Ishq Meharban By Rimsha Hussain Complete Romantic Novel Story - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Saturday 22 June 2024

Ishq Meharban By Rimsha Hussain Complete Romantic Novel Story

Ishq Meharban By Rimsha Hussain Complete Romantic Novel Story 

Madiha Shah Writer: Urdu Novel Stories

Novel Genre: Rude Hero Based Romantic  Novel Enjoy Reading.....



Novel Name: Ishq Meharban 

Writer Name: Rimsha Hussain

Category: Complete Novel 


مُبارک ہو اللہ کی رحمت ہوئی ہے۔آپ کی بیگم نے ایک خوبصورت بیٹی کو جنم دیا ہے۔۔۔۔لیڈی ڈاکٹر نے مسکراکر بتایا تو نوریز ملک جو اُمید بھری نظروں سے ڈاکٹر کو دیکھ رہے تھے "بیٹی"لفظ پہ اُن کو شدید مایوسی نے آ گھیرا شاید غُصے نے بھی"

لو جی ایک اور بیٹی۔۔۔۔۔ایک خاتون حقارت سے بولی جو رشتے میں "نوریز ملک"کی بھابھی تھیں۔۔۔

نوریز ملک اپنا واعدہ یاد ہے نہ؟سجاد مُلک موچھو کو تاؤ دے کر بولے اُن کے برابر ہی اُن کا آٹھ سال بیٹا اسیر ملک بیٹھا ہوا تھا جو حددرجہ کوفت کا شکار تھا۔

جی بھائی جان۔۔۔نوریز ملک سنجیدگی سے بے لچک آواز میں بولے تو سجاد ملک اور اُن کی بیگم فائقہ کے چہرے پہ مسکراہٹ نے احاطہ کیا۔

ٹھیک ہے پھر گاؤں چلنے کی تیاری کرو اور ہاں اپنی بیوی کے لیے نوٹ یہاں چھوڑ کر جانا تاکہ وہ اپنے سبز قدم ہماری حویلی میں نہ رکھے۔۔۔۔حقارت بھرے لہجے میں کہہ کر سجاد ملک بینچ سے اُٹھ کھڑا ہوا تو اسیر بھی بینچ سے اُترا

سوہان اور میشا۔۔۔۔نوریز ملک نے ہچکچاہٹ سے کچھ کہنا چاہا مگر اپنے بھائی اور بھابھی کی گھوریوں نے سرجُھکانے پہ اُس کو مجبور کرلیا۔۔

تیری بیٹی سوہان اصل منحوس ہے جس کے آتے ہی تیری بیوی نے بیٹی کے اُپر بیٹی دی ہے۔۔۔ارے اگر ہمارے خلاف جاکے توں اُس بدبخت سے شادی نہ کرتا تو آج تیرے اگل بگل تیرے وارث ہوتے نہ کے یہ بیٹیاں مگر تمہارے سر پہ تو عشق معشوق کا بھوت ناچ رہا تھا جو شکر ہے دس سال بعد اُترنے والا ہے۔۔۔۔فائقہ بیگم بینچ پہ ہر چیز سے بے نیاز لیٹی ہوئی آٹھ سالہ "سوہان" اور پانچ سالہ"میشا"کی طرف اِشارہ کرکے اپنے جاہل ہونے کا ثبوت دیا۔۔ 

آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں اِن دونوں کا میں نے کرنا بھی کیا ہے خوامخواہ میرے سر پہ ناچے گی یہ دونوں آپ ٹھیک کہتی ہیں یہ بیٹیاں کسی کام کی نہیں ہوتی۔۔نوریز ملک سرجھٹک کر بولا تو فائقہ بیگم کے چہرے پہ شیطانی مسکراہٹ آئی تھی وہی اسیر کی نظر اپنی ماں کی گود میں موجود اپنی چار سالہ بہن"لالی"پر پڑی

بابا اور اماں حضور پھر تو لالی کو بھی یہی چھوڑ جائے سوہان یا میشا روندو تو نہیں یہ لالی تو اِتنا روتی ہے کانوں میں درد پڑجاتا ہے۔۔۔آٹھ سالہ اسیر منہ کے زاویئے بگاڑ کر بولا تو سجاد ملک  اپنی جگہ پہلو بدلتے رہ گئے وہی فائقہ بیگم نے اپنے لاڈلے سپوت کو گھورا

اسیر شرم کر لالی تیری بہن ہے اور کون اپنی چھوٹی بہن کے بارے میں ایسے بولتا ہے۔۔۔فائقہ بیگم سوئی ہوئی "لالی"کو اپنے سینے میں بھینچ کر اسیر کو آنکھیں دِکھاکر بولی تو وہ چپ ہوگیا"شاید وہ سمجھ نہیں پایا تھا اگر سوہان اور میشا منحوس ہیں وہ گاؤں نہیں آسکتی تو لالی کیوں اُن کے ساتھ چل رہی ہے؟وہ بھی تو ایک لڑکی ہے۔۔۔مگر وہ بچہ تھا اپنے ماں باپ کے دماغ میں موجود خُراقات کو سمجھ نہیں پارہا تھا۔۔۔۔

چلو۔۔۔سجاد ملک نے سنجیدگی سے نوریز سے کہا تو وہ اپنا سرہلاتا اُن کے ساتھ جانے والا تھا" جب عین ٹائیم نے اُن کے ہاتھ کی انگلی پکڑی

پاپا آپ کہاں جارہے ہیں؟کیا امی کو ہوش آگیا؟سوہان اپنی آنکھیں مسلتی معصوم لہجے میں پوچھنے لگی تو نوریز ملک نے اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ سے دور کیا۔۔۔۔

مجھے نہیں پتا۔۔۔۔نوریز ملک اُس معصوم بچی کو بے رخی سے جواب دے کر کوریڈور سے جانے لگے۔۔سجاد ملک اور فائقہ بھی اُن کے پچھے روانہ ہوئے

پاپا رکے تو۔کہاں جارہے ہیں۔۔؟سوہان جلدی سے بینچ سے اُتر کر اُن کے پیچھے جانے لگی مگر اسیر جو آہستہ چل رہا تھا اُس کے راستے میں حائل ہوا اور بولا

بابا حضور نے کہا ہے کے تم بہنوں اور تمہاری ماں کسی کام نہیں ہیں اِس لیے وہ اب تمہیں یہی چھوڑ کر جا رہے ہیں۔۔۔۔"سوہان"کو اسیر کی باتوں کا مطلب سمجھ نہیں آیا تھا مگر اُس میں ہمت بھی نہیں تھی کے وہ اب اپنے باپ کے پیچھے جاتی۔ 

بھوت لگی ہے۔۔۔۔آٹھ سالہ سوہان اسٹل کھڑی تھی جب میشا خُرماں خُرماں چلتی اُس کے کندھے پہ سررکھ کر نیند سے ڈوبی آواز میں بولی تو سوہان نے چونک کر اپنی چھوٹی بہن کو دیکھا پھر اپنے خالی ہاتھوں کو۔۔۔کل سے بھوکی تو وہ خود بھی تھی"جب رات میں نوریز دونوں کو لیے سینڈوچ لایا تھا تو اُس نے کھانے سے منع کیا تھا۔۔کیونکہ میشا خالی پیٹ ہہ سوئی ہوئی تھی۔۔اور اُس کو میشا کے بغیر کچھ کھانا سہی نہیں لگا تھا اِس لیے وہ خود بھی ایسے سوگئ تھی۔۔۔

امی کے پاس چلتے ہیں۔۔۔۔وہ دے گی کھانے کو کچھ۔۔۔۔۔سوہان اُس کا ہاتھ مضبوطی سے اپنے چھوٹے ہاتھ میں تھام کر بولی

مگر وہ تو ایمار (بیمار)ہے۔۔۔۔میشا نے تعجب سے کہا

ارے بدھو وہ بیمار نہیں ہے اُن کا آپریش ہوا ہے اور امی نے بتایا تھا اِس بار ہمارا بھائی آئے گا۔۔۔سوہان نے مسکراکر بتایا

تو کیا لِٹل مائی (بھائی)آگیا؟میشا کی آنکھیں"بھائی"لفظ پہ چمکی

یہ تو امی کے پاس جائے گے تو پتا چلے گا نہ۔۔۔۔سوہان نے اپنے سر پہ ہاتھ مار کر بتایا

تو ہم کیلے(اکیلے)تیا تر (کیا کر)رہے ہیں؟ہمیں امی تے پاس ہونا چاہیے۔۔۔میشا نے کہا تبھی کسی کے چیخو کی آواز نے دونوں کو سہمنے پہ مجبور کیا

یہ تو امی کی آواز ہے۔۔۔سوہان کی آواز بڑبڑاہٹ سے زیادہ نہیں تھی۔"وہ میشا کا ہاتھ پکڑے چیخو کے تعاقب میں آئی تو ایک وارڈ میں اپنی امی کو تیز تیز چِلاتا دیکھ کر وہ حیران ہوئی جبکہ میشا اُس کے ساتھ چپک کر کھڑی ڈری ہوئی نظروں سے اپنی ماں کو دیکھ رہی تھی۔۔

Aslhan control your self.

ڈاکٹر نے پریشانی سے اُس کو دیکھ کر کہا جو اپنے ہاتھ میں لگی ڈرپ کو نوچ کر نکال رہی تھی۔۔

کیسے کنٹرول کروں ؟ہاں کیسے یہ میری بیٹی نہیں ہے"اُس نے جھولے میں نومولود بچے کی طرف اِشارہ کیا چیخ کر کہا تو سوہان جھٹ سے جھولے کے پاس بڑھی

تمہاری بیٹی ہے یہ کیا ہوگیا ہے تمہیں؟ڈاکٹر حیرانی سے اب کی بولی

میں نے خود الٹرا ساؤنڈ کروایاں تھا مجھے منہاز نے بیٹا بتایا تھا تم سب نے میرا بچہ ایکسچینج کیا ہے۔۔۔اسلحان اپنے بال نوچنے کے قریب تھی۔۔۔تیسری بار "بیٹی"سن کر وہ جیسے ایک عذاب میں دھنس گئ تھی۔۔۔وہاں موجود نرسز ڈاکٹرز حیرت سے اُس کا ردعمل دیکھ رہی تھیں۔۔۔

امی نہیں یہ ہماری بہن ہے دیکھے اِس کی ٹھوڑی پہ تِل ہے جیسے آپ کو ہے۔۔۔سوہان اُس بچی کے چہرے سے کمبل ہٹاکر اشتیاق سے بتانے لگی۔۔۔

مجھے بیٹا چاہیے ڈاکٹر پلیز مجھے یہ نہیں چاہیے میرے شوہر کو پتا نہ لگے کے مجھے بیٹی ہوئی ہے آپ پلیز کسی کا بیٹا مجھے لاکر دے اور یہ وہاں چھوڑ آئے۔۔۔اسلحان ہاتھ جوڑ کر اُن سے بولی تو سب حق دق رہ گئے۔۔۔۔"میشا سوہان کے پاس آتی اُس نومولود بچے کو دیکھنے لگی جس نے شور کی آواز سے سن کر اپنی آنکھیں کُھولی تھی۔۔

کتنی پیاری ہے نہ؟سوہان نے پرجوش آواز میں کہہ کر اُس بچی کا گال چوما تو اُس نے رونا شروع کردیا۔۔۔

روندو۔۔۔۔میشا نے منہ کے زاویئے بگاڑے اور پیچھے ہٹ گئ۔۔۔

اِس کو بھوک لگی ہے شاید۔۔۔۔ایک نرس نے کہا تو اسلحان نے نفرت سے سرجھٹکا

بیٹیاں اللہ کی رحمت ہوتی ہیں آپ کیوں ناشکری بن رہی ہیں آپ کو تو خوش ہونا چاہیے کے اللہ آپ سے خوش ہے کیونکہ اللہ جس سے خوش ہوتا ہے وہاں اپنی رحمت بھیجتا ہے بیٹی کی صورت میں"بیٹا یا بیٹی کے چکروں میں نہ پڑے اولاد کی قدر اُن سے جانے جن کے پاس بیٹی یا بیٹا دونوں میں سے کوئی بھی نہیں اور وہ سالوں سے اولاد کی نعمت سے ترس رہے ہیں۔۔۔۔دوسری نرس کو "اسلحان"کی باتیں پسند نہیں آئی تو کہا مگر اُس کی باتوں کا "اسلحان پہ کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔۔۔

موم اِس کو بھوک لگی ہے۔۔۔اِس بار سوہان نے اُس کو مُخاطب کیا

بھاڑ میں جھونکو اِس کو اور اِس کی بھوک کو۔۔۔اسلحان چیخی تو سوہان نے سہم کر اُس کو دیکھا پھر افسردگی سے روتی ہوئی بچی کو۔۔۔"ڈاکٹر نے ایک ترحم بھری نظر اسلحان پہ ڈالی پھر پاس کھڑی نرس سے کچھ کہا جس کو سن وہ سر کو جنبش دیتی کاٹ کی طرف بڑھی

کہاں لے جارہی ہو میری بہن کو؟نرس اُس بچی کو اُٹھانے والی تھی"جب سوہان نے جلدی سے اپنے چھوٹے ہاتھوں کا گہرا اُس بچی پر کیا اُس کی دیکھا دیکھی میں میشا نے بھی یہی کیا تھا جس پر نرس مسکرائی تھی۔۔

یہی ہیں اِس کو فیڈ کروانا ہے تبھی لے جارہی ہوں تم دونوں کی ماں سے تو کوئی اُمید نہیں اور تم دونوں بھی ساتھ آؤ اور ناشتہ کرو۔۔۔۔نرس نے نرمی سے جواب دیا "سوہان نے اپنے ہاتھ پیچھے کرلیے وہی"ناشتے"کا لفظ سن کر میشا کی بھوکی چمک اُٹھی

یہ ہماری بہن ہے فاحا۔۔۔۔سوہان آہستگی سے بڑبڑاتی نرس کے پیچھے گئ

اسلحان تمہاری پڑھائی تمہارا ایجوکیشن حاصل کرنا آج جیسے رائیگان گیا۔۔۔۔لیڈی ڈاکٹر نے نرس کے ساتھ بچیوں کو جاتا دیکھ کر بعد میں "اسلحان سے کہا جو اُس کی دوست بھی تھی۔

تمہیں میری تکلیف کا اندازہ نہیں سویرا تمہیں کیا لگتا ہے میں خوشی خوشی یہ سب کررہی ہوں نوریز نے مجھے وارن کیا تھا کے اگر اپنے سسرال میں جگہ بنانی ہے تو اُن کو بیٹا دینا ہوگا ورنہ وہ مجھ سے تعلق ختم کردے گا اور یہ میں ہرگز نہیں چاہوں گی "تمہیں پتا ہے نوریز کے لیے میں نے اپنے بھائی کا گھر چھوڑا تھا۔۔"اگر میں اب جاؤں بھی تو وہ اِتنے سالوں بعد مجھے قبول نہیں کرے گا۔۔اسلحان زخمی لہجے میں بتانے لگی۔۔

کیسے قبول کرے گے وہ تمہیں ؟مرضی کے خلاف شادی کی تھی تم نے"اور نوریز کی بات بھی خوب کہی بیٹا یا بیٹی یہ تو اللہ کے فیصلے ہیں وہ چاہے جس کو بیٹا دے جس کو بیٹی یہ تمہارے یا میرے ہاتھ میں نہیں تم اچھا سوچو نوریز سے بات کرو اپنی معصوم بچی کا چہرہ دیکھو گی تو سارا "غُصہ ساری فرسٹریشن ختم ہوجائے گی بہت پیاری اور معصوم پری ہے۔۔اور اِتنی پیاری بچی سے کوئی بھی باپ منہ نہیں موڑ سکتا نوریز تو بلکل بھی نہیں وہ تو تمہارا عاشق ہے پکا والا۔۔۔۔سویرا نے آخر میں اُس کو چھیڑا تو اسلحان پہلی بار مسکرائی اُس کی باتوں سے اُس کو کچھ ڈھارس ملی تھی۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤

اپنا اور اپنے بھائی کا بہت سارا خیال رکھنا تم دونوں کو ساتھ لے چلتی مگر تمہارے ایکزامز ہیں۔۔۔۔ثانیہ دورانی نے اپنے دس سالہ بیٹے زوریز کے گال چوم کر محبت سے کہا

موم آپ آریان کو لے جاسکتی ہیں اور پیپرز میرے ہیں اِس کے نہیں۔۔۔زوریز بیحد سنجیدہ لہجے میں اپنے آٹھ سالہ بھائی آریان کی طرف اِشارہ کیے کہا جو ٹی وی پر ویڈیو گیم  کِھیلنے میں مصروف تھا۔۔۔

چھوٹا ہے بزنس ٹرپ بھی ہے تبھی ساتھ لیکر نہیں جارہے مگر تم نے کسی کو تنگ نہیں کرنا اور نہ کسی سے روڈ ہونا ہے۔۔ ثانیہ دورانی نے اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیر کر کہا تبھی واشروم سے وجدان دورانی باہر آئے

سامان پِیک کروالیا؟وجدان دورانی نے آریان کو گود میں اُٹھائے اپنی بیوی سے پوچھا

جی گاڑی میں بھی رکھوالیا ہے۔۔۔ثانیہ دورانی مسکراکر بتایا

چیمپ امتحانوں کی تیاری کیسی ہے؟وجدان دورانی نے اِس بار زوریز کو مُخاطب کیا

بہت اچھی زوریز نے جواب دیا

چلیں بیگم؟وجدان دُرانی زوریز کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ثانیہ دُرانی سے پوچھا

جی چلیں۔۔۔۔ثانیہ دُرانی اپنے دو بیٹوں کو ایک بار پھر باری باری پیار کرتی اُن کو جواب دینے لگی۔

خیریت ہے بیگم دل نہیں چاہ رہا کیا؟وجدان دُرانی نے شرارت سے پوچھا

سچ کہوں تو جی بلکل بھی دل نہیں چاہ رہا اِن دونوں کو چھوڑ کر جانے کا۔۔۔۔ثانیہ دُرانی کے لہجے میں اُداسی تھی

ہم کوشش کرتے ہیں جلدی واپس آنے کی آپ آئے۔۔۔اُنہوں نے مسکراکر ثانیہ بیگم کو اپنے حصار میں لیا

ٹھیک ہے بچہ لوگ اپنا بہت خیال رکھنا اور کسی بھی تائی جان یا تایا جان یا اُن میں سے کسی کے بچوں سے لڑائی وغیرہ نہ کرنا۔۔۔وجدان نے جاتے جاتے ہوئے ایک بار پھر اُن سے کہا

آپ سی سی ٹی وی کیمرہ ہماری گردنوں میں چسپاں دے۔۔۔۔آریان نے بڑی معصومیت سے کہا جس پر وجدان اور ثانیہ ہنس پڑے

وقت آیا تو ایسا بھی کروں گا ابھی ہم چلتے ہیں۔۔۔وجدان نے کہا اور ثانیہ کو لیے باہر آئے۔

السلام علیکم بھابھی۔۔۔۔وہ لوگ باہر آئے تو وجدان کی نظر اپنے بڑے بھائی کی بیوی پر پڑی تو سلام کیا

وعلیکم السلام ۔۔۔اُنہوں نے لیے دیئے انداز میں سلام کیا

ہمیں کسی ضروری کام سے لاہور جانا پڑ رہا ہے تو آپ پلیز زوریز اور آریان کی تھوڑی بہت دیکھ بھال کرلیجئے گا ویسے میں نے میڈ سے بول دیا ہے پر وہ دونوں کہاں اُن کی بات مانتے ہیں۔۔۔۔ثانیہ نے اُن ہلکی مسکراہٹ سے کہا

سب پتا ہے ضروری کام کے بہانے تم میاں بیوی سیر سپاٹوں میں نکل جاتے ہو"بھئ نکلوں گے بھی کیوں نہیں پئسا ہے اور جہاں پئسا ہوگا وہاں کیسے ممکن ہے کہ عیاشی نہ ہو۔۔۔۔"پر تم دونوں نہ اپنی اولادوں کو ساتھ لیکر جایا کرو خوامخواہ ہمارے سروں میں درد پڑجاتا ہے پھر۔۔۔وجدان کی بھابھی نصرت کو جیسے موقع مل گیا اُن کو سُنانے کا

بھابھی اگر ہمیں سیر سپاٹوں میں جانا ہوگا تو ہم یہ چُھُپائے گے نہیں اور اپنے دونوں بیٹوں کو ساتھ لیکر جائینگے مگر بات یہ ہے کہ ہمیں بزنس میٹنگ میں جانا پڑ رہا ہے۔۔ وجدان نے سنجیدگی سے کہا اور ثانیہ کو اپنے پیچھے آنے کا اِشارہ کیا تو وہ ایک نظر نصرت پر ڈالتی اُن کے پیچھے گئ۔۔۔۔

سچ کہوں تو میرے بس میں ہو تو زوریز اور آریان کو اُن کی نانی کی طرف چھوڑ آؤں مگر اِن دونوں وہ بھی سمر ویکیشن کی چُھٹیوں پر گئے ہیں۔۔۔۔ثانیہ وجدان کے ساتھ پورچ میں آتی اُن سے بولی

دل چھوٹا نہیں کرو نصرت بھابھی زبان کی کڑوی ہیں مگر دیکھنا ہمارے بچوں کا بہت خیال رکھے گی۔۔۔وجدان نے اُن کو تسلی کروائی تو وہ فقط سرہلانے لگی۔۔۔۔

عمیر دُرانی نے دو شادیاں کی ہوئیں تھیں"جس میں پہلی بیوی میں اُن کا ایک بیٹا تھا وجدان دُرانی تھا تو دوسری بیوی جو پہلی بیوی کے مرنے پر اُنہوں نے اپنے والدین کے دباؤ میں کی تھی اُن میں سے اُن کے پہلے ایک بیٹی اور دو بیٹے تھے۔۔"بیٹی کا نام ازکیٰ تھا اور ایک بیٹے کا نام کمال تھا تو دوسرے کا نام جمال تھا"ازکیٰ اپنی شادی کے بعد لنڈن چلی گئ تھی اپنے شوہر کے ساتھ "باقی وہ تینوں بھائی ایک ساتھ رہا کرتے تھے"وجدان دُرانی بڑے تھے تو اُنہوں نے ہمیشہ بڑپن کا مُظاہرہ کیا تھا سگے سوتیلے کا فرق اُنہوں نے کبھی درمیان میں لانے نہیں دیا تھا مگر اُن کے بھائیوں کی سوچ اُن سے حددرجہ مُختلف تھی۔۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

نہیں

نہیں"

یہ جھوٹ ہے۔۔۔۔اسلحان حق دق سی اپنے ہاتھ میں موجود لیٹر کو دیکھ رہی تھی جس میں نوریز نے صاف لفظوں میں کہا تھا کہ اب اُن دونوں کا آپس میں کوئی رشتہ نہیں وہ اُس کو طلاق نہیں دے گا مگر ساتھ رکھے گا بھی نہیں اُس کو"بیٹا چاہیے تھا بیٹیاں نہیں۔۔۔۔۔۔

اسلحان حوصلہ رکھو۔۔۔ڈاکٹر سویرا نے تاسف سے اُس کو دیکھا جس نے اپنی حالت بگاڑ لی تھی۔۔۔

حوصلہ؟

سچ میں سویرا اِتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی تم چاہتی ہو میں حوصلہ رکھوں؟وہ نوریز جو میری محبت کا دعویدار تھا جس نے میرے ساتھ جینے مرنے کی قسم اُٹھائی تھی وہ مجھے محض اِس وجہ سے چھوڑ چُکا ہے کیونکہ میں نے تین بیٹیوں کو جنم دیا ہے۔۔۔اسلحان بے یقین نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولی

اب کیا ہوسکتا ہے۔۔۔۔سویرا خود پریشان تھی۔

میں جاؤں گی نوریز کے پاس اُس کو اپنے فیصلے کے بارے میں ایک بار پھر سوچنا چاہیے۔۔۔۔۔اسلحان ایک نتیجے پر پہنچ کر بولی

اُس نے تمہیں طلاق کے پیپرز بھیجے ہیں پھر کیا رہتا ہے بات کرنے کے لیے تم ذرا ہوش کے ناخن لو۔۔۔۔سویرا نے اُس کو سمجھانا چاہا مگر اسلحان اِس وقت کچھ بھی سوچنے سمجھنے کی پوزیشن میں تھی کہاں

وہ مجھے چھوڑ نہیں سکتا میں اُس کی بچیوں کی ماں ہوں اور وہ جانتا ہے میرا اُس کے علاوہ کوئی نہیں۔۔۔اسلحان ہذہاتی انداز میں چلائی تھی

چھوڑنے کی وجہ یہ بچیاں ہیں اور وہ سب جانتا ہے اُس کے باوجود تمہیں چھوڑنے کا فیصلہ کرچُکا ہے۔۔۔سویرا نے جیسا جتایا تھا جبکہ اُس کی باتیں سن کر اسلحان کچھ بول نہیں پائی تھی۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤

آریان کھانا کھالوں۔۔۔۔۔۔میڈ اُن دونوں کے لیے کھانا لائی تو زوریز نے اُچھلتے کودتے آریان سے کہا جس کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ رات کے وقت سونے کے بجائے نئ گیم شروع کرلیتا

آتا ہوں..آریان بال کو کیک مارتا زوریز کی طرف آیا

صدف آپا۔۔۔۔زوریز نے میڈ کو جاتا دیکھا تو اُس کو آواز دی

جی زوریز بابا۔۔۔۔وہ فورن سے اُس کی طرف متوجہ ہوئی

موم ڈیڈ کا نمبر تو ڈائل کرکے دے۔۔۔۔۔زوریز نے کہا تو وہ سراثبات میں ہلاتی کمرے میں موجود سیل فون کی طرف آئی اور وجدان دُرانی کا نمبر ڈائل کرنے لگی جو تیسری بیل پر ریسیو ہوا

سلام صاحب

ابھی صدف نے اِتنا ہی کہا تھا کہ دوسری طرف جو اُس کو خبریں سُنائی دی اُس پر وہ بے ساختہ اپنے سینے پر ہاتھ رکھتی زوریر کو دیکھنے لگی جو نوالہ بناتا آریان کو کھانا کِھلارہا تھا مگر نظریں اُس پر جمی ہوئیں تھیں۔۔۔۔

کیا ہوا؟زوریز نے اُس کی اُڑی رنگت دیکھی تو پوچھا تو صدف بس رونے لگی۔۔۔۔۔"جس پر آریان نے بھی گردن موڑ کر اُس کو دیکھا

بیگم اور صاحب کا بُری طرح سے ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے اُن کو ہوسپٹل لے گئے تھے کال اُٹھانے والا پولیس والا تھا۔۔۔۔صدف نے روتے ہوئے بتایا تو دس سالہ زوریر اپنی پوری آنکھیں پھاڑے اُس کو دیکھنے لگا جو رونے میں مشغول تھی کیونکہ ثانیہ دُورانی اُس کا خیال اپنی چھوٹی بہن کی طرح رکھتی تھی کبھی اُس کو گھر کی ملازمہ نہیں سمجھا تھا۔۔

آریان جو پہلے کھانا کھارہا تھا صدف کو پہلے روتا ہوا اور پھر جب زوریر کے ایسے تاثرات دیکھے تو اُس نے گلا پھاڑ کر رونا شروع کردیا تھا۔۔۔"جبکہ دل کی دھڑکن بے ترتیب اور آنکھوں میں نمی زوریر کی بھی آئیں تھی

❤❤❤❤❤❤❤

موم فاحا کو بھوگ لگی ہے شاید۔۔۔۔۔سوہان نے گاڑی میں بیٹھی اسلحان سے کہا تو اُس نے جن نظروں سے سوہان کو دیکھا وہ بیچاری سرجُھکانے پر مجبور ہوگئ مگر جس طرح وہ معصوم کلی رو رہی تھی ایسے میں اُس کو بھی رونا آرہا تھا۔۔۔۔

یہ تھلاؤ(کِھلاؤ)میشا جو چاکلیٹ کھارہی تھی وہ سوہان کی طرف بڑھایا

اِتنی چھوٹی ہے یہ۔۔۔۔سوہان نے تاسف سے اُس کو دیکھا تو میشا نے کندھے اُچکائے مگر فاحا کے رونے کا سلسلہ ختم نہیں ہوا تھا اب تو بیک ویو مرر سے ڈرائیور بھی کافی حیرانگی سے اسلحان کو دیکھ رہا تھا جس کے کانوں میں جوں تک نہیں پڑی تھی اور فاحا کو بھی سوہان کی گود میں بیٹھایا ہوا تھا جس کے اپنے بازو سُن ہوگئے تھے۔۔۔۔

"آگے کا رستہ کچا ہے میڈم۔۔۔۔ایک جگہ پر گاڑی روک کر ڈرائیور نے اُس سے کہا تو اسلحان گاڑی سے اُتری تو اُس کی دیکھا دیکھی میں میشا بھی اُتری جبکہ سوہان فاحا کی وجہ سے بہت آہستہ سے گاڑی سے اُتری جو اپنا گلا خُشک کرنے کے بعد سوگئ تھی شاید اُس کو لگ گیا تھا پتا کہ اُس کی سُننے والا کوئی نہیں

کاش میرے پاس دودھ ہوتا۔۔۔۔۔فاحا کو دیکھتی سوہان نے حسرت سے سوچا تھا۔

یہی کھڑے رہنا ہے یا اپنے باپ کے پاس بھی چلنا ہے۔۔۔اسلحان نے سخت نظروں سے اُن کو دیکھ کر کہا تو میشا آنکھیں چھوٹی کیے اپنی ماں کو دیکھا جس نے کبھی بھی اُن کو ڈانٹا نہیں تھا ہمیشہ نازوں سے پلا تھا اور کچھ دنوں سے وہ بس اُن کو سخت گھوریوں سے نواز رہی تھی جس کی سمجھ اُس کو نہیں آ رہی تھی۔۔۔

تلو(چلو)۔۔۔۔میشا نے سوہان سے کہا تو وہ فاحا کے پسینے سے شرابور چہرے پر پھونکیں مارتی اسلحان کے پیچھے چلنے لگی۔۔۔۔۔"اِس وقت وہ آٹھ سال کی بچی نہیں لگ رہی تھی جس کو کھیل کود کے علاوہ کچھ نہیں آتا تھا بلکہ اِس وقت وہ ایک بہن بنی تھی جس کو بس اپنی چھوٹی بہن کی فکر تھی جیسے پہلے اُس کی بھوک کی تو اب پیدل چلنے کی وجہ سے سورج کی تپش سے اُس کا جو پسینہ نکل رہا تھا کیونکہ اسلحان نے فاحا کے لیے کچھ نہیں لیا تھا۔۔۔۔

بی بی جی کہاں؟وہ ایک شاندار حویلی کے گیٹ کے پاس پہنچے تو چوکیدار نے اُس کو روک دیا

میں نوریز کی بیوی ہوں مجھے اندر جانا ہے۔۔۔۔اسلحان اُس کو دیکھتی بتانے لگی۔

آپ لوگوں کا جانا ممکن نہیں جائے واپس ہمیں منع کیا ہوا ہے۔۔۔چوکیدار نے کہا تو اسلحان حق دق سی اُس کو دیکھنے لگی

ایسے کیسے منع کیا ہوا ہے میں اُس کی بیوی ہوں اور یہ اُس کی بچیاں ہیں۔۔۔"سامنے سے ہٹو مجھے اندر جانا ہے۔۔۔۔اسلحان نے اِس بار اپنا لہجہ سخت بنایا 

دیکھے ہمیں جو حُکم ملا ہے ہمیں وہ کرینگے آپ جائے۔۔۔چوکیدار بدلحاظی سے بولتا اُس کو دھکا دینے لگا تو اسلحان نے خود کو تو گِرنے سے بچالیا تھا مگر اُس کے پیچھے کھڑی میشا بُرے طریقے سے گِری تھی اور وہی بیٹھ کر اُس نے رونا شروع کرلیا تھا مگر اسلحان اُس کو دیکھنے کے بجائے زور زبردستی کرکے گیٹ کراس کرگئ تھی۔۔

میشو اُٹھو ہمت کرو۔۔۔۔۔سوہان فاحا کو سنبھالتی پریشانی سے اُس کو دیکھنے لگی جو اُس کے کہنے پر مزید رونا شروع ہوگئ تھی۔۔۔تو سوہان نے آہستہ سے جُھک کر فاحا کو نیچے لیٹایا اور خود اُس کی طرف آئی

"مجھے دیکھاؤ کیا ہوا ہے؟سوہان نے اپنے چھوٹے ہاتھوں سے اُس کا پاؤں اپنی طرف کیا

موم دندی(گندی)

میشا بار بار یہ الفاظ دوہراتی رونا شروع کرگئ تھی اور اُس کے شور سے فاحا نے بھی دوبارہ رونا شروع کیا تو سوہان نے روہانسی نظروں سے اُن کو دیکھا تھا پھر خالی گیٹ کو اب تو اُس کا بھی دل شدت سے چاہ رہا تھا رونے کو پر اگر وہ روتی تو اُن دونوں کو کون سنبھالتا؟

❤❤❤❤❤❤❤

میشو یار رونا تو بند کرو"میں تمہیں دیکھوں یا فاحا کو۔۔۔۔سوہان پریشانی سے اُس کو دیکھ کر مُلتجی لہجے میں بولی جس نے رو رو کر اپنے چہرے کی رنگت لال کردی تھی۔۔۔

اووو تم لوگ پھر سے آگئے۔۔۔۔اسیر فٹبال ہاتھ میں لیتا حویلی میں داخل ہونے لگا تھا اُس کی نظر اُن پر گئ تو ہونٹوں کو گول شیپ دیتا پوچھنے لگا تو سوہان نے بس ایک نظر اُس پر ڈالی جس پر اسیر نے زور سے بال زمین پر ماری پھر اچانک اُس کی نظر نیچے لیٹی ہوئی فاحا پر گئ جو گلا پھاڑ پھاڑ کر رو رہی تھی اُس کو دیکھ کر اسیر نے کانوں میں اُنگلی ٹھونسی اور منہ کے زاویئے بگاڑتا اُس کو دیکھنے لگا

تو یہ ہے منحوس؟اسیر نے فاحا کو دیکھ کر سوہان سے پوچھا جس نے روتی ہوئی میشا کو اپنے ساتھ لگایا ہوا تھا

یہ فاحا ہے میری بہن"ویسے یہ منحوس کیا ہوتا ہے؟سوہان نے بتانے کے بعد ناسمجھی سے اُس کو دیکھ کر پوچھا

ہمیں نہیں پتا ابا حضور نے کہا تھا کہ یہ منحوس ہے"اور تم بیٹیاں ہوں یعنی کسی کام کی نہیں"جبھی تو ہم میں سب نے تم لوگوں کو ہوسپٹل میں چھوڑدیا۔۔۔اسیر نے شانے اُچکائے جواب دیا

تم فاحا کو اُٹھاؤ نہ شاید یہ رونا بند کرے گرمی بھی کتنی ہے۔۔۔۔سوہان کو اُس کی باتیں سمجھی نہیں آئی جبھی بس فاحا کو دیکھ کر اُس سے بولی

ہونہہ ہم کیوں اُٹھائے اِس روندو کو؟"ہم نے تو کبھی روتی ہوئی لالی کو نہیں اُٹھایا یہ تو پھر اُس سے بھی چھوٹی ہے اگر ہماری گود سے گِر وِر گئ تو خوامخواہ الزام بھی ہمارے اُپر آئے گا۔۔۔۔اسیر اپنا سر نفی میں ہلاتا اُس کی بات پر انکاری ہوا

تم اُٹھاؤ گے تو چُپ ہوجائے گی میں تو میشا کی وجہ اِس کے پاس نہیں آرہی۔۔۔۔سوہان نے وجہ بتائی تو اسیر کشمش میں مبتلا ہوتا نظریں نیچے کیے فاحا کو دیکھنے لگا

میشا کو کیا ہوا ہے؟اسیر جانے کیوں فاحا کو گود میں اُٹھانے سے ڈر رہا تھا

گِرگئ ہے مگر اب یہ خود اُٹھے گی۔۔۔۔"اُٹھو میشو۔۔۔۔سوہان کو اسیر کا یوں فاحا سے گریز پسند نہیں آیا تھا تبھی سنجیدگی سے میشا سے بولی

در

نہیں ہوگا درد اُٹھو ہمیں امی کے پاس جانا ہے۔۔۔۔میشا روتی ہوئی کچھ کہنے والی تھی جب سوہان اُس کی بات درمیان میں کاٹ کر بولی تھی جبھی میشا منہ کے زاویئے بگاڑتی آہستہ سے اُٹھنے کی کوشش کرنے لگی جس میں کامیاب بھی ہوگئ۔۔۔

سوہان بھی فاحا کو اپنے بازوں میں اُٹھاتی اندر کی طرف بڑھنے لگی اسیر بھی فٹبال کو کِک مارتا حویلی میں داخل ہوتا گم ہوگیا سوہاں نے اسلحان کی پشت دیکھی تو وہاں جانے لگی جو غُصے سے کسی کو مُخاطب تھی۔۔۔۔۔


نوریز تم میرے ساتھ ایسا کیسے کرسکتے ہو؟"میں تو تمہاری محبت تھی پھر یہ سب؟تم مجھے اکیلا کیسے چھوڑ سکتے ہو میں نے اپنا گھر بار سب کچھ تمہارے لیے چھوڑا تھا تمہاری وجہ سے میں نے جان چِھڑکنے والے بھائی کو چھوڑا تھا اور تم؟"تم نے یہ صلا دیا ہے میری قُربانی کا؟"تمہیں زرا احساس نہیں اور طلاق کے پیپرز بِھجوا دیئے۔۔۔۔اسلحان چیختی ہوئی سنجیدہ کھڑے نوریز سے بولی تھی۔۔۔

میں نے تمہیں پہلے سے بتایا تھا مجھے بیٹا چاہیے اِن تینوں کا میں کیا کروں گا؟بھائی صاحب تو اول روز سے ہی مجھ سے خفا ہے اور اب جو تم نے یہ بچیاں میرے سر پر مسلط کی ہیں اِن کا میں کیا کروں گا؟نوریز حقارت زدہ لہجے میں بولی تو سوہان حیرت سے اپنے باپ کو دیکھنے لگی جو اُن کے لیے ایسے الفاظ استعمال کررہا تھا وہ باپ جو اُن کی ہلکی چوٹ پر تڑپ جایا کرتا تھا۔۔

دید مجھے چوٹ آئی۔۔۔میشا بھاگ کر نوریز ملک کی طرف بڑھ کر اُن کی ٹانگوں کے ساتھ چمٹ گئ تھی اور بتانے لگی جس پر اُنہوں نے کوئی ردعمل نہیں دیا تھا

میں نے خوشی سے بیٹیوں کو جنم نہیں دیا یہ تو اللہ کے ہاتھوں میں ہوتا ہے ویسے بھی بیٹا یا بیٹی اولاد مرد کی قسمت سے ہوتی ہے۔۔۔اسلحان احتجاجاً بولی تھی۔

دیکھو اسلحان مجھے جو کہنا تھا میں کہہ چُکا ہوں اب تم یہ بوجھ لیکر یہاں سے چلی جاؤ میں اپنے بھائیوں کو مزید خفا نہیں کرسکتا تمہاری بدولت۔۔۔۔۔نوریز میشا کو خود سے دور کرتا اٹل لہجے میں گویا ہوا تھا سوہان جبکہ اسٹل کھڑی تھی اُس کو ڈر تھا اگر وہ ہِلے گی تو اُس کی گود سے فاحا گِر جائے گی۔۔

نوریز۔۔۔۔اسلحان متذبذب ہوئی تھی

تم خود بتاؤ کیا یہ میرے بازو بن سکتی ہیں؟نوریز نے تیوری چڑھائے اُس کو دیکھ کر پوچھا اُس کے لہجے میں حدردرجہ سردپن کا عنصر نمایاں ہوا

کیا یہ میرے ساتھ شنابشانہ چل سکتیں ہیں؟ایک اور سوال

یہ بیٹیاں مجھے دے ہی کیا سکتیں ہیں؟"نہ تو اِن کو لیکر میں کہی ساتھ لے جاسکتا ہوں اور نہ یہ مجھے کوئی عقلمندانہ مشورہ دے سکتی ہیں۔۔۔۔نوریز سپاٹ لہجے میں بولا۔

آٹھ سال سوہان کے کوڑے دماغ میں بس یہ لائن کُھپ گئ تھی۔۔۔


""یہ بیٹیاں مجھے دے ہی کیا سکتیں ہیں؟"نہ تو اِن کو لیکر میں کہی ساتھ لے جاسکتا ہوں اور نہ یہ مجھے کوئی عقلمندانہ مشورہ دے سکتی ہیں۔۔۔۔""


مگر اسلحان کو اُس کے یہ الفاظ کسی تماچے سے کم نہ لگے تھے اور ایک میشا تھی جو یک ٹک اپنے باپ کا چہرہ دیکھے ساری ماجرہ سمجھنے کی کوشش کرنے کی جی توڑ کوشش کررہی تھی

ایک بار اِس کا چہرہ تو دیکھ لو۔۔۔۔اسلحان نے حسرت بھرے لہجے میں فاحا کی طرف اِشارہ دے کر اُس سے کہا جس کو ایک مرتبہ بھی خود نہیں دیکھا تھا

مجھے چہرہ دیکھ کر کرنا کیا ہے؟"میں نے سوچ لیا ہے اب میں وہ کروں گا جو بھائی لوگ مجھ سے کہینگے۔۔۔۔"گارڈ اِن کو باہر کا رستہ دیکھاؤ۔۔۔۔۔نوریز ملک سنگدلی کا مُظاہرہ کرتا آخر میں ہاتھ باندھے چوکیدار سے بول کر حویلی میں داخل ہوگیا تھا جبکہ پیچھے اسلحان کے قدم لڑکھڑائے تھے۔۔

نوریز

نوریز

میری بات سُنو "میں کہاں جاؤں گی اِن تینوں کو لیکر۔۔۔اسلحان ہوش میں آتی چیخنے چلانے لگی اُس سے فریادیں کرنے لگی مگر سب بے سود اب تو بہادری کا مُظاہرہ کرتا سوہان کی آنکھیں بھی جھلک پڑیں تھیں۔۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤

آج تین ہوگئے تھے کار ایکسیڈنٹ میں وجدان دُرانی اور ثانیہ دُرانی کی موت ہوگئ تھی۔۔۔"اِن تین دِنوں میں اُن دونوں بھائیوں کی زندگی مکمل طور پر بدل گئ تھی"زوریز نے کھانا پینا چھوڑ دیا تھا اور آریان سارا وقت بس روتا رہتا تھا ہر وقت بس امی امی کی رٹ اُس کے ہونٹوں میں ہوتی تھی۔۔

اب تو ستم یہ ہوا تھا اُن معصوم جانو پر کہ اُن سے اُن کا کمرہ تک چِھین لیا گیا تھا اور وہ جو پہلے اِس شاندار گھر کے مالک تھے اب اسٹور روم میں رہا کرتے تھے"جہاں ای سی تو کیا پنکھے تک کا نام ونشان نہ تھا کوئی نیچے فرش پر بغیر کسی چادر کے اُن کو سونا ہوتا تھا۔۔"زوریز کو اپنے چچاؤں کا بدلتا رویہ کھٹکتا ضرور تھا مگر وہ چُپ تھا کیونکہ اِس کے علاوہ اُس کے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا۔۔"اُن دونوں کی مثال جہاں سونے کا چمچ ہاتھ میں لیئے پیدا ہونے والے بچوں کی ہوا کرتی تھی مگر اب اُن کی حالت کوارٹر میں موجود میڈز کے بچوں سے زیادہ بُری تھی۔۔۔۔"دوسرا اُن کا سُننے والا بھی نہیں تھا صدف کو بھی اُن لوگوں نے کام سے نکال دیا تھا اور ثانیہ کے گھروالے یورپ کے رہائشی تھے جو جانے کس وجہ سے پاکستان نہیں آ پائے تھے۔۔۔۔۔


سرمد یہ تمہاری گاڑی ہے اور فراز یہ تمہاری بال ہے۔۔۔۔جمال صاحب ڈھیر سارے کِھلونے لائے اپنے بچوں میں تقسیم کرنے میں مصروف تھے جب آریان جو باہر سے آرہا تھا وہ بھی وہی رُک گیا اِس خیال سے کہ شاید اُس کے چچا اُس کے لیے بھی کچھ لائے ہو۔۔۔

آریان اندر آؤ کچھ کھاء لو۔۔۔زوریز نے سنجیدگی سے اُس کو دیکھ کر کہا جو حسرت سے اُن کِھیلونوں کو دیکھ رہا تھا۔۔۔"جہاں پہلے اُس کے منہ سے نکلنے والی ہر خواہش کو پورا کیا جاتا تھا آج وہ بچہ ہر چیز کو ترستی ہوئی اور حسرت بھری نگاہ سے دیکھ رہا تھا جہاں پہلے اُس کے پاس کِھیلنے کے سِوا کوئی اور کام نہیں ہوتا تھا اب وہ بس گھر کے لان میں مارا مارا پِھرتا تھا وہ بہت شرارتی بچہ تھا مگر اب اُس کی شوخی کہی دور جا سوئی تھی۔

چچا ہمارے لیئے بھی کچھ لائے ہوگے ویٹ کرو۔۔۔آریان اُس کے کان کے پاس جُھکا آہستگی سے بولا تو زوریر نے لاونج میں دیکھا جہاں ایک خوشحال منظر تھا ہر کوئی خوش تھا جیسے آج سے کچھ دن پہلے یہاں کسی دو جانوں کا جنازہ نکلا ہی نہ ہو۔۔۔۔

اُن کو کھڑے تیس منٹس ہوگئے تھے جمال صاحب نے خریدیں ہوئیں ساری چیزیں اپنے بچوں اور کمال صاحب کے بچوں میں تقسیم کردی تھیں جبکہ اُن دونوں پر کسی نے ایک نظر تک ڈالنا گوارہ نہیں کیا تھا۔


"مجھے گاڑی چاہیے۔۔۔۔آریان آلتی پالتی مارے نیچے قالین پر بیٹھتا رونا شروع ہوگیا تھا زوریر تو اُس سے بڑا تھا چاہے دونوں میں زیادہ ایج ڈفرنس نہیں تھا مگر اُس کے باوجود زوریز میں عقل تھی جبھی اُس کو کچھ خاص فرق نہیں پڑا تھا مگر آریان نے اپنی حالت خراب کرلی تھی۔۔۔۔

آریان چُپ کرو کمرے میں چلو میں کھانا دیتا ہوں تمہیں ویسے بھی یہ گاڑیاں اچھی نہیں تھیں۔۔۔زوریز نے اُس کو پچکارہ

وہاں گرمی اور حبس ہوتی ہے میں نہیں آرہا۔۔۔"اور مجھے گاڑی چاہیے اپنے سارے گُمشدہ کِھلونے اور کمرہ بھی میری ٹی شرٹس تک غائب ہیں۔۔۔"مجھے۔۔سب کے سب چاہیے وہ بھی ابھی۔۔۔آریان روتا ہوا اُس سے بولا تو زوریز لب چباتا اُس کو دیکھنے لگا"

اچھا میں لادوں گا گاڑی ابھی تو اُٹھو بوائز روتے نہیں۔۔۔۔۔زوریز نے اُس کو لارے دیئے تو آریان خوش ہوگیا

سچیییی؟آریان پرجوش ہوا

ہاں ابھی تو چلو۔۔۔۔اُس کو مسکراتا دیکھ کر زوریز بھی مسکرایا


"فریج کیوں لاک ہے؟زوریز آریان کو اپنے اور اُس کے مشترکہ کمرے(اسٹور روم) میں چھوڑ کر کچن میں آیا تو فریج کھولنے لگا تھا مگر فریج لاک دیکھ کر وہ ناسمجھی سے اپنی چچی سے کے پاس آیا تھا

کیونکہ میں نے لاک لگوایا ہے۔۔۔نصرت نے بتایا

اور آپ نے لاک کیوں لگایا ہے؟زوریز نے سنجیدگی سے پوچھا

میرا گھر میری مرضی۔۔۔۔نصرت نے اُس کو گھورا

آریان کو بھوک لگی ہے سارا دن ویسے بھی اُس نے کچھ کھایا پیا نہیں آپ پلیز فریج لاک کِھلوائے۔۔۔۔زوریز نے سنجیدگی سے اُن کو دیکھ کر کہا"تو نصرت بیگم نے میڈ کو آواز دی جو فورن سے حاضر ہوئی تھی۔

جی بیگم صاحبہ؟وہ مؤدب انداز میں پوچھنے لگی

صبح جو سلائیس اور بریڈ ایکسٹرا بچے تھے وہ اِس کو دو۔۔۔۔نصرت بیگم نے کہا تو زوریز چونک کر اُن کو دیکھنے لگا

آپ جانتی ہیں آریان موم ڈیڈ کے علاوہ کسی اور کا جھوٹا نہیں کھاتا اور رات کے وقت سلائس اور بریڈ کون کھاتا ہے؟زوریز اُن کی بات سن کر بولے بغیر نہ رہ پایا

دیکھو زوریز تمہارے ماں باپ یہاں مرنے سے پہلے قارون کا خزانہ نہیں چھوڑ گئے اِس لیے جو مل رہا ہے اُس پر صبر شکر کرو۔۔۔نصرت اُس کو آنکھیں دیکھاتی بولیں

مجھے پئسے دے آپ میں باہر سے اُس کے لیے کچھ منگوادوں گا۔۔۔"زوریز بس یہ بولا

پئسا کہاں سے لاؤں میں؟"تمہیں اگر جو مل رہا ہے وہ لے رہے ہو تو ٹھیک ہے ورنہ تمہاری مرضی۔۔۔۔۔"بھوکے سوجاؤ۔۔۔نصرت نے ہاتھ کھڑے کیے

میں سوجاؤں گا بھوکا مگر آریان کے لیے روکھی ہی سہی پر آپ تازی روٹی بنواکر دے۔۔۔۔زوریز اپنی جگہ بضد تھا

کہاں سے لاؤں میں ہاں بول"کہاں سے لاؤں؟نصرت نے سختی کا مُظاہرہ کیا

وہی سے جہاں آپ اپنے بچوں کا پیٹ پالتی ہیں۔۔۔۔زوریز نے زندگی میں پہلی بار بدلحاظی کا مُظاہرہ کیا جس پر نصرت کو اُس پر تاؤ آیا

چٹاخ

بدتمیز کرتا ہے کمبخت۔۔۔نصرت ایک زناٹے دار تھپڑ اُس کے نازک گال پہ برساتی اُس کو باتیں سُنانے لگی جو وہ اپنے گال پہ ہاتھ رکھتا زمین کو گھورتا اُن کی باتیں خاموشی سے سُنتا رہا

اگر آپ نے مجھے آریان کے لیے کھانا نہیں دیا تو میں آپ کا سیل فون توڑ دوں گا۔۔۔زوریز اچانک ٹیبل پر موجود اُس کا موبائیل اُٹھائے دھمکی آمیز لہجے میں بولا تو نصرت گڑبڑائی

میرا فون واپس کرو ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔۔۔نصرت زچ ہوئی

پہلے آریان کا کھانا۔۔۔۔زوریز بھی اپنی بات پر ڈٹا رہا جس پر نصرت نے دانت پیس کر اُس کو دیکھا پھر میڈ کو اِشارہ کیا تو وہ اُس کے لیے کھانا لائی جس کو دیکھ کر زوریز نے نصرت کا فون واپس ٹیبل پر رکھا اور وہاں سے چلاگیا

❤❤❤❤❤❤❤❤

کرایا میڈم ۔۔۔۔۔۔۔اسلحان گم سم تینوں بچیوں کو لیے بیٹھی تھی جب کنڈیکٹر نے اُس سے کرایا مانگا تو اسلحان نے اپنی پرس کو کھولا جہاں بس ایک ہزار کا نوٹ تھا یہ دیکھ کر اُس نے ٹھنڈی سانس خارج کی اور وہ نوٹ کنڈیکٹر کی طرف بڑھایا

امی بھوت(بھوک) کنڈیکٹر اسلحان کو بقیہ رقم واپس کرنے لگا تو میشا نے بھوک کا بتایا

مجھے کھا جاؤ تم۔۔۔۔اسلحان اُس کو گھور کر بولی تو سوہان نے ناراض نظروں سے اُس کو دیکھا

اپنے جسم کا تجھ(کچھ)ٹاٹ(کاٹ) کردے تھالوں گی۔۔۔۔میشا جواباً بولی تو اسلحان نے کاٹ کھاتی نظروں سے اُس کو دیکھا

میشو تمہیں مذاق سوجھ رہا ہے؟سوہان نے تاسف سے اُس کو دیکھا

تھرو امی نے تیا تھا(شروع امی نے کیا تھا)میشا ناک منہ چڑھا کر بولی

امی اِس کو اب دودھ دے صبح سے بھوکی ہے۔۔۔سوہان نے فاحا کو دیکھ کر اسلحان سے کہا

میں چلتی بس سے اِس کو پھینک دوں گی اگر میرے سامنے لائی بھی تو۔۔۔۔۔اسلحان نے گھور کر اُس کو بھی لتاڑا تو سوہان سہم گئ تھی۔۔"کچھ وقت بعد اُس کو کسی اور بچے کے رونے کی آواز سُنائی دی تو اُس نے اُٹھ کر پچھلی سیٹوں کی جانب باری باری دیکھا جہاں ایک خاتون اپنا چہرہ چُھپائے سائیڈ پہ کیے چھوٹے بچے کو فیڈ کروانے میں مصروف تھی یہ دیکھ کر سوہان کی آنکھوں میں چمکی آئی تھی جبھی فاحا کو لیے گِرتی پِرتی اُس خاتون کے پاس آئی

السلام علیکم ۔۔۔۔۔۔۔سوہان نے گھبراکر اُس کو سلام کیا جس کے ساتھ ایک پانچ یا چار سالہ بچہ بھی موجود تھا۔۔۔۔

وعلیکم السلام بچے۔۔۔خاتون شاید خوش اخلاق تھی جبھی مسکراکر سوہان کو دیکھتی اُس کا گال چھوا تو اُس کو مسکراتا دیکھ کر سوہان کو کچھ ڈھارس ملی

یہ آپ کا بے بی ہے؟سوہان نے اُس کی گود میں موجود بچے کی طرف اِشارہ کیا

ہاں یہ میرا بچہ ہے پر تم نے اِس بچی کو کیوں اُٹھایا ہوا ہے ماں کہاں ہے تمہاری؟وہ خاتون جواب دینے کے بعد اُس سے بولی

کیا آپ میری بہن کو اپنا دودھ دینگی؟"صبح سے بھوکی ہے یہ۔۔۔کہنے کے ساتھ ہی سوہان کی آنکھیں نم ہوئی تھیں۔۔۔۔

عاشر تھوڑا سائیڈ پر ہونا اور بچے تم یہاں بیٹھو۔۔۔۔وہ خاتون بچے کو تھوڑا سائیڈ خالی کرنے کا کہتی سوہان کو اپنے پاس بیٹھایا

کیوٹ بے بی۔۔۔عاشر نے پرجوش انداز میں فاحا کا روئی جیسا گال چھوا

تمہاری امی کیوں نہیں دے رہی اِس کو؟خاتون نے پوچھا

وہ۔۔۔میری"امی۔۔۔کو۔۔شوگر ہے جبھی۔۔ڈاکٹر نے دودھ دینے سے منع کیا ہے اور۔۔۔۔۔یہ ابھی ایک ماہ کی بھی نہیں ہوئی تو ہم۔۔۔ڈبے کا یا بھینس کا دودھ اِس کو نہیں دے رہے۔۔۔'سوہان نے اٹک اٹک کر جھوٹ بولا اُس کو خود پر حیرت بھی ہوئی کہ ایسا بہانا اُس کے دماغ میں آیا کیسے۔۔۔۔

افسوس ہوا خیر تم پریشان نہ ہو تمہاری بہن کی بھوک ختم ہوجائے گی۔۔۔۔کہنے کے ساتھ ہی اُس عورت نے فاحا کو اُس کی گود سے لیا۔۔۔

یہ میں اُٹھاؤں؟سوہان نے باسکٹ میں فروٹس دیکھے تو اُن میں سے ایک ایپل اُٹھائے عاشر سے پوچھا جو کھڑکی کے باہر دیکھ رہا تھا

ہاں کیوں نہیں۔۔۔۔۔عاشر نے خوشدلی کا مُظاہرہ کیا اُن دونوں کو دیکھ کر جبکہ وہ عورت مسکرائی تھی۔

شکریہ۔۔۔۔۔سوہان خوش ہوتی وہ ایپل اُٹھائے میشا کے پاس آئی اور اُس کو سیپ تھمایا جو نیند سے جھول رہی تھی۔۔۔۔


"یہ بتادے کہ ہم جاء کہاں رہے ہیں؟سوہان نے سنجیدگی سے اسلحان کو دیکھا جس کی آنکھوں سے آنسوؤ کی برسات جاری تھی

اپنے بھائی اور تمہارے ماما کے پاس دعا کرنا وہ مجھے قبول کرے ورنہ رُل جائینگے ہم۔۔۔۔اسلحان نے جواب دیتے کہا تو سوہان کو مایوسی ہوئی

باپ نے تو قبول نہیں کیا کسی اور سے کیا اُمیدیں لگائے۔۔۔۔سوہان سرجھٹک کر کہتی فاحا کے پاس جانے لگی تھی جبکہ اُس کے الفاظوں نے اسلحان کو حیران کردیا تھا اُس کو یقین نہیں آیا کہ یہ کہنے والی اُس کی آٹھ سالہ بیٹی تھی۔۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤

اسیر آپ نے ہم سے جھوٹ بولا؟"ہماری یہ تربیت تو نہ تھی۔۔۔۔عروج بیگم(نوریز کی والدہ) نے افسوس سے اسیر کو دیکھ کر کہا

دادو ہم نے خود دیکھا تھا وہ تینوں گیٹ کے پاس تھیں۔۔۔۔۔اسیر فورن سے بولا

اسیر جھوٹا۔۔۔۔جھوٹا جھوٹا۔۔۔۔۔پندرہ سالہ دیبا جس کے بالوں میں عروج بیگم مالش کررہی تھی وہ اسیر کو چِڑانے لگی

تم جھوٹی۔اسیر نے غُصے سے ناک کی نتھے پِھیلائے اُس کو گھور کر کہا

شرم کرو اسیر بڑی ہے تم سے۔۔۔۔۔نورجہاں(دیبا کی والدہ)اُس کو دیکھ کر بولی

اپنی بیٹی سے کہو ہم سے پنگا نہ لے۔۔۔اسیر اپنی چھوٹی پیشانی پر بل لائے کہتا وہاں سے رفو چکر ہوگیا

بہو بچہ تھا ایسے بات نہ کیا کرو اُس سے۔۔۔عروج بیگم اُن کو دیکھ کر بولیں

دادو اور وہ جو مجھ سے چھوٹا ہوکر بدتمیزی کرتا ہے اُس کا کیا؟نور جہاں سے پہلے دیبا عروج بیگم کو دیکھ کر بولی

اماں جان یہ آپ لوگ کے لاڈ پیار کا نتیجہ ہے اور اسیر ویسے تو بڑی بڑی باتیں کرتا ہے"اِس کو پتا ہونا چاہیے میری دیبا اُس کی منگ ہے۔۔۔۔نورجہاں سرجھٹک کر بولی

توبہ ہے یہاں تو۔۔۔۔دیبا اپنی ماں کی بات پر ناگواری سے بڑبڑائی اُٹھ کھڑی ہوئی

بے جوڑ رشتہ ہے کیا ہوگیا ہے ہمارا اسیر اِتنا چھوٹا ہے جبکہ ماشااللہ سے دیبا جوان ہے۔۔۔۔عروج بیگم رسانیت سے بولی

آپ کے بیٹوں کو رشتہ کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا ویسے بھی کچھ سالوں کی بات ہے پھر قد کاٹھ میں اسیر دیبا سے بڑا لگے گا۔۔۔۔نورجہاں آرام سے بولیں تھیں

اچھا سُنو کیا اسلحان آئی تھی؟"عروج بیگم نے اُن سے بحث کرنا مُناسب نہیں سمجھا

آئی تھی اور چلی بھی گئ۔۔۔۔۔نورجہاں نے آرام سے بتایا۔۔۔

چلی بھی گئ فاحا کو بھی ساتھ لے گئ کیا؟عروج بیگم پریشان ہوئی

فاحا کون؟"نورجہاں نے ناسمجھی سے اُن کو دیکھا

اُس کے چہرے سے لگتا ہے اِس بار بھی بیٹی ہوگی تو میں نے بول دیا تھا پہلے بیٹیوں کا نام خود رکھا تھا مگر اِس بار میں نہیں رکھوں گی۔۔۔عروج بیگم ہلکی مسکراہٹ سے بولی

لو جی یعنی آپ کی بددعا لگی اُس کو ورنہ وہ تو بیٹا چاہتی تھی خیر آپ کے بیٹے نے جتنی جلدی شادی کی تھی اُس جلدی سے بیوی کو طلاق بھی دے ڈالی۔۔۔۔نورجہاں اُن کے سر پہ بم گِراتی چلی گئ تھیں اور پیچھے عروج بیگم کا ہاتھ اپنے منہ پر پڑا تھا۔۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤

دروازہ کیوں لاک ہے؟اسحان اپنے بھائی کے گھر آئی تو دروازہ دیکھ کر اُس کو فکر لاحق ہوئی"آس پاس لوگوں سے اُس نے بہت پوچھا مگر کسی کو بھی کچھ پتا نہیں تھا کہ وہ کہاں گئے تھے؟"اور کب تک واپسی کا اِرادہ ہے۔۔۔۔

امی اب ہم کہاں جائینگے۔۔۔۔سوہان نے اسلحان کو دیکھ کر پوچھا جس کی حالت غیر ہونے لگی تھی۔۔

پتا نہیں"میرے پاس تو پئسے بھی نہیں۔۔۔۔۔اسلحان دُکھی لہجے میں کہتی اُن کو لیئے روڈ پر آئی تھی جب ایک ٹیکسی اُن کے پاس رُکی

اسلحان تم؟ٹیکسی سے ایک خاتون باہر نکلتی خوشگوار لہجے میں اُس کو دیکھ کر مُخاطب ہوئی یہی حال اسلحان کا بھی تھا

ساجدہ تم وقت پر ملی ہو پلیز یار میری مدد کرو مجھے انکار مت کرنا۔۔۔اسلحان اُس کے آگے ہاتھ جوڑ کر بولی جبکہ ٹیکسی سے پان کھاتا ایک آدمی بھی باہر آیا تھا جو غالباً ساجدہ کا شوہر تھا۔۔۔

اسلحان کیا ہوگیا ہے تمہیں؟"کیسی باتیں کرنے لگی ہو؟"اور اپنا حال دیکھو زرا کیا بنایا ہوا ہے؟ساجدہ کو اُس کا عمل کافی عجیب لگا تھا تبھی فکرمندی سے ایک کے بعد ایک سوال کیئے جبکہ پانے کھاتے اُن کے شوہر کی نظریں سوہان پر جمی ہوئیں تھیں

مجھے تم اپنے گھر لے جاسکتی ہو؟"پھر وہاں بیٹھ کر بات کرے تو زیادہ اچھا ہوگا نہیں؟اسلحان نے ہچکچاہٹ سے کہا

ہاں کیوں نہیں انور تم اِس بچی سے نیو برن بے بی لو۔۔"بیچاری تھکی ہوئی لگ رہی ہے۔۔سوہان کو دیکھ کر ساجدہ نے اپنے شوہر سے کہا

ایت ماہ تی ہونے والی اے(ایک ماہ کی ہونے والی ہے)۔۔۔لفظ نیو برن پر میشا نے اُس کی معلومات میں اضافہ کیا تو وہ مسکرائی

لاؤ۔۔۔انور سوہان کی طرف آیا تو اُس نے احتیاط سے فاحا کو اُس کی گود میں ڈالا جس پر انور نے اُس کے ہاتھوں کو دبوچ کیا

انکل میرے ہاتھ چھوڑے۔۔۔۔۔سوہان کو اُس کی اِس حرکت عجیب لگی تھی جبھی اُونچی میں بولی تو اسلحان نے چونک کر اُن دونوں کی طرف دیکھا جس پر انور گڑبڑا گیا تھا

غلطی سے ہوگیا بچہ۔۔۔وہ سنبھل کر بولا

ٹیکسی میں بیٹھو۔۔۔۔۔ساجدہ خود بیٹھ کر اسلحان سے کہا تو وہ میشا کو لیئے وہاں بیٹھی

تم آگے بیٹھو۔۔۔۔۔۔"وہاں جگہ نہیں ہوگی۔۔۔سوہان بھی وہاں بیٹھنے لگی تھی جب انور نے اُس کا بازو پکڑ کر کہا تو اُس کے ہاتھ لگانے پر جانے کیوں سوہان کو اپنے وجود میں سنسی ڈورتی ہوئی محسوس ہوئی تھی اُس نے سہمی ہوئی نظروں سے انور کو دیکھا جو مونچھوں کو تاؤ دیئے اُس کو دیکھ رہا تھا۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

امی۔۔۔۔۔

انور کو کچھ بھی کہنے کے بجائے سوہان نے زور شور سے اسلحان کو آواز دی تھی"جس سے اسلحان نے اپنا سر گاڑی کی کھڑکی سے باہر نکال کر اُس کو دیکھا اِس درمیان انور نے سوہان کا بازو چھوڑدیا تھا۔۔

کیا ہوا؟اسلحان نے اُس کی فق ہوتی رِنگت دیکھی تو بے اختیار اُس کا ماتھا چھوا اُس کو اب احساس ہوا تھا کہ کل سے اپنی بہنوں کا پیٹ بھرنے والی سوہان کا اپنا پیٹ خالی تو تھا اب تک اُس نے شاید ہی پانی کا ایک گھونٹ بھی پیا ہو۔۔۔

مجھے آپ کے ساتھ بیٹھنا ہے۔۔۔سوہان اُس کا ہاتھ پکڑ کر بولی

ہاں تو آجاؤ میں نے کب منع کیا ہے"تمہیں میرے ساتھ ہی بیٹھنا ہے اور کس کے پاس جاؤ گی۔۔۔اسلحان سرجھٹک کر اُس کی بات سن کر بولی

بھابھی جی چھوٹی سی ٹیکسی ہے آگے میرے ساتھ بیٹھ جائے گی۔۔۔۔۔انور نے مُداخلت کی

ڈرائیور بھی تو ہے ایسے میں یہ کہاں بیٹھے گی؟اِس بار ساجدہ نے کہا

جی بھائی صاحب سوہان چھوٹی تو ہے نہیں جو آپ کی گود میں بیٹھے گی"آجاؤ سوہان میرے پاس۔۔اسلحان بھی اُس کو جواب دیتی سوہان کو اپنے پاس آنے کا کہا تو وہ جلدی سے گاڑی میں بیٹھ گئ۔۔۔۔

یہ اِتنی پیلی کیوں ہے؟کافی کمزور ہیں تمہاری بیٹیاں۔۔۔۔ساجدہ میشا اور سوہان کو دیکھتی اسلحان سے بولی

ٹھیک ہوجائے گی بس مجھے کوئی جاب مل جائے۔۔۔اسلحان تھکی ہوئی سانس خارج کرتی ہوئی بولی

خیریت تو ہے نہ تمہارا شوہر کہاں ہے؟"پسند کی شادی کی تھی نہ تم نے؟"ساجدہ اُس کو دیکھ کر بولی

اُس کی سزا ملی ہے جو اپنی جان چِھڑکنے والے بھائی کا گھر چھوڑ کر رات کی تاریخی میں اُس کے گھر کی چوکھٹ پار کی تھی تو اب جس کے لیے کی تھی اُس نے اپنی چوکھٹ سے مجھے زلیل کرکے باہر نکالا ہے۔۔اسلحان نم لہجے میں کہتی ساری بات اُس کو بتاتی گئ جس کو سن کر ساجدہ کو افسوس اور دُکھ ہوا آخر کو کیوں نہ ہوتا "اسکول اور کالج میں ایک ساتھ بہت وقت گُزارا تھا دونوں نے آپس میں۔۔۔۔

"نوریز بھائی نے تو بہت غلط کیا تمہارے ساتھ"کتنے ناشکرے لوگ ہیں دُنیا میں اور ایک میں ہوں جو چاہتی ہے بیٹی یا بیٹا دونوں میں سے کوئی ایک نعمت اللہ مجھے عطا کردے۔۔۔۔ساجدہ نے اُس کی بات سن کر افسوس کا اِظہار کیا

تو کیا؟"اسلحان اِتنا کہتی کہتی چُپ ہوگئ

ہاں بارہ سال ہوگئے ہیں ہماری شادی کو مگر ابھی تک بچے کے کوئی آثار نہیں جبکہ رپورٹس ساری کلیئر آتیں ہیں۔۔۔۔ساجدہ نے بتایا

سن کر افسوس ہوا۔۔۔۔اسلحان بس یہی بول پائی

تم بتاو تمہارے اب کیا اِرادے کیا ہیں؟"ساجدہ نے اُس سے پوچھا

کہی ملازمت تلاش کرکے اِن کا اور اپنا پیٹ بھروں گی۔۔۔اسلحان نے بتایا

نوریز سے حق مہر نہیں لیا تم نے؟"اگر وہ تمہیں طلاق دے چُکا ہے تو تمہیں اُس سے حق مہر لینا چاہیے تھا اپنے لیے نہیں تو اِن بچیوں کے لیے میری مانو اُس پر کیس کرو تاکہ ہر ماہ تمہیں اِن تینوں بچیوں کا خرچہ دے اور تم نے عدت میں بھی تو بیٹھنا ہے تب تک کیا کرو گی؟ساجدہ نے کہا تو اسلحان نے پریشانی سے اُس کو دیکھا

عدت؟اسلحان بس ایک لفظ پر چونک گئ تھی

تم نے بتایا نہ بچی کی پیدائش کے چند روز بعد اُس نے طلاق کے کاغذات بھیجے تھے تو ظاہر سی بات ہے تمہیں عدت میں ہونا چاہیے اور تم ہو کہ تین بچیوں کو لیکر ماری ماری سڑکیں گھوم رہی ہو۔۔۔۔ساجدہ نے اُس کو دیکھ کر کہا

عدت کا خیال میرے دماغ میں نہیں آیا تھا تم نے تو ایک اور مشکل میں ڈال دیا خیر میں آپریشن کے دن ہوسپٹلائیز تھی کچے ٹانکے تھے تو میں کہاں جاتی؟"جبھی سویرا سے کہا تھا کہ ابھی مجھے ہوسپٹل سے جانے کا نہ بولے مگر اب ٹانکے کُھل گئے تو باہر تو کل سے ہوں۔۔۔۔اسلحان نے سرجھٹک کر بتایا

تم پریشان نہ ہو میرے گھر میں میرے ساتھ رہ سکتی ہو"یہاں نہیں ہے ہمارا گھر کراچی میں ہے ہم ٹیکسی بدلنے کے بعد وہی جائینگے "تم آرام سے اپنی عدت کے دن وہاں گُزارنا اور بچیوں کی طرف سے بے فکر رہنا میں اُن کو سنبھالوں گی"اچھا ہے میرے گھر میں رونق لگ جائےگی اِن کی بدولت۔۔۔ساجدہ نے مسکراکر کہا

تمہارے شوہر کو مسئلہ نہیں ہوگا کوئی؟اسلحان کو ساجدہ اِس وقت کوئی فرشتہ لگی تھی مگر اُس کے شوہر کا سوچ کر پریشان ہوئی

انور کو میں سمجھادوں گی۔۔۔ساجدہ نے کہا

میں یہاں آؤں گی لوٹ کر کیا پتا بھائی آجائے اور مجھے معاف کردے آخر کو اکلوتی بہن ہوں میں اُس کی۔۔۔اسلحان نے کہا

پھر تو اچھا ہوجائے گا۔۔۔۔ساجدہ اُس کی بات کے جواب میں بولی تھی۔۔

❤❤❤❤❤❤❤

آریان کے اسکول سے اُس کا نام خارج آپ نے کروایا"میری کلاس ٹیچر نے بھی کہا کہ میں اسکول نہ آؤں؟زوریز کمال کے پاس آتا اُس سے استفسار ہوا

ہاں مہنگا اسکول ہے ہم افورڈ نہیں کرسکتے مہنگائی کا زمانہ ہے۔۔۔کمال صاحب سرجھٹک کر بولے

مگر ہمیں پڑھنا تو ہے نہ۔۔۔زوریز احتجاجاً بولا

پاس ہی ایک سرکاری اسکول ہے وہاں پڑھنے جاسکتے ہو اپنے بھائی کو لیئے مگر ہم سے بھئ کوئی ایسی امیدیں نہ لگاؤ اپنا ہی پیٹ بڑی مشکل سے پل رہے ہیں۔ ۔۔۔کمال صاحب نے کہا تو زوریز سمجھ نہیں پایا اُن سے کیا کہے

ہماری نانو سے یا پھوپھو سے بات کروائے اور اسکول میں ہمارا نام دوبارہ سے درج کروائے فیس وغیرہ پھوپھو یا نانو میں سے کوئی کردے گا۔۔۔۔زوریز نے سنجیدگی سے اُن کو دیکھ کر کہا

پھوپھو؟کمال صاحب نے اُس کو گھورا

غالباً ہماری ایک پھوپھو ہے۔۔۔۔زوریز کا لہجہ خودبخود طنز ہوگیا تھا

آپا کے بیٹے کی طبعیت بہت خراب ہے ہوسپٹلائیز ہے دوسرا وہ تم سے بات نہیں چاہے گی۔۔۔۔کمال صاحب نے ٹالا

نانو سے بات کروائے۔۔۔۔زوریز نے دوسرا آپشن سامنے رکھا

کون نانو وہ نانو جو اپنی بیٹی کے مرنے پر ایک بار بھی نہیں آئی۔۔۔۔؟کمال نے استہزائیہ انداز میں اُس سے کہا

ہوسکتا ہے موم کی ڈیٹھ کی خبر آپ میں سے کسی نے پہنچائی ہی نہ ہو۔۔۔۔"زوریز کے لہجے میں کوئی تاثر نہ تھا۔۔۔

اچھا تو مان لیا تمہاری پیاری نانو تک ہم نے خبر نہ پہنچائی ہو مگر بیٹا جی ایک ماہ ہونے والا ہے"تمہاری نانو کو کال کا خیال نہیں آیا"یہ نہیں سوچا کہ بھابھی کا سیل آف کیوں ہے؟کمال صاحب نے کہا تو زوریز کو چُپ لگ گئ تھی یعنی طے پایا گیا تھا کہ اُن کو اب اپنے چچاؤں کے اِشاروں پر چلنا تھا

"کھانا پکتا ہے یہاں بچتا بھی ہے مگر مجھے یا آریان کو بھی نہیں ملتا کیا یہ بھی مہنگائی کی وجہ سے؟زوریز نے سنجیدگی سے پوچھا

ہاں بلکل کیوں؟کمال صاحب زچ ہوئے

نہیں وہ بس میں سوچ رہا تھا کہ موم ڈیڈ کی ڈیتھ کے بعد مہنگائی کچھ زیادہ ہوگئ ہے۔۔۔۔زوریز نے کہا تو کمال صاحب اپنی جگہ پہلو بدلتے رہ گئے تھے

ہاں بڑھ گئ ہے اور مزید بڑھ سکتی ہے اِس لیے تم خود کماؤ۔۔۔۔کمال صاحب نے جان چُھڑانے والے انداز میں کہا پر اُن کے الفاظ" خود کماؤ" نے زوریز کو ایک نئ راہ دیکھائی تھی۔"جس پر اب اُس کو بس عمل کرنا تھا

❤❤❤❤❤❤

اسلحان کو اپنی بچیوں سمیت ساجدہ کے گھر رہے ایک ہفتے سے زیادہ دن ہوگئے تھے"جہاں وہ اپنی عدت پوری کررہی تھی اور وہاں میشا تو بہت خوش تھی پر سوہان کو جہاں فاحا کی ٹینش ہوتی تھی وہ تم کم ہوگئ تھی مگر انور سے اُس کو ڈر لگتا تھا مسلسل خود پر جمی اُس کی نظریں اور بار بار اُس کا ہاتھ لگانا اُس کو گھبراہٹ میں مبتلا رکھتا تھا جس وجہ سے ڈر کے مارے ساری ساری رات اُس کو نیند نہیں آیا کرتی تھی اُس نے بہت بار اسلحان کو بتانا چاہا تھا مگر خود میں ہمت مجتمع نہیں کرپارہی تھی۔۔۔۔"ساجدہ کا گھر بھی کوئی بڑا نہیں تھا وہ خود ایک سفید پوش گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اُن کے چھوٹے سے گھر میں جہاں اُن میاں بیوں کے علاوہ کوئی نہیں رہتا تھا اب اضافی چار لوگوں کی وجہ سے اُن کے چھوٹے سے مکان میں ہلچل مچی رہتی تھی جس سے ساجدہ خوش ہوا کرتیں تھی جبکہ اسلحان کا قیام محض چار دیواروں کے کمرے تک محدود رہتا تھا"فاحا کا جہاں کچھ پہلے سوہان کرتی تھی اب تھوڑی بہت مدد ساجدہ بھی کروالیا کرتی تھی اور جب سوہان کی زبانی اُس کو یہ پتا لگا کہ اسلحان نے ایک بار بھی فاحا کو اپنا دودہ نہیں دیا تو یہ جان کر ساجدہ کو کافی حیرت ہوئی تھی اُس نے اِس متعلق اُس سے بات کرنا چاہی تھی مگر اسلحان کچھ بھی سُننے کے حق میں نہ تھی۔۔۔۔


"سوہان بیٹے یہ دیکھو میں نے تمہارے لیے نیا سوٹ بنایا ہے پہن کر آؤ تاکہ ناپ کا پتا چلے۔۔۔۔ساجدہ قالین پر کپڑے سِلنے والی مشین لیئے بیٹھی سلائی کرنے میں مصروف تھی جب اُس نے سوہان کو آتا دیکھا تو مسکراکر اپنے پاس آنے کا کہا تو وہ بھاگ کر اُس کے پاس آئی

دیکھائے۔۔۔سوہان خوش ہوئی

یہ دیکھو پیارا ہے نہ؟ساجدہ نے ایک گلابی کلر کی قمیض اُس کے سامنے رکھی

ہاں بہت پیارا ہے آپ کا شکریہ مگر یہ سلیولیس کیوں ہے؟سوہان نے ہچکچاہٹ سے کہا تو ساجدہ نے چونک کر قمیض کو دیکھا پھر مسکرائی

گرمیاں ہے نہ اور تم بچی کو جبھی" رات میں اکثر پنکھا بھی تو بند ہوجاتا ہے نہ۔۔۔۔ساجدہ نے وجہ بتائی تو سوہان نے سراثبات میں ہلایا

میشو کہاں ہے؟سوہان کو"میشا نظر نہیں آئی تو پوچھا

صحن میں ہوگی۔۔۔۔ساجدہ نے مصروف انداز میں بتایا تو سوہان نے اپنا رُخ صحن کی جانب کیا تو سامنے والا منظر دیکھ کر خوف سے اُس کا رنگ فق ہونے لگا تھا کیونکہ سامنے پانچ سالہ میشا انور کی گود میں تھی۔۔۔

میشو

میری بہن کو نیچے اُتارے آپ۔۔۔سوہان بھاگ کر وہاں آئی

کیوں؟انور نے خباثت سے اُس کو دیکھا

کیونکہ میں بول رہی ہوں۔۔۔سوہان کا سانس پورا پُھولا ہوا تھا"اُس کو یہ شخص پسند نہیں ہوتا

میشو بیٹا آپ بھی یہ چاہتی ہو؟"انور میشا کا گال چوم کر اُس سے پوچھنے لگا

یخخخ نیچے اُتالے(اُتارے) آپ۔۔۔اپنے گال کو رگڑتی میشا نے ہزار منہ کے زاویئے بنائے تھے

میری بہن سے دور رہے۔۔۔۔سوہان غُصے سے اُس کو دیکھ کر کہتی میشا کو لیئے گھر کے اندرونی حصے کی جانب بڑھی تھی۔۔۔


"دوبارہ انکل سے دور رہنا۔۔۔۔سوہان نے میشا کو دیکھ کر سنجیدگی سے کہا

اوتے۔۔۔میشا نے فرمانبردای کا مُظاہرہ کیا

تم فاحا کے پاس رُکو میں تب تک آتی ہوں۔۔۔۔۔سوہان میشا سے کہتی خود ایک چھوٹے کمرے میں آئی جہاں اسلحان بیٹھی ہوئی تھی

امی۔۔۔۔سوہان اُس کے برابر بیٹھی

ہمممم۔۔۔اسلحان نے اُس کو دیکھا

مجھے یہاں نہیں رہنا۔۔۔۔سوہان نے روہانسی ہوکر کہا

یہاں نہیں رہنا تو کہاں رہنا ہے؟"کونسے وسائل ہیں میرے جو میں تم سب کو لیکر گھوموں۔۔۔۔اسلحان کو اُس کی بات سن کر تاؤ آیا

آپ بدتمیزی سے بات کیوں کرتیں؟سوہان کو تکلیف ہوئی

کیونکہ تم تینوں کی وجہ سے میرے ماتھے پر طلاق کا لیبل لگا ہے اور اب اُٹھو جاؤ میرا دماغ خراب کرنے کی ضرورت نہیں کوئی۔۔۔۔۔اسلحان نے سختی سے اُس کو جھڑک دیا

امی ساجدہ آنٹی کے شوہر مجھے عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں"اور بار بار ہاتھ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔سوہان نے بلآخر وجہ بتائی یہ سوچ کر کہ شاید اب اسلحان اُس کی بات سمجھ جائے

شرم کرو سوہان اور اپنی عمر دیکھ کر باتیں بناؤ وہ دونوں میاں بیوی ہمارے مسیحا ثابت ہوئے ہیں اور تم ایسی باتیں کررہی ہو تمہارے باپ نے جو کیا ہے اگر ساجدہ سے ٹکراؤ نہ ہوا ہوتا تو ہماری لاشیں اِس وقت دربدر ہوتیں۔۔۔اسلحان نے اُس کو ٹھیک ٹھاک سُنایا

آپ کو یقین کیوں نہیں آرہا وہ بار بار مجھے تنگ کرتے ہیں۔۔۔۔۔سوہان کو دُکھ ہوا

پیار کرتا ہے کیونکہ بے چارے کے پاس کوئی اولاد نہیں۔۔۔اسلحان نے اُس کی باتوں پر دھیان نہیں دیا

ایسا پیار ڈیڈ نے تو کبھی نہیں کیا اور نہ ایسی نظروں سے کبھی دیکھا مجھے ڈر لگتا ہے امی پلیز میری بات سمجھے۔۔۔سوہان رونے کے در پر تھی

تمہارے باپ نے کبھی پیار کیا کب؟"وہ تو بس بیٹے کا خواہشمند تھا۔۔۔۔۔اسلحان تلخ انداز میں بولی اور پھر آٹھ سالہ سوہان میں اِتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ وہ اپنی ماں کو بات سمجھائے جس کو وہ خود ٹھیک سے سمجھ نہیں پائی تھی"اُس کو نہیں تھا انور کیوں اُس کو بُرا لگتا ہے کیوں اُس کی مسکراہٹ سے وہ خوفزدہ ہوجایا کرتیں تھی۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

کیا آپ لوگ مجھے یہاں رکھ سکتے ہیں کام پر؟زوریز ایک اسٹور پر آتا آدمی سے پوچھنے لگا تو وہ جو حساب کتاب کرنے میں بزی تھا سراُٹھاکر زوریر کو دیکھا

نام کیا ہے تمہارا؟وہ آدمی جانچتی نظروں سے اُس کو دیکھنے لگا

زوریز وجدان دُرانی۔۔۔زوریز نے اُس کو اپنا پورا نام بتایا

اوو تو تم بزنس مین کے بیٹے ہو دیکھو بھئ مجھے بہت سارا کام ہے تو یہ بچہ لوگ مذاق کسی اور سے جاکر کرو۔۔۔۔وہ آدمی "پورے نام پر سمجھ گیا جبھی سرجھٹک کر بولا

میں مذاق نہیں کررہا سیریس ہوں مجھے سچ میں نوکری چاہیے۔۔"میرے ڈیڈ کی وفات ہوگئ ہے۔۔۔زوریز نے اپنی بات کا یقین کروانا چاہا

تمہارا پورا خاندان امیر وکیبر ہے تو بتاؤ زرا یہاں تمہیں نوکری کیوں چاہیے؟"چھوٹا سا تو اسٹور ہے میرا۔۔۔وہ آدمی پوری طرح سے اُس کی جانب متوجہ ہوا تھا

کیونکہ میں اور میرا بھائی مفلسی کا شکار ہیں۔۔"اگر آپ نوکری دینگے تو مہربانی ہوگی۔۔زوریز نے بتایا "کسی سے غیرضروری بات نہ کرنے والا زوریز دُرانی آج ایک معمولی سی نوکری کے لیے لوگوں کے سامنے منت سماجت کررہا تھا جس کا اُس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔۔۔

یہاں تمہارے لائق کوئی کام نہیں تو کہی اور جاؤ۔۔۔آدمی نے باقاعدہ اُس کے آگے ہاتھ جوڑے تو زوریز اُس کے اسٹور سے باہر نکلتا دوسرے پھر تیسرے اسٹور کی طرف گیا مگر ہر کوئی اُس کا پورا نام سن لینے کے بعد نوکری دینے کو تیار نہ تھا اب جب شام ہونے والی تھی تو زوریز کی نظریں مزدوروں پر گئ کچھ سوچ کر زوریز وہاں آیا

السلام علیکم ۔۔۔۔۔زوریز نے فون پر باتے کرتے پچاس سالہ ایک آدمی کو مُخاطب کیا

وعلیکم السلام بیٹا جی آپ کو نظر نہیں آرہا یہ بچوں کا آنا منع ہے کام چل رہا ہے بلڈنگ کا۔۔۔وہ شخص فون رکھتا زوریز کو دیکھ کر بولا

کیا میں بھی کام کرواسکتا ہوں؟"مجھے نوکری کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔زوریز نے بس اِتنا کہا

تمہیں کام چاہیے نام کیا ہے تمہارا؟وہ شخص کافی تعجب بھری نظروں سے اُس کو دیکھنے لگا

زوریز۔۔۔۔۔۔زوریز نے مختصر بتایا

پورا نام بتاؤ۔۔۔اُس نے ٹوکا

یہی نام ہے۔۔۔۔زوریز نے کہا اُس کو سمجھ آگیا تھا"باپ کا نام تو بڑا تھا مگر اِس نام سے اُس کو کبھی نوکری نہیں مل سکتی جبھی اپنے نام سے اُس نے آج اپنے باپ کا نام ہٹالیا

باپ کا نام یا ذات تو ہوگی نہ کوئی۔۔۔اُس نے پھر سے پوچھا

زوریز دُرانی اب بتائے کیا کام دے سکتے ہیں مجھے؟زوریز نے پوچھا

عمر کیا ہے تمہاری؟اگلا سال

دس سال اور سات ماہ۔۔۔زوریز نے بتایا

ہمممم ہاتھ دِکھانا زرا۔۔۔۔اُس شخص نے زوریز کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے

اِن ہاتھوں میں ابھی قلم اچھا لگے گا۔۔"تمہاری عمر ابھی یہ نہیں کہ تم اینٹیں اُٹھاؤ۔۔۔۔وہ ہلکی مسکراہٹ سے بولا تو زوریز کے چہرے پر عجیب تاثرات نمایاں ہوئے

میرے ہاتھوں میں سکت پیدا ہوجائے گی آپ بس کام بتائے"اینٹیں اُٹھانی ہے یا ریت کی بوریاں؟زوریز کے انداز میں کوئی لچک نہیں تھی

یہاں کام بس ایک ماہ تک چلے گا اور تمہاری عمر کے لحاظ سے میں تمہیں پے کروں گا۔۔۔۔وہ کچھ سوچ کر بولا

منظور ہے مجھے بس اپنے بھائی کو وقت پر روٹی دینے جتنے پیسے چاہیے۔۔۔۔زوریز نے کہا

ٹھیک ہے تو لگ جاؤ کام پر۔۔۔۔"اگر اپنے خوبصورت نازک ہاتھ تمہیں پسند نہیں تو مجھے کیا مسئلہ ہونا ہے۔۔۔۔وہ شانے اُچکاکر بولا مگر زوریز نے اُس کی بات پر کوئی خاص ری ایکٹ نہیں کیا بس کہنیاں فولڈ کرنے لگا

ظاہری طور پر تو اچھے گھرانے سے لگ رہے ہو پر کس چیز نے تمہیں ٹُھوکرے کھانے پر مجبور کیا ہے؟وہ پوچھے بغیر نہ رہ پایا تو زوریز کی شخصیت نے اُس کو تجسس میں مبتلا کردیا تھا

چھوٹے بھائی کے آنسوؤ نے"اُس کی معمولی سی خُواہشات نے جو میں چاہ کر پوری نہیں کرسکتا میرا دل دُکھتا ہے جو وہ دوسروں کے بچوں کی چیزوں کو حسرت سے دیکھتا ہے۔۔۔۔زوریز نے کہا تو وہ لاجواب سا اُس کو دیکھنے لگا جس نے اپنی عمر سے زیادہ بڑی باتیں عام انداز میں بیان کی تھیں۔۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

یہ میرے سارے کھلونے تم لوگوں کے پاس کیسے آئے؟آریان اپنے ہم عمر کزن اسد اور فراز کو گھور کر پوچھنے لگا جن کے پاس اُس کی ہر چیز موجود تھی

تمہارے نہیں اب یہ میرے ہیں۔۔۔۔اسد نے جواباً اُس کو گھورا

میری شرٹ اُتارو تم یہ میری شرٹ ہے۔۔۔آریان نے اب غور کیا تو اُس کو پتا لگا کہ اسد نے جو شرٹ پہنی ہے اُس کی ہے۔۔

کیوں اُتاروں یہ میری ہے امی نے مجھے دی ہے۔۔۔"اسد اُس کو دھکا دے کر بولا تو وہ نیچے گِرگیا

تیری تو میں۔۔۔۔آریان غُصے سے اُس کو دیکھتا زور سے شرٹ کھینچنے لگا تو اسد نے رونا مچادیا تھا مگر آریان بنا اُس کے رونے کی پرواہ کیے جتنا ہورہا تھا اُس کو مار رہا تھا جبھی اسد کی ماں مصرت اُس کے رونے کی آواز سن کر باہر آئی تو دونوں کو لڑتا دیکھ کر فورن سے آریان کو اسد سے دور کیا تھا

دور ہٹو تم جاہل۔۔۔۔۔مصرت آریان کو غُصے سے دیکھ کر بولی جس نے پل بھر میں اسد کا حشر نشر کردیا تھا

میرے کپڑے اگر یہ دوبارہ پہنے گا تو میں نے وہ حال کرنا ہے اِس کا کہ پوری دُنیا دیکھے گی۔۔۔اپنے ماتھے پر آیا پسینہ صاف کرکے آریان بھی جواباً غُصے سے بولا

باپ چھو

باپ پر جانے کی ضرورت نہیں اور میں زوریز نہیں آریان ہوں اور اپنی چیزوں کو دوسروں کے پاس دیکھ کر آریان چُپ نہیں رہتا۔۔۔۔مصرت کچھ کہنے والی تھی جب آریان اُس کی بات کاٹ کر بولا

توبہ توبہ یہ چھٹانگ بھر کا لڑکا ہے مگر زبان دیکھو زرا۔۔۔۔نصرت بھی مصرت کے پاس آتی آریان کو گھور کر بولی

یہ دیکھو آہ آہ۔۔۔۔۔آریان نصرت کی بات پر اپنی پوری زبان باہر نکال کر اندر کی طرف بھاگا تھا جبکہ وہ دونوں حق دق اُس کی پشت کو گھورنے لگیں تھیں

آپا یہ زوریز کی طرح سُلجھا ہوا نہیں اِس کے بل کس کے رکھنے ہوگے۔۔۔۔مصرت نصرت کو دیکھ کر بولی

کیا ہوگیا اب تم آٹھ سال کے بچے سے ڈرو گی کچھ خدا کا خوف کرو۔۔۔۔مصرت کی بات سن کر نصرت نے خشمگین نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا تو وہ چُپ ہوگئ تھیں

❤❤❤❤❤

کچھ ماہ بعد!

فاحا آج نیو کپڑے پہنے گی"آج ہم فاحا کو اچھے سے تیار کرینگے میری پیاری فاحا۔۔۔۔سوہان مسکراکر بیڈ پر لیٹی پانچ ماہ فاحا کو دیکھتی اُس سے باتیں کرنے لگی تو وہ کِھلکھِلانے لگی

اِس منحوس کو چھوڑو اور اپنے اسکول جانے کی تیاری کرو۔۔۔۔واشروم سے باہر نکلتی اسلحان نے معصوم سی فاحا کو نفرت سے دیکھ کر سوہان سے کہا تو اُس کا مسکراتا چہرہ بُجھ گیا تھا

منحوس نہیں ہے میری بہن۔۔۔سوہان نے سنجیدگی سے کہا تھا کیونکہ اُس کو اب"منحوس"لفظ کا پتا چل گیا تھا

تمہارے کہنے سے کیا ہوتا ہے"اور اُٹھو تم بھی اسکول جانے کی کرو شام میں ہمیں پھر شہر سے باہر نکلنا ہے۔۔۔اسلحان نے سرجھٹک کر کہا

کیوں؟سوہان بے ساختگی میں پوچھ بیٹھی

تاکہ یہاں سے نکل پائے اب تو انور بھائی کے ماتھے پر بھی بل نمایاں ہوتے ہیں جس سے صاف پتا چل رہا ہے کہ ہمارا یہاں رہنا زیادہ نہیں ہے" اچھا ہے اُس سے پہلے ساجدہ جانے کا کہے ہم خود چلے جائے۔۔۔۔۔اسلحان نے کہا تو سوہان کی خوشی اور پریشانی ایک ساتھ ہوئی"خوشی اِس بات پر کہ وہ اب یہاں نہیں رہے گی پریشانی اِس وجہ سے کہ یہاں سے جانے کے بعد وہ لوگ جائینگے کہاں؟

ہم کہاں جانے والے ہیں؟سوہان نے فاحا کو کپڑے پہنانے کے بعد پوچھا

اپنے بھائی کے پاس وہ اب واپس گھر لوٹ آیا ہوگا اگر مجھے وہاں رہنے کی اِجازت مل گئ تو سب ٹھیک ہوجائے گا"تم دونوں کا مستقبل سنور جائے گا اچھی تعلیم بھی ہوگی۔۔۔۔اسلحان ُپرامید لہجے میں بولی

فاحا کا پیٹ خراب ہوگیا ہے"آپ میشو کو لے جائیے گا میں یہی ہوگی ساجدہ آنٹی کے ساتھ ایسی حالت میں فاحا رُل جائے گی۔۔۔۔سوہان کو اب خیال آیا تو اپنے سر پہ ہاتھ مارکر بولی

اِس کا تو میں بندوبست جلد کروں گی جب سے پیدا ہوئی ہے میری زندگی میں مصیبت پر مصیبتیں آئی جارہی ہیں۔۔۔۔اسلحان کا تو"فاحا"نام پر منہ بگڑ رہا تھا"پر اسلحان کی اِس پر سوہان نے کچھ نہیں کہا تھا وہ جانتی تھی فائدہ کوئی نہیں ہوگا۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔❤

اِدھر آؤ۔۔۔۔شام میں سوہان فاحا کا فیڈر لیئے کمرے میں جانے لگی تو انور نے اُس کو اپنے پاس آنے کا کہا

ککک کیوں؟سوہان نے ڈر کر پوچھا کیونکہ گھر میں کوئی نہیں تھا"اسلحان میشا سمیت شہر سے باہر تھی اور ساجدہ پڑوس میں گئ ہوئی تھی

آؤ تو بتاتا ہوں نہ۔۔۔۔۔انور کے چہرے پر خباثت بھری مسکراہٹ آئی

نہیں۔۔۔۔سوہان انکار کرتی کمرے میں بھاگنے والی تھی جب انور ایک ہی جست میں اُٹھ کر اُس کو دبوچ لیا"سوہان کے ہاتھ میں موجود فیڈر زور سے نیچے گِرا تھا

❤❤❤❤❤❤

درد کا کہنا چیخ ہی اٹھو‘ دل کا تقاضہ وضع نبھاؤ

سب کچھ سہنا‘ چُپ چُپ رہنا کام ہے عزت داروں کا


چچ چھوڑو۔۔۔۔سوہان اُس کی گرفت میں مچلنے لگی مگر انور اُس کے منہ پر اپنا ہاتھ مضبوطی سے جماتا کسی بے جان چیز کی طرح اُس کو صوفے پر پٹخا تھا جس پر اُس کا معصوم سا دل اُچھل کر حلق میں آیا تھا خود وہ حواس باختہ سہمی ہوئی نظروں سے اُس کو دیکھنے لگی جس کے چہرے پر عجیب شیطانیت ٹپک رہی تھی۔۔۔۔

سوہان

سوہان

میری جان میری بات آرام سے سُنو۔۔۔۔انور اُس پہ تھوڑا جُھک کر بولا

ککک کونسی بب بات؟سوہان کی زبان لڑکھڑائی

دیکھو تم لوگ ہمارا کھاتے ہو تمہارا باپ تو سالہ کمینہ تھا جو تم جیسی پیاری پریوں کو چھوڑ دیا۔۔۔۔۔انور نے خاصے افسوس کا اِظہار کیا

ممی میرے بب باپ ککک کو گگ گالی مم مت دد دو۔۔۔۔۔سوہان کو اُس کے الفاظ اپنے باپ کے لیے پسند نہیں آئے تھے

اووو بے بی کو غُصہ آرہا ہے.۔۔۔انور نے شیطانی قہقہقہ لگایا تو سوہان نے اُٹھ کر بھاگنا چاہا مگر انور نے اُس کی کوشش ناکام بنائی وہ اُس وحشی کا مقابلہ کر بھی کیسے سکتی تھی"

کہاں وہ ایک معصوم سی آٹھ سالہ بچی جو اُس کے ناپاک اِرادو کو سمجھ نہیں پارہی تھی تو کہاں وہ چالیس سالہ وحشی درندہ جو اُس کو نوچنے کے لیے مچل رہا تھا۔۔۔"

ممم مجھے جججا جانے دو مممم اپپپ اپنی بہن کے پپ پاس جج جاؤں"وہ ررر رو رہی ہ ہوگی۔۔۔۔سوہان کا پورا چہرہ آنسوؤ سے تر ہوگیا تھا اُس کو لگ رہا تھا اگر وہ پانچ مزید یہاں بیٹھی تو اُس کا سانس بند ہوجائے گا۔۔۔

دیکھو اگر تم مرجاؤ تو۔۔۔۔انور نے پرسوچ لہجے میں اُس سے پوچھا

"تو فاحا کا کیا ہوگا۔۔؟سوہان کو اُس کی بات سن کر فاحا کی فکر لاحق ہوئی تھی اِتنی کہ اِس بار اُس کی زبان میں لڑکھڑاہٹ تک نہیں آئی تھی

اپنی بہنوں کے بارے میں فکرمند نہ ہو تمہارے بعد اُس پیاری میشا کا نمبر ہے افففف وہ تیکھی مرچ پوری آفت ہے ابھی سے۔۔۔۔۔

مم مطلب؟سوہان ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگی اور آہستہ سے تھوڑا پیچھے کِھسکی تھی

یہاں آؤ۔۔۔انور اُس کی بات پر طنز مسکراتا بولا

نن نہیں پپپ پلیز۔۔۔۔سوہان نے اُس کے سامنے ہاتھ جوڑے تبھی وہاں کسی کے قدموں کی چاپ ہونے لگی تو انور جلدی سے صوفے سے اُٹھ گیا تھا مگر سوہان نے پلٹ کر دیکھا تو سامنے سے آتی ساجدہ کو دیکھ کر وہ بھاگ کر اُس کے پاس پہنچی تھی۔۔۔

آآآ نن نٹی آنٹی ببب چالے۔۔۔اُن کے ساتھ لگی سوہان نے کپکپائے لہجے میں بولی تو ساجدہ نے چونک کر اُس کا آنسوؤ سے بھیگا چہرہ دیکھا

اللہ اللہ سوہان بچے کیا ہوگیا ہے۔۔۔ساجدہ اُس کو ایسے دیکھ کر پریشان ہوئی

ممم مجھے اِن س

تم نے اِتنا وقت لگادیا بچی ڈر گئ تھی۔۔سوہان نے کچھ کہنا چاہا مگر انور درمیان میں بول اُٹھا تو ساجدہ نے مسکراکر سوہان کو دیکھنے لگی جو اپنا سر نفی میں ہلا رہی تھی

سوہان بچے آپ تو بہادر ہو اور میں نے کہا جو تھا مجھے آنے میں وقت لگ جائے گا۔۔۔ساجدہ اُس کے پاس گُھٹنوں کے بل بیٹھ کر بولی

آنٹی وہ

میں نے سوچا کیوں نہ وقت گُزاری کے لیے اور اِس کا من بہلانے کے کوئی گیم کِھیلا جائے مگر یہ ڈر گئ۔۔۔۔۔انور نے ایک بار پھر سوہان کی بات کاٹی تو اُس کو رونا آگیا تھا۔۔

تم بھی حد کرتے ہو پتا تو ہے بچیاں بہت حساس ہوتیں ہیں"خیر تم جاؤ میں آگئ ہوں اور سوہان کے ساتھ کمرے میں ہوگی فاحا کو شاور بھی دینا ہے۔ ۔۔۔ساجدہ سوہان کو اپنے ساتھ لگاتی بولی انور کے چہرے کے تاثرات بگڑے تھے جن کو چُھپائے وہ وہاں سے چلاگیا تھا۔۔۔۔

"اِتنی بہادری کا مُظاہرہ کرتی ہو تو اسٹرونگ بنو بیٹا۔۔۔"اففف میں بھی کم عقل ہوں کیسے بھول جاتی ہوں بچے اکثر ڈرا کرتے ہیں مگر تم جو کام کرتی ہو اُس پر میں بھول جاتی ہوں کہ کوئی بچی میرے سامنے کھڑی ہے۔ساجدہ اُس کو سمجھانے والے انداز میں کہتی پھر خود ہی ہنس پڑی مگر سوہان کے اندر ڈر اب بھی کُنڈلی مارے بیٹھ گیا پہلے تو وہ بس انور کی نظریں اور ایک حد تک ہاتھ لگانے پر ڈرا کرتی تھی مگر آج جیسا اُس نے بدسلوکی والا رویہ اُس کے ساتھ رکھا تھا اُس پر تو دل کی دھڑکن ہنوز ویسی رفتار سے دھڑک رہی تھی۔۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤

تم؟؟؟؟

تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہاں آنے کی۔۔۔۔؟شہریار خان نے جب اسلحان کو اپنے گھر کے دروازے کے پاس دیکھا تو جانے کتنے بل اُن کے ماتھے پر آچُکے تھے۔

بھائی اندر آنے کہا نہیں کہو گے؟اِتنے سالوں کی مُلاقات پر پنے بھائی کا ایسا لیا دیا انداز دیکھ کر اسلحان کو اپنی آخری اُمید بھی ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوئی

کیوں کہے اندر آنے کا؟"کونسا ہمارا نام روشن کیا ہے تم نے بدنامی کا ایک کالک ہو ہماری عزت پر" جاؤ اور دفع ہوجاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔اِس بار شہریار کی بیوی بولی تھی

بھابھی پلیز مجھے کچھ بولنے کا موقع تو دے۔۔۔۔۔اسلحان نے منت کی۔۔۔"اِس درمیان میشا بلکل خاموش تھی اُن کو دیکھنے میں مصروف تھی۔۔۔۔

اسلحان جاؤ یہاں سے۔۔۔۔شہریار نے سنجیدگی سے اُس کو دیکھ کر کہا

بھائی یوں سنگدل نہ بنے میں آپ کی لاڈلی بہن تھی کیا آپ بھول گئے ہیں؟اسلحان کو تکلیف ہونے لگی۔۔

ہاں بھول گیا ہے بس اِتنا یاد ہیں ہمیں کہ تم کم ذات نے رات کی تاریخی میں ہماری عزت کا تماشا بنایا ہے میرے چاند جیسے بھائی سے شادی سے انکار کیا تھا اور اپنے یار کے ساتھ بھاگ گئ تھی۔۔۔۔شہریار کی بیوی زوبیہ ہاتھ نچا نچا کر بولی

اُس کی تو سزا ملی ہے مجھے آپ کی مخلص محبت کو چھوڑ کر یہاں سے چلی گئ تو نوریز نے مجھے طلاق دی کیونکہ میں نے تین بیٹیاں پیدا کی"بیٹیاں پیدا کرنا میرا جرم بن گیا اور سزا کے طور پر طلاق ہوئی۔۔۔۔اسلحان نے ندامت سے چور لہجے میں بتایا تو شہریار نے چونک کر پہلی بار اُس کے پاس کھڑی معصوم میشا کو دیکھا وہ خود بھی چار بیٹیوں کو باپ تھا مگر اُس کے اندر میں بیٹے کی اِتنی چاہ نہیں تھی کہ بیوی کو ہی طلاق دے دیتا۔۔۔

یہ تو ہونا تھا جب آپ مخلص محبت کو ٹُھکراتے ہیں تو پھر محبت پھر آپ کو ٹُھکراتی ہے"شہریار نے تو ہر ممکن کوشش کی تھی تمہیں سمجھانے کی پر تمہیں تو اپنا عاشق عزیز تھا۔۔۔۔۔زوبیہ نخوت سے بولی تو اسلحان چُپ رہی تھی اُس کے پاس اور کوئی چارہ جو نہ تھا

اسلحان تم نے جو کیا اُس کی معافی میرے پاس نہیں اِس لیے جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔شہریار نے سنجیدگی سے کہا اُس کے دل میں زرا رحم نہیں تھا

ہاں بہن جاؤ ہماری پہلے ہی چار بیٹیاں ہیں جس کا خرچہ اُٹھانا ہے تمہارا اور تمہاری تین بیٹیوں کا بوجھ مفت میں ہمیں نہیں اُٹھانا۔۔۔۔۔زوبیہ نے طنز کہا

آپ اُس کی فکر نہ کرے مجھے بس گھر میں پناہ دے بیٹیوں کا خرچہ اُن کی ساری زمیداری میں خود اُٹھالوں گی۔۔۔۔اسلحان نے جلدی سے کہا

اچھا کیسے؟مجھے بھی تو پتا چلے انٹر پاس لڑکیوں کو کونسی نوکریاں ملتی ہیں؟زوبیہ نے استہزائیہ انداز میں کہا

تمہیں اگر جو بات کرنی تھی وہ ہوگئ ہیں تو جاؤ کیونکہ میں تمہاری شکل تک نہیں دیکھنا چاہتا۔۔۔۔شہریار نے پھر سے اُس کو جانے کا بولا

آپ کی سگی بہن ہوں میں آپ ایسا کیسے کرسکتے ہیں میرے ساتھ؟اسلحان نے افسوس سے اُس کو دیکھا

ویسے جیسے تم نے میری عزت کو اپنے پاؤں تلے روندا تھا۔۔۔۔شہریار طنز بولا

ویسے اگر تمہیں واقعی میں اپنے غلطی کا احساس ہے تو ایک شرط پر تمہیں پناہ مل سکتی ہے۔۔۔۔کچھ سوچ کر زوبیہ نے اُس سے کہا

زوبی۔۔۔۔۔؟شہریار نے حیرت سے اُس کو دیکھا

مجھے بات کرنے دو۔۔۔زوبیہ اُس سے کہتی اسلحان کی طرف متوجہ ہوئی

بتاؤ پھر قبول ہے؟

مجھے آپ کی ہر شرط قبول ہے۔۔۔۔۔اسلحان بنا سوچے سمجھے بولی

ٹھیک ہے تو سب سے پہلے اپنی تینوں بیٹیوں کو باپ کے یہاں چھوڑ آؤ۔۔۔۔۔زوبیہ نے کہا تو اسلحان اُلجھن بھری نظروں سے اُس کو دیکھنے لگی

باپ کے گھر؟اسلحان کو سمجھ نہیں آیا

ہاں باپ کے گھر چھوڑ آؤ اور پھر یہاں اکیلے آجانا میرے بھائی کی بیوی ڈیلیوری کے دوران مرگئ تھی بس ایک بیٹا ہے اور دوسری بیٹی ہے وہ تمہیں قبول کردے گا اگر عزت بھری زندگی اور اپنے بھائی کی معافی چاہتی ہو تو میرے بھائی سے شادی کرنا ہوگی پھر اِس گھر کے دروازے تمہارے لیے ہمیشہ کے لیے کُھلے ہوئے ہونگے۔۔۔زوبیہ نے کہا تو اسلحان حیرت سے اُس کو دیکھنے لگی۔

"بھابھی جس شخص نے مجھے بیٹیوں کی وجہ سے چھوڑا آپ چاہتی ہیں"میں وہاں اپنی بیٹیاں چھوڑ آؤں اگر وہ اِتنا اچھا ہوتا تو مجھے چھوڑتا کیوں؟اسلحان کو زوبیہ کی باتیں عجیب لگیں

تو تم نے بھی ٹھکا نہیں لیا کوئی تم بھی چھوڑ آؤ اِن کو وہاں پھر یہ جانیں اور اُن کا باپ۔۔۔۔۔زوبیہ نے بیزاری سے کہا

آپ نے کہا میں نے سُن لیا مگر اپنی بیٹیوں کو وہاں کی ملازمائیں بنانے سے اچھا ہے یہ میرے ساتھ سڑک پر سوئیں۔"اور اگر آپ کا بھائی مجھ سمیت میری بیٹیوں کو قبول کرتا ہے تو سہی ہے میں کرلوں گی اُس سے شادی۔۔۔اسلحان میشا کا ہاتھ مضبوط سے تھامے دو ٹوک لہجے میں بولی

لو جی رسی جل گئ مگر بل نہیں گیا۔۔۔۔زوبیہ کو تو اُس کی بات سن کر پتنگے لگ گئے

میرے خیال سے مجھے جانا چاہیے کیونکہ یہاں میرا بھائی نہیں بلکہ کسی کا شوہر کھڑا ہے۔۔۔۔۔اسلحان نے ایک نظر شہریار پر ڈال کر اُس سے کہا تو شہریار اپنی نظروں کا زاویہ بدل گیا تھا۔۔۔

رُل جاؤ گی۔۔۔زوبیہ نے تمسخرانہ لہجے میں اُس سے کہا

رُل چُکی ہوں پر سوہان اور میشا کو رُلنے نہیں دوں گی اُن کا بہترین مستقبل بناؤں گی۔۔۔۔۔اسلحان کا انداز پُریقین تھا

دیکھتے ہیں تمہاری بیٹیاں کیا کارنامے انجام دیتیں ہیں وہ بھی بن باپ اور بھائی کے۔۔۔۔۔زوبیہ نے طنز کہا

"صرف آپ نہیں پوری دُنیا دیکھے گی میری بیٹیاں خود کو ایسے بنائے گی اور ایک بات بتادوں وہ بھی کسی ہائے کلاس گھرانہ کے بنا وہ اپنے بل بوتے پر کرینگیں جس میں اُن کے باپ کا نام شامل نہیں ہوگا بلکہ وہ خود کا نام بنائے گیں دیکھیے گا۔۔۔۔۔اسلحان جواباً دوبدو بولی تھی

ہاں ہاں دیکھے گی پوری دُنیا۔۔۔۔زوبیہ جل کر بولی

"ویسے بھائی جاتے ہوئے آپ سے بات کہوں گی بہت پہلے سُنا تھا کہ"زندگی ایک ریل کے سفر کی مانند ہے بہت سے لوگ سوار ہوتے ہیں اور بہت سے اُتر جاتے ہیں مگر بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو منزل تک آپ کے ساتھ جاتے ہیں۔۔۔۔"آپ میرے محافظ تھے اپنی غلطی کا احساس ہے اور ایک موقعے کا حق بھی رکھتی تھی میں پر خیر اب چلوں گی۔۔۔۔اسلحان سنجیدگی سے کہتی میشا کا ہاتھ پکڑے اُن کی چوکھٹ عبور کرگئ تھی۔۔۔"اُس نے سوچ لیا تھا اب جو کرنا تھا اُس نے خود کرنا تھا اور اب کیسے بھی کرکے اُس کو اپنی بیٹیوں کا مستقبل بنانا تھا جس کو ہر کوئی حقارت سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔"اُس کو اپنی بیٹیوں کو ایسا بنانا تھا کہ ہر دیکھنے والا اُن پر رشک کرے اور کون جانتا تھا کہ عنقریب ایسا ہونے والا تھا۔۔۔۔۔


*(سورة النسآء:٤٥)*

*لَا تَحْــــزَنْ اِنَّ اللّٰـهَ مَعَنَـا* •


*غم نہ کرو بیشک اللّٰــــــه ہمارے ساتھ ہے*

❤❤❤❤❤❤❤❤

آریان یہ دیکھو میں تمہارے لیے کچھ چیزیں لایا ہوں دیکھ کر بتاؤ کیسی ہیں؟رات کے وقت زوریز گھر آیا تو آریان سے بولا جو چت لیٹا ہوا تھا۔۔۔۔"مگر اُس کے مُخاطب کرنے پر جب کوئی جواب نہیں آیا تو زوریز کو لگا شاید وہ سوچکا ہے۔۔۔

جواب کیوں نہیں دے رہے؟اگر جاگ بھی رہے ہو تو۔۔"اُس کی آنکھیں کُھلی دیکھ کر زوریز کو تعجب ہوا

ہم یہاں کیوں ہیں زوریز؟"ہمارا کمرہ تو بڑا اور بہت خوبصورت تھا پھر یہاں رہنے کی وجہ"مہنگائی کہہ کر باسی کھانا ملتا ہے سہی ہے مان لیا مگر اِس مہنگائی سے ہمارا اسٹوروم سے کیا تعلق؟"ہم یہاں کیوں قید ہوگئے ہیں۔۔۔آریان اُٹھ کر اُس کو دیکھ کر سنجیدگی سے گویا ہوا تو اُس کا رویہ پہلی بار ایسا دیکھ کر زوریز ٹھٹکا

کچھ ہوا ہے؟زوریز نے جانچتی نظروں سے اُس کو دیکھا

میرے کِھولنے اور کپڑے اسد اور فراز کے پاس دیکھے میں نے"میں یہاں میلے کپڑے پہن رہا ہوں اور وہ میری اور تمہاری چیزوں پر عیش کررہے۔۔۔۔آریان غُصیلے انداز میں بولا

تمہارے لیے لایا ہوں نہ شرٹس اور تمہاری فیورٹ کار بھی لایا ہوں ایک بار دیکھو تو سہی۔۔۔زوریز نے شاپرز اُس کے سامنے کی

اور ہمارا کمرہ؟"کیا وہ بھی لائے ہو چیزوں کی رپلیسمنٹ سہی ہے مگر کمرے کی رپلیسمنٹ بہت بُری ہے۔۔۔۔۔آریان نے ایک نظر بھی شاپرز پر نہیں ڈالی

تم کیا چاہتے ہو میں چچا سے لڑائی کروں؟زوریز نے گہری سانس بھر کر اُس کو دیکھ کر پوچھا

ہاں لڑو اِس میں غلط کیا ہے؟"آفس تو بس ہمارے ڈیڈ جاتے تھے یہ سارا کچھ تو اُن کا یعنی ہمارا ہے نہ اور ہم ہی ترس رہے ہیں۔۔۔۔۔آریان آج کافی خائف معلوم ہورہا تھا شاید وہ اچانک اپنے بدلتے حالات کو قبول نہیں کر پارہا تھا

زندہ رہنے کے لیے کیا ضروری ہوتا ہے؟جواب میں زوریز نے جو پوچھا اُس آریان ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگا۔۔۔

ہوا"آگ اور پانی۔۔۔۔۔سرجھٹک کر آریان نے سوچ سوچ کر بتایا تو اُس کے جواب پر زوریز جانے کتنے وقت بعد پہلی بار مُسکرایا تھا

اِن کے علاوہ کیا ضروری ہوتا ہے؟زوریز نے سرجھٹک کر پوچھا

صبح کا ناشتہ"دوپہر کا لنچ"اور رات کا ڈنر۔۔۔۔۔آریان نے بتایا

ناشتہ وقت پر ملتا ہے تمہیں؟زوریز نے پوچھا

ہاں۔۔۔آریان نے سراثبات میں ہلایا

لنچ؟اگلا سوال

وہ بھی ملتا ہے۔۔۔۔آریان نے جھٹ سے جواب دیا

اور ڈنر؟زوریز نے ایک اور سوال کیا

وہ بھی تم باہر سے لاتے ہو۔۔۔آریان نے کندھے اُچکائے جواب دیا

ہممم سہی تو یہ بتاؤ آرام کے لیے کیا ضروری ہوتا ہے؟زوریز نے پوچھا

کیا میں آج ایکزام حال میں ہوں؟" جو تم اُردو کا پیپر حل کروا رہے ہو۔۔۔۔آریان زچ ہوا

جو پوچھا ہے اُس کا جواب دو۔۔۔۔زوریز نے ٹوکا

ہمارا پہلے والا کمرہ جہاں آرام دہ بستر تھا"اور ای سی کولنگ ہوا کرتی تھی۔۔۔۔"اب تو مچھروں نے کاٹ کاٹ کر خون چوس لیا ہے پہلے پسینے لفظ تک کا پتا نہیں چلتا تھا اور اب خود میں بس پسینے کی بدبو آتی ہے۔۔۔۔آریان منہ کے زاویئے بگاڑ کر بولا

غلط جواب۔۔۔زوریز اُس کی بات سن کر اپنا سر نفی میں ہلاتا بولا

تو سہی جواب کیا ہے؟آریان کو حیرت ہوئی"اپنے مطابق اُس نے سہی جواب دیا تھا

آرام کے لیے سر پر چھت کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔۔۔کہنے کے ساتھ ہی زوریز نے اُس کا چہرہ ٹھوڑی سے پکڑے اُپر کیا

وہ چھت جس میں سے جالے گِرتے ہیں۔۔۔۔آریان کے پاس شکایات بہت تھیں۔۔۔۔

وہ چھت جس نے ہمیں محفوظ رکھا ہے"پتا ہے جب میں یہاں آتا ہوں تو نظریں سڑک پر سوئے ہوئے لوگوں پر پڑتی ہیں تو دل سجدے میں جُھک جانے کا کہتا ہے۔۔اُن لوگوں کے پاس تو یہ بھی نہیں ہوتا مگر ہمارے پاس ہے تو ہمیں بُرا منہ نہیں بنانا چاہیے کیا پتا اللہ ناراض ہوکر یہ بھی چِھین لے۔۔۔۔زوریز نے سمجھانے والے انداز میں کہا

اللہ بچوں سے ناراض نہیں ہوتا اِس لیے بے فکر رہو۔۔۔۔۔۔آریان نے منہ کے زاویئے بگاڑے

اگر اِتنا پتا ہے تو یہ بھی جان لو کہ اللہ اپنے بندوں کو زیادہ دیر تک تکلیف میں بھی رہنے نہیں دیتا۔۔۔۔زوریز نے سنجیدگی سے کہا

میں تمہاری طرح نہیں ہوں زوریز مجھے میرا سب کچھ واپس چاہیے کیا تمہارا خون نہیں کُھولتا جب اِن سب کو ہمارے باپ کے پیسوں پر عیش کرتے ہوئے دیکھتے ہو تو؟آریان نے بیزاری سے اُس کو دیکھ کر کہا

آریان اچھا ہوگا جو اپنی عمر کے لحاظ سے بات کرو اور پتا نہیں تمہیں کون ایسی پٹی پٹیاں پڑھاتا ہے۔۔ زوریز نے جانچتی نظروں سے اِس بار آریان کو دیکھا

یہ میری بات کا جواب نہیں۔۔۔۔

میں یہ سب تمہارے لیے کرتا ہوں اور تم خوش نہیں ہوتے تو پھر کیا فائدہ میرے کام کرنے کا تم صبر کرو آہستہ آہستہ سب کچھ پہلے جیسا ہوجائے گا۔۔۔۔زوریز نے نرمی سے کہا

"کب ہوگا پہلے جیسا؟اور تم کیوں کرتے ہو کام؟"میں تھوڑئی بولتا ہوں ہمارے پاس سب کچھ ہے تم اُن سے لو آواز اُٹھاؤ میں تمہارے ساتھ ہوں۔۔۔آریان اُلٹا اُس کو سمجھانے بیٹھ گیا۔

کھانا کھاؤ اور سوجاؤ نیند دماغ حاوی ہوگئ ہے تمہارے۔۔۔۔زوریز نے سرجھٹک کر کہا

تم غلط ہو زوریز۔۔۔۔آریان خفگی سے بولا

تمہیں کیا لگتا ہے میں چچا کمال یا چچا جمال میں سے کسی ایک کو کہوں گا کہ ہمیں ہمارا حق دے تو وہ خوشی خوشی دے دینگے؟زوریز نے اُس پر سب کچھ چھوڑدیا

مطلب طے پایا ہم گُھٹ گُھٹ کر یہی رہینگے۔۔.آریان کو رونا آنے لگا

میں کوشش کررہا ہوں نہ آہستہ آہستہ تمہیں وہ سب دوں گا جو تمہارے پاس پہلے سے تھا۔۔۔۔زوریز نے تھکی ہوئی سانس خارج کی

کیسے ڈکیتی کرکے؟"یا بڑے آدمیوں کے ساتھ مل کر چوری کرکے۔۔۔۔آریان نے پوچھا تو زوریز نے اُس کو گھورا

بے فکر رہو جب میرے اندر تمہیں حرام کِھلانے کی چاہ آئی تو خود تمہارا گلا دبا کر ماردوں گا۔۔۔۔زوریز نے کہا تو آریان کِھسک کر اُس سے دور بیٹھا

بڑا تو ہونے دو ابھی سے مارنے کا سوچا ہوا ہے۔۔۔۔آریان کانوں کو ہاتھ لگائے بولا

کھانا کھالو مجھے نیند آرہی ہے سونا ہے مجھے۔۔۔۔زوریز سرجھٹک کر بولا اُس کو تھکاوٹ محسوس ہورہی تھی اور ایک آریان تھا جس کے پاس شکایات کا انبار تھا

تم نہیں کھاؤ گے کیا؟آریان نے پوچھا

سونا چاہتا ہوں بھوک نہیں ہے۔۔۔زوریز نے ٹالا

مگر ہم تو ہمیشہ ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے"کیا تم مجھ سے خفا ہوگئے ہو؟"پر میں غلط تو نہیں ہمیں ہماری چیزیں ملنی چاہیے نہ۔۔۔۔آریان کو لگا شاید وہ اُس کی کسی بات پر خفا ہوگیا ہے تبھی منانے والے انداز میں بولا

میں تم سے خفا کیوں ہوگا تمہارے علاوہ میرے پاس کون ہے۔۔۔۔زوریز نے اُس کو دیکھ کر کہا

پُھوپُھو اور نانو؟آریان کو اچانک اُن کا خیال آیا

اُن دونوں کو ہمارا خیال نہیں آتا شاید۔۔۔زوریز کے چہرے پر یکطرفہ مسکراہٹ آئی

پُھوپھو تو ہم سے بہت پیار کرتیں تھیں۔"کیا موم ڈیڈ کے ساتھ اُن کا پیار بھی ختم ہوگیا۔۔۔آریان کو دُکھ ہوا

وہ اپنی زندگی میں مصروف ہیں خیر تم زیادہ سوچو نہیں اور سوجاؤ۔۔۔زوریز نے باتوں کا سلسلہ ختم کرنا چاہا جس پر آریان بھی اِس بار چُپ ہوگیا تھا۔۔۔

❤❤❤❤❤❤

امی

اسلحان چھت پر موجود چارپائی پر چت لیٹی اپنے بھائی کے رویے کے بارے میں سوچ کر آنسو بہانے میں مصروف تھی جب سوہان فاحا کو سُلانے کے بعد اُس کو آواز دینے لگی۔۔۔

ہونہہ۔۔۔۔اسلحان نے اُس کو دیکھا

مجھے کچھ بتانا ہے آپ کو۔۔۔۔۔سوہان نے اُس کو دیکھ کر بیحد آہستگی سے کہا

کل بتانا ابھی سوجاؤ۔۔۔اسلحان نے کہا

ابھی سُنوں نہ پلیززز۔۔۔سوہان نے منت کی

کہو۔۔۔۔۔اسلحان نے کوفت سے اُس کو دیکھا

انکل انور بہت بُرے ہیں"آپ کو پتا ہے اُنہوں نے مجھے صوفے پر دھکا دیا اور کہا ہم

سوہان بس کرجاؤ خُدا کا واسطہ ہے تمہیں وہ بیچارے اپنی اولاد کے ترسے ہوئے تمہیں اور میشا کو پیار کرتے ہیں اور تمہارے خُرافاتی دماغ میں جانے کیا گند پڑا ہے۔۔۔۔سوہان کی بات درمیان میں کاٹتی اسلحان تپ کر بولی تو سوہان کو رونا آیا

امی میں سچ بولتی ہوں وہ اچھے نہیں ہے بلکل بھی"ڈیڈ کو بھی گالی دی۔۔۔۔بتاتے ہوئے سوہان کو رونا آیا

تو غلط کیا ہے تمہارا باپ گالیوں کے ہی لائق ہے اور جاکر تم بھی سوجاؤ میرا دماغ خراب کرنے کی ضرورت نہیں کسی کو۔۔۔۔اسلحان نخوت سے سرجھٹک کر بولی جس پر سوہان بے بسی سے بس اُس کو دیکھتی رہ گئ اور کچھ کرنے کو اُس کے پاس تھا کہاں

❤❤❤❤❤❤❤❤

پھر کیا سوچا تم نے"اب کیا کرو گی؟ساجدہ نے چائے کا کپ اسلحان کے سامنے رکھے اُس سے پوچھا

تم پر اب مزید بوجھ نہیں بنوں گی جانتی ہوں تمہارا اور تمہارے شوہر کا گُزر بسر بھی بڑی مشکل سے ہوتا ہے"میں کسی اسکول میں جاب کرنے کا سوچ رہی ہوں۔۔۔۔اسلحان غیرمعی نقطے کو دیکھ کر بولی

اِس سے کیا ہوگا؟ایک پرائیوٹ اسکول میں زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار تک سیلری ہوگی اور کام زیادہ ہوگا اور اِن پیسوں سے تمہارا کیا ہوگا؟"تم اکیلی نہیں ہو اسلحان تین بیٹیوں کی ذمیداری ہے تمہارے سِر ہیں ایک حساب سے اُن کا اچھا مستقبل چاہتی ہو تو دوسری طرف ایسی بیوقوفانہ باتیں کرتی ہو ۔۔ساجدہ نے جیسے اُس کی عقل پر ماتم کیا

کچھ اور بھی سوچا ہے میں نے۔۔۔۔اسلحان نے کہا

اور کیا؟ساجدہ نے جاننا چاہا

میں نوریز کے گاؤں جاؤں گی اپنا حق مہر لینے اور پیسوں سے سوہان اور میشو کا کسی اچھے سے اسکول میں داخلہ کرواؤں گی۔"وہ جس اسکول جاتیں ہیں وہاں پڑھائی اچھی نہیں۔۔۔۔'میرے کچھ زیور بھی نوریز کے لاکر میں ہیں وہ بھی لاؤں گی۔۔"میں نے سوچ لیا ہے مزید میں خود کو رُسوا نہیں کرواؤں گی۔۔۔اسلحان انداز مضبوط تھا

یہ تو چلو اچھا ہوجائے گا اکیلے جاؤ گی وہاں؟ساجدہ نے پوچھا

ہاں اِس بار اکیلے جاؤں گی تم بچیوں کو خیال رکھنا میں جیسا چاہتی ہوں ویسا ہوجائے گا اگر تو کرائے کا کوئی مکان بھی دیکھ لوں گی اب ساری زندگی تمہارے در پر تو نہیں رہ سکتی نہ تم نے جتنا کیا ہے اُس کا میں جتنا بھی شکریہ ادا کروں وہ تو کم ہے۔۔۔۔اسلحان اُس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر مشکور نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولی جبھی اُن کے کانوں میں فاحا کے تیز رونے کی آواز آئی

فاحا کو کیا ہوا؟ساجدہ پریشان ہوئی مگر اسلحان نے کوئی ری ایکٹ نہیں کیا

آنٹی فاحا کے پیٹ میں شاید درد ہے بہت رو رہی ہے۔۔۔سوہان فاحا کو گود میں لاتی پریشانی سے ساجدہ سے بولی

مجھے دو۔۔۔ساجدہ نے اُٹھ کر فاحا کو اُس سے لیا

تم اسکول کے لیے تیار نہیں ہوئی؟اسلحان نے تیکھی نظروں سے اُس کو دیکھا

امی وہ فاح

مر نہیں جائے گی تم جاؤ اور تیار ہوجاؤ اسکول نہ جانے کہ تو بس بہانے ہیں۔۔۔۔۔اسلحان اُس کی بات درمیان میں کاٹ کر غُصے سے بولی

آرام سے کیا ہوگیا ہے اگر تم نے اسکول چینج کروانا ہے بچیوں کا تو ایک دن اسکول نہ جانے پر کچھ نہیں ہوگا۔۔۔۔ساجدہ نے اُس کو ٹوک کر کہا

میں ابھی کچھ نہیں جانتی سوہان جاؤ اُپر۔۔۔۔اسلحان نے سوہان کو دیکھ کر کہا تو وہ بے بسی سے روتی ہوئی فاحا کو دیکھ کر اُپر کمرے کی طرف بھاگی

"میں فاحا کو ڈاکٹر کے پاس لیکر جارہی ہوں تم چلو گی ساتھ؟ساجدہ نے اسلحان کو دیکھ کر کہا تبھی باہر کھٹکے کی آواز نے اُن کا دھیان اپنی طرف کیا

بھابھی جی یہ کوریئر والا آپ کے لیے لایا ہے۔۔۔۔انور اسلحان کی طرف ایک لفافہ بڑھاکر بولا

میرے لیے؟اسلحان کو حیرت ہوئی

نام تو آپ کا ہے۔۔۔۔انور نے بتایا تو اسلحان نے لفافہ اُس کے ہاتھ سے کھول کر دیکھا تو الرٹ ہوئی

سب ٹھیک ہے؟اُس کے بدلتے تاثرات دیکھ کر ساجدہ پوچھے بغیر نہ رہ پائی

شہریار بھائی نے بھیجے ہیں پراپرٹی کے کاغذات۔۔۔ "اُنہوں نے ایک خط بھی بھیجا ہے جس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ شریعت کے حساب سے میرا جتنا حق اُن پر بنتا تھا وہ مجھے دے رہے ہیں وہ میرے باپ نہیں جو ناراضگی کی وجہ سے اِس جائیداد سے عاق کرتے یا میں تمہیں دستبردار ہونے کا کہتا تمہارا حصہ میرے پاس امانت تھی اور آج میں وہ امانت تمہیں لُوٹا چُکا ہوں۔۔"تمہیں کسی اور در پر جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ایک گھر میں نے دیکھا ہوا ہے جس کا پتہ لیٹر کے پیچھے لکھا ہوا مکان نمبر بھی تم دیکھ سکتی ہو"اپنے پاس رکھتا تمہیں تو زوبی کبھی تمہیں یا تمہاری بچیوں کو خوش نہ ہونے دیتی تم نے جو کیا میں نے وہ معاف کیا پر اپنے گھر کے دروازے تم پر نہیں کھول سکتا۔۔اسلحان نے کانپتے لہجے میں بتایا تو انور کے تاثرات بدلے تھے

یہ تو بہت اچھی خبر ہے۔۔"تمہیں تمہارا وہ حصہ ملا جس کی تمہیں اشد ضرورت تھی۔۔ساجدہ نے مسکراکر کہا

ہاں نہ اور یہ دیکھو چابی بھی ہے۔۔۔۔اسلحان کل سے جتنا پریشان تھی آج جیسے اُس کی پریشانی ختم ہوئی

"گھر میں پناہ نہیں دی تو کیا ہوا تمہیں تمہارا حصہ تو ملا نہ۔۔۔۔ساجدہ اُس کے لیے خوش ہوئی تھی

پر اُن کو کیسے پتا چلا کہ آپ یہاں رہتی ہو کراچی میں۔۔انور نے پوچھا تو اسلحان خود بھی چونک سی گئ

"ُپتا نہیں مگر جو بھی اُنہوں نے میری ٹینشن ختم کی ہے۔۔۔اسلحان کاغذات دوبارہ لفافے میں ڈال کر بولی

اچھا اب اِس خوشی میں میرے ساتھ ہوسپٹل چلو اور یہ بتاؤ تمہارا نیا گھر کہاں ہوگا؟ساجدہ نے پوچھا

شاید اسلام آباد میں ہے۔۔۔۔۔اسلحان دوبارہ لیٹر دیکھتی اُس کو بتانے لگی۔۔۔۔

لو جی اب تم نئ منزل کی مسافر بننے والی ہو تو چلو۔۔۔"ابھی ہوسپٹل۔۔ساجدہ نے فاحا کا رونا بڑھتا دیکھا تو کہا

بھابھی جی ویسے یہاں رہنے میں کیا دقت ہے۔۔انور جو اب تک خاموش تھا بول پڑا

بھائی صاحب آپ کا شکریہ جو اِتنے ماہ ہمیں پناہ دی مگر اب اور نہیں۔۔۔اسلحان نے مسکراکر کہا

سُنو انور ہم جارہے ہیں تم سوہان اور میشا کو اسکول چھوڑ آنا۔۔۔۔ساجدہ نے کہا تو انور کی آنکھیں شیطانیت سے چمکی اُٹھیں

وہ ابھی تک یہی ہیں؟انور نے اپنا لہجہ سرسری بنایا

ہاں سوہان اُپر تیار ہونے گئ ہے"میشو بھی یہی کہی ہوگی دیکھنا"اسلحان تم آؤ فاحا بیٹی کو لگتا ہے پیٹ میں درد زیادہ ہے۔۔۔۔ساجدہ نے کہا تو اسلحان اُس کے ساتھ باہر کی طرف بڑھی تھی اور اُن کے جانے کا یقین کرکے انور اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتا اُپر کی طرف بڑھا تھا اُس کے چہرے پر شیطانیت ٹپک رہی تھی جیسے آج وہ جو کرنا چاہتا ہے کرکے رہے گا"جس کا انتظار اُس کو بہت وقت سے تھا۔۔۔۔


'امی میں بس

اپنے کمرے میں کسی کو آتا محسوس کرکے سوہان سمجھی اسلحان ہے مگر انور کو دیکھ کر اُس کا پورا وجود کانپنے لگا تھا

آآپپ آپ؟سوہان نے سہمی ہوئی نظروں سے اُس کو دیکھ کر چلانا شروع کیا

امی

امی

سسس ساجدہ آنٹی

کک کہاں ہے آپ

ہاہاہاہاہا وہ نہیں ہے آج میں اور تم ہو۔۔۔ انور اُس کے کندھے سے اسکول بیگ دور پھینک کر چوٹی میں قید بال دبوچ کر بولا تو پل بھر میں سوہان کا چہرہ پسینے سے شرابور ہوگیا تھا وہ اپنی غیر ہوتی حالت کو سنبھالتی اُس کو خود سے دور کرنے کی کوشش کرنے لگی مگر ناکام رہی

اب اگر کوئی ڈرامہ کیا تو کھڑکی سے پھینک دوں گا۔۔۔۔انور اُس کا گلا دبوچ کر کہتا اُس کو لیئے بیڈ کی طرف آیا

ججج جانے دد دے ممم مجھے ااممم امی۔۔۔۔۔سوہان پیچھے کِھسکتی پھر سے "اسلحان کو آوازیں دینے لگی جس پر انور خباثت سے قہقہقہ لگاتا اُس کے کندھوں سے شرٹ پھاڑی تو سوہان مزید حراساں ہوئی

اان

چٹاخ

سوہان کچھ کہنے لگی تھی جب انور نے اُس کے نازک گال پر ایک تھپڑ رسید کیا تو تھپڑ اِتنی زور کا تھا کہ اُس کے منہ سے خون کا پھوارا نکلا تھا۔۔"جانے کتنے پل لگے تو اُس کو اپنے چکراتے سر کو سنبھالنے میں مگر انور کو زرا فرق نہیں پڑا تھا وہ آہستہ آہستہ اُس پر جُھکنے لگا تو اپنے دُکھتے سر کو پکڑتی سوہان اپنا چہرہ دوسری طرف کرنے لگی تو نظر سائیڈ ٹیبل پر پڑے ایک گُلدان پر پڑی جو کل صحن سے اُٹھائے کِھیلتے کھیلتے میشا وہاں چھوڑ کر گئ تھی۔۔۔"

سوہان دُھندلی دُھندلی نظروں سے گُلدان کو دیکھتی اُس کو لینے کے لیے اپنا چھوٹا ہاتھ بڑھانے لگی جو کوششوں کے بعد وہ گُلدان اُٹھانے میں کامیاب ہوگئ تھی پھر جانے اُس میں اِتنی ہمت کہاں سے آئی جو پوری قوت سے اُس کے سر پر دے مارا"انور جو پورا حوس میں ڈوبا ہوا تھا وہ یہ جان ہی نہیں پایا کہ سوہان کیا کرنے لگی ہے وہ تو اُس کو بچی سمجھ کر اپنے قابو میں کرگیا تھا مگر اُس کے عمل پر اُس کا وجود ایک طرف کو لڑھک گیا۔۔۔"پھر آہستہ آہستہ اُس کے سر سے خون بہتا گیا اِتنا کہ پوری سفید چادر خون میں لت پت ہوگئ تھی"اپنی چیخوں کو گلا گھونٹتی سوہان کبھی اُس کا خون دیکھتی تو کبھی اپنا وہ ہاتھ جس سے اُس نے انور کو مارا اُس کے چہرے کی رنگت اِتنی سرخ ہوگئ تھی جیسے ابھی خون چھلک پڑے گا۔۔۔"وہ بیڈ سے اُٹھنا چاہتی تھی"بہت دور بھاگنا چاہتی تھی بس یہاں سے نکلنا چاہتی تھی مگر اپنا وجود اُس کو بے جان لگا تھا وہ لاکھ چاہنے کے باوجود اُٹھ نہیں پائی تھی نظریں سامنے والے منظر سے ہٹانا چاہتی تھی جو اُس کا سانس روک رہا تھا"مگر اندر خوف اِتنا تھا کہ وہ پلکیں تک جِھپکا نہیں پائی تھی بس یک ٹک خون کو دیکھنے لگی۔۔۔"جو بہتا ہی جارہا تھا

❤❤❤❤❤❤❤

رکشہ روکنا۔۔۔۔۔اسلحان نے اچانک رکشہ ڈرائیور سے کہا تو ساجدہ نے چونک کر اُس کو دیکھا

کیوں کیا ہوا؟ساجدہ نے ناسمجھی سے اُس کو دیکھ کر پوچھا

اچانک گھبراہٹ سی ہورہی ہے۔۔واپس چلو۔۔۔۔اسلحان نے اپنا ماتھا چھو کر کہا

تم ٹھیک ہو نہ اسلحان؟ہمیں ہوسپٹل جانا ہے فاحا کی طبیعت سہی نہیں ہے نہ۔۔۔۔ساجدہ نے جیسے یاد کروایا

بھاڑ میں جھونکو تم اِس کو۔۔۔اسلحان نے کوفت سے فاحا کو دیکھا

بیٹی ہے تمہاری شرم کرو۔۔۔ساجدہ کو اُس کا انداز پسند نہیں آیا

تمہیں جہاں جانا ہے تم جاؤ پر میں کوئی اور رکشہ کرکے گھر واپس جانے لگی ہوں۔۔۔۔۔۔اسلحان رُکشے سے اُٹھ کر دو ٹوک لہجے میں اُس سے بولی

یہ غلط ہے اسلحان جو تم کررہی ہو۔۔۔۔ساجدہ نے افسوس سے اُس کو دیکھ کر کہا

خُدا حافظ۔۔۔اسلحان کچھ سُننے کو تیار نہ تھی۔۔۔"اور وہ جیسے سامنے ہٹ گئ تو رکشے والے نے رکشہ چلانا دوبارہ شروع کیا

❤❤❤❤❤❤❤❤

تمہارے چچا والے کیا سگے تھے؟ایک آدمی نے زوریز سے پوچھا جو پانی پی رہا تھا وہ دونوں ایک ساتھ کام کرتے تھے جس وجہ سے زوریز کی اپنے عمر کے لوگوں سے تو نہیں"البتہ خود سے بڑے لوگوں سے جان پہچان بہت ہوگئ تھی۔۔۔۔

مطلب؟زوریز نے ناسمجھی سے اُس کو دیکھا شاید وہ سمجھ نہیں پایا تھا

مطلب جیسا رویہ میں نے سوچا ہوا ہے اُن کا ایک حساب سے تو مجھے یہی لگتا ہے یہ یقیناً وہ سوتیلے ہوگے"کیونکہ سگوں کا رویہ بُرا ہوسکتا ہے مگر اِتنا نہیں جتنا کم عمری میں تمہارے ساتھ ہے اُن کا۔۔۔۔۔وہ بولا تو زوریز اب سمجھا

وہ میرے سوتیلے چچا ہیں مگر میرے ڈیڈ کو "سوتیلا"لفظ پسند نہیں ہوتا تھا اُن کو اپنے دونوں بھائی عزیز تھے بہت۔۔۔۔زوریز نے جواباً کہا

تبھی تو یہی حال بننا تھا تمہارا شکل سے شہزادے لگ رہے ہو اور دیکھو صبح سے دو پہر تک مزدوری کرتے ہو اور شام سے پھر ڈابے میں جاب ایسے تمہاری پڑھائی کا کیا بنے گا؟وہ افسوس سے بولا

ایک سال میرا ویسے بھی ضائع ہونا تھا مگر میں ایڈمیشن لوں گا پر ابھی نہیں۔۔۔زوریز نے کہا

مجھے تو تمہارے چچا پر بہت غُصہ آتا ہے خبیث لوگوں کتنے بُرے ہیں۔۔۔"وہ آدمی جس کا نام"امجد" تھا وہ بولا

وہ بُرے نہیں ہیں بس ہمارا وقت بُرا چل رہا ہے۔۔۔زوریز سنجیدگی سے بولا

ہممم اِتنی عمر میں قسمت خراب کسی کی نہ ہو۔۔۔امجد گہری سانس بھر کر بولا

قسمت خراب نہیں ہے وقت خراب چل رہا ہے اور جو وقت کی سوئیاں ہوتیں ہیں وہ ہمیشہ ایک پر آکر نہیں رُکتی۔۔۔۔۔زوریز نے عام الفاظوں میں گہری بات کہی تو امجد اُس کو دیکھتا رہ گیا جو کبھی کبھار اپنی عمر سے زیادہ بڑی باتیں کرجاتا تھا۔

ایک ہی بات ہے۔۔۔امجد سرجھٹک کر بولا

ایک بات نہیں ہے الگ الگ باتیں ہیں۔۔۔"قسمت لکھنے والی ذات بہت بڑی بات ہے اور ہماری اِتنی اوقات نہیں ہے کہ اُس کی تخلیق کردہ چیزوں سے نُقص نکالے یا اُسکو بُرا کہیں۔۔۔۔زوریز سرسری لہجے میں بولا تو اِس بار وہ لاجواب ہوا

کہاں سے لاتے ہو اِتنی گہری باتیں؟وہ واقعی میں بہت حیران تھا

پتا نہیں۔۔۔زوریز نے لاعلمی کا مُظاہرہ کیا

اچھا ایک بات بتاؤ۔۔۔امجد رازدرانہ انداز میں اُس سے بولا

کونسی بات؟زوریز اُس کی طرف متوجہ ہوا

تمہارے کسی چچا نے تمہارے سائن لیئے ہیں؟امجد نے پوچھا

میرے سائن؟زوریز کو تعجب ہوا

ہاں تمہارے سائن دیکھو بھئ تمہارے باپ کے مرنے کے بعد سارا کچھ تو تم دونوں بھائیوں کا ہوا نہ تو ظاہر سی بات ہے اپنے نام تو کیسے بھی کرکے اُن کو کرنا ہوگا نہ۔۔۔۔امجد نے تفصیل سے بتایا

وہ تو اُٹھارہ سال تک ہوتا ہے نہ اور میں تو گیارہ کا ہوں ابھی میرے سائن اُن کے کسی کام کے نہیں دوسرا وہ کبھی ایسی بات کرنے میرے پاس آئے بھی نہیں۔۔۔زوریز نے سوچ کر کر بتایا

آئے تو کچھ بھی ہوجائے تم سائن مت کرنا۔۔۔امجد نے سختی سے کہا

کیوں؟زوریز ناسمجھی سے بولا

افففف کتنے کم عقل لڑکے ہو آجکل دس بارہ سال کے لڑکوں کو جانے کیا کچھ پتا ہوتا ہے اور ایک تم ہو جس کو بس اپنے اور بھائی کی بھوک کے علاوہ کچھ پتا نہیں ہوتا۔۔۔۔امجد نے اُس کی عقل پر ماتم کیا

آپ صاف بات کرینگے تو لگ جائے گا پتا۔۔۔۔زوریز نے گہری سانس بھر کر کہا

دیکھو سائن سے یہ ہوگا کہ تمہارے باپ کا سارا کچھ اُن کا ہوجائے گا۔۔۔۔امجد نے بتایا

وہ تو پہلے ہی اُن کے ہاتھوں میں ہے۔۔۔۔زوریز نے کہا

ہاں پر قانونی طور پر تو نہیں نہ اصلی وارث تو تم ہو نہ۔۔۔۔امجد نے کہا تو وہ سوچ میں ڈوب گیا"اُس کو اِن سب کا پتا نہیں تھا اور نہ اُس نے کبھی اِتنا سوچا تھا اِن باتوں کو

میں نہیں کروں گا سائن۔۔۔۔آریان کا خیال جیسے اُس کے دماغ میں آیا"زوریز جھٹ سے بولا

گُڈ اپنی بات پر قائم رہنا ورنہ اسٹوروم کا سفر سڑک پر احتتام پزیر ہوگا آجکل جیسا زمانہ ہے نہ وہاں سگوں پر اعتبار نہیں کیا جاتا اور نہ اُن پر اپنا کچھ چھوڑا جاتا ہے"ہر ایک کو بس اپنی لائیف سیٹ کرنی ہے باقی جائے بھاڑ میں۔۔۔امجد نے کہا تو زوریز نے اِس بار محض سراثبات میں ہلایا "وہ ایسے آپس میں باتوں میں مگن تھے تبھی اُن کا وہاں سربراہ آیا

آجاؤ اور امجد تم نے موٹر چلانا ہے اور زوریز تو جاکر پائمپ دیکھو۔۔۔۔اُن کے سربراہ نے کہا تو دونوں اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑے ہوئے تھے

شام میں آپ کے ساتھ میں چلوں گا۔۔۔۔زوریز نے چلتے ہوئے امجد سے کہا

کہاں؟امجد نے چونک کر اُس کو دیکھا

شوروم میں۔۔۔۔۔زوریز نے مختصر جواب دیا

اب کیا تم مکینک کا کام بھی دیکھو گے۔۔۔امجد کو اُس کی حالت پر ترس آیا

صرف ایک یا دو گھنٹہ۔۔۔۔زوریز نے عام لہجے میں بتایا تو امجد بس اُس کو دیکھتا رہ گیا

❤❤❤❤❤❤❤❤

میشو تم یہاں ہو ابھی تک۔۔۔۔۔۔اسلحان کی نظر صحن میں مٹی سے کھیلتی میشا پر گئ تو وہ چونکی

دی(جی))۔۔۔۔میشا نے مصروف لہجے میں مختصر کہا کیونکہ وہ اِس وقت بہت مصروف تھی۔۔۔۔

سوہان اسکول گئ تم کیوں نہیں گئ؟اسلحان کو اُس کی بے نیازی پر تاؤ آیا

وہ نہیں دیئ(گئ)۔۔۔۔۔میشا نے بتایا تو اسلحان کا ماتھا ٹھٹکا وہ اُس پر ایک نظر ڈالے گھر کے اندرونی حصے کی طرف بھاگ گئ"اور سیدھا اپنے اور اُن کے مشترکہ کمرے میں آئی تو اندر کا منظر دیکھ کر اُس کے چہرے کی رنگت پل بھر میں اُڑی تھی بے ساختہ وہ دروازے کا سہارا لیے یک ٹک دیکھنے لگی جہاں انور خون میں نہایا ہوا ہوش وحواسو سے بیگانہ تھا مگر اُس کی آنکھیں پھٹنے کے حد تک کُھلی ہوئی تھیں اُس کے کچھ دور اپنے گرد بازوؤں کا حصار بنائے سوہان نے اپنا چہرہ گُھٹنوں میں چُھپایا ہوا تھا اُس کے وجود میں کپکپاہٹ وہ صاف محسوس کرسکتی تھی۔۔۔۔" سوہان کو آج کچھ بھی بتانے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ سارا کچھ سامنے تو تھا پھر کسی اور کے بتانے کی کیا گُنجائش بنتی تھی

❤❤❤❤❤❤❤

کیا ہوا ہے۔۔۔۔ساجدہ نے ڈاکٹر سے پوچھا

ماشااللہ سے بچی تو ٹھیک ہے ہوسکتا ہے بھوک کے باعث رو رہی ہو۔۔۔۔ڈاکٹر پوری طرح سے فاحا کو دیکھ کر اُس سے بولی

دودہ پِلانے کی بہت کوشش کی مگر پی نہیں رہی۔۔۔ساجدہ نے بتایا

ہمممم آپ بیٹھے۔۔۔ڈاکٹر کا فون رِنگ کرنے لگا تو اُس نے ساجدہ کو بیٹھنے کا کہا مگر اِتنے وقت تک فاحا مسلسل رونے میں مصروف تھی۔

فاحا اِتنا نہ روؤ بیمار پڑجاؤ گی۔۔۔۔۔ساجدہ پریشانی سے فاحا کو گود میں اُٹھائے یہاں سے وہاں ٹہلتی ہوئی بولی

❤❤❤❤❤❤

"""مجھے یہاں نہیں رہنا۔۔۔۔سوہان نے روہانسی ہوکر کہا

یہاں نہیں رہنا تو کہاں رہنا ہے؟"کونسے وسائل ہیں میرے جو میں تم سب کو لیکر گھوموں۔۔۔۔اسلحان کو اُس کی بات سن کر تاؤ آیا

آپ بدتمیزی سے بات کیوں کرتیں؟سوہان کو تکلیف ہوئی

کیونکہ تم تینوں کی وجہ سے میرے ماتھے پر طلاق کا لیبل لگا ہے اور اب اُٹھو جاؤ میرا دماغ خراب کرنے کی ضرورت نہیں کوئی۔۔۔۔۔اسلحان نے سختی سے اُس کو جھڑک دیا

امی ساجدہ آنٹی کے شوہر مجھے عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں"اور بار بار ہاتھ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔سوہان نے بلآخر وجہ بتائی یہ سوچ کر کہ شاید اب اسلحان اُس کی بات سمجھ جائے

شرم کرو سوہان اور اپنی عمر دیکھ کر باتیں بناؤ وہ دونوں میاں بیوی ہمارے مسیحا ثابت ہوئے ہیں اور تم ایسی باتیں کررہی ہو تمہارے باپ نے جو کیا ہے اگر ساجدہ سے ٹکراؤ نہ ہوا ہوتا تو ہماری لاشیں اِس وقت دربدر ہوتیں۔۔۔اسلحان نے اُس کو ٹھیک ٹھاک سُنایا

آپ کو یقین کیوں نہیں آرہا وہ بار بار مجھے تنگ کرتے ہیں۔۔۔۔۔سوہان کو دُکھ ہوا"""""


""انکل انور بہت بُرے ہیں"آپ کو پتا ہے اُنہوں نے مجھے صوفے پر دھکا دیا ""


ایک کے بعد ایک سوہان کی باتیں اُس کے دماغ میں تازہ ہوئیں تھی"جس پر اُس کو آج پچھتاوا ہونے کے ساتھ ساتھ خود پر غُصہ بھی آرہا تھا اُس میں اِتنی ہمت نہ تھی کہ اُٹھ کر سوہان کے پاس جاتی "کوئی حوصلہ یا کچھ کہتی وہ تو یہ بھی نہیں پوچھ سکتی تھی کہ تم نے یہ سب کیسے کیا؟"وہ تو اُس کو کسی اور کے رحم وکرم پر چھوڑ گئ تھی"بھلا تو میشا کا تھا جس نے اپنی لاپرواہی میں گُلدان صحن کے بجائے سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا تھا جس کی بدولت وہ اپنا دفاع کرچُکی تھی اگر وہ نہ ہوتا تو شاید انور کے بجائے سوہان کی لاش یہاں ہوتی اُس کی نظروں کے سامنے

سس سوہان۔۔۔۔

اسلحان نے آہستہ سے اُس کو آواز دی مگر ہولے ہولے کانپتی سوہان نے اپنا سر نہیں اُٹھایا تھا

سوہان میری بچی۔۔۔۔۔اسلحان چل کر اُس کے پاس آئی اُور اُس کا چہرہ اُپر اُٹھایا تو اُس کا کلیجہ کا منہ کو آیا"کندھوں سے یونیفارم کی پھٹی ہوئی شرٹ دیکھ کر سانس لینے میں دُشواری محسوس ہوئی تھی۔جبکہ اُس کے اُس کے ایک گال پر پانچ اُنگلیوں کے نشانات واضع تھے اور منہ سے نکلا ہوا خون تو ٹھوڑی پر جم گیا تھا۔۔"سوہان کی حالت چیخ چیخ کر اُس پر ہونے والے ظلم کی داستان بیان کررہی تھی۔۔۔۔

اممم امی خخ خون۔۔۔۔۔سوہان کے لب پھڑپھڑائے تھے"جس پر سوہان نے جلدی سے اُس کو اپنی آغوش میں چُھپایا تھا

"مم مجھے پپپ پتا ننن نہیں ککک کیا ہہہ ہو گگ گیا تت تھا۔"ااا اور ککک کسی کک کے کپڑے پپپ پھاڑنا تت تو غغ غلط ببب بات ہوتی ہے نہ۔۔۔خود کو اُس میں چُھپانے کی کوشش کرتی سوہان کانپتی آواز میں بولی تو اسلحان کو اپنا دل چیرتا محسوس ہوا

"جو بھی ہوا تم سے اچھا ہوا روؤ نہیں اور نہ ڈرو۔۔۔۔۔اپنی آنکھوں سے نمی کو چُھپائے اسلحان نے سوہان کی پیٹھ سہلائی مگر اُس کی اب شاید ہمت جواب دے گئ تھی جو ہوش وحواس سے بیگانہ ہوچُکی تھی۔۔۔۔

سوہان

سوہان

سوہان میرے بچے کیا ہوا؟"اسلحان پریشانی سے اُس کا چہرہ دیکھتی اُس کو ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگی مگر بے سود

سوہ

"اسلحان

اسلحان۔۔۔۔

اسلحان جو سوہان کو لیئے باہر جانے والی تھی ساجدہ کو سامنے دیکھ کر اُس کے چہرے پر سایہ لہرایا تھا

تتت تم۔۔۔۔اسلحان کو دُکھ ہوا ساجدہ کو دیکھ کر

افففف خُدایا اسلحان"سوہان کو کیا ہوا ہے کیا اِتنی بے دردی سے تم نے ما

"ساجدہ کی نظر سوہان پر گئ تو کچھ کہتی کہتی رُک گئ کیونکہ اُس کا پھٹا ہوا یونیفارم کچھ اور کہانی بیان کررہا تھا۔۔۔۔۔

تمہارا شوہر۔۔۔۔اسلحان نے محض اِتنا کہا تھا اور ساجدہ پھٹی پھٹی نظروں سے اُس کا چہرہ تکنے لگی جہاں بے بسی کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا

اچچ اچھے ہوسس ہوسپٹل لل لے جانا سوہان کو۔۔۔۔۔ساجدہ سوہان کا ماتھا چومتی بس اِتنا بولی تھی جبکہ اُس کا ایسا انداز اسلحان کو ٹھٹکا ضرور ہوا تھا مگر وقت ایسا نہیں تھا کہ جو وہ اُس پر بحث کرتی"

اسلحان کے جانے کے بعد ساجدہ نے سرجھکائے فاحا کو دیکھا جس کا رونا اچانک تھم گیا تھا اور وہ اپنی آنکھیں کھولے اُس کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

سوہان تو تیا ہوا اے؟(سوہان کو کیا ہوا ہے)۔۔۔۔میشا چھوٹے سے لاؤنج میں آتی ساجدہ سے بولی

کچھ نہیں ہوا تم بیٹھو میں آتی ہوں۔۔۔"اور یہاں سے جانا نہیں بہن کے پاس رہنا۔ساجدہ اپنے چہرے پر زبردستی مسکراہٹ سجائے اُس کو جواب دیتی پہلے فاحا کو لیٹایا پھر میشا سے بولی تو اُس نے اپنا سراثبات میں ہلایا

"خود ساجدہ جب کمرے میں آئی تو انور کی سانسیں چیک کی جو کی بند تھی۔۔۔

اِنّا لِلّٰهِ وَاِنّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْن۔۔۔آہستہ آواز میں بڑبڑاتی ساجدہ نے اپنا ہاتھ اُس کے چہرے پر پھیرا تھا

مجھے جو پتا ہوتا تمہاری نیت کا تو کبھی کسی کو یہاں رہنے کی پناہ نہ دیتی۔۔۔۔۔۔ساجدہ افسوس سے اُس کا مرا ہوا چہرہ دیکھتی بولی "اُس کا دل درد سے بھرگیا تھا مگر آنکھ سے ایک آنسوو تک نہیں گِرا تھا"اِتنے سال اُس نے ایک ایسے شخص کے ساتھ گُزارے تھے جو بہت بُری خصلت کا مالک تھا اُس کو سوچتے ہوئے بھی شرم محسوس ہورہی تھی کہ ایک آٹھ سال بچی کو اپنی حواس کا نشانہ بنانے والا تھا یا بناچُکا تھا اِتنا اُس کو سمجھ نہیں آرہا تھا اُس نے بس ایک نظر اپنے شوہر کو دیکھا پھر اپنا منہ موڑ لیا تھا۔۔۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

ڈاکٹر میری بیٹی کو کیا ہوا ہے؟اسلحان نے فکرمندی سے ڈاکٹر سے پوچھا

ڈر کی وجہ سے بیہوش ہوئی ہے اِن شاءاللہ شام تک ہوش آجائے گا پر آپ کوشش کیجئے گا اُس کا پورا پورا خیال رکھنے کی کیونکہ جس تیزی سے اُس بچی کا دل دھڑک رہا تھا یہ کسی اچھی چیز کی علامت نہیں۔۔۔۔"ڈاکٹر نے پروفیشنل انداز میں کہا تو اسلحان نے اپنا سرجُھکالیا تھا اور کرتی بھی تو کیا۔۔۔.

سرجھکانے سے کچھ نہیں ہوتا آپ ماں ہیں اُس کی اُس کے اِرد گرد کیا ہورہا ہے یا کوئی کیا کرنا چاہ رہا ہے آپ کو یہ پتا ہونا چاہیے۔۔۔۔اُس کا جُھکا ہوا سر دیکھ کر وہ مزید بولی

میں آئیندہ بہت احتیاط کروں گی۔۔۔اسلحان نے کہا

احتیاط کرنی چاہیے بھی۔۔۔۔وہ اِتنا کہتی اُس کے برابر سے گُزرگئ تو اسلحان کے گہری سانس بھرتی سوہان کی طرف گئ جہاں وہ تھی۔۔

❤❤❤❤❤❤❤

کیا ہوا گاڑی کیوں روک دی؟تیس پینتیس سالہ پُروقار خاتون جو بیک سیٹ پہ بیٹھی اپنے موبائیل فون میں بزی تھی گاڑی رُکنے پر ڈرائیور سے بولی

میم میں چیک کرتا ہوں بیٹری کا مسئلہ ہوگیا ہو شاید۔۔۔ڈرائیور بیک ویو مرر سے اُس کو دیکھتا ہوا بتانے لگا

ہممم جلدی چیک کرو۔۔۔۔وہ اِتنا کہتی کھڑکی سے باہر کے مناظر دیکھنے لگی تو ایک جگہ دیکھ کر اُس کے دماغ میں کچھ کلک ہوا وہ بار بار آنکھیں جھپکائیں کچھ فاصلے پر موجود ایک بچے کو دیکھنے لگی جو شاید کسی سواری کے انتظار میں تھا اور اُس کے ایک ہاتھ میں ایک بڑا شاپرز تھا تو دوسرے ہاتھ سے وہ بار بار اپنے ماتھے پر آیا پسینہ صاف کررہا تھا۔۔۔

"کیا یہ زوریز ہے؟"مسلسل اُس پر نظریں جمائے وہ خود سے سوال گو ہوئی

یہ ہمارا زوریز نہیں ہوسکتا اُس کی ایسی پوزیشن بلکل بھی نہیں۔۔۔۔دور سے ہی اُس کے کپڑوں کا اندازہ لگاتی اپنے خیالات کی نفی کرنے لگی مگر دل مطمئن نہ ہوپایا

"اگر زوریز ہوا تو میرے پُکارنے پر فورن متوجہ ہوا۔۔۔ایک خیال کے آتے ہی وہ گاڑی سے باہر آئی تو تیز دھوپ میں اُس کو اپنا چہرہ جلتا محسوس ہوا

زوریز

زوریز۔۔۔

وہ اُس بچے کو(زوریز)کو آوازیں دینے لگی مگر فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے شاید وہ سُن نہ پایا تھا

زوریز۔۔۔۔

اِس بار تھوڑا آگے چل کر اُس نے اُونچی آواز میں پُکارا تو "زوریز چونک کر اپنے چاروں اِطراف سرسری نظروں سے دیکھنے لگا۔

میں یہاں۔۔۔۔اُس نے اپنا ہاتھ لہرایا تو زوریز کی اب کی نظر اُس پر گئ تھی وہ اُس کی طرف دیکھتا پہچانے کی کوشش کرنے لگا پھر اچانک اُس کی آنکھوں میں چمک در آئی تھی

پپ پھوپھو۔۔۔۔زوریز بھی جواباً اُونچی آواز میں کہتا ہاتھ میں پڑا شاپر وہی پھینک کر بھاگا تھا تو وہ جو صرف اپنا شک دور کرنے کے لیے آوازیں لگارہی تھی یوں اُس کو اپنی طرف بھاگ کر آتا دیکھ کر اُس کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا تھا۔۔۔۔

زوریز یہ تم؟

کیا حال بنایا ہوا ہے تم نے اپنا۔۔۔۔؟افففف میرے خُدایا مجھے یقین نہیں آرہا۔۔۔۔وہ گُھٹنوں کے بل زوریز کے پاس بیٹھتی کبھی اُس کے چہرے پر ہاتھ پھیرتی تو کبھی اُس کے ہاتھ جہاں جانے کتنے چوٹ کے نشان تھے اور اب تو کپڑوں پر سیاہ دھبے بھی تھے۔۔۔"زوریز کی ایسی حالت دیکھ کر اُس کی آنکھوں میں آنسوؤ آگئے تھے وہ بے ساختہ اُس کے ہاتھ چومنے لگی۔۔۔

پھوپھو آپ اب آئیں ہیں۔۔۔۔زوریز مسکراکر اُس کو دیکھتا بولا

سوری میری جان پر میں مجبور تھی"پر اگر جے مجھے تمہارا پتا ہوتا تو میں چلی آتی یہاں یا تمہیں وہاں بلوالیتی مجھے معاف کرنا میں سچ میں انجان تھی۔۔۔۔زوریز کو گلے لگاتی وہ یقین دلوانے والے انداز میں بولی

"پھوپھو روئے تو نہ میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔زوریز نے اُس کو روتا دیکھا تو اُس کی آنکھیں صاف کرنے لگا تو وہ بے اختیار نم آنکھوں سے مسکرائی

تم سڑک پر اکیلے یوں کیسے؟وہ اُس کو دیکھ کر سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔

چچا نے کہا تھا مہنگائی بڑھ گئ ہے اگر کھانا ٹھیک چاہیے تو خود کماؤ تو بس وہی کرنے کی کوششوں میں ہوں۔۔۔۔زوریز نے بتایا تو جانے کتنے بل ایک ساتھ اُس کے ماتھے پر نمایاں ہوئے تھے

واٹ؟؟؟؟زوریز کیا تم مذاق کررہے ہو۔۔وہ بے یقین نظروں سے اُس کو دیکھتی پوچھنے لگی

میرا حال دیکھے۔۔۔جواباً زوریز محض یہ بولا تو وہ اپنا سر پکڑنے لگی۔

چلو تم میرے ساتھ تم زوریز وجدان دُرانی ہو تمہارے مطلق جانے کیا خواب سجائے تھے بھائی اور بھابھی نے"اور یہاں تمہاری حالت فقیروں جیسی بنی ہے۔۔۔۔وہ دُکھ سے اُس کو دیکھ کر بول کر اُس کا ماتھا چومنے لگی۔۔

سلما پھوپھو میرا فقیروں جیسا حال تو نہیں۔۔۔۔زوریز کی سوئی محض اُس کی آخری بات پر اٹک گئ تھی۔

بلکل شکل سے شہزادے ہو تو کپڑوں سے فقیر۔۔۔۔اِس بار جان کر سلما نے اُس کو چِڑایا پھر دوبارہ بولی

اُونٹھ جتنا قد کرلیا ہے اگر عقل بھی ہوتی تو اچھا ہوتا"جواب دو کہ تم نے اپنی حالت کے بارے میں مجھے کال پر کیوں نہیں بتایا؟

کیسے بتاتا نمبر نہیں تھا اور ہر ایک اجنبی بن گیا تھا"ایسے میں آپ سے رابطہ کیسے کرتا؟زوریز نے وجہ بیان کی۔

ابھی چلو مال میرے ساتھ تمہاری حالت سُدھاروں میں تاکہ پتا بھی چلے تم ہو کون۔۔۔۔سلما اُٹھ کر بولی

آریان کو ساتھ لے جائے؟زوریز نے پوچھا

پہلے تمہارا کام ہوجائے مال کے بعد ہم سلون جائینگے اُس کے بعد گھر تاکہ جمال اور کمال سے دو دو ہاتھ ہوسکوں۔۔۔۔سلما اِس بار سنجیدگی سے گویا ہوئی

وہ آپ کو بھی ہرٹ کرسکتے ہیں۔۔۔۔زوریز نے کہا

بڑی بہن ہوں میں اُن کی اور تمہارا حساب تو میں ایسے لوں گی اُن سے کہ یاد رکھیں گے۔۔۔۔سلما نے کہا تو زوریز خاموش سا بس اُس کا چہرہ دیکھنے لگا

❤❤❤❤❤❤❤❤

اسلحان گھر آئی تو باہر لوگوں کا ہجوم دیکھ کر اُس کو جانے کیوں خوف محسوس ہوا"دیکھتے ہی دیکھتے کچھ پولیس والے اُس کے برابر سے گُزرگئے تو اسلحان نے پلٹ کر اُن کو دیکھا پھر اپنے قدم گھر کے اندر کی طرف بڑھائے تو میت دیکھ کر اُس کی آنکھوں میں نفرت بھرے تاثرات اُبھرے تھے۔۔"اُس نے ساجدہ کی تلاش میں نظریں گُھمائی تو وہ انور کی میت کے پاس بیٹھی پارہ پڑھنے میں مصروف تھی اور اُس کے کچھ فاصلے پر میشا سوئی ہوئی تھی"میشا پر نظریں پڑتے ہی اسلحان خود کو مضبوط کرتی ساجدہ کے پاس آئی اور سب سے پہلے میشا کو گود میں بھرا تو اُس کی آنکھ کُھل گئ

میں جارہی ہوں یہاں سے اپنے گھر کا ایڈریس چھوڑ کر جب تمہارا دل چاہے وہاں آجانا۔۔۔۔اسلحان اُس کے کان کے پاس اِتنا کہتی عورتوں کے درمیان سے گُزرنے لگی

"فاحا؟وہ جیسے ہی ساجدہ کے گھر کا دروازہ پار کرنے لگے تو میشا نے اچانک "فاحا"کا نام لیا تو اسلحان کے قدموں کو بریک لگی اُس نے چونک کر میشا کو دیکھا جس کی نظریں اُس پر جمی ہوئیں تھیں"اسلحان کا تو بہت دل چاہا اُس کو یہی چھوڑ جائے مگر سوہان کی اُس کے ساتھ اٹیچمنٹ دیکھ کر ناچاہنے کے باوجود اپنے قدم دوبارہ گھر کی طرف بڑھائے

❤❤❤❤❤❤❤

طبیعت سنبھلی لالی کی؟سجاد ملک کمرے میں داخل ہوتے ڈاکٹر سے بولے

وہ

ابھی ڈاکٹر کچھ کہنے والا تھا جب لالی قے کرنے لگی تو فائقہ جلدی سے اُس کے پاس آئیں

تمہیں یہاں کیوں آنے کا کہا تھا جبکہ میری بیٹی کی صبح سے اُلٹیاں ختم ہونے کا نام تک نہیں لے رہی۔۔۔سجاد ملک ڈاکٹر کو گھور کر سخت ناپسندیدہ انداز میں بولے

ًڈرپ لگے گی تو ٹھیک ہوجائے گی آپ ٹینشن نہ لے۔۔۔۔ڈاکٹر ڈر ڈر کر بولا

میرا منہ تکنے سے اچھا ہے جو کرنا ہے وہ کرو۔۔۔سجاد ملک اُس کو دیکھ کر حکیمہ لہجے میں بولے

شام کے وقت زیتون کے اُپر پانی پیا تھا شاید جبھی یہ حال ہے۔۔۔۔عروج بیگم تسبیح کے دانے گِراے لالی کو دیکھ کر بولیں

ایسی باتیں خودساختہ لوگوں نے سوچی ہوئیں ہیں ورنہ ایسا نہیں ہوتا۔۔۔۔نوریز ملک نے اُن کی بات کی نفی کی

"ہوتیں تو اور بھی باتیں نہیں مگر لوگوں نے مشہور کی ہے اور ملک خاندان کے پیروی۔۔۔نورجہاں سرسری لہجے میں بولی اُن کے شوہر فاروق ملک نے تند نگاہوں سے اُن کو گھورا تھا جس پر اُنہوں نے منہ کے زاویئے بگاڑے

"ہوتا ہے یا نہیں مگر میری بچی دیکھو کیا حالت ہوگئ ہے اُس کی.۔۔۔نورجہاں کو نظرانداز کیے فائقہ نوریز ملک کو دیکھ کر بولی

کونسی بڑی بات ہے بچیاں تو منحوس ہوتیں ہیں اگر لالی کو کچھ بھی ہوا تو صدقہ دے دینا کہ بلا ٹل گئ۔۔۔عروج بیگم نے کہا تو ہر کوئی حیرت سے اُن کو دیکھنے لگا مگر دو شخصیت نے بے ساختہ اپنی جگہ پہلو بدلا

ماں جی اللہ کا نام لے۔۔۔۔نورجہاں کو اُن کی بات پسند نہیں آئی تھی

کبھی اپنی اولاد کے بارے میں ایسا کہیں گی جیسا میری بیٹی کے بارے میں بولا ہے۔۔۔فائقہ طنز لہجے میں اُن سے بولی

کیا کبھی تم اپنی بچی کو منحوس بول سکتی ہو؟"جیسے اسلحان کی بیٹیوں کو کہا؟"اور ہاں نوریز نے۔۔۔"اب کی عروج بیگم نے نوریز کو دیکھا تو وہ فورن سے اُن کی طرف متوجہ ہوا

منحوس صرف بیٹیاں نہیں ہوتی"عورت تو عورت ہوتی ہے جو پہلے بچی پھر لڑکی اُس کے بعد عورت بنتی ہے تو اگر لڑکیاں منحوس ہوتیں ہیں تو تمہیں پیدا کرنے والی یعنی میں بھی منحوس ہوں"ایک دفعہ کا واقعہ ہے

"حضرت موسیٰ علیہ سلام، نے اٙللّٰہ تعالیٰ سے پوچھا. یااٙللّٰہ جب آپ اپنے بندے پر مہربان ہوتے ہیں. تو کیا عطا کرتے ہو. اٙللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا.

اگر شادی شدہ ہو تو بیٹی، حضرت موسیٰ نے پھر کہا. یا اٙللّٰہ اگر ذیادہ مہربان ہو تو. اٙللّٰہ تعالیٰ نے پھر فرمایا. تو میں دوسری بھی بیٹی عطا کرتا ہوں. حضرت موسیٰ نے پھر فرمایا. یا اٙللّٰہ اگر سب سے ذیادہ بہت ذیادہ مہربان ہوتے ہو تو پھر. تو اٙللّٰہ تعالیٰ نے پھر فرمایا. ٰ اے موسیٰ میں تیسری بھی بیٹی عطا کرتا ہوں. اٙللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ جب میں اپنے بندے کو بیٹا عطا کرتا ہوں. تو اس بیٹے کو بولتا ہوں جاو اور اپنے باپ کا بازو بنو. اور جب بیٹی عطا کرتا ہوں. تو مجھے اپنی خُدائی کی قسم کہ میں اس کے باپ کا بازو خود بنوں گا.

عروج بیگم اپنی بات کہہ دینے کے بعد اُٹھ کر کمرے سے باہر چلی گئیں تھیں مگر اُن کے جانے کے بعد پانچ منٹ تک کوئی بول نہیں پایا تھا اور نہ نظریں اُٹھائے ایک دوسرے کو دیکھنے کی ہمت کی

ماں جی جوش میں تھی تم زیادہ سوچو مت میں نے بات کی ہے اِس ماہ کی آخری تاریخوں میں تمہارے شادی خاندانی لڑکی سے ہوگی۔۔۔سجاد ملک نوریز ملک کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے تو اُنہوں نے محض ایک گہری سانس ہوا سپرد کی آجکل اُن کو اپنے سینے پر ایک بوجھ محسوس ہوتا تھا ایک عجیب بوجھل پن کا شکار تھے وہ

❤❤❤❤❤❤

پھوپھو آپ آگئ۔۔۔۔۔آریان جو لان میں پودوں کو دیکھ رہا تھا گھر کے اندر ایک گاڑی سے سلما اور زوریز کو باہر آتا دیکھا تو پرجوش انداز میں اُس کی طرف لپکا تھا۔

آریان میری جان میرا پیارا بچہ۔سلما اُس کو اپنی بانہوں میں بھرے چٹاچٹ اُس کے گال چومے تھے

گود سے تو اُتارے میں کونسا بچہ ہوں۔۔۔۔آریان نے منہ بنایا تو وہ ہنستی آریان کو نیچے اُتارا

تمہارے چچا والے گھر پر ہیں نہ؟سلما آریان کے بال بگاڑے اُس سے پوچھنے لگی

جی ابھی آئے ہیں پر کیا آپ ہمیں لینے آئی ہیں؟آریان اُمید بھری نظروں سے اُس کو دیکھ کر پوچھنے لگا تو زوریز نے بھی اپنی نظریں اُس پر جمائی

ہاں مگر یہاں سے جب کام ختم ہوجائے گا تب۔۔۔۔سلما نے مسکراکر کہا تو آریان کی آنکھیں چمک اُٹھی

ابھی چلو اندر۔۔۔۔سلما دونوں کو لیئے گھر کے اندر داخل ہوئی تھی تو سب گھروالے اُس کو ہال میں بیٹھے نظر آئے۔

ازکیٰ آپا آپ۔۔۔۔۔کمال اور جمال کی نظر جب سلما پر پڑی تو وہ بے ساختہ اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑے ہوئے

ہاں میں کیوں کیا میرا آنا کسی کو پسند نہیں آیا؟سب کی اُڑی رنگت دیکھ کر وہ طنز ہوئی

"ایسس ایسا تو کچھ بھی نہیں آپا۔۔۔جمال صاحب جلدی سے بولے

جی اور آپ آئے بیٹھے تو سہی۔۔۔۔۔مصرت بھی جھٹ سے گویا ہوئی

اِن دونوں کا سامان پیک کراؤ میں اِنہے اپنے ساتھ لے جاؤں گی اور تم دونوں کو شرم آنی چاہیے یتیم بچوں کا حق کھارہے ہو اُس پر عیش کررہے ہو۔۔۔سلما اُن کا مکروہ چہرہ دیکھ کر پھٹ پڑی

آپ کو ایسا کس نے کہا۔۔۔۔کمال صاحب یکدم انجان بنے

کسی کے کچھ بھی کہنے کی ضرورت کیا ہے؟"جب سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہے۔۔۔۔کہنے کے ساتھ ہی اُس نے زوریز کا ہاتھ اُن کے سامنے کیا تو اُن کا گلا خشک ہوا جبکہ آج اُس کے ہاتھوں میں نشان دیکھ کر آریان بھی پریشان سا زوریز کو دیکھنے لگا جس کا چہرہ ہر احساس سے پاک تھا

آپا

مجھے وجدان بھائی کی پراپرٹی کے کاغذات چاہیے۔۔۔جمال صاحب کچھ کہنے والے تھے جب سلما اُن کی بات کاٹ کر بولی

زوریز مارا مارا اپنی مرضی سے پِھر رہا تھا یہاں تو ہم نے اُس کو ہر سہولتیں فراہم کی تھیں۔۔۔کمال صاحب جلدی سے بولا

یہ جھوٹ ہے۔۔۔۔آریان جھٹ سے بولا تھا

تم چُپ کرو۔۔۔نصرت نے اُس کو آنکھیں دیکھائی

یہ چُپ نہیں کرے گا میں جو چاہتی ہو اور جو لینے آئی ہوں وہ میرے سامنے کرے ورنہ مجھے پولیس کو کال کرنی ہوگی۔۔۔سلما کا انداز دھمکی آمیز تھا

آپا ہم آپ کے بھائی ہیں سگے اور آپ ہم سے بیگار رہی ہیں وہ بھی اِن کی وجہ سے جو آپ کے سگے نہیں ہے۔۔۔کمال صاحب نے اُن کو اپنی طرف کرنا چاہا

وجدان بھائی نے ہم کو ہمارا حصہ دے دیا تھا اب جو کچھ بھی ہے وہ زوریز اور آریان کی ملکیت ہے دوسرا میں ایک ہی بات کو بار بار کہہ کر پاگل نہیں ہوجانا چاہتی"بہت کرلی تم دونوں نے منمانی مگر اب بس۔۔۔۔سلما سخت لہجے میں گویا ہوئی تھی

آپا ہم نے بہت تمیز کا مُظاہرہ کرلیا پر اب لگتا ہے ہمیں آپ کو یہاں سے چلے جانے کا کہہ دینا چاہیے۔۔۔کمال صاحب اِس بار ناگوار لہجے میں بولے

اوو ریئلی؟جانتے نہیں میں کون ہوں؟تم لوگوں کی بڑی بہن ازکیٰ سلما افرہیم ہوں میں۔۔۔۔سلما اُس کی بات سن کر جیسے محفوظ ہوئی

جی۔۔۔جمال صاحب بھی میدان پر اُترے

شرافت سے مجھے سب کچھ دو ورنہ سڑک پر لے آؤں گی میں تم سب کو۔۔۔ سلما نے غُصے سے کہا

آپا آپ بیٹھے تو سہی اِتنے سال بعد پاکستان آئیں ہیں اور کیا باتیں لیکر بیٹھ گئ ہیں۔۔۔نصرت نے بات سنبھالنا چاہی

میں پہلے رہنے آئی تھی مگر اب بیٹھنا بھی گوارا نہیں مجھے تم سب نے مل کر اِن معصوم بچوں کے ساتھ کیا ہے اُس کا حساب اللہ ضرور لے گا اور میں تم لوگوں کو ویسے ترساؤں گی جیسے یہ دونوں ترسے تھے۔۔۔۔سلما نخوت سے بولی تو اُن کے پسینے چھوٹے تھے

ہمیں معاف کردو آپا ہم دوبارہ ایسا نہیں کرینگے مگر آپ پلیز یہ پراپرٹی کے کاغذات کو چھوڑے اُس کا آپ نے کرنا کیا ہے۔۔۔کمال صاحب سنبھل کر بولے

کمال میں پولیس کو انوالو نہیں کرنا چاہتی۔۔"اگر وہ انوالو ہوئے تو ہماری اگلی مُلاقات کورٹ میں ہوگی۔۔سلما نے ڈھکے چُھپے لفظوں میں بہت کچھ باور کروانا چاہا تھا"مگر اُس کے اِتنے الفاظوں پر جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا تھا

❤❤❤❤❤❤❤

سوہان کو ہوسپٹل سے ڈسچارج ملا تو اسلحان اُن تینوں کو لیئے اسلام آباد شفٹ ہوگئ تھی جہاں اُن کو رہے ہوئے تین ماہ سے زائد عرصہ ہوگیا تھا مگر اِن تین ماہ میں سوہان نے بولنا مکمل طور پر بند کرلیا تھا"اور نہ اب وہ پہلے کی طرح فاحا کو وقت دیتی تھی اپنی اِس حالت میں وہ فاحا کی ہر ضرورت کا خیال تو رکھتی تھی مگر باتیں نہیں کیا کرتیں تھی اور نہ کوئی غیر ضروری وقت پر اُس کو گود میں اُٹھاتی تھی اسلحان نے وہاں اسلام آباد میں ایک پرائیویٹ اسکول میں نوکری کرنا شروع کی تھی جہاں پر سوہان اور میشا کا ایڈمیشن بھی اُس نے لیا تھا شروع کے دن تو سوہان ہر وقت چیخیں مارتی تھی اور بیڈ سے اُٹھا بھی نہیں کرتی تھی کیونکہ ہر وقت اُس کو یہی دھڑکا لگا رہتا تھا کہ ابھی انور کہی سے آئے گا اور اُس کو ماردے گا۔۔"اسلحان نے اپنی طرف سے تو ہر ممکن کوشش کی تھی کہ سوہان پہلے جیسی ہوجائے مگر وہ اُس کو دیکھتی تک نہیں تھی بس ہر وقت اکیلے بیٹھی رہتی تھی۔۔۔"مگر اب پچھلے کچھ دِنوں سے اُس نے اسکول جانا شروع کیا تھا جس پر اسلحان کو اُمید تھی کہ سوہان آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ سب بھول جائے گی۔۔"اُس کو ابھی بھی یہی لگتا تھا کہ وہ بچی ہے اور بچوں کو زیادہ دیر تک کچھ یاد نہیں رہتا

"دوسری طرف سلما نے کمال اور جمال سے سب کچھ چھین کر زوریز اور آریان کو لیکر پاکستان سے چلی گئ تھی مگر اُس کے پیچھے جمال اور کمال صاحب کا حال بُرا ہوگیا تھا اپنا خود کا کوئی کاروبار تو اُن کا تھا نہیں اور جو کچھ تھا وہ سلما لے گئ تھی جس پر وہ عالیشان گھر سے ایک کراے کے گھر میں آگئے تھے جہاں آئے روز گیس اور بجلی کا مسئلہ چلتا رہتا ایسی حالت سے بیزار ہوکر نصرت اور مصرت اُن دونوں کو چھوڑ کر اپنے میکے چلی گئیں تھیں"اِرادہ تو اُن کا اب کبھی واپس آنے کا نہیں تھا مگر گھروالوں نے جیسا رویہ اُن کے ساتھ اختیار کیا تھا کہ وہ واپس چھوٹے گھر میں آگئ تھی جہاں سہولت کا کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔۔"کبھی کبھی تو اُن کا دل چاہتا دیوار کی اینٹ نکال کر اُن کو کھاجائے۔۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

اسلحان اُتوار ہونے کی وجہ سے صحن میں مشین لگائے کپڑے دھونے میں مصروف تھی جب باہر گیٹ پر بیل ہوئی تو اُس نے چونک کر گیٹ کو دیکھا پھر اپنا حُلیہ دیکھ کر اُس نے ایک چادر اُٹھائی اور اچھے سے لپیٹ کر گیٹ کے پاس آئی

آپ کون؟اپنے گھر کے باہر دو آدمیوں کو دیکھ کر اسلحان نے ناسمجھی سے اُن کو دیکھ کر پوچھا تو اسلحان کے پوچھنے پر وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔۔۔

جی وہ ہمیں پتا چلا ہے کہ آپ کے گھر میں کوئی مرد نہیں رہتا آپ اکیلی عورت تین بچیوں کے ساتھ رہتی ہیں تو سوچا پڑوسی ہونے کی خاطر ہمارا فرض بنتا ہے کہ آپ کی خیر وخبر لے۔۔۔۔وہ سرتا پیر اُس کو دیکھ کر خوشامد ہوئے تو اسلحان کا گلا خشک ہوا تھا وہ دونوں اُس کو سہی نہیں لگے تھے اُن کی آنکھوں میں ایک عجیب سا تاثر تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اپنی نظروں ہی نظروں میں اُگلنے کا اِرادہ رکھتے ہو

شکریہ مگر اُس کی ضرورت نہیں۔۔۔۔اسلحان خود کو کمپوز کرتی کہہ کر دروازہ بند کرنے لگی جب دوسرے آدمی نے اپنا پاؤں گیٹ کے درمیان ڈال کر اُس کی کوشش کو ناکام بنایا

یہ کیا بدتمیزی ہے؟اسلحان نے اپنے لہجے کو سخت بنانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر لہجے میں کپکپاہٹ اِتنی تھی کہ ناکام ہوئی

آپ گھبرا کیوں رہی آپ کے پڑوسی ہیں بس ایک گلی چھوڑ کر دوسری گلی میں آپ ہمیں پائیں گی اور ہم تو بس آپ کی مدد کرنا چاہ رہے بھلا ایک اکیلی عورت کیسے سب کچھ سنبھال پائے گی.۔۔اپنا پاؤں دروازے سے ہٹائے وہ بڑی معصومیت سے بولا

"اور نہیں تو کیا بس آپ کو جب کبھی ہماری مدد کی ضرورت پڑے آپ آجانا ہمارے پاس۔. پہلے والے نے بھی اپنے ساتھی کی حمایت کی تو اِس بار اسلحان بنا کچھ بھی کہے بس زور سے دروازہ بند کرلیا تھا اُس کا دل تیز رفتار سے دھڑک رہا تھا وہ جان گئ کہ یہاں اکیلا رہنا اُس کے لیے آسان نہیں مگر جلدی خود کو سنبھالے وہ دوبارہ اپنے کام میں جت گئ ۔۔

اور پھر یہ سلسلہ شروع ہوا تو ختم نہیں ہوا تھا"آئے دن کوئی نہ کوئی مرد اُس کے گھر کی گیٹ پر آکر کسی مدد کی پیش کش کرلیا کرتا تھا اور کچھ نے تو اُس کے ساتھ بدتمیزی کرنے کی بھی کوشش کی تھی جس پر اسلحان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا اُس نے سوچ لیا تھا کہ وہ یہ گھر چھوڑ کر کسی اور اچھے محلے میں کراے پر ہی سہی مگر یہاں نہیں وہاں رہے گی۔۔۔۔"مگر پھر سوہان اور میشا کے امتحان قریب ہوئے تو اُس نے گھر بدلنے کا اِرادہ ملتوی کیا کیونکہ وہ جانتی تھی اِس میں گھر بدلا گیا تو ظاہر سی بات ہے اُس کو اسکول بھی چھوڑنا پڑے گا اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ اِس درمیان اُن دونوں کی پڑھائی کا حرج ہو مگر شاید حرج ہونا تھا جو رات کے وقت کوئی اُس کے گھر کی بیل زور سے بجانے لگا تھا جس سے جانے کتنے خُدشات اُس کے اندر کُنڈلی مارے بیٹھ گئے تھے۔۔"کسی انہونی کے ڈر سے اسلحان بنا کچھ سوچے سمجھے اپنا سامان پیک کرنے لگی تھی۔۔


"کیا کبھی ہمارا اپنا کوئی گھر نہیں ہوگا؟"ہم کب تک یہاں سے وہاں رُلتے پِھیرینگے؟"اسلحان جو سامان بیگ میں ڈال رہی تھی سوہان کی آواز پر حیرت اور خوشی کی ملی جُلی کیفیت میں اُس کو دیکھا تھا جس نے آج ایک سال بعد اُس سے کوئی بات کہی تھی"اُس کی خاموشی دیکھ کر اسلحان کو تو لگتا تھا کہ سوہان شاید اب کبھی اُس سے بات نہیں کرے گی مگر آج اُس کا اندازہ غلط ثابت ہوا تھا

سوہان؟اسلحان اُس کے پاس آتی بے اختیار اُس کا ماتھا چومنے لگی

بتائے آپ؟سوہان نے دوبارہ اپنا سوال دوہرایا

یہ آخری بار ہے پرومس۔۔۔۔اسلحان نے یقین دُوہانی کروائی تو سوہان اُس کو غور سے دیکھتی بنا کوئی بات کرے کمرے سے نکل گئ۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

میں اک زیست عام سی،

اک قصۂ نا تمام سی. . .

نہ لہجہ بے مثال ہے ،

نہ بات میں کمال ہے ، . .

ہوں دیکھنے میں عام سی ،

اداسیوں کی شام سی، . .

جیسے ایک راز ہوں ،

خود سے بے نیاز ہوں ، . .

نہ دلکشی سے رابطہ ،

نہ شہرتوں کا ضابطہ ، . .

مجنوں ہوں نہ ہیر ہوں ،

مرشد ہوں نہ پیر ہوں ، . .

میں پیکر اخلاص ہوں ،

وفا دعا اور آس ہوں ، . .

میں بس اک خود شناس ہوں ،

اب تم ہی کرو یہ فیصلہ ! ! !

میں ہوں نا انسان عام سی؟

اداسیوں کی شام سی ، . .

ہزاروں عام لوگوں میں__

میں بے حد عام سا لڑکی _ _

بہت ہی عام سپنوں سے__

سجی آنکھیں رہیں میری _ _

میرا لہجہ میری باتیں__

بہت ہی عام ہیں لیکن_ _ _

میں جذبے پاک رکھتی ہوں_ _

محبت خاص رکھتی ہوں_ _

محبت خاص رکھتی ہوں_


تم سوہان ہو نہ؟سوہان اپنے نئے گھر کے دروازے کے پاس اکیلی بیٹھی تھی جب کوئی اُس کے پاس آکر بولا تو سوہان نے اپنا سراُٹھایا جہاں میشا کی عمر کا ایک لڑکا مسکراکر اُس کو دیکھ رہا تھا اُس کی نظروں میں تو شُناسائی کی رمق تھی وہ غور سے اُس کو دیکھتا جیسے اپنی بات کی تصدیق کرنا چاہ رہا ہو"پر سوہان کی آنکھیں خالی تھی وہ بس یک ٹک اُس کو دیکھتی پہچاننے کی کوشش کررہی تھی پر اُس کو کچھ یاد نہیں آیا

"کیا تم مجھے بھول گئ ہو؟اُس کے لہجے میں افسوس تھا

تم کون؟سوہان نے بلآخر اُس سے پوچھ لِیا

میں عاشر احمد یاد ہے بس میں تمہاری بہن کو میری امی نے دودھ پِلایا تھا۔۔۔عاشر نے بتایا تو سوہان کو اب سب کچھ یاد آیا تھا

ہاں مگر تم یہاں؟"اور اِتنے وقت بعد بھی مجھے پہچان لیا۔۔۔۔سوہان نے حیرت سے اُس کو دیکھا

ہم تو یہاں رہتے ہیں پہلی بار پر تمہیں یہاں دیکھا ہے اور"میری میمری بہت اچھی ہے سب یاد رہتا ہے مجھے۔۔۔عاشر نے مزے سے بتایا

کیا واقع تم یہاں رہتے ہو؟"تمہاری امی کہاں ہے؟سوہان کا اچانک موڈ اچھا ہوگیا تھا جبھی اُس نے بات کرنا شروع کی۔۔۔۔

میری امی کی کچھ ماہ پہلے وفات ہوگئ تھی سیڑھیوں سے گِرگئ تھیں وہ میں اور میرا بھائی اب اپنی بوا کے پاس رہتے ہیں۔۔۔عاشر کا لہجہ بُجھ گیا تھا جس کو سوہان نے صاف محسوس کیا تھا

تمہارے بابا؟سوہان نے دوسرا سوال پوچھا

وہ بھی۔۔۔عاشر نے بتایا تو سوہان چُپ ہوگئ تھی

اچھا تمہاری بہن کہاں ہے؟"ایک بار میں نے اپنی ماں سے بہن کی فرمائش کی تو اُنہوں نے کہا جس بچی کو میں نے دودھ دیا ہے وہ اب سے تمہاری دودھ شریک بہن ہے۔۔۔عاشر اچانک پرجوش لہجے میں بولا تو"فاحا کے ذکر پر سوہان مسکرائی

وہ اندر ہے سورہی ہے ویسے اب وہ آہستہ آہستہ چلنے کی کوشش کرتی ہے اور تھوڑا بہت بول بھی لیتی ہے۔۔۔۔سوہان نے اُس کو فاحا کے بارے میں تفصیل سے بتایا جو عاشر غور سے سُننے لگا

❤❤❤❤❤❤

کچھ وقت بعد!

آتی ہوں صبر کرو دروازہ توڑنا ہے کیا بھئ۔۔۔۔ایک خاتون بار بار گیٹ پر ہوتی بیل پر زچ ہوتی بولیں

السلام علیکم بوا"یہ لے اپنی زمیداری۔۔۔۔اُنہوں نے جیسے ہی دروازہ کھولا تو اسکول یونیفارم میں ملبوس گیارہ سالہ میشا نے چھ سالہ فاحا کی طرف اِشارہ کیے کہا

وعلیکم السلام "سوہان کہاں ہے؟فاحا کو اپنی گود میں اُٹھائے میں اُنہوں نے میشا سے سوال کیا

وہ جلدی اسکول چلی گئ جب یہ روندو سوئی ہوئی تھی اور خیر سے میں ایک ویلی لڑکی ہوں تو سوچا اِس کو آپ کے پاس چھوڑ آؤں۔۔۔میشا نے ہزار منہ کے زاویئے بنائے کہا

اوو ہو تو تمہاری امی اِس کو اپنے ساتھ کیوں نہیں لیکر جاتی تمہارا بھی تو آج پرچہ تھا نہ۔۔۔۔بوا نے اُس کو دیکھ کر کہا

پرچہ تھا نہیں ہے اور اگر آپ فاحی سے تنگ ہے تو مجھے میری بہن دے میں اپنے ساتھ اسکول لے جاتی ہوں کیا پتا میرے ساتھ اِس کو دیکھ کر اسکولوں والے پیپر نہ دینے دے اور اِسی بہانے میرا بھلا ہوجائے۔۔۔میشا آنکھوں میں چمک لائے بولی تو بُوا نے ایک چپت اُس کے ماتھے پر لگائی

اسکول بھاگو جلدی۔۔۔۔۔بُوا نے اُس کو آنکھیں دیکھائی

جاتی ہوں فاحی کو پیار کرنے تو دے۔۔۔۔میشا نے کہنے کے ساتھ ہی ایک زور کا بوسہ فاحا کے گال پر دیا تو وہ بھاں بھاں کرتی رونا شروع کرگئ تھی جس پر بُوا نے اپنا سر پیٹا تھا وہی میشا نے ڈور لگائی تھی

"اللہ پوچھے تم لڑکی۔۔۔بُوا نے پیچھے سے کہا تھا میشا تو جاچُکی تھی


"اوو ہو فاحا تو اچھی بچی ہے وہ روتی نہیں وہ اب ناشتہ کرے گی۔۔۔"پھر ہم کارٹوں دیکھے گے اُس کے بعد مُحلے کی آنٹیاں آئے گی تو گپ شپ کرینگے۔۔۔بُوا روتی ہوئی فاحا کو اپنے ساتھ کچن میں لاتی پچکارنے لگی۔۔

"میشو گندی۔۔۔۔فاحا نے سوں سوں کرکے کہا

بہت گندی ہے دیکھو نہ کیسے میری جان کو رُلایا اب میرے بچہ یہاں بیٹھے گا اور بتائے گا کہ ناشتہ میں کیا کھائے گا۔۔۔۔اسٹول پر اُس کو بیٹھائے وہ بولی جبکہ اِس درمیان فاحا کا رونا ختم ہوگیا تھا کیونکہ وہ بُوا سے کافی اٹیچڈ تھی جو کافی باتونی قسم کی عورت تھی اور اگر کوئی بچہ بھی دیکھ لیتی تو باتوں کا انبار اُس کے سامنے کھول دیا کرتی تھی اور شروع سے جب فاحا اسکول نہیں جاتی تھی تو سوہان اُس کو بُوا کے پاس چھوڑ جایا کرتی تھی اور اُن کو اِن کا بولتا سُن کر فاحا کو بھی زیادہ بولنے کی بیماری لگ پڑی تھی چھ سال کی ہونے کے باوجود وہ جو باتیں کرتیں تھی اُس کو سن کر سوہان کو اپنے آپ پر افسوس ہوتا تھا کہ فاحا کو بُوا کے پاس اِتنا وقت چھوڑا کیوں؟"کیونکہ ایک لمحے کے لیے بھی فاحا کی زبان کو بریک نہیں لگتی تھی جانے ایک ہی بات کو کتنی مرتبہ وہ دوہرایا کرتی تھی۔۔۔"اور اسکول میں جب سبق پڑھنے کا وقت آتا تھا تو وہ ٹیچر کو سبق سُنانے کے علاوہ ہر وہ بات کرتی تھی جو وہ کرسکتی تھی۔۔۔


"فاحا کو بھوک لگی ہے۔۔۔۔بُوا کی بات پر فاحا نے جھٹ سے کہا

ہاں میں ابھی لائی۔۔۔بُوا اُس کے صدقے واری ہوئی

ویسے فاحا خود ناشتہ کرے گی یا بُوا کے ہاتھوں سے کرے گی۔۔۔۔بُوا نے اُس کے گال کھینچ کر پوچھا

بُوا کے ہاتھ سے۔۔۔۔فاحا نے کہا جبھی وہاں دوعورتیں آئیں تھیں۔۔

ہائے بوا زاہدہ ظلم ہوگیا مجھ پر میرا شوہر تو پہلے ہی مرگیا تھا اب بیٹے نے بھی گھر سے نکال دیا۔۔۔ایک خاتون نے آکر ہی اپنا رونا رویا تھا بُوا نے اُفسوس سے اُس کو دیکھا جبکہ فاحا بھی اپنی آنکھوں کو پورا کھولے دلجمعی سے اُن کی باتیں سُننے لگی تھی۔۔"یہی تو ہوتا تھا وہ صبح سے دو پہر تک بُوا کے ساتھ ہوتی تھی جن کے پاس ہمسایوں سے کوئی نہ کوئی آتا اور گپ شپ میں کرنے لگ پڑتے اُن کے ساتھ کوئی بچہ تو ہوتا نہیں تھا جن کے ساتھ فاحا کھیلے تو مجبوراً چھ سالہ فاحا کو بھی اُن عورتوں کی باتیں سُننے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں ہوتا تھا اور اب تو اُس کو بھی مزہ آتا تھا بڑی عورتوں کے درمیان بیٹھ کر اُن کی باتیں سُننے میں

❤❤❤❤❤❤❤❤

میری فاحا کو کیا ہوا ہے؟"آج کافی چُپ چُپ سی ہے۔۔۔چودہ سالہ سوہان نے میشا کے سامنے نوڈلز کا باؤل رکھ کر فاحا کو اپنی گود میں بیٹھائے پوچھا

میں بھی دس منٹس سے چُپ ہوں مجھ سے بھی پوچھوں۔۔۔۔نوڈلز کھاتی میشا نے مسکین لہجے میں کہا

مجھے پتا ہے تمہاری خاموشی کی وجہ۔۔۔سوہان فاحا کے گال چومتی بولی

اچھا کیا ہے۔۔۔میشا نے پرتجسس لہجے میں اُس سے پوچھا

آپ نے صبح برش نہیں کیا تھا۔۔۔جواب میں فاحا نے کہا تو میشا کا مُنہ حیرت سے کُھل گیا تھا اور وہ آنکھیں چھوٹی کیے فاحا کو گھورنے لگی جو اب خود کو سوہان میں چُھپانے کی کوشش کررہی تھی

یہ میرے ہاتھوں سے مار کھائے گی۔۔ میشا نے دانت پیسے

مار کیوں؟"سہی تو بول رہی ہے فاحا" تم نے خود ہی تو بتایا تھا تمہیں تمہارا برش نہیں مل رہا تھا تو ایسے ہی اسکول چلی گئ تھی۔۔۔سوہان اُس کو گھور کر بولی تو میشا یہاں وہاں دیکھنے لگی جیسے کچھ سُنا ہی نہ ہو۔۔

میری تو سُنے۔۔۔فاحا نے اپنے چھوٹے ہاتھوں سے اُس کا گال چھو کر اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا

تمہیں ہی تو سُننے بیٹھی ہوں بتاؤ میری فاحا کو کیا چاہیے۔۔۔؟سوہان اُس کو دیکھ کر بولی

ریموٹ کنٹرول والی گُڑیا چاہیے جو پورے ایک ہزار کی ہے۔۔۔۔میشا کی زبان میں کُھجلی ہوئی تو سوہان نے چونک کر فاحا کو دیکھا جس نے جھٹ سے اپنا سر نفی میں ہلایا تھا

تو فاحا کو اور کیا چاہیے؟سوہان نے اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیرا

سوہان پلیز یہ مت بولو فاحا کو کیا چاہیے؟"فاحا کو چُپ کیوں لگی ہے؟"اگر ایسے ہی تم اِس سے مخاطب ہوئی تو جب یہ بیس کی ہوجائے گی تو بھی یہ بولے گی۔۔"آج فاحا یونی جائے گی"آج فاحا پروفیسر کو اسائمنٹ دیکھائے گی۔۔۔۔میشا نے دونوں کی نقل اُتارے کہا تو فاحا نے رونی صورت بنائے بولی

ایسا کچھ نہیں ہوتا ویسے بھی بڑے لوگ بچوں سے ایسے بات کرتے ہیں۔۔۔سوہان نے اُس کی بات پر انکار کیا

لگی شرط؟میشا نے اپنا ہاتھ اُس کے سامنے کیا

کونسی؟سوہان نے ناسمجھی سے اُس کو دیکھا

اگر جو میں بول رہی ہوں وہ غلط ہوا تو میں تمہیں آئسکریم کھلاؤں گی اپنے ہاتھوں سے اور اگر میں سہی تو تم مجھے رات کا ڈنر کرواؤں گی اپنے پیسوں سے"بتاو پھر منظور ہے؟میشا نے دانتوں کی نُمائش کیے کہا تو سوہان نے تاسف سے اُس کو دیکھا پھر فاحا کی طرف متوجہ ہوئی جس نے اپنے دونوں کانوں پر ہاتھ رکھے تھے"یہ ایک طرح سے اُس کی ناراضگی کا اِشارہ تھا۔۔

کیا ہوا ہے فاحا؟سوہان نے اُس کے ہاتھ کانوں سے ہٹائے پوچھا

آپو میں نے رات کو خواب دیکھا تھا کہ میرا شوہر مر گیا ہے اور بیٹے نے گھر سے نکال دیا ہے۔۔۔"اور میں پھر بہت رو رہی تھی۔۔۔۔فاحا نے آنکھیں پِٹپٹائے معصومیت کے رکارڈ توڑ کر بتایا تو سوہان ہونک بنی اُس کا معصوم چہرہ تکنے لگی جبکہ میشا نوڈلز کھانا چھوڑ کر آنکھیں پھاڑے فاحا کو دیکھ رہی تھی۔

اووو بہن ابھی سے کہانیاں بنانے لگی ہو"کیا مستقبل میں رائٹر بننا ہے؟میشا خشمگین نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولی تو فاحا اپنی چھوٹی پیشانی پر لائے اُس کو دیکھنے لگی کیونکہ وہ میشا کی بات سمجھ نہیں پائی تھی مگر اُس کی ایسی حرکت پر سوہان نے ہنس کر اپنے گلے لگایا تھا جبکہ اُن دونوں کو آپس میں ایسے چپکا ہوا دیکھ کر میشا منہ کے زاویئے بناتی اُن کے سر پر نازل ہوتی اپنے وجود کو ڈھیلا چھوڑ کر خود کو اُن کے اُپر گِرایا تو اُس کا پورا وزن چھ سالہ فاحا پر پڑا تھا مگر ہاتھ اُس کے سوہان کے بالوں کو بگاڑنے میں تھے مگر جب اُس نے فاحا کا رونا زور سے محسوس کیا تو لب دانتوں تلے دبائے جلدی سے اُٹھ کر نوڈلز کا باؤل اُٹھائے اپنے کمرے کی طرف بھاگی تھی

اللہ پوچھے تم سے میشو۔۔۔۔اپنے چہرے پر آئے بالوں کو سنوارتی سوہان نے دانت پیس کر اُس سے کہا تھا پھر فاحا کو چُپ کروانے لگی۔۔۔

پوچھے گی تو آپ اپنے کلائنٹس سے مستقبل کی بیریسٹر صاحبہ۔۔۔۔میشا واپس آتی ڈرامائی انداز میں کہتی پھر سے غائب ہوگئ تھی"اُس کے جانے کے بعد سوہان کے تاثرات بھی کافی سنجیدہ ہوگئے تھے۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

میشو پانی پِلانا۔۔۔۔اسلحان دیر کو گھر آتی اُونچی آواز میں میشا سے بولی تو چھ سالہ فاحا جو پانی کی بوتل لیکر سوہان کے پاس جانے لگی تھی چونک کر اسلحان کو دیکھا جو صوفے پر بیک ٹکائے لیٹنے والے انداز میں بیٹھی تھی"اُس کو ایسے دیکھ کر فاحا سوہان کے کمرے جانے کے بجائے خُرما خُرما چلتی اسلحان کے پاس آئی۔

امی پانی۔۔۔۔فاحا نے اُس کا کندھا ہِلاکر پانی کا بتایا تو اسلحان نے جھٹ سے اپنی آنکھیں کھولی اور اپنے سامنے فاحا کو دیکھا تو ماتھے پر بلوں کا اضافہ ہوا

دفع ہوجاؤ تم میری نظروں کے سامنے سے کتنی بار کہا ہے اپنا یہ منحوس چہرہ میرے سامنے مت لایا کرو۔۔۔اسلحان اُس کے ہاتھ سے بوتل چھین کر دور پھینکتی سخت غُصیلے انداز میں بولی تو فاحا کا پورا وجود کانپ اُٹھا تھا"اسلحان کے ایسے انداز پر فاحا سہم گئ تھی۔۔۔"جبکہ اُس کی اُونچی آواز سن کر اِس بار سوہان اور میشا دونوں کمرے سے باہر آئیں تھیں

کیا ہوا امی۔۔۔۔میشا نے ناسمجھی سے اُس کو دیکھا

فاحا تم اپنی آپو کے پاس آؤ۔۔۔۔سوہان ایک نظر اسلحان پر ڈالے کانپتی ہوئی فاحا سے بولی مگر وہ اپنی جگہ سے ہلی تک نہیں تھی

لے جاؤ اِس کو اور بس اپنے کمرے تک محدود رکھا کرو میرے سامنے آتی ہے تو میرا خون کھول اُٹھتا ہے۔۔۔۔اسلحان تپے ہوئے لہجے میں اب کی سوہان سے بولی تھی"فاحا کو اُس کی باتیں سمجھ تو نہیں آئی تھی مگر جیسا اُس کا انداز تھا وہ بہت خراب تھا"ایسے تو کبھی کسی نے اُس سے بات نہیں کی تھی اگر کی بھی تھی تو اُس نے جس کو وہ"امی"کہا کرتی تھی۔۔۔۔

امی پلیز فاحی سے بات کرتے ہوئے آپ اپنا لہجہ ہتک آمیز نہ بنایا کرے۔۔۔۔میشا نے سنجیدگی سے کہہ کر فاحا کو اپنی گود میں اُٹھایا تھا۔۔۔

رہنے دو کوئی فائدہ نہیں یہ تو اپنے خساروں کا زمیدار اِس معصوم کو سمجھتی ہیں"مگر سچ تو یہ ہے امی کہ آپ کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ آپ کی اپنی بدولت ہوا ہے۔۔۔نا آپ اپنے جان چِھڑکنے والے بھائی کی محبت کو ٹھکرا کر کسی غیرمحرم کا ہاتھ پکڑتی اور نہ آج ہم یوں آئے دن گھر بدلتے رہتے۔۔۔۔سوہان سرجھٹک کر بولی تو اسلحان کا پورا چہرہ غُصے سے سُرخ ہوا تھا

چٹاخ

بے حیا"بے شرم میں تم سب پر اپنی جوانی خرچ کررہی ہوں"اپنا آپ مار کر تم لوگوں کو خوش کرنے کی کوششوں میں ہوں اور تم اپنی ماں کے سامنے زبان چلا رہی ہو۔۔۔۔"کرو گی بھی کیوں نہیں خون بھی تو اُس کمینے نوریز کا ہے نہ۔۔۔۔اپنی جگہ سے اُٹھ کر ایک زوردار تھپڑ اُس کے گال پر مار کر اسلحان چیخ کر بولی تھی جس پر سوہان اپنے گال پر ہاتھ رکھ کر ہونٹ بھینچ گئ تھی مگر فاحا نے اب زور سے رونا شروع کرلیا تھا

میں بس اِتنا چاہتی ہوں کہ فاحا معصوم ہے اُس کو منحوس نہ بولا کرے اُس کے کوڑے دماغ پر آپ کی باتیں اپنا گہرا چھوڑ سکتی ہیں"میں نے اور میشو نے اپنا بچپن کھودیا ہے فاحا کا نہیں چاہتے کہ وہ بچپن میں اپنا بچپنا چھوڑ دے اگر اُس کے لیے آپ کے اندر رحم نہیں تو کوئی بات نہیں ہم دونوں اور بُوا عاشر کافی ہے بس آپ اپنے زہریلے الفاظ اُس کے لیے نہ استعمال کرے۔۔۔۔سوہان اِتنا کہتی وہاں سے چلی گئ"میشا بھی ایک نظر اسلحان پر ڈالے فاحا کو لیئے باہر چلی گئ اور سیدھا بُوا کے گھر آئی تھی جو اپنے گھر کو تالا لگارہی تھی۔

بُوا کہی جارہی ہیں کیا آپ؟میشا نے پوچھا

ہاں بچے سبزیاں لینی ہے اور کچن کا ہلکہ پُلکہ سامان اور یہ ہماری فاحا کو ضرور تم نے مارا ہوگا۔۔۔۔بُوا اُس کو جواب دینے لگی تو جب نظر روتی بسورتی فاحا پر گئ تو مشکوک نظروں سے میشا کو دیکھا

میرے علاوہ بھی اِس کو رُلانے والے بہت ہیں۔۔۔میشا آہستگی سے بڑبڑائی تھی

کیا کہا؟بُوا نے اُس کو گھورا

میں کہہ رہی تھی کہ فاحا کو بھی ساتھ لے جائے اِس کا اسکول بیگ خراب ہوگیا ہے مطلب پُرانہ ہوگیا ہے وہ لائیے گا"پیسے جب "سوہان بڑی ہوگی تو آپ کو دے دی۔۔۔۔میشا کان کی لو کھجاکر بولی

شرم کر میں نے کبھی فاحا کو عاشر اور حاشر سے الگ سمجھا ہے کیا یہ تو ہم سب کی جان ہے۔۔۔۔بُوا نے عادت سے مجبور ہوکر اُس کے ماتھے پر چپت لگائی

آپ کو تو پتا ہے نہ امی اِس پر خرچ نہیں کرتی دوسرا ہمیں پاکٹ منی بھی مختصر ملتی ہے۔۔۔۔میشا کو تھوڑی شرمندگی ہوئی

ارے میشو بیٹا آج اِتنا ایموشنل کیوں ہو۔۔۔"اب ہٹو سامنے سے ہمیں جانے دو ورنہ دیر ہوجائے گی۔۔۔بُوا نے اُس کو سامنے سے ہٹایا

بُوا گُڑیا بھی لینی۔۔۔۔فاحا نے کہا تو میشا نے اپنا پیٹ کر اُس کو گھورا

اِس کی یہ فضول خواہش پوری کرنے کی ضرورت نہیں بیگ تو سستا ہے مگر جو گُڑیا ہے وہ مہنگی ہے بہت۔۔"اور فاحی تم نہ اپنی حیثیت دیکھ کر چیزیں پسند کیا کرو۔۔۔۔میشا بُوا سے کہتی آخر میں فاحا سے بولی تو اُس کا منہ اُترگیا

میشو۔۔۔۔بُوا نے اُس کو تنبیہہ کی

بُوا آپ کو نہیں پتا اِس کی وجہ سے سوہان پریشان رہتی ہے مگر اِس کا فرمائشی پروگرام ختم نہیں ہوتا۔۔۔۔میشا سرجھٹک کر بولی

تم زیادہ اِس کی اماں مت بنو۔۔۔۔بُوا اُس کو لتاڑتی فاحا کو لیے باہر نکلتی گئ تو میشا نے گہری سانس بھر کر اُن کی پشت کو دیکھا تھا

❤❤❤❤❤❤

تمہاری شِکایات بہت آتیں ہیں اسیر اسکول سے اگر ایسا رہا تو آگے چل کر کسی بھی کالج میں تمہارا ایڈمیشن بہت مشکل سے ہوگا۔۔۔۔نوریز ملک چودہ سالہ اسیر سے بولے جو صوفے پر بیٹھا اپنا پاؤں فرش پر مار رہا تھا۔۔۔۔

ہم نہیں کہتے کہ آؤ اور ہم سے پنگا لو اگر کوئی اسیر ملک سے پنگا لے گا تو اسیر ملک اُن کا منہ بھی توڑدے گا۔۔۔۔اسیر شدید غُصے کے عالم میں بولا تو نوریز ملک نے گہری سانس ہوا سُپرد کی

غُصہ نہیں کرتے اسیر اور یہ مار پیٹ کرنا اچھی بات نہیں ہوتی۔۔۔۔نوریز ملک رسانیت سے بولا

ہمیں گاؤں جانا ہے بہت پڑھ لیا ہم نے یہاں۔۔۔اسیر نے جیسے بات ختم کرنا چاہی

اسیر۔۔۔۔نوریز نے تنبیہہ کرتی نظروں سے اُس کو دیکھا

تایا جان پلیز آپ یہ آنکھیں اپنے بچوں کو دِکھایا کرے اسیر ملک کسی سے نہیں ڈرتا۔۔۔۔۔اسیر بدتمیزی سے بولا تو نوریز ملک خاموش ہوا"وہ جانتا تھا اسیر کو سنبھالنا کسی کے بس کی بات نہیں تھا"سجاد ملک کے لاڈ پیار اور فائقہ کی بے جا حمایت نے اُس کو خودسر اور ضدی بنایا تھا تو دوسرا وہ خاندان کا پہلا بیٹا تھا سجاد ملک کے بعد ہونے والا سردار اسیر ملک جس کا غرور اُس کو اِسی عمر میں تھا اپنے سامنے وہ کسی کو کچھ سمجھتا نہیں تھا اور نہ چھوٹے بڑوں کا لحاظ اُس میں پایا جاتا تھا۔۔۔۔"اپنے عمر کے بچوں سے لڑنا مار پیٹ کرنا تو اُس کا پسندیدہ مشغلہ تھا جیسے

چلو۔۔۔۔۔نوریز ملک اپنی جگہ سے اُٹھ کر بولا تو اسیر بھی اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا

ماں جی نے ہم سے کہا تھا لالی کی کورس والی کتابیں لانی ہیں۔۔۔۔"وہ دونوں گاڑی میں بیٹھے تو اسیر کو یاد آیا تو اُس نے نوریز سے کہا

ہممم گاڑی میں بُک اسٹور پر کرتا ہوں پر اسیر تم ابھی چھوٹے ہو اگر تم ابھی اپنے آپ پر قابو میں نہیں لاؤ گے تو بعد میں تمہارے لیے مسئلہ کھڑا ہوسکتا ہے۔۔۔نوریز نے پھر سے کہا

تایا جان ہم نے کسی کا قتل نہیں کیا اِس لیے آپ پریشان نہ ہو"ڈرائیور گاڑی تیز چلاؤ۔۔۔اسیر بیزاری سے نوریز کو جواب دیتا آخر میں ڈرائیور سے بولا تو اِس بار نوریز نے دوبارہ اُس کو مُخاطب نہیں کیا تھا۔

❤❤❤❤❤❤

ایک کلو پیاس اور ایک کلو"ٹماٹر دو بھئ۔۔۔۔بُوا فاحا کو اپنی گود سے اُتارے سبزی والے سے بولی تو فاحا یہاں وہاں دیکھنے لگی تو اُس کی نظر دور ایک بچی پر پڑی جس کے پاس بہت پیاری ڈول تھی یہ دیکھ کر فاحا نے اپنے قدم اُس کی طرف بڑھائے تھے۔۔۔

گُڑیا۔۔۔۔فاحا آہستہ آہستہ چلتی اب روڈ کے قریب آکر"بس گُڑیا لفظ دوہرانے لگی تھی اور"بُوا سبزیاں لینے میں اور سبزی والے سے بحث کرنے میں اِتنا مگن تھی کہ اُس نے فاحا کا جانا محسوس ہی نہیں کیا تھا۔۔۔۔۔

گُڑیاااا۔۔۔۔۔۔۔وہ بچی اپنی ماں کے ساتھ رکشے میں بیٹھ کر چلی گئ تو فاحا نے اپنی طرف سے اُس کو روکنا چاہا مگر بے سود پھر جب اُس نے اپنے چاروں اِطراف دیکھا تو بُوا کو ناپاکر وہ رونا شروع کرتی یہاں سے وہاں جانے لگی تبھی ایک تیز رفتار گاڑی اُس کی طرف آنے لگی تھی جس کو اپنی طرف آتا دیکھ کر فاحا کا رونا مزید چیخوں میں تبدیل ہوگیا تھا مگر اُس پہلے گاڑی اُس کو لگتی کسی نے فاحا کو اپنی طرف کھینچ لیا تھا۔۔۔

اندھی ہو کیا؟"یا بڑی گاڑی نظر نہیں آتی۔۔۔۔اسیر جو نوریز کے کسی کام کی وجہ سے خود بھی گاڑی سے باہر آیا تھا پر جب اُس نے ایک بچی کو سڑک پر روتا دیکھا تو سختی سے اُس کا نازک بازو کھینچ کر سائیڈ پر کیا مگر فاحا نے رونا ختم نہیں کیا تھا اور اسیر کو تو شروع سے روتے بسورتے بچوں سے اکتاہٹ ہوا کرتی تھی اور اب بھی یہی ہوا تھا


"تمہاری امی کہاں ہے؟اسیر نے کچھ توقع بعد اُس کا رونا کم محسوس کیا تو پوچھا

گھر۔۔۔۔فاحا نے سوں سوں کرکے بتایا

تو تم یہاں کیا کررہی ہو؟اسیر نے حیرت سے اُس کو دیکھا۔

بُوا"گُڑیا مجھے گُڑیا لینی ہے۔۔۔۔فاحا کو اچانک گُڑیا یاد آئی تو پھر سے رونے لگی

یہاں تم کہاں سے گُڑیا نظر آئی۔۔۔۔۔اسیر نے اُس کی عقل پر ماتم کیا"جبھی وہاں نوریز ملک آیا تھا

اسیر کون ہے یہ؟نوریز ناسمجھی سے کبھی اُس کو دیکھتا تو کبھی چھوٹی سی فاحا کو

"یہ گُم ہوگئ ہے۔۔۔۔اسیر نے فاحا کی طرف اِشارہ کیا

بیٹا آپ کے ممی پاپا کہاں ہے؟"نوریز فاحا کے گُھٹنوں کے بیٹھتا پوچھنے لگا تو وہ بس اُس کا چہرہ دیکھنے لگی لگی۔۔۔"کتنا بدقسمت باپ تھا وہ جو اپنی اولاد سے پوچھ رہا تھا کہ تمہارا باپ کون ہے؟"اُس کو تو یہ تک پتا نہیں تھا جس کو وہ مسکراکر دیکھ رہا تھا یہ وہ چہرہ تھا جس کا چہرہ دیکھنے سے اُس نے انکار کردیا تھا۔۔۔

پپ پایا کیا ہوتا ہے؟فاحا نے آنکھیں بڑی بڑی کیے اُس سے پوچھا

تم یہاں کس کے ساتھ آئی ہو؟"یہ بتاؤ بس۔۔۔۔اسیر مدعے کی بات پر آیا تھا

مجھے گُڑیا چاہیے۔۔۔۔۔فاحا اُن کو دیکھ کر بولی

پاگل لڑکی یہاں گُڑیا نہیں بینڈیا اور کریلے ہیں کہو تو وہ دے۔۔۔اسیر نے دانت پیس کر کہا تو اُس کے لہجے میں فاحا ڈر کر نوریز کے قریب ہوئی

اسیر بچی ہے ڈراؤ نہیں اِس کو۔۔۔۔۔نوریز اسیر کو کہہ کر فاحا کو اپنی بانہوں میں بھرا تھا"اور خلاف توقع اُس کی گود میں آکر فاحا روئی بھی نہیں تھی

اِس بچی کو سب پتا ہے مگر یہ نہیں پتا کہ آئی کس کے ساتھ ہے"نیچے اُتارے اِسے اور چلے یہاں سے۔۔۔۔اسیر طنز ہوا

ایسے کیسے اکیلی بچی کو تنہا چھوڑدے۔۔۔"تم جاؤ گاڑی میں بیٹھو میں تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ کس کے ساتھ آئی ہے یہ۔۔۔۔۔نوریز نے سنجیدگی سے کہا"پر شاید وہ بھول گیا تھا کہ چھوڑ تو وہ بہت پہلے چُکا تھا اپنی بیٹیوں کو

ہمیں انتظار پسند نہیں آپ جلدی آنے کی کوشش کرنا۔۔۔۔اسیر اِتنا کہتا چلاگیا تھا اُس کے جانے کے بعد نوریز نے فاحا کو دیکھا جس نے اپنے منہ میں انگلیاں ڈالی تھیں

بھوک لگی ہے کیا؟نوریز نے اندازہ لگایا

بُوا۔۔۔۔۔فاحا کو"بُوا"اب یاد آئی تھی۔۔۔

اچھا تو تم اپنی بُوا کے ساتھ آئی ہو چلو پھر اُس کو ڈھونڈتے ہیں۔۔۔۔نوریز اُس کی بات پر مسکراکر کہتا اُس کے منہ سے اُنگلیاں نکالی تو فاحا یہاں سے وہاں دیکھنے لگی۔۔۔۔

ہائے اللہ فاحا کہاں چلی گئ تم۔۔۔۔بُوا نے اپنی طرف سے فاحا کو تلاش کرنے کی بہت کوشش کی مگر اُس کو فاحا کہی نظر نہیں آئی یکایک اُس کی نظر اسیر پر پڑی جو اپنی گاڑی کی طرف جارہا تھا۔

سُنو بچے۔۔۔۔۔بُوا نے اسیر کو مُخاطب کیا

ہم بچے نہیں ہیں۔۔۔۔اسیر ایک نظر اُن کے پریشان چہرے پر ڈال کر بولا

ہاں ہاں جو بھی یہ بتاؤ تم نے بچی کو دیکھا چھ سال کی تھی اور ریڈ کلر کی فراق پہنی ہوئی تھی۔۔۔۔بُوا نے پوچھا تو اسیر بغور اُس کو دیکھنے لگا

روندو کے بارے میں پوچھ رہی ہیں جس کا ایکسیڈنٹ ہونے والا تھا؟اسیر نے پرسوچ نگاہوں سے اُس کو دیکھ کر پوچھا تو بُوا کا ہاتھ اپنے سینے پر پڑا

ہاں میری بچی فاحا کا ایکسیڈنٹ۔۔۔۔بُوا اپنا سر پیٹنے لگی۔۔۔

اووو آنٹی کچھ نہیں ہوا آپ کی بچی کو میرے تایا جان کی گود میں ہے یہاں سے سیدھا جاکر ٹرن لے نظر آئے گی۔۔۔۔"گُڑیا گُڑیا کہتی۔۔۔۔اسیر نے سرجھٹک کر اُس کو بتایا

مجھے وہاں لے چلو نہ۔۔۔۔۔بُوا نے کہا تو اسیر پہلے انکار کرنے والا تھا مگر پھر اُس نے انکار نہیں کیا

آئے۔۔۔۔اسیر نے اُس کو اپنے پیچھے آنے کا اِشارہ کیا تو ابھی وہ کچھ قدم ہی آگے بڑھے تھے جب نوریز ملک اُن کو آتا دیکھائی دیا جس کے کندھے پر سر رکھے فاحا آرام سے آنکھیں موندیں ہوئی تھی

فاحا۔۔۔۔بُوا جلدی میں نوریز ملک سے فاحا کو لینے لگی پر فاحا نوریز سے چپک گئ تھی۔۔

چھوڑو۔۔۔۔۔فاحا اپنے چھوٹے ہاتھوں سے نوریز ملک کے کندھے تھامتی بولی

فاحا کیا ہوا بیٹے۔۔۔"لگتا ہے ناراض ہوگئ ہے۔۔۔بُوا کو فاحا کا انداز عجیب لگا جبھی اُس نے زبردستی فاحا کو اپنی گود میں لیا تو وہ ہاتھوں پاؤں چلاتی رونے لگی

"اِس کو لگتا ہے گُڑیا چاہیے۔۔۔اسیر اندازہ لگاتا بولا

میں لیکر دوں گی نہ بچے پر پہلے بیگ لیتے ہیں۔۔۔۔بُوا اُس کو پچکارنے لگی جو ایک بار پھر نوریز ملک کے پاس جانے کے لیے مچل رہی تھی

آپ کو بُرا نہ لگے تو ہم لیکر دیتے ہیں"ویسے بھی پاس میں بچوں کے کِھلونوں کی دُکان ہے۔۔۔نوریز ملک بوا کو دیکھ کر بولے

بِن باپ کی بچی ہے کبھی کسی مرد کا پیار "بھائی یا باپ کی صورت میں نہیں دیکھا آپ کا لمس نیا تھا تو شاید یہی وجہ ہے"معاف کرنا مگر آپ کا شکریہ۔۔۔۔بوا فاحا کی پیٹھ سہلاتی بولی تو نوریز ملک نے فاحا کو دیکھا۔۔"جس کی ٹھوڑی کے نیچے موجود تِل اُن کو کسی کی یاد دِلوا گیا تھا

بہت پیاری بچی ہے۔۔۔۔نوریز ملک فاحا کے گال چھو کر بے ساختہ بول پڑے

ماشااللہ۔۔۔بُوا نے مسکراکر فاحا کو دیکھا

روندو بھی ہے۔۔۔اسیر نے اپنا بولنا ضرور سمجھا

باتونی بھی ہے۔۔بُوا بُرا مانے بغیر لقمہ دے کر بولی تو نوریز ملک مسکرا پڑے

❤❤❤❤❤❤❤❤

تم آج اُداس ہو؟سوہان نے اپنی کلاس فیلو سے پوچھا جو اکثر اُس کے ساتھ بیٹھنا پسند کرتی تھی۔۔۔۔

ہاں۔۔۔۔اُس نے مختصر بتایا

کیوں؟سوہان نے بے ساختہ پوچھا

میرے ڈیڈ کی طبیعت کل بہت خراب ہوگئ تھی اور پتا ہے کیا اپنی ایسی حالت میں بھی اُن کو بس یہ تھا کہ اگر اُن کو کچھ ہوگیا تو ہمارا کیا ہوگا؟"مطلب یار یہ ماں باپ اپنے بچوں کے لیے کتنے سینسٹو ہوتے ہیں اور اُن کے لیے کتنی اسٹرگل کرتے ہے۔۔۔۔۔وہ بولی تو سوہان چُپ ہوگئ تھی۔۔۔۔

اچھا تم نے کبھی اپنے بارے میں نہیں بتایا"تمہارے ڈیڈ کیا کرتے ہیں اور کیا اُن کا اپنا بزنس ہے"میرے ڈیڈ کو جاب کرتے ہیں جس سے پورے گھر کا گُزارا ہوتا ہے باقی کچھ نہیں ہوتا ہمارے پاس تمہارے ڈیڈ کے پاس کیا ہے؟سوہان کو چُپ دیکھ کر اُس نے خود ہی دوبارہ بولنا شروع کیا۔۔۔

ہمارے باپ کے پاس سب کچھ ہے سوائے ہمارے۔۔۔اُس کے سوال پر سوہان کسی ٹرانس کی کیفیت میں بولی تھی

مطلب؟وہ سمجھ نہیں پائی

چھوڑو بس تمہارے والدین کو اللہ صحت والی زندگی عطا فرمائے۔۔۔۔۔سوہان نے ٹالنے والے انداز میں کہا

آمین۔۔۔۔وہ جذب سے بولی تھی

❤❤❤❤❤

شیر کا بیٹا ہے اگر مار کُٹائی تھوڑی کر بھی لی تو کوئی قباحت نہیں۔۔غرور اور تکبر سے بھرپور لہجہ سن کر آٹھ سالہ فاحا نے چونک کر اپنے ساتھ کھڑے سولہ سالہ اسیر کو دیکھا

ہششش۔۔

فاحا نے اِشارے سے اُس کو اپنے جانب متوجہ کرنا چاہا

کیا ہے؟سرد لہجہ

کیا تمہارے بابا نے شیر کو کِس کیا تھا؟فاحا نے رازدرانہ انداز میں اُس سے پوچھا تو اسیر نے غُصے بھری نظروں سے فاحا کو دیکھا

دماغ ٹھیک ہے تمہارا ہمارے ابا حضور کیوں شیر کو کس کرنے لگے۔۔۔اسیر نے دانت پیس کر اُس کو دیکھ کر کہا

نہیں وہ میں نے کل کارٹون نیٹ ورک میں کارٹون دیکھے تھے چھوٹا بیم اُس میں جو راجکماری اِندو متی ہوتی ہے نہ وہ مینڈک کو کس کرتی ہے پھر یہ ہوتا ہے کے راجکماری خود مینڈک بن جاتی ہے اور جو مینڈک ہوتا ہے وہ انسان بن جاتا ہے۔۔۔۔فاحا نے معصوم لہجے میں اُس کو دیکھ کر بتایا تو اُس کی بات سن کر اسیر کا دماغ گھوم گیا

اگر تم چاہتی ہو ہم یہاں کھڑے کھڑے تمہیں مینڈکی نہ بنائے تو خاموش رہو ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔۔۔۔اسیر نے سخت لہجے میں اُس کو دیکھ کر کہا تو اُس کی بات سن کر فاحا ڈر کر پرنسپل کی آفس سے باہر بھاگ گئ تو اُس کا تصادم سوہان سے ہوا

فاحا تم یہان ہمارے کالج میں کیوں؟فاحا کو سیدھا کھڑا کرتی سوہان نے خاصی تعجب بھری نظروں سے اُس کو دیکھا

وہ آپو میں جب اسکول جانے والی تھی تو کالج کے باہر یہاں کے ایک لڑکے نے دوسرے لڑکے سے شاید لڑائی کی تھی"تو جس نے مار کھائی اُس کے بابا مجھے یہاں لائے تاکہ میں یہاں کے لڑکے یعنی جس نے مارا اُس کے اُپر گواہی دوں تاکہ پرنسپل مارنے والے کو کالج سے اسپیل کردے۔۔۔فاحا پُھولی ہوئی سانس کے درمیان جواب دینے لگی

اچھا تو تم اب گواہیاں دیتی پِھروں گی۔۔۔سوہان نے مصنوعی گھوری سے اُس کو نوازہ تھا

ارے نہیں نہ میں تو آفس میں گئ تھی مگر بولا کچھ نہیں وہ لڑکا کافی غُصے والا ہے مجھے بولا کہ میں تمہیں مینڈکی بنا ڈالوں گا بھلا میں مینڈکی بن کر اچھی لگوں گی کیا؟فاحا منہ کے زاویئے بگاڑ کر بولی تو سوہان مسکرائی

کسی نے مذاق کیا ہے تمہارے ساتھ خیر تم سیدھا اپنے اسکول جانا میں چھوڑنے آتی مگر یہ میری کلاس کا وقت ہے۔۔۔۔سوہان نے ہاتھ میں پہنی گھڑی میں وقت دیکھ کر کہا

ڈونٹ وری میں چلی جاؤں گی۔۔۔۔فاحا مسکراکر کہتی اُس کے برابر سے گُزرگئ تھی جبکہ سوہان نے بھی اپنا رُخ اپنی کلاس کی طرف کیا تھا


"لالا لالا لوری

پیار کی کٹوری

کٹوری میں پستا

کالج کے بار ہوگیا تماشا


آہ آہ

فاحا کو اُچھلتی کودتی کالج کا گیٹ کراس کرنے والی تھی تو اچانک اُس کے شوز کے تسمے کُھل گئے"جن کو دیکھ کر بے اختیار اُس نے رونا شروع کیا تو"پرنسپل کی آفس سے باہر آتا اسیر جو گراؤنڈ میں آیا تھا فاحا کو روتا اور باقیوں کو اُس پر ہنستا دیکھا تو ناچاہتے ہوئے بھی اپنے قدم اُس کی طرف بڑھائے تو اُس کو دیکھ کر ہر کوئی اپنی کلاس کی طرف بڑھنے لگا

"کیا ہوا ہے تمہیں۔۔۔۔اسیر نے سنجیدگی سے پوچھا

"قسمے ٹوٹ گئ۔۔۔۔فاحا نے روتے ہوئے بتایا

کیا؟اسیر نے حیرت سے اُس کو دیکھا

قسمے ٹوٹ گئ۔۔۔۔۔اِس بار فاحا نے قدرے اُونچی آواز میں بتایا

اِس عمر میں قسمے اُٹھانے کا کہتا کون ہے۔"اب رونا بند کرو اور اپنے گھر جاؤ۔۔۔اسیر سرجھٹک کر بولا

بتایا جو قسمے ٹوٹ گئ اب اگر چلوں گی تو گِر جاؤں گی۔۔۔فاحا نے سوں سوں کرکے بتایا تو اسیر کی نظر اب اُس کے پاؤں پر گئ تو شوز کے"تسمے کُھلے دیکھ کر اُس نے خشمگین نظروں سے فاحا کو دیکھا

تسمے ہیں یہ قسمے نہیں۔۔۔۔اسیر نے طنز کہا

قسمے ہو یا کچھ اور اب میں کیا کروں۔۔۔۔فاحا نے کوئی اثر نہیں لیا

کرنا کیا ہے اِس کو باندھو اور گھر جاؤ اپنے۔۔۔۔۔اسیر نے آرام سے کہا

باندھنا نہیں آتا۔۔۔۔"آپو باندھتی ہیں اکثر۔۔۔۔فاحا نے بتایا

اب تمہاری آپو کو کہاں سے لائے ایسا کرو شوز اُتارو اور ہاتھوں میں لیکر چلی جاؤ۔۔۔۔اسیر کچھ سوچ کر بولا

دیکھے میں آپ کی وجہ سے یہاں آئی ہوں تو آپ کا فرض بنتا ہے میری مدد کرنا پلیز یہ باندھ دے۔۔۔۔"میں نے تو آپ کی شکایت بھی پرنسپل کو نہیں لگائی۔۔۔فاحا معصومیت سے بولی تو جواباً اسیر اُس کو ایسے دیکھنے لگا جیسے فاحا کا دماغ ہِل گیا ہو

اسیر ملک ہیں ہم۔۔۔اسیر نے غُصیلے انداز میں اُس سے کہا

ہم نہیں آپ میں تو فاحا ہوں۔۔۔۔۔اُس کے "ہم"کا الگ مطلب نکالے فاحا نے چہک کر جواباً اپنا نام بتایا تو اسیر تپ اُٹھا

ہم تمہارے باپ کے نوکر نہیں خود باندھو۔۔۔اسیر نے ناگواری سے کہا تو"باپ"لفظ پر فاحا کا چہرہ اُترگیا تھا اور یہ چیز اسیر نے بھی صاف محسوس کرلی تھی

اب مینڈکی جیسی شکل کیوں بنائی ہوئی ہے؟اسیر نے پوچھا

باپ نہیں ہے تو اُن کا نوکر کیسے ہوگا؟اپنی نظریں نیچے گاڑھے فاحا دُکھ سے بولی تھی

مرگیا ہے؟اسیر نے اگلا سوال کیا

کون؟فاحا نے ناسمجھی سے پوچھا

تمہارا باپ۔۔۔اسیر نے اُس کو گھورا

آپو سے پوچھا تھا وہ کہتی ہیں زندہ ہو یا مردہ ہمارے پاس تو نہیں نہ پھر کیا فائدہ جاننے کا۔۔۔فاحا نے جواب دیا تو اُس کا جواب اسیر کو عجیب لگا

تمہاری امی کیا کہتیں ہے؟جانے کیوں اسیر اُس سے اِتنے سوالات کرنے لگ پڑا

وہ مجھے منحوس کہتی ہے اُس کے علاوہ کچھ نہیں کہتی۔۔۔۔۔اِس بار فاحا نے اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو کُھڑچا تو اسیر نے چاروں اطراف دیکھا جہاں اکا دُکا اسٹوڈنٹس موجود تھے مگر کسی کا بھی دُھیان اُن کی طرف نہیں تھا جس پر وہ گہری سانس بھر کر گُھٹنوں کے بل فاحا کے پاس بیٹھتا اُس کا ایک پاؤں اپنی ٹانگ پر رکھ کر تسمے باندھنے لگا"

یہ دیکھو اور تسمے باندھنا خود سے سیکھو۔۔۔۔اسیر نے کہا تو فاحا غور سے اُس کے ہاتھوں کو دیکھنے لگی جو تسمے باندھنے میں مصروف تھے۔

ایسے نہیں ویسے باندھے جیسے آپو باندھتی ہے اُس سے ایسا لگتا ہے جیسے شوز کے اُپر کسی نے پھول رکھا ہے۔۔۔۔فاحا نے کہا تو اسیر نے تیوری چڑھائے اُس کو گھورا

آج تک تو ہم نے اپنے تسمے نہیں باندھے اور تمہارے باندھ رہے ہیں تو نخرے دیکھا رہی ہو۔۔۔۔اسیر نے اُس کو گھور کر کہا تو فاحا دل مسوس کرتی رہ گئ۔اپنے کام سے فارغ ہوکر وہ جیسے ہی کھڑا ہوا تو اُس کے کلاس فیلو نے چاروں اِطراف سے اُس کو گھیرلیا تھا

اب توں گیا ہمارے دوست کو مارا تھا نہ۔۔۔۔ایک لڑکا جو اُس کی عمر کا تھا غُصے سے بولا

ہم یہی ہیں دیکھتے ہیں کیا اُکھاڑتے ہو تم لوگ ہمارا۔۔۔۔اسیر طنز ہوا

تیری تو۔۔۔۔ایک غُصے سے کہتا اُس کو مُکہ مارنے والا تھا جب اسیر نے درمیان میں اُس کا ہاتھ روک کر ایک زوردار لات اُس کے پیٹ پر ماری اور لات اِتنی زور سے اُس کو ماری تھی کہ لڑکے کے منہ سے خون کا ایک فوارہ نکلا تھا جس کو دیکھ کر فاحا کا پورا وجود خوف سے کانپ اُٹھا تھا جبھی یہ مار کُٹائی والا منظر مزید وہ دیکھ نہیں پائی تھی اور بیہوش ہوکر نیچے گِر پڑی تھی اُس سے بے نیاز اسیر اپنا سارا غُصہ اُن لڑکوں پر نکال رہا تھا جبھی وہ کالج کے آدھے سے زیادہ اسٹوڈنٹس جمع ہوگئے تھے اور کچھ نے یہ بات پرنسپل کے آفس تک بھی پہنچائی تھی

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

فاحا

فاحا اسکول نہیں جائے گی"فاحا کہیں نہیں جائے گی وہ فاحا کو بھی مارے گا۔۔۔۔سوہان نے فاحا سے کچھ کہنا چاہا جب اپنے گرد بازوں کا حصار بنائے وہ اپنا چہرہ گُھٹنوں میں چُھپائے سہم کر بولنے لگی تھی۔۔۔"اُس واقعے کو گُزے ایک ماہ ہوگیا تھا مگر یہ لڑائی والے واقعے نے اُس پر گہرا اثر چھوڑا تھا وہ کسی کی بھی کچھ بھی سُننے کو تیار نہیں تھی اسکول تو کیا گھر سے باہر نکلنا بھی اُس نے ختم کرلیا تھا جس پر سوہان اور میشا حقیقتاً بہت پریشان ہوئے تھے

"فاحا ڈر جتنا بھی ہو مگر اسکول تو جانا ہے نہ۔۔۔۔سوہاب نے قدرے نرمی سے سمجھایا تھا

فاحا نہیں جائے گی اسکول "وہ گھر کا ہر کام کرے گی مگر اسکول نہیں۔۔۔۔فاحا نے اپنا سر زور سے نفی میں ہلایا

سُنو فاحا " جہالت کو جتنی رعایتیں ہمارے سماج میں دی گئی ہیں،

اسکی مثال شاید ہی کہیں مل سکے."

اگر تم اسکول نہیں جاؤ گی تو جاہل کہلواؤ گی ہم دونوں پڑھ لِکھ کر کوئی بہت بڑی جاب حاصل کرینگے اور بہت بڑا نام کرینگے اپنا اور اگر تم پڑھنے کے بجائے ڈر کر بس گھر کے کام کرنا چاہتی ہو تو جان لو جب ہم تھک ہار کر گھر آئے گے تو تمہیں ایسے حکم دینگے جیسے تم ہماری ملازمہ ہو۔۔۔۔میشا نے اپنی بات کی شروعات "جون ایلیا" کے شعر سے کی

بلکل۔۔۔کوئی اور وقت ہوتا تو سوہان کبھی میشا کی سائیڈ نہ لیتی مگر آج موضوع ایسا تھا کہ اُس نے"میشا کی ہاں میں ہاں ملائی

مجھے منظور ہے بس میں اسکول نہیں جاؤں گی۔۔۔۔فاحا اپنی بات پر بضد تھی جس پر میشا نے اپنا ماتھا پیٹا تھا۔۔


۔ ""یہ بیٹیاں مجھے دے ہی کیا سکتیں ہیں؟"نہ تو اِن کو لیکر میں کہی ساتھ لے جاسکتا ہوں اور نہ یہ مجھے کوئی عقلمندانہ مشورہ دے سکتی ہیں۔۔۔۔"""


کانوں میں گُزرے سالوں پہلے اپنے باپ کے الفاظ سوہان کے کانوں میں گونجے تو بے اختیار اُس کو جیسے کرنٹ لگا تھا اُس نے میشا اور فاحا دونوں کو باری باری دیکھا


"فاحا میری جان ہم تینوں کو اپنے پاؤں پر کھڑے ہونا ہے"ڈرنا چھوڑدو اِس دُنیا میں ڈرنے والوں کی کوئی جگہ نہیں کیونکہ جو ڈرتا ہے یہ دُنیا والے اُس کو مزید ڈراکر دباتے ہیں اپنے پاؤں کے نیچے کُچلنا اُن کا مقصد ہوتا ہے۔۔۔۔سوہان نے سنجیدگی سے کہا

نہیں میں بس اسکول نہیں جاؤں گی۔۔۔۔فاحا کی حالت رونے جیسی ہوگئ تھی۔۔۔۔"مگر اِس بار سوہان نے اپنا ہونٹ بے دردی سے کُچلا تھا

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

What is meaning of disgust?

Disgust mean is girl.

لفظ "منحوس"جو ہوش سنبھالتے ہی میں نے اپنے لیے سُنا جی اپنے لیے دا ورڈ "منحوس"یہ جُملا کہنے والی میری ماں تھی۔۔۔پہلے مجھے لگا شاید میرا نام "منحوس"ہے پھر بعد میں پتا چلا کے میرا نام تو "فاحا"ہے۔۔منحوس اِس وجہ سے مجھے کہا جاتا کے میں لڑکی ہوں۔۔اور لڑکیاں شاید منحوس ہوتی ہیں۔۔۔۔

میرا نام فاحا ہے۔۔عمر بارہ سال ہے میں اِس دُنیا میں اپنی مرضی سے نہیں آئی اور مجھے یقین ہے جب میں مرجاؤں گی تو بھی اُس میں میری مرضی شامل نہیں ہوگی۔۔۔۔زندگی اللہ کی عطا اور اُس کی امانت ہے۔۔۔۔

میں لڑکی ہوں کیونکہ اللہ نے مجھے لڑکی بنایا ہے۔"وہ چاہتا تو مجھے لڑکا بناسکتا تھا پر اُس نے لڑکی بنایا اُس میں اللہ کی کوئی مصلحت چُھپی ہوگی"اور مجھے اُس کی قدرت اُس کی مرضی ہے۔۔کہتے ہیں اللہ کی بنائی ہوئی چیزیں مکمل ہوتی ہیں اُن میں کوئی کھوٹ نہیں ہوتا۔۔۔پر ایک یہ بات بھی ہے مکمل بس پاک پروردگار اللہ کی ذات ہے۔۔اُس نے ہر انسان میں کوئی نہ کوئی عیب لازمی دیا ہے جو ہم نہیں جانتے مگر وہ خوب جانتا ہے۔۔۔۔خیر میرا جو ٹاپک ہے وہ منحوس لفظ پہ ہے۔۔۔مجھے ایک چیز کی سمجھ نہیں آتی اگر ایک گھر میں ون بائے ون تین "بیٹے"پیدا ہوتے ہیں تو اُن کو منحوس کیوں نہیں کہا جاتا؟جبکہ ایک ساتھ اگر کوئی عورت "بیٹیاں"پیدا کرے تو آخری بیٹی کو " منحوس "لفظ سے روشناس کروایا جاتا ہے

کیا یہ لفظ محض مجھ جیسی لڑکیوں کے لیے ہے؟آپو کہتی ہیں ہم لڑکیاں محب ہوتی ہیں مگر مجھے تو ہر بار یہی احساس کروایا جاتا ہے کے لڑکیاں منحوس ہوتی ہیں اسپیشلی فاحا ملک از بیگسٹ منحوس(disgust) آپ میں سے کوئی شاید "منحوس" نہ ہو ۔"اُس نے پہلی بار اپنا جُھکا سراُٹھایا اور سامنے بیٹھی اپنی عمر کی لڑکیوں کو دیکھا جو یک ٹک اُس کو دیکھ رہی تھی تھی اُن میں ایسی لڑکیاں تھی جو اُس کی باتوں کا مطلب سمجھ نہیں پائی تھی پر کچھ ایسی بھی تھیں جو کافی ہمدرد بھری نظروں سے اُس کا ستایا چہرہ دیکھ رہی تھی۔۔۔۔اُس کے چپ ہونے سے کلاس میں ایک سکوت چھا گیا تھا بچیاں تو اپنی جگہ مگر وہاں کے اُستادہ بھی رنجیدہ سے ہوگئے تھے۔فاحا نے گردن موڑ کر اپنی بڑی بہن سوہان کو دیکھا جو اُس کو ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔مگر فاحا کے دیکھنے پہ اُس نے زبردستی مسکراہٹ چہرے پہ سجائے اُس کو مُسکرانے کا اِشارہ کیا تو وہ بار بار اپنی آنکھوں کو جِھپک کر خود کو رونے سے باز رکھتی نم آنکھوں سے مُسکرا پڑی"جبکہ سوہان کے ساتھ بیٹھی سترہ سالہ میشا کے تاثرات سپاٹ تھے

"سوہان نے اپنی طرف سے تو بہت کوشش کی تھی فاحا کو پُراعتماد بنائے مگر اُس میں وہ ناکام ٹھیری تھی کیونکہ"منحوس"جیسے لفظ نے اُس سے خوداعتمادی چھین لی تھی"جیسے جب وہ بچِیاں تھیں مگر اُن میں اپنا بچپنا نہیں تھا ٹھیک ویسے شاید فاحا کا بچپنا بھی ختم ہوگیا تھا یا بس بچپنا ہی بچہ تھا مگر جو بھی اسلحان کے رویے نے اُس کو بڑا بنادیا تھا اُس کے لہجے نے فاحا کے معصوم دماغ پر گہری چھاپ چھوڑی تھی

ہائے منحوس۔۔۔۔۔فاحا کلاس سے اکیلی باہر نکلی تو ایک گروپ نے اُس کو راستے میں روک لیا تھا"جبکہ ایک لڑکی نے پیپر بڑی چلاکی سے اُس کی پشت پر چپکایا تھا جس پر مارکر سے بڑے حرفوں میں "مائے سیلف منحوس لکھا ہوا تھا

سامنے سے ہٹے۔۔۔۔فاحا اُن کے درمیان سے گُزرنے کی کوشش کرتی بولی

ارے بتاؤ نہ کیا واقعی میں تمہاری ماں تمہیں منحوس کہتی ہے بڑا دُکھ ہوا۔۔۔۔ایک لڑکی سے اُس سے عمر میں بڑی تھی مصنوعی افسوس کا اِظہار کرنے لگی جبھی سوہان اور میشا بھی وہاں آئیں تھیں"

یہ کیا ہے؟سوہان اُس کی پیٹھ سے وہ پیپر نکالتی اُن لڑکیوں کو گھورنے لگی تو سب قہقہقہ لگانے لگے

کیا یہ تمہاری بہن ہے؟"ہم بھی اپنی بہنوں کے لیے یہاں اسکول میں آئے تھے اور کافی انٹرسٹنگ اسٹوری تھی۔۔۔۔"تمہاری بہن نے جو سُنائی وہ۔۔۔۔وہ اپنی دوست کے ہاتھ پر تالی مار کر بولی تو ایک بار پھر سب کے ہنسنے کی آواز آئی مگر شرمندگی اور زلت کے احساس سے فاحا کا پورا چہرہ سرخ پڑگیا تھا

شٹ اپ خبردار جو میری بہن کے بارے میں اور کوئی بکواس کی بھی تو۔۔۔۔سوہان نے سخت لہجے میں اُن کو دیکھ کر کہا"جبکہ میشا بہت خاموشی سے اُن کی بدلحاظی دیکھ رہی تھی

اووو ورنہ کیا کرو گی آپ محترمہ۔۔۔۔وہ بدتمیزی سے بولی تو میشا سوہان کو سائیڈ کرتی خود اُس کے روبرو کھڑی ہوئی کیونکہ وہ لڑکی اُس کی ہم عمر تھی

اب تم

وہ کچھ کہنے والی تھی جب میشا نے پوری طاقت لگاکر ایک پنج اُس کے چہرے پر مارا تو اُس لڑکی کی پوری ناک سرخ ہوگئ تھی یہ دیکھ کر ہر کوئی منہ کھولے حیرانگی سے میشا کو دیکھ رہا تھا جس کے چہرے پر کوئی بھی تاثر نہیں تھا

مجھے صرف اپنا بولنا پسند ہے کوئی اور زیادہ بولتا ہے تو میں اُس کا منہ توڑدیتی ہوں۔۔۔۔میشا خاصے پرسکون لہجے میں کہتی اپنے ہاتھ پر پھونک ماری تھی جیسے ابھی اُس نے کچھ کیا ہی نہ تھا

❤❤❤❤❤❤

تمہاری یہ مجال میں تمہیں جان سے ماردوں گی۔۔۔وہ لڑکی خود کو سنبھالتی غُصے سے بولی

اور میں اُن ہاتھوں کو توڑدوں گی جو میری طرف بڑھے گے۔۔۔۔میشا دوبدو بولی تھی

میشو چلو۔۔۔۔سوہان نے معاملہ رفع دفع کرنا چاہا

ہاں لے جاؤ اِس کو پاگل خانے میں رہنے کی اِس کو سخت ضرورت ہے۔۔۔وہ طنز انداز میں بولی

اُس سے پہلے تمہیں جہنم وصل نہ کروں۔۔۔۔میشا بھی جواباً طنز بولی

میشو۔۔۔۔سوہان نے اُس کو تنبیہہ کرتی نظروں سے دیکھنے لگی جس پر وہ سرجھٹک کر رہ گئ تھی

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

میں نے کب کا اسکول چھوڑدیا تھا مگر آپ لوگوں نے کہا جاؤ اچھا فیل کرو گی۔۔۔۔۔گھر آکر فاحا ناراض لہجے میں بولی

تمہیں ضرورت کیا تھی اپنی کہانی پوری کلاس میں بتانے کی۔۔۔۔عاشر اُس کو دیکھ کر سنجیدگی سے بولا

مجھے بھی اِسی بات پر غُصہ ہے۔۔۔۔۔میشا نے غُصیلی نظروں سے اُس کو دیکھا

کیونکہ یہ ٹاپک کا نام تھا کہ اپنی اسٹوری شیئر کرنی ہے۔۔۔۔فاحا نے جواباً سنجیدگی سے کہا

تو کوئی اور بتاتی یہ ضروری تھا کیا؟میشا تپ اُٹھی

میں نے فاحا سے کہا تھا یہ۔۔۔۔سوہان نے اپنی خاموشی توڑی

کیوں؟

کیوں؟

عاشر اور میشا ایک ساتھ پوچھ پڑے

کیونکہ یہ ضروری تھا۔۔۔۔سوہان آرام سے بولی

سوہان یہ پین فُل ہے ہمارے لیے اسپیشلی فاحا کے لیے۔۔۔۔میشا نے عجیب نظروں سے سوہان کو دیکھا تھا

پاور فُل ہونے لیے پہلے پین فُل ہونا بنتا ہے"فاحا میں یا تم" اپنے ماضی سے بھاگ نہیں سکتے فاحا نے آج اپنی کہانی پہلی اور آخری بار شیئر کی ہے کیونکہ یہ ضروری تھا وجہ یہ کہ اب زندگی میں جو تکلیف دہ عمل ہوتا ہے فاحا اُس سے گُزر گئ کیونکہ آج جو اُس نے باتیں کی ہیں وہ اُس کے دل پر بوجھ تھیں آج فاحا کے دل کا بوجھ ہلکا ہوگیا ہے فاحا کو اب کبھی جھوٹ کا سہارا لینے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی وہ ہمیشہ سچ بولے گی انسان کو خوابوں کی دُنیا میں نہیں بلکہ حقیقت پسند ہونا چاہیے کیونکہ حقیقت پسند انسان ہی زندگی کی تلخ حقیقتوں کو برداشت کر سکتا ہے خود میں سہن پیدا کرسکتا ہے فاحا کے الفاظ اگر تمہارے لیے تکلیف دہ تھے تو اُس سے زیادہ بولنا فاحا کے لیے ایک مشکل مرحلہ تھا جس کو وہ سر کرچُکی ہے اب فاحا کا پاسٹ کبھی اُس کے فیوچر میں مداخلت نہیں کرے گا اور نہ کمزور۔۔۔۔۔سوہان نے تفصیل سے سب کچھ اُن کے گوش گُزار کیا

"وہ سب تو ٹھیک پر فاحا نے اپنی زندگی کی پرسنل باتیں شیئر کی ہیں وہ بھی سب کے سامنے۔۔۔میشا کے لیے یہ کچھ ہضم کرنا آسان نہ تھا

آجکل پرسنل یا پرائیویٹ کچھ نہیں ہوتا کوئی چائے یا کیک بھی کھاتا ہے تو فیس اسٹوری"واٹس ایپ اسٹیٹس لگ جاتا ہے۔۔۔سوہان تمسخرانہ لہجے میں بولی

اور جنہوں نے فاحا کے بارے میں جانا وہ سب؟میشا نے پوچھا

فاحا کو کون جاتا ہے؟فاحا اسکول جاتی کب ہے سِوائے ایکزامز دینے کے؟"اور کیا آجکل لوگوں کے پاس اِتنا وقت ہے کہ اپنے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچے بھی۔۔۔۔ سوہان نے اُلٹا اُس سے سوال کیا

پر سوہان فاحا کے گنتی کے جو چند دوست تھے اب تو وہ بھی گئے۔۔۔میشا نے کہا

تاعمر دوست لڑکوں کے ہوتے ہیں لڑکیوں کے نہیں "لڑکیوں کے دوست اسکول کے اسکول تک اور کالج سے کالج تک اور یونی سے یونی تک ہوتے ہیں"اُس کے علاوہ اگر تھوڑی بات چیت ہو بھی جائے تو لڑکی کی زندگی ایسی بن جاتی ہے جہاں دوستیاں نبھانے کا وقت نہیں نکلتا اور نہ گُنجائش اور اگر یونی کے بعد اتفاقً ملاقات کبھی"مال "سڑک"روڈ بس "ٹرین پر ہو بھی ہوجائے تو ایسے ملتے ہیں جیسے بس میں بیٹھے لوگ آپس میں تھوڑی بات چیت وغیرہ کرلیا کرتے ہیں اور پھر ہر کوئی اپنے راستے کا مسافر بن جاتا ہے"مگر لڑکوں کا ایسا کوئی سین نہیں ہوتا اُن کی دوستیاں وقت کے ساتھ پختہ ہوجاتی ہے کسی وجہ سے کبھی فاصلہ درمیان میں آ بھی جائے تو اتفاقً جب ملاقات ہوتی ہے تو ہائے ہیلو کہہ کر نکل نہیں جاتے بلکہ فورن نمبر ایکسچنج کرتے ہیں۔۔۔۔پھر اُن کے رابطہ دوبارہ سے استوار ہوجاتے ہیں۔۔۔۔سوہان نے اب کی جیسے اُن کی بولتی بند کرلی تھی وہ اپنی بیس سالہ زندگی میں کچھ زیادہ ہی حقیقت پسندی کا مُظاہرہ کررہی تھی

"تم اپنی جگہ ٹھیک ہو خیر ہمیں اب ٹاپک چینج کرنا چاہیے۔۔۔۔عاشر گہری سانس بھر کر بولا جبھی باہر بیل ہوئی تھی

میں دیکھتی ہوں۔۔۔"فاحا اُن سب کو دیکھ کر کہتی اُٹھ کر دروازے کے پاس آئی

آپ کون؟سامنے ایک خاتون کو دیکھ کر فاحا نے ناسمجھی سے اُس کو دیکھ کر پوچھا

تم فاحا ہو نہ؟جواباً وہ اُس کو دیکھ کر مسکراکر بولی

جی مگر آپ کیسے جانتی ہیں مجھے؟فاحا کی آنکھوں میں اُلجھن در آئی

میں تمہاری خالہ ہوں۔۔۔۔وہ بولی

خالہ؟فاحا نے اُس کا لفظ دوہرایا

ہاں خالہ یعنی تمہاری ماں جیسی۔۔۔۔اُس نے بتایا جبھی سوہان بھی وہاں آئی

فاحا کس کے ساتھ باتوں میں لگی ہوئی ہو؟سوہان سیدھا فاحا سے مخاطب ہوئی تھی

کیسی ہو سوہان؟اُس نے اب سوہان کو مُخاطب کیا تو وہ چونک کر اُس کو دیکھنے لگی۔

آپ؟سوہان کے ماتھے پر سوچ کی پرچھائی چھائی

تمہاری آنٹی ساجدہ۔۔۔۔۔۔اُس نے نم نظروں سے اب کی اپنا تعارف کروایا تو یکایک سوہان کے دماغ میں کچھ کلک ہوا تھا"جس پر اُس کے چہرے پر ایک سایہ آکر لہرایا تھا مگر جلدی سے اُس نے خود کو کمپوز کرلیا تھا

السلام علیکم آپ یہاں کیسی ہیں؟سوہان اُس کے گلے مل کر پوچھنے لگی فاحا جبکہ خاموش سی اُن کو ملتا دیکھ رہی تھی

میں ٹھیک ہوں"تم یہ بتاؤ اسلحان کہاں ہے؟ساجدہ نے اُس کے سر پر ہاتھ پھیر کر پوچھا

جاب پر ہیں آپ آئے نہ اندر اور آپ واپس تو نہیں جائینگی نہ؟سوہان نے بے ساختہ پوچھا تو ساجدہ نے اپنا سر نفی میں ہلایا جس پر سوہان کو گونا سکون میسر ہوا

❤❤❤❤❤❤❤

کچھ سال بعد۔۔۔۔۔۔

آئے محترمہ میں آپ کو چھوڑدیتا ہوں۔۔۔۔۔بیس سالہ فاحا سر پر حجاب اُوڑھے اور کندھوں پر اچھے سے چادر لپیٹے سڑک پر کھڑی تھی جب رکشے والے نے اُس کو دیکھ کر کہا

کہاں چھوڑ دیتا ہوں؟فاحا نے تعجب سے اُس کو دیکھا

گھر اور کہاں؟وہ شانے اُچکائے بولا

کس کے گھر؟اگلا سوال

آپ کو آپ کے گھر۔۔۔اُس نے بتایا

آپ کو میرے گھر کا کیسے پتا چلا"کیا آپ مجھے فالو کرتے ہیں۔۔۔۔فاحا کا منہ حیرانگی سے کُھل گیا تھا جس پر رکشے والا جانے کیوں گِڑبڑا سا گیا تھا

ارے نہیں میڈم آپ اپنے گھر کا ایڈریس بتائے گی تو میں چھوڑ آؤں گا۔۔۔۔وہ جلدی سے وضاحت دینے لگا

میں کیوں آپ کو اپنے گھر کا ایڈریس بتانے لگی؟"آپ میرے چچا کے بیٹے لگتے ہو؟فاحا اُس کو گھور کر بولی

ارے میڈم اگر آپ کو نہیں آنا تو بتادے ہمارا دماغ خراب کیوں کررہی ہو۔۔۔وہ زچ ہوکر کہتا جانے لگا

کیا مطلب میں آپ کا دماغ خراب کررہی ہو؟"میں کیا پاگل ہوں اور آپ کو شرم آنی چاہیے اکیلی لڑکی کو دیکھ کر اُس کو رکشے میں بیٹھنے کی آفر کرریے ہیں"کیا آپ کے گھر میں ماں بہن نہیں ہے۔۔۔۔فاحا تپ کر ایک سانس میں بولنے لگی

ارے بہن میں رکشے والا ہوں

رکشے والے ہیں تو کیا بس یوں ہی لڑکیوں کو تاڑتے رہینگے۔۔۔۔وہ کچھ کہنے والا تھا جب فاحا اُس کی بات درمیان میں کاٹ کر بولی جبھی وہاں ایک بائیک رُکی تو بائیک پر بیٹھے شخص کو دیکھ کر فاحا کے ماتھے پر بل نمایاں ہوئے

آپ اب آئے ہیں میں کب سے آپ کا انتظار کررہی تھی دیکھے یہ مجھے رکشے میں بیٹھنے کا بول رہا ہے کیا میں ایسی ویسی لڑکی ہوں جو ہر راہ چلتے رکشے والے کے ساتھ بیٹھ کر چلتی پِھرتی رہوں گی۔۔ بائیک پر بیٹھے شخص کو دیکھ کر فاحا شکایتی انداز میں بولنے لگی تو بائیک پر بیٹھے شخص نے رکشے والے کو جانے کا اِشارہ دیا تو وہ شکر کا سانس خارج کرکے نو دو گیارہ ہوگیا

عاشر بھائی اُس کو جانے کیوں دیا؟فاحا نے رونی صورت بنائی

فاحا جہاں تم کھڑی ہو وہاں تمہیں رکشے والے بیٹھنے کا تو کہینگے نہ۔۔۔۔عاشر اُس کا گلوز پہنے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں لیکر نرمی سے بولا

میں جبھی گھر سے باہر نہیں نکلتی اور کیا ہوتا جو آپ جلدی آجاتے۔۔۔۔فاحا نے کہا

کام سے گیا تھا پر خیر تم بیٹھو۔۔۔۔عاشر نے بتانے کے بعد کہا

آپ جانتے ہو میری کوکنک کلاس تھی آج اگر وقت پر نہیں گئ تو میری خیر نہیں۔۔۔۔فاحا اُس کے پیچھے بیٹھ کر بتانے لگی تو عاشر اپنا سر نفی میں ہلاتا بائیک اسٹارٹ کرنے لگا

❤❤❤❤❤❤❤

کیا یہ آپ کے پورے ڈاکیومنیٹس ہیں؟ریلنگ چیئر پر تیس سالہ موجود شخص حجاب میں لپیٹے میشا کے خوبصورت چہرے کو دیکھ کر پوچھنے لگا

جی میرے پورے ڈاکیومنیٹس ہیں۔۔۔۔میشا نے جواب دیا

مگر آپ کہ ایجوکیشن تو بہت کم ہے ایسے میں کس بنا پر آپ کو یہ ہم جاب دے۔۔۔اُس نے اگلا سوال کیا

قابلیت کی بنا پر جو مجھ میں بہت ہے بچپن سے۔۔۔۔میشا نے جلدی سے بتایا

اچھا تو کیا کرلیتی ہیں آپ؟وہ تھوڑا رلیکس ہوا اور تھوڑا ٹیبل پر جُھکا

سب کچھ۔۔۔۔۔۔میشا نے اپنی بات پر خاصا زور دیا

مجھے خوش کرسکتی ہو؟یکایک اُس کی آنکھوں میں عجیب تاثرات آئے تو میشا نے ہونٹوں گول شیپ دیا

آپ کو خوش کیسے کروں"مجھے تو نہیں پتا۔۔۔۔میشا نے خاصے افسوس کا اِظہار کیا

ارے اِس میں کونسی مشکل بات ہے"بس دو گھڑی اپنی قُربت کے مُیسر کرنے ہوگے۔۔۔وہ اُس کے گلوز پہنے ہاتھوں کو دیکھ کر بولا

اوکے نو پروبلم۔۔۔۔میشا فورن مان گئ تو اُس کی باچھین کُھل گئ

حجاب اُتارو اپنا۔۔۔۔۔۔وہ شاید بریک لیس تھا"اِس لیے گاڑی کو اِتنا تیز چلا رہا تھا یا میشا کو دیکھ کر اُس کو جان ہی نہیں پایا تھا

یہ نیک کام آپ کردے۔۔۔۔میشا تھوڑا شرما کر کہتی اُٹھ کھڑی ہوئی تو وہ خود کو ہواؤں میں اُڑتا محسوس کرنے لگا پھر جب ریلنگ چیئر پہ سیدھا ہوکر بیٹھا تو میشا بیحد آہستہ سے چلتی ہوئی اُس کے قریب آئی

کمینہ۔۔۔وہ اپنا ہاتھ اُس کے حجاب میں ڈالنے لگا تو میشا درمیان میں اُس کا ہاتھ روکتی ایک زور کا جھٹکا دیا تو کڑک کی آواز سے اُس آدمی کی آنکھیں پھٹنے کی حد تک کُھلی کی کُھلی رہ گئ وہ شاک کی کیفیت میں اپنے ہاتھ کو دیکھنے لگا جو ہِل جُل تک نہیں رہا تھا۔۔۔

ی یہ۔۔۔اپنے ہاتھ کو موو نہ کرتا دیکھ کر اُس سے کچھ بولا نہیں گیا

چٹاخ

یہ زور کی چپیڑ تھی میری۔۔۔۔۔۔میشا ایک زوردار تھپڑ اُس کے گال پر جڑکر دانت کچکچاکر بولی

کیا تم پاگل ہو؟وہ درد سے کراہ اُٹھا

کمینے اِنسان میں میشا ہوں میشا ہاتھ لگانے والے کا ہاتھ اور فضول بولنے والا کا منہ توڑنے والی تمہیں کیا لگا توں مجھے باقیوں لڑکیوں کی طرح دل بہلانے کا سامان بنائے گا اور میں بن جاؤں گی اِتنی سستی نہیں ہے میشا۔۔.مسلسل اپنی لاتیں اُس کے پیٹ پر مارے میشا بولنے میں مگن تھی پھر جب اپنا دل بھر گیا تو اپنا سارا سامان لیکر وہ اُس کے کیبن سے نکل گئ۔۔۔


سُنو۔۔۔باہر آکر ریسپیشن پہ کھڑی لڑکی کو اُس نے مخاطب کیا

جی؟وہ مسکراکر اُس کو دیکھنے لگی

یہ لو اپنے بوس کا علاج کروانا بیچارا کافی ناساز طبیعت کا ہوگیا ہے۔۔۔ایک نوٹ اُس کی طرف بڑھائے میشا بنا اُس کی کوئی بات سُنے چلی گئ تھی جبکہ وہ لڑکی کبھی جاتی ہوئی میشا کی پشت دیکھتی تو کبھی ہاتھ میں پکڑا"پانچ سؤ کا نوٹ جو میشا اُس کو تھماگئ تھی

آجکل پانچ سؤ میں کس کا علاج ہوتا ہے پاگل تھی کوئی۔۔۔۔وہ سرجھٹک کر بڑبڑاتی اپنے کام میں مصروف ہوگئ۔۔۔


آفس کی بلڈنگ سے باہر نکل کر میشا نے اپنے اُوپر چادر اچھے سے لپیٹ لی تھی...اور سیدھا پھر اپنی اسکوٹی کے پاس آئی جو اُس نے اپنی کمائی سے لی تھی تنکا تنکا جوڑ کر

ہائے میشو رانی تیری قسمت میں ویٹریس کی جاب لکھا ہے اور بھلا قسمت سے آجکل کون فرار ہوا ہے۔۔۔۔چادر کو واپس اُتارتی میشا اپنی اسکوٹی پر بیٹھ کر آہستگی سے بڑبڑائی تھی۔۔"اور گھر جانے کی نیت سے اُس نے اسکوٹی چلانا شروع کیا۔۔۔۔

گھوڑی جیسی چال ہاتھی جیسی دُم

او ساون راجا کہاں سے آئے تم

چک دھم دھم چک دھم دھم

چک دھوم دھوم چک دھوم دھوم


میشا نے جیسے گھر میں قدم رکھا تو کانوں کے پردے پھاڑنے والی آواز نے اُس کا استقبال کیا تھا۔۔۔


فاحا؟؟؟؟

حجاب سے پِن نکالے وہ اُونچی آواز میں فاحا کو آواز دینے لگی مگر گانے کی آواز اِس حدتک تیز تھی کہ اُس میں میشا کو اپنی آواز دبتی محسوس ہوئی


کوئی لڑکی ہے جب وہ ہنستی ہے

بارش ہوتی ہے چھنک چھنک چھم چھم


فاحا یار میری شادی نہیں ہے اِس لیے گانا بند کرو اور پانی کا گلاس دو مجھے۔۔۔۔۔"اور کچھ کھانے کا بھی لانا۔۔۔۔میشا نے ایک اور کوشش کی مگر اُس کی آواز کچن میں موجود فاحا پر نہیں پڑی تھی۔۔


کوئی لڑکا ہے جب وہ گاتا ہے

ساون آتا ہے گھم گھم گھم

چک دھم دھم چک دھم دھم


اب کی میشا کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تھا جبھی خود کچن میں آئی جہاں ڈانس کے اسٹیپ لیتی اپیرن پہنے فاحا کوئی نئ ڈِش بنانے میں مصروف تھی۔۔۔اُس کو ایسے مگن دیکھ کر میشا کو تاؤ جبھی دانت پیس کر پہلے اُس نے گانا بند کیا اور پھر اُس کے سر پہ کھڑی ہوئی

"میں نے پانی مانگا تھا تم سے اور یہاں تم گانے سُننے میں مصروف ہوں۔۔۔۔میشا نے اُس کو گھور کر کہا

اوونہہو میشو آپو مجھ سے بات نہ کرے میں حلیم بنا رہی ہو آپ کی آواز سے میں ڈسٹرب ہورہی ہو۔۔۔۔فاحا نے مصروف لہجے میں اُس کو ٹوک کر کہا تو میشا ایک تھپڑ اُس کے سر پہ مارا

سؤ آواز کے ویلیوم میں جو گانا چلایا ہوا تھا اُس سے ڈسٹرب نہیں ہورہی تھی اور اب میری آواز سے تم ڈسٹرب ہورہی ہو۔۔۔۔میشا تپ کر بولی

انٹرویو بُرا گیا کیا آپ کا۔۔۔۔۔چولہے کی آنچ دھیمی کرکے فاحا نے اپنا تُکا لگایا

ہاں بہت میرے نا ہونے والے بوس سے ہاتھ پائی بھی ہوئی۔۔۔میشا اسٹول پر بیٹھ کر بتانے لگی تو فاحا نے اُچھل کر اُس کو دیکھا

آپو ڈونٹ۔۔۔۔فاحا بے یقین نظروں سے اُس کو دیکھنے لگی

اب تو ہوگیا نہ۔۔۔۔میشا نے بڑی معصومیت کا مُظاہرہ کیا

آپو سیریسلی اِتنے بڑے بزنس مین سے آپ لڑائی کرکے آئی ہیں کیوں؟فاحا پوری طرح سے اُس کی جانب متوجہ ہوئی تھی

سالہ بدتمیزی کررہا تھا۔۔۔"لگادی تھی پھر میں نے پھٹنی بڑا بول رہا تھا۔۔۔"دو گھڑیاں قُربت کی میسر کرنی ہوگی۔۔۔آخر میں میشا نے باقاعدہ اُس کی نقل کھینچی

بچنے کے چانسسز تھے؟فاحا کے چہرے پر پریشانی بھرے تاثرات تھے

بدقمستی سے۔۔۔۔میشا نے کافی غمگین لہجے میں بتایا جیسے اُس کے بچنے کا بہت افسوس ہوا ہو اُس کو

"یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔۔۔۔فاحا گہری سانس بھر کر بولی

مگر ہونے کو اب کون ٹال سکتا ہے۔۔۔اُس کی بات کا میشا نے ایک الگ اپنا مطلب نکالا

"میرا نہیں خیال ویٹریس کے علاوہ کوئی اور جاب آپ کے ہاتھ آئے گی۔۔۔۔فاحا سرجھٹک کر بولی

میں اُس میں خوش ہوں خیر یہ بتاؤ کھانا بن گیا ہے مجھے بہت بھوگ لگی ہے۔۔۔۔میشا نے دوسرا ٹاپک چِھیڑا

ہاں بن گیا ہے مگر ایک مصالحہ اور کچھ چیزیں نہیں ہیں اُس کے لیے مجھے دُکان جانا ہوگا تب تک آپ نگٹس سے کام چلالے۔۔۔۔اپیرن اُتارے فاحا نے اُس کو جواب دیا

بغیر مصالحے کے بنا لو یا اگر جارہی ہو تو میرے لیے ساٹھ والی پیپسی اور ڈیڑہ سؤ والی لیز چپس لانا۔۔۔۔میشا نے انگڑائی لیکر کہا تھا

ڈھائی سؤ نکالے پھر۔۔۔۔فاحا نے اپنا ہاتھ اُس کے آگے پھیلایا

شرم نہیں آئے گی دو ٹکے کی چیزوں کے لیے بڑی بہن سے پیسے بٹورتے ہوئے۔۔۔میشا نے لعن طعن کی مگر وہ بھی اُس کی بہن تھی

شرم آپ یہاں بیٹھ کر کرے میں تب تک مطلوبہ چیزیں لے آؤ گی اور پورے ڈھائی سؤ دیجئے گا۔۔۔۔فاحا نے آرام سے کہا

میرا سودا تو دو سؤ دس کا ہے چالیس ایکسٹرا تمہیں کس خوشی میں دوں؟میشا نے اُس کو آنکھیں دیکھائی

اِتنا سفر کر پیدل جاؤں گی تو مجھے بھی تو کچھ حاصل ہو اور آپ بحث نہ کرے جلدی سے مجھے پیسے دت تاکہ میں جاؤں۔۔۔۔فاحا نے عجلت کا مُظاہرہ کیا

باہر پرس پڑا ہے میرا اُس سے لو۔۔۔میشا نے دل پر پتھر رکھ کر اُس سے کہا تو فاحا سر کو جنبش دیتی کچن سے باہر نکلی

❤❤❤❤❤

اوائل دسمبر کی خنک رات تھی"اور وہ اِس وقت اپنے گاؤں میں ہونے والی کسی شادی میں شرکت کرنے آئی تھی جو اُس کے لیے ایک بڑا مراحلہ تھا کیونکہ اُس کو ایسی تقریبوں میں دلچسپی نہیں ہوا کرتی تھی اور آج بھی وہ اپنی ماں کے بار بار اسرار کرنے پر آئی تھی۔۔۔۔


"خود پر چادر ٹھیک کیے وہ ہاتھوں کو باہم آپس میں مسلتی اسٹیج پر آئی جہاں صوفے پر گھونگھٹ اوڑھے ایک بچی بیٹھی ہوئی تھی جس کی عمر چودہ یا پندرہ سال کے درمیان ہوگی۔۔"اُس کو دیکھ کر لالی بے ساختہ مسکرائی تھی وہ سمجھی تھی شاید یہ بچی کی شرارت ہے۔۔۔

"لگتا ہے آپ کو شادی کا شوق ہے خیر بتاؤ دولہن کہاں ہے؟لالی اُس کے پاس بیٹھ کر اپنے ازلی نرم لہجے میں گویا ہوئی تو اُس نے اپنے چہرے سے گھونگھٹ تھوڑا سِرکایا تھا اور اُس کا میک اپ سے اٹا چہرہ دیکھ کر لالی کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔۔۔"کیونکہ جس کو وہ بچی کی شرارت سمجھے ہوئے تھی وہ پوری دولہن کی طرح تیار تھی

"میں ہوں دولہن۔۔۔۔وہ بولی تو لالی دھک سی رہ گئ"سامنے بیٹھی بچی کی آنکھوں کے تاثرات اُس کے اندر موجود خلفشار کا پتا بتارہے تھے

تم تو ابھی بچی ہو اور سہی نہیں ہے یہ"تم چودہ سال کی ہو یہ عمر شادی کی نہیں۔۔۔لالی سے ٹھیک بولا نہیں جارہا تھا اُس کو سمجھ نہیں آیا وہ کیا کہے

"آپ اِس گاؤں کی نہیں کیا؟اُس کے لہجے میں تحقیر پن سمٹ آیا تھا

ہوں۔۔۔۔لالی یکلفطی بولی

پھر حیران ہونا بننا بنتا نہیں آپ کا۔۔۔۔اُس نے طنز کیا یا عام لہجے میں کہا یہ بات لالی کے سمجھ میں نہیں آئی تھی

تمہاری امی کہاں ہے؟لالی نے اُس کی ماں کا پوچھا

اللہ کے پاس ۔۔وہ تکلیف دہ لہجے میں بولی

تمہارا نام کیا ہے؟اُس کے جواب پر گہری سانس بھر کر لالی نے اگلا سوال کیا

حاجرہ۔۔۔۔مختصر جواب دیا

تمہارے گھروالوں کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔۔۔لالی کو خود بھی بُرا لگ رہا تھا مگر جو پھر حاجرہ نے بتایا اُس پر لالی کو افسوس کے ساتھ غُصہ بھی آنے لگا

"ویسے اگر مولوی صاح رضامندی جاننے کے لیے آئے تو کیا مجھے"قبول ہے قبول ہے"کہنا پڑے گا۔۔۔۔حاجرہ سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھ کر پوچھنے لگی۔۔۔۔

ہاں۔۔۔۔لالی نے اپنا سراثبات میں ہلایا

اگر میں قبول ہے نہ بولوں تو۔۔۔۔۔؟حاجرہ نے کسی اُمید کے تحت پوچھا

تو پھر یہ تمہیں جان سے ماردینگے۔۔۔لالی نے کہا تو حاجرہ کی آنکھوں میں درد ہلکورے کھانے لگا

میرا دل چاہتا ہے میں خودکشی کرلوں۔۔۔۔وہ زندگی سے سخت بیزار لگ رہی تھی

خودکشی حرام ہے۔۔۔۔لالی نے رسانیت سے اُس کو سمجھایا مگر حاجرہ کو بھی شاید کسی دوست کی تلاش تھی جس سے وہ اپنا بوجھ ہلکا کرسکے جبھی اپنے من میں موجود ہر بات وہ لالی کو بتاتی گئ تھی اور جب نکاح کا وقت ہوا تھا لالی اسٹیج سے اُتر گئ تھی مگر دولہا جو خود بھی چودہ یا پندرہ سال کا تھا اُس کو دیکھ کر لالی نے دُکھ بھری سانس خارج کی تھی۔۔۔۔۔


"کاش ایسا ہو کہ میں یہاں سے بہت دور چلی جاؤں اِتنا دور کہ پھر کبھی واپس آنے کا امکان نہ ہو کوئی"مگر لگتا ہے یہ حسرت میں اپنے ساتھ قبر تک لے جاؤں گی مجھے نہیں پسند یہ بے جا سختیاں اور یہاں کے ریت ورسمیں میں کُھلی ہوا میں سانس لینا چاہتی ہوں تاکہ خود کو ترو وتازہ محسوس کروں"میں ایک آزاد پنجھی بننا چاہتی ہوں مگر میں حویلی کی دیواروں میں قید ہوں اور یہ قید ایسی ہے جہاں رہائی پانا مشکل ہے۔۔۔۔"پر میں اپنے اُس دل کا کیا کروں جس کا وہاں دم گھٹتا ہے۔۔۔۔


اپنے اِطراف ہر ایک کو دیکھتی لالی حسرت بھرے انداز میں سوچ رہی تھی جبھی اُس کے پاس گاؤں کی ایک خاتون آئی تھی۔۔۔

آپ سردار کی بیٹی ہو نہ آؤ آپ کے ہاتھوں میں یہ دولہن کی مہندی لگاؤں تاکہ اگلا نمبر پھر آپ کا ہو خیر سے اب آپ بھی جوان ہو۔۔۔۔وہ خاتون پرجوش لہجے میں بولی تو لالی بدک کر ان سے دور ہوئی جیسے اُس کو ڈر ہو کہ شاید ایسا واقعی میں نہ ہوجائے

"مجھے شادی نہیں کرنی مجھے ابھی شہر جاکر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنی ہے آپ دعا کرنا کہ بابا مان جائے اور میرا یونی میں ایڈمیشن ہوجائے۔۔۔۔لالی پہلے ہونک بن کر کہتی آخر میں درخواست کرنے لگی

لو جی گاؤں کی چھوکری کبھی شہر یونی گئ ہے جو آپ جاؤ گی۔۔۔۔وہ خاصے تعجب سے کہتی اُس کے برابر سے گُزر گئ تھی مگر اُس کے جُملے پر لالی کو مایوس ہوئی تھی۔ ۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

وہ ریڈ شرٹ اور وائٹ جینز پینٹ اور ساتھ میں سر پر میچنگ حجاب پہنے ایک ہاتھ میں اپنا سیل فون لیے دوسرے ہاتھ سے اپنا بریف کیس پکڑے ایئرپورٹ پر کھڑی کسی کو مسیج کرنے میں محو تھی۔۔"اُس کی خوبصورت پیشانی پر ایک لکیر اُبھری ہوئی تھی شاید وہ اکتاہٹ کا شکار تھی۔"کیونکہ سر نہ اُٹھانے کے باوجود وہ لوگوں کی خود پر نظریں اچھے سے محسوس کرسکتی تھی۔۔۔۔

سوری۔۔۔۔۔شوخ آواز سن کر سوہان نے اپنا سراُٹھایا تھا جہاں عاشر دانتوں کی نُمائش کیے اُس کو دیکھ رہا تھا

"تمہیں پتا تھا میں آنے والی ہوں اور تمہاری وجہ سے میں نے کیب بُک نہیں کروائی اور تم پورے دس منٹ لیٹ ہو۔۔۔۔سوہان اُس کو دیکھ کر بیحد سنجیدہ لہجے میں بولی

جی جانتا تھا آپ آنے والی ہو پر ٹرسٹ می یونی کے کام میں کچھ ایشوز ہوگیا تھا جبھی یہاں آنے میں وقت لگ گیا۔۔۔۔عاشر اُس کے ہاتھ سے بریف کیس لیکر وضاحت دینے لگا

تمہارا ابھی یونی میں ایڈمیشن نہیں ہوا؟"ایک سال ضائع کرچُکے ہو اور کتنے کرنے کا اِرادہ ہے؟سوہان نے افسوس سے اُس کو دیکھا

"نہیں اور نہیں کرنا اب سیریس ہوکر اسٹڈی پر فوکس کرنا ہے"بائے دا وے آپ کے کیا اِرادے ہیں۔۔۔۔؟عاشر اُس کے ساتھ ایئرپورٹ سے باہر نکلتا بتانے کے بعد پوچھ بیٹھا

پریکٹس اُس کے بعد لائسنس کے لیے اپلائے کروں گی۔۔۔۔سوہان نے بتایا کیونکہ کچھ سال پہلے وہ اولیولیز کرنے کے بعد مُلک سے باہر تھی

آل دا بیسٹ ویسے بھی آپ کی ایک بہن بہت اچھے سے کافی سرو کرنا سیکھ گئ ہے اور دوسری شیف بننے کی پوری تیاریوں میں ہے اور ہاں فاحا سلائی کڑھائی کا کام بھی ساتھ میں سیکھ رہی ہے۔۔۔۔عاشر نے اُن دونوں کے بارے میں بتایا"سوہان کے لب پہلی بار مسکرائے تھے

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

گاڑی کیوں روکی؟گاڑی کی بیک سائیڈ پر بیٹھا اسیر ملک جو سفید شلوار قمیض میں ملبوس"کندھوں پر بھوری شال اُوڑھے اور پاؤں میں پشاوری چپل پہنے موبائل فون میں بزی تھا"اپنی گاڑی کو اچانک رُکتا محسوس کیا تو کرخت آواز میں پوچھا

سردار جی ٹریفک ہے راستہ نہیں۔۔۔ڈرائیور نے بتایا تو اُس کی کُشادہ پیشانی پر لاتعداد بلوں کا اضافہ ہوا تھا اُس نے کوفت سے اپنے اِراد گرد نگاہ ڈالی تھی پھر کچھ سوچ کر وہ گاڑی سے اُترا تو گارڈز بھی یکدم الرٹ ہوئے تھے جو اُس کی گاڑی کے پیچھے کھڑی گاڑیوں میں بیٹھے تھے۔۔۔

پانچ منٹ ویٹ کرو پھر سگنل توڑ دینا۔۔۔اسیر گاڑی کے کچھ فاصلے پر کھڑا ہوتا حکم صادر کرنے لگا تبھی کوئی تیز طوفان کی طرح اُس سے ٹکرایا تھا جس سے اُس کے ہاتھ میں موجود مہنگا سیل فون نیچے گِر پڑا تھا

سس سوری۔۔۔۔نیچے گِرا سیل فون دیکھ کر فاحا ڈر کر بولی تو اسیر ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینچ کر فاحا کو گھورنے لگا تھا

اندھی ہو؟اسیر نے تیکھی نظروں سے اُس کو دیکھا

اندھی نہیں ہوں بس جلدی میں آپ کو دیکھ نہیں پائی۔۔۔۔۔فاحا جھٹ سے کہا تو اسیر کو اُس پر تاؤ آیا جس نے لمبے چوڑے مرد کو دیکھا نہیں تھا۔۔۔۔"بقول اُس کے وہ دیکھ نہیں پائی

کیسے دیکھتی جگ جہان کی آپ معصوم جو ٹھیری۔۔۔اسیر نے بھوگ کر طنز کیا

میں نے سوری بولا ہے آپ کو اور اگر فون کی اسکرین ڈیمیج ہونے کا آپ کو افسوس ہے تو آپ کا فون آپ کی وجہ سے گِرا ہے اگر آپ گرفت مضبوط رکھتے تو وہ نہ گِرتا۔۔۔۔فاحا نے جلدی سے اپنا دامن صاف کیا تو اسیر کی نظر اپنے سیل فون پر گئ جو ایک گارڈ نے اُٹھا لیا تھا۔۔۔۔

جی جی آپ سے کچھ نہیں ہوا ساری غلطی تو ہماری ہے"آپ تو جگ جہان کی معصوم ٹھیری۔۔۔اسیر ایک اچٹنی نظر اُس پہ ڈال کر بولا

تھینک یو۔۔۔۔فاحا تھوڑا رلیکس ہوئی"پر سر ابھی بھی جُھکا ہوا ہی تھا" مگر جانے کیوں اسیر کو اُس پہ غُصہ آیا"کیونکہ ایک طرف اُس کی بے نیازی تھی تو دوسری ہر کوئی اُن دونوں کو دیکھ کر ہارون پہ ہارون دیئے جارہا تھا

دوبارہ تم اگر ہمارے راستے میں آئی تو ہم تمہارا گلا دبادے گے۔۔۔اسیر اُس کے جُھکے ہوئے سر کو دیکھ کر وارننگ بھرے لہجے میں بولا تو اِس بار اُس کے"ہم"لفظ پہ اپنا سراُٹھاتی فاحا اُس کے پیچھے دیکھنے لگی جہاں گارڈز کی ایک لائن تھی جن کو دیکھ کر اُس کا سانس خُشک ہوا

یااللہ میری گردن تو پتلی سی ہے ایک یہ دبائے گے تو میرا کام تمام ہوجائے گا اِتنے سارے لوگوں کو زحمت دینے کی کیا ضرورت ہے؟وہ چور نگاہوں سے اُس کا وجیہہ چہرہ دیکھ کر دل میں بڑبڑانے لگی۔۔۔

"لڑکی کیا بڑبڑائی ہو۔۔۔اسیر کو اُس پر تاؤ آیا

کک کچھ بھی نہیں ہم تو اپسس سوری میرا مطلب میں تو جارہی ہوں آپ خوامخواہ ناراض کیوں ہورہے ہیں۔۔۔۔فاحا گڑبڑاکر سنبھل کر کہتی وہاں سے جانے لگی۔۔۔"اسیر بھی ایک آخری نظر اُس پہ ڈالے اپنی گاڑی میں دوبارہ بیٹھا تھا

❤❤❤❤❤❤❤❤

یہ لڑکا کون ہے؟"جو ایک ہفتے سے ہمارے کیفے میں آتا ہے مگر ہر روز الگ الگ لڑکیوں کے ساتھ آتا ہے۔۔۔۔میشا ٹرے میں کافی ڈالتی "سامنے بیٹھے بلو شرٹ اور وائٹ پینٹ پہنے آریان کو دیکھا جس کے گلے میں ایک لمبی چین تھی تو ہاتھوں میں مخلتلف قسم کے بینڈز تھے۔۔"جس پر وہ بلا کا ہینڈسم لگ رہا تھا مگر میشا ایک نظر اُس پر ڈالنے کے بعد سرجھٹک کر اپنے ساتھی سے پوچھنے لگی

آریان ہے"آریان دُرانی زوریز دُرانی کا نام تو سُنا ہوگا تم نے اُس کا چھوٹا بھائی ہے یہ۔۔۔اُس نے بتایا

میں نہیں جانتی۔۔"ضوریز کو۔۔میشا نے آنکھیں گُھمائی

ضوریز نہیں زوریز "زوریز دُرانی بزنس مین ہے ایک سال ہوا ہے اُس کو پاکستان آئے بہت قابلِ شخص ہے وہ پیسے کماتا ہے اور یہ اُس کا چھوٹا بھائی اپنی نت نئ گرل فرینڈز پر پیسے لوٹاتا ہے۔۔۔"آسٹریلیا کا بہت بڑا پلے بوائے رہ چُکا ہے اور وہی سب اب یہاں چل رہا ہے۔۔۔۔اُس نے تفصیل سے بتایا

بھائی کماتا ہے اور یہ لوٹاتا ہے کیوں؟"اِس کا بھائی روکتا ٹوکتا نہیں کیا اُسے؟میشا کو خاصا تعجب ہوا

بادشاہ کی جان طوطے میں زوریز دُرانی کی جان آریان دُرانی اور تم باتیں کم کرو اُس کو کافی دے آؤ۔۔۔وہ سرجھٹک کر بولا

ایک ہفتے سے تمہاری یاری ہے اُس کے ساتھ خود جاؤ۔۔۔۔میشا نے انکار کیا

میشا ضد نہیں کرو ہمارا ڈیلی کا کسٹمر ہے۔۔۔اُس نے کہا تو میشا ہزار منہ کے زاویئے بناتی ٹرے پکڑے اُس کی ٹیبل پر آئی تو آریان جو اپنی گرل فرینڈ سے بات کرنے میں تھا ویٹر کے بجائے ویٹر کے کپڑوں میں ویٹریس دیکھ کر اُس کو تھوڑی حیرت ہوئی جس کے چہرے سے لگ رہا تھا وہ کافی بہت بے دلی سے دے رہی تھی۔۔"مگر ایسے کپڑوں میں اُس کے سر پر حجاب آریان کو یونیک لگا۔۔۔

ہائے سویٹ ہارٹ۔۔۔۔آریان نے اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری جس پر کافی ٹیبل پر رکھتی میشا نے آنکھیں چھوٹی کیے اُس کو گھورا تھا پر کہا کچھ نہیں۔۔۔"جو بھی تھا وہ اپنی اِس جاب سے بہت خوش تھی۔۔۔

بیوٹی اِن حجاب۔۔۔۔وہ کافی مگز رکھ کر جانے لگی تو آریان اپنے ساتھ آئی لڑکی سے ایکسکیوز کرتا میشا کے پیچھے پیچھے آیا

تمہارا نام کیا ہے؟آریان بہت بے تُکلفی والے انداز میں پوچھنے لگا جیسے سالوں کے دو بِچھڑے یار ملے ہو

میری زندگی کا ایک اصول ہے اور وہ یہ ہے کہ"میں زیادہ بولنے والوں کا منہ توڑدیا کرتی ہوں۔۔۔وہ جھٹکے سے پلٹ کر اُس کو گھور کر وارننگ بھرے لہجے میں بولی تو آریان ایک قدم پیچھے لیتا ہونٹوں کو گول شیپ دیئے سرتا پیر اُس کا جائزہ لیا

کافی غلط اصول بنایا ہوا ہے منہ تمہیں اُن کا توڑ دینا چاہیے جو فری میں منہ لگتے ہیں آؤ ہم ایک بار ٹرائے کرتے ہیں۔۔۔۔آریان اپنا چہرہ اُس کی طرف کیے بولا تو میشا عجیب نظروں سے اُس کو گھورنے لگی جو پہلی ہی مُلاقات میں حد سے زیادہ فری ہورہا ہے۔۔۔

تم نہ جہنم میں جاؤ۔۔۔میشا نے زچ ہوکر کہا تو آریان کی نظر ایک آرٹیفیشل پھول پر گئ تو کچھ سوچ کر وہ اپنے ہاتھ میں لیا

پہلے ایک بات کہوں؟آریان نے اجازت چاہی

پھوٹو اور پھر فوٹو۔۔۔۔میشا نے جان چُھڑوانے والے انداز میں کہا

ہیں؟؟؟

پھوٹو اور فوٹو کا مطلب؟آریان نے اپنے کان کی لو کُھجائی

پھوٹو مطلب جو بکواس کرنی ہے وہ جلدی سے کرو"اور فوٹو سے مُراد بکواس کرنے کے بعد یہاں سے دفع ہوجانا۔۔۔۔میشا نے تلملا کر کہا

اوو تمہارا مطلب عزت سے بے عزت ہونا۔۔۔آریان نے سمجھنے والے انداز میں سر کو جنبش دی تو میشا نے بڑے ضبط سے اُس کو دیکھا

اچھا سُنو مس بیوٹی"

میرے ہاتھ میں پھول ہے کوئی اسلحہ تو نہیں،آئے لو یو بولوں کوئی مسئلہ تو نہیں؟آریان اُس کو دیکھ کر جذب کے عالم میں بولا جس پر میشا نے ضبط سے اُس کو گھورا

میرے پاؤں میں فلیٹ کی چپل ہے کوئی ہیل والی سینڈل تو نہیں،تمہارے سر پر ماروں کوئی مسئلہ تو نہیں۔۔۔جوابً میشا اُس کو وارن کرتی بولی تو وہ بیچارہ گڑبڑا سا گیا کیونکہ کہنے کے ساتھ میشا نے اپنے پاؤں سے چپل اُتار کر ہاتھ میں پکڑی تھی


"گُستاخ آنکھیں

بے باک لہجہ

سُنا رہا ہے کسی

عشق کی داستان


آریان اُس کے ہاتھ سے چپل لیکر پاؤں کے پاس رکھتا ایک بار پھر گویا ہوا


"بے چین آنکھیں

لوفرانہ انداز

بیان کررہا ہے تمہارا

چِھچھوڑا پن


میشا بھی دوبدو بولی

واہ واہ دیکھنا تم جیسے آجکل کی جنریشن پروین شاکر اور فراز احمد کی شاعری پڑھتی ہے نہ آنے والے وقت میں نیو جنریشن ہماری شاعری پڑھے گی مطلب جہاں پروین شاکر کی جگہ تم لینے والی ہو اور فراز احمد کی جگہ میں"میں ایک شعر ادا کروں گا اور وہ تم اُس کے اپوزٹ شعر نکالو گی امیزنگ ہوگیا یہ تو۔۔۔۔۔آریان باقاعدہ تالی مار کر بولا

پتا ہے صبح سے میرے ہاتھوں میں بہت خارج ہورہی ہے۔۔میشا نے اپنا ہاتھ اُس کے آگے لہراکر ڈھکے چُھپے الفاظوں میں کچھ سمجھانا چاہا

آج پہلی تاریخ ہے نہ سیلری ضرور ملے گی حوصلہ مت چھوڑو۔۔۔۔آریان نے اُس کی بات کا مطلب سمجھنا ضروری نہیں سمجھا اور اُس کے لہرائے ہوئے ہاتھ پر ایک زور کی تالی ماری تو میشا نے ایک بڑا صبر کا گھونٹ بھرا

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

میرا معاملہ الگ ہے میرے ہاتھوں میں جب کُھجلی ہوتی ہے تو اُس کا مطلب کسی کی پیٹائی ہونی ہوتی ہے۔۔۔میشا نے کہنے کے ساتھ ہی ہاتھ کی مُٹھی بنائے اُس کو پنج مارنا چاہا مگر آریان جلدی سے اپنا چہرہ سائیڈ پہ کرتا اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑلیا تھا

ناٹ آ گُڈ شاٹ پر تم دوبارہ کوشش کرنا" ٹرائے اگین۔۔۔۔۔آریان دانتوں کی نُمائش کرتا بولا

تمہیں تو میں کیفے کے باہر دیکھوں گی یہاں میری جاب ہے جبھی تمہارا لحاظ کررہی ہوں۔۔۔۔میشا وارن کرتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولی

تو یہ تمہارا لحاظ ہے ماشااللہ چشم بدور۔۔۔۔آریان تو غش کھانے کے در پہ ہوا"جو مسلسل بے عزت کرنے بعد بول رہی تھی کہ میں تمہارا لحاظ کررہی ہوں اور اگر یہ لحاظ تھا بھی تو بے عزتی جانے کیا ہوگی اُس کی؟"یہ سوچتے ہی آریان کو جھرجھری سی آئی تھی

افففف افف۔۔۔۔میشا زچ ہوئی

تمہارا ٹائٹل میں نے سوچ لیا ہے۔۔۔۔آریان پرجوش لہجے میں بولا

کونسا ٹائٹل؟میشا کافی میکر کو دیکھ کر بولی

مس اففف افف۔۔۔آریان مزے سے بولا

گیٹ آؤٹ۔۔۔میشا نے اُس کو باہر کا راستہ دیکھایا

ابھی تو جارہا ہوں مگر پھر ملینگے۔۔۔۔آریان نے اپنے ہاتھ کی دو انگلیوں کو کنپٹی تک لائے اُس کو سلوٹ کیے کہا

"جب تمہارے کانوں میں کھجلی ہوگی۔۔۔۔میشا طنز ہوئی

کانوں میں کُھجلی؟آریان سمجھ نہیں پایا

ہاں کانوں میں کُھجلی ہوگی اب تمہارے جو غائب میری گالیاں سن کر ہوگی۔۔۔میشا نے دانت کچکچائے کہا

تم بہت مزاحیہ ہو ہماری خوب جمے گی جب مل کر بیٹھے گے دو مزاحیہ لوگ۔۔۔۔۔آریان اُپنا ہاتھ اُس کے گالوں تک لائے اُس کو چھوے بنا اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرے مزے سے کہا

اور تم بہت چِھچھورے ہو"یقیناً میرے ہاتھوں تمہاری کُٹائی اچھی خاصی ہونی لکھی ہے۔۔میشا دوبدو بولی

اِتنی تم کوئی تھانیدارنی خیر ایک مُلاقات میں کتنا جان گئ ہو تم۔۔۔۔آریان بہت ڈھیٹ واقع ہوا تھا

گو ٹو ہیل۔۔۔۔۔۔میشا نے تھوڑا چیخ کر کہا

تم ساتھ چلو نہ ایسا نہ ہو کہ پھر میری یاد میں تم یہ گانا اکیلے خود گاتی آؤ"


"تیرے در پہ صنم

ہم چلے آئے

توں نہ آیا تو ہم

چلے آئے

چلےےےے آئے

چلے آئے


آریان نے باقاعدہ گانا گاء کر سُنایا

بے فکر ہوکے جاؤ کیونکہ تمہارے پیچھے میں تو کبھی نہیں آنے والی۔۔۔۔میشا نے جتاتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا تو آریان نے بُرا منہ بنایا تھا"اور میشا نے اُس کو اگنور موڈ پر کرلیا

❤❤❤❤❤❤❤❤

آپ نے کیا سرپرائز دیا ہے ایک دم بیسٹم بیسٹ والا۔۔۔فاحا زور سے سوہان کو گلے لگائے بولی تو اُس نے مسکراکر فاحا کے ماتھے کا بوسہ لیا

کیسی ہو؟"اور کام کیسا چل رہا ہے۔۔۔۔سوہان نے پوچھا

سب بیسٹ اور دیکھیے گا جلدی میرا ریسٹورنٹ ہوگا اور ایک بڑا بوتیک جو میرے نام سے جانا جائے گا۔۔۔. فاحا نے پرجوش انداز میں کہا تو سوہان ہلکا سا مسکرائی

"اُس کے لیے تمہیں کوئی امیرزادہ پٹانا پڑے گا۔۔۔عاشر نے لقمہ دیا

جی نہیں۔۔۔فاحا نے آنکھیں چھوٹی کیے اُس کو گھورا

عاشر کو چھوڑو مجھے یہ بتاؤ کہاں تھی تم"تم تو زیادہ اور اکیلی تو بلکل بھی نہیں آتی جاتی پھر؟سوہان کے لہجے میں تفتیش کے ساتھ فکرمندی تھی

میشا آپو کا ڈریس سِلنا تھا تو بٹن اور دھاگیں چاہیے تھے وہ لینے نکلی تھی"جبھی وہاں وقت لگ گیا۔۔۔۔فاحا نے گول مول سا جواب دیا"اپنی اور اسیر کی مُلاقات کا تضکرہ کرنا اُس نے ضروری نہیں سمجھا کیونکہ وہ کونسا اسیر کو جانتی تھی اُس کے لیے تو یہ تھا کہ وہ آج اُس شخص سے پہلی مرتبہ ملی ہے

میشو ہے کہاں؟سوہان صوفے پر بیٹھتی میشا کے بارے میں پوچھنے لگی

آپ نے یاد کیا اور ہم یہاں۔۔۔۔اچانک میشا کی آواز نے اُن تینوں کو چونکہ دیا تھا جو بھاگ کر بڑی گرمجوشی سے سوہان کے گلے لگی تھی

کیسی ہو؟"میرے آنے کا کیسے پتا چلا تمہیں؟اُس کا ٹھنڈا ری ایکشن دیکھ کر سوہان نے پوچھا

میں ٹھیک اور جیسا کہ اب تمہارا کام وہاں نہیں تھا واعدے کے مُطابق تم نے پریکٹس بھی یہی کرنی ہے اور جب تمہارا نمبر کل پاورڈ آف لگا تو میشو دا انٹلیجنس نے جان لیا کہ آپ یہاں آنے والی ہیں۔۔۔۔میشا نے بتانے کے درمیان خود کی تعریف کرنا ضروری سمجھا

افففف آپ کی خودساختہ سوچ۔۔۔۔۔فاحا نے ناک سیکڑی

تم تو جلتی رہنا۔۔۔میشا نے اُس کو آنکھیں دیکھائی

یہاں آج لگتا ہے کچھ کھانے کو نہیں ملے گا۔۔۔عاشر نے اُن دونوں کا دھیان اپنی طرف کرنا چاہا

ارے آپ کے لیے تو میں نے گوشت کڑاہی کی ہے۔۔۔۔فاحا نے فخریہ انداز میں اُس کو بتایا

چکن کراہی ہوتا ہے۔۔۔میشا نے طنز نظروں سے اُس کو گھورا

چکن کی اُردو میں ٹرانسلیٹ گوشت نکلتا ہے اِس لیے آپ مجھے نہ پڑھائے اور آپو آپ کو پتا ہے کل سے میں انسٹی ٹیوٹ جانے والی ہوں۔۔۔۔میشا کو جواب دیتی فاحا آخر میں سوہان سے بولی جو مسکراکر اُن دونوں کو آپس میں بحث کرتا سُن اور دیکھ رہی تھی۔۔

کوئی نئ بات نہیں ہے تم آئے دن کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی اسکول میں کوکنگ کلاس لیتی رہتی ہو۔"کچھ نیا ہے تو وہ بتاؤ۔۔میشا نے ناک سے مکھی اُڑائی

اِس بار میں سیریس ہوں اور دیکھنا اِس انسٹی ٹیوٹ سے میں شیف سے ماسٹر شیف بن جاؤں گی۔۔۔۔فاحا فخریہ انداز میں بولی

"گائیز چکن کا مطلب تو مرغی ہوتا ہے ناکہ گوشت۔۔۔وہ آپس میں بحث کرنا پھر سے شروع ہوئیں تھیں جب عاشر اچانک سے بولا تو اُن دونوں کے ساتھ سوہان نے بھی اِس بار عاشر کو عجیب نظروں سے دیکھا

سیریسلی عاشر بھائی آپ کی سوئی مرغی اور چکن گوشت کے گرد اٹکی ہوئی ہے۔۔۔۔فاحا کو جیسے یقین نہ آیا

"نہیں وہ تو بس میں۔۔۔عاشر تھوڑا گڑبڑا سا گیا

میں فریش ہوجاؤں تم دونوں تب تک میز سجادو۔۔۔۔۔سوہان اپنی جگہ سے اُٹھ کر بولی

دونوں کیوں یہ اکیلی جائے گی میں پڑھی لکھی ہوں اور گھر کی ساری زمیداری اِس کے زمے ہیں آخر کو اسکول نہ جانے کی سزا تو بنتی ہے نہ۔۔۔۔۔میشا نے اپنے ہاتھ کھڑے کیے

دس منٹس میں ٹیبل سیٹ ہو۔۔۔جواباً سوہان اِتنا کہتی وہاں سے چلی گئ تھی اُس کی بات پر جہاں میشا کا منہ کُھلا کا کُھلا رہ گیا تھا وہی فاحا اور عاشر دل اور منہ پورا کھول کر ہنسے تھے

ویری روڈ یار۔۔۔۔میشا منہ کے زاویئے بناتی اُٹھ کھڑی ہوئی

آؤ میں تم دونوں کی مدد کروالیتا ہوں پر آنٹی ساجدہ کہاں ہے ابھی تک نظر نہیں آئی؟عاشر بھی اپنی جگہ سے اُٹھ کر اُن سے بولا

اپنے کمرے میں ہیں سورہی ہیں۔۔۔۔فاحا نے جواب دیا اور ایسے ہی وہ باتیں کرتے کچن میں داخل ہوگئے تھے

❤❤❤❤❤❤❤❤

آریان اپنے گھر میں داخل ہوا تو نظر پول سائیڈ پر بیٹھے اپنے بھائی پر گئ جس کے ایک ہاتھ میں کافی کا بڑا مگ تھا تو دوسرے ہاتھ کی اُنگلیاں تیزی سے لیپ ٹاپ کے کیبورڈ پر چل رہی تھی اور اُس کی پرسوچ نگاہیں اِس وقت لیپ ٹاپ کی اسکرین پر جمی ہوئیں تھیں۔۔

السلام علیکم ۔۔۔۔کچھ سوچ کر آریان اُس کے برابر آکر بیٹھا اور سلام کیا

وعلیکم السلام ۔۔۔سنجیدگی سے بھرپور جواب دیا گیا جس میں کوئی گرمجوشی نہیں تھی جیسی عموماً ہوا کرتی تھی۔۔۔

کوئی ناراض ہے۔۔۔۔آریان اُس کے ہاتھ میں موجود کافی اپنے ہاتھ میں لیئے ایک بڑا سا گھونٹ پی کر بولا تو زوریز نے خاصی ناگوار نظروں سے اُس کو دیکھا

سوری۔۔۔۔۔آریان نے دوسرا اور آخری لمبا گھونٹ پی کر مگ اُس کے سامنے واپس کیا

اپنی چیزیں تو تمہیں شیئر کرنا گُناہ لگتی ہیں مگر دوسروں کی چیز پر حق جلدی سے جمالیتے ہو۔۔۔۔زوریز نے سرجھٹک کر کہا تو آریان نے کان کی لو کُھجائی

اینگری مین اپنے غُصے کی وجہ بیان کرے کیونکہ میں جانتا ہوں ایک کافی کی وجہ سے تم مجھ پر اِتنا برس نہیں سکتے۔۔۔۔آریان وثوق سے بولا تو زوریز نے لیپ ٹاپ کی اسکرین کو بند کیا اور اپنی نظریں اُس پر ٹِکائی

آج غالباً میں نے تمہیں ایک اہم میٹنگ میں بھیجا تھا اور تم نے کلائنٹ کو اکیلا بیٹھائے چھوڑدیا کیوں؟"تم جانتے تھے نہ کتنا اہم پراجیکٹ تھا یہ۔۔۔۔۔زوریز نے کہا آریان کے ہونٹوں پر ایک شریر قسم کی مسکراہٹ نے احاطہ کیا تھا کیونکہ زوریز کی بات پر اُس کی آنکھوں کے سامنے بھک سے میشا کا حجاب میں لپیٹا چہرہ آیا تھا


"میرے ہاتھ میں آپ کا لیپ ٹاپ ہے

کوئی اسلحہ تو نہیں

اِس کو زمین پر دے ماروں کوئی مسئلہ تو نہیں؟


جواب میں آریان نے اُس کا لیپ ٹاپ اپنی طرف کیے کہا تو ٹھوڑی پر ہاتھ کی مٹھی جمائے زوریز نے اُس کو سنجیدگی سے دیکھا تھا


"میرے ہاتھوں میں گرم کافی کا کپ ہے

کوئی اسلحہ تو نہیں

تمہارے خوبصورت چہرے پر گراؤں

کوئی مسئلہ تو نہیں؟


جیسے کو تیسا

زوریز نے بھی بڑی شرافت سے کافی کا مگ ہاتھ میں لیئے اُسی کے انداز میں کہا اور اِشارے سے لیپ ٹاپ واپس رکھنے کا کہا تو آریان کا منہ بن گیا تھا۔۔۔

"مستقبل میں لگتا ہے آپ فیض احمد فیض کی جگہ سنبھالنے والے ہیں۔۔۔۔۔آریان بے دلی سے لیپ ٹاپ واپس رکھتا اُس سے بولا

میری بات کا جواب نہیں دیا تم نے؟زوریز نے غیرضروری باتوں پر بحث کرنا ضروری نہیں سمجھا

بیوٹی ود برین مل گئ تھی تو اُس سے گپ شپ کرنے لگ پڑا واپس آیا تو آپ کی مغرور کلائنٹ موجود نہ تھی ویسے کافی نان پروفیشنل لوگوں میں تمہارا اُٹھنا بیٹھنا ہے اگلی بار جس کو بھی ڈیل کرو پہلے مجھ سے ملوالیا کرو۔۔۔۔آریان نے اپنا کیا دوسروں کے سر پر ڈالا تو زوریز نے تاسف سے اُس کو دیکھا

اپنے کلائنٹ کو بیچ میں چھوڑ کر جانا تمہارے نزدیک کس پروفیشنل میں آتا ہے؟زوریز نے جاننا چاہا

چھوڑو نہ یار اُٹھو اور کھانا کھاکر سوجاتے ہیں وقت گُزرا ٹاپک بھی گُزر گیا۔۔۔"ویسے بھی لڑکیوں سے الرجک آپ ہو اور مشہور میں ہوگیا ہو آریان دُرانی دا بیگیسٹ پلے بوائے"ارے اُن کو کوئی بتائے میں تو معصوم ہوں جس کا چکر لڑکیوں سے نہیں ہوتا بس اپنے بھائی کو اُن سے بچانا ہوتا ہے۔۔۔۔آریان دُھائی دینے والے انداز میں بولا

بی سیریس آریان کل تمہاری دوبارہ اُس سے میٹنگ ہے اور میں اِس بار کوئی کوتاہی برداشت نہیں کروں گا۔۔۔۔زوریر نے سنجیدگی سے کہا تو آریان نے تابعداری سے سراثبات میں ہلایا

❤❤❤❤❤❤❤

تم جاہل عورت ہو جب سے شادی کی ہے میرا تو جینا حرام ہوگیا ہے۔۔۔۔۔"

لالی اپنے کمرے سے باہر نکلی تو کانوں کے پردے پھاڑنے کی حد تک تیز آواز سن کر اُس نے گہری سانس ہوا کے سُپرد کی یہ اُس کے بھائی کی آواز تھی"جس کو سُننا اُس کا روز کا معمول تھا اور اب تو پوری حویلی والوں کی عادت بن گئ تھی وہ دونوں میاں بیوی نہ جگہ کا خیال کرتے اور نہ آس پاس موجود لوگوں کا بس جو دل میں آتا منہ پھاڑ کر ایک دوسرے کو بول دیتے۔۔۔"شروع شروع میں"فائقہ بیگم نورجہاں بیگم نے اُن کو سمجھانے کی بہت کوشش کی تھی مگر سب بے سود دیکھ کر اُنہوں نے اُن کو اُن کے حال پر چھوڑدیا تھا


"تمہارا نہیں جینا تو میرا حرام ہوگیا ہے جو جانتے ہوئے بھی تم جیسے بی اے پاس لڑکے سے شادی کی جس کو بات کرنے کی تمیز نہیں آتی۔۔۔۔"اب کی جواباً اپنی بھابھی کی آواز سن کر اُس کے چہرے پر تلخ مسکراہٹ آئی تھی۔۔


"شادی ایک ایسی زمیداری ہے ایک ایسا رشتہ ہے جہاں اپنا سب کچھ بھول کر"بس اپنی شادی شدہ زندگی میں لگانا پڑتا ہے چاہے پھر آپ کی اندرونی حالت جیسی بھی ہو مگر خود کے علاوہ ہر ایک کا سوچنا پڑتا ہے"خوشقسمت لوگ ہیں وہ جن کو شادی کے بعد پرسکون خوبصورت زندگی کسی اچھے ہمسفر کے طور پر ملتی ہے جو ہر راہ میں اُن کا ساتھ دیتا ہے۔۔۔"پر اِن ساری باتوں کو چھوڑ کر میرا یہی ماننا ہے کہ شادی کرنا ایک بُہت بُرا تجربہ ہے انسان کو شادی پر مفروضے اور مشاہدے کرنے ضرور چاہیے مگر تجربہ؟تجربہ ہرگز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ پھر خود پر آپ کا خود کا اختیار مکمل طور پر ختم ہوجاتا ہے آپ کی زندگی کی ڈور کسی اور کے حوالے ہوتی ہے پھر وہ جو چاہے جیسے چاہے اُس ڈور کو کھینچتا ہے۔۔۔"اور آپ دوسروں کے محتاج ہوجایا کرتے ہو۔۔۔۔


ہال میں اپنے بھائی اور بھابھی کو کُتوں کی طرح لڑتا چھوڑ کر وہ سیدھا ٹی وی لاؤنج میں آئی تھی جہاں اُس کی ماں اِرد گرد سے کان لپیٹے ٹی وی پر ساس بہو کا ڈرامہ دیکھنے میں بزی تھی

ماں جی۔۔۔۔لالی نے ہولے سے اُن کو پُکارا

ہممم؟نظریں ٹی وی پر ٹکائے اُنہوں نے لالی کو جواب دیا

"بابا سے آپ نے بات کی؟لالی تھوڑا جھجھک کر پوچھنے لگی تو اِس بار فائقہ بیگم نے سخت ناگوار نظروں سے اُس کو دیکھا تھا جس پر لالی نے اپنی نظریں ہاتھوں پر کرلی

ایک بار کی تھی نتیجہ میری بے عزتی نکلا تھا اور تم کیوں چاہتی ہوں تمہارا باپ مجھے بے عزت کرتا پِھرے۔۔۔فائقہ بیگم نے سختی سے کہا تو لالی شرمندہ ہوئی

ماں جی آگے پڑھنا میرا شوق ہے۔۔۔۔لالی محض اِتنا بولی

تم نے پڑھ لکھ کر کرنا کیا ہے؟"چپ کرکے بیٹھی رہو یہی آئی بڑی پڑھنے۔۔فائقہ بیگم نے نخوت سے سرجھٹکا

ماں

بڑی مالکن اسیر بابا کے کمرے کی صفائی اچھے سے کردی ہے کوئی اور کام ہے تو بتادے۔۔۔۔حویلی کی خادمہ ہاتھ باندھے فائقہ بیگم سے مُخاطب ہوئی تو لالی جو کچھ کہنے والی تھی رُک گئ تھی

"اسیر بھائی گاؤں واپس آگئے ہیں کیا؟لالی چونک کر صوفے سے اُٹھ کھڑی ہوئی

جی وہ تو کل رات آئے تھے۔۔۔خادمہ نے بتایا تو لالی وہاں سے سر پِٹ بھاگی تھی اور بریک سیدھا اسیر کے کمرے میں لگائی تھی۔۔

بھائی

دروازے کے پاس پہنچ کر لالی نے اسیر کو آواز دی تو وہ جو اپنی بندوقوں کو پرسوچ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا"دروازہ نوک ہونے پر مڑ کر دروازے کی طرف دیکھا جہاں گُھٹنوں تک آتی پرنٹ شدہ خوبصورت قمیض جس کے ساتھ پلازوں پہنے"سر پر اچھے سے ڈوپٹہ پہنے لالی بھی اُس کو دیکھ رہی تھی۔۔۔

لالی آؤ باہر کیوں کھڑی ہو؟اُس کو دروازہ پر جم کے کھڑا دیکھ کر اسیر نے کہا تو لالی چہرے پر آتی آوارہ لٹوں کو کان کے پیچھے اُڑستی کمرے میں آئی

کوئی کام تھا؟اسیر نے اندازہ لگایا کیونکہ لالی بلاوجہ نہ تو اُس سے مُخاطب ہوتی تھی اور نہ کسی کام کے بغیر کوئی اُس کے کمرے میں آتا تھا

آپ بابا سے میرے مطلق بات کرے نہ۔۔۔۔۔نظریں قالین پر جمائے لالی نے کہا

تمہارا اِشارہ تمہاری شادی کے مطلق ہے؟اسیر اُس کے جُھکے ہوئے سر کو دیکھ کر اندازہ لگاتا بولا تو لالی نے سٹپٹاکر جھٹکے سے اپنا سراُٹھایا تھا اور بے یقینی نظروں سے اسیر کا وجیہہ چہرہ دیکھنے لگی جہاں کوئی تاثر نہیں تھا۔۔۔

بھائی کیا آپ کو لگتا ہے میں آپ کے کمرے میں اپنی شادی کی بات کرنے آؤں گی؟لالی نے افسوس سے کہا

بابا سے کیا بات کرنی ہے مجھے پھر وہ بتاؤ۔۔۔اسیر نے سنجیدگی سے پوچھا

کالج سے میں دو سال پہلے فارغ ہوئی ہوں اور میں اب یونیورسٹی میں داخلہ لینا چاہتی ہوں یہ بات میں بہت عرصے سے ماں جی سے کہتی آئی ہوں مگر ایک بار کے بعد اُنہوں نے بابا سے دوبارہ نہ کہا اگر آپ کہینگے تو شاید وہ راضی ہوجائے کیونکہ مجھے بہت پڑھنا ہے۔۔۔لالی نے عاجزی سے کہا تو اُس کی بات سن کر اسیر نے گہری سانس بھری

کس شہر کی یونی میں پڑھنا چاہتی ہو نام بتادو کل فارم تمہیں مل جائے گا۔۔۔۔جواب میں اسیر نے جو کہا وہ اُس کی سوچ کے اُلٹ تھا وہ تو یہ سوچے آئی تھی کہ کچھ وقت تو اسیر کو منانے میں لگ جائے گا مگر وہ تو اپنے مزاج کے مطابق اِس بار بھی بس اصل بات پر آیا تھا

بب بابا سے بات؟لالی حیرانگی سے نکل کر اُس سے پوچھنے لگی

وہ اب ہمارا مسئلہ ہے تم بس بتاؤ کہاں پڑھنا چاہتی ہو؟اسیر نے سنجیدگی سے پوچھا

اسلام آباد کی یونی جو بھی ہو بس ماحول اچھا ہونا چاہیے۔۔۔اپنے بلیوں کھاتے دل کو کنٹرول میں کرتی لالی نے محخ اِتنا کہا

ماحول ہماری شخصیت پر اثرانداز نہیں کرتا لالی"آپ کا کردار اور آپ کا دل اگر صاف ہے تو ماحول جیسا بھی ہو اُس سے ہماری شخصیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا سب سے بڑی بات خود کو سنبھالنا ہوتا ہے اگر وہ کرلیا تو سمجھو سب ہوگیا اگر ماحول لوگوں پر اثرانداز ہوتے تو کوئی بھی گھر سے باہر نہ نکلتا۔۔۔۔اسیر نے ہنوز سنجیدہ انداز میں کہا تو لالی بے ساختہ آگے بڑھ کر اُس کے سینے لگی تھی۔۔

مجھے اگر پتا ہوتا آپ اِتنی جلدی مان جائے گے تو دو سال کبھی ضائع نہ کرتی۔۔۔لالی خود پر افسوس کرتی بولی

ہمیں تم سے غافل نہیں ہونا چاہیے تھا ہماری غفلت کا نتیجہ ہے یہ خیر ہماری بھی مجبوری تھی سؤ کام دیکھنے کو ہوتے ہیں اور نظیر سے تو ہم کوئی اُمید نہیں لگاتے۔۔۔۔اسیر اُس کے سر پہ ہاتھ پھیر کر بولا تو لالی مسکراکر اُس سے الگ ہوئی

میں یہ خبر دادو کو سُنا کر آتی ہوں مجھے پتا ہے اب یونی جانے سے مجھے کوئی روک نہیں سکتا۔۔۔۔لالی پرجوش ہوکر بولی تو اُس کی خوشی دیکھ کر اسیر نے بھی پہلی بار اُس کو مسکراکر دیکھا

تم ہماری بہن ہو اگلی بار تمہارے لہجے میں منت "حسرت"نہیں بس حُکم ہونا چاہیے۔۔۔۔اسیر نے کہا تو لالی اِس بار محض گردن ہلا پائی تھی وہ چاہ کر بھی اُس سے یہ نہیں کہہ پائی کہ ایسا بہت کچھ ہے جو وہ بھائی سمجھ کر اُس کے ساتھ نہیں کرسکتی تھی۔۔۔


"کچھ خُواب ہیں میری اِن آنکھوں میں

کچھ حسرتیں ہیں میرے دل میں

کچھ خواہشات ہے میری زندگی میں

جن کو پوری ہوتا دیکھنا میری

جستجو ہے۔۔۔۔۔


اپنی سوچو میں مگن لالی اُس کے کمرے سے باہر نکل آئی تھی اُس کا اِرادہ اب عروج بیگم کے پاس جانے کا تھا۔۔۔۔

سچ میں اسیر نے خود سے اجازت دی تمہیں؟نورجہاں بیگم حیرت سے لالی کا چمکتا چہرہ دیکھ رہی تھی"جبکہ عروج بیگم کے چہرے پر ہلکی مسکراہٹ تھی

ہاں بلکل"اُنہوں نے تو یہ بھی کہا کہ میں اپنی ہر بات اُن سے منواسکتی ہوں۔۔۔لالی نے فخریہ انداز میں بتایا

"ظاہر ہے وہ تمہیں اِجازت کیوں نہیں دیتا کل کو اُس نے اپنی بیٹی کو بھی تو یونی میں بھیجنا ہے نہ۔"تمہارے لیے تمہارے بھائی کا دل اِتنا سخی نہیں ہے وہ بس اپنی بیٹی کے راستے صاف کررہا ہے تاکہ کل کُلاں کوئی اُس کو کسی قسم کا طعنہ نہ دے۔اسمارہ بیگم (نوریز کی تیسری بیوی)نے کمرے میں داخل ہوکر کہا" تو لالی نے بے ساختہ اپنے ہونٹ کُچلے

اقدس(اسیر کی چھ سالہ بیٹی) کا ذکر کہاں سے آگیا؟عروج بیگم نے سنجیدگی سے اُن کو دیکھا

ایسے ہی بول دیا۔۔۔۔اسمارہ بیگم نے سرجھٹکا

وہ تو بچی ہے ابھی۔۔۔۔۔لالی کی خوشی مانند پڑی

آج بچی ہے کل اسکول جائے گی پھر کالج یونی میں بیٹیوں کو بڑے ہونے میں وقت کتنا لگتا ہے۔۔۔۔۔اسمارہ بیگم سرجھٹک کر بولی

اِن کی باتیں سن کر اپنا دل خراب کرنے کی ضرورت نہیں اُٹھو اور اپنے شہر جانے کی تیاری کرو۔۔۔عروج بیگم اب کی اُن کو نظرانداز کرتی لالی سے بولی تو وہ سراثبات میں ہلاتی اُٹھ گئ۔۔۔۔

اسیر اول تو تمہیں یہ کام کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے تھی اور ایک تم ہو جو بڑی ڈھیٹائی سے بول رہے ہو کہ لالی کا ایڈمیشن اسلام آباد کی یونی میں کروا دیا ہے کیوں؟"اور کس کی اِجازت سے۔۔۔سجاد ملک خاصے تپے ہوئے انداز میں اُس سے جواب طلب ہوئے تھے

شرم کیسی ہے؟اور کیا آپ کو واقعی نہیں پتا یونی میں کیوں جایا جاتا ہے؟اسیر نے بڑے تحمل کا مُظاہرہ کیا تھا

"اسیر گُستاخ مت بنو۔"لالی یونیورسٹی نہیں جائے گی اور یہ ہمارا فیصلہ ہے جس کی مُخالف کرنے کا تمہارا کوئی حق نہیں ۔"ویسے بھی اُس کی یہ شادی کی عمر ہے ناکہ یونیورسٹی جانے کی۔۔سجاد ملک نے سختی سے اُس کو ٹوک کر کہا

"ہماری زندگی کا فیصلہ آپ نے کیا تھا جس کا نتیجہ ہر ایک کے سامنے ہے"اور ہم نے تجربہ بھی اچھا حاصل کیا ہے اب ایسا دوبارہ تجربہ ہم لالی کے لیے نہیں چاہے گے وہ ہماری بہن ہے ہمارا پورا حق ہے اُس پر"آپ کا یا کسی اور کے کہنے سے ہمیں فرق نہیں پڑتا اور اگر بات کی جائے شادی کی تو لالی کی شادی کی پریشانی میں آپ مبتلہ نہ ہو جب ہمیں لگے گا اُس کی شادی ہوجانی چاہیے ہم کسی اچھی جگہ سے اُس کی شادی وہاں کردینگے۔۔۔۔۔اسیر بے لچک انداز میں بولا

اسیر گاؤں کا سردار میں نے تمہیں اِس لیے نہیں بنایا تھا کہ کل کو تم میرے مقابلے میں کھڑے ہوجاؤ لالی کی عمر چوبیس سال سے زیادہ ہے اور یہی عمر ہے

یہ عمر اُس کے پڑھنے لکھنے کی ہے ناکہ شادی کی۔۔۔۔"لالی ناسمجھ ہے ابا حضور آپ کو یہ بات سمجھ میں کیوں نہیں آرہی؟"اُس میں خوداعتماد کی کمی ہے ہماری نظر جب بھی اُس پر پڑتی ہے وہ عجیب سہمے ہوئے انداز میں رہتی ہے اور جیسا آپ لوگوں نے اُس کو ماحول دیا ہے اُس سے تو اگر کوئی جب لالی کو آواز دے تو ماشااللہ سے پھر لالی کو سامنے پڑی چیز بھی نظر نہیں آتی۔۔۔۔اسیر اُن کی بات درمیان میں کاٹ کر سرجھٹک کر بولا

لڑکیوں کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔۔۔سجاد ملک غُصے سے پاگل ہونے کے در پہ تھے

لڑکیوں کو ایسا نہیں ہونا چاہیے"اُن کا پورا حق ہے وہ سراُٹھاکر اور اپنی مرضی سے اپنی زندگی کو جیئے ۔۔"اور ایک یہی وجہ ہے جو ہم چاہتے ہیں لالی یونی جائے دو لوگوں سے ملے جُلے اُن سے بات چیت وغیرہ کرے تاکہ اُس میں اعتماد بحال ہوسکے وہ خودمختار ہونا چاہتی ہے تو ہم بنائے گے اُس کو خودمختار۔۔۔۔اسیر اٹل لہجے میں گویا ہوا تھا

تمہیں کیا لگتا ہے میں بے وقوف ہوں مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ تم یہ سب کیوں کرنا چاہ رہے"اِس لیے نہ تاکہ کل تمہاری بیٹی بھی یہی سب کرتی پِھرے یہ تمہاری بہن سے محبت نہیں بلکہ ایک طرح سے دُشمنی ہے اصل مزے تو تم اپنی اُس اپائج بیٹی کے کروانا چاہ رہے ہو۔۔۔۔سجاد ملک نے حقارت بھرے لہجے کہا تو اسیر ملک نے بڑی مشکل سے اپنے اندر موجود اشتعال کو دبایا تھا مگر اُس کے ماتھے کی اُبھرتی رگیں اُس کے اندر کا خلفشار صاف بیان کررہی تھی بے ساختہ اُس نے ہاتھ آگے بڑھاکر ٹیبل پر موجود ہر چیز کو نیچے پھینک دیا تھا

"آپ کو ہماری بیٹی اِتنی ناپسند ہے تو براے مہربانی اُس کا ذکر مت کیا کرے کیونکہ آپ کے لہجے میں موجود جو حقارت ہے نہ وہ ہمیں بہت کچھ کرنے پر مجبور کردیتی ہے جو ہم کرنا نہیں چاہتے اور ایک آخری بات ہماری اقدس اپائج نہیں ہے۔۔۔۔۔"آپریشن کے بعد وہ ٹھیک ہوجائے گی۔۔۔اسیر سرخ ہوتی نظروں سے اپنے باپ کو دیکھ کر باور کروانے والے لہجے میں بولا تھا جبھی ڈیڑے پر دو آدمی بھاگ کر آئے تھے

سردار جی غضب ہوگیا ہے نوریز ملک کے لیے ایک بہت بُری خبر ہے۔۔۔ایک آدمی بوکھلائے ہوئے لہجے میں بولا تو اسیر اپنی شال دُرست کرتا اُن کی طرف پلٹا تھا

کیا بات ہے؟سجاد ملک نے سنجیدگی سے استفسار کیا

"فراز نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر شہر سے آئی لڑکی کا ریپ کرلیا ہے۔۔۔۔دوسرے نے جیسے اُن کے سروں پر دھماکا کیا تھا"اسیر نے لہورنگ ہوتی آنکھوں سے اپنے باپ کو دیکھا تھا جن کی خواہش ہوتی تھی کہ اُس کی اور لالی کی شادی ہوجائے

کیا بکواس ہے یہ۔۔۔۔۔سجاد ملک جھٹکے سے اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑے ہوئے تھے

یہ جھوٹ نہیں ہے مالک سچ ہے وہ لڑکی شہر کے کسی بڑے آدمی کی بیٹی ہے سُنا ہے وہاں جاکر وہ چھوٹے مالک پر کیس دائر کرے گی۔۔۔پہلے والے نے بتایا جبکہ اسیر جبڑے بھینچ کر وہاں سے نکلنے لگا جب سجاد ملک نے اُس کو مُخاطب کیا تھا۔

فراز بچہ ہے اسیر کوئی بھی فیصلہ یا قدم اُٹھانے کی ابھی تمہیں قطعیً کوئی ضرورت نہیں اور تم بے فکر رہو گاؤں میں یہ بات نہیں پھیلے گی اگر پھیلی بھی تو ہم سنبھال لینگے۔۔۔۔۔

"اپنے باپ کی بات پر شال کندھوں پر ٹھیک کیے اسیر نے ہر تاثرات سے پاک چہرے سے اُن کو دیکھا تھا۔۔۔

"حویلی میں ہماری جوان اور اب چھوٹی بیٹی رہنے والی ہے اُس سے کہیے گا اپنے قدم لیکر حویلی میں داخل نہ ہو کیونکہ اگر وہ حویلی میں داخل ہوا تھا ہم اُس کی ٹانگیں توڑ کر اُس کے دھڑ کو جھومر میں لٹکادینگے۔۔۔۔۔حویلی میں پنکھا نہ ہونے کے باعث اسیر نے لفظ"جھومر"کا استعمال کیا تھا

اسیر۔۔۔۔سجاد ملک نے کرخت آواز میں اُس کا نام لیا

اسیر ملک اپنے اصولوں کا پکا ہے اور جس کو آپ بچہ بول رہے ہیں وہ دو ماہ بعد اُنیس سال کا ہوجائے گا ہم نے آپ کے بھائی کو بہت ٹوکا روکا تھا کہ اُس کا بیٹھنا اپنی عمر کے بچوں سے نہیں ہے بلکہ گاؤں کے آوارہ لڑکوں میں ہے مگر آپ لوگ عادت سے مجبور ہیں" ساری تربیت بیٹیوں کے معاملے میں سنبھال کر رکھتے ہیں اور بیٹوں کو کُھلی چھوٹ دیتے ہیں اور بعد میں سینا پیٹتے ہیں کہ ہمارا بچہ تو معصوم تھا۔۔۔۔۔اسیر خاصے طنز لہجے میں کہتا اِس بار رُکا نہیں تھا پیچھے سجاد ملک ڈھے سے گئے تھے وہ جانتے تھے اسیر اب کبھی فراز کو اپنے کزن کی نظر سے نہیں دیکھے گا بلکہ ایسے دیکھے گا جیسے قصائی بکرے کو دیکھتا ہے

❤❤❤❤❤❤

تم یہ کافی واپس لے جاؤ مجھے مس بیوٹی کافی سرو کرے گی۔۔۔۔ایک ویٹر آریان کو کافی دینے آیا تو اُس نے کافی لینے سے صاف انکار کردیا

سر میری مانے آپ میشا سے دور رہے وہ منہ توڑنے میں ایک لمحہ نہیں لگاتی۔۔۔وہ ویٹر اُس کے پاس تھوڑا جُھک کر رازدرانہ انداز میں بولا تو میشا جو دوسری ٹیبلز پر کافی سرو کرنے میں مصروف تھی تیکھی نظروں سے آریان کو دیکھا"جو آج براؤں گول گلے والی شرٹ کے ساتھ وائٹ جینز پینٹ پہنے ہوئے تھا بال لاپرواہی سے ماتھے پر گِرے پڑے تھے جبکہ آنکھوں میں ایک الگ تاثر تھا شرارت سا اور ہونٹ پر ایک شوخ سی مسکراہٹ جو اُس کی شخصیت کا خاصہ تھی۔۔۔۔۔

شکریہ میرے منہ کے لیے اِتنا فکرمند ہونے کی اب تم جاؤ اور جو کہا ہے وہ کرو ورنہ میں تمہاری شکایت مینجر کو لگاؤں گا۔۔۔۔آریان نے وارننگ بھرے لہجے میں کہا تو وہ بیچارہ گِڑبڑا سا گیا

ضرور میں جاتا ہوں۔۔۔۔۔وہ اپنی جاب بچاتا میشا کے پاس آیا

کافی واپس کیوں لائے ہو؟میشا ناسمجھی سے اُس کو دیکھ کر پوچھنے لگی۔

وہ چاہتا ہے تم اُس کو کافی سرو کرو۔۔۔۔اُس نے بتایا جس کا نام ساجد تھا

میں اُس کے باپ کی نوکر نہیں ہوں۔۔۔۔میشا نے دانت کچکچائے کہا اُس کا کوئی اِرادہ نہیں تھا کہ وہ جاکر آریان سے ایک بار پھر بحث کرنے لگ پڑتی

دیکھو میشو اگر نہیں جاؤ گی تو دونوں کی جاب کو خطرہ ہوسکتا ہے اور تمہیں پتا ہے آجکل کوئی بھی جاب آسانی سے نہیں ملتی۔۔۔۔ساجد اُس کو سمجھانے والے انداز میں بولا

مگر یہ کمینہ مجھے زرا پسند نہیں۔۔۔میشا تلملائی تھی

تو تم نے کونسا اُس سے شادی رچانی ہے بس یہ کافی کا کپ اُس کی ٹیبل پر رکھنا ہے وہ خوش اور ہماری جاب بھی بچ جائے گی۔۔۔۔۔ساجد نے کہا تو میشا نے گہری سانس بھری پھر اُس کے ہاتھ سے کافی کا کپ پکڑے آریان کی ٹیبل کے پاس جانے لگی جو اُس کے ہی انتظار میں تھا


"دیکھنے والوں نے کیا کیا نہیں دِیکھا ہوگا

میرا دعویٰ ہے کے تُجھ سا نہیں دِیکھا ہوگا

جس طرح میں نے تیری راہ تکی ہے دن میں

ہاں جس طرح میں نے تیری راہ تکی ہے دن میں

یوں کسی نے بھی تیرا رستہ نہیں روکا ہوگا۔۔


ہاں بلکل کیونکہ اِس پوری دُنیا میں ایک واحد چِھچھوڑے تم ہو۔۔۔۔وہ اُس کے سامنے کافی پھٹخ کر رکھتی طنزیہ لہجے میں بولی تو آریان جو اُس کو آتا دیکھ کر اپنی سحرانگیز آواز کا سحر پھونک رہا تھا میشا کا ایسا کمنٹ سن کر حیرت کی زیادتی کے مارے اُس کا منہ کُھلا کا کُھلا رہ گیا۔۔

چھچھوڑا؟؟؟آریان تقریباً چیخ پڑا

جی چِھچھوڑا لیٹ می ٹرانسلیٹ اُردو اِن انگلش اینڈ اِنگلش اِن اردو۔۔میشا اپنے دونوں ہاتھ ٹیبل پہ رکھ کر تھوڑا اُس کے پاس جُھکی پھر بولنا شروع کیا"

لوچا"لفنگا "لوزر فلرٹی لفنٹر۔۔۔۔میشا چبا چبا کر لفظ ادا کرتی پیچھے ہوئی جبکہ اپنے لیے ایسے الفاظ سن کر بامشکل آریان خود کو بیہوش ہونے سے بچاگیا۔

"یہ غلط ہے میں اِتنا خوبرو شخص ہوں جس کو جانے کونسے ورڈز دے رہی ہو۔۔۔۔آریان احتجاجاً بولا

تم مجھے ایک بات بتاؤ۔۔۔میشا نے سنجیدگی سے اُس کو دیکھ کر پوچھا

کونسی؟وہ جی جان سے متوجہ ہوا

مجھے ایک بات پوچھنی ہے تم سے۔۔۔میشا نے دانت کچکچائے

ایک کیوں ہزار پوچھو میں یہی ہوں کونسا مجھے کھیتوں میں ہل چلانے جانا ہے۔۔۔۔کہنی میز پر ٹیکائے آریان وہاں اپنا سر رکھے بولا تو میشا نے صبر کا گھونٹ بھر کر اُس کو دیکھا

میرے ساتھ تمہاری کوئی پرسنل دُشمنی ہے یا تمہیں میری جاب چاہیے"جو میرے پیچھے پڑگئے ہو۔۔۔۔میشا نے کہا تو آریان سرتا پیر اُس کو دیکھنے لگا جو ویٹریس کے یونیفارم میں ملبوس تھی اور ہمیشہ کی طرح حجاب بھی پہنا ہوا تھا پر آریان کو اُس کی سوچ پر حیرانگی ہوئی تھی بھلا وہ کروڑوں کا مالک ویٹر کی جاب میں انٹرسٹ کیوں لے گا؟"وہ تو کھڑے کھڑے یہ پورا کیفے خرید سکتا تھا

میرے پاس تمہارے لائق ایک آفر ہے۔۔۔۔آریان اُس کی بات نظرانداز کرکے بولا

بتاؤ؟میشا نے اکتاہٹ سے اُس کو دیکھا

تمہاری ایجوکیشن کتنی ہے؟آریان نے پوچھا تو میشا نے آنکھیں چھوٹی کیے اُس کو گھورا

دسویں پاس ہوں۔۔۔۔میشا نے ہونٹوں پر طنز مسکراہٹ سجائے جواب دیا تو آریان نے بے یقین نظروں سے اُس کو دیکھا کیونکہ وہ اُس کو کہی سے بھی میٹرک پاس لڑکی نہیں لگی تھی۔

اور ایج؟حیرانگی سے باہر نکل کر اگلا سوال کیا گیا

تیس ہے مگر بونی ہوں تو اپنی عمر سے زرا کم لگتی ہوں۔۔۔"گیارہ بہنیں ہیں ہم اور میرا نمبر پہلا ہے۔۔۔۔میشا کُرسی گھسیٹ کر اُس کے پاس بیٹھتی بے تُکلف انداز میں بتانے لگی یہ سوچ کر کہ شاید آریان سے اب جان چُھڑ جائے

تیس سال؟نائیس ایج۔۔۔۔آریان کا ہاتھ اپنے دل پر پڑا تھا پھر اُس کو یاد آیا کہ وہ بھی تو "اٹھائیس سال کا ہے اِس لیے رلیکس ہوگیا

زیادہ ہے نہ؟میشا نے جانچتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر پوچھا

بلکل بھی نہیں یہ تو میچیورٹی والی ایج ہوتی ہے"پتا ہے کیا میں نہ بہت امیچیور ہوں مگر لائیف پارٹنر نہ مجھے میچیور چاہیے اور آج تمہاری بات سن کر لگ رہا ہے جیسے میری تلاش پوری ہوگئ ہے تو میں کب آؤں سحرا پہنے تمہارے گھر؟آریان تیز گام بنتا بڑے پرجوش انداز میں بولا تو میشا نے دانت پہ دانت جمائے کافی کا کپ ٹیبل سے اُٹھائے اُس کی طرف گِرایا تھا جو اُس کی شرٹ پر اپنا نشان بنا گیا "مگر صد شکر تھا کہ اُن کی بحث کے چکر میں کافی ٹھنڈی ہوگئ تھی ورنہ آج آریان کی خیر نہیں تھی۔۔۔

"یہ کیا تھا۔۔۔۔آریان جھٹکے سے اپنی جگہ سے اُٹھتا اپنی شرٹ دیکھنے لگا"اُس کی آواز پر باقی لوگ بھی متوجہ ہوئے تھے

سسس سوری سس سر مممم مجھ سے غغغ غلطی سسسے ججج جانے ککک کیسے گگگ گِرگئ کککک کافی۔۔۔۔

(سوری سر مجھ سے جانے غلطی سے جانے کیسے گِرگئ کافی)میشا اپنے چہرے پر معصومیت بھرے تاثرات سجائے ہکلائے لہجے میں بولی تو آریان بس اُس کو دیکھتا رہ گیا جو معصومیت کا پیکر بنی ہوئی تھی۔۔۔

"کوئی بات نہیں۔۔۔۔آریان تنبیہہ کرتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولا

تھینک یو۔۔۔۔۔میشا نے آنکھیں پٹپٹائی

"سر کیا ہوا ہے۔۔۔۔مینجر فورن آریان کے پاس آیا تو میشا کی سِٹی گم ہوئی

کچھ نہیں۔۔۔آریان نے ٹالنے والے انداز میں کہا

آئے میں آپ کو واشروم تک چھوڑدیتا ہوں۔۔۔مینجر نے پیش کش کی

نِکر پہننے والا بچہ نہیں ہوں میں خود سے جاسکتا ہوں۔۔۔آریان نے تپ کے کہا تو مینجر بیچارہ بلاوجہ شرمندہ ہوا جبکہ میشا نے اپنی مسکراہٹ دبائی تھی

❤❤❤❤❤❤❤

حویلی میں اِس وقت عجیب سواگواریت والا ماحول بنا ہوا تھا"جب سے اُن سب کو فراز کی حرکت کا پتا لگا تھا تب سے ہر کوئی بے یقین تھا مگر اُس کی ماں "اسمارہ بیگم نے رو رو کر اپنا حال بے حال کیا تھا اُن کو بس یہی تھا کہ فراز پر یہ جھوٹا الزام ہے حقیقتاً ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔۔

اسیر۔۔۔۔اسیر حویلی میں داخل ہوتا اپنی شال کو فولڈ کرتا سیڑھیاں چڑھنے والا تھا جب فائقہ بیگم نے اُس کو آواز دے کر رُکا

جی؟اسیر نے پلٹ کر اُن کو دیکھا

میں کیا سُن رہی ہو تم اقدس کو حویلی میں لانے والے ہو؟فائقہ بیگم نے جانچتی نظروں سے اُس کا چہرہ دیکھا

آپ نے ٹھیک سُنا ہے اقدس اب یہاں رہے گی۔۔۔۔۔اسیر نے سنجیدگی سے جواب دیا تو فائقہ بیگم کے تاثرات بگڑے تھے"ایک دادی ہونے کی حیثیت سے فائقہ بیگم کو کبھی اُس سے کھینچاؤ محسوس نہیں ہوا تھا

دیکھو اسیر میری بات غور سے سُنو ضرورت کیا ہے؟"اقدس کو واپس بُلوانے کی؟وہ بورڈنگ اسکول میں ٹھیک ہے"ویسے بھی یہاں آئے گی تو اُس کو باتیں سُننے کو ملے گی۔"ویسے بھی حویلی میں سب کو یہی لگتا ہے کہ اقدس کی موجودگی میں عجب نحوست والا ماحول بن جاتا ہے۔۔۔فائقہ بیگم نے کہا تو اسیر کا میٹر شاؤٹ ہوا تھا مگر جو بھی تھا وہ اپنی ماں سے بدتمیزی نہیں کرسکتا تھا تبھی چُپ کرکے مڑنے والا تھا جب نظر داخلی دروازے سے آتے نوریز ملک پر گئ تو اُس نے فائقہ بیگم کو دیکھا

ہم نوریز ملک نہیں"جو کوئی ہماری اولاد کے بارے میں کچھ بھی کہے گا اور ہم اُس کو سچ مان لے گے۔۔۔۔"اسیر ملک ہیں ہم اگر کوئی ہماری اولاد کے بارے میں کچھ غلط کہے گا تو ہم گدی سے زبان کھینچ لینگے۔۔۔۔اسیر ایک ایک لفظ چبا کر سیڑھیاں چڑھنے لگا تو سامنے لالی سے ہوا جو سیڑھیاں اُتر رہی تھی

تمہیں آج شہر جانا تھا پھر یہاں کیا کررہی ہو؟اسیر اُس کو دیکھ کر سنجیدگی سے بولا تو اُس کا ایسا انداز دیکھ کر لالی کا گلا خشک ہوا

وہ

میں نے جانے نہیں دیا یونی جاکر کرنا کیا ہے؟اُلٹا اپنی بھابھی کی طرح پڑھے لکھے ہونے کا طعنہ دے گی اور ہمارے سروں پر ناچے گی۔۔۔۔لالی کے کچھ کہنے سے پہلے فائقہ بیگم پھٹ پڑی تو اسیر نے بے ساختہ دو انگلیوں سے اپنا ماتھا سہلایا"اُس کو لگتا تھا جیسے عنقریب وہ اگر یہاں رہا تو پاگل ہوجائے گا۔۔۔۔

سامان پیک ہے تمہارا؟اسیر نے سیدھا مجرم کی طرح کھڑی لالی سے پوچھا

ج جی۔۔۔۔لالی نے اپنا سراثبات میں ہلاکر جواب دیا

نیچے آجاؤ ہم خود تمہیں ہاسٹل چھوڑ آئینگے۔۔۔۔اسیر نے کہا تو لالی کا چہرہ کِھل اُٹھا تھا مگر فائقہ بیگم کو تاؤ آیا تھا۔۔۔"نوریز ملک نے جبکہ اپنا بولنا ضرور نہیں سمجھا تھا

اسیر تم کب سے بیغرت بن گئے ہو اب کیا ہمارے خاندان کی لڑکیاں گھر سے باہر رہے گی"اور لڑکوں کے ساتھ بیٹھ کر پڑھے گی۔۔۔۔فائقہ بیگم کو تو جیسے یقین نہ آیا

آپ سے واپسی پر بات ہوگی خداحافظ۔۔۔۔اسیر سنجیدگی سے جواب دیتا باہر کے راستے چل دیا تھا اور لالی بھاگنے والے انداز میں اپنے کمرے کی طرف بڑھی تھی۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤

تم گاؤں گئ کیوں تھی؟فاحا اپنے ساتھ لگی لڑکی کو دیکھ کر بولی جس سے مُلاقاتیں اُس کی انسٹی ٹیوٹ میں ہوتی تھی۔"اور وہاں آپس میں بہت فرینگ تھیں"اور جب اُس نے اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی داستان بیان کی تھی وہ شاک میں چلی گئ تھی

"لڑکے پہچان جاؤ گی تم؟سوہان نے سنجیدگی سے پوچھا

ہاں۔۔۔وہ اپنا چہرہ صاف کیے بولی

کشف یار۔۔۔۔میشا نے بھی تاسف سے اُس کو دیکھا"کشف کی حالت دیکھ کر اُس کو بھی بہت افسوس ہوا تھا

کشف ڈونٹ وری تمہیں انصاف ضرور ملے گا۔۔۔سوہان اُس کے ساتھ بیٹھتی سنجیدگی سے بولی تو کشف نے مشکور نظروں سے سوہان کا چہرہ دیکھا

تم لڑو گی میرا کیس؟کشف نے بڑی اُمید بھری نظروں سے اُس کو دیکھ کر پوچھا جس پر وہ تینوں چونک پڑیں

"آپو کیسے؟فاحا حیران ہوئی

میں کیا کروں مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا رشتیداروں کی باتوں کے ڈر سے موم ڈیڈ یہ بات دبانے کے چکر میں ہیں اور پھر اُن کے سپورٹ کے علاوہ کوئی رپورٹ تک درج نہیں کررہا ایسے میں کون میرا کیس لڑے گا؟کشف اِتنا کہتی پھوٹ پھوٹ پر رونے لگی تو فاحا کی آنکھیں بھی بھر آئیں

"روؤ مت کشف پولیس تمہاری رپورٹ صرف درج نہیں کرے گی بلکہ ایکشن بھی لے گی اور ہاں میں تمہارا کیس لڑوں گی بس کچھ وقت کی مہلت دو مجھے۔۔۔۔سوہان نے اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں دباکر پُریقین لہجے میں کہا تو کشف کو کچھ ڈھارس ملی

پر ایک مسئلہ ہے وہ گاؤں والے جو لوگ ہیں وہ بہت اصول پرست ہیں یعنی گاؤں میں جو واقعات ہوتے ہیں اُن کا فیصلہ بھی وہ خود کرتے ہیں کوئی پولیس یا باہر والا دخل انداز نہیں کرتا۔۔۔۔کشف نے آہستگی سے بتایا

تم اُن کے گاؤں کی نہیں ہو اِس لیے اُن کے جو اصول ہے تمہیں اُن کے بارے میں سوچنا نہیں چاہیے بس تم مجھے انفارمیشن ساری دے دینا میں اپنی ریسرچ بھی کروں گی۔۔۔۔سوہان نے جواباً کہا

ملکوں کا خاندان ہے پورے گاؤں میں اُن کا راج ہے اور تم تینوں بھی ملک ہو نہ تو کیا ایک ملک خاندان دوسرے ملک خاندان سے ٹکر لے گا؟کشف نے سوال اُٹھایا تو بے ساختہ میشا اور سوہان نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا

گاؤں کا نام؟میشا نے سنجیدگی سے پوچھا

گاؤں کا نام جو بھی ہے اور کشف ذات سے کچھ نہیں ہوتا ایک جیسی ذات ہے تو کیا ہم غلط کو سہی نظریے سے دیکھنے لگ پڑے؟'ذات کیا اگر ہمارا ایک خاندان بھی ہوتا تو ہم تمہیں سپورٹ کرتے کیونکہ یہ ذات پات کچھ نہیں ہوتا یہ صرف لوگوں نے ایک دوسرے کی پہچان کے لیے بنائی ہے۔۔۔فاحا نے کشف کے کہنے سے پہلے خود ہی سنجیدگی سے بولنا شروع کیا تو اُس کی بات پر سوہان نے گہری سانس بھری تھی مگر میشا مسکرائی تھی وہ جانتی تھی فاحا جھلی تھی مگر باتیں سمجھداری والی کیا کرتی تھی۔

تھینک یو سو مچ۔۔۔۔کشف نے تشکرانہ نظروں سے اُس کو دیکھا

کوئی بات نہیں ہے ویسے بھی فاحا اپنی دوست کے لیے اِتنا تو کرسکتی ہے۔اور آج تم یہی رہنا ویسے بھی رات بہت ہوگئ ہے۔۔۔فاحا نے کہا تو اُس کی اِس بات پر میشا کی آنکھوں میں چمک آئی تھی اور اُس نے کن اکھیوں سے سوہان کو دیکھا تھا جس کی نظریں بھی اُس پر گئ تھیں۔۔۔۔

سوہان کو میشا کا ایسے دیکھنا پہلے پہل سمجھ نہیں آیا پھر یکایک اُس کے دماغ میں کچھ کلک ہوا تھا. .


""سوہان پلیز یہ مت بولو فاحا کو کیا چاہیے؟"فاحا کو چُپ کیوں لگی ہے؟"اگر ایسے ہی تم اِس سے مخاطب ہوئی تو جب یہ بیس کی ہوجائے گی تو بھی یہ بولے گی۔۔"آج فاحا یونی جائے گی"آج فاحا پروفیسر کو اسائمنٹ دیکھائے گی۔۔۔۔میشا نے دونوں کی نقل اُتارے کہا تو فاحا نے رونی صورت بنائے بولی

ایسا کچھ نہیں ہوتا ویسے بھی بڑے لوگ بچوں سے ایسے بات کرتے ہیں۔۔۔سوہان نے اُس کی بات پر انکار کیا

لگی شرط؟میشا نے اپنا ہاتھ اُس کے سامنے کیا

کونسی؟سوہان نے ناسمجھی سے اُس کو دیکھا

اگر جو میں بول رہی ہوں وہ غلط ہوا تو میں تمہیں آئسکریم کھلاؤں گی اپنے ہاتھوں سے اور اگر میں سہی تو تم مجھے رات کا ڈنر کرواؤں گی اپنے پیسوں سے"بتاو پھر منظور ہے؟میشا نے دانتوں کی نُمائش کیے کہا تو سوہان نے تاسف سے اُس کو دیکھا"""


یہ سب یاد آتے ہی سوہان کو جھرجھری سی آئی تھی مگر یہ تو طے تھا میشا اب اُس کی جان چھوڑنے والے تو ہرگز نہ تھی۔۔

❤❤❤❤❤❤❤

لالی ایک ہاتھ میں اپنی کتابیں پکڑے دوسری ہاتھ سے اپنی چادر کا کونہ پکڑے یونی میں داخل ہوئی تھی"یونی میں داخل ہوتے ہی اُس کا رہا سہا اعتماد بھک سے اُڑا تھا وہ تو جانے کیا کچھ سوچ کر آئی تھی کہ خود کو پُراعتماد ظاہر کرے گی تاکہ کسی کو بھی اُس پر باتیں بنانے کا موقع نہ ملے مگر یونی کا جیسا ماحول بنا ہوا تھا یہ دیکھ کر اُس کا دل چاہا تھا یہاں سے کہی دور بھاگ جائے کیونکہ سامنے کچھ اسٹوڈنٹس پڑھنے میں مصروف تھے تو کوئی لڑکا لڑکی ہاتھ میں ہاتھ ڈالے خوش گپوں میں مصروف تھے اور کچھ سرتا پیر اُس کو عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے یہی حال تو لالی کا بھی تھا اُن سب کی جیسی ڈریسنگ تھی وہ دیکھ کر لالی کو سب عجیب ہی تو لگ رہا تھا۔۔۔"وہ تو ننگے سر کبھی حویلی میں بھی نہیں گھومی تھی اور یہاں تو لڑکیاں جینز شرٹ میں ملبوس تھی ڈوپٹے کا نام ونشان تو دور دور تک نہیں تھا۔۔۔۔

یہ یونی کے نام پر میں کہاں آگئ؟اُن سب پر ایک چور نگاہ ڈالے لالی نے بے ساختہ دل میں سوچا تھا تبھی اچانک کوئی اُس کے سامنے کھڑا ہوا تو لالی کا دل اُچھل کر حلق میں آیا

یہ کیا بدتمیزی ہے۔۔؟لالی خود کو کمپوز کرتی سامنے کھڑے لڑکے کو دیکھنے لگی جو ایک کندھے پر یونی بیگ لٹکائے دوسرے ہاتھ سے بالوں میں ہاتھ پھیرے چیونگم چباتا خاصی دلچسپ نظروں سے اُس کو دیکھ رہا تھا

میرا نام عاشر احمد ہے اور میں آپ کا سینئر ہوں۔۔۔عاشر نے گول مول سا جواب دیا اور وہ اُن لوگوں میں سے نہیں تھا جو یونی میں آکر اپنے سینئرز کے ہاتھوں اُلو بنتا وہ تو خود آج سب کو اُلو بنانے والا تھا اور لالی اُس کو شکار لگی تھی۔۔

اچ اچھا۔۔۔لالی متذبذب ہوئی

ہاں نہ تو آپ کو جب کسی چیز کی سمجھ نہ آئے تو مجھ سے پوچھ لینا۔۔۔۔آپ کو مایوسی نہیں ہوگی۔۔۔عاشر نے مزید کہا

شکریہ۔۔۔۔لالی اِتنا کہتی جانے والی تھی جب دوبارہ عاشر اُس کے راستے میں آیا

اپنا ڈپارٹمنٹ پتا ہے آپ کو کہاں ہے وہ؟عاشر نے چیونگم چبائے اُس سے پوچھا

نہیں۔۔۔۔لالی کا سر نفی میں ہلنے لگا"عاشر کا دل بلیوں کی طرح اُچھلنے لگا

ہاں تو کیسے جائے گی کلاس میں؟عاشر نے مسکراہٹ دبائے پوچھا

کسی سے پوچھ لوں گی۔لالی نے بتایا

ارے کسی سے کیوں؟میں ہوں نہ اب مجھے غور سے سُنئیے گا۔۔۔۔عاشر نے کہا تو لالی نے بے اختیار سراثبات میں ہلایا

یہاں سے سیدھا جانا ہے۔۔"عاشر نے اپنے بائیں طرف اِشارہ کیا "جہاں سیڑھیوں کی لمبی قطار تھی

پھر میرا ڈپارٹمنٹ ہوگا؟لالی نے تُکہ لگایا

ارے نہیں نہ یہاں سے سیدھا جانا ہے اُس کے بعد مُڑ جانا ہے۔۔۔۔عاشر نے نفی میں سرہلاکر کہا

کہاں مُڑنا ہے؟لالی کو سمجھ نہیں آیا

میرے کہنے کا مطلب تھا پھر جو راستہ آئے وہاں چلی جائیے گا بس پھر آپ کو آپ کی منزل مل جائے گی۔۔۔عاشر نے کہا تو لالی کو اب ساری بات سمجھ آئی

آپ کا بہت بہت شکریہ۔۔۔۔لالی نے مشکور نظروں سے اُس کو دیکھا اور پھر اُس کے بتائے ہوئے راستے پر جانے لگی تو عاشر بھی اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا آہستہ آہستہ اُس کے پیچھے جانے لگا۔۔۔۔

"لالی جب سیڑھیاں چڑھتی دائیں جانب گئ تو سامنے دروازے پر واشروم لفظ دیکھ کر اُس کی شکل رونے والے ہوگئ تھی۔۔۔

"اور جیسے ہی وہاں کھڑے اسٹوڈنٹس نے اُس پر ہنسنا شروع کیا تو اُس کی آنکھیں بھی نم ہونے لگی تھی وہ لب کُچلے نیچے فرش کو گھورنے لگی جبھی ہنستا ہوا عاشر بھی وہاں آیا

"ہائے کیسا لگا میرا مذاق؟عاشر اُس کے روبرو کھڑا ہوتا مزے سے پوچھنے لگا تو لالی نے اپنی بھیگی آنکھیں اُٹھائے اُس کو دیکھا تو عاشر کے مسکراتے لب سیکڑے تھے وہ حیرانگی سے اُس کو دیکھنے لگا جو اُس کی سوچ سے زیادہ کم عقل ثابت ہوئی تھی

آپ رو رہی ہیں۔۔۔۔؟عاشر کے اندر کہی ملال اُبھرا مگر لالی جواب دیئے بنا اپنی چادر کے پلوں سے آنکھیں صاف کرنے لگی

دیکھو روئے نہیں یونی میں ریکنگ کرنا عام سی بات ہے ہر نیو اسٹوڈنٹس کے ساتھ ہوتی ہے آپ کو چھوٹی سی بات پر رونا نہیں چاہیے اور میں نے بھی جسٹ مذاق کیا تھا۔۔۔۔عاشر نے وضاحت کرنا چاہی پر اُس کی بات پر تو لالی کو جیسے تاؤ آیا تھا

کیوں کیا مذاق؟میرا اور آپ کا مذاق ہے کیا؟لالی نے ناگواری سے پوچھا تو عاشر کا سر خودبخود نفی میں ہلنے لگا

میں آپ کے چچی کی بیٹی ہوں؟اگلا سوال

میرے بابا اکلوتے تھے۔۔۔۔عاشر کی زبان بے ساختہ پھسلی

میرا اور آپ کا کوئی مذاق نہیں اِس لیے دوبارہ مت کیجئے گا۔۔۔لالی نے وارن کیا

او ہیلو یہ یونی میں چلتا رہتا ہے

چلے گا کیوں نہیں اگر آپ چلائے گے تو زرا احساس نہیں آپ کو کسی کا۔۔۔۔لالی اُس کی بات درمیان میں کاٹ کر بولی

اِس میں احساسات کہاں سے آگئے؟عاشر عجیب نظروں سے اُس کو دیکھنے لگا

کل اگر آپ نے مجھ سے ایسا کوئی مذاق کیا تو اچھا نہیں ہوگا۔۔۔۔لالی نے سنجیدگی سے کہا

کل کیوں کروں گا ریکنگ تو فرسٹ ڈے پر ہوتی ہے

کیوں ہوگی اگر آپ نہیں کرینگے تو۔۔۔۔لالی نے دوبارہ سے اُس کی بات درمیان میں کاٹی

میں نہیں کروں گا آپ بس مجھے بخش دے۔۔۔عاشر نے بے ساختہ اُس کے آگے ہاتھ جوڑے تھے

ہاتھ جوڑنے سے کیا ہوگا آپ کی وجہ سے میرا مذاق بنا نہ اگر کوئی آپ کے ساتھ کرے تو آپ کو پتا چلے۔۔ لالی نے سرجھٹک کر کہا

میرے ساتھ کوئی نہ کرے تبھی تو میں نے کیا۔۔۔عاشر نے فخریہ انداز میں کہا

جی تو پوری یونی میں ایک میں آپ کو نظر آئی اب ہٹے مجھے میرے ڈپارٹمنٹ جانا ہے۔۔۔۔لالی اِتنا کہتی سائیڈ سے گُزرنے لگی جب عاشر نے اُس کو روکا

اِس بار سہی والی جگہ پہنچاؤں گا ٹرسٹ می۔۔۔عاشر نے معصومیت سے کہا

میں خود تلاش کرلوں گی ویسے بھی آپ کو کیا پتا میرے ڈپارٹمنٹ کا۔۔۔۔۔لالی نے بے خیالی میں کہا تو عاشر نے بڑی مشکل سے اپنی ہنسی کا گلا گھونٹا تھا

آپ کو نہیں لگتا آپ نے یہ بات کہتے ہوئے کافی دیر کردی ہے۔۔۔۔عاشر نے کہا تو لالی کو پہلے کچھ ٹھیک سے سمجھ نہیں آیا مگر جب سمجھ آیا تو اُس نے عاشر کو گھورا تھا

❤❤❤❤❤❤❤

آپ کو پتا ہے آپ بہت بدتمیز ہیں"آپ کو تو یہ بھی نہیں پتاکہ لڑکیوں کو ٹریٹ کیسے کیا جاتا ہے"اگر آپ سینئر ہوکر ایسی حرکتیں کرینگے تو جونیئرز پر کیسا ایمپریشن پڑے گا؟اُس کو دیکھ کر لالی نے افسوس کا اِظہار کیا

آپ کا فرسٹ کومپلیمنٹ میں تہہ دل سے قبول کرتا ہوں۔۔۔۔عاشر سر کو خم دے کر ڈھٹائی کی حدود کو چھو کر بولا تو لالی اپنا سر نفی میں ہلاتی وہاں سے چلی گئ تو عاشر بھی مسکراکر اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا ڈپارٹمنٹ کی جانب چلاگیا۔۔

کسی نیک بندے کی مدد سے لالی اپنی کلاس میں آکر بیٹھی تو ٹھیک پانچ منٹ بعد اُس کو کلاس میں عاشر آتا دیکھائی دیا اُس کو اپنی کلاس میں دیکھ کر لالی کا ماتھا ٹھٹکا

ہائے۔۔۔عاشر اُس کے پاس والی سیٹ پر بیٹھتا مُخاطب ہوا تو لالی نے ناسمجھی سے اُس کو دیکھا

آپ تو سینئر تھے۔۔۔۔۔لالی نے اُلجھن زدہ لہجے میں اُس کو دیکھ کر کہا

ہاں مگر پھر اچانک سے میں نے خود کو ایک سال نیچے کروالیا۔۔"آپ کی وجہ سے۔۔۔۔عاشر معصومیت کے تمام رکارڈز توڑ کر بولا

میری وجہ سے؟لالی کے سر پہ سے گُزری عاشر کی بات

ہاں نہ بکاز آف یو کیونکہ آپ جتنی انوسینٹ ہیں" ایسے تو آئے دن کوئی نہ کوئی آپ کو اُلو بناسکتا ہے تو سوچا کیوں نہ پڑھائی کے ساتھ نیکی کا کام بھی کرلیا جائے آپ کو پروٹیکٹ کرنے کا۔۔۔۔عاشر نے کہا تو لالی جو بڑے غور سے اُس کو سن رہی تھی ساری بات سُن لینے کے بعد منہ کے زاویئے بگاڑ کر عاشر کو دیکھا جس کے چہرے کی رنگت مسکراہٹ ضبط کرنے کے چکر میں سرخ ہوگئ تھی

کیا آپ کے پاس کسی بات کا سیدھا جواب نہیں ہوتا دینے کو؟اپنے چہرے پر گِرتی لٹ کو کان کے پیچھے اُڑستے لالی نے اُس سے سوال کیا

ہوتا ہے نہ بشرطیکہ سوال کا تعلق سیدھے جواب سے ہو۔۔۔۔عاشر نے بڑی سنجیدگی سے کہا تو لالی نے بڑے ضبط سے اُس کو دیکھا پھر سرجھٹک کر سیدھی ہوکر بیٹھ گئ۔۔

اپنے بارے میں کچھ بتاؤ نہ ویسے بھی پہلی کلاس میں ابھی وقت ہے۔۔۔۔عاشر نے اُس کو بات کرنے پر اُکسایا

میں کیا کوئی پاگل نظر آتی ہوں آپ کو جو اپنے بارے میں آپ کو کچھ بتاؤں گی۔۔لالی نے ترشی نگاہوں سے اُس کو دیکھا

اپنے بارے میں بتانے والا کیا کوئی پاگل ہوتا ہے؟عاشر نے مصنوعی حیرانگی کا مُظاہرہ کیا

آپ کو پتا ہوگا خیر میں آپ سے بات نہیں کرنا چاہتی"آپ بھی نہ کرے۔۔۔لالی نے جیسے بات ختم کرنا چاہی

ہم کلاس فیلو ہیں تو آپ برملا مجھے اپنا نام بتاسکتی ہیں۔۔۔۔عاشر نے ایک بار پھر کہا

نام تو میں آپ کو اپنا کبھی نہیں بتاؤں گی۔۔۔۔لالی نے اپنی طرف سے مضبوط لہجے میں کہا

تو اگر آپ نام نہیں بتائے گی تو کیا مجھے پتا نہیں چلے گا۔۔۔۔؟عاشر نے بڑی دلچسپی سے اُس کے چہرے کے اُتاؤ چڑھاؤ دیکھے

ظاہر سی بات ہے اگر میں نہیں بتاؤں گی تو آپ کو کیسے پتا چلے گا؟لالی نے اُس کی عقل پر جیسے ماتم کیا

ہممم ویسے پتا ہے کیا؟عاشر تھوڑا اُس کے پاس جُھکا

کیا؟لالی نے اپنی ایک آئبرو اُپر کیے سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھا

آپ خود مجھے اپنا نام بتائے گی وہ بھی کھڑی ہوکر۔"یا یونہی بیٹھے بیٹھے۔۔عاشر نے چیلینج کرتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا

اب لالی اِتنی بھی کوئی پاگل نہیں۔۔۔لالی نے بے خیالی میں سرجھٹک کر کہا تو عاشر نے بے ساختہ اُس کو دیکھ کر اپنا سر نفی میں ہلایا تھا

"کلاس میں پروفیسر داخل ہوا تو ہر اسٹوڈنٹ اُن کی طرف متوجہ ہوا تھا۔۔۔۔"جو اب اپنا تعارف کروانے کے بعد اب اُن سے تعارف لے رہا تھا۔۔۔۔"

"میرا نام لالی سجاد ہے۔۔۔۔لالی کی باری آئی تو اُس نے اپنا انٹرو کروایا جس پر عاشر کے چہرے پر گہری مسکراہٹ آئی تھی۔۔۔۔

نائیس نیم لالی سجاد۔۔۔۔عاشر نے پروفیسر کا دھیان دوسری طرف محسوس کیا تو اُس کے پاس جھک کر بولا تو لالی کے دماغ میں اچانک کچھ کلک ہوا


""آپ خود مجھے اپنا نام بتائے گی وہ بھی کھڑی ہوکر۔"یا ہونہی بیٹھے بیٹھے۔۔""""


آپ سچ میں بہت بدتمیز ہیں۔۔۔۔۔لالی کا دل چاہا بھاگ کر کہی دور چُھپ جائے مگر اُس کے لقب پر عاشر ڈھٹائی سے مسکرایا تھا۔

"میں نے پرسنلی آپ کو اپنا نام نہیں بتایا تھا۔۔۔۔لالی نے اُس کو مُسکراتا دیکھا تو کہا

ہاں مگر آپ کا اِرادہ تو مجھ نام جاننے کے اعزاز سے ساری عمر محروم رکھنے کا تھا نہ پر دیکھے میں نے اعزاز حاصل کرلیا۔۔۔۔عاشر نے فخریہ انداز میں کہا تو لالی نے اِس بار کوئی بھی جواب دینا مناسب نہیں سمجھا

اچھا ایک شعر عرض کروں؟کچھ توقع گُزرنے کے بعد عاشر نے فرمانبرداری سے پہلے اِجازت چاہی تو لالی نے عجیب نظروں سے اُس کو دیکھا

پر لالی کو کچھ بھی نہ بولتا دیکھ کر وہ خود ہی شروع ہوگیا۔۔۔


"وہ ملے بھی تو یونی کے فرسٹ ڈے پر

اب ہم پڑھائی کرتے یا محبت۔۔۔۔


کچھ بھی۔۔۔۔۔لالی کو جھرجھری سی آئی

ہاں نہ کچھ بھی۔۔۔۔عاشر نے مسکراکر کہا

بہت خراب اُردو ہے آپ کی۔۔۔۔لالی نے جتایا

اچھا اور وہ کیسے؟عاشر نے پوچھا

شعر غلط کہا آپ نے۔۔۔لالی نے بتایا

سہی بتاؤ پھر آپ؟عاشر نے جاننا چاہا


وہ ملے بھی تو کمرہ امتحان میں

اب ہم نقل کرتے یا محبت۔۔


لالی نے کہا تو عاشر کے چہرے پر گہری مسکراہٹ آئی تھی مگر اب کی اُس نے لالی کو زچ نہیں کیا تھا۔۔۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

فاحا آج اپنی دوست کی بِلی کو گود میں اُٹھائے گھر جانے کی کوششوں میں تھیں پر اُس کو کوئی سواری نہیں مل رہی تھی یا یوں کہنا بہتر ہوگا کہ وہ اکیلے رکشہ یا کیب میں ڈرائیور کے ساتھ جانے کو تیار نہ تھی۔۔۔۔

تم یہاں کھڑی رہو میں میشو آپو کو کال کروں زرا۔۔۔فاحا نے بلی کو اپنے پاؤں کے پاس چھوڑے کہا پھر میشا کا نمبر ملانے لگی جو مصروف جارہا تھا۔۔۔"فاحا نے کئ بار کوشش کی مگر سب بے سود ثابت ہوا تھا پھر جب اُس کی نظر اپنے پاؤں پر پڑی تو چکراکے رہ گئ کیونکہ اُس کی بلی کا نام ونشان تک نہ تھا

"مومو۔۔۔۔بلی کا نام شاید اُس نے"مومو"رکھ لیا تھا تبھی پریشانی یہاں سے وہاں دیکھنے لگی پر وہ ہوتی تو نظر بھی آتی۔۔۔۔

مومو کہاں ہو فاحا کو پریشان نہ کرو۔۔۔۔فاحا اُونچی آواز میں اُس کو پُکارنے لگی جیسے ایک ماں میلے میں اپنے گُم ہوئے بچے کو تلاش کرتی ہے۔۔۔۔

ہائے اللہ میاں میں کہاں سے لاؤں گی پیسے؟اگر مومو گُم ہوگئ اور نہ ملی تو یقیناً عیشا نے اُس کے پیسے مانگنے ہیں بار بار بول جو رہی تھی آفریکی بلی ہے بہت مہنگی ہے" پاکستانی بُلی ہوتی تو میں دے بھی دیتی بھلا یہاں بلیوں کی کمی تھوڑئی ہے پر آفریکی بلی اور پاکستانی بلی کا آپس میں کیا جوڑ؟غیرملکی بلیاں تو پاکستانی لوگوں سے زیادہ صفائی پسند ہوتی ہیں اور کہاں پاکستانی بلیاں گٹر میں گِر بھی جائے تو خود کو اپنی زبان سے چاٹ کر صاف کرتیں ہیں۔۔۔۔فاحا یہاں سے وہاں جاتی بلی کو تلاش کرنے کے ساتھ بڑبڑانے میں بھی مصروف تھی نظریں مسلسل آس پاس ہر چیز کو بڑی باریکی سے دیکھ رہی تھی سِوائے سامنے مضبوط جسامت کے کھڑے اسیر کو"

"چلتے چلتے فاحا کا سر زور سے اسیر کے بازوں پر لگا تھا جس پر اُس کے ہاتھ میں جو پستول تھی وہ گِرکر فاحا کے پاؤں پر گِری تو وہ درد سے بُلبُلا اُٹھی تھی"


اسیر جو ایک ہاتھ سے موبائل فون کان سے لگائے دوسرے ہاتھ سے پستول پکڑے کسی سے باتوں میں مگن تھا اِس اچانک افتاد پر وہ چونک کر پلٹا تھا۔۔۔۔


آپ کو لگی تو نہیں؟اسیر نے فاحا کو اپنا پاؤں پکڑتا دیکھ کر نظریں اُس کے سرخ پڑتے چہرے پر جمائے پوچھا تو فاحا اپنا درد ضبط کرتی اُس کو دیکھنے لگی جس کا چہرہ احساس سے عاری تھا

"ربڑ کا پاؤں ہے فاحا کا اُس کو چوٹ کیسے لگ سکتی ہے۔۔۔۔۔فاحا نے بڑے صبر کا مُظاہرہ کیا

آپ شاید اپنی آنکھوں کا استعمال نہیں کرتیں"اِس لیے اپنا اور دوسروں کا نقصان کرتیں ہیں۔۔۔اسیر نے اُس کو دیکھ کر طنز کہا

مہمان گھر آکر کھانے سے انکار کریں یہ بول کر کہ وہ کھانا کھاکر آئے ہیں تو اِس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ سچ میں کھانا کھاکر آئے ہیں"اِس لیے اگر فاحا نے کہا کہ اُس کو چوٹ نہیں آئی تو اِس کا یہ مطلب نہیں ہوا کہ سچ میں اُس کو کوئی چوٹ نہیں آئی"اُس کو چوٹ آئی یے اور بہت آئی ہے۔۔۔۔اسیر کو گِرجتا دیکھ کر فاحا بنا سانس لیے بولی

پہلے آپ سانس لیں۔۔۔۔اسیر نے اُس کو گھور کر کہا تو فاحا نے واقع میں ایک لمبی سانس لی

میری مومو گُم ہوگئ ہے میں اُس کی تلاش میں آپ کو دیکھ نہیں پائی اِس میں فاحا کی کوئی غلطی نہیں۔۔"اور نہ فاحا کسی کا جان کر نقصان کرتی ہے فاحا تو کبھی جھوٹ بھی نہیں بولتی"کیونکہ اللہ کی پکڑ سخت ہوتی ہے اور ہمیں اللہ سے ڈرنا چاہیے۔۔۔فاحا نے وضاحت دے کر کہا تو اسیر بس اُس کو دیکھتا رہ گیا

"فاحا کبھی غلط ہو کیسے سکتی ہے؟"وہ تو جگ جہاں کی معصوم جو ٹھیری۔۔۔۔اسیر اُس کو دیکھ کر سرجھٹک کر بولا تو فاحا خاصی حیران نظروں سے اُس کو دیکھنے لگی

آپ کو کیسے پتا کہ میرا نام فاحا ہے؟"کہی میرے پیچھے آپ نے اپنے کالے کپڑوں والے بندے تو نہیں لگائے ہوئے۔۔۔۔فاحا مشکوک نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولی تو اسیر کے ماتھے پر بل نمایاں ہوئے

سُنو چھوٹی لڑکی

"جی میں سُن رہی ہوں آپ بتائے آپ کو کیسے پتا کہ میرا نام فاحا ہے؟اسیر اُس کو کچھ کہنے والا تھا جب فاحا اُس کی بات درمیان میں کاٹ کر بولی

"آج ہماری بات درمیان میں کاٹی ہے دوبارہ یہ گُستاخی کبھی نہ کرنا۔۔۔۔اسیر نے سختی سے اُس کو وارن کیا

کیوں کیا آپ شھنشاہ جلال الدین اکبر ہیں؟" اور یہ سڑک آپ کی سلطنت دیکھے اگر ہے بھی تو میں فاحا ہوں آپ کی کنیز نہیں اِس لیے مجھ سے ایسے بات نہ کریں کیونکہ جو فاحا سے ایسے بات کرتا ہے"فاحا کی بہن اُس کا منہ توڑ دیتی ہے اور میری بڑی بہن کہتی ہے مجھے جس کسی سے مسئلہ ہو میں اُن کو بتاؤں تاکہ وہ اُس کو سیدھا کردیں۔۔۔۔۔فاحا عادت سے مجبور اِس بار بھی بنا رُکے بولی تو اسیر نے بے ساختہ اپنا ماتھا سہلایا تھا وہ ٹینشن فری ہونے کے لیے اکثر شہر آتا تھا مگر اِس بار شہر آکر اُس کی ٹینشن میں اضافہ ہوگیا تھا"فاحا کا یوں نان اسٹاپ بولنا اُس کے سر میں درد کررہا تھا۔۔۔۔

بڑی بہنوں کو تو اپنی چڑیل بہنیں بھی پرستان کی پری لگتی ہیں۔۔۔اسیر بس سر جھٹک کر یہی بول پایا تھا

ہاں یہ تو

آپ مجھے چڑیل بول رہے ہیں؟فاحا کچھ کہتی کہتی رُک کر اسیر کو گھورنے لگی

جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے آپ کسی کو تلاش کرنے میں تھیں۔۔۔۔اسیر نے جان چُھڑوانی چاہی

پہلے آپ بتائے میرا نام کیسے جانتے آپ؟فاحا اپنی جگہ بضد تھی

تیس بیس منٹس سے تو آپ نے یہی رٹ لگائی ہوئی ہے کہ"فاحا یہ نہیں کرتی فاحا وہ نہیں کرتی"فاحا جھوٹ نہیں بولتی"بلا بلا تو نام تو پتا لگنا تھا نہ۔۔۔اسیر زچ ہوکر بولا تو فاحا لب دانتوں تلے دباتی بے اختیار اپنا ہاتھ سر پہ مارا

میں کچھ اور سمجھ بیٹھی تھی۔۔۔فاحا نے بتایا

جی اندازہ ہوگیا اب آپ جائے۔۔۔۔اسیر نے سنجیدگی سے کہا

آپ اِتنے کھڑوس کیوں ہیں؟"میری مومو گُم ہوگئ ہے اگر آپ کو پتا ہے یا آپ نے اُس کو کہی دیکھا ہے تو پلیز بتائے اللہ آپ کو چاندنی جیسی بیوی دے گا۔۔۔۔فاحا نے ملتجی لہجے میں اُس سے کہا

چاندنی کون؟اسیر نے کڑے چتونوں نے اُس کو گھور کر پوچھا اُس کی سوئی تو آخری لائن پر اٹک گئ تھی کیونکہ وہ تو اکثر چاند جیسی بیوی کی دعا سُن رکھی تھی"

"چاند سے جو آتی ہے چاندنی روشن سی۔۔۔فاحا نے مزے سے کہا تو اسیر نے بے اختیار اللہ سے صبر مانگا تھا

پلیز تم جاؤ۔۔۔۔اسیر کا بس نہیں چل رہا تھا ورنہ وہ خود گاڑی میں بیٹھاکر اُس کو گھر چھوڑ آتا

کیسے جاؤ مومو کے بغیر؟" اور کسی سواری کے بغیر؟فاحا نے اہم مسئلہ بیان کیا

اپنے گھر کا ایڈریس بتاؤ ہمارا ڈرائیور تمہیں چھوڑ آئے گا اور ویسے بھی کیا پتا آپ کی مومو گھر چلی گئ ہو۔۔۔۔اسیر نے کہا تو فاحا سوچ میں پڑگئ

میں کیوں آپ کے ڈرائیور کے ساتھ جانے لگی؟"اگر میرا اغوا کرلیا تو پھر؟فاحا کو جھرجھری سی آئی

پھر آپ کی بہن ہے نہ اُس سے کہنا وہ اُس کا منہ توڑدے۔۔۔اسیر دانت پیس کر بولا کہاں اُس کے سامنے کسی کی چلتی نہ تھی اور کہاں آج مفت میں ایک لڑکی کے ساتھ کھڑا خُوار ہورہا تھا۔۔۔

ہاں سہی۔۔۔فاحا کو اُس کی بات ٹھیک لگی۔۔۔

آئے۔۔۔۔اسیر نے ایک طرف آنے کا اُس کو اِشارہ کیا تو فاحا وہاں آئی جہاں پانچ بڑی گاڑیاں لائن میں کھڑی تھی"اُن کو دیکھ کر فاحا کی آنکھوں میں ستائش اُبھری تھی۔

جب امیر ہوجاؤ گی تو سب سے پہلے ایسی بڑی بڑی کار لوں گی۔۔۔"پھر آپو اور میشو آپو کو پوری رات لونگ ڈرائیو پر لے جاؤں گی ویسے بھی امیر ہونے کے بعد پیٹرول کی پرواہ کس کو ہوتی ہے۔۔۔"فاحا خود بھی عیش کرے گی اور اپنی بہنوں کو بھی کروائے گی۔۔۔فاحا گاڑیوں کو دیکھ کر دل ہی دل میں سوچنے لگی

"مگر امیر ہونے کے لیے اپنا ریسٹورنٹ اور بوتیک کا ہونا لازمی ہے۔۔۔"ہاں تو جب امیر ہوگی تو پہلے وہ دونوں چیزیں لوں گی اُس کے بعد کار لوں گی۔۔۔۔اپنے خیالی پِلاؤں پکاتی فاحا مطمئن ہوتی مسکرا پڑی

"اِس گاڑی میں بیٹھیں۔۔۔اسیر نے ایک بلیک گاڑی کی طرف اِشارہ کیا تو خیالوں دُنیا سے واپس آتی فاحا نے اُس کے اِشارے کا تعاقب کیا جہاں گارڈ اُس کے لیے دروازہ کھولنے والا تھا مگر فاحا نے ٹوک دیا

فاحا خود کھول سکتی ہے اُس کے ہاتھ پاؤں سلامت ہیں۔۔۔"فاحا کی بات پر گارڈ نے اسیر کو دیکھا جس نے اِشارے سے اِس کو سائیڈ پر ہونے کا کہا تھا۔۔

"گارڈ سائیڈ پر ہوا تو فاحا پرجوش انداز میں گاڑی کا دروازہ کھولنے لگی۔۔

ایک بار

دو بار

تین بار

اُس نے بہت کوشش کی دروازہ کھولنے کی مگر شاید فاحا کے کھولنے کا طریقہ غلط تھا جو دروازہ کُھل نہیں رہا تھا۔۔۔"اُس کے پیچھے کھڑے اسیر نے فاحا کی پشت کو دیکھ کر بے ساختہ اپنا سر نفی میں ہلایا تھا جو ہر ممکن کوشش کررہی تھی دروازہ کھولنے کی پر شاید دروازے نے قسم اُٹھائی تھی"کُھلنا ہے مگر فاحا کے ہاتھوں سے نہیں۔۔۔

"یہ کُھل کیوں نہیں رہا ہلانکہ میں نے اپنی زندگی کی بیس سالہ جمع کی ہوئی طاقت کا استعمال کیا ہے۔۔۔۔دروازہ نہ کُھلنے پر فاحا نے پریشانی سے گارڈ کو دیکھ کر کہا

اگر آپ اِجازت دے تو ہم اپنی اٹھائیس سالہ جمع کی ہوئی طاقت کے بدولت یہ دروازہ کُھولے؟اسیر کے صبر کا پیمانہ بھی شاید لبریز ہوچُکا تھا تبھی اُس نے طنز انداز میں فاحا سے کہا تو وہ منہ بسورتی سائیڈ پر ہوئی

"ویسے تم کھاتی پیتی نہیں کیا اِتنی بے جان کیوں ہو؟اُس کو سائیڈ پر کھڑا دیکھ کر اسیر نے پوچھا

کھاتی پیتی میں بہت ہوں"سارا دن کوکنگ کرنے کے دوران ٹیسٹ کرتی ہوں تو اپنا بنایا ہوا کھانا اِتنا لذیذ لگتا ہے کہ پھر پتا نہیں چلتا سارا ختم کرجاتی ہوں۔۔۔اسیر کے پوچھنے کی دیر تھی اور فاحا شروع ہوگئ جس پر اسیر نے کچھ اور کہنا ضروری نہیں سمجھا اور" اسیر کے دروازہ کھولنے سے پہلے گارڈ نے دروازہ کھولا تو فاحا ااندر داخل ہوتی وہاں بیٹھ گئ۔۔۔


چلو مان لیا میں بے جان ہوں مگر میں تو لڑکی ہوں نہ پر یہ لڑکے ہوکر اِتنے بے جان کیوں ہیں؟"اللہ ایسی محتاجی کسی کو نہ دے کہ گاڑی کا دروازہ بھی کوئی اور کھول کر دے۔۔۔۔اسیر کے لیے بھی گارڈ نے دروازہ کھولا تو فاحا دل میں سوچنے لگی مگر اُس کے آخری الفاظ جانے کیسے دغابازی کرگئے جو سیدھا اسیر کے کانوں میں پڑے تھے

"کیا کہا آپ نے؟اسیر نے سخت ناگوار نظروں سے اُس کو دیکھا

میں نے کچھ کہا کیا؟فاحا نے اُلٹا اُس سے سوال کیا تو اِس بار اسیر ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینچتا اپنا رُخ کھڑکی کی طرف کرلیا۔۔۔۔۔۔

"صاحب یہ۔۔۔۔۔گاڑی اسٹارٹ ہونے لگی تو گارڈ نے نیچے گِرا اُس کا پستول دینا چاہا پر اسیر نے اُس کو اگنور کیے شیشہ اُپر چڑھالیا تھا"پھر اپنا رُخ فاحا کی طرف کیا جو غور سے گاڑی کا جائزہ لے رہی تھی اُس کو دیکھ کر اسیر کو ایسا لگا جیسے وہ پہلے بھی اُس کو کہی دیکھ چُکا ہے مگر کہاں؟"یہ اُس کو کچھ یاد نہیں آیا

آپ کی زبان کچھ زیادہ نہیں چلتی۔۔۔۔اسیر کو فاحا کا جُملا یاد آیا تو طنز پوچھا

نہیں تو میری زبان تو ہر وقت میرے منہ میں رہتی ہے یہ دیکھے آہ۔۔۔فاحا نے کہنے کے ساتھ تھوڑی زبان باہر نکالے اُس کو دیکھائی تو اسیر اپنے بال نوچنے کے قریب ہوا

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

ایک دن بعد

پیسے میں دے رہی تھی نہ کیا ہوتا جو تم دونوں اکیلی آجاتی۔۔۔سوہان کیب کا دروازہ کھول کر باہر آتی اُن دونوں سے بولی کیونکہ آج میشا نے سالوں پُرانی شرط کے عیوض اُس سے ڈنر مانگا تھا جو سوہان دینے پر تیار بھی ہوگئ تھی۔۔

ہمیں ساتھ کھانے کی عادت ہے نہ۔۔۔۔فاحا نے مسکراکر کہا

اچھا تم دونوں اندر جاؤ میں تب تک ایک کال سُن کر آتی ہوں۔۔۔۔سوہان نے اپنی جیکٹ بازو میں ڈالے اُن سے بولی"نظریں اُس کی اپنے سیل فون کی اسکرین پر مرکوز تھیں

ہا

میشا ریسٹورنٹ کی طرف رُخ کیے کچھ کہنے والی تھی مگر سامنے ریسٹورنٹ سے باہر آتے شخص کو دیکھ کر اُس کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے تھے۔۔۔"دوسری طرف اُس کا کُھلا ہوا منہ دیکھ کر فاحا نے بھی سامنے آتے شخص کو دیکھا۔۔۔"بلیو ڈریس پینٹ کے ساتھ وائٹ شرٹ پہنے ایک بازو پر بلیو کوٹ لٹکائے ہاتھ میں پکڑے سیل فون میں مصروف وہ جو کوئی بھی تھا بلا کا خوبصورت تھا۔۔۔۔"سرخ وسفید رنگت وجیہہ نقوش چہرے پر چھائی سنجیدگی اُس کی سحر انگیز پرسنائلٹی ہر دیکھنے والے کو اپنا مرعوب بناسکتی تھی

"وہ دونوں اُس کو دیکھ کم گھور زیادہ رہی تھیں شاید یہ بات اُس کو بھی پتا چلی تھی جب اچانک سے اُس نے اپنی نظریں اُٹھائی تو عین اُسی وقت سوہان کی نظر بھی اُس پر گئ تھی

"یہ تمہیں دیکھ رہا ہے یا مجھے؟میشا نے آہستہ آواز میں فاحا سے پوچھا

میری لائی ہوئی بلی پالے خوشفہمیاں نہیں یہ آپو کو دیکھ رہا ہے۔۔۔فاحا نے پوری بالٹی اُس کی سوچ پر گِرائی

"سوہان؟؟؟؟وہ سوہان کے برابر کھڑا ہوتا اُس کو دیکھ کر بولا تو اپنا کوٹ دوسرے بازو پر منتقل کرتی سوہان بھی اُس کے روبرو آئی

زوریز دُرانی۔۔۔۔۔سوہان بھی سنجیدگی سے اُس کو دیکھ کر بولی تو"میشا نے گردن موڑ کر فاحا کو دیکھا تھا اور فاحا نے میشا کو۔۔۔۔

سوہان۔۔۔فاحا کی زبان پھسلی

زوریز دُرانی۔۔۔میشا بھی اُس کو دیکھتی بولی پھر دونوں نے دوبارہ اپنی نظریں اُن دونوں پر جمائی جو ایک دوسرے کے مُقابل کھڑے تھے"دیکھتے ہی دیکھتے فاحا اور میشا نے ہم آواز میں کہا

انٹرسٹنگ

انٹرسٹنگ

❤❤❤❤❤❤❤

آپ یہاں؟سوہان نے اُس کو دیکھ کر حیرانگی کا اِظہار کیا

آپ کو شاید پتا نہ ہو مگر ہم یہاں شفٹ ہوچُکے ہیں ایک سال ہوگیا ہے"خیر آپ بتائے"کیسی ہیں آپ؟زوریز نے بتانے کے بعد پوچھا انداز اُس کا ہنوز سنجیدہ تھا

پوچھ ایسے رہا ہے حال چال جیسے احسان کررہا ہے۔۔۔۔میشا کی زبان میں کُھجلی ہوئی

میری آپو کی زبان سے کونسے پُھول جڑرہے ہیں چہرے دیکھے کیسا سپاٹ ہے ہلانکہ مجھے پتا ہے دل میں لڈو پھوٹ رہے ہوگے۔۔۔۔فاحا نے جواباً کہا تو میشا نے گردن موڑ کر اُس کو گھورا

آپ کون ہیں؟اور سوہان کو کیسے جانتے؟سوہان کے کچھ بھی کہنے سے پہلے میشا نے بڑی سنجیدگی سے زوریز سے پوچھا

آپ غالباً میشا ہیں؟زوریز میشا کو دیکھتا بولا تو میشا کا پورا منہ کُھلا کا کُھلا رہ گیا۔

فاحا میں گِرنے لگیں ہوں مجھے بچانا۔۔۔۔۔میشا ڈرامائی انداز میں فاحا سے بولی

گِرجائے آپ پھر فاحا کیا پوری پبلک آپ کو اُٹھائے گی۔۔۔فاحا نے جواباً جو کہا اُس کو سُن کر میشا سخت بدمزہ ہوئی

ہاں میں میشا ہوں۔۔۔۔میشا سنبھل کر بولی

اور آپ فاحا۔۔۔۔زوریز نے اب کی فاحا کو دیکھ کر کہا تو اُس کا سر خودبخود اثبات میں ہلا

آپ کیسے جانتے ہو؟میشا نے بے چینی سے پوچھا

سوہان نے بتایا اور ہماری مُلاقات آسٹریلیا میں ہوئی تھی۔۔۔۔"زوریز نے بتایا

سرسری سی۔۔۔خاموش کھڑی سوہان نے لُقمہ دیا

سرسری سی مُلاقات میں آپ کو ہمارا نام پتا چل گیا اگر ملاقاتیں گہری ہوتیں تو یہ بھی پتا چلتا کہ ہم کیا اور کب کھاتے پیتے ہیں۔۔۔فاحا نے مسکراہٹ ضبط کیے معصوم لہجے میں کہا تو سوہان نے مصنوعی گھوری سے اُس کو نوازا تھا مگر میشا مُتفق انداز میں اپنا سرہلانے لگی تھی۔۔۔۔۔

آپ شاید کہی جانے والے تھے۔۔۔۔سوہان نے بلیک ڈریس میں ملبوس دو آدمیوں کو اُس کے پیچھے کھڑا ہوتا دیکھا تو سنجیدگی سے کہا

آپ تفصیل سے بتائے نہ کیا آپ سوہان کے کلاس میٹ تھے؟میشا نے سوہان کی بات پر جھٹ سے اپنا سوال بھی آگے کیا

نہیں میں اِن کا سینئر تھا۔۔۔۔زوریز نے جواب دیا

لگتا ہے اِن کو مُسکرانا نہیں آتا۔۔۔۔۔فاحا نے ایک سیکنڈ کے لیے بھی زوریز کو مسکراتا نہیں دیکھا تو میشا کے کان کے پاس سرگوشی نما آواز میں بولی

آتا ہوگا مگر ایز آ یونی فیلو ہونے کے باعث سوہان کی شکل دیکھ کر بیچارا مسکرانا بھول گیا ہوگا۔۔۔۔میشا نے بھی اُس کے انداز میں جواب دیا تو زوریز اُن کو آپس میں کُھسر پھسر کرتا دیکھ کر اُن سے نظریں ہٹائے سوہان کو دیکھنے لگا جو یہاں وہاں دیکھنے میں خود کو مصروف ظاہر کررہی تھی۔

آپ میں سے بڑ

یہ بڑی ہے اور میں چھوٹی ہوں اور آپ پلیز یہ مت کہیے گا کہ ایج ڈفرنس فیل نہیں ہورہا کیونکہ پھر یہ میرے ساتھ ناانصافی ہوگی۔۔۔زوریز سوہان سے نظریں ہٹائے اُن سے کچھ کہنے والا تھا جب فاحا جلدی سے اُس کی بات درمیان میں کاٹ کر بولی

ایج ڈفرنس واضع ہے میں تو یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ

بڑی بہن کا رشتہ احترام کا ہوتا ہے مگر اِس نے میرا احترام کرنا سیکھا ہی نہیں ہے۔۔۔۔اِس بار دوبارہ میشا نے اُس کی بات کاٹ کر فاحا کے سر پہ چپت لگائے کہا

بلکل چھوٹی بہن کا رشتہ پیار بھرا ہوتا ہے مگر اِنہوں نے کبھی چھوٹی بہن سے پیار کرنا سیکھا ہی نہیں۔۔۔فاحا بھی اُسی کے انداز میں سر پہ چپت لگائے بولی تو سوہان کا بس نہیں چلا وہ اُن دونوں کو غائب کردیتی

"تم دونوں جاؤ میں آتی ہوں۔۔۔۔سوہان کے لہجے میں تنبیہہ تھی

کوئی پرائیوٹ ڈسکشن کرنی ہے تو ہم اپنے کان بند کرلیتے ہیں یو گائیز کیری آن نو پروبلم۔۔۔میشا اپنے کانوں پر دونوں ہاتھ رکھ کر بولی

میشو۔۔۔۔۔سوہان نے اِس بار کھینچ کر اُس کا نام لیا

جاتی ہوں۔۔۔۔میشا نے منہ بسور کر کہا

میں تو چھوٹی ہوں اور فاحا کو زیادہ تر باتوں کا پتا نہیں ہوتا اور نہ سمجھ تو آپ میری موجودگی میں بلاجھجھک بات کرسکتے ہیں۔۔۔۔فاحا نے دانتوں کی نُمائش کیے کہا

میشا کے پاس جاؤ۔۔۔سوہان نے اُس کو بھی جانے کا کہا تو فاحا کا منہ بن گیا

اوکے۔۔۔۔۔۔فاحا منہ بسور کر کہتی ریسٹورنٹ کے اندر جانے لگی۔۔۔۔

آپ کہاں غائب ہوگئیں تھیں اچانک؟زوریز اُن دونوں کے جانے کے بعد سوہان سے مُخاطب ہوا

میں نے یونی چینج کرلی تھی۔۔۔سوہان نے سنجیدگی سے کہا

کیوں؟زوریز نے پوچھا

ایسے ہی۔۔۔۔۔سوہان نے ٹالنا چاہا

بہت وقت بعد آپ سے مل کر اچھا لگا خیر اب میں چلوں گا۔۔۔۔زوریز نے اُس کے چہرے پر اکتاہٹ بھرے تاثرات دیکھے تو سنجیدگی سے کہہ کر اُس کے برابر سے گُزر گیا جس پر سوہان بھی سرجھٹک کر ریسٹورنٹ میں داخل ہوئی جہاں اُن دونوں کا منہ غبارے کی طرح پُھولا ہوا تھا

"تم دونوں نے ابھی تک کچھ آرڈر کیوں نہیں کیا؟سوہان اپنے لیے کُرسی گھسیٹ کر بیٹھتی اُن سے پوچھنے لگی۔

ہمیں لگا وہ بھی ہمیں جوائن کرینگے پر آپ تو خاصی بے مروت ثابت ہوئیں ہیں۔۔۔فاحا نے کہا تو سوہان نے گہری سانس لی

فاحا میں اُس کو ہمارے درمیان کیوں بیٹھاتی؟"اور تمہیں ایسا کیوں لگا کہ میرے کہنے پر وہ بیٹھ بھی جاتا"وہ زوریز دُرانی ہے جس کی زندگی کا ایک سیکنڈ بھی قیمتی ہوتا ہے۔۔۔"اور اب تم دونوں اپنا چہرہ سیٹ کرو میں تب تک مینیو ڈیسائیڈ کرتیں ہوں۔۔۔سوہان اُن دونوں کو دیکھ کر تحمل سے بولی

کتنا خوبرو تھا نہ وہ۔۔۔۔فاحا کی زبان میں کُھجلی ہوئی

ہاں بہت میں تو ابھی تک اُس کے بارے میں سوچ رہی ہوں۔۔۔۔میشا چور نگاہوں سے سوہان کو دیکھ کر کہا جس کا دھیان اُن کی طرف نہیں تھا

ویسے دونوں نے ایک دوسرے کو مُخاطب کتنے یونیک انداز میں کیا تھا۔۔۔فاحا پرجوش انداز میں بولی

سوہان

زوریز دُرانی

ہاہاہاہا۔۔۔وہ دونوں اُن دونوں کی نقل اُتارے آخر میں قہقہقہ لگانے لگیں

تم دونوں کے دماغ میں جو چل رہا ہے اُس کو یہی روک دو کیونکہ ایسا ویسا کچھ نہیں ہماری مُلاقات واقعی میں سرسری تھی۔۔۔سوہان نے سنجیدگی سے کہا

میرے دماغ میں تو کچھ بھی نہیں چل رہا۔۔۔فاحا نے ہاتھ کھڑے کیے

دماغ میں اگر کچھ رہا ہوتا تو اِس وقت ہم پاگل خانے ہوتے ہیں۔۔۔۔میشا نے بھی بڑی سنجیدگی کا مُظاہرہ کیا تو سوہان نے ویٹر کو اِشارے سے اپنی طرف آنے کا کہا

"ویسے میشو آپو میں سوچ رہی تھی ہماری یاداشت اِتنی خراب کیوں ہے؟"دن میں ہم کتنے لوگوں سے سرسری سا ملتے ہیں پر اگلے دن ہمیں یاد نہیں ہوتا اور سوہان آپو کی یاداشت کو دیکھے کیسے سالوں پُرانہ شخص اُن کو برملا یاد آگیا۔۔۔۔فاحا نے افسوس سے کہا تو میشا نے اپنی مسکراہٹ ضبط کی

تم شیف ہو اور میں ایک ویٹریس ہماری یاداشت کسی بریسٹر جیسی کہاں ہوسکتی ہے۔۔۔۔۔میشا نے اُس کے غم میں برابر ساتھ دیا

ڈنر نہیں کرنا فائن میں جاتی ہوں کیونکہ مجھے بہت چیزوں کو وقت دینا ہے فضول وقت نہیں میرے پاس۔۔۔۔سوہان زچ ہوئی

ارے نہیں نہ ہم تو مذاق کررہے تھے آپ تو سیریس ہوگئ۔۔۔فاحا نے جھٹ سے اُس کا ہاتھ پکڑ کر روک لیا تو سوہان واپس بیٹھ گئ۔

تم نے گریجویشن کے بعد ماسٹر کرلیا ہے تو کوئی اچھی جاب تلاش کرو نہ کہ ویٹریس کی۔۔۔۔سوہان نے سلاد کھاتی میشا سے کہا

ماسٹرز کمپلیٹ نہیں ہوا میرا۔۔۔۔میشا نے دانتوں کی نُمائش کی

لگتا ہے وہ تو کبھی نہیں ہوگا۔۔۔سوہان نے تاسف سے اُس کو دیکھ کر کہا تو میشا ڈھیٹائی سے مسکرائی

❤❤❤❤❤❤

عاشر بھائی مجھے آپ سے بات کرنی ہے ضروری۔۔۔۔وہ لوگ ڈنر سے واپس آئے تو فاحا نے گھر جاتے عاشر کو دیکھا تو کہا

ہاں آجاؤ مجھے بھی ضروری بات کرنی ہے.۔۔۔عاشر نے بھی اُس کو دیکھ کر کہا

آپ دونوں گھر جائے میں عاشر بھائی کے ساتھ جانے لگی ہوں۔۔۔فاحا نے سوہان اور میشا کو دیکھ کر کہا

ٹھیک ہے مگر بُوا کو تنگ مت کرنا۔۔۔۔سوہان نے کہا

فاحا بچی نہیں۔۔۔۔فاحا نے منہ کے زاویئے بگاڑے کہا تو سوہان مسکراتی میشا کے ساتھ اپنے گھر کی گلی کی طرف چلی گئ

کل آپ کہاں تھے مجھے بہت ضروری بات کرنی تھی۔۔۔فاحا نے عاشر کو دیکھ کر پوچھا

کل دوستوں کے ساتھ تھا تم بتاؤ کیا باتیں کرنی ہیں۔۔۔گھر پہنچ کر عاشر اُس کے ساتھ ٹی وی لاؤنج میں بیٹھ کر بولا

آپ بتائے پہلے آپ کو کیا ضروری بتانا تھا۔۔۔فاحا نے اُلٹا اُس سے پوچھا

میں اگر بتانے لگ پڑوں گا تو پوری رات گُزر جائے گی اِس لیے پہلے تم بتاؤ۔۔۔۔عاشر نے کشن گود میں رکھ کر کہا

نہیں نہ فاحا جس کے بارے میں بتانے والی ہے اُس کو سن کر آپ کو وقت کا پتا نہیں لگے گا۔۔۔ فاحا نے کہا

کیا اِتنا اسپیشل ہے؟عاشر نے پوچھا

اسپیشل نہیں کھڑوس ہے وہ۔۔۔۔فاحا نے منہ کے زاویئے بگاڑے

پر میں جس کے بارے میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں وہ حددرجہ معصوم ہے لگتا ہی نہیں کہ اِس دُنیا کی ہے۔۔۔۔عاشر لالی کو یاد کرتا اُس کو بتانے لگا

اور میں جس کے بارے میں بتانے والوں ہو وہ خود کو کسی سلطنت کا راجہ مہاراجہ سمجھتا ہے۔۔۔فاحا نے سرجھٹک کر بتایا

تمہیں پتا ہے اُس کی آواز بہت پیاری ہے اور لہجے کے بارے میں کیا بتاؤں غُصے سے بات کرتی ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے پیار سے مُخاطب ہے۔۔۔۔عاشر کسی ٹرانس کی کیفیت میں بولا

ہونہہ وہ ایسے بات کرتا ہے جیسے اُس کی والدہ محترمہ نے دودہ میں چینی کم اور کالی مرچیں زیادہ ملاکر دی ہیں جس کا غُصہ وہ دوسروں پر نکالتا ہے لہجے اور آواز کے بارے میں فاحا اب کیا کہے وہ تو جیسے ہر ایک پر حُکمرانی کرنا چاہتا ہے پر ہر کوئی اُس کا غُلام تو نہیں ہوتا نہ۔۔۔۔۔فاحا ناک سیکڑ کر بولی آج تو موقع ملا تھا اُسے اپنی بھڑاس نکالنے کا

وہ عاجز پسند ہے بہت پیاری ہے مگر غرور تو اُس میں کسی چیز کا نہیں ہے۔۔۔۔عاشر اپنی دُنیا میں ہی گُم تھا

حُسن کا ہی تو سب کیا دھرا ہے اللہ نے پیاری شکل اچھا لباس اور بڑی بڑی گاڑیاں کیا دے دی ہیں اُن کو "کہ بس لہجے میں غرور ہی جھلکتا ہے۔۔۔۔فاحا بھی اپنی گود میں کشن رکھے اُس سے بولی

وہ سب سے الگ ہے۔۔

وہ بہت عجیب ہے اللہ ایسا عجیب کبھی دوسرے کو نہ بنائے۔۔۔۔فاحا دُعائیہ انداز میں بولی

اُس جیسا تو کوئی نہیں ہوسکتا۔۔۔۔عاشر پُریقین لہجے میں بولا

وہ خود کو شھنشاہ جلال الدین سمجھتا ہے پر مجھے تو اُس سے بڑی کوئی پہنچی ہوئی چیز لگتے ہیں جب"ہم"کہتے مخاطب ہوتے۔۔۔۔فاحا جھرجھری سی بولی

میرا دل چاہتا ہے میں اُس کو اپنے سامنے بیٹھائے دیکھتا رہوں۔۔

اور میرا دل چاہتا ہے میرا سامنا کبھی اُس ہم ہم سے نہ ہو۔۔۔۔فاحا منہ کے زاویئے بگاڑ کر بولی

وہ بہت کیوٹ ہے۔۔۔

مگر وہ بہت ایروگینٹ ہے انسان کو ایسا نہیں ہونا چاہیے۔۔۔۔فاحا ناپسندیدہ لہجے میں بولی

مجھے لگتا ہے ایک لڑکی کو ایسے ہی ہونا چاہیے محتاط سا جیسے وہ رہتی ہے۔۔۔۔عاشر نے اپنی رائے دی

کسی لڑکے کو اِتنا کھڑوس نہیں ہونا چاہیے اگر وہ ویل ڈریسڈ رہتا ہے تو اِس میں اُس کا کوئی کمال نہیں کیونکہ کپڑے درزی سِلتا ہے وہ خود نہیں۔۔۔فاحا کے گال اسیر کے بارے میں بات کرتے ہوئے پُھول سے گئے تھے

"میں چاہتا ہوں اُس سے باتیں کروں"ہر وقت ہر گھڑی ہر لمحہ۔۔۔۔۔عاشر نے اپنے دونوں ہاتھوں کو آپس میں ملایا

میں چاہ

فاحا کچھ کہتے رُک گئ۔۔

فاحا اُس اجنبی کے بارے میں باتیں کے بارے میں بات کرکے اُس کو اِتنی امپورٹنس کیوں دے رہی ہے؟فاحا چونک کر بولی اُس کو اب احساس ہوا تھا کہ وہ مسلسل اسیر کے بارے میں بات کرنے میں مصروف ہے

"تم نے مجھ سے کچھ کہا؟عاشر بھی اپنی جگہ چونک سا گیا

جی میں نے کہا صبح ہوگئ ہے ناشتے میں کیا نوش فرمانا چاہے گے آپ؟فاحا نے طنز پوچھا

اُبلا ہوا انڈا اور

عاشر کہتے رُک کر اپنے چاروں اِطراف دیکھتا فاحا کو گھورنے لگا

گھر جاؤ دماغ کھالیا ہے میرا میں تو اب سوؤں گا۔۔۔۔اپنی خجلت مٹانے کے غرض سے عاشر انگرائی لیکر بولا

میں نے دماغ کھالیا ہے یا آپ نے میرا۔۔۔۔گود میں پڑا کشن فاحا نے اُس کے چہرے پر مارا

تم نے میرا باتوں کا رکارڈ تو تم نے قائم کیا ہوتا ہے"خود رکارڈ بناتی اور اپنا بنایا ہوا رکارڈ توڑ بھی دیتی ہو۔۔۔۔عاشر زچ کرنے والے انداز میں اُس سے بولا

بہت بدتمیز ہو آپ۔۔۔۔فاحا نے منہ پُھلائے کہا تو عاشر کو بے ساختہ لالی کا خیال آیا تھا وہ بھی تو اُس کو بار بار یہی کہا کرتی تھی۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

فاحا کیا ابھی تک تم سوئی پڑی ہو یار مجھے بھوک لگی ہے ناشتہ تیار کرو۔۔۔۔صبح کے وقت میشا کی آنکھ کُھلی تو وہ ہال میں آتی فاحا کو آوازدیں دینے لگی۔۔

فاحا

افففف اللہ ایک تو آئے دن میرے ہاتھوں کو کُھجلی ہوتی ہے۔۔۔۔میشا فاحا کو مسلسل آوازیں دیتی اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کو دیکھنے لگی تبھی باہر گیٹ پر بیل ہوئی تو فاحا یا سوہان میں سے کسی کو ناپاکر وہ خود ہی باہر آتی گیٹ کُھولنے لگی

فرماؤ کون ہو تم دونوں۔۔۔باہر دو لڑکوں کو دیکھ کر میشا نے پوچھا

ہم مُحلے میں نیو آئے ہیں۔۔۔۔ایک سرتا پیر اُس کو دیکھ کر بولا

تو میں کیا کروں ہمارے یہاں ایسا رواج نہیں ہوتا کہ مُحلے میں نئے آئے لوگوں کو صبح کا ناشتہ یا دن کا کھانا دے اپنا گُزارا ہی بڑی مشکل سے ہوتا ہے اِس لیے کسی اور کے گھر کی بیل بجاؤ۔۔۔میشا نان سٹاپ بولتی دروازہ بند کرنے والی تھی جب ایک نے اپنا پاؤ گیٹ کے درمیان رکھ لیا تو میشا نے تیکھی نظروں سے اُس کو دیکھا جس کے چہرے پر خباثت بھری مسکراہٹ تھی

ہمیں پتا لگا ہے یہاں ایک بوڑھی عورت کے ساتھ تم تین جوان بہنیں اکیلے رہتی ہو۔۔۔۔دوسرے لڑکے نے مصنوعی افسردگی سے کہا

سہی سُنا ہے اور کیا سُنا ہے ذرا روشنی ڈالنا صبح نہیں ہوئی نہ تو سورج ابھی نہیں نکلا۔۔۔میشا نے دانت پہ دانت جمائے کہہ کر دونوں کو گھورا

آپ تین کمزور سی لڑکیاں کیسے سارا کچھ سنبھالتی ہوگی بڑا مشکل ہوتا ہوگا نہ بغیر کسی مرد کے سہارے رہنا۔۔۔۔ایک نے پوچھا

جی بہت مشکل ہوتا ہے کل پورا راشن ختم ہوگیا ہے اب کچن میں خالی برتن ایک دوسرے کے ساتھ خوش گپوں میں مصروف ہیں۔۔۔۔"اور ہم خالی پیٹ۔۔۔۔میشا نے بھی ہاں میں ہاں ملائی

ہمارے لائق کوئی خدمت ہو تو ہم حاضر ہیں۔۔۔ایک آدمی جلدی سے آگے آتا بولا تو دوسرا اُس کو پیچھے کرتا خود آگے ہونے کی کوشش کرنے لگا

آپ دونوں۔۔۔میشا نے باری باری دونوں کو دیکھا

جی بلکل بھلا ہم کافر تھوڑئی ہے جو آپ کے چہرے پر پریشانی بھرے تاثرات دیکھ کر اگنور کرے۔۔۔۔وہ بولا تو میشا کے ہاتھ میں کُھجلی بڑھنے لگی

اِتنے نیک اِتنے پارسا"اِتنے ہونہار قدردان دو خوبصورت لڑکے اِس محلے میں کیسے آگئے؟میشا نے حیرانگی کا مصنوعی اِظہار کیا تو دونوں کا دل بلیوں کا طرح اُچھلنے کودنے لگا

بس اللہ کا کرم ہے اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔۔۔دوسرے نے بھی چاپلوسی کرنا ضروری سمجھا

تھوڑا ہمیں بھی دے دو۔۔۔میشا نے اُن کے لیے گیٹ کھولا

آپ ہمیں اندر آنے کا بول رہی ہیں۔۔۔وہ خوشی اور بے یقینی سے بولے

نہیں تو کیا میں مذاق کروں گی۔۔۔بس میں چاہتی ہوں آپ ایک بار کچن دیکھ لے تاکہ یہ نہ لگے کہ میں نے کچھ جھوٹ کہا۔۔۔۔میشا کے اِتنا کہنے کی دیر تھی اور وہ دونوں اندر گُھس آئے تو اپنی مسکراہٹ ضبط کیے میشا نے پلٹ کر اُن کو دیکھا

آپ دونوں ہی ہو نہ کوئی اور تو نہیں ہے؟گیٹ کے پاس پڑا ڈنڈا دیکھ کر میشا نے معنی ہے انداز میں اُن سے پوچھا تھا۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

جی ہم دونوں ہیں اور آجکل لوگوں کو کہاں آس پڑوس کا ہوش ہوتا ہے"وہ تو بھول گئے ہیں کہ پڑوسیوں کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں۔۔۔۔۔وہ دونوں میشا کو دیکھتے بولے تو اُن کی جانب پلٹتی میشا نے سمجھنے والے انداز میں سر کو جنبش دی تھی۔

بلکل سہی کہا آپ نے مگر آپ دونوں اب آگئے ہیں نہ اُن کو یاد کروائیے گا پڑوسیوں کے حقوق۔۔۔میشا نے اپنے لفظوں پر خاصا زور دیا

ہم ہیں نہ اور ہمارے ہوتے ہوئے آپ کو کسی تیسرے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی ویسے آپ کی باقی کی دو بہنیں کہاں ہیں؟وہ صحن کے آس پاس نظریں گُھمائے جیسے اُن کو تلاش کرنے کی کوشش کررہے تھے۔۔

یہی ہیں"مگر آپ لوگوں کے لیے میں کافی ہوں کسی دوسرے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی"خیر یہاں آنے سے پہلے تیل گرم کروایا تھا؟میشا نے ڈنڈا ہاتھ میں لیے اُن سے پوچھا

تیل گرم کس لیے؟ایک نے ناسمجھی والے انداز میں اُس سے پوچھا

اِس لیے۔۔۔۔کہنے کے ساتھ ہی میشا نے زوردار ڈنڈا اُس کے بازو پر مارا تو اُس کو دن میں تارے نظر آنے لگے۔۔۔

آہ آہ

"یہ کک کیا؟اپنے ساتھی کو چیختا دیکھ کر دوسرے نے حیرت سے اُس کو دیکھ کر پوچھا جبکہ لہجے میں لڑکھڑاہٹ صاف ظاہر تھی

اکثر لڑکیاں کپڑوں کی دُھلائی کرتیں ہیں یا پھر گھر کی صفائی سُتھرائی پھر آتی ہے دا لیجنڈ میشا جو لوگوں کی دُھلائی کرتی ہے"اور دماغ کا صفایا۔۔۔۔میشا نے اپنا انٹرو کروانے کے بعد اُس کی پیٹھ بھی دُھو ڈالی تھی وہ بیچارا نیچے بیٹھتا چلاگیا

کوئی بھی کام کرنے سے پہلے انسان بڑوں سے مشورہ کرلیتا ہے تم دونوں بھی یہاں آنے سے پہلے کسی سے پوچھ لیتے تو زیادہ نہیں تو گھر میں کسی سے ہلدی والا دودہ تیار رکھنے کا ضرورت کہتے۔۔۔۔میشا نے باری باری اور زیادہ اُن کو ڈنڈا مارا مگر جب تیسری بار مارنے والی تھی تو ایک نے درمیان میں روک لیا

لڑکی ہونے کا لحاظ کررہے تھے تیرا مگر وہ حال ہوگا تیرا کہ زندگی بھر یاد رکھے گی۔۔۔۔اُس نے غُصے سے بے حال ہوتے کہا تو میشا نے گول گھوم کر ایک لات اُس کے سینے پر ماری جس پر ڈنڈے پر اُس کی گرفت چھوٹ گئ۔۔"دوسرا جبکہ حیرت سے اُس کو دیکھ رہا تھا جس کے چہرے پر ایک لمحے کے لیے بھی خوف کا سایہ نہیں لہرایا تھا"اُس کا اعتماد قابلِ دید اور قابلِ تعریف تھا وہ لڑ ایسے رہی تھی جیسے اِن چیزوں کی خاص نالج ہو اُس کو۔۔

میشا کو کوئی مار پائے ماں نے ایسا ابھی بیٹا ہی پیدا نہیں کیا۔۔۔۔"اور اب شکل گُم کرو تم دونوں اپنی۔۔۔ ایک بار پھر اُن پر وار کرتی میشا نے ہاتھ جھاڑ کر کہا تو وہ گِرتے مِرتے دروازہ کھول کر باہر ایسے بھاگے جیسے سالوں بعد قیدی کو رہائی ملتی ہے"یہ سارا منظر اُپر چھت پہ کھڑی سوہان نے صاف دیکھا تھا اور یہ دیکھ کر اُس کی نظروں کے سامنے اُن کا ماضی آگیا تھا

❤❤❤❤❤❤

کچھ سال قبل

آپ کو پتا ہے امی فاحا نے جو اسکول میں جو اسپیچ کی تھی وہ کتنی سیڈ اور اُس میں الفاظ کتنے گہرے تھے۔۔۔بیس سالہ سوہان نے صحن میں موجود پودوں کو پانی دیتی اسلحان سے کہا

سوہان اپنے کمرے میں جاؤ۔۔۔جواب میں اسلحان سنجیدگی سے محض اِتنا بولی تھی

ساجدہ آنٹی آپ کا آج تک ایسا رویہ دیکھ کر حیرت زدہ ہے کہ کوئی ماں اپنی اولاد سے اِتنا فاصلہ کیسے رکھ سکتی ہے؟"اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ اسلحان کے اندر وہ دل نہیں جو ہر ماں کے پاس ہوتا ہے کیونکہ بچہ پیدا کرنے میں بڑا کمال نہیں ہوتا کمال تب ہوتا ہے جب آپ اپنے بچوں کو اچھی پرورش اور ایک اچھی زندگی دے سکوں۔"جس میں اچھا ماحول بھی آتا ہے۔۔۔۔سوہان نے کہا تو اسلحان نے لب بھینچ کر اُس کو دیکھا جس کے خوبصورت چہرے پر کوئی بھی تاثر نہیں تھا جو وقت سے پہلے بڑی ہوچُکی تھی

اگر میرے اندر ماں کا دل نہ ہوتا تو آج میں دوسری شادی کرلیتی تم سب کو ویسے چھوڑتی جیسے تمہارے باپ نے تم تینوں کو ٹھکرایا تھا۔۔۔اسلحان نے کہا تو سوہان کے چہرے پر یکطرفہ مسکراہٹ آئی تھی

اِتنا اگر ہمارے لیے کیا ہے تو فاحا کو اچھا ماحول بھی دے ورنہ جو ماحول ہمارے ارد گرد بنا ہوا ہے اُس سے فاحا اپنی شخصیت کو کھودے گی"اہم بات ماحول کی ہوتی ہے۔۔۔"انسان جو دیکھتا ہے وہ کرتا ہے جو سُنتا ہے اُس کو حقیقت مان لیتا ہے اگر مان نہ بھی جائے تو اُس کے بارے میں سوچتا ضرور ہے۔۔۔سوہان نے سنجیدگی سے بھرپور آواز میں اُس سے کہا

مگر اسلحان کے کچھ بھی کہنے سے پہلے باہر کا دروازہ زور سے بجا تھا۔۔۔"جس میں سوہان نے دروازے کو دیکھا تھا مگر اسلحان کا دل اُچھل کر حلق میں آیا تھا

میں دیکھتی ہوں۔۔۔۔سوہان اِتنا کہتی جانے لگی جب اسلحان نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر روک لیا

تم اندر جاؤ میں دیکھ لوں گی۔۔۔۔اسلحان نے اُس کو اندر جانے کا کہا

میں یہی ہوں اور آپ خوفزدہ کیوں ہیں اِتنا؟سوہان بغور اُس کا چہرہ دیکھ کر بولی

ہر بات پر بحث کرنے نہ لگ جایا کرو تم۔۔۔اسلحان نے سختی سے اُس کو مُخاطب کیا جب دروازہ اور زور سے بجایا گیا تو اسلحان اُس کو وہی چھوڑتی خود دروازے کی طرف بڑھی تھی

جی کیا کام ہے؟دروازے کے پاس ایک بار پھر کچھ لفنگے دیکھ کر اسلحان نے اپنے آپ کو مضبوط ظاہر کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی

سلام میڈم۔۔۔وہ سرتا پیر اُس کو دیکھتا سلام کرنے لگا مگر جو اُس کے ساتھ دو آدمی تھے اُن کی نظریں صحن میں کھڑی بیس سالہ سوہان پر تھی۔۔"اور اُن کی نظروں میں جانے ایسا کیا تھا جو وہ اندر کی طرف بھاگ گئ تھی۔۔۔۔"وہ بہادر تھی بہت بہادر تھی پر شاید ابھی اِتنا بہادر نہیں تھی بنی جو مردوں کی ایسی نظروں کا مُقابلہ کرپاتی

وعلیکم السلام کام بتائے؟اسلحان نے سنجیدگی سے کہا

اندر تو آنے دے

آہ آہ

وہ آدمی اسلحان کو دھکا دیتا زبردستی گھر میں گُھسنے لگا تھا جب اُس کی آنکھ میں زور سے ایسا کچھ لگا کہ وہ اپنی آنکھ پر ہاتھ رکھتا درد سے بُلبُلا اُٹھا تھا جس سے اُس کے آدمی اُس کی طرف متوجہ ہوئے تھے مگر اسلحان نے چونک کر پلٹ کر دیکھا جہاں سوہان نہیں تھی یکایک اُس کی نظریں چھت پر گئ جہاں فاحا کے ساتھ قہقہقہ لگاتی سترہ سالہ میشا ہاتھ میں غلیل کو گُھمارہی تھی ساری ماجرہ سمجھ آنے پر اسلحان نے اُس کو گھورا تھا مگر دور ہونے کے سبب میشا نے اُس کو دیکھا نہیں تھا اُس کا ٹارگیٹ تو اب کوئی اور تھا دیکھتے ہی دیکھتے اپنی غُلیل کا نشانہ لیئے میشا نے دوسرے آدمی کے بنا بالوں والے سر پر پہ پتھر زور سے لگایا تھا

"ہاہاہا میشا تو چھاگئ۔۔۔۔نشانہ جگہ پہ لگنے پر میشا نے قہقہقہ لگایا تھا

فاحا کو بھی سیکھنی ہے۔۔۔۔فاحا نے منمناتے کہا

اچھا لو۔۔"۔۔میشا نے غلیل اُس کی طرف بڑھائی

مجھے پکڑنا نہیں آتی اور اگر غلطی سے امی کو لگ گیا تو پھر؟دینے کے لینے پڑجائے گے۔۔۔فاحا نے پریشانی سے کہا

دینے کے لینے نہیں لینے کے دینے ہوتا ہے اور میشو دا گریٹ تمہارے ساتھ کھڑی ہے اِس لیے بہنا نو پریشانی والی بات کرینگے اُونلی انجوائے کرینگے کسی کا سر پھاڑ کر تو کسی کی آنکھ پھوڑ کر۔۔۔میشا نے مزے سے کہا

اِتنے سے پتھر سے چاکلیٹ بھی نہ ٹوٹے اور آپ سر پھاڑنے والی ہے؟فاحا اُس کے ہاتھ میں موجود پتھروں کو دیکھ کر بولی

اِس کو کانفڈنس کہتے ہیں۔۔۔۔میشا نے مزے سے کہا

آپ کے اِس کے کانفڈنٹ کا الگ لیول ہے مگر ابھی مجھے سیکھائے یہ غُلیل۔۔۔فاحا منہ کے زاویئے بگاڑ کر بولی

ہاں پکڑو یہ۔۔۔۔میشا نے کہا

پکڑی ہوئی ہے۔۔۔۔فاحا نے غُلیل اُس کے سامنے لہرائی

ایسے نہیں جو وی بنی ہوئی ہے اُس کو پکڑو۔۔۔۔۔میشا نے اپنا سر نفی میں ہلایا اِس بات سے انجان کے نیچے ایک الگ جنگ شروع تھی

پکڑ لیا۔۔۔۔فاحا نے بتایا

ایسے پکڑو کہ ربرز پیچھے کی طرف ہو پھر اُس میں پتھر ڈال کر کھینچ کر نشانہ بناؤ کہ کسی کی آنکھ پھوڑدو۔۔۔میشا نے ماہرانہ انداز میں اُس کو گائیڈ کیا اور فاحا نے ایسا ہی کیا مگر اُس کا پتھر کسی کی آنکھ نہ پھوڑ پایا بس اُس کے پاؤ کے پاس گِر پڑا

پتھر بھی بول رہا ہے کس کے ہاتھ لگا ہوں بہن مجھے معاف کردو۔۔۔۔میشا خشمگین نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولی تو فاحا کا منہ اُترگیا

اچھا یہاں آؤ۔ ۔۔۔میشا نے اُس کو اپنے پاس کھڑا کیا اور اُس کا رُخ سامنے کی طرف کیے غُلیل اُس کے ہاتھوں میں سہی سے پکڑائی اور اُس کے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھا پھر نِشانہ تیسرے آدمی کی طرف کیا جو اسلحان سے جانے کیا بکواس کیے جارہا تھا۔۔۔

ون

ٹو

تھری

ریڈی

تھری کے ہوتے ہی میشا نے فاحا کے ساتھ مل کر اُس کی آنکھ بھی پھوڑ ڈالی تھی جس پر اُس کے چہرے پر فخریہ مسکراہٹ آئی

ویسے میشو آپو ہم نے اِن انکل کو غلیل کیوں ماری؟"ایسے تو اللہ گُناہ دیتا ہے۔۔آدمی کی آنکھ پھوڑنے کے بعد فاحا کو خیال آیا تو میشا نے اُس کو گھورا

میری چڑیا جتنا دل رکھنے والی بہن آپ کو نہیں لگتا کہ یہ سوال کرنے میں آپ کو تاخیر سرزند ہوئی ہے۔۔۔۔میشا نے بھگو کر طنز کیا

مگر آپو میں تو چھوٹی ہوں بہت بیٹا کیسے دے سکتی ہو؟فاحا نے ناسمجھی سے کہا میشا ہونک بنی اُس کا چہرہ تکنے لگی

بڑی جلدی ہے بیٹا دینے کی"باپ کا خون نہ ہو تو۔۔۔آخری لائن میشا آہستہ آواز میں کہی تھی

میں نے کب کہا ابھی آپ نے بولا۔۔۔۔۔"سرزند دینے میں تاخیر ہوئی ہے اور اُردو میں تو سرزند بیٹے کو کہا جاتا ہے فاحا کو اُس کی اُردو ٹیوٹر نے یہی بتایا تھا۔ ۔۔۔۔فاحا نے کہا تو میشا کا دل چاہا اپنا ماتھا پیٹ لے

وہ سرزند نہیں ہوتا اُردو بنانے کی دُشمن فرزند ہوتا" جس کو بیٹا کہا جاتا ہے۔ ۔۔"اچھا ہوا ادب اُردو کے لکھاری مرچُکے ہیں ورنہ آج کارنر میں بیٹھے رو رہے ہوتے۔ ۔اور اب چلو ہم نے نیکسٹ اسٹیپ لینا ہے۔ ۔۔۔میشا سرجھٹک کر اُس سے بولی تو فاحا اُس کے ہم قدم ہوئی ۔

وہ دونوں باہر آئیں تو میشا کی نظر لاؤنج میں سنجیدہ بیٹھی سوہان پر گئ تو اُس نے بے ساختہ تھکی ہوئی سانس خارج کی

سوہان۔۔۔۔میشا نے اُس کو مُخاطب کیا

ہمممم کیا ہوا؟سوہان جیسے گہری نیند سے جاگی

Just a few bad chapters

Doesn't mean that

Your story is over...

So smile and move on

Because......

The best is yet to come !

تم خود کہتی ہو انسان اپنے اِرد گرد ہونے والے واقعات سے سیکھتا ہے۔ ۔۔۔ماحول وہ اہم جزا ہوتا ہے جو اچھے انسان کو بُرا بنانے کا سبب بھی بنتا ہے اگر تم فاحا میں اعتماد بحال کرنا چاہتی ہو تو پہلے خود کو پُراعتماد بنانا ہوگا کیونکہ جس طرح بیٹیاں ماں کی پرچھائی ہوتیں ہیں اُسی طرح چھوٹی بہنیں وہ سب کرنا چاہتی ہیں جو اُن کی بڑی بہنیں کرتیں ہیں۔ ۔۔۔سنجیدگی سے اپنی بات کہہ جانے کے بعد میشا وہاں رُکی نہیں تھی بلکہ فاحا کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے وہ باہر چلی گئ تھی۔ ۔۔جبکہ اُس کے لفظوں نے سوہان کو گہری سوچو میں ڈوبا دیا تھا۔ ۔۔

❤❤❤❤❤❤❤

حال!

اُن آدمیوں سے دو دو ہاتھ کرلینے کے بعد میشا گھر آئی تو اپنے پیٹ پر ڈوپٹہ باندھے فاحا اُس کو یہاں سے وہاں ٹہلتی نظر آئی

میں تو ابھی زندہ ہوں پھر یہ تم نے کس کی فوتگی میں کپڑا باندھا ہے؟میشا نے حیرت سے فاحا کو دیکھا

ہمیں کونسا کسی کی فوتگی میں جانا ہوتا ہے وہ تو میرے پیٹ میں درد ہے جبھی پیٹ باندھا ہے۔ ۔۔۔فاحا نے صوفے پر بیٹھ کر اُس کو بتایا تو میشا الجھن بھری نظروں سے اُس کو دیکھنے لگی کیونکہ وہ ابھی تک فاحا کی بات سمجھ نہیں پائی تھی

اگر پیٹ میں درد ہے تو پیٹ درد کی دوا لو یہ پیٹ پر کپڑا باندھنے والا کیا لوجک ہے بھئی؟میشا نے سرجھٹک کر پوچھا

آپ کو نہیں پتا کیا جس طرح اگر کسی کے سر میں سردرد ہوتی ہے تو وہ اپنا سر باندھ لیتا ہے مطلب وہاں ڈوپٹہ باندھتا ہے تاکہ سردرد کم ہو ویسے ہی میں نے سوچا پیٹ درد کے لیے بھی ایسا کرکے دیکھو۔۔۔۔فاحا نے کان کی لو کُھجاکر بتایا

"میری بہن تم کسی حکیم کی حکیمہ کیوں نہیں بن جاتی مطلب ایسا دماغ ایسے خیالات تمہارے دماغ میں آتے کیسے ہیں۔ ۔۔۔؟میشا نے تاسف سے اُس کو دیکھ کر کہا تھا

بس کبھی غرور نہیں کیا۔ ۔۔فاحا قدرے شرماکر بولی

یہ لو میشو۔ ۔۔۔میشا کے مزید کچھ کہنے سے پہلے سوہان نے وائپر اور میلا کپڑا ساتھ میں پانی کی بالٹی ایک ساتھ میشا کے سامنے رکھنے لگی تو وہ چونک کر اُس کو دیکھنے لگی۔

یہ کیا ہے؟ میشا وائپر کو ایسے دیکھنے لگی جیسے کوئی انوکھی چیز اُس کے ہاتھ لگی ہو

اِس کو وائپر بولتے ہیں اور یہ صفائی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ۔۔۔سوہان نے بتایا

ہاں تو مجھے کیوں دے رہی ہو؟"اپنی اِس چہیتی لاڈلی بہن کو دو جس نے اسکول نہ جانے کے بعد خود کو اِس عذاب میں ڈالا تھا اگر اُس وقت یہ میری بات مان کر اسکول جاتی تو گھر کا کوئی بھی کام کبھی بھی اِس کو کرنا نہ پڑتا میں تو خاص ملازمہ بھی اِس کو رکھ کر دے دیتی۔۔۔۔میشا فاحا کو دیکھ کر بولی تو سوہان نے آِئبرو اُپر کیے اُس کو ایسے دیکھا جیسے کہنا چاہ رہی ہو" سیریسلی؟

خیر اِتنی اچھی تو آپ کبھی نہ تھیں۔ ۔۔۔فاحا نے منہ بسور کر کہا

مسوری دال۔ ۔۔میشا نے اُس کو گھورا

تمہیں اپنی جاب پر جانا ہوگا اُس سے پہلے ساری صفائی کرجاؤ فاحا کی طبیعت سہی نہیں ہے اور مجھے کشف کا کیس ریڈ کرنا ہے جو مصروفیت ہونے کی وجہ سے میں پڑھ نہ پائی تھی۔۔"مجھے سب جاننا ہے اُس شخص کے بارے میں جس نے ایسا جُرم کیا ہے۔سوہان نے سنجیدگی سے کہا

"ایک دن صفائی نہیں ہوگی تو کونسا بڑی بات ہوجائے گی ویسے بھی دیکھو کتنا چمکا رکھا ہے فاحا نے گھر ایسے اگر یہاں سال بھر صفائی نہ بھی ہوئی تو یہاں دھول مٹی کا نام ونشان نہیں ہوگا۔ ۔۔۔میشا دانتوں کی نُمائش کیے بولی

جہاں صفائی نہیں ہوتی وہاں فرشتے نہیں آتے اِس لیے ڈرامے بازی نہ کرے آپ۔ ۔۔۔فاحا نے کہا تو میشا ضبط سے اُس کو دیکھنے لگی

فاحا تم بیٹھ جاؤ۔۔۔سوہان نے فاحا کو دیکھ کر نرمی سے کہا

سُنو بہن میں بھی تمہاری سگی بہن ہوں بس میں کسی بونس کی طرح نہیں ملی تھی۔۔۔میشا نے احتجاج کیا

میشو ایک دن صفائی کرنے سے کیا ہوگا؟"کچھ بھی نہیں سارا گھر تو فاحا نے اکیلے سنبھالا ہوا ہے اگر آج اُس کی طبیعت خراب ہے تو ہمیں کرنا ہوگا نہ۔۔"یہ تو نہیں کہ ہر حال میں فاحا نے کرنا ہوگا مت بھولو اُس کو اپنا پڑھنا بھی ہوتا ہے جو ازحد ضروری ہے۔۔سوہان نے اِس بار اُس کو سمجھانے والے انداز میں کہا جس پر میشا نے ناچار اُس کے ہاتھ سے وائپر لیا

بہت بھاری ہے خیر لگانا کہاں ہے؟میشا وائپر کو پکڑے بولی

یقین جانے آپ سے بھاری نہیں ہے اور اگر آپ چاہے تو اپنے چہرے پر لگاسکتیں ہیں۔۔۔فاحا نے مسکراہٹ ضبط کیے کہا

اگر تم چاہتی ہو تمہارا درد پیٹ تک رہے تو چُپ رہو ورنہ میں جو کروں گی نہ اُس سے تمہارا جوڑ جوڑ درد کرنے لگے گا۔۔۔میشا نے اُس کو تنبیہہ کی تو فاحا سٹپٹائی

"اگر وائپر واقعی میں بھاری ہے تو ایسا کرو یہ بالٹی ہے اور یہ کپڑا ہے نیچے فرش پر پونچا لگاؤ۔۔۔۔سوہان نے وائپر واپس اُس کے ہاتھ سے لیا

کس سے دوں؟میشا نے نے تُکہ سوال کیا

ہاتھوں سے اور نیچے بیٹھ کر۔۔ ۔فاحا نے بتایا

کیری آن۔۔۔۔سوہان اُن دونوں کو دیکھتی وہاں سے چلی گئ۔۔۔

سب سے پہلے میشا چہرے کے عجیب زاویئے بناتی بیٹھ کر کپڑا پانی میں بھگو دیا ابھی وہ کپڑا واپس نکالنے لگی تھی جب فاحا بول اُٹھی

اِس کپڑے کو بالٹی میں نچوڑے۔۔

ایسا کرو خود آجاؤ۔۔۔۔میشا نے تپ کر کہا تو فاحا نے بے ساختہ اپنا سر نفی میں ہلایا

تو چُپ کرو اور ٹی وی پر کوئی ڈرامہ لگادو۔۔۔۔میشا نے اُس کو آنکھیں دیکھائے کہا

بیمار بہن سے کام کروا رہی ہیں قیامت کے دن اِس کا الگ سے حساب ہوگا اور میں کوئی نہیں صبح صبح ڈرامہ لگانے والی یہ شیطان کا کام ہوتا ہے اور جہاں صبح صبح اللہ کا کلام نہیں ہوتا وہاں برکت نہیں ہوتی۔۔۔۔فاحا ٹیوی پر تلاوت لگاتی بولنے لگی

تم نہ میری بڑی بہن نہ بنا کرو۔۔۔میشا نے اُس کو گھورا

آپ بھی نہ چھوٹو والی حرکتیں نہ کیا کریں بڑی ہوجائے اب۔۔۔فاحا دوبدو اُس سے کہتی واپس اپنی جگہ پہ آئی جبکہ میشا نے کوئی جواب نہیں اور زور سے پونچھا فرش پر رگڑنے لگی تو اُس کا انداز دیکھ کر فاحا حیرت سے اُس کو دیکھنے لگی۔ ۔"مگر اُس سے بے نیاز میشا اپنے کام میں محو تھی اور جب اُس کو پونچے والا کپڑا زیادہ گیلا ہونے کے بعد باعث بھاری محسوس ہوا تو اُس نے جہاں فرش کی صفائی کی تھی وہی اُس کپڑے کو نچوڑا تو فاحا کی آنکھیں اُبلنے کی حدتک کُھلی تھیں جبکہ منہ بھی پورا کُھلا کا کُھلا رہ گیا تھا"جو بھی تھا اُس کو میشا سے ایسی پھوہر پن کی اُمید ہرگز نہ تھی

آپ کی صفائی کا کیا فائدہ اور ایسے صفائی کون کرتا ہے؟ مطلب سیریسلی میشو آپو۔ ۔۔۔فاحا غش کھانے کے در پہ تھی

تم چُپ رہو اور مجھے میرا کام کرنے دو اور تم سچ سچ بتاؤ کتنا وقت ہوگیا ہے جو تم نے وائپر نہیں لگایا افففف غضب خُدا کا کتنی دھول مٹی ہے۔ ۔۔۔"میرے ہاتھوں کا حشر نشر ہوگیا ہے۔ ۔۔۔میشا اپنے ہاتھوں کو گھورتی اُس سے بولی پھر دماغ میں اُس کے جانے کیا سمایا جو اُٹھ کر اپنے جوتے والا پاؤ کپڑے پر رکھا اور اُس سے پونچا لگانے لگی تو فاحا نے بے ساختہ اپنا ماتھا پیٹا تھا

آپو۔۔۔فاحا سے کچھ بولا نہیں گیا

میری مانو دوسرا کپڑا تم بھی لاؤ اور ایسے کرو یقین جانو ایسے محسوس ہوگا جیسے اسکیٹنگ کررہی ہو۔"میں بھی بدھو ہوں یہ خیال پہلے کیوں نہیں آیا میرے دماغ میں۔۔۔میشا نے مزے سے کہا تو فاحا جھٹ سے اپنی جگہ سے اُٹھی"میشا کی مثال آج وہ تھی کہ کام ایسا کرو دوبارہ کوئی آپ کو کام کرنے کا نہ بولے

"آپو میشو آپ بیٹھ جائے میں کرلوں گی آپ نے جتنا پونچا لگایا اُتنا آج کے لیے کافی تھا باقی کا پونچا اپنے سسرال میں لگائیے گا کیونکہ میری آنکھیں یہ سب مزید دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ ۔۔۔فاحا جھرجھری سی لیکر اُس کو پرے ہٹاکر بولی

میں کرتی ہوں نہ۔ ۔۔میشا نے کہا

نہیں پلیز۔۔۔۔فاحا نے باقاعدہ اُس کے سامنے ہاتھ جوڑے تو میشا کندھے اُچکاتی وہاں سے ہٹ گئ۔۔۔۔"جبکہ فاحا نیچے دیکھتی گہری سانس لی اور جلدی سے کام میں لگ گئ۔۔۔۔۔"

اپنے کام سے فارغ ہونے کے بعد وہ خود کو صاف کرتی کچن میں ناشتہ بنانے چلی گئ تھی جبکہ میشا نے صبح کے نو بجے بعد ڈرامہ لگادیا تھا جو تھا"ناگن


"دس بیس منٹ بعد ناشتہ بناکر فاحا نے میشا کے آگے کیا اور سوہان کو بھی بُلایا اور پھر وہ تینوں ایک ساتھ ناشتہ کرنے لگی۔ ۔پر میشا سوچو میں گُم تھی کچھ۔ ۔

"یہ میں دھو دوں گی۔ ۔۔ناشتے کے بعد فاحا برتن سمیٹنے لگی تو سوہان نے اُس کے ہاتھ سے لیے اور خود کچن میں چلی گئ تو فاحا مسکراتی اپنی ایک کتاب لیے پڑھنے میں لگ گئ۔ ۔۔"ساتھ اُس کے میشا بیٹھی ہوئی تھی

فاحا امیجن کرو ہم جنگل میں ہیں اور وہاں اگر میرے پاؤ پر ناگ ڈس دے تو تم کیا کرو گی؟کسی خیال کے تحت میشا فاحا کو دیکھتی اُس سے بولی

میں آپ کا پاؤں کاٹ دوں گی سمپل۔۔۔۔کتاب پہ نظریں جمائے فاحا نے بلاتکلف کہا تو میشا کی آنکھیں پھٹنے کی حدتک کُھلی تھیں

سیریسلی تم میرا پاؤ کاٹ دو گی؟میشا کو جیسے یقین نہیں آیا

ہاں زہر پوری ٹانگ سے جسم میں پھیل جائے اور آپ جاں بحق ہوجائے اِس سے اچھا نہیں کہ آپ کا پاؤ کاٹا جائے نہ رہے گا بانس اور نہ بجے کی بانسری۔۔۔۔فاحا کا انداز خاصا پرسکون تھا۔

پاؤ کاٹ کر تم کیا مجھے محتاج بنانا چاہتی ہو؟میشا بیہوش ہونے کے در پر تھی

افکورس اب آپ کی جان سے زیادہ مجھے آپ کا پاؤ عزیز تھوڑی ہے جو آئے دن کسی نہ کسی ٹیبل یا دروازے کے درمیان آجاتا ہے۔۔۔۔فاحا سرجھٹک کر بولی تو میشا نے دانت پیسے

ڈراموں میں نہیں دیکھتی کیا کہ کیسے لوگ وہاں اپنا منہ لگا کر زہر نکالتے ہیں۔۔۔۔میشا نے اُس کی عقل پر ماتم کیا

وہ ڈرامہ ہے تو ظاہر سی بات ہے وہاں ڈرامہ ہی ہوگا اور پاؤ میں منہ لگانے سے زہر باہر نہیں نکلتا اُلٹا جو حاتم تائی کی قبر پر لات مار کر اپنی سی وہ کوشش کرتا ہے تو اُس کی جان کے لالے بھی پڑجاتے ہیں۔۔۔"پاؤں پاؤں ہوتا ہے ٹماٹر نہیں جو منہ لگانے سے اُس کا سارا رس ہمارے منہ میں آجائے گا۔۔۔۔فاحا اب کی کِتاب بند کرتی بولی تو میشا کا دل چاہا وہ فاحا کا گلا دبادے

"تمہیں کیا لگتا ہے یہ ڈرامے بنانے والے بیوقوف ہیں؟ میشا نے دانت پیسے

"یار آپو آپ خود سوچو ناگ جب ڈستا ہے تو اُس کی زبان انسان کے کسی جسم میں لگ جاتی ہے اور ناگ اِتنا زہریلا ہوتا ہے کہ وہ انسان اُسی وقت مرجاتا ہے۔۔اور جہاں ناگ ڈستا ہے تو ڈسکنے کی ایک چھوٹی جگہ نظر آتی ہے اگر آپ کی بات کے مُطابق وہاں کوئی منہ لگائے بھی تو وہ ٹھیک جگہ پر تو نہیں لگے گا نہ "اور نہ وہ زہر کھانے کی چیز جیسا ہوتا ہے جو نکالا جاسکے میں تو نہیں مانتی اِس لوجک کو۔ ۔۔ہاں اگر زہر نکالنے والا اگر اُس پاؤں کو آم سمجھ کر چوسے تو ہوسکتا ہے بچنے کے چانس نکل پائے۔ ۔۔۔فاحا نے پرسوچ لہجے میں کہا تو میشا نے ایک تھپڑ اُس کی پیٹھ پر مارا جس پر وہ منہ بسورتی رہ گئ۔ ۔۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

لالی یونی گراؤنڈ میں نیچے گھاس پر بیٹھی ہر ایک کو دیکھنے میں مصروف تھی جب عاشر اُس کے کچھ فاصلے پر آکر بیٹھا

السلام علیکم۔۔۔لالی نے ایک نظر اُس پر ڈال کر سلام کیا تو عاشر خجل ہوا

وعلیکم السلام کیا سوچ رہی ہو؟ عاشر نے پوچھا

آپ کو پتا ہے جتنی بے تُکلفی کا مُظاہرہ آپ میرے ساتھ یہاں کررہے ہیں اگر میرے گاؤں میں کرتے تو قتل ہوجاتے۔ ۔۔۔۔لالی نے اُس کو دیکھ کر سنجیدگی سے کہا

تو آپ گاؤں کی ہو انٹرسٹنگ تبھی ایسی ڈریسنگ کرتی ہو مگر اب آہستہ آہستہ یونی کا رنگ چڑھے گا آپ پر۔ ۔۔عاشر اُس کو دیکھ کر ہنس کر بولا

ایسا بلکل نہیں ہوگا۔ ۔۔۔لالی کو عاشر کی بات بُری لگی

اچھا اور وہ کیوں؟ عاشر نے دلچسپی سے اُس کا چہرہ دیکھا

کیونکہ میں جیسی ہوں مطمئن ہوں میں کبھی اِن لڑکیوں کی طرح بولڈ نہیں بننا چاہوں گی۔ ۔"اور ویسے بھی ماحول ہماری شخصیت پر اثرانداز نہیں کرتا۔ ۔۔۔۔لالی نے سنجیدگی سے کہا

ریئلی ماحول انسان کی شخصیت پر اثرانداز نہیں کرتا؟ عاشر نے حیرت سے اُس کو دیکھا

جی ماحول ہماری شخصیت پراثرانداز نہیں ہوتا بس انسان کا دل اور اُس کا کردار مضبوط ہونا چاہیے۔ ۔۔۔لالی کا انداز پُرجوش سا تھا۔

ایک بات بتاؤ۔۔۔۔عاشر نے اُس کو دیکھ کر پوچھا

کیا؟لالی نے سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھا

بچہ بولنا کیسے سیکھتا ہے؟"مطلب وہ بچہ ہوتا ہے چیزوں کے نام بولنا یہ سب کیسے اُس کو پتا لگتا ہے۔۔۔عاشر نے پوچھا

کیونکہ اُس کے والدین یا پھر گھر میں جو اور جتنے بھی افراد ہوتے ہیں اُن کو بولتا دیکھ کر وہ خود بھی بولنا سیکھتا ہے۔۔لالی نے سوچ سوچ کر بتایا

ماں باپ کے درمیان اگر لڑائی ہوتی ہے تو وہ بچوں کو کمرے میں بند کیوں کرتے ہیں؟"مطلب بچوں کے سامنے بھی تو وہ لڑسکتے ہیں مگر وہ کیوں چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے اپنے والدین کو لڑتا ہوا نہ دیکھے؟عاشر نے ایک سادہ سی مثال لیکر اُس سے پوچھا

اِس لیے تاکہ اُن کے بچوں پر اُن کا کوئی غلط تاثر نہ پڑے اُن میں اعتماد کی کمی نہ آجائے سب سے بڑی بات وہ سہمے نہ اور نہ اپنے والدین کو غُصہ کرتا ہوا دیکھ کر خود بھی غُصہ کرنا نہ سیکھ لے۔۔۔۔لالی نے بلاجھجھک کر بتایا تو عاشر کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی

تو کیا آپ بھی بھی یہی کہو گی کہ ماحول انسان کی شخصیت پر اثرانداز نہیں ہوتا کیونکہ جو کچھ ہوتا ہے وہ سب اِنورومینٹ کا ہی تو کمال ہے۔ ۔۔عاشر نے کہا تو لالی لاجواب ہوئی تھی

پر میرے بھائی نے کہا تھا یہ اور میرے بھائی کبھی غلط نہیں ہوسکتے۔ ۔۔۔لالی نے سرجھٹک کر کہا

کیا کہا تھا آپ کے بھائی نے؟عاشر نے جاننا چاہا

"اُنہوں نے کہا تھا ماحول ہماری شخصیت پر اثرانداز نہیں کرتا "آپ کا کردار اور آپ کا دل اگر صاف ہے تو ماحول جیسا بھی ہو اُس سے ہماری شخصیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا سب سے بڑی بات خود کو سنبھالنا ہوتا ہے اگر وہ کرلیا تو سمجھو سب ہوگیا اگر ماحول لوگوں پر اثرانداز ہوتے تو کوئی بھی گھر سے باہر نہ نکلتا۔۔ لالی نے اسیر کے الفاظوں کو یاد کیے عاشر کو بتایا

میں آپ کے بھائی کو غلط نہیں کہوں گا مگر آپ نے یہ تو سُنا ہوگا نہ کہ جتنے لوگ اُتنی باتیں؟ عاشر نے کہا تو لالی کا سراثبات میں ہلا

ہر انسان وہ کہتا ہے جس کا اُس کو تجربہ حاصل ہو اور ہر انسان کا اپنا نظریہ ہوتا ہے" ہوسکتا ہے کہ آپ کے بھائی کو اپنی زندگی میں کبھی ایسی جگہ رہنا پڑگیا ہو جہاں کہ لوگوں کی سوچ اُن کی سوچ سے یکسر مختلف ہو۔ ۔۔"ہر انداز الگ ہو مگر اُن کے ساتھ رہنے کے باوجود بھی وہ خود پر ایسی چیزوں کو حاوی ہونے سے بچاگئے ہو۔ ۔۔۔عاشر نے کہا تو لالی کو بے ساختہ خیال آیا کہ واقعی میں حویلی میں تو کیا پورے گاؤں کے لوگوں کی سوچ ایک طرف تھی تو اسیر ملک کی ایک طرف"وہ اپنے باپ دادا پر نہیں گیا تھا اُس کے خیالات الگ ہوا کرتے تھے اُس کا ہر انداز ایک الگ کہانی بیان کرتا تھا وہ جیسا تھا ویسا کوئی اور نہیں تھا یہاں تک کہ اُس کا دوسرا بھائی بھی نہیں۔

شاید۔ ۔۔۔اپنا سر جھٹک کر لالی نے محض اِتنا کہا تھا۔۔۔"تو عاشر مُسکرایا

"میں تو امی جیسی نہیں اور نہ دیبا بھابھی یا کشمائلہ بھابھی جیسی۔ ۔۔یہ خیال بے ساختہ اُس کے دماغ میں آیا تھا۔ ۔۔

❤❤❤❤❤❤❤

آج کوئی ناراض سا ہے؟ اسیر نے فرنٹ سیٹ پر پُھولے گالوں سمیت بیٹھی اپنی بیٹی کو دیکھ کر کہا جس نے اپنے دونوں بازو سینے پر باندھے ہوئے تھے اور اُس کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کسی بات پر خفا سی ہے۔ ۔۔۔

"اقدس؟ اسیر نے اُس کے چہرے پر گِرتے بالوں کو پرے کیا اور نرمی سے مُخاطب ہوا مگر اقدس کی طرف سے نو رسپانس جان کر وہ گہری سانس خارج کرتا اپنی گاڑی کو سائیڈ پر کھڑا کیا

قدس کیوں ناراض ہو ہم سے؟ اسیر نے اُس کا سیٹ بیلٹ کھول کر اپنی گود میں بیٹھایا

ہمیں ممی چاہیے۔"ہر ایک کے پاس ہے مگر ہماری نہیں ہے۔۔۔اقدس نے ناراض لہجے میں کہا

کیا آپ کو اپنے بابا سے محبت نہیں؟اسیر نے سنجیدگی سے پوچھا

آپ سے محبت ہے پر ممی بھی تو ہوتی ہے نہ جیسے آپ کی دادو ہے اور دادا جان کی امی بڑی دادا ماں ہیں ویسے ہی اقدس کو بھی اُس کی مما چاہیے۔ ۔۔۔اقدس نے ضدی لہجے میں کہا تو اسیر نے اُس کا ماتھا چوما

ہر ایک کے پاس سب کچھ نہیں ہوتا نہ۔ ۔۔اسیر نے کہا

میری سب دوستوں کی ہیں اور وہ بتاتی ہیں کہ اُن کے بال اُن کی امی بناتی ہیں۔۔"اور جب پہلے وہ اسکول جاتیں تھیں تو اُن کی ممی اُن کو اپنے ہاتھ سے ناشتہ کرواکر بھیجتی تھیں۔۔۔۔ہاتھوں کی مدد سے اقدس نے گِن کر اُس کو بتایا

کیا ہم آپ کے بال نہیں بناتے؟اسیر نے پوچھا

بناتے ہو۔ ۔۔۔اقدس نے سراثبات میں ہلایا

ناشتہ اپنے ہاتھوں سے نہیں کرواتے؟ اسیر نے مزید پوچھا

کرواتے ہیں۔ ۔۔اقدس نے اُس کو دیکھ کر جواب دیا

جو کام امی کرتی ہے وہ ہم کرتے ہیں ہماری اِتنی محبت کے باوجود آپ کو کسی اور کی کمی کیونکر محسوس ہورہی؟ اسیر نے پوچھا تو اقدس نے اپنا سرجُھکالیا

"تو کیا ہماری ممی کبھی نہیں آئے گی؟اقدس نے کچھ توقع بعد کہا

آپ کے بابا ہیں کہ پھوپھو بھی تو ہیں اور بڑی دادی ماں آپ سے کتنا پیار کرتی ہے۔ ۔۔۔اسیر اُس کا چہرہ ہاتھ کے پیالوں میں بھرکر بولا تو اقدس مسکرائی

"اقدس کو آئسکریم کھانی ہے۔ ۔۔اقدس نے اچانک کہا جبھی اُسی وقت اسیر کا موبائل بجنے لگا

ہم ابھی آئسکریم پارلر جائے گے تب تک آپ یہاں بیٹھو۔ ۔۔اسیر نے اُس کو واپس سیٹ پر بیٹھایا اور کال اُٹھائی جو سجاد ملک کی تھی

السلام علیکم ابا حضور۔ ۔۔۔۔اسیر نے سلام کیا

وعلیکم السلام تمہاری عقل کا کیا گھاس چڑھنے گئ ہے؟ دوسری طرف سے تپے ہوئے انداز میں پوچھا گیا

اَلْحَمْدُلِلّٰه نہیں۔ ۔۔اسیر نے تحمل سے کہا

گاؤں سے اکیلے تم شہر آئے ہو بغیر آدمیوں کو لیے اور کوئی ڈرائیور تک تمہارے ساتھ نہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہمارے کتنے دُشمن ہوتے ہیں جو اِس انتظار میں ہیں کہ کب ہم سے اکیلا کوئی ملے اور اُس کو ختم کرڈالے۔۔۔۔سجاد ملک کافی غُصے میں معلوم ہوئے

اسیر دُرانی بزدل نہیں اور ہم اپنی بیٹی کے ساتھ اکیلے وقت گُزارنا چاہتے تھے آپ کو یاد ہونا چاہیے کہ جب ہمارے ساتھ ہماری اقدس ہوتی ہے ہم کسی اور کو ساتھ میں آنے کا نہیں کہتے۔۔۔اسیر اقدس کو دیکھتا جواباً سجاد ملک سے بولا

اسیر فورن گاؤں واپس آؤ۔۔سجاد ملک محض اِتنا بولے

ضرور۔۔۔کہنے کے ساتھ اسیر نے کال کاٹ دی اور ڈرائیونگ کرنا دوبارہ شروع کی۔۔۔

"آپ ہم سے بہت پیار کرتے ہو نہ؟ چھ سالہ اقدس نے اسیر کو دیکھ کر پوچھا تو اُس کے سوال پر اسیر کے چہرے پر پہلی بار خوبصورت مسکراہٹ نے احاطہ کیا"جس پر اُس کے بائیں گال پر گہرا ڈمپل نمودار ہوا تھا

آپ کو کوئی شک ہے؟ اسیر نے گردن موڑ کر اُس کو دیکھ کر پوچھا

بلکل بھی نہیں۔ ۔۔اقدس جلدی سے بولی

آپ میری جان ہو جس کے لیے اسیر ملک کچھ بھی کرسکتا ہے۔ ۔۔اسیر اُس کے بال بگاڑ کر بولا تو اقدس کِھلکِھلائی اور اُس کو خوش دیکھ کر اسیر ملک جیسے جی اُٹھا تھا۔ ۔۔۔


"آئسکریم پارلر پہنچ کر اسیر نے ایک لڑکے کو بُلاکر آئسکریم لانے کا کہا تھا مگر پھر جب دوبارہ اُس کے سیل فون پر کال آئی تو کال بیک نہ لگنے پر اُس نے گاڑی سے باہر جاکر بات کرنے کا سوچا۔ ۔۔


"اقدس آپ یہی رہنا ہم آتے ہیں۔ ۔۔اسیر اقدس کو دیکھ کر بولا

جی بابا۔ اقدس نے مسکراکر کہا تو اسیر گاڑی سے باہر نکل گیا جبکہ اقدس گاڑی کا شیشہ نیچے کرتی باہر دیکھنے لگی۔ ۔۔۔جبھی اُس کو ایک لڑکی آئسکریم کھاتی نظر آئی جس کی گود میں ایک خوبصورت بلی بھی تھی" بلی کو دیکھ کر اقدس کی آنکھوں میں چمک آئی تھی۔ ۔۔

سُنو۔ ۔۔۔اقدس نے ہاتھ کھڑکی سے باہر کرکے اُس کو آواز دے کر اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا مگر کر نہیں پائی

خود جاتی ہوں۔ ۔۔اقدس آہستہ سے بڑبڑاتی گاڑی کا دروازہ کھول کر اُتری اور پھر آس پاس دیکھتی اپنے قدم اُس لڑکی کی طرف بڑھائے"اُس کے چلنے میں لڑکھڑاہٹ واضع تھی جو تب محسوس کی جاسکتی تھی جو کوئی اُس کو غور سے دیکھتا

السلام علیکم ۔۔۔۔اقدس بلآخر وہاں پہنچ کر سلام کیا

وعلیکم السلام اپ کون؟ فاحا جو آئسکریم کھانے کے ساتھ مومو سے بات کرنے میں بزی تھی بچی کی آواز پر اُس کی طرف متوجہ ہوئی

ہمارا نام اقدس اسیر ملک ہے اور کیا یہ آپ کی بلی ہے؟ اقدس نے بتانے کے بعد پوچھا

جی یہ میری مومو ہے۔ ۔۔فاحا کو" اُس کے ہم کہنے پر حیرانگی نہیں ہوئی دوسرا "اقدس کا چہرہ اُس کو جانا پہچانا سا لگا

بہت پیاری ہے۔ ۔۔۔اقدس نے تعریفی انداز میں کہا

آپ بھی بہت پیاری ہو میری مومو کی طرح۔ ۔۔۔فاحا نے مسکراکر اُس کے بھرے ہوئے گال کھینچے

کیا ہم آپ کو بلی جیسے لگتے ہیں؟ اقدس بُرا مان کر بولی

ارے نہیں میں نے تو ویسے ہی بول دیا تھا۔ ۔فاحا ہنس کر بولی

اِس مومو کی ممی کہاں ہے؟اقدس نے پوچھا

مومو کی ممی نہیں ہے یہ اکیلی ہے۔ ۔۔فاحا نے بتایا

ہماری بھی ممی نہیں۔ ۔۔اُقدس نے اُفسردگی سے کہا تو فاحا بھی اُداس ہوگئ

کہاں گئ تمہاری امی؟ فاحا نے پوچھا

پتا نہیں بابا نہیں بتاتے۔ ۔۔۔اقدس نے لاعلمی کا مظاہرہ کیا

اچھا آپ بہت پیاری ہیں یقیناً اپنی امی پر گئ ہوگی۔ ۔۔فاحا اُس کو دیکھ کر اندازہ لگاکر بولی

ہم تو اپنے بابا کی کاپی ہیں ۔۔۔اقدس نے فخریہ لہجے میں بتایا

اوو ماشااللہ۔ ۔اُس کے انداز پر فاحا مسکرائی

آپ کس پر گئ ہیں؟ اقدس نے اُس کو غور سے دیکھ کر پوچھا

اپنی امی پر۔ ۔۔۔فاحا نے بتایا

آپ بھی بہت پیاری اور کیوٹ سی ہیں"اب ہم چلتے ہیں ہمارے بابا نے ہمیں گاڑی سے باہر دیکھا تو ناراض ہوجائینگے۔ ۔۔اقدس ایک آخری نظر اُس کی بلی پر ڈالے بولی

کہاں ہے آپ کی گاڑی فاحا آپ کو چھوڑ آئے گی۔ ۔۔فاحا نے آس پاس دیکھ کر کہا

فاحا کون؟ اقدس نے ناسمجھی سے اُس کو دیکھا

میرا نام فاحا ہے۔ ۔فاحا نے مسکراکر بتایا

اچھا مگر ہم اکیلے چلے جائینگے آپ کا بہت شکریہ۔ ۔۔اقدس نے مسکراکر کہا اور وہ آہستہ آہستہ چلی گئ۔ ۔۔

❤❤❤❤❤❤

ہائے بیوٹی کوئین۔۔آج پھر آریان اُس کے کیفے میں کھڑا تھا۔ ۔

تم پھر آگئے؟ میشا نے تپ کر اُس کو دیکھ کر کہا

نہیں میں تو ابھی آیا ہوں پر شاید تمہیں میں یہاں وہاں ہر جگہ نظر آرہا ہوں۔"کہی یہ تو پیار نہیں۔۔۔آریان خوشفہمی میں مبتلا ہوا

ریئلی ایسا تم میں کیا ہے جو میں دا گریٹ میشا تم پر نظر رکھے گی۔ ۔میشا نے طنز کیا

یہ بولو کیا نہیں ہے۔ آریان اپنے بالوں میں ہاتھ پھیر کر ایک ادا سے بولا

واٹ ایور تم یہاں کھڑے رہو میرا تو آج جلدی آف ہے۔ ۔۔میشا اپنی لونگ جیکٹ اُٹھائے اُس سے کہتی لمبے لمبے ڈگ بھرنے لگی۔

آہستہ مردوں کی طرح کیوں چل رہی ہو دھیرے اور نزاکت کے ساتھ چلو۔ ۔۔۔آریان بھاگ کر اُس کے ہمقدم ہوتا بولا

تمہیں میرا چلنا مردوں کی طرح لگ رہا ہے تم کیا چاہتے ہو میں کمر لچکا کر چلوں۔ ۔۔میشا نے رُک کر اُس کو گھورا

اُس کے لیے کمر کا لچکدار ہونا ضروری ہے۔ ۔۔۔آریان نے معصومیت سے کہا

تمہیں پتا ہے میں تمہارا منہ توڑ سکتی ہوں۔ ۔۔میشا نے اُس کو دیکھ کر استہزائیہ انداز میں کہا

منہ ہزار بار توڑنا مگر دل ایک بار بھی نہیں وہ کیا ہے نہ اِس ترقی یافتہ ملک میں ابھی دل جوڑنے والا ڈاکٹر نہیں بنا۔ ۔۔۔آریان نےگہری بات مزاحیہ انداز میں کہی

"تم نہ گو ٹو ہیل۔ ۔۔میشا کو سمجھ نہیں آیا کیا کہے اِس لیے جو منہ میں آیا وہ بول دیا

"وِد یوئر ہیل۔۔۔آریان اُس کا ہاتھ پکڑ کر دلفریب انداز میں بولا تو اُس کی جُرئت پر میشا کو اُس پر تاؤ آیا

"تمہیں تو میں

میشا ایک پنج اُس کو مارنے لگی تھی مگر پہلی بار کی طرح اِس بار بھی آریان نے اُس کی کوشش کو ناکام بنادیا تھا

رلیکس کول ڈاؤن میں نے تمہیں نہیں چھوا تمہارے دستانے کو چھوا ہے ماشااللہ بہت پیارا ہے اسپیشلی کلر بھی۔۔۔آریان ڈھیٹائی کا مُظاہرہ کیے بولا تو میشا نے دانت پیسے

میں چاہوں تو تمہاری اِس کوششوں کو ناکام بناکر سب کے سامنے تمہاری پیٹائی کرسکتی ہوں۔۔۔۔میشا دھمکی آمیز لہجے میں بولی

ویل آئے ٹرسٹ یو میں جانتا ہوں تم کرسکتی ہوں۔۔آریان کو کافی والا واقعہ یاد آیا تو جھرجھری لیکر بولا

گُڈ اور اب تمہیں چاہیے کہ میرا پیچھا چھوڑدو۔ ۔۔۔میشا نے طنز کہا

وہ تو میں اب کبھی نہیں چھوڑسکتا کیونکہ مجھے تو اب تمہاری لائف لائن بننا ہے۔ ۔۔آریان دانتوں کی نُمائش کیے بولا

میں تمہیں ڈیٹھ لائن نہ بنادوں۔ ۔۔۔میشا تپ اُٹھی جس پر آریان سخت بدمزہ ہوا

"اچھا سُنو۔ ۔۔آریان نے اُس کی بات اگنور کی

پھوٹو۔ ۔۔میشا نے تپ کر کہا


"راحتِ چشم ہے

نوازی تیری

ایک ادا ہی تو ہے

بے نیازی تیری

بے نیازی تیری

آپ کتنے حسیں

آپ خود بھی نہیں جانتے


"آریان اُس کو دیکھ کر خوبصورت آواز میں گانا گانے لگا تو میشا نے ترشی نگاہوں سے اُس کو دیکھا

آج لگتا ہے اندر کا غالب مرگیا ہے۔ ۔۔میشا نے اُس کو گھور کر طنز آواز میں کہا

کہاں زندہ ہے ابھی آخر کو ہم نے ہی فراز احمد اور پروین شاکر کی جگہ لینی ہے۔ ۔۔آریان فخریہ انداز میں اُس سے بولا

تم نہ بہت بڑے کوئی جن ہو۔ ۔۔۔میشا زچ ہوئی

اب یہ جن تو قبر تک تمہارے ساتھ رہے گا۔ ۔۔آریان نے بتایا جبھی اُن کے برابر ایک لڑکی گُزرنے لگی تو میشا کے شیطانی دماغ کی بتی روشن ہوئی اور جاتی ہوئی لڑکی کی پشت دیکھ کر دو انگلیاں منہ میں ڈالے زوردار سِٹی ماری تو آریان پہلے سمجھ نہیں پایا مگر جیسے ہی اُس نے لڑکی کو اپنے پاس اور میشا کو بے نیازی کا مُظاہرہ کرتا دیکھا تو ایک لمحہ لگا تھا اُس کو ساری بات جاننے میں۔ ۔۔۔۔

❤❤❤❤❤❤

سوہان ساکت نظروں سے اپنے پاس پڑے کاغذات کو دیکھ رہی تھی جو چیخ چیخ کر اُس کو جو بتارہے تھے وہ سوہان یقین کرنے سے قاصر تھی۔ ۔۔"پھر سوہان نے ہاتھ بڑھاکر ایک فوٹو اُٹھاکر اپنی آنکھوں کے سامنے کی جہاں اُٹھارہ سالہ کا ایک لڑکا تھا فراز ملک ولد نوریز ملک


""یہ بیٹیاں مجھے دے ہی کیا سکتیں ہیں؟"نہ تو اِن کو لیکر میں کہی ساتھ لے جاسکتا ہوں اور نہ یہ مجھے کوئی عقلمندانہ مشورہ دے سکتی ہیں۔۔۔۔""


غرور تکبر کی آواز ایک بار پھر کانوں میں گونجنے لگی تو سوہان کے چہرے پر طنز مسکراہٹ آئی تھی۔ ۔


میں نے تمہیں پہلے سے بتایا تھا مجھے بیٹا چاہیے اِن تینوں کا میں کیا کروں گا؟بھائی صاحب تو اول روز سے ہی مجھ سے خفا ہے اور اب جو تم نے یہ بچیاں میرے سر پر مسلط کی ہیں اِن کا میں کیا کروں گا؟


"دیکھو اسلحان مجھے جو کہنا تھا میں کہہ چُکا ہوں اب تم یہ بوجھ لیکر یہاں سے چلی جاؤ میں اپنے بھائیوں کو مزید خفا نہیں کرسکتا تمہاری بدولت"


"ایک بار اِس کا چہرہ تو دیکھ لو۔۔۔۔اسلحان نے حسرت بھرے لہجے میں فاحا کی طرف اِشارہ دے کر اُس سے کہا جس کو ایک مرتبہ بھی خود نہیں دیکھا تھا

مجھے چہرہ دیکھ کر کرنا کیا ہے؟"میں نے سوچ لیا ہے اب میں وہ کروں گا جو بھائی لوگ مجھ سے کہینگے۔۔۔۔"گارڈ اِن کو باہر کا رستہ دیکھاؤ۔۔۔۔۔"


واقعی میں ہم وہ نہیں کرسکتیں جو بیٹے کرسکتے ہیں" ہم کسی معصوم کی عزت کو پامال نہیں کرسکتیں" اور نہ وقتی تسکین کے لیے کسی کی عزت کو روند سکتیں ہیں۔۔۔"

مگر ہمارے بابا جی آپ کو یہ بات جاننا ہوگی کہ سوہان حق کا ساتھ دے گی" جس بیٹے کی لالچ نے آپ نے ہمیں در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کیا اُس بیٹے کو سزا بیریسٹر سوہان ملک ضرور دلوائے گی۔ ۔۔۔"اب وقت آگیا ہے کہ آپ کو یہ بات پتا چلے کہ بیٹا ہو یا بیٹی اپنی زندگی میں سب کچھ کرسکتے ہیں۔ ۔۔۔سوہان نے وہ ساری تصاویر دور ہٹاکر تصور میں نوریز ملک کو مُخاطب کیا تھا پھر سرجھٹک کر اپنا موبائل لیکر کسی کو کال ملانے لگی

❤❤❤❤❤❤❤❤

ہائے رانی۔۔۔فاحا اپنے گھر جانے کی گلی میں گُزرنے لگی تو گلی کے کچھ لوفر لڑکے اُس کے پیچھے چلتے کمنٹس پاس کرنے لگے تو فاحا کا دل اُچھل کر حلق میں آیا تھا وہ آیة الکرسی کا ورد کرتی تیز تیز قدم اُٹھانے لگی تو وہ لڑکے بھی ایسے کرنے لگے۔ ۔۔۔"جس سے فاحا کا ڈر کر مارے بُرا حال ہوگیا تھا۔ ۔۔۔


"فاحا اگر بہادر نہیں تو فاحا کو مرجانا چاہیے۔ ۔۔"یہ دُنیا بہت ظالم ہے فاحا یہاں ڈرنے والوں کو ڈرایا جاتا ہے۔ ۔"اکیلی لڑکی کو ہراس کیا جاتا ہے۔ ۔۔اور تمہارا یہی حال رہا تو میر بات غور سے سُنو تمہارا زندگی پر کوئی حق نہیں اگر تم میں سیلف ڈیفنس کی طاقت نہیں تو ہمیں تمہاری ضرورت نہیں ہمیں بزدل بہن نہیں چاہیے۔ ۔۔۔"


کانوں میں میشا کی آواز گونجنے لگی تو فاحا نے زور سے اپنی آنکھوں کو میچا تھا وہ اپنے پیچھے لگے لڑکوں کے قہقہقہ اچھے سے سُن پارہی تھی"ڈر اُس پہ حاوی ہوتا جارہا تھا اور چاہنے کے باوجود بھی وہ کچھ کر نہیں پارہی تھی۔ ۔۔


"سُنو فاحا اصل زندگی میں ہم کسی ہیرو کے انتظار میں یا آسرے پر خود کو مصیبت کے حوالے نہیں کرسکتے" یہ ہماری زندگی ہے اور ہمیں اپنا ہیرو خود بننا ہوتا ہے" یہاں ہمارا اللہ کے سِوا کوئی نہیں ہوتا۔ ۔۔"تمہیں میری طرح یا میشا کی طرح نہیں بننا کیونکہ تم فاحا ہو اور تمہیں فاحا بن کر سب کچھ کرنا پڑے گا اپنے طریقے سے ہم ہر وقت تمہارے ساتھ نہیں ہوسکتے اِس لیے تمہیں پتا ہونا چاہیے کہ زندہ رہنے کے لیے اور اِس معاشرے میں آزاد گھومنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے یا پھر کیسے اُن کا سامنا کرنا چاہیے۔ ۔۔"یہ معاشرہ عورت کو کمزور کہتا ہے مگر عورت کمزور نہیں ہوتی اُس کو کمزور حیوان صفت مرد بناتے ہیں اور ہمیں اُن کا خوف خود پر حاوی ہونے نہیں دینا۔ ۔۔"تم اکیلے ہر مشکل کو حل کرسکتی ہو مگر اُس سے پہلے تمہیں اِرداہ باندھنا پڑے گا تبھی یہ ممکن ہے۔ ۔۔۔ہماری زندگی میں مرد صرف رکاوٹ ڈالنے کے لیے آسکتا ہے مگر ہمارا ہاتھ تھامنے کے لیے نہیں۔ ۔۔۔۔"


اب کی فاحا کی بس ہوگئ تھی سوہان کے الفاظوں نے اُس کو جیسے ہمت دی تھی جبھی وہ رُک گئ تو اُس کے پیچھے آتے لڑکے بھی رُک کر ایک دوسرے کا چہرہ تکنے لگے۔ ۔۔

"کیا چاہیے؟ فاحا نے پلٹ کر اُن چار لڑکوں کو دیکھا جو اُس کے اچانک بدلتے تیور دیکھ کر حیران ہوگئے تھے

"وہ وہ

اُن سے کچھ بولا نہیں گیا وہ تو فاحا کو ڈرپوک سمجھ کر بدتمیزی کرنے کی نیت سے آئے تھے مگر یہاں تو کایا ہی اُلٹ گئ تھی

وہ کیا جو بھی ہے بتاؤ جلدی سے فاحا نے پھر گھر بھی جانا ہے۔۔۔اور تم لوگ بلاوجہ کب سے مجھے فالو کررہے ہو۔۔۔۔اب کیوں خاموش ہوگئے ہو۔۔۔فاحا قدرے اُونچی آواز میں بولی تھی جس سے آس پاس گھروں کے دروازے کُھلے تھے۔۔

کیا ہوا فاحا بیٹی؟ایک خاتون جو اُس کو جانتی تھی پوچھنے لگی تو فاحا کو مزید ہمت ملی کہ وہ اکیلی نہیں ہے۔۔۔۔

پتا نہیں آنٹی یہ چار بھائی لوگ کب سے میرا پیچھا کررہے ہیں اور سِٹیاں بجارہے ہیں۔۔۔۔فاحا نے لڑکوں کی طرف اِشارہ کیے بتایا تو وہ چاروں سٹپٹائے تھے۔۔

اِن کو کوئی جانے نہ دے۔آوارہ کہی کے ۔۔ایک عورت نے کہا تو دوسری نے سراثبات میں ہلایا تھا اور سب اپنے گھروں میں جاکر بیلن اُٹھاکر اُن کو پیٹنے لگی تو لڑکے چیخنے لگے تھے مگر فاحا آہستہ آہستہ پیچھے ہونے لگی۔ ۔

"آپ نے ٹھیک کہا تھا آپو کوئی بھی مشکلات بڑی نہیں ہوتی جس سے نکلا نہ جاسکے بس خود کو سنبھالنا آنا چاہیے۔ "نہ میں سوہان ہوں اور نہ میں میشا ہوں" میں فاحا ہوں اور فاحا کو اپنا انداز الگ بنانا چاہیے۔ ۔۔جس کی وہ بہن ہے اُنہوں نے کبھی گِیو اپ نہیں کیا تو میں کیسے کرسکتی ہوں؟۔۔فاحا چہرے پر مسکراہٹ سجائے بڑبڑائی تھی

❤❤❤❤❤❤❤

سِٹی تم نے ماری؟ وہ لڑکی آریان کے روبرو کھڑی ہوتی سنجیدگی سے پوچھنے لگی تو آریان نے گڑبڑاکر میشا کی طرف اِشارہ کیا تو وہ میشا کو دیکھنے لگی جو حیرانگی کی انتہا کرتی اپنا سرنفی میں ہلائے کانوں کو ہاتھ لگانے لگی کہ گویا اُس جیسا معصوم دُنیا میں کوئی نہیں

سِٹی بجانے کی کیا ضرورت تھی آپ ڈرالنگ بولتے تو میں بھاگی بھاگی آجاتی۔ ۔۔۔وہ لڑکی اچانک اپنا انداز اپنا لہجہ بدل کر بولی تو آریان کے ساتھ میشا بھی اپنی جگہ حیران ہوئی تھی

ج جی؟ آریان کی آواز جانے کیوں لڑکھڑائی

آپ آریان دُرانی ہو نہ؟ وہ لڑکی پرجوش آواز میں بولی تو میشا نے بڑے غور سے آریان کا گریز دیکھا تھا

جی یہ محترم آریان دُرانی ہے مگر اِن کی پہچان پلے بُوائے سے ہوتی ہے۔ ۔۔۔میشا نے موقعے پر چونکا مارنا لازمی سمجھا

میں آریان دُرانی ہوں مگر میری پہچان زوریز دُرانی کے بھائی کی حیثیت سے ہوتی ہے۔ ۔۔آریان نے میشا کو گھورا جس پر اُس نے اپنی آنکھیں گُھمائی تھیں

"میں آپ کی بہت بڑی فین ہوں۔ ۔۔۔۔وہ لڑکی خوشی سے پُھولے نہیں سما پارہی تھی۔

ویٹ کرو گرمیاں آرہی ہیں یہ پھر تمہیں گھر کی کسی چھت پر فِٹ کردینگے۔ ۔۔۔میشا نے آج بڑے احترام سے آریان کا ذکر کیا تھا

میرا مطلب تھا یہ میرے کرش ہیں" آئے روز اِن کی تصاویر اخباروں میں آتی ہیں اور بزنس مین زوریز دُرانی کی میگزین میں دیکھتی ہوں پر ملنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ ۔۔۔وہ لڑکی بے تُکلف ہونے لگی

آپ شاید وہاں جارہی تھیں۔ ۔۔۔آریان نے اُس کو بھگانا چاہا

ارے جس کے لیے سٹی ماری اُس کو بتاؤ نہ تمہیں لو ایٹ فرسٹ سائیڈ ہوگیا ہے۔۔۔میشا نے کہا تو آریان کی حالت پتلی ہونے لگی

ایسا تو کچھ نہیں یہ تو میری بہن ہے۔۔۔آریان نے اُس لڑکی کی طرف اِشارہ کیا

ایسا تو نہ کریں میرا دل ٹوٹے ٹوٹے ہوجائے گا۔ ۔۔وہ لڑکی بے ساختہ چیخ پڑی تو میشا نے کوفت سے اُن دونوں کا یہ میلو ڈرامہ دیکھا

آپ ڈرامہ نہ کریں بہن آپ نہیں میں ہوں اِس کی۔ ۔۔میشا نے کہا تو آریان کا ہاتھ بے ساختہ اپنے دل پہ پڑا تھا

ہارٹ اٹیک دلوانا ہے کیا۔ ۔۔آریان نے خشمگین نگاہوں سے اُس کو گھور کر کہا

ایسا تو نہ کہے ابھی تو ہم نے اکٹھے ایک دُنیا دیکھنی ہے۔ ۔۔وہ لڑکی گویا تڑپ اُٹھی

فکر نہ کرے اِس کو آپ کا ساتھ قبر تک چاہیے۔ ۔۔میشا نے مسکراہٹ ضبط کیے کہا

تمہ

قبر تک کیوں ایک بار کہہ کر تو دیکھو ایک ساتھ قبر میں بھی دفن ہوجاؤں گی۔۔۔۔وہ لڑکی تو جیسے ہاتھ منہ دھوکر اُس کے پیچھے لگ گئ تھی۔

یو گائیز کیری آن میں اب چلتی ہوں۔۔۔۔میشا اپنی ہنسی دبائے وہاں سے جانے لگا

میشا

میشو

پلیز یار رُکو تو سہی۔۔آریان اُس کو آوازیں دیتا رہا جس کو سُننا میشا نے گوارا نہیں کیا

اُس کو چھوڑو نہ ہم مل بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔ ۔۔اُس نے کہا

او بی بی سِٹی میں نے نہیں بیوٹی کوئین نے ماری ہے میری جان چھوڑدو تم۔ ۔۔آریان بڑی مشکل سے اُس سے اپنی جان بچاتا میشا کے پیچھے بھاگا تھا


"رُکو میشا۔۔۔۔میشا اپنی اسکوٹی پر بیٹھ کر جانے لگی تو آریان جلدی سے اُس کے راستے میں حائل ہوا

تم باز نہیں آؤ گے نہ؟میشا زچ ہوئی اور آریان شوخ ہوا


"چلو آؤ ایک کام کرتیں ہیں

ایک دوسرے کو بدنام کرتے ہیں۔۔۔


آریان نے شاعرانہ انداز میں کہا تو میشا نے گہری سانس بھر کر اُس کو دیکھا

تم مجھے چھوڑنے کے کیا لوگے؟میشا نے بڑی سنجیدگی سے پوچھا وہ معاملہ رفع دفع کرنا چاہتی تھی


"نکاح نامہ پکڑ کر یہ کہنا چاہتا ہوں۔۔

میرے ہاتھوں میں نکاح نامہ ہے کوئی اسلحہ تو نہیں

ہم دونوں کی شادی ہوجائے تمہیں کوئی مسائل تو نہیں۔۔۔

آریان بالوں میں ہاتھ پھیر کر دلکش انداز میں بولا تو میشا نے ترچھی نگاہوں سے اُس کو گھورا

یہ تمہاری اسپیڈ کچھ زیادہ فاسٹ نہیں چل رہی؟میشا نے دانت کچکچائے

بلکل نہیں اگر فاسٹ ہوتی تو آج ہمارا بیٹا ہوتا۔۔۔۔آریان نے کہا تو مزاحیہ انداز میں تھا مگر اُس کی بات پر میشا کے چہرے پر استہزائیہ مسکراہٹ آئی تھی۔

"ٹپیکل مرد کے ساتھ ٹپیکل سوچ۔۔۔میشا آہستہ سے بڑبڑاتی اپنی اسکوٹی پر بیٹھ گئ

"رکو یار میرا مسئلہ حل کرو۔۔۔۔آریان نے اُس کو روکا

میں ریاضی کی کتاب نہیں۔۔۔میشا نے جتایا

ہاں تو ریاضی کی کتاب بننے کا بول کون رہا ہے تم ریاضی کتاب کی گائیڈ بن جاؤ جہاں مسائل کے ساتھ حل بھی موجود ہوتے ہیں۔۔۔۔آریان کافی ڈھیٹ تھا یہ بات میشا اچھے سے جان گئ تھی

تم مجھے ایک بات بتاؤ۔۔۔۔۔میشا نے ایک خیال کے تحت اُس سے کہا

ایک کیوں؟"کسی اچھے ریسٹورنٹ میں مل بیٹھ کر آرام سے باتیں کرتے ہیں۔۔۔۔آریان پھیلنے لگا

بریک پہ پاؤ رکھو اور اسٹیرنگ پر ہاتھوں کی گرفت مضبوط"دھیان سے کہی ایکسیڈنٹ نہ ہوجائے۔۔۔۔میشا نے پھیلتا ہوا رائتہ سمیٹا

بات بتاؤ؟آریان نے منہ کے زاویئے بگاڑے

تم نے کہا تھا تمہیں دُنیا زوریز دُرانی کے بھائی کی حیثیت سے جانتی ہے تو کیا تمہاری اپنی کوئی پہچان نہیں؟"اور کیا تمہیں بُرا نہیں لگتا؟ میشا بغور اُس کے تاثرات جانچتی پوچھنے لگی

اولاد کی پہچان باپ کے نام سے ہوتی ہے اور میرا بھائی میرے لیے باپ سے اُونچا مقام رکھتا ہے۔ ۔۔آریان عام انداز میں بولا تھا

بھائی سے کافی اچھی بانڈنگ معلوم ہوتی ہے۔۔۔میشا اُس کی آنکھوں میں چمک واضع دیکھ سکتی تھی جو اپنے بھائی کے نام پر اُس کی آنکھوں میں آئی تھی

"اگر زندگی میں کبھی تمہارا بھائی تمہیں یہ کہے جب تمہاری شادی ہوچُکی ہو اور مسلسل تین بیٹیاں تمہاری زندگی میں آئیں ہو بیوی سے تو اگر تمہیں تمہارا بھائی کہے یہ بیٹیاں منحوس ہیں اور بیوی کو چھوڑ کر دوسری شادی کرلوں تو کیا تم اُس کی بات مان جاؤ گے؟میشا نے سنجیدگی سے اُس کو دیکھ کر پوچھا

"پاگل ہو؟مطلب سیریلی تم ایک پڑھی لکھی لڑکی ہوکر ایسی جاہلوں جیسی باتیں کررہی ہو بیٹیاں منحوس؟ "جس کو اللہ نے رحمت بناکر بھیجا ہے جس عورت کو اللہ نے مرد کی پسلی سے بنایا ہے کہ وہ اُس کے وجود کا حصہ ہے وہ اگر بیٹیاں دینگی تو تمہیں واقع لگتا ہے کوئی مرد اپنے وجود کے حصے کو خود سے دور کرے گا؟ اور اپنے در پہ اللہ کی رحمت دروازے بند کرے گا۔۔۔"جانتا ہوں پُرانے زمانے میں ایسا ہوتا تھا بچیوں کو زندہ دفن کردیا جاتا تھا مگر اب ایسا نہیں ہوتا باپ تو اپنی بیٹیوں پر جان نچھاور کرتے ہیں اور جو میرا بڑا بھائی ہے تو میری بیٹیوں پر پوری دُنیا قُربان کردے اگر اُس کے بس میں ہو تو۔ ۔۔"میں یا وہ ہم دونوں میں سے کوئی بھی ایسا سوچ بھی نہیں سکتا ہم دونوں کو تو بہن کی خُواہش ہوا کرتی تھی جو پوری نہیں ہوئی پر اگر بیٹی کی صورت میں خواہش پوری ہوگی تو ناشکرے نہیں اِتنے ہم۔ ۔۔آریان پہلے پہل تو حیرانگی سے میشا کو دیکھنے لگا جیسے یقین کرنا چاہ رہا ہو کہ یہ سب کہنے والی میشا ہے۔ ۔"مگر پھر سرجھٹک کر بولا تو بولتا چلاگیا اُس کو شاک لگا تھا میشا کے ایسے سوال پر

"میں نے ایک سوال کیا تھا۔"ویسے بھی یہ مردوں کا معاشرہ ہے اور تم عورتوں کے ساتھ کچھ بھی کرسکتے ہو تم مردوں کا بھروسہ کیا ۔۔میشا نے شانے اُچکائے کہا تو آریان اُس کو دیکھتا رہ گیا

"پھر تم نے یہ بھی سُنا ہوگا کہ مردوں کے معاشرے میں مرد سے بچنے کے لیے عورت کو مرد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ۔۔آریان تھوڑا اُس کے پاس جُھک کر بولا تو میشا نے آنکھیں گُھمائی

واٹ ایور۔ ۔۔۔میشا نے سرجھٹک کر ہیلمنٹ پہنا

اچھا سُنو۔ ۔۔۔آریان ملتجی ہوا

کیا ہے اب؟ میشا زچ ہوئی

کب دے رہی ہو؟ آریان نے سنجیدگی سے پوچھا

کیا کب دے رہی ہو؟ میشا کو سمجھ نہیں آیا

تین بیٹیاں۔۔ آریان نے معصومیت سے آنکھیں پٹپٹائے کہا تو میشا کے سر پہ لگی اور تلوؤ پہ بُجھی

تم انتہا کے بے شرم"بے حیا"اور چِھچھوڑے انسان ہو۔۔۔میشا نے دانت پہ دانت جمائے کہا

کمینہ لوفر لفنگا یہ نام بھی تمہارے دیئے ہوئے ہیں بھول گئ؟آریان نے ہمیشہ کی طرح ڈھٹائی کا مُظاہرہ کیا

گو ٹو ہیل۔ ۔۔۔میشا نے اُونچی آواز میں کہا

وِد یوئر ہیل یہ بھی کہو نہ۔ ۔۔آریان نے اُس کو مزید چِڑایا جس پر میشا نے اِس بار کان نہیں دھڑے


Mukammal Hoor

Tu kuriye

Tyry pagal dy

Khuwaban di

Nasha tera Hi

Laghtya na

Kara ki gal

Sharaban di

Kuriye tu khubsoorat

Shayari lagh di kitabaan di

Hai


"میشا کو اسکوٹی پہ جاتا دیکھ کر آریان بھی گُنگُناتا اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا

❤Rimsha Hussain Novels❤

"دادو۔ ۔۔۔حویلی آکر اقدس اسیر کا ہاتھ چھوڑے عروج بیگم کی طرف بھاگنے لگی تھی۔ ۔۔

اقدس

اقدس

آہستہ گِرجائے گی آپ۔۔۔اسیر کی پیشانی میں شکنوں کا جال بِچھ گیا تھا وہ لب بھینچ کر اقدس کو دیکھنے لگا جو بھاگ کر بڑی گرمجوشی سے عروج بیگم کے ساتھ لگی تھی

دادو کی جان کیسا ہے میرا بچہ۔ ۔۔۔عروج بیگم تو اقدس کو دیکھ کر نہال ہی ہوگئ

ہم ٹھیک آپ بتائے ہمیں یاد کیا؟ بتانے کے بعد اقدس نے پرجوش لہجے میں پوچھا

اقدس دوبارہ ہم آپ کو یوں بھاگتا ہوا نہ دیکھے۔ ۔۔۔اسیر کے لہجے میں سختی سے زیادہ فکرمندی کا عنصر نمایاں تھا

اسیر۔ ۔۔۔عروج بیگم نے اقدس کی اُتری شکل دیکھی تو اُس کو تنبیہہ کیا

دادو ہم کوئی رِسک نہیں لینا چاہتے۔ ۔۔اسیر کا انداز ہنوز سنجیدہ تھا

اِس لائے ہو کیا؟ ہال میں آتی فائقہ بیگم کی نظر اقدس پر گئ تو اُن کا منہ بن گیا

آپ کو نظر آرہی ہے تو یقیناً ہم اِس کو لے آئے ہیں خیر آج جرگہ بیٹھنے والا ہے اِس لیے ہمیں جلدی جانا ہے۔ ۔۔۔اسیر نے سنجیدگی سے کہا

جرگہ نہیں بیٹھے گا نوریز کو شہر سے نوٹس آیا ہے وہ بھی کورٹ سے کہ کچھ دنوں بعد اُس کو پیش ہونا ہے۔ ۔"توبہ اب یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ ہمارے خاندان ہمارے گاؤں میں ایسا نوٹس آئے گا۔ ۔۔۔فائقہ بیگم نخوت سے سرجھٹک کر بولیں

نوٹس ہی آیا ہے یا کچھ اور بھی؟"اور کیا کسی کو پتا نہیں یہ ہمارا علائقہ ہے جہاں پولیس کورٹ کچہری کا سسٹم نہیں ہوتا جو کچھ ہوتا ہے وہ ہم کرتے ہیں۔ ۔۔اسیر سنجیدگی سے بھرپور لہجے میں کہا

لڑکی گاؤں کی نہیں تھی شہر کی تھی تبھی بات بڑھ گئ ہے۔۔۔عروج بیگم نے باتوں میں حصہ لیا جبکہ اقدس کو اُنہوں نے ملازمہ کے ساتھ کمرے میں بھیج دیا تھا۔۔

فکر نہیں کرو معاملہ جلدی ختم ہوجائے گا کیونکہ سُنا ہے وکیل کوئی لڑکی ہے"بیریسٹر کا نام بھی شاید کچھ مردانہ سا تھا۔۔۔فائقہ بیگم اپنے دماغ پر زور دے کر بولی

تسلی رکھو بیٹا کسی کی اِتنی اوقات نہیں کہ ہمارا مقابلہ کرپائے اور یہاں تو بات ایک کم سن لڑکی کی ہے جس کا منہ چند پیسوں میں بند ہوجائے گا۔۔۔نورجہاں بیگم بھی اُن کے ساتھ کھڑی ہوتی بولی

پیشی کی فائنل تاریخ کیا ہے؟اسیر نے اپنی کنپٹی سہلائی کیونکہ وہ خود فراز کو عبرتناک سزا دینا چاہتا تھا تاکہ گاؤں میں دوبارہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہ آئے"اگر یہاں شہر کی پولیس کا سسٹم بنا بھی تو وہ جانتا تھا لے دے کر سحاد ملک اور نوریز ملک اِس معاملے کو ختم کردینگے۔۔۔

پندرہ تاریخ ہے۔فائقہ بیگم نے کہا

سُنو اسیر میں اپنے بیٹے کے ساتھ ناانصافی برداشت نہیں کروں گی۔ ۔۔اسمارہ بیگم بھی میدان میں اُتری اُن کے ساتھ صنم بیگم(نوریز ملک کی دوسری بیوی)بھی ساتھ تھی جو بے اولاد تھیں یہی وجہ تھی کہ نوریز ملک کو اُسی سال تیسری شادی بھی کرنا پڑی تھی۔ ۔۔

"سفیان ملک کے تین بیٹے تھے" ایک بڑا بیٹا سجاد ملک تو دوسرا فاروق ملک اور آخر میں آتا تھا نوریز ملک۔ ۔۔

"اپنے گاؤں کے سُفیان ملک یہ جابر قسم کے سردار تھے جو عورت کو کمتر سمجھا کرتے تھے اور یہی سوچ وراثت میں اُن کے بیٹوں کو ملیں تھیں جبکہ عروج بیگم ایک سُلجھے ہوئے مزاج کی خاتون تھیں اُنہوں نے اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کی تھی کہ اُن کے بیٹوں کی سوچ الگ پاک صاف ہو مگر خون اثر ضرور دیکھاتا یہاں بھی ایسا معاملہ ہوا تھا۔۔۔

"پہلے شادی سجاد ملک کی ہوئی تھی کیونکہ وہ خاندان کے پہلے بیٹے تھے اور اُن کی بیوی فائقہ اُسی سوچ کی حامل عورت تھی جیسی سوچ وہ خود رکھتے تھے۔۔"شادی کے نو سال بعد اُن کے یہاں اسیر کی پیدائش ہوئی تھی کیونکہ پہلے بیٹیاں ہوئیں تھیں اُنہیں جن کو وہ دونوں بے رحمی سے ماردیتے اور سب کو یہی بتایا گیا کہ اولاد مری ہوئی بیٹی ہے مگر اسیر آیا جس سے اُن دونوں کا سر فخر کے ساتھ نہیں بلکہ غرور اور تکبر سے اُونچا ہوگیا تھا۔ ۔"کیونکہ شادی چاہے پہلے اُن کی ہوئی تھی مگر اولاد اُن کے دوسرے بھائی کی پہلے ہوئی تھی اور جو تھی وہ اولاد بیٹی تھی" ۔اسیر کی پیدائش کے دو سال بعد پھر اُن کے یہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی تھی جس کا نام اسیر سے ملتا جُلتا اُنہوں نے نذیر رکھا تھا مگر افسوس کہ نام نے شخصیت پر اثر نہیں چھوڑا تھا نذیر کی سوچ اپنے بڑے بھائی اسیر سے خاصی مختلف تھی اسیر نے اپنے بچپن میں زیادہ وقت عروج بیگم کے ساتھ گُزارا تھا جو اکثر اُس کو ہر وقت اچھے اور بُرے کی پہچان کرواتیں تھیں یہی وجہ تھی" عروج بیگم کی طرح اسیر بھی بات کرتے ہوئے" ہم" لفظ کا استعمال کیا کرتا تھا اور اُس پہ عروج بیگم کی تربیت نے اپنا اثر کم عمری میں ہی گہرا چھوڑا تھا جب بھی اُس کے دماغ میں کوئی غلط خیال آتا وہ عروج بیگم کی نصیحتوں کو یاد کرتا تھا اور اللہ کا نام لیکر بہکنے سے خود کو بچالیتا تھا۔ ۔

"چنانچہ پھر فائقہ بیگم کے یہاں بیٹی کی پیدائش ہوئی اور بیٹی اب دو بیٹوں کے بعد ہوئی تو سجاد ملک کے ماتھے پر ایک شکن بھی نہیں آئی تھی اُنہوں نے لالی کو خوشی خوشی قبول کرلیا تھا۔ ۔"مگر اُس کے باوجود کبھی اُس کو اُتنا پیار نہیں ملا جتنا اسیر اور نذیر کو ملا تھا

"سجاد ملک کے بعد فاروق ملک کی شادی اپنی کزن سے ہوئی تھی اُن کے یہاں بھی پہلے بیٹے کی پیدائش ہوئی تھی مگر وہ زیادہ وقت جی نہیں پایا تھا پھر اُن کے یہاں بیٹی کی پیدائش ہوئی تھی جس کا نام دیبا تھا اور وہ اسیر جو کافی سال بڑی تھی۔ ۔

"نوریز ملک نے جبکہ اپنے کالج میں لڑکی کو پسند کرلیا تھا اور سب کی مخالفت ہونے کے باوجود اُس سے شادی بھی کرلی تھی۔ ۔"جس کو اُنہوں نے چھوڑدیا کیونکہ وہ بیٹیاں پیدا کررہی تھی جن سے اُن کو خدا واسطے کا بیر تھا۔ ""پھر دوسری شادی اُنہوں نے کر تو لی مگر وہاں بچے کے کوئی آثار نظر نہیں آئے تو جلدبازی میں اُنہوں نے تیسری شادی بھی کرلی مگر صنم بیگم کو طلاق نہ دی کیونکہ وہ اُن کے خاندان کی تھیں" تیسری بیوی سے جبکہ اُن کو دو بیٹے ہوئے تھے ایک فراز اور دوسرا شیراز

"فراز تو تندرست تھا مگر شیراز پیدائشی نابینا پیدا ہوا تھا۔ اور مہنگے سے مہنگے علاج سے بھی اُس کو آنکھوں کی روشنی نہ مل پائی تھی۔ ۔۔


"آپ کے بیٹے کی معصومیت کے پوسٹر پورے گاؤں میں لگنے چاہیے" لہٰذا ہمارے سامنے اُس کی کوئی حمایت نہ کرے تو اچھا ہوگا۔ ۔۔اسیر طنز لہجے میں کہتا وہاں سے چلاگیا پیچھے اسمارہ بیگم کا چہرہ پل بھر میں سرخ ہوا تھا

اِسی غرور کی وجہ سے اسیر کی بیٹی کا پاؤں سیدھا نہیں دیکھیے گا جب تک اِس کا غرور خاک نہیں ہوگا تب تک یہ جتنے بھی آپریشن کروالے اقدس نے سیدھا نہیں چلنا۔ ۔۔اسمارہ بیگم جلن زدہ لہجے میں اُس معصوم کے بارے میں بولنے لگی تو عروج بیگم نے تاسف سے اُن کو دیکھا تھا۔

"بات کڑوی ہے مگر سچ ہے پارسا تو نورزیز بھائی بھی نہیں تھے یہی وجہ ہے کہ ایک بے چاری بے اولاد ہے تو آپ کا بیٹا ناکارہ اور پہلے والے کا یہ حال ہے۔ ۔۔نورجہاں بیگم نے بھی مسکراکر اچھی خاصی اُن کو سُناڈالی

"تم تو چُپ کرو اپنی ایک بیٹی کی اچھی تربیت تو کر نہیں پائی اور آئی ہو مجھ سے بات کرنے۔ ۔۔اسمارہ بیگم نے اُس کو گھور کر کہا تو نورجہاں بیگم اپنی جگہ پہلو بدلتی رہ گئیں تھیں

نوریز تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے میں نے اپنے گاؤں کے بندے شہر بھیج دیئے ہیں جلدی اُس بیریسٹر کا کام تمام ہوجائے گا۔۔۔۔سجاد ملک نے پریشان بیٹھے نوریز ملک کو تسلی کروائی

کیا مطلب بھائی صاحب؟ نوریز ملک نے چونک کر اُن کو دیکھا

مطلب یہ کہ نذیر سے میں نے اُس لڑکی کو بہت بار وارننگ کے میسج بھیجے تھے مگر وہ باز نہیں آئی آج بندے سامنے کھڑے ہوکر جو دھمکیاں دینگے کہ دیکھنا پھر کیسے کیس چھوڑتی ہے وہ۔ ۔۔سجاد ملک مونچھوں کو تاؤ دے کر بولے

لے دے کر بات ختم کردے ویسے وکیل ہے کون؟نوریز ملک نے پوچھا

فکر نہیں کرو پہلا کیس ہے اُس کا اور یہ معاملہ لین دین والا نہیں۔ ۔۔سجاد ملک نے کہا

پھر فکر کیسی وہ ہار جائے گی کیونکہ ہمارا وکیل بڑا ہوگا۔ ۔۔نوریز ملک نے اُن کی بات سن کر جواباً کہا

"ہم نے کبھی کورٹ کی شکل نہیں دیکھی اور نہ آئیندہ دیکھنا چاہے گے"تم چپ کرکے بیٹھو مجھے اپنے طریقے سے یہ سب سنبھالوں گا۔۔سجاد ملک کا انداز اٹل تھا جس پر نوریز ملک کو چُپ ہونا پڑا

❤❤❤❤❤❤❤❤

اچھا ہوا یار تم آگئ تھی ورنہ میرا کیا ہوتا عموماً میری اسکوٹی نے کبھی یوں بیچ راستے میں بے وفائی نہیں کی مگر آج کرگئ کھوتی۔ "ویسے تمہیں اب اِس رینٹ والی کھٹارا گاڑی سے جان چُھوڑوا لینی چاہیے۔۔۔میشا فرنٹ سیٹ پر بیٹھی اپنے ناخن پر نیل پینٹ لگاتی سوہان سے بولنے لگی کیونکہ آج اُس کی اسکوٹی خراب ہوگئ تھی۔"مگر ایک ہاتھ اسٹیئرنگ پہ موجود دوسرے ہاتھ سے موبائل فون پکڑے سوہان کا دھیان اپنے موبائل پہ موصول ہوتیں دھمکی آمیز مسیجز پہ تھیں جس کا سلسلہ ایک ہفتے سے شروع ہوا تھا۔۔۔پھر اچانک سامنے دیکھ کر سوہان کو اپنی گاڑی کو بریک لگانا پڑی تھی کیونکہ اُن کی گاڑی کے سامنے ایک بڑی گاڑی کھڑی تھی جس کے پاس پانچ ہٹے کٹے آدمی کھڑے تھے۔ ۔"سوہان نے ایک نظر اُن پہ ڈالے گردن موڑ کر میشا کو دیکھا جو نیل پالش لگانے میں اِتنا محو تھی کہ گاڑی کا رُکنا تک محسوس نہیں کیا تھا

"میشو۔۔۔سوہان نے اُس کو مخاطب کیا

ہممم؟مصروف بھرا انداز

"تمہارے ہاتھوں میں کُھجلی ہورہی ہے کیا؟سوہان نے سنجیدگی سے پوچھا

نہیں تو کیوں؟میشا اب کی چونک اُٹھی

لگتا ہے سامنے کھڑے لوگوں کے پورے جسم میں خارش ہورہی ہے۔۔۔سوہان نے سرسری لہجے میں کہا تو پہلے وہ ناسمجھی سے اُس کا چہرہ تکنے لگی تو آنکھوں کے اِشارے سے سوہان نے اُس کو سامنے دیکھنے کا کہا جس پر میشا نے وہاں دیکھا جہاں کچھ لوگوں نے اُن کا راستہ بلاک کیا ہوا تھا یہ دیکھ کر اُس کی آنکھوں میں اُلوہی چمک آئی جیسے کوئی بہت بڑا خزانہ ہاتھ آیا ہو

اچھا واقعی؟میشا نے جھٹ سے نیل پالش خود سے دور کیا

ہممم۔ ۔۔سوہان نے سر کو ہولے سے جنبش دی

ایسا ہے تو ابھی جاتی ہوں میں اُن پر خارج دور کرنے والا اسپرے لگاکر۔۔۔۔۔میشا بیک ویو مرر میں دیکھ کر اپنا حجاب ٹھیک کیے پرجوش انداز میں بولی

شیور۔۔۔سوہان نے کُھلے دل سے اُس کو اِجازت دی تو گاڑی سے اُترنے میں میشا نے لمحے بھر کی بھی تاخیر نہیں کی تھی جبکہ اُس کو جاتا دیکھ کر سوہان نے گہری سانس بھر کر اپنا موبائل لیے کانوں میں ہینڈ فِری ڈال دی تھیں اُس کا کوئی اِرادہ نہیں تھا اُن آدمیوں کی چیخوں کو سُننے کا

❤❤❤❤❤

اپنی گاڑی سائیڈ پہ کرو ہمارا راستہ بلاک ہورہا ہے۔ ۔۔میشا اُن لوگوں کے سامنے کھڑی ہوتی سنجیدگی سے بولی

بیریسٹر تم ہو؟ ایک آدمی سرتا پیر اُس کو گھور کر پوچھنے لگا

کالا کوٹ پہنا ہوا ہے تو ظاہر ہے میں بیریسٹر ہوں۔ ۔۔"اور وائٹ ہے آگے سے تو جان لے میں ڈاکٹر ہوں"بِلو ڈریس ہے تو پتا لگ جانا چاہیے کہ میں ابھی او ڈی سے نکل آئی اور خاکی رنگ کی چپل ہے میری جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ میں ایک لیڈی پولیس آفیسر ہوں"دیکھ لو سب اِتنے پروفیشن تو علامہ اقبال کے نہیں ہے جتنے میرے ہیں۔ ۔۔۔میشا نے تفصیل سے اچھا خاصا اُن کو جواب دیا جس پر وہ بنا کچھ کہے دو آدمیوں نے اُس کے دائیں بائیں آکر کنپٹی پر پستل رکھ دی۔ "تو میشا نے بغور اُن کی پوزیشن کو جانچا

گاڑی میں بیٹھو۔ ۔۔سامنے کھڑے آدمی نے اُس کو دیکھ کر کہا

کیوں؟ میشا نے سنجیدگی سے پوچھا

اگر چاہتی ہو گولیاں تمہارے دماغ کے آر پار نہ ہو تو جو بول رہے ہیں وہ کرو۔ ۔۔ایک نے جس نے کنپٹی پر پستل تانی تھی وہ اُس کو وارننگ دینے لگا

گولیاں کا پتا نہیں مگر کچھ باتیں میرے دماغ اور کان کے آر پار ہوتیں ہیں۔ ۔۔کہنے کے ساتھ ہی میشا نے جُھک کر درمیان میں گُزر کر اُن کی طرف رُخ کیے دونوں کو بالوں سے پکڑے اُن کا سر ایک دوسرے کے ساتھ زور سے ٹکرایا تو وہ نیچے گِرتے چلے گئے تھے۔ ۔"یہ سب اچانک اِتنا ہوا تھا کہ باقیوں کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ اچانک یہ کیسی افتاد اُن کے سر پہ نازل ہوئی ہے۔

لڑکی ہوکر تم نے ہم سے پنگا لیا ہے اب بُھگتو۔۔ایک ساتھ نے اُس کو تھپڑ مارنے چاہا جب میشا نے اِس بار بھی جُھک کر اُس کی کوشش کو ناکام بنادیا تھا

"تیری تو۔ ۔دوسرا غُصے سے کھولتا گن لوڈ کرنے لگا تو میشا نے ایک لات اُس کے بازو پہ ماری جس وجہ سے گِن نیچے گِر پڑی تھی"اور میشا نے بنا رُکے ٹانگوں پر زوردار لات مار کر اُس کو بے سُدھ نیچے گِرایا تھا

کھاتے پیتے نہیں ہو کیا؟"ڈوب مرنے کا مقام ہے تم لوگوں کا جو لڑکی سے مار کھارہے ہو۔ ۔۔اپنے ہاتھ جھاڑ کر میشا نے اُن چاروں کو لُلکارا تھا جو روڈ پہ گِرے کراہ رہے تھے"اُن کا پانچواں ساتھی جبکہ آہستہ سے چلتا بندوق اُس کے سر پہ مارنی چاہی جب کسی نے درمیان میں آکر روک لیا تھا۔

وہ لڑکی ہوکر سامنے سے وار کررہی ہے نہ تو تم بھی ایسا کرو۔ ۔۔سوہان نے جھٹکا دے کر اُس کے ہاتھ سے بندوق کو کھینچا تھا۔ ۔

یہ تم مجھے دو کیونکہ تمہارے ہاتھ میں قلم اور فاحا کے ہاتھ میں ماچس اچھا لگتا ہے اِن سے میں خود نپٹ لوں گی۔ ۔۔میشا نے مڑکر سوہان سے کہا

ایز یو سے۔ ۔سوہان کندھے اُچکاتی سائیڈ پر کھڑی ہوگئ تو میشا نے اُس آدمی کو دیکھا جو اب پریشان سا اپنے ساتھیوں کو دیکھ رہا تھا

تمہیں ضرور سلامت چھوڑتی اگر معصوم ہوتے تو۔ ۔ایک زور کا پنج اُس کی ناک پہ مارے میشا نے دانت پیس کر کہا تھا اور ایک بار پھر ایک ساتھ اُن سب کو دھول چٹائی تھی۔۔


"آر یو اوکے؟ میشا اُن سے نپٹ کر سوہان کے ساتھ کھڑی ہوئی تو وہ پوچھنے لگی

کہاں اوکے سارا میرا نیل پالش خراب ہوگیا اِتنی محنت سے لگایا تھا۔ ۔"اُپر سے ایک ناخن بھی ٹوٹا کیا ہوتا جو میں دستانے پہن لیتی۔ ۔۔میشا نے خاصے اُفسردگی سے کہا تو سوہان نے تاسف سے اُس کو دیکھا"لوگوں کی ہڈیوں کو توڑنے والی کو اپنے ایک ناخن ٹوٹنے کا غم ستارہا تھا۔

گاڑی میں آکر بیٹھو۔ ۔سوہان اِتنا کہتی خود بھی اپنی گاڑی کی طرف آئی

"آج ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ میرے ہاتھوں میں کُھجلی نہیں ہوئی اور تمہیں پتا ہے اِس وجہ سے مجھے فائیٹ کرنے میں مزہ نہیں آیا۔۔"گاڑی میں بیٹھ جانے کے بعد میشا نے پہلے اپنے سیل فون سے کسی کو ایک میسج چھوڑا اُس کے بعد منہ کے زاویئے بنا کر سوہان کو بتایا

ہممم ہمیں جلدی سے اب گھر جانا چاہیے" موسم خراب ہونے لگا ہے اور فاحا کو بجلی کڑکنے سے ڈر لگتا ہے۔ ۔۔سوہان نے سنجیدگی سے اُس کو دیکھ کر کہا

اُس کو ہر چیز سے ڈر لگتا ہے اور پتا ہے کیا آج تو اُس نے کپڑے بھی دھوئے تھے۔ ۔"جانے بادلوں کے ڈر سے چھت سے اُٹھائے بھی ہوگے یا نہیں۔ ۔میشا ہنس کر بولی تو سوہان نے گہری سانس بھر کر گاڑی کی اسپیڈ کو تیز کیا

❤❤❤❤❤❤❤

کہاں تھے آج تم؟آریان گھر آیا تو زوریز نے سنجیدگی سے اُس کو دیکھ کر پوچھا

دوستوں کے ساتھ تھا۔ ۔۔آریان اُس کے ساتھ بیٹھ کر بولا"جس کی گود میں ہمیشہ کی طرح لیپ ٹاپ تھا اور ٹیبل پر ڈھیر سارے کاغذات موجود تھے

"آفس پروپری جوائن کرنے کا اِرادہ کب ہے؟"میں کب تک تمہارے حصے کا کام بھی دیکھوں گا؟ "اگر تم نے اپنے لیے جلدی کوئی فیصلہ نہیں لیا تو مجبوراً مجھے تمہارا اکاؤنٹ فریز کروانا پڑے گا۔۔۔زوریز نے کہا تو آریان بے یقین نظروں سے اُس کو دیکھنے لگا

نہ کرو زوریز مانا کہ قائد اعظم کی کام کام اور بس کام والی تھیوری پر تم بہت فِٹ آتے ہو مگر یار تم کیوں چاہتے ہو میں بھی ایسا کروں" یعنی اچھی خاصی تو میری زندگی گُزر رہی ہے۔ ۔۔آریان منہ بناکر بولا

بیٹھ کر کھانے سے شھنشاہوں کی دولت بھی ختم ہوجاتی ہے آریان تم یہ کب سمجھو گے؟زوریز کا اِرادہ آر یا پار کرنے والا تھا

شھنشھاہوں کے بڑے بھائی آپ جیسے نہیں ہوتے نہ اور یہ تیرا میرا ہمارے درمیان کب سے ہوگیا؟ "جو بھی ہے ہمارا ہے اور کام تم کرو یا میں اُس میں کیا فرق پڑتا ہے۔ ۔آریان پر اُس کی باتوں کا خاص اثر نہیں ہوا تھا

"تو کیا تم شادی کے بعد بھی نکھٹو رہو گے؟ زوریز زچ ہوا

نکھٹو تو نہ بولو اپنی بھی کوئی پرسنائلٹی ہے یار" اور شادی کے بعد کماؤں گا تمہارے ساتھ۔۔۔آریان جھرجھری لیکر بولا تبھی اُن کا ملازم اُن دونوں کے پاس کافی کا کپ رکھ کر چلاگیا

پھوپھو سے کہتا ہوں پھر تمہارے لیے لڑکی پسند کرے کوئی" کیونکہ ایسے تو تم سُدھرنے والے نہیں۔ ۔۔زوریز کافی کا گھونٹ پی کر بولا

اُن کو اِتنا تُکلف دینے کی کیا ضرورت ہے؟ "یہ تکُلفات میں نے اُن پر تمہارے لیے چھوڑے ہیں اُن سے کہو بس پاکستان آکر میری دولہن کے ہاتھ پاؤ نیلے پیلے کریں۔۔۔آریان قدرے شرماکر بولا تو زوریز کا ماتھا ٹھٹکا

مطلب؟زوریز نے سنجیدگی سے پوچھا

مجھے شرم آتی ہے۔۔۔آریان نے ڈرامائی انداز میں کہا

اِنسان بن جاؤ آریان"تمہاری دولہن کے ہاتھ پاؤ نیلے پیلے ہونے سے پہلے اگر تم چاہتے ہو میں تمہیں نیلو نیل نہ کروں تو مجھے سچ سچ بتاؤ"کیا کوئی لڑکی ہے جس کے ساتھ تمہاری اِنوالمنٹ ہے؟زوریز نے دھمکی آمیز لہجے میں اُس سے پوچھا

"واہ آریان تیری بھی کیا زندگی ہے؟ "بھائی کہتا ہے انسان بن جاؤ

اقبال کہتا ہے شاہین بن جاؤ

اسکول میں ٹیچر مرغا بننے کا کہتی تھی اور آج تو اُس نے حد کردی مجھے اپنا بھائی بنانے کے چکروں میں تھی۔۔آریان جھرجھری لیکر بولا

آریان۔ ۔۔زوریز نے تنبیہہ کرتی نظروں سے اُس کو دیکھا

جی مجھے لڑکی پسند آگئ ہے اور میں اُس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ ۔۔آریان تھوڑا سنجیدہ ہوا

"کسی لڑکے سے میں تمہاری شادی کرواؤں گا بھی نہیں۔۔زوریز نے طنز کہا

توبہ اَسْتَغْفِرُاللّٰه۔۔۔آریان نے باقاعدہ کانوں کو ہاتھ لگائے

"کون ہے وہ"اور کیا وہ بھی تمہارے ساتھ تمہاری طرح سنسیئر ہے؟زوریز نے پوچھا

ابھی میرے دل نے دستک میرے در پہ دی ہے مگر میں کوششوں میں ہوں کہ وہ بھی مجھے میری طرح چاہے۔۔آریان رلیکس انداز میں بولا

یو مین ون سائیڈ لو ہے یہ؟زوریز نے اندازہ لگایا

یہی بات ہے اور وہ نہ عام لڑکیوں کی طرح دبو اٹک اٹک کر بولنے والیوں میں سے نہیں ہے وہ دبنگ ٹائیپ لڑکی ہے۔۔۔آریان میشا کو یاد کیے بولا

ریئلی؟زوریز کو یقین نہ آیا

ہاں نہ دو بار تو مجھ پر ہاتھ اُٹھانے کی کوشش بھی کرچُکی ہے مگر بھی آریان ہوں خود کو ڈیفینڈ کرلیتا ہوں۔۔۔آریان فخریہ لہجے میں بولا

سیریسلی؟کافی کا گھونٹ بھر کر زوریز نے عجیب نظروں سے آریان کو دیکھا

یس سیرسیلی اور پتا ہے کیا وہ لڑکی کیفے میں ویٹریس کی جاب کرتی ہے اور جیسا پاکستان ہے وہاں تو لڑکیوں کو گھور گھور کر دیکھتے ہیں مگر کوئی اُس کو آنکھ اُٹھاکر نہیں دیکھتا لڑکی ہوکر اُس نے اپنی شخصیت کا اِتنا گہرا اثر چھوڑا ہے۔ ۔۔آریان کے لہجے میں اِس بار ستائش تھی

یہ اثر گہرا نہیں ہلکہ ہی تم پر کیوں نہیں چھوڑا؟زوریز نے ناچاہتے ہوئے بھی طنز کیا

میری پسلی کا حصہ جو ہے۔ ۔۔آریان نے دانتوں کی نُمائش کی

ماشااللہ۔ ۔۔زوریز نے سرجھٹک کر اپنی نظریں لیپ ٹاپ پر جمائی

ایک اور بات۔ ۔۔آریان نے اُس کو اپنی جانب متوجہ کرنا چاہا

میں سُن رہا ہوں۔ ۔۔زوریز نے جواباً کہا

وہ لوگوں کا منہ توڑنے کے بعد وجہ بتاتی ہے کہ اُس کو خود کے علاوہ زیادہ بولنے والے لوگ پسند نہیں ہوتے۔ ۔۔آریان نے کان کی لو کُھجاکر بتایا

یہ جانتے ہوئے بھی تم اُس کے ساتھ شادی کرنا چاہ رہے؟ کافی کا گھونٹ بھرنے کے بعد زوریز نے پوچھا

میرا تو کبھی نہیں توڑا نہ اُس نے منہ۔ "تو میں شادی کرسکتا ہوں۔۔آریان نے اہم نقطہ بیان کیا جیسے"اور ساتھ میں خود بھی کافی کا گھونٹ بھرنے لگا

"سوچ لو کل کو شادی کے بعد ایسا نہ ہو کہ تمہیں سوتا دیکھ کر گلا دبادے کے تمہیں ماردے پھر میت کے پاس بیٹھ کر یہ بولے کہ مجھے اپنے علاوہ کسی اور کا سونا پسند نہیں اور جو میرے ساتھ سوتا ہے میں اُس کو ہمیشہ کے لیے گہری نیند سُلادیتی ہوں۔ ۔۔زوریز نے سرسری لہجے میں کہا جس پر گرم کافی کا گھونٹ بھرتے آریان کا منہ پورا جل گیا تھا وہ ہُکا بُکا زوریز کو دیکھنے لگا جو لیپ ٹاپ پر ایک ہاتھ سے ٹائیپ کرتا آئبرو اُپر کیے شانے ایسے اُچکائے جیسے کہنا چاہ رہا ہو کہ تم نے جیسا اُس کا اُنٹرڈیوس کروایا ہے یہ جان کر میں اب اُس لڑکی سے ہر چیز کی توقعات رکھ سکتا ہوں۔

سیریسلی؟ اب کی آریان نے اُس کا انداز اپنایا تھا

دبنگ قسم کی وہ لڑکی ہے تو ظاہر ہے انداز بھی دبنگ قسم کا ہوگا۔ ۔۔زوریز نے کافی کا کپ خالی کیا

"ہاں مگر تم تو یار ڈرا رہے ہو دبنگ قسم کی ہے اِس لیے تم اُس کو عزرائیل نا بناؤ۔۔۔آریان خاصا بدمزہ ہوا

"کب ملوا رہے ہو پھر؟

"جب لگے کے اُس سے ملوایا جاسکتا ہے"وہ کیا ہے نہ اُس کے ہاتھ آؤٹ آف کنٹرول اور زبان بریک لیس ہوتی ہے۔۔آریان دانتوں کی نُمائش کیے بولا تو اِس بار زوریز نے نفی میں سر کو جنبش دی تھی۔

❤Rimsha Hussain Novels❤

"تمہاری شکل کیوں ایسی بنی ہوئی ہے؟گھر آکر میشا اور سوہان پہلے اپنے کمروں میں گئیں تھی کیونکہ باہر بارش کا سلسلہ شروع ہوچُکا تھا اور گاڑی سے اُترنے میں اُن کے کپڑے کافی حد گیلے ہوچُکے تھے

فاحا؟اُس کے جواب نہ دینے پر میشا نے دوبارہ سے اُس کو پُکارا

ہممم کیا ہوا؟ فاحا نے چونک کر اُس کو دیکھا

پوچھ رہی ہوں شکل ہے ہی ایسی یا بنائی ہوئی ہے۔ ۔۔میشا نے طنز کیا

آپ کیا پہلی بار دیکھ رہی ہو؟فاحا نے اُس کو گھورا

ایک تو تمہیں مجھے بے عزت کرنے کے بنا مزہ نہیں آتا۔ ۔میشا نے سرجھٹک کر کہا

آپ زرا اپنے سوال پر بھی غور کرے پوچھ ایسے رہی ہیں جیسے جانتی نہ ہو مجھے۔ ۔فاحا نے بھی سرجھٹکا

"ہاں تم جب پیدا ہوئی تھی تو بہت چھوٹی تھی" چہرے کے نین نقش بھی الگ تھے اور ایک ہفتے بعد تم بہت بدل گئ مطلب تمہارے چہرے کے نین نقش بھی۔ ۔"ایک ماہ بعد مجھے لگا شاید ہماری بہن کسی کے ساتھ ایکسچینچ ہوئی ہے۔ ۔"پھر سال گُزرتے گئے اور تمہارے نین نقش بدلنے کا سلسلہ پھر سے شروع ہوگیا پھر جاکر رُکا یہ سلسلے اُففففف اففففف فاحا کتنے چہرے تھے تمہارے جن کو تم نے بدلے ہیں۔ ۔۔آخر میں میشا نے جھرجھری لی تو فاحا نے تاسف سے اُس کو دیکھا

آپ بول تو ایسے رہی ہیں جیسے خود اِتنی ہی پیدا ہوئیں تھیں۔ ۔۔فاحا نے اُس کی بات کے جواب میں کہا

ہاں میں تو ایسے ہی پیدا ہوئی تھی پتا نہیں امی نے نو ماہ کیسے مجھے اپنے پیٹ میں رکھا۔ ۔۔میشا نے مصنوعی پرسوچ لہجہ اپنائے کہا

"میں نے آج کپڑے دھوئے تھے۔ ۔۔فاحا اصل بات پر آئی

ڈونٹ ٹیل می فاحا کے کپڑے ابھی تک چھت پر ہیں۔۔میشا شاک کی کیفیت میں اُس کو دیکھ کر بولی تو فاحا نے سر کو جنبش دی

افففففف اففففففف خُدایا کیا کرتی ہو اُٹھو اور کپڑے اُتار لاؤ بارش کے ساتھ ہوائیں تیز چلتی ہیں ایسا نہ ہو کے ہماری چھت کے کپڑے کسی اور کے تن کا نصیب بنے۔۔ہائے اللہ میرے تو سارے نئے جوڑے تھے۔۔میشا نے دُھائی دینے والے انداز میں اُس سے کہا

یہاں بیٹھ کر حکم چلانے سے اچھا اُٹھ کر کپڑے اُتار آتیں اور ٹرسٹ می جتنی آپ نے تقریر کی ہے نہ اُتنے وقت تک کپڑے اُٹھا بھی لاتیں۔ ۔۔فاحا نے اُس کی بات پر اکتاہٹ سے کہا

اوو ہیلو یہ تمہارا کام ہے کیونکہ بچپن میں اگر تم میری بات مان کر اسکول جاتی تو آج یہ دن تمہیں دیکھنے کو نہ ملتا۔ ۔۔میشا نے جتاتی نظروں سے اُس کو گھورا تھا

"ایک تو آپ کا ہزار بار کا کہا سُن سُن کر میرے کان پک چُکے ہیں"خیر میں جارہی ہوں آپ دعا کرنا کہ کپڑے سارے لیکر آؤں۔۔۔فاحا خود ہی اُٹھ پڑی

"کسی جنگ میں جاتے ہوئے ایسی دعائیں میجر اور کیپٹن نے گھر میں اپنے لیے نہیں کروائیں ہوگیں جیسے تم چھت سے کپڑے اُتارنے وقت مجھ سے کروانا چاہ رہی ہو۔۔۔میشا نے بھگو کر طنز کیا

وہ اِس لیے کہ آرمی جوائن کرنے سے پہلے اُن کو پتا ہوتا ہے"ہمیں اب جنگیں لڑکر زندگی گُزارنی ہے۔۔اِس لیے وہ اپنا دل مضبوط کرلیتے ہیں۔۔فاحا نے اُس کی معلومات میں اضافہ کیا

"جب تم نے کپڑے چھت پر چھوڑے تھے نہ تب آسمان میں بادل تھے تمہیں بھی اپنا دل مضبوط کرنا چاہیے تھا کہ جب اُن کو اُٹھانے جاؤں گی تو یہاں موسلادھار بارش ہوگی۔۔میشا دوبدو بولی اور اُس کی ایسی حاضر جوابی پر فاحا کا منہ گیا تھا۔۔

"بس ڈرانا آتا ہے آپ کو۔۔فاحا منہ بگاڑ کر کہتی چھت پر بھاگی تھی۔۔

"جلدی آنا پکوڑے کھانے کا دل چاہ رہا ہے میرا۔ ۔۔میشا نے بھاگتی ہوئی فاحا کے پیچھے ہانک لگائی جو پورے پانچ منٹس بعد پوری گیلی خراب ہوتی واپس آئی تھی اُس کو ایسی حالت میں دیکھ کر میشا نے مسکراہٹ دبائی تھی

میں تو پوری بھیگ گئ ہوں اب نہانا پڑے گا۔ ۔۔کپڑوں کو کسی بال کی طرح ایک جگہ پھینکتی فاحا کوفت سے بڑبڑائی

"ایسی حالت میں اگر میں ہوتی تو تم نے شور مچانا تھا کہ پورا فرش گند کردیا ہے اب کیوں تمہیں بس اپنے کپڑوں کی پرواہ ہے"اب میں شور مچاؤں۔۔؟میشا نے اُس کو آڑے ہاتھوں لیا

"جب پورے گھر کی صفائی سُتھرائی آپ کرے تو میری بلا سے آپ مسجد میں جاکر لاؤڈ اسپیکر پر شور مچانا۔۔فاحا تنگ ہوتی بولی

"ویسے جن کپڑوں کو تم نے لاوارثوں کی طرح پھینکا ہے نہ اِن کی بدولت تم یہاں سہی سلامت کھڑی ہو کیونکہ باہر جتنی ہوا تیز اور تمہارا جو حال ہے ایسے تو تمہیں ہوا کے ساتھ اُڑ ہی جانا تھا مگر کپڑوں میں جو وزن پڑگیا گیلے ہونے کا اِسی وجہ سے تمہیں اِن کا سہارا مل گیا۔ ۔میشا نے حساب چُکتا کیا

میں نہیں بنا کے دے رہی ہو آپ کو پکوڑے۔ ۔۔فاحا ناراض ہوگئ

ایک تو تم ناراض ایسے وقت پر ہوتی ہو کہ ہمیں مجبوراً تمہیں منانا پڑتا ہے نہ کرو نہ بہن جاؤ چینج کرکے تازہ ترین گرم گرما پکوڑے بنا لاؤ۔۔میشا نے منت کی۔۔

خود جائے۔۔فاحا زبان دیکھائی وہاں سے نو دو گیارہ ہوئی پیچھے میشا کا منہ حیرت سے کُھلا تھا

❤Rimsha Hussain Novels❤

"کچھ پریشان ہیں آپ؟اسیر ڈیرے پر آیا تو وہاں اُس نے سجاد ملک کو بے چین محسوس کیا تو پوچھ لیا

"ہاں تھوڑا سا۔۔سجاد ملک غیرمعی نُقطے کو گھور کر اُس سے جواباً بولے

وجہ؟اسیر اپنی شال کندھوں پہ ٹھیک کرتا کُرسی پر ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے آرام سے بیٹھ گیا

"اپنے کچھ بندے شہر بھیجے تھے میں نے صبح کے نکلے ہیں ابھی تک اُن کا کوئی اتا پتا نہیں موبائیل تک اُن کا بند جارہا ہے۔۔سجاد ملک نے بتایا

آپ اُن لوگوں کے لیے پریشان ہیں یہ بات ہم نہیں ماننے والے۔۔اسیر اُن کی ساری بات سن کر طنز بولا

"ضروری کام سے گئے تھے مجھے بس یہ جاننا ہے کہ کام ہوا ہے یا نہیں۔۔سجاد ملک نے سنجیدگی سے جواب دیا تبھی ڈیرے پر ایک آدمی آیا تھا جس کی حالت کافی بُری تھی۔

"سلیم یہ کیا حال بنایا ہوا ہے اور باقی لوگ کہاں ہیں؟"تم پانچوں تو ساتھ گئے تھے نہ؟سجاد ملک جھٹ سے اپنی جگہ سے اُٹھے تھے"اسیر جبکہ ہاتھ کی مٹھی کو ٹھوڑی پہ ٹِکائے بے تاثر نگاہوں سے اُن دونوں کو دیکھ رہا تھا

صاحب جی وہ۔۔۔۔اِتنا کہتا وہ گہرے گہرے سانس بھرنے لگا

"آگے بولو اب۔۔سجاد ملک نے سخت لہجہ اپنایا

"صاحب جی اُن کو پولیس پکڑ کر لے گئ مجھے بھی اِس لیے چھوڑا تاکہ میں آپ کو بتاسکوں کہ دوبارہ اُن کو کمزور سمجھ کر آپ کچھ ایسا نہ کرنا۔۔وہ بولا تو سجاد ملک کی آنکھوں میں خون اُتر آیا تھا

تو گویا یہ کُھلا علان ہے جنگ کا مجھے بتاؤ کس دو ٹکے کے پولیس والے کی اِتنی ہمت ہوئی ہے کہ اُنہوں نے تمہارا یہ حال کیا ہے۔۔سجاد ملک غُصے سے ہانپتے پوچھنے لگے۔

صاحب جی پولیس والوں نے نہیں۔۔"لڑکی نے ہمیں کپڑوں کی طرح دھویا ہے۔۔۔اُس نے سرجُھکائے بتایا تو سجاد ملک الرٹ ہوا جبکہ اسیر بھی چونک کر اُس کا جائزہ سہی سے اب لینے لگا جو نیلوں نیل تھا بال بھی ایسے بنے ہوئے تھے جیسے کرنٹ لگا ہوا ہو

"لڑکی نے؟ہوش ہے تمہیں کہ بول کیا رہے ہو؟سجاد ملک نے اُس کو گھورا

جی سردار دیکھنے میں دُبلی پُتلی سی تھی مگر ہاتھ بہت بھاری تھا جیسے کوئی ہتھوڑا ہو ہمیں جسمانی تشدد کے ساتھ اندرونی چوٹیں بھی اُس نے بہت دی ہیں۔۔"ہم پانچ تھے اور وہ اکیلی مگر ہمیں دیکھ کر وہ سیکنڈ کے لیے بھی نہیں ڈری تھی۔۔"بس مارنے پر آئی تو مارتی چلی گئ۔۔اُس آدمی نے بتایا تو سجاد ملک نے ہاتھوں کی مٹھیوں کو زور سے بھینچا تھا اور اُن کی باتوں سے اسیر نے اندازہ لگالیا تھا کہ معاملہ کیا ہے۔۔

"ابھی ایک کیس سے باہر نہیں آیا آپ کا بھائی اور آپ خود کو دوسرے کیس میں پھسانا چاہ رہے ہیں۔۔۔اسیر نے کہا تو سجاد ملک نے تند نگاہوں سے اُس کو گھورا جس کا رتی برابر بھی فرق اسیر ملک پر نہیں پڑا تھا

❤Rimsha Hussain Novels❤

کچھ دن بعد۔

آج اُس کی زندگی کا بہت بڑا دن تھا"آج وہ اپنی زندگی کا پہلا کیس لڑنے والی تھی جس کو اُس نے لڑنا ہی نہیں بلکہ جیتنا بھی تھا وہ شاید دُنیا کی پہلی لڑکی تھی جو اپنے باپ سے ٹکر لینے والی تھی"وہ شاید پہلی لڑکی تھی جو ہر کوشش کرنا چاہتی تھی کہ اُس کے سوتیلے بھائی کو کڑی سے کڑی سزا ملے۔۔"اُس کو اپنے عمل پر کوئی پچھتاوا نہیں تھا اُس نے تو بچپن میں سوچ لیا تھا کہ اب ایسا کچھ کرنا ہے کہ اُس کو کمتر ذات سمجھنے والے لوگوں کا منہ بند رہ جائے ہمیشہ کیلئے"وہ آج زندگی کے جس دوہرائے پر تھی وہاں شاید کوئی اور لڑکی کبھی کھڑی ہوگی۔۔"اُس چلنے میں ایک لچک ایک اعتماد تھا اُس کے چہرے کے کسی بھی حصے ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ وہ نروس ہے اُس کی اندرونی حالت جیسی بھی تھی۔۔مگر ظاہر شخصیت کو اُس نے ایسا بنایا ہوا تھا کہ ہر دیکھنے والا اُس پر رشک کی نگاہ ڈالتا۔۔

"آج اُس کے پہلے کیس کا پہلا دن تھا وہ نہیں جانتی تھی کہ کیس کب تک چلے گا"اور اِس درمیان وہ لوگ اُس کے ساتھ کیا کرنا چاہے گیں اِس سب کی اُس کو کوئی پرواہ نہ تھی۔۔اُس کو بس اِتنا پتا تھا کہ وہ حق کے لیے لڑ رہی تھی اور وہ حق کے ساتھ کھڑی تھی۔


"صاحب جی وہ ہے بیریسٹر جو آپ کے بیٹے کے خلاف کیس لڑنے والی ہے۔۔نوریز ملک کورٹ کے باہر کھڑے تھے جب اُن کے ساتھی نے سامنے آتی سوہان کی طرف اِشارہ کیا تھا جس کا دھیان اُن کی طرف نہیں تھا بلیک کوٹ بازو پر لٹکائے اپنی سوچو میں گُم وہ بس چلنے میں محو تھی۔۔"

بات سُنو میری۔۔۔۔"وہ نوریز ملک کے سامنے گُزرنے لگی تو اُنہوں نے اُس کو آواز دے کر رُوکا جس پر سوہان کے قدم جیسے زمین میں جکڑ سے گئے ہو۔۔"اُس نے سانس تک روک لیا تھا۔۔

کتنے سال بعد اُس نے اپنے باپ کی آواز کو سُنا تھا جس میں وہی بیگانگی اور اجنبیت تھی جو آخری مُلاقات میں تھی فرق بس اِتنا تھا کہ پہلے جانتے ہوئے بھی ایسا لہجہ اپنایا ہوا تھا اور اب انجانے میں مگر اُس کے لیے اب کچھ میٹر نہیں کرتا تھا"وہ اپنی زندگی میں آج جس دوہرائے پر تھی کہ اُس کو کچھ پتا نہیں چلتا تھا

"آپ سے مُخاطب ہوں میں۔۔۔نوریز ملک نے دوبارہ کہا تو سوہان نے پلٹ کر اُس شخص کو دیکھا جس کی بدولت اُن بہنوں کی زندگی کا خوبصورت حصہ غائب ہوگیا تھا"جس کی وجہ سے بچپن میں اُن کا بچپن نہیں تھا" جس کی وجہ سے اُنہوں نے کیا کچھ نہیں سہا تھا"کتنی مشکلاتوں سے وہ آج اِس مقام پر تھی کیسے وہ"میشا اور فاحا کا سہارا بنی تھی کیسے وہ دونوں اُس کا سہارہ بنیں تھیں۔۔"پل بھر میں سب کچھ فلم کی طرح اُس کی آنکھوں کے سامنے رپیٹ ہوتا گیا


۔ ""یہ بیٹیاں مجھے دے ہی کیا سکتیں ہیں؟"نہ تو اِن کو لیکر میں کہی ساتھ لے جاسکتا ہوں اور نہ یہ مجھے کوئی عقلمندانہ مشورہ دے سکتی ہیں۔۔۔۔"""


"بیٹیوں کو ناکارہ سمجھنے والا شخص آج اپنے بیٹے کو بے گُناہ ثابت کرنا چاہتا تھا جو پورا گُناہوں میں ڈوبا ہوا تھا۔۔"سوہان کے چہرے پر استہزائیہ مسکراہٹ نے احاطہ کیا تھا۔۔"اور ایک بار پھر سے نوریز ملک کا جائزہ لینے لگی جس کو دیکھ کر لگ رہا تھا جیسے وقت رُک سا گیا تھا۔۔"اُن کے بالوں کی سفیدی بتارہی تھی جیسے خود پر توجہ دینا اُنہوں نے ختم کردی تھی۔۔"گاؤں کے امیر و کبیر شخص کا سامنا اُس نے ایسے نہیں سوچا تھا۔۔


"بیٹے کی فکر نے لگتا ہے کہی کا نہیں چھوڑا۔۔سوہان نے بے ساختہ سوچا تھا


میرا نام نوریز ملک ہے جن کے خلاف آپ کھڑی ہیں۔۔نوریز ملک اُس کی طرف ہاتھ بڑھائے بولا تو سوہان نے احساس سے عاری نظروں سے پہلے اُن کا چہرہ دیکھا پھر اُن کا ہاتھ یہ وہ ہاتھ تھا جس کی ضرورت بچپن میں اُن کو تھی"یہ وہ ہاتھ تھا جس نے اپنا شفقت بھرا لمس اُن کے ماتھے پر نہیں چھوڑا نہیں تھا یہ وہ ہاتھ تھا جس کے لیے اُس کی ماں تڑپتی تھی۔۔۔"آج وہ ہاتھ اُس سے مصافحہ کے لیے ملنا چاہتا تھا۔۔"پر اُس کے اندر کی وہ ساری حسرتیں اور چاہتیں کب کا ختم ہوچُکی تھیں۔۔۔

میں آپ کے خلاف نہیں ہوں" میں بس اپنے کلائنٹ کے ساتھ ہوں جس کی عزت کو آپ کے بیٹے نے پامال کیا ہے۔ ۔۔سوہان سِرے سے اُس کا بڑھایا ہوا ہاتھ نظرانداز کرتی سنجیدگی سے بولی تو نوریز ملک ایک نظر اُس پہ ڈالے اپنا ہاتھ پیچھے کرگیا تھا۔

بات ایک ہے خیر آپ اپنا نام بتانے سے قطرا رہی ہیں۔ ۔۔نوریز ملک نے کہا تو سوہان کے چہرے پہ طنز مسکراہٹ آئی

کافی بے خبر انسان ہیں آپ۔۔۔"آپ کو آپ کی بے خبری مُبارک ہو اور ایک اہم اور ضروری بات انسان کی پہچان اُس کے نام سے نہیں بلکہ اُس کے کام سے ہوتی ہے ۔سوہان گہرے سنجیدہ انداز میں کہتی وہاں رُکی نہیں تھی۔ ۔

صاحب آپ پریشان نہ ہو یہ لڑکی کیس جیت نہیں پائے گی۔ ۔۔نوریز ملک کو خاموش دیکھ کر اُن کے آدمی نے کہا

بلکل کیونکہ کیس جیتنے کے لیے گواہ اویوڈنس کا ہونا بہت ضرور ہوتا ہے" جو بیریسٹر سوہان کو آپ کے گاؤں سے مل سکتے ہیں" اُس کا کوئی آدمی آپ کے گاؤں آ نہیں سکتا دوسرا گواہ بھی کون ہوگا؟میرا نہیں خیال آپ کے گاؤں میں سے کسی بھی آدمی میں ایسی جُرئت ہوگی کے آپ کے خلاف گواہی دینے کا سوچے بھی۔ ۔۔نوریز ملک کے کچھ کہنے سے پہلے اُن کا وکیل جس کا شُمار شہر کے نامور وکیلوں میں لیا جاتا تھا وہ پُرجوش لہجے میں اُن سے بولا اور"نوریز ملک اپنے خیالوں میں اِس قدر مگن تھے کہ"سوہان"نام پر دھیان تک نہیں دے پائے تھے

اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ ۔۔نوریز ملک گہری سانس ہوا کے سُپرد کیے بولے"سوہان سے کچھ دیر کی ہوئی باتوں نے اُن کو بے چین کردیا تھا جس کو وہ سمجھ نہیں پارہے تھے

❤Rimsha Hussain Novels❤

میشو کہاں ہو تم؟ سوہان سائیڈ پر آتی میشا کو کال کیے پوچھنے لگی۔

میں بس پہنچنے والی ہوں" تم پریشان نہ ہو کیس تم ہی جیتوں گی آئے پرومیس۔ ۔دوسری طرف میشا نے مثبت جواب دیا

اِن شاءاللہ پر ابھی تم ہو کہاں؟"جلدی کرو اب تھوڑا وقت رہتا ہے پھر ہمیں بُلایا جائے گا۔ ۔سوہان نے سنجیدگی سے کہا

راستے میں ہوں۔ ۔سمجھو پہنچ گئ۔ ۔میشا آہستہ سے چلتی اُس کے پیچھے کھڑی ہوئی تو سوہان چونک سی گئ۔

شکر تم آگئ۔ ۔سوہان اپنا فون آف کیے بولی

ہاں شکر۔ ۔میشا جواباً بولی تو سوہان کی نظر اُس کے پیچھے دو پولیس والوں کے درمیان خاموش کھڑے فراز پر گئ۔ ۔

یہ تمہیں کہاں سے ملا؟ سوہان نے ایک نظر فراز پر ڈالنے کے بعد دوسری نظر اُس پہ ڈالنا ضروری نہیں سمجھا

"پاتال سے ملا۔ ۔میشا نے بتایا

مذاق مت کرو۔ ۔سوہان نے اُس کو گھورا

گاؤں کے پاس ایک چھوٹا سا ہوٹل ہے یہ وہی تھا وہاں سے اُٹھا لائی ہوں میں اِسے کیونکہ حویلی میں اِس کا داخلہ ممنوع تھا اور کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ اسیر ملک تھا"جو اپنے گاؤں کا ایک اصول پسند سردار ہے اور بُردبار شخصیت کا مالک ہے اِن سب سے بیحد اُلٹ۔۔میشا نے بتایا

تم نے اِس کو مارا تو نہیں؟سوہان نے مشکوک نظروں سے اُس کو دیکھا جیسے اُس کی اِتنی بڑی تقریر سُنی ہی نہ ہو

اِس کے چہرے سے کہی لگ رہا ہے کہ میں نے ہاتھ بھی لگایا ہے ٹرسٹ می میں نے تو پھول تک نہیں مارا آفٹر آل ہمارا بھائی ہے سوتیلا ہی سہی۔۔میشا نے معصومیت سے کہا

میشو۔ ۔۔سوہان کو یقین نہیں آیا تبھی تنبیہہ کرتی نظروں سے اُس کو دیکھا

"لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے اور تمہیں کیا لگتا ہے میں اِس کو یہاں آنے کا کہتی اور یہ آجاتا؟"اور کہتا کیوں نہیں بہنا میں تو یہاں آپ کے انتظار میں بیٹھا ہوں"بڑی مشکل سے لائی ہوں سلام ہے میری ہمت کو۔ ۔میشا سرجھٹک کر بولی

کیا"کیا ہے تم نے اِس کے ساتھ؟ سوہان نے ناچاہتے ہوئے بھی بُت بن کر کھڑے ہوئے فراز کو دیکھ کر اُس سے پوچھا وہ جانتی تھی"میشا بنا اپنے ہاتھوں کو استعمال میں لائے کوئی بھی کام نہیں کیا کرتی تھی۔ ۔

زیادہ کچھ نہیں بس تھوڑی اندرونی چوٹیں۔ ۔۔میشا کان کی لو کُھجا کر اِتنا کہتی خاموش ہوگئ" تو سوہان اُس کو بس دیکھتی رہ گئ

تمہارا کچھ نہیں ہوسکتا۔ ۔۔سوہان نے اُس کو دیکھ کر نفی میں سرہلایا تھا عین اُسی وقت اُن کا نمبر آیا تو سوہان کی نظر بے ساختہ میشا پر گئ تھی

ہماری زندگی میں یہ دن آنا تھا سوہان اور ہم دونوں یہ بات جانتے ہیں کہ ہم ملک خاندان کا چہرہ تک دوبارہ نہیں دیکھنا چاہتے تھے مگر یہ قسمت ہے جو ہمارا سامنا کروا رہی ہے سامنا بھی ایسا جس کا ہمیں گُمان تک نہیں تھا۔ ۔"اگر آج ہمارے مراسم سہی بھی ہوتے تو بھی ہم ایسے ایک ریپسٹ کے خلاف ہوتے۔ ۔۔میشا اُس کے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ کا دباؤ بڑھاکر بولی تو سوہان نے اثبات میں سرہلایا تھا

"ویسے کیا تمہاری اُن سے مُلاقات ہوئی؟اندر جانے سے پہلے میشا نے اُس سے پوچھا

ہاں۔۔سوہان نے مختصر جواب دیا

گریٹ پھر شرمندہ تو بہت ہوئے ہوگے نہیں؟میشا کے لہجے میں طنز اور چہرے پر استہزائیہ تاثرات اُبھرنے لگے تھے

لوگ غلط کہتے ہیں میشو کہ خون میں کشش ہوتی ہے اگر خون میں کشش ہوتی تو ایک پل کے لیے ہی سہی وہ مجھ جان ضرور لیتے مگر اُن کی آنکھوں میں شُناسائی کی ہلکی رمق تک نہ تھی رشتوں میں بس خون ضروری نہیں ہوتا اصل رشتہ وہ ہوتا ہے جس میں دل آپس میں ملیں ہوئے ہو اور اُن کا دل ہماری طرف کبھی آیا ہی نہیں بیس سال کم عرصہ نہیں ہوتا" ہم نے ایک عمر گُزاری ہے اُن کے بغیر اور حیرت انگیز بات یہ ہے اِن بیس سالوں میں اُن کا پتھر کا دل موم تو نہیں ہوا تھا مگر پچھتاوا بھی نہیں تھا ہوا۔ ۔سوہان افسوس بھرے لہجے میں کہتی آہستہ آہستہ چلنے لگی تھی

تم نے اپنا تعارف نہیں کروایا؟ میشا نے پوچھا

میں نے ضروری نہیں سمجھا کیونکہ ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے اور مجھے ابھی وقت سہی نہیں لگا ۔۔سوہان نے کہا تو میشا نے لب بھینچ لیے تھے

❤Rimsha Hussain Novels❤

محترمہ؟اسیر اپنے آدمیوں کے ساتھ ریسٹورنٹ آیا تھا اپنے کسی ضرور کام سے جہاں اپنے لیے اُس نے ٹیبل بھی بُک کروالی تھی اور جب وہ وہاں آیا تو کسی کو بیٹھا دیکھ کر سنجیدگی سے مُخاطب ہوا

جی محترم؟فاحا نے چونک کر کتاب سے نظریں اُٹھائے اُس کو دیکھا مگر جب نظر اسیر پر گئ تو اُس کا منہ بن گیا تھا جو اسیر نے بخوبی نوٹ کیا تھا

یہاں سے اُٹھے۔ ۔اسیر نے سنجیدگی سے کہا

فاحا کیوں اُٹھے؟فاحا ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگی

کیونکہ یہ ٹیبل ہم نے بُک کروائی ہے۔ ۔اسیر نے بتایا

"ایسا کیا ہے اِس ٹیبل میں؟ فاحا ناسمجھی سے ٹیبل کا جائزہ لینے لگی

یہ آپ اُٹھ کر بھی دیکھ سکتیں ہیں بجائے ہمارا وقت ضائع کیے۔ ۔۔اسیر چڑ کر بولا

آپ کیا ناشتے میں کالی اور لال مرچیں کھاتے ہیں؟ اسیر کے ایسے لہجے پر فاحا نے منہ کے زاویئے بگاڑ کر کہا تو اسیر کی پیشانی میں بل نمایاں ہوئے تھے"فاحا کی ضد اور اُس کی بات سن کر وہ زچ ہوا تھا

"آپ ایک اریٹیٹنگ لڑکی ہیں اِس لیے ہمارے سامنے نہ ہی آیا کریں تو اچھا ہوگا۔ ۔۔اسیر سخت لہجے میں اُس کو دیکھ کر وارن کرنے والے انداز میں بولا


"تیرے تکبر سے زیادہ گُستاخ لہجہ ہے میرا

میرا ظرف نہ آزما مجھے خاموش رہنے دے


فاحا کے اندر اچانک شاعر جاگا تو اسیر نے آنکھیں چھوٹی کیے اُس کو گھورا تھا جس کو خود اندازہ نہیں تھا کہ وہ بول کیا چُکی ہے؟

"محترمہ لگتا ہے آپ کو کوئی دماغی مسئلہ ہے۔۔۔اسیر طنز انداز میں بولا

دیکھے یہ ٹیبل آپ نے بُک کی ہے یا نہیں مگر میں یہاں بیٹھ چُکی ہوں اور اب فاحا یہاں سے نہیں اُٹھے گی"کیونکہ اِس کے علاوہ ایسی اور کوئی ریسٹورنٹ میں جگہ نہیں جہاں فاحا بیٹھ کر خود کو پرسکون فیل کرے"اگر آپ کو اعتراض زیادہ ہے تو کوئی اور ٹیبل بُک کروالے میں بُرا نہیں مانوں گی۔۔ویسے بھی لڑکیوں کا احترام کرنا اچھے اخلاق کی نِشانی ہے دوسرا اگر مجھے پتا ہوتا تو میں یہاں کبھی نہ بیٹھتی۔۔۔فاحا نے اپنے ہاتھ کھڑے کیے کہا

جی آپ کو پتا بھی کیسے ہوگا جگ جہاں کی معصوم جو ٹھیری۔۔۔۔فاحا کی بات سن کر اسیر اپنے ماتھے پر بل لائے کہتا ریسٹورنٹ کا جائزہ لینے لگا جہاں ہر ٹیبل پر کوئی نہ کوئی بیٹھا ہوا تھا۔۔"کچھ سوچ کر اسیر اُس کے سامنے والی کرسی پر آرام سے بیٹھ گیا

آپ یہاں کیوں بیٹھے؟فاحا نے آنکھیں چھوٹی کیے اُس کو گھورا کیونکہ اُس کا بیٹھنا اور کمنٹ دینا فاحا کو کچھ خاص پسند نہیں آیا تھا

"ہماری مرضی۔۔۔اسیر جتاتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہتا مینیو ڈیسائیڈ کرنے لگا جبکہ فاحا منہ پُھلائے اُس کے پیچھے کھڑے گارڈز کو دیکھنے لگی جو سرجُھکائے موؤدب انداز میں کھڑے تھے

"اچھا اگر بیٹھے ہیں تو ایک بات پوچھوں؟فاحا نے پوچھنے سے پہلے اِجازت چاہی

"نہیں۔۔۔اپنے سیل فون پر نظریں ٹِکائے اُس نے یکلفظی جواب دیا

میں تو پوچھوں گی ورنہ بے چینی ہوگی"آپ یہ بتائے آپ کیا کسی گاؤں کے ہیں؟"کیونکہ آپ کا حُلیہ کسی وڈیرے ٹائپ پر ہوتا ہے مگر لہجہ گاؤں کے لوگوں کی طرح جاہل نہیں ہے۔۔۔فاحا نے اشتیاق سے اُس کو دیکھ کر پوچھا

"آپ کے کہنے کا مطلب گاؤں والے جاہل ہوتے ہیں؟اسیر نے کڑے چتونوں نے اُس کو گھور کر پوچھا تو فاحا گڑبڑا سی گئ

فاحا کا یہ مطلب نہیں تھا۔۔۔فاحا تھوڑا سنبھل کر بولی

جی ہم گاؤں کے ہیں اور ہمیں آپ سے زیادہ نالج ہے۔۔۔اسیر اُس کے پاس کُھلی کتابوں کو دیکھ کر طنز انداز میں بولا جس پر کور لگا ہوا تھا یہی وجہ تھی کہ وہ جان نہیں پایا کہ کونسی کتاب ہوسکتی تھی وہ۔۔۔

"خیر سے آپ کی عمر بھی تو بہت ہے۔۔"ویسے فاحا کے سُننے میں آیا ہے کہ گاؤں کے آدمیوں کو شادیوں کا بہت شوق ہوتا ہے آپ نے کتنی شادیاں کی ہوئیں ہیں؟"اور اگر گاؤں کے ہیں تو شہر میں کیا لینے آتے ہیں؟"کہی یہاں بھی تو آپ کی بیوی نہیں رہتی؟فاحا اُس کے پاس تھوڑا جُھک کر رازدرانہ انداز میں پوچھنے لگی تو اسیر نے صبر کا گھونٹ بھرا

"گاؤں میں رہتے ہوئے عجیب سکون مل رہا تھا سوچا کیوں نہ اُس کو برباد کرنے کے لیے یہاں آیا جائے۔۔۔" جواب میں جو اسیر نے کہا اُس پر فاحا کی پیشانی پر الجھن زدہ بل نمایاں ہوئے

میں سمجھی نہیں آپ کی بات؟فاحا نے کہا

آپ ہاتھوں پر دستانے کیوں پہنا کرتیں ہیں؟اسیر نے سرجھٹکنا چاہا مگر جب نظر اُس کے ہاتھوں پر گئ تو پوچھ بیٹھا

جراثیم بہت ہوتے ہیں نہ اِس لیے ہاتھوں کو ڈھانپتی ہوں"بار بار ہاتھ دھوکر صابن خرچ کرنے سے اچھا اِن کو کور کیا جائے۔۔۔فاحا نے اپنے ہاتھوں کو دیکھ کر اُس کو بتایا تو اسیر پوچھ کر پچھتایا

آپ کسی بھی سوال کا سیدھا جواب نہیں دے سکتیں کیا؟اسیر طنز ہوا

اور کیا ایک بات کی تفصیل بار بار سمجھانا آپ پر حرام ہے کیا؟" جو ایک بار کہنے کے بعد دوسری بار کہنا گوارا نہیں کرتے؟فاحا بھی دوبدو بولی جس پر اسیر نے ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینچ لیا"اِس میں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ اُس کا صبر بہت بُری طرح سے آزما رہی تھی

آپ سے بات کرنا فضول ہے۔۔۔۔اسیر سنجیدگی سے کہتا اُٹھ کھڑا ہوا تو اُس کو دیکھ کر فاحا نے ناک منہ چڑھایا تھا۔۔۔

❤Rimsha Hussain Novels❤

"سارے ثبوت اِس بات کی گواہی دے رہیں کہ چودہ آکٹوبر کی رات دس بجے فراز ملک نے اپنی انا کی تسکین کی خاطر اٹھارہ سالہ کشف امروز کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا تھا۔۔"میری عدالت سے درخواست ہے کہ فراز ملک کو کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے۔۔۔"سوہان نے سنجیدہ لہجے میں جج صاحب کے آگے اپنی بات رکھی تو میشا اپنے ساتھ بیٹھی کشف کے ہاتھ پہ دباؤ بڑھایا تھا پھر اُس نے گردن موڑ کر نوریز ملک کو دیکھا جس کے چہرے کی رنگت لٹھے مانند سفید ہوئی پڑی تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے اُنہوں نے سانس تک روکی ہوئی تھی۔۔

"یو آنر میرے کلائنٹ کو ایک جھوٹے کیس میں پھسایا جارہا ہے"مس سوہان آدھی ادھوری بات بیان کررہی ہیں جبکہ سچ تو یہ ہے کہ میرا کلائنٹ فراز ملک بے گُناہ ہے۔۔۔"نوریز ملک کا وکیل سرفراز بھی اپنی جگہ سے اُٹھ کر بولا تو اُس کو دیکھ کر میشا کے ہاتھوں میں خارش ہونے لگی۔۔۔

"کنٹرول میشو کنٹرول یہ تیرا شکار نہیں بن سکتا۔۔میشا نے بڑی مشکل سے خود کو باز رکھا

"کوئی ثبوت؟جج صاحب نے سرفراز کو دیکھ کر پوچھا

بلکل ہیں"مگر اُس کے لئے مجھے تھوڑی مہلت درُکار ہے۔۔۔سرفراز پُراعتماد لہجے میں بولا تو سوہان تھوڑا چونک سی گئ تھی مگر ظاہر ہونے نہیں دیا"وہ جان گئ اِن کا اِرادہ کیس کو لمبا کھینچنے کا ہے۔۔

اگر ثبوت ہیں تو آج جج صاحب کے سامنے کریں کیونکہ میرے پاس جو ثبوت ہیں اگر جو میں نے وہ سامنے کیے تو اُس کے بعد فیصلہ آج ہی ہوجائے گا۔۔۔سوہان نے کہا تو نوریز ملک اپنی جگہ پہلو بدلتا رہ گیا۔

"آپ

"یو آنر میں فراز ملک کو وِٹنس بوکس( کٹھرے) میں کھڑا کرکے کچھ سوالات کرنا چاہتی ہوں۔۔۔سرفراز کچھ کہنے والا تھا جب سوہان نے جج صاحب سے کہا

اِجازت ہے۔۔جج صاحب نے اِجازت دی

شکریہ۔۔۔۔سوہان نے کہا جبھی فراز کو کٹھرے میں لایا گیا"اور اُس نے قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر قسم دی کہ وہ جو بولے گا سچ بولے گا۔۔

"کیا یہ سچ ہے کہ تیرہ آکٹوبر کو تمہارے اور کشف کے درمیان گاؤں کی شادی میں بحث ہوئی تھی؟سوہان نے سنجیدہ لہجے میں فراز سے پوچھا تو اُس نے اپنا جُھکا ہوا سراُٹھا کر سوہان کو دیکھا پھر وہاں بیٹھے اپنے باپ کو جس نے نظروں ہی نظروں میں اُس کو تسلی کروائی تھی"یہ منظر میشا نے بڑی نفرت سے دیکھا تھا

"جج صاحب مجھے بُری طرح سے پھسایا جارہا ہے"یہ لڑکی۔۔۔"اُس نے کشف کی جانب اِشارہ کیا

"یہ خود میرے پاس آئی تھی اور کہا کہ میں اِس سے شادی کرلوں پر جج صاحب میرا تو نیولی کالج شروع ہوا ہے یہی وجہ تھی میں انکار کیا تو اب یہ نیچ حرکت پر اُتر آئی ہے یہ سب جھوٹ"فریب ہے یہ بدکردار لڑکی میری پوزیشن کو خراب کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔۔۔فراز اچانک اپنا بیان بدل کر بولا تو میشا نے دانت کچکچا کر اُس کو گھورا اُس کو خود پر غُصہ آیا کہ اپنے ہاتھ ہولے کیوں رکھے؟"جبکہ اُپنے لیے ایسے الفاظ سن کر کشف نے بے ساختہ اپنے لیے اللہ سے موت مانگی تھی۔۔

آپ سے جو پوچھا جارہا ہے محض اُس کے جوابات دے۔۔سوہان نے سنجیدگی سے اُس کو دیکھ کر پوچھا"اُس کو اپنے باپ کی تربیت پر حددرجہ افسوس ہوا کہ جس بیٹے پر اُن کو مان اور فخر تھا آج اُس نے بھرے مجموعے میں قرآن پاک کی جھوٹی قسم اُٹھائی تھی اور ایک معصوم کے کردار پر اُنگلی بھی اُٹھائی تھی۔۔

"میں کشف کو نہیں جانتا۔۔۔"فراز اُس کو دیکھ کر مضبوط لہجے میں کہا

"میں کچھ کہنا چاہتی ہوں اگر اجازت ہو تو وِٹنس بوکس میں آؤں۔۔۔میشا جھٹکے سے اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑی ہوئی تو ہر کوئی اُس کو دیکھنے لگا مگر فراز کی نظر جب میشا پر پڑی تو اُس کو اپنے سامنے اندھیرا چھاتا محسوس ہوا"مگر وہ بیہوش پھر بھی نہیں ہوا

"آرڈر

آرڈر

آرڈر

ابھی آپ بیٹھ جائے۔۔جج صاحب نے اُس کو دیکھ کر کہا تو میشا نے خود کو جلتے انگاروں پر محسوس کیا

"کیا تم نے ایک لڑکی کو اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ہوس کا نشانہ نہیں بنایا؟

"کیا تم نے اُس کی عزت کو تار تار کرنے کے بعد اُس کی جان لینے کی کوشش نہیں کی؟

"کیا تم نے اپنے آوارہ دوستوں کے ساتھ مل کر اُس کی بے بسی کا فائدہ نہیں اُٹھایا؟

یا یہ بھی جھوٹ ہے کہ تمہارے فون میں اُس کی کچھ نازیبا تصاویر نہیں ہیں جو تم لوگوں نے بلیک میل کرنے کی خاطر اپنے پاس رکھیں ہوئیں ہیں؟"بتاؤ خاموش کیوں ہو؟

سوہان نے ایک کے بعد ایک سوال کیا تو فراز کا گلا خُشک ہوا تھا اُس نے بے ساختہ اپنے ماتھے پر آیا پسینہ صاف کیا تھا

"یو آنر مس سوہان میرے کلائنٹ کو مسلسل کنفیوز کرنے کے چکروں میں ہیں۔۔۔سرفراز درمیان میں بول اُٹھا

"معذرت مگر میرا نہیں خیال کہ میں نے کوئی غیرضروری سوال کیا ہے۔"اور میں اب کسی اور کے کٹھرے میں کھڑا کرنا چاہوں گی۔ ۔۔سوہان اُس کی طرف پلٹی تھی۔۔۔

اِجازت ہے۔ ۔جج صاحب کے دوبارہ اِجازت دینے پر سرفراز نے لب بھینچ کر سوہان کو دیکھا اور واپس اپنی جگہ پر بیٹھ گیا تو پھر میشا اپنی جگہ سے اُٹھ کر کٹھرے میں کھڑی ہوئی

"آپ کیا جانتی ہیں اِس کیس کے مطلق؟سوہان نے سنجیدہ انداز میں میشا سے پوچھا تو اُس کے اِتنی عزت سے مُخاطب ہونے پر میشا کو بہت ہنسی آئی جس کو چُھپانے کے غرض سے اُس نے اپنا سر جُھکالیا تھا۔۔

"میرے پاس کشف کی میڈیکل رپورٹ کے ساتھ ایک ویڈیو ہے جس میں فراز ملک نے خود اپنے جُرم کا اعتراف کیا ہے"اور اُس میں یہ بھی وہ کہہ رہا ہے کہ وہ اپنے لیے خود سزا تجویز کرنا چاہتا ہے اپنے عمل پر وہ بہت پیشمان ہے وہ مرنا چاہتا ہے مگر اُس کا باپ اُس کو جھوٹ بولنے کے لیے مجبور کررہا ہے جس کے آگے وہ بے بس ہے"فراز تو ابدی نیند سونا چاہتا ہے وہ چاہتا ہے اُس پر سؤ کوڑے برسائے جائے وہ اِنہیں چیزوں کا مستحق ہے۔۔۔"میشا نے بنا رُکے کہا تو سوہان نے اُس کو گھورا تھا کیونکہ ایک تو سِوائے میڈیکل رپورٹ دینے کے میشا نے اُس کو کچھ اور نہیں بتایا تھا اور جو اُس نے کہانی بنائی تھی اُس میں سوہان کو لگا جیسے میشا نے فاحا کو بھی پیچھے چھوڑدیا تھا"اُس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ میشا نے تو قرآن کی قسم بھی نہیں اُٹھائی تھی اور نہ قرآن پاک پر اپنا ہاتھ رکھا تھا "اور نہ یہ کہا تھا کہ وہ جو بولے گی سچ بولے گی سچ کے سِوا کچھ اور نہیں بولے گی"یہی وجہ تھی اور اِس لیے میشا کے منہ میں جو آرہا تھا وہ بکے جارہی تھی"مگر جہاں سوہان تپی تھی وہی کسی اور کے پاؤں کے نیچے سے زمین کِھسک گئ تھی۔۔


"یو آنر کیا مجھ جیسی لاچار بے بس لڑکیوں کو کیا کبھی انصاف نہیں ملے گا؟"کب تک؟آخر کب تک ہم انسان نُما حیوانوں کی خوراک بنتی آئیں گی؟"کیا ہمارا قانون اِتنا کمزور ہے جہاں بس پیسا چلتا ہے مگر یو آنر مجھے انصاف چاہیے میرے ساتھ جو ہوا ہے میں نہیں چاہوں گی وہ کل کسی اور کے ساتھ ہو"اگر آج میری فریاد سُنی نہیں گئ تو ہوسکتا ہے جہاں آج میں ہوں وہاں خدانخواستہ کل کلاں کو آپ کی اپنی بہن بیٹی ہو۔۔"ہمیں زمین پر اِس لیے نہیں اُتارا گیا کہ یہ بڑے لوگ ہمیں نوچے اپنے نفس کی وحشت میں آکر ہماری خوشیوں کو چکنا چور کردے"یہاں مجرم کھڑا مجھ پر بہتانی بازی لگا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ کوئی عورت اپنے حق کے لیے آواز نہیں اُٹھاتی کیونکہ وہ اِنہیں خوف کی وجہ سے کچھ کر نہیں پاتیں"کچھ مائیں اپنی بچیوں کو گھر سے باہر نکلنے نہیں دیتیں کیونکہ وہ جانتی ہیں یہاں جان سے زیادہ عزت کو خاطرہ ہے گلی گلی"جگہ جگہ مال لوٹرے نہیں مگر عصمت کو لوٹنے والے ملینگے"مجھے خاموش رہنے کا کہا گیا"کیونکہ میں عورت ہوں"مجھے میری آواز کو دبانے کا کہا گیا کیونکہ میں عورت ہوں"مجھے کیس نہ کرنے پر کہا گیا کیونکہ یو آنر میں ایک عورت ہوں" کیس کرنے پر نقصان پہنچایا گیا کیونکہ میں عورت ہوں"اور عورت کو اِنہوں نے روبوٹ سمجھا ہوا جس کے اندر کوئی جذبات احساسات ارمان نہیں ہوتے"آخر کیوں ہم عورت کی زبانیں کاٹی جاتیں ہیں؟"کیوں زبان ہونے کے باوجود ہمیں بے زبان قرار دیا جاتا ہے"آخر کب تک ہم اپنے لیے انصاف کو ترستے آئے گیں۔۔کشف سامنے آتی نم لہجے میں بولتی گئ اپنے اندر کا سارا غبار اُس نے پل بھر میں باہر نکالا تو میشا نے داد دیتی نظروں سے اُس کو دیکھا تھا جس نے ایک آخری کیل ٹھوکی تھی لوگ کیا کہیں گے؟"کی سوچ کو اپنا کر اُس نے خود پر جبر نہیں کیا تھا بلکہ اپنی آواز کو اُٹھایا تھا اور جیسی قابلِ رحم اُس کی حالت تھی اگر یہ دیکھ کر بھی کوئی اُس کو انصاف نہ دیتا تو بہت بڑا ظلم کردیتا اور وہ بھی اُس گُناہ میں برابر کا شریک دار ثابت ہوتا۔۔۔


"تمام ثبوتوں اور گواہوں کو مدِنظر رکھ کر عدالت اس فیصلے پر پہنچتی ہے کہ

وکٹم فراز ملک کو ریپ کیس اور مس کشف پر جھوٹے الزام لگانے اور اُن کے کردار کا بھی تماشا لگانے کے جُرم میں سزائے موت دیتی ہے اور اِس بات کا اعلان کرتی ہے کہ فراز ملک کو کورٹ کے باہر پھاسی دی جائے گی تاکہ ہر دیکھنے والا اُس سے عبرت حاصل کرے"اور اُس سے پہلے ساتھ میں ان پر جرمانہ عائد کرتی ہے اس کے علاؤہ عدالت کشف امروز کو ہر الزام سے با عزت بری قرار دیتی ہے اور انہیں یہ حق دیتی ہے کہ وہ فراز ملک پر ہرجانے کا کیس کر سکتیں ہیں۔۔۔


"جج صاحب نے اپنا فیصلہ سُنایا تو اُن کو لگا جیسے کسی نے اُن کو نئ زندگی بخشی ہو"سوہان نے بے ساختہ اپنا سراُٹھاکر اپنے رب کا شکر ادا کیا تھا جس نے اُس کو نااُمید نہیں چھوڑا تھا سچ پر کھڑے ہونے کی پہلی سیڑھی پر ہی اُس کو عزت بخشی تھی۔۔"وہی میشا نے آگے بھر کر کشف کو اپنے گلے لگایا تھا۔۔


"مگر نوریز ملک پر تو گویا کمرہ عدالت کی جیسے پوری چھت آگری ہو وہ فق ہوتی رنگت کے ساتھ سارا معاملہ سمجھنے کی کوششوں میں تھے۔۔۔اور فراز نے چیخ چیخ کر پورا آسمان سر پر اُٹھالیا تھا جس پر توجہ کوئی نہیں دے رہا تھا آفیسرز اُس کو کھینچ کر باہر لیکر جارہے تھے۔۔"جہاں کچھ لوگوں کے لیے خوشیوں کا سماں تھا وہی کسی کے لیے یہاں جیسے اُن کی پوری زندگی اُجڑ گئ تھی آج تو خوشیوں کا ساز تھا کیونکہ آج ایک معصوم کو انصاف ملا تھا۔۔

Congratulations.

نوریز ملک کے وکیل نے سوہان کے سامنے کھڑے ہوکر مُبارکباد دینے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا تھا۔

Thank You.

جواب میں مصافحہ سوہان کے بجائے میشا نے کیا تھا اور اُس کا ہاتھ زور سے دباکر چھوڑا تو سرفراز کو لگا جیسے اُس کے ہاتھ کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں ہو مگر وہ نہیں تھا جانتا کہ میشا نے اپنے ہاتھ کی خارش کو کم کرنے کی ایک کوشش کی تھی۔۔۔

"میری زندگی کا پہلا کیس ہے یہ جو میں ہارا ہوں"وہ بھی کسی غیرتجربیکار وکیل سے۔اپنے ہاتھ کو سہلاکر وہ مغرور لہجے میں سوہان سے بولا تو اُس کے لفظ"غیرتجربیکار پر میشا نے اُس کو ایسے دیکھا جیسے کہنا چاہ رہی ہو تمہاری عمر سے زیادہ ہماری پریکٹس ہے۔

پہلا نہیں پانچواں اور میں شیور ہوں اگر آپ حق کے ساتھ ہوتے تو جیت جاتے۔۔۔سوہان نے گہرے سنجیدہ لہجے میں کہا تو اُس کو جیسے چُپ لگ گئ تھی۔۔

"اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو میں کورٹ کے باہر اپنی صلاحیتوں کا ثبوت دے سکتی ہوں بشرطیکہ کے آپ اِجازت دے۔۔۔میشا نے اُس کو دیکھ کر معصومیت سے بھرے لہجے میں کہا تو سرفراز نے بے ساختہ گلا کھنکھار کر سائیڈ سے گُزرگیا تھا۔۔"اُس کے جانے کے بعد اُن دونوں کی نظر نوریز ملک پر گئ تھی جو اپنی جگہ سے ہِلے تک نہ تھے ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ ابھی اپنا سر اُٹھا نہیں پائیں گے۔۔"غرور کا سر ہمیشہ نیچے رہ جاتا ہے یہ تو طے تھا


"علامہ لکھتے ہیں

جانے کس شُہرت کا غرور ہے انسان کو

اِنسان تو اپنے آخری غسل کا بھی محتاج ہے۔۔۔


میشا نوریز ملک کے سامنے کھڑی ہوتی طنز لہجے میں بولی تو نوریز ملک جیسے گہری نیند سے جاگ اُٹھے تھے اور وہ بار بار آنکھیں مل کر کبھی سوہان کو دیکھتے تو کبھی میشا کو جس کے چہرے پر ایک الگ قسم کے تاثرات تھے

❤❤❤❤❤❤❤❤

کونسی دُشمنی تم لوگوں نے میرے بیٹے سے نکالی ہے؟اپنی جگہ سے اُٹھ کر نوریز ملک سپاٹ لہجے میں دونوں سے پوچھا

آج جو ہوا اُس کا ذمیدار آپ کا اپنا بیٹا اور آپ کی تربیت ہے"اور اِس بات کا الزام آپ کسی اور کو نہیں دے سکتے۔۔سوہان نے جتاتی نظروں سے اُن کو دیکھ کر کہا

بچہ تھا نادانی کرگیا دے دِلاکر ہم معاملہ حل کرسکتے تھے۔۔نوریز ملک نے کہا تو میشا نے تاسف سے اُن کو دیکھا

"ہر چیز بکاؤ نہیں ہوتی۔۔سوہان نے کہا

جو بھی تم لوگوں نے جو آج کیا اُس کی سزا تم دونوں کو ضرور ملے گی اور وہ میں دوں گا۔۔۔نوریز ملک پختہ لہجے میں کہا

آپ ہمیں بے گُناہ ہونے کے باوجود سزا دے چُکے ہیں اور آج سے نہیں بلکہ بیس سال پہلے ہی غور سے دیکھے مجھے اور سوہان کو۔۔۔۔میشا نے پہلی بار اُن کو مُخاطب کیا تو نوریز ملک چونک اُٹھے

کیا مطلب؟نوریز ملک ناسمجھی سے اُن کو دیکھنے لگے

چلو یہاں سے۔۔۔سوہان نے میشا کو گھورا

"نہیں سوہان اِن کو پتا ہونا چاہیے کہ آج حق کے ساتھ کون کھڑا تھا"اور یہ بھی مجرم کون تھا؟سہی غلط کی پہچان کس نے رکھی تھی اِن کو سب پتا لگنا چاہیے کہ جس کی چاہ میں اِنہوں نے اللہ کی رحمت کو ٹھکرایا تھا آج اللہ نے اُن کو اعلیٰ مقام دیا ہے جبکہ جس پر اِن کو غرور تھا جس کو وہ اپنے باجوں میں کھڑا کرنے کی چاہ رکھتے تھے اُس نے تو آج اِن کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچ لی ہے"جو اِن کے مطابق عقلمندانہ مشورہ دے سکتے تھے اُس نے تو اِن کی سُدھ بدھ ختم کرڈالی ہے۔۔۔"۔میشا بولنے پر آئی تو بولتی چلی گئ تھی اور نوریز ملک کو تو گویا جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔۔"وہ اب سہی معنوں میں کبھی سوہان کو دیکھنے لگے تو کبھی میشا کو جس کی آنکھوں میں اُن کے لیے بے تحاشا نفرت تھی۔۔۔"جبکہ اُس کے الفاظ نوریز ملک کو اپنے سینے پر کسی نشتر کی طرح چُھبے تھے۔


"آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں اِن دونوں کا میں نے کرنا بھی کیا ہے خوامخواہ میرے سر پہ ناچے گی یہ دونوں آپ ٹھیک کہتی ہیں یہ بیٹیاں کسی کام کی نہیں ہوتی۔۔""


""یہ بیٹیاں مجھے دے ہی کیا سکتیں ہیں؟"نہ تو اِن کو لیکر میں کہی ساتھ لے جاسکتا ہوں اور نہ یہ مجھے کوئی عقلمندانہ مشورہ دے سکتی ہیں۔۔۔۔""


"میں نے تمہیں پہلے سے بتایا تھا مجھے بیٹا چاہیے اِن تینوں کا میں کیا کروں گا؟بھائی صاحب تو اول روز سے ہی مجھ سے خفا ہے اور اب جو تم نے یہ بچیاں میرے سر پر مسلط کی ہیں اِن کا میں کیا کروں گا؟


"دیکھو اسلحان مجھے جو کہنا تھا میں کہہ چُکا ہوں اب تم یہ بوجھ لیکر یہاں سے چلی جاؤ میں اپنے بھائیوں کو مزید خفا نہیں کرسکتا تمہاری بدولت"


سالوں پُرانے اپنے الفاظوں اُن کو یاد آئے تو وہ نیچے ڈھے سے گئے تھے۔۔۔"آنکھوں سے بے ساختہ ایک آنسوؤ اُن کے گال سے پھسلتا ڈارھی میں جذب ہوا تھا۔۔


"سسس سوہان ااور مم میشا ہو تم دونوں؟"ممم میری بب بچیاں۔۔۔۔۔نوریز ملک نے بڑی دیر بعد کچھ بولنے کی ہمت کی

"آپ کی بیٹیاں نہیں ہیں ہم"ہم وہ ہیں جن کو آپ کی تعلیم منحوس کہا کرتی ہے۔۔جس کو بوجھ کہتی ہے جس سے آپ کو اِتنی نفرت ہوتی ہے کہ لمحے کی دیر کیے بنا اُن کو چھوڑدیتے ہیں اور ایسا چھوڑتے ہیں کہ پھر واپس پلٹ کر دیکھنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔۔۔سوہان نے سرد لہجے میں کہا تو نوریز ملک نے بے ساختہ اپنی آنکھوں کو میچا تھا۔۔

"آپ کو بہت غُصہ ہوگا نہ جس کے لیے لگتا تھا آپ کو کہ وہ کچھ نہیں دے سکتیں اور اُنہوں نے آپ کے لاڈلے پیارے بیٹے کو سزا دلوائی ہے۔۔دُکھ اور تکلیف تو ہوئی ہوگی۔۔۔۔،؟میشا اُن کے پاس بیٹھ کر سنجیدگی سے پوچھنے لگی۔۔

"ہمیں ہوتی تھی جب ناہوئے بیٹے کے غم میں آپ دُنیا میں موجود اپنی بیٹیاں فراموش کردیا کرتے تھے۔۔۔سوہان بنا اُن کو دیکھ کر بولی"آج اُن کا دن تھا اور اُنہوں نے بولنا تھا سالوں سے موجود اپنے سینے میں پڑا غبار نکالنا تھا۔۔۔

"میں جان گیا تھا کہ میں غلط تھا۔۔۔۔نوریز ملک کو اپنی آواز کھائی سے آتی محسوس ہوئی"دل دُھلانے والی خبر کے بعد یہ کیسا انکشافات تھا جو اُن پر ہوا تھا۔۔۔"دل میں اپنی بیٹیوں کو سینے سے لگانے کی تمنا جاگی تھی مگر اُن کو اپنا آپ ناکارہ محسوس ہوا ہلنے جُلنے کی صلاحیت اُن کو خود میں نظر نہیں آئی تھی۔۔۔

"کیسے مان لے؟"اگر مان بھی لے تو بھی آپ نے بہت بڑی دیر کردی۔۔۔خیر ہمارا مقصد آپ کو گلٹ میں ڈالنے کا نہیں تھا ہم بس اِتنا ثابت کرنا چاہتے تھے کہ اگر جتنی توجہ "جتنا اعتماد آپ لوگ بیٹے کو دیتے ہیں اگر ایسی توجہ ایسا اعتماد"ایسا مان بیٹیوں کو بھی بخش دے تو وہ آپ کو بتائے کہ وہ بھی کسی سے کم نہیں ہوتی۔۔۔میشا اپنی جگہ سے اُٹھ کر بے تاثر لہجے میں اُن سے گویا ہوئی تھی

"بیٹے کی چاہ نے آپ کو لے ڈوبا جس بیٹے کی چاہ میں آپ نے ہمیں ٹھکرایا آج نہ وہ آپ کے پاس ہیں اور نہ منت مُرداوں سے ملا بیٹا یہی زندگی ہے"آج آپ چیزوں کو ٹھکرائے گے اور کل وہ چیزیں آپ کو ٹھکراتی ہیں مگر بات تو پھر بھی یہاں ہماری ہے۔۔سوہان نے بھی طنز لہجے میں کہا

"آپ نے امی سے پوچھا تھا نہ کہ یہ بیٹیاں مجھے کیا دیکھ سکتیں ہیں؟میشا نے اُن کو دیکھ کر سنجیدگی سے پوچھا تو نوریز ملک اپنا سر شرمندگی کے مارے اُٹھا نہ پایا

"ہم ایک دوسرے کی ڈھال بن سکتیں ہیں"اپنی حفاظت اکیلے کرسکتیں ہیں"ہم نے خود کو اِتنا مضبوط بنالیا ہے کہ اب قیامت بھی گُزرجائے تو پتا نہیں چلتا"اور رہی بات دینے کی تو ہمیں اللہ نے رحمت بناکر اِس دِنیا میں بھیجا ہے اگر کوئی چاہے تو اِس رحمت سے سکون پاسکتا ہے۔۔۔"ہم بیٹیوں سے کسی کو عزت جانے کا ڈر نہیں ہوتا اور نہ شادی کے بعد مرد کو یہ فکر ستاتی ہے کہ میری کسی غلطی کی بدولت میری بیوی مجھے طلاق نہ دے مرد کو اولاد کی ٹینشن نہیں ہوتی یہ ساری فکریں عورت کے لیے ہوتیں ہیں کہنا چاہیے تو نہیں مگر بول دیتی ہوں نہ برداشت تو سب کچھ عورت کو کرنا پڑتا ہے پر جانے کیوں اللہ نے ہم سے ستر درجہ اُونچا آپ مردوں کو کیوں دیا ہے ۔۔"خیر ہم چاہے آپ کو کچھ نہیں دے سکتیں کیونکہ آپ کو کچھ بھی دینے کے لیے ہمارے ہاتھ خالی ہیں"پر ہاں ہم دوسروں کے لیے بھلا ضرور کرسکتے ہیں مگر آپ نے ہمیں دُکھ اور تکلیفوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں دیا اِس لیے ہم سے کسی بھی چیز کی توقع کبھی بھی مت رکھیئے گا۔۔۔"اور واقع جو آپ کے بیٹے نے آپ کو دیا ہے وہ ہم کبھی نہ دے پاتیں آپ کے بیٹے نے ساری عمر کے لیے جو داغ آپ کے ماتھے پر لگایا ہے نہ وہ کبھی نہیں دُھلے گا۔۔۔"آپ سوچ رہے ہوگے فراز کو پچیس یا تیس سال کی سزا کیوں نہیں ہوئی ڈائریکٹ موت کیوں ملی؟"تو وہ اِس لیے کہ آپ امیر لوگ ہیں جیسے تیسے کرکے اپنے سپوت کو قید سے راہ کروالیتے جو کشف نہیں چاہتی تھی اور اُس نے سزائے موت چاہی تھی وہ نہیں چاہتی تھی کہ اُس کا مجرم کہی بھی سانس لے۔۔"اور ایک بار مرنا بہت آسان ہوتا ہے آپ ٹینشن نہ لو ورنہ قرآن پاک میں بہت اچھا قانون رکھا ہے موت میں تو ایک بار درد سہنا پڑے گا مگر سؤ کوڑوں کی سزا موت سے بھی زیادہ بدتر ہوتی ہے۔۔۔۔میشا نے آج کوئی لحاظ نہیں کیا تھا اپنی محرومیوں کا حساب اُن کے اِس طرح سے لینا چاہا تھا وہ چاہتی تھی کہ نوریز ملک کو احساس ہو کہ جن بیٹیوں کو اُن کے باپ ٹھکرادیتے ہیں وہ پھر ساری عمر در در کی ٹھوکریں کھایا کرتیں ہیں"جن بیٹیوں پر باپ کے در کے دروازے بند ہوجایا کرتے ہیں تو انسان کے خول میں چُھپے جانور اُن کو بُری طرح سے نوچ لیتے ہیں۔۔۔"وہ اُن کو بتانا چاہتی تھی آپ نے تو اپنی ساری زندگی اور یہ سال بہت پرسکون طریقے سے گُزارے مگر اُنہوں نے بہت کچھ سہا تھا۔۔۔"ہر جگہ بھانپ بھانپ کر قدم رکھا تھا

"معاف کردو۔۔۔دونوں کی باتوں کو سن کر نوریز ملک نے اُن کے آگے ہاتھ جوڑے تو میشا اور سوہان ایک دوسرے کا منہ تکتی نوریز ملک کو دیکھنے لگیں جو اُن کا باپ تھا اور سالوں بعد جب وہ اُس سے حساب لینا چاہ رہی تھیں تو کیسے وہ معافی مانگ کر ہر چیز کو درگُزر کرنے کے چکروں میں تھا۔۔کیا اُن کا ایک معافی مانگنے سے اُن بہنوں کی زندگی میں بہاریں آجاتی؟"یا اُن کا بچپن لوٹ آتا؟"کیا اُن کی معافی سے وہ بیس سال پیچھے جاکر ہسپتال کے اُس کوریڈرز میں پہنچ جاتیں؟"جہاں اُن کا باپ تیسری بیٹی کا سُن کر اُن کو بے آسرا چھوڑ کر چلاگیا تھا"یا پھر وہ اُس گھڑی میں آجاتیں جہاں اُن کے باپ نے بڑے غرور اور سنگدلی سے اُن کو کہا تھا کہ اُن کی حویلی سے نکل جائے۔۔۔"کیا اُن کے ایک لفظ معافی سے سب کچھ ٹھیک ہوسکتا تھا؟

"کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوسکتا تھا جو گُزرگیا وہ اُن کا کل تھا جن کو وہ چاہنے کے باوجود نہ سنوار سکتیں تھیں اور نہ آج میں تبدیل کرسکتیں تھیں۔۔۔"معافی لفظ اُن کو خود پر ہنستا ہوا نظر آیا یعنی آپ لوگوں کے احساسات اور جذبات کا قتل کرڈالوں پھر دیدہ دلیری سے معافی کا بول کر سب کچھ بھول کر آگے بڑھ جاؤ کیا اِتنا سب آسان ہے جتنا اُن کے باپ نے سمجھا ہوا تھا یا آخر معافی وہ مانگ کس منہ سے رہے؟اُن کو تو سوچ کر بھی عجیب لگنے لگا۔۔۔

سوری کیا کہا آپ نے؟سوہان کو لگا شاید اُن سے سُننے میں غلطی ہوئی ہے

اگر میں غلط نہیں تو اِنہوں نے لفظ معافی کا استعمال کیا ہے۔۔۔۔میشا نے کہا تو سوہان کے چہرے استہزائیہ مسکراہٹ آئی

"ہمارے معافی سے کیا ہوگا؟اور سچی بتائیے گا آپ کو عجیب نہیں لگا بیس سال بعد ہماری اتفاقً ہوئی مُلاقات پر معافی مانگ کر آپ خود کو صاف کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔۔"آپ کو اپنی غلطیوں کا زرا احساس نہیں۔۔۔سوہان نے رنجیدگی سے پوچھا تھا جانے کتنے آنسوؤ اُس کی آنکھوں سے گِرکر بے مول ہوئے تھے

"ای ایسا نہیں ہے بس ہمت نہیں نظریں اُٹھانے کی۔۔۔نوریز ملک کی اپنی حالت قابلِ رحم تھی زندگی نے آج جس مقام پر اُن کو لاکر کھڑا کیا تھا اُس میں وہ جان نہیں پائے کہ کیسا ری ایکشن دے اور وہ خود پر حیرت زدہ تھے کہ وہ کیسے اپنی بیٹیوں کو جان نہیں پائے کیسے اُن کی خوشبو کو پہچان نہیں پائے؟"یہ خیال آتے ہی وہ چونک اور اپنی سوچ پر خود ہی شرمندہ سے ہوگئے

"خوشبو کو کیسے وہ پہچان لیتے؟"کیا اُنہوں نے اپنی بیٹیوں کی خوشبو کو اپنے سینے میں جذب کیا تھا یا کبھی اُن پر ایسی غور وفکر کی تھی جو وہ پل بھر میں پہچان بھی لیتے اُن کو احساس ہورہا تھا کہ ماضی میں جو کوتاہی اُنہوں نے کی تھیں جو کچھ اپنی پھول جیسی بیٹیوں کے لیے کیا تھا ایسا کوئی ظالم بادشاہ بھی اپنی بیٹیوں کے ساتھ نہیں کرتا تھا

"آپ کو سراُٹھانا چاہیے بھی نہیں میں عام بیٹی ہوتی تو دوسری بیٹیوں کی طرح آج میں بھی دعوے سے کہہ سکتی کہ میں اپنے بابا کا غرور ہوں"مگر آپ نے ہم میں سے کسی کو یہ حق نہیں دیا اور یہاں معاف ہم کر بھی دے تو اللہ آپ سے ہمارا پل پل کا حساب ضرور لے گا۔"ہماری چھوٹی بہن فاحا جو اسکول کی گیٹ پر اپنی عمر کی لڑکیوں کو ترسی نگاہوں سے دیکھا کرتی تھی کیونکہ اُن کو چھوڑنے اُن کے والد آیا کرتے تھے اُن کا پاؤں اپنے گُھٹنے پر رکھ کر شوزلیس باندھا کرتے تھے اُس نے کبھی شوز لیس باندھنا نہیں سیکھا کیونکہ بچپن میں اُس کو لگا تھا کہی سے اُس کا باپ آئے گا اور باقیوں کی طرح اُس کے شوزلیس باندھے گا ۔۔میشا نے پہلے تو طنز لہجے میں کہا تھا مگر آخر میں اُس کی آواز میں نمی گُھلنے لگی تھی

میشو بیٹا

پلیززززز مجھے بیٹا نہ کہو میں بیٹی نہیں ہوں آپ کی۔۔۔۔نوریز ملک نے کچھ کہنا چاہا تھا مگر میشا نے چیخ کر اُن کی بات کو درمیان میں کاٹ لیا تھا۔۔

"ایسا مت کہو۔۔۔نوریز ملک تڑپ اُٹھے

آپ واقع ایسا بول رہے ہیں یعنی ہم نہ بولے مگر آپ جو چاہے ہمارے مطلق بول سکتے ہیں"آپ کو یاد ہے یہ وہ میشا ہے جو آخری بار آپ کی حویلی میں جب آئی تھی تو اِس کو چوٹ آئی تھی اور یہ بھاگ کر آپ کی ٹانگوں سے چمٹ گئ تھی مگر آپ نے چوٹ دیکھنا تو گوارا نہیں کیا تھا اُلٹا میشو کو کسی اچھو کی طرح خود سے پرے کرلیا تھا۔سوہان پُرانہ وقت یاد کیے اُن سے بولی

"میں بہک گیا تھا۔۔۔نوریز ملک نے بھیگی نظروں سے دونوں کو دیکھا

اور ہم رُل گئے تھے۔۔۔۔سوہان کا لہجہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا تھا۔

"مرد تو اپنے وجود کو حصے کو رُلنے کے نہیں چھوڑتا اور اگر کوئی مرد اپنی عورت کو طلاق دے بھی تو اُس کو حق مہر کے ساتھ روانہ کرتا ہے اور ساتھ میں اُن کے لیے گھر کا بندوبست بھی کرتا ہے یہی اصل مرد کی نشانی ہے مگر آپ نے ہم سب کو کندھوں سے بوجھ سمجھ کر اُتارا تھا۔۔۔حویلی سے نکلنے کے بعد امی ہمیں اپنی دوست کی طرف لے گئ اور پتا ہے آپ کو وہاں کیا ہونے لگا تھا؟میشا نے بات کرتے کرتے آخر میں اُن سے پوچھا تو شرمندگی کے مارے اُن سے اپنا سر نفی میں ہلایا تک نہیں گیا

سوری آپ کو کیسے پتا ہوگا آپ کونسا ہماری خبرگیری رکھتے تھے خیر تب سوہان آٹھ سال کی تھی اور وہاں ایک آٹھ سال کی بچی کو محض ہراس نہیں کیا گیا بلکہ ایک چالیس سالہ مرد نے اُس سے اپنی ہوس کو مٹانا چاہا تھا آپ کے ایک غلط فیصلے کی وجہ سے آٹھ سالہ بچی سے پہلا قتل ہوا تھا"اُس سے اُس کی معصومیت چِھن گئ تھی۔۔۔میشا نے اِس بار جو کہا اُس پر نوریز ملک کا ہاتھ بے ساختہ اپنے سینے پر پڑا تھا شاید اُن میں اب مزید کچھ سُننے کی سکت نہیں بچی تھی ۔وہ بس پھٹی پھٹی نظروں سے سوہان کو دیکھنے لگے جس کا چہرہ آنسوؤ سے تر تھا۔۔

سس سوہان۔۔۔۔نوریز ملک سے کچھ بولا نہیں گیا تھا اور وہ اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے نیچے گِر پڑے تھے۔۔۔"جس پر اُن دونوں کے ہاتھ پاؤں بُری طرح سے پُھول گئے تھے۔۔

"آپ کو کیا ہوا؟"سوہان پریشانی سے اُن کے پاس جُھکی تھی مگر جانے کیوں لفظ"بابا"کہنے کی ہمت اُس میں نہیں تھی

اُٹھو فاحا اکیلی ہے گھر پر ہمارا انتظار کررہی ہوگی۔۔۔میشا نے سنجیدگی سے اُس سے کہا

پاگل ہے نظر نہیں آیا یہ بیہوش ہوکر نیچے گِرچُکے ہیں۔۔۔سوہان نے افسوس سے اُس کو دیکھا

یہ سالوں پہلے ہماری نظروں سے گِرچُکے ہیں۔۔۔میشا نے جتاتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا تو سوہان نے سختی سے اپنے ہونٹوں کو بھینچ لیا تھا۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

گاڑی روکو۔۔۔۔اسیر جو گاؤں جانے لگا تھا اُس نے جب مین روڈ پر فاحا کو اکیلا کھڑا دیکھا تو ڈرائیور سے کہا تو اُس نے جلدی سے اسیر کے حکم کی پیروی کی۔۔۔

"گاڑی رُکنے پر اسیر ملک اُتر کر فاحا کے سامنے کھڑا ہوا

"ایک دن میں ملنے کا اتفاق نہیں ہوتا کہی آپ میرا پیچھا تو نہیں کررہے؟"دیکھے اگر ایسا ہے تو میں بتادوں میری بہن منہ توڑنے میں وقت نہیں لگاتی اور میں نہیں چاہتی آپ کا یہ وجیہہ چہرہ اُس کے ہاتھوں شہید ہو۔۔۔۔اسیر محض سامنے آنا تھا اور فاحا شروع ہوئی تھی

"آپ کو ایسی خوشفہمی کیوں لاحق ہوئی؟اسیر نے اپنے کندھوں پر اوڑھی چادر کو درست کیے اُس کو گھورا

"ایسا ہوسکتا ہے فاحا کو معصوم سمجھ کر لوگ اُس کو پھسانے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔۔۔فاحا نے اپنا لہجہ مضبوط بنایا

یہاں کیوں کھڑی ہیں؟اسیر نے اُس کی بات کو نظرانداز کیا

ٹانگوں میں پانی زیادہ ہے اِس لیے۔۔۔فاحا نے معصومیت سے جواب دیا

گاڑی میں بیٹھے ہم چھوڑ آئینگے آپ کو گھر آج آپ کو ویسے بھی کوئی سواری نہیں ملنے والی۔۔۔اُس کے جواب پر اسیر نے گھور کر کہا

سواری ملے گی کیوں نہیں ملے گی اور میں کیوں آپ پر بھروسہ کرکے گاڑی میں بیٹھ جاؤں میں ٹیکسی کرواکر گھر جاؤں گی۔۔۔۔فاحا اپنی جگہ بضد ہوئی

پہلی بار نہیں بیٹھنے والی ہماری شکل کیا کسی ٹیکسی والے سے بھی گئ گُزری ہے جو آپ یوں نخرے دیکھا رہی ہیں۔۔۔۔اسیر کو اُس پر تاؤ آیا

سواری لوگ ڈرائیور کی شکل سے متاثر ہوکر تھورئی لفٹ لیتے ہیں۔۔۔فاحا نے اپنی طرف سے پتے کی بات بتائی مگر اسیر کچھ اور ہی سمجھ بیٹھا تھا

"محترمہ ہم تمہیں کہاں سے ڈرائیور لگتے ہیں؟اسیر نے کڑے چتونوں نے اُس کو گھورا جیسے اگر فاحا نے اُس کو سہی جواب نہیں دیا تو وہ اُس کو کچا چبا جائے گا۔

"اللہ اللہ آپ تو بال کی خال اُتارنے لگ جاتے ہیں میں نے کب آپ کو ڈرائیور کہا؟"میں نے بس یونہی مثال دی خیر آپ دل پہ نہ لے میں بیٹھتی ہوں مگر اُس سے پہلے فاحا گاڑی کا نمبر میسج پر اپنی بہنوں کو سینڈ کرے گی۔۔۔فاحا کانوں کو ہاتھ لگائے کہتی گاڑی کا کی پک لینے لگی اور اُس کا نمبر نوٹ کرنے لگی تو اپنے بالوں میں ہاتھ پھیر کر اسیر نے ضبط سے اُس کو دیکھا جو مگن انداز میں اپنا کام کررہی تھی

اِس حرکت کی وجہ؟اسیر نے دانت پیس کر اُس کو دیکھا

آپ میرے چچا کے بیٹے تو نہیں جو میں منہ اُٹھا کر گاڑی میں بیٹھ جاؤں اور آپ پر بھروسہ کرلوں۔۔۔"میں نے یہ نمبر اور تصویر اپنی بہنوں کو بھیج دی ہیں اگر آپ نے مجھے اغوا کرنے کا سوچا تو پولیس آپ کو پکڑ لے گی۔۔فاحا نے پرجوش انداز میں اُس کو بتایا

گذشتہ وقت میں یہی منہ تھا آپ کا جس کو لیکر آپ بیٹھیں تھیں۔ ۔۔۔اسیر کو لگا شاید وہ بھول گئ ہے تبھی یاد کروایا۔ ۔۔۔

"تب کی بات اور تھی میں مومو کے غم میں تھی مگر اب تو ہوش وحواسوں میں ہوں نہ۔ ۔۔فاحا نے اہم وجہ بتائی

آپ کا پروسیس ختم ہوگیا ہو تو گاڑی میں بیٹھ کر اُس کو شرف بخشے۔ ۔۔۔اسیر سرجھٹک کر کہتا خود گاڑی میں بیٹھ گیا۔

اچھا ایک بات بتائے آپ کو اسکول میں کلاس کے دوران یادہ کھڑے ہونے پر کبھی ٹیچر نے آپ کو یہ کہا کے"کیا تمہاری ٹانگوں میں پانی زیادہ ہے؟یقین کرے میری ٹیوشن کی والی باجی نے بہت بار مجھ سے یہ بات پوچھی۔۔۔۔گاڑی میں بیٹھ کر فاحا نے چہک کر اُس سے پوچھا تو اسیر نے ضبط سے اُس کو دیکھا تھا۔

❤❤❤❤❤❤❤

آپ کے پاس عقل ہے؟اسیر نے بڑے تحمل کا مُظاہرہ کیا

"عقل؟اپنے سوال کے جواب میں فاحا کو اسیر کا یہ سوال سمجھ نہیں آیا

آپ کی حیرانگی سے اندازہ ہورہا ہے جیسے آپ نے یہ لفظ آج پہلی بار سُنا ہے۔۔۔اسیر نے اُس پر طنز کیا

"آپ نے کبھی عقل کو دیکھا ہے؟جواب میں فاحا نے اُس کو دیکھ کر بڑے سنجیدہ انداز میں پوچھا

عقل کو دیکھا؟اِس بار اسیر تھوڑا حیران ہوا

"آپ کی حیرانگی سے اندازہ ہورہا ہے جیسے ساری عمر آپ بھی عقل دیکھنے سے محروم رہے ہیں۔۔فاحا نے پل بھر میں حساب بے باک کیا تو اسیر نے دانت کچکچاکر اُس کو دیکھا

آپ اب کوئی بات مت کیجئے گا ورنہ چلتی گاڑی سے آپ کو باہر پھینک دوں گا۔۔۔اسیر نے اُس کو وارن کیا

لاوارث نہیں ہوں میں۔۔۔فاحا کو اُس کی بات پسند نہیں آئی

چُپ ہوجائے پلیز۔۔۔اسیر کی بس ہاتھ جوڑنے کی کسر رہ گئ تھی۔۔

"اللہ نے زبان بولنے کے لیے دی ہے مگر پتا نہیں کیوں ہر کوئی خاموش رہنے کا کہتا ہے۔۔۔فاحا منہ بناتی آہستہ سے بڑبڑائی تھی۔۔

❤Rimsha Hussain Novels❤

کلاس روم میں موجود ہر اسٹوڈنت پروفیسر کا لیکچر سُننے میں مصروف تھا مگر ایک عاشر تھا جس کی نظریں بار بار لالی پر بھٹک رہی تھی جو اپنے چہرے پہ گِرتی آوار لٹوں کو کان کے پیچھے اُڑسنے میں تھی۔۔"یہی وجہ تھی وہ اپنا دھیان لیکچر میں نہیں لگا پارہا تھا۔۔۔

عاشر؟؟؟پروفیسر نے شاید اُس کی عدم دلچسپی محسوس کرلی تبھی اُس کو مُخاطب کیا"مگر عاشر کی طرف سے اُن کو کوئی جواب نہیں ملا

"عاشر۔۔۔۔۔اِس بار پروفیسر نے پین اُس کی طرف پھینکی تو عاشر ہوش میں آیا جبکہ کلاس میں ہلکی کھی کھی کی آواز پر عاشر خجلت کا شکار ہوتا اُٹھ کھڑا ہوا

جی پروفیسر؟عاشر اُن کی طرف متوجہ ہوا

"میں کیا پڑھا رہا ہوں؟اُنہوں نے سنجیدگی سے پوچھا

آپ کیا پڑھا رہے ہیں؟عاشر نے اُلٹا اُن سے سوال کیا تو کلاس میں موجود اسٹوڈنٹس نے ایک بار پھر قہقہہ لگایا تھا۔۔۔

سائلنس اور آپ۔۔۔پروفیسر ایک سخت نظر پورے کلاس میں ڈال کر عاشر کو دیکھنے لگے جو اپنے کان کی لو کھجانے میں تھا

جی۔۔۔۔عاشر نے فرمانبرداری سے کہا تو پروفیسر تپ اُٹھا

آپ باہر جائے۔۔۔پروفیسر نے اُس کو باہر کا راستہ دیکھایا

باہر مگر کیوں؟عاشر سمجھ نہ پایا

کلاس لینے میں انٹرسٹ تو آپ کا ہے نہیں تو برائے مہربانی فالتو میں بیٹھ کر ہم پر احسان نہ کریں۔۔پروفیسر نے کہا تو عاشر شرمندہ ہوتا لالی کو دیکھنے لگا جو اپنے کتاب پر نظریں جمائے بیٹھی تھی اُس کی بے نیازی عاشر کو پسند نہیں آئی تھی جبھی پروفیسر سے بنا کوئی بحث کیے وہ کلاس روم سے باہر چلاگیا تھا۔۔۔۔

❤Rimsha Hussain Novels❤

تمہیں نوریز کے ساتھ جانا چاہیے تھا آخر کو چھوٹا بھائی ہے تمہارا اور تم نے اُس کو ایسے اکیلا کورٹ جانے دیا۔۔۔۔عروج بیگم افسوس سے سجاد ملک کو دیکھ کر بولیں جو سگار پہ سُگار پھونکے جارہے تھے۔۔

"آپ جانتی ہیں آج تک ہم نے کبھی کورٹ کچھری کے جھملوں کو نہیں دیکھا تو آج کیسے ہم وہاں جاتے آپ بھی ٹینشن نہ لو ایک دو پیشی کے بعد فراز رِہا ہوجائے گا۔۔۔"سجاد ملک نے اُن کی تسلی کروائی

ہمارا دل نہیں مانتا ہمیں تو بے چینی ہورہی ہے تم ایک مرتبہ اُس کو کال کرکے دیکھو اور پوچھو کہ کیا ہوا؟عروج بیگم کے چہرے پر پریشانی سے بھرپور تاثرات تھے

"ابھی ہوسکتا ہے موبائل بند ہو میں پھر کال پر آپ کی بات کرواؤں گا فکر نہیں کرو"آج تک کسی نے ملک خاندان کا کچھ نہیں بگاڑ پایا تو پھر اب کیسے کوئی جُرئت کرپائے گا۔۔۔سجاد ملک کے لہجے میں غرور تھا"جبھی اُن کا سیل فون رِنگ کرنے لگا تو وہ اُن کی طرف متوجہ ہوئے جہاں اُن کے لیے کوئی خاص خبر نہیں تھی۔۔

❤Rimsha Hussain Novels❤

کہاں جارہی ہو؟سوہان نے ہوسپٹل سے میشا کو جاتا دیکھا تو سنجیدگی سے پوچھا

کیا مطلب کہاں جارہی ہو؟"تمہیں کیا واقعی میں نہیں پتا کہ میں کہاں جارہی ہوں؟میشا نے سپاٹ تاثرات چہرے پر سجائے اُس کو دیکھا

کام ڈاؤن میشو۔۔۔سوہان نے اُس کو پرسکون کرنا چاہا

سوہان تمہارے اندر اِن کی ایکٹنگ پر نرم گوشہ بحال ہوا ہوگا مگر میرے اندر اِن کے لیے کوئی احساسات نہیں ہیں اِن کے گاؤں کے آدمیوں نے حویلی میں خبر پہنچا دی ہوگی اِس لیے تم بھی آؤ میرے ساتھ یہاں تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔میشا نے سنجیدگی سے اُس کو دیکھا

ڈاکٹر کا تو ویٹ کرو تاکہ پتا تو چلے اُن کو ہوا کیا تھا۔۔۔سوہان نے تحمل کا مُظاہرہ کیا

جوان بیٹے کو سزائے موت ہوئی ہے تو ظاہر سی بات ہے صدمہ لگ پڑا ہے تمہیں خوشفہم ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہمارے غم میں نڈھال ہوئے پڑے ہیں۔۔۔میشا نے طنز کہا

مجھے ایسی کوئی خوشفہمی نہیں ہے میں جو بھی کررہی ہوں"وہ محض ایک انسانیت کے طور پر کررہی ہوں۔۔۔سوہان نے اِس بار سنجیدگی سے کہا

تمہارے لیے بھی اچھا یہی ہے اور میں کیفے جارہی ہوں۔۔۔میشا نے آخر میں بتایا

تمہیں تو گھر جانا تھا۔۔سوہان نے یاد کروایا

مینجر کا فون آیا تھا۔۔"آج کیفے میں کام زیادہ ہے میری وہاں ضرورت ہے۔۔میشا نے اپنے جانے کی وجہ بتائی

ٹھیک ہے دھیان سے جانا ہے۔۔سوہان نے کہا

ہممم اور تم بھی یہاں سے جلدی نکلنا"درد اور تکلیفوں کے علاوہ اِس شخص نے ہمیں کچھ بھی نہیں دیا۔۔۔میشا اِتنا کہہ دینے کے بعد وہاں سے چلی گئ تو سوہان نے گہری سانس ہوا کے سُپرد کی

❤Rimsha Hussain Novels❤

کیفے پہنچ تو گئ تھی میشا مگر آج اُس کا دل نہیں چاہا کوئی بھی کام کرنے کا جبھی وہ کیفے پاس ایک دُکان پر کھڑی تھی اُپر چھت پر کچھ آدمی پانی سے بھرے ڈرمز کو سائیڈ پر کرنے کی کوشش کررہے تھے"جس کے نیچے میشا کھڑی پر توجہ میشا نے نہیں دی تھی اور عین اُسی وقت اُن آدمیوں سے وہ ڈرم پھسلا تھا جس پر اُن دونوں کے چہرے کی ہوائیاں اُڑ گئ تھی۔۔

"میڈم جی پرے ہٹ جاؤ۔۔۔۔ایک نے اُونچی آواز میں کہا تو میشا بنا کچھ سوچے سمجھے اُس آواز کو سن کر سائیڈ پر ہوئی تھی۔۔"جب ڈرم نیچے گِرا تو وہ شاک کی کیفیت میں کبھی اُس کو دیکھتی تو کبھی اُپر۔۔"

ہائے اللہ اگر میں نہ ہٹتی تو؟میشا سے آگے سوچا بھی نہیں گیا تھا اور بے ساختہ اُس کو جھرجھری سی آئی تھی اور وہاں لوگوں کا رش جمع ہوگیا تھا۔۔

"تم ٹھیک ہو بیٹا؟

"چوٹ تو نہیں آئی کہی؟

باری باری ہر کوئی اُس کو دیکھتا پوچھنے لگا


"کیا ہوا ہے یہاں؟آریان اپنی گاڑی پارکنگ ایریا میں پارک کرتا باہر آیا تو ایک جگہ رش دیکھ کر اُس نے آدمی سے پوچھا

وہ جی میشا ہے نہ اُس پر ڈرم گِرنے والا تھا

"واٹ ڈرم؟آدمی ابھی اِتنا بولا تھا جب فکرمندی سے آریان اُس کی بات کاٹ گیا تھا۔

ہاں وہ مگ

میں دیکھتا ہوں۔۔۔آریان آدمی کی مزید کچھ سُنے وہاں کی طرف بھاگنے والا انداز میں جانے لگا جہاں میشا موجود تھی"آریان وہاں آیا تو سب لوگ باری باری وہاں سے جانے لگے تھے جن کو نظرانداز کیے آریان میشا کی طرف آیا


"میں نے سُنا تم پر ڈِرم گِرنے والا تھا تم ٹھیک تو ہو؟اور کس نے بچایا تمہیں؟آریان فکرمندی سے اُس کو دیکھ کر بولا آج اُس کے لہجے میں شوخ پن نہیں تھا

کیا مطلب کس نے بچایا؟کسی فلم کی شوٹنگ نہیں ہورہی تھی جو میں وہاں کھڑی ہوتی خود پر ڈِرم گرنے کے انتظار میں ہوتی ڈِرم اب گِرا کے جب گِرا اور عین موقعے پر کوئی اور(ہیرو)بچانے آجاتا خود ہی سائیڈ پر ہوگئ تھی۔۔۔۔اپنا بازو چیک کرتی وہ میشا اُس کو گھور کر بتانے لگی"پہلے ہی آج اُس کے مزاج میں سردپن تھا اُپر سے آریان کا سوال اُس کو نامعقول لگا تھا۔۔۔

"کیا ہوا ہے؟آریان کو وہ روز کی نسبت میشا کچھ اُلجھی ہوئی نظر آئی

تمہیں کیا؟پھاڑ کھانے والے انداز

"تم اِتنا روڈ کیوں ہو؟"میں یہاں اِتنے پیار سے تم سے بات کررہا ہوں اور تمہارا اٹیٹیوڈ ہی ختم نہیں ہورہا۔۔۔آریان نے اِس بار جواباً گھور کر اُس سے بات کرنے لگا

"تم میرے کون ہوتے ہو جو میں تمہیں بتاتی پِھیروں کے میری زندگی میں کیا ہورہا ہے اور کیا نہیں۔۔۔میشا کا انداز ہنوز اکتاہٹ سے بھرپور تھا

تو طے ہے تم پیدائشی بداخلاق اور"بے مروت لڑکی ہو۔۔آریان تاسف سے سر دائیں بائیں ہلاکر بولا تو میشا کے سر پہ لگی اور تلوؤ بُجھی

"یہ تم نے بداخلاق اور بے مروت کس کو بولا؟میشا اُس کی طرف پلٹ کر گھور کر بولی تو آریان نے آج اُس کی آنکھوں کو قریب سے اِتنا غور سے دیکھنے لگا

"کیا تم روئی ہو؟آریان نے بغور اُس کو دیکھ کر پوچھا

روئے میری جوتی۔۔۔"ہونہہ۔۔میشا چوری پکڑنے جانے پر گڑبڑا گئ اُس کو اندازہ نہیں تھا کہ آریان اِتنی جلدی اُس کو ازبر کرجائے گا

"واہ تمہاری جوتی روتی بھی ہے خیر سے یونیک چیزیں ہیں تمہاری اور تمہیں پتا ہے کیا؟آریان مصنوعی حیرانگی کا اِظہار کرتا آخر میں ایک قدم اُس کی طرف بڑھائے بولا

کیا؟میشا نے بیزاری سے اُس کو دیکھا

تمہاری آنکھیں بہت پیاری ہیں اِن میں ڈوبنے کو جی چاہتا ہے۔۔۔۔آریان فسوں خیز لہجے میں بولا تو میشا کو اُس کے ایسے کمنٹ پر آریان پر تاؤ آیا تھا"

"تو ڈوب کر مرجاؤ نہ کفن دفن اور تذفین کا بندوبست میں کردوں گی اُس کے لیے تم فکرمند نہ ہو۔۔میشا نے دانت پیس کر کہا تو آریان خاصا بدمزہ ہوا تھا

یار کتنی بورنگ لڑکی ہو تم مطلب ایسا کون کرتا ہے؟"اچھا خاصا رومانٹک موڈ بن گیا تھا۔۔۔آریان کو جھرجھری سی آئی

تمہارے نہ اِس رومانٹک موڈ کی ایسی کی تیسی۔۔۔میشا سرجھٹک کر جانے لگی جب آریان ہمیشہ کی طرح اُس کے راستے میں حائل ہوا

"راستہ چھوڑو میرا۔۔۔میشا نے سنجیدگی سے کہا

"پہلے میری ایک بات کا جواب دو"تم آخر کیوں اِس طرح مجھے اوائیڈ کرتی ہو؟آریان نے جاننا چاہا

"میں تمہارے آگے جواب دینے کی پابند نہیں ہوں۔۔۔میشا نے جتایا

شادی کے بعد ہوجاؤ گی پابند ٹینشن کیوں لیتی ہو؟"آریان کو پھر سے دورا پڑا

بہت بدتمیز ہو تم۔ میشا نے اُس کو دیکھ کر دانت پیسے


"بہت ملیں گے تمہیں اداب و آداب والے

مگر یاد آئیں گی بدتمیزیاں ہماری"


آریان جواباً شاعرانہ انداز میں بولا تو میشا نے بڑی مشکل سے اپنے اندر امڈنے والے اشتعال کو دبایا تھا۔

❤❤

"تم یہاں کیسے؟یونیورسٹی سے عاشر اپنے گھر آیا تو وہاں فاحا کو دیکھ کر تھوڑا حیران ہوا

آنٹی شہر سے باہر ہیں اور آپو والے کورٹ میں ہیں تو میں یہاں آگئ فاحا کو اکیلے رہنا پسند نہیں ہوتا نہ۔۔۔فاحا نے اُس کو اپنی موجودگی کی وجہ بتائی

"تم انسٹی ٹیوٹ نہیں گئ تھی کیا آج؟عاشر صوفے پر رلیکس انداز میں بیٹھ کر اب اُس سے باتیں کرنے لگا

"فاحا ٹیسٹ کی تیاری میں مصروف ہے۔۔۔فاحا نے بتایا

اچھا تو یہ بات ہے خیر میں تمہیں کچھ بتانا چاہتا ہوں۔۔عاشر نے اِس بار رازدرانہ انداز میں کہا

"اچھا اور وہ کیا؟فاحا پرجوش ہوئی

"میں نے لالی کا تمہیں بتایا تھا نہ۔۔۔عاشر نے کہا

مجھے یاد ہے وہ۔۔۔فاحا جھٹ سے بولی

آج میں اُس کی وجہ سے کلاس سے باہر نکالا گیا۔۔۔۔عاشر نے بتایا

باہر کیوں کیا ہوا تھا؟فاحا کو اُس کی بات کچھ خاص سمجھ نہیں آئی تبھی پوچھا

"یار بتایا جو اُس کا بار بار چہرے پر سے بال ہٹانا مجھے پاگل کردیتا ہے۔۔۔"اور میں کسی اور کام میں دھیان نہیں دے پاتا۔"تم کوئی حل دو نہ اِس مسئلے کا۔۔۔عاشر نے کہا تو فاحا نے سمجھنے والے انداز میں سر کو جنبش دی

"آئیڈیا۔۔۔فاحا اچانک پرجوش ہوئی

کیسا آئیڈیا؟عاشر چونک اُٹھا

آپ نہ اُس کو بالوں والی ایک پِن گفٹ کریں جیسے سے اُس کے بالوں لٹیں اُس میں قید ہوجائے گی اور آپ کا دھیان بھی وہاں نہیں بھٹکے گا"پھر بتائے کیسا لگا فاحا کا آئیڈیا؟فاحا نے پرجوش لہجے میں بتانے کے بعد آخر میں اُس سے پوچھا تو عاشر جو بڑے غور سے اُس کو سُن رہا تھا اچھا خاصا بدمزہ ہوا تھا

"اِس سے زیادہ تمہیں کوئی اور فلاپ آئیڈیا نہیں ملا؟عاشر نے طنز کیا

اچھا مجھے کچھ اور سوچنے دے ویسے فاحا کو بھوک بھی لگی ہے آپ کچھ کھانے کو لائے کیا پتا اُس کے باوجود میرا دماغ سؤ اسپیڈ کا کام کرے۔۔۔فاحا نے منہ بسورے کہا

ہاں جاؤ کچھ پکا آؤ میں بھی بھوکا ہوں۔۔۔عاشر نے اُس کو اُٹھنے کا کہا تو فاحا نے اُس کو گھورا

اچھے بھائی لوگ اپنی مہمان بہنوں سے کام نہیں کروایا کرتے۔۔۔۔فاحا نے اُس کو مکھن لگانا چاہا

بھائیوں کا گھر ہمیشہ اپنی بہنوں کا ہوتا ہے اِس لیے وہ جب جی چاہے آ جا سکتی ہیں اور دل کھول کر کام بھی کرسکتی ہیں۔۔۔۔"اِس لیے تم جاؤ اور لذیذ لنچ تیار کرو آج ہم دل کھول کر کھانا کھائے گے اور کیا پتا تب تک وہ دونوں بھی آجائے۔۔۔۔عاشر نے اُس کی بات پر کان نہیں دھڑے

"اللہ اللہ توبہ ہے۔۔۔فاحا کا منہ بن گیا

میں نوٹ کررہا ہوں جیسے تم میشا کی طرح کام چور ہوتی جارہی ہو۔۔۔عاشر نے اُس کو گھورا

اب ایسا بھی نہیں پڑھ پڑھ کر فاحا بیچاری تھک جاتی ہے۔۔۔۔فاحا نے کہا تو عاشر نے آئبرو اُچکائے اُس کو دیکھا

"میں مدد کروادوں گا ابھی چلو۔۔۔عاشر نے گویا احسان کیا

"ٹھیک ہے مگر اُس سے پہلے میری ایک بات کا جواب دے۔۔۔فاحا نے کہا

کونسی بات؟عاشر نے سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھا

"ریپ کی سزا کیا ہوتی ہے پاکستان میں؟فاحا نے پوچھا

"ایک بیریسٹر کی بہن ہوکر یہ سوال تم مجھ سے پوچھ رہی ہو۔۔۔عاشر نے اُس کی ناک دبائی

بتائے نہ۔۔۔۔فاحا نے ضد کی

"پاکستانی قوانین کے تحت پاکستان میں ریپ کی سزا یا تو سزائے موت ہے یا دس سے پچیس سال کے درمیان قید ہے۔ اجتماعی عصمت دری سے متعلق مقدمات کی سزا یا تو سزائے موت یا عمر قید ہے۔"گینگ ریپ میں لائیف" imprisonment "یا death penalty ہے۔۔

obviously overhang

لیکن عمر قید میں بارہ گھنٹے کے دن کو چوبیس گھنٹے کے دن میں consider کیا جاتا ہے تو آگے چوبیس گھنٹوں کا پورا دن 48 گھنٹوں میں consider جاتا ہے ایک دن کو دو دِنوں میں consider کیا جاتا ہے ایسے لائیف imprisonment سات سالوں کی ہوتی ہے"ویسے سزا چودہ سالوں کی بنتی ہے"اور ایک ہوتی ہے تاحیات عمر قید اُس میں ساری زندگی قید میں کاٹنی پڑتی ہے۔۔۔۔فاحا کی ضد پر عاشر نے اُس کو تفصیل سے جواب دیا جس کو فاحا نے بڑے غور سے سُنا تھا۔۔

"شکر ہے کہ سزائے موت کا آپشن بھی ہے"دوسرا کیس پر بھی ڈپینڈ کرتا ہے کہ وہ اسٹرونگ ہے یا نہیں۔۔۔فاحا نے باقاعدہ ہاتھ اُپر کیے پھر مزید کہا

"ہاں یہی ہے اگر کیس مضبوط تو death penalty ورنہ لائیف imprisonment۔۔۔۔عاشر نے جواباً کہا

ویسے قرآن میں ایسا نہیں ہوتا نہ اللہ نے ایسی سزا نہیں رکھی نہ قرآن میں؟فاحا پرسوچ لہجے میں اُس سے گویا ہوئی

"قرآن کریم میں سورت نور کی آیت نمبر ٢ میں واضح حکم ہے کہ زنا کرنے والے مرد عورت کو سو ١٠٠ کوڑے مارے جائینگے ۔

اگر لڑکی یا لڑکا شادی شدہ نہیں ہیں تو ١٠٠ کوڑے مارے جائینگے۔۔

لیکن اگر وہ شادی شدہ ہوں تو انہیں سنگسار کر دیا جائیگا ۔۔اور سنگسار کہتے ہیں کہ زانی مرد کو کھلے میدان میں لے جا کر پتھر مار مار کے مار دینا ۔۔

اور اگر زنا کرنے والی عورت ہو اور شادی شدہ ہو تو اس کو زمین میں گھڈا کھود کر اس میں پتھر مار مار کے قتل کر دینا ۔۔ یہ قرآنی حکم ہے ۔"عاشر نے بتایا تو فاحا کو جھرجھری سی آئی جس پر عاشر نے اپنی مسکراہٹ دبائی

اور اگر لڑکی کا اُس میں کوئی قصور نہ ہو تو؟فاحا نے کسی خیال کے تحت کے پوچھا

"تو صرف لڑکے جو ایسا کرے گا اُس کو یہ سزا ملتی ہے"اور یہ لڑکی کرے گی تو اگر وہ شادی شدہ نہیں ہے تو اُس پر سؤ کوڑے برسائے جائینگے اور اگر شادی شدہ ہے تو اُس کو سنگسار کیا جائے گا۔۔۔۔عاشر نے جیسے اُس کی معلومات میں اضافہ کیا تھا


"یعنی میں آج فیصلے کی اُمید نہ رکھوں؟فاحا نے کچھ توقع بعد کہا

پہلا دن ہے ہوسکتا ہے کچھ وقت اور لگے پھر دوسری سماعت پر کیس کا فیصلہ ضرور لے گی کورٹ اور کیا پتا آج فیصلہ لے کیونکہ جج صاحب سے اپنی میشا کی جان پہچان ہے۔۔۔عاشر ٹانگیں سیدھے کیے بولا

"ویسے میں اب سوچ رہی ہوں اگر یہ فیصلہ گاؤں والے لیتے تو اچھا تھا یعنی اب اُس کو سزائے موت ہوگی بھی تو وہ ایک بار میں مرجائے گا قید ہوگی تو ضمانت میں چھوٹ جائے گا پر جو کچھ گاؤں کے سردار کے بارے میں سُنا ہے وہ یقیناً اُس لڑکے پر سؤ کوڑے پڑوانے کا کہتا۔۔۔۔فاحا گہری سوچ میں ڈوب کر بولی

جو ہوتا ہے اُس میں اللہ کی کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے اور ضروری بس کشف کا انصاف ہے جو اُس کو مل گیا تو وہی بڑی بات ہوگی۔۔۔عاشر نے کہا تو فاحا نے سراثبات میں ہلایا"پھر کچھ پکانے کی نیت سے اُٹھ کر کھڑی ہوئی

❤Rimsha Hussain Novels❤

نوریز ملک کو ہارٹ اٹیک آیا تھا جس کو جان کر سوہان بنا کچھ اور ڈاکٹر سے بات کیے ہسپتال سے باہر نکل آئی تھی"اور اُس کے نکلتے ہی ہسپتال کے باہر اسیر ملک اور اُس کے آدمیوں کی گاڑیاں رُکی تھیں۔۔۔۔"اُس نے سارا کچھ حویلی میں کال کرکے بتایا تھا اور یہ بات جب اسمارہ بیگم کو پتا چلی تو وہ رونے دھونے میں لگ پڑیں تھیں اِتنا کہ اُن کو سنبھالنا تک مشکل ہوگیا تھا

"ڈاکٹر نے اسیر ملک سے بائے پاس کا کہا تھا جو رات میں ہونا تھا اور وہ خود وہ یہی رکنے والا تھا جب تک حویلی سے کوئی اور آ ہی نہیں جاتا تھا

❤❤❤❤❤❤❤❤

سوہان نے اپنی گاڑی قبرستان کے پاس روکی تھی اور اُس کو سائیڈ پر کھڑا کیے وہ قبرستان میں قبروں کے پاس سے گُزرتی ایک قبر کے سامنے رُک گئ تھی جس کی تختی پر"اسلحان یعنی اُس کی ماں کا نام لکھا ہوا تھا۔۔۔"سوہان نے کتنی ہی دیر تک اُس پر نظریں جمائی ہوئیں تھیں پھر ایک باغی آنسو اُس کی آنکھ سے نکل کر گال پہ پھسلتا نیچے گِرنے والا تھا جب کسی نے اپنی ہتھیلی آگے کی تو وہ آنسو اُس کے ہاتھ پر گِرکر بے مول ہونے سے بچ گیا تھا۔۔۔"دوسری طرف خود کے پاس کسی اور کو کھڑا محسوس کیے سوہان نے گردن موڑ کر دیکھا تو کالے کوٹ پینٹ میں ملبوس زوریز دُرانی سنجیدہ نظروں سے اُس کو دیکھ رہا تھا

"آپ یہاں کیا کررہے ہو؟سوہان نے اُس پہ سے نظریں ہٹائے زندگی میں شاید پہلی بار ایک بے تُکہ سوال کیا تھا۔۔۔

"اپنے لیے قبر کی جگہ بُک کروانے آیا تھا۔۔۔"وہ سامنے والی جگہ مجھے بہت پسند آئی ہے کیونکہ وہاں ٹریز بہت ہیں"اچھا ہے گرمیوں میں قبر کے اُپر سورج کی تپش نہیں پہنچ پائے گی وہاں۔۔۔زوریز نے سنجیدہ لہجے میں غیرسنجیدہ جواب دیا تھا جس پر سوہان اپنی جگہ پہلو بدلتی رہ گئ تھی۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

نوریز ملک کو ہوش آیا تو اپنے سامنے سوہان یا میشا کے بجائے حویلی والوں کو دیکھ کر اُن کو مایوسی نے آ گھیرا تھا مگر وہ جانتے تھے جو اُنہوں نے کیا تھا اُس کے بعد وہ اِسی رویے کے مستحق تھے۔۔۔

"آپ ٹینشن نہ لو دوسری کورٹ میں اپنا کیس پیش کریں ہوسکتا ہے کچھ بھلا ہوجائے۔۔۔اُن کو ہوش میں آتا دیکھ کر صنم بیگم نے کہا جبکہ اسیر خاموش بیٹھا تھا۔۔

ہممم۔۔۔اسیر ملک نے محض ہنکارہ بھرا وہ اُن کو بتا نہیں پائے کہ آج ایک دن میں اُن کیا کچھ جاننے کو ملا تھا جس پر یقین پانا اُن کے لیے بیحد مشکل تھا۔

"ہمیں ایک بات سمجھ نہیں آئی کورٹ نے اِتنی جلدی فیصلہ لے کیسے لیا؟اسیر کا انداز پرسوچ تھا۔

"فراز کا اقبالِ جُرم اُن کو مل گیا تھا۔۔۔۔نوریز ملک نے سنجیدگی سے بتایا

ابا حضور نے تو کہا تھا فراز سیکیور ہے۔۔۔اسیر کا انداز طنز ہوگیا تھا

"بھائی صاحب نے مجھے اکیلا چھوڑدیا ورنہ مجھے اُن کی بہت ضرورت تھی پر افسوس میرے دونوں بھائیوں نے میرا ساتھ نہیں دیا۔۔۔۔۔نوریز ملک رنجیدگی سے بولے

"جن کو چھوڑنے کی عادت ہو وہ کسی اور کے چھوڑجانے کا افسوس کرتے ہوئے اچھے نہیں لگتے۔۔۔اسیر نے لگی لپیٹی کے بغیر کہا تو نوریز ملک کی زبان کو گویا قفل لگ چُکا تھا۔۔

❤❤❤❤❤❤❤

میں اپنے برابر کھڑے ہونے کا پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔سوہان تھوڑا سنبھل کر بولی

"میں تو لڑکی کو اکیلا کھڑا دیکھ کر آیا تھا پتا نہیں تھا کہ آپ ہوگی۔۔۔۔ہاتھ جینز کی پاکٹ میں ڈالے زوریز نے عام انداز میں جواب دیا

"آپ ہوگی سے مُراد؟"کیا آپ کی نظروں میں میرا شُمار لڑکیوں میں نہیں ہوتا؟سوہان نے دوبارہ اُس کو دیکھ کر سنجیدگی سے پوچھا

"کیا میری بات سے آپ کو ایسا فیل ہوا؟زوریز چونک سا گیا

ہممم بلکل کیا اِس میں کچھ غلط ہے؟سوہان نے سر کو جنبش دے کر کہا

"جی غلط ہے میں ایسا نہیں سوچتا خیر آگے کے لیے آل دا بیسٹ اور ابھی کے لیے بہت مُبارک ہو آپ نے اپنا پہلا کیس جیت لیا۔۔۔۔"زوریز نے کہا تو اِس بار سوہان کو حیرت کا شدید قسم کا جھٹکا لگا وہ تعجب سے زوریز کو دیکھنے لگی جس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا

"آپ کو کیسے پتا چلا کہ میں کیس جیت گئ"کیا آپ میری جاسوسی کرتے ہو؟سوہان کا انداز قدرے سنجیدگی سے بھرپور تھا

"کیا آپ کو ایسا لگتا ہے کہ میں آپ کی جاسوسی کرتا ہوں؟زوریز اُس کی بات سے محفوظ ہوا

"مجھے کیا لگتا ہے یا کیا نہیں یہ میٹر نہیں کرتا فلحال میٹر وہ کرتا ہے جو ابھی میں نے آپ سے پوچھا۔۔۔۔سوہان تھوڑی شرمندہ ہوئی مگر ظاہر کیے بغیر بولی

"میرے پاس آپ کے لیے ایک آفر ہے۔۔۔سوہان کو مطلوبہ جواب دینے کے بجائے زوریز نے اپنی بات اُس کے آگے کی

"مجھے آپ کی آفرز قبول نہیں۔۔۔۔سوہان نے سرجھٹک کر کہا"اگر وہ اُس کی بات کو اگنور کرسکتا تھا تو سوہان بھی اُس کی آفرز کو ریجیکٹ کرسکتی تھی

"پہلے آفر سُن لے۔۔۔زوریز نے تحمل سے کہا

"قبول ہوتی تو ضرور سُنتی۔۔۔سوہان اپنی بات پر قائم تھی۔۔۔

"آپ کا فائدہ اِس میں پوشیدہ ہے۔۔۔زوریز نے گویا اُس کو اصرار کیا

"میرے فائدے کا آپ کو نہیں سوچنا چاہیے"آپ ایک بزنس مین ہیں اور بزنس مین لوگ ہر چیز کو بزنس سمجھتے ہیں اُن کا مائینڈ بھی بزنس ہوتا ہے"وہ صرف اپنے لیے سوچتے ہیں جس میں اُن کا فائدہ پوشیدہ ہو اُس کے علاوہ وہ کسی اور کے بارے میں سوچنا گوارا نہیں کرتے۔۔۔سوہان بولنے پر آئی تو بولتی چلی گئ تھی اور زوریز بس خاموشی سے اُس کو سُننے لگا

"آپ کا کُمپلیمنٹ محض میرے لیے تھا یا ہر بزنس مین کے لیے؟جواب میں زوریز نے جس تحمل کا مُظاہرہ کیا اُس پر سوہان نے عجیب نظروں سے اُس کو دیکھا

"کیا میری اِتنی باتیں سُنانے کے باوجود آپ کو غُصہ نہیں آیا؟سوہان کو زوریز اِس دُنیا کا نہیں لگا کیونکہ وہ جس انداز میں اُس سے بات کررہی تھی اُس حساب سے تو اُس کی پیشانی میں بلوں کا جال بِچھ جانا چاہیے تھا مگر ایسا کچھ نہیں تھا وہ کافی پرسکون کھڑا تھا ایسے جیسے وہ یہاں قبرستان میں اُس کو جن بھوتوں کے بجائے پریوں کی کہانی سُنارہی ہو

"ہر بزنس مین کے لیے آپ پر میں نے خاص ریسرچ نہیں کی۔۔۔سوہان نے سرجھٹک کر بتایا

"ہممم مگر بزنس مین لوگوں کی کافی نالیج رکھتی ہیں بائے دا وے میں جب آپ کی بہنوں سے ملا تو لمحے کے کسی حصے میں یہ سوچا تھا کہ وہ اِتنی باتونی کس پر گئیں ہوگیں مگر اب میرے اُس سوال کا جواب مل گیا یقیناً وہ آپ پر گئیں ہوگیں۔۔۔زوریز سمجھنے والے انداز میں بولا تو گردن موڑ کر سوہان نے اُس کو گھورا تھا

"آپ کو میں کس لحاظ سے باتونی لگی ہوں؟"کیا میں نے یہاں کھڑے ہوکر آپ کو پریوں کی داستان سُنائی ہے ایک سانس میں؟سوہا طنز ہوئی

قبرستان میں پریوں کی سُنائی ناٹ آ بیڈ آئیڈیا مگر کہانیاں رات کو سُننے میں زیادہ لطف دیتیں ہیں اور مزہ بھی تب آئے گا تو آپ اپنا شیڈول چیک کرکے مجھے بتائیے گا کہ رات کے وقت کب آپ فری ہوتیں ہیں۔۔۔"دین ہم پریوں پر ڈسکشن کرینگے بھوت بنگلے میں۔۔۔۔زوریز اپنی بیئرڈ پر ہاتھ پھیر کر دلچسپ لہجے میں بولا تو سوہان سے ضبط سے اُس کو دیکھا

"کیا یہ مذاق تھا؟سوہان نے ضبط سے پوچھا

"کیا آپ کو یہ بات مذاق لگی؟"میں تو سیریس ہوں اور آپ نہ لال جوڑا پہن کر آئیے گا ساتھ میں گہری لال سُرخی ہونٹوں پر سجائیے گا"کلائیوں میں لال رنگ کی چوڑیاں بھی پہن لیجئے گا اِس سے یہ ہوگا کہ کالی اندھیری رات میں آپ کو لال پری کے روپ میں دیکھ کر مجھے کسی اور چیز کا ڈر نہیں لگے گا اور نہ آپ کو سجا سنوارا دیکھ کر میرا دھیان بھٹکے ہم کافی دیر تک پھر پریوں پر بات کرسکتے ہیں"اور آخری وقت میں جن"چڑیلوں پر بھی تھوڑی بات وغیرہ کرلینگے ورنہ وہ بُرا نہ مان جائے۔۔۔۔زوریز عادت سے مجبور اپنی بیئرڈ پر ہاتھ پھیر کر بولا تو سوہان نے صبر کا گھونٹ بھر کر اُس کو دیکھا جو جانے کس چیز کا بدلہ نکال رہا تھا۔۔

"میں یہاں اپنی ماں کے ساتھ اکیلا وقت اسپینڈ کرنے آئی ہوں۔۔۔۔سوہان نے جیسے اُس کو وہاں سے جانے کا کہا کیونکہ وہ زوریز کی اب مزید کوئی باتیں سںننے کے حق میں نہ تھی۔۔۔

"قبرستان میں خود کو اکیلا کہنا یہ نامعقول سی سوچ ہے ٹرسٹ می آپ کو اپنے دائیں بائیں ایسا محسوس ہوگا جیسے کوئی آپ کے پاس کھڑا ہے پر جب آپ وہاں دیکھے گی تو کوئی نہیں ہوگا"اور جب آپ بیٹھنے لگے گیں تو آپ کو ایسے لگے گا جیسے کوئی پیچھے آرہا ہو آپ کو۔۔۔"اور آپ کو پتوں کے ہِلنے کی آواز بھی بہت زیادہ آئے گی۔۔زوریز نے کافی اُس کو معلومات دی جس کو سن کر سوہان کو جانے کیوں تھوڑا خوف محسوس ہوا اب انسان جتنی بھی بہادری کا مظاہرہ کیوں نہ کردے اندیکھی مخلوق سے تھوڑا بہت ڈر تو سب کو لگتا ہے۔۔۔"یہی حال سوہان کا ہوگیا تھا چاہے رات کا وقت نہیں تھا مگر زوریز نے جیسے اُس کی دُکھتی رگ دبائی تھی اور قبرستان کا جیسا نقشہ کھینچ کر اُس نے سوہان کے سامنے رکھا تھا اُس پر سوہان کو ایسے لگنے لگا جیسے اب وہ کبھی قبرستان اکیلے آنے کی ہمت نہیں کرپائے گی۔۔"کیونکہ زوریز بات ہی کچھ اِس انداز سے کرتا تھا کہ انسان کنفیوز ہوئے بنا نہ رہ پاتا تھا

"آپ کو کافی معلومات ہے لگتا ہے ایسا کچھ ہوگیا ہے۔۔۔سوہان نے جھرجھری لیکر کہا

"میں نے ایسی کبھی نوبت آنے نہیں دی میں جب بھی آتا ہوں یہاں اپنے دو آدمیوں کو ساتھ لے چلتا ہوں اور جب اپنے دائیں بائیں کوئی محسوس ہوتا ہے تو جیسے ہی میں وہاں دیکھنا چاہتا ہوں وہ دونوں نظر آجاتے ہیں۔۔۔۔زوریز نے سرسری لہجے میں کہا تو سوہان نے چونک کر اُس کے پیچھے دیکھا جہاں واقعی میں چند قدموں کی دوری پر زوریز کے آدمی کھڑے تھے اِن کو سوہان نے زوریز کے ساتھ ریسٹورنٹ میں بھی دیکھا تھا۔۔۔

"ویسے کیا آپ کو غُصہ نہیں آتا؟سوہان نے دوبارہ سے اپنی نظریں زوریز پر جمائی

غُصہ کیوں؟زوریز ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگا

"میں جس انداز اور جس لہجے میں آپ سے بات کررہی ہوں اُس حساب سے مجھے لگتا ہے کہ آپ کو غُصہ کرنا چاہیے"مگر آپ کی پیشانی پر ایک بل بھی نہیں۔۔سوہان نے کندھے اُچکائے کہا

"تو کیا میں یہ سمجھوں کہ آپ کو مجھے غُصے میں دیکھنے کی خُواہش ہے۔۔۔؟زوریز پہلی بار مسکرایا تھا اور اُس کو مسکراتا دیکھ کر سوہان نے نظریں پھیر لی تھیں۔۔

"مجھے ایسی کوئی خواہش نہیں خیر اب آپ جائے مجھے میری ماں کے ساتھ باتیں کرنی ہیں۔۔۔سوہان نے خود ہی اِس بار اُس کو جانے کا کہا کیونکہ وہ جان گئ تھی کہ زوریز کا کوئی اِرادہ نہیں جانے کا۔۔

"مرے ہوئے انسان سے بات کرنے سے اچھا ہے زندہ کھڑے انسان سے باتیں کی جائے کم از کم وہ آپ کو جواب تو دے سکتا ہے۔۔۔۔زوریز نے اُس کو اپنے مفید مشورے سے نوازہ

"آپ کا بہت شکریہ۔۔۔سوہان نے زبردستی مسکراہٹ چہرے پر سجائی

"میں اِس لیے بول رہا تھا کیونکہ قبرستان میں بندے کو بچپن سے لیکر جوانی تک ہر دیکھی ہوئی ہارر مووی کا ڈراؤنا سین کسی فلیش بیک کی طرح نظروں کے سامنے چلتا ہے۔۔۔۔زوریز نے جیسے قسم اُٹھائی ہوئی تھی کہ سوہان کا ہارٹ فیل کروانے کی۔

"آپ ٹین ایجر کی طرح باتیں کیوں کررہے ہو؟سوہان نے خود کو کمپوز کیا

"کیا آپ کو ایسا لگتا ہے کہ میرا بیہیوئر ٹین ایجر کی طرح ہے؟"یہ تو پھر میرے ساتھ زیادتی ہوئی تیس سال کے میچیور انسان کو اٹھارہ سال کے ٹین ایجر سے ملانا وہ بھی تب جب آدھا حصہ آپ نے گُزار لیا ہو"یہ کسی انسلٹ سے کم نہیں۔۔۔۔زوریز پرسوچ لہجے میں بولا

"کیا آپ کو اپنی انسلٹ فیل ہوئی؟سوہان کے چہرے پر مسکراہٹ آئی

"اپنی انسلٹ ہر ایک کو محسوس ہوتی ہے مگر آپ کونسا میری انسلٹ کررہی ہیں جو مجھے فیل ہو۔۔۔زوریز نے کہا تو سوہان اچھا خاصا بدمزہ ہوئی تھی

"جی میں تو آپ کو پھولوں کا ہار پہنا رہی ہو۔۔۔سوہان تپ اُٹھی

"پھول کا ہار پہنانے کی یہ کوئی خاص جگہ یا وقت نہیں ہے"آپ ایسا کرنا ایک ماہ بعد مجھے کال کرنا جگہ اور وقت میں آپ کو میسج پر بتاؤں گا۔۔۔"بات یہ ہے کہ میں نے انجیو کی مدد کی تھی اور وہ اب اُس انجیو کے افتتاح کے لیے مجھے آنے کا کہہ رہے ہیں تو میں چاہوں گا آپ اپنی وہ خُواہش وہاں پوری کریں۔۔۔۔زوریز نے سارا پلان ترتیب کیا

"آپ کو کیا لگتا ہے آپ مذاق بہت اچھا کرلیتے ہیں جس کو سن کر لوگ ہنسی سے لوٹ پھوٹ ہوجائے گیں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔سوہان نے اُس کو گھور کر کہا

"کیا آپ کو ایسا لگتا ہے کہ میں اپنے بارے میں ایسا سوچوں گا یہ میرے لیے شرم کا مقام ہے اور میں تیس سال کا ایک میچیور پرسن ہوں میں جانتا ہوں یہ چیزیں مجھے زیب نہیں دینگی۔۔۔زوریز شانے اُچکاکر بولا

"آپ بار بار خود کو تیس سال کا بتاکر کیا ظاہر کرنا چاہ رہے؟سوہان اُس کے ایک ہی راگ لاپنے پر پوچھ بیٹھی

"یہی کہ آپ مجھے مشورہ دے کہ میری شادی کی عمر نکل رہی ہے ویسے آپ کی ایج کیا ہے؟"بتانے کے بعد زوریز نے سوہان سے پوچھا جو پہلے والا واقع تو بھول چُکی تھی مگر زوریز کی باتوں نے اُس کو اچھا خاصا تنگ کرلیا تھا

"آپ کی آج کوئی میٹنگ نہیں؟سوہان نے ضبط سے اُس کو دیکھ کر پوچھا جبکہ اپنی بات نظرانداز ہوجانے پر زوریز ہولے سے مُسکرایا تھا

"اتفاقً ہماری میٹنگ ہوگئ۔۔۔۔زوریز نے خود پر اور اُس کی طرف اِشارہ کیا

"یہ تازہ پھول آپ نے قبر پر ڈالے ہیں؟سوہان کی نظر اب پڑی تو پوچھا

"آپ کو نظر آرہا ہے؟زوریز نے پوچھا

"افکورس مجھے نظر آرہا ہے میں کوئی اندھی تھوڑئی ہوں۔۔۔"سوہان زچ ہوئی

"الحمد اللہ آپ اندھی نہیں اور میرا یہ مطلب نہیں تھا۔۔۔"زوریز نے گویا وضاحت کی۔

"آپ پلیز جاؤ۔۔۔سوہان نے گہری سانس بھر کر اُس سے کہا

"میں اُس دن کہی بیٹھ کر آپ سے بات کرنا چاہتا تھا مگر آپ کے چہرے پر نو لفٹ کا بورڈ دیکھ کر میں نے کہنا مُناسب نہیں سمجھا۔۔۔۔زوریز نے جیسے اُس کی بات سُنی نہیں

"اچھا کیا جو نہیں کہا۔۔۔سوہان نے لیئے دیئے انداز میں کہا

"آپ نے پوچھا نہیں کونسی بات؟زوریز نے اُس کو دیکھ کر کہا

"مجھے پتا ہے میرے کہنے کے بنا بھی آپ بتادینگے۔۔۔۔سوہان نے کہا

"جی لیکن جگہ سہی نہیں۔۔۔زوریز آس پاس کا جائزہ لیکر بولا

"آپ جائے پھر۔۔۔۔سوہان نے پھر سے کہا

"آپ کیوں چاہتی ہیں کہ میں جاؤں؟"ہلانکہ کھڑا میں اپنے پاؤں پر ہوں۔۔۔۔زوریز نے ناسمجھی سے اُس کو دیکھ کر پوچھا پھر اپنے پیروں کو دیکھ کر کنفرم کیا کہ واقعی میں وہ خود کے قدموں پر کھڑا تھا

"مجھے غیرضروری بات کرنے والے لوگ پسند نہیں ہوتے۔۔۔سوہان نے کہا

"مجھے بھی اور ویسے بھی خاموشی بھی ایک عبادت ہوتی ہے۔۔۔زوریز نے اُس کی ہاں میں ہاں ملائی"زیادہ اُس کہ بات پر غور وفکر کرنا اُس نے ضروری نہیں سمجھا تھا

"شاید مجھے خود چلے جانا چاہیے۔۔۔سوہان نے کہا

"آپ کو پتا ہونا چاہیے کہ لڑکیوں کا قبرستان آنا سہی نہیں ہے۔۔۔۔زوریز نے سنجیدگی سے کہا تھا

"میں اپنی ماں کی قبر پر آئی تھی۔۔۔سوہان نے محض اِتنا کہا

"وہ بھی قبرستان میں ہے۔۔۔۔زوریز نے کہا

"لوگ کہتے ہیں ماں کے بغیر گھر قبرستان ہے لیکن اگر ماں کے بغیر جب ہم اُس گھر نُما قبرستان میں رہ سکتے ہیں تو اُس کی قبرستان میں موجود اُس کی قبر پر پھول ڈالنے کے لیے بھی ہمیں آنا چاہیے۔۔۔۔سوہان کے لہجے میں حسرت تھی

"ہمیں اللہ کے بنائے ہوئے دائروں کو کراس نہیں کرنا چاہیے اور نہ اُس کے کسی کام پر سوال اُٹھانا چاہیے"وہ جانتا ہے مگر ہم نہیں جانتے اور بے خبری ایک اچھی چیز ہے۔۔زوریز نے عام انداز میں اُس سے کہا

"آپ نے بتایا نہیں؟سوہان نے بات کا رخ بدلا

"آپ نے بھی نہیں بتایا۔۔۔زوریز جواباً بولا

"کس بارے میں؟سوہان اُلجھی

"آپ کو میں نے کس بارے میں نہیں بتایا؟"زوریز نے پوچھا

"آپ کو کیسے پتا چلا کہ میں اپنا پہلا کیس پہلے دن جیت گئ؟سوہان نے سنجیدگی سے پوچھا

"یہ ایک ریپ کیس تھا جس کی خبر میڈیا میں پہلے پہنچے ہوئیں تھی اور یہ خبر پھیلانے والی آپ کی کلائنٹ تھی"مختصر یہ کے آپ کی کامیابی کا چرچہ ہر نیوز چینل پر ہے تو آپ کو اب اِتنا حیران ہونا نہیں چاہیے اب آپ فیمس ہستی ہیں"آہستہ آہستہ ایک دُنیا آپ کو جاننے لگے گی۔۔۔زوریز نے بتایا تو سوہان کا سر سمجھنے والے انداز میں ہلا

"ٹھیک۔۔۔۔سوہان بس اِتنا بولی

اب آپ بتائے؟زوریز نے اپنا رخ اُس کی طرف کیا

"کیا؟سوہان نے سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھا

"میری آفر کے بارے میں کیا خیال ہے"مجھے لگتا ہے آپ کو حامی بھر لینی چاہیے شام کے وقت قبرستان میں کھڑے ہوکر آپ کو کمپنی دی ہے جو کی ایک بڑی بات ہے"اِتنا حق تو بنتا ہے اب میرا۔۔۔۔زوریز نے کہا

"اپنی آفر بتائے۔۔۔۔سوہان نے سنجیدگی سے پوچھا

"مجھ پر ایک جھوٹا کیس لگا ہے میں چاہتا ہوں وہ آپ دیکھے ایز آ وکیل ہیں اب آپ۔۔۔"اور اِس میں ایک اسپیشل بات یہ ہے کہ اب بھی آپ کو اُس خاندان سے ٹکر لینی پڑے گی۔۔۔۔زوریز نے تفصیل سے بتایا

"کیس کی نوعیت کیا ہے؟سوہان نے اُس کی آخری بات پر توجہ نہ دی

"نذیر ملک کو شاید آپ جانتی نہ ہو اُن سے کچھ ماہ پہلے بورڈنگ میٹنگ میں مُلاقات ہوئی تھی سال کا ایک بہت براجیکٹ تھا جو اُس کے بجائے ہماری کمپنی کو ملا تھا تو بس اُس نے مجھ سے بلاوجہ کا بیر بنالیا ہے"الزام اسمگلنگ کا ہے کہ میں اسمگلنگ کا کام کرتا ہوں وہ الگ بات ہے کہ میں نے کبھی ڈرگز کو قریب سے دیکھا بھی نہیں۔۔۔۔زوریز نے بتایا

"یہ ایک بہت بڑا ایشو ہے آپ اِس کو سمپلی کیسے لے سکتے ہیں؟"مطلب ایسے سمپل طریقے سے کون بتاتا ہے؟سوہان کو حیرت ہوئی

"کیا مجھے ہائے طریقے سے بتانا چاہیے تھا؟"سوری مجھے کچھ اندازہ نہیں آپ تھوڑی مدد کرے تو میں پھر دوبارہ بتاؤں۔۔۔زوریز نے کہا تو سوہان خشمگین نظروں سے اُس کو دیکھنے لگی۔۔

"آپ کو فرق نہیں پڑ رہا کہ کسی نے اِتنا بڑا الزام لگایا ہے آپ پر کیس کیا ہے اِس سے آپ کا بنا بنایا امیج خراب ہوسکتا ہے۔۔۔"کوئی بھی کلائنٹ کوئی بھی ڈیلر آپ سے کام کرنا پسند نہیں کرے گا۔۔۔"سوہان نے گویا اُس کی عقل پر ماتم کیا

"میں کلیئر کرچُکا ہوں یہ ایک جھوٹا کیس ہے۔۔۔"تو مجھے پریشان کیونکر ہونا چاہیے؟"اگر آپ کو ٹرسٹ نہیں تو کوئی بات نہیں ہم کوئی ایک دن ڈیسائیڈ کرتے ہیں پھر کیس پر بات کرینگے آپ کو سب پتا چل جائے۔۔۔زوریز کو جیسے اُس کی بات سمجھ نہیں آئی اور جو آئی اُس نے بول دی

"آپ کی ناقص عقل کو شاید میری بات سمجھ نہیں آرہی۔۔۔۔سوہان نے کہا تو لفظ"ناقص عقل"پر زوریز نے ایسے منہ بنایا گیا جیسے اپنے لیے اُس کو یہ لفظ خاص پسند نہیں آیا

"آپ کا مطلب؟زوریز نے کہا

مطلب صاف ہے دُنیا وہ دیکھتی ہے جو اُس کو دیکھایا جاتا ہے؟"اور کورٹ میں ثبوتوں پر بات بنتی ہے سزا بھی اُس کو ہوتی ہے جس کے خلاف سارے ثبوت ہو چاہے پھر کیس الزامات بے بنیاد کیوں نہ ہو۔۔۔۔سوہان نے اُس کو دیکھ کر سنجیدگی سے کہا تھا

"آپ کی بات سے مجھے اختلاف نہیں بلکہ آپ کی صلاحیت پر مجھے یقین ہے میں تو بس آپ کا بنا بنایا رکارڈ برقرار رکھنا چاہتا ہوں مجھے یقین ہے اگر آپ مجھے ڈیفینڈ کرے گی تو کورٹ سے تاریخ پر تاریخ نہیں بلکہ کوئی بریک لیئے بنا کورٹ اپنا فیصلہ سُنا دے گی۔۔۔۔زوریز نے سنجیدگی سے کہا

"کیا یہ طنز تھا کہ آپ میرا رکارڈ برقرار رکھنا چاہتے ہیں؟سوہان نے محض اِتنا پوچھا

"آپ کو یہ طنز لگا؟"میں نے تو آپ کی تعریف کی ہے نو ڈاؤٹ کہ عنقریب آپ کا نام بھی نامور وکیلوں کی لسٹ میں ٹاپ پر ہوگا۔۔۔زوریز نے وضاحت دیتے کہا

"اگر آپ کا کیس میں ہارگئ تو؟سوہان نے پوچھا

"تو کچھ بھی نہیں۔۔۔زوریز نے لمحے کی تاخیر کیے بنا کہا

"کچھ بھی نہیں کیسے؟"الزام سچ ثابت ہوجائے گا"مشکل میں پڑسکتے ہو آپ۔سوہان کو زوریز ایک عجیب انسان لگا

"ہونے دے سچ ثابت" ویسے بھی زوریز دُرانی مُشکلاتوں سے گھبراتا نہیں۔۔۔۔زوریز کا انداز ہنوز پرسکون تھا جو سوہان کی سمجھ سے بالاتر تھا

اگر الزام سچ ثابت ہوا تو آپ کو سالوں کے لیے جیل ہوسکتی ہے اور آپ باقی کی زندگی جیل میں چکی پیس کر گُزارے گے۔۔۔سوہان کو زوریز کا پرسکون ہونا ہضم نہیں ہورہا تھا۔۔

"آ نہیں یہ چکی پیسنے والی روایت پُرانی ہے اب تو کسی نے سامنے چکی کو دیکھا تک نہیں جیل کا ماحول بھی ایک گھر کے ماحول کی طرح ہوگیا ہے"قیدیوں کے پاس موبائل فون بھی ہوتا ہے وہ جب چاہیں جس کو چاہیں کال کرسکتے ہیں بس اُن کو اپنے لیے کھانا پکانا پڑتا ہے اور کپڑے وغیرہ بھی دھونے ہوتے ہیں اِن کاموں کی خیر ہیں کیونکہ ایسے چھوٹے موٹے کام بندہ تب بھی کرلیتا ہے جب مُلک سے باہر کہی نوکری کرنا پڑتی ہے۔"اور اب لوگ جُرم جان کر کرتے ہیں تاکہ اُن کو سینٹر جیل یا کہی اور بھیج دے دو وقت کی روٹی تو اُن کو مل جائے گی مجرم لوگوں کا کیا جاتا ہے خرچہ تو جیلر لوگوں کا ہوتا ہے یا پھر سرکار کا۔۔۔زوریز کا اعتماد قابلِ دید تھا اور سوہان کو بس بیہوش ہونے کے در پہ تھی

"لگتا ہے آپ اپنی زندگی کا ایک حصہ جیل میں گُزارچُکے ہیں۔۔۔سوہان نے طنز کیا

الحمداللہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔۔"آپ بتادے کب آئے گی میرے آفس؟زوریز نے پوچھا

"میں آپ کو بتادوں گی جلد۔۔۔سوہان نے کچھ سوچ کر کہا

"ٹھیک ہے مجھے انتظار رہے گا۔۔۔زوریز نے سر کو خم دے کر کہا

"میں اب چلوں گی۔۔۔۔اُس کی بات پر سوہان نے اِتنا کہا اور اپنے قدم باہر کی طرف بڑھائے تو زوریز بھی اپنے ساتھیوں کو اِشارہ کرتا قبرستان کا گیٹ کراس کرگیا۔۔۔۔


"کیا ہوا؟زوریز باہر آیا تو سوہان کو گاڑی کے پاس پریشان کھڑا دیکھ کر پوچھنے لگا

"گاڑی کا ٹائیر جانے کیسے پنکچر ہوگیا۔۔۔سوہان نے کہا تو زوریز نے چونک کر اُس کی گاڑی کے ٹائیروں کو دیکھا جس میں ایک کی ہوا نکلی ہوئی تھی

"رینٹ کی گاڑی کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا کب؟" کہاں؟"دغابازی کرجائے پتا نہیں چلتا۔۔۔زوریز نے سرسری لہجے میں کہا تو سوہان نے آنکھیں چھوٹی کیے اُس کو دیکھا

"میری گاڑی رینٹ کی ہے یہ بات کس نیوز چینل میں بتائی گئ ہے؟"کیا آپ اِس میں روشنی ڈالنا پسند کرینگے؟سوہان نے بھگو کر طنز کیا

"کسی نیوز میں دیکھنے کی کیا ضرورت ہے؟"صاف ظاہر ہے گاڑی رینٹ کی ہے کیونکہ ایسی گاڑی رینٹ میں ہی مل سکتی ہے دوسرا اگر گاڑی اپنی ہو تو بندہ ہر روز نہیں تو ہفتے میں اُس کو ورکشاپ کی شکل ضرور دیکھاتا ہے۔۔۔زوریز نے عام لہجے میں کہا تو سوہان گلا کھنکھارتی رہ گئ۔۔۔

"میں آپ کو ڈراپ کرسکتا ہوں آپ کے گھر اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو۔۔۔زوریز نے پیش کش کی

"آپ کا بہت شکریہ مگر میں چلی جاؤں گی۔۔۔سوہان نے سہولت سے انکار کیا

"اگر میں کہہ رہا ہوں تو مسئلہ کیا ہے؟زوریز کو اُس کا انکار پسند نہیں آیا

"میں آپ کو زحمت نہیں دینا چاہتی۔۔۔سوہان نے کہا

"اِس میں زحمت کی کوئی بات نہیں ہے آپ آئے۔۔۔زوریز نے اُس کے لیے راستہ چھوڑا تو وہ کشمکش میں مبتلا ہوئی

"کسی ٹیکسی ڈرائیور سے پِک اینڈ ڈراپ کی اچھی سروس دے سکتا ہوں میں۔۔۔اُس کو سوچوں میں مبتلا دیکھ کر زوریز نے کہا تو سوہان نے اپنا سر ہر سوچ سے آزاد کیا اور اُس کے ساتھ چلنے پر امادہ ہوگئ۔۔۔

آپ اکیلی آئیں ہیں؟فاحا جو رات کا کھانا ٹیبل پر سجارہی تھی"میشا کو اکیلے گھر میں داخل ہوتا دیکھا تو پوچھا

"کیوں کیا مجھے فوج کے ساتھ آنا تھا؟"میشا تھکے ہوئے انداز میں صوفے پر بیٹھ کر بولی تو اُس کو دیکھ کر فاحا نے جگ میں سے پانی گلاس میں انڈیلا اور اُس کی طرف آئی

"سوہان آپی ساتھ نہیں تھیں آپ کے تو اُن کا پوچھا تھا خیر آپ بتائے"کیا ہوا؟فاحا نے پانی کا کلاس اُس کی طرف بڑھائے پوچھا

کچھ نہیں۔۔۔میشا نے ٹالا

"کچھ تو ہوا ہے کیا کورٹ نے وقت لیا ہے؟فاحا نے تُکہ لگایا

"ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔۔"مُبارک ہو تمہیں کشف کو انصاف مل چُکا ہے تمہاری آپو کیس جیت گئ ہیں اُس خوشی میں تم کیک بیک کرو میں البتہ لمبی تان کر سوؤں گی۔۔۔میشا نے کہا تو فاحا حیرت سے میشا کا چہرہ تکنے لگی۔

"کیا واقعی میں کیس جیت گئ آپو وہ بھی ایک دن میں؟"فاحا کو جیسے یقین نہیں آیا

"تمہیں کیا لگتا میں مذاق کے موڈ میں ہوں؟"میشا نے ترچھی نظروں سے اُس کو دیکھا

"نہیں مگر آپ اِتنے روکھے لہجے میں بتارہی ہیں اور میٹھائی یا کیک وغیرہ بھی نہیں لائیں مطلب ایسا کون کرتا ہے۔فاحا منہ بناکر بولی

"میرے پاس پیسے نہیں تھے میٹھائی یا کیک وغیرہ کے جو میں وہ لاتیں تمہیں تو پتا ہے مہینے کی آخری تاریخوں میں غریب ہوجاتی ہوں میں خیر کل میری شفٹ دیر تک ہوگی"کیا پتا کام بن جائے پھر ہم اِس خوشی میں چھوٹی سی پارٹی آرگنائز کرینگے۔۔۔۔میشا نے بتایا تو فاحا خوش ہوگئ

"اوو یس آپو کی سالگرہ بھی تو آنے والی ہے نہ۔۔۔فاحا پرجوش لہجے میں بولی

"ہاں وہ بھی منائے گے بس تم سرپرائز خراب نہ کرنا۔۔۔"اور یہ پارٹی بس ہماری ہوگی جس میں ہم تینوں بہنیں ساجدہ آنٹی اور عاشر حاشر اور بُوا ہوگیں۔۔۔میشا نے اُس کو بتایا

ہاں پر کشف بھی آئے گی آپو کی ایک دو دوستوں کو بھی انوائٹ کرینگے بہت مزہ آئے گا۔۔۔فاحا کی خوشی قابلِ دید تھی

میرا جوڑا سِل لیا تم نے؟میشا کو اچانک خیال آیا تو پوچھا

"ہاں تھوڑا رہتا ہے پر کل پکا آپ کو دوں گی ویسے سوہان آپو رہ کہاں گئیں ہیں؟فاحا کو سوہان کی فکر ستانے لگی

"آ جائے گی ٹینشن نہ لو ویسے بھی وہ کوئی بچی نہیں۔۔۔میشا نے سرجھٹک کر کہا

"پتا ہے وہ بچی نہیں کھانا تیار ہے اور فاحا کو بھوک لگی ہے۔۔۔فاحا نے منہ بسورتے کہا

"انتظار کرو تیس منٹ تک آئی تو ٹھیک ہے ورنہ ہم شروع کرینگے کھانا۔۔۔میشا نے وال کلاک پر وقت دیکھ کر کہا

"پر ہم تینوں ہمیشہ ایک ساتھ کھانا کھاتیں ہیں"اور آج بھی ساتھ میں کھائے گے۔۔فاحا نے جیسے اُس کو یاد کروایا

"مرضی ہے بھائی تمہاری۔۔۔میشا اکتاہٹ سے کہتی اُٹھ کھڑی ہوئی اور فاحا اِس سوچ میں پڑگئ کہ اچانک"میشا کے انداز کو کیا ہوا ہے

"اچھا سُنیں تو میں نے جو پیسے جمع کیے تھے وہ اِتنے ہوگئے ہیں کہ گاڑی کی پہلی قسط ہم باآسانی سے دے سکتے ہیں۔۔۔فاحا اُس کے پیچھے آتی بولی

"سوہان کو پتا لگے گا کہ تم پر اُلٹا غُصہ ہوگی ویسے بھی ہر ماہ اِتنے پیسے تمہارے پاس کہاں سے آئے گے کہ تم گاڑی کی قسطوں کو پورا کرتی پِھروں۔۔۔میشا نے گہری سانس بھر کر اُس کو دیکھ کر کہا

"میں مینیج کرلوں گی میں نے ریسٹورنٹ میں ایک جاب دیکھی ہے اُن کو میرے کھانے کا ذائقہ پسند ہے۔۔"وہ مجھ سے کھانا پکوانا چاہتے ہیں اور اگر وہاں کام نہ بھی بنا تو ایک کمپنی جہاں کام کرنے والوں کا لنچ بریک کا بندوبست کرنا ہے یعنی پچاس سے ساٹھ لوگوں کا کھانا بنانا پڑے اور وہ میں گھر بھی بناسکتی ہوں"اور آپ اندازہ نہیں لگاسکتی کتنا اچھا پکیج ملے گا مجھے۔۔۔فاحا نے پرجوش انداز میں کہا تو میشا اُس کو ایسے دیکھنے لگی جیسے اُس کو فاحا کی دماغی حالت پر شک گُزرا ہو۔۔۔

"مانا کے تم کوکنگ میں ایکسپرٹ ہو"گھرداری کرنا بھی آتی ہے تمہیں مگر پچاس لوگوں کا کھانا تم اکیلے نہیں بناسکتی اِس خیال کو اپنے دماغ سے ڈیلیٹ کرو اور کسی ریسٹورنٹ میں جاب دیکھو جہاں سیلری پکیج اچھا ہو اور آخری بات تمہارے پیپر میں اب کچھ وقت رہتا ہے تمہیں اُس کی تیاری بھی بہت اچھی کرنی ہے۔۔۔میشا نے اُس کو سمجھایا

"سہی مگر آج آپ اِتنا سیریس کیوں ہیں؟فاحا نے پوچھ لیا جبھی وہاں سوہان آئی۔۔۔

السلام علیکم ۔۔۔سوہان نے اُن دونوں کو دیکھ کر سلام کیا

وعلیکم السلام اور آپ کو بہت بہت مُبارک ہو۔۔۔۔فاحا بھاگ کر اُس کے گلے لگی۔۔

تمہارا بہت شکریہ۔۔سوہان میشا کا روٹھا ہوا چہرہ دیکھتی فاحا سے بولی

"فاحا آپ کے لیے بہت خوش ہے اب آپ بس جلدی سے فریش ہوجائے میں تب تک سالن گرم کر لاتی ہوں"آپ کو تو اندازہ بھی نہیں کہ فاحا کتنی ہنگری ہیں۔۔۔فاحا نے اُس کو دیکھ کر ایک سانس میں کہا

"مجھے بس پانچ منٹ دو۔۔۔سوہان نے اُس کو دیکھ کر مسکراکر کہا "اور اپنے قدم کمرے کی طرف بڑھائے

"میں بھی آتی ہوں۔۔۔میشا جاتی ہوئی سوہان کو دیکھ کر فاحا سے بولی

"جلدی آئیے گا۔۔۔فاحا نے کہا تو وہ سرہلاتی سوہان کے پیچھے اُس کے کمرے میں آئی


"کیا تم نے اِتنی دیر ہوسپٹل میں ہونے کی وجہ سے لگائی؟میشا تیزی سے دروازہ کھول کر اُس کے پاس آتی بولی

"آہستہ بڑی بہن ہوں میں تمہاری اور بولتے ہوئے آواز کم کرلیا کرو اگر فاحا سُنے گی تو پھر میں کیا جواب دوں گی اُس کو؟سوہان نے سختی سے نہیں مگر گہرے سنجیدہ انداز میں اُس سے کہا تھا جس پر میشا تھوڑا شرمندہ ہوئی

"سوری پر مجھے میری بات کا جواب چاہیے"تم تین سال بڑی ہو اِس کا یہ مطلب ہرگز مت لینا کہ میں تمہارے روعب میں آجاؤں گی۔۔۔میشا نے سنبھل کر کہا

"ابھی مجھے ایسی خوشفہمی لاحق نہیں ہوئی اور میں امی سے ملنے گئ تھی۔۔۔سوہان نے سرجھٹک کر بتایا

"اُن کو بتایا اپنی کامیابی کا؟"اگر وہ ہوتیں تو بہت خوش ہوجاتیں۔۔"اُن کو پتا چلتا جس مرد نے جس وجہ سے اُن کو چھوڑا آج اللہ نے وہ وجہ اُن کے لیے ایک ناسور بنادیا ہے۔۔۔میشا یکطرفہ مسکراکر بولی

"میں اُن کو کچھ بتا نہیں پائی۔۔۔سوہان صوفے پر بیٹھ کر بولی

"کیوں؟میشا نے الجھن بھری نظروں سے اُس کو دیکھا

"کیونکہ وہاں زوریز دُرانی آگیا تھا۔۔۔سوہان نے بتایا

"وہ وہاں کیوں آیا تھا"مطلب قبرستان میں اُس کا کیا کام؟میشا کو حیرت ہوئی


"اپنے لیے قبر کی جگہ بُک کروانے آیا تھا۔۔۔"وہ سامنے والی جگہ مجھے بہت پسند آئی ہے کیونکہ وہاں ٹریز بہت ہیں"اچھا ہے گرمیوں میں قبر کے اُپر سورج کی تپش نہیں پہنچ پائے گی وہاں۔۔۔


"میشا کے سوال پر سوہان کو بے ساختہ زوریز کا جواب یاد آیا تھا جس پر اُس نے بے ساختہ جھرجھری لی تھی۔۔۔

"وہ بہت چھوٹا تھا جب کار ایکسیڈنٹ میں اُن کے والدین کا انتقال ہوگیا تھا۔۔۔سوہان نے بتایا

"اُن کے والدین کی موت کا سُن کر کافی افسوس ہوا"یقیناً آپ کو یہ بات سرسری مُلاقات میں پتا لگی ہوگی۔۔۔میشا نے لفظ"ان"پر خاصا زور دیا اور آخر میں طنز کرنا بھی ضروری سمجھا

"ہممم۔۔سوہان نے ہنکارا بھرا آخری بات جبکہ اُس نے میشا کی نظرانداز کی

"ویسے سوہان تم دونوں پھر کسی ریسٹورنٹ گئے تھے یا کسی پارک میں؟میشا کو اچانک خیال آیا تو پوچھا

"ہم وہاں کیوں جانے لگے؟سوہان نے ناسمجھی سے اُس کو دیکھا

"کیا مطلب پھر تم دونوں قبرستان میں گپ شپ لگارہے تھے؟"آئے مین سیریسلی؟بات کرنے کے لیے وہ جگہ تم دونوں کو ملی تھی"مُردے لوگ بھی سوچ رہے ہوگے کے کہاں دفن کیا گیا ہے ہمیں جب زندہ تھے تبھی سکون سے سونے نہیں دیا اور جب مرچُکے ہیں تو یہاں بھی لوگوں کو چین نہیں۔۔۔میشا اپنی ٹون میں واپس آتی بولی تو سوہان نے کوفت سے اُس کو دیکھا

"میں نے ایسا کب کہا کہ میں اُن کے ساتھ گپ شپ کررہی تھی؟سوہان نے پوچھا

"جتنا وقت تم نے لگایا اِس سے مجھے اندازہ ہوگیا اور ضروری تو نہیں نہ کہ ہر بات بتائی جائے تب ہی آپ کو سمجھ آئے گی ورنہ نہیں۔۔۔میشا نے شانے اُچکاکر کہا

"باہر جاؤ مجھے فریش ہونا ہے اور ہر وقت ویلی نہ بیٹھا کرو فاحا کی کوئی مدد کیا کرو۔۔۔سوہان اپنی جگہ سے اُٹھ کر بولی

"اللہ اللہ ویلی اور وہ بھی میشا؟"اِتنا سنگین الزام دن کے بارہ گھنٹے میں کام کرتی ہوں اور تم بول رہی ہوں میں ویلی ہوں کل سے تو میں اٹھارہ گھنٹے کام کروں گی یہ تو میرے ساتھ زیادتی ہے۔۔۔میشا احتجاجاً بولی

"غلطی ہوگئ مجھ سے اب پلیز مجھے تھوڑا وقت دو تاکہ میں اپنی حالت کو سُدھار لوں۔۔۔سوہان نے بحث کرنا ضروری نہیں سمجھا

"ٹھیک ہے پر ایک بات بتاؤ تمہارا اور اُن کا کیا چکر ہے؟میشا نے شوخ نظروں سے اُس کو دیکھ کر پوچھا

"اُن کا کِن کا؟سوہان انجان بنی

"دا بزنس ٹائیکون زوریز دُرانی کی بات کررہی ہوں میں کیا تم دونوں کی مُلاقاتیں خوشگوار ہوتیں تھی جو ایک دوسرے کے بارے میں اِتنا جانتے ہو۔۔۔میشا نے پوچھا

"عام سی باتیں ہر کوئی جانتا ہے تم بات کو بڑھاؤ نہیں۔۔۔سوہان نے اُس کو گھور کر کہا

"میں بڑھا نہیں رہی بس جاننا چاہتی ہوں"آگے تمہاری مرضی ویسے لڑکا کافی ہینڈسم "سمارٹ گُڈ لکنگ ہارٹ اور چارم پرسنائلٹی کا مالک ہے اُس کو اِگنور کرکے گوانا مت۔۔۔۔میشا نے شرارت سے اُس کو دیکھ کر کہا جس پر سوہان کے ماتھے پر بلوں کی ایک لکیر بن گئ تھی۔۔

"مجھ سے دوبارہ اِس قسم کی بکواس مت کرنا اور ابھی جاؤ تم یہاں سے۔۔۔سوہان نے سختی سے کہا تو میشا کے چہرے کی رنگت بھک سے اُڑی تھی وہ حیرت سے سوہان کا غُصے سے سرخ پڑتا چہرے دیکھنے لگی۔

"سس سوہان تم ٹھیک ہو؟میشا کو فکر ہوئی

میشا لِیو۔۔۔سوہان نے باقاعدہ ہاتھ کے اِشارے سے اُس کو جانے کا کہا

"ٹھیک ہے میں جاتی ہوں وہ مجھے پہلی مُلاقات میں تمہارے لیے اچھا لگا تھا تبھی میں نے کہا آگے تمہاری مرضی۔۔۔میشا سنجیدگی سے کہتی اُس کے کمرے سے باہر نکل گئ اُس کے جاتے ہی سوہان نے اپنے کمرے کا دروازہ "ٹھاہ"کی آواز سے بند کیا تھا جس پر ٹیبل سجاتی فاحا کے ہاتھ سے پلیٹ چھوٹ کر نیچے گِری تھی۔۔۔

"اللہ اللہ یہ کیِسی آواز تھی؟فاحا نے بے ساختہ اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا اُس کا دل زوروں سے دھڑک رہا تھا

"باہر گولہ باری ہورہی ہے اُس کی آواز تھی۔۔۔میشا نے طنز کہا

"ہیں واقعی؟فاحا حیرت سے اُس کو دیکھنے لگی جس پر میشا کو تاؤ آیا

"تمہاری بہن کا دِماغ خراب ہوگیا ہے"اور لگتا ہے تمہارا بھی۔۔۔میشا اپنے لیے کُرسی گھسیٹ کر بیٹھتی تپے ہوئے انداز میں بولی

"میری بہن ہونے سے پہلے وہ آپ کی بہن ہے"کیونکہ میں آپ کے بعد دُنیا میں آئی ہوں اور کیا آپ بتاسکتی ہیں کہ وہ غُصے میں کیوں ہے اِتنی؟فاحا اُس کے پاس والی کُرسی پر بیٹھ کر پوچھنے لگی

"کچھ نہیں ہوا تم مجھے ایک سوال کا جواب دو۔۔۔میشا نے اُس کی توجہ دوسری طرف کروانی چاہیے"جو کی اُس کے لیے ایک آسان کام تھا

"سوال بتائے۔۔۔فاحا پوری طرف سے اُس کی جانب متوجہ ہوئی

"کہتے ہیں ایک عورت اپنی زندگی میں آنے والے دو مردوں کو کبھی نہیں بھولتی ایک جس سے اُس کو محبت ہو دوسرا جو اُس کو عزت دیتا ہے۔۔۔"کیا یہ سچ ہے؟تمہاری کیا رائے ہے اِس میں؟میشا نے بڑے سنجیدہ انداز میں اُس سے پوچھا

"سوال تو آسان ہے پر یار آپو ایسا کوئی مرد نہیں جس سے فاحا کو محبت ہو اور ایسا بھی کوئی نہیں جس نے فاحا کو عزت بخشی ہو تو میں آپ کو کیا جواب دوں؟فاحا نے پرسوچ لہجے میں جواب دیا تو میشا کو سمجھ نہیں آیا وہ اُس پر ترس کھائے یا ہنسے۔۔۔

"سہی کہا۔۔میشا نے سرجھٹکا

"ہاں نہ ایک عاشو بھیاں ہیں ہمارے جو سب کچھ ہیں ہمارے خیر آپ نے کیوں پوچھا؟فاحا نے جاننا چاہا

"کیونکہ مجھے لگتا ہے یہ تھیوری غلط ہے۔۔۔۔میشا نے کہا

"اچھا وہ کیسے؟فاحا نے پوچھا

"عورت اپنی زندگی میں آئے ہر مرد کو بھول سکتی ہے سِوائے اُس مرد کے جس نے اُس کو بھری محفل میں تنہا چھوڑا ہو"اُس کا ہاتھ تب جھٹکا ہو جب عورت کو اُس ہاتھ کی سب سے زیادہ ضرورت ہو عورت سب کچھ بھول سکتی ہے فاحا پر اپنی زندگی میں آئے بے وفا شخص کو نہیں۔۔۔میشا نے گہرے لہجے میں کہا

"جبھی آدھی دُنیا عورت کو بیوقوف کہتی ہے۔۔فاحا نے کہا تو میشا اُس کو گھورنے لگی۔

"اگر وہ بے وفا شخص کی یاد میں ڈوب جائے گی اُس کی بے وفائی کا ماتم منائے گی تو وہ کبھی آگے بڑھ نہیں پائے گی اور سوہان آپو کہتیں ہیں مستقبل بہتر بنانے کے لیے ماضی کی کڑوی یادوں کو بُھلانا پڑتا ہے۔۔۔فاحا نے کہا تو میشا اُس کے جواب پر لاجواب ہوئی تھی"پر وہ کچھ کہہ نہیں پائی کیونکہ سوہان وہاں آکر بیٹھ گئ تھی۔۔۔

"کباب بنایا ہے میں نے آپ کو پسند ہے نہ۔۔۔۔فاحا پلیٹ اُس کی طرف بڑھاکر بولی

"کباب کے پیسے کہاں سے آئے تمہارے پاس؟میشا نے مشکوک نظروں سے اُس کو گھورا

"کیا ہوگیا آپ کو؟"اور مہینے کی آخری تاریخوں میں آپ غریب ہوجاتیں ہیں میں نہیں۔۔۔۔فاحا نے جواباً ڈبل گھوری سے اُس کو نوازہ تھا جس پر میشا اُس کو زبان دیکھاتی کھانا کھانے میں مگن ہوگئ

❤Rimsha Hussain Novels❤

نوریز ملک کا آپریشن خیریت سے ہوگیا تھا جس پر صنم بیگم نے اللہ کا شکر ادا کیا تھا"اسیر نے بھی حویلی میں خبر پہنچادی تھی"اگلے دن سجاد ملک فائقہ بیگم اور اسمارہ بیگم کے ہمراہ شہر آگئے تھے۔۔۔۔

"آپ کا انتظار تھا چچا جان کو۔۔۔"مگر کافی لیٹ آئے ہیں آپ۔۔۔اسیر نے سجاد ملک کو دیکھ کر کہا

"گاؤں میں کام تھا تم بھی یہاں تھے تو سارا کچھ مجھے دیکھنے پڑرہا تھا تبھی نہیں آ پایا تھا۔۔۔سجاد ملک نے وجہ بتائی

"نذیر پھر کس کام کا ہے۔۔۔اسیر کو اُن کی بات محض ایک بہانا لگی

"چھوٹا بھائی ہے تمہارا جس کے بارے میں ایسے الفاظ استعمال کررہے ہو تم۔۔۔سجاد ملک نے ناگواری سے اُس کو دیکھ کر کہا

"ہم نے بس پوچھا ہے نوریز ملک بھی آپ کا چھوٹا بھائی ہے جنہوں نے فقط آپ کی وجہ سے اپنا گھر بھار چھوڑدیا تھا"پھر آپ کے ایسے رویے سے وہ کیا مطلب اخذ کریں؟اسیر نے اُن کو دیکھ کر سنجیدگی سے کہا

"تمہیں کیا لگتا ہے تمہیں مجھ سے زیادہ فکر ہے نوریز کی؟سجاد ملک نے سنجیدہ نظروں سے اُس کو دیکھ کر پوچھا

"ہمیں ایسی خوشقہمی نہیں ہے اور نہ ہم سوچتے ہیں"ہمیں اُن کی فکر نہ بھی ہوئی تو ہم نے اُن کا ساتھ دینا ہے بات یہاں آپ کی ہورہی ہے اِس لیے اُس کو گھماکر آپ ہم پر نہ ڈالے۔۔۔۔اسیر نے طنز لہجے میں کہا

"تم

"سہی بول رہا ہے اسیر آپ نے آج تک ہمارے لیے یا ہمارے بچوں کے لیے کچھ کیا ہے کیا؟"بس وہ سب کیا ہے جس سے ہمارا نقصان ہو آج ہمارا شیراز سہی ہوسکتا تھا اگر ہم مستقل شہر میں قیام پزیر کرتے"فراز پر یہ نوبت نہ آتی اگر آپ ایمانداری کا مُظاہرہ کرتے"معافی کیجئے گا مگر اِس میں کوئی شک نہیں کہ آپ نے نوریز ملک کی نسلیں کاٹ دی ہیں۔۔۔اسمارہ بیگم بھی گویا اُن پر بھڑک اُٹھی تھی۔۔"فائقہ بیگم اُن کی بات پر منہ پہ ہاتھ رکھ کر دیکھتی رہ گئ تھی جب سجاد ملک کا چہرہ غُصے سے سرخ پڑگیا تھا مگر اسیر ایسے کھڑا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہوا

"تمہاری گُستاخی کی سزا بہت خطرناک ہوسکتی ہے اسمارہ۔۔۔۔سجاد ملک نے اُٹھ کر اُن کو گھور کر کہا تھا

"زیادہ سے زیادہ کیا سزا ہوگی؟"نوریز ملک کے کان میری خلاف بھریں گے نہ تو کرلے جو کچھ آپ نے کرنا ہے مگر اب میں مزید خاموش تماشائی کا کردار ادا نہیں کرسکتی۔۔۔اسمارہ بیگم اپنے آنسوؤ صاف کرتیں مضبوط لہجے میں اُن سے بولی

تم

آج کے لیے اِتنا کافی ہے باقی حویلی میں یہی سے شروع کیجئے گا"یہ ہوسپٹل ہے ہمارا گاؤں نہیں اور یہاں لاؤڈلی بات کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔۔۔۔اسیر نے اُن کی آواز کو تیز ہوتا محسوس کیا تو بلاآخر ٹوک دیا تھا جس پر سجاد ملک نے خون آشام نظروں سے اپنے بیٹے کو دیکھا"کبھی کبھار اب اُن کو اسیر پر بہت غُصہ آجاتا تھا مگر بڑا بیٹے ہونے کی وجہ سے وہ مجبوراً خاموش ہوجاتے تھے اُس سے کچھ کہتے نہیں تھے اگر کہہ بھی دیتے تو اسیر پر کوئی خاص اثر نہیں ہوتا تھا"اسیر کی مثال اُن لوگوں جیسی تھی جو سُنتا سب کی تھا مگر کرتا بس اپنی تھا

"اسیر تمہیں تمہارے چچا یاد کررہے ہیں۔۔۔۔صنم بیگم بھی وہاں آئی تو اسیر کو دیکھ کر بولیں

"رُکو پہلے میں مل آتا ہوں۔۔۔سجاد ملک نے اسیر کو اُٹھتا دیکھا تو کہا

"انہوں نے بس اسیر کو آنے کا کہا تھا۔۔۔صنم بیگم نے آہستگی سے کہا تو سجاد ملک نے غُصیلی نظروں سے اُن کو دیکھا اور واپس اپنی جگہ بیٹھ گئے"لیکن اسیر ایک نظر اُن پر ڈالتا نوریز ملک کے وارڈ کی طرف چلاگیا۔۔


"آپ نے یاد کیا؟اسیر نے سنجیدگی سے پوچھا

"ہممم۔۔۔"میں تو اب ایک ماہ تک ناکارہ بیڈ پر رہوں گا پر تمہیں ایک کام سونپنا چاہتا ہوں۔۔۔۔نوریز ملک دیوار پر اپنی نظریں جمائے اُس سے بولے

"کیسا کام؟اسیر نے پوچھا

"تمہیں پتا ہے فراز کے خلاف کونسا وکیل تھا؟نوریز ملک نے پوچھا

"ہمیں نہیں پتا۔۔۔اسیر نے بتایا

"سوہان تھی۔۔۔نوریز ملک کی آنکھ سے ایک آنسو نکل کر تکیے میں جذب ہوا

"آپ کی بیٹی؟اسیر نے جانچتی نظروں سے دیکھ کر پوچھا"سالوں بعد اُس نے نوریز ملک کے منہ سے یہ نام سُنا تھا

"ہاں میری بیٹی جنہوں نے مجھے بتایا کہ میرا اُن پر کوئی حق نہیں۔۔۔۔نوریز ملک دُکھی لہجے میں بولے

"تو کیا آپ اپنا حق سمجھتے ہیں اُن پر؟"مگر کس حیثیت سے؟"ڈاکٹر نے تو کہا تھا آپ کو ٹینشن سے دور رکھا جائے مگر جب آپ نے خود شروع کیا ہے تو میں کہہ دیتا ہوں"اُن پر آپ کا کوئی حق نہیں اگر اتفاقً ملاقات آپ لوگوں کی ہوگئ تو ایسے اتفاق روز ہوا کرتے ہیں پھر ہم بھول بھی جاتے ہیں"آپ بھی یہ بھول جانا۔۔۔۔اسیر نے سنجیدگی سے کہا

"وہ میری بیٹیاں ہیں۔۔۔نوریز ملک کو جیسے اسیر کی بات پسند نہیں آئی مگر اُن کی بات پر اسیر کے چہرے پر استہزائیہ مسکراہٹ آئی تھی جس کو دیکھ کر وہ شرمندہ سے ہوگئے تھے

"بیٹیاں کیا ہوتیں ہیں آپ کو پتا بھی ہے؟"بیٹیاں باپ کے لیے باعثِ سکون ہوتیں ہیں"دل کی راحت ہوتی ہے"اور آپ نے اللہ کی رحمت کو زحمت سمجھ کر ٹھکرے کھانے پر مجبور کردیا تھا اب اگر وہ اپنی زندگیوں میں آگے بڑھ چُکیں ہیں کچھ کرچُکی ہیں تو آپ اُن کی زندگی میں مُداخلت نہ کرے۔۔۔اسیر نے سنجیدگی سے کہا

"وہ اکیلے کچھ بھی نہیں

"وہ اکیلے کچھ ہیں یا نہیں یہ آپ نہ سوچے پلیز کیونکہ جب سوچنا تھا تب آپ نے نہیں سوچا اور اب آپ کی باتوں سے ہر کوئی ہنس سکتا ہے اور کچھ نہیں کرسکتا اِس لیے کسی کو خود پر ہنسنے کا موقع نہ دے۔۔۔اسیر نے اُن کو ٹوک دیا تھا"

میں جانتا ہوں میں نے جو کیا وہ غلط تھا مگر میں اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں۔۔۔نوریز ملک پُختگی سے بولیں

"باہر سب کو لگ رہا ہے آپ فراز کی فکر میں نڈھال ہیں مگر یہاں کہانی کچھ اور ہے اور ازالہ کیسے کرینگے آپ؟"کیا آپ کا ازالہ اُن کا کل لوٹا سکتا ہے؟"آپ کو کیا لگتا ہے آپ کے ازالے سے سب ٹھیک ہوجائے گا؟"آپ جانتے کیا ہیں کہ اِن سالوں میں اُنہوں نے کیا کچھ سہا ہوگا؟اسیر بولنے پر آیا تو بولتا چلاگیا تھا

"اسیر جو تم مجھے آئینہ دیکھانا چاہتے ہو وہ مت دیکھاؤ کیونکہ مجھے اپنا چہرہ بہت بھیانک نظر آرہا ہے۔۔۔نوریز ملک ٹوٹے لہجے میں بولے

"آپ کو تو بس اپنا چہرہ بھیانک نظر آرہا ہے مگر کسی نے یہ بھیانک زندگی گُزاری ہے۔۔۔"بیس سال بعد اپنے گُناہ کی معافی مانگنا سراسر بیوقوف ہے"پتا ہے کیوں؟"کیونکہ آپ لوگوں کو ملانے والی قدرت ہے آپ کو اپنی غلطی کا احساس خود سے نہیں ہوا تھا"بلکہ اُن کو اُونچی مقام پر دیکھ کر آپ کو پچھتاوا اور رنجیدگی نے آ گھیرا تھا"کیا آپ کو یاد ہے بیس سال پہلے ایک ہسپتال میں اُن کے مطلق آپ نے کیا کہا تھا؟"اسیر نے سنجیدگی سے کہنے کے بعد آخر میں اُن سے پوچھا تو نوریز ملک کا چہرہ شرم کے مارے جُھک گیا تھا۔۔


"آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں اِن دونوں کا میں نے کرنا بھی کیا ہے خوامخواہ میرے سر پہ ناچے گی یہ دونوں آپ ٹھیک کہتی ہیں یہ بیٹیاں کسی کام کی نہیں ہوتی۔۔""


یہ الفاط اپنے وہ کیسے بھول سکتے تھے؟"اب تو شاید قیامت تک یہ الفاظ اُن کا پیچھا نہیں چھوڑنے والے تھے


"تمہیں ایک کام دینا چاہتا ہوں"جانتا ہوں تم اپنے علاوہ کسی اور کا کام نہیں کرتے مگر میری مجبوری ہے تمہارے علاوہ مجھے کسی اور پر یقین نہیں۔۔۔۔نوریز ملک اصل بات پر آئے

کیسا کام؟اسیر نے پوچھا

"مجھے یہ پتا کرکے دو کہ کیا وہ تینوں بہنیں اپنی ماں کے ساتھ یہی اسلام آباد میں رہتیں ہیں؟"اگر ہاں تو کس ڈیفنس میں اُن کا گھر ہے؟"یا وہ اب تک کس حال میں زندگی گُزارتیں آئیں ہیں۔۔۔۔نوریز ملک آس بھری نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولے

"ہم پتا کروائے گے مگر اِس سے کیا ہوگا؟اسیر نے جاننا چاہا

"میں اپنے ٹھیک ہونے کے بعد ایک دن بھی ضائع نہیں کروں گا اور اُن کو گاؤں لے آؤں گا۔۔۔نوریز ملک پُختگی سے بولے

"وہ آجائیں گیں؟اسیر نے پوچھا

"اُن کو آنا ہوگا۔۔۔نوریز ملک نے کہا

"چچی اسلحان کیا وہ یہ ہونے دینگی؟"اور سوہان کے بارے میں جیسا آپ نے بتایا کیا وہ آئے گی؟"دو تو چھوٹی ہیں پر اُن میں سے جو آخری ہوگی ہمارا نہیں خیال وہ آپ کا چہرہ تک دیکھنا گوارہ کرے گی۔۔۔اسیر نے پرسوچ لہجے میں اُن سے کہا

"خُدارا اسیر اگر تم کوئی تسلی یا اُمید دِلانے والی باتیں نہیں کرسکتے تو ایسی نااُمید والی باتیں بھی نا کرو۔۔۔نوریز ملک اُس کی بات پر تڑپ کر بولے

"جس کو آپ نااُمید والی باتیں بول رہے ہیں"اُن کو ہم حقیقت کہتے ہیں"خیر ایک دو دن تک آپ کو اپنی بیٹیوں کے بارے میں ہر چیز پتا چل جائے گی۔۔۔۔اسیر نے سرجھٹک کر کہا تو نوریز ملک نے گہری سانس بھری

سوہان کی آنکھ صبح دیر کُھلی تھی اور جب وہ سو کر اُٹھی تو اُس کا سیل فون مسلسل بج رہا تھا۔۔۔"وہ اپنے بال جوڑے میں مُقید کرتیں سیل فون کی اسکرین کو دیکھا تو کسی انون نمبر سے پچاس کالز لگیں ہوئیں تھیں"یہ دیکھ کر اُس کو تھوڑی حیرت ہوئی مگر پھر ایک خیال کے آتے ہی اُس نے کال بیک کرنا ضروری نہیں سمجھا"اُس کو لگا شاید کوئی ملک خاندان سے ہو۔۔"یہی سوچ کر وہ نمبر بلاک کرنے والی تھی"جب مسیج ٹون بجی۔۔۔"


"حضرت عبد الله بن عباس (رضی الله عنہ ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبروں کی زیارت کےلئے جانے والی عورتوں پر اور ان لوگوں پر لعنت فرمائ جوقبروں کو سجدہ گاہ بنائیں اور جو قبروں پر چراغ جلائیں -"


"مسیج پڑھ کر اُس کو اُچنبھا ہوا یہ اُسی انون نمبر سے آیا ہوا تھا۔۔۔"جس کو وہ اگنور کررہی تھی۔۔"لیکن دوسری طرف والا بھی کوئی ڈھیٹ کا سردار ثابت ہوا تھا


"آپ کو پتا ہونا چاہیے کہ لڑکیوں کا قبرستان آنا سہی نہیں ہے۔۔۔۔"


"کانوں میں زوریز کے الفاظ تازہ ہوئے تو اُس نے بے ساختہ اپنا ہاتھ سر پہ مارا تھا۔۔۔

"زوریز دُرانی۔۔۔نمبر دیکھ کر وہ آہستہ سے بڑبڑائی تھی۔۔"اور جب اگین کال آنے لگی تو اُس نے کال ریسیو کرلی۔۔۔

"میں جانتی ہوں ہمیں قبرستان جانے کی اِجازت نہیں ہوتیں اور میں ویسے بھی ایک یا دو بار گئ ہوں تو آپ کو بار بار مجھے شرمندہ کرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔کال اُٹھاتے ہی سوہان نے سنجیدگی سے بھرپور لہجے میں کہا تھا۔

"آپ مجھ پہچان گئ؟دوسری طرح ریوالونگ چیئر پر جھولتے زوریز مبہم مسکراہٹ سے بولا تھا

"ؑبدقسمتی سے۔۔۔سوہان نے روکھے لہجے میں کہا

"ایسی بدقسمتی ہو تو خوشقسمت ہونے کی دُعا کون کرے گا؟زوریز پرسوچ لہجے میں بولا

"آپ کو کوئی ضروری کام تھا؟سوہان نے سنحیدگی سے پوچھا

"جی اپنے کیس کے مُطلق آپ سے بات کرنا چاہ رہا تھا آپ بتائے"آپ کب فری ہوتیں ہیں؟زوریز نے سنجیدگی سے پوچھا

"میں فِری نہیں ہوتیں۔۔۔سوہان نے بتایا

"اوو یعنی آنے والے سال میں الیکشن آپ جیتنے والی ہیں" چلو یہ تو بہت اچھی بات ہے ویسے الیکشن جیتنے کے بعد آپ سب سے پہلے پاکستان کے لیے کیا کرنا پسند کرے گی؟زوریز اُس کی مصروفیت کا سُن کر بولا تو سوہان نے اپنی آنکھوں کو بند کرکے کُھولا تھا

"آپ کا اپنا وکیل کہاں ہے؟سوہان نے پوچھا

"وہ اپنی بیوی اور اپنے بچوں کے ساتھ چھٹیوں پر ہے۔۔۔۔زوریز نے بتایا

"کیس کی فائل آپ میرے پاس بھیج دے۔۔۔"وہ دیکھ کر میں کوئی فیصلہ لوں گی۔۔۔سوہان نے کہا

"کیس مل بیٹھ کر ڈسکس کرتے تو اچھا تھا۔۔۔زوریز نے کہا

"میں گھر میں دیکھ لوں گی آپ بس فائل بھیج دینا باقی کا کام میرا ہے۔۔۔۔سوہان نے اُس کی پیش کش کو رد کیا

"آپ کے گھر کا ایڈریس؟زوریز نے پوچھا

"مجھے نہیں لگتا وہ مجھے بتانے کی ضرورت ہے"کیونکہ جس شخص کو میرا پرسنل سیل نمبر مل سکتا ہے اُس کو گھر کا ایڈریس بھی پتا ہوگا"اور مجھے تو اب یہ لگ رہا ہے جیسے آپ نے میرے فون میں کوئی چِپ چُپکائی ہوئی ہے۔۔۔سوہان نے تپ کر کہا

"اللہ اللہ آپ نے تو مجھے گینگسٹر بنادیا آپ کے سیل فون میں چِپ؟"کیا واقعی میں آپ کو ایسا لگتا ہے؟"مجھے تو اِن چیزوں کا پتا نہیں میں کوئی ISI کا بندہ تھوڑئی ہوں اور جو آپ نے کہا ویسا تو کبھی میں نے سوچا تک نہیں۔۔۔زوریز جلدی سے وضاحت کرتا بولا

"میں آپ سے بحث میں نہیں پڑنا چاہتی آپ کیس کی فائل بھیج دے وہ دیکھ کر اگر مجھے لگا ہمیں ملنا چاہیے تو میں آپ کے آفس آجاؤں گی۔۔۔۔سوہان نے کہا

"ٹھیک ہے گُڈ لک۔۔۔زوریز نے سر کو خم دے کر کہا

"خُدا حافظ۔۔۔۔۔کہنے کے ساتھ ہی سوہان نے کال کاٹ دی تھی۔۔۔

"زوریز سے بات کرنے کے بعد وہ باہر آئی تو گھر میں کوئی بھی اُس کو نظر آیا۔۔۔۔"بس لاؤنج کی ٹیبل پر ایک چِٹ اُس کو نظر آئی جس کو دیکھ کر سوہان اُس کی طرف آئی۔۔


"انسٹی ٹیوٹ میں آج سوئیٹ ڈِش کُمپیٹیشن ہے فاحا اِس لیے آج جلدی گھر سے نکل گئ ہے آپ کا دُعا کیجئے گا۔۔"میرے نمبرز اچھے آئے۔۔۔"اور آپ کے لیے میں نے انڈا بوائل کرلیا تھا کہی بھی جانے سے پہلے ناشتہ کرلیجئے گا"میشو آپو نے ایک ہسپتال میں نرس کی جاب دیکھ لی ہے وہ کیفے کے بعد وہی جایا کرے گی اب۔۔۔

"فاحا"


چِٹ پڑھ کر جہاں پہلے اُس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئ تھی مگر اُس کی آخری لائن نے سوہان کو پریشان کردیا تھا۔۔

"اففف میشا تمہارا کچھ نہیں ہوسکتا۔۔۔۔سوہان چِٹ کو واپس رکھتی آہستہ آواز میں بڑبڑائی

❤❤❤❤❤❤❤

ہمیں سروے کرکے تمہارا منہ بنا ہوا ہے باقیوں کو تو بڑی خوشی سے کافی سرو کرتی ہو۔۔۔۔"میشا جس کا موڈ آج ایک بار پھر آف تھا اور کسی بھی کام میں اُس کا دل نہیں لگ رہا تھا لیکن اُس کے باوجود وہ آج اپنی جاب پر آئی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی آج بھی اگر وہ کام پر نہ آتی تو سیلری میں اُس کے پیسے کٹ جاتے پر آج وہ ایکٹو نہیں تھی جبھی ایک آوارہ لڑکا جو ہمیشہ اُس پر نظریں ٹِکائے بیٹھتا تھا آج جیسے ہی اُس کو موقع ملا وہ میشا کی کلائی دبوچ کر بولا تو اُس نے ایک اچٹنی نظر اُس پہ ڈال کر اپنی کلائی آزاد کروائی تھی"وہ چاہتی تو اُس کی ایسی جُرئت پر منہ توڑ سکتی تھی مگر بات یہ تھی کہ وہ ایسا چاہ کر بھی نہیں کرسکتی تھی کیونکہ یہ لوگ کیفے کے ریگولر کسٹمرز تھے جن کی عزت اُس کو ناچاہتے ہوئے بھی کرنا پڑ رہی تھی مگر دل میں اُس نے پکا اِرادہ کرلیا تھا کہ کیفے کے باہر اُس سے دو دو ہاتھ ضرور کرے گی۔۔۔

"آئیندہ آپ کو شِکایت کا موقع نہیں ملے گا۔۔۔۔میشا نے دانت پیس کر اُس کو دیکھ کر کہا

"ہممم سہی اور ذرہ اپنی اوقات میں رہا کرو تم۔۔۔۔وہ دوبارہ سے اُس کا ہاتھ پکڑ کر بولا تبھی کیفے میں آریان داخل ہوا تھا اور اندر آتے ہی اُس کی متلاشی نظریں میشا کو ڈھونڈنے میں تھی جو جلد ہی اُس کو نظر آئی دور سے ہی وہ بحث کی نوعیت کا اندازہ لگاسکتا تھا تبھی اپنی آنکھوں سے گاگلز اُتارے وہ خون آشام نظروں سے اُس لڑکے کو دیکھنے لگا جس نے میشا کا ہاتھ اپنی گرفت میں پکڑا ہوا تھا۔۔۔۔"آریان سے مزید دیکھنا برداشت نہیں ہوا تبھی اپنے قدم اُن دونوں کی طرف بڑھانے لگا

"ہاتھ چھوڑا میرا کمینے انسان ورنہ وہ حال کروں گی کہ تمہاری سوچ ہے۔۔۔۔میشا نے دبے دبے انداز میں اُس کو وارن کیا۔

"نہیں چھوڑتا دیکھتا ہوں تو کیا کرلیتی ہے بلیڈی کال گرل۔۔۔۔۔اُس شخص کا اِتنا کہنا تھا اور لمحے بھر میں میشا کا دماغ گُھوم گیا تھا جبھی بنا کچھ سوچے سمجھے وہ اُس آدمی کا سر بالوں سے دبوچے پوری قوت سے اُس کا چہرہ ٹیبل پر مارا تھا۔۔۔

"ایک زوردار آواز نے کیفے میں موجود ہر شخص کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔۔۔"وہ لوگ حیرت اور بے یقین نظروں سے میشا کو دیکھنے لگے جو بہت آرام سے کھڑی اپنے ہاتھ کو دیکھ رہی تھی اُس کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے اُس نے کچھ کیا ہی نہ ہو مگر ایک آریان تھا جس کی نظریں جو اُس پر ہٹیں نہیں تھیں اور جب اُس نے میشا کا ایسا جلادی روپ دیکھا تو کتنے ہی پل وہ ساکت اور جامد کھڑا خود کو یقین دِلانے کی کوشش کروانے لگا کہ اُس نے ابھی جو دیکھا وہ کیا تھا؟کیفے میں چھائی ہلچل نے بھی اُس کو اپنی طرف متوجہ نہیں کیا تھا وہ تو بس آنکھیں پھاڑے اُس کو آدمی کو دیکھنے لگا جو نڈھال سا اپنے سر سے اور ناک سے نکلتے خون کو دیکھ رہا تھا۔۔۔"یہ دیکھ کر آریان کا گلا بے ساختہ خُشک ہوا تھا۔۔۔"وہ تو میشا کے سامنے آج ہیرو بننا چاہتا تھا پر جو منظر اُس کو دیکھا تھا اُس منظر نے اُس کی ساری ہیروگیری نکال دی تھی۔۔۔۔

"آریان پوری دُنیا میں تمہیں ایک یہی لڑکی ملی تھی دِل لگانے کے لیے جو مارنے مرنے پر اُتر آتی ہے۔۔۔۔۔آریان سامنے والا سین دیکھ کر خود کو کوسنے لگا


"سوچ لو کل کو شادی کے بعد ایسا نہ ہو کہ تمہیں سوتا دیکھ کر گلا دبادے کے تمہیں ماردے پھر میت کے پاس بیٹھ کر یہ بولے کہ مجھے اپنے علاوہ کسی اور کا سونا پسند نہیں اور جو میرے ساتھ سوتا ہے میں اُس کو ہمیشہ کے لیے گہری نیند سُلادیتی ہوں۔


اور جب کانوں میں زوریز کے الفاظ تازہ ہوئے تو جیسے اُن الفاظوں نے اُس کی رہی سہی پست پیچھے کردی تھی۔۔۔

"لوگوں کو ملتیں ہوگیں وراثت میں جائیدادیں مگر مجھے تو بھئی غُصہ ملا ہے اِس لیے میشا عرف میشو سے ٹکر لیتے وقت سوچ لیا کرو۔۔۔۔میشا نے وارن کرتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر ایک ایک لفظ چبا کر ادا کیا تھا تبھی وہاں کیفے کا مینجر آیا تھا۔۔۔

"مس میشا آپ میرے ساتھ آئے۔۔۔اُس نے میشا کو دیکھ کر سنجیدگی سے کہا

"ُپتا ہے آپ نے کیا کہنا ہے وہاں آنے پر یہی نہ میں نے تمہیں لاسٹ وارننگ دی تھی پر تم نہیں سُدھری کیونکہ تم میں سُدھرنے والی ہڈی نہیں تو بھئی میں ایسی ہی ہوں"آپ نے جاب سے نکال کر شوق پورا کرنا ہے تو کرلوں مگر اُس سے پہلے اِس مہینے کے پچیس دن میں نے کام کیا ہے اور باقی کے بچے دن بھی کام کروں گی اور اِس ماہ کی مجھے اپنی سیلری چاہیے پھر تم جانو اور یہ کیفے میں آتے آوارہ گھٹیاں کسٹمر۔۔۔۔"میشا کا کوئی لینا دینا نہیں۔۔۔۔مینجر کو دیکھتی میشا نے ایک سانس میں اُس سے کہا تھا جس پر آریان کافی تعجب سے اُس کو دیکھنے لگا۔۔

"ایسا کیوں لگ رہا ہے جیسے یہ انڈرورڈ کی ڈون عرف ڈونی یا ایسے کسی خاندان سے اُس کا تعلق ہو"ویسے اٹیٹیوڈ تو کسی لیڈی گینگسٹر سے کم نہیں مگر میری مت کیوں ماری تھی جو اِس سے دل لگایا اب آریان وہ دن دور نہیں جب تیرا خوبصورت چہرہ میشا عرف مشی کے خوبصورت پیارے ہاتھوں سے ضائع ہوگا۔۔۔آریان اور اُس کی سوچ جوبن پہ تھی۔۔۔

"آپ نے میرا نُقصان کیا ہے ایسے میں بھول ہے آپ کی کہ آپ کو سیلری ملے گی۔۔۔مینجر نے اُس کو دیکھ کر سخت لہجے میں کہا

"کیا کہا زرا دوبارہ کہنا؟میشا کڑے تیوروں سے اُس کو گھورتی ایک قدم آگے آئی تو وہ بیچارہ گڑبڑا سا گیا

"میں نے کہا حساب کِتاب کے بعد آپ کو آپ کے پیسے مل جائے گے۔۔۔۔مینجر نے ہکلاہٹ سے کہا تو کیفے میں کھڑے لوگوں کی ہنسی چھوٹ گئ تھی

تمہارے لیے اچھا ہوگا۔۔۔۔میشا طنز مسکراہٹ سے کہتی واشروم کی طرف بڑھ گئ تھی

"آریان تیرا کیا ہوگا؟"کیا تُجھے اب محبت چھوڑ دینی چاہیے؟آریان کان کی لُو کُھجاتا آہستہ آواز میں بڑبڑایا تھا پھر ایکدم جیسے چونک پڑا

"بلکل بھی نہیں محبت میں ڈرنا تھوڑی ہوتا ہے تو کیری آن آریان جو ہوگا دیکھا جائے گا ویسے بھی اُس جنگلی بلی کو میں سنبھال لوں گا کوئی مشکل بات نہیں اِس میں۔۔۔۔آریان اپنے ڈھیٹ پن کا ثبوت دیتا وہاں جانے لگا جہاں میشا گئ تھی۔۔۔


"اور میشا ویٹریس کے یونیفارم سے آزاد ہوتی اپنے کپڑے پہن کر جیسے ہی باہر نکلی نظر آریان پر گئ

"تم یہاں؟میشا غُصے سے اُس کی طرف بڑھی تھی

"کیا ہوگیا ہے ڈرالنگ میں ہوں آریان۔۔۔۔آریان اِتنے بے تُکلف انداز میں اُس سے مخاطف ہوا جیسے روزانہ دونوں کی باتیں ایسے ہوا کرتیں تھیں۔۔

"ڈارلنگ؟میشا بونچارتی نظروں سے اُس کو گھورنے لگی

"ہاں تم میری ڈارلنگ ہو نہ بس جو آج اُس لڑکے کے ساتھ کیا کبھی وہ میرے ساتھ نہ کرنا۔۔۔آریان نے مسکین شکل بنائے کہا

"او تو وہ تم نے دیکھا؟میشا بازوں سینے پر باندھتی اُس کو دیکھ کر بولی

"ہاں دیکھا بلکل دیکھا"اور کتنے پل میں تو ایک جگہ کھڑا کا کھڑا ہوگیا تھا۔۔آریان نے بتایا

"تو میں یہ سمجھوں کہ تمہارے دل میں خوف بیٹھ گیا ہے؟میشا کے چہرے پر طنز مسکراہٹ آئی تھی دل کے کسی کونے میں اُس کو خوشی بھی ہوئی تھی یہ سوچ کر کہ شاید وہ اب اُس کی جان چھوڑدے

"ایسا دل نہیں رکھتے جو خوفزدہ ہوجائے میں تو یہاں تمہیں داد دینے آیا تھا یار کیا زبردست انداز ہوتا ہے تمہارا اب بھی دیکھو نہ کیسے پرسکون کھڑی ہو تمہیں یہ بھی ڈر نہیں کہ وہ لڑکا تمہارے خلاف پولیس میں کیس کرسکتا ہے۔۔۔آخر میں آریان نے بے ساختہ جھرجھری لی تھی۔۔۔

"یو نو واٹ تمہاری طرح میں بھی ایسا دل نہیں رکھتی جو تھوڑی تھوڑی باتوں پر خوفزدہ ہوجائے۔۔۔"اب تم ہٹو میرے راستے سے کہی میرا میٹر دوبارہ سے شاؤٹ نہ ہوجائے۔۔۔۔میشا اُس کو گھور کر بولی

"اب ہمارے راستے تو ہمیشہ کے لیے ایک ہیں۔۔۔۔آریان دانتوں کی نُمائش کرتا اُس سے بولا تو میشا نے ایک پنج اُس کو مارنا چاہا تھا پر آریان بڑی مہارت سے جُھک کر اُس کے پیچھے کھڑا ہوگیا تھا جس سے میشا حیران ہوئی

"کیا میں یہ سمجھوں کہ تمہیں سیلف ڈیفنس آتا ہے۔۔۔میشا اُس کی طرف مڑ کر بولی

"ہاں تم کہہ سکتی ہو ویسے کیا یہ ممکن نہیں کہ اب ہمیں نارمل انسانوں جیسا برتاؤ کرنا چاہیے یعنی میں اٹھائیس سال کا خوبرو نوجوان اور تم تیس سالہ خوبرو خاتون ہو ہمیں ایسی پچکانی حرکتیں سوٹ نہیں کرتیں ہمیں سنجیدہ ہوکر اب کوئی ایک فیصلے پر پہنچ جانا چاہیے۔۔۔۔آریان گلا کھنکھار کر بولا

"میں تیس سال کی خاتون نہیں ہوں۔۔۔میشا نے جیسے اپنے لیے بس یہی سُنا تھا۔

ڈونٹ وری خوبرو ایڈ کیا ہے۔۔۔آریان نے اُس کو تسلی دی

"دیکھو مسٹر

"آریان دُرانی نام ہے میرا۔۔۔۔میشا کچھ کہنے والی تھی جب آریان اُس کی بات کاٹ کر اپنا ہاتھ بڑھاکر بولا

"واٹ ایور۔۔۔۔۔میشا نے سرجھٹکا

"ہاتھ دے ڈالو ویسے بھی تمہارا ہاتھ میرے ہاتھ سے ٹچ نہیں ہوگا اِس لیے یہ مت سوچو کہ میرے لمس سے تمہاری رات کی نیند اور صبح کا سکون اُڑ جائے گا۔۔۔۔آریان اُس کے ہاتھوں کو دیکھ کر بولا تو میشا تپ اُٹھی

"میرا نام میشا ہے اور میں کوئی عام لڑکی نہیں اِس لیے سوچ سمجھ کر فلرٹ کرو۔۔۔۔میشا بلاخر اُس سے ہاتھ ملاتی بولی

"آریان ہوں میں جو فلرٹ نہیں محبت کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔۔۔۔آریان فخریہ انداز میں بولا

اچھا ایک بات پوچھوں؟میشا تھوڑا اُس سے نارمل ہوئی

"ایک کیوں ہزار پوچھو۔۔۔آریان خوش ہوکر بولا

تم کرتے کیا ہو؟میشا کی نظریں کسی ایکسرے کی طرح اُس کا جائزہ لینے لگی۔۔

"تم سے پاکستان کے قرضے جتنی محبت کرتا ہوں

"یہ محبت ہمیشہ زندہ رہے گی بھٹو کی طرح۔۔


"جواب میں آریان اُس کے پاس گُھٹنوں کے بل بیٹھ کر دلکش انداز میں بولا تو میشا کے سر پہ لگی اور تلوؤ پہ بُجھی


"تو طے پایا تم کبھی نارمل نہیں ہوسکتے اور نہ نارمل انسانوں جیسا انداز اپنا سکتے ہو۔۔۔۔میشا ایک تھپڑ اُس کے کندھے پر مارا جس سے آریان نے بچوں کی طرح مُنہ بنایا

"اِس کو پرپوز کرنا کہتے ہیں اور کیا تمہاری نظر میں اپنے دل کا حال بیان کرنا ابنارمل انسان کے زمر میں آتا ہے؟آریان اپنی جگہ سے کھڑا ہوکر بولا

"لِسن

آریان۔۔۔

آریان نے اُس کی بات درمیان میں اچک لی

ہاں جو بھی میں تمہارا پرپوزل پورے ہوش وحواس سے قبول نہیں کرتی۔۔۔میشا نے بیزاری سے کہا

مائے ڈارلنگ ایسا تو نہ کہو۔۔۔آریان ڈرامائی انداز میں بولا

"تم ایک نان سیریس انسان ہو۔۔۔۔میشا نے اُس کو گھور کر کہا

"بلکل اگر میں سیریس ہوتا تو کیفے کے بجائے ہسپتال کے کسی وارڈ میں ہوتا۔۔۔۔آریان باز نہ آیا تھا

"اچھا میں تمہیں ایک بات بتاتی ہوں جس کا تعلق ہمارے خاندان کی عورتوں سے ہے۔۔۔میشا نے کچھ سوچ کر کہا

"کیا اُن عورتوں میں تمہارا شُمار ہوتا ہے۔۔۔آریان نے پوچھا

ہاں۔۔۔میشا نے اپنے لفظ پر خاصا زور دیا

اچھا پھر بتاؤ۔۔۔۔آریان نے اُس کو اِجازت دی

دیکھو ہمارے خاندان میں یہ ہوتا ہے ایسا سمجھو جیسے ہمارے خاندان کی عورت کو یہ بُددعا ہے وہ جس لڑکے سے پہلی شادی کرتی ہے وہ لڑکا شادی کی پہلی رات جب کمرے میں آتا ہے تو وہ مرجاتا ہے۔۔۔میشا کہہ کر کِن آکھیوں سے اُس کو دیکھا

کوئی نہیں میں شادی کی دوسری رات کمرے میں آجاؤں گا اب جہاں اِتنا انتظار کیا ہے وہاں ایک رات کا اور سہی۔۔۔۔آریان نے گویا اُس کی بات ہٙوا میں اُڑائی تھی اور میشا اُس ڈھیٹ انسان کو گھورتی رہ گئ

تمہیں یہ مذاق لگ رہا ہے؟

یقین کرو بلکل بھی نہیں وہ تو میں نے اندازا لگایا ویسے بھی تمہاری بات سے یہی ثابت ہوتا ہے جس نے بھی بددعا دی ہے اُس کی مُدت شادی کی ایک رات تک ہے۔۔۔آریان نے مزے سے کہا تو میشا صبر کا گھونٹ بھر کر اُس کو دیکھتی رہ گئ وہ جان گئ آریان جیسی بلا سے اُس کو چُھٹکارا اِتنی آسانی سے ملنے والا نہیں تھا۔

❤Rimsha Hussain Novels❤

"اسلحان چچی کا آج سے کچھ سال پہلے انتقال ہوگیا تھا اُن کو کینسر جیسا مرض لاحق ہوگیا تھا۔۔۔"اور اگر بات کی جائے آپ کی بیٹیوں کی تو وہ کسی خاتون کے ساتھ ایک ساتھ رہتیں ہیں۔۔۔"کل تک آپ کو میں اُن کی تصاویر دیکھادوں گا۔۔۔"گھر اِن کا کرائے کا ہے یہاں اُن کا اپنا گھر بھی تھا جو اُن کے بھائی نے لیکر دیا تھا"مگر جس مُحلے میں تھا وہاں کے لوگوں کا برتاؤ کافی خراب تھا"یہی وجہ تھی کہ اسلحان چچی اُن تینوں کو لیکر کرائے کے مقان میں رہنے آئیں تھیں اور اپنا گھر اُنہوں نے کرائے پر چڑھایا تھا جہاں اُتنی آمدنی ہوجاتی تھی کہ گھر کا گُزر بسر ہوجاتا کرتا "تعلیم کے اخراجات وہ اُن سے پورا کرتیں تھیں جو ان کے بھائی نے اُن کو جائیداد کا حصہ دیا تھا مگر وہ ختم ہوگئے تو اپنا گھر بیچ ڈالا اُنہوں نے اور وہ پیسے اسلحان چچی کے علاج میں لگے تھے اب وہ تینوں کماتیں ہیں تو کھاتیں ہیں ورنہ بھوکے پیٹ رہتیں ہیں۔۔۔۔"وہ کسی ڈیفنس میں نہیں رہتیں ایک چھوٹے سے محلے کے چھوٹے سے کرائے کے گھر میں رہتیں ہیں جہاں بجلی گیس کا بِل اُن کو پے کرنا ہوتا ہے کرایہ بھی وقت پر دینا ہوتا ہے اِس ڈر سے کہ کہی مکان مالک اُن کو گھر سے باہر نہ نکال دے"یہ زندگی وہ جیتی آئیں ہیں لیکن ایک بات وہ اپنے اِس حال میں خوش ہیں۔۔۔"گیس بند ہوجاتا ہے کوئی چیختا چلاتا نہیں۔۔"لائیٹ کا مسئلہ ہوجائے تو وہ چھت پر چلی آتیں ہیں۔۔۔۔اسیر ملک بیڈ پر لیٹے نوریز ملک کو اُن بہنوں کی زندگیوں کے بارے میں ایسے بتانے لگا جیسے کوئی شاگرد اپنے اُستاد کو سبق سُناتا ہے۔۔۔"اُس کی باتوں کو سُن کر نوریز ملک کو لگ رہا تھا جیسے اُن کا دل کسی نے مُٹھی میں جکڑ لیا تھا اُن کے ایک غلط فیصلے نے جانے کتنوں کی زندگیوں کی برباد کردیا تھا جس کا احساس اُن کو اب ہورہا تھا۔

"یہ کیا ہوگیا خُدایا۔۔۔۔نوریز ملک کی آنکھیں بھیگ گئیں تھیں۔۔۔۔۔

"اُن کو اُن کے حال پر چھوڑدے یہ ہمارا آپ کو مُفید مشورہ ہے۔۔۔۔اسیر ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھتا اُن کو دیکھ کر بولا

"ایسا اب ممکن نہیں اسیر میں اُن سے ملوں گا اپنے ہر گُناہ "ہر زیادتی کا حساب دوں گا۔۔۔"اور اُن کو ایک خوشحال زندگی فراہم کروں گا دیکھنا تم سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا پھر۔۔۔۔نوریز ملک خود کو اُمید دِلاتے ہوئے بولے

"اسٹار پلس کا ڈرامہ نہیں ہے نہ اصل زندگی ہے اور اصل زندگی میں کوئی انسان خود پر ہوئے مُظالم کو بھول نہیں پاتا اور نہ اُس کا دل اِتنا بڑا ہوتا ہے کہ پل بھر میں آپ کو ہر بات کی معافی دے کر پرسکون ہوجائے "آپ کا اُن سے معافی کی اُمید رکھنا ایسے ہے جیسے آگ اور پانی ایک ساتھ برسات میں بجلی کا ہونا جس طرح یہ چیزیں ممکن نہیں ٹھیک ویسے معافی بھی ممکن نہیں پر آپ اپنی کوشش کرتے رہے۔۔۔۔۔اسیر شانے اُچکائے جواب دیا تھا

"تم کافی زیادہ حقیقت پسندانہ باتیں کرتے ہو پر کبھی خود کو میری جگہ پر رکھ کر سوچو۔۔۔۔نوریز ملک نے افسوس سے اُس کو دیکھ کر کہا

"ہم جہاں ہیں وہیں رہنے دے۔۔۔۔اسیر سنجیدگی سے بولا

"میرا ایک اور کام کرو تم سوہان سے ملو اُس کو میری حالت کا بتاؤ کیا پتا اُس کا دل پِگھل بھی جائے۔۔۔۔نوریز ملک نے آس بھری نظروں سے اُس کو دیکھ کر دوسرا کام دیا

"وہ بچی نہیں ہے اور ہم اُس سے مل کر بات کیا کرینگے؟"آپ ہمیں وہ کام نہ کرنے کا کہے جو ہم کر نہیں سکتے۔۔۔۔۔اسیر کا انداز دو ٹوک تھا۔۔۔

"پلیز اسیر منع نہیں کرو تم میری آخری اُمید ہو۔۔۔نوریز ملک نے گویا التجا کی

"وہ ہم سے کیوں ملے گی آپ یہ بتائے؟اسیر نے سوال داغا

تم کوشش کرکے تو دیکھو کیا پتا وہ تمہاری سُنے اگر وہ نہیں تو میشا اور پھر تیسری سے۔۔۔۔نوریز نے کہا تو لفظ"تیسری"پر اسیر کے چہرے پہ استہزائیہ مسکراہٹ آئی

"اُس تیسری کا نام فاحا ہے۔۔۔اسیر نے بتایا تو نوریز ملک شرمندہ سے ہوگئے کیسے باپ تھے وہ جن کو اپنی اولاد کا نام تک معلوم نہیں تھا۔۔

"تم ملے ہو اُس سے؟نوریز ملک نے پوچھا

"ہم اُن سے کیوں ملنے لگے؟اسیر نے اُلٹا اُن سے سوال داغا

میں چاہتا ہوں تم باری باری اُن سے ملو درخواست ک

"ہم اسیر ملک ہیں اور ہم حُکم سُنانے کے عادی ہیں درخواست کرنا ہماری شخصیت کا خاصا نہیں ہے یہ ہماری شان کے خلاف ہے اور ہم اپنی شان کے خلاف کوئی کام نہیں کرتے۔۔۔۔نوریز ملک کچھ کہنے والا تھا جب اُن کی ادھوری بات کا مطلب اخذ کرتا اسیر سنجیدگی سے بھرپور آواز میں بولا تھا۔۔

"یہ بہت بڑے الفاظ ہیں تمہارے اسیر زندگی بہت ظالم چیز ہے ایسے ایسے کام انسان کو کروانے پر مجبور کردیتی ہے جس کا اُس انسان نے کبھی سوچا تک نہیں ہوگا۔۔۔نوریز ملک اُس کی بات سن کر بولے

"ہم اپنی بات پر قائم رہنگے لکھ کر رکھ لے اسیر ملک اپنی بات کا پکا ہے۔۔۔۔"اور ہم سوہان سے ایک مرتبہ آپ کی خاطر بات ضرور کرینگے۔۔۔۔اسیر نے اُن پر جیسے احسان کیا

"فاحا سے نہیں؟نوریز ملک تھوڑا جِھجھک کر بولے

"وہ بچی ہوگی ہم بچی سے بات کرکے اپنا وقت ضائع کیوں کرے؟اسیر ملک نے کہا تو نوریز ملک کو چُپ لگ گئ اُن کے لیے اِتنا ہی کافی تھا کہ اسیر مان گیا تھا چاہے پھر سوہان سے بات کرنے کے لیے سہی۔۔۔

❤❤❤❤❤

آپ کون؟باہر کا دروازہ نوک ہونے پر سوہان باہر آئی تو فل بلیک ڈریس میں ملبوس آدمی کو دیکھ کر تعجب سے پوچھا

"یہ دونوں چیز سر نے آپ کے لیے بِھجوائیں ہیں۔۔۔۔۔۔اُس آدمی نے ایک فائل اور خوبصورت پُھولوں کا بُکا اُس کی طرف بڑھائے بتایا

سر؟سوہان نے سنجیدگی سے اُس کو دیکھ کر پوچھا

"زوریز دُرانی۔۔۔اُس نے بتایا

"ایک منٹ یہی رہنا۔۔۔۔۔سوہان اُس کو وہی رُکنے کا کہتی اندر آکر زوریز کا نمبر ملانے لگی جو دوسری بیل پر ریسیو ہوا تھا

السلام علیکم خیریت؟زوریز جو میٹنگ سے ابھی فارغ ہوا تھا اُس نے جب اپنے سیل فون پر سوہان کی کال کو آتا دیکھا تو حیرت سے پوچھنے لگا

وعلیکم السلام یہ کیا ہے؟سوہان نے سنجیدگی سے پوچھا

"یہ سے مُراد؟زوریز کی نظروں میں اُلجھن در آئی

"آپ کو میں نے فائل کا کہا تھا بس اور آپ نے یہ پھولوں کا گُلدستہ بھیجا ہے؟"اِس کا میں کیا مطلب اخذ کروں؟سوہان نے سنجیدگی سے بھرپور آواز میں کہا اُس کے لہجے میں ناگواری زوریز پل بھر میں بھانپ گیا تھا

"پُھولوں کا کیا مطلب ہوتا ہے؟زوریز اب ساری بات سمجھتا اُس سے بولا

"یہی کے آدمی کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔۔۔۔سوہان نے دانت پیس کر کہا تھا

"کافی الگ اور یونیک مطلب نکالا ہے آپ نے خیر میں نے آپ کو گُڈ وشز دینے کے لیے پھول بھیجے تھے آپ نے جانے کیوں اِتنا ری ایکٹ کرلیا ہلانکہ اِس میں کوئی بڑی بات نہیں آپ چاہے تو آپ بھی مجھے ریٹرن میں پُھول بھیج سکتیں ہیں۔۔۔۔زوریز جواباً کافی رلیکس انداز میں بولا تو فون کان سے ہٹائے سوہان نے اسکرین کو گھورا جیسے سامنے زوریز کا چہرہ ہو

"مجھے ایسی چیز پسند نہیں اور میں اُمید کروں گی آپ دوبارہ ایسی کوئی حرکت نہیں کرینگے اور نہ کبھی لال پھول بھیجے گے۔۔۔۔سوہان نے دو ٹوک لہجے میں کہا

"کیا آپ کو لال پھولوں کے علاوہ کسی اور رنگ کے کلر پسند ہیں؟زوریز نے پوچھا

"مجھے کیا پسند ہے یا کیا نہیں اُس سے آپ کو مطلب نہیں ہونا چاہیے میں بس چاہتی ہوں آپ بس کام کی حد تک مجھ سے رابطہ کریں اُس سے زیادہ نہیں۔۔۔۔سوہان نے کہا

"ہاں تو میں نے غیرضروری کوئی بات یا حرکت بھی نہیں کی بس آپ نے میرا اِتنا بڑا کیس لیا ہے تو بیسٹ وشز کے لیے میں نے آپ کو پھول بھیجے اگر آپ کی جگہ کوئی اور ہوتا تو شاید میں یہی کرتا خیر آئیندہ ایسا نہیں ہوگا۔۔۔۔زوریز نے سنجیدگی سے کہا

"آپ کا بہت شکریہ اور میں یہ پھول واپس بھیج رہی ہوں۔۔۔۔سوہان نے کہا

"اپنے گھر کے کسی ڈسٹ بن میں پھینک دے یا پاؤں کے نیچے کُچل دے مجھے کوئی شکوہ نہیں ہوگا پر اگر آپ نے واپس بھیجے تو مجھے بہت افسوس ہوگا۔۔۔زوریز نے اپنی بات کہہ دینے کے بعد کال کاٹ دی تھی جس پر سوہان بس بند ہوتی اسکرین کو دیکھتی رہ گئ تھی۔."پھر اُس نے اُن پھولوں کو دیکھ کر اپنے تھوڑے قریب کیا پھر ایک لمبا سانس اپنے اندر کھینچا عین اُسی وقت اُس کے فون پر میسج ٹیون بجی تھی۔۔"جو زوریز کی طرف سے تھی


"پھول خوشبوں بکھیرنے میں اہم کام سرانجام دیتے ہیں لہذا اُن کو دیکھ کر ناراض ہونے کے بجائے مسکرایا کریں 🙂


میسج پڑھ کر سوہان نے گھر کے دروازے کی طرف دیکھا جہاں سے آدمی اُس کو نظر نہیں آیا شاید وہ چلاگیا تھا۔۔۔۔

❤Rimsha Hussain Novels❤

"عاشر نے گہری سانس ہوا کے سُپرد کرکے کیفے میں بیٹھی لالی کو دیکھا پھر اپنے ہاتھ میں موجود شاپر کو دیکھا اور اپنی اور فاحا کی باتیں یاد کرلینے لگا۔۔۔

حجاب میں اُس کو دوں تو سہی پر وہ بُرا مان جائے تو؟عاشر فاحا کی بات پہ تھوڑا جِھجھک کر بولا

"وہ بُرا کیوں مانے گی؟"یہ تو ایک بہت اچھا تُحفہ ہے دوسرا لڑکی ہر چیز لینے سے انکار کرسکتی ہے پر حجاب لینے سے وہ کبھی انکار نہیں کرپائے گی۔۔۔ فاحا نے اُس کو تسلی کروائی تھی۔

"وہ آلریڈی بہت بڑی چادر اوڑھتی ہے۔۔۔۔عاشر لالی کو تصور میں سوچ کر اُس کو بولا

"اُس چادر کا کیا فائدہ جب بال ظاہر ہونے لگے تو آپ ایسا کریں حجاب اُس کو تحفے میں دے۔۔۔"اور باتوں ہی باتوں میں اُن سے اپنے دل کا حال بیان کرے فاحا کی بات لکھ لے آپ کوئی انکار نہیں ہوگا۔۔۔۔فاحا نے کہا تو عاشر نے سمجھنے والے انداز میں سر کو جنبش دی تھی۔

السلام علیکم ۔۔۔۔سوچو کی دُنیا سے واپس آکر عاشر لالی کی طرف آیا تھا۔

وعلیکم السلام جی؟لالی نے نظریں اُٹھائے اُس کو دیکھا

یہ آپ کے لیے؟عاشر نے شاپر اُس کی طرف بڑھایا

"یہ کیا ہے؟لالی نے ہاتھ بڑھائے بنا ایک نظر شاپر پر ڈال کر اُس سے پوچھا

اِس میں

"لالی سجاد باہر آپ کے بھائی آپ سے ملنے آئے ہیں۔۔۔۔ابھی عاشر اُس کو بتانے والا تھا جب کیفیٹریا میں ایک اسٹوڈنٹ نے آکر لالی سے کہا تو عاشر کی بات درمیان میں ہی رہ گئ تھی۔۔۔

"ایکسکیوزمی۔۔۔لالی جلدی سے اپنی جگہ سے اُٹھتی باہر کی طرف بڑھی تھی اور عاشر اپنا ہاتھ پیچھے کرتا اُس کو جاتا دیکھنے لگا کچھ سوچ کر وہ اُس کے پیچھے گیا تھا۔۔۔۔


"السلام علیکم بھائی کیسے ہیں آپ"اور حویلی میں باقی سب؟لالی نے مسکراکر اسیر ملک کو دیکھا جو آج کاٹن کے بلیک شلوار قمیض میں ملبوس کھڑا تھا اور کندھوں پر ہمیشہ کی طرح شال اُوڑھی ہوئی تھی"اُس کے پیچھے آدمیوں کی لائن لگی ہوئی تھی جو ہمیشہ اسیر کے ساتھ ہوا کرتیں تھی

"وعلیکم السلام ہم ٹھیک ہیں آپ تیاری کرلیں اماں آپ کو یاد کررہی تھی تو آپ کو حویلی چھوڑ آئے گے ہمیں شہر میں اور بھی بہت سے کام ہیں۔۔۔۔اسیر لالی کو سلام کا جواب دیتا سنجیدگی سے بولا"اور گیٹ پاس عاشر آیا تو اسیر ملک کا جائزہ لینے کے بعد اُس کی گاڑیوں کو دیکھنے لگا انجانے میں اُس کی گرفت شاپر پر مضبوط ہوئی تھی"اُس کو اندازہ نہیں تھا کہ لالی کا تعلق اِتنے بڑے خاندان سے ہوگا لالی کا سادہ انداز اور رُکھ رکھاؤ سے اُس کو یہی لگتا تھا کہ شاید وہ بھی میڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھتی ہوگی مگر آج اسیر کو دیکھ کر اُس کو اپنی خیالات غلط ثابت ہوتے محسوس ہوئے تھے" اگر اُس کو اندازہ ہوتا تو وہ کبھی لالی سے دل نہ لگاتا آج وہ سمجھ نہیں پایا اپنے غریب ہونے پر شکوہ کرے یا لالی کے بڑے خاندان سے ہونے پر افسوس کریں؟

"جی ضرور مجھے بھی سب کی بہت یاد آرہی ہے اور اب تو اقدس سے بھی مُلاقات ہوگی۔۔۔لالی پرجوش آواز میں بولی

"بلکل ابھی آپ کا اگر کوئی سامان اندر ہے تو لائیے ہم نے ویسے بھی یونی والوں سے بات کرلی ہے۔۔۔۔اسیر نے کہا تو لالی سر کو جنبش دیتی گیٹ کی طرف رُخ کیا تو نظر ایک جگہ ٹِک کر کھڑے ہوئے عاشر پر گئ جس کی نظروں میں جانے ایسا کیا تھا جو وہ بے ساختہ نظریں چُرانے پر مجبور ہوگئ تھی"اُس کے برعکس عاشر ایک آخری نظر اُس پہ ڈال کر اندر چلاگیا تو لالی بھی اپنا سرجھٹک کر یونی کے اندر داخل ہونے لگی۔۔۔

Rimsha Hussain Novels❤

"آپ کا منہ کیوں بنا ہوا ہے؟فاحا اسکوٹی پر میشا کے پیچھے بیٹھتی اُس سے پوچھنے لگی۔۔۔

دن خراب گُزرا ہے میرا۔۔۔۔میشا نے بتایا

"آپ کا دن؟فاحا کو یقین نہ آیا

"ہاں جی میرا دن کیفے سے نکال دی گئ ہوں۔۔۔۔میشا نے بتایا

"وہاں پر بھی آپ کے ہاتھوں کو چین نہ آیا؟فاحا کو گویا افسوس ہوا

"ہاں جی نہیں آیا اور اب تم چپ رہو خبردار جو سوہان سے کچھ بھی کہا تو۔۔۔میشا نے اُس کو خبردار کیا

"فاحا کیوں بتانے لگی آپو کو آپ خود بتانا ویسے بھی فاحا مصروف رہنے والی ہے کیونکہ اُس نے انویٹیشن کارڈ تیار کرنے کا سوچا ہے اور آپ کو پتا ہے کیا؟"گنے چُنے گیسٹ لیسٹ میں فاحا نے زوریز دُرانی کا نام بھی ایڈ کیا ہے۔۔۔۔فاحا نے پرجوش لہجے میں اُس کو بتایا تو میشا نے بے ساختہ اسکوٹی کو بریک گائی تھی

"کیا ہوا؟"فاحا کو ہسپتال پہنچانا تھا کیا،؟فاحا اپنے دھڑکتے دل کو سنبھالتی اُس کو گھورنے لگی۔۔

"زوریز دُرانی کہاں سے آگیا یاد تمہیں؟میشا نے اُس کی بات اگنور کی

فاحا اُس کو بھولی کب تھی؟"ہائے کیا لش پش پرسنائلٹی تھی اُس کی خیر فاحا نے سوچا آپو سوہان اور اُن کی مُلاقات ضرورت سے زیادہ سرسری ہوئی تھی تو کیوں نہ اِس بار گہری اور اچھی والی میٹنگ کروائی جائے۔۔۔فاحا نے جھٹ سے جواب دیا

"سوچ لو کہی لینے کے دینے نہ پڑجائے۔۔۔میشا کو ٹھیک نہیں لگا

"فاحا پُرامید ہے آپ بھی ٹینشن نہ لو۔۔۔۔فاحا نے مزے سے کہا

"وہ نہیں آئے گا وہ کوئی عام شخصیت نہیں ہے فاحا۔۔۔میشا نے اُس کو سمجھانا چاہا

"عام خاص کچھ نہیں ہوتا بس آپ دیکھ لینا وہ ضرور آئے گے۔۔۔۔فاحا نے پُریقین لہجے میں کہا تو میشا کندھے اُچکاتی اسکوٹی کو دوبارہ چلانا شروع کیا

❤Rimsha Hussain Novels❤

سجاد ملک اپنے کمرے میں غُصے سے یہاں سے وہاں ٹہل رہے تھے اُن کی پیشانی میں اِن گنت بلوں کا اضافہ تھا جبکہ پورا چہرہ غُصے کی بدولت تمتمارہا تھا"اُن کا بس نہیں رہا تھا کہ پوری دُنیا کو آگ لگادیتے۔۔"اُن کو اسیر کی زبانی جیسے ہی ساری حقیقت معلوم ہوئی تھی تب سے وہ بے چین سے تھے ایک لمحے کے لیے بھی اُن کو سکون میسر نہیں ہوا تھا"نوریز ملک ڈسچارج ہوکر حویلی آگئے تھے مگر اُنہوں نے ایک بار بھی اُن سے بات کرنا گوارا نہیں کیا تھا۔۔۔


"پرسکون ہوجائے آپ میری بات لکھ لے وہ منحوس کبھی ہماری حویلی میں اپنے یہ سبز قدم نہیں رکھیں گی۔۔۔فائقہ بیگم جو مسلسل اُن کو دیکھ رہی تھی آخرکار بولے بغیر نہ رہ پائی تھی۔۔۔"جواباً سجاد ملک ایک نظر اُن کو دیکھ کر دوبارہ اپنے کام میں لگ گئے۔

"میں نے فیصلہ کرلیا ہے۔۔۔سجاد ملک کچھ توقع بعد بولے

"کیسا فیصلہ؟فائقہ بیگم چونک سی گئیں۔۔۔۔

"نوریز ملک ایک بار پھر بغاوت پر اُتر آیا ہے تو میں بھی اب وہ کام کروں گا جو سالوں پہلے کردینا چاہیے تھا۔۔۔سجاد ملک کی بات سن کر فائقہ بیگم کی آنکھوں میں اُلجھن در آئی تھی وہ ابھی تک سجاد ملک کی باتوں کو سمجھ نہیں پائیں تھیں۔

"آپ صاف صاف بات کیوں نہیں کرتے۔؟فائقہ بیگم اکتاکر بولیں

"وقت آگیا ہے کہ نوریز ملک کی بیٹیوں سے سانسیں چھین لی جائے" ویسے بھی اُنہوں نے کچھ زیادہ زندگی گُزار لی ہے مگر اب بس بہت ہوگیا اُن کو اِس بوجھ سے آزاد ہونا چاہیے۔ ۔۔۔سجاد ملک شیطانی مسکراہٹ سے بولیں تو اُن کی ساری بات سمجھ جانے کے بعد فائقہ بیگم کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آئی تھی

"تو یہ نیک کام آپ کب کرنے والے ہیں؟ فائقہ بیگم نے پوچھا

"آدمی تلاش کررہا ہوں جو ایسے کاموں میں ماہر ہو میں اگلی بار کی طرح اِس بار کوئی کوتاہی برداشت نہیں کرسکتا۔۔۔سجاد ملک نے کہا

"جیسا آپ کو بہتر لگے سچ پوچھیں تو نوریز کے اندر جاگی اچانک بیٹیوں کی محبت دیکھ کر میں خود کوفت زدہ ہوگئیں ہوں۔۔۔فائقہ بیگم بیزاری سے بولیں

"فکر نہیں کرو یہ کام بس ایک ماہ میں ہوجائے گا۔۔۔۔"سجاد ملک نے اُن کو تسلی دِلوائی تھی۔۔"کمرے کے دروازے کے پار کھڑی اسمارہ بیگم کے چہرے پر اُن کی بات سن کر زہریلی مسکراہٹ آئی تھی جو کسی اچھی بات کا پیش خیمہ ہرگز نہیں تھی۔۔۔۔

❤Rimsha Hussain Novels❤

آپ کو ایک بات بتانا چاہتا ہوں میں۔۔۔۔آریان نے کچن میں کھڑے زوریز کو کافی بناتا دیکھا تو کہا

"کہو؟زوریز نے مصروف لہجے میں اُس کو جواب دیا"آریان کا آپ کہہ کر اُس کو مُخاطب کرنا؟"زوریز کو سوچنے پر مجبور کرگیا تھا کہ ضرور دل میں کچھ کالا تھا۔۔۔۔

"آپ کی پھوپھو سے بات ہوئی تھی آج؟آریان نے پوچھا

"نہیں میں آج مصروف تھا بہت۔۔۔۔زوریز نے سنجیدگی سے بتایا تھا

"ایک تو آپ کی مصروفیت خیر پھوپھو نے بتایا وہ پاکستان آنے والیں ہیں۔۔۔۔آریان نے سرجھٹک کر اُس کو بتایا

"یہ تو بہت اچھی بات ہے۔۔۔۔زوریز کافی کپ میں انڈیلتا جواباً بولا تھا۔

"اُنہوں نے بتایا اِس بار وہ ہم دونوں کی شادی کروا کر ہی جائیں گیں۔۔۔آریان کن آکھیوں سے اُس کو دیکھ کر بولا تھا

"یہ کہو نہ اِس بار مستقل پاکستان رہنے آنے والیں ہیں۔۔۔۔زوریز اپنی بات کہتا کچن سے باہر نکل کر ٹی وی لاؤنج میں آیا اور ریموٹ پکڑ کر نیوز چینل لگادیا تھا۔

"آپ کی اِس بات سے کیا مطلب ہوا؟آریان اُس کے پیچھء پیچھے آتا پوچھنے لگا

"مطلب صاف ہے میرا ابھی شادی کا کوئی موڈ نہیں۔۔۔۔زوریز سنجیدگی سے کہتا کافی کا گھونٹ بھرنے لگا

"تو ہماری وہ کونسی بہن ہے جس کو یہ تازہ ترین پھول بھیجے جاتے ہیں۔۔۔۔آریان تپ کر بولا تو کافی پیتے زوریز کو زبردست قسم کا اچھو لگا تھا۔۔۔"پل بھر میں اُس کی سفید رنگت میں سرخی مائل ہوگئ تھی جس کو دیکھ کر آریان تھوڑا پریشان ہوا

"آر یو آلرائٹ؟آریان اُس کے قریب ہوتا کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھنے لگا جس کی آنکھوں میں زیادہ کھانسنے کی وجہ سے اب پانی بھی آگیا تھا

"تم نے ابھی کیا بکواس کی؟زوریز کی حالت تھوڑی سُدھری تو اُس کو گھور کر سنجیدگی سے پوچھنے لگا

"تمہاری نظروں میں تو ہمیشہ میں بکواس کرتا رہتا ہوں تو مجھے شیورلی کیا پتا اب تمہیں کونسی بکواس سُننی ہے۔۔۔آریان منہ کے زاویئے بنا کر بولا

"تمہیں اچھے سے پتا ہے آریان۔۔۔۔زوریز نے تنبیہہ کرتی نظروں سے اُس کو دیکھا

"وہ م

آریان سے کچھ بولا نہیں گیا

"تم میری پروائیٹ چیزوں میں گُھس رہے ہو سیریسلی؟ "کیا آج تک میں کبھی تمہاری پروائیویسی میں انوالو ہوا ہوں؟ زوریز کے لہجے میں کوئی رائت نہیں تھی۔

"کیا ہوگیا ہے ہم دونوں میں بھلا کیسی پروائیویسی اور اتفاقً میں جان گیا اِس میں کونسی بڑی بات ہے یہ۔ ۔۔۔آریان کو زوریز کا اِتنا ری ایکٹ کرنا سمجھ نہیں آیا

"جیسا تمہیں لگ رہا ہے ویسے کچھ نہیں ہے۔۔۔۔زوریز نے سنجیدہ نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا

"ایسا ویسا میں سوچ بھی نہیں رہا تھا وہ بس میں نے اِس لیے پوچھا کیونکہ آج سسٹر ڈے تھا نہ تو

"آریان اِتنا کہتا ایکدم چُپ ہوگیا تو زوریز کا دماغ بھک سے اُڑا تھا وہ بے یقین نظروں سے آریان کو دیکھنے لگا جو اب یہاں سے وہاں دیکھ رہا تھا اچانک پھر اُس کا چھت پھاڑ قہقہقہ گونجا تھا جس پر زوریز کو تاؤ آیا

"بند کرو اپنا یہ جناتی قہقہہ۔۔۔۔۔زوریز نے اُس کو وارن کیا مگر آریان مزید تیز آواز میں ہنسنے لگا اُس کو ہنسی سے لوٹ پھوٹ ہوتا دیکھ کر زوریز تپ کر اپنا سیل فون کھول کر اُس میں کچھ تلاش کرنے لگا جہاں آج واقعی ہر جگہ سسٹر ڈے نظر آرہا تھا یہ دیکھ کر زوریز اپنے جبڑے بھینجتا بالوں میں ہاتھ پھیر کر رہ گیا تھا

"ہاہاہاہاہا

حد ہے یعنی زندگی میں پہلی بار آپ نے کسی کو پھول بھیجے بھی تو کس دن اُس دن جس دن لڑکیاں لڑکوں کو اپنا بھائی بناتی ہیں مگر یہاں تو آپ نے خود اپنے پاؤں پر کُلہاڑی ماردی ہے ویٹ کریں برادر ڈے بھی آرہا ہے جلد ایسے پھول آپ کو بھی ملینگے۔۔۔۔آریان کی باتوں نے جلے پر نمک کا کام کیا تھا

"بکواس نہیں کرو آریان ہر ایک کا دماغ اِن خُرافات چیزوں کے بارے میں نہیں سوچتا تم بھی نہ اب بڑے ہوجاؤ۔۔۔زوریز اُس تک پہنچ کر سخت لہجے میں بولا جس کا اثر آریان پر نہیں ہوا تھا

"اب رونے کا کیا فائدہ جب چڑیا چُگ گئ کھیت۔۔۔۔آریان کی بات پر زوریز کی بس ہوئی تھی تبھی ایک اچٹنی نظر وہ اُس پہ ڈالتا لاؤنج سے جانے لگا

"تھینکس فار دا کافی۔۔۔"خوش رہو اور سئنیاں کے بجائے بھیا بننے کی کوشش کرتے رہو۔۔۔۔ٹیبل پر زوریز کا رکھا ہوا کافی کا کپ اُٹھائے آریان نے اُس کو پیچھے سے ہانگ لگائی تھی جس کو زوریز نظرانداز کرگیا تھا۔۔۔۔"اُس کا اِرادہ اب باہر جانے کا تھا۔

❤Rimsha Hussain Novels❤

مجھے یہاں بُلوانے کا مقصد؟سوہان نے سنجیدہ نظروں سے اپنے سامنے بیٹھے اسیر ملک کو دیکھا تھا وہ دونوں اِس وقت کیفے میں موجود تھے

"ہمیں آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔۔۔۔جواباً اسیر نے بھی سنجیدگی سے کہا

"کہو میں سُن رہی ہوں۔۔۔سوہان نے کہا

"چچا جان چاہتے ہیں ہم تم سے بات کریں"تمہیں بتائے کہ وہ تم تینوں کو یاد کرتے ہیں تمہیں اپنے پاس دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔اسیر نے بتایا

"اچھا تو تم یہاں اُن کے سفارشی بن کر آئے ہو۔۔۔سوہان طنز مسکراہٹ سے اُس کو دیکھ کر بولی

"ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔۔اسیر نے ایک اچٹنی نظر اُس پر ڈال کر انکار کیا

پھر جو بات ہے وہ کرو۔۔۔سوہان نے کہا

"چچا جان چاہتے ہیں تم تینوں گاؤں میں رہو۔۔۔اسیر نے بتانا شروع کیا تو بے ساختہ سوہان نے اپنے ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینچا تھا

"اُن سے کہو ایسا کچھ سوچے بھی نہیں اور نہ ہماری ہنستی کھیلتی زندگی میں دخل اندازی کرے یہ میں قطعاً برداشت نہیں کروں گی۔۔۔سوہان اپنا ہاتھ زور سے ٹیبل پر مارتی اسیر سے بولی تو کچھ لوگوں کی توجہ اُن پر مبذول ہوئی تھی اور اسیر نے کافی ناپسندیدہ نظروں سے سوہان کو دیکھا تھا

"تمہیں اندازہ نہیں ہم کون ہیں"اِس لیے جو بھی بات کرو اچھے طریقے سے کرو۔۔۔اسیر نے سخت لہجے میں اُس سے کہا جس پر سوہان نے اپنا سرجھٹکا

"ہمارا حق نہیں بنتا کچھ بھی کہنے کا مگر معاف کرنے میں کوئی چھوٹا یا بڑا نہیں ہوجاتا۔۔۔اسیر نے کہا

"ہاں بلکل تم نے ٹھیک کہا مگر انٹرسٹنگ بات یہ ہے کہ لفظ"معافی"کہنے میں بہت چھوٹا ہے مگر اُس کے برعکس معاف کرنے میں وہ ایک بڑا لفظ ہوجاتا ہے اِتنا بڑا کہ اُس کو کرنے میں انسان کی کبھی کبھار پوری زندگی لگ جاتی ہے۔۔۔۔"ہمارے لیے اُن کو معاف کرنا ایک بڑا عمل ہے یہ ہمارے لیے آسان نہیں ہے اپنے چچا کو بتادے اُن کی معافی سے ہمارا بیتا ہوا کل واپس نہیں آئے گا اِس لیے ہمارے مندمل ہوئے زخموں کو اُڈھیرنے کی کوشش وہ نہ ہی کریں تو اچھا ہے ہمیں ہمارے حال پہ چھوڑے دے ٹھیک اُس طرح سے جیسے بہت سال پہلے چھوڑا تھا۔۔۔سوہان نے اپنے ایک ایک لفظ پر خاصا زور دیا تھا جس پر اسیر نے گہری سانس بھر کر اُس کو دیکھا وہ جانتا تھا سوہان کا ردعمل ایسا ہی ہوگا

"تمہاری بات سے ہم متفق ہیں۔"مگر

السلام علیکم ۔۔۔۔۔ابھی اسیر کچھ کہنے والا تھا جب کوئی اُن کی ٹیبل پر آکر کھڑا ہوا تھا

وعلیکم السلام آپ یہاں؟سوہان نے زوریز کو دیکھا تو ہمیشہ کی طرح اُس کے منہ سے وہی سوال نکلا تھا

"جی میں اور آپ نے کبھی بتایا نہیں کہ آپ کا ایک بڑا بھائی بھی ہے۔۔۔۔زوریز ایک اچٹنی نظر اسیر ملک پر ڈالے اُس سے بولا تھا اسیر نے اپنی آئبروز کو اُپر کیے سرتا پیر زوریز کا جائزہ لیا تھا"جبکہ لفظ "بھائی"پر سوہان کو کافی عجیب لگا تھا۔۔

❤❤❤❤❤

بھائی؟سوہان نے اُس لفظ دوہرایا تھا۔۔۔۔"اور وہ ناسمجھی کے عالم میں اُس کو دیکھنے لگی جس نے وائٹ گول گلے والی شرٹ کے ساتھ بلیک جینز پینٹ پہنی ہوئی تھی ایک بازو پر اُس نے کوٹ ڈالا تھا تو دوسرے ہاتھ میں اُس نے اپنا سیل فون پکڑا ہوا تھا۔۔۔"بال اُس کے سلیقے سے سیٹ تھے بیئرڈ کو بھی دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے اُس نے تازی شیو کی ہوئی ہو"زوریز کے چہرے پر چھائی سنجیدگی سے وہ کوئی بھی اندازہ لگانے سے قاصر تھی۔۔۔

"کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں؟زوریز اسیر کو اگنور موڈ پر ڈالتا سوہان سے پوچھنے لگا

"ضرور بیٹھ جائے ہمیں بھی آپ سے پوزیسیو برادرز والی ویبز آرہی ہیں۔۔۔۔۔جواب سوہان کے دینے سے پہلے اسیر نے اُس کو دیکھ کر دیا تھا جس پر زوریز ہاتھ کی مٹھیوں کو سختی سے بھینچ کر اسیر کو دیکھنے لگا جو بُراؤن کلر کے شلوار قمیض پہنے ہوئے تھا اور کندھوں پر ہمیشہ کی طرف شال اُوڑھی ہوئی تھی اُس کے ہونٹوں پر پُراسرار سی مسکراہٹ تھی جبکہ زوریز کو اُس کے گال پہ اُبھرتے گڑھے کو دیکھ کر بلاوجہ تپ گیا تھا اور رہی سہی کسر اُس کے الفاظوں نے پوری کردی تھی۔۔۔۔

"ہم سے مُراد؟زوریز نے لفظ چبا چبا کر ادا کیا تھا کیونکہ وہ کچھ اور سمجھ بیٹھ تھا آریان کی باتوں نے سہی اُس کا دماغ گُھمایا ہوا تھا اُپر سے اُس کو خود کی کم عقلی پر بھی افسوس ہورہا تھا کہ اگر اُس کو سوہان کے یہاں پھول بھیجنے ہی تھے تو سال کے 365 دِنوں میں اُس کو آج کا دن ہی ملا تھا۔۔۔

"آپ یہاں کسی ضروری کام سے آئے تھے؟سوہان نے زوریز کی سرخ ہوتی رنگت کو دیکھا تو دھیان بٹانا چاہا

"کافی پینے آیا تھا۔۔۔"اور آپ؟زوریز اُس کی طرف متوجہ ہوا

"یہ اسیر ملک ہے۔۔۔۔"اور اِنہوں نے مجھے کسی کام سے بلوایا تھا۔۔۔سوہان نے بتایا

"اِنہوں نے آپ کو آنے کا کہا اور آپ آگئ جبکہ میرے کہنے پر تو آپ کبھی نہیں آئی۔۔۔۔ناچاہتے ہوئے بھی زوریز کے منہ سے شکوہ برآمد ہوا تھا۔۔

"کیا شکوہ کیا گیا ہے۔۔۔اسیر یہاں وہاں دیکھ کر آہستگی سے بڑبڑایا تھا مگر اُس کی بڑبڑاہٹ زوریز کے کانوں سے دور نہیں رہی تھی وہ باآسانی سُن چُکا تھا۔۔۔

"اِن کو ضروری کام تھا جبھی میں آئی تھی اگر آپ نے کبھی کام کے سلسلے میں آنے کا کہا تو میں ضرور آؤں گی۔۔۔سوہان نے سنجیدگی سے کہا

"کچھ منگوایا نہیں دونوں میں سے کسی نے؟زوریز خالی ٹیبل کو دیکھتا بولا اُس کا مقصد بات بدلنا تھا۔

"آپ کا انتظار کررہے تھے اگر آپ اب آگئے ہیں تو کچھ آرڈر دے ڈالے۔۔۔۔۔اسیر نے گویا طنز کیا تھا

"آپ

زوریز اُس سے کچھ کہنے والا تھا جب ٹیبل پر پڑے اسیر ملک کا سیل فون وائبریٹ ہوا تھا غیرشعوری طور پر زوریز کی نظر اُس کے موبائل پر پڑی تھی اور چمکتی اسکرین پر کسی بچی کی تصویر دیکھ کر وہ تھوڑا چونک سا گیا تھا۔۔۔

ایکسکیوزمی۔۔۔۔اسیر نے میسجز اپنے خاص آدمی کی دیکھیں تو اُن دونوں سے کہتا سیل فون کی طرف متوجہ ہوا تھا۔

"یہ وال پیپر پر بچی کس کی تھی؟اسیر نے ابھی واٹس ایپ آن کیا تھا جب زوریز سے رہا نہیں گیا تو اُس نے سوال کیا

"ہماری بیٹی ہے۔۔۔۔اسیر نے مصروف انداز میں اُس کو جواب دیا کیونکہ جو تصویریں اُس کو ریسیو ہوئیں تھی وہ اُس نے خود چیک کرنے کے بعد نوریز ملک کو دینیں تھیں۔۔۔

"ہماری؟لفظ "ہماری"پر زوریز حق دق بے یقین نظروں سے سوہان کو دیکھنے لگا جس پر پہلے تو وہ اُس کی نظروں مفہوم سمجھ نہیں پائی تھی مگر جب سمجھ آیا تو وہ بُری طرح سے سٹپٹائی تھی۔۔۔۔

"ہماری یعنی بس ہماری۔۔۔۔اسیر سیل فون سے نظریں اُٹھاتا اُس کی اُڑی رنگت دیکھ کر اپنی طرف اِشارہ کیے بتایا

"اِن کو میں لفظ کہنا نہیں آتا۔۔۔سوہان نے جلدی میں کہا تاکہ وہ دوبارہ اُلٹا کچھ نہ سوچے

سِکھ لے ورنہ لوگ سمجھے گے آپ کے اِس "ہم"لفظ میں جانے کتنی فوجیوں کا شُمار ہوتا ہے۔۔۔۔زوریز اپنی اٹکی سانس بحال کرتا بولا

"مشورہ کا شکریہ۔۔۔اسیر محض اِتنا کہتا تصویروں کو دیکھنے لگا تھا جب ایک تصویر نے اُس کا دھیان بُری طرح سے اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔۔۔"اور وہ تھی مسکراتی ہوئی فاحا کی تصویر جس کے نام کے ساتھ والد کا نام "نوریز ملک لکھا ہوا تھا۔۔۔۔


"آپ میرے چچا کے بیٹے تو نہیں جو میں منہ اُٹھا کر گاڑی میں بیٹھ جاؤں اور آپ پر بھروسہ کرلوں۔۔۔""


ایک تصویر کو دیکھ کر اسیر کیا کچھ یاد نہیں آیا تھا بے ساختگی کے عالم میں اُس نے اپنا ہاتھ بالوں میں پھیرا تھا اور جب اُس کو نوریز ملک کے الفاظ یاد آئے کہ وہ اُن تینوں کو حویلی میں رکھنا چاہتا ہے تو یہ خیال آتے ہی اُس کے چودہ طبق روشن ہوئے تھے وہ یقین کرنے سے قاصر تھا کہ جو لڑکی اُس کو بال نوچنے کی حد تک زچ کیا کرتی تھی وہ اُس کی چچا زاد کزن تھی اور عنقریب وہ دونوں ایک چھت کے نیچے رہنے والے تھے۔۔۔"وہ سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا جو لڑکی پانچ منٹس میں اُس کو دن میں تارے دیکھاتی تھی اُس کے ساتھ وہ کیسے ایک چھت کے نیچے رہ سکتا تھا"یہ اُس کے لیے مشکل عمل تھا۔۔۔

"آپ کو کیا ہوا کیا بیوی نے بغیر میک اپ کی تصویر واٹس ایپ کی ہے؟زوریز نے اُس کو کھویا ہوا دیکھا تو تُکہ لگاکر بولا جس پر اسیر نے خون آشام نظروں سے اُس کو گھورا جو شاید اپنا حساب چُکتا کرنے کے در پر تھا باقی سوہان کو سمجھ نہیں آرہا تھا"اپنی پہلی مُلاقات پر وہ دونوں بھلا کیوں ایسی عجیب و غریب قسم کی گولہ بالی کررہے تھے۔۔

"ہمیں ضروری کام پڑگیا ہے تو ہم چلتے ہیں اور ہمیں جو کہنا تھا وہ ہم کہہ چُکے ہیں باقی تم جو فیصلہ کرو اُس کا اختیار تمہارے پاس ہے۔۔۔اسیر خود کو کمپوز کرتا اپنی جگہ سے اُٹھ کر سوہان سے بولا تو"وہ محض سر کو جنبش دے پائی تھی جس کے بعد اسیر لمبے لمبے ڈگ بُھرتا وہاں سے چلاگیا تھا

بادشاہ سلامت کون تھا؟زوریز نے جاتے ہوئے اسیر کو دیکھ کر سوہان سے پوچھا

"وہ میرا فرسٹ کزن ہے اور ہم عمر ہے"مجھ سے بڑا نہیں ہے۔۔۔۔اسیر کے جانے کے بعد سوہان نے زوریز کی بات کا جواب دیا

"آپ سے ملنا کیوں چاہتا تھا وہ؟زوریز نے پوچھا

"بات کرنے آیا تھا۔۔۔سوہان بغیر اُس کو دیکھ کر بولی

کیا بات؟اگلا سوال

"وہ چاہتا ہے مطلب نوریز ملک چاہتا ہے میں اُن کو معاف کرکے ہنسی خوشی اُن کے ساتھ رہنے لگوں اپنی بہنوں کے ساتھ مگر وہ نہیں جانتے کہ میں تو بس اُن کو اگنور کرتیں ہوں میشو اور فاحا تو اُن سے نفرت کرتیں ہیں"اُن کی وجہ سے امی کا رویہ فاحا کے ساتھ بہت بُرا رہا تھا اُس کا اسکول بند ہوگیا اُس میں خوداعتمادی کی کمی آگئ تھی اُس کو ہر کوئی منحوس کہنے لگا تھا۔۔۔۔سوہان بولنے پر آئی تو بولتی چلی گئ تھی اور زوریز یک ٹک اُس کو دیکھتا غور سے اُس کو سُننے لگا تھا اُس نے ایک بار بھی سوہان کو ٹوکا نہیں تھا۔۔۔۔

"آپ کا زندگی کے ساتھ تجربہ بہت بُرا ہوا ہے معافی مانگنا ایک آسان عمل ہوتا ہے مگر اُس کے برعکس معاف کرنے میں انسان کو اپنا جی بڑا کرنا پڑتا ہے۔۔"آپ پہلے خود کو ٹائیم دے اور یہ باتیں اپنی بہنوں کو بتائیں اور جاننے کی کوشش کریں کہ وہ کیا چاہتی ہیں؟"اُن کی کیا رائے ہے کیونکہ یہ فیصلہ آپ اکیلے نہیں لے سکتی اُن کی رائے جاننا بھی آپ کے لیے بہت ضروری ہونی چاییے۔۔۔۔زوریز اُس کی بات سن کر سنجیدگی سے بولا

"آپ کو لگتا ہے وہ میری بات سے انحراف کرے گی؟"یا اُن کو میری سوچ سے اختلاف ہوگا؟سوہان پہلی بار اُس کو دیکھ کر بولی

"آپ جو چاہیں گی وہ دونوں بھی ویسا چاہیں گیں مگر میں بس اِتنا کہنے کی کوشش کررہا ہوں کہ آپ اُن سے ہر بات ڈسکس کریں تاکہ بعد میں وہ کوئی شکوہ نہ کریں۔۔۔زوریز اُس کی بات سن کر سمجھانے والے انداز میں گویا ہوا

"میں کوئی مُناسب وقت دیکھ کر اُن دونوں سے بات کروں گی۔۔۔۔سوہان تھکی ہوئی سانس بحال کرتی بولی

"خود کو کمزور محسوس نہ کریں کیونکہ آپ اپنی بہنوں کی طاقت ہیں اگر آپ نے گِیو اپ کرلیا تو وہ آپ کے بغیر کچھ نہیں کرپائیں گیں۔۔۔۔زوریز اُس کو سمجھانے والے انداز میں بولا تو سوہان نے سر کو جنبش دی تھی

"اگر آپ کی اِجازت ہو تو ہم کافی کا کہے؟زوریز نے سنجیدگی سے کہا تو اُس کے لفظ"ہم"پر سوہان ناچاہتے ہوئے بھی ہنس دی تھی جس پر زوریز کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آئی تھی

"جی آپ کہہ دے۔۔۔سوہان نے اِجازت دی

"ویسے ٹرسٹ می آپ کا کزن کسی نمونے سے کم نہیں تھا۔۔۔زوریز ویٹر کو اپنے پاس آنے کا اِشارہ دیتا سوہان سے بولا جو اگر اسیر سُن لیتا تو اُس کے ماتھے پر ان گنت بلوں کا اضافہ ہوجاتا

"وہ نمونہ تو بلکل بھی نہیں تھا بچپن میں ہوگا اب تو اُس کی شخصیت میں روعب اور وقار تھا۔۔۔سوہان نے اُس کی بات کی نفی کی تھی جس پر زوریز کا چہرہ ایسا بن گیا جیسے کڑوا بادام نگل لیا ہو

"اِتنا بھی کوئی خاص نہیں تھا خیر ہم اُس کے بارے میں بات کیوں کررہے ہیں۔۔۔۔زوریز سرجھٹک کر بولا

"ہاں دراصل مجھے کیس کے معاملے آپ سے کچھ ضروری پوائنٹس ڈسکس کرنی تھیں۔۔۔اچانک یاد آنے پر سوہان اپنے سر پر ہاتھ مار کر اُس سے بولی تو اِس بار زوریز بدمزہ ہوا تھا"وہ جان گیا تھا اُن کے دونوں کے درمیان تیسری چیز اِتنی جلدی ہٹنے والی نہیں تھی۔۔"وہ جو ہر وقت کام کرنے کو ترجیح دیتا تھا آج اُس لفظ پر اُس کو اچھا خاصا غُصہ آگیا تھا

"کیا ہم اپنی بات نہیں کرسکتے؟زوریز نے بلآخر بول دیا

"اپنی کیا؟سوہان نے سنجیدگی سے آئبرو اُپر کیے اُس کو دیکھا

"کچھ نہیں آپ بتائے کیا کہنا چاہتی تھی۔۔۔زوریز اُس کی بے نیازی پر گہری سانس بھر کر بولا

"آپ نے جیسا کہ بتایا نذیر ملک نے آپ پر جھوٹا کیس دائر کیا ہے تو ہمیں اُس کے یہاں کورٹ کا نوٹس بھیجنا چاہیے تاکہ ہیئرنگ کے دن اُس کو کوئی بہانا نہ ملے۔۔۔سوہان نے اُس کو دیکھ کر اپنی باتوں کا سلسلہ شروع کیا جو زوریز ایسے سُننے لگا جیسے دُنیا میں وہ یہی کام کرنے کے لیے آیا ہو۔۔۔۔

❤Rimsha Hussain Novels❤

اِس لفافے میں اُن لڑکیوں کی تصاویریں ہیں کام جلدی ہوجانا چاہیے۔۔۔سجاد ملک ایک انویلپ آدمی کی طرف بڑھائے سنجیدگی سے گویا ہوئے تھے

"آپ بے فکر رہے آپ کا کام ہوجائے گا مگر کام زیادہ ہے تو پیسے بھی اُتنے لگے گیں۔ ۔۔وہ چہرے پر خباثت بھری مسکراہٹ سجاکر بولا

"پہلے کام پھر دام" ایڈوانس میں نے دو لاکھ تمہارے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کروالیئے ہیں باقی کے پیسے تمہیں تب ملے گے جب میرے پاس اُن بہنوں کی موت کی خبر آئے گی۔ ۔۔سجاد ملک اُس کو گھور کر بولے

آپ سمجھے کہ آپ کا کام ہوگیا۔ ۔۔وہ مونچھوں کو تاؤ کر بولا

"ہمممم ٹھیک ہے ابھی تم جاؤ اُس سے پہلے حویلی میں موجود افراد میں سے کسی کی تم پر نظر پڑے۔۔۔۔سجاد ملک نے کہا

"ٹھیک ہے میں چلتا ہوں مگر میں نے کہا ہوا ہے اِس کام کا پورے دس لاکھ لوں گا میں آپ سے۔۔۔جاتے جاتے ہوئے بھی وہ بولنے سے باز نہیں رہا تھا"مگر سجاد ملک نے اُس کی بات پر کان نہیں دھڑے تھے اور وہ شخص حویلی کے صحن میں جیسے ہی بیچوں بیچ آیا اسمارہ بیگم اُس کے راستے میں حائل ہوئیں تھیں جس کو دیکھ کر اُس آدمی کے چہرے کی ہوائیاں اُڑی تھیں

"ارے گھبراؤ نہیں میرے پاس بھی تمہارے لیے ایک آفر ہے۔۔۔اسمارہ بیگم اُس کو دیکھ کر شاطرانہ مسکراہٹ سے بولی

"کک کیسی آآ آفر؟وہ اٹک اٹک کر بولا

"ایسی آفر۔۔۔۔اسمارہ بیگم اُس کے ہاتھ سے انویلپ اچک کر لہراکر بولیں

"دیکھے مجھے یہ واپس کریں۔۔۔۔وہ پسینا پسینا ہوتا بولا

"ضرور بشرطیکہ کے تم میرا کام کروگے۔۔۔اسمارہ بیگم نے سنجیدگی سے کہا

"کیسا کام۔۔۔۔۔اُس نے جان چُھوڑوانے والے انداز میں کہا

"وہی سب تم اِس کے ساتھ بھی کرو گی جو اِس کے ساتھ کرنے کا کہا گیا ہے تم سے۔۔۔اسمارہ بیگم آس پاس کا جائزہ لینے کے بعد اُس کو ایک تصویر پکڑائی

"یہ کون ہے؟وہ تصویر میں دیکھ کر پوچھنے لگا

"اِس سے تمہارا کوئی لینا دینا نہیں تم بس وہ کرو جو میں کہنے کا بول رہی ہوں۔۔۔اسمارہ بیگم نے کہا

"بدلے میں مجھے کیا ملے گا؟وہ اسمارہ بیگم کو دیکھ کر بولا

"پانچ لاکھ۔۔۔۔اسمارہ بیگم نے کہا تو اُس کی باچھیں کُھل گئ

ٹھیک ہے تو پھر ڈن ہوگیا۔۔۔وہ پکچر جو لالی کی تھی اُس کو انویلپ میں ڈالتا اسمارہ بیگم سے بولا

"ہممم کام ہوجائے کے بعد تمہیں تمہاری رقم مل جائے گی اور یہ بات ہم دونوں کے درمیان راز رہنی چاہیے۔۔۔آخر میں اسمارہ بیگم کا لہجہ وارننگ سے بھرپور ہوگیا تھا جس پر وہ آدمی سر کو جنبش دیتا رہ گیا۔۔۔۔

❤Rimsha hussain novels❤

آپ کو ہم نے تصاویر سینڈ کی ہیں آپ کی بیٹیوں کی اور ہم نے سوہان سے بھی بات کرکے دیکھ لی وہ آپ کی کوئی بھی بات سُننا نہیں چاہتی کجاکہ حویلی میں آنا۔ ۔۔۔گاڑی میں بیٹھا اسیر سیل فون پر نوریز ملک سے بولا"وہ آج اکیلا باہر نکلا تھا ایک ہاتھ سے گاڑی ڈرائیو کررہا تھا تو دوسرے ہاتھ سے اُس نے موبائل پکڑا ہوا تھا

"تمہارا بہت شکریہ اسیر مگر اب بس میں ٹھیک ہوجاؤں اُس کے بعد اُن تینوں سے میں بات کروں گا۔۔۔نوریز ملک سنجیدگی سے بولے

"جیسا آپ کو مُناسب لگے ہمارا کام بھی کافی رُکا ہوا ہے ہم نے اُس کو پورا کرنا ہے۔۔۔اسیر سنجیدگی سے بولا تھا

"سہی ہے ویسے گاؤں آنے کا کیا سوچا ہے؟ نوریز ملک نے پوچھا

"ایک دو دن تک اور ہمیں آپ سے کچھ کہنا تھا۔ ۔۔اسیر نے کہا

"کہو؟

ہم سوچ رہے ہیں اُن کو گاؤں میں لانے سے اچھا ہے شادی کروادے ویسے بھی شادی کی عمر ہے اُن کی۔ ۔۔اسیر نے اپنے مفید مشورے سے اُن کو نوازہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اُن میں سے کوئی حویلی آئے" خاص طور سے فاحا"

"اسیر بیٹا حد کرتے ہو ابھی اُن کی میرے لیے ناراضگی ختم نہیں ہوئی اور تم چاہتے ہو میں اُن کو مزید خود سے بدگمان کردوں۔ ۔۔نوریز ملک کو اسیر کی بات سن کر گویا افسوس ہوا

"ہمیں جو بہتر لگا ہم نے وہ کہا آگے آپ کو جو سہی لگے وہ آپ کریں ابھی ہم کال رکھتے ہیں۔ ۔۔۔اسیر نے سنجیدگی سے کہہ کال کاٹ دی تھی تبھی کچھ دور اُس کو اکیلے فاحا کھڑی نظر آئی جو شاید ٹیکسی کا انتظار کررہی تھی" پہلے پہل اسیر نے اُس کو اگنور کرنا چاہا مگر اُس کا جُھکا ہوا سر دیکھ کر ناچاہتے ہوئے بھی اُس نے اپنی گاڑی فاحا کے پاس روک دی جس پر فاحا نے چونک کر اپنا سراُٹھایا تھا۔۔

"بیٹھ جائے۔ ۔۔۔اسیر گاڑی کا ڈور ریموٹ سے کھولتا فاحا سے بولا"وہ سمجھا ہمیشہ کی طرح فاحا کوئی ڈرامہ یا بیوقوفانہ بات ضرور کرے گی مگر اُس کو حیرت تب ہوئی جب فاحا نے اپنے مزاج کے برعکس آج بنا کوئی بات کیے خاموشی سے گاڑی میں بیٹھ گئ۔ ۔۔۔

"اللہ خیر کرے۔ ۔۔اُس کو خاموش دیکھ کر اسیر آہستگی سے بڑبڑایا تھا پھر اُس نے دوبارہ سے گاڑی اسٹارٹ کردی اِس دوران لیمن کلر کے سادہ سے جوڑے میں ملبوس سر پہ اچھے سے حجاب پہنے فاحا ہنوز چُپ چاپ بیٹھی اپنے ہاتھوں کو گھور رہی تھی جو مزید اسیر سے ہضم نہیں ہوا تھا۔ ۔

"آج فاحا اُداس ہے؟اسیر گردن موڑ کر فاحا کو دیکھ کر بے ساختہ پوچھنے لگا وہ سمجھ نہیں پایا اُس کا خاموش رہنا وہ کیوں اِتنا محسوس کررہا تھا شاید وہ اب خون کی کشش محسوس کرنا چاہ رہا تھا"جو بھی تھا وہ سمجھنے سے قاصر تھا اور اُس کی بات کے جواب میں فاحا نے سرہلانے پر اکتفا کیا تھا

"وجہ؟ اگلا سوال

آج میری ماں کی برسی ہے۔ ۔فاحا بھیگے لہجے میں بولی تھی جس پر اسیر کچھ دیر تک بول نہیں پایا تھا۔

"سن کر افسوس ہوا اور ہم آپ کا دُکھ سمجھ سکتے ہیں۔ ۔اسیر نے اپنی طرف سے اُس کو حوصلہ دیا تھا

"آپ کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ "کیا آج آپ کی ماں کی بھی برسی ہے۔ ۔۔اسیر کی بات سن کر فاحا نے چونک کر اُس کو دیکھ کر کہا تھا جس پر اسیر نے بے ساختہ اپنی گاڑی کو بریک لگائی تھی

گستاخ لڑکی ہماری والدہ محترمہ زندہ ہیں۔ ۔۔اسیر اُس کو گھور کر دانت پیس کر بولا تھا جس پر فاحا بُری طرح سے گڑبڑائی تھی

سو سوری دراصل آپ نے بات ایسے کی تھی تو فاحا کو لگا شاید آپ کی والدہ محترمہ بھی اللہ کو پیاری ہوگئ ہیں۔ ۔۔۔فاحا نے اپنی طرف سے اُس کو وضاحت دی تھی۔

"ہمم یہ بتاؤ اور کون کون تمہارے گھر میں؟اسیر نے جانتے ہوئے بھی پوچھا

"آپ کو کیوں بتاؤں؟"فاحا کیا آپ کو اِتنی کم عقل لگتی ہے جو پرسنل باتیں آپ سے ڈسکس کرے گی اگر آپ سے لفٹ لی ہے تو آپ کوئی غلط مطلب اخذ نہ کریں۔۔۔فاحا اُس کو دیکھ کر جتانے والے انداز میں بولی جس پر اسیر کے زاویئے بگڑے تھے

"غلطی ہوگئ دوبارہ آپ سے نہیں پوچھوں گا۔۔۔اسیر نے سرجھٹک کر کہا اور ٹریفک کی وجہ سے اُس نے اپنی گاڑی کو بریک لگائی تھی۔۔۔"عین اُسی وقت ٹیکسی میں بیٹھی سوہان کی وہ ٹیکسی بھی اُن کے برابر رُکی تھی اور غیرشعوری طور پر سوہان کی نظر فاحا پر پڑی تو وہ چونک سی گئ تھی۔ ۔۔"ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا لڑکا اُس کو نظر آرہا تھا مگر اُس کا چہرہ دیکھنے سے وہ قاصر تھی جبھی پہچان نہیں پائی تھی" کہ وہ کون ہوگا؟ "پر فاحا کا یوں اِتنے اطمینان کے ساتھ اِتنی بڑی گاڑی میں کسی لڑکے کے ہمراہ سفر کرنا سوہان کو خدشات میں مبتلا کرگیا تھا اُس کو حقیقتاً پریشانی نے آ گھیرا تھا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ گاڑی تیز رفتار سے اُس کی نظروں کے آگے اُوجھل ہوگئ تھی۔ ۔"جس پر سوہان نے گہری سانس بھر کر اپنا سر سیٹ پر ٹِکایا تھا۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

ویسے کیا آپ کو اپنے گاؤں میں مزہ نہیں آتا جو ہر وقت شہر میں پائے جاتے ہیں۔ ۔۔۔"فاحا زیادہ دیر تک خاموش نہیں رہ پائی تھی

"ہم نے بہت بڑی غلطی کردی آپ کو جگا کر۔ ۔۔اسیر اُس کو دیکھ کر کوفت سے بولا

فاحا سوئی ہوئی تو نہیں تھی جس کو آپ نے جگایا۔ ۔۔فاحا ناسمجھی کے عالم میں اُس کو دیکھ کر بولی

"تم خاموش رہو ہم ڈرائیونگ کررہے ہیں۔ ۔۔اسیر اُس کو ٹوک کر بولا

"آپ کنفرم کریں کہ فاحا کو کہنا کیا ہے؟ "آپ یا تم۔ ۔۔فاحا پوری طرح سے اُس کی طرف متوجہ ہوتی بولی جیسے کوئی گھمبیر مسئلہ ہو کوئی

"دیکھو آپ خاموش ہوجائیں بڑی مہربانی ہوگی آپ کی۔ ۔۔۔اسیر تپ اُٹھا تھا

"آپ کو پتا ہے آپ کو لڑکیوں سے بات کرنا بلکل بھی نہیں آتی اگر یہاں میری کسی بہن نے آپ کو فاحا سے بدتمیزی کرتا ہوا دیکھ لیا ہوتا نہ تو آپ کا منہ توڑدیتی۔ ۔۔فاحا اُس کو دیکھ کر نروٹھے پن سے بولی جبکہ اُس کا ایسے شکوہ کرنا اسیر کی سمجھ سے بلآتر تھا

"ہمارا منہ آپ کی بہنوں کی جاگیر نہیں جس کو وہ توڑ دینگی اور ہم کھڑے مسکرائے گے۔ ۔۔۔سرجھٹک کر اسیر نے تپ کر کہا

"سوچنے والی بات ہے ٹوٹے ہوئے چہرے کے ساتھ مسکراتے ہوئے آپ کیسے لگے گے اور فاحا نے کبھی آپ کو مسکراتا ہوا نہیں دیکھا۔ ۔۔کہتے کہتے آخر میں فاحا جیسے چونک اُٹھی تھی۔

"آپ دُنیا میں میری مسکراہٹ دیکھنے نہیں آئیں۔ ۔۔۔اسیر نے طنز کیا

"فاحا جانتی ہے یہ بات اور آپ بھی دُنیا میں محض لوگوں پر طنز کے تیر پھینکنے نہیں آئے۔ ۔۔فاحا نے جتایا

"کتنی لمبی زبان ہے آپ کی جو قینچی سے زیادہ تیز چلتی ہے اور ہمیں سخت چڑ ہے ایسی زبان دراز عورتوں سے۔ ۔۔اسیر تیکھی نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولا

اچھی بات ہے مگر فاحا عورت نہیں ہے فاحا کا شُمار لڑکیوں میں ہوتا ہے۔۔۔فاحا فخریہ انداز میں بولی

"کیا فاحا کبھی چُپ ہوسکتی ہے؟ اسیر نے ضبط سے پوچھا

"میرے بولنے سے آپ کی کتنی ٹیکسٹ لگ رہی ہے خیر فاحا کو بولنا اچھا لگتا ہے" سوہان آپو کہتی ہے فاحا تمہاری آواز ہمارے جسموں میں جان ڈالتی ہے۔ ۔۔فاحا نے اُس کی معلومات میں اضافہ کیا

تمہاری سوہان آپی کا دماغ خراب ہے جو تمہیں ایسی خوشفہمیوں میں مبتلا کیا ہے۔ ۔۔اسیر سرجھٹک کر بولا

"آپ ایسی باتیں نہ کریں فاحا ناراض بھی ہوسکتی ہے۔ ۔۔فاحا کے گال بُری طرح سے پُھول گئے تھے

"آپ کو لگتا ہے کہ فاحا کی ناراضگی کا اثر اسیر ملک پر پڑے گا؟ "گاڑی انجانے راستوں پر ڈوراتے اسیر نے اُس سے پوچھا

"اسیر ملک کون؟ فاحا کے سر پہ سے گُزری اسیر کی بات

"آپ کو ہمارا نام شاید نہیں معلوم ہمیں اسیر ملک کہتے ہیں۔ ۔۔اسیر نے اپنا تعارف کروایا

"آپ کا نام کافی الگ سا یے فاحا کو پسند آیا۔ ۔۔فاحا زیر لب بڑبڑائی

"آپ کی ہوبیز کیا ہیں؟ اسیر نے بات بڑھانے کی خاطر پوچھا اُس نے اچانک سوچ لیا تھا کہ اگر سوہان اپنے باپ کو معاف کرنے کے لیے تیار نہیں ہے تو وہ ایک بار پھر فاحا سے بات کرکے دیکھے گا اُس کی رائے جاننے کی کوشش کرے گا کہ وہ کیا سوچتی ہے اپنے باپ کے بارے میں

"ہوبیز؟ فاحا نے اُس کو سوالیہ نظروں سے دیکھا

"ہمارے کہنے کا مطلب تھا آپ کو کیا کرنا یعنی کونسا کام کرنا زیادہ پسند ہوتا ہے اور آپ کی ایجوکیشن کتنی ہے ایٹ دا لاسٹ آپ کی امی کو کیا ہوا تھا؟ اسیر نے ایک ساتھ اُس سے کئ سارے سوالات پوچھ ڈالے

"ہمیں گھر کا کام کرنا اچھا لگتا ہے" کوگنک کرنا گھر کی صفائی کرنا کپڑے وغیرہ وقت پر دھونا انسٹی ٹیوٹ جانا اور فاحا کو سلائی کڑھائی کا کام بھی خوب آتا ہے۔ ۔۔فاحا اُس کی آخری بات کے علاوہ ہر بات کا جواب دیا جو اسیر نے صاف محسوس کیا تھا۔

"آپ کو دیکھ کر لگتا نہیں آپ کاموں میں اِتنی ایکسپرٹ ہوگی۔ ۔"چھوٹی سی جان تو ہیں۔ ۔۔اسیر اُس کی بات ماننے سے انکاری ہوا

"فاحا جھوٹ نہیں بولتی اور وہ سچ میں ہر چیز میں مہارت رکھتی ہے آپ آزما سکتے ہیں ویسے آپ نے آج ہم سے میرا مطلب مجھ سے ایسا سوال کیوں کیا،؟فاحا تجسس میں مبتلا ہوئی

"دل نے چاہا تو پوچھ لیا یہ بتاؤ فاحا سب سے زیادہ پیار کس کو کرتی ہے۔۔۔؟اسیر اُس سے ایسے بات کرنے لگا جیسے اقدس سے کیا کرتا تھا۔

"فاحا اپنی بہنوں سے بہت کرتی ہے"وہ فاحا سے جو کچھ مانگے گیں وہ فاحا دینے میں وقت نہیں لگائے گی۔۔۔"سوہان آپو میرا دل ہیں اور میشو آپو دل کی دھڑکن۔۔۔۔فاحا نے مسکراکر بتایا تھا

"شوہر کو پھر کہاں رکھنا ہے؟ اسیر نے طنز کیا

"شوہر کون؟ فاحا نے اُلٹا اُس سے سوال داغا

زندگی میں کبھی نہ کبھی شادی کے بعد آپ کا شوہر ہوگا نہ؟ اسیر بے مقصد گاڑی ڈرائیو کرتا اُس سے بولا

"ہم نے اپنی زندگی میں ابھی ایک مقام حاصل کرنا ہے ہماری زندگیوں میں فلحال ایسی چیزوں کی گُنجائش نہیں ہے۔ ۔۔۔فاحا کسی ٹرانس کی کیفیت میں بولی تھی اور اُس کا انداز دیکھ کر اسیر اُس کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوگیا تھا

"یہ تمہیں تمہاری بہنوں نے کہا ہوگا خود کیا چاہتی ہو تم؟ اسیر نے سنجیدگی سے پوچھا

ہم ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں جو وہ چاہتیں ہیں فاحا بھی سب وہ چاہتی ہے۔ ۔۔فاحا شانے اُچکاکر بولی

"انسان پہلے خود سے کچھ سوچے تو وہ زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ ۔۔۔اسیر نے کہا

"ہاں مگر یہ آج ہمارا گھر کا اِتنا دور کیسے ہوگیا؟فاحا نے اب نوٹ کیا تو کہا جس پر اسیر گاڑی کو بریک لگاتا آس پاس کا جائزہ لینے لگا وہ دونوں اِس وقت جہاں تھے وہ ایک سنسان علاقہ تھا۔ ۔۔۔

"اللہ اللہ آپ نے فاحا کو اغوا کرلیا۔ ۔۔۔فاحا نے آس پاس کسی کو نہیں دیکھا تو تُکہ لگاکر اُونچی آواز میں اور بے یقین لہجے میں اُس سے بولی

"چلاؤ مت آپ کو اغوا کرنے میں ہمیں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے وہ تو ہمیں کچھ کہنا تھا آپ سے جبھی یہاں لائے ہیں تاکہ سکون سے بات ہوسکے۔ ۔۔اسیر اُس کو گھور کر بولا

"فاحا کو سب پتا ہے شکل سے بیوقوف نظر آتی ہے تو آپ نے سچ میں بیوقوف سمجھ لیا" آپ کو کیا لگتا ہے دو چار فاحا اگر آپ سے بات کرلے گی آپ کی گاڑی میں بیٹھ جائے گی تو اُس سے ہر کام آپ کرواسکتے ہیں" ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ ۔"فاحا کو گھر جانا ہے اپنے بس۔ ۔۔فاحا سیٹ بیلٹ کھولتی مسلسل بولنے لگی تھی

آپ غلط سمجھ رہی ہے

میں نے سمجھا ہی تو اب ہے۔ ۔۔کہنے کے ساتھ ہی فاحا گاڑی سے اُتر گئ تھی۔ ۔

"یہ کیا حرکت ہے گاڑی میں آؤ تم۔۔۔۔اسیر اچھا خاصا تپ اُٹھا تھا

"فاحا کو نہیں آنا۔۔۔فاحا نے صاف انکار کیا"اور سوچنے لگی کہ اب کیسے گھر جائے اپنے

"ہماری بات سُن لو۔۔۔اسیر بھی اُس کے پیچھے آیا

جی آپ نے ابھی یہی بولنا ہے کہ ہمیں آپ کی معصومیت پر پیار آگیا ہے"ہم آپ کے بغیر رہ نہیں سکتے پلیز ہماری محبت کو قبول کرکے ہماری زندگی میں شامل ہوجائے تو فاحا ایسا بلکل بھی نہیں کرے گی ایسی چیزی لائنز فاحا نے ہر ڈرامے میں سُنی ہے۔۔۔۔فاحا اُس کی بات درمیان میں کاٹ کر بولی تو اسیر ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینچ کر اُس کو گھورنے لگا جس کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیا بول چُکی ہے

"معصوم اور آپ؟بہت اچھا لطیفہ سُنادیا آپ نے اور ایک آخری بات ہمارا نام اسیر ملک ہم کبھی ایسی باتیں آپ سے کہیں گے یہ ایک غلطفہمی ہے آپ کی"ابھی ہمارے دن اِتنے خراب بھی نہیں آئے کہ آپ جیسی کم عقل نادان سے محبت کرئے اور ابھی گاڑی میں بیٹھ جاؤ۔۔اسیر سختی سے بولا

"فاحا آپ سے اب کبھی بات نہیں کرے گی۔۔۔فاحا کو غُصہ آگیا

سُنو لڑکی ہمارا وقت اِتنا فالتو نہیں جو تم پر لُٹائے چُپ چاپ گاڑی میں بیٹھ جاؤ ورنہ یہی چھوڑ کر چلے جائے گے۔۔۔۔اسیر نے تنبیہہ کرنے والے انداز میں کہا

"آپ کو جانا ہے تو جائے ساری زندگی میں نے آپ کی اِس کھٹارا گاڑی سے پِک اینڈ ڈراپ کی سروس نہیں لی جو اب آپ کے جانے سے فاحا پر کوئی اثر ہوگا۔۔"بتانے سے اچھا ہےکہ آپ سچ میں چلے جائے۔۔۔فاحا جذباتی ہوتی بولی" اور اسیر اُس کے پل میں بدلتے انداز کو دیکھتا رہ گیا اِس درمیان اُس نے محسوس نہیں کیا کہ اُس کی خوبصورت بڑی گاڑی کو فاحا نے کس لقب سے نوازہ تھا

"تمہارا دماغ شاید خراب ہوگیا ہے۔۔۔اسیر زچ ہوا

یقیناً خراب ہوگیا تھا جو آپ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئ اور کسی کو خبر بھی نہیں کی۔۔۔فاحا اُس کی بات سے متفق ہوئی اور اسیر کا بس نہیں چل رہا تھا وہ اُس کا گلا دبادیتا

اب خراب ہے نہ تو بیٹھو گاڑی میں یہاں تماشا بنانے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔اسیر نے صبط سے کہا

"جی تماشا تو میں نے لگایا ہوا ہے میرا تو اور کوئی کام نہیں"یہاں میڈیا کا ہجوم ہے بہت پبلک سٹی ہے جہاں فاحا تماشا کرے گی اور لوگ آپ پر تھو تھو کرینگے"توبہ کریں آپ زرا اور اللہ کا نام لے یہ تو کوئی پنچھی بھی نہیں تو فاحا کو کیا حاصل ہوگا یہاں تماشا کرنے میں اور مجھے نہ کوئی شوق نہیں تماشا کرنے کا۔۔۔۔فاحا جیسے پھٹ پڑی

"فاحا

اسیر"

اسیر نے ابھی اُس کا نام ہی لیا تھا جب فاحا کی زبان سے بے ساختہ اُس کا نام برآمد ہوا جس پر اسیر کچھ پل خاموش سا اُس کو دیکھنے لگا جو سٹپٹاتی اپنے منہ پر ہاتھ جما گئ تھی۔۔۔

"آپ کا نام لینے میں کتنا عجیب سا ہے۔۔۔فاحا منہ ہی بناکر بولی

"اگر ہوگیا ہو آپ کا تو آئے۔۔۔اسیر سرجھٹک کر اُس سے بولا

"پہلے مجھے بتائے آپ نے جان کر گاڑی کو انجان راستوں پر چلایا نہ اور آپ کا اِرادہ فاحا کو اغوا کرکے اُس کے گھروالوں سے پیسے بٹورنے کا تھا نہ"شکل سے آپ ایک مہذب کھاتے پیتے امیر وکبیر گھرانے سے لگ رہے ہیں پھر ایسی بھی کیا بات ہوگئ تھی جو مجھے اغوا کرنا چاہا۔۔۔۔فاحا اُس کی سننے کے موڈ میں ہرگز نہیں تھی

"دیکھیں اب آپ حد سے زیادہ بڑھ رہی ہیں۔۔۔اسیر کا بس نہیں چل رہا تھا ورنہ وہ اپنے گھنے کالے بالوں کو نوچ لیتا فاحا کے الفاظوں نے سعی معنوں میں اُس کے ہوش ٹھکانے لگادیئے تھے۔۔۔

"میری حدودوں کو آپ نہ تراشے اپنا گریبان دیکھے۔۔۔فاحا نے اُس کو شرمندہ کرنے کی ایک اور کوشش کی

"ہماری بلا سے اب آپ بھاڑ میں جائے آپ کو اگر نہیں چلنا تو نہ چلے یہاں کھڑے ہوکر رات کا انتظار کرے جب چُڑیلیں آپ کو اپنے حصار میں لے گی تو میلے میں بچھڑی ہوئیں اپنی بہنوں سے مل کر آپ کو کافی اچھا محسوس ہوگا۔۔۔اسیر نے سنجیدگی سے بھرپور لہجے میں اُس کو دیکھ کر کہا تو فاحا کا پورا منہ کُھلا کا کُھلا رہ گیا تھا

"کیا واقعی میں میلے میں فاحا سے اُس کی بہنیں اُس سے بِچھڑ گئیں تھیں؟فاحا پریشانی سے اُس کو دیکھ کر بولی تو اسیر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تھا"جس کو طنز یا "خود کی مشابہت چڑیلوں سے کرنا محسوس نہیں ہوا تھا اُس کو تو بس میلے میں نہ بچھڑنے والی بہنوں کا غم ستائے جارہا تھا

"گو ٹو ہیل۔۔۔اسیر دانت کچکچا کر کہتا اپنی گاڑی کی طرف بڑھنے لگا

"آپ کتنے کھٹور ہیں کیا آپ کو زرا رحم نہیں آئے گا؟"اکیلی جوان خوبصورت لڑکی کو یہاں چھوڑ کر آپ جارہے ہیں۔۔۔۔فاحا نے اُس کو پیچھے سے ہانک لگاکر کہا

"خوبصورت ریئلی؟اسیر نے پلٹ کر اُس کو گھورا

"یقین نہیں آتا تو خود کو آئینے میں دیکھ کر مجھے تصور کریں آپ کو اپنا آپ میرے سامنے پانی بھرتا نظر آئے گا۔۔۔فاحا کا اعتماد قابلِ دید تھا اور اپنے بارے میں پہلی بار کسی کا ایسا جُملا سن کر اسیر کو تو جیسے سکتہ طاری ہوگیا تھا وہ جہاں جاتا تھا چھا جاتا تھا"چاہے وہ کوئی عام جگہ ہو یا کالج سے لیکر یونی تک ہر جگہ اُس کا چرچہ ہوا کرتا تھا اُس کی شخصیت ہی کچھ ایسی تھی اور آج چھٹانگ بھر کی لڑکی نے کیسے سر جھاڑ منہ پھاڑ بول دیا تھا کہ وہ کچھ نہیں۔۔

"بدتمیزی لڑکی

نہیں ہوں میں بدتمیز لڑکی آپ کا جب دل چاہتا ہے تب مجھے کبھی"چھوٹی لڑکی کہتے ہیں تو کبھی گُستاخ لڑکی اور اب میں بدتمیز لڑکی ہوگئ کل کو آپ جھوٹی لڑکی بولے گے میں کیا صرف آپ کے منہ سے اپنے لیے ایسی القابات سُننے کے لیے پیدا ہوئی ہوں؟"میرا نام فاحا ہے"فاحا" ذہین نشین کرلے آپ۔۔۔۔اسیر غُصے سے دندناتا اُس کے پاس آکر کچھ کہنے والا تھا جب فاحا نے اُس کی بات کو درمیان میں کاٹ کر کہا

"تمہیں پتا ہے تمہاری اِس قدر گُستاخی پر ہم تمہاری زبان بھی کاٹ سکتے ہیں اسیر ملک ہیں ہم ہمیں آسان سمجھنے کی کوشش نہ کرو تو اچھا ہے اور آئیندہ اگر ہماری بات کاٹنے کی جُرئت کی تو نتیجہ بہت بُرا ہوگا۔۔اسیر کا لہجہ وارننگ سے بھرپور تھا

"ہوگے آپ فزکس"کیمسٹری"سائنس"باٹنی بائیولاجی ذولاجی کی طرح مشکل پر آپ کو سمجھنے کا شوق فاحا کو نہیں ہے بس اب آپ مجھے میرے گھر چھوڑ آئے بڑی مہربانی ہوگی۔۔۔فاحا منہ کے زاویئے بنا کر بولی

"زبان کو قفل لگاکر گاڑی میں بیٹھ جاؤ منہ سے اگر تمہارے چوں چراں کی آواز بھی آئی تو چلتی گاڑی سے باہر پھینک دینگے۔۔۔اسیر نے سنجیدگی سے دو ٹوک لہجے میں اُس سے کہا

پر

ہشششش خاموش

ہم نے کہا نہ۔۔۔۔فاحا احتجاجاً کچھ کہنے والی تھی جب اسیر نے ہاتھ کے اِشارے سے اُس کو کچھ بھی کہنے سے باز رکھا تھا جس پر ناچاہتے ہوئے بھی فاحا نے چُپ سادھ لی تھی۔

❤❤❤❤❤❤❤

نانو کیا ہماری ماں کبھی نہیں ہوگی؟"نورجہاں بیگم ملازمہ کے ساتھ عروج بیگم کے بیڈ کی بیڈ شیٹ بدلوا رہی تھی جب اقدس اپنی گُڑیا کو پکڑے اُن کے سامنے کھڑی ہوتی معصومیت سے پوچھنے لگی۔۔۔

"ہائے بدقسمت تیری ماں تھی جو تُجھے چھوڑ کر چلی گئ۔۔۔پر توں روتی کیوں ہے؟"ہم ہیں نہ تمہارے ساتھ۔۔نورجہاں بیگم اُس کو اپنی گود میں اُٹھائے اُس کے گالوں کو چوم کر بولی

"اقدس کو اپنی مما کی تصاویر چاہیے"نانو آپ دینگی نہ تصویر۔۔؟اقدس نے فرمائشی انداز میں کہنے کے بعد اُن سے پوچھا


"آج کے بعد ہمیں یہاں حویلی میں اُس عورت کا کوئی بھی سامان یا اُس سے وابستہ کوئی بھی چیز نظر آئی تو ہم سے بُرا کوئی نہیں ہوگا اور آج ہم پہلی اور آخری بار سب کو بتارہے ہیں اگر کسی نے اُس عورت کی تصویر ہماری بچی کو دیکھائی بھی تو ہم اُس کا وہ حال کرینگے کہ پورا گاؤں دیکھے گا۔۔'!


"اقدس کی بات پر نورجہاں کے کانوں میں اسیر کی سالوں پُرانی روعبدار آواز گونجی تھی جس پر اُن کے پورے جسم میں کرنٹ ڈور گیا تھا اور بے ساختہ اُنہوں نے جھرجھری سی لی تھی۔۔۔


"آؤ میں تمہیں نوڈلز بنادیتی ہوں۔۔۔نورجہاں بیگم نے اُس کا دھیان بٹانا چاہا

"پر مجھے اپنی ماں کو دیکھنا ہے بابا بھی ایسا کرتے ہیں اور آپ بھی نہیں دیکھا رہی ہیں۔۔۔اقدس کے پورے چہرے پر اُداسی چھاگئ

"پھوپھو کی جان آپ میرے پاس آئے۔۔لالی کمرے میں آئی تو اقدس کا اُترا ہوا چہرہ دیکھ کر نورجہاں بیگم کی گود سے اُس کو لیا

"اقدس آپ سے ناراض ہے۔۔۔اقدس نے اُس سے منہ پھیر کر کہا

"ارے وہ کیوں؟لالی نے اُس کو دیکھ کر مسکراہٹ دبائی

"کیونکہ آپ اقدس کو وقت نہیں دیتیں۔۔۔اقدس نے جتایا جبکہ نورجہاں بیگم نے شکر کا سانس خارج کیا تھا کہ اقدس کا دھیان اپنی ماں سے ہٹ گیا تھا

"اب پھوپھو یونی نہیں جائے گی کچھ دِنوں تک تو ہم خوب مزہ کرے گے۔۔۔لالی نے اُس کو پیار سے پچکارا

"کیا سچ میں؟خوشی سے اقدس کی آنکھیں جگمگا اُٹھی

"ہاں بلکل سچ۔۔۔۔لالی اُس کا ماتھا چوم کر ہنس کر بولی

❤Rimsha Hussain Novels❤

"اماں جان آخر یہ کب تک چلے گا۔۔۔نورجہاں بیگم عروج بیگم سے بولی جو تسبیح کے دانے گِرانے میں مصروف تھیں۔۔۔

"کیا کب تک چلے گا؟"پھر کچھ ہوا ہے کیا؟عروج بیگم کو اُن کی بات سمجھ نہیں آئی

"میں اسیر کی بات کررہی ہوں وہ آخر کب تک اقدس کو اپنی ماں کے لمس سے محروم رکھے گا۔۔۔نورجہاں بیگم نے سوال اُٹھایا

"یہ کرنے والی تمہاری بیٹی ہے نور اسیر ہمارے پیارے پوتے نے تو اپنے دل پر پتھر رکھ کر اپنی کم عمری میں دیبا سے شادی کی تھی جو اُس سے چھ سال بڑی تھی لیکن اُس کے باوجود اُس نے شادی نبھانے کی پوری کوشش کی تھی پر تمہاری بیٹی نے کیا کردیا؟،"اُس سے طلاق مانگ لی اور اقدس کی پیدائش کے اگلے روز جانے وہ کہاں چلی گئ۔۔۔اور اب تم ذمیدار اسیر کو ٹھیرا رہی ہو۔۔۔عروج بیگم تو جیسے پھٹ پڑیں

"اماں جان دیبا کیوں؟"اور کس کے ساتھ گئ یہ بات محض اسیر کو پتا ہے اور خُدا جانے اُس نے دیبا کے ساتھ کیا کردیا تھا جو وہ حویلی سے چلی گئ یہ بتانے کے بجائے اُس نے سب حویلی والوں کو اُس کا نام لینے سے منع کردیا ہے کوئی مانے یا نہ مانے مگر میرا دل جانتا ہے اسیر نے کبھی دیبا کو اُس کا حق دیا ہی نہیں تھا۔۔۔نورجہاں جذباتی ہوتی بولی

"جی بلکل اقدس کو زمین سے اُگھی تھی۔۔۔فائقہ بیگم نے اُن کو دیکھ کر طنز کیا

"دیکھے بھابھی آپ خاموش رہے۔۔۔۔نورجہاں بیگم اپنی خُجلت مٹانے کے غرض سے اُن پر چڑھ ڈوری

"مجھ سے زبان لڑانے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں نورجہاں اور اگر اب تمہیں اپنی بھگوری بیٹی کی اِتنی یاد آرہی ہے تو جاؤ اور تلاش کرو اُس کو۔۔۔فائقہ بیگم نے کھڑی کھڑی سُنادی تھی

"دیکھے جوان بیٹی کی ماں آپ خود بھی ہیں اِس لیے سوچ سمجھ کر بولے۔۔۔نورجہاں نے اُن کو وارن کیا

"اب تم مجھے

"چُپ ہوجاؤ تم دونوں اب۔۔۔۔عروج بیگم نے دونوں کو ٹوک دیا

"میں چُپ ہوجاؤں گی بس آپ اِس کو سمجھائے کہ اچانک جاگی ہوئی ممتا کو دوبارہ سُلادے۔ ۔۔فائقہ بیگم سرجھٹک کر کہنے کے بعد وہاں سے چلی گئ۔۔"سیڑھیوں کے عقب کے پاس کھڑی لالی نے اُفسوس سے یہ سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا


"یہی ایک وجہ ہے جو میرا دل یہاں نہیں لگتا یہاں انسان کو انسانوں کا احساس نہیں ہوتا ایک ساتھ رہتے ہیں مگر ایک ساتھ کھڑے نہیں ہوتے۔ ۔۔"لالی نے غُصے سے اپنے کمرے میں جاتی نورجہاں بیگم کو جاتا دیکھا تو بے ساختہ سوچا تھا۔ ۔۔

❤RimSha Hussain Novel❤

ہائے جاِن من۔ ۔۔۔

میشا نے جہاں نرسنگ کی جاب شروع کی تھی وہ وہاں جانے لگی تھی جب اچانک جانے کہاں سے آریان اُس کے سامنے آگیا تھا۔۔

"تم میرا پیچھا کرتے کرتے یہاں تک آگئے۔۔میشا نے کڑے چتونوں نے اُس کو دیکھ کر کہا

"ہاں بلکل کیونکہ سات سمندر پار میں تیرے پیچھے پیچھے آگیا میں تیرے پیچھے آگیا۔۔۔۔آریان اُس کے ارد گرد چکر لگاتا گُنگُنانے لگا تو اُس پر میشا کو مزید تاؤ آیا

"تم

تم آج بس یہ بتاؤ میں کیسا لگ رہا ہوں۔۔۔آریان اُس کے سامنے کھڑا ہوتا اپنے بالوں میں ہاتھ پھیر دلکش انداز میں بولا تو میشا نے سرتا پیر پہلے اُس کے کالے چمکدار جوتے دیکھے پھر وائٹ جینز پینٹ کے ساتھ اُس کی نظر آریان کی نیلی شرٹ پر پڑی پھر سینے سے تک آتے ایک بلیک لاکٹ پر اُس کے بعد جیسے ہی آریان کے چہرے پر گئ تو اُس نے بڑی مشکل سے اپنی مسکراہٹ کا گلا گھونٹا تھا کیونکہ اُس نے اب نوٹ کیا تھا کہ آریان کلین شیو تھا آج

"قسمے چِھلے ہوئے مرغے لگ رہے ہو۔۔۔کہنے کے ساتھ ہی میشا کی بس ہوئی تھی اور اُس نے ایک زوردار قہقہقہ لگایا تھا"مگر لفظ چِھلے ہوئے مرغے پر آریان کا چہرہ دیکھنے لائق ہوا تھا اُس نے خشمگین نظروں سے میشا کو دیکھا جو ہر بار اُس کے موڈ کا بیڑا غرق کردینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی تھی۔

"تمہیں پتا ہے تم ورلڈ کی سڑی ہوئی خاتوں ہو۔۔۔۔آریان سے کچھ اور بولا نہیں گیا تو بدمزہ ہوکر بولا

"شکریہ شکریہ۔۔۔۔میشا نے خوش اسلوبی سے اُس کا دیا گیا لقب قبول کیا

"جب کوئی اچھے سے پیش آتا ہے تو جواب میں اُس کے ساتھ بھی اچھے سے پیش آیا جاتا ہے۔۔۔آریان نے اُس کو احساس دلوانا چاہا

"تمہیں اپنی ڈارھی ہٹانے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا نہ کہ تم اُس سے چِھلے ہوئے آلو یا مرغے بھی لگ سکتے ہو۔۔۔"پاگل ڈراھی مونچھیں تو مرد کی شان ہوتی ہیں۔۔۔میشا باز پھر بھی نہیں آئی تھی

"اچھا دفع کرو کچھ نیا کرتے ہیں۔۔"جو آجکل بہت ٹرینڈ پر ہے۔۔اُس کی بات نظرانداز کرکے آریان نے پرجوش ہوکر کہا

"نئے سے مُراد؟میشا نے سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھ کر پوچھا

یہاں آؤ۔۔۔آریان نے اُس کو سائیڈ پر لاکر کھڑا کیا

"تم نہ اپنے ہاتھوں کو قابوں میں کیا کرو کیونکہ اگر میرے ہاتھ آؤٹ آف کنٹرول ہوئے نہ تو تمہارے چہرے کی خیر نہیں ہے۔۔۔میشا نے اُس کو تنبیہہ دی

اچھا اچھا اب چُپ کرکے بس تم میرے سوالوں کا سہی سے ادب کے دائرے میں رہ کر جواب دینا۔۔۔آریان نے کہا

"کیوں کیا تم میرے اُستاد ہو؟میشا نے طنز کیا

چُپ کرو تم بس جواب دینا یہ بتاؤ تمہیں پڑھنے کا شوق ہے؟آریان نے پوچھنے کے بعد بے چینی سے اُس کو دیکھا

"یہ کیسا سوال ہے؟میشا نے عجیب نظروں سے اُس کو دیکھا

"جیسا بھی ہے تم جواب دو نہ۔ ۔۔آریان تپ اُٹھا

"نہیں مجھے پڑھنے کا کوئی شوق نہیں میں تو بس اسکول جاتے ہوئے یہ سوچتی تھی کہ کاش کوئی کیچر آجائے اور میں اُس میں گِرجاؤں میرا سارا یونیفارم خراب ہوجائے اور میں اسکول جانے سے بچ پاؤں۔۔۔۔میشا نے حسرت بھرے لہجے میں جواب دیا تو اُس کو دیکھ کر آج آریان نے صبر کا گھونٹ بھرا تھا مگر اُس نے ہار قطعاً نہیں مانی تھی

اچھا چھوڑو پڑھنے کو تمہیں لکھنے کا شوق ہے؟آریان نے اگلا سوال کیا

"میرے ہاتھوں کو بس ایک چیز کا شوق ہوتا ہے اور وہ ہوتا ہے کہ کسی لفنگے کا منہ توڑنے کا اُس کے علاوہ لکھتے ہوئے میرے ہاتھوں میں درد پڑجاتا ہے۔۔۔میشا نے اِس بار بھی اُس کی سوچ کے برعکس جواب دیا

"اِتنی تم نازک خیر یہ بتاؤ کیا تمہیں سمجھنے کا شوق ہیں؟آریان نے ایک اور کوشش کی

"میں سائکاٹرسٹ تھوڑئی ہوں جو لوگوں کو سمجھتی پِھروں خود کو سمجھ جاؤں یہی بڑی بات ہے۔۔۔میشا نے منہ کے زاویئے بگاڑ کر جواب دیا تو آریان کا دل چاہا وہ اپنا سر دیوار پر مارے

❤❤❤❤❤❤

میشا۔۔۔۔۔۔۔آریان نے ضبط سے اُس کو پُکارا تھا

آریان۔۔۔جواباً میشا نے بڑی معصومیت سے اُس کا نام لیا تو آریان کے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی۔

"تم اِتنی ان رومانٹک کیوں ہو؟اپنے دل کو تھپکی دے کر آریان نے اُس سے سوال کیا

"پہلے تم بتاؤ تم اِتنے چھچھوڑے کیوں ہو؟میشا نے اُلٹا اُس سے سوال کیا

"اِس کو چِھچھوڑاپن نہیں کہتے یہ تو میری تمہارے لیے محبت ہے۔۔۔۔آریان محبت سے گوندے چاشنی لہجے میں بولا تو میشا نے آئبرو اُپر کیے اُس کو دیکھا

"محبت؟

تمہیں مجھ سے محبت ہے مگر تم میرے بارے میں جانتے کیا ہو؟میشا کا انداز طنز سے بھرپور تھا

"مجھے تم سے واقعی میں محبت ہے اور اگر میں تمہیں نہیں جانتا تو جاننے کے لیے پوری زندگی پڑی ہے۔۔۔آریان نے مسکراکر کہا

جاؤ یہاں سے مجھے کام پر جانا ہے۔۔۔میشا بیزارگی سے بولی

"آج تم کام پر نہیں جاؤ ہم ایک دوسرے کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔آریان اُس کے راستے میں حائل ہوتا بولا

"دیکھو آریان بی سیریس مجھے تمہیں جاننے کا کوئی شوق نہیں ہے تمہیں میری یہ بات سمجھ میں کیوں نہیں آرہی ؟"میرے پر تم بس وقت ضائع کررہے ہو میں تمہیں کچھ نہیں دے سکتی کیونکہ میرے پاس تمہیں دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے اِس لیے اچھا ہے کہ تم اپنے قدم واپس لے لو۔۔۔میشا نے زندگی میں پہلی بار اُس سے سنجیدگی میں بات کی جو تھوری پر ہاتھ رکھے آریان نے بڑی دلچسپی سے سُنی

" تم اسپیچ بہت اچھی کرلیتی ہو مگر ڈیئر فیوچر وائیف تمہیں نہیں لگتا یہ آخری بات جو ابھی تم نے مجھ سے کہی اِس کو کہنے میں بہت وقت لگادیا۔۔آریان نے ہنس کر کہا

"یہ اسپیچ نہیں تھی اور ہاں ہوسکتا ہے میں نے وقت لگادیا ہو پر تمہیں میرے روڈ رویے سے خود پیچھے ہوجانا چاہیے تھا۔۔۔میشا نے کہا

"مگر میں نہیں ہوا اِس سے تمہیں اندازہ ہونا چاہیے کہ میں کتنا سیریس ہوں تمہارے لیے۔۔۔آریان نے اُس کو لاجواب کرنا چاہا

"میں نہیں لگا رہی اندازے تم بس میرا پیچھا چھوڑدو۔۔میشا نے اکتاہٹ سے کہا

"تم اگر اپنی جگہ بضد ہو تو میں بھی آریان دُرانی ہوں اپنی بات سے ایک انچ نہیں ہلنے والا۔۔۔آریان نے گویا اُس کو باور کروایا تھا لیکن میشا نے اُس کو دیکھ کر سرجھٹکا

❤Rimsha Hussein Novels❤

"گھر آکر فاحا نے سب سے پہلا کام سوہان کا موبائیل اُس کے کمرے سے اُٹھایا جو اُس کو ڈریسنگ ٹیبل سے ملا خود سوہان واشروم میں موجود تھی جس کا اندازہ فاحا نے پانی گِرنے کی آواز سے لگایا تھا۔۔۔

"فاحا پہلی بار کسی کا موبائیل چیک آؤٹ کرنے لگی ہے یااللہ فاحا کو معاف کرنا وہ بہت معصوم ہے۔۔۔فاحا ایک نظر واشروم کے بند دروازے پر ڈالتی منہ ہی منہ میں بڑبڑائی

"زوریز دُرانی کا نمبر کیسے تلاش کروں؟اففف فاحا پاگل کال لِسٹ میں زی میں جانا ہے افکورس پھر اُن کا نمبر مل جائے گا۔۔۔فاحا نے اپنی بات کا جواب خود کو خود ہی دیا اور جلدی میں"زوریز کا نمبر اپنے نمبر پر سینڈ کرنے کے بعد اُس نے چیٹ کو کلیئر کردیا تاکہ سوہان کو اُس پر شک نہ ہو

"واہ فاحا تم تو لاجواب ہو تمہارا کوئی جواب نہیں۔۔۔اپنی کاروائی پر خود کو داد دیتی فاحا جلدی میں کمرے سے باہر نکل گئ اور لاؤنج میں آکر اپنا سیل فون اُٹھائے وہ زوریز کو کال کرنے لگی جو کہ مصروف جارہا تھا

"فون اُٹھائے مصروف انسان۔۔۔تیسری بیل پر بھی جب زوریز نے کال نہیں اُٹھائی تو فاحا دعائیہ انداز میں خود سے بولی جبکہ اِس بار اُس کا نمبر مصروف نہیں تھا جارہا

"آخری بار کرتی ہوں اگر اِس بار نہیں اُٹھایا تو میں نہیں کرنے والی دوبارہ کال۔۔۔۔فاحا خود سے کہتی اپنی طرف سے آخری بار زوریز کو کال کرنے لگی جو خلاف توقع ریسیو کیا گیا تھا

Hello, zaroiz Durani Speeking.

دوسری طرف سے زوریز کی مصروف کن آواز اسپیکر پر اُبھری

I'm faha malik Speeking.

فاحا نے بھی جواباً اُسی کا اندازہ اپنایا تو زوریز جو کال ریسیو کرنے کے بعد فائلز چیک کررہا تھا ایک پل کو چونک سا گیا اُس نے فائل بند کرکے سیل فون کان سے ہٹائے اسکرین کی طرف دیکھا جہاں کوئی انون نمبر جگمگا رہا تھا

"سوہان کی بہن؟زوریز نے کنفرم کرنا چاہا

"جی میں اُن کی بہن ہوں فاحا۔۔۔۔فاحا نے مسکراتے لہجے میں بتایا

"اوکے وہ ٹھیک تو ہیں؟"آپ نے مجھے کیسے کال کرلی آج؟زوریز کو تشویش ہوئی

"جی وہ بلکل ٹھیک ہیں اور فاحا نے سب سے پہلے سوہان آپو کے فون سے چوری چوری آپ کا نمبر لیا اُس کے بعد لاؤنج میں آئی اپنا سیل اُٹھایا اور آپ کا نمبر ڈائل کیا پھر ایسے آگئ آپ کے پاس میری کال۔۔۔فاحا نے تفصیل سے اُس کو جواب دیا جس پر زوریز ہلکہ سا مسکرایا

"آپ نے چوری چوری فون سے نمبر کیوں لیا؟"بتاکر یا پوچھ کر یا پھر اُن سے مانگ سکتی تھی۔۔۔زوریز نے پوچھا

"جی مگر میں اُن کو بتاکر سرپرائز خراب کرنا نہیں چاہتی تھی۔۔۔فاحا نے بتایا

"کیسا سرپرائز؟زوریز نے ناسمجھی سے پوچھا

"آپ کو پتا ہے کل کیا ہے؟فاحا نے متجسس لہجے میں اُس سے پوچھا

"کل جُمعرات ہے۔۔۔زوریز نے بتایا تو فاحا بدمزہ ہوئی

"اور کیا ہے مطلب تاریخ۔۔۔فاحا نے پوچھا

"تاریخ۔۔۔زوریز زیر لب بڑبڑاتا سیل فون کان سے ہٹائے موبائیل اسکرین پر تاریخ اور مہینہ دیکھنے لگا۔۔۔

"انسان کو اِتنا مصروف بھی نہیں ہونا چاہیے کہ تاریخ تک کا پتا نہ ہو۔۔۔زوریز کی طرف سے جواب ناپاکر فاحا بڑبڑائے بنا نہ رہ پائی تھی

"آج مارچ کی دس تاریخ ہے اور گیارہ مارچ کو سوہان کی سالگرہ ہے۔۔۔زوریز نے بتایا تو اِس بار فاحا کو حیرت کا شدید قسم کا جھٹکا لگا تھا۔

"آپ کو کیسے پتا؟فاحا بے یقین ہوئی

"میں نے بتایا تھا ہم ایک یونی میں ہوا کرتے تھے۔۔زوریز نے جیسے یاد کروایا

"ہاں مگر آپو نے کہا تھا آپ دونوں کی سرسری مُلاقات ہوئی تھی اور اِس سرسری مُلاقات میں انسان ایک دوسرے کا سہی سے چہرہ نہیں پہچان پاتا اور آپ دونوں ایک دوسرے کی ہر بات جانتے ہیں ایسا کیسے۔۔؟۔فاحا کو تعجب ہورہا تھا اور جاننے کا تجسس بھی

"مُلاقات سرسری تھی یا نہیں مگر یادگار ہے خیر آپ بتائے کیسے کال کی؟زوریز مطلب کی بات پر آیا

"وہ کل آپ کا شیڈول ٹف ہے یا ایویں سا۔۔۔فاحا نے پوچھا

"کل میری کلائنٹس کے ساتھ بہت ضروری میٹنگز ہیں مجھے ایک دو جگہ وزٹ بھی کرنا ہے خیر آپ نے کیوں پوچھا یہ؟زوریز نے بتانے کے بعد اُس سے سوال کیا

"کیا میٹنگز بہت ضروری ہیں؟فاحا کو تھوڑی مایوسی ہونے لگی

"ہاں۔۔۔۔زوریز نے مختصر جواب دیا

"فاحا نے اور میشو آپی نے سوہان آپو کے لیے سرپرائز پارٹی تِھرو کی ہے اور میں چاہتی تھی آپ ہمیں جوائن کریں ایسے ہمیں آپ کے بارے میں پتا بھی چل جائے گا اور سوہان آپو کو بھی سرپرائز اور اچھا لگے گا۔۔۔فاحا نے بتایا

"اُن کو شاید میرا وہاں آنا پسند نہ آئے۔۔۔۔زوریز نے کہا

"اُن کو پسند کیوں نہیں آئے گا؟"مانا کہ وہ تھوڑی روڈ ہیں مگر دل اُن کا بہت خوبصورت ہے اور وہ گھر آئے مہمان کی بہت عزت کیا کرتی ہے ہاں اگر آپ ہمارے چھوٹے سے گھر میں آنا پسند نہیں کرتے تو وہ الگ بات ہے۔۔۔فاحا نے کہا

"ایسی بات نہیں ہے میں ایسی سوچ نہیں رکھتا اور آپ مجھے بس ٹائیم بتادے میں آجاؤں گا وقت پر۔۔۔زوریز نے سنجیدگی سے کہا

"کیا سچ میں؟فاحا کی خوشی کی انتہا نہ رہی

"جی۔۔۔۔زوریز نے کہا

"اپنے والدین کو بھی لائیے گا۔۔۔فاحا بہت ایکسائٹڈ ہوئی

"میں اپنے بھائی کے ساتھ رہتا ہوں"میرے والدین کا انتقال آج سے کئ برس پہلے ہوچُکا ہے۔۔۔۔زوریز نے سنجیدگی سے بتایا

سُن کر افسوس ہوا"آپ بس پھر اپنے بھائی کو لائیے گا۔۔۔فاحا نے کچھ سوچ کر کہا

"میں کوشش کروں گا مگر آریان کی کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا۔۔۔"کیونکہ اُس کی اپنی کچھ مصروفیات ہوتیں ہیں۔۔۔زوریز نے اُس کی بات سن کر کہا

اچھا تو چھوڑے اُن کو آپ جلدی سے یہ بتائے کل کس کلر کا ڈریس پہن کر آئے گے،؟فاحا نے پرجوش ہوکر پوچھا تو زوریز کو اُس کا یہ سوال عجیب لگا

"کیا مطلب؟زوریز کو سمجھ نہیں آیا

"مطلب اِتنا مشکل بھی نہیں میں نے آپ کے سوٹ کا کلر پوچھا ہے جو آپ کل پہن کر آئے گے۔۔۔۔فاحا نے تفصیل دی اُس کو

"کوئی بھی پہن لوں گا۔۔۔زوریز نے شانے اُچکائے جواب دیا

"کوئی بھی یہ کیسا کلر ہوا؟فاحا ناسمجھی سے بولی

"میرے کہنے کا مطلب تھا جو مجھے ٹھیک لگے گا میں وہ پہن کر آجاؤں گا۔۔۔زوریز نے جواب دیا

"نہیں نہیں پلیز یہ ظُلم نہیں کیجئے گا کل کچھ الگ انداز میں آئیے گا اپنے بزنس فورم میں نہیں کیونکہ یہاں آپ کی کوئی میٹنگ نہیں ہوگی۔۔۔فاحا نے جھٹ سے کہا

"آپ کہنا کیا چاہتی ہیں؟"کُھل کر کہیں؟زوریز نے پوچھا

"فاحا کہنا چاہتی ہے کہ کل آپ بہت تیار ہوکر آئیے گا ہیئر اسٹائیل بھی اچھا بنائیے گا جس کو دیکھ کر ہر ایک کا منہ کُھلا کا کُھلا رہ جائے۔۔۔۔فاحا نے کہا تو زوریز اُس کی بات سن کر لیپ ٹاپ کی اسکرین آن کیے اپنا جائزہ لینے لگا"بلیک تھری پیس میں ملبوس وہ شاندار لگ رہا تھا اُس کی شخصیت بہت پُرکشش تھی دیکھنے والا مرغوب ہوجایا کرتا تھا "خاص طور پر اُس کے چہرے پر موجود سنجیدگی اور چلنے کا انداز تو پھر"فاحا کیا اُس سے کہنے کا بول رہی تھی اُس میں کمی کیا تھی؟"اسپیشلی اُس کے لباس میں بالوں کو بھی تو وہ اپنے اچھے سے سیٹ کیا کرتا تھا۔

"دیکھے فاحا میں آپ کی بات کو سمجھ نہیں پارہا میں جیسا ہوں ویسے آؤں گا اور بزنس فورم میں نہ بھی آؤں مگر میرا ڈریسنگ اسٹائیل یہی ہے۔۔۔زوریز نے سنجیدگی سے کہا

"بس آپ کلر بتادے۔۔فاحا سرجھٹک کر بولی

"بلیو۔۔۔زوریز نے کچھ توقع بعد کہا

"ٹھیک ہے یاد سے بلیو ہی پہن کر آئیے گا۔۔۔فاحا مسکراکر کہتی کال کاٹ گئ تھی اور زوریز کتنے ہی پل کل کے بارے میں سوچنے لگا تھا پھر سرجھٹک کر اپنا دھیان کاموں میں لگایا

❤Rimsha Hussain Novels❤

"سوہان زوریز کے کیس کی فائل ریڈ کرنے میں مصروف تھی جب اُس کا سیل فون رِنگ کرنے لگا"سوہان نے دیکھا تو کوئی انون نمبر تھا اور اُس نمبر کو دیکھ اُس کی پیشانی پر پرسوچ پرچھائیاں چھانے لگی۔۔۔

"السلام علیکم کون؟کال ریسیو کرکے سوہان نے سنجیدگی سے سلام کے بعد پوچھا

"نذیر ملک بات کررہا ہوں۔۔۔۔دوسری طرف سے سلام کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھا گیا

"تو میں کیا کروں؟سوہان نے ناگواری سے سوال کیا

"سُنو کل کی بنی ہوئی بیریسٹر ہمارے خاندان سے بیر لیکر توں اچھا نہیں کررہی تُجھے پتا نہیں میں کون ہوں اور ہمارا خاندان ہمارا رُتبہ کیا ہے؟"اِس لیے ہمارے معاملات سے دور رہو ورنہ اچھا نہیں ہوگا تمہارے ساتھ۔۔۔نذیر تکبر بھرے لہجے میں اُس سے گویا ہوا

"ایک وکیل کو ہراس کرنے کے نتائج سے آگاہ ہو تم یا میں بتاؤ؟سوہان نے طنز لہجے میں اُس سے پوچھا

"تم دو ٹکے کی لڑکی اب نذیر ملک کو دھمکی دو گی؟نذیر کا پارا ہائے ہوا تھا

"دوبارہ مجھے کال مت کرنا ورنہ ایک رات پہلے پولیس کی کسٹڈی میں رہو گے۔۔۔سوہان وارن بھرے لہجے میں اُس سے کہتی کال کاٹ گئ تھی دوسری طرف نذیر ملک کے پورے تن بدن میں آگ لگ گئ تھی"اُس نے سرخ آنکھوں سے اپنے باپ کو دیکھا جنہوں نے اُس سے کہا تھا کہ سوہان کو کال کرکے اُس کو دھمکیاں دے مگر وہ تو کچھ سُننے کو تیار نہ تھی اُلٹا اُس کو بے عزت کرکے چھوڑدیا تھا۔۔۔

"کیا ہوا؟سجاد ملک نے انجان بن کر پوچھا

"آپ کو پتا نہیں اُس بدبخت نے مجھ سے کیا کہا؟نذیر غُصے سے پاگل ہونے کے در پر تھا

"آرام سے بتاؤ کیا کہا اُس نے؟"کیا اُس نے کیس سے پیچھے ہٹنے کو کہا؟سجاد ملک نے اُس سے پوچھا

"بابا سائیں کیس مجھ پر اُس بزنس مین زوریز درانی نے کروایا ہے یہ بس اُس کی وکیل ہے کیس لڑے گی اُس کا۔۔۔نذیر ملک غُصے سے بولے

"ہاں تو کرنے دو جو یہ اور وہ کرنا چاہتے ہیں بڑا اِن کو انصاف اور کورٹ کچہریوں میں پڑنے کا شوق ہے نہ تو سہی ہے دونوں کا شوق پورا کرلیتے ہیں۔۔سجاد ملک کمینگی سے بولے

"کیا مطلب آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں؟نذیر الرٹ ہوا

"پہلے سوچا تھا راستے سے سوہان کو ہٹائے مگر اب اُس بزنس مین زوریز کی بھی خیر نہیں۔۔۔سجاد ملک نے پختگی سے کہا

"بابا سائیں وہ ہماری طرح گاؤں کے رہائشی نہیں وہ زوریز دُرانی ہے جس نے کم عرصے میں پاکستان آکر اپنا بڑا نام بنایا ہے اور وہ جب باہر نکلتا ہے تو میڈیا والے اُس کو کوریج کرلیتے ہیں"سال میں اُس کو بیسٹ بزنس مین کا اوارڈ بھی ملا تھا آئے دن اخباروں اور میگزین میں اُس کی فوٹوز چھپی ہوئیں ہوتیں ہیں وہ کوئی عام انسان نہیں جس کو مار دینگے تو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا"اور وہ بیریسٹر سوہان جس کو کل کوئی نہیں جانتا تھا آج ہر ایک کے لبوں پر اُس کا نام ہے کیس جو جیتا ہے اُس میں ہر کوئی اُس کی واہ واہ کررہا ہے سب کو پتا ہے سوہان کون ہے ایسے میں ہمارا ایک غلط قدم ہمیں خسارے میں پہنچا سکتا ہے۔۔۔نذیر ملک اپنے باپ کے اِرادے کو بھانپتا اُن کو باز رکھنے کی کوشش کرنے لگا جواب میں سجاد ملک کا زوردار قہقہقہ چھوٹ گیا تھا۔

"کچی گولیاں تو میں نے بھی نہیں کھائیں بس تم دیکھتے جاؤ میں کرتا کیا ہوں۔۔۔سجاد ملک مونچھوں کو تاؤ دے کر بولے تو نذیر خاموشی سے بس اُن کا چہرہ تکنے لگا اُس کو اپنے باپ کے اِرادے نیک نہیں لگے تھے۔۔

Rimsha Hussain Novels❤

فاحا عاشر اور میشا کے ساتھ مل کر گھر کو ڈیکوریٹ کرنے میں مصروف تھیں"سوہان کو جبکہ اُنہوں نے کمرے سے باہر نکلنے کو منع کیا تھا اُس پر سوہان نے احتجاج تو بہت کیا تھا مگر کسی نے اُس کی سُنی نہیں تھی۔۔۔"بس یہی کہا گیا تھا کہ اُن میں سے کوئی خود تمہیں کمرے سے باہر لیکر آئے گا۔


"فاحا تمہیں نہیں لگتا ہمیں بلونز کے بجائے پھولوں سے گھر کو سجانا چاہیے تھا۔۔۔میشا ایک طائرانہ نظر چھوٹے سے ہال پر ڈالتی فاحا سے بولی جو ابھی کیک بیک کرکے کچن سے باہر آئی تھی

"سالگرہ کے دن بلون سے گھر سجایا جاتا ہے پھولوں سے نہیں۔۔۔فاحا نے اُس کی معلومات میں اضافہ کیا

"واٹ ایور یہ دیکھو میں تیار ہوگئ ہوں تمہارا تیار ہونے کا موڈ ہے یا نہیں؟میشا اُس کو بتانے کے بعد گول گول گھومنے لگی تو اُس کے ساتھ اُس کا فراق بھی گول گول لہرانے لگا

"فاحا کو ابھی بہت کام ہے۔۔۔۔"فاحا وال کلاک کی طرف دیکھ کر اُس کو بتانے لگی۔

اففف ایک تو تمہارے کام خیر مجھے ایک سوال کا جواب دینا۔۔۔میشا سرجھٹک کر بولی

"کونسا جواب؟فاحا نے سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھ کر پوچھا اور ہال کا جائزہ لینے لگی تو میشا چہک کر اپنے پشت پر بکھرے بال کو کندھوں سے آگے کیا

فاحی میرے بال کیسے لگ رہے ہیں؟میشا اپنے بالوں کو دیکھ کر فاحا سے پوچھنے لگی تو اُس نے نظریں اُٹھائے اِس بار میشا کو غور سے دیکھا

کونسے بال؟"سر کے یا مونچھوں کے؟فاحا پرسوچ نظروں سے اُس کو دیکھ کر معصوم لہجے میں پوچھنے لگی تو میشا کا منہ حیرت کی زیادتی سے کُھلا کا کُھلا رہ گیا۔۔۔۔

"ہاہاہاہاہاہا۔۔۔جہاں میشا کا منہ کُھلا تھا وہی عاشر اور حاشر کا قہقہقہ ہوا میں بلند ہوا تھا۔۔

"تمہیں تو میں چھوڑوں گی نہیں۔۔۔میشا تپ کر کہتی اُس کی طرف بڑھنے لگی جس پر فاحا نے گڑبڑا کر ڈور لگائی

"بھاگتی کہاں ہو رُکو تُجھے تو اب میں بتاتی ہوں۔۔۔فاحا کے پیچھے پیچھے بھاگتی میشا کے دھمکی آمیز لہجے میں اُس سے گویا ہوئی

یار آپو ابھی بہت کام ہیں آپ کے پاس رحم کی اپیل لانا چاہتی ہوں۔۔۔فاحا یہاں سے وہاں ڈور لگاتی اُس سے بولی تو میشا نے صوفے سے کشن اُٹھائے اُس کی طرف پھینک دیا مگر فاحا جلدی سے نیچے جُھک کر اپنا بچاؤ کرگئ۔۔۔

"لڑنا بند کرو میں سوہان کو لینے جارہا ہوں وہ تیار ہوگئ ہوگی۔۔۔عاشر اُن دونوں کو دیکھ کر بولا

"ہال کی لائیٹس تو آف کریں۔"اور میں ابھی تک تیار نہیں ہوئی۔۔فاحا نے رونی صورت بنائی

"تم ماسی بن کر بہت اچھی لگتی ہو۔۔۔میشا نے اُس کو چِڑایا

"آپ تو بس کریں اپنے اپر لپس چیک کریں۔۔۔فاحا بھی باز نہیں آئی اور میشا کو سویا ہوا غُصہ پھر سے عود آیا۔

"تمہاری تو۔۔۔۔میشا اِتنا کہتی ابھی کچھ کہتی جب اچانک ہال کی تمام لائٹس آف ہوگئیں تھیں۔۔۔"بس ایک لائٹ نے بلیو میکسی میں ملبوس سوہان کو اپنے گھیرے میں لیا تھا"یکخلت گھر میں کوئی اور بھی داخل ہوا تھا۔۔"جس کے جوتوں کی ٹِک ٹِک نے خاموش ماحول میں ایک ارتعاش پیدا کیا تھا۔۔۔"فاحا کے دل نے تیز رفتار پکڑ لی تھی شاید وہ جانتی تھی آنے والی ہستی کون ہے۔۔"سوہان جو آس پاس دیکھتی معاملہ سمجھنے کی کوشش کررہی تھی اپنے بیحد پاس کھڑے ہوتے زوریز کو دیکھ کر وہ دم سادھے رہ گئ تھی اور یہی حال زوریز کا تھا سوہان کو پہلی بار روزانہ کے برعکس ایک الگ گیٹ اپ میں دیکھ کر مبہوت رہ گیا تھا۔۔۔"لیکن میشا نے جب لائیٹس اچانک آن کی تو سوہان جیسے ہوش میں آئی تھی۔۔

Happy birthday too you

Happy birthday Dear sohan

Wish you more and happy life

"عاشر حاشر"میشا فاحا بُوا اور ساجدہ بیگم یہ لوگ تالیاں بجاکر اُس کو وِش کرنے لگے اور فاحا گلے مل کر آخری لائن کہی تو سوہان کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی۔۔۔

This is for you.

سوہان کا دھیان اپنی طرف سے ہٹتا دیکھ کر زوریز نے کہا تو سوہان نے چونک کر اُس کی طرف دیکھا جو بلیو جینز شرٹ میں ملبوس"ہاتھ میں ریڈ پھولوں کا بُکے پکڑے کھڑا اُس کو دیکھ رہا تھا

"آپ یہاں؟سوہان اُس کو دیکھ کر حیران تھی

Happy birthday

زوریز نے اُس کی توجہ پھولوں پر کروائی

"شکریہ مگر اِس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔۔۔سوہان خُجل ہوئی اور ایک گہری نظر میشا اور فاحا پر ڈالی جو اُس کے دیکھنے پر جھٹ سے رُخ پلٹ گئیں تھیں

"میں تیار ہوکر آتی ہوں۔۔۔فاحا اِتنا کہتی وہاں سے نو دو گیارہ ہوئیں

"آپ کی سالگرہ تھی میں کیسے نہ آتا۔۔۔زوریز نے جواب دیا

لیکن میں نے آپ کو بتایا نہیں تھا۔۔۔سوہان نے کہا

"پر میں اُس کے باوجود آگیا۔۔۔زوریز نے جواباً کہا

"ارے بیٹا آپ وہ ہو نہ جو ٹی وی پر آتے ہو؟بُوا جلدی سے زوریز کی طرف آئی

"بُوا یہ فلم اسٹار نہیں ہیں۔۔۔بُوا کو دیکھ کر سوہان نے جھٹ سے اُن کی غلطفہمی کو دور کرنا چاہا

"مگر میں نے اِس کو ٹی وی پر دیکھا تھا۔۔بوا اپنی بات پر قائم تھی

"جی میں ٹی وی پر بھی آتا ہوں کچھ مارننگ شو میں ایز آ گیسٹ۔۔۔زوریز سوہان کو دیکھتا بُوا کو بتانے لگا

"گُذشتہ ویکنڈ پر میں نے آپ کو اپنے کالج میں دیکھا تھا۔۔۔حاشر نے بھی باتوں میں اپنا حصہ لیا جس پر زوریز محض مسکرایا

"کیک کٹ کیا جائے۔۔۔عاشر نے مُداخلت کی

"فاحا آجائے اور میں زرا آتی ہوں۔۔۔سوہان سب کو باری باری دیکھ کر کہہ کر اپنی میکسی سنبھالے وہاں سے جانے لگی

"ویسے بیٹا آپ کرتے کیا ہو؟زوریز جو جاتی ہوئی سوہان کی پشت کو دیکھ رہا تھا"بُوا کے مُخاطب ہونے پر اُن کو دیکھا

"میرا اپنا بزنس ہے۔۔۔زوریز نے بتایا

"اچھا ویسے کتنی سرجریاں کرواکر ایسا رنگ روپ پایا ہے۔۔؟"بُوا اُس کے پاس جُھک کر رازدرانہ انداز میں پوچھنے لگی مگر عاشر نے یہ سُن لیا تھا جبھی اپنا ماتھا پیٹا تھا

"جی؟زوریز کو اُن کا سوال سمجھ نہیں آیا تھا

"میرے کہنے کا

"بُوا آپ بھی حد کرتیں ہیں یہاں آئے کچھ بات کرنی ہے میں نے۔۔۔ابھی بُوا دوبارہ اپنی بات زوریز کے سامنے دوہراتی اُس سے پہلے عاشر بول پڑا

"مگر مجھے اِس چکنے سے بات کرنی ہے۔۔۔بُوا نے کہا تو اُن کے لفظ"چکنے"پر زوریز کی پیشانی پر ناسمجھی کے بل نمایاں ہوئے تھے وہیں حاشر نے جہاں اپنا قہقہقہ ضبط کیا تھا لیکن عاشر اپنا ماتھا پیٹ کر زبردستی بُوا کو زوریز کی پہنچ سے دور کیا

"چکنا؟اُن دونوں کے جانے کے بعد زوریز نے مدہم آواز میں وہ لفظ دوہرایا تھا پر کچھ سمجھ نہ آنے پر اپنا سرجھٹکا تھا۔

❤Rimsha Hussain Novels❤

زوریز کو تم نے اِنوائٹ کیا ہے؟سوہان میشا کو بازو سے پکڑے اُس کے اور فاحا کے مشترکہ کمرے میں لائے سنجیدگی سے سوال پوچھا"تو فاحا جو ابھی شاور لیے واشروم سے باہر نکلنے لگی تھی دوبارہ سے واشروم میں جانے لگی جب سوہان کی اُس پر نظر پڑگئ

"فاحا واپس آؤ۔۔ سوہان نے سنجیدگی سے اُس کو مُخاطب کیا

"یہ سارا اِس کا پلان کیا ہوا تھا۔۔۔میشا نے جھٹ سے کہا

"ہاں تو اِس میں بُرائی کیا ہے؟"فاحا کچھ غلط نہیں کرتی۔۔۔فاحا اپنے دفاع میں بولی

"ہمارے درمیان اُن کا کیا کام؟"میں نے پہلے بھی تم دونوں سے کہا تھا ایسا کچھ نہیں ہے جیسا تم دونوں سوچے ہوئے ہو۔۔۔میشا اور فاحا کو دیکھتی سوہان سخت لہجے میں بولی

"یہاں تم بلیو ہو اور وہاں وہ پھر بھی کہا جارہا ہے ہم غلط ہے واہ"یہ اچھا لوجک بنایا ہوا ہے۔۔میشا بھی زیادہ تر چُپ نہ رہ پائی

"مجھے لگ رہا ہے سرسری سیل فون پر بات ہوئی تھی جبھی باتوں ہی باتوں میں ایک دوسرے کو کلر بتایا ہوگا کپڑوں کا پھر ہوگیا ہوگا حسیں اتفاق۔۔۔فاحا اپنی مسکراہٹ ضبط کیے بولی

"تم دونوں زیادہ فضول گوئی نہ کرو۔۔"سوہان بلاوجہ خجل ہوئی اُس نے تو کپڑوں پر توجہ دی ہی نہ تھی"اور یہ تک بھول گئ کہ یہ ڈریس پہننے پر اُکسانے والی اُس کو"فاحا تھی

"ہم نہیں کہتے آپ جائے اور اپنے گیسٹ کو انٹرٹین کریں آپ کو تو اندازہ بھی نہیں زوریز دُرانی نے اپنی کتنی اہم میٹنگز کو چھوڑ کر یہاں آئے ہیں آپ کو برتھ ڈے وِش کرنے۔۔۔فاحا کا انداز خاصا چھیڑنے والا تھا

"اور تم نے وہ پھول کہاں کردیئے؟"اُس میں کوئی کارڈ وغیرہ تھا یا نہیں۔۔میشا متجسس بھرے انداز میں اُس سے سوال گو ہوئی

"سب کو جانے دو پھر میں اچھے سے تم دونوں سے نپٹ لوں گی۔۔۔سوہان اُن دونوں کو وارن کرتی کمرے سے باہر چلی گئ

"لگتا ہے زوریز دُرانی کی یاد ستانے لگی آپو سوہان کو۔۔۔فاحا نے تُکہ لگایا

"اُس کو چھوڑو تمہیں تو میں بعد میں دیکھتی ہوں۔۔۔میشا کو اپنی اور اُس کی لڑائی یاد آئی تو تنبیہہ کرتی نظروں سے دیکھ کر بولی

"افف توبہ ہے فاحا معصوم کو تنگ کیا ہوا ہے سب نے۔۔۔فاحا جھٹ سے میشا سے دور کھڑی ہوتی بولی

"کمرے کی کھڑکیاں بند کرو اور نیچے آجاؤ۔۔۔میشا نے کہا

"آپ کریں مجھے اپنے بالوں میں کنگی دینی ہیں ابھی۔۔۔۔فاحا اپنے بالوں کو تولیہ سے آزاد کرتی اُس سے بولی تو میشا منہ بناتی کھڑکیوں کے پاس آئی ابھی وہ کھڑکیوں کے پٹ بند کرنے لگی تھی جب اپنے گھر کے دروازے کے پاس آریان کو دیکھ کر اُس کے چودہ سے اٹھارہ طبق روشن ہوئے تھے۔۔

❤❤❤❤❤

یہ چِھلا ہوا مرغا یہاں کیا کررہا ہے؟میشا ہاتھ کی مٹھی بنائے زور سے اپنے دوسرے ہاتھ پر مارتی آہستگی سے بڑبڑائی تھی

کیا ہوا آپ کو کس کو دیکھ لیا؟فاحا بالوں میں برش پھیرتی ساتھ ساتھ ایک نظر میشا پر ڈالتی اُس سے پوچھنے لگی۔۔۔

"تم دیکھو اب میں کرتی کیا ہوں۔۔۔میشا اُونچی آواز میں کہتی بنا کچھ سوچے سمجھے کمرے سے باہر ڈور لگائی تھی۔۔

"ہوا کیا ہے کچھ بتائیں تو؟فاحا نے پیچھے سے ہانک لگائی جس کو میشا ان سنی کرگئ۔۔

"پتا نہیں کیا ہوا ہوگا۔۔۔۔فاحا جلدی سے بالوں کو جوڑے میں مقید کرتی بیڈ پر پڑا اپنا اسکارف اٹھائے پہن کر باہر کو بھاگی


"کیا ہوا کہاں جارہی ہو؟سوہان نے تیز قدموں کے ساتھ باہر نکلتی میشا کو دیکھ کر ٹوکا

"میرے راستے میں کوئی نہ آئے۔۔۔میشا اُس کو جواب دیتی باہر کو بھاگی۔

"میشو آپو کہاں گئ؟فاحا بھی ہال میں آتی سوہان سے پوچھنے لگی

"باہر گئ ہے مگر ہوا کیا ہے؟عاشر نے بتانے کے بعد پوچھا

"وہی تو دیکھنے فاحا باہر جارہی ہے آپ لوگ بھی آجائے۔۔۔فاحا اُن کو کہتی خود بھی بھاگ کر باہر گئ تو وہ لوگ بھی اُس کے پیچھے جانے لگے جبکہ سوہان اپنی جگہ ہکا بُکا رہ گئ تھی اُس کو سمجھ نہیں آیا کہ یہ اچانک سب کو ہو کیا گیا تھا

"آپ کے گھر والوں پر سوپر ہٹ فلم بن سکتی ہے۔۔۔زوریز چل کر سوہان کے برابر کھڑا ہوتا اُس سے بولا

"کچھ بھی نہ بولا کریں مجھے تو کوئی سیریس معاملہ لگ رہا ہے۔۔۔سوہان اُس کو دیکھ پریشانی سے بولی

"آپ کی فیملی ماشااللہ سے کسی انٹرٹینمنٹ چینل سے کم نہیں ہے اُپر سے اُن کی لینگیویج میں کافی یونیک ورڈز بھی ہوتے ہیں میں یہ سوچ رہا ہوں ایسے لوگوں کے ساتھ رہ کر آپ اِتنا سیریس کیسے رہ سکتیں ہیں۔۔۔زوریز اپنی رائے دے کر بولا

"مجھے لگتا ہے ہمیں باہر جاکر دیکھنا چاہیے کہ ہوا کیا ہے؟سوہان اُس کی بات اگنور کر کے بولی

"آپ کو لگتا ہے تو چلتے ہیں مگر آپ پہلے کیک کاٹ دے"کیونکہ مجھے جلدی نکلنا ہے۔۔۔زوریز ہاتھ میں پہنی گھڑی میں وقت دیکھ کر اُس سے بولا

"میری بہنیں باہر ہیں"میں اُن کے بغیر کیک کیسے کٹ کرسکتیں ہوں"اور اگر آپ اِتنے مصروف تھے تو کیوں آئے؟سوہان کو اُس کا عجلت بھرا انداز جانے کیوں ایک آنکھ نہیں بھایا تھا

"دعوت ملی تھی آنے کی اور زوریز دُرانی ایسی دعوت کو اگنور نہیں کرتا۔۔۔زوریز نے بتایا

"آپ چلے جائے آپ کا کیک میں آپ کے آفس میں ڈیلیور کروادوں گی"آفٹر آل دن کے چوبیس گھنٹوں میں آپ کے بیس گھنٹے تو وہاں گُزرتے ہوگے۔۔۔سوہان طنز ہوئی

"کافی ریسرچ کی ہوئی ہے آپ نے میرے معاملے میں۔۔۔زوریز اُس کے انداز پر مبہم مسکراہٹ سے بولا

"یہ ریسرچ نہیں ہے۔۔۔سوہان نے جیسے وضاحت دی

"پھر کیا ہے؟زوریز محفوظ ہوا

"میں باہر جارہی ہوں۔۔۔۔سوہان اِتنا کہتی ابھی ایک قدم آگے بڑھی تھی جب زوریز نے اُس کی کلائی کو اپنی آہنی گرفت میں لیا تھا

"آپ سے ایک درخواست کرنا چاہتا ہوں۔۔۔سوہان جو اپنی کلائی اُس کے ہاتھ میں دیکھ رہی تھی زوریز کی بات پر سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھنے لگی

"کیسی درخواست؟سوہان اپنی کلائی آزاد کروانے کے بعد اُس سے پوچھنے لگی

"شام سات بجے آپ سے ریسٹورنٹ میں ملنا چاہتا ہوں اُمید آپ وہاں آئے گیں۔۔"ہمیشہ کی طرح انکار نہیں کرینگی۔۔۔زوریز نے لہجے میں سنجیدگی تھی

"میں انکار کروں تو؟سوہان کو اُس کا ہڈ دھڑمی والا انداز پسند نہیں آیا

"میں نے آپ کو انکار کا آپشن نہیں دیا۔۔۔زوریز کندھے اُچکائے پرسکون لہجے میں بولا

"کیونکہ یہ اتھیورٹی میرے پاس ہے۔۔۔سوہان نے جتایا

"میں وہ آپ کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دوں گا کیونکہ کچھ چیزیں غیرضروری وقت پر استعمال کرنے سے ضائع ہوجاتیں ہیں اور میں نہیں چاہوں گا کہ آپ کی یہ اتھیورٹی ضائع ہو۔۔۔زوریز نے کہا تو سوہان سرتا پیر سُلگ چُکی تھی

"میں نہیں آؤں گی۔۔۔سوہان نے اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انکار کیا

"لیکن میں آپ کا انتظار کروں گا۔۔۔زوریز نے کہا

"آپ کا انتظار لاحاصل ہوگا۔۔۔سوہان نے کہا تو زوریز کے چہرے پر ایک سایہ آکر لہرایا تھا"جس پر وہ خود کو جلدی سے کمپوز کرتا بنا کچھ کہے سوہان کے برابر سے گُزرگیا اور اُس کے ردعمل سے سوہان کو کافی حیرت ہوئی تھی اُس کو اندازہ نہیں تھا کہ زوریز کا جواب خاموشی ہوگا جو بھی تھا زوریز کا ایسے چُپ ہوکر گُزرنا سوہان کو بے چین کرگیا تھا۔۔۔"پر جلدی وہ خود کو ایسی سوچوں سے آزاد کرتی باہر آئی جہاں نئ مہابھارت اُس کے انتظار میں تھی۔۔۔

صحن میں آتی میشا نے ایک ہی جست میں گیٹ کا دروازہ کھولا تھا اور آریان جو ابھی بیل بجانے والا تھا اپنے سامنے میشا کو دیکھ کر اُس کو شدید قسم کی حیرانگی ہوئی تھی۔

"تم؟

تم۔۔

"دونوں کے منہ سے بے ساختہ ایک ساتھ یہ لفظ نکلا تھا

"ارے وہ کیا اتفاق ہے اور یہ کیا تم لال پری کیوں بنی ہوئی ہو؟"آریان سرتا پیر اُس کو دیکھ کر دلچسپ لہجے میں پوچھنے لگا'اُس پر حیرانگی کا حائل ہوا تاثر ختم ہوگیا تھا

"تم کمینے انسان میرا پیچھا پیچھا کرتے یہاں تک آگئے"تمہیں اندازہ نہیں میں اب تمہارا کیا حال کرنے والی ہوں۔۔۔میشا اُس کو کڑے تیوروں سے گھورتی دانت پیس کر بولی تھی"باقی سب لوگ میشا کے پیچھے آتے"آریان کو ایسے دیکھنے لگے جیسے وہ کوئی آٹھواں عجوبہ ہو

"میں تمہارا پیچھا کیوں کرنے لگا؟"ٹرسٹ می میں تو

"ٹرسٹ اینڈ یو سیریسلی؟اُس کی بات درمیان میں کاٹ کر میشا نے طنز نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا


"غالب نے بھی کیا خوب کہا ہے

وہ جو آنکھیں ساحل پر لاتیں ہیں

"تو لہریں شور مچاتیں ہیں


"آریان اپنے ڈھیٹ ہونے کا ثبوت دیتا شاعرانہ انداز میں بولا تو فاحا اپنی آنکھیں بڑی بڑی کیے اُس کا جائزہ لینے لگی۔


"غالب اب یہ بھی کہے گا کہ لہروں کے ساتھ ہمارے جسم کی ہڈیوں کے ٹوٹنے کا بھی شور مچا تھا۔۔۔میشا خطرناک تیوروں سے اُس کی طرف بڑھ کر بولی

"یار میری

"آپ آریان دُرانی ہو نہ؟آریان اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہتا تھا جب درمیان میں فاحا نے اُس کو مُخاطب کیا

"ہاں میرا نام ہے آریان دُرانی۔۔۔آریان اپنی باچھیں کُھول کر بالوں میں ہاتھ پھیر دلکش انداز میں بولا

"تم جانتی ہو اِس کو؟میشا نے چونکتے ہوئے پوچھا

"آپ کو نہیں پتا کیا؟"کل اِن کی تصویر اخبار میں آئی تھی کلب میں دو لڑکیوں کو ایک ساتھ ڈیٹ کررہے تھے۔۔۔فاحا نے بتایا تو آریان جو اُس کے منہ سے اپنی تعریف کی توقع کررہا تھا اُس کی ایسی گوہر افشانی پر گڑبڑا کر میشا کو دیکھنے لگا جو استہزائیہ نظروں سے اُس کو دیکھنے لگی تھی۔

"توبہ توبہ کیا زمانہ آگیا ہے۔۔بُوا نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگایا تھا

"یہ میڈیا والے جھوٹی افواہیں پِھیلاتے ہیں محض ایک ریٹنگ کے لیے۔۔۔"ورنہ میں نواز شریف سے زیادہ شریف ہوں۔۔۔آریان معصومیت سے آنکھیں پِٹپٹاکر بولا

"تم دونوں آپس میں لڑ جھگڑ کیوں رہے ہو آخر ماجرہ کیا ہے؟عاشر تنگ ہوکر بولا جبھی وہاں زوریز سپاٹ تاثرات چہرے پہ سجائے بنا کسی اور کو دیکھے باہر کی جانب جارہا تھا مگر آریان جھٹ سے اُس کے راستے میں حائل ہوا

"تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں تھا کہ ہم یہاں آنے والے ہیں"۔آریان نے کہا تو زوریز نے گہری سانس بھر کر خود کو کمپوز کیا

"باہر کیوں کھڑے ہو اندر کیوں نہیں آئے تھے؟اُس کی بات اگنور کرکے زوریز نے اُس سے پوچھا تو میشا آنکھیں پھاڑے اُن کو دیکھنے لگی جن کی شکل وصورت آپس میں بہت ملتی جُلتی تھی اور آج میشا نے غور کیا تھا پھر جو خیال اُس کے دماغ میں آیا تھا بے ساختہ اُس پر میشا کا سر نفی میں ہلا تھا

"کیا آپ وہ سوچ رہیں ہیں جو میں سوچ رہی ہوں؟فاحا میشا کے پاس آتی اُس کے کان میں سرگوشی نما آواز میں پوچھنے لگی

"دعا کرو جو ہم سوچ رہے ہیں وہ دُرست نہ ہو۔۔۔میشا نے کہا تو فاحا نے سمجھنے والے انداز میں سر کو ہلایا تھا۔۔

"گاڑی کو کھڑا کرنے کی کوئی سہی جگہ نہیں تھی مل رہی تھی گلیاں کافی چھوٹی تھیں تو بس اُس میں وقت لگ گیا۔۔۔آریان نے بتایا

"کیا اِتنی بڑی ہوگی اِن کی گاڑی؟" ورنہ تو سوہان آپو کی گاڑی باآسانی سی گُزرجاتی ہے۔۔فاحا نے پرسوچ لہجے میں میشا سے کہا

"حد ہے تمہارا بھی کوئی حال نہیں تم ایک بزنس مین کی گاڑی سے رینٹ والی گاڑی کا مُقابلہ کررہی ہو۔۔میشا نے اُس کو گھور کر کہتے جیسے اُس کی عقل پر ماتم کیا

"ہممم واپس چلو۔۔۔۔زوریز نے کہا تب تک وہاں سوہان بھی آگئ تھی

"ابھی تو کیک بھی کٹ نہیں ہوا۔۔ساجدہ بیگم نے پہلی بار لب کُشائی کی تھی

"کیک کٹ نہیں ہوا شکر ہے آپ کو پتا نہیں میں تو کیک کا دیوانہ ہوں۔۔۔آریان اُن کی بات سن کر جھٹ سے بولا

"جب راستے سے گُزرو گے تو بیکری نظر آئے گی وہاں سے خرید لینا اپنے لیے کیک۔۔۔میشا نے اُس کو گھورتے ہوئے کہا تو اُس کی بات پہ زوریز نے پلٹ کر میشا کو دیکھا تو اُس کی نظروں میں جانے ایسا کیا تھا جو وہ نظریں دوسری طرف کرنے پر مجبور ہوگئ تھی مگر آریان نے اُس کی بات کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا تھا وہ میشا کی ایسی باتوں کا عادی ہوگیا تھا

"میشو بدتمیزی سے بات مت کیا کرو سوری کہو آریان کو۔۔۔سوہان میشا کی بات پر شرمندہ ہوئی تھی تبھی سخت لہجے میں اُس سے کہا تو آریان کی نظر اب سوہان پر پڑی تھی اور اُس کو دیکھ کر آریان کے دماغ میں کچھ کلک ہوا تھا۔۔۔۔

❤Rimsha Hussain Novels❤

ماضی!

لندن:

"یہ منظر لندن کے مشہور ہوٹل کا تھا جہاں زوریز اور آریان اپنی پھوپھو کے ہمراہ آئے تھے کیونکہ آج آریان کی بائیسویں سالگرہ تھی جس کو اُنہوں نے آریان کی فرمائش پر بڑے سے اچھے طریقے سے سلیبریٹ کرنا چاہا تھا دوسرا آج چوبیس سالہ زوریز نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ بزنس کی دُنیا میں بھی اپنا پاؤں جمایا تھا اور آج ایک بہت بڑا پراجیکٹ اُس کو حاصل ہوا تھا جس نے اُن کی خوشیوں کو دوبالا کرلیا تھا۔۔


واو مجھے پتا تھا میری سالگرہ بہت اچھے سے سیلیبریٹ ہونے والی ہے۔۔۔۔آریان ہوٹل میں داخل ہوتا زوریز کو دیکھ کر بولا"ہوٹل میں اِس وقت بڑے پیمانے میں لوگ موجود تھے اور وہ سب بڑھ چڑھ کر اُن دونوں سے مل رہے تھے


"اِس بات کا تو سارا کریڈٹ زوئی کو جاتا ہے۔۔۔"ازکیٰ سلمیٰ محبت پاش نظروں سے زوریز کو دیکھ کر بولی

"ہاں جی اِس نے بزنس مین بننے کا جو سوچ لیا ہے۔۔۔آریان نے چھیڑنے والے انداز میں کہا

"کہی بیٹھ جانا چاہیے۔۔۔۔زوریز اُن دونوں کو دیکھ کر سنجیدگی سے مُخاطب ہوا

"ہاں کیوں نہیں اور میں پتا ہے کیا سوچ رہی ہوں؟آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے ہوئے ازکیٰ نے کہا

"کیا سوچ رہی ہیں آپ؟آریان نے پوچھا

"تمہیں نہیں لگتا اب زوئی کی شادی کا سوچ لینا چاہیے تمہارا کیا خیال ہے اِس میں؟پڑھائی میں بھی بس ایک ڈیڑھ سال رہتا ہے بزنس بھی زوریز نے اپنا شروع کیا ہے تو اچھا ہے اگر جو ہمیں زوئی کی شادی بھی کروا دینی چاہیے۔۔۔۔ازکیٰ نے پرجوش لہجے میں کہا

"ناٹ آ بیڈ آئیڈیا۔۔۔آریان اُن کی بات سے متفق ہوا

"بہت گھسا پیٹا خیال ہے پلیز پھوپھو کلوز دِس ٹاپک مجھے ابھی زندگی میں بہت کچھ کرنا ہے۔۔۔۔زوریز اپنے لیے کُرسی گھیسٹ کر بیٹھتا بیزارگی کا اِظہار کرنے لگا

"سوچنے میں کیا جاتا ہے؟ازکیٰ نے ایک اور کوشش کی

"وقت کا ضائع۔۔زوریز فورن سے بولا

"زوریز تمہاری سڑی ہوئی شکل کو ہم نہیں سُدھار پائے ہوسکتا ہے معجزاتی طور پر اُن سے کام بن جائے۔۔۔۔آریان اُس کو زچ کرنے والے انداز میں دیکھ کر بولا

"میں ایسا ہی ہوں اور ایسا رہوں گا ناؤ ایکسکیوز می۔۔۔زوریز سنجیدگی سے اُن کو دیکھ کر کہتا جیسے ہی اپنی جگہ سے اُٹھ کر پلٹا سامنے آتی ٹرے پکڑے ویٹریس سے اُس کا زبردست قسم کا تصادم ہوا تھا جس سے اُس کی شرٹ پوری خراب ہوگئ تھی۔۔۔"اور اُس ویٹریس سے ٹرے چھوٹ کر نیچے گِری تھی


"آئے ایم سو سوری میں ابھی صاف کردیتی ہوں۔۔۔زوریز جو لب بھینچ کر اپنی شرٹ کو دیکھ رہا تھا"کسی لڑکی کی خوبصورت آواز پر چونک کر اپنی نظریں اُٹھائے دیکھا تو ویٹریس کے لباس میں اور ساتھ میں سر پر حجاب پہنے لڑکی کو دیکھ کر زوریز کو کافی حیرت ہوئی تھی"اُس کو لندن میں رہتے ہوئے چودہ سال ہوگئے تھے اور اِن چودہ سالوں میں اُس نے پہلی بار کسی لڑکی کو حجاب میں دیکھا تھا جس کے چہرے پر اِس وقت گھبرائے ہوئے تاثرات تھے شاید وہ اپنی انجانے میں گئ غلطی پر پیشمان تھی

No, it's ok.

زوریز اُس کے چہرے سے نظریں ہٹاتا بے تاثر لہجے میں بولا

"آپ کو واشروم تک چھوڑ آتی ہوں میں۔۔۔اُس نے پیش کش کی تو ناچاہتے ہوئے بھی زوریز دوبارہ اُس کو دیکھنے پر مجبور ہوا

"کسٹمر کو واشروم تک چھوڑنا آپ کی سروس میں شامل ہوتا ہے؟زوریز نے سنجیدگی سے اُس سے سوال داغا تو اُس لڑکی کا سر خودبخود نفی میں ہلا تھا۔۔

"میں خود سے چلا جاؤں گا آپ اپنا کام کریں۔۔۔۔زوریز سنجیدگی سے کہہ کر اُس کے برابر سے گُزرگیا تو وہ نیچے جُھک کر ٹوٹے ہوئے گلاس کے کانچ اُٹھانے لگی

"مجھے آریان دُرانی کہتے ہیں اور ابھی جو گیا وہ میرا بڑا بھائی تھا اور وہ ایسا سڑا ہوا رہتا ہے ہر وقت تو آپ اُس کی باتوں کو دل پر نہ لینا۔۔۔اپنے کام سے فارغ ہوتی وہ اُٹھی تو آریان نے نان سٹاپ انداز میں اُس سے کہا

it's ok.

وہ زبردستی چہرے پر مسکراہٹ سجائے کہتی جانے لگی جب ایک بار پھر آریان اُس کے راستے میں حائل ہوا

"تم پاکستانی ہو؟آریان نے پوچھا

Yes.

اُس نے مختصر جواب دیا۔

نام کیا ہے تمہارا؟آریان اُس سے بے تُکلف ہونے لگا

"ایکسکیوز می پلیز۔۔اُس کا سوال اگنور کیے وہ جانے لگی جب آریان نے اُس کی کوشش کو ناکام بنایا

"کیا ہوگیا میں کوئی اوش باش لڑکا نہیں بلکہ اِس پارٹی کا مین گیسٹ ہوں یہ سب جو کچھ ہورہا ہے وہ میرے لیے ہورہا ہے۔۔۔"آج میری بائیسویں سالگرہ ہے۔۔۔آریان نے اپنی اہمیت گِنوانی چاہی

Happy birthday.

جواب میں وہ محض اِتنا بولی

"Thank You.

آریان خوشدلی سے مسکرایا

"میں اب جانا چاہوں گی کیونکہ مجھے بہت کام ہے۔۔۔اُس کا انداز خاصا لیا دِیا تھا

Yeah Sure..

اِس بار کوئی ضد کیے بنا آریان اُس کے سامنے سے ہٹ گیا تو وہ بھی تیز قدموں سے چلتی وہاں سے چلی گئ


"کیا ہر ایک سے بات میں لگ جاتے ہو۔۔۔آریان اپنی جگہ واپس بیٹھا ازکیٰ اُس کو گھور کر بولی

"آپ نے اُس کا چہرہ نہیں دیکھا تھا کیسے ہوائیاں اُڑی ہوئیں تھیں"میں تو بس رلیکس کرنے کی خاطر باتیں کرنے لگا شاید وہ ڈر گئ تھی کہ ہم مینجر کو شکایت دے کر اُس کو نوکری سے نہ نکلوا دے۔۔۔آریان شانے اُچکائے بولا

"اُس کے حجاب سے مجھے پتا چل گیا تھا کہ وہ مسلمان ہے"اور نین نقش سے پاکستانی بھی لگی تھی جو بھی بہت پیاری بچی تھی۔۔۔ازکیٰ اُس کی بات سن کر مسکراکر بولی تو آریان بھی جواباً مسکرایا

Are You Ok?

وہ کچن میں آئی تو اُس کی ساتھی نے سوال کیا

"ہاں میں ٹھیک ہوں مگر چھ گلاسس مجھ سے ٹوٹ گئے۔۔اُس نے بتایا

"سوہان تم اِتنا گھبرائی ہوئی کیوں رہتی ہو؟"دیکھو اسٹڈی کے ساتھ پارٹ ٹائیم جاب کرنا تمہارا اپنا فیصلہ تھا اور اب تم یہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر کام کرو گی تو ظاہر سی بات ہے نقصان ہی ہوگا تم اپنا مائینڈ پریزنٹ رکھو ورنہ مینجر کے ہاتھوں ہماری خیر نہیں ہوگی۔۔۔اُس کی ساتھی نے کہا تو سوہان نے اپنے لیے گلاس میں پانی انڈیلا

"مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔پانی پی کر سوہان نے بتایا

"ڈر کیسا؟"تم سے جو نقصان ہوا ہے مینجر وہ پیسے تمہاری سیلری سے کاٹ لے گا۔۔۔اُس نے کہا

"جس کے کپڑے میری وجہ سے خراب ہوئے میرے خیال سے وہ اُس کے پیسے بھی مانگے گا۔۔۔سوہان آہستگی سے بڑبڑائی

"باتیں کم کرو اور کام زیادہ کرو"سوہان یہ لو پیسٹریز سامنے والی ٹیبل پر سرو کرنا ہے"کسی بھی گیسٹ کو شکایت کا موقع نہیں ملنا چاہیے اور ہاں ایسے سنجیدہ ہوکر نہیں جاؤ کہ لگے کہ اُن پر تم کوئی احسان کررہی ہو چہرے پر مسکراہٹ سجاؤ اور سلیقے کے ساتھ سرو کرو۔۔۔اُن کا سینئیر اُن لوگوں کے پاس آکر کہتا آخر میں سوہان سے مُخاطب ہوا جس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا اور اپنے سینئر کی بات پر وہ تلخ سا مسکرائی تھی"اُس سے نہیں ہوتا تھا جھوٹی مسکراہٹ چہرے پر سجانا وہ جس مزاج کی مالک تھی اُس کے لیے کسی جوک پر مسکرانا ہی بڑی بات تھا مگر زندگی میں بعض اوقات انسان کو وہ سب کرنا پڑتا ہے جس کو کرنا اُن کے لیے آسان نہیں ہوتا۔

"شیور سر۔۔۔۔وہ اپنے سینئر کو جواب دیتی ٹرے ہاتھ میں لیئے کچن سے باہر آئی تو ایک بار پھر سامنا زوریز سے ہوا جو شاید ابھی واشروم سے نکلا تھا اُس کو دیکھ کر سوہان نے اپنی نظروں کا رُخ بدلا تھا اور اپنے قدم ایک ٹیبل کی طرف بڑھائے جہاں کا اُس کو آرڈر ملا تھا۔۔"زوریز بھی ایک نظر اُس پر ڈالے جانے والا تھا جب ایک آواز پر اُس کو رُکنا پڑا


"نام کیا ہے تمہارا؟سوہان جو ٹیبل پر سرو کررہی تھی ایک لڑکے کے سوال پر اُس کے ہاتھوں میں لرزش پیدا ہونے لگی جس کو دیکھ کر وہاں بیٹھے لڑکوں کے چہرے پر کمینگی سے بھرپور مسکراہٹ آئی تھی۔

"آپ کو اور کچھ چاہیے سر؟اُن کا سوال اگنور کرکے سوہان نے سنجیدگی سے پوچھا

"تم نے شاید سُنا نہیں جو ہم نے تم سے کہا۔۔۔دوسرے نے ناگوار نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا تو زوریز نے مڑ کر اُن لڑکوں کو دیکھا جن کی غلیظ نظریں سوہان پر جمی ہوئیں تھیں

"آپ کو میرے نام سے مطلب نہیں ہونا چاہیے۔۔۔سوہان نے ٹھیرے ہوئے لہجے میں جواب دیا اپنے اندر موجود خوف کو اُس نے خود پر حاوی ہونے نہیں دیا

"خوب پتا ہے تُجھ جیسی لڑکیوں کا اپنی قیمت بتا جلدی سے۔۔۔وہ بدلحاظی سے بولا تو اِس قدر تزلیل پر سوہان کا چہرہ دہشت کے مارے لٹھے مانند سفید ہوا تھا جبکہ زوریز کی کُشادہ پیشانی پر بھی شکنوں کا جال بِچھ گیا تھا۔۔"اور جانے اُس کے دماغ میں کیا سمایا جو اپنے قدم اُن لوگوں کی طرف بڑھانے لگا

"ایکسکیوز می۔۔سوہان اِتنا کہتی جانے لگی جب ایک نے اُس کے حجاب کا کونا پکڑا تھا تو دوسرے نے اُس کا راستہ روک لیا تھا۔۔"وہاں جانے کتنے لوگ موجود تھے مگر اُن پر توجہ کسی نے بھی دینا ضروری نہیں سمجھی تھی ہر کوئی ڈانس اور شراب پینے میں مصروف تھا تو کچھ لوگ آپس میں گفتگو کرنے میں لگے ہوئے تھے دوسرا گانوں کی آواز ہال میں اِسقدر تیز تھی کہ وہ جو بول رہے تھے بڑی مشکل سے اُن کے اپنوں کانوں میں یہ آواز پہنچ رہی تھی۔۔

س سامنے سے ہٹو۔۔سوہان کی زبان میں لڑکھڑاہٹ واضع ہوئی تھی دماغ کے کسی کونے میں اپنا بھیانک ماضی تازہ ہوا تھا آنکھوں میں نمی سی گُھلنے لگی تھی دل خوف سے الگ تیز دھڑک رہا تھا اُس کو ایسا لگ رہا تھا جیسے اُس کا کل آج بن کر اُس کے سامنے کھڑا ہوا تھا اور وہ پہلے کی طرح آج بھی بے بس تھی"

"اِتنا نخرہ۔۔۔غُصے میں کہتے وہ لوگ اُس کا حجاب اُتارنے والے تھے جب درمیان میں آکر زوریز نے اُن کا ہاتھ روک لیا تھا اور سرد نظروں سے اُن میں سے ہر ایک کو دیکھا تھا

"کیا یہ تیری رکھیل

چٹاخ

چٹاخ

"ابھی اُس کی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی جب تیز تھپڑوں کے ساتھ زوریز نے ایک پنج اُس کے چہرے پر مارا تھا یہ دیکھ کر پورے ہوٹل میں ہلچل مچ گئ تھی سوہان بھی آنکھیں پھیلائے زوریز کو دیکھ رہی تھی جس کے چہرے پر کسی بھی قسم کا کوئی تاثر نہیں تھا۔۔۔

سوری کہو اِن سے۔۔۔زوریز دوسرے کو گدی سے دبوچتا چباتے ہوئے لفظ ادا کرنے لگا تب تب وہاں آریان اور "ازکیٰ بھی آگئے تھے اور سارا معاملہ سمجھنے کی کوشش کررہے تھے دوسری طرف سوہان"وہ جتنا حیران ہوسکتی تھی اُتنا ہوئی تھی اُس کو یقین نہیں آیا کہ اِس انجان مُلک پر کوئی اجنبی اُس کے ساتھ کھڑا ہوسکتا ہے"اُس کا رکھوالا بن سکتا ہے مختصر یہ کہ کوئی اُس کے لیے لڑ بھی سکتا تھا"اُس کی زندگی میں آنے والا یہ تیسرا مرد تھا جو اُس کو الگ تھا۔۔۔"کیونکہ زندگی میں اِس بار کوئی مرد اُس کو الگ روپ میں ملا تھا۔۔"پہلا مرد جو اُس کا باپ تھا جس نے اُن کو اِس بے رحم دُنیا میں تنہا کردیا تھا جس کے دل میں اُن کے لیے کوئی احساس کوئی جذبات نہیں تھا"دوسرا وہ مرد جو اُس کی معصومیت کو ختم کردینا چاہتا تھا"اُس کے جسم سے اپنی بھوک مٹانا چاہتا تھا نفس کی وحشت میں آکر اُس کو جیتے جی ماردینا چاہتا تھا اور ایک یہ سامنے والا شخص تھا جس نے سب کے سامنے اُس کو عزت بخشی تھی اُس کی چادر کو سلامت رکھا اپنی نظروں میں اُس کے لیے احترام رکھا تھا۔۔"اِس ایک لمحے میں سوہان نے جانے کیا کیا سوچ لیا تھا

" سس سوری۔۔وہ اپنی جان چُھڑانے کی خاطر جھٹ سے معافی مانگنے لگے

ناؤ گیٹ لاسٹ۔۔۔۔زوریز نے غُصے سے اُن کو دیکھ کر کہا تو وہ ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سِنگ

"اُن کے جانے کے بعد زوریز سوہان کے روبرو کھڑا ہوا تھا جو اُس کے ایسے آنے پر اپنی نظریں جُھکا گئ تھی اُس کو دیکھ کر زوریز نے گہری سانس لی تھی"پھر اپنے ازلی سنجیدہ لہجے میں اُس کو مُخاطب کیا

"A girl should be three things,

1, independent

2, unstoppable

3,confident

"اپنی بات کہہ دینے کے بعد وہ وہاں رُکا نہیں تھا بلکہ تیز قدموں کے ساتھ وہاں سے چلاگیا

Are You ok?

آریان بھی اُس کے پاس کھڑا ہوتا سنجیدگی سے پوچھنے لگا

جی میں ٹھیک ہوں۔۔۔سوہان نے جواب دیا تو آریان نے سر کو جنبش دے کر اپنی نظریں ہال میں ڈورائی جہاں سناٹا چھاگیا تھا"آریان تالی بجاکر سب گیسٹس کی توجہ خود پر کروائی تھی اور کچھ ہی وقت میں سب کچھ پہلے جیسے ہوگیا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو سوہان بھی خود کو پرسکون کرتی زوریز کی تلاش میں نظریں آس پاس ڈورانے لگی تاکہ اُس کا شکریہ ادا کرسکے مگر وہ اُس کو کہی بھی نظر نہیں آیا تھا اور نظر تب آیا جب کیک کٹ ہونے کا وقت آ پہنچا تھا۔

Excuse me.

کیک کٹ ہونے کے بعد سوہان کو زوریز تنہا گوشے میں اکیلا موبائل فون میں مصروف نظر آیا تو اُس کو مُخاطب کیا

Yes?

زوریز نے سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھا جو اضطراب کی کیفیت کا شکار تھی

Thank you.

سوہان نے مشکور نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا

"تھینک یو کہنے سے اچھا ہے آپ خود مضبوط بنائے زیادہ نہیں تو کم از کم اِتنا ضرور کہ کوئی میلی نظروں سے آپ کو دیکھنے کی جُرئت نہ کرپائے۔۔۔زوریز اُس کو دیکھ کر سنجیدگی سے بولا

"میں یہاں کی نہیں ہوں میں ڈر گئ تھی یہاں میرا کوئی نہیں ہے"اور ایک یہ بات میری کمزوری ہے۔۔۔سوہان بیحد آہستگی سے بولی

"ہر انسان کی کوئی نہ کوئی کمزوری ہوتی ہے"مگر اِس دُنیا میں سروائیو بس وہی کرپاتا ہے جس کو اپنی کمزوری کو اپنی طاقت میں بدلنا آتا ہو۔۔۔زوریز نے کہا تو اُس کی بات پر سوہان لاجواب ہوئی تھی

"میں کوشش کروں گی کہ اپنی کمزوری کو اپنی طاقت بناؤں۔۔۔سوہان نے کہا

"یہاں کب سے جاب کرتیں ہیں اور کیوں؟زوریز نے سوال داغا

"ضرورت ہے جاب کی۔۔۔سوہان نے مختصر جواب دیا

"یہاں ہوٹل میں یا ریسٹورنٹ میں ویٹریس کی جاب کرنا کوئی آسان نہیں ہے اپنے لیے کوئی اور جاب تلاش کریں۔۔۔زوریز نے اپنی طرف سے مشورہ دیا

"میرا ہاسٹل اور یونی اِس ہوٹل کے قریب ہیں تبھی یہاں جاب کرنا میری مجبوری ہے۔۔۔سوہان نے کہا تو زوریز چونک سا گیا تھا

"اِس ہوٹل کے پاس تو ایک یونی ہے جہاں میں بھی پڑھتا ہوں مگر میں نے وہاں آپ کو تو کبھی نہیں دیکھا۔۔زوریز نے حیرانگی کا اِظہار کرتے ہوئے کہا

"ڈپارٹمنٹ الگ ہو شاید اِس لیے۔۔سوہان نے اندازہ لگاتے ہوئے کہا جو ایک طرح سے سہی بھی تھا

"یہ میرا کارڈ ہے آپ میرے پاس آسکتیں ہیں جاب کے لیے"میرا اپنا بزنس ہے۔کچھ سوچ کر زوریز نے اپنا کارڈ اُس کی طرف بڑھائے کہا

"مگر میں کیسے آؤں گی میرا یونی ہوتا ہے یہاں تو میں شام کے وقت آجاتی ہوں۔۔سوہان کو اُس کی پیش کش بُری نہیں لگی تھی "کیونکہ اپنی جاب سے وہ خود پریشان تھی "پر چھوڑ بھی نہیں سکتی اور زوریز کا جاب کی آفر کرنا اُس کے لیے کسی غنیمت سے کم نہ تھا مگر اُس کو اپنے یونی کا خیال آگیا تھا۔

"میرا بھی پہلے یونی ہوتا ہے اُس کے بعد جاتا ہوں اپنے آفس خیر آپ کے پاس وقت اور میرا کارڈ دونوں چیزیں ہیں اگر مُناسب لگے تو آجائیے گا ورنہ آپ کی اپنی مرضی۔۔۔زوریز نے سنجیدگی سے اُس کو دیکھ کر کہا

"ٹھیک ہے آپ کا بہت شکریہ میں اب چلوں گی۔۔۔سوہان نے کہا

"آپ کا نام کیا ہے ویسے؟زوریز نے اُس کو جانے کی تیاری پکڑتے ہوئے دیکھا تو پوچھ لیا

"میرا نام سوہان ہے۔۔"سوہان ملک۔۔سوہان نے بتایا

"سوہاں نام تو لڑکوں کا ہوتا ہے۔۔۔زوریز اُس کا نام جان کر بولا

"لڑکیوں کا بھی ہوتا ہے جیسے میرا ہے۔۔سوہان نے سنجیدگی سے کہا تو زوریز خاموش ہوگیا تھا

"میری طرف سے آپ کو بیسٹ وِشز۔۔۔زوریز اِتنا کہہ دینے کے بعد اُس سے پہلے خود وہاں سے چلاگیا۔۔"اُس کے جانے کے بعد سوہان نے کارڈ کو غور سے دیکھا اور اُس کا نام پڑھ کر زِیر لب بڑبڑائی

"زوریز دُرانی

❤❤❤❤❤

"حال:

"اگر میں غلط نہ ہوں تو آپ سُوہان ہیں؟"آریان خیالوں کی دُنیا میں واپس آتا چونکتے ہوئے سوہان سے بولا تو میشا الرٹ ہوئی تھی"جبکہ فاحا یہ سوچنے میں تھی کہ کیا اِس سرسری مُلاقات میں"آریان بھی تھا؟

"میں سوہان ہوں۔۔۔۔سوہان نے سنجیدگی سے کہا

"تمہارا ہوگیا ہو تو چلیں اب؟زوریز نے آریان سے کہا

"اِن کو کیا ہوا؟فاحا کو زوریز ٹھیک نہیں لگا

"شاید میں نے جو آریان سے کہا اُس پر خفا ہوگئے ہیں۔۔۔میشا کو پہلی بار اپنی غلطی کا احساس ہوا"اُس کو ایسے لگا جیسے آج وہ بے وجہ اوور ری ایکٹ کرگئ تھی

"ہم سالگرہ پر آئے ہیں تو بغیر کیک کھائے کیسے جاسکتے ہیں؟آریان زوریز کو دیکھ کر اِشاروں کِناروں سے اپنے اور میشا کے بارے میں اُس کو کچھ سمجھانا چاہا جو زوریز فی الوقت سمجھنے کے موڈ میں ہرگز نہیں تھا

"یہاں ہماری ضرورت نہیں ہے۔۔۔زوریز نے تنبیہہ کرتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا اور اُس کے اِس جُملے پر" سوہان اور میشا اپنی جگہ شرمندہ سے ہوگئے تھے۔

"کسی کی ضرورت بننا چاہیے بھی نہیں بس یہ سمجھے جہاں آپ گئے ہو" وہ آپ کی ملکیت میں آتا ہے اور اپنی ملکیت پر حق جتاتے ہوئے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اُس کو چھونا ضروری یا نہیں یا وہاں آنا ضروری ہے یا غیرضروری میں نے آپ کو اِنوائٹ کیا ہے اور اگر آپ ایسے چلے جائے گے تو فاحا کو اچھا نہیں لگے گا"فاحا نے ضرورت کے لیے نہیں کہا تھا کہ آپ آئے فاحا نے اِس لیے کہا تھا کیونکہ وہ چاہتی تھی آپ ہماری چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں شریک ہو اور اپنی سرسری مُلاقات کے بارے میں تفصیل سے بتائے۔۔۔۔"فاحا کو احساس ہوا کہ وہ ناراض ہوکر جارہا ہے تبھی معصوم بھرے لہجے میں اُس کو دیکھ کر بولی تو اُس کی بات سن کر ہر ایک کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی

"گُناہ ملے گا اب آپ کو اگر آپ نے اِتنی پیاری لڑکی کی بات کو نظرانداز کرنے کا سوچا بھی۔۔آریان زوریز کو دیکھ کر ڈرامائی انداز میں بولا

"اِس کمینے کی پہلی نظر سوہان پر گئ تھی پر جب وہ ہاتھ نہیں آئی تو اِس نے پتہ میری طرف پھینکا دیکھنا اب یہ تمہیں اپنی چیزی لائنز میں ورغلانا چاہے گا مگر خبردار جو تم اِس کی باتوں میں آئی بھی۔۔۔میشا فاحا کے کان کے پاس جُھک کر اُس کو وارن کرنے والے انداز میں بولی

"میشو آپو آپ کو کیا نہیں پتا کیا؟"یہ لڑکے لوگ اپنے دل کا بہت خیال رکھتے ہیں یہاں نہیں تو وہاں لگاتے ہیں اور آپ رات میں مجھے ساری بات بتانے والی ہیں کہ آریان دُرانی سے آپ کی سرسری مُلاقات کب اور کیسے ہوئی تھی۔۔۔میشا جو پہلے فاحا کی بات سن کر اُس کو گھور رہی تھی لیکن اُس کی آخری بات پر وہ سٹپٹا گئ تھی

"سوہان کی طرح میرے اور اُس کے درمیان کچھ بھی نہیں ہے۔۔میشا نے ابھی سے وضاحت دی

"فاحا نے ایسا کہا کیا کہ آپ کے اور اُن کے درمیان کچھ ہے؟فاحا معصومیت کے تمام رکارڈ توڑ کر اُس سے بولی تو میشا نے ضبط سے اُس کو دیکھا تھا

"آپ کی وجہ سے میں رُک جاتا ہوں۔"ورنہ کچھ لوگ تو چاہتے ہیں میں یہاں نہ رہوں۔۔۔زوریز فاحا کو دیکھ کر بولا تو سوہان اُس کو گھور بھی نہیں پائی تھی

"ارے آگ میں جھونکو اُن کچھ لوگوں کو تم اندر آؤ بہت مزہ آئے گا۔۔بُوا اُس کے پاس آتی بولی

"ہاں نہ بہت وقت ہوگیا ہے ہمیں اب کیک کٹ کردینا چاہیے بھوک بہت لگی ہے یار۔۔۔عاشر نے بھی جلدی سے کہا

"عاشر بھائی آپ کو بھوک کب نہیں لگتی؟"اور کیک ہم نہیں محض سوہان آپو کاٹنے والی ہیں۔۔۔فاحا نے اُس کو جتانے والے انداز میں کہا

"میرا بھی وہی مطلب تھا تم زیادہ سیانی بن کر بات کو پکڑ نہ لیا کرو۔ ۔۔"عاشر اُس کو گھور کر بولا تو جواب میں فاحا دانتوں کی نُمائش کرنے لگی

"اندر چلو۔ ۔۔ساجدہ بیگم نے کہا تو سب لوگ باری باری اندر کی طرف بڑھ گئے

"زوریز یار ایک بات بتانا۔ ۔۔چلتے چلتے آریان نے اچانک زوریز کو مُخاطب کیا

"کیا بات؟ زوریز نے اپنے آگے چلتی سوہان کی پشت کو دیکھ کر آریان کو جواب دیا

"یہ لڑکیاں اِتنی ان رومانٹک کیوں ہوتیں ہیں؟ آریان گھر کے اندر غائب ہوتی میشا کو دیکھ کر منہ بسور کر بولا تو اُس کے سوال پر سوہان جو غیرشعوری طور پر اُن کو سُننے لگی تھی اُس کے قدم سست پڑگئے تھے شاید وہ "زوریز کا جواب جاننا چاہتی تھی

"کیونکہ اُن کو ہینڈسم لڑکے مفت میں مل جاتے ہیں۔۔۔زوریز یکطرفہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے بولا تو آریان نے داد دیتی نظروں سے اُس کو دیکھا تھا مگر سوہان گردن ترچھی کیے سرجھٹک کر اندر چلی گئ تھی۔

"بلکل سہی کہا تم نے بلکل یہی بات ہے پر ہمارا بھی کوئی قصور نہیں اللہ نے لڑکیوں کی نسبت ہمیں اِظہار کے معاملے میں بڑے دل سے نوازہ ہے۔۔۔آریان اُس کی بات سے اتفاق کرتا بولا "باتوں ہی باتوں میں وہ اب ہال میں پہنچ گئے تھے جہاں آریان کی متلاشی نظریں ہر دفعہ کی طرح میشا کو تلاشنے میں تھی جو شاید کچن سے کیک لینے گئ تھی۔

"کیک کاٹ دے اب۔۔۔۔سوہان کو ایک جگہ کھڑا دیکھ کر فاحا نے اُس کے سامنے نائیف بڑھا کر کہا

"کاٹ رہی ہوں۔۔۔سوہان اُس سے نائیف لیکر کیک کاٹنے لگی تو سب اُس کو وِش کرنے لگے تو سوہان کو یہ سب عجیب لگنے لگا اُس کو اپنا آپ بچہ معلوم ہوا تھا"اُپر سے خود پر جمی زوریز کی تپش زدہ نظروں نے رہی سہی کسر ختم کردی تھی۔۔۔"مگر وہ اُس کی اگنور کرنے کی بھرپور کوشش کرتی سب سے پہلے ساجدہ بیگم کو کیک کِھیلایا تھا جبکہ میشا اور فاحا نے اُس کے کیک کِھلانے کا انتظار نہیں کیا تھا بلکہ خود ہی اپنے حصے کا کیک لے لیا تھا۔۔۔


"کیک۔۔۔سوہان زوریز کی طرف آتی چھوٹی سی پلیٹ میں کیک کے ساتھ اسپون رکھ کر زوریز کو دیکھ کر کہنے لگی

"میں نہیں کھاؤں گا۔۔زوریز نے ایک قدم پیچھے لیکر اپنا سر نفی میں ہلاکر کہا

"کیوں؟سوہان نے ناسمجھی سے اُس کو دیکھا

"کیونکہ آپ یہ دل سے نہیں دے رہی۔۔۔زوریز نے اُس کو دیکھ کر کہا جو کہ پاس گُزرتی فاحا نے بخوبی سُن لیا تھا۔

"وہ اِس لیے کہ دل کے ہاتھ نہیں ہوتے ورنہ یقین کریں فاحا کا وہ آپو کے سینے سے دل نکال کر اُس سے کہتی کہ آپ کو کیک دے۔۔۔سوہان سے پہلے فاحا مسکراہٹ دباکر جواب دیتی نو دو گیارہ ہوگئ تھی۔

"آپ کی ایسی حرکتوں اور باتوں سے میری بہنیں مجھے شک کی نگاہ سے دیکھتی ہیں اور وہ غلط فہمی کا شکار ہوگئیں ہیں۔۔سوہان فاحا کی بات پہ زوریز سے بولی

"میرے دل میں جو تھا میں نے وہ بیان کیا۔۔۔زوریز پرسکون لہجے میں بولا

"آپ کیک لے رہے ہیں یا میں واپس لے جاؤں،؟سوہان نے دو ٹوک لہجے میں اُس سے سوال کیا

"واپس لے جائے۔۔زوریز نے کہا

"مجھ سے ایسے چونچلے نہیں اُٹھائے جاتے زوریز تو پلیز آپ مجھ سے اِن چیزوں کی توقع مت کیا کریں۔۔۔سوہان نے ضبط سے اُس کو دیکھ کر کہا

"آپ کے منہ سے اپنا نام سُن کر اچھا لگا۔۔۔جواباً زوریز مبہم مسکراہٹ سے بولا تو سوہان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچُکا تھا

"یہ پکڑیں اگر کھانے کا دل نہیں ہے تو سامنے ڈسٹ بن پڑا ہے اُس میں پھینک دیجئے گا۔۔۔سوہان زبردستی اُس کے ہاتھ میں کیک پکڑاتی بولی تو زوریز کی مسکراہٹ گہری سے گہری ہوتی گئ تھی

"زوریز دُرانی رزق کی بے حرمتی نہیں کرتا۔۔۔زوریز نے کہا

"زوریز دُرانی کو یہ بھی پتا ہونا چاہیے کہ رزق کو انکار نہیں کیا جاتا۔۔۔"سوہان نے اُس کی بات سن کر جیسے جتایا

"اب پتا چل گیا ہے آگے سے خیال رکھوں گا۔۔۔زوریز نے کہنے کے ساتھ کیک کا چھوٹا سا پیس اُس کی طرف بڑھایا

"میں نہیں کھاؤں گی۔۔۔سوہان نے انکار کیا

"کچھ منٹس پہلے مجھ سے کسی نے کہا کہ رزق کو انکار نہیں کیا جاتا۔۔۔"اور یہ کیک بھی کھانے کی چیز ہوتی ہے اِس کو بنانے میں بہت چیزیں ڈالنی پڑتی ہیں حیسے کہ بادا

اچھا اچھا ٹھیک ہے میں سمجھ گئ دے مجھے آپ۔۔۔ابھی زوریز اُس کو کیک میں ایڈ ہونے والی چیزوں کے نام بتانے والا تھا جب سوہان نے کیک کا پیس لینے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھایا لیکن زوریز اپنا ہاتھ سرعت سے پیچھے کرگیا تھا جس پر سوہان ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگی جس کی نظروں میں کچھ اور مفہوم چُھپا ہوا تھا جس کو جان کر سوہان نے اُس کو گھورا

"آپ میں شرم بلکل ختم ہوتی جارہی ہے۔۔سوہان نے اپنی طرف سے اُس کو شرمندہ کرنا چاہا جو کہ ناممکن سا تھا

"آپ سے مل کر مجھے آئے روز کچھ نہ کچھ جاننے کو ملتا ہے اور کیک کھانے سے کترائے نہیں آپ کا خود کا ہے۔۔زوریز نے ہلکی مسکراہٹ سے کہا

"بتانے کا شکریہ۔۔۔سوہان طنز کہتی وہاں سے چلی گئ تو زوریز نے گہری سانس بھر کر اُس کو جاتا دیکھا تھا

"شرم کرو مہماں بیٹھے ہیں اور تمہیں اپنے کھانے کی پڑی ہے۔۔۔آریان کیک کھاتی میشا کے ہاتھ سے کیک کا پیس چھین کر اپنے منہ میں ڈال کر اُس کو شرمندہ کرنے لگا جو اِس اچانک افتاد پر حیران اور پریشان تھی

"تمہیں شرم نہیں آئی دوسرے کے منہ میں جاتا ہوا نوالہ چھین کر کھاتے ہوئے۔۔۔میشا نے تپ کر پوچھا

"شرم کیسی اگر اپنا حق مانگنے سے نہ ملے تو اُس کو چھین کر لینا پڑتا ہے۔۔۔آریان خاصے پرسکون لہجے میں بولا

"ایک بات بتاؤ۔۔میشا نے سنجیدگی سے اُس کو دیکھ کر پوچھا

"کونسی بات؟آریان سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھ کر پوچھا

"یہ جو تمہارا بھائی ہے مجھے ایسے لگا کہ جیسے وہ ناراض ہوگیا میں نے جس طرح سے تم سے بات کی۔۔۔میشا تھوڑی ہچکچاہٹ سے بولی یہ بات مسلسل اُس کو پریشان کررہی تھی

"تمہیں زوریز کے بارے میں سوچنے کی ضرورت نہیں ہے"وہ ہر کسی سے ناراض نہیں ہوتا"ہاں اگر تمہیں فکر کرنی ہے تو میری کرو۔۔۔آریان معصوم بھرے لہجے میں بولا

"میں سیریس ہوں۔۔۔میشا نے چبا چبا کر لفظ ادا کیا

"میں بھی سیریس ہوں اور سچ بات ہے زوریز کسی سے خفا نہیں ہوتا۔۔مطلب ہوتا ہے پتا نہیں مگر وہ تمہاری بات مائینڈ نہیں کرے گا وہ کونسا تمہیں جانتا ہے"یا کونسا تم اُس کے لیے امپورٹنٹ پرسن ہو"وہ ہے ہی ایسی سڑی ہوئی شکل کا مالک بات بھی کرتا ہے تو لگتا ہے جیسے احسان کررہا ہو۔۔آریان کو سمجھ نہیں آیا وہ کیا جواب دے تبھی جو اُس کے منہ میں آیا وہ بول دیا

"اچھا سہی میں خوامخواہ پریشان ہورہی تھی کہ گھر آئے مہمان کو ناراض کرلیا۔۔۔میشا پرسکون سانس خارج کیے بولی

"ویسے تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔۔۔آریان اُس کو دیکھ کر تعریفی اسناد میں بولا

"مجھے پتا ہے اور میں ہر روز خوبصورت لگتی ہوں"تمہیں پتا ہونا چاہیے کہ خوبصورتی کا مطلب میشا عرف میشو ہوتا ہے۔۔۔میشا اُس کو دیکھ کر ایک ادا سے بولی

"اب سمجھا کہ لوگ ایسا کیوں کہتے ہیں کہ خوشفہمی اچھی چیز ہوتی ہے۔۔۔آریان اُس کو چھیڑنے والے انداز میں بولا

"تم بس مجھ سے جلتے رہنا۔۔۔میشا نے گھورتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا

"تم سے کیوں جلوں گا میں؟" آفٹر آل ہم دونوں الگ تھوڑئی ہیں۔۔آریان آرام سے بولا

"تم سوہان کو کیسے جانتے ہو؟میشا کے دماغ میں جانے کیا سمائی جو اُس سے پوچھا مگر اُس کے سوال پر آریان چُپ ہوگیا تھا جس کو میشا نے بخوبی نوٹ کیا تھا اور اُس کی خاموشی کا ایک الگ مطلب اخذ بھی کرلیا تھا۔۔۔

کومہ میں چلے گئے ہو کیا؟میشا نے اُس کو خاموش دیکھ کر طنز پوچھا

"نہیں میں کچھ سوچ رہا تھا۔۔۔آریان اپنی ٹھوڑی پر ہاتھ پھیر کر اُس سے کہا

"ایسے ہاتھ زوریز دُرانی پھیرتا ہے تو اچھا لگتا ہے تمہاری ڈارھی نہیں ہے اِس لیے ایسی کوشش نہ کرو خوامخواہ دیکھنے والے کی ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔۔۔میشا اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اُس سے بولی

"کچھ بھی نہ بولا کرو۔۔۔آریان اُس کی آنکھوں میں ناچتی شرارت کو دیکھ کر گھور کر بولا

"اچھا چلو یہ بتاؤ کیا سوچ رہے تھے؟میشا تھوڑی سنجیدہ ہوئی

"یہی کہ میں نہ اپنی بیٹی کا نام "خوشی رکھوں گا اور پھر تمہیں دیکھ کر کہوں گا کہ میشا تم سے مل کر خوشی ہوئی۔۔۔آریان اُس کو دیکھ کر آنکھ کا کونا دباکر بولا تو اُس کی بات سمجھ کر میشا سرتا پیر سرخ ہوگئ تھی۔۔۔"

"تم نہ بہت کوئی ڈھیٹ اور آوارہ انسان ہو میں یہاں تم سے پوچھ ایک سوال رہی ہوں اور تمہیں اپنی چیپ سوچوں سے فرصت نہیں۔۔۔میشا کا بس نہیں چل رہا تھا ورنہ وہ اُس کا گلا دبادیتی

"تمہیں یہ مجھ سے کیوں جاننا ہے؟"اپنی بہن سے بھی پوچھ سکتی ہو"مجھے یقین ہے وہ تمہیں بتانے سے انکاری نہیں ہوگی۔۔۔آریان نے کہا

"جانتی ہوں اور اُس نے بتایا تھا کہ سرسری سی مُلاقات ہوئی تھی اُس کی زوریز کے ساتھ۔۔۔میشا منہ کے زاویئے بگاڑ کر اُس سے بولی

"سرسری؟"لفظ سرسری پر آریان کو ہنسی آئی

"ہاں کیا کچھ اور بات ہے؟میشا کو اُس کا ہنسنا سمجھ نہیں آیا

"نہیں بس مجھے آج پتا چلا کہ سرسری مُلاقات وہ ہوتی ہے جس میں آپ کسی انجان کے لیے لڑائی کرتے ہو"اُس کا نام جان لیتے ہو جاب کی آفر تک کرلیتے ہو اور بھی بہت سی باتیں کرلیتے ہو۔۔آریان ہنس کر سرجھٹک کر بولا تو میشا کی چھٹی حس بیدار ہوئی

"تمہارے کہنے کا مطلب کیا ہے؟میشا کو تجسس ہوا

"سوہان زوریز کی آفس میں جاب کیا کرتی تھی اور اِس درمیان اُن کی اچھی خاصی دوستی بن گئ تھی ڈونٹ نو سوہان کی طرف سے ایسا کچھ تھا یا نہیں مگر میرا بھائی اُس کو بہت اہمیت دیتا تھا۔۔آریان نے بتایا تو میشا نے گردن موڑ کر زوریز کو دیکھا جو کسی سے کال پر بات کررہا تھا پھر اُس نے سوہان کو دیکھا جو فاصلے پر کھڑی فاحا کی باتیں سُننے میں مصروف تھی

"کیا واقعی میں پہلی مُلاقات میں یہ سب ہوا تھا؟میشا یقین کرنے سے قاصر تھی

"ہاں بڑے ڈرامائی انداز میں مُلاقات ہوئی تھی"سب سے پہلے بائے مسٹیک سوہان نے پوری ٹرے زوریز کی کپڑوں کے اُپر اُلٹ دی اور اُس کے بعد بہت محبت بھرے انداز میں کہا کہ میں صاف کردیتی ہوں"مجھے پتا ہے اگر اُن دونوں کے بجائے ہم دونوں کا ایسا کوئی سین آن ہوتا تو تم نے وہ ٹوٹے ہوئے گلاس کے کانچ اُٹھاکر میرے چہرے پر چُھبادینا تھا اپنی غلطی تو نہ مانتی اُلٹا سارا الزام میرے سر پر ڈال دیتی۔۔"آریان بتاتے بتاتے آخر میں منہ کے زاویئے بنا کر اُس سے بولا

"ہر بات پر اپنا قصہ نہ چھیڑا کرو۔۔۔میشا خاصا بدمزہ ہوئی

"تم میری محبت کو قبول کیوں نہیں کرلیتی"آؤ نہ اپنی شادی کی پلاننگ کرتے ہیں۔۔۔آریان پرجوش لہجے میں اُس سے بولا

"تمہارا کچھ نہیں ہوسکتا اور ہاں"میں تم سے شادی کروں گی یہ تمہاری سب سے بڑی بھول ہے۔۔۔میشا نے باور کروانے والے انداز میں اُس سے کہا


"مقامِ رنج ہے کہ اک ناپسند شخص کو ہم:

تمہارے بعد کہیں گے کہ ہم تمہارے ہیں


"آریان نے گہرے لفظوں میں چُھپا شعر مزاحیہ انداز میں کہا تو میشا جان گئ کہ یہ بندہ کبھی سیریس نہیں ہوسکتا۔۔۔۔

گو ٹو ہیل۔۔۔میشا تپ کر کہتی جانے لگی

"وِد یوئر ہیل۔۔آریان پھر بھی باز نہیں آیا مگر اِس بار میشا نے اُس پر کوئی توجہ نہیں دی

"میں جارہا ہوں مگر شام میں آپ کا انتظار کروں گا۔۔۔سوہان زوریز کو دروازے تک چھوڑنے آئی تو اُس نے کہا

"میں اپنا جواب دے چُکی ہوں آپ کو۔۔۔سوہان نے سنجیدگی سے کہا

"اور میں بھی کہہ چُکا ہوں کہ پھر بھی آپ کا انتظار کروں گا۔۔۔زوریز اپنی جگہ بضد تھا

"آپ کو بے وجہ انتظار کرنے کا لگتا ہے شاید بہت شوق ہیں۔۔۔سوہان طنز ہوئی

"اب میں چلتا ہوں پھر مُلاقات ہوگی۔۔۔زوریز اُس کی بات اگنور کرکے بولا تب تک آریان بھی آگیا تھا

"چلے؟آریان کو دیکھ کر زوریز نے پوچھا

"ہاں کیوں نہیں۔۔۔آریان نے مسکراکر کہا

"خدا حافظ۔۔سوہان الوداعی کلمات کہتی اندر کی طرف بڑھ گئ جہاں فاحا اور میشا سینے پر بازو باندھے اُس کے منتظر تھی۔۔"باقی لوگ بھی اپنے گھر کو روانہ ہوگئے تھے ساجدہ بیگم جبکہ اپنا زیادہ تر وقت اپنے کمرے میں گُزارا کرتی تھیں اور آج بھی ایسا ہی ہوا تھا۔۔

"ایسے کیوں دیکھا جارہا ہے مجھے؟سوہان صوفے پہ لیٹتی اُن سے استفسار ہوئی

انجان مت بنو سوہان تمہیں پتا ہے سب کچھ۔۔میشا نے تکیہ اُس کی طرف پھینک کر دانت پیس کر بولی

"ہاں آپو اور ہم آپ کی سسٹرز ہیں آپ ہم سے کوئی بھی بات چُھپا نہیں سکتیں۔۔۔فاحا بھی میدان میں آئی تو سوہان دونوں کو دیکھتی رہ گئ

"بتاؤ تم دونوں مجھے کہ زوریز کو یہاں آنے کا تم دونوں سے کہا کس نے تھا؟اب وہ چاہتا ہے میں شام میں اُس سے ملوں۔۔سوہان نے اُن سے سوال کیا تو اُس کی آخری بات پر وہ معنی خیز انداز میں مسکرائی تھیں

"کہاں ملنے کا کہا ہے؟

"تم نے کیا جواب دیا؟

دونوں نے باری باری متجسس انداز میں پوچھا

"میں نے کیا کہنا تھا انکار کیا..سوہان نے اُن دونوں کو گھور کر کہا

"کیا انکار کیا؟"سوہان آخر تمہارا مسئلہ کیا ہے یار مطلب وہ اِس لیے چُپ ہوگیا تھا کیونکہ اُس کو تم نے مایوس کیا تمہارے انکار نے اُس کو ہرٹ کیا اور تمہیں اُس بات کی قطعیً کوئی پرواہ نہیں۔۔۔"وہ فاحا کے ایک بار کہنے پر آگیا اگر نہ بھی آتا تو اُس کو کیا پرواہ تھی پر وہ آیا اور اِتنے چاہ سے تمہارے آگے پیش کش رکھی بدلے میں تم نے اُس کو ٹھکرادیا کم از کم تمہیں یہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔۔میشا کو حقیقتاً بہت افسوس ہوا

"ہاں آپو آپ نے سہی نہیں کیا اِتنے اچھے لگے مجھے وہ۔۔۔فاحا نے بھی منہ بنایا

"تم دونوں میری بہنیں ہو یا اُس کی؟سوہان کو حیرت ہوئی جو زوریز کی طرفدار بنیں ہوئیں تھیں

"مجھے اِتنا ہینڈسم بھائی نہیں چاہیے۔۔۔میشا نے جھٹ سے اپنے ہاتھ کھڑے کیے

"ویل وِشر بنادوں گی مگر بھائی نہیں۔۔فاحا نے بھی اپنے ہاتھ کھڑے کیے

"ایسا بھی کیا کردیا اُس نے جو تم اُس کو ویل وشر بنانے لگی ہو۔۔۔سوہان یقین نہیں کرپائی تھی ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ اُن کی باتوں کا مرکز ایک مرد تھا

"ایسے ہی۔۔۔فاحا متذبذب ہوئی جبکہ ایک چیز اچانک میشا کے دماغ میں سمائی تھی اُس نے غور سے سوہان کو دیکھا پھر اپنے لب کچلے

تمہیں یاد ہے تم نے ایک مرتبہ کیا کہا تھا؟میشا نے ایک خیال کے تحت سوہان سے کہا

"کیا کہا تھا؟سوہان فاحا سے نظریں ہٹائے اُس کو سوال گو ہوئی

"تم نے کہا تھا"تاعمر دوست لڑکوں کے ہوتے ہیں لڑکیوں کے نہیں "لڑکیوں کے دوست اسکول کے اسکول تک اور کالج سے کالج تک اور یونی سے یونی تک ہوتے ہیں"اُس کے علاوہ اگر تھوڑی بات چیت ہو بھی جائے تو لڑکی کی زندگی ایسی بن جاتی ہے جہاں دوستیاں نبھانے کا وقت نہیں نکلتا اور نہ گُنجائش اور اگر یونی کے بعد اتفاقً ملاقات کبھی"مال "سڑک"روڈ بس "ٹرین پر ہو بھی ہوجائے تو ایسے ملتے ہیں جیسے بس میں بیٹھے لوگ آپس میں تھوڑی بات چیت وغیرہ کرلیا کرتے ہیں اور پھر ہر کوئی اپنے راستے کا مسافر بن جاتا ہے"مگر لڑکوں کا ایسا کوئی سین نہیں ہوتا اُن کی دوستیاں وقت کے ساتھ پختہ ہوجاتی ہے کسی وجہ سے کبھی فاصلہ درمیان میں آ بھی جائے تو جب اتفاقً جب ملاقات ہوتی ہے تو ہائے ہیلو کہہ کر نکل نہیں جاتے بلکہ فورن نمبر ایکسچنج کرتے ہیں۔۔۔۔پھر اُن کے رابطہ دوبارہ سے استوار ہوجاتے ہیں۔۔۔۔میشا نے ایک ایک لفظ اُس کا کہا دوہرایا تو سوہان کو سمجھ نہیں آیا کہ اچانک اِس بات کا خیال میشا کو کیسے آیا

"مجھے یاد ہے۔۔۔سرجھٹک کر سوہان نے کہا

"ایسا نہیں ہوتا تب تمہاری عمر کا یہ فلسفہ مجھے سہی لگا تھا مگر اب میں اِس بات سے متفق نہیں ہوں۔۔میشا نے کہا

"اچھا اور وہ کیوں؟سوہان نے پوچھا"فاحا بھی بہت غور سے میشا کو سُننے میں لگی تھی۔

کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو آج تمہارے ساتھ زوریز دُرانی نہ ہوتا"لیکن وہ تو کسی چٹان کی طرح تمہارے ساتھ ہے"ہر جگہ ڈھال بن کر کھڑا ہونا چاہتا ہے تمہارے ساتھ۔۔۔میشا نے کہا تو سوہان کچھ بولنے کے قابل نہیں رہی تھی۔

"وہ میرا دوست نہیں تھا کبھی۔۔۔سوہان نے بہت توقع بعد کہا تبھی باہر کا دروازہ نوک ہوا تھا۔

"اِس وقت کون آیا ہوگا۔۔میشا آہستگی سے بڑبڑائی

"آپ دونوں باتیں کریں میں دیکھتی ہوں۔۔۔فاحا اپنی جگہ سے اُٹھ کر باہر دروازے کی طرف آکر گیٹ کُھولا تو سامنے ایک بڑی عمر کے شخص کو دیکھ کر اُس کی آنکھوں میں تعجب اُبھرا وہ غور سے اُس کو دیکھتی اپنی طرف سے پہچاننے کی کوشش کرنے لگی مگر پہچان نہیں پائی تھی۔۔"جبکہ دوسری طرف نوریز ملک کو گاؤں سے یہ عہد کرکے آئے تھے کہ جیسے تیسے کرکے اپنی بیٹیوں کو مناکر اُن کو اپنے ساتھ لے جائے گے سامنے فاحا کو دیکھ کر اُن کی آنکھیں بھیگ گئ تھیں کیونکہ وہ سمجھ گئے تھے یہ معصوم سا وہ چہرہ ہے جس کو کئ سال پہلے اُنہوں نے دیکھنے سے انکار کیا تھا

"جی آپ کون"اور کس سے ملنا ہے؟فاحا کو اُن کا ایسے دیکھنا عجیب لگا تبھی پوچھا جبکہ نوریز ملک اُس کی آواز سن کر جیسے ہوش میں آئے

"تتتت تم ففف فاحا ہو؟نوریز ملک محبت بھری نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولے اُن کی زبان میں لڑکھڑاہٹ واضع تھی۔

"میں فاحا ہوں پر آپ ہیں کون؟"اور میرا نام کیسے جانتے ہیں۔۔۔فاحا اپنی آنکھیں بڑی بڑی کیے اُن کو دیکھ کر پوچھنے لگی

"مجھے نہیں پہچانہ؟نوریز ملک حسرت بھری نظروں سے اُس کو دیکھ کر پوچھنے لگے اِس آس سے کہ شاید وہ سینے سے لپٹ بول اُٹھے کہ"ہاں بابا میں پہچان گئ ہوں آپ کو۔۔۔۔

"پہلی بار دیکھا ہے فاحا نے آپ کو۔۔۔فاحا نے شانے اُچکائے کہا تو نوریز ملک کے چہرے پر اُداس مسکراہٹ نے بسیرا کرلیا تھا

"اپنی ماں جیسی ہو تم اُس کی ٹھوری پر بھی ایک ایسا ہی خوبصورت تِل ہوتا تھا۔۔۔نوریز ملک کسی ٹرانس کی کیفیت میں بولے تھے

"مجھے پتا ہے کہ میں اپنی ماں پر گئ ہوں لیکن پھر بھی آپ کے بتانے کا شکریہ اور اب کیا آپ بتانا پسند کرینگے کہ آپ کون ہیں؟"کیونکہ فاحا بہت تھکی ہوئی ہے اُس کی ٹانگوں میں اِتنا پانی نہیں کہ وہ مزید کھڑی رہ کر آپ کے سوالوں کے جواب دے۔۔فاحا تنگ ہوتی بولی تو نوریز ملک نم آنکھوں سے مسکرا پڑے تھے

"کون آیا ہے باہ

"میشا اور سوہان جو فاحا کے دیر آنے پر پریشان ہوتیں باہر آکر اُس سے پوچھنے لگیں تھی مگر جب نظر نوریز ملک پر گئ تو میشا کو چُپ لگ گئ تھی اور آنکھوں میں پل بھر میں ناگواری کا تاثر نُمایاں ہوا تھا

"آپ یہاں کیا کررہے ہیں؟"جائے یہاں سے۔۔۔سوہان نے سنجیدگی سے اُن کو دیکھ کر جانے کا کہا جبکہ میشا نے رُخ پلٹ لیا تھا اپنا

"یہ باتیں اندر مل بیٹھ کر بھی ہوسکتیں ہیں۔۔۔اچانک کسی مردانہ بھاری آواز پر فاحا کی نظر جب سفید کاٹن کے شلوار قمیض ملبوس پاؤں میں پیشاوری چپل پہنے اور ہمیشہ کی طرح کندھوں پر براؤن کلر کی شال اوڑھے اسیر ملک پر پڑی تو اُس کا منہ پورا حیرت سے کُھلا کا کُھلا رہ گیا تھا وہ آنکھیں پھاڑے اُس کو دیکھنے لگی جس کے سلکی بال آج نفاست سیٹ نہیں تھے بلکہ اُس کی پیشانی پر بکھرے اُس کی شخصیت میں مزید چار چاند لگا رہے تھے۔۔۔"اور چہرے پر سپاٹ تاثرات سجائے وہ سوہان کو دیکھ رہا تھا جس نے اُس کی بات پہ نفرت سے اپنا سرجھٹکا مگر میشا پہلی بار اُس سے ملی تھی جبھی سرتا پیر گہری نظروں سے اُس کا جائزہ لینے لگی تھی۔۔"

❤❤❤❤❤❤❤❤

اب تم کون ہو؟میشا نے ناگواری سے پوچھا

"جلدی جان جاؤ گی اور دوبارہ ہم سے اِس ٹون میں بات مت کرنا۔۔۔اسیر کے لہجے میں صاف وارننگ تھی جس کو محسوس کیے میشا کا پورا چہرہ غُصے سے سُرخ ہوگیا تھا کیونکہ زندگی میں پہلی بار کسی نے اُس کے ساتھ ایسے بات کی تھی"اُس کو وارننگ دی تھی

"تم زرا اپنی ٹون سنبھال کر بات کرو کیونکہ اگر میرے ہاتھوں میں کُھجلی ہوئی تو یہ تمہاری صحت کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔۔۔میشا نے اُس کو خبردار کرنا چاہا

"ہم تم جیسی زبان دراز لڑکیوں سے منہ لگنا پسند نہیں کرتے۔۔۔اسیر نے استہزائیہ مسکراہٹ سے اُس کو دیکھ کر کہا تو اُس کے گال پر گڑھے نُمایاں ہوئے تھے جو اپنی حیرانگی میں فاحا دیکھ نہیں پائی اور میشا کو کوئی انٹرسٹ نہیں تھا۔

"آپ ہمارے گھر کے دروازے کے پاس کھڑے ہوکر فاحا کی بہن کے ساتھ ایسے بات نہیں کرسکتے۔۔۔فاحا حیرانگی سے نکل اسیر سے بولی تو اُس نے ترچھی نگاہوں سے فاحا کو دیکھا جو اُس کے ایسے دیکھنے پر گڑبڑا گئ تھی۔

"میری بہن کو یوں آنکھیں دیکھا کر تم ڈرا نہیں سکتے اگر ہمت ہے تو مجھ سے بات کرو"میری طرف دیکھ کر"کیونکہ تمہارے "ہم ہم سے تم ایک سے چار نہیں بن سکتے رہو گے ایک ہی انسان۔۔۔میشا نے اُس کو گھور کر طنز انداز میں کہا"کیونکہ اسیر کا لفظ"ہم"اُس کی سمجھ سے بالآتر تھا" جبکہ نوریز ملک حیرت سے اُن کو آپس میں لڑا جھگڑتا دیکھ رہے تھے"سوہان تو اُن سب سے یکسر بے نیاز کھڑی تھی۔

"آپ سے کیا بات کریں ہم؟"اور آپ جس گھر کو اپنا گھر انٹرڈیوس کروا رہی ہیں"یہ مقان کرائے کا ہے اور اگر ہم چاہے تو پل بھر میں یہ گھر تم لوگوں سے خالی کرواسکتے ہیں۔۔۔اسیر کے لہجے میں صاف دھمکی تھی جبکہ اُس کی آخری بات کو وہ نظرانداز کرگیا تھا

"تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوسکتا اور اگر ایسا ہوا بھی تو ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ جس کا خون تمہاری رگوں میں ہے" اُس سے ہم ہر چیز کی توقع کرسکتے ہیں۔۔سوہان اسیر کی بات سن کر سنجیدگی سے بھرپور لہجے میں بولی تو اسیر کے ماتھے پر بل نمایاں ہوئے تھے ہاتھوں کی مٹھیاں اُس نے زور سے بند کی تھی جبکہ پورا چہرہ الگ سے سرخ ہوگیا تھا"اُس کو خود سے ایسے بات کرنے والوں کا انداز کہاں پسند تھا

ہم

"کیا آپ لوگ اِن کو جانتی ہیں؟اسیر کچھ سخت کہنے والا تھا مگر اُس سے پہلے فاحا نے بلآخر پوچھ لیا جس پر اسیر سرجھٹک کر خاموش ہوگیا تھا"وہ یہاں کبھی بھی نہ آتا مگر نوریز ملک جن کی حالت میں ابھی کچھ سُدھار آیا تھا"اُنہوں نے ضد کرکے اسیر کو یہاں اپنے ساتھ آنے پر مجبور کرلیا تھا"کیونکہ اُن کو یاد تھا کہ آج سوہان کی سالگرہ ہے یہی وجہ تھی کہ وہ چاہتے تھے کہ آج کے دن سب کچھ اُن کے درمیان سہی ہوجائے

"ہمیں چھوڑو تم ایسا ری ایکٹ کیوں کررہی ہو؟"کیا تم اِس کو جانتی ہو؟میشا نے مشکوک نظروں سے اُس کو دیکھ کر پوچھا تو اُس کی اور پھر سوہان کی خود پر نظریں محسوس کرتی فاحا نے بے ساختہ اپنا سر نفی میں ہلایا تھا جبکہ اُس کے ایسے عمل پر اسیر کی آنکھوں میں جانے کیوں ناپسندیدگی سے بھرا تاثر نُمایاں ہوا تھا"جبکہ فاحا تو یہ سوچ رہی تھی اچھا ہوا جو اُس نے اپنا سر نہ میں ہلایا اگر جو وہ ہاں کرتی تو اُن دونوں کے ہاتھوں اُس نے بچپنا نہیں تھا۔۔

"کیا میں اندر آسکتا ہوں۔نوریز ملک نے اُن کا دھیان اپنی طرف کروانا چاہا جن کو وہ یکسر فراموش کرچُکی تھیں۔۔۔

"آپ اندر نہیں آسکتے آپ جائے یہاں سے۔۔۔میشا نے حدردرجہ اِس بار سخت لہجہ اپنایا

"فاحا تم اندر جاؤ۔۔سوہان احساس سے عاری نظروں سے نوریز ملک کو دیکھتی فاحا سے بولی جو حیران پریشان ساری بات سمجھنے کی جدوجہد میں تھی۔

"پر آپو

"سُنا نہیں میں نے کیا کہا تم سے۔۔۔فاحا ابھی کچھ کہنے والی تھی جب سوہان نے سختی سے اُس کو ٹوک کر کہا جس پر فاحا کی آنکھوں میں نمی اُتر آئی تھی"سوہان تو اُس کی زندگی میں وہ ہستی تھی جس نے کبھی مذاق مزاق میں بھی اُس سے سخت آواز میں بات نہیں کی تھی"اگر میشا یا کوئی اور کرتا تو وہ اُن سے غُصہ کرجاتی تھی"اُس کو یاد تھا کیسے سوہان اُس کے لیے اپنی ماں سے بھی لڑنے کے لیے کھڑی ہوجایا کرتی تھی"اور آج اُس کا دو غیر آدمیوں کے سامنے سوہان کا ایسے بات کرنا اُس کو دُکھی کرگیا تھا تبھی بنا کچھ اور کہے وہ نظریں جُھکا کر جانے والی تھی جب اچانک اسیر ملک نے اُس کا ہاتھ اپنی مضبوط گرفت میں لیا تھا۔۔"یہ دیکھ کر جہاں وہ دونوں بے یقین نظروں سے اسیر ملک کی جُرئت کو دیکھ رہی تھیں وہی فاحا نے اپنی بھیگی پلکوں کو اُٹھائے اسیر کو دیکھا جس کے چہرے پر کوئی بھی تاثر نہیں تھا۔

"تم فاحا سے ساری سچائی چُھپاکر اُس کو اُس کے حق سے محروم نہیں رکھ سکتی۔۔۔ نظریں ہنوز فاحا پر جمائے اسیر نے سوہان سے کہا تھا جس کو سن اور سمجھ بھی گئ تھی۔

"دیکھو تم جو کوئی بھی ہو وی ڈونٹ کیئر مگر یہ ہم تینوں کا آپسی معاملہ ہے بہتر ہے جو تم اِس میں مُداخلت نہ کرو ورنہ میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجائے گا۔۔میشا کے ہاتھوں میں ہلکی سی کُھجلی ہونے لگی جس سے وہ پریشان ہوتی اسیر کو کھاجانے والی نظروں سے دیکھ کر بولی تھی۔

"آج سے بیس سال پہلے آپ نے ہمیں اپنے گھر کی دہلیز سے خالی ہاتھ واپس لوٹایا تھا"اور آج میں آپ کو اپنے گھر سے واپس جانے کا کہتی ہوں"کل آپ نے میری ماں کی فریادیں "میشو کی چوٹ فاحا کا معصوم چہرہ"اُس کا رونا نہیں دیکھا تھا آج میں نے خود کو اندھا کرلیا ہے آپ جو چاہے جیسے چاہے"وضاحت دے معافی مانگے ہم میں سے کسی ایک کو فرق نہیں پڑتا ہم بس آپ کا یہ مکرہ چہرہ نہیں دیکھنا چاہتے۔۔۔سوہان فاحا کو اسیر سے دور کرتی دو ٹوک انداز میں نوریز ملک سے بولی تھی جن کا سر اُس کی بات پر شرم اور ندامت پچھتاوے کے احساس سے جُھک گیا تھا۔

"تمہیں شاید پتا نہیں کہ بڑوں سے کیسے بات کی جاتی ہے۔۔اسیر کو سوہان کا بات کرنے کا انداز ایک آنکھ نہیں بھایا تھا

"بہت سہی کہا تم نے ایسا ہی ہے تو اب اچھا نہیں بدتمیز لوگوں سے منہ لگنے سے اچھا تم لوگ اپنی تشریف واپس لے جاؤ۔۔میشا نے زبردستی مسکراہٹ چہرے پر سجائے اُس سے کہا

"یہ بات اگر فاحا کہے گی تو ہم چلے جائے گے"ہمیں جاننا ہے کہ تم دونوں فاحا سے یہ سب کیوں چُھپانا چاہتے ہو۔۔اسیر فاحا کے روبرو کھڑا ہوتا اُن سے بولا تو فاحا جو خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے میں تھی چونک کر اسیر کو دیکھنے کے بعد سوہان اور میشا کو دیکھنے لگی

"فاحا وہ کرتی ہے"وہ کہتی ہے جو ہم اُس سے کہتے ہیں۔۔میشا اُن دونوں کے درمیان آکر کھڑی ہوئی

"لگتا ہے کباب میں ہڈی بننے کا بہت شوق ہیں تمہیں۔۔اسیر کو میشا کافی گُستاخ لگی تھی۔

"آپ کباب ہونگے مگر مجھے ہڈی اور میری بہن کو کباب بننے کا کوئی شوق نہیں۔۔میشا نے تپانے والی مسکراہٹ چہرے پر سجائے اُس سے کہا تو اسیر اُس کو تند نگاہوں سے گھورتا سامنے سے ہٹاگیا تھا

آپ

اسیر فاحا کو دیکھتا کچھ کہنے والا تھا جب غُصے میں آکر میشا اُس کو پنج مارنے والی تھی"مگر اسیر بغیر دیکھے اُس کا ہاتھ درمیان میں روک گیا تھا جس پر فاحا کی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھیں

"یہ ہاتھ اگر کسی اور کا ہوتا تو ہم کب کا توڑ چُکے ہوتے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اسیر ملک عورت ذات پر ہاتھ اُٹھانا اپنی توہین سمجھتا ہے۔۔اسیر ایک جھٹکے سے اُس کا ہاتھ چھوڑتا باور کروانے والے انداز میں بولا تھا

"آپ خاموش کھڑے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟"اپنے بھتیجے کو لیکر یہاں سے جائے۔۔سوہان اِس بار چیخی تھی

"سوہان

"میرا نام اپنی زبان سے کبھی مت لیجئے گا میں بدتمیزی کرنا نہیں چاہتی مگر آپ مجھے محبور کررہے ہیں پلیز ایسے نہ کریں اور جائے۔۔۔نوریز ملک کی بات درمیان میں کاٹتی سوہان پاگل ہونے کے در پہ تھی

"آپ کو ہماری خوشیاں پسند نہیں تبھی ہماری زندگی خراب کرنے واپس آگئے ہیں" یہ جانتے ہوئے بھی ہمیں آپ سے کتنی نفرت ہے۔ ۔میشا بھی سوہان کا بھرپور ساتھ دیتی اُن سے بولی

"آپ کیا ابھی تک نہیں سمجھی کہ یہ شخص کون ہے؟اسیر کو فاحا کا اِتنا لاتعلق ہونا سمجھ نہیں آیا اُس کو لگتا تھا جیسے نوریز ملک اُس کا باپ ہے یہ جان کر فاحا کی دل میں رحم ضرور آئے گا کیونکہ اُس کے لحاظ سے جتنا وہ فاحا کو جانتا تھا وہ ایسے کرے گی"مگر بات یہ تھی کہ اسیر نے ابھی فاحا کو جانا نہیں تھا۔۔۔

"نہیں۔۔۔فاحا نے اپنا سر نفی میں ہلایا تو اسیر بس اُس کو دیکھتا رہ گیا

"جگ جہاں کی معصوم جو ٹھیری۔۔اسیر بیحد آہستہ آواز میں بڑبڑایا

"فاحا بیٹا یہاں آؤ۔۔نوریز ملک"سوہان اور میشا سے مایوس ہوتے فاحا سے بولے جس نے اُن کے مُخاطب ہونے پر سوہان کو دیکھا تھا

"سوچ کیا رہیں ہیں جائے۔۔اسیر اُس کے سامنے کھڑا ہوتا اصرار کرنے لگا جس پر فاحا نے اپنے لب کُچلے

"یہ بندہ کتنا عجیب ہے ہم سے توں تراں کرکے بات کررہا ہے اور ہماری چھوٹی بہن کو"آپ"کہہ کر عزت بخش رہا ہے۔۔میشا کو اسیر کا بار بار فاحا کو آپ کہہ کر مُخاطب ہونا ہضم نہیں ہوا تھا جبھی سوہان سے کہا جو اُس کی اِس بات پر خاموش اُن دونوں کو دیکھ رہی تھی۔۔"وہ سمجھ نہیں پائی اگر میشا کی طرح فاحا بھی اسیر سے پہلی بار ملی تھی تو اسیر میشا سے جہاں اِتنا چڑ رہا ہے وہاں وہ اِتنے حق اور روعب سے فاحا سے کس وجہ سے بات کررہا ہے؟"اور فاحا کیوں اُس کی اِتنی ہڈ دھرمی برداشت کررہی تھی۔۔

"آپ کون ہیں؟بنا اپنے قدم نوریز ملک کی طرف بڑھائے فاحا نے نوریز ملک سے سوال کیا

"میں نوریز ہوں"نوریز ملک تمہارا باپ۔۔۔"یہاں آؤ میری بچی۔۔نوریز ملک اپنی بانہیں پِھیلاکر اُس سے بولے تو فاحا کی آنکھوں کی پتلیاں ساکت ہوئیں تھی وہ حیرت اور بے یقینی کا پُتلا بنے نوریز ملک کو یک ٹک بے مقصد دیکھے گئ تھی۔۔۔"اُس کو قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ اُس کی زندگی میں کوئی انسان اچانک آکر اپنے باپ کی حیثیت سے متعارف کروائے گا"باپ کیا ہوتا ہے؟"باپ کون ہوتا ہے؟باپ کا چیپٹر تو وہ اپنی زندگی میں کب کا بند کرچُکی تھی اور ایسا بند کرچُکی تھی کہ پیچھے پلٹ کر پھر کبھی واپس کھول کر نہیں دیکھا تھا


"آپ مجھ سے ایسے بات کیوں کرتیں ہیں؟"میں بھی تو آپ کی بیٹی ہوں نہ۔۔۔"آٹھ سالہ فاحا نے اپنے ازلی معصوم لہجے میں اسلحان سے سوال کیا جو پودوں کو پانی دے رہی تھی

"بات سُن اپنے دماغ سے یہ خناس نکال دے کہ میں تیری ماں ہوں"توں میری زندگی میں وہ منحوسیت لیکر آئی ہے جس کو میں جب جب سوچتی ہوں"میرے غُصے کا غلاف تجھ پر اور بڑھ جاتا ہے اِس لیے میرے سامنے مت آیا کر ورنہ تیرا وہ حال کروں گی"ماں لفظ بھول جائے گی۔۔اسلحان نفرت انگیز نظروں سے اُس کا معصوم چہرہ دبوچ کر بولی تو فاحا کا پوری جسم کانپ گیا تھا جبکہ پورا چہرہ آنسوؤ سے تر بدر ہوگیا تھا وہ جان نہیں پائی تھی آخر اُس کو کس جُرم کی سزا دی جارہی تھی۔

"اگر میں آپ کی بیٹی نہیں ہوں تو کیا ہوں۔۔فاحا نے روتے ہوئے اُن سے سوال کیا

"توں منحوس ہے فاحا توں بہت بڑی منحوس ہے تیری وجہ سے تیرے باپ نے مجھے طلاق دی"میں در در کے ٹھکرے کھانے پر مجبور ہوئی رُل گئ صرف اور صرف اِس لیے کہ اِس دُنیا میں توں آئی۔۔"توں کیوں آئی فاحا توں کیوں آئی تیری کیا ضرورت تھی اگر آئی بھی تو تُجھے مرجانا چاہیے تھا توں مری کیوں نہیں میرا جینا اجیرن کرنے کے لیے تیرا زندہ ہونا ضروری تھا کیا؟اسلحان پاگلوں کی طرح اُس کو جِنھجھور کر کہنے لگی تو فاحا کا رونا سسکیوں میں بدل گیا تھا۔ ۔


"باپ؟فاحا کے لب آہستگی سے پھڑپھرائے تھے مگر پاؤں گویا ایک جگہ جیسے منجمند ہوگئے تھے"ایک باغی آنسو اُس کی آنکھ سے پِھسلا تھا جس پر سوہان تڑپ کر اُس کی طرف بڑھی مگر فاحا نے ہاتھ کے اِشارے سے اُس کو روک دیا تھا"جس پر وہ لب بھینچ کر اُس کو دیکھتی رہ گئ تھی۔۔

"ہاں میں تمہارا بابا ہوں فاحا"اپنے اِس بدنصیب باپ کو معاف کردو اور میرے ساتھ چلو۔۔۔نوریز ملک کی اپنی آنکھوں میں آنسوؤ آگئے تھے۔

"بابا

معافی؟

فاحا عجیب کیفیت سے دوچار ہوتی الفاظ دوہرانے لگی۔

Are You Ok?

اسیر وہ سہی نہیں لگی"مگر اُس کے سوال پر فاحا ہنسی تھی اور ہنستی چلی گئ تھی۔۔۔"اِتنا کہ اُس کا پورا چہرہ آنسوؤ نے بھگو دیا تھا وہ ہنستی ہنستی خود تو رونے لگ گئ تھی ساتھ میں سوہان اور میشا کو بھی پریشان کرگئ تھی"آخر وہی تو ہوا تھا جو وہ نہیں چاہتی تھی۔

"فاحا۔۔نوریز ملک اُس کی طرف بڑھنے لگے تو فاحا نے نظریں اُٹھائے اُن کو دیکھا تو چہرے پر استہزائیہ مسکراہٹ آئی

"آپ میرے بابا ہیں؟فاحا چلتی ہوئی اُن کے روبرو کھڑی ہوئی

"ہاں میں تمہارا بابا ہوں ایک بار اپنے باپ کو پیار سے پکارو تو۔ ۔نوریز ملک نے آس بھری نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر فاحا نے اپنی سسکی کا گلا گھونٹا تھا

"مگر آپ نے تو کبھی ہمیں پُکارا نہیں؟"اور نہ ہماری پکار پر آئے۔ فاحا کی بات نے اُن کو کچھ بھی بولنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔۔

"آپ میرے بابا ہیں آپ کو یاد ہے میری پیدائش کی تاریخ؟"آپ کو یاد ہے جب میں نے پہلی بار بولنا سیکھا تھا؟"آپ کو یاد ہے کب میں نے رینگتے رینگتے چلنا شروع کیا تھا؟"اور کیا آپ کو پتا ہے کس کی اُنگلی کے سہارے میں چلنا سیکھا کرتی تھی؟"چلنا سیکھتے سیکھتے کتنی بار گِر کر اُٹھی تھی آپ کو پتا ہے فاحا نے کب پہلی بار اسکول جوائن کیا اور کب اسکول کو خبرآباد کہا"اسکول میں اُس نے کن کن چیزوں کا سامنا کیا تھا آپ کو پتا ہے فاحا کو کیا کھانا پسند ہوتا ہے اور کیا کھانا پسند نہیں؟"آپ کو پتا ہے کہ میرا فیورٹ کلر کیا ہے؟"میرا موڈ کب کیسے ہوتا ہے"کیا آپ کو یہ پتا ہے؟"فاحا نے کب کب آپ کو یاد کیا"کہاں کہاں اُس کو آپ کی کمی اُس کو محسوس نہیں ہوئی۔۔فاحا نے ایک کے بعد ایک دیگر جانے کتنے سوالوں کی بوچھاڑ اُن پر کرڈالی تھی جس پر نوریز ملک کو اپنا زندگی میں کیا جانے والا خسارہ بُری طرح سے یاد آیا تھا۔

"نہیں ویٹ آپ کو کیسے پتا ہوگا؟"میں بھی کتنی پاگل ہوں فاحا کی زندگی میں آپ آئے کب تھے آپ نے یہ جاننے کی کوشش کی کب تھی کہ وہ زندہ ہے یا مرچُکی ہے۔۔۔فاحا ہذیاتی انداز میں چلا اُٹھی

"ایسے مت کہو بیٹا ایسے مت کہو۔۔نوریز ملک کو لگا جیسے کسی نے اُن کا دل مٹھی میں جکڑلیا ہو

"مجھے پتا چلا تھا میری پیدائش پر میرا پہلا نام رکھنے والے آپ تھے۔"منحوس یہی نام رکھا تھا نہ آپ نے؟فاحا نے کہنے کے بعد آخر میں اُن سے سوال کیا تو نوریز ملک نے بے ساختہ اپنا سر نفی میں ہلایا تھا وہ تینوں جبکہ چُپ چاپ کھڑے تھے

"انکار کیوں کررہے ہیں مجھے آپ کی حامی بھرنے پر کوئی دُکھ کوئی رنج نہیں ہوگا"کیونکہ فاحا اُس دوؤر سے نکل آئی ہے جبکہ اُس پر کسی چیز کا اثر ہوا کرتا تھا"فاحا نے سوچ لیا تھا اُس کا کوئی باپ نہیں ہے اور یہ آج کیا سوچ کر آپ معافی مانگنے آئے ہیں یہ کوئی فلم ہے کہ ایٹ دا لاسٹ میں سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا فلم کی ہیپی اینڈنگ ہوجائے گی۔۔"آپ کو آج اپنی پڑی ہے بیس سالوں سے جو میں نے سفر کیا ہے جن تکلیفوں کو میں نے برداشت کیا ہے"جن خواہشات پر فاتحہ پڑھی ہے جب جب آپ کے کردہ گناہ پر روئی تھی تڑپی تھی سسکی تھی"تب آپ کیوں نہیں آئے؟"آج کیوں آئے کسی تہوار پر یا عید کے موقعے پر ہمیں سرپرائز دے کر خوش کیوں نہیں کیا؟"کبھی یہ جاننے کی ضرورت آپ نے محسوس کیوں نہیں کی کہ اِس بھری دُنیا میں میری تین بیٹیاں ہیں جن کی کفالت کرنا آپ کے ذمے ہے جن کی ہر ضروریات کو پورا کرنا آپ کے ذمے ہیں"جن کو ہر بُری نظروں سے بچانا ایک باپ ہونے کی صورت میں آپ پر فرض بنتا ہے۔۔"تب آپ کہا تھے جب فاحا کے اسکول میں پیرینٹس میٹنگ ہوا کرتی تھی اور وہ اُس دن اسکول نہیں جایا کرتی تھی"جب ہمارا پارک جانے کو دل کرتا تھا تو آپ کیوں نہیں آئے کہ آؤ اپنے بابا کے ساتھ پارک کی سیر کر آتے ہیں۔۔"ہمارے ساتھ کوئی ایک دن آپ نے کیوں نہیں گُزارا؟"بچپن میں ہمارے ساتھ ویکیشن کیوں نہیں منائی ویکیشن کے دن ہمیں کہیں گُھومانے کیوں نہیں لے گئے آپ؟"ہمارے ساتھ کوئی گیم کیوں نہیں کھیلی ہمارے ساتھ ٹی وی کیوں نہیں دیکھی"روکھا سوکھا کھانا ہمارے ساتھ کیوں نہیں کھایا؟"آپ کہاں ہوتے تھے جب ہم بیمار ہوتے تھے"جب ہمیں آپ کی ضرورت ہوا کرتی تھی ہماری زندگی کے نازک اور اہم باب میں آپ شامل نہیں تھے ہماری کسی بھی پُکار پر آنا تو دور لیکن جواب دینا تک آپ نے ضروری نہیں سمجھا اور جب آج اپنے دل کو سمجھا لینے کے بعد ہم موو آن کرگئ ہیں تو آپ کا کہنا ہے کہ مجھے معاف کردو اور ہمارے ساتھ چلو یہ کہاں کا انصاف ہوا؟"یعنی قتل کرنے کے بعد آپ مظلم سے کہتے ہو مجھ سے غلطی سے قتل ہوگیا ہے مجھے اب تم معاف کردو جبکہ وہ تو مرچُکا ہے آپ کا معافی مانگنا اور نہ مانگنا ایک برابر ہے۔۔۔فاحا بولنے پر آئی بولتی چلی گئ وہ بولی تھی تو ہر ایک کو چُپ لگ گئ تھی اور نوریز ملک جو سوچ رہے تھے فاحا اُن کو معاف کردے گی اُس کی ایسی دل دُہلانے والی باتیں سن کر اُن کو اپنا آپ زمین میں دُھنستا ہوا محسوس ہورہا تھا"اور اسیر تو لاجواب سا اُس کی پشت کو دیکھ رہا تھا اُس کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ فاحا جیسی جھلی لڑکی اِس قدر گہری باتیں بھی کرسکتی تھی اُس کو تو لگا تھا فاحا ایموشنل پُھول ہوگی جو جلدی سب کچھ بھول کر اپنے باپ کے سینے سے جا لگے گی مگر اُس نے تو جیسے اپنی زندگی کے بیس سالوں کا ایک ایک دن "ایک ایک پل کا حساب مانگا تھا"جو نوریز ملک اپنی ساری دولت اور ساری شُہرت لگاکر بھی دینا چاہتے تو کبھی دے نہ پاتے اور نہ وقت کو پیچھے کی جانب دھکیل کر اُن کا کل "اُن کا بچپن خوبصورت بناسکتے تھے یا اُن کو ہر آسائش دے کر اُن کو خواہش کو پورا کرسکتے"نوریز ملک کو فاحا نے اچھے سے بتایا کہ جو چیزیں اُن کو آسان لگ رہی ہیں وہ اِتنی آسان ہے نہیں وہ اگر اُن کو معاف کر بھی دیتی تو اُن کے رشتے میں ایک جھجھک اور ہچکچاہٹ تاعمر رہنی تھی "وہ بابا بابا کرتیں اُن کے آگے پیچھے ہر وقت گھوم نہیں سکتیں تھی اور نہ اپنے تیئے اپنے باپ کو خوش کرنے کے جتن کرسکتیں تھیں"وہ معاف کردینے کے بعد بھی عام بیٹیوں کی طرح اُن سے لاڈ نہیں کرسکتیں تھیں اور نہ اُن کو وہ مقام دے سکتیں تھیں جو ہر بیٹی اپنے آپ کو دیا کرتی ہے۔"کیونکہ یہ سچ تھا اپنی زندگی کا ایک بہت اور اہم حصہ وہ گُزار چُکی تھیں وہ اپنے باپ کے سہارے بنا جینے کی عادی تھیں اب اُن کا ہونا اُن کے لیے سِوائے تکلیفوں کے کچھ بھی نہیں تھا۔۔"اب چاہے کچھ بھی ہوجاتا اُن کی زندگی میں سب کچھ نارمل نہیں ہوسکتا تھا یہ بہت مشکل کام تھا کچھ بھی آسان نہیں تھا اُن کے لیے تو بلکل بھی آسان نہیں تھا۔

اِتنا کافی ہے یا کچھ اور بھی سُننا ہے؟میشا نے طنز نظروں سے اسیر کو دیکھ کر پوچھا جس نے گہری سانس ہوا کے سُپرد کی تھی۔

"میں جانتا ہوں میں نے بہت غلط کیا پر میں اُس کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں۔۔۔نوریز ملک کمزور سی آواز میں بولے

"ازالہ ناممکن ہے۔۔۔سوہان نے سپاٹ تاثرات کے ساتھ کہا

"ہر گُناہ کی معافی ہوتی ہے۔۔۔نوریز ملک نے رنجیدگی سے کہا

"ہر گُناہ کی معافی خُدا کے پاس ہوتی ہے اُس کی خُدائی بڑی ہے ہم انسان ہیں"اور ہمارا ظرف اُن کے جیسا اعلیٰ نہیں ہوتا۔۔۔میشا نے بے تاثر لہجے میں کہا

"فاحا آپ کا چہرہ نہیں دیکھنا چاہتی آپ جائے یہاں سے۔۔۔فاحا ہانپتی ہوئی بولی ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ جانے کتنے لمبے سفر سے پیدل چل کر آئی ہو۔

آپ کا ازالہ ہمارا کل خوبصورت نہیں بناسکتا اور نہ ہمیں وہ خوشیاں دے سکتا ہے جن کے ہم حقدار تھے۔۔"میں اگر آپ کو معاف کر بھی دوں تو مجھے وہ اپنے ساتھ ہوئی زیادتیاں یاد آجاتی ہیں"مجھے وہ ہوس سے بھری نظریں اپنے وجود کے آر پار محسوس ہوتیں ہیں جو اِس لیے ہوتیں تھیں کیونکہ ہمارے ساتھ ہمارا باپ نہیں تھا"جو سایہ بن کر ہمارے ہر قدم پر کھڑا ہوتا۔۔"سوہان اپنی آنکھوں سے نکلتے گرم سیال کو بے دردی سے رگڑ کر اُن سے بولی تو نوریز ملک سِوائے خاموش رہنے کے کچھ اور نہیں کرپائے

"ہم آگے بڑھ گئے ہیں ہمیں کسی کی ضرورت نہیں ہے"اور یہ شریفوں کا مُحلہ ہے اچھا ہوگا جو آپ لوگ یہاں سے چلے جائے ہم نہیں چاہتے آپ لوگوں کی وجہ سے ہمارا یہاں رہنا مشکل میں پڑجائے۔۔۔میشا نے کہا تو نوریز ملک ششد سے اُس کو دیکھتے رہ گئے جس نے اِتنی بڑی بات بہت آسانی سے کردی تھی۔

"میں تمہارا باپ ہوں۔۔۔نوریز ملک کو اپنی آواز کھائی سے آتی محسوس ہوئی

"خود کو بار بار ہمارا باپ نہ کہے کیونکہ آپ کا یہ لفظ ہمارے اُن زخموں کو تازہ کررہا ہے جو ناسور بن گئے ہیں۔۔۔"خُدا نے باپ کا رُتبہ بڑا رکھا ہے افسوس کہ آپ نے اُس کو سہی سے جاناں نہیں"بیٹا بیٹا کرکے اپنی بیٹیوں کی زندگی کی تباہ و برباد کردیا ہے آپ نے۔۔۔"سوہان قدم قدم چلتی اُن کے روبرو آ کھڑی ہوئی تھی۔

"سوہان

جس سے آپ معافی کے طلبگار ہیں اُن کو آپ نے در در کی ٹُھکرے کھانے پر مجبور کیا"بیٹے کی خُواہش کرنا غلط نہیں ہے سہی ہے"مگر بیٹے کی طلب میں اندھا ہونا غلط ہے بیٹے کی چاہ آپ نے اِس قدر کی کہ یہ تک نہیں سوچا کہ ایک اکیلی عورت اپنی تین بیٹیوں کو لیکر کہاں جائے گی؟"آپ جانتے تھے ہماری ماں کا واحد سہارا تھے آپ۔۔۔سوہان نے اُن کو کچھ بھی بولنے کا اختیار نہیں دیا بلکہ سالوں اپنے اندر پڑا غُبار اُن کے سامنے کیا تھا۔۔۔

"جو بھی تھا ہماری ماں کو طلاق نہیں دینی چاہیے تھی اور نہ یوں ہم سے دستبردار"پر ہم ہوتے تو آپ دوسری تیسری شادی کیسے کرپاتے۔۔میشا نے زہر خند لہجے میں کہا

"میں تم لوگوں کو اِتنا پیار دوں گا کہ تم سب کچھ بھول جاؤ گی۔۔۔میشا کی بات کو نظرانداز کیے نوریز ملک نے یقین دِلوانا چاہا

"ہمیں آپ کے پیار کی ضرورت نہیں ہم بڑی ہوگئ ہیں"اور سب سے بڑی اور اہم بات اِس دُنیا میں اکیلے سروائیو کرنا سیکھ گئ ہیں۔۔۔میشا نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے اُن سے کہا

"آپ لوگ آخر جا کیوں نہیں رہے؟"جائے یہاں سے۔۔۔فاحا کو اُن کی موجودگی سے وحشت سی ہونے لگی تبھی اُن کو باہر نکلنے کا کہا

"آئے آپ۔۔۔اسیر نے سنجیدگی سے نوریز ملک کو مُخاطب کیا

"اپنے باپ کو ایک موقع دو۔۔۔نوریز ملک نے التجا کی

"ہمارے بس میں نہیں ہے۔۔۔سوہان نے عجیب لہجے میں کہا

"گاؤں چلو یقین کرو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔۔۔نوریز ملک اپنی طرف سے بھرپور کوشش کررہے تھے

"وہ گاؤں جہاں سے ہمیں نکالا گیا تھا"آپ نے تو تب ہمیں یوں خود سے دور کیا جیسے ہمارا آپ پر کوئی حق نہیں تھا۔۔۔سوہان اُداسی سے مسکراکر بولی

"حق ہی تو دینا چاہتا ہوں۔۔نوریز ملک فورن سے بولے

"اپنا حق ہم نے آپ پر معاف کیا اب آپ جائے۔۔۔فاحا نے سنجیدگی سے اِس بار اُن کو دیکھ کر کہا

"فاحا بیٹا تمہیں تو اپنے باپ کو معاف کردینا چاہیے۔۔نوریز ملک نے آس بھری نظروں سے اُس کو دیکھا

"جب چھوٹی ہوا کرتی تھی تو اکثر آپو سے آپ کے بارے میں پوچھا کرتی تھی"چُھپ چُھپ کر آپ کے لیے روتی بھی تھی اور جھگڑتی بھی تھی کہ آخر آپ نے ایسا کیوں کیا؟،"کیوں غیروں کی طرح ہمیں اکیلا چھوڑدیا پھر سوچتی تھی اکیلا رہنا ہے تو اکیلے رہنے کی عادت ڈالنی ہوگی"پہلے آپ سے ملنے کی خواہش ہوتی تھی جو آج پوری ہوئی ہے مگر وہ خواہش اندر موجود نہیں ہے"اگر آپ اپنے عمل پر واقعی شرمندہ ہیں تو خُدارا یہاں سے چلے جائے"فاحا آپ کے سامنے ہاتھ جوڑتی ہے آپ یہاں سے چلے جائے اور پھر کبھی واپس مت آئیے گا جیسے سالوں میں کبھی نہیں آئے۔۔۔فاحا نے باقاعدہ اُن کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہا تو نوریز ملک تڑپ اُٹھے تھے

"ایک

"کوئی فائدہ نہیں آپ بحث میں نہ پڑے اور ہمارے ساتھ چلیں۔۔۔وہ کچھ کہنے والے تھے جب اسیر نوریز ملک کے پاس آتا اُن سے بولا

"ایسا کیسے کرسکتی ہو آخر تم تینوں کیا تم میں سے کسی ایک کے اندر میرے لیے رحم نہیں"؟نوریز ملک کی حالت قابل رحم تھی۔

"بدقسمتی سے رگوں میں آپ کا خون ہے تو زرا سوچے رحم کیسے ہوگا؟میشا نے جیسے ایک آخری کیل ٹھوکی تھی اور نوریز ملک کو اپنا وہاں کھڑا رہنا اب مشکل لگنے لگا تھا تبھی اپنے پچھتاوے کا بوجھ لیکر وہ گیٹ کے باہر ہی کھڑے وہاں سے چلے گئے تھے۔۔"اُن کے جانے کے بعد فاحا بھاگنے والے انداز میں گھر کے اندر کی طرف بڑھی تھی جبکہ اسیر چل کر سوہان کے پاس آیا تھا۔۔

"تم حق پر ہو اور ہمیں پتا تھا تمہارا یہی ردعمل ہوگا"مگر سوہان کیا تمہیں نہیں لگتا اپنا کل بھول کر تم آج کو بہتر بنانے کا سوچو۔۔۔اسیر نے اُس کو دیکھ کر سنجیدگی سے کہا

"اپنا آج بہتر بنانے کا مطلب نوریز ملک کا ہاتھ تھامنا ہے تو ہمیں اپنے حال پر کوئی پچھتاوا نہیں ہم جیسے اور جہاں ہیں وہی بہتر ہیں۔۔۔سوہان اُس کی بات پر استہزائیہ مسکراہٹ سے بولی

"تم لوگوں کی تکلیفوں کا مداوا کوئی نہیں کرسکتا پر یہ بھی سوچو کہ آگے پہاڑ جتنی زندگی ہے اور اب مزید تم لوگ اکیلے زندگی نہیں گُزار سکتیں۔۔اسیر کا انداز اِس وقت پہلے کی نسبت ازحد مختلف تھا جس کو دیکھ کر میشا کو اُس پر یقین نہیں آیا مگر اُس نے اسیر کو مُخاطب کرنا ضروری نہیں سمجھا تھا جبھی اُس نے بھی اپنے قدم اندر کی طرف بڑھائے تھے

"مشکلاتوں کا سامنا اِتنا کیا ہے کہ اب کسی بھی چیز کا فرق نہیں پڑتا۔۔سوہان نے کسی ٹرانس کی کیفیت میں کہا

"ہم تمہارے بارے میں سب جانتے ہیں"ہمیں پتا ہے تم نے کم عمری میں کیا کچھ جھیلا ہے اور اپنی بہنوں کی محبت میں اپنا بچپن تک گنوایا ہے اور اب بھی اُن کے بارے میں سوچ رہی ہو تو مت سوچو آجاؤ جو چچا جان بول رہے ہیں وہ کردو"اُن کو معاف نہیں کرنا تو نہ کرو مگر حویلی آجاؤ کیونکہ وہاں رہنا تم لوگوں کا حق ہے"پہلے جو بھی مگر تمہیں اسلحان آنٹی کی طرح اپنے حق سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے۔۔اسیر نے گہرے لہجے میں اُس سے کہا

"جب ہم اُن کو باپ کا درجہ نہیں دینا چاہتے تو حق کیسا؟سوہان نے سپاٹ نظروں سے اُس کو دیکھ کر پوچھا

"خون کا ایک گہرا رشتہ تو ہے نہ جس کو کوئی جُھٹلا نہیں سکتا۔۔اسیر نے کہا تو سوہان خاموش ہوگئ تھی۔

"ہمیں اندازہ ہے فاحا کی پڑھائی رُکی ہوئی ہے کیونکہ اُس کے پاس فیس کے اِتنے پیسے نہیں ہے کہ وہ داخلہ لے سکے ہم مدد کرنا چاہتے ہیں"مگر ہمیں پتا ہے ہماری مدد تم نہیں لو گی اور چچا جان تو تمہارا باپ ہے اگر وہ کچھ کر سکتے ہیں تو اُج کو کرنے دو"اُس میں حرج نہیں ہے کوئی۔۔اسیر نے کہا تو اُس کی بات سن کر سوہان چونکتے ہوئے اُس کا وجیہہ چہرہ دیکھا جو ہمیشہ کی طرح ہر احساس سے پاک تھا

"میری فاحا کو داخلہ لینے کے لیے گاؤں والوں کی مدد کی ضرورت نہیں ہے اور تمہیں بھی میں ایک بات واضع کرلوں کہ اگر اُس کی پڑھائی رُکی ہوئی ہے تو اُس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہمارے پاس فیس کے پیسے نہیں الحمد اللہ ہمارے پاس سب کچھ ہے ہم جاب کرتیں ہیں ہمارا گُزارا بہت اچھے سے ہورہا ہے اب تم جاسکتے ہو کیونکہ مجھے تمہارا کوئی مشورہ نہیں چاہیے۔۔سوہان نے باہر کی طرف اِشارہ کرکے اُس کو جانے کا کہا

"ٹھیک ہیں ہم چلے جاتے ہیں لیکن ہماری باتوں پر غور ضرور کرنا۔۔اسیر سنجیدگی سے کہنے کے بعد وہاں سے چلاگیا

"اِن کو لگتا ہے یہ پیسوں سے پوری دُنیا فتح کرسکتے ہیں"مگر شاید یہ نہیں جانتے کہ ہم نے اپنا کل کس ازیت سے گُزارا ہے۔۔سوہاں خود سے کہتی تھکی ہوئی سانس خارج کرنے لگی۔"اُس کو خود کو پرسکون اور مضبوط کرنا تھا کیونکہ وہ جانتی تھی اندر میشا یا فاحا اُن دونوں کی حالت بہت خراب ہوگی۔

❤Rimsha Hussain Novels❤

آپ دُکھی کیوں ہیں؟گاڑی میں بیٹھ کر اسیر نے نوریز ملک سے پوچھا

"میری بیٹیوں نے مجھے اپنا باپ ماننے سے انکار کیا ہے اور کیا مجھے دُکھی بھی نہیں ہونا چاہیے؟نوریز ملک اپنی آنکھوں کے گوشو کو صاف کیے بولے

"یہاں آنے سے پہلے ہم نے آپ کو وارن کیا ہم نے کہا تھا اُن کی دہلیز پر موجود آپ کا پاؤں ایسے ہے جیسے تازے کچے زخموں پر نمک کا چھڑکاؤ کرنا۔۔۔اسیر نے سنجیدہ لہجے میں کہا

"جانے کیا ہوگیا تھا مجھے اور میں کیوں بھائی صاحب اور بھابھی کی باتوں میں آگیا۔۔۔نوریز ملک ندامت سے بولے

"اپنا کیا کسی اور پر نہ تھوپے کیونکہ تب آپ بابے بچے نہیں تھے بڑے تھے سمجھ بوجھ والے تھے"اور ایسے میں آپ کو اپنی عقل کا استعمال کرنا چاہیے"آج آپ کی وجہ سے ہمیں بھی شرمندگی اُٹھانی پڑی کیونکہ آج ہم آپ کے ساتھ کھڑے تھے جو ہماری غلطی تھی۔۔"بھلا ایک لفظ معافی بیس سالوں کا سفر کیسے معاف کرسکتا ہے۔۔۔اسیر نے سرجھٹک کر کہا تو نوریز ملک کو چُپ لگ گئ تھی

"میں کوشش کرتا رہوں گا اُن کو میرے ساتھ حویلی آنا ہوگا۔۔نوریز پُریقین لہجے میں کہنے لگے

"دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔۔۔اسیر ایک نظر اُن پر ڈال کر بولا

❤Rimsha Hussain Novels❤

ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟زوریز سوئمنگ پول کے پاس کھڑا کافی پی رہا تھا جب خود پر آریان کی نظروں کا ارتکاز محسوس کیے اُس نے پوچھا

"سوہان وجہ تھی جس کے لیے میرے وارڈروب کا بیڑا غرق کردیا تھا آپ نے صبح۔۔۔آریان شریر نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولا تو زوریز کی آنکھوں کے سامنے صبح والا واقعہ تازہ ہوا

مجھے تمہارے کپڑے چاہیے۔۔زوریز آریان کے کمرے میں آتا اُس کو دیکھ کر سنجیدگی سے گویا ہوا"جس پر آریان نے بے ساختہ اپنے ہاتھ لڑکیوں کی طرح سینے پر جمائے تھے

"آپ کو شرم نہیں آئے گی"چھوٹے بھائی کی عزت کو لوٹتے ہوئے؟آریان ڈرامائی انداز میں بولا تو زوریز کی پیشانی پر بل نمایاں ہوئے

"بکواس نہیں کرو مجھے بس تمہارا وارڈروب چیک کرنا ہے ایمرجنسی میں جانا ہے کہی اور یہی وجہ ہے کہ تمہارے کپڑوں کی سلیکشن کی ضرورت پڑگئ ہے۔۔۔زوریز آریان کو گھورتا اُس کے وارڈروب کی طرف بڑھ گیا

"اوکے مگر ایسی بھی کیا ایمرجنسی جو آپ کو مجھ غریب کے پاس آنا پڑا مطلب آپ کے اپنے کپڑے تو کمال دھمال ہوتے ہیں۔۔۔آریان کو زوریز کی بات کا مطلب سمجھ نہیں پایا

"تمہاری جینز پھٹی ہوئی کیوں ہے؟"اور یہ جیکٹ اِس کے کندھے عجیب سا دائرہ کیا ہے؟زوریز اُس کی بات کو نظرانداز کرتا اُس کے کپڑوں کو دیکھ کر استفسار ہوا جس پر آریان کا منہ بن گیا

"ڈونٹ بی آ سِلی بوائے برادر یہ پھٹی ہوئی جینز نہیں ہے بلکہ یہ آجکل کا فیکشن ہے پر آپ کو کیسے پتا کبھی اِن کوٹ پینٹ سے باہر آؤ تو پتا بھی ہو۔۔آریان نے خاصے طنز لہجے میں اُس کو دیکھ کر کہا

"واٹ ایور اِتنا مجھے بھی پتا ہے یہ آجکل کا فیکشن پُرانا ہوگیا ہے تو تم اپنے کپڑوں کی سلیکشن میں سُدھار لاؤ"پورا وارڈروب تمہارا بھرا پڑا ہے مگر کچھ خاص نہیں اِس میں۔۔زوریز سرجھٹک کر بولا

"اوو ہیلو سب خاص ہیں تمہیں پسند نہیں آئے کیونکہ تم ٹیسٹ لیس انسان ہو۔۔۔آریان نے منہ بناکر اُس کو دیکھ کر کہا

"اِس میں خاص کیا ہے؟زوریز نے جینز اُٹھاکر اُس کے سامنے کی

یہ۔۔۔آریان نے بھی جواباً گُھٹنوں سے پھٹی ہوئی جگہ پر اِشارہ کیا

"اِنسان کی ٹانگیں تو نُمایاں ہوگی"پھر کیا فائدہ ایسی ڈریسنگ کا۔۔۔زوریز نے تپ کر اُس کو دیکھا

"تصیح کرلے ٹانگیں نہیں محض پنڈلیوں کا حصہ اور تم کونسا لڑکی ہو جو گوری پنڈلیوں کو نُمایاں کرنے سے ڈر رہے ہو۔۔۔آریان اُس کے کندھوں پر بازو رکھتا بولا تو زوریز نے ایک ٹھوکا اُس کی کمر پر رسید کیا

"صرف بکواس کرسکتے ہو تم خیر میں اپنے لیے آرڈر کرلوں گا۔۔۔زوریز اُس کے کپڑے وارڈروب میں واپس رکھتا اُس سے بولا

"اگر یہی کرنا تھا تو میرے کپڑوں کا پوسٹ مارٹم کیوں کیا؟آریان تپ کر بولا

"کیونکہ مجھے لگا تھا ایسے وقت کا ضائع نہیں ہوگا مگر اب احساس ہورہا ہے کہ میں یہاں وقت کا ضائع کرنے آیا تھا۔۔۔زوریز طنز انداز میں بولا تو آریان کا مُنہ بن گیا۔

"کہاں کھوگئے ہو؟آریان نے اُس کے سامنے اپنا ہاتھ لہرایا تو زوریز ہوش میں آیا

"یہ کپ پکڑو مجھے کسی ضروری کام سے جانا ہے۔۔۔زوریز اُس کے ہاتھ میں کپ تھامتا بولا

"میری بات کا جواب نہیں دیا تم نے"اور کیا یہ ضروری کام سوہان ہے؟آریان اُس کے راستے میں حائل ہوتا بولا

"تمہیں اُس سے مطلب نہیں ہونا چاہیے اور سامنے سے ہٹو مجھے لیٹ ہورہا ہے۔۔۔زوریز نے اُس کو آنکھیں دیکھائی

"زوریز اگر تم اُس کو لائیک کرتے ہو تو بتا کیوں نہیں دیتے۔۔۔آریان نے کہا

"کیا بتادوں؟زوریز نے سنجیدگی سے پوچھا

"یہی کہ تمہیں وہ پسند ہے"اور سوہان سے بھی کہو کہ آئے لو یو۔۔۔آریان نے آرام سے کہا

"آئے لو یو کہوں اُس سے؟زوریز اُس کی آخری بات پر ایسے مُسکرایا جیسے کوئی جوک سُن لیا ہو اُس نے

"ہاں اِس میں مضحکہ ہے کیا ہے؟آریان نے پوچھا

"میرے اندر اُن کے لیے جو احساسات ہے"جو میں اُن کے لیے محسوس کرتا ہوں"اور جو اُن کے لیے میں اپنے اندر جذبات رکھتا ہوں اِن سب کے سامنے"آئے لو یو"جُملا بہت چھوٹا سا ہے۔۔زوریز نے کہا تو آریان خاصی عجیب نظروں سے اُس کو دیکھنے لگا

"جانتا ہوں مگر اِظہار کے لیے اِسی جُملے کا سہارا لینا پڑتا ہے۔۔آریان نے کہا

"مگر مجھے میری محبت کے اِظہار کے لیے اِس جُملے کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔زوریز نے بتایا

"تو کیا تم کبھی بھی اُس سے اِظہارِ محبت نہیں کروگے؟آریان کو حیرت ہوئی

"کروں گا ضرور کروں گا مگر سہی وقت آنے پر۔۔۔زوریز نے ہلکی مسکراہٹ سے کہا

"اور یہ سہی وقت کب آئے گا جب تمہارے بالوں میں چاندی آجائے گی؟"یا سوہان کے چہرے پر جھڑیاں۔۔۔آریان طنز کیے بنا نہ رہ پایا لیکن اُس کی بات پر زوریز نے آنکھیں چھوٹی کیے اُس کو گھورا

"ہاں جب ہم دونوں اسٹک کے سہارے چلنے لگے گے تب۔۔۔زوریز نے بھی طنز کا جواب طنز سے دیا

"ہاؤ فنی یار تم بھی فنی باتیں کرنے لگے ہو اپنی سالی عرف چھوٹی بھابھی کا اثر تم پر ایک دن میں ہوگیا ہے۔۔۔آریان اُن کے کندھے پر تھپکی دے کر بولا

"بکواس نہیں کرو اور سامنے سے ہٹ جاؤ۔۔۔زوریز نے اُس کو آنکھیں دیکھائی

"اپنے ساتھ ساتھ بلاوجہ مجھ پر ظُلم نہ کرو بلکہ میرے رشتے کی بات کرو۔۔۔آریان نے اِس بار سنجیدگی کا مُظاہرہ کیا

"پہلے لڑکی راضی کرو۔۔۔زوریز نے کہا

"وہ راضی ہے کیونکہ آپ کی طرح میں نے اپنی محبوبہ کو سسٹر ڈے پر پھول نہیں بھیجے تھے بلکہ اُس دن اُس سے ملا ہی نہیں تھا کیونکہ میں اُس کو اپنی بہن نہیں بنا سکتا تھا۔۔۔آریان نے کہا تو زوریز نے غُصے سے اِس بار اُس کو دیکھا

"وہ ایک مس انڈراسٹینڈنگ تھی دوسری بات سسٹرڈے برادر ڈے وغیرہ یہ سب نہیں ہوتا خوامخواہ کچھ لوگوں نے یہ چونچلا چھوڑا ہوا ہے۔۔۔زوریز نے جتاتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا

"جی جی آپ تو اب یہی کہینگے میں سمجھ سکتا ہوں آپ کی کنڈیشن کو۔۔۔آریان باز نہیں آیا

"مجھے دیر ہورہی ہے۔۔۔زوریز نے اُس کو اگنور کیا

"زوریز تمہیں سمجھ میں کیوں نہیں آرہا ایسے معاملات میں دیری نہیں کرجاتی تم نے اُن کے گھر میں نہیں دیکھا دو جوان مرد تھے۔۔آریان نے اُس کو کچھ سمجھانے کی کوشش کی

"میں نے دیکھا اب تم ہٹو۔۔۔زوریز نے اُس کی بات کا کوئی اثر نہیں لیا

"اب تم کو عقل تب آئے گی جب تمہاری نظروں کے سامنے کوئی اُس کو اپنے ساتھ لے جائے گا اور اپنا بنا لے گا۔۔آریان نے اُس کو جاتا دیکھا تو پیچھے سے ہانک لگائی

"میری حیات میں ایسا ممکن نہیں ہے تو تمہیں میری پرواہ کرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔زوریز نے جاتے ہوئے اُس کو جواب دیا اُس کے لہجے میں بلا کا اعتماد تھا

"ہاں ہاں یہ کبھی کبھار اوور کانفڈنس انسان کو لے ڈوبتا ہے۔۔۔آریان نے جل کر کہا تھا مگر اب اُس کی سننے والا کوئی نہیں تھا۔

❤Rimsha Hussain Novels❤

فاحا کہاں ہے؟سوہان کو فاحا کہی نظر نہیں آئی تو میشا سے پوچھا

"اپنے کمرے میں ہے اور دروازہ اندر سے لاک ہے"میں ویسے تو دروازہ کھول اور توڑ دونوں سکتیں ہوں مگر سوچا کیوں نہ اُس کو اکیلے رہنے دیا جائے۔۔۔میشا نے اُس کو جواب دیا

"میں باہر جارہی ہوں۔۔۔اگر وہ دروازہ کھولے تو کھانے کا پوچھ لینا اُس سے اور سمجھالینا۔۔۔سوہان نے کہا

"کاش وہ آج نہ آتے کتنے خوش تھے ہم کتنے چاہ سے فاحا نے آج کے دن کے بارے میں سوچا تھا مگر جو ہوگیا اُس سے تمہارے لیے گفٹ تک رہ گیا۔۔میشا نے افسوس سے کہا

"میرے لیے خُدا کی طرف سے تحفہ تم دونوں کی ذات ہے۔۔۔سوہان نے اُس کے ہاتھ پر اپنے ہاتھ کا دباؤ دے کر کہا

"جانتی ہوں وہ بھی جانتی ہے۔۔"پر ابھی اسٹریس میں ہے وہ اور تمہیں تو پتا ہے ہماری فاحا کا اسٹریس جلد ختم ہوجائے گا وہ زیادہ دیر کسی بھی بات کو سوچا نہیں کرتی۔۔۔میشا نے کہا تو سوہان مسکرائی

"جانتی ہوں مگر آج جو ہوا وہ اُس کے لیے گہرا صدمہ تھا ہم نے تو اپنے باپ کو جانا ہے مگر اُس نے آج پہلی بار اُن کو دیکھا ہے"ہم نے آٹھ سے پانچ سال اُن کے ساتھ گُزارے مگر فاحا وہ تو قدرے دور رہی ہے اُن کے لمس سے۔۔۔سوہان نے کہا

"وہ پاگل نہیں ہے اُس کو پتا ہے خود کو کیسے سنبھالنا ہے اور میں سوچ رہی ہوں"اب ہمیں یہ مُحلا چھوڑدینا چاہیے کسی اور جگہ شفٹ ہوجاتے ہیں۔۔"جہاں کسی ملک خاندان کا نام ونشان نہ ہو۔۔میشا نے کچھ سوچ کر کہا

"کب تک یہاں سے وہاں بھٹکے گے اِس بار نہیں میشو اِس بار ہم کہی نہیں جانے والے یہاں رہ کر اُن کا ڈٹ کر مُقابلہ کرینگے۔۔۔سوہان نے مضبوط لہجے میں اُس سے کہا جس پر میشا خاموش ہوگئ۔


"اب میں چلتی ہوں۔۔۔کچھ توقع بعد سوہان اپنی جگہ سے اُٹھ کر اُس سے بولی

"کس سے ملنے جارہی ہو"زوریز سے؟میشا نے پوچھا

"ہاں۔۔۔سوہان نے مختصر جواب دیا

"لیکن کیوں؟میشا نے اگلا سوال کیا

"ہوسکتا ہے اُن کو کوئی کام ہو یا کوئی ضروری بات کرنی ہو۔۔سوہان بنا اُس کو دیکھ کر بولی

"اُن کو کام ہوگا یا تمہیں ضرورت ہے اُن کی؟"کیونکہ پہلے تو تمہارا کوئی موڈ نہیں تھا اور اب اچانک سے تیار ہوتی جارہی ہو۔۔۔میشا نے کہا تو سوہان سے کوئی جواب نہیں بن پایا

"پتا ہے میشو بچپن سے تمہاری اور فاحا کی سُننے کے لیے میں ہوتی تھی"ہر وقت چاہے جو بھی بات کرنی ہو اپنے جذبات عیاں کرنے ہو یا کچھ اور تم دونوں میرے پاس آتی تھیں"جب ہمت چاہیے ہوتی تھی تم لوگوں کو میں نظر آتی تھی ہم ایک دوسرے کی طاقت اور کمزوری ہیں پر میشو انٹرسٹنگ بات پتا ہے کیا؟سوہان واپس اُس کے ساتھ بیٹھ کر اپنے آنسوؤ کو دھکیل کر اُس سے بولی

"کیا؟میشا نے غور سے اُس کو دیکھ کر پوچھا

"مجھے جب کوئی تکلیف ہوتی تو میں تم دونوں کو بتا نہیں پاتی تھی کیونکہ میں تم دونوں سے بڑی تھی اور اگر زندگی کے کسی موڑ پر اگر میں تم دونوں کے آگے کمزور بن جاتی تو اُس کا اثر تم دونوں پر پڑتا"امی کو ہماری باتیں سُننے کا وقت نہیں ہوتا پھر ایک دن زوریز میری زندگی میں آیا۔۔۔کہتے کہتے سوہان اچانک چُپ ہوگئ لیکن میشا اب سانس روکے اُس کو سُن رہی تھی

"زوریز؟میشا نے اُس کو بولنے پر اُکسایا

"ہاں زوریز کہنے کو وہ میرا کچھ نہیں ہے مگر اُس نے میرا بہت ساتھ دیا ہے اور میں اپنی ہر بات اُس کے پوچھے بغیر بتادیتی ہوں جانے کیسی مقناطیسی کشش یا کچھ اور مجھے پتا نہیں پر میرا دل ہلکا ہوجاتا ہے اُس کے سامنے بات کرنے سے۔۔"کیونکہ زندگی میں سُننے والے بہت ملتے ہیں"لیکن سن کر سمجھنے والے بہت کم ہوتے ہیں وہ میری باتیں غور سے سُنتا ہے تبھی میں بس بولتی جاتی ہو۔۔۔سوہان نے کہہ کر خاموشی اختیار کی تو میشا نے آگے بڑھ کر اُس کو اپنے گلے لگایا تھا

"تمہاری نیچر ایسی ہے سوہان سب کچھ اپنے اندر دبا کر رکھنے کی ورنہ ہم تو بہت کوشش کرتے ہیں کہ تم ہماری طرح بنو مگر تم بس سائلنٹ موڈ پر رہتی ہوں لیکن خیر جان کر خوشی ہوئی ہے اِس شہر میں کوئی ہے جس کے سامنے تم اپنا آپ عیاں کرتی ہو۔۔۔میشا اُس کا ماتھا چوم کر بولی

"ہممم مگر تمہیں اب زیادہ ایموشنل بننے کی ضرورت نہیں ہے اور مجھے چھوڑو جانا بھی ہے۔۔سوہان اُس سے الگ ہوتی بولی

"جاؤ بہن جاؤ بیچارا انتظار میں سوکھ کر کانٹا ہوگیا ہوگا میں بھی زرا اُس فاحا کو دیکھوں اور یاد دلاؤ کہ جس کمرے میں اکیلے بُراجمان ہوئی ہے وہاں میرا حصہ بھی نکلتا ہے۔۔میشا بھی اُٹھ کر بولی تو سوہان مسکراتی اپنا پرس اُٹھائے وہاں سے چلتی گئ۔۔۔"میشا بھی جب کمرے کے دروازے کے پاس آئی تو وہ اُس کو اب کُھلا ہوا نظر آیا جس کو دیکھ کر اُس نے سکون بھرا سانس خارج کیا اور اندر داخل ہوئی جہاں بیڈ پر فاحا رو رو کر شاید سوگئ تھی اُس کے گالوں پر آنسوؤ کے مٹے مٹے نشانات دیکھ کر اُس نے لب بھینچ کر اُس کو دیکھا پھر چل کر اُس کے سرہانے آکر بیٹھتی اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگی تو نظر فاحا کے سینے پر پڑے ہاتھوں میں گئیں جہاں ڈائری دبی ہوئی تھی یہ دیکھ کر میشا کے دماغ میں کچھ کلک ہوا اور کچھ سوچ کر احتیاط سے اُس نے فاحا کے ہاتھوں سے وہ ڈائری لی اور جیسے ہی اُس نے ڈائری کا پہلا ورق کھولا تھا سامنے والی سطح پر لکھے الفاظوں کو دیکھ کر اُس کی آنکھوں میں نفرت بھرا تاثر نمایاں ہوا تھا اور اُس نے کھڑچنے والے انداز میں اُن الفاظوں پر انگلیاں پھیری جس میں لکھا تھا۔

Life is dark without father.

❤❤❤❤❤❤❤

یہ کیا ہے فاحا؟ڈائری بند کرکے میشا نے سنجیدگی سے فاحا کو آواز دی"جو شاید اب تک گہری نیند میں جاچُکی تھی۔

"پوری کرلوں نیند پھر تم سے پوچھتی ہوں۔۔۔میشا ڈائری کو خود سے دور پھینکتی آہستہ آواز میں بڑبڑائی

❤❤❤❤❤

"تمہاری جتنی عمر کی لڑکیوں نے پورا گھر سنبھالا ہوا ہے"ایک تم ہو جس کو بھائی نے یونی میں پڑھنے کے لیے چھوڑا ہوا ہے۔۔لالی ہال میں بیٹھی کتاب پڑھنے میں مصروف تھی جب فائقہ بیگم کڑے تیوروں سے اُس کو دیکھ کر بولی تو لالی نے گڑبڑا کر اپنی کتابوں کو بند کیا

"آپ کو کچھ چاہیے تھا کیا؟لالی نے سنبھل کر پوچھا

"ہاں زہر لاکر دو تاکہ وہ میں پی کر اُبدی نیند سوجاؤں ہمیشہ کے لیے۔۔۔فائقہ بیگم گویا پھٹ پڑی

"کیا ہوگیا ہے اماں ایسی باتیں کیوں کررہی ہیں؟"اللہ آپ کو لمبی زندگی دے۔۔۔لالی کو سمجھ نہیں آیا کہ آخر وہ کیوں گرم تندور پر بیٹھیں ہیں

"سُنو لالی اپنی پڑھائی کا چونچلا ختم کرو تاکہ میں برادری میں تمہارے رشتے کی بات آگے چلاؤں ابھی تو جیسے سب کو پتا لگ رہا ہے کہ مہارانی یونیورسٹی جاتی ہے تو اُن کے ہاتھ منہ پر پڑجاتے ہیں۔۔۔فائقہ بیگم نے دو ٹوک انداز اپنایا

"اماں کیا ہوگیا ہے میں پڑھنا چاہتی ہوں اور ابھی میرے دو سمسٹرز ہی کمپلیٹ ہوئے ہیں کہ آپ نے دوبارہ سے پُرانی باتیں لیکر بیٹھ گئ ہیں اگر مجھے پتا ہوتا تو میں کبھی بھائی کے ساتھ یہاں نہ آتی۔۔۔لالی نے کہا تو فائقہ بیگم کا جیسے دماغ گھوم گیا تھا

"واہ جی واہ شہر جاکر تیرے بھی منہ سے آواز نکلنے لگی ہے۔۔۔اُس کے گرد چکر کاٹتی فائقہ بیگم نے طنز انداز میں اُس سے کہا

"ایسی تو کوئی بات نہیں۔۔۔لالی نے جزبز ہوکر کہا

"شہر کا ماحول ہوتا ہی ایسا ہے اور اسیر آئے تو میں اُس سے کہتی ہوں کہ تمہارا کچھ کریں کیونکہ اب میں مزید برداشت نہیں کروں گی تمہارا وہاں شہر رہنا تیرے باپ کو بھی یہ بات پسند نہیں۔۔فائقہ بیگم حتمی انداز میں بولی تو لالی کا سر نفی میں ہلا

"بھائی نے بابا سے بات کی تھی اور جہاں آپ نے اِتنا برداشت کیا ہے وہاں تھوڑا اور کرلیں"جب تک میری پڑھائی پوری نہیں ہوتی۔۔لالی نے ملتجی لہجے میں اُن سے کہا

"میری بات پکی ہے اسیر آئے گا تو میں اُس سے کہوں گی۔۔۔فائقہ بیگم نے اُس کی ایک بھی نہ سُنی جبھی مُلازمہ وہاں آئی

"بیگم صاحبہ آپ کو بڑے صاحب بلا رہے ہیں۔ ۔اُس نے فائقہ بیگم کو دیکھ کر بتایا

"جاؤ تم میں جاتی ہوں اُن کے پاس۔۔۔لالی پر ایک اچٹنی نظر ڈالے اُس سے بولی

"اماں

بس

لالی نے کچھ کہنا چاہا جب فائقہ بیگم نے ہاتھ کے اِشارے سے اُس کو کچھ بھی بولنے سے باز رکھا تو وہ بیچاری اپنا سرجُھکانے پر مجبور ہوگئ"اُس کو اپنا یہاں آنا سراسر بیوقوفی لگا تھا بھلا اُس نے کیسے سوچ لیا کہ اِس حویلی میں اُس کی غیرموجودگی میں اُس کی ماں اُس کو یاد کرسکتی ہے۔۔"وہ تو بس اُس کی شادی کرواکر حویلی سے نکالنا چاہتی ہیں۔۔۔


"آپ نے یاد کیا؟فائقہ بیگم کمرے میں آتی سجاد ملک سے بولی

"تمہیں پتا ہے نوریز کہاں گیا ہے؟سجاد ملک نے سنجیدگی سے پوچھا

اسیر کے ساتھ شہر اپنے کسی کام سے جارہا ہے"صنم کو تو یہی بتا کر گیا تھا البتہ اسمارہ سے اُس کی بول چال بند ہے۔۔فائقہ بیگم نے اپنی معلومات مطابق اُن کو جواب دیا

ضروری کام اپنی بیٹیوں کو واپس یہاں لانا ہے۔۔۔سجاد ملک نے غُصیلے لہجے میں بتایا تو فائقہ بیگم کا ہاتھ اپنے منہ پر پڑا تھا

"کیا؟فائقہ بیگم قریباً چیخ اُٹھی

"ہاں مجھے اپنے آدمیوں سے پتا چلا اور یہ سب تمہارے لاڈلے سپوت کی وجہ سے ہوا ہے اُس نے اُن لڑکیوں کی ساری انفارمیشن نوریز کو دی ہے اور آج وہاں لیکر بھی وہ گیا تھا۔۔سجاد ملک کو اسیر پر بھی انتہا کا غُصہ تھا

"اسیر کا اِس میں کیا کام؟"اور وہ کب سے اپنی ذات سے نکل کر دوسروں کی ذات کے بارے میں سوچنے لگا"اور یہ آجکل اسیر کو آئے گئے کی مدد کرنے کا بُخار بھی بہت چڑھا ہے۔۔۔فائقہ بیگم تپ کر بولیں

"ہمیں اسیر کو سنبھالنا ہے وقت رہ کر اُس سے پہلے وہ مزید ہم سے دور ہوجائے۔۔۔سجاد ملک کسی نتیجے پر پہنچ کر بولے

"اسیر کی فکر نہ کریں آپ وہ سمجھ بوجھ والا ہے آپ بس یہ سوچے کہ نوریز کو باز کیسے رکھا جائے اگر وہ تین منحوس لڑکیاں اپنے قدم یہاں جمائے گیں تو ہمارا کیا ہوگا؟"یہ شہری لڑکیاں تو ہوتیں بھی بہت چالباز ہیں۔۔۔فائقہ بیگم کا پریشانی سے بُرا حال ہوگیا

"تمہیں پریشان ہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔۔سجاد ملک کے چہرے پر شاطرانہ مسکراہٹ آئی

"آپ نے اِتنی بڑی بات مجھے بتادی ہے اور اب کہہ رہے ہیں میں پریشان نہ ہوں؟فائقہ بیگم نے عجیب نظروں سے اُن کو دیکھا

"میں نے جو کرنے کا سوچا ہے اگر وہ پائے تکمیل تک پہنچ گیا تو یہاں بس اُن تینوں کی لاشیں آئے گی جن کی تذفین یہاں کرکے نوریز اپنے آخری فرض سے سبکدوش ہوجائے گا۔۔۔سجاد ملک مکروہ لہجے میں بولے

"کیا واقعی ایسا ممکن ہے؟فائقہ بیگم کو تھوڑی دھاڑس ملی

"ہاں اِس بار پکا کام ہوگا۔۔سجاد ملک نے کہا

"اگر ایسا ہے تو نوریز کے شہر جانے سے آپ غُصہ کیوں ہوئے؟کسی خیال کے تحت فائقہ بیگم نے اُن سے پوچھا

"میں بس تمہیں یہ بتانا چاہ رہا ہوں کہ اب نوریز سے اپنا رویہ نارمل رکھنا جیسے اُس کی بیٹیوں سے تمہیں کوئی مسئلہ نہیں"میں نہیں چاہتا وہ ہم سے بدزن ہوجائے۔۔۔سجاد ملک نے گہری سانس لیکر کہا

"اُس کی آپ فکر نہ کرو میں نوریز کو اچھے سے جانتی ہوں اُس کو اپنی باتوں میں لانا کوئی مشکل عمل نہیں۔۔فائقہ بیگم شیطانی مسکراہٹ سے بولیں تو اُن کی بات دروازے کے پاس کھڑی سُنتی اسمارہ بیگم بھی طنز مسکرائی تھی

"جو کرنا ہے کرلوں میں بھی اسمارہ ہوں جس نے سوچ لیا ہے کہ تم دونوں کی دُکھتی رگ کو کیسے دبانا ہے"اب تم لوگوں کو پتا لگے کا کہ دوسروں کی اولاد کو جب تکلیف دیتے ہیں تو اپنی اولاد پر جب بات آتی ہے تو کیسا محسوس ہوتا ہے۔۔۔اسمارہ بیگم طنز انداز میں بڑبڑاتی وہاں سے ہٹ گئیں۔۔۔

"اب نوریز اور اسیر کو سائیڈ پر کرکے میری ایک بات سُنے آپ۔۔۔فائقہ بیگم نے کہا

"کہو کونسی بات؟سجاد ملک نے پوچھا

"لالی کا یونیورسٹی جانا بند کروائے آپ اب بہت اچھا رشتہ آیا ہے اُس کا مگر ڈیمانڈ یہ ہے کہ اُن کو اِتنی پڑھی لکھی بہو نہیں چاہیے"وہ چاہتے ہیں کہ لڑکی گھر سنبھالنا جانتی ہو ناکہ بس لکھنے پڑھنے کی شوقین ہو اُن کو اپنے گھر کا حساب کتاب نہیں کروانا بہو سے۔۔۔فائقہ بیگم نے اپنی بات اُن کے سامنے رکھی

"کس کا رشتہ آیا ہے اور تم نے یہ بات پہلے کیوں نہیں بتائی مجھے؟سجاد ملک نے پوچھا

"بہت اچھا رشتہ ہے دوسرے گاؤں سے آیا ہے ہماری برابری کے لوگ ہیں"پہلے نہیں بتایا کیونکہ کوئی مُناسب موقع نہیں ملا تھا۔۔فائقہ بیگم نے خوشی خوشی بتایا

"لالی کے اختیارات اسیر نے مجھ سے لیکر اپنے پاس رکھ لیے ہیں"وہ آئے تو میں اُس سے بات کرتا ہوں۔۔۔سجاد ملک کچھ سوچ کر بولے

"ماں باپ ہم ہیں لالی کہ اور اسیر کو بھی وہ سب کرنا ہوگا جو میں اور آپ چاہتے ہیں۔۔۔۔فائقہ بیگم جلدی سے بولیں

"جانتا ہوں مگر جب سے ہم نے اُس کی شادی اُس کی مرضی کے خلاف کروائی تھی تب سے وہ ہم سے دور اور خودسر کے ساتھ ساتھ باغی بھی ہوتا گیا ہے ہماری کوئی بھی بات ماننا جیسے وہ خود پر گُناہ سمجھتا ہے۔۔۔سجاد ملک نے جواباً کہا

"اُس کا دماغ خراب ہوگیا ہے ہم ماں باپ ہیں اُس کے کوئی دُشمن نہیں اگر شادی کروادی تو اِس میں کوئی بڑا گُناہ نہیں ہوا ویسے بھی اِتنا بھی چھوٹا نہیں تھا اسیر جو اب تک اُس بات کو دل سے لگائے بیٹھا ہے۔۔فائقہ بیگم نخوت سے سرجھٹک کر بولی

"بیس سال کا تھا وہ۔۔۔سجاد ملک نے کہا

"ہاں تو اِس میں کیا ہے جب ہماری شادی ہوئی تھی تو آپ اُٹھارہ اور میں پندرہ کی تھیں ہمارے خاندان کا یہی رواج چلتا ہوا آیا مگر کیا ہوسکتا ہے اگر نئ نسل کا دماغ خراب ہوتا جارہا ہے دن بدن۔۔۔فائقہ بیگم سرجھٹک کر بولیں تو سجاد ملک نے اِس بار مزید کوئی اور بات نہیں کی۔

❤Rimsha Hussain Novels❤

شکریہ میری بات کا مان رکھنے کے لیے۔۔۔زوریز جو سوہان کا انتظار کررہا تھا اُس کو آتا دیکھا تو گہری مسکراہٹ سے بولا

"ہمم۔۔سوہان نے جواباً محض ہنکارا بھرا

"گھبرائی ہوئی لگ رہیں ہیں از ایوری تھنگ اوکے؟زوریز نے سوہان کو بار بار پیچھے کی طرف دیکھتا پایا تو سوال کیا

"مجھے ایسا لگا جیسے گھر سے نکلنے سے لیکر اب تک کوئی مجھے فالو کررہا ہے۔۔سوہان نے ہچکچاہٹ سے اُس کو بتایا مگر اُس کی اِتنی بات پر زوریز کے تاثرات یکدم تن سے گئے تھے

"گاڑی وغیرہ کا نمبر نوٹ کیا آپ نے؟"اور اگر آپ کو ایسا لگا بھی تو مجھے کیوں نہیں بتایا آپ کی فون میں اپنا نمبر سجانے کے لیے نہیں دیا ہوا۔۔۔زوریز کا لہجہ سخت سے سخت ہوتا گیا تھا اور سب سے سنجیدہ انداز میں بات کرنے والی سوہان اُس کے ایسے لہجے پر اپنا سرجُھکا گئ تھی جیسے جانے کتنا بڑا جُرم ہوگیا ہو اُس سے۔


محبت روٹھ جاۓ تو ......اسے بانہوں میں لے لینا

بہت ہی پاس کر کے تم ۔۔۔۔۔۔۔ اسے جانے نہیں دینا

وہ دامن چھڑاۓ تو ۔۔۔۔۔۔۔ اسے قسم دے دینا

دلوں کے معاملوں میں تو ۔۔۔۔۔۔ خطائیں ہو جاتی ہیں

تم ان خطاؤں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ بہانہ مت بنا لینا

محبت روٹھ جاۓ تو ۔۔۔۔۔۔۔ اسے جلدی مانا لینا


"اب چُپ کیوں ہیں جواب دے مجھے۔۔زوریز نے اُس کو کچھ بولتا نہیں دیکھا تو دوبارہ سے سخت لہجے میں مُخاطب ہوا

"میں نے بس آپ کو ایک بات بتائی اور یہ میرا وہم بھی ہوسکتا ہے ازیکلی میں کچھ نہیں کہہ سکتی آپ خوامخواہ اِتنا غُصہ ہورہے ہیں۔۔۔سوہان نے وضاحت دیتے ہوئے کہا

"یہاں بیٹھے آپ۔۔۔زوریز نے بازو سے پکڑ کر اُس کو چیئر پر بیٹھایا اور خود گُھٹنوں کے بل اُس کے پاس آکر بیٹھا

"ایسا وہم پہلے کبھی محسوس ہوا ہے؟زوریز نے سنجیدگی سے پوچھا

"نہیں۔۔۔سوہان نے اپنا سر نفی میں ہلایا

"آپ کے لیے سیکیوریٹی کا بندوبست میں کردوں گا ابھی ہم کوئی اور بات کرتے ہیں۔۔۔زوریز ایک فیصلے پر پہنچ کر بولا تو سوہان نظریں اُٹھائے حیرت سے اُس کو دیکھنے لگی

"کیا؟زوریز کو اُس کا ایسے دیکھنا سمجھ نہیں آیا

"سیکیوریٹی سیریسلی؟سوہان نے سرجھٹکا

"اِن چیزوں کا اِتنا لائٹلی نہیں لیا جاتا اور آپ کی جان پر میں کوئی رسک نہیں لے سکتا۔۔۔زوریز اُٹھ کر اٹل انداز میں گویا ہوا

"رسک کیوں نہیں لے سکتے،؟سوہان نے بے ساختہ پوچھا تو زوریز کو چُپ لگ گئ تھی۔

"کوئی جواب نہیں کیا آپ کے پاس؟سوہان اُس کے جواب نہ دینے پر بولی

"جواب ہے۔۔زوریز اُس کو دیکھ کر بولا

"پھر دے کیوں نہیں لے سکتے رسک۔۔سوہان نے کہا

"کیونکہ آپ میری وکیل ہیں اور اگر آپ کو کچھ ہوا تو میرا کیس کون لڑے گا؟"آپ کے بعد تو وہ تو لٹک جائے گا۔۔۔زوریز اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر کر بولا تو سوہان اُس کو دیکھتی رہ گئ۔۔۔

"شہر میں وکیلوں کا کال نہیں آگیا۔۔سوہان نے طنز کہا

"آپ نے ٹیبل کی ارینجمنٹس نہیں دیکھیں۔۔سوہان کی بات کو اگنور کرکے زوریز نے اُس کا دھیان ٹیبل کی طرف کروایا تو سوہان نے چونکتے ہوئے اب اُس پر غور کیا

"جہاں شیشے والی ٹیبل پر پھولوں کے درمیان خوبصورتی سے کیک کو سجایا تھا جہاں ہیپی برٹھ ڈے سوہان بھی لکھا ہوا تھا

"آپ نے اِس لیے آنے کا کہا تھا؟سوہان کو یقین نہیں آیا

"ہاں اِس میں کیا کچھ غلط ہے؟"میں اگر آپ کے گھر میں نہ آتا تو یہی سیلیبریٹ کرتا۔۔۔زوریز نے عام لہجے میں کہا

"اِس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔۔۔سوہان کو عجیب لگا

"مجھے لگا آپ خوش ہوگیں۔۔۔زوریز اُس کے چہرے پر کوئی بھی تاثر نہ پاکر بولا

"میں عام لڑکیوں کی طرح اِن چیزوں پر خوش نہیں ہوتی۔۔۔"اِس لیے آپ مجھے اُن جیسا نہ سمجھے ویسے بھی ہم کوئی ٹین ایجر نہیں ہیں۔۔سوہان نے سنجیدگی سے کہا

"خوشیوں کے لمحات کو محسوس کرنا کیا بس ٹین ایجر کا کام ہوتا ہے؟"میچیور لوگوں کا اُس پر کوئی حق نہیں ہوتا؟زوریز نے پوچھا تو سوہان سے کوئی جواب نہیں بن پایا

"آپ کو میں عام نہیں سمجھتا میں جانتا ہوں آپ عام نہیں خاص ہیں آپ میرے لیے ایک قیمتی موتی ہے۔۔"اُس کو خاموش دیکھ کر زوریز اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیکر بولا

"کیک کٹ کردے پھر مجھے جانا ہے۔۔۔"وقت بہت ہوگیا ہے۔۔سوہان نے اُس کی توجہ دوسری جانب مبذول کروانی چاہی

"ابھی تو آپ آئیں ہیں اور ابھی سے جانے کی بات کررہی ہیں۔۔۔زوریز مدہم سا مسکرایا

"مجھے گھر جلدی جانا ہے بس۔۔۔سوہان نے کہا

"کچھ ہوا ہے؟زوریز نے جانچتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر پوچھا"وہ اِس وقت پہلے کی نسبت کافی اُلجھی ہوئی اور پریشان سی لگی وگرنہ جب وہ اُن کے گھر تھا تب ایسی کوئی بھی بات اُس نے محسوس نہیں کی تھی۔

"اگر کہوں ہاں تو پھر؟سوہان نے اُلٹا اُس سے سوال کیا

"تو پھر میں کہوں گا شیئر کریں کیا بات ہے؟زوریز نے آرام سے کہا

"میرے والد آئے تھے ہمارے گھر کی چوکھٹ پر معافی مانگنے۔۔۔اپنے ہاتھوں پر نظریں جمائے سوہان نے بتایا

"پھر؟زوریز نے اپنا ہاتھ ٹھوری پر رکھے اگلا سوال کیا

"پھر نہ میں نے اُن کو چوکھٹ پار کرنے دی اور نہ معاف کیا۔۔۔سوہان نے بتایا

"اچھا کیا۔۔زوریز سمجھنے والے انداز میں سر کو جنبش دے کر بولا

"کیا واقعی میں؟

"ہاں کیوں کیا آپ کو اپنے عمل پر کوئی پچھتاوا ہے؟زوریز نے اُس کے پوچھنے پر سوال کیا

"بلکل بھی نہیں بیس سال پہلے اُنہوں نے بھی تو یہی کیا تھا ہمارے ساتھ۔۔۔سوہان سرجھٹک کر بولی

"ہاں تو سہی ہے اُن کو اچھے سے ہونے دے اپنی غلطی کا احساس اُن کو پتا ہونا چاہیے"بعض دفع جذبات میں اندھے ہوکر فیصلے کرنے سے دوسروں کا کتنا نقصان ہوتا ہے"اُن کو کتنا سفر کرنا پڑتا ہے۔۔"یوں اچانک آکر معافی مانگ کر وہ کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں"ویسے مجھے ایک لحاظ سے حیرت ہوئی ہے کہ بیس سال بعد اُن کو غلطی کا احساس ہوا ہے اور وہ معافی مانگنے تک چلے آئے مگر تب جب اُن کے بیٹے کو سزائے موت ہوئی ہے"جب اُن کا اپنا دامن خالی ہوگیا ہے تو اُن کو یاد آیا ہے کہ اُن کی بیٹیاں بھی ہیں اِس دُنیا میں۔۔۔زوریز نے اُس کی حالت کے پیش رفت کہا"اُس کو نوریز ملک جیسے لوگوں پر حیرانی ہوتی تھی کہ دُنیا میں کیسے کیسے لوگ پائے جاتے ہیں

"اگر کورٹ میں اتفاقی ہماری مُلاقات نہ ہوئی ہوتی تو وہ اب بھی نہ آتے۔۔۔سوہان استہزائیہ مسکراہٹ سے بولی

"آپ اگر موو آن کرچُکی ہیں اور یہ بھی سوچ لیا ہے اُن کے ساتھ نہیں جانا تو پھر یہ اُداسی کیسی؟"کیا آپ اپنے فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں؟زوریز کو سمجھ نہیں آیا تبھی پوچھ لیا

"اُداسی اِس بات پر ہے کہ کیا کوئی باپ اِتنا سنگدل بھی ہوسکتا ہے۔۔"بیٹیاں اُن کے لیے اِتنی حقیر کیوں ہیں؟"آخر اُن کو ہم پر کبھی رحم کیوں نہیں آیا۔۔۔سوہان نے بنا اُس کو دیکھ کر کہا

"قرآن میں بتایا گیا ہے بیٹیاں رحمت ہوتیں ہیں اور جو اُن کو حقیر سمجھتے ہیں اُن کا وہی حال ہوتا ہے جیسا آپ کے والد کے ساتھ ہورہا ہے"اب اُن کے پاس کچھ بھی نہیں ہے نہ بیٹا اور نہ بیٹیاں اولاد ہونے کے باوجود وہ بے اولاد ہیں دُنیا کی ہر آسائش ہونے کے بعد بھی وہ بے سکون ہیں اور سکون جانے کب اُن کو میسر ہو۔۔۔سوہان کے ہاتھوں کو دوبارہ سے اپنی گرفت میں لیکر زوریز اُس کے ہاتھ پر اپنے ہاتھ کا دباؤ دے کر بولا

"اب کوئی اور بات کریں؟سوہان اپنا ہاتھ اُس کے ہاتھ کے نیچے سے نکال کر آہستگی سے بولی

"شیور۔۔۔اپنے خالی ہاتھوں کو دیکھ کر زوریز اُس کی بات پر سر کو خم دے کر بولتا اُس کی طرف نائیف بڑھائی

ایسا لگ رہا ہے آج جیسے میں چھوٹی سی بچی ہوں۔سوہان کا ایک بار پھر منہ بن گیا تھا

"اٹھائیس سال کے ہونے کے بعد اگر کوئی لڑکی شادی نہ کریں تو اِس بات کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ وہ خود کو بچی سمجھتی ہے ابھی تک۔۔۔زوریز اُس کی کے جواب میں بولا

"آپ ہر چیز میں عمر کو کیوں گھسیٹتے ہیں۔۔۔؟سوہان کو اُس کی یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی۔

"اِس میں کچھ غلط ہے کیا؟زوریز نے اُلٹا اُس سے سوال داغا

"کیا آپ نے مجھے میری بڑھتی ہوئی عمر کا احساس کروانے کے لیے یہاں اِنوائٹ کیا تھا؟سوہان نے سنجیدگی سے سوال کیا

"نہیں میں نے تو آپ کا آج کا دن خوبصورت بنانے کے لیے یہاں انوائٹ کیا ہے۔۔۔زوریز نے بتایا

"ٹھیک ہے پھر اب کیک کٹ کردینا چاہیے۔۔۔سوہان نے کہا

"ضرور۔۔۔زوریز نے مثبت جواب دیا تو سوہان نے کیک کاٹ کر تھوڑی ہچکچاہٹ سے کیک کا پیس زوریز کی طرف بڑھایا تھا جو مسکراہٹ دبائے زوریز نے اُس کے ہاتھ سے لیکر کھایا تھا۔"پھر اُس کو بھی کِھلایا جو خلاف توقع اِس بار سوہان نے کوئی بحث کیے بنا کھالیا تھا۔

"مجھے میری ضروری میٹنگ کے سلسلے میں پاکستان سے باہر جانا پڑے گا۔۔زوریز نے کچھ توقع بعد اُس کو بتایا

"آپ کے اُپر کیس ہے اِس درمیان آپ شہر سے باہر بھی نہیں جاسکتے مُلک سے باہر جانا تو بہت دور کی بات ہے اور پڑسو آپ کے کیس کی ہیئرنگ ہے آپ کو اپنا فوکس اُس پر کرنا چاہیے۔۔۔۔سوہان نے سنجیدگی سے کہا

"مگر میٹنگ بہت ضروری ہے اور اگر میں نہ گیا تو میرا نقصان ہوسکتا ہے۔۔زوریز نے اپنا مسئلہ بیان کیا

"کیس سے ضروری نہیں ہوگا۔۔۔سوہان نے جتایا

"کیس تو بیٹھے بیٹھائے میرے گلے کا ہار بن گیا ہے"جو کو چاہتے ہوئے بھی اُتار نہیں سکتا۔۔زوریز سرجھٹک کر بولا

"کچھ وقت کی بات ہے تب تک آپ اپنی ایسی آفیشل میٹنگز کو ڈیلے کریں یا پھر وہاں آریان کو بھیجے وہ بھی تو آپ کا بھائی ہے وہ سنبھال لے گا سب کچھ۔۔۔سوہان نے مشورہ دیتے کہا

"ٹھیک ہے۔۔۔زوریز نیم رضامند ہوا

"اب مجھے چلنا چاہیے۔۔۔سوہان نے ہاتھ میں پہنی گھڑی میں وقت دیکھ کر کہا

"میں آپ کو ڈراپ کردوں گا ڈنر کے بعد۔۔۔زوریز نے اپنا فیصلہ سُنایا اُس کو

"ڈنر؟سوہان نے آنکھیں چھوٹی کیے اُس کو گھورا

"جی ڈنر وہ بھی آپ کی پسند کا۔۔زوریز نے بتایا

"ناشتہ لنچ"ڈنر یہ تینوں چیزیں میں اپنی بہنوں کے ساتھ کرتیں ہوں"مطلب ہم تینوں ایک ساتھ کرتیں ہیں۔۔۔سوہان نے بتایا

"شادی کے بعد ناشتہ "لنچ"ڈنر آپ کو اپنے شوہر کے ساتھ کرنا ہوگا تو کیوں نہ تھوڑی بہت پریکٹس ابھی سے ہوجائے۔۔۔زوریز اُس کی بات کے جواب میں بولا

"ہم میں سے کسی نے بھی فلحال شادی کے بارے میں نہیں سوچا اور نہ ہمارا ایسا کوئی اِرادہ ہے۔۔"سوہان نے سنجیدگی سے کہا

"ارادہ باندھنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا اور شروع شروع میں ہر کوئی ایسا کہتا ہے۔۔زوریز شانے اُچکاکر بولا

"آپ کو بہت تجربہ ہے لگتا ہے تو کچھ ایسا ہے۔۔۔سوہان نے سرجھٹکتے ہوئے کہا

"ایسا سمجھ لے خیر میں کہہ رہا تھا میرے ساتھ کچھ کھالے ڈنر میں پھر ہم واک پر چلیں گے ایسے میں آپ کا کھایا پیا سارا ہضم ہوجائے تو دوبارہ آپ اپنی بہنوں کے ساتھ کرنا۔۔۔زوریز نے جیسے سارا پلان ترکیب کیا

"بہت گہرا سوچتے ہیں آپ۔۔سوہان نے طنز کیا

"بس کبھی غرور نہیں کیا۔۔۔زوریز مسکراہٹ سے بولا

"کچھ بھی۔۔۔

"پھر آپ کریں میرے ساتھ ڈنر اُس کے بعد میں چھوڑ آؤں گا آپ کو آپ کے گھر۔۔۔زوریز رلیکس ہوا تھوڑا

"اچھا مگر چلی میں خود جاؤں گی میرے پاس گاڑی ہے۔۔۔سوہان نے اُس کی بات سن کر بتایا

"وہ رینٹ والی کھٹارا گاڑی دوبارہ سے لے لی آپ نے"مجھ سے زیادہ اچھی قسمت تو اُس گاڑی کی ہے۔۔سوہان کی بات پر زوریز بول پڑا تھا مگر آخری الفاظ اُس نے بہت آہستگی سے بڑبڑائے تھے

"وہ کھٹارا گاڑی نہیں ہے اور آپ کے اِن الفاظوں سے میری نسوانیت کو ٹھیس پہنچ رہی ہے۔۔۔سوہان نے کہا

"سیریسلی؟اُس کی آخری بات پر زوریز بے یقین سے اُس کا دیکھنے لگا

"ہاں خیر آرڈر کب تک آئے گا؟سوہان نے پوچھا

"آجائے گا جب کروں گا تو۔۔۔زوریز نے سرسری لہجے میں بتایا

"تو ابھی تک آپ نے آرڈر نہیں کیا؟

"نہیں کوئی ویٹر نظر نہیں آیا تھا پر آپ فکر نہ کریں سب ہوجائے گا۔۔۔زوریز نے اُس کو تسلی بخش جواب دیا

"تھوڑا جلدی کریں فاحا جاگ گئ ہوگی ابھی تک۔۔۔سوہان نے بے چینی سے کہا

"تو کیا ہوا گھر میں اور لوگ بھی تو ہیں وہ سنبھال لے گے اُس کو۔۔۔زوریز نے کہا تو سوہان نے گہری سانس بھری

❤Rimsha Hussain Novels❤

"آپ اُداس ہو؟اقدس نے لالی کو چُپ دیکھا تو اُس سے پوچھا

"نہیں تو آپ کو ایسا کیوں لگا؟لالی نے مسکراکر اُس کو دیکھا جو ڈرائینگ بُک پر لکیر کھینچ رہی تھی

"بس اقدس کو ایسا محسوس ہوا۔۔اقدس نے کندھے اُچکاکر بتایا

"آپ کو ایک بات بتاؤں؟لالی نے کسی خیال کے تحت اُس سے پوچھا

"جی بتائے۔۔۔

"آپ بہت خوشقسمت ہو۔۔۔لالی نے اُس کا ماتھا چوم کر بتایا

"کیا واقعی میں؟لالی کی آنکھوں میں چمک آئی تھی

"ہاں واقعی میں آپ خوشقسمت ہو کیونکہ آپ کے بابا سردار اسیر ملک ہیں۔"جو آپ کی ہر خُواہش کو پورا کرنے میں اپنی زندگی بھی داؤ پر لگاسکتے ہیں۔۔۔لالی نے کہا تو اقدس گہرا مسکرائی تھی۔

"آپ کو پتا ہے ہم بابا سے بہت پیار کرتے ہیں۔۔"مگر وہ ہماری ایک خواہش کو پورا نہیں کرتے۔۔۔آخر میں اقدس کا چہرہ بُجھ سا گیا

"کونسی خُواہش؟لالی نے جاننا چاہا

"ہمیں ہماری ماں چاہیے آپ کو پتا ہے کہ ہماری مما کہاں ہیں؟اقدس نے سوال پوچھا تو لالی کو چُپ لگ گئ تو اُس کو سمجھ میں نہیں آیا کہ اب وہ کیا جواب دے

"اقدس آپ کے پاس آپ کے بابا ہیں تو پھر کچھ اور آپ کو کیوں چاہیے؟"آپ کو پتا نہیں ورنہ آپ کی ایسی باتوں سے آپ کے بابا ہرٹ ہوتے ہیں۔۔۔لالی نے اُس کو سمجھانے والے انداز میں کہا

"ہمیں پتا نہیں تھا پر اب اقدس خیال کرے گی۔۔۔اقدس نے سرجُھکاکر کہا

"گُڈ گرل اب یہ بتائے اسکول کب سے شروع ہیں آپ کے؟لالی نے اُس کا دھیان دوسری طرف کروانا چاہا

"ایک ہفتے بعد پھر ہمیں بابا دوبارہ شہر چھوڑ آئے گے۔۔۔لالی نے بُرا منہ بناکر بتانے لگی۔

"یہ تو بہت اچھی بات ہے آپ کو پتا ہے ہم بھی پھر یونی جائے گے اپنے۔۔۔لالی نے اُس کے گال کھینچ کر کہا تو وہ مسکرائی

"تمہیں کیا لگتا ہے تم جو یہ کرتے پِھرتے ہو اُس کا پتا مجھے نہیں لگے گا؟اسیر جب گاؤں واپس آیا تو سجاد ملک نے اُس کے لیے عدالت کھڑی کردی تھی

"آپ بات کو گول مول کرنے کے بجائے اگر صاف طریقے سے کہینگے تو ہمیں سمجھنے میں آسانی ہوگی۔۔۔"اسیر اُن کی بات کے جواب میں سنجیدگی سے بولا

"نوریز کی بیٹیوں سے کیوں ملتے ہو تم؟"تمہارا کیا تعلق اُن سے؟سجاد ملک اصل بات پر آئے

"ہم سے اُنہوں نے کہا تھا ساتھ چلنے کو تو ہم انکار نہیں کرپائے"دوسرا ہمارا اُن سے کیا تعلق ہے یہ بات آپ خود اچھے سے جانتے ہیں۔۔۔اسیر نے مختصر جواب دیا

"دیکھو اسیر میں تمہیں سمجھارہا ہوں نوریز کم عقل پر بیٹیوں کی محبت میں اندھا ہوگیا ہے مگر تم ہوش کے ناخن لو۔۔۔سجاد ملک نے سخت لہجے میں اُس سے کہا

"وہ کم عقل کیوں ہے؟اسیر نے جیسے اُن کی کوئی اور بات سُنی ہی نہ تھی

"تم

ایک منٹ۔۔۔۔سجاد ملک ابھی کچھ کہنے والے تھے جب اسیر کا فون رِنگ کرنے لگا تھا اور جب اُس نے اسکرین پر نظر ڈالی تو کوئی انون نمبر دیکھا جس پر اُس نے کال کاٹ کر سجاد ملک کو دیکھا جو غُصیلی نظروں سے اُس کو دیکھ رہے تھے۔

"آپ کیا کہنا چاہ رہے تھے؟اسیر نے پوچھا

"باپ سے بات کرتے ہوئے اپنا فون سوئچ آف کیا کرو۔۔۔سجاد ملک نے تپے ہوئے انداز میں کہا

"آپ کبھی مجھ سے خوش نہیں ہوسکتے۔۔۔اسیر اپنا سر نفی میں ہلاکر بولا

"ہاں کیونکہ بچپن میں تمہیں دیکھ کر جو میں نے اپنی آنکھوں میں خواب سجائے تھے اُن پر تم نے پانی پھیردیا ہے۔۔"سجاد ملک طنز انداز میں بولے

"آپ کے اِس انداز سے اُس سے پہلے ہم بھی غُصے میں آجائے ہم تب بات کرینگے جب آپ کا بلاوجہ کا یہ غُصہ ختم ہوجائے گا۔۔۔اسیر اپنی جگہ سے اُٹھ کر دو ٹوک لہجے میں اُن سے بولا

"اسیر اِس حویلی کا سب کچھ ختم ہوجائے گا اگر وہ تین آئیں یہاں تو۔۔۔۔سجاد ملک کا غُصہ سوا نیزے پر پہنچا

"لگتا ہے کوئی ضروری کال ہے ہم آپ سے بعد میں بات کرتے ہیں۔۔۔اسیر نے اپنا سیل فون بار بار بجتا دیکھا تو اُن سے بولا

"اسیر

معذرت چاہتا ہوں۔۔۔سجاد ملک کچھ کہنا چاہتے تھے مگر اسیر اُن سے معذرت کرتا باہر آیا جہاں اب پھر سے کال آنے لگی تھی۔

السلام علیکم کون بات کررہا ہے؟اسیر کال ریسیو کرتا اپنے ازلی سنجیدگی سے بھرپور لہجے میں پوچھنے لگا

"اسیر شکر ہے تم نے کال اُٹھالی مجھے تمہارا نمبر بڑی مشکل سے ملا ہے۔۔۔دوسری طرف سے کسی لڑکی کی ہانپتی آواز اسیر کے کانوں سے ٹکرائی

"ہم نے آپ کو پہچانہ نہیں۔۔۔اسیر کے لہجے میں واضع اُلجھن تھی۔

"میں دیبا

دیبا بات کررہی ہوں۔۔۔"اُس نے بتایا تو اسیر کی گرفت اپنے سیل فون پر سخت ہوئی تھی جبکہ کُشادہ پیشانی پر شکنوں کا جال بِچھ گیا تھا۔

❤❤❤❤❤❤

ہم کسی دیبا کو نہیں جانتے۔۔۔کہنے کے ساتھ ہی اسیر نے کال کاٹ دی"اُس کا پورا چہرہ غُصے کی بدولت سرخ ہوگیا تھا"آج اُس کو وہ سب یاد آگیا تھا جس کو بُھلانے کی وہ اکثر کوشش کرتا تھا۔۔۔"وہ اپنی زندگی میں دیبا نامی مُصیبت کو کب کا ختم کرچُکا تھا پر آج اُس کی آواز سن کر اُس کا دماغ گھوم گیا تھا اُس کو غُصہ آگیا دیبا کی جُرئت پر کہ آج اُس نے اسیر ملک کو کال کرکے بات کرنے کا سوچ بھی کیسے لیا۔۔۔

"یا وحشت۔۔۔اپنے ہاتھ کے مُٹھی کو زور سے دوسرے ہاتھ پر مارتا وہ اپنے بیتے ہوئے کل کے بارے میں سوچنے لگا جس کے بارے میں اُس کو سوچنا پسند نہیں ہوتا تھا

"آٹھ سال پہلے

"میری بات سُنو آپ۔۔۔بیس سالہ اسیر جو غُصے سے اپنے کمرے سے باہر نکلا تھا سیڑھیوں کے عقب پر جب اُس نے اٹھائیس سالہ دیبا کو دیکھا تو سنجیدگی سے اُس کو مُخاطب کیا

"کیا ہے؟دیبا جو وہاں کھڑی کسی سے باتوں میں مصروف تھی اسیر کے ایسے مُخاطب کرنے پر سخت بدمزہ ہوتی بولی"جو وائیٹ شرٹ بلیک جینز پینٹ میں ملبوس کھڑا دیبا کو کچا کھاجانے والی نظروں سے اُس کو دیکھ رہا تھا"اُس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ پاس کھڑی دیبا کو جلا کر بھسم کردیتا

"ہمیں آپ سے شادی نہیں کرنی ہمیں ابا حضور کو بول دیا ہے وہ ہماری بات سُننے کے روادار نہیں ہیں اِس لیے آپ خود انکار کردو ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔۔۔اسیر اپنے ماتھے پر بکھرے بالوں پر ہاتھ پھیرتا اٹل انداز میں بولا تو دیبا نے آنکھیں سیکڑ کیے اُس کو گھورا

"عزت سے بات کرو پورے آٹھ سال بڑی ہوں تم سے۔۔۔دیبا نے دانت پیس کر کہا

"بڑی ہیں تو بڑوں والا کام بھی کرنا سیکھے"تھوڑا شرم حیا کا دامن پکڑے اور کہے کہ اسیر سے شادی نہیں کرسکتی۔۔اسیر بدلحاظی سے بولا

"میری تم ایک بات کان کھول کر سُن لو "وہ کوئی اور ہونگے جو تمہاری اُونچی آواز پر سرجُھکادیتے ہیں میں دیبا فاروق ملک ہوں"مجھ سے اُونچی آواز میں بات کرو گے تو گدی سے زبان کھینچ لوں گی۔۔دیبا اپنا موبائیل سائیڈ پر کرتی اُس کا بازو دبوچ کر بولی تو اسیر نے نفرت بھری نظروں سے اُس کا خوبصورت چہرہ دیکھا جہاں ہر وقت میک اپ کا بسیرا ہوتا تھا اور اِس چہرے سے اسیر کو عجیب قسم کی وحشت ہوتی تھی"جس وجہ شاید یہ تھی کہ جب سے اُس نے ہوش سنبھالا تھا اپنے نام کے ساتھ اُس نے دیبا کا نام سُنا تھا۔

"ہم یہاں آپ کی تقریر سُننے کے لیے نہیں ہیں کھڑے"آپ سے جو کہا ہے وہ کریں اگر نہیں کیا تو ہمارے پاس اور بھی آپشنز ہیں آپ سے جان چُھڑوانے کے لیے۔۔۔اسیر اُس کی بات کو ہوا میں اُڑاتا جتانے والے انداز میں بولا

"یہ غرور کس چیز کا ہے تم میں؟دیبا نے غُصے سے اُس کو دیکھ کر پوچھا

"جس کا بھی ہے یہ جان لیں آپ کے باپ کا نہیں ہے اِس لیے ڈائن جیسی شکل کرکے ہم سے سوال کرنے سے اچھا ہے ابا حضور سے کہہ دے کہ اسیر سے میں شادی نہیں کرنا چاہتی وہ ویل مینئرڈ ہے ویل ایجوکیٹڈ ہے کم ایج ہے اور وجاہت کا شاہکار ہے اُس کے برعکس میں ایک عام شکل و صورت کے ساتھ میٹرک فیل لڑکی ہوں اور اُس کی ماں کی عمر کے برابر ہوں"ہمارا کوئی جوڑ نہیں لہٰذا ہماری شادی کا شوشہ ختم کیا جائے۔۔۔اسیر نے سنجیدگی سے بھرپور لہجے میں اُس کو اپنی ساری بات سمجھائی اور اپنی طرف سے دونوں کے درمیاں حائل فرق کو بھی اچھے سے بیان کیا تو دیبا کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا اور منہ پورا کُھلا کا کُھلا رہ گیا تھا وہ حیرت اور بے یقین نظروں سے اسیر کو دیکھنے لگی جس نے پل بھر میں اُس کی خوبصورتی کی ایسی کی تیسی کردی تھی اور اپنی شان میں بڑھ چڑھ کر بولا تھا

"تمہیں میں جان سے ماردوں گی وجاہت کے شاہکار کے کچھ لگتے۔۔۔دیبا غُصے پاگل ہوتی بولی تو اسیر نے جھٹ سے سائیڈ پر پڑا اُس کا سیل فون اُٹھایا تھا

"ہمیں مارنے سے پہلے ہماری آخری خُواہش سمجھ کر وہ کردے جو ہم نے آپ کو کرنے کو کہا ہے ورنہ اِس موبائیل میں جو کچھ پڑا ہے وہ ہم جان کر پوری حویلی والوں کو دیکھا دینگے اب آپ کی مرضی ہے۔۔اسیر چہرے پر دل جلانے والی مسکراہٹ سجاکر بولا تو اُس کے گالوں پر اُبھرنے والوں گڑھو کو دیبا نے نفرت سے دیکھا

"تمہیں کیا لگتا دیبا فاروق مرے جارہی ہے تم جیسے آٹے کی بوری سے شادی کے لیے۔۔۔دیبا نے چبا چبا کر لفظ ادا کیا

"ہمارے پاس اِتنا فالتو وقت نہیں ہوتا جو آپ کے بارے میں تُکے لگاتے پِھرے یا اندازے کہ دیبا میڈم ہم خاکسار کے بارے میں کیا خیالات رکھتی ہیں۔۔۔اسیر نے بھگو کر طنز کیا جبھی وہاں نورجہاں بیگم کے ہمراہ فائقہ بیگم آئی

"کیا ہوگیا ہے تم دونوں کو کیوں پوری حویلی کو اپنے سر پر اُٹھالیا ہے۔۔فائقہ بیگم نے دونوں کو باری باری دیکھ کر سوال کیا

"آپ اپنے بدتمیز بیٹے سے سوال کریں۔۔۔دیبا نے تپ کر کہا

"ادب سے بات کرو دیا۔۔۔۔نورجہاں بیگم نے سختی سے اُس کو ٹوکا

"اور یہ ڈوپٹہ کہاں ہیں تمہارا؟بغیر ڈوپٹے اور کُھلے بالوں کے ساتھ حویلی کے مردوں کے سامنے گھوم کر تمہیں شرم نہیں آتی۔۔۔فائقہ بیگم نے اُس کو بنا ڈوپٹے کے دیکھا تو طنز لہجے میں سوال کیا

"کل اِنہوں نے ایک ہارر مووی دیکھی تھی جس میں موجودہ چڑیل سے یہ کافی مرعوب ہوئیں تھیں جبھی آج خود کو اُن جیسا ڈریس اپ کرنے کی عدلی سی کوشش کی ہے دیبا باجی نے۔۔۔اسیر نے لفظ "دیبا باجی"پر خاصا زور دے کر ادا کیا جس پر دیبا سرتا پیر آگ بگولہ ہوئی تھی مگر نورجہاں بیگم نے فائقہ بیگم کو دیکھا تھا جو اسیر کی آخری بات پر خود اُس کو گھوریوں سے نواز رہی تھیں مگر یہاں پرواہ کس کو تھی

"اپنی ٹوٹی پھوٹی اُردو لیکر یہاں سے دفع ہوجاؤ اسیر ورنہ میں تمہارا سر پھاڑنے میں ایک لمحہ نہیں لگاؤں گی۔۔۔دیبا نے اُس کو خبردار کرنا چاہا

"اسیر ملک ہیں ہم کوئی مذاق نہیں اِس لیے آپ چُپ چاپ وہ کریں جو آپ سے کہا گیا ہے"اور شام تک ہمیں مثبت جواب چاہیے"تب آپ کو آپ کا یہ سیل فون ملے گا۔۔اسیر اِس بار اپنے چہرے پر سنجیدگی طارے کرکے کہتا رکا نہیں تھا بلکہ لمبے لمبے ڈُگ بھرتا وہ وہاں سے چلاگیا تھا

"کس قدر بدتمیز ہوگیا ہے اسیر۔۔۔نورجہاں بیگم کا منہ کُھلا کا کُھلا رہ گیا تھا

"یہ تائی جان اور تایا جان کی بے جاں چھوٹ کا نتیجہ ہے جو وہ ہر ایک کے سر پر کھڑا ناچتا ہے اور سونے پر سُہاگہ موصوف کو شہر کی اعلیٰ یونی میں ڈال کر اُس کا مزاج ساتوں آسمان پر پہنچایا ہے۔۔۔دیبا نخوت سے سرجھٹک کر بولی

"ہونے والا شوہر ہے تمہارا احترام سے بات کرو۔۔۔فائقہ بیگم کو اُس کا انداز پسند نہیں آیا

"مجھے تو آپ معاف کریں آپ کے اِس گھمنڈی بیٹے سے شادی کوئی اندھی لنگڑی یا لولی کرسکتی ہے مگر دیبا فاروق اِتنی بے وقعت نہیں ہے کہ اسیر ملک پر زبردستی مسلط ہوجائے۔دیبا بھی مضبوط لہجے میں کہتی وہاں سے چلی گئیں پیچھے وہ دونوں رہ گئ تھیں

"ہمیں دوبارہ سے کچھ سوچنا چاہیے کیونکہ بچے راضی نہیں ہیں۔۔۔نورجہاں بیگم پریشانی سے بولی

"اِن کی شادی ہوکر رہے گی۔۔"سجاد ملک کا اٹل فیصلہ ہے۔۔۔فائقہ بیگم اُن کی بات پر سنجیدگی سے بولیں

"اسیر اپنی ضد کا پکا ہے اور آپ دونوں کی عمروں کا فرق بھی تو دیکھے۔۔۔نورجہاں بیگم نے ہچکچاہٹ سے کہا

"کچھ نہیں ہوتا تم بس اپنی بیٹی کو لگام دو"اسیر کو راضی کرنا ہمارا کام ہے۔۔۔فائقہ بیگم نے اُن سے کہا تو نورجہاں بیگم خاموش ہوگئیں تھیں۔۔

"السلام علیکم دادو۔۔۔۔اسیر کسی طوفان کی طرح عروج بیگم کے کمرے میں آتا اُن کو سلام کرنے لگا جو اپنے کمرے میں موجود ابھی نماز سے فارغ ہوئیں تھی

"وعلیکم السلام بچے سب ٹھیک ہے؟"اور یہ کیا حال بنایا ہوا ہے اپنا۔۔۔عروج بیگم کو فکر ہوئیں

"ہمیں اُس دیبا پتیسا سے شادی نہیں کرنی ہمیں ابھی پڑھنا ہے اپنی زندگی میں آگے بڑھنا ہے اور اِس درمیان دیبا جیسا ڈھول اپنے گلے میں نہیں پال سکتے"اور وہ ہم سے عمر میں بھی اِتنا بڑی ہیں۔۔۔اسیر نے سنجیدگی سے بھرپور آواز میں اُن سے کہا

"یہاں بیٹھو اور اپنے بات کرنے کا انداز دیکھو اسیر یکسر مختلف ہے آج اور اپنا حُلیہ دیکھو تم زرا لگتا ہے کہ تم حویلی کے بڑے سپوت اسیر ملک ہو۔۔"جس کو آگے چل کر گدی پر بیٹھنا ہے۔۔۔اسیر ملک کو دیکھ کر عروج بیگم افسوس بھرے لہجے میں بولی"جو بکھرے بال اور سلوٹیں زدہ شرٹ میں کھڑا بے تاثر نظروں سے اُن کو دیکھ رہا تھا۔۔۔

"دادو ہمیں نہ گدی کا شوق ہے اور نہ یہاں کے لوگوں سے مطلب"ہم یہاں اِس لیے نہیں آئے کہ ہمیں بلی کا بکڑا بنایا جائے"آپ تو بڑی ہیں نہ آپ کا فیصلہ حویلی والوں کے حرفِ آخری ہونا چاہیے پھر آپ کیوں چُپ ہیں؟"کچھ کہتی کیوں نہیں۔۔اسیر نے گہری سانس بھر کر خود کو پُرسکون کرنے کی کوشش کرتا اُن سے بولا

"دیبا بہت اچھی لڑکی ہے اسیر اور سب سے بڑی بات وہ ایک میچیور لڑکی ہے"آپ کی کزن ہے پھر اُن سے شادی پہ مضحکہ کیا ہے؟آٹھ سال کوئی بڑا فرق نہیں ہوتا اور چاہے وہ آپ سے بڑی ہے مگر وہ لگتی تو نہیں نہ اور آگے جاکر آپ کی شخصیت میں بھی روعب آئے گا آپ بھی بڑے ہوگیں تو عمر کا فرق چُھپ جائے گا۔۔۔عروج بیگم نے چہرے پر نرم مسکراہٹ سجائے اُس کو سمجھانے کی ایک کمزور سی کوشش کی

"ہم بڑے ہوگے تو فرق محسوس نہیں ہوگا ایسے بول رہی ہیں جیسے بس ہم بڑے ہوگے اُس دیبا باجی کا وقت تو گویا رُک جائے گا"ٹھیر جائے گا اور وہ ہم سے شادی کے بعد نوعمر نوخیز کلی بن جائے گیں۔۔۔اسیر طنز لہجے میں بولا تو اُس کی بات پہ ایسی پیچیدہ حالت میں عروج بیگم مسکرائے بنا نہ رہ پائی تھی

"ہماری بات کا یہ مطلب نہیں تھا ہم بس یہ چاہتے ہیں کہ آپ اُس کو وقت دے اُن کے بارے میں سوچیں۔۔عروج بیگم نے نرم لہجے میں وضاحت دی

"آپ سیدھا یہ کیوں نہیں کہہ دیتیں کہ اسیر ہم تمہارے لیے کچھ نہیں کرسکتے۔۔۔اسیر سپاٹ لہجے میں کہتا اُن کو دیکھنے لگا

"دیکھو اسیر یہ آپ کے والدین کا فیصلہ ہے اور اُس کا پاس آپ کو رکھنا پڑے گا۔۔عروج بیگم نے کہا

"دیبا اچھی لڑکی نہیں ہے دادو۔۔۔اسیر اِس بار چیخ اُٹھا

"اسیر شرم کرو بیٹا وہ آپ کی کزن ہے۔۔عروج بیگم نے سخت نظروں سے اُس کو دیکھا جس پر وہ اپنے جبڑے بھینچتا اُن کے کمرے سے چلاگیا"پیچھے عروج بیگم نے تھکی ہوئی سانس خارج کی تھی۔

❤Rimsha Hussain Novels❤

"آپ منع کردینگے نہ تایا جان کو؟اگلے دن صبح سویرے دیبا نے فاروق صاحب کو دیکھ کر پوچھا جو اُس کی بات سن کر گہری سوچو میں ڈوب چُکے تھے"دیبا کی تو کل رات نیند اُرگئ تھی کیونکہ اسیر نے اُس کا سیل فون توڑ دیا تھا کیونکہ اُس صاحبزدے کو شام میں مثبت جواب نہیں ملا تھا اِس لیے اُس نے سوچ لیا تھا وہ اپنے باپ سے بات کرکے اِس معاملے کو نپٹ لے گی۔۔

"ایک بار سوچ لو دیا یہاں تم راج کرو گی۔"معمولی سے عمر کے فرق میں آکر جذباتی فیصلہ مت لو۔۔فاروق صاحب نے اُس کو سمجھانا چاہا

"بابا سائیں پلیز میں آپ کی بیٹی ہوں میرے بارے میں آپ سوچے اور وہ اسیر بہت بداخلاق ہر بات منہ پر مارنے والا انسان ہے وہ آج ایسا ہے تو آپ دیکھنا کل یہ ایک وحشی انسان بن جائے گا۔۔۔"اور میں ایک وحشی کے ساتھ اپنی زندگی نہیں گُزار سکتی۔۔دیبا نے سرجھٹک کر کہا

"ٹھیک ہے تم پریشان نہ ہو میں بات کرتا ہوں بھائی صاحب سے۔۔۔فاروق صاحب نے کہا تو دیبا کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی۔

"تھینک یو سو مچ آپ بہت اچھے ہیں۔۔۔دیبا خوشی سے کہتی اُن کے کمرے سے باہر نکل گئ۔


"اسیر کا بچہ اُٹھ گیا ہوگا اُس کو بتادیتی ہوں ورنہ میرا دماغ کھاتا رہے گا۔۔۔کسی خیال کے کہتے دیبا خود سے بڑبڑاتی اپنے قدم اسیر کے کمرے کی طرف بڑھائے

"اُس کے کمرے کا دروازہ کُھلا دیکھ کر دیبا اندر داخل ہوئی تو اُس کو اسیر کہی بھی نظر نہیں آیا مگر اُس کے نفاست سے سیٹ ہوئے کمرے کو دیکھ کر وہ مرعوب ہوئی تھی وہ حویلی کے لوگوں سے اکثر سُنا کرتی تھی کہ اسیر ہر ماہ بعد اپنے کمرے کی سیٹنگ تبدیل کروایا کرتا تھا مگر اُس کا کبھی اتفاق نہیں ہوا تھا کہ وہ اسیر کے کمرے میں آتی کیونکہ اسیر کو اپنے کمرے میں کسی کا بھی آنا پسند نہیں ہوتا تھا چاہے پھر وہ چھوٹا ہو یا بڑا جو بھی اگر اُس کی اجازت اور مرضی کے خلاف آتا وہ اُس کو جھڑک دیتا تھا پر جو بھی اُس نے آج اپنے قدم اُس کے کمرے میں جمائے تھے اور کمرے کا سلائیڈ ڈور کُھلا دیکھ کر وہ سمجھ گئ کہ اسیر کہاں اور کیا کررہا ہوگا تبھی دبے پاؤں چلتی وہ کمرے میں بنے اسیر کے جیم کرنے والی جگہ آئی یعنی کمرے کی بالکنی کے پاس

"جہاں وہ شرٹ لیس محض ایک ٹراؤزر پہنے اور پیروں میں جوگرز پہنے کانوں میں ایئر فون ڈالے ٹریڈمل پر ڈور رہا تھا اُس کا پورا چہرہ پسینے سے شرابور تھا جس سے لاپرواہ وہ آنکھیں موندے ہوئے تھا۔۔"اور اِس قدر کھویا ہوا تھا کہ دیبا کی موجودگی کا احساس تک نہیں اُس کو نہیں ہوا اور نہ خود پر اُس کی نظروں کا ارتکاز اُس نے محسوس کیا جو اُس کو ایسی حالت میں پاکر رُخ بدلنے کے بجائے بے شرمی کی حدود کو چھوتی سرتا پیر اُس کا ایسے جائزہ لینے لگی جیسے پہلی بار دیکھ رہی ہو اُور اُس کو ایسے دیکھ کر وہ بھول چُکی تھی کہ وہ کس کام سے یہاں آئی تھی یا ابھی اپنے باپ سے اُس نے اسیر سے شادی کرنے پر انکار کیا تھا کیونکہ وہ کسی اور چاہتی تھی مگر اِس وقت وہ اسیر کو یوں دیکھ کر اُس کا اسیر ہونے سے خود کو بچا نہیں پائی تھی۔


"بے شرم بہت دیکھے مگر ایسا لگ رہا ہے جیسے ٹاپ پر آپ کا نام رہے گا۔۔۔اسیر کی آواز سن کر وہ جیسے ہوش میں آئی تھی اور چونک کر اُس کو دیکھا جو تولیہ سے اپنا پسینا پونچھتا ناگوار نظروں سے اُس کو دیکھ رہا تھا۔۔۔

"میں تو یہاں ضروری کام سے آگئ پر جو بھی اُس کو چھوڑو تم تو اسیر یار پورے مرد بن گئے ہو۔۔۔دینا بے باک نظروں سے اُس کو دیکھ کر آنکھ وِنک کیے بولی

"بکواس بند کرو اور نکلو ہمارے کمرے سے۔۔۔اسیر کا پورا چہرہ غُصے کے باعث سُرخ ہوگیا تھا جبکہ آنکھوں میں دیبا کے لیے نفرت کی جھلکیاں تھیں

"ارے ارے غُصہ کیوں ہورہے ہو میں تو تمہاری تعریف کررہی ہو اور تم ایسے مجھے جانے کا بول رہا ہو۔۔۔دیبا نے مصنوعی افسوس سے کہتے اُس کے روبرو کھڑی ہوئی

"تم کیوں چاہتی ہو ہم دھکا دے کر تمہیں کمرے سے باہر کریں۔۔۔اسیر نے بڑے تحمل کا مُظاہرہ کیا

"تم

کوشش بھی مت کرنا ورنہ ہاتھ جڑ سے اُکھیڑ دے گیں۔۔۔

دیبا اُس کے سینے پر ہاتھ رکھتی کچھ کہنا چاہ رہی تھی جب اسیر اُس کا ہاتھ درمیان میں روکتا سخت لہجے میں بولا

"میں یہاں تمہیں خوشی خبری سے نوازنے آئی تھی مگر اب میں کیا کروں؟"میرا مائینڈ چینج ہوگیا ہے۔۔"مجھے ایسا لگ رہا ہے اب کہ تم بس نام کے اسیر نہیں ہوں بلکہ تمہاری شخصیت بھی لوگوں کو اسیر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔۔۔دیبا اُس کی آنکھوں میں دیکھ کر دلسوز لہجے میں بولی

"صبح صبح ہمارا تمہاری بکواس سُننے کا کوئی موڈ نہیں ہے ویسے بھی اپنی شکل دیکھا کر پورے دن کا بیڑا غرق کردیا ہے تم نے۔۔۔اسیر سلائیڈ ڈور کھول کر اپنے کمرے میں داخل ہوتا اُس سے بولا تو دیبا بھی اُس کے پیچھے پیچھے آئی"

غرور جچتا ہے تم پر اسیر ملک مگر مجھے تمہارا یہ غرور توڑنا ہے"تمہیں اپنی محبت میں مبتلا کرکے۔۔دیبا نے کہا تو پہلے اسیر اُس کو دیکھتا رہا مگر پھر ہنسنے پر آیا تو ہنستا چلاگیا اور دیبا بس پاگلوں کی طرح اُس کو ہنستا دیکھنے لگی جو اپنی ذات کے علاوہ کسی اور کو سیریسلی نہیں لیتا تھا۔

"اسیر ملک کی محبت کو پانا آپ نے مذاق سمجھا ہے آپ کی آنکھوں میں اپنے لیے موجود آئی ہوس کو میں صاف دیکھ سکتا ہوں مگر کزن ہونے کی حیثیت سے عزت کررہا ہوں اِس لیے جاؤ ہمارے کمرے سے ورنہ لحاظ کرنا تو ہم نے کبھی سیکھا نہیں۔۔۔اسیر اچانک سنجیدہ ہوتا دو ٹوک لہجے میں اُس سے بولا تو تزلیل کے احساس سے اُس کا پورا چہرہ دھواں دھواں ہوا تھا

"تمہیں بڑا تکبر ہے نہ سجاد ملک کے پہلے سپوت ہونے پر"اِس گاؤں کا سردار ہونے کا خواب سجایا ہوا ہے تم نے اپنی آنکھوں میں تو میری بات سُن لو اگر تم نے میری آنکھوں میں اپنے لیے ہوس دیکھ لی ہے تو تمہیں مجھ سے شادی تو کرنی پڑے گی اور میرے ساتھ تب تک رہو گے جب تک میرا دل تم سے اچاٹ نہیں ہوجاتا جب تب میرا تم سے دل نہیں بھرے گا تب تک میں تمہیں چھوڑوں گی نہیں۔۔۔دیبا نے مضبوط لہجے میں اُس کو دیکھ کر کہا جو اسیر نے بڑی دلچسپی سے سنا

"اگر تمہارا ہوگیا ہو تو باہر کا دروازہ اُس طرف ہے۔۔۔اسیر نے باہر جانے کے راستے پر اِشارہ کیا

"کرلوں عیش تمہارا غرور اور یہ تکبر تو میں توڑ کر رکھ دوں گی اور ہاں تمہیں کسی کے منہ دیکھانے کے قابل بھی نہیں چھوڑوں گی"تمہاری رگوں میں خون کی طرح ڈروں گی اور تم میرے ہاتھوں کا کِھلونہ بنو گے دیکھ لینا۔۔۔دیبا کا پارا ہائے ہوا تھا جبھی جو اُس کے منہ میں آیا وہ بولتی چلی گئ تھی۔۔"اور اِس وقت وہ اسیر کو کوئی پاگل لگی تھی۔

"اففف آپ کی ایسی دل دُہلانے والی باتوں کو سُن کر ہم تو ڈر گئے "دیکھے ہمارے ہاتھ ہمارے پاؤ کانپ رہے ہیں۔۔"اسیر نے اُس کے آگے اپنے ہاتھ کھڑے کیے"ہمارا چہرہ آپ کی جُدائی کا سُن کر وحشت کے مارے نیلا اور پیلا مطلب مکسچر ہوگیا ہے اور اگر آپ ہمیں چھوڑ کر چلی گئ تو ہمارا کیا ہوگا؟ہم کیسے جیئے گے آپ کے بغیر آپ تو ہماری زندگی کا کُل اساساں ہیں۔۔"ہمیں تو اللہ نے پیدا ہی آپ کے ہاتھوں کا کِھلونا بننے کے لیے کیا ہے۔۔۔اسیر اپنے چہرے پر مصنوعی ڈر اور خوف طاری کرتا ایک بار پھر اُس کو تپا گیا تھا

"خود کو توپ چیز سمجھتے ہو نہ اور بہت شوق ہیں تمہیں دوسروں پر ہنسنے کا تمہارے چہرے سے یہ ہنسی نہ چِھین لی تو میرا نام دیبا فاروق نہیں تمہیں پتا نہیں میں تمہیں عرش سے فرش تک پھٹخ سکتی ہوں۔۔۔دیبا نے چبا چبا کر لفظ ادا کیا

"پر ہم تو آلریڈی فرش پر موجود قالین پر کھڑے ہیں"کیا کوئی دوسرا بھی فرش ہوتا ہے جس سے ہم انجان ہیں؟اسیر دُنیا جہاں کی معصومیت چہرے پر سجاتا آخر میں تشویش بھرے لہجے میں بولا

"اِس مہینے ہماری شادی ہوگی اور تم کچھ بھی نہیں کرپاؤ گے۔۔دیبا اِتنا کہتی وہاں سے جانے لگی کیونکہ وہ جانتی تھی وہ باتوں میں اسیر کو کبھی ہرا نہیں سکتی۔۔

"ایسا کچھ نہیں ہوگا مارک مائے ورڈز۔۔۔اسیر نے پیچھے سے ہانک لگائی تھی مگر دیبا نے اِس بار اُس کو کوئی جواب نہیں دیا تھا"اور اُس کے جاتے ہی اسیر کا چہرہ خطرناک حد تک سنجیدہ ہوگیا تھا۔۔"ہاتھوں کی رگیں تک اُبھرنے لگیں تھیں دیبا کی باتوں اور آنکھوں میں موجود تاثر نے اُس کو غُصے میں مبتلا تو بہت کیا تھا مگر جانے کیسے وہ خود پر ضبط کرگیا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ اُس کی کسی بات کو پکڑ کر دیبا اُس کو کمزور سمجھے۔۔

❤❤❤❤❤

"بابا آپ کی باتوں کے بارے میں بہت سوچا اور ایک فیصلے پر پہنچی ہوں۔۔۔فاروق صاحب ڈرائینگ روم میں سجاد ملک کے ساتھ بیٹھے قہوہ پینے میں مصروف تھے جب دیبا اُن کے پاس آتی سنجیدگی سے گویا ہوئی

"کہو کیا بات ہے؟فاروق صاحب ایک نظر سجاد ملک پر ڈالے دیبا سے بولے

"خیر سے دیبا بیٹے تم اب ستائیس برس کی ہو پر ابھی تک تمہیں یہ تک نہیں پتا کہ پہلے سلام کیا جاتا ہے"لالی کتنی چھوٹی ہے مگر جب بھی ملتی ہے بات کرنے سے پہلے سلام کرتی ہے۔۔سجاد ملک نے اُس کو دیکھ کر کہا تو دیبا کے ساتھ ساتھ فاروق صاحب بھی اپنی جگہ پہلو بدلتے رہ گئے تھے۔

"معذرت چاہتی ہوں بس جلدبازی میں بھول گئ اور السلام علیکم ۔۔دیبا نے اُن کو دیکھ کر سنجیدگی سے کہا

وعلیکم السلام بتاؤ کیا بات کرنی ہے تم نے؟"کس فیصلے پر پُہنچی ہوں آپ۔۔۔سجاد ملک نے پوچھا

"میں اسیر سے شادی کرنے پر تیار ہوں"مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔۔دیبا نے بتایا

"تمہیں اعتراض ہونا چاہیے بھی نہیں تھا کیونکہ میرے بیٹے سے شادی کرنا ہر لڑکی کی خُواہش ہوسکتی ہے"ویسے بھی اعتراض اگر وہ کرتا تو جچتا ہے تمہیں نہیں جچتا ہے تمہیں تو بیٹھے بیٹھائے اِتنا وجاہت سے بھرپور لڑکا مل رہا ہے جو تم سے عمر میں چھوٹا ہے۔۔سجاد ملک نے کہا تو اُن کی بات پر دیبا نے اپنے باپ کو دیکھا جو خاموش سے تھے اُن کی یہ خاموشی دیبا کو پسند نہیں آئی

"گُستاخی معاف مگر آپ کا بیٹا بھی کوئی مصر کا شہزادہ نہیں اگر تھوڑا بہت شکل سے پیارا ہے بھی تو اُس کے مقابل میں دیبا فاروق بھی کسی سے کم نہیں ہے اور اگر بات کی جائے اخلاق کی تو آپ کے بیٹے کو اخلاق لفظ کا "ا" تک نہیں پتا۔۔۔دیبا بھی بدلحاظی سے بولی تو سجاد ملک کا پورا چہرہ غُصے سے کال بھبھو ہوگیا تھا

"بیٹا تم اپنے کمرے میں جاؤ۔۔فاروق صاحب نے اُس کو تنبیہہ کرتی نظروں سے دیکھ کر کہا

"کیوں کیا میں نے کچھ غلط کہا؟دیبا نے سوال اُٹھایا

"جو جیسا ہوتا ہے اُس کو ویسا ملتا ہے اِس بات کا اندازہ تم اپنے اندازِ گفتگو سے لگالوں کیونکہ میرا بیٹا جیسے کے ساتھ تیسا ہوتا ہے اگر کوئی اُس کے ساتھ ادب سے بات کرے گا تو وہ ادب سے جواب دے گا ورنہ بلاوجہ کی عزتیں دینے کا ٹھکا نہیں اُٹھایا ہوا اسیر نے۔۔سجاد ملک نے سنجیدگی سے کہا

"معافی چاہتی ہوں پر آپ کا بیٹا ہر ایک سے ایک جیسے لہجے میں بات کرتا ہے۔۔۔دیبا سنجیدگی سے اِتنا کہتی وہاں رُکی نہیں تھی۔۔

"تمہیں پتا ہے نہ مجھے عورتوں کا ایسے بات کرنا پسند نہیں"تم نے آج سے پہلے دیکھا ہے حویلی میں کسی عورت نے ایسے بات کی ہو؟"ارے یہاں تو کسی کی آواز نہیں نکلتی اور تمہاری بیٹی میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالے میرے شہزادے بیٹے کو غلط قرار کرکے چلی گئ ہے۔۔سجاد ملک نے غُصے سے فاروق ملک کو دیکھ کر اُن سے کہا

"بچی ہے نادان ہے اِس بار معاف کریں دوبارہ یہ غلطی نہیں ہوگی۔۔فاروق صاحب نے کہا تو سجاد ملک نے اپنا سرجھٹکا

❤Rimsha Hussain Novels❤

"اسیر

"فائقہ بیگم اسیر کے کمرے میں آتی اُس کو پُکارنے لگی جو ہاتھوں کو آپس میں باہم جوڑے بیڈ پر بیٹھا سوچو میں گُم تھا۔

"جی کوئی کام تھا؟اسیر نے سوالیہ نظروں سے اُن کو دیکھ کر پوچھا

"تمہاری شادی کی تاریخ طے ہوگئ ہے"کل سے شاپنگ بھی شروع ہے تو ہمیں تمہاری مدد کی ضرورت پڑے گی۔۔فائقہ بیگم نے کہا تو اسیر کے دماغ کا میٹر شاٹ ہوا تھا

"کیا ہوگیا ہے آپ لوگوں کو؟"ہمارا انکار آپ لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا کیا؟'نہیں کرنی ہم نے دیبا باجی سے شادی سُن لے جان لے اور اپنے شوہر کو بھی بتادے۔۔۔اسیر بپھرے ہوئے شیر کی مانند غرایا تھا

"اسیر کس طرح ہتک آمیز لہجہ ہے تمہارا شرم کرو اپنی ماں سے ایسے بات کرتے ہوئے تمہیں شرم سے ڈوب کر مرجانا چاہیے۔۔۔فائقہ بیگم نے کڑے تیوروں سے اُس کو گھورا

"ہماری نہ ابھی آپ ایک بات سُنے ہم نے دیبا باجی سے شادی نہیں کرنی وہ ایک چالباز" مکار عورت ہیں ہماری جوانی پر آپ زرا رحم کھائے۔۔۔"ہمیں کچھ سخت قدم اُٹھانے پر مجبور نہ کریں آپ جانتی ہیں ہماری مرضی کے خلاف آپ لوگ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔۔۔اسیر غُصے سے پاگل ہونے کے در پر تھا

"اچھا اگر ایسا ہے تو میری بات بھی کان کھول کر سُن لو اگر تم نے دیبا سے شادی نہیں کی تو میں ابھی تمہارے سامنے تمہاری ماں کو طلاق دوں گا۔۔اچانک سجاد ملک کی آواز پر دونوں نے چونکتے ہوئے دروازے کی طرف دیکھا جہاں سجاد ملک سرد نظروں سے اُس کو گھور رہے تھے

"کافی پُرانہ اور بھونڈا بہانا ہے کسی کو اپنی بات منوانے کے لیے استعمال کرنے کا مگر ہم اسیر ملک ہیں جو آپ کی ایسی کھوکھلی باتوں میں نہیں آنے والے ہم نے ابھی شادی نہیں کرنی تو مطلب نہیں کرنی۔۔۔اسیر چہرے پر استہزائیہ مسکراہٹ سجائے بولا

"تمہیں اگر کھوکھلی دھمکی اور پُرانہ بھونڈا بہانا لگ رہا ہے تو ایسا ہی سہی مگر میں تمہاری ماں کو طلاق دے کر حویلی سے باہر نکال دوں گا تمہیں کیا لگتا ہے اگر میں نوریز کی شادیاں کرواسکتا ہوں تو اپنی نہیں کرسکتا۔۔۔سجاد ملک نے طنز نظروں سے اُس کو گھور کر کہا

"اپنا اور چچا کا موازنہ نہ کریں ورنہ جو ہم واضع فرق بیان کرینگے اُس پر آپ کو غُصہ آجائے گا۔۔۔اسیر نے کہا تو اُس کی بات پر جہاں فائقہ بیگم نے مسکراہٹ دبائی تھی وہی سجاد ملک نے تپی ہوئی نظروں سے اُس کو دیکھا

دیبا نے سہی کہا تھا تم کافی بدلحاظ ہوتے جارہے ہو۔۔۔سجاد ملک غُصے سے بولے

"اُس باجی کا نام نہ لے ہمارے سامنے۔۔۔اسیر کے چہرے پر ناگواری آگئ تھی۔۔

"آپ دونوں آپس میں لڑو مت اور اسیر شانت ہوجاؤ پرسکون ہوکر دیبا کے بارے میں سوچو وہ تمہارے ساتھ بہت اچھی لگے گی۔۔۔فائقہ بیگم نے اُن کے درمیان مداخلت کی

"تم میرے کمرے میں نہ آنا اپنا بوریا بستر سمیٹ کر یہاں سے چلی جاؤ۔۔۔۔سجاد ملک نے فائقہ بیگم سے کہا تو اُن کا منہ دیکھنے لائق ہوگیا تھا۔

"ابا حضور یہ کیا پچکانہ پن ہے۔۔۔اسیر نے حیرت سے اُن کو دیکھ کر کہا

"تمہاری نظروں میں ہماری کسی بات کا بھرم رکھنا ضروری نہیں تو ٹھیک ہے اب تم سے کچھ نہیں کہینگے۔۔۔سجاد ملک نے اُس کو دیکھ کر کہا

"اسیر اپنی ضد کو چھوڑدو اگر تمہاری وجہ سے میرا رشتہ خراب ہوگیا تو میرا مرا ہوا منہ دیکھو گے کیونکہ میں اِس عمر میں طلاق کا طوق اپنے گلے میں نہیں ڈال سکتی۔۔۔فائقہ بیگم نے اُونچی آواز میں حیران پریشان کھڑے اسیر سے کہا

"کیا بلیک میلنگ ہے یہ؟اسیر زچ ہوا

"ہمارا آخری فیصلہ ہے اگر تم نے ہماری بات نہ مانی اور سب کے سامنے شرمندہ کیا تو یہ اچھا نہیں ہوگا۔۔۔سجاد ملک نے اٹل انداز میں کہا

"آپ تو کہتے ہیں ہمارے خاندان میں طلاق کا رواج نہیں ہوتا پھر یہ سب کیا ڈرامہ ہے؟اسیر اپنے بالوں میں ہاتھ پھیر کر اُن سے بولا

"طلاق نہ بھی دی تو یہ یہاں نہیں رہے گی ہم رشتہ ختم کردینگے میری بات لکھ لو تم۔۔۔سجاد ملک نے سنجیدگی سے کہا

"آپ ایسا کیسے کرسکتے ہیں میرے ساتھ؟فائقہ بیگم ہونک زدہ ہوکر سجاد ملک سے بولیں

"تم خاموش رہو یہ ہمارا آپسی معاملہ ہے۔۔سجاد ملک نے اُس کو گھورا

"اگر یہ ہمارا آپسی معاملہ ہے تو ہم تک رہنے دے اماں کو کیوں درمیان میں لا رہے ہیں؟اسیر بول پڑا

"تمہاری نافرمانی کی سزا کسی کو تو ملنی چاہیے نہ ویسے بھی اگر تم نے دیبا سے شادی نہ کی تو حویلی میں شادی ضرور ہوگی اور وہ ہوگی فراز اور لالی کی۔۔۔۔سجاد ملک نے کہا تو اُن کی آخری بات پر اسیر کا چہرہ لہو چِھلکانے کی حدتک سرخ ہوگیا تھا۔

"ہماری بہن کی شادی؟"اللہ کا خوف کریں کچھ وہ ابھی سولہ کی ہے اور فراز دس سال کا ہے سمجھ نہیں آرہا آپ لوگوں کا دماغ کیوں خراب ہوگیا ہے مگر ہماری بات سُن لے سب ہماری حیات میں تو آپ لوگ لالی کے ساتھ کچھ بھی غلط نہیں کرسکتے اور خبردار جو کسی نے اُس کے کان میں ایسا ویسا کچھ ڈالا بھی تو۔۔۔اسیر ہاتھوں کی مٹھیوں کو زور سے بھینچتا سرد لہجے میں اُن سے بولا تو سجاد ملک کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ آئی تھی آخر کو اُن کو اسیر کی کمزوری جو مل گئ تھی اب باآسانی وہ اپنی بات اسیر سے منواسکتے تھے۔

"تمہارے ہاتھ میں ہے اگر تم چاہتے ہو لالی کا نکاح اِس عمر میں نہ ہو تو تم خود دیبا سے شادی پر راضی ہوجاؤ۔۔۔سجاد ملک نے فیصلہ اُس کے ہاتھ میں سونپا

"ایسے بھی کیا سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں اُس میں جو سب لوگ ہماری شادی اُس سے کروانے پر تُلے ہوئے ہیں اور آپ کو اپنی معصوم بیٹی تک نظر نہیں آرہی۔۔۔اسیر حیرت اور بے یقین جیسی کیفیت میں مُبتلا ہوتا اُن سے بولا

"اُس میں کیا ہے یا کیا نہیں اُس سے تمہارا کوئی لینا دینا نہیں تم بس ہماری بات کا مان رکھو۔۔۔سجاد ملک نے سنجیدگی سے اُس کو دیکھ کر کہا

"ٹھیک ہے جیسا آپ کہو مگر ہماری بات یاد رکھیے گا اب کبھی آپ ہماری زندگی میں مداخلت نہیں کرینگے اور نہ لالی کے ساتھ آگے چل کر ایسا کرینگے وہ ہماری بہن ہے اور آج کے بعد اُس کی زندگی کا ہر اچھا بُرا فیصلہ ہم کرینگے۔۔۔اسیر نے نیم رضامندی ظاہر کرتے ہوئے اپنا حُکم سُنا کر کہا تو سجاد ملک اور فائقہ بیگم نے اُس کی بات پر زیادہ غور نہیں کیا وہ اِس بات پر ہی خوش تھے کہ اسیر شادی کے لیے مان گیا تھا۔۔

❤Rimsha Hussain Novels❤

یہ میں کیا سُن رہی ہوں دیا؟نورجہاں بیگم دیبا کے کمرے میں آتی حیرت انگیز لہجے میں اُس سے استفسار ہوئی

"کیا سُن لیا ایسا جو اِتنی حیرت زدہ ہیں؟اپنے ناخنوں پر نیل پالش لگاتی دیبا مصروف لہجے میں پوچھنے لگی۔

"تم نے اسیر سے شادی کرنے پر حامی بھرلی؟"جبکہ تم نے مجھ سے کہا تھا کہ تمہیں کوئی اور پسند ہے اور تم اُس سے شادی کرو گی"پھر یہ کیا ڈرامہ ہے؟نورجہاں بیگم نے سنجیدگی سے اُس کو دیکھ کر پوچھا

"ہاں سوچا آپ لوگوں کی بات مان لی جائے ویسے بھی اسیر حُسن اور دولت شُہرت سے مالا مال ہے اُس جیسا کوئی اور کہاں بس تھوڑا حُسن پرست مگر چلے گا۔۔دیبا پرسکون لہجے میں اُن کو جواب دینے لگی۔

"دیبا میری بات سُنو تم سچ سچ بتاؤ کیا بات ہے؟نورجہاں بیگم مشکوک نظروں سے اُس کو دیکھنے لگی اُن کو دیبا میں آیا یہ اچانک بدلاؤ سمجھ میں نہیں آیا

"آپ کیوں پریشان ہوگئ ہیں آپ کو تو خوش ہونا چاہیے۔۔۔"اِتنا اچھا رشتہ ملا ہے آپ کے بیٹی کو۔۔۔دیبا سرجھٹک کر اُن سے بولی

الحمداللہ پر شاید اُس کے حُسن کے چکروں میں یہ فراموش کرگئ ہو کہ مرد کی خوبصورتی کوئی نہیں دیکھتا۔"یہ سارے کمپلیکس لڑکیوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور تم کیوں اسیر سے شادی پر راضی ہوگئ جبکہ اب سب ٹھیک ہوگیا تھا۔۔نورجہاں بیگم اُس کے ساتھ بیٹھ کر بولیں

"جانتی ہوں مرد کا مزاج اور جیب دیکھی جاتی ہے پر میری پیاری امی جان مجھے کونسا اپنی ساری زندگی اُس اسیر کے ساتھ گُزارنی ہے۔۔۔دیبا اپنے چہرے پر گہری مسکراہٹ سجاکر بولی

پھر کیا سوچا ہے تم نے؟نورجہاں بیگم کو دیبا کے اِرادے ٹھیک نہیں لگے

"میں سلمان کو چاہتی ہوں ساری زندگی بھی اُس کے ساتھ گُزاروں گی بس تھوڑا شغل میلا کرنے کے لیے اسیر کو اپنا کِھلونہ بناؤں گی۔۔دیبا نے اُن کو اپنے عزائم سے آگاہ کیا

"تمہاری سوچ ہے کہ اسیر سے شادی کے بعد تم ایسا کرپاؤ گی اسیر سے شادی کے بعد تمہیں سلمان کو بھولنا پڑے گا۔۔نورجہاں بیگم نے گویا اُس کی عقل پر ماتم کیا۔

"آپ دیکھتی جائے دیبا فاروق کرتی کیا ہے۔۔دیبا کا یقین قابلِ دید تھا جس پر نورجہاں بیگم خاموشی سے بس اُس کو دیکھتی رہ گئیں تھیں۔۔۔

❤Rimsha Hussain Novels❤

آج اسیر اور دیبا کا نکاح تھا جس کی خوشی اسیر کو بلکل بھی نہیں تھی اور اِس بات کا اندازہ ہر کوئی بخوبی لگا رہا تھا"فائقہ بیگم اسٹیج پر آتی کتنی بار اُس کو مُسکرانے کا بول چُکی تھیں مگر اُن کی بات پر تو اسیر کے تیور مزید بگڑ رہے تھے ناچار فائقہ بیگم نے اُس کو اُس کے حال پر چھوڑدیا تھا

"تمہیں پتا ہے کچھ منٹس میں تمہاری میں کیا بن جاؤں گی۔۔۔دیبا فاتحانہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے اسیر سے بولی تو اُس نے گردن موڑ کر کاٹ کھاتی نظروں سے اُس کو گھورا

" تم ہمارے گلے کا وہ ڈھول ہو جس کو ناچاہنے کے باوجود اپنے گلے میں ڈال کر ہمیں بجانا ہے"بس یا اور کچھ سُننا پسند کرو گی؟اسیر نے طنز سے بھرپور لہجے میں اُس کو دیکھ کر کہا تو دیبا اُس کو مُخاطب کرکے بہت پچھتائی تھی کیونکہ اسیر نے آج کا لحاظ کیے بنا ایک بار پھر اُس کو سُنا ڈالی تھی مگر اُس نے سوچ لیا تھا کیسے بھی کرکے وہ اسیر کی اکڑ کو ختم کرکے اُس کو حاصل ضرور کرے گی۔۔۔

❤Rimsha Hussain Novels❤

حال:

ڈنر کافی اچھا تھا آپ کا شکریہ۔۔۔زوریز سوہان کو پارکنگ تک چھوڑنے آیا تو اپنی گاڑی کے پاس رُک کر سوہان نے اُس کو دیکھ کر کہا

"میرا موڈ تھا کہ کراچی جاکر ساحل سمندر پر چہل قدمی کرتے ہیں پھر صبح کو واپس آجاتے۔۔۔زوریز اُس کی بات پر یہ بولا

"شادی کرلے پھر اپنی بیوی کو کراچی کے ساحل سمندر لے جائیے گا۔۔۔سوہان نے اُس کو دیکھ کر طنز کہا

"میں تیار ہوں مگر لڑکی تیار نہیں۔۔۔زوریز نے جواباً سنجیدگی سے کہا

"جیسی آپ کی باتیں ہیں اُس کو سُن کر کوئی نارمل لڑکی آپ سے شادی کرنا چاہے گی بھی نہیں۔۔سوہان نے اُس کو دیکھ کر سرجھٹک کر کہا

"اچھا ویسے میرا ایک کام کردے نہ آپ کچھ ایسا کرے کہ میں اپنی میٹنگ کے سلسلے میں یہاں سے جا پاؤں۔۔۔زوریز نے ایک بار پھر کہا

" اپنے کیس کو کافی لائٹلی لیا ہے آپ نے مگر آپ پر بڑا کیس لگا ہے"ایک ڈرگ ڈیلر ہیں آپ پولیس کے لیے فلحال تو آپ سوچ بھی کیسے سکتے ہیں اِتنے بڑے کیس کے چلتے ہوئے آپ پاکستان سے باہر جاسکتے ہیں۔۔۔سوہان کو زوریز کا بار بار یہ بات پر اڑ جانا سمجھ میں نہیں آیا تھا۔

"کورٹ کچہریوں کے چکر میں بھی مجھے پڑنا ہے ویسے میں دُنیا کا پہلا ڈرگ ڈیلر ہوں جس نے کبھی ڈرگ کو دیکھا تک نہیں ہے۔۔۔زوریز چہرے پر عجیب تاثرات سجائے بولا

"اگر اِتنا شوق ہورہا ہے ڈرگز کو دیکھنے کا تو اُٹھائے فون اور گوگل پر سرچ کریں چل جائے گا پتا پھر ڈرگز ہوتے کیسے ہیں؟سوہان تاسف سے اُس کو دیکھ کر بولی

"ویسے ڈرگز میں اِتنا نشہ نہیں ہوتا ہوگا جتنا کسی کے پیار میں ہوتا ہے۔۔۔زوریز اُس کو دیکھ کر جذب سے بولا تو اُس کی ایسی چانک بات پہ سوہان نے چونک کر اُس کو دیکھا مگر جلدی سے اپنا رُخ بدل دیا تھا۔

"لگتا ہے عمران ہاشمی سے کافی انسپائر ہیں جو ایسی بہکی بہکی باتیں کررہے ہیں۔۔۔سوہان نے تپ کر کہا تو اُس ایسے کمنٹ پر زوریز سر نیچے کرتا ہنس پڑا

"آپ کس سے انسپائر ہیں یہ بتادے کیا پتا مجھے کچھ اُس سے نالج مل جائے۔۔۔زوریز نے پوچھا

"مجھے لگتا ہے اب مجھے چلنا چاہیے۔۔۔۔سوہان اِتنا کہتی گاڑی کا دروازہ کھولنے لگی جب زوریز نے اُس کی کوشش کو ناکام بنایا

"آپ کی گاڑی کا ٹائیر پنکچر ہے۔۔"آئے میں ڈراپ کردیتا ہوں۔۔۔زوریز نے سنجیدگی سے کہا تو بے ساختہ سوہان کی نظر گاڑی کے ٹائیر پر پڑی جو واقعی میں پنکچر تھا یہ دیکھ کر سوہان کو حیرت ہوئی

"رینٹ والی گاڑی کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا کب کہاں کیسے دغا دے ڈالے پتا نہیں چلتا۔ ۔۔زوریز اُس کی حیرت بھانپ کر بولا

"یہ آپ نے کیا ہے نہ؟ سوہان مشکوک نظروں سے اُس کو دیکھ کر پوچھا

"آپ کو میں ایسا کرنے والا لگتا ہوں؟ "میں تو آپ کے ساتھ تھا پھر میں یہ کیسے کرسکتا ہوں کیا آپ نے مجھے موبائل استعمال کرتا ہوا دیکھا؟ "اگر دیکھا ہو تو آپ کا کہنا جائز ہے کہ میں کسی سے کہلواکر کرواسکتا ہوں یقین کریں میرے ہاتھ صاف ہیں۔ ۔۔زوریز نے اپنا بھرپور دفاع کیا اور سوہان اُس کی باتوں میں آ بھی گئ کیونکہ اُس نے نوٹ کیا تھا وہ جتنا وقت بھی ساتھ تھے اُس میں دونوں میں سے ہی کسی نے اپنے سیل فونز کو دیکھا تک نہیں تھا۔

"آپ کی گاڑی کونسی ہے؟سوہان نے پوچھا

"وہ والی۔۔۔زوریز نے ایک جانب اِشارہ کیا

"آپ کب سے ایکسپورٹ کار چلانے لگے؟گاڑی کو دیکھ کر سوہان نے حیرت سے پوچھا

"یہ آریان کی ہے۔۔۔زوریز نے کہا

"اچھا۔۔سوہان نے مختصر کہا

"چلیں پھر؟زوریز نے پوچھا تو سوہان سراثبات میں ہلاتی اُس کی گاڑی کی طرف آئی


"کوئی گانا سُننے پسند کریں گی؟گاڑی میں بیٹھ کر زوریز نے اُس سے پوچھا

"نہیں۔۔۔سوہان نے صاف چٹے انداز میں انکار کیا

"میں کروں گا۔۔۔کہنے کے ساتھ ہی زوریز نے میوزک سسٹم آن کیا تو کانوں کے پردے پھاڑنے والی آواز کار میں گونجنے لگی


"آج پھر تم پر پیار آیا ہے

آج پھر تم پر پیار آیا ہے

"بیحد اور بے شُمار آیا ہے

آج پھر تم پر پیار آیا ہے"


"گانے کے بولے جیسے ہی دونوں کے کانوں میں پڑے دونوں کی حالت بُری ہوئی تھی" زوریز کا پورا چہرہ خُجلت کے مارے سُرخ ہوگیا تھا جبھی اُس نے جلدی سے سٹپٹاکر گانا چینج کیا تو دوسرا گانا آن ہوا


"تیرے سامنے آجا نے سے یہ دل

میرا دھڑکا ہے

یہ غلطی نہیں ہے تیری

"یہ قصور نظر کا ہے


تیرے سامنے آجا نے سے یہ دل

میرا دھڑکا ہے

یہ غلطی نہیں ہے تیری

"یہ قصور نظر کا ہے

جس بات کا تُجھ کو

ڈر ہے وہ کرکے دیکھاؤں گا

آ آ

ایسے نہ مجھے تم دیکھو

سینے سے لگالوں گا

"تمکو میں چُرالوں گا تم سے

دل میں بسالوں گا


"دل میں ہزار صلوتیں زوریز آریان کو سُناتا پھر سے گانا بدلنے لگا تھا مگر ستم یہ تھا کہ گانا بند ہونے کو نہیں آرہا تھا جس پر سوہان نے اپنا سر پکڑلیا تھا۔مگر زوریز اپنی کوششوں میں کامیاب ہوگیا تھا جبھی تو تیسرا گانا شروع ہوا تھا۔۔


وہ میرے آنے پہ کھل جانا تیرا

وہ میرے جانے پہ چڑ جانا تیرا

وہ تیرے چھونے سے چھل جانا میرا

یاد ہے نا ،،،،، یاد ہے نا ،،،، یاد ہے نا


ہو پاس آنے پہ پگھل جانا تیرا

بوند بوند مجھ پہ برس جانا تیرا

وہ تل تل تجھ کو ترسانا میرا

یاد ہے نا ،،،، یاد ہے نا ،،،، یاد ہے نا


اِس بار زوریز کی بس ہوئی تھی اُس نے اُس لمحے کو کوسا جب اُس کے دل میں سوہان کے ساتھ بیٹھ کر گانا سُننے کی خُواہش کی تھی۔۔۔"اور اِس بار سوہان گردن موڑ کر زوریز کو دیکھنے لگی جس کے ہاتھ تیزی سے گانے کو بدلنے میں لگے ہوئے تھے مگر ہڑبڑاہٹ میں وہ جس بٹن کو پُش کرگیا تھا اُس سے گانا بند ہونے کے بجائے گانے کی آواز مزید تیز ہوگئ تھی۔۔۔"جس پر وہ لب بھینچتا سہی بٹن دبانے کی کوشش کرنے لگا۔۔


ہونٹوں سے پلکوں کو کھولنا

پلکوں پہ دردوں ،،،، کو تولنا

دردوں کو چادر میں چھوڑنا

ان دونوں کے درمیان گزرے حسین پل ۔۔۔

جو تیرے تکیوں پہ نیندیں تھیں پڑیں

جو تیری نیندوں میں راتیں تھیں ڈھلی

جو تیری راتوں میں سانسیں تھیں چلی

یاد ہے نا ،،،،، یاد ہے نا ،،،، یاد ہے نا


"سوہان جو خاموش سی مسلسل بس زوریز کی کاروائی ملاحظہ فرما رہی تھی اُس سے کچھ بھی ہوتا نہ دیکھ کر آگے بڑھ کر میوزک سسٹم آف کیا تو زوریز کی جان میں جان آئی تھی اور بے ساختہ اُس نے اپنا سر اسٹیئرنگ پر ٹِکایا تھا وہ یہ سوچ کر شرمندہ ہورہا تھا کہ اُس کا ایمپریشن سوہان پر آج بہت غلط پڑا تھا مگر دوسری طرف سوہان نے پہلی بار زوریز دُرانی کی ایسی پتلی ہوتی حالت اور چہرے کی اُڑی ہوئی رنگت دیکھی تھی جو جانے کیوں اُس کو مزہ دے گئ تھی ہڑبڑا کر گانے بدلتا ہوا زوریز آج اُس کو کوئی بچہ لگا تھا"اور کچھ ہی منٹس میں گاڑی میں سوہان کی ہنسی کے جلترنگ پوری گاڑی میں گونج اُٹھے تھے"زوریز کے کانوں میں سوہان کی ہنسی کی آواز پڑی تو وہ اپنا سر اسٹیئرنگ سے اُٹھاتا بے یقین نظروں سے سوہان کو دیکھنے لگا جس کے چہرے کی رنگت زیادہ ہنسنے کی وجہ سے سرخ ہوگئ تھی اور آنکھوں میں پانی جمع ہوگیا تھا۔۔"یہ منظر زوریز کو پہلی بار دیکھنے کو ملا تھا اور دل میں بے ساختہ یہ خُواہش جاگی تھی کہ کاش وقت یہی ٹھیر جاتا اور وہ یک ٹک بس سوہان کو ایسے ہنستا ہوا دیکھتا کیونکہ آج زوریز کو پتا لگا تھا کہ اپنی پوری زندگی میں اُس نے ایسا دلکش نظارہ پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا اور جب خوشقسمتی سے دیکھنے کو ملا تھا تو دل میں عجیب خواہشات بیدار ہوئیں تھیں دیکھتے ہی دیکھتے کچھ قبل ہوئی اپنی حالت کا سوچ کر زوریز کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آئی تھی۔۔۔

❤❤❤❤❤❤

سوری ریئلی سوری۔۔۔۔خود پر زوریز کی نظروں کو محسوس کرتی سوہان اپنی ہنسی دباتی اچانک سنجیدہ ہوئی

"نو اِٹس اوکے آپ ہنسے ہنستی ہوئیں پیاری لگتیں ہیں۔۔۔زوریز اُس کو دیکھ کر جواباً بولا

"گھر چلیں؟سوہان نے اُس کا دھیان بٹانا چاہا تھا۔۔۔

"شیور مگر یہ آپ کے لیے۔۔۔زوریز گاڑی کی پِچھلی سیٹ سے پھولوں کا بُکہ اُٹھائے اُس کی گود میں ڈالے

"صبح آپ نے تازہ پھول دیئے تھے اب پھر سے؟سوہان ناسمجھی سے اُس کو دیکھ کر بولی

"میں چاہتا ہوں یہ پھول آپ اپنے کمرے میں رکھے"تاکہ آپ کا پورا کمرہ اِن کی خوشبو سے مہک جائے اور اُن کی مہک سے آپ کو بس یہ یاد رہے کہ یہ مہک زوریز دُرانی کی وجہ سے ہے۔۔۔زوریز اُس کو دیکھ کر سنجیدگی سے بولا اگر اُس کا یہ انداز آریان دیکھ لیتا تو یقیناً محبت میں اُس کو اپنا اُستاد بناکر کلاسس لینے لگ جاتا۔۔

"اِس کا مطلب کہ آپ چاہتے ہیں کہ میں ہر وقت آپ کو سوچو اور آپ کے خیالوں میں ڈوبی رہوں یعنی ایک ناکارہ انسان بن جاؤں؟سوہان اُس کی بات کا مطلب سمجھ کر بولی

"اگر میں کہوں ہاں تو؟زوریز نے غور سے اُس کی آنکھوں میں دیکھ کر سوال کیا

"تو میں کہوں گی ایسا ممکن نہیں۔۔سوہان نے کہا

اگر میں اُس کو ممکن بنادوں تو؟زوریز نے ایک بار پھر کہا

"میں ایسا پھر بھی نہیں چاہوں گی مجھے اپنا آپ ناکارہ ہوتا ہوا بلکل پسند نہیں ہوگا۔۔سوہان نے کندھے اُچکاکر کہا

"مرد ہو یا عورت محبت میں ناکارہ نہیں ہوا کرتے ہاں آپ یہ کہہ سکتیں ہیں مجھے آپ کی دیوانی ہونا اچھا نہیں لگے گا۔۔۔زوریز نے کہا تو اُس کی بات پر سوہان کو چُپ لگ گئ تھی اُس کے پاس اب زوریز کی باتوں کا جواب نہیں تھا۔۔"وہ ایک وکیل تھی جس کے پاس دلیلوں کا انبار تھا مگر زوریز کے سامنے اپنی ہر دلیل بے معنی اور معمولی سی لگتی تھی"پیشے کی وکیل وہ تھی مگر اپنا مقدمہ اُس سے زیادہ زوریز نے اپنا لڑ لیا کرتا تھا ایسا لڑتا تھا کہ وہ لاجواب ہونے کے علاوہ کچھ اور نہیں کرپاتی تھی۔۔

"گھر چلتے ہیں آپ کی سسٹرز آپ کے لیے فکرمند ہوچُکی ہوگیں۔۔۔زوریز اُس کو کچھ بھی نہ بولتا دیکھ کر اپنی گرفت اسٹیئرنگ پر جماکر بولا

"وہ پریشان نہیں ہوگی میشو کو پتا ہے کہ میں آپ کے ساتھ ہوں میں اُس کو بتاکر یہاں آئی تھی۔۔۔سوہان اپنا رخ ونڈو کی طرف کیے بولی تو زوریز نے خوشگوار حیرت سے اُس کو دیکھا

"آپ مجھ سے ملنے آتی ہیں یہ بات اُن کو بتاکر آتیں ہیں؟یہ جان کر اُس کو خوشگوار حیرت ہوئی تھی ورنہ زوریز کو لگتا تھا کہ جیسے سوہان اُس کا ذکر اُن سے کرنا تک گوارا نہیں کرتی ہوگی

"ہاں کیوں؟سوہان نے بتانے کے بعد پوچھا

"نہیں کچھ نہیں مجھے لگا جیسے یہ بات آپ اُن سے پوشیدہ رکھتیں ہیں۔۔۔زوریز نے صاف گوئی کا مُظاہرہ کیا

"میں آپ سے ملنے آتی ہوں اِس میں پوشیدہ رکھنے والی کیا بات ہے؟"چُھپایا گُناہ کو جاتا ہے اور میرا نہیں خیال آپ کا اور میرا ملنا کسی گُناہ کے زمر میں آتا ہے۔۔۔سوہان نے کہا تو زوریز کے چہرے پر دلکش مسکراہٹ نے بسیرا کرلیا تھا جبھی وہ اب بنا کچھ اور کہے ڈرائیونگ کرنا شروع کردی تھی۔۔"جبکہ سوہان نے غیرشعوری طور پر اُن پھولوں کو اپنی سانسوں کے قریب کیے گہری سانس بھر کر اُس کی خوشبو کو محسوس کیا تھا پھر ڈرائیونگ کرتے زوریز کو دیکھا جس کے چہرے پر ہلکا سا تبسم کِھلا ہوا تھا۔۔۔"اگر اِس وقت کوئی اُس سے پوچھتا کہ تمہاری نظر میں مرد کا مفہوم کیا ہے تو وہ بلاجھجھک "زوریز دُرانی کا نام بتادیتی وہ نہیں جانتی تھی کیوں؟"اور کس لیے مگر وہ اپنی بہنوں کے علاوہ اگر کسی پر آنکھیں موندیں اعتبار کرسکتی تھی تو وہ زوریز دُرانی تھا جو اُس کے لیے کسی مسیحا سے کم نہ تھا۔۔۔


"وہ زوریز دُرانی تھا جو اپنی محبت کے لیے سب کچھ کرسکتا تھا اُس کے ہر انداز سے محبت کی جھلک دِکھتی تھی"مگر اُس کے باوجود وہ کبھی اپنے منہ سے اِظہارِ محبت نہیں کرتا تھا کیونکہ اُس کو لگتا تھا محبت لفظوں کی محتاج نہیں ہوتی بار بار لفظوں سے اِعتراف کرنے سے اچھا ہے کہ ایک دیوانہ اپنی محبت کے لیے اپنے ہر عمل سے اُس کو بتائے کہ وہ بس اُس کا ہے اور اُس کا ہی رہے گا۔۔"وہ زوریز دُرانی تھا جس کے اپنے کچھ اقوائد تھے مگر ایک لڑکی کے سامنے وہ سب بھول جاتا تھا کہ وہ کون ہے۔۔۔"زوریز دُرانی چاہتا تو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اُس کے سامنے اپنی محبت کا اعتراف کرسکتا تھا مگر اُس کو لگتا تھا کہ"آئے لو یو"چھوٹا جُملا ہے اُس کے جذبات کے آگے اپنے اندر موجود جذبات کو ظاہر کرنے کے لیے اُس کو الفاظ نہیں ملتے تھے اور جو ملتے تھے وہ اُس کو بے معنی سے لگتے تھے۔۔

❤Rimsha Hussain Novels❤

"فاحا کی آنکھ کُھلی تو وہ بے مقصد چِھت کو گھورتی رہی نیند سے جاگنے کے بعد ایک بار پھر اُس کی آنکھوں سے گرم سیال بہنے لگے تھے کیونکہ آج اُس کو وہ سب یاد آرہا تھا جس کو سوچنا تک نہیں چاہتی تھی"مگر ماضی نے کب اِنسان کی جان چھوڑی تھی جو اُس کی چھوڑتا

ماضی"!

"آپ ٹھیک ہیں؟اسلحان آج اپنی جاب سے واپس آئی تو بارہ سالہ فاحا جو لاؤنج میں بیٹھی کتابیں پڑھنے میں مصروف تھی اُس کو آج روزانہ کے برعکس تھکا ہوا اور نڈھال سا دیکھا تو فکرمندی سے پوچھ لیا"سوہان اور میشا جبکہ اپنے کالج اور یونیورسٹی میں تھیں"اور فاحا نے تو اسکول جانا کب کا چھوڑدیا تھا اپنی پڑھائی وہ گھر بیٹھے ہی کیا کرتی تھی"مگر سوہان نے سوچ لیا تھا وہ مزید فاحا کو گھر کی چار دیواروں تک گُھٹ گُھٹ کر جینے نہیں دی گی کچھ نہ کچھ وہ ضرور کرلے گی۔۔۔

"ہاں ٹھیک ہوں۔۔۔زندگی میں پہلی بار شاید اسلحان نے اُس کے کسی سوال کا جواب دیا تھا جس پر فاحا کی خوشی قابلِ دید تھی

"پانی لاؤں آپ کے لیے؟فاحا نے خوشی سے چہک کر پوچھا تو انگلیوں سے کنپٹی کو مسلتی اسلحان نے نظریں اُٹھائے فاحا کا معصوم چہرہ دیکھا جس کی آنکھوں میں ایک الگ سی چمک کی تھی اور وہ جانتی تھی اِس چمک کی وجہ

"زہر ملاکر لاؤ تاکہ پانی پی کر مرجاؤں۔۔اُس کو دیکھ کر اسلحان نے سنجیدگی سے کہا

"اللہ نہ کریں آپ یہ کیسی باتیں کررہی ہیں؟"فاحا کیوں ایسا کرے گی۔۔فاحا کا چہرہ فق ہوا تھا اُس کی بات سن کر

"تمہیں مجھ پر انتہا کا غُصہ جو ہوگا"میں نے کبھی تمہیں اپنی بیٹی جو نہیں سمجھا اور اب تمہارا یہ میرے لیے پریشان ہونا سمجھ نہیں آرہا۔۔۔اسلحان نے کہا تو فاحا اُٹھ کر اُس کے پاس بیٹھ گئ

"فاحا آپ سے ناراض یا غُصہ نہیں ہوسکتی آپ میری ماں ہیں"چاہے مجھے آپ نے اپنی بیٹی مانا ہو یا نا مانو ہو مگر آپ نے مجھے اپنے پاس رکھا فاحا کے لیے یہی بڑی بات ہے۔۔۔۔فاحا اُس کو دیکھ کر نرم مسکراہٹ سے بولی

"اچھا اگر تمہارا دل اِتنا وسیع ہے اِتنا جلدی سب کچھ درگزر کرنے والی تو کیا اپنے باپ کو بھی معاف کردو گی؟ایسی اعلیٰ ظرفی کا مُظاہرہ کرو گی؟اسلحان فاحا اپنی باتوں سے عمر سے بڑی لگی تھی تبھی سنجیدگی سے پوچھا تو فاحا کے مسکراتے لب سیکڑ سے گئے تھے

"فاحا اُس انسان کو کیسے معاف کرسکتی ہے جس نے اُس کی پیدائش پر اُس کی ماں کو طلاق دی تھی"اُس کی بہنوں کو در بدر ہونے کے لیے چھوڑدیا تھا جس نے کبھی فاحا سے ملنے کی کوشش تک نہیں کی تھی۔۔۔فاحا سنجیدگی سے بولی تو اسلحان کے چہرے پر استہزائیہ مسکراہٹ نے بسیرا کیا تھا۔

"اُس نے جو کیا اُس کو سزا ضرور ملے گی اور جو میں نے تمہاری ساتھ زیادتیاں کی ہیں اللہ مجھے اُس کی سزا سے نوازنے لگا ہے۔۔"ایک ماں ہوکر میں نے ماں ہونے کا فرض ادا نہیں کیا تو کیسے ممکن ہے اللہ مجھے معاف کردیتا۔۔۔اسلحان غیرمعی نُقطے کو گھور کر بولی

"آپ کی بات کا مطلب کیا ہے؟فاحا نے ناسمجھی سے اُس کو دیکھ کر پوچھا تب تک سوہان اور میشا بھی گھر میں داخل ہوئیں تھی اور اُن کو ایسے ساتھ بیٹھا دیکھ کر وہ اپنی جگہ حیران ہوئیں تھیں

"یہ میں کیا دیکھ رہی ہوں؟میشا اپنا کالج بیگ صوفے پر رکھتی حیرت انگیز لہجے میں بولی سوہان جبکہ خاموش سی اسلحان کو دیکھ رہی تھی۔

"امی کا چہرہ پیلا ہورہا ہے۔۔۔فاحا نے فکرمندی سے اسلحان کو دیکھ کر اُن کو بتایا

"امی آپ ٹھیک ہیں؟"کیا کچھ ہوا ہے اور ساجدہ آنٹی کہاں ہیں؟سوہان پریشان سی اُس کی طرف بڑھی تھی

"وہ کچن کا سامان ختم ہوگیا تھا تو وہ عاشر بھائی کے ساتھ مارکیٹ تک گئ ہیں۔۔۔جواب فاحا نے دیا تھا۔۔۔'جبکہ اسلحان نے اپنی پرس سے کچھ کاغذات نکالے تھے۔

"یہ لو۔۔اسلحان نے وہ کاغذات سوہان کی طرف بڑھائے

"یہ کیا ہے؟سوہان نے ناسمجھی سے اُس کو دیکھ کر پوچھا

"یہاں ہمارا جو گھر ہے اُس کے کاغذات ہیں میں نے وہ گھر بیچنے کا سوچا ہے۔۔۔اسلحان نے بتایا

"کیا مطلب بیچنے کا سوچا ہے امی وہ گھر آپ کے بھائی نے آپ کو لیکر دیا تھا وہ آپ کیسے بیچ سکتی ہیں؟"اور ہوا کیا ہے آپ سہی سے کچھ بتا کیوں نہیں رہیں؟میشا نے سخت جھنجھلاہٹ سے بھرپور آواز میں اُس سے پوچھا

"ہمارا یہ گھر ہے نہ ماہانہ کرایہ ادا کرتیں رہنا مقان مالک کبھی تم لوگوں کو یہاں سے جانے کا نہیں بولے گا۔۔"اور گھر بیچنا ازحد ضروری ہے۔۔۔اسلحان نے بتایا

"گھر بیچنا کیوں ضروری ہے؟سوہان نے پوچھا

"آپ کہی جارہی ہو جو ایسی باتیں کررہے ہیں؟فاحا کی حالت رونے والی ہوگئ تھی

"زندگی پر کوئی بھروسہ نہیں ہوتا اور گھر بیچنا اِس لیے ضروری ہے کیونکہ میرے پاس اب پیسے نہیں ہیں جو میں تم لوگوں کے کالجوں اور یونی کی فیس بھروں۔۔"اور سوہان تم لندن جاؤں گی اپنی پڑھائی تم وہاں پوری کروں گی تمہیں ایک مشہور ہستی بننا ہے اپنے باپ کو دیکھانا ہے کہ تم کسی سے کم نہیں ہو تم چاہے لڑکی ہو مگر آسمان کی بلندیوں کو چھو سکتی ہو اور تمہاری اِس اخراجات کے لیے پیسے اُس گھر سے نکل آئے گے۔۔۔"اور میشو۔۔۔سوہان کو حیران چھوڑ کر اسلحان نے اِس بار میشا کو مُخاطب کیا جو دم سادھے اُس کو سُن رہی تھی

جی؟میشا نے سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھا"فاحا کی آنکھیں جبکہ آنسوؤ سے بھرگئ تھیں "سوہان کے لندن جانے کا سُن کر

"تم نے بھی خود کو بہت اسٹرونگ بنانا ہے اور کچھ ایسا کرنا ہے کہ کسی مرد کی ہمت نہ ہو کہ تم تینوں پر اپنی غلیظ نظریں اُٹھائے بھی۔۔۔اسلحان نے کہا تو اُس کی باتوں نے اُن لوگوں کو پریشان کردیا تھا

"فاحا کے بارے میں کیا سوچا ہے آپ نے؟سوہان نے سنجیدگی سے پوچھا

"فاحا سی ایس ایس کرے گی اور اُس میں فاحا کو سلیکٹ بھی ہونا پڑے گا اور وہ اسسنٹ کمشنر ہی بننا ہے فاحا نے باقی کا کام اُس کو وقت سمجھادے گا۔۔۔اسلحان نے فاحا کو دیکھ کر کہا تو وہ ساکت سی اُس کو دیکھنے لگی تھی۔۔

"سی ایس ایس؟میشا حیران ہوئی

"نوریز ملک نے کہا تھا بیٹیاں کچھ نہیں کرسکتی تو اُن کو بس بتانا ہے کہ لڑکیاں کیا کچھ نہیں کرسکتی۔۔"اُمید ہے فاحا کو میری بات سمجھ میں آئے گی۔۔۔اسلحان نے آخر میں فاحا کو دیکھ کر کہا

مجھے یہ تو نہیں پتا کہ سی ایس ایس کی تیاری گھر بیٹھے ہو سکتی ہے یا نہیں ہو سکتی لیکن سی ایس ایس مجھے کرنا ہے اُس کے نتیجے میں پاس بھی ہونا ہے بس یہ بات میں اپنے کمرے کی دیوار پر نصب کردوں گی"تاکہ فاحا کو یاد ہو کہ اُس کو اپنی زندگی میں کیا کرنا ہے۔۔۔فاحا نے کچھ توقع بعد کہا تو اچانک سے اسلحان کو جانے کیا ہوگیا تھا کہ اُس کو اپنے سینے سے لگایا تھا۔۔۔"اُس کا یہ عمل اُن تینوں کے لیے کسی شاک سے کم نہیں تھا۔

"مجھے معاف کردینا میں جانتی ہوں بہت زیادتیاں کرچُکی ہوں تمہارے ساتھ پر اب میں جان گئ ہوں کہ تمہارا بھی کوئی قصور نہیں قصور میری قسمت کا تھا جس میں یہ میرا در بدر ہونا لکھا ہوا تھا۔۔اسلحان کی آنکھوں سے آنسو کسی صورت رُکنے کا نام نہیں لے رہے تھے اور یہی حال فاحا کا تھا اُس کا چہرہ خوشی سے جگمگارہا تھا آخر کو اِتنے سال بعد اُس کو اپنی ماں کا لمس میسر ہوا تھا تو کیسے ممکن تھا کہ وہ خوش نہ ہوتی آج کے دن کا انتظار تو اُس کو جانے کب سے تھا اور اللہ کی مہربانی سے پورا ہوگیا تھا اُس کا انتظار


"ہم بھی ہیں راہیں قطار میں۔۔۔میشا بھی آگے بڑھ کر اُن کے ساتھ لگی تھی جبکہ سوہان کی نظریں بھٹک کر پرس سے باہر ظاہر ہوتی ایک فائل پر پڑی تھی وہ ایک نظر اُن پر ڈالتی اسلحان کی پرس سے وہ فائل نکالی"وہ کچھ رپورٹس تھی تو سوہان جیسے جیسے فائل کھول کر پڑھنے لگی اُس کے حواس کام کرنا بند کرگئے تھے اُس کا پورا دماغ ماؤف ہوگیا تھا اور وجود پورا سن ہوگیا تھا کیونکہ یہ رپورٹ ظاہر کررہی تھی کہ اسلحان کو کینسر جیسی بیماری تھی"اور یہ بات جاننے کے بعد اسلحان نے جذباتی ہوکر اُن تینوں پر اُن کی ذمیداریاں ڈال دی تھی وہ ابھی فاحا کی خوشی سہی سے منا بھی نہیں پائی تھی کہ اِن رپوررٹس کو دیکھ کر اُس کا دل پھٹنے کی حد تک غم اور تکلیف سے بھر گیا تھا۔"ایک واحد سہارا تو اُن کی ماں تھی جو لعن طعن کرنے کے باوجود بس اُن کے بارے میں سوچ کر اپنی راتوں کی نیند حرام کرلیا تھا جو فاحا کو منحوس ہے کہنے کے باوجود اُس کی مختصر خُواہشوں اور ضرورتوں کو پورا کرتی تھی۔۔"جو غمزدہ ہوتے ہوئے بھی کڑی دھوپ میں اُن کے لیے ٹھنڈی چھاؤ تھی اگر اُس کو کچھ ہوجاتا تو اُن کا کیا ہوتا؟"باپ تو پہلے ہی اُن کا نہیں تھا اب ماں کو کھونے کا ڈر بھی دل میں کُنڈلی مارے بیٹھ گیا تھا۔۔۔"اور پھر اُس کا ڈر ایک دن حقیقت میں بدل گیا تھا اسلحان کا اچھا علاج کروانے کے باوجود وہ کینسر جیسی موزی بیماری سے لڑ نہیں پائی تھی اور اُن کو اکیلا چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلی گئ تھی۔۔"اور اسلحان کا اُن کی زندگی سے یوں نکل جانا ہر درد ہر تکلیف سے بھاری ثابت ہوا تھا جس سے بڑی مشکل سے اُنہوں نے خود کو سنبھالا تھا کیونکہ اُن کو اپنی زندگی میں بہت کچھ کرنا تھا وہ جانتی تھیں مرنے والوں کے ساتھ مرا نہیں جاتا بلکہ زندہ رہ کر حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔۔۔

❤Rimsha Hussain Novels❤

"حال؛

"اُٹھ گئ ہو تم؟میشا اُس کے کمرے میں آتی بولی تو فاحا نے چونک کر اُس کو دیکھا

"جی اُٹھ گئ ہوں۔۔۔فاحا اپنی حالت میں سُدھار لاتی اُس سے جواباً بولی

"رات کے دس بجے کا وقت ہوا ہے اب تم کیا ساری رات جاگ کر مچھریں ماروں گی؟میشا نے اُس کو دیکھ کر پوچھا

"کچھ نہ کچھ کرلوں گی۔۔۔فاحا نے سنجیدگی سے بتایا

"موڈ سہی کرو اپنا مجھے روندو سی فاحا اچھی نہیں لگتی"اور آج کیا یاد کرو گی تم یہی تمہیں کھانا دوں گی۔۔۔میشا آگے بڑھ کر اُس کے گال کھینچ کر اپنے ساتھ لگائے کہا تو فاحا بہت وقت بعد مسکرائی تھی۔

"کھانا پکا ہوا ہے کیا؟فاحا نے اُس سے پوچھا

"وہی دوپہر گرم ہوجائے گا۔۔میشا نے لاپرواہی سے بتایا

"آپ نے کھایا ہے؟"اور سوہان آپو کدھر ہیں؟فاحا کو اچانک خیال آیا تو پوچھ لیا

"سوہان باہر ہے رستے میں ہے آئے تو پھر ساتھ مل کر کھانا کھائے گے۔میشا نے بتایا

رات کے دس بجے کا وقت ہورہا ہے سوہان آپو کہاں گئ تھیں اور کدھر سے آرہی ہیں؟فاحا نے اُس کی بات پر حیرت سے پوچھا

"یہ تو آئے تو خود پوچھ لینا کہاں پہلے جانے پر نخرے دیکھا رہی تھی اور اب گئ ہے تو آنے کے آثار نظر نہیں آرہے۔۔۔میشا نے سرجھٹک کر بتایا کیونکہ اُس کو سوہان کا اِتنے وقت تک باہر رہنا خائف کرگیا تھا"وجہ سوہان کا یوں لاپرواہی سے باہر جانا تھا جبکہ وہ اچھے سے جانتی تھی کہ اپنے کیس کے بعد اُس کے دوست کم اور دُشمن زیادہ ہوگئے ہیں۔"ایسے میں اُس کا باہر جانا کسی خطرے سے کم نہیں تھا

"کیا وہ زوریز دُرانی سے ملنے گئ ہے؟"پر کیوں وہ تو منع کرچُکی تھی۔۔فاحا کو سمجھ میں نہیں آیا

"بس تم میری ایک بات یاد رکھ لو۔۔میشا نے کہا

"کونسی بات؟فاحا نے پوچھا

"یہی کہ زوریز دُرانی سوہان ملک کے ڈپریشن کی دوا ہے اگر دونوں نے ایک دوسرے سے اِظہارِ محبت نہ بھی کیا تو ایک دوسرے کو چھوڑو گے نہیں۔۔میشا نے آرام سے کہا

"میں آپ کی بات سمجھ نہیں پائی۔۔فاحا کے سر پر سے گُزری

اففف تو تمہاری معصومیت کا لیول گونچو میری بات کا مطلب ہے تمہاری بہن اور زوریز دُرانی اِن دونوں نے کنوارا مرنا ہے۔۔میشا نے کہا

"اللہ نہ کریں کیسی باتیں کررہی ہیں آپ۔۔فاحا نے جلدی سے کانوں کو ہاتھ لگائے تھے۔

جِس طرح نظریں چُراتے ہیں اور دونوں محبت سے بھاگتے ہی۔ اُس کا یہی نتیجہ نکلنا ہے خیر میں نے سوچا تھا آج رات مجھے نیند میسر نہیں ہوگی بس تمہارے آنسوؤ پونچھنے میں میری رات گُزر جائے گی ساری پر الحمد اللہ تمہارے آنسوؤ خودبخود خشک ہوچُکے ہیں اور تمہیں ہٹا کٹا دیکھ کر مجھے اچھا لگا اور اگر تم چاہتی ہو مجھے تم اور اچھی لگو تو اُٹھو اور میرے لیے گرم گرما چائے کا کپ بناکر لاؤ لائچی کے ساتھ تاکہ چسکا آجائے۔۔۔"میں تھک گئ ہوں اب آرام کروں گی۔۔۔میشا اُس کو آرام سے کہتی پورے بیڈ پر پھیل کر لیٹ گئ تو فاحا آنکھیں پھاڑے اُس کو دیکھنے لگی۔۔

"میشو آپو احساس کریں زرا آپ کی چھوٹی بہن ہوں۔۔۔فاحا نے تاسف سے اُس کو دیکھ کر کہا تو میشا نے پٹ کر اپنی آنکھیں کھولی اور کروٹ بدل کر کہنی کے بل لیٹ لیکر اُس کو دیکھا

"تم احساس کی بات کرتی ہو جبکہ شام سے لیکر رات کے دس بجے ہونے تک میں نے تمہیں سکون سے سونے دیا یہ میرا احسان تھا ورنہ تم ایسے بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی جیسے جہیز میں ملا ہو سسرال والوں نے بری میں دیا ہو"چھوٹی بہن مت بھولو یہ ہمارا مشترکہ بیڈ ہے ہمارا۔۔میشا نے جتاتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا

"وہ سب تو ٹھیک مگر آپ نے کہا تھا کھانا مجھے یہاں دینگی مگر آپ مجھے چائے بنانے کا بول رہی ہیں"اِٹس ناٹ فیئر۔۔۔فاحا نے احتجاجاً کہا

"چائے بنانے کا بول رہی ہو پائے بنانا کا نہیں کہا جو یوں مسکینوں جیسی شکل بنائی ہوئی ہے۔۔"سارا دن لیٹ کر بستر توڑا ہے اب اگر چائے بنالو گی تو کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔۔۔میشا نے باقاعدہ زبردستی اُس کو بیڈ سے نیچے کیا

"قیامت کے دن اِس کا الگ سے حساب ہوگا آپ سے۔۔پاؤں میں چپل ڈالتی فاحا نے اُس کو وارن کیا

"یہ بیڈ میرے لیے گواہی دے گا کہ کیسے تم نے اِتنا وقت سوکر اِس کی کمر توڑی ہے۔۔میشا نے اُس کی بات ہوا میں اُڑائی تو فاحا پاؤں پٹختی کمرے سے باہر آئی عین اُسی وقت سوہان بھی گھر میں داخل ہوئی تو اُس کی جب نظر فاحا پر پڑی تو وہ جذباتی ہوکر اُس کی طرف بڑھ کر کچھ کہنے والی تھی جب فاحا بول پڑی

"آپ نہ چائے کا بڑا سا مگ خرید کرے ہفتہ بھر کی چائے بناکر میشو آپو کے کمرے میں رکھ دے ساتھ کمرے میں ایک چھوٹا سا چولہا بھی تاکہ جب اُن کا دل چاہے وہ چائے گرم کرکے پی لے مجھے زحمت نہ دے توبہ اللہ کا اِتنے مزے سے سوئیں تھی کہنی سر پر ٹِکائے فاحا کو اپنا آپ کسی فلم کی ہیروئن سے کم نہیں لگ رہا تھا مگر میشو آپو نے سارا کچھ خراب کردیا اب رات کو بغیر کھانا کھائے سوئیے گا فاحا کے پاس کوئی نہ آئے اور میری بات پر آپ غور ضرور کیجئے گا۔۔۔فاحا نان سٹاپ بولتی بنا اُس کی سُنے اُس کے برابر سے گُزر گئ پیچھے سوہان حق دق اُس کو جاتا ہوا دیکھنے لگی"گھر آنے پر اُس نے جو دونوں کا ری ایکشن سوچا تھا یا جیسی اُس نے توقع رکھی تھی خیر سے دونوں نے اُس پر پانی بالٹی گِرائی تھی۔۔"وہ جس حالت میں فاحا کو چھوڑ کر گئ تھی ایسے میں فاحا کا ایسے پہلے کی طرح بولنا اُس کو شاک میں مبتلا کرگیا تھا مگر اپنا سر دائیں بائیں ہلاکر سوہان نے جلدی سے خود کو کمپوز کیا

"دُنیا یہاں سے وہاں ہوجائے یا سونامی آجائے اِن دونوں کا جھگڑا اور پاگل پن کبھی ختم نہیں ہوگا اور میں میشو اور فاحا کی بہن ہوں مجھے حیران ہونا سوٹ نہیں کرتا کیونکہ اِن دونوں سے ہر چیز کی توقع کی جاسکتی ہے۔۔۔سوہان گہری سانس بھر کر خود سے بڑبڑاتی اپنے کمرے کی طرف چلی گئ تھی اگر وہ دونوں دوپہر میں ہوئے حادثے کو ڈسکس کرنا نہیں چاہتیں تھی تو سوہان بھی ایسا ہی چاہتی تھی۔۔۔

پکڑے چائے فاحا اب سوئے گی آپ زرا ایک طرف ہوجائے یوں لگ رہا ہے جیسے بیڈ آپ کو جہیز میں یا پھر سسرالوں سے بری میں ملا ہے۔۔۔کچھ منٹس میں کمرے میں چائے لاتی فاحا نے میشا سے حساب بے باک کیا تھا۔

"پاگل بدھو بری میں بیڈ کون دیتا ہے۔۔میشا اُس کے ہاتھ سے چائے لیتی ہنسی دبائے بولی تو فاحا منہ ہی منہ میں بڑبڑاتی کمرے کی کھڑکی کی طرف آئی تک اُن کو بند کرسکے مگر جیسے ہی وہ کھڑکیوں کے دونوں پٹ بند کرنے لگی تو اُس کو سامنے دیوار پر ایک سایہ نظر آیا جس کو دیکھ کر فاحا کا گلا خشک ہوا تھا اُس نے بے ساختہ اپنے سوکھے لبوں پر زبان پھیری تھی۔

"یہ سایہ کس کا ہے؟"جاکر دیکھو کیا؟فاحا نے بیحد آہستہ آواز میں خود سے سوال کیا

"ارے فاحا کیا پاگل ہوگئ ہو کیا تمہیں پتا نہیں ہارر ڈراموں میں اور موویز میں بھی کریکٹرز کو ایسے سایہ نظر آتا ہے جس سے ملنے یعنی پہچاننے کے لیے وہ اُس کے پیچھے جاتے ہیں اور وہ سایہ جو کسی جن کا ہوتا ہے وہ آسیب کی طرح اُس انسان میں چمٹ جاتا ہے اور وہ تو پاگل ہوتے ہیں جو جان کر بھی خود کو خود ہی کھائی میں گراتے ہیں فاحا اُن کی طرح بیوقوف تھوڑئی ہے جو جانتے ہوئے بھی نیچے اکیلے جائے اُن کو تو پتا بھی ہوتا ہے ہارر موی ہے ہارر ڈرامہ ہے اُن کو جن ہی ملے گا شہزادہ گُلفام نہیں پھر وہ کیوں مصیبت کو دعوت دیتے ہیں بھلا جن بھی کوئی دیکھنے والی مخلوق ہے جو بندہ رات کے پہر اپنا کمرہ اور گرم بستر چھوڑ کر یہ دیکھنے جائے کہ کالہ سایہ کس جن کا ہے۔۔۔اپنے خیالات کی خود ہی نفی کرتی فاحا مسلسل اُس سایے پر نظریں جمائے بڑبڑانے میں مصروف تھی اُس کو افسوس بھی ہورہا تھا اُن لوگوں پر جو رات کے وقت خوف میں مبتلا ہونے کے باوجود "کون ہے کون ہے"کہتے ہوئے اُس جن کے پیچھے جاتے ہیں۔۔

"ہونہہ آیا بڑا جن فاحا میں سمانے والا وہ کھڑکی بند کردے گی اور آرام سے سوجائے گی۔۔۔فاحا ایک ہی جگہ کھڑی ہوتی آخر کو ایک فیصلے پر پہنچ کر اُس نے کمرے کی کھڑکیوں کو بند کیا اور بیڈ پر آئی جہاں میشا چائے پینے کے بعد جانے کیسے سوگئ تھی۔۔

"ویسے جن دروازے سے آنے کی زحمت نہیں کرے گا وہ ایسے بھی آسکتا ہے۔۔۔"فاحا بیڈ پہ لیٹتی خود سے تانے بانے جوڑنے لگی پھر ایک خیال کے تحت اُس نے میشا کو دیکھا جو نیند میں تھی اُس کو دیکھتی فاحا نے جلدی سے اُس کو ہگ کیا۔۔

"اب ایسے سونے سے جن اگر فاحا میں سمانا پائے گا بھی تو اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوپائے گا وہ تو ہمارے درمیان اب پھسے جائے گا واہ فاحا تیرا کوئی جواب نہیں۔۔اپنی کاروائی سے مطمئن ہوتی فاحا پرسکون ہوتی آنکھیں موند گئ تھی اُس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی کیونکہ بقول اُس نے ایک جن کو بیوقوف بنالیا تھا۔۔

❤❤❤❤❤❤❤


آریان گہری نیند میں سویا خواب و خروش کے مزے لوٹ رہا تھا جب اچانک کسی نے اُس کے اُپر پانی کا گِلاس گِرایا تو وہ ہڑبڑا کر اُٹھ کھڑا ہوا

"اللہ سیلاب آگیا کیا۔ ۔۔آریان اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتا اپنے کپڑوں کو جھاڑنے لگا۔ ۔

"یہی سمجھو۔ ۔۔زوریز کی آواز پر آریان نے چونک کر سراُٹھائے اُس کی طرف دیکھا جو ہاتھ میں خالی پانی کا گلاس پکڑے کھڑا تھا

"مجھ پر ایسی عنایت کرنے کا مقصد؟آریان نے حیرت میں ڈوبی آواز سے پوچھا

"یہ تم نے اپنی گاڑی میں کیا بیہودہ گانے رکھے ہوئے ہیں" اِتنی فضول سلیکشن ہوگی تمہاری گانوں کے مُطلق مجھے اندازہ نہیں تھا۔ ۔۔زوریز نے طنز انداز میں کہا تو آریان سمجھ نہیں پایا کہ وہ کہنا کیا چاہ رہا تھا

"آپ نے میرے میوزک سسٹم کا پوسٹ مارٹم کیا ہے کیا؟ "اور جس کو تم بیہودہ"فضول بول رہے ہو اُس کو انگریزی میں رومانٹک سونگز کہتے ہیں۔ ۔۔آریان نے جتاتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر جیسے اُس کی معلومات میں اضافہ کیا تھا۔

"ریئلی رومانٹک سونگز؟ زوریز نے آئبرو اُپر کیے اُس کو دیکھا

"جی ہاں رومانٹک سونگز جس کو سُن کر دل کی تاریں ہِل جاتیں ہیں" گانوں کے بول دل میں" ٹھاہ" کرکے لگتے ہیں اور اُس کی آواز جب بیک گراؤنڈ میں گونجتی ہے تو ماحول رومانوی بن جاتا ہے۔ ۔۔آریان تکیہ گود میں رکھتا خیالوں میں گم ہوکر اُس کو بتاتا گیا۔ ۔۔

"ٹھاہ کا تو پتا نہیں مگر تمہاری وجہ سے کل میں سوہان کے سامنے بہت شرمندہ ہوگیا تھا۔۔۔زوریز نفی میں سرہلاکر بولا

"تو کیا آپ نے اُس کے سامنے گانے چلائے تھے؟آریان حیران ہوا

"ہاں کیوں کیا مجھے نعت لگانے چاہیے تھے۔ ۔زوریز کو اُس کا اِتنا حیران ہوا پسند نہیں آیا

"ارے نہیں مطلب جیسی آپ دونوں کی پرسنائلٹی تھی مجھے لگا آپ دونوں قوالی سُننے کے شوقین ہوگے خیر یہ بتائیں کیسی رہی کل کی مُلاقات؟ آریان نے شرارت سے اُس کو دیکھ کر پوچھا

"بکواس نہیں کرو اپنے گانوں کی پسند کو بدلو پتا نہیں کل مجھے کیا ہوا تھا جو تمہاری گاڑی لے گیا اور ساتھ میں میوزک بھی آن کرلیا حلانکہ تمہاری رگ رگ سے واقف ہوں پھر کیسے سوچ لیا کہ تمہاری کوئی چیز سیدھی بھی ہوسکتی ہے۔ ۔۔زوریز اُس کو کڑے چتونوں سے گھور کر کہا

"اب یہ تم میری انسلٹ کررہے ہو دو سال بڑے ہو تو اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تم جو کہو گے میں وہ بس سُنتا جاؤں گا۔۔۔آریان احتجاجاً بولا

"بکو مت جو کہا ہے وہ یاد کرلوں۔۔۔زوریز نے کہا تو وہ گڑبڑا سا گیا

"اچھا نہ دیکھتا ہوں پہلے تم یہ بتاؤ کہ کیسا گانا لگا اور کونسا سُنا؟آریان نے رازدرانہ انداز میں اُس سے سوال کیا

"تمہارے پاس کوئی سُننے جیسے تھا سہی جو میں سُنتا کسی لڑکی کے ساتھ بیٹھ کر۔۔۔زوریز نے بھگو کر طنز کیا

"اگر پتا ہوتا تو نصرت فتح کی یا عابدہ پروین کی کوئی قوالی رکھ لیتا خیر کوئی بات نہیں اگلی بار میں دھیان میں رکھوں گا۔۔آریان نے اُس کو گویا تسلی کروائی تھی پر اُس کی بات پر زوریز نے تپ کر اُس کی ڈھیٹائی کو دیکھا تھا۔۔

"تمہیں واقعی وہ میشا ہی سُدھار سکتی ہے۔ ۔زوریز تنگ ہوکر بولا

"میں تو چاہتا ہوں مجھ بگڑے ہوئے کو وہ سُدھارے۔ ۔آریان دلفریب لہجے میں بولا تو زوریز اپنا سر نفی میں ہلاتا اُس کے کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ آریان خیالوں میں خود کو اور میشا کو ایک ساتھ دیکھ کر اُن خیالوں میں ڈوب گیا۔۔

❤Rimsha Hussain Novels❤

"یہاں سے اِتنا دور شہر گئے پھر کیا حاصل ہوا کچھ بھی تو نہیں پھر کیوں تم اُن کی زندگیوں میں مُداخلت کررہے ہو جن کی نظروں میں تمہاری کوئی عزت نہیں۔ ۔۔سجاد ملک اپنے ساتھ نوریز ملک کو بیٹھا کر بولے

"بیٹیاں ہیں زیادتیاں بھی کی ہیں میں نے اُس پر خفا ہیں پر میں جانتا ہوں ایک نہ ایک دن مجھے وہ معاف ضرور کردینگی۔ ۔نوریز ملک پُریقین لہجے میں بولا

"ہممم معاف کر بھی دے تو کیا گارنٹی ہے کہ وہ تمہارے ساتھ اِس حویلی میں قدم رکھے گی۔ ۔۔سجاد ملک نے سنجیدگی سے پوچھا

"یہ حویلی اُن کی بھی ہے اُن کا حق ہے یہاں سے تو وہ کیسے نہیں آئے گی؟ "وہ آئے گی میں لاؤں گا اُن کو اپنے ساتھ۔۔نوریز ملک بھی جواباً سنجیدگی سے بولے

دیکھتے ہیں وہ آتیں ہیں یا نہیں اگر آئے گی بھی تو یہاں اُن کا ٹِکنا مشکل ہے کیونکہ وہ شہر میں پلی بڑی ہیں" گاؤں میں ایڈجسٹ ہونا اُن کے لیے آسان نہیں ہوگا۔ ۔۔سجاد ملک نے مزید کہا

"وقت انسان کو ہر حال میں ایڈجسٹ کرنا سیکھا دیتا ہے آپ اُس کی فکر نہ کریں بس دعا کریں کہ وہ مان جائے" اُن کا دل میری طرف سے موم ہوجائے۔ ۔۔نوریز ملک رنجیدگی سے بولے

"ایک کام کیوں نہیں کرتے اُن کے لیے کوئی اچھا سا رشتہ تلاش کرو پھر باری باری تینوں کی شادی کروادوں ایسے تم اپنے آخری فرض سے سبکدوش ہوجاؤ گے۔۔۔سجاد ملک جانچتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولے

"شادی جب قسمت میں ہوگیں تو ہوجائے گی میں اِس وقت اُن کے لیے کچھ اور سوچے بیٹھا ہوا ہوں۔۔۔نوریز ملک نے سنجیدگی سے کہا

"جانتا ہوں تم کیا سوچے ہوئے ہو دیکھتے ہیں اب وہ کیا کرتیں ہیں۔۔سجاد ملک نے کہا تو نوریز ملک خاموش سے ہوگئے تھے۔۔

Rimsha Hussain Novels❤

السلام علیکم ۔۔سوہان باہر آئی تو فاحا نے عجلت میں اُس کو سلام کیا

وعلیکم السلام فاحا تم یہاں ہو بھول گئ ہو تو یاد کروادوں آج تمہارا امتحان ہے۔۔۔سوہان نے وال کلاک میں وقت دیکھ کر سنجیدگی سے فاحا کو دیکھ کر کہا

"جی آپو پتا ہے فاحا کا امتحان اُس کا ٹیسٹ لینے والا ہے میں تو بس ناشتہ کے لیے انتظار میں تھی آپ بھی جلدی سے بیٹھ جائے میں تب تک کچن سے بریڈ لاتی ہوں۔۔فاحا نے جلدی سے اُس کو جواب دیا

"میشو کہاں ہے؟سوہان اپنے لیے کُرسی گھسیٹ کر بیٹھتی اُس سے میشا کا پوچھنے لگی

"وہ ساجدہ آنٹی کو ناشتہ دینے کمرے میں گئ ہیں۔۔۔فاحا نے بتایا

"سہی ہے تم بھی اپنے ہاتھ تیزی سے چلاؤ اور یہاں سے نکلنے کی کرو۔۔سوہان نے کہا تو فاحا بھاگنے والے انداز میں کچن میں گئ اور جلدی سے واپس بھی آگئ تب تک میشا بھی ناشتے کی ٹیبل پر حاضر ہوئی تھی

"میرا پراٹھا اور چائے کہاں ہے؟میشا نے آتے ہی شور مچایا

"ِیہ رہا آپ کا پراٹھا اور آپو یہ رہا آپ کا اُبلا ہوا انڈا۔۔۔فاحا نے باری باری دونوں کو ناشتہ سرو کیا

"تیاری اچھی ہے تمہاری؟چائے کا لمبا گھونٹ بھر کر میشا نے اُس سے پوچھا

"ہاں بہت اچھی ہے۔۔۔فاحا کافی پرجوش تھی۔

"گُڈ میدان مار کر آنا خود مرکر نہ آنا۔۔۔میشا نے اُس کو دیکھ کر کہا

"فکر نہ کریں سب اچھا ہوگا۔۔فاحا نے اُس کو تسلی کروائی

آرام سے پیو چائے اِتنے چسکے کیوں لے رہی ہو۔۔۔سوہان اپنے کان پہ ہاتھ رکھ کر اُس کو گھور کر بولی تو میشا نے چائے کا لمبا گھونٹ بھر اور بڑا چسکا لیا تو سوہان نے تپ کر اُس کو دیکھا مگر فاحا ہنس پڑی

"ہائے آپو کاش آپ ایسے چائے پینے کی عادی ہوجائے اور جب شادی کے بعد اپنے شوہر کے ساتھ کسی دعوت میں جائے تو جو بھی آپ کھائے اُس کی کرچک کرچک ہر ایک کے کانوں میں پڑے۔۔۔فاحا نے مزے سے اُس کو دیکھ کر کہا

"توبہ کرو۔۔۔میشا فاحا کی باتوں کو امیجن کرتی اپنے کانوں کو ہاتھ لگائے بولی تھی"جس سے سوہان نے سرجھٹکا تھا۔۔

"امیجن کرتے ہوئے آپ کا یہ حال ہے اگر سچ مچ ہوجائے تو جانے کیا ہوگا۔۔۔فاحا نے گویا اُس کو چِڑانے کی کوشش کی

"میرا ناشتہ ہوگیا ہے تو میں نکلتی ہوں اور فاحا تم بھی چلو میں ڈراب کردیتی ہوں"میشو جب تم اپنی کلنک کے لیے نکلو تو گھر کے کھڑکی دروازے بند کرلینا۔۔۔سوہان چیئر سے اپنا لونگ کوٹ اُٹھائے اُن دونوں سے بولی

"ناشتہ تو کرلوں تب تک آپ باہر جاکر دیکھے ایک سرپرائز آپ کا منتظر ہے۔۔۔فاحا گھٹا گھٹ جوس پیتی سوہان سے بولی تو وہ الجھن بھری نظروں سے میشا کو دیکھنے لگی جس نے شانے اُچکا دیئے تھے۔

"کیسا سرپرائز؟سوہان نے پوچھا

"وہ تو باہر جائے گی تبھی آپ کو نظر آئے گا۔۔فاحا نے سکون سے کہا

کہی میشو نے کسی کو کو مارا تو نہیں؟ سوہان مشکوک نظروں سے فاحا کو دیکھا

"ایک تو تمہاری تفتیشی نظریں مجھ معصوم پر اٹکی ہوتی ہیں بہن باہر جاکر دیکھ آؤ کیا بات ہے؟'کونسا مسئلہ ہے۔۔اپنی بات کہہ دینے کے بعد میشا پراٹھے سے انصاف کرتی سوہان کو گھورنے لگی۔

"جاتی ہوں۔۔سوہان اِتنا کہتی اپنے قدم باہر کی طرف بڑھائے

"کل میرے لیے آلو کا پراٹھا بنانا۔۔۔سوہان کو جاتا دیکھ کر میشا نے فاحا سے کہا

"آلو کھا کھا کر تو آپ کی شکل آلو جیسی ہوگئ ہے مگر آپ پھر بھی اُن آلو کی جان نہ چُھوڑنا۔۔۔فاحا اُس کے گول مٹول بھرے ہوئے گال دیکھ کر تاسف سے بولی

"ایک تم بس میرے نوالے گِنتی رہنا تمہاری طرح چوسی ہوئی آم کی گٹھلی نہیں بن سکتی میں۔۔۔میشا نے اُس کے پاس سے بریڈ اُٹھائے کہا تو فاحا کا مُنہ کُھلا کا کُھلا رہ گیا۔

"آپ کو میں آم کی گٙٹھلی لگتی ہوں اور وہ بھی چوسی ہوئی؟فاحا نے حیرت سے اُس کو دیکھ کر بولی

"ہاں کیوں تمہیں نہیں پتا آئینے میں دیکھو لگ جائے گا پتا۔۔۔میشا نے مسکراہٹ دبائے اُس کو چڑایا

"خود کیا ہیں آپ؟"کیلے کا چِھلکا۔۔۔۔فاحا نے حساب بے باک کیا

"مجھے پرواہ نہیں کیونکہ اُس کے چِھلکے پر جو پاؤں رکھتا ہے وہ زمین بوس ہوجاتا ہے۔۔۔میشا نے اُس کو زچ کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی جس پر فاحا دانت کچکچا کے رہ گئ۔۔۔"دوسری طرف سوہان نے جب گیٹ کے پاس نیو گاڑی کو دیکھا تو اُس کو یقین نہیں آیا جو نہ زیادہ بڑی تھی اور نہ چھوٹی مگر تھی بہت خوبصورت ۔

"فاحا

میشو۔۔

"گاڑی کو دیکھ کر سوہان نے اُن دونوں کو آوازیں دی جو آ بھی گئ تھیں

"یہ کیا ہے۔۔سوہان نے فاحا کو دیکھ کر پوچھا

"یہ صابن دانی فاحا نے تمہارے لیے خریدی ہے تمہارا برتھ ڈے تھا نہ پاسٹ کی برتھ گرل۔۔جواب فاحا کے بجائے میشا نے دیا تھا جس کو سن کر فاحا کا منہ بن گیا تھا کیونکہ اُس کے اِتنے پیارے تحفے کو میشا نے"صابن دانی سے تشبیہہ دی تھی۔۔۔

"پیسے کہاں سے آئے تمہارے پاس اِتنے؟سوہان کا انداز کافی بے لچک تھا اور میشا جو مزاحیہ موڈ میں تھی سوہان کا فاحا کے ساتھ ایسا انداز دیکھ کر کھٹک سی گئ تھی۔۔

"پیسے کچھ میں نے جمع کیے تھے اور یہ کیش پر نہیں لی میرا مطلب کہ گاڑی قسطوں پر لی ہے۔۔"آپ کو آنے جانے کا مسئلہ ہوتا ہے نہ دوسرا رینٹ والی گاڑی کسی سر درد سے کم نہیں۔۔فاحا نے جلدی سے اُس کو بتایا

"فاحا اِس کی کیا ضرورت تھی اور تم نے پیسے جمع کیے تھے تو اپنے لیے کچھ لیتی۔۔"گاڑی تو میرے پاس تھی نہ۔۔سوہان نے گہری سانس بھر کر اُس کو دیکھا

"میں نے اِس سے کہا تھا اِن پیسو کی اے سی خرید لیتے ہیں پھر اُس کو ڈرائنگ روم میں رکھے گے رات کو ایک ساتھ وہی سوکر عیش سے سوئے گے مگر یہاں میری سُنتا کون ہے۔۔۔میشا منہ کے زاویئے بنا کر بولی

"ضرورت تھی تبھی تو فاحا نے لی اور آپ کے ساتھ پہلی ڈرائیونگ پر میں بیٹھو گی جلدی مجھے میری منزل پر آپ پہنچائے۔۔۔میشا کو اگنور کرتی فاحا نے مسکراکر پرجوش آواز میں اُس سے کہا تو سوہان بھی جواباً مسکرائی

شیور آؤ بیٹھو۔۔سوہان نے کہا

"میں تو ابھی یہی ہوں تم دونوں اِنجوائے کرو۔۔میشا نے اپنے ہاتھ کھڑے کیے کہا

اپنا خیال رکھیے گا اور لال جوڑا مت پہننا ایسا نہ ہو کہ کوئی آسیب یا سایہ آپ سے چمٹ نہ جائے عاشق ہوکر۔ ۔فاحا نے جاتے جاتے اُس کو تلقین کی

"چمٹ کر تو دیکھائے میں چڑیل بن کر اُس کا حشر نہ بگاڑوں تو میرا نام میشا عرف میشو نہیں"اور کیا میرے حُسن پر عاشق ہونے کے لیے آسیب اور جن ہی بچے ہیں۔ ۔۔میشا کے ہاتھوں میں کُھجلی ہونے لگی تبھی جھرجھری سی لیکر بولی

"جیسی آپ کی حرکتیں ہیں نہ اُس پر کوئی جن آپ پر فدا ہوجائے یہ ہی بڑی بات ہوگی کیونکہ اگر چڑیلوں پر جن عاشق ہوتے تو اپنی دُنیا چھوڑ کر دور یہاں درختوں پر بیٹھائے انسان کا انتظار نہ کرتے کہ کوئی لال جوڑا پہنے بالوں کو کُھلا چھوڑے لڑکی آئے اور وہ اُس میں چمٹ جائے۔ ۔۔فاحا نے جیسے رات سے لیکر اب تک کے سارے حساب بے باک کر ڈالے تھے اور میشا کا منہ صدمے کے مارے کُھلا کا کُھلا رہ گیا تھا۔"جبکہ سوہان اُن دونوں کو آپس میں ہمیشہ کی طرح لڑتا جھگڑتا دیکھ کر خود کی گاڑی کی طرف بڑھ گئ تھی۔

"یہ اب زیادہ ہورہا ہے میرے پیچھے خوبصورت مردوں کی لائنیں ہیں لائنیں۔۔۔میشا نے جتاتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر باور کروایا

"اِس لائنوں میں کہی آریان دُرانی تو نہیں آتا؟ فاحا شوخ ہوئی

"شٹ اپ اُس کا نام بھی نہ لو میرے سامنے۔ ۔۔میشا نے اُس کو گھورا

"اچھا بتائے کیا اُس کا تیسرا بھائی ہے؟ فاحا نے پرجوش ہوکر پوچھا

"مجھے کیا پتا اور تم نے اُس کے چھوٹے بھائی کا اچار ڈالنا ہے کیا؟ میشا بیزار ہوئی

"اگر آپ دونوں کی سیٹنگ اُن بھائیوں سے ہوگئ تو آپ دونوں ایک ساتھ رہے گی" فاحا کا کیا ہوگا پھر؟ وہ تو اکیلی رہ جائے گی اگر اُن کا تیسرا بھائی ہے تو میری سیٹنگ کروادے۔ ۔۔فاحا ملتجی لہجے میں بولی

"شرم کرو اور ٹھیک سے زمین سے باہر بھی نکلو پھر سیٹنگ میٹنگ بھی کروالوں گی۔ ۔"شادی کے "ش" سے تو آگاہ نہیں اور آئی ہو شادی کرنے۔۔میشا نے ٹھیک ٹھاک اُس کو سُنا ڈالا

"آپ سے تو بات کرنا فضول ہے۔ ۔فاحا پاؤں پٹخ کر کہتی گاڑی کی طرف بڑھنے لگی۔

"آپس کی بات ہے میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار ایسی چھوٹی صابن دانی دیکھی ہے جس میں دو صابن موجود ہوگے۔۔میشا نے اُس کو زچ کرنے کی خاطر کہا تو فاحا کانوں پر ہاتھ رکھے گاڑی میں بیٹھ گئ" اُس کے گاڑی میں بیٹھتے ہی سوہان نے ڈرائیونگ کرنا شروع کردی تھی۔۔

❤Rimsha Hussain Novels❤

آج آپ بہت دن بعد یونی آئیں ہیں خیریت تھی؟عاشر نے لائبریری میں لالی کو دیکھا تو اُس کو پہلے خوشگوار حیرت ہوئی تھی تبھی اُس کے پاس والی کُرسی پر بیٹھ کر اُس نے پوچھا

"جی میں گاؤں گئ تھی۔"کل واپس آئی ہوں۔۔لالی نے بتایا پھر دوبارہ کتاب پڑھنے میں مصروف ہوگئ تو عاشر اُس کا چہرہ دیکھنے لگا۔"لیکن ایک خیال کے تحت اُس نے دوبارہ سے اُس کو مُخاطب کیا

"میں اُس دن آپ کو تُحفہ دینا چاہتا تھا پتا ہے کیوں؟

"جی پتا ہے۔ ۔۔لالی نے بنا اُس کو دیکھ کر کہا تو عاشر حیران رہ گیا

"واقعی آپ کو پتا ہے کہ میں کیوں تحفہ دینا چاہتا تھا؟ عاشر کو حیرت کے ساتھ خوشی بھی ہوئی کہ لالی بنا کہے اُس کے دل کا حال جان گئ تھی۔

"جی مجھے پتا ہے۔ ۔لالی نے پھر کہا

"اچھا بتاؤ پھر میں کیوں آپ کو تُحفہ دینا چاہتا تھا؟عاشر نے بے چینی سے پوچھا اُس کا رواں رواں اِس وقت کان بن گیا تھا۔۔

کیونکہ اُس دن سسٹر ڈے تھا اور میں نے دیکھا تھا یونی میں ہر کوئی ایک دوسرے کو گفٹس دے رہے تھے۔۔لالی نے اِس بار سر اُٹھاکر اُس کو جواب دیا تو عاشر کا پورا چہرہ اُترگیا تھا وہ بے یقینی جیسی کیفیت میں بیٹھا اُس کو دیکھتا رہ گیا جس نے پل بھر میں اُس کے جذبات کی دھجیاں اُڑادی تھیں۔

"سسٹر ڈے لالی سیریسلی؟ عاشر سے کچھ بولا نہیں جارہا تھا وہ کم از کم لالی سے اِتنی بھی بے نیازی کی توقع نہیں رکھ رہا تھا۔

"ہاں کیوں کیا ہوا؟ لالی نے اُلٹا اُس سے سوال داغا

"میں سسٹر ڈے پر آپ کو تُحفہ کیوں دوں گا؟ "میں نے کیا کوئی بہن چارا کھولا ہوا ہے۔ ۔۔عاشر زبردستی مسکراہٹ پر سجائے اُس سے بولا

"یہ تو آپ کو پتا ہوگا نہ۔ ۔۔لالی نے کہا

"اففف میں بھی پاگل ہوں جو دیوار سے سر مار رہا ہوں خیر آپ یہاں بیٹھی رہے گی یا کلاس میں آئے گی؟ عاشر اپنی جگہ سے اُٹھ کر بات بدل کر بولا

"میں آتی ہوں اور آپ پلیز اپنے نوٹس مجھے دیجئے گا میرا بہت سا کام رہ گیا ہے۔ ۔لالی بھی اپنی جگہ سے اُٹھ کر بولی

"ہاں میں دے دوں گا آپ فکر نہ کرو۔ ۔عاشر نے اُس کو مثبت جواب دیا تھا۔

❤Rimsha Hussain Novels❤

"میشا بھی اپنے کام پہ جانے کے لیے تیار ہورہی تھی جب اُس کا سیل فون رِنگ کرنے لگا تبھی اُس نے بغیر نمبر دیکھے کال اُٹھائی

"ہیلو السلام علیکم ۔۔۔میشا نے مصروف انداز میں سلام کیا

وعلیکم السلام جانِ من کیسی ہو؟ دوسری طرف آریان کی آواز سن کر میشا نے فورن سے موبائل کان سے ہٹائے اسکرین کو دیکھا جہاں کوئی انون نمبر شو ہورہا تھا۔

"تمہیں میرا نمبر کہاں سے ملا؟ "اور تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے کال کرنے؟ میشا نے دانت پیس کر کہا

"ملنے کو تو خُدا بھی مل جاتا ہے یہ تو محض ایک نمبر تھا اور ہاں تم میرا نمبر اپنے فون میں سیو کرلینا کیونکہ اب تو میں کال کرتا رہوں گا۔ ۔۔آریان خاصے پرسکون لہجے میں بولا

"تم بار بار مجھے کال کروگے اور تمہیں لگتا ہے میں کال اُٹھاؤں گی تمہاری؟میشا نے طنز انداز میں پوچھا

"بلکل مجھے تم پر بھروسہ ہے۔ ۔آریان نے پرسکون لہجے میں کہا

"میرا بس نہیں چل رہا ورنہ میں فون میں گُھس کر تمہاری چھترول کرتی۔ ۔میشا نے تپ کر کہا

"ہائے کبھی تو تم نے میرے لیے خود کو بے بس پایا۔ ۔آریان نے چھیڑنے والے انداز میں کہا

"فالو کرنا کیا کم تھا جو فون کرنا بھی شروع ہوگئے ہو تمہارا مسئلہ کیا ہے؟ "آخر تم آئے کیوں ہو میری زندگی میں۔ ۔میشا بیڈ پر بیٹھتی جھنجھلائے ہوئے لہجے میں بولی

"مجھے رب نے بنایا کس لیے؟ "تمہیں پریشان کرسکوں اِس لیے۔ ۔۔کہنے کے ساتھ ہی آریان نے جاندار قہقہقہ لگایا تو میشا نے تپ کر اپنا فون آف کرلیا تھا۔

"یہ میرے ہاتھوں بہت مار کھائے گا ایسے باز نہیں آئے گا۔ ۔فون آف کرنے کے بعد بھی میشا جانے کتنے وقت تک آریان کو کوسنے میں لگی تھی۔ ۔

❤rimsha hussain novels❤

السلام علیکم۔۔فاحا اپنی ٹیسٹ سے فارغ ہوتی باہر آئی تو اُس کا سامنا اسیر ملک سے ہوا جو شاید اُس کا انتظار کررہا تھا۔

وعلیکم السلام آپ یہاں؟ فاحا اُس کو یہاں دیکھ کر حیران ہوئی

"کیا ہم بات کرسکتے ہیں؟ اسیر نے سنجیدگی سے پوچھا تو فاحا کو کل کا واقعہ اچھے سے یاد آگیا تھا وہ انکار کرنا چاہتی تھی پر جانے کیوں اسیر کو وہ منع نہیں کر پائی

"کونسی بات؟فاحا نے پوچھا

"گاڑی میں بیٹھے بتاتا ہوں۔ ۔اسیر نے کہا تو فاحا آس پاس دیکھتی اُس کے ساتھ جانے پر حامی بھر گئ۔ ۔


"جی کہیں؟گاڑی میں بیٹھنے کے بعد فاحا نے پوچھا

"ہم جانتے ہیں کل والے واقعے کے بعد آپ ہماری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی ہوگی۔۔اسیر جانے کیوں پہلی بار بات کرتے ہوئے تہمید باندھ رہا تھا جبکہ یہ اُس کی شخصیت کا حصہ بلکل بھی نہیں تھا۔

"جانتے ہیں لیکن پھر بھی شکل دیکھانے آگئے واہ کیا کہنے ہیں آپ کے۔ ۔اسیر کی بات پر فاحا نے دل ہی دل میں سوچا مگر منہ سے کہنے کی جُرئت نہیں کی کیونکہ وہ جانتی تھی یہ بندہ بیسٹ(Beast) بننے میں وقت نہیں لگائے گا۔ ۔

"آپ وہ بات کریں جو کہنا چاہ رہے ہیں۔ ۔فاحا نے کہا

"سوہان اور میشا سے کہو کہ تمہیں حویلی رہنا ہے۔ ۔"فاحا یہ دُنیا بہت ظالم ہے آپ ہماری بات پر یقین کریں آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہوجائے گا اور اِس میں آپ تینوں کا بھلا ہوگا۔اسیر اُس کو دیکھ کر سنجیدگی سے سمجھانے والے انداز میں بولا"کیونکہ اب اُس کو لگتا تھا کہ اِن تینوں کا اِن کا حق ملنا چاہیے

"نہیں میں نے دیکھا ہے دُنیا گرین اور بلیو ہے۔ ۔اسیر کی اِتنی بات سے جیسے فاحا نے ایک یہی لائن سُنی تھی تبھی جواباً بولی جس کو سُن کر اسیر نے صبر کا گھونٹ بھر کر اُس کو دیکھا تھا جس نے اپنے چہرے پر دُنیا جہاں کی معصومیت سموئی تھی"اُس میں کوئی شک نہیں تھا کہ اگر وہ خاموش رہتی تو پوری دُنیا میں اُس کے علاوہ کوئی اور معصوم نہ ہوتا

ہم یہاں آپ سے گلوبل کا کلر ڈسکس کرنے نہیں بیٹھے بلکہ ایک جنرل اور کامن سینس کی باتیں کرنا چاہ رہے ہیں"جو کہ بہت ضروری ہے۔ ۔۔اسیر نے بامشکل اپنا لہجہ نارمل کیا تھا۔ ۔

"میں بھی جنرل نالیج والی بات کررہی ہوں" دُنیا گرین اینڈ بلیو ہے کوئی تیسرا کلر بھی ہوسکتا ہے مگر میں نے اُس پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ ۔۔فاحا اپنی بات پر بضد تھی۔ ۔

"کام کی بات کریں؟ اسیر نے سنجیدگی سے کہا

"جی جلدی کریں فاحا کو بھوک بھی بہت لگی ہے۔ ۔فاحا نے عجلت کا مُظاہرہ کیا

"آپ کا اور آپ کی بہنوں کا حق ہے کہ وہ اپنے باپ کے ساتھ رہے" ساری زندگی آپ نے اُن کے بغیر گُزاری ہے تو کیا ضروری ہے باقی کی زندگی بھی اُن کے بغیر گُزاری جائے۔؟اسیر نے سنجیدگی سے کہنے کے بعد اُس سے پوچھا

"آپ ایسی باتیں فاحا سے کیوں کررہے ہیں؟ فاحا نے بھی اِس بار بھرپور سنجیدگی کا مُظاہرہ کیا

"کیونکہ ہمیں لگتا ہے آپ ہماری بات سُنوں گی۔ ۔۔اسیر نے اُس کو دیکھ کر کہا

"میں نے کہی پڑھا تھا۔ ۔جواباً فاحا نے یہ کہا

"کیا پڑھا تھا؟ اسیر ناسمجھی سے اُس کو دیکھ کر بولا

"یہی کہ اگر عورت مرد کی ایک بات مانے گی تو جواب میں مرد عورت کی دس باتیں مانتا ہے۔ ۔فاحا ترچھی نظروں سے اُس کو دیکھ کر اپنا لہجہ سرسری کیے بولی

"ہم آپ کی دس باتیں ماننے کو تیار ہیں۔ ۔اسیر بغیر سوچے سمجھے بولا

"بات ماننے کے لیے کسی رشتے کا ہونا بھی تو ضروری ہے نہ بھلا یہ کہاوت تو میاں بیوی کے لیے ہے" آپ کے اور میرے لیے تھوڑی ہے۔۔فاحا نے کہا تو اِس بار اسیر ملک اُس کو ترچھی نگاہوں سے دیکھنے لگا

"ہمارا اور آپ کا رشتہ ہے۔"ہم رشتے میں آپ کے فرسٹ کزن لگتے ہیں۔ ۔اسیر نے سنجیدگی سے بتایا

"جس شخص کو ہم باپ تسلیم نہیں کرتے تو اُس کے بھتیجے کو ہم اپنا کزن کیسے مان لے؟ فاحا کی بات پر اسیر نے اپنے ہاتھوں کی مٹھیوں کو سختی سے بھینچا تھا وہ کسی کی بھی نا سُننے والا آج اپنے سے چھوٹی لڑکی کے ساتھ بیٹھا اپنا صبر آزما رہا تھا۔ ۔

"آپ ہمارا صبر آزما رہی ہیں۔ ۔۔اسیر نے ضبط سے کہا

"میں حقیقت بیان کررہی ہوں اور اگر اِس کو آپ صبر آزمانا کہتے ہیں تو جی ہاں میں آپ کا صبر آزما رہی ہوں۔۔فاحا نے اُس کو دیکھ کر دوبدو کہا تھا جس پر اسیر اُس کو دیکھتا رہ گیا۔

"ہمارا مقصد آپ پر دباؤ ڈال کر اپنی بات منوانے کا نہیں ہے" ہم جانتے ہیں یہاں آپ کونسا امتحان دینے آئیں تھیں" مگر چچا جان یہ بات نہیں جانتے"اگر آپ نتیجے میں پاس ہوئیں تو بہت کچھ کرسکتی ہیں۔۔اسیر نے سنجیدگی سے کہا تو فاحا ناسمجھی سے اُس کا چہرہ دیکھنے لگی

"فاحا یہاں کونسا امتحان دینے آئی تھی یہ تو یہاں کھڑا ہوکر کوئی بھی بتاسکتا ہے"خیر آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں۔ ۔۔فاحا نے سرجھٹک کر مدعے کی بات پر آئی

"ہم اپنے گاؤں کے سردار ہیں۔۔۔اسیر نے بتایا

"تو؟ فاحا کو سمجھ نہیں آیا کہ یہ بات وہ اُس کو کیوں بتارہا تھا۔

"ہم اپنے گاؤں میں موجودہ حالات سے ہمیشہ خائف رہتے ہیں اور گاؤں میں کچھ ایسی چیزیں ہیں جو ہم سردار ہونے کے باوجود سہی نہیں کرسکتے پر آپ کرسکتی ہیں" کیونکہ ایک عورت کے لیے آواز ہمیشہ عورت اُٹھائے تو زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ ۔۔اسیر نے اپنی بات اُس کے سامنے کی جو فاحا ابھی تک سمجھ نہیں پائی

"آپ کُھلے الفاظوں سے کیوں نہیں بتارہے؟فاحا زچ ہوئی

"اگر آپ ہماری بات مان لیتی ہیں تو ہم آپ کو ساری بات سمجھادے گے۔ ۔۔اسیر نے کہا

"حویلی آپ کے گاؤں آنا ضروری ہے کیا؟ "ہمارا وہاں کوئی نہیں مگر یہاں ہمارے سب اپنے ہیں۔ ۔۔فاحا نے کہا

"اگر آنکھیں کھولے تو آپ کا اصل وہاں ہے۔ ۔اسیر نے سنجیدگی سے کہا

"وہ اصل جس نے ہمیں دھتکارا تھا۔ ۔فاحا کے چہرے پر استہزائیہ مسکراہٹ آئی تھی۔

"پُرانی باتوں کو یاد کرنے سے کچھ نہیں ہوگا بس تکالیف سے سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ۔اسیر نے کہا

"آپ کو اپنا مسیحا سمجھ کر اگر میں آپ کی بات مان بھی لوں توں بھی میرا دل نہیں مانتا کہ میں اُس شخص کو معاف کروں جس کی بدولت ہم نے سفر کیا ہے۔ ۔۔فاحا کا لہجہ عجیب ہوگیا تھا۔

"ہم نے کب آپ سے کہا کہ آپ چچا جان کو معاف کریں؟ "ہم نے تو ایک مرتبہ بھی نہیں کہا کہ چچا جان کو اپنے عمل پر ندامت ہے اور آپ بہنیں اُن کو معاف کردیں۔ ۔اسیر نے کہا تو اُس کی بات پر فاحا نے چونکتے ہوئے اُس کو دیکھا کہ وہ اصل میں کہنا کیا چاہ رہا تھا یہ فاحا چاہنے کے باوجود بھی جان نہیں پائی تھی۔ ۔

"آپ مسلسل بول رہے ہیں کہ فاحا اپنی بہنوں کو گاؤں آنے پر امادہ کرو"اور ابھی اپنی بات سے مُکر بھی گئے ہیں۔ ۔۔فاحا تعجب بھری نظروں سے اُس کو دیکھ کر اُس کی کہی بات یاد دلائی

"ہم گاؤں آنے کا بول رہے ہیں چچا جان کو معافی دینے کا نہیں اور دونوں چیزوں میں واضع فرق ہے۔ ۔اسیر نے کہا تو فاحا کو جیسے ساری بات سمجھ آگئ

"آپ یہ باتیں سوہان آپو یا میشو آپو سے بھی تو کہہ سکتے تھے۔ ۔"پھر میرے پاس کیوں آئے؟ فاحا نے جاننا چاہا

"ہم اُن کو منا نہیں سکتے یہ آپ کا کام ہے۔ ۔اسیر نے بتایا

"آپ کے کہنے کا مطلب فاحا کو منانا آسان ہے؟فاحا کا منہ بن گیا۔

"ہم نے ایک جنرل بات کی آپ اُس کو سیریسلی نہ لے بلکہ ہمیں بتائے کہ آپ کی کیا راے ہے؟اسیر نے سنجیدگی سے کہنے کے بعد پوچھا

"وہ راضی نہیں ہوگی اور میں اُن کی رضامندی کے خلاف کوئی بھی کام نہیں کرنا چاہتی۔فاحا اُلجھن کا شکار تھی" دل کہہ رہا تھا سامنے بیٹھے شخص کی بات مان لو جبکہ دماغ کچھ اور ہی بول رہا تھا۔"یہ وجہ تھی کہ وہ کوئی بھی فیصلہ کر نہیں پارہی تھی۔

"آپ سوچ کر جواب دیجئے گا ابھی ہم آپ کو آپ کے گھر ڈراپ کردیتے ہیں۔ ۔اسیر نے کہا تو فاحا نے سراثبات میں ہلانے پر اکتفا کیا۔۔"جبھی اسیر کا موبائل فون رِنگ کرنے لگا تو فاحا کی نظر بے ساختہ ڈیش بورڈ پر موجود اسیر کے فون پر پڑی جہاں" ہماری دُنیا" کالنگ لکھا آرہا تھا اور ساتھ میں ہارٹ بھی بنا ہوا تھا یہ دیکھ کر فاحا کو کافی عجیب لگا اُس نے چور نگاہوں سے اسیر کو دیکھا جس کے چہرے پر موجود ساری سنجیدگی ختم ہوگئ تھی اور ہونٹوں پر جاندار مسکراہٹ نے بسیرا کرلیا تھا جبکہ گالوں پر موجود گڑھے پوری آب و تاب سے نُمایاں ہوئے تھے جن کو دیکھ کر فاحا بیہوش ہوتی ہوتی بچی تھی" آخر کو کیوں نہ ہوتی جتنی بار بھی اُس کا سامنا اسیر سے ہوا تھا اُس وقت ہمیشہ ہی تو اسیر غُصے میں رہتا تھ ہنسنا تو دور کی بات تھی پر فاحا نے کبھی اُس کو مسکراتا ہوا بھی نہیں دیکھا تھا اور آج کسی کی کال نے اُس میں اِتنا بدلاؤ ڈالا تھا یہ بات فاحا چاہنے کے باوجود ہضم نہیں کرپارہی تھی۔۔"سونے پر سُہاگہ اُس کے گالوں پر ڈمپلز بھی ہوتے تھے جو بات کرتے ہوئے اکثر ظاہر ہوتے تھے پر فاحا نے اُن پر کبھی غور نہیں کیا تھا اور آج اُس کو اپنی اِس قدر بے نیازی پر جیسے افسوس ہوا تھا۔

"آپ کے پاس ڈمپلز بھی ہیں؟اسیر جو موبائل اُٹھانے والا تھا فاحا کی حیرت سے گنگ آواز سُن کر وہ یکدم چونک کر اُس کو دیکھنے لگا جس کے چہرے پر اِتنی حیرانگی والے تاثرات تھے جیسے اُس نے کوئی آٹھواں عجوبہ دیکھ لیا ہو۔۔"پر وہ شاید نہیں جانتا تھا کہ اُس کا مسکرانا فاحا کے لیے کسی انہونی جیسا تھا۔۔"وہ لاکھ چاہنے کے باوجود یہ بات ڈائجسٹ نہیں کرپا رہی تھی۔ ۔

"آپ کو نظر آرہے ہیں تو یقیناً ہوگے۔ ۔اسیر نے جواب دیا تو اُس کا ایسا روکھا جواب فاحا کو پہلی بار بُرا لگا تھا وجہ وہ نہیں جانتی تھی مگر اُس کو بُرا لگا تھا اور بہت بُرا لگا تھا تبھی اُس نے کاٹ کھاتی نظروں سے اُس کے سیل فون کی اسکرین کو دیکھا جہاں ایک بار ہھر" ہماری دُنیا" کالنگ لکھا آرہا تھا۔ ۔

"کال نہ اُٹھائے۔ ۔فاحا اُس کے موبائل پر ہاتھ جما کر بولی تو اسیر جو فون لینے والا تھا اچانک اُس کی حرکت کا مطلب سمجھ نہیں پایا تھا

"ہمارا موبائل واپس کریں ضروری کال ہے۔ ۔اسیر نے سخت نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا

"آپ نہیں اُٹھا سکتے یہ کال۔ ۔فاحا نے اٹل انداز میں اپنا فیصلہ سُنایا

"وجہ؟ اسیر نے سرد نظروں سے اُس کو دیکھ کر پوچھا

"وجہ صاف ہے یہاں ہماری دُنیا کالنگ لکھا آرہا تھا۔۔"فاحا سے کچھ اور نہیں بن پایا تو یہ کہا

"توں؟اسیر نے ناسمجھی سے اُس کو دیکھا

"توں ابھی کچھ دیر قبل آپ نے کہا تھا کہ یہ دُنیا بہت ظالم ہے اُس لیے آپ کو چاہیے کہ ظالم دُنیا کی کال نہ اُٹھائے ورنہ آپ" تباہ ہوجائے گے" برباد ہوجائے گے۔ ۔فاحا کے جو مُنہ میں آیا وہ بولتی چلی گئ جس پر اسیر کو اُس پر تاؤ آیا

"فضول باتوں سے پرہیز کریں اور ہمارا فون ہمیں واپس لوٹائے۔۔۔اسیر سنجیدگی سے کہتا چِھیننے والے انداز میں اُس کے ہاتھ سے موبائل لیا جس سے فاحا کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا لیکن اسیر اُس سے بے نیاز کال بیک کرنے میں مصروف تھا۔۔


ہیلو کیسی ہیں آپ؟ دوسری طرف کال ریسیو ہوتے ہی اسیر نے محبت سے سوال کیا تھا جس پر فاحا اُس کے لب ولہجے پر ششد سی رہ گئ تھی" کتنی چاہت کتنی اپنائیت تھی اُس کے الفاظوں میں جیسے وہ جس سے بات کررہا تھا وہ کوئی دل کے بہت قریب اور قیمت انسان ہو اُس سے بہت عزیز ہو۔ ۔اور آج زندگی کے اِس لمحے میں فاحا کو پہلی بار کسی سے جلن محسوس ہوئی تھی ورنہ آج سے پہلے شاید وہ ایسے لفظ سے واقف تک نہ تھی


" فاصلے یوں بھی ہونگے سوچا نہ تھا

سامنے کھڑا تھا میرے مگر وہ میرا نہ تھا


"اقدس ہماری جان ایسا کچھ نہیں ہے بس ضروری کام تھا ہمیں یہاں تبھی آپ کو ساتھ نہیں لائے ویسے بھی آپ کو جو کچھ چاہیے ہمیں بتادو" آتے ہوئے ہم وہ ساری چیزیں لے آئے گے بس آپ ناراض مت ہو۔ ۔اسیر منانے والے انداز میں دوسری طرف بیٹھی اپنی بیٹی سے بولا تو فاحا کوئی اور مطلب اخذ کرتی اپنے لب سختی سے بھینچ گئ تھی پھر اچانک"اپنے گال پر کچھ گیلا پن محسوس کرتے فاحا نے چونک کر اپنے ہاتھ چہرے پر رکھا پھر آنکھوں کو ہلکے سے چھوا اور اپنی آنکھوں کو نم دیکھ کر اُس نے خود کو بُری طرح سے لتاڑا تھا اور جلدی سے اپنا رخ کھڑکی کی جانب کیا وہ نہیں چاہتی تھی کہ یہ سب اسیر دیکھتا۔ ۔

"ٹھیک ہے شام تک ہم آپ کے پاس ہوگے۔ ۔اقدس نے جانے کیا کہا تھا جو جواباً اسیر نے اُس سے یہ کہا

"آئے لو یو ٹو میری جان مور دین یو۔ ۔اسیر چہرے پر گہری مسکراہٹ سجائے بولا تو فاحا کے صبر کا پیمانہ جیسے لبریز ہورہا تھا مگر جانے کیسے وہ خود پر ضبط کرکے بیٹھی تھی۔ ۔

"آپ ٹھیک ہیں۔۔؟اسیر کال سے فارغ ہوتا فاحا کی طرف متوجہ ہوا جو کچھ زیادہ ہی ونڈو کے پاس چپک گئ تھی۔ ۔

"فاحا کو گھر جانا ہے۔لاکھ چاہنے کے باوجود فاحا اپنے آنسوؤ پر اختیار کھو بیٹھی تھی اور اُس کا بھیگا لہجہ محسوس کیے اسیر پریشان سے اُس کی پیٹھ دیکھنے لگا۔۔

"آپ رو رہی ہیں فاحا؟اسیر نے اپنا رُخ اُس کی طرف کیے پوچھا

"آپ کو اُس سے کیا؟"آپ بس گاڑی چلائے مجھے میرے گھر جانا ہے۔۔فاحا نے سخت لہجہ اپنایا

"کیا آپ ہمارے موبائیل لینے کی وجہ سے ناراض ہوگئ ہیں؟اسیر نے اُس کا لہجہ اگنور کیا

"میرا کوئی حق نہیں آپ سے ناراض ہونے کا آپ بس گاڑی چلائے۔۔فاحا نے سرجھٹک کر کہا

"یہاں دیکھے۔۔اسیر نے سنجیدگی سے بھرپور لہجے میں اُس کو مُخاطب کیا

"میں نہیں دیکھوں گی۔۔فاحا نے صاف انکار کیا

"کیوں؟وجہ پوچھی گئ۔

"کیونکہ فاحا ہیٹ اسیر ملک۔ ۔۔فاحا تڑخ کر بولی اور اُس کے جواب پر اسیر حیران و پریشان سا اُس کا منہ تکنے لگا وہ جان نہیں پایا فاحا کو اچانک ہوا کیا" اور جو اُس نے الفاظ نکالے چاہے وہ چھوٹے تھے مگر اسیر کو چُھبے بہت تھے۔ ۔

"آپ اپنی حد میں رہے ہم زرا آپ سے نرمی سے کیا پیش آئے؟ "آپ تو بولنے کا طریقہ ہی بھول گئ۔ ۔اسیر نے سخت لہجے میں کہا تو فاحا نے رُخ موڑ کر اُس کو دیکھا" اُس کی آنسوؤ سے بھری آنکھیں سرخ ناک دیکھ کر اسیر حقیقتً بہت پریشان ہوا تھا اُس کو اندازہ نہیں تھا کہ فاحا اِس قدر جذباتی ہوگئ ہوگی۔

"فاحا کیا ہوا ہے مجھے بتاؤ یوں رونا مسئلے کا حل نہیں"ہم نے اگر جارحانہ انداز میں اپنا فون لیا تو اُس کی خاص وجہ تھی جس کی کال تھی ہم اُس کو اگنور نہیں کرسکتے اور نہ کوئی تاخیر کرسکتے ہیں"آپ نے بلاوجہ اپنی انا کا مسئلہ بنایا ہوا ہے۔۔اسیر نے زندگی میں پہلی بار کسی کے آگے وضاحت پیش کی تھی وہ بھی اُس کے سامنے جو اُس کی وضاحت پر مزید بپھری ہوئی تھی

"آپ کیا کرتے ہیں یا کیا نہیں" آپ کی زندگی کی کونسی دُنیا بسی ہوئی ہے اُس سے فاحا کو رتی برابر فرق نہیں پڑتا اِس لیے آپ کی وضاحت کی فاحا کو ضرورت نہیں ہے آپ بس گاڑی چلائے یا میں اُتر جاتی ہوں۔ ۔فاحا غُصے سے لال پیلی ہوتی بولی

"اوکے مگر آپ اپنا حُلیہ سیٹ کریں پھر بتائے اپنے رونے کی وجہ۔ ۔اسیر نے پھر سے پوچھا

"کچھ چیزوں پر ہمارا اختیار نہیں ہوتا

جیسے غُصہ جیسے آنسوؤ

"جیسے دل"جیسے محبت)اور

جیسے قسمت

فاحا نے سپاٹ لہجے میں کہا تو اسیر کچھ پل کے لیے بول نہیں پایا بس بے مقصد اُس کا چہرہ تکنے لگا جہاں روزانہ کے برعکس سنجیدگی طاری ہوئی تھی۔ ۔"مگر اسیر ابھی تک اُس کے پل میں تولہ اور پل میں ماشہ والا انداز سمجھ نہیں پایا تھا۔ ۔

"اگر ہماری وجہ سے آپ ہرٹ ہوئیں تو بتاسکتیں ہیں۔ ۔اسیر نے گاڑی اسٹارٹ کرنے سے پہلے کہا جانے کیوں وہ وجہ جاننے پر اڑا ہوا تھا۔ ۔

"فاحا کو نہیں لگتا کہ آپ کو کسی کے ہرٹ ہونے سے فرق پڑتا ہوگا۔ ۔فاحا نے طنز کہا

"یہاں بات کسی کی نہیں" آپ" کی ہورہی ہے تو آپ بھی اپنی کریں۔۔اسیر نے گھمبیر آواز میں کہا تو فاحا جزبز ہوتی"اپنی ہتھلیاں آپس میں رگڑتی وہ آخر کو جواب سوچنے لگی جو اُس نے اسیر کو دینا تھا۔ ۔

"آپ نے کسی سے جلدی آنے کا وعدہ کیا ہے اِس لیے اچھا ہوگا کہ آپ مجھے جلدی ڈراپ کردے"اور اُس کے پاس جائے جس کو آپ کا انتظار ہے۔ ۔ ۔فاحا نے سوچ ویچار کے بعد کہا تو اسیر نے گہری سانس بھر کر اپنا رُخ سامنے کی طرف کیا" اور سرجھٹک کر اسٹیئرنگ ویل پر اپنی گرفت جمائے وہ ڈرائیونگ کرنے لگا "اگر فاحا اُس کو بتانا نہیں چاہتی تھی تو اِس سے زیادہ اسیر اُس کو فورس نہیں کرسکتا تھا تبھی خاموش ہوگیا تھا اور اِس درمیان فاحا نے اُس کو مُخاطب کرنا ضروری نہیں سمجھا تھا اور نہ ایسی کوئی کوشش اسیر نے کی تھی دونوں کے درمیان خاموشی کا وقفہ طویل سے طویل ہوتا گیا تھا

Rimsha Hussain Novels❤

"میشو؟

"میشو ویئر آر یو؟

میشو کہاں ہو تم"تمہارا فون بج رہا ہے آکر دیکھو کوئی ضروری کال نہ ہو۔۔

سوہان گھر آئی تو لاؤنج میں میشا کا موبائل مسلسل رِنگ کررہا تھا"اُس نے میشا کو بہت بار آواز دی مگر شاید وہ گھر نہ تھی جو اُس کی پُکار پر ابھی تک نہیں آئی تھی تبھی سیل فون اُٹھائے اُس نے موبائیل کی اسکرین کی طرف دیکھا جہاں "jaggu"کالنگ لکھا آرہا تھا یہ دیکھ کر سوہان کو تعجب ہوا

"یہ لڑکی کسی کا نمبر تک سہی نام سے سیو نہیں کرسکتی۔ ۔سوہان تاسف سے بڑبڑاتی کال اُٹھائی تو مردانہ آواز اُس کے کانوں سے ٹکرائی جس کو سُن کر اُس کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا تھا۔

"میشو ڈارلنگ تمہیں زرا میرا احساس نہیں کب سے کال پہ کال کیے جارہا ہوں" اور تمہیں مجھ معصوم کی کوئی پرواہ نہیں ہے اِٹس ناٹ فیئر۔ ۔کال ریسیو ہوتے ہی آریان ہمیشہ کی طرح پٹر پٹر بولنے لگا تھا اُس کا ایسا بے تُکلف انداز سوہان کو بہت کچھ سمجھا گیا تھا مگر اُس کے دل نے شدت سے یہ خُواہش کری تھی کہ ایسا نہ ہو جیسا وہ سوچ رہی ہے اگر ویسا ہوتا تو یقیناً اُس کو بہت ٹھیس پہنچنی تھی اپنی زندگی میں اُس نے یہ سوچا ہوا تھا کہ اُس کی بہنیں اُس سے کوئی بھی بات نہیں چُھپاتی مگر میشا کے نمبر پر کسی لڑکے کی کال اور کچھ دن پہلے فاحا کا کسی لڑکے کے ساتھ بڑی گاڑی میں بیٹھنا اُس کو یہ احساس کروا رہا تھا کہ وہ اپنی بہنوں کے سامنے جیسے کچھ بھی نہیں ہے اگر ہوتی تو وہ اُس سے شیئر ضرور کرتیں مگر یہاں تو اُنہوں نے بہت سی اہم باتیں اُس سے چُھپائی ہوئیں تھیں۔۔

السلام علیکم ۔۔میشا اور فاحا نے ایک آواز میں سلام جھاڑا تو سوہان میشا کا فون آف کرتی داخلی دروازے کی طرف دیکھنے لگی جہاں وہ ایک ساتھ آرہی تھیں

وعلیکم السلام تم کیا فاحا کو لینے گئ تھی؟ سوہان نے اُس کو دیکھ کر سنجیدگی سے پوچھا

"نہیں میں تو بُوا کی طرف گئ تھی اُنہوں نے نہ آج کرائی گوشت بنایا تھا۔۔"فاحا تو مجھے راستے میں ملی۔ ۔میشا نے فاحا کی طرف اِشارا کیے بتایا

"ہم سہی مجھے تم دونوں سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔ ۔سوہان نے کہا

"ضرور ہمہ تن گوش ہیں۔۔میشا شوخ ہوئی

"تم دونوں نے ابھی بہت کچھ کرنا ہے اِس لیے شادی وغیرہ کا خیال بھی اپنے دماغ میں نہیں لانا فلحال ہماری زندگیوں میں شادی جیسا ورڈ ایکزٹ نہیں کرتا۔ ۔سوہان نے کہا تو وہ دونوں حیرت سے سوہان کو دیکھنے لگیں اُن کو سمجھ نہیں آیا کہ یہ اچانک سوہان کو کیا ہوگیا۔

"خیریت ہے آپو آج آپ کو ہماری شادی کا خیال کیسے آگیا؟فاحا تھکے ہوئے انداز میں صوفے پر بیٹھتی اُس سے پوچھنے لگی۔

"ہاں بلکل اور ہم کب شادی جیسی مصیبت کے بارے میں سوچنے لگے اور افکورس شادی ہماری زندگیوں میں ایکزٹ نہیں کرتی اِس میں تو کوئی ڈاؤٹ نہیں ہے میں تمہاری اِس بات سے متفق ہوں۔۔میشا بھی فاحا کے ساتھ بیٹھتی اُس کو دیکھ کر بولی

"میرے دماغ میں خیال آیا تو سوچا دونوں کو پہلے سے بتادوں"تاکہ کل کو کوئی اُونچ نیچ نہ ہوجائے۔سوہان نے سنجیدگی سے کہا

"ایسی کوئی بات نہیں اگر ہوگی تو فاحا سب سے پہلے آپ کو بتائے گی۔ ۔فاحا اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتی مسکراکر بولی تو سوہان بھی جواباً مسکرائی

"تمہارا ٹیسٹ کیسا ہوا یہ بتایا ہی نہیں تم نے۔ ۔میشا کو اچانک خیال آیا تو پوچھ لیا

"اچھا ہوا اور آج مجھ سے اسیر ملک ملنے آیا تھا۔ ۔فاحا نے نظریں قالین پر گاڑھے بتایا تو سوہان اور میشا الرٹ ہوئیں تھیں

"وہ تم سے ملنے کیوں آیا تھا۔؟سوہان نے سنجیدگی سے پوچھا

"ہاں بتاؤ کہی تمہیں دھمکی وغیرہ تو نہیں دی اگر دی ہے تو بتاؤ میں ابھی اُس کی خبر لیتی ہوں۔۔میشا مرنے مارنے پر اُتر آئی جس پر فاحا پریشان سی اُن دونوں کا منہ تکتی رہ گئ اُس کو سمجھ نہیں آیا کہ بات کیسے؟"اور کہاں سے شروع کرے۔۔"جتنا آسان اُس نے سوچا تھا اب دونوں کا انداز دیکھ کر اُس کو معلوم ہوا یہ بات کرنا اِتنا بھی آسان نہیں تھا۔۔

Rimsha Hussain Novels❤

"اسٹچو کیوں بنے ہوئے ہو؟زوریز نے آریان کو موبائل ہاتھ میں پکڑے دیکھ کر خاموش کھڑا دیکھا تو پوچھا

"میں نے میشا کو کال کی تھی۔۔آریان نے بتایا

"تو؟زوریز نے پوچھا

تو اُس نے پہلے کالز اُٹھائی نہیں اور جب اُٹھائی تو میری آواز سن کر کال بند کردی بغیر کوئی جواب دیئے حلانکہ میں پہلے بھی اپنے نمبر سے اُس کو کال کرچُکا ہوں۔۔"اور حیرت کی بات ہے بغیر میری عزت افزائی کیے اُس نے کال کاٹ دی۔۔آریان حیرانگی سے بولا

"تو تمہیں کال بند ہونے کا افسوس نہیں ہے بلکہ اِس بات کا افسوس ہے کہ اُس نے تمہیں گالیاں کیوں نہیں دی۔۔زوریز اُس کی بات سمجھتا تاسف سے بولا تو آریان کھسیانا سا ہوا تھا۔۔

❤❤❤❤❤❤

تم بھی نہ ایک بات کو بس پکڑ لیتے ہو۔ ۔آریان سنبھل کر اُس کو گھور کر بولا

"تم اپنی حرکتوں پر بھی نظر ثانی کرو" یعنی تمہیں افسوس ہے کہ میشا نے تمہیں کھڑی کھڑی کیوں نہیں سُنائی۔۔زوریز کو جیسے یقین نہیں آیا تھا۔

"تمہیں نہیں پتا ورنہ مجھے تو میشو کے بنا تیس منٹ بھی آدھے گھنٹے برابر لگتا ہے خیر میں بھی یہ کس کو بتارہا ہوں جو فیلنگ لیس ہے۔ ۔۔کہنے کے بعد آریان نے سرجھٹکا تو زوریز بس اُس کو دیکھتا رہ گیا۔

"سیریسلی آریان تمہیں تیس منٹ آدھا گھنٹہ لگتا ہے۔ ۔۔زوریز اُس کی پچکانی بات پر تاسف بھری نظروں سے اُس کو دیکھنے لگا

"اور نہیں تو کیا اِس سے پہلے بات بڑھ جائے تم کچھ کرو میرے لیے۔ ۔آریان نے بڑی سنجیدگی سے کہا

میں کیا کروں؟ زوریز نے آئبرو اُپر کیے اُس سے پوچھا

"شادی سسٹم آن کرو بھئ اور کیا کرنا ہے تم نے۔ ۔آریان نے پتے کی بات بتائی

"مجھے تم سے ایک بہت ضروری بات کرنی ہے۔ ۔زوریز نے اُس کی بات کو اگنور کیے سنجیدگی سے کہا

"کہو؟ آریان بدمزہ ہوا

"میری کچھ میٹنگز ہیں جن کے سلسلے میں پاکستان سے باہر میں نہیں جاسکتا کیونکہ مجھ پر بہت بڑا کیس چل رہا ہے اور یہ سب اب تمہیں دیکھنی ہوگی تو تم اپنی تیاری پکڑو جانے کی۔۔زوریز کا انداز کافی بے لچک سا تھا۔

"جانے کو تو میں چلا جاؤں گا یہ کوئی بڑی بات نہیں میٹنگز کے بہانے میرا گھومنا پِھرنا بھی ہوجائے گا پر ایک بات پوچھنی تھی وہ یہ کہ کیا میٹنگز ضروری ہیں؟"اور کتنا عرصہ لگ سکتا ہے؟آریان نے کان کی لو کُھجاکر پوچھا

"ضروری ہے تبھی بول رہا ہوں یہاں سے جاتے ہوئے تمہاری بیک ٹو بیک چار میٹنگز ہوگی اور پروجیکٹ کے سلسلے میں تمہیں ڈیلرز سے بھی ملنا ہوگا اِن سب میں تمہیں ایک ماہ کا وقت لگ جائے گا۔ ۔زوریز کا انداز کافی پرسوچ تھا۔

"وہ تو سہی پر میرے جانے کے بعد میشا کا کیا ہوگا؟آریان کو میشا کی فکر لاحق ہوئی

وہی ہوگا جو تمہارے پہلے ہوتا تھا اِس لیے تم زیادہ بہانے مت بناؤ"ویسے بھی تمہارے بنا ساٹھ منٹس اُس کو گھنٹے برابر نہیں لگے گا۔ ۔۔زوریز نے اُس کو گھور کر کہا

"بی سیریس یار اور تم کتنے بے رحم ہو میرے جانے کے بعد تمہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔۔"لیکن میشا کو آدھا گھنٹہ تیس منٹ لگے گے۔۔۔آریان خود نان سیریس ہوتا زوریز کو سیریس ہونے کا بولنے لگا

"مجھے نہ کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے کہ سوہان اور تمہاری ایج سیم ہے مگر وہ لڑکی ہونے کے باوجود کتنی سمجھدار ہے"اُن کی شخصیت میں کیسا روعب اور وقار جھلکتا ہے اور ایک تم ہو جس کو فضول ایکٹویٹی سے فرصت نہیں"یعنی تم ایک چلتا پِھرتا جوکر ہو۔۔زوریز نے اُس کو شرمندہ کرنے کی کوشش کی۔

"یاں ویسے سوچنے والی بات ہے ہماری ایج سیم ہے مگر اُس کے باوجود بھی تم اُس کو"آپ"آپ کہہ کر مُخاطب ہوتے ہو "اِتنی عزت دیتے ہو" اور مجھ سے توں تراں کرکے بات کرتے ہو۔۔آریان ترکی پہ ترکی بولا تھا۔

"آپ کہنے والی بات بھی خوب کہی تم نے"میں تم سے دو سال بڑا ہوں اور تم نے کبھی مجھے"آپ کہنے کی زحمت نہیں کی تو یہ کیسے سوچ لیا کہ میں یعنی زوریز دُرانی تمہیں آپ کہہ کر مُخاطب ہوگا۔۔زوریز نے طنز کہا

"آپ جناب والے تُکلف نہ غیروں میں ہوتے ہیں اور مجھے تو تم سے عشق ہے تبھی میں تمہیں آپ نہیں کہتا تم تو میری جان ہو۔۔آریان اپنے چہرے پر سنجیدگی طاری کرتا اُس کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں بھرا اُس کی آنکھوں میں شرارت صاف ناچ رہی تھی جو زوریز نہیں دیکھ پایا مگر جیسے ہی آریان اُس کے ماتھے پر جُھکنے لگا زوریز ایک جھٹکے سے اُس سے دور کھڑا ہوا تھا۔

"لاحول والاقوة"اِنتہا ہے تم کوئی بے شرم انسان ہو۔۔زوریز گھور کر اُس سے کہتا وہاں سے چلاگیا پیچھے آریان کا جاندار قہقہقہ گونج اُٹھا۔

❤❤❤❤❤❤

تم چُپ کیوں ہو فاحا"جواب دو؟سوہان نے اُس کو کچھ بھی بولتا نہ دیکھ کر پوچھنے لگی۔

آپو وہ

فاحا اِتنا کہتی چُپ ہوگئ اُس سے کچھ بولا نہیں جارہا تھا یا اپنی بات کے لیے الفاظوں کا چُناؤ کرنا اُس کے لیے مشکل ہورہا تھا زندگی میں پہلی بار اپنی بہنوں سے کوئی بات کرتے ہوئے اُس کو ہچکچاہٹ کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا ورنہ تو اُس کے دل میں جو بھی ہوتا تھا وہ بلاجھجھک بتادیتی تھی۔

"زبان اُس کو دے کر آئی ہو کیا؟ میشا نے طنز کیا

وہ دراصل اُنہوں نے مجھ سے کہا کہ میں آپ لوگوں سے کہوں کہ مجھے گاؤں رہنا ہے۔۔فاحا اپنے ہاتھوں کو آپس میں رگڑتی بلآخر بولی تو وہ دونوں اپنی جگہ حیران رہ گئ تھیں

"وہ ہوتا کون ہے" تم سے ایسے بولنے والا اُس نے یہ جُرئت کر کیسے لی سمجھتا کیا ہے وہ خود کو؟ "کہیں کا کوئی چینگیز خان ہے" میرے سامنے آجائے وہ ایک بار پھر اُس اسیر بشیر کا ایسا حال کروں گی کہ ساری زندگی بھول نہیں پائے گا میں اُس کے جسم کی ساری ہڈیاں توڑ کر اپائج بنادوں گی۔۔میشا کا اِتنا سُننا تھا اور وہ بھڑک اُٹھی۔

"اگر ایسی بات ہے تو وہ میرے پاس یا میشو کے پاس کیوں نہیں آیا؟ "وہ تمہارے ساتھ اِتنا بے تُکلف کیوں ہورہا ہے؟ "اور تمہاری لوکیشن کا اُس کو کیسے پتا چلا؟ سوہان نے سنجیدگی سے اُس کو دیکھ کر پوچھا تو فاحا سے کچھ بولا نہیں گیا۔"اُس کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب وہ کریں تو کیا کریں؟

"ہاں واقعی اُس کو تمہاری GPS کا کیسے پتا چلا؟میشا نے بھی مشکوک نظروں سے اُس کو دیکھ کر سوال کیا

"اللہ پوچھے آپ سے جو میرے نازک کندھوں پر بندوق رکھ کر چلا رہے ہیں۔ ۔اپنی بہنوں کا انداز دیکھ کر فاحا دل ہی دل میں اسیر کو کوسنے لگی۔

"ویسے تو بہت بولتی ہو تم اب کیوں چُپ ہوگئ ہو مجھے جواب دو۔ سوہان نے سنجیدگی سے دوبارہ پوچھا اُس کے لہجے میں کوئی رائت نہیں تھی

"دراصل میں اُن کو پہلے سے جانتی تھی ایک شہر میں ہونے کی وجہ سے سامنا ہوجاتا تھا مگر وہ میرے کزن ہیں یہ تب پتا نہ تھا رہی بات لوکیشن کی تو آجکل کسی کی لوکیشن کا پتا کروانا کوئی بڑی بات نہیں۔ ۔فاحا نے رٹے رٹائے طوطے کی طرح سب کچھ بتایا

اوو تو اِتنا کچھ ہوگیا اور تم نے ہمیں بتانا گوارا تک نہیں کیا۔ ۔میشا کو جیسے یقین نہیں آیا

"ایسا ویسا بھی اب کچھ نہیں ہوا جیسا آپ کو لگ رہا ہے۔ ۔فاحا نے اُس کو دیکھ کر وضاحت دیتے کہا

"اور کیا کہا اُس نے تم سے؟ سوہان نے پوچھا

اور تو کچھ بھی نہیں کہا۔۔فاحا نے جلدی سے بتایا

"کچھ تو کہا ہوگا ہمیں بتاؤ۔سوہان نے پھر سے پوچھا

"اسیر بشیر کو میں چھوڑوں گی نہیں۔۔میشا کو بس ایک بات کی پڑی تھی۔

اُن کا نام بس اسیر ہے۔۔فاحا کو میشا کا ایسا کہنا اب بُرا لگ رہا تھا۔

"میں تو کہوں گی اور بس کہوں گی نہیں بلکہ کر کے بھی دیکھاؤں گی۔۔میشا نے جتاتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا

"آپ

چھوڑو میشو کو مجھے بتاؤ جو میں نے پوچھا ہے۔۔فاحا میشا سے کچھ کہنے والی تھی جب سوہان نے درمیان میں ٹوک کر کہا

"ہاں ہمیں سب کچھ بتاؤ کیونکہ اتفاق میں ہوئی مُلاقات سے کوئی کسی سے اِتنا بے تکلف نہیں ہوتا اور نہ ہمارے مراسم ایسے ہیں کہ وہ تمہیں اپنی کزن سمجھ کر اِتنا کچھ بول دے یا ملنے چلا آئے۔۔میشا نے اُس کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔

"بتایا تو تھا ایسے ہی ہوگیا تھا سامنا اب کیا بتاؤ میں آپ کو؟فاحا نے بس سوہان کو دیکھ کر بتانے کے بعد پوچھا

"کیسی مُلاقات؟سوہان نے سنجیدگی سے پوچھا

"ہاں کیسے سامنا ہوا تمہارا اُس کا جو وہ اِتنا بے تُکلف ہوگیا ہے تم سے"ہمیں تم کہتا ہے اور تم چوزی کو"آپ آپ کہتے ہوئے نہیں تھکتا۔۔میشا نے بھی مشکوک نظروں سے اُس کو گھور کر کہا تو فاحا نے خود کو بُری طرح سے پھنستا ہوا محسوس کیا

"ویسی ہی سرسری جیسی آپ کی اور زوریز دُرانی کی ہوئی تھی اور میشو آپو اور آریان دُرانی کی ہوئی تھی"ٹھیک ویسے میری اُن کے ساتھ ہوگئ"اِس میں کوئی بُرائی تو نہیں آپ دونوں کو بہتر پتا ہے اور کیونکہ مجھ سے پہلے ایسی سرسری مُلاقاتوں کا اِتفاق آپ دونوں کو ہوا ہے۔ ۔ فاحا نے کہا تو اُن دونوں کے پاس جیسے کوئی اور سوال نہیں بچا تھا۔"میشا اپنے کان کی لو کُھجاتی صوفے پر بیٹھ گئ تھی اندر جاگی تھانیدارنی اب جیسے پرسکون ہوکر سوگئ تھی اور سوہان بس اُس کو دیکھتی رہ گئ تھی جو اپنی جان خُلاصی کرنے کے بعد اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی۔۔

"تم آئیندہ کے بعد اُس سے کوئی بات نہیں کروں گی وہ اگر تمہارے راستے میں آئے گا بھی تو تم اپنا راستہ بدل دو گی۔۔کچھ توقع بعد سوہان نے بے لچک آواز میں اُس سے کہا

"پر آپو مجھے گاؤں جانا ہے۔۔۔فاحا نے کہا تو سوہان نے میشا کو دیکھا تھا جس کو خود اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا تھا۔

"بہت گھٹیا مذاق تھا۔۔میشا نے سرجھٹک کر کہا

"فاحا کوئی مذاق نہیں کرتی۔۔فاحا نے بُرا سا منہ بنائے کہا تھا

"فاحا کوئی مذاق نہیں کرتی یہی سال کا بہت بڑا مذاق ہے۔۔میشا نے بھگو کر طنز کیا تھا۔

"فاحا لُک ایٹ می اینڈ ٹیل می کہ کیا اسیر ملک نے تمہیں بلیک میل کیا ہے یا کوئی دباؤ ڈالا ہے؟سوہان اُس کے پاس بیٹھتی اِس بار بہت نرم لہجے میں پوچھنے لگی

"اُنہوں نے نہ مجھے بلیک میل کیا ہے اور نہ کسی چیز کا دباؤ ڈالا ہے میں خود جانا چاہتی ہوں امی نے اُن سے اپنا حق نہیں لیا مگر ہمیں اپنا حق لینا چاہیے۔۔"ویسے بھی وقت آگیا ہے وہ سب کرنے کا جو امی نے کہا تھا۔۔فاحا کا لہجہ آخر میں عجیب ہوگیا تھا۔"جس پر سوہان یا میشا کو اُس کی بات کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا تھا۔

"پہلیاں کیوں بُجھوا رہی ہو صاف صاف بات کرو کہنا کیا چاہتی ہو؟میشا زچ ہوئی

"امی نے کہا تھا فاحا تم اسنسسٹ کمشنر بننا مجھے تب اُن کی بات کا مقصد سمجھ میں نہیں آیا تھا جب اُنہوں نے کہا تھا کہ باقی کام تمہیں وقت سمجھادے گا مگر اب آگیا ہے سمجھ۔۔فاحا نے سنجیدگی سے کہا

"ابھی نتیجہ نہیں آیا اور کیا گارنٹی ہے کہ تم نتیجے میں پاس ہوکر اسنسٹ کمشنر بنو گی۔۔"سارا دن تو تمہارا گھرداری میں اور انسٹی ٹیوٹ میں گُزرتا ہے ٹیسٹ کی تیاری کیا تم نے خاک کی ہوگی؟میشا اُس کی بات پر سرجھٹک کر بولی

"امی نے پہلی بار مجھ سے کچھ مانگا تھا تو آپ نے کیسے سوچ لیا کہ میں اُن کی مانگ کو پورا نہیں کروں گی اور اُن کی خواہش کو خاک میں ملادوں گی۔"میں پاس ہوکر رہوں گی اور دیکھنا وہ سب ہوجائے گا۔۔"مگر جو بھی ہوجائے میں کبھی اُن کو(نوریز ملک کو) معاف نہیں کروں گی۔۔فاحا کا لہجہ سنجیدگی سے بھرپور تھا

"ٹھیک ہے اگر تم چاہتی ہو ہم گاؤں چلے تو ایسا ہی ہوگا۔۔سوہان نے اُس کی ساری بات سن کر مثبت جواب دیا تھا جس پر فاحا مسکرائی تھی

"یہ تو بچی ہے تم کیوں اِس کے ساتھ بچی بن رہی ہو ہم گاؤں نہیں جانے والے میری یہ بات سُن لو۔۔میشا نے سوہان کو گھور کر کہا تھا۔

"آپو یار مان جاؤ پھر ہم اُن کو اِتنا تنگ کرینگے کہ وہ پہلے کی طرح ہمیں پلٹ کر نہیں دیکھے گے۔۔فاحا نے اُس کو راضی کرنے کی کوشش کی

"ہم وہاں نہیں جائے گے اور خبردار جو دوبارہ کسی نے اِس بات کا ذکر چھیڑا بھی تو۔۔میشا سنجیدگی سے اُن کو وارن کرتی چلی گئ پیچھے وہ دونوں ایک دوسرے کا چہرہ تکتی رہ گئیں تھیں

تمہیں کیا ہوا ہے؟میشا سیدھا ساجدہ بیگم کے کمرے میں آتی کمرے کے گرد یہاں سے وہاں ٹہلنے میں لگی ہوئی تھی تبھی اُنہوں نے جاننا چاہا

"آپ اُن دونوں سے کہہ دے کہ میں ایسا ویسا کچھ نہیں کرنے والی۔۔میشا نے سنجیدگی سے ساجدہ بیگم کو دیکھ کر کہا

"ایسا ویسا کیا؟ ساجدہ بیگم ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگی۔

"اُن دونوں نے گاؤں جانے کا اِرادہ باندھ لیا ہے جو میں ہونے نہیں دوں گی"جانتی ہوں اُن دونوں کے برعکس میرا نقصان کم ہوا ہے اگر کسی نے زیادہ سفر کیا ہے تو وہ سوہان ہے جس نے کسی ماں کی طرح اپنی نیند حرام کرکے آٹھ سال کی عمر میں فاحا کا خیال رکھنے لگی "جو خود دھوپ میں کھڑی ہوتی ہم دونوں کو چھاء دیتی تھی"خود کو بھوکا رکھ کر ہمارا پیٹ پالتی تھی"سہی ہے مان لیا اِس میں کوئی شک نہیں اُس کے بعد فاحا کا نمبر آتا ہے جس نے باپ کا ہی نہیں بلکہ ماں کا پیار بھی کھویا تھا اُس کو ماں کا لمس میسر بھی تب ہوا جب وہ اپنی آخری سانسیں گِن رہی تھیں"میری ضروریات پوری کرنے کے لیے اور لاڈ اُٹھانے کے لیے ماں اور بہن دونوں تھیں""فاحا کے لاڈ سوہان نے اُٹھائے مگر سوہان کے لاڈ اُٹھانے والا کوئی نہیں تھا کیونکہ امی کے رویے کی وجہ سے سوہان اُن سے دور ہوگئ تھی۔"تو کیسے ممکن ہے ہم یہ سب بھول کر اُس شخص کے پاس لوٹ جائے جس کی وجہ سے یہ سب ہوا ہے۔میشا بولنے پر آئی تو بولتی چلی گئ اور ایسا بولی کہ اُس کا پورا سانس پُھول گیا تھا۔

"میشو سب سے پہلے تم پرسکون ہوجاؤ مجھے افسوس ہے کہ میں تم تینوں کے باپ سے نہیں مل پائی اگر ملتی تو اسلحان کی تڑپ اُس کو بتاتی"سوہان پر ہونے والے ظُلم کی داستان بتاتی فاحا کے آنسوؤ کا بتاتی لیکن خیر چھوڑوں اِن باتوں کو فاحا اور سوہان نے اگر جانے کا فیصلہ کیا ہے اور اپنا اِرادہ باندھ لیا ہے تو ضرور اُن دونوں نے کچھ سوچا ہوگا"تم تینوں کے خیالات کبھی ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے اِس لیے تم بھی مان جاؤ اور اپنی یہ ضد چھوڑدو"دیکھ لینا پھر سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ ۔ساجدہ بیگم نے رسانیت سے اُس کو سمجھانے والے انداز میں کہا جو میشا کو ایک لحاظ سے سہی بھی لگا تھا۔

"ٹھیک ہے آپ کی بات مان بھی جاؤں تو بھی آپ کو چھوڑ کر ہم کیسے جاسکتے ہیں؟"یہاں آپ ہماری تنہائی دور کرنے آئی تھیں تو کیسے ممکن ہے کہ آپ کو تنہا چھوڑ کر ہم چلے جائے۔۔۔میشا کو اچانک اُن کا خیال آیا تو فکرمندی سے بولی

"آنٹی بھی ہمارے ساتھ آئے گیں۔۔سوہان کے ہمراہ کمرے میں داخل ہوتی فاحا نے کہا

"ارے جھلی میں کیسے چل سکتی ہوں؟"وہ تم لوگوں کا گھر ہے میرا وہاں کیا کام؟ساجدہ بیگم اُن کی فکر پر مسکرائے بنا نہ رہ پائی

"آپ کو اکیلا چھوڑ کر ہم کیسے جاسکتے ہیں؟ "آپ کو ہمارے ساتھ چلنا ہوگا۔ ۔سوہان نے بھی سنجیدگی سے کہا

"سوہان بچے ضد نہیں کرو اور میں یہاں اکیلی کہاں ہوگی؟ "عاشر والے ہوگے نہ۔ ۔۔ساجدہ بیگم نے اُس کو ٹوک کر کہا

"مانا کہ بُوا والے بہت اچھے ہیں پر آپ ہماری ذمیداری ہیں آپ کو ہم اُن کے حوالے کیسے کرسکتے ہیں۔ ۔سوہان نے ایک بار ہھر کہا

"ہاں نہ اور مسئلہ کیا ہے جو آپ یوں انکار کررہی ہیں۔ میشا نے بھی پوچھا

"بات کو سمجھو وہاں میرا اپنا کوئی نہیں اِس لیے تم تینوں میری فکر سے آزاد ہوکر ہوجاؤ۔۔ساجدہ بیگم اپنی بات پر بضد تھیں جس پر سوہان نے گہری سانس بھر کر اُن کو دیکھا

"ٹھیک ہے میں چلوں گی تم لوگوں کے ساتھ پر اگر مجھے مزہ نہیں آیا تو میں واپس آجاؤں گی۔۔میشا نے پہلے سے ہی اُن کو بتادیا

"ابھی وہاں ہم گئے نہیں اور تم نے واپسی کا بھی بتادیا۔۔سوہان تاسف سے اُس کو دیکھ کر بولی

ہاں نہ اور وہ کوئی زوں تھوڑئی ہے جہاں آپ کو مزہ کروانے کے لیے جانور موجود ہوگے۔ ۔فاحا نے بھی بُرا سا مُنہ بناکر کہا

"تم تو میرے مت لگو یہ ساری کارستانی تمہاری ہے۔ ۔میشا نے اُس کو گھور کر کہا جس پر وہ اپنا سا منہ لیکر رہ گئ۔

"تم سوہان بعد میں جانا کیونکہ تم اُن کے خلاف کیس لڑنے والی ہو۔ ۔ساجدہ بیگم نے سوہان سے کہا

"آپ کو لگتا ہے اگر میں وہاں ہوگی تو وہ مجھے باز رکھ سکتے ہیں؟ سوہاں اُن کی بات پر استہزائیہ مسکرائی

"کرنے کو وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں اُن پر کسی بھی چیز کا بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ ۔میشا نے جواباً کہا

"ہم کل بھی خودمختار تھے اور آج بھی خود مختار ہیں اور اِن شاءاللہ آنے والے کل میں بھی ہم خودمختار رہے گیں۔ ۔سوہان نے مضبوط لہجے میں کہا

"تو کیا کال پر میں اُن کو ہمارے آنے کا بتادوں؟فاحا نے پوچھا

"تمہارے پاس اُس اسیر بشیر کا نمبر بھی ہے؟ میشا نے شکی نظروں سے اُس کو دیکھا

"توبہ کریں میرے پاس اُن کا نمبر کہاں سے آئے گا؟ میں تو اُن کا بول رہی ہوں جن کے پاس جانے والے ہیں۔ ۔فاحا پہلے تو اُس کے سوال پر گڑبڑا گئ تھی مگر جلدی سنبھل کر بولی

"ہمارے پاس اُن کا کوئی نمبر نہیں ہے اگر وہ آئے گے تو سہی ہے ورنہ بس۔ ۔سوہان نے سنجیدگی سے کہا

"جیسا آپ کہو۔ ۔۔فاحا نے کہا اور نیمی نیمی ہوتی کمرے سے چلی گئ۔ ۔

"ایک بار ہاتھ لگ جائے وہ اسیر بشیر پھر میں اُس کو چھوڑوں گی نہیں۔ ۔۔میشا کو ایک بار پھر دورا پڑا

"شرم کرو اچھے خاصے نام کا ستیاناس کردیا ہے تم نے۔ ۔سوہان نے خشمگین نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا جس پر میشا نے اپنا سرجھٹکا تھا۔

❤❤❤❤❤❤

تم نے جو میرے لیے کیا ہے نہ اُس کا احسان میں تاعمر چُکا نہیں پاؤں گا۔۔نوریز ملک نے اسیر کو دیکھ کر مشکور لہجے میں کہا جو ابھی شہر سے گاؤں پہنچا تھا۔۔

"ہم نے جو آپ کے لیے کیا اُس سے زیادہ کی توقع آپ ہم سے مت کیجئے گا ہمیں جو کرنا تھا وہ ہم کرچُکے ہیں۔جواباً اسیر نے سنجیدگی سے کہا

"تم فکر نہیں کرو اب تمہارا کام ختم ہوگیا اور مجھے یقین ہے میں اگر اب اُن کو لینے جاؤں گا تو وہ اب انکار نہیں کرینگی۔۔نوریز ملک پُریقین لہجے میں بولے جس پر اسیر نے گہری سانس بھری تھی۔

"ہمیں آپ سے کچھ ڈسکس کرنا تھا۔۔اسیر نے اُن کو دیکھ کر کہا

"ہاں کہو کیا بات ہے؟نوریز ملک اُس کی طرف متوجہ ہوتے سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھنے لگے۔

"ہمیں دیبا کی کال آئی تھی اُس کا نمبر آپ کو واٹس ایپ کرتا ہوں آپ اُس کو دیکھ لیجئے گا ہمیں کوئی انٹرسٹ نہیں کہ اُس سے بات کریں۔ ۔اسیر نے سنجیدگی سے بتایا

"دیبا نے تمہیں کیوں کال کی؟اور اِتنے سالوں بعد اُس کو تمہارا خیال کیسے آگیا؟ نوریز ملک حیرت زدہ ہوکر بولے

"اُس کی طلاق ہوگئ ہے اِس سے زیادہ ہمیں کچھ نہیں پتا۔ ۔۔"آپ سے جو کہا ہے اگر وہ آپ کرینگے تو سہی رہے گا۔۔اسیر نے سپاٹ لہجے میں کہا

کیا اُس کے بچے بھی ہیں؟نوریز ملک نے اگلا سوال کیا

"طلاقِ یافتہ ہے اکیلی بچے نہیں ہیں کوئی۔ ۔۔اسیر نے بتایا اور اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا

"کہاں جارہے ہو؟

اقدس کے پاس۔۔اسیر نے بتایا

"سارا دن تمہیں یاد کرتی رہتی ہے۔ ۔نوریز ملک نے مسکراتے ہوئے بتایا

"ہم باپ ہیں نہ اُس کے اِس لیے ہر وقت یاد کرتی ہے۔۔بتانے کے بعد اسیر کو وہاں کھڑا رہنا مُناسب نہیں لگا تھا تبھی چلاگیا۔

❤❤❤❤

آج سوہان ایک بار پھر کورٹ آئی تھی کیونکہ آج زوریز کے کیس کی پہلی سُنوائی تھی اور آج بھی اُس کا اعتماد پہلی دفعہ کی طرح قابلِ دید تھا۔۔"کورٹ میں اُس کا سامنا سجاد ملک سے ضرور ہوا تھا جو خاصی ناگوار نظروں سے اُس کو دیکھ رہے تھے"مگر سوہان پوری طرح سے اُن کو اگنور کرتی زوریز کے ہمراہ کمرہ عدالت میں داخل ہوئی تھی۔۔"زوریز کا کیس مضبوط تھا اور اُس کی تیاری بھی مگر نذیر ملک کے وکیل نے کچھ ثبوتوں کی بنا پر جج صاحب سے وقت مانگا تھا جو عدالت نے اُن کو دے بھی دیا تھا اب اگلی سُنوائی کچھ دِنوں بعد تھی" جس کو سُن کر سوہان اپنی جگہ پر بیٹھتی زوریز کو دیکھنے لگی جس نے نظروں ہی نظروں میں اُس کو پرسکون رہنے کا اِشارہ دیا تھا۔ ۔

"سوہان جب کمرہ عدالت سے باہر آئی تو سجاد ملک اپنے آدمیوں کے ساتھ اُس کے راستے میں حائل ہوئے تھے جس پر سوہان نے ایک اچٹنی نظر اُن پر ڈالی تھی جو خاصے تپے ہوئے معلوم ہورہے تھے۔

"تو تم ہو سوہان جو بے شرمی کی جدود کو چھوتی اپنے کزن کے خلاف جاکر کھڑی ہوئی ہے وہ بھی ایک غیر مرد کی وجہ سے۔ ۔سجاد ملک جو غُصیلے انداز میں اُس سے مُخاطب ہوئے تھے"پھر نظر جب براؤن تھری پیس میں ملبوس اپنے سیل فون پر مصروف ہر چیز سے لاتعلق زوریز پر پڑی تو مزید بپھرے ہوتے اُس سے بولے

"مسٹر سجاد ملک کون میرا کزن ہے اور کون غیر مرد یہ بات آپ کو مجھے بتانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ ۔سوہان اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجائے بولی جو سجاد ملک کو آگ لگانے کے لیے کافی تھا۔

"تم کل آئی

"آپ کا کوئی حق نہیں کہ آپ میری وکیل سے اِس طرح سے بات کریں۔۔سجاد ملک کچھ سخت کہنے والے تھے جب اپنا سیل فون جیب میں ڈالے زوریز سوہان کے برابر کھڑا ہوتا سرد لہجے میں اُن سے گویا ہوا تھا اُس کی نظر سجاد ملک پر تھی جو اب سوہان کی سائیڈ پر کھڑے ہوئے تھے اور یہی وجہ تھی جو زوریز سوہان کے ماتھے پر ہوتا گول دائرے کی صورت میں بنا نشان نہیں دیکھ پایا تھا جو کورٹ کے باہر کھڑے کسی نے بنایا تھا"مگر جب سجاد ملک کی نظر سوہان پر گئ تو اُن کے چہرے پر مکروہ مسکراہٹ نے بسیرا کرلیا تھا جو زوریز کی نظروں سے پوشیدہ نہیں رہ پائی تھی تبھی اُس نے اُن کی نظروں کے تعاقب میں سوہان کو دیکھا تو اُس کو ایسے لگا جیسے کسی نے اُس کا دل مٹھی میں جکڑلیا ہو۔۔"دل پوری قوت سے دھڑکا تھا ایسے جیسے ابھی پسلیاں توڑ کر باہر آجائے گا۔ ۔

"سوہان۔

"زوریز کسی دیوار کی مانند اُس کے آگے کھڑا ہوتا اُس کو سائیڈ پر کرنے والا تھا جب اپنی پیٹھ پر اُس کو گرم لوہے جیسی چیز چُھبتی محسوس ہوئی تو وہ لب بھینچ کر سوہان کو دیکھنے لگا جو ناسمجھنے والے انداز میں اُس کو اپنے اِتنے پاس دیکھ رہی تھی وہ جان نہیں پائی تھی کہ یہ اچانک زوریز کو کیا ہوگیا تھا جو ایسی حرکت کرگیا تھا۔ ۔

"زوریز۔۔سوہان نے اُس کو پُکارا جواب میں زوریز نیچے بیٹھتا چلاگیا تھا اور اُس کو تھامنے کی نیت سے سوہان نے جیسے ہی اپنا ہاتھ اُس کی پیٹھ پر رکھا تو کچھ غیرمعمولی پن سا اُس کو محسوس ہوا تبھی دھڑکتے دل کے ساتھ وہ اپنا ہاتھ دیکھنے لگی جو خون میں نہایا ہوا تھا یہ دیکھ کر وہ ششد سی زوریز کو دیکھنے لگی جس نے اُس کے حصے کی گولی خود کھالی تھی۔

"زوریز۔سوہان نے منہ سے چیخ نکلی تھی" سجاد ملک بھی ہڑبڑاکر اپنے ساتھیوں کو دیکھنے لگے"گولی کی آواز نہ ہونے کی وجہ سے کسی کو زیادہ پتا نہیں لگا تھا مگر سوہان کی چیخ نے آس پاس کھڑے لوگوں کو اُن دونوں کی طرف متوجہ کیا تھا۔ ۔

"زوریز۔ ۔۔سوہان کا پورا چہرہ وحشت کے مارے لٹھے مانند سفید ہوگیا تھا وہ اُس کے ساتھ نیچے بیٹھتی زوریز کا سر اپنی گود میں رکھا تھا جبکہ اُس کا ایک ہاتھ زوریز کے گال پہ تھا

"ہششش ڈو نٹ۔ ۔کرائے۔ ۔اپنی تکلیف سے ہوتی بند آنکھوں کو بامشکل کھولے زوریز نے اُس کو رونے سے باز رکھا تھا"اِتنی تکلیف میں بھی اُس کو اگر کسی کی پرواہ تھی تو سوہان کے آنسوؤں کی تھی اپنے جسم سے بہتے خون کی نہیں"لیکن زوریز کا اِتنا کہنا تھا اور سوہان کی آنکھ سے ایک باغی آنسوؤ بہہ کر زوریز کے ادھ کُھلے ہونٹوں پر گِرا تھا جس کو زوریز نے پھر پی لیا تھا۔۔زوریز کو ہوش وحواسوں سے بیگانہ دیکھ کر سوہان کو جانے کیا ہوگیا تھا جو اُس نے نیچے جُھک کر اپنا ماتھا زوریز کے ماتھے سے ٹکرایا تھا۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

ایمبولینس کو کال کردی ہے آپ اُٹھے۔ ۔کسی نے سوہان سے کہا تو وہ جیسے ہوش میں آئی تھی اور اُس کو اچانک سے اپنی پوزیشن کا احساس ہوا تو وہ سیدھی ہوتی زوریز کو دیکھنے لگی جس کی آنکھیں اِس وقت بند تھیں۔۔"جنہیں دیکھ کر سوہان کا دل کٹ کے رہ گیا تھا" اسلحان کی موت کے بعد اگر اُس کو کوئی اور تکلیف بھرا دن لگ رہا تھا تو وہ آج کا تھا۔"باہر میڈیا کا ہجوم الگ سے اکھٹا تھا کیونکہ زوریز کوئی معمولی ہستی تو نہیں تھا اور جیسا اُس پر کیس چل رہا تھا نیوز والوں کے لیے یہ ایک چٹ پٹی خبر تھی" اور اُن کے کانوں میں جیسے ہی زوریز پر ہوئے حملے کی خبر پڑی تو ہر طرف جیسے آگ کے شعلے بھڑک اُٹھے ہر جگہ اگر کسی کا نام تھا تو وہ بس زوریز دُرانی کا تھا۔ ۔۔

❤❤❤❤❤❤❤

"جی تو ناظرین ہم اِس وقت کورٹ کے باہر کھڑے ہیں جہاں زوریز دُرانی جی ہاں دا بزنس ٹائیکون زوریز دُرانی کے کیس کی پہلی سُنوائی تھی۔ ۔"اور ابھی ہمیں ایک اِطلاع ملی ہے کہ اُن پر کسی نے قاتلانہ حملا کردیا ہے۔"اور اُن کی حالت کافی تشویشناک ہے۔۔"حملا کرنے والا کون تھا؟

"زوریز دُرانی کی آخر ایسی سنگین دُشمنی کس کے ساتھ ہوسکتی ہے؟"جاننے کے لیے ہمارے چینل کے ساتھ جُڑے رہے۔۔


"یہ کوئی خبر نہیں بم تھا جو آریان کو خود پر گِرتا محسوس ہوا تھا وہ بغیر آنکھیں جھپکائیں ٹی وی اسکرین کی طرف دیکھ رہا تھا جہاں نیوز اینکر گلا پھاڑ پھاڑ کر خبر کو مرچ مصالحہ لگا کر پیش کررہی تھی۔"آریان کے ہاتھ میں موجود بیگ چھوٹ کر نیچے گِرا تھا وہ جہاں تھا وہی کا وہی رہ گیا تھا۔"اُس کو یہ یاد نہیں رہا تھا کہ وہ زوریز کے کہنے پر آج پاکستان سے باہر جارہا تھا" ٹِکٹ بھی کنفرم ہوچکی تھی ہر چیز تیار تھی۔


"تمہیں پتا ہے آریان میری سب سے پہلی priority تم ہو میری زندگی سے زیادہ مجھے میری سانس سے بھی زیادہ اگر کوئی چیز عزیز ہے تو وہ تم اور تمہارے ذات ہے اِس لیے ایسی چپقلش والی باتیں مت کیا کرو"


"کانوں میں محبت سے چور لہجے میں کہا گیا زوریز کا جُملا اُس کے کانوں میں گونجا تھا تو آریان بھاگنے والے انداز میں ہال سے نکلتا پورچ کی طرف آیا تھا اور ڈرائیور کو دور کرتا خود ایک گاڑی میں بیٹھتا فل اسپیڈ سے گاڑی چلانا اسٹارٹ کردی تھی اُس کو اپنا دماغ ماؤف ہوتا محسوس ہوا تھا اعصاب جیسے کام کرنا بند کرگئے تھے"اِس وقت اُس کو گُھٹن کا احساس شدت سے ہوا تھا"مگر خود کو مضبوط کرتا اُس نے ڈیش بورڈ سے اپنا سیل فون اُٹھایا اور زوریز کے پی اے کو کال کی جو پہلی بیل میں ہی ریسیو ہوگئ تھی۔ ۔

السلام علیکم اریان سر۔ ۔دوسری طرف کسی کی آواز اُس کے کانوں سے ٹکرائی

"وعلیکم السلام زوریز کس ہوسپٹل میں ہے؟آریان نے سنجیدگی سے پوچھا تھا ہلانکہ یہ سب ٹی وی نیوز میں بتایا جاچُکا تھا پر آریان کا دماغ تب اِتنا شل تھا کہ وہ دھیان دے ہی نہیں پایا تھا۔

"میں لوکیشن آپ کو سینڈ کرتا ہوں۔ ۔اُس نے کہا تو آریان نے بنا کچھ اور کہے کال کاٹ دی اور اپنا دھیان ڈرائیونگ پر لگایا کچھ سیکنڈ میں اُس کے فون پر میسج ٹون بجی تھی تو گاڑی کی اسپیڈ ایک بار پھر تیز ہوگئ تھی۔

Rimsha Hussain Novels❤

یہ نیوز فاحا اور میشا نے بھی دیکھ لی تھی اور وہ دونوں اپنی جگہ پریشان ہوگئ تھیں۔۔"اُن کو یقین نہیں آیا تھا کہ کوئی اپنی دُشمنی کی آگ میں اِتنا بھی جل سکتا تھا کہ کسی کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرسکتا تھا۔۔

"ہمیں ہوسپٹل جانا چاہیے۔ فاحا نے میشا کو دیکھ کر کہا

"افکورس جانا چاہیے" تم سوہان کو کال کرو اور ساری صورتحال اُس سے جانے کی کوشش کرو۔ میشا نے سنجیدگی سے کہا

"آپو کا فون مسلسل آف جارہا ہے ساری صورتحال ہمیں اب ہوسپٹل پہنچنے کے بعد ملے گی۔۔"فاحا نے بتایا

"چادر اور حجاب لگاؤ میں بھی آتی ہوں تب تک۔میشا نے کہا

"آپ کو کیا لگتا ہے اِس نے کیا ہوگا وہ بھی کورٹ کے باہر؟فاحا نے تھوڑا جِھجِھک کر اُس سے پوچھا

"اِیسی جُرئت کون کرسکتا سِوائے اُس ملک خاندان والوں کے؟ میشا نے طنز سے بھرپور آواز میں بتایا

"اُن کو نہ تو خُدا کا خوف ہے اور نہ دُنیاوی قانون کا۔ ۔فاحا اُس سے بولی

"ایسے لوگ اپنی آخرت اور دُنیا دونوں بگاڑ دیتے ہیں۔ ۔میشا سرجھٹک کر بولی تو فاحا خاموش ہوگئ

" تم پریشان نہ ہو گاؤں ہم نے ویسے بھی جانا ہے اِرادہ باندھ لیا ہے تو پیچھے نہیں ہٹنے والے۔ اُس کی خاموشی کا الگ مطلب لیتی میشا نے کہا

"غلط مطلب اخذ کیا ہے فاحا یہ نہیں سوچ رہی تھی۔ فاحا نے جیسے وضاحت دی

"تیاری پکڑو پھر ہم نے ہوسپٹل جانا ہے" کیا پتا سوہان کو ہماری ضرورت ہو۔میشا نے بات کو بدل کر کہا تو فاحا اُٹھ کھڑی ہوئی تھی۔

Rimsha hussain novels❤

بابا سائیں اب کیا ہوگا گولی تو زوریز کو لگی وہ بھی غلط وقت پر ایسے میں ہر ایک کا شک ہم پر ہی جائے گا کیونکہ ہمارے درمیان لڑائی جھگڑا چل رہا ہے۔۔نذیر نے پریشان کن لہجے میں سجاد ملک سے کہا

"سوہان کو لگتی تو بھی الزام ہم پر آنا تھا سمجھ نہیں آرہا اُس بدبخت کو کورٹ کے باہر گولی چلانے کا مشورہ دیا کس نے ایسے تو ہر ایک کے ہاتھ ہمارے گریبان میں ہوگے۔ ۔۔سجاد ملک ناگواری سے بولے آج ہوئے واقعے سے وہ خود پریشان تھے

"تو کیا آج آپ نے سوہان پر حملا نہیں چاہا تھا؟نزیر کو یہی بات سمجھ آئی

"میں صرف سوہان کو نہیں بلکہ اُن تینوں کو مروانا چاہتا ہوں پر آج وقت سہی نہیں تھا" نہیں تھا سہی وقت۔ ۔۔سجاد ملک نے دانت پر دانت جمائے کہا تھا۔

"تو اب کیا ہوگا؟ نذیر نے پوچھا

"تم نے جو زوریز پر کیس کیا ہے وہ واپس لو۔ ۔۔"کیونکہ ہم مصیبت میں پڑسکتے ہیں" وہ زوریز دُرانی ہے کوئی عام ہستی نہیں جو اگر مر بھی جائے گا تو پولیس اُس کیس پر انویسٹی گیشن نہیں کرے گی۔ ۔۔سجاد ملک نے اُس کو اپنا حُکم سُنایا

"یہ کیا بول رہے ہیں آپ؟ "کورٹ میں کیس شروع ہوچُکا ہے ایسے میں اب پیچھے ہٹنا بیوقوفی ہے۔ ۔"ہم کیس جیت سکتے ہیں۔ نذیر کو اُن کی بات پسند نہیں آئی

"دیکھو نذیر ابھی جو میں بول رہا ہوں وہ بس کرو۔ ۔"پولیس رجسٹر میں وہ رپورٹ پھاڑ آنا جو تم نے اُس کے خلاف کی ہے۔ ۔ویسے بھی ایسا کرنا ہمارے لیے فائدیمند ہوسکتا ہے۔"اور نہ کرنے کی صورت میں ہمیں نُقصان اُٹھانا پڑسکتا ہے۔ ۔سجاد ملک کی سوچ بہت دور تک تھی۔

"ٹھیک ہے جیسا آپ کہو میں کرتا ہوں وہ سب۔ ۔۔۔نذیر بے دلی سے بولا

"ہاں زوریز کے پیچھے بڑے ہاتھ ہیں" دوسرا وہ بیریسٹر سوہان بھی کسی سے کم نہیں۔ ۔۔سجاد ملک نے غُصے سے اپنے ہاتھوں کی مُٹھیوں کو بھینچا تھا۔

❤Rimsha hussain Novels❤

"میرا بھائی کیسا ہے؟"سوہان جو بینچ پر بیٹھی بے تاثر نظروں سے اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی" آریان کی آواز پر بے ساختہ اُس نے اپنا سراُٹھائے اُس کو دیکھا جس کی حالت قابلِ رحم تھی اُس کے چہرے سے وہ اُس کے اندر کی کیفیت کا اندازہ بخوبی لگا سکتی تھی۔

"ابھی کچھ بتایا نہیں ڈاکٹر نے۔سوہان نے سنجیدگی سے بتایا تو آریان سیدھا ڈاکٹر کے کیبن کی طرف بڑھا تھا" تب تک وہاں میشا اور فاحا بھی آگئیں تھیں اور سوہان کی سوجھی آنکھیں اور ایسی بِکھری حالت نے اُن کو حیرت کے ساتھ پریشانی میں بھی مبتلا کردیا تھا" ایسا نہیں تھا کہ اُن کو زوریز کی پرواہ نہیں تھی اُن کو پریشانی تھی وہ بھی سوہان کی وجہ سے پریشان تھے زوریز کے لیے پر سوہان اِس حد تک اُس کے لیے پریشان ہوگی اِس بات کا اندازہ اُن کو نہیں تھا۔ "سوہان تو وہ تھی جو اپنے دل کا حال کسی کو بھی بتانا پسند نہیں کیا کرتی تھی پھر اچانک ایسا بھی کیا ہوگیا تھا جو وہ خود کو سنبھال تک نہیں پائی تھی۔

"سوہان آر یو اوکے؟ زوریز کے پوچھنے کے بجائے میشا نے اُس سے اُس کا حال دریافت کیا کیونکہ اُن کو سوہان ٹھیک نہیں لگی تھی۔

"مجھے کیا ہونا ہے؟"میں ٹھیک ہوں اور تم دونوں یہاں کیوں آئیں ہوں؟سوہان خود کو کمپوز کرتی اُن سے سوال کرنے لگی

"ہمیں پتا چلا زوریز کا تو سوچا آجائے تم بھی اُن کے ساتھ تھی نہ ہر چینلز میں یہ بتایا جارہا تھا۔ ۔میشا اُس کے دونوں ہاتھ تھامتی بتانے لگی۔

"ہاں میں اُس کے ساتھ تھی۔۔سوہان بس اِتنا بولی وہ جیسے وہاں ہوکر بھی نہیں تھی۔ "فاحا کو اُس کی دماغی حالت پر جیسے شک گُزرا تھا۔

"کون ہوسکتا ہے جس نے اِتنی ہمت کی۔ میشا نے جانتے ہوئے بھی اُس سے سوال کیا

"گولی اُس نے میرے حصے کی کھائی تھی۔۔"وہ جو کوئی بھی تھا اُس کا ٹارگٹ میں تھی زوریز نہیں تھا" وہ تو مجھے بچانے کے چکر میں خود ہسپتال کے بیڈ پر پڑا ہے۔ ۔سوہان نے انکشاف کیا تو وہ بے یقین نظروں سے اُس کو دیکھنے لگیں جیسے اُن کو سوہان کی بات پر یقین نہ آیا ہوں

"تمہ

"میشا کچھ کہنے والی تھی مگر نظر آریان پر پڑی تو وہ خاموش ہوگئ تھی۔"مگر آج آریان نے اُس کی موجودگی کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا تھا اُس نے خود کو ایسے ظاہر کیا تھا جیسے اُس نے میشا کو دیکھا ہی نہ ہو اور یہ کچھ غلط بھی نہیں تھا۔ ۔"اِس وقت آریان کو بس اگر کسی کی فکر تھی تو وہ زوریز کی تھی اور کسی کی بھی نہیں تھی"اور اُس کا ایسا انداز میشا کے لیے بلکل نیا تھا۔

"کیا کہا ڈاکٹر نے؟سوہان نے آریان کو دیکھ کر بے چینی سے پوچھا

"گولی نکال دی ہے۔ "ہوش کب تک آئے گا یہ ابھی پتا نہیں لگا۔ ۔آریان اِتنا کہتا بینچ پر ڈھے سا گیا تھا۔ میشا کو آج کہی سے بھی وہ آریان نہیں لگا جس کی آنکھوں میں شرارت اور چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ کا احاطہ رہتا تھا وہ تو آج کوئی اور ہی لگ رہا تھا ایک سنجیدہ سا اِنسان جس کو میشا جانتی تک نہ تھی۔۔

"آپ پریشان نہ ہو اللہ سب بہتر کرے گا۔ فاحا نے سوہان کو دیکھ کر تسلی کروانی چاہی جو گہری سوچو میں ڈوب گئ تھی اِس وقت اُس کی سوچو کا مرکز صرف زوریز کی ذات تھا۔

"ماضی

السلام علیکم۔۔سوہان اِس وقت لائبریری میں اکیلی بیٹھی کتاب پڑھنے میں مصروف تھی" جب اُس کو اپنے بیحد پاس کوئی مردانہ آواز سُنائی دی تو اُس نے چونکتے ہوئے اپنا سر اُٹھایا جہاں زوریز اپنے ہاتھ ہاتھ جینز کی پاکٹ میں ڈالے کھڑا تھا اُس کو دیکھ کر سوہان پہچان گئ تھی کہ وہ کون ہے" کیونکہ پہلی مُلاقات وہ بھولی نہیں تھی۔

وعلیکم السلام جی؟سلام کا جواب دینے کے بعد سوہان نے اُس کو سوالیہ نظروں سے دیکھا جیسے جاننا چاہ رہی ہو کہ اُس نے آج کیسے مُخاطب کرنے کی زحمت کردی تھی اُس پارٹی میں ہوئی مُلاقات کے بعد سوہان کا یونی میں زوریز کے ساتھ سامنا کئ بار ہوا تھا مگر دونوں ایک دوسرے کو ایسے دیکھتے جیسے کبھی سامنا ہوا ہی نہیں تھا دونوں۔

"مجھے پتا چلا تھا ریسٹورنٹ کے آنر نے آپ کو جاب سے نکال دیا ہے؟ زوریز اُس کے پاس والی چیئر پر بیٹھ کر پوچھنے لگا

"کیا آپ مجھ سے اِس بات کی تصدیق کرنے آئے ہیں؟سوہان نے جواب دینے کے بجائے اُلٹا اُس سے سوال کیا جس سے زوریز ایمپریس ہوتی نظروں سے اُس کو دیکھنے لگا"اُس کو سوہان کی اسی بات کی اُمید تھی کہ وہ کبھی اُس کو سیدھا جواب نہیں دے گی اور ہوا بھی یہی تھا۔

"نہیں میں یہاں آپ سے ایک سوال کرنے آیا تھا۔۔زوریز نے بتایا

"کیسا سوال؟سوہان نے ناسمجھی سے اُس کو دیکھ کر پوچھنے لگی۔

"میں نے آپ کو اپنا وِزیٹنگ کارڈ دیا تھا آپ نے رابطہ نہیں کیا کوئی پھر؟ زوریز نے پوچھا تو سوہان چُپ ہوگئ تھی۔

"آپ کا وہ کارڈ مجھ سے گُم ہوگیا تھا۔ ۔سوہان نے کچھ توقع بعد بتایا

"گُم ہوگیا یا آپ میرے ساتھ کام کرنا نہیں چاہتی تھی؟زوریز نے بغور اُس کے تاثرات جانچے

"اگر میں کہوں ہاں تو؟سوہان کے چہرے پر کوئی بھی تاثر نہیں تھا

"تو میں کہوں گا آپ کی صاف گوئی کا مُظاہرہ کرنا مجھے اچھا لگا۔ ۔زوریز نے شانے اُچکاکر کہنے کے ساتھ کُرسی سے ٹیک لگالی تھی

"آپ شاید مجھے غلط لڑکی تصور کررہے ہیں۔ ۔سوہان کو اُس کا اپنے لیے ایسا کمنٹ دینا پسند نہیں آیا تھا

"آپ کو ایسا کیوں لگا کہ میں آپ کو غلط تصور کررہا ہوں؟ زوریز کو سمجھ نہیں آیا کہ اُس نے ایسا بھی کیا بول دیا اُس نے جو سوہان نے یہ کہا

"آپ کون ہوتے ہیں میری کسی بھی چیز کو پسند کرنے والے یا جج کرنے والے؟سوہان نے کہا تو زوریز عجیب نظروں سے اُس کو دیکھنے لگا جیسے وہ سوہان سے ایسی کسی بات کی توقع نہیں کررہا تھا۔

"کیا کسی کو پسند کرنے میں یا اُس کی کسی بات کو پسند کرنے پر پابندی ہے؟زوریز نے سنجیدگی سے پوچھا

"مجھے نہیں پسند کہ کوئی میرے بارے میں سوچے یا کسی کو میری ایسی کوئی بات پسند آئے جو آپ کو آئی ہے۔ سوہان کا انداز بے لچک سا تھا

"اِس کا مطلب آپ مجھ سے فاصلہ اختیار کرنا چاہتی ہیں؟"ویسے اِس میں کوئی بڑی بات نہیں ہے آپ نے بچوں والی بات کی ہے ورنہ جیسی آپ کی پرسنائلٹی ہے اُس سے کوئی بھی آپ کو پسند کیے بنا نہیں رہ پائے گا۔ ۔زوریز نے بہت جلدی صاف گوئی کا مُظاہرہ کیا تھا اُن دونوں کی آواز بہت مدھم تھی جو بس وہ دونوں ہی سُن پارہے تھے۔

"فاصلہ تب آئے گا جب ہمارے درمیان کچھ ہوگا۔سوہان نے سنجیدگی سے کہتے اپنی کتابیں سمیٹنے لگی۔

"آپ کسی کو خود کو پسند کرنے کے لیے نہیں روک سکتی۔۔۔زوریز نے کہا تو سوہان جو لائبریری سے باہر جانے والی تھی پلٹ کر اُس کو دیکھنے لگی جس کی شخصیت سحرانگیز تھی۔"اُس کا ایسے دلجموئی سے بات کرنا کسی بھی لڑکی کو پاگل بنا سکتا تھا مگر وہ سوہان تھی جس کو خود پر اختیار تھا

"آپ نے سہی کہا۔سوہان نے جیسے باتوں کا سلسلہ ختم کرنا چاہا

"آپ کو پتا ہے آپ کا اندازِ گُفتگو کافی لیا دیا سا ہے جبکہ میرے ساتھ آپ کو بہت اچھے سے پیش آنا چاہیے تھا۔۔۔زوریز اُٹھ کر اُس کے روبرو کھڑا ہوتا بولا جو وائٹ گُھٹنوں تک آتی شرٹ اور پاجامے میں ملبوس ساتھ میں لونگ کوٹ پہنا ہوا تھا جبکہ بال اُس کے بلیک رنگ کے حجاب میں چُھپے ہوئے تھے وہ سادگی کا پیکر تھی اِس کا بات کا اندازہ زوریز کو کم وقت میں اچھے سے ہوگیا تھا ورنہ لندن جیسے مُلک میں کونسی لڑکی پابندی سے حجاب لیتی تھی"فارین لوگوں کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے کے لیے بھی کانفڈنس کی ضرورت چاہیے ہوتی ہے۔"ورنہ اِنسان اُن کے رنگ میں رنگ جاتا ہے۔

"آپ نے اُس دن میری مدد کی میں اُس کے لیے آپ کی بہت شُکر گُزار ہوں اور ہمیشہ رہوں گی اور اگر وقت آیا تو آپ کا احسان بھی چُکا دوں گی مگر اُس سے زیادہ کی توقع آپ مجھ سے نہ رکھے کیونکہ آپ کا یہ عاجزی والا روپ مجھے ایک کہاوت یاد دِلاتا ہے۔ ۔سوہان کے انداز میں کوئی لچک نہیں تھی وہ بنا کوئی لحاظ کیے صاف الفاظوں میں اُس کو اپنی باتوں کا مطلب سمجھاچُکی تھی جو زوریز کو سمجھ آ بھی گیا تھا

"کونسی کہاوت؟زوریز نے سنجیدگی سے محض اِتنا پوچھا

"عاجزی کے دور میں دلوں کے فرعون لوگ ہیں"مجھے بس یہ بات یاد آجاتی ہے۔"کیونکہ بغیر کسی مطلب کے آجکل کوئی بھی کام نہیں آتا۔ سوہان نے کہا تو زوریز نے گہری سانس ہوا سُپرد کیے اُس کو دیکھا

"آپ نے جو بھی کہا وہ ٹھیک ہے اِس میں کوئی شک نہیں مگر مخلص انسان کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھنا ایک طرح سے گُناہ ہوتا ہے"اور میں نے آپ پر کوئی احسان نہیں کیا تھا اُس دن اگر کوئی اور بھی آپ کی جگہ ہوتا تو میں یہی کرتا ویسے بھی زندگی میں کب کیا ہوجائے کچھ پتا نہیں چلتا ہوسکتا ہے" آپ میری نوازشات کی حقدار اِتنی بن جائے کہ وہ نوازشات واپس لُٹانے کا آپ سوچ بھی نہ پائے۔۔زوریز اُس کی آنکھوں میں دیکھ کر اپنی بات کہتا اُس کے برابر سے گُزرگیا تھا"پیچھے سوہان نے جانے کتنا اُس کی بات کا مطلب نکالنے کا سوچا مگر اُس کو کچھ بھی سمجھ میں نہیں آیا تھا جس پر اُس نے اپنا سرجھٹکا تھا۔۔"اِس درمیان اُس کو اپنے پھیکے رویے کا احساس بھی ہوا تھا پر اب کیا ہوسکتا تھا یہی سوچ کر اُس نے اپنا دھیان واپس کتابوں میں لگایا تھا۔

❤❤❤❤❤❤

"حال۔

"کچھ کھایا ہے تم نے؟میشا نے سوہان کو دیکھ کر پوچھا جو اُس کی بات سن کر حقیقت کی دُنیا میں واپس لوٹی تھی۔

"مجھے بھوک نہیں اور وقت بہت ہوگیا ہے تم دونوں گھر چلی جاؤ میں آج رات یہی رُکنے والی ہوں۔۔سوہان نے اُس کو دیکھ کر کہا

"سوہان اُس کا بھائی ہے یہاں پھر تم کس حق سے یہاں رکوں گی؟"پاگلوں جیسی باتیں مت کرو اور ہمارے ساتھ آؤ۔۔میشا کو اُس کی بات پسند نہیں آئی تھی تبھی کہا

"دیکھو میشو میری بات کو سمجھو یہ وقت اِن باتوں کا نہیں ہے تم سے بس جو میں نے کہا ہے تم وہ کرو۔۔سوہان نے سنجیدگی سے کہا اور اِس کا انداز ایسا تھا کہ میشا نے پھر کچھ اور نہیں کہا بس اُس کے پاس سے اُٹھنے لگی تو نظر آریان پر گئ جو گم سم سا بیٹھا تھا۔کچھ سوچ کر میشا نے اپنے قدم اُس کی طرف بڑھائے تھے جو اُن سے بہت دور الگ تھلگ سا بیٹھا تھا

"تمہارا بھائی ٹھیک ہوجائے گا"اِس لیے ایسی روندو شکل مت بناؤ آفریکی بندر لگ رہے ہو۔میشا اُس کے کچھ فاصلے پر آکر بیٹھی تو آریان نے گردن موڑ کر اُس کو دیکھا

"میری زندگی میں اگر کوئی قیمتی چیز ہے تو وہ زوریز ہے۔۔"ہمارا ہم دونوں کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔۔آریان اُس کی بات کو اگنور کیے سنجیدگی سے بتانے لگا

"ہاں تو ہر بھائی کو اپنے بڑے بھائی سے اِتنا پیار ہوتا ہے"اور حادثات ہونا زندگی کا حصہ ہے اِس میں پریشان مت ہو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔۔میشا نے اپنی طرف سے اُس کو دلاسہ دیا

"کیا میرا پریشان ہونا تمہیں پسند نہیں آرہا؟"مجھے ایسے دیکھ کر تمہارے اندر میرے لیے موجود جذبات اُبھر رہے ہیں؟آریان نے سنجیدگی سے چور لہجے میں بیحد غیرسنجیدہ بات کی تو میشا نے تاسف سے اُس کو دیکھا جو دوبارہ اپنی ٹون میں واپس آیا تھا

"بھائی ہسپتال کے بیڈ پر لیٹا ہوا ہے اور یہاں تمہیں مسخراپن سوجھ رہا ہے؟میشا کو جیسے افسوس ہوا

"ابھی تو تم نے کہا حادثات زندگی کا حصہ ہوتے ہیں اِس لیے پریشان مت ہو تو میں بس چِل کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔ ۔آریان اُس کی بات کے جواب میں ایسے بولا جیسے وہ بہت مانتا ہوں اُس کا کہا

"میرا دماغ خراب تھا جو تم سے ہمدردی کرنے چلی آئی" خیر مجھے اب جانا ہے ورنہ تمہارا کیا بھروسہ تم تو قبر میں بھی یہی باتیں کروگے۔ میشا سرجھٹک کر کہتی اُٹھ کھڑی ہوئی

"کرلوں جتنی بھی ایسی باتیں کرنی ہے کرلوں" اور جتنی بھی بے نیازی برتنی ہے برت لو کبھی نہ کبھی تو ہوگا نہ۔ ۔آریان کی بات پر میشا نے رُک کر اُس کو دیکھا

"کیا ہوگا؟ میشا نے ناسمجھی سے اُس کو دیکھا

"کبھی تو ہوگا میرا عشق تم پر مہرباں۔۔آریان فسوں خیز لہجے میں بولا

"بڑا آگے کا جمپ مار لیا" محبت سے عشق واہ۔۔میشا نے طنز لہجے میں کہا

"محبت تو تم لڑکیاں کرتی ہو ہم لڑکے تو عشق کرتے ہیں وہ بھی ڈنکے کی چوٹ پر۔ ۔آریان نے اُس کی بات پر پرسکون لہجے میں کہا

"تمہیں تمہارا عشق مُبارک ہو کیونکہ مجھ پر عشق مہرباں نہیں ہونے والا۔ ۔میشا صاف لفظوں میں اُس کو باور کرواتی رُکی نہیں تھی" اور اُس کے جانے کے بعد آریان کے چہرے پر ایک بار پھر سنجیدگی رقم ہوگئ تھی۔ ۔


"آپو سوہان کا فیوچر سولمیٹ ہسپتال کے بیڈ پر پڑا ہے" اور میشو آپو کا ہسپتال کے کوریڈور میں اُن سے زلیل ہورہا ہے" اور ایک میرا فیوچر سولیمٹ ہے جو دور رہ کر مجھے زلیل کروا رہا ہے" جانے کیسا ہوگا؟"اور کہاں ہوگا؟کاش دُرانی برادرز کی طرح وجاہت سے بھرپور ہو۔ ۔آج فاحا کو اپنے سنگل ہونے کا احساس شدت سے ہوا تھا تبھی اپنی بہنوں کو دیکھتی دل ہی دل میں سوچنے لگی تھی۔

❤❤❤❤❤❤❤

آپ کہی جارہے ہیں؟صنم بیگم نے نوریز ملک کو تیار ہوتا دیکھا تو پوچھا

"ہاں میں شہر جارہا ہوں"اور اِن شاءاللہ آؤں گا تو میرے ساتھ میری بیٹیاں شانابشانہ چلتی ہوئیں آئے گیں۔نوریز ملک نے خوشی سے اُن کو بتایا

"اِن شاءاللہ۔۔صنم بیگم جواباً مسکراکر بولیں

"تم اُن تینوں کا کمرہ اچھے سے تیار کروالینا میں نہیں چاہتا کل جب وہ آئے تو اُن کو کسی چیز کی کمی محسوس ہو۔۔نوریز ملک نے اُن کو ہدایت دی۔

"آپ یہاں سے بے فکر ہوکر ہوجائے میں سب کچھ سنبھالوں گی۔۔صنم بیگم نے کہا تو اُنہوں نے سر کو خم دیا۔"اور باہر کی طرف چل دیئے تھے۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

آپ آج کافی خاموش لگ رہی ہیں؟عاشر نے لالی کو بُجھا بُجھا سا دیکھا تو سوال کیا

"عاشر وہ۔ ۔۔۔لالی نے ہچکچاکر اُس کو دیکھا

"کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے نہ؟ عاشر کو وہ کچھ پریشان سی لگی

"وہ بلیو شرٹ والا لڑکا مسلسل مجھے گھور رہا ہے۔ ۔لالی نے ایک طرف اِشارے سے اُس کو بتایا تو عاشر نے اپنا رُخ اُس کے اِشارے کی جانب کیا جہاں بلیو شرٹ میں ملبوس کوئی آدمی بیٹھا ہوا تھا مگر اُس کا دھیان لالی کی طرف نہیں تھا۔

"ایسا نہیں ہے یہ آپ کا وہم ہے" مگر یہ ہے کون؟یونی میں تو میں نے کبھی نہیں دیکھا اِس کو۔ عاشر پرسوچ لہجے میں اُس کو دیکھ کر بولا

"میرا وہم نہیں ہے ٹرسٹ می میں نے اِس کو اپنے ہاسٹل کے باہر بھی دیکھا ہے اور جب تک یونی آئی تھی یہ مجھے فالو کررہا تھا"میرے ڈپارٹمنٹ سے لیکر لائبریری کیفے" یونی بیک سائیڈ گراؤنڈ اکورڈیم ایوین میں جہاں بھی جارہی ہوں" یہ یا تو وہاں پہلے سے موجود ہے یا میرے پیچھے کھڑا مجھے گھور رہا ہے۔ لالی نے پریشان کن لہجے میں اُس کو اپنی بات کا یقین دِلوانا چاہا جس پر عاشر بھی اِس بار کھٹک سا گیا تھا"کیونکہ لالی کے لہجے میں جھلکتا یقین اُس کو مجبور کررہا تھا کہ وہ اُس کی بات پر اعتبار کرتا۔

"اچھا آپ پریشان نہ ہو" میں آپ کے ساتھ ہوں اگر مجھے کچھ غلط وائیوبس آئیں تو میں اِس کا گریبان پکڑوں گا۔ ۔عاشر نے اُس کو تسلی کروائی

"جی بہتر۔۔لالی نے اپنے چہرے پر زبردستی مسکراہٹ سجائی کیونکہ اُس کو گھبراہٹ سی ہورہی تھی جس وجہ سے وہ مطمئن نہیں ہو پائی تھی۔

"چِل کرو پریشان نہیں ہو" آپ جب ہاسٹل جائے گیں تو میں خود وہاں آپ کو چھوڑ آؤں گا"اور اگر کہیں گی تو صبح لینے بھی آؤں گا یونی میں کسی سائے کی طرح آپ کے پیچھے پیچھے چلتا رہوں گا پھر تو آپ مطمئن ہوجائے گیں نہ؟اور بہادر بنے یوں چھوٹی چھوٹی باتوں پر پریشان نہیں ہوا کرتے"آپ کو پتا ہے اگر ایسا کچھ فاحا کو محسوس ہوا ہوتا تو وہ مجھے بتانے کے بجائے پہلے اپنا شک یقین میں بدلتی پھر اُس آدمی کے سر پہ کھڑی مسئلہ پوچھتی"اور اگر تم دونوں کے بجائے میشو ہوتی تو وہ کچھ سوچنے کی زحمت نہ کرتی بس اُس کی آنکھیں نوچ لیتی جس سے وہ اُس کو تاڑنے کی کوشش کررہا تھا۔۔"آپ اگر یہ دونوں کام نہیں کرسکتیں تو جسٹ اِگنور ہِم۔۔۔۔عاشر نے نرم لہجے میں اُس کے آگے اپنی بات رکھ کر سمجھانے کی کوشش کی تو لالی کو کچھ دھارس ملی پھر ایک خیال کے تحت اُس نے سوالیہ نظروں سے عاشر کو دیکھا

"فاحا اور میشو کون؟لالی نے جاننا چاہا

"فاحا میری بہن ہے اور میشو میری بہن کی بہن ہے۔ ۔عاشر نے بتایا تو لالی ہونک بنی اُس کا چہرہ تکنے لگی۔

"کیا ہوا سمجھ میں نہیں آیا؟ عاشر اُس کے ری ایکشن پر ہولے سے مُسکرایا

"جی مطلب کیا ہوا؟"آپ کی بہن کی بہن تو آپ کی بھی بہن ہوئی نہ۔ ۔عاشر کو دیکھ کر لالی نے اُلجھ کر کہا

"فاحا میری دودھ شریک بہن ہے۔ ۔۔عاشر نے بتایا تو لالی نے سمجھنے والے انداز میں سر کو جنبش دی

"اچھا میں اب سمجھی۔ ۔لالی نے کہا

"ہاں اور اب چلے کلاس کا وقت ہوگیا ہے۔ ۔عاشر نے اُس کو وقت کا احساس کروایا تو لالی اُٹھ کھڑی ہوئی

بغیر وقت دیکھے آپ کو پتا چل جاتا ہے کہ کلاس کا وقت ہوگیا ہے۔ ۔۔عاشر کے ہمقدم چلتی لالی بولے بغیر نہ رہ پائی

"اِس کو سادہ سے لفظ میں ٹیلینٹ کہتے ہیں۔ ۔عاشر نے فخریہ انداز میں بتایا تو لالی ہنس پڑی

Rimsha Hussain Novels❤

حویلی کے سکون کا آج آخری دن ہے پھر وہ تینوں آجائے گی تو ہمیں سکون کہاں مُیسر ہوگا۔ ۔۔اگلے دن فائقہ بیگم کو جیسے ہی نوریز ملک کے شہر جانے کا پتا چلا تو وہ ناگواریت بھرے لہجے میں بولی

"ایسی باتیں کیوں کررہی ہیں آپ؟ "بیٹیاں تو آنگن کا پُھول ہوتیں ہیں۔۔صنم بیگم اُن کی بات سن کر آہستہ آواز میں بولیں جبکہ عروج بیگم نے اُن کو جواب دینا مُناسب نہیں سمجھا تھا۔

"کس کو بول رہی ہو تم اُن کو جس نے آج تک اپنی پوتی کو سینے سے لگاکر پیار نہیں کیا تو وہ کسی اور کی بیٹیوں کو آنگن کا پُھول کیسے تصور کرینگیں۔ نورجہاں بیگم طنز کیے بنا نہ رہ پائی تھی

"بجا فرمایا تم نے کافی اچھے سے جان گئ ہو تم مجھے۔ ۔فائقہ بیگم نے اُن کی بات کا کوئی خاص اثر نہیں لیا تھا

"ابھی اُن تینوں میں سے کوئی آیا نہیں اور سب نے ابھی سے بدمزگی پھیلائی ہوئی ہے اگر وہ آجائے گی تو تم سب نے ایک دن بھی یہاں ٹِک کر نہیں رہنے دینا۔ ۔عروج بیگم نے افسوس کا اِظہار کیا اُس بات سے انجان کے جب وہ آئیں گی تو حویلی میں اپنا نہیں بلکہ اِن سب کا جینا اور رہنا مشکل کردینگیں۔۔۔۔

"آپ کو تو اُن کی آمد کا برسو سے انتظار ہے مگر کوئی ہے جس کو یہ قطعاً ناپسند ہے۔ ۔اسمارہ بیگم بھی آخر میدان میں اُتر آئی جس پر فائقہ بیگم نے اُن کو دیکھ کر سرجھٹکا تھا

"خود بھی سب سکون سے رہو اور اُن کو بھی رہنے دیا جائے باقی اللہ مالک ہے۔ ۔عروج بیگم نے جیسے بات ختم کر ڈالی

"بیشک۔ ۔۔صنم بیگم اُن کی بات پر جواباً بولی باقی تینوں تو ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کے در پہ تھیں۔ ۔

Rimsha Hussain Novels❤

کتنا پریشان ہوگیا تھا میں تمہیں کچھ اندازہ ہے اِس بات کا؟ زوریز کو ہوش آیا تو آریان اُس کو دیکھ کر منہ بناکر بولا

"میں ٹھیک ہوں اب تو اِس لیے شکل سہی کرو اپنی۔ ۔زوریز اُس کو دیکھ کر آہستگی سے بولا نظریں جبکہ دروازے کی طرف تھیں اِس اُمید کے ساتھ کہ ابھی وہاں سے سوہان آئے گی

کیا تمہیں کسی کا انتظار ہے؟"ویسے شرم کی بات ہے پیٹھ تمہاری کچھ وقت کے لیے ناکارہ ہوگئ ہے اور تمہیں ابھی بھی عشق معشوقی سوجھ رہا ہے پہلے اپنی حالت سُدھار لو پھر کرلینا عشق پیار محبت۔ ۔۔آریان اُس کی نظروں کا تعاقب کرکے بولا تو زوریز نے آنکھوں کو موند کر کھولا فلحال وہ ایسی پوزیشن میں نہیں تھا کہ آریان کی باتوں کا مُقابلہ کرتا یا اُس کو گھوری سے نواز سکتا۔

"آفریفی باندر کی طرح شکل کیوں بنائی ہوئی ہے" وہ یہی ہے

"کہاں؟

آریان اُس کو چُپ دیکھ کر تسلی کے لیے کچھ کہنے والا تھا جب درمیان میں زوریز نے ٹوک کر پوچھا تو اُس کی ایسی بے قراری پر آریان حیران ہوئے بنا نہ رہ پایا" محبت اپنی جگہ مگر اُس کو نہیں تھا پتا کہ زوریز اپنی اِس کرٹیکل کنڈیشن میں بھی سوہان کو سوچ رہا ہوگا" یا اُس کی آمد کے انتظار میں ہوگا

"میں نے اُن سے کہا کہ گھر جاکر فریش اپ ہوکر آئے" کیونکہ ساری رات وہ یہاں تھی بے آرام سی۔ ۔۔آریان نے سرجھٹک کر بتایا

"مجھ سے مل کر کیوں نہیں گئ؟زوریز کو جہاں اُس کا رات یہاں رُکنے کا سن کر خوشی ہوئی تھی وہی اُس کے جانے کا سُن کر مایوسی بھی ہوئی تھی۔

"تمہیں ہوش نہیں تھا اور کب آتا اِس کا بھی کچھ پتا نہیں تھا تو بس یہی وجہ تھی کہ وہ تمہیں دور سے دیکھ کر چلی گئ۔ ۔۔آریان نے وجہ بتائی

"اب کب آئے گی؟ زوریز نے پوچھا

"مجھے کیا پتا؟"ہاں جیسی اُس کی حالت تھی اُس کو مدعے نظر رکھ کر کہا جائے تو ابھی راستے میں ہوگی۔ آریان کا لہجہ آخر میں شوخ ہوگیا تھا مگر زوریز خاموش ہوگیا تھا۔

"کیا ہوگیا ہے زوریز؟"سوہان کو ناپاکر تم نے اپنا چہرہ ایسا بنا دیا ہے جیسے تمہاری ہر صبح اُس کے دیدار سے ہوتی ہے۔۔آریان کو اُس کا اِتنا سنجیدہ پن سمجھ میں نہیں آیا تھا تبھی بول پڑا

"میں آرام کرنا چاہتا ہوں۔ ۔۔زوریز نے اُس کو دیکھ کر محض اِتنا کہا

"ٹھیک ہے میں چلا جاتا ہوں پر یقین کرو"تمہارا اتنا سیریس ہونا میری سمجھ سے باہر ہے"یہاں میں تمہاری فکر میں لاحق ہوکر اپنی والی سے سہی سے بات نہیں کرپایا تھا اور تم اُٹھ کر ایسے ری ایکٹ کررہے ہو جیسے سالوں سے سوہان سے تمہارا ملنا اُس سے نہیں ہوا۔۔آریان اُس کو گھور کر بولا کیونکہ اُسکی بس ہوگئ تھی

"ایسی بات نہیں ہے آریان میں واقعی میں آرام کرنا چاہتا ہوں۔۔زوریز نے آہستہ آواز میں کہا

"ٹھیک ہے جیسا تم کہو پر مجھے ایک بات بتاؤ کیا تمہیں کسی پر شک ہے کہ تم پر یہ قاتلانہ حملہ کس نے کیا ہے؟"اگر پتا ہے تو مجھے بتاؤ کیونکہ کل سے پولیس والوں کو تمہارے ہوش میں آنے کا انتظار تھا کہ تم سے انویسٹی گیشن کرپائے۔۔آریان نے سنجیدگی سے پوچھا تو زوریز کو کل کا والا واقعہ یاد آیا تو اِس حالت میں بھی کل کا سوچتے ہوئے اُس کے ماتھے کی رگیں تن گئ تھیں"اگر کل وہ وقت پر سوہان کو نہ دیکھ پاتا تو؟"اِس سے زیادہ زوریز سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا۔

"کیا ہوا؟آریان نے جانچتی نظروں سے اُس کو دیکھا

"کچھ بھی نہیں اور میرا ایک پر الزام لگانا فضول ہے کیونکہ میرے دُشمن بہت ہیں۔۔زوریز نے اُس کو ٹالا

"ٹھیک ہے میں اپنے تِھرو جاننے کی کوشش کرلوں گا۔ ۔آریان نے سمجھنے والے انداز میں سر کو جنبش دی

"تم اِن معاملات میں نہ پڑو آریان جو ہونا تھا وہ ہوگیا ویسے بھی میں پُرانی باتوں کو دوہرانے کا میں عادی نہیں ہوں۔ ۔زوریز نے سنجیدگی سے اُس کو ٹوک دیا۔

"جانتا ہوں تم لڑائی نہیں چاہتے تم اِن سے دور بھاگتے ہو پر اِس کا یہ مطلب نہیں ہوا نہ ہم ایسے لوگوں کو چھوڑدے۔۔آریان کو گویا اُس کی بات پسند نہیں آئی

"ہم بعد میں اِس ٹاپک پر بات کرینگے ابھی تم رہنے دو۔ ۔زوریز نے جیسے بات ختم کی۔

"ٹھیک ہے جیسا تم کہو پر کیا کورٹ میں سی سی ٹی وی کیمرہ وغیرہ کا سسٹم ہوتا ہے؟آریان نے اپنے لہجے کو سرسری سا بنایا

"تم کیوں پوچھ رہے ہو؟زوریز کو اُس کے اِرادے سہی نہیں لگے۔

"میرا کورٹ میں جانے کا اتفاق نہیں ہوا نہ تبھی پوچھ رہا ہوں۔ ۔آریان نے دانتوں کی نُمائش کی

"میں تم سے بڑا ہوں اِس لیے مجھ سے چلاکی کرنے کی تمہیں کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ۔زوریز نے تپی ہوئی نظروں سے اُس کو دیکھ کر وارن کیا جو اُس کو آرام تک کرنے کو نہیں دے رہا تھا۔

"تم بڑے ہو" تمہارا ظرف بھی بڑا ہے اور تم میں صبر کرنے کی بھی استقامت ہے پر میں چھوٹا ہوں سمجھا کرو ایک عرصہ ہوا ہے کسی نے میرے ہاتھوں کی کُھجلی ختم نہیں کی۔ ۔آریان ملتجی لہجے میں اُس کو دیکھ کر بولا تو زوریز کے کچھ بھی کہنے سے پہلے وہاں ڈاکٹر کے ہمراہ نرس آئی

"آپ کے ہوسپٹل کا یہ کیسا رول ہے جہاں مریض کے پاس کوئی بھی گُھنٹوں بیٹھ سکتا ہے"باتیں کرسکتا ہے سب سے بڑی بات ہے عجیب وغریب قسم کے سوالات کرسکتا ہے" یہ کیسا ہوسپٹل ہے؟"جہاں اُس کو آرام تک نہیں کرنے دیا جارہا ہے اُس کی حالت کا تو آپ کو سوچنا چاہیے۔ ۔زوریز ڈاکٹر کو دیکھ کر خطرناک حد تک سنجیدہ آواز میں بولا تو ڈاکٹر اور نرس پریشان ہوگئے تھے جبکہ آریان تو" مریض کے پاس کوئی بھی گُھنٹوں بیٹھ سکتا ہے"کی بات پر اٹکتا اُس کو کھاجانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

"سوری میں کچھ سمجھا نہیں؟"ڈاکٹر گڑبڑا کر بولا

"اِن محترم کو باہر نکالے تاکہ میں آرام کرپاؤں۔۔زوریز نے آریان کی طرف اِشارہ کرکے بتایا تو آریان نے دانت کچکچاکر اُس کو گھورا

"زوریز۔۔آریان نے اُس کو تنبیہہ کی

"آپ نے سُنا نہیں؟زوریز آریان کو نظرانداز کرتا ڈاکٹر کو دیکھنے لگا جو اب آریان کو دیکھ رہا تھا

"یہ تو آپ کا بھائی ہے نہ؟زوریز کو دیکھ کر نرس نے پوچھا کیونکہ اُس نے کل آریان کی خراب حالت اچھے سے دیکھ لی تھی اور یہ بھی کہ کیسے اُس نے اکیلے پوری میڈیا والوں کو سنبھالا تھا۔

"ابھی آپ وہ کریں جو میں کہہ رہا ہوں۔۔زوریز کا انداز بے لچک تھا جیسے وہ واقعی میں آریان کو جانتا نہیں تھا" اور وہ ایسا کبھی نہ کرتا اگر آریان کل کے بارے میں تحقیقات کرنے نہ لگ پڑتا وہ نہیں چاہتا تھا کہ آریان کسی جھگڑے میں پڑے وہ جانتا تھا وہ چاہے باہر سے کتنی بھی شوخ مزاجی کا مُظاہرہ کرلے مگر اُس کو اپنے غُصے پر تھوڑا بھی کنٹرول نہیں تھا۔ "اگر وہ آپے سے باہر ہوتا تو شاید ہی کوئی اُس کو سنبھال سکتا تھا۔ "اور جسطرح آریان اُس کی دیوانگی سوہان کے لیے دیکھ کر حیران پہ حیران ہوئے جارہا تھا ٹھیک اُس طرح پہلے زوریز بھی حیران ہوا تھا کہ وہ کیسے میشا سے اپنی عزت افزائی کروانے کے بعد خوشی محسوس کرتا تھا اور ڈھیٹائی سے ہنستا تھا۔


"آپ پلیز باہر آئے پیشنٹ کو آرام کی ضرورت ہے۔ ۔نرس نے آریان کو مُخاطب کیا

"ہاں کیوں نہیں میں جاتا ہوں پر آپ۔ ۔۔نرس کو جواب دیتا آریان آخر میں زوریز کو مُخاطب ہوا

"یہ پنگا آپ پر بھاری پڑنے والا ہے مسٹر زوریز دُرانی۔ ۔آریان اپنے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ سجاکر بولا تو زوریز کو اپنے آس پاس خطرے کی گھنٹیاں صاف سُنائی دی تھیں مگر اب کیا ہوسکتا تھا جب چڑیا چُگ گئ کھیت اب تو بیڈ پر لیٹے لیٹے اُس کو یہ جاننا تھا کہ آریان جواب میں اُس کے ساتھ کرنے والا کیا تھا؟

❤❤❤❤❤❤

"تم کہی جانے لگی تھی کیا؟ نوریز ملک اُن کے گھر میں داخل ہوتے سوہان کو دیکھ کر بولے جو تیار سی ہوسپٹل جانے کا اِرادہ رکھے ہوئے تھی۔

"آپ کس مقصد سے آئے ہیں؟اُس کے سوال کو اگنور کرکے سوہان نے سنجیدگی سے پوچھا

"آج بھی اندر نہیں آنے دو گی؟نوریز ملک نے پوچھا تو گہری سانس بھر کر سوہان سائیڈ پر کھڑی ہوتی اُن کو اندر آنے کا راستہ دیا" نوریز ملک کو برداشت کرنا اُن سے بات کرنا سوہان کے لیے بہت مشکل عمل تھا وہ نہیں تھی جانتی کہ وہ کیسے ایک چھت کے نیچے اُن لوگوں کے ساتھ رہے گی جن سے اُس کو بہت زیادہ نفرت تھی۔

"فاحا اور میشا کہاں ہیں؟نوریز ملک گھر میں داخل ہوئے تو سوہان اُن کو لاؤنج میں لائی تھی جہاں کوئی بھی نہیں تھا تبھی پوچھ لیا

"فاحا انسٹی ٹیوٹ گئ ہے اور میشا کی اپنی جاب ہے وہ وہاں گئ ہے" باقی ساجدہ آنٹی پڑوس میں گئ ہوئیں ہیں۔ ۔سوہان نے سنجیدگی سے بتایا

"میشا کو جاب کی کیا ضرورت ہے اُس کو کچھ چاہیے تھا تو مجھے بتادیتی۔ نوریز ملک اُس کی بات سن کر بولے

"ایسی باتیں نہ کریں کیونکہ میں بدمزگی نہیں چاہتی کوئی۔۔سوہان نے طنز آواز میں کہا تو نوریز ملک چُپ کرگئے تھے۔

"میں تم تینوں کو لینے آیا ہوں سامان جو ضروری ہے بس وہ لینا"حویلی میں تم تینوں کے لیے سارے انتظامات ہوچُکے ہیں۔ ۔نوریز ملک نے بات کو بدل کر کہا

"ہمیں راستہ ابھی تک یاد ہے ہم خود سے آجائینگے آپ کو زحمت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سوہان نے سنجیدگی سے کہا

"میں باپ ہوں تم لوگوں کا اِس لیے آیا ہوں اور زحمت لفظ کا استعمال کرکے مجھے شرمندہ مت کرو۔ "اُن دونوں کو کال کرو اور کہو میں لینے آیا ہوں جلدی سے آجائے۔ ۔نوریز ملک نے گویا منت کی

"وہ دونوں آپ کے ساتھ چلے گیں مگر مجھے ضروری کام ہے کچھ دِنوں تک آجاؤں گی۔سوہان نے کہا

"کیسا کام؟نوریز ملک نے جاننا چاہا

"میرے کلائنٹ زوریز دُرانی پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے آپ کو تو پتا ہوگا؟سوہان نے طنز نظروں سے اُن کو دیکھ کر پوچھا

"ہاں میں نے سُنا تھا کافی افسوس ہوا سن کر۔نوریز ملک نے کہا

"مجھے اُن سے ملنے جانا ہے اور جب تک وہ ڈسچارج ہوکر گھر نہیں چلا جاتا اپنے میں اُس کے ساتھ رہوں گی۔سوہان نے کہا تو نوریز ملک عجیب نظروں سے سوہان کو دیکھنے لگے

"ایک کلائنٹ کو اِتنی اہمیت میں یہ بات کچھ سمجھ نہیں پایا کیا تم اُس کے ساتھ کمنٹڈ ہو؟نوریز ملک نے سیدھی بات کی جو کی سوہان کو اُن کے ایسے سوال کی توقع نہیں تھی۔

"آپ نے بہت پرسنل سوال کیا ہے اور آپ کو مجھ سے ایسی بات پوچھنی نہیں چاہیے تھی۔ سوہان نے بلاجھجھک اپنی ناگواریت کا اِظہار کیا

"میں باپ ہوں تمہارا اور اگر پوچھ بھی لیا تو اِس میں کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ نوریز ملک کو اُس کا ایسے ری ایکٹ کرنا سمجھ میں نہیں آیا تھا

"میں میشا اور فاحا کو کال کرتیں ہوں تاکہ وہ یہاں آجائے۔ ۔سوہان اُن کی بات نظرانداز کرتی اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑی ہوئی

"تم ناراض ہوگئ ہو؟نوریز ملک نے اُس سے پوچھا

"میں کسی سے ناراض نہیں ہوتی۔۔سوہان نے جیسے جتایا

"مگر میں کسی نہیں تمہارا باپ ہوں۔ ۔نوریز ملک نے جیسے یاد کروایا

"وہ باپ جس کو بیس سال بعد اپنی ذمیداریوں کا احساس ہوا ہے۔۔سوہان ناچاہتے ہوئے بھی طنز ہوگئ تھی جس پر نوریز ملک کے پاس اُس کی اِس بات کا جیسے کوئی جواب نہیں تھا تبھی خاموش سے ہوکر اُس کا چہرہ دیکھنے لگے جو ایک نظر اُن پر ڈالے لاؤنج سے باہر نکل گئ تھی۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

"چلو میرے ساتھ۔۔۔یونی کے باہر لالی عاشر کا انتظار کررہی تھی جب ایک آدمی اُس کا بازوں سختی سے دبوچ کر بولا تو اُس کو دیکھ کر لالی کا پورا وجود خوف سے سِرسرانے لگا کیونکہ یہ وہی آدمی تھا جس پر اُس کو شک گُزرا تھا اور اُس نے عاشر کو بھی بتایا تھا

"ککک کون ہو تم؟لالی خوفزدہ نظروں سے اُس کو دیکھ کر پوچھنے لگی اُس نے مدد کے لیے آس پاس دیکھا مگر کوئی بھی نہیں تھا"عاشر کو بھی کوئی ضروری کام تھا جس کا بول کر وہ اُس کو انتظار کرنے کا بولتا خود دوبارہ سے یونی میں چلاگیا تھا

"چلتی ہو یا ابھی تمہاری گردن کاٹ دوں؟وہ اُس کے سامنے اپنا چاقو لہراکر بولا تو اپنی چادر کا کونہ پکڑے لالی نے بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا تھا۔

آآآہ

"ابھی وہ کچھ کہنے والا تھا جب پیچھے سے کسی نے اُس کی گردن دبوچ کر رُخ اپنی طرف کیے ایک مکہ اُس کے چہرے پر مارا تو وہ نیچے گِرا پڑا مگر اُس شخص کی نظر جیسے عاشر پر پڑی تو فورن سے بھاگنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی"

"عاشر نہیں۔۔عاشر جو اُس کے پیچھے جانے لگا تھا "لالی کی آواز پر فورن سے اُس کی طرف آیا

"آپ ٹھیک ہیں؟"سو سوری میری وجہ سے آپ کو یہ سب جھیلنا پڑا۔۔عاشر کو شرمندگی ہوئی

"مم مجھے ہاسٹل چھوڑ آئے۔۔لالی نے محض اِتنا کہا اُس کا پورا جسم ابھی تک لرز رہا تھا وہ جان نہیں پائی کہ وہ کون تھا جو اُس کو مارنا چاہتا تھا ہلانکہ وہ یہاں کسی کو جانتی تک نہیں تھی اور نہ یونی میں وہ زیادہ کسی سے گُھلی ملی تھی۔

"ہاں آئے میں چھوڑ آتا ہوں۔۔عاشر نے بنا بحث کیے کہا تو لالی شکر کا سانس بھرنے لگی جبکہ عاشر نے ایک بار مُڑ کر ضرور دیکھا تھا۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

"آپ زوریز سے نہیں مل سکتی۔ ۔سوہان جیسے تیسے کرکے جب ہسپتال آئی تو آریان نے گہرے سنجیدہ لہجے میں اُس سے کہا

"کیوں؟ سوہان نے آئبرو اُپر کیے اُس کو دیکھا وہ سمجھ نہیں پائی کہ آریان کو کیا ہوا جو اُس کو زوریز سے ملنے کے لیے روک رہا تھا۔

"کیونکہ ڈاکٹر کا کہنا ہے اور زوریز کا ماننا ہے کہ اُس کو آرام کی ضرورت ہے دیکھیں مجھے بھی باہر نکالا ہوا ہے میں تو بھائی ہوں اُس کا چھوٹا سا اور آپ تو پھر۔ ۔۔آریان اِتنا کہتا خاموش ہوگیا تھا۔

"بات کو ادھورا نہیں چھوڑا جاتا۔ سوہان نے سنجیدگی سے کہا

"خفا کیوں ہوتی ہو میں

سائیڈ پر ہوجاؤ۔۔۔آریان کچھ کہنے والا تھا جب سوہان نے درمیان میں اُس کی بات کاٹ کر کہا

"لگتا ہے تمہیں میری بات سمجھ نہیں آئی؟آریان نے اُس کو گھورا

"لگتا ہے تمہیں میری بات سُنائی نہیں دی میں نے کہا سائیڈ پر ہوجاؤ مجھے زوریز سے ضروری بات کرنی ہے۔سوہان نے بھی اُس کے انداز میں کہا

"آپ کا مطلوبہ پیشنٹ اِس وقت آرام نوش فرما رہا ہے برائے مہربانی دوسری باہر آنے کی کوشش کریں شکریہ۔"آریان اُس کا راستہ بلاک کرتا ہوا بولا

"تو تم مجھے جانے نہیں دوگے؟ سوہان نے سنجیدگی سے پوچھا

"نہیں۔ آریان نے اپنا سر نفی میں ہلایا

"سوچ لو۔ سوہان نے کہا

"سوچ لیا۔ آریان بنا تاخیر کیے بولا

"زوریز آپ کیسے کھڑے ہوسکتے ہیں؟"آپ کو تو گولی لگی تھی؟سوہان آریان کے پیچھے دیکھتی حیرانگی سے بھرپور آواز میں بولی تو اُس کی بات سن کر آریان نے چونکتے ہوئے مُڑ کر دیکھا جہاں کوئی بھی نہیں تھا اُس سے پہلے آریان کچھ سمجھ پاتا اُس سے پہلے سوہان بڑی چلاکی سے اُس کی سائیڈ سے ہوتی وارڈ میں داخل ہوگئ تھی جہاں زوریز تھا۔

"اففف آریان بدھو جو بھی آتا ہے تُجھے ماموں بناکر چلا جاتا ہے۔ ۔آریان کو جب معاملہ سمجھ میں آیا تو وہ تپ کر بڑبڑانے لگا

❤❤❤❤❤❤❤

السلام علیکم۔اندر داخل ہوتے سوہان نے آنکھیں موند کر لیٹے ہوئے زوریز کو سلام کیا

وعلیکم السلام ۔۔جواب میں زوریز نے بنا اپنی آنکھوں کو کھولے اُس کو اُس کے سلام کا جواب دیا

"کیا ہوا ہے؟"کہیں کوئی زیادہ پین تو نہیں ہورہا؟ اُس کے اِتنے ٹھنڈے ری ایکشن پر سوہان کو فکر ہوئی تبھی اپنا بیگ سائیڈ پر رکھتی اسٹول پر اُس کے سامنے بیٹھی۔

"میں بلکل ٹھیک ہوں آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے" اور نہ اپنے ضروری کام چھوڑ کر یہاں آنے کی ضرورت تھی۔ ۔زوریز نے بے رُخی سے کہا تو سوہان جان گئ کہ بندہ سنجیدگی کی حد تک ناراض ہے۔

"میں صبح آنے والی تھی پر

"پر راستہ طویل تھا اِس وجہ سے شام ہوگئ۔ زوریز اُس کی بات درمیان میں کاٹ کر بولا تو سوہان اُس کو دیکھتی رہ گئ جو آج اُس کو دیکھ تک نہیں رہا تھا۔

"آپ ناراض ہوگئے ہیں جبکہ ناراض ہونا تو میرا بنتا تھا۔ سوہان نے کہا تو زوریز نے پٹ سے اپنی آنکھوں کو کھول کر اُس کو دیکھا

"آپ کس خوشی میں مجھ سے ناراض ہوتی؟ زوریز نے ترچھی نگاہوں سے اُس کو دیکھا

"آپ کو کیا ضرورت تھی ہیرو بن کر میرے سامنے کھڑے ہونے کی لگ گئ نہ گولی اور پہنچ گئے ہسپتال کے بیڈ پہ۔ ۔سوہان نے وجہ بتائی

"تو آپ کیا چاہتی تھی بزدل بن کر کھڑا ہوتا یہ دیکھتا کہ آپ کو گولی کیسے لگتی ہے؟پھر کیسے آپ کے جسم سے خون بہتا ہے؟"کیسے آپ خون میں لت پت ہوتیں ہیں؟ "یہ تماشا میں دیکھتا پھر آپ شاید خوش ہوتیں مگر میں مرجاتا تب۔ زوریز نے شاید پہلی بار اُس پہ کوئی طنز کیا تھا یا ایسے غُصے کا اِظہار کیا تھا"اور جو اُس نے باتیں کی اُس کو سن کر سوہان میں ہمت نہیں بچی تھی کہ وہ کچھ اور زوریز سے کہتی۔

سامنے آنے سے اچھا تھا زبانی کہتے۔ ۔سوہان کچھ توقع بعد بولی

"آپ اِتنی انجان نہ بنے۔ ۔۔زوریز کو اُس کی بات پسند نہیں آئی

"آپ نے کچھ کھایا ہے؟ "میں سوپ بناکر لائی تھی۔ سوہان نے بات کا رُخ بدلا

"صبح سے بھوکا ہوں۔ ۔زوریز نے بتایا

"آریان نے آپ کو بھوکا کیسے رہنے دیا؟"اور کیا آپ نے اُس سے کہا تھا کہ مجھے یہاں آنے نہ دے؟ ایک خیال کے آتے ہی سوہان نے اُس سے پوچھا

"نہیں کیوں؟زوریز ناسمجھی سے اُس کو دیکھ کر بولا

"مجھے یہاں آنے نہیں دے رہا تھا"اور پھر اندر داخل ہوکر آپ کا رویہ دیکھ کر مجھے لگا شاید آپ نے منع کیا ہو۔ ۔سوہان نے شانے اُچکاکر کہا


"یہ پنگا آپ پر بھاری پڑنے والا ہے مسٹر زوریز دُرانی۔ ۔ "


"سوہان کی بات پر زوریز کے دماغ میں بے ساختہ آریان کا کہا گیا جُملا یاد آیا تھا جس پر اُس نے گہری سانس خارج کی تھی۔

"میں خفا تھا مگر میں خفگی کے باوجود آپ سے قطعاً تعلق نہیں ہوسکتا یہ بات آپ میری ہمیشہ یاد رکھیے گا۔ ۔زوریز نے سنجیدگی سے کہا تو سوہان خود کو تھوڑا ان کمفرٹیبل محسوس کرنے لگی" ایک جِھجھک تھی جو اچانک اُس کو ہونے لگی تھی۔

"سوپ؟زوریز نے اُس کو بُت بن کر کھڑا دیکھا تو یاد کروایا

"ہاں سوری میں لاتی ہوں۔ ۔سوہان اپنے سر پہ ہاتھ مارتی بولی تو زوریز اُس کا چہرہ تکنے لگا

❤❤❤❤❤❤❤

"آج فاحا گاؤں جارہی تھی" اُس گاؤں جہاں جانے کا اُس نے کبھی سوچا تک نہیں تھا" وہ گاؤں کہ اگر اُس پر اللہ کی زمین تنگ بھی ہوجاتی تو وہ پناہ لینے وہاں نہ جاتی پر ایک واعدے نے جیسے اُس کو مجبور کیا تھا کہ وہ اُس گاؤں جائے جہاں کے لوگوں نے اُس کو دھتکارا تھا" آج وہاں کے لوگ اُس کو عزت بخش رہے تھے" مگر فاحا کا دل اور دماغ اُن کے لیے خالی تھا وہ کوئی بھی خوشی محسوس نہیں کرپارہی تھی اور نہ ایسا کچھ محسوس کرنے کی اُس کو کوئی خُواہش تھی" وہ اگر یہاں آئی تھی تو اپنا ایک مقصد لیکر آئی تھی جس کو ہر حال میں اُس کو پورا کرنا تھا" چاہے اُس کے لیے اُس کو جو کچھ کرنا پڑے"لیکن اِن سب کے علاوہ اُس کو ابھی اپنے نتیجے کے آنے کا انتظار تھا کیونکہ اُس کی ساری خُواہشات اب اُس پر مبنی تھیں اگر وہ پاس نہیں ہوتی تھی تو سب نے یہی کہنا تھا کہ فاحا کچھ بھی نہیں کرسکتی" فاحا ایک ناکارہ قسم کی لڑکی ہے" مگر فاحا کو بتانا تھا پوری دُنیا کو کہ بیٹیاں کسی سے کم نہیں ہوتیں" اگر اُن کا باپ اُن کے سروں پر اعتماد سے بھرا ہاتھ رکھ دے توں وہ سب کچھ کرسکتیں ہیں" جس سے والدین کو بیٹا نہ ہونے پر کوئی افسوس نہ ہو۔


"نوریز ملک کی گاڑیاں شہر کی حدود کو کراس کرتیں اب اُن کے گاؤں پہنچ گئ تھیں"جس پر پیچھلی سیٹ پر میشا کے ساتھ بیٹھی فاحا ونڈو کی طرف رُخ کیے اپنی سوچو میں مگن ہوتی اپنے آپ سے لڑنے میں مصروف تھی اِتنا کہ اُس کو گاڑی رُکنے تک کا پتا نہیں چلا تھا۔ ۔

"فاحا اُٹھو۔ میشا نے اُس کو کندھوں سے جھنجھوڑا تو وہ جیسے ہوش میں آئی

"راستہ اِتنا جلدی ختم ہوگیا؟فاحا کو حیرت ہوئی

"اُجالے میں نکلے تھے اور اب دیکھو ہر جگہ اندھیرے کا راج ہے۔ ۔گاڑی سے اُتر کر میشا نے اُس کو جواب دیا

"یہ رہی ہماری حویلی۔ ۔نوریز ملک نے سامنے کی طرف دیکھ کر مسکراکر اُن سے کہا جس پر فاحا نے ایک اچٹنی نظر وہاں ڈالی تھی لیکن میشا نے اُن کی بات ایک کان سے سُن کر دوسرے کان سے نکال دی تھی

"رشید اِن کا سامان حویلی پہنچادوں۔ ۔۔نوریز ملک نے اپنے آدمی سے کہا

"اِس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

"نہیں شکریہ

وہ دونوں ایک ساتھ بولیں

"کیوں کیا ہوا؟ نوریز ملک نے سوالیہ نظروں سے اُن کو دیکھا

"کچھ نہیں ہوا بس یہ ہمارا سامان ہے اور ہم خود اندر لیکر جائینگے۔ میشا نے سنجیدگی سے کہا

"تم دونوں کیوں؟ "یہاں ملازم ہیں نہ وہ کرلینگے۔ نوریز ملک نے اُس کو سمجھایا

"ہمیں عادت ہے اپنا بوجھ خود اُٹھانے کی"اِس لیے آپ کو کسی اور کو زحمت دینے کی ضرورت نہیں۔۔میشا اُن کی پہنچ سے اپنا بیگ دور کرتی بے تاثر لہجے میں بولی

"میشا بیٹے ضد کیوں کررہی ہو؟نوریز ملک نے نرم لہجے میں اُس کو سمجھانا چاہا

"آپ کو ضد لگتی ہوگی مگر یہ ضد نہیں ہے" بچپن سے اپنا سارا سامان اُٹھانے کے ہم عادی ہیں" اور آگے بھی اِن شاءاللہ اپنا کام خود کرینگے ہمارے ہاتھ صحیح سلامت ہیں"کسی اُور کی مدد کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے۔اور اب آپ اِس بات کو یہی پر ختم کردے۔ میشا دو ٹوک لہجے میں کہہ کر اپنے بیگ پر گرفت مضبوط کی تو فاحا نے بھی اپنا بیگ گھسیٹا

"تم لوگوں نے مجھے ابھی تک معاف نہیں کیا؟نوریز ملک نے سنجیدگی سے پوچھا

"ہم نے آپ کو معاف کیا"کیا ایسا کچھ ہم نے آپ سے کہا؟ اِس بار فاحا نے اُن سے سوال کیا

"میرے ساتھ آئیں ہوں تو مجھے لگا شاید۔ نوریز ملک اِتنا کہتے چُپ ہوگئے تھے

"ہم یہاں آ تو ضرور گئے ہیں پر آپ کو معاف بلکل بھی نہیں کیا کیونکہ آپ کا جُرم ہماری نظر میں ناقابلِ معافی ہے۔۔"اِس لیے معافی کی اُمید تو آپ ہم سے نہ رکھے تو بہتر ہوگا۔ ۔ میشا نے سنجیدگی سے کہتے فاحا کو اپنے ساتھ آنے کا اِشارہ دیا تھا اور نوریز ملک بس اُن دونوں کی پشت کو دیکھتے رہ گئے جو دونوں خود ہی حویلی میں داخل ہونے لگیں تھیں۔


السلام علیکم آگئیں میری بچیاں۔ ۔وہ دونوں جیسے ہی حویلی کے داخلی دروازے کے پاس پہنچی تو چار سے پانچ عورتیں کھڑی تھیں جن سے وہ انجان تھیں۔


"تم دونوں جب حویلی میں داخل ہوگی تو ایک بزرگ خاتون تم دونوں کو دیکھ کر شفقت بھرے انداز میں ملینگی اور اُن کی محبت کا جواب تم دونوں نے محبت سے دینا ہے'کیونکہ وہ رشتے میں وہ ہماری دادی لگتیں ہیں۔ ۔۔


"سلام کرنے والی جو عروج بیگم تھیں"اُن کو دیکھنے کے بعد فاحا نے گردن موڑ کر فاحا کو دیکھا تھا اور فاحا نے میشا کو پھر"جب کانوں میں سوہان کا جُملا یاد آیا تو دونوں اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجاتیں اُن کی طرف بڑھیں تھیں جس سے عروج بیگم گویا نہال سی ہوگئ تھیں۔ "جبکہ فائقہ بیگم اور اسمارہ بیگم جو ایکسرے کرتی نظروں سے سامنے کی طرف دیکھ رہیں تھیں اُن کو ایسے اعتماد کے ساتھ داخل ہوتا دیکھ کر دونوں کا حلق تک کڑوا ہوگیا تھا" وہ تو یہ سوچے ہوئے تھیں کہ وہ جو بھی ہوگیں ڈری سہمی سی اندر آئے گیں مگر اُن کی سوچو پر جیسے پانی پِھیردیا گیا تھا۔

"آپ دونوں میشا اور فاحا ہو نہ؟ "سوہان کہاں ہے؟عروج بیگم باری باری دونوں کا ماتھا چومتی محبت سے گویا ہوئی

"فاحا کو کیسے پہچان لیا آپ نے؟ فاحا کو حیرت ہوئی

"چھوٹی گُڑیا فاحا ہی ہوسکتی ہے اور آپ کا تو نام بھی میں نے رکھا تھا"پھر ہم کیسے نہ پہچانتے۔عروج بیگم نے کہا تو اُن کے اندازِ گفتگو پر فاحا کو جانے کیوں اسیر ملک یاد آگیا تھا"جس پر اُس نے اپنا سرجھٹک کر اُس کا خیال اپنے دماغ سے نکالنے کی کوشش کی۔

"کیا تم لوگوں کو سلام کی تمیز نہیں۔ ۔فائقہ بیگم نے چُھبتے لہجے میں اُن کو مُخاطب کیا تو فاحا نے چونک کر اُن کو دیکھا جبکہ میشا نے اُن کو دیکھنا گوارا نہیں کیا تھا۔


"یہ سوچ کر وہاں مت جانا کہ وہاں کے سب لوگ تم دونوں کو دیکھ کر خوشی سے نہال ہوجائے گے اور تم دونوں کے لیے اپنی بانہیں کُھلے گے" وہاں ایک کو اگر تم دونوں کی آمد اچھی لگے گی تو دو لوگوں کو جلن ہوگی"تم لوگوں سے کوئی بدتمیزی سے بھی پیش آسکتا ہے پر جواب میں تم دونوں نے اُن سے ایسے بات کرنی ہے جیسے حساب بھی چُکتا ہوجائے اور اُن کے علاوہ کسی اور کو اپنی بے عزتی کا احساس بھی نہ ہو۔


"آپ نے کب سلام کیا ہمیں؟"خیر السلام علیکم ۔۔۔۔سوہان کی باتوں کو یاد کیے فاحا نے معصومیت سے کہا تو اُس کی ایسی ڈرامے بازی پر فائقہ بیگم نے کلس کر اُس کو دیکھا تھا"مگر اسمارہ بیگم نے طنز مسکراہٹ سے فائقہ بیگم کو دیکھا" جن کی حالت دیکھنے لائق تھی "نورجہاں بیگم کو اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ لوگ چاہے جو بھی کرجاتیں اِن لڑکیوں کو شکست دینا کوئی آسان کام نہیں تھا۔

"آپ دونوں اندر جاکر آرام کریں"صبح کو سہی سے باتیں ہوگیں۔"اور یہ سامان نیچے رکھ دے ہم کسی سے کہہ کر آپ کے کمروں میں منتقل کروا دینگے۔ عروج بیگم اپنے ازلی نرم لہجے میں اُن کو دیکھ کر بولیں

"کیا تین کمرے الگ ہیں؟"میشا نے اُن سے سوال کیا۔

"ہاں ہمیں اُمید ہے آپ کو اپنا کمرہ پسند آئے گا اور اگر کوئی بدلاؤ کروانا چاہو تو ہمیں بتادیجئے گا سب آپ کی پسند کے مُطابق ہوجائے گا۔ ۔عروج بیگم نے مسکراکر کہا

"فاحا اور میشو آپو ایک کمرہ استعمال کرتیں آتیں ہیں" پہلے گھر میں بھی ہم دونوں ساتھ ہوتیں تھیں۔۔فاحا نے عروج بیگم کی بات سن کر بتایا

"وہ گھر تھا یہ حویلی ہے"اور یہاں کمروں کی کوئی کمی نہیں ہے"اِس لیے ایسے کوئی چونچلے نہیں ہوگے۔فائقہ بیگم نے اُس کو گھور کر کہا

"ہم آپ کو ایک کمرہ دیکھاتے ہیں پھر آپ وہ کریں جیسا آپ کو بہتر لگتا ہے۔ ۔۔"فائقہ بیگم کو تنبیہہ نظروں سے دیکھتی عروج بیگم نے مسکراکر اُن دونوں سے کہا تو میشا اور فاحا دونوں نے سراثبات میں ہلانے پر اکتفا کیا تھا۔

❤Rimsha Hussain Novels❤

واہ کمرہ تو بڑا نائیس ہے۔ فاحا کمرے میں داخل ہوتی ارد گرد کا جائزہ لیتی ہوئی بولی" جدید طرز سے بنا یہ کمرہ نہایت خوبصورت تھا جہاں موجود ہر چیز اپنی مثال آپ تھی۔ ۔

"ٹھیک ہی ہے بس اور تم یہاں کی قیمتی چیزوں سے مرعوب نہ ہونے لگ جانا"جانے کتنوں کی لاشوں کی قبروں کے اُپر تکمیل ہوئی ہے یہ حویلی۔ ۔اپنا بیگ سائیڈ پر رکھتی میشا نے سرجھٹک کر کہا

"بات تو آپ کی سوچنے لائق ہے" اور فاحا ایسی چیزوں سے مرعوب نہیں ہوتی فاحا تو یہ سوچ رہی تھی" یہاں رہنے والوں کی تعداد کتنی ہوگی؟فاحا پرسوچ لہجے میں اُس سے بولی

"کل صبح پتا چل جائے گا۔ "دادی نے کہا نہ کہ ابھی آرام کرو تو تم آرام کرو۔ ۔میشا نے جواباً کہا

"کیا وہ ہماری دادی تھی؟فاحا متجسس ہوئی کیونکہ سوہان کی بات وہ بھول گئ تھی۔

"ہاں۔ میشا نے مختصر جواب دیا

"آپ خوش نہیں نہ یہاں آکر۔ فاحا کو اُس کا پھیکا سا انداز پسند نہیں آیا

"یہ مرد لوگ نہ ہم عورتوں کو جانے کیا سمجھتے ہیں کہ" ہماری اپنی کوئی پہچان ہماری اپنی کوئی زندگی نہیں ہوتی" ہم تو ایک کٹھ پتلی ہوتیں ہیں اُن کی نظروں میں جس کو یہ لوگ جہاں چاہے کرسکتے ہیں" اب دیکھو نہ سالوں پہلے ہمارے اپنے سگے باپ نے یوں ہمیں بے گھر کردیا تھا اور آج اِتنے وقت بعد وہ بیٹیاں کہہ کر کہہ کر تھک نہیں رہا پر ہمیں اب اُن کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ۔میشا بیڈ پر بیٹھتی سنجیدگی سے بولی جبھی اُن کے کمرے کا دروازہ نوک ہوا

"یہاں کوئی پروائیویسی ہے یا نہیں۔ میشا سخت بدمزہ ہوئی

"میں دیکھتی ہوں۔ ۔۔فاحا نے اُس کو بیٹھنے کا اِشارہ کیا اور خود دروازے کی طرف آئی

"بی بی جی دادی صاحب نے کہا ہے اگر کچھ کھانے کو چاہیے تو بتادو" پہلے نہیں پوچھا اُنہوں کیونکہ وہ سمجھی تھیں کہ آپ کو راستے میں نوریز ملک صاحب نے کِھیلایا ہوگا۔۔"حویلی کی ملازمہ موؤدب انداز میں کھڑی ہوتی اُس سے پوچھنے لگی تو فاحا نے مڑ کر میشا کو دیکھا کہ دو جواب اب تم خود

"بھوک نہیں مجھے۔میشا نے سنجیدگی سے انکار کیا

"ہمیں کچھ چاہیے ہوگا تو خود مینیج کرلینگے اور میرا نام فاحا ہے" بی بی جی نہیں۔ میشا کے جواب کو سُن کر فاحا نے اُس کو دیکھ کر سنجیدگی سے کہا تو وہ سرہلاتی وہاں سے چلی گئ۔

"سوہان خود تو نہیں ہمیں اِس جنجال پورہ میں ڈالا دیا۔ ۔میشا کو یہاں آکر سکون نہیں مل رہا تھا

"کیا ہوگیا ہے آپو ابھی ہمیں یہاں آئے گھنٹہ نہیں ہوا اور ابھی سے آپ بیزار ہوگئ ہیں۔ ۔فاحا نے تاسف سے اُس کو دیکھ کر کہا

"لائیٹ آف کردو مجھے سونا ہے۔ میشا نے اُس کی بات اگنور کرکے کہا

"فریش نہیں ہوگی؟فاحا نے پوچھا

"فریش ہوکر یہاں آئی ہوں اور تم زیادہ سوال مت کرو جو کہا ہے وہ کرو۔ میشا نے زچ ہوکر کہا تو فاحا نے ویسا ہی کیا جیسا اُس کو میشا نے کرنے کا بولا

❤❤❤❤❤❤❤

تمہاری نالائقی کی وجہ سے ہم نے اچھا خاصا کیس اُس زوریز پر کیا ہوا واپس لے لیا۔ سجاد ملک غُصے سے فون پر اُس آدمی سے بولے جن کو اُنہوں نے ہائیر کیا تھا

"مجھے لگا تھا آپ خوش ہوجائے گے۔ جواب میں وہ منمنایا تھا۔

"بہت خوش ہوا بدبخت دل چاہ رہا ہے تمہاری کھوپڑی گولیوں سے بھون دوں۔۔سجاد ملک تو گویا تپ اُٹھے تھے

"اب آپ کیا چاہتے ہیں؟اُس نے پوچھا

"یہ دو تو بچ گئیں جب تک یہاں گاؤں میں ہیں"تم کیسے بھی کرکے اُس پہلی کا کام ختم کرو۔۔سجاد ملک نے سنجیدگی سے دو ٹوک کہا

آپ پریشان نہ ہو"وہ یہاں اکیلی ہے بلکل اکیلی اور اُس کا مسیحا تو سمجھے ایک دو ماہ تک کسی کام کا نہیں رہے گا تو میں اُس بیریسٹر کو چھوڑوں گا نہیں۔۔۔"اُس نے جیسے اپنی بات کا یقین دِلوانا چاہا تھا

"ایسا ہونا چاہیے تمہارے پاس بس آج کی رات ہے اگر تم نے کام نہیں کیا تو سمجھو تم سے کام نہیں ہو پارہا اور ناکام انسان میرے کسی کام کا نہیں ہے۔ ۔سجاد ملک غُصے سے کہہ کر بنا اُس کی کوئی بھی بات سُنے کال کاٹ دی تھی

❤❤❤❤❤❤

"کیا اب آپ جارہی ہیں؟زوریز نے سوہان کو دیکھ کر پوچھا جو ساری رات ہوسپٹل میں اُس کے ساتھ رُکی ہوئی تھی اور اب شاید اُس کا اِرادہ یہاں سے جانے کا تھا جس کو بھانپ کر زوریز نے پوچھ لیا

"ہاں مجھے اب جانا ہے" کچھ ضروری کام ہے۔ ۔سوہان نے اُس کو دیکھ کر بتایا

"ویٹ کریں آریان آئے تو آپ کو چھوڑ آئے گا آپ کے گھر"اور آپ کو کہی بھی آنا جانا ہو"اُس کو کال کیجئے گا۔ "شام تک آپ کی سیکیورٹی کا بندوبست بھی ہوجائے گا۔ ۔زوریز نے سنجیدگی سے کہا

"زوریز میں اپنی گاڑی میں آئی تھی کل اور مجھے سکیورٹی کی ضرورت نہیں ہے۔ سوہان نے اُس کی بات پر انکار کیا

"آپ کو سیکیورٹی کی ضرورت نہیں ہے" یہ بات آپ پہلے بتاچُکی ہیں اور میں سُن چُکا ہوں اور پہلے آپ کی باتوں میں آگیا تھا اب نہیں آنے والا اب آپ وہ کریں گی جو میں کہوں گا۔ زوریز کے لہجے میں کوئی راعت نہیں تھی۔

"پر زوریز بات یہ ہے کہ میں کل یا پڑسو گاؤں چلی جاؤں گی کل وہاں میشا اور فاحا کو بھی بھیج دیا تھا اب خود بھی جاؤں گی۔"تو وہاں مجھے سکیورٹی کی تو ضرورت نہیں پڑے گی نہ؟ سوہان نے بتایا تو زوریز الرٹ ہوا تھا۔

"آپ گاؤں جائے گی؟زوریز کو جیسے یقین نہیں آیا

"ہاں کل یا پڑسو تک تمہیں ڈسچارج بھی مل جائے

"مجھے ایک ہفتے تک ڈسچارج نہیں ملنے والا تو لہٰذا آپ ایک ہفتے تک اپنے گاؤں جانے کا اِرادہ ملتوی کردے۔ ۔۔اُس کی بات کاٹ کر زوریز بضد ہوکر بولا تو سوہان حیرانگی سے اُس کو دیکھنے لگی

"ایک ہفتے تک؟"مگر میری ڈاکٹرز سے بات ہوئی ہے اور اِس ہوسپٹل میں زیادہ وقت کسی بھی پیشنٹ کو ایڈمٹ نہیں کیا جاتا اور آریان نے بھی کہا تھا آپ کو دوائیوں کی سمیل سے سخت الرجی ہے۔ ۔"آپ کا دم گُھٹتا ہے وغیرہ اُس نے مجھے یہ سب بتایا اور کہا کہ آپ کل کا دن ہی بڑی مشکل سے یہاں رہے ہو" ورنہ آپ کو جیسے ہوش آیا تھا آپ اپنے گھر جانے کی رٹ لگائے ہوئے ہو۔ ۔سوہان نے ساری بات اُس کے گوش گُزار کی

"اِس آریان کی تو ایسی کی تیسی۔ ۔۔زوریز تپ اُٹھا

"کچھ کہا آپ نے؟ سوہان نے اُس کو بڑبڑاتا دیکھا تو پوچھا

"دیکھے سوہان میری حالت کافی کرٹیکل ہے میں بہت نازک صورتحال سے گُزر ہورہا ہوں" آپ کو شاید نظر نہیں آرہا میں خود سے اُٹھ تک نہیں سکتا اُس کے لیے مجھے دو سے تین سہاروں کی ضرورت ہے اور اگر ایسے میں ڈسچارچ گھر گیا تو آریان تو مجھ سے بیزار ہوجائے گا۔ "یہاں تو پھر بھی اِتنی فیمیل نرسز ہیں جو

"فیمیل نرسز؟زوریز جو سنجیدگی سے اُس کو اپنی حالت بتارہا تھا سوہان کے ٹوکنے پر اُس نے اپنے چہرے پر اُس کی نظروں کا ارتکاز محسوس کیا تو گڑبڑا سا گیا

"میں نے نرسز کے ساتھ فیمیل بھی لگایا؟زوریز کو جیسے خود پر یقین نہیں آیا مگر سوہان کی نظریں یقین دلوانے کے لیے کافی تھیں

"آپ نے فیمیل نرسز کہا۔ ۔۔سوہان کی طنز نظریں زوریز پر جمی ہوئی تھیں

غلطی سے ہوگیا میں نے تو ہاسپٹل کے اسٹاف کی بات کرنا چاہی تھی" یہاں کہ ڈاکٹرز ہوگے تو مجھے جو تکلیف ہوگی میں اُن کو بتادوں گا۔۔زوریز نے وضاحت کی" مگر بُرے وقت پر کیونکہ عین اُسی وقت وہاں ایک فیمیل نرس چہرے پر مسکراہٹ سجاتی ہوئی آئی تھی۔

"ہیلو سر اب آپ کیسے ہیں؟"مجھے آپ کے بھائی نے بتایا کہ آپ کو شرٹ چینچ کروانے میں میری مدد چاہیے۔ ۔نرس نے کہا تو زوریز کے چہرے کی ہوائیاں اُرگئ تھیں"جبکہ سوہان نے حیرت سے زوریز کو دیکھا

"یہ اگر مجھے مسکراکر دیکھ رہی ہے تو اِس میں میری کیا غلطی؟زوریز کو سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیسے سوہان کو بتائے کہ یہ آریان کی چال ہے اُس کے خلاف۔

"رائٹ۔ ۔۔سوہان کے ماتھے پر بل نمایاں ہوئے تھے جبکہ زوریز نے بے ساختہ اپنا خشک پڑتا گلا صاف کیا تھا۔

"سر مے آئے؟نرس نے زوریز کا دھیان اپنی طرف کروانا چاہا تو زوریز چہرے پر زبردستی مسکراہٹ چہرے پر سجائے سوہان کو دیکھنے لگا جس کا پورا چہرہ سرخ پڑگیا تھا

"میں اگر خوبصورت ہوں تو اِس میں میری کیا غلطی؟زوریز کے اِس جُملے نے جیسے جلے پر نمک کا کام کیا تھا اور سوہان نے بنا کوئی لحاظ کیے اور بغیر اُس کی کنڈیشن کا سوچے پاس پڑے پانی کا گلاس اُٹھائے اُس کے چہرے پر گِرایا تھا"نرس کا ہاتھ اپنے منہ پر پڑا تھا" زوریز اپنے شرٹ کو دیکھ رہا تھا جہاں چہرے سے گِرتا پانی اُس کی شرٹ کو بھگو گیا تھا۔ "اور سوہان ایک اچٹنی نظر زوریز پر ڈالتی وہاں سے واک آؤٹ کرگئ تھی۔

"سوہان میری بات تو سُنیں۔۔ہوش میں آکر زوریز نے اُس کو آواز دے کر روکنا چاہا مگر سب بے سود سوہان کو جانا تھا سو وہ چلی گئ۔ ۔

"میں آپ کی شرٹ بدل وادوں؟نرس نے کہا

"سسٹر آپ تو مجھے معاف رکھے اور جائے یہاں سے۔ ۔۔زوریز تپ کر اُس کو دیکھنے لگا تو" لفظ سسٹر پر نرس کو غشی سی طاری ہوگئ تھی۔

❤❤❤❤❤❤❤

"میشا کی آنکھ صبح پانی کی بوچھاڑ سے کُھلی تھی۔ "جس پر وہ ہڑبڑا کر اُٹھی تو نظر سامنے فاحا پر گئ جس کے ہاتھ میں پانی کا جگ تھا اُس کی کارستانی کا سوچ کر میشا کو اُس پر تاؤ آیا۔

"فاحا کی بچی یہ کیا حرکت ہے؟میشا بیڈ سے اُٹھتی غُصے سے اُس کو گھورنے لگی۔

صبح کے گیارہ کا وقت ہوگیا ہے اور سلام ہے آپ کی نیند کو جس پر ابھی تک خلل بڑی مشکل سے پڑا ہے۔۔۔فاحا نے جواباً طنز کیا

"تو عقل کی اندھی ایسے کون جگاتا ہے کسی کو۔۔میشا اپنی حالت کو دیکھ کر بولی

"میں جگاتی ہوں کیوں کیا کوئی مسئلہ ہے؟فاحا نے کمر پر ہاتھ ٹِکاکر کہا کیونکہ صبح سے وہ نارمل انسانوں کی طرح میشا کو جگانے کی کوشش کرچُکی تھی مگر مجال تھی جو میشا اُٹھتی۔

"تمہیں تو میں اب بتاتی ہوں۔۔میشا خطرناک تیوروں سے اُس کو دیکھ کر بولی تو فاحا خالی جگ اُس کی طرف پھینکتی باہر کو ڈور لگانے لگی تھی۔"

"بھاگتی کہاں ہو تمہیں تو آج مجھ سے کوئی بچا نہیں سکتا۔۔۔"میشا بھی جگ نیچے پھینکتی اُس کے پیچھے پیچھے بھاگتی تپ کر بولی مگر باہر بھاگتے ہوئے فاحا کو سمجھ نہیں آیا اب وہ کس سمت جائے کیونکہ یہ حویلی اُس کو بھول بھولیے سے کم نہ لگی تھی۔۔"بھاگتے بھاگتے اُس کو اچانک سیڑھیوں کی لمبی قطار نظر آئی تو وہ وہاں کی طرف بڑھی

"فاحا میں کہتی ہوں رُک جاؤ یہ جو بغیر کھائے تم میری بھاگنے کی ایکسر سائیز کروا رہی ہو نہ اُس کا حساب الگ سے ہوگا۔۔فاحا کے بھاگنے کی اسپیڈ تیز دیکھ کر میشا کو مزید اُس پر تاؤ آیا تھا جس کے بھاگنے کی اسپیڈ آج کچھ زیادہ تیز تھی جیسے کوئی جوش چڑھا ہو بھاگنے کا۔

"ایکسر سائیز اچھ

"بھاگنے والے انداز سے سیڑھیاں اُترتی فاحا نے مڑ کر اُس کو جواب دینا چاہا تھا جس پر اُس کا تصادم اچانک سے کسی کے ساتھ ہوا تھا جس سے وہ خود گِرنے والی تھی"مگر میشا جو اب اُس کے قریب آگئ تھی جلدی سے اُس کو گِرنے سے بچالیا تھا مگر فاحا کے چہرے کی رنگت پیلی زد ہوگئ تھی کیونکہ اُس کے دھکے سے فائقہ بیگم زمین بوس ہوئیں تھیں اور وہی اپنا پاؤں پکڑ کر اُنہوں نے واویلہ مچادیا تھا جس وجہ سے حویلی کے سب افراد وہاں جمع ہوگئے تھے۔۔"میشا نے اُن کی چیخ و پکار پر کان میں اُنگلی ٹھونسے بیزاری سے اُن کو دیکھا تھا"کیونکہ وہ سیڑھیوں کی بس آخری زینے سے گِڑی تھی جس سے کوئی بھی گِرتا اُس کو زیادہ چوٹ نہ آنی تھی۔

"اللہ خیر کریں کوئی سیریس انجری تو نہیں نہ آئی؟"اُونچائی بُرج خلیفہ جتنی سے آپ گِری ہیں اللہ آپ پر رحم کرے۔ ۔میشا نے چہرے پر مصنوعی فکرمندی کے تاثرات سجائے پوچھا تو فائقہ بیگم جو چیخنے میں مصروف تھیں کاٹ کھاتی نظروں سے اُن دونوں کو دیکھنے لگی جس پر فاحا نے زبردستی مسکراہٹ چہرے پہ سجائے اُن کو دیکھا اور میشا نے دل جلانے والی مسکراہٹ سے کیونکہ وہ اُس کو کل کے رویے کی وجہ سے ایک آنکھ نہیں بھائی تھیں۔۔۔"جبکہ اُن دونوں کے چہرے پر مسکراہٹیں دیکھ کر فائقہ بیگم کا بس نہیں چل رہا تھا وہ اُن دونوں کا حشر نشر کردیتی جنہوں نے اپنے پہلے ہی دن اُن کو صبح صبح رات کے تارے دیکھا دیئے تھے۔"البتہ وہاں آتیں نورجہاں بیگم نے بڑی مشکل سے اپنی مسکراہٹ کا گلا گھونٹا تھا۔

❤❤❤❤❤❤

بیڑا غرق ہو تم دونوں کا"میرا پاؤں توڑ کر رکھ دیا ہے تم دونوں نے۔۔۔فائقہ بیگم نے جلتی نگاہوں سے اُن کو دیکھ کر کہا

"فائقہ خُدا کا خوف کرو کچھ اور اپنے لہجے پر غور کرو۔۔۔عروج بیگم نے سختی سے اُن کو ٹوکا

"آپ کو میری تکلیف نظر نہیں آرہی؟"یا آپ نے اِن کو چھلانگیں مارتا ہوا نہ دیکھا اِتنی بڑی ہیں مگر زرا تمیز نہیں کہ رہا کیسے جاتا ہے۔"میری لالی کو کبھی آپ نے اپنے کمرے کے علاوہ کہی اور دیکھا ہے؟"کتنا دھیما بولتی ہے میری بچی اور یہ دونوں اِن کی آواز تو پورا گاؤں سُنے گا۔۔۔۔فائقہ بیگم تو پھٹ پڑیں

"ہم چھلانگیں کہاں مار رہے تھے"ہم تو پکڑم پکڑائی کِھیل رہے تھے۔۔۔فاحا نے جلدی سے اُن کو وضاحت دی

"یہ تمہاری قمیض کو کیا ہوا ہے؟"باہر اگر آگئ ہو تو ڈوپٹہ اوڑ کر آنا تھا اور دونوں اپنے بال باندھوں یہاں مرد بھی رہتے ہیں۔۔۔۔اسمارہ بیگم نے دونوں کو دیکھ کر سختی سے کہا

"میں سمجھادوں گی ابھی نئ ہیں یہ دونوں۔۔۔صنم بیگم نے اُن لہجے میں حقارت کو محسوس کیے بیحد آہستہ آواز میں کہا وہ نہیں چاہتی تھیں کہ فاحا یا میشا کا دل خراب ہو

"تم

"ہم تو ایسے رہتے تھے اپنے گھر میں اور ایسے رہینگے"کیونکہ ہم آزاد ہیں اور جن کو ہم سے مسئلہ ہے وہ اپنا قیام کہی اور کردے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں۔۔۔میشا اسمارہ بیگم کو گھورتی چبا چبا کر لفظ ادا کرنے لگی تو وہ جو صنم بیگم کو باتیں سُنانا چاہتی تھیں ناگواری سے میشا کو دیکھنے لگی۔

"پہلے میں اور اب میں فرق ہے۔۔اسمارہ بیگم نے جتایا

"کچن کہاں ہے؟"فاحا کو بھوک لگی ہے۔۔۔فاحا نے جیسے بات کو ختم کرنا چاہا ایسے میں وہ لوگ فائقہ بیگم کو فراموش کرگئے تھے جو کسی کی بھی خود پر توجہ ناپاکر اُٹھ کر چلی گئ تھی۔

"آپ دونوں فریش ہوجاؤ ناشتہ لگواتی ہوں میں۔۔"اور بتاؤ آپ دونوں کو رات نیند اچھی آئی؟عروج بیگم نے مسکراکر اُن کو مُخاطب کیا

"نیند کیوں نہیں آئے گی؟"ضرورت سے زیادہ اِن کو مل گیا ہے۔۔۔جواب اسمارہ بیگم نے دیا تھا۔

"جی نیند اچھی آئی۔۔۔فاحا نے اسمارہ بیگم کو نظرانداز کیے عروج بیگم سے کہا

"فریش ہوجائے آپ دونوں پھر سب کا تعارف کروائے گے ہم۔۔۔عروج بیگم نے کہا

"جی بہتر۔۔۔میشا جواب دیتی اِندر کی طرف جانے لگی

"رُکو دونوں اور بات سُنو۔ ۔۔اُن کو جاتا دیکھ کر اسمارہ بیگم نے روکا

"جی فرمائے؟میشا نے ضبط سے اُن کو دیکھا

"آج پہلی صبح تھی تم دونوں کی اِس لیے درگُزر کردیا مگر کل سے دونوں نے وقت پر اُٹھنا ہے یہاں حویلی میں ہر کوئی پانچ بجتے اُٹھتا ہے گیارہ بجے نہیں۔ ۔۔اسمارہ بیگم نے سنجیدگی سے کہا

"پانچ بجے؟ فاحا حیرت زدہ ہوئی

"ہاں سہی ہے اور کچھ؟فاحا کو خاموش رہنے کا اِشارہ کرتی میشا نے جیسے بات کو ختم کرنا چاہا

"ابھی کے لیے اِتنا کافی ہے۔ ۔۔اسمارہ بیگم نے گویا اُن پر احسان کیا"جس پر وہ دونوں ایک نظر اُن پر ڈالتی وہاں سے چلی گئ۔ ۔۔

کافی خراب رویہ ہے آپ کا بچیوں کے ساتھ اگر یہ بات نوریز ملک کو پتا چلی نہ تو بہت ناراض ہوگا۔ ۔۔۔عروج بیگم نے افسوس سے اُن کو دیکھ کر کہا

"مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ ۔۔اسمارہ بیگم نے سرجھٹک کر کہا تو اُنہوں نے تھکی ہوئی سانس بحال کی۔ ۔۔

کتنے عجیب لوگ ہیں سب۔۔فاحا کمرے میں داخل ہوتی میشا سے بولی

"تمہیں ہی شوق چڑھا ہوا تھا یہاں آنے کا تو اب بھگتو۔ ۔۔میشا کو جیسے موقع مل گیا

"فاحا کو کیا پتا تھا کہ یہ لوگ اِتنی رسٹریکشن لگائے گے اور پانچ بجے ہم سے اُٹھا کیسے جائے گا؟"آپ مان کیسے گئ اُن کی بات؟فاحا کو اب یاد آیا تو پوچھا

"میں بس معاملہ رفع دفع کرنا چاہا ویسے بھی بور ہورہی تھیں اُن کی باتوں سے میں۔۔۔۔میشا نے بتایا

"ہاں کافی روڈ خاتون ہیں سب۔ ۔۔فاحا بھی اُس کی بات سے متفق ہوئی

❤❤❤❤❤❤

"سوہان اپنی گاڑی میں بیٹھ کر ابھی تھوڑا دور نکلی تھی کہ کسی نے اُس کی گاڑی کے سامنے اپنی گاڑی کھڑی کردی۔ ۔۔۔

"سامنے کھڑی گاڑی کو دیکھتی سوہان نے تعجب سے آس پاس دیکھا جہاں زیادہ لوگوں کا رش نہیں تھا۔۔"کچھ سوچ کر وہ گاڑی سے باہر نکلی تو سامنے سے بھی کوئی گاڑی سے باہر نکلا اور وہ بنا سوہان کو کچھ بھی سوچنے اور سمجھنے کا موقع دیئے ایک ہی جست میں اُس تک پہنچ کر پسٹل کی نال اُس کی پیشانی پہ رکھ دی۔ ۔۔

"اگر جان پیاری ہے تو چُپ چاپ گاڑی میں آکر بیٹھ اور اپنی گاڑی کی چابی مجھے دے۔ ۔وہ لڑکا گھورتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولا تو سوہان سرتا پیر غور سے اُس کو دیکھنے لگی" جیسے جاننے کی کوشش کرنا چاہ رہی ہو مگر اُس کو یاد نہیں آیا کہ وہ کبھی اِس شخص سے کہی ملی ہو۔ ۔

"کون ہو تم؟جواب میں سوہان نے سنجیدگی سے بھرپور آواز میں اُس سے پوچھا

"میں جو بھی ہوں اُس سے تیرا کوئی لینا دینا نہیں ہونا چاہیے" ابھی جو کہا ہے وہ کرو اور چُپ چاب میری گاڑی میں آکر بیٹھو۔ ۔اُس نے پسٹل کی نال کا دباؤ سر پہ بڑھایا تو سوہان نے لب بھینچ کر ایک بار پھر اپنے اِطراف دیکھا جہاں کسی اور انسان کے وجود کا نام و نشان نہ تھا وہ جان گئ کہ سامنے والا ڈکیتی کا اِرادہ نہیں رکھتا اگر ایسا ہوتا تو وہ اپنا چہرہ ضرور ہائیڈ کرتا مگر اُس نے ایسا نہیں تھا کیا جس کا مطلب صاف تھا یہ اُس کے خلاف کی گئ سازش تھی۔

"پہلے مجھے اپنا نام بتاؤ۔۔سوہان نے اپنی بات پر زور دیا

"دیکھ لڑکی میرا دماغ خراب کرنے کی ضرورت نہیں پہلے ہی تیری وجہ سے میرا بہت نقصان ہوا ہے"تیری وجہ سے میری گولی کا نشان وہ جانا مانا بزنس مین زوریز دُرانی لگا پر اب تو وہ بھی بستر مرگ ہوگیا ہے تو توں زیادہ ہواؤں میں نہ اُڑو اور جو کہا ہے بس وہ کرتی جاؤ۔۔۔اُس نے سب کچھ سوہان کو بتادیا تو وہ جیسے الرٹ ہوئی تھی"مگر اپنے چہرے سے اُس نے کچھ بھی ظاہر ہونے نہیں دیا تھا کیونکہ چہرے کے تاثرات چُھپانے میں تو وہ پہلے سے ماہر تھی۔

"تُجھے سُنائی نہی

"ٹھاہ

"وہ ابھی کچھ کہنے والا تھا جب اچانک سوہان نے بڑی پُھرتی سے اُس کے ہاتھ سے پسٹل اپنے ہاتھ میں لیکر اُس کو ایک بھی سکینڈ کا موقع دیئے بنا ٹریگر دباکر اُس کی ٹانگ کا نشانہ لیا تھا۔ ۔"جس پر وہ آدمی چیختا نیچے بیٹھتا چلاگیا تھا۔

"مجھے واقعی میں کچھ سُنائی نہ دیتا تو اچھا تھا۔ ۔۔"گولی والی جگہ پر اپنا پاؤں رکھ کر سوہان نے سرسراتے لہجے میں کہا تو اُس کے چہرے کے تاثرات عجیب سے عجیب ہوتے گئے تھے"جبکہ اپنی ٹانگ کی غلط جگہ پر سوہان کے پاؤں کا دباؤ اُس آدمی کی سانسیں رُوک رہا تھا۔۔اُس کی چیخ و پُکار جاری تھی جس کو اگنور کرتی سوہان نے اپنی گاڑی سے سیل فون لیکر ایک نمبر ڈائل کیا"مختصر بات کرنے کے بعد وہ اُس آدمی کی طرف متوجہ ہوئی جس کے آس پاس خون ہی خون جمع ہورہا تھا۔

"تم کون ہو؟

"تمہیں مجھے مارنے کے لیے کس نے؟"اور کتنوں میں ہائیر کیا ہے"اِس بات سے اب مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا"بدلا تو میرا تب پورا ہوتا جب میری گولی تمہاری پیٹھ چیرتی جس طرح تمہاری گولی نے زوریز کو تکلیف پُہنچائی ہے وہ تکلیف تمہیں ہوتی تو شاید مجھے مزہ اور سکون دونوں حاصل ہوتا مگر بات یہ ہے کہ اگر میں بھی ویسا کرتی تو ہم دونوں میں کوئی فرق نہیں رہتا دونوں ایک کیٹگری میں شامل ہوجاتے اِس لیے میں نے تمہاری ٹانگ پر گولی ماری تاکہ تمہیں چھوٹی سی سزا بھی مل جائے اور مجھے تھوڑا بہت سکون۔ ۔۔سوہان اُس رستے خون والی جگہ پر دوبارہ سے اپنا پاؤں رکھ کر سرسراتے لہجے میں اُس کو کہا جیسے جانے اُس پر کتنا احسان کرلیا ہو"لیکن اُس کا تو اب دم گُھٹ رہا تھا اُس کو تو قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ ایک اکیلی لڑکی اُس کا یہ حال بھی کرسکتی ہے"لڑکی بھی وہ جو شکل سے معصومیت کا پیکر ہو۔۔۔

"تم بول کیوں نہیں رہے؟"چلو یہ سوال چھوڑتی ہوں تمہیں ایک انٹرسٹڈ بات بتاتی ہوں وہ یہ کہ میں نے ایمبولنس کو کال کردی ہے"وہ آئے گی اور تمہیں ہسپتال لے جائے گی"دین تمہارا علاج ہوگا اُس کے بعد تمہیں پولیس اپنی کسٹڈی میں لے گی۔۔سوہان اِتنا کہتے اپنے ہاتھ جہاڑ کر کھڑی ہوئی تو وہ درد سے تڑپتا رحم طلب نظروں سے سوہان کو دیکھنے لگا جس کی نظروں میں اُس کے لیے کوئی رحم نہیں تھا"آخر رحم ہوتا بھی کیوں کونسا کبھی اُس پر کسی نے رحم کیا تھا

"اگر اپنے بوس سے بات ہو تو کہنا نیکسٹ ٹائیم "بیریسٹر سوہان ملک کا راستہ رُکوانے کی غلطی کبھی نہ کریں کیونکہ اگر ایسا اُس نے کیا تو۔میری دوسری گولی اُن کے سینے کے آر پار ہوگی۔سوہان کے لہجے میں ایک کاٹ تھی جس کو ہر کوئی محسوس بخوبی کرسکتا تھا مگر وہ تو اب تکلیف سے نڈھال ہوتا ہوش وحواسوں سے بیگانہ ہوگیا تھا۔۔"جس پر ایک اچٹنی نظر ڈالے سوہان اپنی گاڑی میں بیٹھ کر چلی گئ تھی"اُس کے چہرے کے تاثرات اِس بار قدرے نارمل تھے جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

"کیا ہوگیا ہے میشا کال کیوں نہیں اُٹھارہی؟ آریان مسلسل میشا کو کال کرتا آہستہ آواز میں بڑبڑایا کیونکہ وہ کافی وقت سے ٹرائے کررہا تھا کہ میشا سے اُس کا رابطہ ہو مگر ایک میشا تھی جو اُس کی کال اُٹھا نہیں رہی تھی"جس پر تھک کر آریان نے اپنا موبائل سائیڈ پر کردیا اور اپنی اور میشا کی ہوئی مُلاقاتوں کو یاد کرنے لگا" آج جانے کیوں اُس کو میشا کی یاد کچھ زیادہ آنے لگی تھی۔

"وہ دیکھ رہی ہو سامنے۔ ۔۔آریان نے شرارت سے میشا کو دیکھ کر کہا جو اپنے کسی ضروری کام سے کورٹ کے باہر کھڑی تھی۔

"ظاہر ہے آنکھوں کی جگہ بٹن فِکس نہیں کیے میں نے۔ ۔میشا نے گھور کر اُس کو جواب دیا جس کو اُس کا جانے کیسے پتا چل جاتا تھا کہ اب وہ کہاں ہوگی جو وہ ہر جگہ اُس کے پاس آجاتا تھا۔ ۔۔

"تو تم کیا دیکھ رہی ہو؟آریان شوخ ہوا

"یہی کہ سامنے لڑکی بیٹھی ہوئی ہے اور تمہاری آوارہ نظریں اُس پر جمی ہوئیں ہیں۔ ۔۔میشا اب طنز کرنے لگی تھی جس پر آریان بُرا مان گیا

"اب یہ بات بھی نہیں ہے تمہارے ہوتے ہوئے میری کیا مجال جو میں کسی اور کو دیکھ بھی پاؤں میں تو بس تمہیں یہ بتانا چاہ رہا تھا کہ وہ لڑکی یہاں کورٹ میریج کرنے آئی ہے کیونکہ نہ ہم بھی کریں۔۔آریان آخر میں پرجوش ہوا تو میشا نے چونک کر اُس لڑکی کی سمت دوبارہ سے دیکھا مگر اب اُس کی آنکھیں اُس لڑکی کا مکمل طور پر جائزہ لینے لگیں تھیں جو کافی ڈری ہوئی تھی اور بار بار اپنے آگے پیچھے دیکھ رہی تھی جیسے اُس کو کسی کا خوف ہو

"ایک منٹ۔ ۔میشا اُس کو خاموش رہنے کا اِشارہ کرتی اُس لڑکی کی طرف آئی جو بینچ پر بیٹھی ہوئی تھی۔

السلام علیکم ۔۔۔میشا نے بغور اُس کو دیکھ کر سلام کیا

وعلیکم السلام ۔۔اُس لڑکی نے جواباً بیحد آہستگی سے کہا"آریان جبکہ دور سے اُن کو دیکھ رہا تھا یہ اُس کو سمجھ نہیں آیا کہ یہ اچانک میشا کو کیا ہوگیا مگر عادت سے مجبور اُس نے بھی اپنے قدم اُن لوگوں کی طرف بڑھائے

"نام کیا ہے تمہارا؟میشا نے باتوں کا سلسلہ جاری رکھا

"ماہم۔ ۔۔اُس لڑکی نے بتایا

"نائیس نیم تو ماہم کیا تمہیں کسی کا اِتنظار ہے؟میشا نے بہت سنجیدگی سے پوچھا

"آپ کیوں پوچھ رہی ہیں؟ماہم کو جِھجھک ہوئی

"جو پوچھا ہے اُس کا جواب دو۔ ۔میشا کے لہجے میں ناگواری در آئی تھی۔

"میشا۔ ۔آریان نے اُس کو ٹوکنا چاہا مگر میشا نے اُس کو نظرانداز کیا

"میں نے کچھ پوچھا ہے تم سے؟اُس کو چُپ دیکھ کر میشا نے اپنا سوال دوبارہ سے دوہرایا

"جی میں انتظار کررہی ہوں اپنے بوائے فرینڈ کا آج ہم کورٹ میریج کرنے والے ہیں کیونکہ ہمارے گھر والے نہیں مان رہے"تبھی میں نے اور اُس نے بھاگ کر شادی کرنے کا سوچا ہے۔ ۔۔ماہم نے ایک ہی بار میں اُس کو سارا کچھ بتادیا تو میشا کو افسوس ہوا

"تمہیں پتا ہے تم سے پہلے ایک عورت نے بھی تمہاری طرح کورٹ میریج کی تھی" پھر پتا ہے اُس کا انجام کیا ہوا؟میشا نے گہری سانس بھر کر اُس کو بتانے کے بعد آخر میں پوچھا

"کیا ہوا تھا؟"ماہم نے بے ساختہ پوچھا"آریان بھی سوالیہ نظروں سے میشا کو دیکھنے لگا

"شروعات کے نو سال وہ خوشی خوشی اپنی زندگی بسر کررہے تھے"اُن کی بیٹیاں بھی تھیں دو تیسری بھی ہونے لگی تھی

"ماشااللہ

ماشااللہ

"ابھی میشا بتانے لگی تھی"جب تین بیٹیوں کا سُن کر آریان اور ماہم بے ساختہ"ماشااللہ" بولے تو میشا نے ضبط سے اُن دونوں کو دیکھا

"گھروالوں نے اُن کو معاف نہیں کیا تھا پھر اچانک لڑکے کے گھروالے اُس پر مہربان ہوگئے۔ ۔"مگر کہا کہ اِس بار اگر بیٹا ہوا تو ہم تمہاری بیوی کو قبول کردینگے" مگر ہوتا وہی ہے جو اللہ کو منظور ہوتا ہے اور جو اُس کا حُکم ہوتا ہے۔ ۔"تیسری بار بھی جب بیٹی ہوئی تو اُس کے شوہر نے تحفے میں طلاق کے کاغذات اُس کو تھمائے۔۔میشا نے مزید بتایا تو ماہم حق دق سی اُس کو دیکھنے لگی"اور آریان کا بھی یہی حال تھا

"بیوی کو تو چھوڑدیا اُس کو حق مہر بھی نہیں دیا اور اپنی بیٹیوں سے بھی ایسے غافل ہوگیا جیسے دُنیا میں کوئی بیٹیاں اُس کی تھیں ہی نہیں خیر وہ آدمی تو اپنی زندگی میں سیٹ ہوگیا مگر وہ عورت اپنی بیٹیوں سمیت رُل گئ۔ ۔میشا نے گہری سانس بھر کر بات کو ختم کیا

"کوئی ایسا کیسے کرسکتا ہے؟ ماہم حیران تھی

"اگر اپنوں کے دل دُکھا کر خوشیوں کی توقع کرو گی تو کل کو تمہارا بھی یہی حال ہوسکتا ہے" میں پسند کی شادی کے خلاف نہیں ہوں مگر کل کو اُن میاں بیوی کا کچھ نہیں ہوتا جو بھاگ کر شادی کرتے ہیں اُن کیا دھرا اُن کی اولاد کو بُھگتا پڑتا ہے تمہیں شاید اِن چیزوں کا سامنا نہ کرنا پڑے مگر کل کو تمہارے بچوں کی پہچان اِس سے ہوگی کہ یہ ایک بھگوری عورت کی اولاد ہے۔"تمہارے بچے ڈپریسد ہوگے اور تمہیں بُرا بھلا بولینگے مگر خیر تم اِتنے آگے کا مت سوچو بس اپنے ہونے والے شوہر سے اِتنا ضرور پوچھنا کہ کیا اُس کو تمہارے بیٹیاں پیدا کرنے سے کوئی مسئلہ تو نہیں؟میشا کے الفاظ بہت سخت تھے مگر اُس نے جو بات جس نیت کے ساتھ کی تھی اُس میں کوئی کھوٹ نہ تھی وہ بس اُس لڑکی کو اِتنا سنگین قدم اُٹھانے سے باز رکھنا چاہتی تھی اور سامنے بیٹھی ماہم کو دیکھ کر میشا کو لگ رہا تھا جیسے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ٹھیری تھی۔ ۔۔"کیونکہ وہ تو خود مجبور ہوکر آئی تھی اور اُس کا ضمیر بار بار اُس کو سمجھانے کی کوشش کررہا تھا پر وہ سُننے کو تیار نہ تھی اور اب جیسے میشا کی باتوں نے آخری کیل ٹھوکی تھی۔

"پیار کی دُشمن کیا ہوگیا ہے کال تو اُٹھادو۔ ۔۔حقیقت کی دُنیا میں واپس آکر آریان منہ ہی منہ میں بڑبڑایا تھا"جیسے اُس کے بڑبڑانے پر میشا کال اُٹھا دے گی۔

"آپ کے بھائی آپ کو یاد کررہے تھے۔ایک نرس نے آکر بتایا تو آریان نے اُس کو دیکھ کر سر کو جنبش دی اور زوریز کے پاس آیا

"یہ تم نے کافی پچکانہ حرکتیں کی ہیں۔ ۔۔زوریز آریان کو دیکھ کر دبے دبے الفاظوں میں غرایا

"بِگ برادر غُصہ آپ کی صحت کے لیے اچھا نہیں ہے تو پلیز کول ڈاؤں ہوجائے۔۔۔آریان کو جیسے موقع مل گیا اُس کو تپانے کا

"تمہیں پتا ہے تمہاری حرکتوں کی وجہ سے وہ مجھ سے ناراض ہوکر گئ ہے۔۔۔زوریز کو رہ رہ کر افسوس ہورہا تھا

"اندازہ ہورہا ہے صبح کا گیا شام تک نہیں لوٹا۔۔آریان باز نہیں آیا تھا۔

"بکواس مت کرو۔۔زوریز اُس پر بھڑک اُٹھا

"زوریز یار کیا ہوگیا ہے وہ ناراض ہیں بھی تو کیا ہوگیا واپس تو اُس نے تمہارے پاس آنا ہے وہ کیا کہتے ہیں کہ راستے جدا ہیں مگر منزل ایک ہے تو تمہیں زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ۔۔آریان کا لہجہ آخر میں شوخ ہوگیا تھا۔

"میں ابھی ڈسچارج نہیں ہونا چاہتا۔ ۔۔زوریز نے بس اِتنا کہا

"کیوں ڈسچارج نہیں ہونا؟"یہاں ہمارے کونسے ملازمین کا اڈا ہے جو تمہاری جی حضوری میں مصروف ہوگے۔ ۔آریان نے بھگو کر طنز کیا

"میری حالت خراب ہے۔ ۔زوریز نے دانت پیسے

"نظر آرہا ہے کتنی نازک حالت ہے تمہاری اپنی تکلیف پر اُف نہ کرنے والا اگر اچانک ایک چیز کا رونا ڈالے تو جان جاؤ کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے اور یہ بات میں اچھے سے جان گیا ہوں۔۔آریان نے بتادیا کہ استادوں کے ساتھ اُستادگی نہیں کی جاتی

"اگر پتا ہے تو پھر کیوں کررہے ہو ایسا؟"بھائی ہو یا دُشمن؟زوریز نے افسوس سے اُس کو دیکھا جیسے کوئی بہت نااُمیدی ہوئی ہو آریان سے

"دیکھو بھائی میں ایک بات بتادوں یہاں میں نہیں رُک سکتا اگر مزید یہاں رہا تو میرے لیے الگ وارڈ تمہیں خالی کروانا پڑے گا بات ہے سیدھی۔۔آریان نے کہا تو زوریز جان گیا آریان سے بات کرنا مطلب دیوار پر سر مارنے کے برابر ہے جبھی خاموش ہوگیا

❤❤❤❤❤❤❤❤

"سُنو لڑکی۔۔۔فاحا حویلی کا جائزہ لینے میں مصروف تھی جب لنگڑا کر چلتی ہوئی فائقہ بیگم نے اُس کو مُخاطب کیا

"میرا نام فاحا ہے۔ ۔۔فاحا نے جلدی سے بتایا

"تمہارے نام کا میں نے اچار نہیں ڈالنا ہے کیا اِس لیے وہ سُنو جو میں بول رہی ہوں۔ ۔۔فائقہ بیگم نے اُس کو گھور کر کہا

"نام کا اچار کون ڈالتا ہے؟فاحا حیرت سے اُن کو دیکھ کر بولی

"زیادہ سیانی بننے کی ضرورت نہیں ہے اور جو صبح تم نے کیا ہے نہ میرے ساتھ اُس کی سزا تمہیں مل کر رہے گی۔ ۔۔فائقہ بیگم نے کہا تو فاحا خوفزدہ ہوئی

"سزا؟فاحا کو ڈر لگنے لگا

"ہاں سزا۔ ۔فائقہ بیگم کے چہرے پر طنز مسکراہٹ آئی"فاحا کو ایسے دیکھ کر گویا اُن کے سینے میں ٹھنڈ پڑگئ تھی۔

"مگر فاحا نے جان کر نہیں کیا۔ ۔۔فاحا نے وضاحت دینے کی کوشش کی

"فاحا نے جان کر کیا یا نہیں مگر میں نے تمہارے لیے سزا تجویز کردی ہے۔ ۔۔"فائقہ بیگم نے دو ٹوک لہجے میں کہا

"کونسی سزا منتخب کی ہے؟فاحا سرجُھکائے پوچھنے لگی اُس کا دل زوروں سے دھڑک رہا تھا کہ جانے کیا سزا اب اُس کو ملے گی جس کو کرنے کے علاوہ اُس کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوگا۔

"تمہاری سزا یہ ہے کہ دو دن تک کچن کا سارا کام تم کرو گی صفائی سے لیکر برتن دھونا اور کھانا پکانے کی ساری زمیداری تمہاری ہوگی"تمہیں یہ بات بھی واضع کردوں کہ حویلی میں موجود ہر افراد الگ الگ ڈیش کھانا پسند کرتا ہے۔ ۔"دوسرا اُن کو کھانا وقت پر چاہیے ہوتا ہے تمہیں اُس پر کوئی بھی راعت نہیں ملی گی۔ ۔۔فائقہ بیگم نے شیطانی مسکراہٹ چہرے پہ سجائے کہا تو فاحا جو ڈر سے کانپنے لگی تھی سراُٹھائے حیرت سے اُس کو دیکھنے لگی"وہ تو جانے کیا سوچے ہوئے تھی کہ جانے کیا سزا ملے گی اُس کو پر ملی بھی تو کیسی سزا؟ "جو اُس کے لیے کوئی بڑی بات نہیں تھی" ایسے موقعے تو وہ خود تلاش کرتی تھی جو بن کہے اُس کو اِس بار مل گیا تھا ویسے بھی صبح سے وہ بور ہورہی تھی۔ ۔دوسری طرف فائقہ بیگم نے یہ سوچ کر کچن کی زمیداری اُس کو دی تھی کہ شہر کی لڑکیاں اکثر کچن کے کاموں سے دور بھاگا کرتیں تھیں مگر وہ انجان تھیں کہ فاحا اُن سے بیحد مختلف تھی۔"کچن میں کھانا پکانے سے تو وہ فخر محسوس کیا کرتی تھی۔

❤❤❤❤❤❤❤

چُپ کیوں ہوگئ ہو اب"کیا سانپ سونگھ لیا ہے؟اُس کو کچھ بھی نہ بولتا دیکھ کر فائقہ بیگم نے ایک بار پھر طنز کیا

"ایسی بات نہیں ہے"فاحا کردے گی کچن کا کام اور سارا نقشہ ہی بدل دے گی کچن کا آپ پریشان نہ ہو۔ ۔۔فاحا نے جلدی سے کہا

"ہونہہ پریشان ہوتی ہے میری جوتی فائقہ بیگم ہوں میں اور ہاں تمہیں باورچی خانے کا نقشہ بدلنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بس جو اور جتنا کہا جائے اُتنا کیا کرو زیادہ اپنی عقل استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ۔۔فائقہ بیگم نے سرجھٹک کر کہا

"باورچی خانہ کس طرف ہے؟فاحا نے پوچھا

"سامنے سے ٹرن لو اور ہاں سارا کام تم نے اکیلے کرنا ہے حویلی کی کوئی بھی ملازمہ مدد کو نہیں آئے گی اور اب جلدی سے تم رات کے کھانے کی تیار کرو مرد لوگ سب آتے ہوگے"اُن کو انتظار کرنا پسند نہیں ہوتا۔ ۔۔فائقہ بیگم نے کہا تو فاحا اپنا سراثبات میں ہلانے لگی۔ "اور فائقہ بیگم وہاں یہ سوچ کر کھڑی رہی کہ فاحا کام چوری کا مُظاہرہ ضرور کرے گی پر ایسا کچھ نہیں ہوا جس پر وہ اندر ہی اندر جل کر رہ گئ تھیں۔ ۔"اُن سے بے نیاز فاحا نے اپنا رُخ باورچی خانے کی طرف کیا تھا"جہاں تین سے چار ملازمائے موجود تھیں" کوئی باورچی خانے کی صفائی کررہی تھی کوئی برتن دھونے میں مصروف تھیں"باقی کی دونوں سبزیاں کاٹنے میں مصروف تھیں اِس میں فاحا کو اپنے لائق کوئی کام نظر نہیں آیا تھا۔ ۔

"آپ کو کچھ چاہیے تھا تو ہمیں بتادیتیں؟اُن کی نظریں ہاتھوں کو مسلتی فاحا پر پڑی تو کہا

"وہ میں

"تم سب کی سب یہاں سے جاؤ آج کا سارا کام یہ اکیلے کرے گی۔۔۔فاحا کے کچھ بھی کہنے سے پہلے فائقہ بیگم باورچی خانے میں داخل ہوتیں بولیں تو وہ چاروں ایک دوسرے کا منہ تکنے لگی۔۔"اور فاحا یہ سوچنے لگی کہ آج وہ آرام سے جو چاہے کرسکتی ہے کیونکہ کچن اُس کی سوچ سے بھی زیادہ بڑا تھا۔۔

"اِتنی صفائی تو انسٹی ٹیوٹ کے باورچی خانے میں نہیں ہوتی جتنی چمک یہاں کی ہر ایک چیز رہی ہے"سہی کہتے ہیں لوگ کہ پیسا بولتا ہے۔۔فاحا اپنی سوچو کو تانے بانے جوڑنے لگی۔

"پر بی بی جی

"پر ور کرنے کا تم لوگوں کا کوئی حق نہیں ہے اِس لیے ابھی جاؤ یہاں سے باورچی خانے کے علاوہ حویلی میں اور بھی بہت سے کام ہوتے ہیں۔۔فائقہ بیگم اُن کی بات درمیان میں کاٹ کر سخت لہجے میں گویا ہوئیں تو وہ ہمدرد بھری نظروں سے پرسکون کھڑی فاحا کو دیکھ کر باری باری چلے گئے۔۔

"کوئی بھی چلاکی مت کرنا اور جلدی سے اب سارا پھیلاوا سمیٹو وقت کم ہے تمہارے پاس۔۔۔فائقہ بیگم نے اپنی توپوں کا رُخ فاحا کی طرف کیا

"ایسے ٹاسک فاحا کو روز ملتے ہیں اور پتا ہے کیا ہمیں مشکل سے مشکل چیز دس سے بیس منٹ تک پکانی ہوتیں تھیں۔۔۔فاحا نے فائقہ بیگم کی بات پر پرجوش ہوکر بتایا تو وہ عجیب نظروں سے فاحا کو دیکھنے لگیں اُن کو فاحا کا ایسے نارمل ری ایکٹ کرنا سمجھ میں نہیں آرہا تھا"پر اُن کو کون بتاتا کہ اگر وہ یہ کام میشا کو دیتیں تو اُن کو وہی سب دیکھنا پڑتا جن کی اُن کو خُواہش تھی۔وہ یہ نہیں جانتیں تھیں کہ انجانے میں اُنہوں نے کیسے فاحا کی خُواہش کو پورا کردیا تھا۔۔

"زبان کم اور ہاتھ زیادہ چلاؤ۔۔۔فائقہ بیگم اُس کو گھور کر کہتیں خود وہاں سے چلی گئ تو فاحا اِرد گرد کا جائزہ لیتی یہ سوچنے لگی کہ شروعات کہاں سے کریں؟

"ویسے آج تو فاحا کی سالوں پُرانی خُواہش پوری ہوگئ کہ ایک بڑا سا کچن ہو جہاں وہ اکیلی کھڑی ہوکر مختلف قسم کے لوازمات بنائے۔ ۔۔فاحا پرجوش انداز میں خود سے باتیں کرتی سنک کی طرف آئی جہاں مُلازمہ نے برتن آدھے دھو کر رکھے تھے۔"اُن کو دھونے کے بعد اُس نے کھانا پکانے کا سوچا پر اُس کو خیال آیا کہ فائقہ بیگم نے تو اُس کو بتایا نہیں کہ رات کے کھانے میں بنانا کیا ہے؟"اِسی بات کو سوچتی وہ فریج کی طرف آئی اور اُس کو کھول کر دیکھا جہاں ضرورت کی ہر چیز موجود تھی۔

"مچھلی گوشت"مرغی ایسے کرتی ہوں سب پکادیتی ہوں"اگر کسی نے اعتراض اُٹھایا تو کہہ دوں گی کہ فاحا کو اِنہوں نے کہا تھا کہ یہاں کے لوگ الگ الگ قسم کے لوازمات کھانا پسند کرتے ہیں" تبھی اُس نے یہ سب پکائی۔ ۔۔فاحا خود کو مطمئن کرتی کام میں جُت گئ اُس نے سوچ لیا تھا کہ خود کو کیسے بچانا تھا ویسے بھی ایک طرح سے وہ سہی تو تھی کونسا فائقہ بیگم نے اُس کو بتایا کہ کھانے میں کیا پکانا ہے تو ظاہر ہے نہ بتانے کی صورت میں اُس نے اپنی مرضی ہی کرنی تھی۔ ۔۔


"السلام علیکم ۔۔۔۔اسیر ملک آج دو دن بعد حویلی میں داخل ہوا تھا کیونکہ اقدس کو اُس کے اسکول چھوڑ آنے کے بعد اُس کو اپنے کسی ضرور کام کی وجہ سے شہر میں ٹھیرنا پڑگیا تھا"لیکن اِس دوران وہ حویلی سے غافل نہیں تھا ہر بات اُس کے علم میں موجود ہوتی تھی" اُس کو یہ بھی پتا تھا کہ نوریز ملک اپنی بیٹیوں سمیت حویلی میں آگیا تھا۔

وعلیکم السلام سردار جی آپ کے لیے پانی لاؤں؟اسیر کو حویلی میں دیکھ کر سب لوگ الرٹ ہوئے تھے

"ہاں ہمار

آآہ آآ

آپو

"اسیر ابھی کچھ کہنے والا تھا جب ایک چیخ نے اُس کا دھیان اپنی طرف کھینچا تھا"اور یہ آواز وہ اچھے سے پہچان گیا تھا۔

"فاحا؟اسیر نے بے ساختہ اُس کا نام لیا تھا

"باورچی خانے میں ہیں وہ۔۔ایک مُلازمہ نے بتایا تو اسیر حیرت سے اُس کو دیکھ کر جلدی سے کچن کی طرف بڑھ گیا تھا"جہاں فاحا نے چیخ چیخ کر اپنا گلا خُشک کردیا تھا۔

"کیا ہوا ہے آپ کو؟اسیر ایک ہی جست میں اُس تک پہنچ کر پوچھنے لگا تو فاحا بے یقین نظروں سے اسیر کو دیکھنے لگی اُس کو توقع نہ تھی کہ یہاں اُس کا سامنا اسیر سے بھی ہوسکتا ہے

"وہ

فاحا کی زبان تالو سے چپک گئ تھی۔

"وہ کیا ہمیں بتائے کیوں چیخ رہیں تھیں اِتنا زور سے؟اسیر نے دوبارہ سے پوچھا اِس بار اُس کے لہجے میں سختی کا عنصر صاف محسوس کیا جاسکتا تھا"جبھی فاحا نے سوں سوں کرتے اپنا ہاتھ اُس کے سامنے کیا جو جل گیا تھا۔۔

"اُس کا جلا ہوا ہاتھ پھر اپنے اور اُس کے علاوہ باورچی خانے میں کسی اور کو ناپاکر اسیر کے دماغ کی رگیں غُصے سے تن گئ تھیں۔۔۔

"نورا

"راشدہ

شاہدہ

کہاں ہو؟"سب کے سب۔

"اسیر نے دھاڑنے والے انداز میں سب مُلازماؤں کو آواز دی تو اُس کا ایسا انداز دیکھ کر فاحا کا حلق تک خُشک ہوگیا تھا۔۔۔

"جبکہ وہ لوگ ایک قطار میں اسیر کے آگے سرجُھکا کر کھڑے ہوگئے تھے۔

"تم لوگوں کو یہاں کیوں رکھا گیا ہے؟اسیر نے باری باری سخت نگاہ سے ہر ایک کو دیکھا

"کچن کے کاموں کے لیے۔۔۔۔اُنہوں نے بتایا

"تو باورچی خانے میں اِن کو اکیلا چھوڑ کر تم سب کہاں مرے ہوئے تھے؟اسیر کا لہجہ سخت سے سخت ہوگیا تھا۔

"سردار جی ہمیں تو فاحا بی بی نے کہا تھا۔۔ایک نے ہمت کا مُظاہرہ کیا"تو فاحا حیرت سے اُن کو دیکھنے لگی وہ جان نہ پائی کہ ملازمہ نے سارا الزام اُس پر کیوں ڈال دیا

"میں نے تو

"خاموش۔۔،فاحا اپنی صفائی میں کچھ کہنے لگی تھی"جبکہ اسیر نے اُس کو ٹوک کر سخت نگاہوں سے دیکھا تو اسیر کو دیکھتی وہ اپنا سرجُھکا گئ تھی۔۔


نگاہوں کے تصادم سے عجب تکرار کرتا ہے

یقین کامل نہیں لیکن، گماں ہے پیار کرتا ہے


اسے معلوم ہے شاید میرا دل ہے نشانے پر

لبوں سے کچھ نہیں کہتا ، نظر سے وار کرتا ہے


"آج کے بعد یہ ہمیں یہاں نظر نہیں آنی چاہیے۔ ۔"اور آپ آئے ہمارے ساتھ۔ ۔اُن کو حُکم سُناتا فاحا کا دوسرا ہاتھ اپنی آہنی گرفت میں لیے اسیر اُس کو لاؤنج میں لایا تھا جہاں فائقہ بیگم اور اسمارہ بیگم پہلے سے موجود تھیں۔

"یہ باورچی خانے میں تھی آپ میں سے کسی نے روکا کیوں نہیں؟"ابھی چوبیس گھنٹے بھی نہیں ہوئے اور آپ لوگوں نے حویلی کے کاموں میں لگادیا۔۔۔۔اسیر جانتا تھا فاحا پہلے ہی دن ایسا کچھ نہ کرتی ضرور اُس کو کسی نے مجبور کیا ہوگا تبھی بے لچک انداز میں اُن سے بولا

"میرا ہاتھ نہیں ہے اِس میں اپنی ماں کو یہ آنکھیں دیکھاؤ۔۔اسمارہ بیگم نے سرجھٹک کر کہا

"اماں حضور۔اسیر نے جواب طلب نظروں سے اپنی ماں کو دیکھا جو خُجلت کا شکار ہوئی تھی۔"اِس درمیان فاحا بلکل خاموش کھڑی تھی۔

"اپنی مرضی سے گئ تھی یہ۔۔۔فائقہ بیگم نے سنبھل کر کہا تو اسیر نے فاحا کو دیکھا جس کا ہاتھ ابھی تک اُس کے ہاتھ میں قید تھا۔

"صبح کو یہ میری وجہ سے گِرگئ تھیں تو ابھی سزا کے طور پر کہا کہ دو دن تک کچن کا سارا کام میرے ذمے ہوگا۔۔۔اسیر کے دیکھنے پر فاحا نے صاف گوئی کا مُظاہرہ کیا تو فائقہ بیگم اپنی جگہ پہلو بدلتی رہ گئ تھیں وہ سمجھی تھی فاحا بات کو گول مول کردے گی"مگر اُس نے تو سب کچھ بتادیا تھا۔"جس کو جان کر اسیر کو اپنی ماں پر افسوس ہوا

"یہ برنال۔۔۔مُلازمہ برنال لائی تو فاحا کے لینے سے پہلے اسیر نے اُس کے ہاتھ سے لی

"آپ سے بعد میں بات ہوگی۔۔فائقہ بیگم کو دیکھ کر سنجیدگی سے کہتا وہ فاحا کا جلا ہوا ہاتھ دیکھنے لگا

"میں خود کرلوں گی۔۔۔فاحا نے جِھجھک کر کہا

"ہم کردیتے ہیں"یہ بتائے آپ کی ڈون سسٹرز کہاں ہیں؟"جن کے پیچھے اکیس ملکوں کی پولیس پڑی ہے؟اسیر کے لہجے میں آخری طنز وہ واضع جان گئ تھی جس پر اُس کا منہ بھی بن گیا تھا"مگر کہا کچھ نہیں بس اُس کو دیکھنے لگی جو بڑی توجہ سے اُس کے ہاتھ پر برنال لگا رہا تھا۔

"نظر رکھیے گا دونوں پر کیونکہ اسیر ملک کی ایسی توجہ میں دوسری بار دیکھ رہی ہوں"ایسی فکر وہ بس اقدس کی کرتا ہے جو اُس کی بیٹی ہے پر اِس لڑکی کے لیے کیوں پریشان ہورہا ہے؟"یہ سوچنے والی بات ہے۔۔۔اسمارہ بیگم استہزائیہ مسکراہٹ چہرے پر سجاتی فائقہ بیگم سے بولیں جو خود جلتی نگاہوں سے سامنے والا منظر دیکھ رہیں تھیں"اُن کو یقین نہیں آیا کہ اسیر بھی کچھ ایسا کرسکتا ہے۔

"تمہیں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے"کہاں میرا بیٹا اور کہاں یہ چھٹانگ بھر کی لڑکی۔۔۔فائقہ بیگم نے اپنے دل کا غبار اسمارہ بیگم پر نکالنا چاہا

"اب آرام کرنا اور یہی لگاتیں رہنا آرام ملے گا۔۔اسیر برنال لگانے کے بعد اُس سے بولا تو فاحا نے سر کو جنبش دے کر اُس کے ہاتھ سے برنال لینے لگی"اور اسیر یہ سوچنے لگ پڑا کہ کہی وہ اپنی زبان شہر تو نہیں چھوڑ آئی۔

❤Rimsha Hussain Novels❤

"میں بھی آرہی تھی نیچے تم بتاؤ کیا ہوا تمہیں۔۔۔فاحا ابھی دروازہ کھول کر کمرے میں آنے لگی تھی"جب چہرے پر فیشل رگڑتی میشا نے اُس کو دیکھ کر بتانے کے بعد پوچھا

"کچھ نہیں بس تھوڑا ہاتھ جل گیا تھا اب ٹھیک ہے۔۔"اُنہوں نے برنال لگادی۔۔۔فاحا نے بیحد آہستہ آواز میں کہا

"اُنہوں نے؟میشا نے ناسمجھی سے اُس کو دیکھا پھر اچانک اُس کے دماغ میں کچھ کلک ہوا

"اسیر بشیر کی بات تو نہیں کررہی؟میشا نے مشکوک نظروں سے اُس کو دیکھ کر پوچھا تو فاحا جو اپنے ہاتھ کو دیکھ رہی تھی سراُٹھاکر تاسف سے میشا کو دیکھا

"اُن کا نام صرف اسیر ہے تو آپ زرا احترام سے اُن کا نام لیا کریں بڑے ہیں وہ ہم سے۔۔۔"فاحا نے اُس کو شرمندہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا تو میشا نے آنکھیں گُھمائی

"اندر آؤ اور مجھے بتاؤ کہ کچن میں کیا کرنے گئ تھی تم؟میشا اُس کو کمرے میں آنے کا کہتی پوچھنے لگی تو فاحا نے اپنے اور فائقہ بیگم کے درمیان ہونے والی ساری بات اُس کے گوش گُزار کردی جس کو سن کر میشا کو غُصہ آیا

"تمہیں کیا ضرورت تھی اُن کے حُکم کی پیروی کرنے کی۔۔۔میشا نے کڑے چتونوں نے اُس کو گھور کر سوال کیا

"میں اور کیا کرتی؟فاحا منمنائی

"تم کچھ نہ کرتی میرے پاس آتی میں دیکھ لیتی سب۔۔میشا اپنا چہرہ صاف کیے جواباً بولی

"مجھے کیا تھا پتا کہ میرا ہاتھ جل جائے گا۔۔۔فاحا نے منہ بناکر کہا

"دیکھو فاحا وہ چیزیں نہ کرو جس سے اِن کو تسکین حاصل ہوتی ہے"تمہیں کیا سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ لوگ ہمیں نیچا دِکھانے کی کوشش کررہے ہیں۔۔۔میشا نے گویا اُس کی عقل پر ماتم کیا

"سوری۔۔۔فاحا سے کچھ اور نہ بن پایا تو سوری بول دیا

"تمہارے سوری کا میں نے اچار نہیں ڈالنا "خیر سائیڈ ٹیبل پر تمہارا موبائیل اور میری یو ایس بی پڑی ہے۔۔وہ اُٹھا کر موبائیل میں جو ڈاکیومینٹس ہیں وہ یو ایس بی میں موو کرو۔۔"میں تب تک نہانے جارہی ہوں۔۔۔میشا نے سرجھٹک کر اُس کو دیکھ کر کہا

"ہاں میں کرتی ہوں آپ جائے۔۔۔فاحا نے کہا تو میشا واشروم کی طرف بڑھ گئ اور فاحا نے ایک ہاتھ سے موبائیل اور یو ایس بی لیکر بیڈ پر بیٹھ گئ۔۔"پر جب یو ایس بی اُس نے موبائیل میں کنیکٹ کرنا چاہا تو وہ نہیں ہوپایا شاید ایک ہاتھ کو استعمال میں لانے کی وجہ سے اُس نے سہی نہیں کیا تھا۔

"آپو آپ کی یو ایس بی خراب ہے کنیکٹ نہیں ہورہی۔۔۔فاحا نے تنگ ہوکر میشا سے کہا

"یو ایس بی سہی ہے بلکل اور جو کہا ہے وہ کرو بہانے مت کرو۔۔۔دوسری طرف میشا نے اُونچی آواز میں اُس سے کہا

"کسی اور سے مدد لیتی ہوں۔۔۔فاحا خود سے بڑبڑاتی دونوں چیزیں لیکر کمرے سے باہر نکل گئ تو تصادم اسیر سے ہوا

"آپ کو ایک جگہ چین نہیں کیا؟اسیر نے طنز پوچھا

"ضروری کام ہے اور ایک کمرے میں قید بھی تو نہیں رہ سکتی۔۔۔فاحا نے جھٹ سے کہا

"کیسا کام؟اسیر نے سنجیدگی سے پوچھا

"یہ یو ایس بی موبائیل میں کنیکٹ نہیں ہورہی"فاحا کو ضروری کام ہے ڈاکیومنٹس کا۔فاحا نے اپنا ہاتھ اُس کے سامنے کیے بتایا تو اسیر ایک نظر اُس پر ڈالتا وہ چیزیں اُس کے ہاتھ سے لی

"لکھا تو آرہا ہے یو ایس بی کنیکٹڈ۔۔اسیر ہوم اسکرین کو دیکھتا اُس سے بولا

"لکھا تو آرہا ہے پر مائے فائلز میں ظاہر نہیں ہورہا مطلب اگر ہمیں کچھ موو آن ہو تو کیسے کریں؟فاحا نے تفصیل سے اُس کو بتایا

"بندہ مائے فائلز کو اپڈیٹ کرلیتا ہے۔۔۔اُس کا موبائل چیک کرنے کے بعد سیر نے طنز کہا

"مائے فائلز اپڈیٹ بھی ہوتا ہے کیا؟جواب میں فاحا نے بھرپور حیرت کا مُظاہرہ کیا تو اسیر اُس کو دیکھتا رہ گیا

"پورا موبائیل اپڈیٹ ہوتا ہے۔۔۔اسیر نے سرجھٹک کر بتایا

"موبائل کا تو پتا ہے پر مائے فائلز اکیلا اپڈیٹ ہوتا ہے یہ اب پتا لگا ہے۔۔۔فاحا نے جلدی سے بتایا

"ہمارے پیچھے آئے۔۔۔اسیر نے کہا اور اپنے قدم کمرے کی طرف بڑھائے

"وہاں سامنے ڈریسنگ ٹیبل پر نارنجی رنگ کی یو ایس بی پڑی ہوگی وہ ہمیں اُٹھا کر دیں۔۔۔اپنے کمرے میں آکر اسیر نے اُس سے کہا

یہاں تو کوئی نارنجی رنگ کی یو ایس بی نہیں پڑی۔۔فاحا ڈریسنگ ٹیبل پر پڑی اُس کی چیزوں کو دیکھتی اسیر سے بولی

"ہمیں وہ یہاں دور سے نظر آرہی ہے پر آپ کو نہیں آرہی نظر؟اسیر نے خشمگین نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا تو فاحا نے پھر سے ڈریسنگ ٹیبل پر پڑی ہر چیز کا جائزہ لیا مگر اُس کو نارنجی رنگ کی یو ایس بی کہی بھی نظر نہیں آئی جس سے وہ پریشان ہوئی

"ہائے اللہ کہی فاحا نابینا تو نہیں ہوگئ۔۔۔فاحا کو اپنی بینائی پر شک ہونے لگا

"نارنجی رنگ کی نہیں ہے کوئی اور ہے۔۔۔فاحا نے آہستہ آواز میں اُس کو بتایا تو اسیر خود چل کر وہاں آیا اور ڈریسنگ ٹیبل پر پڑی یو ایس بی اُٹھاکر اُس کے سامنے کی۔

"یہ آپ کو نظر نہیں آئی؟اسیر نے یو ایس بی اُس کے سامنے لہراائی پھر پوچھا تو اُس کے ہاتھ میں موجود یو ایس بی دیکھ کر فاحا آنکھیں چھوٹی کیے اُس کو گھورنے لگی

یہ یو ایس بی نارنجی نہیں گُلابی رنگ کی ہے فاحا کو لگا تھا کہ اُس کی نظر کمزور ہوگئ ہے ہمیں کیا پتا تھا کہ آپ کلر بلائینڈ ہیں۔۔۔فاحا نے کہا تو اُس کی بات سن کر اسیر چونک کر اپنے ہاتھ میں موجود یو ایس بی کو دیکھنے لگا جو بقول فاحا کے گُلابی رنگ کی تھی اور اُس میں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ گُلابی رنگ کی تھی بس اسیر کو کلرز کی پہچان نہیں تھی۔۔

"یو ایس بی تو ہے نہ کلرز سے کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔اسیر کچھ توقع بعد بولا

"اگر فرق نہیں پڑتا تو آپ سیدھا یہ کہتے نہ کہ فاحا ڈریسنگ ٹیبل سے یو ایس بی اُٹھا کر دو"یہ کیوں کہا کہ نارنجی رنگ کی یو ایس بی اُٹھا کر دو"اب مجھے تو یہی لگا کہ یو ایس بی کا انبار ہوگا جس میں سے مجھے بس ایک نارنجی کلر تلاش کرنا ہے۔۔۔فاحا نان سٹاپ بولتی گئ اور اسیر بس ضبط سے اُس کو دیکھتا رہ گیا تھا۔

"آپ کا کام کرنا چاہیے تاکہ یہاں سے آپ اپنی تشریف لے جائے۔۔۔اسیر نے جیسے بات کو ختم کرنا چاہا

"ہاں تو میں یہاں کونسا آپ کے ساتھ گپے ہانکنے لگی ہوں۔۔۔فاحا نے سرجھٹک کر کہا

"آپ کی یو ایس بی موجود ڈاکیومنٹس فون میں ڈالنے ہیں یا فون کے یو ایس بی میں؟مائے فائلز اپڈیٹ کرنے کے بعد اسیر نے سنجیدگی سے اُس کو دیکھ کر پوچھا

"یو ایس بی میں موو کرنے ہیں۔۔فاحا نے بتایا تو اسیر ایسے کرنے لگا جب اُس کے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی

"کون؟اسیر نے بنا دیکھے پوچھا تبھی کوئی اور آندھی طوفان کی طرح اُس کے کمرے میں آیا

"اسیر توں یہاں بیٹھا ہے اور نیچے ایک قیامت برپا ہوگئ ہے۔۔۔فائقہ بیگم ہانپتی آواز میں اسیر سے بولی تو وہ الرٹ ہوا اور فاحا بھی فائقہ بیگم کو دیکھنے لگی۔

"کیا ہوا ہے؟اسیر سنجیدگی سے اُن کو دیکھ کر پوچھا"فاحا بھی سارا معاملہ سمجھنے کی کوشش کرنے لگی جو اُس کی سمجھ میں آنا تو تھا نہیں

"نیچے دیبا آئی ہوئی ہے۔۔۔"کلموہی جانے کہاں سے منہ کالا کرنے کے بعد آئی ہے اور تم میری بات کان کھول کر سُن لو کہ خبردار جو کسی کے بھی کہنے پر یہاں رہنے دیا بھی تو۔۔۔۔۔۔فائقہ بیگم نے دو ٹوک انداز میں کہتے جیسے اُس کے سر پہ بم گِرایا تھا جس پر وہ بغیر کوئی اور بات سُنتا باہر کی طرف لپکا

❤❤❤❤❤❤❤

دیبا میری بچی کہاں تھی تم اِتنا وقت۔۔اسیر تیز قدموں کے ساتھ سیڑھیاں اُترنے لگا تو اُس کے کانوں میں نورجہاں بیگم کی آواز پڑی

"امی میں اب آپ کے پاس رہوں گی کہی چھوڑ کر نہیں جاؤں گی۔۔۔سیڑھیوں کے پاس کھڑے اسیر کو گہری نظروں سے دیکھتی دیبا نے نورجہاں بیگم کو اپنی بات کا یقین دِلانے لگی

"اوو بی بی زمانہ بدنام کو اِس حویلی میں رکھ کون رہا ہے؟"جاؤ دفع ہوجاؤ وہاں جہاں سے آئی ہو۔۔۔فائقہ بیگم نے سخت نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا"فاحا بھی نیچے آتی غور سے دیبا کو دیکھنے لگی جو سادہ سے جوڑے میں ملبوس تھی۔۔۔

"چچی جان کیا ہوگیا ہے آپ کیوں کررہی ہیں میرے ساتھ ایسے۔۔۔دیبا نے مصنوعی افسردگی بھرے تاثرات چہرے پر سجائے کہا

"زیادہ میری خوشامدی کرنے کی ضرورت نہیں ہے جو کہا ہے وہ کرو اور یہاں سے چلتی بنو۔۔۔۔فائقہ بیگم نخوت سے سرجھٹک کر بولی

"اسیر

دیبا کو کوئی اور راہ نظر نہیں آئی تو وہ اسیر کی طرف بڑھی جو سرد تاثرات سجائے لب بھینچ کر کھڑا تھا

"ہماری طرف آنے کی جرئت مت کرنا۔۔۔اسیر نے سرد لہجے میں اُس سے کہا تھا تو اچانک دیبا کی نظر فاحا پر پڑی جو خود اُس کو دیکھ رہی تھی"لیکن دیبا کو فاحا کا اسیر کے اِتنے پاس کھڑا ہونا سمجھ میں نہیں آیا تھا یہ چہرہ اُس کے لیے نیا تھا اور دل میں ہزار خدشات نے گھر کرلیا تھا مگر پھر فاحا کی عمر کا اندازہ لگاتی اُس نے خود کو تسلی کروائی تھی کہ جو اور جیسا وہ سوچ رہی ہے ایسا ممکن نہیں ہے۔۔۔

"تم کون ہو۔۔۔دیبا نے براہ راست آخر فاحا کو مُخاطب کیا تو وہ چونک اُٹھی

"میں؟فاحا نے اپنی طرف اِشارہ کیا تو اسیر نے گردن موڑ کر فاحا کو دیکھا

"آپ کا کام ہوگیا ہے اپنے کمرے میں جاؤ۔۔۔۔اسیر نے فاحا کو دیکھ کر اندر کی طرف جانے کا اِشارہ کیا

"میرا نام ف

"سُنا نہیں ہم نے کیا کہا آپ سے؟اسیر نے سخت نگاہوں سے اُس کو دیکھ کر دوبارہ سے کہا تو وہاں کھڑے باقی سب لوگ ایک دوسرے کا چہرہ تکنے لگے۔

"لیکن وہ میرا نام پوچھ رہی ہے۔۔۔فاحا نے بتایا

"نام بتاکر شُناختی کارڈ بنوانا ہے؟اسیر نے طنز پوچھا

"نہیں تو وہ تو پہلے سے بنا ہوا ہے اور اُس کی مدت کو ختم ہونے میں بھی ابھی بہت وقت ہے۔۔۔۔فاحا اُس کا طنز سمجھے بغیر بتاتی گئ۔

"اپنے کمرے میں جاؤ پھر۔۔۔اسیر اُس کی بات سن کر سنجیدگی سے بولا تو فاحا جانے کے لیے پلٹی پھر ایک خیال کے تحت وہ رُک کر اسیر کو دیکھنے لگی پھر باری باری سب کو

"میں کیوں جاؤں اندر؟"مجھے تو یہی کھڑے رہنا ہے۔۔۔فاحا بازو سینے پر باندھتی مضبوط لہجے میں بولی تو اسیر سمجھ نہیں پایا کہ اچانک فاحا کو کس کیڑے نے کاٹ لیا

"کیونکہ ہم آپ سے بول رہے ہیں۔۔۔اسیر نے اُس کو آنکھیں دیکھائی

"آپ کون ہوتے ہیں؟"فاحا پر حُکم چلانے والے فاحا اپنی مرضی کی مالک ہے"فاحا کا جہاں دل چاہے گا وہ وہاں رہے گی"کوئی اُس کو اپنی بات منوانے پر دباؤ نہیں ڈال سکتا۔۔۔۔فاحا میں آخر عقل آئی تو اُس نے دو ٹوک لہجے میں کہا

"امی یہ ہے کون جو اِتنا بے تکلف ہونے کی کوشش کررہی ہے؟دیبا سے جانے کیوں فاحا کو برداشت کرنا مشکل لگا وہ جان نہیں پائی کہ کسی کی باتیں نہ سُننے والا اسیر ملک فاحا کی ایسی بے تُکی باتیں کس خوشی میں سُن رہا تھا۔

"یہ فاحا ہے نوریز بھائی صاحب کی تیسری بیٹی۔۔۔نورجہاں بیگم نے بتایا تو اُس کے چہرے پر استہزائیہ مسکراہٹ آئی تھی

"اچھا یہ وہ ہے جس کی پیدائش پر بیچاری اسلحان چچی کو طلاق ہوئی تھی"نوریز چچا نے بتایا تھا کہ منحوس ہے۔۔۔دیبا سمجھنے والے انداز میں سر کو جنبش دیتی بولی تو فاحا خاموش ہوگئ تھی۔"صنم بیگم کو دیبا کی بات سن کر افسوس ہوا تھا البتہ اسیر نے ضبط سے اُس کو دیکھا وہ جان گیا کہ دیبا نے فاحا کو اپنے طنز کا نشانہ کیوں بنایا ہوا ہے

"جی میں وہ ہوں مگر آپ کون ہیں؟"جس کو اُس کے گھروالے یہاں رکھنے پر نالاں ہیں؟"میں تو یہاں کل سے ہوں لیکن آپ کو نہیں دیکھا پورا دن گُزر گیا دادو نے بھی آپ کا تعارف نہیں کروایا اور نہ کسی نے آپ کا ذکر کیا اور اب جب آپ آئی ہیں تو ہر کسی کے چہرے کے تاثرات پر ناگواریت چھاگئ ہے۔۔۔"فاحا خود کو مضبوط کرتی چہرے پر مسکراہٹ سجائے دیبا سے بولی تو اُس کی شکل دیکھنے لائق ہوگئ تھی باقی سب حیرت سے فاحا کا مُنہ تکنے لگے۔۔"ریلنگ کے پاس کھڑی میشا جو دور سے نیچے کا منظر دیکھ رہی تھی اپنی بہن کی گوہر افشانی پر اُس کا دل چاہا بھنگڑا ڈالے اگر وہ خود کو مضبوط نہ کرتی تو کوئی بعید نہیں تھا کہ میشا دیبا کا منہ توڑدیتی مگر انجانے میں فاحا نے دیبا کو میشا کے ارتکاب سے بچالیا تھا۔۔۔"فاحا کی ایسی بات پر ایک اسیر تھا جو حیران نہیں ہوا تھا کیونکہ فاحا سے وہ ہر قسم کی اُمید رکھ سکتا تھا وہ جانتا تھا فاحا اپنی باتوں سے لوگوں کو لاجواب کرنے کا ہُنر جانتی ہے۔۔

"تم ہوتی کون ہو مجھے باتیں سُنانے والی امی بابا کہاں ہیں اُن کو کہے اِس بدبخت کو ابھی دفع کریں۔۔۔دیبا غُصے سے پاگل ہوئی

"فاحا ڈارلنگ یہاں آجاؤ کیوں بیچاری آنٹی کا بی بی شوٹ کروانے کے چکروں میں ہو۔۔۔میشا نے مسکراہٹ دبائے فاحا کو آواز دی تو ہر کوئی اُپر نظریں اُٹھائے میشا کو دیکھنے لگا جو بس فاحا کو دیکھ رہی تھی۔

"تم خود ہوگی آنٹی۔۔۔دیبا نے اپنی توپوں کا رُخ اُس کی طرف کیا


"ہم وہ ہیں جن سے جلتا ہے زمانہ

"اور اِس زمانے میں ہوتا ہے جاہلانہ آپ کا شُمار


دیبا کی بات پر میشا خالص شاعرانہ انداز میں بولی تھی جبھی حویلی میں سجاد ملک"نوریز ملک اور فاروق ملک داخل ہوئے تھے۔۔"اُن کو دیکھ کر ساری عورتوں نے اپنا سرجُھکالیا تھا اور سائیڈ پر کھڑی ہوئیں تھیں۔۔۔

"یہ ایسے کیوں کھڑی ہوگئیں ہیں جیسے کنیزیں ہو۔۔۔فاحا کو اُن کا اچانک سے ایسے کھڑا ہونا سمجھ میں نہیں آیا تھا۔۔۔

"جو عورتیں اپنے حق کے لیے آواز نہیں اُٹھاتیں اُن کے سر ہمیشہ جُھکے ہوئے ہوتے ہیں۔۔۔اسیر اُس کی بات پر غُصہ ہونے کے بجائے تحمل سے بولا تھا

"زیادہ بولنے والی لڑکیوں کو یہ زمانہ غلط کہتا ہے۔۔۔فاحا کو اسیر سے ایسے جواب کی توقع نہیں تھی"لیکن کچھ سوچ کر آہستہ آواز میں اُس سے بولی

"کم بولنے والی لڑکیوں کو یہ زمانہ مغرور کہتا ہے"اور اگر زیادہ بول کر وہ اپنا دفع کرلیتی ہیں تو اِس میں کچھ غلط نہیں ہوتا"سامنے والے آپ پر اپنا زور تبھی بڑھاتا ہے جب آپ اپنے آپ کو ڈھیلا چھوڑ کر اُن کے دباؤ میں آجاتے ہیں۔۔۔"کہنے کو یہ اپنے شوہروں کی فرمانبردار زوجہ ہیں"مگر اِن کی حیثیت اپنے شوہروں کی نظروں میں حویلی میں موجود ملازمہ کی حیثیت سے زیادہ نہیں ہے۔۔۔اسیر نے سنجیدگی سے کہا تو فاحا نے دل میں رب کا شکر ادا کیا کہ وہ اُن جیسی نہیں ہے"اور وہ اُس بات پر ایمان لانے لگی کہ بیشک اللہ جو کرتا ہے اُس میں اُس کی کوئی نہ کوئی مصلحت چُھپی ہوتی ہے۔۔۔

I feel beautiful I feel strong and I feel confident in who I am.

"صنم بیگم اسمارہ بیگم فائقہ بیگم اِن سب کو دیکھ کر فاحا کے دماغ میں بے ساختہ یہ لائنز آئیں تھیں۔۔۔


"یہ بدذات یہاں کیا کررہی ہے؟سجاد ملک کا دماغ گُھوم گیا دیبا کو دیکھ کر

"میں لایا تھا دیبا کی طلاق ہوگئ ہے۔۔۔نوریز ملک نے بتایا تو وہ غُصے سے اُس کو دیکھنے لگے

"دیبا اپنے کمرے میں جاؤ جو تمہارا ہوتا تھا۔۔۔فاروق ملک شاید اُس کی آمد سے آگاہی رکھتے تھے تبھی سنجیدگی سے اُس کو دیکھ کر کہا تو وہ سجاد ملک اور اسیر پر ایک نظر ڈالتی اُپر کی طرف بڑھی تھی جہاں میشا سے بھی اُس کا سامنا ہوا

"تمہاری میں یہ مسکراہٹ نوچ لوں گی۔۔۔ریلنگ کے پاس کھڑی میشا کو دیکھ کر دیبا نے اُس کو وارن کیا تھا

"جواب میں تمہارے سر پر موجود میں سفید بال کاٹ دوں گی۔۔۔میشا نے خاصے پرسکون لہجے میں کہا تو دیبا آگ برساتی نظروں سے اُس کو گھورتی وہاں سے چلی گئ۔

"ہائے میشا تیری قسمت یار تیری تو لائیف انٹرسٹنگ ہونے والی ہے بولے تو فُل ایکشن تھیرل انٹرٹینمنٹ کے ساتھ"ویسے بھی کافی دنوں سے ہاتھوں کی کُھجلی بھی کم نہیں ہوئی۔۔۔۔جاتی ہوئی دیبا کو دیکھ کر میشا انگڑائی لیتی ہوئی خود سے بولی۔


"تم دونوں میرے کمرے میں آؤ۔۔سجاد ملک نے روعب سے نوریز ملک اور فاروق ملک سے کہا

"پہلے کھانا کھالیا جائے؟فاحا کو بھوک ستانے لگی تو بول پڑی جس پر سجاد ملک نے کھاجانے والی نظروں سے اُس کو دیکھا تھا جبکہ نوریز ملک مسکرائے تھے

"فاحا ڈارلنگ کچن کا رستہ دیکھا ہوا نہ تو اپنا اور میرا کھانا کمرے میں لاؤ تب تک میں سوہان کو کال کرتی ہوں۔۔۔میشا فاحا کو فلائنگ کس کرتی ہوئی بولی تو فاحا کو سمجھ میں نہیں آیا کہ میشا کیوں اُس پر اِتنا مہربان ہوگئ تھی جو ایسے چاشنی بھرے لہجے میں مُخاطب کررہی تھی۔

سُنو لڑکی یہاں سب سے پہلے مرد حضرات کھانا کھاتے ہیں۔۔سجاد ملک نے میشا کو مُخاطب کیے روعبدار آواز میں کہا

"گُڈ کیری آن اینڈ فاحا می ویٹنگ۔۔۔میشا سجاد ملک کی بات ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال کر آخر میں فاحا سے کہتی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئ تھی"پیچھے سجاد ملک بیج وتاب کھاتے رہ گئے۔

"دیکھا تم نے تمہاری بیٹی کتنی بداخلاق اور بدتمیز ہے۔۔۔سجاد ملک نے نوریز ملک کو دیکھ کر اپنے غُصے کا اِظہار کیا تو اُن کی بات سن کر فاحا خاموش سے اُپر کی طرف بڑھ گئ

"نیا ماحول ہے آہستہ آہستہ ایڈجسٹ ہونے میں وقت لگے گا اُن کو آپ غُصہ نہ ہو اور پلیز اُن سے ایسی کوئی بات مت کیجئے گا جس سے وہ خفا ہوجائے"میں نہیں چاہتا کہ یہاں اُن کو کسی چیز کی کمی کا احساس ہو۔نوریز ملک نے جواباً اُن کو دیکھ کر سنجیدگی سے کہا

"اگر یہ کہنے کی ہمت سالوں پہلے آپ نے کرلی ہوتی تو آج حالات کچھ مختلف ہوتے۔۔۔اسیر نے نوریز ملک کی بات پر سنجیدگی سے کہا تو اُن کو چپ لگ گئ تھی

"میں اپنے کمرے میں انتظار کررہا ہوں تم دونوں کا۔۔۔سجاد ملک ایک نظر اسیر پر ڈال کر اُن سے کہہ کر وہاں سے چلے گئے۔۔۔


"آپو

کمرے میں داخل ہوکر فاحا نے میشا کو مُخاطب کیا جو ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی خود کا جائزہ لینے میں بزی تھی۔

ہمممم۔۔۔میشا نے مصروف لہجے میں اُس کو جواب دیا

"آپ کو یوں بات کرنی نہیں چاہیے تھی اچھا نہیں لگتا۔۔۔فاحا نے نروٹھے پن سے اُس کو دیکھ کر کہا

God is really creative I mean just look at me every time۔

"میشا نے جیسے اُس کی بات سُنی ہی نہ تھی بس مرر میں مسکراکر خود کو دیکھ کر شانِ بے نیازی سے اُس سے بولی

"میں سیریس ہوں۔۔فاحا ناراض ہوئی

"کھانا نہیں لائی ساتھ میں نے کہا تھا تم سے؟"اور تمہیں بھی تو بھوک لگی تھی نہ؟میشا نے پھر سے اُس کی بات کو نظرانداز کیا

"آپو یار کیا ہوگیا ہے؟فاحا نے منہ بنایا اِس بار

"مجھے یہاں کے لوگ اسٹار پلس کے ڈرامے سے کم نہ لگے۔۔"یعنی کتنے سازشی لوگ ہیں۔۔میشا نے گہری سانس بھر کر کہا

"ہاں وہ تو ہے اور آپو زندگی میں موجود پریشانیاں ایک طرف لیکن ہم نے ایک پیور زندگی گُزاری ہے "جھوٹ اور سازشوں سے پاک۔۔۔فاحا بھی اُس کی بات سے متفق ہوئی

"اچھا یہ بتاؤ کہ آج کیا خالی پیٹ سونے کا اِرادہ ہے کیا؟میشا نے اُس کو دیکھ کر سوال کیا

"آپو رات کا کھانا تو میں نے بنانا تھا مگر میرا ہاتھ جل گیا اور میرا نہیں خیال کہ ابھی تک کسی نے پکا لیا ہوگا۔فاحا نے پرسوچ لہجے میں کہا

"اففف کیا مصیبت ہے یہاں تو کوئی پیزا بھی آرڈر نہیں کرسکتا۔۔۔میشا سخت بدمزہ ہوئی

"اچھا آپ پریشان نہ ہو"میں دیکھتی ہوں کچھ۔۔۔فاحا نے اُس کو تسلی کروائی جس سے میشا کی باچھیں کُھل گئیں

"اللہ تمہاری جیسی بہن ہر کسی کو دے آمین۔۔۔میشا اُس کے واری صدقے ہوئی

"لیکن اللہ آپ جیسی بہن کسی کو نہ دے۔۔جواب میں فاحا اُس کو زبان دیکھاتی کمرے سے نو دو گیارہ ہوئی تو میشا کا منہ حیرت سے کُھلا کا کُھلا رہ گیا۔۔

"بڑی ناشکری عورت ہو تم۔۔۔میشا نے تپ پر پیچھے سے ہانک لگائی تھی مگر فاحا کب کی جاچُکی تھی۔۔۔

"دیبا سے پوچھا وہ کیوں اور کہاں گئ تھی؟سجاد ملک نے سنجیدگی سے فاروق صاحب کو دیکھ کر پوچھا

"بھائی صاحب اسیر اُس سے عمر میں چھوٹا تھا وہ ساری زندگی اُس کے ساتھ گُزارنے پر امادہ نہیں تھی"وہ کسی اور کو پسند کرتی تھی"لیکن ہمارے بار بار اصرار کرنے پر اُس نے شادی پر حامی بھرلی جبکہ وہ پسند کس اور کو کرتی تھی۔۔۔فاروق صاحب نے کہا تو سجاد ملک کو اُن کی بات پر غُصہ آیا

"تمہاری بات میں صداقت کہی بھی نہیں ہے"فاروق میری بات غور سے سُن لو دیبا اب ہمارے خاندان پر بدنامی کا داغ ہے اِس لیے وہ یہاں نہیں رہ سکتی۔۔۔سجاد ملک نے دو ٹوک لہجے میں اپنا فیصلہ سُنایا

"معذرت کے ساتھ لیکن بھائی صاحب دیبا میری اکلوتی بیٹی اور میری وارث ہے میں اُس کو یہاں سے نکال کر کہاں لے جاؤں گا"لیکن اگر آپ کو اُس کی موجودگی کھٹک رہی ہے تو ٹھیک ہے آپ میرے حصے کی جائیداد میرے نام کردے میں اُس کو لیکر یہاں سے چلا جاؤں گا"یا وقت آگیا ہے کہ حویلی کا بٹوارہ کیا جائے۔۔۔فاروق صاحب نے جو کہا وہ سجاد ملک اور نوریز ملک کے لیے کسی دھچکے سے کم نہ تھا"کمرے میں داخل ہوتے اسیر نے بھی اپنے چچا کی بات کو سُن لیا تھا جبھی اندر داخل ہوگیا

"تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا؟"یہ کیا بول رہے ہو اِتنی بڑی بات تم نے کر کیسے لی؟سجاد ملک تقریباً اُن پر چیخے تھے

"اگر یہاں آپ کو میری بیٹی کی موجودگی پسند نہیں ہوگی تو ایک باپ ہونے کی خاطر مجھے کچھ تو کرنا ہوگا نہ۔۔۔فاروق صاحب نے سنجیدہ انداز میں کہا

"تم دیبا کے گُناہوں پر پردہ ڈال رہے ہو"جبکہ غیرت ہوتی اگر تم میں تو اُس کا قتل کردیتے۔۔۔سجاد ملک نے گویا اُن کو لُلکارا

"جو غیرت اپنے خونی رشتوں کے خلاف کردے اُن سے دور کردے"ایسی غیرت سے میں بے غیرت اچھا آپ جو بھی کہے مگر دیبا جیسی بھی ہے میری بیٹی ہے"میں اُس کو سِوائے معاف اور سمجھانے کے کچھ اور نہیں کرسکتا۔۔"اگر آپ کو دیبا یہاں پسند نہیں تو بٹوارہ ہونا چاہیے "پر اگر دیبا کے ہونے سے آپ کو کوئی مسئلہ نہیں تو میں بٹوارہ کبھی نہیں چاہوں گا کیونکہ یہ ملکوں کی بدنامی ہوگی۔۔۔۔فاروق صاحب نے گویا بات کو ختم کردیا اُنہوں نے سجاد ملک کی ایسی رگ کو دبایا تھا جس سے وہ پھڑپھڑا بھی نہیں پارہے تھے۔۔۔"اِس درمیان نوریز ملک کو ایک بار پھر اپنی کوتاہیاں یاد آنے لگیں تھیں اُن کو احساس ہورہا تھا کہ باپ کیا ہوتا ہے"باپ کے نام پر تو وہ ایک داغ تھے کیونکہ باپ کی کوئی بھی زمیداری اُنہوں نے پوری نہیں کی تھی اور ایک اُن کے بھائی تھے جن کو اپنے دل میں بیٹی کے لیے چاہے جتنی بھی رنجشیں تھیں مگر کسی اور کو اُس کے خلاف بولنے کا موقع قطعاً نہیں دیا تھا۔۔۔

"ٹھیک ہے میں خاموشی اختیار کرلیتا ہوں لیکن دیبا سے کہنا میرے سامنے نہ آئے۔۔۔سجاد ملک نے سنجیدگی سے بھرپور لہجے میں کہا

"آپ کو شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔۔۔فاروق صاحب نے کہا

"ہاں اب جاؤ تم دونوں اور نوریز تم بھی اپنی بیٹیوں کو اخلاقیات کے درس دو تو اچھا ہے اُن کو ضرورت ہے۔۔۔سجاد ملک نے آخر میں طنز لہجے میں نوریز ملک سے کہا جو کافی چُپ سے تھے۔

"اُنہوں نے ایسا بھی تو کچھ نہیں کیا"ظاہر ہے بھوک تو ہر انسان کو لگتی ہے تو وہ کھانے کی بات تو کرینگے دوسرا ضروری تو نہیں نہ ہم کھانا نہ کھائے تو تب تک کوئی اور بھی نہ کھائے۔۔۔نوریز ملک تلخی لہجے میں بولے اُن کا مزاج اچانک سے بِگڑ گیا تھا جس کو اسیر نے صاف محسوس کیا تھا۔

"ہم نے اُن کے کمرے میں کھانا بِھجوادیا تھا آپ پریشان نہ ہو۔۔۔اسیر نے پہلی بار لب کُشائی کی

"یہی کام رہ گیا تھا کرنے کے لیے جس کو کرنا اب تم شروع ہوگئے ہو۔۔۔سجاد ملک تو تپ اُٹھے

"ایسی کوئی بڑی بات بھی نہیں ہے۔۔۔اسیر نے سنجیدگی سے کہا

"تمہارا شکریہ اسیر۔۔نوریز ملک نے تشکرانہ نظروں سے اسیر کو دیکھا

"فاحا کا ہاتھ جل گیا تھا اگر وقت ملے تو اُن سے پوچھ لینا۔۔۔اسیر نے بتایا تو وہ پریشان ہوئے

"ہاتھ کیسے جل گیا اور کسی نے مجھے کیوں نہیں بتایا؟نوریز ملک اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑے ہوئے

"آپ یہاں نہیں تھے تو کیسے پتا لگتا؟اسیر نے اُلٹا اُن سے سوال کیا

"میں فاحا کو دیکھتا ہوں۔۔نوریز ملک اِتنا کہتے کمرے سے باہر چلے گئے ۔

"دیبا یہاں رہے گی تو اقدس کے قریب ہونے کی کوشش کرے گی اور وہ تو پہلے ہی ماں کو یاد کرتی ہے لپٹ جائے گی اُس سے اِس لیے میری مانو دوسری شادی کرلو تاکہ سارا قصہ ختم ہوجائے۔۔۔سجاد ملک نے سب کے جانے کے بعد رازدارنہ انداز میں اسیر سے کہا

"ایک تُجربہ کافی تھا دوسرا کرنے کی ضرورت نہیں اور ہماری بیٹی سمجھدار ہے وہ بس ہماری بیٹی ہے کسی دیبا کی نہیں۔۔اسیر نے بے لچک انداز میں جواباً کہا تو سجاد ملک نے نخوت سے اپنا سرجھٹکا

❤❤❤❤❤❤❤

"مجھے لگا تھا اب یہاں آپ نہیں آئے گیں۔۔۔زوریز ڈسچارج ہوکر گھر آگیا تھا اور جب اُس نے اگلے دن سوہان کو اپنے گھر میں دیکھا تو اُس کو خوشگوار حیرت ہوئی تھی۔

"میں گاؤں جانے والی ہوں آج تو سوچا آپ سے ملتی ہوئی جاؤں۔۔۔سوہان نے اُس کو دیکھ کر سنجیدگی سے بتایا

"اچھا مگر میرے ہائیر کیے ہوئے گارڈز کو واپس بِھجواکر آپ نے اچھا نہیں کیا۔۔۔زوریز کے لہجے میں ناراضگی کی جھلک تھی

"میں اپنا خیال خود رکھ سکتی ہوں زوریز۔۔سوہان نے اپنی بات پر زور دیا

"مگر مجھے تسلی نہیں ہوتی۔۔زوریز نے کہا

"آپ کو تسلی کیوں نہیں ہوتی؟سوہان نے بلآخر پوچھ لیا

"کیونکہ جو دل میں رہتے ہیں اُن کا خیال ہر وقت دماغ میں سوار رہتا ہے۔۔۔زوریز بے ساختہ بولا تھا اور اُس کے لہجے میں جانے ایسا کیا تھا جو سوہان جیسی کانفڈنٹ لڑکی پزل ہونے لگی تھی۔

"آپ کی شرٹ خراب ہوگئ ہے آریان کہاں ہے؟"کیا آپ نے اپنے لیے کوئی نرس نہیں رکھا ہوا؟سوہان نے بات کو بدل کر پوچھا تاکہ زوریز کا دھیان دوسری طرف ہوپائے

"آریان نے رکھنے نہیں دیا وہ کہتا ہے اُس سے زیادہ میرا کوئی خیال نہیں رکھ سکتا اگر رکھ پائے تو میرے سامنے کرنا۔۔۔۔زوریز نے اُس کی بات کے جواب میں کہا

"لیکن وہ ہے کہاں؟سوہان نے پوچھا

"آفس گیا ہے ارجنٹ کام پڑگیا تو چلاگیا۔۔۔زوریز نے بتایا

"آپ کو اکیلا چھوڑ کر؟سوہان کو حیرت ہوئی

"میں اکیلا تو نہیں آپ میرے ساتھ موجود ہیں۔۔۔زوریز مبہم سا مسکرایا

"اگر میں نہ آتی تو؟سوہان نے پوچھا

"تو آپ کا خیال ہوتا۔۔زوریز نے دل کی گہرائی سے کہا تھا

"میرا خیال آپ کا کام نہیں کرسکتا تھا۔۔۔سوہان نے تاسف سے اُس کو دیکھ کر کہا

"تو کیا آپ خود رکھ سکتیں ہیں؟زوریز نے پوچھا

"کیا؟سوہان نے بے ساختی کے عالم میں پوچھا

"میرا خیال۔۔زوریز نے بتایا

"جس حدتک رکھ پائی ضرور کیونکہ آپ یہاں میری وجہ سے ہیں۔۔سوہان نے سنجیدگی سے جواب دیا

"میں یہاں اپنی وجہ سے ہوں آپ کی وجہ سے نہیں۔۔۔زوریز نے جھٹ سے کہا

"سبب تو میں بنی نہ۔۔۔سوہان نے سرجھٹکا

"بے سبب تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔۔۔زوریز نے ہلکی مسکراہٹ سے کہا

"میں آپ کے کپڑے وارڈروب سے نکال دیتی ہوں پھر گھر میں جو کُک ہے اُس سے کہتی ہوں وہ آپ کی مدد کرے۔۔۔سوہان اُٹھ کر اُس کو بتانے لگی

"اُس کو زحمت دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے یہ کام آپ خود بھی کرسکتیں ہیں۔۔۔زوریز نے کہا تو سوہان نے اُس کو گھورا تھا۔

"کچھ غلط تو نہیں کہا بس شرٹ بدلوانے میں کیا حرج؟زوریز نے یہاں وہاں دیکھ کر کہا تو سوہان اُس کو دیکھ کر اپنا سر نفی میں ہلاتی وارڈروب کی طرف بڑھی تو ایک چیز اُس کے پاؤں کے پاس گِری جس پر سوہان نے چونک کر سرجُھکا کر دیکھا جہاں نیچے کوئی سفید رنگ کا رومال تھا اور اُس رومال کو دیکھ کر سوہان حیرت سے وہ رومال دیکھتی پلٹ کر زوریز کو دیکھا جس کی نظریں چھت پر تھیں۔۔۔

❤❤❤

زوریز یہ۔۔۔رومال کو اپنے ہاتھ میں پکڑتی سوہان زوریز کو آواز دینے لگی۔۔۔۔"تو زوریز نے سوالیہ نظروں سے سوہان کو دیکھا

"کیا ہوا؟زوریز کی نظر ابھی رومال پر نہیں پڑی تھی

"یہ رومال تو؟سوہان اِتنا کہتی چُپ ہوگئ تو زوریز نے اب غور سے اُس کے ہاتھوں کو دیکھا پھر بے ساختہ مسکرایا تھا

یہ رومال کیا؟زوریز نے انجان بن کر پوچھا

"یہ رومال تو۔۔۔سوہان کو سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا بولے"کیونکہ وہ جو سوچ رہی تھی یہ اُس کی غلطفہمی بھی ہوسکتی تھی۔

"یہ رومال تو آپ کا ہے۔۔۔زوریز نے اُس کی بات کو مکمل کیا تو سوہان چل کر بیڈ پر اُس کے پاس آئی

"یہ بہت پُرانہ رومال ہے زوریز اور ابھی تک آپ کے پاس کیا کررہا ہے؟سوہان بہت حیران ہوئی تھی۔

"میرے لیے کل کی بات ہے جب آپ کا یہ رومال میرے پاس آیا تھا"تو کیسے ممکن تو میں اُس کو کھودیتا۔۔زوریز نے کہا تو سوہان اُس کو دیکھتی رہ گئ جو کچھ نہ بول کر بھی بہت کچھ بول دیتا تھا۔۔

"مجھے سمجھ میں نہیں آتا آپ سے کیا کہوں؟سوہان عجیب کیفیت میں مبتلا ہوتی اُس سے بولی

"آپ کیوں پریشان ہوتیں ہیں؟"میں نے کچھ بھی آپ سے ایسا ویسا نہیں کہا؟زوریز نے گہری سانس بھر کر اُس کو دیکھ کر کہا

"تم کچھ نہ بولتے بھی بہت کچھ بول دیتے ہو جیسے کہ۔۔۔بات کرتے کرتے اچانک سوہان کو چُپ لگ گئ

"جیسے کہ کیا؟زوریز نے اُس کی بات کو جاننا چاہا

"میں اپنے گھر جارہی ہوں"آپ کو جو کچھ چاہیے ہو کسی سے بول دیجئے گا۔۔۔سوہان نے سنجیدگی سے کہا اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ہوتی اپنا حجاب سہی کرنے لگی تو زوریز کے چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ نے بسیرا کرلیا تھا سامنے والا منظر اُس کو مکمل لگا تھا لیکن ایک چیز کی کمی تھی اور وہ تھی سوہان کی محبت اور اُس کی توجہ تھی۔۔

"آپ مجھ سے دور بھاگتی ہیں ہمیشہ سے۔۔۔سوہان کو جاتا دیکھ کر زوریز نے شکوہ کیا

"کیونکہ آپ کی آنکھوں میں موجود پیغام اور طلب کو میں پورا نہیں کرسکتی۔۔۔سوہان نے صاف گوئی کا مُظاہرہ کیا اگر وہ کچھ بھی کُھلے الفاظوں میں بیان نہیں کررہا تھا تو سوہان نے بھی ضروری نہیں سمجھا"دونوں کے درمیان ایک عجیب سی جنگ چِھڑک اُٹھی تھی"جس کو ختم کوئی بھی کرنا نہیں چاہتا تھا

"ہم بیٹھ کر تفصیل سے اِس بارے میں بات کرسکتے ہیں۔۔۔زوریز نے کہا

"ابھی آپ کی ایسی کنڈیشن نہیں ہے کہ ہم کوئی بھی بات تفصیل سے کرپائے اللہ آپ کو صحت دے اِن شاءاللہ پھر ہم کوئی بات کرینگے۔۔۔سوہان نے سنجیدگی سے کہا

"آپ شہر سے دور جارہی ہیں"پتا نہیں پھر کب ہمارا سامنا ہو تو کیا اچھا نہیں آپ مسکراتی ہوئی جائے ناکہ یوں ناراض ہوکر۔۔۔زوریز نے گہری سانس بھر کر کہا تو سوہان نے پلٹ کر اُس کو دیکھا جس کی آنکھوں میں اُمیدوں کا ایک جہاں آباد تھا"سوہان کو سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ آخر وہ جس سفر کا مُسافر بنا تھا اُس پر زوریز نے اُس کو کیوں چُنا تھا کیوں اُس کے ہزار بار لاتعلقی برتنے پر بھی زوریز لمحے کے لیے بھی اُس سے غافل نہیں ہوتا تھا آخر کیوں وہ اُس کے بارے میں اِتنا سوچتا تھا کیوں اُس کی اِتنی پرواہ کرتا تھا آخر اُس کے پاس تھا کیا؟"کچھ بھی تو نہیں"وہ ایک بنجر زمین تھی جس کو زوریز آباد کرنے پر تول رہا تھا

"آپ چاہتے ہیں میں یہاں سے مسکراکر جاؤں؟سوہان نے پوچھا

"میں چاہتا ہوں آپ یہاں سے کبھی نہ جائے۔۔۔زوریز شاید آج اپنے حواسوں میں نہیں تھا جو ایسی باتیں کررہا تھا اُس سے

"اگر آپ چاہتے ہیں میں یہاں سے خوش ہوکر جاؤں؟"تو میری ایک بات ماننا پڑے گی آپ کو۔۔سوہان اُس کی بات اگنور کرکے بولی تو زوریز چونک سا گیا

"کونسی بات؟"ویسے مجھے آپ کی ہر بات منظور ہے۔۔۔زوریز نے لمحے بھر میں کہا

"پہلے سُن لے۔۔سوہان نے اُس کی بے قراری کو دیکھ کر کہا

"میں سُن رہا ہوں۔۔۔زوریز نے فورن سے کہا

"مجھے میرا رومال آپ کو واپس کرنا ہوگا۔۔۔سوہان نے کہا تو زوریز کی نظریں بیڈ پر پڑے رومال پر گئ جو سوہان رکھ کر گئ تھی۔

"کیوں؟زوریز نے بھنویں اُپر کیے پوچھا

"کیونکہ یہ میری چیز ہے اور چیزیں اُس کے حقدار کے پاس ہو تو اچھا ہوتا ہے۔۔۔سوہان نے کہا

"سالوں پہلے یہ رومال میری ملکیت میں آیا تھا تو اِس کا حقدار میں ہوا اور یہ میرے پاس ہی ہے اپنے اصل حقدار کے پاس۔۔آہستگی سے ہاتھ بڑھا کر زوریز نے اُس رومال کو اپنے ہاتھ میں پکڑا"ایک بزنس ٹائیکون اور بیریسٹر یہ دونوں لڑ بھی رہے تھے تو کس لیے محض ایک رومال کے لیے جس کی کوئی قیمت نہ تھی لیکن اُس کی قیمت کیا ہے یہ کوئی زوریز سے پوچھتا

"میں جارہی ہوں پھر۔۔سوہان بُرا مان کر بتاتی دروازے کی طرف بڑھ گئ

"میں انتظار کروں گا آپ کا اُمید ہے آپ جلدی واپس آئے گیں۔۔۔زوریز نے کہا تو سوہان نے اِس بار اُس کو کوئی بھی جواب نہیں دیا تھا بس اپنے قدم باہر پورچ کی طرف بڑھائے اور اپنی گاڑی میں بیٹھ کر وہ پُرانہ وقت یاد کرنے لگی جس کو سوچنے کا وقت اُس کے پاس نہیں ہوتا تھا لیکن آج دل بار بار اُس کو ایک بات پر اُکسارہا تھا کہ وہ اپنے گُزرے کل کے بارے میں سوچے۔

❤❤❤❤❤❤

"کچھ سال قبل۔۔۔

"سُنو۔۔۔سوہان اپنی کلاس سے باہر نکلی تو ایک گروپ اُس کے راستے میں آتا بولا

"یس؟سوہان نے سوالیہ نظروں سے اُن کو دیکھا

کون ہو تم؟"میں نے نوٹ کیا ہے زوریز بہت آگے پیچھے گھومتا ہے تمہارے۔۔اُن میں سے ایک لڑکی نے طنز بھری نظروں سے اُس کو دیکھ کر پوچھا تو سوہان ناسمجھی والی کیفیت میں اُس کو دیکھنے لگی"وہ جان نہیں پائی کہ کون زوریز؟"کیونکہ آجکل پڑھائی اور جاب تلاش کرنے کی پریشانی اُس کو اِس قدر تھی کہ کچھ اور اُس کو سوجھتا تک نہیں تھا۔۔

"میں آپ کی بات سمجھی نہیں؟سوہان نے ناسمجھی سے سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھ کر پوچھا

"میری بات غور سے سُنو تم زوریز میرا کزن ہے اور آئے لائیک ہم ویری مچ سو یو اسٹے اوے فرام زوریز۔۔۔وہ ایک قدم اُس کی طرف بڑھا کر وارن کرنے والے انداز میں بولی تو سوہان خاموشی سے اُس کو دیکھتی سائیڈ سے گُزرنے لگی جب ایک بار پھر اُس کا راستہ روکا گیا

"مس اٹیٹیوڈ مجھے میری بات کا جواب دو۔۔۔

"آپ نے جو بکواس کرنی تھی کرلی اور وہ میں نے بڑے تحمل مُظاہرے سے سُن بھی لی مگر اُس کے علاوہ میں کچھ نہیں کرسکتی اور بس آپ سے ایک بات کہوں گی دوبارہ میرے راستے میں آکر میرا راستہ روک کر ایسی بیہیودہ باتیں مت کرنا ورنہ پھر جواب ایسا دوں گی کہ کوئی سوال نہیں بچے گا۔۔۔سوہان نے اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ٹھیرے ہوئے لہجے میں کہا تو وہ جس کا نام عینہ تھا اُس کا پورا چہرہ غُصے سے سُرخ ہوگیا تھا۔

"تم

وہ اُس کو تھپڑ مارنے کے لیے ہاتھ اُٹھانے لگی تو کسی نے اُس کا ہاتھ درمیان میں روک لیا تھا جس پر عینہ کی نظر زوریز پر پڑی جو چہرے پر خطرناک حد تک سنجیدہ تاثرات سجائے اُس کو دیکھ رہا تھا جس پر عینہ کا گلا خشک ہوا تھا کیونکہ وہ تو زوریز کو دیکھ تک نہیں پائی تھی اور اب جب سوہان نے بھی زوریز پر غور کیا تو ساری بات وہ اچھے سے سمجھ گئ تھی۔

"کیا بدتمیزی ہے عینہ۔۔۔زوریز اُس کا ہاتھ کسی اچھوت کی طرح چھوڑتا سنجیدگی سے پوچھنے لگا

"بدتمیزی میں کرتی ہوں یا تم؟"مطلب تم نے مجھے سمجھا کیا ہوا ہے جو ہر بار اگنور لِسٹ میں ڈال دیتے ہو اور اِس حجابن کو اہمیت دیتے ہو جبکہ تمہاری توجہ کا مرکز میری ذات ہونی چاہیے۔۔۔عینہ پاگل ہونے کے در پہ تھی۔

"جاؤ یہاں سے تمہیں ریسٹ کی ضرورت ہے۔۔۔زوریز نے اُس کو گھور کر کہا تھا جبکہ اُس کے الفاظوں سے وہ سوہان کے سامنے خود کو شرمندہ محسوس کررہا تھا۔

"سہی تو بول رہی ہے عینو اِس کال گرل

"میں تمہارا منہ توڑدوں گا کمینے انسان اگر کوئی بکواس کی بھی تو۔۔ایک لڑکا کوئی بکواس کرنے لگا تھا جب زوریز اُس کی بات درمیان میں کاٹتا اُس کا گریبان پکڑے در پہ در اُس کے چہرے پر مُکے برسائے تھے اُن کو لڑتا دیکھ کر سوہان نے اپنا ہاتھ بے ساختہ منہ پر رکھا تھا وہ حیرت سے زوریز کو دیکھنے لگے جس پر ایک عجیب سا جنون چڑھا ہوا تھا۔

"زوریز چھوڑو اُس کو کیا تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے؟"عینہ نے اُس کو اپنے دوست سے دور کرنا چاہا لیکن اُس کی زوریز سُن کب رہا تھا وہ تو بس بکواس کرنے والے کا منہ سچ میں توڑنے والا تھا مگر آس پاس کھڑے آدمیوں نے مشکل سے زوریز کو دور کیا

"او مائے گوڈ تمہارے ہاتھ سے تو خون بہہ رہا ہے۔۔سوہان ایک نظر اُن پر ڈالے جانے لگی تھی"جب اُس کے کانوں میں عینہ کی پریشان کُن آواز اُبھری

"لِیو می الون۔۔زوریز اُس کا ہاتھ جھٹک کر جانے لگا تو جانے سوہان کے دماغ میں کیا آیا جو اپنے قدم اُس کے پیچھے لگائے


"ایکسکیوز می؟سوہان نے اُس کو تیز چلتا ہوا دیکھا تو پیچھے سے آواز دی جس پر زوریز کے قدموں کو بریک لگی تھی اور حیرت سے پلٹ کر پیچھے دیکھنے لگا جہاں سوہان کھڑی تھی۔"اُس کو اپنے پیچھے آتا دیکھ کر زوریز کو جانے کیوں خوشی ہوئی

"جی؟زوریز نے رُک کر سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھا

"آپ کے ہاتھ سے خون رس رہا ہے"میرے ساتھ آئے میں بینڈیج کردوں گی۔۔۔سوہان نے کہا تو زوریز کا دھیان اپنے ہاتھ پر گیا جہاں خون لگا ہوا تھا۔

"اُس کی کوئی ضرورت نہیں ہے آپ کا شکریہ۔۔۔زوریز نے نفی میں سرہلاکر کہا

"تکلیف ہونے کے باوجود اُس کو ظاہر نہ کرکے خود کو جینٹل مین ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے"آپ آئے میں کردیتی ہوں بینڈیج کیونکہ ایک بار پھر آپ میری وجہ سے لڑے ہیں۔۔۔سوہان نے اُس کو دیکھ کر سنجیدگی سے کہا تو زوریز کے چہرے پر پہلی بار مسکراہٹ آئی تھی اب وہ اُس کو کیا بتاتا کہ وہ اپنی پوری زندگی میں دو بار کسی سے لڑا ہے اور وہ بھی صرف اُس کے لیے کیونکہ وہ نہیں تھا جانتا کہ اگر بات اُس پر آتی تھی تو وہ کیوں اپنا ہوش کھو بیٹھتا تھا پھر اُس کو کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ کر کیا رہا ہے۔

"میں واقعی میں ٹھیک ہوں۔۔۔زوریز نے شانے اُچکاکر کہا تو سوہان اُس کو دیکھ کر گہری سانس بھرتی آہستہ قدم اُٹھاتی اُس کے قریب آنے لگی تو اُس کا اُٹھا ہوا ہر قدم زوریز کو اپنے سینے پر پڑتا ہوا محسوس ہوا"وہ جان نہیں پایا کہ اچانک اُس کو ہونے کیا لگا تھا وہ ایک گرلز الرجک بندہ تھا اُس کو اگر آریان اور اپنی پھوپھو کے بعد کسی سے پیار تھا تو وہ سگریٹس تھیں جس کو پی کر وہ لطف حاصل کرتا تھا لیکن وہ شوق سے پیتا تھا مگر آجکل وہ سوہان کا خیال اپنے دماغ سے جھٹکنے کے لیے پیتا تھا اپنی زندگی میں آتے اِس بدلاؤ سے جہاں وہ خوش تھا وہی پریشان بھی تھا۔۔

"ہاتھ دے اپنا۔۔۔اپنی بیگ سے ایک وائٹ کلر کا رومال نکال کر سوہان نے اُس سے کہا تو زوریز نے بغیر کسی سوال کے اپنا ہاتھ اُس کے ہاتھ میں دیا تو سوہان خاموشی سے بہتے خون کی جگہ پر رومال باندھنے لگی۔

"یہ میں نے ایسے باندھ لیا تھا آپ گھر جاکر سہی طریقے سے بینڈیج کروا دیجئے گا ورنہ آپ کی ماں پریشان ہوگی۔۔اُس کو دیکھ کر سوہان نے سنجیدگی سے کہا

"میری ماں نہیں ہے۔۔۔زوریز نے بتایا

"اوو سوری مجھے پتا نہیں تھا۔۔سوہان کو افسوس ہوا

"کوئی بات نہیں۔۔۔زوریز نے ہلکی مسکراہٹ سے کہا

"میں چلتی ہوں اور آپ سے ایک بات کہوں گی اپنے اور اپنی کزن کے درمیان موجود ساری رنجیشیں ختم کردے تاکہ اُن کو یا کسی اور کو میرے خلاف بولنے کا موقع نہ ملے مجھے یہ سب پسند نہیں ہے۔۔۔سوہان نے کہا تو زوریز سنجیدہ ہوا

"آپ پریشان نہیں ہو دوبارہ کوئی بھی آپ کے خلاف افف بھی نہیں بولے گا اگر بولا تو

"تو آپ اُس کا مُنہ توڑدینگے۔۔۔۔زوریز بات کرتا اچانک رُک گیا تو سوہان نے اُس کی بات کو جیسے مُکمل کیا تھا

"نہیں اب ایسا بھی نہیں ہے۔۔۔زوریز کان کی لو کُھجاتا خجل ہوا

"آپ اپنا ٹیمپریچر بہت جلدی لوز کردیتے ہیں"ایسا نہیں کرنا چاہیے اگر آپ اپنے غُصے پر قابو نہیں کرینگے تو غُصہ آپ کو اپنے قابوں میں کردیگا۔۔۔سوہان کا اندازہ سمجھانے والے تھا

"میں قابوں کرلیتا ہوں عموماً مجھے غُصہ آتا ہی نہیں بس اُس لڑکے نے اخلاق سے گِری ہوئی بات کی تھی۔۔زوریز نے وضاحت دیتے کہا

"ہمممم۔۔۔سوہان ہُنکارا بھرتی جانے لگی

"بات سُنیں؟اُس کو جاتا دیکھ کر زوریز نے آواز دی

"جی؟سوہان نے رُک کر اُس کو دیکھا

"آپ اپنے ہاتھوں میں دستانے کیوں پہنا کرتیں ہیں؟زوریز نے من میں آیا سوال پوچھا تو سوہان نے چونک کر اپنے ہاتھوں کو دیکھا اور پھر زوریز کو جو تجسس کا شکار تھا

"کیونکہ میں نہیں چاہتی کہ کسی نامحرم کا ہاتھ میرے ہاتھ سے ٹچ ہو"میں زیادہ پردہ نہیں کرتی جیسے ہم عورتوں کو چہرہ چُھپا کر باہر نکلنے کا حُکم ہے مگر جتنا مجھ سے ہو پارہا ہے میں اُتنا کرتیں ہوں اِس سوچ کے ساتھ کہ اللہ زیادہ کی توفیق دے گا۔۔۔سوہان نے بتایا تو اُس کے جواب پر زوریز لاجواب ہوا تھا۔

"اللہ آپ کو آپ کے نیک مقاصد میں کامیاب کرے گا آمین۔۔۔زوریز نے صدق دل کے ساتھ کہا تھا۔

"ثم آمین جزاک اللہ اور آپ میری بات پر غور ضرور کیجئے گا رشتے بہت انمول ہوتے ہیں"اُن کو کھونے سے ڈرنا چاہیے"کیونکہ اگر کوئی ایک بار چلا جاتا ہے تو واپس نہیں آتا۔۔۔سوہان نے ایک بار پھر کہا

"جن کو جانا ہوتا ہے نہ سوہان وہ بے مقصد اور بے وجہ بھی چلاجاتا ہے اِس لیے جانے والوں کو روکنا نہیں چاہیے بلکہ راستہ دیکھانا چاہیے تاکہ اُس کو جانے میں کوئی مسئلہ پیش نہ آئے یہ زندگی ہے سوہان یہاں کوئی ہمیشہ آپ کے ساتھ نہیں رہتا آپ نے نوٹ کیا ہوگا بچپن سے جوانی تک کا سفر میں آپ نے کسی ایک شخص کو ہمیشہ اپنے ہمقدم نہیں پایا ہوگا کیونکہ زندگی میں ایک جاتا ہے تو دوسرا پھر تیسرا آتا ہے پھر وہ اُن کی جگہ تو نہیں لیتے مگر اپنی جگہ بنالیتے ہیں"اور اگر بات کی جائے اپنے خونی رشتوں کی تو دیکھیے گا کچھ وقت کے بعد آپ کے ساتھ آپ کے بہن بھائی بھی نہیں ہوگے"یہ ایک کڑوی حقیقت ہے شادی کے بعد ہر انسان اپنے بیوی بچوں میں مصروف ہوجاتا ہے اُن کے سروں پر ذمیداریاں بڑھ جاتیں ہیں اِس لیے زندگی میں جو بھی جائے اُس کا افسوس نہیں کیا جائے کیونکہ جاتے وہی ہیں جن کی خصلت میں چھوڑ کر جانا لکھا ہوتا ہے۔۔۔"اِس لیے ایسی فکروں سے زوریز دُرانی آزاد ہے کیونکہ وہ جانتا ہے جو اپنا ہوتا ہے وہ جاتا نہیں اور جو جاتا ہے وہ اپنا نہیں ہوتا اور جو اپنا نہیں ہوتا اُن کو ایک دن جانا ہی ہوتا ہے۔۔۔۔زوریز نے کہا تو سوہان کے پاس کچھ اور کہنے کو نہیں بچا تھا الفاظ جیسے ختم ہوگئے تھے"وہ بس یک ٹک زوریز کا چہرہ تکنے لگی جس نے اپنے لفظوں سے اُس کو لاجواب کیا تھا اُس کے الفاظ گہرے تھے جہاں صداقت چُھپی ہوئی تھی اور یہ انسان کی زندگی کی سب سے کڑوی حقیقت تھی"اِتنا تو وہ بھی جانتی تھی کہ وقت ایک سا نہیں رہتا وقت بدلتا رہتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اِنسانوں کی پہچان ہوتی جاتی ہے۔۔۔

"میں چلتی ہوں اب۔۔۔سوہان سرجھٹک کر کہتی وہاں رُکی نہیں تھی۔"اور اُس کی پشت کو دیکھتا زوریز اپنا ہاتھ دیکھنے لگا جہاں سوہان کا رومال تھا۔۔

"پہلے پیار کا پہلا خُمار اور پہلی نشانی۔۔بے ساختگی کے عالم میں بُڑبُڑاتا زوریز اپنی بات پر خود ہی ہنس پڑا تھا"وہ خوش تھا اپنی زندگی میں آتے بدلاؤ کو دیکھ کر کیونکہ اُس کو ایک حسین وجہ مل گئ تھی۔

❤❤❤❤❤❤❤

"حال

"میشو آپو ناراض ہیں اُن کو پکوڑے دوں گی تو خوش ہوجائے گیں۔۔۔۔فاحا پلیٹ میں میشا کے لیے پکوڑے ڈالتی پرجوش لہجے میں خود سے کہنے لگی"اور اُس پر ایک طائرانہ نظر ڈالے وہ چائے کا کپ اُٹھانے لگی تاکہ میشا یہ نہ بولے کہ صرف پکوڑے چائے نہیں ہے ساتھ۔


"ابھی فاحا ہال سے گُزرتی اپنے اور میشا کے مُشترکہ کمرے میں جانے لگی تھی"جب اُس کی نظر اسیر ملک پر گئ جس کے سامنے فائلز پڑیں ہوئیں تھیں"اسیر کو دیکھ کر فاحا کے دماغ میں ایک خیال آیا جس کو عملی جامہ پہچانے کی نیت سے وہ اُس کی طرف آئی

"السلام علیکم ۔۔۔فاحا نے سب سے پہلے اُس کو دیکھ کر سلام کیا

"وعلیکم السلام ۔۔۔اسیر نے بغیر دیکھے اُس کو اُس کے سلام کا جواب دیا

"پکوڑے کھائینگے آپ؟فاحا نے پوچھا تو فائلز سے سراُٹھاتے اسیر نے اُس کو دیکھا

"یہ آپ کس کے لیے لیکر جانے والی تھی؟اسیر نے پوچھا"کیونکہ وہ جانتا تھا یہ خاص کرم نوازی تو صرف اُس کے لیے تو نہیں ہوسکتی تھی

"ابھی تو آپ سے پوچھ رہیں باورچی خانے میں اور بھی ہیں"تو آپ اطمینان سے کھاسکتے ہیں۔۔۔فاحا نے جلدی سے بتایا

"آپ کا تو ہاتھ نہیں تھا جل گیا؟اسیر نے سنجیدگی سے پوچھا

"وہ تو کل کی بات ہے اب راحت ہے۔۔"آپ اُس کو چھوڑیں اور یہ ٹیسٹ کرکے بتائے کہ کیسا ہے۔فاحا نے عام انداز میں بتاتے پکوڑوں کی پلیٹ اُس کی طرف بڑھانی چاہی

مجھے پکوڑے بہت پسند ہوتے ہیں میں چاہتی ہوں ڈھیر سارے پکوڑے ہو اور میں بس وہ کھاتی جاؤں بس کھاتی جاؤں۔۔۔فاحا جو اسیر کی طرف پکوڑوں کی پلیٹ بڑھانے لگی تھی اچانک جانے کہاں سے دیبا آتی اُس کے ہاتھ سے پکوڑوں کی پلیٹ لیتی اُس میں سے ایک اپنے منہ میں ڈالے بولی تو فاحا نے ترچھی نظروں سے اُس کو دیکھا لیکن اسیر نے ایک اچٹنی نظر اُس پہ ڈالنا ضروری نہیں سمجھا تھا۔ ۔۔

"اگر واقعی ایسا ہے تو فاحا دعا کرے گی کہ آپ کی شادی کسی پکوڑے والے کے ساتھ ہو پھر ڈھیر سارے نہیں بلکہ پورا پکوڑوں کا دُکان ہوگا آپ دل کھول کر پکوڑے کھائیے گا کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہوگا۔ ۔۔اُس کا اپنے ہاتھ سے یوں پکوڑے لینا فاحا کو ایک آنکھ نہیں بھایا تھا تبھی چہرے پر زبردستی مسکراہٹ سجائے بولی تو اُس کی بات پر دیبا کو اپنے گلے میں ڈالا ہوا پکوڑا اٹکتا ہوا محسوس ہوا تھا۔"جبکہ اپنا سر دوبارہ فائلز میں دیئے اسیر نے اپنا سر نفی میں ہلایا تھا۔

"تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے ایسا بولنے کی؟دیبا نے پلیٹ ٹیبل پر رکھ کر سخت نظروں سے اُس کو دیکھ کر پوچھا

"ارے اِس میں غُصہ ہونے والی کیا بات ہے؟"میں نے تو آپ کے بھلے کے لیے کہا اب اگر آپ کو اپنا بھلا پسند نہیں تو فاحا کیا کرسکتی ہے؟فاحا نے شانِ بے نیازی سے اپنا سرجھٹک کر کہا تو دیبا اُس کو نظرانداز کرتی اسیر کی طرف متوجہ ہوئی

"اِن فائلز کو چھوڑو اور میری بات سُنو تم۔۔۔دیبا نے سنجیدگی اسیر سے کہا

"ہم اپنے کمرے میں جارہے ہیں آپ کسی مُلازمہ سے کہہ کر ہمارے کمرے میں چائے بِِھجوا دیجئے گا۔۔۔اسیر دیبا کو سِرے سے نظرانداز کرتا فاحا سے بولا تو اُس نے بے ساختہ اپنا سر اثبات میں ہلایا تھا۔۔"لیکن اسیر کا فاحا کے سامنے اُس کو ایسے اگنور کرنا دیبا کو بے عزتی کا احساس کروا گیا تھا جس وجہ سے اُس نے اپنے ہاتھوں کی مٹھیوں کو زور سے بھینچ لیا تھا اور سوچنے لگی کہ دوبارہ اسیر کو کیسے حاصل کرے۔۔۔

"تمہیں کسی کو بھی کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے"میں لے جاؤں گی اُس کے لیے چائے۔۔۔دیبا کاٹ کھاتی نظروں سے فاحا کو دیکھ کر بولی

"آپ مُلازمہ ہیں؟جواب میں فاحا نے معصومیت سے پوچھا

"زیادہ میرے سامنے ہوشیار بننے کی کوشش نہ کرو تو اچھا ہے ورنہ گدی سے زبان کھینچ لوں گی۔۔۔دیبا کا دماغ گھوم گیا فاحا کے سوال پر

"اگر آپ مُلازمہ نہیں تو اپنے کام سے کام رکھے تو اچھا ہوگا۔۔۔فاحا اُس کو جتاتی نظروں سے دیکھ کر کہتی پلیٹ اُٹھائے اپنا کندھا زور سے اُس کے کندھے سے ٹکراتی برابر سے گُزر گئ اور دیبا سِوائے غُصہ کرنے کے کچھ اور نہ کرپائی تھی"مگر یہ بھی طے تھا کہ سکون سے وہ بھی نہیں تھی رہنے والی اور نہ کسی کو سکون سے رہنے اُس نے دینا تھا۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤

نوریز اگر آپ کو ہماری بات بُری نہ لگے تو ہم آپ سے کچھ کہے؟عروج بیگم نے نوریز ملک سے کہا جو اُن کے کمرے میں موجود تھے

"اماں سائیں آپ اجازت کیوں لے رہیں ہیں؟"آپ نے جو کہنا ہے آرام سے کہیں میں کون ہوتا ہوں بُرا ماننے والا؟نوریز ملک اُن کی بات سن کر مسکراکر بولے

"اسیر کا آپ کو پتا ہے ہمارا بچہ بہت سُلجھا ہوا نیک فرمانبردار ہے بس تھوڑا غُصہ کا تیز ہے ورنہ ہمارے بچے میں کوئی بھی بُرائی بھی نہیں ہے۔۔۔۔بات شروع کرنے سے پہلے عروج بیگم نے تہمید باندھنا شروع کی

"مجھے پتا ہے اماں سائیں اسیر سب سے منفرد ہے اور بہت اچھا ہے۔۔۔نوریز ملک نے اُن کی بات سے اتفاق کیا

"اچھا یہ بتاؤ ہماری سوہان کب آنے والی ہے یہاں؟عروج بیگم کو اچانک سوہان کا خیال آیا

"اِن شاءاللہ کل تک آجائے گی آنا تو اُس نے آج تھا پر کچھ ضروری کام کی وجہ سے وہ نہ آ پائی کل اِن شاءاللہ آجائے گی۔۔۔نوریز ملک نے بتایا

"اچھا وہ خیر سے آئے تو آپ اُس کے لیے فیصلہ لینا۔۔عروج بیگم نے کہا تو نوریز ملک کا ماتھا ٹھٹکا

"مطلب؟وہ ناسمجھی سے اپنی ماں کو دیکھنے لگے

"مطلب صاف ہے "سوہان ماشااللہ سے اٹھائیس برس کی ہوچُکی ہے اور لڑکی ذات کی عمر یہ بہت زیادہ ہے تمہیں اُس کی شادی کے بارے میں سوچنا چاہیے تاخیر بہت ہوگئ ہے پہلے سے اب تمہیں عقل سے کام لینا چاہیے۔۔۔عروج بیگم نے صاف لفظوں میں کہا تو نوریز ملک سوچوں میں ڈوب سے گئے

"کیا ہوا؟"کیا سوچنے لگ پڑے"اپنی بیٹیوں کی شادی نہیں کروانی کیا ماشااللہ سے جوان ہوگئ ہیں"بالغ ہیں وہ اور بیٹیوں کی شادی میں دیری نہیں کرنی چاہیے"پہلے سوہان کا سوچو پھر میشا کے بارے میں "فاحا پھر بھی ابھی چھوٹی ہے اور اُس میں بچپنا بھی بہت ہے۔۔عروج بیگم اُن کو خاموش دیکھ کر ٹٹولنے لگیں

"اماں سائیں کیا آپ کو لگتا ہے وہ مجھے اپنی زندگی کے فیصلے پر اِتنا بڑا حق دینگی؟نوریز ملک نے کہا تو وہ مسکرائیں

"دیکھو نوریز شادی تو آپ نے ہی کروانی ہے"تو پھر کیا فرق پڑتا ہے پسند تمہاری ہو یا اُن کی؟"پہلے سوہان سے پوچھو اگر اُس کی زندگی میں کوئی نہیں تو ہمارے اسیر کے ساتھ اُس کا جوڑ بہت اچھا لگے گا ماشااللہ سے ہم عمر بھی تو اور ہم مزاج بھی ہوگے۔۔۔عروج بیگم اپنے دل کی بات زبان پر لائیں تو نوریز ملک چونک اُٹھے اور حیرت سے عروج بیگم کا چہرہ تکنے لگے۔

"اماں سائیں سوہان اور اسیر؟نوریز ملک کو لگا شاید اُن کو سُننے میں کوئی غلطی ہوگئ ہے

"ہاں کیوں کیا کوئی مسئلہ ہے؟

"اماں بات مسئلے کی نہیں ہے پر اسیر شادی شدہ ہے اور چھ سالہ بیٹی کا باپ بھی ہے"میں کیسے سوہان کی شادی اُس سے کروادوں؟"وہ تو مجھ سے پہلے نالاں رہتیں ہیں ایسے اگر میں اُن سے شادی کی بات کروں گا وہ بھی سوہان سے اسیر کے مطلق تو وہ مجھ سے اور دور ہوجائے گی۔۔۔نوریز ملک نے اپنے اندر موجود خدشات کو بیان کیا

"اسیر شادی شدہ ہے تو کیا ہوا؟"اُس کی عمر زیادہ بڑی تو نہیں سوہان کو وہ خوش رکھے گا۔۔۔عروج بیگم نے کہا

"اسیر شادی کرے گا ہی نہیں اور اب جب وہ ایک بیٹی کا باپ ہے تو اُس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا آپ یہ خیال اپنے دماغ سے نکال دے ویسے بھی میرا نہیں خیال کہ بھائی صاحب راضی ہوگے۔۔نوریز ملک نے سنجیدگی سے دو ٹوک انداز اپنائے کہا

"کیوں نہیں مانے گا؟اور نوریز بیٹے سالوں پہلے تم نے ہماری بات نہیں مانی تھی"ہم والدہ تھیں آپ کی لیکن آپ نے ہماری بات پر سجاد ملک کی بات چیت ترجیح دی اور اپنا نقصان کروایا "لیکن سالوں پُرانی غلطی کو دوبارہ مت دوہراؤ اِس میں آپ کا بھی فائدہ ہوگا آپ کی ایک بیٹی آپ کے پاس رہے گی"اور ماں باپ کو تو اپنی پہلی اولاد سے انسیت کچھ زیادہ ہوتی ہے۔۔۔عروج بیگم نے ہر ممکن کوشش کی نوریز ملک کو اپنی بات پر امادہ کرپائے

"اماں سائیں ابھی تو سوہان آئی نہیں اور جب آئے گی تو میں بات کرنے کی کوشش کروں گا"آپ تھوڑا مجھے وقت دے۔۔۔نوریز ملک گہری سانس خارج کرکے بولے

"ٹھیک ہے تمہیں جتنا وقت چاہیے وہ تم لو پر زیادہ دیر مت کرنا"ہم چاہتے ہیں تمہاری بیٹیاں بھی اپنے گھروں کی ہوجائے اور ہمارا اسیر بھی اپنی زندگی میں خوش رہے آخر وہ بھی کب تک یو چھڑا چھانٹ بے مقصد زندگی گُزارے گا خود کے بارے میں نہیں سوچے گا بس دوسروں کی مدد کرے گا۔۔۔عروج بیگم نے حتمی لہجے میں کہا جس پر نوریز ملک انکار نہیں کرپائے کیونکہ سالوں پہلے کی گئ غلطی کو وہ دوبارہ رپیٹ کرنا نہیں چاہتے تھے۔

❤❤❤❤❤❤❤

"آپ نے جس لڑکی کو مارنے کا کہا تھا اسلم نے تو اُس کو نہیں مارا"اُلٹا خود ہسپتال کے بیڈ پر پڑا ہے"اب جب کبھی وہ ہوش میں آئے گا پولیس اُس سے بیان لے گی تو بتائے آپ ہمارا کیا ہوگا؟نذیر نے جھنجھلائی ہوئی آواز میں سجاد ملک سے کہا جو خود پریشان کھڑے تھے

"اُس کو مارا کس نے؟سجاد ملک کے دماغ میں بس ایک سوال گردش کررہا تھا

"سوہان نے اور کس نے۔۔۔۔نذیر نے نخوت سے سرجھٹک کر کہا

"سوہان لڑکی ہے وہ اگر گن کو سہی طریقے سے پکڑ پائے وہ ہی بڑی بات ہوگی۔۔۔سجاد ملک اُس کی بات پر تضحیک آمیز مسکراہٹ سے بولے

"آپ کو یقین نہ آئے مگر سُننے میں یہی آیا تھا کہ خود کو بچانے کے لیے سوہان نے کلر کو شوٹ کردیا اور بابا سائیں اسلم کی ٹانگ کافی زخمی ہوئی پڑی ہے وہ ایک ٹانگ سے معذور ہوچُکا ہے اب وہ کسی کام کا نہیں رہے گا"زندہ رہ کر بس ہمارے لیے مُشکلات کھڑی کرسکتا ہے۔۔۔نذیر ملک یہاں سے وہاں ٹہلتا اُن سے بولا

"شہر ہسپتال میں اگر اُس سے کوئی ملنے گیا بھی تو لوگوں کا شک ہم پر آئے گا"سجاد ملک نے گویا اُس کی عقل پر ماتم کیا

"اسیر بھائی سے کہیں وہ سب سنبھال دے گا۔۔۔نذیر کو اچانک خیال آیا

"اگر اُس کے کانوں میں یہ بات پُہنچی تو سب سے پہلے وہ تمہارا سینہ گولیوں سے چھلنی کردے گا"ہے بڑا بھائی تمہارا مگر اُس کے اصول ہی اپنے ہیں۔۔۔سجاد ملک نے سنحیدگی سے کہا

"تو ایسے اصولوں کا کیا کرنا جو بھائی کا دُشمن بنادے ویسے بھی یہ ساری پلائننگ تو آپ کی تھی"میں نے تو بس زوریز دُرانی پر جھوٹا کیس لگایا تھا۔۔۔نذیر نے اپنا پلرا صاف کیا

"اِس وقت تمہاری شکل مجھے بہت بُری لگ رہی ہے اِس لیے یہاں سے چلے جاؤ۔۔۔سجاد ملک نے اُس کو باہر کا راستہ دیکھایا تو"میشا جو سجاد ملک کے کمرے کے پاس کھڑی اُن کی ساری گفتگو سُن رہی تھی جلدی سے وہاں سے ہٹ گئ تھی۔

"آپ میرے پر غُصہ ہونے کے بجائے مسئلے کا حل تلاش کریں۔۔۔نذیر اِتنا کہتا وہاں سے چلاگیا"پیچھے سجاد ملک گہری سوچو میں ڈوب چُکے تھے۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

کیا ہوا ہے تمہیں کافی اُداس لگ رہے ہو؟زوریز اپنے کمرے میں آریان کو آتا دیکھا تو وہ اُس کو کچھ اُداس سا لگا تبھی پوچھ لیا

"ایک ہفتے سے زیادہ وقت ہوگیا ہے"میشا نہ تو میری کال اُٹھا رہی ہے اور نہ میرے کسی مسیج کا جواب"اور تمہیں پتا ہے کیا وہ اِس طرح کا اگنور مجھے کبھی بھی نہیں کرتی۔۔۔۔"زوریز کے ایک بار پوچھنے پر آریان نے اُس کو ساری بات بتائی

"اچھا تو یہ بات ہے۔۔۔زوریز جیسے سب کچھ سمجھ گیا

"ہاں جی یہ بات ہے اور یہاں سوہان آئی تھی نہ؟آریان بات کرتے کرتے اچانک چونک گیا

"آج نہیں تھی آئی وہ۔۔۔زوریز نے گہری سانس بھر کر بتایا

"کیوں؟آریان نے ناسمجھی سے اُس کو دیکھا

"کیونکہ وہ مصروف رہنے والی ہے اور یہاں ہم اکیلے رہتے ہیں تو وہ بار بار یہاں آ بھی نہیں سکتیں تھیں۔۔زوریز نے بتایا

"پھوپھو کا پاکستان آنے کا پلان بن گیا تھا مگر وہ نہیں آئی اب تمہارا بتایا ہے میں نے دیکھنا کیسی ڈوری ڈوری ہوئیں آئے گیں۔۔۔۔آریان نے بالوں میں ہاتھ پھیر کر دلکشی سے بتایا

"کتنی بُری بات ہے تم نے خُوامخواہ پھوپھو کو پریشان کردیا جبکہ میں ٹھیک ہوں۔۔۔زوریز نے تاسف سے اُس کو دیکھا

"اچھا اگر تم ٹھیک ہو تو بیڈ سے اُٹھ کر دیکھانا زرا۔۔۔آریان نے اُس کو گھور کر کہا

"جو بھی لیکن تمہیں پھوپھو کو پریشان کرنا نہیں چاہیے تھا۔۔۔زوریز نے سنجیدگی سے کہا

"اُنہوں نے پاکستان آنا تو تھا نہ اب اگر میں نے کال پر تمہاری تشویشناک حالت اور نازک صورتحال کے بارے میں بتایا تو کونسا بڑی بات ہے اِس میں"چل کرو یار اور مجھے بھی کرنے دو۔۔۔آریان نے کہا تو اُس کے لہجے میں موجود شرارت پر زوریز نے اپنا سرجھٹکا

"اچھا خیر چھوڑو مجھے تمہیں ایک بات بتانی تھی"جس وجہ سے میں پریشان تھا۔۔آریان اُس کے پاس آکر بیٹھ کر بولا

"تم وہ بات مجھے آلریڈی بتاچُکے ہو۔۔۔زوریز اُس کو دیکھ کر بولا

"آدھی بات تھی وہ۔۔۔آریان نے بتایا

"پوری بات بتاؤ پھر؟زوریز اُس کی طرف متوجہ ہوا

"میں آج اُن کے گھر گیا تھا۔۔۔آریان نے بتایا

"اچھا پھر؟

اُن کے گھر کے باہر تالا لگا ہوا تھا تم سے یہ پوچھنا تھا اُن کا گھر وہی تھا نہ جہاں ہم پہلے ایک مرتبہ جاچُکے تھے"یا کوئی اور ہے۔۔آریان نے بتانے کے بعد پوچھا

"ہاں وہ تھا اُن کا گھر مگر اب نہیں ہے۔۔۔زوریز نے گہری سانس اپنے اندر کھینچ کر بتایا

"اب نہیں ہے سے مطلب؟کیا وہ کہی اور شفٹ ہوئے ہیں؟آریان ناسمجھی سے پوچھنے لگا

"وہ اپنے والد کے ساتھ رہا کرینگی اب اِس لیے چلی گئیں ہیں۔۔۔زوریز نے بتایا

"کل تک تو اُن کا کوئی بھی نہیں تھا پھر اچانک یہ باپ کہاں سے نمودار ہوا؟آریان حق دق رہ گیا زوریز کی بات سن کر

"باپ تھا مگر وہ ساتھ نہیں رہتے تھے لیکن اب وہ اُن کے ساتھ گئ ہیں۔۔۔زوریز نے سنجیدگی سے بتایا

"لیکن کہاں؟"اور کیوں؟کب تک واپس آنے کا پروگرام ہے؟آریان نے ایک ساتھ کئ سوال پوچھ ڈالے

"وہ اب واپس نہیں آئے گیں۔۔زوریز جیسے آہستہ آہستہ اُس کی جان نکالنے کے در پر تھا

"یہ اِتنا سب کچھ ہوگیا اور پھر بھی تم اِتنے کول کیوں ہو؟"تمہیں اُن کو روکنا چاہیے تھا اگر نہیں تو کم از کم مجھے بتادیتے اگر میرے علم میں بات ہوتی تو میں ایٹلیسٹ کچھ کردیتا۔۔۔آریان اپنی جگہ سے اُٹھتا بے چینی سے یہاں سے وہاں ٹِہلنے لگ پڑا

"میں پرسکون ہوں اور تمہیں بھی پرسکون رہنے کا مشورہ دوں گا۔۔۔زوریز اُس کی بے چینی کو سمجھتا بولا

"میں نہیں رہ سکتا اور تمہیں بھی نہیں رہنا چاہیے کال ملاؤ سوہان کو اور میری اُس سے بات کرواؤ۔۔۔آریان نے سنجیدگی سے کہا اور ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ آریان دُرانی نے زوریز دُرانی کے ساتھ سنجیدگی سے بات کی تھی۔

"رلیکس رہو آریان وہ کہی بھاگ نہیں رہی یہی ہیں پاکستان میں۔۔۔زوریز اِس بار سخت ہوا

"اسلام آباد میں تو نہیں ہیں نہ۔۔۔زوریز کی بات پر وہ تپ اُٹھا

"یہاں نہیں ہیں مگر پاس ہیں اِس لیے ٹینش نہ لو۔۔۔زوریز نے کہا

"اگر سوہان کا باپ اُس کی شادی کروادے تو تم کیا کروگے؟"یونہی رلیکس رہو گے؟آریان طنز ہوا

"جو ہوا نہیں اُس پر بات کرنے کا مقصد؟زوریز نے پوچھا تو آریان ایک نظر اُس پر ڈالتا کمرے سے باہر چلاگیا"پیچھے زوریز نے اُس کی پشت کو دیکھ کر اپنا سر نفی میں ہلایا تھا۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

"تمہارا ہمیں بہت انتظار تھا۔۔۔عروج بیگم مسکراکر سوہان کو دیکھتی ہوئی بولی

"مجھے بھی آپ سے مل کر اچھا لگا لیکن میں ابھی تھوڑا آرام کرنا چاہوں گی"اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو۔۔سوہان نے جواباً مسکراکر کہا تھا"حویلی میں ایک ساتھ اِتنے لوگوں کو دیکھ کر اُس کے سر میں درد پڑگیا تھا۔

"ہاں جاؤ ابھی تم آرام کرو پھر اُس کے بعد ہم آپ سے ضروری بات کرینگے۔۔۔عروج بیگم نے کہا تو اُن کی بات پر وہاں کھڑیں میشا اور فاحا نے ایک دوسرے کو دیکھا جبکہ نوریز ملک اپنی جگہ پہلو بدلتے رہ گئے تھے۔۔

"کونسی بات؟سوہان نے پوچھا

"ابھی نہیں شام میں بات کرینگے قہوہ کے ساتھ۔۔۔عروج بیگم مسکراکر بولیں تھیں

"نہیں مجھے ابھی جاننا ہے"اگر آپ نے کوئی بات کرنی ہے تو ابھی کردے کیونکہ میں شام کو پھر سے شہر جاؤں گا میرا کچھ کام ہے وہاں۔۔۔سوہان واپس بیٹھتی سنجیدگی سے اُن کو دیکھ کر بولی

"کوئی زیادہ ضروری بات نہیں ہے"تم پریشان نہیں ہو۔۔۔نوریز ملک نے کہا

"میں پریشان نہیں ہوں بس جاننا ہے۔۔۔سوہان نے سنجیدگی سے ایک نظر اُن کو دیکھ کر عروج بیگم سے کہا

"ہاں دادو شام تک کا انتظار کیوں؟"ابھی بتادو۔۔۔میشا نے بھی کہا کیونکہ وہ تجسس کا شکار ہوگئ تھی۔

"ہم نے ایک فیصلہ کیا ہے۔۔عروج بیگم نے بتایا

"کیسا فیصلہ؟اِس بار فاحا بے چین ہوئی

"اسیر سے تو تم مل چُکی ہو۔۔۔۔"عروج بیگم نے کہا

"جی مل چُکی ہوں۔۔۔سوہان نے اعتراف کیا

"کیسا لگتا ہے وہ تمہیں؟عروج بیگم نے مسکراکر پوچھا

"جیسا ہے سب کو ویسا لگتا ہے کھڑوس چنگیز خان۔۔۔فاحا منہ ہی منہ میں بڑبڑائی تھی۔

"اچھا ہے۔۔سوہان نے مختصر بتایا

"ہم نے تمہاری اور اُس کی شادی کروانے کا سوچا ہے"ہمارا اسیر بہت فرمانبردار اور زمیدار بچہ ہے اگر تم نے اُس سے شادی کرنے پر"ہاں کردی تو میری خواہش پوری ہوجائے گی۔۔۔عروج بیگم دل کی بات لبوں پر لائیں تو سوہان نے سنجیدگی سے اُن کو دیکھا تھا باقی وہ دونوں حیرت زدہ رہ گئ تھیں"فاحا کو بھی عروج بیگم کی بات پر یقین نہیں آیا تھا اور جانے کیوں اُن کی بات فاحا کو بہت ناگوار لگی تھی۔

"آپ نے اِس بارے میں سوچا اچھی بات ہے"لیکن میں اسیر سے یا آپ لوگوں کے بتائے ہوئے کسی بھی شخص سے شادی نہیں کرسکتی۔۔۔سوہان دو ٹوک لہجے میں کہتی اُٹھ کھڑی ہوئی

"لیکن کیوں؟اِس بار نوریز ملک نے پوچھا

"کیونکہ میں شادی نہیں کرسکتی۔۔۔"یہ بتادیا اور ہم یہاں اِس لیے نہیں آئے کہ آپ فورسفلی اپنی باتیں ہم سے منواسکے۔۔۔سوہان کا لہجہ آخر میں طنز سے بھرپور ہوگیا تھا۔

"ہم تمہارے ساتھ ہیں۔۔۔میشا سوہان کو دیکھتی بولی

"اسیر میں کیا کوئی خامی ہے؟عروج بیگم نے پوچھا

"یہاں بات خامی یا برتری کی نہیں ہورہی بس صاف بات ہے آپ نے مجھ سے میری رائے نہیں مانگی بس اپنا فیصلہ مجھ پر مسلط کرنا چاہا ہے جو میں ہرگز نہیں اپنا سکتی۔۔۔سوہان نے سنجیدگی سے کہا

"مجھے تم کوئی ٹھوس وجہ بتاؤ جس وجہ سے تم شادی نہیں کرنا چاہتی یا یہ بتادو کیا میری وجہ سے تم انکار کررہی ہو؟نوریز ملک نے جاننا چاہا

"اگر وجہ آپ ہوتے تو میں بتادیتی لیکن ایسا نہیں ہے۔۔سوہان بغیر اُن کو دیکھ کر بولی

"پھر جو وجہ ہے وہ بتاؤ میں جاننا چاہتا ہوں۔۔۔۔نوریز ملک نے اصرار کیا

"میں کسی اور کے نکاح میں ہوں۔۔۔سوہان میشا اور فاحا سے نظریں چُراکر بتانے لگی تو نوریز ملک کو لگا جیسے کسی نے اُن کے سر پر دھماکہ کیا تھا وہ حیرت اور بے یقین جیسی کیفیت میں مبتلا بس سوہان کو دیکھنے لگے۔۔"عروج بیگم بھی اپنا ہاتھ سینے پر رکھتی نیچے بیٹھتی چلی گئ۔۔"سوہان نے جو بات کی تھی وہ ایک غیرمتوقع بات تھی جس کو یقین کرنا اُن کے لیے ازحد مشکل تھا

"سوہان۔۔۔میشا نے بے یقین نظروں سے سوہان کو دیکھا

"بعد میں بات ہوگی۔۔۔سوہان نے جیسے اُس کو اگنور کیا

تم

"کیا ہوگیا ہے آپو اُنہوں نے جان چُھڑوانے کے لیے جھوٹ بولا ہے اور آپ سیریس ہوگئ ہیں۔۔میشا اپنا ہوش کھوتی اُس سے کچھ کہنے والی تھی جب فاحا نے اُس کو ٹوک کر کہا تو بے ساختہ میشا نے اپنی عقل پر ماتم کیا

"یہ تم اِتنی بڑی بات مجھے اب بتارہی ہو؟نوریز ملک نے کہا تو سوہان نے استہزائیہ مسکراہٹ کے ساتھ اُن کو دیکھا

"آپ کونسا ہمارے ساتھ تھے ہمیشہ اِس لیے برائے مہربانی آپ ہم سے کسی چیز کا شکوہ نہ کیا کریں۔۔۔سوہان نے تمسخرانہ لہجے میں کہا تو نوریز ملک ہمیشہ کی طرح خاموش ہوگئے تھے

"سوہان اپنے کمرے میں جاؤ۔۔۔عروج بیگم نے اُس کو جانے کا کہا تو وہ بنا کچھ اور کہے وہاں سے چلی گئ تو اُس کی دیکھا دیکھی میں میشا اور فاحا بھی سوہان کے پیچھے چلے گئے۔

"ہمیں یقین نہیں آرہا کہ سوہان نے نکاح کرلیا ہوگا۔۔۔عروج بیگم افسوس سے بولیں

"ہوسکتا ہے اسلحان نے کروالیا ہو"ہم تو کبھی اُن سے حال احوال پوچھنے گئے نہیں تو کیسے پتا لگتا؟نوریز ملک افسردگی سے بولے

"دیکھا ہماری بات نا ماننے کا نتیجہ تمہیں تمہاری بیٹی کے نکاح کا پتا لگا بھی تو کیسے۔۔۔عروج بیگم نے تاسف سے اُن کو دیکھ کر کہا

"اماں سائیں ابھی یہ ضروری نہیں ہے اگر ضروری کچھ ہے تو وہ یہ ہے کہ سوہان نے نکاح کیا ہے تو کیا کس سے ہے؟"اور جب اسیر نے اُس کے مطلق ساری انفارمیشن جمع کرلی تھی تو یہ بات اُس کو کیسے پتا نہ لگی؟نوریز ملک کا انداز کافی پرسوچ تھا

"کہیں میشا جھوٹ تو نہیں بول رہی؟عروج بیگم نے اندازہ لگایا

"وہ جھوٹ کیوں بولے گی؟ اور کونسا ہم زور زبردستی کا حق رکھتے ہیں۔۔نوریز ملک نے کہا تو عروج بیگم کو اُن کی بات ٹھیک لگی

"یار سوہان قسمے آج تو تم نے میدان مار لیا "دیکھا نہیں کیسے اُن کے چہرے کی ہوائیاں اُرگئیں تھیں؟"مجھے تو بڑی ہنس آرہی تھیں۔۔۔میشا سوہان کے کمرے میں آتی پرجوش لہجے میں اُس سے بولی"فاحا جبکہ عروج بیگم کی باتوں کو سوچ رہی تھی۔

"ہممم۔۔جواب میں سوہان نے محض ہُنکارا بھرا

"ویسے وہ اسیر بشیر بہت ہینڈسم ہے اور کروڑوں کا مالک بھی تو تم نے اُس سے شادی پر انکار کیوں کیا؟میشا نے پرجوش ہوکر پوچھا تو فاحا بھی اپنی آنکھوں میں سوال لائے سوہان کو دیکھنے لگی جو بیحد سنجیدہ سی تھی۔

"وجہ میں نے باہر بتائی ہوئی ہے۔۔۔سوہان نے مختصر بتایا

"ہاں وہ تو اُن کو نہ ہمیں بتاؤ نہ سچ کہ ایسا کیوں کیا؟میشا کھسک کر اُس کے قریب آئی

"کیونکہ میرا نکاح ہوچکا ہے۔۔سوہان نے بتایا تو فاحا آنکھیں پھاڑے سوہان کو تکنے لگی۔

"اچھا سہ

"بے خیالی میں بات کرتے کرتے اچانک میشا نے چونک کر سوہان کو دیکھا جو اپنے بیگ سے کپڑے نکال رہی تھی۔"اور اُس کے چہرے پر ایسا کوئی بھی تاثر نہیں تھا جس سے اُس کو لگتا کہ سوہان شاید جھوٹ یا مذاق کررہی ہو"لیکن جو اُس نے بتایا وہ ماننا بھی اُن کے لیے ناقابلِ یقین تھا۔۔

❤❤❤❤❤❤❤

مذاق مت کرو۔۔۔میشا ہوش میں آتی آنکھیں دیکھا کر اُس سے بولی

"میں تمہیں مذاق کے موڈ میں لگ رہی ہوں؟سوہان نے آئبرو اُپر کیے اُس سے اُلٹا سوال کیا

"آپو کیا سچ میں؟اِس بار فاحا بھی بے یقین نظروں سے اُس کو دیکھنے لگی تو سوہان نے لب بھینچ کر اُن دونوں کو دیکھا

"میں نے تم دونوں کو پہلے بتانا چاہا تھا لیکن

لیکن کیا سوہان؟"لیکن کیا؟

"تم نے اِتنی بڑی بات ہم سے چُھپائی ہم سے؟"ہم تمہاری بہنیں تھی اور تم ہماری بڑی بہن تھی مانا کہ ہماری پابند نہیں تھی لیکن تمہیں ہمیں بتانا چاہیے تھا تم اِتنی بڑی بات آخر ہم سے چُھپا کیسے سکتی ہو؟میشا حق دق اُس کو دیکھتی اچانک اُس کی بات درمیان میں کاٹ کر بولی

"ہاں آپو فاحا کو بھی آپ سے ایسی کسی بات کی اُمید نہیں تھیں آپ نے ہمیں بہت ڈِس پوائنٹ کیا ہے۔ ۔۔فاحا نے بھی ناراضگی کا اِظہار کیا تو سوہان اُن دونوں کو دیکھتی رہ گئ جو بجائے اُس کے وجہ پوچھنے کہ ناراض ہوگئیں تھیں

"تم دونوں میں سے کیا کوئی ایک مرتبہ میری بات سُننا پسند کرے گا؟ سوہان نے سنجیدگی سے کہا

"کیا بتاؤ گی یہی نا کہ تم نے کس سے نکاح کیا؟"اب تمہاری وضاحت کا کیا فائدہ؟"تم تو بیریسٹر ہو دلیلیں دے کر ہمیں راضی کردوں گی۔۔۔میشا طنز ہوئی

"تم کتنا روڈ ہونے لگی ہو؟سوہان حیران ہوئی

"اگر تمہیں اچانک سے پتا لگے کہ میں نے یا فاحا نے چُھپ کر نکاح کیا ہے تو تمہارا ری ایکشن کیا ہوگا؟"کیا تم یہ جان کر ہمیں گلے لگا دو گی؟میشا نے پوچھا

"گلے نا بھی لگاؤں تو بغیر پوری بات جانے تم دونوں میں سے کسی کو بھی قصوروار نہیں سمجھوں گی۔ ۔سوہان کا لہجہ ہر احساس سے پاک تھا

"تو بتاؤ کتنا وقت ہوا ہے تمہارے نکاح کو؟"اور یہ بھی بتادو کہ بچے وغیرہ تو نہیں ایسا نہ ہو یہ بھی ہمیں اچانک سے پتا لگے۔۔۔میشا بازو سینے پر باندھتی استفسار ہوئی تو اُس کی بات سُن کر سوہان کو سہی معنوں میں افسوس ہوا تھا


"کچھ وقت کے بعد آپ کے ساتھ آپ کے بہن بھائی بھی نہیں ہوگے"یہ ایک کڑوی حقیقت ہے "


"اِس وقت اُس کو زوریز کے الفاظ شدت سے یاد آئے تھے" اور وہ خود کو بہت اکیلا محسوس کرنے لگی تھی" اپنی زندگی کا محور تو اُس نے بس فاحا اور میشا کو بنادیا تھا جنہوں نے لمحے بھر میں اُس کو خود سے بیگانہ کردیا تھا" ایک اُس کی بات سُننے کو تیار نہ تھی تو دوسری اُس کو دیکھنے تک کی روادار نہیں تھی اور اُس کا رب گواہ تھا کہ فاحا کے لیے جانے کتنا کُچھ اُس نے لُٹایا تھا" اُس کی ایک مسکراہٹ کی خاطر وہ اپنا آپ ماردیا کرتی تھی اور آج وہ اُس کو دیکھ تک نہیں رہی تھی" سوہان یہی سب سوچنے میں تھی جب اچانک اُس کا دھیان قہقہوں نے اپنی جانب کھینچا تو وہ حیرت سے فاحا اور میشا کو دیکھنے لگی جو ہاتھ پر ہاتھ مارتی ہنسنے میں مصروف تھی۔ ۔

"سوہان لُک ایٹ یوئر فیس یار کیا ہوائیاں اُڑی ہوئیں ہیں۔ ۔۔میشا قہقہقہ کے درمیان بولی تو سوہان نے خشمگین نظروں سے اُن کو دیکھا جو اُس کی جان نکالنے کے در پر تھیں۔

"تم دونوں میں سے کوئی بھی مجھ سے بات نہ کرے۔"اور نکلو دونوں میرے کمرے سے۔سوہان سنجیدگی سے اُن کو دیکھ کر بولی اُس کو اُن دونوں کا ایسا مذاق بلکل بھی پسند نہیں آیا تھا۔

"آپو کیا ہوگیا ہے؟ "آپ تو ہماری جان ہے ہم بھلا کیا کبھی آپ کی کسی بات پر انحراف کرسکتے ہیں" ہم آپ کو آپ سے زیادہ جانتے ہیں" ہمیں پتا ہے کہ آپ کوئی کام بلاوجہ نہیں کرتیں اور یقیناً نکاح جیسے پاکیزہ بندھن کے پیچھے بھی کوئی بڑی بات ہوگی۔ ۔فاحا اُس کے گلے لگتی بولی

"یہ کیا اسیر بشیر کی طرح"ہم ہم لگایا ہوا ہے پرے ہٹو۔ ۔میشا اُس کو آنکھیں دیکھا کر کہتی سائیڈ پر کرنے لگی۔ ۔

"میں نے آپ کو اور خود کو ملاکر"ہم بنایا تھا۔ ۔فاحا جھٹ سے بولی

"میرے قریب آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ۔۔سوہان میشا کو خود سے دور کیا

"اب بس بھی کردو کونسا پہلی بار ہم نے مذاق کیا ہے۔ ۔۔میشا نے اُس کو اِس بار گھورا

"ہر بات پر مذاق نہیں ہوتا میری زندگی میں تم دونوں کے علاوہ کوئی بھی نہیں اور تم دونوں میری کیفیت کا اندازہ نہیں لگاسکتیں کہ تمہاری آنکھوں میں بے یقینی اور فاحا کا یوں لاپرواہ کھڑے رہنا مجھے کس طرح جِھنجھوڑ رہا تھا۔ ۔۔سوہان نے کہا تو فاحا نے اپنے کان پکڑ کر کیوٹ شکل بنائی

"سوہان چِل کرو ہمیں تم پر یقین ہے تھوڑا افسوس ہے کہ تم نے بتایا نہیں اِس وجہ سے شاک تھے لیکن ٹرسٹ می میں یا فاحا ناراض نہیں اور نہ ہمارے دلوں میں ایسا کچھ ہے۔ ۔۔"تم ہماری بہن ہو اینڈ وی آر لو وِد یو۔ ۔۔میشا نے بٹرنگ کرنا شروع کردی تھی جس میں فلحال سوہان نہیں آنے والی تھی تبھی دونوں کے ہاتھ پکڑ کر وہ اُن کو دروازے کے باہر کھڑا کرنے لگی

"مجھے آرام کرنا ہے تم دونوں جاؤ۔۔۔سوہان نے ہنوز سنجیدہ انداز اپنایا ہوا تھا

"ابھی بھی ناراض ہو مٹی ڈالو نہ۔۔۔میشا نے پھر کہا

"ہممم۔۔سوہان اِتنا کہتی ٹھاہ سے دروازہ اُن کے منہ پر بند کیا تھا اِس بار وہ دونوں ایک دوسرے کا چہرہ تکتی رہ گئیں

"جیجا جی کا نام تو بتادیتیں۔۔۔فاحا کو ایک بات کا گویا افسوس ہوا تھا

"ارے ہاں یہ تو پوچھنا یاد ہی نہیں رہا پتا نہیں کون ہوگا وہ؟میشا بھی اپنی عقل پر ماتم کرتی ہوئی

زوریز دُرانی تو نہیں؟"نہیں نہیں وہ نہیں ہوسکتے اُن سے ہوئی سرسری مُلاقات میں نکاح تھوڑئی ہوسکتا۔۔۔فاحا نے خود ہی اپنی بات کی نفی کی

"ایسا ہوسکتا ہے میں دیکھتی ہوں کچھ کیا پتا "ہاتھ میں کچھ لگ جائے۔۔۔میشا پرسوچ لہجے میں بولی تو فاحا نے گہری سانس خارج کی دوسری جانب سوہان بیڈ پر تھکے ہوئے انداز میں بیٹھتی اپنے ماضی کے بارے میں سوچنے لگی جس کو وہ یکسر فرموش کر بیٹھی تھی" اُس کا نکاح ہوگیا تھا وہ کسی کی امانت تھی کسی کے نکاح میں تھی"اور یہ چیزیں بھول کر یہاں پاکستان بھاگ آئی تھی وہ نہیں تھی چاہتی کہ اِس بات کا کسی کو علم ہو تبھی تو بھول کر بھی اُس نے اپنے نکاح کا تضکرہ خود سے بھی نہیں کیا تھا پر شاید وہ وقت آگیا تھا جس وقت میں اُس کو ماضی کے پنوں کو اُلٹ کر اُن کو سوچنا تھا۔ ۔

Rimsha Hussain Novels❤

"ماضی"

"ہمیں خبر ملی ہے کہ یہاں ایک اسٹوڈنٹ کے پاس ڈرگز ہے۔"جو وہ اسٹوڈنٹس کو دیتا ہے اور وہ خرید بھی لیتے ہیں ۔۔میم نے کہا تھا کلاس میں یکدم ہلچل مچ گئ تھی ہر کوئی آپس میں چہ مگوئیاں کرنے لگا تھا اور یہ خبر سُن کر سوہان کو بھی حیرت ہوئی تھی کہ یونی میں ڈرگز کون بیچ سکتا تھا؟

"اسٹوڈنٹس رلیکس ہمیں سب کا بیگ چیک کرنا ہوگا کیونکہ شکایت اِس کلاس سے آئی ہے۔ ۔میم نے کہا تو کچھ کو اُن کی بات بُری لگی تھی تو کچھ نے اپنا بیگ سامنے کردیا تھا جس میں سوہان بھی تھی۔

"آپ لوگ اپنا کام کرے۔ ۔۔میم نے کہا تو کلاس کے دروازے کے پاس کھڑے تین آدمی باری باری ہر ایک کا بیگ دیکھنے میں لگ پڑے

"اور ایک پھر سوہان کے پاس آیا تو اُس کا بیگ کھول کر انتہائی غُصیلی نظروں سے اُس کو دیکھنے لگا تو سوہان کو سمجھ میں نہیں آیا کہ اُس کو ایسے کیوں دیکھا جارہا ہے۔ ۔

"میم ڈرگز مل گئے۔ ۔۔اُس آدمی نے سوہان کے بیگ سے ہاتھ اُپر کیے بتایا تو سوہان کی آنکھیں حیرت سے پھٹنے کی حدتک کُھل چُکی تھیں اُس کو یقین نہیں آیا کہ یہ ڈرگز اُس کے بیگ میں تھیں؟

سوہان آپ سے ہمیں یہ اُمید نہ تھی۔ ۔۔میم نے افسوس بھری نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا تو سوہان کا سر خودبخود نفی میں ہل گیا

"یہ می میرا ن نہیں۔ ۔۔۔سوہان سے سہی سے بولا نہیں گیا الفاظ جیسے ختم ہوچُکے تھے اور وہ حیرانگی کا مجسمہ بنی خود پر اُٹھیں اُنگلیوں کو دیکھنے لگی۔

"آپ میرے ساتھ آئے۔ ۔۔میم نے سنجیدگی سے کہا

"میری بات کا یقین کریں میم یہ سچ میں میری نہیں کسی نے مجھے پھسانے کی کوشش کی ہے۔ ۔۔سوہان کو سمجھ آگیا کہ اب اُس کی کوئی نہیں سُنے گا اور یونی سے اسپیل کردیا جائے گا تبھی وہ اپنا دفاع کرنے لگی

"ساری باتیں یونی کے انتظامیہ کے سامنے ہوگی ابھی چلیں یہاں سے۔ ۔۔میم نے کہا تو سوہان کو اپنا وجود لرزتا ہوا محسوس ہوا اُس کو اپنی ٹانگوں سے جان جاتی ہوئی محسوس ہونے لگی تھی خود پر لوگوں کی ایسی نگاہیں دیکھ کر اُس کو اپنے آپ سے حقارت محسوس ہوئی ہلانکہ اُس نے کچھ ایسا ویسا کیا تک نہیں تھا۔ ۔

❤❤❤❤❤❤

"آپ ایک برائٹ اسٹوڈنٹ تھی" اور ہمیں آپ سے ایسے کسی عمل کی اُمید ہرگز نہ تھی۔ ۔۔"ہمیں اِس معاملے میں پولیس کو انفارم کرنا ہوگا" تاکہ وہ تشویش کر پائے جانے آپ کے ساتھ اور کون کون شامل ہوگا۔ ۔۔یونی کے انتظامیہ نے سخت نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا تو سوہان کو اپنا سیاہ مستقبل نظر آنے لگا۔

"میری بات کا یقین کریں میں بے قصور ہوں" کسی نے میری بیگ میں ڈرگز ڈال کر مجھے پھسانے کی کوشش کی ہے۔ ۔۔"آپ پلیز پہلے خود سے ہر بات جاننے کی کوشش کریں اُس کے بعد پولیس کو اِنوالو کریں پلیز یہ میرے فیوچر کا معاملہ ہے اِتنی سختی نہ برتے آپ کو نہیں پتا میں کتنی مشکلوں سے یہاں تک پہنچی ہوں۔ ۔۔سوہان نے خود کو رونے سے باز رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہوئے اُن سے کہا"وہ جانتی تھی اُس کا بولنا اور نہ بولنا ایک جیسا تھا مگر وہ خاموش تماشائی بھی نہیں بن سکتی تھی وہ خود پر لگا الزام کیسے برداشت کرتی؟ "جس میں صداقت ہرگز نہ تھی اُس کو تو پتا بھی نہیں تھا کہ یہ حرکت کس نے کیوں؟"اور کب کی تھی؟"وہ تو خود حیران تھی اُس کو تو خود اِن سب کے سامنے پتا لگا تھا کہ اُس کی بیگ میں ڈرگز تھے۔ "جس سے وہ سِرے سے انجان تھی۔

"اپنے فیوچر کا آپ کو پہلے سوچنا چاہیے تھا جب ایسا خراب کام کرتے ہوئے آپ کو اپنا فیوچر یاد نہ آیا تو اب بھی یاد نہیں آنا چاہیے۔ ۔اِس بار اُس کی میم نے طنز کیا

"میں اگر ایسا کام کرتی تو کسی خوفیہ جگہ پر وہ ڈرگز چُھپاتی ناکہ اپنے بیگ میں ڈال کر گھومتی میری بات کا یقین کرے میں بے قصور ہوں۔"یہ میرے خلاف کی جانے والی سازش ہے۔ ۔سوہان اِس بار چیخ پڑی

"ایک منٹ کے لیے آپ کی بات مان بھی لی جائے تو ہمیں یہ بتائے کیا آپ کو کسی ایسے شخص پر شک ہے جس نے آپ کو بدنام کرنے کے لیے ایسا بڑا فعل انجام دیا ہے؟"اگر ایسا کوئی ہے تو ہمیں بتائے تاکہ ہم اُس کے بارے میں بھی جاننے کی کوشش کریں ۔۔یونی انتظامیہ نے سوال کیا تو سوہان کو چُپ لگ گئ تھی وہ اب کیسے کسی شخص پر کھڑی ہوجاتی

"یہ آپ کی رسپانسبلٹی ہے آپ کسی بھی طرح سے یہ جاننے کی کوشش کریں ناکہ میرے خلاف کھڑے ہوجائے۔ ۔سوہان کچھ توقع بعد خود کو مضبوط ظاہر کرتی بولی

"ابھی آپ جائے پولیس کو ہم نے انفارم کردیا ہے وہ آئے گی تو سہی طریقے سے ساری اپنی رسپانسبلٹی کو اچھے طریقے سے نبھائے گی۔ یونی انتظامیہ نے طنز کرنے والے لہجے میں اُس سے کہا

"میم میری

"مس سوہان آپ جائے۔ ۔۔سوہان کچھ کہنے والی تھی جب اُس کی بات درمیان میں کاٹ دی گئ تھی اور وہ چاہنے کے باوجود بھی کچھ نہ کرپائی تھی"اُس کو اپنا آپ بے بس سا معلوم ہوا تھا۔

Rimsha Hussain Novels❤

"سوہان پر لگے الزام کی بات پوری یونی میں پھیل گئ تھی اور یہ بات جیسے ہی زوریز کو پتا لگی تو وہ ساکت ہوگیا تھا ایسا نہیں تھا کہ اُس کو سوہان پر شک ہوا تھا وہ تو یہ سوچ کر پریشان ہوگیا تھا کہ جانے سوہان نے اپنی کیا حالت بنالی ہوگی کسی بھی صاف کردار کے مالک پر اگر ایک چھوٹا سا بھی غلط بہتان لگتا تھا تو اُس کی روح لرز اُٹھی تھی۔ ۔"اور جو سوہان پر الزام لگا تھا وہ کوئی چھوٹی بات نہیں تھی اُس کو یونی سے خارج کیا جاسکتا تھا "اُس کی ریپو خراب ہوسکتی تھی" اور ممکن تھا کہ اُس کو جیل بھی ہوسکتی تھی۔ "لیکن زوریز اپنے ہوتے ہوئے ایسا کچھ کیسے ہونے دے سکتا تھا۔ ۔

"سوہان؟زوریز کو سوہان یونیورسٹی کی پچھلی سائیڈ پر تنہا بیٹھی ہوئی نظر آئی تو وہ ایک ہی جست میں اُس تک پہنچا

"سوہان میری طرف دیکھے۔ ۔۔زوریز سرجُھکائے بیٹھی سوہان کے پاس گُھٹنوں کے بل بیٹھتا ہوا اُس کا چہرہ اپنی طرف کیا تو اُس کی لال سوجھی آنکھیں دیکھ کر وہ بونچکار کے رہ گیا تھا وہ جانتا تھا سوہان تکلیف میں ہوگی لیکن وہ خود کو اِس قدر نڈھال کردے گی اِس بات کا علم زوریز کو نہ تھا۔۔

"آپ رو کیوں رہی ہیں؟ زوریز نے اُس کے سسکتے وجود کو دیکھا تو حواس باختہ ہوگیا

"میں بے قصور ہوں۔ ۔۔سوہان اپنی سوجھیں ہوئی آنکھیں اُٹھاکر زوریز کو دیکھ کر بس اِتنا بتانے لگی وہ جانتی تھی کہ زوریز کو بھی پتا لگ گیا ہوگا اور یہ خیال سوہان کو نظریں جُھکانے پر مجبور کررہا تھا وہ جو لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پُراعتماد طریقے سے بات کیا کرتی تھی" مگر آج کچھ نہ کرتے ہوئے بھی وہ ہر ایک کے سامنے غلط قرار دی گئ تھی"جانے اُس کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا تھا؟ "جب کبھی اُس کو لگتا تھا کہ اب سب ٹھیک ہوگیا ہے تو پھر اچانک سے کچھ نہ کچھ غلط ضرور ہوجاتا کرتا تھا" اُس کو لگا تھا پاکستان سے یہاں آنے کے بعد اُس کی زندگی آسان ہوجائے گی" لیکن یہاں آکر تو اُس کے لیے مزید مسائل پیدا ہوگئے تھے۔

"میں جانتا ہوں اور آپ اپنی آنکھوں پر یہ ظلم نہ کریں اِن کا کیا قصور ہے آخر۔ ۔۔زوریز نرمی سے بولا

"آپ کو پتا ہے لیکن یونی والوں کو نہیں پتا یہ مجھے نکال رہے ہیں" میرا پورا فیوچر ختم ہوجائے گا" مجھے اپنا فیوچر ختم نہیں کرنا"میں مرجاؤں گی اگر ایسا ہوا تو میں یہاں بہت سے خواب لیکر آئی تھی جن کو اب ٹوٹتا ہوا محسوس کررہی ہوں اگر میں یہاں سے نکالی گئ تو میں خود کو جان سے ماردوں گی۔۔۔سوہان نے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے کہا تو زوریز کو یقین نہیں آیا کہ بظاہر مضبوط نظر آنے والی سوہان ایسی مایوس کن باتیں بھی کرسکتی تھی۔

"کیا بچوں جیسی باتیں کرنے لگیں ہیں آپ ایسا کچھ نہیں ہوگا یہاں آپ کو کوئی کچھ نہیں کرسکتا ٹرسٹ می۔۔۔زوریز نے ہچکچاہٹ سے اپنا ہاتھ اُس کے ہاتھ پر رکھ کر یقین دلواتے کہا

"آپ کے کہنے سے کیا ہوگا؟سوہان مطمئن نہیں ہوئی

"میرے کہنے سے بہت کچھ ہوسکتا ہے۔۔۔زوریز نے بتایا

"جیسے کہ؟سوہان رونا بھول کر اُس کو دیکھنے لگ پڑی

"جیسے کہ آپ پر لگا ہوا جھوٹا الزام دُھل سکتا ہے"آپ کو وہ عزت ملے گی جس کی آپ حقدار ہیں۔۔اُس کے آنسوؤ اپنے ہاتھ کی پوروں سے صاف کرتا زوریز پُرعزم لہجے میں بولا

"کیا ایسا ممکن ہے؟سوہان کو اُمید کی کرن نظر آئی

"جی بلکل ممکن ہے مگر۔ ۔۔زوریز بات کرتا اچانک خاموش ہوگیا

"مگر کیا؟ اُس کا چُپ ہوجانا سوہان کو بے چین کرگیا

"مگر میری ایک شرط ہے۔ ۔۔زوریز نے کہا تو سوہان کا وحود ڈھیلا پڑگیا تھا اور وہ جن نظروں سے زوریز کو دیکھنے لگی اُس پر زوریز جیسے تڑپ اُٹھا تھا

"ایسی ویسی شرط نہیں ہے" بس یہ جان لے کہ میری درخواست ہے۔ ۔۔زوریز نے کہا تو سوہان اُٹھ کھڑی ہوئی

"مجھے آپ کی کوئی بھی شرط قبول نہیں ہے اور میں بیوقوف جانے کیسے یہ سوچ بیٹھی کہ آپ میری مدد کرینگے وہ بھی بغیر اپنے مفاد کے۔ ۔۔سوہان کو زوریز سے چڑ ہونے لگی

"آپ غلط سوچ رہی ہیں میں بس آپ سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ ۔سوہان کو کندھوں سے پکڑے اپنے روبرو کھڑا کیے زوریز نے جیسے کوئی دھماکا کیا تھا۔

"نننن نکاح؟سوہان شاک کی کیفیت میں اُس کا چہرہ تکتی رہی جس نے اِتنی بڑی بات بہت آسانی سے کردی تھی

"ہاں نکاح۔ ۔۔۔زوریز نے سراثبات میں ہلایا

"میں آپ کے ساتھ نکاح نہیں کرسکتی" میں اپنے گھر واپس چلی جاؤں گی۔۔۔۔سوہان بدک کر اُس سے دور کھڑی ہوتی بولی

"کیوں نہیں کرینگی مجھ سے نکاح؟زوریز کو انکار کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی"آخر اُس میں کمی کس چیز کی تھی جو اُس کو ٹھکرایا جارہا تھا

"آپ کیوں کرنا چاہتے ہیں مجھ سے نکاح؟سوہان نے اُلٹا اُس سے سوال کیا

"پسند آگئیں ہیں آپ۔۔۔"اپنا بنانا چاہتا ہوں میں آپ کو۔۔۔زوریز نے جذب کی کیفیت میں کہا

"پسند کرنے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ کسی کی مجبوری کا فائدہ اُٹھایا جائے۔۔۔سوہان نے سرجھٹک کر کہا

"آپ غلط سمجھ رہی ہیں میں ہرگز آپ کی مجبوری کا فائدہ نہیں اُٹھا رہا میں تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتا میری نیت صاف ہے۔۔۔زوریز کو سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیسے سوہان کو خود پر یقین کروانے پر مجبور کرے

"آپ جائے یہاں سے مجھے اکیلا رہنا ہے۔۔۔۔سوہان نے سپاٹ لہجے میں کہا

"سوہان۔۔۔۔زوریز نے کچھ کہنا چاہا

"پلیز لِیو۔۔۔سوہان نے جیسے گُزارش کی

"آپ کو ایسے حال میں چھوڑ کر نہیں جاسکتا"میں آپ کی حفاظت کروں گا ایک مقدس رشتے میں باندھ کر آپ کا مقام اُونچا کروں گا۔۔۔۔زوریز نے صدق دل کے ساتھ اُس کو دیکھ کر کہا جس پر سوہان اُس کو دیکھنے پر مجبور ہوگئ تھی

"میری زندگی میں کسی مرد کی گُنجائش نہیں نکلتی اگر زندگی میں مجھے مرد کا سہارا چاہیے ہوتا تو یہاں اپنے بُل بوتے پر کچھ کرنے نہ آئی ہوتی۔۔۔سوہان نے عجیب کیفیت میں مبتلا ہوکر کہا

"مجھے نہیں پتا کیوں؟"لیکن آپ کو میری ضرورت ہے اور یہ بات آپ کو ماننی پڑے گی"میرا بڑھایا ہوا ہاتھ جھٹکے مت اِس کو تھام لے یقین جانے زندگی میں کبھی آپ کو گِرنے نہیں دوں گا آپ پر آنے والی ہر مصبیت کا رُخ اپنی طرف موڑ لوں گا۔۔"اور آپ پر ایک انچ بھی آنے نہیں دوں گا۔۔۔زوریز کی آنکھوں میں اُس کے لیے محبت کی جھلک تھی جس سے سوہان منہ موڑنا چاہتی تھی۔

"آپ اگر میری مدد کرنا چاہتے ہیں تو میں کچھ اور کردوں گی لیکن نکاح نہیں۔۔۔سوہان کچھ توقع بعد بولی

"لیکن میرے لیے آپ کی مدد سہی طریقے سے کرنا تبھی ممکن ہے جب آپ میرے نکاح میں ہوگیں اور نکاح کے بعد آپ ویسے آزاد ہوگیں جیسے کی اب ہیں میری طرف سے کسی قسم کی روک ٹوک کو آپ نہیں پائیں گیں میں بس ایک بات کا اطمینان رکھنا چاہتا ہوں کہ آپ جہاں کہی بھی ہوگی بس میری رہے گیں مجھے اِس بات کی گارنٹی چاہیے بس اور میری بس یہ ایک عدنی سے خواہش ہے کوئی بڑی بات نہیں۔۔۔زوریز نے کہا تو سوہان لاجواب ہوتی اُس کا چہرہ تکنے لگی۔۔

"آپ کی مانگ بہت بڑی ہے بہت سے بھی زیادہ بڑی" لیکن آپ کو اِس بات کا احساس نہیں اگر آپ میری جان مجھ سے مانگتے تو شاید میں انکار نہ کرتی۔ ۔۔سوہان نے کہا تو وہ ہولے سے مُسکرایا

"آپ سے آپ کی جان مانگ کر میں خود کے ساتھ کیسے زیادتی کرتا؟زوریز نے اِس بار بھی لاجواب کرنے والا جواب دیا تھا جیسے کچھ بھی نہ کہہ کر بہت کچھ بول دیا تھا۔

"میں مرد ذات سے دور جانا چاہتی ہوں اور آپ چاہتے ہیں" میں خود کو آپ کا پابند بنادوں؟سوہان کے چہرے پر استہزائیہ مسکراہٹ نے بسیرا کرلیا

"ساری عمر میں آپ کا باپند بن سکتا ہوں" لیکن ایسی کوئی خُواہش آپ سے نہیں کروں گا"میں چاہتا ہوں آپ کو پسند کرنے لگا ہوں"اور نکاح کرنا چاہتا ہوں" بس اِتنی سی بات ہے آپ جانتی ہیں یہاں آپ کا کوئی بھی نہیں اور مجھے اپنا بناکر آپ اِس مصیبت سے نکل سکتیں ہیں۔ ۔۔۔"ڈرگز کا آپ کی بیگ میں ملنا کوئی عام بات نہیں ہے سوہان آپ کو پولیس کے حوالے کروایا جاسکتا ہے"وہ طرح طرح کے سوالات پوچھ سکتے ہیں" آپ مجھے بتائے جب آپ سے یہ پوچھا جائے کہ آپ کس گینگ کے ساتھ کام کرتیں ہیں تو بتائے" مجھے اُن کو کیا جواب دے گی؟زوریز کا لہجہ سنجیدگی سے بھرپور تھا

"کچھ نہ کچھ کردوں گی" لیکن اپنے مطلب کے لیے آپ کو سیڑھی نہیں بناؤں گی۔۔۔سوہان بھی جواباً سنجیدگی سے بولی تو زوریز بس اُس کو دیکھتا رہ گیا جو بات کو سہی طریقے سے سمجھنے کی کوشش تک نہیں کررہی تھی بس اپنی بات پر بضد تھی"جو اُس کو نقصان کے دلدل میں پھینک سکتا تھا۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

"میں جب خود چاہتا ہوں تو آپ کو کیا اعتراض ہے؟زوریز نے سنجیدگی سے پوچھا

"اعتراض مجھے نکاح سے ہے جو میں آپ کے ساتھ نہیں کرسکتی۔ ۔۔سوہان بغیر ہچکچاہٹ سے بولی اور زندگی میں پہلی بار زوریز دُرانی کو ریجیکٹ کیا گیا تھا اور وہ بھی کرنے والی اُس کی محبوب ہستی تھی"وہ لفظ" ریجیکٹ" سے انجان تھا وہ نہیں تھا جانتا کہ کسی کو ٹُھکڑایا جاتا ہے تو اُس پر کیا گُزرتی ہے"لیکن جب آج اُس کا سامنا ہوا تو اُس کو ایسے لگا جیسے اُس کے پاس قیامت گُزرگئ تھی اور وہ پھر بھی کھڑا تھا نا تو اُس کو فرق پڑا تھا اور نہ قدم لڑکھڑائے تھے" بس دل کے کسی کونے میں کچھ ٹوٹنے کی آواز آئی تھی اور زوریز نے اُس آواز پر غور کیا تو معلوم پڑا کہ چِھن کی آواز سے ٹوٹنے والا اُس کا دل تھا اور یہ جان کر اُس کے چہرے پر زخمی مسکراہٹ نے بسیرا کرلیا تھا"بے ساختہ اُس نے سوہان سے فاصلہ اختیار کیا تھا اور یہ فاصلہ سوہان کو میلو دور لگا تھا" انکار تو اُس نے آرام سے کرلیا تھا لیکن اُس کو پھر زوریز کا یوں دور جانا پسند نہیں آیا تھا۔

"آپ کو پتا ہے ریجیکشن انسان کا اعتماد چِھین لیتی ہے" چاہے وہ لڑکی ہو یا لڑکا اگر آپ کو کوئی کسی بھی چیز پر نااہل قرار کردیتا ہے تو ہمیں سب سے پہلے غُصہ آتا ہے اور جذباتی لوگ احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں" مختصر یہ کہ کہنے کو ہم آسان طریقے سے لوگوں کو کسی چیز پر انکار کردیتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اُس کے دل پر کیا گُزری ہوگی؟"ہم رلیکس ہوجاتے ہیں"خیر اگر میں آپ کو پسند نہیں یا مجھ سے نکاح کرنے میں آپ کو حرج ہے"آپ کو مجھ پر ٹرسٹ نہیں تو اِٹس اوکے فائن میں آپ پر زور زبردستی کرکے اپنا تسلط قائم نہیں کروں گا" یہ آپ کی زندگی ہے"اور اپنی زندگی کا ہر فیصلہ کرنے کا اختیار آپ کے پاس موجود ہے میں کسی شرط کے بدولت یا کچھ اور کرکے آپ کو خود سے باندھنے کی کوشش نہیں کروں گا"لیکن آپ کی مدد ضرور کروں گا میں جانتا ہوں آپ اِنوسینٹ ہے اور میں یہ پوری یونی میں بتاؤں گا"اور ثابت بھی کروں گا" آپ کے خلاف جس نے بھی کیا ہے اُس کو میں سز دلوا کر رہوں گا کیونکہ وہ سزا کا مستحق ہے۔۔۔"آپ کو جیل نہیں ہوگی اور نہ یونی کا انتظامیہ آپ کو اسپیل کرسکتا ہے"وقتی رسٹریکشن الگ بات ہے پر کچھ دِنوں کے اندر اندر میں آپ کو اِس الزام سے رہا کروا کے رہوں گا یہ میرا آپ سے واعدہ ہے"ویسے بھی محبت وہ ہے جس میں "محبوب"عبادتوں میں مانگا جائے ناکہ منتوں سے" ۔زوریز نے خود کو کمپوز کرکے بے لچک انداز میں اُس سے کہا تو سوہان خاموش کھڑی اُس کو دیکھنے لگی جس کو سہی سے وہ جانتی نہیں تھی اور نہ دونوں کے درمیان ایسا کوئی رشتہ تھا جس کی بدولت سامنے کھڑا زوریز اُس کا ساتھ دیتا اُس کو سپورٹ کرتا" لیکن اُس کے باوجود جب سے وہ اُس کی زندگی میں آیا تھا کسی نہ کسی طریقے سے اُس کو مشکل سے بچایا گیا تھا اور زوریز کی اِس بات پر وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئ کہ وہ اگر غیر بن کر اُس کو اِتنا سپورٹ کرسکتا ہے اُس کی ڈھال بن سکتا ہے تو اگر وہ اُس کا اپنا بن گیا تو پھر کیا کرے گا؟بغیر کسی ظاہری رشتے کے وہ اُس کے اُپر اُٹھی اُنگلی کو نیچے کرسکتا تھا تو یقیناً بعد میں وہ انگلی جڑے سے اُکھیڑ دیتا تاکہ پھر کوئی ایسا کرنے کی کوشش تک نہ کرے"کیونکہ وہ جان کر یا انجانے میں ہی محبت تک کا اعتراف کرچُکا تھا۔

مم مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ ۔۔زوریز اپنی بات کہہ کر جانے لگا تھا" جب اچانک سوہان کے دل میں جانے کیا سمائی جو اُس نے کہا اور اُس کے الفاظوں نے جیسے زوریز کے قدموں نے زنجیر ڈال دی تھی وہ حیرت سے پلٹ کر اُس کو دیکھنے لگا تو سوہان نے اپنی نظروں کا زاویہ بدل دیا تھا۔ ۔"جس طرح سوہان نے اعتراض اپنا رد کیا تھا وہ وجہ زوریز جان نہیں پایا وہ نہ تو اُس سے دستبردار ہوسکتا تھا نہ ہی سوہان کے بغیر دِلی رضامندی کے اُس سے نکاح کرنا چاہتا تھا" آج عجیب دوہرائے پر وہ کھڑا ہوگیا تھا جس پر فیصلہ لینا اور نہ لینا اب اُس کے اختیار میں تھا۔

"آپ دل سے بول رہی ہیں؟زوریز دوبارہ اُس کے روبرو کھڑا ہوا

"کیا اِس سے فرق پڑتا ہے؟سوہان نے سوال کیا

"بلکل فرق پڑتا ہے"آپ مطمئن نہیں تو یہ نکاح نہیں ہوگا اور اگر آپ دماغی طور پر تیار ہیں تو ہم ابھی کورٹ جائینگے کیونکہ


"محبت کے بغیر ہر موسیقی شور ہے

"ہر رقص پاگل پن ہے اور ہر عبادت بوجھ ہے


اور میں چاہتا ہوں آپ صدق دل سے راضی ہوجائے۔

۔۔زوریز نے سنجیدگی سے کہا

"مجھے آپ یہ بتائے کہ نکاح سے کیا ہوگا؟ سوہان نے اُلجھ کر پوچھا"کیونکہ زوریز کی باتیں اُس کو حیران کررہی تھیں۔ ۔

"نکاح سے یہ ہوگا کہ میں آپ سے آرام سے پروٹیکٹ کرسکوں گا"اگر بغیر کسی رشتے کے آپ کو سپورٹ کیا" آپ کا دفاع کیا تو لوگ طرح طرح کی باتیں کرنے کے ساتھ الزامات بھی لگاسکتے ہیں"اور مجھے لوگوں کی پرواہ نہیں ہے چار دن چسکا لیکر وہ چُپ ہوجائے گے مگر میں جانتا ہوں آپ کے وقار کو ٹھیس پہنچے گی۔ ۔۔زوریز نے ساری بات بتائی تو سوہان نے گہری سانس ہوا کے سُپرد کی

"ٹھیک ہے پھر میں پوری طرح سے ہر لحاظ سے تیار ہوں اِس اُمید کے ساتھ کہ آپ اپنے شوہر ہونے کا تسلط مجھ پر نہیں جمائے گے" اور نہ مجھ سے کوئی اُمیدیں وابستہ رکھے گے ہمارا نکاح کاغذ کی حدتک ہوگا۔ ۔سوہان نے پہلے سے ہی سب کچھ کلیئر کردیا تھا۔

"نکاح کے بعد کوئی حد نہیں ہوتی لیکن پھر بھی" ٹھیک ہے میں آپ کی یہ بات مان لوں گا۔ ۔۔زوریز نے ہلکی مسکراہٹ سے کہا تو سوہان اپنے آنے والے وقت کے بارے میں سوچنے لگی" وقت سے اچھائی کی اُمیدیں لگانا اُس نے کب کا چھوڑدیا تھا اب یہ دیکھنا تھا کہ آگے جاکر اُس کو اور کیا کچھ جھیلنا پڑتا تھا۔ ۔

"میں بہت بدقسمت ہوں۔ ۔سوہان کے چہرے پر طنز سے بھرپور مسکراہٹ تھی جیسے وہ خود کا مذاق اُڑنے سے کافی لطف اندروز ہوئی تھی۔


Problems are part of life,but facing them with a smile,is an art of life.

"یہ تو سُنا ہوگا آپ نے؟"زندگی میں مشکلات ہر انسان کی زندگی میں آتی ہے پر ہمیں اپنی قسمت کو قصوروار نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ ہماری قسمت کی ڈور جس کے ہاتھ میں ہے"وہ پوری دُنیا کا نظام چلا رہا ہے۔ ۔۔زوریز اُس کی بات پر سمجھانے والے لہجے میں بولا

"جانتی ہوں پر ساری بات تو قسمت کی ہوتی ہے" اگر اللہ ہماری قسمت میں یہ سب نہ لکھے تو ہم پر کبھی کوئی مشکل نہ آئے۔۔سوہان حددرجہ مایوسی کا شکار ہوئی تھی

"اگر زندگی میں بس سکون ہو تو کیا کوئی رب کو یاد کرے گا؟اُس کی بات پر جو زوریز نے سوال کیا اُس کا جواب تو سوہان کے پاس ہرگز نہ تھا۔

"بندہ جب بے سکون ہوتا ہے تو وہ اپنا سکون اللہ کی یاد میں تلاش کرتا ہے اور آپ مایوس نہ ہو اللہ سب ٹھیک کردے گا۔۔زوریز نے اُس کو خاموش دیکھ کر کہا

"میری قسمت نہیں بدلے گی جو لکھی جاچُکی ہے۔۔سوہان سرجھٹک کر بولی

"میں نے کہی پڑھا تھا کہ انسان کہتا ہے ہوتا تو وہی ہے جو قسمت میں لکھا ہوتا ہے لیکن اللہ قُرآن میں کہتا ہے۔

"تم مجھے ایک بار پُکار کر تو دیکھو میں نصیب بدلنے پر بھی قادر ہوں۔ ۔"اللہ کی شان بہت بڑی ہے سوہان جس کو میں یا آپ کبھی سمجھ نہیں سکتے وہ ہر کام کرسکتا ہے۔ ۔"آپ اطمینان رکھے۔۔۔زوریز نے کہا تو اِس بار سوہان خاموش ہوگئ تھی اُس کے پاس کچھ بولنا کے لیے بچا جو نہیں تھا

"چلیں پھر؟کچھ توقع بعد زوریز نے پوچھا تو سوہان نے سراثبات میں ہلایا تھا وہ جانتی تھی" زوریز اُس کو کہاں لیکر جانے والا تھا"اور اُس کا دماغ اِس وقت اِس قدر ماؤف اور خالی تھا کہ میشا یا فاحا میں سے کسی کا بھی خیال اُس کو نہیں تھا آیا"تب بھی نہیں جب نکاح کے ایگریمنٹ پر اُس نے اپنے سائن دے کر اپنے پر زوریز کو ہر اختیار دے ڈالا تھا"اور دوسری طرف زوریز نے سائن کرتے ہوئے سوہان کے سارے جائز حقوق اپنے پاس محفوظ کرلیے تھے۔۔"اِس وقت اگر سوہان کے اندر کوئی احساس نہیں جاگا تھا تو دوسری طرف زوریز کافی مسورکن کیفیت میں تھا"چاہے وہ یہ سب ایسے نہیں چاہتا تھا مگر سوہان سے نکاح کے بعد ایک چیز کا ڈر اُس کے اندر ختم ہوگیا تھا اور وہ تھا"جدائی"کا وہ جانتا تھا اب سوہان لاکھ چاہنے کے باوجود کبھی اُس سے دور نہیں جا پائے گی اور یہ بھی تھا کہ زوریز کبھی اُس پر کسی چیز کا زور نہیں تھا ڈالنے والا

❤❤❤❤❤❤

"حال!

کچھ عرصے بعد!

"کیا آپ آپو سوہان سے ناراض ہیں؟فاحا نے عروج بیگم کو غور سے دیکھ کر سوال کیا

"ہم بھلا اُس سے کیوں ناراض ہوگے؟ عروج بیگم اُس کے سوال پر بے ساختہ مسکرائی

"اُنہوں نے آپ کا فیصلہ جو نہیں تھا مانا۔ ۔فاحا نے جیسے یاد کروایا

"اُس بات کو تو اب خیر سے دو ماہ ہو چلے ہیں" ہمیں تو اب یاد بھی نہیں ہے اور اچھا ہوا تھا جو اُس نے انکار کیا اگر وہ انکار نہ کرتی تو ہماری نظر آپ پر نہ پڑتی۔ ۔۔عروج بیگم محبت سے اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتی ہوئی بولی تو فاحا ناسمجھی سے اُن کو دیکھنے لگی۔

"فاحا کو آپ کی بات سمجھ میں نہیں آئی؟ "آپ کیا کہنا چاہتی ہیں؟فاحا نے اُلجھ کر اُن سے سوال کیا جبکہ عروج بیگم کے کمرے میں آتی دیبا بھی دروازے کے پاس رُک گئ تھی۔

"تمہیں ہمارا اسیر کیسا لگتا ہے؟عروج بیگم نے اُس کی رائے چاہی

"مغرور" بدتمیز" غُصیلے" ڈریگولہ ٹائپ" چنگیز خان"ہر وقت ناک کی نتھے پُھلا کر چلنے والا آپ کا پوتا فاحا کو کسی عزرائیل سے کم نہیں لگتا جو کبھی بھی کسی کی جان نکالنے میں وقت نہ لگائے۔ ۔۔عروج بیگم کے پوچھنے کی دیر تھی اور فاحا کو جیسے اُن کے پوچھنے کا انتظار تھا تبھی فورن سے بولتی گئ تھی" لیکن دروازے کے پاس کان لگائے کھڑی ہوئی دیبا کو عروج بیگم کے اِرادے سہی نہیں لگے تھے۔ "خطرے کی گھنٹیاں اُس کو اپنے آس پاس صاف سُنائی دی تھیں۔ ۔

"ہمارا اسیر ایسا تو نہیں؟عروج بیگم حیرت سے اُس کا منہ تکتی ہوئیں بولی"وہ جان نہیں پائی کہ اسیر نے ایسا بھی کیا کردیا جو فاحا اُس کی شان میں اِتنا کچھ بول چُکی تھی

"ہر ایک کا اپنا نظریہ ہے۔ ۔فاحا کو احساس ہوا کہ وہ کچھ زیادہ بول گئ ہے اُس کے باوجود وہ محض اِتنا بولی

"تم نے اُس کو دیبا سے خراب لہجے میں بات کرتا سُن لیا ہوگا تبھی ایسا کہہ رہی ورنہ ہمارا اسیر ایسا بلکل بھی نہیں ہے۔ ۔۔عروج بیگم اندازہ لگاتی ہوئی بولی

"صرف دیبا باجی سے بات نہیں وہ بات ہی ہر ایک سے ایسی کرتا ہے۔ ۔۔فاحا نے سرجھٹک کر کہا

"دیبا اُس کو پسند نہیں تھی اور جب ہم نے زور زبردستی اُس کی شادی کروائی تبھی تو وہ ہم سے نالاں رہنے لگا تھا۔ ۔عروج بیگم کی بات پر جہاں دیبا نے زور سے اپنے ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینچا تھا وہی فاحا پورا منہ کُھولے حیرت سے گنگ عروج بیگم کو دیکھنے لگی تھی۔ ۔

"شادی؟فاحا کو یقین نہیں آیا وہ سمجھی شاید اُس کو سُننے میں کوئی غلطی ہوگئ تھی

"تم لوگوں کو نہیں ہوگا پتا لیکن ہمارے اسیر کی ایک بیٹی بھی ہے۔ ۔۔عروج بیگم نے ایک ساتھ دوسرا دھماکا بھی کیا اور فاحا کی حالت غیر ہونے لگی تھی وہ اپنی خراب ہوتی حالت کی وجہ سمجھ نہیں پائی تھی وہ تو بس عروج بیگم کو دیکھنے لگی تھی۔

"ایک بیٹی کا باپ ہے وہ اور اُس کے باوجود آپ کا کہنا ہے کہ شادی سے خوش نہ تھا۔ ۔۔فاحا کے چہرے کے تاثرات عجیب ہوگئے تھے"کمرے میں حبس کا احساس اُس کو شدت سے ہونے لگا تھا۔

"آپ کو شاید ہماری بات پر یقین نہ آئے لیکن اسیر کبھی شادی سے خوش نہ تھا اُس نے کبھی اپنے دل میں دیبا کو جگہ نہ دی اور جب وہ اپنی ایک دن کی بیٹی کو چھوڑے اپنے چاہنے والے کے پاس چلی گئ تو اسیر ملک کو اُس سے اور بھی نفرت ہوگئ تھی۔ ۔عروج بیگم نے مزید بتایا تو اِس سے زیادہ فاحا سے سُنا نہیں گیا تبھی اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ ۔

"فاحا کو ضروری کام ہے۔ ۔۔فاحا اِتنا کہتی اُن کے کمرے سے جیسے باہر نکلی اُس کا سامنا دیبا سے ہوا جو اُس کا راستہ روکے ہوئے تھی۔

"سامنے سے ہٹے۔ ۔۔فاحا جو سائیڈ سے گُزرنے لگی تھی اور دیبا اُس کے راستے میں پھر سے آگئ تو فاحا نے سنجیدگی سے کہا

"تمہارا رنگ کیوں پھیکا پڑگیا ہے؟ "کیا تم نے اسیر کے خواب تو نہیں تھے دیکھ لیے؟دیبا نے تمسخرانہ لہجے میں اُس سے کہا

"تمیز سے بات کریں ورنہ میری بہنیں آپ کا منہ نوچ لے گی۔ ۔۔فاحا کو اُس کی بات پر غُصہ آگیا

"بہنوں کو چھوڑو اور یہ بتاؤ کہ کیسا لگا جان کر کہ جس کو تم اپنا بنانا چاہتی تھی وہ تو میرا ہے۔۔۔دیبا کو جیسے موقع مل گیا تھا اُس کو باتیں سُنانے لگا

"آپ کا؟فاحا کو اُس کی بات پر ہنسی آئی

اگر تمہیں لگتا ہے کہ میں اسیر کے دل سے اُترگئ ہوں تو یہ تمہاری خوشفہمی ہے"اسیر کل بھی میرا تھا اور آج بھی میرا ہے"اِس لیے دادی کی باتوں کو زیادہ سیریس مت لینے لگ جانا۔۔۔دیبا تیکھی نظروں سے فاحا کو دیکھ کر جتانے والے انداز میں بولی

"فاحا کو ایسی کوئی خوشفہمی نہیں ہے۔۔۔فاحا نے بھی سنجیدگی سے جواباً کہا

"تمہارے لیے اچھا ہے۔۔۔۔دیبا کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ آئی

"جی اور ایک بات یہ کہ دل سے اُترنے کے لیے پہلے دل میں ہونا ضروری ہوتا ہے اور اسیر ملک نے آپ کو کبھی اپنے دل میں جگہ دینے کے قابل ہی نہیں سمجھا تھا۔۔۔فاحا ایک قدم آگے بڑھ کر اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پختگی سے بولی تو دیبا کے مسکراتے لب پل بھر میں سکڑ گئے تھے جبکہ فاحا کے چہرے پر اِس بار دلفریب مسکراہٹ کا احاطہ تھا وہ ایسی ہی تو تھی اپنی باتوں سے دوسروں کو لاجواب کرنے والی

"تم ہوتی کون ہو مجھے یہ بولنے والی؟"تمہاری اوقات کیا ہے؟دیبا کا بس نہیں چلا کہ وہ فاحا کا گلا دبادیتی

"ہٹے اب۔ ۔۔فاحا اُس کو راستے سے ہٹاتی جیسے ہی سامنے دیکھا تو اُس کی نظر اسیر پر پڑی جو چہرے پر سنجیدہ تاثرات سجائے اُن کو دیکھ رہا تھا۔

"ایسے کیا دیکھ رہے ہیں؟ فاحا کو انجانا سا خوف ستانے لگا

"یہی کہ ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ ہمارے لیے ایک باجی اور دوسری کاکی آپس میں لڑ بھی سکتے ہیں۔ ۔اسیر نے کہا تو اُس کی ایسی بات پر جہاں فاحا نے اپنی آنکھوں کو چھوٹا کیے اُس کو گھورا تھا وہی"باجی" لفظ پر دیبا جل کر خاک ہونے کے در پر تھی

"کاکے ہوگے آپ خود۔ ۔۔فاحا اُس کو گھور کر کہتی وہاں سے واک آؤٹ کرگئ تھی اور اُس کے جانے کے بعد اسیر نے سرد نظروں سے دیبا کو دیکھا تھا

"تمہیں کس نے حق دیا کہ تم فاحا سے ایسے بات کرو؟اسیر سخت نظروں سے اُس کو دیکھ کر پوچھنے لگا جب سے دیبا حویلی آئی تھی یہ اُن کی پہلی گفتگو تھی۔۔"دیبا نے تو بہت مرتبہ بات کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اسیر نے کبھی اُس پر دھیان نہیں دیا تھا اور آج جانے کیسے وہ اُس پر مہربان ہوگیا جو خود سے بات کررہا تھا۔

"تمہیں بڑا بُرا لگ رہا ہے جبکہ وہ چھٹانگ بھر کی ہوکر میرے منہ پر آرہی ہے۔ ۔۔دیبا کا دماغ گُھوم گیا تھا

"عزت دینے اور لینے کی چیز ہوتی ہے اِس لیے پہلے سامنے والے کو عزت دینا سیکھو اُس کے بعد لینے کی خواہش کرنا۔ ۔اسیر نے طنز نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولا

"اقدس کہاں ہے؟دیبا نے اُس کی بات کو اگنور کرکے پوچھا

"آج ہماری بیٹی کا نام منہ سے نکالا ہے لیکن ہم دوبارہ نہ سُنے ایسا کچھ۔ ۔اسیر نے وارن کرتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا

"وہ میری بھی بیٹی ہے صرف تمہاری نہیں۔ ۔دیبا اُس پر چلائی

"چلاؤ نہیں اور آج بڑا یاد آگیا ہے تمہیں کہ اقدس تمہاری بیٹی ہے یہ خیال تب کیوں نہیں آیا تھا جب اُس کو چھوڑ کر اپنے یار کے ساتھ بھاگ نکلی تھی۔۔اسیر بغیر لحاظ کیے اُس سے بولا

"اوو تو تمہیں اُس بات کا افسوس ہے۔۔دیبا طنز سے بھرپور مسکرائی تھی

"ہمیں کسی بات کا افسوس نہیں اور ہاں تمہارا سایہ بھی ہم اپنی بیٹی پر پڑتا ہوا نہیں دیکھ سکتے۔۔اسیر نے بے لچک لہجے میں کہہ کر وہاں سے چلاگیا"اُس کا اِرادہ اب اپنے ڈیرے پر جانے کا کہا تھا" اور پیچھے دیبا نئے منصوبے بنانے میں مصروف ہوگئ تھی۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

یہ ہم کہاں آئے ہیں؟آریان گاڑی سے اُترتا حیرت سے آس پاس کا جائزہ لیتا ہوا زوریز سے بولا جو اب قدرے بہتر تھا

"چل جائے گا پتا صبر کرو۔۔زوریز گہری سانس بھر کر گاؤں کی مٹی کو محسوس کرتا جواباً اُس سے بولا

"تم کسی سے ملنے آئے ہو یہاں؟آریان نے تُکہ لگایا

"میں نہیں ہم۔ ۔۔زوریز نے بتایا

"مجھے تو کسی سے نہیں ملنا۔ ۔۔آریان نے متعجب ہوکر جواباً کہا

"میشا کو میسج کرو اور اُس کو بتاؤ کہ تم گاؤں آئے ہوئے ہو۔۔۔زوریز پہلی بار اُس کو دیکھ کر بولا تو آریان کو خوشگوار حیرت ہوئی

"سیریسلی؟"مطلب میشا مجھے یہاں ملے گی؟آریان کو یقین نہیں آیا لیکن خوشی اُس کو بہت ہوئی آج پورے تین ماہ بعد وہ اُس سے ملنے والا تھا

"ہاں اب میسج کرو اُس کو۔۔۔زوریز نے کہا

"کرتا ہوں لیکن جواب نہیں دیتی وہ۔۔۔آریان نے منہ بناکر کہا

"آج کوئی ایسا میسج کرو جس پر وہ تمہیں جواب دینے پر مجبور ہوجائے۔۔زوریز نے کہا تو آریان کا شیطانی دماغ پوری قوت سے جاگ اُٹھا تبھی جیب سے موبائل نکالے میشا کے نمبر پر مسیج چھوڑنے لگا۔

جو ہنسے اُس کا گھر بسے اِس لیے میشو رانی ہنستی رہا کرو تاکہ ہمارا گھر بسے ۔"مسیج بھیجنے کے بعد وہ اُس کے جواب کا انتظار کرنے لگا"تو دوسری طرف میشا جو اپنے آس پاس بکھری پڑی فائلز کو بے یقینی سے اور حیرت سے دیکھ رہی تھی مسیج ٹیون پر وہ اُس کی طرف متوجہ ہوئی تھی۔ "اور اپنے نمبر پر آریان کا مسیج دیکھ کر اُس کا منہ بن گیا تھا جس کو اُس نے پوری طرح سے اگنور موڈ پر ڈالا ہوا تھا" لیکن آج اُس کے دماغ میں جانے کیا آیا جو جواب لکھنے لگی۔

"جس کا گھر بسے اُس سے پوچھو

"پھر کیا کبھی ہنسے؟

"اِس لیے مسٹر لفنٹر اپنی بتیسی منہ کے اندر رکھا کرو۔۔مسیج بھیجنے کے بعد اپنا موبائل رکھ کر سرجھٹک کر وہ فائل کی طرف دوبارہ متوجہ ہوئی تبھی کمرے میں فاحا آئی

"یہ سب کیا ہے؟بیڈ پر ہر جگہ فائلز کو دیکھ کر فاحا نے پوچھا

"میری دو ماہ کی محنت۔ ۔میشا پرجوش ہوکر بتانے لگی تو فاحا فورن سے اُس کے پاس آتی وہ فائلز کو دیکھنے لگی۔ ۔"لیکن ایک فائلز پر نظر پڑتے ہی اُس کی آنکھیں اُبل کر باہر آنے کو تھیں۔ ۔

آپو

ایک منٹ۔ ۔۔

"فاحا میشا سے کچھ کہنے سے والی تھی جب موبائل پر ایک مسیج پڑھ کر اُس کو تاؤ آیا

"بدتمیز یہاں کیسے آگیا؟میشا حیرت سے غوطہ زن ہوتی بولی

"بدتمیز سے مُراد؟فاحا سرجھٹک کر اُس سے بولی

"آریان نے جگہ کی تصویر بھیجی ہے جو گاؤں کے نہر کے پاس ہے یعنی وہ یہاں ہے اُٹھو جلدی ہمیں وہاں جانا ہے اُس سے پہلے وہ حویلی میں آجائے۔۔میشا فورن سے بیڈ سے اُٹھ کھڑی ہوئی تو اُس کی دیکھا دیکھی میں فاحا بھی اپنی جگہ سے اُٹھی

"اُن کے آنے سے آپ پریشان کیوں ہیں؟آتے ہیں تو آنے دے"ظاہر سی بات ہے پیاسا خود کنویں کے پاس آتا ہے کنواں اُس کے پاس نہیں جاتا۔۔۔فاحا نے کہا تو میشا دانت پیس کر اُس کو دیکھنے لگی جس پر وہ دانتوں کی نُمائش کیے یہاں وہاں دیکھنے لگی۔"جیسے ابھی اُس نے کچھ ہی نہ تھا۔

❤❤❤❤❤

تم یہاں؟اسیر جو ڈیرے کے بجائے زمینوں کا چکر لگانے نکلا تھا" نظر جب زوریز کے ساتھ آریان پر پڑی تو حیرت سے اُن دونوں کو دیکھا

"السلام علیکم ۔۔۔زوریز نے اُس کو دیکھ کر پہلے سلام کیا

وعلیکم السلام کیسے آنا ہوا تمہارا یہاں؟اسیر نے سلام کا جواب دینے کے بعد پوچھا

"یہ کون ہے؟آریان بلیک شلوار قمیض میں ملبوس اسیر اور اُس کے کندھوں پر شال اُوڑھے دیکھ کر اُس کا مکمل جائزہ لینے کے زوریز سے سوال کیا

"ہمارا سالا ہے۔ ۔۔زوریز کے منہ سے بے اختیار پھسلا تو آریان نے چونک کر ایک بار پھر ایکسرے کرتی نظروں سے اسیر کو دیکھا جو آنکھیں چھوٹی کیے زوریز کو دیکھ رہا تھا

"آپ نے کیا کہا ہم نے سہی سے سُنا نہیں؟اسیر نے زوریز کو دیکھ کر پوچھا

"میں کہہ رہا تھا کہ آپ سے مل کر خوشی ہوئی"اور کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ سوہان ہمیں کہاں ملے گی؟زوریز نے ہلکی مسکراہٹ سے کہا

"اور میں کہہ رہا تھا کہ آپ سے مل کر جو خوشی ہوئی وہ الگ بات ہے" لیکن آپ کیا بتاسکتے ہیں کہ"میشا مجھے کہاں ملے گی؟اسیر نے ابھی زوریز تک کو جواب نہیں دیا تھا جب آریان نے بے قراری سے پوچھا تو اسیر نے باری باری دونوں کو جانچتی نظروں سے اُن دنوں کو دیکھا

"وہ

"تم گدھے یہاں بھی آگئے۔ ۔۔اسیر جواب دینے والا تھا جب میشا اور فاحا اچانک جانے کہاں سے آ دھمکی تو میشا کو دیکھ کر آریان کی پوری بتیسی کُھل چکی تھی" لیکن زوریز اُن کے پیچھے ایسے دیکھ رہا تھا جیسے وہاں اُس کو سوہان نظر آجائے گی۔ ۔

"گدھا یہاں کیوں نہ آتا تم اُس کی ساری گھاس یہاں اُٹھا کر جو لائی تھی" گدھی نہ ہو تو۔ ۔آریان نے بُرا مانے بغیر کہا تو خود کے لیے" لفظ "گدھی" سُن کر میشا کی آنکھیں حیرت کے مارے پوری کُھلی کی کُھلی رہ گئ تھی

یہ تم نے گدھی کس کو کہا؟میشا نے کڑے چتونوں نے اُس کو گھورا

"تمہیں کہا اور کوئی تمہیں گدھی نظر آتی ہے کیا یہاں؟"میں گدھا ہوں اور تم گدھی ہو اور ہم دونوں کا پرفیکٹ میچ ہے۔ ۔میشا کو گدھی بنانے کے لیے آریان خود گدھا بنانے کو تیار تھا۔"اُن کی لڑائی فاحا بڑے پرشوق نظروں سے دیکھ رہی تھی البتہ زوریز اور اسیر نے خاصی بیزار کن نظروں سے اُس کو دیکھ رہے تھے جنہوں نے لڑنے میں بچوں کو بھی پیچھے چھوڑدیا تھا۔ ۔

"تمہیں تو میں ابھی گھاس کِھیلاتی ہوں۔ ۔میشا یہاں وہاں دیکھتی اُس کو دیکھ کر بولی

"پہلے تم کھاکر بتانا کہ ٹیسٹ کیسا ہے؟آریان نے اشتیاق سے کہا

"اگر آپ گدھی گدھوں کا ہوگیا ہو تو ہم یہاں سے چلے؟اسیر نے طنز کیا

"ہاں جاؤ۔۔میشا نے شانِ بے نیازی سے کہا

"ہم نے آپ دونوں کو بھی کہا ہے۔۔اسیر نے اُس کو گھورا

"اب ہمیں کیا پتا کہ آپ کے"ہم"کتنی آبادی کا شُمار ہوتا ہے کیونکہ آپ خود کو بھی"ہم" بولتے ہیں۔ ۔فاحا نے بھی جانے کونسا غُصہ اُس پر نکالا

"اچھا تو جو اِنہوں نے گدھوں کہا اُس " گدھوں" میں یہ خود بھی شامل تھے؟آریان نے کہا تو ہر ایک نے اُس کو گھورا تھا اور اسیر نے جانے کیا سوچ کر اپنا غُصہ دبایا تھا

"تمیز سے بات کریں ورنہ جو مقصد آپ لیکر یہاں آئے ہیں نہ وہ حسرت بن کر آپ کے ساتھ قبر میں دفن ہوگا'ہاں اِن کا غُصہ بڑا تیز ہے یہ جب غُصے سے بات کرتے ہیں تو بجلی کڑکنے لگتی ہے۔ ۔فاحا نے کہا تو آریان بھنوئیں اُپر کرتا اسیر کو دیکھنے لگا جو اب فاحا کو گھور رہا تھا۔

"سوہان کہاں ہے؟ زوریز کو بس"سوہان کی پڑی تھی

"دُنیا اِدھر سے اُدھر ہوجائے لیکن تم نے پھر بھی یہ پوچھنا ہے"سوہان کہاں ہے؟آریان زوریز کو گھور کر بولا

"اگر تم واقعی میں چاہتے ہو تمہارا مقصد حسرت بن کر قبر میں دفن نہ ہو تو چُپ کرکے کھڑے رہو۔ ۔زوریز نے اُس کو آنکھیں دیکھائی

"کیا ہوگیا ہے یار اب بندہ اپنے بھائی سے مذاق بھی نہ کرے؟ آریان نے جلدی سے پنترا بدلا تھا۔

"سوہان حویلی میں ہے اور آپ لوگ وہان آئے مُلاقات ہوجائے گی۔ ۔فاحا نے زوریز کی بے چینی کو دیکھ کر کہا

"یہ دونوں حویلی نہیں آئے گے سوہان سے کہو وہ یہاں آئے" حویلی میں غیرمرد کو آنے کی اِجازت نہیں ہوتی۔ ۔۔فاحا کی بات پر جہاں زوریز خوش ہوا تھا وہی اسیر نے رنگ میں بھنگ ڈالنا ضروری سمجھا

"یہ کوئی غیر نہیں حویلی کا داماد ہے تو اِس کے آنے پر کوئی پابندی نہیں ہوگی" اور وقت آگیا ہے کہ ہر کوئی انٹرڈیوس ہو۔۔میشا نے جتاتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا تو زوریز نے چونکتے ہوئے میشا کو دیکھا کیونکہ اِتنے سالوں بعد اُس کو احساس ہوا تھا کہ وہ نکاح شدہ ہے۔ ۔۔"دوسری طرف آریان خوشفہمی کی انتہاؤ کو چھاتا دلکش انداز میں اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا

"کون داماد"اور کس کا شوہر؟اسیر تعجب سے زوریز اور آریان کو دیکھنے کے بعد پوچھنے لگا

"میں

میں۔۔

زوریز اور آریان ایک ساتھ بولے تھے

"یہ تو بکریوں کی طرح" میں میں کرنے لگے ہیں۔ ۔۔فاحا کی زبان میں کُھجلی ہوئی

"دراصل میں شوہر ہوں سوہان کا اور یہ میرا بھائی ہے آریان میشا کا فیوچر ہسبنڈ۔ ۔۔زوریز نے اپنے ساتھ ساتھ آریان کی بھی نیا پار لگادی تو آریان اُس کے واری صدقے ہوا"اِتنا کہ وہ یہ تک غور نہیں کرپایا کہ اُس نے ابھی سے خود کو سوہان کا شوہر کے نام سے انٹرڈیوس کروایا ہے"لیکن میشا ہونک بنی زوریز کو تکنے لگی جس نے مفت میں اُس کو آریان کے پلے باندھا تھا۔

"آپ کا بھی اگر کوئی چاہنے والا ہے تو ابھی سے بتادے۔ ۔۔اسیر سرجھٹکتا فاحا سے بولا

"آپ کی طرح میرا نا تو کسی سے خوفیہ زبردستی نکاح ہوا ہے اور نہ کوئی بچہ میں نے چُھپا کر رکھا ہے۔ ۔فاحا نے بنا لگی لپیٹی کے ساتھ اُس کو سُناتے ہوئے کہا تو اسیر نے بے اختیار اپنے ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینچ کر دانت کچکچاکر اُس کو دیکھنے لگا جو ایک بار اُس کا صبر آزما رہی تھی۔

"ہیں کون ہے پھر تمہاری بشیرا ہے؟"حد ہے ہمیں مِلوایا ہی نہیں۔ ۔۔میشا نے گویا شکوہ کیا

"بشیرا کافی آنٹی ٹائیپ نام نہیں؟"آریان نام دوہراتا اپنی داڑھی کو کِھجاکر میشا سے بولا

"یہ گاؤں ہے یہاں بشیرا شبیرا تمہیں آرام سے مل جائے گی"کیونکہ یہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔۔میشا نے رازدرانہ انداز میں آریان کو بتایا

"ہماری پرائیویسی میں دخل نہ دے آپ"میشا اور آریان اس اگنور کیے"اسیر نے سنجیدگی سے فاحا کو کہا

"آپ کو بھی میں یہ کہوں گی۔۔۔"فاحا کے چاہنے والے جتنے بھی ہو وہ اُن کا بتانے کی پابند آپ کی نہیں ہے۔ ۔۔فاحا ترکی پر ترکی بولی

"آج کیا لڑائی کا دن ہے۔۔زوریز تنگ ہوکر بولا"آخر کیوں نہیں ہوتا کب سے وہ دیکھ رہا تھا اُن چاروں میں سے باری باری کوئی نہ کوئی لڑ ضرور رہا تھا اور ایک وہ تھا جس سے لڑنے والی یہاں موجود نہ تھی۔

"اِن کو لیکر چلے سوہان کہتے کہتے دل کا دورا نہ پڑجائے میرے بھائی کو۔ ۔۔آریان کو زوریز پر ترس سا آگیا

"آئے۔ ۔۔۔اسیر نے سنجیدگی سے کہا

"تم آؤ میری گاڑی میں۔۔۔زوریز نے اپنی گاڑی کی طرف اِشارہ کیا

"ہماری گاڑی تھوڑا دور کھڑی ہے اُس میں آجائے گے ہم۔ ۔۔"اور آپ لوگ خیال سے آئیے گا موسم خراب ہے بارش کبھی بھی ہوسکتی ہے اکثر یہاں بے وقت موسلادھار بارش ہوتی رہتی ہے۔۔۔اسیر ایک نظر اُس کی گاڑی کو دیکھ کر بولا

"فاحا میں نے بھی سُنا ہے یعنی یہ گاؤں والے کہتے ہیں کہ یہاں جب بجلی گرجتی ہے تو جو کالے لباس میں ہوتا ہے وہ بجلی اُس پر گِرتی ہے۔ ۔۔میشا نے فاحا کو دیکھ کر بڑے سنجیدہ انداز میں کہا تو وہ چونک کر خود کو دیکھنے لگی کیونکہ آج اُس نے بلیک پرینٹڈ سوٹ زیب تن کیا تھا خود کے بعد اُس کی نظر بے ساختہ اسیر پر پڑی تھی جو بلیک شلوار قمیض میں تھا یہ دیکھ کر فاحا کو عجیب گدگدی سے ہونے لگی۔ "میشا نے کیا کہا تھا اِس بات پر وہ غور ہی نہیں کرپائی تھی" دوسرا میشا نے یہ طنز کیا بھی اسیر پر تھا ناکہ فاحا پر۔ ۔

"افففف یہ تو بڑا گھمبیر مسئلہ ہوگیا۔ ۔۔آریان نے بھی افسوس کا اِظہار کیا تھا

"آپ یہ پہن لے۔ ۔۔اسیر کو جانے کیوں سوجھی جو اپنی براؤن شال اُوڑھی کندھوں سے اُٹھا کر فاحا کو اُوڑھائی تو وہ پلکیں جِھپکائیں بنا یک ٹک اسیر کو دیکھنے لگی اور وہ فاحا کو"میشا نے آریان کو دیکھا تھا تو آریان نے اُس کو اور ایک زوریز تھا جس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ خود بھاگ کر سوہان کے پاس چلا جاتا"خیر سوہان کہ نا ہونے کی وجہ سے زوریز نے ہاتھ میں پہنی گھڑی میں وقت دیکھا تھا" وقت جس طرح گُزر رہا تھا ٹھیک ویسے آسمان پر بادلوں کا گھیرا بڑھتا جارہا تھا۔

"شکریہ۔ ۔فاحا نظریں جُھکا کر بولی تو اسیر کے وجیہہ چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ نے احاطہ کرلیا تھا جس کو چُھپاکر وہ سائیڈ پہ ہوا

"آپ میری گاڑی میں بیٹھ جائے۔ ۔۔۔اسیر نے فاحا کو دیکھ کر کہا تو فاحا سے پہلے میشا فرنٹ سیٹ پر آکر بیٹھ گئ جس پر فاحا نے دانت پیس کر اُس کو گھورا تھا جواب میں میشا نے معصومیت سے آنکھیں پِٹپِٹائیں تھیں

❤❤❤❤❤❤❤❤

"یہ دو لڑکے کون ہے؟حویلی میں ابھی دو گاڑیاں داخل ہوئیں تھیں" جب مالی بابا کے ساتھ کھڑی ہوئیں عروج بیگم نے ایک گاڑی سے زوریز اور آریان کو اُترتا دیکھا تو اسیر سے سوال کیا

"شہر سے آئے ہیں ہمارے مہمان ہیں"موسم اچھا نہیں تھا تو ہم یہی لے آئے ہیں۔ ۔۔اسیر نے بتایا تو اب عروج بیگم کی نظر فاحا پر پڑی جس نے اپنے گرد اسیر کی شال لپیٹی ہوئی تھی۔

"آپ کی شال؟عروج بیگم نے اسیر سے سوال کیا جس کو وہ آج پہلی بار شال کے بغیر دیکھ رہیں تھیں۔ ۔

"فاحا کے پاس ہے۔ ۔جواب اسیر سے پہلے فاحا نے دیا تھا۔

ہمارے گاؤں کی روایت ہے جو مرد عورت کو اپنی شال اُوڑھاتا ہے وہ لڑکی پھر اُس کی بن جاتی ہے اور اُن کا نکاح ہوجاتا ہے۔ ۔۔عروج بیگم کے دماغ میں جانے کیا خیال آیا جو اُنہوں نے یہ کہا تو ہر کوئی حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگا جبکہ اسیر یہ سوچ رہا تھا کہ یہ روایت کب بنی؟"جو وہ گاؤں کا سردار ہونے کے باوجود جان نہیں پایا تھا۔"دوسرا میشا اور فاحا کی تلاش میں سوہان بھی حویلی کے باہر آتی لان میں اپنے قدم رکھے تو عروج بیگم کی بات پر فاحا کو دیکھنے لگی جو حیرانگی کا مُجسمہ بنی ہوئی تھی۔

"ہمارے خاندان کی بھی ایک روایت ہے اگر لڑکا لڑکی کو اپنی جیکٹ پہناتا ہے تو وہ دونوں ایک دوسرے کے ہوجاتے ہیں پھر دھوم دھام پٹاخوں کے ساتھ اُن کی شادی کروائی جاتی ہے۔"کیوں میشو تمہیں یاد ہے نہ؟"ہاں یاد کیوں نہیں ہوگا جب جب میں تمہیں اپنی جیکٹ پہناتا تھا تو بتاتا تھا تو دسو اپنی دادی نوں تاکہ ہمارے وہاہ دا بندوبست کریں۔۔۔آریان کہاں پیچھے رہنے والا تھا وہ بھی جھٹ سے بولا تو زوریز نے کن آکھیوں سے ہر ایک کو دیکھ کر آخر میں پریشان کھڑی سوہان کو دیکھا تھا جس کی نظریں ابھی تک اُن پر نہیں پڑیں تھیں۔ "اُن سے بے نیاز میشا کڑے تیور لیے آریان کو دیکھ کر اپنے دماغ پر زور دیتی یہ سوچنے میں تھی" آریان نے کب اُس کو اپنی جیکٹ دی تھی۔

"دادی یہ کیا بول رہی ہیں آپ اندر چلیں۔ ۔اسیر سرجھٹک کر عروج بیگم سے بولا

"ہماری

"اندر بات ہوگی۔ ۔۔عروج بیگم کچھ کہنا چاہتیں تھیں جب اسیر اُن کی بات کاٹ کر بولا

"السلام علیکم سوہان۔ ۔۔زوریز سے زیادہ دیر تک سوہان کی لاتعلقی برداشت نہیں ہوئی تو اُس نے سوہان کا دھیان اپنی طرف کروانے کی کوشش کی جس پر سوہان حیرت سے زوریز کو دیکھنے لگی اُس کو یقین نہیں آیا کہ زوریز گاؤں بھی آسکتا تھا۔

"اب آپ کیا کہنے والوں ہیں کہ سالوں پہلے آپ کی نظر سوہان پر پڑی تھی"تو وہ اب آپ کی ہے؟آریان سرگوشی نما آواز میں زوریز کے کان کے پاس آکر جُھک کر بولا تو اُس نے آریان کو تنبیہہ کرتی نظروں سے دیکھا پھر آریان نے سوہان کو آتا دیکھا تو وہ وہاں سے کھسک گیا


"آپ یہاں؟سوہان چلتی ہوئی اُس کے روبرو کھڑی ہوئی

"کیسی ہیں آپ؟زوریز نے جیسے اُس کی بات سُنی ہی نہیں

"میں تو ٹھیک ہوں لیکن آپ یہاں کیسے؟"اور کیوں آئے ہیں؟سوہان بتانے کے بعد بولی زوریز کو دیکھ کر وہ حقیقتاً پریشان ہوئی تھی وہ نہیں چاہتی تھی کہ حویلی کا کوئی اور مرد یہاں زوریز کو دیکھتا یا اُس سے کوئی بات کرتا

"کیا آپ کو میرا یہاں آنا پسند نہیں آیا؟زوریز نے سوال کیا

"آپ کو کیا لگا تھا یہاں میں آپ کو دیکھ کر خوش ہوجاؤں گی؟سوہان نے اُلٹا اُس سے سوال کیا

"میں اب خود کو اِتنا بھی خوش قسمت نہیں سمجھتا۔ ۔زوریز نے شانے اُچکاکر کہا

"آپ اپنے بھائی کو لیکر یہاں سے جائے" ویسے بھی کچھ وقت بعد ہم شہر واپس لوٹ آئینگے۔ ۔سوہان اُس کی بات نظرانداز کرکے بولی

"میں یہاں اسپیشلی آپ کو لینے آیا ہوں۔ ۔۔زوریز نے بتایا تو سوہان نے چونک کر اُس کو دیکھا

"مطلب؟سوہان نے ناسمجھی کی کیفیت میں اُس کو دیکھ کر پوچھا

"مطلب میں آج آپ کا کلائنٹ بن کر نہیں شوہر بن کر آپ کو لینے آیا ہوں۔ ۔زوریز نے بتایا اور یہ سن کر سوہان کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا کہ یہ کہنے والا واقعی میں زوریز تھا"جو اِتنے سال بعد اُس کو اِن کے رشتے کا حوالہ دے رہا تھا اور کتنا مان"اور کتنے غرور سے اُس نے یہ کہا جیسے اُس کو پورا یقین تھا کہ سوہان اُس کی بات سے انحراف نہیں کرے گی۔

"کسی نے کہا تھا کہ وہ مجھ پر زور زبردستی نہیں کرے گا۔ ۔سوہان نے جیسے اُس کو یاد کروایا

"جس نے بھی جس کسی کو بھی یہ کہا تھا اُس کو اندازہ ہونا چاہیے کہ صبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے"اور ہمیں کسی کی حدود کی لِمٹس کو زیادہ طویل نہیں کرنا چاہیے۔ ۔زوریز دوبدو بولا

"زوریز میری بات سُنیں آپ

"ہمیشہ آپ کی باتیں سُنتا آیا ہوں لیکن آپ کو آج میری بات سُننا ہوگی'میری پھوپھو کل پاکستان آنے والی ہیں"وہ بات کرے گیں آپ کے فادر سے۔ ۔زوریز اُس کی بات درمیان میں کاٹ کر کہا

"یہ پاسبیل نہیں زوریز ایسا نہیں ہوسکتا آپ کیسے اپنی بات سے مکر سکتے ہیں؟سوہان حیران تھی

"سیریسلی؟

آپ کو لگتا ہے کہ میں یعنی زوریز دُرانی اپنی کسی بات سے مکر رہا ہے جس نے اِتنے سال خاموشی کا قفل صرف اور صرف آپ کی خوشی کی خاطر لگایا تھا اور آج جب وہ آپ سے کچھ چاہتا ہے" آپ کے در پر سوالی بن کر آیا ہے تو آپ اُس کو یوں خالی ہاتھ لُٹانے لگیں ہیں تو خود بتائے کیا یہ سہی ہے میرے ساتھ؟ زوریز نے سوال اُٹھایا تو سوہان اُس کو دیکھتی رہ گئ جو آج اپنی پر آیا تھا تو اُس کی کچھ سُن ہی نہیں رہا تھا۔

"میں ابھی رخصتی نہیں چاہتی مجھے وقت چاہیے۔ ۔سوہان نے بس اِتنا کہا

"آپ کو وقت دینے کے چکر میں میرے بالوں میں سفیدی"ہاتھوں میں اسٹک اور چہرے پر جہڑیاں آجائے گیں۔ ۔زوریز نے جلے دل کے ساتھ کہا تو سوہان آنکھیں چھوٹی کیے اُس کو دیکھنے لگی


"سیکھو اپنی بڑی بہن سے کتنے پیار سے زوریز کو دیکھ رہی ہے"اور باتیں کرنے میں لگی ہوئی ہے۔آریان جو زوریز کے قدرے فاصلے پر کھڑا تھا اُس نے میشا سے کہا

"میری تم بات سُنو زیادہ ہواؤں میں اُڑنے کی قطعیً کوئی ضرورت نہیں ہے تمہیں کیونکہ میں میشا عرف میشو ہوں جو کسی کے دباؤ میں نہیں آتی اِس لیے یہ خیال دماغ سے نکال دو کہ میں تم سے شادی کروں گی۔۔اُس کی بات کو اگنور کرتی میشا دانت پیس کر بولی

"یہ تو اب ناممکن سا ہے۔۔آریان نے آنکھ کا کونا دبائے اُس سے کہا

"آپو آجائے بات کرنی ہے آپ سے۔۔فاحا نے میشا کو دیکھ کر کہا

"جاؤ اب تو میں یہی ہوں پھر مُلاقات ہوتی رہے گی۔۔آریان نے شرارت سے کہا تو اُس کو دیکھتی میشا فاحا کے ساتھ حویلی میں داخل ہوئی

"وہ دونوں اپنے کمرے میں جانے کا اِرادہ کیئے ہوئے تھیں"جب عروج بیگم کے کمرے کے پاس گُزرتے ایک آواز نے اُن دونوں کا دھیان اپنی طرف کھینچا

"دادی ہم ہرگز فاحا سے شادی نہیں کرسکتے"کیا ہوگیا ہے آپ کو جو ایسی باتیں لیکر بیٹھ گئیں ہیں آپ"وہ بہت چھوٹی ہے ہم سے اور اُس سے شادی کرنے سے اچھا ہم کوئی بچہ ایڈاپٹ کردے۔۔اسیر کی غُصیلی آواز فاحا واضع سُن چُکی تھی جس پر اُس کے چہرے کی رنگت متغیر ہوئی تھی۔۔"اور میشا نے حیرت سے فاحا کو دیکھنے لگی۔

"یہ اندر کیا کھچڑی پک رہی ہے؟"تمہیں کیا کوئی علم تھا اِس بات کا؟ میشا نے مشکوک نظروں سے اُس کو دیکھا

"فاحا کو نہیں پتا اور اِس اسیر بشیر سے کہہ دے کہ فاحا ملک اپنے پورے ہوش وحواس میں اُن کو ریجکیٹ کرتی ہے"ریجیکٹ کرتی ہے اور ریجیکٹ کرتی ہے۔۔فاحا دانت پیس کر جذباتی انداز میں کہتی واک آؤٹ کرگئ تو میشا ہونک بنی اُس کی پشت کو تکنے لگی۔"وہ جان نہیں پائی کہ فاحا کو اچانک کس کیڑے نے کاٹ لیا؟"لیکن پھر سرجھٹک کر دروازے سے کان لگائے اندر ہوتی گفتگو کو سُننے لگی۔ ۔

"اسیر کیا آپ کو یاد ہے آج سے کچھ سال قبل آپ اِسی لہجے میں ہم سے مُخاطب تھے اور تب آپ کو اِس بات کا شکوہ تھا کہ ہم آپ کی شادی دیبا سے کیوں کروا رہے ہیں وہ عمر میں آپ سے بڑی ہے اور آج بھی آپ کا شکوہ کچھ ایسا ہے کہ فاحا سے شادی کروانے کا ہم نے کیوں سوچا وہ آپ سے عمر میں چھوٹی ہے۔ ۔عروج بیگم اسیر کا چہرہ تکتی مسکراکر اُس کو پُرانہ وقت یاد کروانے لگی جس کو یاد اسیر تو بلکل بھی کرنا نہیں چاہتا تھا۔

"حیرت ہے اِس اسیر بشیر کی بیوی آنٹی دیبا ہے؟"اور میں نے ایویں بشیرا کو خُوار کیا۔ ۔میشا نے یہ سُنا تو اُس کو کافی تعجب ہوا

"تو کیا لازمی ہے پہلے جس طرح ہم نے خود سے سات سال بڑی لڑکی سے شادی کی اور اب آٹھ سال چھوٹی لڑکی سے شادی کریں لڑکی بھی وہ جس کا دماغ ہماری اقدس کے دماغ کی طرح ہے پچکانہ۔ ۔اسیر سرجھٹک کر بولا تو اُس کی آخری بات پر میشا کو تاؤ آیا بھلا وہ کیسے برداشت کرتی کہ کوئی اُس کی بہن کے خلاف کچھ بھی بولے"تبھی دروازہ کھول کر وہ دھڑام سے اندر داخل ہوئی تو اسیر نے ناگواری سے اُس کو دیکھا

"تم کیا میری بہن کو انکار کرو گے؟"ارے وہ تو خود تین بار تمہیں ریجکیٹ کرچُکی ہے۔۔میشا نے کہا تو اسیر کے ماتھے پر لاتعداد بلوں کا جال بِچھ گیا تھا یہ بات سُن کر جیسے اُس کی انا کو ٹھیس پہنچی تھی۔"یعنی وہ خود چاہے اُس کو انکار کرتا لیکن فاحا کے پاس انکار کا کوئی حق وہ نہیں سمجھتا تھا۔

"یہ بات اُس نے خود کہی؟اسیر نے ضبط سے پوچھا

"بلکل چاہے تو پوچھ سکتے ہو اور ہاں خود کو شکل سے شہزادہ گُلفام اور غُصے میں چنگیز خان سمجھنے کی تمہیں کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اگر تمہارا ہائے اسٹینڈر ہے تو میری بہن کا بھی ایک الگ لیول ہے جس پر تم پورے نہیں آتے۔ ۔میشا نے سارے حساب پل بھر میں بے باک کیے تو اسیر لمبے لمبے ڈُگ بھرتا وہاں سے باہر نکل گیا اُس کا اِرادہ اب فاحا کی خبر لینے کا تھا۔ ۔

❤❤❤❤❤❤

"اسیر سب سے پہلے اپنے کمرے میں آیا تھا اُس نے سوچا بھلا وہ کیوں فاحا سے بات کرے؟"کونسا وہ اُس پر مرمٹا ہے اگر اُس کا انکار ہے تو انکار سہی ویسے بھی خود بھی تو وہ شادی کے حق میں نہیں تھا" اور اگر فاحا انکار کررہی تھی تو یہ اُس کے لیے بھی اچھا تھا" پر جب وہ نہاکر فریش ہوکر آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی شال اُوڑھنے لگا تو دماغ میں بس ایک خیال اُس کو ستانے لگا کہ اُس میں ایسی کیا خامی تھی جو فاحا نے اُس کو ریجیکٹ کیا"ہلانکہ وہ اُس کی آنکھوں میں اپنا عکس بہت پہلے سے دیکھ چُکا تھا پر اُس کی عمر کو دیکھ کر اسیر نے کبھی اُس کی حوصلہ افزائی کرنے کا نہ سوچا تھا اور جتنا اُس کے لیے ممکن ہوتا تھا وہ فاحا سے فاصلہ اختیار کیا کرتا تھا پر آج میشا کے منہ سے فاحا کا انکار اُس کے لیے ایسے تھا جیسے کوئی کاری ضرب تبھی خود سے اکیلے لڑائی لڑنے سے اچھا وہ فاحا سے بات کرنے کی نیت سے اپنے کمرے سے باہر نکل کر اُس کے کمرے کے دروازے کے پاس آیا جو کُھلا ہوا تھا اور سامنے اُس کو فاحا یہاں سے وہاں ٹہلتی نظر آئی جس پر جانے کیوں اسیر کو غُصہ آیا

"بات کرنی ہے آپ سے۔ ۔اسیر نے اُس کو اچانک سے مُخاطب کیا تو فاحا کا دل اُچھل کر حلق میں آیا تھا وہ بس اپنی دھڑکنوں کو سنبھالتی دروازے کے پاس کھڑے اسیر کو دیکھنے لگی جس کا چہرہ ہر تاثر سے پاک تھا

"یہ کیا طریقہ ہے فاحا کے کمرے میں آنے کا اور یوں جن کی طرح مخاطب ہونے کا۔ ۔فاحا نے کہا تو اسیر بغیر اُس کی بات کا جواب دیتا پورا کمرے میں داخل ہوا جس پر فاحا کو جانے کیوں گھبراہٹ ہونے لگی۔"کیونکہ پہلی بار اُن کے علاوہ اُن کے کمرے میں کوئی آیا تھا

آپ نے ہم سے شادی کرنے سے انکار کیا؟اسیر فاحا کے روبرو کھڑا ہوتا سنجیدگی سے پوچھنے لگا

ہاں۔ ۔۔قدم پیچھے کی جانب لیکر فاحا نے مختصر جواب دیا۔ ۔

کیوں؟ سنجیدگی سے بھرپور اگلا سوال

کیونکہ مجھے آپ سے شادی نہیں کرنی تھی۔ ۔۔اپنے ڈوپٹے کے کونے کو مضبوطی سے تھامے فاحا نے جواب دیا

کوئی ایک وجہ ہم سے شادی نہ کرنے کی؟ اسیر نے اپنا ایک قدم آگے بڑھایا تو وہ دو قدم پیچھے ہوئی

کوئی ایک وجہ نہیں جو میں بتاؤں۔۔۔فاحا پزل ہوئی اُس کے سوالوں سے

ٹھیک ہے اگر وجوہات بہت ہیں تو باری بار سب بتاؤ۔۔۔اپنے کندھوں پر شال ٹھیک کیے بازوں سینے پر باندھے وہ کسی چٹان کی طرح اُس کے جانے کے سارے راستے مسدود کرتا پوچھنے لگا تو فاحا لب کُچلنے لگی۔۔۔"وہ سمجھ نہیں پائی اب اِس انسان نُما جن سے چُھٹکارا کیسے حاصل کرے

ہم سُن رہے ہیں۔ ۔۔اسیر بولا تو فاحا نے نظریں اُٹھاکر سامنے کھڑے وجاہت سے بھرپور اسیر کو دیکھا جو بے تاثر نظروں سے اُس کو دیکھ رہا تھا۔ ۔

آپ مجھ سے عمر میں بڑے ہیں۔ ۔پہلی وجہ بتائی گئ

محض آٹھ سال"اور یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ۔۔وجہ رد کی گئ۔۔۔

آپ شادی شُدہ بھی ہیں"مگر میں غیر شادی شُدہ ہوں۔ ۔۔آہستگی سے اپنے اُور اُس کے درمیان حائل فرق بیان کیا گیا

آپ وقت پر آجاتی تو آج دونوں شادی شُدہ ہوتے۔۔۔اُس کے جواب پر فاحا سُرخ ہوئی مگر نظریں اُٹھاکر اسیر کو دیکھنے کی ہمت نہ کرپائی

آپ ایک بچے کے باپ ہیں۔ ۔فاحا کو لگا شاید سامنے والا اب پیچھے ہٹ جائے اور اُس کو جانے دے

ہم سے شادی کے بعد وہ آپ کا بچہ بھی ہوسکتا ہے اگر آپ چاہو تو۔ ۔۔۔۔پیش کش کی گئ

اِن کے علاوہ بھی بہت سی باتیں ہیں جن کی وجہ سے میں شادی کے حق میں نہیں تو آپ پلیز مجھے فورس نہ کرے۔ ۔۔فاحا تنگ ہوئی

ہمارے کان کُھلے ہوئے ہیں اب آپ اپنا منہ کھول کر اور باتیں بھی بتائیں۔۔۔اسیر نے اصرار کیا

آپ بات ایسے کرتے ہیں جیسے کوئی احسان کرتے ہو"جیسے سامنے والا آپ کا غلام ہو اور آپ اُس کے مالک۔۔۔خفگی بھرے لہجے میں اگلی وجہ بتائی گئ۔

ہم نارمل لہجے میں بات کرنے کی کوشش کرینگے آپ آگے بولو۔۔۔۔اُس نے جیسے بات ختم کرنی چاہی

میری ایک چیز سے سؤ نقص نکالتے ہیں۔۔۔اب کی شکوہ کیا گیا

اب کی تعریف میں زمین آسمان ایک کرینگے"بس یا کچھ اور بھی؟اسیر غور سے اُس کے چہرے کے اُتاؤ چڑھاؤ کو دیکھ کر بولا

مجھے کبھی پیار سے نہیں دیکھا جب بھی دیکھا غُصے سے دیکھا ہے۔۔۔آخر میں اُس کے منہ سے وہ پھسلا جو نہیں پھسلنا چاہیے تھا مگر جو بھی تھا سامنے والا اُس کی بات سے محفوظ ہوا تھا تبھی اب کی مبہم مسکراہٹ سے اُس کو دیکھنے لگا جس کی حالت غیر ہوگئ تھی۔۔۔

"تو آپ چاہتی ہیں" ہم آپ کو پیار سے محبت لُٹاتی نظروں سے دیکھے؟ اسیر پہلی بار اپنے ڈمپلز کی نُمائش کرتا اُس سے پوچھنے لگا تو فاحا کا دل چاہا بھاگ کر کہی چُھپ جائے لیکن اسیر سے وہ کیسے بھاگ سکتی تھی؟"جو اُس کو پاتال سے بھی ڈھونڈ لاتا۔

❤❤❤❤❤❤❤

فاحا کو ایسی کوئی خوشقہمی نہیں ہے۔۔فاحا خود کو مضبوط ظاہر کرتی اسیر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا

"تو فاحا کو ایسی خوشفہمی رکھنی چاہیے۔ ۔اسیر کا انداز آج قدرے بہت مختلف تھا جس کو فاحا ہضم نہیں کرپا رہی تھی۔

"آپ جائے اِس سے پہلے میشا آپو آجائے۔ ۔فاحا بار بار دروازے کی طرف دیکھتی اُس سے بولی

"آجائے ہم کیا آپ کی افلاطون بہن سے ڈرتے ہیں۔ ۔اسیر نے اُس کی بات ہوا میں اُڑائی

"وہ منہ توڑنے میں وقت نہیں لگاتی۔ ۔فاحا نے اُس کو ڈرایا

"ہمیں پہلے ہمارے سوال کا جواب چاہیے۔ ۔اسیر نے سنجیدگی کے عالم میں کہا

"کونسے سوال کا جواب؟فاحا زچ ہوئی

"آپ نے ہم سے شادی سے انکار کیوں کیا؟اسیر نے پوچھا

"وجہ فاحا آپ کو بتاچُکی ہے لہٰذا آپ اُس کو اب مزید تنگ نہ کریں۔ ۔فاحا نے اُس کو دیکھ کر جواباً کہا

"فاحا نے انکار جن اعتراضات پر کیا ہے ہم اُس کو رد کرتے ہیں۔ ۔اسیر نے آرام سے کہا

"آپ کے رد کرنے سے ہمارا فیصلہ بدل نہیں جائے گا ویسے بھی میرے انکار پر آپ کو اِتنا بُرا کیوں لگ رہا ہے؟ "جبکہ یہ انکار فاحا سے پہلے آپ نے کیا تھا تو خوش ہوجائے یا پھر میں یہ سمجھوں کہ میرے انکار سے آپ کی سوکالڈ انا جاگی ہے۔ ۔۔فاحا نے اُس کو دیکھ کر میٹھا سا طنز کیا تھا جس پر اسیر جان گیا کہ میشا کے ساتھ ساتھ اُس کی عروج بیگم سے ہوئی گفتگو فاحا بھی سُن چُکی ہے تبھی اُس کا اِتنا روکھا انداز تھا

"ہاں آپ نے سہی اندازہ لگایا ہے آپ کے علاوہ ہمیں کوئی اور نہیں سمجھ سکتا یہی وجہ ہے کہ ہم نے اب آپ سے شادی کرنے کا سوچا ہے۔ ۔اسیر نے وہ کہا جس کا اُس نے کبھی سوچا تک نہیں تھا"اپنے آپ پر وہ خود بھی حیرت زدہ تھا کہ اُس نے آخر فاحا کے انکار کو اِتنا سر پر سوال کیوں کرلیا تھا

"یہ اچھی زبردستی ہے۔ ۔"اپنے دل کی آواز کو نظرانداز کرتی فاحا اُس کو گھورنے لگی

"ہے تو سہی لیکن ہم آپ کو خود کے ساتھ ناانصافی نہیں کرنے دے سکتے"آپ کا کوئی حق نہیں کہ ہمیں یعنی سردار اسیر ملک کو ریجیکٹ کریں وہ بھی تین بار۔ ۔۔اسیر نے کہا تو اِس بار فاحا نے من ہی من میں میشا کو کوسا

"آپ میرے ساتھ زور زبردستی نہیں کرسکتے" یہ میری زندگی ہے"اور میں جو چاہوں" جیسا چاہوں جس کو چاہوں ریجیکٹ کرسکتی ہوں ۔فاحا سرجھٹک کر بولی

"ہاں لیکن ہم اپنے ساتھ آپ کو یہ ظلم کرنے نہیں دے ۔۔سکتے۔ اسیر نے کہا تو فاحا نے تھکی ہوئی سانس بھر کر اسیر کو دیکھا

"یہاں جانے کا کتنا لے گے آپ؟فاحا نے بڑے تحمل سے پوچھا

فقط آپ کی ایک ہاں۔ ۔۔اسیر دلفریب لہجے میں بولا تو فاحا کی آنکھیں اُبل کر باہر آنے کے در پہ تھیں۔

"آپ کے رنگ ڈھنگ تو کچھ منٹس میں بدل گئے ہیں۔ ۔فاحا بے یقین تھی

"ہاں آپ کہہ سکتیں ہیں اور ابھی تو ہم جارہے ہیں"لیکن ہمیں اب آپ کا جواب" ہاں" میں چاہیے۔ ۔اسیر سنجیدگی سے دو ٹوک لہجے میں کہتا اپنے قدم اُس کے کمرے سے باہر نکالے"پیچھے فاحا جانے کتنی دیر تک جہاں تھی وہاں کی وہاں کھڑی ہوتی رہ گئ۔ ۔

Rimsha Hussain Novels❤

ویسے تمہیں مہمان نوازی کرنا بلکل بھی نہیں آتی۔ ۔آریان میشا کے ساتھ نہر کے پاس بیٹھا افسوس بھرے لہجے میں گویا ہوا

"اگر تم چاہتے ہو میں تمہیں اِس پانی میں نہ پھینکو تو خاموش رہو۔ ۔میشا نے گھور کر اُس کو دیکھ کر کہا جو کسی پرچھائی کی طرح ہر جگہ اُس کے ساتھ موجود ہوتا تھا۔

"میں سیریس ہوں اور تمہیں سیریس ہوکر میری بات کو سُننا چاہیے۔ ۔آریان نے جلدی سے کہا

"اچھا تو ایسا کیا ہے تمہاری بات میں؟میشا نے گویا اُس پر احسان کیا

"اممم تم اپنی بہنوں کو یہاں آنے کا کہو۔ ۔آریان نے پرسوچ ہوکر اُس سے کہا

"یہاں کیوں؟میشا ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگی

"تم اُن سے کہو باقی میں زوئی کو خود کال کرکے یہاں آنے کا کہتا ہوں۔ ۔۔آریان نے پرسکون ہوکر کہا

"میری پہلے تم بات سُنو زرا غور سے یہ شہر نہیں گاؤں ہے اور یہاں یوں لڑکا لڑکی کو ایک ساتھ دیکھ کر معیوب سمجھا جاتا ہے اور جو تم ٹپر اکھٹا کرنے کا سوچ رہے ہو مہربانی کرکے اُس کو سوچنا بند کردو۔۔میشا نے طنز ہوکر کہا

"گاؤں کے لوگ یہاں نہیں ہیں اور یہاں کوئی پروائیویسی نہیں ہوتی کیا جہاں ہم دلوں کی بات کرسکے؟آریان بدمزہ ہوتا بولا

"پروائیویسی ہوتی ہے نہ بہت ہوتی ہے لیکن اپنے گھر میں یوں گاؤں کے بیچوں بیچ تمہیں کوئی پروائیویسی نہیں ملنے والی۔۔میشا نے جتاتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا

"ہاں تو اب تم مجھے بے گھر ہونے کا طعنہ دوں گی؟"میں نہ آریان دُرانی ہوں اگر چاہوں تو یہ پورا گاؤں خرید سکتا ہوں۔۔آریان جذباتی سا ہوگیا

"ہاں خرید لو پھر پتا ہے کیا اسیر ملک پورے گاؤں کو تمہاری قبر بناکر دفن کردے گا۔۔"اُس کی خاموشی کو تم نے ہلکے میں لے رکھا ہے"یہاں آتے جاتے لوگوں سے اُس کا پوچھو ایسا تعارف ملے گا نہ تمہیں کہ انگلیاں دانتوں کے درمیاں کرجاؤ گے۔۔۔میشا نے اُس کو ڈرانے کی کوشش کی جو بچپن سے نا صرف غُصہ کرکے لوگوں کو ڈراتا تھا بلکہ اُن کا حال بے حال کرجاتا تھا۔

"مجھے تو وہ بہت خاموش سا نفیس انسان لگا۔۔آریان کو جیسے میشا کی بات پر یقین نہ آیا

"ہونہہہ خاموش نفیس انسان"وہ سُلجھا ہوا شاید تمہیں لگا ہو ورنہ وہ خاموش رہ کر اپنے اندر ایک طوفان سموئے ہوتا ہے طوفان بھی وہ جو ہر کسی کو اپنے لپیٹ میں کرجائے۔ ۔میشا سرجھٹک کر بولی

"اچھا چھوڑو اپنے کزن کی تعریفوں میں پُل باندھنا میں کوئی اور بات کرنے جارہا تھا اور تم اُس کی تعریفوں میں لگ پڑی۔ ۔آریان کو اب اسیر سے جلن محسوس ہونے لگی۔

"میں کرتی ہوں سوہان کو کال اور خبردار جو تم نے کوئی ایسا ویسا سین بنایا بھی تو۔۔میشا اپنے موبائل میں سوہان کا نمبر ڈائل کرتی اُس سے بولی

"نہیں کرتا میں کچھ ایسا ویسا تم بس وہ کرو جلدی سے جو کہا ہے"اور ہاں اپنے چنگیز خان سے کہنا اِس گاؤں کا سردار ہے تو حویلی کا علاوہ کوئی پرسکون جگہ ہے اُس کے پاس ہے یا نہیں"یا بس یونہی نام کا سردار ہے۔۔آریان نے منہ کے زاویئے بناکر کہا

"میری بات سُنو تم نے مجھے پہلے سوہان کا کہا میں اُس کو آنے کا کہہ رہی ہوں"لیکن نہ تو میرے پاس اُس اسیر بشیر کا نمبر ہے اور نہ میں اُس کو یہاں آنے کا کہنے والی ہوں گاٹ اِٹ۔۔میشا اُس کو آنکھیں دیکھا کر بولی تو آریان بول کر پر پچھتایا تھا۔"اور بس خاموش سا میشا کو دیکھنے لگا جو اب سوہان سے بات کرنے میں لگی ہوئی تھی۔

Rimsha Hussain Novels❤

یہ کیا ہے؟فاحا نے راستے میں مُلازمہ کو روک کر سلام کیا

"جی وہ یہ پانی ہے اور میں اسیر بابا کو یہ دینے کے بعد اُن لیے لیموں پانی بنانے لگوں گی۔۔۔مُلازمہ نے اُس کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا

"اچھا کہاں ہیں وہ؟فاحا نے سرسری لہجے میں اُس سے پوچھا

"ہال میں بیٹھے ہیں اور زمینوں کے کاغذات دیکھ رہے ہیں۔۔مُلازمہ نے بتایا

"اچھا آپ پانی پِلانے کے بعد کوئی اور کام کرو فاحا اُن کو لیموں کا پانی دے آئے گی۔۔فاحا نے کسی خیال کے تحت کہا

"جی آپ؟وہ حیران ہوئی

"ہاں کیوں کیا کوئی مسئلہ ہے؟فاحا کو اُس کا اِتنا حیران ہونا سمجھ میں نہیں آیا تھا

"نہیں مسئلے والی کیا بات ہونی ہے اگر آپ بنائے گیں تو میں نے بس ویسے ہی پوچھا۔۔وہ سنبھل کر کہتی سائیڈ پر ہوئی

"یہ بس مجھے دو لیموں پانی دینا ہے تو خالی پانی کیوں دینا؟فاحا نے کہا تو مُلازمہ خاموش رہی اب وہ بھلا کیا کہتی "جب اُس سے بے نیاز فاحا اُس کے ہاتھ سے گلاس لیتی باورچی خانے جانے لگی تاکہ اسیر کے لیے لیموں پانی تیار کرسکے"وہ آج اسیر سے بات کرنا چاہتی تھی"اُس کو لگا تھا اُس دن اسیر نے خوامخواہ اُس کو پریشان کرنے کے لیے ایسی باتیں کی ہوگیں جس کو وہ آج کلیئر کرنا چاہتی تھی۔


"یہ لیں۔۔لیموں پانی بنانے کے بعد فاحا اسیر کے پاس آکر گلاس بڑھاکر بولی تو اسیر نے سراُٹھا کر اُس کو دیکھا جو اُس کے یوں دیکھنے پر اپنی نظروں کا زاویہ بدل چُکی تھی۔


‏زباں خاموش مگر نظروں میں اجالا دیکھا

اس کا اظہار محبت بھی نرالا دیکھا

توقیر احمد


"شکریہ۔۔اسیر اُس کے ہاتھ سے لیموں پانی کا گلاس لیتا محض اِتنا بولا

"فاحا کو آپ سے بات کرنی ہے۔۔فاحا نے اُس کو لیموں پانی پیتا دیکھا تو کہا

"آپ غلطی سے اِس میں نمک کے بجائے چینی ڈال چُکی ہیں۔۔۔اسیر اُس کی بات کے جواب کے بجائے گلاس خود سے دور کرتا بولا

"میں نے غلطی سے نہیں خود نمک کے بجائے چینی ڈالی ہے۔۔فاحا نے بتایا

"کیوں؟اسیر کا سوال بے ساختہ تھا

"کیونکہ فاحا چاہتی تھی کہ آپ کا مذاج زیادہ نہیں تو تھوڑا ہی لیکن میٹھا ہو۔۔اُس کی بات پر فاحا آہستگی سے بڑبڑائی تھی۔

"کچھ کہا کیا آپ نے؟اسیر نے غور سے اُس کو دیکھا

"آپ کچھ کہہ رہے تھے؟فاحا نے بات کا رُخ بدلا

"ہاں وہ ہم کہہ رہے تھے کہ لیموں پانی میں چینی کون ڈالتا ہے؟اسیر حیران ہوا تھا کیونکہ آج سے پہلے اُس نے کبھی لیموں پانی میں چینی کا مکسچر نہیں تھا سُنا

"لیموں پانی میں چینی کون نہیں ڈالتا؟"ہر کوئی ڈالتا اور لیموں پانی دو طرح سے بنایا جاتا ہے ایک نمک سے تو دوسرا چینی سے۔۔"اور فاحا گرمیوں میں لیموں بناتی ہے تو اُس میں نمک ایڈ کرتی ہے ورنہ وہ اکثر چینی کا استعمال کرتی ہے۔۔۔فاحا نے اُس کو بتایا تو اسیر کو بے ساختہ جھرجھری سی آئی تھی۔

"تم

"فاحا آؤ میرے ساتھ۔۔۔اسیر فاحا سے کچھ کہنے لگا تھا جب وہاں سوہان آتی فاحا سے مُخاطب ہوئی

"کہاں؟فاحا نے دیکھ کر پوچھا

"میشا نے ایک جگہ کا کہاں ہے وہی جانا ہے ہم نے۔۔سوہان نے بتایا

"دونوں اکیلی نہیں جاسکتی"یہ گاؤں ہے جہاں ہمارے دُشمن بھی ہوتے ہیں۔۔سوہان کی بات پر اسیر نے سنجیدگی سے کہا

"آپ کے ہیں ہمارے تو نہیں نہ۔۔فاحا یکدم بول اُٹھی

"خاندان تو ایک ہے نہ۔۔اسیر نے اُس کو گھورا

"ہمیں اپنا دفاع کرنا آتا ہے'خیر تمہارا شکریہ اور فاحا تم جلدی کرو۔۔سوہان اسیر کو جواب دیتی آخر میں فاحا سے بولی

"رُکو جہاں جانا ہے ہم چھوڑ آتے ہیں۔۔اسیر کچھ سوچ کر اُٹھ کھڑا ہوا

"تمہیں زحمت کرنے کی ضرورت نہیں ہے"ہمیں وقت بھی لگ سکتا ہے کیونکہ وہاں آریان بھی ہوگا۔۔سوہان نے سنجیدگی سے کہا

"پھر تو ہمارا وہاں ہونا اور بھی ضروری ہے۔۔کہنے کے ساتھ ہی اسیر اُس کے برابر سے گُزرا تو سوہان اُس کی پشت کو گھورنے لگی۔

"اِن میں اِتنا اٹیٹیوڈ کیوں ہے؟فاحا کو اسیر کا انداز قطعیً نہیں بھایا

"خُدا جب حُسن کے ساتھ مال دولت سب کچھ دے دیتا ہے تو اٹیٹیوڈ اِنسان میں خودبخود آجاتا ہے۔۔سوہان اُس کی بات کے جواب میں بولی جس پر فاحا لاجواب سی ہوگئ

❤❤❤

"کیا ہوا ہے جو مجھے یہاں جلدی میں آنے کا کہا؟زوریز آریان کی بتائی ہوئی جگہ پر آتا سوال گو ہوا

"ایک سرپرائز ہے میرے پاس تمہارے لیے۔۔آریان نے پرجوش ہوکر اُس کو بتایا تو زوریز نے اُس کے ساتھ کھڑی میشا کو دیکھا جس نے اُس کے ایسے دیکھنے پر اپنے شانے اُچکادیئے تھے"کہ وہ بھی نہیں جانتی کسی سرپرائز کے مطلق

"کیسا سرپرائز؟زوریز نے پوچھا

"اپنے پیچھے دیکھو۔۔۔آریان نے مسکراہٹ دبائے کہا تو زوریز نے مڑ کر دیکھا جہاں بڑی سی گاڑی میں اسیر کے ساتھ سوہان اور فاحا یہ لوگ نکلے تھے۔۔۔

"یہ سرپرائز تو نہیں کونسا زوریز اُس کو پہلی بار یا سالوں بعد دیکھا ہے۔۔میشا نے منہ کے زاویئے بگاڑ کر کہا"تب تک وہ لوگ اُن کی طرف آچُکے تھے

السلام علیکم ۔۔۔زوریز نے ہمیشہ کی طرح سلام کرنے میں پہل کی

وعلیکم السلام ۔۔اُس کے سلام کا جواب تینوں نے دیا تھا۔

"اگر آپ کو غُصہ نہ آئے تو ایک بات کہوں؟آریان نے پہلے اسیر سے اِجازت چاہی

"کہو؟اسیر نے سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھا

"آپ کے پاس کیا کوئی پروائیویٹ پلیس ہے جہاں ہم سب آرام سے بیٹھ سکتے ہیں۔۔اسیر کے کہنے پر آریان بول اُٹھا

""ہم سے مُراد؟اسیر نے سنجیدگی سے پوچھا

"ہم سے مُراد ہم سب۔۔آریان نے جلدی سے بتایا

"جگہ ہے لیکن وہاں ہماری کزنز میں سے آپ کے ساتھ کوئی نہیں آئے گا۔"اگر سوہان زوریز کے ساتھ جانا چاہے تو وہ الگ بات ہے۔۔اسیر نے کہا تو آریان کی شکل دیکھنے لائق ہوگئ تھی۔

"ہم کیوں نہیں جاسکتے؟فاحا نے اُس کو گھورا

"کس حیثیت سے جائے گی؟اسیر نے اُس کو آنکھیں دیکھائی

"ہمارے جیجا جی ہیں دونوں۔۔۔فاحا نے کہا تو آریان اُس کے واری صدقے ہوا

"صرف آپ کی ایک بہن نے خوفیہ نکاح کیا ہو

"ہمارا نکاح خوفیہ ہوتا تو اِس بات آپ کو پتا نہ ہوتا۔۔۔اسیر جو فاحا سے کچھ کہنے والا تھا اُس کی بات کا مطلب کا سمجھے زوریز بیچ میں سنجیدہ لہجے میں بولا

"جو بھی لیکن یہ ہمارا گاؤں ہے اور یہاں یہ سب نہیں ہوتا۔اسیر نے سنجیدگی سے کہا

"آپ بھی تو ہوگے ساتھ اگر ہم پر یقین نہیں تو۔۔آریان نے کیسے بھی کرکے اُس کو راضی کرنا چاہا

"تمہاری بات زیادہ ضروری ہے تو ہم ابھی شہر کی طرف چلتے ہیں۔۔میشا نے آریان کا ساتھ دیا تو وہ گِرتے گرتے بچا

"ہاں یہی سہی ہے"وہاں کوئی روعب جہاڑنے والا بھی نہیں ہوگا۔۔فاحا نے بھی اُن دونوں کی ہاں میں ہاں ہلائی

"ہماری گاڑی کو فالو کریں۔۔اسیر اُن پانچوں کو تیز گھوری سے نوازتا بولا تو آریان نے بیحد آہستہ آواز میں یاہوووو کا نعرہ لگایا تھا

"ہم جانے کیوں والے ہیں؟سوہان نے سنجیدگی سے پوچھا

"بس ایک سرپرائز ہے۔۔۔آریان نے سسپینس پِھیلایا

"اب چلو اِس سے پہلے وہ آگے نکل جائے۔۔۔میشا نے کہا تو وہ جانے لگے تھے"جب زوریز نے سوہان کا ہاتھ پکڑ کر روکا ہوا

"کیا ہوا؟سوہان نے سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھا

"کل ہمارا سامنا آپ کے خاندان کے مردوں سے ہوگا تو میں یہ چاہوں گا آپ میرا ساتھ دے تب۔۔زوریز نے سنجیدگی سے بھرپور آواز میں کہا وہ سوہان کو اپنے اعتماد میں لینا چاہتا تھا۔

"کیا اِس وقت یہ باتیں ضروری ہے؟سوہان نے سوال کیا

"میری بات غیرضروری نہیں جس کو آپ اگنور کرنے پر تُلی ہوئیں ہیں۔ ۔زوریز بھی دوبدو بولا

"کل کی کل دیکھی جائے گی ابھی ہمیں اُن کے ساتھ جانا چاہیے۔سوہان نے گہری سانس بھر کر کہا تو زوریز نے اُس کا ہاتھ چھوڑدیا اور سوہان سمجھ گئ کہ بندہ ناراض ہوگیا ہے۔۔"کیونکہ چاہے وہ کچھ کہتا نہیں تھا لیکن اُس کا انداز ہر چیز کو بیان کردیتا تھا۔

Rimsha Hussain Novels❤

"جگہ تو کافی اچھی ہے اور یہ گاؤں سے دور بھی ہے مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تم اِتنی اچھی جگہ لاؤ گے۔۔میشا اِرد گرد کا جائزہ لیتی کافی ایمپریس ہونے والے انداز میں اسیر سے بولی تو آریان کی شکل ایسی بن گئ جیسے کوئی کڑوا بادام نگل لیا ہو۔

جگہ واقعی پیاری اور بیحد پرسکون ہے۔۔فاحا نے بھی میشا کی بات سے اتفاق کیا"کیونکہ جہاں وہ اِس وقت تھے وہ کسی کاٹیج کی طرح ڈیزائن کیا گیا تھا۔

ویسے آپ لوگوں کو ایک بہت نئ بات بتاتا چلوں جس کو سن کر کسی کو یقین نہیں آئے گا۔ ۔آریان نے اچانک کہا تو وہ لوگ سوالیہ نظروں سے آریان کو دیکھنے لگے۔

"اگر ایسا ہے تو مت بتاؤ کیونکہ یقین تو ہم نے کرنا نہیں۔۔میشا نے کہا تو فاحا ہنس پڑی تھی۔

"رنگ میں بھنگ مت ڈالو میں بہت سیریس ہوں۔۔آریان نے اُس کو گھورا

اگر ایسا ہے تو پلیز جلدی سے بتائے۔۔فاحا پرجوش ہوئی

"ہاں تو میں نے اِتنا کچھ اِس لیے کیا ہے کیونکہ آج دا بزنس ٹائیکون زوریز دُرانی ہمیں گانا گاء کر سُنائے گا۔۔آریان نے کہا تو اسیر کے علاوہ ہر کوئی زوریز کو دیکھنے لگا جو خود حیران تھا۔

"آپ کو گانا بھی آتا ہے؟فاحا کو خوشگوار حیرت ہوئی اُس کو کہاں اندازہ تھا کہ اِتنا سنجیدہ نظر آنے والا شخص کوئی گانا بھی گاء سکتا ہے

"پتا نہیں۔۔۔زوریز کو سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ بیٹھے بیٹھائے آریان نے اُس کے لیے کیسی مصیبت کھڑی کردی ہے

"دیکھو میری جان میرے بھائی تمہیں یہ نہیں سوچنا کہ تم گاؤ گے کیسے کیونکہ تمہارا جو یہ بھائی ہے نہ چھوٹا سا پیار سا اُس نے سارا انتظام کردیا ہے"تم نے بس کھڑے ہوکر نہیں بیٹھ کر بھی گاء سکتے ہو۔۔۔آریان اُس کے پاس آکر بولا تو اُس کو زوریز کچا چبا جانے والی نظروں سے دیکھنے لگا

"کونسا گانا گاؤ گے آپ؟میشا کو بھی انٹرسٹ پیدا ہوا"اِس درمیاں سوہان بلکل خاموش کھڑی تھی۔

"یہ جگہ گاؤ سے دور ہے جتنا اُتنا ہمارے لیے خطرناک ہے تو ہم یہاں اِن تینوں کو زیادہ رُکنے نہیں دے سکتے۔۔اسیر نے مداخلت کرتے ہوئے کہا"وہ نہیں تھا چاہتا کہ زیادہ دیر حویلی سے"سوہان میشا یا فاحا رہتیں

"ہاں ویٹ کریں میں بس اِبھی گِٹار لایا۔۔۔آریان نے کہا تو زوریز چونک کر اُس کو دیکھنے لگا

"گِٹار کہاں سے آیا تمہارے پاس؟زوریز کو تعجب ہوا

"بعد میں بتاتا ہوں نہ وقت کم ہے۔۔آریان آنکھ کا کونا دباکر کہتا وہاں سے تھوڑی دیر کے لیے رفو چکر ہوگیا اور جب واپس آیا تو اُس کے ہاتھ میں گِٹار تھا۔

یہ لو۔۔۔آریان نے خوشی خوشی گٹار زوریز کی طرف بڑھایا

"تمہیں پتا ہے مجھے یہ سب نہیں آتا۔۔زوریز نے دانت پیس کر اُس کو دیکھ کر کہا

"مجھے سب اچھے سے پتا ہے کہ اگر تم آج بزنس مین نہ ہوتے تو نامور گُلوکار ہوتے۔۔آریان نے ڈھیٹ پن کا ثبوت دیا اور باقیوں کو بھی سامنے بیٹھنے کا اِشارہ دیا تو سوہان کے علاوہ ہر کوئی بیٹھ گیا تو زوریز نے اُس کو دیکھ کر آخر گانا گانے کی ٹھان لی


قولی متی أشوفك انامتی


"زوریز نے جیسے ہی گانا شروع کیا تو جہاں سوہان نے آئبرو اُپر کیے اُس کو دیکھا اور فاحا گہرا مسکرائی تھی وہی میشا کے سر پہ سے گُزری تھیں یہ لائنز

"تمہارے بھائی کو کوئی اُردو گانا نہیں تھا کیا ملا؟میشا سخت بدمزہ ہوتی آریان سے بولی جو اُس کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔

"گوگل سے چیک کرلینا معنی ابھی بس ساز اور سُر کو محسوس کرو۔۔آریان نے کہا تو میشا نے اُس کو گھورا

"مجھے معنی بتاؤ۔۔۔میشا بضد ہوئی تو آریان نے گہری سانس بھر کر اُس کو دیکھا

مجھے بتاؤ ہم دوبارہ کب ملے گے۔۔۔آریان نے کہا

"شرم کرو۔۔میشا نے اُس کو دانت کچکچاتی نظروں سے دیکھا

"اِس کا یہ مطلب ہے۔۔آریان نے بھی اِس بار اُس کو گھورا

"ایسا تو

Tell me,when I'm going To see you again

میشا اُس کی بات کی نفی کرنے والی تھی جب سوہان کے پاس آتا مطلب بیان کرتا ہے زوریز کو سُن کر میشا کو چُپ لگ گئ تھی۔


عیانی الشوق نارہ ھایجہ فی قلبی

My eyes are longing and missing you..it got my heart on fire


"آپ کو آتا ہے گانا؟فاحا نے کسی خیال کے تحت اسیر سے پوچھا

"ہم گانے نہیں سُنتے۔۔جواب میں اسیر نے محض اِتنا کہا

میری آنکھوں میں تمھاری آرزو اور تمہاری یاد میرے دل کو جلا رہی ہے۔"یہ اِس لائن کا مفہوم تھا جو زوریز دُرانی نے گائی۔۔۔فاحا نے اُس کی بات کے جواب میں کہا

"جانتے ہیں۔۔اسیر بھی اُس کی طرف دیکھ کر بولا


أی یای یای یای

کمدیر انا نخبی حبك أنا

How can i hide my love for you

"زوریز سوہان کی آنکھوں میں دیکھ کر گانے لگا تو وہ جزبز ہوئی تھی"لیکن وہ چاہ کر بھی زوریز کو اِس بار کچھ کہہ نہیں پائی تھی۔


میں تمہاری محبت کو کیسے چُھپا سکتا ہوں

"زوریز کے معنی سمیت گانے کے بعد بھی فاحا الگ سے اسیر کو سُنانے لگی جو بہت غور سے اُس کو دیکھ رہا تھا۔


حالی مفضوح أنا من اللی بیا

Everyone knows that my love for you is too obvious

"سوہان کا پزل ہونا وہ اچھے سے سمجھ رہا تھا تبھی جان کر اُس کے گرد چکر کاٹتا مزید اُس کو ستانے کے لیے جذب سے گانے لگا۔


یہ صاف واضع ہے، سب جانتے ہیں کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں

"فاحا اِس بار اسیر سے نظریں چُراتی ہوئی بولی


أی یای یای یای

"تمہارے بھائی کی آواز بہت پیاری ہے کیا تمہیں یہ گانا آتا ہے؟میشا اُن لوگوں سے نظریں ہٹاتی آریان سے پوچھنے لگی۔

"مجھے شاعری کرنا آتی ہے کہو تو سُناؤں؟آریان اُس کی بات پر شوخ ہوا

بڑی مہربانی۔۔میشا تپ اُٹھی۔


خلینیی بلا بیك مہموم

Without you,I am so anxious

زوریز نے اِس بار سوہان کا ہاتھ پکڑے ڈانس کا اسٹیپ لیا تو اُس کا پورا چہرہ سرخ انار ہوا تھا۔


تمھارے بغیر میں بہت بے چین اور اداس ہو جاتا ہوں۔۔۔"کتنی گہرائی ہے نہ اِن لفظوں میں؟فاحا اسیر کو دیکھ کر بولی تو وہ مسکراکر سراثبات میں ہلایا تھا اور اُس کی حرکت پر فاحا کا دل زور سے دھڑکا تھا۔


محال وأش باق غنفرح فی یوم

I don't know if I gonna be happy again unless I see your face


زوریز کے اِن الفاظوں پر آریان نے میشا کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا تھا جو جانے کیا سوچ کر میشا نے تھام لیا تھا۔


مجھے نہیں معلوم کہ میں کبھی دوبارہ خوش ہو پاؤں گا بھی کہ نہیں، جب تک کہ میں تمہیں نہ دیکھ لوں۔۔۔میشا اور آریان تو کبھی سوہان اور زوریز پر نظریں جماتی فاحا خود سے اسیر کو بتانے لگی جس کی ساری توجہ کا مرکز وہ تھی۔


اِیش بالدنیا غادی بغیابك نعیش

Without you the world nothing for me

تمہارے بغیر یہ دُنیا میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی

"اِس بار اسیر نے کہا تو فاحا حیرت سے اُس کا چہرہ تکنے لگی جس کی آنکھیں مسکرا رہی تھیں۔۔


واخا نبغی ننسی قلبی ما یبغی

Even if I want to forget you my heart won't allow to do this

یہاں تک کہ اگر میں تمہیں بھولنا چاہوں بھی تو بھی میرا دل مجھے ایسا نہیں کرنے دے گا (میں چاہ کر بھی تمہیں بھلا نہ پاؤں گا)


"میں تو ایویں بس سعد کی خوبصورت آواز کو سُنتی تھی یہ جانے بغیر کے اِن لفظوں میں کتنی گہرائی ہے۔میشا کافی حیرانگی سے آریان کو بولی تھی جو آج اپنی قسمت پر نازاں تھا۔

أی یای یای یای


عشقک جنون واکترا من الجنون

love for you is full of passionately and more than madness

"تمہاری محبت میرے لیے جنون اور دیوانگی سے کئ بڑھ کر ہے۔۔

"زوریز نے اُس کی آنکھوں میں دیکھ کر یہ لائن گائی تھی جس پر سوہان ہمیشہ کی طرح اپنی نظروں کو چُراگئ تھی۔


ما نویت فی یوم غنعیش بحالہ

I never thought, I would live something like that

میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ مجھے ایسے بھی جینا پڑے گا


"ایک طرف زوریز تو دوسری طرف فاحا کی آنکھوں میں اِس بار بے بسی کا عنصر نُمایاں تھا۔

مادات العیون أرحمی ھاد العیون

With alluring eyes have mercy on that eyes


اپنی ان دلکش آنکھوں سے۔۔(میری) ان آنکھوں پر رحم کرو


اب آہستہ آہستہ زوریز اُس سے دور ہونے لگا تھا

ماشافت نوم غی اللیل ومو والو

They didn't sleep whole night

جو رات بھر سو نہیں پاتیں

أی یای یای یای

زوریز گِٹار نیچے کرتا ایک نظر سوہان پر ڈالے جانے لگا تھا جب سوہان نے بے ساختہ آگے بڑھ کر اُس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔


خلینیی بلا بیك مہموم

Without you,I am so anxious

تمھارے بغیر میں بہت بے چین اور اداس ہو جاتی

محال وأش باق غنفرح فی یوم

I don't know if I gonna be happy again unless I see your face

"مجھے نہیں معلوم کہ میں کبھی دوبارہ خوش ہوپاؤں گا بھی کہ نہیں۔"جب تک میں تمہیں نہ دیکھ لوں۔


اِیش بالدنیا غادی بغیابك نعیش

Without you the world nothing for me

"تمہارے بغیر یہ دُنیا میرے لیے کچھ نہیں ہے

تمہارے بغیر میں بہت اُداس ہوجاتا ہوں

واخا نبغی ننسی قلبی ما یبغی

Even if I want to forget you my heart won't allow to do this

یہاں تک کہ اگر میں تمہیں بھولنا چاہوں بھی تو بھی میرا دل مجھے ایسا نہیں کرنے دے گا (میں چاہ کر بھی تمہیں بھلا نہ پاؤں گا)

أی یای یای یای


"اِس بار سوہان نے اپنی خوبصورت آواز میں گایا تو زوریز حق دق اُس کو دیکھنے لگا"وہ یقین نہیں کرپایا کہ ابھی گانا گانے والی سوہان تھی"کیونکہ وہ چاہے جو کچھ بھی سوچ سکتا لیکن سوہان گانا گاء سکتی تھی ایسا کچھ تو اُس کی سوچو میں کہی بھی نہیں تھا۔۔


"نیند بھی لبوں پر نام تیرا

"بن کر میں رہوں تیری پرچھائی أی یای یای یای

"حیرانگی کے عالم سے باہر نکل کر زوریز نے بے ساختہ اپنا ماتھا اُس کے ماتھے سے ٹکراکر آنکھوں کو بند کرکے اُس کو محسوس کرنے کی کوشش کی تھی۔

❤❤❤❤❤❤❤

بندہ آس پاس موجود سنگل لوگوں کا ہی خیال رکھتا ہے۔۔۔آریان نے اُونچی میں کہا تو سوہان ایک جھٹکے سے فاصلے پر کھڑی ہوئی جس پر زوریز آریان کو گھورنے لگا جو اب اپنے دانتوں کی نُمائش کررہا تھا۔

"جب سنگل لوگ خود کسی کا خیال نہیں رکھتا تو کوئی اور بھی اُس کا خیال نہیں کرتا۔ ۔۔"زوریز نے جتاتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر بتایا

"فاحا میشا اور سوہان آپ تینوں جاکر گاڑی میں بیٹھے" ہم بھی آتے ہیں۔ ۔اسیر نے سنجیدگی سے اُن تینوں کو دیکھ کر کہا

"سوہان کو میں ڈراپ کردوں گا۔ ۔زوریز نے کہا

"یہاں کے لوگوں کا مقابلہ تم نہیں کرسکتے۔ اسیر نے سنجیدگی سے کہا

"میں یہاں کسی سے مقابلہ کرنے آیا بھی نہیں ہوں" اور مقابلہ کرنے کی ضرورت پڑ بھی گئ تو مقابلہ کر پاؤں یا نہیں لیکن سوہان کو پروٹیکٹ میں اچھے طریقے سے کرسکتا ہوں۔۔۔زوریز بھی جواباً سنجیدگی سے بولا تو اسیر نے سوہان کو دیکھا

"میں زوریز کے ساتھ آجاؤں گی"تم دونوں خیریت سے حویلی پہنچو۔۔۔سوہان اسیر کی نظروں کا مطلب سمجھے میشا اور فاحا سے بولی تو وہ دونوں وہاں سے چلی گئیں۔ ۔

"اور ابھی وہ گاڑی کے پاس پہنچی ہی تھی کہ کچھ نقاب پوش لڑکوں نے اُن کو اپنے گھیرے میں لے لیا تھا جن کو دیکھ کر میشا کی آنکھوں میں چمک آئی تھی"آج بہت وقت بعد اُس کو اپنے ہاتھ کی کُھجلی مٹانے کا موقع جو مل گیا تھا تو وہ کیسے اُس کو ضائع ہونے دیتی۔

"بغیر کوئی آواز کیئے ہمارے ساتھ آؤ۔۔اُن میں سے ایک نے دونوں کو گھور کر کہا

"آپو۔۔فاحا نے پریشان کُن لہجے میں میشا کو آواز دی اور پلٹ کر دیکھنے لگی کہ اسیر والوں میں سے کوئی آرہا ہے یا نہیں

"فاحا جانی آپ کو ہم نے سیلف ڈیفنس کرنا سِکھایا تھا نہ؟میشا نے گردن موڑ کر فاحا کو دیکھ کر کہا

"سُن شہری لڑکیوں زیادہ چلاکی کرنے کی ضرورت نہیں ورنہ اِس کی ساری گولیاں تم دونوں کی کھوپڑیوں میں پیوست ہوگی۔۔دو لڑکوں نے اُن کے سروں پر گن تان کر کہا تو میشا اپنے ہاتھ سینے پر باندھ کر کھڑی ہوتی فاحا کو دیکھنے لگی جس کے چہرے پر خوف کے سائے لہرا رہے تھے۔


"زندگی میں کوئی بھی کام کل پر نہیں چھوڑا جاتا کیونکہ کل کیا ہوگا؟"اور کل کس نے دیکھا ہے؟"یہ بات کوئی نہیں جانتا اِس لیے جو کرنا ہے آج کرنا ہے اور ابھی کرنا ہے۔۔۔


"میشا کی حرکت پر فاحا کے کانوں میں سوہان کی آواز گونج اُٹھی تھی پھر اچانک اُس میں جانے کونسی قوت جاگی جو وہ دو قدم اُن لڑکوں سے پیچھے لیتی پھر گھوم کر ایک زوردار لات گن تانے کھڑے لڑکے کے ہاتھ پر ماری تو اُس کے ہاتھ سے گن چھوٹ کر میشا کے قدموں کے پاس گِری تھی جس پر میشا چہرے پر مسکراہٹ سجائے اپنے پاؤں سے اُس گن کو اُپر کیے کیچ کیا اور بغیر ایک بھی لمحہ ضائع کیے اُس نے اُن چار سے تین لڑکوں کے قدموں کے پاس فائر کیا تھا۔"یہ سب اِتنا اچانک اور مہارت سے کیا گیا تھا کہ وہ لڑکے بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے تھے"جبکہ فاحا نے بہادری کا مظاہرہ کر تو دیا تھا لیکن اُس کے باوجود اُس کا دل زوروں سے دھڑک رہا تھا کیونکہ اُس کو اپنے عمل پر یقین نہیں ہورہا تھا

"ہم شہری لڑکیاں تم جیسے آوارہ جاہلوں کے قابوں میں نہیں آنے والی۔۔میشا نے طنز لہجے میں کہہ کر ایک کے چہرے پر مُکہ مارا تھا

"تیری تو۔ ۔دوسرا اُس کی طرف بڑھ کر تھپڑ مارنے والا تھا لیکن میشا نے جلدی سے جُھک کر اپنا بچاؤ کردیا تھا۔

"اور ابھی تیسرا بندہ پیچھے سے کھڑا ہوتا اُس کے سر پر گن مارنے والا تھا جب کسی نے اُس کا ہاتھ بے رحمی سے دبوچا تھا۔ ۔

"آپو۔ ۔

فاحا کے منہ سے بے ساختہ چیخ نکلی تھی جس کو سن کر میشا جھٹکے سے پلٹی تھی اور اپنے پیچھے آریان کو دیکھ کر وہ حیران ہوئی جس کی لہو رنگ ہوتی آنکھیں اُس لڑکے پر جمی ہوئی تھیں۔ ۔

"وہ چاروں فائرنگ کی آواز سن کر باہر کو آئے تھے اور سامنے کا منظر دیکھ کر سوہان کے جہاں ہوش خطا کرگئے تھے وہی آریان نے جب ایک لڑکے کو میشا پر پیچھے سے وار کرتا دیکھا تو وہ درشتگی کے عالم میں اُس کی طرف بڑھا تھا۔

"آریان لِیو۔ ۔میشا کے کانوں میں اُس آدمی کے ہاتھ کی ہڈی کی ٹوٹنے کی آواز آئی تو بے ساختہ اُس کو روکنے کی کوشش کی۔

"As you say.

آریان سرسراتے لہجے میں کہتا اُس کا ہاتھ موڑ کر کسی اچھوت کی طرح اُس کو چھوڑا جس پر فاحا نے بے ساختہ اپنی نظروں کا رخ بدلا تھا وہ نہیں دیکھ سکتی تھی ایسا دردناک منظر۔

"کیا پاگل ہوگئے ہو یہ کیا کردیا تم نے پولیس کیس بن سکتا ہے تم پر۔ ۔جہاں اسیر اور زوریز باقیوں کی درگت کرنے میں لگے ہوئے تھے وہی میشا آریان کے سینے پر ایک تھپڑ مارتی دانت پیس کر بولی

"تو اور کیا کرتا شاباشی دیتا کہ اچھا ہوا جو تم نے میری لوور کے پیچھے سے وار کرنے کی کوشش کی۔ ۔۔آریان درشتگی سے چیخا تو میشا اُس کو دیکھتی رہ گئ وہ آج دوسری دفع اُس کا چہرہ خطرناک حد تک سنجیدہ دیکھ رہی تھی پہلی بار ہوسپٹل میں زوریز کے لیے اُس نے آریان کا یہ روپ دیکھا تھا اور آج اپنے لیے دیکھ رہی تھی۔۔

"آریان

چُپ کرجاؤ تم بڑا خود کو تم تیسمار خان سمجھتی ہو"اِتنا خود پر اورر کانفڈنٹ نہیں ہونا چاہیے ابھی اگر میں وقت پر نہیں آتا تو تمہاری سوچ ہے کہ تمہارے ساتھ کیا ہونے والا تھا۔ ۔میشا کچھ کہنے والی تھی جب آریان اُس کی بات درمیان میں کاٹ سخت لہجے میں بولا

"تم مجھ سے ایسے بات نہیں کرسکتے۔۔۔میشا سے آریان کی اُونچی آواز برداشت نہیں ہوئی وہ بھلا کہاں عادی تھی"دوسرا یہ کہ آریان نے ہمیشہ اُس کی ہر بات ہر بدتمیزی کو اگنور کرکے آرام سے بات کی تھی اور آج اُس کا ایسا لہجہ وہ سہن نہیں کرپا رہی تھی۔ اور باقی سب بس خاموشی سے اب اُن کو لڑتا جھگڑتا دیکھ رہے تھے جو کہ کوئی نئ بات نہیں تھی پر آج کچھ الگ تھا دونوں کے درمیان جس کو وہ سب لوگ تو جان گئے تھے بس وہ انجان بن رہے تھے۔

"میں کرسکتا ہوں اور میں کروں گا اگر جو تم نے ایسی کوئی بھی حرکت دوبارہ کرنے کی سوچی بھی تو۔ ۔آریان اُس کو گھور کر بولا تھا

"میں تمہاری کوئی بھی بات ماننے کی پابند نہیں ہوں سمجھے۔ ۔میشا نے دانت کچکچاکر اُس کو گھورا

"ٹھیک ہے پھر تم میرے ری ایکشن کے لیے بھی تیار رہنا۔ ۔آریان نے اُس کو گویا خبردار کیا

"میں تم سے ڈرتی نہیں آریان۔۔میشا کو انتہا کا غُصہ آیا

"بات یہاں ڈرنے کی میں کر بھی نہیں رہا۔ ۔آریان طنز ہوا

"تمہار

گائیز اسٹاپ اِٹ بس بہت ہوگیا تم دونوں کی توں توں میں میں سے اب لوگ اکتا گئے ہیں۔ ۔اُن کو چُپ ہوتا نہ دیکھ کر سوہان نے مداخلت کی

"مجھے اِس کے منہ لگنے کا شوق نہیں ہے اِس کو کہو شہر واپس چلا جائے ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔ ۔میشا سرجھٹک کر بولی

"میں شہر رہوں یا گاؤں اِس بات کا فیصلہ تم نہیں آریان دُرانی خود کرے گا۔آریان کو گویا اُس کی بات سن کر پتنگے ہی لگ پڑے تھے۔

"تم اپنی بدتمیزی کی معافی مانگو مجھ سے ورنہ میں تمہارا سر پھاڑدوں گی۔ ۔میشا نے اُس کا گریبان دبوچا

"میری بات سُنو تم اب تو حد سے زیادہ بڑھ رہی ہو میں نے ابھی صرف تمہیں اپنا دل دیا ہے اپنی عزت نہیں۔ ۔آریان اُس سے دور ہونے کی کوشش کرتا بولا تو سب نے اپنا سر پکڑا تھا بس ایک اسیر تھا جو ایسے لاتعلق تھا جیسے وہاں خود اکیلا ہو" لیکن میشا کا منہ حیرت میں ضرورت سے زیادہ کُھل گیا تھا۔

"تم کمینے گدھے معافی مانگو مجھ سے۔ ۔۔میشا نے ضد کی

"نہیں مانگوں گا میں معافی کیونکہ غلطی ساری تمہاری ہے میری نہیں ہے۔۔آریان بھی اپنی جگہ ڈٹ کر کھڑا رہا

"آریان میری بات سُنو اگر تمہارے ایک لفظ معافی سے میشا کو خوشی ملتی ہے"اور ساری لڑائی ختم ہوتی ہے تو سوری بول کر معاملہ رفع دفع کرو۔۔زوریز نے دونوں کی بڑھتی ہوئی لڑائی کو دیکھ کر سنجیدگی سے کہا"تو آریان نے گہری سانس بھر کر میشا کو دیکھا جو اُس کو دیکھ کر فاتحانہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے بیٹھی تھی۔

"اگر اِس کو میرے ایک لفظ سوری سے خوشی ملتی ہے تو بھائی یہ ٹینڈے جیسی شکل بنا کر کھڑی رہے مجھے کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ سوری والی خوشی میں نہیں دینے والا اِس کو سوری۔ ۔۔میشا جو سوچے ہوئے تھی کہ اب آریان اُس سے معافی مانگے گا پر اُس کی ایسی بات سن کر اُس کا دماغ گھوم گیا تھا۔

"تم کریلے آلو مجھے ٹینڈے جیسی شکل والی کہنے کی تم نے ہمت کیسے کی؟میشا اُس کے بال نوچنے کے قریب تھی۔

"تم یہاں آؤ بہت ہوگیا۔۔۔سوہان نے آگے بڑھ کر اُس کو آریان سے دور کیا ورنہ میشا کا کیا بھروسہ تھا کہ وہ سچ میں آریان کے بال نوچ لیتی

"میں آج اِس کو چھوڑوں گی نہیں سوہان تم بس درمیان میں مت پڑو۔۔میشا نے اُس کو باز رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا

"لڑائی لڑائی معاف کرو آپو۔۔فاحا نے بھی میشا کو پرسکون کرنے کی خاطر کہا

"ہاں تم دونوں ہی اِس کو سمجھاؤ ورنہ میرا دل ایسے صاف ہے جیسے کسی نے سرف ایکسل سے صاف کیا ہو۔۔آریان نے میشا کو گھور کر بولا

"اب تمہاری زبان زیادہ چل رہی ہے۔۔سوہان کی گرفت میں میشا پھڑپھڑائی

"میری اپنی ملکیت ہے زیادہ چلاؤں یا کم ویسے بھی تمہاری طرح ہاتھ چلانے سے اچھا ہے کہ بندہ زبان چلائے۔۔۔آریان نے مزید اُس کو آگ لگائی

"گاڑی میں بیٹھو تم چُپ چاپ۔۔زوریز نے زبردستی آریان کو اپنی گاڑی کے قریب گھسیٹنے لگا

"نہیں آج دو دو ہاتھ ہو لینے دے۔۔میشا نے اُونچی آواز میں کہا پر سوہان نے زور زبردستی کرکے اُس کو اسیر کی گاڑی میں ڈالا تھا۔

❤❤❤❤❤❤❤

"مجھے آپ سے بات کرنی ہے اور یہ بہت ضروری بات ہے۔۔عاشر لائبریری میں آتا لالی سے بولا جو ہمیشہ کی طرف اپنا سر کتابوں میں دیئے ہوئے تھی۔

"جی کہو؟لالی بنا اُس کو دیکھے بولی

"میری طرف دیکھے۔ ۔عاشر نے ہاتھ بڑھا کر اُس کے سامنے کُھلی کتاب کو بند کیا

"کیا ہوا ہے ایسا ری ایکٹ کیوں؟ لالی حیران ہوئی

"میری بات بہت سیریس ہے اور وہ میں تبھی بول سکتا ہوں جب آپ میری طرف دیکھ کر سُنے گی۔ ۔عاشر کافی اُلجھن کا شکار ہوگیا تھا کیونکہ اُس کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ لالی سے کیسے بات کرے؟

"میں سُن رہی ہوں آپ کہے؟لالی غور سے اُس کی طرف دیکھ کر بولی

"کیا آپ مجھ سے شادی کرینگی؟عاشر نے جھٹ سے کہا تو لالی ہونک بنی اُس کا چہرہ تکنے لگی

جی؟لالی بار بار سرجھٹکتی حیرت سے عاشر کو دیکھنے لگی اُس کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا تھا

"میں بہت پسند کرتا ہوں آپ کو جانتا ہوں ہمارے درمیان بہت اسٹیٹس ڈفرنس ہے لیکن ٹرسٹ می میں آپ کو دُنیا کی ہر آسائش دینے کی کوشش کروں گا آپ کو کبھی کسی چیز کی تنگی محسوس نہیں ہوگی۔ ۔عاشر فرفرفر بولنے لگا اُس کو بس اِس بات کا ڈر تھا کہ لالی منع نہ کردے۔

"آپ ایک لڑکی کو پرپوز کررہے ہیں وہ بھی لائبریری میں؟ لالی کو سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیسا ری ایکٹ کرے دوسرا اُس کو عجیب بھی لگا تھا یوں لائبریری میں عاشر کا پرپوز کرنا کافی الگ سا تھا۔

"جانتا ہوں ان رومانٹک سی جگہ ہے لیکن ایک بار آپ کے سارے حقوق اپنے نام کروادوں اُس کے بعد آپ کو ایک بہترین جگہ لے جاؤں گا جہاں ہمارے یادگار لمحات ہوگے اور کسی چیز کا ڈر نہیں ہوگا۔۔۔عاشر نے اُس کی بات کے جواب میں بالوں میں ہاتھ پھیر کر یہ دیا تو وہ لاجواب سی ہوگئ تھی۔

"پتا ہے کیا آپ ایک بہت اچھے اِنسان ہیں۔۔۔لالی نے کہا تو عاشر مسکرایا

"آپ کی خواہش ہر لڑکی کو ہوسکتی ہے اور جس کسی کی بھی شادی آپ سے ہوگی وہ خوشقسمت ہوگی پر۔۔بات کرتے کرتے لالی اچانک رُک گئ

پر کیا؟عاشر کو انجانا سا خوف ستانے لگا

"پر میں خوشقسمت نہیں عاشر کہ مجھے آپ کا ساتھ میسر ہو۔لالی چہرے پر عجیب مسکراہٹ سجائے بولی لیکن عاشر کو اُس کی بات کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا تھا "کیونکہ لالی نے بات ہی کچھ اِس طرح سے کی تھی کہ وہ جان نہیں پایا تھا۔

"میں سمجھا نہیں"اگر آپ کو میں واقع پسند ہوں تو یہ اعتراض کیوں؟عاشر نے پوچھ ہی لیا

"میں گاؤں کی رہنے والی ایک سادہ سی لڑکی ہوں جو اُڑان بھرنا چاہتی ہے لیکن اُس کے پٙر بچپن میں کاٹ دیئے گئے تھے۔"وہ کُھلی ہوا میں سانس لینا چاہتی ہے پر اُس کو سونے کے پنجرے میں قید کیا ہوا ہے مجھے اپنے خاندان کے روایتی اصولوں نے جکڑا ہوا ہے اور مجھے اِجازت نہیں کہ میں آپ سے دل لگاؤں یا آپ کے سپنے اپنی آنکھوں میں سجاؤں۔۔۔لالی اُداس لہجے میں بولی

"میں زیادہ کچھ تو نہیں جانتا آپ کے گھر والوں کو پر اِتنا کہوں گا کہ آپ مجھے یہ بتائے کہ کیا میرا ساتھ دینگی آپ؟عاشر نے کہا تو وہ ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگی۔

"کیسا ساتھ؟لالی نے پوچھا

"اگر میں آپ کے گھر اپنا رشتہ بھیجوں تو کیا مان جائے گی؟لالی کو دیکھ کر عاشر نے سوال کیا

"بات میرے راضی ہونے کی نہیں ہے۔۔لالی نے اُس کو بتانا چاہا

"پر میرے لیے بس آپ کی رضامندی زیادہ ضروری ہے۔۔عاشر نے سنجیدگی سے کہا تو لالی نے اپنا سرجُھکا لیا "اور اُس کی اِس اِدا پر عاشر کو جیسے اپنا جواب مل گیا تھا جبھی وہ جاندار طریقے سے مسکرایا تھا۔

❤❤❤❤❤❤❤

"تو تم سے نکاح کیا ہے سوہان نے۔ ۔۔اگلے دن سجاد ملک نے سرتا پیر زوریز کو دیکھا کر پوچھا"وہ لوگ اِس وقت حویلی سے باہر لان میں کھڑے تھے۔

"جی۔ ۔زوریز نے مختصر جواب دیا وہ جان نہیں پایا کہ یہ شخص اِتنا انجان کیوں بن رہا تھا ہلانکہ وہ دونوں کورٹ میں پہلے بھی مل چُکے تھے

"یعنی ہم اپنی دُشمن کو خاندان کی بیٹی سونپے؟وہ استہزائیہ انداز میں مسکرائے تھے

"ہمارا نکاح تب ہوا تھا جب آپ کو یاد بھی نہیں تھا کہ آپ کے خاندان میں سوہان نامی کوئی بیٹی بھی ہے تو آپ ایسی باتیں نہ کریں جس کا سر پیر نہیں۔ ۔وہ بھی زوریز دُرانی تھا جس کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینا بخوبی آتا تھا۔

"اگر میں انکار کروں تو کونسا تم سوہان کو یہاں سے لے جاسکتے ہو۔ ۔سجاد ملک کو اُس کی بات پر غُصہ آیا

"میں یہاں سوہان کو لینے کے لیے آپ یا کسی کی اِجازت لینے نہیں بلکہ شادی کی تاریخ دینے آیا ہوں" میری پھوپھو کل پاکستان آنے والی ہے تو آپ اپنی تیاری جو کرنا چاہتے ہیں وہ پوری کردے کیونکہ مجھے پھر آؤٹ آف کنٹری بھی جانا ہے۔۔زوریز کا اعتماد قابلِ دید تھا

"پر ہمیں اپنی طرف سے تسلی تو کرنی ہوگی نہ ایسے ہی تو نہیں سوہان کو تمہارے حوالے کرسکتے۔۔نوریز ملک نے بھی باتوں میں حصہ لیا

"جب وہ سات سال کی تھی تو کیا اُن کو گھر سے نکالنے سے پہلے آپ نے کوئی تسلی کروائی تھی؟زوریز نے بڑی سنجیدگی سے سوال کیا تھا اور اُس کے سوال پر اُن کا چہرہ شرم سے جُھک گیا تھا۔"اُن کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ باتیں سوہان زوریز تک کو بتاچُکی ہوگی۔

"تمہیں بات کو گُھمانے کی ضرورت نہیں ہے زوریز تم ایک دُرانی خاندان سے ہو اور ہم ملک خاندان سے ہیں جو خاندان اور ذات کے باہر شادیاں نہیں کرتے۔ ۔سجاد ملک نے گرجدار آواز میں کہا

"بھائی صاحب کی بات سہی ہے پر اگر نکاح ہوگیا ہے تو ہمیں سوچنے کا وقت دروکار ہے کیونکہ ہمارے بھی کچھ اصول ہے جن کی پاسداری ہم نے کرنی ہے۔۔نوریز ملک نے بھی کہا جس کا فرق زوریز کو نہیں پڑا تھا۔

"آپ لوگوں کے اصول آپ سب کو مُبارک ہو کیونکہ میں تو اپنے شوہر کے ساتھ جاؤں گی۔۔۔سوہان بھی وہاں آتی زوریز کے ساتھ کھڑی ہوتی سنجیدگی سے بولی

"یہ کیا بے ادبی ہے اندر جاؤ۔۔سجاد ملک نے اُس کو گھورا عین اُس وقت پولیس کے سائرن کی آواز نے ہر ایک کو چونکا دیا تھا۔

"یہ تو پولیس کی گاڑی کی آواز ہے۔۔نذیر حیرت سے بولا

"پولیس کا ہمارے گاؤں میں کیا کام؟"اور یہ آواز بھی بہت قریب سے قریب تر ہے۔ ۔نوریز ملک بھی متعجب ہوکر بولے

"یہ تو میشا ہے۔ ۔نذیر سامنے میشا کے پیچھے پولیس کانسٹیبلز کو دیکھا تو ششد سا رہ گیا۔ "اور وہاں کھڑا آریان جو طویل خاموشی کا حصہ بنا ہوا تھا وہ بھی پیچھے دیکھنے لگا جہاں میشا اعتماد کے ساتھ چلتی ہوئی آرہی تھی۔

"اریسٹ ہِم۔ ۔میشا نے سجاد ملک کی طرف اِشارہ کیے کانسٹیبل سے کہا

"میشا یہ سب کیا ہے؟نوریز ملک جلدی سے سامنے آئے

"میں آج یہاں میشا ملک بن کر نہیں بلکہ اے ایس پی میشا بن کر آئی ہوں۔ ۔میشا نے بتایا تو ہر کوئی بے یقین نظروں سے اُس کو دیکھنے لگا سِوائے سوہان کہ


"میٹرک پاس والوں کو تو کانسٹیبل کی نوکری ملتی ہے ایس پی کی جگہ پر کون رکھتا ہے؟آریان کان کی لو کُھجاکر آہستگی سے بڑبڑایا تھا میشا کی بات کو اُس نے کچھ زیادہ ہی سیریس لے لیا تھا


"کیا اے ایس پی؟نوریز ملک جزبز ہوئے تھے اُن کو سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیسے ری ایکٹ کرے سالوں پہلے جن بیٹیوں کو کمتر سمجھ کر گھر سے بے دخل کیا تھا آج وہ بیٹیاں یا تو بیریسٹر کے روپ میں اُن کے سامنے کھڑی تھی تو دوسری لیڈی پولیس آفسر بن کر اُن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑی تھی اور بھی جانے اُن کو کیا دیکھنا تھا۔

"ساری باتوں کو چھوڑے اور یہ پوچھے اپنی بیٹی سے کہ پولیس والے بابا سائیں کو کیوں اریسٹ کررہے ہیں؟ نذیر نے کہا

"سجاد ملک کے خلاف میرے پاس اریسٹ وارنٹ ہے دوسرا اِن پر کیس بہت سے ہیں" پہلا کیس اِنہوں نے اپنی معصوم کلیوں کو بے رحمی سے قتل کروایا تھا جن کا حساب دینے کا اب وقت یاد آگیا ہے" دوسرا کیس دُرانی خاندان کا ہے آج سے تئیس سال قبل اِنہوں نے وجدان دُرانی اور اُن کی اہلیہ کو کار ایکسیڈنٹ میں مروایا تھا۔ "تیسرا کیس اِنہوں نے ملک سسٹرز پر قاتلانہ حملا کروانے کی کوشش کی تھی۔ وہ بھی ایک بار نہیں بلکہ دو بار"اور ہمیں اِن ثبوتوں کی بنیاد پر سجاد ملک کو گرفتار کرنا پڑے گا۔۔میشا نے ایک ساتھ کئ دھماکے کیئے تھے جس کی زد میں ہر ایک انسان آیا تھا" زوریز اور آریان تو بُت بن کر کھڑے تھے وہ جس بات کو ایکسیڈنٹ سمجھتے آئے تھے وہ ایکسیڈنٹ نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھتی چال سازش تھی جس سے وہ اِتنے سال بے خبر رہے تھے" اور یہ کیسا انکشاف ہوا تھا اُن دونوں پر؟ دوسرا اُنہوں نے خود سے اپنے ماں باپ کی موت کے بارے میں جاننے کی کوشش کیوں نہیں کی تھی؟ ایسے جانے کتنے سوالات اُن کے دماغ میں ڈگمگانے لگے تھے جن کا جواب اُن دونوں کے پاس نہیں تھا۔

"یہ جھوٹ ہے اور مجھے کوئی گرفتار کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا یہ ہمارا گاؤں ہے جہاں پولیس کا کوئی کام نہیں ہوتا۔۔سجاد ملک کے پاؤں کے نیچے سے تو گویا زمین کھسک گئ تھی اُن کو یقین نہیں آیا تھا کہ یوں اُن کا راز سب کے سامنے فاش بھی ہوسکتا تھا۔

"پولیس کا کام بھی بن جائے گا اور وہ میں بناؤں کیونکہ سی ایس ایس کی ٹیسٹ میں فاحا نے نتیجہ حاصل کرلیا ہے اور وہ یہاں اِس گاؤں میں بطور اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے رہے گی جہاں قانون اور انصاف دونوں ہوگا کسی اور بے حس یا ظالم سردار کا یہاں بنا بنایا رواج ختم ہوگا۔۔فاحا بھی باہر آکر طنز لہجے میں بولی تو دوسرا ہونے والا دُھماکا سب کے ہوش اُڑا گیا تھا۔۔

"آپ لوگوں کو کیا لگا تھا ہمارے ساتھ اِتنی ناانصافیاں کرنے کے بعد آئے گے تو ہم خوشی خوشی ہر چیز کو بھول جائے گے تو ایسا بلکل بھی نہیں اِس حویلی سے دیئے جانے والے زخم ہمارے جسموں اور دلوں پر کسی ناسور کی طرح ہے۔۔"ہمارا دل اِتنا وسیع نہیں کہ آپ لوگوں کے ساتھ رہے یہاں ہم آئے تھے تو اپنا مقصد لیکر آئے تھے"میشا کو ثبوتوں کی ضرورت تھی جو اُس کو تب ملتے جب وہ یہاں رہتی۔۔فاحا کو یہاں رہ کر گاؤں کا ماحول دیکھنا تھا تاکہ اپنا کام وہ یہاں بخوبی کرپائے یہاں کے لوگوں کو جاننے کا اُس کو موقع تب ملتا جب وہ یہاں رہتی۔"سوہان نوریز ملک اور سجاد ملک کے روبرو کھڑی ہوتی پختہ انداز میں بولی

"کیس صرف سجاد ملک پر نہیں جھوٹا کیس دائرے کرنے کی صورت میں نذیر ملک کو بھی تھانے چلنا ہوگا۔۔۔میشا نے گویا اپنی بات کو مکمل کیا تھا۔

"جو لوگ عورت ذات کو کمزور سمجھتے ہیں اُن کو پھر اللہ بتاتا ہے کہ اُن کی تخلیق کردہ بیٹیاں کیا کچھ کرسکتیں ہیں۔۔فاحا سوہان کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالتی بے تاثر لہجے میں بولی تو نوریز ملک کے قدموں میں لڑکھڑاہٹ سی آگئ تھی۔"دماغ جیسے ماؤف ہوچُکا تھا اُن میں کچھ بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت باقی نہیں بچی تھی

"اسیر کو کال ملاؤ اِن سب سے تو وہ نپٹ لے گا اسیر میرا بیٹا ہے وہ جو کرے گا اب تمہارے لیے اچھا نہیں ہوگا دیکھنا کیسے پھر تم دونوں اپنی پوسٹ سے استیعفیٰ دیتی ہو۔۔سجاد ملک ہڑبڑی میں نذیر اور پھر میشا اور فاحا سے مخاطب ہوئے

"آپ کو سلاخوں کے پیچھے پھانسی کے پھندے کے قریب دیکھے بغیر تو میں کچھ نہیں کرنے والے۔۔میشا نے میٹھا سا طنز کیا

"بابا سائیں بھائی کا نمبر آف جارہا ہے اور اُس کے ساتھیوں نے بتایا آج اُس کو جرگے پر جانا پڑگیا ہے۔۔نذیر بار بار کسی کا نمبر ٹرائے کرتا اُن کو بتانے لگا

"پولیس کا تعلق کسی اسیر ملک سے نہیں اور تم لوگ بیٹھاؤ اِن کو گاڑی میں۔۔میشا نے حکم دیتے ہوئے کہا تو وہ دونوں اُن کی گرفت میں مچلنے لگے"اور جو کوئی بھی اُن کے سامنے آرہا تھا میشا اُن کے قدموں کے پاس فائر کرنے لگ پڑتی۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

اسیر لگتا ہے تمہیں میری بات سمجھ میں نہیں آئی" ارے میں بتارہی ہوں کہ تیرے بھائی اور باپ کو پولیس والوں نے گرفتار کردیا ہے"تجھے میں کوئی غیرت ہے کہ نہیں اُن کو جیل سے چُھوڑوانے جائے؟فائقہ بیگم کو جیسے اُن ملک سسٹرز کی حقیقت کا اور سجاد ملک کے جیل جانے کا پتا لگا تھا تب سے اُنہوں نے اپنی چیخوں سے پوری حویلی کو اُٹھا رکھا تھا اور جب اسیر کام سے فارغ ہوتا گھر لوٹا تو فائقہ بیگم نے اُس کو بھی باتیں سُنا دی تھی جو اسیر بڑے تحمل سے سُن رہا تھا۔

"اسیر کوئی وکیل نہیں جو اُن کو رہا کروائے گا۔ ۔اسمارہ بیگم نے طنز لہجے میں کہا اُن کے دل پر تو گویا کسی نے ٹھنڈی پُھواریں برسادی تھیں۔ ۔

"تم چُپ کرکے کھڑی رہو میں اپنے بیٹے سے بات کررہی ہوں۔ ۔فائقہ بیگم نے اُن کو گھورا

"اماں حضور چُپ آپ بھی کرجائے کیونکہ ہم ابا حضور کو رہا کروانے شہر ہرگز نہیں جائے گے۔ ۔اسیر کی گھمبیر آواز پورے ہال میں گونجی تھی ہر سوں جیسے سناٹا چھا گیا

"کیا کہا تم نے زرا پھر سے کہنا؟فائقہ بیگم بے یقین نظروں سے اسیر کو دیکھنے لگی۔

"عام سی زیادتیاں ہم اگنور کرتے رہے ہیں"جب اُن کی وجہ سے چچا جان نے اپنی بیٹیوں کو در در ٹھکرے کھانے پر مجبور کیا تھا تو ہم چھوٹے تھے بڑے ہونے کے بعد جب ساری سچائی پتا لگی تو بھی ہم نے بیچ میں بولنا اچھا نہیں سمجھا کیونکہ جن کی بیٹیاں تھیں وہ تو خوش وخرم تھے پھر ہم کون ہوتے تھے بولنے والے؟"پر اماں حضور اب جو ہماری کانوں میں باتیں پڑیں ہیں نہ وہ کسی دھچکے سے کام نہیں" یعنی جہاں والدین کو فرشتہ کہا جاتا ہے ویسے ہمارے والدین تو مونسٹر نکلے جو کسی کا بھی قتل کرنے اور کروانے سے گریز نہیں برتتے؟"ہمیں تو سمجھ نہیں آرہا ہم اپنا آپ آئینے میں کیسے دیکھے گے؟"ہم کس کی اولاد ہے اُن کی اولاد جن کے سینے میں دل کے بجائے پتھر موجود ہے"کیونکہ دل آپ دونوں میں سے کسی ایک کے پاس ہوتا تو اولاد جیسی نعمت کو ختم کرتے وقت یا تو دھڑکتا یا پھر کانپ اُٹھتا۔۔۔اسیر بولا نہیں بلکہ دھاڑا تھا جس سے حویلی کے درو و دیوار تک لرز اُٹھی تھیں وہ چاہے کم گو تھا زیادہ بولنا اپنی شان کے خلاف سمجھتا تھا لیکن جب وہ بولتا تھا تو واللہ ہر ایک کے چٹے کٹے کھول دیتا تھا اور یہ تک بھی نہیں سوچتا تھا کہ سامنے اُس کے کھڑا کون ہے؟

"کیسی باتیں کررہے ہو؟فائقہ بیگم کی ٹانگوں نے جواب دے دیا تھا وہ صوفے پر ڈھے ہوتیں بیٹھ گئ تھیں۔

"اولاد بیٹی ہو یا بیٹا یہ سب اللہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے بھابھی اگر بیٹیاں ہو تو کوئی چاہے بیٹے کا طعنہ دے بھی ڈالے لیکن بانجھ نہیں بولتا مجھے دیکھے جس کو اللہ نے بیٹا بیٹی دونوں چیزوں سے محروم رکھا ہے یہ غم میرا بہت بڑا ہے جو ایک بے اولاد عورت ہی جان جاسکتی ہے کوئی اور نہیں" اور میں خود کو ہمیشہ سے یہ تسلی کرواتیں آتیں ہوں شاید اللہ اگر مجھے بیٹی دیتا تو اُن کا حال اُن تینوں بہنوں جیسا ہوتا اور اگر بیٹا ہوتا تو وہ اپنے باپ کی سوچ کا حامل ہوتا اور ایک ماں ہونے کی حیثیت سے اُس کی سوچ جان کر میں تڑپ اُٹھتی تو بس یہ خود سے کہتی کہ میں بے اولاد ہی سہی کیونکہ اولاد نہ ہونے پر تو صبر آجاتا ہے لیکن جن کی وجہ سے اپنا آپ بھلا کر پالا جائے وہ اگر نافرمان نکلے تو یہ دُکھ سب سے زیادہ بڑا ہوتا ہے اُس پر صبر نہیں آتا۔ ۔۔صنم بیگم رنجیدگی سے بولیں تو نوریز ملک جو ابھی حویلی میں آنے لگے تھے اُن کی بات سن کر اُن کو اپنا آپ زمین میں دھنستا ہوا محسوس ہونے لگا تھا۔"اُن کو نہیں تھا پتا کہ صنم بیگم اُن کے بارے میں ایسے خیالات رکھتیں ہیں۔۔۔

"آپ خود کو بے اولاد نہ کہو بلکہ فاحا کے ساتھ آئے کیونکہ یہاں دادو کے علاوہ ایک آپ ہیں جن کی محبت بہت پیور دیکھی ہم نے۔ ۔فاحا جو اپنے کمرے سے میشا کے ساتھ سامان گھسیٹتی ہوئی آرہی تھی صنم بیگم کی بات پر وہ اُن کے ساتھ لگتی ہوئی بولی

"اگر میرے اختیار میں ہوتا تو میں ضرور آتی۔۔صنم بیگم نم آنکھوں سے مسکرائی

"تم دونوں کو تو میں نہیں چھوڑنے والی۔ ۔فائقہ بیگم خطرناک تیور لیے فاحا کی طرف بڑھی تھی لیکن درمیان میں اسیر آگیا تھا جس وجہ سے وہ اُس کے پیچھے چُھپ سی گئ تھی۔

"ہوش میں آئے یہ حرکتیں آپ کو زیب نہیں دیتیں۔ ۔اسیر نے اُن کو جھنجھوڑ کر کہا

"اسیر تم کیا چاہتے ہو؟"میں تمہاری طرح ہاتھ پر ہاتھ دھڑے بیٹھی رہوں؟"نہیں میں تمہاری طرح خودغرض نہیں ہوں میں ماں ہوکر نہیں جان پائی کہ میں اولاد کے نام پر سانپ پال رہی ہوں" والدین اِس لیے بیٹوں کی "خواہش کرتے ہیں تاکہ وہ اُن کے بوڑھاپے کا سہارا بنے لیکن یہاں تو تم نے اپنے رنگ ڈھنگ ہی بدل ڈالے ہیں" کافی مایوس کیا ہے اسیر تم نے مجھے کافی مایوس۔ ۔فائقہ بیگم افسوس سے اُس کا چہرہ تکتی ہوئیں بولیں

"بہت غلط بیانی سے آپ کام لے رہی ہیں" لیکن خیر ہم ہمیشہ کے لیے بابا حضور کو یا نذیر کو جیل میں چھوڑنے والی نہیں لیکن اُن کو اپنی غلطیوں کا اور کوتاہیوں کا احساس تو ہونا چاہیے نہ؟اور جب تک وہ نہیں ہوتا ہم اُن کی کوئی مدد نہیں کرنے والے۔ ۔اسیر کا انداز اٹل تھا۔ "فاحا بس اُس کو دیکھتی رہ گئ" پہلے اُس نے سُنا تھا صرف کہ اسیر ملک اپنے اصول کے سامنے کسی اور کو نہیں دیکھتا وہ ہمیشہ اچھائی کی بات پر ڈٹ کر کھڑا ہونے والا انسان تھا" لیکن آج اُس کو سُننے کے ساتھ ساتھ دیکھ بھی رہی تھی جو واقعی ثابت قدم پر چلنے والا شخص تھا۔ ۔"حق کی بات پر ہوتا تو کسی اور کی ایک نہ چلنے دیتا چاہے پھر سامنے اُس کا خونی رشتہ ہی کیوں نہ ہو وہ اگر ایک بار ٹھان لیتا تو پیچھے ہٹنے کا سوچتا بھی نہیں تھا۔"اور فاحا کو اِس وقت سمجھ نہیں آیا کہ وہ اسیر کی کِن کِن خوبیوں کو گِنے وہ لاجواب تھا اُس کے جیسا کوئی نہیں تھا اور نہ آگے چل کر کوئی ہوسکتا تھا۔

"تمہیں باپ پر رحم نہیں آرہا؟"بس یہ چھٹانگ بھر کی لڑکیاں نظر آرہی ہیں جنہوں نے ہمارا سکون غارت کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی اور اب یہ ہمارے گاؤں کے پیچھے پڑی ہوئی ہیں۔ ۔فائقہ بیگم کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا تھا

"ہمیں آپ کے گاؤں میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے ہم ویسے بھی جانے والے ہیں۔۔فاحا نے سنجیدگی سے کہا

"آپ کہی نہیں جائے گی۔۔اسیر اُس کی طرف دیکھتا سنجیدگی سے بولا

"یہ جائے گی کیونکہ ہم نے جانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔۔میشا نے مداخلت کی

"اپنے باپ پر رحم کرو دونوں۔۔نوریز ملک کا دل کانپ اُٹھا اُن کے جانے کا سُن کر

"ہم پر کیا آپ نے رحم کھایا تھا؟میشا طنز ہوئی

"تو کیا تم سب بدلہ لینا چاہ رہی ہو؟نوریز ملک کو گویا افسوس ہوا

"بلکل بھی نہیں بدلہ تو کم ظرف لوگ لیتے ہیں بہادر لوگ نہیں اور ویسے بھی سیانے لوگ کہتے ہیں کہ لوگوں سے انتقام مت لیا کریں"خراب پھل درخت سے خودبخود گرجاتا ہے۔۔میشا نے کہا تو اُن کے پاس کہنے کو کچھ اور بچا ہی نہ تھا۔

"لیکن سوہان کہاں ہے؟صنم بیگم نے اُن دونوں کو اکیلا دیکھا تو "سوہان"کا پوچھا جو جانے کہاں تھی۔

وہ زوریز کے ساتھ ہے زوریز کو اُس کی ضرورت ہے۔میشا نے سنجیدگی سے اُن کو جواب دیا

"آپو چلیں؟فاحا نے میشا کو دیکھ کر سنجیدگی سے کہا

"رُک جاؤ نا جاؤ میرے ساتھ وہ نہ کرو جو سالوں پہلے میں نے تمہاری ماں کے ساتھ کیا تھا۔۔نوریز ملک نے ایک اور کوشش کی اُن کو روکنے کی

"ہماری ماں نے آپ سے محبت کی تھی"لیکن افسوس آپ نے اُن کی قدر نہیں کی اور ایک دن خود سے لڑتے لڑتے وہ ایک جان لِیوا بیماری کا شکار ہوکر ہمیں چھوڑ کر چلی گئ۔'اور افسوس مجھے اِس بات کا بھی ہوتا ہے کہ آپ نے کبھی اُن کے بارے میں جاننے کی کوشش نہیں"کبھی یہ نہیں پوچھا کہ اُس کو ہوا کیا تھا؟"اُس کا وقت کیسے گُزرا ہے"آپ کو اگر کسی کی پرواہ کسی کی فکر ہے بھی تو بس اپنی ذات کی ہے"مجھے پتا ہے اگر ہمارا سامنا اتفاقی طور پر نہ ہوا ہوتا تو آپ تو کبھی ہمیں تلاش کرنے کی کوشش بھی نہ کرتے"سوری ٹو سے لیکن آپ ایک خودغرض اِنسان ہیں جو بس اپنا سوچتا ہے کسی دوسرے کا نہیں۔۔میشا بولنے پر آئی تو بولتی چلی گئ تھی آخر کب تک وہ اندر کا غبار اپنے تک محدود رکھ سکتی تھی"اُس کو ایک نہ ایک دن تو باہر آنا ہی تھا سو وہ آگیا تھا۔

"مجھے پتا ہے میں نے بہت زیادتی کی ہے

"آپ کو پتا ہے ہمیں یہ جان کر کوئی فرق نہیں پڑا لیکن ہمیں اب اِجازت دے اب آپ۔"آؤ فاحی۔۔۔میشا اُن کی کوئی بھی بات سُننے کو تیار نہ تھی تبھی دو ٹوک الفاظ میں اُن سے مخاطب ہوتی فاحا سے بولی تو وہ اسیر کو دیکھنے لگی جس نے اُس کے دیکھنے پر اپنی نظروں کا رخ بدل دیا تھا۔۔

"ہم یہاں جانے کے لیے آئے تھے"تو ہمارا جانا بنتا ہے"پر میں واپس جلد آؤں گی کیونکہ یہاں میری جاب ہوگی۔۔۔فاحا اسیر کے روبرو کھڑی ہوتی بیحد آہستگی سے بولی تھی جو بس اسیر ہی سُن پایا تھا۔۔


ہمیں ہاتھ نہ لگاؤ۔۔۔وہ جیسے ہی باہر آئے تو کسی بچی کی آواز نے اُن دونوں کو اپنی طرف متوجہ کیا

"یہاں بچے بھی ہوتے ہیں کیا؟میشا حیران ہوئی

"پتا نہیں پر یہ آواز آ کس سمت آ رہی ہے؟فاحا آس پاس دیکھتی اُس سے بولی جبھی اُس کا دھیان ایک کالی گاڑی کے پاس گیا جہاں اُس گاڑی کے قریب چھ سات سال کے درمیان والی بچی نیچے بیٹھی اپنے شوز کے تسمے باندھنے کی کوششوں میں تھی"اُور اُس کے آس پاس تین باڈی گارڈز تھے جن کو وہ اپنے سامنے کھڑا ہونا پسند نہیں کررہی تھی۔۔"یہ دیکھ کر فاحا نے اپنے قدم اُس کی طرف بڑھائے تھے لیکن میشا گاڑی میں سامان ڈالنے میں لگی ہوئی تھی۔

"کیا ہوا ہے آپ کو؟فاحا نے اُس بچی کو دیکھ کر پوچھا جس کا چہرہ اُس کے بالوں نے چُھپایا ہوا تھا

"آپ کو نظر نہیں آتا ہمارے شوز کے تسمے کُھل چُکے ہیں۔۔اقدس نے جھنجھلاہٹ بھرے انداز میں اُس کو بتایا

"یہاں دیکھے میری طرف۔۔فاحا کو اُس کا اندازِ گفتگو بلکل اسیر جیسا لگا تو غور سے اُس کو دیکھتی ہوئی بولی تو اقدس نے سراُٹھا کر فاحا کی طرف دیکھا

"آپ؟فاحا اُس کو دیکھ کر حیران ہوگئ دوسری طرف اُس کو دیکھتی اقدس بھی جیسے سوچ میں پڑگئ تھی۔

"آپ وہ ہیں نہ جس کے پاس خوبصورت سی بلی تھی؟اقدس نے پوچھا تو فاحا کو مزید حیرانگی ہوئی یہ جان کر کے وہ اُس چھوٹی سی بچی کو یاد تھی۔

"ہاں پر آپ نے مجھے پہچان لیا؟فاحا نے حیرت سے پوچھا

"ہمیں آپ کی بلی پسند آئی تھی بہت ہم نے اپنے بابا سے کہا وہ کہتے ہیں کہ اُن میں جمز ہوتے ہیں"اِس لیے ہمیں لیکر نہیں دی۔اقدس نے ناک منہ چڑھاکر بتایا تو اُس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر فاحا بے ساختہ مسکراکر اُس کو دیکھنے لگی جہاں پہلے یہ چہرہ اُس کو جانا پہچانا سا لگ رہا تھا وہی اب اُس کو یقین ہوگیا کہ وہ اسیر ملک کی بیٹی تھی جس کی آنکھیں اپنے باپ کی طرح گہری تھی اور شاید اگر وہ مسکراتی تو اُس کے پاس بھی ڈمپلز پڑتے ہو۔

"آپ کے بابا نے کہا تھا تو سہی کہا ہوگا"لیکن آپ کی یاداشت ماشااللہ بہت اچھی ہے۔۔فاحا اُس کی ناک دباکر بولی تب تک وہاں میشا بھی آگئ تھی۔

"یہ کون ہے؟میشا اقدس کو دیکھ کر بولی

"ہمارا نام اقدس اسیر ہے۔۔اقدس نے پرجوش ہوکر بتایا

"اوو تو تم مسٹر "ہم ہم کی مس "ہم ہم ہو"۔۔میشا اُس کے اندازِ گفتگو پر ہنس کر بولی

"کیا آپ ہمارے تسمے باندھ دینگی؟اقدس نے فاحا کو دیکھ کر کہا تو اُس کی بات پر میشا نے مسکراہٹ دبائے فاحا کو دیکھا

"میں؟فاحا نے لب کُچلے

"ہاں کیوں کیا آپ کو تسمے باندھنا نہیں آتا؟اِتنی بڑی تو ہیں۔۔اقدس کی بات پر میشا کا قہقہقہ چھوٹ گیا تھا لیکن فاحا خجل ہوئی تھی وہ اب بھلا کیا کہتی کہ وہ بہت سمجھدار تھی لیکن اُس کو شوز کے تسمے تک باندھنا نہیں آتے تھے

"میں باندھ لیتی ہوں۔۔میشا نے کہا اور آگے جھک کر اُس پاؤ اپنے گھٹنے پہ رکھ کر تسمے باندھنے لگی۔

"آپ کہاں تھی کیا آپ یہاں نہیں رہتی؟فاحا کو اچانک خیال آیا تو پوچھ لیا

"بورڈنگ اسکول میں ہوتے ہم اور ہمیں یہاں ہر بار بابا لاتے ہیں لیکن اِس بار نانو نے ہمیں ڈرائیور کے ساتھ یہاں بھیجا ہے تاکہ بابا کو سرپرائز کرپائے اور اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ ہماری مما آگئ ہے تو ہماری اب ہیپی فیملی ہوگی۔۔۔اقدس نے پرجوش لہجے میں بتایا تو فاحا کے چہرے پر ایک سایہ آکر لہرایا تھا اُس کی رنگت پل بھر میں متغیر ہوگئ تھی۔

"کیا ہوا گاڑی کیوں اسٹاپ کردی؟وہ گاؤں کی حدود کو کراس کرنے والے تھے جب گاڑی کے اچانک رُکنے پر فاحا جو اپنی سوچو میں گُم تھی وہ چونک کر میشا کو دیکھ کر بولی

"سامنے دیکھو مسٹر ہم کھڑا ہے۔۔میشا نے کہا تو فاحا اُس کو دیکھتی پھر سامنا دیکھا تو حیران رہ گئ جہاں واقعی میں اسیر ملک کھڑا تھا اپنی پوری شان سے۔۔

"یہ سامنے کیوں کھڑے ہیں؟فاحا نے ناراضگی سے اپنا رُخ بدل دیا

"کیونکہ پیاسا کنویں کے پاس آتا ہے کنواں خود چل کر پیاسے کے پاس نہیں جاتا۔۔۔میشا نے اُس کو دیکھ کر شرارت سے کہا

"تو آپ کیا چاہتی ہیں؟فاحا ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگی۔

"میں کچھ نہیں چاہتی لیکن وہ چاہتا ہے کہ تم اُس کے پاس آؤ۔۔۔میشا نے بتایا

"مجھے نہیں جانا۔۔۔فاحا نے صاف انکار کیا

"زیادہ ڈرامے نہیں کرو اور جاؤ چُپ کرکے۔۔میشا نے اُس کو آنکھیں دیکھائی

"کیا کوئی زبردستی ہے؟"فاحا کیوں اُس کے پاس جائے وہ شادی شدہ ہے ایک بیٹی کا باپ ہے اور جلد وہ اُس دیبا باجی سے دوبارہ شادی کردے گا۔۔فاحا سرجھٹک کر بولی

"یہ ساری باتیں تم اُس کے ساتھ بھی کرسکتی ہو اِس لیے زیادہ ڈرامے نہیں کرو اور جاؤ۔۔۔میشا نے کچھ روعب سے کہا تو فاحا لب کچلتی آخر کو گاڑی سے باہر نکلی۔۔۔


"کیا ہے؟راستہ کیوں بلاک کیا ہوا ہے آپ نے؟فاحا نے سنجیدگی سے اُس کے سامنے کھڑے ہوکر پوچھا

"آپ نے اپنے دل کا راستہ بلاک کیا ہے جبھی ہمیں یہ راستہ بلاک کرنا پڑا۔۔اسیر نے کہا تو وہ خاموش سی اُس کا چہرہ تکنے لگی۔

"آپ کی بیٹی سے فاحا ملی۔۔۔فاحا نے بتایا

"فاحا سے بھی ہماری بیٹی ملی اور اُن کو فاحا پسند آئی۔۔اسیر نے مسکراہٹ دبائے بتایا

"مطلب؟فاحا نے الجھن بھری نظروں سے اُس کو دیکھا

"کیوں جارہی ہیں آپ؟"ناراضگی اگر چچا سے ہے تو ہمارا اُس میں کیا قصور؟اسیر نے سنجیدگی سے پوچھا

"آپ کونسا فاحا سے پیار کرتے ہیں؟"آپ کا نین مٹکا تو اُس دیبا باجی سے تھا۔۔۔فاحا نروٹھے پن سے بولی

"ہمارا آنکھ مٹکا کسی بھی لڑکی سے نہیں تھا۔۔۔اسیر نے بتایا

"تو اقدس کیا آسمان سے گِر کر آپ کی جھولی میں آئی؟فاحا طنز ہوئی

"یہ ایک بہت لمبی بات ہے ہم آپ کو فرصت میں بتائے گے۔۔اسیر نے کہا

"ابھی بتانے میں کیا حرج ہے؟فاحا کو بے چینی ہوئی

"حرج تو کوئی نہیں ہے لیکن شاید آپ کو ہماری بات پر یقین نہ آئے تبھی سہی وقت آنے پر ہم آپ کو ساری بات بتائے گے۔۔۔اسیر نے کہا

"اگر آج ابھی بتانا نہیں تھا تو راستہ کیوں روکا ہوا؟فاحا نے پوچھا

"کیونکہ آپ اُداس ہوکر جارہی تھیں اور میں نہیں تھا چاہتا کہ آپ جس اُداسی سے آئیں تھیں اُس اداسی سے جائے۔۔اسیر نے کہا تو فاحا یک ٹک اُس کا چہرہ دیکھنے لگی۔وہ جان نہیں پائی کہ اسیر کو کیسے پتا لگا کہ وہ یہاں دل سے نہیں آئی تھی۔

"آپ کو میری اُداسی کی کیا پرواہ؟فاحا کو جیسے اُس کی بات پر یقین نہ آیا تھا تبھی سرجھٹک کر سوال کیا

"ہمیں آپ کی پرواہ ہے۔۔اسیر بس اِتنا بولا

"کیوں ہے؟بے ساختہ پوچھا گیا

"بس ہے تو ہے۔۔اسیر نے شانے اُچکائے

"کیا آپ کو فاحا سے محبت ہے؟فاحا نے بلآخر من میں اُبھرتا سوال اُس کے سامنے کیا

"ہمیں فاحا کی محبت سے محبت ہے۔۔اسیر نے اُس کے سوال کا جواب انوکھے انداز میں دیا تو فاحا ناچاہتے ہوئے بھی مسکرائی تھی۔

"کیوں ہے؟اگلا سوال

"کیونکہ ہماری بیٹی کو ایک ماں کی ضرورت ہے اور ہمیں ایک بیوی کی۔۔"جو آپ کی طرح ہو۔۔اسیر نے بتایا

"تو کیا آپ فاحا کو پرپوز کررہے ہیں؟فاحا نے پوچھا

"پرپوز تو ہم پہلے کرچُکے ہیں بس اِس بار راضی کرنے کی کوششوں میں ہیں۔۔اسیر نے بتایا

"ٹھیک ہے پھر آپ شہر آئے اور ساجدہ آنٹی سے بات کریں۔۔فاحا نے اِتراکر کہا

"ساجدہ آنٹی؟اسیر چونک سا گیا

"ہاں کیونکہ ہمارے ساتھ بچپن سے وہ ہیں اور ہم پر سب سے زیادہ حق اُن کا ہے۔۔۔فاحا نے کہا تو اسیر مسکرایا

"ٹھیک ہے جیسے آپ کہو۔۔اسیر نے ہاتھ کھڑے کیے کہا

"تو اب میں جاؤں؟فاحا نے اُس سے اجازت چاہی تبھی پوچھا

"آپ جانا چاہتیں ہیں؟اسیر نے اُلٹا اُس سے پوچھا

"جی جانا تو ہے نہ۔۔۔فاحا نے بتایا

"ٹھیک ہے پھر جائے کیونکہ یہاں آنے کے لیے آپ کا جانا ضروری ہے۔۔۔"اسیر نے کہا تو فاحا جلدی سے رُخ پلٹ کر گہرا مسکرائی تھی اور دور اپنی گاڑی میں بیٹھی میشا اُس کی خوشی کا اندازہ لگاتی بے اختیار خود بھی مسکرائی تھی۔"وہ خوش تھی کیونکہ فاحا خوش تھی اور اگر فاحا خوش تھی تو اُن کو کیا اعتراض ہونا تھا یا وہ کون ہوا کرتیں تھیں احتراز اُٹھانے والی۔

❤❤❤❤❤❤❤

"کیا آپ کو پتا تھا کہ آپ کے تایا نے میرے والدین کو قتل کروایا تھا؟زوریز نے سنجیدہ انداز میں سوہان سے سوال کیا اُس کا چہرہ ہر احساس سے پاک تھا جب سے اُس کو یہ بات معلوم ہوئی تھی"تب سے سکون نام کی چیز اُس سے چِھن سی گئ تھی۔

"مجھے بھی آپ کے ساتھ پتا چلا ورنہ میں انجان تھی۔۔سوہان نے جواباً سنجیدگی سے کہا

"سجاد ملک نے ایسا کیوں کیا ہوگا؟"مجھے اچھے سے یاد ہے میرے ڈیڈ کی ایسی کسی کے ساتھ بھی دُشمنی نہیں تھی کہ کوئی اُن کی جان لینے تک آ پہنچتا۔۔زوریز کا انداز پرسوچ تھا۔

"کیا آپ نے کبھی جاننے کی کوشش نہیں کی تھی اُن کے ساتھ جو ہوا تھا کہ سازش تھی یا اتفاق؟سوہان نے پوچھا

"میں محض دس سال کا تھا تب اِن باتوں کو سوچتا یا پھر آریان کے بارے میں سوچتا"مجھے اور آریان کو جو بتایا گیا وہ ہم نے مان لیا کیونکہ ایسے حادثات تو آئے دن ہوتے رہتے ہیں۔۔زوریز نے کہا تو سوہان خاموش سی ہوگئ

"آپ فکر مت کریں پہلے جو بھی لیکن اب آپ کے والدین کو انصاف ضرور ملے گا۔۔۔زوریز کے کندھے پر ہاتھ رکھتی سوہان اُس کو تسلی دلوانے کی کوشش کی تو زوریز نے اُس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا تھا۔

"میں خود اُن پر کیس دائر کروانا چاہتا ہوں"آپ کو اعتراض تو نہیں ہوگا؟زوریز نے اُس کو دیکھ کر پوچھا

"میں ایک وکیل ہوں اور میں بس سچ کا ساتھ دینا چاہوں گی"چاہے پھر سامنے جو بھی ہو۔۔۔سوہان پختگی سے بولی تو زوریز بس اُس کو دیکھنے لگا

"آپ پریشان نہ ہو بس شہر چلنے کی تیاری کریں۔۔سوہان اُس کو چُپ دیکھ کر بولی

"میں تیار ہوں بس آپ کا انتظار ہے۔۔زوریز نے کہا

"شہر چل کر ساجدہ آنٹی سے میرا ہاتھ مانگ لے۔۔سوہان نے کہا تو اُس کی بات پر زوریز پہلی بار مسکرایا

"ہاتھ کیوں مانگوں؟"جبکہ میں جانتا ہوں آپ پوری کی پوری میری ہیں۔۔زوریز نے کہا تو اُس کی بات پر سوہان بھی بے اختیار مسکرائی تھی اور اُس کی مسکراہٹ پر زوریز کو اپنا آپ خوشقسمت سا لگا۔

"آپ کی وہ مسکراہٹ مجھے پیاری لگتی ہے جس کی وجہ میں ہوتا ہوں۔۔زوریز نے کہا تو چہرہ دوسری طرف کرتی سوہان ہنس دی

"آپ رومانٹک ہونے کی بہت کوشش کرتے ہیں۔۔سوہان اُس کا دھیان بٹانے کے غرض سے بولی وہ نہیں تھی چاہتی کہ زوریز تھوڑا بھی اُداس ہو

"کیونکہ میں نے اپنی ٹین ایج میں جانا تھا کہ رومانٹک مرد لڑکیوں کو بہت اٹریکٹ کرتے ہیں"تب آپ ملی نہیں اور اب جب ملی ہیں تو میری طرف اٹریکٹ ہوتیں نہیں کیونکہ آپ کا شُمار اُن لڑکیوں میں نہیں ہوتا۔۔زوریز نے جو جواب دیا اُس پر سوہان کو سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا جواب دے۔


"آپ کا بہت شکریہ زوریز جو آپ میری زندگی میں آئے آپ نے میرا ساتھ تب دیا جب مجھے کسی مضبوط سہارے کی اشد ضرورت تھی۔۔کچھ توقع بعد سوہان تشکر بھری نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولی وہ آج اُس کے سامنے کُھل کر بیان ہونا چاہتی تھی۔

"آپ کا میری زندگی میں آنا بھی کسی معجزے سے کم نہ تھا"میں نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ کوئی لڑکی میری زندگی میں آئے گی اور پھر وہ میری زندگی بن جائے گی۔"آپ کا ملنا"آپ کا میرا ہونا میرے لیے ایک معجزیاتی بات ہے۔۔زوریز اُس کے گرد اپنا حصار پھیلا کر محبت پاش لہجے میں بولا جس پر سوہان نے پرسکون ہوکر اپنا سر اُس کے کندھے پر ٹِکایا تھا۔"زندگی میں اُن کی چاہے جتنی بھی تکلیف اور مشکلات آئیں تھی"لیکن اب وہ خوش تھیں کیونکہ بیشک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہوتی ہے ٹھیک ویسے اُن بہنوں کی زندگی میں بھی اللہ نے اب سکون لکھا تھا۔"کیونکہ وہ رب العالمین تھا جو اپنے بندے کو اُتنا آزماتا تھا جتنا اُس میں سہن کرنے کی ہمت ہوتی تھی۔"جہاں زوریز نے اپنی کم عمری میں اپنوں کے بھیانک روپ دیکھے تھے"ٹھیک ویسی تکلیف یا اُس سے ڈبل مشکلات سوہان نے جھیلی تھی پر اُس نے ہار نہیں مانی تھی اور نہ خود کو یوں چھوڑدیا تھا بلکہ ایک عزم بنا لیا تھا اُس نے کہ اپنی زندگی میں کچھ کرنا ہے اور کرکے کامیاب ہونا ہے"اور اُن کی ایسی لگن دیکھ کر اللہ نے بھی بھرپور ساتھ دیا تھا اُن کا"ایک ایسا جیون ساتھی اللہ نے اُن کے نصیبوں میں لکھا تھا جن کو دیکھ کر وہ اپنا کل پوری طرح سے بھول کر بس خود پر اور اپنی قسمت پر نازاں ہونے والی تھیں۔

❤❤❤❤❤❤❤

"آپ آج اپنے گاؤں جائے گی؟عاشر لالی کو کالج کے گیٹ کے پاس چھوڑتا اُس سے پوچھنے لگا۔

"جی بہت وقت سے نہیں گئ نہ تو آج جاؤں گی اپنے بھائی کو بتایا ہے وہ شام تک لینے آئے گے۔"پھر اگلے ماہ پڑھائی کا زیادہ وزن ہوگا جس کی تیاری میں وہاں نہیں کرپاؤں گی۔۔لالی نے تفصیل سے جواب دیا

"ہمممم سہی میں نے بھی بُوا سے بات کرلی ہے"وہ بھی کچھ دِنوں تک آپ کے گاؤں آجائے گی۔عاشر نے کہا تو لالی نے رُک کر اُس کو دیکھا

"عاشر میرا نہیں خیال میرے گھروالے آپ کے لیے راضی ہوگے"ہمارے یہاں خاندان سے باہر کوئی شادی نہیں کرواتا میں بھی نہیں چاہتی کہ میری وجہ سے آپ کسی مصیبت میں پڑے۔۔لالی اُس کو دیکھ کر ہچکچاہٹ سے بولی

"مجھے اُمید کی کرن دیکھا کر اب آپ ایسی باتیں کررہی ہیں؟عاشر کو جیسے اُس کی بات پسند نہیں آئی

"اُس دن کے بعد میں نے آپ کی بات کے بارے میں بہت سوچا پھر اپنے گاؤں اور گاؤں کے رہنے والوں کی روایت کے بارے میں سوچا تو مجھے سِوائے اندھیرے کے کچھ اور نظر نہیں آیا تھا ایسے میں میرے پاس ایسی باتیں کرنے کے علاوہ کوئی اور بات نہیں ہے کیونکہ مجھے ڈر لگتا ہے کہ جب میرے بابا کو آپ کا پتا لگے گا تو وہ جانے کیسا رد عمل پیش کریں۔۔لالی سرجھکاکر بولی

"سب سے پہلے آپ ڈرنا چھوڑدے کیونکہ بغیر امتحان دیئے کوئی پاس نہیں ہوتا اور جو ہوگا دیکھائے جائے گا ویسے بھی لالی فیل ہونے کے ڈر سے اِنسان امتحال ہال میں بیٹھنا نہیں چھوڑتا سو رلیکس سب ٹھیک ہوگا اِن شاءاللہ تم بس اطمینان رکھو۔۔عاشر نے نرم لہجے میں اُس کو سمجھاتے ہوئے کہا جو لالی کو سمجھ بھی آرہا تھا پر وہ اپنے اُس ڈر کا کیا کرتی جو اُس کے اندر کُنڈلی مار کر بیٹھا ہوا تھا کیونکہ جتنا وہ اپنے گھروالوں کو جانتی تھی اُس کا ایک فیصد بھی عاشر نہیں تھا جانتا تبھی اِتنا پرسکون تھا

"اُمید ہے اور اللہ سے دعا ہے کہ سب ٹھیک ہوگا جو بھی ہوگا۔"بس اللہ اُس کو ہمارے حق میں بہتر کرے۔۔لالی نے کہا

"اِن شاءاللہ ایسے ہی ہوگا۔۔۔عاشر نے مسکراکر کہا تو جواباً لالی بھی مسکرائی تھی۔

❤❤❤❤❤❤

"دیکھو اقدس غور سے مجھے دیکھو میں تمہاری ماں ہوں اسیر تمہیں مجھ سے الگ کرنے کی کوشش کررہا ہے تم اُس کو بتاؤ کہ تمہیں میرے پاس یعنی اپنی ماں کے پاس رہنا ہے۔۔۔دیبا اقدس کو زبردستی اپنے ساتھ لگاتی بولی تو وہ حیرت سے بس اُس کو دیکھنے لگی جو پاگلوں کی طرح بس ایک بات دوہرانے میں لگی ہوئی تھی۔

"آپ ہماری ماں ہو؟اقدس غور سے اُس کو دیکھتی ہوئی بولی

"ہاں میں تمہاری ماں ہوں آؤ اپنی مما سے پیار سے کرو۔۔اقدس کی بات پر وہ جھٹ سے بولی

"آپ اسٹرینجر ہو آپ ہماری مما نہیں ہوسکتیں اگر آپ ہماری مما ہوتیں تو ہم سے ملنے ضرور آتیں اور یہاں تو آپ کی کوئی تصویر بھی نہیں ہوا کرتی تھی۔"اور اگر ہم آپ کی بیٹی ہیں بھی تو آپ کیوں کبھی ہم سے ملنے نہیں آئی؟اقدس نے سوال اُٹھایا

"کیونکہ اسیر بہت بُرا انسان ہے وہ نہیں تھا چاہتا کہ میں تم سے ملوں۔۔دیبا نے خود کو اچھا ظاہر کرنے کے لیے اسیر کو بُرا کہا

"ہمارے بابا بہت اچھے انسان ہیں ہم اُن کے خلاف کچھ نہیں سُنے گے"بُری تو آپ خود ہیں تبھی تو ہمارے بابا کو بُرا بھلا بول رہی۔۔۔۔اقدس کو اُس کا یوں اسیر کے لیے بولنا پسند نہیں آیا تھا تبھی ناگواری سے بولی تو دیبا کو اُس کی بات پر غُصہ تو بہت آیا تھا لیکن اُس کو دبانے میں ہی مصلحت جان کر وہ اُس کے پاس آئی

"اقدس میری جان بات کو سمجھو کیا آپ نہیں چاہتی کہ آپ کے بابا اور مما دونوں ساتھ ہو؟دیبا نے اُس کا برین واش کرنا شروع کیا

"چاہتے ہیں۔۔اقدس نے اپنا سراثبات میں ہلایا

"ٹھیک ہے پھر اپنے بابا سے کہو کہ آپ کو مما کے ساتھ رہنا ہے اُن کے ساتھ نہیں۔۔دیبا نے کہا

"ہم اُن سے ایسے نہیں بول سکتے وہ ہمارے بابا ہیں۔۔اقدس چیخی عین اُس وقت اسیر حویلی میں داخل ہوا تھا۔

"اقدس کیا ہوا؟اُس کو چیختا سُن کر وہ پریشان ہوا

"بابا۔۔۔اقدس نے اسیر کو آتا دیکھا تو بھاگ کر اُس کے گُھٹنوں کے ساتھ لگی تو ایک نظر دیبا پر ڈال کر وہ ساری بات سمجھنے کی کوشش کرتا اقدس کو گود میں اُٹھانے لگا

"کیا ہوا ہماری اقدس کو وہ تو ہمارا بہادر بچہ ہے پھر؟اسیر اُس کے چہرے پر آتے بالوں کو پیچھے کرتا پوچھنے لگا

"بابا کیا یہ ہماری مما ہیں؟اقدس نے دیبا کی طرف اِشارہ کیے اسیر سے پوچھا

"جی۔۔اسیر نے صاف گوئی کا مُظاہرہ کیا جس پر دیبا کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ آئی تھی۔

"یہ پھر ہم سے ملنے کیوں نہیں آئی تھی؟"آپ کو پتا ہے نہ ہم نے بہت یاد کیا تھا اِن کو۔۔اقدس اُداس ہوتی بولی

"تمہاری مما مجبور تھی بیٹا۔۔دیبا نے مداخلت کی

"بابا کہتے ہیں ایسی کوئی مجبوری نہیں ہوتی جس سے والدین اپنی اولاد سے کنارہ کش ہوجائے۔۔۔اقدس نے اپنی عمر سے زیادہ بڑی بات کردی تو دیبا اپنی جگہ ہل بھی نہیں پائی تھی اُس کو سب کچھ اپنے ہاتھوں سے کسی ریت کی طرح پھسلتا محسوس ہوا

"آپ نے ہماری باتوں کو یاد کیا ہمیں جان کر خوشی ہوئی اور آپ کی مما یہی رہنے والی ہیں تو آپ اگر چاہے تو اُن سے بات کرسکتی ہیں پر کبھی خود کو اپنی ماں کا عادی مت بنائیے گا کیونکہ ہوسکتا ہے کہ پھر سے وہ کسی مجبوری کے تحت آپ کو چھوڑ کر نہ چلی جائے۔۔اسیر نے کہا تو دیبا اُس کو گھورنے لگی۔

"بابا کیا میں اپنی مما کو گلے سے لگاؤں؟اقدس نے پوچھا تو اسیر کتنے پل اُس کا معصوم چہرہ تکنے لگا وہ اقدس پر دیبا پر سایہ پڑنے بھی نہیں دینا چاہتا تھا لیکن جس طرح دیبا نے ایک پل میں اُس کو اپنے بارے میں بتاکر غلط کیا تھا ایسے میں وہ اگر اقدس کو روکتا یا ٹوکتا تو ہوسکتا تھا کہ وہ اُس سے دور ہوجاتی یا اپنے دل میں اپنے باپ کے لیے خلش رکھنے لگتی۔

"اگر آپ کا دل ہے تو ضرور۔۔۔اسیر نے سنجیدگی سے کہہ کر اُس کو نیچے اُتارا تو ابھی اقدس دیبا کے پاس جانے والی تھی جب کسی کی چیخوں نے ہر ایک کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔

"بابا۔۔اقدس ڈر کر اسیر سے لگی تھی۔

"کچھ نہیں ہوا آئے ہم آپ کو آپ کے کمرے میں چھوڑ آتے ہیں۔۔اسیر پریشانی سے اُپر کی طرف دیکھتا اقدس کو پچکارنے لگا تو وہ اُس کی گردن میں اپنا چہرہ چُھپانے لگی۔

"اقدس مجھے دو۔۔دیبا نے آگے بڑھ کر کہا

"تمہارے اِس دکھاوے کے پیار سے ہماری معصوم بچی پھسل سکتی ہے لیکن ہم نہیں اِس لیے ہم بس اِتنا کہے گے کہ تم ہماری بچی سے دور رہو اُس کو مینٹلی ٹارچر کرنے کا تم نے سوچا بھی تو ہم سے بُرا کوئی نہیں ہوگا۔۔اقدس کا خیال کیے اسیر نے دھیمے مگر سخت لہجے میں دیبا سے کہا

"مجھے جو کرنا ہوگا وہ میں کروں گی اور روک سکتے ہو تو روک کر دیکھ لینا۔۔دیبا نے طنز نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا

"اسیر تم یہاں کھڑے ہو اندر آؤ دیکھو شیراز کو کچھ ہوگیا ہے۔۔۔صنم بیگم کی حواس باختہ آواز سن کر اسیر دیبا کو نظرانداز کرتا سب سے پہلے اقدس کو اُس کے کمرے میں چھوڑا پھر ایک مُلازمہ کو اُس کا خیال رکھنے کی ہدایت کرتا وہ شیراز کے کمرے میں آیا تھا جہاں اُس کے منہ سے جھاگ نکل رہا تھا اور وہ بے سُدھ سا بیڈ پر لیٹا ہوا تھا پاس ہی اسمارہ بیگم نے اُس کے پاس بین کرنا شروع کردیا تھا۔

"شیراز کے منہ سے جھاگ؟ اسیر کو سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ اچانک سے کیا ہوگیا؟ "نوریز ملک کا نابینا ہی سہی لیکن ایک بیٹا بچا تھا جو آج وہ بھی اللہ کو پیار ہوگیا تھا۔

"شیراز اُٹھو کیا ہوگیا ہے۔۔اسمارہ بیگم جھنجھوڑ کر اُس کو جگانے کی کوشش کرنے لگی۔"جیسے وہ اُن کی اِس حرکت پر اُٹھ کر بیٹھ جائے گا۔

"چچی جان آپ ہمیں پوری بات بتائے کیا ہوا ہے شیراز کو؟"وہ تو بلکل سہی تھا۔۔اسیر اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتا اسمارہ بیگم سے مخاطب ہوا جو اپنے حواس کھو بیٹھی تھیں۔

"میں بتاتی ہوں تمہاری ماں نے شیراز کو زہر دیا ہے اور اب اپنے کمرے میں خود کو لاک کیا ہوا ہے۔۔نورجہاں بیگم نے بتایا تو پاؤں کے نیچے زمین کھسکنا کس کو کہتے ہیں یہ بات آج اسیر کو بخوبی پتا لگی تھی۔" وہ ساکت سا پہلے شیراز کا وجود دیکھنے لگا پھر روتی سسکتی اسمارہ بیگم کو دیکھنے لگا

"ہمیں یقین نہیں وہ ایسا نہیں کرسکتیں بھلا وہ کیوں کرے گی ایسا؟اسیر کا سرخودبخود نفی میں ہلنے لگا"وہ کیسے یقین کرتا کہ اُس کی ماں نے پھر سے قتل کیا ہے۔

"پاگل ہوگئ ہے تمہاری ماں میرا بیٹا مرچُکا ہے اُس کی لاش تمہارے سامنے ہے"ماتم جیسا ماحول ہے وہ یہاں نہیں ہے اُس کے باوجود تمہیں یقین نہیں آرہا واہ کیا بات ہے؟اسمارہ بیگم اُس کو دیکھ کر استہزائیہ لہجے میں بولی تو اسیر اُلٹے قدموں سے باہر کی طرف بھاگا تھا۔۔


"اماں۔۔۔اسیر فائقہ بیگم اور سجاد ملک کے مشترکہ کمرے میں آتا اُن کا دروازہ پیٹنے لگا"لیکن سب بے سود

"دروازہ کھولے ورنہ ہم دروازہ توڑ دینگے۔۔اسیر چیخ کر وارن کرنے لگا جہاں اندر سے کسی بھی چیز کی آواز اُس کو سُنائی نہیں دے رہی تھی۔

"ٹھیک ہے اگر ایسا ہے تو ایسا ہی سہی۔۔۔اسیر آہستگی سے بڑبڑاتا کچھ قدم پیچھے ہوا پھر پوری قوت سے دروازہ کو لات مار اُس نے دروازہ کھولا تو سامنے والا منظر دیکھ کر بے ساختہ اُس نے دیوار کا سہارہ لیا تھا۔"کیونکہ سامنے فائقہ بیگم فرش پر اُلٹی لیٹی ہوئیں تھیں"آنکھیں کُھلی ہوئی اور ساکت تھیں جبکہ منہ سے سفید جھاگ نکل رہا تھا اُس کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا وہ یقین نہیں کر پارہا تھا کہ اِتنی جلدی اُس کی ماں اِتنا بڑا قدم اُٹھا چُکی تھیں۔۔

"یہ کیا کردیا آپ نے؟"اپنی آخرت برباد کردی آپ نے"اور ایک بار ہمارا بھی نہیں سوچا۔۔۔اسیر کی آنکھیں ضبط سے سرخ ہوگئیں تھیں سامنے والا منظر اُس کے لیے ناقابلِ یقین اور ناقابلِ برداشت تھا۔"

❤❤❤❤❤❤❤❤❤

"کچھ وقت بعد

آج فائقہ بیگم کو اِس دُنیا سے گئے ہوئے دو ماہ کا عرصہ ہوگیا تھا۔"حویلی میں آجکل عجیب سناٹے جیسا راج ہوا کرتا تھا۔"جہاں ایک طرف فائقہ بیگم نے خودکشی کی تھی وہی دوسری طرف اپنے بیٹے کی موت پر اسمارہ بیگم کو آئے دن اٹیک ہوتا تھا۔'وہ اب اپنے ہوش وحواسو میں نہیں تھی رہتی۔"نوریز ملک نے خود کو کمرے کی چار دیواروں میں قید کردیا تھا"پچھتاوے کی دلدل نے اُن کو اپنی لپیٹ میں ایسے لے لیا تھا جس سے وہ کبھی آزاد نہیں ہوسکتے تھے۔

"دوسری طرف لالی گاؤں آئی تھی تو اُس پر گویا قیامت ٹوٹ پڑی تھی ایک طرف باپ اور بھائی کا جیل میں ہونا تو دوسری طرف ماں کی موت نے جیسے اُس پر سکتہ طاری کردیا تھا"اُس کو یقین تک نہیں آرہا تھا اِتنے کم وقت میں حویلی میں اِتنا سب کچھ ہوچُکا تھا "البتہ اسیر نے خود کو گاؤں کے کاموں میں اُلجھا دیا تھا اور اُس نے اقدس کو بھی واپس بورڈنگ اسکول بھیج دیا تھا کیونکہ وہ نہیں تھا چاہتا کہ آجکل حویلی میں جو کچھ ہونے لگا تھا اُس کا اثر اقدس اپنے کچے دماغ میں لے۔

"کیسی ہیں آپ؟عاشر نے آج کال کرکے لالی سے حال دریافت کرنا چاہا

"بے یقین سی۔۔۔لالی نے کھوئے ہوئے لہجے میں بتایا

"خود کو سنبھالے۔۔عاشر کو افسوس ہوا

"کیسے سنبھالوں؟"عاشر اِتنا سب کچھ اچانک سے ہوگیا مجھے یقین نہیں آرہا میری ماں اِتنی سمجھ بوجھ والی ہوکر ایسا کیسے کرسکتی ہیں"وہ خودکشی جیسا حرام فعل کیسے انجام دے سکتیں ہیں؟"اور میرے باپ بھائی اِن کے بارے میں سوچتی ہوں تو میرے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں یعنی کوئی اِتنا بڑا بے رحم جابر کیسے ہوسکتا ہے؟لالی کو ایک بار پھر رونا آگیا تھا۔

"آپ کے رونے سے کچھ بدل نہیں جائے گا"اِس لیے خود کو تکلیف نہ پُہنچائے۔۔۔عاشر کو اُس کو یوں جان کر پریشانی ہوئی

"عاشر میں

"لالی کون ہے فون پر؟اپنے آنسوؤ کا گلا گھونٹتی لالی کچھ کہنے والی تھی جب اپنے پیچھے اسیر کی آواز سن کر سیل فون چھوٹ کر فرش پر گِرا تھا۔۔"اسیر کو دیکھتی لالی کا چہرہ وحشت کے مارے لٹھے مانند سفید پڑگیا تھا۔۔"وجود میں کپکپی سی طاری ہوگئ تھی۔"دوسری طرف عاشر نے بھی اسیر کی آواز کو سُنا تھا پھر یوں کال کٹ ہونے پر وہ پریشان ہوگیا تھا"اُس نے دوبارہ کال کرنے کی کوشش کی تو نمبر بند آنے لگا۔

"ہم نے کچھ پوچھا ہے لالی کون ہے عاشر؟اسیر نے سخت لہجہ اپنایا تو لالی نے زور سے اپنی آنکھوں کو میچا تھا۔

"بھائی وہ

لالی سے کچھ بولا نہیں گیا خوف کے مارے اُس کو اپنی جان جاتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔

"کیا وہ میں؟اسیر کچھ قدم چل کر اُس کے پاس آیا

"میرا کلاس فیلو ہے پپپ پسند کرتا ہے مجھے۔۔۔لالی نے اپنی آنکھوں کو زور سے میچ کر بتایا اُس کو ڈر تھا کہی اسیر ایک تھپڑ ہی نہ اُس کے چہرے پر رسید کردے"کتنے مان سے اُس نے ہر ایک کی مخالفت مول کر اُس کو یونی بھیجا یقین کیا تھا اعتماد کے سنگ اُس کو آزادی دی تھی تو جواب میں اُس نے کیا کردیا تھا؟

"اور تم؟سنجیدگی سے بھرپور اگلا سوال

"بھائی وہ

"جو پوچھا ہے محض اُس کا جواب دو۔۔۔لالی کچھ کہنا چاہتی تھی"جب اسیر نے اُس کی بات کو درمیان میں کاٹ کر پوچھا

"شاید میں بھی۔۔۔اپنے ہاتھ کی اُنگلیوں کو آپس میں مسلتی لالی نے ایسے بتایا جیسے کوئی جرم سرزند ہوگیا ہو

"وہ جو کوئی بھی ہے اُس کو کہو اپنے والدین کو یہاں بھیجے رشتے کی بات کرنے۔۔۔۔اسیر نے سنجیدگی سے بھرپور آواز میں کہا تو لالی نے حیرت سے سراُٹھا کر اسیر کو دیکھا

"جی؟لالی کو لگا شاید اُس کو سُننے میں کوئی غلطی ہوئی ہے

"شہر میں رہ کر کیا کانوں میں مسئلہ ہوگیا ہے؟اسیر نے پوچھا تو وہ شرمندہ سی ہوگئ

"سوری بھائی۔۔۔لالی نے ندامت سے چور لہجے میں اُس سے کہا

"سوری کیوں؟اسیر نے پوچھا

"میں نے آپ کا اعتبار توڑا یہ جانتے ہوئے بھی کہ آپ نے بہت مان سے مجھے یونی بھیجا تھا۔۔۔لالی سے نظریں اُٹھانا محال ہوگیا تھا۔

"کیا تم نے چُھپ کر اُس سے نکاح کیا ہے؟اسیر نے پوچھا

"بلکل بھی نہیں بھائی۔۔۔لالی نے فورن سے اپنا سر نفی میں ہلایا تھا

"کیا کوئی غیراخلاقی باتیں کیا کرتے ہو سیل فون پر؟اگلا سوال

"یہ کیسی باتیں کررہے ہیں بھائی؟لالی کو عجیب سا لگا

"اگر اِن دونوں میں سے کوئی بھی کام تم نے نہیں کیا تو میرا یقین تم پر برقرار ہے۔۔"پسند کرنا کوئی جُرم کی بات نہیں ہوتی یہ رائٹ اگر لڑکوں کو ہے تو لڑکیوں کا بھی ہے اور اُن کو یہ رائٹ اُن کا دین دیتا ہے جس میں مداخلت کرنے والے ہم کوئی نہیں ہوتے۔۔"عاشر سے کہو اپنی فیملی کے ساتھ آئے پھر اگر رشتہ مناسب لگا ہمیں تو آگے کے مراحل طے ہوگے۔۔۔اسیر نے سنجیدگی سے کہا تو لالی کے چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ نے احاطہ کیا تھا اُس کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ سب اِتنا آسانی سے ہوجائے گا۔

"آپ بہت اچھے ہیں۔۔۔لالی نے تشکر سے بھری نظروں سے اسیر کا وجیہہ چہرہ دیکھا جہاں آجکل تھکن کے تاثرات ہوئے کرتے تھے

"ہممم اپنا فون اُٹھاؤ اور کمرے میں جاؤ۔۔۔اسیر نے کہا تو لالی نے ویسے ہی کیا"اپنا گِرا سیل فون اُٹھائے اُس نے اپنے قدم کمرے کی جانب بڑھائے تھے۔


"کتنا ڈبل اسٹینڈر ہے تمہارا اسیر کل جب میں نے کسی کو پسند کیا تھا تو میرے کردار کو داغدار کیا گیا تھا تم شادی کے بعد مجھے میرا حق تک نہیں دے رہے تھے اور جب یہی سب تمہاری اپنی بہن کررہی ہے تو یہ اُس کا رائٹ بن گیا جو دین نے اُس کو دیا ہے واہ کیا بات ہے۔۔۔اسیر وہی کھڑا اپنی سوچو میں گُم تھا جب دیبا کی آواز نے اُس کو سوچو سے باہر نکالا

"تمہارا اور ہماری بہن کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔"ہماری بہن تمہاری طرح سہی غلط کا فرق نہیں بھولی اور اگر بات کی جائے حق کی تو اگر تم ہر کام غلط طریقے اور غلط نیت سے نہ کرتی تو ہم اپنی ساری زندگی تمہارے ساتھ رہ کر ضائع ضرور کرتے لیکن بات یہ ہے کہ ہمارے موقع دینے پر بھی تم نے ہمیں دھوکہ دیا ہماری بیٹی کے پیدا ہوتے ہی اُس کو چھوڑدیا اور بھاگ گئ اپنے چاہنے والے کے ساتھ" تو بہتر یہی ہوگا کہ خود کو ہماری بہن کی جگہ پر نہ رکھو اور نہ اُس کو اپنی جگہ پر۔۔۔اسیر نے اُس کی بات پر سنجیدگی سے بھرپور آواز میں کہا تو دیبا کا پورا چہرہ سُرخ ہوگیا تھا

"میرا بھی رائٹ تھا کہ میں اپنی زندگی اپنی مرضی سے تجویز کرتی۔۔دیبا دانت پیس کر بولی

"ہاں بلکل تمہارا حق تھا لیکن ایک ماں کے پاس ایسا کوئی حق نہیں ہوتا کہ وہ اپنی نومولود بچے کو چھوڑ کر اپنے کسی یار کے پاس چلی جائے۔۔"اور تم تو ہماری معصوم اقدس کو پیدا ہونے سے پہلے سے ختم کرنا چاہتی تھی نہ سب یاد ہے ہمیں اِس لیے ہمارا منہ مت کُھلواؤ"تم نے سب کچھ اِس لیے کیا تاکہ ہر ایک کے سامنے ہمیں غلط ٹھیرا پاؤ لیکن اپنے مقاصد میں تم کبھی کامیاب نہیں ہوئی۔۔اسیر طنز نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولا تو دیبا کا بس نہیں چلا کہ وہ کیا کر گُزرتی لیکن اسیر اب ایک نظر اُس پر ڈالتا وہاں روکا نہیں تھا۔۔۔"پیچھے دیبا اپنے کل کے بارے میں سوچنے لگی تھی جو وہ کرچُکی تھی وہ واقعی غلط تھا لیکن یہ بات وہ ماننا چاہتی نہیں تھی۔

"ماضی!

"آپ کو لگتا ہے یہ کام کرجائے گا؟دیبا غور سے ہاتھ میں پکڑی بوتل کو دیکھ کر نورجہاں بیگم سے بولی

"بلکل کام کرجائے گا لیکن دو سے زیادہ گولیاں مت ڈالنا۔۔۔نورجہاں بیگم نے اُس کو بتایا

"دو سے زیادہ کیوں نہیں؟دیبا نے پوچھا

"دو سے زیادہ دو گی تو ہوسکتا ہے وہ گہری نیند میں چلاجائے اور ہمیں اُس کو سُلانا نہیں بلکہ تمہیں اپنا مقصد پورا کرنا ہے"جس کے لیے تم یہ سب کررہی ہو۔"شادی کو ایک سال ہوگیا ہے تمہاری لیکن وہ اسیر کبھی تمہیں وہ حق نہیں دے پایا جس کی تم حقدار ہو اور اب آج بھی تم اپنا حق لینے میں کامیاب نہ ہوپائی تو ساری زندگی بیٹھی رہو گی ایسے۔۔۔نورجہاں بیگم اُس کو دیکھ کر بتانے لگی۔

"اِس بات کا بدلہ میں اسیر سے اچھے سے لوں گی۔"آپ دیکھنا اگر آج مجھے کامیابی ملتی ہے تو وہ کبھی اُس بچے کو اپنا نہیں مانے گا وہ مجھ پر بہتان لگائے گا غُصہ ہوگا اور پھر طلاق دے گا اور جب ڈی این اے ٹیسٹ پر سب کچھ واضع ہوگا تو اُس کو گاؤں والے پاگل سمجھے گے اور بہتان لگانے کے جُرم میں اُس کو کڑی سے کڑی سزا ملے گی۔۔۔دیبا کی سوچ بہت دور تک تھی۔

"اِن شاءاللہ ایسے ہی ہوگا بس تم کام صفائی سے کرنا تاکہ کسی کو شک نہ ہو خاص طور پر اسیر کو۔۔۔۔نورجہاں بیگم نے کہا

"ملازمہ سے کہوں گی آپ پریشان نہ ہو اور میں جاتی ہوں"سلمان میری کال کا انتظار کررہا ہوگا۔۔اپنے کام سے فارغ ہوتی دیبا نے اُن سے کہا

"ویسے اگر تم سلمان سے بات اسیر کے سامنے نہ کرتی تو شاید ہوسکتا تھا کہ وہ تمہیں قبول کردیتا۔۔۔نورجہاں بیگم اُس کی بات سن کر پرسوچ لہجے میں بولی

"امی میں اُس کی غیرت کو للکارنا چاہتی ہوں اُس کا صبر آزمانا چاہتی ہوں تاکہ وہ کوئی سخت قدم اُٹھائے مگر وہ اسیر ایسا موقع ہاتھ میں آنے نہیں دیتا بہت تیز ہے۔۔نورجہاں کی بات پر دیبا تپ کر بولی

"بس جلدی اللہ تمہیں اولاد سے نوازے۔۔۔نورجہاں بیگم نے کہا

"اگر آج کامیاب ہوجاؤں تب نہ۔۔دیبا نے کہا تو نورجہاں بیگم نے گہری سانس ہوا کے سُپرد کی۔

"اور اُس دن نورجہاں بیگم اور دیبا واقعی میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے تھے"کیونکہ جو اُنہوں نے پلان بنایا تھا اسیر بدقسمتی سے پھنس گیا تھا"اور کچھ ماہ بعد دیبا کو اپنے اُمید سے ہونے کا پتا لگا تھا جس پر حویلی میں خوشیوں کا سماں بن گیا تھا"لیکن دیبا جو چاہتی تھی وہ نہیں ہوا تھا اِس بار کیونکہ اسیر نے اپنی اولاد کو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے قبول کرلیا تھا اُس نے دیبا سے کوئی بھی سوال نہیں کیا تھا بلکہ اُس نے سوچ لیا تھا کہ اب اپنے آنے والے بچے کی خاطر وہ دیبا کے ساتھ نارمل رہنے کی کوشش کرے گا پر دیبا کو یہ گوارا نہیں تھا تبھی اُس نے اپنے پیٹ میں موجود بچے کو ہر ممکن کوشش کرکے ختم کرنا چاہا تھا پر ایسا نہیں ہوا تھا۔۔"اور اسیر نے اُس سے واعدہ کیا تھا کہ اگر وہ اُس کے بچے کو کوئی بھی نقصان نہیں پہنچائے گی تو وہ خود اُس کو رشتے سے آزاد کردے گا اور وہ جو چاہے گی ویسا ہوگا جس پر خود پر جبر کرکے دیبا نے یہ نو ماہ کا وقت گُزر لیا تھا پر اقدس کے پیدائش کے دن بغیر اُس کو ایک نظر بھی دیکھے وہ ہوسپٹل میں سلمان کے ساتھ روانہ ہوگئ تھی۔۔۔"اُس کے جانے کے بعد اسیر کو بہت کچھ جھیلنا پڑا تھا دوسرا معصوم اقدس کی پرورش بھی اُس کے ذمے تھی حویلی والوں نے تو بیٹی کا سن کر منہ بنالیا تھا اور عروج بیگم کی طبیعت بھی تب سہی نہیں رہتی تھی اِس لیے جو کچھ بھی تھا وہ اسیر نے کیا وہ اپنی بچی کو ملازموں کے حوالے نہیں تھا کرسکتا دیبا سے چاہے اُس کو محبت نہیں تھی پر اقدس اُس کو اپنی جان سے زیادہ پیاری تھی۔۔۔"جو نین نقش میں کچھ اُس پر گئ تھی۔

❤❤❤❤❤

حال:

"ازکیٰ پاکستان آکر زوریز کے رشتے کی بات ساجدہ بیگم سے کردی تھی اور ساتھ میں آریان کا رشتہ بھی میشا کے لیے ڈال دیا تھا جس پر حیرت انگیز طور پر میشا نے کوئی بھی واویلا نہیں مچایا تھا وہ مان گئ تھی جس پر سوہان اور فاحا اپنی جگہ حیران تھیں"البتہ آریان کو ابھی تک یقین نہیں آیا تھا وہ تو سمجھا تھا کہ میشا ایک دو بار پھر سے اُس کا منہ توڑنے کی کوشش کے بعد جاکر راضی ہوگی لیکن اُس کا ایسے آسانی سے مان جانا اُس سے ڈائجسٹ نہیں ہورہا تھا لیکن جو بھی تھا زوریز کی طرح وہ بھی بہت خوش تھا اُن دونوں کی خوشیوں کا ٹھکانہ کوئی نہیں تھا اور نہ کوئی اندازہ لگا سکتا تھا کہ دُرانی برادرز جو شادی کے نام سے اِتنا دور رہا کرتے تھے وہ کیسے آج بات پکی ہونے پر خوش ہورہے تھے گرلز الرجک زوریز دُرانی کیسے رخصتی کا سُن کر لڑکیوں کی طرح سُرخ ہوئے جارہا تھا۔

"جُمعے کے دن میشا کا نکاح اور رخصتی دونوں تھیں تو سوہان کا بھی نکاح اور رُخصتی دونوں تھا کیونکہ اِس بار زوریز سب کے سامنے اُس کے ساتھ نکاح کرنا چاہتا تھا۔"جس پر اعتراض کسی نے بھی نہیں کیا تھا کیونکہ اُس میں اعتراض اُٹھانے والی کوئی بات تھی بھی نہیں۔

❤Rimsha Hussain Novels❤

"یہ اپنے پاؤ آپ زرا نیچے اُتارے۔۔فاحا نے گھور کر میشا سے کہا جو جوتوں سمیت صوفے پر آلتی پالتی مارے لیٹی ہوئی تھی۔

کیوں اُتاروں؟میشا نے ڈبل گھوری سے اُس کو نوازہ

"کیونکہ صوفہ خراب ہورہا ہے آپ کو نظر نہیں آرہا؟فاحا نے کمر پر ہاتھ ٹِکائے اُس کو دیکھ کر کہا

"وہ دیکھو سامنے۔۔۔میشا نے ٹی وی کی جانب اِشارہ کرکے اُس کو بتایا

"کیا دیکھوں؟فاحا کو کچھ سمجھ میں نہیں آیا

"وہ لڑکی بھی تو ڈرامے میں یوں صوفے پر بیٹھی ہے نہ بغیر جوتوں کو اُتارے"اُس کی ماں تو نہیں بول رہی اُس کو کچھ پھر تمہیں کیا مسئلہ ہے جو بڑی بہن سے بدتمیزی کررہی ہو۔۔میشا نے اُس کو شرمندہ کرنے کی اپنی سی کوشش کی

"کیونکہ اُس لڑکی کے اُٹھنے کے بعد اُس کی ماں کو صوفہ صاف نہیں پڑے گا کرنا لیکن آپ کے اُٹھنے کے فوری بعد مجھے یعنی فاحا کو صوفہ کلین کرنا پڑے گا۔فاحا نے اُس کو جتاتی نظروں سے دیکھ کر کہا

"نہیں تم مجھے ایک بات بتاؤ کیا تمہیں او سی ڈی کی کوئی خاص بیماری ہے جو ہر وقت صفائی صفائی کرتی رہتی ہو۔۔۔میشا نے زچ ہوکر کہا

"آپ ایسا ہی جان لو اور جلدی سے اُٹھے ویسے بھی فاحا کو بہت کام کرنے ہیں آج۔۔۔فاحا نے عجلت کا مُظاہرہ کیا

"کونسا کام ہے تمہیں؟میشا نے اُس کو گھورا

"ہے بس کام آپ کو کیوں بتاؤں؟فاحا نے آرام سے کہا جبھی گیٹ پر بیل ہوئی تھی۔

"فاحا دیکھے گی۔۔۔فاحا خوشی سے اُچھل پڑی

"خیریت ہے کونسا باہر تمہاری بارات کھڑی ہے جو تم یوں خوشی سے اُچھل کود رہی ہو۔۔۔میشا کو اُس کا انداز عجیب سا لگا

"یہی سمجھے آپ۔۔فاحا اُس سے اِتنا کہتی باہر کو بھاگی اور باہر آکر جیسے ہی دروازہ کھولا تو اپنے سامنے اسیر کے ساتھ اقدس کو کھڑا دیکھ کر اُس کا چہرہ خوشی سے جگمگا اُٹھا تھا۔

"بابا یہ ہیں ہماری نیو مما؟اقدس نے فاحا کو دیکھ کر اسیر سے سوال کیا

"جی یہ ہیں آپ کی نیو مما بتائے کیسی لگی؟اسیر نے مسکراکر جواب دینے کے بعد اقدس سے سوال کیا تو فاحا نے جُھک کر اُس کو اپنی بانہوں میں بھرا تھا

"بہت اچھی لگیں مجھے۔۔۔اقدس نے خوشی خوشی بتایا تھا۔

"اچھا اب آپ اندر جاؤ آپ کے بابا کو آپ کی نیو مما سے کوئی بات کرنی ہے۔۔۔اسیر نے کہا تو اقدس نے سراثبات میں ہلایا اور اندر کی طرف بھاگی

"کیسی بات؟فاحا نے پوچھا

"آپ خوش ہیں؟اسیر نے اُس سے پوچھا

"خوش کس بات پر؟فاحا نے ناسمجھی سے سوال کیا

"ہم نے اپنا اور آپ کا نکاح بھی جُمعے کو کروانے کا سوچا ہے ساتھ میں لالی اور عاشر کا بھی۔۔۔اسیر نے بتایا

"کیا واقعی میں عاشر بھائی کا بھی ہوگا؟فاحا کا چہرہ خوشی سے کِھل اُٹھا

"ہم نے ہمارے نکاح کی بھی بات کی تھی۔۔۔اسیر کو اُس کا بس عاشر کے نکاح کا سُن کر خوش ہونا پسند نہیں آیا

"جی وہ بھی فاحا نے سُنا اور اُس کو کوئی اعتراض نہیں وہ خوش ہے۔۔۔فاحا نے نظریں جُھکاکر بتایا

جان کر خوشی ہوئی اور آپ ہمیں اب یہ بتائے کہ گاؤں میں اسسٹنٹ کمشنر آپ کیسے بنی یعنی اِن چیزوں میں آپ کو سپورٹ کس نے کیا؟"گاؤں میں کوئی بھی اسسٹنٹ کمشنر نہیں بنتا"اور ہمارے گاؤں کی آپ بنے گی یو تو اور حیرانگی کی بات ہے۔۔۔اسیر کو اچانک خیال آیا تو پوچھ لیا

"ٹھیک ویسے بنی جیسے آپ بغیر محبت کے ایک بچہ پیدا کرگئے۔۔۔فاحا نے اُس کی آخری بات کو اگنور کرکے بتایا تو اسیر نے اُس کو گھورا

"ہمیں واقعی میں جاننا ہے"اور یہ میشا کا کیا چکر ہے ہم نے جب اُس کا ڈیٹا نکلوایا تھا تو یہی جاننے کو ملا تھا کہ وہ ماسٹرز کرنے والی ہے پھر اے ایس پی کیسے بنی۔اسیر نے جاننا چاہا

"ہم بہنوں کا دماغ بہت تیز ہے آپ نہیں جان پاؤ گے اور ہماری پہنچ بھی بہت دور تک ہے۔۔۔فاحا نے اِتراکر بتایا

"جی جی آپ تینوں بہنوں کو تو آنسٹائین نے اپنا دماغ وراثت میں دیا تھا۔۔اسیر طنز ہوا

"ایک بیریسٹر کی بہن جس نے ریپ کیس پہلی پیشی میں جیتا تھا اُس کی بہن کی صلاحیتوں پر آپ کو شک نہیں ہونا چاہیے۔۔۔فاحا نے شانِ بے نیازی سے کہا تو اسیر خاصی پرشوق نظروں سے اُس کو دیکھنے لگا وہ آج فاحا کا یوں اعتماد سے بات کرتا ہوا دیکھ کر خوش ہوا تھا"اُس کو خوشی ہوئی تھی کہ حالات جیسے بھی تھے لیکن اُنہوں نے اپنا اعتماد نہیں کھویا تھا بلکہ وہ آج اپنے پیروں پر کھڑیں تھیں اور ہر کسی سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات وہ بخوبی کرسکتیں تھیں۔۔۔"کیونکہ چاہے بندے انسان کو چھوڑ بھی دے لیکن اُن کا رب اُن کو نہیں چھوڑتا۔

"آپ اپنی چادر لائے تاکہ نکاح کا جوڑا خریدنے جائے۔۔۔کچھ توقع ہونے بعد اسیر نے سرجھٹک کر اُس سے کہا وہ جانتا تھا باتوں میں وہ فاحا سے جیت نہیں سکتا تھا اور اُس کو اپنا یہ ہارنا پسند تھا۔

"کیا ہم شاپنگ کرنے جائے گے؟فاحا خوش ہوئی

"جی بلکل اب جلدی کریں اور اقدس کو ساتھ لائیے گا۔۔۔اسیر نے ہاتھ میں پہنی گھڑی میں وقت دیکھ کر اُس سے کہا

"جی میں ابھی جاکر اُس سے کہتیں ہوں۔۔۔فاحا پرجوش ہوکر کہتی اندر کی طرف بھاگی تھی۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤

"حبیبی تم کہاں گم رہتے ہو ہم آپ کو مس کرتا۔ ۔۔فاحا اور اسیر کے جانے کے بعد میشا باہر دروازہ بند کرنے آئی تھی جب اچانک آریان کے یوں سامنے آنے پر اُس کا دل اُچھل کر حلق میں آیا تھا کیونکہ آریان کی موجود اُس کے لیے غیرمتوقع تھی۔

"تم بدتمیز انسان انسانوں کی طرح نہیں تھے آسکتے۔ ۔۔میشا نے اُس کو گھور کر کہا"اُس کا دل زوروں سے ابھی تک دھڑک رہا تھا۔

"میں تو انسانوں کی طرح آیا تھا اور حیرت ہوئی کہ تم ڈر بھی گئ ہائے اِس خوشی کے مارے میں کہی مر نہ جاؤں۔۔۔آریان اُس کو دیکھ کر ڈرامائی انداز میں بولا

"تو مرجاؤ نہ قبرستان یہاں سے دور نہیں میں آرام سے تمہیں دفن کر آؤں گی۔۔۔میشا نے طنز انداز میں کہا

"سوچ لو بیوہ ہوجاؤں گی اور یہ بتاؤ کیا غُسل بھی تم اکیلے کرواؤ گی مجھے؟آریان نے مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے اُس سے کہا

"بکو نہیں اور یہ بتاؤ کہ یہاں کیسے آنا ہوا؟میشا مطلب کی بات پر آئی اُس کا آج کوئی اِرادہ نہیں تھا آریان سے بحث کرنے کا

"حبیبی ام آپ کو بہت زیادہ مس کرتا۔۔آریان نے اُس کو چھیڑا

"واللہ میرے ہاتھوں میں بھی کُھجلی ہورہا کہاں ہے تمہاری پیٹھ؟میشا نے دانت کچکچاکر اُس کو دیکھ کر کہا جس میں آج پٹھان بننے کا دورا پڑا تھا" اُس کو سمجھ نہیں آتا کہ اِتنا بڑا مرد کوئی نان سیریس کیسے ہوسکتا تھا جس میں کبھی شاعر کی روح آجاتی کبھی تو کبھی موسیقی کا دُھن سوار رہتا اور اب وہ پٹھان کی نقلی کاپی بننے کے چکروں میں تھا۔

"بس اِتنی سی بات آؤ تمہیں دُکان سے ڈیٹول صابن لیکر دیتا ہوں واللہ حبیبی تمہارے ہاتھوں کی کُھجلی مکمل طور پر ختم ہوجائے گا۔۔۔آریان ہمیشہ کی طرح اپنے ڈًھیٹ ہونے کا ثبوت دیتا ہوا بولا تو میشا تپ اُٹھی۔

"میرے دماغ کا میٹر گھومانے کی ضرورت نہیں تمہیں آریان بس جو پوچھا ہے اُس کا جواب دو کیوں آئے ہو یہاں؟میشا نے ضبط سے اُس کو دیکھ کر پوچھا۔

"بتایا جو مس کیا تمہیں۔ ۔۔وہ آریان ہی کیا جو باز آجائے

"اچھا تو میرا چہرہ اگر دیکھ لیا ہو تو جاؤ یہاں سے۔۔۔میشا نے بیزارگی سے کہا

اچھا ایک بات بتاؤ دین آئے پرومس میں چلا جاؤں گا۔۔۔آریان نے اُس کو دروازہ بند کرتا دیکھا تو جلدی سے بول اُٹھا

"پوچھو پھر فٹوں یہاں سے۔۔۔میشا نے گویا احسان کیا اُس پر

"تم نے شادی سے ہاں کیوں کی؟آریان جس وجہ سے آیا تھا وہ بات آخر کردی

"ابھی انکار کرتی ہوں۔۔میشا نے کہا تو وہ گڑبڑا سا گیا

"ارے یار کیا ہوگیا ہے میں نے بس مذاق کیا تھا۔۔"یعنی میرا مطلب ہے کہ تم نے اِتنی آسانی سے ہاں کیسے کردی؟آریان تھوڑا سنبھل کر بولا

"میری مرضی میرا دل چاہا تو میں نے ہاں کردی۔۔میشا بے نیازی سے بولی

"یہ کیوں نہیں کہتی کہ تم پر دل آگیا تھا تمہاری لش پش پرسنائلٹی نے مجھے مرغوب کردیا تھا۔ ۔آریان بالوں میں ہاتھ پھیرتا دلکشی سے بولا

"ہی ہی ویری فنی اب اگر تمہارا ہوگیا ہو تو جاؤ کیونکہ تم نے ایک سوال کا جواب چاہا تھا۔۔۔میشا نے مصنوعی قہقہ لگاکر اُس سے کہا

"تو کیا ہوا؟ "میری بات کونسا پتھر پر لکیر بن کر کھڑی ہوئی ہے تو تم بس چِل کرو اور یہ بتاؤ کہ میری کس بات پر تمہیں لگا کہ

"ہاں یہی ہے وہ شخص جس سے میں شادی کرنا پسند کروں گی۔۔۔آریان فل ڈرامائی انداز میں اُس سے بولا

"اِسی بات پر کہ یہ شخص واقعی میں بہت ڈھیٹ ہے اور ایک یہی انسان ہے جو اپنی ڈھیٹائی کی وجہ سے میرے ہاتھوں میں پڑتی کُھجلی کو کم کرسکتا ہے۔ ۔میشا نے دانت پر دانت جمائے اُس سے کہا

"یو آر سو کیوٹ۔ آریان اُس کی بات پر مسکرایا

"اینڈ یو آر ویری اُگلی۔ ۔۔میشا بھی اُس کے انداز میں بولی

ویسے تم یہ بتاؤ کہ تم دستانے کیوں پہنا کرتی ہو؟آریان کی نظر اُس کے ہاتھوں پر گئ تو پوچھ لیا

"تاکہ جب میرا من کیسی کا منہ توڑنے کا کرے تو اُس کی منحوس شکل میرے ہاتھ سے ٹچ نہ ہو یو نو نہ ہاتھوں میں کُھجلی تو کبھی بھی کہی بھی کسی کے لیے بھی ہوسکتی ہے۔۔۔میشا نے جواب دیا تو اِس بار آریان کا گلا خُشک ہوا تھا۔

"تمہیں کیا مرنے مارنے کے علاوہ کچھ اور نہیں آتا؟آریان نے بڑی سنجیدگی سے پوچھا

"بلکل بھی نہیں آتا"اور اب تم جاؤ ۔میشا نے اُس کو جانے کا اِشارہ کیا

"جاتا ہوں تمہیں بڑی جلدی ہے مجھے باہر نکالنے کی پر ابھی ایک اور میرے سوال کا جواب دو۔۔۔آریان نے کہا تو میشا نے گہری سانس بھر کر اُس کو دیکھا

"تم اے ایس پی کیسے بنی؟"آئے مین تو تم ریسٹورنٹ میں ایز آ ویٹر ہوا کرتی تھی بعد میں پھر تم نے نرسنگ شروع کردی تھی پھر یہ اچانک؟آریان کان کی لو کُھجاتا اُس سے پوچھنے لگا

"میں جہاں کام کرتی تھی اُس کیفے میں ڈرگز کا کام ہوا کرتا تھا اور ایز آ لیڈی پولیس آفیسر ہونے کی خاطر مجھے جاننا تھا کہ وہاں کیفے میں کونسے غیرقانونی کام ہوتے ہیں اِس لیے میں وہاں ویٹر کی جاب کرنے لگی اور جس کی پیٹائی کرنے پر مجھے جاب سے نکالا گیا تھا وہ ریگیولر کسٹمر تھا لیکن ڈرگز کا اور کافی مقدار میں اُس کا استعمال کرتا تھا ۔۔"اور اور بات کیے جائے نرسنگ کی تو جس ہوسپٹل میں گئ وہاں مریضوں کو زہر کا انجیکشن لگایا جاتا تھا اور اگر تمہیں نیوز دیکھنے میں انٹرسٹ ہوتا تو پتا چلتا تمہیں کہ میرے وہاں تین روز جانے کے بعد وہ ہوسپٹل اب سیل (Sel)ہوچکا ہے۔۔میشا نے بتایا تو آریان کا پورا منہ حیرت سے کُھلا کا کُھلا رہ گیا تھا۔

"اُففففف اللہ تو یعنی ہماری اولاد ایجنٹ بنے گی۔ آریان نے اُس کی بات پر پرجوش ہوکر کہا تو میشا نے اُس کو گھورا لیکن آریان ہنس پڑا تھا اُس کو اپنی اِس قدر بے خبری پر ہنسی آرہی تھی۔

❤❤❤❤❤❤❤

"تم زوریز کے پاس جاؤ اور اُس کو کہو کہ میں بُلا رہی ہوں۔۔۔ازکیٰ سلما نے سوہان سے کہا جو اُن کے کہنے پر زوریز کے یہاں آئی تھی۔

"وہ کیا اپنے کمرے میں ہے؟سوہان صوفے سے اُٹھ کر اُن سے بولی

"ہاں اپنے کمرے میں ہے وہ۔۔۔ازکیٰ نے بتایا تو سوہان اُپر کی جانب بڑھی


"تمہیں نہیں پتا زی تم نے میرے دل سے کتنا بڑا بوجھ اُتارا ہے۔۔"میں ساری عمر تمہاری احسانمند رہوں گی۔۔اُپر آکر سوہان ابھی زوریز کے کمرے کا ڈور نوک کرنے والی تھی جب اندر سے آتی آواز کو سُن کر اُس کے ہاتھ تھم سے گئے تھے۔ ۔"وہ جانے لگی تھی جب ایک خیال کے تحت اُس نے ہلکا سا دروازہ پُش کیا تاکہ دیکھ پائے کہ اندر ہے کون۔ ۔۔

"عینہ؟سوہان نے سامنے زوریز کے ساتھ عینہ کو اُس کے کمرے میں اکیلا کھڑا دیکھا تو آنکھوں میں بے یقینی اُتر آئی تھی"عینہ پاکستان آئی تھی؟"یہ بات زوریز نے اُس کو نہیں تھی بتائی اور اب کیسے وہ اُس کے کمرے میں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کھڑی تھی۔ ۔۔"یہ منظر دیکھ کر سوہان کو بہت غُصہ آیا تھا لیکن اندر جاکر کوئی بھی ری ایکٹ کرنے سے بہتر اُس نے واپس گھر جانے کا سوچا تبھی ایک اچٹنی نظر ڈالے وہ اپنے قدم پیچھے کی طرف لیجانے لگی پر راستے میں اُس کو زوریز کی پھوپھو مل گئ۔ ۔


"تم کوئی بات کیوں نہیں کررہے؟ عینہ نے زوریز کو خاموش دیکھا تو کہا

"دیکھو عینہ تم قصوروار میری نہیں بلکہ سوہان کی ہو تو اچھا ہوگا جو تم معافی بھی اُس سے مانگو۔۔زوریز اپنے ہاتھ پیچھے کرتا سنجیدگی سے اُس کو دیکھ کر بولا

"ہاں میں اُس سے ضرور معافی مانگوں گی کیونکہ میں یہاں پاکستان اسپیشلی تم لوگوں سے معافی مانگنے آئی تھی۔ "میں نے اپنے حسد میں آکر سوہان کے ساتھ بہت بُرا کیا مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ۔۔عینہ ندامت سے چور لہجے میں بولی

"تمہاری سازش بہت بڑی تھی لیکن اللہ کا شکر تھا کہ ایک ہفتے میں ساری سچائی سامنے آگئ تھی۔۔"سی سی ٹی وی فوٹیج میں سب ظاہر تھا کہ کیسے تم نے اور تمہاری دوستوں نے یونی سے باہر کھڑی سوہان کی بیگ میں وہ ڈرگز ڈالی تھی۔ ۔۔زوریز نے کہا تو عینہ کو مزید شرمندگی کا احساس ہوا

"میں وہ وقت نہیں بھول سکتی اُس کے بعد یونیورسٹی والوں نے مجھے بے دخل کردیا تھا یونی سے۔۔عینہ افسوس سے بولی تو اِس بار زوریز خاموش رہا تھا

"ٹھیک تم اپنے کمرے میں جاؤ میں جاکر دیکھتا ہوں کہ سوہان آئی ہے یا نہیں اُن کو پھوپھو کوئی جیولری دیکھانا چاہتی ہیں۔۔زوریز نے بتایا

"سوہان سے اب اگر میں معافی مانگوں تو وہ معاف کردے گی نہ؟عینہ نے ہچکچاہٹ سے پوچھا

"وہ معاف کردے گی تم بھی زیادہ مت سوچو پُرانی باتوں کو۔۔۔زوریز اُس سے کہتا کمرے سے باہر نکل گیا اور جب وہ باہر آیا تو سوہان کو وہاں اکیلا کھڑا دیکھ کر خاصا حیران ہوا اُس نے ازکیٰ کی تلاش میں یہاں وہاں نظروں کو کیا لیکن وہ اُس کو نظر نہیں آئی۔

آپ باہر اکیلی کیوں کھڑی ہیں؟"اندر میرے کمرے میں کیوں نہیں آئیں؟"اور پھوپھو کہاں ہیں؟ زوریز اُس کے پاس آتا یکے دیگر کئ سوال پوچھنے لگا

مجھے آپ کا سستا رومانس دیکھنے کا کوئی شوق نہیں تھا جبھی باہر رہ کر انتظار کرنا زیادہ ضروری سمجھا کیونکہ آپ کی پھوپھو نے بتایا کہ اُن کو کوئی ضرورت ڈسکشن کرنی ہے۔ ۔جواب میں سوہان سپاٹ لہجے میں اُس سے کہا تو زوریز ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگا

سستا رومانس؟زوریز کو اُس کی بات سمجھ میں نہیں آئی تھی۔

"عینہ یہاں کیا کررہی تھی؟ سوہان سے برداشت نہیں ہوا تو آخر کو بول اُٹھی اور اُس کی بات پر زوریز جیسے ساری بات سمجھ گیا تھا اور جانے کیوں اُس کو ہنسی آئی تھی۔

"کیا آپ جیلس ہورہی؟ زوریز اپنے ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں پھنساتا اُس سے پوچھنے لگا

"میں کوئی ٹین ایجر نہیں جو ایسی کوئی اسٹوپڈ حرکتیں کروں۔ ۔سوہان سرجھٹک کر بولی

"محبت میں جیلسی لازم و ملزم ہوتی ہے اور یہ چیزیں انسان کی عمریں نہیں دیکھتی۔ ۔زوریز شانے اُچکاکر اُس سے بولا

"آپ کو کس نے بول دیا کہ مجھے آپ سے محبت ہے۔ ۔سوہان نے بازو سینے پر باندھے اُس سے سوال کیا

"کچھ باتیں کہنے کی نہیں ہوتی۔ ۔زوریز بھی اُس کے سامنے بازو بازو سینے پر باندھ کر کھڑا ہوتا اُس کے انداز میں بولا

"پھر کیا ہوتیں ہیں؟

"خودبخود سمجھ آجاتیں ہیں۔ ۔۔زوریز کندھے اُچکاکر بولا

"آپ نے میری بات کا جواب نہیں تھا دیا وہ یہاں کیوں ہے؟ سوہان گھوم پِھر کر اپنی بات پر آئی۔

"ہماری شادی میں شرکت کرنے آئی ہے آپ کو پتا ہے وہ میری کزن ہے۔ ۔۔زوریز نے بتایا

"کمرے میں کیوں تھی وہ آپ کے اور اُس کے ہاتھوں میں آپ کا ہاتھ کیوں تھا؟سنجیدگی سے بھرپور انداز میں اگلا سوال کیا

ہیں تو آپ وکیل لیکن اِس وقت مجھے تھانیدارنی لگ رہیں ہیں۔ ۔اُس کا تفتیش سے بھرا انداز دیکھ کر زوریز نے کہا

"میں بس مطلب کی بات جاننے میں دلچسپی رکھتی ہوں۔ ۔سوہان نے کہا

"وہ آپ سے معافی مانگنے آئی ہے اُس کو اپنے عمل پر پچھتاوا ہے۔ ۔زوریز نے سنجیدگی سے بتایا

"پچھتاوا لائیک سیریسلی؟ آپ کو پتا ہے اُس کے عمل سے مجھے جیل ہونے لگی تھی یونی والے مجھے اسپیل کرنے لگے تھے اور اُس کے ایک لفظ سوری سے کیا ہوجائے گا اب؟ سوہان جیسے پھٹ پڑی تھی

"آپ کے ساتھ ایسا ہوا نہیں سو پلیز رلیکس رہے اللہ کا شکر ہے کچھ بُرا ہونے سے ہم بچ گئے اور آپ کو وہ مقام ملا جس کی آپ حقدار تھیں۔ ۔زوریز نے اُس کو پرسکون کرنا چاہا

"اللہ کا مجھ پر کرم ہوا تھا ورنہ آپ کی کزن نے دُنیا کے سامنے منہ دیکھانے کے قابل نہیں چھوڑا تھا مجھے اور اگر اُس کی سچائی سی سی ٹی وی فوٹیج پر سامنے نہ آتی تو اُس نے کونسا اپنا جُرم قبول کرنا تھا۔ ۔سوہان اُس کی بات کے جواب میں سرجھٹک کر بولی

"میں سب جانتا ہوں سوہان آپ کو مجھے کچھ بھی بتانے کی ضرورت نہیں ہے اُور آپ یہ بھی تو دیکھے اُس نے آپ کو یونی سے خارج کروانا چاہا لیکن ہو وہ خود گئ آپ پر کوئی حرف نہیں آیا۔ ۔زوریز نے نرمی سے کہا

"لِیو دِس ٹاپک مجھے اِس بارے میں کوئی بھی بات نہیں کرنی۔ ۔سوہان نے سنجیدگی سے کہا

"تو کیا آپ اُس کو معاف نہیں کرے گی؟زوریز نے پوچھا

"میں اعلیٰ ظرف کی مالک نہیں ہوں زوریز اور نہ میرے لیے یہ سب کرنا اِتنا آسان ہے" اصل زندگی میں کوئی کسی کو معاف نہیں کرتا یہ ہماری زندگی ہوتی ہے کوئی دو گُھٹنوں کی فلم نہیں ہے جس میں اگر کوئی ہمارے ساتھ بُرا کرے گا تو ایٹ دا لاسٹ ٹائیم وہ آکر پیشمان ہوکر سوری بولے گا اور سامنے والا اِٹس اوکے کہہ کر سب کچھ رفع دفع کردے گا۔ ۔'میں اُس کو معاف بھی کروں تو وہ دن نہیں بھولتی جس دن پوری یونی کے سامنے میں نے رُسوائی کو سہا تھا۔ ۔"میں مانتی ہوں اللہ معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے پر میں بھی دل کے ہاتھوں مجبور ہوں۔ ۔۔سوہان نے کہا تو زوریز بس اُس کو خاموشی سے دیکھنے لگا۔"اور ایک طرح سے وہ اپنی جگہ سہی تھی دُنیا میں اللہ کے سوا کوئی کہاں معاف کرتا ہے؟ "کسی انسان کا اِتنا ظرف کہاں ہوتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ ہوئے ظلم پر ایک لفظ سوری کا سن کر سب کچھ بھول بھال کر معاف کردے۔ ۔۔

"اگر آپ عینہ کو معاف نہیں کرسکتی تو سہی ہے میں آپ کو فورس نہیں کروں گا کیونکہ واقعی میں اُس کی چال بہت بڑی تھی اُس نے بلاوجہ آپ کو ہرٹ کرنے کی کوشش کی تھی تو شاید میں اگر خود کو آپ کی جگہ رکھ کر سوچو تو میرے لیے بھی اُس کو معاف کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔ ۔زوریز نے اُس کی بات کے جواب میں بولا"

"شکریہ مجھے سمجھنے کے لیے۔ ۔۔سوہان نے ہلکی سی مسکراہٹ سے کہا

"ہممم اب آئے پھوپھو شاید ہمارا انتظار ڈرائینگ روم میں کررہی ہیں۔ ۔زوریز نے بات بدل کر سنجیدگی سے کہا

"میں اُس کو معاف نہیں کرنا چاہتی کیونکہ اگر میں نے اُس کو معاف کیا تو وہ یہ سب دوبارہ بھی کرے گی" اگر ہمیں معافی مل جاتی ہے تو ہم اپنی غلطیوں سے سیکھتے نہیں بلکہ یہ سوچ کر دوبارہ غلطیاں کرتے ہیں کہ کوئی نہیں آخر میں معافی مانگ لینگے۔ ۔"انسان غلطیاں"گُناہ کیوں کرتا ہے؟ "اِس لیے نا کیونکہ اُس کو پتا ہوتا ہے ہمارا رب بہت رحیم رحم کرنے والا ہے اگر ہم توبہ کرینگے یا صرف توبہ کی نیت تو وہ خدا ہمیں معاف کردے گا" اگر انسان کو پتا چلے کہ اللہ کی رحمت کے دروازے کب اُس پر بندے ہوتے ہیں؟ "اور کب کیوں کس وجہ سے رب ناراض ہوتا ہے کہ وہ کبھی کوئی گناہ کریں ہی نہ پر اُن کو پتا ہے اللہ کے دروازے اُن پر کبھی بند نہیں ہوتے ہمیشہ کُھلے ہوئے ہوتے ہیں وہ جب چاہے آسکتے ہیں اپنی عرضی لیکر۔ ۔سوہان ڈرائینگ روم کی طرف چلتی ہوئی زوریز سے بولی تو وہ رُک کر اُس کے روبرو کھڑا ہوا

"اگر آپ کو پتا ہے کہ ہمارا رب معاف کرتا ہے اور معاف کرنے والے کو پسند کرتا ہے تو اللہ کی خاطر صرف اور صرف اللہ کی خاطر عینہ کو معاف کردے وہ بہت تکلیف میں ہیں۔ ۔زوریز نے جانے کیا سوچ کر اُس سے یہ کہا

"اگر آج میں آپ کی یہ بات مان گئ تو کل آپ مجھ سے اِس سے زیادہ مانگے گے جو میں دے نہیں پاؤں گی۔۔ ۔سوہان نے کہا تو زوریز گردن جُھکاتا ہولے سے ہنس پڑا

"بے فکر رہے میں کبھی آپ سے یہ نہیں کہوں گا کہ اپنے بابا کو معاف کریں کیونکہ اُنہوں نے اللہ کی رحمت کو ٹُھکرایا تھا اور اللہ کی رحمت کو ٹھکرانے والوں کو اِتنی آسانی سے معافی نہیں ملنی چاہیے۔۔سوہان کی ڈھکی چُھپی باتوں کا مطلب وہ کیسے نہ جان پاتا وہ تو خود سے زیادہ سوہان کو جاننے لگا وہ جانتا تھا کب کیا"کہاں؟سوہان کو کچھ چاہیے ہوتا ہے"یا وہ کیا کہنا چاہتی ہے۔"زوریز کو سب پتا ہوتا تھا

"شکریہ اور میں کوشش کروں گی کہ سب کچھ بھول کر عینہ کو معاف کروں۔۔۔سوہان نے کہا

"آپ کوشش کریں گُنجائش خودبخود نکل آئے گی۔ ۔زوریز نے کہا تو اِس بار سوہان خاموش رہی تھی۔

❤❤❤❤❤

"آج اُن چاروں نے دولہن کا ایک جیسا گیٹ اپ کیا تھا۔ ۔"سوہان" میشا" فاحا اور لالی اِن چاروں نے ملٹی کلر کا لہنگا زیب تن کیا تھا"گولڈن کام دار شرٹ اور مالٹا کلر دامن کے ساتھ پنک اور جامنی رنگ کا منتشیر کردہ ڈوپٹہ لالی نے اپنے سر پہ ٹِکایا تھا باقی اُن تینوں نے آج کے دن بھی اپنا لہنگے سے ملتا جُلتا کلر سے حجاب لیا ہوا تھا۔۔"اور جب وہ چاروں ہال میں داخل ہوئیں تو دولہے بیچارے کنفیوز سے اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑے ہوئے تھے" کیونکہ اُن چاروں کا چہرہ گھونگھٹ کی آر میں چُھپا ہوا تھا جس سے اندازہ لگانا مشکل تھا کہ اُن کی دولہن کون ہے۔ ۔۔"

"زوریز نے آج بلیک اینڈ وائٹ رنگ کا ڈنر سوٹ پہنا ہوا تھا تو دوسری طرف آریان نے آج وائیٹ کلر کی شیروانی پہنی ہوئی تھی"اور عاشر نے براؤن رنگ کی شیروانی۔۔"جبکہ اُن تینوں کے برعکس اسیر ملک نے آج بھی ہمیشہ کی طرح کاٹن کے وائیٹ شلوار قمیض کے ساتھ کالے رنگ کی شال کندھوں میں اُوڑھی ہوئی تھی ۔"کالے سیاہ بال جبکہ نفاست سے سیٹ کیے ہوئے تھے"اور اُس کی گود میں باربی فراق پہنے اقدس بیٹھی ہوئی تھی۔


"میری والی کونسی ہے؟ عاشر اُن لوگوں کے ساتھ کھڑا ہوتا پریشانی سے بولا

"مجھے اپنی والی سمجھ میں نہیں آرہی تو تیری والی کا کیا خاک پتا ہوگا جس کو میں نے دیکھا ہوا بھی نہیں۔ ۔۔آریان بھی پریشان ہوتا اُس سے بولا

"آپ کو اپنی والی کا پتا لگ گیا؟عاشر نے اپنے برابر کھڑے اسیر کو بے فکر پایا تو پوچھا

"ہماری والی بونی ہے وہ چاہے سات پردو میں بھی خود کو چُھپالے تو بھی ہم پہچان لیگے۔۔۔اسیر نے عام انداز میں گہری بات کی تھی جس پر عاشر نے سامنے دیکھا تو دو دولہن کے درمیان کھڑی لڑکی کو دیکھ کر وہ بھی جان گیا کہ وہ فاحا ہے کیونکہ باقی تینوں کی نسبت فاحا کا قد چھوٹا تھا۔ "اور اُس کے عین پاس کھڑی لڑکی پر جب اُس کی نظر پڑی تو چہرے پر مسکراہٹ آئی کیونکہ اُس کو اپنی والی کا اندازہ ہوگیا تھا۔

"میری والی کو اگر میں جان نہ پایا تو اُس کے ہاتھوں میری خیر نہیں۔۔۔آریان کی حالت خراب ہونے لگی تھی۔

"تم اُس کے فِگر سے اندازہ لگالو۔ ۔اسیر نے اپنی طرف سے اُس کو مشورہ دیا۔ ۔

"توبہ توبہ میری نظریں بہت پاک ہوتیں ہیں اور میں نے کبھی اُس کو اِتنی گہرائی سے نہیں دیکھا کہ اُس کے فِگر سے اندازہ لگالوں کہ یہ میری میشو ہے۔ ۔آریان باقاعدہ اپنے کانوں کو ہاتھ لگاکر بولا تو بے ساختہ اسیر کا سر نفی میں ہلا تھا کیونکہ اصل میں وہ کچھ کہنا اور چاہتا تھا لیکن آریان سمجھا کچھ اور تھا۔

"ویسے اگر یہ ہماری دلوائی میکسی پہنتی تو ہم اِتنے کنفیوز نہ ہوئے ہوتے۔ ۔عاشر نے کہا

"میں جارہا ہوں اپنی والی کے پاس تم میں سے کسی نے آنا ہے تو آجائے۔۔زوریز جو اب تک خاموش کھڑا اُن کی باتیں سُن رہا تھا سنجیدگی سے بھرپور آواز میں بولا

"تم نے کس لحاظ سے اپنی والی کو پہچان لیا؟ آریان نے حیرت سے اُس کو دیکھا۔

"ہر لحاظ سے۔ ۔اپنی کوٹ کو ایک جھٹکتا دے کر کہتا زوریز بھرپور اعتماد کے ساتھ اسٹیج سے اُترنے لگا

"کافی اٹیٹیوڈ سے گیا ہے دعا کرنا کہ اندازہ سہی ہو۔ ۔عاشر کو لگا جیسے زوریز کو اُس کا اعتماد لے ڈوبے گا۔

"ڈونٹ وری پہچان نہ بھی پایا تو خیر ہے کونسا اُس کی والی منہ توڑتی ہے یہ صلاحیت تو بس میری والی میں ہے۔ ۔۔آریان منہ بناکر بولا پھر اچانک اُس کی نظر لائن میں کھڑی پہلی دولہن پر گئ جو اپنے ہاتھوں کو آپس میں رگڑ رہی تھی۔ ۔

"لو جی میری والی بھی مل گئ پر حد ہے آج کے دن بھی اِس کے ہاتھوں کو سکون نہیں۔ ۔آریان تپ کر بولا

"تو جاؤ اِس سے پہلے یہ کُھجلی تمہیں اپنا لوشن سمجھ کر ہاتھوں میں رگڑے۔۔عاشر نے کہا تو آریان گڑبڑاتا فورن سے اسٹیج اُترنے لگا۔۔


"آپ کو کیا لگا یوں گھونگھٹ لینے سے میں آپ کو پہچان نہیں پاؤں گا؟زوریز دوسرے نمبر پر کھڑی دولہن کا گھونگھٹ اُٹھا کر بولا تو ہال تالیوں سے گونج اُٹھا تھا اور کچھ لوگ ہوٹنگ کرنے لگے تھے کیونکہ زوریز کی سوچ مطابق سوہان اپنی تمام تر خوبصورتی کے ساتھ دولہن کے روپ میں اُس کے سامنے کھڑی تھی۔"

"مجھے پتا تھا آپ پہچان لو گے اگر پہچان نہ بھی لیتے تو یوں حق سے کسی اور کا گھونگھٹ نہ اُٹھاتے۔۔جواب میں سوہان نے اپنی خوبصورت آنکھیں اُس کی آنکھوں میں گاڑھ کر بولی تو زوریز اُس کو دیکھ کر مسمرائز ہوا تھا اُس کے لیے سوہان کے دلکش سراپے سے نظریں ہٹانا مشکل سا لگا تھا"تبھی آگے بڑھ کر واپس اُس کا گھونگھٹ نیچے کیا

"مر مٹا تو میں آپ کی سادگی دیکھ کر ہوا تھا لیکن اب لگ رہا ہے آپ یوں سج سنور کے واقعی میں مجھے مارنا چاہتی ہیں۔۔زوریز اُس کے کان کے پاس جُھک کر سرگوشی نما آواز میں بولا تو سوہان نے ایک چٹکی اُس کے بازو پر کاٹی تھی جس پر زوریز دلکشی سے مسکراتا اُس کا ہاتھ استحقاق سے بھرپور انداز میں اپنے ہاتھ میں قید کیے وہ اسٹیج کی طرف بڑھنے لگا۔


"تمہارے ہاتھوں کو آج بھی سکون نہیں؟آریان میشا کے برابر کھڑا ہوتا طنز بولا

"نہیں اور یہ کب ختم ہوگی جب تمہاری میرے ہاتھوں چھترول ہوگی۔ ۔میشا نے ترنت جواب دیا تو آریان نے تاسف سے اُس کو دیکھا

"ابھی چلو اور نکاح نامے پر سائن کرو اِن شاءاللہ کُھجلی ختم ہوگی۔ ۔آریان نے سرجھٹک کر کہتے اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا

"آہستہ چلو اِتنا بھاری لہنگا ہے مجھ سے چلا نہیں جارہا۔ ۔میشا نے آریان کو تیز چلتا دیکھا تو تپ کر بولی

"قسمے اگر ہمارا بھی خوفیہ نکاح ہوا ہوتا تو میں تمہیں زحمت نہ دیتا بلکہ بانہوں میں اُٹھا کر تمہیں اسٹیج کی طرف لیجاتا۔ ۔آریان نے رُک کر بے باک لہجے میں اُس سے کہا

"تم اِس سے زیادہ کوئی اور گھٹیا گفتگو کر بھی نہیں سکتے تھے۔ ۔زندگی میں پہلی بار میشا بلش کرنے لگی تھی" پر افسوس گھونگھٹ ہونے کے باعث اُس کا سرخ پڑتا چہرہ آریان دیکھ نہیں پایا تھا۔

"تم مجھے بہت جانتی ہو تبھی تو میں تم سے شادی کرنے کے لیے مچل رہا ہوں اور یہ گھونگھٹ اُٹھانے کی غلطی مت کرنا یہ میرا حق ہے جو میں ادا کروں گا تم سے نکاح کرنے کے بعد۔ ۔آریان نے اُس کو گھونگھٹ اُٹھاتا دیکھا تو اُس کا دوسرا ہاتھ بھی اپنے ہاتھ میں لیا تو میشا اُس کو بس گھورتی رہ گئ۔ ۔


"انداز کافی اچھا تھا پر ہم نے آپ کو پہچان لیا تھا۔ ۔اسیر فاحا کے سامنے کھڑا ہوتا بولا تو وہ اپنی انگلیاں چٹخانے لگی۔

"کیا ہوا؟ زبان بیوٹیشن کو دے آئیں ہیں کیا؟ اسیر نے اُس کو کچھ بھی بولتا نہ دیکھا تو بولنے پر اُکسایا

"جی نہیں فاحا کی زبان اُس کے منہ میں موجود ہے وہ تو اِس لیے خاموش ہے کیونکہ مشرقی لڑکیاں اپنے نکاح کے دن زیادہ باتیں نہیں کرتے اور نہ اپنے ہونے والے شوہر کے سامنے زبان کے جوہر دِکھاتی ہے۔ ۔اسیر کی بات پر فاحا ساری جھجھک حیا کو بلائے طاق رکھتی ہوئی بولی تو اسیر گردن ترچھی کرتا ہنس پڑا اور بے ساختہ فاحا کے دل میں یہ خواہش جاگی کہ کاش وہ اُس کے ڈمپلز کو دیکھ پاتی

"آپ کو پتا ہے آپ بہت بُرا ہنستے ہیں؟فاحا نے کچھ توقع بعد کہا

"اچھا پر ہم نے کسی کو اپنی مسکراہٹ پر مسمرائز ہوتا دیکھا ہے۔ ۔اسیر اُس کی بات کے جواب میں دلچسپی سے بولا تو فاحا اپنی جگہ پہلو بدلتی رہ گئ تھی۔ ۔

"میری ٹانگوں نے جواب دے دیا ہے اُس سے پہلے میں سوکھ کر کانٹا ہوجاؤں آپ مجھے اسٹیج پر لے جائے۔۔فاحا نے منہ بناکر کہا تو اسیر نے اپنی چوری ہتھیلی اُس کے سامنے پھیلائی جس پر فاحا نے مسکراکر اپنا ہاتھ اُس کے ہاتھ میں دیا تو کسی متاعِ جاں کی طرح اسیر نے اُس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں قید کیا جس وجہ سے فاحا کا ہاتھ اسیر کے ہاتھ کے نیچے دب سا گیا تھا۔۔


"سو فائنلی آج ہم ایک ہونے والے ہیں۔۔عاشر لالی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتا اُس سے بولا

"پتا نہیں میں خود ابھی تک بے یقین ہوں۔ ۔لالی نے بیحد آہستہ آواز میں کہا تو عاشر مسکرا دیا

"بس تھوڑا وقت اور اُس کے بعد آپ کی یہ بے یقینی ختم ہوجائے گی۔ ۔عاشر نے کہا تو لالی بھی اِس بار مسکرائی

"یہ سب بھائی کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ ۔لالی نے کہا

"جانتا ہوں۔

"میں اُن کی شکرگزار ہوں۔ ۔

"میں بھی۔ ۔اُس کی باتوں کے جواب میں عاشر فورن سے بولا تھا۔

"سب کپلز کے اسٹیج پر بیٹھ جانے کے بعد مولوی صاحب نے باری باری اُن کا نکاح پڑھوانا شروع کیا تھا۔"جس پر ہر کوئی اپنی جگہ بہت خوش تھا۔"اور جب آریان نے اپنا حق استعمال کرکے اپنے لیے سجی سنوری میشا کا گھونگھٹ اُپر کیا تو اُس کا چہرہ دیکھ کر آریان اُس کے چہرے سے جیسے نظریں ہٹانا بھول سا گیا تھا وہ لگ جو اِتنی پیاری لگ رہی تھی" دوسری طرف اسیر نے فاحا کو دیکھ کر بے ساختہ"ماشااللہ" پڑھا تھا۔"باقی عاشر کی حالت آریان سے مختلف نہ تھی۔


"آپ کے والدین کے قاتل اپنے انجام کو پہنچ چُکے ہیں۔۔سب لوگ اُن کو مبارکباد دے گئے تھے سوہان نے زوریز کو بتایا

"جیسے کہ؟ زوریز نے گردن موڑ کر اُس کو دیکھا

"اُن کو سزائے موت ملی تھی اور یہ بات جان کر وہ اپنے ہوش واحوس کھو بیٹھے تھے باقی کی کثر اُن کے بیٹے نے پوری کردی جب اُس کی کورٹ میں حاضری کا دن آیا تو اُس نے خود کو شوٹ کردیا ہے اب سجاد ملک کبھی اپنے بال نوچتا تو کبھی اپنا جسم اُس کی حالت بہت عبرتناک بن گئ ہے۔ ۔آپ اگر دیکھے گے تو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آئے گا۔ ۔۔سوہان نے تفصیل سے بتایا

"اسیر جانتا ہے یہ سب؟ زوریز نے فاحا اور اپنی بیٹی کے ساتھ بیٹھے اسیر کو دیکھ کر اُس سے سوال کیا

"اپنے بھائی کو کفن دفن دے کر بیٹھا ہے یہاں۔ ۔سجاد ملک نے ہم تینوں بہنوں کو مروانے کے لیے جو آدمی ہائیر کیا تھا وہ پہلے لالی پر حملا کرچُکا تھا اور ہمارے گھر کے پاس بھی کھڑا ہم پر نظر رکھتا تھا لیکن اب اُس کا بھی قصہ ختم ہوچُکا ہے۔ ۔۔سوہان نے بتایا

"اُنہوں نے محض بزنس کی وجہ سے میرے والدین کا قتل کروایا تھا۔ ۔زوریز افسوس سے بولا

"اُن کی خراب نیت پہلے آپ کی ماں پر ہوئی تھی جب اُن کے ہاتھ کچھ اور نہ آیا تو قتل کروانا اُن کو مسئلے کا حل لگا۔ ۔سوہان نے مزید کہا تو زوریز کے ہاتھوں کو آپس میں بھینچ لیا تھا" تبھی سوہان کی نظر ہال میں داخل ہوتے نوریز ملک پر گئ تو اُن کے چہرے کے تاثرات سپاٹ ہوئے تھے۔


"یہ یہاں کیوں آئے ہیں؟میشا نے زور سے ہاتھوں کو مٹھیوں کو بھینچ کر کہا

"رلیکس میک اپ خراب ہوجائے گا غُصہ مت کرو۔ ۔آریان کو اُس کے میک اپ کی فکر ہوئی

سیریسلی؟میشا نے تاسف سے اُس کو دیکھا

سیرسیلی ابھی خوبصورت لگ رہی ہو پھر بھیانک لگوں گی۔ ۔آریان نے کہا تو میشا نے صبر کا گھونٹ بھرا تھا۔


"آپ نے بتایا تھا اِن کو یہاں کا ایڈریس؟فاحا نے اسیر سے سوال کیا

"اُن کو خود سے پتا لگا ہے۔ ۔اسیر نے بتایا

"دیبا باجی کو بھی اِنوائٹ کرلیتے؟ فاحا طنز ہوئی

"ضرور کرتے لیکن آپ کی بہن میشو رانی نے اُن کو اغوا کروالیا ہے۔ ۔۔اسیر نے کہا تو فاحا نے چونک کر گردن موڑ کر اُس کو دیکھا

"اغوا؟

جی اغوا کیونکہ اُس کا اِرادہ یہاں آکر تماشا کرنے کا تھا۔ ۔اسیر نے بتایا

"اقدس کو اپنی مما سے پیار ہے؟فاحا نے پوچھا

"وہ بچی ہے پر چھ سال کی ہے رویے زیادہ نہیں تو تھوڑے بہت وہ بھی سمجھتی ہے۔ ۔اسیر نے جواب دیا پر فاحا کو سہی سے سمجھ میں نہیں آیا تھا۔

"مطلب کیا ہوا آپ کی اِس بات کا میں سمجھ نہیں پائی؟ فاحا نے جاننا چاہا

"آپ سمجھ پائے گیں کیسے جگ جہاں کی معصوم جو ٹھیری۔ ۔اسیر نے کہا تو اُس کے منہ سے بہت وقت بعد اپنے لیے یہ جُملا سُن کر فاحا کو آج پہلی بار اچھا لگا تھا۔


"غُصہ نہیں ہو آج میں تم تینوں سے معافی نہیں مانگنے آیا بس ایک باپ ہونے کے ناطے دعا دینے آیا تھا اور چاہتا تھا کہ اپنے سائے تِلے تم تینوں کو رُخصت کروں۔ ۔نوریز ملک اُن کے چہروں پر ناپسندیدگی کے تاثرات دیکھ کر عاجزی سے بولے اب اُنہوں نے معافی کی اُمید لگانا چھوڑدی تھی کیونکہ اُن کو پتا تھا اُنہوں نے جو کیا تھا شاید اُس کی کوئی معافی نہیں تھی۔

آپ کا سایہ ہمارے لیے اب کوئی معنی نہیں رکھتا۔ میشا نے سنجیدگی سے کہا

"جانتا ہوں لیکن دل کے ہاتھوں مجبور ہوں۔ ۔نوریز ملک ندامت سے مسکرائے تھے۔

"ٹھیک ہے پر اب ہمارا دل آپ کے لیے نرم نہیں ہوگا۔ ۔سوہان نے سنجیدگی سے کہا تو وہ ہلکا سا مسکراکر اسٹیج سے اُترگئے تھے۔

"پرسکون ہوجائے۔۔زوریز نے اُس کے ہاتھ پر اپنے ہاتھ کا دباؤ بڑھا کر کہا تو وہ واپس اپنی جگہ پر بیٹھ گئ۔۔

"گائیز کافی سیریس ماحول بن گیا ہے اور یہ فوٹوگرافر کہاں ہے؟"اُس سے کہو ہم چار کپلز ہیں چاروں کی ایک ساتھ یادگار تصویر کھینچے۔۔آریان اپنی جگہ اُٹھتا لوگوں کو متوجہ کرتا ہوا بولا تو فوٹوگرافر جلدی سے اُن کے پاس آیا تھا۔


"آپ کا اگر دل کہہ رہا ہے تعریف کرنے کا تو کرسکتے ہیں۔۔فاحا نے خود پر اسیر کی نگاہوں کا ارتکاز محسوس کیا تو کہا

"کیا خود آپ کو نہیں پتا کہ آپ اِس جوڑے میں بہت پیاری لگ رہی ہیں؟اسیر نے کہا تو اُس کی اِتنی سی بات پر فاحا کے گال دمک اُٹھے تھے۔


"پلیز تھوڑی سمائیل اور کیمرہ کی طرف دیکھے۔۔فوٹوگرافر نے اُن کو کہا

"شادی کیمرہ سے تھوڑئی کی ہے جس کے ساتھ کی ہے میں تو بھئی اُس کو دیکھوں گا۔۔آریان پوری طرح سے میشا کی طرف متوجہ ہوکر بولا تو میشا اُس کو گھورنے لگی جس کا اثر آریان نے نہیں لیا تھا۔

"اور زوریز نے سوہان کو تو سوہان نے زوریز کی آنکھوں میں اپنا عکس دیکھا تو چہرے پر مسکراہٹ سجائے اُس کو دیکھنے لگی تو عاشر نے گردن موڑ کر لالی کو دیکھا جو شرمائی لُجائی بیٹھی ہوئی تھی پھر ہر کپل محبت سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگا تو کیمرہ مین بیچارا ایسے ہی اُن کی تصاویر نکالنے لگا۔۔۔"اُن سب کو دیکھ کر ہر کوئی خوش رہنے کی اُن کو دعا دے رہا تھا دور نوریز ملک اُس کو دن کو رو رہے تھے جس دن اُنہوں نے خود پر اللہ کی رحمت کا دروازہ بند کیا تھا اور آج اللہ نے جیسے اُن پر اپنی رحمت کے دروازے بند کیے تھے تبھی وہ آج اپنی بیٹیوں کے ساتھ ہوکر بھی اُن کی خوشیوں میں شرکت نہیں کرپا رہے تھے۔۔

"آج ہر مشکلات سے نکل کر وہ اپنی اپنی زندگیوں میں خوش تھے" آج اُنہوں نے اپنی زندگی کا فیصلہ لے لیا تھا" آج ہر ایک کو اپنا من چاہا ہمسفر ملا تھا" ہر ایک کی خوشی آج دیدنی تھی ہر ایک کو اُن کی قسمت پر رشک آرہا تھا تو وہ خود بھی اپنی قسمت پر نازاں تھے۔ "اسلحان کا کہا بھی پورا ہوگیا تھا کہ وہ اپنی بیٹیوں کو ایسا بنائے گی کہ پوری دُنیا دیکھے گی اور واقعی آج اُن کو دُنیا دیکھ رہی تھی۔۔"اُنہوں نے ثابت جو کردیا تھا کہ بیٹیاں بھی بیٹوں سے کم نہیں ہوتی بشرطکہ اُن کے سروں پر کسی کا مضبوط ہاتھ ہو۔۔"چاہے اسلحان کے بعد وہ تینوں اکیلی ہوگئیں تھیں لیکن پھر ساجدہ نے اُن کو سنبھالا تھا اور آج وہ اپنی زندگیوں میں سیٹل تھے۔ "جس کو منحوس کہا گیا تھا آج اُس کو اُس کا شہزادہ ایسے دیکھ رہا تھا جیسے کوئی خُدا کا معجزہ دیکھتا ہو۔

یہ کہانی تھی سوہان کی جو صبر کرنا جانتی تھی وہ اپنی بہنوں کی ڈھال تھی۔"یہ کہانی تھی زوریز دُرانی اور وہ وقت بدلنا جانتا تھا"وہ کہتا تھا وقت اچھا ہو یا بُرا گُزرجاتا ہے"یہ کہانی تھی آریان دُرانی کی اپنی مستی میں مست رہنے والا جو پلے بوائے نام سے مشہور تھا"یہ کہانی تھی میشا ملک کی ہر مشکل سے بہادری سے مقابلہ کرنے والی سامنے والے کو پل میں تگنی کا ناچ نچانے والی"یہ کہانی تھی اسیر ملک کی جو مغرور شخصیت کا مالک بس اپنی کرنے والا تھا"یہ کہانی تھی فاحا ملک کی باتونی سی لڑکی جو ایک بار بولنا شروع کرتی تو سامنے والے کو بال نوچنے پر مجبور کردیتی

❤❤❤❤❤❤❤

ختم شد


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Ishq Meharban Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Ishq Meharban written by  Rimsha Hussain . Ishq Meharban   by Rimsha Hussain is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stori es and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

   


No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages