Chura Liya Hai Dil Ko Jo Tum Ny By TS Writes New Romantic Complete Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday 23 June 2024

Chura Liya Hai Dil Ko Jo Tum Ny By TS Writes New Romantic Complete Novel

Chura Liya Hai Dil Ko Jo Tum Ny By TS Writes New Romantic Complete Novel

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Chura Liya Hai Dil Ko Jo Tum Ny By TS Writes Complete Romantic Novel 

Novel Name:Chura Liya Hai Dil Ko Jo Tum Ny 

Writer Name: TS Writes 

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

دسمبر کی سرد ہواؤں میں سورج کی گرم کرنیں سکون بخش رہی تھیں۔تمام چرند پرند اپنے رب کی تسبیح کرتے چہچا رہے تھے۔اس خوبصورت دلفریب منظر سے دور وہ اپنے بستر میں دبکی سوئی ہوئی تھی دفعتاً کمرے کا دروازہ کھول کر ربیعہ بیگم اندر داخل ہوتی ہیں ۔بےفکر سوئی اپنی بیٹی کو دیکھکر وہ گردن نفی میں ہلاتی ہیں ۔ عروہ اُٹھو بیٹا انہوں نے زمین سے کُشن اٹھا کر صوفے پر ترتیب سے رکھتے ہوئے کہا ۔پر سویا ہوا وجود اپنی جگہ سے نہ ہلا اُٹھو عروہ دیر ہو رہی ہے سب تیار ہیں تم ہی ابھی تک سو رہی ہو ربیعہ بیگم نے کھڑکیوں سے پردے سائڈ کرتے ہوئے کہا ۔ایمل کا تین دفعہ فون اچکا ہے ۔ایمل کے نام پر اس نے پٹ سے اپنی ہری کانچ سی آنکھیں کھولیں اور موبائل کی تلاش کیلئے نظریں گھمائیں تھیں جو جلد ہی سائڈ ٹیبل سے برآمد ہوا ۔موبائل کی سکرین پر ٹائم دیکھتی ہی وہ اٹھ بیٹھی سیاہ گھنے بال پشت پر آبشار کی طرح بکھر گئے یار ماما آپ نے اب اٹھایا ہے مجھے نو بج رہے ہیں میں نے ایمل سے کہا تھا کہ ہم اٹھ بجے اجاینگے اس نے جلدی جلدی ہاتھ چلاتے الماری سے کپڑے نکلتے ہوئے کہا ۔اچھا بس جلدی سے تیار ہو کر نیچے اؤ ناشتہ کرنے ۔ٹھیک ہے آپ جائیں میں آتی ہوں ربیعہ بیگم کے جانے کے بعد وہ بھی واش روم میں بند ہوگئی۔

اسلام و علیکم۔۔۔۔۔! 

عروہ نے ڈائننگ روم میں داخل ہوتے ہوئے کہا سب کو مشترکہ سلام کر کے اپنے بابا کے گال پر کیس کرتی ۔ اپنی کرسی پر بیٹھ گئی۔ وعلیکم سلام جہانگیر اعوان صاحب نے اپنی خوبصورت بیٹی کو دیکھتے ہوۓ سلام کا جواب دیا ۔ آج جلدی آٹھ گئی میری بیٹی جہانگیر صاحب نے ناشتہ کرتے پوچھا ۔کہاں بابا میں لیٹ ہوگئی ہوں ایمل انتظار کر رہی ہوگی اور خفا بھی ہوگی میں نے وعدہ کیا تھا جلدی اونگی پر میں لیٹ ہوگئی ماما کی وجہ سے، عروہ کے آخری جملے پر جہاں جہانگیر صاحب نے ہنسی دبائی تھی وہیں ربیعہ بیگم کا جوس کی طرف بڑھتا ہاتھ تھاما تھا ۔میری وجہ سے دیر ہوئی ہے ؟ ربیعہ بیگم نے غیر یقینی سے دیکھتے عروہ سے پوچھا تھا ۔ہاں نہ ماما آپ نے دیر سے اُٹھایا مجھے یہ تو شکر ہے میں نے پیکنگ رات کو کر لی تھی عروہ نے جوس کا گلاس رکھتے ہوئے کہا ۔ہاں سہی کہہ رہی ہو اتنی دیر سے تمہے اٹھا نہیں بلکہ کرکٹ کھیل رہی تھی میں۔ تمہارے آگے کوئی ڈھول بھی بجائے تو تم نہ اُٹھو ۔ربیعہ بیگم کی بات پر جہاں جہانگیر صاحب کا قہقہہ بلند ہوا تھا وہیں ربیعہ بیگم نے خفت سے اپنے شوہر کو دیکھا تھا ۔ بابا  کیوں تنگ کر رہے ہیں میری ماما کو ڈائننگ روم میں داخل ہوتے اذہان نے عروہ کے سر پر بوسا دیتے کہا اور اپنی کرسی پر براجمان ہو گیا ۔بھائی آپ تو بلکل تیار ہیں پر اسے دیکھیں عروہ نے شایان کی طرف اشارہ کرتے کہا جو اُجڑی سی حالت میں بیٹھا موبائل میں مصروف تھا ۔اذہان نے اس کو دیکھتے نفی میں سر ہلایا ۔ارے میرے شہزادے بھائی فکر نہ کریں میں ہوں نا عروہ نے آنکھ مارتے کہا ۔سب کو ناشتہ کرتے دیکھ اس نے سامنے پڑے چیلی سوس اُٹھایا اور احتیاط سے اس کا ڈھکن کھول کر دو چمچیں بھر کر شایان کے جوس میں ڈال کر خاموشی سے اپنا ناشتہ کرنے لگی ۔ شایان تم ناشتہ کرو پھر بھابھی کی طرف چلنا ہے ربیعہ بیگم نے موبائل میں مصروف شایان سے کہا ۔

نہیں ماما میں رات میں ہے آؤنگا مجھے کچھ ضروری کام سے جانا ہے شایان نے موبائل رکھتے ہوئے کہا اور سامنے پڑا جوس کا گلاس اٹھا کر لبوں سے لگایا عروہ نے اسے گلاس تھاما دیکھ کر اپنی ہنسی دبائی اور آٹھ کھڑی ہوئی ۔

ماما میرا ناشتہ ہوگیا اور میں بلکل ریڈی ہوں میں باہر ویٹ کرتی ہوں آپ ناشتہ کر کے آجائیں۔

شایان نے جوس کا ایک گھونٹ بھرتے ہے دل خراش چیخ ماری تھی اہ ہا اہ اف یہ کیسا جوس ہے ماما مرچیں کون ڈالتا ہے وہ منہ کھولے ہو ہو کرنے لگا ۔عروہ سے اپنی ہنسی کنٹرول کرنا مشکل ہوگیا تھا اور وہ ہنسنے لگی۔ آگیا نہ مزا اس نے اذہان کے ہاتھ پر تّالی مرتے شایان کو کہا ۔

ماما دیکھو کتنی جنگلی ہوگئی ہے یہ بابا کی بلی 

شایان نے دہائی دیتے ہوئے کہا ۔ میں کیا کہہ سکتی ہوں بیٹا تمہارے باپ اور بھائی کی بگاڑی ہوئی ہے یہ ۔ربیعہ بیگم نے نارمل سے انداز میں کہا ۔میں نہیں چھوڑنگا آج شایان نے عروہ کی طرف بڑھتے ہوئے کہا ۔خبر دار میری بیٹی کو ایک لفظ بھی کہا،، جہانگیر صاحب نے اُسے سینِے میں چھپاتے ہوئے کہا ۔ بابا آپ کی وجہ سے یہ پتہ نہیں کون کون سے کارنامے سرانجام دیتی رہتی ہے ۔اچھا بس اب چپ ہو کے ناشتہ کرو غلطی تمہاری ہی ہےاذہان  نے بھی عروہ کی حمایت میں کہا ۔،،،،

،،،،،،،،

عزیز تر رکھتا ہے رگ و جان سے❤️

یہ بات سچ ہے میرا باپ کم نہیں میری ماں سے 💓

،،،،،،،،،،،

چکراتے سر کے ساتھ وہ آنکھیں کھولنے کی کوشش کر رہا تھا سر پر شدید ٹیسووں کے باعث اسے اپنا سر پھٹتا ہوا محسوس ہو رہا تھا ۔اس کے ہاتھ پاؤں کرسی سے بندھے تھے جن سے خون رس رہا تھا جبکہ چہرہ اور جسم پسینوں سے نم تھا جسم میں خوف کے باعث کپکپاہٹ طاری تھی ۔اہستہ سے آنکھیں کھولے وہ ارد گرد کا جائزہ لینے لگا ہال نما کمرے میں باہر کی روشنی اندر انے کا کوئی راستہ نہیں تھا پورے کمرے میں دو کرسیوں کے علاوہ کوئی چیز موجود نہیں تھی۔جبکہ چھت پر لگے بلب سے کمرہ نیم روشن تھا۔ دفغتا دروازہ کھول کر کوئی لمبا چوڑا وجود نمودار ہوا ۔چہرا رومال سے ڈھکے بے تحاشا رنگ برنگے پھولوں سے پرِنٹ ہوئی شرٹ پر بلیک پینٹ پہنے وہ اپنے بھاری قدم اٹھاتا اس کے مقابل آ کر کھڑا ہوا۔کرسی سے بندھے وجود کو اپنا دل بند ہوتا ہوا محسوس ہوا ۔خوش آمدید پروفیسر صاحب۔۔۔۔۔عافین عائث کی جہنم میں۔کُرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھتے ہوئے کہا۔اور ہاتھ کی مدد سے چہرے سے ڈھکا رومال ہٹایا ۔سرخ سفید رنگت،نیلی سمندر جیسی آنکھیں ہلکی بڑھی ہوئی شیو وہ شکل سے کسی ریاست کا شہزادہ معلوم ہو رہا تھا۔ جبکہ ہولیے سے سڑک چھاپ گنڈا لگ رہا تھا ۔گلےمیں بےتحاشا گولڈن چینیں اور ہاتھوں میں  رنگ برنگے بینڈز پہنے ہوئے تھے۔میری ایک بات غور سے سننا پروفیسر میں اپنے سوال دہراتا نہیں اگر وقت پر مجھے جواب نہ ملا تو میں نہیں میرا گھوڑا سوال کرتا ہے  گھوڑا جانتے ہو نہ؟ عافین نے زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ گن ہاتھ میں گھومتے ہوئے کہا۔نہیں جانتے؟ چلو میں دیکھا دیتا ہوں بھرپور قہقہہ لگا کر کہتے ہی اُسنے پروفیسر کے بازو کا نشانہ لے کر ٹریگر دبایا ۔ٹھا کی آواز کے ساتھ ہی پروفیسر کے بازو سے خون اُبل اُبل کر نکلنے لگا۔ کیا چاہتے ہو تم مجھ سے عافین ؟ پروفیسر نے بازو کا درد برداشت کرتے ہوئے کہا ۔  تم مجھے صرف جانتے تھے آج تم نے دیکھ بھی لیا تم نے اور جس نے بھی مجھے دیکھا وہ آج تک زندہ نہیں رہا یہ بھی جانتے ہوگیے تم اور جہاں تک رہی بات چاہنے کی تو میں جو چاہتا ہوں وہ اپنے طریقےسے حاصل کر لیتا ہوں ۔ عافین نے لاپرواہ انداز میں کہا ۔،،،،،،،، وہ چھ لڑکیاں کہاں ہیں؟ عافین نے گن کا رُخ پروفیسر کی ٹانگ کی طرف کرتے ہوئے کہا ۔ پروفیسر کا رنگ پیلا پڑنے لگا تھا خوف سے اُسے اپنی روح فنا ہوتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی میں نہیں جانتا  مجھے جانے دو پروفیسر نے ہمت کرتے ہوئے کہا۔ ٹھاہ  ابھی پروفیسر کے الفاظ منہ میں ہی تھے کہ ٹھا کی آواز کے ساتھ گولی پروفیسر کے پاؤں کو چیرتی ہوئی باہر نکلی ۔ پروفیسر کے حلق سے دل خراش چیخ نکلی ۔پروفیسر میں نے کہا تھا کہ میں اپنے سوال نہیں دہراتا عافین نے نہ گوریت سے کہا۔ میں نہیں جانتا بس میں نے ان پانچوں کو جمال کے حوالے کر دیا تھا۔۔۔،،،، تو چھٹی لڑکی کہا ہے ؟ عافین نے پروفیسر کے دوسرے بازو پر بھی فائر کرتے کہا ۔،،،،،۔ میں نے مار دیا تھا اُسے پروفیسر نے درد کے باعث اٹک اٹک کر کہا ۔ عافین کی نیلی آنکھیں لہو سی سرخ ہوگئی تھیں ۔ مجھے جانے دو رحم کرو مجھ پر پروفیسر نے روتے ہوئے کہا ؟ تم پر رحم کریں ؟ تم نے اُسے مرتے ہوئے رحم لفظ سوچا تھا؟ اس بار آواز عافین کی  نہیں بلکہ پیچھے کھڑے  وجود کی تھی ،،،، ۔ میری نظر میں۔۔،،،،"ظالم پر رحم مظلوم پر ظلم ہے" ۔،،،، عافین نے غراتے ہوۓ کہا ۔ اگر میں تم پر رحم کرتا ہوں تو میں اُن لڑکیوں پر ظلم کرونگا عافین نے پروفیسر کے دماغ پر فائر کرتے ہوئے کہا۔

اِس کی لاش ثبوتوں کے ساتھ چھوڑنا احمد ،،،،، عافین نے سامنے کھڑے وجود کو حکم دیا۔،،،، اور ایک نظر سامنے پڑے وجود پر ڈال کر باہر کی طرف اپنے بھاری قدم بڑھائے ۔۔،،،،

🔥🔥🔥🔥💥💥💥

اپنی گرے کانچ سی آنکھیں نیچے پورچ پر ٹکائے کھڑی تھی ایمل بیٹا یہ کپڑے ایمان کے کمرے میں رکھ آؤ ۔ نازش معظم نے اپنی بیٹی سے کہا ۔ اچھا مام جا رہی ہُوں،،،،  وہ کپڑے لے کر کمرے سے نکلی رہی تھی کہ اندر آتی زرمین بیگم نے اُسے پکارا ۔ ایمل بیٹا ربیعہ بیگم ابھی تک نہیں آئیں کال کر کے پتہ کرو ۔۔ خالہ میں نے عروہ کو کال کی پر اس نے ریسیو نہیں کی شاید راستہ میں ہی ہوں ایمل اُن کو جواب دیتی آگے بڑھ گئی۔۔۔ آجاؤ عروہ کبھی تم سے بات نہیں کرونگی مجال ہے جو تم وقت پر کہیں پر پہنچ جاؤ  اپنے آپ سے بڑبڑاتی ہوئی وہ ایمان کے کمرے میں داخل ہوئی ۔۔۔ ،،،

🤍💜❤️💗🔥💥

ہونٹوں میں سگریٹ دبائے وہ گہرے کش لے رہا تھا ۔ وائٹ شرٹ جو اس کے وجود کے ساتھ چپکی ہوئی تھی جس سے اس کے کثرتِ بازو واضح ہو رہے تھے اس پر بلیک پینٹ پہنے وہ اپنی بے قابو دھڑکتے دل کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔دل تھا جو دھڑکے جا رہا تھا جب سے اسکی آمد کا سنا تھا ۔ شہد رنگ  آنکھیں نیچے لان پر مرکوز تھیں رنگ برنگے پھولوں سے نظر بھٹکتے نظر گیٹ سے اندر آتی گاڑی پر گئی ۔ جس سے اس کی دشمن جان دوپٹے اور ہینڈ بیگ سے اُلجھتی ہوئی نمودار ہوئی تھی ۔ سرخ سفید رنگت ہری آنکھیں جس پر گھنی سیاہ پلکوں کا سایہ چھایا ہوا تھا ۔ ہاں وہ اتنی خوبصورت تھی کسی کا بھی دل دھڑکا سکتی تھی وائٹ شلوار قمیص پر پیلے اور لال پھولوں سے بنا دوپٹہ پہنے وہ حسنین جمشید کی دھڑکنیں بے ترتیب کر رہی تھی  اُسے دیکھتے ہی حسنین کو اپنی ہرٹ بیٹ مس ہوتی محسوس ہوئی تھی  ۔ وہ جا چکی تھی پر پر حسنین ابھی بھی اسکے سحر میں جکڑا کھڑا تھا ۔۔۔

،،،،،،،

مچلتے رہتے ہیں وسوسوں کی طرح ۔ ۔💓

پسندیدہ لوگ بھی وبالِ جان ہوتے ہیں ۔۔❤‍🔥❤‍🩹

،،،،،،،

ارریہ ربیعہ تم اب آ رہی ہو مہمانوں کی طرح بھتیجی کی مہندی پر ۔ دیکھو کتنے کام پڑے ہیں کوئی کام مکمل نہیں ہوا نازش بیگم نے اپنی نند ربیعہ بیگم  کو گلے لگاتے شکوہ کیا  ۔ بھابھی بس دیر ہو گئی اور کاموں کی ٹینشن نہ لیں ہو جائینگے ۔ ربیعہ بیگم نے اُن سے الگ ہوتے جواب دیا،،،، ارے مومانی جاناں آپ فکر مند نہ ہوں عروہ جہانگیر اعوان ابھی چوٹکی بجاتے سب کر دیگی عروہ نے نازش بیگم سے گلے ملتے کہا ۔ تم رہنے ہی دو تمہیں صرف کام بگاڑنے آتے ہیں ۔۔ ربیعہ بیگم نے عروہ سے کہا دیکھیں یار مامی ماما کو اپنی ہی بیٹی پر بھروسہ نہیں عروہ نے مسکین سی شکل بنا کر نازش بیگم سے جواب طلب کیا ۔ نہیں میری جان تم انجواۓ کرو نازش بیگم نے عروہ کے سر پر بوسا دیتے ہوئے کہا انہیں یہ خوبصورت گڑیا بہت پسند تھی جو جہاں جاتی رونق لگا دیتی تھی ۔ تو پھر مامی آپ اپنے پڑوسیوں کو بول دیں کہ اُن کے گھر جتنی بھی روئی موجود ہیں وہ کانوں میں ڈال دیں عروہ نے کھلکھلاتے ہوۓ کہا اور نازش بیگم سے ایمان اور ایمل کا پوچھ کر اُنکے روم کی طرف بڑھ گئی  ۔۔ 

،،،،،،،

اپنی سوچوں میں چلتا حسنین کسی نازک چیز سے ٹکڑايا  ۔۔۔ ہاے میرا سر یہ دیوار پہلے تو یہاں نہیں تھی اف میرا سر ایک ہاتھ سے سر تھامے اور دوسرے ہاتھ سے حسنین کے سینےکو  دیوار سمجھ کر مکے برسانے  لگی ۔ لیکن جلد ہی اُسے احساس ہوگیا تھا کہ جس دیو سے بچنے کی وہ کوششیں کر رہی تھی اسی سے ٹکرائ ہے  ۔۔

تم ٹھیک ہو؟ حسنین نے خاموشی سے خود کو تکتی عروہ سے پوچھا ۔ نہیں ہاں وہ میں  ۔۔ اسلام وعلیکم حسنین بھائی ۔ ہربڑاہٹ میں عروہ کے پاس جیسے الفاظ ہی ختم ہوگئے تھے ۔۔۔ وعلیکم سلام حسنین نے دلکشی سے مسکراتے جواب دیا عروہ ابھی یہاں سے غائب ہونے کے لیے سوچ ہی رہی تھی کے اپنے پیچھے سے آتی ذرمین جمشید کی آواز پر مڑی  ۔۔۔ عروہ تم اگائ ربیعہ نہیں آئیں ؟ زرمین بیگم نے دل ہی میں اسکی نظر اترتے ہوئے کہا ۔

اسلام وعلیکم خالہ،،،، وعلیکم سلام زرمین بیگم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ۔، ماما نیچے ہیں مامی کے ساتھ ۔۔ اچھا ٹھیک ہے تم جاؤ ایمان اور ایمل سے مل لو نرمین بیگم نے نرم لہجے میں کہا ۔۔۔ اُنہوں نے عروہ کو ہمیشہ اپنے حسنین کے لئے سوچا تھا ایمان اور صدام کی شادی کے بعد وہ ربیعہ اور جہانگیر صاحب سے بات کرنے کا ارادہ رکھتی تھیں  ۔۔۔ عروہ سر اثبات میں ہلاتی ایمان کے روم کی طرف بڑھ گئی ۔۔

،،،،،،،،،

میلہ بےبی نلاز ہے؟؟ عروہ نے کمرے میں داخل ہوتے ہی ایمل کو ہاگ کرتے کہا ۔ 

اب آ رہی ہے تو اٹھ بجے کا کہا تھا تو نے اور بارہ بج رہے ہیں ایمل نے اُسے خفت زدہ لہجے میں کہا ۔۔ اب بتا دیر کیوں ہوئی ایمل نے نرمی سے پوچھا ۔۔ تُجھے تو پتہ ہے بڑے بڑے شہروں میں چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں عروہ نے بال جھٹک کر ادا سے کہا ۔ تو نہیں سدھرگی  ایمل نے نفی میں سر ہلاتے کہا ۔ مجھے چھوڑ یہ بتا دلہن صاحبہ کہاں ہیں؟؟ شاور لینے گئی ہے آتی ہی ہوگی ایمل نے کپڑے الماری میں ترتیب سے رکھتے ہوئے مصروف سے انداز میں کہا ۔ عروہ بھی پرس میں موبائل تلاش کرنے لگی ۔۔ آرے میری گڑیا آگئی ایمان نے عروہ کو ہاگ کرتے اس کے گال چومتے کہا  ۔ ، کسی ہو اور اتنی دیر میں کیوں  آئی ہو ایمان نے اس کے پھولے گلابی گال کھیچتے ہوئے کہا جو سرخ ہو چُکے تھے ۔ آرے یار آپی میں تو صبح فجر میں ہی تیار ہوگئی تھی پر امی نے ہی دیر میں اٹھايا عروہ نے معصومیت کے سارے ریکارڈ توڑتے ہوئے اپنے گالوں سے نہ نکلنے والے انسوں صاف کرتے کہا ،،،۔ ایمل  کا دل کیا اپنا سر کیسی دیوار میں مار دے کیوں کہ اس کے ڈراموں سے تنگ آگئ تھی ۔ اسکے ڈرامے بند ہو جائیں تو نیچے اجانا ایمل نے عروہ کے سر پر چیت لگاتے ہوئے کہا ۔۔ اگر تم تیار تھی تو دیر کیوں ہوئی ایمان نے ناسمجھی سے پوچھا۔،، وہ کیا ہے نہ آپی میں نماز پڑھ کر تیار ہو کر پھر سو گئی تھی عروہ نے معصومیت سے بتایا  ۔۔۔ ایمان نے سمجھتے اثبات میں سر ہلایا  ۔۔ آجائیں نیچے چلیں عروہ نے کھڑےہوتےکہا ۔۔ ہاں چلو ایمان بھی اس کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی ،،،،۔۔۔

🌼🌻🌸🌹🥀🍁✨

واہ یہاں تو تلوار بازی چل رہی ہے لاؤنچ میں داخل ہوتے احمد نے ڈنڈیاں ڈانس کرتی عروہ اور میرب سے شرارت سے کہا ۔ آپ کو کس نے اجازت دی یہاں انے کی،، یہ خالص عورتوں کی رسم ہے آپ جائیں یہاں سے میرب نے اپنی ڈنڈیاں احمد کی کمر پر رسیت کرتے ہوئے،،،، ،ارے یار جا رہا ہو اپنی تلوار دور کرو احمد نے ڈنڈیاں کی طرف اشارہ کرتے کہا، میں تو دیکھنے آیا تھا لاؤنچ میں سے اتنی تلواروں کی آوازیں آرہی ہیں کہیں منگولوں نے حملہ تو نہیں کر دیا احمد نے معصومیت سے کہا ۔۔۔ ، ہاں اور آپ  جیسے آخری سپاہی بچے ہو میرب نے بھی اسی معصومیت سے جواب دیا ۔۔۔۔،,,

پیلے اور وائٹ پھولوں سے سجے جھولے پر بیٹھی وہ کوئی پری لگ رہی تھی پیلے سادھے کپڑوں میں سرخ قدرتی پھولوں کی جیولری پہنے ۔ سفید رنگت پر اس کے گال شرم و حیا سے دھک  راہے تھے،،، جھولے سے کچھ فاصلے پر بیٹھی اس کی کزنیں اور دوستیّیں گیت گا رہی تھی جن میں عروہ سب سے آگے آگے تھی ،،،۔ تمام بزرگ خواتین باری باری آکر ہلدی کی رسم ادا کر رہی تھیں ۔ ہلدی اور مہندی کی میلی جولی خوشبو لاؤنچ میں ٹکراتی پھر رہی تھی ۔۔

اللہ سونہ میری بچی نو دنیا جہان دی خوشیاں دے وے ،، بےبے نے ایمان کے گال پر ہلدی لگاتے اور سر پر بوسہ دیتے ہوئے کہا ۔۔ ۔

 بےبے نازش اور زرمین بیگم کی خالہ تھیں جبکہ زرمین بیگم کی ساس تھی ،، زرمین جمشید بیگم کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی بڑا بیٹا صدام تھا جس کی شادی تھی ایمان کے ساتھ  چھوٹا بیٹا حسنین تھا اور چھوٹی بیٹی  میرب تھی  ،، نازشا اور معظم صاحب کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا، سب سے بڑی بیٹی ایمان تھی اور چھوٹی ایمل اور بیٹا احمد تھا ،،معظم اعوان صاحب کا اپنا بزنس تھا ،،،

جہانگیر اعوان صاحب اور ربیعہ بیگم کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی بڑا بیٹا اذہان اس سے چھوٹا شایان اور سب سے چھوٹی اور جہانگیر صاحب کی لاڈلی بیٹی عروہ تھی عروہ میں جہانگیر صاحب اور اذہان کی جان بستی تھی،،،،،،۔

🌻🌸🥀🌹🍁✨🌼

 لک پتلا 

بلوری اودے نین نین 

کنی چمکے ہیلاری او دے

لین لین 

گلاں کر دی 

کردی شہد تو مٹھیاں

جنِے میرا دل لُٹیا اوہو

جنیے مینو مار سٹیا 

اوہو 

🌼🌹✨🍁🥀🌸🌻

ڈھول کی دھب دھب اور لڑکیوں کی سوریلی آواز پر  

گائے جانے والے اس گانے کی آواز پورے گھر میں گونج رہی تھی۔،،،

✨🍁🌹🌸🌻🌹🥀

 ایمل بیٹا جاؤ کچن سے

 مٹھائی لے آو رسم کے لیئے نازش بیگم نے ایمان کے سر پر بوسا دیتے ہوئے کہا جی ماما لاتی ہوں ایمل جانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی ۔ رک بھی آتی ہوں عروہ بھی  ساتھ جانے کے لئے اٹھی ،،،

🌹🥀🌻🌸🍁✨

تیری ملاقات ہوئی حسنین بھائی سے ؟؟ ایمل نے مٹھائی پلیٹ میں رکھتے مصروف سے انداز میں پوچھا  ،،،، ہاں تُجھ سے ملنے آرہی تھی تب ٹکڑئی تھی اُن سے مجھے تو لگا کیسی برفانی پہاڑ سے ٹکڑا گر گئی  ابھی تک سر چکرا رہا ہے عروہ نے سر پر ہاتھ رکھتے کہا  ،،،،۔ 

ایمل ایک کپ چائے بنا دو کچن میں داخل ہوتے حسنین نے کاؤنٹر کے ساتھ پڑی کُرسی پر بیٹھے ہوئے کہا  ۔۔ عروہ نے اپنا نچلا ہونٹ دانتوں تلے دیا تھا اف کہیں سن تو نی لیا برفانی بھالو نے ،،،،۔۔

بھائی یہ مٹھائی دے اوں تو بناتی ہوں ایمل نے تھکے تھکے سے انداز میں کہا ،،۔ 

ایسا کرو تم جاؤ میں بنا دیتی ہُوں عروہ نے فارغ دیلی سے کہا ۔ اچھا ٹھیک ہے ایمل نے مسکرا کے جواب دیا اور کچن سے باہر کی طرف قدم بڑھائے ،،۔۔۔ ہری آنکھوں والی جنگلی بلی صاحبہ کیا ہمیں بھی چائے مل سکتی ہے ؟ حسنین کے ساتھ والی کُرسی پر براجمان ہوتے احمد نے نہایت تمیز سے کہا ۔ عروہ نے غوصے سے بھری آنکھیں گھما کر احمد کو دیکھا جو ڈھیٹ پنے کے سارے ریکارڈ توڑتا مسکرا رہا تھا ۔۔۔،،،،

✨💖💓🍁🥀🌹🌸🌻🌼🥀🌹🌺🌸🌻💐

مٹھائی دے کر وہ جلدی میں سڑھیاں اُترتی نیچے آرہی تھی کہ پیر سلیپ ہونے کے باعث وہ گرنے ہی والی تھی کہ کیسی مضبوط ہاتھ نے اسکی نازک  کلائی تھامی 

اہ گرنے کے خوف سے اس نے اپنی آنکھیں بند کر دی تھی جب اُسے یقین ہو گیا کہ وہ نہیں گری اس نے پٹ سے اپنی آنکھیں کھولیں تھی ۔ انسانوں کی طرح چلنا نہیں آتا تمھیں ؟؟ اذہان نے روب سے کہا ۔ وہ میں جلدی میں جا رہی تھی پتہ نہیں چلا ، ایمل نے دھک دھک کرتے دل کو تھمتے ہوئے کہا ۔ ہمم اذہان نے اثبات میں سر ہلایا اور قدم سڑھیوں سے نیچے کی طرف بڑھا دیئے,,, . اکڑو سانڈ کہیں کے ہائے میرا ہاتھ 

ایمل نے اپنی کلائی دیکھتے کہا جس پر اب بھی اذہان جہانگیر کی انگلیوں کے نشانات ثبت تھے۔۔،،،،

🌻🌹🌸🌸🌸

۔۔یار تم چائے بنا رہی ہو یا پائے جو بن ہی نہیں رہے ؟؟ احمد نے عروہ کو طنز کرتے کہا ،، بس لا رہی ہوں عروہ نے شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ کہا اور دو کپوں میں انڈیل کر ایک کپ میں چمچ بھر کر نمک ڈال کر اچھی طرح مکس کرنے لگی ایک کپ حسنین کے سامنے اور دوسرا کپ احمد کے آگے رکھا ،،،، خود گلاس میں پانی ڈال کر چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھرنے لگی ۔۔،،،

اه یخ یہ کیسی چائے ہے یہ،، لڑکی تُمہیں نمک اور چینی میں فرق نہیں پتہ کیا ؟؟ احمد نے عجیب و غریب منہ بنا کر کہا،،، یقین مانو اگر بادشاہ سلامت زندہ ہوتے تو تمہارے ہاتھ کٹوا دیتے ایسی چائے بنانے پر ۔،،، احمد نے کہتے ہوئے حسنین کی طرف دیکھا، جو خاموش بیٹھا ایک ہاتھ سے کپ کو پکڑے چائے کے گھونٹ بھر رہا تھا جبکہ دوسرا ہاتھ موبائل میں مصروف تھا۔۔،، یعنی صرف میری ساتھ ہی تمہاری دشمنی ہے جو میری چائے میں نمک ڈالا تم نے احمد نے مصنوئی غصے سے پوچھا ۔۔،،، ہاں یہی سمجھ لو آج سے تم میرے لیے مسٹر انیمی ہی ہو ،،، عروہ نے بھی جوابی کاروائی کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ ،،،،

،،،،،،،..,,,,,,

وہ اپنے لہجے سے غالب کو مير کرتی ہے ۔،🌺

ہزار واہ کو ہائے بنانا جانتی ہے 🌼

تو اک یہ کہ بلا کی وہ خوبصورت ہے 🔥

اور دوسرا یہ کہ وہ چائے بنانا جانتی ہے ۔۔ 💖💓

،،،۔۔۔۔

نازرین آپکو بتاتے چلیں کراچی کے مشہور یونیورسٹی سے پروفیسر کی رات ویرانے سے لاش برآمد ہوئ جنہیں بے دردی سے قتل کیا گیا ہے زرائع کے مطابق یہ کہا جا رہا ہے کہ یونیورسٹی سے غائب ہونے والی چھ لڑکیوں کے پیچھے بھی پروفیسر کا ہی ہاتھ ہے پروفیسر کے پاس سے کچھ ثبوت بھی برآمد ہوئے ہیں جن میں وہ اقبالِ جُرم کر رہے ہیں ، اسکرین کے اوف ہوتے ہی اینکر کی آواز بھی بند ہوگئ ،، مجھے تمسے بات کرنی ہے یہاں تشریف رکھو ...معاذ محسن ملک نے لاؤنچ کے وسط سے گزرتے عکش ملک سے سپاٹ لہجے میں ٹی وی بند کرتے کہا .... سفید رنگت نیلی آنکھیں ہلکی بڑھی شیو کالے بال نفاست سے جیل کی مدد سے سیٹ کیئے ہوئے تھے براؤن شرٹ پر بلیک پینٹ پہنے ہاتھوں میں براڈیڈ واچ پہنے اپنی تمام تر وجاہت کے ساتھ معاذ صاحب کے سامنے پڑے صوفے پر وہ براجمان ہوا،، کیا میں پوچھ سکتا ہوں تم اس وقت کہاں سے آرہے ہو معاذ صاحب نے بات کا آغاز کرتے اپنے اکلوتے سپوت سے پوچھا ...کہیں نہیں دوستوں کیساتھ ہی تھا عکش نے لاپرواہ سے انداز میں جواب دیا..لائیف کو سیریئس کب لوگے تم عکش ملک معاذ صاحب نے دبے دبے غصے میں پوچھا اب تمھاری اس لاپرواہی سے تنگ آگیا ہوں میں۔۔۔،،، رات کو مجھے اپنے دوست معظم کی بیٹی کی شادی پہ جانا ہے اور تم میرے ساتھ چل رہے ہو معاذ صاحب نے دوٹوک انداز میں کہا اور جانے کیلئے اُٹھ کھڑے ہوئے..عکش کی آنکھوں میں اک حسین منظر گھوما تھا...ہری آنکھیں جسے سوچتے ہی اسکی عنابی لب مسکرا اٹھے تھے..تو آج ملاقات ہو ہی جائے مس عروہ جہانگیر اعوان عکش نے زیرِ لب کہہ کر آنکھیں موندی تھی..

۔۔۔،،،،،،


💗💓💖❤‍🔥


فراق میں لذتّیں ہیں اِتنی تو سوچتا ہوں

وصال اُس کا نصیب ہو گا تو کیا بنے گا۔؟

جو دُور رہ کر حرارتِ جاں بنا ہوا ہے

وہ شخص میرے قریب ہو گا تو کیا بنے گا۔؟

،،،،،

لیمن یلو کلر پہ ریڈ بھاری کام ہوا فراک اُس پہ ہم رنگ کا دوبٹّہ زیب تن کیئے لائیٹ سے میک اپ میں وہ بہت حسین لگ رہی تھی۔، کانوں میں جُھمکیاں پہنیں پیروں میں ہم رنگ کُھسّے پہنے دونوں ہاتھوں سے فراک سمبھالے آہستہ آہستہ سیڑیاں اُتر رہی تھی...گھر کے انرونی حصّے میں داخل ہوتے، غیر ارادی طور پہ حَسنین کی نظر اس حُسن کی ملکہ پر پڑی اسے دیکھتے ہی حسنین کی نظر پلٹنے سے انکاری تھی..

عروہ چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتی لاؤنج کی طرف جا رہی تھی حسنین کی نظروں نے دور تک اسکا پیچھا کیا ۔،..عروہ کیا تم تیار ہو؟ چلیں،، ایمل نے کلچ میں کچھ ڈالتے مصروف سے انداز میں پوچھا ....عروہ اور ایمل دونوں نے ہی ایک جیسے کپڑے زیب تن کیئے تھے..ساتھ لائیٹ سے میک اپ میں ایمل بھی خراجِ تحسین کی حقدار لگ رہی تھی...ہاں میں تو تیار ہوں چلیں باہر حسنین اور ازہان بھائ ہمارا انتظار کر رہے ہونگے، عروہ نے اپنا دوپٹہ پن کی مدد سے سیٹ کرتے ہوئے کہا..تم چلو میں کچھ بھول گئ ہوں لے کر آتی ہوں ایمل نے کہہ کر عجلت میں کچن کی جانب قدم بڑھائے.۔،عروہ سر اثبات میں ہلاتی پورچ کی طرف بڑھ گئ..۔، پورچ میں موجود گاڑی کے پاس ازہان ہاتھوں کو فولڈ کیئے گاڑی سے ٹیک لگائے اپنی پوری وجاہت کیساتھ کھڑا نظر آیا ...وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ازہان کے پاس آئ ..بھائ میں کیسی لگ رہی ہوں؟ کنفیوز سے انداز میں سوال پوچھا بہت پیاری لگ رہی ہو بلکل گڑیا جیسی ازہان جو دور سے عروہ کو اپنے قریب آتا دیکھ چکا تھا سیدھا ہو کر کھڑا ہوا عروہ کے پوچھنے پر ماتھے پہ بوسہ دیتے جواب دیا ۔،..تم آئ ہو ایمل کیوں نہیں آئ اب تک ازہان نے اپنی برینڈڈ واچ میں ٹائم دیکھتے پوچھا جی بھائ وہ بس آتی ہوگی عروہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ہممم.. تم گاڑی میں بیٹھو میں اسے دیکھ کر آتا ہوں ازہان نے عروہ کو کہتے اپنے قدم اندر کی جانب اٹھائے تھے کہ سامنے سے آتی عروہ کو دیکھتے اسکے قدم ساکت ہوئے تھے وہ مبہوت سا اسے دیکھ رہا تھا جو قدم اٹھاتی اپنی فراک سے الجھتی اسی کی جانب آرہی تھی۔۔،،،

۔۔۔،،،،۔۔۔،،،💖💓❤‍🔥

میں نے سوچوں میں تراشے ہیں خدوخال تیرے ،،

میرے بارے میں بتا۔۔۔تو نے سوچا کبھی ،،


💓💖🌻🌸


حسنین اور ایمل کے قدموں کے ساتھ ہم قدم ہوتی وہ ہال میں داخل ہوئی تھی ۔۔،،، عکش کی اُس پر نظر پڑتے ہی لب مسکرائے تھے ،،،، پر اُس کے ساتھ چلتے وجود کو دیکھکر عکش ملک کی آنکھیں سکڑی تھیں اور جبڑے بھینچے تھے اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اُس وجود كا وہ نام و نشان مٹا دے،،، یا عروہ کو لے کر منظر سے غائب ہو جاۓ،،،،

عكش نے اپنی نظریں عروہ کی طرف پھیرتے ایک سرد سانس خارج کی تھی ،،،

اس نے اپنی لہو ٹپکاتی آنکھوں کو موندا تھا ،، اور دوسرے ہی پل کھولیں تھیں،،،


،،،،۔۔۔


تاکید ہے "راز محبت" عیاں نہ ہو ،

مگر یہ ممکن کہاں کہ آگ لگے اور دھواں نہ ہو۔،،


،،،،۔۔۔۔

ایمان اور صدام کا نکاح ایک ہفتے پہلے ہی کر دیا تھا ۔،، گرین گھیر دار گوٹے کے کام سے بھری میکسی پہنے اور اس کے ساتھ ہم رنگ کا دوپٹہ سلیقے سے سر پر سیٹ کیے ۔،،

پارلر سے کروائے مناسب سے میک اپ میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی ۔،،اُس کی سفید رنگت پر ہرا رنگ بہت جچ رہا تھا۔،، دایاں ہاتھ سے نازش بیگم کا جبکہ بایاں ہاتھ معظم صاحب کا ہاتھ تھامے وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اسٹیج کی طرف بڑھ رہی تھی،،،۔۔ جہاں صدام جمشید لائٹ ییلو کڑتا پہنے ۔،، اپنی تمام تر مردانہ وجاہت کے ساتھ کھڑا تھا،،۔

ایمان کے اسٹیج تک پہنچتے ہی صدام نے جھک کر اسکی جانب اپنی ہتھیلی بڑھائی تھی ،، جسے ایمان نے شرماتے ہوئے کنفیوز سے انداز میں تھامی تھی ،،،

صدام اُسے سہارا دے کر اسٹیج پر لايا ،،

بہت حسین لگ رہی ہو ،،دل کر رہا ہے آج ہی رخصت کروا کر لے جاؤ ،،، صدام نے جھک کر ایمان کے کان کے قریب سرگوشی کی تھی ،،،،

ایمان نے شرماتے ہوئے صدام کی طرف دیکھا تھا جو اُسے ہی دیکھ رہا تھا،،،۔۔

اس منظر کو فوٹو گرافر نے کیمرے میں قید کیا تھا،،۔۔۔

،،،،،،،،،،،،

مریضِ محبت کو فقط ۔۔دیدارِ یار ہی کافی ہوتا ہے،

ہزاروں طب کے نسخوں سے نگاہے یار ہی کافی ہوتا ہے،،۔

اُسے کب سے خود پر کسی نظروں کی تپش محسوس ہورہی تھی، لیکن جب اسنے اپنی نگاہیں ادھر اُدھر دوڑائیں تو سبکو اپنے کاموں میں مصروف پایا..وہ ابھی دیکھ ہی رہی تھی کہ اچانک بجتے فون نے اسکی توجہ اپنی جانب کھینچی اسنے سکرین کو نظروں کے سامنے کیا تو کرائم پارٹنر کا نام جگمگا رہا تھا اسنے مسکراتے کال کو یس کرتے کان سے لگایا تھا ،لیکن باہر بجتے تیز میوزک کی وجہ سے اسے کچھ سنائ نہیں دیا تو ہیلو کہتی بیک سائیڈ پہ آگئ، جہاں میوزک کی آواز خاصی کم تھی وہاں کوئ موجود بھی نہ تھا ..عروہ میری واسکٹ کہاں ہے؟...دوسری طرف مصروف سے انداز میں پوچھا گیا..شایان بھائ وارڈ ڈروب میں ہی ہے آپ ٹھیک سے چیک کریں ....اوکے شایان نے کہتے کال کاٹ دی،،، عروہ موبائیل سکرین اوف کرتے جیسے ہی پلٹی سامنے سے آتے فریق سے زبردست ٹکرائ تصادم اتنا زبردست تھا کہ اسکے ہاتھ سے موبائیل گر کر زمین بوس ہوچکا تھا اسنے فورن جھکتے موبائیل اٹھایا جو چکنا چور ہو کر اپنی بے قدری پہ رو رہا تھا،، اسنے اپنے قیمتی موبائیل کی اس حالت کو دیکھتے مخالف فریق کو خونخوار نظروں سے گھورا تھا جیسے سالم نگلنے کا ارادہ ہو،، اندھے ہو نظر نہیں آتا جو جانوروں کی طرح ٹکریں مار رہے ہو،،، اس سے پہلے کہ عکش معزرت کرتا اسنے ساری تمیز لحاظ بالائے تاک رکھ کر غصّے سے تیز لہجے میں کہا..وہ اور بھی کچھ سنانے لگی تھی کے عکش نی جھٹکے سے اسکا بازوں دبوچے دیوار کے ساتھ پن کیا تھا یہ جو اتنی زبان چل رہی آئیندہ نا چلے تو بہتر ہوگا تمھاری نازک طبیعت کیلئے ..شدید غصے میں کہتے آخری الفاظ اسکا گال تھپتپاتے ادا کیئے،، اک پل کیلئے مقابل کی آنکھوں میں خون اترتا دیکھ اسنے آنکھیں میچیں تھیں ہاتھ پہ گرفت اتنی سخت تھی کہ عروہ کو اپنی ہڈی ٹوٹتی ہوئ محسوس ہوئ اپنی گال پر اسکی انگلیاں محسوس کرتے اسنے جھٹ سے آنکھیں کھولی تھی وہ ہلکی سی مسکراہٹ پاس کرتا وہاں سے واک آؤٹ کرگیا،، اسکی مسکراہٹ نے جلتی پہ تیل کا کام کیا تھا،،، اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے،،، بنا ہڈی کا مینڈک،برفانی بھالو، فینسی بندر کہیں کا ،،، پیچھے وہ اسکی شان میں قصیدے پڑھتی پیر پٹکتی واپس ہال کی جانب چلی گئ،،،،

،،،،،،،،،،،

آپکی آمد کا بے حد شکریہ معاذ صاحب ہمیں سچ میں بے حد خوشی ہوئ آپکے اور عکش کے آنے سے...معظم صاحب نے معاذ صاحب سے مشکور انداز میں بغلگیر ہوتے کہا ...معاذ جہانگیر اور معَظم بزنس پارٹنر کیساتھ اچھے دوست بھی تھے...اور کیسے ہو جہانگیر معاذ ملک نے جہانگیر سے بھی گلے ملتے دریافت کیا؟میں اللہ کا شکر بلکل فٹ تم بتاؤ جہانگیر نے جواب دیتے سوال بھی کیا میں بھی بلکل ٹھیک بلکہ میں تو تمھارے گھر ہی آنے کا سوچ رہا تھالیکن کچھ مصروفیات کی وجہ سے آ نہ سکا معاز صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کوئ بات نہیں جب فرصت ملے تب آجانا تمھارا اپنا ہی گھر ہے جہانگیر صاحب سمجھتے ہوئے نرم لہجے میں گویا ہوئے،،،

،،،،،

اسلام و علیکم انکل عکش نے جہانگیر صاحب کی جانب ہاتھ بڑھاتے سلام کیا وعلیکم اسلام جہانگیر نے ہاتھ تھامتے پرجوش انداز میں سلام کا جواب دیا جہانگیر تمہاری بیٹی کہاں ہے آفس میں ملا تھا میں اس سے ماشاللہ بہت پیاری بچّی ہے معاز صاحب نے عروہ کو یاد کرتے پوچھا تھا...میں بلاتا ہوں جہانگیر نے کہہ کر اپنی نظروں کا رُخ دوسری جانب کیا تھا جہاں کچھ فاصلے پر ہی عروہ میرب کے ساتھ سیلفیاں لیتی دیکھائ دی عروہ بیٹا ادھر آئیے جہانگیر نے عروہ کو پکارا جی بابا آئ میرب کو اکسکیوز کرتی وہ انکی جانب بڑھی تھی..جی بابا بلایا آپنے۔ عکش نے عروہ کو دیکھ کر مسکراہٹ پاس کی تھی ،، اور عروہ نے اُسے دیکھ کر ایسا موں بنایا تھا جیسے کڑوا بادام کھا لیا ہو ،،، وہ اُسے بلکل اگنور کرتی جہانگیر صاحب کی طرف متوجہ تھی ،، بیٹا معاذ انکل پوچھ رہے تھے تمہارا ،،انہوں نے معاذ صاحب کی طرف اشارہ کیا جو انہوے ہی دیکھ کر مسکرا رہے تھے،، اسلام و علیکم ! انکل کیسے ہیں آپ؟؟ مجھے نہیں پتہ تھا کہ آپ آئیں ہیں ورنہ میں خود ملنے آجاتی آپ سے ،، عروہ نے سلام کرتے ہی پُر جوش انداز میں کہا تھا،،، وعلیکم سلام میں الحمدللہ ٹھیک ہوں ، آپ کیسی ہو؟ میں بھی ٹھیک ہوں،، اور کہاں مصروف ہو جو اتنے دنوں سے انکل کوئی لفٹ نہیں ،،، انہوں نے مصنوئی خفگی میں کہا ،،

ایسی بات نہیں ہے انکل بس ایمان آپی کی شادی کی تیاریوں میں ہی مصروف تھی ،، کالج بھی نہیں گئ ، جبکہ اگلے ہفتے میرے ایگزیمز بھی ہیں ،، اُس نے اپنی صفائی دیتے کہا ،،، اچھا اللّٰہ کامیاب کرے انہوں نے عروہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے نرم لہجے میں کہا ،،

آمین اُس نے بھی مسکراتے ہوئے جواب دیا ،،،،

،،،،،،،،،،،،،،

مہندی کے فنکشن سے آنے کے بعد سب چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے،،وہ بستر میں بیٹھی اپنے قیمتی موبائل کی لاش کو دیکھ رہی تھی، جو اب چلنا بھی بند ہو گیا تھا ، اب تمہارا شان و شوکت سے اس کا جنازہ اٹھانے کا ارادہ ہے کیا ؟؟؟ ،، ایمل جو کب سے اُسے موبائل کو تکتا دیکھ رہی تھی، آخر تنگ آکر بولی ،، میں چھوڑونگی نہیں اس فينسی بندر کو، ایک تو میرا موبائل توڑ دیا،،،اور مجھے اتنی سنائی بھی ،، کہیں مل جائے اُسے ڈوگ ڈوگی پر نہ نچوایا تو میرا نام بھی عروہ جہانگیر نہیں ،،،اس نے اپنے موبائل پر اُنگلیاں پھیرتے ہوئے کہا، بس کر دو یار غلطی سے ٹکرایا ہوگا ۔، ایمل نے اُسے سمجھانے کی کوشش کی، تم مل جاؤ تمہارے ٹوٹے ٹوٹے کر کے اچار ڈال دونگی میں ،، اللّٰہ کرے تمہارے سر میں جوئیں پڑ جائے تم گنجے ہوجاؤ ،، عروہ نے اُسے پھر سے بد دعاؤں سے نوازا ، اُسکی دوبارہ کینچی کی طرح چلتی زبان کو دیکھ کر ایمل نے کھینچ کر بلنکٹ سر تک أڑا تھا ،،،

،،،،،،


بیڈ پہ اپنا سرخ گولڈن کام ہوا لہنگا پھیلائے وہ کنفیوز سی کمرے کی سجاوٹ کو دیکھ رہی موتیوں کے پھولوں سے ہوئ سجاوٹ پھولوں کی دھیمی دھیمی خوشبو کمرے میں حسین منظر پیش کر رہی تھی وہ جو آنے والے لمحات کا سوچتی گھبراہٹ کا شکار تھی ہاتھوں میں سرخ بھر بھر چوڑیاں پہنے بیوٹیشن کی مدد سے کیئے گئے میک اپ میں وہ بے حد حسین لگ رہی تھی ہاتھوں کو آپس میں پیوست کیئے وہ اپنی گھبراہٹ دور کرنے کی کوشش کر رہی تھی اپنے ماں باپ کے گھر سے رخصت ہو کر وہ اپنے محرم صدام جمشید کی دسترس میں آئ تھی میرب جو کچھ دیر پہلے ہی اسے صدا کے کمرے میں بٹھا کر گئ تھی دروازہ کھلنے کی آواز پہ اسنے مزید اپنے ہاتھوں کو آپس میں رگڑا تھا جو پہلے ہی نم تھی صدام نے دروازہ لوک کرتے ساتھ سلام بھی کیا اپنے قدم اسکی طرف بڑھائے تھے جو اسکی زندگی بن چکی تھی منہ پہ نیٹ کا گھونگٹ اوڑھے شرمائ گھبرائ سی وہ سیدھا اسکے دل میں اتر رہی تھی ایمان جو اسے اپنے قریب آتا دیکھ رہی تھی ہلکی آواز میں سلام کا جواب دیتے نگاہیں جھکا گئ نے صدام پرسکون انداز میں عین اسکے مقابل بیٹھا اور اسکا گھونگٹ اُٹھایا ماشااللہ بے ساختہ اسکے منہ سے الفاظ ادا ہوئے ایمان کا شرم سے مزید سر جھک گیا یہ تمھاری منہ دکھائ سائیڈ ڈرور سے ایک مخملی کیس نکالتا اسکے سامنے کرتے گویا ہوا تھا ایمان نے جھجکتے کیس تھامتے کھول کر دیکھا تو اسکے چہرے پہ مسکراہٹ دَر آئ خوبصورت باریک نگینوں سے جَڑا بریسلیٹ صدام بریسلیٹ اسکے ہاتھ سے لیتے اسکی کلائ پہ باندھا اور جھک کر وہاں اپنے ہونٹ رکھےاجازت ہے ؟؟اجازت طلب نظروں سے اسکی طرف دیکھے استفدار کیا سر کو ہلکی سی جنبش دے کر اجازت دی تھی دوبٹا الگ کرتے وہ پورےاستحقاق سے اسکے ہونٹوں پہ جھکا تھا وہاں اپنا لمس چھوڑتا وہ پوری طرح اُسکے وجود پہ قابض ہوگیا تھا رات آہستہ آہستہ سرکتی رہی اور وہ دونوں ہی ان مسحور کن لمحات میں کھوئے رہے کہ چاند بھی شرما کر بادلوں کی اوٹ میں چھپ گیا,,,,,,

🌸🌹🌻🌼🥀🍁

تمہیں عروہ کیسی لگی ؟؟ مجھے بہت پسند ہے ،میں جہانگیر سے اس کا ہاتھ بھی مانگنے والا ہوں ،مجھے اُمید ہے وہ انکار نہیں کریگا ، معاذ صاحب نے عکش کو اپنی پسند سے آگاہ کرتے ہوئے کہا،، اُنکی بات سنتے ہی اُس نے بے ساختہ قہقہہ لگایا تھا ، ڈیڈ صرف ہاتھ مانگیں گے کچھ عجیب نہیں ہے صرف ہاتھ کا کیا کرونگا میں ، اور وہ بیچاری بھی ہاتھ کے بغیر کیا کریگی ،، عکش نے بھر پور قہقہ لگاتے ہوئے کہا ،،، انہوں نے اپنے بیٹے کی فضول بکواس پر ضبط سے ہونٹ بینچے تھے، میں سیريس ہوں عکش ملک ، میں تمہاری شادی کروانا چاہتا ہوں عروہ سے ، وہ بھی جلد از جلد کیونکہ اب میں عاجز آگیا ہوں تمہاری آوارہ گردیوں سے، نہ تم آفیس آتے ہو نہ ہی کوئی اور کام کرتے ہو ، کبھی سوچا ہے میرے بعد کیا کروگے تم ،،، تمہارے پاس رات تک کا وقت ہے مجھے جواب چائیے رات تک تم سے،، معاذ صاحب نے اور بھی سخت الفاظ کہنے سے خود کو باز رکھتے ہوئے کہا اور جانے کیلئے آٹھ کھڑے ہوئے،،، مجھے کوئی اعتراض نہیں ڈیڈ،، اُس نے جوس کا گلاس لبوں سے لگاتے ہوئے کہا،،، ٹھیک ہے پھر ہم شام میں ہی چلتے ہیں جہانگیر کی طرف ،،،جیسے آپ کی مرضی عکش نے لاپرواہ انداز میں کہا ،، معاذ صاحب اُسے ایک نظر اُسے دیکھتے ڈائننگ روم سے نکلتے چلے گئے،، اُن کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ انکا بیٹا آسانی سے مان گیا ،اور انھیں کوئی دھمکی نہیں دینی پڑی ،،

،،،

عکش نے سر کُرسی سے ٹکا کر آنکھیں موندی تھی ، اور گہری مسکراہٹ نے اس کے لبوں کو چھوا تھا ، کچھ دن اور میری ملکہ بہت جلد میرے پاس ہوگی میری سانسوں کی طرح، میں تمہاری ہری آنکھوں میں اپنا عکس دیکھنا چاہتا ہوں، تم پر تمہاری ہی سانس تنگ کرنا چاہتا ہوں، جس طرح تمہاری یادیں مجھے تڑپاتی ہیں تمھیں بھی اسی طرح تڑپانا چاہتا ہوں،، اُس نے تصّور میں اُس سے مخاطب ہوئے کہا ۔،،

،،،،

ہاتھ میں لے کر سر بیٹھا ہوں 

مولا یہ کیا کر بیٹھا ہوں

میں بھی تیرا بندہ ہوں نا

کب سے تیرے در بیٹھا ہوں

اندر باہر شور ہے میں کا

میں تو میں سے ڈر بیٹھا ہوں

اور جسکو دیکھ کر میں جی اٹھا تھا 

اب میں اس پر مر بیٹھا ہوں

،،،،،،،،،

وہ کچن میں کھڑی رات کے کھانے کی تیاری میں مصروف تھی کہ بجتے فون نے انھیں اپنی جانب متوجہ کیا ہیلو مصروف سے انداز میں فون کان سے لگاتے کہا، رابیعہ آج کچھ سپیشل بنا لینا معاز اپنے بیٹے کیساتھ تشریف لا رہا ہے، دوسری جانب جہانگیر  صاحب کی مصروف سی آواز انکی سماعتوں سے ٹکرائ خیریت ایسے اچانک کچھ کہا انھوں نے رابیعہ بیگم نے انکی آمدگی سے حیران  کچھ سوچتے ہوئے پوچھا تھا ...ہاں اسنے کہا کچھ ضروری بات کرنی ہے لیکن بتایا نہیں ..جہانگیر نے بھی اپنی جانب سے لاعلمی کا اظہار کیا...ٹھیک ہے آپ بھی آفس سے جلدی آجائیگا رابیعہ بیگم نے سمجھتے مختصر کہا ..اوکے میں آجاؤنگا آللہ حافظ فون رکھتے وہ واپس اپنے کام کی طرف متوجہ ہوگئ,..

,,,,,

آبادی سے دور یہ ایک چھوٹا سا گھر تھا جو صرف ایک ہال نُما کمرے پر مشتمل تھا اس ہال نما کمرے میں ایک ٹیبل رکھا تھا اور قریب ہی کُرسیاں تھی جس پر یونیفورن زیب تن کیئے آفیسرز براجمان تھے دفتعاً اک پہاڑ نما وجود کمرے میں داخل ہوا پاک آرمی کا یونیفورم پہنے لمبے لمبے ڈگ بھرتا  سربراہی کُرسی پر براجمان ہوا سرسری سی نظر وہاں بیٹھے تمام نفوس پہ ڈالی..

میجر عکش کی سربراہی میں میٹنگ کا آغاز ہوا سر ہماری معلومات کہ مطابق "کمال" کراچی میں ہی موجود ہے اور شاید آبنوس بھی اگر آبنوس یہاں موجود ہے تو ظرور وہ کچھ بڑا سوچ رہے ہونگے احمد نے بات کا آغاز کرتے اب تک کی حاصل کردہ معلومات سب کے سامنے رکھی ساتھ کسی خدشے سے بھی آگاہی دی عکش نے ہاتھ میں پکڑے کاغزات سے نظر ہٹا کر احمد کو دیکھ سر کو اثبات میں ہلاتے اسکی بات کی تائید کی کاغزات ٹیبل پہ رکھ کر اب وہ پوری طرح انکی طرف متوجہ ہوا تھا،بڑی مچھلی کو پھانسنے کیلئے جال بھی بڑا ہی پھینکنا پڑتا ہے دونوں ہاتھ باہم ملائے ٹیبل پہ ٹکائے زرہ جھک کہ وہاں بیٹھے تمام نفوس پہ نگاہیں گھماتے اپنی بات جاری رکھی ہم ان پر وہاں سے حملہ آور ہونگے جہاں انکے زہن و گمان میں بھی نہیں ہوگا تھوڑی دیر ٹہر کر پھر گفتکو جاری رکھی ہم اُنکی ہی صفوں میں  گھس کر اُنھیں شکست دینگے  وہ عافین عائث کی تلاش میں ہیں تاکہ عافین کو انے تابعہ کر کے مزید خون ریزی اور تباہی برپا کر سکیں پر وہ یہ نہیں جانتے عافین عائیث انکے ہی خاتمے کیلئے وجود میں آیا ہے وہ میری ہی تلاش میں ہیں مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ اب اُنکا خاتمہ قریب ہے عافین عائیث دراصل میجر عکش ہی تھا دشمن کو گمراہ کرنے کیلئے اسے عافین عائیث نام دیا گیا تھا اُنکے مطابق عاین عائیث ایک بہادر شیر تھا جسے اہنی صلاحیتوں کے بارے میں علم نہ تھا انکے مطابق عافین ایک سڑک چھاپ چور اور ڈاکو تھا مگر وہ اس بات سے بےخبر تھے کہ عافین عائیث آخر ہے کون,,,,لیکن سر ہم انکی صفوں میں شامل کیسے ہونگے ؟ ایک آفیسر نے میجر عکش سے سوال کیا آفیسر احمد تم کسی بھی طرح کمال کے زریعے ان میں شامل ہوگے لیکن یہ کام تم پوری رازداری سے کروگے ہماری ایک چھوٹی سی غلطی ہمیں کافی بھاری پڑ سکتی ہے  تم انکے ہر اقدام کی خبر ہم تک پہنچاؤگے میجر عکش نے اپنا آگے کا پلان تمام آفیسرز کے گوش گزارا...از دیٹ کلئیر اینی تھنگ؟ یس سر سب نے بلند آواز میں ایک ساتھ جواب دیا۔۔،

،،،،،،

معاذ تم نے کہا تھا کہ کوئ ضروری بات کرنی ہے سب لاؤنج میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے جب جہانگیر صاحب نےمعاذ ملک کو مخاطب کرتے پوچھا ہاں میں آج بہت اہم مقصد سے آیا ہوں تمھارے پاس امید ہے تم سوچ وچار کرکے جواب دوگے معاذ ملک نے تمہید  باندھی تھی کیسا مقصد تم کھل کے بات کرو جہانگیر نےناسمجھی سےکہا میں اپنے عکش کیلئے عروہ کو لینے کا خواہش مند ہوں اگر تمہیں کوئ اعتراض نہ ہو تو مناسب لفظوں کاچُناؤ کرتے انھوں نے اپنی بات رکھی تھی لیکن عروہ کے سر پر بم پھوڑا تھا اسکے سر پہ تو جیسے ساتوں آسمان ٹھا ٹھا کر کے گرے تھے، اسنے گردن گھما کر اپنے باپ کی جانب دیکھا جو کسی گہری سوچ میں نظر آرہے تھے پھر اسنے اپنی کینہ طوز نگاہیں عکش کی جانب اٹھائ جو اسے ہی دیکھ مسکرا رہا تھا فتح مندی سے...عروہ ایک غصے بھری نگاہ اس پہ ڈالتی سبکو ایکسکیوز کرتی ہال سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئ

دیکھو معاذ میں اتنی جلدی اور عروہ سے مشورہ کیئے بغیر کوئ بھی فیصلہ نہیں کر سکتاجہانگیر نے سہولت سے جواب دیا مجھے کچھ وقت درکار ہے انھو نے کچھ سوچتے ہوئے کہا اور ویسے بھی انکل ابھی ہم نے اس بارے میں سوچا نہیں عروہ ابھی اس زمیداری کیلئے بہت چھوٹی ہے ابھی اسکی پڑھائ بھی مکمل نہیں ہوئ ہے ازہان نے بھی گفتگو میں حصہ لیتے کہا میں سمجھ سکتا ہوں بیٹا لیکن  میں فلحال منگنی یہ نکاح چاہتا ہوں رخصتی جب عروہ چاہے تبھی ہوگی ہمیں اسکی پڑھائ سے کوئ دکّت نہیں ہے  اور رہی بات عروہ کی مرضی کی تو ضرور مشورہ کرو باقی کے معاملات عروہ کی مرضی سے ہی طے ہونگے آپ سب آپس میں مشورہ کرلیں پھر ہمیں جواب دیں انھوں نرمی سے اپنی بات کہی جہانگیر میں نے بہت مان سے تم سے کچھ مانگا ہے  امید ہے مجھے سوچ سمجھ کر مثبت جواب دوگے،،،

،،،

وہ تیزی سے چلتی اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہی تھی، انسوں بارش کی مانند اُس کی آنکھوں سے رواں تھے،، کمرے کے اندر قدم رکھتے ہی اُس نے کمرے کا دروازہ بند کر کے اس سے اپنی پشت ٹکاي تھی ،،اور انسووں سے سے لدی آنکھیں موندی تھیں، ایک گہرا سانس لے کر اُس نے آنکھیں کھولیں تھی ، آنسو ابھی تک رواں تھے ، اُسے بار بار عکش کا مسکراتا ہوا چہرہ یاد آرہا تھا، اُسے لگ رہا تھا جیسے وہ اُسی پر ہنس رہا تھا،  فینسی بندر میں نے تمہارا جینا نہ حرام کر دیا تو کہنا ،، بہت شوق ہے نہ تُمہیں مجھ سے شادی کا سر پکڑ کر نہ روئے تو کہنا، عروہ نے گالوں سے آنسو صاف کرتے خلا میں دیکھتے عزم سے کہا ۔،،

،،،،،،،

عکش اچھا لڑکا ہے ہمارے پاس انکار کا کوئ جواز بھی نہیں لاؤنج کی خاموشی کو جہانگیر صاحب کی گھمبیر آواز نے توڑا ہمم مجھے بھی کوئ اعتراض نہیں ہے رابیعہ بیگم نے بھے انکی بات کی تائید کی لیکن مما بابا ابھی بہت چھوٹی ہے شایان جو دوستوں کیساتھ باہر تھا گھر آکر اُسے جب اس بات کا علم ہوا تو اُسنے اس رشتے سے فلوقت مخالفت ظاہر کی.... شایان  ابھی ہم صرف منگنی کی رسم ادا کرینگے رخصتی نہیں کر رہے رابیعہ نے بیٹے کی عروہ کیلئے فکر کو  سمجھتے سمجھانے کی کوشش کی .... تمہارا کیا خیال ہے ازہان؟ جہانگیر صاحب اپنے دوسرے صاحب زادے کو متوجہ کرتے اُسکی بھی رائے جاننی چاہی جو کسی گہری سوچ میں مبتلا تھا  بابا مجھے بھی عکش یا اسکی فیملی میں ایسی کوئ خامی نظر نہیں آئ جسے انکار کی وجہ بنا کر پیش کیا جائے لیکن پھر بھی آپ ایک بار عروہ کی رضامندی پوچھ لیں پھر ہی کوئ فیصلہ لیں ازہان نے  بھی اپنی رائے سے آگاہ کیا ٹھیک ہے پھر رابیعہ آپ عروہ سے بات کریں جہانگیر سامنے بیٹھی اہنی زوجہ کو مخاطب کرتے کہا،جس ربیعہ بیگم نے اس اثبات میں سر ہلایا تھا،،،

لاؤنچ کے باہر کھڑی سنتی عروہ نے  اپنی آنکھیں میچی تھیں، تو یعنی بابا ماما بھائی سب ہی راضی ہیں ،،، میں ان سب کے فیصلے کی خلاف ورزی کیسے کر سکتی ہوں ،،، 

میں انکار کر کے ان سب کا مان نہیں توڑ سکتی ،،، عروہ نے ٹھنڈے دماغ سے سوچا تھا،،،، 

🌼🌻🌹🌸🥀🍁

،،،،،،،،،،،،،


آج تو بڑے بڑے لوگ آئے ہیں ہمارے گھر خیر تو ہے کہیں نئ نویلی بھابھی نے گھر سے بے دخل تو نہیں کر دیا جو انھی کہ میکے میں تشریف لے آئ ہو... احمد نے بھرپور اداکاری کے ساتھ شوخ انداز میں لاؤنج میں داخل ہوتے میرب کو چھیڑا ...وہ جو دوسری جانب رخ کیئے ایمل کیساتھ شادی کی تصویرے دیکھنے میں مصروف تھی احمد کی آواز پر اپنا رخ اسکی جانب کیا....احمد باز نہیں آؤگے نہ ،،، وہ جو جوای کاروائ کرنے لگی تھی نازش کو بیچ میں بولتا دیکھ چپ ہوگئ .... ،،،ارے مام میں تو ایسی ہی پوچھ رہا تھا میرب سے احمد نے بولتے ہوئے نظریں میرب کی جانب مرکوز کی...،،جو اسے غصے سے گھور رہی تھی ...لائیٹ سے پرپل رنگ کے سادہ سے سوٹ میں بھی غضب ڈھا رہی تھی...آپکو میرے آنے سے کوئ پروبلم ہے کیا؟یہ میری خالہ جانی کا بھی گھر ہے میرا جب دل کریگا میں آؤنگی ،، بظاہر تو اسنے چہرے پہ مسکراہٹ سجا کر کہا تھا لیکن احمد کو اسکا لہجہ کاٹدار ہی لگا.....جی جی بلکل جب دل کرے آؤ جاؤ بلکہ میں تو کہتا ہوں ہمیشہ کیلئے یہیں آجاؤ اپنا بوریہ بستر اٹھا کر احمد نے شوخ لہجے میں خشمگیں نظروں سے دیکھتے کہا... ، اسکے غیر متوقعہ جواب پر اسکے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی شرم سے لال ہوتی وہ اپنی نظروں کا زاویہ بدل گئ تھی...اسکی اس حرکت پہ وہ دلکشی سے مسکرایا تھا..

مام میرا بیگ پیک کردیں میں دوستوں کیساتھ جا رہا ہوں احمد نے بھی رُخ بدلتے مزید اسے تنگ کرنے کا ارادہ ترک کرتا نازش بیگم سے مخاطب ہوا ساتھ موبائیل پہ کچھ ٹائپ بھی کر رہا تھا ....کیوں کہاں جا رہے ہو نازش بیگم نے متوجہ ہوتے استفسار کیا...مما ترکی جا رہے ہیں آؤٹنگ کیلئے اسنے جلدی سے جواب دیا ...آفس سے لیو لی ہے تم نے؟انھوں نے پھر سوال کیا ...جی مام لے لی ہے مختصر سا جواب...نازش بیگ کو اپنے اکلوتے سپوت پر بے حد فخر تھا جس نے اپنے ملکِ عزیز کا سپاہی بننا اپنے لیئے چنا تھا......

،،،،،،،،

وہ بیڈ میں اوندھی لیٹی جنت کے پتے پڑھنے میں مصروف تھی ، جب دروازہ کھٹکٹاتی رابیعہ بیگم اندر داخل ہوئیں ، انھیں کمرے میں داخل ہوتا دیکھ عروہ سیدھی ہو کر بیٹھی تھی،، کیا کر رہی تھی میری شہزادی اسکے پاس بیٹھتی وہ شیریں لہجے میں گویا ہوئ ،، ناول پڑھ رہی تھی مما اسنے اپنی ماما کی گود میں سر رکھتے نارمل لہجے میں جواب دیا مجھے کچھ بات کرنی ہے اپنی بیٹی سے بالوں میں ہاتھ چلاتے انھوں نے اپنی بات کا آغاز کیا جی ماما کہیں میں سن رہی ہوں، آنکھیں موندتے اسنے اجازت دی وہ سمجھ چکی کہ وہ کیا بات کرنے والی ہیں ، عروہ تمھیں معلوم ہے نہ کہ معاز انکل تمھارے لیئے عکش کا پروپوزل لائے ہیں... تمھارا کیا جواب ہے اس بارے میں دیکھوں اگر کوئ اعتراض ہے تو تم کھل کے مجھے بتا سکتی ہو کسی قسم کی کوئ زبردستی نہیں کی جائے گی .... مجھے کوئ اعتراض نہیں ماما ،،جو آپ سبکا فیصلہ ہوگا مجھے منظور ہے کچھ دیر خاموشی کے بعد اسنے جواب دیا ،،،، شاباش میری جان مجھے پورا یقین تھا تم کبھی ہمارا مان نہیں توڑوگی ،،خوشی سے کہتی وہ اسکا ماتھا چومنےلگیں ،، اور وہ اٹھ کر واشروم میں بند ہوگئ رابیعہ اسکے اس رویہ کو اسکی جھجک سمجھتی کمرے سے نکل گئیں،،،،

،،،،،،، وہ اپنے کمرے کی راکنگ چیئر پر بیٹھا ، تصویریں دیکھ رہا تھا، ایک کے بعد دوسری اور پتہ نہیں اُس نے کتنی ہی سگریٹ پھونک لی تھی، پر شاید اُسکے دل پر لگی آگ زیادہ تھی ، جب سے اُسے پتہ چلا تھا کہ اب وہ کیسی اور کا نصیب بننے جا رہی ہے ،،،، وہ اکیلا اسی پوزیشن میں بیٹھا تھا ، اُسکا بس نہیں چل رہا تھا وہ کچھ بھی کر کے اپنے دسترس میں لے لے پر وہ مجبور تھا،، افسردہ تو نرمین بیگم بھی تھیں ، پر اپنے جوان بیٹے کو دیکھ کر انکا دل کٹ رہا تھا ، وہ خاموش بیٹھا اُسکی زندگی سے بھر پور مسکراتی ہوئی تصویر دیکھ رہا تھا، ایک آنسو کا قطرہ موبائل کی اسکرین پر گرا تھا، پھر جانے کتنے ہی قطروں سے اسکرین بھری تھی ، وہ خود پر ضبط کرنا چاہتا تھا پر وہ کیسے کرتا ؟؟ ، اُسکی خاموش محبت کو خاموش موت مار دیا گیا تھا، وہ رونا چاہتا تھا ، پھوٹ پھوٹ کر ، اور وہ رو رہا تھا ، کاش میں چھپا دیتا تُمہیں دنیا کی نظروں سے پر میں نے کھو دیا ،،، اُس نے اسکرین پر اُنگلیاں پھیرتے ہوئے کہا ،،، دروازہ بجنے کی آواز اُس کے کانوں سے ٹکرائ ،،، اُس نے جلدی سے اپنی آنکھیں صاف کی تھیں ،، تصویر کو ایک آخری نظر دیکھ کر موبائل سائڈ رکھتے ،، وہ دروازے کی طرف بڑھا تھا ،

جہاں ذرمین بیگم فکر مند اُسکی ہی منتظر تھیں ،، جی مام کہیں ! اُس نے اپنی آواز کو قدرے نارمل کر کے کہا ،، بات کرنی ہے تم سے بیٹھو زمین بیگم حسنین کو لیے ، بیڈ پر بیٹھیں ، حسنین ،، انہوں نے اُسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا ، جی مام ،، اُس نے نظریں نیچے رکھتے ہی جواب دیا ،،، میری طرف دیکھو بیٹا ! ،، انہوں نے اُسے دیکھتے دوبارہ کہا ،، اُس نے اپنی لال سرخ آنکھیں اٹھا کر اپنی ماں کو دیکھا ،، بس پھر اب اُس کا ضبط ٹوٹا تھا ، وہ انکی گود میں سر رکھکر ، پھوٹ پھوٹ کر بچوں کی طرح زار و قطار رونے لگا ،،

حسنین ! ،،،

مُشکلیں اپنا حل ساتھ لے کر آتی ہیں ،بس انسان کو اللّٰہ پر بھروسہ ہونا چاہئے، وہ چاہے تو کیا نہیں ممکن اور اگر نہ چاہے تو کیا کرے کوئی ، بیٹا اللّٰہ کہہ چکا ہے ، تم چه بھی نہیں سکتے جب تک میں نہ چاہوں ، تو مان لو ، اُس نے چاہا ہے ایسا ہونا تبھی وہ تُمہیں یہاں تک لایا ہے نہ ، یقین رکھو ، جو تمہارا ٹوٹا دل ہے ، اللّٰہ کے کن سے سنبھال جائے گا، اللّٰہ کو اختیار ہے وہ جو چاہے کرے ،،، میری جان اللّٰہ کبھی دوسرا در کھولے بغیر پہلا در بند نہیں کرتا ، نرمین بیگم نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا ۔،،،، پر مام دل کسی پر آنے سے پہلے یہ نہیں دیکھتا کہ یہ شخص نصیب میں لکھا ہے کہ نہیں ،،، اُس نے بھیگی آواز میں کہا ،، اُسکی حالت دیکھکر نرمین بیگم کے دل کو کچھ ہوا تھا ، پر پھر بھی انہوں نے اپنی بات جاری رکھی ،،

صبر کرو بیٹا ، صبر کوئی کمزوری نہیں ، طاقت ہے ، جو ہر کسی کے پاس نہیں ہوتی ، ۔ پریشانیاں ہر ایک کی زندگی میں ہیں ، کوئی بھی پرفیکٹ زندگی نہیں گزار رہا ، بس فرق وہاں اتا ہے ، جب انسان اپنے معاملات اللّٰہ کے حوالے کر دیتا ہے ، ۔۔۔

لہجے میں نرمی ہو تو الفاظ شفا دیتے ہیں ، جسطرح نرمین بیگم کے الفاظوں نے اُسے پُر سکون کر دیا تھا ،،

مجھے دُکھ ہے ، مگر پھر بھی، میری دعا ہے کہ تم آباد رہو ،، اُس نے دل میں ہی اُس سے مخاطب ہوتے کہا ، اور آنکھیں موندی تھیں ،،۔۔

،،،،،،،

کیسی مزار پر پوری نہیں ہوئی منت میری ،،

خدا نے دینا نہیں تھا ، نہیں دیا وہ شخص ۔

،،،،،،،

ایک درمیانی عمر کا آدمی، دونوں ہاتھوں میں لوہے سے بنے صندوق اُٹھایے آگے بڑھ رہا تھا ، احمد اور اُس کی ٹیم کی نظر اُس شخص پر ہی مركوز تھی ، کیونکہ یہ شخص ہی، کمال، تھا ، ان سب کا ہدف ،،، وہ عام لوگوں کے ہوليے میں وہاں موجود تھے ، یہ کراچی کی مصروف ترین سڑک تھی ، مصروف ترین سڑک ہونے کے باعث کمال کو شک بھی نہ ہوا کہ وہ کسی کی نظروں میں ہے ،، وہ اسلحوں سے لدی صندوق لیے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھا ، اُسے ڈر تھا کہ کسی کو اُس پر شک نا ہو اس لیے یہ کام وہ رازداری سے اکیلا ہی انجام دے رہا تھا ، ابھی وہ گرنے ہی لگا تھا کہ پیچھے سے آتے شخص نے اُسے بر وقت تھاما ، وہ تو گرنے سے بچ گیا تھا ، پر اُس کے صندوق گر کر زمین بوس ہوگیے تھے،،، صندوق پر تالے لگے ہونے کی وجہ سے صندوق تا ہم بند تھے،،، کیا آپ ٹھیک ہیں ؟؟ اُسے تھامنے والے شخص نے فکر مند لہجے میں پوچھا ،،،

ہاں میں ٹھیک ہوں...بس زرا چکر آگیا تھا..

کمال نے سمبھلتے ہوئے فوراً کہا,,,

اچھا آئیں میں آپکی مدد کردیتا ہوں

احمد نے مدد کیلئے ہاتھ بڑھاتے کہا اسنے آس پاس نظر گھمائ تو سب اپنے کاموں میں مشغول تھے اسنے سر کی ہلکی سی جمبش دیتے احمد کا آگے بڑھا ہوا ہاتھ تھاما,,تمہارا نام کیا ہے؟کمال نے ساتھ چلتے احمد سے پوچھا

میرا نام احمد ہے اسنے مسکرا کر اپنا نام بتایا,,,

اچھا کرتے کیا ہو؟ اسنے پھر سوال کیا ....

دراصل میں کام کے سلسلے میں ہی خوار ہورہا ہوں پر کوئ ایسی نوکری مل ہی نہیں رہی جس سے میرے مالی مسائیل حل ہوسکیں اب تو غربت سے میرے گھر میں فاقے کی نوبت آگئ ہے ، احمد نے چہرے پر مسکینیت طاری کرتے ہوئے کہا,,,

تو تم کس طرح کا کام چاہتے ہو کمال نے بغور اسے دیکھتے یوئے سوال کیا,,

کسی بھی طرح کی ہو بس میرے مالی مسائل حل کردے احمد نے پریشان سے لہجے میں عاجزانہ کہا,,,

اچھا میں تمہیں کام پر رکھ سکتا ہوں لیکن ابھی تن جاؤ اگر تم میرے کام کے لیئے مناسب ہوئے تو میں تمہیں بلوا لونگا,,,,

اسنے کچھ سوچتے آنکھوں میں عجیب تاثرات لیئے کہا پر تم تو مجھے جانتے ہی نہیں تو بلواؤگے کیسے اسنے نا سمجھی سے پوچھا,,,,

وہ تمہارا مسئلہ نہیں کمال نے کچھ سنجیدہ لہجے میں کہتا آگے بڑھ گیا,,,,

احمد بھی اپنی نئ رہائش گاہ جانے کا اردہ کرتا آگے بڑھ گیا,,,,


" کمال اتنا بےوقوف نہیں تھا کہ بنا سوچے سمجھے کسی انجان شخص کو اپنے ساتھ کام کرنے کی دعوت پیش کرتا وہ احمد کے متعلق معلامات لے کر ہی اسے اپنے کالے دھندے میں شامل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا ۔،،،،اس بات سے بے خبر ،، یہیں سے انکی تباہی کی شروعات ہونی ہے"،،،،،

،،،،،،،،،

🌸🌹🥀🍁🌼🌻

پیچ رنگ کی ٹخنوں کو چُھوتی میکسی جسکے نیک پہ باریک نگینوں کا ہوا تھا ہاتھوں میں ہم رنگ بریسلیٹ ہم رنگ دوپٹا جسے سلیقے سے سر پہ سیٹ کیا گیا تھا تیکھے نقوش جو ہلکے سے میک اپ کی مدد سے مزید نکھر گئے تھے چھوٹی سی ناک جو آج معمول سے زیادہ سرخ تھی شاید غصے سے اپنے باریک کٹاؤ دار ہونٹوں گلابی لپسٹک سے سجائے عکش کے پہلو میں بیٹھی وہ آسمان سے اتری کوئ پری معلوم ہورہی تھی ,,,,


سفید کاٹن کا سوٹ اسپے بلیک ویسکوٹ پہنے سرخ رنگت کھڑی مغرور ناک چہرے پہ فتح مندی جیسی مسکراہٹ سجائے وہ بھی کسی شہزادے سے کم نہیں لگ رہا تھا ,,,,,


آج معاذ صاحب کی درخواست پر گھر میں ہی منگنی کی چھوٹی سی تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا,,,

جس میں محض گھر کے ہی افراد شامل تھے....


اللہ ہر بُری نظر سے بچائے تم دونوں کو معاذ صاحب نے شفقت سے عروہ کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہلکی سی مسکراہٹ سجائے دل دے دعا دی...جس پہ جہانگیر اور رابیعہ نے بھی مسکراتے آمین کہا,,,,


عروہ اپنا ہاتھ آگے بڑھاؤ رابیعہ نے آگے بڑھتے سرگوشی میں کہا تھا,,,, پہلے عکش نے عروہ کے نرم و ملائم ہاتھ میں انگھوٹھی پہنائ تو تالیوں کی آواز پورے ہال میں گونجی ,,,,,


عکش نے اپنا ہاتھ آگے کیا تو عروہ نے جھٹ سے اسمے انگھوٹی پہنا کے ہاتھ پیچھے کرلیئے جیسے عکش کو کرونہ وائرس ہوا ہو ,,,,


عکش اسکی اس حرکت پر منہ نیچے کی جانب جھکائے ہونٹوں زور سے بھینچے اپنی ہنسی کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن عروہ اسکا ظبط سے سرخ ہوتا چہرہ دیکھ چکی تھی اور اپنی حرکت پر من ہی من میں خود کو ملامت کی,,,,


وہ آج بہت خوش اسے اپنے پہلو میں پاکر جیسے زندگی تمام خوشیاں اسکی جھولی میں آگری ہوں ایسے بھی کچھ خوشیاں ہمارا نصیب بنتی ہیں جن کے بارے میں ہم محض سوچتے ہیں اور خدا بن مانگے ہی ہمیں وہ عطا کرتا ہے کیونکہ وہ دلوں کا حال جانتا ہے جو ہمیں ستر ماؤں سے زیادہ چاہتا ہے جو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے,,,,


منگنی کی رسم پر سکون ماحول میں ادا کی گئ اور سب خوش گپیوں میں مصروف ہوگئے,,,,


عروہ عکش پر ایک کاٹدار نظر ڈالتی اٹھ کھڑی ہوئ اور اپنے روم کی راہ لی کیونکہ عکش کو خود کی حالت پہ ہنستا دیکھ اسکے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا ,,,,,


کچھ دیر بعد عکش بھی سب پر اک نظر ڈالتا جو سب ہی اپنی باتوں میں مصروف تھے سبکی نظروں سے بچتا وہ عروہ کے روم کی جانب بڑھا جب راستے اسے رابیعہ نے جا لیا کہاں جا رہے ہو بیٹا کچھ چائیے تھا تو کسی سے کہہ دیتے آپنے خود کیوں زحمت کی؟

ارے نہیں آنٹی مجھے دراصل واشروم یوز کرنا ہے رابیعہ کو اچانک اپنے مقابل پاکر وہ اک پل کیلئے سٹپٹا گیا تھا لیکن بھلا ہو اسکے شاتر دماغ کا جسے بروقت بہانا سوج گیا ,,,,


اووو اچھا اس طرف ہے رابیعہ نے سامنے کی طرف اشارہ کرتے اسے جانے کا راستہ دیا ,,,,


شکریہ ادا کرتا آگے بڑھا کچھ دور جا کر اسنے پیچھے مڑ کر رابیعہ کو لاؤنج کی طرف جاتے دیکھ تسلی کی اور واپس اپنی دشمنِ جان کے کمرے کی طرف قدم اٹھائے ,,,,,


باتھروم کا دروازہ کھولتے وہ سادہ سے لون کے سوٹ میں نکھری نکھری سے باہر آئ تو سامنے ہی اسے وہ ٹانگ پر ٹانگ جمائے اپنے بیڈ پہ بیٹھا نظر آیا وہ جو مسلسل دروازے پہ نگاہ جمائے شاید اسی کے انتظار میں تھا اسے باہر نکلتا دیکھ ساکت ہوا تھا صاف شفاف چہرے پہ ننھی سی پانی کی بوندیں بہت حسین منظر پیش کر رہی تھیں,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,

*********


تم یہاں کیا کر رہے ہو دونوں ہاتھ کمر پہ ٹکائے لڑاکا عورتوں کی طرح آنکھوں میں غصہ سجائے پوچھ رہی تھی ,,,

تمہیں دیکھنے آیا تھا,,,,

مسکرا کر کہتا آنکھوں میں شرارت لیئے اسکی جانب قدم بڑھائے,,,

کیوں کبھی انسان دیکھے نہیں کیا تم نے ااے اپنی جانب آتا دیکھ وہ کچھ گھبرائ تھی لیکن جلد خود کو کمپوز کرتے پھر سے تیز لہجے میں گویا ہوئ,,,


اہاں انسان تو بہت دیکھیں ہیں پر میرا نادان دل تم جیسی بندری کو دیکھنے کا خواہشمند تھا تو چلا آیا اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کے,,,

جان نثار کردینے والی مسکراہٹ کیساتھ وہ کہتا عین اسکے مقابل آکر رُکا ,,,,


عروہ کو اپنی شان میں لفظ بندری شدید ناگوار گزرا تھا اسکی چھوٹی ناک غصے سے سرخ ہونے لگی اسکا دل کیا اسکا منہ نوچ لے ,,,,


اور تم کیا ہو معلوم ہے؟ اپنا غصہ کنٹرول کرتے اسنے طنزیہ مسکراہٹ چہرے پہ سجائے کہا ,,,,


مینڈک گدھے اور عجیب و غریب قسم کا برفانی بھالو اک پل کیلئے وہ رکی.....

اور اسکے چہرے کے تاثرات بدلتے دیکھے جو اب غصے میں تبدیل ہوچکے تھے ,,,,

اور پتا ہے کیا وہ پھر سے گویا ہوئ,,,

فینسی بندر اب تپنے کی باری عکش کی تھی آئیندہ مجھسے پنگہ لینے کی کوشش بھی مت کرنا,,,,,


***********


تم کون ہو ؟ کیوں لائے ہو مجھے میں نے کیا بگاڑا ہے تم لوگوں کا ؟؟

صبر رکھو تمہیں سب پتہ چل جائے گا ،،

اُن میں سے ایک نے اُسے بار بار یہی سوالات دہراتا دیکھ آخر تنگ آ کر کہا ,,,,

وہ ہونقوں کی طرح اُن سب کو دیکھ رہا تھا ،,,,,

بڑی بڑی کلاشن تھامے کھڑے لمبے چوڑے قد آور جسامت کے حامل آدمی وہ شکل سے آدم خور لگ رہے تھے ،،,,,

احمد اُنہے دیکھتا جھرجھری لے اٹھا ، اور داخلی دروازے کی طرف متوجہ ہوا,,,,

جہاں سے اُسے کسی کا سایہ اندر آتا دیکھائی دیا,,,

وہ سایہ چلتا ہوا اس پر ایک سرسری سی نظر ڈالتا صوفے پر جا بیٹھا,,,

اور سگریٹ سلگانے لگا ،،

اُس کے اُنگلی کی مدد سے بولانے پر ،، وہ دونوں فرد جو احمد کو زبردستی گن پوائنٹ پر یہاں لائے تھے ، کالر سے اُسے دبوچتے ، گھسیٹتے ہوئے صوفے سے کچھ فاصلے پر گھٹنے کے بل بیٹھا کر خود پیچھے جا کھڑے ہوئے ,,,

احمد خاموشی سے وہاں بیٹھ گیا ،،،

یہ سب کیا ہے کمال صاحب یہ سب کون ہیں ؟؟

اُس نے پریشان کن آواز میں ادھر ادھر دیکھتے سامنے صوفے پر براجمان مخالف فریق سے سوال کیا ،،،

کمال نے سگریٹ کا آخری کش لیتے ایش ٹرے میں سگریٹ مسلا ،،،اور اُس کی طرف متوجہ ہوا ،،،

تُمہیں نوکری چاہئے تھی نہ؟؟ میرے پاس نوکری ہے تمہارے لئے ,,,

اگر تم کرنا چاہو تو ، ورنہ وہ رہا جانے کا راستہ، ٹھنڈے ٹھار لہجے میں کہتا وہ اب احمد کو بغور دیکھنے لگا,,,

کام کیا ہے ؟ ،کچھ دیر کے توقوف کے بعد وہ بولا ،،

اُس کے سوال پر ، کمال نے ایک مکروہ قہقہ کمرے گونجا ،، تمھیں یہ سوٹ کیس میری بتائی گئ جگہ پر پہنچانا ہے,,,

اُس نے سوٹ کیس کی سمت اشارہ کرتے ہوئے کہا,,,

مجھے کیا ملے گا اس سے ؟

اسنے سوٹ کیس کی جانب دیکھتے اپنے مطلب کی بات کی,,تمہیں اتنا ملے گا کہ تمہارے مسائل حل ہو جائینگے ,, اُس نے زہریلی مسکراہٹ سے جواب دیا,,,، اس میں ہے کیا ؟ احمد نے سوٹ کیس ہاتھوں میں اٹھائے نہ سمجھی سے پوچھا ,,,

تُمہیں اُس سے مطلب نہیں ہونا چاہئے کہتے ہی باہر کی طرف جانے کا اشارہ کیا ،،

،،،،،

کمال احمد کی معلومات حاصل کر چکا تھا ،اُس کی معلومات کے مطابق احمد ایک غریب گھرانے سے تھا، جو اپنے بچوں کے پیٹ پالنے کے لئے نوکری کی تلاش میں تھا ، پر ہر جگہ سے اُسے فارغ کر دیا جاتا ،،

،،،،،،،،


وہ کالج کیفے ٹریا میں بیٹھی نوٹس بنانے میں مصروف تھی ، ایمان کی شادی کی وجہ سے اُس کی پڑھائی کا کافی لوس ہوگیا تھا ، ،، کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں ؟ مردانہ آواز پر اُس نے نظریں اٹھا کر دیکھا ، تو اپنے کلاس فیلو ، وارث خان کو کھڑا پایا ، ،،

کیا میں کُرسی ٹیبل گھر سے لے کر آئی ہوں ؟؟ عروہ نے اُسکے سوال کو نظر انداز کر ہاتھوں میں پین گھماتے سوال کیا ،،، نہیں ،، تو پھر میری بلا سے جہاں مرضی بیٹھو ،،، اُسے جواب دیتی وہ دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہوگئی ،، ہمم یہ بھی ہے ، وہ بھی مسکراتا ہوا بیٹھ گیا ، مجھے آپ سے بات کرنی ہے ، وارث نے اُسے نوٹ بک پر تیزی سے لکھتے دیکھ کر کہا ،،، کہو ،، مختصر جواب دیا گیا,,,

کیا آپ کے قیمتی وقت سے دس منٹ دے سکتی ہیں مس عروہ ، وارث نے اُسے دیکھتے ہوئے کہا ،، کہو،، اپنے ہاتھ میں پکڑا پین بک میں پٹکتی اُس کو دیکھنے لگی ،، کہو بھی اب یا کسی موہرت کا انتظار میں ہو ؟ اُسے خاموش خود کو تکتا دیکھ نہ پسندیدگی سے کہا ،، دراصل میں آپ کو پسند کرتا ہوں ، اپنے والدین کو ،،ایک منٹ ابھی وارث ہمت جمع کرتا بول رہا تھا ، اُس نے اُنگلی اُٹھا کر اُسے روکا ،، مسٹر وارث خان شاید آپ کو علم نہیں ، پچھلے ہفتے ہی میری منگنی ہو چکی ہے ،،،اپنا ہاتھ آگے کرتی جسمے عکش کے نام کی انگھوٹی پوری آبُ تاب کے ساتھ چمک رہی تھی اسے دیکھتی اپنا سامان سمیٹتی وہ ایک ایک لفظ چبا کر بولتی جانے کے لئے پلٹی,, اچھا آپ میری بات تو سنیں منگنی ہی تو ہوئ ہے شادی تو نہیں حارث نے اسکی کلائ تھامتے کہا ,,,,

چٹاخ.....کی آواز کیساتھ اسکے نازک ہاتھ کا تھپڑ مقابل کے گال کی زینت بنا,,,,

آئیندہ مجھے چھونے کی غلطی بھی مت کرنا,,,غصے سے کہتی وہ وہاں سے واک آؤٹ کر گئ,,,

پیچھے وارث اُسے لب بھینچے جاتا دیکھ ہاتھ مسلتا رہ گیا ،، بہت آکڑ ہے نہ تم میں ، پر تم مجھے بھی جانتی نہیں مس عروہ ,,, ہاتھ اٹھا کر اچھا نہیں کیا پہلے تو تم وارث خان کی محبت تھیں پر اب ضد ہو ، دیکھو کرتا کیا ہوں میں ،، وہ غصے میں ہاتھ کا مکا بنا کے ٹیبل پہ مارتا اسے مخاطب ہوا،،

✨🥀🌻🌸🌼

اسکا آج آخری پیپر تھا وہ ابھی پیپر سے فارغ ہوکر گھر ہی جا رہی تھی کہ اسکی گاڑی کے سامنے ایک سفید رنگ کی وین آکر رکی....


"" جمعہ ہونے کے باعث آج سڑک کچھ سون سان تھی کیونکہ اس وقت جماعت کا وقت تھا""


وین سے دو نقاب پوش ہاتھ میں گن تھامے اسکی جانب بڑھے وہ ابھی اپنی گاڑی ریورس کرنے لگی تھی کہ ایک ہی جست میں اس تک پہنچتے دروازہ کھول چکا تھا,,,


اےےےےلڑکی کوئ ہوشیاری نہیں ورنہ ساری گولیاں تیرے بھیجے میں ڈال دونگا چل.نکل باہر,,,


خباثت سے کہتا اسپے گن تان کیا ,,,


عروہ جو انھیں گنڈے سمجھ رہی تھی اپنا پرس اٹھائے اعتماد بہال کرتی باہر نکلی ,,,,


ابھی وہ ٹھیک سے کھڑی بھی نہیں ہوئ تھی کہ پیچھے دوسرے نقاب پوش آدمی نے اسکے منہ پہ کلوروفوم سے تر رومال رکھا وہ تھوڑا مچلی لیکن کچھ ہی سیکنڈ میں ہوش و خرد سے بیغانہ ہوگئ,,,,


**********

عکش آفیس میں بیٹھا ، پریزنٹیشن بنانے میں مشغول تھا ، کہ اچانک بجتے فون نے آفیس روم کی خاموشی کو توڑا ،،، اُس نے ایک نظر اسکرین پر ڈالتے فون کان سے لگایا ،،،


بولو ظفر کیا ہوا میڈیم ٹھیک ہیں؟

اُس نے اپنی بنائی پریزنٹیشن کے پوائنٹس پر پین سے دائرہ بناتے مصروف سے لہجے میں پوچھا,,,,


پر دوسری طرف سے دی گئی خبر سے جیسے اُس کے پیروںں کو نیچے سے زمین کھسکی تھی,,,

وہ اٹھ کھڑا ہوا تم لوکیشن نکالنے کی کوشش کرو ، کچھ بھی کر کے ،،،

فاسٹ ، ظفر کو ہدایت دیتاوہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا اپنے کیبن سے نکلا ،، آس پاس کے لوگ حیرانی سے اُسے جلدی میں جاتے دیکھتے رہے ، پر کیسی میں اُسے مخاطب کرنے کی جرات نہ تھی,,,

وہ اپنے مضبوط قدم اٹھاتا ، اپنی گاڑی میں بیٹھا اور زن سے بھگا کر ملک انڈسٹری سے نکلتا چلا گیا,,,,


تُمہیں كون اغوا کر سکتا ہے ؟؟ کس کی اتنی جرات ہے کہ وہ عکش ملک کی عزت پر وار کرنے کوشش کرے؟؟

اُس کی آنکھیں ایسی ہوگئی تھیں جیسے ابھی ان میں سے خون رسے گا,,,

وہ بھپرا ہوا شیر لگ رہا تھا، گاڑی کے ہینڈل پے ہاتھ مارتے وہ اپنا غصہ ضبط کرنے کی کوشش کر رہا تھا،،

وہ جانتا تھا غصہ انسان کی عقل کو کھا جاتا ہے ،، اس لئے خود کو پُر سکون کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا ،،،


**********

اپنی موندی موندی آنکھیں وا کرتی وہ خود کو ہوش میں لانے کی کشش کر رہی تھی,,,

لیکن سر میں اٹھتی درد کی شدید لہر سے اسے مشکل ہیش آرہی تھی دونوں ہاتھوں سے سر تھامے وہ اٹھ بیٹھی اپنے حواس بحال کرتی ارد گرد کا جائزہ لینے لگی طرح طرح کی سوچیں اسکے دماغ کو ماؤف کر رہی تھی خود کو کنگ سائیز بیڈ پہ پاکر اسے عجیب خدشات لاحق ہو رہے تھے


""کمرے میں ضرورت کی تقریباً تمام چیزیں موجود تھی لیکن اسے کہاں کسی چیز کی پڑی تھی""


وہ تقریباً بھاگتے ہوئے دروازے کی جانب بڑھی لیکن قریب سے کسی بھاری قدموں کی آواز سنتے اسنے نگاہ کسی ہتھیار کی تلاش میں گھمائ تو بیڈ ہہ ہی اسے اپنا بیگ پڑا دکھائ دیا اسنے جھٹ بیگ اٹھاتے اس میں سے ایک بوتل نکالی دکھنے میں کوئ اسپرے معلوم ہوتا تھا ,,,


،،،،،،،


اب قدموں کی آواز بے حد قریب تھی خود کو مظبوط ظاہر کرتی وہ آنے والے وقت کیلئے خود کو تیار کر رہی تھی,,, قرآنی آیتوں کا ورد کرتی وہ خود پہ پھونک رہی تھی...

جب دروازہ کھولتے وہ شخص اندر داخل ہوا اسے دیکھ اسکے رہے سہے اوسان بھی خطا ہوئے تھے وارث زیرِ لب بڑبڑایا,,,

ہاں وارث خان وہ قدم قدم چلتا اسکے مقابل آکر رکا عروہ کو اسکا ہر قدم اپنی طرف بڑھتا دیکھ اپناسانس رکتا محسوس ہواوہ وحشت زدہ سی اسے دیکھ رہی تھی جو اسے طنزیہ مسکراہٹ سے دیکھ رہا تھا ,,,,


کیا ہوابے بی ڈول ڈر گئ مصنوعی حیرانگی سے پوچھا گیا,,,,,

عروہ ہنوز یوں ہی بُت بنے کھڑی تھی ,,,,

وہ کچھ فاصلے پہ پڑے صوفے پر دراز ہوا ,,,,

تمہیں عزت سے اپنی زندگی میں شامل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن تمہیں راز نہیں آئ میری محبت میرا خلوص اسی لیئے میرے منہ پہ دے ماری اب تم بھکتو گی اپنے تھپڑ کا انجام,,,,


وہ پھر چلتا ہوا اسکی طرف بڑھا کے اسنے اپنے قدم پیچھے لیئے,,,


آہاں ڈرو نہیں پہلے بھی عزت ہی بنانا چاہتا تھا نکاح سے پہلے کچھ نہیں کرونگا,,,

کچھ ہی دیر میں مولوی پہنچنے والا ہے بنا کسی چوں چراں کے تیار ہوجاؤ اب تمہیں میرا ہونے سے کوئ نہیں روک سکتا انگلی اٹھا کر تنبیہ کی ,,,,


میں نہیں کرونگی تم سے نکاح سمجھے وہ بھی حلق کے بل چلائ ,,,,


اہاں بہرا نہیں ہوں میں آہستہ بولو, کانوں میں انگلی ڈالتا کچھ عجیب انداز میں بولا ,,,

نکاح نہیں کرنا تو کیا ایسے ہی رہنا ہے میرے ساتھ؟ ہونٹوں پہ تنزیہ مسکراہٹ سجائے اپر سے نیچے تک اسکا جائزہ لیتے اسے مزید سلگایا,,,,


جسٹ شٹ اپ وہ پھر غصے سے گویا ہوئ,,,,


تمہارے پاس صرف دس منٹ ہیں یہ دوپٹا پہنو اور جلدی باہر پہنچو,,,وہ کہہ کر جانے کیلئے پلٹا کہ پھر سے مڑ کر گویا ہوا

کوئ چلاقی کرنے کی کوشش مت کرنا تمہارا ایک غلط قدم تمہاری زندگی کیلئے ناسور بن سکتا ہے وہ کہتا کمرے سے نکل.گیا,,,,

""""""""

صدام ،،، ہاں جان صدام بولو،، ایمان کے پکارنے پر وہ محبت سے بولا ،،، آپ کو حسنین کا رویہ کچھ دنوں سے عجیب نہیں لگ رہا ،، جب سے ہم ہنی مون سے آئیں ہیں تب سے ،،، مانا کہ وہ کم گو ہیں ، پر اب مجھے لگتا ہے وہ کسی پریشانی میں مبتلا ہیں ،، آپ بات کریں نہ اُن سے ،، اُس نے صدام کے کندھے پر سر رکھتے ہوئے کہا ، دراصل حسنین عروہ کو پسند کرتا تھا ، بلکہ حسنین ہی نہیں ماما کی بھی یہی خواہش تھی کہ عروہ حسنین کی دلہن بن کے اس گھر میں آئے ،،

صدام نے لیپ ٹاپ سائڈ رکھتے اُسے اپنے حصار میں لیتے ہوئے کہا ،،

واٹ ؟ حسنین عروہ کو پسند کرتا تھا ،، تو خالہ جان نے ربیعہ پھوپھو سے کبھی بات کیوں نہیں کی ؟؟ ایمان کو جیسے جھٹکا لگا تھا یہ سن کے،،، ماما کا ارادہ تھا ہماری شادی سے فارغ ہو کر بات کرنے کا ،،، پر شاید قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا ،،، پر صدام آپ نے کیوں نہیں بتایا مجھے کبھی ؟؟ ایمان نے گلہ کرتے پوچھا ،،، بس کبھی موقع ہی نہیں ملا ،، اُس کے چہرے پر آئے بالوں کی لٹوں کو کان کے پیچھے کرتے ہوئے بولا ،،، آپ کو پتہ ہے حسنین خالہ جان سے امریکہ جانے کا کہہ رہے تھے پر خالہ نے اُنہے جانے سے انکار کر دیا ،،، ایمان نے آج کی کی گئی گفتگو اُس کے گوش گذاری ،، اچھا میں بات کرنگا ماما سے کہ اُسے جانے دیں ،، کیا پتا دل اُدھر ہو جائے،،،، یہاں رہا تو ڈپریسڈ ہی رہیگا ،،،

،،،،،،،،،،

چُھری نے اِسماعیل عَلیہِ سلام، کو نہیں کاٹا ، آگ نے ابراہیم علیہ اسلام، کو نہیں جلایا ، مچھلی نے یونس علیہ اسلام، کو نہیں کھایا اور پانی نے موسیٰ علیہ السّلام کو نہیں ڈبویا ۔ اللّٰہ پاک پر ہمیشہ توکل رکھنا ، بیشک وہ ہی حفاظت کرنے والا ہے....


اُسکے کانوں میں اپنے بابا کے کہے الفاظ گونجنے لگے،، میری جان پریشانیاں تو آتی جاتی رہینگی ،پر تم کبھی نہ اُمید مت ہونا اللّٰہ کی رحمت سے ، دنیا میں دو طرح کی طاقتیں ہوتی ہیں ، ایک ہتھیار کی اور دوسری عقل کی ، لیکن کبھی کسی دور میں بھی کوئی ایسا ہتھیار ایجاد نہیں ہوا جو عقل کو ہرا سکے ، اس لئے زندگی کے ہر معاملے میں عقل سے کام لینا ، تم اپنے بابا کی بہادر شیرنی ہو اس لیے مقابل کو طاقتور جان کر گھبرانا نہیں ، بلکہ شیرنی کی طرح اُس پر جھپٹنا ،، جہانگیر صاحب کی کہیں باتیں یاد کرتی وہ ہمت جمع کرتی اٹھی اور سامنے پڑے سرخ دوپٹے کو سر پر پہننے لگی ، ہاتھ میں چِلی اسپرے کو دوپٹے کے اندر چھپا دیا ،، اور خود کو کمپوز کرتی وہ باہر کی جانب قدم بڑھانے لگی ،،

،،،،،،،،،،،،

پتہ نہیں میری بچی کس حال.میں ہوگی ، یا اللہ میری بچی *کی آبرو کی حفاظت فرمانا میرے مولا ہاتھ فضا میں اٹھائے وہ اپنی بیٹی کی سلامتی* کی فریاد کر رہی ,,,,

جہانگیر صاحب کی حالت بھی انسے کچھ کم نہ تھی وہ بھی شدید فکر مند نظر آرہے تھے عروہ کیلئے ,,,,


ازہان شایان اور عکش تینوں ہی اسکی تلاش میں مستغرق تھے,,,

آخر کونکرسکتا ہے اسے اغواہ کسکی اتنی گہری دشمنی تھی اس سے ،،

یہ جہانگیر کہ الفاظ تھے,


وہ مسلسل ازہان کو کال کر رہے تھے جو بزی بتا رہا تھا ,,,

رابیعہ کو اپنی جوان بچی کو لے کر عجیب ہول اٹھ رہے وہ مسلسل اس پاک زات سے محو گفتگو تھی ,,,,


،،،،،،،،،


ہاں بولو ظفر کوئ معلومات ملی؟

فون یس کرتے فوراً پوچھا,,,

سر ہمیں وارث کمال خان پہ شک ہے ، خبر ملی ہے کہ میڈم نے انھیں تھپڑ مارا تھا ,,,

واٹ تھپڑ کیوں مارا تھا؟ اسنے نہ سمجھی سے پوچھا,,,معلوم نہیں سر میں وارث کی لوکیشن آپکو سینڈ کر تا ہوں ،

اوکے اسنے کہہ کر فون کاٹ دیا

لوکیشن چیک کرتے اسنے گاڑی مطلوبہ جگہ پہ ڈالی ایک ہاتھ سے ڈرائیو کرتا دوسرے سے ازہان کا نمبر ڈائل کیا جو پہلی ہی رنگ پہ اٹھا لیا گیا ,,,,

ازہان بھائ میں لوکیشن بھیج رہا ہوں آپ جلدی وہاں پہنچیں کہہ کر فون ڈیش بورڈ پر پھینکا,,,,

********


چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ،کمرے کا لاک کھول کر ،اُس نے باہر کی سمت قدم بڑھائے ، دل میں آیتوں کا ورد کرتی وہ آگے بڑھ رہی تھی ،،

سرخ دوپٹہ سر پر پہنے ، سپاٹ چہرے کے ساتھ ،عروہ کو اپنی طرف آتا دیکھ ، ہاتھ میں پکڑا موبائل پوکٹ میں رکھتا ، وہ اُس کی جانب اپنے قدم بڑھانے لگا ,,,,

مجھے اُمید نہیں تھی ، کہ اتنی آسانی سے مان جاؤ گی چلو تمہارے حق میں بہتر بھی یہی تھا ،، ورنہ گھی سیدھی اُنگلی سے نہ نکلے تو مجھے اُنگلی ٹیڑھی کرنی آتی ہے ،، خباثت سے کہتا وہ اُس کے مقابل آن کھڑا ہوا ،،

اُسے اپنے مقابل پا کر عروہ کی اپنی مٹھی میں بند اسپرے پر گرفت سخت ہوگئی تھی,,,,


اُس نے ابھی عروہ کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اسنے نے ہاتھ میں پکڑا اسپرے اُس کی آنکھوں میں کرنا شروع کر دیا ،،


آہ کیساتھ ایک دلخراش چیخ مقابل کے منہ سے نکلی ,,,,


یہ اتنا اچانک ہوا تھا کہ وارث اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا ، اور آنکھیں مسلتا وہ صوفے پر جا گرا ابھی ایک واردات سے وہ پوری طرح سے ابھی سنبھلا بھی نہ تھا ، عروہ نے دوبارہ اُس پر جھپٹ کر ، ایک بر پھر اُس کے منہ پر چیلی اسپرے کی بارش کردی ,,,,,


پاگل.عورت یو بچ,,,

وہ تکلیف سے کراہتا اسپے چیکھ پڑا ....

وہ اسکی آواز سے دو قدم پیچھے ہٹی

خوف سے اسکے آنسوں تڑاتر اسکے رخسار کو بگھو رہے تھے لیکن وہ مظبوط بنی اپنا بچاؤ کر رہی تھی,,,


اب اُسکی نہ صرف آنکھیں بلکہ چہرہ بھی جلنے لگا تھا ، چیختا چلاتا وہ اُسے بعض رکھنے کی کوشش کر رہا تھا ، پر وہ آج شیرنی بنی اُس پر جھپٹی ہوئی تھی ، اور آخر اسپرے ختم کر کے ہی اُس نے دم لیا ، تکلیف اور تڑپ کے باعث اُس کی وحشت ناک چیخیں پورے محل نُما گھر میں گونج رہی تھیں ، اُسے اپنے چہرہ جلتا ہوا شعلہ محسوس ہو رہا تھا,,,


وہ سنگل صوفے پر پڑا پانی کی تلاش میں ادھر ادھر ہاتھ مارتا تکلیف سے دوہرا ہورہا تھا ,,,


اسپرے کے ختم ہوتے ہی ، وہ نظریں کیسی اور ہتھیار کی تلاش میں آس پاس گھمائ ، کہ اسکی نظر پاس ٹیبل پہ سجے واس پہ پڑی,,,


وہ چیخ چلا رہا تھا اپنی مدد کیلئے پکار رہا تھا ، پر کوئی ہوتا تو اس کی مدد کرتا ،

وہ اُسکے تڑپتے وجود پر ، قہر آلود نظر ڈالتی ، ٹیبل سے کرسٹل کا بنا شوپیس اٹھا لائی ، اور ہاتھ کو ہوا میں بلند کرتی اُس کے سر پر دے مارا,,,


آااہ کیساتھ ایک دہلا دینے والی چیخ پورے گھر میں بلند ہوئ ,,,,

ایک خون کی لکیر اُس کے سر سے نکلتی ، گردن میں جذب ہونے لگی ،،، سر پر ہونے والے وار کے نتیجے وہ ہوش سے بیگانہ ہوگیا ، خون ابھی بھی اُسکے سر سے لکیر کی صورت نکل رہا تھا ،،،

اُسے بیہوش دیکھکر جیسے عروہ کی جان میں جان آئی تھی,,,


وہ تقریباً بھاگتے ہوئے اس کمرے کی طرف بڑھی جہاں وہ قید تھی بیڈ شیٹ کو کھینچتی وہ باہر آئ اور وارث کے بےجان وجود کو اچھی طرح اس بڑی سی چادر میں لپیٹنے لگی اسکے ہاتھ مسلسل کانپ رہی تھی آنسوں اب بھی اسکی سبز آنکھوں سے بہہ رہے تھے خون کی بو اسکے نتھنوں سے ٹکراتی وہ جھرجھری لے اٹھی ایک خوف سا اسے وارث کے وجود سے محسوس ہورہا تھا بے شک وہ ایک بہادر لڑکی تھی جو آج اپنے دم پہ اپنی عزت کو محفوظ کر گئ ,,,

اسکے ہاتھ پیروں کو اچھی طرح بیڈ شیٹ سے باندھتی اب وہ اسکے منہ پہ باندھنے کیلئے کچھ ڈھونڈنے لگی جب کچھ نہ ملا تو سر پہ اوڑھی سرخ چنری اتار کر اسکا منہ بھی اچھی طرح بند کردیا تاکہ وہ آسانی سے یہاں سے نکل سکے ,,,,

ٹیبل پر پڑا اُسکا موبائل اٹھاتی وہ ازہان کا نمبر ڈائیل کر رہی تھی ,,,,

انجان نمبر سے کال دیکھ اسنے فوراً اٹھائ تھی شاید کوئ کلو ہاتھ لگ جائے,,,

،،،،،،،،

بھائ...... عروہ کی خوزدہ سی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائ ،

بھائ مم مجھے جلدی سے یہاں سے لے جائیں میں نے اسے مار دیا ہے خوف سے اسکی آواز لرز رہی تھی ,,,

عروہ بیٹا ریلیکس میں پہنچ رہا ہوں تمہیں کچھ نہیں ہوگا تم وہی رہہنا مجھے بتاؤ تم کہاں ہو

بھائ مجھے نہیں پتا یہ کوئ مینشن ہے آپ جلدی پہنچیں اسنے مبائل پہ گرفت مظبوط کرتے کہا ,,,


اوکے میں پہنچ رہا ہوں تم کہیں سیف جگہ دیکھتے چھپ جاؤ ,,,


جی بھائ جلدی آجائیں ,,,

،،،،،،،،


ایک نمبر سینڈ کیا ہے ٹریک کرو عروہ کی کال تھی اسنے ڈرائیونگ کرتے عکش کو کہا

ازہان بھائ یہ سیم لوکیشن ہے یہ نمبر وارث کمال خان کا ہے

اوکے میں پہنچ رہا ہوں 5 منٹ میں ,,,

عکش نے کہہ کر کال ڈسکنیکٹ کردی کیونکہ وہ سب سے قریب تھا۔،،،


***********

،،،،،،،،،کراچی شہر سے قدرے دور یہ ایک ویرانہ علاقہ تھا جہاں ہر طرف ریت سے بنے پہاڑ واقع تھے

ان پہاڑوں کے وسط میں خیمہ لگائے کچھ گڑھ یہاں آباد تھے

مظبوط جسامت کے حامل لمبے چوڑے توانا مرد سر پہ کالاکپڑا لپیٹے ہاتھوں میں کلاشن اٹھائے وہ کوئ دہشت گرد معلوم ہورہے تھے,,

احمدرف سے ہلیے میں ہاتھ میں سوٹ کیس اٹھائے منہ میں سگریٹ دبائے اپنی مطلوبہ جگہ پہنچ چکا تھا ,,,

ان میں سے ایک آدمی نے آگے بڑھتے سوالیہ آبرو اچکائ

یہ کمال سر نے دیا ہے

مقابل کو سوٹ کیس تھماتے کہا,,

ٹھیک ہے یہی کھڑے رہو,,

وہ آدمی سوٹ کیس لیتا اسے وہی کھڑے رہنے کی ہدایت کرتا آگے بڑھ گیا ,,,


******

عکش پولیس کے ہمراہ وارث کے مینشن تک پہنچ چکا تھا ،، دبے پاؤں بنا آواز کیئے راہ داریوں سے گزرتے وہ آگے بڑھ رہے تھے

,,,,

ہیلو: نیند سے بوجھل آواز میں کہا,,حسنین بیٹا تم خیریت سے پہنچ گئے ہونا،،، نرمین بیگم.نے.فکرمندانہ لہجے میں استفسار کیا,,,


جی مما بس ابھی ہی ...راہداریوں سے گزرتے اسنے جواباً کہا,,


اچھا اپنا خیال رکھنا کھانا وقت پہ کھانا اور وقت پہ سونا میری جان میرا دہہیان تم پر ہی لگا رہیگا,,


مام آپ فکر نہیں کریں ابھی رکھتا ہوں بعد میں بات کرینگے. اسنے اپنی بات کہتے کال ڈسکنیکٹ کردی,,


دوسری طرف نرمین دلبرشتہ سی ہو گئیں اپنے بیٹے کی اس حالت پہ...


نرمین تم خامخواں ہی پریشان ہورہی ہو وہ بچا نہیں ہے اپنا خیال خود رکھ سکتا ہے,,, جمشید نے انکی پریشانی سمجھتے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا,,

،،،،،،،،،،،،


عکش اور پولیس اہلکار الرٹ سے آگے بڑھ رہے تھے ،،


عکش کا بس نہیں چل رہا تھا کے وہ حارث کمال کے ٹکڑے کر دے ، وہ دل ہی میں اللّٰہ سے عروہ کے لئے دعا گو تھا ،


لاؤنچ کی راہداری سے گزرتے اُس کی نظر صوفے سے بندھے وجود پر گئ ،، ایک پل تو اُس کا دل تیزی سے دھڑکا تھا ، دور سے وہ نہیں پہچان پا رہا تھا کہ ، سفید چادر میں بندھا کون ہے ؟

اُس کے ذہن میں عروہ کا خیال آیا، پر اپنی ہی سوچ کی نفی کرتا وہ اُسی بندھے وجود کی طرف اپنے بھاری قدم اُٹھا رہا تھا ،،


بندھے وجود کو دیکھ کر، جیسے اُسکی سانس میں سانس ائی تھی ، خدا کا شکر ادا کرتے ، اُس نے اپنی نظریں عروہ کے تعاقب میں پھریں ، جو اُسے سامنے ہی پیر اوپر کئے،آرام داہ انداز میں، ہاتھوں میں چپس کا تھیلا اٹھائے بیٹھی نظر آئی ،،


عروہ اُس نے بے ساختہ پُکارا تھا ،

اُس نے مانوس سی آواز پر گردن گھما کر دیکھا تو اُسے ، عکش ملک اپنے مضبوط جسامت کے ساتھ کھڑا نظر آیا ،


اُسے اپنے سامنے پا کر عروہ نے ایسے منہ بنایا تھا جیسے چپس نہیں بلکہ کڑوا بادام کھا لیا ہو ،

تُم کیا کر رہے ہو ؟ تُمہیں سکون نہیں ہے ہر وقت اپنا یہ فینسی بندروں والا بوتھا لے کر کیوں میرا خون جلانے کے لئے میرے سامنے آجاتے ہو ،،


عروہ عروہ گڑیا کہاں ہو ؟

ابھی وہ اور بھی کچھ بول رہی تھی پر اذہان کی آواز سنتے ہی اُس کی چر چر چلتی زبان رکی تھی ،،

اذہان کو لاؤنچ کے وسط میں کھڑا دیکھ ،،، عکش کے پیر پر جان بوجھ کر اپنا شوز میں مُکیت پیر مارتی ، وہ اذہان کی طرف دوڑ کر جانے لگی ،،

بندروں کا سردار ،،، پر جاتے ہوئے اُسے نئے نام سے نوازنا نہ بھولی،،

وہ دوڑتی ہوئی اذہان کے سینے سے جا لگی تھی ،،، بھائی مّ م میں بو بہت ڈر گئ تھی ، اُس کے سینے میں سر چھپائے ہچکیوں سے روتے ہوئے بولی ،،


کچھ نہیں ہوا ، تُم بہت بہادر ہو میری جان ،،، وہ اُس کی کمر سہلاتے اُسے چُپ کروانے لگا ،،،


اچھا بس اب بند کرو رونا گھر چلو بابا ماما پریشان ہیں تمہارے لئے ،، اُسکی پیشانی پر لب رکھتا بولا ،


عکش اُن دونوں سے نظر ہٹاتا ، وارث کو دیکھنے لگا ، جس کے ہاتھ پیر کھول رہیے تھے پولیس اہلکار ،


ہے تو بندی اپنی ٹکڑ کی ،،،

دل میں ہی سوچتا وہ مسکرایا تھا،،،


،،،،،،،،،،،


وہ بیڈ پر سیدھا لیٹا چھت کو دیکھ رہا تھا ،

مام کہتی ہیں کہ مجھے صرف تُم سے اٹریکشن تھی ، پر میں کیسے مان لوں ،، مجھے اٹھتے بیٹھتے ، سانس لیتے آنکھیں مندتے تُم ہی نظر آتی ہو ،، تُم میری محبت تھی ، پسند تھی ، عشق تھی یا صرف انسیت تھی ،،،

میں نہیں جانتا پر تُمہیں کیسی اور کے ساتھ تصور کرتے میری سانسیں اکھاڑنے لگتی ہیں ،،


مجھے رہائی دے دو اس سب سے ،،، میں آگے بڑھنے کا فیصلہ کرتا ہوں پر بڑھ نہیں پاتا ،، وہ اپنے خیالوں میں اُس سے مخاطب تھا ،،،،


اُس نے آنکھیں مندی تھی ،، پر آنکھیں مندتے ہی ، وہی ہری آنکھوں کا سایہ اُس کی آنکھوں میں لہرایا تھا ،،، ایک آنسو بهتا ہوا اُس کی کنپٹی میں جذب ہوا تھا ،،،،


اوندھا لیٹا اُسی سوچوں میں تھا ، کہ ڈور بیل بجی ،، کون ہے ، تھکن سے چور لہجے میں پوچھا،پر جواب اندرد ،، ڈور بیل ایک بار پھر بجی ،، کیا مسلا ہے ،غوضے سے ،پیروں میں چپل أڑستا دروازے کی طرف بڑھا ،،

دروازے پر بھی شاید کوئی ڈھیٹ تھا ،،

کون ہے ، غوصے میں دروازہ کھولتا پوچھا ،،،


ابھی وہ اور بھی کچھ کہتا کہ اُسکی آنکھیں دیکھتا وہ ٹھٹکا تھا ، گرین گمسٹون آنکھیں ، گھنی سیاہ پلکیں ، ہوا میں اڑتے نم بال ، وہ ساکت سا اُسے دیکھ رہا تھا ،،،

عروہ وہ زیر لب بڑبڑایا ،،

اکسکیوز می ،،، حسنین کے چہرے کے آگے چٹکی بجاتے وہ اُسے ہوش کی دنیا میں پٹک گئ ،،،

آپ ٹھیک ہیں ؟؟ میں دو دن سے آپکو فلیٹ میں بند دیکھ رہی ہوں ، آپکی طبیعت تو ٹھیک ہے نہ ، وہ فکرمندانا لہجے میں گویا ہوئی ،،،


ٹھیک ہوں آپ کی فکر کا شکریہ ،،

روکھے لہجے میں کہتا اُس کے منہ پر دروازہ بند کر گیا ،،، وہ ہکا بکا سی دروازے کو دیکھتی رہ گئی ،،، بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں ہے ،، بند دروازے کو دیکھتی بولی،،،،،،


،،،،،،،،،،،،


اذہان کے ساتھ قدم اٹھاتے اُس نے گھر میں قدم رکھا ،،، سامنے ہی اُسے معاذ ، جہانگیر اور ربیعہ بیگم فکر مند سے نظر آئے ،،،


بابا،،،، وہ جہانگیر صاحب کو پکارتی اُن کی طرف جانے لگی ،،، جہانگیر صاحب نے آواز کے تعاقب میں دیکھا ،،،


ہستی مسکراتی عروہ کو دیکھ جیسے اُن کے اندر نئی روح پھونک دی گئی تھی ،،، اسی آواز کو سننے کے لئے تو وہ تڑپ رہے تھے ،،، پر اللہ نے اپنے کرم سے اُنہے سہی سلامت انکی بچی سے ملوا دیا تھا ،،،


بے شک وہ بہت کرم کرنے والا ہے ،، جو رب انار کے دانوں کو ترتیب دینے پر قدرت رکھتا ہے ، بے شک وہ رب ہمارے دکھوں کو سکھوں میں بدلنے پر بھی اختیارات رکھتا ہے ،،،


ربیعہ بیگم آنسو بہاتی رب کا شکر ادا کر رہیں تھی ،، انکی دعوؤں کو قبول کرتے اللّٰہ نے انہیں رسوا ہونے سے بچا دیا تھا ،،،


اللہ تعالیٰ نے سورۃ آل عمران میں فرما دیا ہے کہ دعا پہاڑوں کو بھی انکی جگہ سے سرکہ سکتی ہے ، تو قبولیت کا شک ہی نہیں بنتا،،،


بابا میں بہت ڈر گئی تھی ، آپ کی بہت یاد آرہی تھی ،، پر جب مجھے آپ کی کہی باتیں یاد آئیں تو میں اُس ملوم انسان کے ہتھیار سے نہیں ڈری بلکہ اپنی عقل سے وہ سبق سکھایا ہے اُسے کہ یاد رکھے گا ہمیشہ کہ عروہ جہانگیر ہے کون ،،،

باپ کے پاس بیٹھی وہ نم آواز میں بولی ،،،


مجھے رب پر پورا بھروسہ تھا میری جان ، جو رب یوسف علیہ السلام کو انکے والد سے ، موسیٰ علیہ السلام کو اُسکی والدہ سے ملا سکتا ہے ،،وہ رب مجھے بھی میری بیٹی سے ضرور ملا دیگا ،،،،مجھے اُس پاک ذات پر پورا بھروسہ تھا ،،،


اور دیکھو اللّٰہ نے ملوا دیا ،،،

وہ سینے پر رکھے اُسکا سر سہلاتے بولے ،،،،

تُم نے وارث کو تھپڑ کیوں مارا تھا ؟؟ کمرے کی خاموش فضا میں عکش کی آواز گونجی ،،، پر جواب ندارد ،،،

 عروہ اُس کے سوال اور اُسے ایسے نظرانداز کر گئ ،جیسے وہ یہاں موجود ہی نہ ہو ،،

 عروہ میں تُم سے بات کر رہا ہوں ، عکش نے خود پر ضبط کے پہرے بٹھائے اور پھر اسے مخاطب کیا ،،

میری مرضی جسے چاہوں ماروں ،، اکہڑ لہجے میں کہتی ،، ہاتھ میں پکڑے میکرونی کے باؤل کی طرف متوجہ ہوگئی ،،

عروہ یہ کیا طریقہ ہے ، اذہان نے مصنوئ خفگی سے اُسے ٹوکا ،، سوری بھائی ، وہ اذہان کے غصے کو سمجھتی  فوراً بولی ،، 

تُم نے کیوں مارا تھپڑ ؟؟ اُس نے بھی عکش کا کیا ہوا سوال دہرایا ،،

وہ مجھے پروپوز کر رہا تھا ، میں نے پہلے اُسے کہا کہ میں منگنی شدہ ہوں ، تو بولا منگنی ہی ہوئی ہے شادی تو نہیں ہوئی ،، میں اُسے اگنور کرتی جانے لگی تو اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا مجھے غصہ آیا میں نے اُس کے بوتھے پر تھپڑ رسید کر دیا ، منہ میں بھری میکرونی جلدی جلدی چپاتی ہوئی بولی ،

اُس کی بات پر عکش کا خون کھول اٹھا تھا ، وہ سرخ آنکھوں سے اُسے دیکھ رہا تھا ، جو ہر چیز سے بے فکر میکرونی سے انصاف کرنے میں مصروف تھی ،،

اذہان کا حال بھی عکش سے جدا نہ تھا ،، اُس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وارث کو زندہ قبر درگور کردے ،، پر عروہ کی حالت کے پیش نظر وہ ضبط کئے بیٹھا تھا ،,تُم نے اُسی دن ہم میں سے کسی کو کیوں نہیں بتایا ؟؟ 

اذہان نے سرد آنکھوں سے دیکھتے سوال کیا ،،،

میں سمجھی تھپڑ سے عقل ٹھکانے آگئی ہوگی ،، اور اُس کے بعد وہ آیا بھی نہیں میرے سامنے ،،

عکش کو اپنا ضبط ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا، وہ اُن دونوں کی طرف دیکھے بغیر ،،، کھڑے ہوتے  کمرے سے نکلتا چلا گیا ،،

تُم اب اکیلی گھر سے باہر نہیں جاؤ گی ، جہاں بھی جانا ہو ، مجھے کہنا یہ بابا اور شایان سے  ،، سمجھ رہی ہو میں کیا کہہ رہا ہوں ،، اُس نے یقین دھانی چاہئ ،، جی بھائی ،، اُس نے مختصر جواب دیا ،،

شاباش چلو اب آرام کرو ،، نرمی سے کہتا وہ بھی کمرے سے نکل گیا ،،

،،،،،،،،،،،،

 اپنی زیرک نگائیں ہر اک چیز پہ ڈالتا وہ اچھی طرح اس جگہ کا معائنہ کر رہا تھا اسکا مقصد یہی تھا  کمال کے ذریعے اسکے ہر غیر قانونی مقامات تک رَسائ حاصل کرنا جو وہ بخوبی سر انجام.دے رہا تھا آج انکی.کڑی محنت رنگ لائ تھی جسکے نتیجے میں وہ آبنوس کی چھاؤنی تک رسائ حاصل.کرگیا وہ چاہتا تھا کہ اس سوٹ  کیس کو کھول کر دیکھے لیکن اسے شک تھا کہیں یہ کمال کی کوئی سازش نہ ہو ،

 اگر ایسا ہوتا  تو بنا بنایا کھیل پر پانی پھر جاتا...اس لیئے وہ بعض رہا,, وہ سوچ ہی رہا تھا جب اپنے سامنے سے آتے اس شخص کو دیکھا جو ابھی اس سے سوٹ کیس لے کر گیا تھا ,,,,اب تم جا سکتے ہو,,اسکے مقابل آتے کہا,,

وہ سر کو اثبات میں ہلاتا واپسی کیلئے پلٹ گیا,,,

،،،،،،،،،،،،

وہ اپنے موبائل پہ جھکا ٹائیپنگ میں مگن تھا جب عروہ کے موبائل کی بجتی رنگ ٹون نے اسکی توجہ کھینچی ، اسنے سکرین کی جانب زرہ سی نظریں اٹھا کر موبائل کی طرف دیکھا تو سکرین پر ایمل کا نام جگمگا رہا تھا ,,اسنے سوچا کہ  موبائل عروہ کو دے آئے لیکن اسکے آرام کا خیال کرتا کال خود ہی یس کرلی,,,,

کہاں ہے تو کچھ خیال ہے میرا کتنی بور ہورہی ہوں میں یہاں دیواروں میں سرمارنے  کو دل.کر رہا ہے ادھر ایمان آپی بھی اپنے سسرال میں بزی ہیں اور احمد بھی اپنے دوستوں کیساتھ چلا گیا ...ایک میں ہی پاگل ہوں جو پورے گھرمیں آتماؤں کہ طرح گھوم رہی ہوں، اب تو دیواریں بھی میری کسی بات کا جواب نہیں دیتی شاید وہ بھی میری بے بسی کا مزاک آڑا رہی ہیں  ، لیکن تجھے کونسا کوئ فکر لاحق ہے مجھے لیکر ...اب کیامنہ میں گھی جما لیا ہے جو کوئ جواب بھی نہیں دے رہی ہو یار حد ہوتی ہے  اتنی پیاری خوبصورت، سمجھدار اور ایکسٹرا کیوٹ، کزن پلس دوست کی کوئ پروہ ہی نہیں ہے,, اسکی اپنے منہ میاں مٹھو پہ اسنے آبرو اچکائ تھی ,, 

بندہ ایک کال یا میسج ہی کردیتا ہے پر  معلوم نہیں کونسے چلّے کاٹ رہی ہے  اپنے آستانے میں بیٹھ کر میڈم صاحبہ بندہ ایک چکر ہی لگا لیتا ہے لیکن نہیں آپ ملکہ عالیہ دھوپ میں نکلینگی تو پھگل جائینگی ہینا ،،، اب کچھ بولو گی بھی یا نہیں ,,,نون سٹوپ لڑاکا عورتوں کی طرح بولتے اینڈ میں تقریباً چھیخی کہ مقابل نے موبائل تھوڑا دور ہٹاتے کانوں میں انگلی ٹھوسی تھی,,

ہوگیا آپکا؟ آپ کسی اور کو بولنے کا موقع دینگی تو ہی کوئ اپنی بات کہے گا نہ ,,,

ایک پل کیلئے وہ ساکت ہوئ تھی غیر متوقع آواز پر,,,

نہیں یہ عروہ ہوگی اس سانڈ کی آواز جان بوجھ کے مجھے تنگ کر رہی ہوگی موبائل کو گھورتی وہ سوچنے لگی,,

مس ایکسٹرہ کیوٹ اب کچھ بولینگی یہ میں فون رکھوں 

موبائل سے پھر سنجیدہ مردانہ بھاری  آواز گونجی تو اسکا سکتہ ٹوٹا ,,,

جی وہ مجھے عروہ سے بات کرنی تھی,, اسنے کچھ جھجکتے پوچھا,,

وہ سورہی ہے صبح بات کرلینا,,

اسکا جواب پاتے فوراً کال ڈسکنیکٹ کردی,,,

افف ہائے اللہ کیا کچھ نہیں بول دیا کیا سوچتا ہوگا کتنا فضول بولتی ہوں ،، سر پہ ہاتھ مارتی اب وہ خود کو ملامت کر رہی تھی،، خیر مجھے کیا میری زبان میری مرضی دوسرے پل خود کی تصحیح بھی کر ڈالی,,

،،،،،،،،،،

میں آپ کی امانت دے آیا ہوں ، اب کیا حکم ہے میرے لئے ؟ کمال کے سامنے کھڑا ہوتا وہ مضبوط لہجے میں بولا ،،، 

تُمہیں پتہ ہے اُس میں کیا تھا ؟ کمال نے اُسے بغور دیکھتے پوچھا  ،،، 

نہیں میں نہیں جانتا ، مجھے اُسے پہنچانے کا کام ملا تھا جو میں ایمانداری سے اپنا کام سر انجام دے آیا ہوں ،،،

احمد نے لاپرواہ انداز سے کہا جیسے اُسے سچ میں اس سب سے کچھ غرض نہ تھا ،،،،،

اُس کے اس انداز پر مقابل نے ایک بھر پور قہقہ لگایا،،،

اُس میں اسلحہ تھا ،، جانتے ہو نہ اسلحہ کیا ہوتا ہے اور کس کام آتا ہے ؟ چہرے پر مکروہ مسکراہٹ کے ساتھ اپنے سوال کا جواب دیا ،،،،،

احمد خاموشی سے اُسکی ہر بات سن رہا تھا ،،،،

تُم کل آسکتے ہو ،،، اپنے فرائض کو سر انجام دینے ،، احمد کی طرف پیسوں کی گڈی اچھلتے ہوئے کہا ،  

احمد نے فقط اثبات میں سر ہلایا،،، تُم جاؤ کل تُمہیں تمہارے منصب سے آگاہ کر دینگے ،،،

کمال کی بات ابھی جاری ہی تھی کہ عجلت میں کوئی کمرے میں داخل ہوا ،،

تمہاری جرات کیسے ہوئی مداخلت کی کمال نے غضب ناک لہجے میں کہا ،، سر وارث صاحب کو پولیس پکڑ کر لے گی ہے ،،

احمد کو اُنگلی کی مدد سے جانے کا حکم دیتے ،، وہ سگریٹ سلگانے لگا ،، 

جاؤ کمشنر سے بات کرو ، مجھے میرا بیٹا ایک گھنٹے میں باہر چاہیے ،، وہ وحشی بنا اُس پر غرا کر بولا ،،، 

وہ بھی اپنی جان بخشی پر شکر کرتا باہر کی طرف بڑھا ،، بوس کا کیا پتہ ، بنا ٹکٹ کے ہی اوپر پہنچا دیتا ہے ،،سوچ کی وہ جھر جہوری لے اٹھا ،،،

،،،،،،،،

آٹھ جا نیستی ،،، آج پھوپھو پھوپھا کی ، انیورسری ہے اتنا کام پڑا ہے اور تو ایسے سو رہی ہے ،، آٹھ نہ ! وہ اُسکے چہرے سے بلنکیٹ ہٹا کر بولی ،،، یار سونے دے نہ کام دیکھ تو رہے ہیں شیان اور اذہان بھائ ،، وہ بولتی دوبارہ سر تک بلنکیٹ اوڑ گئی ،،،،

ہم نے سرپرائز گفٹ بھی لینے جانا ہے ،، بھول گئی کیا ،، ایمل نے اُسے یاد دھانی کرنا چاہا ،، میں کب سے أئی  ہوئی ہوں اور تو ابھی تک سو رہی ہے ،، اس بار ایمل نے خفگی سے کہا..!

اپنا میلو ڈراما بند کر آٹھ گئ ہوں ، خود پر سے بلینکیٹ ہٹھاتی  ،، وہ واشروم کی طرف بڑھی  ،، 

شاباش جلدی فریش ہو ،، میں جب تک کپڑے نکالتی ہوں تیرے ،، وہ کہتی الماری سے اُس کے لئے کپڑے نکالنے کے لئے  سوچنے لگی کہ کونسے نکالے ،،،

شایان تُم نے انوائٹ کر دیا تھا نہ سب کو ،،اذہان نے یاد آتے فوراً پوچھا ،، 

جی بھائ میں نے کال کر کے انویٹ کر دیا تھا ،، وہ سجاوٹ کرتے مزدوروں کو ہدایت دیتا ،، مختصر بولا ،،

اذہان اثبات میں سر ہلاتا ،، پیچھے موڑا تھا کہ ،، اُس کے نظر بھٹکتی ہوئی سڑھیاں اُترتی ایمل پر گئ ،،،

مس ایکسٹرا کیوٹ کہاں کی تیاری ہے ،،، وہ اُسے بلیک سکارف نماز کی طرح سر پر بندھے ، اور ایک کندھے پر شال لٹکائے دیکھ پوچھ ،، جو کہیں جانے کے لئے بلکل تیار لگ رہی تھی ،

میں اور عروہ مول تک جا رھے ہیں کچھ سامان لینے ،، ایک پل کے لئے وہ اُس کے سوال پر اسٹیپا گئ تھی ،، پر جلد ہی خود کو سنبھالتے بولی ،،،

ٹھیک ہے باہر انتظار کر رہا ہوں عروہ کو لے کر پہنچو ،، اُسے کہتا بنا اُسکی سنے چل دیا ،،،

پیچھے ایمل اپنا سر پٹتی ہی رہ گئی ،،

،،،،،کیا ہوا ایمل ؟ پاس آتی عروہ نے نہ سمجھی سے پوچھا ،،کچھ نہیں چل ،،

اُسے جواب دیتی وہ باہر بڑھ گئی ، عروہ بھی کندھے اُچکاتی ، اُس کے پیچھے جانے لگی۔،،،،

،،،،،،

سر وہ پارکنگ کی طرف گیا ہے ، کان میں لگے بلوٹھوڈ میں آواز گونجی ،، اُس نے پارکنگ کی طرف اپنے قدم پھیر لئے ،،،

رنگ برنگے پھولوں سے بنی شرٹ پہنے ، چہرے کو رومال سے ڈھکے ،  

،،،،،

اُسکی نظریں سامنے جاتے شخص، پر تھی جو ہاتھوں میں سوٹ کیس اٹھائے ،، اپنی نظریں ادر اُدھر پھیر رہا تھا ،،،

عافین کی نیلی آنکھیں اُسکی ہر حرکت پر ٹکی تھیں ،،،

،،،،،،،

سن میں سرپرائیز گفٹ لے کر آتی ہوں ، تو تب تک اپنے سانڈ بھائ کو دیکھ لے 

,

,,ایمل شاپنگ بیگ اسکے حوالے کرتے بولی عروہ نے اپنے بھائ کی شان میں لفظ سانڈ سن کے  اسکی طرف خفگی سے دیکھا تھا,,

 اچھا نہ نہیں بولتی سانڈ کو سانڈ میرا مطلب تیرے بھائ کو سانڈ  شرارت سے کہتی وہ ایک بار پھر عروہ کو گھورنے پر مجبور کر گئ

 ایمل مار کھاؤگی اسنے مصنوعی آنکھیں دکھاتے کہا اچھا نہ بابا ,,

عروہ بیگ تھامے آگے بڑھ گئ اسے نکلتا دیکھ  وہ بھی تیزی سے آگے بڑھی تھی,,,

ہوگئ شاپنگ؟چلیں ازہان نے اسے اپنی طرف آتے دیکھ پوچھا ,,,

جی بھائ اسنے اثبات میں سر ہلاتے جواب دیا,,

ایمل کہاں  ہے ؟ 

بھائ وہ پارکنگ میں ہی ہوگی اسنے فوراً بہانہ تراشا ,,,

اچھا چلو اسکے ہاتھ سے شاپنگ بیگز لیتا وہ اسکا ہاتھ  تھامے پارکنگ ایریہ کی جانب بڑھا ,,,

او شٹ اسنے دل میں کہا اب کوئ نیا بہانہ ڈھونڈنا ہوگا کیونکہ ایمل تو پارکنگ میں نہیں ہوگی,,

اب اسے اپنے شیطانی دماغ کو نیا بہانہ تراشنے کی زحمت دینی تھی,,,

ابھی وہ سوچ رہی تھی کہ اسکا سیل رنگ ہوا اسنے موبائل  کلچ سے نکالتے دیکھا تو اسکرین پہ ایمل کا نام جگمگاتا دیکھ اسکی سانس میں سانس آئ تھی ,,,

ہیلو ایمل کہا ہو ہم پارکنگ میں ہیں,,,

کال یس کرتے اسنے فون کان سے لگاتے کہا ,,,اچھا تم ہمیں ہی ڈھونڈ رہی ہو ہم نیچے ہیں تم نیچے ہی آجاؤ,,

اسنے ازہان کی نظریں خود پہ مرکوز پاتے کچھ جتاتے ہوئے انداز میں کہا دوسری جانب ایمل سمجھ گئ تھی ,,,

بھائ وہ ہمیں ہال میں ڈھونڈ رہی ہے,,,

عروہ نے اسکے سوال.کرنے سے پہلے ہی جلدی سے کہا,,,

اچھا یہ چابی لو اور گاڑی کو لوک کرکے اندر بیٹھو میں لیکر آتا ہوں اسے ہدایت دیتا وہ اپر کی جانب چل دیا,,

،،،،،،،،،،،،

وہ لمبے لمبےڈگ بھرتا ، اُس شخص تک پہنچا تھا ، اور ایک چست میں اسنے پشت سے  اُس کی گردن دبوچی تھی ،، مقابل اس اچانک افتاد سے گڑبڑا گیا تھا ،، اُسکی گردن پر گرفت اتنی سخت تھی کہ وہ پھڑ پھڑا بھی نہیں پا رہا تھا ،،، اُس نے ہمت کرتے ، اپنا پاؤں اُس کے پاؤں پر مارا اپنے بچاؤ کے لئے ، پر اُسکی گرفت اتنی کمزور نہ تھی کہ وہ اس چھوٹی سی کوشش سے ہی اُسکی گرفت سے آزاد ہو جاتا ،

مُجھے یہ ہر گز گوارا نہیں کہ یہ وطن جیسے ہم نے اپنے لہو اور اس طرح کی بے تحاشا قربانیاں دے کر حاصل کیا اور یہاں انصاف کا قانون نافذ کیا ،، اُسے میں تمہاری ظلمت سے کبھی آلودہ نہیں ہونے دونگا ،، جھٹکے سے مقابل.کا رخ اپنی طرف کرتے سخت لہجے میں گویا ہوا,,,

میں تب تک چین سے نہیں بیٹھونگا جب تک میں اپنی پاک زمین کو تُم جیسے ظالموں کو ظلمت کو نہ روک دوں ،،

وہ اُسکی گردن کو جھٹکا دیتے سرد آواز میں بولا ،، اُسکے لہجے میں چٹانوں سی سختی تھی ،، 

اُسکی گرفت میں موجود شخص کو اپنی گردن کی ہڈی ٹوٹتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی ،،،پر وہ اپنے بچاؤ کرنے میں نہ کام تھا ،، 

عافین نے لمحہ زائع کیئے بغیر ، سائلینسر لگی گن سے اُسکے دل کے مقام پر تین فائر کئے ، جس کے نتیجے وہ وہیں ڈھیر ہوگیا ،،

گاڑی میں بیٹھی یہ وحشت ناک منظر دیکھتی عروہ کو لگ رہا تھا جیسے اُسے سانس نہ آرہا ہو ،، وہ خوفزدہ نظروں سے یہ سب دیکھ رہی تھی ،،،،

،،،،،،،،

وہ جھک کر زمین بوس ہوا سوٹ کیس اٹھانے لگا ، اُسکا رومال چہرے سے سرکتا گردن میں آن گرا تھا  ، اس پاس کے منظر پر اپنی اوشین آنکھیں گھوماتا ، وہ دوبارہ رومال کو چہرے کے گرد باندھ گیا ،،

اُسکے رومال کے ہٹتے ہی ،، اُسکا چہرہ مقابل کے سامنے واضح ہوا  ،، عروہ کو اب سچ میں سانس نہیں آرہی تھی ، وہ لمبے سانس لیتی خود کو کنٹرول کر رہی تھی ، وہ یقین کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ سامنے کھڑا شخص جس نے ابھی ایک جیتے جاگتے انسان کو مارا ، وہ عکش ملک ہے ،، 

وہ جا چکا تھا،،،،،، پر عروہ ابھی بھی وہیں دیکھ رہی تھی ، جہاں خون سے لت پت وہ بے جان وجود مردہ حال میں پڑا تھا ،،

،،،،،

آہستہ آہستہ کر کے لوگ وہاں جمع ہونا شروع ہو چکے تھے،

کوئی ویڈیوز بنانے میں مشغول تھا تو کوئی تماشائی بنے تماشا دیکھ رہے تھے ، 

عروہ ابھی تک سکتے میں بیٹھی تھی ، اُسے یقین کرنا مشکل تھا کہ جس عکش ملک کے حوالے اُس کے ماں باپ اُسے کرنے والے تھے ، وہ ایک آوارہ گنڈا ہے جو کسی بھی معصوم کی جان لے سکتا ہے ،،

،،،،،،،،،،،،،،

اذہان کب سے اُسے کال لگا رہا تھا ،، پر وہ اٹھا نہیں رہی تھی ،،

اذہان تقریباً پورے مال  میں اُسے تلاش کر چکا تھا ، ابھی بھی ہال میں کھڑا شدید غصے میں تھا ،،، 

اذہان ،،، اپنی پشت سے ایمل کی آواز سن کر وہ پیچھے موڑا جہاں وہ ہاتھ میں ایک بڑا سا شاپنگ بیگ تھامے کھڑی تھی ،،۔

اُس پر ایک کاٹ دار نظر ڈالتا ہاتھ سے بیگ تقریباً جھپٹتا ،،، اُسکا ہاتھ پکڑتا وہ تیزی سے پارکنگ کی طرف بڑھنے لگا ،، وہ کٹی پتنگ کی طرح اُسکے پیچھے کھیچتی چلی گئی ،،، اذہان میرا ہاتھ ٹوٹ جائیگا ،، اُس نے ہمت کرتے اذہان کو پکارا ،،     پر وہ تو جیسے کانوں سے بہرا ہوگیا تھا ،، 

پارکنگ میں داخل ہوتے ہی سامنے لوگوں کا ہجوم دیکھ اُس نے ایمل کا ہاتھ چھوڑا تھا ،، سامنے کا منظر دیکھ پریشان تو ایمل بھی ہوگئی تھی ،، دونوں تیزی سے اپنی گاڑی کی طرف بھاگے تھے ،،

گاڑی کے شیشے سے ہی عروہ کو اندر بیٹھا دیکھ ،، جیسے اذہان کی جان میں جان آئی تھی ، ایمل نے بھی ایک پُر سکون سا لمبا سانس ہوا میں تحلیل کیا تھا ،،

وہ ایمل کو گاڑی میں بیٹھاتے ،، اُس ہجوم کی طرف بڑھا ،،، 

،،،،،،،،،،،،،

کیا ہوا ؟ اُس نے عروہ کو گہری سوچ میں دیکھ پوچھا ،، کچھ نہیں ، اُس نے بھی ساری سوچیں جھٹکتے  مسکرا کر جواب دیا ،،،

پہلے اُس نے سوچا کہ ایمل کو عکش کی حقیقت بتا دیں ،، پر کیا وہ یقین کریگی ،، نہیں اُسکے دماغ نے فوراً نفی کی ،، 

میں رنگے ہاتھوں پکڑونگی تُمہیں عکش ملک ،،، اور تمہارا یہ وحشی روپ سب کے سامنے فاش بھی کرونگی ،،، وہ تصور میں اُس سے مخاطب ہوتی ،، عزم سے بولی ،،

عروہ کیا تُم نے واقع ہوتے دیکھا تھا کیا ؟ اذہان نے بیک ویو میرر سے اُس سے کسی خدشے کے تحت پوچھا ،،،

نہیں بھائی میں موبائل میں مصروف تھی ،، وہ فوراً نفی کرتی بولی ،،،،

اذہان نے سمجھتے اثبات میں سر ہلایا ،،اور پُر سکون انداز میں  ڈرائیونگ کرنے لگا ،،

،،،،،،،،،

سب نرمین بیگم کے  بلاوے پر انکے کمرے میں موجود تھے ،،، 

حسنین کو امریکہ سے واپس لوٹے ہفتہ گُزر چکا تھا ،، 

حسنین میں نے تمہارے لئے اپنی دوست مایا کی بیٹی پسند کی ہے ،، اور میں جلد ہی منگنی کرنا چاہتی ہوں ،،، نرمین بیگم بغور اپنے بیٹے کے سپاٹ چہرے کو دیکھ اپنے خیال سے آگاہ کیا حسنین ہنوز خاموش بیٹھا رہا ،،،

جنت نور ایک اچھی لڑکی ہے ،، ماشااللہ سے ڈاکٹر بھی ہے ، میرے خیال سے حسنین کے لئے ایک دم پرفیکٹ ہے ،، صدام نے کمرے کے اس تناؤ کو ختم کرتے اپنی رائے دی ،، حسنین نے سرخ آنکھوں سے صدام کی سمت دیکھا ،،

حسنین کیا پھر ہم چلیں کل نرمین بیگم نے سوال کیا ،،

مام مُجھے ابھی شادی نہیں کرنی ،،

 اُس نے صاف گوئی سے کام لیتے سرد لہجے میں کہا ،، 

 پھر کب کرنی ہے جب میں تمھارے غم میں اس دنیا سے رخصت ہو جاؤنگی تب کروگے ،،،

  انہوں نے نم لہجے میں کہا ،، 

مام پلیز مجھے فورس نہ کریں ،، اُس نے ماں کے لہجے میں نمی محسوس کرتے اہستہ سے کہا ،

میں تمہیں فورس نہیں کر رہی لیکن کسی پہ زندگی ختم نہیں ہوتی بیٹا آگے بڑھو ،،             

جب میں نے ایک بار انکار کر دیا ہے تو کیوں کر رہی ہیں آپ ،، 

ابھی اُنکی بات مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ حسنین نے غصے، میں اونچی آواز میں چلا کر کہا ،،اور جانے کے لئے آٹھ کھڑا ہواٹھیک ہے پھر تُم میرا مرا ہوا منہ دیکھوگے ،،، اگر تم اس کمرے سے انکار کر کے نکلے تو ،،،

الفاظ تھے کہ ہتھوڑے جو اُس کے دماغ میں ٹھا ٹھا کر کے  بجے تھے ،، اُس کے کان سائیں سائیں کر رہے تھے ،، 

وہ اپنی سرد اور سرخ ہوئی انکھوں سے اپنی ماں کو دیکھ رہا تھا ، جو اب اُس سے منہ موڑے دوپٹے سے اپنے آنسو صاف کر رہیں تھیں ،،،

صدام اور ایمان انکے پاس بیٹھے اُنہے سنبھالنے کی کوشش کر رہے تھے ،،،

حسنین نے  ایک سرد سانس خلرج کی  ،  اور اپنے آنسو پینے لگا ،،آنسوؤں کا ایک گولا اُسکے گلے میں اٹکا تھا ،،، 

ٹھیک ہے مام جیسے آپ چاہیں گی ویسا ہی ہوگا ،، تڑپ کر اُنکی طرف بڑھا تھا اور اُنکے گھٹنے پر اپنا سر رکھ کر بولا ،،، وہ پگھل گیا تھا ماں کے آنسوؤں نے اُسے پگھلا دیا تھا ،،

،،،،،،،،،،،،،،،

جہانگیر مینشن کا لون بلیک اور ریڈ کے کامبینیشن میں سجا ،، ،، 

,,,دکھنے میں بے حد حسین نظارہ پیش کر رہا تھا,,,

یہ ایک قسم کی تھیم پارٹی تھی,,

پارٹی پر آئے سب مہمان آپس میں خوش گپیوں مہں مصروف  تھے ،،،

تمام مردوں نے بلیک کلرکے کرتے زیب تن کیئے ہوئے تھے جب کہ خواتین سرخ رنگ میں غضب ڈھا رہی تھیں  ،،،

بلیک تھری پیس میں جہانگیر صاحب اور سرخ  ساڑھی پر نفیس سی گولڈن جیولری پہنے ربیعہ بیگم ،، دونوں بے تحاشا دلکش لگ رھے تھے ،،

ریڈ کلر کی سادھی سی قمیض شلوار پر بھری گولڈن دوپٹہ اور کانوں میں چھوٹے سوبر سے ایئر رنگ پہنے ،، عروہ اپنی سادگی میں بھی غضب ڈھا رہی تھی ،،، عکش ملک کی نظریں بار بار بھٹک کر اُس کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں ،،، عروہ اپنے چہرے پر اُسکی نظریں بخوبی محسوس کر رہی تھی ،، بلیک تھری پیس میں عکش ملک پارٹی میں آئی سب لڑکیوں کی نظروں کا مرکز بنا ہوا تھا ،، 

عروہ بس اُسکی ایک غلطی کی منتظر تھی ، کہ وہ اُسے رنگے ہاتھوں پکڑ کر اُس کا راز فاش کر سکے ،، 

پر اُسکے ہاتھ ابھی تک کوئی ایسا ثبوت نہیں لگا تھا ،،،

وہ ایک عام لڑکی نہیں تھی جو ڈر کر پیچھے ہٹ جاتی ،، وہ حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والی لڑکی ، بِے شک اُس کے ماں باپ نے اُسے شیرنی بنا کر پالا تھا ،، تبھی وارث جیسا شکس بھی اُسکا کچھ بگاڑ نہ سکا ،،،،عروہ کی نظر عکش کے ہر عمل پر مرکوز تھیں ،،،،،،

ایک منٹ ایک منٹ ,,,

کیک کاٹتے دیکھ عروہ نے کچھ یاد آنے پہ کہا,,,

ساتھ ایمل کو اشارہ دیا،،،،

اسنے سمجھتے بیگ اسکے حوالے کیا،،،

بیگ سے اسنے ایک خوبصورت سلور نگینوں سے تراشا گیا تاج نکالا جو عموماً بادشاہ پہنتے ہیں,,,

اسنے جہانگیر کے پاس بڑھتے وہ تاج انکے سر پہ سجایا ساتھ ایمل نے بھی حسین ملکہ کا تاج رابیعہ کے سر پہ سجایا

تو ہال میں سبکی تالیوں کا شور اٹھا,,,


کوئ حسرت سے انہیں دیکھ رہا تھا تو کوئ حسد سے,,,


رابیعہ اور جہانگیر نے آگے بڑھتے ان دونوں کو گلے لگایا شفقت سے انکی پیشانی پہ بوسہ دیا انکی آنکھیں نم تھی , ,,,

،،،،،،،،،،،،،


ازہان کی نظریں بار بار بٹھک کر ایمل کی جانب اٹھ رہی تھی جسنے نیوی بلیو رنگ کا گھیر دار فراک زیب تن کیئے بالوں کو ہلکا سا کرل کر کے کھلا چھوڑے میک اپ میں محض بیبی پنک گلوز لگائے سیدھا اسکے دل میں اتر رہی تھی,,,


جہانگیر نے اپنی بیوی کے ہمراہ کیک کاٹا ایک بار پھر لان تالیوں سے گونج اٹھا اب وہ سب سے سالگرہ کی مبارک باد وصول رہے تھے,,,,


،،،،،،،،،،،،،،،،


اسکا موبائل رنگ ہوا موبائل پہ نمبر دیکھ کال یس کرتا وہ سائیڈ پہ جانے لگا اسے جاتا دیکھ عروہ بھی اسکی تقلید میں سب سے نظریں بچا کر نکلی ,,,


میں بس دس منٹ تک پہنچ جاؤنگا پلین ریڈی ہے کوئ چینجنگ نہیں ہوگی,,,

ایک ہاتھ سے پیشانی مسلتا وہ فون کے دوسری طرف مقابل سے مخاطب تھا ,,,


پیشانی وہ تب ہی مسلتا تھا جب وہ کسی گہرہ پریشانی میں مبتلا ہو,,,


عروہ اپنی تمام تر سماعتیں بچھائے دروازے کی اوٹ سے اسے سن رہی تھی اسکا انداز کافی مشکوک لگ رہا تھا ,,,


اسکے پلٹتے وہ اسکی نظروں سے بچتی اسکی گاڑی کی ڈِگّی میں جا بیٹھی وہ بھی رابیعہ اور جہانگیر سے ضروری کام کا کہتا اپنی گاڑی کی طرف بڑھا ,,,


اسنے گاڑی روڈ پہ ڈالی ساتھ کال پہ کسی کو ہدایت دے رہا تھا

ڈگی چھپی وہ بامشکل ہی سن پارہی تھی اندر ہی اندر ایک خوف بھی انگڑائ لے رہا تھا کہیں وہ کسی جال میں نہ پھنس جائے

لیکن اسکی زندگی کا سوال تھا آخر کیسے وہ کسی گنڈے کے ہاتھ میں اپنے تمام زندگی کردیتی,,,


کافی لمبے سفر کے بعد اسنے گاڈی فارم ہاؤس کے پاس روکی,,,,


گاڑی سے نکلتا وہ پھر کال پہ کسی سے بات کرنے لگا ,,,

وہ اب تک اپنی سابقہ پوزیشن میں تھی اب اسے آواز اپنے قریب محسوس ہورہی تھی دھڑکنیں معمول سے زیادہ بڑھ گئ تھی وہ کال رکھتا اندر کی طرف بڑھ گیا,,,


اووشٹ سیل تو ایمل کے پاس ہی رہ گیا سر پہ ہاتھ مارتی وہ سوچنے لگی اب اسکا اصلی روپ سب کے سامنے کیسے آئیگا اگر کسی نے میرا یقین نہیں کیا تو,,

,, نہیں نہیں وہ لوگ ضرور میری بات مانیں گے اپنی سوچوں میں الجھتی وہ اسکے جانے کی یقین دیہانی کرتی احتیاط سے باہر نکلی ,,,

ادھر ادھر نگاہیں دوڑاتی کسی کی ناموجودگی کا یقین چاہا اور ساتھ تیزی سے پلر کی اوٹ میں چھپی ,,,,

جلد بازی میں اسکا دوپٹا ڈگی میں اٹکنے باعث پھٹ گیا تھا لیکن اسے پروہ کہاں تھی...

دھڑکتے دل کے ساتھ اپنے قدم اٹھاتی وہ اندر بڑھ رہی تھی ,,,

ہال کے قریب پہنچ کر اسے شدید جھٹکا لگا تھا,,

ہال میں اسے کہیں بھی عکش نظر نہیں آیا البتہ 5 جوان مرد جو سوٹ بوٹ میں ملبوس آنکھوں پہ سن گلاسیس لگائے محو گفتگو تھے ,,,

اور ایک طرف مولوی صاحب ہاتھ میں فائیل پکڑے صوفے پر دراز تھے ,,,

یہ جگہ کافی حسین منظر پیش کر رہی تھی ہر چیز نفاست سے سجی اپنی مثال آپ تھی,,,


اسنے خود کو سمبھالتے اپنی متلاشی نگاہیں عکش کی تلاش میں گھمائیں تو وہ اسے کہیں نظر نہیں آیا,,,


کیا ہوا مجھے ڈھونڈ رہی ہو ,,,


اسنے آواز پہ جلھٹکے سے گردن گُمائ اپنےمقابل عکش کو کھڑا دیکھ اسکے چھکے چھوٹے تھے دوسرا عکش کا پرسکون انداز اسے کسی انجانے خدشے میں مبتلا کر رہا تھا,,,

کیا میں تمہیں اتنا بےوقوف نظر آتا ہوں کہ خود پہ کسی نظریں نہ محسوس کر سکوں پھر میرے سامنے تو میری دشمنِ جان تھی چلو یہ بھی چھوڑو تمہاری موجودگی تو میں ہزاروں میں بھی محسوس کر سکتا ہوں پھر تمہارے اتنے نزدیک ہوتے میں کیسے انجان رہتا ,,,


ہونٹوں پہ جاندار مسکراہٹ لیئے آنکھوں میں اپنی اوشین آنکھیں گاڑے اسکی طرف تھوڑا جھکا ,,,


اب چلیں اسکا ہاتھ تھامتا اپنے بھاری قدم اٹھاتا وہ آگے بڑھ رہا تھا ,,,,


چھوڑوں مجھے عکش کہاں لے جارہے ہو مزاحمت کرتی وہ بامشکل اسکے ساتھ قدم ملا پا رہی تھی ,,,


اسے تقریباً گھسیٹتے ہوئے وہ کمرے میں داخل ہوا اور جھٹکے سے اسکا ہاتھ چھوڑا,,,


عکش تم میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے پاگل مت بنو میں منگیتر ہوں تمہاری مجھے بھی اس آدمی کی طرح قتل کروگے ہاں دیکھو چپ چاپ خود کو پولیس کے حوالے کردو ,,,,


اسکی بچکانہ باتیں سنتا وہ وارڈروب کی طرف بڑھا وہاں سے ایک دوپٹا اور ساتھ سیاہ شال نکالتا وہ پھر سے اسکی طرف بڑھا,,,


وہ جو اسے اپنے قریب آتا دیکھ خوف سے اپنے قدم پیچھے کی طرف بڑھا رہی تھی,,,

جب پیچھے دیوار سے اسکی پشت ٹکرانے کی باعث وہ رکی وہ قریب آتا بنا کچھ بولے اسکے سر پہ چنری اوڑھائ ساتھ اچھی طرح چادر کی مدد سے اسکا ہوش ربا کپکپاتا وجود ڈھک دیا ,,,

تم پہ اپنی مہر چاہتا ہوں,,,

خود کو ہلکان مت کرو,,,

ایک ہاتھ سے نرمی سے اسکے آنسوں صاف کرتا سرگوشی میں گویا ہوا ,,,,

دوسرے ہی پل وہ نفرت سے ہاتھ جھٹک گئ

باہر مولوی انظار کر رہا ہے ہمارا نکاح ہے میرے خیال سے زیادہ انتظار کروانا مناسب نہیں؟

وہ ضبط کرتا محبت سے گویا ہوا

شٹ اپ مسٹر عکش ملک نہیں کرونگی میں تم سے نکاح کوئ بے بس لاچار لڑکی نہیں ہوں جس پہ تم اپنی مردانگی آزما لوگے اور میں اپنی قسمت سے سمجھوتا کرلونگی کوئ فلم کی شوٹنگ نہیں ہورہی ہے سمجھے تم وہ تقریباً چھیختے ہوئے گویا ہوئ,,,


آہستہ اگر میں ضبط سے کام لے رہا ہوں تو اسکا یہ مطلب نہیں تم میرا ضبط آزماؤگی ,,,


اسکے چیخنے پر منہ دبوچتا سرد لہجے میں کہا ,,,

اور رہی نکاح کی بات تو وہ تو تم لازمی کروگی ,,,

ورنہ اپنے بھائ کی زندگی سے ہاتھ دھونے کیلیئے تیار ہوجاؤ ,,,

اور سویٹ ہارٹ میرے ہاتھ کی صفائ سے تو تم اچھی طرح واقفیت رکھتی ہو,,,

طنزیہ مسکراہٹ چہرے پہ سجائے وہ نشانہ لگا چکا تھا ,,,


دھمکی دے رہے ہو مجھے نیچ انسان اگر میرے بھائ کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا تو منہ نوچ لونگی میں تمہارا ,,,

اپنے بھائ کیلئے یہ سب سنتی وہ بھپر گئ تھی,,,,


سوچ لو اچھی طرح میں ایسا ہی ہوں جانم,,,

کندھے اچکاتے بے پروہ سے انداز میں کہا گیا ,,,


وہ اسکے سامنے کمزور نہیں پڑھنا چاہتی تھی لیکن آنسو تھے کہ مسلسل اسکی سبز آنکھوں سے روا تھے ,,,

تم ایسا کچھ نہیں کروگے ,,,

تمہارا بھائ اس وقت گھر پر نہیں موجود ,,,

اسکی بات سنتے اسے جھٹکا لگا تھا ,,,,

لیکن وہ کچھ نہیں بولی ,,,,

اچھی طرح سوچلو لیکن میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے ,,,

گن کو ہاتھ میں گھماتا وہ دھمکی آمیز تاثرات چہرے پہ سجائے گویا ہوا,,,

اسکے لہجے کی سختی کو محسوس کرتے اسکی روح فنا ہوئ تھی ,,,

ٹھیک ہے میں تیار ہوں لیکن خبردار میرے بھائ کو ہاتھ بھی لگایا تو , ,,

اپنے ہاتھ کی پشت سے آنسوں رگڑتی وہ بولی,,,

وہ اسکا ہاتھ تھامے واپس ہال کی طرف بڑھ گیا,,,,

ہال میں پہچتے سب نے اپنی نظریں جھکا دی تھی بس کچھ دیر کا کھیل تھا ,,,,

عکش ملک ولد معاذ ملک آپکا نکاح عروہ جہانگیر اعوان سے بیس لاکھ روپے سک رائج الوقت ہونا قرار پایا ہے ، کیا آپ نے قبول کیا ؟

عروہ کے بیٹھتے ہی مولوی صاحب نے عکش کی طرف رُخ موڑتے نکاح کی کارروائی شورو کرتے کہا ،،

ہزار بار قبول ہے ،، دلکشی سے مسکراتے اُس نے عروہ کی طرف دیکھتے کہا ،،،

تیسری بار پوچھنے میں بھی اُس نے یہی جواب دہرایا ،، عکش کی طرف سے نکاح کی رسم پوری ہوئی تو مولوی صاحب عروہ کی طرف رخ کیا ،،،،

عروہ جہانگیر ولد جہانگیر اعوان آپکا نکاح عکش ملک ولد معاذ ملک سے بیس لاکھ روپے سکا رائج الوقت ہونا قرار پایا ہے کیا آپ نے قبول کیا ؟

قبول ہے ،، کچھ توقف کے بعد وہ بولی ،، آنسوں کا پھندا اُسکے گلے میں اٹکا تھا ،،،

قبول ہے

قبول ہے

تینوں بار با ظاہر اُس نے سپاٹ چہرے سے جواب دیا ، جبکہ اُس کا دل عکش ملک کے ٹکڑے کرنے کا کر رہا تھا ،،دستخط کرنے کے بعد سب مرد حضرات عکش کو مبارکباد دے رہے تھے ، اور وہ بھی فتح مندی سے مسکراتا ہوا مبارکباد وصول کر رہا تھا ،،


اپنی چیخوں کا گلا گھونٹتی وہ اُسی کمرے کی طرف بڑھی جہاں اُسے عکش لے کر آیا تھا ،،


اُسے جاتے دیکھ عکش نے ایک نظر دیکھا تھا ،

وہ کمرے میں آتی ہی بیڈ کے فاصلے پر زمین پر بیٹھ کر گھٹنوں میں سر دے کر رونے لگی ،،وہ مضبوط لڑکی آج عکش ملک کے آگے ہار گئی تھی ،،،

کہاں گیا اُس کا بہادر پن ؟ اپنی انا غرور سب وہ اپنی بھائ کی زندگی کے آگے نیلام کر چکی تھی ،، اپنی بے بسی پر بیٹھی وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی ،،، اُسے نہیں یاد تھا کہ وہ کبھی بے بس ہوئی ہو ،، پر آج اُسکی انا غرور سب ریزہ ریزہ ہوگیا تھا ،،

رونے کی شدت سے اُسکی آنکھیں سوج چکی تھیں ،، ناک سرخ ، اور لب پھڑ پھڑا رہے تھے ،، وہ آج ٹوٹ بکھر چکی تھی ،،

میں نے اپنے بابا کا سر جھکا دیا ،، اب میرے بھائی مجھ سے نفرت کرینگے ،، میں نہیں دیکھ سکتی اپنوں کی بے رُخی ،، یا اللہ میں کیا کروں ؟؟ وہ روتی اپنے بال نوچنے لگی ،،،، نہیں میں نہیں دیکھ سکتی اپنے باپ بھائ کا سر جھکا ،، یا میں عکش ملک کو ختم کر دونگی یا خود کو ،،،،

وہ ایک بار پھر سسکنے لگی ،،،وہ مولوی صاحب اور گواہ کے طور پر آئے اپنے کولیکس کو رخصت کرتا ،،، گنگناتا بالوں میں ہاتھ پھیرتا ،، کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا ،،

اُس نے جیسے ہی دروازہ ڈھکیلا سامنے کے منظر دیکھ وہ سکتے میں چلا گیا ،، عروہ کی کلائی پر کٹ کی وجہ سے خون رس رہا تھا ،، عروہ نے اُسے کمرے میں داخل ہوتے دیکھکر ہاتھ میں پکڑا کانچ کا ٹکڑا نیچے پڑے کانچ کے دیگر ٹکڑوں میں پھینک دیا ،، اُسکی کلائی سے خون کی بوندیں ٹپک ٹپک کر کانچ کے ٹکڑوں پر گر رہیں تھی ،،،

آج سے میری زندگی کا ایک ہی مطلب ہے عکش ملک ،،تمہارے ہر مقصد کو تباہ و برباد کرنا ،، اُس نے ہلق کے بل چلا کر کہا ،،،،

عکش سکتے کے عالم میں اُسے دیکھ رہا تھا ،،عروہ کا سر چکرا رہا تھا ،، اُس سے کھڑا رہنا مشکل ہو گیا تھا ، وہ دونوں ہاتھوں سے سر تھامے کھڑی رہنی کی کوشش کر رہی تھی ،،،

خون بہنے کی وجہ سے وہ ہوش و خرد سے بیگانی ہوگئی تھی ،، وہ گیرنے ہی والی تھی کہ عکش نے دوڑ کر اُسے اپنی باہوں میں تھاما تھا ،،عروہ آنکھیں کھولو یہ کیا کیا ہے تُم نے بیوقوف لڑکی ؟ وہ اُسکا گال تھتھپاتا بولا ،، جو رونے کی شدت سے نم تھا

وہ اُسے باہوں میں اٹھاتا اپنی گاڑی کی طرف بڑھا ، اُسکے بے ہوش وجود کو فرنٹ سیٹ پر ڈالتا ، ہوا کی تیزی سے گاڑی چلا رہا تھا ،


،،،،،،،،،،،،،،،،


ماما مجھے عروہ نہیں مل رہی کہاں ہے وہ میں پورے گھر میں دیکھ چکا ہوں ،مہمانوں کے جانے

کے بعد شایان كو جب عروہ کہیں نہ ملی تو وہ

پریشان سا ربیعہ بیگم کے پاس آیا ،


یہیں گھر میں ہی ہوگی ، ربیعہ بیگم نرمی سے بولیں ، نہیں ہے ماما میں دیکھ چکا ہوں گھر میں

شایان نے اُنہیں پریشان سے لہجے میں کہا ،،،،


کیا ہوا مام آپ پریشان کیوں ہیں ؟ اُن دونوں کو ہریشان ہوتا دیکھ اذہان نے پوچھا ، بیٹا عروہ میری بچی پھر سے کسی نے ،، آخر دشمنی کیا ہے میری بچی سے کسی کی ،،

وہ اذہان کے سینے میں سر رکھے رونے لگیں ،،

ماما آپ پریشان نہ ہُوں میں دیکھتا ہوں گھر میں ہی ہوگی اور گھر سے کون لے کر جا سکتا ہے کسی کو ،، اذہان ربیعہ بیگم کو دلاسہ دیتا بولا ،،


بھائ میں دیکھ چکا ہوں وہ نہیں ہے ،، شایان نے اذہان کو کہا ،،

پھر وہ کہاں ہے

مام آپ پریشان نہ ہُوں میں اور شایان دیکھکر آتے ہیں ،، اذہان بولتا ہوا اُنکے آنسو پونچھتے جانے لگا ، شایان بھی اُس کے پیچھے لپکا


،،،،،،،،

ہسپتال کے گیٹ کے باہر اُس نے جھٹکے سے گارڈ ی

روکی ،، اور اُسے پھر سے باہوں میں اٹھاتا ایمرجنسی کی طرف جانے لگا ،،


اُسے سٹریچر پر لیٹا کر نرسیں آپریشن تھیٹیرمیں لےگئیں تھیں،,,,


،،،،،،،،،،،،،،

رابیعہ ہمت کرو کچھ نہیں ہوا ہوگا عروہ کو ,,,,

جہانگیر نے اپنی روتی ہوئ بیوی کے گرد حصار باندھتے حوصلہ کن لہجے میں گویا ہوئے,,


عکش ہاں! معاز بھائ آپ پلیز عکش سے پتہ کریں ہو سکتا ہے اسے کچھ خبر ہو,,,


رابیعہ نے سامنے پریشان بیٹھے معاذ کو کچھ یاد آنے پہ مخاطب کرتے کہا,,,


ٹھیک ہے بھابی میں پوچھتا ہوں آپ پریشان نہیں ہوں اللہ بہتر کریگا,,,


انھوں نے کہتے عکش کا نمبر ڈائیل کیا,,,,


اوپریشن تھیٹیر کے باہر پریشانی کے عالم میں مسلسل چکر کاٹ رہا تھا دل میں عجیب وسوسے اٹھ رہے اگر اسے کچھ ہوجاتا تو وہ کیسے جی پاتا,,,


نہیں نہیں کچھ نہیں ہوگا تمہیں اپنی سوچوں کو جھٹکتا وہ آزان کی آواز سنتا نماز پڑھے کی غرض سے پریئر روم کی طرف بڑھا ,

,, جب راستے میں ہی اسکا موبائل رنگ ہوا,,,


بنا نام دیکھے اسنے عجلت میں کال یس کرتے فون کان سے لگایا,,,


ہیلو عکش بیٹا تم کیاں ہو؟

دوسری طرف معاذ صاحب نے پریشان کن لہجے میں استفسار کیا,,,


بابا میں ہوسپیٹل میں ہوں .....

ایک لمبا سانس فضا میں چھوڑتا وہ صاف گوئ سے گویا ہوا,,,,


کیونکہ اب کوئ فائدہ نہیں تھا اسے معلوم تھا ہر ہال میں اب اسے سامنہ کرناہے ,,,,

,

وہ خود کو تیار کیئے بیٹھا تھا,,,ہسپتال کیوں خیریت اور عروہ کہاں ہے کچھ خبر ہے تمہیں؟

میں ٹھیک ہوں ڈیڈ اور آپ آجائیں عروہ میرے ہی ساتھ ہے,,

عروہ ٹھیک تو ہے عکش تم لوگ ہوسپٹل میں کیوں ہو ,,,,

معاذ نے کچھ آہستہ آواز میں کہا,,

لیکن انکا انداز دیکھتے پاس کھڑے جہانگیر نے انکے ہاتھ سے موبائل لیتے اپنے کان سے لگایا جب عکش کی آخری الفاظ اسکی سماعتوں سے ٹکرائے ,, ,


ڈیڈ آپ آجائیں عروہ ایمرجنسی میں ہے میں سب کچھ بتاتا ہوں ,,,انھیں اپنے دل میں درد سا اٹھتا محسوس ہوا,,,


سمبھالو خود کو جیانگیر ہم چل رہیں ہیں ہسپتال کچھ نہیں ہوا ہے عروہ کو,,,


معاز نے انہیں سمبھالتے دلاسہ دیا رابیعہ بیگم بھی بیٹی کی حالت کا سنتے ڈھے سی گئ تھی,,,,


معاذ ملک ڈرائیور کو گاڑی نکالنے کا کہتے باہر کی طرف بڑھے ساتھ جہانگیر اور ربیعہ بھی انکے ہمراہ ہوئ,,,,,

گاڑی میں بیٹھتے رابیعہ نے ازہان کو کال کی جو پہلی بیل پہ اٹھا لی گئ,,,,

انھیں ہوسپیٹل کا انفورم کرتی وہ اپنی بچی کی صحت کی دعا مانگنے لگیں,,,

رش ڈرائیونگ کرتے وہ ہاسپیٹل میں داخل ہوئے,,,,

اوپریشن تھیٹر کے قریب پہنچے تو سامنے سے ڈاکٹر منہ سے ماسک اتارتے باہر آئے وہ دونوں فوراً ڈاکٹر کی جانب لپکے,,,

عکش جو کب سے انتظار میں تھا وہ بھی اس طرف بڑھا,,,

ڈاکٹر میری وائف کیسی ہے عکش نے ازہان اور شایان کو اپنی طرف آتے نہیں دیکھا,,,

لیکن ان دونوں نے ہی لفظ وائیف پہ توجہ نہیں دی تھی,,,

ڈونٹ وری اب وہ خطرے سے باہر ہیں ابھی ہوش میں نہیں ہیں کچھ وقت تک ہوش آجائیگا پریشانی کی کوئ بات نہیں آپ مل سکتے ہیں

پیشنٹ سے,,,

خون زیادہ بہہ جانے کی صورت میں پیشنٹ کی ایسی حالت ہوئ ہیں جسکی وجہ سے وہ بےہوش ہوئیں تھی,,,

ڈاکٹر پروفیشنل انداز میں کہتا اسکا کندھا تھتپاتے آگے بڑھ گیا,,,

عکش عروہ کوکیا ہوا ہے؟؟

معاذ صاحب نے ڈاکٹر کے جاتے روبدار آواز میں پوچھا,,,,

ڈیڈ میں نے عروہ سے نکاح کرلیا ہے,,,

اسلیئے اسنے غصے میں اپنی نس کاٹ لی,,,,

ایک ہی سانس میں وہ اپنی پوری کاروائ سب کے گوش گزار چکا تھا,,,,

انداز کچھ ایسا تھا جیسے کچھ بڑا نہیں کیا,,,

چٹاخ,,,,,,

اپنے باپ کی طرف دیکھتا وہ مزید کچھ کہتا کہ معاذ صاحب کا بھاری ہاتھ اسکے گال پہ نشان چھوڑ گیا,,,

یہ تربیت دی تھی میں نے تمہیں ہاں,,,

وہ اسکی طرف شہادت کی انگلی اٹھاتے ہسپتال کی قوانین کا لہاظ کرتے دبے دبے غصے میں گویا ہوئے,,,


ازہان اسکی بات سنتا آگے بڑھا اور ایک زور دار گھونسا اسکے منہ پہ رسید کیا وہ اپنی جگہ سے لڑکھڑایا ہونٹ پھٹ جانے کی وجہ سے کنارے سے خون رسنے لگا وہ سیدھا یوتا اپنے ہاتھ کی پشت سے خون صاف کرنے لگا,,,,


اگر میری بہن کو کچھ ہوا تو اینٹ سے اینٹ بجا دونگا میں تمہاری یاد رکھنا عکش ملک لاوارث نہیں ہے عروہ ملک,,,,


جہانگیر

رابیعہ کی ایک دلخراش چیخ بلند ہوئی

بابا:

شایان بھی پھرتی سے جہانگیر صاحب کی طرف بڑھا جو اپنے دل کے مقام پہ ہاتھ رکھے زمین پہ ڈھے سے گئے تھے,,,

ازہان اسے چھوڑتا اپنے باپ کی طرف بڑھا جو درد تڑپ رہے تھے,,,

ڈاکٹر ڈاکٹر

وہ تقریباً دھاڑا,,,

ہسپتال کی انتظامیہ کی مدد سے انہیں علاج کیلئے لے جایا گیا,,,


،،،،،،،،،،،


عکش ملک اس سب کا حساب تمہیں سود سمیت لوٹانا ہوگا ،، اذہان نے سرخ انکھوں سے غرا کر کہا ،،،،،

اُسکی حالت بلکل زخمی شیر کی طرح تھی ،،،


،،،،،،،،،،،،،،


اسلام و علیکم ....!

ڈرائنگ روم میں موجود سب کو مشترکہ سلام کرتی وہ اندر داخل ہوئی ،،،،


پنک کلر کی گھٹنوں کو چھوتی سادی سی فرک پر ،،، سلیقے سے سر پر دوپٹہ پہنے کوئی اپسرا لگ رہی تھی ،،،


وعلیکم سلام ..! سب نے خوش دلي سے جواب دیا ،،،


جنت بیٹا آو میرے پاس بیٹھو ،، نرمین بیگم نے محبت پاش نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ،،،


جنت مسکراتی اُنکے برابر جا بیٹھی ،،،

کیسی ہو بیٹا , اور امریکہ سے کب واپس آئی ہو ؟


میں ٹھیک ہوں انٹی ،،، اور امریکہ سے تین دن پہلے ہی واپس آئی ہوں ،،

اُس نے نرم سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا ،،،


جنت نے ذرا سی چور نظر اُٹھا کر سامنے بیٹھے مغرور شہزادے کو دیکھا ،، جس نے ایک بار بھی اُسے نظر اٹھاکر نہیں دیکھا تھا ،،،، اُس کا سر جھکے ہونے کی وجہ سے وہ اُس کا چہرہ دیکھنے میں ناکام رہی تھی ،،


مایا دراصل ہم یہ چہہ رہے تھے کہ اسی ہفتے بچوں کو نکاح کے بندھن میں بندھ دیں ،،


نرمین بیگم نے کچھ جھجھکتے ہوئے کہا ،،،


جنت سب سے ایکسکیوز کرتی اٹھکھری ہوئی ،،


وہ جتنی جلد ہو سکے حسنین اور جنت کا نکاح کروا دینا چاہتی تھیں ،، اتنی مشکل سے تو حسنین نے رضامندی دی تھی ،، وہ کوئی بھی رسک نہیں لینا چاہتی تھیں ،،


نرمین میں اتنی جلدی کیسے تیاری کرونگی اکیلی ؟؟ اسی ہفتے بہت جلدی ہو جائیگا ،،،


مایا نے نفی کرتے کہا ،،، ابھی بس نکاح کر دیتے ہیں سادگی سے ،، شادی کچھ ٹائم بعد دھوم دھام سے کرینگے ،، اُنہوں نے بضد لہجے میں کہا ،

اچھا میں جنت سے مشورہ کر کے بتاؤ نگی ،،،،،

،،،،،،،،،،،،،،،


رات سے صبح ہوگئی تھی ،،،

پر نہ جہانگیر صاحب کو ہوش آیا تھا نہ ہی عروہ کو ،،،


سب کی رات انکھوں میں جاگتی گزری تھی ،، ربیعہ بیگم رات سے روتے ہوئے اپنے پاک رب سے دعا گو تھیں ،،


ایک قدم بھی آگے نہ بڑھانا ،،،

اذہان نے سرخ انکھوں سے عکش کو عروہ کے روم کی طرف جاتے دیکھ کر کہا ،،

،،،،،،،،،


بس بہت ہوگیا اب ،،، میری بیوی ہے وہ تُم ہوتے کون ہو مجھے روکنے والے ،، عکش نے بھی ضبط توڑتے غرا کر کہا ،،،،


اوہ وہ بیوی جیسے تُم نے اپنے گھٹیا پن دیکاتے گنڈا گردی سے زبردستی بیوی بنایا اذہان نے دوبارہ اُس پر وار کیا،

میں نے اُسے دنیا کی گندی نظروں سے بچانے کیلئے پاک رشتے میں بندھا ہے ،،،


اُسے گندی نظروں سے بچانے کیلئے اُس کے باپ بھائ زندہ ہیں عکش ملک ،، اذہان نے چبھتے لہجے میں کہا ،،


اچھا تو یہ باپ بھائ کہاں تھے ، جب کالج سے آتے اُسے اُس مالوم وارث نے اغوا کیا ،، عکش نے آئینہ دیکھاتے ہوئے کہا ،،

وہ اب میری عزت ہے ،، میری حیات میری بیوی ہے ،،،


اگر کسی نے بھی میری بیوی کو مجھ سے دور کرنے کی کوشش بھی کی تو میں ساری حدیں ، سارے ناتِے ، سارے رشتے بھول جاؤں گا ،،، بھولنا نہیں میرے یہ الفاظ اذہان اعوان ،،، وہ کہتا ہوا کمرے میں داخل ہوا ،،،،


پیچھے اذہان نے ہاتھوں کا مکا بنا کر دیوار میں دے مارا تھا ،،،،


اپنی گھنی سیاہ پلکیں گرائے ، وہ نیم بے ہوش تھی ،، سفید ہاتھوں میں ڈرپ لگی تھی ، جبکہ بائیں کلائی پر سفید پٹی بندھی تھی ،،


اُسکی چمکتی سفید رنگت ،، آج زرد تھی ، ایک ہی دن میں وہ صدیوں کی بیمار لگ رہی تھی ،،


عکش نے ایک سرد سانس ہوا کی سپرد کی تھی ،، اور قدم اُسکی جانب بڑھايے ،،،،


اُسکےپیلے زرد چہرے کو دیکھ اُس نے بے ساختہ اُسکی پیشانی پر اپنے لب رکھے تھے ،،،

تُم نے کیوں کیا ایسا ؟ کیوں تُم ہمیشہ مجھ سے نفرت جتاتی ہو ؟ وہ اُسکے بالوں میں ہاتھ پھیرتا سوال کر رہا تھا ،،،


میں تُم سے عشق کرتا ہوں عروہ ،،، میں تُمہیں خود سے دور جاتا نہیں دیکھ سکتا تھا ،،،

میں مجبور تھا یہ قدم اٹھانے کے لئے ،،،

اب بس کرو آٹھ جاؤ نہ ،،،

تُم سن رہی ہو نہ عروہ ،،،

وہ اُسکا گال اپنے انگوٹھے سے سہلاتا بولا ،،،،،

موبائل کی وائبریشن سنتے وہ کسی پر بھی نظر ڈالے بغیر باہر آگیا تھا,,,

ہیلو: روبدار آواز میں مقابل کو کہا گیا,,,


ٹھیک ہے میٹینگ ارینج کرو میں آتا ہوں,,,


کہہ کر پارکنگ کی طرف بڑھ گیا,,,,, عروہ کی حالت میں اب کافی حد تک سدھار آچکا تھا,,,


جہانگیر صاحب کو بھی مائنر اٹیک آیا تھا اور اب وہ خطرے سے باہر تھے,,,


ڈاکٹر کی ہدایت پہ انھی ایک دن مزید انڈر اوبزرویشن رکھا گیا تھا,,


بابا! اسنے دھیمی آواز میں پکارا,,,,,,پاس کھڑے ازہان نے باخوبی سنا اور اسکی طرف لپکا,,,


گڑیا تم ٹھیک ہو درد تو نہیں؟؟ اسنے پاس آتے پریشانی سے پوچھا ,,,


اٹھو اب بہت ستا لیا تم نے,,,,


اسے سہارا دے کر بٹھاتے اسنے مصنوعی ڈانٹتے کہا,,

اسنے اپنی سبز آنکھیں وا کی تو سامنے ہی اسے ازہان اور رابیعہ بیگم کھڑی نظر آئیں,, ,


بھائ بابا کہاں ہیں ؟

اسنے اپنا سفید پٹی میں مقید ہاتھ ازہان کے بازو پہ رکھتے کچھ پریشانی سے پوچھا,,,


بابا ٹھیک ہیں گڑیا انھیں ابھی گھر بھیجا ہے تمہیں ہوش آگیا ہے نہ اب ہم بھی گھر چلیں گے,,,,


اسنے محبت سے کہتے آخر میں شفقت سے اسکا ماتھا چومہ,,,,


نہیں بابا کو بلائیں اسنے ضدی لیجے میں روتے ہوئے کہا,,

میں بلاتا ہوں تم رو نہیں گڑیا ابھی بہتر ہوئ ہو,,,

اسکے کہنے پر وہ چپ ہوگئ,,,


دفتاً دروازہ کھلا,,,,

اور شایان ہانپتا ہوا اندر داخل ہوا ازہان کے مقابل کھڑے ہونے کے باعث اسکی نظر عروہ پہ نہیں گئ تھی ,,,


بھائ بابا کو ہوش آگیا وہ عروہ کو پکار رہے ہیں ڈاکٹر کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ سمبھل نہیں رہے آپ ,,,,


کیا ہوا بابا کو مجھے بابا کے پاس جانا,,,


اسکی. ابھی بات مکمل بھی نہیں ہوئ تھی کہ عروہ خود سے چادر کھینچتی اٹھ کھڑی ہوئ اسے سب کچھ گھومتا یوا محسوس ہوا اپنا سر پکڑے اسنے سہارے کیلئے ہاتھ مارا تو فوراً آگے بڑھتے ازہان نے اسے سہارا دیا,,,


گڑیا تم ابھی ٹھیک نہیں ہو ہم جائینگے,,,,

نہیں مجھے لے کر چلیں مجھے جانا ہے وہ ہذیانی انداز میں چلائ کچھ طبیعت کا اثر تو جو وہ ضدی ہو رہی تھی ,,,,

ٹھیک ہے میرا بچہ ہم چل رہے ہیں,,,


اسنے آنکھوں سے آنسو صاف کرتے کہا اور دونوں بھائیوں نے سمبھالتے دونوں آگے بڑھے انکے پیچھے رابیعہ بھی انکی تقلید میں قدم بڑھانے لگی ,,,,


کمرے میں قدم رکھتے سامنے ہی انھیں ہی جہانگیر ہاسپیٹل کہ بیڈ پہ دراز کسی بھی ہال میں یہاں سے اٹھنے کی جدوجہد کر رہے تھے لیکن وارڈ بوائز کہ ہوتے ایسا ممکن نہیں تھا انکی اس قدر کھینچا تانی کے باعث ہاتھ سے کینولہ بھی نکل چکا تھا اور اب خون رس رہا لیکن انکی بس ایک ہی گردان تھی میری بچی کوبلاؤ,,,,


اسنے بھاگتے ہوئے اپنے بابا کے سینے پہ سر رکھا ,,,

اپنی لاڈلی جوان بیٹی کو قریب پاتے وہ کچھ پرسکون ہوئے,,,,


بیٹیوں کے معاملے میں ایک باپ کا دل اتنا ہی کمزور ہوجاتا انکا بس نہیں چلتا دنیا کی سرد گرم سے چھپا کے اپنا سینا چیر کے اندر بسا لیں,,,


میرا بچا تمہیں کچھ ہوجاتا تو میں کیسے زندہ رہتا ایک بار بھی نہیں سوچا آپنے اپنے بابا کے بارے میں,,


عروہ کو خود میں بھینچتے وہ عکش بار ہوئے انکی آواز میں تڑپ واضح تھی,,,

ایم سوری بابا,,,


اب میں کہیں نہیں جاؤنگی آپکو چھوڑ کے,,,

انکے سینے میں سر دیئے وہ بھی رونے لگی,,,,


ہم جوان نسل خود کو نقصان پہچانے کیلئے اتنے پاگل ہوجاتے ہیں کہ ہمیں یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ خدا کی طرف سے حرام ہے یہ روح یہ زندگی خدا کی امانت ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم سے کتنی زندگیا جڑی ہیں یاس رہتا ہے تو محض اتنا کہ ہم نے بہت سہا ہے خدا پہ کامل یقین رکھو اگر اسنے پریشانی دی ہے تو حل بھی وہی کریگا,,,


خدا کی مار سے ڈرو اسکی دی گئ حسین نعمتوں کا شکریہ ادا کرو حلال اور حرام میں فرق کرو یہ ہی ایک سچے مسلمان ہونے کا ثبوت,,,


بس اب ہمہں یہاں نہیں رہنا ازہان گاڑی نکالو ہمیں گھر جانا ہے,,,


جہانگیر نے حکم زدہ لہجے میں کہا,,


بابا ڈاکٹز سے پوچھے بغیر ہم نہیں جا سکتے یہ قوانین کے خلاف ہے اور ابھی آپ اسٹیبل بھی نہیں ہیں,,,


اسنے مصلحت سے سمجھانا چاہا مگر بے سود,,


تم لیکر چل رہے ہو یا نہیں بس اتنا بتادو ورنہ ابھی ہمارے کندھوں میں اتنی طاقت باقی ہے کہ ہم اپنی بیوی بیٹی کو لے جا سکیں,,, انکا لہجہ و فیصلہ اٹل تھا,,, انکی بات پہ پاس کھڑی انکی بیوی بھی مسکرائ,,,


اچھا بابا میں فورمیلیٹیز پوری کر کے آتا ہوں,,,,


********

جنت نور فرقان ولد فرقان خان آپکا نکاح حسنین جمشید ولد جمشید اعوان سے پندرہ لاکھ سکہ رائج الوقت ہونا قرار پایا ہے,,

کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے؟


مولوی صاحب کی آواز لاؤنج میں گونجی,,,

قبول ہے......


کچھ توقف کے بعد کپکاتی آواز میں وہ اپنے تمام جملہ حقوق ایک انجان شخص کے نام کرگئ,,


خواہ وہ معزز پیشے سے تعلق رکھنے والی ایک کامیاب ڈاکٹر تھی لیکن اس صورت حال سے تو اچھو اچھو کی روح کانپ جاتی ہے,,,,


تینوں بار پوچھنے پر اسنے نکاح قبول کیا اور مولوی صاحب نکاح کے پیپرز آگے بڑھانے پر کانپتے ہاتھوں سے دستخت پاس کھڑی اسکی ماں نے اسکے سر پہ ہاتھ رکھتے تسلی دی,,,


لڑکی کی طرف سے نکاح کی رسم مکمل ہونے بعد مولوی صاحب نے لڑکے کی جانب رخ کیا,,,,


حسنین جمشید ولد جمشید اعوان آپکا نکاح جنت فرقان ولد فرقان خان سے پندرہ لاکھ سکہ رائج الوقت ہونا قرار پایا ہے کیا آپ نے قبول کیا؟

،،،،،،

قبول ہے

قبول ہے

قبول ہے

انتہائی سنجیدہ آواز میں قبول کیا ،،،،

نکاح کے پیپرز پر دستخط ہونے کے بعد سب ایک دوسرے کو مبارک باد دینے لگے ،،،،،

،،،،،،،،،


سفید اور گولڈن گھٹنوں تک آتی شرٹ کے ساتھ نیچے گرارا پہنے ،،،، سر پر لال چُنری کا گھونگٹ ڈالے وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو آپس میں ملائے بیٹھی تھی ،،، اُسکا نازک وجود ہولے ہولے کّامپ رہا تھا ،،،، میرب اُسکے کپکپاتی ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر بیٹھی تھی ،،،


ریلیکس بھابھی ،،،، وہ اُسے حوصلا دیتی مسکرا کر بولی ،،،


،،،،،،،،،،،،،،،


سر یہ مکتوب میجر احمد نے بھجا ہے ،،،

وہاں موجود آفیسرز میں سے ایک نے ،، چھوٹی سی چیٹ ،،، میجر عکش کو دیتے ہوئے کہا ،،،

عکش نے چیٹ تھامتے ،، اثبات میں سر ہلایا ، اور اُسے کھول کر پڑھنے لگا ،،،


اُس مکتوب پر لکھے الفاظ پڑھکر اُسے سائڈ رکھتا ،،، اُسکے منتظر بیٹھے آفیسرز کی طرف متوجہ ہوا ،،


کمال نے پبلک پارک پر بم نصب کروایا ہے ،،، ہمارے پاس وقت کم ہے ،،،

اُسکی بات سنتے تمام آفیسرز الرٹ ہو کر اُسکا پلین

سننے لگے،،،ا ،،،


اگر آج ہم ناکام رہے تو ہمیں خود کو سپاہی کہنے کا کوئی نہیں ہوگا ، بھولنا نہیں میری بات ، مایوسی،ہمارے لیئے، حرام ہے ،

ہم اپنی آخری سانس تک کوشش کرینگے ،،،،

آل دا بیسٹ

،،،،،،،،،،،،،،،،،

وہ اپنے الفاظوں سے اُنکا لہو گرماتا ، گویا ہوا ،،،

اُسکے کھڑے ہوتے ہی تمام آفیسرز بھی اُٹھکھری ہوئے ،،، اور گاڑیوں میں سوار ہو کر اپنی جانوں کی فکر کیے بغیر اپنے فرائض کی ادائیگی کے لئے

نکل گئے ،،،


،،،،،،،،،،،،،،،،،


وہ پارک کو دو ایریا میں ترتیب دے کر ،،،پورے پارک میں پھیل چکے تھے،،

آرمی کی بھاری نفری نے تقریباً پورا پارک خالی کروا دیا تھا ،،

آریا ٹو سیکیور سر،

عکش کے کان میں لگے بلوٹھوڈ سے آفیسر کی آواز گونجی،،

،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

بم دیففیوز ہوا ؟

اُس نے بم ڈیففیوز کرتے آفیسر سے پوچھا ،،

تاہم نہیں سر ہم کوشش کر رہے ہیں،

،،،،،،،،،،،،،،

کوشش جاری رکھو جوانوں ،

سیاہ اندھیرے میں بھی کامیابی کے اصول تک ، راستوں کی تلاش میں رہنا ، ایک سچے مجاہد کی نشانی ہے ،

ہم انشاءاللہ ضرور کامیاب ہونگے ،،

عکش نے سپاہیوں کی ہمت باندھتے کہا ،،

،،،،،،،،،،،،،،،،،،


آپریشن سکسسفل ....!

دس منٹ کے توقف کے بعد اُسے اپنے کان میں آواز سنائی دی،،،،،


عکش نے پُرسکون سانس تحلیل کرتے آسمان کی جانب دیکھا تھا ،،

تیرا شکر ہے دونوں جہاں کے مالک ...؛

،،،،،،،،،،،،

اُنکی سر توڑ کوشیسوں کی وجہ سے آج کئی خاندان بچ گئے تھے ،،!

،،،،،،،،،،،،،

اُنہیں ہسپتال سے ڈسچارج ہوئے کئی دن گزر گئے تھے ، عروہ اور جہانگیر دونوں ہی بلکل صحتیاب ہوگئے تھے ،،،

عروہ سے کیسی نے بھی گزری واقع کا ذکر نہیں کیا تھا ،،

معاذ صاحب دو سے تین دفعہ عیادت کیلئے تشریف لا چکیے تھے پر ،،، شرمندگی کی وجہ سے انہوں نے بھی ابھی تک کوئی بات نہیں کی تھی ،،، وہ اُنکی مکمل صحتیابی کے انتظارمیں تھے ،،،پھر وہ عکش کے ساتھ آ کر ،،،،

جہانگیر اور عروہ سے معذرت کر کے ،،، اس معاملے کا بیٹھ کر کوئی حل نکالنا چاہتے تھے ،،،

معاذ صاحب اور عکش آج جہانگیر مینشن کے لاؤنچ میں موجود تھے ،


،،،معاذ صاحب جہانگیر صاحب سے بے حد شرمندہ تھے ،، اُنکے بیٹے کے ایک فیصلے نے اُنہیں اپنے دوست کے آگے شرمندگی کی گہرائیوں میں پھیک دیا تھا ،،،


انکل میں شرمندہ ہوں ...! مجھے آپ کی رضامندی کے بغیر یہ قدم نہیں آٹھانا چاہئے تھا ،، میں آپکو اور عروہ کو دی گئی ہر تکلیف کے لئے معزرت چاہتا ہوں ...!



عکش نے معافی طلب نظروں سے دیکھتے ہوئے جہانگیر کو کہا ،،


جہانگیر میں بھی بہت شرمندہ ہوں ،، شاید میری ہی تربیت میں کہیں کمی رہ گئی تھی ،،، اُنہوں نے رنجیدہ لہجے میں کہتے ،،،


عکش کی طرف دیکھے بغیر کہا ،،،،

، اُنکے الفاظ اور انداز سے صاف معلوم ہو رہا تھا کہ وہ اب تک عکش سے خفا ہیں ،،،،،،،


انکل معافی غلطیوں کی ہوتی ہے ،، ظلم ذیادتی کی نہیں ،، جس گنڈا گردی سے آپکے بیٹے نے ہماری عروہ کو ڈرا دھمکا کر اُس کے باپ بھائ کی قتل کی دھمکیاں دے کر نکاح کیا ،، وہ میری نظر میں غلطی ہر گز نہیں ہے ،،،


اذہان نے شدید غصے میں کہا ،،،،،


اُسکی بات پر معاذ صاحب نے لب بھنچے تھے اور سرد آنکھوں سے عکش کو دیکھا تھا ،



دیکھو بیٹا پرانی باتوں کو لے کر بیٹھے رہینگے تو ،، اس میں کسی کا کوئی فائدہ نہیں ،، معاذ صاحب نے اذہان کو مصلحت زدہ لہجے میں سمجھانا چاہا،،،،


انکل میں مانتا ہوں میں نے جو کیا اُسکا طریقہ غلط تھا ،، پر مجھے ڈر تھا عروہ کو کھونے کا ،، اس لئے مجھے یہ بہتر لگا تو میں نے کر دیا ،،،


ہمیں تمہاری معافی کی کوئی ضرورت نہیں عکش ملک ،،، اذہان نے کاٹ دار لہجے میں کہا ،،


اذہان کی بات پر عکش نے مٹھیاں بھینچی تھیں ،،،


جہانگیر بچے تو غلطیاں کرتے رہتے ہیں ،، تُم اپنا دل بڑا کر کے معاف کر دو ،،



تمہارے بیٹے کی غلطی بلکل بھی معافی کے قابل نہیں معاذ ،،،


جہانگیر صاحب نے کچھ توقف کے بعد کہا ،،


جہانگیر تُم مجھ پر بھروسہ کرو عروہ ہمیشہ خوش رہیگی یہ میرا وعدہ ہے تُم سے ،، معاذ صاحب نے اس بار بھرائے ہوئے لہجے میں کہا ،،،،


اگر سوال میری بیٹی کی عزت اور زندگی کا نہ ہوتا تو میں شاید عکش کو کبھی معاف نہیں کرتا ،،،


بابا یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ؟


اذہان بیچ میں بول اُٹھا ،،


ابھی وہ اور کچھ بھی بولتا کہ جہانگیر احب نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا ،،


اگر عروہ کی آنکھوں سے ایک آنسو بھی نکلا تو تمہیں اُسکا جواب دینا ہوگا ،،

جہانگیر صاحب نے عکش کو دیکھتے کہا ،،


جی بہتر انکل ،،،،، اُس نے مسکراتے ہوئے کہا ،


بہت شکریہ جہانگیر تُم نے معاف کر کے مجھ پر احسان کیا ہے ،،، معاذ صاحب نے مشکور انداز میں کہا ،،


بس اب مجھے میری بیٹی عروہ کی رخصتی دے دو ، معاذ صاحب نے کچھ دیر بعد کہا ،،


جہانگیر صاحب نے محض اثبات میں سر ہلایا ،،


میرے خیال سے اگلے ہفتے کے بعد کوئی دن رکھ لیتے ہیں ،، معاذ صاحب نے اپنا مشورہ پیش کیا،،

مجھے کوئی عتراض نہیں ،، جہانگیر صاحب نے بھی حامی بھری،،،،


عکش موبائل وائبریٹ ہونے پر اُن سے معزرت کرتا باہر کی طرف نکل گیا ،،


،،،،،،،،،،،

ماما ....! اُس نے ٹی وی دیکھتی مایا کو پُکارا ،،،


ہاں میری جان بولو ،، اُنہوں نے اُسے دیکھتے ہوئے کہا ،،،۔


ماما مجھے لگتا ہے کہ حسنین خوش نہیں اس رشتے سے ،،، اُس نے اپنے دل میں اٹھتا سوال کیا ،،،،


کیوں تُمہیں ایسا کیوں لگ رہا ہے بیٹا ،، اُنہوں نے نہ سمجھی سے پوچھا ،،،،، پتہ نہیں ماما پر مجھے ایسا لگ رہا ہے ،، جنت نے کندھے أچکاتے کہا ،،،


بیٹا حسنین بہت کم گو ہے ،، اس لئے ،،، تُمہیں وہ نہ خوش لگا ہوگا ،، تُم سے کُچھ کہا ہے کیا حسنین نے ؟ اُنہوں نے سمجھاتے پوچھا ،،،


نہیں ماما اُنہوں نے تو کچھ نہیں کہا ،،، بلکہ اُنہوں نے تو میری طرف تو دیکھا بھی نہیں ،،، اسکا انداز کچھ افسردہ تھا,


بیٹا تُم ایسا کچھ نہ سوچو ،،، وہ بہت سنجیدہ مزاج ہے ،، شادی کے بعد سب سہی ہوجائیگا ،، اُنہوں نے اُسکے ماتھے پر لب رکھتے کہا ،،،

جنت نے محض اثبات میں سر ہلایا ،،،

مرحوم فرقان خان صاحب اور مایا خان کی ایک ہی بیٹی تھی جنت نور ،، جنت جب آٹھ سال کی تھی تب ہی فرقان صاحب ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں زندگی کی بازی ہار گئے تھے ،،،،،

مایا نے بہت حوصلے اور محنت سے اُنکے بعد اُنکا بزنیس سنبھالنے کے ساتھ جنت کی پرورش بھی کی ،،،

جنت بچپن سے ہی خوش اخلاق ، سمجھدار اور ذہین بچی تھی ،،، اُس نے مایا کی خواہش پر mbbs کی ڈگری حاصل کی تھی ،، اور اب سٹی ہسپتال میں اپنے فرائض انجام دے رہی تھی ،،،

،،،،،،،،

عروہ اور عکش کی شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں ،،،

ربیعہ بیگم نے اپنی اکلوتی بیٹی کی شادی کی تیاریوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ،، وہ عروہ کی پسند سے خوب واقفیت رکھتی تھیں اس لئے انھوں نے سب کچھ اُسکی پسند کے مطابق ہی کیا تھا ،،،

،،،،،،،


معاذ صاحب تیاریوں کو لے کر بہت پریشان تھے ،، پر عکش نے ڈیزائنر سے لے کر پارلر تک حتہ کہ عروہ کی تمام شاپنگ اُس نے اپنی پسند سے کی تھی ،،،

،،،،،،،،،،


دن تیزی سے گزر رہے تھے اور بلاخر آج اُنکی مہندی تھی ،،،،،


صبح سے ہی جہانگیر مینشن میں خوب ہلچل مچی تھی ،،، خاندان کی تمام خواتین اور عروہ کی دوستیں سب ہی گانے بجانے میں مصروف تھی ،،،


پارلر والی اپنے ہاتھوں کی مہارت دیکھاتی ،

، عروہ کو مہندی لگا رہی تھی ،، ایمل نے بھی خوب چھیڑ چھاڑ لگائی ہوئی تھی عروہ کے ساتھ ،،،،


اہ.......!

اچانک عروہ کے چیخنے پر سب اپنے کام کاج چھوڑ اُسے دیکھنے لگے ،، جو اپنا آدھا مہندی لگا ہاتھ منہ پر رکھے لاؤنچ کے گیٹ پر کھڑی لڑکی کو دیکھ رہی تھی ،،،،،،


بلیک کلر کی ٹخنو تک آتی سادھی فراک پر گلے میں سٹولار لٹکائے ،،، ڈھول کی ڈھب ڈھب پر اُلٹے سیدھے اسٹیپس کرتی ،، عروہ کی طرف بڑھ رہی تھی ،،،،،


اُسکے قریب آتے ہی عروہ نے اپنی باہیں کھولی تھیں ،،، وہ بھی آنکھوں سے سن گلاسز ہٹاتی اُسکی باہوں میں سما گئی ،،،،،


ابھی بھی کیا ضرورت تھی آنے کی ؟؟ جب میں رخصت ہوتی تب آجاتی نہ ،،،


عروہ اُسے خود سے جدا کرتی شکوہ کن لہجے میں بولی ،،،


اہ میرا بچہ جہاں رخصت ہوتا ،، یہ سارا خانزادہ وہاں بھی پہنچ جاتی اپنے بچے کا دیدار کرنے ،،، عروہ کے گال پر کیس کرتی گویا ہوئی ،،،،

ڈرامے بند کر اپنے ،، عروہ نے اپنی ہاتھ پر لگی مہندی کا خیال کئے بغیر اُسکی کمر پر چیٹ رسیت کی ،،،


سارا ایک بار پھر اُسکے گال پر کیس کرتی آنکھ مارتی ربیعہ بیگم کو ملنے لگی ،،


،

سارا عروہ اور ایمل تینوں ہی اسکول ٹائم کی دوستیں تھیں ،، خوا کہ اسکول کے بعد سب کی منزلیں جدا ہوگئی تھیں ،، پر ان تینوں کی دوستی میں ابھی تک کوئی فرق نہیں آیا تھا ،،وہ اب بھی ایک دوسرے پر جان چھڑکتی تھیں ،،


،،،،،،،،،،،،،،

جاتے نہیں بھولائے

وہ پل جو ساتھ گزارے

گلیاں گونجا کرتی تھیں

جب شور سے ہمارے

حالات ہیں کچھ ایسے

ہم تُم سے مل نہ پائے

یہ دور بھی گزرے گا

پھر آئیگی فضائیں

یارا مجھے جلدی مل

یاد تیری آتی ہے ،،،،،


ایک دوسرے کے کندھے پر ہاتھ رکھکر اپنی سریلی آواز میں گاتیں ،،، ایمل اور سارا سب کی آنکھیں نم کر چکی تھیں ،،،،

ایک دوسرے کی آنکھوں سے آنسو صاف کرتیں وہ کھلکھلائیں تھیں ،،،

اُنکی دوستی دیکھ سب اُن سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے ،،،

،،،،،،،،،،،،،،،،،،،


ییلو اور آتشی رنگ کی گھیر دار فراک پر سلیقے سے سر پر دوپٹہ سیٹ کئے ،،،

ہونٹوں پر ہلکا سا گلوز لگائے ،، تازہ پھولوں کی جیولری پہنے ، اسٹیج پر عکش کے پہلو میں بیٹھی ،


وہ بلاشبہ حسینہ لگ رہی تھی ،،


وائٹ کُرتے پر گولڈن ہلکے سے کام ہوئی واسکٹ پہنے ،، بالوں کو جیل سے سیٹ کئے ،، ہلکی اور نرم سی مسکراہٹ چہرے پر سجاے آج تو عکش ملک کے ٹھاٹ ہی الگ تھے ،،،


اُس سے اٹھتی مردانہ پرفیوم کی خوشبو عروہ کو اپنی ننتھو سے ٹکراتی محسوس ہو رہی تھی ،،،،


عروہ خود پر ضبط کے پہرے بیٹھائے سب ہوتا دیکھ رہی تھی ،،،

وہ سب کو عکش کا اصلی چہرہ دیکھانا چاہتی تھی پر وہ اپنے باپ کے لئے فکر مند تھی ،، وہ اُنہیں اب کوئی صدمہ دینا نہیں چاہتی تھی ،، اس لئے وہ عکش سے اُسی کے طریقے سے نمٹ رہی تھی ،،،، وہ اپنے دماغ میں عکش سے بدلے کا سارا پلین ترتیب دے چکی تھی ،،،، با ظہر تو وہ ایک خوش باش دلہن لگ رہی تھی پر یہ تو خدا ہی جانتا تھا کہ وہ کیا کرنے والی ہے عکش ملک کے ساتھ ،،،،،کوئی نہیں جانتا تھا کہ عروہ کے دل میں کیا چل رہا تھا ،،، وہ کہتے ہیں نہ کہ اگر دل پڑھے جاتے تو دل دہل جاتے ،،،،،


،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

مہندی کا فنگشن خیر و عافیت اور خوش اسلوبی سے ہونے کے بعد آج بارات تھی ،،،


آج عروہ جہانگیر ہمیشہ کے لئے عکش ملک کی ہونے والی تھی ،،،


عکش کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا ،، اُسکی محبت اُسکا عشق اُسکا جنون اُسکی زندگی میں شامل ہونے والا تھا ،،،،


پر اُسے اس بات کی بہت تشویش تھی کہ عروہ بنا کوئی سیاپا کئے خاموشی سے رخصتی کے لئے راضی کیسے ہوگئی ،،،


وہ یہ اچھے سے جانتا تھا کہ اُسکے دماغ میں کوئی نہ کوئی کھچڑی ضرور پک رہی ہے ،،، پر وہ مطمئن تھا ،،، اگر وہ عروہ جھانگیر تھی تو وہ بھی عکش ملک تھا ،،،،


،،،،،،،،،،،،،،


بلڈ ریڈ بھاری کام ہوا لہنگا پہنے ،،، ڈیمانڈ کی جیولری پہنے ،،، پارلر سے کروائے میک اپ میں وہ نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تھی ،،،


ایک ہاتھ شایان کا تھامے اور دوسرا ہاتھ اذہان کا تھامے ،،وہ ہیلز پہننے کے باعث چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اسٹیج کی طرف بڑھ رہی تھی ،،،،


جہاں بلیک شیروانی پہنے سر پر کولہا سجائے ،، عکش ملک اپنی تمام تر وجھ شخصیت کے ساتھ دولہے کے روپ میں کوئی شہزادہ لگ رہا تھا ،،،،۔ عروہ کو اپنی طرف آتے دیکھ اُسکی دھڑکانيں معمول سے زیادہ بڑھی تھیں ،،،،


،،،،،،،،،،،،


اذہان اور شایان دونوں نے اُسے سہارا دے کر اسٹیج پر چڑھایا تھا ،،،،


اذہان اور شایان دونوں نے وائٹ کلف دار شلوار قمیض پر اسکائے بلو کلر کی واسکٹ پہنی تھیں ،،،


دونوں ہی بہت ہینڈسم لگ رہے تھے ،،،،


،،،،،،،،،،،،،،


بہت حسین لگ رہی ہو ،،، مجھے پتہ نہیں تھا کہ تم دلہن کے روپ میں اتنی پیاری لگو گی ،،،


اگر مجھے پتہ ہوتا تو نکاح والے دن بھی دلہن بنوا کر نکاح کرتا ،،،،


عکش نے اُسکے اس حسین روپ کا جائزہ لیتے ہوئے شوخی سے کہا ،،،،


عروہ خاموشی سے سامنے دیکھتی رہی وہ اُسے اور اُسکی باتوں کو پوری طرح نظر انداز کر گئ ،،،،،،


وے سنیا تو کول میرے ہویں

نظارہ تیرے روپ دا كردا رواں


وہ ایک بار پھر بولا ،،، اس بار عکش کے الفاظ عروہ کو تپا گئے تھے ، اُسکی چھوٹی سی ناک غصے سے پھولی تھی ،،،


،،،،،،،،،،،


پر مجھے بہت دُکھ ہے عکش ملک تُم آج کے دن بھی فینسی بندر ہی لگ رہے ہو ،،،،


عروہ نے بھی جوابی کاروائی کی ،،


،، وہ عروہ ہی کیا جو وقت پر اپنا بدلہ نہ لے لے ،،،،


اور تُم اُسی فینسی بندر کی من چاہی فینسی بندریا ،،،، مسکرا کر کہتے اُس نے پھر تیر چلایا ،،،،،


عروہ کے تن میں جیسے غصے کی لہر دوڑی تھی ،، وہ سرخ آنکھیں اٹھا کر اُسے دیکھنے لگی ،،،


عروہ کی آنکھوں میں غصہ دیکھ عکش کی مسکراہٹ اور گہری ہوئی تھی ،،،


اُسے دوبارہ ڈھیٹوں کی طرح ہستا دیکھ عروہ نے اپنی نظروں کا زویہ ہی بدل دیا ،،،، وہ اُس سے گن گن کر بعد میں سود سمیت بدلہ لینے کا ارادہ رکھتی تھی اس لئے اب وہ خوموشی سے سب برداشت کر رہی تھی ،،،،


،،،،،،،،،،،،،


ریڈ اور گرین کلر کے امدرج سے بنے گھیر دار فروک پہنے ،، مناسب سے میک اپ میں ایمل کوئی آسمان سے اُتری حور لگ رہی تھی ،،،


وہ پین سے سیٹ ہوئے دوپٹے کو آگے سے درست کرتی اپنی ہی دھن میں چلتی جا رہی تھی کہ ٹھٹک کر ایک دم اُس نے اپنے قدم روکے ،،،،

وہ جو سمجھ رہی تھی کہ اُسکا دوپٹہ پشت سے کیسی چیز میں اٹکا ہے ،،


، پر پیچھے مڑتے ہی دوپٹے کو اذہان کی گھڑی میں اٹکا دیکھ جیسے اُسکی سانسیں اٹکی تھیں ،،،،


وہ کان اور کندھے میں موبائل اٹکائے کیسی مہو گفتگو تھا ،،، اور سیدھے ہاتھ سے دوپٹے کو اپنی گھڑی سے جدا کرنے میں مشغول تھا ،،،،

،،،،،،،،،،

ایمل ہوش میں آتی فورن اپنی کپکپاتی انگلیوں سے وہ بھی کوشش کرنے لگی ،،،

پر دوپٹہ تھا جو سلجھ ہی نہیں رہا ،،، اذہان موبائل جیب میں رکھتا اب پورا اُسکی جانب متوجہ تھا ،،،


ایمل کو اتنے قریب سے دیکھ اُسکی ہارٹ بیٹ مس ہوئی تھی ،، وہ بنا پلک جھپکائے اُسے دیکھ رہا تھا ،،


ایمل اُسکی نظروں سے خوف زدہ ہوتی اپنے ہاتھوں میں تیزی لا گئ ،,


اُسنے آخر تنگ آ کر زور سے دوپٹہ کھینچا جس کی وجہ سے دوپٹے کے دھاگے اُس کی گھڑی میں اٹکے رہ گئے ،،،


ایمل دوپٹے کے آزاد ہوتے ہی فوراً وہاں سے نو دو گیارہ ہو گئ ،،


پیچھے اذہان اُسکی اس حرکت پر مسکراتا ،، گھڑی میں اٹکے دھاگے ہٹانے لگا ،،،


،،،،،،،،،،،،،،،،


پیچ اور گولڈن فروک پھیلا کر کُرسی پر بیٹھی وہ مختلف پوز بنا کر اپنا فوٹو شوٹ کروانے میں لگی تھی ،،، اور کیمرا مین بیچارہ دل میں ہی اُسے بُرا بھلا کہہ کر اپنا کام کر رہا تھا ،، پر وہ میڈیم تھی جو تصویریں بنوا کر تھک ہی نہیں رہی تھی ،،


اوئے کیمرے والے ذرا تصویر دیکھاؤ مجھے ،،، اُس نے کیمرے والے کے ضبط سے سرخ چہرہ دیکھے بغیر کہا ،،،


کیمرا والا کیا کرتا بیچارہ بہت بُرا پھسا تھا سارا خانزادہ کے آگے ،،،،


وہ مسکرا کر کیمرے میں اپنی تصویریں دیکھ رہی تھی ،، ایک تصویر دیکھ کر اُسکی مسکراہٹ سمٹی تھی


،،،،

جس میں شایان اُسکی پشت پر اپنی پشت کرے کھڑا تھا ،،، اور شایان صاحب کے مبارک پیر سارا خانزادہ کے فروک پر تھے ،،،


،،،،،،،،،


یہ ڈیلیٹ کرو ...! غصے سے پھولے ناک اور سرخ چہرے سے بولتی وہ شایان کی تلاش میں نکلی تھی ،،،،،


کیمرا مین بھی اپنی جان بخشی پر شکر کرتا ,, اُسکے حکم پر سر کو خم دیتا عمل کرنے لگا ،،،،


،،،،،،،،


وہ تقریباً پورے حال میں اُسے تلاش کر چکی تھی ،، اب وہ ہال کے بیک سائڈ پر آئی تھی جہاں وہ آخر اُسے مل گیا تھا ،،،


وہ اپنے قدم تیزی سے اٹھاتی اُس تک پہنچی تھی ،،،،


،،،،،،،،


سارا آپ یہاں کیا کر رہی ہیں ؟ شایان نے نہ سمجھی سے پوچھا ،،، کیوں کہ یہاں کوئی موجود نہ تھا ،،،وہ آس پاس نظریں دوڑاتا بولا ،،،


تُم کیا اندھے ہو کر چلتے ہو شایان اعوان ،،، میری ساری تصویر کا بیڑا غرق کر دیا تُم نے ،،،،


وہ اس پر چلاتی ہوئی بولی ،،،


میں نے ؟ اُس نے نہ سمجھی سے پوچھا

ہاں تُم نے ،،، وہ حلق کے بل چلا کر بولی ،،

وہ کیسےاب وہ اُسکی حالت پر مسرور ہوتا گویا ہوا


تُم نے یہ اپنا ہاتھی نُما پیر میرے فروک پر ركھکر میری ساری تصویر خراب کردی ،،،،


وہ اُسکے پشاوری چپل پر اپنا ہیل میں مقید پاؤں رکھتی بولی ،،،،


اُس۔ کی اس حرکت پر شایان غش کھاتا رہ گیا ،،


آئندہ خیال رکھنا ورنہ سارا خانزادہ بار بار معاف نہیں کیا کرتی ،،، اُسکی انکھوں میں دیکھتی بولی ،،،


اور ہاتھ کی مدد سے اُسکے سینے پر ہاتھ رکھتی اُسے پیچھے ڈھکیلتی وہاں سے نکلتی گئ ،،،


شایان پیچھے اُسکی حرکت پر ابھی تک صدمے میں کھڑا تھا ،،،


وہ حیران تھا کہ ایک چھٹان بھر کی لڑکی صرف تصویر خراب ہونے پر اُس سے لڑ جھگڑ کر گئ تھی ،،


،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،


اسے ابھی ایمل اور باقی کزن اسکی سیج پہ احتیاط سے بیٹھا کے گئیں تھیں کچھ دیر مبہوت انداز میں وہ کمرے کا جائزہ لینے لگی ,,,,


سرخ او سفید تازہ پھولوں سے سجا کمرا جس میں بیڈ کو ہارٹ شیپ میں پھولوں سے سجایا گیا بیڈکے دوسری طرصوفہ رکھا تھا


اسکے آگے کانچ کی ٹیبل پہ پھول نفاست سے سیٹ کیئے یوئے تھے


بیڈ کے دونو اعتراف میں سائیڈ ٹیبل پہ 2 بوکے رکھے گئے تھے بیڈ کے عین مقابل دیوار پہ نارمل سائز کی ایل ای ڈی نصب تھی,,,


ڈیسینٹ براؤن کلر کے پردے بیڈ کے فرنٹ پہ سنگھار میز کو بھی پھولوں سجایا گیا تھا


وہ قدم اٹھاتی میز کے قریب آئ اور شیشے میں اپنا عکس دیکھنے لگی پورا کمرا خوشبوؤں میں نہایا خواب ناک منظر پیش کر رہا تھا کمرے کا اچھی طرح جائزہ لیتی وہ مقابل کی پسند کو سراہے بنا نہ رہ سکی اسکی ایک بیٹ مس ہوئ تھی,,,


دل تیزی سے دھڑک رہا تھا لیکن وہ نظر انداز کرتی شیشے میں خود کا عکس دیکھتے طنزیہ مسکرائ ساتھ جیولری اتاری آخر میں چوڑیاں اتارتی وہ الماری کی طرف بڑھی,,,



اپنے لیئے لان کا ایک سوٹ لیتی وہ باتھروم میں بند ہوگئ,,,,


فریش ہوکر وہ خود کو کافی ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی,,,,


وہ چلتی ہوئ بیڈ کی طرف آئ اپنا پرس اٹھائے دو ٹیبلیٹ لیتی وہ منہ میں رکھ گئ پانی کی مدد سے ٹیبلیٹس کو نگلا اور پرس سائیڈ پہ رکھتی ساتھ بوکے کے پاس ایک چٹ رکھی اور چڑھ کرمزے سے بیڈ پہ دراز ہوئ,,,


خود پہ اچھی طرح بلینکٹ ڈالا اور پرسکون ہوکر سونے لگی مقابل کا سکون غارت کرتے ایک عجیب ہی سکون اسے خود کی رگو پہ میں اترتا محسوس ہوا کہ وہ جلد ہی خوابوں کی دنیا کی سیر کرنے پہنچ گئ,,,,



عکش نے دروازہ کھولتے کمرے میں قدم رکھا تو اندھیرے نے اسکا استقبال کیا نائیٹ بلب کی ہلکی سی روشنی میں اسنے اپنی دشمن جان کی تلاش میں نظریں گھمائ,,,


جو بیڈ پہ بلینکٹ میں دبکی مزے سے میٹھی نیند کے مزے لوٹ رہی تھی,,,


وہ مسکراتا اسکی طرف بڑھا تھا جب سائیڈ ٹیبل سے گولیوں کا پتہ دیکھ وہ ٹھٹھکا اسکی نظر چٹ پہ پڑی تو اٹھا کر اسنے چٹ کھول کے پڑھنا شروع کی,,,,


وہ جیسے جیسے پڑھ رہا تھا اسکا رنگ بدلتا جا رہا چہرے پہ ایک سایہ آرہا تھا تو دوسرا جا رہا تھا,,,


مائے ڈئیر فینسی بندر اووہ سوری لیٹ می کریکٹ زبردستی کے شوہرِ نامداد ,,,


زیادہ خوش ہونے یہ بھنگڑے ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے میں نے تمہارے ساتھ رخصتی صرف اور صرف تمہارا جینا دبر کرنے کیلئے کی ہے اور فکر مت کرنا اس بار خودکشی نہیں کی,,,

محض دو ٹیبلیٹس لی ہیں ,,,


تاکہ تمہاری ویڈنگ گولڈن نائیٹ خراب کر سکوں امید ہے میرا سرپرائز تمہیں پسند آیا ہوگا گوڈ نائیٹ سویٹ ڈریمز ڈیئر فینسی بندر,,,


فروم یوئیر وائفی عروہ عکش ملک,,,,

وہ چٹ کو ہاتھ کی مٹھی میں دبوچتا ااکے ٹیبلیٹ لینے والی حرکت پہ غصہ کنٹرول کرنے لگا پھر کچھ سوچتے وی دلکشی سے مسکرایا جاندار مسکراہٹ,,,


اور فریش ہوکر اسے سختی سے اپنی باہوں میں بھینچتا سو گیا تھا ایسے توپھر ایسے ہی ٹھیک میری شیرنی,,


اسکے کھینچنے پہ وہ کچھ کسمسائ لیکن نیند کا غلبہ اتنا شدید تھا کہ وہ پرسکون ہوتے واپس سوگئ,,


وہ اہنے تہی اسکا سکون غارت کر چکی تھی,,,

لیکن اب سکون غارت ہونے کی باری عروہ کی تھی,,,


،،،،،،،،،،


اذہان تُم سوئے نہیں اب تک ؟


ربیعہ بیگم جو کچن سے پانی لینے آئیں تھیں ،، راہداری سے گزرتے ہوئے اُنہیں لاؤنچ میں اذہان کچھ افسردہ سا بیٹھا ہوا نظر آیا تو انہوں نے اپنے قدم لاؤنچ کی طرف ہی بڑھا دیئے ،،،،


،،،،،،،


کچھ نہیں ماما بس نیند نہیں آرہی تھی ،،،،


اذہان نے سنبھلتے ،، مسکرا کر جواب دیا ،،


اُداس ہو ؟

ربیعہ بیگم نے اُسکے برابر بیٹھتے سوال کیا ،،

نہیں بس عروہ کا خیال آرہا تھا بار بار پتہ نہیں کیسی ہوگی ،،،،


اُسے تو اپنے کمرے اور اپنے تکیے کے بغیر نیند بھی نہیں آتی ،،، اذہان نے فکر مند اور رنجیدہ لہجے میں کہا ،،،


تُم کیوں فکر مند ہوتے ہو اذہان ،،، عکش ہماری عروہ سے بہت محبت کرتا ہے ،،،، اور اُسکی فکر بھی کرتا ہے ،،، یاد نہیں اُس دن بھی وہ خاموشی سے ہم سب کا رویہ برداشت کرتا رہا ،,،،


ہاں میں مانتی ہوں اُس نے غلط طریقے سے عروہ سے نکاح کیا پر بیٹا اُسکی بھی تو فکر سمجھتے تم ،،،،


وہ فکر مند تھا ،،، اُسے عروہ کو کھونے کا ڈر تھا ،،،،


بس اب تم بھی تمام باتوں کو بھول کر اُس سے اپنا رویہ سہی کرو بیٹا ،،، وہ تمہاری بہن کا شوہر ہے ،، اس گھر کا اکلوتا داماد ہے وہ ،،،،

ربیعہ بیگم اُسکو نرمی سے سمجھاتی بولی ،،،،

سمجھ رہے ہو نہ میری بات تم ؟ اُنہوں نے پھر پوچھا ،،،


جی ماما ،،، اذہان نے مسکرا کر جواب دے کر اُنہیں مطمئن کر دیا تھا ،،،،،


اچھا چلو اب جا کر سو جاؤ صبح عروہ کے گھر ناشتہ دینے جانا ہے ،،،، ربیعہ بیگم نے اٹھتے ہوئے یاد دھانی کروائی ،،،،


اذہان نے محض اثبات میں سر ہلایا ،،،،


وہ مطمئن ہوتی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں ،،،


اذہان نے بھی وہاں سے اٹھتے اپنے کمرے کی راہ لی ،،، 

اسکی سماعتوں سے فجر کی آزانوں آواز ٹکرائ تو اسکی نیند کھلی ٹیبلیٹس کی. وجہ سے  سر میں شدید درد اٹھتا محسوس ہوا خود پہ بھاری برگم بوجھ محسوس کرتے اسنے جھٹ سے آنکھیں وا کی تھیں جب اپنے نازک وجود کو اسکے نیچے دبا یوا پایا,,,, 

عکش دور ہٹو یہ کیا بدتمیزی ہے,,,,

ایک تو سر درد اس پہ مقابل کا بوجھ وہ شدید جھجھلائ,,, 

ہاتھوں سے بھی بھرپور مزاحمت جاری تھی لیکن مقابل تو ٹس سے مس نہیں ہوا,,, 

اف کتنا بھاری ہے یہ شاید محلے کے بچے کھاتا ہے,,,

شدید تیش میں وہ بڑبڑائ جو عکش کے کانوں تک بھرپور پہنچی وہ مسکرایا جب اپنی محنت کا کوئ خاطر خواہ اثر نہ ہوا تو اسنے اپنے لمبے ناخون اسکی پشت پہ چھبوئے,,, 

وہ جو کب سے اسکی مزاحمت بڑبڑاہٹ  محسوس کر رہا تھا,,, 

اسکے ناخون چھبونے پر دونوں ہاتھ تکیہ سے لگاتا سر اٹھا کے اسکی طرف مسکرا کر دیکھنے لگا,,, 

چچھوڑو مجھے اپنے اتنے نزدیک اسے پاتے وہ کچھ بوکھلائ سی بولی,,, 

اسکے ہلتے کانپتے گلابی ہونٹوں کو دیکھ وہ بہکے سے انداز میں مسکرایا اور جھکتے ہوئے اسکے گلابی ہونٹوں کو اپنی دسترس میں لے لیا,,, 

وہ اب بھی بھرپور مزاحمت کر رہی تھی عروہ کو اپنا سانس اٹکتا ہوا محسوس ہوا وہ پوری طرح اسکی قید میں تھی اپنی بے بسی پہ خود بخود  آنکھوں سے آنسوں بہنے لگے تھے,, 

تمام تر تیز تراری اسکی قربت میں کہیں جا سوئ تھی

  عکش   اسکے آنسوں خود پہ محسوس کرتے الگ ہوا,,, 

شششش,,, 

وہ اب بھی آنکھیں میچیں رونے میں مصروف تھی,,,

کچھ نہیں کر رہا بس چھوٹی سی سزا ہے آئیندہ خود کو تکلیف دینے کہ بارے میں سوچنا بھی مت,,,, 

اسکے ہونٹوں کو انگھوٹے کی مدد سے مسلتا وہ کچھ ٹھنڈے کچھ سرد انداز میں گویا ہوا اور اسے ایسے ہی چھوڑ کروٹ بدلتا اس سے دور ہوا ,,,,

خود کو آزاد محسوس کرتے وہ تیر کی تیزی سے اٹھ کر باتھروم میں بند ہوئ تھی 

اسکی تیزی دیکھ وہ مسکرایا اور سوگیا,,

رات بھر اسکی بدولت نیند اس کی آنکھوں سے کوسو دور تھی اب وہ سونا چاہتا تھا,,, ,

افف میں کمزور کیوں پڑ گئ تھی اس بندر کے آگے جنگلی نہ ہوتو ہونٹوں کو بے دردی سے مسلتے خود سے بڑبڑائ,,, 

فریش ہوتے اسنے زرا سا دروازہ کھول کر جھانکا عکش کو سوتا پاکر سکون کا سانس خارج کیا اور دبے پاؤں باہر آئ,,,

دوپٹہ نماز کی طرح باندھتی وہ نماز پڑھنے لگی ،،،

نماز کے دوپٹہ سر سے ہٹاتی وہ ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھی اور اپنے نم بال ڈرائر سے ڈرائے کرنے لگی ،،،

اب وہ بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی ،،،،

،،،،،،،،،،،،،،

کیسے اُلّو کے پٹھوں کی طرح سو رہا ہے میری زندگی حرام کر کے ،،،، اُس نے عکش کو سویا دیکھ ہلکی آواز میں کہا ،،، پر وہ انجان کہاں واقف تھی کہ عکش کوئی عام انسان نہیں وہ ایک آرمی میجر ہے ،،،،

وہ خاموشی سے پڑا اُسکی ہر کارروائی دیکھتا رہا ،،،

عکش اسکی حرکت دیکھ مسکرایا اسکے ہاتھ تو جیسے عروہ کہ کمزوری لگ گئ تھی,,, 

،،،،،،،،

 روکو .....! 

عروہ کمرے کا دروازہ کھول باہر جانے لگی تھی کہ اُس نے پیچھے سے پُکارا ،،،،،

اُسکی آواز پر عروہ کا دل ٹرین کی سپیڈ کی طرح تیز دھڑکا تھا ،،،، اپنی دھڑکنوں کو تھپکتی وہ پیچھے مڑی ،،،

کہو ۔۔۔

اُس نے انتہائی لاپرواہ انداز میں کہا ،،،

پہلی بات کہو نہیں کہیں بولو گی تُم اب سے مجھے 

شوہر کی عزت بھی ہوتی ہے کوئی ،،، سنجیدگی سے بولتا آخر میں مسکرایا تھا ،،،

،،،،،،،،،

دوسری بات ،،، اُسکی پہلی بات کو اگنور کرتی وہ اپنے ناخنوں پر پُھوک مارتی شانِ استغنا سے بولی ،،،

اور دوسری بات یہ کہ ویسے تو تم نے اپنی منہ دیکھائی خود ہی کر لی تھی ،، پر میرا دل بہت بڑا ہے اس لئے تُمہیں معاف کیا میں نے ،،

وہاں سامنے باکس میں تمہاری منہ دیکھائی پڑی ہے دیکھ لو ،،، الماری سے اپنے کپڑے نکلتا ہوا بولا اور باتھروم میں بند ہوگیا ،،،

اُسکے جاتے ہی وہ باکس کھولنے لگی ،،،،،

باکس کھولتے ہی ڈائیمنڈ میں جکڑے خوبصورت بریسلیٹ میں *عروہ عکش*  نام پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا ،،، اسنے داد میں آبرو اچکائ

وہ اُسے اُلٹ پلٹ کر دیکھنے لگی ،،،، اور واپس باکس میں بند کر گئ ،،،،،

یہ کیا ہے ؟ عکش ابھی تولیے سے بال رگڑتا باہر آیا ہی تھا کہ ،،، وہ بول اٹھی ،،،

بریسلیٹ ہے ،،، اندھی ہوگئی ہو کیا تم ،،،، وہ ٹاول صوفے پر پھینکتا اُسکی طرف بڑھتے ہوئے بولا،،،،،

اُسے شرٹ لیس دیکھ اُسکی جیسے روح فنا ہوئی تھی ،،، اُسکے  بڑھتے  قدموں کے ساتھ عروہ کی دھڑکنیں بھی بڑھ رہی تھی ،،،،

مجھے نہیں چاہیئے یہ ،،،،

خود کو کمپوز کرتی جلدی سے بولی ،،،

پھر کیا چائیے ؟ اُسکے قریب پہنچ کر اٹھتی گرتی پلکوں کا رکس دیکھ وہ مبہوت ہوا سر کو دائیں بائیں جھٹکتا ہوا بولا 

اُسکے سر کو جھٹکنے سے پانی کی بوندیں عروہ کے چہرے پر پڑی تھیں ،،،

یہ کیا کررہے ہو ؟ بندروں کے سردارِ اعلیٰ ،،،، وہ اپنے قدم پیچھے لیتے چڑ کربولی ،،،،

عکش نے اُسکی جرات پر آبرو اُچکائے تھے ،،،،،

مجھے 

خیر منہ دکھائ میری ہے تو پسند بھی میری ہونی چائیے؟؟

ہممم بولو کیا چاہیئے,,, 

وارڈروب سے شرٹ نکالتے اسنے کچھ سوچتے پوچھا,,, 

Norinco Type 56. 

چاہئے ....,,,,

اُسے دیکھتی  وہ ادا سے بولی اور اسکے تاثرات جانچنے چاہے,,, 

تُمہیں پتہ بھی ہے کہ تم کس چیز کی فرمائش کر رہی ہو مجھ سے ؟؟ وہ متعجب ہوا ہاتھ ساکت ہوئے

اس نے یقین دھانی چاہی کہ وہ جو مانگ رہی ہے اُس کے بارے میں کچھ علم رکھتی بھی ہے کہ نہیں ... 

ہاں پتہ ہے مُجھے ہتھیار ہے ،،، کندھے اُچکاتی شان بے نیازی سے بولی ،،

عکش اُسکی فرمائش پر غاش پر غش کھا رہا تھا ،،،

ہاں وہ دوں تُمہیں تا کہ اُسکی پہلی گولی سے تم مجھے ہی أڑا دو ،،،، عکش ناک پر سے مکھی اڑانے والے انداز میں کہتاشرٹ کے بٹن لگانے لگا،،،،

میرا بس چلے تو میں تمہیں کے ٹو کی پھاڑی کے اوپر سے أڑا دوں ،،، وہ شدید غصے میں بولی ،،،،،

خود پر پرفیوم چھڑکتا اسکی بات پہ  جاندار قہقہ لگایا ،،،، ،،،

اسکے قہقہ لگانے پر وہ دانت کچکچاتی پیر پٹکتی واک آؤٹ کر گئ,,, وہ اسے بھولی نہیں تھی اسکی صبح والی

 حرکت وہ تب سے کچھ فاصلے پر رہ کے بات کر رہی تھی,,, 

،،،،،،،،،،،،،،

وہ لائبریری سے بُک ایشو کرواتی کینٹین کی طرف بڑھ رہی تھی,, 

کینٹین پہنچتے اسنے اپنے پسندیدہ چیز برگر کا آرڈر دیا ساتھ چیئر سمبھالی,,, 

پتہ نہیں یہ سارا کب تک آئیگی,,, واچ دیکھتے خود سے کہا,, اور نظریں آس پاس کا جائزہ لینے لگی,,, 

جب سامنے سے آتے لڑکے کی طرف متوجہ ہوئ جو ایک ہاتھ میں پھولوں کا گلدستہ اور دوسرے ہاتھ میں خوبصورتی سے سجا بڑا سا بوکس تھامے اسی کی جانب بڑھ رہا تھا,,

ہائے مس میرب جمشید کیسی ہیں آپ,,,

مقابل آتے اس لڑکے نے لہجے میں محبت سموئے پوچھا,, 

فائن اسنے روکھے سے انداز میں جواب دیتے اپنی نظریں برگر پہ ٹکائ,, 

یہ آپکے لیئے آاا ول یو بی مائے ویلینٹائین؟؟

مقابل نے بوکس ٹیبل پہ رکھتے اور بوکے والا ہاتھ اسکی طرف بڑھاتے کچھ جھجکتے ہوئے پوچھا,,, 

اسنے اسکی طرف  دیکھا سوری آ کانٹ شان بے نیازی سے کہتی وہ اپنا سامان اٹھا کر وہاں سے واک آؤٹ کر گئ,,, 

اپنے قریب اسے اس سامان سمیت آتا دیکھ سمجھ تو وہ گئ تھی مگر  تماشا لگانے کا کوئ فائدہ نہیں تھا کیونکہ وہ یونی کا شریف لڑکا تھا اور فیلینگز پہ کسی کا زور نہیں اسلیئے اسنے شائستگی سے کہتے معاملہ رفع دفع کیا,,, 

لیکن یہ منظر پاس سے گزرتے احمد کی نظروں سے  مخفی نہ رہ سکا,,, 

ابھی وہ کچھ دور پہنچی تھی کہ سامنے سے سارا آتی دکھائ دی,,, 

کیا ہوا وہ لڑکا تم سے کیا کہہ رہا تھا 

قریب آتے سارا نے پوچھا,,, 

بہن بنانے آیا تھا اسنے چڑتے ہوئے جواب دیا,,, 

ہاہاہا ویری فنی وہ مصنوعی ہنسی ہنستے گویا ہوئ,,, 

ویلنٹائنس ڈے بنانا چاہتا تھا پتہ نہیں لوگوں کو سمجھ کیوں نہیں آتا کیوں حرام چیز کو بڑھاوا دیتے ہیں,,,

اگر کسی لڑکے سے پوچھا جائے کہ ویلنٹائن ، والے دن گرل فرینڈ کو کیا گفٹ دیا ؟ 

تو فخر سے بتائیگا کہ فلاں گفٹ دیا ،، 

جب یہی سوال کیا جائے کہ تمہاری بہن کو کیا گفٹ ملا ؟ تو لڑنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ 

جو لوگ یہ نام نہاد محبت کا دن مناتے ہیں ،، وہ دونوں سوالوں کے لئے خود کو تیار کریں ،،،

اگر نہیں کر سکتے تو اس بے ہودہ تہوار کا دفاع کرنا بھی چھوڑ دیں ،،، اسنے شدید غصے اور جھنجھلاہٹ کی ملی جلی کیفیت میں کہا,, وہ اور آگے بڑھ گئ,,, 

************

آپکو کیسی لگی میری پیاری دیورانی ؟؟ کوفی کا مگ صدام کو تھماتے اسنے مسکراتے پوچھا,,,

اچھی ہے بظاہر تو بس حسنین کو خوش رکھے اسے عروہ کے خول سے نکال دے ,,,,,

اسے اپنے حصار میں لیتا کچھ پریشانی سے گویا ہوا,, 

میرا خیال ہے وہ سمبھال لیگی حسنین کو کافی خوش اخلاق لڑکی ہے وہ چھوٹی چھوٹی خوشیوں کھل کے جینے والی,,,

ہمممم وہ سب تو ٹھیک ہے جانِ صدام لیکن فلحال آپ ہمارے بیبی کے بارے میں کب سوچ رہی ہیں آپ,, 

اسے تکیے پر لٹاتا اپنی نظروں کے حصار میں لیئے  بےباک انداز میں گویا ہوا,,, 

اسکے الفاظوں پہ شرم سے سرخ ہوگئ,,, 

وہ مسکراتا اس پہ پوری طرح  سایہ بن گیا,,, 

،،،،،،،،،،،،،،،،،

پھوپھو .....!

کہاں ہیں یار ؟ اپنا ہینڈ بیگ صوفے پر رکھتی وہ ربیعہ بیگم کو پُکارتی کچن کی طرف بڑھی ،،،،


پھوپھو ....!

کچن کے قریب پہنچ کر اُس نے پھر پُکارا ،


ہاں ایمل ,, کچن میں ہوں پھوپھو کی جان یہیں آجاؤ ،،،

ربیعہ بیگم نے کچن کے قریب سے ہی ایمل کی آواز سنتے کہا ،،،

،،،،،

السلام و علیکم پھوپھو ...!

اُس نے گال پر کس کرتے سلام کیا ،،


وعلیکم السلام ۔۔۔

ربیعہ بیگم نے اُسکی پیشانی پر لب رکھتے جواب دیا ،،،


،،،،،،،،


ناشتہ ریڈی ہے نہ عروہ کے گھر لے جانے کیلئے

اُس نے انہیں پیک ہوا ناشتہ کچن کے کاؤنٹر پر رکھتے دیکھکر کہا ،،

ہاں بس اذہان ابھی ہی جاگنگ سے آ کر فریش ہونے گیا ہے وہ آجائے تو تُم اور اذہان دے آنا ،،،،


وہ ایپرین اُترتی مصروف سے انداز میں بولی ،،

کیوں پھوپھو آپ نہیں چل رہہیں کیا ؟ کچھ الجھتے ہوئے اُس نے پوچھا

نہیں بیٹا میرے سر میں درد ہے اور طبیعت بھی کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی ،،،


آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں اور آپ کچن میں کام پر لگی ہیں ،،،

ایمل نے اُنکے ماتھے پر ہاتھ کی پشت رکھتے ٹیمپریچر چیک کرتے ہوئے کہا ،،

میں ٹھیک ہوں بیٹا ،،، ربیعہ بیگم نے اُسکے ہاتھوں پر لب رکھتے ہوئے کہا ،،،

کہاں ٹھیک ہیں آپکو بخار ہے ،،، مجھے بتائیں کیا کام رہ گیا ہے میں کر لیتی ہوں ، ایمل نے اُنکو گلاس میں جوس انڈیلتے دیکھ کہا

،،،،،،،،

کچھ نہیں بیٹا سب ہوگیا ہے ،، تُم بس یہ جوس اذہان کے کمرے میں اُسے دے اؤ ،،،


اُنہوں نے ٹرے پر رکھے جوس اُسکے ہاتھ میں دیتے کہا ،


ایمل اثبات میں سر ہلاتی ،،، جانے لگی ،

،،،،،،،،،،

اُف،،،،،! اللہ کرے سانڈ اپنے مورچے میں نہ ہو ،،

خود سے بڑبڑاتی وہ اذہان کے کمرے کے دروازے پر روکی ،،،،

کھلے ہوئے دروازہ پر دستک دیتی اُس نے ذرا سی گردن اندر کر کے جھانکا

جب اُسے یقین ہوگیا کہ وہ کمرے میں نہیں تو ،،، جلدی سے اندر بڑھی ،،،

کمرے کا جائزہ لیتے اُس نے داد میں آبرو أچکائی ،،،،،

ہر چیز اپنی جگہ پر نفاست سے رکھی ہوئی تھی ،،،، جیسے کبھی ان چیزوں کو کیسی نے چھوا ہی نہ ،اذہان کافی صفائی پسند انسان تھا ، اُسے ہر چیز میں ترتیب اچھی لگتی تھی ،،،

،،،،،،،،

اُس نے سائڈ ٹیبل پر ابھی ٹرے رکھی ہی تھی کہ اُسے واشروم کا دروازہ کھولنے کی آواز آئی ،،


،،،،،،،،


اُس نے گردن موڑ کر دیکھا تو ،،،، تولیے سے بال رگڑتا اذہان باہر آتا دکھائی دیا ،،،


اُسکے سفید فولادی چوڑے سینے سے پانی کی ننھی بوندے لگی تھی ،،،

اُسکے سینے سے نظر پھسلتی ایمل کی نظر سیکس پیکس پر گئی ،،،

افف اسکے منہ سے بے ساختہ نکلا,,,

اُس نے فوراًً اپنی نظروں کا زاویہ بدلہ تھا ،،،

پھوپھو نے جوس بھیجا ہے آپ کے لئے ،،، اُس نے جھجکتے ہوئے کہا ،،،،


شرٹ کے بٹن بند کرتے اذہان نے نظر اُٹھا کر اُسے دیکھا اور قدم اُسکی جانب بڑھائے ،،،،

اُسے اپنی جانب آتا دیکھ ایمل نے اپنے قدم کمرے کے دروازے کی طرف کئے ،،


ناشتہ پیک ہو گیا ؟وہ جوس اٹھا کر لبوں سے لگاتا بولا ,,,


ایمل ابھی باہر کی طرف بڑھی ہی تھی کہ اُسکی بھاری آواز اُسکے کانوں سے ٹکرائی ،،،

جی تیار ہے سب ،،، پیچھے مڑ کر اُسے دیکھے بنا کہتی وہ باہر کی طرف بھاگی ،،،


اذہان اُسکی پھرتی دیکھ مسکرایا تھا

بال جیل سے سیٹ کرتا خود پر پرفیوم چھڑکتا ،،،، وہ بھی باہر کی طرف بڑھا ،،،


،،،،،،،،،

وہ کلاس لے کر ،، کوریڈور سے گزر رہی تھی کہ کسی نے بے رحمی سے اُسکی کلائی دبوچی ،،،، ابھی وہ کچھ سمجھتی یا کرتی کہ کونے میں موجود ایک خالی کلاس کی طرف بڑھ رہا تھا وہ ،،، وہ چیخ رہی تھی پر کوئی موجود ہوتا تو اُسکی مدد کرتا ،،،

کلاس میں آکر اُس نے جھٹکے سے اُس کی کلائی چھوڑتے اُسے اندر دھکیلا ،،،،

یہ کیا بد تمیزی ہے ،،وہ مقابل پر چڑھ دوڑی کلاس میں اندھیرا ہونے کے وجہ سے وہ مقابل کا چہرہ دیکھنے سے قاصر تھی ،،،،


کیا کہہ رہا تھا وہ ،،، ایک ہی جست میں اُسکا جبڑا دبوچے جارحیت سے اس کے چہرے پر غرا کر بولا


میرب کو تو جیسے یہ آواز سن دھچکا لگا تھا ،،، احمد اُس نے اُسکی آواز پہچانتے اُسے پُکارا ،،، آنسو اُسکی انکھوں سے رواں تھے ،،،


میں نے جو پوچھا اُسکا جواب دو ،،اُسکے جبڑے پر گرفت ڈھیلی کرتے کہا

تُم سے مطلب اور یہ کیا بدتمیزی ہے احمد ،،،،

کچھ اُسکی گرفت ڈھیلی کا اثر تھا اور کچھ یہ یقین ہونے کا کہ احمد ہی ہے ،،،اُسنے بنا ڈرے کہا ،،

میں نے جو پوچھا وہ بتاؤ ،،،، اُسے دیوار کے ساتھ پن کرتے سرد لہجے میں پوچھا ،،،

ویل یو بی مائے ویلنٹائن ،،،

یہ بولا تھا ،،،وہ آنسو بہاتی ہچکیوں کےدرمیان بولی


اچھا تُم نے کیا کہا ؟ اُسکے آنسو اپنے ہاتھ کے انگوٹھے کے پوروں پر چنتا وہ نرابکی نار نرمی سے بولا ،،،


سوری آ کانٹ ،،،،اُسکے ہاتھ جھٹکتی بولی ،،،


گڈ ،،،چلو آؤ تُمہیں ڈراپ کر دوں ،، احمد نے اُسے مسکرا کر دیکھتے کہا ،،،


بھاڑ میں جاؤ تُم احمد اعوان وہ ایک بار پھر چلا کہ بولی ،،،

پارکنگ میں ویٹ کر رہا ہوں میں ،، وہ اُسکی سنے بغیر باہر کی جانب بڑھا ،،،

جنگلی جاہل کہیں کا ،، اُسکے جاتے ہی اپنے گال پر ہاتھ رکھتی بولی جہاں ابھی بھی احمد کی انگلیوں کے نشان تھے ،،،،


،،،،,

احمد یہاں کمال کے کام سے ہی آیا تھا ،،، پر وہ منظر دیکھ جیسے وہ پاگل ہوگیا تھا ،،،،

،،،،،،،،

مما جانی اتنا بلڈ پریشر کیوں بڑھا لیا ہے آپ نے کوئ ٹینشن لے رہی ہیں آپ سچ بتائیں مجھے, ,,

جنت نور نے تفکر سے اپنی ماں کی طرف دیکھتے پوچھا,,,

مما کی جان مجھے کیا پریشانی ہو سکتی ہے جب تمہارے جیسی کامیاب ہونہار بیٹی اللہ نے نعمت کی صورت عطا کی ہے ,,,

بس تم جل از جلد اپنے گھر کی ہوجاؤ حسنین کیساتھ تمہاری رخصتی کر کے اپنے فرض سے سبکدوش ہونا چاہتی ہوں زندگی کی کیا بھروسہ وہ خوشی سے اسکا ماتھا چوم کر کہتے آخر میں افسردہ ہوئیں,,,


مما پلیز ایسی باتیں نہ کیا کریں,

جنت نے گلے لگتے ناراضگی کا اظہار کیا ,,


ہاں ہاں ابھی تو میں اپنے نواسے نواسی کھلانے کی خواہش مند ہوں,,, شرارت بھرا لہجہ,,,


انکی بات وہ حسنین کا سوچتے سرخ ہوئ تھی,,,

ابھی وہ دونوں باتوں میں مگن تھی کہ کمرے میں موبائل کی آواز گونجی اسنے یس کرتے کان سے لگایا,,,


ڈاکر جنت نور ایمرجنسی کیس ہے فوری پہنچے,,, دوسری طرف سے کہا گیا,,

ٹھیک ہے آپ تھیٹر ریڈی کریں میں پہنچ رہی ہوں پیشنٹ کو فلحال ایمرجنسی میں شفٹ کریں, ,,,


مما ایمرجنسی ہے مجھے جانا پڑیگا,,, آپ اپنا خیال رکھیئے گا میں جلدی آنے کی کوشش کرونگی,,,


اپنی ماں سے کہتی وارڈروب سے ہینگ ہوا ڈاکٹر کوٹ اوورآل لیئے خود کے گرد چادر لیتی وہ اللہ حافظ کہی کر باہر کی طرف بڑھی,,,


اپنی مما کی طبیعت کے پیشِ نظر آج اسنے لیو لے رکھی تھی ہاسپیٹل جانے کا آج اسکا بلکل ارادہ نہیں تھا دل کچھ بے چین تھا عجب وسوسوں گھری وہ ڈرائیونگ میں مصروف تھی جب ایک طرف روڈ پہ کافی ہجوم نظر آیا,,,


کیا ہورہا ہے یہاں؟؟ اسنے گاڑی روکتے ہارن بجا کر کچھ اونچی آواز میں استفسار کیا,,,

میڈم ایکسیڈنٹ ہوا ہے,,,

ان میں سے ایک آدمی نے کہا,,

تو ہاسپیٹل کیوں نہیں لیکر جا رہے ہیں یہاں کیوں تماشہ لگایا ہوا ہے,,


گاڑی سے اترتے اسنے افسوس سے لوگوں کا ہجوم دیکھتے کچھ شرم دلانی چاہی جن میں سے کچھ لوگ ویڈیو بنانے میں مصروف تھے تو کچھ چمگوئیاں کرنے میں,,,


وہ ہجوم سائیڈ کرتی آگے بڑھی تو چہرہ واضح ہوتے اپنی جگہ ساکت و جامد ہوگئ,,,


کیونکہ خون میں لت پت وہ وجود کوئ اور نہیں اسکا شوہر تھا,,,


حسنین.... وہ ہزیانی ہوکر چلائ,,, ساتوں آسماں ٹھا ٹھا کر اسکے سر پہ آگرے تھے وہ اسکی طرف بڑھی,,,

مدد کرو کوئ پاگل ہیں آپ سب لوگ انسانیت نام کی کوئ چیز نہیں ہے وہ لوگوں پہ چیختی چلاتی دروازہ کھول چکی تھی,,,

اسکے ہاتھ پیر کانپنے لگے,,,

ایکسیڈنٹ کیسیز بہت دیکھے تھے اسنے کمزور دل ہر گزنہیں تھی لیکن سامنے اپنے شوہر کی اس حالت کو دیکھتے وہ خود پہ قابو نہ رکھ سکی,,,


میڈم یہ پولیس کیس ہے ,,,


وہ گاڑی مار کے فرار ہوگئ ہے پولیس کے آنے تک انتظار کریں ان میں سے ایک آدمی نے پاس آتے کہا,,,


شٹ اپ شوہر ہے وہ میرا پولیس کے آنے تک مرنے کیلئے چھوڑ دوں میں اسے دماغ تو ٹھیک ہے تمہارا,,,


وہ پھر گرّائ,,,


اور جیسے تیسے اپنی مدد آپ کے تحت اسے باہر نکالا جب دور کھڑے ایک آدمی نے پاس آتے حسنین کے بے جان وجود کو گاڑی میں ڈالنے میں مدد کی,,,,

،

میڈم روم نمبر 4 کے پیشنٹ کو ہوش آگیا ہے,,,

اپنی سوچوں میں گم وہ ابھی صدام کو کال کر کے انفورم کرنے کا سوچ رہی تھی,,,, جب وارڈ بوائے نے آتے اسے اطلاع دی خدا کا شکر ادا کرتی وہ روم کی طرف بڑھی,,,


حسنین ہاسپیٹل میں ہے چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہوا

ہے پریشانی کی کوئ بات نہیں آپ آجائیں,,,

صدام کو میسج دیتی اپنےکیبن سے نکل کر وہ روم کی طرف بڑھی


حسنین جو ابھی ہوش میں آیا تھا اسے اپنے گلے میں کانٹے چھبتے محسوس ہوئے پانی کی تلاش میں نگاہ دوڑائ اور اٹھنے لگا تبھی جنت رسم میں داخل,,,

اُسنے اسکے پاس آتے سہارا دیتے اسے بٹھایا ، وہ پیچھے ہونے لگی تھی جب پیر پھسلنے کے باعث اسپے گری ، دونوں ہاتھ اُسکے کندھے پہ رکھ اُس نے خود کو گرنے سے بچایا,,,


اُسکی گرین گیمسٹوں آنکھیں دیکھ کر حسنین کے ذہن میں امریکہ میں ہوئی ملاقات کسی فلم کی طرح گھومی تھی ،،،

اُسکے لب اپنے آپ مسکرائے تھے ،

وہ جس دن اپنی ماں کے ساتھ رشتے کے لئے آیا تھا اُسی دن وہ جنت کو دیکھ کر پہچان گیا تھا

پر اُس نے کسی سے بھی اپنی اور جنت کی ہوئی ملاقات کا ذکر نہیں کیا تھا


دونوں کے چہرے بے حد نزدیک تھے نگاہیں ٹکرائ,,


ایک پل کیلئے دونوں اپنی جگہ ساکت ہوئے,,

حسنین کا ایک ہاتھ اسکی کمر کے گرد لپٹا تھا تو دوسرا اسکے کندھے پر


آنکھوں سے ہوتی ہوئ اسکی نظریں ہونٹوں پہ ٹکی وہ بے ساختہ مدہوشی کے عالم میں پورے استحقاق سے جھکا اور نرمی سے چھو کر پیچھے ہٹا,

,جنت کی سانسیں منتشر ہوئ,,,

پلکیں بے ساختہ جھکی,,,

وہ پھر جھکنے لگا تھا جب جنت اسکے ارادے سمجھتی جھٹکے سے پیچھے ہٹی اور کچھ فاصلے پہ کھڑی اپنے بے ترتیب دھڑکنوں کو ترتیب دینے لگی اسکا پیچھے ہٹنا مقابل کو شدید ناگوار گزرا,,,


مجھے پانی چاہئیے,,,


کمرے میں معنی خیز خاموشی کا راج تھا جب حسنین کی گھمبیر آواز کمرے میں ارتعاش پیدا کرگئ,,,


ججی وہ کچھ جھجکتے آگے بڑھی اور اسے پانی نکال کر دیا

اسکی جھجک سمجھتے وہ مسکرایا,,,

اور پانی پینے لگا,,,


تبھی صدام اندر داخل ہوا,,,

اسکا میسج ملتے وہ عجلت میں سارے کام چھوڑ آیا تھا,,,

یہ کیسے ہوا اس سے پریشانی سے چیک کرتے صدام نے پوچھا,,,

کچھ نہیں ہوا ہے بھائ بس چھوٹا سا ایکسیڈنٹ تھا میں ٹھیک ہوں اب اسلی فکر دیکھتے وہ مسکراتے ہوئے گویا ہوا,,,

آپ اب انہیں گھر لے جا سکتے ہیں بھائ اب یہ اسٹیبل ہیں آپ لوگ باتیں کریں,,,

مجھے پیشنٹ کو دیکھنا ہے

جنت نے مسکراکر کہتے باہر کی راہ لی,,,


،،،،،،،،،،


مام .... اُسنے کمرے میں دستک دیتے کمرے میں داخل ہوتے کہا ...!


ہاں بولو ،،، نازش بیگم نے الماری سے کچھ تلاشتے مصروف سے انداز میں کہا ،،،


مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے اگر آپ فری ہوں تو ،،، اُس نے کچھ جھجکتے ہوئے کہا ،،، اور صوفے پر دراز ہوگیا ،،


کونسی ضروری بات ہے کہو ،،،، الماری کے دروازے بند کرتیں وہ بھی صوفے پر اُسکے پاس بیٹھتے استفسار کیا ،،،،


مام میں چاہتا ہُوں آپ خالہ سے میرے اور میرب کے بارے میں بات کریں ،،،،


اُس نے بنا تمہید باندھے سیدھا مدعے کی بات کی ،،،


اُسکی بات سن کر نازش بیگم نے ناگہاں اُسے دیکھا تھا ،،، خواہش تو اُنکی بھی یہی تھی پر اپنے بیٹے کے منہ سے سن وہ متحیر ہوئی تھیں ،،،،


کیا تم سیریس ہو احمد ؟ میرا مطلب ہے کہ تم مذاق تو نہیں کر رہے ،،

وہ اُسکی مذاق والی طبیعت سے واقف تھیں تبھی اُنہوں نے یقین دہانی چاہی مبادا کہیں انکے کانوں نے جو سنا وہ غلط تو نہیں،،،


میں پسند کرتا ہوں میرب کو مام اور میں چاہتا ہوں کہ آپ خالہ کو شادی کا بھی جلدی کا ہی کہیں ،،، احمد نے سنجیدگی سے کہا ،،،،


ٹھیک میں تمہارے ڈیڈ سے مشورہ کر کے نرمین آپی سے بات کرونگی ،،

کچھ توقف کے بعد انہوں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ،،،،،،


احمد نے سرد سانس خارج کرتے اثبات میں سر ہلایا


،،،،،،،،،،،

وہ أئینے کے پاس کھڑی ،، اپنی جیولری اُتارنے میں مصروف تھی ،،،

آج ولیمے کی تقریب میں بیٹھ بیٹھ کر اُسکی کمر میں بھی شدید درد تھا ،،

اُس نے ابھی دوپٹہ پینوں سے آزاد ہی کیا تھا کہ ، کمرے کا دروازہ کھول عکش اندر داخل ہوا ،،،

عروہ اُس پر ایک بھی نظر ڈالے بغیر اپنے کام میں مشغول رہی ،،،

وہ چلتا ہوا صوفہ پر جا بیٹھا اور شوز میں مقید اپنا پاؤں آزاد کرنے لگا

وہ شوز اٹھاتا اُسکی جگہ پر رکھنے کے لئے جانے لگا کہ ،، ابھی اُس نے دو تین ہی قدم اٹھائے تھے کہ اُسے اپنے پیروں کی تلوؤں میں کچھ چبھنے کا احساس ہوا ،،،

وہ شوز وہیں پھینکتا دوبارہ صوفے پر پاؤں اٹھا کر بیٹھ گیا اور پیروں سے کانچ کے ٹکڑے نکالنے لگا ،، خون کی ننھی بوندیں اُسکے پیروں سے نکل رہی تھی ،،،،


اُسے چور نظروں سے دیکھتی عروہ نے بے ساختہ منہ پر ہاتھ رکھ کر قہقہ لگایا تھا ،،،


عکش پاؤں سے نظر ہٹاتا اُسے دیکھنے لگا جیسے اچانک ہنسی کا دورہ پڑا تھا ،

،

اب وہ سمجھ چکا تھا کہ کانچ کا یہاں ہونا کوئی غلطی نہیں بلکہ اسکو زخمی کرنے کی سازش تھی ،،


،،،،،،،،،،،،،


کیسی یہ پہیلی موہ دل مر جانا ،

عشق میں جلدی بڑا جرمانہ،

تو صبر تو کر میرے یار ذرا سانس تو لے دلدار ،

چل فکر نو گولی مار یار ،

ہیں دن جندڑی دے چار ،،،


،،،،،،،،،،،،


وہ اُسکی حالات سے دل سے خوش ہوتی ،، گنگنانے لگی ،،،

عکش نے اُسکی ہمت پر ،، داد میں آبرو اچکائے اور اٹھ کھڑا ہوا ،،

وہ کانچ پر سے ننگے پاؤں چلتا ہوا اُسکی جانب بڑھا ،،،


،،،،،،،،،،،


عروہ مسکراتی أئینے میں اپنا عکس دیکھ رہی تھی کہ شیشے میں اپنے پیچھے کھڑے عکش کے عکس کو دیکھ اُسکی مُسکراہٹ سمٹی تھی ،،،

وہ ابھی اسی صدمے میں کھڑی تھی کہ عکش نے جھٹکے سے اُسکا بازو دبوچے اپنی جانب کھینچکھا ،،،

وہ کٹی ڈالی کی طرح کھنچتی ہوئی اُسکے سینے سے ٹکرائی ،،،،

،،،،،،


وہ ایک ہاتھ اُسکی کمر کے گرد حصار باندھے

اور دوسرے سے اُسنے سر کے پیچھے سے اُسکے بالوں میں پھسایا اور اُسکا چہرہ اوپر کیا ،،،،

عروہ ہونقوں کی طرح یہ سب ہوتا دیکھتی رہی ،،،

عکش اُسکی پھیلی ہری آنکھوں میں دیکھتا ،، اپنی تمام تر شدتوں سے اُسکے چہرے پر جھکا تھا

،،،،،،


کیا کہہ کر گیا تھا شاعر وہ شیانا ، آگ کا دریا ،

ڈوب کے جانا ،

تو صبر تو کر میرے یار ذرا سانس تو لے دلدار،

چل فکر نو گولی مار یار ہیں دن جندڑی دے چار ،،

ہولے ہولے ہو جائیگا پیار ،،،


،،،،،،،،،

عکش اُسے لمبے لمبے سانس لیتا دیکھ ،، اُسکی حالت سے محفوظ ہوتا گنگنایا ،،،


عروہ نے سرد آنکھوں سے اُسے دیکھتے ،،

ڈریسنگ ٹیبل پر پڑا پرفیوم اسکو مارا جو اُس نے مسکراتے مہارت سے کیچ کر لیا ،،،،

،،،،،،،،،


سر عافین عائث کے بارے میں کچھ ہاتھ نہیں لگا ،،، ہم نے اس کا پیچھا کیا تھا پر وہ ہمیں چکما دے کر پتہ نہیں کہاں غائب ہوگیا ،،،،


کمال کے سامنے کھڑا اُسکا پالتو مؤدب سا سر جھکائے بولا ،


اُسکی بات سنتے کمال نے ہاتھ میں پکڑا گلاس دیوار پر دے مارا تھا ،،،

کسی کام کے نہیں ہو تُم ،،،

گن ہاتھ میں پکڑتا اُسکے سر کا نشانہ لیتے ہی فائر کیا ،،، ٹھا کی آواز کے ساتھ گولی اُسکے سر سے آر پار ہوئی تھی اور وہ وہیں ڈھیر ہوگیا تھا ،،،،

وہ لمبے سانس لیتا خود کو پُر سکون کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اُسکا موبائل بجا ،،،،

سکرین پر چمکتا نام دیکھ ،، اُسے ٹھنڈے پیسنے آنے لگے تھے ،،،،

ہاتھ کی پشت سے ماتھے سے پسینا صاف کرتے اُسنے موبائل کان سے لگایا ،،،،


ہیلو ...! اُسنے اپنی آواز کو قدرے مضبوط کرتے کہا ،،

عافین عائث ملا ؟ مقابل نے اپنی بھاری آواز میں پوچھا ،،،

کمال نے اُسکے سوال پر آنکھیں میچی تھی ،،

ابھی نہیں بوس پر ہم اُسکے بہت قریب ہیں ،، کمال نے جان بچانے کیلئے یقین زدہ لہجے میں کہا

تم اور تمہارے پالتو کیا اب تک مکھیاں مار رہے جو ایک آدمی ابھی تک تم لوگ پکڑ نہیں پائے ،،، یا تم اپنے یہ میرے پکڑے جانے کا انتظار کر رہے ہو ،،،،،

آبنوس نے شدید تیش میں پھنکارتے کہا ،،،

میں کوشش کر رہا ہوں بوس ،، کمال نے تھوک نگلا ،،

مجھے اسی ہفتے میں عافین عائث میری چھاؤنی میں چاہئے کمال خان ،،،، ورنہ تم یہ اچھے سے جانتے سُست اور کاہل لوگ بلکل پسند نہیں ،،،

اُسنے غرا کر کہا ،،،

جی بہتر بوس ،،، کمال نے ڈرتے جواب دیا ،،،

اور موبائل ڈسکنکٹ کرتے رکھا ،،،،

سر مسلتا اب وہ پلین ترتیب دینے لگا جس سے عافین عائث اُسکے ہاتھ لگ جائے ،،،

سنیں ...! ربیعہ بیگم نے ہاتھوں پر موسچرائزر لگاتے جہانگیر صاحب کو پُکارا ،،،،


سنائیں ...! اُنہوں نے موبائل سے نظریں ہٹاتے شرارت سے کہا ،،،


میں سوچ رہی تھی کیوں نہ ہم اذہان کی شادی کروا دیں ،،، عروہ کے جانے کے بعد گھر کتنا خالی خالی ہوگیا ہے ،،،، میں پورا دن بور ہوتی رہتی ہوں آپ اور اذہان دفتر میں ہوتے ہیں اور شایان یونی سے آکر دوستوں سے ملنے چلے جاتا ہے ،،،

ربیعہ بیگم نے افسردہ ہوتے اپنا مسئلہ بیان کیا ،،،


ہممم پھر ایسا کرتے ہیں کہ میں کچھ دن آفس نہیں جاتا تمھاری بوریت دور کر دیتا ہوں ،، اُنہوں نے مُسکراتے ہوئے کہا ،،،


اُنکی بات پر ربیعہ نے غصے اور شرمیلے انداز میں اُنکی طرف دیکھا ،،اور منہ موڑے اپنے کام میں مشغول ہوگئیں ،،،

انکے انداز سے صاف ظاہر تھا کہ وہ جیسے خفا ہو گئیں ہو ،,,


اچھا اچھا میں مذاق کر رہا تھا ،، جہانگیر صاحب نے پیار سے پچکارتے کہا ،،،

ربیعہ بیگم خاموش رہیں ،،،


اچھا تُم نے کوئی لڑکی دیکھی ہے کیا اذہان کے لئے ،،، جہانگیر صاحب نے انہیں خفا دیکھ کر پوچھا ،،،


ہاں میں نے ہمیشہ سے ایمل کو سوچا ہے اذہان کے لئے ،، اُنہوں نے مسکراتے ہوئے کہا ،،،

ہاں ماشااللہ بہت پیاری بچی ہے ایمل تو ،، تم نے اذہان سے پوچھا اُسے کوئی اعتراض نہ ہو ؟ جہانگیر صاحب خدشے کے تحت پوچھا ،،،

اُسے کیا عتراض ہوگا بھلا ،،، ربیعہ بیگم نے فوراً بولا ،،


دیکھو وہ جوان ہے اپنا اچھا بھلا اچھے سے سمجھتا ہے ،، تم ایک بار اُس سے پوچھ لو ،، کہیں وہ کسی اور کو نہ پسند کرتا ہو ،،، اُنہوں نے سمجھاتے ہوئے کہا ،،،


ربیعہ نے سمجھتے اثبات میں سر ہلایا اور أٹھ کھڑی ہوئی ،،

اب کہاں جا رہی ہو ،، اُنہوں نے اُسے دروازے کی طرف جاتے دیکھ پوچھا ،، اذہان سے پوچھنے ،، ربیعہ نے مختصر جواب دیا ،،،

صبح پوچھ لینا ،، جہانگیر نے اُسکی جلد بازی دیکھ اپنی ہنسی دباتے کہا ،،

نہیں میں ابھی ہی پوچھوں گی ،،، وہ کہتی ہوئی باہر کی طرف بڑھ گئیں ،،،

جھانگیر صاحب مسکراتے نفی میں سر ہلاتے دوبارہ موبائل میں مصروف ہو گئے ،،

،،،،،


چلو شاباش پیو سارا ختم کرنا ہے,,,

بیٹا اب آپ نے اپنے کھانے پینے کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھنا کمزور بھی بہت ہو اور شروع کے دنوں میں احتیاط زیادہ ضروری ہے,,,

نرمین بیگم نے جوس ایمان کو تھماتے پیار سے پچکارتے کہا,,,

صبح سے اسکی طبیعت کافی بوجھل ہو رہی تھی اسپے بار بار قے آنے سے مزید کمزوری اور چڑچڑا پن محسوس ہورہا تھا اسلیئے وہ فلوقت جوس پینے سے انکاری تھی,,,

اسکی حالت کے پیشِ نظر نرمین زبردستی اسے اسپتال لے گیئں جہاں ڈاکٹر نے انہیں خوشی کی یہ نوید سنائ,,,

ابھی وہ اسے ہدایت دے ہی رہی تھی کے صدام لاؤنج میں داخل ہوا اسکے نظریں خود پہ پاتے وہ سرخ ہوئ تھی,, ,,

یہ کیا ہوا ہے تمہیں کیسے لگی یہ,,,

نرمین نے بھی آہٹ پہ نگاہ گھمائ,, تو صدام کے ہم قدم حسنین کو سفید پٹی دیکھ وہ تفکر سے اسکی طرف بڑھی ,,,

ایمان بھی جوس کا گلاس ٹیبل پہ رکھتی انکی طرف متوجہ ہوئ,,

کچھ نہیں مما بس چھوٹا سا ایکسیڈنٹ تھا لیکن بروقت جنت ہوسپیٹل لے گئ آپکے صاحب زادے کو اب وہ ٹھیک کیوں صحیح کہا نہ میں نے,,,

صدام نے حسنین کے کچھ بولنے سے پہلے ہی سارا معاملہ نرمین کے گوش گزار اور آخر میں شرارت سے حسنین کی طرف دیکھا,,,

وہ جنت کا سرخ چہرہ بخوبی دیکھ چکا تھا اور اسکے حسنین سے پوچھنے پر اسکا جھجکنا وہ خوب سمجھ رہا تھا آخر کو اسکی بھی ابھی ہی شادی ہوئ تھی بس جب سے ہی وہ حسنین کو چھیڑ رہا تھا,,,

جی مما اب میں ٹھیک ہوں,,

اسنے ایک ناراض سی نظر اپنے بھائ پہ ڈالتے اپنی ماں کو تسلی دی,,,

کہاں ٹھیک ہو پٹی دکھ رہی ہے مجھے,,, وہ نم لہجے میں گویا ہوئیں,,,

مما پریشان نہ ہوں اسے آرام کرنے دیں جاؤ حسنین اپنے روم میں

صدام نے جنت کی ہدایت یاد کرتے اسے روم میں جانے کا کہا,,,

ٹھیک ہے میں تمہارے لیئے ہلدی والا دودھ لاتی ہوں,,,

اور تم اپنی بی وی کا جوس ختم کرواؤ,,

وہ کہتی کچن کی طرف بڑھ گئ اور حسنین اپنے روم کی جانب,,

نرمین کے یوں اچانک اسطرح کہنے پہ وہ سٹپٹائ تھی,,,

کیوں تمہیں کیا ہوا ہے طبیعت تو ٹھیک ہے,,,

وہ فکر مندی سے اسکے قریب آتے پوچھ رہا تھا,,,

ججی میں ٹھیک ہوں اسنے گڑبڑاتے جواب دیا اور مزید سرخ ہونے لگی,,,

اسکی شرم سے جھکی پلکوں کو دیکھتے اپنی طرف کھینچنا,, وہ سیدھا اسکے سینے کا حصّہ بنی,,

صدام کیا کر رہے ہیان چھوڑیں ہم روم میں نہیں ہیں کوئ آجائےگا,,

ایمان نے آس پاس دیکھتے اسے احساس دلانا چاہا,,,

آہاں تو روم میں چل لیتے ہیں جانِ صدام,,,,

دونوں ہاتھ اسکی کمر گرد لپیٹے اسنے شرارت سے آنکھ مارتے کہا,,

معاً قدموں کی آہٹ پہ وہ دور ہٹا,,,

روم میں ویٹ کر رہا ہوں,,,

وہ محبت سے کہتا روم کی طرف بڑھ گیا,,

تم اب تک یہیں کھڑی ہو اور یہ جوس بھی نہیں پیا,,,

نرمین جو کچن سے دودھ لے کر نمودار ہوئ تھی اسے ہنوز اسی پوزیشن میں دیکھ وہ ناراض ہوئ,,

مما میں پی ہی رہی تھی,,,

وہ ٹالنے والے انداز میں کہتی روم کی طرف بڑھ گئ,,,

روم میں پہنچتے اسکا پھر جی متلی ہوا وہ منہ پہ ہاتھ رکھتی باتھروم کی طرف بڑھی,,,

جب صدام اسکی حالت دیکھتے پہچھے بھاگا,,

تم ٹھیک ہو کب سے ہو رہا ہے یہ دوائ لی,,,

اسنے فکر سے ایک ساتھ ناجانے کتنے ہی سوال داغ دیئے,,,,

میں ٹھیک ہوں آپ پریشان نہ ہوں,,,,

کہاں سے ٹھیک ہوں چہرہ دیکھو زرا ہم. ابھی ڈاکٹر کے پاس چل رہے ہیں,,,

اوپر سے نیچے تک اسکا جائزہ لیتے وہ کچھ غصے سے گویا ہوا,,,

آپ پاپا بننے والے ہیں اور مما نے کہا ہے ایسا ہوتا ہے,,

اسے غصے میں آتا دیکھ وہ فوراً بولی اور اپنا شرم سے سرخ چہرہ اسکے سینے میں چھپا گئ,,,

کیا سچ میں ,,,

اسکا چہرہ اپنے مقابل کرتے دونوں ہاتھوں کے پیالے بھرتے خوشی سے پوچھا,,,

ایمان اثبات میں سر ہلایا اور اسکے سینے پہ سر رکھ دیا,,,

بہت بہت شکریہ جانِ صدام اتنی بڑی خوشی دینے کے لیئے,,

اسے خود میں بھینچے وہ خوشی سے چور لہجے میں گویا ہوا,,,,

،،،،،،،،،،،،،،

دروازے پر دستک دیتی وہ اذہان کے روم میں داخل ہوئی ،،،

اذہان جو لیپ ٹوپ میں آفیس کے کام میں مصروف تھا ،، اُنہیں أتے دیکھ کام چھوڑ کر اُنکی طرف متوجہ ہوا ،،،


اذہان بات کرنی ہے تم سے اگر فری ہو تو،، ربیعہ بیگم نے اُسکے ساتھ کچھ فاصلے پر بیٹھتے کہا ،


جی کہیں مام اذہان نے آبرو اچکاتے ہوئے کہا ،،،

میں کل معظم بھائی کے جاؤنگی ،، تمہارے اور ایمل کے رشتے کی بات کرنے ،،، اُنھوں نے پُر جوش انداز کہا ،،،


تُو آپ مجھ سے پوچھنے آئی ہیں یا بتانے ،،،؟


کچھ دیر کے بعد اذہان نے اپنی مسکراہٹ چھپاتے کہا ،۔

ظاہر ہے پوچھنے ،، اُنہوں نے فوراً جواب دیا ،،،

اچھا ،،، اذہان نے اثبات میں سر ہلایا ،،،

،،،،،

پھر بتاؤ تُمہیں کوئی عتراض تو نہیں ،، اُسے خاموش دیکھ اُنہوں نے آس بھرے لہجے میں پوچھا ،


اگر آپکی خوشی اسی میں ہے تو مجھے بھی کوئی عتراض نہیں ،،، اذہان نے عام سے لہجے میں کہا ،،


تم سچ کہہ رہے ہو نہ ؟ ربیعہ نے خوش ہوتے پوچھا ،،،

جی ،،، اُس نے مختصر جواب دیا ،،،

ٹھیک ہے پھر میں کل ہی جاؤنگی ،،، ربیعہ بیگم نے خوشی سے چور لہجے میں کہا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں ،،،

،،,,,,,،،،،

کہاں میں فینسی بندر کا جینا حرام کرنے آئی تھی ،،


کہاں اب میرا جینا حرام کیا ہوا ہے بنا ہڈی کے مینڈک نے ،،، وہ صبح عکش کے آفس جانے سے پہلے کی گئ شرارت سوچتی کان کی لو تک سرخ ہوئی تھی ،،

سب سے پہلے کسی کاپی پر اپنے مشن لکھ لیتی ہُوں ،،

وہ خود سے بولتی کسی کاپی کی تلاش میں نظریں گھمانے لگی ،،، جو اُسے سامنے ہی سائڈ ٹیبل پر پڑی ملی ،،،


فینسی بندر کّا جینا حرام کرنے کے ایک سو ایک طریقے ... پہلے پیج کے صفحے پر لکھتی وہ پین گال پر رکھتے سوچنے لگی ،،،

1) اُنکی پسندیدہ چیزوں کا بیڑا غرق

2) اُنکی نیند تباہ کرنا

3) اُنکی ہر چیز پر قبضہ کرنا

4) جس کام سے منع کریں وہ رج کے اُنکو تپانے کے لئے کرنا ،

ایسے ہی نا جانے کتنے طریقے لکھ کر اب وہ کاپی اُسکی پہنچ سے دور چھپاتی نیا کارنامہ سرانجام دینے کے لئے کمرے سے باہر نکلی تھی ،،،

سنو جاؤ معاذ صاحب کو چائے بنا کر دو جا کر ،، اُس نے ملازمہ کو عکش کے کپڑے استری کرتے دیکھکر کہا ،،،

اچھا میڈیم میں بس یہ آخری شرٹ رھ گئ ہے یہ کر لوں پھر جاتی ہُوں بڑے صاحب کو چائے دینے ،، ملازمہ نے شرٹ استری کرتے کہا ،،،،

تُم سے جو کہا ہے وہ کرو پہلے ،،، عروہ نے غصے میں تیز لہجے میں کہا ،، ملازمہ اثبات میں سر ہلاتی کچن کی طرف بڑھی ،،،

اُس نے ہاتھ بڑھا کر دور پڑی استری شرٹ پر رکھتے استری فل پر کھول دی ،،،اور شیطانی مسکراہٹ چہرے پر سجائے شرٹ کو جلتے ہوئے دیکھنے لگی ،،،

کچھ دیر بعد اُس نے شرٹ سے استری ہٹائی تو شرٹ پر استری کے جلنے سے استری کے سائز کا ہی سوراخ ہوگیا تھا ،،

جلی ہوئی شرٹ کو مسکراتی ہینگ کرتی وہ کمرے کی طرف بڑھی تھی ،، تا کہ عکش کی فیورٹ شرٹ وہ الماری میں سجا سکے ،،،

اور کھل کے مسکرائ اپنے کارنامے پر .....


جی انکل بولایا آپ نے ؟ وہ کمرے کا دروازہ نوک کرتی اندر داخل ہوتی بولی ،،،


ہاں بیٹا آؤ معاذ صاحب نے بیڈ پر پڑے سوٹ کیس میں اپنے کپڑے ڈالتے کہا اور بیگ پیک کرتے سائڈ پر رکھ دیا ،،،

آپ کہیں جا رہے ہیں ،، مجھے بتا دیتے میں پیکنگ کر دیتی آپ کی ،،، اُس نے انہیں خود ہی پیکنگ کرتے دیکھ سوال کیا ،،

ہاں میں ذرا بزنس کے سلسلے میں ملک سے باہر جا رہا ہوں ،،، اؤ یہاں بیٹھو اُنہوں نے کہتے صوفے کی طرف اشارہ کیا ،،عروہ خاموشی سے جا کر بیٹھ گئی ،،،

تُم خوش تو ہو نہ ؟ اُنہوں نے بغور اُسکے تاثرات دیکھتے ہوئے کہا ،,

جی انکل ،،، اُس نے دھیمی آواز میں کہا ،،،،

شاباش ...! میں صرف عکش کا نہیں تمہارا بھی ڈیڈ ہوں ،،، میں تمھیں بہو نہیں اپنی بیٹی بنا کر لایا ہوں ،،، مجھے بیٹی کی بڑی خواہش تھی ،، پر شاید اللہ نے تمہاری صورت وہ خواہش پوری کرنی تھی اس لئے میری خواہش خواہش ہی رہی ،،، پر اب میں بہت خوش ہوں اللہ نے مجھے تُم جیسی بیٹی سے نوازا ہے ،،،،

تُم بھی مجھے اپنا ڈیڈ ہی سمجھو ،، کوئی مسلا ہو کوئی پریشانی ہو یا عکش تُمہیں پریشان کرے تُم بلا جھجک مجھے بتانا ،،، پھر دیکھنا تمہارے ڈیڈ کیسی چھترول کرتے ہیں اُس نہ لائق کی ،،،

معاذ صاحب نے ہنستے ہوئے شفقت بھرے لہجے میں کہا ،،،

جی ڈیڈ ،،، اُس نے بھی مُسکراتے سر کو جنش دیتے کہا ،،،

چلو اب میں چلتا ہوں میری فلائٹ کا وقت ہوگیا ہے ،،، اپنا خیال رکھنا ،،

عروہ کے سر ہاتھ پھیرتے و شفقت سے گویا ہوئے

آپ بھی ،،، اُس نے بھی معاذ صاحب کو کہا ،،، وہ عروہ پر آخری نظر ڈالتے اپنا سوٹ کیس گھسیٹتے باہر کی جانب بڑھ گئے ،،،


،،،،،،،،،،،،،،


بنا کر تُمہیں اپنی محرم ،

روز دیدار تمہارا کروں گا ،

شکر اپنے رب کا ادا کروں گا

سورہ رحمان پڑھا کروں گا،


دلکشی سے مسکراتے اُس نے مسیج سینڈ کیا ،،، اور موبائل سینے پر دل کے مقام پر رکھتے اُسنے آنکھیں مندی تھی ،،،،،


وہ نماز مکمل کرتی آیت الکرسی کا ورد کرتے جائے نماز سلیقے سے تھ کرتی اُسے اپنی جگہ پر رکھتی اپنے بستر کی طرف بڑھی ہی تھی کہ میسیج ٹون نے اُسے اپنی طرف متوجہ کیا ،،

موبائل ہاتھ میں تھامتے سکرین پر چمکتا نام دیکھ کر اُسکی ایک ہرٹ بیٹ مس ہوئی تھی ،،

جب سے اُسکی پھوپھو اذہان کے نام کی انگوٹھی پہنا کر گئ تھی تب سے اُسکی دھڑکنیں بے ترتیب تھیں ،،

میسیج پر لکھے الفاظ پڑھ کر اُسکا دل تیزی سے دھڑکا تھا ،،، اپنے دل پر ہاتھ رکھتی وہ اپنی دل کی دھڑکن محسوس کرنے لگی ،،،


،،،،،،،،،،،،،،


سہی سے صاف کرو دیکھو یہاں کتنی دھول ہے...

وہ ملازمہ کے سر پہ کھڑی کب سے ہدایتیں دے رہی تھی ,,,

ملازمہ بچارا سا منہ بنائے معاذ صاحب کے جانے کے بعد سے عروہ کے حکم کی تعمیل کر رہی تھی,,,

سنو یہ پونچھے کا پانی زائع مت کرنا میں آتی ہوں ,,,

ملازمہ. نے اسکے چہرے پہ شیطانی مسکراہٹ دیکھ آنکھوں کو چھوٹا کر مشکوک نگاہ سے دیکھا,,,

گھور کیا رہی ہو جو کہا ہے وہ کرو,,

اپنے چہرے کے زاویہ درست کرتی وہ ملازمہ کو جھڑکتے اپنے روم کی طرف بڑھ گئ,,,

ایک ہاتھ میں کنچو کا پیکٹ لیئے اور دوسرے میں ڈھیر سارے کچے پاپڑ تھامے وہ روم میں داخل ہوئ,,

کنچو کی بوتل سائیڈ رکھتی وہ عکش کی سائیڈ بیڈ کی طرف بڑھی,,,

بیڈ سے چادر ہٹا کر اسنے سلیقے سے پاپڑ بچھائے,,,

ہوگیا,,,

ہاتھ جھاڑتیسہی سے صاف کرو دیکھو یہاں کتنی دھول ہے...

وہ ملازمہ کے سر پہ کھڑی کب سے ہدایتیں دے رہی تھی ,,,

ملازمہ بچارا سا منہ بنائے معاذ صاحب کے جانے کے بعد سے عروہ کے حکم کی تکمیل کر رہی تھی,,,

سنو یہ پونچھے کا پانی زائع مت کرنا میں آتی ہوں ,,,

ملازمہ. نے اسکے چہرے پہ شیطانی مسکراہٹ دیکھ آنکھوں کو چھوٹا کر مشکوک نگاہ سے دیکھا,,,

گھور کیا رہی ہو جو کہا ہے وہ کرو,,

اپنے چہرے کے زاویہ درست کرتی وہ ملازمہ کو جھڑکتے اپنے روم کی طرف بڑھ گئ,,,

ایک ہاتھ میں کنچو کا پیکٹ لیئے اور دوسرے میں ڈھیر سارے کچے پاپڑ تھامے وہ روم میں داخل ہوئ,,

کنچو کی بوتل سائیڈ رکھتی وہ عکش کی سائیڈ بیڈ کی طرف بڑھی,,,

بیڈ سے چادر ہٹا کر اسنے سلیقے سے پاپڑ بچھائے,,,

ہوگیا,,,

ہاتھ جھاڑتیوہ کنچو کی طرف بڑھی کارپیٹ کے ہاس پنجو کے بل بیٹھتے اسنے ترتیب سے کنچے بچھائے ہم رنگ کنچے ہونے کے باعث وہ کارپیٹ کا ہی حصہ لگ رہے تھے,,,

شاباش یو آر دا جینیئس مس عروہ عکش ملک خود کا کندھا تھپتپاتے داد وصول کی...

گاڑی کی آواز سنتے وہ کھڑکی میں کھڑی ہوئ جہاں سے عکش کی گاڑی داخل ہو رہی تھی,,,

وہ جلدی سے بکھری چیزیں سمیٹتی باہر کی طرف بڑھی,,,

سنو یہ پانی نیچے پھینک دو,,

لیکن..... بحث نہیں جتنا کہا جائے اتنا کرو,,,

ملازمہ کو مخالفت کرتا دیکھ اسنے فوراً جھڑکا,,,

ملازمہ نے بات مانتے سارا پانی نیچے پھینک دیا جو سیدھا اندر آتے عکش کے وجود کی زینت بنا,,,وہ جو موبائل پہ بات کرتا اندر داخل ہورہا تھا اچانک ہوئ بارش پہ سٹپٹاتے موبائل نیچے کیا,,,


عکش کو گندے پانی میں نہایا دیکھ ہڑبڑاہٹ میں اسکے ہاتھ سے بالٹی بھی چھوٹ گئ جو سیدھا عکش کے سر پہ بجتی جو بروقت اسنے کینچ کرلی بالٹی کو غصے سے سائیڈ پھیکنتے اسنے کھلکھاہٹ پہ نظریں اٹھائ,,,,

عروہ کو ہنستا دیکھ اسے ساری کاریستانی سمجھ آگئ تھی,,,

وہ اسے ایک تیز گھوری سے نوازتا اسکا حساب بعد میں لینے کا سوچا فلحال اسے خود اٹھتی بدبو سے قے آرہی تھی,,,

اور اسکا موبائل بھی پانی گرنے کی وجہ سے ند ہوچکا تھا,,,

عروہ جو ہنوز ہنس رہی تھی اسکے بنا کچھ بولے یوں ہی چلے جانے پر کچھ الجھی,,,

محبت کے اس جہنم میں خوش آمدید مائے ڈئیر ہزبینڈ عکش ملک,,,

وہ مسکراتی خیالوں میں اس سے مخاطب بڑبڑائ,,,


،،،،،،،،،

وہ کمرے کے دروازے سے چور نظروں سے اندر دیکھ رہی تھی ،،،

آجاؤ اندر ،، آئینے کے سامنے کھڑے عکش نے اُسکی آھٹ محسوس کرتے نارمل انداز میں کہا ،،،، شاور لینے کے بعد اب اُسکا غصہ کافی حد تک کم ہو گیا تھا ،،،عروہ لمبا سانس لیتی کندھے اُچکاتی اندر داخل ہوئی ،،،

ليپٹوپ ہاتھ میں تھامے وہ وہ بیڈ کی طرف بڑھ رہا تھا کہ کارپیٹ پر پڑے کنچو کی وجہ سے وہ برُی طرح گرا ،،،

اُسکے گرتے ہی ہاتھ میں تھاما لیپ ٹاپ بھی ڈز کی آواز کے ساتھ زمین بوس ہو کر چکنا چور ہوا ،عروہ یہ سب دیکھتی اب پاگلوں کی طرح ایک ہاتھ منہ پر رکھے اور دوسرا پیٹ پر رکھے پاگلوں کی طرح ہنس رہی تھی ،،،،عکش شدید غصے کے عالم میں آٹھ کر اُسکی طرف بڑھا تھا ،،،

اُسے اپنی طرف آتا دیکھ عروہ کے جیسے چھکے چھوٹے تھے ،،،

جیسے جیسے عکش کے قدم عروہ کی طرف بڑھ رہے تھا ،،

ویسے ویسے ہی عروہ کے قدم پیچھے کے جانب بڑھ رہے تھے

پیچھے بیڈ ہونے کے باعث عروہ بیڈ پر گیری تھی ، پر اُسکے گرتے ہی جو آواز بیڈ سے برا آمد ہوئی تھی اُس پر عکش کا قہقہ بلند ہوا تھا ،،،

دراصل عروہ میڈیم اپنے ہی بنائے گھاڈے میں گیری تھی ،، اُسنے عکش کے لئے بیڈ کی چادر کے نیچے کچے پاپڑ سجائے تھے ،،، پر کہتے ہیں نہ کہ کوئی شخص جب کسی اور کے لئے گھاڈا کھود تا ہے وہ خود بھی ایک دن اُسی میں گِرتا ہے

چچچچ ... جیسی کرنی ویسی بھرنی ،،،

عجش نےہ جاندار قہقہ لگاتے کہا وہ ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہوچکا تھا,,

عروہ نے اٹھنے کی کوشش کی تو پھر پاپڑ کے ٹوٹنے کی آواز گونجی وہ مزید خجل ہوئ,,

جب عکش فوراُ دونوں ہاتھ بیڈ پہ ٹکائے اسپے جھکا اب اصل میں اسکا سانس اٹکنے لگا تھا اسکے چہرے کا طواف کرتی عکش کی بے باک نگاہیں وہ خجل ہونے کیساتھ سرخ بھی ہوگئ عروہ نے اسکے سینے پہ ہاتھ رکھتے دور کرنا چاہا جب عکش نے اسکی دونوں کلائیاں تھام کر بیڈ سے لگا دی جب عکش مزید اسکے قریب ہوا اسنے زور سے اپنی آنکھیں میچیں تھیں وہ سانس روکے خود کوسمبھالنے کی کوشش کر رہی تھے ,, اسنے جھکتے اسکے نرہم و ملائم ہونٹوں کو اپنی گرفت میں لیا اسکے انداز میں شدت واضح تھی عروہ کو اپنے جسم میں چونٹیاں رینگتی محسوس ہوئ اس سے اٹھتی پرفیوم کی تیز خوشبو وہ لرزنے لگی تھی اور وہ مدہوش سا اسکے ہوبٹوں کا جام پینے میں مگن تھا عروہ کو اپنے ہونٹوں پہ جلن محسوس ہوئ جب دورانیہ بڑھا تو اسنے پوری قوت سے مزاحمت کی اسکی گرفت ڈھیلی ہوئ,, عروہ نے پوری قوت سے اسے پیچھے دکھیلا,, تو وہ ہوش میں آیا,,,, سس

وہ کچھ کہتا اس سے پہلے ہی عروہ بھاگتی یوئ باتھروم میں بند یوگئ اور لمبے لمبے سانس لیتی اپنا سانس بہال کرنے لگی,,,

*********


ماما آپکو ایک مخلصانہ مشورہ دوں ؟ شایان نے ربیعہ بیگم کو زیورات چیک کرتے دیکھ کر کہا ،،،

کیسا مشورہ ،، اُنہوں نے آبرو أچکاتے پوچھا

مشورہ یہ ہے کہ آپ اگلے مہینے اذہان بھائی کے ساتھ آپ میری بھی شادی کروا دیں ،،،

اس طرح آپکا خرچا بھی بچے گا ،، اور اس گھر میں دو دو خوشیاں آجائے گی ،، اُسکے معصومیت سے کہنے پر ربیعہ بیگم نے بے ساختہ اپنی ہنسی دباتے اُسکی طرف دیکھا تھا جو فریز کھانے میں مصروف تھا ،،

کیا یار ماما آپکی ہی بھلائی کے لئے کہا میں نے ،،، اُنہیں تکتا دیکھ شایان نے فوراً اپنا دامن صاف کیا ،،،

اچھا کوئی لڑکی دیکھی ہے تم نے اپنے لئے ؟ اُنہوں نے اُسے مشکوک نظروں سے دیکھتے پوچھا ،،،

آئندہ خیال رکھنا ورنہ سارا خانزدہ بار بار معاف نہیں کیا کرتی ،،، اُسکے ذہن میں یہ الفاظ گردش ہوتے ہی ایک خوبصورت چہرہ اُسکے حواسوں میں لہرایا تھا ،،،

کُچھ پوچھ رہی ہوں ،،،

ربیعہ بیگم کی آواز نے اُسے حال میں پٹکا تھا ،،،

نہیں میں تو اپنے ماں باپ کا بڑا فرمابردار ، شریف اور معصوم بیٹا ہوں ،، اُس نے معصومیت کے سارے ریکارڈ توڑتے کہا ،،

ہمم ،، ربیعہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا ،،،،

اچھا کیا آپ یہ سارے زیور ایمل کو دیں گی ؟ اُس نے کچھ سوچتے پوچھا

ہاں ربیعہ بیگم نے اپنی اُمڈتی ہنسی کو دباتے ہوئے کہا ،،،

کیوں ،، اُس نے اگلا سوال کیا

کیوں کہ وہ اذہان کی دلہن بنے گی اس لئے

ربیعہ بیگم نے زیورات ڈبے میں ترتیب سے رکھتے ہوئے کہا

اچھا پھر آپ سارا یہ اذہان بھائی کی دلہن کو دے دیں گی تو میری دلہن کو کیا دیں گی ،،، شایان نے چہرے پر پریشان تاثرات سجائے معصومیت سے پوچھا ،،

اُسے میں اپنا ہونہار ہینڈسم بیٹا دوں گی اتنا کافی نہیں ،، اُنہوں نے سامان سمیٹتے کہا ،

پر یہ نہ انصافی ہے ماما ،، خیر میں خود لے دوں گا اُسے ،، شایان کی بات پر ربیعہ بیگم نے بے ساختہ قہقہ لگایا تھا ،،،

کب تک ایسا چلے گا ، کب تک ہم دونوں کی زندگی ایسے ہی گزرے گی اُسکی مجھے پریشان کرنے میں اور میری اُسکی ہر بچکانہ حرکت برداشت کرنے میں ،

کیا تم ابھی سے ہی تھک گئے ہو تم تو عشق کرتے ہو اس سے ،،

اسکے دل نے فوراً عروہ کی طرف داری کی تھی ،،

یہ سچ ہے مجھے اُسکی ہر اُس حرکت پر غصہ آتا ہے جو وہ صرف مجھے پریشان کرنے کے لئے کرتی ہے ،،

پر یہ بھی سچ ہے کہ اُس کی ان چھوٹی چھوٹی بیوقوفانہ حرکتوں سے ہی میری زندگی میں بہار ہے ،،

وہ عروہ کی اُس کو پریشان کرنے کے بعد ہنسنے والی کھلکھلاھٹیں یاد کرتا مسکرایا تھا ،،،،

کیا میری غلطی اتنی بڑی ہے کہ وہ مجھے معاف نہیں کر رہی ,,,لیکن میں نے اس سے معافی مانگی کب ,,,

کیا مجھے اُس سے سختی سے پیش آنا چاہئے ؟ اُس نے خود سے سوال کیا ،،

نہیں کبھی نہیں ،، ایک سخت مزاج مرد اپنی سخت مزاجی کی وجہ سے عورت کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں اور حسین نظاروں سے محروم رہ جاتا ہے ،،،،

اور میں کیوں کروں سختی,,,

غلطی تو میری ہی ہے میں نے کبھی اسکا بھروسہ جیتنے کی کوشش بھی تو نہیں کی وہ عروہ سے ہوئ اپنی ہر ایک ملاقات یاد کرتا تلخی سے مسکرایا,,,

سیاہ رات میں بالکونی میں کھڑا اپنی ہی سوچوں میں گم تھا ،، موبائل کے رنگ نے اسے ہوش کی دنیا میں پٹکا,, ،،،

السلام و علیکم سر ...! مخالف نے اُسکے فون اٹھاتے ہی سلام کیا ،،

وعلیکم اسلام کیا فائل ریڈی ہے اُس نے بھی سلام کا جواب دیتے سوال کیا ،،

جی سر ریڈی ہے میں نے کمال سے لے کر آبنوس کے ٹھکانے تک کی سب معلومات اُس فائل میں درج کر کے آپکو ای میل کر دی ہے ،،،

ویری گڈ ..! تُم دوبارہ وہی کمال کے انڈر رہو ہم نیا پلین ترتیب دے کے تُمہیں انفورم کر دیں گے ،،،

عکش نے اُسکے کام کو سرہاتے نیا حکم دیا ،،،

ٹھیک ہے سر ... احمد نے کہتے کال کاٹی تھی

عکش بھی موبائل اوف کرتا پیچھا مُڑا ہی تھا کہ اپنے پیچھے کھڑی عروہ کو دیکھ کر اُسکے چہرہ کا رنگ فق ہوا تھا,,,

پروبلم کیا ہے تمہاری ؟ ہر وقت کسی بد روح کی طرح کہیں نہ کہیں سے نمودار ہوجاتی ہو ،، اُس نے خود کو کمپوز کرتے ہوئے کچھ تیز لہجے میں کہا ساتھ اسکے تاثرات جانچنے چاہے,,,

تو کیا پہلے ملازموں کی فوج بھیجوں جو میرے آنے کی. اطلاع میرے سرتاج تک پہنچائے,,,

،،، میں آپکو کوئی ناول نظر آتی ہوں کہ پہلے سنیک آئیں گے پھر میں آؤ گی,,,

ڈرامائ انداز میں کہتے اسنے لمبا سانس کھینچا کل ہوئے واقعے کے بعد سے اسنے اپنے اور عکش کے درمیان فاصلہ قائم رکھا تھا,,,


لیکن اسکے وجود کے آر پار ہوتی عکش کی بےباک نگاہیں وہ کچھ گھبراہٹ کا شکار ہوئ,,,


وہ وہ مممجھے کام ہے ہڑبڑی میں کہتی وہ جانے کیلئے پلٹی عکش نے اسے بھاگتا دیکھ اسکی نازک پتلی کمر میں ہاتھ ڈالتے جھٹکے سے اپنی جانب کھینچا تھا,,,,


چچھوڑو مجھے عروہ دو بار اسکی بےشرمی کے نظارے ملاحظہ فرما چکی تھی,,,

اور ہر بار وہ اسکی گرفت میں خود کوبےبس محسوس کرتی تھی,,,

اب بھی وہ آنکھیں میچیں آگے لپٹے اسکے ہاتھ پہ ناخن گاڑے کھڑی تھی ,,,,

عکش نےاسکے سارے بال دائیں کندھیں پہ منتقل کرتے اپنی ٹھوڑی اسکے کندھے پہ ٹکائ,,,

آج رات ریڈی رہنا ہم باہر جا رہے ہیں ایک فرینڈ کی پارٹی ہے,,,

نچلا ہونٹ دانتوں تلے دبائے ہنسی کنٹرول کرتے سرگوشی میں کہا,,,

ممجھے نہیں جانا,,,,

سانس روکے بامشکل الفاظ ادا کیئے,,,

ٹھیک ہے تو پھر میں بھی نہیں جاتا,,,

اسکا رخ اپنی طرف گھماتے اسکو خود میں بھینچتے کہا,,,

آج رات میں اپنے تمام حقوق حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں تو کیا خیال ہے جان عکش تیار ہو میری شدتیں سہنے کیلئے,,,


تھوڑا جھکتے انگھوٹے کی مدد سے اسکا نچلا ہونٹ مسلتے کہا,,,

اسکی بےباک معنی خیز بات پہ اسنے پٹ سے آنکھیں وا کی تھی,,,,

بولو چلنا ہے یا پھر....

معنی خیزی سے کہتا آخری الفاظ پہ زور دیا,,


ٹھیک ہے للیکن تم پپہچھے ہٹو ابھی,,,

اسکی بات مانتے اسنے اسے دور ہٹانے کی کوشش کی,,,

دونوں ہونٹوں کو بھینچے وہ دور ہوا,,,

اور وہ تیزی دیکھاتی دور ہٹاتی ,,,


اپنی مسکراہٹ آزاد کرتے وہ اُسکی حالت سے مزے لیتا دلکشی سے مسکرایا,,,


،،،،،،،،،،،،،،،،

یہ تم نے کتنے سادہ سے کپڑے پہن لیے جنت ،،،

۔ پہلی دفعہ اپنے خاوند کے ساتھ جا رہی ہو یہ پہن کر جاؤ گی ،،

مایا نے اُسے سادہ سے بلو کلر پر سفید دوپٹہ پہنے دیکھکر کہا

ماما سہی تو ہے ڈنر پر ہی تو جا رہے ہیں میرے خیال سے تو ایک دم پرفیکٹ ہے جنت نے چہرے پر آئے بال کان کے پیچھے أڑیستے کہا ،


مایا اُسکا ہاتھ تھامتی ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھی اور اُسے کُرسی پر بیٹھاتی خود ڈریسنگ ٹیبل سے کنگا اٹھانے لگی

جنت بیٹا حسنین تمہارا شوہر ہے اُس کے لئے سجا کرو اُس کے دل میں جگہ بنانے کی کوشش کرو بیٹا,,,

اُنہوں نے کنگا اُسکے بالوں پر پھیرتے نرم لہجے میں کہا

حسنین کے نام پر جنت ایک دم سرخ ہوئی تھی ہسپتال میں ہوا واقعہ یاد کرتے جیسے جسم کا سارا خون نچڑ کر اُسکے چہرے پر آسمایا تھا ۔

ابھی مایا اُسے اور بھی نصیحت کرتی کہ ملازمہ دروازہ نوک کرتی اندر داخل ہوئی,,,

بیبی جی حسنین صاحب آئے ہیں پورچ میں منتظر ہیں جنت بیبی کے

اچھا تم جاؤ میں آرہی ہوں جنت اُسے کہتی چادر پہننے لگی

اللہ حافظ ماما

وہ کمرے سے باہر قدم رکھتی عجلت میں بولی,,,


اللہ حافظ اپنا خیال رکھنا پیچھے سے مایا نے مُسکراتے کہا

وہ قدم اٹھاتی لون تک پہنچی تھی کہ اُسے سامنے ہی پورچ میں حسنین گاڑی کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا نظر آیا حسنین کی نظر خود پر محسوس کرتے اُسکے نازک وجود میں جیسے سرد لہر دوڑی تھی ,,,

اُسکے گاڑی کے قریب پہنچتے ہی حسنین نے اُسکی طرف کا دروازہ کھولا تھا

وہ اُسکے سپاٹ چہرے پر ایک نظر ڈالتی خاموشی سے جا بیٹھی

اُسکے بیٹھتے ہی حسنین نے بھی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی

آپ نے کہا تھا کہ آپ نے کوئی بات کرنی ہے گاڑی کی خاموشی میں جنت کی دھیمی آواز گونجی

ہاں حسنین نے سامنے دیکھتے ڈرائیونگ کرتے کہا

کیا بات کرنی تھی آپ نے ؟ جنت نے اُسکی طرف رُخ کرتے اُسے دیکھتے سوال کیا,,

اُس نے سامنے سے نظر ہٹاتے حسن کی دیوی کو دیکھا جو اپنے معصوم سوالوں سے اُسکا ضبط آزما رہی تھی

ایک پل کے لئے دونوں کی نظریں ملی تھی دونوں کے ہی دل تیزی سے دھڑکے تھے جنت نے فوراً اپنی نظریں جھکاتے رُخ کھڑکی کی طرف کیا

حسنین اُسکی حرکت پر مسرور سا مسکرایا تھا

جنت,,,

اُس کی گمبھیر آواز گونجی

جی جنت نے اپنی دھڑکنوں کو تھپکتے کہا

تُم یہ معصومانہ حرکتیں کر کے میری زندگی کیوں دوزخ کر رہی ہو اُس نے مسکراتے اُسکے سرخ چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا

اسنے ناسمجھی سے اسکی طرف دیکھا حسنین کے کوئ اور جواب نہ دینے پر وہ خاموشی سے کھڑکی سے باہر سڑک پر تیزی سے بھاگتی دوڑتی گاڑیوں کو دیکھتی رہی

حسنین نے اُسکے حسین چہرے پر ایک نظر ڈالتے شہر کے مشہور ریسٹورنٹ پر گاڑی روکی,,,,


وہ آج جنت کو اپنے بارے میں ہر حقیقت بتا کر اُسکے ساتھ زندگی کی نئ شروعات کرنا چاہتا تھا ،

کیا آرڈر کروں ؟

اُس نے مینو کارڈ دیکھتے ہوئے پوچھا

جو آپکو بہتر لگے جنت نے مسکراتے کہا

تُمہیں یاد ہے ہماری پہلی ملاقات کہاں ہوئی تھی حسنین کے اس سوال پر اُسنے مُسکراتے اثبات میں سر ہلایا

میں تو پہلی ملاقات میں ہی تمھاری ان گرین گیمسٹون آنکھوں میں کھو گیا تھا ،،،،

میں بہت دُکھ میں تھا تم سے ملاقات سے پہلے

کیسا دُکھ ؟ جنت نے کچھ اُلجھتے پوچھا

اُسکے سوال پر حسنین نے اثبات میں سر ہلایا آج سب بتاؤں گا,,,

اسنے لمبا سانس کھینچتے ہر طرح کے سوال کیلئیے خود کوتیار کیا,,

میں ایمان بھابھی کی کزن کو پسند کرتا تھا بنا تمہید کے اسنے اپنی بات کہی اور اب اسکے چہرے کو بغور دیکھتے تاثرات جاننے چاہے,,,

جب اسنے کوئ جواب نہ دیا تو اسنے سر جھکاتے مزید کچھ کہنے کی کوشش کی,,

اُسکی بات پر جنت کے سر پر جیسے ساتو آسمان ٹھا ٹھا کر کے گرے تھے اسکا دل ٹوٹا تھا سارے جزبات ایک پل کیلئے ماند پڑگئے تھے

پھر آپنے مجھسے نکاح کیوں کیا,,,

کچھ توقف کے بعد جنت کی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائ,,,

اُسکے سوال پر حسنین نے اپنے جھکے سر کو اٹھا کر سرخ نظروں سے دیکھا تھا

اُسکی سرخ آنکھیں دیکھ جنت کا جیسے کسی نے دل مٹھی میں بھینچا تھا


اُسکی منگنی کا سن کر میں بہت افسردہ ہو گیا تھا میں سمجھا میری زندگی ہی ختم ہوگئی ,,،

جب مام نے تُم سے شادی کا کہا تو میں نے صاف منع کر دیا اُنہوں نے مجھے بہت سمجھایا کہ وہ میرا نصیب نہیں ہے مجھے بھول کر نئ شروعات کرنی چاہئے اللہ نے اُس سے بہتر میرے لئے چنا ہوگا میں تب بھی نہیں مانا

وہ بولتا کچھ دیر روکا اور اُسکے تاثرات دیکھنے لگا

پھر آخر مام نے دھمکیاں دے کر مجھے مجبور کر دیا کہ میں تم سے نکاح کروں

اُس نے بولتے جنت کی طرف دیکھا

میں آگے بڑھنا چاہتا ہوں میں یہ نہیں کہتا کہ مجھے تم سے محبت ہے پر تُم مجھے اب اچھی لگتی ہو

تُم میری بیوی ہو اور میں تمام حقوق دینا چاہتا ہوں تُمہیں ،،،، کیا تم میرے ساتھ سب کچھ قبول کرتے نئ شروات کرو گی ؟ اُسنے بغور اُسکا چہرہ دیکھتے سوال کیا اور اپنا ہاتھ اُسکی طرف بڑھایا

جنت فرقان خان کیا آپ میرا ساتھ دیں گی ؟ اُس نے آبرو اچکاتے پوچھا

جنت نے اپنا اپنا ٹھنڈا لرزتا ہاتھ اُس کے ہاتھ پر رکھتے اثبات میں سر ہلایا

بہت شکریہ مسز حسنین جمشید اُسکا ہاتھ چومتا وہ جذبات سے چور لہجے میں گویا ہوا

اُسکے لہجے کی مخلصی دیکھ جنت مسکرائ تھی,,,,


***********


وہ بیڈ پر اپنی کاپیاں کتابیں پھیلائے بیٹھی اسائیمنٹ بنانے میں مصروف تھی شدید سرخ آنکھوں کو ہاتھ کی ہشت سے مسلتے نیند بھگانے کی کوشش کی,,

دفتآ بالکنی سے آتی کچھ گرنے کی آواز پر وہ ٹھٹھکی اور سیدھی ہو بیٹھی,,,

گھڑی میں ٹائم دیکھتے اُسکی روح فنا ہوئی تھی

اتنی رات کو کون ہو سکتا ہے,,

خود سے سوال کرتی دوبٹا خود پہ پھیلائے وہ کھڑکی کی طرف بڑھی,,,


کھڑکی کھولتے اسنے کسی شخص کو پائیپ کی مدد سے اوپر چڑھتے دیکھا جو اسی کی طرف آرہا تھا ,,,

اسنے گڑبڑاتے کھڑکی کے پٹ بند کرتے باہر بھاگنا چاہا,,,,

جب تیزی سے چڑھتے اس وجود نے اپنا ہاتھ بڑھاتے دروازے بند ہونے سے روکے,,,

وہ چھلانگ مارتا اسکے کمرے میں داخل ہوا ,,,,

میرب نے پھرتی سے اپنے برابر میں رکھا کانچ کا گلاس اٹھاتے اسپے وار کیا,,,

مقابل نے اپنا بچاؤ کرتے اسکی کلائ دبوچی اور پیچھے کی طرف موڑتے قریب کیا اب میرب کی پشت مقابل کے سینے سے ٹکرا رہی تھی,,,,

اسنے چیخنے کیلئے منہ کھولا تو عہ دوسرا ہاتھ سے اسکا منہ بھی بند کرگیا,,

میرب کے ہاتھ سے گلاس زمین بوس ہوتا کئ ٹکروں میں تقسیم ہوگیا,,,,

میں احمد ہوں ,,,,

شششش چیخنا مت پلیز التجائ لہجے میں اسے چلانے سے باز رکھا,,

اسکا نام سنتے اسے دھچکا لگا تھا ,,,

تم یہاں چورو کی طرح کیا کرنے آئے ہو وہ بھی رات کے اس پہر,,,

خود کو اسکی گرفت سے آزاد کرتی وہ دبے دبے غصے میں گویا ہوئ ,,,

مطلب میں دن میں آسکتا ہوں رات میں نہیں,,,

ہڈی کو پیچھے گراتے اسنے اسکا سوال نظر انداز کرتے اپنا ہی سوال داغا,,,,

کیا مطلب ہے تمہارا میں نے ایسا تو کچھ نہیں کہا,,,

اسکے بے تُکے سوال پہ دانت پیسے,,,

ارے ناراض کیوں ہورہی ہو بس سوری کہنے آیا تھا یار,,,

ہلکے پھلکے انداز میں یونی میں کی جانے والی اپنی حرکت پہ شرمندہ ہوتے سوری کیا,,

مطلب حد ہے تم یہاں چورو کی طرح اس لباس میں سوری کرنے آئے ہو شرم نہیں آتی تمہیں کسی لڑکی کے کمرے میں رات ک اس پہر بے دھڑک آنے میں,,,

وہ چڑتے ہوئے کچھ تیز لیجے میں بولی اسکا بس نہیں چل رہا تھا اسکی اس حرکت پہ اپنا سر پیٹ لے کوئ دیکھتا تو کیا سوچتا,,,

کسی لڑکی کا تو معلوم نہیں لیکن تمہارے کمرےمیں آنے میں مجھے کوئ دکت نہیں,,,

اسنے دلکشی سے کہتے اپنے دل کے مقام پہ ہاتھ رکھا

اور شرم والی بات بھی کیا درست کہی میڈم,,, بات جاری رکھی, ,,,

تُمہیں شرم آئی میرا دل چراتے ہوئے دھیمہ جزبات سے چور لہجہ,,,, وہ کہتے اُس کی طرف بڑھا


میں نے؟

اسکے بڑھتے قدم دیکھ وہ دیوار کیساتھ لگی سوال گو تھی ,,,

میں نے کب چُرایا تمہارا دل ہوش میں تو ہو سوال نظریں اسپے ٹکائے وہ اسکی بات پہ چونکتے برہم ہوئ, ,,,


تو کیوں میرا دل میرے اختیار میں نہیں ہے,,,

میرب کی بھوری کاجل سے لبریز آنکھوں میں اپنی کالی گہری آنکھیں گاڑے,,,

فاصلے مٹاتا دیوار کے دونوں طرف ہاتھ ٹکائے اسپے تقریباً جھکتے پوچھ رہا تھا,,

اسکی آنکھوں میں محبت کے حسین رنگ واضح تھے,,,

تم میری پہلی اور آخری محبت ہو شدت سے بھرپور لہجہ,,,,,

اسکی شرم سے جھکی پلکیں دیکھ وہ خود پہ قابو پاتے دور ہوا ,,,,


مما ہم دونوں کی شادی کروانا چاہتی ہیں امید ہے تم انکار نہیں کروگی,,,

وہ اپنی کہتا اسے یوں ہی ساکت و جامد چھوڑے جیسے آیا تھا ویسے ہی جا چکا تھا فلوقت وہ مذید یہاں رک کر جزبات میں بہہ نہیں سکتا تھا,,,


اور وہ ہنوز سوالیہ نظروں سے اسکی پشت تکتی رہ گئ,,,

اسکا تیزی سے دھڑک رہا تھا کان سائیں سائیں کرنے لگے تھے,,,,,


اپنے کیبن میں بیٹھا وہ بڑے انہماک سے کچھ ضروری فائل پڑھنے میں مصروف تھا,,,,

ٹو ٹو کی آواز پہ موبائل اسکرین کی طرف متوجہ ہوا اسکرین پہ عروہ کا میسج دیکھ کر وہ مسکرایا,,,,

میرے پاس کپڑے نہیں پارٹی میں پہننے کیلئے اگر مجھے لیکر جانے کے خواہشمند ہو تو ڈریس لے کر آنا,,,

اسکا دھمکی زدہ میسج پڑھتے اسنے داد میں ایک آئ برو اچکاتے میسج ٹائیپ کیا ہونٹوں پہ مچلتی مسکراہٹ کیساتھ اسنےمیسج سینڈ کیا,,,,

شکر ہے غصے میں سہی کوئ فرمائش تو کی وہ دل ہی دل میں اسے سوچتا رسٹ واچ میں ٹائم دیکھتے جانے کیلئے اٹھ کھڑا ہوا ,,,

اب عروہ میڈم کیلئے اسے شاپنگ بھی کرنی تھی,,,

عجلت میں اپنا مطلوبہ سامان لیتے وہ سبکو ہدایت دیتا بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا,,,,


عروہ جو بیڈپہ کپڑوں کا انبار لگائے چکھوٹا مار کے بیٹھی اسکے جواب کی منتظر تھی کے شاید وہ اب غصے میں اسے ساتھ لے کر جانے سے انکار کردے,,

اسی لیئے صبح سے کسی نا کسی بات پہ عکش کو پریشان کرتی نا جانے کے بہانے تلاش کر رہی تھی مگر ہر بار اپنا پلین ناکام ہوتے دیکھ اسنے آخری ہُربا آزمایا تھا ,,,

مگر بے سود,,,

اوکے سویٹ ہارٹ آپکا حکم سر آنکھوں پر,,,,

عکش کے جواب پر وہ شرم سے سرخ ہوئ تھی,,,

ممیں شرما کیوں رہی ہوں اس بنا پونچ کے مینڈک سے مجھے غصّہ آنا چاہیے اسکی فضول باتوں پہ,,,

اپنے جزباتوں کو جھٹکتے خود کو ڈپٹا,,

دونوں ہاتھ چہرے پہ پھیرتے خود کو نارمل کیا اور سارے کپڑے الماری میں ترتیب دینے لگی,,,


*********


پورے مال کا چکر کاٹنے کے بعد اسے ایک ڈریس عروہ کے لحاظ سے مناسب لگی,,,

ڈریس کو پیک کرواتے اسنے سیدھا گھر کی راہ لی,,,


روم کا ڈور دکھیلتے وہ اندر داخل ہوا تو اسے سر پکڑ کر زمین پر کپڑوں کے درمیان بیٹھے پایا,,,,

دروازہ کھلنے کی آواز پر اسنے سر اٹھایا تھا,,,


کیا ہوا ہے تم رو کیوں رہی ہو ایسے ؟؟

نمکین پانیوں سے بھری اسکی آنکھیں دیکھ ہاتھ میں پکڑاشاپنگ بیگ بیڈ پہ پھینکتے اسکی طرف بڑھا,,,

گھٹنوں کے بل اسکے مقابل بیٹھتے اسنےپریشان کن لہجہ میں پوچھا,,,


وہ وہ عکش مجھے یہ ترتیب دینا نہیں آتے مما کرتی تھی میری الماری سیٹ ,,,

سوں سوں کرتے اٹک اٹک کر بولتی وہ اسے بہت معصوم لگی ,,,,

تو تمہیں کس نے کہا ہے میری جان ملازمہ کہاں ہیں,,,,

دونوں ہاتھ کے پیالے میں اسکا معصوم آنسوؤں سے تر چہرہ بھرتے پیار سے پوچھا,,,,,

وہ بھاگ گئ کام چھوڑ کر,,,,ہاتھ کی پشت سے آنسوں صاف کیئے اور ملازمہ کے ساتھ اپنے کارنامے یاد کرتی اسنے شرمندگی سے نظریں جھکاتے کہا,,,,

عکش نے اپنی ہنسی دبائ تھی,,,,

اچھا تم رونا بند کرو میں کردونگا یہ ترتیب اور کل تک ملازمہ بھی ارینج کردونگا اب تم اٹھو اور تیار ہوجاؤ شاباش,,,

رونے سے لال ہوتی اسکی سرخ ناک دباتے عکش نے پیار سے پچکارا,,,,

اسنے ایک نظر اسپے ڈالی اور اُٹھ کر عکش کا لایا گیا شاپنگ بیگ اٹھاتے ڈریسنگ روم میں بند ہوگئ,,,,


اور عکش بچارا الماری کو ترتیب دینے میں مگن ہوگیا,,,

کچھ ہی دیر میں فارغ ہوتے اپنے لیئے الماری میں ہینگ ہوا بلیک تھری پیس نکال کر بیڈ پر رکھا اور ٹاول لیتے باتھروم میں بند ہوگیا,,,,

وہ اکثر ہی اپنے کام خود سر انجام دیتا تھا,,,,,

********


عکش فریش ہوتے باہر آیا تو آئینے کے سامنے کھڑی وہ دشمنِ جاں بلیک گھیردار فراک میں ملبوس کھلے بال آگے کی طرف ڈالے بیک ڈوری باندھنے کی تگ و دو میں لگی تھی,,,

پچھلا گلا کچھ گہرا ہونے کی وجہ سے اسکی دودھیا رنگت واضح تھی اسکی نظریں بھٹکتی نیچے کو سرک رہی تھی

سپید رنگت پہ چمکتا وہ باریک سا نقطہ برابر تل اسکے جزبات جنجھوڑ رہا تھا اپنے بہکے جذباتوں کو جلد ہی قابو کیا,,,,

اسے خود سے الجھتا دیکھ وہ آہستہ سے قدم اٹھاتا اسکی پشت پہ کھڑا ہوا,,,,

اپنے قریب کسی کی موجودگی محسوس کرتے عروہ نے جھٹکے سے اپنا رخ اسکی جانب کیا اور بالوں کو پیچھے کرتے بیک نیک کور کرنا چاہا,,,,

عکش نے اسکے بالوں کو آگے کی طرف کرتے اسے اپنے قریب تر کیا,,,,

عکش پپلیز نہیں,,,,

عروہ اسکے الفاظ یاد کرتے گھبراہٹ سے چور لہجے میں کہتی اپنا سر اسکے سینے پہ ٹکا گئ,,,

وہ آہستہ سے جھکتے اسکی ڈوری باندھنے لگا,,,

اپنی پشت پہ اسکی سرسراتی انگلیوں کا لمس محسوس کرتے وہ جی جان سے لرزی تھی,,,,

وہ ڈوریاں باندھتے پیچھے ہٹا اور اپنے کپڑے لیتا ڈریسنگ روم میں بند ہوگیا,,,

عروہ نے اپنا تنفس بحال کیا,,,,

اس شخص کے سامنے تو تیار ہونا نہ ممکن ہے خود سے بڑبڑاتی اپنا ضروری سامان لیئے دوسرے روم میں چلی گئ ,,,,


وائیٹ شرٹ پہ بلیک تھری پیس میں آئینے کے سامنے کھڑا خود پہ پرفیوم چھڑک رہا تھا,,,,

بالوں کی جیل کی مدد سے نفاست سے سیٹ کیا,,,

ہاتھ میں قیمتی واچ پہنی اب وہ مکمل تیار تھا,,,

اپنی پرسنل لاک ہوئ ڈرار سے گفٹ پیک نکالتا کوٹ کی اندرونی پوکٹ میں رکھا,,,

سرخ چہرے پہ ہلکی بیئرڈ کےساتھ خوشگوار مسکراہٹ سجائے لمبے لمبے ڈگ بھرتا عروہ کی تلاش میں نکلا,,,,

عروہ کیا تم تیار ہو ؟؟

برابر والے کمرے کی لائیٹ روشن دیکھ اسنے دروازہ نوک کرتے پوچھا ,,,,


تبھی دروازہ کھولتے عروہ باہر نکلی,,,,,

بلیک گھیردار ٹخنوں کو چھوتی فراک کھلے بال جو کیچر میں مقید تھے کچھ آوارہ لٹے اسکے ہونٹوں کو بار بار چھو رہی تھی جنہیں وہ ہاتھ کہ مدد سے پیچھے کررہی تھی,,,


دونوں ہاتھ سے فراک سمبھالے وہ اسکے مقابل ہوئ,,,

عکش ٹکٹکی باندھے اسی کا جائزہ لینے میں مگن تھا,,

ایسے گھورو گے تو میں نہیں جاؤنگی,,,

اسکی نظروں سے پزل ہوتے دھمکی دی,,,

ایک سیکنڈ وہ کہتا روم کی طرف بڑھا

اور گولڈن شال ہاتھ میں لیئے واپس آتا دکھائ دیا,,,

اچھی طرح اسکا وجود شال سے ڈھکتا اپنے حصار میں لیئے باہر کی طرف بڑھا,,,,


***********


ہم یہاں کیوں آئے ہیں ؟؟

گاڑی سمندر کی طرف رکتی دیکھ اسنے الجھتے ہوئے سوالیہ نگاہیں اسکی طرف اٹھائ,,,

آؤ بتاتا ہوں,,,

اسے جواب دیتے سیٹ بیلٹ سے خود کو آزاد کیئے باہر نکلا,,,

عروہ کے سائیڈ آتے اسنے دروازہ کھول کر ہاتھ کی ہتھیلی آگے بڑھائ,,,,


ایک نظر اسے دیکھتی اسکا ہاتھ تھام چکی تھی,,,,


اپنی پاکٹ سے رومال نکالتے وہ اسکی آنکھوں پر باندھ چکا تھا,,,,

یہ یہ کیا کر رہے ہو,,,,

آنکھوں کے سامنے اندھیرا ہوتے اسنے جلدی سے پوچھا ساتھ رومال ہٹانا چاہا,,,

ششش چلو میرے ساتھ اسکے دونوں ہاتھ اپنی گرفت میں لیئے وہ آگے بڑھا,,,

کہیں یہ مجھے سمندر میں پھینک کر اپنے ساتھ ہوئی زیادتی کا بدلہ تو نہیں لینا چاہتا وہ دل ہی دل میں اول فول سوچتی اسکے سہارے چل رہی تھی,,


کچھ دور چلنے کے بعد پاس کھڑی شِپ میں اسے باہوں میں بھرتا اوپر چھڑہا,,, ,,,

اسکے یوں باہوں میں اٹھانے سے وہ سٹپٹائ تھی,,,

خود کو خلاہ میں محسوس کرتے عروہ نے سختی سے اسکا کالر دبوچا تھا,,,

جیسے وہ اب اسے پانی میں پھینک دیگا,,,


شپ کافی بڑی ہونے کے ساتھ خوبصورتی سے سجائ گئ تھی,,,

عکش نے اسے نیچے اتارتے شپ کو چلانے کا اشارہ دیا اور


اسکی آنکھیں رومال سے آزاد کی,,,

رنگ برنگی روشنیوں سے جگمگاتے حسین منظر کو دیکھ وہ مبہوت ہوئ,,,

اسپے ٹھاٹے مارتی سمندر کی لہرو کی آواز,, ,,,

حسین تاروں سے جگمگاتا وہ سیاہ آسمان ماحول پہ چار چاند لگا رہی تھا,,,,


تمام تر سجاوٹ سے ہوتی ہوئ اسکی نظر ایک طرف ٹکی جہاں ڈنر ٹیبل پر طرح طرح کے لوازمات بہت ترتیب سے سجے تھے اسکے درمیان میں سرخ گلاب کا بوکے ڈائنگ ٹیبل کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کر رہے تھے,,,

وہ مسمرائز سی ایک ایک جیز کو دیکھ رہی تھی,,,

اور عکش اسکے خوشگوار تاثرات دیکھتے پرسکون ہوا تھا


سب تمہارے لیئے ہی ہے میری جان فرصت سے دیکھ لینا پہلے کچھ کھالیں بہت بھوک لگی ہے,,,,


عکش اسے ماحول میں کھویا دیکھ آہستہ سے اسکے قریب آتے شرارت سے گویا ہوا,,,

اسکا ہاتھ تھامے اسکے لیئے چیئر کھسکائ اور خود مقابل چیئر پہ ٹھیک اسکے سامنے بیٹھا,,,

پلیٹ میں عروہ اور اپنے لیئے بریانی نکالی,,,

وہ کنفیوز سی پلیٹ میں چمچ چلانے لگی,,,

دل تھا کے اس معنی خیز ماحول میں تیزی سے دھڑکتے باہر آنے کو تھا,,,,

عروہ بعد میں سوچ لینا سب کچھ فلحال 10 منٹ میں اگر کھانا نہیں ختم کیا تو تم سوچ سکتی ہو میں اس وقت کیا کر سکتا,,,

اسنے لہجے کو سخت بناتے کھانے کی طرف توجہ دلائ,,,

وہ اسکی سختی سے دی گئ دھمکی سمجھتی جلدی جلدی منہ چلانے لگی,,,

عروہ میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں,,,,

اسنے ہمت کرتے بات کا آغاز کیا,,,


عکش کی آواز پر اسکا منہ میں جاتا ہاتھ رکا تھا,,,

میں سن رہی ہوں,,,

آخری نوالہ لیتے اسنے بنا اسکی طرف دیکھے کہا اور پانی سے بھرا گلاس لبوں سےلگایا,,,

لیکن سامنے سے آتی خاموشی پر اسنے نگاہیں اٹھائیں تھی,,,

وہ جو اسے ہی مسلسل تک رہا تھا نظروں کے تصادم پہ ہولے سے مسکرایا,,,

اور اٹھ کر اسکی طرف آتے گھٹنوں کے بل بیٹھا,,,

یہ تمہارے لیئے اسنے اپنا لایا ہوا تحفہ اسکی طرف بڑھایا,,,

جو عروہ نے ہاتھ میں تھامتے کھولنا چاہا,,,


عروہ میں جانتا ہوں ہماری کبھی بھی گزشتہ کوئ بھی ملاقات خوشگوار نہیں گزری,,,


اسکا رخ اپنی طرف کیئے اسنے تمہید باندھی,,,


گفٹ کھولتے اسکے ہاتھ ساکت ہوئے عروہ کی الجھی نگاہیں اس پہ ٹکی تھی,,,


آج تک جو بھی ہوا وہ تمہارے ایکشن کا ری ایکشن تھا,,,

وہ رکا,,,, اور اسے دیکھنے لگا,,,

تمہارے دل میں میرے لیئے لاکھ اختلافات بدگمانیاں ہیں,,,, جنہیں میں وقت آنے پر دور کردونگا,,,

اسکے ہاتھ سے گفٹ لے کر سائیڈ پر رکھا اور اسکے ہاتھ تھامتے وہ پھر گویا ہوا,,

لفظ بدگمانیوں پر عروہ نے سخت نظروں سے اسکی طرف دیکھا تھا,,,,

وہ مال میں ہوا واقعہ تو سرے سے بھلا ہی چکی تھی,,,

کبھی کبھی جو ہم دیکھتے ہیں سنتے ہیں وہ سچ نہیں ہوتا عروہ تم نے ہمیشہ میری خامیاں تلاشی ہیں مجھ میں جھانک کر دیکھو تمہارے لیئے میں ہمیشہ ایک کھلی کتاب کی طرح ہوں,,, وہ رکا,,,

بس ایک بار تم مجھے پڑھنے کی کوشش کرو میں دنیا کی تمام خوشیاں تمہارے قدموں میں ڈھیر کردونگا,,,,

اسکے ہاتھ پہ دباؤ ڈالتا وہ جزبات سے چور لہجے میں کہہ رہا تھا,,,


اسے اس وقت کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا کہیں عجیب سی بے بسی کی انتہا پر تھی دل کہہ رہا تھا کہ اسکی ایک ایک بات پر ایمان لے آئے لیکن دماغ تھا کے ہر بات پہ اختلاف کر رہا تھا,,,


کیا اس بے قصور شخص جسکو تم نے اپنی درندگی کا نشانہ بنایا تھا اسے واپس زندہ کرسکتے ہو,,,

اسنے اپنے دماغ کی سنتے اسکی طرف غصے سے دیکھتے پوچھا ,,,,


اسکی بات پہ عکش نے مسکراتے اپنا سر جھکایا تھا,,,,

کیا تمہیں لگتا ہے میں کسی بے گناہ کی جان لے سکتا ہوں,

عکش نے الٹا اسی سے سوال کیا,,

کیا آج تک میں نے تم پہ جبر کیا

کیا آج تک میں نے کبھی تمہاری بے بسی کا فائدہ اٹھایا,,,

تمام تر حقوق محفوظ رکھتا ہوں کیا میں نے کبھی تم سے زبردستی کی,,,,

عروہ دماغ کی نہیں دل کی سنو,,,

اسنے آنسوؤں سے تر سرخ آنکھیں اسکی سوچ پہ افسوس کرتے احساس دلانا چاہا ,,,,,

مگر وہ کچھ نہیں بولی بس نگاہیں جکھا دی ایک آنسوں پلکوں کی باڑ توڑتے اسکی آنکھ سے آزاد ہوا,,,


مجھے نہیں پتہ عروہ مجھے جو تم سے ہے وہ محبت ہے یا عشق,,,,

لیکن تم سے میری سانسیں ہیں

تم ہو تو میں ہوں ورنہ عکش ملک کچھ بھی نہیں,,,

میں نے ہمیشہ تمہیں مسکراتا دیکھنے کی خواہش کی ہے,,, تم چور ہو میرے دل کی چور انگلیوں کے پوروں پر اسکے آنسوں چنتا وہ بے حد نرمی سے کہہ رہا تھا,,

چرا لیا ہے دل جو تم نے نظر نہیں چرانا صنم وہ آسودگی اور شرارت کے ملے جلے تاثرات کےساتھ کہتا نگاہیں ایک بار پھر اسکے ہاتھوں پر ٹکا دی

اسکے الفاظ اسکے دل کی سچائ کا ثبوت دے رہے تھے,,,

وہ ساکت سی اسکے آنسوں دیکھ رہی تھی,,,

اسنے سن رکھا تھا مرد ہمیشہ اپنے پسندیدہ شخص کے سامنے اپنا ضبط کھوتا ہے وہ تب روتا ہے جب بے بسی کی انتہا پہ ہو,,,,

عکش ملک ایک مضبوط اعصاب کا مالک تھا اور وہ آج اسکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھا آنسوں بہاتے اپنا یقین دلا رہا تھا,,,,,

وہ شوہر ہے میرا میں اتنی سنگ دل نہیں کے اسکی التجا ٹھکرا دوں,,,,

اسکے دل سے ایک آواز برآمد ہوئ,,,

نہیں لیکن وہ شخص؟؟ اگر میں نے اسے موقعہ دیا تو اس انجان شخص کیساتھ زیادتی ہوگی,,,

لیکن عکش نے کہا وہ کسی بے گناہ کی جان نہیں لے سکتا,,, دل نے پھر ایک وجہ پیش کی,,,

تم خاموش کیوں ہو پلیز کچھ بولو عروہ میں تم پر اپنے فیصلے تھوپ نہیں رہاجو تمہارا دل کہیں بس وہی کہہ دو پلیز,,,

اسے خیالوں میں گم دیکھ عکش نے اسے ہوش دلاتے کہا,,,


ممجھے تھوڑا وقت دو,,

اسنے لڑھڑاتے الفاظ ادا کیئے,,,

جتنا چاہے لے لو میری جان ,,,

وہ اسکا مثبت جواب سنتے مسکرایا

اور کھڑے ہوتے شدتِ جزبات سے کہتا اسے خود میں بھینچ لیا کہ عروہ کو اپنی پسلیاں ٹوٹتی محسوس ہوئ,,,


I love you soo much arwa my life line......

اسکے اظہار ِ محبت پہ جسم کا سارا خون نچڑ کر اسکے چہرے کی زینت بنا تھا ,,,


عکش نے الگ ہوتے اسے باہوں میں بھرا اور شِپ میں نیچے کی طرف جاتی سیڑھیاں عبور کرنے لگا,,,,

اسے بیڈ پہ احتیاط سے لٹاتے وہ کوٹ اتارتا کف فولڈ کیئے اسکے برابر آکر لیٹا,,,,

جانِ عکش کیا ارادہ ہے ؟

معنی خیز انداز میں کہتا وہ جھکنے لگا تھا,,,


عکش ہم گگھر نہیں جا رہے,,,

اسے پٹھری سے اترتا دیکھ اسنے گھبراتے ہوئے پوچھا,,,


نہیں میری جان آج رات یہ بندہ تمہارا,,,

عکش پلیز ابھی نہیں نہ,,,

اسکے یوں عاجزانہ انداز پہ عکش نے مسکراہٹ دبائ تھی,,

ریلیکس یار کچھ نہیں کر رہا تم تو ایسے ڈر رہی جیسے میں کوئ آدم خور ہوں,,

اسکے کاپنے پر اسنے چوٹ کی,,,,

لیکن تم ڈرو اچھا ہی ہے میں کبھی کبھی آدم خور بن جاتا ہوں,,,

وہ شرارت سے ایک آنکھ دبا کر کہتا اسپے اپنی تمام تر شدتوں کے ساتھ جکھا اور اسکے سانسیں بند کرگیا,,,,

اسکے ہونٹوں پہ قبضہ کیئے وہ مدہوش سہ اسپے قابض تھا,,,

پیچھے ہٹتے اسکی اٹھتی گرتی شرمائ سی پلکوں کا رقص دیکھتا وہ پھر جھکا لیکن اب اسکا نشانہ اسکی گردن بنا,,,

گردن پہ جا بجا اپنا دہکتا لمس چھوڑتے پیچھے ہٹا جب عروہ نے جلدی سے کروٹ بدلی,,,

اسلی جلد بازی پہ وہ مسکرایا,,,,


ڈونٹ وری گھبراؤ نہیں مائے لو,,,

تمہاری اجازت کے بغیر یہ خادم اپنی حدیں نہیں پھلانگ سکتا,,

محبت سے اسکے کندھے پہ ہونٹ رکھتا اسے یقین دلاتے خود میں بھینچے آنکھیں موند گیا,,,,,

اور ایک پرسکوں رات اختتام کو پہنچی,,,,,

آج اذہان اور ایمل کا نکاح کے ساتھ احمد اور میرب کا نکاح بھی کروانے کا فیصلہ کیا گیا تھا ،،،

اس لئے چاروں خاندانوں نے ایک ہی فنکشن میں سب کی مہندی کی رسم کا فیصلہ کیا تھا ,,

، لیکن مہندی کی رسم سے پہلے نکاح کی سنت ادا ہونی تھی

آہستہ آہستہ کر کے ہال میں مہمان جمع ہونے شروع ہوگئے تھے ،

ہال کو مہندی کے فنکشن کی مناسبت سے پیلے سفید اور سرخ پھولوں سے سجایا گیا تھا ،،

دلہن کی طرح سجا ہال خوشگوامنظر پیش کر رہا تھا اسپے اٹھتی مہندی کی دھیمی دھیمی خوشبو ماحول کو مزید خوشگوار بنا رہی تھی

سب مہمانوں کی ستائشی نگاہیں سامنے سے آتی دولہن کے روپ میں سجی ایمل اور میرب پر تھیں

میرب نے بلیو اور گولڈن بھاری کام ہوا لہنگا پہنا ہوا تھا ، ہم رنگ دوپٹہ سر پر سلیقے سے سیٹ کیا ہوا تھا اور دائیں کندھے پر بلیک اور گولڈن کلر کی شال پہنی ہوئی تھی ، جو اُسکے کم سن نازک سراپے پر بہت حسین لگ رہی تھی,,,


اُسکے ہم قدم ایمل نے عاتشی کلر کے لہنگا زیب تن کیئے ہاتھوں میں گجرے پہن رکھے تھے

خوبصورتی میں وہ بھی اپنی مثال آپ لگ رہی تھی ،،،

اُن دونوں کو جو بھی دیکھ رہا تھا ماشااللہ کہے بنا نہیں ره پا رہا تھا دونوں قدم اٹھاتی اسٹیج کی طرف بڑھ رہی تھیں ،


،،،،،،،،،،،،

عکش تمھاری وجہ سے میں اپنے سگے بھائی کی مہندی پر مہمانوں کی طرح اتنی لیٹ جا رہی ہوں ،،

دل کر رہا سر پھاڑ دوں سب تباہ کردوں,,,

اپنے میک اپ کا خیال کئے بغیر وہ سو سو کرتی خطرناک لہجے میں بولی

اُسکی بات پر عکش نے اپنی مسکراتی نیلی آنکھیں اُسکی طرف اٹھائ تھی

گرین کلر کی سادہ سی ساڑھی پر بھاری جیولری پہنے اور اپنے لمبے بال کندھے پر کھلے چھوڑے وہ عکش کے دل میں مچلتے جذبات کو بڑھا رہی تھی،

یار ریلیکس ہو جاؤ بس ابھی کچھ دیر میں پہنچ جائیں گے ہم ,,

عکش نے اُسکے غصے کے پیشِ نظر نرم لہجے میں کہا

کیسے پہنچے گے ٹریفک دیکھی ہے اپنی گرین آنکھیں اُسکی نیلی آنکھوں میں گاڑتی بولی

ابھی عکش اُسے اور کوئی جواب دیتا پر گاڑی کا شیشہ بجا

اُسنے عروہ پر ایک نظر ڈالتے شیشہ نیچے کیا تو کوئی نو عمر بچہ ہاتھوں میں گجرے لئے کھڑا تھا

صاحب یہ گجرے لے لیں ایک دم تازہ تازہ پھولوں کے بنے ہیں ،،

جگہ جگہ سے پھٹے کپڑے پہنے کھڑا وہ بچہ عکش سے مخاطب ہوا

عکش نے بنا کچھ بولے اپنے والٹ سے ہزار کا نوٹ اُسے تھمایا اور گجرے لے لئے,,,

، شکریہ صاحب اللّٰہ آپ کو اور باجی کو ہمیشہ خوش رکھے وہ بچہ خوش ہوتا اُسے دل سے دعا دیتا آگے بڑھ گیا

ہاتھ دو ...! کھڑکی کا شیشہ واپس اوپر چڑھاتا وہ عروہ کی طرف رُخ کرتا بولا

میں خود پہن لوں گی عروہ نے کچھ جھجکتے کہا

کیوں میں آدم خور ہوں جو تمہارا ہاتھ کھا جاؤ گا عکش نے اپنی مسکراہٹ چھپاتے اُس پر طنز کیا

نہیں میں تو ایسے ہی کہہ رہی تھی عروہ نے مسکراتے کہا اور ہاتھ اُسکی طرف بڑھایا

عکش نے بھی اُسکے سرخ سفید ہاتھ تھامتے اُن میں گجرے پہنائے اور اپنے ہونٹ وہاں ثبت کیئے,,,

عکش ..! گاڑی کی خاموشی میں عروہ کی پُر سوچ آواز گونجی

ہاں جان عکش حکم ..! عکش نے اُسکے پکارنے پر نثار ہوتے کہا

میں نہ آج ماما بابا کے ساتھ اُنکے گھر چلی جاؤ گی فنکشن کے بعد عروہ نے سوچتے ہوئے کہا

اُسکی بات سنتے ڈرائیونگ کرتے عکش نے ایک دم بریک لگایا تھا

کیوں ..!اسنے غصے اور نہ سمجھی سے پوچھا

کیا مطلب کیوں میرے بھائی کی شادی ہے اسنے بھی تیز نظروں سے دیکھتے جواب دیا

عکش نے ایک غصیلی نظر اُس پر ڈالتے گاڑی واپس سٹارٹ کی

میرے بھی کوئی ارمان ہیں اپنے بھائی کی شادی کو لے کر ، ااسنے ڈبڈباتی نظروں سے دیکھتے کہا

پر جواب ندارد

عکش بنا کچھ بولے سامنے دیکھتا رہا

عکش... اُس نے عکش کو خاموش دیکھتے اُس کے بازو پر اپنا سر ٹکاتے اُسے پُکارا

اسنے تب بھی کوئی جواب نہ دیا

جبکہ عروہ کی اس حرکت پر اُسکا دل تیزی سے دھڑکا تھا ،,,

اُسکا دل کر رہا تھا اپنا سینا چیر کر اُس میں چھپا دے اُسے ، پر وہ اُسکی خوشی کے آگے مجبور تھا ،

اُسکا دماغ کہہ رہا تھا انکار کر دے اُسے خود سے دور نہ جانے دے پر دل کہہ رہا تھا ،پہلی دفعہ اُس نے قدم بڑھایا ، اُسکی خوشی پر میری ہر خواہش بلکہ میں خود قربان ،،، وہ سوچتا مسکرایا تھا ،

مرد نام ہوتا ہے اعتبار کا ، وہ شخص مرد نہیں ہوتا جسکو اپنی خواہشوں پر قابو نہ ہو ، ایک حقیقی مرد اپنی خواہشوں کی آگ میں جل جاتا ہے پر اپنی من چاہی عورت سے کبھی بے وفائی نہیں کرتا ،

پلیز نہ عکش ولیمے کے فنکشن کے بعد رات میں ہی آجاؤ گی اُس نے لاڈ سے اُسکی ہلکی بڑھی شیو پر اپنی نرم اُنگلیاں پھیرتے کہا،

عکش نے ایک لمبی سانس لیتے خود کو کنٹرول کیا تھا ،،

ٹھیک ہے پر ولیمے کے بعد میں کوئی بہانہ نہیں سنو گا عکش نے اُسکے ہاتھ تھامتے لبوں سے لگاتے کہا

ہاں سہی ہے ،، وہ خوشی سے چہکتی اُس سے دور ھٹی


کتنی مطلبی ہو تم ،، صرف اپنی بات منوانے کے لئے پاس آئی تھی ،

اُسکے اُس طرح دور ہٹنے پر عکش نے اپنا ہاتھ بڑھا کر اُسکی نازک کمر میں ڈالتے اپنے قریب کیا


اُسکے کھچنے پر عروہ کی آنکھیں اُبل گئ تھی اُسکا سر عکش کے سینے سے ٹکا تھا

کیا کر رہے ہو عکش ڈرائیونگ پر دیہان دیں عروہ نے اُسکی گرفت توڑنے کی کوشش کرتے کہا

اگر نہ دوں ، ایک ہاتھ اُسکے بالوں میں پھساتے خمار زدہ لہجے میں بولا

عکش پلیز ..! عروہ نے احتجاج کیا،،،

کب تک تڑپاؤ گی ؟

اُس پر گرفت ڈھیلی کرتے بولا

عروہ گرفت ڈھیلی ہوتے ہی فوراً اُس سے دور ہوئ


میں محبت کرتا ہوں عروہ تم سے ، تُمہیں میری محبت کے مقابل کوئی نہیں ملے گا یقین کرو میں نے ٹوٹ کر چاہا ہے تُمہیں میں جانتا ہوں میری محبت کے مقابل تُمہیں کوئی نہیں ملے گا

کوئی بھی ایسی آنکھیں نہیں رکھتا عروہ جن سے میں تُمہیں دیکھتا ہوں

کوئی بھی شخص وہ آواز نہیں رکھتا جس میں پُکارتا ہوں تُمہیں ،،،،


عروہ خاموشی سے اُسکی نم آواز میں ادا ہوتے الفاظ سنتی رہی ،


********


اذہان ایمل اور احمد میرب کا نکاح ہوتے ہی جنت کو بھی اسٹیج پر بیٹھا دیا گیا تھا,,,,

پیلے اور سرخ رنگ کے امتزاج سے بنے لہنگے میں جنت نے اپنی سحر انگیز خوبصورتی سے کئی دل دھڑکا دئیے تھی

سب بزرگ اور جوان باری باری آکر رسم کرتے اُنہیں دعاؤں سے نواز رہے تھے

وہاں موجود تمام مہمانوں کے چہروں پر مسکراہٹیں رقصاں تھیں ،


،،،،،،،،،


مجھے نہیں پتہ عروہ مجھے جو تم سے ہے وہ محبت ہے یہ عشق

لیکن تم سے میری سانسیں ہیں

تُم ہو تو میں ہوں ورنہ یہ عکش ملک کچھ بھی نہیں


وہ کب سے بیڈ پر بیٹھی اُسکی کہی باتیں یاد کر رہی تھی اور مسکرا رہی تھی

کیا ہوا عکش بھائی کے بارے میں سوچ رہی ہو جو اتنا شرما رہی ہے

نہیں ...! ایمل کے شرارت سے کہنے پر اُس نے فوراً نفی کی ،،

بس کر مجھ سے کیا شرمانا آنکھ مارتی کہتی اُسکے برابر آکر بیٹھ گئی

نہیں ایسی کوئی بات نہیں عروہ نے مسکرا کر کہا

پھر کیا بات ہے ؟ سب کچھ ٹھیک ہے نہ تیرے اور عکش کے درمیان ایمل نے فکر مندی سے پوچھا ۔


مہندی کے فنکشن کے ختم ہوتے ہی عروہ ایمل کے اسرار پر اُسکے ساتھ آگئی تھی


پتہ نہیں ایمل مجھے کیا ہو رہا ہے کہتے ہی ایک آنسوں اُسکی پلکوں کا باڑ توڑ کر نکلا تھا

کیا ہوا عروہ مجھے بتا ایمل نے اُسے روتا دیکھ اُسکا سر اپنے سینے پر رکھتّے کہا


وہ کہہ رہا ہے میں اُسے معاف کردوں ،، پر میں کیسے معاف کروں ایمل اُس نے مجھ سے زبردستی نکاح کیا چلو اس بات پر معاف کر بھی دوں تو

لیکن اُسکی وجہ سے بابا کی جو حالت ہوئی اُس پر میں کيسے معاف کر دوں ،،

میں اُسکی زندگی میں صرف اُس سے انتقام کے لئے شامل ہوئی تھی ،

میں نے اُسکے ساتھ بہت کچھ کیا اُسکے عجیب و غریب نام رکھے ، اُسکی نیندیں خراب کی ، اُس پر پوچے والا پانی پھیکا ، یہاں تک کہ ہر وہ کام کیا جس سے وہ مجھ سے تنگ آجائے پر اُس نے پلٹ کر مجھ سے کچھ نہیں کہا

اُس دِن جب اُس نے کہا کہ میں اُسکا بھروسہ کروں تو میرے دل نے کہا ہاں کروں پر میں کیا کرو ایمل مجھے سمجھ نہیں آرہا میں کیوں اسے ایک موقعہ دینا چاہتی ہوں پتہ نہیں کیوں دل اسکی ہر زیادتی بھلا کر باغی ہو چلا ہے,,,

وہ اب ہچکیوں سے رو رہی تھی,,,

تم بتاؤ میں کیا کروں کیا اسے ایک موقعہ دینا ٹھیک ہوگا,,,

اسکی تمام بات غور سے سنتی وہ اسکی نا سمجھی پہ مسکرائ,,,

ایک بات کہوں

اسنے مسکراتے عروہ کی طرف دیکھتے پوچھا ,,, اور اپنے مہندی لگے سرخ ہاتھ کی انگلیوں سے اُسکے آنسو صاف کرنے لگی


ہاں پلیز کہو نہ,, عروہ نےمضطرب الحال میں پوچھا,,


You are in love baby.....


شرارت سے بھرپور آنکھوں میں مصنوعی خمار لاتے ادا سے کہا,,,

ویری فنی ایسا کچھ نہیں,,,

وہ رونا بھلائے اسکی بات پہ پزل ہوتے اسنے کشن کھینچ کے ایمل کے دے مارا,,,

ہاہاہا چل یار ،،،،، کشن کو کینچ کرتے وہ جی جان سے کھلکھلائ,,,

عروہ نے اسکی شرارت سمجھتے ایک شکوہ کن نظر اسپے ڈالی,,


تم تو ایسے شرما رہی جیسے کوئ گناہ کیا ہو ارے پیار کیا تو ڈرنا کیا میری بلبل ,,

ویسے بھی وہ شوہر ہے تمہارا,,,

اسکے چہرے پہ آئ حیاہ کی لالی کو دیکھ اسنے آنکھ دباتے پھر شرارت کی,,,

ٹھیک ہے تم کرو مستی میں جا رہی ہوں,,,

وہ مصنوعی ناراضگی سے کہتے جانے لگی جب ایمل نے اسکا ہاتھ پکڑتے واپس بٹھایا,,

اچھا بابا سوری مزاق کر رہی تھی یار,,,

اسنے ہاتھ جوڑتے التجائ لہجے میں کہا,,

وہ مسکرا دی,,,

اچھا اب سنو میری بات,,,ایمل نے کہا

ہممم وہ متوجہ ہوئ,,,


پہلی بات محبت کوئ جرم نہیں اور تمہیں تو ہوئ بھی اپنے شوہر اپنے محرم سے ہے,,,

لیکن اگر تم اس بات کو ابھی تسلیم نہیں کرنا چاہتی تو نہ سہی تھوڑا وقت دو خود کو,,,

لیکن اگر تم فیصلہ کر چکی ہو اسے ایک موقعہ فراہم کرنے کا تو زیادہ مت سوچو,,,

زیادہ سوچنے سے فیصلے کمزور پڑجاتے ہیں اور کبھی کبھی کچھ حسین پل غلط فہمیوں کی نظر ہوجاتے ہیں,,,

نکاح اللہ کے پسندیدہ عمل میں سے ایک ہے تم جانتی ہو شوہر اور اسکے حقائق کے متعلق اگر وہ تم سے کسی قسم کا مطالبہ نہیں کر رہا تو تم اُسے ایک موقعہ دو اسپے نظر رکھو اسکی ہر پوسیٹیو حرکت کو دیکھو انشاللہ تمہیں حتمی فیصلہ لینے میں آسانی ہوگی,,,


ایمل نے بات ختم کرتے اسکی طرف دیکھا

ہممم شاید تم ٹھیک کہہ رہی ہو,,,

تھینکیو سو مچ یار تم نے میری الجھن آسان کردی,,,

وہ مشکور لہجے میں کہتی اسے خود میں بھینچ گئ,,,

ڈیپ سُرخ بھاری لہنگا جس پر بھاری ذرق اور نگینوں کا کام ہوا تھا زیب تن کئے ، سُرخ ہی جالیدر گھونگٹ أڑھے ہائی ہیلز پہننے کے باعث وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی عروہ کا ہاتھ تھامے اسٹیج کی جانب بڑھ رہی تھی


بلیک اور ریڈ کلر کی شیروانی پہنے اذہان اعوان اپنی تمام تر وجاہت کے ساتھ اسٹیج کے صوفے پر بیٹھا تھا ، ایمل کو آتے دیکھ اٹھکھڑا ہوا تھا

اذہان کے پہلو میں بیٹھی ایمل کا وجود ہولے ہولے کانپ رہا تھا ،،

وہ ہاتھوں کو باہم پھسائے اپنی کپکپاتی اُنگلیاں دوپٹے میں چھپا رہی تھی ،،


اگر دینی ہے تو نگاہوں کو ایسی رسائی دو......

میں دیکھوں آئینہ تو مجھے تم دکھائی دو......


اذہان کی دھیمی خمار زدہ آواز اُسے اپنے کانوں کے آر پار ہوتی سنائی دی ،،،

اُسکا دل بے لگام گھوڑے کی طرح دھڑک رہا تھا اُسکی ہتھیلیاں نم ہوگئی تھیں

اذہان اُسکی حالت سے محفوظ ہوتا دلکشی سے مسکرایا,,,


،،،،،،،،،،

وہ کب سے ہال کے داخلی دروازے پر نظریں ٹکائے کے بیٹھی تھی ،،

وہ شدید تذبذب کا شکار تھی

دل تھا کہ اسکے انتظار میں افسردہ تھا

کل سے اُسکی بات نہیں ہوئی تھی ،،،

اُس سے ایک دن کی دوری نے ہی عروہ کے چہرے سے جیسے رونق چھین لی تھی ،،،

وہ اُس سے ضد کر کے اُس سے دور ہوگئی تھی پر اب اُسکا کسی چیز میں دل نہیں لگ رہا تھا ،،،

وہ خود اپنی حالت سے بے خبر تھی کہ وہ کیوں سوچ رہی ہے عکش کے بارے میں ،،،

کوئی بھی وہ آنکھیں نہیں رکھتا عروہ جن سے میں تمہیں دیکھتا ہوں ،،،

وہ گاڑی میں کہے عکش کے الفاظ یاد کرتی مسکرائی تھی ،، پر رات ایمل سے ہوئی گفتگو یاد کرتے اُسکا دل الگ ہی دھن میں دھڑکا تھا

کیا میں سچ میں تم سے محبت کرنے لگی ہوں عکش ؟ وہ اپنے ہی خیالوں میں عکش سے مخاطب ہوتی سوال کر رہی تھی ،،،

اُسکے دل نے فوراً حامی بھری تھی ،،،

اُسکے ساتھ گزارا ہر لمحہ یاد کرتے اُسکے چہرے پر سرخی چڑھ دوڑی تھی ،،

ہاں مجھے محبت ہوگئی ہے عکش ملک سے ،،

اس نے دل میں بے ساختہ ہی اظہار محبت کیا تھا

وہ سوچتی نظریں دروازے پر ٹکائے بیٹھی تھی کہ ،

عکش کو بلیک تھری پیس سوٹ میں ہال کے اندر داخل ہوتے دیکھ جیسے اُسکا چہرہ کھل اُٹھا تھا ،,,,


وہ چیئر سے أٹھکھڑی ہوئی ،،

وہ آس پاس سے بے نیاز اپنی گرین آنکھوں سے اُسکا دیدار کرتی اُسکی طرف بڑھ رہی تھی

اُسکو اپنے ہی قریب آتے اور اُسکا سجا سنورا روپ دیکھکر وہ دھیمے سے مسکرایا تھا ،،،

بلیک گھیر دار ٹخنوں تک آتی فراک پہنے اپنے سرخ حنائ ہاتھوں میں فراک تھامتی ، وہ عکش کے مقابل آکررکی،،،،،،


مجھے "عشق " میں منصب نہیں ,.......

مجھے روح میں "تو" چاہیئے .......

مختصر یہ کہ مجھے تو چاہیئے .......


وہ اُسکے گال پر نرمی سے اپنی انگلیاں پھیرتا بولا ،،

عروہ اُسکی بات سنتی کانوں کی لو تک سرخ ہوئی تھی ،،،

کیسی ہو ؟ اُسکا مکمل جائزہ لیتا اُسکی آنکھوں میں دیکھتا پوچھا

آپ اتنی لیٹ کیوں آئے ؟ اُسکا سوال نظر انداز کرتے اُس نے نروٹھے پن سے اپنا ہی سوال داغا،،

کیوں تُمہیں میرا انتظار تھا ؟ عکش نے اُسکی انکھوں میں سرخی دیکھکر پوچھا

نہیں میں تو ایسے ہی پوچھ رہی تھی ،، کندھے اُچکاتی بے نیازی سے بولی

صحیح ..! آج بھی گھر چلنا ہے یہ نہیں ۔

عکش کے سوال پر اُسکا دل بے اختیار دھڑکا تھا،

پر ...!

پر ور کچھ نہیں بس بہت ہوگیا آج گھر چلو گی تم ،،

اُسنے ابھی بولنے کی کوشش کی ہی تھی کہ عکش اُسکی بات کاٹتے ہوئے بولا

عروہ نے اثبات میں سر ہلایا اور اُس کی نظروں سے پزل ہوتی نظریں پھیر گئ ،،،

گڈ گرل ...! مسکراتے بول کر وہ اُسکا نازک ہاتھ اپنے چوڑے ہاتھ میں تھامتا آگے بڑھا ۔۔۔

،،،،،،،،،،،


وائٹ اور گولڈن نگینوں سے بنے بھاری لہنگے پر ، سر پر گولڈن کلر کے جالیدار دوپٹے کا گھونگٹ أڑھے بیٹھی جنت کسی ریاست کی شہزادی لگ رہی تھی ،، اُسکے پہلو میں بیٹھا حسنین وائٹ کلف دار شلوار قمیض پر پیچ اور گولڈن کام ہوئے واسکٹ پہنے کسی شہزادے سے کم نہ لگ رہا تھا ،،

نرمین بیگم آج بے انتہا خوش تھیں ،،،وہ اپنے بیٹے کی بلائے لیتی نہیں تھک رہی تھیں ،،،

،،،،

اسٹیج پر بیٹھا تیسرا جوڑا جو ہال میں موجود تمام مہمانوں کی نظروں کا مرکز بنا ہوا تھا ،،،

وائٹ اور گولڈن کلر کے امتراج سے بنے بھاری کام ہوا لہنگا پہنےمیرب آج بلا کی حسین لگ رہی تھی ،،، اُسکے پہلو میں بیٹھا احمد بھی کسی شہزادے کی ٹھاٹ باٹ رکھتا تھا ،،،

وائٹ اور گولڈن کلر کی شیروانی پہنے اور چہرہ پر ہمیشہ رہنے والی مسکراہٹ سجائے بیٹھا احمد بہت ہی پرکشش لگ رہا تھا ،،،


،،،،،،،،،،،،،،،،

ساری رسومات پوری ہوتے ہی سب اپنے اپنے گھر جانے کی تیاری میں تھے ،،،


،،،،،،،،

بھائ ایسے تو آپکو میں نہیں جانے دونگی,,

چلے پچاس ہزار نکالے اسکے بعد ہی آپکو راستہ ملےگا,,,

ازہان کے روم کے دروازے پر پھیل کر کھڑی عروہ بھرپور رقم کا مطالبہ کر رہی تھی,,,

ارے یار اب اتنے پیسے میں جیب میں لیکر تو نیں گھومتا نہ تھوڑا تو ڈسکاؤنٹ کرو,,

یار عکش کچھ سمجھاؤ اپنی بیوی کو تم نے تو اسے مزید ضدی کر دیا ہے,,,


ازہان نےعروہ سے کہتے آخر میں عکش کی طرف دیکھتے بچارا سہ منہ بنا کر کہا,,,

ہاہاہاہا,,, تم جانو تمہاری بہن جانے میرا کوئ بیچ نہیں اسکا حق ہے یہ تو,,,

عکش نے قہقہ لگاتے صاف ہاتھ کھڑے کئیے تھے اور موبائل پہ بجتے الرٹ ٹون کی طرف متوجہ ہوا تھا,,,

چلیں وہ میرے شوہر ہیں آپکی سائیڈ نہیں لینگے اب جلدی سے جیب ڈھیلی کریں,,,,

عروہ نے ہاتھ چلاتے پھر وہی مطالبہ کیا,,

ٹھیک ہے ایک کام کرتے ہیں کیش پیمنٹ تو نہیں ہے ابھی میرے پاس ایسا کرو میرا کریڈٹ کارڈ رکھلو تم ,,,

اسکی بات پہ عروہ کی آنکھیں چمکی تھی,,,

یاہوووو کا نعرہ لگاتی وہ کارڈ جھپٹ چکی تھی,,

ازہان نے ہنستے اسے ساتھ لگایا ,,,,,

****

سر خبر ملی ہے کہ کمال کو شدید زخمی حالت میں اسپتال پہنچایا گیا ہے,,,

اسپتال کا نام اور پتہ میں آپکو سینڈ کرچکا ہوں اس طرف ہماری ٹیم ریڈی ہے ,,,

مقابل نے تفصیل سے موجودہ حالات کی آگاہی دی,,,

اسنے سن کر کال ڈسکنیکٹ کردی ساتھ احمد کو کال لگانے لگا جو پہلی بیل پہ اٹھالی گئ,,

احمد لسن ٹو می ویری کیئر فلی ,,,


ساری انفارمیشن اسے تفصیل سے سمجھاتا وہ خود عروہ کو انفورم کرنے چلا گیا,,,,

احمد اپنے روم کی طرف بڑھ رہا تھا جب اسکا موبائل رنگ ہوا,,

ساری بات سنتے روم میں جانے کا ارادہ ترک کیئے وہ اپنے مشن کی اور بڑھ گیا,,,

اس وقت اسکے لیئے اُس کا فرض بے حد ضروری تھا,,

*******

حسنین نے کمرے میں قدم رکھا تو جنت کو گھونگٹ أڑھے بیٹھا پایا وہ دروازہ لوک کرتا اُسی کی طرف بڑھا

السلام و علیکم ...! سلام کرتے اُسنے جنت کا گھونگٹ اٹھایا ،،

وعلیکم اسلام ..! دهيمی آواز اور جھکی نظروں سے جواب دیتی وہ حسنین کو اپنے دل کے بے حد قریب لگی ،،

بہت پیاری لگ رہی ہو ،،، مسکرا کر اُسکا جائزہ لیتا بولا ،،

اُسکی تعریفی کلمات سنتی جنت خود میں سمٹی تھی ،، ابھی حسنین اور کچھ کہتا کہ

کمرے کی خاموش فضا میں جنت کے موبائل کی آواز گونجی ،،

وہ حسنین کی طرف دیکھنے لگی جو اُسے ہی دیکھ رہا تھا ،،،

وہ اپنے موبائل پر رات کے اس پہر اپنے پرائیویٹ ہسپتال کا نمبر دیکھکر ٹھٹکی تھی

اٹھا لو کیا پتہ امپورٹنٹ ہو , وہ اُسے موبائل کو تکتا دیکھکر بولا ،،،

جنت نے اثبات میں سر ہلاتے کال یس کرتے کان سے لگایا

ہیلو ڈاکٹر جنت...! ایک پیشنٹ آئیں ہے شدید زخمی ہیں آپ جلدی سے آجائے ، فون کے اسپیکر سے کچھ سہمی سی آواز اُس کی سماعتوں سے ٹکرائی

اس سے پہلے کہ وہ اور کوئی سوال کرتی کال کاٹ دی گئی ،،، وہ پریشان سی موبائل کو دیکھنے لگی

کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے ،، حسنین نے فکرمندی سے پوچھا ،،،

وہ ہسپتال سے فون تھا ،، کوئی شدید زخمی حالت میں آیا ہے پیشنٹ ،، اور ہسپتال میں ڈاکٹر ریشما بھی موجود نہیں وہ شہر سے باہر ہیں اس لئے مجھے بولا رہے ہیں ایمرجنسی ہے جنت نے ڈرتے ڈرتے کہا ، کہیں حسنین کو بُرا ہی نہ لگ جائے وہ اب حسنین کو دیکھنے لگی جو کسی سوچ میں نظر آرہا تھا

چلو تم چینج کرو میں جب تک نیچے گاڑی نکلتا ہوں ،،،

وہ بولتا اٹھکڑا ہوا ،،

، پر حسنین انٹی کو کیا کہینگے ؟ کہ نئی نویلی دلہن شادی کی پہلی رات ہی ہسپتال چلی گئی ،،،

جنت نے کچھ جھجھکتے کہا ،،،

اُسکی بات سن کر حسنین مسکرایا تھا اور اپنی چوڑی ہتھیلی میں اُسکا نازک ہاتھ تھاما تھا ،،،،

میں جانتا ہوں آج ہمارا اسپیشل دن تھا ہاں تھوڑا دُکھ ہے پر ، کسی انسان کی زندگی کا معاملہ ہے میں تم سے راضی ہوں میری جنت ،، اللّٰہ بھی تُم سے راضی ہو ،،،

وہ محبت سے اُسکے نازک ہاتھوں پر لب رکھتا بولا ،،

پر انٹی ؟ جنت نے پھر وہی سوال دہرایا ،,,,

، تم ٹینشن نہ لو میں ایمان بھابھی کو بتا دیتا ہوں تم اُٹھو اب جلدی سے چینج کر کے آو ،، وہ اُسکی پیشانی پر لب رکھتے بولا ،،

اُسکے جاتے ہی جنت بھی اپنا بھاری لہنگا اٹھاتی بیڈ سے اُتری اور الماری کی طرف بڑھی ،،

،،،،،،،،،

کمرے میں قدم رکھتے اسکی نظر اسکے بیڈ پہ پورے حق سے اپنا لہنگا پھیلائے شرمائ گھبرائ سی سرخ جوڑے میں سرخ ہی نیٹ کا گھونگٹ اوڑے بیٹھی سیدھا اسکے دل میں اتر رہی تھی,,


وہ قدم اٹھاتے اسکے پاس آیا اسکے پاس بیٹھتے ایمل کی گود میں دھرے حنائ ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیئے اور خود اپنا سر اسکی گود میں رکھ گیا,,,


ایمل کی ہتھیلیاں نم ہونے لگی دھڑکنے بےقابوں ہوئ,,

اسکی اچانک اتنی نزدیک آنے سے وہ ہولے ہولے لرزنے لگی تھی,,,

ایمل کے وجود میں کپکپی محسوس کرتے وہ مسکراتے اٹھا,,,

اور گھونگٹ اٹھاتے اسپے جھکنے لگا,,,,

ازہان پپلیز,,, اسنے گھبراتے احتجاج کیا,,,


کیا ہوا بس اتنے میں ہی تم تو کپکپانے لگی ہو میری چھوئ موئ,,,

پیار سے اسکا گال کھینچتے کہا,,,

اایسی کوئ بات نہیں ہے,,,

ایمل نے کہتے نظریں جھکائ تھی,,


تو پھر میں ہاں سمجھوں؟

آنکھ دباتے شرارت سے کہتے اسکے وجود سے دوپٹا الگ کیا تھا,,

اسکی بات پہ ایمل نے سرخ ہوتے گھورا تھا,,,

وہ مسکراتا اسے تکیے پہ لٹاگیا,,,

اور پورا پورا منمانیوں پہ اتر آیا,,,

ازہان یہ آپ کیا کر رہے ہیں ڈوریوں سے الجھتی اسکی انگلیوں کا لمس محسوس کرتے اسنے آنکھیں میچے پوچھا تھا,,,

تمہیں مما بنانے کی تیاری,,,

اسکے بچکانا سوال پہ وہ شرارت سے کہتا اسکے ہونٹوں پہ قبضہ جما گیا,,,,

رات آہستہ آہستہ سرک رہی تھی اور اس گزرتی رات کیساتھ اسکی شدتیں بھی بڑھ رہی تھی,,,

،،،،،،،،،،،،،

وہ ستائشی نظروں سے کمرے کی سجاوٹ دیکھ رہی تھی مصنوعی سرخ سپید پھولوں سے ہوئ سجاوٹ

فرش پر چاروں اور گلابی رنگ کے پھول بچھائے گئے تھے جس سے زمین بلکل چھپ گئ تھی,, کوئ ایسی جگہ نہیں تھی جہاں پھول نہ بچھے ہوں,,,


اپنے نازک حنائ پیر نرم و گداز پھولوں پہ رکھتے آہستہ سے قدم اٹھاتی وہ ڈریسنگ ٹیبل کے عین مقابل کھڑی ہوئ,,,

اور خود کو جیولری سے آزاد کرنے لگی,,,

احمد کا انتظار کرتے اسے کافی وقت گزر چکا تھا,,

خود پہ لدی بھاری جیولری اور لہنگے سے اب اسے گھبرایٹ ہونے لگی تھی ,,,,

بار بار اسکی سوچیں بھٹک کر احمد کے گرد گھوم رہی تھی طرح طرح کے سوال من میں احاطہ کیئے ہوئے,,,

پتہ نہیں کیوں اب تک نہیں آیا کیا وہ راضی نہیں تھا اس شادی کیلئے,,

جھوٹا کہیں کا میں ہی اس دھوکے باز کے بہکاوے میں آکر اپنی زندگی اسکے حوالے کر گئ,,,

ہاتھ کی پشت سے آنسوں رگڑتی بڑبڑارہی تھی,,,

غصے میں کھینچ کے چوڑیاں اتارتے ڈریسنگ ٹیبل پہ جارحانہ انداز میں پھینکی,,,

اسکا بس نہیں چل رہا تھا,,,, سب کچھ تہس نہس کردے,,,

زور سے گلے سے نیکلیس کھینچا جسکے باعث گلے میں خراش پڑ گئ,,,

وہ سی کرتی اٹھ کر باتھروم میں چلی,,,

شاور کے نیچے کھڑی اپنا غصہ کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی تھی جب ٹھنڈ لگنے کے باعث اسکے وجود میں کپکپی طاری ہونے لگی

وہ شاور بند کرتے ادھر ادھر ٹاول کی تلاش میں نگاہیں دوڑانیں لگی

جب کچھ نہ سمجھ آیا تو سامنے لٹکا احمد کا باتھ گاؤن پہنے باہر نکلی جو گھٹنوں سے کچھ نیچے تک آرہا تھا

وہ پوری طرح کانپ رہی تھی ,,,,,

اسکا دماغ اس وقت ماؤف تھا وہ بنا سوچے سمجھے بلینکٹ اچھی طرح اوڑھے ٹھنڈ کم کرنے کی کوشش کرنے لگی,,

جب کچھ گرمائش اپنے وجود میں اترتی محسوس ہوئ تو نیند کی پری اسپے مہربان ہوئ,,,


،،،،،،،،،

زیادہ رات ہونے کی وجہ سے راستے میں کوئی ٹریفک نہیں تھی ،،

اس لئے حسنین اور جنت پندرہ منٹ میں ہسپتال پہنچ گئے تھے ،،،

تم جاؤ جب فری ہو جاؤ تو مجھے کال کر دینا میں یہی ہوں ،،

وہ ہسپتال کے باہر گاڑی روکتا بولا ،،، جنت اثبات میں سر ہلاتی سیٹ بیلٹ ہٹاتی گاڑی سے نکلی ،،،

،،،،،،،

ایک ہاتھ میں کلچ اور موبائل تھامے اور دوسرے میں اوورآل تھامے وہ عجلت میں قدم اٹھاتی ہسپتال میں داخل ہوئی ،،

ریسپشن سے پیشنٹ کا معلوم کرتی وہ ایمرجنسی کی طرف بڑھی ،،

ایمرجنسی میں قدم رکھتے ہی سامنے کا منظر دیکھکر وہ جی جان سے کانپی تھی ، ہاتھوں میں پکڑا کلچ اور موبائل اُس کے ہاتھ سے گِرتا زمین بوس ہوا تھا ، وہ آنکھیں پھاڑے سامنے کا منظر دیکھ رہی تھی ،،

جہاں دو لمبے چوڑے ہٹے کٹے آدمی وارڈ بوائے کے سر پر گن تانے کھڑے تھے ،، جنت وہاں سے نظر ہٹاتی

سامنے کرسی پر بیٹھے اُس لہو لہان آدمی کو دیکھنے لگی جو خون میں لت پت ہاتھوں میں گن تھامے اُسے ہی دیکھ رہا تھا ،،،

وہ کمرے کا جائزہ لینے کے بعد ہوش میں آتی باہر کی طرف بڑھی ہی تھی دو لمبے چوڑے آدمی اُسکی راہ میں حائل ہو گئے ،

اندر آئیں ڈاکٹر صاحبہ آپکا ہی انتظار تھا ،، شدید زخمی حالت میں بیٹھا کمال اپنا درد برداشت کرتا ، جنت سے بولا ،

مہ مہ میں نہ نے کچھ نہ نہیں کیا مجھے جا جانے د دو

شدید خوف کے باعث اُس نے اٹک اٹک کر الفاظ ادا کئے

وہ معصوم کہاں جانتی تھی کہ وہ کون ہے ،،،

ایک نظر ادھر بھی ڈال. لیں ڈاکٹر صاحبہ,,,

اسنے اپنی پشت سے بھاری مدانہ آواز سنتے گردن گھمائ,,

جہاں اسکی پرسنل ایسسٹینٹ شدید زخمی حالت میں ہوش و خرد سے بیگانہ پڑی تھی,


،وہ ہذیانی ہوتی اسکی طرف بڑھی جو زخمی حالت میں انکی گرفت میں قید تھی,,

کیا حالت کردی ہے اسکی کون ہو تم لوگ کیا چاہتےہو,,,

سارا ڈر خوف بھلائے اسنے شدید تیش میں تر سبز آآنکھیں اٹھاتے چلائ,,,

ٹھاااا کی آواز کیساتھ وہ ادھ مرا نفوس اسی کی گود میں ڈھیر ہوگیا,,,

خون دیکھتے اسے جیسے سکتہ تاری ہوگیا,,

وہ سانس روکے آنکھیں پھاڑے اس مردہ وجود کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی

اتنا کافی ہے یا اور تماشہ کرنا ہے

وہ ہنوز اپنی جگہ ساکت بیٹھی تھی جب ایک شخص اسکے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھتا جارحانہ انداز میں اسکے بال گدی سے پکڑتا اسکے چہرے پہ پھنکارا ,,,

پپلیز مجھے ججاانے دو پپلیز وہ ہاتھ جوڑتے گڑگڑائ,,,

آپ اس وقت کہاں جا رہے ہیں ؟ عروہ شیشے کے سامنے کھڑی اپنی جیولری اترتے شیشے میں اُسکا عکس دیکھتے ہو ئے بولی ،،

اپنے ہاتھ میں گھڑی پہنتے عکش نے قدم اُسکی طرف بڑھائے ،،

کیوں تم چاہتی ہو میں نہ جاؤ آج کہیں ؟ اُسکی نازک کمر میں ہاتھ ڈالتا اُسکا رُخ اپنی جانب کیئے سر گوشی میں بولا ...

عروہ کا اس اچانک حملے میں دل تیزی سے دھڑکا تھا ،، اُسکی دھڑکنوں کا شور اپنے سینے پر محسوس کرتا عکش آسودگی سے مسکرایا تھا ،،،

ایک آد گھنٹے میں آجاؤ گا ، تم چینج کر کے سو جانا تھک گئ ہوگی تم میرا انتظار نہیں کرنا ،،

اپنے ہاتھ کے انگوٹھے سے اُسکا نچلا لب نرمی سے مسلتے ہوئےبولا ،،،

عروہ کے دل میں بہت سے سوال چل رہے تھے پر اُسکی ہمت نہ تھی پوچھنے کی اس لئے خاموشی سے اثبات میں سر ہلا گئ ،،،

روم لوک کر دینا میرے پاس ایکسٹرا کی موجود ہے ،،

وہ اُسکی پیشانی پر اپنے لب ثبت کرتا نرمی سے بولا ,,,عروہ خاموشی سے خود پر ضبط کے پہرے بٹھائے اپنے آنسو پینے لگی ،،،

عکش اُس پر ایک آخری نظر ڈالتا کمرے سے نکل گیا ،، اُسکے کمرے سے جاتے ہی عروہ کی آنکھوں سے ایک انسوں نکل کر گالوں میں پھسلا تھا,,,

وہ خود بھی اپنی حالت سے انجان تھی ، کمرہ لوک کرتی وہ فریش ہونے کے غرض سے واش روم کی طرف بڑھ گئی ،،، فریش ہونے کے بعد بیڈ پر اپنے سائڈ لیٹی اور خود پر کمفرٹر ڈالتی وہ عکش کی خالی سائڈ کو دیکھنے لگی ،،، دیکھتے دیکھتے نہ جانے کب نیند کی پری مہربان ہو گئی

اور وہ نیند کی وادیوں میں اُترتی گئ

،،،،،،،،،

اگر اپنی جان اور یہ اپنا دو کوڑی کا ہسپتال پیارا ہے تو جو ہم کہہ رہے ہیں بنا چو چرا کے کرو وہ ،،

گدی سے اُسکے بال اپنی مٹھی میں دبوچے وہ اُسکے چہرے کے قریب غرا کر بولا ،،

ہو کون تم لوگ اور کیا کروانا چاہتے ہو مجھ سے؟ وہ بالوں میں اُسکی گرفت کا درد برداشت کرتی ضبط سے بولی ،،

ہم کوئی بھی ہو تُمہیں اس سب سے مطلب نہیں ہونا چاہئے ،، چُپ چاپ بوس کے وجود سے گولیاں نکالو مرہم پٹی کرو ، اور اپنی فیس لو ،،

کیوں خامخواہ اپنی یہ نازک جان خطرے میں ڈال رہی ہو ،، جنت کو سر سے پیر تک غلیظ نظروں سے دیکھتا بولا ،،،

میں تم جیسے دہشت گردوں کا کسی صورت علاج نہیں کروں گی ،،

وہ شدید تیش میں بولی ،،

مجھے ابھی سے تم پر رحم آرہا ہے ،،،

اُسکے بال جکڑا کھڑا شخص مسکراتا گردن نفی میں ہلاتا بولا ،،

لگتا ہے تُم آسانی سے نہیں مانو گی ،بولنےکیساتھ ہی اُسکی گدی سے گرفت ہٹائ اور اُسے پیچھے کی جانب دھکا دیا ،،

وہ اچانک اُسکے دھکا دینے کے باعث دور جا گری تھی ،

گرنے سےاسکے ہاتھ میں خراش آئ تھی,,,

ہم نے سوچا تھا بغیر خون ریزی کے کام ہو جائے گا ، پر جیسے تمھاری مرضی،،،

ان میں سے ایک آدمی نے کہتے گن لوڈ کی....

,,,

درد کی شدت سے وہ سرخ ہوگئ تھی,,

اور کتنا ڈراما کرنا ہے ؟ اُسے زمین پر بیٹھا آنسو بہاتا دیکھکر پوچھا گیا ،،،

چلو اپنی جان پیاری نہیں اپنی تازہ تازہ بنے شوہر کی تو ہوگی نہ جان پیاری ؟

وہ موبائل میں ہاتھ چلاتے بولا ، باقی کلاشن تھامے کھڑے آدمی ایسے دیکھ رہے تھے جیسے بنا ٹکٹ کا شو چل رہا ہو ،،،

حسنین کے ذکر پر جنت نے فوراً اپنی سرخ آنکھیں اُسکی طرف اٹھائیں تھیں ،،،

اُسے اپنی ہی جانب دیکھتا وہ شخص اُسکی طرف بڑھا اور گھٹنوں کے بل بیٹھتے موبائل کی اسکرین اُسکے سامنے کر گیا ،،

اسکرین پر حسنین کو دیکھتے اُسکی آنکھوں سے روانی سے آنسو جاری ہو گئے تھے ،،

پر حسنین کی پشت پر کھڑے اُسکا نشانہ لیتے شخص کو دیکھکر جیسے جنت کی دھڑکنے سست پڑ گئیں تھی ،،

ٹائم نہیں ہے ہمارے پاس ،موبائل اُسکی نظروں سے ہٹاتے بولا ،،

وہ اُسکے بازو سے نکلتے خون جو کٹ لگنے کی وجہ سے بہہ رہ تھا نظر انداز کرتا اُسکا بازو دبوچتا اُسے گھسیٹتا سٹریچر کے پاس لے گیا جہاں کمال شدید زخمی حالت میں نیم بے ہوش پڑا تھا ،،

،،،،،،،،،،،

احمد عکش کے پلین کے مطابق عام سے کپڑوں میں ہسپتال میں داخل ہوا جہاں ایمرجنسی روم کے قریب ہی اُسے کمال کا بندہ بیٹھا نظر آیا ہے

, کیا ہوا بوس ٹھیک ہیں ؟ احمد نے مصنوعی فکر سے پوچھا ، نہیں ابھی علاج چل رہا ، مقابل نے مشکوک نگاہ سے اسے دیکھتے جواب دیا،، احمد سر اثبات میں ہلاتا وہاں موجود چیئر پر بیٹھ گیا ،،

احمد کو بیٹھا دیکھ وہ بھی اُسکے برابر جا بیٹھا ، کِتنی گولیاں لگی ہیں ؟ احمد نے مصنوئی پریشان ہوتے سوال کیا ، چھے لگی ہیں پر شکر ہے کہ دماغ اور دل میں نہیں لگی ، اُس نے احمد کو بتایا ، احمد کو کمال کے ساتھ کام کرتے کافی وقت ہوگیا تھا ، وہ وہاں موجود اور بھی اس کالے دھندے میں کام کرنے والوں سے دوستی کر کے ہر معلومات حاصل کرکے عکش کی ٹیم تک پہنچا چُکا تھا ،،

عکش منہ پر رومال بندھے اور ہاتھوں پر رنگ برنگی بینڈز چڑھائے عافین عائث کے روپ میں کھڑا تھا اُسکی نیلی آنکھیں اپنے آگے کھڑے شخص پر تھیں ، جو حسنین کا نشانہ لئے کھڑا تھا ،

حسنین موبائل میں مصروف اپنی گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑا تھا ، اس بات سے انجان کے وہ کسی کے نشانے میں ہے ، عکش نے آس پاس نظر دوڑاتے دیکھا اور ایک ہی سیکنڈ میں اُس شخص کو کالر سے دوبوچا اور پیر کی مدد سے اُسکے کلاشن تھامے ہاتھ کو جھٹکا دیا کلاشن نیچے زمین بوس ہوتی اُس سے پہلے ہی عکش نے تھام لی،اپنی کوہنی کی بیچ میں اُسکا سر پھسائے عکش نے اُسکی گردن کو دائیں طرف جھٹکا دیا , ایک مخصوص آواز اُسکی گردن سے برآمد ہوئی ، اُسکی اکھڑتی سانسیں دیکھ کر عکش نے اب اُسکی گردن کو بائیں جانب جھٹکا دیا پھر سے وہی آواز برآمد ہوئی اور وہ شخص وہیں ڈھیر ہو گیا


،،،،،،،،،،،

وہ کپکپاتی ہاتھوں کے ساتھ ٹانکے لگانے کے بعد اب پٹی کر رہی تھی ،،

اُسکا سارا دھیان حسنین کی طرف ہی تھا دل ہی دل میں خدا سے اُسکی سلامتی کی دعا مانگتے وہ بظاہر کمال کے علاج میں مصروف رہی ،،

میں نے انکے وجود سے گولیاں نکال دی ہیں اور پٹی بھی اب اِنکو جہاں چاہیں لے جا سکتے ہیں ،,,

اب یہ خطرے سے باہر ہیں اور کچھ ہی دیر میں انہیں ہوش بھی آجائے گا ، وہ کمال کا علاج مکمل کرنے کے بعد اُن دونوں نقاب پوشوں کی طرف متوجہ ہوئی ،

جنہوں نے چہرے پر ماسک چڑھائے چہرہ ڈھانپا ہوا تھا، اُن میں سے ایک آدمی تو وہی تھا جس نے زبردستی اُس سے علاج کر وایا تھا ،

جبکہ دوسرا شخص ابھی ہی کچھ دیر پہلے ہی کمرے میں داخل ہوا تھا ، جنت اُس نئے آنے والے شخص کو دیکھ رہی تھی ، اُسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اسکو کہیں دیکھا ہو,,

, ،،،مجھے لگتا ہے ہمیں بوس کو یہاں سے لے جانا چاہیے ، یہاں زیادہ دیر رکنا خطرے سے خالی نہیں احمد نے جنت کو مشکوک نگاہ سے خود کو تکتا پاکر جلدی سے نظریں پھیرتے مقابل کو کہا ،

ہاں سہی کہہ رہے ہو تم ہم ابھی بوس کو لے جانے کا انتظام کرتے ہیں وہ احمد کو کہتا اب اپنے آدمیوں کو چلنے کا اشارہ دینے لگا ،،

تمہارے ہسپتال میں پچھلا دروازہ ہے ؟ احمد نے سرد لہجہ اپناتے جنت سے پوچھا ،، احمد جلد از جلد کمال اور اُس کے آدمیوں کو یہان سے لے کر جانا چاہتا تھا ،

عکش چاہتا تو ابھی ہی کمال کو پکڑ کر آبنوس تک پہنچ سکتا تھا پر ہسپتال میں خون خرابہ نہیں کر سکتا تھا اور اُنکے اس حملے سے جنت اور حسنین کے ساتھ ہسپتال کی انتظامیہ کی جان کو بھی خطرہ ہو سکتا تھا ،،،

ہاں ہے اس روم سے سیدھا جا کر لیفٹ پر ایک دروازہ ہے وہ پیچھے کی جانب کھلتا ہے ، جنت نے روکھے لہجے میں کہتی سائڈ میں کھڑی ہوگئی ،، احمد اثبات میں سر ہلاتا اپنے آدمیوں کو ہدایتیں دینے لگا

،،،،،،،،،،،

وہ پچھلے دروازے کے ذریعے کمال کو لیتے وہاں سے نکل گئے ،،

اُنکے جاتے ہی جنت ہوش میں آتی موبائل ڈھونڈنے لگی جو اُسے کہیں نہ ملا ، ہسپتال میں موجود جو چند نرسیں اور وارڈ بوئز تھے وہ بے ہوش تھے ،،

عکش نے بھی اُنکے جانے کی خبر سنتے گھر کی راہ لی ، پر وہ اِس بات سے بے فکر تھا کہ کوئی اُسکا پیچھا کر رہا ہے ،

،،،،،،،،،،،

وہ کافی گہری نیند میں سو رہی تھی جب اپنی گردن پہ دہکتا لمس محسوس کرتے اسنے آنکھیں کھولی,,,

ازہااان دور ہٹیں مجھے سونا ہے پلیز کل رات بھی آپنے سونے نہیں دیا,,,

پوری رات اپنی منمانیاں کرتے صبح ہی اسکی جان بخشی تھی تو وہ نماز ادا کرکے سوئ تھی اور اب پھر اسے صبح صبح رات والے موڈ میں آتا دیکھ,,,

ایمل نے احتجاج کیا,,,

میں نے کب کہا تھا تم سے جاگنے کیلئے سوجاتی جان,,

سنجیدگی سے کہتا وہ اسکی طرف دیکھنے لگا لیکن آنکھوں میں ناچتی شرارت ایمل کہ آنکھوں سے مخفی نہ رہ سکی, ,,

ددور ہٹیں بس مجھے سونا ہے اسکی آنکھوں میں چمکتی طلب کو دیکھ اسنے گڑبڑاتے کروٹ بدلی,,,

ہاہاہاہا ازان کا قہقہبےساختہ تھا

وہ اپنا منہ تکیہ میں چھپا گئ,,,

میری چھوئ موئ سوجاؤ لیکن میں تو ناشتہ کرنے جا رہا ہوں کوئ تمہاری پوچھے گا تو کہہ دونگا میری بیگم ایک رات میں ہی میری شدتوں سے نڈھال ہوگئ ,,,

معنی خیزی سے کہتا وہ اٹھنے لگا,,,

ازہااان آپ اتنے ظالم کیوں ہوگئے ہیں,,,

اسکی طرف بیچارا سا منہ بنا کردیکھا,,,,

ہاہاہاہا ابھی تو پارٹی شروع ہوئ ہے,,,

وہ پھر شرارت پہ آمادہ تھا,,,

ایمل اب آنکھوں میں پانی لیئے اسے دیکھ رہی تھی

سرخ ڈورے رتجگے کی چغلی کھا رہے تھے,,,

ارے میری جان رو کیوں رہی ہو مذاق کر رہا تھا ناشتہ کرلو پھر آرام سے اپنی نیندیں پوری کرلینا,,,

وہ محبت سے کہتا اسکے ماتھے پہ بوسہ دیتے پیچھے ہٹا,,,

اور وارڈروب کی طرف بڑھتے اپنا اور اسکا ڈریس منتخب کیا,,,

ایمل اسکی اتنی محبت پہ مسکراتے اپنا ڈریس لیئے باتھروم میں بند ہوگئ,,,,


***********


سنیں,,,

ہمممم

اگر لڑکی ہوئ تو ہم اسکانام پری رکھینگے اور اگر لڑکا ہوا تو؟؟

اسنے صدام کو اپنی طرف متوجہ کرتے اسکے کچھ دن پہلے بیٹی کا نام طے کرنے والی بات یاد کرتے پوچھا,,,

تم بتاؤ مجھے تو تمہارے جیسی پیاری سی بیٹی چاہیئے ,,

اسنے اسکی طرف محبت سے دیکھتے کہا اور عقیدت سے اسکا ماتھا چوما,,,,

جب سے وہ ایسپیکٹ کرنے لگی تھی اسکے چہرے پہ الگ ہی نور آسمایا تھا گلابی گلابی سی وہ اسکے حصار میں قید تھی,,,

نہیں لیکن پھر بھی اگر لڑکا ہوا تو بتائیں نہ صدام,,,

آا تو ہم آہان رکھینگے,,,, ٹھیک ہے,,,

اسکی ضدی لہجے پہ صدام نے ہار مانتے نام بتایا


اسے کافی وقت ہوچکا تھا باہر جنت کا انتظار کرتے,,,

وہ بار بار چکر کاٹ رہا کے اچانک اپنے پیچھے کچھ ہلچل ہوتی سنی اسنے فوراً پلٹ کر دیکھا,,,

سامنے ایک نفوس ہاتھ میں گن تھامے پچھلے گیٹ کی طرف بھاگ رہا تھا,,,

جنت,,, اسکے ذہن میں پہلا خیال جنت کا گردش کرنے لگا وہ وقت زائع کیئے بغیر اندرونی دروازے کی سمت بھاگا,,,

ریسپشنسٹ کو بیہوش دیکھ اسکا دل جنت کی فکر میں تیزی سے دھڑکنے لگا,,,

طرح طرح کے خدشات دل میں گھر کررہے تھے,,,

جنت,, جنت,,,

ہر چیز سے بےنیاز ہزیانی انداز میں وہ ایک ایک روم کھول کر جنت کی صدا لگا رہا تھا,,

مگر جواب ندارد,,,

پھر اچانک وہ رکا,,,

اسنے کہا تھا ایمرجنسی ہے ...او نو اسکے دماغ میں جنت کی کہی بات یاد آئ,,

وہ بھاگتے ہوئے ایمرجنسی کی طرف بڑھا دروازہ دکھیلتے سامنے ہی اسکی نئ نویلی دولہن نیم مردہ حالت میں اوندھے منہ پڑی تھی,,,

جنت..... وہ اسکا نام پکارتے تیزی سے اسکی طرف بڑھا,,,

جنت آنکھیں کھولو میری جان کس نے کیا ہے یہ پلیز اٹھو,,,

اسکا سر اپنی گود میں رکھ وہ اسکے چہرے کو تھپکتے بول رہا تھا,,,

جب وہ اسکے پکارنے جنجھوڑنے پر بھی ہوش میں نہ آئ تو اسے باہوں میں بھرتا اپنی کار کی پچھلی سیٹ پہ لٹایا,,,,

اور سیدھا قریب بنے چھوٹے سے کلینک میں لے گیا فلحال اس وقت وہی سب سے قریب تھا,,,

چیکاپ کے دوران وہ مسلسل اسکے پاس ہی تھا ساتھ اپنے فرنڈ (جو پولیس میں اچھی پوسٹ پہ اپنا کام سرانجام دے رہا تھا) اسے موجودہ حالات سے اگاہ کرتے ہوسپیٹل (جائے حادثہ) پہ فوری طور پہنچنے کا میسج کیا,,,,


ڈونٹ وری کوئ میجر انجری نہیں ہوئ ہے اور یہ بیہوش خوف اور بی پی ڈاؤن ہوجانے کی بدولت ہوئ ہیں ہم نے بینڈج کردی ہے کچھ دیر تک ہوش آجائےگا تو آپ گھر لے جا سکتے ہیں,,, ابھی وہ میسج کر کے فری ہوا تھا جب ڈاکٹر کی آواز پہ متوجہ ہوا,,,,

نہیں ڈاکٹر اگر وہ اسٹیبل ہیں تو میں ابھی اپنی وائف کو لے کر جانے کی اجازت چاہتا ہوں,,,,

ڈاکٹر کی مکمل بات توجہ سے سنتے اسنے آخر میں اپنی بات کہی,,,

ڈاکٹر نے پروپر چیکاپ کے بعد اسے لے کر جانے کی اجازت دی,,,

گھر پہنچتے وہ سیدھا اپنے روم کی طرف بڑھا ساتھ شکر بھی ادا کیا کے سب سو رہے تھے ورنہ طرح طرح کے سوال ہوتے,,,,

اسے آرام سے بیڈ پر لٹاکر وہ فریش ہونے چلا گیا,,,,



ٹاول کی مدد سے بالوں کو خشک کرتے اسکی نگاہ آئنہ میں تھی جہاں وہ دشمنِ جان ابھی بھی ہنوز آنکھیں موندیں پڑی تھی,,, اسکا دل کسی سوکھے پتے کی ماند سکڑ رہا تھا,,,

پپانی......

اسکی آواز پہ وہ ٹاول پھینکتا عجلت میں اسکی طرف بڑھا,,,

میں دیتا ہوں,,, خوشی فکرمندی کے ملے جلے تاثرات کیساتھ اسنے پانی سے بھرا گلاس اسکے لبوں سے لگایا,,,

حسنین,,,,

اسکا نام پکارتے وہ سیدھا اسکے سینے سے لگی پھوٹ ہھوٹ کر رونے لگی,,,


کیا ہوا جنت بولو نہ ؟ حسنین نے اپنے سینے سے اُسکا سر اٹھاتے ہاتھوں کے پیالوں میں بھرتے کہا ،،، اسکے آنسوں اسے اپنے دل پہ گرتے محسوس ہورہے تھے,,,

و وہ ہسپتال میں پہ پتہ نہ نہیں کون آئے تھ تھے ،،، ہچکیوں سے روتے اُس نے اٹک اٹک کر کہا ،

تُم ٹھیک ہو نہ جنت ،، حسنین اُسکی حالت سمجھتے نرمی سے بولتا اُسکا جائزہ لینے لگا ،،

اچھا بس رونا بند کرو شکر ہے اللہ کا تم ٹھیک ہو وہ اُسکی کمر سہلاتا نرمی بولا...

وہ کافی دہشت زدہ لگ رہی تھی ،،،

اس لئے فلوقت اسنے زیادہ بات کرنے کی کوشش نہیں کی وہ ٹھیک تھی اسے اور کیا چاہئے تھا,,,

آدھے سے زیادہ معاملہ تو وہ ہسپتال کی حالت دیکھکر سمجھ چکا تھا ، ہسپتال میں موجود تمام نرسیں اور وارڈ بوائز ایک جگہ بے ہوش پڑے تھے ، ہسپتال کی توڑ پھوڑ کسی جنگ کے بعد کا وحشت ناک منظر پیش کر رہی تھی ،

جنت نے خود کو سنبھالتے اُسے من و عن ساری خود پہ بیتی سنا دی,,,

اسکی ساری بات سنتے غصے سے اسکی رگیں تن گئیں تھیں,,,

خود کو کمپوز کرتے اسنے جنت کو پانی کیساتھ ایک نیند کی ٹیبلیٹ دیتے اپنے سینے سے لگایا اور بیڈ پہ دراز ہوگیا,,,

آہستہ آہستہ اسکے بالوں میں انگلیاں چلاتے اسے پرسکون کرنے لگا,,,

اور جلد ہی دوائ کے زیرِاثر وہ پرسکوں سی نیند کی وادی میں اتر گئ,,,,




،،،،،،،،،،،،،

عکش کمرے میں داخل ہوا تو کمرے میں نیم اندھیرا چھایا ہوا تھا ,,,

، وہ عروہ کو گہری نیند میں سویا دیکھ بنا آواز کئے ، فریش ہونے کے لئے واش روم کی طرف بڑھ گیا ،،

فریش ہو کر آتے اب اُسکی تھکن کافی کم ہو گئی تھی ، وہ اپنی سائڈ لیٹا اور ہاتھ بڑھا کر عروہ کو اپنے قریب کیا ،، ۔

وہ گہری نیند میں تھی کہ اپنے گالوں پر دہکتا سا لمس محسوس کرتے اُسکا دماغ فوراً بیدار ہوا تھا,,,

وہ آنکھیں کھولتے اُسکے سینے پر ہاتھ مارتی اُسکی گرفت سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی ,,,,

، پر عکش ملک کی گرفت اتنی کمزور نہیں تھی کہ وہ نازک جان اس سے نکل پاتی ,,,

جب کافی دیر اُسکی گرفت سے نکلنے کی کوشش میں وہ ناکام رہی تو ، خاموشی سے اُسکے حصار میں پڑی رہی ،،

اُسکی خاموش بنا حرکت کرنے پر عکش اُسکا سر اپنے سینے رکهکر اُسکی بالوں کی جڑوں کو سہلانے لگا,,,


آپ کہاں گئے تھے عکش ؟ وہ اُسکے سینے پر پڑی مال میں اُس آدمی کو مارتے عکش کو یاد کرتی بولی ،

کام سے گیا تھا جانم ،،، وہ خمار زدہ لہجے میں بولتا اُسکے شیمپو کی خوشبو اپنے اندر اُتارنے لگا ،،،

تُم ایسا کونسا کام کرتے ہو جو تم مجھے بتا نہیں سکتے ، عروہ نے نم آواز میں کہا اور آنسو اُسکی آنکھوں سے نکلتے عکش کے سینے پر گرے ،،،

بتاؤنگا میری جان سب بتاؤنگا ، پر ابھی نہیں ،، تم میرا بھروسہ کرو عروہ,,,

تم خود اپنے دل سے پوچھ کر بتاؤ کیا تمہارا عکش کچھ غلط کر سکتا ہے ،,,,

وہ اُسکے آنسو اپنے سینے پر محسوس کرتا اُسکا سر تکیے پر ڈالتا اُسکے چہرے کے قریب اپنا چہرا کرتے بولا ،،،

اُسکی اس قدر پُر سکون سے انداز سے کہنے پر

عروہ کی آنکھوں سے اور روانی سے آنسو نکلنے لگے ،،

مُجھے تمہارے ساتھ کی ضرورت ہے تمہارے بھروسے کی ضرورت ہے عروہ ,,,,

، وہ اُسکے آنسو ہونٹوں سے چُنتا غم زدہ لہجے میں بولا ، عکش میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی پلیز تم یہ سب چھوڑ دو نہ ،، ,,,

عروہ نے آنسو بہاتے کہا ،، کیا میں اسے اظہارِ محبت سمجھو ؟ دلکشی سے مسکراتے اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگا جہاں محبت کے ہزاروں رنگ تھے،، ,,

ہاں ،،، عروہ نے حامی بھرتے مختصر کہا ،، آج میں بہت خوش ہوں عروہ وہ شدت سے بولتا اُسکی پیشانی پر لب رکھ گیا ،، ,,

پر جب تک تم مجھے اپنے بارے میں ساری حقیقت نہیں بتاؤ گے میں حقوق نہیں دوں گی ،،، وہ اُسکی سانسیں اپنے چہرے پر محسوس کرتی ضدی لہجے میں بولی ،،

اُسکے الفاظ عکش کا سینا چیر گئے تھے ، وہ اُس سے دور ہوتا چھت کو دیکھنے لگا ،،، تو یعنی تم میرا بھروسہ نہیں کروگی ؟ ایک لمبی سانس لیتے چھت کو دیکھتے سوال کیا ،،،

عروہ خاموش رہی کوئی جواب نہ دیا اُس نے ،،،

عکش اُسکے چہرے پر ایک آخری نظر ڈالتا ، دوسری جانب کروٹ بدل گیا ،،

اُسے کروٹ بدلے دیکھ عروہ بھی کروٹ بدلتی تکیا ہاتھوں کی مٹھیوں میں دبوچتی رونے لگی،،،

عکش اُسے سسکتا محسوس کرتا خاموشی سے پڑا رہا ،، اُس کے لئے اتنا ہی کافی تھا کہ عروہ اب اُس سے محبت کرنے لگی ہے ،،

شششش مجھے منظور ہے تمہاری شرط میں تو بس چیک کر رہا تھا کیا سچ میں یہ شیرنی عکش ملک کی محبت میں گرفتار ہوگئ ہے,,,

وہ شرارت سے کہتا اسکے آنسوں صاف کرنے لگا,,,

عکششش یووو,,, اسنے کاٹ دار لہجے میں کہتے اسے خود سے دور دکھیلا,,,

اب بتاتی ہوں میں تمہیں,,,

کشن اٹھاتے اسے کھینچ کے مارا,,,,

ہاہایا... عکش نے کشن کینچ کرتے چھت پھاڑ قہقہ لگایا,,,

اسکے یو منہ پھار کے ہنسنے پر وہ منہ بسورتے کروٹ بدل کر لیٹ گئ,,,

یہ سیدھا سیدھا ناراضگی کا اعلان تھا,,,

وہ مسکراتے اسکے قریب آکر لیٹا,,

اچھا نا بابا سوری,,,

عکش نے ہتيھار ڈالے,,,

بات نہیں کرو مجھ سے,,,

نروٹھے پن سے کہتی وہ آنکھیں بھی میچ گئ,,

اچھا تو مجھ سے بات نہیں کرنی تو پھر کس سے کرنی ہے,,

عکش نے پھر بےباک سی شرارت کی,,,

وہ سرخ ہوتے تکیہ اپنے منہ پہ رکھ گئ,,,

ہاہاہا ایک بار پھر جاندار قہقہ لگاتے وہ اسے اپنے حصار میں لیتا ایسے ہی آنکھیں موند گیا,,,,

،،،،،،،،

احمد نے کمرے میں قدم رکھا تو کمرا روشن تھا وہ حیرت زدہ ہوا کے میرب اب تک جاگ رہی ہے لیکن اسے نہیں پتہ تھا وہ غصے میں لائٹس اون رکھتے روتے روتے سوگئ ہے,,,


احمد نے اسے دور سے گہری نیند میں سویا دیکھ پہلے فریش ہونے کا ارادہ کیا, ,,,

فریش ہوتے وہ اسکے قریب آکر بیٹھا کمرے میں اب لیمپ کی مدھم روشنی پھیلی ہوئ تھی,,,

وہ اسکے سر سے بلینکٹ اتارتے اسے دیکھنے لگا,,,

چہرے پہ آنسوؤں کے مٹے مٹے نشان گردن پہ خراش وہ جی بھر کے شرمندہ ہوتے من ہی من میں خود کو ملامت کرنے لگا,,, اچانک اسکی نظر اسکے وجود پہ پڑی,,

اپنے باتھ گاؤن میں دیکھ حیران ہوا,,,

ہونٹوں پہ تبسم کھلا,,, دل میں خوبصورت جذبات نے انگڑائ لی,,,,

اسنے جھکتے اسکی نیند کا خیال کرتے ہلکے سے باری باری اسکی آنکھوں پر ہونٹ ثبت کیئے اور پھر جھکتے گردن پہ پڑی خراش پہ ہونٹ رکھے,,

میرب نے ہلکی سی اسکی بڑھی شیو کی وجہ سے زخم میں جلن محسوس کرتے کسمسائ,,, اور کروٹ بدل گئ,,,

احمد نے مسکراتے دونوں پہ بلینکٹ ڈالا اور نرمی سے اسے اپنےحصار میں قید کیئے سوگیا,,,,

،،،،،،،،

بجتے موبائل کی اسکرین پر چمکتا نام دیکھ کر اُس نے مسکراتے موبائل ٹیبل سے اٹھایا ، اور یس کرتے کان سے لگایا ،،،

زھے نصیب ...! کال یس کرتے اُس نے گھمگھیر آواز میں کہا ،،

عکش آج جلدی آجانا ، مجھے ایمل سے ملنے جانا ہے ماما کے گھر ،، اُسکی باتوں کو اگنور کرتی بولی ،،،

سہی ہے تُم ریڈی ہو جاؤ میں آتا ہوں ،، واپسی پر شاپنگ پر چلے گے ،، عکش نے اپنی پشت سیٹ سے ٹکاتے کہا اور آنکھیں موندی تھی ،،،

نہیں شاپنگ میں نہیں جا سکتے کیوں کہ میں دو دن ماما کی ہی روکوں گی،،،۔

عروہ نے لب دانتوں تلے دیتے ، مسکراہٹ چھپاتے کہا ، ,,,

اگر ساتھ جا کر ساتھ ہی واپس آنا ہے تو بتاؤ ورنہ کوئی ضرورت نہیں جانے کی ,,,,

عکش نے آنکھیں کھولتے ہاتھوں میں پین گھوماتے ہوئے کہا ،،،

ٹھیک ہے میں ریڈی ہو رہی ہُوں آپ آجائیں ،،،

عروہ نے جلد ہی ہار مانتے کہا ، کہیں سچ میں لے جانے سے منع ہی نہ کر دے ،،

سہی ....! میں آتا ہوں ، آخری کلمات کہتے اُس نے کال کٹ کر دی ،،، اور کھڑا ہوتا اپنا کوٹ اور مطلوبہ چیزیں اٹھاتا اپنے کیبن سے نکلتا ، پارکنگ کی طرف بڑھ گیا ،،

،،،،،،،،

سر میرے پاس آپکے لئے ایک بہت بڑی خبر ہے ،، کمال کا خاص آدمی اُس کے سامنے کھڑا فتح مندی سے مسکراتا بولا ،،،

کمال کو ہوش آئے ایک دن گزر چکا تھا ، اور اب آبنوس کے ڈر سے وہ عافین عائث کی تلاش میں تھا ،

اگر عافین کے مطابق ہے تو بکو ورنہ دفعہ ہو جاؤ ،،

حقارزدہ لہجہ ،،،

جی سر اُسکے ہی متعلق ہے ،،

کیا ہے جلدی بتاؤ ،، کمال کی آنکھیں چمکی تھی عافین کی خبر سن کر ،،

سر عافین عائث دراصل کوئی اور نہیں بلکہ باسنز کا چمکتا ستارہ عکش ملک ہے,,,

، پر سر وہ اتنے بڑے کام اکیلے نہیں کر سکتا ، ضرور اُسکے پیچھے کسی بہت بڑی طاقت کا ہاتھ ہے ،،

مقابل نے اپنے پیلے دانتوں کی نمائش کرتے کہا ،،

عکش ملک ، ملک انڈسٹری کے مالک معاذ محسن ملک کا بیٹا ؟ کمال نے حیرت سے بولتے یقین دھانی چاہی ،

جی سر ، اور سر صرف اتنا ہی نہیں وارث بابا کے خلاف کیس بھی عکش ملک نے ہی کروایا تھا ، کیوں کہ وارث نے اُسکی منگیتر کو اغوا کر کے زبردستی نکاح کرنے کی کوشش کی تھی ،

اُس نے جمع ہوئی ساری معلومات کمال کو بتائی ،،،

اب کیا حکم ہے سر ؟ مقابل نے اُسے گہری سوچ میں ڈوبا دیکھکر پوچھا ،

میری بات غور سے سنو اب جو پلین میں تُمہیں بتا رہا ہوں اُس پر عمل کرو اور اپنے علاوہ یہ پلین کسی کو نہیں بتانا ، کمال نے شیطانی آنکھوں سے اُسے دیکھتے سارے پلین سے اُسے آگاہ کیا ،

جی بہتر ،، وہ کہتا کمرے سے نکل گیا،، پیچھے کچھ سوچتے کمال نے چھت پھاڑ قہقہ لگایا ،،، اور آبنوس کو خوش خبری دینے کے بارے میں سوچنے لگا ،،،

*********

جنت گزرے واقعے سے پہلے کی بانسبت اب قدرے بہتر تھی,,,

حسنین نے اسکا بےحد خیال رکھا تھا,,,,

بلکل ہاتھ کا چھالا بنایا ہوا تھا لیکن جنت نے کافی بہادری کامظاہرہ کرتے جلد ہی اپنی حالت پہ قابو پالیا تھا,,,

اور آج وہ دونوں لونگ ڈرائیو پہ نکلے تھے,,,,

جنت کافی وقت سے گھرمیں قید ہوکر رہ گئ تھی,,,


اسکی حالت دیکھتے حسنین کے گھر والوں نے کافی سوال کیئے تھے نئ نویلی دلہن کا ایک رات میں یہ حشر سب ہی پریشانی کا شکار تھے جب حسنین نے سرسری سہ معاملہ سبکو بتاتے بات رفع دفع کی,,,

مگر پیچھے وہ اس کیس کی تحقیقات کررہا تھا,,,

تاکہ پتہ لگوا سکے وہ کون تھے اور کیا چاہتے تھے,,,,,


*******

جنت ونڈو پہ سر ٹکائے باہر کے منظر سے لطف اندوز ہورہی تھی جب حسنین نے ڈرائیونگ کرتے اسے اپنی طرف متوجہ کیا,,,

مجھے لگ تھا میں اپنی بیوی کیساتھ آیا ہوں تو سفر حسین رومینٹک گزرے گا,,

مگر یہاں تو الٹا ہی حساب ہے بیوی کو فہرست ہی نہیں کہ بچارے شوہر کی طرف بھی ایک نظریں کرم کردیں,,,

حسنین نے ہنوز اسے ایسے ہی خاموش بیٹھے دیکھ بچارا سہ منہ بناتے مصنوعی ناراضگی کا اظہار کیا,,,


ایسی کوئ بات نہیں جنت نے اسکی طرف دیکھتے مسکرا کر کہا اور نظریں جھکا گئ,,,


اچھا اگر ایسی بات نہیں ہے تو کس می,,,

اسنے گاڑی سائیڈ لگاتے گاڑی کے شیشے اوپر چڑھائے اور شرارت سے کہا,,

حسنین ........

جنت نے صدمے سے چور آواز میں اسکی طرف آنکھیں بڑی کرتے دیکھا,,,

اسنے زرہ سا جکھتے اسکے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے چھوتے پیچھے ہوا,,,

بولو جانِ حسنین....

اسنے نثار ہوجانے والے انداز میں اسکی طرف دیکھتے نچلے ہونٹ کو انگھوٹے سے مثلتے کہا,,,

کچھ نہیں,,, وہ اسکی بےباک حرکت پہ شرم سے منہ موڑ گئ,,,


ہاہاہاہا وہ قہقہ لگاتے واپس ڈرائیونگ کرنے لگا,,,


کچھ دور ڈرائیونگ کے بعد اسنے گاڑی سی سائیڈ پہ روکی,,,,

ہاتھ تھامے وہ نرم ریت پہ چلتے ٹھنڈی ہوا سے لطف اندوز ہورہے تھے,,,

تمہیں پتہ ہے جنت میں اکثر یہاں آیا کرتا تھا,,,

یہ منظر مجھے ہمیشہ سکون بخشتا ہے,,,

میں اپنے دل کے تمام راز اس پانی سے کہتا ہوں,

یہ بہتے پانی کا شور مجھے ایسا لگتا ہے شاید وہ بھی مجھ سے اپنا حال بیان کر رہا ہے,,,

وہ ریت پر اسے اپنے حصار میں لیئے بیٹھا اس اسے اپنے جزبات گزرے پل شیئر کر رہا تھا,,,

جنت سکون سے اسکے سینے پہ اپنی پشت ٹکائے بیٹھی تھی جب اسکی گھمبیر آواز کی طرف متوجہ ہوتے سر اٹھا کر اسکی جانب دیکھا,,,

مجھ سے تو نہیں کرتے اسنے مصومیت سے پوچھا,,,

تم ملی ہی اب ہو مجھے اسنے اسکی چھوٹی سی ناک دباتے کہا,,,

اسے شرارت سوجی اسکی آنکھوں میں دیکھتے جنت نے اچانک پانی ہاتھ میں لیتے اسکے منہ پہ چھینٹ مارتے کھکلا کی ہنسی اور اس سے دور کھڑی ہوگئ,,,

تمہاری تو میں وہ اسکی شرارت دیکھ پانی ہاتھ میں لیئے پیچھے بھاگا,,,

اور جھٹکے سے اسے پکڑتے پورا کا پورا پانی میں ڈبکی لگا گیا,,

اب جنت نیچے اور وہ اسکے اوپر گیلی ریت پہ لیٹے ہوئے تھا,,,

آس پاس کے لوگ نظریں جمائے انہیں دیکھنے لگے تو وہ جلد ہی ہوش میں آئے اور سیدھے ہوئے,,,

دونوں کے کپڑے ریت میں گندے ہوگئے,,

وہ ایک بار پھر اپنی حالت پہ قہقہ لگاتے واپسی کیلئے بڑھے,,,

حسنین اب کافی خوش تھا جنت کو ہنستا مسکراتا دیکھ,,

یہی تو وہ چاہتا تھا کہ وہ پہلے کی طرح ہنسے بولے مگر گزرے واقعے نے اسکی آواز ہنسی سب چھین لی تھی,,,

وہ کافی سہم گئ تھی,,,

مگر کسی کو ظاہر نہیں ہونے دیتی,,

لیکن حسنین اسکی خاموشی سمجھ رہا تھا,,,

،،،،،،،،،

وہ کندھے پر دوپٹہ دُرست کرتی لاؤنچ کی طرف سے گزرتے کچن کی طرف بڑھ رہی تھی کہ ، لاؤنچ سے ٹی وی کی آواز سنتی وہ کچھ حیران ہوتے اُس نے اپنے قدم لاؤنچ کی طرف ہی بڑھا دیئے ،،،

السلام و علیکم انکل ۔۔۔! آپ کب آئے ، اُسنے لاؤنچ کے صوفے پر بیٹھے معاذ صاحب کو دیکھتے سلام کرتے پوچھا ، وعلیکم السلام..! بس رات میں دیر میں ہی آیا تھا ، تُم اور عکش سو رہے تھے ،،، میں نے جگانا میں نے مناسب نہیں سمجھا ،،،،

معاذ صاحب نے ٹی وی کی آواز بند کرتے،،، مسکراتے تفصیل سے کہا ،،،

انکل آپ جگا دیتے نہ مجھے ،، میں نے آپ کو بہت ميس کیا ،، آپ اٹلی سے کیا لائے میرے لئے،،، عروہ نے پُر جوش ہوتے پوچھا ،،،

میں نے بھی اپنی بیٹی کو بہت مس کیا ،،،اور میری بیٹی نے جو لسٹ بھیجی تھی وہ سب لایا ہوں ،،، معاذ صاحب نے نرمی سے مُسکراتے کہا،،،

اچھا انکل میں چائے بنانے جا رہی تھی ، آپ کے لئے بناؤ ؟

ہاں ہاں تمھاری چائے سے کیسے انکار کر سکتا ہوں ، معاذ صاحب نے بشاشت سے کہا ،،،

ابھی لاتی ہوں چائے ،،، وہ مسکرا کر کہتی اٹھ کھڑی ہوئی وہ ابھی لاؤنچ کے وسط میں ہی پہنچی تھی کہ داخلی دروازے پر بہت سے بوٹوں کی آواز سنتے اُس نے گردن موڑتے نہ سمجھی سے معاذ صاحب کی طرف دیکھا ، معاذ صاحب بھی کچھ حیران ہوتے فوراً باہر کی طرف بڑھے،،،

معاذ صاحب گھر کے داخلی دروازے پر کھڑے حیران سے سامنے مکمل وردی میں کھڑے آرمی آفیسرز کو دیکھ رہے تھے

ایک آرمی آفیسر نے آگے بڑھتے معاذ صاحب کو سلیوٹ کیا ،،، اور دوسرے نے ہاتھ میں پکڑا پاکستان کے جھنڈے میں لپٹا یونیفارم تھاما ہاتھ اُنکی جانب بڑھایا ،، معاذ صاحب نے نہ سمجھی سے دیکھتے اپنا ہاتھ بڑھاتے تھاما ،،

معاذ صاحب کے پیچھے کھڑی عروہ خاصی حیرانی سے سب دیکھ رہی تھی ، معاذ صاحب کے گیٹ سے ہٹتے ہی چار جوان اپنے کندھوں پر تابوت اٹھاے ، لاؤنچ میں داخل ہوئے ،، یہ یہ کون ہے انکل ، عروہ کو کچھ انہونی کا احساس ہوا دل تیزی سے دھڑکنے لگا معلوم نہیں کیوں عجیب خدشات اسکے دل میں گھر کر رہے تھے,,,

اسنے ہمت کرتے آہستہ آواز میں نا سمجھی سے استفسار کیا,,,


یہ کون ہے ؟ معاذ صاحب نے اُن جوانوں سے تابوت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ،،،

یہ شہید میجر عکش ملک ہیں ،، اُن میں سے ایک جوان نے کہا ،،،

عروہ کے کان سائیں سائیں کرنے لگے ،، وہ لاؤنچ کے گیٹ کا دروازہ ہاتھ میں تھامتی وہی بیٹھتی چلی گئی ، عروہ اور معاذ دونوں کی کیفیت ایک دوسرے سے جدا نہ تھیں ،، دونوں کو ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ساتوں آسمان ٹھا ٹھا کر کے اُن دونوں کے سر پر گرے ہوں ،، یا جیسے کسی نے اُن کے پیروں سے زمین کھینچ لی ہو ۔۔۔

نہیں یہ میرا بیٹا نہیں ہے ،،، معاذ صاحب نے ہوش میں آتے تیز لہجے میں کہا،،،

سر وہ ایک آرمی میجر تھے، ایک ضروری میشن کی وجہ سے انہیں اپنا منصب چھپانا پڑا ،،، آج دِن میں ہی اُن پر حملہ کر کے شہید کردیا گیا ، اور اُنکے وجود کو آگ کی نظر کر دیا گیا ،، یہ کچھ چیزیں اُنکے پاس سے برآمد ہوئی ہیں ، جس سے اُنکی شناخت کی گئی ہے ،،،،

ایک آفیسر نے ساری حقیقت بتاتے، معاذ صاحب اور عروہ کے سر پر بم پھاڑا ،،،

معاذ صاحب نے مردہ قدم اٹھاتے تابوت کی طرف قدم بڑھائے ،،

عروہ اپنی نظریں تابوت پر ٹکائے بیٹھی تھی، ہاتھ میں پکڑے موبائل کے بجتے ہی اُس نے اسکرین پر اذہان کا نام دیکھتے ہی اُسنے جلدی سے یس کرتے کان سے لگایا،،،

ہیلو ..! میری گڑیا کیسی ہے ،،، فون سے اذہان کی خوش باش سی آواز برآمد ہوئی،

پر عروہ کیا جواب دیتی ، اُس پر تو جیسے سکتا طاری ہوا تھا ،

میرا بھروسہ کرو عروہ ، میں سہی وقت آنے پر سب بتاؤنگا تُمہیں ، اُسکے کانوں میں عکش کی آواز گونج رہی تھی ،،،،

عروہ ماما بابا بہت یاد کر رہے ہیں تُمہیں ، کب آرہی ہو ؟ میں اور ایمل ابھی ہی کاغان سے واپس گھر آئے تو ماما نے بتایا تُم اور عکش آرہے ہو ،، اذہان نے ہشاش بشاش لہجے میں پوچھا ،،

کیا ہوا عروہ کچھ تو بولو ، عروہ کے کوئی بھی جواب نہ دینے پر اذہان نے فکرمندی سے پُکارا ،،

بھائی ...! عروہ کی گھٹی گھٹی سی آواز گلے سے نکلی ،

ہاں بھائی قربان جائے بولو ،، اذہان نے ہاتھ میں تھاما چائے کا کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا،،

بھائی عکش ...! عروہ کہہ رہی تھی پر ,,, آنکھوں سے نکلتے آنسو اُس کے گالوں سے گزرتے گردن میں جذب ہو رہے تھے ،،،

کیا ہوا عروہ عکش ٹھیک ہے کہاں ہے وہ ؟ اذہان نے اُسکی آواز میں نمی محسوس کرتے پوچھا ،،

بھائی عکش چلا گیا،،، وہ کہہ رہے ہیں میرا عکش شہید ہوگیا ، بھائی وہ جھوٹ بول رہے ہیں ، ابھی ہی تو عکش نے کہا تھا کہ وہ آرہا ہے پھر وہ مجھے ایمل سے ملوانے لے کر جائیگا ،،

آپ آجائیں نہ بھائی اور عکش کو بھی لے کر آئیں بھائی ،،،، عروہ نے انسوں بہاتے ضدی لہجے میں کہا ،،، اچھا تم روں نہ میں آرہا ہوں ، اذہان نے کہتے فوراً فون رکھتے اپنے روم سے نکلتا چلا گیا،،،


،،،،،،،،،،،،

عکش نے ہوش آتے ہی خود کو کسی جنگل میں درخت کےساتھ بندھا پایا ، آس پاس بہت سے ، ہٹے کٹے ہاتھوں میں بڑی بڑی کلاشن تھامے کھڑے تھے ،،،،

اُسکا دماغ بہت سے سوال بن رہا تھا ، آس پاس پر اپنی نیلی آنکھیں دوڑاتا وہ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ، اُسکے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے، کیوں ہو رہا ہے ، اور کون کر رہا ہے،، اُسکا راز کیسے فاش ہو سکتا ہے ، وہ رسیوں میں جکڑا ، خود کو رسیوں سے جدا کرنے کی سر توڑ کوشش میں تھا ،،، سامنے سے مسکراتے آتے شخص کو دیکھتے ، جیسے اُسے۔ اُس کے سارے سوالوں کے جوابات مل گئے تھے ،،


،،،،،،،،


خوش آمدید ،، عافین عائث ...! کمال نے اُسے رسیوں میں جکڑے بے بس دیکھتے مسکرا کے کہا ،,


تمھیں کیا لگا ، کہ تمہارا راز راز ہی رھے گا ،،،،، پر افسوس عافین تمہارا سارا راز فاش ہو چکا ہے ،،،

کمال نے مصنوئی افسوس سے گردن نفی میں ہلاتے کہا ،،، ہاہاہا....! سارا ..! عکش نے ہنستے کہا ،

چھوڑو سارے کو،،، یہ بتاؤ کہ ایسی کونسی طاقت ہے تمہارے پاس ؟؟ یہ سب تُم اکیلے نہیں کر سکتے ضرور بہت بڑی طاقت ہے تمہارے پاس ،، چلو بتاؤ وہ کونسی طاقت ہے ؟ ،،،

کمال نے شیریں لہجے میں کہا ،،،،

ہاں ہے میرے پاس بہت بڑی طاقت ،،، عکش نے مسکراتے کہا ،،،


بتاؤ آخر وہ کونسی طاقت ہے ،،،،


میرا اللّٰہ میرے ساتھ ہے یہ طاقت ہے میرے۔۔۔۔۔,

میرا ایمان ہے میری طاقت ،،،

عکش نے آنکھیں موندتے درخت سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا ،،،

خیر تم سے آبنوس پتہ لگوا ہی دے گا ،،، ابھی یہ جان لو کہ آبنوس تم سے ملاقات چاہتا ہے...! کمال نے کندھے اُچکاتے ہوئے کہا ،،،

کیا چاہتا ہے وہ ...؟ عکش نے آنکھیں کھولتے نہ سمجھی سے سوال کیا ۔۔۔

وہ تمہیں اپنے ساتھ شامل کرنا چاہتا ہے ،،،

ہا ہا ہا....! اُسکی بات سنتے عکش نے بھر پور قہقہ لگایا تھا ..! وہ اپنے ساتھ شامل کروا کر مجھ سے کیا چاہتا ہے ؟؟ عکش نے مُسکراتے پھر اپنا سوال داغا ،،،،

وہ تابعداری چاہتا ہے تُم سے ،،

اُسکی حکومت میں تُمہیں کسی طاقت نہیں صرف اطاعت کی ضرورت ہے ،،، کمال نے جواب کہا ۔۔۔


الحمداللہ میں مسلمان ہوں ، اور ایک سچا مومن کبھی اللّٰہ اور اُسکے رسولوں کے علاوہ کسی کی اطاعت نہیں کرتا ،،، ایک مسلمان کے لئے اُسکا ایمان ہی اُسکی طاقت ہوتی ہے ،،، عکش نے مُسکراتے ہوئے کہا،،،


تو تمھاری طرف سے انکار ہے پھر ؟؟ کمال نے اُسکی بات سنتے قہقہ لگاتے پوچھا ،،،

ہاں انکار ہے... عکش نے بنا ڈرے کہا ،،،

سہی خیال رکھنا کہ آبنوس کو بھی تمہارا یہ انکار نہ گوار نہ گزرے ورنہ تم جیسے بہادر کی جان جانے کا مجھے بے حد افسوس ہوگا ،،

مجھے ابھی سے رحم آرہا ہے تم پر ،،،،

کمال نے اپنے لہجے میں ہمدردی سمائے ، اُسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا .....

خیر تُمہیں اپنے ساتھ آبنوس کے پاس لے کر جانا میرے لِئے باعثِ شرف ہوگا ،، ابھی کچھ وقت ہے تمہارے پاس سوچ لو سمجھ لو ،،، تمہارا ہی فائدہ ،، شولا جوان ۔۔۔۔ کمال نے کہتے ہی اپنے قدم واپسی کی لئے موڑ لئے ،،،،

عکش کی موت کی خبر نے جیسے ملک مینشن میں ایک کہرام سا مچا دیا تھا ،،

خاندان کے سب افراد ہی ، جوان موت پر بے حد رنجیدہ تھے ،

معاذ صاحب کو جھانگیر صاحب نے سنبھالا ہوا تھا ، ورنہ وہ تو اپنے جوان اور اکلوتے بیٹے کی موت سے جیسے ٹوٹ سے گئے تھے ،،،

وہ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ وہ اپنے بیٹے کے وطن کے لئے شہید ہونے پر فخر کریں ، یہ اپنے اکلوتے بیٹے کی موت کا ماتم کریں ،،

وحشت زدہ سا ماحول پورے گھر میں طاری تھا ،


نہیں یہ میرا عکش نہیں ہے ، عکش مجھے چھوڑ کر کیسے جا سکتا ہے ، ,,

وہ مجھ سے عشق کرتا تھا ، چھوڑیں نہ مجھے ،، یہ میرا عکش نہیں ہے ، وہ ربیعہ بیگم اور ایمل کی گرفت توڑنے کی کوشش کرتی چیختی چلاتی دھاڑیں مار کر رو رہی تھی ،،،،

عکش .....! میں تمہاری منتظر تھی عکش ۔۔۔ اُسکی دھاڑیں پورے ملک مینشن میں گونج رہی تھی ،،، جنازے کی شرکت کے لئے آئے سب مہمان اُسے ہمدردی سے دیکھ رہے تھے ،،

جو پاگل بنی ایک ہی بات دوہرا رہی تھی کہ وہ عکش نہیں ،،،،

عروہ کا دل کسی صورت ماننے کو تیار نہ تھا کہ وہ مردہ وجود عکش کا ہے ،،،،


انکل یہ ہمارا عکش نہیں ہے آپ میرا یقین کریں نہ انکل ، آپ تو باپ ہیں ، دیکھیں نہ اسے یہ عکش نہیں ،،،

کون ہے یہ ، عکش کو آگ نہیں جلا سکتی ،، اُسے کیسے جلا سکتی ہے آگ ،،،

وہ ربیعہ بیگم اور ایمل کی گرفت توڑتی ، مردہ وجود کے پاس بیٹھے معاذ صاحب سے مخاطب ہوئی ،،،

اُسکی ایک ہی بات بار بار سنتے معاذ صاحب نے ضبط سے اپنے ہونٹ بھینچے تھے ،,,

معاذ صاحب اور عروہ دونوں کا ہی دُکھ بڑا تھا ، ایک نے اپنا بیٹا کھویا تھا ، تو دوسری نے اپنا شوہر اپنی محبت کھوئی تھی ،،


نہیں ہے یہ میرا عکش ،،، عکش کو بلائیں ،،، وہ پاگل بھوکلائی سی ایک ہی گردان کئے جا رہی تھی ،،،

وہ سب کو چیخ چیخ کر یقین دلانے کی کوشش کر رہی تھی پر کوئی اُسکی بات ماننے کو تیار ہی نہ تھا ،،،


عروہ پاگل نہ بنو ،،، خدا کے فیصلے کو قبول کرو میری جان سنبھالو خود کو عروہ ،،،

ربیعہ بیگم نے اُسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا ،،


اذہان شایان اور جہانگیر دونوں ہی اپنی لاڈلی چہچہاتی بیٹی اور بہن کی بکھری سی حالت دیکھ رہے تھے ،،،


پاگل میں نہیں آپ سب ہوگئے ہیں ،،، نہیں ہے یہ عکش کیوں نہیں سمجھ رہے آپ لوگ ،،،

وہ حلق کے بل چلا کر بولتی ہوش و حواس سے بیگانی ہونے لگی ، ابھی وہ زمین پر گرتی پر ایک ہی جست میں اذہان نے اُس تک پہنچتے اُسے اپنے بازوؤں میں تھاما تھا ،،،

،،،،،،،،

عروہ ہوش میں آؤ ،،،، اذہان نے اُسکے منہ پر پانی کی چھینٹے مارتے کہا ،،،،

وہ ہوش میں آتی اپنی سوجی سُرخ آنکھیں کھولنے لگی ،،،،

بھائی.....! وہ ایک بار پھر سسکتی اذہان کے سینے میں سر چھپاتی رونے لگی،،،،

بھائی کی جان سنبھالو خود کو ،، وہ شہید ہوا ہے ،،، اور شہید کبھی مرتے نہیں ہیں میرا بچا ،،،،

وہ زندہ ہوتے ہیں مگر ہمیں اس چیز کا علم نہیں ،،، اذہان نے اُسکو سمجھانا چاہا ،،،

عروہ خاموشی سے سنتی اُسکے سینے میں چہرہ چھپائے آنسو بہانے لگی ،،،،

بس اب چُپ ہو جاؤ تم تو بہادر بچا ہو اپنے بھائی کا ،،، تُم تو شیرنی ہو میری،،، اذہان نے اُسکے آنسو ہاتھوں کے پوروں میں چنتے کہا


،،،،،،،،،،،

کیا خبر ہے مقیت ،،، ہسپتال میں حملہ کس نے کیا تھا ؟ حسنین آج اپنے دوست ایس ایس پی مقیت کے آفیس میں بیٹھا تھا ،، وہ جاننا چاہتا تھا کہ آخر جنت کے ایسے کونسے دشمن ہیں ،،،،


حسنین میری معلومات کے مطابق وہ کوئی دہشت گردوں کا گروہ تھا ،،،

انکا سربراہ زخمی تھا ، اور وہ کسی اور ہسپتال میں نہیں لے کر جا سکتے تھے ، اُنہیں پکڑے جانے کا خوف تھا ،،،

اتفاق سے بھابھی کا پرائیویٹ ہسپتال اُنہیں آسان ہدف لگا کیوں کہ وہ سب معلومات حاصل کر چکے تھے کم وقت میں ہی کہ وہاں بھابی کے علاوہ اور کوئی ڈاکٹر موجود نہیں اور کوئی سیکیورٹی بھی نہیں ، اس لئے انہوں نے وہاں حملا کر کے پہلے انتظامیہ کو قابو کیا ،،،


بھابھی کو کال بھی بھابھی کی پرسنل سیکریٹری نے کی تھی ،،،،


سیکریٹری سے زبردستی کال کروائی گئ تھی ، اُس نے اُنہیں بتایا تھا کہ آج شادی ہے ڈاکٹر جنت کی اس لئے اُنہوں نے اُنکے پیشنٹ کی ایمرجنسی کا بہانہ بنا کر بلایا ،،،، سکریٹری راضی نہیں تھی کال کرنے کے لئے اس لئے اُس پر بھی اُنہوں نے شدید تشدد کیا ،،


جس کے نتیجے وہ جان کی بازی ہار گئی ،،،،


میں نے واقع کے ٹائم ہسپتال میں موجود تمام افراد سے تشویش کر دی ہے ،،،


اُن میں سے کسی نے بھی انکا چہرہ نہیں دیکھا کیونکہ اُنہوں نے اپنا چہرہ ڈھکا ہوا تھا ،،،،


پر انشاءاللہ جلد ہی ہم اُن تک پہنچ جائیں گے ، میں بھابھی اؤر ہسپتال کی سیکیورٹی کے لئے ٹیم تعینات کر رہا ہوں جو عام ہوليے میں رہ کر نظر رکھیں گے،،،،


ایس ایس پی مقیت نے ساری معلومات اُسے تفصیل سے بتائ ،،،،


تمہارا بہت شکریہ مقیت ،،،، حسنین نے مشکور انداز میں کہا ،،


اِس میں شکریہ کی کوئی بات نہیں کوئی بھی مسلا ہو تو تمہارا نا چیز ایس ایس پی حاضر ہے ،،،

مقیت نے شرارت سے مُسکراتے دل کے مقام پر ہاتھ رکھتے کہا ،،،


ضرور ۔۔۔ حسنین نے بھی مُسکراتے اثبات میں سر ہلایا ،،،


کیا لے گا چائے کافی جوس ؟؟ مقیت نے رسیور کی طرف ہاتھ بڑھاتے پوچھا ،،


کچھ نہیں بس اب جاؤ گا ،، تیری بھابھی انتظار کر رہی ہوگی ،،،


حسنین نے ٹیبل سے موبائل اٹھاتے کھڑے ہوتے ہوئے کہا ،،،


ہاں بائ اب موصوف شادی شدہ ہو چکے ہیں ہمارے لئے کہاں ٹائم ہوگا اب ،،،،

مقیت نے مصنوعی خفگی سے کہا ،،،


اللہ حافظ ...! اُسکی خفگی کو بالائے تاک رکھتا ، وہ آنکھوں پر سن گلاسز چڑھاتا باہر کی طرف بڑھ گیا ،،،


عزت ہی نہیں ہے کوئی میری ،،،، اُسکے جاتے ہی مقیت جلا بہنا بولا ،،،،۔


پتہ نہیں کب کوئی میرا بھی انتظار کرے گی ،،

بے ساختہ ہی اسکی آنکھوں کے سامنے وہ سیاہ تل جگمگائے تھے.....


،،،،،،،،،،

چلو تمہارا بلاوا آگیا ہے ، مقابل نے اُسکے چہرے پر کالا کپڑا باندھتے کہا ،چہرے پر کپڑا ڈالتے ہی اُسکی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا تھا ،،،


وہ رسیوں میں جکڑے ہاتھوں کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا ، مقابل اُسکے ہاتھ جکڑ کر قابو کرتے اپنے ساتھ لے جا رھے تھے ،،


اے دن کو رات اور رات کو دن بنانے والے ، تقدیر کے فیصلے لینے والے پاک رب ، اے دونوں جہانوں کے مالک ،،،

مجھے اس قید سے نجات دے ،

مجھے برائی کے آگے جھکنے نہ دینا ، مجھے ان وحشیوں کے ہاتھوں کا کھلونا بننے سے بچا میرے مالک ،

میری بیوی اور میرے باپ کو میرے انتظار کی اذیت سے نجات دے میرے مولا ، بِے شک یہ میرے ٹکڑے کر دیں ،،،

میرے پاک رب مجھے ان سے مقابلے کی توفیق دینا ،،

وہ آسمان کی طرف سر اٹھاتا اپنے اللّٰہ سے دعا گو تھا ،،،


وہ اُنکے ہم قدم ہوتا چل رہا تھا، خاصا چلنے کے بعد اب وہ ایک بنگلے میں داخل ہوئے تھے ، جو بلکل ایک محل کا منظر پیش کر رہا تھا ، پر عکش کو قدم رکھتے ہی وہ دوزخ جیسا محسوس ہوا ،،،

دو نفوس جو اسکو جکڑے ہوئے تھے ، انہوں نے عکش کو چیئر پر رسیوں سے اچھی طرح باندھ دیا ،،،،


یہ کہنا بہتر ہوگا کہ عکش اُنہیں ایسا کرنے دے رہا تھا ،،،


بے شک وہ مقابل کی نس نس سے واقفیت رکھتا تھا ، وہ جانتا تھا کہ مقابل کو اُسکی جان کی نہیں بلکہ طاقت کی ضرورت ہے


آبنوس نے اپنے ایک آدمی کو اُسکے چہرے سے کپڑا ہٹانے کے لئے کہا ،،،


کالا کپڑا آنکھوں سے ہٹتے ہی ، تیز روشنی عکش کی آنکھوں میں پڑتے ہی اُسکی آنکھیں چندھیائی تھی ،،،


آبنوس کی شیطانی سلطنت میں تمہارا خوش آمدید میجر عکش ملک عرف عافین عائث ,,,

، آبنوس کی بھاری خباثت سے بھر پور آواز اُسکی سماعتوں سے ٹکرائی ،، تو وہ طنزیہ مسکرایا ،،،

تُو تم ہو آبنوس ..! ؟ عکش نے مقابل کا پورا جائزہ لیتے کہا ،


ہاں میں ہی ہوں اس جہنم کا شیطان ،، مسکراہٹ چہرے پر سجاتے جواب دیا ،

سیاہ رنگت بڑھی داڑھی ، گہری آنکھیں ، جن سے حیوانیت صاف جھلک رہی تھی ،


کیا چاہتے ہو ؟ عکش نے اسکو دیکھتے پہلا سوال داغا ،


تمھاری اس عادت نے مجھے بے حد متاثر کیا ہے ،


تو سنو میں کیا چاہتا ہوں ، میری پیش کش کا سوچ سمجھ کر جواب دینا ، کیونکہ تمہارا انکار تُمہیں جہنم واصل کروا دے گا ،،،

ایسی درد ناک موت تمہارا مقدر بنے گی کہ دیکھنے والوں کی روحیں کانپ جائیں گی ،،،


عکش اُسکی بات سُنتا طنزیہ مسکرایا ،


تمھیں اپنے ساتھ شامل کرنا چاہتا ہوں تمھاری لگامیں اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا ہوں ، تم بھول جاؤ کہ تم ایک میجر ہو ، صرف یہ یاد رکھو کہ تم ابھی آبنوس کی گرفت میں ہو ،


تم نے اپنے سب دشمنوں کو شکست دے دی ، تم نے کتنی بےدردی سے میرے سپاہیوں کو موت کے گھاٹ اتارا ،،، آبنوس نے اپنی کالی گہری آنکھیں اُس پر ٹکٹاتے کہا ،,,


تمہارے منہ سے لفظ بے دردی زیب نہیں دیتا آبنوس

تم وہ بدذات ہو جس نے عورت ذات کی بے حرمتی کی ہے ، بچوں کا بے دردی سے خون بہایا ، اور تم وہ بدبخت ہو جو اپنی اس شیطانیت پر فخر بھی محسوس کرتا ہے ، عکش نے اپنا اشتعال دباتے دبے دبے غصے میں کہا ،


ٹھیک پہچانا تم نے میجر ،،، ہم جنگل کی وہ آگ ہے جو پھیلتی ہی جاتی ہے ،،،

اُس نے طنزیہ مُسکراتے ہوئے کہا ،


صاف کہو اب تک زندہ کیوں چھوڑا ہے مجھے ، کیا چاہتے ہو ، عکش نے غرا کر پوچھا ،

تمہارے جیسے بہادر جنگجو کو مارنے کا مجھے کوئی فائدہ نہیں ، لیکن زندہ رکھنے کا ہو سکتا ہے ، آبنوس نے بلکل نرمی سے کہا ،،،


میں صرف تمھاری موت کا فرشتہ ہو سکتا ہوں آبنوس ،،،، عکش نے اُسکی بات سنتے ٹھنڈے ٹھار لہجے میں کہا ،،


تمھیں پتہ ہے اب تک تمھاری موت کی خبر تمھارے گھر میں ایک کہرام مچا چکی ہوگی ، ,,,

تمھاری ٹیم کے سب ہی ساتھی تُمہیں مردہ تسلیم کر چُکے ہوں گے ،،،

میرا نہیں خیال کہ اب تُمہیں کوئی بچانے آئیگا ، میجر عکش ملک اوف پاک آرمی انڈر کور ایجنٹ ،،،آبنوس نے خباثت سے مُسکراتے ہوئے کہا ،


تمھیں کیا لگتا ہے آبنوس کہ عافین عائث کو تمھاری اس قید سے آزاد ہونے کے لئے کسی کی مدد درکار ہے ،، عکش نے مُسکراتے کہا جیسے وہ بھی اُسکی باتوں سے لطف اندوز ہو رہا ہو ،،،


اگر تم چاہتے ہو تمھاری بیوی کی عزت اور تمھارے باپ کی زندگی سلامت رہے تو سمجھداری کا ثبوت دیتے چُپ چاپ وہ کرو جو ہم چاہتے ہیں ،،


جہاں جہاں تم ہمارے کام میں روکاوٹ بنے رہے ہو اب ہر وہ کام تُم اپنی سربراہی میں وہ کام سر انجام دو گے ،،، آبنوس نے بغور اُسکے چہرے کے اتاؤ چڑاؤ دیکھتے کہا ،،


تُم بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہو ،،،

میری بیوی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا تو میں تمھاری آنکھوں کو کچھ اور دیکھنے کے قابل نہیں چھوڑونگا ،،،

تُم جیسے کتوں کو عورت کو ہی نشانہ بنانا ہوتا ہے یہ بات میں شروع دن سے ہی جانتا تھا ،، مرد بن آبنوس مرد ....! عروہ کے ذکر پر وہ بھپرا ہوا شیر بنا آبنوس پر دھاڑا ۔۔۔۔۔

میرے عکش کا اس دنیا سے جانے کا وقت ہوگیا اذہان ،،،، معاذ صاحب نے پاک جھنڈے میں لپٹے وجود کے سینے سے سر اٹھاتے ہوئے اذہان سے کہا ، 

اذہان نے ضبط سے ہونٹ بھینچتے اثبات میں سر ہلایا ،، 

عکش میرے بیٹے تمھارے لئے زمین نے اپنا منہ کھول دیا ہے ،،،،

ہائی یہ آنے جانے والوں کی فانی دنیا ایک دن ختم ہو جانے والی فانی دنیا ،،،

میں کيسے تُمہیں سپردِ خاک کر دوں میرے بیٹے، میرا تو کچھ بچا ہی نہیں ، تُمہیں جانا ہی تھا تو مجھے اپنے ساتھ لے جاتے عکش ، تم نے ایک بار بھی نہیں سوچا تمہارا باپ کیسے رھے گا تمھارے بنا ،، 

وہ ہچکیوں سے روتے اُس مردہ وجود سے مخاطب تھے ،،،

معاذ سنبھالو خود کو ،،،، ایک دن سب نے جانا ہے ،،، جھانگیر صاحب نے اُنہیں کھڑا کرتے اپنے ساتھ لگاتے تسلی دینی چاہی ،،،،

،،،

یہ کہاں لے کر جا رہے ہو انکو یہ سو رہے ہیں اٹھ جائیں گے ،،،عروہ تابوت اٹھاتے اذہان اور دوسرے لڑکوں کو دیکھتی بولی ،،،

عروہ ...! ایمل اور سارا اُسکے ہاتھ تھامے کھڑی سنبھال رہی تھی ،،، سارا کو جیسے ہی اپنی دوست پر ٹوٹی قیامت کا پتہ لگا تھا وہ فوراً ملک مینشن پہنچی تھی ،،

نہیں میں اسے نہیں لے جانے دوں گی ،،،، چھوڑ دو میرے عکش کو ،،،، 

وہ تابوت کندھے پر اٹھائے کھڑے افراد کی راہ میں حائل ہوئ ،،،

ایمل نے آگے بڑھ کر اُسے تھامتے اپنے پاس کرتے اُنکی راہ سے ہٹایا تھا ،،،

اپنی لاڈلی بہن کی حالت دیکھتے اذہان جیسے مضبوط اعصاب کے مالک کی آنکھوں سے آنسو کا قطرہ نکلا تھا ،،،

،،،،،،،،،

،،،،،،،،،،

عکش کو آبنوس کی قید میں ایک دن گزر چکا تھا ، اور یہ بات عکش ہی جانتا تھا کہ رات اُسکی کیسے گزری تھی ،، وہ مسلسل اپنے باپ اور عروہ کے بارے میں سوچ رہا تھا،،،، 

ابھی تو اُسکی زندگی میں بہار آئی تھی ، 

ابھی ہی تو عروہ نے اُسکی محبت قبول کی تھی،، کیا اُسکے عشق کی عمر اتنی ہی مختصر تھی ،،، عروہ کے بارے میں سوچتے اُسکا دل پھٹتا تھا ،،، 

وہ نہیں جانتا تھا کہ اب کبھی دوبارہ وہ اُسے دیکھ بھی پائے گا کہ نہیں ،،،پر یہ سوچ ہی اُسکا دل ویران کر دیتی تھی،،

 وہ ابھی بھی درخت کے ساتھ بندھا کھڑا سامنے دیکھتا اُسی کے بارے میں سوچ رہا تھا،،،،،

سامنے سے آتے آبنوس اور کمال کو دیکھتے وہ ہلکا سا مسکرایا تھا ،، یہ تو وہ تے کر چکا تھا کہ اُنکی غلامی وہ کسی صورت نہیں کرے گا ، پھر بھلے چاہے وہ اس کو ٹکڑوں میں ہی کیوں نہ تبدیل کر دیں ،،،، 

آبنوس اور کمال کے پیچھے اُنکے ہم قدم ہو کر آتے احمد کو سامنے بندھے عکش کو دیکھکر جیسے سکتا لگا تھا ،،، 

شٹ .....؛ اُس نے سُرخ آنکھوں سے کمال کو دیکھتے دل میں کہا ،،، 

اُسے  کمال نے دو دن پہلے  شہر سے باہر بھیجا تھا ،، ابھی وہ کمال کا منگوایا سامان کا ٹرک اپنی سربراہی میں لے کر پہنچا ہی تھا کہ کمال اُسے یہاں لے آیا جہاں عکش کو بندھا دیکھ اُسکے اوسان خطا ہوئے تھے ،،،،

،،،،،،،،،

میرے خیال سے سوچنا کے لئے اتنا ٹائم کافی تھا تمہارے لئے ،، میجر عکش اب بتاؤ کیا جواب ہے تمہارا ،،، 

آبنوس نے اُسے دیکھتے سوال کیا ،،،

میرا آج بھی یہی جواب ہے آبنوس جو کل تھا ،،

الحمداللہ میں اپنے اللہ کی راہ میں ثابت قدم رہا ہوں اور رہونگا ، تمھاری کوئی دھمکی ، کوئی طاقت مجھے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کر سکتے آبنوس ،،،

 کیا تمہیں لگتا ہے تم مجھے ڈرا سکتے ہو ؟ عکش نے مُسکراتے سوال کیا ،،، آبنوس اسپاٹ چہرے سے اُسے دیکھ رہا تھا،،، 

میری زندگی میرے اللہ کی ملکیت ہے آبنوس ،،، 

تمھیں پتہ ہے میجر مجھے میدانِ جنگ بہت پسند ہے پر  مجھے زیادہ لطف تب آتا ہے جب مجھے فتح بغیر جنگ کے ہی مل جائے،، آبنوس نے اپنی کالی آنکھیں اُسکی نیلی آنکھوں میں گاڑھتے کہا ،،،

میرے خیال سے تم باتوں سے قائل نہیں ہونے والے ،،، آبنوس نے شیطانی مسکراہٹ سے عکش کو دیکھتے ہوئے کہا ،،، 

اگر زندگی کا اختتام موت ہے ، تو پھر شہادت اُسکا بہترین انتخاب ہے ، مجھے موت کا ہر گز ڈر نہیں آبنوس پر وہ آخری سانس میرے لئے حرام ہے ، جس سے پہلے میں ہتھیار ڈال دوں ،،، منزلیں سپاہیوں کی منتظر ہوتی ہیں ، بزدلوں کو تو راستے کا خوف مار دیتا ہے ،،،، 

عکش نے مُسکرا کر کہتے آبنوس کے غصے کو ہوا دی تھی

آبنوس کے اشارے پر آگے بڑھتے ،، ایک مضبوط جسامت کے مالک آدمی ، نے عکش کی شرٹ کو کھینچتے دو ٹکڑے کیئے تھے ،، شرٹ کے ہٹتے ہی عکش کا سفید کشادہ اور مضبوط سینا اُن سب کے سامنے تھا ،،،، 

یہ سب ہوتا دیکھ احمد نے بھی اپنی کلاشن پر گرفت سخت کی تھی ،،

 اُسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ آبنوس کی ہی گولیاں اُسکے ہی سینے میں اُتار کر عکش کو اُسکی قید سے رہائی دلہ دے

 ،،، پر وہ اتنا جذباتی نہیں تھا اُسے یہ معلوم تھا کہ صرف وہ اور عکش اکیلے اُنکی نفری کا مقابلہ نہیں کر سکتے ،، اس لئے وہ جوش کے بجائے ہوش اور ضبط سے کام لیتا سرد  آنکھوں سے یہ سب دیکھ رہا تھا ،،،

اگر تم آسانی سے نہ مانے تو ، مجھے بہت سے طریقوں سے منوانا آتا ہے ،، آبنوس  کہتا ، دہکتی ہوئی آگ سے لوہے کی سلاخ اٹھاتے عکش کی طرف بڑھا تھا  ، 

لوہے کی سلاخ آگ میں ہونے کے باعث لال سُرخ ہوئی تھی ،،، 

آبنوس  عکش کو دیکھتا مسکرایا تھا، جس کے چہرے پر کوئی خوف اور کوئی ڈر نہیں رہا تھا ،،،

آبنوس نے لوہے کی سلاخ عکش کے کشادہ سینے پر داغی تھی ،

سیخ .....! کی آواز کے ساتھ ہی وہ آگ سے دہکتی  سلاخ عکش کے سینے کی چمڑی جلاتی گہرا داغ چھوڑ گئی تھی ،، عکش نے تکلیف سے اپنی آنکھیں میچی تھی ،،،

مہ میں  مر جاؤ گا آبنوس پ پر تم سے کبھی رحم کی بی بھیک نہیں مانگو گا،، آبنوس ،،،، عکش نے تکلیف کی وجہ سے اٹک کر کہا،،

میں ابھی بھی تمھارے مثبت جواب کا منتظر ہوں میجر ،، آبنوس نے قہقہ لگاتے  کہا اور دوبارہ دہکتی ہوئی آگ کے شولوں سے ایک اور دہکتی ہوئی لوہے کی سلاخ لے آیا ، اور اب وہ عکش کے سینے کی دوسری طرف اور کمر آگ سے داغنے لگا ،،،

،

احمد کب سے خود پر ضبط کے پہرے ڈالے سب دیکھ رہا تھا ،، اب عکش پر ہوا تشدد دیکھنا احمد کے لئے دوبھر ہوگیا تھا اس لئے وہ خاموشی سے وہاں سے نکلتا چلا گیا ،،،

،،،،،،،،

میرب کب سے اُسے کال کر رہی تھی تا کہ عکش کی موت کی خبر دے سکے اُسے پر جب کال کرتی مصروف جاتا اس لئے آخر تنگ آکر ، اُسنے میسیج ٹائپ کر کے سینڈ کر دیا تھا ،،،،

،،،،,,,

احمد گاڑی فل سپیڈ میں چلاتا جلد از جلد اپنی ٹیم سے میٹنگ کے لئے جانا چاہتا ،، اُسکا ذہن بہت سی سوچوں میں گھرا ہوا تھا ،، موبائل پر آئے میسیج نے اُسکی توجہ کھینچی ،، میسیج پڑھتے اُسنے زور سے موبائل ڈیش بورڈ پر دے مارا تھا ،،،،

،،،،،،،

میجر عکش ملک کا خاک سے رشتہ جوڑ لینے کے بعد ، وقت آگیا ہے کہ ہم سب اپنے سروں پر کفن باندھ کر ، اُنکے مقصد کو زندہ رکھیں ، انتقام لیں گے ہم اُن ملوموں سے ،، اگر ہم اُن سے انتقام نہ لے پائے تو یہ سانسیں حرام ہیں ہم پر ،، ہم قسم کھاتے ہیں ہم اپنے جوان میجر عکش کا انتقام ضرور لیں گے ،،،اگر ہم اپنے ارادے سے پیچھے ہٹے تو ہماری پیشانی خون آلود ہو جائے ، 

پاک آرمی کے یونیفارم میں موجود آفیسر وہاں موجود سب آفیسرز کا خون گرما رہا تھا اپنے الفاظوں سے ،،، ابھی وہ حملے کے لئے پلین ترتیب دے ہی رھے تھے کہ میٹنگ روم کا دروازہ کھول کر احمد اپنے بھاری قدم اٹھاتا اندر داخل ہوا ،،،،

،،،،،،

میجر عکش کہاں ہیں ؟ احمد نے سرد آنکھوں سے سامنے کھڑے آفیسر حمزہ سے پوچھا ،،،

سر کمال اور اُسکے آدمیوں نے حملا کر کے شہید کر کے جلا دیا ہے میجر عکش کو ، ہم نے آپ سے رابطے کی بہت کوشش کی پر رابطہ ہو نہ پایا ،،، حمزہ نے تفصیلاً کہا ،،،

کس نے کہا کہ وہ جلا وجود میجر عکش کا تھا ،، احمد نے تقریباً چلاتے سوال کیا ،،،

سر لاش کے پاس سے میجر عکش کی گھڑی ملی ہے اور لاش بھی اُنکی جلی ہوئی گاڑی سے برآمد ہوئی ہے ،،، حمزہ نے اُسکے غصے کے پیشِ نظر فوراً سے جواب دیا ،،، 

،،،،،،،،

کیسے سپاہی ہو تم سب ؟؟اپنے میجر کو ڈھونڈنے کے بجائے اُسکی موت کو تسلیم کر کے بیٹھ گئے ہو ،، تم لوگوں کو شرم آنی چاہئے خود کو سپاہی کہتے  ہوئے بھی ،،، احمد نے دبے دبے غصے سے کہا ،،،

میجر عکش ملک حیات ہیں ،، اور آبنوس کی قید میں ہیں ،،احمد نے غرا کر کہا ۔۔۔۔

وہاں موجود تمام آفیسرز حیرت سے آنکھیں پھاڑے احمد کو دیکھ رہے تھے ،،، عکش کی حیات ہونے کی خبر نے جیسے اُنکے اندر بھی سور پھونک دیا تھا ،،،،

،،،،,,,,,,

میری بات بہت غور سے سنو سب اب ہمیں ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا ہے ، ہم ایک غلطی سے عکش کو کھو سکتے ہیں ،،،، 

سب سے پہلے ایک ٹیم عکش کے گھر کے لئے تعینات کر دو ،، جو عکش کے باپ اور بیوی کی حفاظت کرے ،، آبنوس جیسا شاطر آدمی ضرور اُسکی فیملی کے ذریعے کمزور کرنے کی کوشش کرے گا ،،، 

اور عکش کی زندہ ہونے کی خبر ابھی کسی کو بھی معلوم نہیں ہونی چاہئے،، حتہ کہ اُسکی اپنی فیملی کو بھی نہیں،،،،،

یس سر ،،، سب نے ہم آواز ہوتے ہوئے کہا ،،،

اور دوسری بات ہمیں جلد از جلد آبنوس کی چھاؤنی پر حملا کر کے عکش کو رہا کرنا ہوگا ،،،

 احمد نے سارا پلین ترتیب دیتے کہا ،، 

یس سر ۔۔۔۔ سب نے ایک بار پھر احمد کے پلین کے لئے حامی بھرتے کہا ،،، 

ہمیں اپنے میجر کے ایک ایک خون کے قطرے کا انتقام لینا ہے ،،، احمد نے باور کروایا ،،،

انتقام 

انتقام 

سب نے ہم آواز ہو کر نعرہ لگایا ،،،،

،،،،،،،،،،

وہ درخت سے بندھا رسیوں میں جکڑا سینے میں اٹھتی جلن برداشت کر رہا تھا ،،، اُسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اُسکے سینے اور کمر میں کسی نے دہکتی آگ کے شولے چھوڑ دئیے ہوں ،،،، اُسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اُسکے سینے سے ساری چمڑی بھی جل گئی ہو ،،،،

اے اللہ جیسے تو نے یوسف علیہ السّلام کو کنویں سے نکال کر مصر کا بادشاہ بنا دیا تھا ، اے خدا مجھے بھی اس قید ، ذلت اور رسوائی سے نکال دے اور میری مدد فرما ، میرے خدا مجھے ثابت قدم رکھنا ، مجھے ان شیطانوں کی پیروی سے بچا اور شہادت کی موت نصیب فرما ،،،

وہ آنکھیں موندے دل میں ہی اللہ سے مخاطب تھا ،،، گرین آنکھوں والی اپنی شریک حیات کا چہرہ اُسکے ذہن میں آتے ہی اُسکی نیلی آنکھوں سے آنسو کا قطرہ نکل کر گال پر بہا  ،،،

،،،،،،،

انکل ہم عروہ کو لینے آئیں ہیں ،،،، اذہان ، ملک مینشن میں معاذ صاحب کے سامنے بیٹھتے بولا ،،، 

ڈرائنگ روم کے دروازے سے اندر آتی عروہ کا دل زوروں سے دھڑکا تھا ،،،،

نہیں بھائی میں نہیں جاؤ گی ، یہ میرے عکش کا گھر ہے ، میں اُسے چھوڑ کر نہیں جاؤ گی ، معاذ صاحب کے کچھ بولنے سے پہلے ہی عروہ بول اٹھی،،،، عروہ میری جان تُم یہاں رہی تو اسی طرح عکش کی یادوں میں رہو گی,,,,

کچھ دن گھر چلو اپنا موڈ بہال کرو,,, 

بھائ میں نے کہہ دیا میں نہیں جانا چاہتی تو نہیں جانا چاہتی پلیز مجھے فورس نہیں کریں,,, 

عروہ نے دو ٹوک انداز میں کہا, 

لیکن عروہ.... 

 ازہان نے پھر کوشش کرنی چاہی,,,

بھائ پلیز سمجھے انکل کی. حالت دیکھیں آپ ایسے کیسے میں انہیں چھوڑ کر چلی جاؤں,,, میں خود گرزی نہیں کرسکتی,,,, 

اس بار اسنے منت کی تو ازہان نے اسکی بات سمجھتے کچھ شرمندگی سے سر جھکایا تھا وہ اس بات کو تو سرے سے بھلا ہی چکے تھے کہ عکش کے باپ کو بھی اس وقت کسی کی ضرورت ہے,,, 

ازہان نے قریب آتے اپنی لاڈلی سمجھدار بہن کے سر پر ہاتھ رکھا تو ایک بار پھر عروہ کا دل بھر آیا,,, 

وہ مشکل سے خود کو  سمبھالے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئ,, 

پیچھے ازہان معاز صاحب سے معزرت کرتے انہیں اپنا اور عروہ کا خیال رکھنے کی تلقین کرتا واپس چلا گیا,,, 


ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes.She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Chura Liya Hai Dil Ko Jo Tum Ny Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Chura Liya Hai Dil Ko Jo  Tum Ny   written by TS Writes Chura Liya Hai Dil Ko Jo Tum Ny by TS Writes is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 

1 comment:

  1. Assalamualaikum.Aap ka novel chura liya hai tum ne jo dil ko ue complete nahi hai please is ko complete kr dain

    ReplyDelete

Post Bottom Ad

Pages