلتی بات کہی ،

عادل اُسکی ذہانت سے کافی متاثر ہوا تھا وہ اب اُسے ساحر شہروز خان لگ رہا تھا ، جو جوش یہ غصے سے نہیں بلکہ ہوش اور سوج بوجھ سے کام لے رہا تھا ،

چند گھنٹوں کی ڈرائیونگ کے بعد آخر دوپہر کی تپتی دھوپ میں وہ سکندر مینشن پہنچ ہی گئے تھے ، پہلے اُنہوں نے گھر کے باہر کی فوٹیج دیکھی جس میں اُنہیں وہ فوٹیج مل چکی تھی جس میں سکندر ایک ہاتھ سے سفری بیگ گھسیٹتے اور دوسرے سے حرم کا ہاتھ تھامے عجلت میں گھر سے باہر نکل رہے تھے ،پر اُنکے لئے حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ پیدل ہی آگے جا رہے تھے گھر کے باہر کوئی بھی سواری نہیں تھی ،

گھر کے باہر میرا مطلب ہے کہ گلی میں کوئی کیمرا لگا ہوا ہے؟؟ عادل اُس واچ مین سے سوال گو تھا

اُو صاحب کیوں سر کھا رہے ہو تم نے گھر کی دیکھانے کا کہا میں نے دیکھا دی اب جاؤ اپنا کام کرو ،،، واچ مین سخت بیزار ہوتا عادل سے بولا ، جبکہ ساحر خاموش تھا ،

واچ مین کی بات پر ضبط کے کڑوے گھونٹ بھرتے عادل نے اپنا کارڈ پاکٹ سے نکالتے اُسکی آنکھوں کی سامنے کیا ، کچھ بھی جانتے ہو تو بتا دو دیکھو اُنکی جان خطرے میں ہے تُمہاری خاموشی کسی کے جان سے جانے کی وجہ بھی بن سکتی ، عادل اُسے تنبھی زدہ لہجے میں بولا

واچ مین نے یک دم ہی خوف زدہ ہوتے تھوک نگلا تھا ، چہرے پر خوف کے سائے لہرانے لگے تھے ،

کیا تم جانتے ہو کچھ ؟؟ اُسکا آڑا رنگ دیکھ اُس نے شک کے تحت پوچھا

سر جی صاحب نے تو کہا تھا کہ وہ کسی بزنس کے سلسلے میں جا رہے ہیں حرم بیبی کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتے گھر میں اس لئے اُنہیں بھی ساتھ لے گئے بس اتنا ہی جانتا ہوں میں اُنہوں نے ٹیکسی بھی مجھ سے ہی منگوائی تھی ، واچ مین نے خوف زدہ ہوتے جتنا کچھ جانتا تھا سب بتا دیا اُنہیں ،

ساحر ایک دم ہی اپنی جگہ سے اٹھتا کھڑا ہوا

کیا تم جانتے ہو اُس ٹیکسی والے کو ؟؟ ساحر نے جلدی سے سوال کیا

نہیں صاحب جی جانتا تو نہیں ہو پر جہاں سے لایا تھا اُس جگہ ضرور لے جا سکتا ہُوں وہ اُسکا اڈا ہے اکثر و بیشتر وہی ہوتا ہوگا واچ مین نے دونوں کو دیکھ اپنی مدد کی بھی پیشکش کی

ٹھیک ہے چلو جلدی فاسٹ,,,, ساحر نے کہتے ہی وہاں سے باہر کی طرف قدم بڑھائے اُسکے پیچھے ہی عادل اور واچ مین بھی بڑھے تھے ، کچھ ہی دور جاتے ہی اُنہیں اُس ٹیکسی والے کا اڈا بھی مل گیا تھا یہاں پر بہت سی ٹیکسی اور ٹیکسی ڈرائیور تھے ، واچ مین کی اچھی یاداشت کی وجہ سے آخر اُنہیں وہ ٹیکسی والا بھی مل گیا تھا ، جو بنا ہی زور زبردستی کے اُنکے پوچھنے پر سب بتا گیا تھا ، اور اُنہیں وہاں لے جانے کیلئے رضامند بھی ہوگیا تھا جہاں اُس نے اُن دونوں کو چھوڑا تھا ، واچ مین کا شکریہ ادا کرتے وہ وہ اب ٹیکسی والے کے ساتھ روانہ ہو گئے ان سب میں نہ اُنہیں اپنے آرام کا ہوش رہا تھا اور نہ ہی کھانے کا صبح سے مسلسل بھاگ دوڑ میں لگے تھے کہ اب رات بھی ہو چکی تھی رات کے ایک بجے آخر وہ اُس گھر کے باہر کھڑے تھے جہاں ٹیکسی والا حرم اور سکندر کو لایا تھا اور اب انہیں ،

ٹیکسی والا جا چُکا تھا پر وہ دونوں کھڑے اندر جانے کی راہ تلاش رہے تھے کیونکہ گھر کو تالا لگا تھا ، کھڑکی کا کانچ توڑ کر کھڑکی کے ذریعے وہ دونوں گھر میں داخل ہوئے اور گھر کی تلاشی لینی شروع کی عادل باہر لاؤنچ کی لے رہا تھا جبکہ ساحر کمروں کی طرف بڑھ گیا ، پورا کمرہ اُس نے چھان مارا تھا پر کوئی بھی کلو اُسے نہیں ملا تھا ، عادل بھی باہر کی تلاشی کے بعد اندر آگیا تھا ، دونوں ہی ابھی کمرے سے نکلنے ہی لگے تھے کہ سائڈ ٹیبل پر پڑی نوٹ بک دیکھتے ساحر کے قدم تھمے اور اُسے روکتا دیکھ عادل بھی رک گیا ، اُس نے وہ نوٹ بوک اٹھائی تو ایک پرچہ اُس نوٹ بوک سے گرتا زمین بوس ہوا جیسے جھکتے ساحر نے اٹھاتے آنکھوں کے سامنے کیا ، پرچے پر لکھے الفاظ دیکھ اُسکے چہرے کے تاثرات بدلتے جا رہے تھے ، پرچے پر پہلے کوئی فارمولا لکھا ہوا تھا اور پھر نیچے چھوٹے الفاظوں میں کینیڈا ، وہ ہینڈ رائیٹنگ کی وجہ سے شک میں مبتلا ہو سکتا تھا پر فارمولے کی اسپیلنگ دیکھ اُسے یقین ہوگیا تھا کہ یہ پرچہ حرم ہی اُسکی لئے چھوڑ کر گئ ہوگی ، پرانے پل اُسکے ذہن میں لہرائے تھے جب وہ حرم کو پیپر کی تیاری کرواتا ایسے ہی فارمولے یاد کروا رہا تھا ، اُسکے چہرے پر ایک تلخ سی مسکراہٹ پھیلی تھی بے ساختہ ہی اُس نے وہ پرچہ اپنے لبوں سے لگایا تھا ، عادل نہ سمجھی اور حیرت سے کب سے اُسے دیکھ رہا تھا ، وہ کینیڈا لے کر گیا ہے حرم کو عادل ,,,, اُسے سوالیہ نظروں سے خود کو تکتا دیکھ وہ ہاتھ میں تھاما پرچہ سہی سے فولڈ کرتے پاکٹ میں رکھتے بولا

چل ہم ابھی ہی ائیر پورٹ جائینگے ، ساحر اُسکا ہاتھ پکڑتا باہر کی طرف تیزی سے بڑھا تھا ،

ہم صبح چل لینگے ساحر ائیر پورٹ ابھی آ جا میرے اپارٹمنٹ چلتے ہیں ، عادل نے اُسکی اجڑی حالت دیکھ کہا کئی دنوں سے نہ سونے کی وجہ سے اب تو ساحر کی آنکھوں کے گرد حلقے بھی پڑ گئے تھے پر اب بھی اُسے کوئی پرواہ نہ تھی نیند کی .....

نہیں ہم ابھی ہی ایئرپورٹ جائینگے ، ساحر بضد ہوا ، ابھی کچھ ہی تو وقت رھ گیا صبح ہونے میں پہلے گھر چلتے ہیں تو فریش ہو جانا نماز کے لئے پھر چلتے ہیں ائیر پورٹ عادل نے دھیمے لہجے میں سمجھانا چاہا ، ساحر نہ چاہتے ہوئے بھی حامی بھر گیا ,,,,


°°°°°°°°°°

آج تیسرا دن تھا وہ معمول کے مطابق اپنے آفس میں موجود تھی مگر آج بھی عادل کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا دو دن اسنے اانتظار کیا بنا کوئی ایکشن لیئے مگر آج اسکی شریانیں پھٹنے کے قریب تھیں اسے سمجھ نہیں آرہا تھا آخر عادل گیا کہاں آج تھک ہار کر اسنے اپنے واچ مین کو عادل کے فلیٹ بھی بھیجا تھا کسی کو نہیں معلوم تھا وہ کہاں رہتا تھا کیونکہ اسنے آفیس کا فلیٹ تو قبول ہی نہیں کیا تھا مگر سنایہ اسکی رہائش کی جگہ کا پتہ پہلے دن سے جانتی تھی کیونکہ وہ ایک واحد امپلائے تھا جو اسکے آفس فلیٹ کے بجائے اپنے زاتی گھر میں رہتا تھا,,,

اپنے آفس میں موجود وہ اپنے واچ مین کے انتظار میں تھی جسے اسنے عادل کی معلومات حاصل کرنے کی غرض سے بھیجا تھا,,,


مے آئی کمنگ میم.....واچ مین نے گلاس ڈور کے اس پار کھڑے ہوتے اندر آنے کی اجازت طلب کی,,,

یس سنایہ جو فلحال اپنے آفس ورک میں مشغول تھی واچ مین کو دیکھ اسنے کچھ بیتابی سے اندر آنے کی اجازت دی

کیا انفورمیشن ملی؟؟واچ مین کے اندر داخل.ہوتے ہی اسنے اضطرابیت سے سوال کیا,,,,

میم وہ فلیٹ تو ہمارے ورکر کا ہی ہے مگر اسکا اصل نام عادل ہے وہاں کے واچ مین سے پتہ لگا ہے کہ وہ فلحال یہ فلیٹ چھوڑ کر جا چکا ہے اب کب واپس آئیگا کچھ کہہ نہیں سکتے,,,,

اسکے واچ مین نے تفصیل سے اپنی زبان میں بات بتائی,,,,

اوکے یو کین گو,,,وہ اسے جانے کا حکم دیتی خود کسی گہری سوچ میں مستغرق ہوئی,,,لفظ عادل پہ وہ اٹک کر رہ گئی تھی....

اسے سمجھ نہیں آرہا تھا آخر عادل کون تھا کوئی عام انسان یا پھر کوئی گیم کھیلا گیا تھا جس سے وہ ناواقف تھی,,,,

سی سی ٹی وی,,,,وہ کافی دیر ساکت سی اپنی جگہ متحیر رہی ناگہاں دماغ میں جھماکہ ہوا وہ کچھ یاد آنے پر زیر لب بڑبڑائی,,,,

اور تیزی سے ہاتھ بڑھاتے لیپٹاپ اٹھا کر اون کیا,,,اسکرین کے روشن ہوتے ہی اسنے کیبورڈ پہ انگلیاں چلاتے عین اس دن کی فوٹیج نکالی جس دن عادل کی موجودگی میں اسکی طبیعت خراب ہوئی تھی ,,,کیونکہ ایک واحد وہی دن تھا جب عادل تفصیل سے اسکے گھر ٹہرا تھا اور پہلی بار بھی,,,,

انٹر کا بٹن پریس کرتے فوٹیج پلے کی........اور جیسے جیسے فوٹیج آگے بڑھ رہی تھی ویسے ہی اسکے دل کی دھڑکن بھی شور مچارہی تھی,,سانسیں زور پکڑرہی تھی,,,,اور آخر وہ سین بھی آن پہنچا جسے دیکھنے کی شاید وہ خواہشمند نہیں تھی,,,عادل نے جیسے ہی اسکی تصویر کو اٹھا کر حیران کن نگاہوں سے دیکھا تھا اسکے بعد ایک سیکنڈ نہیں لگااسے یہ بات سمجھنے میں کہ عادل کسی مقصد کے تحت یہاں تک آیا تھا,,,,

اپنا اشتعال دبانے کیلئے اسنے مٹھیاں بھینچی آنکھوں میں ناگہاں خون اتر آیا تھا,,,

مگر یہ آفس تھا وہ یہاں اپنا جنون دکھا کر ورکرز کو حراساں نہیں کرسکتی تھی,,,,

اپنا موبائل اور پرس لیتی وہ غصے میں آفس سے نکلی اسکے چہرے کے پتھریلے تاثرات دیکھ ورکرز بھی اپنے اپنے کام میں مشغول تھے اور اسکے چلے جانے پر آپس میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئ تھی مگر یہ بھی زیادہ دیر نہیں آفس کے سینئر امپلائے کی کرہت آواز پہ تمام ورکرز ایک بار پھر کام میں مشغول ہوچکے تھے,,,,


وہ اپنی گاڑی میں بیٹھی اور گاڑی کو زن سے بھگا لے گئ,,,آس پاس کے لوگ بھی اسکا انداز دیکھتے رہ گئے تھے جسکے ہر انداز سے جنون ٹپک رہا تھا,,,,,

********

اتنی بڑی غلطی کیسے کر گئیں تم سنایہ وکٹوریہ بھول گئیں کوئی مرد بھروسے کے قابل نہیں ہوتا بھول گئیں ان درندوں کی درندگی جسکے نشان آج بھی تمہارے وجود پہ تازہ ہیں کیسے پھر کیسے تم ایک مرد پہ بھروسہ کر بیٹھی ایک بار پھر دھوکا کھانے کیلئے نہیں اس بار ایسا کچھ نہیں ہوگا میرا دل ہزار بغاوت کرے مگر میری ماں کے قاتلوں کو سزا میں ضرور دونگی کوئی نہیں بچے گا میرے قہر سے,,,,,وہ رش ڈرائیونگ کرتی خالی سڑکوں پہ بےوجہ ہی گاڑی دوڑاتے خود سے مخاطب تھی,,,,,

تم نے میری نرمی کا بہت غلط فائدہ اٹھایا ہے اسکا حساب تو تمہیں سود سمیتَ دینا ہوگا مسٹر عادل بہت آسان سمجھا تھا سنایہ کے دل کیساتھ کھیلنا نہیں ایسا کچھ نہیں ہے سنایہ وکٹوریہ نفرت کرتی ہے تم سے ہر مرد سے تم بھی وہی ہو جیسے سارے مرد ہوتے ہیں میرا بھروسہ توڑنے کی بھاری قیمت چکاؤگے تم,,,,وہ ایک بار پھر جنونی انداز میں خود سے مخاطب ہوئی آنکھوں سے موتی لڑیوں کی صورت بہہ رہے تھے جسے وہ بے دردی سے اپنے ہاتھ کی پشت سے رگڑتی پیچھے دکھیلنے لگی آج ایک بار پھر اسکا بھروسہ ٹوٹا تھا اندر سے بکھری باہر سے مظبوط چٹان جیسی سنایہ آج پھر کانچ کے ٹکڑوں کی طرح ٹوٹ کر بکھر گئی تھی,,,,آنکھوں میں دھند تھی زہن اپنی بکھری حالت میں الجھا تھا کہ ناگہاں ڈرائیونگ کے دوران سامنے سے ٹرک آتا بھی اسے دکھائی نہ دیا,,,,ابھی ٹرک کیساتھ اسکا زبردست تصادم ہوتا کہ اسنے فوری ہوش میں آتے اسٹیئرنگ سمبھالا گاڑی ایک تم دم راؤنڈ گھسٹ کھاتی اسکے بریک لگانے پر رکی چرررررررر کی آواز ماحول میں ارتعاش پیدا کرگئ,,,,

اسنے پلٹ کر بیک ویو میرر سے دیکھا تو ٹرک والے کا بھی کوئی نقصان نہیں ہوا تھا ,,,,وہ شکر کا سانس لیتی اپنا سر تھکے ہوئے انداز میں اسٹیئرنگ سے لگا گئی,,,,.اس وقت وہ شدید بے بسی کے مراحل پہ کھڑی تھی جہاں چاہ کر بھی وہ انکار نہیں کر سکتی تھی کہ اسکا دل اس سے بغاوت کر بیٹھا مگر وہ ایک سلجھی سمجھدار لڑکی تھی جس نے بچپن سے اب تک ہر مشکل کا سامنہ تن تنہا ہی کیا تھا ,,,,مگر آج جیسے دل کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا تھا,,,,شدت سے دل کیا اس دنیا کو آگ لگادے جہاں اسکے لیئے ہر پل محض تڑپ ہی تڑپ ہے کہیں بھی سکون کے دو پل اسکی زندگی میں میسر نہیں تھے,,,,اسے شدید گھٹن محسوس ہوئی گاڑی کی کھڑکیاں کھلی تھی مگر دل میں آگ لگی تھی وہ ہوا میں سانس لینے کی غرض سے باہر نکلی شام کا وقت تھا سراسراتی ہوا بھی آج اسکے جلتے دل کو سکون نہیں بخش پارہی تھی وہ شدید تھکی ہوئی لگ رہی تھی اچانک ہی وہ زمین پہ بیٹھتے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ,,,

مماء آپ کیوں چلے گئے مماء ممجھے اس ووحشی دنیا میں اکیلا چھوڑ کر ....ممجھے بھی ساتھ ہی لے جاتی مماء آپ کیوں دربدر کی ٹھوکر کھانے کیلئے ممجھے اس دنیا میں چھوڑ گئیں آپ,,,,وہ انتہائی ازیت سے پھوٹ پھوٹ کر روتی آسمان کی طرف دیکھتے اپنی ماں سے مخاطب تھی

مما ممیرا کوئ ننہیں ہے یہاں ککس سے سسہارے چھوڑ کر گئیں ہیں آپ ممجھے ,,,,یہاں لوگ فقط دلوں سے کھیلنا جانتے ہیں مماء کسی کو میرے جزباتوں کی قدر نہیں مماء .........سنایہ کے لفظوں سے ازیت جھلک رہی تھی وہ کوئی بارہ سال کی چھوٹی سی سنایہ ہی لگ رہی تھی جو پھوٹ پھوٹ کر اپنی ماں سے شکایتیں کر رہی تھی مگر بے بسی ایسی کہ اس کٹھن لمحات میں تسلی کے بول بھی میسر نہیں تھے اس یتیم کو,,,,آپکو پتہ ہے مما پہلی بار پہلی بار آپکی سسنایہ کو کوئی اچھا لگا کوئی اپنا سا لگا تھا .....وہ بھرائی آواز میں کہتے رکی آنکھوں میں جیسے ناگہاں چمک اتر گئی تھی,,,,وہ بھی دھوکے باز نکلا میری قسمت تو آپ سے بھی زیادہ بتتر ہے مماء چہرے پہ تلخ مسکراہٹ رقصاں ہوئی وہ ایسے آسمان کی جانب دیکھ کر باتیں کر رہی تھی جیسے حقیقت میں وہ اپنی ماں کے سامنے بیٹھی ہو ,,,,

جو سب کچھ کھو کر بھی کسی انمول شے کی امید لگا بیٹھی کسی نے بہت بری طرح پیروں تلے میرے جزباتوں میری خواہشوں میری حسرتوں کو روندھ دیا ہے اسنے کچھ توقف کے بعد پھر کرب سے جملہ جوڑا,,,,

میں کیا کروں آپکی مظبوط سنایہ آج پھر سے ٹوٹ گئی مما ..مگر میں ٹوٹنا نہیں چاہتی مما پلیز مجھے ہمت دیں حوصلہ دیں تاکہ میں اس انصاف کی جنگ میں مفتوح ٹہروں بس ایک بار میرے سر پہ اپنا ہاتھ پھیر کے کہہ دیں مما تم کرسکتی ہو سنایہ بس ایک بار اور میرا حوصلہ باندھ دیں پپلیزززززززز........آخر میں وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی اسکی سسکیاں عروج پہ تھی ہر آنسوں سے ازیت صاف ٹپک رہی تھی ناجانے کتنے ہی آنسوں وہ کسی کے ہجر میں بہا چکی تھی اور وہ انجان تھا اسکے پنپتے جزباتوں سے ,,,,,یہ شاید انجان بننے کی ایکٹنگ کر رہا تھا,,,


کیا ہوا میری بچی تم ایسے کیوں بیچ سڑک پر رو رہی ہو؟؟ایک عمر رسیدہ خاتون جو اس خالی سڑک سے گزر رہی تھی ہلیے اور لہجے سے وہ کوئی انگریزن تو نہیں لگ رہی تھی یقیناً وہ اردو اسپیکنگ تھی ایسا سنایہ کو لگا,,, اسے بیچ روڈ سسکتا دیکھ اس معمر عمر کی خاتون نے بے حد محبت سے اسکے کندھے میں ہاتھ رکھتے پوچھا ,,,,,انکی آواز پہ سنایہ اپنی خول سے نکلتی ہوش کی دنیا میں لوٹی اور ایک غیر ارادی سی نگاہ آس پاس دوڑائی جیسے اپنی ماں کو تلاشنا چاہتی ہو,,,

اپنی ماں کو ڈھونڈ رہی ہو میری بچی؟؟اس عورت نے عام سے انداز میں پوچھا,,,,سنایہ اسکے اگلے سوال پہ سٹپٹائی اور ہونقوں کی طرح اس عورت کو دیکھنے لگی ,,,,,,

ممر چکی ہے میری ماں ممار دیا انہیں ,,,,,وہ ناجانے کیوں اس عورت کے آگے کمزور پڑی انکا لہجہ اسقدر پراسرار تھا کہ وہ ناچاہتے ہوئے بھی رنجیدہ ہوگئ,,,,,

بیٹا ایک دن سب نے جانا ہے زندگی اور موت کا فیصلہ محض اوپر والی زات کے ہاتھ میں ہے اللہ سے غافل نہیں ہونا میرا بچہ وہ عظیم ستر ماؤں کے برابر محبت کرنے والا ہے اگر اسنے تمہاری ماں کو تم سے چھینا ہے تو اس میں بھی کوئی مصلحت ہوگی یاد رکھو خدا ہر شے پہ قادر ہے وہ اپنے بنائے لوگوں سے غافل نہیں ہوتا تم اپنی فریاد کبھی اسکے در پہ کر کے دیکھو وہ تمہارے راستے آسان کریگا ,,,,,وہ عورت انتہائی دھیمے لہجے میں بول رہی تھی انکے لفظوں میں ایسا سحر تھا کہ سنایہ جکڑ سی گئی وہ ناچاہتے ہوئے بھی انکا میٹھا لہجہ سن رہی تھی کیونکہ انکے لفظ سنایہ کو سکون بخش رہے تھے ,,,,,

تم نماز پڑھتی ہو اللہ کی مقدس کتاب پڑھتی ہو؟؟ناجانے انہیں کیا سوجی وہ اس سے پوچھ بیٹھی,,,,حالانکہ سنایہ مسلمان تھی وکٹوریہ کو اسلامی مذہب سے ایک الگ ہی لگاؤ تھا شہروز خان سے نکاح کے وقت وہ مسلمان ہوچکی تھی اور شہروز سے نکاح کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ ایک مسلمان تھا اور انکی خواہش تھی کسی مسلمان سے شادی کرنا انکی یہ خواہش شہروز خان سے نکاح کے وقت مکمل ہوئی سنایہ کی پیدائیش کے دو سال بعد ہی وہ خصوصی اسے روز کلمہ پڑھایا کرتی تھی جب تک وہ زندہ تھی اپنے ساتھ ساتھ سنایہ کو بھی نماز کی تاکید کرتی تھیں اور سنایہ بہت شوق سے انکے ساتھ نماز پڑھتی رب کو سجدہ کرتی تھی مگر انکی موت کے بعد تو اسنے آج تک خدا کے آگے سجدہ نہیں کیا تھا وہ کبھی آپنا درد رب کے آگے بیان نہیں کرتی تھی مگر وہ پھر بھی اپنی بندی سے غافل نہیں تھا وہ دلوں کے راز جانتا تھا,,,,

ننہیں ,,,,وہ کچھ تلخ لہجے میں بولی مگر مقابل عورت کے چہرے پہ اب بھی نرم سی مسکراہٹ نے احاطہ کیا ہوا تھا,,,

تم ایک بار پڑھو اور کھل کر اپنے رب سے اپنے سارے دکھ درد بیان کردو ,,,,,وہ پھر عام سے انداز میں بولیں,,,,مگر خدا کو کچھ بھی بیان کرنے کی کیا ضرورت ہے ابھی توآپ نے کہا وہ اپنے بندوں سے غافل نہیں تو میرے دل کی آواز میری آہیں وہ کیوں نہیں سنتا,,,, سنایہ نے اپنے طور اس عورت کو لاجواب کرنا چاہا مگر انکے چہرے پہ چھائے مطمئن تاثرات دیکھ اسے اپنے دل میں کچھ اترتا محسوس ہوا,,,,وہ اس لیئے میرا بچہ کیونکہ وہ تمہیں اپنے قریب کرنا چاہتا وہ تمہیں سجدوں کی توفیق دے رہا ہے یاد رکھو خدا کو پسند ہے اسکے بندے کا گڑگڑا کر فریاد کرنا جتنی تمہاری فریاد میں تڑپ ہوگی وہ تمہیں اپنے قریب کھینچ لے گا اللہ تمہیں اپنے حفظو امان میں رکھتا ہے بیٹا زندگی کی تلخیوں کو خود کیساتھ زیادتی نہ سمجھو وہ آزمائش لیتا اور انہی بندوں سے لیتا ہے جو اسکی آزمائش کے قابل ہوتا ہے جب زندگی میں پریشانی آتی ہے تو دوسروں کا در کھٹکٹانے سے بہتر ہے ہم اس پاک زات کا در کھٹکھٹائے جو بنا کسی غرض کے ہماری راہیں آسان کرتا ہے آج جس مقام پہ تم کھڑی ہو یہاں تک پہنچنے کیلئے بھی خدا نے ہی تمہیں عقلوں شعور بخشا ہے اسکی نعمتوں کا شکر ادا کرو اللہ تمہیں اپنے پسندیدہ بندوں میں شامل کرنا چاہتا ہے اسے مایوس مت کرو اسکی رسی کو تھامو قرآن پاک ہماری اصلاح کیلئے اتارا گیا ہے اس سے اصلاح حاصل کرو ,,,وہ اپنی بات دھیمے لہجے میں کہتی اسکا چہرہ دیکھنے لگی جو خود بھی انہیں ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی,,,,جسکی باتوں میں اتنا سکون ہے اسکے در پہ کتنا سکون ہوگا,,,وہ محض یہ بات دل میں سوچ سکی,,,,


اسنے ایک لمحے کیلئے انکے کہے لفظوں کو محسوس کرنے کیلئے آنکھیں بند کر کے کھولی,,,,آس پاس کوئی موجود نہ تھا وہ دنگ رہ گئ اسنے جھٹکے سے گردن کوجنبش دیتے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی مگر بےسود اس جگہ اسکے علاوہ کوئی موجود نہ تھا,,,,

وہ سوچ میں پڑ گئ کہ آخر وہ پرنور چہرے واکی عورت تھی کون اور اچانک غائب کہاں ہوگئی,,,,

وہ ابھی کشمکش کا شکار تھی اسکے کانوں میں بے جاں ہارن کی آواز سنائ دی اسنے گردن گھما کر دیکھا تو کوئی گاڑی بار بار اسے ہٹنے کا اشارہ دے رہی تھی,,,,

وہ ہوش میں آتی گاڑی میں بیٹھی اور اپنے گھر کیلئے روانہ ہوئی ناجانے وہ کن سڑکوں پہ آن پہنچی تھی,,,,


*********


کچھ ہی گھنٹوں بعد ایک نئی صبح کا آغاز بھی ہوگیا تھا ساحر عادل کے اپارٹمنٹ جانے کے بعد بھی نہ تو سویا تھا اور نہ اُس نے کچھ کھایا تھا ،

صبح کے نو بجے کے قریب وہ ایئر پورٹ پہنچے تھے ، پہلے تو اُنہوں نے ریکارڈز چیک کرنے چاہے پر انتظامیہ برہم ہوگئ لیکن عادل کے کارڈ دیکھانے پر وہ پولیس کیس سمجھتے اُن سے بھر پور تعاون کرنے لگے ریکارڈز وہ سارے ہی چیک کر چُکے تھے ایک جگہ نام حرم سکندر دیکھ عادل کی نظریں اُس نام پر تھمی اُس نے فوٹو گراف دیکھنی چاہی جو بہت ہی مشکل سے پہچان میں آرہی تھی کہ حرم ہے، اس ریکارڈ سے اُنہیں معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ یہ دو فرد فلائیٹ کے ٹائم پر پہنچ ہی نہیں پائے تھے ، اور انکی یہ دو سیٹیں خالی ہی گئ تھی ۔۔۔

°°°°°°°°°

اُس اپنی مندی مندی آنکھیں کھول کر آس پاس دیکھنا چاہا پر اندھیرے کے علاوہ کچھ نہیں دکھا اُسکے سر میں شدید ٹیسیں اُٹھ رہی تھی ، ہوش میں آتے اُس نے ہاتھ پیر ہلانے چلانے چاہے پر وہ بھی اُسکی کرسی سے بندھے ہوئے تھے جس پر وہ بیٹھی ہوئی تھی ، آج پورے دو دن بعد اُسے ہوش آرہا تھا اور اب اُسکی ساری حسیں بیدار ہو رہی تھی ، اپنے باپ کا خیال آتے ہی اُس نے اُس اندھیرے کمرے میں بابا نام کی دلخراش چیخ ماری ،

حرم مہ میں یہی ہوں,,,, سکندر صاحب کی گھٹی گھٹی سی آواز برآمد ہوئی وہ خود بھی بندھے ہوئے تھے۔۔۔


●︿●●︿●●︿●

وہ کُرسی سے بندھے خود کو رسیوں کی جکڑ سے آزاد کروانے کی بھرپور تک و دو میں تھے ، وہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ آخر اُن کے ساتھ یہ سب کرنے والے کون ہیں اور چاہتے کیا ہیں یہ بات وہ ابھی سوچنا بھی نہیں چاہتے تھے اس لئے فلحال اس بات کو سوچنے سے خود کو باز رکھتے وہ یہاں سے بچ نکلنے اپنی اور حرم کی جان بچانے کی بھر پور کوشش میں تھے ، جسم پر اُنکے تشدت کے گہرے زخم تھے ،

تُم ٹھیک ہو حرم ؟؟؟ سکندر صاحب نے متفکر ہوتے پوچھا ، خون بھی ماتھے سے نکلتے چہرے پر بہتا اب سوکھ چکا تھا

بابا ہم کہاں ہیں ؟؟ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے بہت اندھیرا ہے یہاں ، حرم کی نم سی آواز اُنکی سماعتوں سے ٹکرائی

حرم نے آس پاس پر نظر ڈالتے جیسے اُنہیں دیکھنا چاہتی تھی پر اُس اندھیرے میں اُسے لگ رہا تھا جیسے وہ اندھی ھو گئ ہو ، گذشتہ ہوئے اُسکے بے ہوش ہونے سے پہلے کے لمحات ذہن میں لہرانے لگے ، جیسے جیسے اُسکے ذہن میں وہ واقع کسی فلم کی طرح چل رہا تھا ویسے ویسے اُسکی سانسیں خشک ہوتی جا رہی تھی دل کی دھڑکنیں معمول سے بڑھتی خوف سے دھڑکنے لگی آنکھیں بے یقینی سے پھیلی ہوئی تھی ، آنسو بے اختیار ہی انکھوں سے رواں ہونے لگے وجود میں کپکپی سی طاری ہوئی تھی جبکہ دل اور دماغ دونوں میں ایک ہی نام کی سرگوشی گھوم رہی تھی اور وہ ساحر کے نام کی تھی اُسے سوچتے ہی رونے میں بھی شدت آگئ تھی ، سا ساحر ,,,,, اُس نے نمکین پانی سے لدی بھیگی گھنی پلکیں اٹھاتے اُس اندھیرے میں کسی اُمید کے تحت پُکارا کہ شايد اُسکی پُکار پر وہ ابھی اُسکے سامنے آجائے پر وہ یہاں ہوتا تو آتا نہ ،

سکندر صاحب رسیوں میں بندھے اپنے ہاتھ دائیں بائیں گھماتے رسی کو ڈھیلا کرنے کی کوشش میں تھے۔۔۔۔۔۔ جبکہ حرم کی سسکیاں عروج پر تھی ، وہ روتی چلاتی ساحر کو آوازیں دے رہی تھی پر آج اُسکا محافظ اُسے ہر ٹھندی گرم ہوا سے اپنے سینے میں چھپا کر رکھنے والا ساحر اُسکی پُکار نہیں سن پا رہا تھا ، وہ مسلسل رو رہی تھی ۔۔


♡♡♡♡♡♡


گھر میں قدم رکھتے ہی اسنے پرسکون ہونے کیلئے ٹھنڈے تھرتراتے پانی کا سہارا لیا وہ تروتازہ سی اب دماغ کو کچھ پرسکون محسوس کر رہی تھی,,,, لیکن دل میں ایک ہلچل سی مچی ہوئی تھی جو عادل کی دی ہوئی ہجر کے باعث تھی دماغ میں بوڑھی عورت کی باتیں گردش کر رہی تھی,,, وہ کافی کا کپ تھامے اپنی ہی سوچوں میں مستغرق تھی,,,,,

میڈم وہ کچھ بھی نہیں کھاپی رہا کھانس کھانس کے حالت خراب کرلی ہے ہمیں جلدی سے ڈاکٹر کے پاس لےجانا ہوگا,,,,

سوچوں کا تسلسل ملازم کی تفکر آواز پہ ٹوٹا,,, اسنے انگاری نگاہ اٹھا کر ملازم کی جانب دیکھا جو موؤدب سا ہاتھ باندھے سر جھکائے کھڑا تھا,,,

ڈاکٹر کو یہاں بلایا جاسکتا ہے اپنے فضول مشورے اپنے پاس رکھا کرو,,,, جاؤ اور جا کر اسے پانی دو,,,,

وہ تیش میں آتی ہاتھ پکڑا کافی کا مگ ٹیبل پہ پٹکتے دبے دبے غصے میں پھنکاری,,,,

اوکے میم.... ملازم سہمی آواز میں سر کو اثبات میں ہلاتا وہاں سے الٹے قدم بھاگا,,,,,

اسکے جاتے ہی سنایہ نے دونوں ہاتھوں سے سر تھاما اور اگلے ہی لمحے موبائل نکالتے نمبر ڈائل کیا,,,

آ نیڈ یو,,, دوسری طرف سے کال یس ہوتے ہی اسنے محض اتنا ہی کہا اور کال کٹ گئ,,,

گہرے گہرے سانس بھرتے خود کو پرسکون کیا اور اٹھ کر قدم بیک یارڈ کی جانب قدم اٹھائے,,,,

لمبے لمبے قدم لیتی وہ بیک یارڈ عبور کرتے ایک جگہ ٹہری جہاں سامنے ایک چھوٹا سا مکان تھا جھونپڑی نما,,, ایک گہرا سانس ہوا کے سپرد کرتے وہ قدم اٹھائے اس گھر میں داخل ہوئی,,,

چرررررررر..... دروازہ کھلنے کی آواز پہ سامنے رسیوں میں جکڑا وجود ہوش میں آیا دروازے سے چھن کر آتی روشنی اس وجود کے چہرے پہ پڑی تو اسکی آنکھیں چندھیاں گئی,,,, سفید سوٹ میں ملبوس یہ وجود بظاہر کافی ادھمری حالت میں تھا,,, گھنی داڑھی مونچھیں لمبے گھنے بےترتیب بال جو پسینوں کی وجہ سے اسکے منہ پہ چپکے ہوئے حقیقت میں اس شخص کا چہرا ذرا بھی واضح نہ تھا روشنی پڑنے کی وجہ سے اسنے گردن کو دائیں جانب جنبش دی,,,,

سنایہ کے چہرے پہ تلخ سی مسکراہٹ ابھر کر مدعوم ہوئی,,,کمرے کے اندر قدم رکھتے اسنے پلٹ کر دروازہ بند کیا جسکے باعث ایک بار پھر کمرا تاریکی کی نظر ہوا,,,

سنایہ نے ہاتھ مار کر بٹن اون کیا پورے کمرے میں سفید روشنی پھیل گئ کمرہ کافی وسیع پیمانے پہ واقع تھا ضرورت کی.ہر چیز یہاں موجود تھی,,,, مقابل شخص نے بھی روشنی میں آنکھیں کھولتے نظروں کا رخ سنایہ کی جانب کیا,,,,گہری نگاہوں سے اس مردانہ وجود کو دیکھتے وہ چیئر کھسکاتے عین اس شخص کے مقابل بیٹھی,,,

کیا چاہتے ہو ؟؟ ٹھنڈے ٹھار لہجے میں پہلا سوال داغا,,,,

ییہی میں پوچھنا چچاہتا ہوں,,,, مقابل شخص نے لڑکھڑاتے اپنی بھاری آواز میں اسکے وجود پہ اپنی خون چھلکاتی نگاہیں ٹکائے دوبدو پوچھا,,,,

سنایہ ایک لمحے کیلئے لاجواب ہوئی,,,,,چہرے پہ تلخ مسکراہٹ ابھری اور اسنے نگاہوں کا زاویہ بدلا,,,,

بدلا چاہتی ہوں صرف اور صرف بدلا,,,,

وہ خونخوار تیوروں سے بولی,,,,

کیسا بدلہ؟؟برجستہ سوال,, سنایہ ساکت ہوئی کمرے میں موت کی سی خاموشی چھاگئ,,,,

میں تمہیں جانتا تک نہیں تو کیسا بدلہ چاہتی ہومجھ سے مجھے یہاں قید کرنے کا کیا مقصد ہے؟؟

اسے خاموشی کا مجسمہ بنا دیکھ وہ پھر پوچھنے لگا,,,

میں کوئی ظالم نہیں جو کسی مظلوم کیساتھ ظلم کرونگی تمہیں یہاں رکھنے کی وجہ میں ہزار بار تمہیں بتا چکی ہوں پھر بھی ہر بار تمہارا ایک ہی سوال ہوتا ہے نہ تو تم مجھے سننا چاہتے ہو نہ سمجھنا پھر یہ سب ڈراموں کا کیا مطلب سمجھوں جبکہ تم جانتے ہو یہاں سے فرار ممکن نہیں ,,,,,

مقابل کے ہاتھوں کو رسیوں سے آزاد کرتے وہ سنجیدگی سے بولی,,,,اسکی حرکت اور لفظوں پہ ہر بار کی طرح وہ آج پھر بیزار ہوا,,,اور ضبط سے مٹھیاں بھینچی ہاتھوں کو آزادی ملتے ہی اسنے بری طرح ہاتھ چیئر پہ مارا تھا,,,,

مگر سنایہ بنا اپنی جگہ سے ہلے ٹکٹکی باندھے اسے دیکھ رہی تھی جیسے وہ اس سب کی عادی ہو ,,,,,

اگر میں کہوں کے میں سننا چاہتا ہوں تمہیں تو تم ہر بار کی طرح وہی بات دوہراؤگی کہ تم برداشت نہیں کرسکو گے حقیقت بہتر ہے جیسا میں کہتی ہوں ویسا کرو,,,,

وہ عین اسکی سرخ آنکھوں میں اپنی شعلہ بھڑکاتی نگاہ ڈالے ہر لفظ پہ زور دیتے بولا,,,,

سنایہ ایک بار پھر مسکرائی,,,,بلکل ایسا ہی کہونگی یہاں سے فرار ممکن نہیں اگر چاہتے ہو میں اپنے انتقام میں انسانیت سے گری ہوئی حرکت نہ کروں تو بہتر ہے تم بھی ایک اچھے انسان کی طرح یہاں زندگی بسر کرو جب تک میں چاہتی ہوں,,,,وہ بھی سنجیدگی سے بولی,,,,

میں تمہارا غلام نہیں آج اور ابھی یا تو تم مجھے ہر وہ بات بتاؤگی جو مجھ سے تعلق رکھتی ہے یا پھر مجھے آزاد کرو میرا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے ویسے بھی اب تک میں اتنا تو جان ہی گیا ہوں کہ تم مجھے تکلیف دینے کی خواہشمند نہیں ہو,,,,وہ قدرے اونچی آواز میں پھنکارا,,,اور آخری لفظ پرسکون پر اعتماد لہجے میں ادا کیئے,سنایہ ایک لمحے کیلئے گھبرائی مگر تاثرات میں زرا تبدیلی نہیں آئی وہاں اب بھی پتھر کی سی سختی تھی مگر اسکے دوسرے جملے پہ وہ عش عش کے اٹھی,,,

مقابل کا اعتماد باعث تحسین ٹہرا,,,,

میں نے حقیقت بتائی تو تم جو سانسیں یہاں لے رہے ہو وہ بھی تم سے چھن جائینگی زندہ رہوگے مگر سانس لینا دشوار ہوجائے گا کچھ حقیقتیں پردے میں ہی اچھی لگتی ہے جس دوہری ازیت سے میں گزر رہی ہوں تم بھی اسی ازیت سے گزروگے,,,,,,

وہ شدید کرب سے بولی ,,,,,مقابل شخص کو اسکی آنکھوں میں انتہا کی ازیت دکھائی تھی وہ اندر تک سے ہل کر رہ گیا اسکے چند لفظوں پہ,,,,,

ابھی وہ کوئی جوابی کاروائی کرتا کہ ڈاکٹر ماریہ ہاتھ میں بریفکیس تھامے براؤن جینس شرٹ پہ پنک لونگ کورٹ زیب تن کیئے اندر داخل ہوئی,,,,


Every thing is ok sunny what happen???


سب کچھ ٹھیک تو ہے سنی کیا ہوا ہے؟؟؟

کمرے کی فضاء میں ڈاکٹرر ماریہ کی مضطرب سی آواز گونجی اور ان دونوں نفوس کی توجہ انکی جانب مبذول ہوئی,,,,

جی سب ٹھیک ہے چلیں آپ اسے ہر روز ایک نیا ڈرامہ لگانے کی عادت پڑگئی ہے اور زیادہ کچھ نہیں ,,,,,وہ خاصی بدمزہ ہوتے لفظوں کو چبا چبا کر کہہ رہی تھی اور نگاہیں مقابل شخص پہ ٹکی تھیں,,,,

وہ کچھ نہیں بولا محض دانتوں کو آپس میں بھینچے اشتعال دباتے اسے دیکھ رہا تھا,,,

ڈاکٹر ماریہ نے پہلے اس وجود کو اور پھر سنایہ کو دیکھا اور اگلے ہی لمحے وہ سمجھ چکی تھیں معاملے کو,,,,

سنایہ چلو میرے ساتھ ,,,,,,

وہ اسکا ہاتھ تھامے تقریباً گھسیٹتے ہوئے باہر لے آئی اور دروازے کو لاک لگاتی اسکا ہاتھ تھامے سنی مینشن میں داخل ہوگئیں,,,,,

سنایہ تم اسے حقیقت بتا کر جان کیوں نہیں چھڑوا لیتی آگے فیصلہ اسکے سپرد کرو وہ تمہارا ساتھ دینا چایے تو دے نہیں تو اسے جانے دو کیوں اپنے لیئے ایک اور ازیت پال رکھی ہے ویسے کیا تمہاری زندگی کم پیچیدہ ہے جو ایک اور مصیبت کو اپنے سر ڈال رہی ہو تم اچھی طرح واقف ہو یہاں کہ قانون سے جانتی ہو نہ اگر یہاں کسی کو بھنک بھی پڑ گئی تو کیا سے کیا ہوسکتا ہے ,,,,اسے کمرے میں لاتے وہ دروازہ کو لاک لگاتے مصلحت سے بولیں,,,,

آپ جانتی ہیں میری آنٹی " اسے میں نے یہاں کیوں رکھا ہوا ہے اور میں جانتی ہو ہر بات کو مد نظر رکھا ہےسنایہ وکٹوریہ نے کوئی بھی بازی کمزور نہیں کھیلی وہ میری بساط کا سب سے مظبوط مہرہ ہے یعنی ملکہ اور اسے میں وقت آنے پر استعمال کرونگی تاکہ دشمنوں کو ناک رگڑنے پہ مجبور کردوں,,,,

وہ آنکھوں میں انتقام کی آگ لیئے بول رہی تھی,,,,

میں سمجھتی ہوں سنایہ لیکن ایسے پتے مت پھینکو جو تمہاری بربادی کا سبب بنے گوڈ تمہیں ہمیشہ کامیاب کرے مگر احتیاط لازم ہے ہر قدم رکھنے سے پہلے ہزار بار سوچوں جو بساط تمنے بچھائی ہے اس میں پیادے تمہارے بھی مارے جائینگے ,,,,وہ ایک بار پھر اسے سمجھانے کی غرض سے بولیں,,,,

نہیں میری" سوچنے سے فیصلے کمزور ہوجاتے ہیں اور میں اپنا کوئی بھی فیصلہ کمزور نہیں کرنا چاہتی ہیں ویسے بھی بساط چاہے جسنے بھی بچھائی ہو پیادے انہی کے مارے جائینگے کیونکہ میری زندگی کا کل اثاثہ میری ماں تھی جسے وہ درندہ سفت انسان چھین چکا ہے میرے پاس کھونے کیلئے کچھ باقی نہیں ہے یہ کھیل میں نے شروع کیا ہے اور اسکے اصول بھی میں نے ہی بنائے ہیں,,,,وہ انکی آنکھوں میں دیکھتے پر اعتماد لہجے میں بولی ایک آنسوں پلکوں کی باڑ توڑتے رخسار پہ بہا,,,,سرخ آنکھیں اب نمکین پانی سے بھر چکی تھی ایک بار پھر اپنی ماں کیساتھ گزری حسین یادیں نظروں کے سامنے لہرانے لگی وہ پل میں شدید افسردگی کاشکار ہوئی اور کسی ہارے ہوئے جواری کی مانند صوفے پر ڈھے سی گئیں,,,

سنی میری جان اس جنگ میں بہت نقصان ہے تم میری بیٹی ہو چھوڑ دو اس سبکو یہیں میری بات کو سمجھو میں تمہارے لیئے ایک اچھا رشتہ ڈھونڈونگی جو تمہاری زندگی میں خوشیاں بھر دے گا ایک محبت کرنے والاہمسفر پاکر تمہیں خوشی محسوس ہوگی سکون ملیگا اس انتقام کی آگ میں ان لوگوں کیساتھ تم بھی جل کر راکھ ہوسکتی ہو میں تمہیں کھونا نہیں چاہتی ہوں میری پیاری بیٹی,,,,,

ایک بار پھر وہ محبت سے گھٹنوں کے بل بیٹھتی اسکا آنسوؤں سے تر چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے بولیں,,,

کوئی نہیں کریگا مجھ جیسی لڑکی سے شادی خدا گواہ ہے میری" میرے ساتھ جو ہوا اسکے بعد کوئی نہیں کرسکتامجھ سے محبت ایسی خطائیں مجھ جیسے بے بس بیوقوف لوگ ہی کرسکتے ہیں جنہیں پیار کی شدید طلب ہوتی ہے نہ وہی لوگ محبت میں مبتلا ہوکر رفاقت کی ٹھوکرے کھاتے ہیں وہ کھوئے کھوئے انداز میں کہنے لگی جبکہ سوچوں کا بھنور اب عادل کے گرد گھوم رہا تھ سارے زخم ایک بار پھر تازہ ہوگئے تھے زندگی میں صرف دو مردوں سے میں نے سچے دل سے محبت کی تھی' میری' اور انہیں نے میرے دل کو ہزار ٹکڑوں میں تقسیم کردیا ریت کی طرح ہر وہ شخص میرے ہاتھ سے پھسل گیا جسے میں نے ٹوٹ کرچاہا میرے ہاتھ ہمیشہ خالی ہی رہے ہیں میں ہمیشہ مسافر رہی نہ باپ کی محبت ملی نہ ماں کا آنچل میسر ہوا اور اب مجھے میری پہلی محبت نے بھی رسوا کردیا دھوکے باز نکلا وہ اسے شاید احساس بھی نہیں اسنے میرے ٹوٹے ہوئے دل کومزید کرچی کردیا ہے میں دوہری ازیت میں مبتلا ہوں میں نہیں جانتی" میری" میرے لیئے کیا بہتر مہربانی کریں کم ازکم مجھے میرے ایک مقصد میں کامیاب ہونے دیں میں ڈگمگانا نہیں چاہتی پپلیززز......وہ اپنی بات ازیت سے کہتی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی,,,,

ڈاکٹر ماریہ نے تڑپ کر ایک ماں کی طرح اسے اپنے سینے میں بھینچا اور.اسکی کمر سہلاتے حوصلہ دینے لگیں,,,,

میری جان خدا تمہیں اپنے حفظ و امان میں رکھے جو تمہارے لیئے بہتر ہے وہ تمہارا مقدر بنے,,,وہ اسے پرسکون کرتے بولی,,,,,


°°°°°°°°°°°

وہ گاڑی میں بیٹھا گہری سوچ میں مستغرق تھا اُسکی بے بسی انتہائیوں کو چھو رہی تھی دو انگلیوں سے ماتھے کو مسلتا شاید وہ اپنا اشتعال دبانے کی کوشش کر رہا تھا جبکہ اُسکے برابر میں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا عادل مسلسل کسی سے رابطہ کرنے کی کوشش میں تھا ، اگر حرم اور سکندر کینیڈا نہیں گئے تو آخر گئے کہا ؟؟ کیا یہ سکندر نے اُنہیں گمراہ کرنے کے لئے کیا ہے ؟ بہت سی سوچیں اُسکے ذہن میں گھومتی اُسے مزید پریشان کر رہی تھی جبکہ دماغ کی شریانیں اب سوچ سوچ کر پھٹنے کے قریب تھی ، اُسکا سینا جل رہا تھا جبکہ اُسکا دل اس پوری دنیا کو آگ لگانے کا کر رہا تھا ناگہاں اُسے اُس ائیر کنڈیشنر گاڑی میں آکسیجن کی کمی محسوس ہوئی اُسے لگا جیسے وہ سانس نہیں لے پا رہا ، چہرے پر ہمہ وقت رہنے والی نرمی آج سختی میں بدلی ہوئی تھی دل ہر جذبے سے خالی تھا آج تو اُسے اپنی دھڑکنیں بھی سنائی نہیں دے رہی تھی شاید وہ بھی اُسکی طرح خاموش ہو گئ تھی ، گاڑی کا شیشہ کھول کر منہ باہر کرتے وہ لمبے لمبے سانس لینے لگا ، وہ ابھی تک ائیر پورٹ کی پارکنگ میں موجود تھے شام ہونے کو آئی تھی اور اب تک اُسے حرم کا کچھ پتہ نہیں لگ پایا تھا جب کھڑکی کھول کر بھی وہ کچھ اچھا محسوس نہ کر سکا تو گاڑی سے نکلتا وہ ائیر پورٹ میں موجودجینٹس کے واشروم کی طرف بڑھا ، منہ پر پانی کی چھینٹیں مارنے کے بعد وہ خود کو نورمل کرنے لگا تا کہ دماغ سے سوچتے وہ حرم تک پہنچ سکے ، ٹھنڈا پانی چہرے پر پڑتے ہی اُسے آگ تھوڑی کم ہوتی محسوس ہوئی ، کچھ دیر پہلے جو چہرا جل رہا تھا وہ بھی کچھ ٹھنڈا ہوگیا ، واشروم سے نکلتا دوبارہ پارکنگ کی طرف بڑھ ہی رہا تھا کہ ایک بچہ اُسکی راہ میں حائل ہوتا اُسکا راستہ روک گیا ، بچے نے کچھ نہیں بولا بس ایک مکتوب نما نوٹ اور کچھ گلاب کے پھول اُسے تھماتے وہاں سے بھاگ گیا یہ سب اتنی جلدی ہوا کہ ساحر کو کچھ سوچنے سمجھنے یہ اس بچے کو روکنے کا وقت بھی میسر نہ ہو پایا اُس نے نظریں اُس بھاگتے ہوئے بچے سے ہٹاتے اُس کی دی ہوئی چیزوں پر ڈالی پھولوں کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل کرتے اُس نے وہ صفحہ کھولتے پڑھنا سٹارٹ کیا جو اُسکے لئے ہی بھیجا گیا تھا وہ جیسے جیسے صفحے پر لکھے الفاظ پڑھ رہا تھا اُسکے چہرا کا رنگ بھی بدل رہا تھا آنکھیں بے یقینی سے پھیلتی اور مزید سُرخ ہوتی جا رہی تھی جبکہ چہرا بھی خون چھلکا رہا تھا ،

ڈیر ساحر ,,

جانتا ہوں کہ تُم اپنی بیوی کی گمشدگی سے بہت پریشان ہوگے اُسے ڈھونڈ رہے ہوگے تلاش کر رہے ہوگے۔۔۔۔۔ اپنا وقت ضائع کر رہے ہو ، تُمہاری بیوی حرم ساحر شہروز خان اور تمہارا سسر سکندر اعظم ہمارے قبضے میں ہیں ، نہ نہ میرے بچے تُمہیں پریشان نہیں ہونا فلحال پر اگر میری بات نہ مانی تُم نے تو یہ جو پھول تُم نے ہاتھ میں تھامے ہیں یہ تُمہیں اپنی بیوی کی اور سسر کی قبر پر ڈالنے کے لئے کام آئینگے , پر میں سوچ رہا ہوں کہ تمھاری خوبصورت بیوی کو مارنا بیوقوفی ہی ہوگی ، ویسے ہے بہت خوبصورت تمھاری بیوی اور اوپر سے تصادم کم عمر اور معصوم بھی ہے ، بلکل کسی جنت کی حور کی طرح ۔۔۔۔ حرم کے بارے میں لکھے الفاظ پڑھ اُسکی صفحے اور ہاتھ میں تھامے پھولوں پر گرفت سخت ہوئی جس کے باعث پھولوں کے کانٹے اسکے ہاتھ میں چبھتے اسکی ہتھیلی کو بری طرح زخمی کر گئے پر یہاں اپنی فکر کسے تھی ؟ گلے میں ابھرتی سفید رنگت میں ہری نسیں صاف اُسکے غصے کا پتہ دے رہی تھی اُس نے تنے نقوش اور بھنچے ہونٹوں سے آگے پڑھنا شروع کیا ،

دیکھو میری بات بہت غور اور آرام سے پڑھنا اور سمجھنا بھی,,, میری اب تُم سے یہ تمھارے خاندان سے کوئی دشمنی نہیں سارے معاملے ماضی میں پورے ہوگئے تھے ، اس لئے اگر تمہیں اب اپنی بیوی سہی سلامت چاہیے تو میرے خلاف جتنے ثبوت تُمہارے اُس ایس پی دوست نے جمع کئے ہیں وہ میرے حوالے کر لو , اگرچہ تُم وہ ثبوت بغیر کسی ہوشیاری کے میرے حوالے کرتے ہو تو میں بھی وعدہ کرتا ہوں کہ تُمہاری بیوی کو ایک کھروچ کیا کوئی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا جہاں وہ ابھی موجود ہے وہاں , بصورتِ دیگر تُم کسی اچھے کی توقع نہ رکھنا ہم سے ، اگر منظور ہے یہ تو میری بتائی جگہ پر ثبوت سمیت پہنچ جانا نہیں تو اُن دونوں کی لاشیں تمھاری حویلی پہنچا دونگا ۔۔۔۔۔۔

اس نے وہ صفحہ مکمل پڑھنے کے بعد مٹھی میں دبوچا اور اس پاس پر ایک گہری نظر دوڑائی ، پر سب ہی اپنے کاموں میں مصروف تھے وہ صفحہ اپنے کرتے کی جیب میں ڈالتا پورے ائیر پورٹ میں ادھر سے اُدھر بھاگتا اُس بچے کو ڈھونڈنے لگا جس نے یہ صفحہ اور پھول اُسے دیئے تھے ، پندرہ منٹ میں ہی پورے ائیر پورٹ میں اُس بچے کو تلاش کر چکا تھا پر وہ اُسے کہیں نہ مل سکا ،

وہ ایک لمبی سانس لے کر ایک پل کے لئے آنکھیں موند گیا پہلا شک ہی اُسکا عنایہ کی طرف گیا پر وہ اس حالت میں یہ سب کرسکتی ہے؟؟؟ نہیں دماغ سے فوراً ہی آواز آئی سنایہ بھی نہیں کرسکتی کیونکہ اس کے خلاف تو اُنکے پاس اب تک کوئی ثبوت نہیں تھا ، پھر آخر یہ کونسا دشمن ہے؟؟؟؟جو اپنے خلاف ثبوت کا مطالبہ کر رہا اُس نوٹ پر لکھی بات کہ عادل کے پاس ہے ثبوت یہ بات ذہن میں آتے ہی وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا پارکنگ کی طرف بڑھا جہاں عادل گاڑی میں ہی بیٹھا کان میں لگے بلوتوت کے ذریعے کسی سے محو گفتگو تھا ، ساحر کے گاڑی میں بیٹھتے ہی وہ ضروری ہدایتیں دیتا ساتھ ساتھ ڈرائیونگ بھی کرتا کال کاٹ کر ساحر سے گویا ہوا ،

میں نے ٹیم تیار کر لی ہے جو اُس گھر سے لے کر جہاں بھابھی ٹھہری تھی وہاں سے لے کر ائیر پورٹ تک سارے راستے کی تلاشی لے گی ، ان شاء اللہ ہمیں جلد ہی کوئی ثبوت مل جائےگا ، اُس نے سامنے دیکھتے ڈرائیونگ کرتے کہا ۔

اُسکی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔ ساحر نے بغیر کسی تاثر کے جواب دیا

اُسکی اس اچانک انکار پر عادل نے فوراً چلتی گاڑی کو بریک لگایا تھا

کیا مطلب ضرورت نہیں ؟؟؟ پھر ہم کیسے پہنچ پائنگے ؟؟ عادل نے کچھ اُلجھتے پوچھا وہ ساحر کی بات سمجھنے سے بلکل قاصر تھا ،

وہ نہ کہیں گئے ہیں اور نہ ہی کہیں چھپے ہیں ، بلکہ اغوا ہوئے ہیں ، اُس نے خالی سڑک پر دیکھتے جیسے عادل کے سر پر بم پھاڑا تھا ،

واٹ........؟؟؟؟۔ بے ساختہ ہی اُسکے منہ سے الفاظ ادا ہوا کون کر سکتا ہے آخر ؟؟؟؟ اُس نے ہوش میں آتے اگلا سوال کیا

ساحر نے نظر اُس خالی سڑک سے ہٹاتے عادل پر مرکوز کی ، اور ٹھنڈے ٹھار لہجے میں گویا ہوا

تمھارے ہاتھ کونسا ثبوت لگا ہے عادل ؟؟؟ اب تک کی تمام معلومات مجھے ابھی اور اسی وقت بتاؤ ۔۔۔۔ وہ سُرخ آنکھوں سے اُسے دیکھتا گویا ہوا

یہ وقت میرے خیال سے مناسب نہیں ساحر ہمیں ۔۔۔۔ ابھی اُسکا جملہ بھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ ساحر کی کرخت آواز گاڑی میں گونجتی اُسے خاموش کروا گئ

میں نے جو کہا ہے عادل مجھے بتاؤ ......

سنایہ کون ہے میں تُمہیں بتا چکا ہوں ساحر پر ماضی ....... وہ کہتے کہتے یک دم ہی خاموش ہوا وہ اُسے حقیقت بتانے کے لئے بلکل ہمت نہیں جٹا پا رہا تھا

کیا ماضی کیا عادل ؟؟؟؟ ساحر ایک بار پھر گرایا تھا ،

اُسے اس قدر غصے میں دیکھ وہ ایک لمبی سانس ہوا کے سپرد کرتا ہمت مجتمع کرتے ڈھکے چھپے لفظوں میں مناسب لبو لہجہ اپناتے سب کچھ اُسکے گوش گزار گیا ، یہ سب سن جیسے ساحر کے پیروں تلے سے زمین ہی کھسک گئ تھی وہ غصے میں بھپرا ہوا ہاتھ کا مکہ بنا کر ڈش بورڈ پر مار گیا ،

ساحر میں سمجھ سکتا ہوں پر تُجھے خود کو سنبھالنا ہوگا .... اس نے حالات کے پیشِ نظر اُسے سمجھانا چاہا ،

ساحر کو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ساتوں آسمان آج ٹھا ٹھا کر کے اُسکے سر پر گر رہے تھے ، یہ سب اُسکے لئے ایک ناقابلِ برداشت حقیقت تھی وہ کتنے عرصے تک اس سب سے بے خبر رہا تھا ،

وہ ثبوت تُم مجھے دے دو ، اُنہوں نے ان ثبوتوں کے لئے اُن دونوں کو اغوا کیا ہے , کچھ توقف کے بعد ساحر کی پرسوچ سی آواز گونجی

وہ ثبوت میرے پاس نہیں بلکہ ملاہم کے پاس ہیں ، مجھے اپنے پاس رکھنا مناسب نہیں لگا کیونکہ سب جانتے ہیں کہ یہ کیس میں ہل کر رہا ہوں پر ملاہم کو کوئی نہیں جانتا کہ وہ کون ہے ثبوت بہت اہم تھے اس لئے ملاہم کے حوالے کئے,, اُس نے تفصیلن بتایا ۔۔۔

ساحر نے اثبات میں سر ہلاتے موبائل نکالتے اگلے ہی لمحے ملاہم کا نمبر ڈائل کیا ، اُسکا نمبر بند ہے میں ٹرائے کر چکا ہوں ، عادل نے اُسے نمبر ڈائل کرتے دیکھ کہا

شٹ....... ساحر نے موبائل پوری قوت سے ڈیش بورڈ پر پٹخا تھا اور سر دونوں ہاتھوں میں تھام گیا ۔۔۔۔

ٹینشن نہ لے کچھ سوچتا ہوں میں ,,,,, اُسے پریشان دیکھ وہ تسلی دیتے گویا ہوا ۔۔۔۔


°°°°°°°°

عنایہ کو ہسپتال سے گھر شفٹ کر دیا گیا تھا ، وہ اور بچا دونوں ہی اب محفوظ تھے ،داجی نے ثمر کے بچے کے آنے کی خوشی میں کئی جانور ذبح کئے اور صدقے بھی دیئے ان سب کے دوران ہی اُنہوں نے اپنے طور حرم کی تلاش بھی جاری رکھی ہوئی تھی پر ابھی تک وہ بھی خالی ہاتھ ہی تھے کوئی ثبوت اُنکے ہاتھ بھی نہ لگا پر ساحر بلکل اُنکے بھیجے بندوں کی امان میں تھا جو بلکل اُسے چاروں طرف سے گھیرے ہوئے نہ محسوس طریقے سے اُسے اپنی حفاظت میں لئے ہوئے تھے ، داجی ثمر کی موت کے بعد ضرورت سے زیادہ محتاط ہوگئے تھے وہ کسی قسم کا رسک نہیں لے سکتے تھے ساحر کو لے کر اُنہیں صرف اندازہ ہی نہیں بلکہ یقین بھی تھا کہ عنایہ کے علاوہ بھی اُنکا کوئی دشمن اور بھی ہے اب اُن میں اب مزید کسی اپنے کو کھونے کی سکت نہیں تھی اپنا اکلوتا بیٹا اور اُسکے بعد پوتا وہ کھو چُکے تھے ، نور بانو اور درخنے دونوں ہی ساحر اور حرم کو لے کر پریشان تھی پر وہ دعا کے سِوا اور کر بھی کیا سکتی تھی نور بانو مسلسل اپنے رب کے آگے اُن دونوں کی سلامتی کے لئے دعا گو تھی ، جبکہ سب کے برعکس عنایہ بہت پرسکون تھی کیونکہ اُسکے مطابق سکندر اور حرم دونوں ہی کینیڈا پہنچ گئے ہونگے ،


°°°°°°°°

عادل نے دس منٹ میں ہی پورا پلین ترتیب دے دیا تھا اور اُسے کافی اچھے سے ساحر کو سمجھا بھی دیا اُس نے ساحر کو اس بات کی ضمانت بھی دی کہ حرم کو اس سب میں کوئی نقصان نہیں ہوگا وہ ساحر کو اُس گھر کے باہر ڈراپ کرنے کے بعد خود اپنی نفری کی سربراہی کے لئے اُنکے پاس پہنچ گیا ، اب آگے کا سفر ساحر نے اکیلے ہی طے کرنا تھا اس سب میں اُن دونوں کی جان کو خطرہ تھا واقف تھے وہ پر پھر بھی حرم کی خاطر وہ ہر خطرہ مول لینے کے لئے تیار تھا ، وہ ہاتھ میں ایک چھوٹا سا بیگ تھامے اُن ہی اغوا کاروں کا منتظر تھا ، اُس بیگ ایک چھوٹی سی چپ عادل نے نصب کرتے ایکٹیویٹ کر دی تھی اس چیپ کی مدد سے اُسے ساحر کی لوکیشن اور باتیں دونوں ہی سنائی دے سکتی تھی ........

اسنے پلٹ کر دیکھا تو ایک حسین پیاری سی لڑکی تھری پیس سوٹ بوٹ میں ملبوس ہاتھ میں کسی قسم کی فائل تھامے آنکھوں پہ نظر کا چشمہ لگائے کھڑی تھی,,

عادل نے نہ سمجھی سے اسکی طرف دیکھا وہ رات کے اس پہر اس حسین دوشیزہ کو ایسی جگہ پاکر حیران ہوا تھا,,,,


Sorry for distrub but can i sit here??


اسکی سوالیہ نظریں خود پہ مرکوز دیکھ لڑکی نے سرعت سے اپنی صفائی پیش کی اور ساتھ بیٹھنے کیلئے اجازت طلب کی,,,

جی ضرور,,اسنے بھی اخلاقیات نبھاتے اسے اجازت دی,,,

دراصل میری گاڑی خراب ہوگئی ہے میں کافی عرصے بعد پاکستان واپس آئی ہوں اور گھر والوں کو سرپرائیز دینا چاہتی تھی مگر یہ قسمت پتہ نہیں کہاں لاکر چھوڑا ہے میرا ڈرائیور گاڑی ٹھیک کرنے کی کوشش میں ہے آئی ہوپ جلد ہی ٹھیک ہوجائے وہ آپ سوچ رہے ہونگے کہ میں ایسے یہ سب آپکو کیوں بتا رہی ہوں دراصل بات یہ ہے کہ مجھے یہاں کا ماحول قابل قبول نہیں لگا مگر آپ چہرے سے کافی اچھے خاندان سے معلوم ہورہے تھے اسلیئے سوچا کچھ دیر آپکے تحفظ میں وقت گزارا جائے تاکہ آس پاس کے ماحول سے گھٹن نہ ہو آپ پلیز ایسا ویسا کچھ مت سوچئے گا,,,,

وہ بنا رکے بس کسی ٹرین کی طرح اپنی ہی صفائ پیش کرنے لگی جبکہ عادل اسے ہونقوں کی طرح دیکھ رہا تھا اسکی آخری بات پہ محض اسنے مسکرانے پر اتفاق کیا,,,


سوری شاید میں کچھ زیادہ ہی بول گئی ویسے عموماً اتنا نہیں بولتی میں لیکن میرا پیشہ ہی ایسا ہے جو مجھے بولنے پر مجبور کردیتا ہے جو کوئی نہیں کہہ پاتا ہم وہ بھی کہہ جاتے ہیں,,,دراصل میں ایک سائیکریٹرس ہوں,,,,وہ پھر اسکے بنا پوچھے ہی شروع ہوگئ,,,

ماشااللہ اچھا لگا جان کے اور آپ فکر مت کریں میں بھی ایک پولیس آفیسر ہوں آپ یہاں پرسکون ہوکر بیٹھ سکتی ہیں,,,,

اسنے انتہائی شائیستگی سے کہتے اسے تحفظ فراہم کیا,,,

وہ لڑکی مسکرادی,,,

تبہی ایک کم عمر بچہ انکے پاس آیا,,,,

سر جی آپ کیا لیگی؟؟اسنے اپنے پٹھانی لہجہ اپناتے بشاشت سے پوچھا,,,

دو کپ چائے لے آؤ چھوٹو,,,عادل نے پہلے اس بچے کو دیکھا اور پھر سامنے بیٹھی لڑکی کو پھر اس بچے کی طرف رخ کرتے اسکے سر کے پہلے سے بگڑے بالوں کو مزید بگاڑتے مسکرا کر کہا,,,

وہ بچہ اپنا آرڈر ملتے وہاں سے چلا گیا عادل نے بھی بنا سامنے بیٹھی لڑکی کو دیکھ موبائل نکالا جہاں نیٹورک اب بھی غائب تھے اسنے موبائل اسکرین کو اوف کرتے موبائل کو ٹیبل پہ رکھا اور ٹھنڈی ہوا میں سانس لیتے اپنا سر کرسی سے ٹکاتے پرسکون انداز میں بیٹھ گیا,,,,زہن میں کبھی درخنے تو کبھی سنایہ کا چہرہ لہرا رہا تھا اسے یاد آرہی تھی سنایہ کی محبت سے چور نگاہیں مگر وہ بےحسی کی انتہا پہ پہنچتا اسکی محبت اسکے منہ پہ مار آیا تھا عادل نے کبھی اسکے جزباتوں کو بڑھاوا نہیں دیا تھا اس سب میں اسکی کوئی غلطی نہیں تھی لیکن پھر بھی وہ خود کو اسکا قصور وار سمجھ رہا آج جب درخنے کو کسی اور کے نام ہوتا دیکھا تو اسے بھی محبت میں مفارقت کا احساس ہوا جسے وہ مقافات عمل کا نام دے رہا تھا وہ چاہتا تو ساحر سے دوٹوک بات کرسکتا تھا مگر خدا کے آگے کیسے جواب دہ ہوتا ناجانے کیوں اسکے دماغ میں ایسی باتیں گردش کر رہی تھی یہی وجہ تھی جو وہ باآسانی اپنی محبت کو کسی اور کے نام کر آیا,,,

مقابل بیٹھی لڑکی کافی دیر سے اسے ٹکٹکی باندھے یوں ہی خیالوں میں گم سم دیکھ رہی تھی چھوٹو بھی چائے رکھ کر جا چکا تھا مگر عادل کو نہ خود پہ کسی کی نظریں محسوس ہورہی تھی اور نہ ہی کسی قسم کی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرا رہی تھی وہ بس اپنے ہی خیالوں میں مستغرق تھا ایک ہلچل سی مچی ہوئی تھی دل و دماغ میں جسے وہ سمجھنے سے قاصر تھا,,,,

چائے ٹھنڈی ہورہی ہے,,,,کافی دیر کے بعد بھی جب وہ اپنے خیالوں کی دنیا سے باہر نہیں نکلا تو آخر کار اس لڑکی نے کچھ بلند آواز میں اسے چائے کی جانب متوجہ کیا,,,وہ کچھ ہڑبڑاتے ہوش میں آیا اور سیدھا ہو کر بیٹھا,,,

ایک سرسری سی نظر مقابل پہ ڈالتے اسنے چائے کا کپ اٹھاتے ہونٹوں سے لگایا,,,مقابل لڑکی اسکی ایک ایک حرکت کو پورے انہماک سے ملاحظہ کر رہی تھی جیسے اسکا اندرونی حال جاننا چاہتی ہو عادل کا انداز کچھ ایسا تھا جیسے کوئی مریض صدیوں بعد قومہ سے اٹھا ہو,,,

کیا میں آپ سے کچھ پوچھ سکتی ہوں؟؟کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اس لڑکی نے چائے کا سپ لیتے بھرپور اسکا جائزہ لیتے سوال کیا,,,,

جی ضرور ,,,عادل بھی اب اسکی طرف متوجہ ہوا جو گہری نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی,,,,,

اگر اتنی محبت کرتے ہو تو چھوڑ کر کیوں یہاں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہو؟؟؟اسنے بغور اسکا جائزہ لیتے سوال داغا,,,,اسکے لفظوں پہ جہاں عادل کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا وہی اسکے برعکس وہ پرسکون نرم سی مسکراہٹ کیساتھ اسے دیکھ رہی تھی,,,

میں..سمجھا...نہیں ....آپکی بات؟جلد خود کو سمبھالتے عادل نے الٹا سوال کیا,,,

آپ بہتر واقفیت رکھتے ہیں میرے مطلب سے مگر میں بتاتی چلو کے لوگوں کے زہن پڑھنا میرا پیشہ بھی اور شوق بھی اور آپکے تو چہرے سے ہی زہن میں گردش کرتا حال پہچانا جاسکتا ہے اب بتائیں ایسا کیوں کیا آپ نے ؟؟؟تفصیل سے اپنے بابت بتاتے اسنے عادل کی الجھن دور کی ساتھ آخر میں پھر سے سوال دوہراتے چائے کا کپ ٹیبل پہ رکھا,,,,

مگر عادل بجائے جواب دینے کے ایک بار پھر درخنے اور سنایہ میں الجھ کر رہ گیا,,,,

صرف محبت کا مسئلہ نہیں ہے آپکے ساتھ کوئی اور بھی پریشانی ہے جسکے باعث آپکے ہاتھ بندھ گئے ہیں آپ چاہ کر بھی اپنی محبت حاصل نہیں کر پارہے ,,,,

مجھے نہیں معلوم وہ کون ہے یہ آپکو کیا پریشانی ہے مگر اتنا ضرور کہہ سکتی ہوں آپ پیچھے ہٹ جانے والوں میں نہیں ہیں یقیناً معاملہ اس سے کچھ آگے کا ہے,,,,آپ چاہیں تو مجھ سے شیئر کرسکتے ہیں شاید کوئی راستہ نکل جائے,,,

ویسے میرا نام درخنے ہے لیکن لوگ مجھے دری کہتے ہیں,,,,لفظ درخنے پر جہاں عادل کو پھر سے حیرت کا جھٹکا لگا تھا وہی اب دری أسے مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگی,,,,

عادل نے ایک گہرا سانس فضاء میں تحلیل کرتے خود کو پرسکون کرنا چاہا اور پھر اس لڑکی سے مخاطب ہوا,,,,

میں نہیں جانتا آپ کون ہیں اور کیسے میرے دل کا حال اتنی گہرائی سے جانتی ہیں مگر محبت کرنا آسان ہے حاصل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اور اس سے بھی زیادہ مشکل اپنی محبت کو خود سے الگ کرنا لیکن یہ میری سزا ہے شاید جس طرح میں نے کسی کا دل دکھایا جس طرح میں نے کسی کی محبت کو نظر انداز کیا ہے بلکل ویسے ہی آج میرے سامنے آرہا ہے میں اسے خدا کی جانب سے مکافات عمل سمجھ رہا ہوں اور شاید یہی حقیقت ہے اسنے ہر لفظ تسلی سے دھیمے لہجے میں ادا کیا,,,

کیا کسی کی محبت کو ٹکھرایا ہے؟؟؟پوری بات توجہ سے سننے کے بعد اسنے سوال کیا انداز سنجیدہ,,,

مجھے احساس نہیں تھا مگر اسکی آنکھیں اسکے جزبات بیان کرتی تھیں جسے میں نے نظر انداز کردیا اور آج میں بھی رسوا ہورہا ہوں,,,عادل نے کس کرب سے لفظ ادا کیئے تھے وہ اسکے لہجے سے واضح تھا,,,

جس لڑکی سے محبت کرتے ہو کیا وہ کسی کے نکاح میں ہے؟؟جواب پاتے ہی اسنے دوسرا سوال داغا,,,

نہیں آج اسکی منگنی کی رسم ادا ہوئی ہے وہ بچپن سے کسی کے نام ہے,,,,اسنے جکھے سر کے ساتھ سنجیدگی سے جواب دیا,,,,

پہلی بات تو منگنی جیسی کوئی رسم ہماری شریعت میں نہیں ہیں جب تک ایک لڑکی کسی مرد کے نکاح میں نہیں آجاتی وہ کسی کے نام نہیں ہوسکتی اللہ باری تعالیٰ کی طرف سے محض نکاح کا فریضہ ہے جس پہ عمل کرنا ہم پہ فرض ہے اللہ پاک قرآن مجید میں فرماتا ہے اور جو عورتیں تمہیں پسند ہیں انہیں اپنے نکاح میں لو,,

درخنے نے انتہائی دھیمے لہجے میں میٹھے انداز میں کہا اسکی بات پہ عادل نے سر اٹھا کر اسکی طرف دیکھا وہ اسکی بات سمجھنے کی تگ و دو میں تھا,,,,

یہ محض ہماری سوچ ہوتی ہے کے خدا کی طرف سے مکافات عمل ہے اور ہم ہاتھ پیر چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا محبت حاصل کا نام نہیں ہے وہ لاحاصل ہوتی ہے کیونکہ یہ روح سے روح کا رشتہ ہوتا ہے محبت بدعا کا نام نہیں دعا کا نام ہے مکافات عمل تب ہوتے ہیں جب کوئی شخص انتہا پہ پہنچ کر اپنا معاملہ اللہ پہ چھوڑتا ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب دل میں کسی کیلئے انتہائی نفرت برپا ہو مگر محبت کرنے والے کبھی نفرت نہیں کرتے کیونکہ انہیں حاصل کی طلب نہیں رہتی انہیں محبت سے غرض ہوتی ہے اسکا مطلب صاف ہے جو تمہارے ساتھ ہورہا ہے وہ آزمائش ہے مکافات عمل نہیں,,,,اسکی الجھی نگاہیں خود پہ مرکوز دیکھ اسنے پھر اپنے مخصوص لہجے میں بولا,,,عادل کچھ لمحات اسکے لفظوں مے سحر میں ہی جکڑ کر رہ گیا ٹھیک تو کہہ رہی تھی وہ ویسے بھی سنایہ نے کبھی اپنی محبت اسکے آگے لفظوں میں تو بیان نہیں کی تھی وہ کیوں سوچ رہا تھا اسکے بارے میں فقط ایک احساس کی نظر وہ اپنی محبت کو سولی چڑھا رہا تھا مگر بات محض سنایہ نہیں تھی بلکہ اسکی پریشانی کا سبب ساحر بھی تھا,,,,

آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں مگر اپنی محبت کو حاصل کرنے جاؤنگا تو میں اپنے عزیز رشتے کو کھودونگا میں اسکا بھروسہ نہیں توڑ سکتا اور نہ ہی میں اپنے جزباتوں پہ قابو کر پارہا ہوں,,,کچھ دیر اسکی باتوں کو زہن نشیں کرنے کے بعد اسنے پھر سے ایک نقطہ رکھا مگر وہ پھر نرم سی مسکراہٹ کیساتھ مسکرادی,,,,

کچھ پانے کیلئے کچھ کھونا پڑتا ہے اور لوگ محبت میں ہستیاں مٹا دیتے ہیں یہ محض رکاوٹیں ہوتی ہیں جو کچھ حاصل کرنے سے پہلے آزمائش کے طور پہ ہمارے راستوں میں حائل ہوجاتی ہیں جیسا آپ نے کہا کے وہ ایک عزیز رشتہ ہے اگر وہ عزیز رشتہ ہے تو وہ کبھی آپ سے جدا نہیں ہوسکتا وقتی غصہ یا ناراضگی انسانی فطرت ہے مگر یہاں اگر کوئی آپکے جزباتوں کی قدر کرتا ہے انہیں اہمیت دیتا ہے تو وہی آپکا عزیز ہے میرے خیال سے آپکو ایک بار کوشش ضرور کرنی چاہیئے انشاءاللہ اللہ پاک آپکے راستے خود ہی بحال کردیگا لیکن آپکا جزبہ اور نیت پاک ہونی چاہیئے,,,,وہ پھر میٹھے لہجے میں اسکہ بات کا جواب دیتے جیسے اسے لاجواب کرگئی تھی,,,,عادل کے چہرے پہ یکلخت ہی مسکراہٹ رینگنے لگی کچھ دیر قبل جو آنکھیں ویران تھیں ان میں ناگہاں چمک اتر آئی آہستہ آہستہ کچھ سوچتے اسکی مسکراہٹ گہری ہوتی چلی گئی,,,,

تھینکیو سو مچ آپ میرے لیئے فرشتہ ثابت ہوئی ہیں آپ سوچ بھی نہیں سکتی کس طرح آپ نے اپنے لفظوں سے میری ہمت کو حوصلہ دیا ہے مجھے سمجھ نہیں آرہا میں کیسے آپکا شکریہ ادا کروں,,,,وہ پرجوش انداز میں گہری مسکرایٹ کیساتھ بولا,,,,

اسکی کوئی ضرورت نہیں بس یہ تو میرا فرض تھا ,,,,درخنے نے بھی مسکرا کر جواب دیا ,,,,تبہی دری کا ڈرائیور انکی جانب آیا,,,,

میڈم ہماری گاڑی اسٹارٹ ہوچکی ہے,,,,ڈرائیور نے موؤدب انداز میں کہا,,,

ٹھیک ہے میں آتی ہوں,,,,اسنے کہہ کر ڈرائیور کو جانے کا اشارہ کیا,,,

مس دری یہ میرا نمبر آپ رکھ لیں اگر کبھی ضرورت ہو تو یاد کیجئے گا ,,,,اسنے ایک کارڈ پوکیٹ سے نکالتے اسکے آگے کیا,,,,جسے درخنے نے مسکراتے تھام لیا,,,,

آپ کی گاڑی کہاں ہے؟؟میرا مطلب آپ واپس کیسے جائینگے کیا رات بھر یہی رہنے کا ارادہ ہے؟؟کچھ یاد آتے اسنے آس پاس دیکھتے الجھتے ہوئے پوچھا,,,

ارے نہیں میں یہاں بس بھٹکتے ہوئے آگیا ہوں دراصل میری گاڑی بند ہوگئی تھی مگر اب ان شاءاللہ میں بھی نکلتا ہوں ,,,,عادل نے مسکرا کر جواب دیا,,,,اور آخری الوداعی کلمات پڑھتے دونوں نے اپنی اپنی منزل کی راہ لی,,,,,


♡♡♡♡♡


اسنے لیڈیز پورشن میں قدم رکھتے ماحول کی گہما گہمی میں حرم نور کو ڈھونڈنا چاہا مگر چاروں اور نگاہ دوڑانے کے باوجود بھی اسے حرم کہیں دکھائی نہ دی تو آخر اسنے تنگ آتے پاس سے گزرتی ملازمہ سے حرم کا پوچھا,,,,

ساحر لالا وہ عصام لالا نے اپنے کپڑے خراب کرلیئے تھے بس حرم بی بی وہی بدلنے گئیں ہیں,,,,ساحر کے پوچھنے پر ملازمہ نے موؤدب انداز میں جوا دیا وہ اثبات میں سر ہلاتے شکریہ ادا کرتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا,,,,


*****

اسنے کمرے میں قدم رکھا تو وہاں کا منظر دیکھ خود بہ خود ہی گھنی مونچھوں تلے متبسم لب مسکرا اٹھے,,,جہاں سامنے حرم دوپٹے سے بے نیاز جامنی رنگ کے گھیردار ٹخنوں کو چھوتی فراک میں اسکی جانب پشت کیئے عصام کا پیمپر بدل رہی تھی مگر عصام کو بروقت شرارت سوج رہی تھی جسکے نتیجے میں وہ کھلکھلاتے بھرپور ہاتھ پیر مارنے لگا حرم کبھی ایک پیر پکڑتی تو دوسرا اسکے ہاتھ سے پھسل جاتا وہ چاہ کر بھی اس ننھے سے بچے کو قابو نہیں کر پارہی تھی,,,,.

عصام آپ کیا کر رہے ہیں مما کو نیچے جانا ہے ایسے تنگ کرینگے تو کیسے چلے گا,,,,وہ جھجلائی سی اسے پچکارتے ہوئے بولی,,,,اس سے اب زیادہ محنت نہیں ہوتی تھی جب سے اسے گولی لگی تھی اسکا سانس چڑھ جاتا تھا جسکے باعث وہ زیادہ چل پھر بھی نہیں سکتی تھی ساحر اسکی صحت کا بھرپور خیال رکھتا تھا مگر عصام پھر بھی حرم کی جان آدھی کرنے میں کوئی قصر نہیں چھوڑتا تھا,,,,

حرم کی آسودگی بھری آواز پہ وہ اپنی ہنسی سمیٹتے دبے قدموں آگے بڑھا اور چند قدم کا فاصلہ دو قدموں میں عبور کرتے اسے پشت سے اپنے حصار میں قید کر گیا,,,,ناگہاں اسکا لمس محسوس کرتے وہ سٹپٹائی اور سیدھی ہوکر کھڑی ہوئی مگر ساحر کا حصار ہنوز ایسے ہی اسکے گرد قائم رہا,,,

سساحر جی چھوڑیں مجھے ایک تو پہلے ہی یہ شرارتی بچہ کبھی سیدھی طرح پیمپر نہیں پہنتا اور آپکو بھی بروقت مستی سوجتی رہتی ہے,,,,وہ اسکا گھیرا توڑنے کی کوشش میں کچھ جھنجلائی سی بولی ,,,,

ساحر نے اسکے کندھے پہ اپنی ٹھوڑی جماتے سامنے کھلکھلا کر ہنستے عصام کو دیکھا اور بے ساختہ ہی لب حرم کے گال پہ ثبت کرتے پیچھے ہوا,,,,

اور جھٹکے سے اسکا رخ اپنی طرف کیا,,,,

کب سے ڈھونڈ رہی تھی میری بیچین نگاہیں تمہیں کتنی بار کہا ہے میری نظروں سے اوجھل مت ہوا کرو دل مضطرب رہتا ہے اگر تمہیں کچھ دیر نہ دیکھوں تو,,,,وہ اسکے چہرے پہ آتی بالوں کی لٹوں کو کان کے پیچھے کرتے گھبیرتا سے بولا جبکہ نگاہیں اسکے شرم سے سرخ ہوتے چہرے کا تواف کر رہی تھیں,,,,

سساحر جی اسکا پیمپر بدلنے دیں نہیں تو یہ بیڈشیٹ بھی خراب کردیگا,,,,وہ ساحر کا لہجہ لفظ انداز سب سرے سے نظر انداز کرتے عصام کی جانب اشارہ کرتے بولی جو ہونٹ نکالے رونے کی تیاری پکڑ چکا تھا,,,,

مگر ساحر کی ساری توجہ حرم کے ہلتے گلابی گداز لبوں پہ ٹہری ابھی وہ اسکا حصار توڑ کر عصام کی جانب بڑھتی اس سے پہلے ہی ساحر نے اسکے بالوں میں انگلیاں الجھاتے اپنے قریب کرتے اسکے ہونٹوں پہ اپنے لب رکھتے آہستہ سے پیچھے ہوا,,,,.حرم نے آنکھیں میچی مگر جلد آزادی ملتے اسنے اپنی پلکیں اٹھائی اگلے ہی لمحے ساحر کو پھر اپنی جانب جکھتا دیکھ اسنے سختی سے آنکھیں میچی ساتھ اسکا کالر مٹھی میں دبوچا اس سے پہلے کے ساحر پوری شدت سے اسکے لبوں پہ جکھتا عصام کے رونے کی چنگاڑتی ہوئی آواز ان دونوں کی سماعتوں سے ٹکرائی اور دونوں ہی برق رفتاری سے پیچھے ہٹتے عصام کی جانب بڑھے جو زوروشورو سے رونے کا شغل فرما رہا تھا کیونکہ وہ بیڈشیٹ بھی گندی کرچکا تھا,,,,

حرم نے کھاجانے والی نظروں سے ساحر کی طرف دیکھا ساحر نے بھی اسے لاچار سی نگاہوں سے دیکھا جبکہ چہرے پہ مسکینیت طاری تھی,,,,یہ رہے وائبز اور یہ رہا اسکا پیمپر جب ہوجائے تو اسے لیکر آجائیے گا ,,,,وہ کہتی بنا ترس کھائے پیر پٹکتے دروازے سے نکلتی چلی گئی,,,,پیچھے ساحر بےبسی سے اسکی پشت ہی تکتا رہ گیا جب وہ دروازے سے باہر نکلی تو اسکی آخری امید بھی دم توڑ گئی اسنے بے بسی سے عصام کی جانب دیکھا جو اپنا کارنامہ انجام دیتے اب پھر سے مسکرا رہا تھا,,,

بیٹا ہضم نہیں ہوا آپ سے پاپا کا سکون اچھا خاصہ صبح سے اب ہاتھ میں آئی تھی آپکی مما اس میں بھی آپ نے کارستانی دکھادی ,,,,,وہ جلتے کٹتے مروتاً مسکرا کر کہنے لگا جسکے نتیجے میں عصام اتنی زور سے کھلکھلایا کے ساحر کے اسکی طرف بڑھتے ہاتھ ایک پل کیلئے تھم گئے,,,,میرا بچہ کوئی جوک نہیں سنا رہے بابا تھوڑی قدر کیا کرو بیٹا آپکا زاتی باپ ہوں ایک کس کی اتنی بڑی سزا کون دیتا ہے تیری ماں تو بہت ظالم ہوگئی ہے یار,,,اسے احتیاط سے گود میں اٹھاتے وہ واشروم کی جانب بڑھا اور اچھی طرح اسے صاف کرتے وہ باہر آیا ساتھ عصام کیساتھ اسکی دہائیاں بھی عروج پر تھیں,,,,شکر تھا یہ پہلی بار نہیں تھا وہ پہلے بھی اسکا پیمپر کئی بار بدل چکا تھا جسکی بدولت اسے فلوقت دشواری نہیں ہوئی,,,,جلد ہی وہ اسے تیار کرتے گود میں اٹھا چکا تھا,,,,

گڈ اب لگ رہے ہو ہینڈسم بلکل باپ کی طرح شریف زادے,,,,مسکرا کر اسکے دونوں گال چومتے پرجوش انداز میں بولا,,,,اور قدم باہر بڑھادئے,,,,

ابھی وہ کمرے سے باہر ہی نکلا تھا جب اپنا موبائل بجتا محسوس کرتے اسنے ایک ہاتھ سے موبائل نکالتے سامنے کیا جہاں واچ مین کا نمبر جگمگا رہا تھا اسنے کچھ سوچتے کال یس کی ,,,,دوسری جانب سے کچھ کہا گیا جسے سنتے اسکے تاثرات کچھ الجھے اگلے ہی لمحے وہ آنے کا کہتے فون رکھ گیا اور حرم کو ڈھونڈ کر عصام کو اسکے حوالے کرتا خود بیرونی دروازے کی سمت بڑھا جہاں کوئی اسکا منتظر تھا,,,,


♡♡♡♡♡♡

حویلی میں ہوتی لوگوں کی خوش گپیوں کی آوازوں سے تنگ آتے وہ کب سے بیزار سا منہ بنائے بیٹھی تھی اور ایک یہی بات سوچ رہی تھی کہ آخر یہ انسان اتنا بولتے کیوں ہیں؟؟؟ ہر طرف آتی آوازوں نے اُسکے کان پکا دیئے تھے آئی تو وہ بہت ہنسی خوشی تھی پر اُسکی تنہائی پسند عادت نے اُسے اس ماحول سے بیزار ہونے پر مجوبور کردیا تھا ، اُسے رہ رہ کر حارث پر بھی غصہ آرہا تھا جو اُس معصوم کو زارا جیسی میسنی لڑکی کے پاس چھوڑ گیا تھا یہ کہتے کہ تُم بھی فیمیل ہو اس لئے مردان خانے میں نہیں زارا کے ساتھ جاؤ ، اور زارا میڈم جب سے آئی تھی کبھی ادھر گھوم رہی تھی تو کبھی اُدھر یہ کبھی منہ بناتے سیلفیاں لے رہی تھی اور اُسے دیکھ حُسن ارا کا خون جل رہا تھا ، آخر تنگ آتے اس نے اپنی مدد آپ کے تحت کوئی آرام اور سکون دہ جگہ تلاشنی چاہی ، اور آخر ساحر اور حرم کے روم کا دروازہ کھلا دیکھ وہ شکر کرتی آڑتی ہوئی اُس کمرے میں داخل ہوگئ ، وہ سیدھا ڈریسنگ ٹیبل پر آکر بیٹھی تھی اور آئینے میں اپنے عکس کو دیکھنے لگی ، اُسکے گلے میں ایک خوبصورت نگینوں سے جڑا ہار تھا ساتھ ہی اُسکے پنجوں کے ناخنوں پر اسکائے بلو کلر کی نیل پینٹ اور نیل پینٹ کے ہم رنگ دوپٹہ ٹائپ رومال اُسکے چھوٹے سے سر پر بندھا تھا ، وہ آئینے میں اپنا عکس دیکھنے میں مصروف تھی کہ اچانک ہی اُسکی نظر آئینے میں واضح ہوتے دوسرے عکس پر پڑی جو ساکت سا اُسے ہی دیکھ رہا تھا ، اشرفی پہلے تو کمرے میں کسی کی آہٹ محسوس کر ٹھٹکا تھا پر جیسے ہی اُسکی نظر آئینے کے سامنے کھڑے وجود پر پڑی تو اُسے جھٹکا سا لگا پر اُسکا یہ روپ دیکھ اشرفی کے ہوش و حواس بُری طرح متاثر ہوئے تھے وہ دم سادھے سے اُسے دیکھے جارہا تھا جیسے یقین کرنے کی کوشش کر رہا ہو کہ ہاں یہ حقیقت ہے ۔۔۔۔

حسن ارا نے فوراً ہی گردن موڑتے غصیلی نظر سے اشرفی کو دیکھا ,,, جبکہ اشرفی ابھی ہر چیز سے بے نیاز دیوانہ وار اُسے دیکھ رہا تھا ،

ائے کیوں دیکھ رہا ہے تو مجھے چھپ چھپ کر ؟؟؟ اُسے خاموش آنکھیں پھاڑے خود کو تکتا دیکھ وہ غصے سے پوچھنے لگی ،

اُسکی آواز پر جیسے اشرفی ہوش میں لوٹا تھا ،

کیا ...؟ وہ نہ سمجھی سا بولا ۔۔

میرا سر....... وہ بھی آنکھوں میں چنگاریاں لئے دو بدو بولی

ہائے آسمانی طوطی آج آڑتے ہمارے غریب خانے کیسے پہنچ گئی؟؟؟ دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر آئی ہو یا بھٹکتے ہوئے پہنچی ہو اپنے ہیرو کے پاس۔۔۔۔ وہ آنکھیں جھپکتے مسکراتے گویا ہوا۔۔۔

لگتا ہے تُم پہلے والی مار بھول گئے ہو .؟؟؟ وہ اس پاس پورے کمرے میں نظر دوڑاتے بولی ۔۔۔

اشرفی نہ سمجھی سے اُسے دیکھنے لگا ہمیشہ کی طرح آج بھی وہ اُسکی پٹھانی سمجھنے سے قاصر تھا ، پر اُسکے لہجے اور اُسکے روپ میں وہ کھو سا گیا تھا ایک بار پھر ۔۔۔

حسن ارا ایک تاسف بھری نظر اشرفی پر ڈالتی نفی میں سر ہلاتے اڑتی واپس ہول کی طرف بڑھ گئی ، پیچھے اشرفی ٹھندی آہ بھرتا اپنا ننھا سا دل اپنے پر سے تھام گیا اور آنکھیں موند کر ٹیبل پر ہی لیٹ گیا جیسے کوئی سستا ناکام عاشق۔۔۔


♡♡♡♡♡♡♡


گھر کے مین حال میں ہی آتے اسکی نظر ایک سوٹ بوٹ میں ملبوس انجان شخص پہ پڑی وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتے عین اس آدمی کے مقابل ہوا ,,,,,

اپکے لیئے کورٹ کی جانب سے نوٹس ہے ,,,,

سلام دعا کے بعد اس آدمی نے اپنے مخصوص انداز میں ایک کوریئر آگے کیا جسے ساحر نے جھٹ سے لیتے کھولا,,جیسے جیسے وہ اس نوٹس کو پڑھ رہا تھا ویسے ویسے ہی اسکے تاثرات پتھریلے ہونے لگے تھے,,دماغ کی شریانیں پھٹنے کے قریب تھیں چہرہ ظبط سے سرخ ہوا,,,,وہ آدمی اپنا کام کرتے جا چکا تھا جبکہ ساحر خود پہ بامشکل قابو پاتے اس لفافے کو جارحانہ انداز میں مٹھی میں دبوچتا اندر کی جانب بڑھ گیا اسنے درمیان میں کہیں بھی نہیں رکا راہداریاں عبور کرتے وہ سیدھا اپنے کمرے میں ہی آیا,,,,

کمرے میں آتے ہی اُس نے فائل کو بیڈ پر پھینکا اور خود بھی بیڈ پر ڈھے سا گیا ، غصے کی زیادتی سے آنکھیں سرخ تھی تو جبڑے تنے ہوئے تھے اُس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ عنایہ کو کہیں سے ڈھونڈ کر اُسکے ٹکڑے کردے جو ایک کالے سائے کی طرح اُسکے خاندان کے پیچھے لگ گئی تھی ، چھے مہینے کے بعد بلا آخر پھر وہ کہیں سے نکل آئی تھی اور اس بار وہ جس چیز کا مطالبہ اُس سے کر رہی تھی ساحر مر کر بھی پورا نہیں کرسکتا اُسکا یہ مطالبہ ، کیا کبھی اُنکی زندگی میں سکون آئیگا ؟؟ یہ وہ ایک جملہ تھا جو اس وقت اُسکے دماغ میں گردش کر رہا تھا اس جملے میں موجود سوال کا جواب اُسکے خود کے پاس نہیں تھا سوچ سوچ کر اُسکی دماغ کی شریانیں پھٹنے کے قریب تھی ، یہ تو وہ تے کر چکا تھا کہ عصام کو وہ کسی صورت اُس مکار عورت کے حوالے نہیں کریگا, ایک طرف اُسکے دل میں غصے اور نفرت کا لاوا اُبل رہا تھا تو دوسری طرف دماغ تیزی سے چلتا کسی فیصلے پر پہنچنے کی کر رہا تھا ، وہ دونوں ہاتھوں میں سر دیئے اسی بات پر پریشان بیٹھا تھا ، کافی دیر بیٹھنے کے بعد بھی جب اُسکا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا تو وہ اُٹھ کھڑا ہوا اور موبائل نکالتے ساتھ ہی عادل کا نمبر ڈائل کیا ، جو مسلسل بند جا رہا تھا ، اُس نے ایک لمبی سانس لیتے خود کو پُر سکون کرنا چاہا اور ادھر سے اُدھر کمرے میں ہی چکر کاٹتا اپنا اشتعال دبانے کی کوشش کرنے لگا ساتھ عادل کا نمبر دوبارہ ڈائل کرنے لگا ،جو ابھی بھی بندھ ہی تھا ، وہ مٹھیاں بھینچے موبائل بیڈ پر پھینکتا لمبے لمبے سانس لینے لگا ، اُسکا غصہ کسی صورت ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا ، آخر تھک ہار کر اب وہ صوفے پر بیٹھ گیا اور کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا ، کمرے کے بجتے دروازے نے اُسے سوچوں کے بھنور سے نکالتے اُسکی توجہ اپنی طرف مبذول کی ، وہ ایک ٹھنڈی اور پر سکون سانس لیتے دروازے کی طرف بڑھ گیا , لالا حرم بیبی بلا رہی ہے , حارث لالا کے گھر والے جا رہے ہیں اس لئے..... اُسکے دروازہ کھولتے ہی سوالیہ نظروں سے دیکھتے دیکھ ملازمہ نے جلدی سے کہا اور کہتے ہی وہاں سے نو دو گیارہ ہوگئ اُسے یہاں اس حویلی میں کام کرتے کئی سال گزر چُکے تھے وہ سمجھ چکی تھی ساحر غصےمیں ہے ابھی اور وہ اُسکے غصے سے واقف بھی تھی اسی غصے سے تو اُسکی جان جاتی تھی ، ابھی بھی وہ اُسکے غصے سے ہی خوفزدہ ہوتے اپنی بات کہتے ہی وہاں سے کسی جنی کی طرح غائب ہوئی تھی ,

ساحر بھی کافی حد تک خود کو پُر سکون کرتا اپنے اندر جلتی آگ کو تھپکتا نیچے کی طرف بڑھ گیا ، جہاں آدھے سے زیادہ مہمان جا چُکے تھے ، درخنے بھی اپنے کمرے میں جا چُکی تھی بس حارث اور اُسکی فیملی ہی رہتی تھی جو جانے کے لئے مل رہی تھی ، اور ساحر کے آتے ہی اُس سے اور باقی گھر والوں سے ملتے وہ بھی حویلی سے چلے گئے تھے ۔۔۔۔

ساحر بھی اُنکو رخصت کرتا خود دوبارہ کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا ، وہ جانتا تھا اگر وہ کچھ دیر اور رکتا تو داجی اور نور بانو اُسکے چہرے سے بھانپ لیتے کہ کچھ ہوا ہے وہ یہ پریشانی ابھی سے بتا کر اُنہیں پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا اس لئے فلوقت اُس نے خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا ، پر وہ ناواقف تھا کہ حرم سے اُسکا پریشان چہرا مخفی نہیں رھ سکا ہے, حرم اسکو پریشان دیکھ ملازمہ کو کاموں کی ہدایتں دیتی درخنے کے پاس جانے والا خیال ترک کرتی کمرے کی طرف بڑھ گئی ،

اس نے کمرے میں قدم رکھا تو ساحر کو فون کے ساتھ الجھتے پایا شاید وہ مسلسل کسی کو کالز کر رہا تھا ۔۔۔۔

وہ کمرے کا دروازہ بند کرتی ابھی وہ اُس تک پہنچی ہی تھی کہ اُسکی نظر بیڈ پر بکھرے قرطاس پر ٹھہر گئ ، وہ کچھ حیرت زدا ہوتی ایک نظر ساحر پر ڈالتی وہ کاغذ ایک جگہ جمع کر کے فائل میں رکھنے لگی ، پر جیسے ہی اُسکی نظر صفحات پر لکھے الفاظ پڑی تو اُسے ایسا لگا جیسے اُسکے پیروں سے زمین کھسک گئ ہو , وہ سانس روکے کھڑی صفحے پر لکھے الفاظ پڑھ رہی تھی ، جبکہ اُسے دیکھ ساحر نے ضبط سے ایک پل کے لئے اپنی آنکھیں میچ کر دوبارہ کھولی تھی۔۔۔۔۔۔۔


°°°°°°°°°°°°°

آئینے کے سامنے بیٹھی وہ خود پر لدی جیولری نوچ نوچ کر اُتارتی ٹیبل پر پٹخ رہی تھی ، آنکھوں سے بے اختیار ہی آنسو جاری تھے ، آج کا دن اُسکے لئے اُسکے ضبط کا ایک کڑا امتحان تھا اُس پوری رسم میں جس طرح اُس نے خود کو سنبھالتے خود پر ضبط کے پہرے بٹھاتے مُسکراتے سب سہا تھا یہ بات وہی جانتی تھی کہ کس طرح اس نے یہ ازیت سہی اپنی اُنگلی میں کسی اور کے نام کی انگوٹھی دیکھ آنسوں ایک بار پھر تراتر بہے، وہ جتنا خود کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی تھی عادل کا چہرا اُسکے حواسوں پر لہراتا اُسے جھنجھوڑ دیتا، ایسا نہیں تھا کہ اس منگنی سے پہلے اُس سے اُسکی رضامندی نہیں پوچھی گئی ، ساحر نے خود اُس سے اُس رشتے کے بابت پوچھا تھا جبکہ یہ رشتہ تو بچپن سے تہہ تھا ، بچپن میں ہی داجی اور شہروز خان نے خاندان کو جوڑے رکھنے کے غرض سے درخنے اور حارث کا رشتہ اور ثمر اور ذارا کا رشتا جوڑا تھا ، اس بچپن کے ہوئے رشتے کے باوجود بھی ساحر نے بذاتِ خود درخنے سے اُسکی رضامندی پوچھی تھی ، اُسکے پاس انکار کا کوئی جواز نہیں تھا وہ نہیں جانتی تھی کہ عادل بھی اُس کے لئے یہ جذبات رکھتا ہے یہ نہیں ، اس لئے اپنی خواہشوں کا گلا گھونٹتے اُس نے خاموشی سے اثبات میں سر ہلاتے اپنی رضامندی ظاہر کردی ، سب ہی اس رشتے سے بہت خوش تھے ، برسوں بعد حویلی میں کوئی خوشی آئی تھی اس لئے وہ خاموش رہی ، اُسکی خاموش محبت آج بلکل خاموشی سے مر گئی تھی آج وہ ایک ان چاہے رشتے میں بندھ گئ تھی ، اُسکا اختیار نہ تھا نہ اپنے آنسووں پر اور نہ ہی اپنے جزباتوں پر وہ خود اپنی حالت سے ناواقف تھی کہ آخر کب اور کیسے اُسے عادل سے اتنی محبت ہوگئ کہ کسی دوسرے کو وہ قبول بھی نہیں کر پارہی تھی ، ایک پل کے لئے اُسکے دل میں خیال آیا تھا کہ وہ عادل سے پوچھے یہ اپنے جذبات اُسے بتائے پر اگر وہ اُسکے لئے یہی جذبات نہ رکھتا ہو تو پھر ؟؟؟ اور اُسکے مطابق آج کے فنکشن میں ہنسی خوشی شامل ہو کر اُس نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ وہ کوئی جذبات نہیں رکھتا اس کے لئے ،پر وہ معصوم ناواقف تھی کہ جس طرح اِسکا دل ازیت سے گزرا ہے ویسے ہی حویلی میں رکے ایک ایک پل عادل نے بھی انگاروں پر گزارا تھا ۔۔۔۔ دونوں ہی ایک دوسرے کے جذباتوں سے ناواقف تھے ، ہاتھ کی پُشت سے آنسوں صاف کرتے اُٹھ کھڑی ہوئی اور فریش ہونے کے غرض سے واشروم میں بند ہوگئ ۔۔۔

وہ دونوں اس وقت پشاور کے مشہور ہوٹل میں موجود تھے اور دونوں ہی کسی اہم مدعے پر محو گفتگو تھے دونوں کے عین وسط میں کانچ کی ٹیبل رکھی تھی جس پہ پانی کا گلاس اور بوٹل رکھی ہوئی تھی,,,

کیا تم مطمئن ہو ہمیں یہ کیس حارث کے حوالے کرنا چاہیئے؟؟؟کیونکہ جہاں تک میری معلومات ہے یہ معاملہ سوئی میں دھاگہ ڈالنے جتنا باریک ہے اور حارث کورٹ کچیری جیسی دنیا میں ابھی ابھرتا ہوا ستارہ ہے کیا واقعی اپنا کیس اسکے حوالے کرنا درست فیصلہ ہے؟؟؟عادل نے کچھ سوچتے ہوئے مقابل بیٹھے ساحر سے سوال کیا,,,

معاملہ چھوٹا ہو یہ بڑا معنیٰ نہیں رکھتے انسان کو اپنی قابلیت پہ بھروسہ ہونا چاہیئے,,,,

اسکی بات پہ ساحر ایک لمحے کیلئے سوچ میں پڑگیا تھا مگر کچھ سوچتے اسنے جواب دینے کیلئے منہ کھولا ہی تھا کہ اپنی پشت سے آتی حارث کی بھاری مردانہ آواز پہ متوجہ ہوتے اسنے گردن گھمائی,,,, حارث کی آواز پہ عادل بھی ناگہاں آواز کے تعقب میں سر اٹھا گیا ,,,,جہاں وہ سامنے ہی بلیک کورٹ ہاتھ میں لیئے وائٹ شرٹ جو اسکے کسرتی جسم سے چپکتی اسکی جسامت کو نمایا کر رہی تھی اس پہ بلیک ہی ڈھیلی سی پینٹ وہ ایک ہاتھ میں قیمتی واچ تھی جبکہ دوسرے میں سن گلاسیس کیساتھ اسنے سلیقے سے کوٹ تھاما ہوا تھا وہ آنکھوں میں چمک لیئے اپنی بھرپور مردانہ وجاہت کیساتھ انہیں ہی دیکھ رہا تھا انہیں یوں حیران دیکھ وہ دو قدم بڑھاتے چیئر کھسکاتے ان کے درمیان اپنی نشست سمبھال گیا,,,,

جیسے ہی عادل رات کو گھر پہنچا تھا ساحر کی اتنی مسکالز دیکھ اسنے فوری اس سے رابطہ کیا,,,, اور ساری بات مختصر لفظوں میں اسکے گوش گزاری ساتھ اس کیس کو حارث کو دینے کا فیصلہ کرتے وہ آج اسے ملنے بلا چکے تھے جسکے نتیجے میں وہ تینوں اس وقت ہوٹل میں موجود تھے,,

آپ لوگ اتنا حیران کیوں ہورہے ہیں جیسے کوئی جن دیکھ لیا ہو,,,, وہ بروقت ہی اپنے عام لہجے میں مسکرا کر پوچھنے لگا,,,, جبکہ عادل کو اپنے لفظوں پہ شدید سبکی کا احساس ہوا وہ اپنی شرمندگی مٹاتے اسکے پوچھنے پر مروتاً مسکرا دیا,,,,

ایسی کوئی بات نہیں حارث ہم بس ویسے ہی بات کر رہے تھے,,,, ساحر نے فوری غلط فہمی دور کرنی چاہی,,,,

میں واقف ہوں یہ سب میرے لیئے عام بات ہے مگر اپنی قابلیت پہ مجھے پورا بھروسہ ہے اور ان شاء اللہ یہ کیس ہم ضرور جیت جائینگے فلحال یہ باتیں ہم بعد میں کرینگے فلوقت کیس کے بابت بات کرلی جائے,,,,

شروع میں مسکرا کر کہتے اسنے آخری بات سنجیدگی کا لبادہ اوڑھے خاصی پروفیشنل انداز میں کہی,,,, ساحر نے اثبات میں سر ہلاتے کورٹ سے موصول ہوا نوٹس اسکے حوالے کیا,,,,

چھے مہینے بعد چوری چھپے بھاگی ہوئی عنایہ سکندر کو ناگہاں اپنی اولاد کی طلب ہورہی ہے,,,,

ہمم.... ساحر کے تنزیہ کہنے پر اسنے نوٹس کو ریڈ کرتے مصروف سے انداز میں ہنکارہ بھرا,,,,

فکر مت کرو کیس صاف اور سیدھا ہے اللہ نے چاہا تو ہم کامیاب ٹہرے گے کورٹ کی طرف سے تین دن کا وقت ہے اس میں مجھے اچھی طرح اس کیس کے بابت جاننا ہے مگر اس سے پہلے عنایہ سے شروع ہوئی ساری کہانی اس سے جڑے لوگ مجھے سب بتانا ہوگا آپکو چھوٹی سے چھوٹی چیز چاہے وہ اس کیس سے تعلق رکھتی ہو یہ نہ لیکن اگر اسکا تعلق ہماری مخالف عنایہ سکندر سے ہے تو مجھے سب کچھ بتانا ہوگا آپکو,,,,

اس فائل کو ٹیبل پہ رکھتے حارث سنجیدگی سے گویا ہوا,,,,

ساحر نے اثبات میں سر ہلاتے اسے شروع سے آخر تک عنایہ کے بابت سب کچھ بتانا شروع کیا,,,,

ایک منٹ یہ سنایہ ویکٹوریہ کون ہے؟؟؟ساری کہانی توجہ سے سنتے اسنے سنایہ کے ذکر پہ سوال داغا,,,, میری سوتیلی بہن,,,, ساحر نے خود پہ ظبط کرتے بامشکل جواب دیا,,, اوہ انٹرسٹنگ اسکا مطلب صاف ہے عنایہ کو بچہ نہیں کچھ اور چاہیئے یا پھر یہ کہنا بہتر ہوگا کہ عنایہ محض مہرہ ہے اصل بساط تو سنایہ ویکٹوریہ نے بچھائی جسکی وہ خود رانی ہے اور باقی سب اسکے پیادے انکا مقصد بچے کی کسٹڈی نہیں ہے ساحر بھائی وہ اس آڑ میں کچھ اور ہی چاہتے ہیں, تمام باتیں غور سے سنتے اسنے کسی غیر مرئی نقطے پہ غور کرتے کہا,,, عادل اور ساحر دونوں ہی اسکی زہانت کو داد دیئے بغیر نہ رہ سکے وہ دونوں ہی فخریہ نظروں سے انکی طرف دیکھ رہے تھے کیونکہ یہ بات انکے دماغ میں اب تک نہیں آئی تھی کہ یہ نوٹس عنایہ کی جگہ سنایہ بھی تو بھیج سکتی ہے کیونکہ عنایہ میں اتنے گڈز نہیں کہ وہ اکیلی کورٹ کچیری کے چکروں میں ہاتھ ڈال سکے,,,,

لیکن تم اتنے اعتماد سے کیسے کہہ سکتے ہو کہ وہ عصام کو نہیں بلکہ کچھ اور چاہتے ہیں,,,, عادل نے کچھ سوچتے ہوئے اپنا سوال کیا جبکہ ساحر کی بھی سوالیہ نظریں حارث پہ مرکوز تھی,,,

وہ اسلیئے کیونکہ آپکے کہنے کے مطابق عنایہ رات کے اندھیرے میں بھاگی ہے اگر وہ بچہ محبت کے تحت چاہتی ہے تو اسے یہاں چھوڑ کر جاتی ہی نہیں دوسرا اگر وہ محض بچے کو پراپراٹی کیلئے استعمال کر رہی تو وہ یہ کام چھے مہینے پہلے بھی کر سکتی تھی اور بچے کو اپنے ساتھ رکھ کر بھی وہ حصہ طلب کر سکتی تھی,,,, اس نوٹس کو دھیان سے پڑھیں اس نوٹس میں صاف محسوس ہورہا ہے کہ بچے کی کسٹڈی سے زیادہ زور ساحر سکندر کو کورٹ میں پیش ہونے کیلئے زور دیا گیا ہے درحقیقت تو یہ نوٹس بھی حقیقی نہیں ہے محض آپ لوگوں کو دھمکانے یا کورٹ میں پیش کرنے کیلئے یہ نوٹس بھیجا گیا ہے,,,,

حارث نے انکے سوال پہ تفصیل سے جواب دیا,,,,

تو اب آگے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟؟ابکی بار ساحر کی جانب سے سوال موصول ہوا,,,

فلحال کچھ نہیں محض مخالف فریق کے اگلے عمل کا انتظار کرنا ہوگا یقیناً ہماری جانب سے خاموشی پاتے وہ اگلا قدم اٹھائینگے,,,, تین دن بعد ہم انکے نوٹس کے مطابق کورٹ میں حاضر ہونگے باقی کا کام آپ مجھ پہ چھوڑ دیں مگر کچھ بھی ایسا جو بتانے کیلئے رہ گیا ہو وہ یاد آتے ہی سب سے پہلے مجھ سے رابطہ کرنا ہے از ڈیٹ کلیئر؟؟؟ اپنا جواب سنجیدگی سے دیتے اسنے بھی سوال داغا,,, جسکے جواب میں ساحر نے اثبات میں سر ہلاتے اتفاق کیا,,,,

میں چلتا ہوں مجھے کورٹ کیلئے لیٹ ہورہا ہے,,,, گھڑی میں وقت دیکھتے وہ عجلت بھرے انداز میں کہتا اٹھا اور مصافحہ کرتے وہاں سے نکلتا چلا گیا,,,,


مجھے لگا نہیں تھا یہ اتنا سمجھدار ثابت ہوگا,,,, اسکے جاتے ہی سب سے پہلے عادل نے مشکوک انداز میں کہا,,,

مجھے بھی اتنی سمجھداری کی. توقع نہیں تھی اس سے مگر آج اسنے لاجواب کردیا,,,, ساحر نے گہری مسکراہٹ سے ہنستے نفی میں گردن ہلاتے جواب دیا,,,

اور پھر دونوں ہی جاندار ہنسی چہرے پہ سجائے چائے سے لطف لینے لگے جو ابھی ہی ویٹر رکھ کر گیا تھا,,,,

ساحر مجھے وہ تصویر چاہیئے جو پرانے ایلبم سے برآمد ہوئی تھی سنایہ اور اسکی مدر وکٹوریہ کی تصویر,,,,

کچھ یاد آنے پر عادل نے چائے کا خالی کپ ٹیبل پہ رکھتے ساحر سے کہا,,,,

لیکن کیوں؟؟ساحر نے بھی چائے ختم کرتے سوال. کیا,,,

حارث نے کہا چھوٹی سی چھوٹی چیز ہمیں مس نہیں کرنی میرا خیال ہے اس تصویر میں ایسا کچھ ہے جس سے کچھ ثابت ہوجائے ہمیں ایک بار غور سے دیکھنا چاہیئے,,,, عادل نے سنجیدگی سے کہا,,,,

سہی ٹھیک ہے پھر تم چلو میرے ساتھ ہی حویلی وہی دیکھ لیتے ہیں پھر حارث کو بھی بتا دینگے ویسے بھی کل مور تمہارے جلدی منگنی سے چلے جانے کی وجہ پوچھ رہی تھی بڑی مشکل سے انکو سمجھایا تم مل بھی لینا ان سے,,,, ساحر نے مسکرا کر کہا اور اٹھ کھڑا ہوا,,, عادل بھی کچھ سوچتے ہوئے اسکے ہمقدم ہوا,,,, زہن کے پردوں میں اس دشمن جاں کا چہرہ لہرایا وہ آسودگی سے مسکراتا ساحر کے ہمراہ کار میں سوار ہوتا اپنی منزل کی طرف گامزن ہوگیا,,,,


♡♡♡♡♡


سنی مینشن ہمیشہ کی طرح آج بھی اپنی پوری شان سے کھڑا تھا ، عنایہ اپنے فرینڈز کے ساتھ شاپنگ پر گئی تھی جبکہ سنایہ بھی آج آفس سے جلدی ہی گھر آگئی تھی اور اب شیری کے ساتھ لاؤنچ میں بیٹھی کاروبار کی ہی باتوں میں مصروف تھی ،

ایک بات بہت عجیب لگ رہی ہے مجھے شیری ،,سنایہ نے ایک لمبی سانس لیتے گہری سوچ میں ڈوبے کہا ،

وہ کیا ..؟ شیری ٹیبل پر پڑے قرطاس فائل میں ترتیب سے رکھنے کے بعد صوفے سے پُشت ٹکاتا آرام دہ انداز میں بیٹھتا پوچھنے لگا ۔۔۔

وہ یہ کہ ساحر کی طرف سے اب تک خاموشی غیر یقینی ہے ، کہیں میری سوچ کے برعکس نہ ہو جائے سب وہ کیوں خاموش ہے آخر اب تک ؟؟؟ اُس نے اپنا نچلا ہونٹ دانتوں تلے دیتے پرسوچ انداز میں کہا ، چہرے پر صاف پریشانی ظاہر تھی

سنی تُم ایسے یہ سب سوچتی خود کو ہلکان کر رہی ہو ایسا کچھ نہیں ہوگا یہ تمہارا بنایا گیا پلین ، تُمہاری طرف سے چھوڑا گیا تیر ہے ، اور کبھی ایسا ہوا ہے کیا کہ سنایہ وکٹوریہ کا تیر بغیر دشمن کو لگے خالی جائے ؟؟؟ نہیں ایسا کبھی نہیں ہوا یہ تمہارا پلین ہے سنایہ ویکٹوریہ کا یہ کبھی ناکام جا ہی نہیں سکتا ، ہونا تُمہاری سوچ کے مطابق ہی ہے اس لئے فکر نہ کرو بلکہ اپنے دشمنوں کے سامنے جا کر اُنہیں زیر کرنے کا سوچو ،پوری دل جمعی سے شیری کی باتیں سنتے وہ اب کچھ پر سکون لگ رہی تھی ،

سوچو سنایہ جب دشمن کو تمھاری حقیقت معلوم ہوگی تب اُنکے چہرے کا رنگ کیسے اڑے گا تمہارا انتقام پورا ہوگا سنی ۔۔۔۔ وہ مسکراتا ہر ایک لفظ ادا کر رہا تھا ،

اُسکی بات پر یک لخت ہی سنایہ کے چہرے پر بھی مسکراہٹ نے احاطہ کیا تھا ،

پر ایک بات کا بہت افسوس رہے گا شیری ، وہ شیری کو دیکھتی کچھ عجیب لہجے میں بولی۔۔

بھلا وہ کس بات کا ؟؟ وہ اُسکے چہرے کے تاثرات دیکھتا نہ سمجھی سے بولا

اس بات کا افسوس کہ ایک معصوم اور بے گناہ جان میرے انتقام کی زد میں آکر ختم ہوگئ جسکا غم میرے دشمنوں کے سینوں میں اب تک تازہ ہے ، کبھی اُنہیں دشمن رکھ کر سوچتی ہوں تو اُنکا یہی غم مجھے بہت تسکین دیتا ہے پر جب میں اُس بے گناہ کے بارے میں سوچتی ہوں تو مجھے اُس پر افسوس اور ترس آتا ہے ، وہ تو بے گناہ تھا نہ؟؟؟ اصل گنہگار تو شہروز خان اور سمندر خان ہیں ۔۔۔۔ وہ کچھ اُداس سے لہجے میں بولی ۔۔۔

وہ تمھارے انتقام کی زد میں نہیں بلکہ اپنی ناکام اور خود غرض محبت کی زد میں آیا ہے سنی یہ بات دماغ سے نکال دو کہ تُم نے کسی بے گناہ پر جبر کیا ، تُم ایک بہت اچھے دل کی مالک ہو ، لوگ تُمہیں ضدی مغرور کہتے ہیں پر یہ تو میں جانتا ہوں تُم کیا ہو سنی ،

شاباش اب کوئی فضول سوچ اپنے ذہن میں نہ پالو ، بلکہ کیس کی تیاری کرو ، ڈیٹ قریب ہے بہت اور ہم پوری تیاری کے ساتھ جائینگے ، تُم اب فضول فکروں میں نہ پڑنا میں سب سنبھال لونگا ، وہ نرم سے لہجے میں کہتا اُسے جیسے ہر سوچ ہر پریشانی سے بری الزمان کر گیا تھا ،

وہ مسکراتی محض اثبات میں سر ہلا گئ اور دونوں ہی دوبارہ کاروباری باتوں میں مصروف ہوگئے ، کیس کے سلسلے میں وہ اپنے کاروبار کو ڈوبنے نہیں دے سکتی تھی وہ اس بات سے بھی واقف تھی کہ آنے والے دنوں میں اُسکا آفس جانا یہ کام پر توجہ دینا ممکن نہیں ہوگا اس لئے ابھی سے ہی وہ تمام تر کام سنبھال رہی تھی کہ آگے چل کر لوس نہ ہو۔۔۔۔۔۔


°°°°°°°°°°

ساحر اُسے لاؤنچ میں بٹھاتا خود فائل لینے کمرے کی طرف بڑھ گیا ، چار نہ چار وہ بھی سر جھکائے بیٹھے اُسکا انتظار کرنے لگا ، پر ناگہاں ہی اُسکے کانوں میں مانوس سی آہٹ گونجی ، اُس نے بے ساختہ ہی گردن اٹھاتے سامنے دیکھا جہاں درخنے اُس پر ایک سرسری سی نظر ڈالتی اپنی نظروں کا زاویہ بدلتے کچن کی طرف بڑھ رہی تھی ، اُسکی اس قدر نظر اندازی عادل کو اندر تک جھنجھوڑ گئ تھی اور شدید ناگوار بھی گزری تھی وہ بھی فوراً ہی قدم اٹھاتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا اُس تک پہنچا ، اور بنا کسی چیز کا خیال کئے اُس تک پہنچتے کہنی سے اُسے دوبچتا اپنے مقابل کر گیا ، اُسکی سُرخ آنکھیں درخنے کی سہمی سی اور غیر یقینی آنکھوں میں ڈوبی تھی ، اُسکا یہ عمل ایک شدید جھٹکا ثابت ہوا تھا درخنے کے لئے ، اُسکے کلائی کھینچنے پر وہ ابھی اُسکے کشادہ سینے کا حصہ بننے ہی لگی تھی کہ بر وقت اس نے اپنے ہاتھ اُسکے سینے پر رکھتے فاصلہ قائم رکھا ، عادل کی سُرخ اور خون چھلکاتی آنکھیں اُسے سہمنے پر مجبور کر گئی تھی ، نہ جانے ایسا کیا تھا اُن آنکھوں میں کہ درخنے کی سانسیں اٹکنے لگی تھی ، دہ سہ بدتمیزی دا ، مرنے کا شوق چڑھا ہے کیا تُمہیں؟؟؟؟؟ ہوش میں آتے ہی وہ اُسکی گرفت سے اپنی کلائی نکالنے کی کوشش کرتے پہلے پشتو پھر اپنی زبان درست کرتے اردو میں بولی ، لہجہ بلکل پٹھانی تھا عادل کو اسکا پٹھانی لہجہ سیدھا دل میں اترتا محسوس ہوا اسنے پہلی بار اسکے منہ سے پشتو سنی تھی جو اسے کافی متاثر کرگئ تھی محبوب کی تو ویسے بھی ہر ادا ہی نرالی ہوتی ہے ,,,مقابل اب بھی خاموشی سے اُسے گہری مسکراہٹ سے تک رہا تھا جیسے پہلی دفعہ دیکھ رہا ہو ، ہٹو کسی نے دیکھ لیا تو مارے جاؤگے ، تُمہیں ذرا شرم نہ آئی دوست کی بہن کے ساتھ یہ سب کرتے ہوئے؟؟؟ وہ اپنا خوف تھپکتی ،غصے سے گویا ہوئی

اُسکی بات پر ناگہاں عادل کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوئی اور اسکی جگہ سنجیدگی نے لے لی وہ ایک دفعہ پھر بھپرہ تھا اور اس پاس پر اپنی عقابی نظر دوڑاتا اُسکی کلائی دوبوچے اُسکی ہر مزاحمت کے باوجود اُسے کچن کے ساتھ بنے اسٹور روم میں لے آیا ، اور اسٹور روم میں لاتے ہی اُسے دیوار کے ساتھ پن کرتا خود بھی اُسکے اور اپنے درمیان فاصلہ قائم کرتا اُسکے مقابل کھڑا ہوا, اُسکے اس قدر جارحانہ عمل سے درخنے کا سر بری طرح دیوار سے لگا تھا ، درد کی شدّت سے وہ سختی سے آنکھیں میچ گئ ، جبکہ دل کی دھڑکن کسی ٹرین کی سپیڈ کی طرح چل رہی تھی ،

یہ کیا طریقہ ہے ؟؟؟ چاہتے کیا ہو پاگل انسان تم ؟؟ وہ درد بھلائے ہلکی آواز میں پھنکاری ۔۔ مقابل کا یہ روپ اُسکے لئے ایک غیر متوقع ثابت ہوا تھا ،

کیوں کی تم نے یہ منگنی ؟؟؟ وہ سرخ آنکھوں سے اُسے گھورتا پوچھنے لگا ،

تم ہوتے کون ہو مجھ سے پوچھنے والے ہاں ؟؟؟ کیا حق ہے تمہارا آخر یہ سب پوچھنے کا ؟ اُسکے سوال پر ایک پل کے لئے درخنے پر سکتا سا طاری ہوا تھا پر جلد ہی وہ بھی آنکھوں میں تیش لئے دوبدو بولی ، اُسکے الفاظ جیسے عادل کو بھی ساکت کر گئے تھے دیوار پر رکھے درخنے کی راہ میں حائل ہاتھ بھی ڈھیلے پڑتے نیچے ڈھلک گئے تھے ،

ہاں سہی تو کہہ رہی تھی آخر وہ تھا کون اُسکے لئے؟؟ کیا حق تھا اُسکا ، وہ اُسکے الفاظوں کی گہرائیوں میں ڈوبا تھا کہ موقع ملتے ہی درخنے اُسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر پریں دھکیلتی خود باہر کی سمت بڑھ گئ ، اُسکے جاتے ہی وہ بھی ہوش میں آیا اور ایک زوردار مکہ دیوار پر مار گیا , دونوں ہاتھ سر پر رکھتے وہ خود کو کنٹرول کرنے لگا اور جلد ہی خود کو سنبھالتے وہ لمبی لمبی سانسیں لے کر خود کو پُر سکون کرتا باہر کی طرف بڑھا اور ، مردان خانے میں اپنی سابقہ جگہ پر بیٹھ گیا ۔۔۔۔ اُسے رہ رہ کر خود پر غصہ آرہا تھا کہ وہ جذبات میں آکر ابھی کیا کرنے لگا تھا ، خود پر ملامت کرنے لگا کچھ سوچتے وہ ساحر سے بعد میں ملنے کا زہن بناتے حویلی سے نکلتا چلا گیا اسے احساس ہوا غصے کے باعث اسکی آنکھیں سرخ ہوچکی تھی جسے ساحر چٹکیوں میں پکڑ سکتا تھا اسلیئے اسنے فلحال یہاں سے بہتر جانا ضروری سمجھا ساحر لفافہ تھامے مردان کھانے میں داخل ہوا ،مگر یہاں عادل کو نہ پاتے وہ کچھ ٹھٹکا اور اگلے ہی لمحے اسے کال کرنے کیلئے اپنی پوکیٹ سے سیل نکالا جہاں پہلے ہی عادل کا میسج جگمگا رہا تھا جس میں لکھا تھا مجھے کچھ ضروری کام یاد آگیا ہم اس بارے میں بعد میں بات کرینگے,,,, عادل کا میسج پڑھتے وہ کچھ الجھا تھا مگر جلد ہی عصام کے رونے کی آواز سنتے وہ اپنا خیال جھٹکتے مردان خانے سے نکلتا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا,,,

دوسری طرف ساحر کو میسج چھوڑتے وہ اپنی گاڑی میں سوار ہوا گاڑی میں بیٹھتے ہی اُس نے ایک بار پھر زوردار مکہ اسٹیرنگ پر مارا تھا ، آنسوں ٹپ ٹپ کرتے آنکھوں سے بہتے اُسکی ہلکی بڑھی بھوری داڑھی میں جذب ہو رہے تھے ، بےبسی کی انتہا پر تھا وہ چاہ کر بھی اپنی محبت کو نہیں پا سکتا تھا ، اُسےدرخنے کی طرف جاتے سارے راستے بند ہی دکھ رہے تھے وہ خود کو بے بسی کی انتہا پر کھڑا پا رہا تھا جہاں اُسکے دونوں ہاتھ بندھے تھے ، ایک ہی جھٹکے سے گاڑی سٹارٹ کرتا وہ وہاں سے نکلتا چلا گیا ۔۔۔

وہ بھاگتے سیدھے اپنے کمرے میں پہنچی تھی ، کمرے کے دروازے بند کر کے پُشت اُس سے ٹکاتے اپنی ابتر ہوتی سانسیں بہال کرنے لگی ، کیوں کی تم نے یہ منگنی؟؟؟؟؟ عادل کے الفاظ ایک بار پھر اُسکے کانوں میں بازگشت کرنے لگے تھے آنسوں بھی کسی بارش کی طرح برستے اُسکے چہرے کو بھگو رہے تھے ، اوندھے منہ بیڈ پر گرتے تکیے کو خود میں بھینچے وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ،


بلیک پینٹ کورٹ پر سفید شرٹ اور ہاتھوں میں برانڈڈ واچ پہنے وہ فون کان سے لگاۓ کسی سے محو گفتگو تھا ، ساتھ ہی ہاتھ میں پکڑے صفحات پر تیزی سے نظریں دوڑا رہا تھا ، آج کیس کی سماعت کا پہلا دن تھا ۔ وہ اپنے مطابق پوری تیاری کے ساتھ آیا تھا فون کان سے ہٹا کر کال کٹ کرتے وہ موبائل پاکٹ میں رکھتا ابھی پلٹا ہی تھا کہ سامنے سے آتے وجود کو دیکھ اُسکے قدم اپنی جگہ ساکت ہوئے وہ دم سادھے اُنہیں دیکھے جا رہا تھا ،

بلو جینس پر بلیک شرٹ پہنے ، آنکھوں پر سن گلاسز چڑھائے ہوئے وہ پوری شان سے اپنی مغرور چال چلتی آگے بڑھ رہی تھی تھی اُسکی دائیں جانب اُسکا گارڈ تھا تو دوسری جانب بلیک پینٹ کورٹ اور سفید شرٹ میں ہاتھ میں فائل تھامے شیری تھا جو اُسکے ہم قدم ہوتا آگے بڑھ رہا تھا دونوں کی نظریں سامنے تھی نہ کی جھکی ہوئی بلکہ اُنکے پیچھے چلتی عنایہ آنکھیں پھاڑے کورٹ کا منظر دیکھ رہی تھی جہاں کئی لوگ سفید شرٹس اور بلیک پینٹ کورٹ میں گھوم رہے تھے ، سنایہ کے چہرے پر انتہا کی سنجیدگی تھی آج سامنے کا وقت تھا اپنوں سے ۔۔۔۔۔ سوچتے ہی یک لخت اُسکے چہرے پر تبسم کھلا ، وہ بوٹ میں مقیت پاؤں سے مضبوط قدم اٹھاتی آگے بڑھ رہی تھی ، اور باقی سب بھی اُسکے ہمراہ چل رہے تھے ، پر سنایہ کے ساتھ چلتے اُن سب کو چھوڑ کر حارث کی نظر سنایہ پر تھی ابھی بھی وہ اپنی جگہ ساکت و جامد کھڑا اُس مغرور حسینہ کو دیکھ رہا تھا جو اُسے کہیں سے بھی پاکستانی محسوس نہیں ہو رہی تھی ، پر اُسکے سحر میں جیسے وہ جکڑ سا گیا تھا آس پاس سے آتی شور کی آوازیں بھی اُسکی سماعتوں سے نہیں ٹکڑا رہی تھی اور نہ ہی سنایہ کے علاوہ اُسے اور کوئی دکھائی دے رہا تھا ، وہ اُس پر ایک بھی نظر غلط ڈالے وہاں سے جا چکی تھی پر حارث تو ابھی بھی جیسے اُسکے سحر میں کھڑا تھا ، اُسکی مغرور چال ذہن میں چلتی حارث کی دل کی دنیا ہلا گئی تھی اُسے نہیں یاد تھا کہ کبھی اُس نے کسی لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا بھی ہوگا پر آج ، آج سنایہ کو اس طرح دیکھنا اور پھر اُسکے بارے میں سوچتے ہی دل کا بے اختیار دھڑکنا ، وہ محض پہلی ملاقات میں ہی حارث کے دل کے قریب بنی دیواروں پر دراڑیں ڈال گئی تھی ۔۔۔۔۔

وہ ابھی انہیں سوچوں میں گم تھا کہ اُسکے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا ، وہ ہوش میں آتے جیسے ہی پلٹا عادل اور ساحر کو اپنے مقابل پایا ، کہاں گم ہوگئے تھے ؟؟؟ ساحر نے اُسکے چہرے کے اڑے رنگ دیکھ فکرمندی سے پوچھا ۔۔

کہیں نہیں بس یہ ضروری پوائنٹس تھے وہ پڑھ رہا تھا خود کو سنبھالتے وہ زبردستی مسکراتا صفحے کی طرف اشارہ کرتے بولا ،

ساحر سمجھتا اثبات میں سر ہلا گیا اور تینوں ہی کچھ دیر اور گفتگو کے بعد کمرہ عدالت کی جانب بڑھ گئے ۔۔۔۔۔۔


صحافی سمیت تمام موجودہ فریقین بروقت اپنی نشست سمبھال چکے تھے سامنے جج صاحب بھی اپنی مردانہ وجاہت کیساتھ سربراہی کرسی پر براجمان ڈیسک پر رکھے قرطاس پہ قلم سے روانی میں کچھ لکھ رہے تھے,,


کیس کی کاروائی شروع کی جائے,,,جج صاحب نے قلم رکھتے اپنا چشمہ درست کرتے بھاری رعبدار آوازمیں کہا,,,ناگہاں جج صاحب کی آواز پہ کمرہ عدالت میں خاموشی برپا ہوئی,,,


شکریہ یوئر آرنر شیری جج صاحب کی اجازت ملتے شکریہ کہتا اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا,,,اور کچھ کاغذات فائل کی صورت جسٹس صاحب کے آگے بڑھائے,,,,

جیسا کہ آپ جانتے ہیں یوآرنر یہ کیس ایک ماں کی جانب سے اپنے بچے کو حاصل کرنے کیلئے دائر کیا گیا ہے جسکے باپ نے حال ہی میں گھر والوں کے ڈپریشن میں آکر خودکشی کرلی حتیٰ کے مرنے والے کا الزام انکی فیملی پر نہ آئے اور معاملہ کورٹ کچہری تک نہ پہنچھے اس لیئے مسٹر ساحر شہروز خان نے اپنی طاقت کا ظعم آزماتے اپنے بھائی کی ڈیڈ بوڈی کو بغیر پوسٹ ماٹم کے ہی دفن کردیا یہ رہی انکی ڈیتھ سرٹیفیکٹ ,,,,اپنی بات سنجیدگی سے رعبدار آواز میں کہتے اسنے فائل جج صاحب کے آگے پیش کی جسے نیچے کھڑے شخص نے شیری سے لیتے جج صاحب کی ڈیسک پر رکھا,,,,


ساحر نے اسکے لفظوں پر ظبط سے مٹھیاں بھینچی آنکھوں میں مخالف فریق کیلئے جیسے چنگاریاں بھڑک اٹھی برابر بیٹھے عادل نے بےساختہ ساحر کی جانب رخ کرتے اسکی بندھ مٹھی پر اپنا بھاری ہاتھ رکھتے اسے پرسکون کیا,,,

میں اپنی موکل مس عنایہ کو اس کیس کی اصل وجوہات جاننے کیلئے کٹہرے میں بلانے کی اجازت چاہونگا,,,,ایک بار پھر کمرہ عدالت میں شہریار کی مردانہ آواز گونجی,,,,


اجازت ہے....جج صاحب نے اجازت دی,,عنایہ ایک لمبا سانس لیتے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی براؤن لکڑی کے جالیدار کٹہرے میں آکر کھڑی ہوئی شیری نے اسے نظروں سے ہرسکون رہنے کا اشارہ کیا جسے وہ حسب عادت آنکھیں گھماتی جج صاحب کی طرف رخ کر گئی,,,,

اس سے سچ بولنے کی قسم لی گئ جسے لیتے وقت ایک لمحے کیلئے اسکی روح کانپی تھی دل لرزا مگر اب وہ اپنے قدم پیچھے نہیں لے سکتی تھی اگلے ہی لمحے اسنے سچ بولنے کی قسم لی اور اپنے مقابل آتے شیری کی جانب توجہ مبذول کی,,,,


مس عنایہ عدالت کو تفصیل سے اپنی موجودگی کی وجہ بیان کریں,,,, اسنے قریب آتے مائک کا رخ عنایہ کی جانب کرتے بولنے کیلئے کہا,,,,

ماحول میں موت کا سا سکتا طاری تھا جبکہ ساحر کو یقین تھا جو بھی عنایہ بولیگی وہ یقیناً ایک فریب ہوگا,,,انکے برعکس حارث ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے پرسکون سا بیٹھا انہماک سے عنایہ کو دیکھ رہا تھا,,,


سب سے پہلے تو میں شکریہ ادا کرنا چاہونگی عدالت کا جسنے میرے ایک نوٹس پر ساحر شہروز خان جیسے شخص کو عدالت میں پیش کیا ساتھ مجھے انصاف دلانے کیلئے عدالت لگائی گئی,,,,عنایہ نے سنجیدگی سے بولنا شروع کیا یہ یوں کہنا بہتر ہوگا کے جج صاحب کو اپنی چکنی چپڑی باتوں میں پھانسنا چاہا,,,


شیری نے بیزاریت سے آنکھیں پھیری کیونکہ یہ وہ لفظ نہیں تھے جو اسنے رات بھر بیٹھ کر عنایہ کو سکھائے تھے۔۔۔۔


عدالت ثبوت مانگتی ہے یہاں چکنی چپڑی باتوں پر فیصلے نہیں لیئے جاتے,,,,عنایہ نے اپنی بات کہتے ایک جتاتی ہوئی نگاہ شیری پہ ًڈالی جیسے کہہ رہی ہوں میں تم سے بہتر بول سکتی ہوں,,,

یا خدا یہ لڑکی اپنے اوور کونفیڈنس میں سب بگاڑ نہ دے شیری نے دانت بھینچتے دل میں سوچا,,,,


جج صاحب میں یہاں اپنا بچہ چاہتی ہوں جو محض 6 مہینے کا ہے وہ صرف چند دنوں کا ہی تھا جب ساحر شہروز خان نے نہ صرف مجھ پہ جان لیوا حملہ کیا بلکہ مجھے خاموشی سے گھر سے نکل جانے کی دھمکی بھی دی وہاں انکی ماں دادا اور بہن بھی موجود تھے مگر کسی ایک شخص کے دل میں خوف خدا نہ جاگا میں اس وقت بے بس تھی لاچار تھی اکیلے ساحر شہروز خان اور اسکے خاندان کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی اسلیئے مجھے وہاں سے چلے جانا بہتر لگا اور میں رات کے اندھیرے میں تن تنہا وہاں سے فرار ہوگئی وہاں سے نکلنے میں میری مدد میری دوست سنایہ وکٹوریہ نے کی تھی مگر اب میں اپنا بچہ ان جابر لوگوں سے واپس چاہتی ہوں,,,,عنایہ نے اپنی آواز کو بےبس بناتے کچھ سخت لہجے میں کہا انداز کافی فتری معلوم ہوا جیسے وہ کافی مہارت رکھتی ہو اسنے شیری کے سکھائے گئے جملوں کو ویسے ہی پیش کیا تھا زرہ زیر زبر کی غلطی کی بھی یہاں کوئی گنجائش نہیں تھی ,,,,شیری کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ مچلی جبکہ آبرو داد میں اچکائی,,,,


کیا بکواس ہے یہ ,,,,اچانک ہی ساحر غصے سے بھپرا شیر بنا گرایا ,,,,تمام موجود لوگوں کی توجہ ساحر کی جانب مبذول ہوئی جہاں عادل نے بروقت اسے قابو کیا اسکا بس نہیں چل رہا تھا سامنے کھڑی مکار عورت کا قتل کردے ,,,,,ماحول میں ناگہاں شور پربا ہوا,,,,


سنایہ نے طنزیہ مسکرہٹ چہرے پر سجائے ساحر کی طرف نظریں اٹھائی ، عین اُسی وقت ساحر کی نظر بھی سنایہ کے استہزیہ چہرے پر ٹھہری ، ایک کی آنکھوں میں بدلے کی چنگاریاں تھی تو دوسرے کی آنکھیں میں ضبط سے سُرخ تھی........


آرڈر آرڈر,,جج صاحب نے ہتھوڑا ڈیسک پہ بجاتے سبکو خاموش کروایا لمحے میں کمرہ عدالت میں پھر سے خاموشی چھاگئ ,,


سنایہ کی آنکھیں مصنوعی اشکبار ہوئی جبکہ دل مسکرا رہا تھا,,,,

مسٹر ساحر عدالت بےجاں وائلنس برداشت کرنے کے حق میں نہیں ہے لحاظہ اپنے غصے پہ قابو کیجئے جب آپکو بولنے کیلئے کہا جائے محض تب آپ اپنی بات کہہ سکتے ہیں ,,,,,جج صاحب نے سنجیدگی سے اسے وارننگ دی ,,,,ساحر ایک کاٹدار نظر عنایہ پہ ڈالتا خود پہ ظبط کے پہرے بٹھائے واپس بیٹھ گیا,,,,ان سب کے درمیان حارث نے محض ساحر پر سرسری سی نظر ڈالی تھی جبکہ اسکی نگاہوں کا مرکز عنایہ کے چہرے کے تاثرات تھے جنہیں وہ باآسانی سمجھ سکتا تھا,,,,


جیسا کہ سب نے سنا ایک بے بس عورت کو تنہا دیکھ اپنی طاقت کا ظعم آزماتے میری موکل عنایہ سکندر کو ناصرف ذہنی بلکہ جسمانی طور بھی ٹارچر کیا گیا جسکے نتیجے میں وہ ہڑبڑاتے وہاں سے بھاگ نکلی کیس عدالت کے سامنے صاف ہے ایک چھوٹے معصوم بچے کو اسکی ماں سے جدا کرنا قانوناً جرم ہے میں چاہونگا عدالت وقت ضائع کیئے بغیر عنایہ کو اسکے بچے کی کسٹڈی دی جائے ساتھ ساحر شہروز خان کو سخت سے سخت سزاء سنائی جائے شکریہ,,,

وہ سنجیدگی سے اپنے مخصوص پروفیشنل انداز میں زرہ سا جکھ کر کہتا پلٹ کر دو قدم کا فاصلہ مٹاتے اپنی نشست سمبھال گیا,,,,


عنایہ بھی کٹہرے سے نکلتی اپنے آنسوں صاف کرتے جانے کیلئے پلٹی,,,,


ٹہریئے مس عنایہ کیس کی سنوائی ابھی موقوف نہیں ہوئی ہے میرے خیال.سے عدالت ملظوم کے حق میں بولنے کی اجازت بھی دیتی ہے ,,,,ناگہاں حارث اپنے ہاتھ میں پکڑے قلم کو اپنے کورٹ میں اڑیستا اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے کچھ تنزیہ انداز میں بولا,,,,لہجہ کافی مزائحکہ خیز تھا جسکے نتیجے میں کمرہ عدالت کی فضاء میں ہنسی کے فوارے پھوٹ گئے ,,,,

جج صاحب نے ہتھوڑا مارتے ماحول کو سنجیدہ کیا,,,,

آبجیکشن یوآرنر ہمارے معزز وکیل حارث زمان عدالت کا مزاق بنا رہے ہیں کیا یہ قابل قبول ہے؟؟؟شیری عنایہ کا گھبرایا چہرہ دیکھ اپنی آواز بلند کرتے پراعتماد لہجے میں بولا,,,,


معذرت جج صاحب میرا لہجہ ہی ایسا ہے اگر میرے لفظوں سے میرے سینئر ایڈووکیٹ شہریار خان عرف شیری کو کوئی تکلیف پہنچی تو میں ان سے معذرت چاہونگا,,,,وہ بغیر اسکی جانب دیکھے جج صاحب سے موؤدب انداز میں مخاطب ہوا,,,,

میں مس عنایہ سے کچھ ضروری سوال کرنے کی.اجازت چاہونگا,,,,ماحول میں ابکی بار حارث کی بارعب آواز گونجی,,,,ساحر اور عادل بھی اب پوری طرح اپنے حواس بحال رکھتے اسکی طرف متوجہ ہوئے,,,,,


اجازت ہے ....جج صاحب نے اجازت دیتے ہاتھوں کو باہم ملایا,,,,

مس عنایہ جیسا کہ آپ نے ابھی عدالت کے سامنے کہا کہ آپ میرے موکل مسٹر ساحر شہروز خان کے جان لیوا حملے اور دھمکی کے زیر اثر وہاں سے بھاگ نکلی تو میں جاننا چاہتا ہوں جس رات آپ وہاں سے فرار ہوئی اس رات آپکا بچہ کہاں تھا؟؟


بغور عنایہ کی طرف دیکھتے اسنے سنجیدگی سے سوال کیا ,,,,ایک منٹ کیلئے عنایہ کے چہرے کا رنگ فق ہوا مگر اگلے ہی لمحے وہ اعتماد بحال کرتے گویا ہوئی,,,,


میں پہلے بھی بتا چکی ہوں کہ میرا بچہ بہت چھوٹا تھا تو ظاہر سی بات ہے اتنا چھوٹا بچہ اپنی ماں کے پاس ہی ہوگا,,,وہ چھبتی نگاہوں سے اسے دیکھتے ہر لفظ چبا چبا کر بولی,,,,

تو اس وقت آپکا بچہ کیا کر رہا تھا سورہا تھا یا جاگ رہا تھا؟؟ حارث نے اسکے جواب میں اثبات میں سر ہلاتے اگلا سوال داغا,,,,


آبجیکشن مائے لارڈ وکیل صاحب بے جاں سوالوں سے عدالت کا وقت برباد کر رہے ہیں جبکہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑھتا کے بچہ سورہا ہو یا جاگ رہا ہو یہاں بچے کی کسٹڈی کیس کیلئے عدالت لگائی گئ ہے نا کہ بچے کی روٹین ڈسکس کرنے کیلئے آخر وکیل صاحب ثابت کیا کرنا چاہتے ہیں جبکہ قانوناً 7 سال سے قبل بچے کی کسٹڈی ماں کو دی جاتی ہے جبکہ یہاں تو بچے کا باپ بھی زندہ نہیں ہے تو ہمارے وکیل صاحب کس بنیاد پہ اس کیس کو جاری رکھ رہے ہیں ,,, شیری نے اپنی جگہ سے اٹھتے مخالفت کی,,,,


معذرت جج صاحب لیکن کاروائی محض بچے کے کیس کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ میرے معزز دوست سینئر ایڈوکیٹ شہریار خان نے بھری عدالت میں میرے موکل کو مقتول ٹہرایا ہے کیا عدالت مجھے میرے موکل پہ لگے بے بنیاد الزام.کی صفائی دینے کی.اجازت دے گی؟؟ اگر ہمارے وکیل صاحب کو اب کوئی آبجیکشن نہ ہو تو کیا میں.کاروائی آگے بڑھا سکتا ہوں؟؟


حارث نے پہلے جج صاحب سے بلند آواز میں کہا اور آخر میں لفظوں کا رخ شیری کی جانب کرتے اجازت چاہی,,,,

آبجیکشن سسٹینڈ ,,,,آپ کاروائی کو جاری رکھ سکتے ہیں,,,,

قلم کو تیزی سے صفحے پہ چلاتے جج صاحب نے اجازت دی,,,,حارث ایک جتاتی ہوئی نگاہ شیری کے چہرے پہ ڈالتا اپنی پروقار چال چلتا عنایہ کی طرف آیا,,,,

تو مس عنایہ آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا جب آپ گھر سے نکلی تو آپکا بچہ کیا کر رہا تھا,,,

اسنے سوال دوہرایا,,,,

وہ سورہا تھا,,,,عنایہ نے عام سے لہجے میں جواب دیا,,,,


تو آپکے دل میں یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ آپکو اس وقت اپنے بچے کو بھی وہاں سے اپنے ساتھے لے جانا چاہیئے,,,,حارث نے برجستہ اگلا سوال داغا ,,,,ابکی بار عنایہ کا چہرہ زرد ہوا جبکہ شیری نے بھی ظبط سے آنکھیں اور مٹھیاں بھینچی,,,


اگر میں اسے اپنے ساتھ اس وقت لے جاتی تو ساحر کسی بھی حال میں ہم تک پہنچ جاتا بس اسی لیئے میں نے وہاں سے اکیلے نکلنا بہتر سمجھا,,,وہ پھر سے اپنا اعتماد بحال رکھتے ہوئے بولی,,,


حیرت ہوئی جان کر کہ آپ اپنا چند دن کا بچہ بقول آپکے کسی جابر وحشی انسان کے رحم و کرم پر چھوڑ گئیں ورنہ عماماً مائیں اپنی جان گنوا دیتی ہیں اولاد کی خاطر چلیں پھر بھی مان لیا آپنے جلد بازی میں دل پہ پتھر رکھ کر یہ فیصلہ کیا لیکن کیا آپ بتانا پسند کرینگی کے اچانک چھے مہینے گزر جانے کے بعد آپکو اپنا بچہ لینے کا خیال کیوں آیا اچانک یہ ممتا کیسے جاگ اٹھی,,,,,اسنے چھبتے لہجے میں سوال کیا ماحول میں جیسے ہرسوں سکتا طاری تھا,,,,


مجھے سیٹلمنٹ میں وقت لگا وکیل صاحب,,,,عنایہ نے کاٹدار لہجے میں جواب دیا,,,

جیسا کہ آپنے کچھ دیر قبل عدالت کو بتایا کہ رات کے آدھے پہر حویلی سے بھاگنے میں آپکی مدد سنایہ وکٹوریہ نے کی اور میری معلومات کے مطابق سنایہ وکٹوریہ امریکہ کی ایک بہترین بزنس وومین ہے جنکا کوئ متبادل نہیں تو کیا آپ بتانا پسند کرینگی کہ آپکو سیٹلمنٹ میں وقت کیوں درکار ہوا جبکہ آپ سنایہ وکٹوریہ کیساتھ ہی رہتی ہیں ؟؟؟وہ پھر اپنے سوال سے وہاں موجود فریقین کے حواس اڑا چکا تھا,,,,


عنایہ کو کچھ لمحے کیلئے سکتا طاری ہوا,,,, ان رسمی سوالات کیلئے شیری نے عنایہ کو تیار کر رکھا تھا مگر عنایہ کو خاموش دیکھ وہ دم سادھے اسے دیکھ رہا تھا جبکہ کمرہ عدالت میں موجود صحافی اور فریقین بھی انگشت بدنداں سے عنایہ کے جواب کے منتظر تھے,,,


مس عنایہ عدالت آپکے جواب کی منتظر ہے میری گزارش ہے اپنی بات عدالت کے سامنے رکھیں,,,,اسے خاموش یکھ حارث نے سنجیدگی سے اسے ہوش کی دنیا میں پٹکا,,,


ٹھیک یے میں تفصیل سے سارا قصہ عدالت کو بتا دیتی ہوں مجھے امید ہے پھر سوال کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی,,, وہ لفظوں پہ زور دیتے دھڑکتے دل کیساتھ اٹل لہجے میں بولی,,,


جج صاحب جس رات میں گھر سے نکلی میرا بچہ سورہا تھا اور ایک ضروری بات جو میں آپ سبکو بتانا چاہونگی کہ ساحر شہروز خان اور اسکے خاندان کو فقط میرے وجود سے پرابلم تھی نہ کہ میری اولاد سے اسنے جتاتی ہوئی نگاہ حارث پہ ڈالتے کہا,,,


معذرت مگر یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے مس عنایہ سکندر میں نے پوچھا ہے آپ اپنے بچے کو اپنے ساتھ کیوں نہیں لے گئی,,,,

حارث نے اپنی بھاری آواز میں سنجیدگی سے کہا,,,,


میں بتا رہی ہوں جج صاحب,,,وہ بھی دوبدو کاٹدار لہجے میں بولی,,,,

آبجیکشن مائے لارڈ ہمارے وکیل صاحب میرے موکل کو الجھانے کی کوشش کر رہے ہیں ,,,,شیری نے پھر کھڑے ہوتے مخالفت کی,,,,

آبجیکشن سسٹینڈ ,,,,مسٹر حارث آپ عدالت کا وقت ضائع کیئے بغیر کوئی ثبوت پیش کریں,,,,جج صاحب نے شیری کی مخالفت کو رد کرتے حارث کو تاکید کی,,,

شکریہ یو آرنر,,,,وہ شکریہ ادا کرتے اپنی پوکیٹ سے موبائل نکالتے عنایہ کی طرف بڑھا,,,,

اور مائک کا رخ اپنی طرف کرتے موبائل کو اسپیکر سے کنیکٹ کیا,,,,ساتھ دوسرے ہاتھ سے ویڈیو پلے کی کمرہ عدالت میں جیسے پن ڈروپ سائیلنس چھا گیا تھا تمام نفوس دم سادھے اسپیکر میں چلتی ثمر شہروز خان کے آخری لفظ سن رہے تھے,,,,,


عنایہ کے ظبط کی تنابیں ٹوٹنے کے قریب تھی اسے سمجھ نہ آیا وہ کیا کہیے کیا کرے مگر انکے برعکس شیری پرسکون تھا یا شاید وہ اس حملے کیلئے تیار تھا,,,,

آواز ختم ہوئی تو ماحول میں لوگوں کی چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں ,,,,,

جج صاحب صاحب نے قلم سے پوائنٹ کو لکھتے ہتھوڑے کی مدد سے سب کو خاموش کروایا,,,,

جیسا کہ اس ویڈیو میں ثمر شہروز خان نے جن لفظوں کا چناؤ کیا ہے اس سے صاف اس بات کی وضاحت کی جاسکتی ہے کہ عنایہ سکندر اور ثمر شہروز خان نے گھر والوں سے چھپ کر شادی کی تھی اور یہ وہ ویڈیو ہے جب انکے رشتے کے بابت ساحر شہروز خان اور انکے خاندان کو بروقت ہی معلوم ہوا تھا ,,, حارث نے اپنے مخصوص پروقار انداز میں کہا,,,


آبجیکشن مائے لارڈ میرے معزز دوست بے بنیاد من دھڑت کہانیاں بنا رہے ہیں جبکہ اس ویڈیو سے ایسا کچھ بھی ظاہر نہیں ہوتا یہ بھی تو ہوسکتا ہے ثمر کو ایسا لگتا ہو کہ اسکے گھر والوں کو نہیں معلوم لیکن ساحر شہروز خان کو اس بات کا علم ہو,,,,

شیری نے مخالفت کرتے کہا,,,,جج صاحب نے حارث کی جانب دیکھا,,,,


یوآرنر میں ہمارے ایڈووکیٹ کی عزت کرتا ہوں مگر میں کوئی کہانی نہیں بنا رہا موقعہ واردات پہ عنایہ سکندر موجود تھی لیکن پھر بھی ثمر شہروز خان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے میں اپنے لفظوں سے عدالت کو قائل کرسکتا ہوں لیکن یہ کیس محض بچے کی کسٹڈی تک محدود نہیں ہے یہ کیس میرے موکل پر قتل کا بےبنیاد الزام لگایا جارہا یے جبکہ وہ موقعہ واردات پہ موجود بھی نہیں تھے میرے پاس اپنے موکل کو ثابت کرنے کیلئے فلوقت ثبوت نہیں ہے مگر میری عدالت سے درخواست ہے کہ مجھے ثبوت جمع کرنے کیلئے وقت دیا جائے کسی بے گناہ کو سزا آپ بھی نہیں دینا چاہینگے فیصلہ آپکے ہاتھ میں ہے,,,,


وہ اپنے مخصوص انداز میں کہتا جج صاحب کے کچھ کہنے کا منتظر ہوا وہاں موجود تمام نفوس بھی جج صاحب کے کچھ کہنے کے منتظر تھے جبکہ شیری اب چاہ کر بھی آبجیکشن نہیں لے سکتا تھا بلکہ وہ خود جج صاحب کے فیصلے کا منتظر تھا,,,


جیسا کہ عدالت محض کسٹڈی کیس کیلئے لگائی گئی تھی مگر فلوقت عدالت عنایہ سکندر اور ساحر شہروز خان کے کردار کو لیکر مشکوک ہوچکی ہے جسے دیکھتے عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ بیرسٹر حارث کو اپنے موکل کی صفائی میں ثبوت پیش کرنے کیلئے وقت دیا جائےاور ہم امید کرتے ہیں کہ عدالت کے دیئے گئے وقت کی قدر کرتے ہوئے اگلی تاریخ میں عدالت کے فیصلے میں تاخیر نہ کرتے ہوئے آپ تمام ثبوت گواہوں کو پیش کردینگے,,,,عدالت پندرہ دن کا وقت دے رہی ہے جسکی اگلی سنوائی پر ہم فیصلہ کرنے میں تاخیر نہیں کرینگے شکریہ,,,,


جج صاحب نے بھاری ہوتی آواز میں اپنا فیصلہ سناتے عدالت برخاست کی,,,,ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے,,,,,


عنایہ ایک اچٹتی ہوئی نگاہ ساحر کے سپاٹ چہرے پہ ڈالتی سنایہ کی جانب بڑھ گئی جو کیس کو وقت مل جانے کی خوشی میں مسکرا رہی تھی جیسا انہوں نے سوچا تھا بلکل ویسا ہی ہوا تھا شیری نے جان بوجھ کے عدالت میں محض اتنے ہی پتے پھینکے تھے جس سے عدالت کا دھیان کسٹڈی کیس سے ہٹتے آگے بڑھ جائے اور انکی سوچ کے مطابق ہی عدالت نے فیصلہ کیا تھا,,,,


وہ سب کمرہ عدالت سے باہر آچکے تھے ساحر تیز قدم اٹھاتے راہداریاں عبور کرتے وہاں سے نکلتا چلا گیا اسنے ایک بھی غلط نگاہ کسی پہ ڈالنا ضروری نہیں سمجھا تھا وہ شدید غصے سے بھپرا ہوا تھا جیسے خود میں لاوا ابل رہا ہو عادل اسکے ہمقدم ہوتا ڈرائیونگ سیٹ پہ براجمان ہوا اور اسے ڈرائیونگ کرنے سے روکتا خود ڈرائیونگ سیٹ پہ براجمان ہوا,,,,اور گاڑی اسٹارٹ کرتے زن سے بھگا لے گیا,,,,


کل کے آئے بچے بھی آج ہماری مخالفت کر رہے ہیں ,,,,,حارث اپنے بھاری قدم اٹھاتے ہاتھ میں فائل تھامے راہداریاں عبور کر رہا تھا جب سنایہ کے پاس سے گزرتے شیری کے لفظ اسکے کانوں سے ٹکرائے,,,,

کل کے بچوں کو بھی موقعہ ملنا چاہیئے نہ وکیل صاحب آخر انکا بھی تو حق ہے آپ بھی کبھی بوڑھے ہونگے دنیا کا دستور تو نہیں بدل سکتا نہ,,,,وہ انکی جانب رخ کرتے مسکرا کر بشاشت سے بولا,,,,شیری بھی اسکے جواب پہ جاندار مسراہٹ سے مسکرایا,,,

اس نے آخری نظر شیری اور ایک بھرپور نگاہ سنایہ کے سراپے پہ ڈالی جو اسے ہی بےتاثر نگاہوں سے دیکھ رہی تھی جبکہ عنایہ کسی سے موبائل پہ محو گفتگو تھی,,,,ملتے ہیں اگلی تاریخ پر وکیل صاحب ,,,,وہ لفظوں پہ زور دیتے بولا اور اپنی مخصوص پروقار چال چلتا وہاں سے نکلتا چلا گیا,,,,


°°°°°°°°

کورٹ سے وہ اور حارث سیدھا پشاور کے لئے نکلے تھے کچھ گھنٹوں کے سفر کے بعد ساحر حویلی میں داخل ہوا جبکہ حارث بھی اپنے گھر کے لئے بڑھ گیا ، حارث کو اس کیس کو لے کر بہت سے سوال تھے ، ایسی بہت سی باتیں تھی جو نہ صرف اُس سے بلکہ ساحر اور عادل سے بھی مخفی تھی یہ بات تو وہ سمجھ چکا تھا یہ کیس محض بچے کو حاصل کرنے کے لئے نہیں کھولا گیا کوئی اور ہی وجہ ہے اس کیس کو کھولنے کے لئے اور اس بات سے بھی وہ واقفیت رکھتا تھا کہ وہ وجہ کوئی چھوٹی وجہ نہیں ہوگی اُسے ابھی بہت سے ثبوتوں کی ضرورت تھی اور ان ثبوتوں کی کڑیاں جوڑ کر مخالفین کا اصل ہدف جاننا تھا ، اُنہیں آتے آتے رات کے نو بج چکے تھے ، ساحر نے حویلی میں قدم رکھا تو لاؤنچ میں ہی داجی کو ٹی وی پر ایک ٹالک شو دیکھنے میں مصروف پایا جبکہ گھر کے باقی سب افراد رات کے کھانے کے بعد اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے ، ساحر کو لاؤنچ کی طرف بڑھتے دیکھ داجی نے ٹی وی کی آواز آہستہ کرتے اُسے جانچتی نظروں سے دیکھا ساحر نے اب تک حرم کے علاوہ کسی سے بھی اس کیس کا ذکر نہیں کیا تھا ، ساحر کے مطابق داجی کچھ نہیں جانتے تھے ، پر ایسا کبھی ہو سکتا ہے کہ داجی اپنے گھر والوں سے ناواقف ہوں ...؟ وہ سب جانتے تھے کہ عنایہ نے عصام کو حاصل کرنے کے لئے کیس دائر کروایا ہے پر وہ یہ سوچتے خاموش تھے کہ ساحر نے اُسے نہیں بتایا تو اس بات کے پیچھے بھی کوئی وجہ ہوگی ، اُنہیں ساحر پر پورا بھروسہ تھا کہ ساحر کبھی عصام کو عنایہ کے حوالے نہیں کریگا ، ساحر کے چہرے سے صاف دن بھر کی تھکاوٹ دکھ رہی تھی وہ داجی کو سلام کرتا سیدھا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔۔ اُس نے کمرے میں قدم رکھا تو ہر بار کی طرح آج بھی کمرہ روشن تھا ، حرم صوفے پر بیٹھے بیٹھے ہی سو رہی تھی بالوں کی کچھ آوارہ لٹیں چہرے پر جھول رہی تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ صوفے پر بیٹھ کر ساحر کا انتظار کرتے کرتے ہی سوگئ ہو ، کمرے میں آہٹ محسوس کر اُس نے فوراً ہی گڑبڑاتے آنکھیں وا کی تو ساحر کو بیڈ پر بیٹھے شوز اُتارتے پایا ، وہ اُسے دیکھ اُٹھ بیٹھی ، ساحر کے چہرے پر پریشانی کے تاثرات دیکھ حرم کو کسی انہونی کا خدشہ ہوا تھا ،

کیا ہوا ساحر جی ؟؟ کیا فیصلہ کیا ہے عدالت نے ؟؟ اُس نے اضطرابيت سے دھڑکتے دل کے ساتھ سوال کیا ساتھ ہی نظریں پُر سکون سے سوئے عصام کی طرف اُٹھائی ۔۔۔

ساحر نے سر اٹھاتے ایک لمبی سانس ہوا میں تحلیل کی تھی ابھی اُسنے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ ، دھڑلے سے دروازہ کھول داجی کمرے کے اندر داخل ہوئے ۔۔۔

داجی کے اس طرح اچانک کمرے میں آنے سے دونوں اپنی جگہ ساکت ہوئے تھے ، دونوں نے ہی دروازے کی آواز پر گردن اٹھاتے سامنے دیکھا تھا جہاں وہ غصے سے بھپرے ساحر کو دیکھ رہے تھے ، انہیں اس قدر شدید غصے میں دیکھ حرم کی روح کانپ اُٹھی تھی وہ سفید پڑتے چہرے اور آنکھیں پھیلائے داجی کو دیکھ رہی تھی ، جبکہ اُسکے برعکس ساحر اب تک خود کو سنبھال چکا تھا جس کا اسکو ڈر تھا آخر وہی ہوا تھا داجی سب کچھ جان چُکے تھے یہ صاف داجی کے چہرے پر نظر آرہا تھا ، حرم نے داجی سے نظریں ہٹاتے ساحر کی جانب دیکھا ، ساحر نے بھی خود پر حرم کی نظروں کو محسوس کر اُسکی جانب اپنی پُر سکون نظریں اٹھائی اور پلکیں جھپکتے اُسے کچھ اشارہ دیا اُسکا اشارہ سمجھ وہ اثبات میں سر ہلاتے بنا داجی کی طرف دیکھے وہ کمرے سے نکلتی چلی گئی۔۔۔۔

اُسکے جاتے ہی داجی بھی کمرے کا دروازہ زور سے ہاتھ مار کر بند کرتے ایک بار پھر ساحر کی طرف متوجہ ہوئے ۔۔۔

تُم نے سمجھ کیا رکھا ہے مجھے ساحر ؟؟؟ وہ تیش بھری نظروں سے اُسے دیکھتے سوال گو ہوئے جواب میں ساحر نے خاموشی ہی اختیار کرنا بہتر جانا اُنکے اس ریکشن کے لئے وہ خود کو پہلے ہی تیار کر چکا تھا ۔۔۔

چپ کیوں ہو بولو ؟؟ یہاں مجھ سے کوئی پوچھنا تو دور کی بات مشورہ لینا بھی گوارہ نہیں کرتا ۔۔۔ مجھے باہر کے لوگوں سے پتہ چلتا ہے کیونکہ میرے گھر کے لوگ خود بڑے بن کر بیٹھے ہیں ہمارے پاس تُم نئی نسل جیسا دماغ تو نہیں پر تجربہ ضرور ہے۔۔۔۔ وہ سُرخ آنکھوں سے اُسے دیکھتے اپنی روبدار آواز میں کہہ رہے تھے ، اُنکے لہجے میں افسوس اور نمی کا عنصر نمایاں تھا جسے محسوس کرتے ایک پل کے لئے ساحر کے دل کو کچھ ہوا تھا ۔۔

داجی میں پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا گھر والوں کو ، ابھی تو سب کچھ ٹھیک ہوا تھا سب اپنی زندگیوں میں آگے بڑھے تھے ، خوشیوں نے ابھی تو ہماری دہلیز کی راہ لی تھی میں یہ سب بتا کر درخنے کی خوشی اور مور کا سکون برباد نہیں کرنا چاہتا تھا ۔۔۔۔ ساحر نے ہلکی آواز میں تفصیل سے اپنی بات کی اس قدر گرم ماحول میں بھی اُس نے داجی کے آگے اُونچی آواز نہیں اٹھائی تھی ۔۔۔

میں نے اُنہیں نہیں مجھے بتانے کی بات کی ہے ساحر ...... داجی ایک بار پھر گرجے ، اُنکی گرج پر ساحر نے ایک لمبی سانس ہوا کے سپرد کی اور گویا ہوا ۔۔۔۔

داجی مجھے آپکی طبیعت کو لے کر فکر تھی میں جانتا ہوں آپ عصام کو لے کر کتنے پزیسو ہیں ، میں یہ بتا کر آپکو پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا ، میرا یقین کریں داجی آپ آج بھی میرے لئے وہی بچپن والے داجی ہیں آپکی عزت میں آج بھی ویسے ہی کرتا ہوں ۔۔۔ ساحر بہت ہی نرمی سے اپنے الفاظ ادا کر رہا تھا کہ داجی کو اپنے کانوں میں رس گھلتا محسوس ہو رہا تھا ۔۔۔

ہم یہ کیس جیتینگے داجی مجھ پر یقین رکھیں میں اپنے عصام کو کبھی غلط ہاتھوں میں نہیں جانے دونگا جیسے اُس میں آپکی جان بستی ہے بلکل اُسی طرح میری بھی جان اُسی میں ہے ۔۔۔۔ ساحر نے ایک بار پھر اُنہیں اپنا یقین دلانا چاہا ۔۔۔

داجی خاموشی سے اُسے دیکھ اور سن رہے تھے ، مجھے بھروسہ ہے تم پر ساحر ۔۔۔۔۔۔ ایک لمبی خاموشی کے داجی کی آواز برآمد ہوئی ۔ ساحر محض آسودگی سے مسکرا دیا ۔۔۔

آج عدالت میں جو بھی کچھ ہوا مجھے جاننا ہے ۔۔۔ وہ صوفے پر بیٹھتے ساتھ ہی ساحر کو بھی بیٹھنے کا اشارہ کرتے بولے ،

ساحر اثبات میں سر ہلاتے اُنکے مقابل بیٹھ گیا اور آہستہ آہستہ کر کے آج عدالت میں ہوئی ساری کروائی مناسب لب و لہجہ اپناتے اُنکے گوش گزارنے لگا ۔۔۔ ساری بات اُنہیں بتاتے اب وہ اُنکے چہرے کے تاثرات دیکھتا اُنکے جواب کا منتظر ہوا ،

پر داجی تو جیسے سنایہ کے ذکر پر اٹک کر رہ گئے تھے ، ساحر اُنہیں آلف سے ے تک سب بتا چُکا تھا , ماضی کے بیتے لمحات اُنکے ذہن میں جیسے ناچنے لگے تھے ، اور یہی سب سوچتے اُنکے چہرے کا رنگ زرد ہونے لگا ۔۔۔۔

کچھ بھی ہو جائے چاہے دنیا اِدھر کی اُدھر ہو جائے ہم اپنا پوتا اپنا عصام کسی کو نہیں دینگے ہم اپنے ثمر کو گنوا چکے ہیں بظاہر ہمارے پوتے کا زخم اب پایاب ہے مگر حقیقت میں اُسکا درد ابھی تک ہمارے سینے میں کسی تازے زخم کی طرح ہے اب تک,, ہم عصام کو نہیں گنوا سکتے وہ ہمارا ثمر ہے ہمارے لئے ۔۔۔ وہ بیڈ پر پور سکون سے سوئے عصام کو دیکھتے بولے اور اُٹھتے اُسکی جانب بڑھے جھکتے اُسکے ماتھے پر شفقت بھرا بوسا دیتے پیچھے ہٹے اور بنا ساحر کی طرف دیکھے کمرے سے نکلتے چلے گئے وہ جیسے اپنے تہی ساحر کو حکم سنا کر گئے تھے,,, اُنکی آنکھیں نم تھی جیسے چھپاتے وہ کمرے سے نکلتے اپنے کمرے میں بند ہوگئے ۔۔

اُنکے جاتے ہی ساحر بھی سوچوں سے نکلتا فریش ہونے کے لئے بڑھ گیا ، اُسکے فریش ہو کر نکلنے تک حرم کھانا بھی گرم کر کے لے آئی تھی ۔۔۔


********


کمرے کو لوک کرتے وہ دھندلی ہوتی آنکھوں اور لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ الماری کی طرف بڑھ رہے تھے ، الماری کے لوکر سے ایک باکس نکالتے اُنہوں نے کپکپاتی انگلیوں سے اُس باکس کا لوک کھولا اور اُسکے اندر موجود صفحہ نکالا ۔۔۔ دل تیزی سے کسی سوکھے پتے کی طرح لرز رہا تھا جیسے کوئی بڑا گناہ انکے ہاتھوں ہوا ہو

تُمہیں تُمہاری ہنستی مسکراتی زندگی سے نکال کر میں تُمہیں ہر گز پریشان بھی کرنا چاہتی شہروز ، پر میں بہت مجبور ہُوں میں سنایہ کو لے کر تمھاری زندگی سے نکل تو آئی ہوں پر پریشانیوں نے جیسے میرا محاصرہ ہی کر لیا ہے ، مجھے بہت دنوں سے کچھ دھمکی آمیز خط موصول ہو رہے ہیں مجھے اپنی جان کی کوئی فکر نہیں پر سنایہ بہت چھوٹی ہے ، ہمیں بس پاکستان سے نکلنے میں مدد دے دو ،پھر کبھی میں تُمہاری طرف یہ تمھارے خاندان کی طرف نہیں دیکھونگی ۔۔۔ یہاں ہماری جان خطرے میں ہے مجھے امید ہے تم اپنی بیٹی کی خاطر ہی سہی پر میری مدد ضرور کروگے ۔۔۔ ویکٹوریہ ۔۔۔۔۔۔ وہ آج دوبارہ جیسے جیسے صفحے پر لکھے الفاظ پڑھ رہے تھے اُنکے آنسوں آنکھوں سے بہتے اُنکی داڑھی میں جذب ہو رہے تھے دل خود کو شرمندگی کی اتہا گہرائیوں میں محسوس کر رہا تھا ۔۔۔دماغ میں اُس معصوم چھوٹی سی بچی کا چہرہ گھوم رہا تھا ، وہ آنسوؤں سے رو رہے تھے اُنکی وجہ سے ایک عورت نے اپنی جان گنوائی تھی اور بچی باپ کے ہوتے ہوئے اتنے بڑے خاندان کے ہوتے ہوئے در در بھٹکتی رہی ، اُنہیں سوچ سوچ کر مزید دُکھ ہو رہا تھا کہ انجانے میں ہی سہی پر اپنے سگے خون کے ساتھ وہ نہ انصافی کر گئے تھے ۔۔۔ جیسے جیسے وہ یہ سب سوچ رہے تھے اُنکے آنسوں اتنی شدت سے بہنے لگے ۔۔۔

اہ ہم نے یہ کیا کر دیا ، شاید خدا بھی مجھے معاف نہ کرے ۔۔۔۔ ہم نے اپنے ہی خون سے نہ انصافی کردی وہ بچی ہمارا خون تھی خان تھی یہ کتنا بڑا گناہ ہم سے سر زد ہوگیا ۔۔۔۔۔ وہ روتے خود سے مخاطب تھے ۔۔۔ پر اب رونے یہ پچھتانے کا کیا فائدہ تھا جو اُنہوں نے کرنا تھا وہ کر چُکے تھے وہ چاہتے تو اُنہیں بچا سکتے تھے پر اس خط کو ویکٹوریہ کی چال سمجھتے رہے ، پورے کمرے میں اُنکی ہچکیوں کی آوازیں گھوم رہی تھی۔۔۔۔


°°°°°°°°°

اُسکے ہاتھ مہارت سے حرکت کرتے چائے بنانے میں مصروف تھے چائے کی خوشبو پورے کچن میں چکراتی پھر رہی تھی اُس نے کپ میں چائے انڈیلتے کپ کو ہاتھ میں تھامتے کچن سے باہر کی راہ لی ہی تھی کہ اُسکا موبائل بج اُٹھا ، کپ کو کاؤنٹر پر رکھتے اُس نے پاکٹ سے موبائل نکالتے آنکھوں کے سامنے کیا جہاں کسی انجان نمبر سے کال آرہی تھی اُس نے کال یس کرتے موبائل کان سے لگایا ، جہاں نسوانی آواز میں اُسے مقابل کی طرف سے سلام پیش کیا گیا ، وہ ناواقف تھا اُس آواز سے اس لئے اس نے سلام کا جواب دیتے مقابل سے دریافت کیا ۔

آپ مجھے پہچانے نہیں عادل صاحب ، میں درخنے دری بول رہی ہوں جو اُس دن ڈھابے میں ملی تھی یاد ہُوں نہ میں آپکو ؟؟ بتائیں نہ ؟؟ آپ بول کیوں نہیں رہے۔۔۔ دری روانگی میں بولتی اُسے اپنی بات کہنے کا موقع دیئے بغیر بولی جارہی تھی ۔۔

جہاں لفظ درخنے پر عادل کا دل بے اختیار دھڑکا تھا وہی مقابل کی ٹر ٹر چلتی آواز اُسے ہوش دلا گئی

آپ مجھے کچھ کہنے کا موقع دینگی تو میں بولونگا نہ ، میں پہچان چکا ہوں آپکو مس دری ۔۔۔۔ وہ اسے پھر بولنے کی تیاری محسوس کرتے دیکھ بولا

او شکر آپ پہچان گئے ، میں نے ایک بہت اہم کام کے لئے کال کی ہے آپکو ، سن رہے ہیں نہ ؟؟؟ مقابل کی زبان ایک بار پھر اپنے جوہر دکھانے لگی تھی عادل کو اس پل پر رج کر افسوس ہو رہا تھا جب اُس نے یہ کال اٹھائی تھی ۔۔۔

جی کہیں کیا کام ہے آپکو؟؟؟ وہ ضبط سے کام لیتے شائستگی سے بولا

دراصل نہ میرا بیگ چوری ہوگیا یہ مجھ سے ہی کہیں کھو گیا ہے اُس میں میرا پاسپورٹ اور دوسری ضروری اشیاء ہیں ، اگر آپ وہ ڈھونڈنے میں مدد کردیں تو ؟؟مجھے نیکسٹ ویک آؤٹ اوف کنٹری جانا ہے۔۔ دری نے بغیر وقت ضائع کئے اُسکے آگے اپنے پریشانی ظاہر کی اور ساتھ ہی مدد بھی طلب کی ۔۔

ٹھیک ہے میں دو آفیسر بھیج دونگا آپ ایڈریس دے دیں وہ اس کیس کو دیکھ لینگے ۔۔ عادل نے کپ اُٹھاتے چائے کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھرتے کہا ۔

اوہ تھینک یو سو مچ ..... فون کے اسپیکر سے دری کی مشکور زدا آواز نکلی ۔

یہ میرا فرض تھا ۔۔۔ عادل نے بھی مسکراتے جواب دیا ۔۔

اوہ سو سویٹ آف یو..... اچھا یہ بتائیں میری باتوں کا کچھ اثر ہوا آپ پر یہ نہیں ؟؟ کیا آپ نے بتائی اپنی فیلنگز ؟؟ مقابل یک دم ہی سنجیدہ ہوتی سوال کرنے لگی ۔۔ اُسکے سوال پر عادل کے چہرے پر بھی سنجیدگی پھیل گئی تھی وہ ایک لمبی سانس لیتے چائے کے برتن دھونے لگا ۔

نہیں...... عادل نے یک لفظی جواب دیا

کیوں ؟؟؟؟؟ میں نے آپکو سمجھایا تھا نہ مسٹر عادل کے اگر ابھی آپ خاموش رہے تو بعد میں پچھتاوے کے علاوہ آپکے پاس کچھ نہیں ہوگا ، آپ ایک بار ہمت تو کریں اپنی طرف کی کوشش تو کریں باقی سب اللہ پر چھوڑ دیں ۔۔۔ وہ دھیمے لہجے میں اُسے اپنی بات سمجھانے لگی۔۔۔ عادل ایک لمبی سانس لیتے پانی کا نل بند کرتے اُسے تھامے ہی آنکھیں موند گیا ۔۔۔

میں اسے مقدر کا لکھا مان کر قبول کر چکا ہوں ، شاید اس یک طرفہ محبت کو لاحاصل ہی رہنا ہے ۔۔۔۔ ایک طویل خاموشی کے بعد عادل کی سنجیدہ آواز برآمد ہوئی ، وہ خود پر ضبط کرتا خود کو کاموں میں اُلجھانے لگا ،

آپ بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں عادل صاحب... آپ کوشش کئے بغیر کسی بھی ناکامی کو مقدر کا لکھا نہیں کہہ سکتے ، مقدر کا لکھا اپنی جگہ پر کوشش تو آخری دم تک کرنی چاہئے انسان کے ہاتھ میں کوششں رکھی ہے کامیابی وہ دیتا ہے ۔۔ آپ ہاتھ پیر مارے بغیر یو محبت سے منہ موڑ کر نہیں بیٹھ سکتے آپ کو خود کو مضبوط کرتے اپنی محبت کو پانے کے لئے ایک مضبوط چٹان بننا ہوگا , سب سے پہلے یہ بات آپکو خود پر باور کروانی ہوگی کہ آپ اپنی مُحبت کو پانے کے لئے ہر حد تک جائینگے ،یہ تو آپ اپنی محبت کے ساتھ دھوکہ کر رہے ہیں ، جب آپ نے محبت کی ہے تو خود میں ہمت بھی جمع رکھیں اپنی محبت کے لئے ہر طوفان سے ٹکرانے کے لئے ۔۔ وہ ایک ایک لفظ کسی ماہرین کی طرح بول رہی تھی اُسکا ایک ایک لفظ عادل پورے دل سے سن اور سمجھ رہا تھا ۔۔

ہاں وہ ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھی اُس نے کبھی درخنے کے لئے یہ اپنی محبت کے لئے اسٹینٹ لیا ہی نہیں ، وہ تو یہ جنگ لڑے بغیر ہی ہار تسلیم کر رہا تھا میدان چھوڑ کر بھاگ رہا تھا ۔۔ دری کی باتوں نے اُسکے دماغ میں گہرا اثر کیا تھا

ہیلو آپ سن رہے ہیں نہ ؟ دوسری طرف خاموشی پاتے دردی نے فکرمندی سے پوچھا

جی...... آپ مجھے ایڈریس سینڈ کردیں ۔۔۔ عادل نے ہوش میں قدم رکھتے اُسے کہا ،

ٹھیک ہے آپ بھی میری باتوں میں غور ضرور کیجئے نگا ۔۔۔ دری کے کہنے پر عادل کے دماغ میں ایک بار پھر اُسکی باتیں گونجی تھی ۔۔۔ وہ آخری کلمات پڑھتا کال کٹ کر گیا ، ابھی کال کٹی ہی تھی کہ اُسے ڈور بیل بجنے کی آواز آئی چہرے پر ہاتھ پھیرتے خود کو پر سکون کرتا وہ دروازے کی سمت بڑھ گیا ۔۔۔


°°°°°°°

اسنے دروازہ کھولا تو سامنے ہی ساحر اور حارث کو کھڑا پایا عادل نے سلام کرتے کچھ سائیڈ ہوتے انہیں اندر آنے کا راستہ دیا,,,اور خود بھی دروازہ لاک کرتے انکے تعاقب میں ہولیا,,,,

تم لوگ بیٹھو میں کافی نکال کر لاتا ہوں,,,,وہ ان دونوں سے شائستگی سے کہتا کچن کی جانب بڑھ گیا جہاں اسنے پہلے سے ہی کافی بنا کر رکھی ہوئی تھی کیونکہ اسے پہلے سے ہی ان دونوں کے آنے کی.خبر موصول ہوچکی تھی,,,,وہ تینوں کیس کے دوسرے دن مل رہے تھے حارث نے کچھ ضروری پوائنٹس جاننے تھے جو کہ اس کیس سے تعلق رکھتے ہیں,,,,

عادل ٹرے میں کافی کے مگ نفاست سے سجائے انکی جانب آیا اور ٹرے کو ٹیبل پہ رکھتے خود بھی سنگل صوفے پر براجمان ہوا,,,,

اسکی اشد ضرورت تھی یار بہت شکریہ حارث نے بشاشت سے کہتے کافی کا مگ اٹھایا عادل بھی اسکی بات پہ مسکراتے اپنا مگ تھام گیا,,,

اب بتاؤ کیا پوچھنا تھا تمہیں؟؟ساحر نے کافی کا مگ اٹھاتے حارث سے سوال کیا,,,

کچھ ضروری باتیں ہیں جو ہماری اس کیس میں مدد کرسکتی ہیں ,,,,حارث نے کافی کا گھونٹ بھرتے جواب دیا,,,

ٹھیک ہے پوچھو,,,ساحر نے بھی اجازت دیتے گھونٹ بھرا,,,

ساحر بھائی پہلے تو مجھے یہ بتائیں کہ ثمر اور عنایہ کا نکاح کن گواہوں کی.موجودگی میں ہوا تھا کیا آپکو معلوم ہے اگر یہ معلوم ہوجائے تو ہمیں عنایہ کے کردار کے بابت کافی معلومات مل سکتی ہے کیونکہ جہاں تک مجھے اندازہ ہے عماماً یونیورسٹی اسٹوڈینس کے بچے یہ قدم دوستوں کی شے پہ اٹھاتے ہیں تو شاید ثمر کا کوئی ایسا قریبی دوست جو عنایہ کے ارادے جانتا ہو؟؟حارث نے دماغ میں چلتا سوال روانی سے اسکے گوش گزارا,,,,

ہاں میں ملا ہوں ثمر کے دوست فرہاد اور ذولقرنین سے اور انکا کہنا بھی یہی تھا کہ عنایہ اچھی لڑکی نہیں تھی ان لوگوں نے ثمر کو سمجھانے کی کوشش کی تھی مگر ثمر عنایہ کی محبت میں بری طرح جکڑ چکا تھا,,,,

ساحر نے کچھ یاد آنے پر تفصیل سے آگاہ کیا,,,,

گریٹ اگر فرہاد اور ذولقرنین کا یہ کہنا ہے تو باقی کے دوستوں کا بیان بھی ہمیں لینا چاہیئے خاص کر عنایہ کی سہیلیوں سے اسکے کردار کے بابت ہمیں معلومات حاصل کرنی ہوگی تاکہ ہم اسکی زہنیت تک رسائی حاصل کرسکیں,,,,حارث نے اس پوائینٹ کو اپنی فائل میں لکھتے مصروف سے انداز میں کہا,,,

ٹھیک ہے ہم کل صبح ہی ہوسٹل چلتے ہیں,,,,

مگر مجھے ایک بات نہیں سمجھ آرہی ,,,,,,عادل نے اسکی بات پہ اتفاق کرتے ساتھ اپنی الجھن کا بھی اظہار کیا,,,,,

ہم سب جانتے ہیں عنایہ کو اپنے بچے میں کوئی دلچسپی نہیں اور عدالت میں اسکے وکیل نے ساحر پہ قتل کا الزام لگایا ہے اگر انکا مقصد صرف ساحر کو سزا دلوانا تھا تو عنایہ اپنے شوہر کے قتل کیس کا نوٹس بھی بھیج سکتی تھی اسنے بچے کی کسٹڈی کا سہارا کیوں لیا؟؟؟؟عادل نے زہن میں تیزی سے گردش کرتا سوال پوچھا اور سوالیہ نظریں حارث کے پرسکون چہرے پہ ٹکائی ,,,

یہ نوٹس فقط ہمیں الجھانے کیلئے بھیجا گیا تھا تاکہ ہم پوری طرح صرف عصام کی کسٹڈی کیس میں الجھ کر رہ جائیں اور جب عدالت میں ساحر بھائی پر قتل کا الزام لگایا جائے تو ہمارے پاس سوائے وقت مانگنے کے اور کوئی جگہ نہ رہے ,,,,لیکن جو مجھے سمجھ آرہا ہے وہ یہ ہے کہ انکا مقصد ساحر بھائی کو سلاخوں کے پیچھنے بھیجنا نہیں ہے انکا اصل مقصد کچھ اور ہے کیونکہ اگر وہ ساحر بھائی کو سزا دلوانا چاہتے تو یہ کام وہ باآسانی کرسکتے تھے شیری عدالت میں محض انہی لفظوں کا چناؤ کر رہا تھا جس سے میں سنوائی کو آگے بڑھوانے پر مجبور ہوجاؤں ,,,,,میں اس وقت عنایہ کو سوالوں میں الجھا کر بھی سچ ثابت کر سکتا تھا مگر میں نے جان بوجھ کر عدالت سے وقت کی اپیل کی تاکہ ہم انکے اصل مقصد تک رسائی حاصل کریں,,,,اسنے سنجیدگی سے کہا

حارث کے لفظوں پر وہ صدموں کے سمندر میں گوتا زن ہوتے باہر نکلے تھے ,,,,اور یہ بات تم اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہو,,,,جیسے ہی ساحر کا سکتا ٹوٹا اسنے سوال داغا,,,کیونکہ میں نے جتنے بھی سوال عنایہ سکندر سے عدالت میں کیئے انکے جوابات کیلئے وہ پہلے سے تیار تھی مختصر عنایہ عدالت میں پوری تیاری کیساتھ آئی تھی اسکے لفظ اسکے نہیں بلکہ ایڈووکیٹ شہریار کے تھے جب شیری صاحب انکی داستان سن رہے تھے تب میرا دھیان عنایہ کے تاثرات پہ تھا جو میری توقع کے مطابق ہی آرہے تھے,,,,وہ پر اعتماد لہجے میں بولا,,,,

دونوں ہونقوں کی طرح اسے دیکھنے لگے,,,,

خیر آئیندہ آنے والی تاریخ پہ مجھے انکے ہر حملے کیلئے تیار رہنا ہے کیونکہ ابکی بار وہ اپنے اصل مقصد کیساتھ سامنے آئینگے اور ہمیں ہر حال میں انہیں شے مات دینی ہوگی ,,,,,ابھی وہ اور بھی کچھ کہتا جب اسکا موبائل زورو شورو سے بج اٹھا اسنے پوکیٹ سے موبائل نکال کر دیکھا جہاں زارا کا نام جگمگا رہا تھا وہ اس سے جلد واپس آکر اسے پشاور کی سیر کروانے کا وعدہ کر کے آیا تھا اور یقیناً اسکی لاڈلی شرارتی بہن شدت سے اسکی منتظر تھی ,,,,,

باقی باتیں ہم بعد میں کرینگے ساحر بھائی فلحال میرا گھر پہنچنا بہت ضروری ہے ورنہ میری خونخوار بہن میرا مقبرہ گھر کے آنگن میں ہی بنا دیگی ,,,,,اسنے کال کو یس کرتے عجلت بھرے انداز میں کہا اور سر کے اشارے سے الوداعی کلمات پڑھتا وہاں سے نکلتا چلا گیا,,,,پیچھے ساحر نے مسکرا کر اس ریس گاڑی کو دیکھا جبکہ عادل نے تاسف سے گردن ہلاتے نظریں گھمائی,,,,


ہاں ہاں میری ماں بس نکل گیا ہوں جلد پہنچ جاؤنگا اب فون تو رکھو,,,,موبائل کو کان سے لگاتے اسنے بغیر زارا کو کچھ کہنے کا موقعی دیئے ، اپنی کہتا گاڑی کی طرف آیا اور دوسری جانب سے ٹوں ٹوں کی آواز سنتے اسنے موبائل کو ایک نظر دیکھا جہاں رابطہ منقطع ہوچکا تھا,,, تاسف سے گردن ہلاتے وہ ڈرائیونگ سیٹ پہ براجمان ہوا اور موبائل کو ڈیش بورڈ پہ پھینکتا گاڑی اسٹارٹ کرتے اپنی منزل کی جانب گامزن ہوگیا,,,


ساحر مجھے کچھ کہنا ہے تُجھ سے...... حارث کے جانے کے کچھ ہی دیر بعد عادل نے کچھ جھجھکتے ساحر کو اپنی طرف متوجہ کیا ،

ہممم بول.... ساحر نے ہنکارا بھرتے اُسے بولنے کی اجازت دی ،

عادل کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا ، لب ہلنے سے انکاری ہوئے جبکہ الفاظ منہ سے اسے سمجھ نہ آیا وہ کس طرح اپنی بات ساحر کو کہے ، ذہن میں کہیں دری کی باتیں بھی بازگشت کرتی اُسے جھنجھوڑ رہی تھی ۔۔۔ اُس نے ہمت کرتے اپنی بات جاری کی ۔۔۔

بول بھی اب کیا چاند چڑھنے کا انتظار کر رہا ہے تو؟؟؟ اُسے خاموش دیکھ ساحر نے کچھ چڑ کر کہا ...

عادل نے ایک لمبی سانس ہوا میں تحلیل کرتے خود کو کمپوز کیا اور چہرے پر بلا کی سنجیدگی طاری کرتے گویا ہوا ۔۔ میں چاہتا ہوں کہ تو درخنے اور حارث کی منگنی ختم کر دے۔۔۔۔ وہ بغیر لگی لپٹی کے صاف گوئی سے کام لیتے بولا ۔۔


ایک پل کے لئے ساحر کے چہرے پر نہ سمجھی پھیلی تھی پر دوسرے ہی پل اسنے سپاٹ تاثرات چہرے پہ سجائے اسکی جانب دیکھا

اور میں ایسا کیوں کروں؟؟؟ وہ خود پر ضبط کرتا مٹھیاں بھینچے گویا ہوا


کیونکہ میں درخنے کو پسند کرتا ہوں ، اور شادی کرنا چاہتا ہوں اس لئے.... یہ الفاظ اُس نے اس قدر پر سکون لہجے میں کہے تھے کہ ساحر ہکا بکا سا اُسے دیکھتا رہ گیا ، ساحر کی آنکھوں میں غیر یقینی ہی غیر یقینی تھی ، اُسکا دماغ یقین نہیں کر پا رہا تھا کہ اُسکے سامنے بیٹھا اُسکا جگری دوست اُسی کے سامنے اُسکی بہن کے لئے یہ الفاظ استعمال کر رہا تھا ، وہ ساکت آنکھوں سے اُسے دیکھ رہا تھا ۔


یہ کیا بول رہا ہے تو....؟ ایک لمبی سرد مہری کے بعد ساحر نے کھڑے ہوتے کہا ،ناگہاں ضبط کا دامن جیسے چھوٹنے لگا لہجے میں غیر یقینی کا عنصر واضح طور پر نمایاں تھا ۔


یہی جو تو نے سنا.... میں درخنے کو پسند کرتا ہوں نہیں دیکھ سکتا اُسے کسی اور کا ہوتا ہوا تو چاہے تو مجھے یہی زمین میں گاڑ دے مگر اس سے میری محبت درخنے کیلئے کبھی ختم نہیں ہوگی۔۔۔ عادل کی بات ابھی پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ ساحر کا بھاری ہاتھ اٹھا اور عادل کے چہرے پر پڑا ۔۔۔۔


اسنے بے ساختہ ہی اپنے منہ پر ہاتھ رکھا اور ساحر کی جانب دیکھا جو سُرخ آنکھوں سے اُسے ہی گھور رہا تھا ، اُسکی انکھوں میں جیسے خون اُترنے لگا تھا سانسیں غصے سے پھولنے لگی ۔


تیری ہمت کیسے ہوئی میری بہن کے بارے میں سوچنے یہ اپنے منہ سے اُسکا نام لینے کی ، وہ غصے سے بھپرا پے در پے اُسکے منہ پر تھپڑ اور گھونسے رسید کرتا گرایا ،


عادل لڑکھڑایا پر بروقت اپنے قدم مضبوط کرتا وہ سینہ چوڑا کئے اور سر اٹھائے کھڑا ہوا جبکہ ہونٹ کے کنارے پھٹتے خونم خون ہوئے تھے اور چہرا بھی ساحر کی ظلمت سہتا خون چھلکا رہا تھا ، پر وہ اب بھی سر اُٹھائے اور سینہ چوڑا کئے ایسے کھڑا ہوا تھا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔۔۔۔۔۔


تو دوست کی صورت میں سانپ نکلا جیسے میں نے ہمیشہ بازوؤں میں رکھا ۔۔۔ ساحر ایک لمبی سانس لیتے منہ پر ہاتھ پھیرتے نفرت سے اسے دیکھتا پھنکارا ۔۔۔


سوچ سمجھ کر الفاظ استعمال کر ساحر ، پسندیدگی ظاہر کرنا کوئی گناہ نہیں ہے ، اور میں نے سچی محبت کی ہے درخنے سے کسی صورت پیچھے نہیں ہٹونگا میں ۔۔۔۔۔۔ اپنی محبت کو پانے کے لئے جس چٹان کا بھی سامنا کرنا پڑا کرونگا میں ۔۔۔ وہ پہلے ساحر کو تنبی کرتا پھر مضبوط لہجے میں دو ٹوک انداز میں بولا ۔۔


اُسکے الفاظ ساحر کی سماعتوں سے ٹکراتے اُسے ایک نئے سرے سے تیش دلا گئے تھے ، وہ مزید کنٹرول کھوتا اُسکی جانب بڑھا اور اسے گریبان سے پکڑتے اپنے مقابل کھڑا کر گیا ، دونوں کی آنکھیں ایک دوسرے کی آنکھوں میں گڑھی ہوئی تھی ایک کی آنکھوں میں اپنی سچی محبت کو پانے کی چمک تھی جبکہ دوسرے کی آنکھیں سرخ دہشت زدا تھی ۔۔


تُجھے ذرا شرم نہ آئی دوست کو دھوکہ دیتے...؟ کب سے چل رہا ہے یہ سب مجھے سچ سچ بتا ؟؟ وہ اُسکا گریبان پکڑا کھڑا شدید تیش بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولا


نہیں جانتا کب اُس نے میرے دل میں گھر کر لیا ، پر میرا یقین کر ساحر میرے ارادے غلط نہیں ہیں میں سچ میں بہت محبت کرتا ہوں اُس سے نکاح کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔ وہ ایک بار پھر لہجے میں مضبوطی لاتے گویا ہوا ،


اُسکی بات ایک بار پھر ساحر کو اپنے آپے سے باہر کر گئی تھی وہ بنا سوچے سمجھے ایک زوردار گھونسا اُسکے پیٹ میں مار گیا جس کے نتیجے عادل کے منہ سے خون قہہ کی صورت برآمد ہوا ۔۔


تیری یہ مجال تو نے سوچا بھی کیسے میری بہن کے بارے میں یہ سب ؟؟؟ نہیں چھوڑونگا تُجھے میں جان سے مار دونگا ، ساحر جھٹکے سے اُسے چھوڑ کر دور دھکیلتا اپنی گن نکالتا اُسکا رُخ عادل کی جانب کر گیا ۔۔۔


اگر تو مارنا چاہتا ہے نہ مجھے تو مار دے کیونکہ جب تک میری سانسیں چل رہی ہیں میں پیچھے نہیں ہٹونگا اپنی بات سے ۔۔ وہ ایک بار پھر اپنے آپ کو کھڑا کرتا اُسکی آنکھوں میں اپنی آنکھیں گاڑھے بولا ۔۔


ساحر کا دل شدت سے کیا کہ گن کی چھے کی چھے گولیاں اُسکے وجود میں اُتار دے ۔۔۔

اُس نے ٹریگر پر اُنگلی رکھتے ابھی ٹریگر دبایا ہی تھا کہ پستول کی گولی عادل کی جانب بڑھی ۔۔۔ اُسے ٹریگر دباتے دیکھ بھی عادل کی آنکھوں میں ذرا برابر بھی خوف نہیں آیا تھا ۔۔۔ ابھی ساحر کی پسٹول سے نکلی گولی عادل کا سینہ چاک کرتے نکلتی کہ بروقت کسی نے عادل کو اپنی جانب کھینچا جس سے گولی اُسکے پیچھے دیوار پر جا لگی ، عادل نے فوراً مقابل کی طرف نظریں اٹھائی تھی ، جو غیر یقینی سے ساحر کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔


یہ ہو کیا رہا ہے ؟؟؟ پاگل ہوگئے ہو تم دونوں ؟؟ ملاہم جو عادل کے بتانے پر کہ آج ساحر اُسکی طرف آرہا تھا وہ بھی اپنے تمام کام چھوڑ اُس سے ملنے عادل کے فلیٹ آگیا ، فلیٹ کا دروازہ کھولا دیکھ وہ بنا نوک کئے اندر ہی آگیا تھا پر اندر کا منظر دیکھ اُسکے پیروں تلے جیسے زمین ہی کھسک گئی تھی ، عادل کے جملے اُسکے کانوں سے ٹکراتے اُسے حیران کر گئے تھے پر ساحر کو ٹریگر دباتے دیکھ وہ بنا منٹ ضائع کئے عادل کو اپنی طرف کھینچ کر گولی سے بچا گیا ۔۔۔۔


ملاہم تو بیچ سے ھٹ جا یہ میرا اور اسکا معاملہ ہے میری بہن کے بابت غلاظت بک رہا ہے میں اسکے ٹکڑے کردونگا.... ساحر اپنے نشانے کو خالی دیکھ غصے سے بولا


اسکا پٹھانی خون آج ایک بار پھر شدت سے جوش مار رہا تھا جس پہ وہ چاہ کر بھی ضبط نہیں کرسکتا تھا,,,,ساحر ہوش کر تو یہ کیا کرنے لگا تھا تجھے پتہ بھی ہے ؟؟ اگر میں وقت پر نہ آتا تو آج تو عادل کو جان سے ہی مار دیتا .... وہ عادل کے آگے کھڑا ہوتا تاسف سے گردن نفی میں ہلاتے بولا لہجہ کچھ بلند تھا,,,,,


یہ ہے ہی اسی لائک جو بکواس یہ میرے سامنے کر چکا ہے اُسکے بعد اِسکا زندہ رہنا بنتا بھی نہیں ۔۔۔ وہ ایک بار پھر نفرت سے پھنکارا ،


عادل بے تاثر چہرے سے یہ سب دیکھ رہا تھا ، وہ ساحر کے اس ردِ عمل کے لئے پہلے سے ہی خود کو تیار کئے ہوئے تھا ۔


ساحر ہوش کر ..... اپنے غصے پر قابو رکھ ۔۔۔ ملاہم اُس سے نرمی سے مخاطب ہوا

ملاہم کی بات پر ساحر نے گن نیچے کرتے ایک لمبی سانس لی تھی ۔۔۔۔ پر غصہ تھا جو کسی صورت ختم نہیں ہو رہا تھا اُسکے دل میں جیسے لاوا ابل رہا تھا ،


اُسکی حالت کے پیشِ نظر ملاہم عادل پر ایک نظر ڈالتا اُسکی جانب بڑھا ،

ساحر میں جانتا ہوں تو کس تکلیف سے گزر رہا ہے میں سمجھاؤ نگا اسے....


میں ابھی بھی اپنی بات پر قائم ہوں اور بعد میں بھی رہونگا ،

وہ کوئی دو چار دن کی محبت نہیں ہے میری جو تیرے سمجھانے سے مٹ جائیگی عشق ہے جو ہر دیوار توڑتا مجھے اس تک پہنچائے گا ۔۔۔ ملاہم کی ابھی بات بھی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ عادل اپنے ہونٹ کے کنارے سے خون انگلیوں پر چنتا جنونی انداز میں بولا ۔۔


نہیں بچے گا آج یہ میرے ہاتھوں ۔۔۔ ساحر ایک بار پھر بھپرا شیر بنا اُس پر جھپٹنے کے در پے ہوا ،

مجھے مارنے یہ خاموش کروانے سے پہلے کیا تو نے یہ سوچا کہ تیری بہن اس منگنی سے خوش بھی ہے یہ نہیں ؟؟؟ نہیں , نہیں سوچا ہوگا تو نے ، نہ ہی بہن سے پوچھنا گوارا کیا ہوگا تو نے ، ظاہر ہے غیرت جو آڑے آئی گی پوچھنے سے يا یہ سب سوچنے سے ، وہ تیری اور گھر والوں کی خوشی کے آگے خود کو قربان کر رہی ہے ایک ان چاہے رشتے میں بندھ کر۔۔۔ کیا تو نے کبھی حارث کے چہرے پر اس رشتے کو لے کر خوشی دیکھی ؟؟؟ ہوگی تو دیکھے گا نہ ، نہ وہ درخنے کو پسند کرتا ہے اور نہ ہی درخنے اُسے پھر کیوں کر رہا ہے یہ ظلم تو ؟؟؟؟ کیوں جابر بن رہا ہے ؟؟؟ وہ جیسے بول رہا تھا ساحر کے اندر ایک آگ سی بھڑک رہی تھی ، ملاہم نے مضبوطی سے اُسے اپنی گرفت میں لئے قابو کئے ہوا تھا ورنہ اُسکا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ عادل کو سفا ہستی سے ہی مٹا دے ۔۔۔


تیرے جیسے بیغیرت دوست سے غیرت مند دشمن بہتر ہے عادل ۔۔۔۔ تو نے آج میرے بھروسے میرے مان کو چکنا چور کر دیا ہے ۔۔۔۔۔ تُجھے اس سب کا حساب دینا ہوگا ، وہ ایک ایک لفظ اس قدر سخت لہجے میں بول رہا تھا کہ عادل کی جگہ اگر کوئی اور ہوتا تو اُسکا لہجہ دیکھ ہی راہ فرارا ڈھونڈتا پر عادل خود پر ضبط کئے خاموش کھڑا اُسے سن رہا تھا ۔۔۔


ساحر چل میرے ساتھ ، ہم بعد میں بات کرینگے اس بارے میں ...... ملاہم نے اُنہیں پھر اُلجھتا دیکھ سہولت سے کہا

بعد کے لئے کچھ نہیں بچا ملاہم سب ختم،،،،، اسکو سمجھا دے کہ یہی رک جائے کبھی غلطی سے بھی میرے سامنے نہ آئے ورنہ میں ضبط نہیں کرونگا خود پر ..... ساحر ایک ایک الفاظ ٹھنڈے ٹھار لہجے میں کہتا ایک کینہ توز نظر عادل کے چہرے پر ڈالتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا فلیٹ سے نکلتا چلا گیا ، وہ اس قدر غصے میں تھا کہ اُسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس دنیا کو آگ لگا کر اپنے اندر کی آگ ختم کر دے ، وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا گاڑی میں سوار ہوتا وہاں سے نکلتا چلا گیا ۔۔۔


********

وہ کسی ضروری کام کیلئے اپنی گاڑی میں سوار یہاں سے گزر رہی تھی جب دور سے ساحر کی جھلک دیکھ وہ ٹھٹکی مگر فاصلے کے باعث ساحر کا چہرہ ابھی اسکی نظروں میں واضح نہیں تھا ,,,یہ ساحر ہی ہے نہ اسنے خود سے مخاطب ہوتے تصدیق چاہی اور اپنے شک پہ یقین کی مہر لگانے کی غرض سے اسنے گاڑی عین اس فلیٹ سے کچھ فاصلے پہ پارک کی اور کھڑکی سے ساحر کو غصے سے بھپرا ہوا اپنی گاڑی کی طرف بڑھتا دیکھ وہ کچھ متجسس ہوئی,,,,


نظر بےساختہ ہی عادل کے فلیٹ کی جانب اٹھی تو دل بے قرار ہوا اُسے ایک نظر دیکھنے کے لئے پر خود پر کنٹرول کرتے وہ گاڑی میں ہی بیٹھی ساحر کو دیکھنے لگی جسکا چہرا بے تحاشا سُرخ تھا ساتھ ہی اُسکی بھینچی مٹھیاں اور تنے نقوش سنایہ کو متحیر کر گئے تھے ۔۔۔


وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتے اپنی گاڑی میں سوار ہوتا جا چکا تھا ساحر کے پیچھے ہی ملاہم بھی نیچے آیا تھا پر ساحر اُسکے پہنچنے سے پہلے ہی جا چُکا تھا ، وہ بھی ایک لمبی سانس لیتے دوبارہ اندر کی طرف بڑھ گیا ، یہ سارا ماجرا سنایہ سمجھنے سے قاصر تھی پر بار بار اُسکے چہرے کے آگے ساحر کا سُرخ چہرا گھوم رہا تھا اور اُسے تجسس میں مبتلا کر رہا تھا ،


اور آخر تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوتے وہ گاڑی سے نکلتی ملاہم کے پیچھے نکلی ، عادل کے فلیٹ کا اُسے پہلے سے ہی پتہ تھا اس لئے اُسے ڈھونڈنے میں زیادہ مشکل نہیں پیش آئی ، آنکھوں پر سن گلاسز چڑھائے ہیل میں مقید پاؤں اٹھاتے وہ عادل کے فلیٹ کے باہر آکر رکی ، فلیٹ کا دروازہ کھلا دیکھ ابھی وہ اسی کشمکش میں تھی کہ اندر جائے یہ نہ جائے کہ ناگہاں اندر سے آتی آوازیں اُسکی سماعتوں سے ٹکرائی ۔۔۔


یہ سب کیا ہے عادل ؟؟ دوبارہ فلیٹ میں آتے ہی وہ عادل سے سوال گو ہوا ۔


یہی سچ ہے ملاہم میں درخنے سے محبت کرتا تھا اور اب بھی کرتا ہوں وہ چاہے جتنے پہرے بٹھا لے میں حاصل کر کے ہی رہونگا ، عادل نے صوفے پر بیٹھتے بغور ملاہم کو دیکھتے پر عزم لہجے میں کہا


اُسکے لہجے کی پختگی دیکھ ملاہم بھی کچھ اور کہنے یہ پوچھنے کا ارادہ ترک کرتے فرسٹ ایڈ باکس لینے اُسکے کمرے میں چلا گیا ، پر جاتے ہوئے ایک افسوس بھری نظر اُس پر ڈالنا نہیں بھولا تھا ۔۔

عادل کے الفاظوں سے سنایہ کے کان سائیں سائیں کرنے لگے تھے سانسیں جیسے تھم چُکی تھی نہ ہی سانسوں کی کوئی آواز تھی اور نہ ہی دل کے دھڑکنے کی ۔۔۔ اُسکے مضبوط قدم لڑکھڑائے ، اُس نے دروازے پر اپنا مومی ہاتھ رکھتے بروقت خود کو گرنے سے بچایا ، آنسوں بے اختیار ہی گلاسز کے نیچے چھپی آنکھوں سے جاری ہوئے اُسکا پورا وجود جیسے ٹھنڈا پڑنے لگا تھا ، کیا عادل درخنے کو پسند کرتا تھا ؟ تبھی اُسے اگنور کرتا رہا ؟؟ بہت سے سوال اُسکے ذہن میں گھوم رہے تھے ، وہ ہاتھوں کی پُشت سے بے دردی سے آنسوں رگڑتے خود میں مزید ساکت نہ پاتے وہاں سے نکلتی چلی گئ ،


******


میری بات ٹھنڈے دماغ سے سن اور سمجھ ملاہم اسکی پٹی کرتے سنجیدہ لہجے میں مخاطب ہوا ,,,,عادل بغیر اسکی طرف دیکھے ہی متوجہ ہوا تاثرات تو حد سے زیادہ پتھریلے ہورہے تھے,,,,


عادل میں تیرے جزباتوں کی قدر کرتا ہوں میں واقف ہوں اگر تو محبت کا دعویدار ہے تو یقیناً اسے اپنی عزت بنانا چاہے گا مگر محبت بچوں کا کھیل نہیں ہے اور نہ ہی درخنے کوئی کھلونا جسے تو ساحر سے یا دنیا سے لڑجھگڑ کر حاصل کرلیگا یہ معاملہ انتہائی سنگین ہے اس میں جوش سے نہیں ہوش سے کام لینا ہوگا,,,,ملاہم نے اسے سمجھانے کی کوشش کی,,,,


ملاہم تو نہیں سمجھ رہا میں نہیں رہ سکتا اس لڑکی کے بغیر وہ میری رگوں میں بہنے لگی ہے جسے میں نے کبھی اسے غلط نگاہ سے نہیں دیکھا میں اس سے پاک محبت کرتا ہوں اس سے نکاح چاہتا ہوں ساحر نے خود بھی تو حرم بھابی سے انکی مرضی کے بغیر نکاح کیا ہے پھر وہ میرے جزبات کیوں نہیں سمجھ رہا میری باری پہ اسے کیوں غیرت یاد آرہی ہے,,,,ابکی بار عادل کے لہجے میں بلا کی بےبسی چھلک رہی تھی بےساختہ اسکی آنکھ سے آنسوں بہتا گھنی داڑھی میں جزب ہوا وہ چاہ کر بھی خود پہ قابو نہیں رکھ سکا,,,,


مقابل بیٹھے ملاہم کو اسکی محبت پہ رشک ہوا واقعی محبت خوار کرتی ہے محبت چٹان کو زیر کرنے کا ہنر رکھتی ہے,,,,

بات غیرت کی نہیں ہے عادل ساحر کو اپنی جگہ رکھ کر دیکھ اگر تجھسے کوئی تیری بہن کے بارے میں اس طرح بولے تو کیا تو بروقت فیصلہ لے سکے گا کیا اس وقت تجھے مقابل کے جزباتوں کا خیال رہے گا وہ بھی تب جب وہ کسی اور سے منصب ہو,,,,اسنے پھر مصلحت سے کہا,,,,مگر عادل کی جانب سے کوئی جواب نہیں موصول ہوا ,,وہ محض گردن جکھائے بیٹھا رہا,,,,


ساحر کو تھوڑا وقت دے اسے سوچنے دے ہم بھی واقف ہیں وہ کند زہن بلکل نہیں ہے مگر اسے سوچنے کی ضرورت ہے اور یقیناً وہ کسی اچھے فیصلے پر ہی پہنچے گا,,,,,ملاہم نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھتے اسے تسلی دی,,,,اگر وہ پھر بھی نہ مانا تو؟؟؟کسی خدشے کے تحت عادل نے بےبسی سے سوال کیا,,,,


وہ مان جائے گا زیادہ مت سوچ,,,,اسنے برجستہ جواب دیا,,,,


ٹھیک ہے اگر وہ نہیں مانا تو بھی میں ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھونگا میں زبردستی نکاح کرونگا کیونکہ درخنے صرف عادل کی ہوسکتی ہے اور کسی کی نہیں ,,,,وہ اٹل لہجے میں جنونی انداز میں بولا,,,,


نکاح ابھی بھی کیا جاسکتا ہے عادل لیکن اس سے محض تو اپنا نقصان کریگا درخنے تجھے قبول نہیں کریگی چھپ کر یا َزبردستی نکاح کرنے سے تیری عزت پہ کوئی آنچ نہیں آئیگی مگر تیری محبت کا دامن داغدار ہوجائے گا جو لڑکی اپنے گھر والوں کی خوشی کیلئے اپنی ساری زندگی کی قربانی دے سکتی ہے تجھے لگتا ہے تیرے زبردستی نکاح کرنے کے بعد وہ اپنوں کی آنکھوں میں خود کیلئے بےمروتی دیکھ تیرے ساتھ خوش رہے گی اپنا گھر بسائے گی..؟ ,,,,,

بلکل بھی نہیں بلکہ وہ تجھسے بھی باغی ہوجائے گی کیونکہ کوئی بھی پاکدامن لڑکی اپنے کردار پہ ایک حرف بھی برداشت نہیں کرسکتی اور مت بھول وہ کس معاشرے سے تعلق رکھتی ہے ,,,,,ملاہم نے کچھ سخت سنجیدہ لہجے میں کہا ,,,,عادل کو اسکے لفظ حقیقی معلوم ہوئے وہ بے بسی سے دونوں ہاتوں میں اپنا سر تھامے بیٹھ گیا,,,,دل کیا کہیں چلا جائے مگر کہاں ,,,,,


*****


اُسے ماحول میں جیسے آکسیجن کی کمی محسوس ہونے لگی تھی گاڑی میں سوار ہوتے ہی وہ گلاسز آنکھوں سے نکال کر ڈیش بورڈ پر پھینکتی جہاز کی اسپیڈ سے وہاں سے گاڑی بھگا لے گئ ۔۔

آنسوں آنکھوں سے نکلتے گردن میں جذب ہو رہے تھے ، آنکھیں دُھندلا رہی تھی وجود ہچکولے لے رہا تھا پر وہ فل سپیڈ میں گاڑی چلا رہی تھی ۔۔۔۔ کچھ گھنٹوں کی ڈرائیونگ کے بعد بھی جب نہ سنبھلی تو ایک جگہ گاڑی روکتے وہ ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔۔۔بے بسی ہی بے بسی تھی وہ جسے چاہتی تھی وہ کسی اور کا طلبگار تھا ,,,,,وہ آج پھر اس دوہرائے پہ آن کھڑی ہوئی تھی جس سے وہ بامشکل ہی باہر نکلی تھی نا قدم آگے لیئے جارہے تھے نہ پیچھے وقت جیسے تھم سا گیا تھا,,,,


جب کافی دیر تک بھی اسے اپنی حالت سمبھلتی نہ محسوس ہوئی تو وہ گاڑی کی پشت سے ٹیک لگاتی کرب سے آنکھیں موند گئ,,,,


دوسری جانب ملاہم عادل کی مرہم پٹی کرنے کے بعد اُسے ابھی خاموش رہنے کی ہدایت دیتا خود مسلسل بجتے فون سے تنگ آتا عادل کے فلیٹ سے نکلتا چلا گیا ، ۔۔۔۔۔۔

اسے عادل کے فلیٹ سے نکلے کافی دیر ہوگئی تھی مگر خدا کی مار ہو اس گاڑی پر جو کچھ دور چلتے ہی بندھ پڑ گئی تھی ناجانے کس بات کے نخرے دکھا رہی تھی,,,, وہ ابھی پوری طرح گاڑی کے بونٹ پہ جکھا اسکے تاروں میں ہی الجھا ہوا تھا کبھی ایک تار ہلاتا تو کبھی دوسرا آج موسم بھی کافی گرم تھا ماتھے سے پسینہ بہتا ہوا اسکی ہلکی بڑھی شیو میں جزب ہوا,,,,

پتہ نہیں اسے کس بات کے نکھرے ہیں کبھی کبھی لگتا ہے تم بیوی ہو میری جو ہر وقت نکھرے دکھاتی رہتی ہو,,, وہ شدید جھنجلاہٹ سے لال رنگ کے تار کے ساتھ انگلیاں الجھاتے بچاری کار سے مخاطب تھا جسے وہ آٹھ سال سے گھس رہا تھا کیونکہ یہ اسے اسکے بابا نے گفٹ کی تھی اب تو بچاری گاڑی بھی دہائیاں دیتی فریاد کرتی تھی موہے میرا پیچھا چھڈ دے مگر یہ بے حس لڑکا کمظرفی کی انتہا کرتے بار بار اسے ہی ٹھیک کرتے چلانے لگ جاتا یا یوں کہنا بہتر ہوگا گھسنے لگ جاتا,,,,


کافی دیر اسکے ساتھ متھا ماری کرتے آخر وہ کامیاب ٹہرا,,,, شکر ہے اسکا نکھرا ختم ہوا,,,,


وہ گاڑی کا بونٹ نیچے گراتے شکرانہ لہجے میں بولا اور دو قدم لیتے ڈرائیونگ سیٹ کی طرف کا دروازہ کھولے براجمان ہوا,,,, اسنے گاڑی اسٹارٹ کی جو دوسری بار کی کوشش میں اسٹارٹ ہوگئی وہ پھر خدا کا شکر ادا کرتے,,,, زن سے گاڑی بھگا لے گیا,,,,


زارا کی بار بار کالز آرہی تھیں اسنے جلدی پشاور پہنچنے کی غرض سے گاڑی کچے روڈ پہ ڈالی جو قدرے سنسانْ تھی وہ تیزی سے خالی سڑکوں پہ ڈرائیونگ کرنے لگا,,, موبائل اب بھی بج رہا تھا جسے وہ جان بوجھ کر نظر انداز کیئے ڈرائیونگ میں مگن رہا,,,


مگر زارا تو جیسے آج انگلی رکھ کر ہی بھول گئی تھی,,,, اس لڑکی میں صبر نام کے پرزے ہی نہیں ڈالے شاید اللہ نے,,,, اسنے جھنجلاتے ہوئے موبائل کو ایک نظر دیکھ کر کہا اور ڈرائیونگ کے دوران ہی موبائل اٹھانا چاہا یہی وہ لمحہ تھا جب تیزی سے ڈرائیونگ کرتے اسکا دھیان بٹھکا عین سامنے سے ایک اور سیاہ رنگ کی کار اپنی پوری رفتار سے اسی طرف بڑھ رہی جیسے ہی سامنے سے آتی گاڑی پہ حارث کی نظر پڑی اسنے ہڑبڑاتے اسٹیرنگ سمبھالا جسکے نتیجے میں اسکے ہاتھ سے موبائل گرگیا اسنے فلحال موبائل پہ فاتحہ پڑھتے اپنی توجہ سامنے سے آتی گاڑی پہ دوڑائی جو کی انتہائی قریب تھی دوسری جانب بھی شاید اپنی بےخیالی کا احساس ہوچلا تھا ابھی ان دونوں کاروں کا زبردست تصادم ہوتا جب دونوں نے ہی بروقت پیر بریک پر رکھا ناگہاں بریک لگنے سے گاڑی کا بیلینس بگڑا اور دونوں کار آپس میں ٹکرانے کے بجائے گول شیپ میں گھوم گئیں گاڑیوں کے ٹائر چرچرائے جسکی چرچراہٹ ماحول میں الگ ہی سحر پھونک گئی دھول مٹی جیسے انکی ستم ظریفی پر تڑپ اٹھی اور ہواؤں میں تحلیل ہوئی جسکے باعث چاروں اور دھند سی چھا گئی,,,,


ایک لمحے کیلئے ان دونوں کی آنکھیں بھی دھندلائی دونوں نے بامشکل آنکھوں سے دھند صاف کی اور جیسے ہی آنکھوں سے دھند چھٹی حارث کے تیوروں کا رخ مخالف کی طرف تھا,,,,,

اسکی تو میں,,,,, حارث شدید تیش میں مخالف فریق کا دماغ ٹھکانے لگانے کا ارادہ کیئے باہر نکلا,,, اور غصے میں کسی بھپرے شیر کی ماند گاڑی میں موجود شخص کے سر پہ جا کھڑا ہوا,,,,,

کھولو دروازہ تم لوگوں کو ڈرائیونگ لائسینس کون دیتا ہے پی کے گاڑی چلاتے ہو,,,,وہ تیزی سے کھڑکی بجاتے پھنکارہ دوسری طرف سنایہ وکٹوریہ نے بیزاریت سے منہ بگاڑتے کھڑکی کا دروازہ کھولا ,,,


ابھی کے ابھی باہر نکلوں تمہیں زرہ قانون کا مزہ.....ابھی وہ غصے میں اور بھی کچھ کہتا جب سنایہ کو دیکھ جیسے اسکی زبان سو تالوں سے جا چپکی لفظ جیسے حلق میں ہی دم توڑ گئے وہ ہکا بکا سا ٹکٹکی باندھے اسے دیکھنے میں محو تھا,,,,


میری گاڑی سے کیا آپکا کوئی نقصان ہوا ہے ؟؟؟سنایہ اسے ایک نظر دیکھ پہنچان گئی تھی مگر اسنے ظاہر نہ کرتے سنجیدگی سے پوچھا ,,,,,حارث اسکے پوچھنے پر بھی ہوش کی دنیا میں نہیں لوٹا وہ تو بس بنا پلک جھپکے اسے ہی دیکھے جارہا تھا دل کی دھڑکن بھی ساکت پڑ گئ تھی,,,,

وجود کی جنبش بھی موقوف ہوچکی تھی وہ مجسمہ بنا کھڑا تھا,,,, اپنے سوال کا جواب نہ پاتے سنایہ کا میٹر گھوما,,,,


کیا میرے چہرے پہ ایسا کچھ لکھا ہے جسے پڑھنے میں آپکو اتنا وقت لگ رہا ہے یا عموماً آپ راہ چلتی لڑکی کو ایسے ہی الو کی طرح گھورتے ہیں ؟؟؟ابکی بار اسکے دیکھنے پر چڑ کھاتے وہ لفظوں کو دانتوں کے درمیان چبا چبا کر بولی,,,, اسکے سختی سے کہنے پر وہ ہوش کی دنیا میں لوٹا,,,,,


ننہیں ایسی کوئی بات نہیں مس سنایہ جی میں بس آپکو پہنچاننے کی کوشش کر رہا تھا,,, اسنے گڑبڑاتے اپنے بےلگام ہوتے جزباتوں کو تھپکتے بروقت بہانہ تراشا,,,


کیا ہماری ملاقات اتنی پرانی ہے کہ مجھے پہچاننے میں اتنا وقت درکار ہوا ؟؟؟سنایہ نے برجستہ دوسرا سوال داغا,,, اور نگاہیں مشکوک سی اسکی جانب اٹھائی,,,


نہیں میں دن میں پتہ نہیں کتنے ہی لوگوں سے ملتا ہوں کورٹ میں ایسے کیسے یاد رہےگا,,,, اسنے بنا گھبرائے نارمل انداز میں جواب دیا,,,,

اوہ مطلب جس سے بھی دوبارہ ٹکراؤ ہوتا ہے آپ ایسے ہی گھورتے ہیں؟؟؟وہ پھر دوبدو بولی,,, وہ اس طرح سوالوں کی بوچھاڑ کر رہی تھی جیسے اسکے ارادے بھانپ گئ ہو,,,


مگر مقابل بھی بیرسٹر تھا اتنی آسانی سے اپنے جزبات کسی پہ باور نہیں کرواسکتا تھا جسکے لیئے وہ خود بھی مطمئن نہیں تھا,,,


سنایہ....

مس سنایہ,,,, حارث کا جملہ کاٹتے وہ دوبدو اسکے لفظ کی تصحیح کرتے بولی,,,,

اوکے مس سنایہ جیسا آپ سوچ رہی ہیں ویسا کچھ نہیں مجھے اندازہ نہیں تھا ڈرائیونگ سیٹ پہ کوئی خاتون ہیں ورنہ میں یہ لہجہ کبھی اختیار نہ کرتا,,, اسنے اسکے سوالوں کو چولہے میں جھونکتے اپنے لہجے کی صفائی پیش کی,,,,

اتنا گھما کر کہنے کی ضرورت نہیں سیدھے بولیں معذرت چاہتے ہیں,,,, ابکی بار وہ جھٹکے سے گاڑی کا دروازہ کھول باہر آتی عین اسکی آنکھوں میں دیکھ کر بولی,,,,


لیکن غلطی تو آپکی تھی مس تو معافی میں کیوں مانگو,,,,, حارث کے سارے جزباتوں پہ جیسے اوس پڑ گئی تھی لفظ معافی پہ وہ تلملا اٹھا,,,

ایکسکیوز می دماغ تو ٹھیک ہے کیا غلطی تھی میری؟؟؟وہ نظریں گھماتے الٹا سوال گو ہوئی,,,,

آپکی ہی تھی ڈرائیونگ کے دوران دھیان سڑک پہ ہونا چاہیئے حواس بحال ہونے چاہیئے تاکہ آپ اور آس پاس کے لوگ بے جاں حادثات سے محفوظ رہیں,,,

وہ بھی اپنے مخصوص خوبرو انداز میں بولا لیکن لہجہ کچھ طنزیہ تھا کم از کم سنایہ کو ایسا ہی لگا,,,

اوہ تو آپ دھیان سے چلا لیتے گاڑی کیونکہ آپکو تو سڑکوں پہ جیسے چاہو گاڑی دوڑانے کا لائسینس ملا ہوا ہے؟؟؟اسنے بھی تلملاتے تنز سے بھپور تیر چھوڑا,,,,سنایہ کا انداز اسے کافی مضائحکہ خیز لگا حارث کے لبوں پے بے اختیار تبسم کھلا,,,,

کوئی جوک نہیں سنایا میں نے ,,,,وہ چڑ کر بولی,,,,

جو بھی کہہ لیں آپ اس سے حقیقت نہیں بدل جائے گی ویسے تو قانوناً قانون کی خلاف ورزی پر ایک وکیل ہونے کے ناتے میں چلان کاٹ سکتا ہوں جسکے نتیجے میں آپکو ایک رات جیل میں کاٹنی پڑ سکتی ہے مگر خوش قسمت ہیں آپ جو مجھ جیسے خوبرو معصوم رحم دل وکیل سے پالا پڑا ہے نہیں تو آپ سوچ بھی نہیں سکتی کتنے لمبے کیس میں گھسیٹ سکتا ہوں میں آپکو ابھی بھی وقت ہے مان لیں اپنی غلطی اور اکیلے میں معافی مانگ کر معاملہ رفع دفع کریں,,,,ساری بات سنجیدگی سے کہتے اسنے آخری بات رازدارانہ انداز میں کہی,,, اسکی دھمکی پر سنایہ کے چہرے کا رنگ فق ہوا اگلے ہی لمحے ظبط کی تنابیں ٹوٹی,,,,


حارث بامشکل دانتوں میں ہنسی دبائے اسکے چہرے کے اڑے رنگ دیکھنے لگا,,,,

پتہ نہیں تمہیں وکیل کی ڈگری کس بےوقوف نے تھما دی عقل کی انتہائی قلت ہے تمہیں تو بےوقوف آدمی معافی تو میری سینڈل بھی تم سے نہیں مانگے گی سوچ ہے تمہاری,,,, اسنے چڑتے ہوئے کہا اور پل میں آپ سے تم کا سفر طے کیا,,,,

حارث نے بھنویں اچکاتے اسکا ترز مخاطب دیکھا,,,

جو کرنا ہے کرلو سنایہ وکٹوریہ کبھی کسی سے معافی نہیں مانگتی,,, وہ اگلے ہی لمحے اسے پرعظم انداز میں کہتی پیر پٹکتی ایک خونخوار نظر اس پہ ڈالے اپنی گاڑی میں سوار ہوئی,,,, اور گاڑی اسٹارٹ کرتے زن سے وہاں سے گاڑی اڑا لے گئی,,,,


اففف مغرور حسینہ حارث نے دل کے مقام پہ ہاتھ رکھتے دلکش انداز میں کہا جبکہ نگاہوں نے دور تک اسکی گاڑی کا پیچھا گیا,,,, جب وہ نظروں سے اوجھل ہوئی تو وہ بھی ہوش کی دنیا میں لوٹا,,, اور ایک مسکراتی نظر اس راہ پہ ڈالتے خود بھی گاڑی میں سوار ہوا اور نکلتا چلا گیا,,,, لبوں سے مسکراہٹ جیسے چپک کر رہ گئی تھی,,,


°°°°°°°°°°

گھر پہنچتے پہنچتے وہ کافی حد تک خود کو سنبھال چکا تھا ، اُسے ایک طرف عادل کی اس دیدہ دليری سے کیئے اظہار پر غصہ آرہا تھا تو دوسری طرف اُسے عادل کے ارادے اندر تک جھنجھوڑ گئے تھے وہ عادل کی شخصیت سے اچھے سے واقفیت رکھتا تھا جانتا تھا کہ وہ کبھی اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹتا ایک طرف دل کو یہ خدشہ بھی تھا کہ کہیں داجی کو سب نہ پتہ چل جائے پورے راستے وہ یہی باتیں سوچتا آیا تھا ، سوچنے اور سمجھنے کے بعد اُسے قصور وار اپنا آپ ہی لگ رہا تھا ، اُس نے کیسے درخنے کو عادل کے سامنے آنے دیا ؟؟؟ وہ خاندان کی روایتوں سے واقف تھا پر کبھی بھی اُس نے اپنے بہن بھائیوں کو خاندان کی رسموں سے نہیں باندھا تھا ، اور یہ سب اُسے اسی غلطی کا نتیجہ لگ رہا تھا ،


وہ راہداریاں عبور کرتا سیدھا اپنے کمرے کی طرف بڑھا، صبح حرم اور عصام کے جاگنے سے پہلے ہی وہ اسلامباد کے لئے نکل گیا تھا اور اب بھی اُسے آتے آتے رات ہوگئی تھی ، نور بانو اور درخنے سے وہ صبح ناشتے پر ہی مل کر گیا تھا پر حرم عصام کی وجہ سے رات کو جاگتی رہی اس لئے اُس نے جانے سے پہلے اُسے اٹھانا مناسب نہ سمجھا ، پر اسلاماباد پہنچتے ہی سب سے پہلے اُس نے حرم کو کال کی تھی اور اُس سے اُسکا اور عصام کا پوچھا ، حرم کے پوچھنے پر اُس نے یہی بتایا تھا کہ رات اُسے آنے میں دیر لگ جائیگی اس لئے وہ انتظار نہ کرے مگر عصام نے تو جیسے راتوں کو جگانے کی عادت سی ڈال دی تھی ابھی بھی وہ بیڈ پر عصام کے کھلونے پھیلائے اُسکے ساتھ باتوں میں مصروف تھی ، جبکہ اشرفی بیڈ کے کراؤن پر منہ پھولائے بیٹھا تھا اور آنکھوں کو چھوٹا کرتا اُن دونوں کو کھلکھلاتا دیکھ رہا تھا ، نہ اُس بیچارے کی شادی کی کوئی بات کی جا رہی تھی اور نہ ہی اُسے اب کوئی اٹینشن دے رہا تھا ، پہلے اُسے صرف ساحر اپنا رقیب محسوس ہوتا تھا کہ جسکے آتے ہی اُسکی حرم نے اُس پر توجہ دینی یہ زیادہ باتیں کرنے چھوڑ دی تھی ، پر جب سے یہ بچا آیا تھا گھر والے بچے کے آگے پیچھے ہوتے نہیں تھک رہے تھے ، اور اوپر سے اُسکی حرم بھی چوبیس گھنٹے اُسے اپنے سینے سے لگائے گھوم رہی تھی ۔۔۔ بچے کی کھلکھلاہٹ پر اُس نے بیزار سا منہ بناتے آس پاس پر نظر دوڑائی ،

کمرے کا دروازہ کھلتے ہی حرم اور اشرفی دونوں نے ہی بے ساختہ نظر دروازے کی سمت کی جہاں سے ساحر اندر داخل ہوا ،

وہ حرم پر ایک مسکراتی نظر ڈالتا اندر داخل ہوا اور بیڈ کے دوسری طرف بیٹھتے ہاتھ سے گھڑی نکال کر سائڈ ٹیبل پر رکھتا شوز اُتارنے لگا ، چہرا اب بھی کافی سُرخ معلوم ہو رہا تھا حتٰی کہ اُسکے کان کو لو تک سُرخ پڑی ہوئی تھی ،

ساحر جی کھانا لاؤ میں ؟؟؟ حرم کی جانب اُسکی پُشت تھی تبھی وہ سہی سے اُسے دیکھ نہیں پا رہی تھی ، اُسکے پُشت دیکھ حرم نے کھلونے سمیٹ کر باسکٹ میں ڈالتے مصروف سے انداز میں پوچھا,,,


نہیں مجھے بھوک نہیں....... لہجے کو نورمل کرتے اُس نے عام سے انداز میں کہا اور الماری سے کپڑے نکالتا واشروم میں بند ہوگیا ۔۔۔

اشرفی بھی مزید جلنے کڑنے کا ارادہ ترک کرتا ایک خاموش نظر ساحر اور حرم پر ڈالتا خاموشی سے بالکونی کی طرف اڑ گیا۔۔۔۔


ساحر کے لہجے کی اُداسی اور پریشانی حرم کی آنکھوں سے مخفی نہیں رھ سکی تھی ، وہ عصام کو اُسکے پالنے میں ڈالتی خود کچن کی طرف بڑھ گئی ،

فریش ہونے کے بعد ٹاول سے بال رگڑتا باہر نکلا اور نظریں حرم کی تلاش میں دوڑائی جو اُسے پورے کمرے میں نہ دکھی شیشے کے سامنے کھڑے ہوتے بالوں پر برش پھیرتے وہ بیڈ کے کراؤن سے پُشت ٹکاتا آنکھیں موند گیا ، فریش ہونے کے بعد وہ خود کو کافی ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا ۔۔ پر آنکھیں موندتے ہی آج ہوا سارا قصہ اُسکے ذہن میں ناچنے لگا تھا ۔۔۔۔ وہ آنکھیں کھولتا لمبے لمبے سانس لیتے خود کو پُر سکون کرنے کی کوشش کرنے لگا سر میں شدید درد تھا آج اُسے اپنا دل کٹتا ہوا محسوس ہو رہا تھا اُسکے مان بھروسے کو عادل نے شدید ٹھیس پہنچائی تھی ۔۔۔۔

کمرے کی طرف بڑھتے قدم محسوس کر وہ خود پر قابو پاتے دوبارہ پُشت بیڈ کے کراؤن سے ٹکا گیا ۔۔۔۔

وہ ہاتھ میں چائے کا کپ تھامے کمرے میں داخل ہوئی ساحر کو آنکھیں موندے بیٹھا دیکھ ، وہ آگے بڑھی ....

آپکی چائے...... کپ سائڈ ٹیبل پر رکھتے ساحر سے مخاطب ہوئی اور بیڈ کے دوسری طرف بڑھتے وہ عین ساحر کے پاس بیٹھتی اُسکے کندھے پر سر ٹکا گئی ۔۔

اُسکی آواز پر ساحر نے فوراً اپنی آنکھیں کھولی تھی پر کندھے پر اُسکا سر محسوس کر بے ساختہ ہی ساحر کے لب مسکرائے اور اُسے اپنے وجود میں جیسے ڈھیروں سکون اُترتا محسوس ہوا مُسکراتے وہ بھی اُسکے گرد اپنا حصار باندھ گیا۔۔۔

آپ پریشان ہیں کیا ساحر جی...... وہ اُسکے سینے پر انگلیوں سے ویوز بناتے ہلکی آواز میں بولی کہ با مشکل ہی ساحر کے کانوں سے ٹکرا پائی ۔۔۔

نہیں ۔۔۔۔۔ وہ مندی آنکھوں سے گویا ہوا ۔

پھر اُداس ہیں کیا ؟؟؟؟ حرم نے اُسکے سینے سے سر اٹھاتے پھر سوال داغا ۔۔

ہمم.... ساحر نے اپنی آنکھیں کھول چھت کو تکتے ہنکارا بھرا ۔۔

کیوں ؟؟؟ اُس نے برجستہ پھر سوال کیا ۔۔

ساحر کچھ نہ بولا بس خاموشی سے چھت تکتا رہا کہتا بھی کیا ؟؟؟

بتائیں نہ کیوں اُداس ہیں ؟؟ میں بھی جب اُداس ہوتی ہُوں آپکو بتاتی ہوں نہ آپ بھی بتائیں مجھے ..... حرم یک دم ہی اُس سے الگ ہوکر بیٹھتی بولی اور اُسے بتانے کے لئے اُکسانے لگی ۔۔

میں نہیں بتا سکتا حرم پلیز سمجھو وہ اُسے بتائیں بتائیں کی رٹ لگاتے دیکھ اُسکے گال پر ہاتھ ٹکاتے بولا

کیوں ....؟ کیوں نہیں بتا سکتے پلیز نہ ساحر جی بتائیں نہ ورنہ میں بھی اُداس رہونگی ، وہ اپنے گال پر ٹکے اُسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے نروٹھے انداز میں بولی ۔۔

اُسکی ضد کے آگے ساحر ایک لمبی سانس لیتے چائے کا کپ تھام گیا اور آج ہوا سارا قصہ اُسکے سامنے رکھ دیا ۔۔۔ اُس نے مناسب لہجہ اپناتے اُسے ساری بات بتائی اور ساتھ ہی چائے کے کپ سے چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھرنے لگا ۔۔۔۔

حرم کی آنکھیں غیر یقینی سے پھیلی تھی.....

پر یہ کیسے ؟؟؟ حرم کی دبی دبی سی آواز برآمد ہوئی ۔۔۔

مجھے نہیں پتہ کیسے پر غلطی میری ہی ہے... مجھے ہی احتیاط کرنی چاہئے تھی اسے اپنے گھر تک رسائی دینی ہی نہیں چاہیئے تھی ، ساحر نے تنے نقوش کے ساتھ کہا ۔۔۔


اس میں آپکی غلطی نہیں ساحر جی اور نہ ہی عادل بھائی کی ہے جو آپ نے اُنہیں اتنا مارا ۔۔۔۔ حرم نے اُسکی پوری بات سنتے اور سمجھتے کہا ۔۔۔

تم کہنا کیا چاہتی ہو پھر کس کی غلطی ہے ؟؟ ساحر نے ضبط سے کام لیتے بغور اُسکا چہرا دیکھتے سوال کیا ۔۔

پہلے آپ مجھ سے وعدہ کریں کہ آپ غصہ کئے بغیر میری پوری بات سنیں گے بھی اور سمجھے گے بھی .... اس نے اُسکا سُرخ چہرا دیکھ وعدہ لینا چاہا ۔۔

تم کیا کہنا چاہتی ہو حرم صاف صاف کہو ۔۔۔ ساحر عین اُسکے مقابل بیٹھتے بولا

ساحر جی ابھی آپ نے ہی کہا نہ کہ عادل بھائی کے کہنے کے مطابق درخنے اس رشتے سے خوش نہیں ؟؟ ہمیں بھی ایسا محسوس ہوا تھا نہ ؟؟ اُس نے اپنی بات آغاز کرتے کچھ دیر ٹہرتے اُس سے جواب چاہا ؟؟

ساحر نے اثبات میں سر ہلاتے جواب دیا۔۔۔۔

ہم نے محسوس کیا تھا ساحر جی کہ درخنے خوش نہیں اس رشتے سے پر ہم اُس بات کو اُسکی شرم اور جھجھک سمجھتے رہے......

جہاں تک رہی عادل بھائی کی بات تو اُنہوں نے تو صرف آپکے کے آگے اپنے سچے جذبے ظاہر کئے ہیں کوئی گناہ تو نہیں ہے اظہارِ محبت ۔۔۔ آپکو یہ سلوک نہیں کرنا چاہئے تھا اُن سے ..... حرم کی بات ابھی جاری تھی کہ خاموشی سے سنتا ساحر یک دم بھڑک اُٹھا ۔۔


تو کیا کرتا اُسے اس جرت پر پھولوں کا ہار پہناتا ؟؟؟ نہ چاہتے ہوئے بھی اُسکا لہجہ سخت ہوا ۔۔

آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ آپ میری بات خاموشی سے سنینگے بغیر غصہ کیئے ۔۔۔۔ اسے غصے میں دیکھ حرم نے اُسے اُسکا کیا وعدہ یاد دلانا چاہا ، جواب میں ساحر ضبط سے مٹھیاں بھینچ گیا ۔۔۔

آپ بے شک اُنہیں پھولوں کے ہار نہ پہناتے پر کم از کم یہ سلوک تو نہ کرتے ، اور کیا آپ نے درخنے سے پوچھا ..؟ نہیں نہ اگر وہ خوش نہیں تو ہم کیوں کر رہے یہ شادی ساحر جی؟؟؟؟؟ اگر آپکو عادل بھائی کے اظہار پر غصہ آرہا ہے تو ایک دفعہ یہ بھی تو سوچیں نہ کہ وہ آپکو اپنا دوست مان کر یہ سب بتانے آئے پر آپ صرف درخنے کے بھائی بن گئے ۔۔۔ اُنہوں نے آپ کو یہ بتا کر صاف اپنی محبت کی سچائی بتا دی ہے ۔۔ وہ آپکی دوستی ختم ہونے کے ڈر سے یہ آپکے مارنے کے ڈر سے خاموش رھ سکتے تھے ، پر وہ اُٹھے اپنی محبت کے لئے آپ کے سامنے کھڑے ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔ حرم نے ایک ایک لفظ سنجیدگی سے کہا تھا ساحر اُسکے لفظوں کے سحر میں کھو سا گیا تھا ۔۔۔۔

آپ سب کچھ چھوڑ دیں ساری باتیں ایک سائڈ رکھ دیں بس درخنے کا سوچیں ، اُس سے پوچھیں وہ کیا چاہتی ہے اُسکی خوشی کس میں ہے...... پھر کسی نتیجے میں پہنچے ، ایک پل کی خاموشی کے بعد ساحر کے تاثرات دیکھتی پھر سے بولی۔۔۔


ساحر ہکا بکا سا حرم کو دیکھ رہا تھا اُسکی باتیں ساحر کو سچ ہی لگ رہی تھی ۔۔۔۔ پر کچھ بھی ہو وہ اس عادل کی اس حرکت کو جھٹلا نہیں سکتا عادل نے اُسکا مان توڑا تھا جو کئی سالوں سے وہ کرتا آیا تھا ۔۔۔۔

ساحر جی آپ سمجھ رہے نہ میری بات ؟؟؟ اُسے گہری سوچ میں مستغرق دیکھ وہ فکرمندی سے بولی ...

ہممم..... مجھے نیند آرہی ہے تم بھی سو جاؤ ... وہ اُسے اور بھی کچھ بولتا دیکھ تھکن زدا لہجے میں بولا اُسکی تھکن کا خیال کرتے حرم بھی خاموش ہوتی پیچھے اپنی سائڈ لیٹ گئی ،

ساحر بھی لائٹس اوف کرتے اپنی جگہ پر لیٹ گیا ۔۔ حرم اُسے پھر چھت کو گھورتے دیکھ ، اُسکے سینے میں سر رکهکر کر آنکھیں موند گئی۔۔۔۔ ساحر بھی اُسکے بالوں میں اُنگلیاں پھیرتا آنکھیں موند گیا ، کچھ ہی دیر میں کمرے کی خاموشی میں محض اُن دونوں کی سانسوں کا شور تھا ۔۔۔۔


سورج کی روشنی کھڑکی سے چھن کر آتی اُسکے معصوم سے نقوش سے ٹکرا رہی تھی ، جبکہ عصام کے مدھم آواز میں رونے کی آواز بھی اُسکے کانوں سے ٹکراتی نیند میں خلل ڈال رہی تھی ، اور آخر اُس نے نیند سے بیدار ہوتے اپنی بھاری پلکیں اٹھائی ساری حسیں بیدار ہونے لگی تھی ، مقابل سوئے وجود پر نظر پڑتے ہی بے ساختہ اُسکے لب مسکرائے ، خود سے کمفرٹر ہٹاتے اس نے اٹھانا چاہا پر مقابل کا اُسکے گرد حصار اتنا مضبوط تھا کہ اُسے اپنا وجود ہلانا بھی نہ ممکن لگ رہا تھا ، پھر بھی ہمت کرتے اُس نے خود کے گرد لپٹا ساحر کا ہاتھ ہٹانہ چاہا پر یہ کام اُس نازک کلی کے لئے ممکن نہ تھا اُسکی مسلسل کوشش کے باوجود بھی مقابل پر کک بھی اثر نہ پڑا بلکہ وہ مزید اُسے خود میں بھینچ گیا ۔۔۔

ساحر جی چھوڑیں نہ ایک تو آپ کا ہاتھ اتنا بھاری ہے کہ ہٹ ہی نہیں رہا مجھ سے جب ہاتھ اتنا بھاری ہے تو میں سوچ رہی ہوں آپ خود کتنے بھاری ہونگے...؟ وہ مسلسل اُسکا حصار توڑنے کی تک و دو میں منمناتی بولی ،


اُسکی بات پر یک لخت ہی مقابل کے عنابی لبوں پر مسکراہٹ مچل اُٹھی ، وہ اُس سے پہلے ہی اُٹھ چکا تھا پر محض اسکو تنگ کرنے کے غرض سے بے حس و حرکت پڑا رہا تا کہ اُسے لگے کہ سورہا ہے۔۔۔۔


مجھے پتہ ہے آپ جاگ رہے ہیں ۔۔۔۔۔ اب ہٹیں نہ....... وہ اُسکی مندی آنکھیں اور مُسکراتے لب دیکھ زچ ہوتے بولی ۔۔۔

اگر نہ ہٹو تو ...؟؟؟ اُسے کچھ بھی سمجھنے کا موقع دیئے بغیر وہ آنکھیں کھولتا سایہ بن کر اُس پر چھا گیا۔۔۔۔


حرم پھٹی آنکھوں سے اُسے دیکھ رہی تھی ، جبکہ مقابل مُسکراتی نظروں سے اُسکے ایک ایک نقوش کو اپنی نظروں سے دل میں اُتار رہا تھا ۔۔۔

دونوں کی شہد رنگ آنکھیں ایک دوسرے کی آنکھوں میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ عصام کے رونے میں اب شدت آگئی تھی جس کے نتیجے آواز بھی تیز ہو گئی تھی ۔۔۔۔

عصام کے رونے کی آواز پر حرم نے گڑبڑاتے نظریں پھریں اور اٹھنا چاہا ، پر کیا اب ممکن تھا ؟؟ جب مقابل پورا اُس پر چھایا ہوا ہو۔۔۔


ساحر جی عصام رو رہا ہے..... حرم نے مقابل کے ارادے بھانپتے تھوک نگلتے کہا ۔۔

حرم تم آج کل کچھ زیادہ ہی سمجھدار نہیں ہوگئ؟؟؟؟ ساحر اُسکی بات اگنور کرتا بغیر عصام کے رونے کی آواز کو خاطر میں لائے بغور اُسکی آنکھوں میں دیکھتا سوال گو ہوا ... یقیناً اُسکا اشارہ حرم کی رات والی باتوں کی جانب تھا ۔۔۔

ہاں ہوگئ ہوں ہٹیں نہ اب پلیز .... وہ دھڑکتے دل کے ساتھ مختصر بولی اور ساتھ ہی اُسے ہٹنے کا کہا ۔۔۔

اچھا یہ بات ہے.... وہ چیلنجنگ انداز میں اُسکی نظروں میں دیکھتا اپنی تمام تر شدتوں سے اُسکے لبوں پر جھکا ، حرم نے اُسکا اگلا قدم سمجھتے فوراً ہی اُسکے سینے پر ہاتھ رکھکر خود سے دور رکھنا چاہا پر وہ اُسکے نازک ہاتھ اپنے بھاری کھردرے ہاتھوں میں لیتا قید کر گیا۔۔۔۔


حرم مسلسل اُسکے ہاتھوں میں قید اپنے ہاتھ دائیں بائیں کرتی چھڑوانے کی کوشش میں تھی پر مقابل تو جیسے آج اُس پر بلکل رحم کھانے کے موڈ میں نہیں تھا ، حرم کو مزاحمت کرتے دیکھ ، وہ اُسکے لبوں کو آزادی بخشتا ماتھے سے اپنا ماتھا ٹکا گیا ۔۔۔

حرم لمبی لمبی سانسیں لیتی اپنی سانسیں اعتدال میں لانے کی کوشش میں تھی جبکہ وہ آنکھیں موندے اُسکے ماتھے سے اپنا ماتھا ٹکائے اُسکی چھوڑیں سانسیں خود میں بھر رہا تھا ،

خبردار جو آئندہ تم نے میرے سامنے سمجھدار ہونے کی کوشش بھی کی..... وہ سر اٹھاتے مصنوعی آنکھیں دکھاتا گویا ہوا ....

کیوں آپ کو کیوں نہیں دکھانی سمجھداری...؟ وہ اُسکی آنکھوں کا خود پر اثر لئے بغیر بنا ڈرے دوبدو بولی ۔۔

اُسکی جرت پر ساحر نے داد میں بھنویں اچکائی تھی وہ اُسکی یہ تبدیلی کافی مہینوں سے نوٹ رہا کر رہا تھا پر اُس سمجھداری کا سامنا حقیقت میں اُسے رات میں کرنا پڑا تھا ، تب تو وہ بہت غصے میں تھا تبھی زیادہ غور نہ کر پایا اسکی باتوں پر۔۔۔

آپ سے زیادہ سمجھدار تو میں ہوں ساحر جی ، بلکہ آپ میں تو بلکل عقل ختم ہوتی جا رہی ہے,,,, اپنی ہی دھن میں کہتے اپنے آخری جملے پر بے ساختہ اُس نے لب دانتوں تلے دیتے آنکھیں میچی یہ الفاظ محض غلطی سے اُسکے منہ سے ادا ہوئے تھے ۔

وہ آج تو اپنے لہجے اور ہمت سے پے در پے ساحر کو جھٹکے دے رہی تھی ۔۔


اچھا کونسا کم عقلی والا کام کر دیا ہے میں نے ؟؟ وہ لب بھینچے اُسکی آنکھوں میں اپنی آنکھیں ڈالے گویا ہوا۔۔۔

کل جو آپ نے عادل بھائی کو مارا ، اور پھر غصے میں آگئے آپ ایسے تو نہیں تھے ساحر جی اتنے تنگ نظر تو نہ تھے آپ پھر کل کیا ہوا تھا آپکو ؟؟؟ بلکہ اس سے پہلے ایک بات تو بتائیں مجھے ؟؟؟

خاموشی سے بنا کسی تاثر کے اُسکی باتیں سنتے ساحر نے اُسکے سوال میں آبرو اچکائے جیسے سوال پوچھنے کی اجازت دے رہا ہو۔۔

آپ کے پاس غصے کا کتنا اسٹاک ہے ؟؟؟ حرم کی جانب سے اُسے سنجیدگی سے بھرپور سوال برآمد ہوا ،

مطلب...... اُس نے نہ سمجھی سے پوچھا

اگر اسٹاک نہیں ہے تو اتنا غصہ لاتے کہاں سے ہیں آپ ؟؟ ہر وقت غصہ غصہ غصہ تھکتے نہیں آپ بیزار نہیں ہوتے ؟؟ وہ عام سے انداز میں پوچھ رہی تھی جبکہ اُسکے سوال پر مقابل نے بے ساختہ ہی قہقہ لگایا ۔۔


خاندانی ہے .... نہایت ہی اطمینان سے جواب پیش کیا ۔۔ سہی ہی تو کہہ رہا تھا اُسکا پٹھانی خون ہی تو تھا جو ہر جگہ اُسے تیش دلا دیتا تھا ۔۔

حرم ہونقوں کی طرح اُسے دیکھتی کچھ بولنے کے لئے سوچ ہی رہی تھی ایک بار پھر عصام کے رونے کی چنگاڑتی ہوئی آواز کمرے میں گونجنے لگی، اُسکی اس قدر تیز آواز پر اس بار ساحر بھی گڑبڑاتے حرم سے دور ہٹا اور بیڈ سے اُترتا پالنے کی طرف بڑھا ،


حرم بھی اُسکے پیچھے پالنے تک پہنچی ، پر اُسکے پہنچنے سے پہلے ہی ساحر اُسے اپنی گود میں اٹھا چکا تھا ۔۔ عصام کا رونا بند ہو چکا تھا ، وہ بھی مُسکراتی الماری سے ساحر کے کپڑے نکال کر بیڈ پر رکھتی خود فریش ہونے کے لئے واشروم کی طرف بڑھ ہی رہی تھی کہ ساحر کی آواز اُسکے کانوں سے ٹکرائی جو شائد عصام سے مخاطب تھا ۔۔


کیا ہوا بیبی کو ماما کے پاس جانا ہے؟؟؟ حرم یہ کہہ رہا ہے اسے تُمہارے پاس آنا ہے.... اُسے واشروم کی طرف بڑھتا دیکھ وہ پہلے بچے سے پوچھتا پھر حرم سے بولا انداز ایسا تھا کہ جیسے واقعی یہ بات بچے نے کی ہو جبکہ وہ اپنے آپ سے بات بناتا بول رہا تھا ، تاکہ حرم کو پہلے فریش ہونے جانے سے روک سکے۔۔۔

اُسکی سیاست سمجھتے وہ ایک مُسکراتی نظر اُس پر ڈالتی بھاگتی ہوئی واشروم میں بند ہوگئی ، جبکہ ساحر دانت پیس کر رھ گیا ۔۔۔

کچھ ہی دیر بعد اُسے ترو تازہ فریش ہوکر نکلتا دیکھ ساحر عصام کو دوبارہ پالنے میں ڈالتا ، خطرناک عزائم کے ساتھ اُسکی جانب بڑھا ہی تھا کہ حرم بروقت ہی بیڈ پر چڑھ کر دوسری جانب سے اُتر گئی ۔۔


آج تُمہاری خیر نہیں حرم بیبی بہت بگڑ گئی ہو ، زبان تو زبان اب تو ہاتھ بھی چلانے لگی ہو مجھ پر .... یہ سب سمجھداری کا نتیجہ ہے تمھاری۔۔۔ آج اسے ختم کرنا ہی پڑے گا..... وہ دانت پیستے کہتا بیڈ کی دوسری جانب اُسکی طرف بڑھا ، اُسے اپنی طرف ہی بڑھتا دیکھ حرم نے پھر جائے فرار ڈھونڈنی چاہی ، پر اُسکے کہے الفاظوں پر اُسکی آنکھیں پھیل گئ تھی ۔۔

میں نے کب ہاتھ چلائے آپ پر ؟؟؟؟ حرم کی پھنسی پھنسی سی صدمے سے چور آواز برآمد ہوئی۔۔۔


اور یہی اُسے اپنی بات پر اُلجھاتے ساحر اُس تک پہنچتا عین مقابل کھڑا ہوا ، پر اُسکی نم گھنی سیاہ پلکوں کا رقص دیکھ جیسے وہ سب کچھ بھلا بیٹھا تھا بس مبہوت سا ٹکٹکی باندھے اُسے دیکھنے لگا ، ابھی وہ اُن سیاہ پلکوں پر جھکنے ہی لگا تھا کہ حرم بر وقت پیچھے ہوتی اسکے دائیں جانب سے نکلتی بھاگ گئی ، اور ڈریسنگ ٹیبل کے قریب کھڑی ہوتی کمر پر ہاتھ ٹکائے ساحر کی حالت پر ہنسنے لگی ۔۔۔۔

اُسکے ہنسنے پر ساحر نے بے ساختہ ہی نظر اُسکی طرف اٹھائی تھی ، پر اُسے آنکھیں موندے ہنستا دیکھ موقعے کا فائدہ اٹھاتا اُس تک پہنچتا کمر میں ہاتھ ڈالتے اپنے مقابل کھڑا کر گیا ، اس اچانک حملے سے وہ کسی کٹی پتنگ کی طرح اُسکے سینے سے ٹکرائی ۔۔۔


اب بتاؤ میری سمجھدار بیوی کیسے بچو گی ؟؟؟ اُسکے آڑے رنگ دیکھ وہ اُسکی حالت سے محفوظ ہوتا بولا

مہ میں سمجھ دار ..... حرم کے الفاظ لڑکھڑاہٹ کا شکار ہوئے ۔

ہمم تم....... مسکراتے ہنکارا بھرا جبکہ نگاہوں میں شرارت ناچ رہی تھی

نہی نہیں تو ...... حرم نے تھوک نگلتے نفی میں سر ہلایا

پھر سمجھداری دیکھا رہی ہو ؟؟؟ اُسکے نفی کرنے پر وہ انگوٹھے سے اُسکا گال سہلاتا پوچھنے لگا ، اُسکے لمس پر حرم کے وجود میں جیسے سنسنی سی دوڑ گئی تھی ۔۔۔


ساحر ایک بار پھر اُسکی پلکوں کا رقص دیکھ جھکنے ہی لگا تھا کہ اُسے سختی سے آنکھیں میچے دیکھ مزید تنگ کرنے کا ارادہ ترک کرتا ، ماتھے پر بوسہ دیتا فریش ہونے کے لئے واشروم کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔

اتنی آسانی سے آزادی ملنے پر حرم بھی شکر کرتی جلدی جلدی تیار ہوتی ساحر کے نکلنے سے پہلے ہی کمرے سے نکل گئی اور کچن کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔


°°°°°°°°°°

کچھ ہی دیر میں ناشتے کے بعد دوبارہ کمرے میں آتا وہ ہسپتال جانے کے لئے نک سک سا تیار کھڑا تھا ، سائڈ ٹیبل پر پڑی فائل اُٹھاتے اُس نے کھولی ہی تھی کہ کاغذ کا ٹکڑا اُس فائل سے گرتا اُسکے قدموں میں گرا اسنے نا سمجھی سے پہلے فائل اور پھر زمین بوس ہوئے اس قرطاس کی جانب دیکھا جسکے لفظ دوسری جانب تھے، اُس نے فائل واپس سائڈ ٹیبل پر رکھی اور جھکتے اُس کاغذ کو اٹھایا ، اور پلٹ کر اسے پڑھنا شروع کیا ,,,

کاغذ پر لکھے الفاظ وہ جیسے جیسے پڑھ رہا تھا اُسکے چہرے کے رنگ اڑتے جا رہے تھے ، آنکھیں غیر یقینی سے پھیل رہی تھی ، چہرا دھواں دھواں ہوا ۔۔۔ وہ پورا خط پڑھنے کے بعد خط کو مٹھی میں بھینچتا گہری سوچ میں مستغرق ہوگیا ۔

آخر یہ خط اُسکے کمرے تک آیا کیسے؟؟؟ خط کا اُسکی فائل میں موجود ہونا صاف اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ یہ یہاں محض ساحر تک پہنچانے کے لئے رکھا گیا ہے ۔۔ پر کس نے ؟؟ بہت سے سوال اُس کے ذہن میں گھومنے لگے ، حویلی میں کسی انجان کا آنا ممکن نہیں تو کیا یہ کام گھر کے کسی افراد کا ہے ؟؟؟ یہ سوچ ذہن میں آتے ہی سب سے پہلے اُسکا شک داجی اور نور بانو کی طرف گیا تھا ، اپنے شک کو دور کرنے وہ مٹھی میں بھینچا کاغذ لئے لمبے لمبے ڈگ بھرتا نیچے کے جانب بڑھ گیا ، ڈرائنگ روم میں آتے ہی اُسے داجی صوفے پر براجمان کسی گہری سوچ میں نظر آئے ، ملازمہ کو نور اور گھر کے سب ملازمین کو بلانے کا بولتا وہ بھی صوفے پر بیٹھ گیا ، داجی انہماک سے بیٹھے اُسے ہی دیکھ رہے تھے پر کچھ بولے نہیں بس خاموشی سے اُسکے سپاٹ چہرے کو دیکھنے لگے۔۔۔۔

کچھ ہی دیر میں پریشان اور اُلجھی سی نور بانو کمرے میں داخل ہوئی اور پھر اُنکے پیچھے ہی گھر کی تمام ملازمین ۔۔


ساحر خیر تو ہے کیوں بلایا ہے ؟؟؟ کمرے میں آتے ہی نور بانو نے فکرمندی سے سوال کیا اُنکے سوال پر داجی نے بھی اپنی سوالیہ نظریں اُسکی جانب اُٹھائی ۔۔

بتاتا ہوں ۔۔۔ ٹھنڈے ٹھار لہجے میں کہتے اُس نے نور بانو کو بیٹھنے کا اشارہ کیا ، وہ اثبات میں سر ہلاتی بیٹھ گئی اور اُلجھی نظروں سے اُسے دیکھنے لگی ، جو اب ملازمین کی طرف متوجہ تھا۔۔۔

میرے کمرے میں کون گیا تھا آج ؟؟ اُس نے سخت لہجہ اپناتے تمام نفوس پر نظریں جمائے پوچھا۔

اُسکے سوال پر سب نے نفی میں سر ہلایا تھا ۔ لالا آپ کے کمرے میں تو صبح سے کوئی نہیں گیا، گھر کی پرانی ملازمہ نے ہمت کرتے کہا ، باقی سب تو ساحر کے خوف سے ہی خاموش سر جھکائے کھڑے تھے ۔۔۔


ٹھیک ہے جاؤ پر اگر مجھے پتہ لگ گیا کہ تم میں سے کوئی گیا تھا تو خیر نہیں ہوگی اُسکی مجھ سے,,,,, ساحر نے کہتے ہی اُنہیں جانے کا اشارہ کیا ، سب اثبات میں سر ہلاتے کمرے سے نکلتے گئے ۔۔۔۔

اُنکے جاتے ہی وہ پر سکون سانس ہوا میں تحلیل کرتے نور بانو اور داجی کی طرف مڑا جو نہ سمجھی سے اُسے ہی دیکھ رہے تھے......


یہ کیا ہے اور میرے امپورٹنٹ ڈاکومنٹس میں کس نے رکھا ؟؟؟ وہ خط اُن دونوں کے سامنے کرتا سُرخ آنکھوں سے اُنہیں دیکھتا پوچھنے لگا ۔۔۔

نور بانو کی آنکھیں ابھی بھی نہ سمجھی سے کبھی ساحر کو دیکھ رہی تھی تو کبھی اُس خط کو ، جبکہ اُنکے برعکس داجی کسی سوچ میں ڈوبے محسوس ہو رہے تھے ،


******

تم نے یہ کاغذ ساحر کی فائل میں رکھنا ہے اور حویلی سے سیدھا باہر جانا ہے ، باہر تُمہیں میرا بندہ مل جائیگا جو تُمہیں بس اڈے تک چھوڑ دیگا ۔۔۔ یہ کام بہت رازداری سے کرنا ہے خیال رہے کہ تُمہیں ساحر کے کمرے میں جاتے ہوئے اور حویلی سے جاتے ہوئے کوئی نہ دیکھے ۔۔۔ داجی نے ہلکی آواز میں صاف الفاظوں میں مقابل کھڑی خاتون کو سمجھایا ،

ٹھیک ہے..... مقابل نے سمجھتے اثبات میں سر ہلایا اور داجی سے کاغذ لیتی حویلی میں داخل ہوئی ،

ساحر اور باقی سب گھر والوں کو ناشتے میں مشغول دیکھ وہ دبے پاؤں قدم اٹھاتی ساحر کے کمرے میں داخل ہوئی اور داجی کا دیا کاغذ ساحر کی فائل میں رکھتی اُنکی ہدایت کے مطابق حویلی سے نکلتی چلی گئی ، حویلی سے باہر ہی داجی کا بندہ اُسکا منتظر تھا اُسکے آتے ہی گاڑی میں سوار ہوتے منزل کی جانب بڑھ گئے ،۔۔۔میں کچھ پوچھ رہا ہوں داجی کیا آپ جانتے ہیں اس خط کے بارے میں کچھ....؟ داجی کے کانوں میں ساحر کی آواز پڑتی اُنہیں ہال میں پٹک گئی ۔۔


کیا ..؟ ہوش میں آتے ہی وہ ساحر سے سوال گو ہوئے

میں نے یہ پوچھا ہے داجی کیا آپ اس خط کے بارے میں کچھ جانتے ہیں؟؟؟ ساحر نے ضبط سے کام لیتے اپنا کیا سوال دہرایا ۔۔۔


اُسکے سوال پر ایک پل کے لئے داجی کا دل دھڑکا تھا ماتھے پر ننھے پسینے کی بوندیں چمکی ، پر وہ نفی میں سر ہلا گئے ۔۔


میں نہیں جانتا ..... وہ مختصر جواب دیتے وہاں سے واک آؤٹ کر گئے ، پر اُنکے تاثرات سے ساحر کے شک پر یقین کی مہر لگ گئی تھی ۔۔۔ وہ نور بانو کی موجودگی کا خیال کرتے ضبط کے کڑوے گھونٹ بھر گیا ۔۔۔


آپ پریشان نہ ہو مور اتنی بڑی بات نہیں یہ ..... خود کو سبھالتے وہ نور بانو کو حصار میں لیتا بولا۔۔

پھر تم اتنے پریشان کیوں لگ رہے ہو ساحر .؟؟؟ نور بانو نے اُسکا چہرا دیکھ برجستہ سوال داغا

نہیں میں پریشان نہیں بس حیران تھا کہ کوئی انجان کیسے حویلی میں آسکتا ۔۔۔ وہ خود کو پر سکون کرتے بولا

پر آپ پریشان نہ ہونا اب میں پتہ لگوا لونگا.... وہ اُنکی پریشانی کی فکر کرتا چہرے پر زبردستی مسکراہٹ چپکاتے بولا ۔۔

نور بانو بھی مسکراتی اثبات میں سر ہلا گئی ۔۔

ساحر اُنہیں ہسپتال جانے کا کہتا وہاں سے نکلتا دوبارہ کمرے کی طرف بڑھ گیا اور اپنی مطلوبہ چیزیں اٹھاتا ہسپتال کی طرف روانہ ہوگیا ،

راستے میں ہی اُس نے حارث کو کال کرتے ملنے کا کہا تھا جسے حارث نے یہ کہتے حامی بھری کہ اُسے ثمر کے دوستوں کا پتہ مل گیا ہے اُن سے آج ہی ملنا ہوگا کیونکہ اب کورٹ کی تاریخ قریب ہے ، ساحر اُسے ہسپتال سے جلد فارغ ہوکر آنے کا کہتا کال کٹ کر گیا ۔۔۔۔۔


°°°°°°°°°°°°°


کچھ ہی گھنٹوں کے بعد وہ دونوں ایک سنسان سے کھنڈر علاقے میں موجود تھے ،جو آبادی سے کافی دور واقع تھا، ساحر نے سوالیہ نظریں حارث کی طرف اٹھائی جو کندھے آچکاتے اس کھنڈر سے گھر کی طرف اشارہ کر گیا,,,,ساحر نے بھی مقابل کی نظروں کے تعاقب میں نظریں گھمائی تو نگاہ سامنے بنے اس خیمے نما کچے مکان کی طرف گئی,, ۔۔

حارث نے عین اس گھر کے قریب لاتے گاڑی پارک کی اور اپنی طرف کا دروازہ وا کرتے باہر نکلا دوسری طرف ساحر بھی نگاہ آس پاس دوڑاتے باہر نکلا,,,,


یہاں محض دھول مٹی کے علاوہ جیسے کچھ آباد ہی نہیں تھا ہر سوں دھول اٹھ رہی تھی ,,,,سرسری سا جائزہ اس ماحول کا لیتے ان دونوں نے بیک وقت قدم آگے بڑھائے اور اس بنجر سے گھر میں داخل ہوئے,,,


دروازہ کھولنے پر چررررر کی آواز برآمد ہوئی کمرہ بلب کی روشنی میں روشن تھا,,,اور سامنے ہی دو نفوس کچھ گھبرائے سے بیٹھے تھے انکے عین مقابل عادل اپنے مخصوص رعبدار انداز میں ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے کرسی پر براجمان تھا دروازہ کھلنے کی آواز پہ متوجہ ہوتے اسنے گردن کو جنبش دیتے آواز کے تعاقب میں دیکھا جہاں سے ساحر اور حارث داخل ہوئے,,,,

جیسے ہی بلب کی روشنی میں ساحر کی نظر عادل کے صبیح چہرے پہ پڑی یکلخت اسکے جبڑے تنے عادل نے بھی بیک وقت اسکے سرخ ہوتے چہرے کی جانب دیکھا مقابل کی آنکھیں بے تاثر تھیں ہر جزبات سے عاری مگر ساحر کی آنکھوں میں تو جیسے چنگاریاں بھڑک اٹھی تھی بیک وقت ہی ساحر کے بدلتے تیور بھانپتے حارث نے پہلے ناسمجھی سے عادل کی طرف دیکھا اور اگلے ہی لمحے ساحر کے سرخ چہرے کی جانب دیکھا اور آگے بڑھ کر ساحر کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے اسے جیسے ہوش کی دنیا میں پٹکا فلوقت حارث ماجرہ سمجھنے سے قاصر تھا مگر اپنے تہی اسنے عقل سے کام لیا تھا,,,,ساحر بھی حارث کو موجود دیکھ بروقت خود کو سمبھالے اپنے پتھر ہوتے تاثرات کو نرم کرتے آگے بڑھا جہاں دو نفوس سر جکھائے بیٹھے تھے شاید شرمندگی سے,,,,


کیسے ہو تم دونوں؟؟؟ساحر نے عین انکے سامنے بیٹھتے نارمل انداز میں پوچھا,,,,

ہم ٹھیک ہیں ساحر بھائی آپ کیسے ہیں اور یہ اس طرح ہمیں کیوں یہاں لایا گیا یے,,,,وہ جو اب تک عادل کی دھمکیوں کے زیرِ اثر دہشت زدہ بیٹھے تھے ساحر کو مقابل دیکھ جیسے انہیں حوصلہ ملا,,,,


فکر مت کرو بس تم سے کچھ سوال پوچھنا چاہتے ہیں جسکا تم نے سچ سچ جواب دینا ہے ,,,,ساحر نے تمہید باندھتے اپنی بات کا آغاز کیا اور سارا معاملہ مناسب لفظوں میں انکے گوش گزارا جسے سنتے انکے پیروَ تلے زمین کھسک چکی تھی وہ دم سادھے ساحر کی طرف دیکھنے لگے,,,,


یہ سب جو میں نے بتایا یہ ایک حقیقت ہے اگر تم لوگ مجھے واقعی اپنا بڑا بھائی سمجھتے ہو تو سارا سچ لفظ با لفظ بتاکر اپنے بھائی کی حفاظت کروگے شاید تمہارے سچ بولنے سے ہم سچ ثابت کرسکیں,,,ساحر نے انکی طرف دیکھتے کچھ رنجیدہ لہجہ اپناتے اپنی بات کہی جسکا دونوں نفوس پہ خوب اثر ٹہرا,,,


جی ٹھیک ہے ہم سچ بولینگے فرہاد نے کچھ پرعظم لہجے میں حامی بھرتے کہا جبکہ ذولقرنین کی آنکھوں میں خوف واضح تھا ,,,


کیا تم نہیں بولنا چاہتے اب بھی,,,,وہ تینوں اسکا خوف باآسانی بھانپ چکے تھے وہ کسی گہری سوچ میں مستغرق تھا جب ساحر نے اسکے خوف سے انجان بنتے سنجیدگی سے پوچھا,,,

جججی میں بولونگا,,,,اسنے ہڑبڑاتے جواب دیا,,,

ٹھیک ہے تو شروع سے ااب تک مجھے عنایہ کے بابت سب کچھ بتاؤ,,,,ابکی بار عادل نے کہا جبکہ حارث پین سے اپنی نوٹ بک میں ضروری پوائنٹس لکھنے لگا,,,,

عنایہ کا کیسا رویہ تھا یونی میں باقی طالبات کیساتھ؟؟؟ حارث نے بات کے درمیان سوال کیا,,,,


بہت اکھڑا لہجہ تھا وہ کسی لڑکے کو تو دور کی بات لڑکیوں کو بھی منہ نہیں لگاتی تھی اور ثمر کو اسکی یہ عادت پسند تھی کہ فضول کسی کیساتھ وقت نہیں گزارتی یونی میں اسے اکثر لڑکیاں نکچڑی کہتے تھی مگر اسکی ایک دوست تھی جو ہمہ وقت کسی لٹو کی طرح اسکے آس پاس گھومتی رہتی تھی,,,فرہاد نے عائشہ کو یاد کرتے پرسوچ انداز میں کہا,,,,

کیا نام تھا اسکا,,,ساحر نے متجسس حال میں پوچھا,,,

شاید...عائشہ نام تھا مجھے ٹھیک سے تو نہیں یاد لیکن اگر دیکھونگا تو پہنچان لونگا ,,,,,,دوسرا جواب بھی فرہاد کی طرف سے ہی موصول ہوا جبکہ ذولقرنین اب بھی کسی گہری سوچ میں مستغرق تھا,,,,


کیا تم ہم سے کچھ چھپا رہے ہو؟؟؟سوال سنجیدگی سے عادل کی جانب سے ہوا,,,,لہجہ کچھ برہم تھا ,,,,مقابل فوری ہڑبڑاتے ہوش میں آیا,,,


ننہیں تو....اسنے تیزی سے نفی میں گردن ہلاتے جواب دیا,,,,


نا تو میں ساحر ہوں اور نہ ہی تمہارا کوئی دوست ڈیوٹی کے وقت عادل ویسے بھی رشتے نہیں نبھاتا جو کچھ بھی پتہ ہے سچ سچ بتادو ورنہ انجام اچھا نہیں ہوگا,,,

عادل نے لہجہ انتہائی سخت کرتے لفظوں پہ زور دیتے کہا,,,مقابل کے پل میں پسینے چھوٹے تھے,,مگر زبان پہ اب بھی قفل لگا رہا,,,,


ساحر کو عادل کے لبوں لہجے پہ غصہ آیا تھا مگر حارث نے اسکی چال سمجھتے ساحر کو بھی پرسکون رہنے کا اشارہ کیا,,,

میں نے کہا بولو,,,,ناگہاں تیزی سے پوکیٹ سے گن نکال کر لوڈ کرتے عادل اس پہ پھنکارا,,,,گراہٹ اس قدر تیش بھری تھی کہ مقابل سٹپٹا اٹھا آنکھوں میں موت ناچنے لگی,,,,

عادل یہ کیا کر رہے ہو اسے جان سے مت مارنا وہ بتادے گا سب کچھ تم فکر مت کرو,,,,حارث نے اپنے لفظوں سے بظاہر اسے پرسکون کرنا چاہا جبکہ نگاہوں کا مرکز ذولقرنین کے چہرے پہ چھائے خوف زدہ تاثرات تھے,,,

نہیں یہ ایسے نہیں بولے گا ,,,,,عادل نے غصے سے کہتے گن اسکے ماتھے پہ رکھی اور ٹریگر پہ زرا سا دباؤ ڈالا,,,

ممیں سب بتاتا ہوں,,,پپلیز,,مقابل نے گھبراتے منت کی آنکھیں موت کے خوف سے سختی سے مچی ہوئی تھی,,,


اسکی بات پہ عادل نے گن نیچے کی تو مقابل نے اپنی آنکھیں کھولی,,,جہاں بے بسی رقم تھی آنسوں تیر رہے تھے,,,,

ایسا نہیں ہے کہ مجھے ساحر بھائی کی زندگی سے کوئی فرق نہیں پڑتا میں انہیں دل سے اپنا بڑا بھائ مانتا ہوں مگر یہاں سوال میری اپنی بہن کا تھا جسکی زندگی بچانے کیلئے مجھے سچ چھپانا پڑا اور نتیجے میں ہم نے اپنے عزیز دوست ثمر کو گنوا دیا,,,,اپنی بات کا آغاز کرتے وہ ندامت سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا,,,,


ابھی بھی وقت ہے تم سچ بتا کر کم از کم ایک زندگی بچا سکتے ہو,,,,ساحر نے کندھے پہ ہاتھ رکھتے اسکا حوصلہ باندھا,,,باقی کے تینوں نفوس بھی انگشت بدنداں سے اسے دیکھ رہے تھے,,,,


ضرور,,,ایک دن ثمر یونی نہیں آیا تھا وہ کچھ دن چھٹیوں پر حویلی گیا ہوا تھا,,,ابھی فرہاد نے بتایا کہ عنایہ یونی میں کبھی کسی سے بات نہیں کرتی تھی لیکن ثمر سے دن بہ دن اسکی نزدیکیاں بڑھتی ہی جارہی تھیں جس دن ثمر یونی نہیں تھا اس دن کینٹین سے گزرتے ہوئے میری نظر غیر ارادی طور پر عنایہ کے چہرے پہ پڑی جہاں وہ ہمارے سینئر شیری خان کیساتھ بیٹھی کافی بشاشت سے باتوں میں مشغول تھی,,,مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا اور تجسس اٹھا آخر عنایہ اس سے ایسی کیا باتیں کر رہی ہے,,,,میں تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوتے عین انکے پیچھے لگے پیڑ کی اوٹ میں ہوگیا اور خاموشی سے کان لگائے موبائل کا کیمرہ اون کرتے وہاں کھڑا ہوگیا,,,,لیکن جب انکے درمیان ہوئی باتیں مجھے معلوم ہوئی کہ کیسے شیری کیساتھ مل کر عنایہ ثمر کو دھوکا دے رہی ہے انکی باتوں سے صاف واضح تھا کہ وہ لوگ کچھ بڑا پلان کر رہے ہیں اور یہ بھی کہ ثمر صرف انکی بساط کا ایک مہرہ ہے جبکہ وہ آپ سے بدلہ چاہتی تھیں,,,,ساری بات سنجیدگی سے انکے گوش گزارتے اسنے آخر میں ساحر کی جانب اشارہ کیا,,,,

لیکن تمہاری بہن کی جان کیوں خطرے میں رہی؟؟؟ساری باتوں کے بعد حارث نے سوال داغا,,,,

کیونکہ وہاں سے گزرتے وقت عنایہ میرا سایہ دیکھ چکی تھی اور موقعے کا فائدہ اٹھاتے ناجانے کیسے اسنے میری بہن کی ایک ایک ایکٹیویٹی پہ نظر رکھی جو کہ کراچی میں رہائش پزیر ہیں,,,,


میں ثمر کے واپس آنے کا انتظار کرنے لگا تھا تاکہ اسے عنایہ کا چہرہ ثبوت کیساتھ دکھا سکوں مگر اس سے پہلے ہی عنایہ میری بہن کی معلومات لیئے مجھ تک پہنچ گئ اسنے مجھے دھمکی دی اور میں نے اس دن اس لڑکی کا اصل بھیانک روپ دیکھا تھا اسنے میری بہن کے پیچھے کچھ بندے لگائے تھے جو باقاعدہ اسنے مجھے کیمرہ پہ دکھائے بھی تھے,,,,میں بہت ڈر گیا تھا ۔۔۔۔

ثمر کیلئے میں اپنی جان کی بازی بھی لگا دیتا مگر بات میری بہن کی عزت تھی میں مجبور تھا مجھے معاف کردیں ساحر بھائی,, وہ کہتے ہی پھر رونے لگا,,,,


ریلیکس پرسکون ہوجاؤ اس میں تمہاری کوئی غلطی نہیں عزت کے آگے ہر مرد مجبور لاچار ہوجاتا ہے,,,,,ساحر نے بظاہر اسے سنجیدگی سے کہتے لفظوں پہ زور دیا اور اسکے لفظوں کا رخ عادل کی جانب تھا,,,,

وہ ریکورڈنگ جو تم نے کی تھی وہ اب کہاں ہے؟؟؟

ابھی عادل ساحر کے لفظوں پر جوابی کاروائی کرتا اس سے پہلے ہی حارث نے سوال کیا,,,,سبکی توجہ اسکی طرف مبزول ہوئی,,,

وہ اب بھی میرے پاس ہی ہے میں نے سمبھال کر رکھی ہے,,,,


گریٹ گڈ جوب وہ ریکورڈنگ ہمارا کام بہت آسان کرسکتی ہے مجھے ہر حال میں وہ ریکورڈنگ چاہیئے تمہاری حفاظت کا زمہ ہم اٹھائینگے,,,,



میں آپکو پہلے بھی بتا چُکا ہُوں مجھے اپنی جان کی نہیں بلکہ اپنی بہن کی پرواہ ہے ، میں بہت شرمندہ ہوں ساحر بھائی میں ثمر سے دوستی جیسا انمول رشتہ نہیں نبھا پایا ، میں دوستی کے رشتے سے زیادہ خونی رشتے کو فوقیت دے گیا ، ہو سکے تو مجھے معاف کر دیجیۓ گا ، وہ پہلے حارث سے کہتا پھر ساحر کی طرف رُخ کئے شرمندہ سے لہجے میں بولا ۔۔ چہرے سے صاف بے بسی اور شرمندگی واضح تھی جسکے باعث وہ ساحر سے آنکھ ملا کر بات کرنے کی جرت بھی نہیں کر پارہا تھا ۔۔

تم فکر نہ کرو ذوالقرنین تمھاری بہن کو حفاظت بھی ہم فراہم کرینگے اور تُمہیں بھی ، تُمہیں مزید شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے اگر تُمہاری جگہ کوئی اور ہوتا تو وہ بھی یہی کرتا ۔۔۔ وہ اُسکا اُترا چہرہ اور بجھا بجھا سا لہجہ دیکھ نرمی سے گویا ہوا۔۔

بہت شکریہ ساحر بھائی ۔۔۔ وہ مشکور سے لہجے میں بولا جواب میں ساحر محض آسودگی سے مسکرا دیا ۔۔

مجھے وہ ریکارڈنگز کب تک دے سکتے ہو تم ؟؟ حارث نے ہاتھ میں قلم گھماتے سوال کیا ، اُسکے سوال پر سب ہی ذولقرنین کی جانب متوجہ ہوئے ۔۔

اگر آپ ابھی چاہیں تو میں ابھی بھی لا کر دے سکتا ہوں وکیل صاحب ، میں بھی اپنے دوست کے مجرموں کو جلد از جلد سلاخوں کے پیچھے دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔ ذولقرنین نے اس بار بنا ڈرے مضبوط لہجے میں کہا ۔

ٹھیک ہے ہم یہی ہیں تم لے آؤ ، اور فکر نہ کرو ہر چیز کا حساب ہوگا ہر کوئی اپنے کئے کا انجام ضرور بھگتے گا پھر چاہے وہ عنایہ ہو سنایہ ہو یہ پھر کوئی اور ۔۔۔ اُسکی بات پر مسکراتے حارث نے جواب پیش کیا۔۔۔

حارث کے حکم کے مطابق فرہاد اور ذولقرنین دونوں ہی وہ ریکارڈنگ لینے عادل کے آفیسرز کے ساتھ چلے گئے تھے جو کہ باہر پولیس کی وین میں ہی بیٹھے تھے ,,,جبکہ وہ تینوں اب بھی وہی موجود تھے ۔۔۔

ساحر لالا آپ کال پر کسی خط کا ذکر کر رہے تھے ؟؟؟ اُنکے جاتے ہی کچھ یاد آتے حارث نے سوال کیا ۔۔۔

اُسکے سوال پر اثبات میں سر ہلاتے اُس نے پاکٹ سے وہ خط کا ٹکڑا نکالتے اُسکی جانب بڑھایا ، جسے نہ سمجھی سے دیکھتے اُس نے کھول کر پڑھنا شروع کیا ۔۔۔ عادل بھی بیٹھا انہماک سے اُسکے چہرے کے تاثرات دیکھنے لگا جو یک لخت ہی بدل رہے تھے ،

پورا خط پڑھنے کے بعد وہ ساحر کی طرف متوجہ ہوا ۔۔

پر یہ کہاں سے آیا آپکے پاس لالا ؟؟ اُس نے غیر یقینی سے سوال کیا ،

داجی نے کسی ملازمہ کے ذریعے میری فائل میں رکھوایا تھا...... ساحر نے آج صبح ہوا سارا قصہ مختصر انداز میں اُسے سمجھایا ۔

جسے سنتے عادل کے ساتھ حارث کے تاثرات بھی اُلجھے تھے ۔۔

اگر یہ پرانا خط داجی کے پاس موجود ہے تو ممکن ہے کہ اور بھی بہت کُچھ ہوگا جسکی وجہ سے ہم ماضی کے اصل حقائق جان سکیں یہ کچھ ایسے ثبوت ہوں جو ہمارے لئے کام آسکیں ۔۔ حارث نے خط اپنی فائل میں لگاتے دوبارہ نوٹ بک پر روانی سے کچھ لکھتے ہوئے کہا۔۔

اُسکی بات پر ساحر نے اتفاق کرتے اُسکی جانب دیکھا ,, ، ہاں ایسا ہو تو سکتا ہے پر داجی سے کیسے حاصل کریں ہم ؟؟ ساحر نے منہ پر ہاتھ پھیرتے ایک سنجیدہ مسئلہ پیش کیا ۔

آپ اور میں چھپ کر داجی کے کمرے کی تلاشی لے لیتے ہیں کیا پتہ ہمیں مل جائیں ، کچھ دیر کی خاموشی کے بعد حارث نے ہل پیش کیا۔۔

پر داجی نے دیکھ لیا تو ؟؟؟ ساحر نے فوراً سوال داغا

اُنکے سونے کے بعد جائينگے نہ ہم تو میرے خیال سے ممکن نہیں کہ وہ دیکھیں ۔۔ حارث نے اُسے مطمئن کرنا چاہا ۔۔

تُمہیں وکیل کس نے بنایا ہے بیوقوف انسان بول تو ایسے رہے ہو جیسے وہ نیند کی گولیاں لے کر سوتے ہیں یہ بے ہوش ہوتے ہیں جو اُنہیں پتہ نہیں چلے گا ، اُسکی فضول سی بات پر ساحر نے دانت پیستے کہا ۔۔

ہاں سہی کہہ رہے ہیں لالا آپ وہ روز تو سوتے وقت بیہوش نہیں ہوتے پر آج ہونگے ۔۔ اُس نے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ سجاتے دانتوں کی نمائش کرتے کہا

اُسکی بات پر ایک پل کے لئے ساحر الجھا تھا پر بات کا مفہوم سمجھتے ہی اُسکے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں ہونے لگے ۔۔

آپ ڈاکٹر ہیں اچھے سے جانتے ہونگے کونسی دوائی اچھے سے اثر کریگی ۔۔۔ اُسے پریشان دیکھ وہ پھر مسکراتے بولا

ساحر نے اُسکی ذہانت پر داد دیتے بھنویں اچکاتے اُسے دیکھا ۔۔۔ جبکہ عادل بھی اُسکے پلین پر دنگ سا دیکھنے لگا۔۔۔

ٹھیک ہے پھر آپ جائیں اور کام ہوتے ہی ہمیں خبر کر دیجیئے گا ہم آجائینگے ، اُس نے اُسے پلین سے متفق دیکھ کہا ۔۔

ہم مطلب ؟؟ ساحر نے سپاٹ چہرے سے پوچھا ۔

میں اور عادل ۔۔۔ حارث عام سے انداز میں جواب دیتے اپنی چیزیں سمیٹنے لگا ۔

عادل اور ساحر دونوں کی نظریں ایک پل کے لئے ایک دوسرے سے ٹکرائی تھی ، عادل کی آنکھوں میں جذباتوں کی کرچیاں محسوس کر اُس نے نہ گواری سے آنکھیں پھیر لی ۔۔۔ جسے حارث نے بخوبی نوٹ کیا تھا۔

ایک کافی ہے تم آجانا ، ایک لمبی سانس ہوا میں تحلیل کرتے خود کو پرسکون کرتے بولا۔

نہیں ہم دونوں جب داجی کے کمرے میں جائینگے تب یہ دروازے کے باہر کھڑا ہمیں باہر کے حالات سے آگاہ کرتا رہیگا ، یہ کام ہم نے بہت ہی سمجھداری سے سر انجام دینا ہے ایک غلطی بھی ہمیں بھاری پڑ سکتی ہے ۔۔ حارث نے اپنا مخصوص وکیلوں والا سنجیدہ لہجہ اپناتے ہوئے کہا ۔۔۔

ساحر ضبط سے مٹھیاں بھینچتا خاموش ہوگیا ۔۔

ٹھیک ہے پھر میں اپڈیٹ کردونگا ۔۔ وہ حارث سے کہتا بنا عادل پر ایک بھی نظر ڈالے باہر کی طرف بڑھ گیا ، اس قدر نظر اندازِی پر عادل کا چہرہ سبکی کے احساس سے یک دم ہی سُرخ ہوا تھا جسے مہارت سے وہ سنجیدہ کر گیا ۔۔۔

ساحر باہر آتے ہی گاڑی میں سوار ہوتا ڈائریکٹ حویلی کے لئے نکلا ۔۔

تُمہارے اور ساحر کے بیچ کچھ ہوا ہے ؟؟؟ اُسکے جاتے ہی حارث اب پوری طرح عادل کی طرف متوجہ ہوتا بولا

نہیں.... اُس نے عام سے انداز میں جواب دیا۔۔

پھر تم اتنے بجھے بجھے کیوں لگ رہے ہو آج...؟ اُس نے مشکوک نظروں سے اُسے دیکھتے اگلا سوال کیا۔۔

نہیں بس تھوڑا سر میں درد ہے ۔۔۔ عادل نے فوراً بہانہ تلاشہ۔۔

اُسکی جواب پر وہ مطمئن تو نہیں ہوا تھا پر خاموش ضرور ہوگیا تھا ۔۔۔۔

اُسے خاموشی سے فائل میں جھکا مصروف دیکھ عادل نے بھی شکر کی سانس لی ۔۔۔


°°°°°°°°°°°

حرم یہ اشرفی کہاں ہے ؟؟ اپنے گھر میں تو نہیں ہے ۔۔۔ بالکونی میں اشرفی کو نہ دیکھ ساحر نے ڈائجسٹ میں پوری طرح حرم کو متوجہ دیکھ پوچھا۔۔

وہ درخنے کے پاس گیا ہے آج ، حرم نے ڈائجسٹ سے سر اٹھاتے جواب دیا ۔۔

اوہ ٹھیک ہے اچھی بات ہے.... ساحر نے مطمئن ہوتے بیڈ پر اپنی جگہ دراز ہوتے کہا۔۔

تم یہ اس وقت کیا لے کر بیٹھی ہو سونا نہیں ہے ۔۔۔۔ اُسکے ہاتھ سے ڈائجسٹ جھپٹتے بولا اس اچانک حملے پر حرم کی آنکھیں پھیلی تھی پر ڈائجسٹ ساحر کے ہاتھ میں دیکھ اُسے ٹھنڈے پیسنے آنے لگے تھے ، یہ تو شکر تھا کہ اُس نے ڈائجسٹ بنا دیکھے بند کر کے سائڈ ٹیبل پر پٹخ دی تھی ورنہ حرم کو آج اپنی موت صاف نظر آرہی تھی۔۔۔

کیا ہوا تم پریشان کیوں ہوگئی ؟؟ اُسکے چہرے کے تاثر دیکھ اُس نے نہ سمجھی سے پوچھا۔۔

نہی نہیں بس نیند آرہی تھی ، وہ کہتے ہی گڑبڑاتے خود پر بلینکٹ ڈالنے لگی ، نازک ہاتھ بلینکٹ کو پھیلانے میں مشغول تھے جبکہ سیاہ کالی زلفیں کمر میں کسی آبشار کی طرح لہروں کی صورت پھیلی ہوئی تھی ، اُسے بلینکٹ سے الجھا دیکھ ساحر نے جھٹکے سے ہی اُسکی کلائی دبوچتے اپنی جانب کھینچا ، وہ ناگہاں ہوئے افتاد پہ اپنا توازن برقرار نہ رکھتے سیدھا اسکے مظبوط چوڑے سینے کا حصہ بنی،

ایک ہاتھ اُسکی کمر میں ڈالتے دوسرے سے بلینکٹ درست کرنے لگا ، اور پھر لائٹ آف کرتے ، اُسکے بالوں میں نرمی سے اُنگلیاں چلانے لگا۔۔۔

وہ جو کسی اور حملے کے لئے خود کو تیار کیئے ہوئے تھے ، اپنے بالوں میں اُسکی سرسراتی اُنگلیوں کا لمس محسوس کرتے آنکھیں موند گئی ۔۔۔ اُسکی نرم گرم سانسیں ساحر صاف اپنے سینے پر محسوس کر سکتا تھا۔۔۔

رات کے کھانے میں وہ انتہائی صفائی سے داجی کے سوپ میں دوا مکس کر گیا تھا ، جس کے باعث ڈائننگ ٹیبل سے اُٹھتے داجی کے قدم لڑکھڑائے ، بروقت آگے بڑھتے ساحر نے اُنہیں تھاما اور کمرے میں چھوڑ آیا کمرے میں آنے تک داجی غنودگی میں جانے کے قریب ہی تھے ، وہ اُنہیں سونے کا کہتا اُن پر کمفرٹر درست کرتا اُنکے کمرے سے باہر آگیا تھا ، گھر والوں کو اُس نے یہی کہا تھا کہ داجی سوگئے ہیں اُنہیں کوئی ڈسٹرب نہ کرے ، اور اب اُسے کسی بھی طرح حرم کو سلانا تھا تا کہ سکون سے اپنا کارنامہ سر انجام دے سکے ۔۔۔

حرم کو سویا محسوس کر اُس نے ہاتھ بڑھاتے بہت احتیاط سے اُسکا سر اپنے سینے سے ہٹاتے تکیے پر رکھا اور اُسکے ماتھے پر بوسہ دیتے موبائل لیتا دبے پاؤں کمرے سے نکلتا گیا۔۔۔

باہر آتے ہی راستہ صاف دیکھ اُس نے حارث کو میسیج کیا ، میسیج ملتے ہی وہ دونوں بھی دبے پاؤں حویلی میں داخل ہوتے ساحر تک پہنچے ، ساحر اور حارث داجی کے کمرے کی طرف بڑھ گئے جبکہ عادل کے بائیں جانب اندھیرے کی اوٹ میں الرٹ سا کھڑا ہوگیا ۔۔۔۔


°°°°°°°

ایک نظر داجی کی گہری نیند کی یقین دہانی کرتے وہ الماری کی طرف بڑھے جبکہ حارث سائیڈ ٹیبل ڈرار کی تلاشی لینے لگا,,,جہاں ایک ڈرار لاکٹ تھی جسکی چابیاں داجی کے پرسنل لاکر میں تھی اور لاکر کی چابی داجی ہمیشہ اپنے قمیز کے جیب میں رکھتے تھے,,,,حارث نے اللہ کا نام لیتے داجی کے جیب سے چابی نکالی شکر تھا داجی تقریباً نیم بیہوشی میں تھے جسکی وجہ سے وہ حرکت بھی نہیں کر رہے تھے وہ چابی نکالتے لاکر کی جانب بڑھا,,,اور چابی لگا کر لاکر کھولا جہاں بہت ساری چابیاں موجود تھی مگر ان میں ایک چابی کچھ عجیب ترز کی تراشی گئی تھی,,,,


کیا ہوا؟؟ حارث کو لاکر کے آگے ساکت کھڑا دکھ ساحر نے قریب آتے پوچھا,,,,مگر اسکے ہاتھ میں یہ چھوٹی سی عجیب ترز کی تراشی ہوئی چابی دیکھ وہ بھی ٹھکٹکا,,,یہ کس چیز کی چابی ہوسکتی ہے کچھ ضروری ہو,,,,ساحر نے چابی اسکے ہاتھ سے اپنے ہاتھ میں لیتے کہا,,,,


ضروری بھی اور شاید ہمارے لیئے بھی ضروری ہو,,,,حارث نے اسکی بات سے اتفاق کرتے اپنی بات جوڑی,,,.


مگر یہ ہے کس چیز کی چابی حویلی میں تو اس طرح کی کوئی لاکر نہیں موجود جسکی ایسی چابی ہو کچھ عجیب ہے یہ,,,,ساحر نے چابی کا اچھی طرح جائزہ لیتے کہا,,,یقیناً کچھ اہم ہے تبہی سب سے منفرد ہے یہ ہمیں ڈھونڈنا چاہیئے,,,,حارث نے کہتے کمرے کی تلاشی جاری کی ساحر بھی آس پاس کے فریمز الماری ڈیوائڈر ٹیبل حتیٰ کے زمین تک کی اچھے سے تلاشی لینے لگا مگر کچھ خاطر خواہ ثبوت حاصل نہ ہوا,,,


یہاں تو ایسا کوئی لاکر نہیں ہے لالا,,,,حارث کی الجھی سی آواز برآمد ہوئء,,,ہممم ساحر نے ہنکارا بھرا ,,,

حارث تم نے لاکر چیک کیا؟؟کچھ یاد آنے پر اسنے پوچھا اور اگلے ہی لمحے حارث کی نفی میں ہلتی گردن دیکھ وہ شتاب کاری سے لاکر کی جانب بڑھا,,,,

اسکے پیچھے حارث نے بھی قدم بڑھائے,,,,

بظاہر اس لاکر میں ایسا کچھ موجود نہیں تھا ,,,محض ایک شیٹ لگی ہوئ تھی باقی پورے لاکر میں صرف چابیاں موجود تھی,,,,ساحر نے ساری چابیوں کا گھچہ ہٹاتے لاکر کا جائزہ لیا سامنے ہی ایک نا محسوس طرح کا بٹن نثب تھا جسے دیکھ اسکے دماغ میں کچھ کلک ہوا اور اگلے ہی لمحے اسنے بٹن پہ دباؤ ڈالتے اسے اندر کی جانب دبایا,,,کلک کیساتھ لاک کھلنے کی آواز برآمد ہوئی اور سامنے کی شیٹ دروازے کی صورت دو حصوں میں تقسیم ہوگئ ,,,,حارث اور ساحر دونوں نے بیک وقت ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور اگلے ہی لمحے اللہ کا نام لیتے اس لاکر کی جانب دیکھا جہاں ایک فائل کافی احتیاط سے رکھی گئی تھی,,,,


°°°°°

ماضی۔۔۔۔۔۔


رات کا منظر تھا چاروں اور سناٹا برپا تھا ,,,,ہرسوں تاراریکی ہنوز اپنے پر پھیلائے ہوئے تھی اسپتال کے کوریڈور میں یہ شخص شاید گہری نیند میں کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے سو رہا تھا ,,,,,وہ یہاں نہیںَ آنا چاہتا تھا وہ ہر لمحہ اپنی بیوی کیساتھ گزارنا چاہتا تھا ,,,,جس کے ساتھ گزشتہ روز میں ہی بھیانک حادثہ پیش آیا تھا وہ فوری اپنی بیوی کو لیئے شہر کے مشہور ہارٹ سرجن اپنے جگری دوست ڈاکٹر شہروز خان کے ہسپتال پہنچا جہاں شہروز خان نے اسکی بیوی کو زیر علاج لیتے اسکی جان بچائی مگر اب بھی اس عورت کی حالات خاصی ناساز تھی آنے والے لمحات شاہ میر کیلئے بہت سخت دن تھے وہ زندہ تو تھی مگر زخمی پثمردہ حالت میں اسپتال کے بیڈ پہ پڑی تھی,,,جسے دیکھتے شاہ میر کی حالت غیر ہورہی تھی وہ خود بھی زخمی تھا مگر شہروز نے اسے بروقت علاج میسر کردیا تھا جسکے نتیجے میں وہ اب بہتر تھا مگر اپنی بیوی کی حالت پر اسکا دل کٹتا ہی جارہا تھا,,,,

شہروز خان سے اپنے جگری دوست کی یہ حالت نہ دیکھی گئ اور وہ زور دیتے اسے کمرے سے باہر کوریڈور میں لے آئے جہاں کچھ دیر شہروز خان کیساتھ شاہ میر اپنا دکھ ہلکا کرنے لگے وہ کل سے ایک لمحہ بھی نہیں سوئے تھے کل بھی پوری رات شاہ میر نے اپنی بیوی کی حالت دیکھتے آنکھوں میں ہی گزاری انکے وجود میں تھکن سر چڑھ کر بول رہی تھی کوریڈور میں آتی آسمان سے قدرتی ہوا کے جھونکے جیسے ہی شاہ میر کے وجود سے ٹکرائے وہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے نیند کی وادی میں اتر گئے,,,

شہروز خان بھی ایک آخری نظر انکے سوئے وجود پہ ڈالتے اپنے تھکن زدہ اعصاب کیساتھ وہاں سے اٹھ کر چلے گئے کیونکہ وہ بھی دو دن سے شاہ میر کیساتھ ہی ہسپتال میں تھے اور اپنے دوست کے ہمقدم رہے,,,

کافی وقت گزر چکا تھا شاہ میر اب بھی پرسکون نیند میں غرق تھے کہ ناگہاں اسپتال کی دیواروں سے ٹکراتی شائنہ کی چنگاڑتی ہوئی آواز انکے کانوں سے ٹکرائی ,,,,پہلی آواز پہ انکی نیند ٹوٹی اور اگلی آواز پہ وہ آواز پہنچانتے برق رفتاری سے شائنہ کے کمرے کی جانب بھاگے مگر دوسری آواز پہ انکی بیوی کی آواز دم توڑ چکی تھی تیزی سے کمرے کا دروازہ والہانہ انداز میں کھولتے وہ اندر داخل ہوئے مگر اندر کا منظر دیکھ انکے پیروں تلے زمین کھسکی ,,,,,

جہاں سامنے ہی شہروز خان شائنہ کی جانب جکھے ہوئے تھے جبکہ شائنہ کی حالت نازیباء تھی انکے وجود سے کپڑے پھٹے ہوئے تھے چہرے پہ کسی کی درندگی کے نشان واضح تھے ,,,,جبکہ شائنہ کا ایک ہاتھ شہروز خان کی گردن پہ اس طرح تھا جیسے وہ انسے اپنا بچاؤ کر رہی ہو ,,,,دروازہ کھلنے کی آواز پہ شہروز خان نے گردن کو جھٹکا دیتے آواز کے تعاقب میں دیکھا ,,,,تو انکا اپنی گردن کی جانب بڑھتا ہاتھ تھما جہاں شائنہ کے ناخنوں کے نشان بن چکے تھے,,,,اگلے ہی لمحے وہ جھٹکے سے شائنہ کا ہاتھ اپنی گردن سے ہٹاتے کچھ فاصلے پہ ہوئے,,,,


جبکہ شاہ میر اب بھی گہرے صدمے میں اپنی بیوی کی لٹی پھٹی حالت دیکھ رہے تھے,,,,

شاہ....اپنے جگری دوست کی آنکھوں میں سوال دیکھ اسنے پکارا مگر شاہ میر کی جانب سے پڑنے والا مکہ اتنا زوردار تھا کہ وہ لڑکھڑاتے اوندھے منہ زمین بوس ہوئے,,,دوسرے ہی پل شاہ میر ایک کہر آلود نگاہ شہروز خان پہ ڈالتے اپنی بیوی کے مردہ وجود کی جانب بڑھے اور تیزی سے انکا وجود چادر میں ڈھکا,,,,

ششائنہ شائنہ آنکھیں کھولو ......ککسنے کیا ہے یہ سب.... بتاؤ ممجھے ......اسنے....ہاں اسی بے کیا ہے .....ممیں جان لے لونگا اسکی ....تم...تم... آنکھیں کھولو پپلیز.....وہ لڑکھڑاتے اس مردہ وجود کے آگے گڑگڑانے لگے,,,,لفظوں کا رخ شہروز خان کی جانب تھا,,,,

میر....جیسا تو سوچ رہا ہے ویسا کچھ نہیں ہے میں نے کچھ نہیں کیا ہے میری بات سن مجھے خود کو ثابت کرنے کا ایک موقعہ تو دے,,,,میں ایسا کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا میر,,,,

وہ اپنے ماتھے سے ہاتھ کی ہتھیلی کی مدد سے خون روکتے اپنی صفائی پیش کرنے لگے ,,,,

گالی.....تو نے تو نے ہی کیا ہے یہ سب بیغیرت آدمی میر نے بھپرے شیر کی مانند پلٹتے ایک اور مکہ شہروز خان کے منہ پہ رسید کیا,,,,.سالے آستین کا سانپ ہے تو جان بوجھ کر تو نے مجھے کوریڈور میں سونے پر مجبور کیا تاکہ تیری اس بیغیرتی میں کوئی خلل نہ آئے,,,,

گالی......وہ پھر انکا کالر پکڑ کر گرائے,,,,

میر ہوش سے کام لے یہ میں نے نہیں کیا میں قسم اٹھانے کو تیار ہوں یقین نہیں آتا تو بیشک تو بھابی کا ٹیسٹ کروالے میرے بھائی میں اتنی گری ہوئی حرکت کبھی نہیں کرسکتا تجھے معلوم ہے تو مجھے بچپن سے جانتا ہے بس ایک بار ایک بار میری بات پہ غور کرلے مجھ پہ شک مت کر میں ایسا نہیں ہوں میں نے کبھی بھابی کو گندی نظر سے نہیں دیکھا میر میں خود بھی شادی شدہ ہوں پلیز میری بات کا یقین کر یہ میں نے نہیں کیا,,,

اپنے کالر پہ رکھے اسکے ہاتھوں کو مظبوطی سے پکڑتے وہ اونچی آواز میں بولا لفظوں میں بے بسی تھی اگر اسکی جگہ میر ہوتا تو شاید شہروز خان کا بھی یہی رد عمل ہوتا وہ سمجھ رہا تھا ماحول کی سنگینی کو,,,,اسکے لفظوں پہ یکلخت میر نے اسکا گریبان چھوڑا,,,,

پتہ تو میں ویسے بھی کرواؤنگا,,,,اپنی بیوی کے آگے قسم کھا کر کہتا ہوں اگر جسنے بھی میری عزت کو داغدار کیا ہے خدا کی قسم اسکی ہستی مٹادونگا لیکن یہ مت سمجھنا میری نظروں سے تو بچ جائے گا,,,

وہ پرعظم سخت لہجے میں کہتا اپنی بیوی کی جانب بڑھا,,,,

بھابی زندہ ہیں میر وقت مت ضائع کر انہیں علاج کی ضرورت ہے,,, وہ پھر ہمت کرتے بولا کیونکہ وہ شائنہ کی دھڑکنیں مشین کے ذریعے دیکھ چکا تھا جہاں میر کی نظر نہیں پڑی تھی,,,,تیرے ہسپتال میں علاج نہیں کروانا ہے مجھے,,, وہ ضبط سے کہتا شائنہ کا برہنہ وجود ڈھکنے لگا,,,,

مجھسے مت کروا مگر یہی رکھ جتنی جگہ جائے گا اتنی جگہ بات پھیلے گی بھابی کے بارے میں سوچ میر پلیز اسکے بعد جو چاہے کرلینا مگر اس وقت بھابی کو جلد از جلد علاج کی ضرورت ہے میں لیڈی ڈاکٹر کو بلا لیتا ہوں بیشک تو سارا علاج اپنی نگرانی میں کروا مگر دماغ سے کام لے,,,,شہروز نے اپنے تہی ڈھکے چھپے لفظوں میں اسے درست مشورہ دیا اسکی بات کی گہرائی کو سمجھتے وہ خاموش رہا ,,,,,اور شہروز وہاں سے نکلتے چلے گئے,,,,

♡♡♡♡♡


ڈاکٹر نائلہ نے شائنہ کو ٹریٹمنٹ تو دے دیا تھا مگر شائنہ اپنی عزت چلے جانے کا غم نہ برداشت کرتے قومہ میں جاچکی تھی,,,,

ریپورٹس آنے میں وقت درکار تھا جسکے نتیجے میں شہروز خان کی عزت بھروسہ کیریئر زندگی سب داؤ پہ لگا تھا اس ریپورٹس سے ظاہر ہوجاتا کہ یہ شہروز خان نے کیا ہے یہ نہیں,,,,

میر اس سنگین معاملے کو بنا دنیا میں اچھالے ہی حل کرنا چاہتے تھے تاکہ انکی بیوی کی زندگی مزید اجیرن ہونے سے بچ جائے وہ مجرم کو سزا بھی دینا چاہتے تھے مگر معاملہ پولیس کے ہاتھ میں بھی نہیں دینا چاہتے تھے اسلیئے وہ ریپورٹس آنے کے انتظار میں تھے ,,,,

شاہ میر نے اپنی محبت سے بھاگ کر شادی کی تھی شائنہ کے آگے پیچھے کوئی نہیں تھا مگر شاہ میر کا اپنا ایک خاندان تھا جسنے میر کی اس حرکت پہ ان سے تعلق ترک کرلیا تھا مگر انکی کافی مدد میر کے ایک کذن نوید نے کی تھی جو اسلاآمباد میں ہی رہتا تھا اور پولیس کی نوکری کرتا تھا دونوں میاں بیوی نے کافی وقت نوید کے رحم و کرم پر گزارا اور اس مشکل وقت میں بھی میر کو مدد کیلئے نوید کا ہی دھیان آیا ,,,,وہ اس کیس میں پولیس کی مدد نہیں لے سکتا تھا مگر نوید کی مدد سے اصل مجرم تک پہنچ کر سزا ضرور دلوا سکتا تھا بس وہ چاہتا تھا اسکی بیوی پہ مزید کوئی آنچ نہ آئے,,,,

وہ لفظ بہ لفظ ساری بات نوید کو بتا چکے تھے جبکہ نوید کو بھی شہروز خان ہی مجرم لگے,,,,


******


وہ بے حد پریشان اپنے کیبن میں بیٹھے کسی غیر مرئی نقطے پہ غور فرما رہے تھے جب نرس نے آتے انکی ٹییبل پہ ڈاکٹر نائلہ کی جانب سے بھیجی گئی فائل رکھی,,,, نرس فائل رکھ کر جا چکی تھی جبکہ شہروز خان کے چہرے پہ خوشی کی لہر دوڑ گئ انہیں یقین تھا,,,,فائل میں انکی بے گناہی کا ثبوت موجود ہوگا مگر ہر بار جیسا ہم سوچے ویسا نہیں ہوتا کبھی کبھی انسان کا وقت خراب ہوتا ہے ,,,,انہوں نے فائل کھولی تو وہ اپنی جگہ دنگ رہ گئے کیونکہ فائل میں موجود معلومات انکی سوچ کے برعکس تھی ساتوں آسمان ٹھا ٹھا کر کے انکے سر پہ آن گرے وہ ہکا بکا اس فائل میں موجود ریپورٹس کو پڑھنے لگے ابھی وہ کچھ کہتے یا کرتے کہ میر جارحانہ انداز میں دروازہ کھولتے اندر داخل ہوئے,,,اور انکے ہاتھ سے فائل جھپٹتے خود پڑھنے لگے جیسے وہ پیپرز پڑھ رہے تھے انکے تاثرات مزید سخت ہورہے تھے,,,انکے شک پہ جیسے یقین کی مہر لگ چکی تھی ,,,,


کہیں نہ کہیں مجھے لگا تھا تم ایسی نیچ حرکت کبھی نہیں کرسکتے ایک لمحے کیلئے اپنے کہے لفظوں پہ پچتاوا ہوا تھا لیکن میں بھول گیا تھا شہروز خان وہ مرد ہے جو اپنی محبت کو نکاح میں لینے کے باوجود دوسری شادی کرکے بیٹھا ہے مگر تجھ جیسے مردوں کی بھوک کبھی نہیں مٹتی میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی تیری چوکھٹ پہ پناہ لینا,,,,

وہ فائل کو سختی سے مٹھی میں دبوچے سرخ آنکھوں سے پھنکارا,,جبکہ شہروز خان اب تک ریپورٹس میں موجود لفظوں پہ یقین کرنے کی تگ و دو میں تھے,,,


شہروز سمندر خان یہ مت سمجھنا کہ شاہ میر بدنامی کے ڈر سے اس معاملے کو ایسے ہی جانے دیگا کبھی نہیں ہر گز نہیں میر شاہ تم جیسے درندوں کو بڑھاوا کبھی نہیں دیگا عبرت ناک سزا تمہارے حصے میں آئیگی شاہ میر خاموش نہیں بیٹھے گا,,,,وہ پر عظم بااعتماد لہجے میں اسکے سامنے ایک عظم باندھ گیا لہجہ انتہائی تضحیک آمیز تھا نگاہوں سے بھی حقارت برس رہی تھی ,,,


شہروز خان کچھ نہ بولا جبکہ شاہ میر اسے دھمکاتے جا چکا تھا کیونکہ سارا معاملہ وہ نوید کے سپرد کر چکا تھا ,,,

اپنے جگری دوست کی آنکھوں میں بے اعتباری دیکھ انکا دل کٹ رہا تھا,,,,مگر انکے پاس اپنی صفائی میں کہنے کیلئے کچھ نہیں تھا ,,,,وہ بے بس سے کرسی پہ ڈھے سے گئے مگر باہر کھڑے داجی کے پیروں تلے زمین کھسک چکی تھی شاہ میر کے لفظوں کا یقین کرنا انکے لیئے انتہائی دشوار ٹہرا,,,


دروازے سے نکلتے شاہ میر کہ نظر داجی پہ نہیں گئی تھی ,,,,اسکے لفظ داجی کے کانوں میں بازگشت کرنے لگے انہی لفظوں کے زیر اثر وہ لڑکھڑا کے زمین بوس ہوتے کے تبہی ڈاکٹر نائلہ نے انہیں بروقت سمبھالا اور سہارا دیتے اپنے کیبن میں لے گئیں,,,


داجی آپ ٹھیک تو ہیں؟؟انہیں پانی کا گلاس تھماتے ساتھ انکا بی پی چیک کرتے سوال کیا داجی کی رنگت زرد پڑ چکی تھی بی پی انتہائی حد تک بڑھ رہا تھا,,,,


بیٹا میں ٹھیک ہوں مگر یہ فائل کا کیا ماجرہ ہے یہ میر ایسے کیوں دھمکا کر گیا ہے شہروز کو,,,,بروقت خود کو سمبھالتے کچھ یاد آنے پر داجی نے سوال کیا,,,

وہ ڈاکٹر نائلہ کو پچھلے سات سال سے جانتے تھے شہروز کے انڈر ہی وہ سات سالوں سے کام کر رہی تھی ساتھ شہروز خان کے جگری دوست شاہ میر سے بھی وہ اچھی طرح واقفیت رکھتے تھے,,,,

شہروز دو دن سے گھر نہیں آیا تھا پوچھنے پر اسنے محض یہ ہی بہانہ بنایا کہ ایمرجنسی ہے مگر داجی کو انکے لہجے میں کچھ کھٹکا تبہی وہ فوری یہاں موجود تھے,,,

داجی آپ فکر نہیں کریں شاہ میر نے سر شہروز پہ زیادتی کا الزام لگایا تھا مگر ریپورٹس میں سب ثابت ہوچکا ہے سر شہروز بے قصور ہیں مجھے انکے کردار پہ پورا بھروسہ تھا اور ریپورٹس میں بھی ایسا ہی آیا ہے لیکن مجھے سمجھ نہیں آرہا آپ کس دھمکی کی بات کر رہے ہیں جبکہ ریپورٹس تو کلیئر ہیں پھر شاہ میر نے کس بات کی دھمکی دی ہے؟؟؟تفصیل سے داجی کو ساری بات بتاتے آخر میں اسنے الجھتے ہوئے سوال داغا,,,


کیا کہا پرچہ صاف تھا پھر بھی میر نے شہروز کو دھمکی دی وہ یقیناً کسی غلط فہمی میں ہے یہ پھر شاید اسے حسد ہورہی ہے شہروز کی کامیاب زندگی سے تبہی وہ من گھڑت کہانیاں بنا رہا یے,,,,داجی نے سارا معاملہ زہن نشین کرتے سنجیدگی سے کہا,,,


آپ فکر مت کریں داجی وہ فائل کاپیڈ تھی جو میں نے شہروز سر کے پاس بھیجی ہے میرے پاس اسکی اورجنل فائل بھی موجود ہے آپ رکیں میں ابھی دیتی ہوں ,,,,


شہروز سر ہمیشہ اس طرح کے سنگین کیسس میں فائل کی کاپیڈ رکھتے تھے تاکہ کبھی کسی بے گناہ کو سزا نہ ملے,,,اسنے کہتے ہی ڈرار سے اورجنل فائل نکال کر داجی کے سامنے رکھی,,,

داجی کے دل پہ جیسے ٹھنڈی پھنواریں گرنے لگی تھی اپنے لاڈلے سپوت کی بےگناہی کا ثبوت دیکھ وہ کھل اٹھے تھے ڈاکٹر نائلہ کا شکریہ ادا کرتے وہ وہاں سے نکلتے چلے گئے,,,,,


*******

شاہ میر نوید کی مصروفیات کے باعث اگلے دن نوید کے پاس آیا تھا اسنے اپنی بیوی کو بھی اسپتال سے نوید کے گھر ہی منتقل کروا لیا تھا,,,,ساری بات وہ نوید کے گوش گزارتا ساتھ وہ فائل بھی اسکے سپرد کر چکا تھا,,,

میر کے لہجے میں بے بسی نمایا تھی تو نوید کا لہجہ ظاہری حوصلہ افزائی کر رہا تھا,,,,,


میں سارا معاملہ سمبھال لونگا لیکن اگر یہ بات سمندر خان تک پہنچی تو وہ اپنے بیٹے کو بچانے کیلئے کسی بھی حد تک چلے جائینگے پشاور میں انکے نام کا سکہ چلتا ہے انکی ایک آواز پہ پورا پشاور ہمارے تھانے پہ پتھراؤ کردیگا جہاں تک میری معلومات ہے میر سمندر خان کی پہنچ ڈی ایس پی کمشنر تک ہے وہ با آسانی شہروز کو اس کیس سے باہر نکال سکتے ہیں مگر تم فکر مت کرو میں اپنے طور پوری کوشش کرونگا اسے سزا دلوانے کی لیکن تم وعدہ کرو جزبات میں آکر تم اپنے ہاتھ گندے نہیں کروگے اگر شہروز خان کو سزا نہیں دلوا سکے تو تم یہاں سے کہیں دور چلے جاؤ گے ,,,, اسے سنجیدگی سے سلجھے لہجے میں سمجھاتے اسنے آخری بات پہ زور دیا انداز ایسا تھا جیسے وہ اس کام کیلئے اسے باز رہنے کی تاکید کرنے کے بجائے ایسا کرنے پہ اکسا رہا ہو,,,

مقابل نے اسکی بات پہ ضبط سے مٹھیاں بھینچی پہلے سے سرخ آنکھیں مزید انگارہ ہوئی,,,نا ممکن اس جیسے کمینے کو تو میں اپنی آخری سانس تک بھی معاف نہیں کروگا اور کائروں کی طرح یہاں سے بھاگنے کے بجائے میں سمندر خان کا مقابلہ کرکے مرنا پسند کرونگا اس جنگ میں کسی ایک کو مرنا ہوگا جب تک میری بیوی زندہ ہے مجھے کچھ نہیں ہوسکتا مگر شہروز خان کو موت کے گھاٹ میں اتار کر رہونگا جتنا تم کرسکتے ہو کرو باقی میرے حوالے,,,وہ اپنی بات اٹل لہجے میں کہتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا اوپر کی جانب بڑھ گیا جہاں شائنہ اپنے ساکت وجود کیساتھ بے حس و حرکت پڑی تھی,,,,پیچھے نوید کے لبوں پہ مکروہ مسکراہٹ ابھر آئی ,,,,,


وہ اپنے کمرے میں پہنچا تو شائنہ ہنوز اپنی جگہ سابقہ حالت میں پڑی تھی ,,,,

میر جب جب اپنی بیوی اپنی محبت کو اس حال میں دیکھتا نئے سرے سے اسکے دل میں شہروز خان کیلئے نفرت امڑ آتی بار بار اسکی آنکھوں میں وہ لمحہ گزر رہا تھا جب شہروز اسکی بیوی کی عزت کو پامال کرچکا تھا,,,وہ مٹھیاں بھینچے خود پہ ضبط کے پہرے بٹھاتا شائنہ کے سرہانے بیٹھا اسکا چہرہ تک رہا تھا جہاں اب تشدد کے نشان پایاب تھے,,,,

میں وعدہ کرتا ہوں شائنہ چاہے جو ہوجائے میں تمہارے مجرم کو آزادی سے زندگی نہیں گزارنے دونگا,,,یہ قانون یہ عدالت کچھ نہیں بھی کرسکی تو بھی میں تمہارے مجرم سے بدلہ لے کر رہونگا,,,,تمہارے ساتھ ایسا کرنے والوں کو میں کربناک موت دونگا یہ وعدہ ہے شاہ کا اپنی بیوی سے, وہ آنسوں صاف کرتے ہوئے بولا تبہی اسکا موبائل بجا ,,,,,,نمبر دیکھ اسنے بٹن دباتے کال یس کرتے موبائل کان سے لگایا اور اٹھ کر کچھ فاصلے پہ کھڑا ہوا,,,,


دوسری جانب سے کچھ ایسا کہا گیا جسے سنتے اسکے جبڑے تن گئے اگلے ہی لمحے بنا کچھ بولے ہی اسنے کال کاٹ دی,,,,,ماتھے پہ لاتعداد تیوریاں چڑھی ہوئی تھی جنہیں اسنے انگھوٹھے سے مسلتے دور کیا,,,,اور کچھ سوچتے قدم باہر کی جانب بڑھا دیئے,,,,ایک نظر وہ خالی حال میں ڈالتا بیرونی دروازے سے نکلتا چلا گیا,,,,


پیچھے دروازے کی اوٹ میں چھپے نوید نے اسے عجلت میں کہیں جاتا دیکھ اسکی پشت کو تکتے مسکراہٹ پاس کی اور آنکھوں میں غلاظت لیئے شائنہ کے کمرے کی جانب بڑھ گیا,,,,


*******


وہ لمبی مسافت طے کرتے شہر سے سیدھا پشاور آیا تھا,,,جہاں ایک کھنڈر سنسان سی جگہ پہ داجی اسکے منتظر تھے وہ لمبے لمبے قدم اٹھاتا اس چوکی نما بنی جگہ میں داخل ہوا داجی پہلے ہی یہاں اپنی شان بان آن کیساتھ مخصوص انداز میں کرسی پہ براجمان تھے,,,وہ چلتا ہوا عین انکے مقابل کرسی پہ براجمان ہوا,,,,

کہیئے داجی کیا کہنا چاہتے ہیں آپ مجھ سے,,,,وہ واقف تھا داجی یقیناً شہروز خان کی صفائی میں کچھ کہنا چاہتے ہیں مگر وہ سننے پہ آمادہ نہیں تھا فقط داجی کی عمر کا لحاظ کرتے اسنے صبر کے کڑوے گھونٹ پیتے پوچھا,,,,


کہنا نہیں دکھانا چاہتے ہیں ,,,,ہم تمہیں کچھ دکھانا چاہتے ہیں میر تمہیں بہت بڑی غلط فہمی ہوئی ہے بیٹا تم ہمارے شہروز کے بارے میں ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہو تم تو ہم سے بھی بہتر جانتے ہو شہروز کو,,,,داجی نے اپنی بات کی تمہید باندھی لہجہ کافی تاسف زدہ تھا,,,


داجی مہربانی کر کے شہروز کے کردار کے بارے میں کوئی بات مت کریں میں یہاں محض آپکی عزت کے خاطر آیا ہوں لیکن شہروز کے حوالے سے میں کوئی صفائی نہیں سننا چاہتا ,,,,ویسے بھی جس شہروز کو میں جانتا تھا وہ کبھی دوسری شادی بھی نہیں کرسکتا تھا مگر اسنے کی یہاں تک کے اسکی اولاد بھی ہے اب جو شہروز اتنے سالوں بعد میرے سامنے کھل کر آیا ہے یقین کریں داجی میں اسے نہیں پہنچانتا شہروز اب محض میرے لیئے ایک وحشی درندہ ہے جسنے میری عزت کو پامال کیا ہے ,,,,,

وہ شدید ضبط سے بولا اسے یہاں رکنا محال لگنے لگا,,,,


ٹھیک ہے تو پھر پڑھ لو اسے تاکہ تمہیں یقین آجائے کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ,,,داجی نے ریپورٹس کیس فائل اسکے آگے بڑھاتے کہا,,,,

اسنے پہلے ایک نظر فائل کو اور پھر سپاٹ چہرے سے داجی کو دیکھا,,,,اور فائل لیتے پڑھنا شروع کی,,,,وہ جیسے جیسے لفظوں کو پڑھ رہا تھا اسے یقین کرنا مشکل تھا ,,,ابھی وہ فائل میں موجودہ معلومات پہ یقین کرتا اس سے قبل ہی دماغ میں نوید کے لفظ کسی ہتھوڑے کی طرح بازگشت کرنے لگے (سمندر خان کی پہنچ بہت وسیع ہے وہ چاہے تو سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ میں بھی بدل سکتے ہیں) اگلے ہی لمحے اسنے وہ فائل والحانہ انداز میں بند کرتے داجی کو تھمائی,,,,


داجی دم سادھے اسکی انگارہ ہوتی نگاہیں دیکھنے لگے,,,,

میں واقعی آپکی بہت عزت کرتا ہوں داجی اسلیئے نہیں کہ آپ شہروز کے والد ہیں بلکہ اسلیئے کہ آپ عمر میں رتبے میں مجھ سے بڑے ہیں اور میرے والدین نے بڑوں کے آگے آواز اونچی کرنا نہیں سکھایا میں چاہ کر بھی آپ سے بد لحاظی نہیں کرسکتا اور میری موجودگی اس بات کا ثبوت ہے ,,,,,وہ سنجیدگی سے ہر لفظ پہ زور دیتے بولا,,,,


میں واقف ہوں آپ ہر طاقت آزمائینگے اپنے بیٹے کو بچانے کیلئے لیکن میرے آگے آپ اپنی طاقت کا زعم آزماکر حقیقت کو نہیں بدل سکتے,,,آپ ایسے ہزار ثبوت بھی میرے سامنے پیش کردیں تب بھی میری آنکھیں وہ منظر نہیں جھٹلا سکتی شہروز خان نے گناہ کیا ہے گناہ اور گناہوں کی معافی نہیں ہوتی گناہوں کا محض کفارہ ہوتا ہے اور شہروز کفارہ ہر حال میں ادا کریگا,,, اس بات کو چاہے آپ تسلیم کریں یا نہ کریں,,,,

وہ سخت اٹل لہجے میں کہتا ایک آخری نگاہ داجی کے سرخ ہوتے چہرے پہ ڈالتا جانے کیلئے پلٹا جب اپنی پشت پہ داجی کے لفظوں سے اسکے قدم ساکت ہوئے,,,


آخر اکھاڑ کیا لوگے تم سمندر خان کی اولاد کا بھولوں مت اب تک ایسی کوئی عدالت قانون نہیں جو سمندر خان کے خاندان پہ بے جاں الزام لگا کر اسے بدنام کرنے کی جرت کرے اگر یہ تمہارا شوق ہے تو اسے شوق سے پورا کرو شاہ میر لیکن یاد رکھنا میرے بیٹے کا تم بال بھی باکا نہیں کرسکتے اور ٹھیک کہا تم نے سمندر خان اپنے بیٹے کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے جاؤ عدالت کا دروازہ کھٹکاؤ لیکن یاد رکھنا جہاں بھی جاؤ گے محض اپنی ہی عزت گنواؤ گے شہروز خان کا تو ویسے بھی تم کچھ نہیں بگاڑ سکتے بہتری اسی میں ہے کہ حقیقت کو تسلیم کرو کبھی کبھی آنکھوں دیکھا بھی جھوٹ فریب ہوتا ہے اس سے زیادہ سمندر خان تمہیں کوئی صفائی نہیں پیش کریگا جو اکھاڑ سکتے ہو اکھاڑ لو,,,,داجی کا لہجہ یکلخت ہی انتہائی سخت ہوا وہ اسکی پشت تکتے بلند آواز میں بولے جیسے اعلان جنگ کر رہے ہوں,,,


میر نے شعلہ برساتی نگاہوں سے پلٹ کر داجی کو دیکھا اسے داجی کا لہجہ کافی تضحیک آمیز حقارت زدہ لگا,,,,میر کی ضبط کی تنابیں ٹوٹی,,,


اپنی عزت کی حفاظت میں اچھے سے کرلونگا آپ اپنے بیٹے کہ زندگی کی حفاظت کریں کبھی بھی مخالف فریق کو خود سے کمتر نہیں سمجھنا چاہیئے داجی اور آپکے یہاں تو غیرت کے نام پہ قتل واجب ہوجاتا ہے,,,,وہ ٹھنڈے ٹھار لہجے میں اپنے لفظوں سے انہیں بہت کچھ باور کرواتے وہاں سے نکلتا چلا گیا,,,,


°°°°°°°°°°°°

حال...........

پنچھی بنو اڑتا پھروں مست گگن میں ، آج میں آزاد ہوں دنیا کی نظر میں......اس عجیب سی آواز پر بے ساختہ ہی عادل کی نظر نیچے لاؤنچ پر پڑی جہاں اشرفی گول گول اڑتا گنگنا رہا تھا ، ایک پل کے لئے عادل کی آنکھیں غیر یقینی سے پھیلی تھی پر کچن سے آتے وجود کو دیکھ اُسکی دھڑکنیں بے ساختہ ہی دھڑکنیں لگی ، اُسے اپنے وجود سے ٹھندی ہوائیں ٹکراتی محسوس ہوئی ماحول میں ایک سحر سا تھا جس میں اُس نے خود کو جکڑا محسوس کیا۔۔۔


اشرفی کی گنگناہٹ پر کچن سے اچانک ہی درخنے غصے اور خوف سے سُرخ ہوتی نمودار ہوئی ،

اشرفی چپ ہو جاؤ اگر کوئی جاگ گیا تو تم اکیلے نہیں اڑو گے میں بھی آڑا دی جاؤنگی ،تُمہارے اس آزاد گگن میں۔۔۔۔ وہ اُس تک پہنچتی ہلکی آواز میں پر سخت لہجے میں دانت پیستے بولی ۔۔۔


اُسکی بات پر جہاں اشرفی کی آواز کو بریک لگا تھا وہی اُس نے پورے ہول میں نظریں دوڑائی کہ اشرفی کی سریلی آواز سنکر کوئی اُٹھ تو نہیں گیا ،

یہ تو اچھی بات ہے تُمہیں بھی آڑنا چاہئے مست گگن میں ۔۔۔ اُسکے کندھے پر بیٹھتا بنا اُسکے غصے کا اثر لئے بولا۔۔۔

تُم چُپ ہی رہو تو بہتر ہے تُمہاری یہ چوری کی فرمائش آج مجھے ڈائریکٹ جنت پہنچانے والی تھی۔۔۔ وہ دبے دبے غصے میں بولی اور ساتھ ہی ایک لمبی سانس لیتے خوف سے اپنی اتھل پتھل ہوتی سانسیں اعتدال میں کرنے لگی ۔۔۔


وہی اُسے مبہوت سے بھیگی آنکھوں سے دیکھتے عادل کے چہرے پر بھی ناگہاں مُسکراہٹ پھیلی ۔۔

وہ اشرفی کے لئے بنائی چوری لئے سڑھیاں چڑھتی آخری سیڑھی پر جا بیٹھی ۔۔


اُسے اپنے اتنے قریب دیکھ اور خود کو بے بس دیکھ عادل کا دل ڈوبا تھا پر خود پر ضبط کئے وہ اُسی اندھیرے کی اوٹ میں چھپا رہا۔۔۔

تم کیوں ٹینشن میں ہو مجھے بتاؤ ؟؟ چوری سے بھرپور انصاف کرنے کے بعد وہ اس سے پوچھنے لگا

درخنے نے ایک لمبی سانس لی پر بولی کچھ نہیں ، اُنکے پیچھے ہی کھڑے عادل نے بھی اپنی تمام تر سماعتیں اُنکی جانب مبذول کی ہوئی تھی۔۔۔

نہیں مہ میں تو پریشان نہیں ۔۔۔ اُس نے فوراً نفی کی

مرضی ہے نہ بتاؤ ، میں سمجھا تھا تم دوست ہو میری جیسے حرم مجھے ہر بات بتاتی ہے تم بتاؤ گی پر ٹھیک ہے ،،، اشرفی نے کچھ سنجیدگی سے کہا ،

جہاں اُسکی رنجیدگی پر درخنے کا دل ڈوبا تھا وہی اُسکی سیاست سمجھتے عادل کے لب مسکرائے تھے ۔۔

وہ تو ایک جانور ہے انسانوں جیسا تو نہیں جسکو میری باتیں تکلیف دیں ، میں اپنے دل کی بات اسے بتا کر اپنا دل ہلکا کر سکتی ہوں ۔۔ درخنے گہری سوچ میں غرق تھی کہ اشرفی کے الفاظ اُسکے کانوں سے ٹکرائے ،

میں کسی کو نہیں بتاؤ نگا اگر تم میری مدد کرو .....


اشرفی کی بات پر درخنے نے سوال میں آبرو آچکائے ۔۔

پہلے تم بتاؤ پھر اُسے خود کو گھورتا دیکھ وہ شرمگیں سی مسکراہٹ سے بولا۔۔۔


میں یہ منگنی نہیں کرنا چاہتی تھی اور نہ یہ شادی کرنا چاہتی ہوں.... کچھ ہی سیکنڈز کے بعد درخنے کی نظریں ایک جگہ ٹکی غیر مرئی نکتے پر غور کرتے آواز برآمد ہوئی ۔


اشرفی بلکل حیران نہیں تھا کیونکہ ہم انسانوں کے رشتوں کو لے کر انا سے نہ واقف تھا وہ ہنوز ایک پر اپنی چونچ پر رکھے انہماک سے اُسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔


جبکہ عادل کے کانوں سے یہ الفاظ ٹکراتے اُسے اپنی جگہ ساکت کر گئے تھے ،وہ دم سادھے بامشکل اپنے پیروں پر کھڑا اُسے دیکھ رہا تھا اُسے پہلے صرف شبہ تھا کہ درخنے خوش نہیں اور ساحر کے سامنے بھی اُس نے ہوا میں تیر چھوڑا تھا ۔۔ پر اُسکے اپنے منہ سے یہ الفاظ سن اُسے شدید جھٹکا سا لگا تھا خود پر ضبط کرتے وہ خاموش کھڑا رہا ۔۔


پھر کس سے کرنی ہے شادی اگر میری حُسن ارا کے آبا سے نہیں کرنی تو ؟؟؟ تم نے تو مجھے پریشان کر لیا ہے یار یہاں میں سوچ رہا تھا تمھارے زریعے میں اپنا رشتہ بھی ڈال دونگا ،مجھے لگتا میں کنوارا ہی مرونگا۔۔۔۔۔ درخنے کی بات سن اب اُسے اپنی فکر ستانے لگی تھی اور ساتھ ہی اپنے بنے بنائے پلین پر پانی پھرتا نظر آنے لگا ۔۔


عادل سے ، میں اُس سے محبت کرتی ہوں پر کیسے کہوں میں ؟؟ وہ نیچے زمین پر نظریں جمائے نم آنکھوں سے بولی آنسوں کی لڑی اُسکی آنکھوں سے نکلتی موتی کی صورت زمین پر گری تھی۔۔۔


اُسکی بات سن عادل کو لگا تھا جیسے اُسے سانس نہیں آرہا ہو اچانک ہی اُسے ہوا میں آکسیجن کی کمی سی محسوس ہوئی ، آنکھیں نم سی ہوتی بھیگنے لگی تھی جبکہ درخنے کی آواز سے اُسے اپنے کانوں میں رس گھلتے محسوس ہوا ، کیا خدا اتنا مہرباں ہوا تھا کہ اُسے اس خوبصورت حقیقت سے روشناس کروا گیا تھا ۔۔۔

ارے وہ جسکے پاس وہ والی فلم ہے ؟؟ اشرفی نے کچھ یاد آتے یقین دہانی چاہی درخنے نے بے ساختہ ہی نہ سمجھی سے اُسکی جانب دیکھا وہ یہ والا قصہ تو سرے سے ہی بھلا چُکی ہے ۔۔۔


ارے جسکے گھر گئے تھے ہم حرم کو دیکھنے وہ فلم دیکھ رہا تھا پر جب ہم دیکھنے لگے تو اس نے ہٹا ڈی ۔۔۔ اشرفی نے تفصیل سے بتایا ، اُسکی بات پر عادل برق رفتاری سے اُس اندھیرے سے نکلتا اُن دونوں کی پُشت پر کھڑا ہوا ۔

اپنی پُشت پر کسی کا سایہ محسوس کر درخنے نے ہے ساختہ کھڑے ہوتے پیچھے دیکھا عادل کو وہاں کھڑا دیکھ جیسے ساتوں آسمان ٹھا ٹھا کرتے اُسکے سر پر گرے تھے ۔۔ابھی وہ چلاتی یہ کوئی ردِعمل دیتی اُس سے پہلے ہی جھٹکے سے عادل اُسے کلائی سے دبوچتا دیوار سے لگا گیا ،اور ساتھ ہی اپنا بھاری ہاتھ اُسکے منہ پر رکھ دیا۔۔۔


درخنے کی دہشت زدہ آنکھیں عادل کی ہر جذبات سے بھرپور آنکھوں میں ڈوبی ہوئی تھی ، اُسکا اس وقت یہاں ہونا اُسے کئی طرح کے شک میں مبتلا کر رہا تھا ، جبکہ اشرفی ابھی بھی آنکھیں موندے اپنی باتوں میں مشغول تھا عادل نے یہ سب اتنے غیر محسوس طریقے سے کیا تھا ایک آہٹ بھی اُسے محسوس نہ ہوسکی ۔۔


درخنے ہاتھ پیر مارتے اُسکی گرفت سے نکلنے کی پوری تگ و دو میں تھی جبکہ مقابل تو اُسکی چہرے کے نقوش میں کھو سا گیا تھا ، سُرخ و سفید پٹھانوں والی رنگت ، پتلے نقوش اور اس پر تضاد آنکھوں پر سایہ فگن یہ سیاہ پلکیں جو مسلسل اوپر نیچے ہوتی اُسکی دل کی دھڑکنیں بھی اوپر نیچے کر گئی تھی ، وہ مکمل طور پر اُسکی خوبصورتی کے سحر میں جکڑا کھڑا تھا کہ غصے سے پھیلی آنکھوں میں دیکھتے وہ کچھ سیدھا ہوا پر اپنی گرفت سے آزادی اُسے اب تک نہ دی تھی ۔۔


کیا ہوا اتنے غصے میں کیوں دیکھ رہی ہو ؟؟؟ عادل نے جانتے بوجھتے سوال کیا ۔۔ انداز بلکل معصومانہ....

درخنے نے غصیلی نظروں سے اُسے اپنے منہ پر دھرے ہاتھ کی طرف توجہ دلائی۔۔


اوہ یہ .... پہلے وعدہ کرو کسی قسم کا شور نہیں کروگی پھر ہٹاؤ گا ہاتھ ۔۔۔۔

عادل نے یقین دھانی چاہی ، جواب پر وہ گھور کر رھ گئی۔۔۔


ایسے نہیں پہلے یہ پلکیں دو دفعہ جھپکو اور جواب دو..... عادل نے اُسکی غصیلی قاتل نظریں دیکھ ہونٹوں پر مچلتی ہنسی دباتے کہا ۔۔۔

ظبط کے کڑوے گھونٹ پیتے چار نہ چار درخنے نے دو دفعہ پلکیں جھپکتے جواب دیا ، عادل مبہوت سا نثار ہونے والی نظروں سے اُسے دیکھتے گیا ، پر جلد ہی اُسکے منہ سے ہاتھ ہٹاتے وہ کچھ پیچھے ہٹا ۔۔ درخنے کے شفاف چہرے پر صاف اُسکی انگلیوں کے نشانات ثبت تھے ۔۔


کیا طریقہ ہے یہ ۔۔۔ وہ تھوڑی تیز آواز میں گرائی کہ یک دم ہی عادل گڑبڑاتے ایک بار پھر اُسکے منہ پر ہاتھ رکھ گیا اُسکی گراہٹ پر اشرفی بھی اُن دونوں کی طرف متوجہ ہوا ، پر اشرفی کے سامنے عادل کی پُشت تھی جسکی وجہ سے وہ پہچان نہیں پایا کہ کون ہے ۔۔۔۔


آہستہ بولو لڑکی تمہارا قصائی بھائی اندر ہی ہے باہر آگیا تو میرا قیمہ بنا کر پشاوری چپلی کباب بنا دیگا ۔۔۔۔ اُسکے منہ پر ہاتھ رکھے وہ آس پاس پر نظر ڈالتے بولا ۔۔۔۔

درخنے نے شاید اُسکی بات پر غور نہیں کیا تھا وہ تو اُسکی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی اسے خدشہ تھا کہ وہ اُسکی اور اشرفی کی ساری باتیں سن نہ چکا ہو پر اُسکی بے تاثر آنکھیں دیکھ وہ کچھ مطمئن ہوگئی ۔۔۔

اشرفی بنا وقت ضائع کئے عادل کے بازو پر چڑھتا اُسکی مردانا کلائی پر اپنی چونچ گاڑھ گیا۔۔۔۔


عادل نے تکلیف سے یک دم آنکھیں میچی اور درخنے کے چہرے سے ہاتھ ہٹایا ۔۔

اشرفی....... درخنے ہوش میں آتے ہی اُسے پُکارتی زبردستی اُسے اپنی طرف کھینچ گئی پر تب تک اشرفی عادل کی کلائی اچھی خاصی سُرخ کر گیا تھا ۔۔۔


عادل نے آنکھیں کھولتے ہی قہر آلود نظروں سے اشرفی کو دیکھا پر اُسکے کچھ کرنے یہ کہنے سے پہلے ہی درخنے اُسے لیتی موقع ملتے ہی وہاں سے بھاگتی اپنے کمرے میں بند ہوگئی ۔۔ اسکی اس رفتار پر عادل کے لب بے ساختہ ہی مسکرائے تھے ۔۔۔ وہ دل کے مقام پر ہاتھ رکھتا اُس راستے کو دیکھتا ٹھندی آہ بھر کر رھ گیا۔۔۔


ابھی وہ واپس اپنی سابقہ پوزیشن میں جانے کی سوچ ہی رہا تھا کہ داجی کے کمرے کا دروازہ کھلا جس سے ساحر اور حارث باہر آتے نظر آئے ، وہ تینوں ہی بنا کچھ بھی ایک دوسرے سے بولے ایک دوسرے کی تقلید میں قدم اٹھاتے حویلی سے نکلتے چلے گئے۔۔۔


ساحر بھائی آپ فکر نہ کریں میں اپنی پوری تحقیق کرونگا اس فائل کو لے کر مجھے شبہ ہے یہ غلط بھی ہوسکتی ہے، ہونے کو بہت کچھ ہو سکتا ہے آپ کو پریشان ہونے یہ سوچنے کی ضرورت نہیں میں ہنڈریڈ پرسنٹ شیور ہوں کہ کہانی کچھ اور ہے ۔۔۔ باہر آتے ہی حارث ساحر کا الجھا چہرا دیکھ بولا


عادل نہ واقف تھا پر ابھی پوچھنے کے بجائے ماحول کے پیشِ نظر خاموش رہنا بہتر جانا ۔۔


حارث کی بات پر اپنی سوچوں سے نکلتے ساحر محض اثبات میں سر ہلا گیا ۔۔


چلیں پھر صبح ہی میں اور عادل اس فائل کی تحقیق شروع کردینگے اور آپکو اپڈیٹ بھی کرتے رہینگے ، حارث نے آخری کلمات پڑھتے ساحر کو کہا اور عادل کو لئے نکلتا گیا ۔

اُنکے جاتے ہی ساحر بھی دوبارہ حویلی میں داخل ہوتا ، اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔


°°°°°°°°°°°

وہ گہری نیند میں آنکھیں موندیں لیٹی تھی ریشم جیسی زلفیں تکیے پر بکھری ہوئی تھی ، پر سکون سی لیٹی وہ پلکیں بچھائے سو رہی تھی بے سکونی محسوس کر اُسکی آنکھیں کھلی ، کمرے میں محض ایک نائٹ بلب کی روشنی تھی باقی پورا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا ، نیند کے خمار سے ہوئی سُرخ آنکھوں کو آس پاس دوڑاتے وہ بیڈ سے اُترتی سوئچ بورڈ کی طرف بڑھ گئی سوئچ اُون ہوتے ہی پورا کمرہ روشن ہو گیا ۔۔۔


بے ساختہ ہی اُسکی نظر بیڈ کے دوسرے طرف ساحر کی جگہ پر گئی جو خالی تھی ، وہ حیران سی کمرے کے دروازے کی طرف مڑی پر کمرے کا دروازہ اندر سے ہی لوک تھا یعنی وہ کمرے میں ہی تھا ، پرسکون سی ایک لمبی سانس لیتے وہ دوبارہ بیڈ کی طرف بڑھی اور دوبارہ اپنی جگہ لیٹ گئی ، سیدھے لیٹے وہ کب سے چھت کو تک رہی تھی کہ واشروم کا دروازہ کھلنے کی آواز سن اُس نے فوراً اپنی آنکھیں میچی اور بے حس و حرکت پڑی رہی ، ساحر جو کمرے میں آتے ہی حرم کو گہری نیند میں دیکھ کمرے کا دروازہ لوک کرتے فریش ہونے کی غرض سے واشروم کی طرف بڑھ گیا تھا ، وہ جب گیا تب لائٹ اوف تھی پر نکلتے ہی لائٹ اُون دیکھ اُسکی نظر بے ساختہ ہی بیڈ پر آنکھیں موندے لیٹی حرم کی طرف گئی ، اُسے ذبردستی آنکھیں میچے بچکانہ حرکت پر ساحر کے عنابی لبوں تلے تبسم کھلا تھا ۔


وہ ٹاول سے بال رگڑنے کے بعد ٹاول صوفے پر پھینکتا ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھا ، اُسکے دونوں ہاتھ کنگا تھامے بال بنانے میں مصروف تھے جبکہ نظریں ہنوز شیشے میں واضح ہوتے وجود پر مرکوز تھی ۔۔۔

لائٹس اوف کرتے بیڈ کی دوسری طرف دراز ہوتے اُس نے ہاتھ بڑھا کر اُسکی کمر میں ہاتھ ڈالتے اپنے قریب کھینچا ۔۔

حرم جو ساحر کو قریب آتے محسوس کر کسی حملے کے انتظار میں تھی ، اُسکے اپنے قریب تر کرنے پر وہ سانسیں روک گئی پر ویسے ہی بے حس و حرکت پڑی رہی ،

مجھے پتہ ہے میری سمجھدار بیوی جاگ رہی ہے.... ہونٹوں پر مچلتی ہنسی دباتے اُسکی گھنی سیاہ پلکوں پر لب رکھتے گویا ہوا ۔۔۔

حرم کی پلکیں جھپکی تھی گال سُرخ ہوئے تھے جبکہ وجود ویسے ہی ساکت تھا ۔۔۔


اُسکی حرکت پر ساحر نے داد میں آبرو اچکاتے چیلنجنگ انداز میں دیکھا تھا اور دوسرے ہی پل اُسکی گرد اپنا حصار تنگ کرتے پوری شدت سے اُسکے سُرخ لبوں پر جھکا ، حرم نے پٹ سے آنکھیں کھولتے اُسکے سینے پر ہاتھ رکھتے اُسے دور دھکیلنا چاہا ، وہ جتنی مزاحمت کرتی ساحر کے انداز میں اتنی ہی جنونیت آجاتی ۔۔۔

اُسکی غیر ہوتی حالت محسوس کر وہ پیچھے ہٹا اور مُسکراتی نظروں سے اُسے گہری سانسیں بھرتے دیکھنے لگا ،

اُسے ایک بار پھر جھکتے دیکھ حرم نے برق رفتاری سے اُسکی طرف رخ کرتے سینے میں سر دیا اور گہرے گہرے سانس بھرنے لگی ، اُسکی سانسوں کا شور سینے پر محسوس کر وہ ایک بار پھر پوری شدت سے اُسے خود میں بھینچ گیا ، بالوں میں اُنگلیاں چلاتے وہ پُر سکون کرنے لگا ، گھنی سیاہ زلفوں سے اٹھتی شیمپو کی خوشبو سونگھ وہ اپنا منہ اُسکے بالوں میں چھپا گیا۔۔۔


°°°°°°°

صبح ہوتے ہی حارث اور عادل دونوں ہی اُس فائل کو لے کر جانچ پڑتال میں لگ گئے تھے ، عادل کو حارث نے مختصر لفظوں میں سارا ماجرا بتا دیا تھا اُسے بھی یقین نہیں تھا کہ شہروز خان ایسی کوئی حرکت کر سکتے ہیں اُسکا بھی یہی ماننا تھا کہ حقیقت کچھ اور ہی ہے اس لئے اب وہ دونوں ہی اس فائل کا سچ ڈھونڈنے کے لئے سر توڑ کوششوں میں تھے ، ساحر اُنکے ساتھ شامل نہیں تھا وہ آج پشاور میں ہی تھا ۔۔۔


درخنے میں تمہارا کیا ہوں تُمہارے لئے ؟؟ ساحر کے اس اچانک سوال پر اس نے بے ساختہ ہی نظریں اُٹھاتے اُسکی جانب دیکھا تھا جو نرم سی مسکراہٹ کے ساتھ اُس سے سوال گو تھا....


ساحر نے اُسکے دیکھنے پر پلکیں جھپکتے جیسے اُسے حوصلا دیا تھا بولنے کا ۔۔


بھائی باپ دوست سب ہیں میرے آپ لالا..... وہ بنا وقت ضائع کئے مُسکراتی جواب دہ ہوئی ۔۔


اگر تمہارا یہ باپ بھائی اور دوست تم سے کچھ پوچھے تو تم بنا کسی چیز کی پرواہ کئے سچ بتاؤ گی ۔۔۔ وہ ایک بار پھر مسکراتا نورمل سے انداز میں بولا ۔۔


درخنے پورے زورو شور سے اثبات میں سر ہلا گئ ۔۔


ٹھیک ہے پھر مجھے بتاؤ کیا تم اس منگنی سے خوش ہو ؟؟؟ جانتا ہوں پہلے بھی پوچھ چکا ہُوں تم سے پر میں مطمئن نہیں ہوں کہ تم خوش ہو ، اگر نہیں ہو تو میری جان تُمہیں کسی چیز کی پرواہ کرنے کی ضرورت نہیں تمہارا بھائی ہر ایک چیز کو دیکھ لے گا ، ساحر نے اُسکے چہرے کو بغور دیکھ پوچھا انداز بلکل ایسا تھا کہ گویا کوئی دوست اُس سے پوچھ رہا ہو اور اپنے ساتھ کا احساس دلا رہا ہو ...


اُسکے اس اچانک سوال پر درخنے کے چہرے کا رنگ فق سے آڑا تھا ، وہ سفید چہرے اور سکڑے دل سے اُسے دیکھ رہی تھی ، جو جواب کا منتظر سا اُسے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔


ڈرو نہیں درخنے بس تم صرف سچ بتاؤ ۔ وہ اسے پریشان دیکھ نرمی سے گویا ہوا ۔۔

نہیں ۔۔۔۔ درخنے نے نفی میں سر ہلاتے سر جھکایا تھا آنسوں بے اختیار ہی آنکھوں سے رواں ہوئے تھے ۔۔۔


ساحر کو اسکے انکار پر شدید جھٹکا سا لگا تھا جبکہ ذہن میں عادل کے کہے الفاظ گونج رہے تھے کہ وہ اس منگنی سے خوش نہیں ....


تم نے پہلے کیوں حامی بھری تھی اس رشتے سے ؟؟؟ وہ جلد ہی خود کو کمپوز کرتا بولا ۔۔


کیونکہ یہ رشتا بچپن کا تھا اگر میں انکار کرتی تو آپ کی اور داجی کی عزت خراب ہو جاتی ۔۔۔ وہ بھیگی آنکھیں اٹھاتے بولی ۔۔


ارے کس بیوقوف نے کہہ دیا تُمہیں ... وہ اُسے روتا دیکھ تڑپتا اُسکا سر اپنے سینے سے لگا گیا ۔۔ یہ سوچ کہ وہ اُن پر خود کو قربان کرنے چلی تھی ساحر کا دل کسی نے مٹھی میں بھینچا تھا ،

ایسا نہیں ہے ، جیسا تم چاہتی ہو ویسا ہی ہوگا بس اب رونا بند کرو شاباش ، اُسکے چہرے سے آنسوں صاف کرتے وہ پیار سے پچکارتے بولا ۔۔ وہ شرمندہ سی سر جھکا گئی

کیا تم عادل کو پسند کرتی ہو ؟؟ ساحر نے ڈوبتے دل کے ساتھ سوال کیا یہ الفاظ اُس نے جس ضبط سے ادا کئے تھے یہ وہی جانتا تھا ۔۔


درخنے کے آنسوں بے ساختہ ہی تھمے تھے ، دل کی دھڑکنیں معمول سے بڑھی جبکہ کانوں میں ساحر کے الفاظ بازگشت کرنے لگے ۔۔


اُس نے بے ساختہ ہی نظریں ساحر کے سوالیہ چہرے پر ٹکائی جس پر انتہا کی سنجیدگی تھی


ڈرو نہیں صرف سچ بتاؤ آگے تمہارا بھائی دیکھ لیگا ... وہ اُسے سہمی سی نظروں سے خود کو تکتا دیکھ بولا


وہ کچھ پل تو ساکت سی ٹکٹکی باندھے اُسے دیکھے گئی پر اُسکی سوالیہ نظروں میں دیکھ وہ سیاہ پلکوں کو دھیمے سے دو دفعہ جھپکتے اثبات میں سر ہلاتے سر جھکا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی


ساحر کو لگا تھا جیسے آج کسی نے اُس کے منہ پر زوردار تماچہ مارا ہو ... وہ کیا کرنے چلا تھا ؟؟ کیا ہوتا اگر یہ شادی ہو جاتی ۔۔۔


وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہوتا چہرے پر ہاتھ پھیرتے خود کو پر سکون کرنے کی کوشش کرنے لگا ۔۔۔

سوری لالا پلیز مجھے معاف کردیں..... درخنے اُسکے پھتریلی تاثرات دیکھ سہمی اور دبی دبی سی آواز میں بولی


اُسکی آواز پر ساحر نے نظریں اُٹھاتے اُسے دیکھا اور خود کو سنبھالتے اُسکی جانب بڑھا

اُسے اپنی جانب آتا دیکھ درخنے نے خوف سے آنکھیں میچتے تھوک نگلا تھا

وہ اُس کے ماتھے پر اپنے لب رکھتا وہاں سے نکلتا چلا گیا ۔۔


اُسے درخنے کی بات بری نہیں لگی تھی پر ابھی وہ قبول نہیں کر پارہا تھا ، اس لئے خاموشی سے وہاں سے نکلتا چلا گیا ۔۔۔

*******

اپنے ہسپتال میں بیٹھا سر دونوں ہاتھوں میں تھامے ابھی بھی درخنے سے ہوئی باتیں سوچ رہا تھا ۔۔۔ کافی دیر کی سوچ ویچار کے بعد وہ فلوقت شادی کو ٹالنے اور اس معاملے کو کیس کے بعد ہل کرنے کے فیصلے پر پہنچا تھا ۔۔۔

وہ اسی گہری سوچ میں غرق تھا کہ نرس اُسکا کيبن نوک کرتی اندر داخل ہوئی ، اور اُسے مریض کے ہوش میں آنے کی اطلاع دیتی نکلتی چلی گئی ۔۔

ساحر بھی تمام سوچوں کو جھٹکتے اپنے کیبن سے نکلتا ایمرجنسی روم کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔

اسنے جب سے سنایہ کی بکھری حالت دیکھی تھی وہ جب سے ہی مضطرب تھا,,,ابھی بھی وہ ٹراؤزر اور بازوں تک آتی شرٹ میں موجود  بیڈ پہ چت لیِٹے چھت پہ لگے پنکھے کو گھور رہا تھا,,,,

ایک پیر پہ دوسرا پیر رکھا ہوا تھا جسے وہ مسلسل ہلاتے گہری سوچ کے سمندر میں غوطہ زن تھا,,,,

سوچوں کا بھنور حسب معمول سنایہ کا وجود تھا,,,دل انتہائی حد تک بیچین تھا اس دشمن جاں کیلئے مگر سمجھ نہیں آرہا تھا آخر کرے تو کیا کرے,,,,

حارث یہ تجھے کیا ہوگیا ہے ,,,ایک جگہ منگنی کر کے تو کہیں اور دل لگا بیٹھا ہے,,,,تجھے معلوم ہے نہ انجام کیا ہوگا,,,وہ خود سے سوال گو ہوا,,,,

وہ ابھی اپنے سوالوں میں ہی الجھا ہوا تھا جب کمرے کا دروازہ بجا ناگہاں سوچوں کا تسلسل ٹوٹا تو وہ ہوش کی دنیا میں لوٹا اور دروازے کے پار سے آتی آواز کی جانب متوجہ ہوا,,,,

آجاؤ بندریہ میں انکار کرونگا تو تم نے کونسا مان ہی جانا ہے,,,,

وہ سیدھے بیٹھتے ہوئے عام سے انداز میں بولا اور سامنے سے آتی زارا کو مسکرا کر دیکھا,,,,

زارا بھی شریر مسکراہٹ کیساتھ کمرے میں داخل ہوئی اور عجلت بھرے قدم اٹھاتے عین اسکے پاس آکر بیٹھی,,,

کہیں میں نے آپکو ڈسٹرب تو نہیں کیا نہ وکیل صاحب,,,وہ وکیل صاحب پہ زور دیتے استہزاحیہ انداز میں بولی,,,

ہمم جیسے میری ڈسٹربنس کی بڑی پروہ ہے تمہیں ,,,,,

وہ بھی دوبدو آبرو اچکاتے بولا اور پاس پڑا کشن اٹھا کر گود میں دھرا,,,

اوہ ہاں مجھے کیا بھلا,,,,ویسے اب تک کیوں جاگ رہے ہیں آپ وکیل صاحب کوئی کیس بھی اسٹڈی نہیں کر رہے پھر دیر رات تک جاگنے کی وجہ؟؟وہ مشکوک انداز میں بغور اسے دیکھتے گویا ہوئی,,,

حارث اسکے انداز میں ایک لمحے کیلئے سٹپٹایا مگر دوسرے ہی پل خود کو سمبھالتے گویا ہوا,,,,

تم میری ماں لگی ہو جو میرے اٹھنے بیٹھنے کی وجوہات میں تمہیں پیش کروں,,,,وہ برجستہ کچھ کڑتے ہوئے بولا,,,,

نہیں عموماً عاشق لوگ اس وقت تک جاگتے ہیں یا جو عشق میں ناکام ٹہرے ہوں وہ اپنی محبوبہ کے نام دکھی شاعری کرتے ہوئے رات گزار دیتے ہیں جبکہ آپ تو منگنی شدہ ہیں خیر سے اور جہاں تک مجھے پتہ ہے آپکو دری سے کوئ دھواں دار عشق تو نہیں ہے اور بھلا کسی اور سے ہو نہیں سکتا تو شاید در سے ہی ........

اپنی بات بنا رکے روانگی سے کہتے وہ آخر میں حارث کے بدلتے تاثرات دیکھتے رکی,,,,

کیوں نہیں ہوسکتا مجھے عشق کیا میں انسان نہیں؟؟وہ ایک آبرو اچکاتے سوال گو ہوا,,,

میں نے ایسا تو نہیں کہا اب,,,وہ دوبدو بدک کر بولی,,,

اسکے جواب پہ وہ آنکھیں گھماتے خاموش ہوگیا,,,

کیا آپکو واقعی عشق ہوگیا ہے,,,کمرے میں پھر زارا کی مشکوک سی آواز گونجی,,,,

ننہیں تو,,,,اسنے بروقت جھوٹ کا سہارا لیا,,,

تو آپکے چہرے کا رنگ کیوں فق ہورہا ہے ایسا تو عشق جیسی معلق بیماری میں ہی ہوتا ہے,,,سچ سچ بتائیں کیا بات ہے؟؟اسنے بغور اسے دیکھ آنکھوں کو چھوٹا کیئے سوال داغا,,,

میری چھوڑو تم کیوں اب تک جاگ رہی ہو؟؟

وہ اسکی جانب دیکھتے اسکے سوال کو ٹالنے کی غرض سے الٹا سوال گو ہوا,,,,

بات کو مت پلٹيں بھائی مجھے بتائیں آخر آپ پریشان کیوں ہیں,,,ابکی بار زارا کا انداز سنجیدہ تھا جبکہ لہجہ متفکر ہوا,,,,

حارث نے اسکی جانب دیکھا جہاں وہ پکا ارادہ کیئے بیٹھی تھی سچ سننے کا مگر وہ اسے اپنے جزبات بتا نہیں سکتا تھا,,,

اسنے ایک لمبا سانس کھینچا اور خود کو پرسکون کرتے اسکی جانب دیکھا جہاں وہ پہلے ہی اسکی منتظر تھی,,,

زارا میرا ایک دوست ہے وہ کسی سے بہت محبت کرتا ہے مگر اسکی شادی طے ہوچکی ہے اسے سمجھ نہیں آرہا وہ کیسے سب کو اپنے جذباتوں سے آگاہ کرے,,,,کیونکہ میرا دوست جسے پسند کرتا ہے وہ لڑکی اسی کی بہن ہے جس سے اسکی شادی طے ہوئی ہے,,,,اسنے بولنا شروع کیا,,,

اگر وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں تو کہہ دیں سب سے جب پیار کیا تو ڈرنا کیا,,,

وہ شانے اچکاتے فوری حل پیش کر گئ,,,

بات صرف اتنی نہیں ہے نہ,,,وہ جھنجلا کر بولا,,,,

اچھا تو پوری بتاؤ نہ اتنا کیوں گھبرا رہے ہو,,,عادت سے مجبور وہ اپنی غلطی اسکے سر مار گئ,,,

بات دراصل یہ ہے کہ  وہ جس سے محبت کرتا ہے اس سے کبھی میرے دوست نے اظہار نہیں کیا اور وہ لڑکی بہت مختلف ہے اور اس سے عمر میں بھی بڑی ہے مگر وہ اسے بہت پسند کرتا ہے ,,,,,

مخلتف ہے مطلب کیا وہ انڈے دیتی ہے؟؟وہ حیران کن انداز میں بولی ,, ,

زارا آئ ایم سیریئس,,,,وہ کچھ سخت اور سنجیدہ لہجے میں بولا,,

اچَھا اچھا سوری,,,,اس سے پہلے کے حارث کا موڈ بدلتا سہ فوراً بولی,,,

دیکھو بھائی گھر والوں کی فکر نہ کریں وہ وقتی ناراض ہونگے پر مان جائینگے مگر میرے خیال سے پہلے آپکے دوست کو اس لڑکی سے اپنی فیلنگز شیئر کرنی چاہیئے تاکہ وہ اسکی مرضی جان سکے اگر وہ بھی راضی ہے تو گھر والوں تک بات پہنچے گی اسلیئے سب سے پہلے اس لڑکی کی رضا مندی ضروری ہے تو میرا مشورہ ہے وہ ساری سوچوں کو بالائے تاک رکھتے سب سے پہلے اس لڑکی سے بات کریں,,,

کیونکہ ایسے شخص کیساتھ زندگی گزارنا بہت مشکل ہوتا ہے جہاں محبت نہ ہو محض گزارا کرنا ہو اس طرح تو آپکا دوست اگر گھر والوں کی پسند سے شادی کر بھی لیگا تو کوئی فائدہ نہیں اگر وہ ایک اچھا شخص ہے تو وہ بیوی کے تمام حقوق ادا کریگا مگر وہ چاہ کر بھی اسے وہ محبت نہیں دے سکے گا جو اسے دوسری لڑکی سے ہے,,,

اور رہی عمر کی بات تو محبت میں عمر صورت دل کچھ نہیں دیکھا جاتا بس دل جس پہ آجائے وہ دنیا کا سب سے حسین  شخص لگنے لگتا ہے کوئی چھوٹا بڑا کالا گورا خوبصورت بد صورت نہیں ہوتا بس نظر نظر کا فرق ہوتا ہے ورنہ محبوب سبکا حسین ہوتا ہے,, ساری بات سنجیدگی سے کہتے آخر میں اسنے دلکش انداز میں شعر پڑھا کہ حارث کے لبوں پہ تبسم کھل اٹھا,,,,

لیکن اگر اس لڑکی نے انکار کردیا تو؟؟ اسنے کچھ سوچتے اگلا خدشہ ظاہر کیا,,,

انکار کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں جس کی صورت میں وہ کبھی نہیں مانے گی,,,

یا تو وہ کسی اور سے محبت کرتی ہوگی یا گھر والوں کی عزت کے خاطر لیکن اس کیس میں انکار کی وجہ اسکی بہن بھی ہوسکتی ہے جس سے آپکا داست منسب ہے,,, اسنے سنجیدگی سے کہا,,,

اسکا دل ٹوٹا ہے کئی بار الگ الگ طرح سے اسنے اپنی زندگی میں بہت سی ایسی چیزوں کا سامنہ کیا ہے جو کوئی عام سی لڑکی نہیں کرسکتی لیکن پھر بھی اگر اسنے منع کیا تو,,,,اسنے کسی خدشے کے تحت پوچھا,,,,

اگر دل ٹوٹا ہے تو وہ کبھی کسی کا دل نہیں توڑے گی کیونکہ جن کے دل ٹوٹتے ہیں جو محبت میں مفتوح ٹہرتے ہیں انہیں محبت کے ہر لفظ کی قدر ہوتی ہے وہ کسی شخص کا دل کبھی نہیں توڑینگے انکے انکار کی وجوہات کچھ اور ہوسکتی ہیں یا پھر یہ انکار وقتی بھی ہوسکتا ہے مگر میرا یہی مشورہ ہے کے ایک بار کوشش ضرور کرنی چاہیئے کہیں دل میں یہ ملال نہ رہ جائے کہ کاش میں نے کہا ہوتا تو آج میں خوش ہوتا,,,,

زندگی بھر کسی کے ساتھ دکھاوا کرنے سے بہتر ہے آپ ایک بار حقیقت کا سامنہ کر کے اسکا مزہ چھک لو باقی اللہ پہ بھروسہ اولین ترجیح ہوتی ہے,,,,

وہ پھر سے سنجیدگی سے بولی,,,,حارث گہری سوچ میں گر گیا,,,,

اب کیا سوچ رہے ہو لگ تو ایسا رہا یے جیسے دوست کی نہیں اپنی کہانی بتارہے ہو,,,,اسے ہوش میں لاتے اسنے ہوا میں تیر چھوڑا اور پاس پڑی اسکی گھڑی اٹھا کر اپنے دوپٹے کی اوٹ میں کی,,,,

ویری فنی بہت شکریہ تمہارے مشورے کا مجھے اتنی سنجیدگی کی امید نہیں تھی تم سے اب اٹھو اور جاؤ یہاں سے مجھے صبح جلدی جانا ہے کورٹ تمہاری طرح ویلا بلکل بھی نہیں ہوں میں,,,

وہ بیڈ سے اترتے اسکی جانب آتے اسے بازوں سے کھڑا کرتے بولا,,,جہاں وہ چکھوٹا مار کر  بیٹھی تھی جیسے رتجگے کا ارادہ ہو,,,,

ارے ارے بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں ہے ایک تو اتنی مشکل سے سنجیدہ ہوکر مشورہ دیا ورنہ زارا خانم میں سنجیدگی والے فیچرز انسٹال نہیں ہیں وکیل صاحب ,,,,

وہ اسے بازو سے پکڑ کر دروازے کی طرف لایا جب ہی زارا کی دوہائییاں عروج پہ تھی,,,

ویسے بھی وہ جس کام کیلئے چہرے پہ شیطانی مسکراہٹ چپکا کر آئی تھی وہ ہوچکا تھا اب یہاں رکنے کا کوئی مقصد تھا بھی نہیں اسلیئے وہ احسان جتاتے آرام سے اسکے ساتھ کھنچی چلی آئی,,,,اور ناک سکوڑ کر دروازے سے نکلتی چلی گئی,,,

جبکہ حارث اپنی پریشانی میں اسکی شریر مسکراہٹ اور آنکھوں میں ناچتی شرارت آج سمجھ نہیں پایا تھا اسی کا فائدہ زارا میڈم بھرپور اٹھا چکی تھیں,,, 

♡♡♡♡♡

بیٹھو ,,,,اسے بیٹھنے کا کہتے وہ خود بھی چیئر کھسکا کر عین اُسکے قریب آکر بیٹھا,,,

تبہی انکے پاس ویٹر آکر کھڑا ہوا,,,

حلوہ پوری ملائی پراٹھا اور کڑک چائے لے آؤ,,,اسنے ویٹر کو ناشتے کا آرڈر دیا جسے لکھتے ویٹر وہاں سے نکلتا چلا گیا ,,,,,

وہ دونوں قبرستاں سے نکلتے دھابے پہ موجود تھے,,,انہیں چھے بج چکے تھے ساحر کو بھوک کا احساس ہوا تو وہ اسے یہاں لے آیا,,,,

اتنا کچھ منگوانے کی کیا ضرورت تھی آپ کیسے کھائینگے ,,,,وہ ہونقوں کی طرح پوچھنے لگی,,,,

لڑکی یہ پٹھان کی خوراک ہے ایسے ہی تمہارے شوہر نے ڈولے نہیں بنائے ہم سخت جان مرد ہیں آپکی طرح کھانے کو سونگھ کر نہیں چھوڑتے ,,,,وہ آستین فولڈ کرتے پوری طرح اسکی جانب دیکھتے بولا اور آخر میں شرارت سے اسکا ناک دبایا,,,

میں بھی کھاتی ہی ہوں اور بہت جان ہے مجھ میں بھی پتہ نہیں آپ خود کو ٹارزن کیوں سمجھتے ہیں,,,,وہ اسکی بات پر چڑ کر دوبدو بولی اور باقاعدہ اپنے بازوں اٹھا کر اسے بوڈی دکھانے لگی,,,,

اچھا چلو پھر آج دیکھ ہی لیتے ہیں میری نازک سی بیوی میں کتنا دم ہے,,,وہ چیلنجنگ انداز میں بولا ساتھ ہی اپنا بھاری ہاتھ اسکے آگے کیا,,,,

ہوجائے دو دو ہاتھ,,,,اسنے کہنی ٹیبل پہ ٹکاتے کہا,,,ہونٹوں پہ مسکراہٹ مچل رہی تھی,,,,

یہاں نہیں ہم گھر پہ لڑائینگے پنجا,,, حرم نے فوری بہانہ تراشا مبادہ کہیں واقعی وہ اسکی طاقت آزمانے نہ بیٹھ جائے,,,

کیوں یہاں کیوں نہیں,,,,

وہ مسکراہٹ گھنی مونچھوں تلے دباتے سنجیدگی سے پوچھنے لگا,,,

وہ آپ ہار گئے تو سبکی نظروں میں آپکی کیا عزت رہ جائے گی اسلیئے ہم اپنے کمرے میں کرینگے یہ سب تاکہ آپکی عزت محفوظ رہے ورنہ لوگ کیا کہینگے بیوی سے ہار گیا شوہر,,,

بھرپور آنکھیں پٹپٹاتے بہانہ بنایا دل میں اندیشہ بھی تھا کہیں وہ واقعی نہ لڑانے بیٹھ جائے پنجا وہ تو اسکی باڈی دیکھ کر ہی ہار مان چکی تھی لیکن بظاہر تو ہار مان کر وہ اپنی ناک تو نیچی نہیں کرسکتی تھی نہ,  

ارے یہاں کون دیکھ رہا ہے سب کچھ تو بند ہے کوئی نہیں دیکھ سکتا ویسے بھی کمرے میں جاکر یہ سب کرنے کا وقت کہاں ملے گا تمہیں,,,عام سے انداز میں کہتے آخر میں لہجہ زو معنی ہوا,,,

کیوں وقت نہیں ملیگا؟؟اسنے نا سمجھی سے پوچھا,,,,چہرے پہ بلا کی معصومیت طاری تھی,,,,,

کیونکہ میں تمہیں موقعہ ہی نہیں دونگا  اگر بیڈروم میں بھی ہم ایسی بچکانہ حرکتیں کرینگے تو ہمارے بچے کیسے دنیا میں آئینگے,,,,

 بظاہر اسنے بہت سنجیدگی سے کہا تھا مگر اسکی بات سمجھتے حرم نور کا چہرہ شرم سے تمتما اٹھا ,,,,

کیا ہوا کچھ غلط کہہ دیا میں نے,,,وہ اسکے شرمیلے تاثرات سے لطف اندوز ہوتے بولا آنکھوں میں چمک لبوں پہ ہنسی ہنوز قائم تھی مگر حرم نور اس سے نگاہیں چراتے گردن جھکا چکی تھی,,,

ممجھے بھوک لگی ہے,,,اسکا سوال نظر انداز کرتے وہ نروٹھے انداز میں بولی,,,,

ہمم مجھے کھالو بیگم....وہ ہنکارا بھرتے خاصہ بدمزہ ہوتے بولا,,,,

میں حرام گوشت نہیں کھاتی,,,وہ فوراً گردن اٹھاتے دوبدو بولی,,,

ساحر نے اسکے جواب پہ آبرو اچکایا اگلے ہی لمحے حرم سٹپٹائی وہ جزبات میں بول گئی تھی اسے احساس نہ ہوا وہ بے دھیانی میں کیا بول گئ,,,

لیکن میں میٹھا بہت شوق سے کھاتا ہوں بچو,,,اپنا چہرہ اسکے چہرے کے قریب لاتے وہ نگاہوں سے اسکے لبوں کا نشانہ لیتے بولا,,,,لہجہ کافی گھمبیر تھا,,حرم کی تو پل میں ہوائیاں اڑ گئیں ,,,,

وویٹر,,,,اسے خود پہ جکھتا دیکھ وہ پردے کی اوٹ سے ویٹر کو آتا دیکھ جلدی سے بولی,,,

ساحر بھی فوراً ہی سیدھا ہوا,,,

جو حرم سمجھ رہی تھی ویسا وہ کرنے والا نہیں تھا بس یہ تو اسکو تنگ کرنے کا ایک طریقہ تھا مگر حرم بی بی اپنے شوہر کی چالاکیاں سمجھ جائیں نہ ممکن,,,

شکریہ...ویٹر نے کھانا رکھا تو ساحر نے مسکرا کر شکریہ ادا کیا وہ بھی بدلے میں مسکراہٹ پاس کرتے وہاں سے نکلتا چلا گیا,,,,

چلو شروع کرو یہ سب میرے ساتھ تمہیں ختم کرنا ہے ورنہ جو عمل ابھی ادھورا چھوڑا ہے اسکو پورا کرنے میں وقت نہیں لگاؤنگا,,,اپنے لفظوں سے اسے اچھی طرح دھمکاتے اسنے پوری کا نوالہ بناتے اسکی جانب بڑھایا,,,جسے حرم نے بنا مزاحمت کیئے کھالیا,,,,

اسی طرح خود بھی ناشتہ کرتے اور اُسے بھی محبت سے کرواتے وہ بل پے کرتا گھر کی جانب روانہ ہوگئے,,,

صبح کے ساتھ بج چکے تھے ,,,,اسنے گاڑی گھر کے دروازے پہ روکی,,,,

مجھے کلینک جانا ہے لیکن میں آج جلدی واپس آجاؤنگا ,,,,اسنے محبت سے اسکی جانب دیکھتے ہوئے کہا,,,,

ٹھیک ہے اللہ کے امان میں ,,,,وہ مسکرا کر کہتے اپنی طرف سے اترنے لگی جب ساحر نے ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچا,,,

سساحر جی.....اسکا سر اسکے سینے سے لگتے لگتے بچا وہ دہل کر اسکا نام پکار گئ جو نگاہوں میں زو معنی تاثرات لیئے اسے ہی دیکھ رہا تھا,,,

 ساحر جی کی جان ایسے الوداع کہتے ہیں شوہر کو,,,,

وہ اسی کے انداز میں اپنا نام پکارتے چہرے کا تواف کرتے بولا,,,,

حرم نے مسکرا کر نگاہیں جکھا دی,,,

 کیا ہوا ,,,,

اسے مزید خود کے قریب کرتے گھمبیرتا سے بولا,,,

سساحر جی ہم ککمرے ...ممیں...ننہیں ہیں....وہ لڑکھڑاتے ہوئے بولی  دھڑکنوں کی رفتار تیز ہونے لگی سانسیں بھی تتر بتر ہوئ,,,

 تو کیا ہوا تم جلدی سے یہاں پیار کرو اور کمرے میں چلی جاؤ باقی کا پیار ہم کمرے میں ہی کرینگے جان ساحر,,,,اسکی گردن میں اپنا ہاتھ لپیٹتے وہ دلکش انداز میں ہونٹوں کی جانب اشارہ کرتے بولا,,,,

 حرم نے اسکی فرمائش پہ رونی صورت بنا کر اسکی جانب دیکھا,,,

 سساحر جی....اسنے پھر منت کرنی چاہی ۔۔

 جلدی کرو,,,وہ صاف انکار کرگیا,,,,

 حرم نے اسکی جانب دیکھا اور اگلے ہی لمحے اسکی آنکھوں پہ ہاتھ رکھتے اپنے لب اسکے ماتھے پہ ثبت کرتے پیچھے ہوئی,,,,ساحر نے اسکی جلد بازی پہ گہری مسکراہٹ سے اسکی جکھی پلکوں کی جانب دیکھا,,,

 لگتا ہے تمہیں شوہر کو الوداع کہنا بھی نہیں آتا نکمی لڑکی,,,,وہ کہہ کر شدت سے اسکے لبوں پہ جکھا ,,,,چند سیکنڈ اسکے رسیلے لبوں کا جام پیتے اسکی حالت گیر کرتے پیچھے ہوا,,,,

حرم اچانک ہوئے افتاد پر نظریں جکھائے لمبے لمبے سانس بھرنے لگی,,,جبکہ ساحر آنکھوں میں چمک لیئے اسکی اوپر نیچے ہوتی سانسوں کا رقص دیکھنے لگا,,,,

نگاہیں جیسے مبہوت ہوچکی تھی لبوں پہ تبسم ہنوز بکھرا ہوا تھا اسکا ایک ہاتھ اب بھی حرم کی گردن میں لپٹا ہوا تھا,,,

 باقی کی کلاسیس تمہیں رات کو دونگا تیار رہنا میری چھوئی موئی,,, وہ محبت سے کہتے اسکے گرد اپنا حصار ہٹا گیا,,,

ناجانے آج اسے کونسا دورا پڑا تھا جو اچھی خاصی اپنی بیوی کو نئے نئے ناموں سے پکار رہا تھا,,,

.حرم کو جیسے ہی آزادی ملی وہ تیر کی تیزی سے گاڑی سے نکلتی گھر کے اندر بھاگ گئی,,,,

 ساحر نے مسکرا کر گاڑی کا شیشہ نیچے کیا اور اسکی پشت کو تکتے نفی میں گردن ہلائی,,,,

جب حرم اسکی نظروں سے اوجھل ہوئی تو وہ گاڑی اسٹارٹ کرتے آگے بڑھ گیا,,,

 حرم نور کا چہرہ شرم سے لال ٹماٹر ہورہا تھا شکر تھا مین حال میں کوئی موجود نہ تھا ورنہ ضرور کوئی بھی پہچان لیتا وہ شکر کرتی تیز تیز قدم اٹھاتی سیدھا اپنے کمرے میں آئی,,,,اور شیشے کے سامنے اپنا تمتماتا چہرہ دیکھ وہ ایک بار پھر شرم سے چور خود سے بھی نگاہیں چرا گئی اور الماری سے کپڑے لیتی وہ شاور لینے واشروم کی طرف بڑھ گئی,,,

♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡

بلیک جینس شرٹ میں آنکھوں پر سن گلاسز چڑھائے میک اپ کے نام پر اپنے لبوں پر لائٹ سے کلر کی لیپ اسٹک لگائے ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھی وہ صبح کے اس حسین منظر سے لطف اندوز ہوتی ساتھ ہی ہاتھ میں تھامے کافی کے مگ سے چھوٹے چھوٹے سپ لے رہی تھی ، 

یہ کوئی صبح کے آٹھ بجے کا وقت تھا جب وہ اسلامباد کے مشہور کیفے میں شاید کسی کی منتظر بیٹھی تھی ، 

کافی کا مگ ٹیبل پر رکھتے اُس نے اپنی مومی چمکتی کلائی میں پہنی ریسٹ واچ آنکھوں کے سامنے کی جہاں ابھی آٹھ بج کر نو منٹ ہو رہے تھے انداز سے صاف ظاہر تھا  اُس نے ملاقات کے لئے جس شخص کو وقت دیا تھا اُس میں ابھی ایک منٹ باقی ہے ، سنایہ وکٹوریہ کبھی کسی کے مطابق نہیں چلی تھی سوائے گھڑی کی سوئیوں کے ، اُسے وقت کی قدر کرنا اور وقت کی قدر کرنے والے لوگ پسند تھے ۔۔

ایکسکیوز می مس,,,,, نسوانی آواز پر اُس نے نظریں گھڑی سے ہٹاتے آواز کے تعاقب میں اٹھائی جہاں ایک کم عمر لڑکی ہوٹل کے مخصوص ویٹر والے لباس میں موؤدب سی ہاتھ میں پھولوں کے گلدستے تھامے کھڑی تھی،،، 

سنایہ نے سن گلاسز سر کے اوپر بالوں میں اٹکاتے سوالیہ نظروں سے اُس لڑکی کو دیکھا ۔ 

وہ اُسکی سوالیہ نظریں خود پر مرکوز دیکھ نرم سی مسکراہٹ چہرے پر سجائے پھولوں کے گلدستے اُس کے سامنے پڑے کانچ کے ٹیبل پر رکھتے ، بنا کچھ بولے وہاں سے نکلتی چلی گئی ، 

سنایہ ابھی اُسے روکنے کا سوچ ہی رہی تھی کہ سامنے سے آتے وجود کو دیکھ اُسکے تاثر پھر سے سپاٹ ہوئے اور سارا معاملہ سمجھتے خاموشی سے اُسے دیکھنے لگی ۔۔۔ 

وائٹ شرٹ پر بلیک پینٹ اور کورٹ پہنے بالوں کو جیل سے سیٹ کئے سوٹ بوٹ میں ملبوس وہ اپنی تمام تر وجہہ شخصیت کے ساتھ چلتا ہوا آتا عین سنایہ کے ٹیبل کے پاس رکا ، 

پورے کیفے میں اُنکے علاوہ اور سروینگ ویٹرس کے لئے اور کوئی موجود نہ تھا ، حارث نے اُسے ایک اہم بات بتانے کے غرض سے ملنے کا کہا تھا اور اُسکی طرف سے مثبت جواب پاتے ہی اُس نے اس خوبصورت کیفے کو بک کروا لیا تھا,,,, 

گڈ مارننگ مس سنایہ شہروز خان,,,,,, وہ بشاشت سے نرم سی مسکراہٹ سے دیکھتا اُسے کہتا عین اُسکے سامنے کُرسی پر بیٹھا ۔۔۔

وہ اُسکے آنے پر بھی کھڑی نہیں ہوئی تھی اسی شان کے ساتھ سابقہ پوزیشن میں بیٹھی سر کو اثبات میں جنبش دیتے اُس نے جواب دیا,,,, 

حارث نے اُسکے چہرے کے خد و خال میں اُلجھتی اپنی نظریں ٹکائے ہلکی سی مسکراہٹ پاس کی جسے وہ سرے سے نظر انداز کر گئی,,, 

کیوں بُلایا ہے مجھے ...؟ وہ دونوں ہاتھ باندھے انہماک سے اُسے دیکھتی لٹھ مار انداز میں سوال گو ہوئی ۔۔۔

چائے لینگی یہ کافی,,,,, وہ اُسکا سوال گول کرتا اپنا سوال داغ گیا

مجھے جو لینا تھا میں لے چکی ہوں ، آپکو جو لینا ہے میرے جانے کے بعد لے لیجئے گا پر ابھی میرا اور اپنا وقت برباد نہ کریں بلکہ مدعے پر آئیں,,,,, کچھ اکھڑ لہجہ اختیار کرتے وہ ایک ایک لفظ صاف آواز میں ادا کرتی مقابل کو مزید گھبراہٹ کا شکار کر گئی تھی ، وہ جو الجھا سا ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ کہاں سے اپنی بات جاری کرے پر اُسکا لہجہ دیکھ حارث کی رہی سہی ہمت بھی ہوا ہو گئی,,,, 

مسٹر حارث خان آپ اپنے ساتھ میرا بھی وقت برباد کر رہے ہیں اور یقین کریں سارے الفاظ میرے ذہن میں ہیں یہ زبان پر ہیں چہرے پر نہیں جو آپ اس طرح گھور رہے,,,, وہ اُسے مخبوط الحواس سا خود کو تکتا دیکھ چبھتے ہوئے لہجے میں گویا ہوئی,,,,

حارث جو مکمل طور پر اُسکی چمکتی رنگت ، گھنی سیاہ پلکوں اور گلابی عارض پھولے گالوں کی خوبصورتی اور اُسکے دلکش حسین سراپے کے سحر میں مکمل طور پر جکڑا ہوا تھا اُسکی آواز پر کچھ ہوش میں آیا ۔۔ 

مجھے کچھ کہنا تھا آپکو,,,,, کچھ ہی دیر کے بعد خاموشی کی سرد مہری کو حارث کی بھاری اور سنجیدہ آواز نے توڑا,,,,, 

وہی بات سننے کے لئے بیٹھی ہوئی ہوں,,,, اُس نے اپنے مخصوص انداز میں برجستہ جواب دیا۔۔۔ 

میں شادی کرنا چاہتا ہوں آپ سے ,,,, وہ ایک ہی سانس میں بغیر لگی لپٹی کے کہتے ایک پل کے رکا اور سنایہ کے تاثرات دیکھنے لگا جو یک لخت ہی متحیر اور ساکت سے ہوئے تھے۔۔۔

میرا مطلب ہے میں پسند کرتا ہوں اور نکاح کرنے کی خواہش ظاہر کرنے کے لئے آپکو زحمت دی یہاں آنے کی,,,, حارث کے الفاظ تھے کہ گویا کوئی بم جو اُسے اپنی سماعتوں پر گرتا محسوس ہوا اُسے لگا جیسے اُسے سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہے پر مقابل کی بولتی نظریں صاف اُسکے الفاظوں کی عکاسی کر رہی تھی,,,,, 

واٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

وہ جو ششدر سی اُسے دیکھ رہی تھی ، ہوش میں آتے ہی غصے سے لال پیلی  ہوتی چلائ ۔۔۔ 

حارث نے بے ساختہ ہی اپنی دونوں آنکھیں میچتے کانوں میں انگلیاں ٹھونسی تھی,, اُسے لگا تھا ابھی سنایہ کے ہاتھ کی انگلیاں اُسکے منہ پر چھپیں گی ، پر اُسکی جانب سے ایسا کوئ ردعمل نہ محسوس کر اُس نے اپنی مچی آنکھیں کھولتے اُسکی جانب دیکھا ، جو پھولی نتھنوں سے اُسے ہی گھور رہی تھی۔۔۔ 

ایسے کیوں دیکھ رہی ہو ؟؟ اظہار ہی کیا ہے کونسا آپ پہ مزائل ہی پھینک دیا ہے,,,, وہ اپنی ہمت بحال کرتے کچھ چڑتے ہوئے بولا اور پھر سے سابقہ پوزیشن میں بیٹھا ۔۔جبکہ دل ابھی بھی مقابل کے غصے کے زیر اثر تیزی سے دھڑک رہا تھا

شٹ اپ جسٹ شٹ یور ماؤتھ ایڈیٹ,,,,, وہ غصے سے بھپری پھنکاری ۔۔۔ 

آخر برائی کیا ہے مجھ میں ؟؟؟؟ اُسکی پھنکار پر بیزار سا منہ بناتے سوال گو ہوا ،جبکہ لہجہ انتہائی حد تک سنجیدہ تھا,,,,,, 

برائی تم میں نہیں مجھ میں ہے,,,,, اگلے ہی پل سنایہ کی چبھتی ہوئی آواز اُسکے کانوں سے ٹکرائی۔۔۔ 

جیسے کہ ؟؟؟؟ برجستہ اگلے ہی پل پرسکون سے انداز میں پوچھا گیا ۔۔

یہاں میں ہر گز تُمہیں اپنی برائیاں بتانے نہیں آئی ، نکال دو اپنے ذہن سے یہ محبت کا فتور ورنہ اپنی ہی محبت پر پچھتاوا ہوگا تُمہیں,,,,,, لہجہ یک دم ہی دھیما ہوا تھا جبکہ آواز میں جیسے صدیوں کی تھکاوٹ تھی ، وہ اُسے باز رہنے کی تلقین کرتی انگارہ ہوتی آنکھوں سے دیکھتی گویا ہوئی۔۔۔ 

میری واپسی ممکن نہیں سنایہ محبت سے آگے عشق اور عشق سے آگے جنوں کی انتہا پر پہنچ گیا ہوں ، میری واپسی اب کتئی ممکن نہیں ہے اور واپسی کا کوئی جواز بھی ہو نہ ؟؟ تُمہارے پاس میرا پروپوزل ریجیکٹ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے سنایہ  اگر ہے تو بتاؤ میرے نزدیک وہ وجہ قابلِ قبول ہوئی تو ابھی پیچھے ھٹ جاؤنگا لیکن اگر نہیں ہوئی تو قیامت تک پیچھے نہیں ہٹو نگا ,,,,, 

وہ بغور اُسکے چہرے کے اتاؤ چڑھاؤ دیکھتا سحر انگیز انداز میں بولا ، جبکہ نظریں اُسکی سُرخ نظروں سے ٹکرا رہی تھی,۔۔۔۔

مقابل  ایک لمحے کیلئے اسکی شجاعت پر عش عش کے اٹھی جو کہ واقعی قابل دید تھی مگر اگلے ہی سیکنڈ وہ دانت کچکچاتے بامشکل اپنا اشتعال دبائے گویا ہوئی,,,

 ہے وجہ,,,,, ا

اور وہ کیا ہے.....؟ آبرو اچکاتے دوبدو پوچھا گیا

 پہلی وجہ تو یہ ہے کہ تم میری سوتیلی ہی سہی پر بہن تو ہے نہ اُسکے منگیتر ہو تُمہیں شرم آنی چاہئے ایک لڑکی کو خود سے منسوب کرنے کے بعد تم اُسے دھوکہ دے رہے ہو ، دوسری اور اہم وجہ یہ ہے کہ میں تم سے بڑی ہوں ، تمہارا معاشرہ کبھی قبول نہیں کریگا کہ تم اپنی سے بڑی لڑکی سے شادی کرو,,,,, وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتی سخت لہجے میں بولی۔۔ 

پہلی بات میں درخنے کو پسند نہیں کرتا دوسری بات میں بار بار دل توڑنے سے ایک بار ہی توڑنے پر یقین رکھتا ہوں ، اگر میری شادی درخنے سے ہو بھی جاتی ہے تو میں نہ ہی اُسے وہ محبت دے سکتا ہوں جسکی وہ حقدار ہے اور نہ ہی حقوق ، بار بار اُسکا دل توڑنے سے بہتر ہے کہ میں ایک دفعہ ہی توڑ دوں۔۔۔ 

اور جہاں تک رہی آپکی پیش کردہ دوسری وجہ تو مس سنایہ محبت بہت خود غرض ہوتی ہے اُسے محبوب کی عمر رنگ قد کسی چیز سے سروکار نہیں ہوتا محض محبوب کی ایک ادا پر محبت ہر دلائل کی نفی کر دیتی ہے، مجھے آپکی عمر سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور معاشرے کو میں اتنا حق نہیں دیتا کہ میرے ذاتی معاملات میں مداخلت کرے ،میرے نزدیک آپکی طرف سے پیش کردہ دونوں وجوہات نہ قابلِ قبول ہیں ، وہ ٹھوڑی پر دو اُنگلیاں ٹکائے بلکل پرسکون سے انداز میں بول رہا تھا ۔۔۔ 

سنایہ خاموش سی اُسے سن رہی تھی کہ ، اُسکی بات ختم ہوتے ہی ایک لمبی سانس لیتے ایک پل کے لئے آنکھیں میچ کر کھولتی اپنے اندر جلتی اگ کو کنٹرول کرنے کی تگ و دو میں لگی,,,, 

میں آپکی جانب سے مثبت جواب کا منتظر ہوں,,,,, ماحول کی خاموشی کو ایک بار پھر حارث کی سنجیدہ آواز نے توڑا,,,, جبکہ اُسکی نظریں اب بھی مخمور انداز میں سنایہ کے چہرے کا تواف کر رہی تھی,,,, 

تُمہیں منتظر رہنے کی ضرورت نہیں ہے میرا جواب انکار ہی ہے اب بھی,,,, وہ چبھتی ہوئی نظروں سے اُسے دیکھتی کہتی یک دم ہی اُٹھ کھڑی ہوئی ، اُسکے کھڑے ہوتے ہی حارث بھی اپنی جگہ سے اٹھتا چیئر کھسکاتا اٹھ کھڑا ہوا,,, 

سنایہ ایک تاسف بھری نظر اُس پر ڈالتی جانے کے لئے آگے ہی بڑھی تھی کہ حارث نے کلائی تھامتے اُسے رکا ، اُسکی جرت پر سنایہ کی آنکھیں پھٹی تھی جبکہ جسم میں ایک سنسنی سی دوڑنے لگی  پورے وجود میں جیسے چونٹیاں رینگنے لگی تھی ، چہرا یک دم ہی سفید سے سُرخ ہوا تھا ، اُسکی حالت دیکھ حارث نے کلائی چھوڑتے دو قدم پیچھے لئے وہ نہ واقف تھا اُسکی حالت سے پر سنایہ جیسے اپنے اندر کے اُس ڈر اُس خوف کو تھپکنے لگی۔۔۔ ایسی حالت اُسکی تب ہی ہوتی تھی جب اُسے ماضی کے خوف سے دورے پڑتے تھے ، اُس نے انتہائی مشکل سے اپنے جذبات کو قابو کیا تھا ، اور اپنی انگارا ہوتی آنکھیں حارث کی طرف اٹھائی ۔۔۔ 

انکار کی کوئی ایک تو وجہ ہوگی ؟؟؟؟ اُسے خود کو یوں تکتا دیکھ وہ بھی اُسکی آنکھوں میں اپنی آنکھیں ڈالتا بولا ۔۔۔ 

جانتے کیا ہو تم میرے بارے میں ہاں ؟؟؟؟ یہ جو اتنی محبت عشق جنوں اور بلہ بلہ نام لے رہے ہو نہ میرے بارے میں جاننے کے بعد عام مردوں کی طرح بھاگتے نظر آؤگے, وہ غصے سے آگ بگولا ہوتی دبے دبے غصے میں غرائی ۔۔۔ 

سب جانتا ہوں الف سے لے کر یہ تک سب کچھ جانتا ہوں اتنا آپ بھی شاید اپنے بارے میں نہیں جانتی ہونگی جتنا میں جانتا ہوں,,,, 

آپکے بچپن سے لے کر آج کے دن تک سب کچھ جانتا ہوں ۔۔۔ وہ اُسکی گراہٹ پر بلکل اطمینان سے گویا ہوا۔۔۔ 

تو کیا تم میرے جیسی لڑکی سے شادی کر لو گے ؟؟؟ سنایہ یہ سب کہنا یہ پوچھنا نہیں چاہتی تھی پر زبان سے بے ساختہ ہی جملہ ادا ہوا تھا ۔۔ 

کیا مطلب ہے تم جیسی...؟ جو کچھ بھی ہوا اُس میں آپکی کوئی غلطی نہیں تھی ، آپ کیسی ہیں میرے دل سے پوچھیں سب سے منفرد سب سے الگ ، باقی ماضی میں جو ہوا اُسے ایک خواب سمجھ کر بھول جائیں میں بہت مان سے آپ کے آگے اپنے ہاتھ بڑھا رہا ہوں انہیں تھام لیں,,,,, وہ پہلے سخت لہجے میں سوال کرتا آخر میں جذبات سے چور شدتِ جذبات سے گویا ہوا ، 

اُسکا لہجہ اُسکا ایک ایک الفاظ اُسکے سچے جذبوں كا پتہ دے رہے تھے,,,, 

سنایہ کے آنکھوں کے کونے بھیگنے لگے تھے پر زباں پر جیسے قفل لگ گیا تھا ، 

بتائیں مس سنایہ کیا آپ میرے ساتھ ایک نئی اور خوشیوں سے بھرپور زندگی کا آغاز کرنا چاہتی ہیں یہ ابھی بھی ماضی کی یادوں میں قید رہ کر اپنے ساتھ مجھے بھی ازیت دینا چاہتی ہیں۔۔۔۔ ؟؟؟؟؟؟ وہ ایک بار پھر سوال گو ہوا,,,,, 

اُسکے سوال پر سنایہ گہری سوچ میں مستغرق ہوئی تھی ، ایک لمبی سانس لیتے وہ ایک آخری نظر حارث کے سوالیہ چہرے پر ڈالتی بنا کچھ بولے وہاں سے نکلتی چلی گئی,,,,, 

اس بار حارث نے اُسے روکنے کی کوششں نہیں کی تھی وہ جانتا تھا اپنی باتوں سے کافی حد تک وہ اُسے منا چکا ہے,,,, 

سنایہ وہاں سے نکلتی اپنی گاڑی میں سوار ہوتی اپنے گھر کی طرف بڑھ گئی,,,,,, 

پورے راستے اُسکی سوچوں کا مرکز حارث کی باتیں تھی وہ جانتی تھی عادل اور درخنے ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں ، پر پھر بھی اُسے فیصلہ لینے میں دشواری ہو رہی تھی,,, تمام سوچوں کو پسِ پشت ڈالتے وہ ڈرائیونگ پر دیہان دیتے گھر کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔

اُسکے جاتے ہی حارث تھوڑی دیر اور وہاں بیٹھ کر اس معاملے پر غور و فکر کرتے کورٹ کے لئے روانہ ہوگیا........ 

نہ جانے اب نصیب نے کس کے جذبات کے ساتھ کس طرح کا کھیل کھیلنا تھا آنے والے وقت کا تو صرف خدا ہی جانتا تھا۔۔۔۔

♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡

اُس نے گھر میں قدم رکھا تو شیری کو ہول میں ہی لیپ ٹاپ پر جھکا کیبورڈ پر تیزی سے اُنگلیاں چلاتے پایا ، 

وہ موبائل صوفے پر پھینکتی صوفے پر بیٹھتے پُشت اور سر صوفے سے ٹکاتی آنکھیں موند گئی ، 

حارث کے الفاظ اور لہجہ بار بار اُسکے ذہن میں بازگشت کر رہے تھے.. 

اُسے گھر میں قدم رکھتے اور صوفے پر تھکن زدہ انداز میں گرتے دیکھ شیری نے ایک سرسری سی نظر اُس پر ڈالی تھی اور دوبارہ اپنے کام کی طرف متوجہ ہوگیا جلدی جلدی اُنگلیاں چلاتے کام ختم کرتے لیپ ٹاپ سائڈ پر رکھتا اب وہ پوری توجہ سنایہ کی طرف مبذول کر گیا ۔۔ 

کیا ہوا ہے سنایہ کچھ پریشان لگ رہی ہو ؟؟؟ وہ متفکر سے انداز میں سوال گو ہوا ۔۔

اُسکے سوال پر سنایہ نے پٹ سے اپنی آنکھیں کھولی ، 

نہیں پریشان نہیں بس تھک گئ ہوں,,,, وہ سیدھے ہوکر بیٹھتے عام سے انداز میں بولی ۔۔ اندرونی پریشانی اُس سے چھپانی چاہی۔۔ 

جھوٹ اُس سے بولنا جو تمہیں جانتا نہ ہو ، تُمہارے چہرے کے تاثرات مجھے صاف طور پر یہ واضح کر رہے ہیں کہ تم پریشان ہو نہ کہ تھکی ہوئی ورنہ سنایہ ویکٹوریہ ذرا سی شاپنگ پر تھک جائے نہ ممکن ایک وقت پر کئی محازوں کو اپنی قابلیت سے نمٹانے والی تھکن کا کہہ رہی ہے نہ قابلِ یقین ہے میرے لئے ، وہ اُسکے بہانے پر مسکراتا افسوس سے نفی میں سر ہلاتے بولا۔۔ 

جو بھی بات پریشان کر رہی ہے مجھے بتاؤ,,,, وہ نرمی سے کہتا پلکیں جھپکتے اُسے دیکھتا اپنے ہونے کا احساس دلانے لگا ۔۔ 

چوری پکڑے جانے پر سنایہ نے ایک لمبی سانس لیتے حارث سے ہوئی ساری مُلاقات اور باتیں مختصر اور مناسب لفظوں کا چناؤ کرتے شیری کے گوش گزاری ، 

شیری جو خاموش سا بیٹھا اطمینان سے اُسکی بات سن رہا تھا اُسکے روکتے ہی اثبات میں سر ہلا گیا ، اور کسی گہری سوچ میں غرق ہوگیا ۔۔ 

سنایہ بھی اُسے پوری بات بتاتے ملازمہ کے پانی لاتے ہی گلاس سے پانی کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھرنے لگی ، 

تم نے کیا سوچا ہے اس بارے میں ؟؟ سارا معاملہ اپنے ذہن میں ترتیب دینے کے بعد و سوالیہ نظروں سے دیکھتا پوچھنے لگا ، 

ظاہر ہے انکار کرونگی اُسکی منگنی درخنے سے ہوئی ہے اگر میں اُسکے قدم نہیں روکوں گی تو خاندان میں بدمزگی پیدا ہوگی پہلے ہی سب کچھ ابھی تو سہی ہوا ہے ، گلاس ٹیبل پر رکھتے وہ عام سے پر سلجھے ہوئے انداز میں بولی۔۔ 

اُو پلیز سنایہ کبھی انتقام کے پیچھے بھاگتی تم اپنی خوشیاں قربان کر دیتی ہو تو کبھی خاندان کے لئے ، کبھی اپنے بارے میں سوچا ہے کبھی اپنے لئے بھی اسٹینڈ لو اپنے لئے جیو سنایہ یہ تُمہاری بھی زندگی ہے ، جہاں تک رہی بات اُسکی اور درخنے کی منگنی کی تو تم بہت اچھے سے جانتی ہو کہ دونوں ہی اس رشتے سے خوش نہیں عادل درخنے کو پسند کرتا ہے جبکہ حارث تُمہیں ، اگر یہ رشتا ہوتا ہے تو نہ ہی عادل درخنے کو بھول پائے گا اور نہ ہی حارث درخنے کو خوش رکھ پائے گا ۔۔۔ 

سنایہ کی پیش کردہ سوچ پر یک لخت ہی شیری کے تاثرات بدلتے سُرخ ہوئے تھے ، وہ اُسکی بات پر بگڑتا پہلے کچھ سخت لہجے میں بولا جبکہ آخر میں اُسکا لہجہ نہایت ہی دھیمہ ہوا تھا جیسے وہ اپنی دلائل سے اُسے رضامند کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔۔ 

سنجیدگی سے اُسکی باتیں سنتی سنایہ نے ایک لمبی سانس ہوا میں تحلیل کرتے خود کو پر سکون کیا ابھی وہ اُسے کوئی جواب دیتی یہ کوئی ردعمل ظاہر کرتی کہ اُس سے پہلے ہی ہول میں داخل ہوتے ثمر کو دیکھ وہ دونوں ہی خاموش ہوئے تھے اور اپنی اپنی جگہوں سے اُٹھ کھڑے ہوئے ، 

ثمر مسکراتا ہول میں داخل ہوتا سنایہ کو سلام کرتا اور شیری سے بغلگیر ہوکر ملتا اُنکے ساتھ صوفے پر براجمان ہوا ۔۔۔ 

ثمر مجھے سمجھ نہیں آرہا میں کہاں سے شروع کروں پر تُمہارے ساتھ میں نے جو کچھ بھی کیا وہ نہیں کرنا چاہئے تھا مجھے ، میں نے اپنی انتقام کی آگ میں شامل کرکے تُمہیں بہت تکلیف دی ہے ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا ۔۔۔ ثمر شیری کے ساتھ باتوں میں مشغول تھا کہ سنایہ اُسے مخاطب کرتی سر جھکاتے بولی۔۔۔ 

سنایہ کے الفاظوں پر شیری نے ضبط سے لب بھینچے تھے جبکہ ثمر کے چہرا بے تاثر تھا ۔۔۔

تُمہیں شرمندہ ہونے کی یہ معافی مانگنے کی ضرورت نہیں سنایہ ، تُمہاری وجہ سے ہی میں عنایہ جیسی چالباز عورت کی حقیقت جان پایا ہوں تمھاری وجہ سے ہی آج میرا بچہ بلکل حفاظت سے ہے اور ایک اچھی تربیت حاصل کر رہا ہے ساحر بھائی اور حرم بھابھی کی سرپرستی میں ، تُمہاری وجہ سے ہی آج میں زندہ ہوں سنایہ ، اگر تم یہ نہ کرتی تو ہم کبھی ماضی نہیں جان پاتے اور اصل مجرم کبھی اپنی سزا۔ نہ پاتے ، سو یہ بات اپنے ذہن سے نکال دو کہ تم نے کچھ غلط کیا ہے۔۔۔۔۔ وہ ایک تلخ سی مسکراہٹ چہرے پر سجائے اُسے دیکھتا گویا ہوا ۔۔ 

سنایہ جو انگشت بدنداں سی اُسے دیکھ رہی تھی اسکی بات ختم ہوتے ہی محض اثبات میں سر ہلا گئ۔۔۔۔

وہ بھی اسے مسکراہٹ پاس کرتا ادھر اُدھر کی باتوں میں اُسکا ذہن بھٹکا گیا ۔۔۔ 

وہ تینوں ہی باتوں میں مشغول تھے کہ ہول کے دروازے پر کسی کے بھاری قدموں کی چھاپ محسوس کر اُن تینوں نے ہی بے ساختہ دروازے کی طرف دیکھا تھا جہاں لاٹھی تھامے داجی کھڑے تھے ، وہ صبح ناشتے کے بعد ہی بنا کسی کو بتائے شہر پہنچ گئے تھے ، سنایہ اور ثمر کا مزید انتظار اُنکی جان لینے کے درپے تھا پوری رات وہ سو نہیں سکے تھے اور  اب موقع ملتے ہی وہ اُن دونوں سے ملنے پہنچ گئے۔۔۔ 

وہ تینوں ہی آنکھیں پھاڑے حیران کن تاثرات کے ساتھ اُنہیں دیکھ رہے تھے یقین کرنا مشکل تھا ۔۔۔ 

داجی خود پر مرکوز اُنکی ساکت نظریں دیکھ قدم بڑھاتے اُنکے پاس آکر کھڑے ہوئے۔۔۔ 

آپ یہاں ؟؟ سب سے پہلے سنایہ کا سکتا ٹوٹا تھا اس لئے ہوش میں آتے ہی جو سوال اُسکے منہ میں آیا داغ گئی۔۔ 

ہاں ہم یہاں.... اپنے بچوں کو لینے آئے ہیں ۔۔۔ کیا نہیں آسکتے ؟؟؟؟ سنایہ کو جواب دیتے وہ ثمر کی جانب دیکھنے لگے جو سر جھکائے کھڑا تھا ۔۔۔ 

جاؤ بیٹی اپنا سامان لاؤ ہم ابھی ہی گھر چل رہے ہیں اور اب مزید کوئی انکار نہیں سنیں گے ہم...... وہ سنایہ کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ پھیرتے اٹل لہجے میں بولے سنایہ نے کوئی ردعمل نہ دیا جبکہ اپنی نظریں اُس نے بے ساختہ ہی شیری کی طرف اٹھائی تھی جس نے مسکرا کر گردن کو جنبش دیتے اُسے جانے کا مشورہ دیا ۔۔۔۔۔

داجی سنایہ کو ساتھ لیجانے کے لئے منانے کے بعد ثمر کی طرف بڑھے تھے اور عین اُسکے مقابل کھڑے ہوئے۔۔۔

 اپنے پاس اُنکی موجودگی محسوس کر کے بھی ثمر نے اپنی آنکھیں نہیں کھولی تھی۔۔۔۔

یک لخت ہی ثمر کی برداشت ختم ہوئی تھی اور وہ سر اٹھاتا داجی کو دیکھتا اُنکے سینے سے جا لگا ، اتنے وقت بعد اپنے پوتے کو اپنے  سینے سے لگا دیکھ داجی کو اپنی روح تک سکون اُترتا محسوس ہوا تھا ، خوشی کے آنسوں آنکھوں سے نکلتے سفید داڑھی میں جذب ہوئے تھے جبکہ ثمر اور داجی کی محبت دیکھ سنایہ اور شیری کی بھی آنکھیں بھیگی تھی ، اور ثمر کی بھی آنکھیں اپنے دادا کے حصار میں خوشی سے اشکبار ہوئی۔۔۔ 

چلو بس بہت ہوگیا ، بہت دُکھ دیکھ لئے ہم نے  اب سب ساتھ رہیں گے میں مزید ایک منٹ بھی اپنے خاندان کو یوں تتر بتر نہیں دیکھوں گا ، وہ اپنے آنسو صاف کرتے گویا ہوئے لہجے میں ماضی کی تکلیف واضح تھی ۔۔ 

سنایہ اور ثمر دونوں منع کرنا چاہتے تھے جانے سے پر داجی کی ضد کے آگے ہار مانتے وہ دونوں جانے کے لئے رضامند ہوگئے ، اور پھر کچھ ہی دیر بعد داجی اُن دونوں کے لئے حویلی کے لئے نکل گئے۔۔۔۔ 

اُنکے حویلی آمد پر سب ہی بہت خوش تھے نور بانو کا تو ثمر کو دیکھ دیکھ کر بھی دل نہیں بھر رہا تھا وہ کبھی اُسکا ماتھا چومتی اپنی ممتا کی تڑپ دکھا رہی تھی تو کبھی روتی ہوئ اُسے اُسکے جانے کے بعد کی کہانی سنا رہی تھی کہ کیسے اُسکی موت کی خبر نے حویلی کو ویران کر دیا تھا ۔۔۔ 

سنایہ سے نور بانو کا رویہ بلکل حرم اور درخنے کے جیسا ہی تھا ، حرم بھی خوش تھی کہ اُسے ایک اور نند بہن کی صورت میں مل گئی تھی ، ثمر اور ساحر دونوں ہی دوبارہ پہلے کی طرح ایک ہوگئے تھے عنایہ کی ڈالی اُن دونوں بھائیوں کے درمیان دراڑ اب ختم ہوگئی تھی ، ثمر عصام  سے مل چکا تھا اُسے گود میں اُٹھا کر اُس نے خوب پیار کیا ، پر سب کے سامنے وہ یہ اعلان بھی کر گیا تھا کہ عصام کو وہ ساحر اور حرم کے سپرد کر رہا ہے تا کہ بچے کی اچھی پرورش ہو سکے۔۔۔ 

داجی تو اپنے خاندان کو ایک ساتھ اور خوش باش دیکھ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے، سالوں بعد جیسے حویلی میں رونق سی آگئی تھی ۔۔۔۔۔

وہ موبائل ہاتھ میں لئے رات کے تیسرے پہر کمرے کی بالکونی میں کھڑی ستاروں کو تک رہی تھی ایک طرف ذہن میں حارث کا اظہار اور پھر اُسکی کہی باتیں بازگشت کر رہی تھی تو دوسری طرف شیری کی کہی باتیں اُسے بے چین کر رہی تھی درخنے کی آنکھوں میں بھی وہ صاف اس رشتے کے لئے ناپسندیدگی دیکھ چُکی تھی ، ذہن بہت سی سوچوں میں بھٹکا ہوا تھا ایسا نہیں تھا کہ اُسے حارث پسند آنے لگا تھا یہ وہ اُسکی محبت میں یہ سب سوچ رہی تھی ، وہ یہ سب صرف عادل اور درخنے کے لئے سوچ رہی تھی وہ جانتی تھی اگر وہ حارث کو ہاں کر دےگی تو حارث کسی بھی طرح اپنے والدین کو منا کر درخنے سے رشتا ختم کر دیگا ، اُس کے اس طرح کرنے سے بہت سے لوگوں کو خوشی مل سکتی تھی عادل کو درخنے مل سکتی تھی ، کچھ سوچتے اُس نے ایک لمبی سانس ہوا میں تحلیل کرتے تازہ ہوا میں ایک لمبا سانس لیا تھا اور موبائل کی سکرین پر ہاتھ چلاتے ایک نمبر پر کال کرتے فون کان سے لگایا ۔۔ 

مقابل نے دوسری بیل پر ہی فون اُٹھا لیا تھا جیسے وہ منتظر ہی بیٹھا تھا ۔۔

●︿●●︿●●︿●

زہے نصیب , بڑی دیر کردی مہرباں آتے آتے,,,,, چھم چھم کرتے تارے ان میں چمکتا یہ چاند اور اُسے دیکھتا یہ بندہِ ناچیز کب کا تھا منتظر صرف ایک پُکار کا تم نے جو پُکار لیا تو سنو اُو ظالم لڑکی میرے دل کی دنیا کو ہلا دیا۔۔۔

اپنے کمرے کی بالکونی میں کھڑا فون کان سے لگائے چاند کو تکتا وہ مسکراتا دلکش انداز میں بولا جبکہ ایک ہاتھ اپنے دل پر رکھے وہ دھڑکنوں کے شور میں اٹھتی اُسکے نام کی سدا اپنی ہتھیلی میں محسوس کرنے لگا ۔۔۔


سنو یوں چُپ نہ رہو کچھ تو کہو ، اپنی مشری بھری آواز سے اپنے اس عاشق کے کانوں کو شفاء بخشو ، اگرچہ نہیں ممکن دیدار تمہارا ، خواب میں ہی آکر بخشو آنکھوں کا سکوں,,,,, وہ فون کال کی دوسری طرف مقابل کو خاموش دیکھ ایک بار پھر مخمور سے انداز میں گویا ہوا,,,,


اُسکی اس فضول سی بات پر سنایہ نے آنکھیں بیزاریت سے بند کر کے کھولی تھی ۔۔۔۔

میں صرف تُمہارے دل کی ہی نہیں بلکہ دماغ کی بھی دنیا ہلانے کی صلاحیت رکھتی ہوں مسٹر حارث خان,,,,,

کچھ ہی دیر بعد سنایہ کی مظبوط فخریہ سی آواز اُسکی سماعتوں سے ٹکرائی ،


جی بلکل آپ دل اور دماغ ہی نہیں بلکہ میری پوری دنیا بھی ہلا سکتی ہیں,,,,, وہ مسکراتا شریر سے انداز میں بولا ۔۔۔

تمھاری بکواس سننے کے لئے کال نہیں کی ہے میں نے,,,, اُسکی باتیں اور لہجہ اب سنایہ کی برداشت سے باہر ہوا تھا اس لئے ضبط کی اتہہ گہرائیوں کو چھوتی وہ دبے دبے غصے میں لفظوں کو دانتوں کے درمیان چبا کر بولی۔۔


جی میرے کان دل گردہ پھیپڑا آنکھیں ہاتھ پاؤں سب منتظر ہیں آپکی عنایت کی وجہ جاننے کے لئے,,,,, لہجے میں بلا کی سنجیدگی لاتے وہ لب دانتوں تلے دیتے اپنی ہنسی کنٹرول کرتے بولا ۔۔


سنایہ ضبط کے کڑوے گھونٹ بھر کر رھ گئی ایک لمبی سانس ہوا میں تحلیل کرتے خود کو نورمل کرتے وہ ایک بار پھر گویا ہوئی ۔۔۔


تم مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہو ؟؟؟؟ بغیر لگی لپٹی کے وہ فوراً مدعے پر آئی تھی۔۔۔

ایک پل کے لئے حارث کو اپنے کانوں پر شبہ ہوا تھا پر دوسرے ہی پل اُسکے لبوں سے الفاظ ادا ہوئے ،


ہاں,,,,,,, کیا تم کرنا چاہتی ہو شادی ؟؟؟ وہ بیتابی سے بولا جبکہ دل الگ ہی دھن میں دھڑک رہا تھا۔۔


اگر آپ بھول رہے ہیں تو میں یاد دلا دیتی ہُوں مسٹر حارث خان کہ میرا بھی ایک خاندان ہے ، اگر شادی کرنا چاہتے ہیں تو میرے بھائیوں سے عزت سے میرا رشتہ مانگیں,,,,, اُمید ہے میری باتیں آپ سمجھ چُکے ہونگے ۔۔۔۔ اُس نے کہتے ہی مقابل کو حیرت کے سمندر میں چھوڑ ٹھک سے فون بند کر دیا ۔۔۔


حیرت اور غیر یقینی سے حارث کا منہ کھلا تھا جبکہ اُسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے سب کچھ رک سا گیا ہو ، سانسیں ہوائیں سب کچھ جیسے تھم سی گئی تھی اُسے اپنے کانوں میں اپنی دھڑکنوں اور زہن میں بازگشت کررہی تھی سنایہ کی بات کے علاوہ اور کوئی آواز نہیں آرہی تھی ۔۔۔


فون کی میسیج ٹون پر وہ اپنی خیالی دنیا سے حال میں لوٹا موبائل کی اسکرین سامنے کرتے اُس نے سنایہ کی طرف سے موصول ہوا پیغام پڑھا ، ناگہاں چہرے کے تاثرات بدلے تھے ،جبکہ اس پیغام میں کچھ اس طرح کے الفاظ تھے۔۔

You have only one day.....

یہ الفاظ پڑھ جیسے حارث کی آنکھیں پھیلی دماغ چلنے سے انکاری ہوا تھا ، وہ آسمان کی طرف دیکھتا گہری سوچ میں مستغرق اس معاملے کے ہر پہلو پر غور و فکر کر رہا تھا ، سب سے پہلے تو اس نے اپنے والدین سے سنایہ کے بابت بات کرنے کی ٹھانی تھی ، جانتا تھا بہت مشکل ہوگا اُنہیں اس بات کے لئے رضامند کرنا کہ وہ درخنے سے نہیں سنایہ سے شادی کرنا چاہتا ہے پر اُسے خود پر بھروسہ تھا کہ وہ کسی بھی طرح اس سارے معاملے کو ہینڈل کر لیگا ۔۔۔

ذہن میں سارا معاملہ ترتیب دیتے وہ دلکشی سے مسکرایا تھا اور دوبارہ چاند کو دیکھنے لگا۔۔۔۔۔


سنایہ بھی موبائل ركھکر تمام سوچوں کو ذہن سے جھٹکتے ابھی سونے جانے کا سوچ ہی رہی تھی کہ نیچے لون میں حرم درخنے اور اشرفی کو بیٹھا دیکھ وہ بھی نیچے کی جانب بڑھ گئی ۔۔۔۔اب دن بہ دن تمام گھر والوں کے درمیان رنجشیں ختم ہونے لگی تھی سب ہی ایک ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے بہت خوش تھے ، سنایہ کی بھی حرم اور درخنے سے اچھی دوستی ہوگئ تھی سنایہ اور درخنے حرم کی معصومیت کا فائدہ اٹھاتے روز ہی ساحر کے لئے نیا محاذ کھول دیتی تھی اور سدا کی بیوقوف حرم اُن دونوں کی چکنی چُپڑی باتوں میں آکر اپنا ہی نقصان کروا دیتی تھی ۔۔۔


ارے ہم سمجھے تم سو گئی ہوگی,,,,, اُسے لون میں آتا دیکھ حرم نے چہکتی آواز میں کہا۔۔جبکہ حرم کی آواز پر اشرفی سے راز و نیاز کی باتیں کرتی درخنے نے بھی نظریں اٹھاتے دیکھا اور ہلکی سی مسکراہٹ پاس کی,,,

نہیں مجھے نیند نہیں آرہی تھی,,, تم دونوں کو یہاں دیکھا تو اس لئے چلی آئی ، وہ مسکرا کر کہتی حرم کے مقابل کُرسی پر بیٹھ گئی ،

تم دونوں کیوں جاگ رہی ہو ابھی تک خیریت ؟ وہ اپنی بتاتے اب دونوں سے سوال گو ہوئی ۔۔۔۔۔


ہاں وہ ساحر بھائی ہسپتال سے آئے نہیں نہ ابھی تک تو حرم اکیلی تھی تو میں نے سوچا کیوں نہ فائدہ اُٹھایا جائے میرا مطلب ٹائم گزرا جائے,,, سنایہ کے سوال کا ابھی حرم کوئی جواب دیتی کہ اُس سے پہلے ہی درخنے ایک آنکھ ونک کرتے شرارت سے بولی چہرے سے صاف شرارت ٹپک رہی تھی۔۔۔

اُسکے جواب پر سنایہ نے بھی لب دانتوں تلے دیتے ہنسی کنٹرول کی تھی اور سمجھتے اثبات میں سر ہلا گئ ۔۔۔


آج اگر میری بھی بیوی ہوتی تو وہ بھی تم تینوں کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتی پر افسوس ہائے اشرفی کی ایسی قسمت کہاں,,,,, اشرفی کے سنجیدگی سے ادا کئے الفاظوں پر جہاں درخنے نے دانت پیسے تھے وہی سنایہ کو شدید جھٹکا لگا تھا ، وہ پھیلی آنکھوں سے اُس طوطے کو دیکھ رہی تھی اور یقین کرنے کی تگ و دو میں تھی کہ واقعی یہ اس طوطے کی آواز تھی ؟؟


میں کافی بنا کر لاتی ہوں,,,, اشرفی کی بات کو سرے سے نظر انداز کرتی درخنے اُن دونوں کو مسکرا کر کہتی وہاں سے نکلتی چلی گئی ،


ہاں ہاں اب تو تم نے جانا ہی ہے میرے ارمانوں کا قتل کر کے,,,,, اُسے جاتا دیکھ اشرفی نے پیچھے سے ہانک لگائی جو پتہ نہیں اُس نے سنی بھی تھی یہ نہیں,,,,


اشرفی چہرے کے زاویہ بدلتا سنایہ کی طرف متوجہ ہوا جو اب تک حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھی ،


ایسے نہ دیکھو پگلی ورنہ پیار ہو جائے گا,,, اشرفی کی آواز پر جہاں سنایہ کا سکتا ٹوٹا تھا وہی حرم اشرفی کے انداز پر مسکرائی ۔۔۔۔


یہ کیا سچ میں اسی کی آواز تھی؟؟؟ سنایہ کی صدمے سے چور آواز برآمد ہوئی ،

حرم اُسکی حیران کن تاثر دیکھ اثبات میں سر ہلا گئی ،


ہاں یہ اسی کی آواز تھی,,,, حرم نے جواب پیش کیا ،

پر یہ درخنے سے کیا كہہ رہا تھا اسکے کونسے ارمانوں کا قتل کیا اُس نے ؟؟؟ سنایہ خود کو سنبھالتے کچھ یاد آتے نہ سمجھی سے پوچھنے لگی،،،


صرف اسی نے نہیں بلکہ سب نے ہی میرے ارمانوں کا قتل کیا ہے ، وہ جلا بھنا سا آنکھیں ناگوریت سے پھیرتے بولا ۔۔۔


ارمان کونسے ارمان......؟ سنایہ نے بے ساختہ ہی سوال کیا ۔۔

دراصل اسے اپنی شادی کی جلدی ہے اس لئے بس کچھ بھی بولتا ہے یہ تم اتنی سنجیدگی سے نہ لو اسکی باتوں کو,,,,

وہ اُسے پریشان دیکھ سہولت سے گویا ہوئی ، پر اسکی باتوں پر حیران ہونے کی باری اشرفی کی تھی ۔۔


ابھی بھی جلدی نہ ہو شادی کی ؟؟ کیا تم میری شادی میرے بڈھے ہونے کے بعد کروگی ؟؟ اشرفی نے صدمے اور غصے کے ملے جلے تاثرات سے کہا ۔۔


جہاں اُسکی بات پر حرم نے کندھے اچکائے تھے وہی سنایہ نے جاندار قہقہ لگایا تھا ، اشرفی کی غصے سے بھری سفید آنکھیں اب سنایہ پر مرکوز تھی۔۔۔


سوری سوری,,,,, اشرفی کو غصیلی نظروں سے خود کو تکتا دیکھ وہ خود کو سنبھالتے بولی ، اشرفی نے حرم اور سنایہ دونوں سے ناراضگی کا اعلان کرتے اپنا رُخ موڑ لیا ، کوئی عزت ہی نہ ہو جیسے اُس بیچارے کی,,,


حرم ویسے غلط بات ہے تُمہیں اشرفی کی شادی کا سوچنا چاہئے اب,,,, کوئی لڑکی دیکھی میرا مطلب ہے کہ کوئی طوطی دیکھی تم نے اپنے اشرفی کے لئے ؟؟؟ وہ اشرفی کو خفا دیکھ اُسکا موڈ بحال کرنے کی کوشش میں بولی ،


ہاں دیکھی ہوئی ہے..... بہت پیاری ہے چھوٹی چھوٹی سی سفید اور کالی آنکھیں سُرخ چونچ اور اُسکے ہرے ہرے نرم و ملائم بال بہت پیاری ہے اور اس پر تضاد اُسکا پشتو میں بات کرنا مجھے تو بہت پسند ہے وہ,,,,,


سنایہ کے پوچھتے ہی حرم حُسن ارا کو یاد کرتی مُحبت سے بولی جبکہ اُسکے ذکر پر اشرفی کی بھی آنکھیں چمکی تھی اور ساتھ ہی ذہن میں حُسن ارا کا چہرا لہرایا....


اوہ یہ تو اچھی بات ہے کہ تم نے ڈھونڈی ہوئی ہے، پر وہ ہے کون کس خاندان سے ہے ؟؟

حرم کے بیان کردہ حُسن ارا کی تعریفوں پر سنایہ نے لب دانتوں تلے دیتے پھوٹتی ہوئی ہنسی کنٹرول کرتے بظاھر سنجیدگی سے کہا تھا۔۔۔


کس خاندان سے ہے کس ذات سے ہے اُس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اب سے اُسکا خاندان اور اُسکی ذات میں ہی یعنی اشرفی ہی ہے.....

حرم ابھی کوئی جواب دینے ہی لگی تھی کہ اشرفی نے فل ہیرو والے انداز میں کہا۔۔


اُو بس کر آیا بڑا دانش تیمور,,,,,,

ٹرے میں کافی کے کپ تھامے آتی درخنے نے اُسکے الفاظ سن بے ساختہ کہا جبکہ سنایہ ہونقوں کی طرح اُسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔


حرم بھی آنکھوں کو چھوٹا کرتے یاد کرنے کی تک و دو میں تھی کہ یہ ڈائیلاگ اُس نے کہیں سنا ہے,,,,

تم تو بات ہی نہ کرو بیوفا لڑکی سہی ہی کہتے ہیں لوگ لڑکیاں بیوفا ہی ہوتی ہیں,,,, اشرفی نے بلند آواز میں کہتے درخنے پر چوٹ کی۔۔


اوہ دیکھو ذرا ابھی یہ مرا جا رہا تھا شادی کے لئے اور ابھی کہہ رہا ہے کہ لڑکیاں بیوفا ہوتی ہیں ۔۔۔ درخنے نے بھنتے لہجے میں اُسی کے انداز میں کہا۔۔


تو میں کونسا لڑکی سے شادی کر رہا ہوں میں تو طوطی سے کرونگا نہ,,,, اشرفی بھی دوبدو بولا ، درخنے نے اُسکے جواب پر ماتھا پیٹا تھا۔۔۔


یہ معاملہ کیا ہے آخر ہے کون وہ طوطی کوئی مجھے بھی بتائے گا,,, اُن دونوں کو خونی نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھتی وہ کافی کا مگ ٹیبل سے اٹھا کر ہاتھ میں تھامتے بولی۔۔۔

حرم جو انہماک سے اشرفی اور درخنے کو دیکھ رہی تھی اُسکے سوال پر متوجہ ہوتی گویا ہوئی ۔۔

دراصل حارث لالا کی طوطی ہے حُسن ارا نام ہے یہاں آئی بھی تھی رہنے پر ساحر جی پھر لے گئے اُسے ، اور جا کر حارث لالا کو دیدی اب میں جب بھی لانے کی بات کرتی تو وہ ٹال دیتے ہیں۔۔۔۔ حرم تفصیل سے اُسے بتاتی آخر میں رنجیدہ ہوئی تھی۔۔۔


ایک پل کے لئے سنایہ کے دماغ میں کچھ کلک ہوا دماغ میں کچھ دیر قبل ہوئی حارث سے بات بازگشت کرنے لگی تھی پر جلد ہی خود کو سنبھالتے وہ حرم کو اثبات میں سر ہلا کر جواب دیتی سوچ میں ڈوبی ،


تُمہیں ساحر سے بات کرنی چاہئے کہ وہ حُسن ارا کو دوبارہ لے آئے..... سنایہ نے مشورہ پیش کیا ۔۔

بہت دفعہ کہا پر وہ کہتے میں کيسے لے آؤ؟؟ حرم نے اس بار ایک لمبی سانس لیتے کہا۔۔


ہممم,,,,, پھر تمہیں چاہئے کہ ساحر کو راضی کرو حارث سے بات کرنے کے لئے ،میں تُمہیں بتاتی ہوں تُمہیں کیا کرنا ہے وہ کہتے پوری اُس کی طرف رخ کر گئی تھی،

اُسکی آنکھیں چمکی تھی درخنے نے آبرو کھڑے کرتے اشارے سے ہی پوچھا جس پر وہ مسکراتی آنکھوں سے ہی خاموش رہنے کا کہتی ایک بار پھر حرم کی طرف متوجہ ہوئی جو اُسکی ہی منتظر بیٹھی تھی جبکہ اشرفی بھی اپنی تمام تر سماعتیں سنایہ کی بات پر بیٹھائے کھڑا تھا۔۔۔


ہاں کرنا کچھ یوں کہ بہت آسان ہے اگر ساحر نہیں مان رہا تو تم کہو کہ تم اکیلی ہی اپنے اشرفی کا رشتہ لے کر چلی جاؤگی ۔۔۔ سنایہ نے مخلصانہ مشورہ دیا اور اب کافی کے چھوٹے چھوٹے سپ لیتی اُسکے تاثرات دیکھنے لگی جو کچھ پُر سوچ ہوئے تھے۔۔۔


درخنے اور سنایہ دونوں نے ایک دوسرے کو مسکراہٹ پاس کرتے ہنسی کنٹرول کی جبکہ اُن دونوں کے چہروں پر ہی دبی دبی ہنسی کے آثار نمایاں تھے ۔۔۔


اچھا ابھی چھوڑو اسے کوئی اور بات کرتے ہیں,,,, اُسے سوچ میں ڈوبا دیکھ درخنے چہکتی ہوئی بولی ، حرم بھی سوچوں کو جھٹکتے اُسکی طرف متوجہ ہوئی تینوں ہی باتوں میں مشغول تھی کہ ساحر کی گاڑی کو پورچ رکتا دیکھ وہ تینوں اُسکی جانب دیکھنے لگی جو گاڑی سے نکلتا اُن کی جانب ہی آرہا تھا ۔۔۔


تم سب جاگ کیوں رہے ہو اب تک ؟؟ اُس نے اُن سب کا ہی سلام کا جواب دیتے گھڑی میں وقت دیکھ مسکراتے سوال کیا۔۔

بس بیٹھے باتیں کر رہے تھے وقت کا پتہ ہی نہیں چلا پر اب جا ہی رہے تھے ہم سونے,,, درخنے کہتے ہی اُٹھ کھڑی ہوئی تھی اور اُسے دیکھ سنایہ بھی وہ دونوں ہی اُنہیں شب خیر کہتی اپنے اپنے کمروں کی طرف بڑھ گئی ۔۔


کھانا لگا دوں آپکا؟؟؟ اُنکے جاتے ہی وہ ساحر سے مخاطب ہوئی۔۔

نہیں میں کھا کر آیا ہوں ، تُمہیں جب میں نے کہا تھا انتظار نہ کرنا سو جانا پھر سوئی کیوں نہیں ، وہ اُسے جواب دیتے ہی اپنا سوال داغ گیا ۔۔

بس جا ہی رہی تھی,,,,, حرم نے تھوک نگلتے کچھ جھجھکتے ہوئے کہا ،

اور اشرفی کو اپنے بازو پر لیتے اُسکے ہم قدم ہوتی اندر کی جانب بڑھ گئی ۔۔۔


کمرے میں آتے ہی اشرفی کو اُسکے گھر میں چھوڑتی وہ عصام پر کمفرٹر درست کرتی چور نظروں سے ساحر کو دیکھ رہی تھی جو ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا گھڑی اُتار رہا تھا۔۔۔

ساحر جی..... حرم نے خود میں ہمت مجتمع کرتے پُکارا ۔۔

ہمم,,, ساحر نے مصروف سے انداز میں ہنکارا بھرا ۔۔۔

اشرفی کا رشتہ لینے جانا ہے ۔۔۔ اُس نے مضبوط سے لہجے میں الفاظ ادا کئے اور اب ساحر کے ریکشن کی منتظر ہوئی ۔۔۔


کیا.......؟؟؟؟ ساحر کو لگا تھا جیسے اُسے سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہے ، وہ غیر یقینی سے گردن کو جنبش دیتے اُسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا ۔۔۔

یہ تُم کیا کہہ رہی ہو حرم ؟؟؟ اپنے حواسوں میں ہو بھی یہ نہیں ؟؟ اُسکی ایک بار پھر صدمے سے چور آواز برآمد ہوئی۔۔


ہاں ساحر جی میں اپنے پورے ہوش و حواس میں ہوں ، اور یہ بات میں نے آپ سے پوچھی نہیں بلکہ بتائی ہے اور ہم کل شام ہی جائينگے,,,, حرم نے مضبوط لہجے میں اپنے الفاظ ادا کئے ۔۔

نہیں جا رہا کوئی بھی نہ تم نہ میں ۔۔۔ اور ہے کہاں یہ تمہارا لاڈلا آج اِسکے سارے اسپرنگ نکال دونگا میں۔۔۔

اس نے حرم کو اُسی بات پر اٹکتے دیکھ مٹھیاں بھینچے کہا ،

آپکی یہی بات مجھے بہت بری لگتی ہے ساحر جی آپ اُس معصوم کے پیچھے ہر وقت پڑے رہتے ہیں ، جبکہ اس بیچارے کو آپ کا اتنا خیال ہے کہ وہ یہی کہہ رہا تھا کہ ساحر سے ضد نہ کرنا حرم اور نہ پریشان کرو ،،، اپنے لاڈلے اشرفی کے لئے یہ الفاظ سن اور ساحر کا لہجہ دیکھ وہ نروٹھے انداز میں بولی کہ وہ بیچارہ ضبط سے لب بھینچ گیا ۔۔۔

اس نے ایک لمبی سانس لے کر خود کو پُر سکون کرنا چاہا اور ساتھ ہی اُسکی جانب قدم بڑھائے ۔۔

یار حرم تُم بھی سمجھنے کی کوششں کرو جو تم چاہتی ہو وہ ممکن نہیں ہے ، اف مجھے تو سوچ کر ہی عجیب لگ رہا ہے کہ تُم ایک طوطے کا رشتہ لے جانے کا کہہ رہی ہو ۔۔۔ وہ اُسے کندھے سے تھامتے اپنے مقابل کھڑا کرتا پہلے نرمی سے سمجھاتا اور پھر سوچتے ہی جھرجھری لیتے بولا

کیا عجیب ہے اس میں مجھے بتائیں؟؟ وہ اُسکے چہرے کے بدلتے رنگ دیکھ گھورتی ہوئی برجستہ بولی

خدا کا واسطہ ہے تُمہیں مجھے اس سب سے دور رکھو ، اف خُدا مجھے صبر دے میری بیوی ایک پرندے کا رشتہ لے جانے کو كہہ رہی ہے۔۔۔۔۔۔ وہ کمرے کی چھت کی طرف منہ کرتا دہائی دینے لگا

وہ پرندہ نہیں ہے اشرفی ہے ...... ایک پل کے لئے ساحر کی بات پر اُسکی آنکھیں ساکت ہوئی پر دوسرے ہی پل وہ آنکھوں میں من من کا پانی لئے گویا ہوئی ، وہ بیوی تھی جانتی تھی کيسے اپنی بات منوانی ہے۔۔۔۔

اُسے ہچکیوں سے روتا دیکھ ساحر کے تو جیسے ہاتھ پیر پھول گئے تھے ، اُس نے آگے بڑھتے اُسے اپنے حصار میں لینا چاہا پر حرم نے روتے نفی میں سر ہلاتے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا ،

بالکونی میں چھپ کر اُنکی باتیں سنتے اشرفی نے ساحر کو بے بس محسوس کر گول گول گھوم کر اپنے پر پھیلاتے خوشی کا اظہار کیا ۔۔

حرم تُم اُسکی وجہ سے ہار بار میرے ساتھ ایسا کرتی ہو وہ تیلی لگا کر چھوڑ دیتا ہے تُمہیں میرے خلاف کرنے کا ایک موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ، ایک نمبر کا میسنا ہے وہ ۔۔۔۔ ساحر نے ایک بار پھر اُسے اشرفی کا اصل چہرہ دکھانا چاہا ۔۔۔

حرم غصے بھری نگاہوں اور پھولی نتھنوں سے اُسے سن رہی تھی، تو اُسکا شوہر یہ سب سوچتا تھا اُسکے اشرفی کے بارے میں آنسوں بے ساختہ ہی آنکھوں سے رواں ہوئے تھے ۔۔


بس ٹھیک ہے نہ جائیں آپ پر اب ایک لفظ نہیں بولیںنگے آپ اشرفی کے خلاف,,,,, وہ اُسے تنبھی دیتے گویا ہوئی پر اُسے سپاٹ چہرے سے خود کو تکتے دیکھ اُسکی جانب سے رُخ موڑ گئی۔۔۔۔


ساحر نے ضبط کے کڑوے گھونٹ پیتے دونوں ہاتھ منہ پر پھیرتے لمبی سانس لیتے خود کو پُر سکون کرنے کی کوشش کی ، اور قدم اُسکی جانب بڑھاتے پیچھے سے اُسے اپنے حصار میں لیتے نرمی سے گویا ہوا۔۔


اچھا نہ سوری میں کچھ زیادہ ہی بول گیا۔۔۔ سر اُسکے دائیں کندھے پر ٹکائے وہ دھیمی آواز میں اُسکے کان کے قریب بولا ۔۔


حرم نے کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا ، ویسے ہی ہاتھ باندھے خاموش کھڑی رہی تھی۔۔۔


حرم جواب تو دو یار..... وہ جھٹکے سے اُسکا رُخ اپنی طرف کرتا بیتابی سے بولا ۔۔۔


کیا بولوں ہاں...؟ آپ میری اتنی سی بات بھی نہیں مان سکتے کیا؟؟؟ وہ اُسکے کہتے ہی نم پلکیں اٹھاتے بولی اُسکی نم پلکیں دیکھ ساحر کا دل بے اختیار ہی دھڑکا تھا دل نے شدت سے خواہش کی کہ آنکھوں سے بہتے اس آبشار کو چھو کر محسوس کرے۔۔۔۔

اچھا ٹھیک ہے جیسا تم چاہو گی ویسا ہی ہوگا بس اب یہ رونا بند کرو,,,,,

ایک پل لگا تھا اُسے اپنا فیصلہ تبدیل کرنے میں اور وہ اُسکی پلکوں پر اپنے لب رکھتا محبت سے بولا ۔۔۔

اُسکے لمس پر حرم نے بے ساختہ ہی اپنی آنکھیں مندی تھی۔۔۔

پکا نہ..... اُس نے یقین دھانی چاہی


ہاں ایک دم پکا..... اُسکی سُرخ ناک دباتے محبت سے چور لہجے میں بولا ۔

اُسکی بات پر حرم کے لب بے ساختہ ہی مسکرائے تھے ، چہرے پر فتح مندی کی مسکراہٹ رقصاں ہوتی اپنی چھپ دیکھا کر غائب ہوئی ۔۔۔

اسی بات پر میں آپ کے لئے اچھی سی کافی بناکر لاتی ہوں,,,,, ساحر کی انگلیوں کے لمس کو اپنی کمر پر سرکتا محسوس کر وہ تھوک نگلتے بولی پر بظاھر اُس نے مسکراتے نرمی سے کہا تھا ۔۔۔


نہیں ابھی نہیں,,,, وہ مخمور سا اُسکی نگاہوں میں دیکھتا اُسے مزید قریب کرتا حصار تنگ کر گیا۔۔۔


پلیز نہ ساحر جی میں لاتی ہوں کافی,,,, اس بار حرم نے رونتی شکل بناتے ہوئے کہا ،

وہ بھی اُس پر ترس کھاتا اُسکے گرد ڈلا حصار ہٹا گیا ،

حرم ایک بھی منٹ ضائع کئے بغیر ، اُس سے دور ہوتی کمرے سے باہر بھاگی تھی ۔۔۔ اُسکی اسپیڈ دیکھ ساحر نے مسکراتے افسوس سے گردن نفی میں ہلائی تھی اور الماری سے کپڑے نکالتا فریش ہونے کے لئے واشروم میں بند ہوگیا.......


⁦♡♡♡⁦♡♡♡⁦♡♡♡


تُمہارے کہنے کا مطلب کیا ہے میں اپنی ایک بچی کا رشتہ توڑ کر تُمہیں اپنی دوسری بچی کا رشتہ دے دوں ، تم نے سوچ بھی کیسے لیا یہ کیا رشتوں کو کھیل اور مزاق سمجھ رکھا ہے تُم نے کہ جب چاہا جوڑ لیا اور جب دل چاہا توڑ دیا ہمیں تم جیسے سمجھدار انسان سے اس بات کی توقع ہر گز نہیں تھی,,,,, ہول نما اُس کمرے کی خاموشی کو داجی کی آواز نے توڑا تھا ، جو اپنے مقابل ہی بیٹھے خان زمان صاحب کو لہو رنگ آنکھوں سے دیکھتے برہم انداز میں گویا تھے ۔۔۔


کمرے میں موجود تمام نفوس ہی ابھی تک خان زمان صاحب کی کہی بات کے صدمے کی زد میں تھے کہ داجی کی آواز نے اُنہیں حقیقت میں لا پٹکا۔۔۔


میں جانتا ہوں یہ غلط ہے اور ہماری روایتوں کے خلاف بھی ہے پر جب زندگی بچوں نے گزارنی ہے تو بہتر ہے کہ وہ اپنی مرضی سے انتخاب کریں,,,, پہلے تو اُنہوں نے داجی کی بات پر لب بھینچے تھے پر جلد ہی خود کو نورمل کرتے سلجھے ہوۓ لہجے میں گویا ہوئے,,,,

معزرت کے ساتھ انکل پر کیا یہ منگنی کی تقریب سے پہلے آپ کو حارث کی مرضی جاننے کا خیال نہیں آیا تھا کیا...؟؟؟؟

کب سے خود پر ضبط کے پہرے بٹھائے بیٹھے ثمر نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا ،

جبکہ اُسکے برعکس ساحر کے چہرے کے تاثرات کچھ پُر سوچ سے تھے, وہ بلکل اطمینان سے بیٹھا خاموشی سے اُنہیں سن رہا تھا کسی کو نہیں پتہ تھا کہ آخر اُسکے ذہن میں چل کیا رہا ہے, پر اُسکی خاموشی سب کے لئے ہی غیر متوقع تھی.....


عادل کو یہ سب ایک خواب سا لگ رہا تھا وہ یہ بات تو جانتا تھا کہ درخنے حارث سے شادی نہیں کرنا چاہتی پر حارث بھی نہیں چاہتا ہوگا اس بات کا علم اُسے نہیں تھا ، پر وقت کی مناسبت دیکھ وہ خاموشی سے بیٹھا سب کو سن رہا تھا ۔۔۔

ثمر کی بات پر بے ساختہ ہی خان زمان صاحب نے اُسکی طرف اپنی سُرخ آنکھیں اُٹھائی تھی اور مٹھیاں بھینچتے حارث کی طرف نظر موڑ گئے ، ناگہاں ہی ذہن میں حارث کے الفاظ باز گشت کرنے لگے تھے....

Flash back۔۔۔۔۔۔۔

داجی مور مجھے آپ سے بات کرنی ہے ضروری,,,, وہ دونوں کو لاؤنچ میں کھڑا دیکھ گویا ہوا ۔۔۔ لہجہ خاصہ سنجیدہ تھا۔۔


ابھی ہمیں دیر ہو رہی ہے واپس آکر بات کرنا ، یہ زارا کہاں رھ گئی ہے ؟؟؟ سمندر خان اور اُسکے گھر والے منتظر ہونگے ہمارے,,,,, وہ حارث کو بعد میں اپنی بات کہنے کا حکم سناتے پاس کھڑی اپنی زوجہ سے گویا ہوئے ۔۔۔


آرہی ہے میں نے ملازمہ کو بھیجا ہے,,,,اُنکی زوجہ نے ٹیبل پر رکھے تحائف اور دیگر چیزوں کو نفاست سے پیک کرتے مصروف سے انداز میں کہا ۔۔۔


اچھا سنیں درخنے اور حارث کی شادی کی تاریخ قریب کی ہی رکھئے گا ، نیکی کے کاموں میں دیری نہیں کرنی چاہئے,,,, وہ اُنکی جانب رخ کرتے گویا ہوئی جس پر وہ محض اثبات میں سر ہلا گئے ۔۔۔


میں یہ شادی نہیں کرنا چاہتا.... حارث نے یک دم ہی مضبوط لہجے میں بلند آواز میں کہہ کر اُنکے سروں پر جیسے بم پھاڑا ۔۔۔ اُسکے الفاظوں پر وہ دونوں ہی ساکت ہوئے تھے دونوں نے بے ساختہ ہی گردن کو جنبش دیتے غیر یقینی سے اُسکی جانب دیکھا ، جو سپاٹ چہرے کے ساتھ اُنہیں ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔


انہیں لگا شاید حارث مذاق میں یہ کہہ رہا ہے پر اُسکے چہرے کے پھتریلے تاثرات صاف اُسکی سنجیدگی کا پتہ دے رہے تھے۔۔۔


لاؤنچ میں موت سی خاموشی طاری تھی...

ایسے نہ دیکھیں سنجیدہ ہوں میں درخنے سے شادی نہیں کر سکتا.....

اُنہیں حیرت میں غوطہ زن دیکھ وہ ایک بار پھر گویا ہوا,,,,,


ہوش میں ہو تم یہ نہیں ؟؟؟؟ زمان صاحب نے ضبط کی اتہہ گہرائیوں کو چھوتے دبے دبے غصے سے سوال کیا ۔۔ مگر پھر بھی ضبط کی زیادتی سے انکی آنکھیں سرخ ہوئں,,


ہاں بلکل میں اپنے پورے ہوش و حواس میں ہوں ، میں درخنے سے نہیں بلکہ سنایہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں,,,,,

اُنکے پوچھنے پر صاف گوئی سے کام لیتے اُس نے ایک نیا بم اُنکے سروں پر پھاڑا ، حارث تو جیسے دیدہ دلیری کی ساری حدود ہی پار کر رہا تھا وہ سینہ چوڑا کیئے اس قدر پرعزم لہجے میں بولا کہ ایک لمحے کیلئے زمان صاحب کو اپنی سماعتوں پر شبہ ہوئی۔۔۔

زمان صاحب لہو ٹپکاتی آنکھوں سے اُسے دیکھ رہے تھے جبکہ اُنکی زوجہ نے حیرت سے بے ساختہ ہی اپنے منہ پر ہاتھ رکھا تھا ۔۔۔۔


حارث دو ٹوک انداز میں اُنہیں کہتا شان سے چلتا ہوا صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر بیٹھ گیا۔۔۔ شانوں سے جیسے بوجھ سا اتر گیا تھا,,,


کیا بکواس ہے یہ تم کیوں سمندر خان کے آگے مجھے ذلیل کرنے کے درپے ہو ، وہ اپنا ضبط کھوتے بلند آواز میں پھنکارے کہ اُنکی پھنکار سے دیواریں تک ہل کر رھ گئ۔۔۔۔


حارث نے ناگواریت سے سر کو دائیں بائیں گھمایا تھا ۔۔۔جبکہ دل مقابل کھڑے کسی چٹان کی مانند اپنے باپ کی پھنکار پر لمحے بھر کیلئے دہل کر رہ گیا تھا مگر اب وہ خود کو کمزور کر کے اپنے قدم پیچھے نہیں لے سکتا تھا اپنے باپ کے آگے کھڑے ہونے کیلئے اسنے خود میں بے انتہا ہمت مجتمع کی تھی اور وہ آج پہلی بار اپنے باپ کے آگے اس قدر دیدہ دلیری کا مظاہرہ کر رہا تھا ۔۔۔


پلیز داجی میں کوئی سات یہ دس سال کا حارث نہیں ہوں کہ جیسا آپ کرنے کو کہینگے میں کر لونگا ، اپنے فیصلے میں خود کر سکتا ہوں آپ ڈرا یہ دھمکا کر ہر گز بھی مجھے اس شادی کے لئے رضامند نہیں کر سکتے ، میں اپنا فیصلہ آپکو بتا چُکا ہوں کہ سنایہ کے علاوہ میں کسی سے شادی نہیں کرونگا۔۔۔۔ وہ ایک ایک الفاظ مضبوط لہجے میں درشتگی سے بولا ۔۔۔

اگر اپنا فیصلہ تم نے خود ہی کرنا تھا تو منگنی بھی نہ کرتے منگنی کے لئے ہاں کیوں کی تھی تم نے اب میں کس منہ سے جا کر سمندر خان کو کہوں کہ درخنے کو چھوڑ کر میرے کم عقل اور بیوقوف لڑکے کو سنایہ کا رشتہ دے دو یہ سب بھی تُمہیں آج یاد آیا ہے ابھی بھی کیوں یاد کیا تم نے شادی والے دن ہی کہہ دیتے۔۔۔۔۔ وہ سُرخ آنکھوں سے اُسے دیکھتے شدید غصے میں گویا ہوئے ، حارث کی باتیں اور لہجہ اُنکے ضبط کو آزما رہا تھا ،l


جبکہ اُنکی زوجہ پاس کھڑی خاموشی سے کبھی اپنے شوہر کو سن اور دیکھ رہی تھی تو کبھی حارث کو۔۔۔

ایک منٹ اگر آپ بھول رہے ہیں تو میں یاد دلا دیتا ہوں کہ یہ منگنی آپ بچپن میں ہی کر چُکے تھے یعنی مجھ پر یہ فیصلہ تھوپا گیا تھا اور حامی میں نے آپ کی عزت کی خاطر بھر لی تھی لیکن تب میں سنایہ سے نہیں ملا تھا اب میرے لئے ممکن نہیں ہے مزید اس رشتے کو اگے لے کر چلنا ۔۔۔۔ وہ اُنکی بات کی درستگی کرتا تضحیک آمیز لہجے میں بولا۔۔۔


ہے کون یہ سنایہ ہاں ؟؟؟؟ تم ایک غیر مسلم کی بیٹی کے لئے اپنے بزرگوں کے فیصلے کی نفی کر رہے ہو ، جانتے کیا ہو تم اُسکے بارے میں ساری زندگی وہ ملک سے باہر انگریزوں میں رہی ہے خدا جانے کہ مسلم ہے ،


داجی.......... ابھی اُنکی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ حارث کی دہاڑ پر وہ رکے ۔۔۔ حارث سنایہ کے خلاف سن آپے سے باہر ہوتا والہانہ انداز میں اُنہیں پکارتا اپنی جگہ سے کھڑا ہوا۔۔۔۔


سنایہ کے خلاف میں ایک لفظ بھی برداشت نہیں کرونگا ، سوچ سمجھ کر الفاظوں کا چناؤ کریں وہ آپکی ہونے والی بہو ہے اگر اُسکے ماضی کے بابت ایک لفظ بھی غلطی سے بھی کسی نے اپنے منہ سے نکالا تو اچھا نہیں ہوگا ۔۔۔۔ وہ اپنے باپ کی طرف اُنگلی اُٹھاتا تنبھی زدا لہجے میں بولا الفاظوں اور تاثرات میں پھتر سی سختی تھی۔۔۔۔


الحمدللہ وہ مسلمان ہے انگریز ملک میں ضرور رہی ہے پر تربیت اُس نے مسلم خاتون سے ہی حاصل کی ہے اور یہ بات آپ نہ بھولیں کہ ہمارے خاندان کا ہی خون ہے وہ..... وہ سرد آنکھوں سے اُنہیں دیکھتا بول رہا تھا جبکہ ضبط سے مٹھیاں بھینچی ہوئی تھی اور بھی سخت الفاظ استعمال کرنے سے خود کو باز رکھ رہا تھا ۔۔۔


زمان صاحب اور انکی زوجہ دونوں ہی اُسکے لہجے سے جیسے ساکت و جامد ہوئے تھے دل میں جیسے کسی نے خنجر سے وار کیا تھا اُنکے مقابل کھڑا حارث اُنہیں کہیں سے بھی اپنا حارث نہیں لگ رہا تھا ۔۔۔


اگر آپ سیدھی طرح داجی اور ساحر سے اس بارے میں بات کرتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ میں بھول جاؤنگا سب کچھ کہ میں کون ہوں ، آپ کون ہیں یہ سمندر خان کون ہے.....


پھر مجھے چاہے اُسے اغوا کر کے شادی کرنی پڑی تو میں کرونگا ، بعد میں آپ اور سمندر خان بیٹھ کر اپنی عزت کھونے کا رونا نہ روئیے گا میرے سامنے۔۔۔۔

ابھی حارث اور بھی کچھ بول رہا تھا پر زمان صاحب کا ہاتھ اٹھا تھا اور حارث کے گال کے قریب پہنچا ہی تھا کہ حارث نے ہوا میں ہی اُٹھا اُنکا ہاتھ تھام لیا ۔۔۔


ہاتھ اٹھانے کی غلطی ہر گز نہ کیجئے گا آپکا کوئی بھی عمل مجھے میرے فیصلے سے ہٹا نہیں سکتا ، وہ ہوا میں بلند اُنکا ہاتھ جھٹکتے بولا وہ کہیں سے بھی اپنے ہوش و حواس میں نہیں لگ رہا تھا انتہائی سُرخ آنکھیں بھنچے ہونٹ صاف اُسکے اندر جلتی آگ کا پتہ دے رہے تھی۔۔۔


زمان صاحب صوفے پر ڈھے سے گئے تھے ، وہ تو آج شادی کی تاریخ لینے جا رہے تھے پر حارث اُنہیں نئی مصیبت میں ڈال گیا تھا۔۔۔۔

اُنکی زوجہ بھی اپنے آنسو صاف کرتی اُنکی جانب لپکی تھی حوصلا دینے کے لئے ،


باپ کی حالت دیکھ حارث کے دل نے خود پر ملامت کی تھی جذبات اور غصے میں آکر شاید وہ کچھ زیادہ ہی بول گیا تھا ، ایک لمبی سانس لے کر خود کو کافی حد تک پُر سکون کرتا وہ گھٹنوں کے بل اُنکے مقابل زمین پر بیٹھا ۔۔۔


اُسے اپنے مقابل دیکھ زمان صاحب نے رُخ دوسری جانب کیا تھا پر پھر بھی وہ اُنکی ناراضگی سمجھتا اُنکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتا گویا ہوا ۔۔


مجھے معاف کردیں میرا لہجہ کچھ زیادہ ہی تلخ ہوگیا تھا ، پر پلیز داجی آپ میری بات کو بھی سمجھنے کی کوشيش کریں میں آپکی بھانجی سے شادی کرلوں پر پھر بھی وہ خوش نہ رھ پائی میرے ساتھ تو کیا فائدہ اس شادی کا ، آپ بس ایک بار داجی اور ساحر سے بات کرکے دیکھیں آج باقی میں خود اپنے دلائل سے اُنہیں رضامند کر لونگا ۔۔۔ وہ بے حد دھیمے اور آس بھرے لہجے میں بولا ، پر زمان صاحب نے کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا ۔۔


اگر بچوں کی خوشی اسی میں ہے تو آپ بھی ضد چھوڑ دیں نہ اپنی ، ایک دوسرے کے ساتھ رہنا بچوں نے ہے تو فیصلہ بھی اُنکا ہی ہونا چاہئے...... اس بار اُنکی زوجہ نے بھی حارث کے حق میں کہتے اُنہیں سمجھانا چاہا ۔۔۔ پر وہ خاموش کسی گہری سوچ میں مستغرق تھے ۔۔

ٹھیک ہے۔۔۔۔ طویل خاموشی کے بعد ہول کی سرد مہری کو زمان صاحب کی بھاری آواز نے توڑا ، حارث جو اُمید ہار گیا تھا پر اُنکے الفاظ سن جیسے اُس کے چہرے پر بہار سی آگئی تھی ۔۔۔ وہ محبت سے اُنکا ہاتھ چومتا اُٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔۔


حال..........!!!!!

داجی یہ فیصلہ میرا ہے میں اور سنایہ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں ، مجھے امید ہے آپ اس بار اس معاملے کو انا کا مسئلہ بنائے بغیر سنایہ کی خوشیاں اُس سے نہیں لینگے ، اگر آپکو میری بات پر یقین نہیں ہے تو آپ سنایہ کو بلا کر پوچھ سکتے ہیں اسکی رضا،،،، حارث نے باپ کی نظریں خود پر مرکوز دیکھ نڈر سے انداز میں کہا ۔۔


حارث کی بات پر ساحر نے مٹھیاں بھینچے اپنا غصہ ضبط کیا تھا ، جبکہ ثمر اور عادل بھی انگشت بدنداں سے حارث کو تک رہے تھے,,,,

مطلب کیا ہے تمہارا ؟؟؟؟ داجی کی بارعب آواز فضا میں گونجی ۔۔۔

سارے مطلب آپکو سنایہ کی رضامندی جاننے کے بعد سمجھ آجائیں گے ۔۔۔۔ وہ بھی اپنے مخصوص مضبوط انداز میں دوبدو بولا ۔۔۔


داجی کی ضبط کی تنابیں ٹوٹنے کے قریب تھی پھر بھی وہ اپنی لاٹھی کو مضبوطی سے تھامے بیٹھے تھے۔۔۔

داجی بیچ میں مداخلت کے لئے معزرت چاہتا ہوں آپ ہم سب سے بڑے ہیں ہم سے بہتر فیصلہ لے سکتے ہیں پر اگر سنایہ کی بھی یہی مرضی ہے تو ہمیں اس بارے میں سوچنا چاہئے ، جہاں تک رہی درخنے کی بات تو اُس کے لئے بھی رب نے کچھ بہتر سوچ رکھا ہوگا ، سنایہ کا بھی خوشیوں پر پوار حق ہے اور اس بار سنایہ کے حصے کی خوشیاں اُسے ہی ملیں گی...... ساحر اُن دونوں کی گفتگو میں مداخلت کرتے سلجھے ہوئے لہجے میں گویا ہوا ،

وہ جانتا تھا حارث اتنی بڑی بات جھوٹ نہیں بول سکتا تھا ، جبکہ ساحر کے کئے گئے درخنے کے ذکر پر عادل کے لب مسکرائے تھے ، وہ تو آج یہاں خان حویلی ساحر سے ملنے آیا تھا اُسے علم نہ تھا کہ آج تاریخ رکھی جانی ہے ساحر سے تو اُسکی بات نہیں ہوسکی تھی پر داجی ثمر اور نور بانو کے اسرار پر وہ رک گیا تھا اُسے لگا تھا کہ اُسی کے سامنے درخنے کی شادی کی تاریخ رکھکر اُسکا رب اُسکا ضبط آزما رہا ہے پر وہ شاید بھول گیا تھا وہ پاک ذات اتنی مہربان ہے کہ بن مانگے اُسکی جھولی میں اُسکی خوشیاں ڈال دیگی ۔۔۔۔


ٹھیک ہے بلاؤ سنایہ کو پوچھ لیتے ہیں,,,,, کچھ سوچتے ایک طویل خاموشی کے بعد داجی نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا ، اُنکی بات پر ناگہاں ہی حارث کے چہرے پر مسکراہٹ اپنی چھاپ دکھا کر غائب ہوئی تھی۔۔۔


میں بلا کر لاتا,,,, ثمر داجی اور ساحر کا اشارہ سمجھتا کہتا ہی اُٹھکھڑا ہوا ، اور کمرے سے نکلتا گیا۔۔۔

کچھ ہی دیر بعد سنایہ سلیقے سے سر پر دوپٹہ اوڑھے وہاں موجود تھی ، سنایہ کی دائیں جانب ساحر بیٹھا ہوا تھا جبکہ بائیں جانب ثمر,,,


کیا تم حارث سے شادی کرنا چاہتی ہو؟؟؟؟ داجی نے بغور اُسکے چہرے کے تاثرات دیکھتے سوال کیا۔۔۔

سنایہ نے بے ساختہ ہی نظر اٹھا کر پہلے داجی اور پھر حارث کو دیکھا ,,,


تُمہیں ڈرنے یہ کسی بھی چیز کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے سنایہ اپنے ہر فیصلے میں تم اپنے دونوں بھائیوں کو اپنے ساتھ کھڑا پاؤ گی,,,,, اُسے خاموش دیکھ ثمر نے اُسکے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھکھر نرمی سے کہا ۔۔۔

بلکل جو تمہارا فیصلہ ہے تم وہ بتاؤ,,,, ساحر نے بھی ثمر کی بات سے اتفاق کیا کمرے میں موجود تمام نفوس ہی دم سادھے سے خاموش بیٹھے سنایہ کے جواب کے منتظر تھے ۔۔۔


کیا تم حارث سے شادی کرنا چاہتی ہو ؟؟؟ ساحر نے ایک بار پھر داجی کا کیا سوال دہرایا ۔۔۔۔۔

سنایہ خود میں ہمت مجتمع کرتی اثبات میں سر ہلا کر نظریں جھکا گئی ۔۔۔۔ یہ انداز اسکا خود کیلئے بھی غیر متوقع تھا ورنہ اسکا ارادہ تھا وہ جیسی ہے ویسے ہی اپنے انداز میں نڈر ہوکر حامی بھرے گی مگر آج ناچاہتے ہوئے بھی وہ مشرقی لڑکیوں کی طرح گھبراہٹ کا شکار تھی,,,

ایک پل کیلئے نگاہیں عادل کے چہرے سے ٹکرائی تھی مگر دوسرے ہی پل وہ نگاہوں کا رخ پھیر گئی تھی۔۔


کمرے میں یک لخت ہی خاموشی سی چھا گئی تھی سب کی نظریں داجی کی جانب مرکوز تھیں جو کسی گہری سوچ میں مستغرق نظر آرہے تھے ۔۔۔

ہمیں سنایہ اور حارث کا رشتہ منظور ہے پر ہماری ایک شرط ہے.... کچھ ہی دیر بعد داجی کی پُر سوچ سی آواز ماحول کی خاموشی کو توڑتی وہاں موجود تمام نفوس کے کانوں سے ٹکرائی۔۔۔


سنایہ تم جاؤ ,,, داجی کی بات سن ساحر نے سنایہ کی طرف جھکتے دھیمی آواز میں کہا سنایہ اثبات میں سر ہلاتے وہاں سے اٹھتی باہر کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔


سمندر خان رشتے کبھی بھی شرطوں پر نہیں جوڑے جاتے بلکہ احساس محبت اور خلوصِ دل سے جوڑے جاتے ہیں ، پھر بھی اگر تمہاری شرط میرے بس میں ہوئی تو میں ضرور پورا کرونگا.... زمان صاحب سنایہ کے جاتے ہی داجی سے مخاطب ہوئے,,,,,


ہم اپنے چھوٹے پوتے ثمر کے لئے تُمہاری بیٹی زارا کا رشتہ چاہتے ہیں,,,, داجی نے اطمینان سے کہتے اُن سب کے سروں پر بم پھاڑا ،


جہاں زمان صاحب کا چہرہ سپاٹ ہوا تھا وہی حارث کا چہرا سُرخ ہوا تھا آنکھیں لہو ٹپکانے کو تیار ہوئی ۔۔۔۔ لب بھنچتے اُس نے ضبط کے پہرے بیٹھاتے خود کو کنٹرول کیا تھا.....

ثمر نے بھی حیرت اور ساکت سی نظریں داجی کی طرف اٹھائی ,,,

ساحر نے داجی کو پکارتے روکنا چاہا پر داجی نے آنکھوں کے اشارے سے ہی اُسے خاموش کروا دیا ۔۔۔۔


یہ ممکن نہیں ہے,, زمان صاحب سے پہلے حارث نے مختصر ترین لہجے میں بولا


کیوں...؟ داجی دوبدو سوال گو ہوئے,,,,


اس کیوں کا جواب آپ کے پاس موجود ہے ،رشتے کھیل تماشا نہیں ہوتے جو جب چاہیں جوڑ لئے جائیں اور جب چاہیں توڑ دیئے جائیں..... اس بار زمان صاحب کی طرف سے جواب پیش کیا گیا تھا۔۔۔۔


میں مانتا ہوں میرے پوتے سے غلطی ہوئی تھی ، پر وہ اس غلطی کی سزا بھگت چکا ہے ، اُسکا یہ رشتہ زارا سے بچپن میں ہوا تھا ہاں بیچ میں حالات ایسے ہوگئے تھے ، میری تم سے التماس ہے کہ پرانی باتوں کو بھول کر ایک نئی شروعات کرو ۔۔۔۔ داجی اپنے مخصوص ٹھہرے اور سلجھے ہوئے انداز میں بول رہے تھے جبکہ سب ہی خاموش سے اُنہیں سن رہے تھے ۔۔۔


ثمر تُمہیں کیا کوئی اعتراض ہے میرے اس فیصلے سے ؟؟؟؟ وہ زمان صاحب سے اپنی بات کہنے کے بعد اب ثمر سے سوال گو ہوئے تھے ،جو سر جھکائے بیٹھا ضبط کے کڑوے گھونٹ بھر رہا تھا۔۔۔


ثمر کے چہرے کے سامنے اچانک ہی عنایہ کے ساتھ گزارا ایک ایک لمحہ کسی فلم کی طرح چلنے لگا، آخر میں کانوں میں عنایہ کا بھیانک سچ اُسکے ضبط کو مزید آزمانے کے درپے ہوا ۔۔۔۔

ایک پل کے لیئے آنکھیں میچ کر اُس نے کھولیں تھی اور گویا ہوا۔۔۔


مجھے آپکا ہر فیصلہ منظور ہے داجی ۔۔۔۔۔ وہ جھکے سر سے ہی بولا...


کیا فیصلہ ہے تمھارا زمان...؟ داجی ثمر کی طرف سے جواب پاتے ہی سوالیہ نظروں سے دیکھتے پوچھنے لگے۔۔۔۔


زمان صاحب نے ایک لمبی سانس ہوا میں تحلیل کرتے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد کہنا شروع ہوئے۔۔۔


مجھے بھی منظور ہے یہ رشتہ,,,,, وہ خود پر حارث کی نظریں نظر انداز کرتے ہوئے بولے۔۔۔


تو ٹھیک ہے آنے والے مبارک جمعہ کو اُنکا نکاح کروا دیتے ہیں اور رخصتی بعد میں دھوم دھام سے کر لینگے,,,,, اُنکی طرف سے مثبت جواب پاتے ہی داجی نے شائستگی سے کہا ،


داجی کے فیصلے پر سب نے اتقاق کیا,,,,

سارے معاملات ہل ہوتے کمرے میں مبارک باد کی صدائیں گونج اُٹھی۔۔۔


مبارک باد کے بعد ساحر ثمر عادل اور حارث چاروں ہی لون کی طرف بڑھ گئے جبکہ داجی اور زمان صاحب اپنی ہی باتوں میں مشغول ہوگئے ۔۔۔


حارث مجھے بھی رشتہ مانگنا ہے تُجھ سے,,,, وہ تینوں ہی لون میں بیٹھے چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ ساحر کے سنجیدگی سے ادا کئے الفاظوں پر حارث متوجہ ہوا عادل باہر آتے ہی اُن تینوں کو کسی ضروری کام سے جانے کا بہانہ بناتے چلا گیا تھا۔۔۔


کس کا رشتہ میں سمجھا نہیں....؟ حارث نے نہ سمجھی سے پوچھا,,,,,


ساحر نے اُسکے سوال پر ایک لمبی سانس لی تھی ، اور ذہن میں اپنی بات کہنے کے مناسب الفاظ چننے لگا۔۔۔


دراصل تمھاری بھابھی چاہتی تھی کہ میں,,, ساحر اپنی بات کہتے ایک پل کے لئے رکا تھا ،اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کیسے وہ اپنی بات کہے اُسکے الفاظ اور لہجہ بار بار گھبراہٹ کا شکار ہو رہا تھا۔۔


ساحر بھائی آپ کھل کر بتائیں کیا کہہ رہی تھی بھابھی....؟ وہ نرمی سے گویا ہوا


دراصل تمھاری بھابھی چاہتی تھی کہ میں بات کروں تمھاری طوطی اشرفی کے لئے,,,,, ساحر کے الفاظ اُسکی اپنی سمجھ سے باہر تھے ، وہ اپنی بات مکمل کرتے رکا تھا اور اپنے مقابل بیٹھے حارث کو دیکھنے لگا جو اُسے ہی سن رہا تھا ۔۔


سنجیدگی سے اُسکی بات سنتے ثمر اور حارث نے بے ساختہ ہی ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور زور دار قہقہ لگاتے ہنستے لوٹ پوٹ ہونے لگے ، اُنکی ہنسی پر ساحر کو مزید شرمندگی نے آن گھیرا ۔۔


ساحر بھائی یہ آپ ہی ہیں نہ ؟؟؟؟؟ ہنسنے کی وجہ سے سُرخ ہوئے چہرے کے ساتھ ثمر نے لب دانتوں تلے دے کر ہنسی کنٹرول کرنے کی ناکام کوشیش کرتے ہوئے کہا ۔۔۔


ساحر مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا ،


مجھے کوئی اعتراض نہیں اس رشتے پر میری ایک شرط ہے,,, حارث نے بھی فلوقت اپنی ہنسی کنٹرول کرتے بظاھر سنجیدگی سے کہا پر آنکھوں میں صاف شرارت ناچ رہی تھی,,,,,


تُمہاری کوئی بھی شرط مجھے منظور ہر گز نہیں ہے اب تم اس رشتے کو پکا سمجھو اور ہاں جمعہ والے دن اُسے لے آنا پھر وہ یہی رہیگی,,,, ساحر دو ٹوک انداز میں اُسے اپنی بات کہتا بنا اُسکی بات سنے آنکھوں پر سن گلاسز چڑھائے گاڑی میں سوار ہوتا حویلی سے نکلتا گیا ، اور اُسکے جاتے ہی اپنی ہنسی دبائے بیٹھے وہ دونوں بھی منہ پر ہاتھ رکھ کر مزید ہنسنے لگے طوطا طوطی کا رشتہ,,,

ثمر کی بات پر حارث اور ثمر خود بھی ہنسنے لگا وہ دونوں اس انداز سے ہنس رہے تھے کہ کوئی دیکھ لیتا تو پاگل ہونے کا خطاب دے ہی دیتا۔۔۔۔۔۔

°°°°°


حویلی سے نکلتے ہی سب سے پہلے اُس نے عادل کو کال کی تھی ایک ہاتھ سے گاڑی کا اسٹیرنگ سنبھالے اور دوسرے ہاتھ سے موبائل پر نمبر ڈائل کرتے وہ ڈرائیونگ میں مشغول تھا ، کال جا رہی تھی اور تیسری ہی بیل پر بلآخر کال اُٹھا لی گئی تھی,,,,

ہیلو,,,, مقابل کی مصروف سی آواز برآمد ہوئی ۔۔

کہاں ہے,,,,,؟ اُسکی ہیلو کو اگنور کرتا وہ سوال گو ہوا

راستے میں ہوں گھر جا رہا ہوں,,,, عادل نے موڑ کاٹتے ساتھ ہی فون ایک کان سے دوسرے کان میں تبدیل کرتے ہوئے کہا ۔۔۔

اچھا لوکیشن بھج رہا ہوں وہاں پہنچ.... وہ اُسکی بات پر ہنکارا بھرتاے بولا


کیوں خیریت کوئی کام ہے ؟؟؟ مقابل کا لہجہ انجانہ سپاٹ اور ساتھ ہی نہ سمجھ سا ہوا تھا

ہممم,,,, ساحر نے ایک لفظی جواب دیتے کال کٹ کر دی اور ساتھ ہی اُسے لوکیشن سینڈ کی,,,,

کچھ ہی دیر کی ڈرائیونگ کے بعد اُس نے ایک ہوٹل کے باہر گاڑی روکی اور گاڑی سے نکلتا ہوٹل میں داخل ہوا ،

ہوٹل کے اندر آتے ہی عادل اُسے سامنے ہی بیٹھا نظر آیا سن گلاسز اُتارتے وہ بھی اُسکے مقابل آکر بیٹھ گیا ۔۔۔

خیریت کیوں بلایا ہے,,,؟؟ عادل نے اپنی ریسٹ واچ میں وقت دیکھتے کہا یا یہ صاف مقابل کو اشارہ تھا کہ اُس کے پاس وقت نہیں بات کرنے کا یہ اپنی اہمیت جتائی جا رہی تھی۔۔۔۔


ساحر اثبات میں سر ہلاتے گویا ہوا,,,,

اگر اپنا اور درخنے کا رشتہ چاہتے ہو تو سنایہ اور حارث کے نکاح والے دن اپنے ماں باپ کے ساتھ آجانا ، داجی کو منا لونگا اگر مناسب ہوا تو تم دونوں کا نکاح بھی اسی جمعہ کو کر لینگے پر اُس سے پہلے تُمہارے والدین کا داجی سے بات کرنا ضروری ہے باقی کے معاملات میں دیکھ لونگا..... وہ ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر بیٹھا دو ٹوک انداز میں بولا ،


کیا یہ سب تم اپنے دوست کے لئے کر رہے ہو یا بہن کے لئے,,,,؟ سنجیدگی سے اُسکی پوری بات سنتے اور انہماک سے اُسے دیکھتے وہ سوال گو ہوا ،

ساحر کے تاثرات اُسے صاف پتہ دے رہے تھے کہ وہ یقیناً درخنے سے بات کر چکا ہے ، اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ کبھی یہاں اُسکے مقابل نہ بیٹھا ہوتا ، دل میں ایک آس سی تھی کہ شاید دوست کی حالت پر رحم کھاتے وہ مشکل آسان کرنے آیا ہوگا ۔۔۔۔ اُس سے سوال کرنے کے بعد اپنی تمام تر سماعتیں وہ اُسکے جواب کے لئے بٹھا کر بیٹھا تھا ۔۔


بہن کے لئے آیا ہوں ورنہ دوستی کا رشتہ تو ااُسی دن ختم ہوگیا تھا جس دن میرے بھروسے اور مان کو توڑا گیا تھا,,,, وہ بنا ایک بھی منٹ ضائع کئے چبھتے ہوئے لہجے میں بولا اُسکے لہجے کی چبھن عادل کو اپنے دل کے آر پار ہوتی محسوس ہوئی پر ضبط سے وہ لب بھینچ کر رہ گیا ۔۔۔


میں شرمندہ ہوں ساحر.... عادل نے دھیمی آواز میں کہا

تیری شرمندگی میرا بھروسہ واپس نہیں کر سکتی عادل..... ساحر کا لہجہ تلخ ہوا ۔۔۔


ہاں پر تو معاف تو کر سکتا ہے نہ میں اپنی غلطی تسلیم کرتا ہوں,,, وہ شرمندگی سے چور لہجے سے بولا۔۔۔

ساحر کچھ نہ بولا خاموشی کی مورتی بنا رہا ۔۔۔

ٹھیک ہے اب میں چلتا ہوں,,,, ساحر نے اپنی کُرسی سے کھڑے ہوتے کہا ، اور آخری کلمات پڑھتا ہوٹل سے نکلتا چلا گیا ۔۔۔


عادل کو آج خود پر خدا مہربان لگ رہا تھا جو سارے معاملات ایک ایک کرکے اُسکے حق میں ہو رہا تھے بیشک بہترین دنوں کے لئے بدترین دنوں سے گزرنا پڑتا ہے ، عادل نے پل پل اپنی محبت کو پانے کے لئے صبر کیا تھا اور اس صبر کے نتیجے خدا نے اُسکی منزل کے سارے راستے آسان کر دیئے تھے ۔۔۔ اُسکے چہرے سے ہی صاف اُسکی خوشی ٹپک رہی تھی ، دل بے اختیار ہی الگ دھن میں دھڑک رہا تھا ۔۔۔ جبکہ اُسکے برعکس جب سے درخنے کو اس سب کا علم ہوا تھا تب سے ہی اُسکے پاؤں ہی زمین پر نہیں ٹک رہے تھے ، کیا ناممکن لگنے والی خوشیاں بھی اس طرح جھولی میں ڈال دی جاتی ہیں ؟ عادل کے نام سے بکھری مسکراہٹ اُسکے چہرے پر مزید رنگ بکھیر رہی تھی ۔۔۔


⁦♡♡♡⁦♡♡♡⁦♡♡♡


دن جیسے پر لگا کر اُڑ گئے تھے اور آخر آج نکاح کا دن بھی آن پہنچا تھا ، ہرسو جیسے خوشیاں ہی خوشیاں بکھری ہوئی تھی ۔۔۔ حویلی کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا ، مردوں کے لئے لون میں تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا اور عورتوں کے لئے حویلی کے اندر ہول میں ، ہر طرف گہما گہمی تھی مختلف رنگوں کی لائٹس اور تازہ گلاب اور چمبیلی کے پھولوں سے سجے اسٹیج پر بیٹھی وہ تینوں مناسب سے میک اپ میں بہت ہی حسین لگ رہی تھی ، نکاح کی سنت کی ادائیگی کے لئے زیادہ لوگوں کو مدعو نہیں کیا گیا تھا بس خاندان کے کچھ بزرگ اور حارث کی فیملی موجود تھی ، عادل بھی اپنے والدین کے ساتھ موجود تھا ساحر اور عادل کی بات ہوتے ہی عادل نے کال کرتے اپنے والدین کو اپنے جذباتوں سے آگاہ کیا ساتھ ہی موجودہ صورتِ حال سے بھی ، اُنکے والدین کو کوئی اعتراض نہ تھا اس رشتے سے اس لئے مسٹر احسن شاہ (عادل کے والد ) نے کال کرتے داجی سے بات کر لی تھی اُنکی کال سے پہلے ہی ساحر داجی کو اپنے طریقے سے سب سمجھا چکا تھا اور اس رشتے کے لئے رضامند بھی کر چکا تھا ۔۔۔ لہٰذا آج وہ بھی درخنےکو پورے حق کے ساتھ اپنے عادل کے نام کرنے کے لئے موجود تھے۔۔۔


ماحول میں مختلف طرح کی خوشبو اور ساتھ ہی لوگوں کی آوازیں ماحول میں الگ سحر پھونک رہی تھی۔۔۔۔

سب سے پہلے سنایہ اور حارث کا نکاح پڑھوایا گیا تھا ، مولوی صاحب کے ساتھ ساحر ثمر اور شیری تینوں ہی سنایہ کے پاس کھڑے رہے تھے,,,,

مولوی صاحب کے پوچھنے پر سنایہ نے ایک نظر اُن تینوں پر ڈالتے اپنے مخصوص مضبوط اور سنجیدہ لہجے میں حارث کو قبول کیا ، اُسکے دستخط کرتے ہی مولوی صاحب حارث کی جانب یعنی لون کی طرف بڑھ گئے تھے ، وہ تینوں بھی سنایہ کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھتے مولوی صاحب کے ہمراہ باہر کی طرف بڑھ گئے ،


مولوی صاحب نے تمام گواہوں کی موجودگی میں حارث سے پوچھا جس پر اُس نے مسکراتے تینوں بار قبول ہے بولتے سنایہ کو اپنے نکاح میں لیا ، اُسکے نکاح نامے پر دستخط کرتے ہی سب نے دعا کے لئے ہاتھ بلند کر دیئے تھے ، دعا کے بعد سب نے ہی اُسے نکاح کی مبارک باد پیش کی جو اُسنے مسکراتے وصول کی,,,,,


اُسکے نکاح کے بعد اب مولوی صاحب کو داجی نے درخنے اور عادل کے نکاح کی سنت شروع کرنے کا کہا ، داجی کے کہتے ہی مولوی صاحب ساحر اور ثمر ایک بار پھر حویلی کے اندر کے جانب بڑھ گئے۔۔۔

وائٹ اور گولڈن کلر کے امتزاج سے بنے گھٹنوں تک آتے فروک پہنے سر پر سلیقے سے دوپٹہ سجائے ہلکے سے میک اپ میں بھی وہ بے حد حسین لگ رہی تھی ،

درخنے بیبی والد مرحوم شہروز خان آپکا نکاح عادل شاہ ولد احسن شاہ سے باواز پانچ لاکھ روپے سکہ رائج الوقت ہونا قرار پایا ہے کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے...... ماحول کی خاموشی میں بس مولوی صاحب کی آواز گونج رہی تھی ۔۔۔


درخنے کو اپنی دھڑکنیں سست ہوتی محسوس ہو رہی تھی اور ساتھ ہی اُسکے وجود میں بھی یک لخت کپکپاہٹ طاری ہوئی تھی ، اُسکی حالت کے پیشِ نظر حرم نے اُسکے سرد پڑتے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے حوصلا دینا چاہا ۔۔۔

درخنے کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر ثمر نے شفقت بھرا ہاتھ اُسکے سر پر رکھا تھا اور ساتھ ہی اُسکے کان کی طرف جھکتے دھیمی آواز میں اُسے جواب دینے کا کہا ۔۔۔


قبول ہے,,,,,, ماحول کی خاموشی میں درخنے کی دھیمی اور سہمی سی آواز نکلی ۔۔۔۔ ہاتھوں کی انگلیوں کو باہم ایک دوسرے سے ملائے وہ مسلسل کنفیوز ہو رہی تھی۔۔۔


اُسنے کپکپاتی انگلیوں سے نکاح نامے پر دستخط کئے اور پھر مولوی صاحب ساحر اور ثمر عادل کی طرف بڑھ گئے۔۔۔


مولوی صاحب کے تینوں دفعہ پوچھنے پر عادل نے بھی پورے دل و جان سے درخنے کو اپنے نکاح میں قبول کیا ، اُس کے بعد سب نے عادل سے بغلغیر ہوکر اُسے نکاح کی مُبارک باد دی ۔۔۔ اُن دونوں کے نکاح کے بعد اب باری ثمر اور زارا کے نکاح کی تھی ۔۔۔


زارا کو نہ ہی ثمر میں انٹرسٹ تھا اور نہ ہی کسی اور میں حتٰی کہ وہ ابھی ایسے کسی رشتے میں بندھنا بھی نہیں چاہتی تھی پر جب اُسکے باپ نے ثمر کے لئے اُسکی رضامندی جاننی چاہی تو وہ یہ فیصلہ اُنکے ہی سپرد کر گئی اور اُنکے چہرے پر خوشی اور مان کے چھلکتے رنگ دیکھ اس نکاح کے لئے خود کو تیار کر گئی اور ویسے بھی ابھی کونسی رخصتی ہونی تھی یہی سوچتے وہ کچھ پُر سکون بھی تھی ۔۔۔


زارا بیبی والد خان زمان خان آپکا نکاح ثمر والد مرحوم شہروز خان سے باواز پانچ لاکھ روپے سکہ رائج الوقت ہونا قرار پایا ہے کیا آپ نے یہ نکاح قبول کیا,,,,, مولوی نے نکاح کی سنت کا آغاز کرتے الفاظ ادا کئے۔۔۔


درخنے اور سنایہ کو نور بانو کے حکم پر حرم پہلے ہی کمرے میں لے گئ تھی ابھی ہول میں بنے اُس خوبصورت اسٹیج پر زارا ہی بیٹھی ہوئی تھی اُسکے دائیں جانب ابھی مولوی صاحب کے ساتھ ہی آتے حارث بیٹھا ہوا تھا جبکہ اُسکے بائیں جانب نور بانو براجمان تھی,,,,


مولوی صاحب کے الفاظوں پر زارا نے انجان سی نظروں سے اُنہیں دیکھا اور رُخ اُن سے ہٹاتے حارث کی جانب کرتے ہونقوں کی طرح دیکھنے لگی ۔۔۔

حارث اُسکی اس حرکت پر نرمی سے مسکرایا اور اثبات میں سر ہلاتے اُسے قبول ہے کہنے کا اشارہ کیا۔۔۔

قبول ہے...... بھائی کا ہاتھ سر پر محسوس کر وہ روانی سے بولی ۔۔۔

اُسکے دستخط کرنے اور ثمر کے بھی نکاح قبول کرنے اور دستخط کرنے کے بعد لون اور ہول دونوں میں مبارک کی صدائیں گونج اٹھی تھی ،

کچھ ہی دیر بعد سب مہمان بھی اپنے اپنے گھروں کی جانب بڑھ گئے تھے اور آخر یہ تقریب بھی خوش اسلوبی کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچی ۔۔۔۔۔


°°°°°°°

وہ اپنا بھاری فروک اُتارنے کے بعد اب بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی ، سر پر اچھے سے دوپٹہ لیتے کمرے کا تھوڑا سا دروازہ کھولتے اُس نے سر باہر نکالتے پہلے آس پاس کا نظارہ کیا راستہ خالی دیکھ وہ دبے پاؤں کمرے سے نکالتے بنا آواز پیدا کئے کمرہ لوک کرتے ہی سنایہ کے کمرے کی طرف بڑھی ، درخنے کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھ سنایہ جو اپنے کپڑے تبدیل کرنے کے بعد اُسکی ہی منتظر بیٹھی تھی اُسکے آتے ہی اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑی ہوئی ، اور دونوں ہی ساحر کے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔


وہ جو کب سے پھولوں کی لڑیاں بنانے میں مکمل طور پر اُلجھی ہوئی حرم نے کمرے کے دروازے کو بجتا دیکھ شتاب کاری سے وہ پھول اور دیگر سامان بیڈ کے نیچے چھپایا ، اور خود کو کمپوز کرتی دروازے کی سمت بڑھی ، اُس نے کمرے کا دروازہ کھولا ہی تھا کہ سامنے ہی درخنے اور سنایہ کو کھڑا پایا ،


حرم اُنکے آنے کی وجہ سمجھتی مسکراتی اُنہیں اندر آنے کی جگہ دے گئ وہ دونوں کمرے میں داخل ہوئی تو حرم دروازہ دوبارہ لوک کر گئی ۔۔۔


اشرفی کہاں ہے ؟؟؟ درخنے نے کمرے میں داخل ہوتے ہی حرم سے بیتابی سے سوال کیا ۔۔۔


وہ ساحر جی کے ساتھ گیا ہے حارث لالا کے ، حارث لالا نے شرط رکھی تھی اشرفی خود لینے آئے گا تو وہ اپنی حُسن ارا کی رخصتی دینگے تو بس ساحر جی اور اشرفی اُسے ہی لینے گئے ہیں,,, وہ تفصیل سے اُسے بتاتی ساتھ ہی بیڈ کے نیچے چھپایا سامان بھی نکال گئی ۔۔


درخنے نے سمجھتے اثبات میں سر ہلایا اور آگے بڑھتے پھولوں کی لڑیاں بنانے میں اُسکی مدد کرنے لگی ۔۔۔


سنایہ نے منہ پر ہاتھ رکھتے اپنی امڈتی ہنسی کا گلا گھونٹا تھا ، اور کچھ ہی منٹ بعد حرم سے سوال گو ہوئی ۔۔


حرم عصام کہاں ہے ؟؟؟ سنایہ کے سوال پر حرم نے اُسکی جانب نظریں اٹھائی ۔۔۔


مور لے گئی ہیں کہہ رہی تھی کہ آج وہ اپنے پوتے کو اپنے پاس رکھیں گی,,,, حرم نور بانو کی باتیں یاد کرتی جواب دیتے دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہوئی ۔۔۔


سنایہ جیسی ڈیسیںنٹ اور سنجیدہ بندی کو یہ سب کرنا بلکل بھی مناسب نہیں لگ رہا تھا پر اُن دونوں کو دیکھ وہ بھی اُنکے ساتھ مشغول ہو گئی تھی۔۔۔


کم ہی وقت میں اُن تینوں نے مل کر اشرفی کے گھر کو بہت اچھے سے سجا دیا تھا اُسکے جھولے کے چاروں طرف پھولوں کی لڑیوں کو لٹکا کر خوبصورت سيج بنایا تھا اور پوری بالکونی میں بھی لائٹس اور پھولوں سے سجاوٹ کی تھی ، درخنے اور سنایہ کام کرتی اپنے اپنے کمروں کی طرف بڑھ گئی تھی ۔۔۔


حرم کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا تھا کچھ ہی دیر میں ساحر کمرے میں داخل ہوا جسکے دائیں جانب حُسن ارا تھی اور بائیں جانب اشرفی ۔۔۔


حرم کے لب بے ساختہ ہی مسکرائے تھے اور اُسے مُسکراتے دیکھ ساحر کے لبوں پر بھی مسکراہٹ نے احاطہ کیا ۔۔


ساحر اُن دونوں کو لئے بالکونی کی طرف بڑھ گیا ، بالکونی کی سجاوٹ دیکھ اشرفی کی جیسے بانچھے کھل.اٹھی جبکہ اُسکے برعکس ساحر کو کوئی جھٹکا نہیں لگا تھا اُسے اپنی بیوی سے اُس طرح کی اُمید تھی,,,,


ساحر نے پہلے حُسن ارا کو جھولے پر بیٹھایا اور پھر اشرفی کو ۔,

اپنے لمبے لمبے ناخنوں والے پنجوں پر ریڈ نیل پولش لگائے اور سُرخ رنگ کا ہی چھوٹا سا رومال سر پر بندھے وہ اشرفی کے چھوٹے سے دل پر بجلیاں گرا رہی تھی اُس پر تضاد اُسکا شرمانہ اشرفی کو گھائل کرنے کے لئے کافی تھا ۔۔۔

ان دونوں کو ساتھ بٹھا کر ساحر نے موبائل نکالتے اس خوبصورت منظر کو کیمرے کی آنکھ میں تصویر کی صورت محفوظ کیا ۔۔۔


نہال ہوتی نظروں سے اُن دونوں کو دیکھتی حرم کا ہاتھ تھامتے وہ دونوں کو بائے کہتا کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔

حرم نے ابھی تک کپڑے تبدیل نہیں کئے تھے وہ ابھی تک تقریب میں پہنے ٹخنوں تک آتی بلیک فروک میں موجود تھی جس پر نفاست سے شیشوں کا کام ہوا تھا ، کالا رنگ اُسکی سفید اور دودھیاں رنگت پر بہت جچ رہا تھا۔۔۔

چلو تُمہارے لئے ایک سرپرائز ہے,,,, وہ اُسکے دلکش وجود سے اُلجھتی اپنی نظریں چراتے بولا ۔۔


کونسا سرپرائز ؟؟؟ حرم فوراً ہی متجسس ہوتے چہک کر بولی ۔۔

یہ تو چل کر ہی پتہ چلے گا,,,, وہ الماری سے چادر نکال کر اُسکی جانب بڑھاتے عام سے انداز میں بولا ۔۔


حرم کے چادر تھام کر پہنتے ہی وہ اُسکا ہاتھ تھامے کمرے سے نکلتا نیچے پورچ میں آیا اور اُسے گاڑی میں بیٹھاتے خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتا گاڑی حویلی سے نکلاتا چلا گیا.....


°°°°°°°°°°

سنایہ نے کمرے میں آتے ہی سب سے پہلے شیری سے بات کرنے کا سوچا تھا ، موبائل ٹیبل سے اُٹھا کر اُس نے ابھی اُون ہی کیا تھا کہ حارث کی مسڈ کالز دیکھ اس نے آبرو اٹھائے ، وہ اُسکی مسڈ کالز دیکھ کر بھی سرے سے ہی نظر انداز کرتی شیری کا نمبر ڈائل کر گئی ، تیسری بیل پر ہی شیری نے اُسکی کال اُٹھا لی تھی ۔۔۔۔


ایک دوسرے سے ہال احوال پوچھنے کے بعد دونوں ہی کاروبار کے بابت بات کرنے لگے ، شیری نے اُسکی غیر موجودگی میں ہوئی تمام ڈیلز اور پروجیکٹس سے اُسے آگاہ کیا ، سنایہ نے اپنا سارا کاروبار شیری کے حوالے کر دیا تھا وہ جانتی تھی اُسکی غیر موجودگی میں بھی وہ اچھے سے سب کچھ سنبھال سکتا ہے ،


کچھ دیر اور شیری سے بات کرنے کے بعد آخری کلمات پڑھتے اُس نے فون رکھا ، ٹیبل پر فون رکھتے وہ سونے کے لئے لیٹنے ہی لگی تھی کہ موبائل کی سکرین بلنک ہوئی اور ساتھ ہی میسج ٹون بھی بجی ، اسکرین آنکھوں کے سامنے کرتے ہی حارث کے نام کے ساتھ اُسکا پیغام بھی جگمگا رہا تھا ۔۔۔


گڈ نائٹ تازہ تازہ بنی الٹی کھوپڑی کی بنی وائف,,,,, اُسکی جانب سے موصول ہوا پیغام دیکھ وہ ضبط سے مٹھیاں بھینچ کر رھ گئی ، اُس میسج کو بھی نظر انداز کرتی اُسکا دماغ ٹھیک کرنے کا ارادہ بالائے تاک رکھتی سونے کے لئے لیٹ گئی ،۔


لیٹی وہ سونے کے لئے تھی پر سوچوں کا بھنور گھومتا ہوا عنایہ پر آن رکا تھا کہیں نہ کہیں اُسکا دل خود پر ملامت کر رہا تھا کہ اُس نے عنایہ کو اپنے پلین کا حصہ بنایا ، کیا وہ اُسکی وجہ سے جیل میں سزا کاٹ رہی تھی...؟ وہ بے قصور ہوکر بھی خود کو عنایہ کی قصور وار سمجھ رہی تھی ۔۔۔

کیا مجھے اُسکے لئے کچھ کرنا چاہئے ؟؟ ہاں میں اُسے جیل سے نکلوا سکتی ہوں,,,, پر کیا یہ کرنا ٹھیک ہوگا وہ چھت کو تکتے خود سے سوال گو تھی ۔۔۔

ہاں یہ نہ کی جنگ مسلسل اُسکے ذہن میں جاری و ساری تھی اور آخر وہ اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ ابھی نہیں پر کچھ وقت کے بعد ضرور وہ عنایہ کو قید سے رہائی دلوائے گی,,,, ایک حتمی فیصلہ لیتے وہ تمام سوچوں کو جھٹکتے آنکھیں موند گئی ۔۔۔۔

●︿●●︿●●︿●

زہے نصیب , بڑی دیر کردی مہرباں آتے آتے,,,,, چھم چھم کرتے تارے ان میں چمکتا یہ چاند اور اُسے دیکھتا یہ بندہِ ناچیز کب کا تھا منتظر صرف ایک پُکار کا تم نے جو پُکار لیا تو سنو اُو ظالم لڑکی میرے دل کی دنیا کو ہلا دیا۔۔۔

اپنے کمرے کی بالکونی میں کھڑا فون کان سے لگائے چاند کو تکتا وہ مسکراتا دلکش انداز میں بولا جبکہ ایک ہاتھ اپنے دل پر رکھے وہ دھڑکنوں کے شور میں اٹھتی اُسکے نام کی سدا اپنی ہتھیلی میں محسوس کرنے لگا ۔۔۔


سنو یوں چُپ نہ رہو کچھ تو کہو ، اپنی مشری بھری آواز سے اپنے اس عاشق کے کانوں کو شفاء بخشو ، اگرچہ نہیں ممکن دیدار تمہارا ، خواب میں ہی آکر بخشو آنکھوں کا سکوں,,,,, وہ فون کال کی دوسری طرف مقابل کو خاموش دیکھ ایک بار پھر مخمور سے انداز میں گویا ہوا,,,,


اُسکی اس فضول سی بات پر سنایہ نے آنکھیں بیزاریت سے بند کر کے کھولی تھی ۔۔۔۔

میں صرف تُمہارے دل کی ہی نہیں بلکہ دماغ کی بھی دنیا ہلانے کی صلاحیت رکھتی ہوں مسٹر حارث خان,,,,,

کچھ ہی دیر بعد سنایہ کی مظبوط فخریہ سی آواز اُسکی سماعتوں سے ٹکرائی ،


جی بلکل آپ دل اور دماغ ہی نہیں بلکہ میری پوری دنیا بھی ہلا سکتی ہیں,,,,, وہ مسکراتا شریر سے انداز میں بولا ۔۔۔

تمھاری بکواس سننے کے لئے کال نہیں کی ہے میں نے,,,, اُسکی باتیں اور لہجہ اب سنایہ کی برداشت سے باہر ہوا تھا اس لئے ضبط کی اتہہ گہرائیوں کو چھوتی وہ دبے دبے غصے میں لفظوں کو دانتوں کے درمیان چبا کر بولی۔۔


جی میرے کان دل گردہ پھیپڑا آنکھیں ہاتھ پاؤں سب منتظر ہیں آپکی عنایت کی وجہ جاننے کے لئے,,,,, لہجے میں بلا کی سنجیدگی لاتے وہ لب دانتوں تلے دیتے اپنی ہنسی کنٹرول کرتے بولا ۔۔


سنایہ ضبط کے کڑوے گھونٹ بھر کر رھ گئی ایک لمبی سانس ہوا میں تحلیل کرتے خود کو نورمل کرتے وہ ایک بار پھر گویا ہوئی ۔۔۔


تم مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہو ؟؟؟؟ بغیر لگی لپٹی کے وہ فوراً مدعے پر آئی تھی۔۔۔

ایک پل کے لئے حارث کو اپنے کانوں پر شبہ ہوا تھا پر دوسرے ہی پل اُسکے لبوں سے الفاظ ادا ہوئے ،


ہاں,,,,,,, کیا تم کرنا چاہتی ہو شادی ؟؟؟ وہ بیتابی سے بولا جبکہ دل الگ ہی دھن میں دھڑک رہا تھا۔۔


اگر آپ بھول رہے ہیں تو میں یاد دلا دیتی ہُوں مسٹر حارث خان کہ میرا بھی ایک خاندان ہے ، اگر شادی کرنا چاہتے ہیں تو میرے بھائیوں سے عزت سے میرا رشتہ مانگیں,,,,, اُمید ہے میری باتیں آپ سمجھ چُکے ہونگے ۔۔۔۔ اُس نے کہتے ہی مقابل کو حیرت کے سمندر میں چھوڑ ٹھک سے فون بند کر دیا ۔۔۔


حیرت اور غیر یقینی سے حارث کا منہ کھلا تھا جبکہ اُسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے سب کچھ رک سا گیا ہو ، سانسیں ہوائیں سب کچھ جیسے تھم سی گئی تھی اُسے اپنے کانوں میں اپنی دھڑکنوں اور زہن میں بازگشت کررہی تھی سنایہ کی بات کے علاوہ اور کوئی آواز نہیں آرہی تھی ۔۔۔


فون کی میسیج ٹون پر وہ اپنی خیالی دنیا سے حال میں لوٹا موبائل کی اسکرین سامنے کرتے اُس نے سنایہ کی طرف سے موصول ہوا پیغام پڑھا ، ناگہاں چہرے کے تاثرات بدلے تھے ،جبکہ اس پیغام میں کچھ اس طرح کے الفاظ تھے۔۔

You have only one day.....

یہ الفاظ پڑھ جیسے حارث کی آنکھیں پھیلی دماغ چلنے سے انکاری ہوا تھا ، وہ آسمان کی طرف دیکھتا گہری سوچ میں مستغرق اس معاملے کے ہر پہلو پر غور و فکر کر رہا تھا ، سب سے پہلے تو اس نے اپنے والدین سے سنایہ کے بابت بات کرنے کی ٹھانی تھی ، جانتا تھا بہت مشکل ہوگا اُنہیں اس بات کے لئے رضامند کرنا کہ وہ درخنے سے نہیں سنایہ سے شادی کرنا چاہتا ہے پر اُسے خود پر بھروسہ تھا کہ وہ کسی بھی طرح اس سارے معاملے کو ہینڈل کر لیگا ۔۔۔

ذہن میں سارا معاملہ ترتیب دیتے وہ دلکشی سے مسکرایا تھا اور دوبارہ چاند کو دیکھنے لگا۔۔۔۔۔


سنایہ بھی موبائل ركھکر تمام سوچوں کو ذہن سے جھٹکتے ابھی سونے جانے کا سوچ ہی رہی تھی کہ نیچے لون میں حرم درخنے اور اشرفی کو بیٹھا دیکھ وہ بھی نیچے کی جانب بڑھ گئی ۔۔۔۔اب دن بہ دن تمام گھر والوں کے درمیان رنجشیں ختم ہونے لگی تھی سب ہی ایک ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے بہت خوش تھے ، سنایہ کی بھی حرم اور درخنے سے اچھی دوستی ہوگئ تھی سنایہ اور درخنے حرم کی معصومیت کا فائدہ اٹھاتے روز ہی ساحر کے لئے نیا محاذ کھول دیتی تھی اور سدا کی بیوقوف حرم اُن دونوں کی چکنی چُپڑی باتوں میں آکر اپنا ہی نقصان کروا دیتی تھی ۔۔۔


ارے ہم سمجھے تم سو گئی ہوگی,,,,, اُسے لون میں آتا دیکھ حرم نے چہکتی آواز میں کہا۔۔جبکہ حرم کی آواز پر اشرفی سے راز و نیاز کی باتیں کرتی درخنے نے بھی نظریں اٹھاتے دیکھا اور ہلکی سی مسکراہٹ پاس کی,,,

نہیں مجھے نیند نہیں آرہی تھی,,, تم دونوں کو یہاں دیکھا تو اس لئے چلی آئی ، وہ مسکرا کر کہتی حرم کے مقابل کُرسی پر بیٹھ گئی ،

تم دونوں کیوں جاگ رہی ہو ابھی تک خیریت ؟ وہ اپنی بتاتے اب دونوں سے سوال گو ہوئی ۔۔۔۔۔


ہاں وہ ساحر بھائی ہسپتال سے آئے نہیں نہ ابھی تک تو حرم اکیلی تھی تو میں نے سوچا کیوں نہ فائدہ اُٹھایا جائے میرا مطلب ٹائم گزرا جائے,,, سنایہ کے سوال کا ابھی حرم کوئی جواب دیتی کہ اُس سے پہلے ہی درخنے ایک آنکھ ونک کرتے شرارت سے بولی چہرے سے صاف شرارت ٹپک رہی تھی۔۔۔

اُسکے جواب پر سنایہ نے بھی لب دانتوں تلے دیتے ہنسی کنٹرول کی تھی اور سمجھتے اثبات میں سر ہلا گئ ۔۔۔


آج اگر میری بھی بیوی ہوتی تو وہ بھی تم تینوں کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتی پر افسوس ہائے اشرفی کی ایسی قسمت کہاں,,,,, اشرفی کے سنجیدگی سے ادا کئے الفاظوں پر جہاں درخنے نے دانت پیسے تھے وہی سنایہ کو شدید جھٹکا لگا تھا ، وہ پھیلی آنکھوں سے اُس طوطے کو دیکھ رہی تھی اور یقین کرنے کی تگ و دو میں تھی کہ واقعی یہ اس طوطے کی آواز تھی ؟؟


میں کافی بنا کر لاتی ہوں,,,, اشرفی کی بات کو سرے سے نظر انداز کرتی درخنے اُن دونوں کو مسکرا کر کہتی وہاں سے نکلتی چلی گئی ،


ہاں ہاں اب تو تم نے جانا ہی ہے میرے ارمانوں کا قتل کر کے,,,,, اُسے جاتا دیکھ اشرفی نے پیچھے سے ہانک لگائی جو پتہ نہیں اُس نے سنی بھی تھی یہ نہیں,,,,


اشرفی چہرے کے زاویہ بدلتا سنایہ کی طرف متوجہ ہوا جو اب تک حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھی ،


ایسے نہ دیکھو پگلی ورنہ پیار ہو جائے گا,,, اشرفی کی آواز پر جہاں سنایہ کا سکتا ٹوٹا تھا وہی حرم اشرفی کے انداز پر مسکرائی ۔۔۔۔


یہ کیا سچ میں اسی کی آواز تھی؟؟؟ سنایہ کی صدمے سے چور آواز برآمد ہوئی ،

حرم اُسکی حیران کن تاثر دیکھ اثبات میں سر ہلا گئی ،


ہاں یہ اسی کی آواز تھی,,,, حرم نے جواب پیش کیا ،

پر یہ درخنے سے کیا كہہ رہا تھا اسکے کونسے ارمانوں کا قتل کیا اُس نے ؟؟؟ سنایہ خود کو سنبھالتے کچھ یاد آتے نہ سمجھی سے پوچھنے لگی،،،


صرف اسی نے نہیں بلکہ سب نے ہی میرے ارمانوں کا قتل کیا ہے ، وہ جلا بھنا سا آنکھیں ناگوریت سے پھیرتے بولا ۔۔۔


ارمان کونسے ارمان......؟ سنایہ نے بے ساختہ ہی سوال کیا ۔۔

دراصل اسے اپنی شادی کی جلدی ہے اس لئے بس کچھ بھی بولتا ہے یہ تم اتنی سنجیدگی سے نہ لو اسکی باتوں کو,,,,

وہ اُسے پریشان دیکھ سہولت سے گویا ہوئی ، پر اسکی باتوں پر حیران ہونے کی باری اشرفی کی تھی ۔۔


ابھی بھی جلدی نہ ہو شادی کی ؟؟ کیا تم میری شادی میرے بڈھے ہونے کے بعد کروگی ؟؟ اشرفی نے صدمے اور غصے کے ملے جلے تاثرات سے کہا ۔۔


جہاں اُسکی بات پر حرم نے کندھے اچکائے تھے وہی سنایہ نے جاندار قہقہ لگایا تھا ، اشرفی کی غصے سے بھری سفید آنکھیں اب سنایہ پر مرکوز تھی۔۔۔


سوری سوری,,,,, اشرفی کو غصیلی نظروں سے خود کو تکتا دیکھ وہ خود کو سنبھالتے بولی ، اشرفی نے حرم اور سنایہ دونوں سے ناراضگی کا اعلان کرتے اپنا رُخ موڑ لیا ، کوئی عزت ہی نہ ہو جیسے اُس بیچارے کی,,,


حرم ویسے غلط بات ہے تُمہیں اشرفی کی شادی کا سوچنا چاہئے اب,,,, کوئی لڑکی دیکھی میرا مطلب ہے کہ کوئی طوطی دیکھی تم نے اپنے اشرفی کے لئے ؟؟؟ وہ اشرفی کو خفا دیکھ اُسکا موڈ بحال کرنے کی کوشش میں بولی ،


ہاں دیکھی ہوئی ہے..... بہت پیاری ہے چھوٹی چھوٹی سی سفید اور کالی آنکھیں سُرخ چونچ اور اُسکے ہرے ہرے نرم و ملائم بال بہت پیاری ہے اور اس پر تضاد اُسکا پشتو میں بات کرنا مجھے تو بہت پسند ہے وہ,,,,,


سنایہ کے پوچھتے ہی حرم حُسن ارا کو یاد کرتی مُحبت سے بولی جبکہ اُسکے ذکر پر اشرفی کی بھی آنکھیں چمکی تھی اور ساتھ ہی ذہن میں حُسن ارا کا چہرا لہرایا....


اوہ یہ تو اچھی بات ہے کہ تم نے ڈھونڈی ہوئی ہے، پر وہ ہے کون کس خاندان سے ہے ؟؟

حرم کے بیان کردہ حُسن ارا کی تعریفوں پر سنایہ نے لب دانتوں تلے دیتے پھوٹتی ہوئی ہنسی کنٹرول کرتے بظاھر سنجیدگی سے کہا تھا۔۔۔


کس خاندان سے ہے کس ذات سے ہے اُس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اب سے اُسکا خاندان اور اُسکی ذات میں ہی یعنی اشرفی ہی ہے.....

حرم ابھی کوئی جواب دینے ہی لگی تھی کہ اشرفی نے فل ہیرو والے انداز میں کہا۔۔


اُو بس کر آیا بڑا دانش تیمور,,,,,,

ٹرے میں کافی کے کپ تھامے آتی درخنے نے اُسکے الفاظ سن بے ساختہ کہا جبکہ سنایہ ہونقوں کی طرح اُسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔


حرم بھی آنکھوں کو چھوٹا کرتے یاد کرنے کی تک و دو میں تھی کہ یہ ڈائیلاگ اُس نے کہیں سنا ہے,,,,

تم تو بات ہی نہ کرو بیوفا لڑکی سہی ہی کہتے ہیں لوگ لڑکیاں بیوفا ہی ہوتی ہیں,,,, اشرفی نے بلند آواز میں کہتے درخنے پر چوٹ کی۔۔


اوہ دیکھو ذرا ابھی یہ مرا جا رہا تھا شادی کے لئے اور ابھی کہہ رہا ہے کہ لڑکیاں بیوفا ہوتی ہیں ۔۔۔ درخنے نے بھنتے لہجے میں اُسی کے انداز میں کہا۔۔


تو میں کونسا لڑکی سے شادی کر رہا ہوں میں تو طوطی سے کرونگا نہ,,,, اشرفی بھی دوبدو بولا ، درخنے نے اُسکے جواب پر ماتھا پیٹا تھا۔۔۔


یہ معاملہ کیا ہے آخر ہے کون وہ طوطی کوئی مجھے بھی بتائے گا,,, اُن دونوں کو خونی نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھتی وہ کافی کا مگ ٹیبل سے اٹھا کر ہاتھ میں تھامتے بولی۔۔۔

حرم جو انہماک سے اشرفی اور درخنے کو دیکھ رہی تھی اُسکے سوال پر متوجہ ہوتی گویا ہوئی ۔۔

دراصل حارث لالا کی طوطی ہے حُسن ارا نام ہے یہاں آئی بھی تھی رہنے پر ساحر جی پھر لے گئے اُسے ، اور جا کر حارث لالا کو دیدی اب میں جب بھی لانے کی بات کرتی تو وہ ٹال دیتے ہیں۔۔۔۔ حرم تفصیل سے اُسے بتاتی آخر میں رنجیدہ ہوئی تھی۔۔۔


ایک پل کے لئے سنایہ کے دماغ میں کچھ کلک ہوا دماغ میں کچھ دیر قبل ہوئی حارث سے بات بازگشت کرنے لگی تھی پر جلد ہی خود کو سنبھالتے وہ حرم کو اثبات میں سر ہلا کر جواب دیتی سوچ میں ڈوبی ،


تُمہیں ساحر سے بات کرنی چاہئے کہ وہ حُسن ارا کو دوبارہ لے آئے..... سنایہ نے مشورہ پیش کیا ۔۔

بہت دفعہ کہا پر وہ کہتے میں کيسے لے آؤ؟؟ حرم نے اس بار ایک لمبی سانس لیتے کہا۔۔


ہممم,,,,, پھر تمہیں چاہئے کہ ساحر کو راضی کرو حارث سے بات کرنے کے لئے ،میں تُمہیں بتاتی ہوں تُمہیں کیا کرنا ہے وہ کہتے پوری اُس کی طرف رخ کر گئی تھی،

اُسکی آنکھیں چمکی تھی درخنے نے آبرو کھڑے کرتے اشارے سے ہی پوچھا جس پر وہ مسکراتی آنکھوں سے ہی خاموش رہنے کا کہتی ایک بار پھر حرم کی طرف متوجہ ہوئی جو اُسکی ہی منتظر بیٹھی تھی جبکہ اشرفی بھی اپنی تمام تر سماعتیں سنایہ کی بات پر بیٹھائے کھڑا تھا۔۔۔


ہاں کرنا کچھ یوں کہ بہت آسان ہے اگر ساحر نہیں مان رہا تو تم کہو کہ تم اکیلی ہی اپنے اشرفی کا رشتہ لے کر چلی جاؤگی ۔۔۔ سنایہ نے مخلصانہ مشورہ دیا اور اب کافی کے چھوٹے چھوٹے سپ لیتی اُسکے تاثرات دیکھنے لگی جو کچھ پُر سوچ ہوئے تھے۔۔۔


درخنے اور سنایہ دونوں نے ایک دوسرے کو مسکراہٹ پاس کرتے ہنسی کنٹرول کی جبکہ اُن دونوں کے چہروں پر ہی دبی دبی ہنسی کے آثار نمایاں تھے ۔۔۔


اچھا ابھی چھوڑو اسے کوئی اور بات کرتے ہیں,,,, اُسے سوچ میں ڈوبا دیکھ درخنے چہکتی ہوئی بولی ، حرم بھی سوچوں کو جھٹکتے اُسکی طرف متوجہ ہوئی تینوں ہی باتوں میں مشغول تھی کہ ساحر کی گاڑی کو پورچ رکتا دیکھ وہ تینوں اُسکی جانب دیکھنے لگی جو گاڑی سے نکلتا اُن کی جانب ہی آرہا تھا ۔۔۔


تم سب جاگ کیوں رہے ہو اب تک ؟؟ اُس نے اُن سب کا ہی سلام کا جواب دیتے گھڑی میں وقت دیکھ مسکراتے سوال کیا۔۔

بس بیٹھے باتیں کر رہے تھے وقت کا پتہ ہی نہیں چلا پر اب جا ہی رہے تھے ہم سونے,,, درخنے کہتے ہی اُٹھ کھڑی ہوئی تھی اور اُسے دیکھ سنایہ بھی وہ دونوں ہی اُنہیں شب خیر کہتی اپنے اپنے کمروں کی طرف بڑھ گئی ۔۔


کھانا لگا دوں آپکا؟؟؟ اُنکے جاتے ہی وہ ساحر سے مخاطب ہوئی۔۔

نہیں میں کھا کر آیا ہوں ، تُمہیں جب میں نے کہا تھا انتظار نہ کرنا سو جانا پھر سوئی کیوں نہیں ، وہ اُسے جواب دیتے ہی اپنا سوال داغ گیا ۔۔

بس جا ہی رہی تھی,,,,, حرم نے تھوک نگلتے کچھ جھجھکتے ہوئے کہا ،

اور اشرفی کو اپنے بازو پر لیتے اُسکے ہم قدم ہوتی اندر کی جانب بڑھ گئی ۔۔۔


کمرے میں آتے ہی اشرفی کو اُسکے گھر میں چھوڑتی وہ عصام پر کمفرٹر درست کرتی چور نظروں سے ساحر کو دیکھ رہی تھی جو ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا گھڑی اُتار رہا تھا۔۔۔

ساحر جی..... حرم نے خود میں ہمت مجتمع کرتے پُکارا ۔۔

ہمم,,, ساحر نے مصروف سے انداز میں ہنکارا بھرا ۔۔۔

اشرفی کا رشتہ لینے جانا ہے ۔۔۔ اُس نے مضبوط سے لہجے میں الفاظ ادا کئے اور اب ساحر کے ریکشن کی منتظر ہوئی ۔۔۔


کیا.......؟؟؟؟ ساحر کو لگا تھا جیسے اُسے سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہے ، وہ غیر یقینی سے گردن کو جنبش دیتے اُسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا ۔۔۔

یہ تُم کیا کہہ رہی ہو حرم ؟؟؟ اپنے حواسوں میں ہو بھی یہ نہیں ؟؟ اُسکی ایک بار پھر صدمے سے چور آواز برآمد ہوئی۔۔


ہاں ساحر جی میں اپنے پورے ہوش و حواس میں ہوں ، اور یہ بات میں نے آپ سے پوچھی نہیں بلکہ بتائی ہے اور ہم کل شام ہی جائينگے,,,, حرم نے مضبوط لہجے میں اپنے الفاظ ادا کئے ۔۔

نہیں جا رہا کوئی بھی نہ تم نہ میں ۔۔۔ اور ہے کہاں یہ تمہارا لاڈلا آج اِسکے سارے اسپرنگ نکال دونگا میں۔۔۔

اس نے حرم کو اُسی بات پر اٹکتے دیکھ مٹھیاں بھینچے کہا ،

آپکی یہی بات مجھے بہت بری لگتی ہے ساحر جی آپ اُس معصوم کے پیچھے ہر وقت پڑے رہتے ہیں ، جبکہ اس بیچارے کو آپ کا اتنا خیال ہے کہ وہ یہی کہہ رہا تھا کہ ساحر سے ضد نہ کرنا حرم اور نہ پریشان کرو ،،، اپنے لاڈلے اشرفی کے لئے یہ الفاظ سن اور ساحر کا لہجہ دیکھ وہ نروٹھے انداز میں بولی کہ وہ بیچارہ ضبط سے لب بھینچ گیا ۔۔۔

اس نے ایک لمبی سانس لے کر خود کو پُر سکون کرنا چاہا اور ساتھ ہی اُسکی جانب قدم بڑھائے ۔۔

یار حرم تُم بھی سمجھنے کی کوششں کرو جو تم چاہتی ہو وہ ممکن نہیں ہے ، اف مجھے تو سوچ کر ہی عجیب لگ رہا ہے کہ تُم ایک طوطے کا رشتہ لے جانے کا کہہ رہی ہو ۔۔۔ وہ اُسے کندھے سے تھامتے اپنے مقابل کھڑا کرتا پہلے نرمی سے سمجھاتا اور پھر سوچتے ہی جھرجھری لیتے بولا

کیا عجیب ہے اس میں مجھے بتائیں؟؟ وہ اُسکے چہرے کے بدلتے رنگ دیکھ گھورتی ہوئی برجستہ بولی

خدا کا واسطہ ہے تُمہیں مجھے اس سب سے دور رکھو ، اف خُدا مجھے صبر دے میری بیوی ایک پرندے کا رشتہ لے جانے کو كہہ رہی ہے۔۔۔۔۔۔ وہ کمرے کی چھت کی طرف منہ کرتا دہائی دینے لگا

وہ پرندہ نہیں ہے اشرفی ہے ...... ایک پل کے لئے ساحر کی بات پر اُسکی آنکھیں ساکت ہوئی پر دوسرے ہی پل وہ آنکھوں میں من من کا پانی لئے گویا ہوئی ، وہ بیوی تھی جانتی تھی کيسے اپنی بات منوانی ہے۔۔۔۔

اُسے ہچکیوں سے روتا دیکھ ساحر کے تو جیسے ہاتھ پیر پھول گئے تھے ، اُس نے آگے بڑھتے اُسے اپنے حصار میں لینا چاہا پر حرم نے روتے نفی میں سر ہلاتے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا ،

بالکونی میں چھپ کر اُنکی باتیں سنتے اشرفی نے ساحر کو بے بس محسوس کر گول گول گھوم کر اپنے پر پھیلاتے خوشی کا اظہار کیا ۔۔

حرم تُم اُسکی وجہ سے ہار بار میرے ساتھ ایسا کرتی ہو وہ تیلی لگا کر چھوڑ دیتا ہے تُمہیں میرے خلاف کرنے کا ایک موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ، ایک نمبر کا میسنا ہے وہ ۔۔۔۔ ساحر نے ایک بار پھر اُسے اشرفی کا اصل چہرہ دکھانا چاہا ۔۔۔

حرم غصے بھری نگاہوں اور پھولی نتھنوں سے اُسے سن رہی تھی، تو اُسکا شوہر یہ سب سوچتا تھا اُسکے اشرفی کے بارے میں آنسوں بے ساختہ ہی آنکھوں سے رواں ہوئے تھے ۔۔


بس ٹھیک ہے نہ جائیں آپ پر اب ایک لفظ نہیں بولیںنگے آپ اشرفی کے خلاف,,,,, وہ اُسے تنبھی دیتے گویا ہوئی پر اُسے سپاٹ چہرے سے خود کو تکتے دیکھ اُسکی جانب سے رُخ موڑ گئی۔۔۔۔


ساحر نے ضبط کے کڑوے گھونٹ پیتے دونوں ہاتھ منہ پر پھیرتے لمبی سانس لیتے خود کو پُر سکون کرنے کی کوشش کی ، اور قدم اُسکی جانب بڑھاتے پیچھے سے اُسے اپنے حصار میں لیتے نرمی سے گویا ہوا۔۔


اچھا نہ سوری میں کچھ زیادہ ہی بول گیا۔۔۔ سر اُسکے دائیں کندھے پر ٹکائے وہ دھیمی آواز میں اُسکے کان کے قریب بولا ۔۔


حرم نے کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا ، ویسے ہی ہاتھ باندھے خاموش کھڑی رہی تھی۔۔۔


حرم جواب تو دو یار..... وہ جھٹکے سے اُسکا رُخ اپنی طرف کرتا بیتابی سے بولا ۔۔۔


کیا بولوں ہاں...؟ آپ میری اتنی سی بات بھی نہیں مان سکتے کیا؟؟؟ وہ اُسکے کہتے ہی نم پلکیں اٹھاتے بولی اُسکی نم پلکیں دیکھ ساحر کا دل بے اختیار ہی دھڑکا تھا دل نے شدت سے خواہش کی کہ آنکھوں سے بہتے اس آبشار کو چھو کر محسوس کرے۔۔۔۔

اچھا ٹھیک ہے جیسا تم چاہو گی ویسا ہی ہوگا بس اب یہ رونا بند کرو,,,,,

ایک پل لگا تھا اُسے اپنا فیصلہ تبدیل کرنے میں اور وہ اُسکی پلکوں پر اپنے لب رکھتا محبت سے بولا ۔۔۔

اُسکے لمس پر حرم نے بے ساختہ ہی اپنی آنکھیں مندی تھی۔۔۔

پکا نہ..... اُس نے یقین دھانی چاہی


ہاں ایک دم پکا..... اُسکی سُرخ ناک دباتے محبت سے چور لہجے میں بولا ۔

اُسکی بات پر حرم کے لب بے ساختہ ہی مسکرائے تھے ، چہرے پر فتح مندی کی مسکراہٹ رقصاں ہوتی اپنی چھپ دیکھا کر غائب ہوئی ۔۔۔

اسی بات پر میں آپ کے لئے اچھی سی کافی بناکر لاتی ہوں,,,,, ساحر کی انگلیوں کے لمس کو اپنی کمر پر سرکتا محسوس کر وہ تھوک نگلتے بولی پر بظاھر اُس نے مسکراتے نرمی سے کہا تھا ۔۔۔


نہیں ابھی نہیں,,,, وہ مخمور سا اُسکی نگاہوں میں دیکھتا اُسے مزید قریب کرتا حصار تنگ کر گیا۔۔۔


پلیز نہ ساحر جی میں لاتی ہوں کافی,,,, اس بار حرم نے رونتی شکل بناتے ہوئے کہا ،

وہ بھی اُس پر ترس کھاتا اُسکے گرد ڈلا حصار ہٹا گیا ،

حرم ایک بھی منٹ ضائع کئے بغیر ، اُس سے دور ہوتی کمرے سے باہر بھاگی تھی ۔۔۔ اُسکی اسپیڈ دیکھ ساحر نے مسکراتے افسوس سے گردن نفی میں ہلائی تھی اور الماری سے کپڑے نکالتا فریش ہونے کے لئے واشروم میں بند ہوگیا.......


⁦♡♡♡⁦♡♡♡⁦♡♡♡


تُمہارے کہنے کا مطلب کیا ہے میں اپنی ایک بچی کا رشتہ توڑ کر تُمہیں اپنی دوسری بچی کا رشتہ دے دوں ، تم نے سوچ بھی کیسے لیا یہ کیا رشتوں کو کھیل اور مزاق سمجھ رکھا ہے تُم نے کہ جب چاہا جوڑ لیا اور جب دل چاہا توڑ دیا ہمیں تم جیسے سمجھدار انسان سے اس بات کی توقع ہر گز نہیں تھی,,,,, ہول نما اُس کمرے کی خاموشی کو داجی کی آواز نے توڑا تھا ، جو اپنے مقابل ہی بیٹھے خان زمان صاحب کو لہو رنگ آنکھوں سے دیکھتے برہم انداز میں گویا تھے ۔۔۔


کمرے میں موجود تمام نفوس ہی ابھی تک خان زمان صاحب کی کہی بات کے صدمے کی زد میں تھے کہ داجی کی آواز نے اُنہیں حقیقت میں لا پٹکا۔۔۔


میں جانتا ہوں یہ غلط ہے اور ہماری روایتوں کے خلاف بھی ہے پر جب زندگی بچوں نے گزارنی ہے تو بہتر ہے کہ وہ اپنی مرضی سے انتخاب کریں,,,, پہلے تو اُنہوں نے داجی کی بات پر لب بھینچے تھے پر جلد ہی خود کو نورمل کرتے سلجھے ہوۓ لہجے میں گویا ہوئے,,,,

معزرت کے ساتھ انکل پر کیا یہ منگنی کی تقریب سے پہلے آپ کو حارث کی مرضی جاننے کا خیال نہیں آیا تھا کیا...؟؟؟؟

کب سے خود پر ضبط کے پہرے بٹھائے بیٹھے ثمر نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا ،

جبکہ اُسکے برعکس ساحر کے چہرے کے تاثرات کچھ پُر سوچ سے تھے, وہ بلکل اطمینان سے بیٹھا خاموشی سے اُنہیں سن رہا تھا کسی کو نہیں پتہ تھا کہ آخر اُسکے ذہن میں چل کیا رہا ہے, پر اُسکی خاموشی سب کے لئے ہی غیر متوقع تھی.....


عادل کو یہ سب ایک خواب سا لگ رہا تھا وہ یہ بات تو جانتا تھا کہ درخنے حارث سے شادی نہیں کرنا چاہتی پر حارث بھی نہیں چاہتا ہوگا اس بات کا علم اُسے نہیں تھا ، پر وقت کی مناسبت دیکھ وہ خاموشی سے بیٹھا سب کو سن رہا تھا ۔۔۔

ثمر کی بات پر بے ساختہ ہی خان زمان صاحب نے اُسکی طرف اپنی سُرخ آنکھیں اُٹھائی تھی اور مٹھیاں بھینچتے حارث کی طرف نظر موڑ گئے ، ناگہاں ہی ذہن میں حارث کے الفاظ باز گشت کرنے لگے تھے....

Flash back۔۔۔۔۔۔۔

داجی مور مجھے آپ سے بات کرنی ہے ضروری,,,, وہ دونوں کو لاؤنچ میں کھڑا دیکھ گویا ہوا ۔۔۔ لہجہ خاصہ سنجیدہ تھا۔۔


ابھی ہمیں دیر ہو رہی ہے واپس آکر بات کرنا ، یہ زارا کہاں رھ گئی ہے ؟؟؟ سمندر خان اور اُسکے گھر والے منتظر ہونگے ہمارے,,,,, وہ حارث کو بعد میں اپنی بات کہنے کا حکم سناتے پاس کھڑی اپنی زوجہ سے گویا ہوئے ۔۔۔


آرہی ہے میں نے ملازمہ کو بھیجا ہے,,,,اُنکی زوجہ نے ٹیبل پر رکھے تحائف اور دیگر چیزوں کو نفاست سے پیک کرتے مصروف سے انداز میں کہا ۔۔۔


اچھا سنیں درخنے اور حارث کی شادی کی تاریخ قریب کی ہی رکھئے گا ، نیکی کے کاموں میں دیری نہیں کرنی چاہئے,,,, وہ اُنکی جانب رخ کرتے گویا ہوئی جس پر وہ محض اثبات میں سر ہلا گئے ۔۔۔


میں یہ شادی نہیں کرنا چاہتا.... حارث نے یک دم ہی مضبوط لہجے میں بلند آواز میں کہہ کر اُنکے سروں پر جیسے بم پھاڑا ۔۔۔ اُسکے الفاظوں پر وہ دونوں ہی ساکت ہوئے تھے دونوں نے بے ساختہ ہی گردن کو جنبش دیتے غیر یقینی سے اُسکی جانب دیکھا ، جو سپاٹ چہرے کے ساتھ اُنہیں ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔


انہیں لگا شاید حارث مذاق میں یہ کہہ رہا ہے پر اُسکے چہرے کے پھتریلے تاثرات صاف اُسکی سنجیدگی کا پتہ دے رہے تھے۔۔۔


لاؤنچ میں موت سی خاموشی طاری تھی...

ایسے نہ دیکھیں سنجیدہ ہوں میں درخنے سے شادی نہیں کر سکتا.....

اُنہیں حیرت میں غوطہ زن دیکھ وہ ایک بار پھر گویا ہوا,,,,,


ہوش میں ہو تم یہ نہیں ؟؟؟؟ زمان صاحب نے ضبط کی اتہہ گہرائیوں کو چھوتے دبے دبے غصے سے سوال کیا ۔۔ مگر پھر بھی ضبط کی زیادتی سے انکی آنکھیں سرخ ہوئں,,


ہاں بلکل میں اپنے پورے ہوش و حواس میں ہوں ، میں درخنے سے نہیں بلکہ سنایہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں,,,,,

اُنکے پوچھنے پر صاف گوئی سے کام لیتے اُس نے ایک نیا بم اُنکے سروں پر پھاڑا ، حارث تو جیسے دیدہ دلیری کی ساری حدود ہی پار کر رہا تھا وہ سینہ چوڑا کیئے اس قدر پرعزم لہجے میں بولا کہ ایک لمحے کیلئے زمان صاحب کو اپنی سماعتوں پر شبہ ہوئی۔۔۔

زمان صاحب لہو ٹپکاتی آنکھوں سے اُسے دیکھ رہے تھے جبکہ اُنکی زوجہ نے حیرت سے بے ساختہ ہی اپنے منہ پر ہاتھ رکھا تھا ۔۔۔۔


حارث دو ٹوک انداز میں اُنہیں کہتا شان سے چلتا ہوا صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر بیٹھ گیا۔۔۔ شانوں سے جیسے بوجھ سا اتر گیا تھا,,,


کیا بکواس ہے یہ تم کیوں سمندر خان کے آگے مجھے ذلیل کرنے کے درپے ہو ، وہ اپنا ضبط کھوتے بلند آواز میں پھنکارے کہ اُنکی پھنکار سے دیواریں تک ہل کر رھ گئ۔۔۔۔


حارث نے ناگواریت سے سر کو دائیں بائیں گھمایا تھا ۔۔۔جبکہ دل مقابل کھڑے کسی چٹان کی مانند اپنے باپ کی پھنکار پر لمحے بھر کیلئے دہل کر رہ گیا تھا مگر اب وہ خود کو کمزور کر کے اپنے قدم پیچھے نہیں لے سکتا تھا اپنے باپ کے آگے کھڑے ہونے کیلئے اسنے خود میں بے انتہا ہمت مجتمع کی تھی اور وہ آج پہلی بار اپنے باپ کے آگے اس قدر دیدہ دلیری کا مظاہرہ کر رہا تھا ۔۔۔


پلیز داجی میں کوئی سات یہ دس سال کا حارث نہیں ہوں کہ جیسا آپ کرنے کو کہینگے میں کر لونگا ، اپنے فیصلے میں خود کر سکتا ہوں آپ ڈرا یہ دھمکا کر ہر گز بھی مجھے اس شادی کے لئے رضامند نہیں کر سکتے ، میں اپنا فیصلہ آپکو بتا چُکا ہوں کہ سنایہ کے علاوہ میں کسی سے شادی نہیں کرونگا۔۔۔۔ وہ ایک ایک الفاظ مضبوط لہجے میں درشتگی سے بولا ۔۔۔

اگر اپنا فیصلہ تم نے خود ہی کرنا تھا تو منگنی بھی نہ کرتے منگنی کے لئے ہاں کیوں کی تھی تم نے اب میں کس منہ سے جا کر سمندر خان کو کہوں کہ درخنے کو چھوڑ کر میرے کم عقل اور بیوقوف لڑکے کو سنایہ کا رشتہ دے دو یہ سب بھی تُمہیں آج یاد آیا ہے ابھی بھی کیوں یاد کیا تم نے شادی والے دن ہی کہہ دیتے۔۔۔۔۔ وہ سُرخ آنکھوں سے اُسے دیکھتے شدید غصے میں گویا ہوئے ، حارث کی باتیں اور لہجہ اُنکے ضبط کو آزما رہا تھا ،l


جبکہ اُنکی زوجہ پاس کھڑی خاموشی سے کبھی اپنے شوہر کو سن اور دیکھ رہی تھی تو کبھی حارث کو۔۔۔

ایک منٹ اگر آپ بھول رہے ہیں تو میں یاد دلا دیتا ہوں کہ یہ منگنی آپ بچپن میں ہی کر چُکے تھے یعنی مجھ پر یہ فیصلہ تھوپا گیا تھا اور حامی میں نے آپ کی عزت کی خاطر بھر لی تھی لیکن تب میں سنایہ سے نہیں ملا تھا اب میرے لئے ممکن نہیں ہے مزید اس رشتے کو اگے لے کر چلنا ۔۔۔۔ وہ اُنکی بات کی درستگی کرتا تضحیک آمیز لہجے میں بولا۔۔۔


ہے کون یہ سنایہ ہاں ؟؟؟؟ تم ایک غیر مسلم کی بیٹی کے لئے اپنے بزرگوں کے فیصلے کی نفی کر رہے ہو ، جانتے کیا ہو تم اُسکے بارے میں ساری زندگی وہ ملک سے باہر انگریزوں میں رہی ہے خدا جانے کہ مسلم ہے ،


داجی.......... ابھی اُنکی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ حارث کی دہاڑ پر وہ رکے ۔۔۔ حارث سنایہ کے خلاف سن آپے سے باہر ہوتا والہانہ انداز میں اُنہیں پکارتا اپنی جگہ سے کھڑا ہوا۔۔۔۔


سنایہ کے خلاف میں ایک لفظ بھی برداشت نہیں کرونگا ، سوچ سمجھ کر الفاظوں کا چناؤ کریں وہ آپکی ہونے والی بہو ہے اگر اُسکے ماضی کے بابت ایک لفظ بھی غلطی سے بھی کسی نے اپنے منہ سے نکالا تو اچھا نہیں ہوگا ۔۔۔۔ وہ اپنے باپ کی طرف اُنگلی اُٹھاتا تنبھی زدا لہجے میں بولا الفاظوں اور تاثرات میں پھتر سی سختی تھی۔۔۔۔


الحمدللہ وہ مسلمان ہے انگریز ملک میں ضرور رہی ہے پر تربیت اُس نے مسلم خاتون سے ہی حاصل کی ہے اور یہ بات آپ نہ بھولیں کہ ہمارے خاندان کا ہی خون ہے وہ..... وہ سرد آنکھوں سے اُنہیں دیکھتا بول رہا تھا جبکہ ضبط سے مٹھیاں بھینچی ہوئی تھی اور بھی سخت الفاظ استعمال کرنے سے خود کو باز رکھ رہا تھا ۔۔۔


زمان صاحب اور انکی زوجہ دونوں ہی اُسکے لہجے سے جیسے ساکت و جامد ہوئے تھے دل میں جیسے کسی نے خنجر سے وار کیا تھا اُنکے مقابل کھڑا حارث اُنہیں کہیں سے بھی اپنا حارث نہیں لگ رہا تھا ۔۔۔


اگر آپ سیدھی طرح داجی اور ساحر سے اس بارے میں بات کرتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ میں بھول جاؤنگا سب کچھ کہ میں کون ہوں ، آپ کون ہیں یہ سمندر خان کون ہے.....


پھر مجھے چاہے اُسے اغوا کر کے شادی کرنی پڑی تو میں کرونگا ، بعد میں آپ اور سمندر خان بیٹھ کر اپنی عزت کھونے کا رونا نہ روئیے گا میرے سامنے۔۔۔۔

ابھی حارث اور بھی کچھ بول رہا تھا پر زمان صاحب کا ہاتھ اٹھا تھا اور حارث کے گال کے قریب پہنچا ہی تھا کہ حارث نے ہوا میں ہی اُٹھا اُنکا ہاتھ تھام لیا ۔۔۔


ہاتھ اٹھانے کی غلطی ہر گز نہ کیجئے گا آپکا کوئی بھی عمل مجھے میرے فیصلے سے ہٹا نہیں سکتا ، وہ ہوا میں بلند اُنکا ہاتھ جھٹکتے بولا وہ کہیں سے بھی اپنے ہوش و حواس میں نہیں لگ رہا تھا انتہائی سُرخ آنکھیں بھنچے ہونٹ صاف اُسکے اندر جلتی آگ کا پتہ دے رہے تھی۔۔۔


زمان صاحب صوفے پر ڈھے سے گئے تھے ، وہ تو آج شادی کی تاریخ لینے جا رہے تھے پر حارث اُنہیں نئی مصیبت میں ڈال گیا تھا۔۔۔۔

اُنکی زوجہ بھی اپنے آنسو صاف کرتی اُنکی جانب لپکی تھی حوصلا دینے کے لئے ،


باپ کی حالت دیکھ حارث کے دل نے خود پر ملامت کی تھی جذبات اور غصے میں آکر شاید وہ کچھ زیادہ ہی بول گیا تھا ، ایک لمبی سانس لے کر خود کو کافی حد تک پُر سکون کرتا وہ گھٹنوں کے بل اُنکے مقابل زمین پر بیٹھا ۔۔۔


اُسے اپنے مقابل دیکھ زمان صاحب نے رُخ دوسری جانب کیا تھا پر پھر بھی وہ اُنکی ناراضگی سمجھتا اُنکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتا گویا ہوا ۔۔


مجھے معاف کردیں میرا لہجہ کچھ زیادہ ہی تلخ ہوگیا تھا ، پر پلیز داجی آپ میری بات کو بھی سمجھنے کی کوشيش کریں میں آپکی بھانجی سے شادی کرلوں پر پھر بھی وہ خوش نہ رھ پائی میرے ساتھ تو کیا فائدہ اس شادی کا ، آپ بس ایک بار داجی اور ساحر سے بات کرکے دیکھیں آج باقی میں خود اپنے دلائل سے اُنہیں رضامند کر لونگا ۔۔۔ وہ بے حد دھیمے اور آس بھرے لہجے میں بولا ، پر زمان صاحب نے کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا ۔۔


اگر بچوں کی خوشی اسی میں ہے تو آپ بھی ضد چھوڑ دیں نہ اپنی ، ایک دوسرے کے ساتھ رہنا بچوں نے ہے تو فیصلہ بھی اُنکا ہی ہونا چاہئے...... اس بار اُنکی زوجہ نے بھی حارث کے حق میں کہتے اُنہیں سمجھانا چاہا ۔۔۔ پر وہ خاموش کسی گہری سوچ میں مستغرق تھے ۔۔

ٹھیک ہے۔۔۔۔ طویل خاموشی کے بعد ہول کی سرد مہری کو زمان صاحب کی بھاری آواز نے توڑا ، حارث جو اُمید ہار گیا تھا پر اُنکے الفاظ سن جیسے اُس کے چہرے پر بہار سی آگئی تھی ۔۔۔ وہ محبت سے اُنکا ہاتھ چومتا اُٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔۔


حال..........!!!!!

داجی یہ فیصلہ میرا ہے میں اور سنایہ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں ، مجھے امید ہے آپ اس بار اس معاملے کو انا کا مسئلہ بنائے بغیر سنایہ کی خوشیاں اُس سے نہیں لینگے ، اگر آپکو میری بات پر یقین نہیں ہے تو آپ سنایہ کو بلا کر پوچھ سکتے ہیں اسکی رضا،،،، حارث نے باپ کی نظریں خود پر مرکوز دیکھ نڈر سے انداز میں کہا ۔۔


حارث کی بات پر ساحر نے مٹھیاں بھینچے اپنا غصہ ضبط کیا تھا ، جبکہ ثمر اور عادل بھی انگشت بدنداں سے حارث کو تک رہے تھے,,,,

مطلب کیا ہے تمہارا ؟؟؟؟ داجی کی بارعب آواز فضا میں گونجی ۔۔۔

سارے مطلب آپکو سنایہ کی رضامندی جاننے کے بعد سمجھ آجائیں گے ۔۔۔۔ وہ بھی اپنے مخصوص مضبوط انداز میں دوبدو بولا ۔۔۔


داجی کی ضبط کی تنابیں ٹوٹنے کے قریب تھی پھر بھی وہ اپنی لاٹھی کو مضبوطی سے تھامے بیٹھے تھے۔۔۔

داجی بیچ میں مداخلت کے لئے معزرت چاہتا ہوں آپ ہم سب سے بڑے ہیں ہم سے بہتر فیصلہ لے سکتے ہیں پر اگر سنایہ کی بھی یہی مرضی ہے تو ہمیں اس بارے میں سوچنا چاہئے ، جہاں تک رہی درخنے کی بات تو اُس کے لئے بھی رب نے کچھ بہتر سوچ رکھا ہوگا ، سنایہ کا بھی خوشیوں پر پوار حق ہے اور اس بار سنایہ کے حصے کی خوشیاں اُسے ہی ملیں گی...... ساحر اُن دونوں کی گفتگو میں مداخلت کرتے سلجھے ہوئے لہجے میں گویا ہوا ،

وہ جانتا تھا حارث اتنی بڑی بات جھوٹ نہیں بول سکتا تھا ، جبکہ ساحر کے کئے گئے درخنے کے ذکر پر عادل کے لب مسکرائے تھے ، وہ تو آج یہاں خان حویلی ساحر سے ملنے آیا تھا اُسے علم نہ تھا کہ آج تاریخ رکھی جانی ہے ساحر سے تو اُسکی بات نہیں ہوسکی تھی پر داجی ثمر اور نور بانو کے اسرار پر وہ رک گیا تھا اُسے لگا تھا کہ اُسی کے سامنے درخنے کی شادی کی تاریخ رکھکر اُسکا رب اُسکا ضبط آزما رہا ہے پر وہ شاید بھول گیا تھا وہ پاک ذات اتنی مہربان ہے کہ بن مانگے اُسکی جھولی میں اُسکی خوشیاں ڈال دیگی ۔۔۔۔


ٹھیک ہے بلاؤ سنایہ کو پوچھ لیتے ہیں,,,,, کچھ سوچتے ایک طویل خاموشی کے بعد داجی نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا ، اُنکی بات پر ناگہاں ہی حارث کے چہرے پر مسکراہٹ اپنی چھاپ دکھا کر غائب ہوئی تھی۔۔۔


میں بلا کر لاتا,,,, ثمر داجی اور ساحر کا اشارہ سمجھتا کہتا ہی اُٹھکھڑا ہوا ، اور کمرے سے نکلتا گیا۔۔۔

کچھ ہی دیر بعد سنایہ سلیقے سے سر پر دوپٹہ اوڑھے وہاں موجود تھی ، سنایہ کی دائیں جانب ساحر بیٹھا ہوا تھا جبکہ بائیں جانب ثمر,,,


کیا تم حارث سے شادی کرنا چاہتی ہو؟؟؟؟ داجی نے بغور اُسکے چہرے کے تاثرات دیکھتے سوال کیا۔۔۔

سنایہ نے بے ساختہ ہی نظر اٹھا کر پہلے داجی اور پھر حارث کو دیکھا ,,,


تُمہیں ڈرنے یہ کسی بھی چیز کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے سنایہ اپنے ہر فیصلے میں تم اپنے دونوں بھائیوں کو اپنے ساتھ کھڑا پاؤ گی,,,,, اُسے خاموش دیکھ ثمر نے اُسکے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھکھر نرمی سے کہا ۔۔۔

بلکل جو تمہارا فیصلہ ہے تم وہ بتاؤ,,,, ساحر نے بھی ثمر کی بات سے اتفاق کیا کمرے میں موجود تمام نفوس ہی دم سادھے سے خاموش بیٹھے سنایہ کے جواب کے منتظر تھے ۔۔۔


کیا تم حارث سے شادی کرنا چاہتی ہو ؟؟؟ ساحر نے ایک بار پھر داجی کا کیا سوال دہرایا ۔۔۔۔۔

سنایہ خود میں ہمت مجتمع کرتی اثبات میں سر ہلا کر نظریں جھکا گئی ۔۔۔۔ یہ انداز اسکا خود کیلئے بھی غیر متوقع تھا ورنہ اسکا ارادہ تھا وہ جیسی ہے ویسے ہی اپنے انداز میں نڈر ہوکر حامی بھرے گی مگر آج ناچاہتے ہوئے بھی وہ مشرقی لڑکیوں کی طرح گھبراہٹ کا شکار تھی,,,

ایک پل کیلئے نگاہیں عادل کے چہرے سے ٹکرائی تھی مگر دوسرے ہی پل وہ نگاہوں کا رخ پھیر گئی تھی۔۔

●︿●●︿●●︿●


درخنے مُسکراتی کمرے میں داخل ہوتے ہی کمرہ لوک کر گئی اُسکے چہرے پر مسلسل مسکراہٹ مچل رہی تھی ، کمرہ لوک کرتے ابھی وہ پلٹی ہی تھی کہ صوفے پر بیٹھے وجود کو دیکھ اُسکے اوسان خطہ ہوئے تھے وہ پھٹی آنکھوں سے ہکا بکا سی اُسے دیکھ رہی تھی جو اُسکے چہرے کے تاثرات سے محفوظ ہوتا مسکرا رہا تھا۔۔۔

درخنے کو لگ رہا تھا جیسے وہ پھتر کی ہوگئ ہی اُسکے وجود میں کوئی حرکت نہیں ہو پارہی تھی وہ تو اپنے ماں باپ کے ساتھ ہی چلا گیا تھا پھر یہاں کیسے وہ بھی اُسکے کمرے تک کیسے پہنچا ؟؟؟ اگر کسی نے دیکھ لیا تو ؟؟؟ یہ سوچ آتے ہی جیسے ذہن پوری طرح ماؤف ہوا تھا,,,,

مقابل اُسے حیرت کے سمندر میں غوطہ زن دیکھ اُٹھ کھڑا ہوا اور چلتا ہوا اُسکی جانب اپنے بھاری قدم بڑھانے لگا ۔۔۔ اُسے اپنی طرف بڑھتا دیکھ درخنے کی روح مزید پرواز کرنے لگی,,,,

آنکھیں یک دم ہی سُرخ ہونے لگی تھی ، حیرت اب غصے کی شکل اختیار کر گئی تھی,,, گزشتہ ہوئی اُس سے ملاقاتیں کسی فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے ناچنے لگیں ، جس سے اُسکے غصے کو مزید ہوا لگ گئی تھی۔۔۔ ضبط کھوتے آنسو بھی آنکھوں سے رواں ہونے لگے ۔۔۔


دور رہو ورنہ اچھا نہیں ہوگا تُمہارے لئے...... وہ سُرخ آنکھوں سے اُسے دیکھتی غصے سے گویا ہوئی غصے کی شدت سے پورا چہرا ہی سُرخ تھا جبکہ چھوٹی سی ناک کی نتھنے بھی پھولے ہوئے تھے اُسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ مقابل کو کسی بم کے گولے سے ہی آڑا دے......

پر میں نے آخر ایسا کیا ہی کیا ہے جو تُم اتنی بڑی سزا دی رہی ہو مجھ بیچارے کو ، مقابل نے معصومیت کا لبادہ اوڑھے مسکین سی شکل بناتے نہ سمجھی سے کہا

میرے سامنے زیادہ معصوم بننے یہ فضول ڈرامے کرنے کی کوشش بھی مت کرنا ، وہ ایک بار پھر اُس پر گرّائی آنسوں اب تھم چُکے تھے جبکہ غصہ ابھی بھی تاہم برقرار تھا۔۔۔

اگر اتنی ہی محبت تھی مجھ سے تو خاموش کیوں رہی بتا نہیں سکتی تھی مجھے.؟؟؟؟ وہ خوشمگیں نظروں سے اُسے دیکھتا بولا جبکہ لبوں پر صاف ہنسی مچل رہی تھی

ہاں پہلے نہیں کہا پر اب کہتی ہوں، نفرت ہے مجھے تُم سے شدید نفرت بلکہ یہ نفرت لفظ بھی مجھے بہت چھوٹا لگ رہا تُمہارے لئے....... مقابل کی بات سے اُسکا خون جل کر رھ گیا تھا ، تُمہیں بھی تو مجھ سے محبت ہے پھر کیوں خاموش رہے تُم کیوں نہیں بولے ، ڈرپوک انسان.......... وہ ایک بار پھر ہمت مجتمع کرتے گرائی

میں نے بھی پہلے کبھی نہیں کہا تُمہیں پر اب کہتا ..... اُسی کے انداز میں وہ کہتے کہتے رکا تھا اور اُسکے حسین مکھڑے کا دیدار کرتے پھر گویا ہوا کیا تُم میرا درد سر بننا پسند کروگی ؟؟؟ وہ اُسکی جانب قدم اٹھاتا آنکھوں میں ٹھاٹے مارتا محبت کا سمندر لئے گویا ہوا اس بات سے بے خبر کہ وہ اپنے اندازِ بیاں سے مقابل کو ایک بار پھر تپا گیا ہے۔۔۔۔۔

اگر تمھاری قریب کی یاداشت خراب ہوگئی ہے تو میں تمہیں بتاتی چلو کہ میں تمھارا درد سر بن چکی ہوں اور اب جب تک تُمہارے سر سے سارے بال ختم کرکے تُمہیں گنجا نہیں کر دیتی چین سے نہیں بیٹھونگی ۔۔۔۔ وہ پھولے ناک کے ساتھ مٹھیاں بھینچے بولی اُسکے الفاظوں سے مقابل کے قدم تھمے تھے جبکہ چہرے پر گہری مسکراہٹ نے احاطہ کیا۔۔۔۔

چلو آخر تُم نے مانا تو کہ تُم میرا درد سر بن چکی ہو... وہ گہری نظروں سے اُسے دیکھتا دو قدم کے فاصلے پر آ رکا ۔۔۔۔

اُسکے ارادے سمجھتی وہ یک دم ہی گڑبڑائی تھی اور اسی گھبراہٹ میں وہ مقابل کے بیلٹ سے گن نکالتے اُسی پر تان گئ

تو تُم کچھ کہہ رہے تھے ؟؟؟ وہ گن کا رخ اُسکی طرف کئے مضبوط لہجے میں بولی ڈر یہ خوف کی کوئی رمق بھی اُسکے چہرے پر رقم نہ تھی

ارے پاگل لڑکی لگ جائیگی یہ کھلونا نہیں ہے اور نہ ہی یہ پانی والی گن ہے...... مقابل نے یہ سب اتنی تیزی سے کیا تھا کہ اُسے کچھ سمجھنے یہ روکنے کا موقع بھی نہ مل پایا ، ہوش میں آتے ہی وہ فوراً بولا

جانتی ہوں مجھے مت سکھاؤ ، اسی کھلونے کو دیکھتے بڑی ہوئی ہوں.... مقابل کے چہرے پر صاف ڈر دیکھ وہ مُسکراتی فخریہ انداز میں گویا ہوئی اور اپنے انداز سے اسکے چاروں شانے چت کر گئی

ہاں میں تو بھول ہی گیا تھا کہ میری محبوبہ ہلاکو اور چنگیز خان کے خاندان سے ہے...... وہ بھی جلا بھنا سا بولا پر اُسکے الفاظ تھے کہ گویا کوئی بم جو اُسکی سماعتوں پر پھٹا تھا وہ اپنے خاندان کے لئے یہ الفاظ سن جیسے اپنا ضبط گنوا بیٹھی تھی اور بنا سوچے سمجھے ایک آنکھ بند کر کے مقابل کا نشانہ لیتے ٹریگر دبا گئ ، اُسکا اگلا قدم وہ پہلے ہی سمجھ چُکا تھا اس لئے اُسکے ٹریگر دباتے ہی وہ اپنی جگہ سے تھوڑا آگے ہوتے جھکا ، پر پھر بھی گولی ذرا سے اُسکے بازو سے گزرتی اُسے زخمی کر گئ تھی ، خون تیزی سے بازو سے نکلتا سفید شرٹ کو رنگنے لگا تھا ۔۔۔ اُسکے بازو سے خون نکلتا دیکھ وہ گن نیچے کرتی ہوش میں آئی جہاں وہ دوسرے ہاتھ سے اپنا بازو تھامے آنکھیں میچے درد برداشت کر رہا تھا ۔۔۔

تم ٹھیک ہو ....؟ یہ سب اُس کا محض ایک جذباتی عمل تھا پر جلد ہی وہ ہوش میں آتے خود پر ملامت کرتے متفکر انداز میں پوچھنے لگی ، چہرے سے صاف شرمندگی ٹپک رہی تھی۔۔۔۔

نہیں درد تو بلکل نہیں ہو رہا تُم نے گولی تھوڑی ماری ہے پھول مارا ہے میرے بازو پر ، میرا دل تو خوشی سے چھلانگیں مارنے کا کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔ وہ بازو سے اٹھتی شدید ٹیسیں برداشت کرتا بھر پور طنز بھرے انداز میں بولا ،

اُسکی اس بات پر جیسے مقابل کے تن بدن میں ایک بار پھر آگ سی لگ گئی تھی ایک تو غصہ بھی خود دلایا ، اور جب وہ اُسکی فکر میں ہلکان ہوتی پوچھ رہی تھی تو جناب کے نخرے ہی الگ تھے۔۔۔


تمھارے ذرا ہاتھ نہ کانپے قانون کے رکھوالے پر فائر کرتے ہوئے بے مروت بے حس کمظرف عورت وہ ضبط سے بھنچے ہونٹوں سے ہر لفظ چبا چبا کر بولا جبکہ اسے اتنی نہیں لگی تھی جتنا وہ کراہتے اسکی جان ہوا کر رہا تھا,,,,

اب قانون سے کیسے بچو گی تُم ؟؟؟ وہ درد حتٰی کہ اپنی حالت بھلائے اُسکی طرف بڑھا اُسکو خوفزدہ کرنے کے لئے جبکہ ہوا اُسکی سوچ کے برعکس وہ خوفزدہ ہونے کے بجائے ایک جاندار قہقہ لگا گئ

اور اُسکی طرف جھکتے بولی ، ہوگا تمھارے یہاں کا قانون بھی پر ہمارے یہاں یہ ہوتا ہے قانون۔۔۔

وہ گن کو اچھالتی ، ساتھ ہی گن کی طرف اشارہ کرتے عام سے انداز میں بولی ۔۔

وہ اُسکی حالت سے محفوظ ہوتی مسلسل مسکرا رہی تھی اُسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے آج اُس نے مقابل سے سارے حساب بے باک کر دیئے ہوں ،


مقابل اُسکی ہمت پر داد میں آبرو اچکاتا انچ بھر کا فاصلہ بھی سمیٹتا اُسے اپنے مضبوط حصار میں لے گیا ،کہ وہ پھڑپھڑا بھی نہ پائی ، اس اچانک افتاد پر اُسکے مُسکراتے لب اور وہ خود بھی ساکت ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔


ک کیا ک کر رہے ہو ؟؟؟ اُسکا لہجہ لڑکھڑاہٹ کا شکار ہوا تھا ، وہ خوفزدہ آنکھوں سے مقابل کو دیکھ رہی تھی جبکہ لب پھڑپھڑا رہے تھے ۔۔۔

تمھاری عقل ٹھکانے لگا رہا ہوں جتنے اسکرو ڈھیلے ہوئے ہیں وہ ٹائیٹ کر رہا ہوں,,,, وہ اُسکی آنکھوں میں دیکھتے سنجیدگی سے بولا ، اُسکی گرم سانسیں صاف درخنے کے چہرے پر پڑ رہی تھی ،


اُسکے تو جیسے رونگٹے کھڑے ہونے لگے تھے دل کی دھڑکنیں بھی معمول سے ھٹ کر چلنے لگی تھی،

عادل ابھی اُسکے چہرے کے قریب چہرا کرنے ہی لگا تھا کہ وہ رُخ موڑ گئی ،

پلیز عادل,,, وہ نم سی آواز میں آنسوں بہاتے اُسے باز رہنے کا کہنے لگی ۔۔۔


ایک بھر پور نظر اُسکے چہرے پر ڈالتا آخر اُس پر ترس کھاتا وہ اپنے حصار سے اُسے آزاد کر گیا۔۔


بدک کر اُس سے دور ہٹتے وہ لمبے لمبے سانس لینے لگی ، عادل ایک آخری نظر اُس پر ڈالتا ، کھڑکی کی طرف بڑھ گیا اور جیسے آیا تھا ویسے ہی اُسکے کمرے سے نکلتا چلا گیا ۔۔۔

اُسکے جاتے ہی درخنے نے بھاگتے ہی کھڑکی کو لوک کیا اور بیڈ پر گرتے ہی لمبے لمبے سانس لینے لگی ۔۔۔۔

⁦♡♡♡⁦♡♡♡⁦♡♡♡


گاڑی مختلف راستوں سے گزارتے اُس نے ایک جگہ سائڈ پر روکی تھی اور پہلے خود نکلتا وہ حرم کی طرف کا دروازہ کھول اُسے بھی باہر نکال گیا ، حرم نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا وہ پلکیں جھپکتے اپنا ہاتھ اُسکے آگے بڑھا گیا حرم تمام سوچوں کو ذہن سے جھٹکتے اُسکے بڑھائے ہاتھ پر اپنا نازک ہاتھ رکھتی گاڑی سے نکل آئی ،

ہم یہ کہاں جا رہے ہیں ساحر جی....؟ اُسکے ہم قدم ہوتی وہ اُس سنسان راستوں پر اُسکا ہاتھ مضبوطی سے تھامی چلتی کچھ گھبرائے ہوئے انداز میں بولی۔۔۔

اندھیرے کی وجہ سے تم اس راستے کو پہچان نہیں پا رہی ہو ، تھوڑا صبر کرو سب پتہ چل جائے گا کہ کہاں جا رہے ہم اور کیوں جا رہے ہیں؟؟؟؟ وہ اُسکا تھاما ہاتھ اپنے لبوں سے لگاتے آگے بڑھتے عام سے انداز بولا۔۔۔


حرم آس پاس سے آتی جانوروں کی آوازوں سے مزید خوف زدہ ہوتے محض اثبات میں ہلا گئی۔۔

کچھ ہی دیر کے بعد وہ دونوں جنگل کے بیچو و بیچ بنے ایک چھوٹے سے بنے گھر کے قریب رکے تھے,,,, حرم کی حیرت سے آنکھیں پھٹی تھی وہ غیر یقینی سے ساحر کو دیکھنے لگی ، جو ہاتھ باندھے کھڑا مُسکراتا اُسے ہی دیکھ رہا تھا,,,,


یہ تو,,,,, حرم نے اُس گھر کی طرف اشارہ کرتے کچھ کہنا چاہا ۔

۔

ہاں بلکل یہ وہی ہے,,,, جہاں پہنچنے کی تُمہیں اتنی جلدی تھی کہ میرے سارے سرپرائز کا ستیا ناس کرتے تم خود ہی پہنچ گئی تھی جب یہ مکمل طور پر تیار نہیں ہو پایا تھا ۔۔۔۔

حرم کے لب بے ساختہ ہی مسکرائے تھے آنکھوں میں خوشی کے آنسو تیرنے لگے تھے ساتھ ہی آنکھوں کے سامنے وہ دن گھومنے لگا جب وہ پہلی بار یہاں آئی تھی۔۔۔


میں ناراض تھی تب آپ سے اور مجھے کیا پتہ تھا یہ آپ نے بنوایا ہوگا اور یہاں تک تو آپ خود لائے تھے تب بھی اور آج بھی ، وہ فوراً دوبدو بولی نہ چاہتے ہوئے بھی لہجہ نم ہوا تھا۔۔۔

ہممم,,,,, ساحر اُسکے جذبات سمجھتا اُسے اپنے حصار میں لیتا ہنکارا بھرتا اُسے لئے آگے بڑھ گیا۔۔۔

اس بار بھی گولی مار کر تالا توڑیں نہ ساحر جی,,,, وہ اُسے لوک میں چابی ڈالتے دیکھ معصومیت سے بولی ، اُسکی بات پر بے ساختہ ہی ساحر نے قہقہ لگایا تھاجبکہ ذہن میں پچھلی بار کا واقعہ گردش کرنے لگا جب ساحر نے لوک توڑنے کے لئے گن نکالی تھی اور ساتھ ہی حرم کی ہوائیاں اڑی تھی ، اور آج بھی وہی حرم تھی جو فرمائش کررہی تھی کہ گولی مار کر ہی تالا توڑا جائے,,,,


چابی واپس پاکٹ میں ڈالتا اپنے بیلٹ میں لگی گن نکال گیا.... حرم کی ایک بار پھر آنکھیں پھٹی تھی اُس نے تو ایسے ہی کہہ دیا تھا اُسے لگا تھا آج ساحر کے پاس گن نہیں ہوگی پر گن دیکھ جیسے اُسکا دل سکڑ گیا تھا۔۔۔


یہ یہ آج بھی اپنے پا پاس رکھی ی ی ہوئی اآپ نے,,,,, حرم کے الفاظ لڑکھڑائے تھے۔۔


کیا مطلب آج بھی یہ ہمیشہ روز ہی پاس ہوتی ہے میرے,,,, اُسکے چہرے کےاڑے رنگ دیکھ وہ صاف گوئی سے بولا,,,


حرم نے اثبات میں سر ہلانے پر ہی عافیت جانی اور تھوک نگلتے خاموشی سے اُسے دیکھنے لگی,,,,

اُسکے خوف کو محسوس کر وہ افسوس سے نفی میں سر ہلاتے اُسے اپنی طرف کھینچتا سینے سے لگا گیا,,,,

حرم نے اُسے تالے کا نشانہ لیتے دیکھ اُسکے سینے میں سر چھپاتے آنکھیں میچی ,,,


سلائلنسر لگی گن سے نکلتی گولی تالے پر جا لگی اور تالا دو حصوں میں ٹوٹتا نیچے گر گیا۔۔۔۔

چلو اب,,,, وہ سینے سے اُسکے سر کو اٹھاتے بولا ۔۔

حرم نے آنکھیں کھولتے اثبات میں سر ہلایا اور اُسکے ہم قدم ہوتی اُس گھر میں داخل ہوئی,,,,

کمرے نُما وہ گھر پورا اندھیرے میں نہایا ہوا تھا,, ساحر نے اندر آتے ہی سوئچ بورڈ سے پہلے ساری لائٹس اُون کی اور حرم کو اندر آنے کا کہا,,,,

حرم چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتے اندر داخل ہوئی اندر کا ماحول دیکھ اُسکی آنکھیں ساکت ہوئی ۔۔۔


ساحر اُسکے اندر آتے ہی دروازہ لوک کرتا مڑا ہی تھا کہ اُسے اپنی جگہ منجمد کھڑا دیکھ نرمی سے مسکرایا اور آگے بڑھتے اُسکے کندھے پر اپنی ٹھوڑی ٹکاتا پیچھے سے اپنے حصار میں لے گیا,,,,


حرم حیران کن تاثرات سے سامنے دیکھ رہی تھی جہاں پورا کمرہ ہی خوبصورت اور تازہ پھولوں سے سجا ہوا تھا ، بیڈ کے اوپر پھولوں کی پتیاں بچھی ہوئی تھی جبکہ بیڈ کے تینوں طرف پھولوں کی لڑیاں الگ سحر پھونک رہی تھی,,,


کیسا لگا سرپرائز...؟ وہ اُسے ماحول میں گم دیکھ کان کے قریب گھمبیرتا سے بولا ۔۔


اُسکی آواز پر جیسے حرم ہوش میں آئی تھی دھڑکنوں میں شور سا اٹھنے لگا ،

وہ اُسکی طرف سے کوئی جواب نہ پاکر جھٹکے سے اُسکا رُخ اپنی طرف کر گیا ،


حرم کی جھکی آنکھیں دیکھ وہ دلکشی سے مسکرایا اُسکے گرد حصار تنگ کرتے دو انگلیوں اُسکی ٹھوڈی پہ ٹکائے چہرا اوپر کر گیا حرم کی دھڑکنیں اُسے صاف اپنے سینے میں محسوس ہو رہی تھی,,,,


اُسکی گرم سانسوں سے حرم کو اپنا چہرہ جلتا ہوا محسوس ہو رہا تھا دھڑکنیں اب کانوں میں کسی ڈھول کی صورت بجنے لگی تھی ،


وہ مخمور سا اُسکے چہرے کے آتے جاتے رنگ دیکھ پوری شدت سے اُس کے لبوں پر جھکا ، حرم کے اوسان مزید گھبراہٹ کا شکار ہوئے تھے اُسکے لمس پر اُس نے شدت سے آنکھیں میچی تھی,,,,

کچھ دیر مدہوش سا اُس پر جھکتا اُسکی سانسیں اٹکتے دیکھ کچھ پیچھے ہوا,,, حرم لمبی لمبی سانسیں لیتی اپنی سانسیں اعتدال میں لانے کی کوشش کرنے لگی,,,,


⁦♡♡♡⁦♡♡♡⁦♡♡♡


سلاخوں کے پیچھے گھپ اندھیرے میں دیوار سے کمر ٹکائے وہ مسلسل سامنے سے آتی روشنی کو دیکھ رہی تھی ، بکھرے بال آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پھٹے ہونٹ وہ کہیں سے بھی عنایہ سکندر نہیں لگ رہی تھی ، تم نے مجھے برباد کردیا ساحر کہیں کا نہیں چھوڑا تُمہاری محبت نے مجھے ، زندہ نہیں بچو گے اب تم اور تمہاری بیوی میرے ہاتھوں ہی مرو گے ، جب تک تم دونوں کو اپنی آنکھوں سے مرتا تڑپتا نہیں دیکھ لونگی تب تک میرے دل کی آگ نہیں ٹھنڈی ہوگی ،


کب تک ایک بچے سے اُسکی ماں کی حقیقت چھپاؤ گے ایک دن تو اُسے پتہ لگے گا نہ کہ اُسکی ماں حرم نہیں بلکہ میں ہوں ، میرا وعدہ ہے تم سے سکون کے چند پل بھی میسر نہیں ہونگے تُمہیں ہر کوئی حساب دیگا ، بلکہ دینا ہوگا سب کو,,,, وہ خود سے مخاطب تھی ارادوں اور لہجے میں پھتر سی پختگی تھی ۔۔۔ وہ اب بھی بدلے کی آگ میں جل رہی تھی ناجانے اب اس آگ میں اور کتنی زندگیاں جل کے راکھ ہونی تھی یا پھر اس آگ کی تپش سے عنایہ سکندر کا خاتمہ ممکن تھا,,,


°°°°°°°°°

کچھ سال بعد,,,,,


آخر تُجھے اتنی نفرت کیوں ہے اُس سے ؟ اچھا خاصہ ہینڈسم چارمنگ پرسن ہے وہ ، لڑکیاں اُسکی ایک نگاہ کے لئے مرتی مٹتی ہیں اور ایک تو ہے کہ اسے ہی مارنے کے لئے مرتی مٹتی ہے,, قسم سے اُسکی پرسنیلیٹی اُسکا گریس اُسکے چہرے کی وہ بلا کی سنجیدگی اف پورا کسی ظالم ریاست کا مغرور شہزادہ لگتا ہے وہ,,,,, کال سے اُبھرتی نسوانی آواز پر اُس نے بے ذاریت سے آنکھیں میچ کر کھولی تھی یہ پہلی دفعہ نہیں تھا کہ کوئی اُسکی تعریف میں اُسکے آگے بول رہا تھا پہلے بھی وہ کئی دفعہ سنتی رہتی تھی جسے سننے کے بعد اُسکی نفرت میں بھی اضافہ ہونے لگتا تھا۔۔۔

ہوگا تُمہارے لئے وہ ہینڈسم چارمنگ پرسن میرے دل کے کونے کونے میں اُس کے لئے نفرت ہی نفرت ہے ، اُسکی وجہ سے میری اپنی ماں مجھ سے دور ہے وہ مجھ سے نہیں بلکہ عصام ثمر خان سے محبت کرتی ہیں ، میں اُنکی کام چور بد تمیز اور بیوقوف اولاد ہوں پر وہ اُنکی نظر میں مسٹر پرفیکٹ ہے ایک اچھا تمیزدار بیٹا ، وہ اُنکا سوتیلا بیٹا ہے پر وہ اُسکی وجہ سے میرے ساتھ سوتیلوں والا سلوک کرتی ہیں ، ہمیشہ میرا کسی نہ کسی بات پر اُس سے موازنہ کرتی رہتی ہیں میں بابا کی وجہ سے خاموش ہو جاتی ہوں پلٹ کر جواب نہیں دیتی پر میرا دل دکھتا ہے ، اور یہ سب اُس مسٹر پرفیکٹ ہینڈسم چارمنگ پرسن کی وجہ سے ہے,,,,,

شہد رنگ آنکھیں کالے سلکی بال سُرخ و سفید رنگت وہ بلکل حرم کی کاپی تھی,,,,


ساحر جو ہسپتال جانے سے پہلے اُس سے ملنے اُسکے کمرے میں آیا تھا کمرے کا دروازہ کھلا دیکھ وہ ابھی بجانے ہی لگا تھا کہ اپنی بیٹی کی باتیں سن اُنہیں شدید جھٹکا لگا تھا کافی دنوں سے وہ اُسکا یہ لہجہ محسوس کر رہے تھے پر جان کر بھی اگنور کر دیتے ، ابھی بھی اُسے کال پر ارحم عادل کے ساتھ محو گفتگو دیکھ وہ ایک لمبی سانس لیتے دروازہ نوک کر گئے,,,,

دروازہ نوک ہوتے ہی اُس نے گردن کو جنبش دیتے پیچھے کی طرف دیکھا کھلے سیاہ بال کسی آبشار کی طرح کمر پر پھیلے تھے وہ کال رکھتے مقابل کو بعد میں بات کرنے کا کہتی اپنے باپ کی طرف متوجہ ہوئی ۔۔۔


بابا آپ کب آئے,,,, وہ خود کو سنبھالتے چھاپ مٹاتے بولی


بس تُمہیں دیکھنے آیا تھا,,, ساحر اُسے جواب دیتے ماتھے پر لب رکھ گیا,,,,


انمول,,, ساحر کی پُکار پر اُس نے گردن اٹھاتے باپ کو دیکھا

ماں باپ کے لئے اُنکی ساری اولادیں ایک برابر ہوتی ہیں بلکل انگلیوں کے برابر کہ درد کسی بھی اُنگلی میں ہو محسوس پورے ہاتھ میں ہوتا,,,

تم انمول تحفہ تھی ہمارے رب کی طرف سے ہمارے لئے جس نے ہماری زندگی میں آکر ہماری زندگیوں کو بھی انمول بنا دیا,,, وہ شائستگی سے کہتے ایک پل کے لئے رکا تھا اور اُسے دیکھ پھر گویا ہوا۔۔۔

اب ایسی کوئی فضول سوچ اپنے ذہن میں نہ لانا تم ہو یا عصام حرم کے لئے تم دونوں ہی برابر ہو,,,, وہ اُسے سمجھاتے گویا ہوئے۔۔۔


وہ باپ کی بات پر محض اثبات میں سر ہلا گئ ساحر بھی اُسے شاباشی دیتا مسکراتا اُسے بّائے کہتا ہسپتال کے لئے نکل گیا,,,,,


جب تک تُمہیں سب کے دلوں سے نکال نہیں لیتی چین سے نہیں بیٹھوں گی میں مسٹر عصام..... وہ پختگی سے کہتے دوبارہ موبائل کی طرف متوجہ ہوئی جو مسلسل بج رہا تھا ۔۔۔۔ احساسِ کمتری اُسے بدگمانیوں کی اتھ گہرائیوں پر لے آئی تھی۔۔۔۔۔

ختم شد

★★★★


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Web by Madiha Shah Writes.She started her writing journey from 2019.Masiha Shah is one of those few writers,who keep their readers bound with them , due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey from 2019. She has written many stories and choose varity of topics to write about

'' Nafrta Se barhi Ishq Ki Inteha '' is her first long novel . The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ❤️.There are many lessons to be found in the story.This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lasson to be learned from not leaving....,many social evils has been repressed in this novel.Different things which destroy today’s youth are shown in this novel . All type of people are tried to show in this novel.

"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second best long romantic most popular novel.Even a year after the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.

Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is a best novel ever 3rd Novel. Novel readers liked this novel from the bottom of their heart. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that, but also how sacrifices are made for the sake of relationships.How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice

 

Ahram E Junoon Romantic Novel


Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Ahram E Junoon  written TS Writes Ahram E Junoon  by TS Writes is a special novel, many social evils has been represented in this novel. She has written many stories and choose varity of topics to write about

Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel you must read it.

Not only that, Madiha Shah provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

If you all like novels posted on this web, please follow my webAnd if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

If you want to read More  Madiha Shah Complete Novels, go to this link quickly, and enjoy the All Madiha Shah Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                  

 

Complete Novels Link 

 

Copyrlight Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only share links to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted

 

 

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages