Mein Aur Tum By Zeenia Sharjeel New Romantic Complete Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Saturday 22 June 2024

Mein Aur Tum By Zeenia Sharjeel New Romantic Complete Novel

Mein Aur Tum By Zeenia Sharjeel  New Romantic Complete Novel

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Mein Aur Tum By Zeenia Sharjeel Complete Romantic Novel 


Novel Name:Mein Aur Tum   

Writer Name: Zeenia Sharjeel 

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

اس نے اپنی زندگی کو کبھی اتنا سنجیدہ نہیں لیا تھا صرف ہنسی مذاق میں اڑایا تھا مگر آج اسے زندگی نے اس دوہراۓ پر لاکھڑا کیا تھا جہاں وہ اپنے لیے سنجیدہ اور فکرمند ہوگئی تھی۔۔۔ تھوڑی دیر پہلے اس کے بابا کے دوست اس کے سامنے اپنے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ کر گئے تھے۔۔۔ جو خبر انہوں نے اسے سنائی تھی ایک پل کے لیے وہ سناٹے میں آچکی تھی مگر یہ نازک وقت سوچنے سمجھنے یا غم منانے کا نہیں تھا اُسے جلد سے جلد اپنے لیے کوئی فیصلہ لینا تھا اگر ایسا نہ کرتی تو وہ زندگی بھر پچھتاتی رہتی۔۔۔ ایک فیصلہ کرتی وہ اپنا بھاری کام والا لہنگا دونوں ہاتھوں سے اُٹھاتی کمرے سے باہر نکلی جہاں بہت سارے لوگوں کے سامنے اُسے ایک اعلان کرنا تھا

"یہ کیا مذاق کیا ہے تم نے، یہ تماشہ دکھانے کے لیے تم نے پورے جہاں کو اکھٹا کیا تھا۔۔۔ اپنے مرے ہوۓ دوست کی دوستی کا پاس نہیں رکھ سکے تم، اب تم اُس کی بیٹی کے لیے کسی طرح کے فیصلے کا حق نہیں رکھتے۔۔۔ میں اپنی بھتیجی کو اب اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا"

غرور سے بولتا ہوا وہ 47 سالہ آدمی اندر ہی اندر اِس صورت الحال کو دیکھ کر مطمئین تھا اب اسے موقع ملا تھا کہ وہ اپنی چال چلتا

"میرے لیے آپ یا پھر کوئی دوسرا فرد فیصلہ کرنے کا حق نہیں رکھتا میں بالغ ہوں اپنے لیے خود بہتر فیصلہ کرسکتی ہوں۔۔۔ مجھے آپ کے ساتھ کہیں نہیں جانا، آج میری شادی کا دن تعین تھا میری شادی آج ہی کے دن ہوگی"

وہ کمرے سے باہر نکل کر تمام لوگوں کے سامنے آتی بولی، وہاں موجود تمام افراد دلہن بنی اُس لڑکی کو یوں سب کے سامنے آتا دیکھ کر اور اتنی بڑی بات کرتا دیکھ کر دم بخود رہ گئے

"کس سے کروں گی شادی یہاں تمہیں اپنا دولہا دکھ رہا ہے کہیں"

کمال کے گہرے طنز میں پوچھے گئے سوال پر وہ بناء ڈرے ہاتھ کا اشارہ "اُس" کی جانب کرتی بولی

"وہ سامنے کھڑا ہے میرا دولہا، اِن کی دلہن بنوں گی میں آج۔۔۔ اب ان سے شادی ہوگی میری"

بناء ڈرے اتنی بڑی بات یوں اچانک بولنے پر جہاں سب ہکابکا رہ گئے تھے وہی "وہ" غُصّے میں آگ بگولہ ہوا اپنی طرف اُس لڑکی کا اشارہ دیکھ کر دلہن بنی اُس لڑکی کا دماغ ٹھکانے لگانے کے لیے آگے بڑھنے لگا مگر اس سے پہلے ذولفقار نے "اُس" کا ہاتھ سختی سے پکڑلیا

"ارے میں تو تم سے پہلے ہی بولتا تھا تمہاری بھتیجی کا چکر اُس لڑکے کے ساتھ نہیں بلکہ اُس کے چچا کے ساتھ ہے۔۔۔ میں نے خود اِن دونوں کو رات میں اکیلے نہر کے پاس دیکھا تھا" 

چودھری اسلم بھرے مجمعے میں حیرت میں ڈوبے کمال سے بولا جس کی چال ناکام ہوتی نظر آرہی تھی

"بکواس بند کرو اپنی خبردار جو اِس معصوم بچی پر اتنا گھٹیا اور سنگین الزام لگانے کی کسی نے ہمت کی تم میں سے کسی نے۔۔۔ بالکل ٹھیک فیصلہ لیا ہے بیٹا تم نے آج ہی کے دن تمہاری شادی ہوگئی اور اِسی سے ہوگی"

"وہ" گہرے صدمے میں اپنے بھائی کو دیکھتا رہ گیا

"لیکن بھائی صاحب میں کیسے اِس سے شادی۔۔۔۔

"اُس" نے کہنے کے لئے ضبط سے بھینچے ہوۓ لب کھولے ہی تھے مگر اپنے بھائی کی نظروں میں التجا دیکھ کر وہ خاموش ہوگیا اور زہر خواندہ نظریں اُس نے دلہن بنی لڑکی پر گاڑھی جو اس کی نظروں کی تاب نہ لاتے ہوۓ اپنا سر جھکا گئی تھی

*****

گاڑی میں ان دونوں کے بیٹھے ہونے کے باوجود گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی یہ دونوں نفوس ایک دوسرے سے بالکل انجان بنے اپنی منزل پر رواں تھے۔۔۔ منزل بھی وہ جو دونوں کی ایک ہوچکی تھی کیونکہ تھوڑی دیر پہلے ہی ان دونوں کے درمیان مضبوط اور گہرا رشتہ جڑ چکا تھا دلوں میں ایک دوسرے کے لئے رضامندی نہ ہونے کے باوجود وہ دونوں ہی اِس رشتے کو اپنا چکے تھے۔۔۔ تبھی گاڑی میں موبائل ٹون زوروشور سے بچنے لگی ڈرائیونگ کرتے اُس مرد نے اپنی پاکٹ سے موبائل نکال کر غُصے میں اسکرین کو دیکھا اور کال ریسیو کرلی

"ذرا صبر نہیں ہے تمہیں، بولا ہے ناں خود کال کرو گا۔۔۔ تمہاری عقل میں نہیں آرہی میری بات کہ بار بار مجھے کال کرکے ڈسٹرب مت کرو۔۔۔۔ ایک تو ویسی ہی زندگی عذاب میں مبتلا ہوچکی ہے اوپر سے تم۔۔۔۔

غصے میں موبائل پر بولتا ہوا اُسے یہ معلوم نہ تھا اُس کے برابر میں بیٹھا موجود اُس کی بات پر تڑپ گیا تھا۔۔۔ موبائل کو ڈیش بورڈ پر رکھتے اُس نے نگاہِ غلط بھی اپنے برابر میں بیٹھی اس لڑکی پر ڈالنا گوارا نہیں کی تھی جو ضبط کیے اپنے اوپر کیے جانے والے تبصرہ کو کسی کڑوی گولی کی طرح نِگل چکی تھی

کیا زندگی صرف اِس مرد کی عذاب میں مبتلا ہوچکی تھی۔۔۔ اور جو کچھ آج اس کے ساتھ ہوا تھا وہ کچھ نہیں۔۔۔۔ خود اُس نے نکاح نامے پر کس دل سے سائن کیے تھے یہ وہی جانتی تھی ہاں وہ الگ بات تھی خود کو بچانے کے لیے اس نے اِس مرد کے نام کا سہارا لیا تھا

ڈرائیونگ کرتا یہ مرد یقیناً آج اُس کی بےباک طبعیت پر اندر تک جھلس کر راکھ ہوگیا ہوگا وہ تو ہمیشہ سے ہی اُس سے خائف رہتا تھا۔۔۔ آج بھرے مجموعے میں جب اُس نے اتنے سارے لوگوں کے سامنے شادی کے لیے اُس مرد کا نام لیا تو لڑکی کے منہ سے ایسی فرمائش سن کر جہاں لوگوں میں کھلبلی مچ اٹھی تھی وہی وہ بھی اس کی حرکت پر غصے میں بھڑک اٹھا تھا

گاڑی اپنی منزل پر آکر رک چکی تھی اِس سے پہلے کہ وہ اُس کی طرف دیکھتی یا کچھ کہتی وہ ڈیش بورڈ پر اپنا موبائل اٹھائے اُس کو نظر انداز کیے گاڑی سے اتر کر گھر کے اندر جا چکا تھا احساسِ توہین سے اُس کی آنکھیں بھر آئی تھیں مگر اپنے آنسوؤں کو آنکھوں سے باہر نکالے بغیر وہ خود بھی گاڑی سے نیچے اتر آئی یہی سوچ کر کہ ابھی تو شروعات تھی اُس کی نئی شادی شدہ زندگی کی

*****

"حسن کے بچے بھاگ کہاں رہے ہو اپنی جان بچا کر رکو ذرا ابھی بتاتی ہوں تمہیں میں"

ہال میں وہ اپنے آگے بھاگتے ہوئے حسن کے پیچھے بھاگتی ہوئی چیخ کر بولی جو تھوڑی دیر پہلے اوپر برابر والی چھت پر نئے پڑوسیوں کی لڑکی سے بلاوجہ فری ہورہا تھا

"ابھی کہاں سے آگئے میرے بچے ابھی تو خود میرے کھیلنے کودنے کے دن ہیں۔۔۔ یار کتنا تیز بھاگ رہی ہوں تھوڑا ہلکا تو بھاگو"

حسن صوفے کے گرد چکر لگاتا ہوا ایک بار پھر اُس کو ڈاچ دے کر چھیڑتا ہوا بولا۔۔۔ وہ حسن کو پکڑنے میں ایک بار پھر ناکام ہوئی تھی

"آنے دو آج ذلفقار انکل زمینوں پر سے، نہ میں ان کو تمہارے اِن ٹھرکی کھیلوں کے بارے میں بتایا تو نام بدل دینا میرا۔۔۔ انہیں تمہارے سارے کرتوتوں کا بتاؤں گی کیسے تم اُس آنٹی پر لائن مار کر چھت پر کھڑے اُس سے اشارے بازی کررہے تھے"

تھک ہار کر وہ صوفے پر بیٹھی ہوئی پھولی ہوئی سانسوں کے درمیان حسن کو دھمکاتی ہوئی بولی۔۔۔ تو حسن بھی اُس سے چند قدم دور ڈھیلے ڈھالے انداز میں صوفے پر بیٹھ گیا

"خدا کا خوف کرو یار اس بلکی حسینہ کو تم نے آنٹی سے تشبہیہ دے دی، ذرا سا اُس بیچاری سے ہنس کر بات کیا کرلی تم تو ایسے ناراض ہو رہی ہو جیسے ابھی سے میری بیوی ہو۔۔۔ ویسے کیا تم مستقبل میں بھی بیوی بننے کے بعد یونہی شکی مزاج ثابت ہوگی"

حسن اس کے خفا خفا سے روپ پر پیار بھری نظر ڈالتا ہوا اس سے پوچھنے لگا۔۔۔ حسن کی بات پر لفظ "بیوی" پر اُس کے گال شرم سے سرخ پڑنے لگے، پل بھر کے لئے وہ کچھ بول نہیں پائی پھر اپنی جھینپ مٹاتی ایک دم بولی

"اگر تمہاری یہی چھچھوری حرکتیں رہی تو میں شادی کے بعد تمہارا سر پھاڑ دوں گی حسن"

اُس کی دھمکی پر حسن ذوردار قہقہہ مار کر ہنسا

"تمہارا یہی روپ دیکھنے کی خاطر تو میں چھچھوری حرکتوں پر اتر آتا ہوں ابھی سے اپنا دماغ کلئیر کرلو شینہ کو میں نے نہیں بلکہ اس نے مجھے مخاطب کیا تھا وہ چھت پر آکر مجھ سے تمہارا ہی پوچھ رہی تھی اور میں وہاں کھڑا اسے اشارے نہیں کررہا تھا بلکہ یہ بتارہا تھا کہ کچھ ماہ بعد میری اور تمہاری شادی ہونے والی ہے" 

حسن اب سیریس ہوکر اُسے ساری بات کلیئر بتانے لگا۔۔۔ شادی کے نام پر نہ چاہتے ہوئے بھی اُس کی پلکیں جھک گئی تھی

"ویسے میں سوچ رہا تھا بلاوجہ شینہ کو اپنی اور تمہاری شادی کے بارے میں بتایا۔۔ وہ صرف تھوڑی ہیلدی ہی تو ہے اور ہماری شادی بھی چند ماہ بعد ہونی ہے۔۔۔ چند ماہ تو اس سے افئیر چلاہی سکتا ہوں"

شرارت رگ کے پھڑکتے ہی حسن اپنا کام دکھاتا ہوا صوفے سے اٹھ کر دوبارہ بھاگا

"افئیر چلانا ہے اُس موٹی سے، رکو تمہاری سیٹنگ تو میں ابھی خود کرواتی ہوں اس سے"

وہ دوبارہ حسن کی بات سن کر غصے میں آتی صوفے سے اٹھ کر حسن کی پیچھے بھاگنے لگی حسن تو ہنستا ہوا باہر بھاگ چکا تھا مگر ہال سے اندر آتے وجود سے وہ بری طرح ٹکرائی

"او سوری آپ۔۔۔ آپ کب آئے شہر سے وہ دراصل حسن مجھے تنگ کررہا تھا تبھی میں اس کے پیچھے۔۔۔۔

وہ سامنے کھڑے مرد کو صفائی دیتی ہوئی بولی جو خاصی ناگوار نظروں سے اُس کے ٹکرانے پر اُس کو گھور رہا تھا اِس لیے اُس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ ہاتھ کے اشارے سے اُسے مزید کچھ بولنے سے روک چکا تھا

"اکیس سال کی میچور لڑکی ہو تم۔۔ اور جو حرکتیں تم اِس عمر میں کرتی ہو وہ تم پر بالکل بھی سوٹ نہیں کرتی۔۔۔ اپنی عمر کے لحاظ سے بردباری نہ سہی مگر سنجیدگی کا لبادہ ضرور اوڑھ لینا چاہیے تمہیں اب۔۔۔ آئندہ میں تمہیں بیوقوفوں کی طرح بھاگتے ہوئے یا شور مچاتے ہوئے نہ دیکھو یہ نیچے گرا اپنا دوپٹہ اٹھاؤ اور جاؤ یہاں سے اپنے کمرے میں"

سامنے کھڑے اُس غضیلے مرد کی گرجدار آواز پر وہ سہمی ہوئی خاموشی سے سر جھکا کر تابعداری دکھاتی ہوئی واقعی فرش پر گرا اپنا دوپٹہ اٹھاتی اپنے کمرے میں چلی گئی

*****

گاڑی سے نیچے اتر کر آئستہ قدم اٹھاتی ہوئی ماضی کی یادوں کو سوچتی وہ گھر کے اندر داخل ہوئی لاؤنج میں قدم رکھ کر وہ صحیح راستے کا تعین کرنے لگی آیا اسے اِس وقت کہاں جانا چاہیے تھا ایسا نہیں تھا کہ وہ اِس گھر میں پہلی بار آئی تھی یا پھر اسے اُس کے بیڈروم کا معلوم نہیں تھا مگر اپنے اندر وہ اتنی ہمت کہاں سے لاتی جو اس کے بیڈروم میں چلی جاتی، وہ تو ہمیشہ سے اسے اپنے کمرے میں موجود دیکھ کر خار کھاتا تھا نہ جانے آج اس کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے

وہ ہمت کرتی اس کے بیڈ روم کا رخ کرنے لگی چند دنوں پہلے جب وہ اپنی شادی کی شاپنگ کرنے شہر میں موجود اس گھر میں آئی تھی تب وہ کس قدر خوش تھی اور اب۔۔۔

ڈور ناب پر حنائی ہاتھ رکھ کر اسے گھمایا تو بیڈروم کا دروازہ کُھلتا چلا گیا، سہمے ہوئے دل کو اطمینان دے کر وہ کمرے کے اندر داخل ہوگئی مگر وہ کمرے میں اِس وقت کہیں بھی موجود نہیں تھا

"کتنی بار سمجھایا ہے تمہیں کہ میرے کمرے میں یوں منہ اٹھا کر مت آ جایا کرو۔۔۔ عقل نام کی کوئی چیز تمہارے اندر موجود ہے یا نہیں"

چند دنوں پہلے اِسی کمرے میں اُس کے اچانک آنے پر وہ کس قدر برہم ہوا تھا۔۔۔ اپنی شرٹ پہن کر اِس کے بٹن بند کرتا ہوا وہ اُس کو جھاڑتا ہوا بولا تھا۔۔۔ تب اُسے اس چڑچڑے بابا پر ہنسی آئی تھی جو ایک مرد ہوکر اچھی باڈی کا مالک ہوتے ہوۓ بھی لڑکیوں کی طرح شرماۓ شرٹ پہن رہا تھا اور جب اُس نے اس چڑچڑے بابا سے اِس بات کا اظہار کیا کہ اسے اتنا شرمانے کی ضرورت نہیں تب وہ اس پر کتنا غصہ ہوا تھا

"آئندہ اگر تم نے میرے کمرے میں قدم رکھا تو حشر بگاڑ ہوگا تمہارا"

وہ اس کی دھمکی یاد کرکے کمرے میں چاروں طرف اس کو دیکھنے لگی جو اِس وقت اپنے کمرے میں کہیں موجود نہیں تھا تبھی اس کی نظر ٹیرس پر اٹھی وہ وہی تھا اور موبائل پر کسی سے غصے میں بات کررہا تھا شاید معائشہ سے۔۔۔

ناجانے معائشہ کو آج ہوئے حادثے کا علم ہوا تھا یا ابھی تک وہ بےچاری لاعلم تھی۔۔۔ ابھی وہ معائشہ کے بارے میں سوچ ہی رہی تھی تب وہ ٹیرس سے اپنے کمرے میں آیا شاید وہ اُس کو اپنے کمرے میں دیکھ چکا تھا

"کیوں آئی ہو تم میرے کمرے میں"

کڑے تیوروں سے گھورتا وہ اپنے سامنے کھڑی سجی سنوری دلہن کے روپ میں اُس لڑکی سے پوچھنے لگا جو اس وقت کسی اپسرا سے کم نہیں لگ رہی تھی مگر وہ سامنے کھڑی اس لڑکی کے اِس روپ میں ذرہ برابر دلچسپی نہیں رکھتا تھا

"تو آپ ہی بتادیں اب اور کہاں جاؤں"

وہ سامنے کھڑے اُس مغرور انسان سے پوچھنے لگی جو کبھی بھی اس کو خاطر میں نہیں لایا تھا بھلا وہ کیسے پیچھے ہٹ جاتا اب تو وہ اُس کا مالک بن بیٹھا تھا جی بھر کے اُس کی تذلیل کرسکتا تھا وہ بھی ٹھوک بجا کر

"میری بلا سے تم جہنم میں جاؤ مگر یہاں میری نظروں کے سامنے سے دور چلی جاؤ نہیں تو میں آج تہمارا سچ میں حشر بگاڑ ڈالوں گا"

وہ غصے میں اُسے شعلہ اُگلتی آنکھوں سے گھورنے کے ساتھ  بولتا ہوا تیزی سے قدم بڑھاتا اس سے پاس آیا

"کیوں بگاڑیں گے آپ میرا حشر، میں پوچھتی ہوں میرا جرم کیا ہے برا تو آج خود میرے ساتھ ہوا ہے"

بھرائی ہوئی آواز میں آنسو کو روکے وہ سامنے کھڑے سنگدل شخص سے پوچھنے لگی جس نے سختی سے اُس کے دونوں بازو اپنے مضبوط ہاتھوں میں جکڑ لیے، اس کی آنکھوں میں غضب دیکھ کر وہ تکلیف سے کراہ بھی نہیں سکی تھی

"تم مجھ سے اپنا جرم پوچھ رہی ہو۔۔۔ جو کچھ آج تمہارے ساتھ ہوا وہی سب تم ڈیزرو کرتی تھی، کیونکہ اپنے احمقانہ فیصلوں کی ذمہ دار تم خود ہو۔۔۔ خود کو گڑھے میں گرنے سے بچانے کے لیے تم نے شادی کے لیے میرا نام لیا۔۔۔ میں تمہیں ایک کم عقل اور نہ سمجھ لڑکی سمجھتا تھا مگر تم تو کافی زیادہ گھنی طبیعت کی نکلی، بہت برا ہوا ہے میرے ساتھ بھائی صاحب کی شکل دیکھتے ہوۓ مجھے قربانی کا بکرا بن کر اپنا آپ پیش کرنا پڑا مگر میری ایک بات کان کھول کر سن لو۔۔۔ حالات نارمل ہوتے ہی میں تمہیں اِس رشتے سے ہمیشہ کے لئے آزاد کردو گا کیوکہ تمہاری جیسی بیوقوف، جذباتی اور موقع پرست لڑکی کو میں اپنی زندگی میں شامل کرکے اپنی زندگی برباد نہیں کرسکتا سنا تم نے"

وہ غصے سے بھرے لہجے میں بول کر جھٹکے سے اُس کے دونوں بازو چھوڑتا دور ہٹا۔۔۔ وہ ابھی بھی نم آنکھوں کے ساتھ اپنے سامنے کھڑے اُس مغرور انسان کو دیکھ رہی تھی

"اپنی روتی ہوئی شکل میرے سامنے سے غائب کرو اور جب تک تم میرے گھر میں موجود ہو کوشش کرو کہ مجھے اپنی شکل کم دکھاؤ اور اب تم میرے کمرے سے جاسکتی ہو"

وہ اپنے سامنے کھڑی اُس لڑکی پر ترس کھائے بغیر اُس کی بےعزتی کرتا ہوا بولا جو حالات آج پیدا ہوئے تھے آخرکار کسی پر تو اُسے اپنا غصہ نکالنا تھا۔۔۔ وہ جو توقع کررہا تھا اِس بےعزتی کے بعد وہ خاموشی سے اُس کے کمرے سے چلی جائے گی مگر یہ اُس کی بھول تھی

"سمجھتے کیا ہیں آخر آپ خود کو، کبھی خود پر غور کیا ہے آپ نے۔۔۔ آپ ایک بد دماغ چڑچڑے اور مغرور انسان ہیں آپ جیسے انسان سے کوئی نارمل لڑکی شادی کرکے خوش نہیں رہ سکتی مجھے کوئی شوق نہیں ہے آپ کے سامنے آنے کا یا آپ کو اپنی شکل دکھانے کا۔۔۔ یہ شادی اگر آپ نے مجبوری میں کی ہے تو میں نے بھی نکاح نامے پر سائن کرتے ہوئے لُڈیاں نہیں ڈالی تھی۔۔۔ آپ خود بھی اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ میں نے سب کے سامنے شادی کے لیے آپ کا نام کیو لیا کیوکہ آپ سے شادی کرنا میری مجبوری تھی نہ کہ آپ کی محبت میں گرفتار ہوئی تھی میں۔۔۔ آپ کو ایسا کیوں لگ رہا ہے حالات نارمل ہونے کے بعد میں آپ کے ساتھ سمجھوتہ کرتی ہوئی اپنی ساری زندگی آپ کے ساتھ گزار دوں گی، کسی خبطی انسان کے ساتھ عمر گزارنے سے بہتر ہے بندہ خود کشی کرلے اور اگر مجھے مستقبل میں اپنے لیے کوئی اک آپشن چوز کرنا پڑا تو میں خوشی خوشی موت کو گلے لگاؤ گی"

وہ مصلحتاً ہی اُس کی باتیں برداشت کرتی خود کو کچھ بھی کہنے سے روک رہی تھی مگر اتنا کچھ سننے کے بعد وہ خود کو روک نہیں پائی تھی اور پھٹ پڑی

"آؤٹ۔۔۔۔ آئی سیڈ گیٹ آؤٹ نکل جاؤ اِسی وقت میرے کمرے سے"

وہ لڑکی اُس کو شروع سے ہی بدتمیز لگتی تھی اب شادی کے بعد کیسے تمیز داری کا مظاہرہ کرتی۔۔۔ اِس سے پہلے وہ اُس لڑکی کی فضول قسم کی بکواس سن کر غصے میں آپے سے باہر ہوتا اسی لئے چیخ کر اُسے اپنے کمرے سے نکل جانے کا حکم دیتا ہوا بولا۔۔۔۔

وہ بھی رکی نہیں تھی بلکہ کمرے کا دروازہ زور سے بند کرتی ہوئی اُس کے کمرے سے باہر نکل گئی تھی

*****

"تمہارے چاچو تو مجھے کہیں سے بھی انسان نہیں لگتے بلکہ پورے کے پورے جن لگتے ہیں جب دیکھو سرخ آنکھیں لئے بس غصے میں گھورتے ہی رہتے ہیں۔۔۔ بات تو ایسے کرتے ہیں جیسے ابھی نوالہ بنا کر کچا چبا ڈالیں گے"

نتالیہ غُصہ میں حسن کے کمرے میں آتی ہوئی اُس سے بولی وہ اپنے موبائل پر اپنے دوست سے محو گفتگو تھا نتالیہ کا خراب موڈ دیکھ کر وہ سلسلہ منقطع کرتا ہوا اُس کی طرف متوجہ ہوا

"اب کس وجہ سے ڈانٹ سن لیں تم نے چاچو سے"

حسن نتالیہ کا پھولا ہوا منہ دیکھ کر اس سے پوچھنے لگا آج دوپہر میں ہی حیدر کی شہر سے آمد ہوئی تھی بہت ممکن تھا نتالیہ دو دن بعد اُس سے اس کے چاچو کا شکوہ کررہی ہوتی مگر وہ رات کو حیدر کی شکایت لئے اس کے کمرے میں پہنچ گئی تھی

"مجھے ڈانٹنے کے لیے انہیں کوئی وجہ ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ہے بےوجہ ہی جب دیکھو میری شکل دیکھ کر مجھ پر چڑھ دوڑتے ہیں غلطی سے ذرا سا ٹکرا کیا گئی موصوف سے۔۔۔ سنجیدگی اور بردباری کے لیکچر دینے شروع ہوگئے بھلا بتاؤ خود میں تو کوئی سن پینسٹھ کی بڈھی روح گُھسی ہوئی ہے اور چاہتے ہیں کہ دوسرا بندہ بھی ان ہی کے جیسا ہوجائے"

نتالیہ جس کا رخ حسن کی طرف تھا وہ بنا یہ بات گمان میں لائے اُس سے بولی کہ کمرے کے دروازے پر کھڑا حیدر نتالیہ کے منہ سے اپنی ذات کے بارے میں تبصرہ خاموشی اور ضبط کیے سن رہا تھا

"یہ کیسی باتیں کررہی ہو نتالیہ یار چاچو کے بارے میں وہ مجھ سے عمر میں آٹھ سال چار ماہ اور پانچ دن بڑے ہیں ان میں کہاں سے کوئی بڈھی روح دکھ گئی تم کو۔۔۔ اور میرے سامنے چاچو کو یہ سب کیسے بول سکتی ہو تم جانتی نہیں ہو اپنے چاچو مجھے کتنے عزیز ہیں بالکل بابا کی طرح محبت کرتا ہوں میں ان سے"

کوئی اور وقت ہوتا تو وہ نتالیہ کو خوش کرنے کے لئے اُس کی ہاں میں ہاں ملا دیتا مگر حیدر کو اپنے کمرے کے دروازے پر کھڑا دیکھ کر وہ نتالیہ کو آنکھیں دکھاتا ہوا کچھ اشاروں کی زبان سمجھاکر اُسے چپ رہنے کا مشورہ دیتا ہوا بولا

"ہاں ہاں بڑے عزیز ہے آج تک کسی لڑکی نے تو تمہارے سوتیلے چاچو کو اپنا عزیز رکھا نہیں۔۔۔۔ بندہ کی اچھی شکل و صورت کا کیا فائدہ جب اس کی شکل پر ہر وقت بارہ بجے ہو۔۔۔ یہ اشارہ کیا کررہے ہو منہ سے بولو مجھے تمہارے اشاروں کی زبان سمجھ میں نہیں آتی یہ زبان تم اس موٹی شینہ کو سمجھایا کرو"

نتالیہ حسن سے بولتی ہوئی جیسے ہی مڑی تو دروازے پر حیدر کو دیکھ کر اُس کی زبان تالو سے چپک گئی جبکہ حیدر اس چھٹانک بھر کی لڑکی کی چلتی ہوئی زبان پر اس کو بری طرح گھورنے لگا

"سس، سوری چاچو۔۔۔ آج میں کتنا زیادہ بول گئی ہے ناں۔۔۔مجھے خود بھی نہیں پتہ چلا، نہ حسن نے بتایا کہ دروازے پر آپ موجود ہیں اب بعد میں میں حسن کو اچھی طرح بتاؤ گی"

نتالیہ آخری جملہ بےحد آہستگی سے حسن کو آنکھیں دکھاتی دانت چباتی بولی۔۔۔ حسن اب اپنا منہ چھپاۓ بیٹھا تھا جبکہ حیدر ابھی بھی نتالیہ کو گھور رہا تھا

"آپ ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں مجھے، حسن بتاؤ ناں چاچو کو وہ کتنے پیارے لگتے ہیں مجھے۔۔۔ میں نے تو ہمیشہ حسن سے آپ کی تعریف کی ہے بناؤ ناں حسن چاچو کو میں ان کی تعریفوں میں کیا کیا بولتی ہوں"

نتالیہ ایک بار پھر حیدر کی نگاہوں کی سختی سے گھبراتی ہوئی حسن کو گھور کر اس سے بولی۔۔۔ جبکہ حیدر چلتا ہوا نتالیہ کے پاس آیا

"تم سے کس نے کہا مجھے کسی لڑکی نے عزیز نہیں سمجھا میرا اپنا ایک اسٹینڈرڈ اپنا معیار ہے میں خود آج کل کی لڑکیوں کو خاطر میں نہیں لاتا، میرے نزدیک ایسی لڑکی کی حیثیت ذرہ برابر نہیں جو مقابل سے اپنی عزت خود کروانا نہیں جانتی ہو"

حیدر کی غصے بھری نظروں اور باتیں پر نتالیہ کا سر جھک گیا وہ ایک نظر حسن پر ڈال کر اس کے کمرے سے باہر نکل گیا

"تم بھی ناں یار جو منہ میں آتا ہے بولتی چلی جاتی ہو یہی رکو پہلے چاچو کو منا کر آ جاؤ"

حسن نتالیہ کی روہاسی صورت دیکھ کر اس سے بولتا ہوا اپنے کمرے سے باہر نکل گیا

"یار چاچو رکیں میری بات تو سنیں یار"

حسن حیدر کے پیچھے جاتا ہوا اس سے بولا

ذولفقار نے جب ہوش سنبھالا تو شروع سے ہی اپنے ماں (فاطمہ) باپ (آفاق) کو دیکھا جو دونوں ہی اُس سے بےپناہ محبت کرتے تھے تھے ایک چھوٹے سے قصبے میں آفاق کی بڑی سی حویلی اور زمینیں تھی وہ دونوں اپنے اکلوتے بیٹے کے ساتھ خوشحال زندگی بسر کر رہے تھے۔۔۔ بارہ سال کی عمر میں ذولفقار پر یہ راز کھلا کے فاطمہ اس کی سگی ماں نہیں تھی، اس کی ماں اس کو دنیا میں لانے کے بعد ہی دم توڑ گئی تھی۔۔۔ سگی خالہ اس کی ماں بن کر اس کے باپ کی زندگی میں آئی تھی مگر اس نے کبھی بھی ذولفقار کو احساس نہیں ہونے دیا تھا کہ وہ اس کی سگی ماں نہیں اور دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ آفاق سے شادی کہ اتنے سالوں تک فاطمہ کہ ہاں اپنی اولاد نہیں ہوسکی تھی جب ذولفقار سترہ سال کا تھا تب فاطمہ امید سے ہوگئی اتنے سالوں بعد اس حویلی میں ان لوگوں نے کوئی خوشی کی خبر سنی تھی مگر یہ خوشی کی خبر تب غم میں بدلی جب فاطمہ بھی اپنی بہن کی طرح حیدر کو پیدا کرنے کے بعد دنیا سے چلی گئی تب حیدر کے ننھے منھے وجود کو ذولفقار نے گلے سے لگایا


ذولفقار کی زندگی میں جب روحی اس کی بیوی بن کر آئی تب اسے ذولفقار کی زندگی میں حیدر کی اہمیت اور حیثیت معلوم ہوئی کیوکہ روحی ایک سیدھی سادی نرم دل عورت تھی اس لیے اس نے حیدر کی اچھی پرورش اور دیکھ بھال میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔۔۔ حسن کی پیدائش کے بعد بھی ذولفقار اور روحی کے دل میں حیدر کی اہمیت اور حیثیت پہلے جیسی تھی خود حیدر نے بھی ہمیشہ اپنے بڑے بھائی اور بھابھی کو ماں باپ کا ہی درجہ دیا تھا، حیدر کو شروع سے ہی اپنی زمینوں سے کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا جب اس نے شہر میں تعلیم مکمل کی تب وہی جاب بھی کرلی جس پر ذوالفقار اور روحی نے اعتراض کیا مگر حیدر کی خوشی اور مرضی پر وہ دونوں خاموش ہوگئے لیکن جو روحی کا حرکتِ قلب بند ہونے کی وجہ سے انتقال ہوا تب حیدر نے شہر میں گھر لے کر مستقل رہائش اختیار کرلی۔۔۔ حسن اور حیدر میں آٹھ سال کی عمر کا فرق تھا اپنے بھتیجے سے محبت ہونے کے باوجود حیدر نے اپنے اور حسن کے رشتے کو ایک حد تک حسن کو خود سے بےتکلف ہونے کی اجازت دیتا تھا مگر حسن کی منگیتر اور اپنے بڑے بھائی کے مرحوم دوست کی بیٹی نتالیہ اسے بچپن سے ہی عجیب و غریب مخلوق لگتی تھی


جس کو حیدر نے شاید ہی کبھی سنجیدہ دیکھا تھا لاؤبالی سی طبیعت رکھنے والی ہر دم ہنسنے کھیلنے والی اِس لڑکی کو حیدر نے تب زندگی میں پہلی بار روتے دیکھا جب نتالیہ کے ماں باپ دونوں ہی ایک ساتھ انتقال کرگئے تھے اور نتالیہ کی ذمہ داری ذولفقار کو سونپ گئے تھے اس طرح نتالیہ جو پہلے کبھی کبھی اپنے ماں باپ کے ساتھ حویلی آیا کرتی اب پچھلے دو سالوں سے مستقل حویلی میں ہی مقیم تھی نتالیہ اور حسن ہم عمر ہونے کی وجہ سے شروع سے ہی اچھے دوست رہے تھے اور اتفاق سے دونوں ہی ایک جیسی لاپرواہ طبیعت کے مالک تھے۔۔۔ چند ماہ پہلے حسن نے اسے بتایا تھا کہ وہ نتالیہ سے محبت کرنے لگا ہے اور اسی سے شادی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے مگر تب حیدر نے حسن کی نیچر کی وجہ سے اس کی بات کو سیریس نہیں لیا تھا لیکن جب ذولفقار نے اسے فون کر کے حسن اور نتالیہ کی منگنی کی خبر سنائی اور شہر سے آنے کے لیے کہا تب حیدر کو یقین آیا


*****


"اچھا تو آج تم نے قسم توڑ دی یہاں آنے کی کب آمد ہوئی تمہاری شہر سے"


ذوالفقار جو ناشتے کی ٹیبل پر برجمان تھا حیدر کو ڈائننگ ہال میں آتا دیکھ کر اس سے اس کی آمد کا پوچھنے لگا


"اب شکوے شکایتوں کا دور چلانے نہیں بیٹھ جائیے گا آپ کو خود بھی اندازہ ہے میری جاب کا۔۔۔ میں مشکل سے ہی ٹائم نکال پاتا ہوں اس لیے اتنی دور آنا مشکل ہوجاتا ہے۔۔۔ آپ کے بلاوے پر کل ہی آگیا تھا مگر مجھے بلاکر آپ خود زمینوں پر نکل گئے تھے"


حیدر ذوالفقار کے دائیں جانب کرسی پر بیٹھتا ہوا اس سے بولا وہ ہمیشہ ہی ذوالفقار سے احترام سے بات کیا کرتا کیونکہ ذوالفقار نے اسے بھائی کی بجائے اپنے بیٹے کی طرح پالا تھا


"یہاں اپنی زمینوں کو چھوڑ چھار کر تم خود شہر میں جابسے ہو، نوکری کرنے کی حماقت بھی تم نے خود کی ہے میرے شکوہ کرنے پر بس وضاحت دینے بیٹھ جاتے ہو۔۔۔ اور میں نے تمہیں دو دن پہلے نہیں بلایا تھا بلکہ ناراض ہونے کی دھمکی پر تمہیں حویلی مجبوراً آنا پڑا، حویلی آنے کے لئے تو میں پچھلے دو ماہ سے تمہیں کہہ رہا تھا"


ذوالفقار بہت پیارے انداز میں اس کی کھنچائی کرتا بولا جس پر حیدر کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوکر غائب ہوگئی


"آپ کو معلوم تو ہے بھائی صاحب زمینوں سے مجھے کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی شروع سے ہی،، آپ یقین جانیے پچھلے دو ماہ سی بےحد مصروف تھا چاہ کر بھی حویلی آنے کے لئے ٹائم نہیں نکال پا رہا تھا۔۔۔ اچھا اب آگیا ہوں آپ کے پاس تو پھر مجھے بتائیں کہ وہ کون سی ضروری بات تھی جو آپ کو مجھ سے کرنی تھی"


حیدر ساری باتوں کو ایک طرف رکھتا ہوا کیٹل سے اپنے لئے چائے نکالتا اپنے بڑے بھائی سے وہ بات پوچھنے لگا جو ذولفقار فون پر بتانے سے انکار کررہا تھا


"میں نے فیصلہ کیا ہے کہ دو ماہ بعد حسن اور نتالیہ کی شادی کردو مگر دیکھا جائے تو حسن سے تم عمر اور رشتے دونون میں بڑے ہو۔۔۔ اپنے لئے کیا سوچا ہے تم نے, میں یہ جاننا چاہتا ہوں"


ذوالفقار نے ناشتہ کرنے کے ساتھ بات کا آغاز کیا تو حیدر چائے کپ ٹیبل پر رکھتا ہوا حیرت سے بولا


"آپ نے صرف اِس بات کے لئے مجھے شہر سے یہاں بلایا ہے بھائی صاحب سیریلی۔۔۔ اور حسن، اس کی عمر ہے کوئی شادی کرنے لائق وہ ابھی صرف اکیس سال کا ہے اسے کم از کم اتنا میچور تو ہونے دیں کہ وہ کوئی ڈھنگ کا فیصلہ اپنے لیے کرلے اتنی چھوٹی عمر میں آپ اُس کی شادی کردیں گے"


حیدر کو سچ میں زوالفقار کی بات سن کر حیرت ہوئی تھی وہ تو حسن کی اتنی جلدی منگنی پر بھی خاموش تھا اور اب اتنی چھوٹی عمر میں شادی۔۔۔۔


"حسن کی شادی کا معاملہ فلالحال ایک طرف رکھو ابھی اپنی بات کرو تمہاری عمر تو ہے ناں شادی کرنے لائق۔۔۔ اگلے سال تیس سال کے ہوجاؤ گے اگر روحی زندہ ہوتی تو یہ سب فکریں وہی پالتی ابھی تو سب کچھ مجھے ہی دیکھنا ہے"


ذوالفقار اپنی مرحوم بیوی کو یاد کرتا ہوا بولا جس نے حیدر اور حسن دونوں میں ہی کبھی کوئی فرق نہیں رکھا تھا


"معائشہ کا ذکر کیا تھا میں نے آپ سے۔۔۔ میرے ساتھ میرے ہی آفس میں کام کرتی ہے، ملواؤں گا بہت جلد اُسے آپ سے۔۔۔ مگر بھائی صاحب آپ کو نہیں لگتا حسن کے معاملے میں آپ کافی جلد بازی سے کام لے رہے ہیں"


حیدر کی سوئی ابھی تک حسن کی شادی پر اٹکی ہوئی تھی کیونکہ حسن اچھا خاصا لاؤبالی طبیعت رکھنے کے ساتھ لاپرواہ سا لڑکا تھا اور کم عمر بھی۔۔۔ جبکہ جس سے اُس کی شادی ہونے جارہی تھی لاپرواہی اور بچپنے میں اُس نے حسن کو بھی مات دے رکھی تھی۔۔۔ اور معائشہ کا ذکر اپنے بڑے بھائی کے سامنے حیدر نے اس لئے کر ڈالا تھا کیونکہ معائشہ حیدر کو پسند کرتی تھی جس کا اظہار اُس نے خود حیدر کے سامنے کیا تھا حیدر سے دو سال چھوٹی مگر ایک میچور لڑکی تھی۔۔۔ پیار محبت جیسی چیز کا احساس کبھی حیدر کو چھو کر بھی نہیں گزرا تھا اِس لیے حیدر نے معائشہ کے جذبے کی قدر کرتے اس کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا


"تم صحیح کہہ رہے ہو حسن اور نتالیہ کے معاملے میں جلد بازی سے کام لے رہا ہوں مگر اس کے پیچھے خاص وجہ ہے۔۔۔ تم جانتے ہو اسحاق میرا جگری یار تھا اپنی موت کے بعد اس نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ میں نتالیہ کا خیال رکھوں اور اس کو اپنی بیٹی بناکر اپنے پاس ہی رکھو۔۔۔ کیوکہ رزاق کو اپنے چھوٹے بھائی کمال پر بھروسہ نہیں تھا اسے خدشہ تھا کہ کمال جائیداد کے چکر میں اپنے پاگل بیٹے سے نتالیہ کی شادی نہ کردے۔۔۔ ابھی ہفتہ بھر پہلے ہی کمال نتالیہ سے ملنے یہاں آیا تھا وہ نتالیہ کو اپنے گھر ساتھ لے کر جانے کی بات بھی کررہا تھا مگر نتالیہ کے انکار پر فی الحال وہ خاموشی سے چلا گیا مگر مجھے نہیں لگتا کہ اگر وہ دوبارہ نتالیہ کو لینے آیا تو یونہی خاموشی سے اور شرافت سے واپس لوٹ جائے گا اس سے پہلے کوئی بڑی بات یا حادثہ ہو میں نتالیہ اور حسن کی شادی کردینا چاہتا ہوں"


زوالفقار کی بات پر حیدر خاموشی سے ناشتہ کرنے لگا اس نے کبھی بھی ذولفقار کی کسی بھی بات پر اعتراض نہیں کیا تھا


"چاچو یار کیا آپ ابھی تک ناراض ہیں کل والی بات پر"


ذولفقار ناشتہ کرکے جاچکا تھا حیدر بھی اٹھنے ہی والا تھا تبھی حسن اس کے برابر میں کرسی کھسکا کر بیٹھتا ہوا حیدر سے پوچھنے لگا


"میں کل بھی تم سے ناراض نہیں تھا حسن بس تمہاری بچوں والی حرکتوں سے چڑ ہے مجھے، کم از کم اب تمہیں سنجیدہ ہو جانا چاہیے اپنی زندگی کو لے کر"


حیدر چائے کا آخری گھونٹ لےکر خالی کپ میز پر رکھتا ہوا حسن سے بولا جس پر حسن کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگنے لگی


"اب تو سنجیدہ ہوجاؤں گا چاچو بابا نے بتایا نہیں آپ کو دو ماہ بعد میرے ہاتھ پیلے ہونے والے ہیں"


حسن دانت نکال کر شرمانے کی ایکٹنگ کرتا ہوا حیدر سے بولا جس پر حیدر افسوس سے حسن کو دیکھتا ہوا بولا


"تمہارے سپلی میں دیئے ہوئے پیپرز کلیئر ہوئے اب کی بار۔۔۔ کیا نتیجہ نکلا اس کا"


حیدر حسن کی لاپرواہ انداز کو دیکھتا ہوا اس سے پوچھنے لگا حسن پچھلے دو سالوں سے اپنے پیپرز کو کلیئر کرنے کی کوشش میں ناکام تھا


"پوری امید ہے اب کی بار کلیئر ہوجائے گیں، اس بار دس ہزار جو اوپر سے دیئے ہیں"


حسن فروٹ باسکٹ میں سے سیب نکال کر دانتوں سے کُترتا ہوا حیدر کو اپنا کارنامہ بتانے لگا جس پر حیدر کو مزید افسوس ہوا


"یوں پیسے دینے کی بجائے ایک بار دل لگا کر پڑھ لو تو کیا حرج ہے، کیوں اپنا قیمتی وقت ضائع کرنے میں لگے ہو۔۔۔ اور جو چند ماہ پہلے تمہیں باہر جانے کا دورہ پڑا تھا اُس کا کیا بنا"


حیدر حسن کی لاپرواہ طبعیت کی وجہ سے اس کے لئے فکر مند ہوتا اس سے پوچھنے لگا


"ارے یار وہ تو سمجھیں اب پاسیبل ہی نہیں ہے جس دوست نے اپنے پاس بلانے کا کہا تھا وہ ٹھنڈا ہوکر بیٹھ گیا، اِس لیے یو ایس اے جانے کا پروگرام بھی کینسل ہی سمجھیں"


حسن ڈھیلے ڈھالے انداز میں کرسی پر بیٹھا سیب کھاتا ہوا حیدر کو بتانے لگا


"حسن زندگی میں کوئی ایک کام تو مکمل اور ڈھنگ سے کرلو,,, نہ ہی تم اپنی اسٹڈیز کو لےکر سیریس ہو، نہ ہی تمہارا جاب کی طرف رجحان ہے۔۔۔ کم سے کم زمینوں کے حساب کتاب کے معاملات ہی دیکھ لیا کرو، اُس کی ذمہ داری بھی بھائی صاحب کے اوپر ہے"


حیدر افسوس کرتا ہوا اپنے بھتیجے کو سمجھانے کے غرض سے بولا


"چاچو شادی کر تو رہا ہوں یار یہ بھی تو ایک کام ہی ہے۔۔۔ اور یہی کام سمجھ لیں کہ میں مکمل اور ڈھنگ سے انجام دے پاؤں گا وہ بھی خوشی خوشی۔۔۔ ویسے یہ محترمہ معائشہ کیسی ہیں دکھنے میں جن کا آپ تھوڑی دیر پہلی بابا کے سامنے ذکر کررہے تھے۔۔۔ کیا وہ بھی نتالیہ کے جتنی خوبصورت دکھتی ہیں، ویسے یار چاچو بچپن سے میرا خواب تھا دنیا کی سب سے زیادہ خوبصورت لڑکی سے میری شادی ہو اور نتالیہ سے زیادہ خوبصورت لڑکی مجھے آج تک کوئی نہیں دکھی یوں سمجھیں نتالیہ سے شادی کرکے میرا خواب پورا ہونے جارہا ہے"


حسن کی فضول بات سننے کا حیدر کے پاس ٹائم نہیں تھا اس لئے وہ بنا کوئی اس کی بات پر تبصرہ کیے کرسی سے اٹھ گیا اُس کا ارادہ زمینوں اور باغات کے چکر لگانے کا تھا


"نتالیہ بالکل ٹھیک ہی بولتی ہے چاچو سچ میں کبھی کبھار سن پیسٹھ کی پیدا وار لگتے ہیں"


حسن حیدر کے اتنے خشک رویہ پر افسوس کرتا ہوا دوسرا سیب اٹھاکر کھانے لگا


*****


"کیوں پسند نہیں تمہیں حسن کیا برائی ہے بھلا اس میں جو تم اُس کے لیے اس طرح بات کررہی ہو"


نتالیہ حویلی سے دور باغ میں ٹہلتی ہوئی موبائل پر اپنی سہیلی مہک سے پوچھنے لگی


"تم نے کب اُس میں بچوں والی حرکتیں دیکھ لی وہ تو سب سے یونہی شغل بازی کرتا ہے تاکہ دوسروں کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کا ذریعہ بنے۔۔۔ اور اتنا پڑھ لکھ کر کیا کرنا ہے اُسے، تمہیں شاید معلوم نہیں ذولفقار انکل کے پاس کتنی ساری زمینیں اور باغات ہیں۔۔۔ اور پھر میرے بابا جو اتنی ساری پراپرٹی میرے نام کر کے گئے ہیں اس کا کیا"


نتالیہ موبائل فون پر مہک کو بتانے لگی۔۔۔ کم سے کم حسن اُس کے کمال چچا کے ابنارمل بیٹے سے تو لاکھ درجے بہتر تھا جس سے کمال چچا اُس کی شادی کروانا چاہتے تھے اور سب سے بڑھ کر حسن اُس سے محبت کرتا تھا، کال کاٹنے کے بعد نتالیہ سوچتی ہوئی باغ میں ٹہل رہی تھی تب گیلی مٹی اور کھاد اس کی دونوں چپلوں میں بھر گئی


"اُف۔۔۔ یہ کیا ہوگیا"

وہ جھک کر اپنے پاؤں کو دیکھتی ہوئی منہ بنا کر بولی تبھی وہاں ڈرائیور آکر اس سے واپس حویلی چلنے کے بارے میں پوچھنے لگا


"نظر نہیں آرہا تمہیں سارے پاؤں گندے میلے ہوچکے ہیں میرے۔۔۔ اچھا تم ایسا کرو گاڑی اسٹارٹ کرو میں آتی ہوں تھوڑی دیر میں"


کیونکہ اب شام ڈھل رہی تھی اور اندھیرا ہونے والا تھا نتالیہ ڈرائیور کو دیکھ کر بولی اس کا ارادہ سامنے نہر میں اپنے پاؤں اور سلیپرز دھونے کا تھا


"چھوٹی بی بی حسن صاحب نے فوراً گاڑی منگوائی ہے انہیں ضروری کام سے شہر نکلنا ہے"


ڈرائیور کی بات سن کر نتالیہ کچھ سوچتی ہوئی بولی


"ارے ہاں آج تو حسن کو ضروری کام سے شہر جانا تھا، تم ایسا کرو گاڑی لے جاؤ یہاں سے قریب ہی تو ہے حویلی میں چہل قدمی کرکے آجاؤ گی"


نتالیہ کے بات پر ڈرائیور پریشان ہوتا اسے دیکھنے لگا بھلا شام کے وقت وہ ایسے کیسے اسے چھوڑ کر چلا جاتا حسن سے اُس کو جوتے ہرگز نہیں کھانے تھے


"ارے تم یہاں کھڑے ابھی تک مجھے گھور کیا رہے ہو، جاؤ بھئی میں آجاؤں گی"


اب کی بار نتالیہ تھوڑا سختی سے بولتی ہوئی نہر کی طرف چل دی جبکہ ڈرائیور پریشان ہوتا گاڑی کے پاس آیا وہ جیب سے موبائل نکال کر حسن کو ساری صورتحال بتانے کا ارادہ کررہا تھا تب ہی اسے وہاں حیدر کی گاڑی نظر آئی


"تم اس وقت یہاں کیا کررہے ہو"

حیدر وہاں موجود ڈرائیور سے پوچھنے لگا


"نتالیہ بی بی کے کہنے پر انہیں یہاں شام میں لایا تھا۔۔۔۔


ڈرائیور جو حیدر کو بتا ہی رہا تھا بات مکمل ہونے سے پہلے وہ دونوں ہی نتالیہ کی زور دار چیخ پر نہر کی طرف بھاگے


*****


"تمہارا دماغ درست ہے کہ نہیں اپنی عمر دیکھو اور اپنی حرکتیں دیکھو آخر کیا ضرورت تھی تمہیں اِس وقت سوئمنگ کرنے کی"


حیدر جو نتالیہ کو نہر میں ڈوبنے سے بچانے کے بعد ڈرائیور کو وہاں سے روانہ کرچکا تھا نتالیہ کو ہوش میں لانے کے بعد اُس پر غصہ کرتا ہوا نتالیہ سے پوچھنے لگا


"سوئمنگ نہیں کررہی تھی بلکہ اپنے دونوں پاؤں دھو رہی تھی، دونوں سلیپرز ناجانے کیسے نہر میں چلی گئیں جس کی وجہ سے میں بھی۔۔۔۔


ہمیشہ کی طرح کم عقلی اور اپنی حرکتوں پر پر ملنے والے طعنوں کو نظر انداز کرتی وہ ہلکی آواز میں منمائی تھی


"یعنی تم اپنی سیلیپرز کو بچانے کے لیے خود نہر میں کود پڑی کم عقل لڑکی، تمہارا اور حسن کا واقعی کچھ نہیں ہوسکتا۔۔۔ اب یہی کھڑی رہ کر مجھ سے مزید باتیں سننی ہیں یا واپس حویلی چلنا ہے۔۔۔ ڈرائیور کو میں بھیج چکا ہوں حسن کی بار بار کال آرہی تھی اُس کے موبائل پر"


حیدر شرمندہ سی کھڑی نتالیہ کو مزید جھڑکتا ہوا اپنی نظروں کا زاویہ دوسری سمت کرتا اپنی گاڑی کی طرف چل دیا۔۔ کپڑے گیلے ہونے کی وجہ سے نتالیہ کے جسم سے چپک گئے دوپٹہ بہتا ہوا نہ جانے کہاں چلا گیا تھا۔۔۔ نتالیہ کے حلیے کو دیکھتے ہوئے حیدر نے ڈرائیور کو روانہ کیا تھا اور وہ خود ہی نتالیہ کو لےکر حویلی پہنچنا چاہتا تھا


"آآآآ۔۔۔ چاچو"

اپنے پشت سے آتی ہوئی نتالیہ کی آواز پر حیدر جیسے ہی مڑا نتالیہ فوراً اُس کے سینے سے آلگی۔۔۔ نتالیہ کی اِس حرکت پر وہ بری طرح سٹپٹاکر رہ گیا ایک پل کے لئے وہ کچھ بول نہیں تھا پھر نتالیہ کو خود سے جدا کیا


"کیا مصیبت پڑ گئی ہے تمہیں"


ماتھے پر بل سجائے غصہ ضبط کیے وہ نتالیہ کا گھبرایا ہوا چہرہ دیکھتا اس سے پوچھنے لگا


"وہ وہاں درخت کے اوپر سانپ۔۔۔۔ مجھے ایسی موت نہیں مرنا اور شادی سے پہلے تو بالکل نہیں مرنا، پلیز چاچو مجھے بچالیں"


نتالیہ نے ایک بار پھر درخت کی طرف دیکھا سانپ درخت کی شاخ سے نیچے اتر رہا تھا وہ دوبارہ خوفزدہ ہوتی حیدر کے سینے سے لگ چکی تھی


"سانپ تمہاری حرکتیں دیکھ کر تمہیں ڈسنے کا ارادہ ترک کرکے خود شرماتا ہوا یہاں سے جاچکا ہے اب دور ہوکر کھڑی ہو تم مجھ سے کم عقل لڑکی تمہارے اندر عقل اور شرم نام کی کوئی چیز موجود نہیں"


حیدر نے آخری جملے غصے میں بولا تو نتالیہ حیدر سے الگ ہوتی اُسے دیکھنے لگی جو ناگوار نظروں سے اُسے دیکھ رہا تھا مگر نتالیہ نے کہا شرمندہ ہونا تھا


"کونسی بےشرمی کی ہے میں نے، آپ کو چھوٹی عمر سے چاچو کہتی ہی نہیں بلکہ سمجھتی بھی آئی ہوں اور چاچو تو باپ جیسے ہوتے ہیں کیا ہوا اگر کوئی سہما ہوا بچہ ڈر کے مارے اپنے باپ کے قریب آگیا تو، اس میں ایسی کون سی بےشرمی ہوگئی۔۔۔ ارے باپ کو تو اپنی اولاد سے شفقت دکھانا چاہئے مگر آپ تو باپ رے باپ"


نتالیہ اپنی جھجھک کو ایک طرف رکھتی ہوئی آخری جملہ کانوں کو ہاتھ لگاتی ہوئی بولی یعٰنی موقع پڑنے پر شرمندہ ہونے کی بجاے وہ حیدر کو اپنا باپ بناکر اُس کی بیٹی بن چکی تھی


"اب ایسے غصے سے کیا گھور رہے ہیں حویلی نہیں چلنا"


نتالیہ حیدر کی سنجیدہ نظروں سے گھبراتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی


"جب تم پیدا ہوئی تھی تب سے دیکھ رہا ہوں تمہیں اکیس سالوں میں صرف تمہاری جسمانی نشوونما ہوئی ہے ذہنی طور پر تم ابھی بھی وہی کی وہی ہوں"


حیدر اُس کی کم عقلی پر افسوس کرتا ہوا گاڑی کی طرف چل پڑا مگر وہی دور سے آتی دوسری کار کی ہیڈ لائٹ ان دونوں پر پڑی تو نتالیہ بنا دوپٹے کی وجہ سے فوراً حیدر کی پشت پر چھپ گئی


"جاؤ گاڑی میں بیٹھو جاکر فوراً"


حیدر نتالیہ کی طرف گاڑی کی کی چین بڑھاتا ہوا بولا جسے نتالیہ پکڑتی وہاں سے تیز قدم اٹھاتی حیدر کی گاڑی کی طرف چل پڑی


"ارے حیدر کیسے ہو بھئی کافی دنوں بعد نظر آئے۔۔۔ لگتا ہے تم تو شہر کے ہی ہوکر رہ گئے ہو۔۔۔ یہ تمہارے ساتھ میں کون تھی کمال کی بھتیجی ناں۔۔۔ مگر اِس کی منگنی تو ذوالفقار کے بیٹے سے ہوئی ہے پھر یہ اِس وقت تمہارے ساتھ یہاں۔۔۔ کہیں تم چچا بھتیجے دونوں ہی تو جائیداد کے چکر میں اس بچی کے پیچھے نہیں لگے ہوئے ہو"


چودھری اسلم اپنی گاڑی سے نیچے اترتا حیدر کے پاس آتا ہوا اس سے بولا تو حیدر نے اُس کی بات پر چوہدری اسلم کا گریبان پکڑلیا


"اپنی ذہن کی گندگی کو اپنے ذہن تک محدود رکھو اب اگر تم نے کوئی بھی الٹی سیدھی بات کی تو میں تمہارا وہ حشر کروں گا جس کے ذمہ دار تم خود ہوں گے"


حیدر غصے میں چوہدری اسلم کو دھمکی دیتا ہوا بولا چودھری اسلم نے حیدر کے ہاتھ اپنے گریبان سے ہٹایا اور دوبارہ اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا حیدر اچھی طرح جانتا تھا اب یہ بات کل تک کمال کے کانوں تک پہنچ جائے گی کیونکہ چودھری اسلم کمال کا کافی اچھا دوست تھا مگر حیدر کو اس بات کی پرواہ نہیں تھی وہ لاپرواہ انداز میں سر جھٹکتا ہوا خود بھی اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا


*****

صبح بیدار ہوتے ہی وہ غائب دماغی سے چھت پر لٹکے پنکھے کو دیکھنے لگا جو تیز رفتاری سے چل رہا تھا آہستہ آہستہ کل رات ہوئے سارے واقعات کو سوچتا وہ بیڈ سے اٹھ کر ہاتھ بڑھا کر اپنی شرٹ اٹھا کر پہنتا مسلسل نتالیہ کے بارے میں سوچ رہا تھا کل رات شدید غُصے کے باعث وہ نتالیہ کو اپنے کمرے سے جانے کے لیے کہہ چکا تھا


حسن کی کم عقلی اور بچگانہ حرکت کی وجہ سے جو کچھ ہوچکا تھا اس میں نتالیہ کا قصور ہرگز نہیں تھا مگر اس کے باوجود وہ نتالیہ پر غصہ نکال چکا تھا کیوکہ حالات کو دیکھتے ہوۓ اور ذوالفقار کی بات کو مانتے ہوئے اُسے نتالیہ سے نکاح کرنا پڑا اگر وہ نتالیہ سے نکاح کے لیے حامی نہیں بھرتا تو نتالیہ کا چچا کمال موقع کا فائدہ اٹھاکر نتالیہ کو اپنے ساتھ لے جاتا اور ایسا ذولفقار نہیں چاہتا تھا


مگر شاک اُسے وہاں تمام باراتیوں کے ساتھ تب لگا جب نتالیہ نے شادی کی محفل میں اپنے چچا کے سامنے حیدر سے شادی کرنے کے لئے خود اپنے منہ سے کہا، نتالیہ کی اس حرکت پر حیدر کا دل چاہا تھا کہ وہ سر عام اُس کا گلا دبا ڈالے مگر ذولفقار کا منہ دیکھتے ہوئے اسے نتالیہ سے شادی کے لیے حامی بھرنا پڑی


وہ اپنی شرٹ کے بٹن بند کرتا ہوا کچن کی طرف آیا تاکہ اپنے لیے ناشتہ بناسکے وہی اسے لاؤنج میں موجود ایل ای ڈی کی آواز نے اپنی طرف متوجہ کیا ہے ذرا سا لاؤنج میں جھانک کر دیکھا تو نتالیہ مارننگ شو دیکھتی ہوئی بےفکر انداز میں صوفے کے اوپر پاؤں رکھے آلتی پالتی مار کر بیٹھی ہوئی ناشتے میں مگن تھی اُس کے انداز سے ذرا محسوس نہیں ہورہا تھا کہ اُسے حسن سے اپنی شادی نہ ہونے کا کوئی غم ہے بلکہ کل رات اپنی زندگی میں ہنگامہ خیز شادی پر بھی اسے کوئی خاص شاکڈ نہیں لگا تھا وہ حیدر کو بالکل نارمل لگ رہی تھی


حیدر اس الہڑ دوشیزہ کی لاپرواہی اور بےفکر طبیعت پر تعجب کرتا ہوا کہ کچن میں جانے لگا نتالیہ شاید ان لوگوں میں سے تھی جو زندگی میں ٹینشن نہیں لیتے تھے بلکہ اپنی ٹینشن بھی دوسروں کے سر دے دیا کرتے تھے حیدر اس کے بارے میں رائے قائم کرتا ہے کچن میں آیا ہی تھا مگر دوسرے ہی پل کچن کی ابتر حالت دیکھ کر وہ خود ٹینشن میں آچکا تھا


"نتالیہ۔۔۔۔ نتالیہ فوراً یہاں پر آؤ"

حیدر کچن کی حالت پر غصے میں گلا پھاڑ کر چیختا ہوا اسے بلانے لگا


"کیا مسئلہ ہوگیا ہے اب آپ کو خود ہی تو کل رات کہا تھا کہ شکل مت دکھانا مجھے اس گھر میں رہتے ہوئے اور صبح ہوتے ہی میرے نام کی بانسری بجانا شروع کردی آپ نے۔۔۔ آخر اتنے کنفیوز کیوں ہیں آپ چاچو"


نتالیہ کچن کے دروازے پر کھڑی کمر پر دونوں ہاتھ رکھے حیدر سے پوچھنے لگی


"واٹ، چاچو۔۔۔ کل تم نے آٹھ سو سے زائد افراد کے سامنے خود اپنے منہ مجھ سے شادی کرنے کا اعلان کیا تھا۔۔۔ چاچو کہاں سے آگیا میں تمہارا"


وہ کچن کی حالت بھولے لفظ چاچو پر بری طرح تلملاتا ہوا نتالیہ کو غصے بھرے لہجے میں بولا


"ہاں تو کیا تھا اعلان میں کب انکار کررہی ہوں مگر آپ شاید بھول رہے ہیں کہ کل رات کیا آپ نے مجھے اپنی بیوی کے طور پر ایکسپٹ کیا تھا،، نہیں ناں... تو اس لحاظ سے آپ ابھی تک چاچو ہی ہیں"


نتالیہ حیدر کو جتاتی ہوئی بولی تو اس کے ماتھے کے بل غائب ہوئے مگر وہ اپنے اور اس کے رشتے کو ایک سائیڈ پر رکھتا کچن کی حالت پر دوبارہ متوجہ ہوا


"یہ کیا خانہ خراب کیا ہے تم نے کہ کچن کا"

وہ شکن زدہ پیشانی کے ساتھ نتالیہ کو گھورتا ہوا اس سے پوچھنے لگا


"ناشتہ بنایا تھا اپنے لیے کل پارلر جانے سے پہلے کا کھانا کھایا ہوا تھا، اب آپ کے بھتیجے کی بےوفائی کا غم خالی پیٹ تو منانے سے رہی"


نتالیہ کندھے اچکا کر بولتی ہوئی واپس کچن سے جانے لگی تبھی حیدر کی گرجدار آواز پر ایک دم اُس کے قدم رکے


"میں حرام کا پیسہ نہیں کماتا جو تم نے اتنا سارا رزق ضائع کیا ہے"


جلے ہوئے چھ ٹوس، ٹوٹے ہوئے انڈے اور چولہے پر بہتے ہوۓ دودھ کو دیکھتا ہوا حیدر اُسے بولا تو اس کے بولنے پر نتالیہ مڑ کر حیدر کو دیکھنے لگی


"او میں بھول گئی تھی کہ یہ نکاح ہم دونوں کے بیچ مجبوری میں ہوا ہے اس لحاظ سے میں آپ کی ذمہ داری نہیں ہو نہ ہی آپ کی چیزوں پر کوئی حق رکھتی ہوں میرے لیے یہی بہت ہے کہ آپ نے پروٹیکشن کے طور پر مجھے اپنے گھر میں ایک کمرے دیا ہے۔۔۔ آگے سے میں آپ کی چیزیں استعمال نہ کرو اس بات کا خاص خیال رکھوں گی"


نتالیہ حیدر کو دیکھ کر جتانے والے انداز میں بولی اُس کی بات سن کر حیدر کی پیشانی کے بلوں میں مزید اضافہ ہوا


"زیادہ فضول بکواس کرنے کی ضرورت نہیں ہے میرے سامنے سمجھیں۔۔۔ میں حیدر ہوں، حسن نہیں جسے جب دل چاہا جو منہ میں آیا تم بول دو گی۔۔۔ آئندہ خیال رکھنا"


وہ انگلی اٹھا کر غصے میں نتالیہ کو تنبہی کرتا ہوا بولا تو نتالیہ اُس کی بات سن کر بنا کچھ بولے خاموشی سے واپس جانے لگی


"ٹہرو واپس آؤ کچن میں اور کچن کی صفائی کرکے جاؤ تاکہ میں اپنے لئے ناشتہ تیار کر سکوں"


سنگ میں پڑے جھوٹے برتنوں کو دیکھ کر حیدر نتالیہ کو ٹوکتا ہوا بولا وہ منہ بناتی ہوئی کچن میں آکر برتن دھونے لگی جبکہ حیدر آفس کی طرف سے لیو ہونے کے باوجود آفس جانے کی تیاری کرنے لگا کیونکہ وہ گھر میں رہ کر نتالیہ کی شکل دیکھتا تو نتالیہ کی حرکتوں سے اس کا مزید خون کھولتا


*****


"یعنی تمہارے کہنے کا مطلب ہے تمہارا بھتیجا اچانک اپنی شادی والے دن اپنے گھر سے غائب ہوگیا تو اس کی وجہ سے اپنے بھتیجے کی منگیتر سے تمہاری شادی کروا دی گئی۔۔ سماج، برادری، عزت و وقار، وقت اور حالات ان سب کی خاطر مجبوراً تمہیں یہ قدم اٹھانا پڑا ویری گڈ حیدر۔۔۔ ویسے مجھے حیرت ہورہی تمہارے خاندان پر۔۔۔ لڑکیوں کے بارے میں تو ایسا سنا تھا کہ ان کی زبردستی شادی کروائی جاۓ تو وہ اپنی شادی والے دن گھر سے بھاگ جاتی ہیں لیکن شاید تمہارے خاندان میں کوئی الٹا ہی رواج ہے لڑکے کے بھاگنے کا"


حیدر کی زبانی پورا قصّہ تفصیل سے سننے کے بعد معائشہ طنزیہ لہجے میں اس سے بولی۔۔۔ آفس کے بعد حیدر معائشہ کو اپنے ساتھ قریبی ریسٹورنٹ لے آیا تھا تاکہ ساری سچائی اُس کو بتاسکے


"حسن کی نتالیہ سے اُس کی مرضی اور پسند کے مطابق شادی ہورہی تھی معائشہ، میں تمہیں بتاچکا ہوں وہ صرف اس لیے وہاں سے فرار ہوا کیونکہ اس کے ڈاکومنٹس بن کر آچکے تھے اور اچانک اُس نے یو ایس اے جانے کا فیصلہ کرلیا تھا"


حیدر معائشہ کو ایک بار پھر ایکسپلین کررہا جو اسے زہر لگ رہا تھا مگر وہ برداشت کررہا تھا


"ہاں تو حسن شادی کرنے کے بعد بھی یو ایس اے جاسکتا تھا کم ازکم تمہارے بھتیجے کو اِس طرح چوری چپکے خط چھوڑ کر جانے سے پہلے سب کو انفرام تو کرنا چاہیے تھا مجھے نہیں لگتا معاملہ یہی ہے اگر ایسا ہے تو تمہارے بھتیجے نے بہت زیادہ امیچورٹی کا ثبوت دیا ہے اِس طرح کی حرکت کرکے اس نے یہ ثابت کیا ہے کہ اُس کی نظر میں شادی یا پھر اُس کی منگیتر کی کوئی ویلیو نہیں تھی"


معائشہ ایک بار پھر حیدر کو دیکھتی ہوئی بولی تو حیدر اب کی بار جھنجھنلا اٹھا


"یار مجھے نہیں معلوم کیا معاملہ ہے کیوں اچانک حسن اپنی شادی کے دن خط چھوڑ کر وہاں سے چلا گیا اُس بات کا مجھے یا پھر بھائی صاحب کو بالکل بھی علم نہیں۔۔۔ مہمان سارے آچکے تھے باتیں بننا شروع ہوگئیں تھیں اگر یہ اسٹیپ نہیں لیا جاتا تو بہت سے دوسرے معاملات مزید خراب ہوجاتے جو بھائی صاحب برداشت نہیں کرسکتے تھے ڈیٹس اٹ"


حیدر کا لہجے میں بےذاریت شامل تھی وہ بات کو ختم کرتا ہوا بولا تو معائشہ خاموش رہی اُس کی خاموشی کو محسوس کر کے حیدر ایک بار پھر بولا


"دیکھو معائشہ اگر تم مجھے لائک کرتی ہو تو میں نے تمہاری فیلیگز کو دیکھتے ہوۓ تم سے شادی کی کمٹمنٹ کی ہے میں یہ ساری باتیں چھپا کر تمہیں اندھیرے بھی رکھ سکتا تھا مگر سب کچھ تمہیں بتانے کا مقصد یہی ہے کہ نتالیہ کے ساتھ میرا کاغذی رشتہ ہے حسن سے جیسے ہی کانٹیکٹ ہوتا ہے حالات کچھ بہتر ہوتے ہیں تو میں نتالیہ سے یہ رشتہ ختم کردو گا نتالیہ خود بھی یہ بات جانتی ہے"


حیدر اب کی بار پھر معائشہ کو دیکھ کر نرم لہجے میں بولا۔۔۔ وہ اس کے لئے اپنے دل میں فیلنگز رکھتی تھی اِس وقت اُس کی شادی کا سن کر معائشہ کے دل پر کیا گزر رہی ہوگی حیدر سمجھ سکتا تھا


"ویسے دکھنے میں کیسی ہے تمہاری وائف آئی مین وہ لڑکی نتالیہ"


معائشہ کے سوال پر حیدر پہلے چونکا پھر بےزاری سے جواب دیتا ہوا بولا


"بچی ہے بالکل عقل سے بھی حرکتوں سے بھی عادتوں سے بھی۔۔۔ بتایا تو تھا میں نے پہلے بھی تمہیں اُس کے بارے میں"


حیدر کے سر جھٹک کر بولنے پر معائشہ اس کے انداز کو غور سے دیکھنے لگی


"آٹھ سے نو سال کا فرق ہوگا تم دونوں کے درمیان، خیر اتنی بھی بچی نہیں ہے۔۔۔ پہلے بھی تم نے ذکر کیا تھا نتالیہ کا مجھ سے مگر جب وہ حسن کی منگیتر تھی لیکن اب اُس سے تمہارا رشتہ جڑ چکا ہے۔۔۔ ویسے حیدر تم نے پہلے بھی اُس کا ذکر مجھ سے بہت بےزار سے انداز میں کیا تھا اُس سے اتنی بےذاریت برتنے کی کوئی خاص وجہ تو ہوگی"


معائشہ کچھ سوچتی ہوئی حیدر سے پوچھنے لگی تو حیدر اس کی بات پر کچھ الجھا


"میں نے پہلے کبھی تم سے نتالیہ کا اسپیشلی ذکر نہیں کیا میں نے ہمیشہ تم سے اپنی فیملی کا ذکر کیا ہے معائشہ۔۔۔ اور پچھلے دو سال سے اپنے پیرنٹس کی ڈیتھ کے بعد سے نتالیہ میری فیملی کا حصہ ہے وہ ہمارے ساتھ ہی رہتی ہے۔۔۔ مجھے اس وقت بالکل اندازہ نہیں ہو رہا تمہاری ان ساری باتوں کا مطلب تم ان سب باتوں کو کس نظر سے دیکھ رہی ہوں یا پھر کیا سوچ رہی ہو"

حیدر کے بولنے پر معائشہ ایک بار پھر بول اٹھی


"میں نتالیہ سے ملنا چاہتی ہوں حیدر"


معائشہ کی بات پر

حیدر ایک پل کے لیے خاموش ہوا پہلے تو اُس نے سوچا وہ معائشہ کو فل الحال انکار کردے پھر اچانک بولا


"اوکے چلو چلتے ہیں"


*****


"او گاڈ نتالیہ تم واقعی سچ بول رہی ہوں ویسے تو میں تم سے کسی بھی کام کی توقع رکھ سکتی ہوں مگر تمہاری یہ بات سن کر مجھے واقعی دھچکا لگا کہ تم نے اپنی بارات والے دن خود اپنے منہ سے پوری بارات کے سامنے حسن کے چاچو سے شادی کا اعلان کردیا"


موبائل پر بات کرتی مہک نتالیہ کے منہ سے اس کا کارنامہ سن کر واقعی حیرت ذدہ تھی


"ہاں تو پھر اور کیا کرتی حسن وہاں سے عین وقت پر دفعان ہوچکا تھا اگر اُس کے چاچے سے شادی کا نہ بولتی تو میرا چاچا مجھے اپنے ساتھ زبردستی لے جاتا اور اپنے ابنارمل بیٹے کے پلے سے مجھے باندھ دیتا ویسے تو حسن کے چاچو بھی تھوڑے سینکی قسم کے ہی لگتے ہیں لیکن پورے پاگل انسان کے ساتھ رہنے سے بہتر نہیں کہ بندہ نیم پاگل انسان کو جھیل لے۔۔۔سیریسلی یار اگر کل تمہارے پیٹ میں مروڑ نہ اٹھتا اور تم میری بارات میں آجاتی تو فل فلمی سین دیکھنے کو مل جاتا تمہیں"


نتالیہ تھوڑی دیر پہلے مارکیٹ سے گھر آئی تھی اور سارا سامان ٹیبل پر پھیلا ہوا تھا وہ خود صوفے پر لاپرواہ انداز میں بیٹھی ہوئی موبائل پر مہک باتیں کرنے میں مگن تھی


"مگر جو کچھ حسن نے تمہارے ساتھ کیا اُس کا تمہیں دکھ تو ہوا ہوگا نتالیہ"


موبائل سے آتی مہک کی آواز پر نتالیہ کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوگئی


"کیوں نہیں ہوا تھا دکھ، میں بھی مٹی سے بنی ہوئی انسان ہو بھئی لیکن اگر کل رات میں اپنے دکھوں کا ماتم کرنے بیٹھ جاتی اور قسمت کے دھارے پر خود کو چھوڑ کر کوئی فیصلہ نہ لیتی تو کمال چچا کے ساتھ جاکر ساری زندگی کے لئے روتی رہتی اپنے چچا سے بچنے کی خاطر حسن کے چچا کو پھنسا دیا میں نے بےچارے چاچو کل سے ہی غصے میں دندناتے پھر رہے ہیں مگر میں نے بھی سوچ لیا میں ان پر بوجھ نہیں بنوں گی۔۔۔ اچھا سنو میں تھوڑی دیر بعد کال کرتی ہوں کوئی آیا ہے باہر شاید"


ڈور بیل کی آواز پر نتالیہ کال کاٹ کر اپنا موبائل رکھتی ہوئی ڈرائنگ روم سے باہر نکلی اور مین ڈور تک پہنچی مگر وہاں حیدر کے ساتھ ایک لڑکی موجود تھی جسے نتالیہ دیکھنے لگی جیسے وہ لڑکی نتالیہ کو دیکھ رہی تھی


"نتالیہ یہ معائشہ ہے"

نتالیہ کے دیکھنے پر حیدر اُسے بتانے لگا تاکہ وہ دروازے سے ہٹ کر اُن دونوں کو اندر آنے کا راستہ دے سکے


"اووووو چچی جان آئی ہیں"


نتالیہ حیدر کی بات سن کر ایک دم آکسائیڈ ہوتی ہوئی بولی مگر حیدر نے اسے بڑی بڑی آنکھیں دکھا کر ایسے گھورا وہ پل بھر میں ہی سیدھی ہوگئی


"آپ کھڑی کیوں ہیں معائشہ پلیز اندر آجائیے یہ آپ ہی کا تو گھر ہے مستقبل کا،، میں تو یہاں تھوڑے دن کی مہمان ہوں"


اب کی بار نتالیہ مسکرا کر شائستگی سے بولتی ہوئی راستے سے ہٹی تو حیدر آنکھیں گھما کر اندر آگیا معائشہ کو بھی اندر آنا پڑا


"حیدر نے مجھے کل رات والی ساری صورتحال بتائی تھی مجھے کافی افسوس ہوا سن کر"


معائشہ سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھ کر بولی جو بلاشبہ ایک خوبصورت اور مکمل حسن رکھنے والی لڑکی تھی،، اتنی خوبصورت لڑکی کو حسن کا شادی کے ٹائم یوں چھوڑ کر چلے جانا اور حیدر سے اِس کی شادی ہوجانا معائشہ کو اس کی خوبصورتی دیکھ کر اپنے لیے بھی اندر ہی اندر ڈر لگنے لگا


"کس لئے افسوس ہوا اگر میرے لئے افسوس ہوا تو پلیز بالکل افسوس نہ کریں اچھا ہی ہوا ناں حسن نے شادی سے پہلے ہی اپنی اوقات دکھادی بعد میں یہ حرکت کرتا تب شاید واقعی افسوس کا مقام ہوتا"


نتالیہ کی بات سن کر معائشہ خاموشی سے اُس مسکراتی ہوئی لڑکی کو دیکھنے لگی جبکہ حیدر ڈرائنگ روم میں جاچکا تھا


"آئیے ڈرائینگ روم میں چلتے ہیں یہ لیفٹ سائیڈ پر ہے ڈرائنگ روم، مجھے لگ رہا ہے آج پہلی بار آپ اس گھر میں آئی ہیں۔۔۔ کیا چاچو نے ڈیٹ وغیرہ پر اپنا گھر یوز نہیں کیا"


نہ جانے کیوں اُس کی زبان پر کھجلی ہوئی تھی جس پر ناصرف معائشہ حیرت سے منہ کھول کر نتالیہ کو دیکھنے لگی بلکہ ڈرائنگ روم میں موجود حیدر بھی نتالیہ کی بات سن کر وہی آگیا


"کیا بولا ابھی تم نے اس سے، دیکھو نتالیہ اپنی حد میں رہو جیسے تم حسن سے کلوز ہوکر ملتی رہی ہو ضروری نہیں ہے کہ ہر کسی کا ریلیشن تمہارے اور حسن جیسا ہو"


حیدر ہال میں آکر غصے میں نتالیہ کا دماغ درست کرتا بولا


"او ہیلو مسٹر ذرا کنٹرول میں رکھیں اپنی زبان کو، کتنا کلو ہوتے دیکھ لیا آپ نے مجھے اپنے بھتیجے کے ساتھ، آپ کے بھتیجے کو میں اس کی اوقات میں رکھتی تھی لگامیں دے کر۔۔۔۔ اور وہی لگامیں آپ کو اپنی زبان پر دینا ہوگیں یہ مت سمجھئیے گا آپ مجھے حسن کے طعنے دے کر دبالیں گے اور میں برداشت کرتی سب سن لو گی جتنے دن میں یہاں پر موجود ہو آپ کا دیا ہوا نہیں کھاؤں گی تو پلیز زبان کو ذرا سنبھال کر آئندہ مجھ سے مخاطب ہونے کی کوشش کیجیئے گا"


نتالیہ کے بولنے کی دیر تھی حیدر شدید غصے میں اس کی طرف بڑھا وہی بیچ میں معائشہ آگئی


"حیدر کیا ہوگیا ہے تمہیں کنٹرول یور سیلف پلیز"


معائشہ حیدر کو اتنے شدید غصے میں دیکھ کر اُس کا بازو پکڑتی ہوئی بولی اگر وہ ایسا نہ کرتی تو شاید وہ غصے میں اِس لڑکی کو ایک زور کا ہاتھ ضرور لگا دیتا


جتنے غصے میں حیدر نتالیہ کو گھور رہا تھا اتنے ہی نڈر اور بےخوف طریقے سے نتالیہ حیدر کو دیکھ رہی تھی معائشہ تو جیسے یہاں آکر پچھتائی تھی


"میرے خیال میں اب مجھے چلنا چاہیے کل آفس میں ملاقات ہوتی ہے"


معائشہ کو وہاں مزید کھڑے رہنا عجیب لگا اس لیے وہ آہستہ آواز میں حیدر سے بولتی ہوئی اس کے گھر سے چلی گئی جبکہ حیدر غصے میں اپنے کمرے میں چلا گیا


*****


رات میں جب وہ کھانا کھانے کے لئے اپنے کمرے سے باہر نکلا تو نتالیہ کچن میں موجود اپنے لئے کھانا بنارہی تھی حیدر کو دیکھ کر اس نے برا سا منہ بنایا جسے دیکھ کر حیدر نے بھی سر جھٹکا اور گھر سے باہر نکل گیا وہ زیادہ تر کھانا گھر سے باہر کھالیا کرتا تھا صرف چھٹی کے دن ہی گھر میں کوکنگ کرتا تھا۔۔ وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ رہا تھا تبھی اس کے موبائل پر معائشہ کا میسج آیا


"نتالیہ تو اچھی خاصی خوبصورت لڑکی ہے حیدر"

اسے معائشہ کے اِس میسج کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا


"تو؟؟"

وہ معائشہ کو ٹائپ کرتا ہوا گاڑی میں بیٹھ گیا


"کیا تم نے اُس کو کبھی بھی غور سے نہیں دیکھا"

دوبارہ سے معائشہ کا آیا میسج دیکھ کر حیدر اچھا خاصہ چڑ گیا


"ابھی تک تو غور سے نہیں دیکھا تھا لیکن واپس گھر جاکر غور کروں گا کہ وہ کتنی خوبصورت ہے۔۔۔ ابھی میں باہر جارہا ہوں ڈنر کرنے کے لئے"

معائشہ کو جواب دیتا ہوا اپنے موبائل کو ڈیش بورڈ پر رکھ کر وہ گاڑی اسٹارٹ کرچکا تھا

*****

گھر واپس آتے اسے آج کافی دیر ہوچکی تھی اس وقت حیدر کو نیند نہیں آرہی تھی جبھی وہ کچن میں اپنے لئے چائے بنانے کے غرض سے گیا کیبنٹ میں موجود سامان اور ساتھ ہی فریج بھی خاصی مقدار میں کھانے پینے کی اشیاء سے بھرا ہوا تھا جو اس نے ہرگز نہیں خریدی کچن سے نکل کر لانج میں آتا وہ نتالیہ کے کمرے کے دروازے کو دیکھنے لگا دروازے کے نیچے جھری سے آتی روشنی اسے پتہ دے رہی تھی کہ نتالیہ اِس وقت جاگ رہی تھی تبھی حیدر نے نتالیہ کے کمرے کی طرف اپنے قدم بڑھائے


"اگر آپ اِس وقت مجھ سے سوری کہنے کے لیے آئے ہیں تو سن لیں میں آپ کو آپ کی غلط بات پر اتنی جلدی ہرگز معاف کرنے والی نہیں ہوں"


حیدر کی اپنے کمرے میں آمد دیکھ کر نتالیہ روٹھے ہوئے انداز میں اُس کو جتاتی ہوئی بولی کیونکہ حسن سے کلوز ہونے والی بات حیدر نے غلط بولی تھی۔۔۔ جبکہ نتالیہ کی بات پر حیدر نے استزائیہ ہستے ہوئے اپنا سر نفی میں ہلایا


"تمہیں لگتا ہے میں اور تم سے یہاں سوری کہنے کے لئے آیا ہوں جس دن میں نے تم سے سوری بولا تو سمجھ لینا تم نے حیدر کے دل میں ایک الگ مقام بنالیا ہے جوکہ ایک انہونی سی بات ہے۔۔۔ میں تم سے یہ پوچھنے آیا ہوں جو چیزیں کچن میں موجود ہیں وہ تم کس لئے اور کیوں لائی ہو"

حیدر سنجیدہ ہوکر نتالیہ کے سامنے کھڑا اس سے سوال کرنے لگا


"آف کورس چاچو وہ ساری کھانے پینے کی اشیاء میں خود کے پیسوں سے خرید کے لائی ہوں تو اِس کا مطلب ہے وہ ساری چیزیں میں اپنے لئے ہی لائی ہوگیں"

نتالیہ حیدر کو بولتی ہوئی ڈریسنگ ٹیبل سے اپنا پرس اٹھا کر لے آئی جن میں سے چند ہزار ہزار کے نوٹ نکال کر اس نے باتوں کا سلسلہ جاری رکھا


"کیونکہ آپ کو ایسا لگتا ہے کہ میں آپ کی کمائی سے خریدی ہوئی چیزیں ضائع کررہی ہو تو اب میں اپنے پیسوں سے اپنی چیزوں کو جو چاہے کرو کم از کم آپ کو تکلیف نہیں ہوگی اور یہ پیسے اِس کمرے کے رینٹ کے لئے دے رہی ہوں رکھ لیں پلیز"


نتالیہ نے بولتے ہوئے حیدر کی طرف ہزار کے نوٹ بڑھائے جسے حیدر نے غُصّے میں چھینتے ہوئے زور سے دیوار پر پھینکے اور سارے نوٹ فرش پر بکھر گئے


"صبح والی بات کو اپنی ایگو کا مسئلہ بنانے سے بہتر ہے کہ اِس گھر میں اصول، قاعدے اور طریقے سے رہو انسان بن کر۔۔۔ ویسے یہ اتنے پیسے آئے کہاں سے تمہارے پاس"


حیدر نے آخری بات غصے میں نہیں تھوڑے مشکوک انداز میں نتالیہ سے پوچھی تھی کیونکہ وہ جانتا تھا ذوالفقار نتالیہ کو ہر ماہ مناسب جیب خرچ دیا کرتا تھا اور رخصتی کے وقت ذولفقار نے خاص طور پر حیدر کو یہ سمجھایا تھا کہ نتالیہ اب اس کی ذمہ داری ہے آگے سے نتالیہ کی ضرورتوں کا خیال اُسی کو رکھنا ہے۔۔۔ اور ساتھ میں یہ بھی بولا تھا کہ نتالیہ کے پراپرٹی کے تمام کاغذات اُس نے نتالیہ کے حوالے کردیے ہیں


"پیسے جہاں سے بھی آئے ہو، آپ حق نہیں رکھتے مجھ سے جواب طلبی کا"


نتالیہ بولتی ہوئی مڑی تبھی حیدر نے سختی سے اس کی کلائی پکڑی جس پر نتالیہ واپس حیدر کی طرف پلٹنے پر مجبور ہوگئی


"نکاح نامہ پر سائن کرکے تم اپنے تمام حقوق مجھے سونپ چکی ہو، اِس وقت میں تمہارے اوپر تم سے بھی زیادہ حق رکھتا ہوں اِس لئے مجھے شرافت سے بالکل صحیح جواب دو، پیسے کہاں سے آئے تمہارے پاس میری بات کا جواب دیے بغیر اگر تم اپنی جگہ سے ایک انچ بھی ہلی تو پھر دیکھنا میں تمہارے ساتھ ابھی کیا کرتا ہوں"


حیدر اُس کی کلائی سختی سے گرفت میں لیتا کھڑے تیوروں کے ساتھ نتالیہ کو دیکھ کر پوچھنے لگا پہلی بار اُس کی کسی بات کو نتالیہ نے اتنا سیریس لیا تھا۔۔۔ وہ واقعی سچ بتادے کہیں بعد میں حیدر کو سچ معلوم ہوجاتا تو۔۔۔


"یہ پیسے میں نے اپنی شادی کی ساری جیولری سیل کرکے حاصل کیے ہیں کیونکہ مجھے پیسوں کی ضرورت تھی اور اس کے علاوہ میرے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا"


نتالیہ اپنی گھبراہٹ چھپاتی بظاہر دلیری دکھاتی ہوئی بولی مگر اندر سے وہ یہ بات حیدر کو بتاتے ہوئے ڈر رہی تھی


"واٹ۔۔۔ تم نے اپنی شادی کا سارا زیور سیل کردیا"


حیدر نتالیہ کی بات سن کر اچھا خاصہ شاکڈ ہوا تھا۔۔۔ نتالیہ کی کلائی پر اُس کی گرفت بھی ڈھیلی ہوگئی


"کتنے میں بیچا تم نے اپنا سارا قیمتی زیور۔۔۔ بولو نتالیہ مجھے بالکل سچ سچ بتانا"


حیدر اُس کی کلائی چھوڑ کر غصے کو کنٹرول کرتا سنجیدگی سے نتالیہ سے سوال کرنے لگا


"پانچ لاکھ سارے جیولیری کے پورے پانچ لاکھ روپے دیے انکل نے مجھے"


نتالیہ کی بات سن کر حیدر کا دل چاہے وہ اپنا یا پھر نتالیہ کا سر سامنے دیوار پر دے مارے


"تم ایک کم عقل اور بیوقوف لڑکی ہو اِس بات کا مجھے علم تھا لیکن تم بیوقوفوں کی ملکہ ہو مجھے یہ ہرگز معلوم نہیں تھا۔۔۔ بیس سے پچس لاکھ کی مالیت کا زیور تم نے پانچ لاکھ میں سیل کر آئی ہوں"


ضبط کرنے کے باوجود حیدر سے غصہ کنٹرول نہیں ہوا وہ تیز آواز میں نتالیہ سے بولا کیوکہ وہ سارا زیور فاطمہ نے روئی کو دیا تھا جو بہت قیمتی اور خاندانی تھا


"کیا سچ میں وہ بیس سے پچس لاکھ کا زیور تھا، لیکن وہ انکل تو شکل سے کافی ایماندار لگ رہے تھے چہرہ بھی نورانی تھا اور چہرے پر داڑھی بھی موجود تھی۔۔۔ اتنا اولڈ فیشن زیور تھا میں سمجھی انہوں نے مجھے اس کی کافی اچھی قیمت دی ہوگی"


نتالیہ اب افسوس کرتی ہوئی بولی کیوکہ اُس کا خود کا دل نہیں مان رہا تھا سارا زیور اتنا کم قیمت ہوگا کیوکہ وہ جیولری وزن میں کہیں زیادہ تھی


"شکل سے تم بھی بیوقوف نہیں لگتی مگر ایسی حماقت کوئی عقل رکھنے والی لڑکی ہرگز نہیں کرسکتی مگر تم تو نتالیہ ہو، تم سے کچھ بھی توقع کی جاسکتی ہے خیر تمہاری بیوقوفی کا سارا قصّہ میں صبح ہوتے ہی بھائی صاحب کو ضرور بتاؤں گا اِس وقت مجھے تمہاری پراپرٹی کے تمام پیپرز چاہیے۔۔۔ جو رخصت ہوتے وقت تمہیں بھائی صاحب نے دیئے تھے۔۔۔ اب بھائی صاحب خود حفاظت سے وہ پیپرز اپنے پاس سنبھال کر رکھیں گے فوراً مجھے پیپرز لاکر دو"


حیدر کے لہجے سے چھلکتے ہوۓ روعب کے آگے نتالیہ کچھ نہیں بولی خاموشی سے الماری کے پاس جاکر پیپرز نکالنے لگی


******


"جی بھائی صاحب انشاء اللہ نتالیہ کو لےکر جلد چکر لگاؤ گا آپ کے پاس۔۔۔ اور آپ اس کی فکر مت کریں کوئی غم نہیں لیا اُس نے حسن کا، وہ بالکل ٹھیک ہے۔۔ بلکہ رکے میں آپ کی اُس سے بات کروا دیتا ہوں"


حیدر موبائل پر ذوالفقار سے بولتا ہوا نتالیہ کے کمرے میں جانے لگا


"یار چاچو اچھا ہوا آپ خود ہی یہاں آگئے پہلے تو ذرا یہ بیڈ سے دوپٹہ اٹھا کر میرے کاندھے پر ڈال دیں بلکہ رہنے دیں دوپٹہ آپ نے کون سا مجھے گندی نظروں سے دیکھنا ہے۔۔۔ پلیز ایسا کریں میرے بال باندھ دیں ذرا"


کیوکہ نتالیہ کے دونوں ہاتھوں کے ناخنوں پر نیل پینٹ لگا ہوا تھا اس لیے حیدر کو کمرے میں آتا دیکھ کر وہ نان اسٹاپ بولی، شکر تھا کہ ذوالفقار کی کال خود ڈراپ ہوگئی اور حیدر نتالیہ کی باتوں کی وجہ سے اپنے بھائی کے سامنے شرمندگی سے بچ گیا


"تمہیں بولتے ہوے ذرا بھی احساس نہیں ہوتا تم کس سے کیا بول رہی ہو"


حیدر اپنا موبائل پاکٹ میں رکھتا، ڈریسنگ ٹیبل سے بینڈ اٹھاکر نتالیہ کی کمر پر موجود اُس کے سلکی بالوں کو قید میں کرتا اسے اس کی بات کا احساس دلاتا ہوا بولا


"اب ایسا کیا بول دیا ہے یار تعریف ہی کی ہے آپ کی شرافت کی کہ آپ چھچھورے مردوں جیسے نظرباز نہیں ہیں۔۔۔ کبھی تو ڈانٹیں بغیر یا باتیں سناۓ بغیر مجھے پیار سے ٹریٹ کرلیا کریں"


نتالیہ کے بال باندھنے کے بعد حیدر اُس کے سامنے آتا نتالیہ کو دیکھنے لگا جو اپنے ناخنوں پر پھونک مار رہی تھی


"تم کوئی چھوٹا بچہ ہو جو تمہیں پیار سے ٹریٹ کرو، بھائی صاحب تم سے بات کرنا چاہ رہے تھے جب فری ہو تو اُن کو کال کرلینا۔۔۔ اور ہاں میں باہر جارہا ہوں رات تک ہی میرا گھر واپس آنا ہوگا دروازہ بند کرلینا"

حیدر نتالیہ کو ہداہت دیتا ہوا اُس کے کمرے سے جانے لگا آج اس کا اپنے دوستوں سے ملنے کا ارادہ تھا


"کیا آج کا دن آپ باہر جانے کی بجاۓ گھر میں میرے ساتھ نہیں گزار سکتے"


نتالیہ کی فرمائش پر حیدر کے باہر جاتے قدم رکے وہ مڑ کر چند قدم کے فاصلے پر کھڑی نتالیہ کو دیکھنے لگا جو اُس کے جواب کی منتظر اُسی کو دیکھ رہی تھی


"میں اپنا آج کا دن تمہارے نام کرکے پورا دن برباد نہیں کرسکتا میں اپنے دوستوں کو آنے کا بول چکا ہوں وہ انتظار کررہے ہوگے میرا"


حیدر واضح لفظوں میں اُس کے سامنے انکار کرتا کمرے سے جانے لگا کچھ محسوس کرکے اُس کے پلٹ کر دیکھا نتالیہ اُس کا جواب سن کر کسی بچی کی طرح اداس کھڑی تھی


"بات کو سمجھا کرو نتالیہ۔۔۔ میں اور تم ایک ساتھ سارا دن گھر میں اکیلے کیا کرے گیں۔۔۔ تمہاری چلتی زبان اور الٹی سیدھی حرکتیں دیکھ کر میرا خون کھولتا رہے گا جبکہ تمہیں بھی میری موجودگی میں یہی ڈر رہے گا کہ میں جب تمہیں ڈانٹ دوں اور اب ڈانٹ دو۔۔۔ اس سے بہتر نہیں کے میں گھر سے باہر ہی چلا جاؤ"


حیدر اس کو اداس دیکھ کر سمجھاتا ہوا بولا تو نتالیہ اس کے پاس آتی بولی


"آج ایسا نہیں ہوگا ناں میں پرامس کرتی ہوں، آج سارا دن میں ایسی کوئی حرکت نہیں کرو گی جس پر آپ کو غصہ آۓ۔۔۔ آج سارا دن میں آپ کی بات مانو گی، آپ کے کام کرو گی، ہم دونوں مل کر کوکنگ کریں گے تھوڑا بہت انجواۓ کریں گیں اور میں آپ کو اچھے سے انٹرٹینٹ بھی کرو گی پلیز مان جاۓ ناں چاچو میری بات حسن کی بات بھی تو مان جاتے تھے"


نتالیہ اب بالکل بچی بنی ہوئی اُس کے سامنے ضد کررہی تھی تو حیدر خاموشی سے اسے دیکھنے لگا


"میں اور تم ہم دونوں ہی الگ الگ نیچر رکھتے ہیں نتالیہ، ایک دوسرے سے بالکل مختلف انسان ہیں ہم دونوں"

حیدر نتالیہ کو سمجھانے لگا


"اور دو مختلف انسان ایک ساتھ بہت اچھے طریقے سے رہ سکتے ہیں آج دیکھ لیے گا آپ"


نتالیہ بیڈ سے دوپٹہ اٹھاتی گلے میں ڈالتی حیدر سے بولی تو حیدر اس کے آگے ہتھیار ڈالتا نتالیہ سے پوچھنے لگا


"ابھی تم نے مجھے کہا تھا تم مجھے انٹرٹینٹ کرو گی۔۔۔ کیسے انٹرٹینٹ کرو گی"


حیدر نتالیہ کو اس کی بات یاد دلاتا نتالیہ سے پوچھنے لگا تو نتالیہ کے چہرے پر شرارتی سی مسکراہٹ دوڑ گئی وہ حیدر کے پاس آکر اس کے دونوں گالوں میں چٹکیاں بھرتی ہوئی بولی


"تو انٹرٹینٹ ہونا ہے چاچو نے۔۔۔۔ اچھی طرح انٹرٹینٹ کرتی ہوں آپ کو، پہلے یہاں صوفے پر تو بیٹھئے"


نتالیہ نے حیدر کے گالوں کو چھوڑ کر اس کے دونوں بازو سے پکڑ کر پیچھے صوفے پر دھکیلا تو حیدر نے پہلے اس کو آنکھیں دکھائی پھر نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی


جبکہ نتالیہ اپنے موبائل پر سونگ پلے کرتی میوزک پر اپنی کمر خوبصورتی سے لہرانے لگی


"میری نیندیں ہیں فرار، تیرے سنگ میرے یار، تُو نے کی جو میرے ساتھ شرارت وے۔۔۔۔


حیدر صوفے پر بیٹھا پہلے تو اس کو گھور کر گانے کی دھن پر ڈانس کرتا خاموشی سے دیکھنے لگا


"او کاجل کی سیاہی لے کے آنکھوں کے چراغ سے، کیسے میں بتاؤں تجھ کو سو سو رتیاں جاگ کے"


گانے کے بول پر ڈانس کرتی ساتھ ہی قدم اٹھاکر حیدر کے پاس آتی ہوئی وہ حیدر کو پہلی بار بہت زیادہ کیوٹ سی لگی لیکن بناء مسکرائے وہ پوری توجہ سے نتالیہ کا ڈانس دیکھنے لگا


"اکھیوں نے لکھے لو لیٹر وے۔۔ میری اکھیوں نے لکھے لو لیٹر وے۔۔۔ سجنا تو چاند سے بیٹر وے سجنا وے"


جس صوفے پر حیدر بیٹھا تھا وہ ڈانس کرتی صوفے کے پیچھے سے ہوتی ہوئی حیدر کے سامنے آئی تو حیدر اُس کو اسمائل دیے بغیر نہیں رہ سکا


"ہائے کریو نہ مجھ سے، تُو جھوٹ موٹے وعدے۔۔۔ رہ جائیں گے ہم تو، تیرے بن آدھے آدھے"


نتالیہ گانوں کے بول گنگناتی ساتھ ہی حیدر کا ہاتھ پکڑ کر اسے صوفے سے اٹھاکر کمرے کے بیچ و بیچ لے آئی۔۔۔ نتالیہ حیدر کا ہاتھ چھوڑتی وہ ڈانس کرتی جیسے گانے کے بولوں پر فیس ایکسپریشن دینے لگی حیدر کمرے کے بیچ و بیچ گھڑا اس کے ڈانس سے محظوظ ہونے لگا


"تیرے لیے ہی بنی ہوں، میں تیری ڈیسٹنی ہوں لے میں نے کلیئر کردئیے ہیں اپنے ارادے"


نتالیہ حیدر کے دونوں شانوں پر ہاتھ رکھ کر اپنا چہرہ اس کے چہرے کے قریب لائی تو گانے کے بولوں پر حیدر کے ہونٹوں کی مسکراہٹ تھم گئی


"اووو رکھ لیا اپنے لیے رب سے تجھے مانگ کے۔۔۔ کیسے میں بتاؤں تجھ کو سو سو رتیاں جاگ کے"


جتنا مگن ہوکر نتالیہ ڈانس کررہی تھی اتنا سیریس ہوکر حیدر اس کا ڈانس دیکھ رہا تھا۔۔۔ گانا اور نتالیہ کا ڈانس کب ختم ہوا اُس کو معلوم نہیں ہوا وہ کہیں اور ہی کھو گیا تھا


"یار چاچو میری پرفارمنس اتنی بری بھی نہیں کم از کم تالیاں تو بجادیتے"


وہ پھولی ہوئی سانسوں کے درمیان جیدر سے بولی تو حیدر جیسے ہوش میں آیا


"تم پوری کارٹون ہو"


وہ اپنا سر جھٹک کر مسکراتا ہوا نتالیہ کے لاپراوہ انداز پر اُس کو بولا


"تعریف کا شکریہ،، چلیں اب ہم دونوں مل کر رات کے لیے کوکنگ کریں گیں"


نتالیہ حیدر کے اگے سر جھکا کر اُس سے خراج وصول کرتی ہوئی اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے کچن کی طرف لے جانے لگی


*****


سارا دن نتالیہ کے ساتھ گزار کر اسے سچ میں وقت گزرنے کا اندازہ نہیں ہوا۔ِ۔۔۔ اِس وقت وہ دونوں ڈائینگ ہال میں ایل ای ڈی کے آگے بیٹھے حیدر کی مرضی پر کوئی پرانی فلم دیکھ رہے تھے جو اتنی بور اور رونے والی تھی کہ نتالیہ جمائیاں لے لے کر تھک ہار کر وہی حیدر کے شانے پر سر ٹکاکر سو چکی تھی


"نتالیہ اگر سونا ہے تو بیڈروم میں جاؤ اپنے"


حیدر نتالیہ کا گال اپنے ٹکے ہوۓ شانے پر دیکھتا ہوا اسے بولا تو وہ آنکھیں مسلتی ہوئی حیدر کے شانے سے سر اٹھاچکی تھی مگر نیند سے اُس کی آنکھیں بند ہورہی تھی۔۔۔


حیدر نے صوفے سے اٹھ کر ایل ای ڈی سوئچ آف کیا تو نتالیہ گرنے والے انداز میں صوفے پر لیٹ گئی


"مجھے اچھا لگتا ہے کبھی کبھی یوں صوفے پر سونا پلیز اب دوبارہ ڈسٹرب مت کیجئے گا"


حیدر کے ٹوکنے سے پہلے نتالیہ اس سے بولی مگر بولتے ہوۓ اس کی آنکھیں بند تھی چند منٹ بعد وہ مکمل نیند کی وادیوں میں اتر گئی حیدر صوفے کے پاس کھڑا اس کو دیکھنے لگا اس کی نظریں بھٹک کر نتالیہ کے چہرے سے گردن سے مزید نیچے گئیں۔۔۔ بےترتیب انداز میں لیٹی ہوئی وہ اِس وقت اپنے آپ سے بالکل بےپرواہ تھی


"بلکہ چھوڑیں دوپٹہ آپ نے کون سا مجھے گندی نظروں سے دیکھنا ہے"


نتالیہ کا جملہ یاد کرکے حیدر کے ہونٹوں پر خودبخود مسکراہٹ نمودار ہوئی


"بےوقوف لڑکی"

حیدر اس کو بولتا ہوا کمرے سے چادر لاکر نتالیہ پر ڈالتا ہوا خود اپنے کمرے میں سونے چلاگیا


******


"حسن تم کہنا کیا چاہتے ہو مطلب تمہاری نتالیہ سے زیادہ خوبصورت لڑکی سے انٹرنیٹ پر دوستی ہوئی اور تم اِس لڑکی کے بلانے پر یو ایس اے چلے گئے اور اب تم شادی بھی کرچکے ہو۔۔۔ تم جانتے ہو تمہارے اِس عمل سے تمہارے پیچھے ہم سب کو کیا کچھ فیس کرنا پڑا۔۔۔ جب بھائی صاحب کو تمہاری حرکت کا علم ہوگا تو وہ کتنا ناراض ہوگیں اُن کا کتنا دل دکھے گا احساس ہے تمہیں اس بات کا"


حیدر موبائل کان سے لگائے حسن کی زبانی اُس کا کارنامہ سننے کے بعد اُس کو اچھا خاصا جھڑکتا ہوا بولا


"چاچو اِسی وجہ سے تو سب سے پہلے آپ سے رابطہ کیا ہے پلیز آپ میری خاطر بابا سے بات کریں انہیں میری طرف سے سمجھاۓ اگر میں نتالیہ سے شادی کرتا تو اسے خوش نہیں رکھ سکتا تھا اس کے ساتھ بھی برا ہوتا۔۔۔ اور جینی بہت اچھی لڑکی ہے اس نے میری وجہ سے اسلام بھی قبول کیا ہے۔۔۔ حقیقتاً محبت تو مجھے شادی کے بعد جینی سے ہوچکی ہے"


حیدر کو موبائل سے حسن کی آواز سنائی دی جسے سن کر اسے حسن پر شدید غصہ آنے لگا


"اور نتالیہ،، اُس کے بارے میں ایک بار بھی نہیں سوچا تم نے جینی سے شادی کرتے وقت تمہیں نتالیہ کا ذرا بھی خیال نہیں آیا نتالیہ کے ساتھ اتنا وقت گزارنے کے بعد تم اُس کے ساتھ اتنا برا سلوک آخر کیسے کرسکتے ہو، مخصوص اپنی شادی والے دن اُس کو چھوڑ کر تم دوسری جگہ جاکر دوسری شادی پر رچا بیٹھے ہو بہت افسوس ہورہا ہے مجھے تمہاری اس حرکت پر حسن"


حیدر نے موبائل پر جیسے ہی اپنی بات مکمل کی ویسے ہی اس کی نگاہیں دروازے پر کھڑی نتالیہ پر پڑی جو نم آنکھوں کے ساتھ اُس کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ حسن اب حیدر سے کیا بول رہا تھا حیدر کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا اُس کا دماغ اور دل پوری طرح نتالیہ کی طرف متوجہ ہوچکا تھا اُس کی آنکھیں نم دیکھ کر


"نتالیہ رکو میری بات سنو۔۔۔ بےوقوف لڑکی کہاں جارہی ہو تم"


حیدر حسن کی کال ڈسکنکٹ کرتا ہوا نتالیہ کو پکارتا اس کے پیچھے جانے لگا جو گھر سے باہر نکل چکی تھی


*****


"تمہارے اندر سے یہ بچپنا آخر کب ختم ہوگا ٹائم دیکھا ہے تم نے رات کا ایک بجا ہے اور تم ایک لڑکی ہوکر رات میں اِس وقت گھر سے دور پارک میں ہوا کھانے آکر بیٹھی ہو"


حیدر کے لاکھ روکنے منع کرنے کے باوجود وہ حیدر کی بات سنے بغیر گھر سے تھوڑے فاصلے پر بنے پارک کی بینچ پر آ بیٹھی تھی تب حیدر اس کے سر پر کھڑا بولا تو نتالیہ سرخ آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی


"میں یہاں ہوا کھانے کے لئے ہرگز نہیں آئی ہوں بلکہ میں آپ کے بھتیجے کی بیوفائی کا سوگ منانے آئی ہوں اور سوگ ٹائم دیکھ کر منانا چاہیے یا رات ایک بجے میں کسی پارک میں بیٹھ کر سوگ نہیں مناسکتی ایسا کسی ڈکشنری میں نہیں لکھا ہے آپ پلیز جائیے یہاں سے تھوڑی دیر بعد میں خود گھر آجاؤں گی"


نتالیہ نے اپنے آنسو روکے ہوئے تھی یہی وجہ تھی اس کی آنکھیں ضبط سے بےحد سرخ ہورہی تھی وہ بہت سیریس ہوکر حیدر سے بولی تو ایک پل کے لئے حیدر کو اِس لڑکی پر ترس آیا وہ خود نتالیہ کے برابر میں بینچ پر بیٹھ گیا تو نتالیہ سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھنے لگی


"تم حسن کی بےوفائی کا سوگ منالو پھر آرام سے ایک ساتھ اکھٹا گھر چلتے ہیں"


حیدر نتالیہ کو دیکھ کر اُسی کی طرح سیریس ہوکر بولا


"میں کسی دوسرے کے سامنے نہیں روتی پلیز جاہیے یہاں سے"


حسن کی شادی کا سن کر نہ جانے کیوں اُس کا دل بھر آیا تھا اُس کا دل کیا ڈھیر سارا روئے مگر کسی دوسرے کے سامنے وہ صرف اپنے ماں باپ کی موت پر روئی تھی اِس کے علاوہ کبھی نہیں روئی۔۔۔ وہ خود کو کم عقل اور بیوقوف کہلانا پسند کرسکتی تھی مگر کمزور نہیں


"آج رو لوں میرے سامنے مجھ سے اپنا دکھ شیئر کرلو میں کسی کو نہیں بتاؤں گا"


حیدر کے بولنے کی دیر تھی نتالیہ اپنے دونوں ہاتھ میں چہرہ چھپا کر بری طرح رو پڑی ہیں حیدر خاموشی سے اُس کو روتا ہوا دیکھ رہا بچپن سے اُس نے اِس لڑکی کو صرف اوٹ پٹانگ حرکتیں اور بچپنا کرتے ہوئے دیکھا تھا


"کیا میں آپ کو حسن سمجھ کر تھوڑی دیر کے لئے آپ پر اپنا غصہ اتار لو،، ایسا کرنے سے میں صبح تک بالکل نارمل ہو جاؤ گی"


نتالیہ کے منہ سے عجیب و غریب بات سن کر وہ ابھی کچھ بول بھی نہیں پایا تھا کہ اچانک غُصّے میں بھرے تاثرات لئے نتالیہ بینچ سے اٹھی۔۔۔ دھچکا حیدر کو تب لگا جب نتالیہ نے حیدر کو گریبان سے پکڑ کر اپنے مقابل کھڑا کیا


"تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے دھوکہ دینے کی، مجھے چیٹ کرنے کی مجھ سے محبت کا دعوی کرنے کی۔۔۔ منگنی کی تھی تم نے مجھ سے اور شادی کسی فیرنگن سے کرلی۔۔۔ میری بددعا ہے تمہیں، چھوٹی عمر میں تمہارے سر کے سارے بال سفید ہوجائے،، جلد بڈھے ہوجاؤ تم۔۔۔ شادی کے ایک ماہ بعد تمہاری وہ فیرنگن بیوی کسی غبارے کی طرح پھول کر اتنی موٹی ہوجائے کہ اس کے نیچے دب کر پسلیاں ٹوٹ جائے تمہاری مر جاؤ تم۔۔۔ میں تمہیں بددعا دیتی ہوں تمہارے بچوں کی شکل تم سے نہیں بلکہ تمہارے برابر میں رہنے والی پڑوسی سے ملتی ہو"


پارک میں رات ایک بجے حیدر کا گریبان پکڑے وہ زور سے چیخ کر با آواز حسن کو بددعائیں دے رہی تھی اِس سے پہلے حیدر نتالیہ کو ہوش دلاتا اچانک وہاں پولیس آگئی


*****


"دیکھیں انسپکٹر صاحب میں آپ کو بتاچکا ہوں جو آپ نے سنا وہ غلط تھا جسے آپ سوچ رہے ہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے"


حیدر چوتھی بار اُس بیوقوف انسپکٹر کو وضاحت دیتا بولا جو اُس کی بات کو سرے سے سمجھنے کے لئے تیار نہیں تھا تبھی نتالیہ بھی جلدی سے بولی


"یہ بالکل ٹھیک بول رہے ہیں وہ تو میں ٹینشن میں اپنے دل کا غبار نکال رہی تھی دراصل ان کے بھتیجے نے مجھے۔۔۔


نتالیہ نے اُس انسپکٹر کی غلط فہمی دور کرنا چاہی تو وہ انسپکٹر نتالیہ کی بات کاٹتا ہوا اُس سے بولا


"میڈم آپ کو اِس آدمی سے ڈرنے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے میں پورے معاملے کی نوعیت تک خود ہی پہنچ چکا ہوں۔۔۔ اوپر سے شریف دکھنے والے چھچھورے آدمی اندر سے ایسے ہی دھوکے باز ہوتے ہیں"


انسپکٹر نتالیہ کو دیکھ کر تسلی دیتا ہوا بولا تو حیدر کو اپنے لیے لفظ چھچھورا سن کر غصہ آنے لگا


"کیا بات کررہے ہیں آپ، یہ بیوی ہے میری آپ بلاوجہ میں ہم دونوں میاں بیوی کے بیچ پرسنل معاملے میں ٹانگ اڑا رہے ہیں۔۔۔ دیکھیے میں ابھی تک آپ سے بہت تمیز سے بات کررہا ہوں اپنا راستہ ناپئیے۔۔۔ اور تم دیکھ لیا تم نے اتنی رات کو باہر نکلنے کا انجام اب گھر چلو"


حیدر اس انسپکٹر کے ساتھ نتالیہ کو بھی غصے سے بھرے لہجے میں بولا


"ابے اوئے کسی فیرنگن عورت کے چکر میں پڑ کر تُو نے اِس معصوم لڑکی کو دھوکا دیا ہے اور اب وقت پڑنے پر اِس بچی کو بیوی بنالیا تو نے۔۔۔ اوپر سے مجھے دھمکیاں دے رہا ہے چل بیٹا اب تو یہاں سے سیدھا تھانے جاۓ گا میرے ساتھ"


انسپیکٹر کی دھمکی پر اِس سے پہلے حیدر کچھ بولتا نتالیہ فوراً بول اٹھی


"اوہو انسپکٹر صاحب آپ سمجھ کیوں نہیں رہے ہیں بات کو، چاچو بالکل ٹھیک بول رہے ہیں چار دن پہلے ہی ہماری شادی ہوئی ہے"


نتالیہ کے روانی سے چاچو بولنے پر جہاں حیدر نے غضب بھری نظروں سے نتالیہ کو دیکھا وہی انسپکٹر چکرا کر رہ گیا


"ابے تم دونوں چاچا بھتیجی ہو یا پھر میاں بیوی یہ کیا چکر ہے تم دونوں کے بیچ... جس پر مجھے چکر آنے لگے ہیں۔۔۔ اب تو تم دونوں کو ہی میرے ساتھ تھانے چلنا پڑے گا"


انسپیکٹر کی بات مکمل ہونے پر حیدر نے انسپکٹر کی بجائے نتالیہ کو غصے میں دیکھا جو بےتکا بول کر مزید کام خراب کرچکی تھی تبھی انسپکٹر سے جان چھڑانے کے لئے حیدر کو اپنے ایس پی دوست کو موبائل پر کال ملانا پڑی


*****

"ناشتہ بنادیا ہے میں نے آپ کا ناشتہ کرکے آفس جائیے گا"


صبح حیدر آفس جانے کے لئے اپنے کمرے میں تیار ہورہا تھا تب نتالیہ اُس کے کمرے کے دروازے پر کھڑی حیدر کو مخاطب کرتی ہوئی بولی


"ناشتہ میں آفس میں ہی کرلوں گا تمہیں احسان کرنے کی ضرورت نہیں ہے"


اُس نے نتالیہ کو دیکھ کر اُکھڑے ہوئے لہجے میں جواب دیا کیونکہ کل رات نتالیہ کی حماقت کی وجہ سے پولیس اسٹیشن جانے کی کسر رہ گئی تھی یہ لڑکی کم اور مصیبت زیادہ تھی جو اُس کی زندگی میں اچانک آچکی تھی


"احسان تو میں ناشتہ تیار کرکے کر ہی چکی ہوں آپ کی ذات پر، اگر آپ ناشتہ کئے بغیر آفس چلے جائیں گے تو رزق کا ضیائع ہوگا سوچ لیں"


نتالیہ کمرے کے دروازے پر کھڑی کندھے اچکا کر بولتی ہوئی اُس کے کمرے سے باہر نکل گئی تب حیدر ڈائینگ ہال میں آیا ٹیبل پر ناشتہ تیار تھا اور نتالیہ خود بھی وہی کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی حیدر اس کے سامنے کرسی پر بیٹھتا ہوا ناشتہ کرنے لگا


"کیا تم ناشتہ نہیں کروں گی"


حیدر نتالیہ کے ہاتھ میں خالی چائے کا کپ دیکھ کر اس سے پوچھنے لگا


"حسن کی بےوفائی کا سوگ تو میں کل رات مناچکی ہو اُس کے باوجود میرا دل نہیں کررہا ناشتہ کرنے کا"


نتالیہ لاپرواہی سے بولتی ہوئی چائے کا سپ لینے لگی تو حیدر ناشتے سے ہاتھ روکتا ہوا اسے دیکھنے لگا


"دیکھو نتالیہ"

حیدر اُس کو سمجھانے کی غرض سے بولا ہی تھا نتالیہ اس کی بات کاٹ کر فوراً بولی


"پلیز چاچو لیکچر رہنے دیں اپنا"


نتالیہ نے بولتے ہوئے دانتوں تلے زبان دبائی جبکہ لفظ چاچو پر حیدر نتالیہ کو آنکھیں دکھاتا ہوا بولا


"آج کے بعد اگر تم نے چاچو کہہ کر مجھے پکارا تو دیکھنا پھر میں کیا کرتا ہوں تمہارے ساتھ"


کل رات اُس کے چاچو بولنے پر پولیس والا مشکوک ہوگیا تھا کتنی مشکل سے ان لوگوں کی جان چھٹی تھی، حیدر نتالیہ کو دھمکاتا ہوا بولا


"چاچو تو آپ کو بچپن سے کہتی آئی ہو، اتنی جلدی عادت کہاں بدلے گیں اور عادت بدل کر بھی کیا حاصل۔۔۔ چند دنوں کی تو بات ہے پھر آپ اور میں الگ الگ راستے کے مسافر ہوگیں"


نتالیہ نے جتنی لاپرواہی سے یہ بات بولی تھی اس کی بات پر حیدر بالکل خاموش ہوگیا اور نتالیہ کو دیکھنے لگا اس کی بھوک اچانک مرگئی


"نتالیہ سے زیادہ خوبصورت لڑکی میں نے آج تک نہیں دیکھی"


حسن کی آواز حیدر کے کانوں میں گونجی وہ نتالیہ کا چہرہ غور سے دیکھنے لگا جو حیدر کے اتنے غور سے دیکھنے کا نوٹس لیے بغیر اپنی چائے سے لطف اندوز ہورہی تھی


"نتالیہ تو اچھی خاصی خوب صورت لڑکی ہے حیدر"


معائشہ کا آیا میسج اسے یاد آیا تو حیدر سر جھٹک کر خود بھی چائے پینے لگا


"آپ سے ایک ضروری بات کرنا تھی"


نتالیہ کے بات پر حیدر چائے کا کپ ٹیبل پر رکھتا اسے دیکھ کر بولا


"کام کی بات ہو تو منہ کھولنا صبح صبح فضول باتوں پر میرا اچھا خاصا دماغ خراب ہوجاتا ہے"


حیدر نے نتالیہ کو کچھ بولنے سے پہلے تنبہی کرنا ضروری سمجھا تو تالیہ کا دل چاہا وہ اُس سے سڑے ہوئے انسان سے بنا کچھ بولے اٹھ کر چلی جائے مگر اپنا کام تھا اِس لئے برداشت کرتی ہوئی کام کی بات بولی


"میں چاہ رہی تھی وہ جو میری پراپرٹی کے پیپرز ہیں آپ کے پاس،، آپ اس پراپرٹی کو سیل کرکے کسی اچھی جگہ مجھے ایک چھوٹا سا فلیٹ دلوا دیں اور باقی کی رقم بینک میں رکھوا دیں"


نتالیہ اطمینان سے بات بولی تو حیدر کڑے تیوروں کے ساتھ اُس کو دیکھتا ہوا بولا


"میں نے پہلے ہی تم سے بولا تھا کوئی بھی فضول بات مجھ سے مت کرنا اگر میں نے بھائی صاحب کو تمہارا جیولری بیچنے والا کارنامہ ابھی تک نہیں بتایا تو اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے میں تمہاری ہر الٹی سیدھی حرکتیں برداشت کروں گا"


حیدر اُس کو کسی بچے کی طرح جھڑکتا ہوا کرسی سے اٹھا چائے وہ پی چکا تھا


"میں نے ایسی کوئی فضول بات نہیں بولی ہے، صرف اپنے لیے ذاتی پناہ چاہتی ہوں جو میری اپنی ہو جہاں میں رہ سکوں"


نتالیہ بھی حیدر کو اٹھتا ہوا دیکھ کر خود بھی کرسی سے اٹھ کر بولی


"یہاں رہنے میں کیا تکلیف ہے تمہیں اور اگر کوئی تکلیف ہے تو دوبارہ بھائی صاحب کے پاس چلی جاؤ"


حیدر اُس کی بچکانہ سی بات سن کر سخت لہجے میں بولتا آفس کے لئے نکلنے لگا


"یہ میرا عارضی ٹھکانہ ہے جب آپ مجھ سے رشتہ ختم کردیں گے تب میں دوبارہ ذولفقار انکل کے پاس تو نہیں جاؤ گی ناں"


نتالیہ کی آواز پر اس کے باہر جاتے قدم رکے وہ پلٹ کر نتالیہ کو دیکھنے لگا پھر چلتا ہوا اُس کے پاس آیا


"میں فی الحال تمہیں اِس رشتے سے آزاد نہیں کررہا اِس لیے پراپرٹی بیچنے کی یا پھر کوئی دوسری پناہ گاہ ڈھونڈنے کی باتیں اپنے ذہن سے نکال دو، اپنے دماغ کو بھی سکون میں رکھو اور مجھے بھی پرسکون رہنے دو"

حیدر نتالیہ سے بولتا ہوا آفس چلا گیا


******


"لگتا ہے کل رات سے سو نہیں پائے تم"


معائشہ آفس کے لنچ ٹائم میں حیدر کی آنکھیں دیکھتی ہوئی مشکوک انداز میں اس سے پوچھنے لگی، جن میں نیند کی خماری ابھی تک موجود تھی اور نہ سونے کی وجہ سے وہ سرخ بھی ہورہی تھیں


"ہاں کل رات کافی دیر تک جاگتا رہا تھا"


وہ بےخیالی میں معائشہ سے بولا اُس کے ذہن میں نتالیہ کی باتیں چل رہی تھیں جو ان دونوں کے درمیان آفس جانے سے پہلے ہوئی تھی


"کیوں جاگتے رہے رات دیر تک مطلب کیا کررہے تھے جاگ کر"


معائشہ چاہ کر بھی اپنے لہجے میں تجسس نہیں چھپا سکی معائشہ کی بات سن کر حیدر ناگوار نظروں سے اسے دیکھنے لگا


"مطلب کیا ہے تمہارے اس سوال کا جو تم مجھ سے اس طرح پوچھ رہی ہوں"


حیدر چاہ کر بھی اپنے لہجے کی ناگواری نہیں چھپا سکا


"ایسی تو کوئی بات میں نے نہیں بولی حیدر جس پر تم یوں غصہ کررہے ہو"


معائشہ چڑتی ہوئی حیدر سے بولی ویسے بھی وہ صبح سے نوٹ کررہی تھی وہ آج آفس میں کچھ کھویا سا لگ رہا تھا


"معائشہ تم اپنے بات کرنے کے انداز پر غور کرو"


حیدر اس کو جتاتا ہوا بولا اور کافی کا کپ اٹھانے لگا


"ڈائیورس کب دے رہے ہو نتالیہ کو"


معائشہ کی بات سن کر وہ کافی کا سپ لیۓ بنا کپ واپس ٹیبل پر رکھتا ہوا بولا


"ابھی میں فوری طور پر اس کو ڈائیورس نہیں دے سکتا کیونکہ حسن کسی دوسری لڑکی سے شادی کرچکا ہے جب تک میں نتالیہ کے مستقبل کے لیے کوئی بہتر فیصلہ نہ کرلوں میں اس سے اپنا رشتہ ختم کرکے اس کو نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔ میں آج صبح سے صرف اسی کے متعلق سوچے جارہا ہوں"


حیدر معائشہ اپنی پرابلم شیئر کرتا ہوا بولا تو معائشہ اس کی بات سن کر طنزیہ انداز میں مسکراتی ہوئی حیدر کو مشورہ دینے لگی


"اپنی بیوی کے مستقبل کے لیے کیا بہتر فیصلہ کرو گے تم حیدر وہ تمہاری بیوی ہے کوئی تمہارا بچہ نہیں جو تم اُس کے بہتر مستقبل کے لیے سوچ کر ہلکان ہورہے ہو۔۔۔ اگر اتنی ہی پرابلم ہے تو اُس کو چھوڑنے کی ضرورت ہی کیا ہے، اُس کو سوچ سوچ کر تمہیں ویسے ہی اُس سے محبت ہوجانی ہے۔۔۔ اِس سے بہتر یہ نہیں ہے کہ تم اُس کو بطور بیوی کو قبول کرکے اس رشتے کو نبھاؤ اور مجھے اپنی زندگی سے فارغ کرو ہمیشہ کے لئے"


معائشہ غصے میں حیدر کو بولتی ہوئی کرسی سے اٹھ کر کینٹین سے باہر چلی گئی اسے لگا تھا حیدر اُس کے پیچھے آکر اس کو سوری بولتا ہوا اس کو منالے گا مگر وہ وہی بیٹھا معائشہ کی باتوں پر غور کرنے لگا


*****


رات کے پہر وہ اپنے کمرے میں موجود معائشہ کی باتوں کو سوچنے لگا وہ باتیں جو آج آفس میں اس نے بولی تھیں


"میں نے ایسی کوئی فضول بات نہیں بولی صرف اپنے لئے ایک ذاتی پناہ چاہتی ہوں جو میری ہو جہاں میں رہ سکو۔۔۔ یہ میرا عارضی ٹھکانا ہے جب آپ مجھ سے رشتہ ختم کریں گے میں تب دوبارہ زولفقار انکل کے پاس واپس تو نہیں جاؤں گی ناں"


صبح نتالیہ کی اس بات پر نہ جانے اس کے دل کو کیا ہوا تھا۔۔۔ کیا اس کا دل صرف اس لئے فکر مند تھا کہ اس کے چھوڑنے کے بعد نتالیہ کا کیا ہوگا وہ کہاں رہے گی۔۔۔ نہیں اس بےچینی کی وجہ یہ نہیں تھی کہ نتالیہ کے پاس کوئی دوسرا سہارا نہیں تھا یا محفوظ پناہ اس کے پاس موجود نہیں تھی اگر وہ بےچین ہورہا تھا تو صرف اس کو چھوڑ دینے کی سوچ پر


"یہ کیا ہورہا ہے مجھے میں ایسا کیوں سوچ رہا ہوں"


حیدر اپنی کیفیت سے گھبراتا ہوا خود ہی بڑبڑایا اور اپنے کمرے سے باہر نکل گیا خود بخود اس کے قدم نتالیہ کے کمرے کی جانب بڑھنے لگے


دروازے کا ناب گھماتے ہوئے وہ یہی سوچ رہا تھا اس طرح اُس کے کمرے میں جانا مناسب نہیں مگر دل میں یہ سوچ آنے پر کہ یہ لڑکی اُس کے لیے کوئی نامحرم نہیں بلکہ اس کی محرم تھی، اس وقت اس کے کمرے میں جانا کوئی غیر اخلاقی عمل ہرگز نہیں تھا حیدر نتالیہ کے کمرے میں چلا آیا وہ بیڈ پر آنکھیں بند کیے لیٹی گہری نیند میں سو رہی تھی


حیدر بیڈ پر اس کے قریب بیٹھ کر نتالیہ کا چہرہ دیکھنے لگا اس میں کوئی شک نہیں تھا وہ ایک خوبصورت لڑکی تھی مگر پہلے کیوں اس کو یہ خوبصورتی نہیں دکھی یا اس نے دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔۔۔ شاید تب وہ اس کے لئے نامحرم تھی حیدر نے بےخودی کے عالم میں اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر اس کے گال کو چھوا دل میں ایک طوفان کی سی کیفیت برپا ہونے لگی جس میں اس کا دل ڈوبنے لگا کبھی ایسی حرکت اس نے جانے یا انجانے میں معائشہ کے ساتھ نہیں کی تھی جبکہ معائشہ اس کو پسند کرتی تھی جس کا اظہار بھی وہ کرچکی تھی مگر اس کے باوجود کبھی حیدر نے اس سے ناجائز مطالبہ نہیں کیا تھا نہ کبھی حیدر کے دل میں ایسا کوئی معائشہ کو لےکر خیال آیا تھا لیکن یہ لڑکی جو ہمیشہ اپنی حرکتوں سے اس کو بےذار کردیا کرتی تھی نہ جانے کیوں اس کو چھوتے ہی حیدر کے اندر کئی احسسات جاگ گئے تھے


"نتالیہ اٹھو میں تم سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں"

حیدر نے آہستہ سے اس کا ہاتھ ہلایا مگر وہ نہیں اٹھی


حیدر ذرا سا جھک کر نتالیہ کے چہرے کو دیکھنے لگا نہ جانے کون سی ایسی کشش تھی جو ُاسے نتالیہ کی جانب کھینچ رہی تھی حیدر کی نگاہیں اس کے ہونٹوں پر ٹہر گئیں دل میں ایک خواہش پیدا ہوئی کہ وہ اپنے یونٹوں سے ان ہونٹوں کو چھوۓ


"نہیں یہ کام میں تمہارے ہوش میں کروں گا تو زیادہ مناسب رہے گا"


حیدر دل ہی دل میں بولتا ہوا نتالیہ کے کمرے سے نکل گیا مگر تب تک وہ ایک فیصلہ کرچکا تھا


*****


"او میری۔۔۔ میری نیندیں ہیں فرار۔۔۔


وہ گنگناتی ہوئی ساتھ میں اپنے کپڑے پریس کررہی تھی جبکہ حیدر وہی ہال میں نیوز دیکھنے کی غرض سے بیٹھا تھا مگر نتالیہ کا ٹیپ چلتا دیکھ کر وہ نیوز دیکھنے کا ارادہ ملتوی کرتا خاموشی سے اُسی کو دیکھنے لگا۔۔۔ اپنے اوپر حیدر کی اٹھتی نظروں کو دیکھ کر وہ اپنا گانا بند کرتی حیدر کو دیکھ کر مسکرانے لگی


"مجھے معلوم ہے آپ اس وقت کیا سوچ رہے ہو گے یہی نہ کہ میں اچھی ڈانسر کے ساتھ کافی اچھا سنگر بھی ہو"


نتالیہ حیدر کو دیکھ کر بولی اپنے کپڑے وہ پریس کرکے چکی تھی اس لیے کمرے میں جانے لگی وہ جانتی تھی حیدر اس کی بےتکی بات پر کوئی خاص تبصرہ نہیں کرے گا


"جس طرح تم نے اپنی آواز میں گانا گا کر اس گانے کا خانہ خراب کیا ہے مجھے اُس گلوکار سے ہمدردی محسوس ہورہی ہے جس نے یہ گانا گایا تھا"


حیدر بظاہر سنجیدہ لہجے میں بولا مگر اس کے چھیڑنے پر نتالیہ منہ بناتی ہوئی حیدر کو دیکھنے لگی


"آپ کو تو نہ جانے کون سی صدی میں میری کوئی ادا پسند آئے گی نہ جانے آپ کی زندگی میں کبھی میں آپ کو اچھی لگو گی یا نہیں"


نتالیہ ہینگر میں موجود سوٹ صوفے پر رکھ کر برا سا منہ بناتی حیدر سے بولی


"تو تم یہ چاہتی ہو میں تمہیں پسند کرنے لگوں اور تم مجھے اچھی لگنے لگو"


حیدر نتالیہ کو دیکھتا ہوا اس سے پوچھنے لگا تو نتالیہ حیدر کے پاس آکر بولی


"نہیں جی پھر معائشہ کیا ہوگا اس کی بددعائیں لینے کا مجھ غریب کو شوق ہرگز نہیں ہے"


نتالیہ نے اپنی جانب سے بات کو مذاق کا رنگ دینے کی کوشش کی تھی وہ پلٹ کر حیدر کے پاس جانے لگی تبھی حیدر نے نتالیہ کا بازو پکڑ کر اسے اپنی جانب کھینچا وہ بری طرح حیدر کے سینے سے ٹکرائی حیدر کی حرکت پر وہ حیرت سے حیدر کو دیکھنے لگی


"معائشہ کو چھوڑو اِس وقت اپنی بات کرو مجھ سے"


حیدر سنجیدہ گہری نظروں سے نتالیہ کو دیکھتا ہوا بولا اس کی نظریں ایسی تھی کہ نتالیہ کی ساری شوخی غائب ہوگئی وہ سیریس ہوکر خاموشی سے حیدر کو دیکھنے لگی جو خود بھی اس کو سنجیدہ انداز میں دیکھ رہا تھا


"آپ نے کافی زور سے میرا بازو پکڑا ہوا ہے مجھے درد ہورہا ہے"


نتالیہ گھبراتی ہوئی حیدر کو دیکھ کر بولی تو اس نے نتالیہ کا بازو چھوڑا اس کے بازو پر حیدر کی انگلیوں کے نشانات نمایاں ہورہے تھے


"سوری"

وہ نازک سی لڑکی کہا اس میں اتنی برداشت ہوسکتی تھی حیدر اس کے بازو کی جلد دیکھ کر بولا جو اس کے پکڑنے سے سرخ ہورہی تھی۔۔۔ اپنے سوری کہنے پر حیدر کو چند دنوں پہلے نتالیہ سے بولا ہوا جملہ یاد آیا


"جس دن میں نے تم کو سوری بولا تو سمجھ لینا تم نے حیدر کے دل میں الگ مقام بنالیا جو کہ ایک انہونی سی بات ہے"


حیدر اپنے خیال پر چونکا اور نتالیہ کو دیکھنے لگا جو نہ جانے اتنی سیریس ہوکر کھڑی ہوئی یہی بات سوچ رہی تھی یا پھر نہ جانے کیا سوچ رہی تھی


"کپڑے کیوں آئرن کئے ہیں تم نے کیا کہیں جانے کا ارادہ رکھتی ہو تم"


حیدر نتالیہ کو چپ اور پریشان دیکھ کر نارمل لہجہ اپناتا ہوا اس سے پوچھنے لگا وہ اس کو اپنے انداز سے چونکانہ چاہتا تاکہ وہ اس کے متعلق سوچے مگر یوں اس کو پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا جو وہ اِس وقت لگ رہی تھی


"اپنی دوست طرف جانے کا پلان بنایا تھا بس تھوڑی دیر میں جانے والی ہو۔۔۔ رات ہونے سے پہلے واپس آجاؤں گی"


نتالیہ حیدر کو دیکھتی ہوئی بتانے لگی وہ تیار ہونے کے بعد اس سے اجازت لینے کا ارادہ رکھتی تھی مگر حیدر نے اس کو اچھا خاصہ اس وقت اپنی باتوں سے کنفیوز کردیا تھا


"اپنے دوست کے ہاں پھر کسی دن چلی جانا آج ایسا کرتے ہیں باہر ڈنر کرتے ہیں"


حیدر نتالیہ کو دیکھ کر اپنا پلان بتاتا ہوا بولا جس پر نتالیہ ہونق بنی ہے حسن کے چاچو کو دیکھنے لگی جو آج اسے حیران پر حیران کرنے پر تلے تھے


"مگر میں نے تو اپنی دوست کی طرف جانے کا پلان بنالیا ہے"


نتالیہ حیدر کا موڈ دیکھ کر بولی جو اسے اچانک نہ جانے کیوں خوشگوار سا لگ رہا تھا


"زندگی میں پلاننگ سے چلنا اچھی بات ہے مگر کبھی کبھی پلان چینج بھی ہوجاتے ہیں کیوکہ اوپر والا ہمارے لئے کچھ اور پلان کرچکا ہوتا ہے۔۔۔ دوست کے ہاں پھر کبھی سہی ابھی میں اور تم ڈنر پر چل رہے ہیں"


حیدر کی بات اسے کچھ سمجھ میں نہیں آئی آخر وہ اس کو اپنے ساتھ آخر کیوں لے جانا چاہتا تھا نتالیہ ایک دم سے بولی


"مگر ابھی تو شام ہورہی ہے ڈنر تو رات میں کرتے ہیں"


نتالیہ حیدر کو دیکھتی ہوئی بتانے لگی تو حیدر اس کے قریب آتا بولا


"ڈنر سے پہلے ہم دونوں لونگ ڈرائیو پر جائیں گے اور اب بہانے بنانا چھوڑو چند دن پہلے تم بھی چاہتی تھی میں اپنے دوستوں کی بجاۓ اپنا وقت تمہارے ساتھ گزاروں آج میں ایسا چاہتا ہوں"


حیدر کی بات سن کر وہ خاموش ہوگئی کیا بولتی۔۔ تب ہی اس کو خاموش دیکھ کر حیدر نے اپنا ہاتھ بڑھا کر نتالیہ کے بال کھول دیئے وہ حیدر کی حرکت پر حیرت سے حیدر کو دیکھنے لگی


"اچھے لگے کُھلے ہوئے بال آج انہیں ایسے ہی کھلا چھوڑ دینا"


حیدر مسکراتا ہوا نتالیہ کو بول کر اسے حیرت ذدہ سا چھوڑ کر اپنے کمرے میں جاچکا تھا۔۔۔ جبکہ وہ حیدر کے انداز اور باتوں پر ابھی تک الجھی ہوئی کھڑی تھی


"یا میرے اللہ یہ چاچو کو کیا ہوگیا ہے آج، اس سن پینسٹھ 65 کی روح کے اندر اچانک رومینٹک روح کیسے گُھس گئی۔۔۔ اور یہ مجھے ایسے ڈائیلاکز کیوں بول رہے ہیں، آف حسن کے چھچھورے چاچو دیکھ کیسے رہے تھے آج مجھے"


نتالیہ حیرت میں ڈوبی خود سے بولی حیدر کی نظریں گندی نہیں تھی مگر ایسی ضرور تھی جن کا مفہوم وہ سمجھ نہیں پائی کنفیوز ہوگئی


"آۓ ہاۓ اب سمجھ آیا چچی کو امپرس کرنے سے پہلے پریکٹس کررہے ہوگیں۔۔۔ بےچارے ہیں بھی تو اتنے شریف سے، معلوم نہیں رومینس کرنا آتا بھی ہے یا نہیں۔۔۔ چچی جان کا تو اللہ ہی مالک ہے بھئی"


نتالیہ اپنی ذہانت کے گھوڑے دوڑا کر خود ہی اندازے لگاتی چینج کرنے اپنے کمرے میں چلی گئی


*****


"مجھے لگ رہا ہے تم مجھ سے خفا ہوگے کل والی بات سے، حیدر میں تم پر شک نہیں کررہی مگر تم خود سوچو تم اور نتالیہ ایک ساتھ رہتے ہو اُس سے تمہارا اتنا قریبی رشتہ بن چکا ہے پھر ایسی باتیں تو میرے ذہن میں آئیں گیں تو شک تو پیدا ہوگا ناں"


وہ نتالیہ کا باہر گاڑی کے پاس کھڑا ویٹ کررہا تھا تب اُس کے موبائل پر معائشہ کی کال آئی تھی


"میں تم سے بالکل بھی خفا نہیں ہوں معائشہ تم بہت اچھی لڑکی ہو میری ہر بات کو آرام سے سمجھ جاتی ہوں مجھے تم سے نتالیہ اور اپنے رشتے کو لے کر بہت ضروری بات کرنی ہے"


حیدر معائشہ کو بول رہا تھا تبھی معائشہ ایک دم بول اٹھی


"ہاں تو آج ہی کرلیتے ہیں ضروری بات میں ابھی تمہارے گھر آجاتی ہوں"


معائشہ حیدر کی بات کاٹتی ہوئی بولی کیوکہ آفس میں آج سارا دن ان دونوں کو ڈھنگ سے بات کرنے کا موقع نہیں ملا تھا


"نہیں تمہیں گھر آنے کی ضرورت نہیں ہے میرا مطلب ہے آج میں کچھ بزی ہو دوسرے کام میں، ہم دونوں اِس مسئلہ کو بعد میں ڈسکس کریں گے۔۔ اچھا معائشہ میں کال رکھ رہا ہوں ہم بعد میں بات کرتے ہیں"


حیدر نتالیہ کو اپنی جانب آتے دیکھ کر معائشہ کی کال کاٹ چکا تھا وہ نتالیہ کو غور سے دیکھنے لگا اس کے کہنے پر نتالیہ نے بال کھول رکھے تھے


"کیا ہوا چاچو ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں"


نتالیہ جو پہلے کبھی اس کے دیکھنے پر کنفیوز نہیں ہوئی تھی آج حیدر کی نظروں سے کنفیوز ہوکر اُس سے پوچھنے لگی


"چاچو"

لفظ چاچو پر حیدر کا سارا موڈ غارت ہوچکا تھا وہ سنجیدہ نظروں سے نتالیہ کو گھورتا ہوا بولا


"میں حسن کا چاچو ہوں تمہارا چاچو میں پہلے بھی نہیں تھا اب اگر تم نے مجھے غلطی سے بھی چاچو بولا تو میں تمہیں دوسرے لفظوں میں بتاؤں گا کہ میرا تم سے اب کیا رشتہ ہے، گاڑی میں بیٹھو"


حیدر سنجیدہ لہجے میں اسے وارننگ دیتا ہوا بولا اور نتالیہ اُس کے گرکنے پر بھیگی بلی بنی خاموشی سے گاڑی میں بیٹھ گئی


"کیا میں اپنے بال باندھ لو"


گاڑی چلنے پر تیز ہوا سے بال اڑتے ہوۓ نتالیہ کے منہ پر آرہے تھے وہ بےزار سی بالوں کی لٹو کے پیچھے کرتی حیدر سے پوچھنے لگی


"نہیں"

حیدر بنا اس کی طرف دیکھے گاڑی ڈرائیو کرتا بولا تو نتالیہ جِھلا کر رہ گئی


"اتنی سیدھی سادی مائی بن کر اپنے بال باندھنے کی پرمیشن لینے کی کیا ضرورت تھی تجھے نتالیہ"


وہ اپنے چہرے پر آئی بالوں کی لٹو کو ایک بار پھر پیچھے کرتی ہوئی دل میں خود سے بولی۔۔۔ حیدر نے اس کو بالوں سے لڑتا دیکھ کر گاڑی کے شیشے بند کردیے


"اتنی خاموشی کیوں ہے آج کیا ساری باتوں کا اسٹاک ختم ہوچکا ہے تمہارا"


حیدر اس کی خاموشی کا نوٹس لیتے ہوۓ ڈرائیونگ کرتا بولا کیونکہ ایسا کم ہی ہوتا جب وہ منہ بند رکھتی تھی


"آپ کو میری فضول اور احمقوں والی باتیں برداشت نہیں ہوگیں اس لیے میں نے خاموش رہنا بہتر سمجھا ہے"


نتالیہ حیدر کی بات پر خاص طور پر اُس کی طرف دیکھتی ہوئی بولی تو حیدر بھی اُس پر نظر ڈالتا بولا


"جب میں تمہاری فضول احمق والی حرکتیں برداشت کرسکتا ہو تو باتیں برداشت کرنا مشکل نہیں تم بات کرو اِس سے ہمارا سفر اچھا گزرے گا"


حیدر کے بولنے پر نتالیہ کو ہنسی آگئی


"اُف کتنے برے دن آگئے ہیں آپ کے، اچھا وقت گزارنے کے لئے آپ کو میری فضول بات سننے پڑ رہی ہیں"


نتالیہ بولتی ہوئی ہنسنے لگی اور حیدر اس کی ہنستے ہوۓ خاموشی سے دیکھنے لگا


"ارے ارے سامنے دیکھ کر ڈرائیونگ کریں ابھی میرا ٹکٹ کٹوا کر اوپر جانے کا موڈ نہیں ہے"


نتالیہ حیدر کو ٹوکتی ہوئی بولی۔۔۔ خاموشی کا لبادہ اتارتے وہ اپنی ترنگ میں آچکی تھی اس کی بات پر حیدر بھی ہلکا سا مسکرا دیا


"میرا بھی موڈ نہیں ہے، میں بھی ابھی اپنی زندگی جینا چاہتا ہوں"


حیدر نے لفظ "تمہارے ساتھ" کا اضافہ نہیں کیا ورنہ وہ دوبارہ پریشان ہوجاتی مگر یوں نتالیہ کے ساتھ سفر کرنا آج اُسے پہلی بار اچھا لگ رہا تھا


"یہ ہوئی نہ جواں اور زندہ دل مردوں والی بات۔۔۔ آپ کا فریش موڈ دیکھ کر میں کوشش کروں گی کہ کوئی بیوقوفی والی بات نہیں کرو جس سے آپ کا موڈ تباہ و برباد ہوجائے"


نتالیہ بولتی ہوئی شرارتی انداز میں مسکرائی تو اس کی بات پر ڈرائیونگ کرتے حیدر کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آئی


"لیکن میں تمہارے منہ سے تمہاری بیوقوفی والی باتیں سننے کا ارادہ رکھتا ہوں تو صبح سے اٹھ کر اب تک تم کتنی بیوقوفی کرچکی ہو، ایک ایک کرکے گنواتی جاؤ"


حیدر کے پوچھنے پر نتالیہ بالکل سیریس ہوگئی


"سیریسلی آپ کو بتادوں جو مجھ سے حماقت ہوچکی ہے اچھا پہلے پلیز آپ پرامس کریں کہ مجھ پر غصہ نہیں کریں گے"


نتالیہ اچھا موقع دیکھ کر حیدر سے بولی وہی حیدر کے دماغ میں خطرے کی گھنٹی بجنے لگی نہ جانے یہ لڑکی اب کیا بےوقوفی والی بات بتانے تھی تھی جو وہ انجان بھی دے چکی تھی


"میں غصہ نہیں کروں گا نتالیہ تم پر، مگر میں جاننا ضرور چاہوں گا کہ تم آخر کون سی بیوقوف کرچکی ہو"


حیدر بظاہر لاپرواہ انداز اپناتا ہوا ریلکس موڈ میں ڈرائیونگ کرتا اس سے پوچھنے لگا مگر اگلے ہی پل میں نتالیہ کے منہ سے اُس کا کارنامہ سن کر اسے جھٹکا لگا جسے برداشت کرنے کے علاوہ اُس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ وہ اس سے بول چکا تھا کہ وہ اس کی بےوقوفی پر غصہ نہیں کرے گا


"اپنے پاس موجود ساری آماؤنٹ تم نے کس خوشی میں اپنی دوست کو دی ہے نتالیہ"


حیدر تحمل سے کار ڈرائیو کرتا نارمل سا لہجہ اپناۓ اس لڑکی سے پوچھنے لگا جو کم قیمت میں پہلے اپنی ساری جیولری بیچ چکی تھی اور اب ایسی دوست کو جس سے کم عرصہ ہوا اس کی دوستی ہوئے۔۔۔۔ وہ ساری رقم اُس کو دے چکی تھی


"خوشی میں تھوڑی دی ہے آماؤنٹ، وفا نے ڈھیر ساری پرابلمز کے ساتھ اپنی امی کا اپریشن بھی بتایا تھا جو ان لوگوں کے پاس پیسے نہ ہونے کی وجہ سے رکا ہوا تھا۔۔۔ اس لیے وفا کل خود مجھ سے آماؤنٹ لینے گھر آئی تھی جو میں اُس کو دے چکی ہو مگر کل رات سے اس کا موبائل آف ہے"

نتالیہ اب تھوڑی ٹینشن میں حیدر کو سچ بتانے لگی


"اور آج کس دوست کے پاس جارہی تھی تم"


حیدر کا دماغ ایک دم چلا وہ نتالیہ سے نارمل لہجے میں پوچھنے لگا بقول ذولفقار کے نتالیہ ایک نرم دل رکھنے والی رحم دل لڑکی تھی اُس کے رحم دلی کے قّصے وہ اپنے بھائی سے دو تین مرتبہ سن چکا تھا مگر اب اس کو احساس ہورہا تھا وہ رحم دل نہیں بلکہ اسے کوئی بھی اپنی باتوں میں آسانی سے بیوقوف بناسکتا تھا


"ابھی تو میں مہک کے پاس جارہی تھی اس کے بھائی کے ساتھ ہم دونوں وفا کے گھر جانے کا سوچ رہے تھے"


نتالیہ حیدر کا اچھا موڈ دیکھ کر اس کو مکمل سچ بتاتی ہوئی بولی


"دیکھو نتالیہ تم برا مت ماننا ایک بیوقوفی تم کرچکی ہو دوسری بےوقوفی تم کسی انجان جگہ پر جاکر کرنے والی تھی اب تم مجھے وفا کا ایڈریس اور فون نمبر دینا۔۔۔۔ وفا سے کوئی خاص وفا کی امید تو نہیں مگر میں کوشش کروں گا کہ تمہیں تمہاری رقم واپس مل جائے لیکن پلیز آگے سے اگر کوئی بھی ایسی کہانی سنائے یا تم سے کچھ بھی بولے تم کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے مجھ کو ضرور بتاؤں گی اوکے"


حیدر اُس پر غصہ کرنے کی بجائے دوستانہ لہجے میں بولا تاکہ نتالیہ اس پر اعتبار کرسکے۔۔۔ بہت کم چانسز تھے کہ وہ لڑکی یا اس کے گھر والے رقم واپس کردیتے جس کا کوئی ثبوت بھی نہیں تھا کہ نتالیہ نے اس کو رقم دی تھی حیدر نے شکر ادا کیا کہ نتالیہ کی پراپرٹی کے پیپرز وہ اپنے پاس رکھ چکا تھا


*****

"تو آج خود ہی کوکنگ کی جارہی ہے"


چھٹی کا دن ہونے کی وجہ سے حیدر گھر میں ہی موجود تھا دوپہر میں ٹائم پاس کرنے کے لئے وہ کوکنگ کرنے لگا تبھی نتالیہ کچن میں آتی ہوئی اسے بولی حیدر نے گردن موڑ کر اس کو ایک نظر دیکھا جو فریج سے جوس کا ڈبہ نکال رہی تھی وہ دوبارہ بنا کچھ بولے دوبارہ اپنے کام کی طرف متوجہ ہوگیا


"کبھی کبھی کسی بات کا جواب دے دینا چاہیے یا اسمائل کردینا چاہیے ان چیزوں پر پیسے تھوڑی خرچ ہوتے ہیں"


وہ حیدر کو دیکھ کر اپنے لیے کلاس میں جوس نکالتی ہوئی بولی


"بےمقصد فضول ہنسنے والوں کو دنیا پاگل سمجھتی ہے۔۔۔ اور اکیلے کچن میں کھڑا میں خود سے باتیں کرکے کیا کروں گا"


باؤل میں موجود قیمہ وہ فرائی پین میں ڈالتا ہوا بولا


"میں ہنسنے کی نہیں صرف مسکرانے کی بات کررہی تھی پلیز قیمے میں تھوڑا نمک مرچ تیز کردئیے گا، پیکھا پاسٹا مجھے پسند نہیں"


نتالیہ نے حیدر کو مشورہ نہیں دیا بلکہ خود اُس کے پاس آکر نمک کی شیشی اس کے ہاتھ سے لیتی قیمے میں نمک ڈالنے لگی اپنی خوداری کو اُس نے اُسی دن ٹاٹا بائے ناے کہہ دیا تھا جب اُس کے پاس موجود سارے پیسے ختم ہوچکے تھے اب وہ بلاجھجک حیدر کی ہی چیزیں استعمال کررہی تھی


"بلاوجہ میں مسکرانا بھی لوگوں کو شک میں مبتلا کردیتا ہے لوگ اپنے ہی اندازہ لگانے لگ جاتے ہیں کہ کیا بات ہے جو یہ فضول میں مسکرا رہا ہے"


حیدر نتالیہ کی بات کا جواب دیتا ہوا بولا۔۔۔ جتنا وہ قیمے میں لال مرچ پاؤڈر ڈال چکی تھی حیدر چاہ کر بھی اس کو ٹوک نہیں پایا


"جو انسان اپنی بجاۓ دوسروں کا سوچتے رہے کہ میرے بارے میں دوسرے کیا سوچ رہے ہیں ان کا زندگی میں کچھ بھی نہیں ہوسکتا، بھئی زندگی آپ کی ہے اسے آپ جیسے چاہے مرضی گزاریں دوسرے لوگوں کی اتنی پرواہ کرنا حد ہے بھئی"


نتالیہ پاس رکھی چیئر پر بیٹھ کر حیدر کو لیکچر دینے کے ساتھ جوس پینے لگی


"تو پھر تم حسن سے خفا کیو ہو اُس نے بھی وہی کیا جو اسے بہتر لگا اس نے بھی صرف اپنے لیے سوچا"


حیدر کی بات سن کر نتالیہ لاجواب ہوکر مسکرا دی


"اس نے میرے ساتھ اپنی مرضی سے منگنی کی تھی پھر وہ دوسری لڑکی کے لیے مجھے چھوڑ کر چلاگیا تھوڑا دکھ تو ہونا تھا لیکن اب جب وہ کبھی لوٹ کر واپس آئے گا تو میں اس سے کوئی شکوہ کرنے تھوڑی بیٹھ جاؤ گی"


نتالیہ جوس کا گلاس خالی کرکے شیلف پر رکھتی ہوئی حیدر سے بولی تو حیدر ساری چیزیں ترتیب سے رکھنے کے بعد نتالیہ کے پاس آیا


"شکوہ تم حسن سے اس لیے نہیں کروں گی کیونکہ تمہیں خود بھی اُس سے محبت نہیں تھی اگر تمہیں واقعی حسن سے سچی محبت ہوتی تو اُس کے واپس آنے پر تم حسن سے اپنے گزرے دنوں مہینوں کا حساب کتاب لینے کا سوچتی مگر میں جانتا ہوں تم ایسا نہیں کرنے والی کیوکہ محبت میں ناکام لوگ اِس قدر خوش اور مطمئن نہیں ہوتے"


حیدر نتالیہ کے پاس آکر اس کا چہرہ دیکھتا ہوا بولا اور شیلف پر رکھا ہوا گلاس اٹھا کر سنگ کی طرف بڑھنے لگا


"محبت کے بارے میں کافی کچھ جانتے ہیں آپ تو، حسن نے تو مجھے بتایا تھا معائشہ آپ کو لائک کرتی ہے، آپ کو اس سے محبت نہیں۔۔۔ معائشہ کے پرپوز کرنے پر آپ نے اُس سے شادی کے لیے حامی بھری۔۔۔ محبت کیوں نہیں کی آپ نے کبھی کسی سے"


نتالیہ حیدر کو دیکھتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی تو حیدر غور سے نتالیہ کو دیکھنے لگا


"کیا تم نے نہیں سنا محبت کی نہیں جاتی بلکہ خودبخود ہوجاتی ہے۔۔۔ اور میرا ماننا ہے اِس کام کے لیے نکاح کے دو بول ہی کافی ہیں"


حیدر نتالیہ سے بولتا ہوا گلاس واش کرنے لگا


"شادی سے محبت کا کیا تعلق اگر شادی کے بعد آپ کو اپنی بیوی سے محبت ہوجانی ہے تو مجھ سے ہوجاتی۔۔۔ پہلے تو آپ کی مجھ سے شادی ہوئی ہے"


نتالیہ بناء سوچے روانی سے بولی نہ جانے کیسے حیدر کے ہاتھ میں موجود کانچ کا گلاس ٹوٹ گیا


"او میرے خدا یہ کیا کیا آپ نے حیدر زخمی ہوگیا آپ کا ہاتھ تو خون نکل رہا ہے"


نتالیہ ایک دم کرسی سے اٹھ کر حیدر کے پاس چلی آئی اور پریشان ہوکر اس کا ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی


"تم نے ابھی کیا بولا مجھے"


حیدر ہاتھ پر لگا زخم بھول کر حیرت زدہ ہوکر نتالیہ سے پوچھنے لگا جو ٹشو سے اس کی انگلی کے پور پر لگا خون پوچھ رہی تھی


"ارے آپ نے خود ہی تو منع کیا تھا چاچو بولنے کو اُس لیے حیدر بولا ہے بھئی۔۔۔ اُف یہ خون بہنا بند کیو نہیں ہورہا"


نتالیہ کی ساری توجہ اس بہتے ہوئے خون پر تھی وہ حیدر کی انگلی اپنے ہونٹوں میں دبا چکی تھی۔۔ نتالیہ کی اِس حرکت پر حیدر اس کو دیکھے گیا اب وہ دو قدم پیچھے ہوتی فریج سے کیوب نکال رہی تھی حیدر کی انگلی ابھی بھی اُس کے ہونٹوں کے بیچ دبی ہوئی تھی اور حیدر ٹراس کی کیفیت میں نتالیہ کو دیکھے جارہا تھا


"تھوڑا اچھا لگا جلن کم ہوئی اب"


وہ کیوب حیدر کی انگلی پر رکھتی ہوئی اُس سے پوچھنے لگی جس پر حیدر نے صرف سر ہلا دیا۔۔۔ وہ نتالیہ کا چہرہ غور سے دیکھنے لگا


"آپ نے تو خود کو زخمی کرلیا یہاں بیٹھیں میں پاسٹا نکالتی ہو آپ کے اور اپنے لیے"


نتالیہ حیدر کی نظروں اور اس کی کیفیت سے بےخبر اس سے بولی اور چولہے کی آنچ بند کرکے دو پلیٹوں میں پاستا نکالنے لگی


"تم محبت کے بارے میں کچھ بول رہی تھی میرا ہاتھ زخمی ہونے سے پہلے"


نتالیہ نے ایک پلیٹ حیدر کے سامنے ٹیبل پر رکھی دوسری پلیٹ لے کر وہ خود حیدر کے سامنے بیٹھی تو حیدر نے وہی سے بات شروع کی


"ہاں میں بول رہی تھی محبت کا کوئی شادی سے تعلق تھوڑی ہے، اگر ایسا ہوتا تو۔۔۔


نتالیہ فورک میں پاسٹا بھر کر منہ میں ڈالتی ہوئی حیدر سے بولنے لگی تو حیدر نے اچانک اُس کی بات کاٹی


"مجھے لگتا ہے محبت کا شادی سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔۔۔ نیچے زمین پر دو لوگوں کا بعد میں نکاح ہوتا ہے مگر اوپر آسمان پر پہلے سے ہی اُن کے جوڑے بنادیے جاتے ہیں۔۔۔۔ نکاح ایک ایسا بندھن ہے جس میں باندھ کر دونوں انسانوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے محبت خود بخود پیدا ہوجاتی ہیں آہستہ آہستہ ہی سہی مگر تمہیں بھی احساس ہوجائے گا نکاح کے دو بولوں میں کس قدر کشش ہے"


حیدر نے نتالیہ سے بولتے ہوئے اس کا ہاتھ تھام کر اُسے کرسی سے اٹھایا تو نتالیہ اُس کی باتوں سے کنفیوز ہوکر حیدر کو سنجیدگی سے دیکھنے لگی حیدر نے نتالیہ کا چہرہ تھام کر اس کے ہونٹوں پر جھکتے ہوۓ اپنے ہونٹ نتالیہ کے ہونٹ پر رکھے تو نتالیہ شاکڈ کی کیفیت میں کھڑی حیدر کے اِس عمل کو محسوس کرنے لگی وہ اس کے بےحد قریب پورے استحقاق سے اس کے ہونٹوں پر جھکا اس کی سانسوں میں اپنی سانسیں شامل کرنے لگا تو اچانک نتالیہ نے حیدر کو پیچھے دھکیلا وہ سیریس ہوکر پوری آنکھیں کھولے حیدر کو حیرت سے دیکھنے لگی


"آج سے ٹھیک پندرہ دن پہلے جب ہم دونوں کا نکاح ہوا تھا تب اس وقت میری مرضی اِس رشتے میں شامل نہ ہو مگر آج میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ میں تمہیں مکمل طور پر اپنانا چاہتا ہوں تمہارے ساتھ اپنا رشتہ زندگی بھر نبھانا چاہتا ہوں"


حیدر نے شاکڈ کھڑی نتالیہ سے بولتے ہوئے دوبارہ اس کے قریب آکر اسے اپنے حصار میں لینا چاہا تو نتالیہ نے ایک بار پھر اسے پیچھے دھکیلا


"بس کریں اب مزید ایک لفظ اور مت بھولیے گا آپ"


نتالیہ سخت لہجے میں حیدر کو بولتی ہوئی وہاں اسے اپنے کمرے میں چلی گئی


*****


"آج آفس کیوں نہیں آۓ خیریت ہے سب"


دوسرے دن شام میں حیدر گھر میں موجود سوپ بنا رہا تھا تب اس کے موبائل پر معائشہ کی کال آئی وہ اس سے آج آفس نہ آنے کی وجہ جاننے لگی


"نتالیہ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اس لیے آف کرلیا، تم سناؤ کیسی ہو"


حیدر ٹرۓ میں سوپ کا باؤل رکھتا ہوا اسے نتالیہ کی طبیعت خرابی کا بتاتا ہوا ساتھ میں سے اُس کا حال پوچھنے لگا


"طبیعت نتالیہ کی خراب ہے، تم آفس سے آف کرکے کیا اُس کی تیمار داری میں لگے ہوئے ہو"


معائشہ نے چبھتے ہوئے لہجے میں حیدر سے سوال کیا، اس کا لہجہ حیدر کو کافی محسوس بھی ہوا


"بالکل صحیح پہچانا ابھی اس کے لئے سوپ بناکر لے جا رہا ہوں صبح سے کچھ نہیں کھایا اس نے تو فکر ہو رہی ہے مجھے اس کی"


معائشہ کے سلگتے ہوئے لہجے کو آخر اس نے کیوں ہوا دی وہ نہیں جانتا مگر یہ سچ تھا اسے نتالیہ کی فکر تھی۔۔ معائشہ حیدر کی بات سن کر ایک دم خاموش ہوگئی تو حیدر اپنا لہجہ نارمل کرتا ہوا بولا


"معائشہ مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنا تھی مگر ایسے موبائل پر نہیں کل ہم آفس کے بعد ملتے ہیں"


حیدر نے سوچ لیا تھا جو اس کے ذہن میں چل رہا ہے وہ سب معائشہ سے شیئر کرے گا


"کل کیوں آج ہی کیوں نہیں میں تھوڑی دیر میں آرہی ہوں تمہاری طرف نتالیہ سے اُس کی طبیعت بھی پوچھ لوں گی"


معائشہ حیدر سے بولتی ہوئی لائن کاٹ چکی تھی حیدر اپنا موبائل پاکٹ میں رکھتا ہوا ٹرے میں رکھا باؤل نتالیہ کے کمرے میں لے جانے لگا


*****


کل دوپہر جو کچھ حیدر نے نتالیہ سے کہا اُس کی باتیں سن کر نتالیہ خود کو اپنے کمرے میں بند کر کے بیٹھ چکی تھی حیدر نے کل جو بھی کچھ نتالیہ سے بولا بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کے بعد بولا تھا جس کے بعد وہ خود اندر سے اطمینان محسوس کررہا تھا


رات میں نتالیہ کمرے سے باہر نہیں نکلی تو حیدر نے بھی اُس کو ڈسٹرب نہیں کیا بلکہ سوچنے کا موقع دیا مگر جب صبح آفس جانے کے ٹائم پر بھی نتالیہ اپنے کمرے میں بند رہی تب حیدر کو تشویش ہوئی وہ نتالیہ کے کمرے میں آیا تو نتالیہ کو بیڈ پر لیٹا ہوا پایا۔۔۔ اُس کے پکارنے پر بھی نتالیہ آنکھیں بند کیے لیٹی رہی، جب حیدر نے اُس کے ستے ہوئے چہرے کو دیکھ کر اُس کا ماتھا چھو کر دیکھا جو بخار کی حدت سے جل رہا تھا تب حیدر نے آفس سے آف کرلیا


حیدر سوپ کا باؤل پکڑے جیسے ہی نتالیہ کے کمرے میں آیا تو نتالیہ نے آہستہ سے اپنی آنکھیں کھولیں سامنے حیدر کو موجود دیکھ کر وہ اپنے چہرے کا رُخ دوسری طرف پھیر چکی تھی۔۔۔ حیدر سوپ کا باؤل سائیڈ ٹیبل پر رکھتا ہوا نتالیہ کے پاس بیٹھ گیا


"شکوے شکایتں بعد میں کرلینا پہلے یہ سوپ پی لو"


حیدر نے اس کے انداز پر نتالیہ سے بولا اُس کا ماتھا چھوا صبح والی میڈیسن سے بخار اِس وقت کم ہوچکا تھا


"آپ پلیز میرے کمرے سے چلے جائیں مجھ میں ہمت اور طاقت نہیں ہے کہ میں آپ سے لڑ پاؤں"


نتالیہ حیدر کی طرف دیکھے بغیر اس سے بولی نقاہت کی وجہ سے اس سے بیٹھا تک نہیں جارہا تھا وہ بامشکل بیٹھ پائی تھی


"کس بات کو لے کر لڑنا چاہتی ہوں مجھ سے وہاں نہیں یہاں میری طرف دیکھ کر مجھے بتاؤ۔۔۔ کل ایسا کیا کہہ دیا یا کردیا میں نے تمہارے ساتھ جو تم سے برداشت نہیں ہوا ہے"


حیدر اس کا چہرہ تھام کر چہرے کا رخ اپنی جانب کرتا نتالیہ سے پوچھنے لگا


"کل آپ نے میرے ساتھ جو بھی کچھ کیا اور جو کچھ کہا وہ ٹھیک نہیں۔۔۔ آپ میرے ساتھ ایسا کیسے کرسکتے ہیں"


نتالیہ اس کے ہاتھ اپنے چہرے سے ہٹاکر تھوڑا پیچھے ہوکر بیٹھی


"مجھ سے شادی کرنے کا فیصلہ تمہارا تھا، تمہاری مرضی پر شادی ہوئی تھی ہماری تو پھر اِس شادی کو نبھانے میں تمہیں کیا مسئلہ ہے"


حیدر نتالیہ کی ذرد مائل رنگت دیکھ کر اُس سے پوچھنے لگا تو شکوہ بھری نظر نتالیہ نے حیدر کے چہرے پر ڈالی


"آپ اچھی طرح جانتے ہیں آپ سے شادی کرنے کے لئے میں نے کمال چچا کی وجہ سے بولا تھا کیوکہ میں ان کے ساتھ نہیں جانا چاہتی تھی۔۔۔ میں نے کبھی بھی آپ کے متعلق ایسا نہیں سوچا۔۔۔ اور آپ خود، کب سے ایسا چاہنے لگے اور کیوں چاہنے لگیں مجھے سمجھ نہیں آرہا۔۔۔ اور جو حرکت آپ نے کل میرے ساتھ کی ہے میں اُس کے لیے آپ کو کبھی بھی معاف نہیں کرو گی"


آخری جملے پر نتالیہ حیدر کے چہرے سے اپنی نظریں چراتی اس سے بولی۔۔۔ وہ تصور میں حیدر کو اِس روپ میں نہیں سوچ سکتی تھی جتنے استحقاق سے کل وہ اُس کے قریب آگیا تھا


"ایسی کیا غیر اخلاقی حرکت کی ہے میں نے تمہارے ساتھ جس کا تم صدمہ لےکر یوں بیمار ہوکر بیٹھ گئی ہو۔۔۔ یوں نظریں مت چراؤ تم مجھ سے نتالیہ۔۔۔ بیوی ہو تم میری کوئی گناہ نہیں کیا میں نے تمہیں چھو کر جو تم مجھ سے خفا ہورہی ہو۔۔۔ چلو مان لیا تم نے پہلے کبھی میرے متعلق نہیں سوچا مگر اب سوچ لو کیوکہ میں نے تمہارے متعلق سوچ لیا ہے اور میں چاہتا ہوں تم میرے متعلق سوچنا شروع کردو، وقت دے رہا ہوں میں تمہیں۔۔۔ اپنے دماغ کو سمجھاؤ یہ بات کہ آگے ہم دونوں نے ایک ساتھ زندگی گزارنی ہے کیوکہ میں تمہیں چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔۔۔ اگر اس کے باوجود تم مجھے چھوڑنے کا ارادہ رکھتی ہو تو مجھے چھوڑنے کا کوئی ٹھونس جواز میرے سامنے پیش کرنا"


حیدر نے آخری جملہ پر گود میں رکھا نتالیہ کا ہاتھ تھاما تو نتالیہ حیدر کا چہرہ دیکھنے لگی


"اور معائشہ اُس کے بارے میں نہیں سوچا آپ نے"


نتالیہ کا دھیان معائشہ کی طرف گیا وہ حیدر سے پوچھ رہی تھی اس سے پہلے حیدر نتالیہ کو کوئی جواب دیتا ڈور بیل بج اٹھی


"معائشہ ہوگی اس نے آنے کا بولا تھا یہ سوپ ختم کرو میں آتا ہوں"


حیدر نتالیہ سے بولتا ہوا اس کا ہاتھ چھوڑ کر نتالیہ کے کمرے سے باہر نکل گیا


****

"میں نے تمہیں بتایا تھا ناں۔۔۔میرا کزن جو اپنے بزنس کی وجہ سے دوبئی میں سیٹل ہے یہ وہی ہے، آج کل پاکستان آیا ہوا ہے۔۔۔ اور فضیل یہ حیدر ہے آفس کلیک کے ساتھ میرا بہت اچھا دوست بھی"


سٹنگ روم میں اِس وقت معائشہ کے علاوہ 25، 26 سالہ ایک نوجوان بھی صوفے پر برجمان تھا جس کا معائشہ حیدر سے تعارف کروا رہی تھی حیدر کو سمجھ نہیں آیا معائشہ یہاں اپنے اِس کزن کو کیوں لےکر آئی تھی


"تم سے مل کر اور دیکھ کر خوشی ہوئی معائشہ سے پہلے بھی ذکر سن چکا ہوں میں تمہارا"


حیدر اخلاقیات نبھاتا فضیل سے بولا تو معائشہ خوشدلی سے مسکرا دی


"یعنی تمہیں فضیل پسند آیا تھینگ گاڈ فضیل جب تک تم حیدر کو اپنے بزنس کے بارے میں اور تھوڑا اپنے بارے میں بتاؤ میں تب تک نتالیہ کو دیکھ کر آتی ہوں"


معائشہ فضیل سے بولتی ہوئی صوفے سے اٹھ کر ڈرائنگ روم سے باہر نکل گئی


ابھی فضیل اور حیدر باتیں کررہے تھے تو حیدر سٹنگ روم کے دروازے کی طرف متوجہ ہوا جہاں معائشہ کے ساتھ نتالیہ بھی سٹنگ روم میں آرہی تھی جس پر حیدر کو نہ جانے کیوں کچھ اچھا نہیں لگا


"فضیل اِس سے ملو یہ نتالیہ ہے میں نے تمہیں بتایا تھا ناں نتالیہ کے بارے میں دیکھو کتنی گڈ لکینگ ہے"


معائشہ چہکتی ہوئی اپنے کزن سے بولی تو حیدر کے ماتھے پر ناگوار سی شکنیں نمودار ہوئیں معائشہ کو بھلا کیا ضرورت کا اپنے کزن سے نتالیہ کا تعارف کروانے کی اور اُس کا وہ کزن جس طرح نتالیہ کو اوپر سے نیچے تک دیکھ رہا تھا حیدر کی برداشت سے باہر ہونے لگا


"آپ کھڑی کیو ہیں پلیز بیٹھیں ناں"


فضیل نتالیہ کو دیکھتا ہوا بولا تو حیدر بھی فوراً بول اٹھا


"کوئی ضرورت نہیں ہے یہاں بیٹھنے کی، تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو کیا ضرورت تھی اپنے کمرے سے باہر نکلنے کی جاؤ واپس اپنے کمرے میں جاکر آرام کرو"


حیدر نتالیہ کو آنکھیں دکھاتا روعب سے بولا تو وہ بھی اُس کا خراب موڈ دیکھ کر رکی نہیں بنا کچھ بولے کمرے سے باہر نکل گئی


"وہ خود نہیں آئی تھی بلکہ اُسے میں یہاں لے کر آئی تھی"


معائشہ حیدر کا ناگوار موڈ دیکھ کر بولی تو حیدر فضیل کی موجودگی کا لحاظ کر کے اُسے کچھ نہیں بولا


*****


"کیا ضرورت تھی تمہیں یوں منہ اٹھا کر وہاں کسی غیر مرد کے سامنے چلے آنے کی"


معائشہ اور فضیل کے جانے کے بعد حیدر نتالیہ کو اُس کے کمرے میں موجود نہ پاکر کچن کا رخ کرتا نتالیہ سے پوچھنے لگا


"آپ تو ایسے برا مان رہے ہیں جیسے میں پردہ کرتی اور چہرہ چھپاتی آئی ہو مردوں سے۔۔۔ ویسے میں وہاں خود نہیں آئی تھی مجھے معائشہ لےکر آئی تھی"


نتالیہ حیدر کو بتاتی ہوئی باؤل میں رکھی میلٹ آئسکریم چمچے کی بجائے انگلی ڈبو کر کھاتی ہوئی حیدر کو بتانے لگی۔۔۔ حیدر اس کی حرکت پر آنکھیں دکھاتا اسے بولا


"ابھی تمہارا بخار اترا ہے تو تم آئسکریم کھانے لگی ہو۔۔۔ اور یہ کوئی چیز کھانے کا کونسا طریقہ ہے تم اسپون کا استعمال بھی کرسکتی ہو"


وہ نتالیہ کو دیکھتا ہوا ٹوکنے لگا۔۔۔ ویسے یہ سچ تھا اسے نتالیہ کا فضیل کے سامنے آنے پر اتنا برا نہیں لگا تھا جتنا برا اسے فضیل کا نتالیہ کو یوں جائزہ لےکر دیکھنے پر لگا تھا


"میرا بخار آئس کریم کھانے سے ہی ٹھیک ہوتا ہے ویسے آپ شوہر بن کر اسی طرح غصہ کریں گے مجھ پر تو پھر ہماری لائف میں ہر وقت لڑائی جھگڑے ہوا کریں گے۔۔۔۔ کبھی معائشہ کو بولا ہے آپ نے کہ یوں غیر مردوں کے سامنے مت آیا کرو۔۔۔ وہ تو آپ کے ساتھ جاب کرتی ہے آپ کے آفس میں، جہاں صرف آپ ہی ایک مرد نہیں ہوگیں دوسرے مرد بھی ہونگے۔۔۔ میرا اس کے کزن کے سامنے آنا آپ کو اتنا برا لگا کبھی معائشہ کی بھی اس بات پر اعتراض کیا ہے آپ نے"


نتالیہ اعتراض کرتی حیدر سے بولی تو وہ نتالیہ کے اعتراض پر چلتا ہوا اس کے قریب آکر کھڑا ہوا


"میں معائشہ پر اعتراض کرنے کا حق نہیں رکھتا کہ کسی بات کو لے کر اس کو روکو یا ٹوکوں۔۔۔ مگر تم میری بیوی ہو تمہیں تو میں اپنی پسند اور ناپسند کے متعلق بتاسکتا ہوں اور تمہارا بھی فرض ہے کہ میری پسند اور ناپسند کا خیال رکھو۔۔۔ میں یہ تمہیں ہرگز نہیں کہوں گا کہ تم اپنی عادتوں اور مزاج میں پوری طرح تبدیلی لے آؤ مگر چھوٹی چھوٹی باتوں کا تو خیال رکھ سکتی ہو۔۔۔ صرف تھوڑا سا اپنا مائنڈ چینج کرکے دیکھو مجھے پوری امید ہے ہمارے درمیان لڑائی جھگڑے نہیں ہوں گے۔۔۔ اتنا بھی سخت اور کھڑوس طبعیت کا نہیں ہو میں"

حیدر نرمی سے اس کو سمجھاتا ہوا بولا


"ٹھیک ہے میں آپ کی پسند ناپسند کا خیال رکھنے کی کوشش کروں گی لیکن میں آئسکریم اسپون سے نہیں کھاسکتی وہ میں ایسے ہی انگلی سے کھاؤ گی اور آپ اس پر غصہ نہیں کریں گے"


نتالیہ کی بات پر نہ چاہتے ہوئے بھی حیدر کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی


"تم اتنی آسانی سے سدھرنے والا شے نہیں لگتی، آنکھوں میں رکھ کر سیدھا کرنا پڑے گا تمہیں"


حیدر اس کے مزید قریب آتا ہوا اپنی مسکراہٹ چھپاکر نتالیہ سے بولا


"یعنیٰ وہی بات ہوئی آپ مجھ پر اب مزید غصہ کیا کریں گے ہر وقت"


نتالیہ آئسکریم میں انگلی ڈبو کر افسوس بھرے لہجے میں حیدر سے پوچھنے لگی


"نہیں میں تم پر ہر وقت غصہ نہیں کرسکتا تمہاری حماقتوں پر تمہیں اِس انداز میں سزا دوں گا کہ تم دوبارہ وہ کام نہ کرو"


حیدر نے نتالیہ سے بولتے ہوئے اُس کی آئسکریم لگی انگلی اپنے منہ میں لےلی تو نتالیہ کے پورے جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی


"یہ کک۔۔۔ کیا کررہے ہیں آپ حیدر میرے چہرے پر کیوں ایسے۔۔۔


میلٹ آئسکریم میں اپنی انگلی ڈبو کر بالکل سیریس ہوکر نتالیہ کے چہرے کے بعد اپنی انگلیاں نتالیہ کی گردن تک لے آیا تو نتالیہ نے گھبرا کر بولتے ہوئے حیدر کے ہاتھ پکڑنے چاہیے مگر حیدر اس کے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں اپنے ہاتھوں کی انگلیوں میں پھنساکر نتالیہ کو پیچھے دیوار کے ساتھ لگاتا ہوا بولا


"اگر میری یہ بدتمیزی دوبارہ برداشت کرسکتی ہو تو بیشک ایسے ہی اسپون کا یوز کئے بغیر آئسکریم کھانا میں بھی برا نہیں مانو گا"


حیدر نے بولتے ہوۓ نتالیہ کی گردن پر جھک کر اپنی زبان رکھی جسے وہ اس کی توڑی تک لے آیا


نتالیہ بنا کچھ بولے لرزتی پلکیں جھکائے اپنی گردن کے بعد اپنے چہرے پر حیدر کا لمس محسوس کرتی سرخ ہونے لگی آخر میں حیدر نتالیہ کے کانپتے ہونٹ دیکھ کر اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر رکھ چکا تھا جس پر نتالیہ بری طرح دل و جان سے لرز گئی


وہ حیدر کے ہاتھوں کی انگلیوں میں پھنسی اپنی انگلیاں نکالنے کی کوشش کرنے لگی مگر حیدر نے اس کی انگلیوں کو سختی سے اپنی انگلیوں کی گرفت میں لیا ہوا تھا جب نتالیہ کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ہٹاکر وہ پیچھے ہٹا تو نتالیہ کو بند آنکھوں کے ساتھ کھڑا دیکھنے لگا


"مجھے لگتا ہے میں تمہیں سدھارتے سدھارتے اپنی خود کی عادتیں بگاڑ ڈالوں گا۔۔۔ میری زندگی میں خوشیاں اور رنگ بھر دو میں کبھی تم پر غصہ نہیں کروں گا صرف تمہیں ڈھیر سارا پیار کرو گا"


حیدر کے مدہوش لہجے پر نتالیہ نے اپنی بند آنکھیں کھولیں تو حیدر نے آہستہ سے اپنی انگلیوں میں پوست اس کی انگلیوں کو آزاد کردیا، موقع ملتے ہی نتالیہ کچن سے بھاگ کر اپنے کمرے میں گُھس گئی حیدر کی اس حرکت پر اب وہ ساری رات نہ تو اپنے کمرے سے نکلنے کا سوچ سکتی تھی نہ کمرے کا دروازہ کھولنے کا سوچ سکتی تھی


*****


آج آفس میں سارا مصروف وقت گزارنے کے بعد وہ آفس کے اوقات ختم ہونے پر معائشہ کو اپنے ساتھ اپنے گھر لے جانے کا ارادہ رکھتا تاکہ معائشہ کو اپنے اور نتالیہ کے بارے میں بتاسکے


"کافی خوش لگ رہی ہو آج کیا کوئی خاص بات ہے"


اپنے گھر کے پاس گاڑی روکتے ہوۓ حیدر معائشہ سے پوچھنے لگا کیونکہ معائشہ کے چہرے پر چھائی مسکراہٹ اُس کے خوش ہونے کا پتہ دے رہی تھی حیدر کی بات سن کر معائشہ مسکرا دی


"خوش کیوں نہیں ہوگیں بات ہی ایسی ہے ایک زبردست نیوز ہے میرے پاس تم سنو گے تو تم بھی خوش ہوجاؤ گے۔۔۔ حیدر فضیل کو نتالیہ پسند آگئی ہے وہ ساری سچائی جاننے کے باوجود نتالیہ سے شادی کرنے کے لئے آمادہ ہوگیا ہے بس اب تم جلد سے جلد نتالیہ کو ڈائیورس دے دو تاکہ فضیل نتالیہ سے شادی کرلے اور اس کے بعد ہم دونوں کی بھی شادی ہو جائے"


معائشہ اپنی خوشی میں اتنی مگن تھی کہ وہ حیدر کے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھ نہیں سکی معائشہ کی نان اسٹاپ بکواس پر ایک دم ہی حیدر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا


"شٹ اپ"

وہ غصے میں اتنی زور سے دھاڑا کہ معائشہ ایک دم خاموش ہوگئی اور حیرت ذدہ سی حیدر کو دیکھنے لگی


"فضیل کی ہمت کیسے ہوئی نتالیہ کے متعلق اِس طرح سوچنے کی۔۔۔ معائشہ میری ایک بات کان کھول کر سن لو نتالیہ میری بیوی ہے اگر تمہارے کزن نے اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا ہے تو میں۔۔۔


حیدر غصے بھرے لہجے میں معائشہ کو بول ہی رہا تھا تب حیدر کی نظر اپنے گھر کے پاس فضیل کی کھڑی گاڑی پر پڑی جسے دیکھ کر حیدر کا غُصے میں خون کھول اٹھا وہ بنا کچھ بولے اپنی گاڑی سے نکل کر گھر کی طرف بڑھا معائشہ بھی چپ چاپ خاموشی سے گاڑی سے اتر کر اُس کے گھر کے اندر حیدر کے پیچھے جانے لگی


"اچھا ہوا آپ آفس سے آگئے دراصل میں نتالیہ کو اپنے ساتھ گھر سے باہر کچھ ضروری بات کرنے کے لیے لے جانا چاہتا ہوں"


نتالیہ نے جیسے ہی گھر کا دروازہ کھولا حیدر غصے میں بھرا بناء اسے کچھ بولے سیدھا سیٹنگ روم میں چلا آیا جہاں فضیل حیدر کو دیکھ کر اس سے مخاطب ہوا نتالیہ اور معائشہ بھی سیٹنگ روم میں آچکی تھیں


"میری ایک بات کان کھول کر سن لو یہ میری بیوی ہے اِس سے کوئی بھی غیر مرد بلاوجہ فرینک ہو مجھے برداشت نہیں اس لیے تم خاص احتیاط کرنا، ابھی میں تمہارا لحاظ صرف معائشہ کی وجہ سے کرگیا ہوں آئندہ کے لئے گرانٹی نہیں دیتا۔۔۔ اب تم یہاں سے جاسکتے ہو"


حیدر کی بات ختم ہوتے ہی کمرے میں گہری خاموشی چھاگئی


"چلو فضیل"


معائشہ فضیل سے بولتی ہوئی حیدر کے گھر سے باہر نکل گئی تو فضیل بھی خاموشی سے وہاں سے چلا گیا


*****


وہ اپنے کمرے میں ٹہلتی ہوئی مسلسل دو گھنٹے سے حیدر کے بارے میں سوچ رہی تھی معائشہ اور اس کے کزن کے گھر سے جانے کے بعد حیدر بھی ایک خفا سی نظر اس پر ڈال کر اپنے کمرے میں چلا گیا تھا جب نتالیہ اُسے رات کے ڈنر کے لئے بلانے گئی ڈنر کے دوران بھی حیدر نے اس سے کوئی خاص بات نہیں کی تھی


کل آئسکریم والی حرکت کو لےکر وہ اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلی تھی تو حیدر نے بھی اس کے کمرے میں آنے کی کوشش نہیں کی تھی شاید وہ اسے کچھ ٹائم دینا چاہتا تھا لیکن اس وقت نتالیہ حیدر کی ناراضگی کا سوچتی ہوئی حیدر کے کمرے کا رخ کرنے لگی


"کیا میں اندر آجاؤ"


نتالیہ کمرے کے دروازہ کھول کر صوفے پر بیٹھے حیدر سے کمرے میں آنے کی اجازت مانگنے لگی جو اپنے موبائل میں مصروف تھا


"مرضی ہے تمہاری"


وہ بناء نتالیہ کی طرف دیکھے بےنیازی سے بولا تو نتالیہ اس کے سڑے سے انداز اور جواب کو نظر انداز کرتی حیدر کے کمرے میں آگئی


"کیا میں یہاں صوفے پر بیٹھ جاؤ"


نتالیہ معصومیت سے بولتی ہوئی حیدر کے پاس صوفے پر اشارہ کرتی اُس سے پوچھنے لگی


"مجھے اعتراض نہیں"


اس کی بےنیازی میں ابھی بھی کوئی فرق نہیں آیا تو وہ اپنا موبائل دیکھتا بولا تو نتالیہ حیدر کو گھورتی ہوئی حیدر کے بالکل قریب صوفے پر بیٹھ گئی


"کیا میں آپ کا یہ موبائل توڑ دوں"


نتالیہ دوبارہ معصومیت سے بولتی ہوئی حیدر کے ہاتھ سے اُس کا موبائل لے کر آف کرکے ٹیبل پر رکھ چکی تھی۔۔۔


حیدر خاموشی اور سنجیدگی اپنے اوپر طاری کی نتالیہ کو دیکھنے لگا جو اسمائل دیتی اسے دیکھ رہی تھی، وہ صوفے سے اٹھنے لگا تو نتالیہ نے حیدر کا ہاتھ پکڑلیا


"یہاں بیٹھیے مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے"


اب کی بار حیدر کا ہاتھ پکڑے وہ بہت پیارے انداز میں بولی تو حیدر اس کی خواہش کو رد نہیں کرسکا وہ واپس اس کے قریب صوفے پر بیٹھ گیا۔۔۔ نتالیہ حیدر کو جبکہ حیدر تالیہ کو خاموشی سے دیکھتا رہا


"تمہیں کچھ بات کرنی تھی"


چند سیکنڈ گزرنے کے بعد حیدر نتالیہ کو یاد دلانے لگا


"پہلے آپ مجھے بتائیے مجھ پر غصہ ہے یا مجھ سے خفا ہیں"


نتالیہ اُس کے انداز اور اجنبی رویئے پر حیدر سے پوچھنے لگی


"تم پر غصہ ہونے یا تم سے خفا ہونے کا کوئی فائدہ نہیں تمہیں وہی کرنا ہے جو تمہارے دماغ میں چل رہا ہوتا ہے یا جو تم سوچ بیٹھی ہوتی ہو"


حیدر نتالیہ کو دیکھ کر سنجیدگی سے بولا


"مجھے میری غلطی کا معلوم ہونا چاہیے"


نتالیہ بھی سنجیدگی سے حیدر سے پوچھنے لگی


"اچھا تو تمہیں تمہاری غلطی بھی معلوم نہیں ہے"


حیدر اُس پر تعجب کے ساتھ افسوس کرتا بولا


"اگر آپ کو معائشہ کے کزن کا آنا برا لگا تو اِس میں میری کیا غلطی ہے حیدر میں نے تو اُس کو دعوت دے کر نہیں بلایا تھا"


نتالیہ حیدر سے پوچھنے لگی


"وہ گھر میں زبردستی گُھسا تھا۔۔۔ میری غیر موجودگی میں تم نے اُسے اندر آنے کی اجازت کیوں دی۔۔۔ اگر میں گھر پر موجود نہ ہو تو تم ایسے ہی کسی اجنبی کو گھر میں بلالوں گی"


حیدر کے انداز میں خفگی کی رمک شامل تھی وہ نتالیہ کو دیکھتا ہوا اُس سے پوچھنے لگا


"صحیح ہے مجھے آپ کی غیر موجودگی میں یوں اجنبی مرد کو گھر کے اندر نہیں بلانا چاہیے تھا مگر وہ شریف لڑکا ہے اُس نے کوئی غیر مہذب بات یا حرکت نہیں کی میرے سامنے"


نتالیہ حیدر کا بگڑا ہوا موڈ دیکھ کر آہستہ آواز میں بولی نہیں تو وہ پہلے غُصے میں اُس کو کس قدر ڈانٹتا تھا یہ شکر تھا کہ وہ اب اِس سے خفا تھا مگر نرمی برت رہا تھا


"وہ شریف لڑکا یہاں میری بیوی یعنی تمہیں پرپوز کرنے آیا تھا۔۔۔ وہ تمہیں اپنے ساتھ گھر سے باہر لے جانا چاہتا تاکہ تمہیں کافی پلاکر تم سے شادی کا پوچھے"


حیدر غُصّے دباۓ نتالیہ کو دیکھتا ہوا اُسے فضیل کے ارادے کے بارے میں بتانے لگا جیسے سن کر نتالیہ حیرت سے حیدر کو دیکھنے لگی پھر آہستہ سے بولی


"میں اُس کی کافی پی کر شادی سے انکار کردیتی اور واپس گھر آجاتی۔۔۔ آپ اتنے پریشان کیوں ہورہے ہیں"


نتالیہ کے بولنے پر حیدر خاموشی سے اُس کو دیکھنے لگا وہ اپنی مسکراہٹ چھپارہی تھی یعنی وہ اِس بات پر غیر سنجیدہ تھی حیدر دوبارہ صوفے سے اٹھا نتالیہ نے دوبارہ حیدر کا ہاتھ پکڑلیا


"اچھا سوری ناں بابا پلیز معاف کردیں۔۔۔ آپ کو معلوم ہے آپ اس طرح کے موڈ میں مجھے کچھ خاص اچھے نہیں لگتے"


نتالیہ حیدر کو منانے والے انداز میں بولی تو حیدر اُس سے اپنا ہاتھ چھڑواتا بولا


"میں تمہیں ویسے بھی کچھ خاص پسند نہیں"


حیدر اُس کو دیکھ کر بولتا ہوا کمرے سے جانے لگا تو نتالیہ صوفے سے اٹھ کر اُس کے سامنے آکر راستہ روکتی ہوئی بولی


"اگر ایسی بات ہوتی تو میں آپ کو بطور شوہر دل سے قبول نہیں کرچکی ہوتی"


نتالیہ بولتی ہوئی حیدر کے کمرے سے باہر جانے لگی اب کی بار حیدر نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر نتالیہ کو روکا


"تو تم نے ہمارے رشتے کو دل سے قبول کرلیا ہے اور مجھے دل سے اپنا شوہر مان لیا ہے"


حیدر نتالیہ کا ہاتھ تھام کر بےحد سنجیدگی سے اُس سے پوچھنے لگا


نتالیہ نے بےحد آہستگی سے اپنی جھکی ہوئی پلکیں اٹھائی اور حیدر کو ایک نظر دیکھ کر واپس اپنی پلکیں جھکالیں جس پر حیدر کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی یہ اُس کا خوبصورت سا اقرار تھا جس پر حیدر نے نتالیہ کو خود سے قریب کرلیا


"حیدر مجھے اب اپنے کمرے میں جانے دیں"


نتالیہ حیدر کی دسترس میں اس کی نگاہوں سے گھبراتی ہوئی اُس سے بولی


"کون سا اپنا کمرہ جو کمرہ میرا ہے آج سے وہی کمرہ تمہارا بھی ہے"


حیدر نتالیہ سے بولتا ہوا اس کے ہونٹوں پر جھک کر اُس کو شرمانے پر مجبور کرچکا تھا


"محبت جیسے جذبے سے پہلے نہ آشنا تھا میں لیکن اب ایسا لگ رہا ہے یہ جو اپنے اندر میں تمہارے لئے محسوس کرنے لگا ہوں اِس احساس کو ہی محبت کہتے ہیں"


حیدر نتالیہ کو حصار میں لے کر بولتا ہوا اُسے اپنی باہوں میں اٹھا چکا تھا۔۔۔ نتالیہ خود میں سمٹتی ہوئی حیدر کو دیکھ کر بولی


"مجھ سے کبھی بھی خفا مت ہوئیے گا حیدر"


نتالیہ کے بولنے پر وہ اسے بیڈ پر لٹاتا ہوا اُس پر جھک گیا


"اپنی زندگی سے کوئی کیسے ختم ہوسکتا ہے"


حیدر سنجیدگی سے بولتا ہوا نتالیہ پر اپنی شدتیں لٹانے لگا


******


"حیدر میرے ساتھ ایسا نہیں کرسکتا میں نے اُس کو بےحد چاہا تھا کون لڑکی خود اپنے منہ سے کسی مرد کے سامنے اپنی محبت کا اظہار کرتی ہے مگر میں نے اُس سے سچ میں محبت کی تھی اُس سے محبت کا اظہار کیا تھا جس کا یہ صلہ ملا مجھے۔۔۔ وہ اتنے آرام سے مجھے اگنور کرکے اُس نتالیہ کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کا سوچ رہا ہے میں ایسا ہرگز نہیں ہونے دوں گی۔۔۔ اتنی آسانی سے تو میں حیدر کو چھوڑ کر پیچھے ہٹنے والے نہیں ہوں"


اِس وقت معائشہ اپنے کمرے میں بیٹھی غُصّے میں بھری فضیل کے آگے بولی۔۔۔ وہ حیدر کو نتالیہ کے ساتھ دیکھ کر ان دونوں کے رشتے کو قبول نہیں کر پارہی تھی


"معائشہ اگر تم ٹھنڈے دماغ سے سوچو تو حیدر تمہیں چھوڑ کر نتالیہ کو اپنی زندگی میں شامل نہیں کرنے والا بلکہ نتالیہ اُس کی زندگی میں پہلے سے شامل ہوچکی ہے، شروع میں ہوسکتا ہے وہ ذہنی طور پر نتالیہ کے ساتھ اپنا رشتہ قبول نہ کر پا رہا ہو مگر حیدر اب حقیقت کو اور اپنی شادی کو قبول کرچکا ہے۔۔۔ معائشہ مجھے افسوس ہے تمہارے ساتھ اچھا نہیں ہوا مگر کبھی کبھار ہم قدرت کے فیصلوں کے آگے بےبس ہوجاتے ہیں۔۔۔ ضروری نہیں زندگی میں ہم جو بھی چاہے وہ سب مؤثر ہوجاۓ اگر تم سچ میں حیدر سے محبت کرتی ہو تو اِس حقیقت کو قبول کرلو کہ اُس کے ساتھ تمہارا جوڑ نہیں بلکہ حیدر اور نتالیہ کا جوڑ تھا جو اُن دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے محبت نہ ہونے کے باوجود بھی قدرت نے بنادیا"


فضیل معائشہ کو سمجھاتا ہوا بولا تو وہ اپنی آنکھوں میں آئے آنسو صاف کرنے لگی


*****

شاور لینے کے بعد وہ کچن میں آچکی تھی تاکہ حیدر کے لیے ناشتہ بنادے حیدر بیڈروم میں آفس جانے کے لئے تیار ہورہا تھا کل رات حیدر نے اس کو اپنے قرب کا آغاز بخش کر نتالیہ سے اپنا رشتہ مزید مضبوط کرلیا تھا نتالیہ خود بھی حیدر کو بطور شوہر قبول کر کے دل و دماغ سے اِس رشتے کے لئے راضی ہوچکی تھی کچن میں ہوئی آہٹ پر نتالیہ مڑ کر دیکھنے لگی، کچن کی دہلیز کے پاس کھڑے حیدر کو شرارت بھرے انداز میں مسکراتا دیکھ کر وہ اپنے ہونٹوں پر آئی مسکراہٹ چھپاکر دوبارہ مڑ گئی۔۔ حیدر جب جب اس کو یوں مسکرا کر دیکھ رہا تھا وہ یہی اس سے نظریں چرا رہی تھی اب کی بار نتالیہ نے اپنا رخ موڑا تو حیدر چلتا ہوا کچن کے اندر آیا وہ نتالیہ کی پشت پر کھڑا اُس کو دونوں شانوں سے تھام کر نتالیہ کے کان کے قریب اپنے ہونٹ لاتا پوچھنے لگا


"کوئی خاص وجہ مجھ سے یوں نظریں نہ ملانے کی، اِس سے پہلے تو تم بڑی دلیری اور کونفیڈنس سے مجھ سے ہر بات کرجایا کرتی تھی اب ایسا کیا ہوگیا ہے"


حیدر اس کے بےحد قریب کھڑا نتالیہ سے پوچھنا لگا اُس کے لہجے میں کہیں بھی شرارت نہیں تھی صرف آنکھوں کی بجائے


"اب مجھے معلوم ہوچکا ہے جتنے شریف آپ نظر آتے ہیں اتنے شریف ہیں نہیں"


نتالیہ پلکہں جھکا کر حیدر سے بولی کل رات اس نے جو روپ حیدر کا دیکھا تھا وہ بالکل انوکھا اور مختلف تھا حیدر نتالیہ کی بات سن کر زور سے ہنسا اُس نے اپنا ایک بازو نتالیہ کی کمر کے گرد حمائل کیا جبکہ اپنا دوسرا ہاتھ نتالیہ کے گال پر رکھتا اس کی گردن تک لے آیا


"کل رات اگر شرافت دکھا دیتا تو تم میرے کمرے سے نکل کر اپنے بیڈ روم میں سونے چلی جاتی"


حیدر آئستگی سے بول رہا تھا اس کے ہونٹ نتالیہ کے گال کو چھونے لگے۔۔۔ حیدر کی بات پر نتالیہ اس کا حصار توڑ کر پلٹی اور حیدر کو گھور کر دیکھتی ہوئی بولی


"جی نہیں اب ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے"


نتالیہ کی بات پر اُس کے گھور کر دیکھنے پر حیدر کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر گئی وہ نتالیہ کا رُخ اپنی جانب دیکھ کر اُس کو ایک بار پھر اپنے حصار میں لے چکا تھا


"اچھا تو پھر میں یہ سمجھوں گی کہ میرا کل رات والا انداز تمہیں کچھ خاص پسند نہیں آیا، اوکے آئندہ سے میں اپنے جذبات کو ایک طرف رکھ کر تمہارے موڈ کا پہلے خیال رکھوں گا"


حیدر نتالیہ کو حصار میں لیے اُس کا چہرہ دیکھتا ہوا کافی سنجیدگی سے بولا اب کی بار اُس کی آنکھوں میں بھی شرارت نظر نہیں آرہی تھی نتالیہ ایک دم بول پڑی


"حیدر میں نے ایسا کب کہا کہ مجھے کچھ برا لگا کل رات۔۔۔ مجھے کچھ برا نہیں لگا"


حیدر کے یوں اچانک سنجیدہ ہونے پر وہ ایک دم سے یہ بات بولی مگر دوبارہ حیدر کے ہونٹوں پر شرارت بھری مسکراہٹ دیکھ کر وہ بری طرح بلش کرکے حیدر کے سینے میں چہرا چھپاگئی


"آپ بہت بدتمیز ہیں مجھے جان بوجھ کر تنگ کررہے ہیں"


نتالیہ کے بولنے پر حیدر اُس کے بالوں کو اپنے ہونٹوں سے چھوتا ہوا خود سے الگ کرتا پوچھنے لگا


"تم خوش ہو ناں اِس بدتمیز انسان کے ساتھ پر"


حیدر نتالیہ کا چہرا دیکھ کر اُس سے پوچھنے لگا


"خوش اور مطمئن دونوں"


حیدر کو دیکھتی ہوئی وہ سرگوشی میں بولی تو حیدر نے مسکراتے ہوۓ اُس کی پیشانی پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے پھر اچانک حیدر کے چہرے کی مسکراہٹ گہری ہوگئی جس نتالیہ ناسمجھے والے انداز میں اسے دیکھنے لگی


"کل رات یہ غلط فہمی تو تمہاری دور ہوگئی ہوگی کہ میرے اندر سن پینسٹھ کی بڈھی روح نہیں سمائی ہوئی"


حیدر کے شرارت بھرے لہجے میں بولنے پر نتالیہ حیدر کے سینے پر مُکا مارتی خود بھی مسکرادی تبھی باہر سے ڈور بیل کی آواز آئی


"میں دیکھتا ہوں"


حیدر نتالیہ کو بولتا ہوا دروازہ کھولنے چلاگیا


******


"اندر آنے کے لئے نہیں کہو گے میں تم سے ضروری بات کرنے کے لئے آئی ہو"


اپنے گھر کے دروازے پر کھڑی معائشہ کو دیکھ کر حیدر ایک پل کے لئے کچھ بول نہیں سکا تبھی معائشہ حیدر کو دیکھ کر بولی


"کیوں نہیں اندر آؤ"


حیدر پورا دروازہ کھول کر معائشہ کو راستہ دیتا ہوا بولا تو معائشہ گھر کے اندر چلی آئی


"کون ہے حیدر"


کچن سے ڈائینگ ہال میں آتی نتالیہ تھوڑی اونچی آواز میں حیدر سے پوچھ رہی تھی کہ حیدر کے ساتھ آتی معائشہ کو دیکھ کر نتالیہ ایک پل کے لئے وہی رک گئی


"کیسی ہو نتالیہ"


معائشہ نے غور سے اُس کے کھلے روپ کو دیکھا وہ پہلی دو ملاقاتوں سے زیادہ فریش لگ رہی تھی معائشہ اُس کا حال پوچھتی ہوئی بولی


"میں ٹھیک ہوں تم کیسی ہو"


نتالیہ نے ایک نظر خاموش کھڑے حیدر کو دیکھ کر ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ معائشہ کو جواب دیا


"تمہارے سامنے ہوں"


معائشہ مسکراتی ہوئی بولی تو نتالیہ کے ہونٹ سمٹ گئے اس کی آنکھوں میں کچھ کھو جانے کا احساس واضح تھا جس سے نتالیہ نظریں چرا گئی


"آپ دونوں باتیں کریں میں چائے لے کر آتی ہوں"


نتالیہ معائشہ پر سے نظریں ہٹاکر حیدر کو دیکھ کر بولی اور کچن کی طرف رُخ کرنے لگی


"نہیں چائے میں پی کر آئی ہوں مجھے صرف حیدر سے بات نہیں کرنی تم بھی کرنی ہے تم بھی آؤ پلیز"


معائشہ کے بولنے پر نتالیہ حیدر کو دیکھنے لگی


*****


سٹنگ روم میں وہ تینوں ہی بالکل خاموش بیٹھے تھے تب بات کا آغاز حیدر نے کیا


"معائشہ میں تمہارے جذبات کی قدر کرتا ہوں مجھے اِس بات کا احساس بھی جو کچھ تمہارے ساتھ ہوا تم اُس کے مستحق نہیں ہو لیکن میں ایک لڑکی جو میرے نکاح میں آچکی ہے وہ اب میری بیوی ہے۔۔۔ میرا ضمیر اجازت نہیں دے گا کہ میں اُس کو چھوڑ دو، اس سے شادی کرنے کے دوسرے دن میں نے تم سے وہ سب کہا تھا مگر حقیقت تو یہ ہے میں نتالیہ کو چھوڑنے کا حوصلہ نہیں کر پا رہا مجھے نہیں معلوم میری بات پر تمہیں مجھ پر غصہ آئے گا افسوس ہوگا یا پھر تم مجھ سے نفرت کرنے لگو گی مگر سچ تو یہ ہے جب تم نے مجھ سے محبت کا اظہار کیا تھا میرے اندر تمہارے لئے وہ احساسات پیدا نہیں ہوئے تھے جو نکاح کے بعد نتالیہ کے لیے پیدا ہوگئے۔۔ یہ اچانک سے میرے ساتھ کیسے ہوگیا میں اس بات سے انجان ہوں۔۔۔ تم میرے اس عمل کی جو چاہے سزا دے دو میں خاموشی سے قبول کرلوں گا مگر نتالیہ سے رشتہ ختم کرنا میرے اختیار میں نہیں ہے"


حیدر کے بولنے پر معائشہ مسکراتی ہوئی اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کرنے لگی۔۔۔ نتالیہ کو معائشہ کی اِس وقت کی دلی کیفیت پر دکھ ہونے لگا


"کل مجھے تمہارے اوپر شدید غصہ آیا تھا یہ سوچ کرکہ تمہیں وہ محبت کبھی نظر ہی نہیں آئی جو میں نے تم سے کی ہے مگر جب خود کو تمہاری جگہ پر رکھ کر سوچا تو میرا غصہ ختم ہونے لگا معلوم حیدر محبت ایک غیر فطری عمل ہے کوئی اچانک سے ہمارے دل میں آکر بس جاتا ہے یا پھر کسی کو پانے کی خواہش ایک دم سر چڑھ کے بولتی ہے۔۔۔ کسی کو ہر وقت سوچتے رہنا، یہ سب انسان کے اپنے بس میں نہیں ہوتا۔۔۔ جیسے میں نے تمہیں چاہا مگر تمہارے دل میں میری محبت اپنی جگہ نہیں بناسکی شاید یہ نکاح کے بولوں کی تاثیر ہے یا پھر اک رشتے سے جڑ جانے کی کشش کہ تمیہں نتالیہ سے محبت ہوگئی۔۔۔ مجھے دکھ تو ہے مگر صحیح فیصلہ لیا ہے تم نے نتالیہ کو چن کر۔۔۔ یہ تمہاری بیوی ہے اِسی کا تم پر حق ہونا چاہیے، میری دعا ہے تم دونوں ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بھر خوش رہو"


معائشہ حیدر اور نتالیہ کو دیکھتے ہوئے بولی اور صوفے سے اٹھ کر سٹنگ روم سے باہر نکلی۔۔۔ اس کے گھر سے چلے جانے کے بعد نتالیہ ابھی تک سن ہوکر بیٹھی تھی تب حیدر اپنی جگہ سے اٹھ کر نتالیہ کے پاس آکر بیٹھا تو وہ حیدر کو دیکھنے لگی


"اس کے ساتھ اچھا نہیں ہوا حیدر مجھے بالکل اچھا نہیں لگ رہا ہے"


نتالیہ اداس لہجے میں حیدر سے بولی تو حیدر نے نتالیہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام لیا


"پھر کیا کرو واپس بلالو اُسے سوتن کے روپ میں قبول کرلو گی اُس کو"


حیدر نے یہ بات بالکل سنجیدہ لہجے میں بولی جس پر ایک پل کے لئے نتالیہ سناٹے میں آگئی مگر دوسرے ہی پل وہ حیدر سے بولی


"آپ معائشہ سے شادی کرلیں حیدر میں آپ کو دوسری شادی کی اجازت دیتی ہوں"


اب کی بار جھٹکا لگنے کی باری حیدر کی تھی بےساختہ اس نے نتالیہ کا تھاما ہوا ہاتھ چھوڑا


"آر یو سیریس"


وہ حیرت زدہ ہوکر نتالیہ سے پوچھنے لگا


"جی میں بالکل سیریس ہوکر یہ بات کہہ رہی ہوں آپ سے، حیدر آپ معائشہ سے بات کریں اس سلسلے میں"

نتالیہ خود ہی حیدر کا ہاتھ پکڑ کر اس سے بولی تو حیدر نے اُس کی بات کو غیر سنجیدہ لیتے ہوئے اپنا ہاتھ چھڑالیا


"میں نے سوتن والی بات صرف مذاق میں کہی تھی نتالیہ اب ہم دونوں کے درمیان ایسی کوئی بات نہیں ہونی چاہیے"


حیدر نتالیہ سے بولتا ہوا ٹاپک کو کلوز کر کے صوفے سے اٹھا وہ شروع سے ہی ایسی تھی اپنی باتوں اور کاموں سے سب کو حیران کردینے والی


"لیکن آپ اِس بات پر سنجیدگی سے غور کریں حیدر اِس طرح معائشہ کو بھی آپ کا ساتھ میسر ہوجائے گا"


نتالیہ کے بولنے پر حیدر نے اُسے آنکھیں دکھائی تو وہ خاموش ہوگئی


"اگر مجھے لگتا کہ میں تمہارے ساتھ اور معائشہ کے ساتھ رشتے میں توازن برقرار رکھ سکتا تو یہ بات تمہیں بولنے کی ضرورت نہیں پڑتی میں خود اُس سے دوسری شادی کا کہہ دیتا اِس لئے آئندہ یہ بات دوبارہ اپنے منہ سے نکالنے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔ویسے ایک بات تو آج میں نے یہ جان لی تم بہت آسانی سے مجھے کسی دوسری عورت کے ساتھ شیئر کرسکتی ہو"


حیدر نے آخری بات بہت عجیب لہجے میں بولی تو تالیہ بےساختہ اُس کے پاس آکر بولی


"بہت بڑا ظرف چاہیے ہوتا ہے سوتن کو برداشت کرنے کے لیے یہ بات میں نے صرف معائشہ کے لئے بہت بڑا دل کرکے بولی تھی کیونکہ وہ آپ کو سچ میں لائک کرتی ہے۔۔۔ کسی دوسری کے لیے آپ ایسا سوچیں گیں تو میں آپ کو جان سے مار ڈالوں گی"


نتالیہ کی بات پر حیدر زور سے ہنسا


"بےفکر رہو تمہاری موجودگی میں میری سوچیں کہیں اور بھٹک ہی نہیں سکتیں۔۔ شام میں تیار رہنا آفس سے جلدی آؤ گا"


حیدر نتالیہ کے گال پر محبت بھرا لمس چھوڑ کر آفس جانے لگا اِس بات سے بالکل انجان کے اُس کے پیچھے کتنا بڑا طوفان آنے والا ہے


*****


وہ گہری نیند میں ڈوبا ہوا تھا تب اسے اپنے چہرے پر نتالیہ کی انگلیوں کا لمس محسوس ہوا۔۔۔ وہ لمس سے کیوں نہ آشنا ہوتا پچھلے نو ماہ سے وہ روز صبح حیدر کو ایسے ہی تو جگایا کرتی تھی اِس سے پہلے وہ حیدر کے چہرے سے اپنی مخملی انگلیاں ہٹاتی حیدر نے نیند میں ہی اُس کا ہاتھ پکڑلیا


"میرے جاگنے سے پہلے یہاں سے جانے والی تھی نہ تم روز کی طرح"


حیدر نے اپنی آنکھیں کھولیں تو نتالیہ کا مسکراتا ہوا چہرہ اُس کے سامنے تھا حیدر شکوہ کرتا ہوا اس سے پوچھنے لگا


"رک کر آپ کے پاس کیا کروں گی زور رات میں آپ کے بلانے پر آپ کے پاس آ تو جاتی ہوں حیدر"


نتالیہ حیدر کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکالتی ہوئی اُس سے بولی۔۔۔ نتالیہ کے ہاتھ چھڑوانے پر حیدر ایک دم اُٹھ بیٹھا


"نتالیہ رکو پلیز ابھی مت جانا میری بات سن لو"


نتالیہ پیچھے کی طرف قدم اُٹھاتی اُس سے دور ہورہی تھی حیدر جانتا تھا وہ سارا دن اب اُس کو نظر نہیں آئے گی جبھی وہ بےقرار لہجے میں اس سے بولا مگر تب تک نتالیہ کا وجود ہوا میں تحلیل ہوچکا تھا ساری رات نتالیہ کے خوابوں خیالوں میں گزار کر روز صبح وہ نتالیہ کے جانے پر یونہی اداس ہوجاتا


"حیدر تم جاگ گئے ہو"


معائشہ کی آواز اُسے ہوش کی دنیا میں واپس لے آئی معائشہ بیڈ روم میں آکر حیدر سے پوچھنے لگی


"تمہیں کیا میں سویا ہوا لگ رہا ہوں، عجیب بےتکی سی باتیں مت کیا کرو معائشہ۔۔۔ اپنی آنکھوں کے ساتھ ساتھ عقل کا بھی استعمال کیا کرو"


حیدر معائشہ کو دیکھ کر بےزار سے لہجے میں بولتا واش روم چلا گیا


پچھلے دو ماہ سے روز صبح جاگنے کے بعد معائشہ حیدر کا اِسی طرح کا خراب موڈ دیکھتی آئی تھی وہ جانتی تھی حیدر تھوڑی دیر میں اُس کے ساتھ نارمل ہوجائے گا مگر اسے یہ بھی پتہ تھا رات ہوتے ہی وہ اُس کے لئے دوبارہ اجنبی ہوجاۓ گا


******


"حیدر۔۔۔ حیدر پلیز میرے پاس آجائیے مجھے آپ کی ضرورت ہے بہت زیادہ"


خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتی ہوئی وہ تکلیف سے آنکھیں بند کئے کراہتی ہوئی بولی تو نتالیہ کی آواز سن کر رجو اُس کے کمرے میں بھاگی چلی آئی


"نتالیہ بی بی آنکھیں کھولیے اپنی، میں تو پہلے ہی اندازہ لگالیا تھا ڈاکٹرنی نے ڈیٹ غلط دی ہے آپ کو شاید آپ کے اسپتال جانے کا وقت آگیا ہے۔۔۔ میں خورشید سے کہتی ہو جلدی سے گاڑی نکالے۔۔۔ بڑے صاحب کو بھی بتاتی ہوں،، آپ تھوڑی سی ہمت کرکے اٹھنے کی کوشش کریں"


رجو نتالیہ کے نو مہینے کے ہیوی ڈیل ڈول کو سہارا دیتی ہوئی اسے بیڈ اٹھانے کے بعد بری سی چادر نتالیہ کے گرد لپیٹنے لگی


"رجو وعدہ کرو اگر مجھے کچھ ہوجاتا ہے تو میرا بچہ اُس کے باپ۔۔۔۔


نتالیہ پورا جملہ بھی نہیں بول پائی تھی کہ تکلیف کی شدت سے اپنے ہونٹ آپس میں بھینچ گئی ویسے ہی کمرے میں کمال چلا آیا


"جاؤ جلدی سے خورشید سے کہو فوراً گاڑی نکالے"


کمال رجو سے بولتا ہوا نتالیہ کی حالت دیکھکر اُسے سہارا دیتا بیڈ سے اٹھانے لگا


"میرے خیال میں اب وقت آگیا ہے کہ حیدر کو تمام حالات کا علم ہوجاۓ"


کمال نے نتالیہ سے بولنا چاہا مگر نتالیہ پھوٹ پھوٹ کر روتی ہوئی نفی میں سر ہلانے لگی


******


بیڈ روم سے آتی معائشہ کی سسکتی ہوئی آواز پر وہ خاصا شرمندہ سا ڈائننگ حال میں بیٹھا تھا جہاں کیک ٹیبل کی بجائے فرش پر الٹا پڑا تھا گلدان کی کرچیاں پھولوں کی پتیاں یہاں تک کہ اُس کے لیے خریدا ہوا گفٹ بھی فرش کی زینٹ بنا ہوا تھا آج اُس کی برتھ ڈے کا دن تھا جو معائشہ نے سیلبریٹ کرنے کے لیے خود اُس کے لیے کیک بنایا تھا اور روم کو بھی اچھے سے ڈیکوریٹ کیا تھا۔۔۔ مگر بدلے میں معائشہ اُس سے جو مانگ رہی تھی وہ معائشہ کو دینا حیدر کے بس میں نہیں تھا


جو جگہ نتالیہ کی تھی وہ حیدر کیسے معائشہ کو دے دیتا اِسی بات پر غصے میں معائشہ نے سب چیزوں کو تہس نہس کر ڈالا تھا اب وہ کمرے میں بیٹھی آنسو بہا رہی تھی اور ڈائننگ ہال میں حیدر خاموش بیٹھا تھا معائشہ کے رونے کی آواز پر حیدر کا ضمیر مسلسل اُسے کچوکے لگا رہا تھا کیوکہ معائشہ بھی اس کی بیوی تھی جسے پچھلے دو ماہ سے وہ نظر انداز کیے ہوۓ تھا


وہ اب اس سے اپنا جائز حق طلب کرنا چاہ رہی تھی۔۔۔ جو غلط نہیں بےشک معائشہ سے شادی اُس نے دو ماہ پہلے حسن، ذولفقار اور خود معائشہ کی بےجا ضد پر کی تھی مگر اب وہ بطور بیوی اسے اپنی زندگی میں شامل کرچکا تھا


بیڈ روم سے معائشہ کے رونے کی آواز پر حیدر سرخ آنکھوں کے ساتھ بیڈ روم کے بند دروازے کو دیکھنے لگا۔۔۔ جو آج وہ کرنے جارہا تھا اُس سب کے لئے وہ خود دلی طور پر آمادہ نہیں تھا مگر وہ معائشہ کو اُس کے جائز حق سے کب تک دستبردار رکھ سکتا تھا یہ مرحلہ جو آج اُس پر آیا تھا کس قدر سخت اور مشکل تھا یہ حیدر کا دل ہی جانتا تھا۔۔۔ اپنے دل کو سمجھانے کے بعد شکستہ قدم اٹھاتا ہوا وہ بیڈ روم میں جانے لگا جہاں معائشہ موجود تھی


کمرے کا دروازہ کھلتا دیکھ کر اور حیدر کو بیڈروم میں آتا دیکھ کر وہ دوبارہ گھٹنوں میں سر دیئے رونے لگی کیوکہ اچھی طرح جانتی تھی پچھلے 60 دنوں کی طرح آج رات بھی حیدر کو اجنبی ہوجانا تھا مگر جب اُس نے بیڈ روم میں حیدر کو اپنے قریب بیٹھتا ہوا محسوس کیا تو معائشہ اپنے گھٹنے سر اٹھاکر لیمپ کی مدہم روشنی میں حیدر کا چہرہ دیکھنے لگی


"میں نے تمہیں پہلے ہی کہا تھا مجھ سے شادی کرکے تمہیں کچھ بھی حاصل نہیں ہونے والا معائشہ میں دوسرے مردوں کے جیسا نہیں ہوں دوسرے سارے مرد شاید مجھ سے بہتر اور بہت اچھے شوہر ثابت ہوتے ہوگے میرے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ میں اُسے اپنے دل سے نہیں نکال پاتا وہ اب میری زندگی میں کہیں بھی موجود نہیں ہے مگر اِس کے باوجود میں تمہیں یا کسی دوسری لڑکی کو اُس کی جگہ نہیں دے سکتا۔۔ میں جانتا ہوں ایسا نہیں ہونا چاہیے مجھے معلوم ہے یہ تمہارے ساتھ سراسر زیادتی ہے کیوکہ تم میری بیوی ہو مگر میں کیا کروں۔۔ میں ایسا مرد نہیں ہوں جو اتنی آسانی سے کسی بڑی تبدیلی کو قبول کرلو، میں زندگی بھر ایک ہی لڑکی پر انحصار کرنے والا مرد ہوں اور میرا دل جس لڑکی کا طلبگار ہے وہ میری زندگی میں موجود نہیں ہے"


حیدر کی بات سن کر معائشہ کے رونے میں مزید روانی آگئی وہ با آواز رونے لگی جس پر حیدر دل سے شرمندہ ہوگیا


"حیدر میں تم سے بےتحاشہ محبت کرتی ہوں، تمہیں خدا کا واسطہ ہے مجھے یوں نظر انداز مت کرو میں اِس طرح نظر انداز ہوکر ساری زندگی نہیں گزار سکتی"


معائشہ اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر حیدر کے سامنے روتی ہوئی بولی تو حیدر نے اپنے دل مضبوط کرتے ہوئے معائشہ کے دونوں ہاتھوں کو تھاما


وہ معائشہ کے آنسو صاف کررہا تھا تب معائشہ کے دل میں اطمینان ہوا معائشہ خود ہی فاصلے سمیٹ کر حیدر کے مزید قریب آئی تو حیدر نے عائشہ کا چہرہ تھاما


حیدر کی نظریں معائشہ کے ہونٹوں پر پڑی مگر اِس وقت اندر سے اُس کا دل تمام احساسات سے خالی تھا۔۔۔ معائشہ آنکھیں بند کیے حیدر کی قُربت کی منتظر تھی لیکن حیدر خالی ذہن کے ساتھ معائشہ کے ہونٹوں کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ اُسے وہ لمحات یاد آنے لگے جب پہلی بار اُس نے نتالیہ کے ہونٹوں کو چھوا تھا


نتالیہ کو اپنی قُربت کا اعزاز بخشتے وقت اُس کے احساسات محبت سے چور اور اُس کا دل اندر سے سرشار تھا وہ معائشہ کے ہونٹوں سے نظریں چرا کر اپنے دل پر جبر کرتا ہوا معائشہ کو اپنے حصار میں لینے لگا جس کے بعد اُس نے لیمپ کی مدھم روشنی بھی بند کردی


ان گزرے نو ماہ میں آج پہلی رات ایسی تھی جب اُس نے نتالیہ کے بارے میں نہیں سوچا تھا، معلوم نہیں کل نتالیہ اُسے جگانے آئے گی کہ نہیں حیدر کا دھیان بھٹکنے لگا


"حیدر"

معائشہ کی آواز پر وہ ایک دم چونکا معائشہ کے ہونٹوں کا لمس اپنے گال پر محسوس کرکے وہ اپنی تمام سوچوں کو تالے لگاتا معائشہ کی طرف متوجہ ہوگیا


*****


"حیدر"


خواب میں نتالیہ حیدر کو پکارتی ہوئی بیدار ہو کر اٹھ بیٹھی برابر میں سوئے ہوئے اپنے نومولود بیٹے کو دیکھ کر اُسے تھوڑا اطمینان ہوا۔۔۔ آج صبح ہی ایک صحت مند بچے کو پیدا کرکے اُس نے ماں کا درجہ پالیا تھا۔۔۔ آج اُسے حیدر کی کمی بےتحاشہ محسوس ہوئی تھی ناجانے آج اس کو اس قدر بےچینی کیو محسوس ہورہی تھی وہ بیڈ سے اُٹھ کے کمرے کی کھڑکی کے سامنے کھڑی ہوگئی۔۔۔ ماضی کی یادوں میں جاتی ہوئی وہ اُس وقت کو سوچنے لگی جب وہ حیدر کو بتاۓ بغیر اُس کا گھر چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے اپنے چچا کے پاس چلی آئی تھی


******


وہ ایک ضروری میٹنگ اٹینڈ کرکے اپنے آفس کے روم میں آکر بیٹھا تھا ان گزرے ہوئے دو سالوں میں جہاں اس نے ترقی کی منزلیں طے کی تھیں مگر آگے بڑھنے کے باوجود اُس کی زندگی ایک جگہ ٹھہر سی گئی تھی، عجیب بےچینی اور اداسی اس کی طبعیت میں ہر دم چھائی رہتی وہ اپنی اِس زندگی سے خوش تھا کہ نہیں اُسے نہیں معلوم تھا مگر وہ ہر ممکن کوشش کرتا کے معائشہ کو خوش رکھے اور اُس کا خیال رکھے کیونکہ بقول ڈاکٹر کے اُس کی پریگنینسی میں کافی کمپلیکیشن آچکی تھی۔۔۔ جیسے جیسے ڈلیوری کا وقت قریب آتا جارہا تھا آۓ دن اُس کی حالت بگڑتی جارہی تھی۔۔


وہ اپنی گزری زندگی کے بارے میں سوچ رہا تھا تو بےخیالی میں اُس کا دھیان نتالیہ کی طرف چلا گیا۔۔۔ ان گزرے دو سال میں ایسا کوئی دن نہیں تھا جب اُسے نتالیہ کا خیال نہ آیا ہو، مایوسی اور افسردگی ایک بار پھر اُس کے اوپر حملہ آور ہوگئی تھی نتالیہ کا خیال اپنے ذہن سے جھٹکنے کی خاطر اُس نے ٹیبل پر رکھا ہوا اپنا موبائل اٹھایا جو میٹنگ کی وجہ سے وہ آفس کے روم میں ہی چھوڑ کر گیا تھا۔۔۔ اپنے موبائل پر معائشہ کے نمبر سے اور حسن کے نمبر سے لاتعداد مسڈ کالز دیکھ کر اُسے کسی انہونی کا احساس ہوا حیدر معائشہ کے نمبر پر کال ملانے لگا مگر وہ کال رسیو نہیں کررہی تھی تبھی اُس نے حسن کو کال ملائی جو حسن دوسری بیل پر کال رسیو کرچکا تھا


"چاچو کہا موجود ہیں یار آپ۔۔۔ کتنی دیر سے آپ کو کال کررہا ہوں۔۔۔ چچی کی کنڈیشن ٹھیک نہیں آپ جتنی جلدی ہوسکے اسپتال پہنچے"


حسن کی بات سن کر وہ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر کرسی سے اٹھ کر کار کی کیز اٹھاتا ہوا اپنے آفس کے روم سے باہر نکل گیا

*****

آج صبح ہی حیدر کے آفس جانے کے بعد معائشہ کا بی پی شوٹ کیا تھا ناک اور کان سے بلڈنگ دیکھ کر حسن اُس کو فوراً ہی اسپتال لے آیا تھا حسن کا دو ہفتے پہلے ہی پاکستان آنا ہوا تھا جب حیدر اسپتال پہنچا تو ڈاکٹر کے پاس اس کے لئے بری خبر یہ تھی کہ وہ اُس کے اور معائشہ کے بچے کو نہیں بچا پائے تھے اور خود معائشہ کے پاس بھی زیادہ وقت نہیں تھا یہ خبر حیدر کی زندگی میں بالکل ہی ویسا طوفان لےکر آئی تھی جیسا طوفان اُس سے پہلے اچانک نتالیہ کے اُس کی زندگی سے چلے جانے پر آیا تھا اِس وقت حیدر یہ خبر سن کر معائشہ کے پاس جانے کا حوصلہ نہیں کر پا رہا تھا


*****


شام میں وہ تیار ہوکر حیدر کے آفس سے گھر آنے کا انتظار کررہی تھی تب ڈور بیل بجنے پر نتالیہ دروازہ کھولنے کے لیے بیڈ روم سے باہر نکلی۔۔۔ مگر دروازے پر حیدر کی بجائے عائشہ کو دیکھ کر نتالیہ کو حیرت ہوئی اُس کی آنکھیں ایسی تھی جیسے وہ یہاں آنے سے پہلے بےتحاشہ روئی ہوں نتالیہ کے کچھ بولنے سے پہلے معائشہ خود گھر کے اندر داخل ہوئی تو نتالیہ کچھ بولے بغیر گھر کا دروازہ بند کرکے معائشہ کے پیچھے کمرے میں آگئی


"کسی دوسرے کی خوشیوں پر قبضہ کرکے تم خود کتنے دنوں تک خوش رہ سکو گی"


معائشہ کے چبھتے ہوئے لہجے میں کئے گئے سوال پر نتالیہ خاموشی سے اُسے دیکھنے لگی


"کیا مطلب ہے تمہارے اُس سوال کا کہنا کیا چاہتی ہو تم"


نتالیہ کنفیوز ہوکر معائشہ سے پوچھنے لگی صبح ہی تو وہ ساری باتیں ختم کرکے اُن دونوں کو خوش رہنے کی دعا دے کر ہمیشہ کے لیے اُن دونوں کی زندگی سے جانے کی بات کر رہی تھی پھر اب۔۔۔۔


"تم واقعی اتنی بھولی ہو یا پھر میرے سامنے بھولی بننے کا ڈرامہ کررہی ہو۔۔۔ اپنی انہی اداؤں سے حیدر کو اپنے جال میں پھنسایا ہے ناں تم نے، میں تو اُسے آج تک اپنی کسی ادا سے متاثر نہیں کرپائی اور وہ بھی خالی خولی حُسن دیکھ کر لٹو ہونے والا مرد نہیں ہے۔۔۔ بتاؤ کیا جادو کیا ہے تم نے حیدر کے اوپر"


معائشہ زہر خواندہ لہجے میں نتالیہ کو دیکھ کر بولی تو نتالیہ اُس کی بات پر کچھ بھی نہیں بول پائی


"کیا ملے گا تمہیں مجھ سے حیدر کو چھین کر کیوں دشمن بنی ہوئی ہو تم میری خوشیوں کی، بگاڑا کیا ہے آخر میں نے تمہارا"


معائشہ دانت پیستی ہوئی نتالیہ سے ایسے بولی جیسے وہ نتالیہ پر آیا غصہ مشکل کے ضبط کر پارہی تھی


"تم مجھے غلط سمجھ رہی ہو معائشہ میں تو چاہتی ہوں حیدر تمہیں بھی اپنالے۔۔۔ میں اور تم ایک ساتھ رہے حیدر کے"


نتالیہ معائشہ کی غلط فہمی دور کرتی ہوئی اُس سے بولی معائشہ ایک دم غُصے میں پھنکاری


"میں حیدر کے ساتھ کسی دوسری عورت کا وجود شیئر نہیں کرسکتی اور تمہارے ہوتے ہوۓ حیدر مجھے اہمیت کبھی نہیں دے گا۔۔۔ ارے اگر حسن نے تمہیں ریجیکٹ کردیا ہے تو اِس میں میرا کیا قصور ہے مجھ سے کیوں اپنی بدقسمتی کا بدلہ لے رہی ہو تم، جو کچھ تمہارے ساتھ حسن نے کیا وہی سب حیدر بھی میرے ساتھ کررہا ہے تمہارے پیچھے۔۔۔ نتالیہ تم نے حسن کی بےوفائی برداشت کرلی مگر میں حیدر سے جدائی برداشت کرکے زندہ نہیں رہوں گی۔۔۔ یہ میرے دونوں ہاتھ دیکھ رہی ہو یہ میں تمہارے سامنے جوڑتی ہوں تم جو کہو گی جیسا کہو گی میں وہ کرنے کے لئے تیار ہوں مگر حیدر کی زندگی سے کہیں دور چلی جاؤں تمہیں اللہ کا واسطہ ہے کہیں چلی جاؤ حیدر کی زندگی سے۔۔۔ میں حیدر کے بغیر نہیں رہ سکتی وہ کبھی بھی تمہارے ہوتے مجھے نہیں اپناۓ گا۔۔۔ تم کم عمر ہو میرے سے زیادہ خوبصورت ہو تمہیں کوئی بھی اپنالے گا مگر میں نے حیدر سے محبت کی ہے، اور بےتحاشہ محبت کی ہے میں اس کے علاوہ کسی دوسرے کا تصور نہیں کرسکتی پلیز مجھے حیدر دے دو"


معائشہ جو تھوڑی دیر پہلے اُس پر غصہ کررہی تھی اور نتالیہ کے آگے ہاتھ جوڑتی اب رونے لگی


"میں خود بھی اب حیدر کے علاوہ کسی دوسرے کا تصور نہیں کرسکتی مگر اُن کی زندگی سے صرف اِس لیے جارہی ہو تاکہ تمہیں تمہاری خوشیاں اور محبت دونوں مل جاۓ حیدر کا بہت زیادہ خیال رکھنا"


معائشہ کے اپنے سامنے جڑے ہاتھ دیکھ کر نہ جانے کیسے نتالیہ کے منہ سے یہ الفاظ نکلے وہ اُس کے ہاتھ کھول کر نیچے گراتی ہوئی حیدر کی وارڈ روب سے اپنی پراپرٹی کے تمام پیپرز لے کر حیدر کے گھر سے ہمیشہ کے لیے نکل گئی۔۔۔ اپنی خوشیوں کے بدلے وہ معائشہ کی آہیں اور بد دعائیں سمیٹ کر اپنی زندگی نہیں گزار سکتی تھی


*****


"یوشع واپس آؤ مما کے پاس۔۔۔ او میرے خدا ایک تو اِس بونے نے جب سے چلنا اسٹارٹ کیا ھے میں ذرا سی دیر سکون سے نہیں بیٹھ سکتی"


نتالیہ آواز دیتی ہوئی گھر سے باہر لان میں اپنے بیٹے کے پیچھے بھاگی


"مم۔۔۔۔ پول"


یوشع ٹوٹے ہوئے لفظوں کا سہارا لے کر لان میں لگے پھول توڑتا ہوا نتالیہ کو معصومیت سے بولتا ہوا پھول دکھانے لگا


"مم کہ بچے ابھی تھوڑی دیر پہلے میں نے تم کو نہلایا تھا سارے کپڑے برباد کر ڈالے تم نے"


نتالیہ جھنجھلاتی ہوئی اپنے دوپٹے سے یوشع کے ہاتھ جھاڑ کر اسے گود میں اٹھا چکی تھی


"لائیے نتالیہ بی بی یوشع بابا کے کپڑے میں تبدیل کروا دیتی ہوں آپ کو بڑے صاحب بلارہے ہیں آپ اُن کی بات سن لیں جاکر"


لان میں آتی رجو یوشع کو اپنی گود میں لیتی نتالیہ سے بولی


"چچا جان جاگ گئے ہیں ٹھیک ہے میں اُن کو دیکھ لیتی ہوں تم یوشع کے کپڑے چینج کروا دو، اور کچن میں جاکر کھچڑی بھی دیکھ لینا تیار ہوگئی ہوگی"


نتالیہ رجو کو ہدایات دیتی ہوئی کمال کے کمرے میں جانے لگی


"بیٹا میری کل والی بات کو لے کر ناراض مت ہونا مجھ سے میں نے صرف تمہارا بھلا چاہتا ہوں جبھی تم سے بول رہا ہوں"


نتالیہ کمال کے کمرے میں آکر خاموش بیٹھ گئی تو کمال اپنی بھتیجی کی خاموشی محسوس کرتا ہے اُس سے بولا


"آپ کو کیسے معلوم، آپ جو چاہ رہے ہیں اُس میں بھلا ہوجائے گا میرا۔۔۔ میں اپنی ذات کی وجہ سے کسی دوسرے کو ٹینشن یا تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی چچا جان آپ میری بات کو بھی تو سمجھنے کی کوشش کریں"


نتالیہ ایک بار پھر کمال کو سمجھاتی ہوئی بولی دو ماہ پہلے کمال کے بیٹے کا انتقال ہوچکا تھا جس کے بعد کمال خود بیمار رہنے لگا تھا وہ چاہتا تھا کہ نتالیہ دوبارہ حیدر کے پاس چلی جائے یہی بات وہ نتالیہ سے کرچکا تھا جسے سن کر نتالیہ اس سے اچھا خاصہ ناراض ہوگئی تھی


"تمہاری ذات صرف حیدر کی بیوی کے لیے پریشانی کا سبب بن سکتی ہے کبھی تم نے حیدر کے بارے میں سوچا۔۔۔ دو سال پہلے وہ تمہیں اپنے گھر میں موجود نہ پاکر کتنا پریشان ہوا ہوگا۔۔۔ مجھ سے خود بہت بڑی حماقت ہوئی جو تمہاری بات مان بیٹھا آج سے دو سال پہلے جب حیدر تمہیں ڈھونڈتا ہوا یہاں میرے پاس آیا تھا مجھے تب ہی اُسے ساری سچائی بتاکر تمہیں اُس کے ساتھ روانہ کرنا چاہیے تھا مگر اب میں حیدر کو مزید اندھیرے میں نہیں رکھوں گا اُس سے رابطہ کروں گا اور اُسے ساری سچائی بھی بتاؤں گا"


کمال بولتے بولتے کھانسنے لگا تو نتالیہ اپنی جگہ سے اٹھ کر کمال کے لئے جگ میں سے پانی نکالنے لگی۔۔۔ جسے پی کر کمال کی کھانسی سنبھلی تو نتالیہ آہستہ سے بولی


"دو سال کا عرصہ گزر چکا ہے حیدر معائشہ کے ساتھ ایک مطمئن اور خوشحال زندگی گزار رہے ہوں گے اب کیا ضرورت ہے اُن کی زندگی میں ٹینشن لانے کی میں یہاں آپ کے پاس ٹھیک ہوں چچا جان اور آپ نے سوچا ہے میرے حیدر کے پاس جانے سے آپ کا کیا ہوگا"


نتالیہ دل پر پتھر رکھ کے کمال کو سمجھاتی ہوئی بولی وہ نتالیہ کی بات سن کر ایک بار پھر بولا


"پاگل لڑکی میں اب یہ سوچنے لگا ہوں میرے دنیا سے چلے جانے کے بعد تمہارا اور یوشع کا کیا ہوگا۔۔۔ ابھی صرف دو سال کا عرصہ گزرا ہے پوری زندگی پڑی ہے کیسے گزارو گی اتنی بڑی زندگی ایک بیٹے کے ساتھ اکیلی اُس کی پرورش کرکے۔۔۔ اور یوشع کے بارے میں تمہیں ذرا خیال نہیں آتا اُسے اس کے باپ سے دور رکھ کر اپنے بیٹے کو کس بات کی سزا دے رہی ہو تم۔۔۔ حیدر کی زندگی سے بناء بتائے یہاں آکر تم ایک بیوقوفی کرچکی ہوں اور میں تمہاری اُس بیوقوفی میں تمہارا ساتھ بھی دے چکا ہوں مگر اب مزید میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا۔۔ اس لئے میں نے سوچ لیا حیدر سے اب جلد رابطہ کروں گا وہ یہاں آۓ تمہیں اور اپنے بیٹے کو ساتھ لےکر چلا جائے مزید اب ایک لفظ نہیں سنوں گا میں تمہارا"


کمال تھوڑا سخت لہجے میں بولا تو نتالیہ وہاں بیٹھی خاموشی سے اپنی پلکیں جھپکتی آنسوؤں کو باہر آنے سے روکنے لگی جانے اب اُس کا دل پہلے کی طرح مضبوط نہیں رہا تھا آنسو فوراً نکل پڑتے


یہ دو سال کا عرصہ حیدر سے دور رہ کر اُس نے خود کون سا خوش ہوکر گزارا تھا حیدر کا گھر چھوڑ کر یہاں اپنے چچا کے پاس آنے کے بعد اُسے لگا کہ شاید اس کا یہ جذباتی فیصلہ ٹھیک نہیں تھا مگر معائشہ کا خیال آتے ہی اُس نے حیدر کے بارے میں سوچنا ترک کردیا کیوکہ حیدر کا خیال رکھنے والی اسے پیار دینے والی معائشہ تھی اب حیدر کے پاس۔۔۔ مگر جب اسے یہ معلوم ہوا کہ وہ پریگننٹ ہے تب اسے شدت سے حیدر کی کمی محسوس ہوئی تھی یوشع کو پہلی بار گود میں لے کر اس کا دل چاہا کہ وہ حیدر سے خود رابطہ کرلے مگر معائشہ کا خیال کرکے وہ اپنے دل کو سمجھالیا کرتی


"ان آنسوؤں کو روک لو نتالیہ میرے سامنے آنسو بہانے کی کوشش مت کرنا کیونکہ میں اب تمھارے آنسوؤں کو دیکھ کر اپنا فیصلہ نہیں بدلنے والا۔۔۔ دو سال پہلے غلط کیا میں نے جو تمہارے آنسوؤں کو دیکھ کر حیدر کے سامنے غلط بیانی سے کام لیا اور اسے کہہ دیا کہ تم یہاں نہیں آئی ہو میرے پاس۔۔۔ ارے اب میرے اوپر جانے کا وقت آگیا ہے اپنے باپ کے سامنے مجھے معافی مانگنے کے قابل تو چھوڑ دو، ویسے بھی اپنے بڑے بھائی کا اُس کی زندگی میں بہت دل دکھا چکا ہوں میں۔۔۔ اب اس کی اولاد کو بیوقوفی کرتا دیکھ کر اس کا مزید حصہ نہیں بن سکتا۔۔۔ نتالیہ اگر تم واقعی مجھے اپنے باپ کی طرح مانتی ہوں تو پھر میرے فیصلے کی بھی عزت کرنو"


کمال نتالیہ کا روہانسی چہرہ دیکھ کر اس سے بولا تو رجو نے دروازے پر دستک دی


"نتالیہ بی بی آپ سے کوئی ملنے آیا ہے جی"


رجو کی بات سن کر نتالیہ آنسو ضبط کیے حیرت سے اُسے دیکھنے لگی


"کون ہے کیا نام بتارہا ہے اپنا"


کمال کو حیرت ہوئی تھی جبھی وہ رجو سے پوچھنے لگا کیونکہ پچھلے دو سالوں میں حیدر کے علاوہ نتالیہ کا کوئی پوچھنے نہیں آیا تھا


"جی وہ اپنا نام حسن بتارہے ہیں"


رجو کے بولنے پر کمال اور نتالیہ حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے


"حسن"


نتالیہ زیرلب بڑبڑاتی ہوئی صوفے سے اٹھی


*****


"میں اُس وقت بہت خود غرض ہوگئی تمہاری محبت میں۔۔۔ تم نے نتالیہ کے بارے میں بتایا تھا کہ وہ کتنی رحم دل ہے میں نے نتالیہ کے کو ایسی باتیں کرکے مجبور کیا تھا کہ وہ تمہاری زندگی سے بغیر تمہیں بتائے چلی جائے اور تم سے کبھی رابطہ نہ رکھے مجھے لگا کہ نتالیہ کے اِس طرح چلے جانے سے تم اُس کو چند دن یاد رکھ کر بھول جاؤ گے مگر یہ میری بھول تھی۔۔۔ مجھے اپنانے کے بعد بھی تمہیں ہر وقت نتالیہ کی یاد میں کھویا ہوا دیکھ کر اور اس قدر خاموش دیکھ کر مجھے اپنی غلطی کا بہت پہلے ہی احساس ہوچکا تھا مگر حقیقت بتاکر میں تمہاری نظروں میں اپنا گرا ہوا مقام نہیں دیکھ سکتی تھی لیکن اب وقت ایسا آگیا ہے کہ سچ بتانے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں کیوکہ اتنا بڑا بوجھ لےکر میں اس دنیا سے نہیں جاسکتی۔۔۔ حیدر پلیز مجھے معاف کردینا"


معائشہ کو دنیا سے گئے آج پورے دن گزر چکے تھے اپنی موت سے پہلے اُس نے جو انکشاف حیدر کے سامنے کیا تھا حیدر ابھی تک شاکڈ کی کیفیت سے نکل نہیں پارہا تھا معائشہ نے صرف اپنی محبت کو دیکھ کر، اُس کے ساتھ کس قدر غلط کیا اور نتالیہ۔۔۔


نتالیہ نے تو اِس طرح اُس کی زندگی سے جاکر یہ ثابت کیا تھا کہ وہ اُسے نہ تو محبت کرتی تھی نہ ہی محبت کے قابل سمجھتی تھی اور وہ خود کتنا بےوقوف انسان تھا کہ دو سال تک اُس لڑکی کو سوچتا رہا جس کی نظر میں اُس کے جذبات کی کوئی اہمیت نہ تھی۔۔۔ معائشہ کے موت کے وقت معائشہ کو تکلیف میں دیکھ کر حیدر اُس کو تو معافی مانگنے پر معاف کرچکا تھا مگر نتالیہ کو وہ کبھی بخشنے والا نہیں تھا


دو دن پہلے جب نتالیہ کہ چچا کی کال اُس کے پاس آئی تھی تب وہ روڈلی اُن سے کہہ چکا تھا کہ اُسے نتالیہ کی اب کوئی ضرورت نہیں ہے وہ اپنی بھتیجی کو ساری عمر اپنے پاس رکھیں۔۔۔ کمال نے آگے سے کچھ بولنا بھی چاہا تو حیدر نے اُس کی بات سننا ضروری نہیں سمجھا اور موبائل سے رابطہ منقطع کردیا۔۔۔ وہ اپنے بیڈ روم میں بیٹھا ہوا ساری باتیں سوچ رہا تھا تب حسن اُس کے کمرے میں آیا


"یہاں اکیلے اندھیرے میں بیٹھے کیا سوچ رہے ہیں"


حسن کمرے کی لائٹ آن کرتا حیدر کے قریب رکھے صوفے پر بیٹھتا ہوا اُس سے پوچھنے لگا


"یہی سوچ رہا ہوں کہ دنیا کا پہلا اُلو کا پٹھا شوہر ہوگا میں جو اپنی ایک نہیں دونوں بیویوں کے ہاتھوں بےوقوف بنا"


حیدر حسن کو تلخی سے جواب دیتا ہوا بولا تو حسن اُس کی بات پر ایک پل خاموش ہوا مگر اگلے ہی پل وہ نتالیہ کو ڈیفائنڈ کرتا بولا


"چاچو بےوقوف آپ کیسے ہوگئے بےوقوفی تو نتالیہ سے سرذد ہوگئی مگر اُس کی بےوقوفی سے کسی کی ذات کو نقصان نہیں پہنچا نقصان وہ خود اپنے ہاتھوں اپنا کر بیٹھی ہے"


حسن کی بات پر حیدر نے اُس کو اتنی سختی سے گھورا کہ حسن خاموش ہوکر ایک دم گڑبڑایا پھر بولا


"میرا مطلب ہے نقصان آپ کا بھی ہوا ہے آپ شروع شروع میں اُس بےوقوف کے لیے کتنا پریشان رہے کتنے تلاش کیا آپ نے اُس کو۔۔۔ میرے اور بابا کے فورس کرنے اور معائشہ چچی کی ضد پر آپ نے شادی بھی کی۔۔۔ مگر تقدیر کے آگے ہر انسان بےبس ہوجایا کرتا ہے شاید آپ کا اور چچی کا ساتھ بہت کم عرصے کے لیے لکھا تھا۔۔۔ چاچو ویسے آپ کو ایک مرتبہ نتالیہ کو موقع دینا چاہیے کہ وہ یہاں آکر۔۔۔


حسن بولنے ہی والا تھا مگر اُس کا جملہ مکمل ہونے سے پہلے حیدر اٹھ کر کھڑا ہوگیا


"تو تم اُس کے وکیل بن کر یہاں اُس کی وکالت کرنے آئے ہو میری ایک بار غور سے سن لو حسن، نتالیہ دوبارہ اِس گھر میں واپس نہیں آۓ گی جس لڑکی کی نظر میں میری ذات اہمیت نہیں رکھتی تو مجھے بھی اُس لڑکی کی رتی برابر پروا نہیں۔۔۔ نہ میرے دل میں اُس لڑکی کے لیے جگہ ہے نہ ہی زندگی میں اور نہ ہی میرے گھر میں۔۔۔ بہت جلد ڈائیورس دے کر میں اس کو اپنی زندگی سے ہمیشہ کے لیے نکال دوں گا"


حیدر غصے بھرے لہجے میں اپنا فیصلہ سناتا کمرے سے باہر جانے لگا۔۔۔ حسن ڈائیورس والی بات سن کر ہکابکا رہ گیا اُس لیے جلدی سے بولا


"چاچو مجھے نہیں لگتا کہ آپ ایک بیوی کے دنیا سے چلے جانے کے بعد دوسری بیوی کو ڈائیورس دے کر تیسری شادی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو پھر نتالیہ کو ڈائیورس دینے کی کیا ضرورت ہے معاف کردیں اُس بیچاری کو۔۔۔ وہ خود بہت پچھتارہی ہے اپنے عمل پر اس کی آنکھوں میں میں نے ابھی بھی آپ کے لیے محبت دیکھی ہے فکر دیکھی، جذباتی ہوکر کوئی فیصلہ نہیں کریں یار"


حسن کی بات پر حیدر کے کمرے سے باہر جاتے قدم رکے وہ پلٹ کر حسن کو دیکھنے لگا حسن کی باتوں سے صاف محسوس ہورہا تھا کہ نتالیہ سے مل کر آرہا تھا جبھی اتنا زیادہ اُس کی حمایت میں بول رہا تھا


"میں فیصلہ کرچکا ہوں تمہاری جذباتی بلیک میلنگ سے یا کسی دوسرے کے کہنے پر میں اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹتے والا بتادینا اُس کو بھی"


حیدر ایک ایک لفظ حسن کو واضح کرتا بولا


"کوئی بڑا قدم اٹھانے سے پہلے ایک مرتبہ اپنے بیٹے کے بارے میں ضرور سوچیے گا آپ کا اور نتالیہ کا رشتہ ختم ہونے سے اُس کی زندگی برباد ہوجائے گی اُس معصوم کا تو اِس سارے قصّے میں کوئی بھی قصور نہیں ہے"


حسن کی بات پر حیدر کو زور دار قسم کا جھٹکا لگا وہ اوپر سے نیچے تک ہل کر رہ گیا


"میرا بیٹا"


حیدر بےیقین سا حسن کو دیکھتا ہوا بےحد آئستگی سے بولا۔۔۔ یہ بھی ایک نیا انکشاف تھا جس کے بارے میں اُس کو علم تک نہیں تھا


"جی یوشع آپ کا بیٹا۔۔۔ چاچو پلیز یار غُصّے اور جذبات میں آکر کوئی بھی ایسا فیصلہ مت کر بیٹھیے گا جس کے بعد آپ کو پچھتانا پڑے۔۔۔ ایک بار نادانی اگر نتالیہ کرچکی ہے تو اب اُس سے تعلق ختم کرکے نادانی والی بات آپ کررہے ہیں۔۔۔ ایک مرتبہ آپ کو وہاں جانا چاہیے نتالیہ کے لیے نہ سہی اپنے بیٹے کے لیے"


حسن حیدر کو دیکھ کر اسے سمجھانے کی کوشش کرنے لگا


حیدر حسن کی بات سن کر ابھی تک شاک تھا اُس کا ایک بیٹا بھی تھا اتنی بڑی بات سے نتالیہ نے اُس کو بےخبر رکھا تھا اِس انکشاف کے بعد نتالیہ کے لئے حیدر کا غصہ اور ناراضگی کی مزید بڑھ گئی تھی وہ لڑکی اُس کے ساتھ تھوڑا نہیں بہت زیادہ غلط کرچکی تھی۔۔۔ حسن کی بات پر وہ بناء کچھ بولے ضبط سے جبڑے بھینچے کمرے سے باہر نکل گیا حسن نے گہرا سانس لیا اور پاکٹ سے موبائل نکالے جینی کی کال رسیو کرنے لگا لازمی وہ اس سے پہلا سوال واپس آنے کا پوچھتی لیکن جب تک حیدر اور نتالیہ کا معاملہ سیٹ نہیں ہوجاتا تب تک اسے یہی رکنا تھا


نتالیہ سے مل کر حسن اُس کی حماقت پر اسے اچھی طرح ڈانٹ کر،، خود اپنی حرکت کی بھی نتالیہ سے معافی مانگ کر آیا تھا جو اس نے شادی والے دن بھاگ کر کی تھی۔۔۔ مگر نتالیہ کو سرے سے اُس بات کا رنج نہیں تھا فکر تھی تو صرف حیدر کی۔۔۔ جس کا اندازہ حسن اس کے لہجے میں چھپی بےقراری سے لگا چکا تھا


*****


"آج موسم کافی ابرآلود لگ رہا ہے لگتا ہے شام تک بارش ہوجائے گی، شکر ہے چچا جان کل ہی ڈاکٹر کے پاس چلے گئے تھے ورنہ آج کتنا مسئلہ ہوتا"


نتالیہ لان میں کرسی پر بیٹھی رجو سے بولی


"ہاۓ نتالیہ بی بی کیا بتاؤ جب سے خورشید شہر گیا ہے مجھے تو ہر موسم ایک جیسا اداس لگتا ہے۔۔۔ دونوں بچے بھی بہت زیادہ یاد کررہے ہیں اپنے باپ کو"


رجو کو اُس نے کہتے سنا جو اپنے شوہر کو یاد کرتی ٹھنڈی آہ بھرکر کیٹل سے اُس کے لیے چائے نکال رہی تھی


"اب بڑی قدر ہورہی ہے تمہیں خورشید کی۔۔۔ جب وہ یہاں تھا تو اُس بےچارے کی ہر وقت کمبختی آئی رہتی تھی کتنا لڑتی رہتی تھی تم اس سے"


نتالیہ رجو کو دیکھ کر اُسے یاد دلاتی ہوئی بولی


"میری کیا غلطی تھی نتالیہ بی بی اُس کی ماں کس قدر تنگ کیے رکھتی تھی مجھے۔۔۔ بس جی اب جان لیا ہے میں نے کسی کے دور جانے کے بعد ہی تو اس کی محبت کا احساس ہوتا ہے۔۔ وہ آئے گا تو اُس سے معافی مانگ لوں گی اور بول دو گی اپنی ماں کو بھی واپس لے آۓ برداشت کرلو کی اُس کی ماں کی کڑوی کسیلی باتیں"


رجو اداس ہوتی نتالیہ سے بولی تو نتالیہ بھی اُداس ہونے لگی۔۔۔ اپنے اور حیدر کے بارے میں سوچ کر۔۔۔ وہ بھی تو اُس سے شدید خفا تھا اُس کے اسطرح چلے جانے پر۔۔ جبھی اُس نے کمال چچا سے ڈھنگ سے بات کی نہ اُن کی بات سنی تھی۔۔۔ چند دن پہلے جب حسن اُس سے ملنے آیا تھا تب اُسے حسن سے معائشہ کا معلوم ہوا تھا اُس کی موت کی خبر پر کتنی دیر تک وہ خاموشی سے حسن کو دیکھتی رہی تھی۔۔۔ معائشہ دنیا سے جانے سے پہلے ساری سچائی حیدر کو بتاچکی تھی تبھی حسن سب جان کر یہاں موجود تھا۔۔۔ یوشع کو دیکھ کر حسن کسقدر حیرت ذدہ اور خوش بھی ہوا تھا وہ یوشع کو اپنے موبائل میں موجود حیدر کی تصویریں دکھا رہا تھا جو بعد میں نتالیہ نے حسن کو یوشع کے ساتھ مگن کھیلتا دیکھ کر احتیاط سے اپنے موبائل پر سینڈ کردی تھی


رجو کب کی وہاں سے جاچکی تھی نتالیہ اپنی سوچوں سے نکلی تو چاۓ کے کپ کو دیکھنے لگی جو ٹھنڈی ہوچکی تھی پھر اچانک اُس کا دھیان یوشع کی صرف چلاگیا جو مین گیٹ کھلا دیکھ کر گھر سے باہر جانے کی کوشش میں لگا ہوا تھا نتالیہ جلدی سے کرسی سے اٹھتی ہوئی لان سے باہر نکلی


"یوشع کہاں جارہے ہو جلدی سے مم کے پاس آؤ"


نتالیہ یوشع سے بولتی ہوئی اس کی جانب تیزی سے جانے لگی مگر گیٹ سے اندر گاڑی کو آتا دیکھ کر نتالیہ نے بےساختہ تیز آواز میں یوشع کا نام پکارا۔۔۔ وہی حیدر نے فوراً گاڑی کے سامنے آتے بچے کو دیکھ کر گاڑی کو بریک لگایا۔۔۔اپنے سے دس قدم کی دوری پر حیدر کو گاڑی سے باہر نکل کر یوشع کی جانب بڑھتا دیکھر نتالیہ کے قدم وہی رک گئے


*****

"باب۔۔۔ با"


حیدر نے اپنے بیٹے کو کہتے سنا تھا۔۔۔۔ کیا اُس کا بیٹا اُس کو پہچانتا تھا حیدر نے جھک کر اپنے گھٹنوں کے پاس کھڑے یوشع کو گود میں اٹھالیا۔۔۔ اپنی اولاد کو سینے سے لگاتے ہوۓ اُس پر عجیب اطمینان اور خوشگوار سی کیفیت طاری ہوئی وہ یوشع کے گالوں کو باری باری چومتا ہوا اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔ اور یہ منظر دور کھڑی نتالیہ بھی خاموشی سے دیکھ رہی تھی۔۔۔ وہ اُس کے پاس آگیا تھا اپنی ناراضگی ختم کرکے نتالیہ اندر ہی اندر سرشار ہوتی حیدر کی طرف بڑھنے لگی


یوشع سے حیدر کا دھیان اپنی طرف قدم بڑھاتی نتالیہ پر طرف گیا تو حیدر کے چہرے سے نرمی کے تاثرات یکدم تبدیل ہوکر سخت ہوگئے جسے دیگر نتالیہ کے قدم وہی رک گئے


*****


"میں یہاں اپنے بیٹے کو لینے آیا ہوں"


کمرے میں اِس وقت کمال کے علاوہ نتالیہ بھی موجود تھی تب حیدر نے ان دونوں کو اپنے آنے کا مقصد بتایا۔۔۔ حیدر کی بات سن کر کمال اور نتالیہ دونوں خاموشی سے حیدر کو دیکھنے لگے


"صرف اپنے بیٹے کو لینے آئے ہو کیا اپنے بیٹے کی ماں کو اپنے ساتھ لے کر نہیں جاؤ گے"


کمال حیدر کو دیکھتا ہوا کمزور سے لہجے میں اُس سے پوچھنے لگا، کمال کی بات پر حیدر نے تلخ نگاہ اپنے سامنے بیٹھی نتالیہ پر ڈالی جو حیدر کی بات سن کر بےیقینی سے حیدر کو دیکھ رہی تھی


"میرے بیٹے کی ماں کو اُس کے باپ کا ساتھ پسند نہیں۔۔ اور جو مجھے پسند نہیں کرتا تو میں بھی اُس کو زبردستی اپنی زندگی میں شامل نہیں کرسکتا۔۔۔ آپ اِسے ساری عمر کے لئے شوق سے اپنے پاس رکھ سکتے ہیں"


حیدر نے کاٹ دار نگاہوں سے نتالیہ کو دیکھتے ہوئے کمال سے کہا۔۔۔ حیدر کی بات سن کر نتالیہ کا دل تڑپ اٹھا، اُس نے بولنے کے لیے زبان کھولنی چاہی تو کمال نے اُسے چپ رہنے کا اشارہ کیا


"ساری عمر تو میں بھی تمہاری بیوی کو اپنے پاس نہیں رکھ سکتا وقت ہی کتنا بچا ہے میرے پاس۔۔۔ اور جو کچھ دو سال پہلے ہوا اس میں نتالیہ کی غلطی کم میری زیادہ تھی مجھے تمہیں ساری حقیقت بتاکر اِسے اُسی وقت۔۔۔


کمال نے نتالیہ کی طرف سے حیدر کو وضاحت دینی چاہیے تو حیدر نے اپنا ہاتھ اٹھا کر کمال کو آگے بولنے سے روکا


"میں یہاں پچھلی گزری باتیں سننے نہیں آیا جو دو سال پہلے ہوا وہ اب گزر چکا ہے۔۔۔ مجھے گزری ہوئی باتوں سے کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی اِس لڑکی سے جو میرے سامنے بیٹھی ہے۔۔۔ مطلب ہے تو صرف اپنی اولاد سے جسے میں آج اپنے ساتھ یہاں سے لے کر جاؤں گا"


حیدر دو ٹوک انداز میں کمال سے بولا تو اب کی بار نتالیہ خاموش نہیں رہی


"آپکی اولاد صرف آپ کی اولاد نہیں وہ میرا بھی بیٹا ہے پیدا کیا ہے اُسے میں نے۔۔۔ آپ کو بےشک مجھ سے کوئی سروکار نہ ہو مگر اپنے بیٹے سے مجھے سرکار ہے میں اُس کے بغیر زندگی گزارنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی"


نتالیہ حیدر کو دیکھتی ہوئی بغیر جھجھکے بولی وہ صرف یوشع کو اپنے ساتھ لے جانے کی بات کررہا تھی بھلا وہ یوشع کے بغیر کیسے رہ سکتی تھی


"میں تم سے ہم کلام نہیں ہونا چاہتا اور نہ تمہیں مجھ سے مخاطب ہونے کی ضرورت ہے۔۔ آپ یوشع کو باہر گاڑی میں بھجوا دیں میں اُس کا ویٹ کررہا ہوں"


حیدر نتالیہ کو سخت لہجے میں بولتا ہوا آخری جملہ کمال سے بول کر صوفے سے اٹھ کھڑا ہوا تو نتالیہ بھی کھڑی ہوگئی


"پلیز حیدر آپ میرے ساتھ اِس طرح کی زیادتی نہیں کرسکتے, میں یوشع کے بغیر کیسے رہوگی.... میں اُس کو آپ کے ساتھ نہیں جانے دوں گی"


نتالیہ کو اِس وقت حیدر کی باتوں سے خوف آرہا تھا مگر وہ چاہ کر بھی نڈر انداز اختیار نہیں کرسکی کیونکہ جانتی تھی کہ غلطی کہیں نہ کہیں اُس سے ہوئی تھی اور اگر حیدر ضد پر آجاتا تو بات مزید بگڑ جاتی۔۔۔ وہ روہانسی لہجے میں حیدر کے سامنے بولی تو حیدر غصے سے لب بھیچتا ہوا نتالیہ کے قریب آیا


"زیادتی کرنے کا ٹھیکہ کیا صرف تم نے لیا ہوا ہے دیکھتا ہوں کون روکتا ہے مجھے یہاں سے اپنے بیٹے کو لے جانے سے"


حیدر مزید نتالیہ سے کچھ بولتا یوشع کے رونے کی آواز سن کر وہ دونوں متوجہ ہوئے تبھی رجو روتے ہوئے یوشع کو گود میں لئے کمرے میں آتی ہوئی بولی


"یوشع بابا نیند سے جاگ گئے تھے کمرے میں آپ کو موجود نہ پاکر رونے لگے"


رجو کی بات سن کر نتالیہ نے جلدی سے رجو کی گود سے یوشع کو اپنی گود میں لیا وہ روتا ہوا نتالیہ کی گود میں آکر پرسکون ہوگیا


"مم"

نیند بھری آنکھوں سے وہ نتالیہ کو دیکھتا ہوا بولا


"مم کی جان"


نتالیہ یوشع کو پیار کرتی ہوئی اُس کا سر اپنے کندھے پر رکھ کر یوشع کی کمر پر ہلکے سے تھپکی دینے لگی تاکہ وہ دوبارہ سوجاۓ۔۔۔ حیدر یہ منظر سنجیدگی اور خاموشی سے دیکھنے لگا نتالیہ بھی حیدر کو ہی دیکھ رہی تھی اُس کی آنکھوں میں حیدر کے لیے درخواست تھی ایک التجا تھی فریاد تھی کہ وہ یوشع سے اُس کو دور نہ کرے


"اگر تم صرف یوشع کو اپنے ساتھ لے جانے کا ارادہ رکھتے ہو تو تم اپنی بیوی کے ساتھ ساتھ اپنے بیٹے کے ساتھ بھی زیادتی کرو گے ایک چھوٹے بچے کو اُس کی ماں سے دور کرکے۔۔۔ مانتا ہوں غلطی دو سال پہلے میری بھتیجی سے ہوئی تھی مگر وہ کم عقل تھی نادان تھی لیکن تم تو سمجھدار اور باشعور ہو اس لیے جو بھی فیصلہ لینا سوچ سمجھ کرلینا"


کمال حیدر کو دیکھتا ہوا نرم لہجے میں بولا تو حیدر کے چہرے کے تاثرات سرد ہوگئے


"میں یہاں سے اپنے بیٹے کو آج ہر قیمت پر لےکر جاؤ گا اگر یہ یوشع کے بغیر نہیں رہ سکتی تو مجھے بھی اپنے بیٹے کے لیے ایک عدد آیا کا ارینج تو کرنا ہوگا جو یوشع کی میرے پیچھے دیکھ بھال کرسکے۔۔۔ بےشک یہ میرے بیٹے کی ماں ہے مگر یہ میرے ساتھ میرے گھر جاۓ گی تو صرف یوشع کی ماں کی حیثیت سے، میری نظر میں اِس کی حیثیت ایک آیا سے کم نہیں ہوگی"


حیدر نتالیہ کو دیکھتا ہوا کمال سے بولنے لگا نتالیہ خاموشی سے بناء کچھ بولے سوۓ ہوۓ یوشع کو اٹھاۓ حیدر کو دیکھنے لگی اتنا سخت رویہ تو اُس کا شادی سے پہلے بھی نہیں تھا جتنی سختی وہ اِس وقت دکھاتا ہوا اُسے یہاں سے لےجانے سے پہلے اُس کی حیثیت کا تعین کررہا تھا وہ بھی اُس کے چچا کے سامنے


"نتالیہ جاؤ جاکر اپنا اور یوشع کا سامان پیک کرلو"


کمال کی آواز کمرے میں گونجی تو نتالیہ یوشع کو لیے وہاں سے چلی گئی


*****


گاڑی اپنی منزل پر رواں دواں تھی وہ دونوں ہی گاڑی میں خاموش بیٹھے سفر کررہے تھے نتالیہ کو دو سال پہلے کا منظر یاد آنے لگا جب حیدر اُس کو رخصت کرکے اپنے ساتھ شہر لے جارہا تھا وہ بھی کچھ اِسی طرح کا سفر تھا تب بھی وہ غُصٌے میں اور خاموش ڈرائیونگ کررہا تھا جیسے وہ آج بالکل خاموش تھا مگر وہ رات آج کی رات سے بالکل مختلف تھی۔۔۔


تب وہ دونوں رشتے میں بندھے ہونے کے باوجود اجنبی تھے اور اب دو سال بعد اُن دونوں کے ملاپ سے ایک ننھا وجود دنیا میں آچکا تھا مگر وہ دونوں ابھی بھی اجنبی تھے


جب حیدر نتالیہ اور یوشع کو اپنے ساتھ لےکر نکلنے والا تب موسم کے آثار دیکھتے ہوئے کمال نے اُس کو رات میں روکنا چاہا مگر کمال کے لاکھ سمجھانے پر بھی وہ نہیں مانا۔۔۔


تیز بارش جیسے ہی تھمی حیدر نے شہر کے لیے روانگی کا ارادہ کیا لیکن اب موسم اپنے تیور دوبارہ بدل رہا تھا۔۔۔ آدھا راستہ طے ہونے تک یوشع نتالیہ کی گود میں بیٹھا حیدر کو ڈرائیونگ کرتا اور نتالیہ کی چوڑیوں سے کھیلتا جاگ رہا تھا۔۔۔ اُس کی تھوڑی دیر پہلے ہی آنکھ لگی تھی


"چچا جان بالکل ٹھیک کہہ رہے تھے اِس موسم میں نکلنا خطرے سے خالی نہیں اب اگر بارش شروع ہوگئی تو کیا ہوگا"


طویل خاموشی کو توڑتی ہوئی نتالیہ بادلوں کے گڑگڑانے کی آواز پر بےساختہ بولی


"مرنے سے اتنا ہی ڈر لگتا ہے تو کیوں آگئی، رہتی اپنے چچا جان کی حویلی میں"


حیدر ڈرائیونگ کرتا نتالیہ کی طرف بناء دیکھے طنزیہ لہجے میں بولا موٹی موٹی بوندیں گاڑی کے فرنٹ مرر پر گرنا شروع ہوگئیں تو نتالیہ خاموشی سے حیدر کے تنے ہوئے نقش دیکھنے لگی جو اب بارش تیز ہونے کی وجہ سے مزید تن گئے تھے۔۔۔


راستے میں بڑے بڑے گڑھے اور اوپر سے تیز بارش، ایسے میں ڈرائیونگ کرنا خطرے کا سبب بنتا، اِس لیے وہ ایک سائیڈ پر گاڑی روک چکا تھا۔۔۔ اچانک زور سے بادل گرجنے پر نہ صرف نتالیہ چیختی ہوئی اچھل پڑی بلکہ نتالیہ کے چیخنے سے اُس کی گود میں سویا ہوا یوشع بھی ڈر کے مارے نیند میں رونے لگا


"اپنی بےوقوفی کی وجہ سے اب تم اُس کی نیند خراب کروں گا یہاں دو مجھے میرے بیٹے کو"


حیدر نے ناگواری سے نتالیہ کو دیکھتے ہوئے اُس کی گود سے یوشع کو لیا اور نتالیہ کو ڈانٹنے لگا۔۔۔ اب وہ خود اپنے بیٹے کو پیار کرتا ہوا اُس کو بہلانے کے ساتھ سلا رہا تھا۔۔۔ جبکہ نتالیہ ڈانٹ پڑنے پر شرمندہ سی چور نظروں سے حیدر کو دیکھنے لگی جو شاید اب موسم کے خراب ہونے کا غصہ بھی اُسی پر نکال رہا تھا


جب حیدر کو محسوس ہوا یوشع گہری نیند میں چلا گیا ہے تب وہ اپنی سیٹ پیچھے کرتا یوشع کو پچھلی سیٹ پر لٹانے لگا۔۔۔ تبھی نتالیہ کو خیال آیا کہ پچھلی سیٹ پر رکھے اپنے ہینڈ بیگ سے چادر نکال کر یوشع پر ڈال دے۔۔۔ حیدر کے سیدھے ہوکر بیٹھنے سے پہلے ہی نتالیہ بیگ اٹھانے کے لیے پچھلی سیٹ کی طرف جھکی تو اچانک اُس کے ہونٹ حیدر کے گال سے ٹکرائے


جس سے اُن دونوں کا دل ایک ساتھ تیزی سے دھڑکے، وہی بادل بھی دوبارہ زور دار آواز میں گرجا۔۔۔ بادل کے گرجنے سے یوشع نیند میں نہ ڈرے بےساختہ ہی حیدر اور نتالیہ دونوں نے یوشع کے سینے پر اپنا اپنا ہاتھ رکھ دیا۔۔۔ اِس وقت اُن دونوں کے چہرے ایک دوسرے کے بےحد قریب تھے


جبکہ یوشع کے سینے پر رکھے حیدر کے ہاتھ کے نیچے کانپتا ہوا نتالیہ کا ہاتھ دبا ہوا تھا۔۔۔ اپنے ہاتھ پر حیدر کے ہاتھ کا لمس محسوس کرکے نتالیہ کی طبیعت میں عجیب بےچینی چھانے لگی اُن دونوں کے چہرے ابھی تک ایک دوسرے کے بالکل قریب تھے


حیدر کے نتے ہوئے نقوش اُسی وقت ڈھیلے پڑچکے تھے جب نتالیہ کے ہونٹ اُس کے گال سے ٹکرائے تھے اِس وقت حیدر کی نظریں نتالیہ کے چہرے کا طواف کررہی تھی جس چہرے کو پچھلے دو سالوں میں اُس نے بےتہاشہ یاد کیا تھا۔۔۔ چہرے پر گڑھی ہوئی نظریں نتالیہ کے ہونٹوں پر آ ٹھہریں تو نتالیہ بھی اپنی سانس روکے حیدر کے ہونٹوں کو دیکھنے لگی


نتالیہ کا شدت سے دل چاہا کے وہ اپنے ہونٹوں سے حیدر کے ہونٹوں پر محبت بھری مہر لگا کر حیدر کی ناراضگی اور غُصّے کو ختم کردے لیکن وہ ایسا سوچ سکتی تھی اتنی ہمت کا مظاہرہ کرنا اُس کی بس کی بات نہیں تھی


نتالیہ نے پیچھے ہٹنا چاہا تبھی حیدر اُس کو کمر سے جکڑتے ہوۓ اپنے ہونٹ نتالیہ کے ہونٹوں پر رکھ کر اُس کی سوچ کو عملی جامہ پہنانے لگا۔۔۔ نتالیہ کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں قید کرکے وہ ہر چیز سے غافل، ساری صورتحال غصے ناراضگی سب بھول چکا تھا۔۔۔ جہاں وہ نتالیہ کو اپنے اندر بھینچے اُس کے سانسوں کی مہک اپنی سانسوں میں اتار رہا تھا وہی نتالیہ بھی دو سالوں کی دوری مٹائے اُس کے گرد اپنے بازوؤں کا حالا بناکر اُس کی قربت کے سحر میں ڈوبے جارہی تھی


"کیوں دور چلی گئی تھی مجھ سے جانتی ہو میں کتنا تڑپا ہوں تمہارے بغیر"


اپنے ہونٹ نتالیہ کے ہونٹوں سے جدا کرکے حیدر نتالیہ کا چہرہ تھامے بےقرار لہجے میں نتالیہ سے پوچھنے لگا


"اب کبھی ایسا نہیں کروں گی آئی پرامس"


نتالیہ گہری سانس لیتی حیدر کو دیکھتی ہوئی بولی جس کے بعد حیدر اُس کا دوپٹہ ہٹاتا ہوا نتالیہ کی گردن پر جھکا بےقرار سا ہوکر محبت بھری مہریں ثبت کرتا چلا گیا۔۔۔۔ دو سال کی دوری مٹنے پر وہ بری طرح مدہوش ہورہی تھی


"کہاں ہے تمہارا دماغ، کب سے بکے جارہا ہوں سیدھی ہوکر بیٹھو۔۔۔ کیا اپنے کان اپنے چچا کی حویلی میں چھوڑ کر آگئی ہو تم"


حیدر کے ڈانٹنے پر نتالیہ جیسے ایک دم ہوش میں آئی وہ ہونق بنی حیدر کو دیکھنے لگی۔۔۔ نتالیہ کا ہاتھ ابھی تک یوشع کے سینے پر موجود تھا حیدر کب کا اپنا ہاتھ اُس کے ہاتھ کے اوپر سے ہٹا چکا تھا نتالیہ کے ہونٹوں پر اپنی نظروں کا زاویہ جانے کے بعد وہ خود کو سنبھال چکا تھا مگر نتالیہ نہ جانے اپنی سوچوں میں کہاں دور نکل چکی تھی۔۔۔ حیدر کے ڈانٹنے پر وہ شرمندہ سی سیٹ سے ٹیک لگا کر بیٹھی تو حیدر نے گاڑی اسٹارٹ کردی


"معائشہ کے بارے میں معلوم ہوا تو بہت افسوس ہوا مجھے اس کی ڈیتھ کا سن کر"


اپنے دماغی فتور کو جھٹک کر نتالیہ آہستہ آواز میں ڈرائیونگ کرتے حیدر کو دیکھ کر بولی


"مجھے بھی اپنی دوسری بیوی کے دنیا سے جانے کا افسوس ہے، پہلی بیوی کی موت کا سوگ تو میں دو سال پہلے ہی منا چکا ہوں"


حیدر کے غُصے بھرے لہجے پر نتالیہ تڑپ کر اسے دیکھنے لگی یعنی وہ اس کے لیے دو سال پہلے ہی مر چکی تھی


"حیدر مجھ سے غلطی ہوگئی تھی پلیز مجھے معاف کردیں"


وہ اس سے شدید خفا تھا نتالیہ حیدر کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتی بولی جو اسٹیرنگ وہیل پر موجود تھا۔۔۔ حیدر نے اپنے ہاتھ پر نتالیہ کا ہاتھ دیکھ کر اُس کا ہاتھ بےدردی سے دور جھٹکا


"اپنی حد میں رہو تمہاری حیثیت جو میرے گھر میں ہوگی وہ میں تمہیں تمہارے چچا کے سامنے بتاکر تمہیں اپنے ساتھ لے جارہا ہوں۔۔۔ میرے نزدیک تم یوشع کی گورنس سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی آئندہ مجھے مخاطب سوچ سمجھ کر کرنا"


حیدر نے پل بھر نہیں لگایا تو اُس کی طبیعت صاف کرنے میں وہ غُصے بھری نظر نتالیہ پر ڈال کر ڈرائیونگ کرنے لگا تو نتالیہ اپنے آنسو ضبط کرتی خاموش ہوکر بیٹھ گئی


*****


صبح کی سفیدی نکلنے کو تھی تو سفر تمام ہوا گاڑی کے رُکتے ہی حیدر یوشع کو گود میں اٹھائے اجنبیت برتتے ہوئے گھر کے اندر چلاگیا۔۔۔ نتالیہ حیدر کو گھر کے اندر جاتا ہوا دیکھ کر رہ گئی ایسا رویہ اُس نے پہلے بھی اپنایا تھا مگر تب نتالیہ کو اتنا زیادہ محسوس نہیں ہوا تھا وہ اپنے وزنی بیگ پر نظر ڈال کر ہینڈ بیگ لےکر گاڑی سے نیچے اتری تب اُسے گیٹ پر نیند سے بےحال آنکھوں کے ساتھ حسن آتا دکھائی دیا


"اپنے گھر میں ویلکم چچی جان"


وہ شوخ لہجے میں نتالیہ کو چھیڑتا ہوا بولا جس پر نتالیہ ہلکا سا مسکرائی


"تمہیں گاڑی سے سامان نکالنے کے لیے کہا تھا میں نے یہاں کھڑے ہوکر باتیں کرنے کے لئے نہیں"


حیدر نے سخت لہجے میں حسن کو مخاطب کیا تو وہ منہ لٹکاتا ہوا گاڑی سے سامان نکالنے لگا جبکہ حیدر کے چہرے کے ناگوار تاثرات دیکھ کر نتالیہ کے مسکراتے لب سکڑ گئے۔۔۔ وہ یوشع کو گود میں اٹھائے بیڈ روم کی طرف جاچکا تھا نتالیہ آہستہ قدم اٹھاتی حیدر کے پیچھے چلی آئی


"میرے کمرے میں کس لئے آئی ہو"


نتالیہ کو اپنے کمرے میں آتا دیکھ کر حیدر بولا تو اِس جملے پر وہ دونوں ہی دو سال پیچھے چلے گئے، جب نتالیہ دلہن بنی اُس کے کمرے میں آئی تھی


"تو پھر آپ ہی بتادیں اور کہاں جاؤ"


نتالیہ بےبسی آنکھوں میں سمائے حیدر سے وہی سوال پوچھنے لگی جو اُس نے شادی کی رات ہے پوچھا تھا جسے سن کر غصے سے حیدر کی رگیں تن گئی


"میرے سامنے ڈرامے دکھانے کی ضرورت نہیں ہے میں تم پر پہلے ہی یہ بات واضح کرچکا ہوں اِس گھر میں تم صرف یوشع کی وجہ سے موجود ہو اِس لیے آئندہ میرے کمرے میں آنے سے پہلے پرمیشن لےکر آنا"


حیدر غُصہ ضبط کرتا ہوا آہستہ آواز میں بولا کیونکہ یوشع بیڈ پر سو رہا تھا وہ نہیں چاہتا تھا اُس کے بیٹے کی نیند خراب ہو


"ابھی تک کھڑی مجھے کیا دیکھ رہی ہو۔۔۔ جاؤ یہاں سے ریسٹ کرنا ہے مجھے"


وہ نتالیہ کا چہرہ دیکھ کر اُس پر ترس کھائے بغیر بےذار لہجے میں بولا لیکن یہ حقیقت بھی تھی کہ وہ طویل ڈرائیونگ کرکے تھک گیا تھا اور اب تھوڑا آرام کرنا چاہتا تھا


"یوشع اگر جاگ گیا اور اسے میں کمرے میں نہیں دکھی تو وہ رونے لگے گا"


نتالیہ بیڈ پر سوۓ ہوئے اپنے بیٹے کو دیکھتی حیدر سے بولی تاکہ حیدر یوشع کو لے جانے دے


"آج کے بعد یوشع جاگنے کے بعد اپنے باپ کی شکل دیکھے گا جب مجھے لگے گا تمہاری ضرورت ہے تو تمہیں بلالوں گا ابھی تم یہاں سے جاسکتی ہو"


حیدر نے بولنے کے بعد نتالیہ کے جانے کا انتظار نہیں کیا تھا بناء لحاظ کیے اُس کو بازو سے پکڑ کر اپنے کمرے سے باہر نکال کر دروازہ بند کردیا


"یہاں کھڑی بند دروازے کو کیا دیکھ رہی ہو بھئی اندر بیڈ روم میں جاؤ اپنے"


ہینڈ کیری لےکر لاؤنج میں داخل ہوتا حسن نتالیہ سے بولا تو وہ ڈبڈبائی آنکھوں سے حسن کو دیکھنے لگی، حسن نتالیہ کا روہاسی چہرہ دیکھ کر پوری صورتحال سمجھ گیا


"یار تھوڑے دن گزر گیں تو چاچو کا غصہ کم ہوجائے گا جانتی نہیں ہو کیا تم چاچو کی نیچر کو"


حسن نتالیہ کو دیکھ کر سمجھاتا ہوا بولا


"انہوں نے یوشع کو اپنے پاس رکھ لیا ہے"


نتالیہ نم لہجے میں حسن سے بولی اسے بھلا اب کہاں یوشع کے بغیر رہنے کی عادت تھی


"تو اِس میں کون سا غضب ہوگیا جو اتنی روتی ہوئی شکل بنارہی ہو یوشع اُن کا بھی بیٹا ہے سونے دو انہیں اپنے بیٹے کے پاس، ایسا کرو تم بھی تھوڑی دیر کے لئے ریسٹ کرلو۔۔۔ گیسٹ روم تو صاف نہیں ہے میرے کمرے میں چلی جاؤ میں جم جارہا ہوں"


حسن نتالیہ سے بولتا ہوا وہاں سے چلا گیا جبکہ نتالیہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی دوسرے بیڈروم میں چلی آئی جہاں پہلے وہ خود رہتی تھی اب یہاں حسن کا سامان موجود تھا


*****


وہ مکمل نیند میں ڈوبی ہوئی تھی جب حیدر اُس کو سیدھا کرکے اُس پر جھکا اپنی گردن پر ہونٹوں کے لمس کو محسوس کرکے نتالیہ نے نیند سے چور اپنی آنکھیں کھولیں تو حیدر کو مکمل طور پر اپنے اوپر جھکا ہوا پایا وہ اُس کو اپنے لمس سے روشناس کرواتا ہوا نتالیہ کی دونوں کلائیاں پکڑ چکا تھا


"حیدر کیا کررہے ہیں حسن آجائے گا"


نتالیہ اس کی جرت پر گھبراتی ہوئی حیدر سے بولی۔۔۔ نتالیہ کی بات سن کر حیدر اُس کا چہرہ تھامتا ہوا نتالیہ سے پوچھنے لگا


"کیوں چلی آئی تھی اِس کمرے میں"


حیدر کا لہجہ بالکل نرم اور انداز محبت سے بھرا ہوا تھا جس پر نتالیہ کو حیرت ہوئی


"میں چلی آئی تھی، آپ نے ہاتھ پکڑ کر نکالا تھا مجھے اپنے روم سے"


وہ حیرت سے، مگر شکوہ کیے بغیر نہ رہ سکی جس پر حیدر نتالیہ کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر اسکے ہونٹوں کو چومتا ہوا پیچھے ہوا


"ڈرائیو کر کے تھکن بہت زیادہ ہوگئی تھی اِس لیے غُصے میں تھا اُس وقت لیکن اب تمہیں واپس لینے آیا ہوں جلدی سے آجاؤ میں اور یوشع تمہارا انتظار کررہے ہیں"


حیدر اتنی محبت سے اُسے بلا رہا تھا یہ خواب تھا کہ حقیقت نتالیہ حیرت سے حیدر کو دیکھنے لگی جو مسکراتا ہوا اُس کو دیکھ کر کمرے سے باہر نکل رہا تھا۔۔۔ تبھی اچانک کسی نے اُس کا کندھا زور سے ہلایا نتالیہ ہڑبڑاتی ہوئی ایک دم سے اٹھی اور سامنے کھڑے حیدر کو دیکھنے لگی جو نہ جانے کیوں اُس کو غُصے سے دیکھ رہا تھا


"پانچ گھنٹے کی طویل ڈرائیونگ کس نے کی تھی رات بھر"


حیدر چہرے کے بگڑے ہوۓ زاوئیے کے ساتھ اُس کے پاس کھڑا نتالیہ سے پوچھنے لگا جو نیند سے بوجھل آنکھیں لیے حیرت سے اُس کے تاثرات کو دیکھ رہی تھی


"ہیں یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے آپ ہی نے تو کی تھی"


نتالیہ حیدر کو دیکھتی ہوئی کنفیوز ہوکر بولی وہ تھوڑی دیر پہلے تو اُسے پیار کررہا تھا پھر اچانک سے اُس کے موڈ کو کیا ہوگیا


"تو تم اتنی بےخبر کیسے سو سکتی ہو، تمہیں کب سے آوازیں دے رہا ہوں کہ اٹھو اور کمرے میں چلو یوشع رو رہا ہے اُسے اپنی مم چاہیے مگر تم ہو کہ نیند میں مسکرائی ہی جارہی ہو"


حیدر مزید بگڑتا ہوا نتالیہ سے بولا تو نتالیہ کو یقین ہوگیا وہ سب اُس کا خواب تھا وہ خواب میں حیدر کو اپنے قریب دیکھ رہی تھی۔۔۔ حیدر سخت نظر نتالیہ پر ڈال کر کمرے سے جانے لگا تو نتالیہ سُست قدم اٹھاتی حیدر کے پیچھے اُس کے کمرے میں جانے لگی

****

"میلا پالا بیٹا مم کی جان"


نتالیہ حیدر کے کمرے میں آنے کے ساتھ ہی حیدر کو نظر انداز کرتی یوشع کو اُس کی گود سے لیتی پیار بھرے لہجے میں بولی۔۔۔ حیدر نے دیکھا یوشع نتالیہ کی گود میں آکر خاموش ہوگیا تھا جبکہ وہ خود نیند سے جاگ کر اپنے بیٹے کو کتنی دیر تک بھہلا رہا تھا مگر وہ مسلسل روۓ جارہا تھا۔۔۔ نتالیہ یوشع کو لئے کمرے سے جانے لگی تو حیدر نے نتالیہ کا بازو پکڑلیا


"کہاں جارہی ہو تم"


حیدر غُراتا ہوا نتالیہ سے پوچھنے لگا تو نتالیہ یوشع کو جتاتی ہوئی بولی


"آپ کے لیے میرے وجود کو اپنے کمرے میں برداشت کرنا مشکل ہوگا اِس لئے یہاں سے جارہی ہو"


نتالیہ کی بات سننے کے بعد حیدر نے یوشع کو اپنی گود میں لےکر نتالیہ کو ہلکا سے بیڈ پر دھکا دیا تو وہ حیدر سے اِس حرکت کی توقع نہیں کررہی تھی اِس لیے اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پائی اور بیڈ پر جاگری


"اُس روم میں جارہی ہوں تم جانتی نہیں ہو کہ وہ روم حسن کے یوز میں ہے"


حیدر کو نتالیہ کے اُس کمرے میں سونے پر ویسے ہی غصہ آیا تھا اور وہ وہی حماقت دوبارہ کرنے جارہی تھی تبھی حیدر اُس کو جھڑکتا ہوا بولا


"اِس سے آپ کو کیا فرق پڑتا ہے ویسے بھی آپ مجھے یہاں یوشع کی گورنر کی حیثیت سے ہی تو لائے ہیں"


نتالیہ نے بیڈ سے اٹھ کر حیدر کو دیکھتے ہوئے جواب دیا جس پر حیدر کا پارہ ہائی ہوا اُس نے سختی سے نتالیہ کا منہ جبڑوں سے پکڑا


"میرے نکاح میں ہوں تم ابھی بھی، اگر میرے سامنے کوئی الٹی سیدھی بات کی تو جان سے مار ڈالوں گا میں تمہیں"


حیدر نے نتالیہ بولتے ہوئے اُس کا جبڑا چھوڑا کیونکہ حیدر کی گود میں اُس کا بیٹا اپنے باپ کو غصے میں دیکھ کر رو دینے کو تھا۔۔۔ یوشع دوبارہ سے نتالیہ کے آگے اپنے دونوں ہاتھ بڑھانے لگا تاکہ نتالیہ اُس کو اپنی گود میں لے لے


"اگر مجھے جان سے مارنے پر آپ کا غصہ ختم ہوجاتا ہے تو مار ڈالیں پھر مجھے"


نتالیہ یوشع کو حیدر کی گود سے لے کر بیڈ پر بٹھاتی ہوئی آئستہ آواز میں بولی تو حیدر دو قدم کا فاصلہ سمیٹ کر اُس کے قریب آیا


"اگر مجھے اپنے بیٹے کا خیال نہیں ہوتا تو یہ بھی کر گزرتا تمہاری بھلائی اِسی میں ہے کہ میرے سامنے زبان چلانے سے پرہیز کرو۔۔۔ اور کیوکہ یوشع تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا اِس لئے اپنا اور یوشع کا سارا سامان یہی بیڈروم میں سیٹ کرو، میں زیادہ سے زیادہ وقت اپنے بیٹے کے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں"


حیدر نتالیہ کو حکم دیتا ہوا بولا جس پر حیدر کی بات سن کر نتالیہ کو ہنسی آگئی وہ اپنی ہنسی ضبط کرتی ہوئی حیدر سے پوچھنے لگی


"تو میں آپ کے بیڈروم میں یوشع کی گورنس کی حیثیت سے رہوں گی پلیز اتنا بتا دیجئے مجھے"


نتالیہ کے معصوم لہجے میں پوچھنے پر حیدر کو آگ لگ گئی جبکہ یوشع بیڈ اے اتر کر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا


"تم میرے بیڈروم میں کس حیثیت سے رہوں گی آج رات تمہیں معلوم ہوجائے گا"


حیدر نتالیہ سے بولتا ہوا اپنے کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ نتالیہ حیدر کے کمرے میں اپنا بیگ دیکھ کر اپنے اور یوشع کے کپڑے بیگ سے نکالنے لگی


*****


"یوشع سو جاؤ ناں بیٹا اب"


وہ رات میں حیدر کے بیڈروم میں موجود خود بھی بیڈ پر لیٹی ہوئی اپنے پاس لیٹے یوشع کو تھپکتی ہوئی بولی جو کافی دیر سے جاگ رہا تھا تبھی حیدر اپنے کمرے میں آیا۔۔۔ اپنے بیڈ پر لیٹی نتالیہ اور یوشع کو دیکھ کر ایک پل کے لیے وہی ٹھہر گیا اور خاموشی سے ان دونوں کو دیکھنے لگا۔۔۔ اُس کا بیڈ روم کتنا پُر رونق اور مکمل لگ رہا تھا اِس وقت وہ یہ منظر دیکھ کر دل ہی دل میں سوچنے لگا


"یا تو آپ اِس کے برابر میں آکے لیٹ جاۓ یا پھر کمرے سے باہر چلے جائیں۔۔۔ دیکھیے یہ آپ کو دیکھ کر مزید ایکٹو ہورہا ہے"


نتالیہ حیدر کو دیکھتی ہوئی بولی جسے دیکھ کر یوشع کی آنکھوں میں نیند ہونے کے باوجود وہ حیدر کو دیکھ کر اٹھ کر بیٹھ چکا تھا


"پارٹنر سونے کا موڈ نہیں ہے آج، اپنے بابا کے پاس آنا ہے"


حیدر بیڈ کی طرف بڑھتا ہوا یوشع کے سامنے اپنے دونوں بازو پھیلاۓ اُسے بولنے لگا


"باب۔۔۔ با"

یوشع حیدر کے پھیلے ہوئے بازو دیکھ کر خوشی سے اُس کی جانب بڑھا حیدر نے اُسے گود میں اٹھالیا اور پیار کرنے لگا


"یوشع کے سونے کا ٹائم ہے یہ حیدر اُسے سونے دیں ورنہ اِس کی نیند اڑ گئی تو یہ رات بھر جاگے گا"


نتالیہ حیدر کو دیکھتی ہوئی بولی مگر حیدر بناء اُس کے سوال کا جواب دیئے یوشع کو گود میں اٹھائے کمرے سے باہر نکل گیا


"معلوم نہیں کب اپنی ناراضگی دور کریں گے"


نتالیہ دل میں سوچتی ہوئی ٹیرس میں آکر کھڑی ہوگئی اس کو آدھا گھنٹہ گزرا تھا تب بیڈروم کا دروازہ کھلا اور حیدر سوئے ہوئے یوشع کو بیڈروم میں لا کر اُسے ایک سائیڈ پر لٹاتا ہوا تکیہ سیٹ کرنے لگا تاکہ یوشع بیڈ سے نہ گرے۔۔۔ نتالیہ ٹیرس سے واپس کمرے میں آچکی تھی یوشع کو سویا ہوا دیکھ کر وہ حیدر کو دیکھنے لگی جو بےحد سنجیدگی سے قدم اٹھاتا اُس کی جانب آرہا تھا


"آپ نے اتنی جلدی سُلا دیا یوشع کو مجھے تو لگ رہا تھا یہ ابھی بہت دیر تک جاگے گا"


حیدر کو اپنی جانب آتا دیکھ کر نتالیہ حیدر کو بتانے لگی مگر جو نتالیہ کی بات کے بدلے حیدر نے اُس کے ساتھ کیا نتالیہ حیرت ذدہ رہ گئی


نہ تو وہ کوئی خواب تھا نہ ہی نتالیہ کا گمان حیدر نے سچ میں اُس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھے وہ کتنی دیر ہونٹوں سے اس کے ہونٹ جوڑے یونہی ساکت کھڑا رہا


"حیدر آپ"


جب حیدر پیچھے ہوا تو نتالیہ بےیقینی سے اُس کو دیکھتی ہوئی اتنا بولی وہ نتالیہ کو بےیقینی کی کیفیت میں دیکھ کر اپنے حصار میں لےچکا تھا


"کچھ ایسا ہی چاہ رہی تھی تم بولو صحیح بول رہا ہوں میں"


اُس کا لہجہ نرم تھا مگر چہرے پر مکمل سنجیدگی چھائی ہوئی تھی نتالیہ کو اپنے حصار میں لئے حیدر اُس کا چہرہ دیکھتا ہوا نتالیہ سے پوچھنے لگا


"نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے"


کیا وہ اس کی سوچوں کو پڑھ چکا تھا یا اُس کے خواب کے بارے میں جان گیا تھا نتالیہ کا حیدر سے نظریں ملانا مشکل ہوگیا وہ شرمندہ سی ہوکر حیدر کے حصار سے نکلنے کی کوشش کرتی ہوئی بولی مگر حیدر نے اُس کی کوشش ناکام کرتے ہوئے اُسے مزید سختی سے اپنی گرفت میں لیا


"مجھے سچ بتاؤ کیا تم اب بھی ایسا کچھ نہیں چاہتی ہم دونوں کے درمیان"


اب کی بار حیدر کا لہجہ نرم نہیں تھا سخت تھا نتالیہ اُس کی مزید ناراضگی کے ڈر سے جلدی سے بولی


"میں ایسا ہی چاہتی ہوں حیدر۔۔۔ میرا مطلب ہے میں آپ کو بہت چاہتی ہوں۔۔۔ بہت زیادہ"


نتالیہ نے جہاں اپنی بات مکمل کرکے پلکیں جھکالی وہی حیدر کے چہرے سے سختی کے آثار بھی غائب ہوگئے


"جاؤ پھر چینج کرکے آؤ"


حیدر نتالیہ کو اپنی گرفت سے آزاد کرتا ہوا سنجیدہ لہجے میں بولا تو نتالیہ ایک نظر حیدر پر ڈال کر ڈریسنگ روم میں چلی آئی جہاں وہ اپنی سانسوں کو نارمل کرتی ہوئی وارڈروب کھولنے لگی۔۔۔ اُسے نہیں یاد پڑتا تھا کہ چینج کرنے لائق اُس کے پاس کوئی نائٹ ڈریس بھی موجود تھا، وارڈروب کے پورشن میں جہاں اُس کے کپڑے موجود تھے جو اُس نے آج شام کو ہی سیٹ کیے تھے وہاں ایک پیکٹ بھی موجود تھا جو نہ تو اُس کا تھا نہ ہی اُس نے رکھا تھا


"حیدر"

اُس پیکٹ میں نائیٹی دیکھ کر دھڑکتے دل کے ساتھ نتالیہ نے حیدر کا نام پکارا


******


اِس وقت کمرے میں مکمل اندھیرا تھا کھڑکی سے آتی ہلکی سی چاند کی روشنی کمرے میں تھوڑا بہت اجالا کئے دے رہی تھی۔۔۔ حیدر بیڈ پر لیٹا ہوا نتالیہ کا انتظار کررہا تھا جب نتالیہ کمرے میں داخل ہوئی تو اُس نے حیدر کو اپنا منتظر پایا۔۔۔ بیڈ پر لیٹا ہوا نیم وا آنکھوں سے وہ خود بھی نتالیہ کو دیکھنے لگا۔۔۔ حیدر کے پاس آتے وقت نتالیہ کے قدم من من بھر کے ہونے لگے


نتالیہ بیڈ کے پاس آتی ہوئی حیدر کے اِس طرح دیکھنے پر اچھی خاصی نروس ہونے لگی مگر پھر بھی اُس کا دھیان یوشع کی طرف چلاگیا جو اِس وقت بیڈ پر موجود نہیں تھا


"یوشع کہاں ہے حیدر"


نتالیہ اُس کی بےباک نظروں کو اگنور کرتی حیدر سے پوچھنے لگی کیونکہ یوشع اِس وقت کمرے میں کہیں موجود نہیں تھا مگر حیدر نتالیہ کے سوال کو نظرانداز کرتا اُس کی کلائی پکڑ کر نتالیہ کو اپنی جانب کھینچ چکا تھا


نتالیہ حیدر کے سینے پر گری اپنی بےترتیب دھڑکن کو محسوس کرتی حیدر کا چہرہ دیکھ ریکھنے لگی جو اُس کے بالوں میں اپنے ہاتھوں سے انگلیاں پھنساۓ اُس کے چہرے کو اپنے ہونٹوں کی جانب جھکاتا اُس کو ہونٹوں کو چوم کر اپنے تشنہ لبوں کی پیاس بجھا رہا تھا۔۔۔ چند پل کے لئے نتالیہ یوشع کو فراموش کیے حیدر کی دسترس میں مکمل کھو چکی تھی


حیدر نے اپنا چہرہ اٹھاکر نتالیہ کی جانب دیکھا جو آنکھیں بند کئے لیٹی ہوئی تھی اُس کی پیشانی پر ننھی ننھی پسینے کی بوندیں بھی چمک رہی تھی۔۔۔ حیدر اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے اُس کی پیشانی سے پسینہ صاف کرنے لگا تو نتالیہ نے اپنی آنکھیں کھول کر حیدر کا چہرہ دیکھا۔۔۔ وہ اسی کو دیکھ رہا تھا


"میرا سکون اور اطمینان اور صرف اور صرف آپ کی دسترس میں ہے۔۔۔ آپ سے دور جاکر نہ صرف میں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے بلکہ آپ کے اوپر بھی ظلم کیا حیدر پلیز مجھے معاف کردیں"


وہ حیدر کا چہرہ تھام کر ان قربت کے لمحات میں اُس سے معافی مانگنے لگی اُسے اپنا یقین دلانے لگی۔۔۔ حیدر نتالیہ کی بات سنتا ہوا اُس کی کلائیاں اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر ایک بار پھر اُس کے ہونٹوں پر جھک گیا


*****


جب صبح نتالیہ کی آنکھ کھلی کل رات حیدر نے دو سال کی دوری کو مٹاتے ہوئے اُس کے اور اپنے بیچ تمام تر فاصلے مٹادیئے تھے جس کے بعد نتالیہ کو اپنا ہوش نہیں رہا تھا وہ اتنی گہری نیند میں سوئی اسے معلوم ہی نہیں ہوا کب حیدر یوشع کو واپس کمرے میں لایا۔۔۔ کمرے میں اپنے بیڈ کے سائیڈ اسے بےبی کاٹ نظر آیا جس میں یوشع سو رہا تھا نتالیہ نے یوشع کو سوتا دیکھ کر خود بھی دوبارہ اطمینان سے آنکھیں موند لی


"یوشع جاگے گا تو تمہیں موجود نہ پاکر روئے گا جاؤ ابھی جاکر شاور لے آؤ"


حیدر شاید اُس سے پہلے کا جاگا ہوا تھا اور نتالیہ کو بیدار ہوتا وہ دیکھ چکا تھا تبھی وہ نتالیہ سے بولا تو نتالیہ حیدر کی جانب دیکھنے لگی جو آنکھیں بند کیے شرٹ کے بغیر اُس کے برابر میں لیٹا ہوا تھا۔۔۔ نتالیہ مسکراتی ہوئی حیدر کے قریب سرکتی ہوئی اس کے سینے پر سر رکھ کر لیٹ گئی


"میرا فوراً شاور لینے کا موڈ نہیں آپ کیوں چاہ رہے ہیں کہ میں آپ سے دور چلی جاؤ میں ابھی مزید آپ کے پاس رہنا چاہتی ہوں"


حیدر رات کو ہی اپنی ناراضگی ختم کرچکا تھا نتالیہ اُس کے سینے پر سر رکھ کے آنکھیں بند کرتی ہوئی حیدر سے بولی


"دل نہیں بھرا کل رات کو تمہارا"


نتالیہ کے کان میں حیدر کا جملہ پڑے حیدر کا لہجہ ایسا طنزیہ تھا نتالیہ آنکھیں کھول کر اٹھتی ہوئی حیدر کا چہرہ دیکھنے لگی جو بالکل سنجیدگی سے اُس کو دیکھ رہا تھا


"نہیں میرا وہ مطلب نہیں تھا میں تو بس تھوڑی دیر مذید ریسٹ کرنا چاہ رہی تھی"


نتالیہ کو کچھ غلطی کا احساس ہوا۔۔۔ حیدر کے دیکھنے کے انداز اور بولا گیا جملہ ایسا تھا کہ وہ شرمندہ ہوتی حیدر کو اپنی بات کی وضاحت دینے لگی


"ریسٹ کرنا ہے تو دور ہوکر لیٹو اپنی جگہ پر"


وہ ماتھے پر شکن لاتا ناگوار نظروں سے نتالیہ کو دیکھتا ہوا بولا تو نتالیہ پل بھر کے لئے خاموشی سے اسے دیکھنے لگی


"کیا ہوا ہے آپ کو، ایسا کیا بول دیا ہے میں نے جو آپ اس طرح کا بی ہیو کررہے ہیں میرے ساتھ"


نتالیہ اٹھ کر بیٹھتی ہوئی حیدر سے پوچھنے لگی


"تم شاید بھول رہی ہو میرا بی ہیو تم سے ایسا ہی ہے جب سے تم یوشع کے ساتھ یہاں آئی ہوں تب سے"


حیدر بھی اس کو جواب دیتا ہوا اٹھ کر بیٹھ گیا اور اب وہ اپنی شرٹ پہن رہا تھا تو نتالیہ حیرت سے اُس کو دیکھنے لگی کل رات وہ سب کچھ خواب تو ہرگز نہیں تھا


"اور کل۔۔۔ رات کل رات کو وہ سب کیا تھا"


نتالیہ افسوس بھرے لہجے میں حیدر کو دیکھتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی اُسے تو لگا تھا کل رات حیدر نے اُس سے دوریاں مٹاکر اپنی ناراضگی بھی ختم کردی تھی تو اب تک سب کچھ ٹھیک ہو جانا تھا ان دونوں کے درمیان


"شاید تم یہ بھی بھول رہی ہوں کل رات تم نے ہی مجھ سے کہا تھا تم ویسا چاہتی ہو"


حیدر نتالیہ کو دیکھ کر یاد دلاتا ہوا بولا تو نتالیہ غم اور افسوس سے حیدر کو دیکھنے لگی


"تو صرف میرے چاہنے پر۔۔۔


بولتے ہوئے اُس کی آواز روندھنے لگی حیدر کی بات پر اُس کا دل ٹوٹ گیا تھا


"آپ۔۔۔ حیدر آپ نہیں چاہتے تھے۔۔۔ وہ سب صرف میرے چاہنے پر آپ نے کیا۔۔۔ جواب دیں مجھے"


اب اُسے افسوس نہیں غصہ آرہا تھا نتالیہ غصے میں حیدر کا گریبان پکڑتی ہوئی اُس سے پوچھنے لگی تو حیدر نے اُس کے ہاتھ اپنے گریبان سے ہٹاکر دور جھٹکے


"اپنی حد میں رہو۔۔۔ تم وہ لڑکی ہوں جس سے میری اپنی مرضی پر شادی نہیں ہوئی تھی مگر اس کے باوجود میں نے تمہیں دل سے قبول کیا، تمہیں ہمیشہ کے لئے اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا تھا تم سے اپنا رشتہ بنائے رکھنا چاہتا تھا مگر اِس کے بدلے تم نے کیا کیا میرے ساتھ۔۔۔ دوسرے ہی دن تم مجھے چھوڑ کر بغیر بتائے میری زندگی سے دور چلی گئیں،، تمہارے پاس میری اولاد موجود تھی جس سے تم نے مجھے بےخبر رکھا۔۔۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمھاری نظر میں میری کیا حیثیت ہے۔۔۔ جس کی نظر میں میری کوئی حیثیت نہیں، میری نظر میں اُس کی حیثیت بھی دو کوڑی کے برابر ہے۔۔۔ جو کچھ کل رات ہمارے درمیان ہوا اس سے اپنی حیثیت کا اندازہ خود لگالو، میرے لیے تمہارا یہ وجود صرف وقتی کشش کا ذریعہ ہے۔۔۔ میں کوئی بازاری مرد نہیں ہو جو اپنی ضرورت کے لیے بازاری عورتوں کا استعمال کروں گا۔۔۔ جب میرا دل چاہے تب تم میری طلب بنو گی۔۔۔ اِس کے بعد تم میرے سامنے یوشع کی گورنس سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی"


حیدر کے منہ سے ایسی باتیں سن کر نتالیہ سے ضبط کرنا مشکل ہوگیا وہ رکی نہیں بلکہ تیزی سے واشروم کی طرف بھاگتی ہوئی کمرے سے چلی گئی


نتالیہ کے واشروم جانے کے بعد حیدر کے چہرے کے تاثرات خودبخود نارمل ہوگئے وہ اپنے لفظوں سے بہت زیادہ نتالیہ کا دل دکھا چکا تھا اور جانتا تھا اِس وقت نتالیہ واشروم میں آنسو بہا رہی ہوگی۔۔۔ حیدر اُس کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سوچتے ہوئے بےچین ہونے لگا ایک پل کے لئے حیدر کا دل چاہا کہ وہ نتالیہ کے واپس آنے پر اُس سے اپنا لہجہ اور انداز بالکل نارمل کرلے اور اس کو منالے مگر نتالیہ نے سچ میں اُس کے ساتھ بہت برا کیا تھا


اپنے گھر میں نتالیہ اور یوشع کی موجودگی پر اُس کا غُصہ بےشک جاتا رہا تھا مگر یہ بات وہ نتالیہ پر فوری طور پر شو نہیں کرنا چاہتا تھا


سفر کے دوران گاڑی میں اُس کے گال سے جب نتالیہ کے ہونٹ ٹکرائے تھے تب کیا ہلچل سی اُس کے اندر مچ چکی تھی جسے وہ کنٹرول کرتا ضبط کرگیا تھا۔۔۔ جب گھر آنے کے بعد اُس نے نتالیہ کو اپنے کمرے سے نکالا کتنی دیر تک وہ دروازے کے پاس کھڑا نتالیہ کے بارے میں سوچتا رہا کہ ادے واپس کمرے میں بلالے، جب وہ یوشع کے رونے پر نتالیہ کو جگانے کے لئے دوسرے کمرے میں آیا تب نتالیہ کو سوتا ہوا دیکھ کر حیدر کا دل کیا کہ وہ اُس پر ڈھیر سارا پیار نچھاور کرکے اپنی ساری ناراضگی ختم کردے لیکن تب بھی اُس نے اپنے اوپر جبر کیا


لیکن رات کے پہر نتالیہ کو اپنے کمرے میں بیڈ پر دیکھ کر وہ خود کو روک نہیں پایا۔۔۔ اپنی اِس کیفیت کا علم اُس کو تب بھی تھا جب شام میں وہ نتالیہ کو اُس کا اور یوشع کا سامان اپنے کمرے میں لانے کے لیے کہہ چکا تھا۔۔۔ اس لئے اُس کے کپڑوں میں وہ نائٹی رکھ چکا تھا۔۔۔ جو کچھ اُس کے اور نتالیہ کے درمیان ہوا تھا وہ سب کچھ نتالیہ کی نہیں بلکہ اُس نے اپنی دلی خواہش کو پورا کیا تھا۔۔۔ لیکن صبح اٹھنے کے بعد حیدر کو اُس کی انا اجازت نہیں دے رہی تھی کہ وہ اتنی جلدی نتالیہ کے آگے ہتھیار ڈال کر اسے معاف کردے وہ دو سال تک اُس لڑکی کے لیے تڑپتا رہا تھا جسے وہ اتنے آرام سے کسی دوسری لڑکی کے کہنے پر چھوڑ کر جاچکی تھی


*****


"کیا ہوا کوئی بات ہوئی ہے۔۔ طبیعت ٹھیک ہے تمہاری"


حسن ناشتے کے دوران نتالیہ کو دیکھتا ہوا بولا تو ناشتہ کرتا حیدر بھی سر اٹھا کر نتالیہ کی طرف متوجہ ہوا


"کیا ہونا ہے طبیعت کو میں ٹھیک ہوں"


نتالیہ یوشع کو ناشتہ کروانے کے بعد گود سے اتارتی ہوئی بولی وہ خود بھی اُس کی گود سے اتر کے صوفے کے پاس جانا چاہ رہا تھا تاکہ صوفے پر رکھے اپنے ٹوائز سے کھیل سکے


"تو پھر آئیز کو کیا ہوا اتنی ریڈ کیو ہو رہی ہیں"


حسنِ فکر کرتا ہوا نتالیہ سے پوچھنے لگا تو نتالیہ کے کچھ بولنے سے پہلے حیدر بول اٹھا


"اس کی فکر چھوڑ کر اپنے ناشتے پر دھیان دو میں دیکھ لیتا ہوں اُس کو"


حیدر حسن کو ٹوکتا ہوا بولا تو نتالیہ نے ایک زخمی نظر حیدر پر ڈالی پھر وہ حسن کی طرف دیکھتی اُس سے بولی


"کسی پر بہت غصہ ہے مجھے اور تمہیں تو میری عادت کا معلوم ہے جب تک میں اپنا غُصّہ اچھی طرح نکال نہ لوں تب تک میں نارمل نہیں ہوتی۔۔۔ کیا میں تھوڑی دیر کے لئے تمہیں وہ انسان سمجھ کر تم پر اپنا غصہ نکال لو جس پر میں چاہ کر بھی غصہ نہیں نکال پارہی"


نتالیہ حسن سے اجازت مانگنے لگی جبکہ حیدر کو اپنے پاس خطرے کی گھنٹی بجنے کا احساس ہوا۔۔۔ اِس سے پہلے حیدر اُسے روکتا یا پھر حسن اُس کی بات پر نتالیہ کچھ بولتا۔۔۔ اچانک ہی نتالیہ نے ٹیبل پر رکھا چائے کے کپ میں موجود چاۓ حسن کے اوپر اچھالی جس سے حسن کی پوری شرٹ خراب ہوگئی۔۔۔ نتالیہ کی حرکت پر حسن کے ساتھ حیدر بھی ہکابکا رہ گیا۔۔۔ ابھی وہ دونوں چچا بھتیجے نتالیہ کی حرکت پر سنبھل بھی نہیں پائے تھے کہ نتالیہ کرسی سے اٹھتی ہوئی حسن کے پاس آکر اُس کا گریبان پکڑ کر حسن کو اپنے مقابل کھڑا کرچکی تھی


"یار نتالیہ کیا ہوگیا تمہیں اچانک، یہ کیا کررہی ہو"


حسن نتالیہ کو شدید غصے میں دیکھ گھبراتا ہوا بولا


"شٹ اپ"

نتالیہ اتنی زور سے چیخی کہ حسن بری طرح سہم گیا جبکہ حیدر ایک دم کرسی سے اٹھ کھڑا ہوکر بولا


"نتالیہ چھوڑو اُس کا کالر"


حیدر جانتا تھا نتالیہ لازمی آج صبح والا اُس کا غصہ حسن پر اتارنے والی تھی اِس لئے حیدر نے نتالیہ کو حسن کا کالر چھوڑنے کے لئے بولا مگر وہ حیدر کی بات کو اگنور کرتی ہوئی حسن سے بولی


"سمجھتے کیا ہیں آپ اپنے آپ کو غصہ ہے ناں آپ کو مجھ پر بہت زیادہ۔۔۔ تو پھر غُصے کی طرح ہی مجھ پر اپنا غصہ نکالتیں۔۔۔ یوں غصے کی آڑھ میں جو کچھ آپ نے کیا ہے ناں۔۔۔


نتالیہ حسن کا گریبان پکڑے ابھی اُس کو بول رہی تھی تب حیدر نتالیہ کو بازو سے پکڑ کر بیڈ روم میں لے گیا۔۔۔


"کیا ہوگیا ہیرو آؤ ہم دونوں باہر چلتے ہیں"


حسن یوشع کو دیکھ کر اُس کے پاس آتا ہوا بولا یوشع جو اپنے ماں باپ کو کمرے میں جاتا ہوا دیکھ کر حسن کو دیکھ رہا تھا حسن یوشع کو لےکر باہر نکل گیا


*****


"کیا فضول باتیں بولنے والی تھی تم حسن کے سامنے اندازہ ہے تمہیں"


حیدر نتالیہ کو بیڈروم میں لاکر اُس کا بازو چھوڑتا ہوا غصے بھرے لہجے میں اس سے پوچھنے لگا


"میں اِس وقت کچھ بھی کرو آپ سوال جواب کرنے کا حق نہیں رکھتے کیونکہ ابھی رات نہیں ہوئی ہے اور اِس وقت میں یوشع کی گورنس سے زیادہ آپ کی نظر میں حیثیت نہیں رکھتی اس لیے راستہ چھوڑیں میرا"


نتالیہ بناء ڈرے بول کر حیدر کو سائیڈ میں کرتی ہوئی کمرے سے باہر نکلنے لگی مگر اُس سے پہلے ہی حیدر نے اس کو بازو سے پکڑ کر بیڈ پر دھکیلا


"اِس وقت باہر قدم رکھ کر دکھاؤ اِس کمرے سے پھر میں تمہیں بتاؤں گا اچھی طرح"


حیدر نتالیہ کو دھمکی دیتا ہوا خود کمرے سے باہر نکل گیا


"اب دکھائیے گا ذرا قریب آکر پھر بتاؤ گی میں بھی آپ کو اچھی طرح"


نتالیہ وہی بیڈ پر بیٹھ کر بڑبڑاتی ہوئی بولی اور اپنے غصے کو ٹھنڈا کرنے لگی


*****

"کچھ ہوش ہے تمہیں یوشع کا تم یہاں بیٹھی فون پر گنپیں ہانک رہی ہو وہاں ٹیرس میں یوشع اپنے چہرہ اپنے سارے کپڑوں کا ستیاناس کرچکا ہے"


حیدر نتالیہ کو ڈانٹتا ہوا بولا جو موبائل پر اپنے چچا سے اُن کا حال اور طبیعت پوچھ رہی تھی۔۔۔ حیدر کی غُصّے بھری آواز سن کر حسن بھی اپنے کمرے سے نکل آیا


"ابھی تو یوشع یہی بیٹھا کھیل رہا تھا میں دیکھ کر آتی ہوں"


نتالیہ موبائل ٹیبل پر رکھتی ہوئی حیدر سے بول کر صوفے سے اٹھنے لگی


"کوئی ضرورت نہیں ہے تمہیں یوشع کو دیکھنے کی بس تم سارا دن موبائل پر یونہی ٹائم پاس کرو میں اپنے بیٹے کو خود دیکھ لیتا ہوں"


حیدر بگڑے ہوئے زاویوں کے ساتھ نتالیہ پر طنز کرتا ہوا بولا تو نتالیہ کو بھی غُصہ آنے لگا


"جیسے آپ کی مرضی ویسے بھی یوشع صرف میرے اکیلے کا بیٹا نہیں"


نتالیہ ڈھیٹ بن کر دوبارہ صوفے پر بیٹھتی اپنا موبائل اٹھاچکی تھی اُس کی حرکت پر حسن کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی، اِس کی مسکراہٹ حیدر کی نظر میں آتی اور جلتی پر تیل کا کام کرتی وہ فوراً اپنے کمرے میں چلاگیا جبکہ حیدر نتالیہ کو غُصے میں گھورتا ہوا یوشع کا حلیہ خود ہی درست کرتا اپنے بیٹے کو اپنے ساتھ باہر لےگیا


"بس فضول کا ایٹیٹو دکھانا ہے اور بلاوجہ روعب جھاڑنا ہے جیسے میں بڑی روعب میں آنے والی ہوں"


حیدر کے جاتے ہی نتالیہ موبائل واپس ٹیبل پر رکھ کر ڈائننگ ہال میں چلی آئی جہاں کرسی کھسکا کر بیٹھتی ہوئی غُصّے میں مٹر چھیلنے لگی۔۔۔


دس دن گزرنے کے بعد یوشع اب حیدر سے کافی زیادہ مانوس ہوگیا تھا اور اُس کو پہچاننے لگ گیا تھا جبکہ اُس رات کے بعد اُن دونوں کی بیچ ایک بار پھر اجنبیت کی دیوار در آئی تھی جسے ہٹانے کی کوشش اب کی بار نتالیہ نے بھی نہیں کی تھی اگر حیدر اُس سے بےرخی برت رہا تھا یا اُس پر غصہ کررہا تھا تو نتالیہ آگے سے حیدر کو کچھ نہیں بولتی، ایسا نہیں تھا کہ وہ اندر ہی اندر حیدر کے رویے پر گڑھ رہی تھی بلکہ وہ حیدر کو ویلیو ہی نہیں دے رہی تھی


"مجھے تو لگ رہا تھا کہ تمھارے اور چاچو کے درمیان سب کچھ سیٹ ہوگیا ہے یہ کیا تم دونوں ایک دوسرے سے اب تک خفا ہو"


حسن ڈائننگ ہال میں آکر کرسی کھسکاتا ہوا نتالیہ کے برابر میں بیٹھ کر اُس سے پوچھنے لگا


"یہ جو تمہارے چاچو ہیں ناں یہ ایک نمبر کے مطلبی اور خود غرض انسان ہیں بالکل تمہاری طرح کے۔۔۔ تم نے بھی تو خود غرضی دکھائی تھی ناں مجھے چھوڑ کر بھاگ گئے تھے، صرف اپنے بارے میں سوچا۔۔۔۔ ویسے ہی تمہارے چاچو مطلبی ہیں۔۔۔ موصوف کے چہرے کے زاوئیے پرسوں خود ہی سارا وقت درست رہے تھے کیوکہ تمھارے رشتے کے پھپھا جی کے گھر دعوت تھی ہماری، اپنے رشتے داروں کے سامنے ایسے پوز کررہے تھے کہ جیسے اُن سے زیادہ محبت کرنے والا شوہر شاید ہی کوئی دوسرا دنیا میں موجود ہو، بانچیں تو ایسے کِھلی جارہی تھیں جناب کی جیسے دنیا کے سب سے خوش اخلاق اور اعلٰی انسان ہو۔۔۔ اور واپس گھر آتے ہی دوبارہ تمہارے چاچو میں سن پیسٹھ کی روح بڈھی روح گُھس گئی۔۔۔ اب میرا زیادہ منہ مت کھلواؤ حسن ورنہ یہ نہ ہو میں تمھارا منہ بلاوجہ توڑ ڈالو غصے میں۔۔۔ چچا بھتیجے ایک ہی جیسے ہو تم دونوں"


نتالیہ مٹر چھیلنے کے ساتھ نان اسٹاپ بولتی ہوئی پرسوں کی ساری بھڑاس حسن کے سامنے نکال چکی تھی


"میرے چچا کے کردار کی تو پوری تشریح کردی ذرا اپنے چچا کی خوغرضی کے بارے میں بھی تو بتاؤ جس وقت تم چاچو کو چھوڑ کر اُن کے پاس پہنچی تھی، کیا کمال صاحب کا فرض نہیں بنتا تھا وہ پہلی فرصت میں چاچو کو انفارم کرتے اور تمہیں چاچو کے ساتھ دوسرے ہی دن روانہ کرتے اگر اُس وقت تمہاری بےوقوفی میں تمہارے چچا جان تمھارا ساتھ نہ دیتے تو تم اِس وقت غصے میں بیٹھی مٹر نہ چھیل رہی ہوتی"


حسن نے اُس کی اچھی طرح کلاس لی تو نتالیہ غصّے بھری نظروں سے حسن کو آنکھیں دکھا کر گھورنے لگی


"بات یہاں تمہارے چچا کی ہورہی ہے نہ کہ میرے چچا کی۔۔۔ میرے چچا کو بیچ میں لانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ اگر یہاں بیٹھ کر تمہیں نصیحتیں کرنا ہے تو تم یہاں سے جاسکتے ہو بلکہ میں بھول گئی تم تو ایک ڈھیٹ شے ہو میں خود ہی یہاں سے چلی جاتی ہو"


نتالیہ حسن سے بولتی ہوئی مٹر سے بھرا باؤل لے کر کرسی سے اٹھی تو حسن نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر واپس اُسے بٹھالیا


"جتنا اِس وقت تمہارے لئے میری نصیحتیں کام آنے والی ہیں اتنا کوئی دوسری شے کام نہیں آنے والی، اب مجھے غُصّے میں گھورنا بند کرو اور سچے دل سے بتاؤ کیا چاچو کو یوں بغیر بتاۓ چھوڑ کر چلے جانا، تمہارا یہ عمل ٹھیک تھا۔۔۔ وہ تم پر ابھی تک اِس بات پر غصہ کیوں ہیں؟؟ کیونکہ تمہاری اِس حرکت نے انہیں بہت زیادہ ہرٹ کیا۔۔۔ تمہیں معلوم ہے انسان سب سے زیادہ اُسی سے ہرٹ ہوتا ہے جس سے اسے کچھ اچھے کی توقع ہو یا وہ جس سے زیادہ محبت کرتا ہے۔۔۔ اگر چاچو تم سے محبت نہیں کرتے تو کبھی تمہیں لینے کے لیے نہیں جاتے"


حسن نتالیہ کو دیکھ کر سمجھاتا ہوا بولا اِس لیے کہ نتالیہ حیدر سے بدگمان نہ ہو اِس طرح اُن دونوں کے رشتے میں مزید دوریاں پیدا ہوجاتی۔۔۔ ساری باتیں تو نتالیہ کو سمجھ میں آئی تھیں مگر آخری بات پر وہ ایک بولی


"جی نہیں وہ مجھے واپس یوشع کی وجہ سے لے کر آئے تھے انہوں نے مجھے خود ہی بتایا"


نتالیہ حسن کو دیکھ کر جتاتی ہوئی بولی تو حسن فوراً اُس کی بات رد کرتا ہوا بولا


"غلط بتایا تھا انہوں نے، اگر تم دونوں کے بیچ یوشع نہ ہوتا تب بھی چاچو شدید غُصّے کے باوجود کوئی نہ کوئی جواز بناکر تمہیں اپنے ساتھ واپس لےکر آجاتے"

حسن نتالیہ کو دیکھتا ہوا بولا


"کتنا کانفیڈینس ہے ناں تمہیں اپنی باتوں پر"


نتالیہ طنزیہ انداز میں مذاق اڑاتی ہوئی حسن سے بولی کیوکہ اب اسے حیدر کی طرف سے کوئی خوش گمانی نہیں تھی دن بدن اُس کی بڑھتی ہوئی بدسلوکی اُس کو احساس احساس دلانے کے لیے کافی تھی کہ حیدر کی محبت اُس کے دل میں اب بالکل ختم ہوچکی ہے یوشع ہی ایک وجہ ہے جس کی وجہ سے وہ حیدر کی زندگی میں موجود ہے


"کانفیڈینس ارے پاگل لڑکی مجھے اپنی بات پر پورا یقین ہے کہ چاچو تم سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں تمہیں تو اِس بات کا اندازہ تک نہیں ہے تمہارے اچانک یوں ان کی زندگی سے چلے جانے کے بعد وہ کتنے دنوں تک ڈپریشن میں رہے بابا جب مجھے اُن کی حالت کے بارے میں بتاتے تو چاچو کی حالت کا سن کر میں خود ٹینشن میں آجاتا"


حسن اب سیریس ہوکر نتالیہ کو بتانے لگا حسن کی بات سن کر وہ اُس کی بات کاٹتی ہوئی بولی


"ہاں اور اُسی ڈپریشن سے نکل کر انہوں نے فوراً معائشہ سے دوسری شادی بھی کرلی"


نتالیہ خود ہنس کر مذاق اڑاتی ہوئی بولی تو اُس کے طنز کرنے پر حسن نتالیہ کو گھورتا ہوا بولا


"نتالیہ بی بی تم ایک سیلفش قسم کی لڑکی ہوں یعنی تم چاہتی ہو کہ تمہارے ایک دم چلے جانے کے بعد چاچو ساری عمر تمہاری یادوں میں کھوئے رہتے تھے اور ڈپرس رہتے۔۔۔ ویسے چاچو اِس شادی کے حق میں نہیں تھے اُن پر پریشر تھا بابا کا اور میں بھی یہی چاہتا تھا کہ وہ دوبارہ نارمل لائف کی طرف واپس آجائے ویسے تم بھی تو اُن کی زندگی سے اِس لیے گئی تھی ناں تھا کہ اُن کی معائشہ چچی سے شادی ہوجاۓ۔۔ اس لیے اب کوئی فضول بات بول کر دماغ خراب مت کرنا۔۔۔ سیدھا سیدھا اپنی غلطی کو ایکسپٹ کرکے چاچو سے معافی مانگو"


حسن مصنوعی روعب جھاڑ کر نتالیہ کو مشورہ دیتا ہوا بولا


"اور تمہیں ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ میں نے تمہارے چاچو کو سوری نہیں بولا مگر تمہارے چاچو میری سوری ایکسیٹ کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں"


نتالیہ حسن کو دیکھتی ہوئی بتانے لگی، یہ سب بتاتے ہوئے اُسے سخت غصہ آیا کہ حیدر نے اتنے دن گزرنے کے باوجود اپنے رویے میں ذرا لچک نہیں دکھائی تھی


"اچھا اب تم چاچو کو سوری ویسے بولو گی جیسے میں تم سے کہوں گا لیکن اس سے پہلے ذرا ایک بات مجھے کلیئر کردو تھوڑی دیر پہلے تم نے مجھے بھاگنے کا طعنہ دیا کہیں ابھی بھی تمہارا دل میری محبت مبتلا تو نہیں جبھی تم چاچو کے پاس سے تو نہیں بھاگ گئی تھی"


حسن شرارتی انداز میں نتالیہ کو دیکھتا ہوا اس سے پوچھنے لگا جس پر نتالیہ دانت پیستی ہوئی کرسی سے اٹھی


"کیا خوش فہمی ہے تمہیں تمہاری محبت میں مبتلا ہوں میں، حسن تم کیا چاہ رہے ہو میں آج تمہارا قتل کر ڈالو اپنے اِن ہاتھوں سے"


نتالیہ نے تپتے ہوئے بولا ہی نہیں بلکہ اُس نے کرسی پر بیٹھے ہوئے حسن کی گردن بھی اپنے دونوں ہاتھوں سے دبا ڈالی تھی


"ظالم لڑکی میری گردن تو چھوڑ دو میرا نہ سہی میری بیوی کا خیال کرو وہ بلاوجہ میں بیوہ ہوجائے گی یار"


حسن ہنستا ہوا نتالیہ کا تپا ہوا چہرہ دیکھ کر بولا۔۔۔ وہ حسن کے ہنسنے پر مزید تپ گئی


"یہ کیا ہو رہا ہے"


اچانک حیدر کی آواز پر نتالیہ حسن کی گردن آزاد کرتی ہوئی دور ہوئی حیدر ناگواری چہرے پر لائے اُن دونوں کو دیکھ رہا تھا جبکہ یوشع حیدر سے اپنا ہاتھ چھڑوا کر نتالیہ کی طرف بڑھا


"یار چاچو اچھا ہوا آپ وقت پر آگئے ورنہ آپ کی بیوی نے تو آج میرا کام تمام کردینا تھا، غصہ ہو رہی ہے مجھ پر کہ میں شادی والے دن کیوں اس کو چھوڑ کر بھاگ گیا تھا"


حسن حیدر سے بولتا ہوا شرارتی انداز میں نتالیہ کو آنکھ مار کر گھر سے باہر نکل گیا جبکہ نتالیہ دل ہی دل میں حسن کو گالیاں دیتی ہوئی یوشع کی طرف متوجہ ہوئی


******


"کیا کہہ رہی تھی آج شام میں تم حسن سے"


رات میں نتالیہ سوئے ہوئے یوشع کو بےبی کاٹ میں لٹاکر پلٹی تو بیڈ پر کافی دیر سے خاموش بیٹھا ہوا حیدر اُس سے پوچھنے لگا


"میں۔۔۔ میں نے کچھ نہیں بولا اُس سے،، ارے وہ جو حسن آپ کو بتارہا تھا ایک نمبر کا ذلیل انسان ہے حسن، وہ بکواس کررہا تھا یونہی آپ کے سامنے"


نتالیہ کو پہلے تو حیدر کے خود سے مخاطب کرنے پر حیرت ہوئی پھر وہ سمجھ نہیں پائی حیدر کون سی بات پوچھ رہا ہے جب نتالیہ نے اپنے ذہن پر زور ڈالا تو یاد آنے پر وہ حیدر کو بولنے لگی مگر نتالیہ کی بات پر حیدر کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے


"حسن سے تمہارا کیا رشتہ ہے اُس کو ذہن میں رکھ کر حسن سے بات کیا کرو اور آئندہ میں تمہیں اُس سے اِس طرح بےتکلف ہوتے نہ دیکھو"


حیدر نتالیہ کو سنجیدہ لہجہ میں سمجھاتا ہوا بولا تو نتالیہ حیدر کی بات پر چونکی وہ بیڈ پر بیٹھا ابھی نتالیہ کو دیکھ رہا تھا تب نتالیہ چلتی ہوئی حیدر کے پاس آئی


"میرا حسن سے دوستی کا رشتہ ہے ابھی سے نہیں بچپن سے۔۔۔ ویسے آپ مجھے کونسا رشتہ یاد دلا رہے ہیں ذرا خلاصہ کریں گے اپنی بات کا"


نتالیہ بیڈ پر حیدر کے قریب بیٹھتی ہوئی حیدر سے اتنی ہی سنجیدگی سے پوچھنے لگی اگر وہ نتالیہ سے یہ بات اپنے رشتے کی حیثیت سے بول رہا تھا تو نتالیہ کے سامنے وہ اپنے اور اس کے رشتے کی حیثیت کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں تھا اس لئے نتالیہ کی بات پر وہ لاجواب ہوتا بولا


"فضول میرے منہ لگنے کی ضرورت نہیں ہے اٹھو یہاں سے اور لائٹ بند کرو"


وہ جتنی بےتکلفی سے اُس کے قریب آکر بیٹھی تھی حیدر ناگواری سے نتالیہ کو دیکھتا ہوا بولا


"منہ لگنے کا کام اب میرا ہی تو رہ گیا ہے میری مرضی کے بغیر تو آپ یہ کام کریں گے بھی نہیں ہے ناں"


نتالیہ حیدر کے ہونٹوں کو دیکھ کر اُس کے مزید قریب آتی ہوئی بولی تو حیدر نے اُس کا منہ جبڑوں سے پکڑا


"اپنی حد میں رہو سمجھ میں نہیں آرہا تمہیں"


حیدر اُس کی قربت پر ایک دم برہم ہوا اُس کے سراپے سے نظر چراتا ہوا اپنا ہاتھ اس کے منہ سے ہٹاکر وہ بیڈ سے اٹھنے لگا تبھی نتالیہ نے نے اُس کا ہاتھ پکڑا


"آپ تو اپنی مرضی کرنے کے بعد حدوں کا تعین کرچکے ہیں، لیکن آج اگر میں حد میں رہی پھر تو ہم دونوں کا کچھ بھی نہیں ہونے والا"


نتالیہ کی بات سن کر حیدر اُس کا غصے میں ہاتھ جھٹکتا ہوا ٹیرس میں چلا گیا


"کب تک بھاگے گیں، آنا تو آپ کو واپس اِسی بیڈ روم میں ہے، دیکھتی ہو آج کیسے آپ خود کو اپنی "حد" میں رکھ سکتے ہیں"


نتالیہ خود سے کہتی ہوئی ڈریسنگ روم میں چینج کرنے چلی گئی


ٹیرس پر کھڑا جب وہ تھوڑا پُرسکون ہوا تو واپس بیڈروم میں چلا آیا۔۔۔ ڈریسنگ روم کی کھلی لائٹ اسے نتالیہ کی وہی موجودگی کا پتہ دے رہی تھی۔۔۔ حیدر سوۓ ہوۓ یوشع کو پیار کرتا واپس بیڈ پر آکر لیٹا اور اپنا موبائل سائیڈ ٹیبل سے اٹھا کر دیکھنے لگا


ڈریسنگ ٹیبل کا دروازہ کھلنے کی آواز پر بےساختہ حیدر کی نظریں نتالیہ کی طرف اٹھی،، تو اُس کے ہاتھ میں موجود موبائل سینے پر گرا۔۔۔ نتالیہ کو اُس دن کی طرف نائٹی میں دیکھ کر حیدر کے پورے جسم میں برق رفتاری سے بجلی کی لہر دوڑ گئی


نتالیہ اُس رات کی طرح نائٹی میث موجود حیدر کو نظرانداز کیے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے اپنے بالوں میں برش پھیرنے لگی، حیدر سحر کی سی کیفیت میں بیڈ سے اٹھ کر چلتا ہوا نتالیہ کے پاس آنے لگا۔۔۔ نتالیہ شیشے میں سے حیدر کا عکس اور اُس کی حالت دیکھ کر اپنی فتح پر دل ہی دل میں مسکرائی مگر انجان بنتی ہوئی حیدر کی طرف اپنا رُخ کرتی اس سے پوچھنے لگی


"کیا کچھ چاہیے تھا آپ کو"


معصومیت سے پوچھے گئے سوال پر حیدر ایک دم ہوش میں آیا وہ اُس کے پاس یوں اپنا منہ اٹھا کر کیوں چلا آیا تھا حیدر کو اپنے اوپر خود ہی غصہ آنے لگا اور نتالیہ کے پوچھے گئے معصوم سے سوال پر وہ اندر تک سُلگ اٹھا تھا


"تم اپنی بات کرو اور اپنا بتاؤ تم کیا چاہ رہی ہو اِس وقت مجھ سے"


حیدر سنجیدہ لہجے میں اُس سے سوال کرنے لگا جو اپنے دونوں ہاتھ اوپر کئے بالوں کا جوڑا بنارہی تھی اور جان بوجھ کر اُس کے جذبات بھڑکا رہی تھی


"وہ بالکل نہیں چاہ رہی جو آپ سوچے بیٹھے ہیں۔۔۔ نیند آرہی ہے مجھے میں تو سونے جارہی ہوں"


نتالیہ بالوں کو جوڑے کی شکل دے کر لاپرواہ انداز میں حیدر سے بولتی ہوئی جمائی روک کر بیڈ کی طرف جانے لگی


مگر اُس سے پہلے حیدر نے نتالیہ کا ہاتھ کھینچ کر اُسے دیوار کی طرف دھکیلا ابھی وہ سنبھل بھی نہیں پائی تھی کہ حیدر نے نتالیہ کے دونوں ہاتھوں کو کلائیوں سے پکڑ کر دیوار سے لگاتے ہوۓ اُس کے ہونٹوں کو مضبوطی سے اپنے ہونٹوں کے گرفت میں لے لیا


نتالیہ اُس کے اتنے جذباتی انداز پر، اور ایک دم سے حملہ آور ہونے پر بالکل بوکھلا گئی تھی مگر حیدر کی کاروائی پر بنا کوئی احتجاج کیے اُس کے جذباتی پن کو محسوس کرتی سرشار ہونے لگی


وہ اب نتالیہ کا ہاتھ کو چھوڑ کر اپنے ہاتھ کی انگلیاں نتالیہ کے بالوں میں پھنساۓ اس کا سر کو پیچھے کرکے گردن پر جھک کر جابجا اپنے ہونٹوں سے محبت کی مہر ثبت کرتا چلاگیا


ایک دم سے امڈ آنے والے جذبات پر نتالیہ خود بھی حیدر کی کاروائی پر حیرت ذدہ تھی حیدر اُس کو اپنے بازوؤں میں بھرتا بیڈ پر لے جانے لگا۔۔۔ وہ کیوں اس کی قربت پر اعتراض کرتی حیدر کی دسترس میں اس کی پناہوں میں موجود میں نتالیہ کا سکھ چین تھا۔۔۔ وہ مدہوش ہونے لگی بیڈ پر لٹانے کے بعد حیدر نے اُسے اِس قابل نہیں چھوڑا تھا کہ نتالیہ کچھ اور سوچتی، اپنی تھائیس پر حیدر کی رقص کرتی انگلیوں کو محسوس کرتی وہ پوری طرح حواس کھوکر حیدر کے سحر میں ڈوبی ہوئی تھی جب حیدر ایک دم بیڈ سے اٹھا اپنی شرٹ کے بٹن بند کرتا اور بالوں کو ہاتھوں سے سنوارتا ہوا کمرے سے باہر نکلنے لگا


"حیدر۔۔۔ کہاں۔۔۔ کہاں جارہے ہیں آپ"


نتالیہ ہکابکا سی حیدر کو پکارتی ہوئی اُس سے پوچھنے لگی جو بیچ منجھدار میں اُس کو چھوڑ کر کمرے سے باہر جارہا تھا


"نیند آرہی تھی ناں تمہیں اب تمہیں سو جانا چاہیئے"


حیدر سنجیدہ نظر اس کے ہکابکا چہرے پر ڈال کر کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ نتالیہ حیدر کی اِس حرکت پر غصے میں پاگل ہونے کو تھی۔۔ اُس نے غصے میں تکیہ اٹھا کر بند دروازے پر دے مارا


وہ جان بوجھ کر اس کے اتنے قریب آکر اُس کے احساسات جگا کر، یوں اُسے سونے کا مشورا دے کر کمرے سے جاچکا تھا نیند تو اسے کیا آنی تھی بلکہ الٹا اُسے حیدر پر غُصہ آنے لگا


تھوڑی دیر میں اُس کے موبائل پر میسج آیا حسن کا میسج اپنے موبائل پر دیکھ کر وہ میسج پڑھنے لگی


"کیا پھر تمہارا اور چاچو کا جھگڑا ہوگیا وہ گاڑی لےکر باہر کیوں نکل گئے اِس وقت"


حسن کا میسج پڑھ کر اُسے مزید غصہ آنے لگا وہ غصے میں ٹائپ کرنے لگی


"میرا آدھا خون چوس کر باقی کا خون جلانے کے بعد باہر ہوا کھانے نکلے ہیں تمہارے چاچو۔۔ ذرا سے بھی اِس قابل نہیں ہے کہ اُن سے پیار کیا جائے"


نتالیہ حسن کو میسج کرنے کے بعد موبائل پٹختی ہوئی ڈریس چینج کرنے چلی گئی جب واپس آئی تو حسن کا میسج آیا ہوا تھا


"جب بات پیار سے نہیں بن رہی ہو تو پیار کو چھوڑو بخار چڑھالو میرے آئیڈۓ پر عمل کرو مفید ثابت ہوگا تمہارے لیے میرا آئیڈیا"


حسن کا میسج پڑھ کر وہ بری طرح کنفیوز ہوئی


"ہیں۔۔۔ یہ پیار سے بخار کا کیا تعلق ہے۔۔۔ یہ چچا اور بھتیجے دونوں کا ہی دماغ چلا ہوا ہے"


نتالیہ بڑبراتی ہوئی بولی۔۔۔ تو اُس کے موبائل پر حسن کی کال آنے لگی


******


نیند سے بیدار ہوتے ہی اس کی نظر اپنے برابر میں لیٹی ہوئی نتالیہ پر گئی جب وہ رات میں واپس گھر لوٹا تھا تب نتالیہ تمیز والا لباس زیب تن کیے ہوئے سو رہی تھی ورنہ جس طرح اُس نے رات کو اپنے داؤ پیچ چلانے کی کوشش کی تھی بہت ممکن تھا حیدر خود کو سنبھال نہیں پاتا اور اُس کے آگے پگھل جاتا جتنی مشکل سے اُس نے اپنے جذبات کو قابو میں رکھا تھا یہ وہی جانتا تھا۔۔۔ کل رات اُسے اپنے بیڈ روم سے باہر جانا بھی مشکل ترین امتحان لگ رہا تھا جس میں اگر وہ کامیاب نہیں ہوتا تو فتح نتالیہ کے نصیب میں ہوتی

جو حیدر بلکل نہیں چاہتا حیدر سوچتا ہوا بیڈ سے اٹھ کر واش روم چلاگیا ویسے ہی نتالیہ نے جھٹ سے اپنی آنکھیں کھولیں وہ حیدر کے واپس آنے سے پہلے کارنر ٹیبل سے پانی کا جگ اٹھا کر اُس میں نیم گرم پانی لےکر آئی اور جگ کو واپس جگہ پر رکھ کر آنکھیں بند کر کے لیٹ گئی


"آہ ہ ہ۔۔۔۔"


فریش ہوکر حیدر جیسے ہی وہ واشروم سے باہر آیا اُسے نتالیہ کی کرہانے کی آواز آئی جیسے نیند میں وہ بےسکون تھی


"نتالیہ کیا ہوا آنکھیں کھولو"


حیدر نہ چاہتے ہوئے بھی سوئی ہوئی نتالیہ کی طرف متوجہ ہوا اُسے نظر انداز نہیں کرسکا


"نتالیہ"

حیدر اُس کے قریب آکر اُس کا گال تھپتھپاتا ہوا بولا تو نتالیہ بمشکل اپنی آنکھیں کھول پائی


"حیدر اگر مجھ کو کچھ ہو جائے تو میرے پیچھے یوشع کا بہت زیادہ خیال رکھیے گا"


نتالیہ نقاہت ذدہ آواز میں حیدر سے بولی جیسے وہ صدیوں کی بیمار ہو


"کیا ہونا ہے تمہیں،، کیا ہوگیا ہے تمہیں نتالیہ آنکھیں کھولو اپنی"


حیدر دوبارہ اُس کے آنکھیں بند کرنے پر نتالیہ سے بولا وہ حیرت زدہ تھا۔۔۔ کل رات اچھی بھلی وہ کسی اور ہی موڈ میں نظر آرہی تھی اب صبح اچانک آخر اُسے کیا ہوگیا تھا


"مجھے اندر سے کچھ بہتر فیل نہیں ہورہا ہے۔۔۔ باڈی پین بہت زیادہ ہے شاید بخار ہوگیا ہے"


نتالیہ کرہاتی ہوئی حیدر کو بتانے لگی اُس کی حالت دیکھ کر حیدر کا لہجہ نرم اور انداز فکرمندانہ ہوچکا تھا


"نہیں بخار تو بالکل نہیں ہے تمھیں"


نتالیہ کے بولنے پر حیدر نے اُس کا ماتھا چھو کر دیکھا تبھی وہ نتالیہ سے بولا


"تو کیا میں بہانے بنارہی ہوں آپ کے سامنے"


نتالیہ ایک دم برا مناتی ہوئی حیدر سے بولی تو حیدر اس کے ناراض ہونے پر غور سے نتالیہ کو دیکھنے لگا


"آہ۔۔۔، وہ میرا مطلب تھا ایسے ہی ہوتا ہے میرا بخار کبھی کبھی پلیز تھرمامیٹر سے اچھی طرح چیک کرلیں ناں"


حیدر کے غور سے دیکھنے پر اِس سے پہلے حیدر مشکوک ہوتا وہ دوبارہ نقاہت ذدہ آواز میں بولی تو حیدر خاموشی سے تھرمامیٹر لاکر اُس کا بخار چیک کرنے لگا


"دیکھیں ذرا یوشع جاگ گیا ابھی سے"


نتالیہ نے حیدر کا دھیان یوشع کی طرف دلایا تو حیدر یوشع کی طرف دیکھتا نتالیہ کی طرف سے توجہ ہٹاچکا تھا جبھی نتالیہ نے تھرمامیٹر جگ کے اندر ڈالا۔۔۔۔ حیدر یوشع کو اچھی طرح چادر اوڑھا کر جب نتالیہ کی طرف پلٹا تو نتالیہ حیدر کے مڑنے سے پہلے تھرمامیٹر واپس منہ میں ڈال چکی تھی


"102 بخار۔۔۔ حیرت ہے باڈی تو بالکل نارمل محسوس ہورہی ہے تمہاری پھر یہ کیسے۔۔۔"


حیدر تھرمامیٹر کو دیکھنے کے بعد دوبارہ نتالیہ کی گردن چھوکر بخار چیک کرتا حیرت ذدہ ہوا


"بس ایسے ہی بخار ہوجاتا ہے کبھی کبھی اندر سے حرارت محسوس ہوتی ہے اوپر سے ظاہر نہیں ہوتا کچھ بھی۔۔۔ اللہ جی اب میرے بچے کو کون سنبھالے گا، گھر کو کون دیکھے گا اور مجھ کو کون سنبھالے گا مجھ سے تو ہلا تک نہیں جارہا"


بےبسی کے مارے دکھ بھری داستان سناتے ہوئے شاید نتالیہ کے رونے کی دیر تھی


"میں ہی سنبھالوں گا سب۔۔۔۔ آف ہے میرا آج، چلو پہلے تم میڈیسن لےلو ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں شام تک بخار اُتر جائے گا"


حیدر نتالیہ کو پریشان دیکھ کر اُسے تسلی دیتا ہوا میڈیسن باکس سی بخار کی گولی نکال کر لے آیا جو نتالیہ نے حیدر کی نظر بچتے ہی بیڈ کے پیچھے پھینک دی اور حیدر کو دکھانے کے لیے گلاس میں موجود پانی پینے لگی


"اب ذرا مجھے واشروم تک تو لے جائیں تاکہ میں منہ ہاتھ دھو کہ فریش ہوجاؤ"


نتالیہ حیدر کی طرف اپنا ہاتھ بڑھاتی ہوئی بولی تو حیدر نتالیہ کا چہرہ دیکھنے لگا


"کیا تم چار قدم پر واشروم تک خود چل کر نہیں جاسکتی"


حیدر نتالیہ کو جتانے والے انداز میں بولا جو بخار کی وجہ سے ننھی بچی بنی ہوئی تھی۔۔۔ بخار بھی نہ جانے کیسا تھا


"سہارا مانگا آپ سے آپ کی جائیداد نہیں۔۔۔ اللہ جی ایسا برا وقت کسی پر نہ آۓ پلیز اللہ جی یوشع کو جلدی سے جوان کردیجیۓ اب مجھ بدنصیب کا وہی سہارا بنے گا جوان ہوکر"


کرہاتی ہوئی آواز میں دوہائیاں دیتی نتالیہ خود ہمت کرکے اٹھنے لگی۔۔۔ حیدر اب اس کو مشکوک ہوتا دیکھ رہا تھا مگر جیسے ہی نتالیہ چکرا کر گرنے لگی حیدر نے پھرتی سے اسے تھام لیا


"چلو ابھی کے لیے تمہیں میں سہارا دے دیتا ہوں یوشع کے جوان ہونے میں تو بیس پچس سال ہیں ابھی"


حیدر نتالیہ کو بولتا ہوا اسے بازوؤں میں اٹھا چکا تھا تو نتالیہ نے بھی زیادہ نخرے دکھانا مناسب نہیں سمجھا


"اف نتالیہ منہ کم کھول اگر اوور ایکٹنگ زیادہ ہوگئی تو یہ بندہ بات کی کھال نکالنے والوں میں سے ہے"


نتالیہ حیدر کو دیکھتی دل ہی دل میں بولی


اِس کے بعد حیدر نے تمام کام خوش اسلوبی سے انجام دیئے۔۔۔ نتالیہ خوشی تھی یوں حیدر کو اپنی جانب مائل کرکے


"میرا بیٹا جاگ گیا آجاؤ جلدی سے بابا کے پاس"


یوشع کے جاگتے ہی حیدر کا دھیان نتالیہ سے ہٹا، اب وہ یوشع کے کپڑے تبدیل کررہا تھا نتالیہ باپ بیٹے کو دیکھ کر مسکرانے لگی


*****

"تم کمرے سے باہر کیوں چلی آئی بولا تھا ناں ریسٹ کرو"


حیدر یوشع کو گود میں لیے ناشتہ کرواتا ہوا نتالیہ سے بولا جو دیوار پکڑ کر لاغر سی حالت میں کمرے سے باہر چلی آرئی تھی


"یار نتالیہ کیا ہوگیا تمہیں چاچو نے بتایا تمہیں فیور ہورہا ہے صبح سے"


حسن چائے کا کپ ٹیبل پر رکھتا ہوا اٹھ کر نتالیہ کے پاس آیا اور ہمدردانہ لہجے میں نتالیہ سے پوچھنے لگا


"اتنی ساری باتیں میں یوں کھڑی ہوکر ایک ساتھ نہیں بتاسکتی ذرا سہارا دے کر صوفے پر بیٹھاؤ مجھے، اُف مجھ سے تو چلا ہی نہیں جارہا"


نتالیہ کانپتا ہوا ہاتھ حسن کی طرف بڑھاتی ہوئی بولی تو حیدر نے جلدی سے آگے بڑھ کر نتالیہ کا ہاتھ تھاما اور اپنی گود میں موجود یوشع اس نے حسن کی گود میں تھما دیا


"یہ ناشتہ کرچکا ہے، میں اِس کو بھی کچھ کھلا دیتا ہوں تب تک تم یوشع کو سنبھالو"


حیدر حسن کو بولتا ہوا نتالیہ کو سہارا دے کر صوفے تک لایا


"بہت اچھے چاچو، میرا مطلب ہے آپ اچھی طرح اپنی بیگم کی کھلائی پلائی کریں تاکہ یہ بھلی چنگی ہوجائے، تب تک میں آپ کے اِس ہیرو کو سنبھال لیتا ہوں"


حسن حیدر سے بولتا ہوا یوشع کو گود میں اٹھائے ڈائیننگ ہال سے چلاگیا جانے سے پہلے وہ حیدر سے نظر بچا کر نتالیہ کو آنکھ مارنا نہیں بھولا جس پر نتالیہ نے حسن کو جلد وہاں سے دفع ہونے کا اشارہ کیا۔۔۔ تب تک حیدر نتالیہ کے لیے سوپ لے آیا


"جب تک تم یہ سوپ پیو میں آتا ہوں"


حیدر سوپ کا باؤل میز پر رکھتا ہوا مصروف انداز میں بولا اور کچن میں جانے لگا


"یہ سوپ آپ اپنے ہاتھوں سے ہی پلادیں ناں حیدر"


نتالیہ کی آواز پر حیدر کے قدم رکے وہ مڑ کر نتالیہ کو غور سے دیکھنے لگا


"میرے ہاتھوں سے سوپ پی کر تمہارا بخار اُتر جائے گا"

حیدر واپس آکر نتالیہ سے پوچھنے لگا


"شاید ایسا کرنے سے بخار اتر ہی جائے"

نتالیہ حیدر کا چہرہ دیکھتی ہوئی اُس سے سیریس ہوکر بولی


"تم بخار اتارنا چاہتی ہو یا میری توجہ چاہتی ہو"


اب کی بار حیدر نتالیہ کے قریب بیٹھ کر اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر واضح انداز میں نتالیہ سے پوچھنے لگا


"میرے لیے آپ کی ذات اہم ہے آپ کی توجہ صرف میرے اوپر رہے اِس کی خاطر تو میں صدیوں بیمار رہنے کے لیے تیار ہو"


نتالیہ حیدر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اُس سے بولی تو حیدر نتالیہ کا ماتھا چھو کر اُس کا بخار چیک کرنے لگا ویسے ہی نتالیہ نے حیدر کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔۔۔ وہ خاموشی سے مگر منتظر نگاہوں سے حیدر کو دیکھ رہی تھی حیدر نے نفی میں سر ہلایا اور نتالیہ کو اپنے ہاتھ سے سوپ پلانے لگا


"تمہارے کہنے کے مطابق میں اپنے ہاتھ سے تمہیں یہ سوپ پلا چکا ہوں اب امید ہے کہ تم اپنے اِس بخار کو جلد سہی کرلو"


حیدر نتالیہ سے بولتا ہوا اس وقت خالی باؤل لےکر صوفے سے اٹھ گیا تو نتالیہ وہی آنکھیں بند کرکے صوفے پر لیٹ گئی


*****


سجنا ہے مجھے سجنا کے لیے۔۔۔


نتالیہ گنگناتی ہوئی آئینے کے سامنے کھڑی اپنے بالوں میں برش پھیر رہی تھی تب یوشع کو گود میں اٹھائے حیدر کمرے میں چلا آیا جسے دیکھتے ہی نتالیہ نے اپنی شکل ایسے بنالی جیسے وہ صدیوں کی بیمار ہو


"حیدر یوشع کو لٹانے کے بعد ذرا یہاں آئیے گا پلیز"

نتالیہ حیدر کی توجہ اپنی طرف دلاتی اس سے بولنے لگی


"ابھی تک تمہاری اداکاری ختم نہیں ہوئی پورا دن گزر چکا ہے اب نارمل ری ایکٹ کرو پلیز"


حیدر یوشع کو بےبی کاٹ میں لٹاتا ہوا سنجیدہ لہجے میں نتالیہ سے بولا تو نتالیہ نے فوراً روہانسی لہجہ اختیار کیا


"آپ کو ایسا لگ رہا ہے کہ میں صبح سے بیمار ہونے کی ایکٹنگ کررہی ہوں۔۔۔ یا اللہ میرے شوہر کو مجھ پر یقین نہیں ہے ایسا کر تُو مجھے اٹھالے۔۔۔ اچھا ہے ناں دوسری مرتبہ بیوہ ہوگیں تب انہیں میری قدر ہوگی"

نتالیہ بین کرتی ہوئی بولی


"انف نتالیہ۔۔۔ بہت ہوگیا اگر میں تمہاری حرکتوں پر تمہیں ٹوک نہیں رہا تو اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم اوور حرکتیں ہی کرتی جاؤ سارا دن"


اب کی بار حیدر نتالیہ کو دیکھتا ہوا بری طرح ڈانٹ کر بولا تو نتالیہ سمجھ گئی اُس کا ڈرامہ اب اُس کے شوہر کے آگے نہیں چلنے والا اِس لیے وہ سنبھلتی ہوئی نارمل ہوکر حیدر کے پاس آئی اور مسکراتی ہوئی بولی


"چلیں آپ کے کہنے پر میں اپنی اداکاری ختم کردیتی ہوں لیکن پھر آپ بھی مجھ سے ناراض ہونے کی ایکٹنگ ختم کردیں اب"


نتالیہ نے مسکرا کر حیدر سے بولتے ہوئے اس کی کمر کے گرد اپنے بازو لپیٹے جنہیں حیدر نرمی سے ہٹاتا ہوا نتالیہ سے دور ہوا


"یہ اپنی غلط فہمی دور کرلو کہ میں تمہارے سامنے ناراض ہونے کی ایکٹنگ کررہا ہوں میری نظر میں تمہاری خطا اتنی چھوٹی نہیں کے میں تمہیں معاف کردو اور رہی بات آج صبح سے اب تک تمہارا خیال رکھنے کی تو جب سے تم آئی ہو تب سے تم میرے گھر کا یوشع کا خیال رکھ رہی ہو تو سمجھ لو کہ ایک دن میں نے تمہیں ریسٹ دیا ہے۔۔۔ تمہاری ایکٹنگ کو دیکھتے ہوئے بھی تمہیں نہیں ٹوکا تو اِس کا یہ مطلب نہیں کہ تم مجھے بیوقوف بنارہی ہو، تمہارے ہاتھوں بےوقوف میں ایک مرتبہ بن چکا ہوں اب دوبارہ زندگی میں کبھی نہیں بن سکتا اِس بات کو اپنے ذہن میں بٹھالو"


حیدر اپنی بات کی مکمل وضاحت دے کر اسے جتاتا ہوا بولا کہ وہ اس کی ایکٹیگ کو اچھی طرح سمجھ چکا تھا حیدر کے لب و لہجے پر نتالیہ کی مسکراہٹ پھیکی پڑگئی


"میں نے تو سنا تھا جن سے محبت کی جاتی ہے اُن سے اتنی دیر تک ناراضگی نہیں برتی جاتی۔۔۔ معافی مانگ تو رہی ہوں حیدر میں آپ سے پلیز اب معاف کر دیجیئے ناں مجھے"


نتالیہ صلح جُو انداز اپناتی ہوئی حیدر سے بولی اتنے دنوں سے چلی آرہی ناراضگی کو وہ اپنے اور اُس کے درمیان سے آج مکمل ختم کرنا چاہتی تھی


"بالکل صحیح سنا ہے جن سے محبت کی جاتی ہے اُن سے زیادہ دیر تک ناراضگی نہیں برتی جاتی کیا تمہیں ایسا لگتا ہے کہ اب بھی میرے دل میں تمہاری محبت قائم ہوگی۔۔۔ جب مجھے معائشہ سے تمہاری سچائی معلوم کا ہوا تھا تب مجھے احساس ہوا کہ میں نے اُس لڑکی پر اپنے جذبات لٹائے جس کو میری ذات سے کوئی سروکار ہی نہیں تھا وہ لڑکی مجھے بہت آسانی سے کسی دوسری لڑکی کے کہنے پر چھوڑ سکتی ہے میری محبت میرے جذبات اُس کی نظر میں رتی برابر اہمیت نہیں رکھتے ہیں اُسی دن میرے دل سے تمہاری محبت ختم ہوچکی تھی"


حیدر کے سخت الفاظ اور بلا کا سنجیدہ لہجے پر نتالیہ کا دل تڑپ اٹھا وہ حیدر کے قریب آکر ایک دم سے بولی


"آپ جھوٹ بول رہے ہیں میرے سامنے میں مان ہی نہیں سکتی کہ آپ کو مجھ سے محبت نہیں اگر ایسا ہوتا تو آپ کی آنکھیں یہ لہجہ یوں چغلی نہیں کھارہا ہوتا۔۔۔ آپ بس یہ چاہتے ہیں ناں کہ میں اپنی کم عقلی پر شرمندہ ہوں، میں جی بھر کے شرمندہ ہوں حیدر۔۔۔ آپ چاہتے ہیں ناں میں آگے سے کبھی کوئی دوبارہ ایسی حماقت نہیں کروں میں وعدہ کرتی ہوں میں اب دوبارہ کبھی ایسی حماقت نہیں کرو گی بلکہ کر ہی نہیں سکتی ایسی حماقت جس سے کبھی زندگی میں آپ کو کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑے۔۔۔ مجھ سے غلطی ہوگئی تھی مگر غلطی جرم تو نہیں ہوتا جس کی تلافی ناممکن ہو پلیز مجھے معاف کردیں"


نتالیہ منت کرتی ہوئی حیدر کے سامنے بولی جو اس وقت نہ جانے کیوں سنگ دل بنا ہوا تھا نتالیہ کے انداز پر حیدر نے اس کو گرفت میں جکڑلیا گرفت ایسی تھی کہ نتالیہ اس کی پناہوں میں سسک پڑی


"تمہاری خطا چھوٹی نہیں، وہ میرے سامنے جرم کے برابر ہے جس کی تلافی اتنی آسانی سے ممکن نہیں۔۔۔ میری آنکھیں اور میرا لہجہ ابھی تمہیں چغلی کھاتا محسوس ہورہا ہے بہت جلد تمہاری یہ خوش فہمی دور ہوگی جب میں تمہارے اوپر سوتن لےکر آؤں گا تمہاری جرم کی یہی سزا تجویز کی ہے میں نے بہت جلد میں شادی کرنے والا ہوں"


حیدر کی بات سن کر وہ پتھرا سی گئی تھی حیدر اس کے پتھرا ہوئے وجود کو اپنی گرفت سے آزاد کرتا نتالیہ کو اُسی حالت میں چھوڑ کر لائٹ بند کرتا ہوا بیڈ پر لیٹ گیا


وہ کوئی بےوقوف نہیں تھا کہ صبح سے اس کی اداکاری نہیں سمجھ رہا تھا مگر شام میں جب وہ اپنا پلان کامیاب ہونے کا حسن کو ہنستی ہوئی بتارہی تھی تب حیدر کو محسوس ہوا شاید وہ اسے بیوقوف سمجھتی ہے اور ابھی بھی اس کو بےوقوف بناکر خوش ہورہی تھی تبھی وہ نتالیہ پر اپنا غصہ نکال چکا تھا


*****


صبح بیدار ہوتے ہی اسے اپنا وجود ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا کل رات ناجانے وہ کب تک کمرے میں مقصد کھڑی رہی تھی اسے یاد نہیں تھا کہ وہ بیڈ پر کب آکر لیٹی اِس وقت بخار کی حرارت سے اُس کا بدن سچ میں جل رہا تھا کل تک وہ جو ڈرامہ کررہی تھی اس وقت اُس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اٹھ کر چل بھی سکے۔۔۔


نتالیہ کی نظر ڈریسنگ روم سے نکلتے حیدر پر گئی جو آفس کے لیے تیار ڈریس اپ ہوکر اسے نظر انداز کرتا سائیڈ ٹیبل سے اپنی رسٹ واچ اٹھاکر کلائی میں ڈال رہا تھا


وہ نامحسوس طریقے سے نتالیہ کو بیڈ پر بیٹھا ہوا دیکھنے لگا اِس وقت اُس کا چہرہ زرد اور مرجھایا ہوا تھا۔۔۔ کیا وہ دوبارہ اُس کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ایسا کررہی تھی حیدر اپنا والٹ اور موبائل پاکٹ میں ڈالتا ہوا اُس کے بارے میں سوچنے لگا


نتالیہ بیڈ سے اترتی ہوئی واش روم کی طرف جانے لگی اُس کی چال میں سُستی اور بوجھل پن پر حیدر مکمل طور پر نظریں اٹھا کر اُس کی طرف متوجہ ہوا جیسے ہی نتالیہ کے قدم لڑکھڑائے حیدر اُس کو تھامنے کے لئے فوراً نتالیہ کی طرف بڑھا مگر اُس سے پہلے نتالیہ بیڈ کا سراہ پکڑ چکی تھی حیدر وہی رک گیا وہ خاموشی سے نتالیہ کو دیکھنے لگا جو اُس پر نظر ڈال کر واش روم چلی گئی


*****


"بتاؤ تو آخر کیا ہوا ہے"

حیدر نے ڈائننگ ہال میں قدم رکھا تب اسے حسن کی آواز سنائی دی جو ناشتہ ٹیبل پر رکھتی ہوئی نتالیہ سے مخاطب تھا


"کچھ نہیں ہوا آرام سے بیٹھ کر ناشتہ کرو"


نتالیہ کی سنجیدہ آواز حیدر کے کانوں میں پڑی اُس کی کرسی کھینچ کر بیٹھنے تک وہ دونوں بھی خاموش ہوچکے تھے


"یار چاچو مائینڈ نہیں کرئیے گا یہ آپ دونوں کا آپس کا معاملہ ہے مگر آپ کو ایسا نہیں لگتا۔۔۔

حسن نے حیدر سے بولنا چاہا تبھی حیدر اُس کی بات کاٹتا ہوا بولا


"میں مائنڈ کرسکتا ہوں حسن... خاموشی سے اپنا ناشتہ کرو"


حیدر کی بات سن کر حسن بالکل خاموش ہوگیا جبکہ نتالیہ حیدر پر ایک نظر ڈال کر کرسی سے اُٹھ کر فریج سے اپنے لئے ائسکریم نکال کر لے آئی اور واپس کرسی پر بیٹھ کر کھانے لگی


"کیوں اپنی جان کی دشمن بنی ہوئی ہو طبیعت خرابی میں کون بےوقوف آئسکریم کھاتا ہے"


حسن نتالیہ کی حرکت پر اُس کو دیکھ کر ٹوکتا ہوا بولا تو حیدر نے پلیٹ سے سر اٹھا کر نتالیہ کو دیکھا۔۔۔ یعنی اُس کی سچ میں طبیعت خراب تھی جو اُس کے چہرے سے بھی محسوس ہورہا تھا مگر حسن کی بات پر اور حیدر کے دیکھنے پر نتالیہ اسپون کو پلیٹ میں رکھ کر باؤل میں اپنی انگلی ڈبو کر آئسکریم کھانے لگی۔۔۔ نتالیہ کی حرکت پر حیدر سر جھٹک کر اپنا ناشتہ کرنے لگا


*****


وہ میٹنگ سے فارغ ہوکر تھوڑی دیر پہلے ہی اپنے روم میں آکر بیٹھا تھا تبھی اس کا دھیان نتالیہ کی طرف چلا گیا


"یہ لڑکی تو آفس میں بھی سکون نہیں لینے دیتی"


حیدر نتالیہ کے بارے میں سوچنے لگا کیونکہ اُس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی کچھ سوچ کر اُس نے گھر پر کال ملانے کے لیے اپنا موبائل اٹھایا جو میٹنگ ہونے کی وجہ سے حسب عادت وہ اپنے آفس روم میں ہی چھوڑ کر گیا تھا


موبائل فون پر پہلے سے حسن کی لاتعداد کالز دیکھ کر اسے کسی انہونی کا خدشہ ہوا۔۔۔ حسن کا آیا ہوا میسج دیکھ کر اُس کے قدموں تلے زمین نکل گئی جس میں اُسے فوری طور پر اسپتال کا پتہ لکھ کر وہاں آنے کے لئے کہا گیا تھا


"نتالیہ"

حیدر خالی ذہن کے ساتھ کرسی سے اٹھا اپنے خیال کو جھٹکتا ہوا وہ تیزی سے آفس کے کمرے سے باہر نکلا


*****


"نتالیہ کہاں ہے حسن، کیا ہوا ہے اُسے۔۔۔ جلدی بتاؤ مجھے کیسی ہے وہ"


اسپتال کے کوریڈور میں حسن کو دیکھ کر حیدر اُس کی جانب بڑھتا ہوا بےقرار لہجے میں حسن کو دونوں شانوں سے پکڑتا اُس سے نتالیہ کے بارے میں پوچھنے لگا


"چاچو نتالیہ کو کچھ نہیں ہوا وہ بالکل ٹھیک ہے اسپتال میں تو ہم یو۔۔۔


حیدر کا دل کسی انجانے خوف سے بری طرح ڈر رہا تھا تبھی حیدر کی نظر اسپتال کے کمرے سے باہر نکلتی نتالیہ پر پڑی جو سرخ انکھیں لئے، شاید تھوڑی دیر پہلے بےتحاشا رو چکی تھی۔۔۔ حیدر حسن کی بات پر دھیان دینے کی بجاۓ نتالیہ کی طرف بڑھا۔۔۔۔ اِس سے پہلے نتالیہ روتی ہوئی حیدر کے سینے سے لگتی حیدر نے خود اُسے اپنے قریب کرکے اپنے بازوؤں میں بھرلیا


"تھینک گاڈ کہ تم ٹھیک ہو میں بہت زیادہ ڈر گیا تھا حسن کا میسج دیکھ کر"


حیدر نتالیہ کو سینے سے لگائے اُس کے ٹھیک ہونے کا اطمینان کرتا نتالیہ سے بولا تو نتالیہ کے رونے میں مزید شدت آگئی


"حیدر یوشع ہم دونوں کا بیٹا۔۔ وہ"

نتالیہ کے جملے پر حیدر کا دل ایک مرتبہ پھر کانپ اٹھا اُس نے نتالیہ کو خود سے جدا کیا


"کیا ہوا یوشع کو، کہا ہے وہ، نتالیہ خاموش کھڑی رو کیوں رہی ہو جواب دو مجھے"


حیدر نتالیہ کو کندھے سے پکڑ کر جھنجوڑتے ہوا پوچھنے لگا تو حسن ایک دم درمیان میں آیا


"تم یوں بےوقوفوں کی طرح رو کر ٹینشن کیوں دے رہی ہو چاچو کو، چاچو آپ ٹینشن نہیں لیں یوشع اب بالکل ٹھیک ہے ڈاکٹر نے اُس کا اسٹامک واش کردیا ہے، شکر ہے پیٹرول زیادہ کوائنٹٹی میں اُس کے پیٹ میں نہیں گیا تھا خطرے کی کوئی بات نہیں ہے اب"


حسن حیدر کو ایک دم پریشان دیکھ کر اُس کو تسلی دینے کے ساتھ بتانے لگا حسن کی بات سن کر حیدر کا سر چکرا گیا وہ اپنا رُخ حسن کی جانب کرتا بولا


"جنریٹر کے لیے پیٹرول تو میں نے کچن کے کیبینٹ میں رکھ تھا یوشع وہاں تک کیسے پہنچا تم کہاں تھی اُس وقت"


آخری جملہ حیدر نے شدید غصٌے میں نتالیہ کی طرف رخ کرکے اس سے پوچھا


"میری آنکھ لگ گئی تھی آپ کے آفس جانے کے بعد مجھے خبر ہی نہیں ہوئی یوشع کب اٹھا اور کچن میں چلاگیا"


نتالیہ حیدر کو بتارہی تھی تب حیدر کا ہاتھ فّضا میں بلند ہوا جو فوراً حسن نے پکڑلیا


"چاچو کیا ہوگیا ہے آپ کو، کیا کررہے ہیں آپ کول ڈاؤن۔۔۔ یوشع اب بالکل ٹھیک ہے"


حسن آس پاس گزرنے والوں کا خیال کرتا ہوا حیدر سے نرمی سے بولا حیدر کو تو اِس وقت غُصے میں ماحول کا احساس تک نہیں رہا تھا


"یہ ایک لاپرواہ لڑکی ہی نہیں بلکہ ایک لاپرواہ ماں بھی ہے ہر وقت ہنسی مذاق بس یہی اِس کی زندگی ہے۔۔۔ اگر میرے بیٹے کو اِس کی وجہ سے کوئی نقصان پہنچتا تو میں آج اِس کی جان لے لیتا میں اپنے ہاتھوں سے"


حیدر غُصّے کی شدت سے نتالیہ کو دیکھتا ہوا بولا تو وہ حیدر کے غُصّے میں بولے گئے لفظوں پر غور کرنے لگی اور خاموشی سے بناء ایک لفظ بولے کوریڈور سے باہر نکل گئی


"ڈیٹس ناٹ فیئر چاچو۔۔۔ اُس بیچاری کی تو خود صبح سے طبیعت ٹھیک نہیں تھی، آپ کو اس کو اِس طرح نہیں بولنا چاہیے تھا۔۔۔ بچے تو ایسی حرکت کر جاتے ہیں اگر یہ سب یوشع آپ کی موجودگی میں کرتا تو آپ کس کو بلیم کرتے پھر۔۔۔ اگر آپ یوشع کے باپ ہیں تو وہ یوشع کی ماں ہے۔۔۔ دو سال آپ کے بغیر اُسی نے آپ کے بیٹے کو پالا ہے اور اُس کی دیکھ بھال بھی اُسی نے کی ہے"


حسن افسوس کرتا حیدر سے بولا جو غصے میں سب بھول کر نتالیہ پر برس چکا تھا۔۔۔ حسن کی بات کو تسلیم کرنے کے باوجود وہ بناء کچھ بولے یوشع کے پاس اسپتال کے کمرے میں چلاگیا جبکہ حسن نتالیہ کے پیچھے کوریڈور سے باہر نکل گیا


*****


یوشع کو ہسپتال سے لےکر وہ لوگ رات تک گھر آگئے تھے جس کے بعد سے نتالیہ بالکل خاموش تھی اُس کی خاموشی حیدر محسوس تو کررہا تھا مگر فی الحال وہ خود بھی چپ تھا اُس کی ساری توجہ یوشع کی طرف تھی، یوشع کے سونے کے بعد حیدر نے سوچ رکھا تھا کہ وہ نتالیہ سے ساری باتیں کلیئر کرے گا اور اپنی ناراضگی بھی ختم کردے گا شاید غُصّے میں وہ نتالیہ کو کچھ زیادہ ہی ڈانٹ چکا تھا مگر رات میں یوشع کے سونے کے بعد تھکن کے باعث حیدر کی اپنی آنکھ بھی لگ گئی جو فجر کے وقت کِھلی۔۔۔ اس وقت نتالیہ بیڈ پر تو کیا کمرے میں بھی موجود نہیں تھی حیدر کے برابر میں بیڈ پر ہی یوشع سو رہا تھا پھر اس وقت نتالیہ کہاں جاسکتی ہے۔۔۔ حیدر بیڈ سے اٹھ کر بیٹھ گیا اور ٹائم دیکھنے کے لئے اُس نے اپنا موبائل اٹھایا جس کے نیچے ایک پیپر دبا ہوا تھا وہ پیپر اٹھاکر دیکھنے لگا جس پر تحریر درج تھی


"آپ نے غصے میں بالکل ٹھیک کہا مجھے، میں ایک لاپرواہ لڑکی ہوں ایک لاپرواہ لڑکی کو کم ازکم لاپرواہ ماں نہیں ہونا چاہیے شاید میں یوشع کا خیال اُس طرح نہیں رکھ پاؤں جس طرح کوئی دوسری لڑکی مطلب آپ کی آنے والی بیوی یوشع کا خیال رکھ سکے گی۔۔۔ اِس لیے آپ کی اور یوشع کی زندگی سے ہمیشہ کے لئے جارہی ہوں۔۔۔ جو اپنی بیوقوفی کے ہاتھوں آپ کے ساتھ کیا آپ نے برداشت کرلیا مگر اُس بیوقوفی کے لئے جو سزا آپ نے میرے لئے تجویز کی وہ بہت بڑی ہے برداشت نہیں پاؤں گی اِس لیے آپ کے گھر سے دوبارہ جارہی ہو اپنا اور یوشع خیال رکھیے گا


ایک بےوقوف اور کم عقل بیوی اور ایک لاپرواہ ماں۔۔۔۔


نتالیہ کے ہاتھوں لکھی ہوئی یہ تحریر پڑھ کر گویا کمرے کی چھت حیدر پر آگری تھی وہ اپنی بیوی کی اِس حرکت پر سر پکڑ کر بیٹھ گیا جو دوسری مرتبہ اُس کے گھر سے چلی گئی تھی۔۔۔ اپنے غصے کو ضبط کرتا ایک نظر سوۓ ہوۓ یوشع پر ڈال کر وہ کمرے سے باہر نکلا تو حیدر کے قدم ڈائننگ ہال میں ہی رک گئے


وہ ہینڈ کیری صوفے کے پاس رکھے خود صوفے پر بیٹھی ہوئی حیدر کو نظر آئی۔۔۔ حیدر گہری سانس لے کر دل ہی دل میں شکر ادا کرنے لگا کہ نتالیہ گھر میں موجود تھی کہیں نہیں گئی


حیدر کے بیڈروم سے باہر نکلنے پر وہ روئی ہوئی آنکھوں کے ساتھ حیدر کو دیکھنے لگی۔۔۔ حیدر اس کے ہاتھ کا لکھا پیپر اپنے ہاتھ میں پکڑے نتالیہ کے پاس آیا تو نتالیہ اُس کو دیکھ کر کھڑی ہوگئی


"کیا مذاق تھا یہ"

اپنے ہاتھ میں موجود پیپر کی طرف اشارہ کرتا ہوا وہ نتالیہ سے پوچھنے لگا


"مذاق نہیں ہے یہ, میں سچ میں یہاں سے جانے۔۔۔


نتالیہ بولتی ہوئی آنکھوں میں آۓ آنسو ضبط کرنے لگی جس کی وجہ سے اُس سے جملہ بھی مکمل نہیں کیا جارہا تھا حیدر خاموشی سے نتالیہ کا چہرہ دیکھتا ہوا اس کے بولنے کا انتظار کرنے لگا


"پہلے بتاۓ بغیر چلی گئی تھی تو سوچا اب کی بار آپ کو بتادو اِس لئے سب کچھ لکھ دیا مگر یہاں اِس لیے بیٹھ گئی تھی تاکہ۔۔۔


نتالیہ بولتی ہوئی آنکھ سے نکل کر گال پر آۓ آنسو ہتھیلی سے صاف کرنے لگی تب حیدر بولا


"تم کتنی سیلفش ہو نتالیہ تم نے پہلے بھی یہ نہیں سوچا تمہارے جانے کے بعد میرا کیا ہوگا اور ابھی بھی تم مجھے چھوڑ کر جانے کی بات کررہی ہو چلو یوشع کو تو میں سنبھال لوں گا مگر میرا کیا ہوگا تم ابھی بھی یہ نہیں سوچ رہی"


حیدر نے بولتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ نتالیہ کی کمر پر رکھ کر اسے خود سے قریب کرلیا وہ اُس پر اب غصہ بھی کیسے کرتا اور کتنا کرتا۔۔۔


"آپ کا کیا ہونا ہے آپ تو دوسری سوری میرا مطلب ہے تیسری بیوی لانے والے ہیں"


نتالیہ حیدر کو یاد دلانے لگی اس کا انداز ایسا تھا کہ حیدر آنے والی مسکراہٹ ضبط کرگیا


"تمہیں لگتا ہے کہ میں تیسری بار شادی کروں گا"

وہ نتالیہ کو دیکھتا ہوا سنجیدگی سے پوچھنے لگا


"دوسری مرتبہ بھی تو کی تھی"

پہلی بار نتالیہ نے اپنے منہ سے شکوہ کیا جس پر حیدر نے گہرا سانس لیا


"اور دوسری شادی کرنے کے بعد مجھے ریئلائس ہوا کہ میرا گزارہ صرف تمہارے ساتھ ممکن ہے کیونکہ جس طرح تم مجھے انٹرٹین کرسکتی ہوں شاید کوئی دوسری لڑکی نہیں کرسکتی"


حیدر نتالیہ کو اپنے حصار میں لیتا ہوا بولا تو نتالیہ نے اُس کے حصار سے نکلنا چاہا مگر وہ اپنے بازوؤں کا گھیرا نتالیہ پر سخت کرچکا تھا یعنی اب نتالیہ کو اجازت نہیں تھی کہ وہ اُس سے دور جائے


"مجھے چھوڑ دیں حیدر بہت شکوے ہیں میرے دل میں آپ کے لیے میرا آپ کی زندگی سے چلے جانا ہی بہتر ہے"

نتالیہ نے بولتے ہوئے اُس کا حصار توڑنا چاہا مگر کامیاب نہیں ہوسکی


"اب اگر تم نے دوبارہ جانے کی بات کی تو بہت سختی سے پیش آؤں گا جو بھی شکوے ہیں ایسے ہی میرے قریب رہ کر مجھ سے کرو"

حیدر نرم لہجے میں اُس کو باذوؤں میں لیے بولا


"کیوں بولا آپ نے کہ آپ تیسری شادی کریں گیں۔۔۔ جانتے ہیں کتنا برا لگا تھا مجھے"

نتالیہ حیدر کے بازوؤں میں اس سے شکوہ کرتی بولی


"اسی وجہ سے بولا تھا تاکہ تمہیں برا لگے، تم نے کبھی یہ سوچا مجھے کتنا برا لگا ہوگا جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ تم کسی دوسری لڑکی کے کہنے پر مجھے چھوڑ کر چلی گئی تھی"


حیدر نے بولتے ہوۓ نتالیہ کی کمر سے اپنے بازو ہٹاۓ اور نتالیہ کا چہرہ دیکھنے لگا


"اپنے مائنڈ میں یہ بات کلیئر کرلیں اُس رات میرا ویسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔۔۔ جو آپ مجھے کہہ رہے تھے وہ سب میری مرضی پر ہوا تھا"


نتالیہ نے حیدر کو چند دن پہلے کی بات یاد دلائی تو حیدر ہنس پڑا وہ نتالیہ کو کمر سے پکڑ کر دوبارہ اپنے قریب کرتا بولا


"اس دن تمہارا ویسا کوئی ارادہ نہیں تھا وہ سب میں نے اپنی دلی خواہش پر کیا تھا کیونکہ تم سے ڈریس چینج کرنے کے لئے میں نے بولا تھا اور کچھ؟؟؟"


حیدر بولنے کے بعد اب مسکرا کر نتالیہ کو دیکھ رہا تھا نہ جانے کیوں وہ حیدر کو دیکھنے پر اور مسکرانے پر نروس ہونے لگی اِس لئے خاموشی رہی کچھ نہیں بولی


"ویسے دو دن پہلے جب تم نائٹی میں میرے سامنے آئی تھیں تب تمہارے کیا ارادے تھے"


حیدر کے شرارت بھرے انداز میں پوچھنے پر وہ جھینپ سی گئی نتالیہ کے اِس طرح جھینپنے پر حیدر اُس کا چہرہ دیکھ کر مسکرایا تو نتالیہ اپنی جھینپ مٹاتی ہوئی بولی


"زیادہ اترانے کی اور اِس طرح مسکرانے کی ضرورت نہیں ہے مجھے اُس دن معلوم ہوگیا اچھے خاصے بدتمیز انسان ہے آپ"


نتالیہ حیدر کو گھور کر شکوہ کرتی ہوئی بولی اس کی بات پر حیدر ایک مرتبہ پھر ہنس دیا


"اتنے دنوں سے جو مجھے منانے کے لیے جتن کررہی تھی سیدھے سیدھے مجھے منانے کے لیے ایک آئیٹم سونگ پر ڈانس کرلیتی تو میری ساری ناراضگی اُسی وقت دور ہوجاتی"


حیدر نتالیہ کو آئیڈیا دیتا بولا جسے سن کر نتالیہ بھی ہنس پڑی


"حیدر سچ بتائیں مجھ سے ناراض تو نہیں ہے آپ"

نتالیہ حیدر کو دیکھتی ہوئی اُس سے پوچھنے لگی


"میری ناراضگی تم بہت پہلے ہی ختم کرچکی ہو اور اگر تمہیں ابھی بھی یقین نہیں تو میں ابھی بیڈروم میں چل کر یوشع کہ جاگنے سے پہلے تمہیں یقین دلادیتا ہوں کہ میں واقعی تم سے ناراض نہیں ہوں"


حیدر نتالیہ سے بولتا ہوا اُس کے ہونٹوں پر جھک کر اُسے ثبوت دینے لگا نتالیہ سرشار سی کیفیت میں گھر کر ایک مرتبہ دوبارہ اُس کے حصار میں آچکی تھی

اختتام

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes.She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Mein Aur Tum Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Mein Aur Tum  written by Zeenia Sharjeel  Mein Aur Tum    by Zeenia Sharjeel is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages