Dil e Raqsam by Hina Asad Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday, 20 April 2025

demo-image

Dil e Raqsam by Hina Asad Complete Romantic Novel

Dil e Raqsam by Hina Asad Complete Romantic Novel

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

195617038_312089457294568_5274650605606282000_n
Dil e Raqsam by Hina Asad Complete Romantic Novel

Novel Name: Dil e Raqsam 

Writer Name: Hina Asad

Category: Complete Novel

دل رقصم۔(پہلی تین اقساط میں نام شطرنج زندگی کی )رکھا تھا بعد میں تبدیل کر کہ دل رقصم رکھ دیا ۔


 خموشاں میں رات کے آخری پہر گھپ اندھیرا اور دل چیر دینے والا گھبیر سناٹا چھایا ہوا تھا ۔ماحول میں پھیلے سکوت میں دور سے آتی ہوئی کتوں کے بھونکنے کی آواز ارتعاش پیدا کررہی تھی ،وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی ہوئی دروازہ عبور کیے اندر آئی جہاں عورتوں کا آنا ممنوع قرار دیا گیا ہے،

مگر وہ سب بھلائے مخصوص راستہ عبور کرتی ہوئی اک کتبہ لگی ہوئی کچی قبر کے پاس آرکی۔۔۔۔

بیٹھ کر مٹی ہاتھ میں لیے اس پر لب رکھے،چند لمحوں میں ہی وہ مٹی اس کے برستے ہوئے آنسوؤں سے نم ہوئی۔۔۔۔۔

تم کیوں آئی ہو ؟؟؟؟

اس کے پاس موجود سفید پوش نے اس سے سوال کیا۔۔۔

آپ سے ملنے۔۔۔۔۔"آپ کی یاد آرہی تھی" ،اب کی بار رونے ۔میں مزید شدت آئی۔۔۔۔۔

وہاں سے بھی تو دیکھا جا سکتا تھا۔اس نے سامنے گھر کی چھت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جس گھر کی بیک سائیڈ قبرستان کو لگتی تھی۔

"وہاں سے تو دیکھا جا سکتا تھا ،مگر یہاں تو محسوس کیا جا سکتا ہے"اس نے اپنی ہاتھ میں موجود نم مٹی کو اپنی آنکھوں سے لگایا۔

تمہیں ڈر نہیں لگتا یہاں آتے ہوئے؟؟؟؟

"نہیں"اس نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔"آپ کو پتہ ہے وہ ہمیشہ میرے ساتھ ہوتا ہے"

آپ سنیں گی اس کے بارے میں ؟

"پھر کبھی۔۔۔۔ ابھی تم واپس جاؤ "

وہ مٹی کو بوسہ دے کر واپس رکھے جس راستے سے آئی تھی وہیں سے واپس پلٹ گئی۔۔۔۔۔۔

🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲

رئیسانی مینشن میں آج ہر طرف گہما گہمی اور روشنیوں کی چکا چوند تھی۔

شہر کی بڑی بڑی ہستیاں اس انگیجمینٹ کی تقریب میں شرکت کے لیے پہنچ چکیں تھیں۔

چار سو گز پر محیط یہ مینشن اپنی خوبصورتی اور دلکشی کی عمدہ مثال آپ تھا۔سنگ مر مر سے بنا چمکتا ہوا فرش ،بیرون ممالک سے لائے ہوئے ڈیکوریشنز،شو پیسز،اینٹیک طرز کے ہتھیار ،دیواروں پر چسپاں فیملی کی تصاویر،شکاری آلات،غرض

اس عمارت کی ایک ایک چیز اپنی عمارت کا منہ بولتا ثبوت تھی۔

مگر تقریب کا انعقاد باہر لان میں کیا گیا تھا۔۔۔۔

باہر جدید طرز کے برقی قمقموں سے سجاوٹ کی گئی تھی۔

ایک طرف بڑے بڑے گول میز لگا کر ساتھ چئیر رکھ کر کھانا کھانے کے لیے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا۔اور ایک طرف شیف انواع و اقسام کے ان گنت کھانے بڑے بڑے میزوں پر سجائے ہوئے تھے۔۔۔۔

یہ ہائی کلاس لوگوں کی تقریب تھی ،جہاں پینا پلانا عام سی بات تھی۔

ایک طرف چھوٹی سی بار بنائی گئی تھی۔

مہمان تو سب پہنچ چکے تھے مگر میزبان ابھی تک ندارد!!!!

میڈیا کے کیمروں کا رخ اندر سے آنے والے کپل پر ہوا تو سب نے لائٹس کی تقلید میں ادھر ہی اپنی نظریں جمائیں۔۔۔۔

جہاں سے سلیمان رئیسانی بلیک کلر کا برینڈڈ سوٹ پہنے۔وائٹ شرٹ،بلیک ٹائی اور قیمتی رسٹ واچ کلائی میں ڈالے ۔چمکتے ہوئے جوتے پہنے۔اپنے سیاہ بال جن میں اب کہیں کہیں سفید بال بھی جھلک رہے تھے ۔اپنے ازلی مغرور انداز سے اپنی شریک حیات نیلم رئیسانی کے بازو میں بازو ڈالے آرہے تھے۔

نیلم رئیسانی سرخ و سفید رنگت پر بلیک کلر کی ساڑھی اپنے ہم نفس سے میچنگ کیے پہنے ہوئے تھیں۔اس عمر میں بھی اپنے آپ کو اس قدر فٹ رکھے ہوئے تھیں کہ لگتا ہی نہیں تھا کہ ان کی بیٹی کی انگیجمینٹ ہے۔

ڈیپ ریڈ میک اپ میں سجی ،بیک لیس بلاؤز میں بالوں کا ہائی بن بنائے،ہائی ہیلز میں اپنی سوسائٹی کا ہی حصہ لگ رہی تھیں۔

🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲

دروازے پر مسلسل دستک ہو رہی تھی۔مگر وہ ان سنی کیے اپنے کام میں مگن رہی۔

باہر موجود شخصیت نے غصے میں دروازہ دھاڑ سے کھولا ۔۔۔۔

اور پیر پٹختی ہوئی اندر آئی۔۔۔۔

"کب سے ناک کر رہی ہوں سنائی نہیں دیتا دماغ کے ساتھ کان بھی ادھار دے آئی ہو کسی کو "؟

مگر وہ یونہی یونہی لیٹی رہی اپنے موبائل کی سکرین پر نظریں مرکوز کیے ہوئے۔۔۔۔۔

"شرم تو نہیں آتی اپنی بڑی بہن سے بدتمیزی کرتے ہوئے وفا"؟؟؟؟

میں نے کیا بدتمیزی کی ہے؟وہ معصومیت سے آنکھیں جھپکائے بالآخر بول ہی پڑی۔

میرا ہی دماغ خراب تھا جو تمہاری تنہائی کے خیال سے یہ موبائل لے کر دیا ،تم تو چوبیس گھنٹے اسی میں ڈوبی رہتی ہو آس پاس کیا ہو رہا ہے کسی بھی چیز کی ہوش نہیں تمہیں""""وہ اسے ڈپٹنے کے انداز میں بولی۔

اب میں نے کیا کیا ہے ؟

باہر فنکشن چل رہا ہے اور تم ابھی تک تیار ہی نہیں ہوئی۔۔۔۔

"مجھے کسی فنکشن میں نہیں جانا آپ کو جانا ہے تو چلی جائیں۔۔۔" پریا آپا"،میرے جانے یا نا جانے سے وہاں کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔۔۔۔۔

"حد ہے ویسے "وہ تاسف سے سر نفی میں ہلاتے اسے اسی حال میں چھوڑتی ہوئی باہر نکل گئی۔۔۔۔۔

کچھ دیر بعد سجی سنوری شہرناز اپنی دوستوں کی ہمراہی میں باہر آئی جس نے وائٹ کلر کی ڈیزائنر میکسی زیب تن کی ہوئی تھی۔جس کے گلے اور بیک پر پرلز لگے ہوئے تھے ڈائمنڈ جیولری پہنے ہوئی لائٹ پنک کلر کے میک اپ کیے دلکش دکھائی دے رہی تھی۔ 

  عالیان بھی چلتا ہوا اپنے بابا شاہان ملک کے ساتھ شہر ناز کے پاس آیا۔۔۔۔۔

 تالیوں کی بھرپور گونج میں عالیان نے شہر ناز کو انگوٹھی پہنائی۔۔۔۔۔

پھر ویسے ہی شہرناز نے عالیان کو۔

مشہور سیاستدان بھی یہاں موجود تھے ان میں سے ایک ان دونوں کے پاس آیا اور بولا۔۔۔

شاہان ملک جی آج سلیمان رئیسانی کی بیٹی کو اپنی بہو بنانے سے آپ کا درجہ اور بھی اونچا ہو گیا ہے۔

"اس خوبصورت موقع پر آپ دونوں کو بہت بہت مبارک"۔۔۔۔

اس نے پھولوں سے آراستہ خوبصورت بوکے ان کی طرف بڑھایا۔۔۔۔۔

جسے سلیمان رئیسانی نے تھام کر اپنے سرونٹ کو پکڑا دیا۔۔۔۔۔۔

کچھ لوگ بار کی طرف پینے کے لیے بڑھ گئے جب کہ کچھ لوگ کھانے کے لیے ۔۔۔۔۔دوسری طرف۔۔۔۔۔

"ایکسکیوز می سر"!عالیان ملک کے باڈی گارڈ نے اس کی طرف موبائل بڑھایا۔۔۔۔۔۔جسے دیکھ کر یک لخت عالیان ملک کے حواس گم ہوئے۔۔۔

عالیان ملک نے سلیمان رئیسانی کے پاس آکر کہا۔۔۔۔

مجھے آپ کو کچھ دکھانا ہے۔

وہ اس کے ساتھ خالی جگہ کی طرف گئے تاکہ اس کی بات سن سکیں۔۔۔

۔

(معذرت خواہ ہوں انکل مجھے یہ ابھی ملا۔۔)

عالیان ملک نے ان کی طرف موبائل بڑھایا۔۔۔۔

"اسے اور کسی نے دیکھا"؟

سلیمان رئیسانی نے سپاٹ اور سرد لہجے میں پوچھا۔۔۔۔۔۔

"نہیں انکل"۔۔۔عالیان  ملک نے بتایا۔۔۔۔۔

ہہہمممم۔۔۔۔

وہ سوچنے کے انداز میں بولے۔

🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲

ڈیڈ آپ یہاں ؟؟؟

وہ انہیں فنکشن کے بعد یوں اتنی رات گئے اپنے روم میں دیکھ کر حیران رہ گئی 

شہر ناز نے پوچھا۔۔۔۔

وہ نائٹ ڈریس ٹراؤزر اور شرٹ میں ہی موجود تھی۔۔۔۔۔واشں روم سےنکل کر باہر آئی جہاں سلیمان رئیسانی کھڑے ہوئے تھے۔۔

انہوں نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا ۔۔۔۔۔

بیٹھ جاؤ۔۔۔۔۔

۔۔۔

ان کی سرد سی آواز اس نے بخوبی محسوس کی۔۔۔۔۔

جی ڈیڈ۔۔۔

وہ دھیمے سے بولی۔۔۔۔۔۔اور ٹیبل سے پڑا پانی  کا گلاس اٹھا کر اپنے لبوں سے لگایا۔۔۔۔۔

۔

نیلم رئیسانی جنہوں نے سلیمان کی تقلید میں ابھی ابھی وہاں قدم رکھا تھا ۔۔۔۔

وفا اور پریا دونوں سلیمان رئیسانی کے بلانے پر اپنے اپنے کمروں سے باہر آئیں تھیں۔۔۔۔

وہ بھی باہر دروازے پرکھڑی اسی شش و پنج میں مبتلا تھیں کہ انہیں کیوں بلایا گیا ہے؟؟

 عالیان نے مجھے آج ایک کلپ دکھایا تھاجس میں تم ایک غیر لڑکے کہ ساتھ دکھائی دے رہی تھی۔

اور جو تم شرمناک حرکت کر رہی تھی اس کے ساتھ دل تو کیا تھا کہ وہیں کھڑے کھڑے تمہیں!!!!!!!!

وہ حد درجہ تنفر سے دھاڑے ۔۔۔۔۔۔۔

زرا سوچو اگر یہ انفارمیشن میڈیا میں لیک ہو جاتی تو میری عزت کی دھجیاں اڑ جاتیں۔

تمہیں ایسی حرکت کرتے ہوئے زرا شرم نہیں آئی؟؟؟؟؟

تم نے میری اتنے سالوں سے بنائی گئی ساکھ اور عزت کی دھجیاں بکھیر دیں۔۔۔۔

وہ بے چینی سے پیشانی مسل کر تلخ لہجے سے بولے۔۔۔۔۔

ڈیڈ مجھے معاف کردیں۔۔۔پلیز مجھ سے غلطی ہو گئی۔۔۔

اس نے اپنے باپ کا یہ سخت روپ پہلی بار دیکھا تھا ۔۔۔۔

اپنے آپ ہی اس کی آنکھوں میں نمی گھلنے لگی اور اس نے رندھی ہوئی آواز میں صفائی پیش کرنی چاہی۔۔۔۔۔

اتنے میں نیلم کے موبائل پر میسج نوٹیفکیشن آئی ۔۔۔جو بریکنگ نیوز پر آتی تھی۔

انہوں نے فوراً اپنا فون آن کر کہ دیکھا جہاں نیوز چل رہی تھی۔

بریکنگ نیوز۔۔۔۔"""کل رات شاہان ملک کے بیٹے عالیان ملک کی ایک ایکسڈنٹ میں اچانک موت ہو گئی"""""۔۔۔

جب وہ اپنی انگیجمینٹ سے واپس لوٹ رہے تھے۔ان کی انگیجمینٹ کل سلیمان رئیسانی کی بیٹی شہر ناز سے ہوئی تھی۔جائے حادثہ پر موجود لوگوں نے بتایا ہے کہ ائیر پورٹ جاتے وقت کسی گاڑی کے ٹکرانے سے ان کی موت ہو گئی۔۔۔۔۔

لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔وہ یہ خبر سن کر شاک رہ گئیں۔۔۔۔

 کیا تمہیں اس لیے پیدا کیا تھا کہ تم میری بنی بنائی عزت کو خاک میں ملا دو؟؟؟؟؟

وہ پھنکارے۔۔۔

میرے اتنے سالوں سے بنائی گئی ساکھ کو تو نے ۔۔۔۔۔۔۔

تو نے اسے ایک ہی جھٹکے میں سرے عام  نیلام کر دیا۔۔۔

ان کی آنکھوں میں خون اترتا ہوا دیکھ کر ۔۔۔۔۔۔

سلیمان۔۔۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔

نیلم رئیسانی نے آگے بڑھ کر انہیں ان کے اگلے قدم سے روکنا چاہا۔۔۔۔۔۔

نیلم۔۔۔۔انہوں نے اسے گھورتے ہوئےخود سے پرے دھکیلا۔۔۔۔۔

Shut up........Just shut up now

ایک فائر کی آواز رئیسانی مینشن میں گونجی۔۔۔۔۔۔۔

لان میں موجود درختوں پر بیٹھے ہوئے پنچھی ڈر کہ مارے اڑے۔۔۔۔

وقت جیسے تھم سا گیا۔۔۔۔

ہر ذی روح اپنی جگہ جامد رہ گیا۔۔۔۔

بہا تو صرف خون !!!!

وہ بھی شہر ناز کی کنپٹی سے۔۔۔۔

وہ لمحوں میں صوفے سے لڑھک کر زمین پر گری۔۔۔۔۔۔

جیتا جاگتا ہوا وجود پل بھر میں بے جان لاش میں بدل گیا۔۔۔۔۔

پریا ،وفا دونوں کے سانس حلق میں اٹکے۔۔۔۔

نیلم تو اس واقع کی تاب نا لاتے ہوئے چکرا کر زمیں بوس ہوئی۔۔۔

سلمان رئیسانی چلتے ہوئے وہاں سے نکل کرگھر سے باہر نکلے ۔۔۔۔۔

سامنے سے ہی ان کے خاص آدمیوں کی گاڑی آتی ہوئی دکھائی دی۔۔۔۔۔

چند لمحوں میں ہی وہ اب اس لڑکے سمیت ان کے سامنے تھے جس کے ساتھ شہر ناز کی ویڈیو تھی۔۔۔۔۔

ایک گارڈ نے اسے دھکا دے کر سلیمان رئیسانی کے سامنے ان کے پیروں میں پھینکا۔۔۔۔

اس بیچارے پر شاید پہلے سے تشدد کر کہ یہاں لایا گیا تھا جو لہو لہان تھا اور ٹھیک سے اپنے پیروں پر کھڑا بھی نہیں ہو پا رہا تھا۔۔۔۔۔ایک گارڈ نے اس کی جیکٹ کے کالر سے کھینچ کر اسے سیدھا کیا۔۔۔

کسی نے بھی میری عزت سے کھیلنے کی کوشش کی تو میں اس کی جان !!!!!!لے لوں گا"۔۔۔۔۔میرے گھر کی عزت پر ہاتھ ڈالنے والے کی آنکھ نوچ کر کتوں کے آگے ڈال دوں گا۔۔۔۔۔

اندر موجود پریا اور وفا دونوں کے کانوں میں اس کے باپ کے الفاظ گونج رہے تھے۔

وہ گن اپنے سینے سے لگا کر کروفر زدہ لہجے میں بولے۔

سلیمان رئیسانی کی آواز پر اس لڑکے نے ان کی طرف پہلی بار نظر اٹھا کر دیکھا جو اس کی آخری نظر ثابت ہوئی۔۔۔۔۔

اسی ہاتھ میں موجود گن سے سلیمان رئیسانی نے اس پر فائر کیا اور وہ بنا سانس لیے موقع پر دم توڑ گیا۔۔۔۔۔۔

🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲

اس کے الفاظ کا چناؤ ،لہجے کا ٹھٹھرتا ہواسرد پن۔سامنے بیٹھے سائکائٹرسٹ کو بھی پل بھر کے لیے چونکنے پر مجبور کر گیا۔۔۔

یہ وہ سوال ہے جو عام بندے کی سمجھ سے باہر ہوتا ہے۔

کوئی بھی دوسرا سننے والا شخص یہ سوچے گا کہ یہ تو کفر کر رہا ہے۔

مگر بطور ماہر نفسیات میں نے سوچا کہ اس کے اندر موجود دکھ کی گہرائی کتنی زیادہ ہے کہ اسے مالک ِ کائنات کے ہونے پر بھی شک گزرنے لگا۔

بے شمار حادثات سے گزرنے والے اسی طرح گمان کرتے ہیں؟؟؟

میں تب بھی اسی کی رہوں گی جب یہ بہاریں بیت جائیں گی۔سڑک پر پڑے سڑتے ہوئے زرد سوکھےپتے اپنے اوپر سے انہیں توڑ کر جانے والوں سے گریہ و زاری کریں گے۔۔۔۔

اگر مجھے وہ نہ ملا تو میری موت واقع ہو جائے گی۔مجھے لگتا ہے بس وہی میرا علاج ہے ۔

"اسے دیکھنا، اسے سننا بھلا لگتا ہے۔مجھے ہر طرف صرف وہی دکھائی دیتا ہے جیسے صحرا میں پیاسے کو پانی۔۔۔۔

،🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲

یونائیٹڈ سٹیٹس کا سب سے بڑا اور مشہور نائٹ کلب،پانامہ سٹی بیچ ،فلورڈا میں شام اپنے عروج پر تھی۔

بے ہنگم شور میوزک کی دھن ،شراب کے نشے میں جھومتے ہوئے ادھ برہنہ وجود۔

جن میں ایک وہ بھی شامل تھا ۔۔۔۔۔ہاتھ میں وائن سے بھرا گلاس لیے ان جھومتے ہوئے لوگوں کو دیکھ تو رہا تھا مگر دماغ کسی گہری سوچ میں میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔۔۔

Hey D.K.

اس کے دوست نے اسے آواز دی تو وہ اپنے خیالات سے باہر نکلا اور چونک کر اس کی طرف دیکھا جو اسے ہاتھ کے اشارے سے ڈانس فلور پر آنے کے لیے کہہ رہا تھا۔۔۔۔۔

اس نے بنا کوئی جواب دئیے سر نفی میں ہلایا۔۔۔۔۔

🎲🎲🎲🎲🎲🎲

وہ اپنے کوٹ کا درمیانی بٹن بند کرتے ہوئے لفٹ سے باہر نکلے۔۔۔۔باڈی گارڈز ان کے پیچھے تھے۔۔۔۔

سامنے اسے دیکھ کر اپنی بانہیں واہ کیں۔۔۔

کیسے ہو ؟؟؟؟

Cool and Handsome as always....

اس نے شرارت بھرے لہجے میں مسکرا کر جواب دیا۔۔۔۔۔

اچھا کیا جو وقت پر پہنچ گئے۔۔۔۔۔

رکو۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ میٹینگ روم کی طرف بڑھتا۔۔۔۔۔

انہوں نے اسے آواز دے کر روکا۔۔۔۔

یہ کیا پہن کر آئے ہو؟؟؟؟

اس کی جینز اور شرٹ پر چوٹ کی۔

سوٹ کیوں نہیں پہنا؟؟؟؟

جسٹ چِل ڈوڈ۔۔۔۔۔

میں کوئی پچاس سال کا بڈھا تھوڑی نا ہوں آپ کی طرح کو سوٹ پہنوں گا۔۔۔۔

I am young guy yaar.....

وہ چھ فٹ سے نکلتا ہوا قد ،چوڑے شانے ،کسرتی بدن اور سیاہ چمکتے ہوئے بال جو شانوں کو چھو رہے تھے۔آج کل کہ لڑکوں کے نئے فیشن کے مطابق۔بھوری چمکتی ہوئی پراسرار سی آنکھیں۔۔۔۔۔۔

وہ بے نیازی سے کہتا ہوا اندر چلا گیا۔۔۔۔

میٹنگ روم میں سب ہی بورڈ آف ڈائریکٹرز موجود تھے۔۔۔۔۔

Meet my son.....

Daram Raeesani.....

آج ہی امریکہ سے اپنی بزنس کی پڑھائی کمپلیٹ کیے واپس آیا ہے۔۔۔۔

انہوں نے سب سے اس کا تعارف کروانا چاہا۔۔۔۔

No ......

Just wait a minute.....

ایک منٹ رکیں

Make it correct ......

اس کی تصحیح کریں۔

Not Daram Raeesani.

It's....

Daram khanzada.......

 کیوں صحیح کہا نا میں نے ؟؟؟؟

اس نے ابرو اچکا کر سلیمان رئیسانی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔

اس کے عنابی باریک لبوں پر پراسرار سی مسکراہٹ رینگی۔۔۔۔۔

He is my Step Father.....

سب نے سلیمان رئیسانی کی طرف حیرت سے دیکھا جو خشمگیں نگاہوں سے دارم کو دیکھ کم اور گھور زیادہ رہے تھے۔۔۔۔

مٹھیوں کو بھینچ کر خود پر ضبط کے کڑے مراحل سے گزر رہے تھے۔

دانت پیستے ہوئے بولے ۔۔۔

میٹنگ کا آغاز کریں۔۔۔۔۔

🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲

آپا ۔۔۔۔

وہ دروازہ کھول کر وہیں کھڑی ہوئی اس سے مخاطب ہوئی۔۔۔۔

واہ !!!زہے نصیب آج سورج کدھر سے نکلا ہے ؟؟؟جو مہربانی جودھا بائی ہمارے حجلے میں پدھاری ہیں۔۔۔۔۔۔

آپا پلیز۔۔۔۔۔

"اور سب سے پہلے تو تم مجھے یہ سڑا ہوا آپا کہنا بند کرو ایسا ساؤنڈ ہوتا ہے توبہ نعوذ باللہ جانے کونسی محرومہ آپا کو بلا رہی ہو۔۔۔

بھئی تم سے صرف دو سال ہی بڑی ہوں ۔۔۔

کتنی دفعہ کہا ہے پریا کہا کرو ۔۔۔

وہ واپس پلٹنے کو تھی کہ پریا نے اپنی جاری بات کو روکتے ہوئے کہا۔۔۔۔

ارے رکو ۔۔اب کہاں جا رہی ہو؟؟؟اتنے سالوں بعد تو میرے کمرے کا رخ کیا ہے اور بنا بات بتائے ہوئے واپس جا رہی ہو....

آپا مجھے وہ۔۔۔۔۔

وہ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں پیوست کیے ٹہر ٹہر کر بولی۔۔۔

مجھے بائیک چاہیے.....

کیا؟؟؟؟

زرا پھر سے بولو کہیں میرے کانوں نے غلط تو نہیں سنا ؟؟؟؟

وہ حیرانگی سے بولی۔۔۔۔

آپ نے ٹھیک سنا مجھے بائیک چاہیے۔۔۔

تمہیں بائیک چلانی آتی بھی ہے جو مانگ رہی ہو ؟؟؟

میں سب دیکھ لوں گی خودی ۔۔۔۔

آپ پاپا سے کہہ کر دلوائیں گی یا نہیں؟؟؟؟

وفا میں نے کتنی بار کہا ہے کہ وہ میرے ساتھ تمہارے بھی پاپا ہیں ۔اپنے حق کے لیے خود آواز اٹھاؤ۔۔۔۔۔

جاؤ ان کے پاس جو بھی چاہیے مانگ لو۔۔۔

I swear.....

وہ تمہیں کبھی منع نہیں کریں گے۔۔۔۔

مجھے کسی سے کچھ نہیں مانگنا۔۔۔۔۔

پریا اور وفا بے شک دونوں بہنیں تھیں مگر دونوں کے مزاجوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔۔۔۔

پریا خود اعتماد،بولڈ اپنے حق چھین کر حاصل کرنے والی۔

جبکہ وفا ڈری سہمی ہوئی سی لڑکی جس میں خود اعتمادیت چھو کر بھی نہیں گزری تھی۔۔۔

اچھا تم اب ناراض مت ہونا میں پاپا سے کہہ کر دلوا دوں گی بائیک۔۔۔۔

وفا نے جاتے ہوئے پریا کی بات سن لی تھی۔مگر وہ خاموشی سے باہر نکل گئی۔۔۔۔۔

🎲🎲🎲

تم کیا اجڈ عورتوں کی طرح ہر وقت رونا دھونا مچائے رکھتی ہو۔۔۔۔

انہوں نے اپنے کمرے آ کر نیلم کو روتے ہوئے دیکھ کر طنزیہ انداز میں کہا اور کوٹ اتار کر ایک طرف پھینکا۔۔۔۔۔

شرٹ کے بٹن کھولتے ہوئے نظریں نیلم پر ہی جمیں تھیں۔

آپ کو پتہ بھی ہے آپ نے کیا کیا ہے ؟؟؟

وہ چنگھاڑتی ہوئی تیزی سے سلیمان رئیسانی کے پاس آئی اور اس کی شرٹ کے کالر کو مٹھیوں میں جکڑتے ہوئے بولی۔۔۔۔

وہ ہماری بیٹی تھی۔۔۔۔

ہماری۔۔۔۔۔۔

وہ ہماری پر زور دیتی ہوئی ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئےکاٹ دار بلندآواز میں چیخی۔۔۔۔

تمہاری اور میری۔۔۔ہمارے پیار کی اکلوتی نشانی۔۔۔۔

بچے تو ہمارے اور بھی ہیں ۔دارم ،پریا اور وفا۔۔۔۔

میں ہم دونوں کے بچوں کی بات کر رہی ہوں جو ہماری اکلوتی اولاد تھی ۔۔۔

تم نے اسے اپنے ہاتھوں سے۔۔۔۔۔۔

کیسے سلیمان ۔۔۔کیسے۔۔۔۔۔۔

وہ شکستہ وجود لیے زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔۔۔۔۔۔

اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔۔۔۔۔

جاہل وعورت ۔۔۔۔۔

سکون برباد کر کہ رکھ دیا ہے ۔دو گھڑی گھر بندہ سکون سے نہیں گزار سکتا اس گھر میں۔۔۔۔

وہ شوز وہیں پھینکتے ہوئے بکتے جھکتے واش روم کی طرف بڑھ گئے۔۔۔۔۔

🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲

Hey Dad.

Your coffee......

دارم نے کافی کا مگ ان کی طرف بڑھایا ۔۔۔

سلیمان رئیسانی جو چینج کیے باہر لاؤنج میں آئے تھے 

اس سے کافی کا مگ لیے ہونٹوں سے لگایا۔۔۔۔

تم نے بنائی ؟؟؟؟

انہوں نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا۔۔۔

افکورس ڈیڈ۔۔۔

کوئی شک؟؟؟؟؟

اس نے ابرو اچکا کر پوچھا۔۔۔۔

نو ۔۔۔ناٹ ایٹ آل۔۔۔

کیسی بنی ؟؟؟؟

Fantastic full of love.....

وہ پیار بھرے انداز میں بولے۔۔۔۔۔

دارم کے لبوں کو پراسرار مسکراہٹ نے چھوا۔۔۔۔

آپ میری صبح والی بات سے ناراض تو نہیں ؟؟؟

نہیں ۔۔۔۔یک لفظی جواب دئیے وہ نیوز کی طرف متوجہ ہوئے۔۔۔۔

دارم انہیں کافی پیتا ہوا دیکھ کہ اٹھ کر اپنا مگ لیے ٹیرس کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔۔

🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲

بلیک ٹائٹس ،بلیک شرٹ اور بلیک جیکٹ پہنے بالوں کو پونی میں مقید کیے جیکٹ کے اندر چھپائے وہ بائیک لیے گھر سے باہر نکلی۔۔۔۔

رات کا پہر تھا۔۔۔وہ خاموشی سے وہاں سے بائیک لیے نکل کر ایک قدرے سنسان جگہ پر آئی۔۔۔۔اور بائیک سٹارٹ کرتے ہوئے ۔۔۔ریس دے کررفتار تیز کر دی۔۔۔۔۔۔

اس کی آنکھیں جھلملانے لگیں۔۔۔۔آنسووں سے لبریز آنکھیں کچھ بھی دیکھنے سے قاصر تھیں۔۔۔۔۔

شہ۔۔۔۔۔تمہیں بھی ایکسیڈینٹ میں بائیک سے چوٹ لگی تھی نا ۔۔۔

دیکھو میں بھی بائیک چلا رہی ہوں ۔۔۔

دعا کررہی ہوں کہ مجھ بھی وہیں چوٹ لگے جہاں تمہیں لگی تھی ۔۔۔

مجھے بھی اتنی ہی تکلیف محسوس ہو جتنی تمہیں ہوئی ہو گی۔۔۔۔۔۔

شاید یہ لمحہ قبولیت کا تھا جو اس کی دعاؤں نے لمحوں میں قبولیت کا سفر طے کیا۔۔۔۔۔اور سامنے آتے ہوئے سامان سے بھرے ہوئےٹرالر سے اس کی بائیک بری طرح ٹکرائی۔۔۔۔

وہ بائیک سے اچھل کر دور گری۔۔۔۔۔۔

ہونٹوں پر روح پرور مسکراہٹ تھی۔۔۔۔جیسے اس نے جو چاہا وہ پا لیا ہو۔۔۔۔۔

آہستہ آہستہ اس کی آنکھیں بند ہوگئیں۔۔۔۔۔

🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲

وفا تم بالکل پاگل ہو چکی ہو تم اپنے ساتھ ساتھ مجھے بھی مرواؤ گی پاپا کے ہاتھوں کسی دن۔۔۔۔۔

وہ ہاسپٹل کے روم میں داخل ہوتے ہوئے تلخ لہجے میں بولی۔۔۔۔۔

وہ جو پٹیوں میں جکڑی ہوئی تھی۔ایک ہاتھ پر ڈرپ لگی ہوئی تھی۔

وفا بے نیازی سے لیٹی رہی۔۔۔جیسے اسے کسی بھی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔۔

ایک بات کہوں 'وفا 'آج تم اپنے حق میں ایک خودی اچھا کام کیا۔۔۔۔

پریا کی بات سن کر وفا نے نظروں کا زاویہ اس کی طرف موڑا۔۔۔۔۔

اور سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا جیسے پوچھ رہی ہو کیا؟؟؟؟

ایک تو تم جو تول کر بولتی ہو نا ۔۔۔جیسے بولنے سے بل آتا ہو۔۔۔۔

اچھا چھوڑو ۔۔۔کام کی بات سنو ۔۔

کل جب تمہارا ایکسڈنٹ ہوا تھا ۔تمہاری پاکٹ سے تمہارا موبائل ملا تھا ۔۔۔۔۔

کہاں ہے میرا موبائل ؟؟؟واپس دو مجھے۔۔۔۔

وہ بے قراری سے بولی ۔۔۔۔

کون سا خزانہ چھپا ہوا ہے اس موبائل میں ؟؟؟

یہی تو بتانے والی تھی کہ اس میں صرف میرا نمبر سیو ہونے کی وجہ سے صرف مجھے حادثے کی اطلاع ملی۔۔۔۔

اور میں چلی آئی ۔۔۔شکر کرو پاپا کو کچھ نہیں پتہ اس بارے میں ۔۔۔

ورنہ تمہیں بائیک لے کر دینے سے مجھے بھی ڈانٹ پڑتی۔۔۔۔

گھر میں کسی کو نہیں پتہ کہ تم یہاں ہو۔۔۔۔

اول تو کوئی پوچھتا نہیں ۔۔۔۔

بھئی سب بزی بندے ہیں گھر میں۔اور اگر پوچھا بھی تو کہہ دوں گی کہ تم نانی اماں کے پاس گئی ہو ۔۔۔۔۔

اس نے خودی ہی ساری بات کہی اس دوران وفا خاموشی سے چھت کو گھورتی رہی ۔۔۔۔

یہ لو اپنا موبائل۔۔۔۔

اس نے شولڈر پر ڈالے ہوئے اپنے ہینڈ بیگ میں سے اس کا موبائل نکال کر اسے پکڑایا۔۔۔۔

جسے اس نے چھین کر کسی قیمتی متاع کی طرح اپنے سینے سے لگا لیا۔۔۔۔۔۔

بے وقوف لڑکی۔۔۔۔

پریا تاسف سے سر ہلا کر رہ گئی۔۔۔۔

🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲

اوئے عقل کے اندھے آنکھوں کے دشمن آنکھیں ادھار دیں ہیں یا شرم بیچ کھائی ہے جو کھلے عام خوبصورت لڑکیوں سے ٹکراتے پھر رہے ہو۔۔۔۔۔

وہ جو آج یونی میں پہلا لیکچر دینے آیا تھا ۔۔۔اپنے آج کےبریفنگ ٹاپک کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا کہ بے دھیانی میں کسی جاہل قسم کی صنف مخالف سے ٹکرا گیا۔۔۔۔

اور مقابل موجود صاحبہ نے اسے بے نقد کی ہزار صلاواتیں سنا ڈالیں۔۔۔۔

اس نے ایک تفصیلی نگاہ اس کے سراپے پر ڈالی ۔۔۔۔

متناسب سراپا۔گوری رنگت سیاہ گھورتی ہوئیں آنکھیں ۔باریک سے نقوش کی مالک لڑکی جس نے آسمانی اور پنک کلر کا پلازو اور شارٹ فراک زیب تن کر رکھی تھی۔کمر پر ہاتھ رکھے لڑاکا انداز میں اس سے مزید لڑنے کی تیاری میں تھی شاید۔۔۔۔۔

"زبان درازی میں تو شاید آپ نے ماسٹرز کر رکھا ہے۔

محترمہ اگر آپ اپنی آنکھوں کا بھی جائز استعمال کر لیتی تو یہ سب نا ہوتا۔۔۔۔

وہ اسے سنا کر یہ جا وہ جا۔۔۔۔

وہ اس کی بات پر جلتی کلستی ہوئی پیر پٹخ کر رہ گئی۔۔۔۔

الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔۔۔۔

ہنہہہ۔۔۔۔اس نے زور سے ہنکارا بھرا۔۔۔۔۔۔

🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲

گڈ مارننگ !!!

اس نے کلاس میں داخل ہو کر کہا ۔

گڈ مارننگ سر!

کئی لڑکیوں اور لڑکوں نے جواباً کہا۔

پہلا پیریڈ اٹینڈ کرنے کہ بعد دوسرا شروع ہوا تھا ۔۔۔

میں آپ کا نیو ٹیچر" قلب"

اس نے کلاس میں اپنا تعارف دیا۔۔۔۔

"قلب "پریا منہ میں بڑبڑائی۔۔۔۔۔

اس نے کلاس پر تفصیلی نظر ڈالی۔۔۔۔مگر پریا پر نظر پڑتے ہی حقارت سے نظروں کا زاویہ بدلا۔۔۔۔

پریا کی تو اس کے عمل پر سر پر لگی تلوں پر بجھی۔۔۔۔

سمجھتا کیا ہے خود کو ؟؟؟

آیا بڑا لیکچرار کہیں کا۔۔۔۔

نانی نہ یاد دلا دی تو نام ہی پریا میرا۔۔۔۔

اس نے اسے دیکھتے ہوئے دل میں ارادہ باندھا۔۔۔۔۔

اس نے کلاس کے دوران ایک نظر بھی دوبارہ پریا پر نہیں ڈالی۔۔۔۔

اور یہی بات اسے بے چین کیے دے رہی تھی۔۔۔

وہ کیسے اسے اگنور کر رہا ہے؟؟؟؟

🎲🎲🎲🎲🎲🎲

میرے کپڑے نکالو۔۔۔۔

سلیمان رئیسانی نے اسے حکم جاری کیا۔۔۔

میں تمہاری غلام نہیں۔۔۔۔۔

اس نے ٹکا سا جواب دیا۔

تمہاری ہمت کچھ زیادہ نہیں بڑھ گئی؟؟؟

یہ ہمت بھی تمہاری ہی عطا کردہ ہے۔۔۔

وہ دو بدو بولی۔

ہمت دی ہے تو چھیننی بھی آتی ہے۔۔۔

بھاڑ میں جاؤ تم اور تمہاری باتیں۔۔۔۔نیلم بیزاری سے کہتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔۔۔

وہ بغیر چینج کیے بستر پر نیم دراز ہوئے۔۔۔۔

اپنے آپ ہی آج سالوں بعد سلیمان کی آنکھوں کے سامنے وہی ایک ایک منظر لہرانے لگا جب ان کی پہلی بیوی زرین ان کے گھر آنے سے پہلے ان کی تمام چیزیں پہلے سے نکال کر رکھتی تھی۔

آتے ہی ہاتھ میں پانی کا گلاس لیے ان کے پیچھے پیچھے پھرتی ۔۔۔۔

ہر چیز انہیں وقت پر مہیا کرتی مگر انہوں نے کبھی بھی اس کی قدر نہیں کی۔۔۔اس کا تعلق ایک مڈل کلاس گھرانے سے تھا۔

یونیورسٹی کی دوستی ،بالاخرشادی کی منزل تک پہنچی۔مگر وہ شاید وقتی کشش تھی۔جو وقت کے ساتھ بدل گئی۔۔۔۔

انہیں بیٹے کی خواہش تھی جو وہ پوری کرنے میں ناکام رہی۔۔۔

پہلے پریا اور پھر وفا اس دنیا میں آئی اور جب وہ تیسری بار امید سے ہوئی تو انہوں نے اسے اس قدر اسے ذہنی طور پر پریشرائز کیا کہ اگر اس بار وہ انہیں بیٹا دینے میں ناکام رہی تو وہ اسے چھوڑ دیں گے۔۔۔۔۔

اور ڈیلیوری کے دوران ہی وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔۔۔

اسے شاید پہلے سے معلوم ہو چکا تھا کہ وہ پھر سے ایک بیٹی ہی پیدا کرنے والی ہے۔۔۔شاید اسی ڈر نے اس سے جینے کی امید چھین لی۔

اس کے وجود سے مردہ بیٹی ہی برآمد ہوئی۔۔۔

اس طرح وہ انہیں داغ مفارقت دئیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندگی کے غموں سے نجات پا گئی۔۔۔۔

نیلم سے ان کی ملاقات ایک بزنس ڈنر میں ہوئی تھی۔۔۔۔۔

نیلم کا ایک بیٹا تھا۔۔۔۔۔درام 

دونوں میں انڈر سٹینڈنگ ہوئی اور پھر انہوں نے اسے اپنے ساتھ ایک نئے رشتے میں باندھ لیا۔۔۔۔۔

نیلم نے کبھی بھی پریا اور وفا پر توجہ نا دی۔

دارم کو بورڈنگ بھیجے وہ مکمل آزاد تھی۔

کِٹی پارٹیز اور بزنس ڈنر کرنا اور این جی او چلانا،خود کی بیوٹی سنوارنے پر توجہ دینا  ۔۔۔۔بس اسی میں وقت گزارتی۔

نیلم سے شادی کے بعد سلیمان اور نیلم کی ایک ہی بیٹی تھی شہر ناز۔۔۔۔۔

🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲

آج اتوار کا دن تھا ،سب ناشتے کی میز پر اکٹھے ہوئے تھے۔۔۔۔

سرونٹس کھانا سرو کر رہے تھے۔۔۔۔

میز پر انواع و اقسام کے کھانے موجود تھے۔۔۔

بریڈ۔جیم۔مارملیڈ،ٹوسٹ،ایگ،آلو کے پراٹھے ،فروٹس اور جوسز۔۔۔۔

سلیمان نے دارم کے سامنے پڑا ہوا جوس کا جگ اسے پاس کرنے کے لیے کہا۔۔۔

سرونٹ جو مؤدب سا پاس موجود تھا۔۔۔

دارم کی نظروں اشارہ سمجھتا ہوا فورا جگ اٹھا کر سلیمان رئیسانی کے پاس پڑے گلاس میں ڈالا۔۔۔۔

نیلم ٹوسٹ پکڑے کسی خیال میں ڈوبی ہوئی تھی۔۔۔۔

پریا وفا کہاں ہے ؟؟؟

سلیمان رئیسانی نے پوچھا۔

پاپا وہ شاید اپنے روم میں ہو گی۔۔۔۔

کون وفا؟؟؟؟

دارم نے پوچھا۔۔۔۔

میری چھوٹی بہن ۔یاد نہیں آپ کو؟؟؟

اس نے دماغ کے گھوڑے دوڑائے تو نظر کے سامنے برسوں پہلے کی ایک شبیہہ لہرائی ۔۔۔

جب وہ اپنی مام کے ساتھ اس گھر میں آیا تھا تو ایک چھوٹی سی ڈری سہمی ہوئی سی بچی بڑی بڑی سی آنکھوں والی جو اسے دیکھتے ہی اپنی بہن کے پیچھے چھپ گئی تھی۔۔۔۔

اس دن کے بعد اس نے اس بچی کو پھر نا دیکھا کیونکہ کچھ دنوں بعد ہی اسے بورڈنگ بھیج دیا گیا تھا اور پھر وہ اپنی باقی کی تعلیم مکمل کرنے ابروڈ چلا گیا تھا۔۔۔۔۔

اس نے گہری سانس لی ۔۔۔اور پاس پڑی باسکٹ میں سے ایک سرخ سیب نکال کر اس کی بائٹ لی۔۔۔۔۔

بظاہر تو وہ کھانے میں مصروف تھا مگر دماغ کسی اور ہی ادھیڑبن میں محو تھا۔۔۔۔

🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲

تم کہاں جا رہی ہو؟؟؟

اور یہ آج اس ڈریسنگ میں ؟؟؟

پریا نے اسے سفید رنگ کے چوڑی دار پاجامے اور لانگ فراک میں ملبوس دیکھا ۔۔۔۔

اس نے دوپٹہ نماز کے سٹائل میں سر پر لپیٹا ہوا تھا۔۔۔۔۔

آپا آپ کو پتہ ہے میں نے اس کے انٹرویو میں دیکھا تھا وہ نماز پڑھتا ہے۔۔۔۔۔

آپا میں بھی نماز پڑھوں گی۔۔۔۔۔

کون پڑھتا ہے ؟؟؟

آپا وہ شہ۔۔۔۔۔۔۔

اچھا اچھا جو بھی پڑھتا ہے مجھے کیا۔۔۔۔

میں نے یہ پوچھا تھا کہ تم جا کہاں رہی ہو؟؟؟

آپا میں چھت پر جا رہی ہوں کمرے میں دل گھبرا رہا ہے ۔

کھلے آسمان تلے نماز پڑھوں گی ۔۔۔

چاند مجھے دیکھے گا وہی چاند شاید اسے بھی دیکھ رہا ہو.......

تمہاری یہ فلسفیانہ باتیں میری تو سمجھ سے باہر ہیں ۔۔۔۔

جاؤ جہاں جانا ہے۔۔۔۔

پریا بیزاری سے کہتے ہوئے سونے کے لیے اپنے روم کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔۔

آسمان پر چاند اپنے پورے آب و تاب سے چمک دمک رہا تھا ۔آسمان پر جھلمل ستاروں کی چادر عجب جھب دکھلا رہی تھی۔

کھلا کھلا شفاف آسمان ،اور تازہ کھلی فضا میں اس نے کھل کر سانس لیا۔۔۔۔۔

اور عشا کی نماز ادا کی۔۔۔دعا کے لیے ہاتھ بلند کیے۔۔

یا اللہ اسے میرے مقدر میں لکھ دے۔

جب جب میں اسے دیکھتی ہوں مجھے سکون ملتا ہے۔مجھے جیسے اس شخص کی لت سی لگ گئی ہے۔اس کا مجھ پر نشے سا اثر ہوتا ہے۔اسے جس دن نہ دیکھو دن نہیں گزرتا رات تھم سی جاتی ہے۔اسے تو پتہ بھی نہیں کوئی اس کے لیے اپنے دل میں اتنی چاہت لیے بیٹھا ہے۔۔۔۔

He is like a star not can touch only can see from the distance.....

وہ شخص ستاروں کی مانند ہے جسے صرف دور سے دیکھا جا سکتا مگر کبھی چھو کر محسوس نہیں کیا جا سکتا۔۔۔۔

مجھے تو اس کے شہر سے آنے والی فضاؤں سے بھی محبت ہے وہ اسے چھو کر تو آئیں ہوں گی نا؟؟؟؟

کتنی خوش قسمت ہیں وہ جو اسے چھو پائیں۔۔۔کیا میں اسے کبھی چھو پاؤں گی؟؟؟

اس کی آنکھوں سے آنسو زارو قطار بہنے لگے۔۔۔

اسی کی یاد دل میں لیے اسی کا چہرہ آنکھوں میں بسائے وہ خدا کہ حضور سر بسجود ہوگئی۔۔۔

اور وہیں سجدے میں پڑے ہوئے گریہ و زاری کرنے لگی۔۔۔۔

اے میرے پروردگار اسے میرا بنا دے۔۔۔۔

مسلسل رو رو کر وہی فریاد اس کی زبان سے جاری تھی۔۔۔۔

رو رو کر جب وہ ہلکان ہو چکی تو سجدے سے سر اٹھایا۔۔۔۔

اور اٹھ کر جائے نماز طے کیے بازو پر ڈالی۔۔۔۔

وہ سیڑھیوں کی طرف بڑھنے لگی کہ کوئی اس کے سامنے آیا۔۔۔۔

وہ جو پینے کے باوجود بھی سو نہیں پا رہا تھا وقت گزاری کے لیے اوپر آیا تو اسے دیکھ کر ٹھٹھکا۔۔۔۔۔

سفید دوپٹے کے ہالے میں موجود پر نور چہرہ ،کھڑی ستواں ناک،پتلے سے گلابی لب،اور بڑی بڑی سیاہ غلافی آنکھیں ،جو اس وقت غلافی کم اور رونے کی شدت سے گلابی آنکھیں دکھائی دے رہی تھیں۔

چاند کی چمکتی ہوئی چاندنی اس کے چہرے پر پڑ کر اسے مزید سحر انگیز اور پرکشش بنا رہی تھی۔

اس نے اس حور نما کو چھو کر محسوس کرنا چاہا خواہ وہ سچ میں ہے یہاں کہ اس کا کوئی وہم ؟؟؟؟

ابھی اس نے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اس نے نیچے جانے کے لیے جگہ بناتے ہوئے تھوڑا سائیڈ سے ہو کر جانا چاہا۔۔۔۔

مگر دارم نے اس کے وہاں سے گزرنے کے تمام راستے اپنا بازو رکھ کر مسدود کیے۔۔۔

جانے دیں مجھے۔۔۔وہ منمنا کر ہلکی سی آواز میں بولی۔۔۔۔

گلابی آنکھیں جو تیری دیکھیں۔۔۔۔۔وہ گنگنانے کے انداز میں تھوڑا جھک کر بولا۔۔۔۔

اس کا چہرہ اپنے قریب محسوس کیا تو وفا نے اپنے منہ اور ناک پر ہاتھ رکھا تاکہ اس کے منہ سے آتی ہوئی غلط مشروب کی بھبھکیوں سے بچ سکے۔۔۔۔

آپ اس وقت ہوش میں نہیں۔۔۔

پلیز جانے دیں مجھے۔۔۔۔

اس بار اس نے باقاعدہ منت بھرے انداز میں کہا۔۔۔۔۔

وہ تو مسمرائز سا اس کی آنکھوں میں ڈوب چکا تھا۔۔۔۔

یہ منظر کبھی بھی آنکھوں کے سامنے سے ہٹنے نہیں دینا چاہتا تھا مگر اس کی التجائیہ انداز نے اسے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔۔۔۔

اس کے بازو پیچھے ہٹاتے ہی وہ بھاگتی ہوئی سیڑھیوں سے نیچے اتری۔۔۔۔

جیسے جان چھٹی سو لاکھوں پائے۔۔۔۔۔

مگر اسے کیا پتہ تھا کہ اس کی دعائیں اس بار کن کا درجہ پانے والی تھیں یا نہیں۔۔۔۔۔۔

🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲

کلاس ختم ہوئی تو روم سے باہر نکلنے ہی والا تھا کہ۔۔۔۔

"سر مجھے کوئسچن 2کا پارٹbسمجھ نہیں آیا 'وہ جلدی سے اپنی جگہ سے اٹھ کر بولی۔

اس نے خشمگیں نگاہوں سے اسے گھورا۔۔۔۔۔

"جب میں سمجھا رہا تھا تو آپ کا دھیان کدھر تھا؟وہ تلخ لہجے میں گویا ہوا۔۔۔۔

غنیہ آپ کو اس سوال کی سمجھ آئی تھی؟قلب نے فرسٹ رو میں بیٹھی ہوئی لڑکی سے پوچھا۔

جی سر !اس نے اپنی جگہ سے اٹھ کر جواب دیا۔۔۔۔۔

بلیک ڈریس پینٹ پر گرے شرٹ کف موڑے ہوئے،آنکھوں پر نظر کا چشمہ ،نفاست سے ترشی ہوئی باریک مونچھیں،صاف رنگت ،مناسب قد،بہت زیادہ ہینڈسم تو نہیں مگر پرکشش شخصیت کا مالک تو تھا،پریا نے اس دوران اس کا تفصیلی جائزہ لے ڈالا۔

انہیں سمجھا دیں۔قلب نے غنیہ سے کہا اور پھر کلاس سے نکل گیا۔۔۔۔

وہ جو سمجھے بیٹھی تھی کہ وہ اس کے پاس آکر اسے سمجھائے گا۔

مگر وہ تو جان چھڑوا کر نکل گیا۔۔۔

اس کی یہی اگنورینس اسے بری طرح کِھل رہی تھی۔

آؤ سمجھا دوں ۔۔۔غنیہ نے اسے کہا وہ جو کھڑی ہوئی کسی خیال میں گم تھی۔اس کی آواز پر اس کی طرف متوجہ ہوئی۔

تم رہنے دو ۔۔۔۔آتا ہے مجھے۔۔۔۔وہ منہ ٹیڑھا کیے بے پرواہی سے بولی۔

عجیب لڑکی ہے۔۔۔۔۔۔غنیہ نے اس پر تبصرہ کیا۔۔۔

جتنا پریا اس کے قریب جانے کی کوشش کرنے لگی تھی اس سے بات کرنے کے بہانے ڈھونڈنے لگی تھی ،وہ اتنا ہی اس سے کھنچا کھنچا سا رہتا اور اس سے دور بھاگتا۔۔۔۔

🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲

"آج کے دور میں ایسی محبت کون کرتا ہے بھلا" ؟لوگ نہیں سمجھیں گے۔

"جب یادوں کے مندر میں اس کی یاد کی گھنٹیاں بجنے لگ جاتی ہیں،تو عجیب سی گھٹن ہونے لگتی ہے۔کسی دمہ کے مریض کے مانند،کھینچ کھینچ کر منہ سے سانس لینی پڑتی ہے۔تنہائی کی کھڑکیاں کھولنے سے بھی اس کیفیت میں کمی واقع نہیں ہوتی،بے چینی اسقدر بڑھ جاتی ہے کہ

 مجھے سمجھ ہی نہیں آتی کہ میں کدھر کا رخ کروں"؟

"جدائی کی پہلی خواہش موت کے سوا کچھ نہیں"

"کوئی بھی دنیا کا کتنا ہی بیمار انسان کیوں نا ہو وہ موت نہیں مانگتا ،

مگر محبت میں بیمار انسان جدائی کے بعد موت کے سوا اور کچھ نہیں چاہتا"

کیا تڑپ تا عمر میرا مقدر بنے گی ؟

وہ اپنے کپڑے تبدیل کیے دبے پاؤں سے چلتے ہوئے باہر نکل گئی۔۔۔

چند ساعتوں بعد گھر سے کچھ دوری پر جا کر اس نے بائیک سٹارٹ کی اور کسی منزل کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔۔

ارے وفا بیٹا تم رات کے اس پہر؟؟؟؟

کیوں نانو جان آپ کو پسند نہیں آیا میرا یہاں آنا ؟؟؟؟

لو بھلا مجھے کیوں برا لگے گا ؟؟؟

اکیلی بڑھیا دیواروں سے سر پھوڑ کر تھک جاتی ہے ۔اچھا کرتی ہو جو میری تنہائی دور کرنے آجاتی ہو۔۔۔۔

کھانا کھایا ؟؟؟

نہیں۔۔۔۔۔

کھانا لگاتی ہوں کھا لو۔۔۔۔

نہیں آپ آرام کریں مجھے بھوک نہیں۔۔۔۔

وہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے چھت پر آئی۔۔۔۔۔

گھر کی بیک سائیڈ پر بنے ہوئے قبرستان میں سامنے ہی اس کی ماں زرین کی قبر صاف دکھائی دے رہی تھی۔

آپ نے اس دن مجھے وہاں آنے سے منع کیا تھا  دیکھ لیں میں نے آپ کی بات مان لی۔۔۔

نہیں آئی وہاں آپ کے پاس۔۔۔۔

But.......

I miss you mamma.....

اس نے موبائل آن کیا ۔۔۔۔

نا تو فیس بک پر اور نا ہی انسٹا پر کوئی نیو سٹوری لگی تھی دو دن سے۔۔۔۔۔

جانے کتنی بار وہ اس کی آئی ڈی کھول کر دیکھ چکی تھی۔۔۔۔

پتہ نہیں وہ کیسا ہو؟

سب ٹھیک تو ہو گا؟؟؟؟

شاید بزی ہو۔۔۔۔۔

یا پھر ؟؟؟؟

🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲

یس کم ان ۔

دروازے پر دستک کی آواز سن کر وہ اجازت دینے کے لیے بولے۔

وہ دونوں ہاتھوں میں کافی کے دو مگ لیے اندر آیا۔

کیا ہوا ڈیڈ؟؟؟

تھک گئے کیا؟

جو آفس سے آنے کے بعد روم سے باہر نہیں آئے۔۔۔

ہاں یار پتہ نہیں کیا مسلہ ہے کچھ دنوں سے ایسے ہی تھکاوٹ سی محسوس ہو رہی ہے۔

Your coffee......

اس نے ایک مگ ان کی طرف بڑھایا۔

تھینکس فار کافی!

شدید طلب تھی اس وقت اس کی۔

تم تو روز مجھے اپنے ہاتھ کی بنی ہوئی شاندار کافی پلا کر میری عادتیں بگاڑ رہے ہو۔

وہ ایک کافی کا ایک گھونٹ بھر کرمسکرا کہ بولے۔

نو نیڈ ٹو تھینکس ڈیڈ۔

مجھے بھی اس وقت کافی پینے کی عادت ہے تو کیوں نا مل کہ روز پی لی جائے۔۔۔۔

اس طرح ہم کچھ وقت بھی ساتھ گزار لیں گے۔۔۔۔دارم نے نہایت متانت سے جواب دیا۔

ہاں یہ تو ہے ۔۔۔۔

دونوں آپس میں ہلکی پھلکی آفس کی گفتگو کرتے رہے۔۔۔۔۔

نیلم رئیسانی ابھی تک پارٹی سے واپس نہیں لوٹی تھیں۔۔۔۔

دارم کچھ دیر بعد وہاں سے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔

🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲

گڈ مارننگ پاپا!

گڈ مارننگ!

کیا ہوا پاپا آج آپ آفس نہیں گئے؟؟؟

مجھے سرونٹس سے پتہ چلا کہ آپ گھر میں ہیں۔

ہممممم۔بس طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔دارم چلا گیا ہے آفس وہ سب سنبھال لے گا۔۔۔۔

اچھی بات ہے پاپا آپ کو بھی ریسٹ کی ضرورت ہے۔ایسے ہی کبھی کبھار تو چھٹی بنتی ہے ۔۔۔۔

وہ خوش دلی سے کہتی ہوئی ان کے قریب آکر بیڈ پر بیٹھی۔۔۔۔

پاپا آپ کو کچھ چاہیے؟؟؟؟

نہیں۔۔۔۔وہ نفی میں سر ہلا کر بولے

اگر کچھ کھانے کا من ہے تو مس پریا اپنے ہینڈسم پاپا کے لیے اپنے ہاتھوں سے بنا کر لائے گی۔

وہ مسرور انداز میں بولی۔

یہ آج اتنی خوشامدوں کا مطلب ؟؟؟

اتنے مکھن کیوں لگائے جا رہے ہیں؟؟؟

سب خیر تو ہےنا؟؟؟؟

وہ منہ کے زاویے بگاڑ کر روٹھے ہوئے انداز میں بولی ۔۔۔

ایسی کوئی بات نہیں ۔۔۔۔۔

چلو تم کہتی ہو تو مان لیتا ہوں۔

 نیلم جو ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ہوئی اپنی تیاری کے آخری مراحل میں تھی۔

ان باپ بیٹی کی نرم انداز میں گفتگو سن کر جلے ہوئے پیر کی بلی کے مانند پلٹ کر بولی۔۔۔۔

کرو اس منحوس کے ساتھ پیار سے بات بے وفا گھٹیا انسان

میں جو سب چھوڑ کر تمہارے ساتھ آئی میری اور میری بیٹی کی کوئی وقعت نہیں تمہاری نظروں ۔۔۔

ایک جھٹکے میں میری بیٹی کی جان لے ڈالی ۔۔۔

اور اس بات کرتے ہوئے تمہارے منہ سے پھول جھڑتے ہیں۔۔۔۔

تم نہایت ہی جھوٹے اور فریبی انسان ہو۔۔۔

اپنی پہلی بیوی اور محبت کو نہیں بھولے نا اب تک۔۔۔۔

وہ زہریلے انداز میں پھنکاری۔۔۔۔۔

تم گھر سے کس وقت جاؤ گی؟؟؟

تھوڑا سکون ملے گا۔۔۔۔۔

وہ اس کی ساری بات کو نظر انداز کرتے ہوئے بولے ۔۔۔۔۔

وہ اپنا کلچ اٹھائے ایک تنفر بھری نگاہ ان دونوں پر ڈالتی ہوئی باہر نکل گئی۔۔۔۔۔

بولو کیا کہہ رہی تھی تم؟

وہ نیلم کے باہر جاتے ہی بولے۔۔۔۔

ویسے پاپا سچ کہوں تو ایک فیور چاہیے آپ سے ۔۔۔۔۔بالاخر وہ مدعے کی بات پر آئی۔۔۔۔

ان کے لبوں پر مسکراہٹ بکھری اس کی بات پر۔۔۔۔

وہ پاپا دراصل نا۔۔۔۔۔وہ سر جھکائے ہوئے سوچ سوچ کر بولنے لگی۔۔۔۔

کیا بات ہے ؟؟؟بتا بھی دو ۔۔۔

وہ مجھے نا میتھس میں کچھ پرابلم ہے ۔۔

پیپرز بھی سر پر ہیں اور مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا کیا کروں؟

سال کے آخر میں تمہیں سمجھ نہیں آرہا سال بھر سے کیا کر رہی تھی؟

وہ سبجیکٹ رکھا ہی کیوں جس میں دلچسپی نہیں؟؟؟

پاپا مجھے میتھس پسند ہے مگر مجھے ہیلپ چاہیے کچھ چیزوں میں۔۔۔۔

اب مجھے اصل بات بتاؤ کہ بالآخر تم چاہتی کیا ہو؟

پاپا ہماری یونی میں ہمارے میتھس کے پروفیسر ہیں اگر وہ مجھے گھر آکر کچھ وقت دے دیں تو ۔۔۔۔۔۔۔

آپ پرنسپل سے بات کریں نا۔۔۔۔

وہ خود ہی انہیں ہمارے گھر بھیج دیں گے۔۔۔۔

اچھا ملا کردو پرنسپل کا نمبر۔۔۔۔۔میرا موبائل چارج نہیں۔

ایک منٹ پاپا ۔۔۔۔

ہمارے پراسپیکٹس پر لکھا ہوا تھا۔۔۔۔

اس نے نظر دوڑائی تو نمبر مل گیا۔۔۔۔۔

پھر نمبر ملا کر موبائل سلیمان رئیسانی کی طرف بڑھایا۔۔۔۔۔

🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲

بات سنو!!!!

سب سرونٹس اپنا کام نبٹائے واپس اپنے سرونٹ کوارٹرز میں جا رہے تھے وہ جو لان میں کھڑا کسی سوچ میں محو تھا کچھ یاد آنے پر انہیں میں سے ایک کو روک کر کہا

جی صاحب!!!!

ایک چالیس کے لگ بھگ عورت نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا اور ادب سے سر جھکائے ہوئے کہا۔۔۔۔۔

ادھر آو۔۔۔۔

وہ اس کے حکم پر چلتی ہوئی اس کے تھوڑا دور آکر رکی۔۔۔۔۔

یہ تمہاری چھوٹی بی۔بی کمرے سے باہر نہیں نکلتی کیا؟؟؟

وفا بی۔بی؟؟؟

ہمممممم۔۔

نہیں صاب وہ بہت کم باہر آتی ہیں ۔بس بڑی بی بی پریا جی ہی ان کے کمرے میں چلی جاتی ہیں کبھی کبھار۔۔۔۔

وہ کالج یا یونیورسٹی وغیرہ میرا مطلب پڑھنے نہیں جاتی؟؟؟؟

نہیں صاب وہ گھر میں ہی رہتی ہیں اور بس پیپرز دینے جاتی ہیں۔

جب سے میں یہاں کام کرتی ہوں انہیں کبھی کسی سے بات کرتے نہیں دیکھا۔۔۔۔

اس نے اپنے تئیں اسے وفادار ملازموں کی طرح اصلی معلومات فراہم کیں۔

ہممممم۔۔۔۔

وہ لان میں موجود چئیر پر بیٹھا۔۔۔۔

وہ کھانا کھانے بھی باہر نہیں آتی؟؟؟؟

نہیں صاب ۔۔۔

پریا بی بی کے پاس کب وقت ہو تب ہی ان کے کمرے میں کھانا پہنچا دیتی ہیں ۔

ورنہ انہیں تو کھانے پینے کا کئی کئی دن تک کوئی ہوش نہیں رہتا۔

تبھی تو صحت سے گئی گزری ہیں۔

ہوا بھی چلے تو اڑ جائیں۔۔۔۔وہ اس کا مذاق اڑا کر بولی۔۔۔۔

تم لوگوں کو کیا یہاں جھک مارنے کی تنخواہ ملتی ہے۔

اس کی بات سن کر طیش میں آتے ہوئے وہ تلخ لہجے میں بولا۔۔۔۔

شرم نہیں آتی جن کا کھاتے ہو انہیں کا مذاق بناتے ہوئے۔۔۔۔۔

وہ جو اس کو خوش کرنے کے لیے ساری باتیں بتا رہی تھی۔صاب سے کھری کھری سن کر برا سا منہ بنا کر رہ گئی۔۔۔۔

آئندہ مجھے شکایت نا ملے ،تینوں وقت کا کھانا اس کے روم میں پہنچ جانا چاہیے۔۔۔۔

 Got it........

آئی بات سمجھ میں ؟

جی صاب!!!

وہ سر جھکائے ہوئے واپس پلٹ گئی۔۔۔۔۔

🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲

کیا ہم اندر آسکتے ہیں؟؟؟

پریا نے ہلکا سا دورازہ کھول کر سر اندر دئیے پوچھا۔۔۔۔

وہ جو ہاتھ میں موبائل لیے لیٹی ہوئی تھی پریا کو دیکھ کر سیدھی ہو کر بیٹھی۔۔۔

پریا کے پیچھے کسی اجنبی شخص کو دیکھ کر فوراً پاس پڑا ہوا دوپٹہ شانوں کے گرد پھیلایا۔۔۔۔

Hello!

How are you?

دارم کی بھاری گھمبیر آواز سن کر اس ڈر کے مارے آنکھیں ہی نا اٹھائیں۔

وفا یہ دارم بھائی ہیں تم نے شاید انہیں پہچانا نہیں۔۔۔

پریا نے اس کا تعارف کروایا۔۔۔۔

مگر وہ خاموشی سے ہاتھ میں پکڑے ہوئے موبائل کو زور سے مٹھی میں دبا رہی تھی۔

تم تو ملی نہیں میں نے سوچا خود ہی آکر مل لوں تم سے...ایک بار پھر سے وہی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔۔۔۔۔

وہ بنا کوئی جواب دئیے بھاگ کر واش روم میں بند ہوگئی۔۔۔۔

پریا اپنی بہن کی حرکت پر تاسف سے سر ہلا کر رہ گئی۔۔۔۔

سوری دارم بھائی ۔۔۔آپ پلیز برا مت منانا یہ ایسی ہی ہے ۔۔۔۔

It's ok.......

جب کافی دیر تک وہ واش روم  سے باہر نہ آئی تو وہ دونوں وہاں سے اٹھ کر چلے گئے۔۔۔

🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲

آؤ بیٹھو قلب۔۔۔۔پرنسپل نے اسے اپنی سامنے رکھی ہوئی چئیر پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔

وہ چئیر کو تھوڑا پیچھے کھینچ کر اس پر بیٹھا۔۔۔۔

قلب مجھے امید ہے کہ اگر میں تمہیں کچھ کہوں تو تم ضرور مانو گے۔۔۔

میں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں سر آپ بات بتائیں؟

ہمارے ایک بہت اچھے جاننے والے ہیں۔ہر سال وہ ہماری یونیورسٹی کے لیے لاکھوں کا فنڈ دیتے ہیں۔

ان کی زرا سی بھی ناراضگی مول لے کر ہم ان سے بگاڑ نہیں سکتے۔۔۔۔

سر کُھل کر کہیں کیا بات ہے؟

تمہاری ہی ایک سٹوڈنٹ ان کی بیٹی ہے اسے اپنا کچھ وقت دے دو ان کے گھر جاکر پڑھائی میں اس کی مدد کرنی ہے۔۔۔۔۔

سر میں اسے یونی میں ہی وقت دے دوں گا۔

مگر میں یوں کسی کے گھر نہیں جا سکتا ۔۔۔

پلیز سر میری بھی بات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

قلب پلیز ۔۔۔۔۔انہوں نے خاص تاکید کی ہے کہ تم ان کے گھر جا کر اسے کچھ وقت دو وہ اپنی نظروں کے سامنے بچی کو پڑھانا چاہتے ہیں ۔یونی میں اسے دیر ہو جائے گی۔

بے شک تم زیادہ وقت نہ دینا اپنے حساب سے دینا جتنا تمہیں مناسب لگے۔

وہ ان کی بات پر محض سر ہلا کر رہ گیا۔۔۔۔۔

🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲

دو دن ہو چکے تھے ایک بار بھی اس کی ایک بھی جھلک دکھائی نا دی۔

صبح کا آفس گیا وہ شام کو واپس آتا۔

آکر کچھ وقت سلیمان رئیسانی کے ساتھ گزارتا۔۔۔۔

پھر اپنے روم میں چلا جاتا۔۔۔۔۔

بستر پر لیٹا ہوا تھا نا تو کچھ پینے کا من کر رہا تھا اور نا کسی اور چیز کا۔

آنکھیں بند کرتا تو وہی گلابی آنکھیں چھم سے اس کی آنکھوں کے پردوں پر لہراتی۔۔۔

آنکھیں کھولتا بھی تو ہر طرف وہی دکھائی دینے لگی تھی۔۔۔۔۔

ایک جھلک دکھلا کر کہاں غائب ہو گئی ہو؟؟؟

وہ اس کے خیال سے مخاطب ہوا۔۔۔۔۔

نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔

وہ گہرا سانس لیتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھا اور بالوں کو انگلیوں کی مدد سے سیٹ کرتا ہوا پیچھے جھٹکا دے کر سیٹ کیا ۔ 

ہولے ہولے قدم اٹھاتا ہوا وہ اسی پری پیکر کے کمرے کے دروازے تک آیا۔۔۔۔

ہلکا سا ٹچ کیا تو دروازہ کھلا۔۔۔ شاید وہ لاک کرنا بھول چکی تھی جو زرا سا چھونے سے کھل گیا تھا۔۔۔

نائٹ بلب کی مدھم سی روشنی میں بدن پر کمفرٹر اوڑھے دنیا و مافیہا سے لاپرواہ نیند کی وادیوں میں پوری طرح گم تھی۔۔۔۔

صرف چہرہ ہی کمفرٹر سے باہر تھا وہ ترچھی ہو کر ایسے لیٹی ہوئی تھی کہ اس کا سر بیڈ سے نیچے ڈھلک رہا تھا کھلے ہیزل بال بھی فرش کو سلامی پیش کر رہے تھے،

ایک ہاتھ میں موبائل کو پکڑے ہوئے پوری طرح بے سدھ تھی۔۔۔۔۔

اس نے ہولے سے اس کے ہاتھ سے موبائل پکڑ کر ایک طرف رکھا۔۔۔۔۔اور اس کے سر کہ نیچے ہاتھ ڈال کر اسے تکیے پر رکھا۔۔۔پھروہیں اس کے پاس بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔

ایسا کرنے سے وہ ہلکا سا کسمسائی اور سیدھی ہوئی ۔۔۔۔مگر پھر سے گہری نیند میں لوٹ گئی۔۔۔۔

بیضوی سفید رنگت کا چہرہ،ستواں ناک،باریک گلابی پنکھڑیوں سےلب۔مڑی ہوئی مژگان،صراحی دار گردن پر بالکل عین شہ رگ پر بھورا سا تل ،

اس نے اپنی نظروں کا رخ تبدیل کیا۔۔۔۔

مگر من بار بار بہک رہا تھا،اتنے سال باہر گزارے مگر کبھی ان لڑکیوں پر توجہ نہ دی جو اس کی جھلک پانے کو ترستی تھیں اور پکے ہوئے آم کی طرح ہمہ وقت اس کی جھولی میں گرنے کو تیار رہتی تھیں۔۔۔۔

مگر اس میں جانے کیا کشش تھی کہ وہ جتنا اپنے آپ کو روک رہا تھا۔۔۔۔دل اتنا ہی سرکش ہوئے اس کی اوڑھ کھنچا چلا جا رہا تھا۔۔۔۔۔

اس کے چہرے پر آئی ہیزل بالوں کی لٹ کو انگلی پر گھما کر چھوڑا۔۔۔۔۔

جو اپنی مالکن کی طرح مدھوشی میں لڑھک کر تکیے پر گری۔۔۔۔

You are the light,your are the night.

You are the colour of my blood.

You are the cure,you are the pain.

You are the only thing ,I wanna touch.

Never knew that ,it could mean so much.so much.

So love me like you do.

So love you like you do....

Touch me like you do....

Touch me like you do....

Only you can set my heart on fire 🔥

وہ سرگوشی نما آواز میں بولا۔۔۔۔

دارم نے اس کی شہ رگ پر موجود تل پر اپنے لب رکھے ۔

اس کے قرب سے اٹھتی ہوئی دلفریب مہک اسے جیسےآکٹوپس میں جکڑے ہوئے تھی۔۔۔۔

دل اور بھی پانے کو مچلا ۔۔۔۔

مگر اس نے فی الحال اپنے اندر سلگتے ہوئے جذبات کو تھپک کر سلانے میں ہی بہتری جانی۔۔۔۔اور وہاں سے جانے کے لیے اٹھا۔۔۔

باہر نکلنے سے پہلے پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔اور کہا

U are mine .........

My doll........

جلد ہی تم میری پناہوں میں ہو گی۔۔۔۔

یہ میرا وعدہ ہے خود سے۔۔۔۔۔۔

وہ ایک آخری نرم سی نظر اس سوئے ہوئے وجود پر ڈال کر باہر نکل گیا۔۔۔۔۔

یہاں پر رکھ دو۔۔۔۔۔

میڈ جو چائے لے کر آئی تھی اسے پریا نے کہا کہ سامنے ٹیبل پر رکھ دو۔

No Thanks......

آپ اسے واپس لے جائیے۔۔۔۔

میں یہاں خاطر تواضع کروانے نہیں آیا پڑھانے آیا ہوں ۔۔۔۔

قلب نے میڈ سے کہہ کر پریا کہ طرف دیکھ کر سرد لہجے میں کہا۔

وہ دونوں اس وقت لاؤنج میں ہی موجود تھے۔

سلیمان رئیسانی کے کہنے پر کہ وہ سب کے سامنے بیٹھ کر پڑھے گی روم میں نہیں ۔

اسی لیے وہ دونوں وہیں موجود تھے۔

قلب پوری ایمانداری اور جانفشانی سے بنا اپنے وقت کا ضیاع کیے اسے پڑھا رہا تھا۔۔۔۔

ایک کوئسچن بار بار سمجھایا ۔۔۔۔مگر آدھ گھنٹہ ہونے کو تھا اسے سمجھ ہی نہیں آرہی تھی یا پھر وہ سمجھنا ہی نہیں چاہتی تھی۔

What is your problem????

اسی کو مختلف طریقوں سے سمجھا چکا ہوں دھیان کدھر ہے تمہارا؟؟؟؟

بالآخر وہ تنگ آکر جھنجھلا کر بولا۔۔۔۔

سوری سر بس لاسٹ بار سمجھا دیجئے پکا اس بار زیادہ دھیان سے سمجھنے کی کوشش کروں گی۔۔۔

اسے یہ سوال پہلی بار میں ہی سمجھ آچکا تھا مگر وہ جان بوجھ کر اسے زچ کرنے پر تلی ہوئی تھی۔

اس نے پھر سے ایک بار اسے سمجھانا شروع کیا۔۔۔۔

🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲

Your coffee dad.....

وہ ان کے لیے روزانہ کی طرح کافی لیے کمرے میں آیا تو جو نیم دراز سے تھے ۔اٹھنے کی کوشش میں تھے۔

کہ نڈھال وجود سے وہیں ڈھ گئے۔۔۔۔

دارم ہمارے فیملی ڈاکٹر کو کال کرو میری طبیعت کچھ دنوں سے ٹھیک نہیں۔۔۔آج تو زیادہ خراب لگ رہی ہے۔۔۔

انہوں نے اپنی پیشانی کو مسلتے ہوئے کہا۔۔۔۔

جی ڈیڈ ۔۔۔۔

مگر ڈیڈ میرے پاس تو ان کا نمبر نہیں ۔

آپ کے پاس ہے تو دے دیں۔۔۔۔

یہ میرا فون ہے اس میں سے لے کر بات کرو ۔۔۔

انہوں نے لڑکھڑاتے ہوئے ہاتھوں سے اس کی طرف اپنا فون بڑھایا۔۔۔۔

ابھی وہ پکڑنے ہی لگا تھا کہ اس کے ہاتھ میں موبائل آنے کی بجائے زمین پر گرا اور گرتے ہی اس کی سکرین ٹوٹ گئی۔۔۔۔

اوہ نو۔۔۔۔۔

سوری ڈیڈ یہ تو خراب ہو گیا۔۔۔۔

پر آپ فکر مت کریں میرے ایک بہت ہی اچھے جاننے والے ایک ڈاکٹر ہیں ابھی پچھلے دنوں ہی میری ان سے ملاقات ہوئی ہے ۔

میں انہیں ہی نا کال کر کہ بلا لوں ؟؟؟

کیا کہتے ڈیڈ؟؟؟

ٹھیک ہے بلا لو کسی کو بھی ۔۔۔۔مگر زرا جلدی مجھے بہت گھبراہٹ محسوس ہو رہی ہے۔۔۔۔

ان کے جسم سے ٹھنڈے پسینے چھوٹنے لگے۔۔۔۔

نیلم کہاں ہے ؟؟؟

ڈیڈ پتہ نہیں مام شاید ابھی تک واپس نہیں آئی ۔۔۔۔

دارم نے ڈاکٹر کو کال کی تو کچھ ہی دیر بعد وہ رئیسانی مینشن میں موجود تھے۔۔۔۔

سارا چیک اپ کرنے کے بعد انہوں نے ادویات لکھ کر دارم کو دیں ۔۔۔

چند ایک ہدایات دیتے ہوئے وہ وہاں سے چلے گئے۔۔۔۔

میڈیسن لینے کے بعد انہیں تھوڑا سکون ملا تو وہ وہیں سو گئے۔۔۔۔

دارم ان کے روم کا دروازہ بند کرتے ہوئے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔

🎲🎲🎲🎲🎲🎲

وفا کو کھانا دیا تھا؟؟؟

وہاں سے باہر نکلتے ہی اس نے میڈ سے پوچھا 

م۔۔۔۔میں لے کر گئی تھی صاب جی۔۔۔۔

مگر انہوں نے کہا کہ انہیں بھوک نہیں۔۔۔۔

جاؤ جا کر کھانا لاؤ۔۔۔۔

جی صاب جی۔۔۔۔

وہ تیز تیز قدموں سے چلتی ہوئی کچن کی طرف گئی۔۔۔۔

کچھ منٹوں میں ٹرے میں کھانا سجائے ہوئے واپس آئی۔۔۔

لاو ادھر دو مجھے۔۔۔

دارم نے اس کے ہاتھ سے کھانے کی ٹرے پکڑی ۔۔۔۔۔

تم اب جا سکتی ہو یہاں سے۔۔۔

اسے وہیں بت بنے کھڑے دیکھا تو دارم نے کہا۔۔۔۔

جی جی۔۔۔کہتے ہوئے بھاگنے کے انداز میں منٹوں میں وہاں سے غائب ہوئی۔۔۔۔

اس نے دروازے پر دستک دی۔۔۔۔

مگر جواب ندارد۔۔۔۔

دروازے کو کھولنا چاہا تو نہیں کھلا ۔۔۔

شاید اندر سے لاکڈ تھا۔۔۔۔

وہ وہاں سے چلتا ہوا باہر آیا اور کیز سٹینڈ سے اس روم کی چابی لے کر واپس آیا ایک ہاتھ میں ٹرے تھا تو دوسرے سے اس نے لاک کھولا۔۔۔۔

وہ جو کبرڈ میں سردئیے جانے کیا تلاشنے کی کوشش میں تھی ۔۔۔۔

اپنے روم میں دارم کو اچانک دیکھ کر وہ وہیں کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔۔۔

میں نے تو ڈور لاک کیا تھا پھر یہ کیسے؟؟؟؟

وہ جو جینز اور شرٹ پہنے ہوئے رات گئے باہر جانے کی تیاری میں تھی ،

اسے یوں سامنے دیکھ خوفزدہ ہوئی۔۔۔۔

ہڑبڑاہٹ میں کبرڈ سے دوپٹہ ڈھونڈھنے کی کوشش کی ،مگر دوپٹے کی بجائے سارے الجھے ہوئے کپڑے جنہیں گولے بنا کر کبرڈ میں بھرا گیا تھا سب زمین پر گرے۔۔۔۔

وہ ٹرے رکھ کر اس کے پاس آیا۔۔۔۔

اس کے سراپے پر بھرپور نظر ڈالی۔۔۔

وہ واقعی اس کے سامنے بالکل نازک سی گڑیا کے مانند لگی۔۔۔۔

کہاں وہ چھ فٹ کو چھوتا ہوا کسرتی بدن لیے اور کہاں وہ دھان پان سی جو بمشکل اس کے سینے تک پہنچ رہی تھی۔۔۔۔

وہ جوں جوں اس کے قریب آرہا تھا وہ توں توں الٹے قدم لیتے ہوئے پیچھے کو جا رہی تھی۔۔۔

بڑی بڑی آنکھیں خوف زدہ تھیں۔۔۔۔

وہ سراسیمہ سی دیوار کے ساتھ لگی۔۔۔۔

اس نے بھی آج شاید اس کے ضبط کا امتحان لینا تھا جو دونوں کے درمیان موجود دوری کو ختم کیے اس کے دونوں اطراف سے ہاتھ گزارتا ہوا دیوار پر رکھے ۔۔۔۔

اس کی پرحدت سانسیں خود پر محسوس کرتے ہوئے وفا نے اپنی آنکھیں زور سے میچیں۔۔۔۔۔

وفا کی لرزتی ہوئی خمدار پلکیں ،چہرے پر چھایا خوف دارم کو اور بھی مزہ دینے لگا۔۔۔

اس نے اس کے گال پر ہاتھ رکھنے کی کوشش ہی کی تھی کہ وہ ہوش کھوتی ہوئی لہرا کر زمین بوس ہوئی۔۔۔۔

دارم کا ہاتھ وہیں رہ گیا اور حیرانی سے اس چڑیا جیسا دل رکھنے والی کو دیکھنے لگا۔۔۔۔

کیا ہو گا اس لڑکی کا مستقبل ؟؟؟؟

Tough task Daram Khanzada....

اس نے خودی سے کہا۔۔۔۔

اور اسے بانہوں میں بھر کر بستر پر لیٹا دیا۔۔۔

پھولوں سے بھی کم وزن ہے۔۔۔

پھر کچھ کھائے پیئے بنا ہی ۔۔۔۔۔

اس نے تاسف سے سر ہلایا۔۔۔۔

دارم نے ٹرے میں موجود پانی کا گلاس اٹھایا اور اس میں سے کچھ پانی ہاتھ میں بھر کر اس کے چہرے پر چھینٹے مارے۔۔۔۔

وہ ہوش میں آئی تو اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر کر اسے صاف کرتی ہوئی اٹھ کر بیٹھی۔۔۔۔

کھانا کھا لو۔۔۔

دارم نے کھانے کی ٹرے اس کے سامنے رکھی۔۔۔

مجھے بھوک نہیں۔۔۔۔

میں نے کہا ہے کہ کھانا کھاو؟؟؟

اس بار اس نے زرا تیز اور سرد لہجے میں کہا۔

مجھے نہیں کھانا وہ اپنی بات پر بضد ہوئی۔۔۔

مجھے کھلانا آتا ہے ،مجھے سختی پر مجبور نہ کرو۔۔۔۔

دارم نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔۔۔

تم ہوتے کون ہو مجھ پر دھونس جمانے والے؟

نہیں کھانا تو نہیں کھانا۔۔۔۔

وہ بستر سے نیچے اتری اور ایک ہاتھ مار کر ٹرے نیچے پھینکا۔۔۔۔

اب کھلا کر دکھاؤ۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ دارم اس کی حرکت پر کوئی سخت قدم اٹھاتا۔۔۔۔

وہ بھاگتی ہوئی واش روم میں بند ہوگئی۔۔۔۔

وفا دروازہ کھولو۔۔۔۔

وہ بھی اس کے پیچھے لپکا۔۔۔اور دروازہ بجایا۔۔۔۔

اندر سے شاور سے پانی گرنے کی آواز آرہی تھی۔۔۔۔

اس نے کافی دیر دروازہ پیٹا مگر اس نے نہیں کھولنا تھا تو اس نے نہیں کھولا۔۔۔۔

وفا میڈم آپ کا علاج تو کرنا پڑے گا اب ۔۔۔۔

وہ دروازے کو ٹھوکر مارتے ہوئے وہاں سے غصے میں باہر نکلا۔۔۔۔

🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲

تم کیا سارا سارا دن گھر پر پڑے رہتے ہو ۔۔۔

نیلم نے سلمیان رئیسانی کو بستر پر پڑے ہوئے دیکھا تو بیزاری سے کہا۔۔۔۔

اور اپنے بازوؤں پر کریم سے مساج کرنے لگی۔۔۔

میں تو کئی دنوں سے بستر پر پڑا ہوں تمہیں تو کوئی خیال نہیں میرا ۔۔۔

میں جیوں یا مروں تمہیں کیا ۔۔۔

تم کرو دن رات اپنی پارٹیز اور نبھاو دوستیاں۔۔۔۔

اتنا نہیں کہ شوہر کا حال ہی پوچھ لوں ۔۔۔

دن رات بستر توڑ رہے ہو ۔

آرام ہی تو کر رہے ہو میں کیا پوچھوں حال۔

مہینہ ہونے کو آیا ہے آفس کا دھیان نہیں ۔۔۔

جو کمایا ہے وہ سب لوٹ کر لے جائیں گے لوگ ۔۔۔تم پڑے رہنا یونہی بستر پر۔۔۔۔

لوگ نہیں تمہارا بیٹا ہی سنبھال رہا ہے سارا بزنس میری غیر موجودگی میں تو کیا اسے کہہ رہی ہو کہ وہ لوٹ لے گا مجھے؟؟؟؟

ان کی بات سن کر وہ لاجواب ہوئی اور کوئی بھی جواب دئیے بغیر نائٹ بلب بند کرتے ہوئے اپنی جگہ پر آکر لیٹ گئی۔۔۔۔

پانی پکڑا دو مجھے رات والی میڈیسن لینی تھی ابھی۔۔۔۔

انہوں نے سائیڈ لیمپ آن کر کہ کہا۔۔۔

خود ہی پکڑ لو میں ملازم نہیں تمہاری۔۔۔

وہ ٹکا سا جواب دے کر رخ موڑ گئی۔۔۔۔

انہوں نے خودی پانی سائیڈ ٹیبل پر موجود جگ سے گلاس میں انڈیلا اور میڈیسن لے لیں۔۔۔

🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲

وہ جو صبح ہی اپنی نانی اماں کے گھر آئی تھی سارا دن وہاں گزارنے کے بعدرات کو وہیں اپنے کمرے میں سو رہی تھی ۔۔۔

اسے نیند نہیں آتی تھی اسی لیے وہ سونے کے لیے نیند کی گولیاں لیتی تھی۔

پھر اسے چند گھنٹے خود کا بھی ہوش نا رہتا۔۔۔

اس کی یاد سے چند پل رہائی پانے کے لیے وہ ان نیند آور ادویات کا استعمال کرتی تھی۔

 اس نےہوش میں آتے ہی بستر کی بجائے  کچھ عجیب سا محسوس کیا۔۔۔

پھراپنی تمام تر ہمت مجتمع کرتے ہوئے اس نے مشکل سے اپنی بند آنکھیں کھولنے کی کوشش کی ۔۔۔ کچھ پل لگے تھے اسے  ہوش میں آنے میں آنکھوں کے سامنے چھایا اندھیرا چھٹنے لگا تو حقیقت کی دنیا میں قدم رکھا۔۔۔

  سب یاد آتے ہی وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھی تھی۔۔۔ اسنے ہراساں نگاہوں سے ارد گرد دیکھا ،وہ اس کی نانی اماں کا گھر تو نہیں تھا جہاں وہ سوئی تھی۔

وہ تو ایک سنسان جگہ تھی جس میں ایک خستہ ہال اور سیلن زردہ دیواروں کے حامل  کمرے میں اینٹوں سے بنے ہوئے فرش  پر موجود تھی،پاس پرانی ٹوٹی ہوئی چار پائی جس کے بان کی کچھ لڑیاں لٹک کر اس کی ٹوٹی پھوٹی حالت کی گواہی دے رہی تھی کے ۔ 

وہ خوفزدہ نگاہوں سے کسی سہمی ہوئی ہرنی کی مانند  اردگرد دیکھ رہی تھی جب اپنے پیچھے سے سنائی دینے والے جاندار قہقے کی آواز پر اسنے جھٹکے سے پلٹ  کر دیکھا۔۔۔

 آپ؟؟؟؟؟؟۔۔ سامنے موجود  شخص کو دیکھتے  اسکی آنکھیں حیرت سے وا  ہوئی تھیں۔۔۔۔۔

ہاں میں۔۔۔ کیسا محسوس ہو رہا ہے تمہیں میرے ساتھ یوں تنہائی میں ۔

مگر بھا۔۔۔۔۔۔

اس نے کچھ بولنے کی کوشش کی۔۔۔۔۔

خبردار !!!!؟؟بجلی کی تیزی سے اس کی کرخت آواز نے اسے مزید بولنے سے روکتے ہوئے انگلی سے وارن کیا۔۔۔۔۔

کوئی بھی الٹا سیدھا لفظ استعمال کیا تو مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا۔۔۔۔۔

لہجے کی تپش کو لفظوں کی صورت اگلتے وہ کو جلا کر بھسم کر دینے کے در پر تھا۔۔۔ 

جو آپ کر رہے ہیں آپ سے برا کوئی ہے بھی نہیں ۔۔۔میں نے آپ عزت بھرا مقام دیا۔۔۔۔

اور آپ نے میرے احترام کی دھجیاں بکھیر دیں۔۔۔۔

وہ برق رفتاری سے چلتے اسکے قریب پہنچا ۔

اور اس کا نازک ہاتھ گرفت میں لیتے بولا۔۔۔

مجھے عزت نہیں پیار چاہیے۔۔۔۔

اس کی طلب و بیہودہ خواہش سن کر تو مانو اس کا تن بدن جھلسنے لگا۔۔۔۔

شرم نہیں آتی میرے بہ۔۔۔۔۔

اس نے اس کے جبڑوں کو اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے جکڑتے ہوئے اسے جھٹکا دیا۔۔۔۔

وہ سر کے بل فرش پر گری۔۔۔۔۔

فرش پر خون کی دھاری نما بہنے لگی۔۔

وہ اپنے اشتعال انگیزی کو قابو کرتا گھٹنوں کے بل نیچے گرا۔

اور حد درجہ جنونیت سے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں بھر کر چیخا ۔۔۔۔۔

میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔۔۔

چند لمحوں کے بعد اس بے جان ہوتے ہوئے وجود نے اپنی سیاہ رنگ آنکھیں وا کیں ۔۔۔۔تو اس کی پھر سے بند ہوتیں ہوئیں آنکھوں نے آخری منظر میں اس کے چہرے پر چھائی وحشت دیکھی۔۔۔۔۔

مگر من میں تو کسی اور کا راج تھا۔

اسی شہزادے کی من پسند شبیہہ اس کی آنکھوں کے سامنے لہرائی تو اس کے لب اپنے آپ مسکراہٹ میں ڈھلے۔۔۔۔۔

دل میں سکون سا سرایت کرنے لگا۔۔۔۔مگر کانوں میں کسی کی مانوس سی آواز گونج رہی تھی ۔۔۔

تمہیں میرا ہونا ہی ہو گا ۔۔۔۔

تمہیں میرا ہونا ہی ہو گا۔۔۔۔۔۔

ہاسپٹل کا سارا عملہ اس کے طوفان برپا کردینے پر ایک پاؤں پر کھڑا تھا ۔۔۔

اس نے ہاسپٹل میں آکر ایسا طوفان مچایا تھا کہ سب وفا کی طرف متوجہ تھے۔۔۔

اسے بس سر پر چوٹ آئی تھی تین سٹیچز لگے تھے۔

مگر ابھی تک وہ ہوش میں نہیں آئی تھی۔

ڈاکٹر یہ آنکھیں کب کھولے گی؟

دارم خانزادہ نے بے چینی سے ڈاکٹر کی طرف دیکھ کر ان سے پوچھا۔۔۔

سر پلیز ڈونٹ وری۔۔۔۔۔

انہیں انجیکشن لگایا ہے جس کی وجہ سے انہیں ہوش میں آنے میں کچھ وقت لگ جائے گا۔

چوٹ زیادہ گہری نہیں فکر کی کوئی بات نہیں ۔۔۔

کیا میں اسے گھر لے جا سکتا ہوں ؟؟؟

جی جی بالکل اب یہ ٹھیک ہیں ۔آپ جب چاہیں انہیں گھر لے جا سکتے ہیں ۔

ہممممم! ٹھیک ہے۔

ڈاکٹر اپنے پیشہ ورانہ انداز میں کہتے ہوئے وہاں سے چلے گئے تو اس نے سکون بھرا سانس لیا۔۔۔

شکر ہے تم ٹھیک ہو۔۔۔۔

وہ اس کے بے ہوش وجود کو بانہوں میں بھرے جیسے لایا تھا ویسے ہی اسے اٹھائے واپس گاڑی تک لایا ۔۔۔۔

ابھی کچھ دیر پہلے ہی فجر کی اذان ہوئی تھی۔۔۔

اب سورج کی کرنیں بادلوں کی اوٹ سے جھانکنے لگیں تھیں ،

وہ تیز ڈرائیونگ کرتے ہوئے گھر آیا تاکہ کسی کے بھی اٹھنے سے پہلے وہ اسے کمرے میں پہنچا دے۔۔۔۔۔

گھر میں چاروں طرف خاموشی تھی۔

سب اپنے اپنے کمروں میں تھے اور ملازم بھی سات بجے تک آتے تھے۔

اسی لیے وہ دبے پاؤں سے چلتے ہوئے وفا کو اس کے روم میں لے آیا اور آہستگی سے اسے بستر پر لٹانے لگا

دارم کا ایک ہاتھ اس کے سر کے نیچے تھا۔۔۔

اسے لٹاتے ہوئے اس نے بے حد نرمی برتی۔۔۔

مائی لٹل ڈول ۔۔۔۔

وہ اس کے قریب کھڑا اس کے گال کو نرمی سے چھو کر بولا۔۔۔۔

چند ہی گھنٹوں میں اس کے سفید چہرے پر زردیاں گھل گئیں تھیں۔۔۔۔

You don't know.....

You are so special for me.....

ایسا مت کرو یار اب آنکھیں کھول بھی دو ۔۔۔۔

وہ منت بھرے انداز میں بولا۔۔۔۔

Really Sorry ....

My Doll......

مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ تم اتنی ڈرپوک ہو۔۔۔

میں نے تو سوچا تھا تمہیں تھوڑا سا ڈرا دھمکا کر اپنے لیے راضی کرلوں گا۔۔۔۔

مگر میں کیا کروں ؟تمہاری ہی غلطی ہے میری بات سنتی ہی نہیں ۔۔۔۔تو مجھے بھی غصہ آگیا۔

پلیز مجھے غصہ مت دلایا کرو نہ یار۔۔۔۔۔

وہ اس کی پلکوں کو اپنی پوروں سے چھو کر محسوس کرتا ہوا محبت بھرے لہجے میں بولا۔۔۔۔

🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲

دن اپنے معمول کے مطابق اپنی رفتار سے گزر رہے تھے۔

اس واقعے کے بعد وفا نے بالکل بھی اپنے کمرے سے نکلنا چھوڑ دیا تھا ۔

دارم بھی صبح کا گیا رات گئے آفس سے آتا ۔۔۔

سلیمان رئیسانی کی طبیعت سنبھل ہی نہیں رہی تھی ۔۔۔۔

کچھ دیر ہی ہوش میں آتے میڈیسن لیتے ہی چند گھنٹوں میں پھر سے نیند میں لوٹ جاتے 

نیلم نے خود کو اپنی این جی اوز کے کاموں میں مصروف کر لیا۔

نا گھر کی اور نا سلیمان کی فکر ۔۔۔۔

وہ ازل سے ہی ایسی تھی لاپرواہ خود کی ذات سے محبت کرنے والی۔۔۔

بیٹی کی موت کا صدمہ ہوا تو تھا مگر وہ جلد ہی خود کو اس ٹراما سے نکال کر آگے بڑھ چکی تھی ۔۔۔۔صحیح کہتے ہیں وقت بڑے بڑے زخموں کو مندمل کر دیتا ہے۔

کسی کے چلے جانے سے زندگی نہیں رکتی ،کچھ وقت کے لیے لوگ  روتے دھوتے ہیں مگر پھر وہ سب بھلائے زندگی کی رنگینیوں میں گم ہو جاتے ہیں ۔

قلب روز اپنے وقت پر آتا اور پریا کو پڑھا کر چلا جاتا۔۔۔۔

پریا کے پیپرز ہونے والے تھے اسی لیے وہ یونی کے بعد اپنی پڑھائی میں بزی رہتی کبھی دوستوں کے ساتھ کمبائین سٹڈی کے لیے بھی چلی جاتی ایسے میں وہ فی الوقت وفا کو مکمل طور پر بھول چکی تھی۔۔۔۔

🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲

مسسز نیلم رئیسانی آپ نے یہ پینڈٹ کہاں سے لیا ؟؟؟؟

اوہ یہ ۔۔۔۔

وہ اپنی گردن میں موجود بیش قیمتی پینڈٹ پر ہاتھ رکھ کر ادا سے بولی۔۔۔۔

یہ تو سلیمان نے مجھے نیو یارک سے لے کر دیا تھا ۔۔۔

لاسٹ ائیر ہم وہاں وزٹ پر گئے تھے تو وہاں سے خریدا تھا۔۔۔۔

اس میں جو ڈائمنڈز لگے ہوئے ہیں نا وہ بہت قیمتی اور خاص قسم کے ہیں۔۔۔۔

مسسز آفندی آپ نے تو کچھ لیا ہی نہیں۔۔۔۔

ٹیبل پر موجود انواع و اقسام کی ریفریشمنٹس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ بولی۔۔۔۔

جی جی لیتی ہوں ۔۔۔

یہ نگٹس تو بہت ہی ٹیسٹی ہیں۔وہ ایک بائیٹ لیتے ہوئے بولی۔۔۔

آج نیلم رئیسانی مینشن میں ہی موجود تھیں۔۔۔

ان کی سوسائٹی کی چند دوستیں وہاں آئیں ہوئیں تھیں۔۔۔

کیا یار نیلم بالکل بھی مزہ نہیں آرہا کیوں نا کارڈز کھیلیں؟؟؟

کہا تو ٹھیک ہے۔مسز درانی نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔۔۔۔

لو یہ کونسی بڑی بات ہے ۔ابھی کھیل لیتے ہیں۔۔نیلم نے انہیں کہا۔۔۔۔

قلب اپنے مقررہ وقت پر مینشن میں آیا ، چند ماڈرن خواتین کو وہاں موجود پایا تو نظروں کا رخ تبدیل کیا۔۔۔۔

اسے دیکھتے ہی نیلم کے چہرے کے زاویے بگڑے۔۔۔۔۔

شاہینہ پریا سے کہو اس کے ٹیچر آئے ہیں۔

یا ایسا کرو انہیں پریا کے روم کا راستہ دکھاؤ ادھر ہماری پارٹی چل رہی ہے ۔۔۔

آج یہ اسے روم میں ہی پڑھا دیں۔۔۔۔

جی میڈم جی ۔۔۔

وہ ادب سے سر جھکائے ہوئے بولی ۔۔۔

قلب کا دل تو چاہا کہ واپس لوٹ جائے ۔۔

روم میں جانے سے بہتر تو ۔مگر یہ سوچتے ہوئے ملازمہ کے پیچھے پیچھے چلنے لگا کہ کل پہلا پیپر اسی کے سبجیکٹ کا ہے ،ایک بار وہ پیپر ہو جائے تو اس کا کام ختم ۔اس لحاظ سے آج اس کا پریا کو پڑھانے کا آخری دن تھا۔۔۔۔

وہ جو قلب کے آنے کے وقت کے لحاظ سے تیار ہو کر کتابیں اٹھائے باہر ہی آرہی تھی اس سے پہلے کہ وہ دروازہ کھولتی کسی نے باہر سے دستک دی۔۔۔

اس نے ہینڈل کو گھما کر دروازہ واہ کیا۔۔۔

بی بی جی میڈم نے کہا ہے کہ یہ آج آپ کو کمرے میں ہی پڑھائیں گے ۔۔۔

وہ باہر ان کی دوستیں آئیں ہوئی ہیں۔۔۔

ملازمہ نے اسے آگاہ کیا۔۔۔۔

سنجیدہ مزاج سا قلب سپاٹ چہرہ لیے پیچھے کھڑا تھا۔

آئیے سر پلیز!

اس نے قلب کے لیے اندر آنے کا راستہ بنایا۔۔۔

ملازمہ چلی گئی تو اس نے کمرے کا دروازہ بند کر دیا۔۔۔۔

ڈور کھلا رہنے دیتی ۔۔۔

قلب نے اسے دروازہ بند کرتے ہوئے دیکھ کر کہا۔۔۔۔

سر وہ باہر سے آوازیں آ رہی ہیں سب کی ڈسٹربینس ہو گی سٹڈی میں ۔۔۔۔۔

اس کی بات پر قلب نے گہری سانس لی۔۔۔

اس نے کمرے کا جائزہ لیا ۔خوبصورت ڈیزائن کا بیڈ اور ڈریسنگ۔

دیوار پر لگی اس کی انلارج پکچر ،دبیز قالین  بکس ریک۔کبرڈ ایک طرف سٹڈی ٹیبل پر لیپ ٹاپ اور ایک گلاس واز کے علاؤہ چند ایک چیزیں موجود تھیں سٹڈی ٹیبل کے ساتھ کی چئیر اس نے نکال کر قلب کے لیے رکھی ، خود بیڈ پر بیٹھ گئی اور بکس نکالنے لگی۔۔۔

قلب اس کی دی گئی چئیر پر بیٹھ گیا۔۔۔۔

اوکے اوپن یور بکس!

آج میں نے تمہیں جو بھی پڑھایا ہے اس کا ٹیسٹ لوں گا پھر کچھ غلط ہوا تو پوائنٹ آؤٹ کردوں گا۔۔۔

جی ٹھیک ہے وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔۔

سلیمان رئیسانی جو کمرے میں اکیلے لیٹے ہوئے تھے ۔۔۔

اپنی طبیعت کچھ بہتر محسوس نا کرتے ہوئے باہر آئے ۔۔۔۔

باہر نیلم اپنی دوستوں کے ساتھ محفل جمائے ہوئے بیٹھی تھی۔

نیلم میرا فون خراب ہو گیا ہوا ہے میں نے دارم کو ٹھیک کروانے کے لیے کہا تھا ۔۔۔

کہہ رہا تھا کہ نیا لے لیں گے ۔نا تو وہ نیا فون لایا اور نا ہی اس نے وہ ٹھیک کروا کر دیا۔۔۔۔

وہ آفس دیکھے کہ آپ کے کام دیکھے۔۔۔

وہ اپنی اچھی بھلی چلتی ہوئی پارٹی میں آکر سلیمان کو یوں  دخل اندازی کرتے ہوئے دیکھ کر سخت بد مزہ ہوئی۔۔۔۔

اور تلخ انداز میں کسی کی پرواہ کیے بنا ہو بولی۔۔۔۔

نیلم میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تم پلیز زرا دارم کو کال کر کہ کہو کہ ڈاکٹر کو بھیجے ۔۔۔۔

اچھا ٹھیک ہے آپ کمرے میں جائیے میں کہتی ہوں اسے کال کر کہ۔۔۔۔

یہ کہہ کر نیلم نے میز پر رکھا ہوا اپنا آئی فون اٹھایا اور دارم کو کال کرنے لگی۔۔۔۔

قلب نے کوئیسچن لکھ کر دئیے تو سولو کرنے لگی۔۔۔۔

گاہے بگاہے نظر اٹھا کر اسے دیکھتی ۔۔۔

وہ سٹڈی ٹیبل سے ایک بک اٹھا کر اسے پڑھنے لگا۔۔۔۔

وہ اپنا کام چھوڑے اسی کی طرف متوجہ تھی ۔۔۔۔

یک ٹک اسی کی طرف دیکھے جا رہی تھی۔۔۔

وہ جو براون کلر کی پینٹ اور سکن کلر کی شرٹ میں ملبوس تھا۔

گلاسز میں سے بار بار پلکیں جھپکتا ہوا بک ریڈنگ میں محو تھا۔۔۔۔

میرے چہرے پر سوالوں کے جواب نہیں لکھے برائے مہربانی اپنے کام پر توجہ دیں۔۔۔۔

وہ جو سمجھی تھی کہ وہ اس کی طرف متوجہ نہیں ۔۔۔

اس کی بات سن کر ہڑبڑائی۔۔۔

اور فوراً نظریں جھکا کر کام مکمل کرنے لگی۔۔۔

کچھ ہی دیر میں اس نے سارا کام مکمل کرنے کے بعد اسے چیک کروایا۔۔۔

Hummm.Impressive.

وہ اس کا کام چیک کرتے ہوئے بولا

کام ختم ہونے کے بعد وہ جانے کے لیے اٹھا ۔۔۔

قلب پلیز رکیں !!!

پریا نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے جانے سے روکا۔۔۔۔

قلب تو اس کی دیدہ دلیری پر دنگ رہ گیا۔۔۔۔

یہ کیا بدتمیزی ہے؟

وہ اس کے ہاتھ کی طرف دیکھتے ہوئےتلخ لہجے میں بولا۔۔۔۔

اور جھٹکے سے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے نکالا۔۔۔۔

ٹیچر ہوں تمہارا ۔۔۔زرا تمیز سے۔۔۔۔۔

پڑھائی کے ساتھ ساتھ تمہیں مینرز کی کلاسز بھی لینے کی ضرورت ہے۔۔۔

پڑھائی ختم سٹوڈنٹ ٹیچر کا رشتہ ختم ۔

اب بات ہو گی پریا اور قلب کے بیچ کی۔۔۔

وہ پہلے اپنے اوپر اور پھر قلب کے سینے پر انگلی رکھ کر بولی۔۔۔۔

مجھے کسی سے کوئی بات نہیں کرنی وہ اسے شانے سے پیچھے ہٹا کر باہر نکلنے لگا کہ ۔۔۔

پریا راستے کے بیچ آئی۔۔۔

اور دروازے کے آگے کھڑی ہوئی ۔۔۔

میری بات سنے بغیر میں آپ کو یہاں سے کہیں جانے نہیں دوں گی۔۔۔۔

فضول بکواس کرنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔

ہٹو راستے سے ورنہ ۔۔۔۔۔

وہ اسے انگلی سے وارن کرتا ہوا تیز آواز میں بولا۔۔۔۔

ورنہ کیا ؟؟؟؟

وہ بھی اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اسے چیلنج کرنے کے انداز میں غرائی۔۔۔۔۔

دیکھیں قلب کل سے ہم شاید ہوں کبھی اکیلے مل نا پائیں ۔۔۔۔مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے ۔۔۔۔

وہ ساتھ ہی انداز بدلتے ہوئے نرمی سے بولی۔۔۔۔

مجھے بھی تم سے دوبارہ ملنے کا کوئی شوق نہیں اور خاص کر اکیلے میں ۔۔۔

Mind it......

وہ ہاتھ میں موجود کتاب کو بیڈ پر پٹخ کر بولا۔۔۔۔

قلب جب سے میں نے آپ کو دیکھا ہے ،مجھے اور کچھ بھی اچھا نہیں لگتا،میں آپ سے بہت پیار کرتی ہوں ۔۔۔

قلب سچی !!!

پیار نہیں بلکہ مجھے آپ سے عشق ہو گیا ہے ۔۔۔عشق و محبت میں انا نہیں ہوتی ۔۔۔

دیکھیں اسی لیے میں اپنی انا کو روند کر آپ سے ایک صنف مخالف ہونے کے باوجود بھی اظہار محبت کر رہی ہوں ۔۔۔

قلب پلیز میرے جذبات کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔۔۔

وہ چلتے ہوئے اس کے قریب آئی اور اس کی شرٹ کے کالر کو مٹھیوں میں جکڑتے ہوئے نم آنکھوں سے دیکھ کر بولی۔۔۔۔

تم ایک خود غرض لڑکی ہو جسے اپنے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔۔۔۔یہ کہہ کر اس نے غصے سے منہ پھیرا۔۔۔۔۔

توں ہنس کہ ویکھ تے سہی 

میں خود نوں وہ بدل داں گی۔

میں چھڈ کہ بنگلے تے گڈیاں۔

تیرے نال ہی چلداں گی۔

اس نے گانا گنگنایا۔۔۔

اس نے پریا کے دونوں ہاتھوں سے اپنا کالر چھڑوایا۔۔۔۔

اور تیز قدموں سے دروازے کی طرف بڑھا۔۔۔۔

ٹھیک ہے تمہیں پیار کی کوئی قدر نہیں نا ؟؟؟

ایسے تو پھر ایسے ہی صحیح۔۔۔۔۔۔

اگر تم میرے نا ہوئے تو میں تمہیں کسی اور کا بھی ہونے نہیں دوں گی ۔۔۔۔

بچاؤ !!!!!

بچاؤ !!!!!

وہ بلند آواز میں زور سے چلائی۔۔۔۔

پہلے اپنی ایک آستین پھاڑی پھر دوسری ۔۔۔۔

دوپٹہ زمین پر پھینکا۔۔۔۔۔

بچاؤ !!!!!

سٹڈی ٹیبل سے گلاس واز اٹھا کر توڑا بستر کی چادر ہاتھ مار کر نیچے پھینکی۔۔۔۔۔

یہ سب اس نے چند لمحوں میں کیا۔۔۔۔

قلب تو اس کی حرکتوں پر غش کھاتا ہوا حیرتوں کے سمندر میں ڈوبا۔۔۔۔۔

🎲🎲🎲🎲🎲🎲

سمندر سے کہہ دو اپنی موجیں سنبھال کے رکھے۔

یہاں لوگ ہی کافی ہیں زندگی میں طوفان لانے کے لیے۔

دارم جو نیلم رئیسانی کے کہنے پر آفس چھوڑ کر فوراً ڈاکٹر کو اپنے لیے ساتھ لیے گھر آیا تھا ۔۔۔

لاؤنج میں لگا عورتوں کا ہجوم جو ایک دوسرے کو طنزیہ انداز سے دیکھ رہی تھیں۔

اور پریا کے روم سے آتی ہوئیں مدد کے لیےچیخوں کی آوازیں۔۔۔۔

پل بھر لگا اسے سب سمجھنے کے لیے  ۔۔۔۔۔

وہ تیزی بھاگتا ہوا پریا کہ کمرے میں پہنچا ۔۔۔

جہاں سے قلب باہر نکل رہا تھا۔۔۔۔

اس نے ایک لمحہ ضائع کیے بنا اس کے کالر کو مٹھی میں جکڑا۔۔۔۔

ایک سرسری سی نظر پریا کے اجڑے ہوئے حلیے پر ڈالی اور فورا نظروں کا رخ تبدیل کیا۔۔۔۔۔۔

چھوڑو مجھے۔۔۔۔۔

میں نے کہا چھوڑو مجھے ۔۔۔میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔۔۔

مگر دارم اس کی کوئی بھی بات سننے کا روادار نہیں تھا۔۔۔۔

اس پر تو اس وقت جنون سوار تھا۔۔۔۔۔

وہ اسے گھسیٹتا ہوا لاؤنج تک لایا۔۔۔

آوازوں کو سن کر سلیمان رئیسانی بھی اپنے کمرے سے باہر آ چکے تھے۔۔۔۔

جسٹ لیو۔۔۔۔۔۔

I said just leave now......ooooo.

وہ سب عورتوں کی طرف دیکھ کر دھاڑا۔۔۔۔۔

سب نے اپنا اپنا فون اور کلچ اٹھایا اور دارم خانزادہ کے تیور دیکھتے ہوئے پل بھر میں رفو چکر ہوئیں۔۔۔۔۔

تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی میری بہن پر ہاتھ ڈالنے کی ؟؟؟؟

دارم نے اس کے منہ پر ایک زور دار پنچ مارا۔۔۔۔

قلب کے نچلے ہونٹ کے کنارے سے خون رسنے لگا۔۔۔۔۔

جسے اس نے اپنے انگوٹھے سے صاف کرتے ہوئے دارم کی پسلیوں میں پنچ مارا۔۔۔۔

دارم نے اسے زور سے دھکا دیا تو وہ صوفے پر گرا۔۔۔۔

سلیمان رئیسانی نے دیوار پر لگی ہوئی رائفل اتاری اور قلب کا نشانہ لینے لگے۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ اس پر فائر کرتے دارم نے بجلی کی رفتار سے ان کے قریب پہنچتے ہوئے ان کے ہاتھ سے رائفل چھین لی۔۔۔۔

اور کتنوں کی جانیں لیں گے ؟؟؟؟

No...... One more.....

میرے ہوتے ہوئے تو کبھی بھی اور نہیں۔۔۔۔۔

سلیمان رئیسانی اس کے انجان اور سرد لب و لہجے پر ششدر رہ گئے۔۔۔۔۔

اس نے رائفل زور سے زمین پر پھینکی۔۔۔۔

قلب صوفے سے اٹھا اس سے پہلے کہ وہ صحیح طرح سیدھا ہوتا دارم اس تک پہنچا ہی تھا کہ اتنی دیر میں پولیس وہاں پہنچ چکی تھی۔

نیلم رئیسانی نے چوری چھپے بروقت پولیس کو کال کردی تھی۔۔۔

جس کے نتیجے میں وہ وہاں پہنچ گئے۔۔۔۔

اریسٹ کرلیں انسپکٹر صاحب اس بلڈی ۔۔۔۔۔۔ کو۔۔۔۔

دنیا کی چاہے جو سفارش آئے اسے چھڑوانے کے لیے مگر اسے چھوڑنا نہیں ۔۔۔۔

دارم نے قلب کو انسپکٹر کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔۔۔

مگر انسپکٹر صاحب میری بات تو سنیں ۔۔۔۔

میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔۔

مجھ پر جھوٹھا الزام لگایا جا رہا ہے۔۔۔۔

چل سیدھا ہو کر تھانے۔۔۔۔۔

ہر چور چوری کرنے کے بعد یہی کہتا ہے کہ میں نے چوری نہیں کی۔۔۔۔

تھانے میں خاطر تواضع ہو گی تو خود ہی اکڑ نکل جائے گی۔۔۔

پھر دیکھنا کیسے طوطے کی طرح  فر فر سچ اگلتا ہے تو۔۔۔۔

انسپکٹر نے بھی اس کی بات نہیں سنی اور اسے اپنے ساتھ لے گیا۔۔۔۔

دارم نے ڈاکٹر کو اشارہ کیا جو وہاں تب سے ایک کونے میں کھڑا خاموشی سے ساری کاروائی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

ڈاکٹر فارس آپ میرے ڈیڈ کا اچھے سے چیک اپ کریں۔۔۔۔

جائیں ڈیڈ آپ روم میں یہ وہیں آکر آپ کا چیک اپ کرتے ہیں۔۔۔

آپ بے فکر ہو جائیں اس گھٹیا انسان کو میں جیل سے نکلنے نہیں دوں گا۔۔۔۔

وہ اس کی بات سے متفق ہو کہ اپنے روم کی طرف بڑھ گئے تو ڈاکٹر نے بھی ان کی تقلید کی۔۔۔

تم لوگ کیا چسکے لیتی پھر رہی ہو ؟؟؟؟

دفعہ ہو جاؤکام پر لگو یہ بکھرا ہوا سارا پھیلاوا کیا تمہارے باپ دادا نے آکر سمیٹنا ہے ؟؟؟

نیلم رئیسانی نے سارا غصہ وہاں کھڑی ہوئی ملازماؤں پر نکالا۔۔۔۔

🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲

ہیلو یار دارم کب واپس آرہے ہو ؟؟؟

وہ دارم کے کال ریسیو کرتے ہی بولا۔۔۔

کیا یار سانس تو لو ۔۔۔۔

نا سلام نا دعا سیدھا کب آرہے ہو۔۔۔یہ کیا بات ہوئی بھلا؟۔۔۔۔

دوسری جانب کال پر دارم کا دوست ولیدجو دوسال پہلے ہی مسلمان ہو کر ولیم سے ولید بنا تھا۔۔۔

دارم کل ہفتہ پہلے میرا ایک سیریس ایکسڈنٹ ہوا تھا تھینک گاڈ ۔

اللّٰہ سیو می۔۔۔۔یار۔

اوہ !!!!

سو سوری یار ۔۔۔اب کیسا ہے تو؟؟؟

پہلے سے بہتر ہوں ۔

تم ایک دو دن کے لیے آجاؤ پلیز اس وقت تم سے ملنے کو بہت وہ ہے ۔۔۔

وہ کیا ؟؟؟؟

یار اسے اردو لینگویج میں کیا کہتے ہیں تم نے سیکھایا تو تھا۔۔۔

بھول گیا۔۔۔وہ تھوڑا انگریزی لب و لہجے میں اردو بولنے کی کوشش کر رہا تھا۔

ہارٹ۔۔۔۔۔

اوہ اچھا تمہارا مجھے ملنے کو بہت دل کر رہاہے۔۔۔۔

یس بڈی !!!!تم سمجھ گیا۔۔۔

وہ تھوڑا بشاشت سے بولا۔۔۔۔

اوکے آنے کی کوشش کرتا ہوں۔۔۔۔

کوشش نہیں مجھے تم کل یہاں چاہیے تو چاہیے مسٹ۔۔۔۔انڈرسٹیند!

ولید کے کال بند کرتے ہی اس کے لبوں پر مسکراہٹ آئی۔۔۔۔

ڈفر!!!!

دارم نے ڈیٹا آن کیا اور اپنی آن لائن ٹکٹ بک کروائی۔۔۔

گڈ لک تھی جو اسے دو گھنٹے بعد کی ہی  فلائٹ کی ٹکٹ مل گئی تھی۔۔۔

اس نے اپنی تھوڑی بہت پیکنگ کی پھر چینج کیے اپنا بیگ لیے کمرے سے نکلا۔۔۔

ائیر پورٹ پہنچتے ہوئے بھی وقت لگنا تھا وہ موبائل پر وقت دیکھتا ہوا باہر آیا۔۔۔

بیگ سامنے صوفے پر رکھا۔۔۔

اور نیلم کے فون پر میسج سینڈ کیا اور اپنے امریکہ جانے کے بارے میں بتایا۔۔۔۔

نیلم جو ابھی سونے کے لیے لیٹی ہی تھی موبائل پر میسج نوٹیفکیشن دیکھ کر آن کیا تو دارم کا میسج پڑھ کر دوبارہ موبائل ایک طرف رکھ دیا۔۔۔۔۔ 

جانے سے پہلے ایک آخری کام تو کرلوں۔۔۔۔

وہ خود سے بولا۔۔۔۔

اور مخصوص کمرے کی طرف اپنے قدم بڑھائے۔۔۔۔

اس کی امید کےطابق روم لاکڈ تھا۔۔۔

اس نے اپنی انگلی کو بینڈ کیے زور سے ڈور پر ناک کیا۔۔۔۔

وفا دروازہ کھولو۔۔۔۔

دو منٹ گزر چکے تھے مگر اس نے دروازہ نہیں کھولا۔۔۔

وفا مجھے پتہ ہے تم جاگ رہی ہو ۔۔

دروازہ کھولو۔۔۔

مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے۔۔۔

اگر تم نے اب کی بار دروازہ نہ کھولا تو میں اسے توڑ دوں گا۔۔۔

اور تم اچھی طرح یہ بات جانتی ہو کہ میں صرف باتیں نہیں کرتا کر کہ بھی دکھاتا ہوں۔۔۔

ابھی اس کا فقرہ مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ دروازہ کھلا۔۔۔۔

دارم نے روم میں قدم رکھا تو وہ دروازے کی اوٹ میں ہوئی ۔۔۔

چھپو مت سامنے آو۔۔۔

وفا میں سیدھی سیدھی بات کرنے کا قائل ہوں ۔

تو میری ایک بات دھیان سے سنو۔۔۔

وہ سر جھکائے دم سادھے ہوئے کھڑی رہی۔۔۔

تمہارے پاس دو دن کا وقت ہے 

خود کو تیار کر لو ہمارے رشتے کے لیے۔۔۔

اس کی بات پر وفا نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں اور بھی بڑی کرتے ہوئے فق نگاہوں سے اسے دیکھا۔۔۔

جیسے اسے ذندہ ہی موت کا پروانہ جاری کیا گیا ہو۔۔۔۔

اس نے تالو سے چپکی ہوئی زبان کو جنبش دی۔۔۔۔

ل۔ل۔لیکن میں آپ سے ۔۔۔نہیں۔۔۔۔

پلیز ۔۔۔۔

اس نے بمشکل اپنے سوکھے ہوئے لبوں پر زبان پھیر کر لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولا۔۔۔۔

میں ایسا کبھی نہیں کروں گی۔۔۔

بالآخر وہ خود میں ہمت مجتمع کیے ہوئے اپنے حق میں بولی۔۔۔

وفا انکار کا کوئی آپشن موجود نہیں تمہارے پاس۔۔۔۔

اگر انکار کیا نا تو۔۔۔۔

تو کیا ہاں ؟؟؟

کیا کریں گے آپ ؟؟؟

میں ڈرتی نہیں آپ سے ۔۔۔۔

بات اپنی زندگی کے اتنے بڑے فیصلے پر آئی تو وہ بول اٹھی۔۔۔

مگر ڈر کی وجہ سے اشکوں کی برسات جاری ہوئی۔۔۔۔

اگر تم نے انکار کیا نا تو میں ۔۔۔۔

تو میں تمہارے ساتھ وہ کروں گا جو تم نے سوچا بھی نہیں ہو گا ۔۔۔

اسی بات میں تمہاری بھلائی ہے کہ شرافت سے مان جاؤ۔۔۔۔

دو دن ہیں اپنا مائنڈ میک اپ کر لو۔۔۔

واپس آتے ہی تم یہاں نہیں میرے روم میں ہو گی۔۔۔۔

So take care of yourself .

Would to be my wife.....

Oh !!!!

Sorry my Little Doll.

وہ اس کا گال دو انگلیوں سے تھپتھپاکراس کی جانب مسکراہٹ اچھالتا ہوا باہر نکل گیا۔۔۔۔

🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲

جانے کیسی بے چینی تھی۔نیند آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔آج کا سارا واقع اس کی آنکھوں کے سامنے کسی چلتی ہوئی فلم کی مانند لہرانے لگا۔۔۔۔

اس نے جھرجھری سی لی۔۔۔وفا کو پتہ ہو گا اس بارے میں ؟؟؟

وہ تو سارا دن کمرے سے باہر ہی نہیں آئی۔۔۔

اسے کیسے پتہ ہو گا کہ آج گھر میں کیا ہوا۔۔۔پریا نے دل میں سوچا ۔۔۔۔

مجھے یہ بات پریا سے شئیر کرنی چاہیے۔۔۔

خودی سے کہتے ہوئے وہ پاس پڑا ہوا دوپٹہ شانوں پر ڈالتے ہوئے چپل پاؤں میں اڑستے ہوئے کمرے سے باہر نکلی۔۔۔۔

پتہ نہیں اس نے کھانا کھایا بھی ہو گا یا نہیں اس کے لیے کھانا ہی لے جاتی ہوں،میڈم کو خود سے تو ہوش ہی نہیں کھانے کی۔۔۔۔

وہ کچن میں گئی اور کھانا فریج سے نکال کر مائیکرو ویو میں گرم کرنے کے بعد ٹرے میں رکھے ہوئے اس کے روم میں داخل ہوئی۔۔۔۔۔

کمرے کا دروازہ ادھ کھلا دیکھ کر اسے پریشانی نے گھیرا۔۔۔۔

جونہی نظر سامنے بے سدھ پڑی وفا پر پڑی ۔۔۔

اس کے منہ سے سفید جھاگ نکل رہی تھی۔۔۔۔

ٹرے اس کے ہاتھوں سے چھوٹا۔۔۔۔

چھناکے کی آواز کمرے میں گونجی۔۔۔۔

مما!!!!

مما!!!!

یہ دیکھیں وفا کو کیا ہو گیا ہے؟؟؟

وہ وفا کا نیلا پڑتا ہوا چہرہ دیکھ کر نیلم کو آوازیں دینے لگی۔۔۔۔

پھر وفا کو چھوڑ نیلم اور سلیمان رئیسانی کے کمرے کی طرف بھاگی۔۔۔۔

دروازہ پیٹ ڈالا۔۔۔۔۔

کیا تکلیف ہے جو آدھی رات کو بھی سکون نہیں۔۔۔

اندر سے نیلم نے دروازہ کھول کر نیند میں ڈوبی ہوئی آواز سے کہا۔۔۔۔

مما وہ ۔۔۔۔وہ وفا کو کچھ ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔اس نے روکر رندھی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔

ایک تو یہ تم دونوں منحوس بہنوں کی جان کو سکون نہیں۔۔۔۔

پہلے ایک نے سارا دن تماشا لگائے رکھا۔۔

اب دوسری نے رات کو تماشا شروع کردیا۔۔۔۔

لو اب رات بھی برباد ہی سمجھو تم نیلم بیگم ۔۔۔آخری بات اس نے خود سے کہی۔۔۔

ایک تو وہ ڈاکٹر نجانے کونسا انجیکشن لگا کر جاتا ہے تمہارا باپ تو گدھے گھوڑے سب کے سب بیچ کر سو جاتا۔۔۔۔

اور سب مجھے بھگتنا پڑتا ہے۔۔۔۔

جاؤ جا کر ایمبولنس کو کال کرو۔۔۔

میں چینج کر کہ آتی ہوں۔وہ جو نائٹ ڈریس میں ملبوس تھیں اپنا دوسرا سوٹ کبرڈ سے نکالنے لگیں۔

🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲

یہ پولیس کیس ہے ۔۔۔

آپ پہلے پولیس کو اطلاع کریں پھر ہی ہم ٹریٹمنٹ شروع کریں گے۔۔۔

ڈاکٹر نے وفا کی ٹریٹمنٹ کرنے سے صاف انکار کردیا۔۔۔

پلیز ڈاکٹر یہ میری بہن کی زندگی کا سوال ہے۔۔۔۔

میں پولیس کو خود کال کردیتی ہوں آپ پلیز اس کا علاج شروع کریں۔

"خس کم جہاں پاک"میں تو کہتی ہوں کل کی جاتی آج جائے ۔۔۔

پیچھا چھوٹے ان سے میرا۔۔۔۔

نیلم رئیسانی کے آخری الفاظ پریا کے کانوں  سے مخفی نا رہ سکے۔۔۔۔۔

ٹھیک ہے میں آپ کے کہنے پر ٹریٹمنٹ شروع کر رہا ہوں ۔

آپ ڈیٹیلز وہاں لکھوائیں۔۔۔

انہوں نے ریسیپشن پر موجود لڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔

سسٹر پیشنٹ کا نام وفا ہے۔۔۔

اس کی عمر ؟؟؟

ریسپیشن پر موجود لڑکی نے کمپیوٹر پر معلومات درج کرتے ہوئے سکرین پر نظریں جمائے ہوئے پوچھا۔۔۔

بیس سال۔۔۔

بیس سال کی عمر میں سوسائیڈ اٹیمٹ !!!!

وہ حیرت انگیز لہجے میں بولی۔۔۔

پلیز جلدی کیجیے۔۔۔۔

وہ دونوں باہر ہی موجود تھیں۔۔۔۔

نیلم تو ایک بینچ پر بیٹھ چکی تھی، مگر پریا وہاں ہی ادھر سے ادھر بے چینی سےچکر لگا رہی تھی۔۔۔۔

ڈاکٹر کو باہر آتے ہوئے دیکھ جھٹ سے ان کی طرف لپکی۔۔۔۔

وفا ٹھیک تو ہے نا ؟؟؟

پلیز تھوڑا صبر سے کام لیجیے۔۔۔

ہم دو بار ان کا معدہ واش کر چکے ہیں۔۔۔

اثر کافی ہو چکا تھا۔۔۔۔

اب وہ خطرے سے باہر ہیں۔

مگر نیند کی گولیوں کی بھاری مقدار کی وجہ سے ابھی انہیں ہوش میں آنے میں کچھ وقت لگے لگا۔۔۔۔

پھر آپ ان سے مل سکتی ہیں۔۔۔۔

اس کی سلامتی کی نوید ملتے ہی اس کے من میں سکونت پھیلا۔۔۔۔

بہت بہت شکریہ اللّٰہ میاں جی!!!؟؟

آپ نے میری سن لی۔۔۔۔

اس نے دعا کے انداز میں ہاتھ اٹھائے ہوئے کہا۔۔۔۔

بچ گئی؟

بات پھر پر پڑ گئی ؟؟؟

نیلم نے اس کے ٹھیک ہونے کی بات سن کر کہا۔۔۔۔۔

مما کیا آپ مجھ سے چھٹکارا چاہتی ہیں؟؟؟؟

پریا نے نیلم کے قریب آتے ہی سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔

نیکی اور پوچھ پوچھ'

وہ دونوں ہاتھ سینے پر باندھ کر بولیں۔۔۔۔

ایک طریقہ ہے آپ کے پاس مجھ سے چھٹکارا پانے کا۔۔۔۔

اس نے رازدارانہ انداز میں ان کے پاس آکر کہا۔۔۔۔۔

آپ پاپا سے کہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔

🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲

وفا کو لیے نیلم اور پریا دونوں گھر واپس آ چکی تھیں۔۔

پولیس نے اس کا بیان لیا تو وفا نے یہ کہہ کر بات ٹال دی کہ امتحانات کی سٹریس کی وجہ سے اس نے خود اپنےساتھ ایسا کیا۔۔۔

اس لیے یہ معاملہ وہیں رفع دفع ہو گیا۔۔۔۔

وفا دوائیوں کے زیر اثر نیم بے ہوش سی تھی۔آہستہ آہستہ اس نے ہوش میں آنے کے مراحل طے کرتے ہوئے اپنی آنکھیں واہ کیں۔

اپنے شہ۔۔۔۔۔سے جدائی کے بارے میں سوچتے ہی اس کی روح بھی فنا ہونے لگتی۔۔۔۔

اگر میں اس کی نہیں بن سکتی تو کسی کی نہیں۔۔۔

میں نے اتنے سالوں سے صرف اس سے محبت کی۔

اسے ہی اپنے من میں بسایا۔میری دنیا اسی سے شروع اور اسی پر ختم۔۔۔۔

میری سانسوں پر میری زندگی پر صرف اسی کا حق ہے۔

میں سر تا پا اس کے رنگ میں رنگ جانا چاہتی ہوں۔

اگر آپ اسے میرا نہیں بنا سکتے تو مجھے اکیلے ہی رہنے دیں۔

مجھے کسی کے ساتھ کی کوئی ضرورت نہیں

میرے لیے اس کی وہ کانوں میں رس گھولتی باتیں۔

وہ زندگی سے بھرپور اس کی ہنسی کی کھلکھلاہٹوں کی آوازیں،

وہ زندگی کو لے کراس کا جینے کا نظریہ،اس کا عبادت گزار ہونا،

اس کی مخلصی انجان لوگوں کے لیے ،اس کی اعلیٰ تعلیم،اس کی ذہانت،اس کی اپنے کام کولےکر محنت و لگن،کس کس خوبی کو گنواؤں خود کو؟؟؟؟؟

اس کا وہ دیکھنے کا انداز آنکھوں کے سامنے سے ہٹتا ہی نہیں۔کاش وہ مجھے بھی کبھی یوں نظر بھر کہ دیکھے اور وہی لمحے امر ہو جائیں،زندگی اور وقت وہیں اس پل میں ٹہر جائیں۔

💖💖💖💖💖💖💖💖

"اٹھو یہ سوپ پی لو"نیلم ہاتھ میں سوپ کا باؤل لیے اندر آئی۔۔۔

خیر تو ہے آج یہ خاطر تواضع؟؟؟

وہ بستر لیٹے ہوئے تھے اسے پاس آتے ہوئے دیکھا تو اٹھ کر بیٹھے اور تکیے کو پشت کے پیچھے اچھے سے لگایا۔۔۔

تاکہ بے آرامی نا ہو۔

کبھی کبھی کر دیتی ہوں ایسے احسانات وہ طنزیہ انداز سے بولیں۔

کل تمہاری بیٹی نے جو میرا تماشا بنوایا ہے نا ساری سوسائٹی کی عورتیں مجھ پر ہنس رہی ہیں۔

طرح طرح کے سٹیٹس اپلوڈ کرکہ ۔۔۔۔

اور آپس میں گروپ چیٹ میں ہمارے گھر کی جو دھجیاں بکھیر رہی ہیں۔۔۔

توبہ بھئی توبہ۔۔۔

وہ کانوں کو چھو کر چہرے پر رونے کے تاثرات زبردستی سجاتے ہوئے بولیں۔

تم پریا کے لیے جلد سے جلد کوئی اچھا سا رشتہ دیکھو ہم اسے فارغ کردیں گے۔۔۔۔سلمان رئیسانی نے کہا

یہ بھی اچھی کہی۔۔۔

یہ بات جنگل میں آگ کی طرح پھیل چکی ہے کہ وہ استاد اس کے کمرے سے نکلا۔۔۔اور جس طرح وہ چیخ و پکار مچی تھی۔

جانے کیا کچھ ہو چکا ہوگا ان کے بیچ؟؟؟

نیلم ۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اپنی طرف سے غصے میں چیخنا چاہتے تھے مگر کمزوری کے باعث آواز زیادہ بلند نا ہو پائی۔۔۔۔

اپنی زبان کو لگام دو۔۔۔۔

ایسا میں تھوڑی نا کہہ رہی ہوں لوگ جو کہہ رہے ہیں وہی حقیقت بتائی ہے۔۔۔۔

صحیح کہا ہے کسی نے سچ ہمیشہ کڑوا ہی ہوتا ہے۔۔۔

میری بیٹی کی جان لیتے ہوئے تمہارے ہاتھ نہیں کانپے۔۔۔۔۔۔

اپنی ان بے غیرت بیٹیوں کو تو سنبھال نہیں پائے جانے کون کون سے گل کھلاتی پھر رہی ہیں۔۔۔۔

وہ اپنی باتوں کا زہر اگلنے لگی۔۔۔۔

خبردار جو انہیں کچھ کہا غلطی ان کی نہیں۔۔۔۔

اول تو ان کی رگوں میں ایک غیرت مند باپ کا خون دوڑ رہا ہے۔

اور ہاں اگر ایسا کچھ ہوا بھی ہے تو

غلطی تمہاری لاپرواہی اور گھٹیا تربیت کی ہے۔۔۔جو وہ یوں بے راہ روی کا شکار ہوئی۔۔۔۔

میں نے تمہیں اپنی بچیوں کی ذمّہ داری سونپی تھی مگر تم ۔۔۔۔۔۔۔

نیلم رئیسانی کے موبائل پر کال آنے لگی تو انہوں نے سلیمان کو کوئی بھی جواب نا دیا 

اپنی سکرین پر نمودار ہوتے ہوئے پولیس اسٹیشن کے نمبر کو دیکھتے فورا سے بیشتر کال ریسیو کی۔۔۔

میڈم جی قلب نامی شخص کے خلاف آپ نے کمپلینٹ لکھوائی تھی اسی کے محلے کے چند لوگوں نے یہاں آکر ہنگامہ کھڑا کردیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کے جیل جانے کی خبر سے اس کی بوڑھی ماں چل بسی۔۔۔۔

کیا ؟؟؟؟

وہ حیرت سے بولیں۔۔۔۔

سلیمان رئیسانی نے نیلم کے ہاتھ سے موبائل کھینچ کر اپنے کان کے ساتھ لگایا۔۔۔

اور انسپکٹر سے تفصیل سنی۔۔۔

نیلم نے انگلی سے ایک امیج پریس کیا۔۔

تو موبائل کا سپیکر آن ہو گیا۔۔۔۔

وہ اگلی بات جاننے میں دلچسپی رکھتی تھی اسی لیے تجسس کے باعث ایسا کیا۔۔۔۔

سر اگر آپ اس کے خلاف لکھوائی گئی رپورٹ واپس لے لیتے ہیں تو ہی اسے چھوڑیں گے۔

بتائیے کیا کرنا ہے اب؟؟؟

اس شخص سے کہیں ہم ایک ہی صورت اپنا کیس واپس لیں گے اسے ہماری ایک شرط ماننی ہو گی ۔ورنہ نا دیکھے اپنی مری ہوئی ماں کا منہ سڑتا رہے ایسے ہی سلاخوں کے پیچھے۔۔۔۔

نیلم رئیسانی نے انسپکٹر کو کہا اور فون بند کردیا۔۔۔۔

یہ کیا کہہ رہی تھی ؟؟؟

ہم کیس واپس نہیں لیں گے۔

اور تم کونسی شرط کی بات کر رہی تھی؟

دیکھو سلیمان میری بات سمجھنے کی کوشش کرو۔

یہ قصہ  زبان زد ِ عام ہو چکا ہے۔

اس سے پہلے کہ وہ کوئی اور بڑا گل کھلائے اور تماری رہی سہی عزت بھی گنوا دے اسے فارغ کروجلد از جلد  ۔۔

ایسا کبھی نہیں کروں گا میں۔۔۔وہ اس کی بات کی نفی کرتے ہوئے تلخ لہجے میں بولے۔

آنکھوں دیکھی مکھی کون نگلتا ہے؟

اور کوئی بھی اب اس سے شادی کرنے پر راضی نہیں ہوگا۔۔

میں تو کہتی ہوں کیس واپس لے کر اسی کے ساتھ رخصت کریں اسے۔۔۔

اور دارم کی واپسی سے پہلے اسے رخصت کریں ورنہ وہ ایسا کبھی نہیں ہونے دے گا۔۔۔

عجیب جاہلوں جیسی باتیں کرتی ہو۔۔۔

آج اس کی ماں مری ہے۔وہ اسے دفنانے جائے گا یا نکاح پڑھوانے آئے گا؟؟؟

ماں کو دفنانے بھی اسی صورت میں جائے گا نا جب ِرہا ہو گا!!!!

قُلوں کے بعد آجائے اور سادگی سے نکاح کر کہ اسے رخصت کریں گے۔۔۔اور کیا۔۔۔

نیلم نے انہیں نئی راہ سجھائی۔۔۔

ہم کچھ زیادہ مطلبی نہیں ہو رہے زرا تحمل سے سوچو۔۔۔۔سلیمان رئیسانی مخمصے میں پھنسے پیشانی مسلتے ہوئے بولے۔۔۔

سوچنے کا کام اور وہ بھی تم کرو۔۔۔

جاؤ چھوڑو۔۔۔

وہ ہاتھ جھاڑ کر ان کا مذاق اڑانے کے انداز سے بولی۔۔۔

جو سوچتا بعد میں اور گولی پہلے چلاتا ہے۔

اپنی پہلی بیوی کی بیٹی کی باری آئی تو سوچنا یاد آگیا؟

وہ طنز کے نشتر بھگو بھگو کر مارنے کا ایک بھی موقع ہاتھ سے جانے نہ دے رہی تھی۔

تم نے اسی غلط فہمی سے اس دنیا سے چلے جانا ہے ۔۔۔

فی الحال مجھے اکیلا چھوڑ دو۔۔۔

سلیمان رئیسانی نے اس سے جان چھڑانے کے لیے کہا۔

مجھے بھی کوئی شوق نہیں تم جیسے سنکی آدمی سے اپنا دماغ کھپانے کا۔۔۔

اس نےپاس پڑا ہوا کشن زور سے زمین پر پھینکا اور تن فن کرتی ہوئی روم سے یہ جا اور وہ جا۔

مگر جاتے ہوئے سلیمان رئیسانی کو سوچوں کے نئے گرداب میں پھنسا گئی۔۔۔۔۔

🎲🎲🎲🎲🎲🎲

نئی صبح نیا دن ،اپنے ساتھ جانے کون کون سے انجانے راز افشاں کرنے والا تھا،

وفا تم اب ٹھیک ہو پلیز مجھے تیار کردو اچھا سا۔۔۔

پریا نے وفا کے کمرے میں آتے ہی اس سے کہا۔۔۔

وہ کس لیے؟؟؟

میری اکلوتی بہن کو خبر ہی نہیں آج اس کی اپیا کا نکاح ہے۔۔۔

وہ بھی اس کی پسند سے۔۔۔۔

جس سے وہ ڈھیر سا پیار کرتی ہے آج وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کی بننے جا رہی ہے۔۔۔وہ مسرور انداز میں بولی اور وفا کے دونوں بازوؤں سے تھام کر اسے اپنے ساتھ ساتھ گول گول گھمانے لگی ۔۔۔

تم نہیں جانتی آج میں کتنی خوش ہوں۔۔۔۔

اپیا بس کریں مجھے چکر آرہے ہیں۔۔۔۔

وفا نے اسے گھمانے سے روکنے کے لیے کہا۔۔۔

میں بھی آپ کے لیے بہت خوش ہوں۔

ایٹ لیسٹ ہم دونوں میں سے ایک کو تو اس کی من پسند خوشی ملی۔۔۔

وہ حسرت بھرے لہجے کھوئے ہوئے انداز میں بولی۔۔۔

میری کیوٹ سی بہنا کی قسمت میں بھی دیکھنا کتنا چاہنے والا انسان آئے گا ۔۔۔۔اور تمہیں ہمیشہ خوش رکھے گا۔۔۔۔

وہ صدقِ دل سے اس کے لیے دعائیہ انداز میں بولی۔۔۔

مجھے تو تیار ہونا اور کرنا آتا ہی نہیں۔۔۔

میں کیسے آپ کی مدد کروں ؟؟؟؟

 وہ روہانسے لہجے میں بولی۔۔۔

اچھا چلو جاؤ تم بھی اپنے لیے کوئی پیارا سا ڈریس نکالو اور چینج کرو۔۔۔۔

مجھے تم بالکل فریش چاہیے ہو۔۔۔

میری زندگی کا اتنا بڑا موقع ہے اور تم یونہی پھیکا سا منہ لے کر پھر رہی ہو۔۔۔

جی آپیا ٹھیک ہے۔۔۔

وہ اپنا دکھ بھلائے سچے دل سے اپنی بہن کی خوشیوں میں شامل ہونا چاہتی تھی ۔اپنے دکھ کے بارے میں بتا کر اس کی خوشیوں کے رنگ میں بھنگ نہیں ڈالنا چاہتی تھی۔

 اسی لیے وہ ایک خوبصورت پنک اور وائٹ رنگ کے امتزاج لیے شیفون کا ہلکے سے کام والا فراک اور چوڑی دار پاجامہ لے کر چینجنگ روم میں چلی گئی۔۔۔

پریا نے آج صبح ہی اپنی پسند کا ڈریس آن لائن خریدا تھا جو کہ ایک مشہور ڈیزائنر کاتھا۔۔۔

اناری اور پستہ رنگ کا ڈبل ڈائی دیدہ زیب کامدار  شارٹ فراک اور لہنگا پہنے ہوئے ،کمر تک آتے بالوں کو چٹیا میں گوندھ کر اس میں ادھ کھلی گلاب کی کلیاں پروئی گئیں تھیں۔

ہلکا پھلکا سا میک اپ کیے وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔۔۔

وفا نے میک اپ کے نام پر ہلکا سا نیچرل کلر کا لپ گلوس ہی لگایا۔۔۔

وہ چند آدمیوں کو ساتھ لیے اندر آیا اس نے سفید رنگ کے کاٹن کا سادہ سا شلوار قمیض پہن رکھی تھی۔۔۔اور اس پر بلیک واسکٹ پہنے بالوں کو قرینے سے جمائے ہوئے تھا۔۔۔

چہرے پر سرد پن واضح تھا،

اس کے علاؤہ اس کی اندرونی کیفیت  کا اندازہ اس کے چہرے سے لگانا نا ممکن لگا۔۔۔

سلیمان رئیسانی اور نیلم سامنے صوفوں پر براجمان تھے۔

وہ سلام کیے خاموشی سے بیٹھ گیا۔۔۔

چند ساعتوں میں ہی مولوی صاحب وہاں آئے۔۔۔

وفا پریا کو لے کر آئی۔۔۔

جس نے مکمل روایتی دلہنوں والا لباس زیب تن کیا ہوا تھا، گھونگھٹ اوڑھے ہوئے سہج سہج کر قدم اٹھاتے ہوئے وہ ایک خالی صوفے پر آکر بیٹھی۔۔۔۔

شروع کریں مولوی صاحب....

سلیمان رئیسانی کے کہنے پر انہوں نے نکاح جیسی پاکیزہ رسم کا آغاز کیا۔۔۔۔

دونوں طرف سے نکاح کی قبولیت کی سند ملتے ہی وہاں موجود سب نےایک دوسرے سےگلے ملنے کے بعد مبارکباد دی۔۔۔

نکاح کے بعد ریفریشمنٹس رکھی گئیں۔۔۔

مگر قلب کی طرف سے آئے ہوئے ان اشخاص میں سے  ایک نے بھی چیز کو نا چھوا۔۔۔

بس اب ہم چلتے ہیں۔۔۔کافی وقت ہو گیا ہے۔۔۔

ان میں سے ایک نے اپنے ہاتھ میں بندھی ہوئی گھڑی کو دیکھ کر پریشانی سے کہا

وہ سب اپنی اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑے ہوئے۔۔۔۔

پریا کو وفا نے ہاتھ پکڑ کر اٹھنے میں مدد دی اس کے بھاری لباس کی وجہ سے۔۔۔

وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر آنکھوں میں نمی لیے گلے لگیں۔۔۔

شدت سے خود کو ایک دوسرے میں بھینچ کر زارو قطار بے آواز رونے لگیں ۔

سلیمان رئیسانی نے ان کے پاس آکر پریا کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے آنے والی زندگی میں خوشیوں کی دعائیں دیں۔

اب یہ تو رب سے بہتر اور کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ ان کی یہ دعائیں مستجاب ہوتی ہیں یا نہیں۔

نیلم رئیسانی نے بھی موقع کی مناسبت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا ۔۔۔۔اور چہرے پر مصنوعی غم سجائے اسے قرآن پاک کے سائے تلے رخصت کیا۔۔۔۔۔

وہ سب لوگ ایک گاڑی میں بیٹھ گئے جبکہ دوسری گاڑی جو سادہ تھی ،شادی کی مناسبت سے اسے سجایا نہیں گیا تھا اس میں پریا اور قلب بیٹھے پریا پیچھے بیٹھی اور قلب نے خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔

وہ سب اسے رخصت کیے ہوئے غمزدہ حالت میں ابھی اندر آکر بیٹھے ہی تھے کہ دارم اندر آیا جس کے ہاتھ میں سفری بیگ تھا۔

یہ سب کیا تھا؟؟؟

پریا اور وہ ؟؟؟

میں نے اسے ابھی پریا کو ساتھ لے جاتے ہوئے دیکھا۔۔۔

اور پریا جس روپ میں تھی؟

کیا جو میں سوچ رہا ہوں کہیں آپ نے وہ سب کر تو نہیں دیا ؟

وہ حیران نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔

ہاں ہم نے ان دونوں کا نکاح پڑھوا دیا۔۔۔۔

آپ لوگوں نے میرا بھی انتظار نہیں کیا۔۔۔

بہت افسوس کی بات ہے ویسے۔۔۔۔وہ خفگی بھرے انداز میں بولا۔

وہ جو کچی آبادی میں رہنے والا دو ٹکے کا استاد آج اس کے پاس اتنی مہنگی گاڑی کیسے آگئی اچانک ؟؟؟

یہ بات آپ نے نوٹس کی ؟؟؟

نہیں نا ؟

آپ نے پریا کا ہاتھ اس انسان کے ہاتھ میں دے دیا جس کے آگے پیچھے کا کوئی پتہ نہیں ؟

بتائیں پتہ کروایا تھا کون تھا وہ؟

چھان بین کی تھی اس ؟؟؟

وہ سب اس کے سوالات پر سوچ میں پڑ گئے۔۔۔

کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو دارم ۔۔۔میں نے اپنی بیٹی کا نکاح اک انجان ۔۔۔۔۔

ابھی وہ بولنے کی کوشش میں ہی تھے کہ اچانک ان کی حالت بگڑی۔۔۔۔۔

اور سلیمان رئیسانی چکرا کر صوفے پر گرے۔۔۔

پاپا!!

بھلے وہ جیسے ہی تھے ،مگر تھے تو اس کے پاپا ہی انہیں اس حال میں دیکھ وفا تڑپ کر ان کے پاس گئی۔۔۔۔

گارڈز کو بلاؤ میں انہیں اس کے پیچھے۔۔۔۔

انہوں نے ادھورا فقرہ کہا۔۔۔۔

آپ کے گارڈز کو میں نے فارغ کردیا ہے۔

اس گھر میں کوئی گارڈ نہیں ۔۔دارم نے گویا ان کے سر پر ایک اور دھماکہ کیا۔

کیوں ؟؟وہ بمشکل اتنا ہی بول پائے۔۔۔۔

آپ پلیز پاپا کو ہوسپٹل لے جائیں وفا روتے ہوئے دارم سے بولی۔۔۔۔

یہ پہلی فرمائش تھی یا منت جو اس کے محبوب کی طرف سے پہلی بار کی گئی تھی،وہ اسے کیسے رد کر سکتا تھا،حالانکہ وہ ایسا کرنا نہیں چاہتا تھا مگر بولا۔۔۔ 

وہ سب بعد میں بتاوں گا فی الحال آپ ہوسپٹل چلیں۔۔آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں۔۔۔

🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲

وہ خاموشی سے ڈرائیونگ کر رہا تھا جبکہ پریا کبھی قلب پر ایک نظر ڈالتی اور کبھی باہر تیزی سے گزرتے ہوئے مناظر پر۔۔۔۔

دوپہر سے وہ ڈرائیونگ کر رہا تھا ۔

جانے کون سا راستہ تھا اور کتنی لمبی مسافت تھی جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔

سورج غروب ہو چکا تھا اب اندھیرا چھانے لگا۔۔۔۔

ہم کہاں جا رہے ہیں ؟؟؟

اتنے گھنٹوں کا سفر طے کرتے ہوئے اب وہ پوری طرح تھک چکی تھی۔

بالآخر ہمت جٹائے وہ بول ہی اٹھی۔

مگر دوسری طرف سے جامد چپ،

جانے اس کے لبوں پر کون سے قفل لگے ہوئے تھے جو ٹوٹنے کا نام ہی نا لے رہے تھے۔

پریا نے شرمندہ ہوتے ہوئے پھر سے باہر کے مناظر پر نظریں جمائیں۔

چاروں اطراف اب گھنے درخت ہی درخت نظر آئے۔۔۔۔

عجیب جنگلاتی قسم کا علاقہ تھا۔

چہار سو خاموشی کا راج،کہیں دور سے جانوروں کی خوفناک آوازیں آ رہی تھیں۔

وہ زرا سہم کر ڈور کے ساتھ چپکی۔۔۔

مزید آدھے گھنٹے کے سفر کے بعد وہ اپنی منزل مقصود تک پہنچ ہی گئے۔۔

ایک خوبصورت گھر کے سامنے جو جنگل کے بیچ و بیچ بنا تھا ،ایک طرف سے خوبصورت چشمہ بہہ رہا تھا ۔۔۔جو شاید رات کے وقت دکھائی تو نا دیتا مگر چودھویں کا چاند اپنی چاندنی اس پر بکھیرے ہوئے تھا اور چاندنی اس پانی پر پڑ کر ماحول کو سحر انگیز بنا رہی تھی۔

قلب نے گاڑی روکی ۔باہر نکل کر اپنی طرف کا دروازہ لاک کیا۔۔۔

اور کیز ہاتھوں میں پکڑے اندر کی طرف بڑھا۔۔۔

وہ اس کے کہنے کی منتظر تھی ،مگر جب اسے دیکھا کہ وہ اسے کچھ بھی کہے بنا ہی اندر کی طرف بڑھ رہا ہے تو وہ خود ہی گاڑی سے باہر نکل آئی۔اور اس کی تقلید میں اس کے پیچھے آئی۔۔۔

قلب نے واسکٹ کی پاکٹ سے چابیوں کا ایک گچھا نکالا اور لاکڈ گھر کو ان لاکڈ کیا۔

دونوں نے ایک ساتھ گھر میں قدم رکھا۔

پریا کی تو حیرت کے باعث آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔۔۔

گھر کی خوبصورتی دیکھ کر 

رئیسانی مینشن بھی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھا ۔مگر اس گھر کو لکڑی سے اتنے خوبصورت طرز سے ڈیزائن کیا گیا تھا کہ دیکھنے والا تو ایک بار دیکھتے ہوئے مبہوت ہو جاتا۔

Wow!!!!!

How beautiful........

وہ گھر کے درمیان میں پہنچ کر گول گول گھومتے ہوئے خوشی سے جھوم کر بولی۔

ایک دن آپ یوں ہم کو مل جائیں گے 

پھول ہی پھول راہوں میں کھل جائیں گے

میں نے سوچا نہ تھا،

ایک دن زندگی ہو گی اتنی حسیں جھومے گا آسماں گائے گی یہ زمیں۔

میں نے سوچا نہ تھا،

وہ قلب کی طرف مڑ کر بولی۔۔۔۔

وہ جو سوئچ بورڈ کے پاس کھڑا تھا۔

دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے سینے پر ہاتھ باندھے اس کی حرکتیں ملاحظہ فرما رہا تھا۔

پریا نے جب اسے اپنی طرف خاموشی سے تکتا پایا تو خوشی سے آگے گنگنانے لگی۔۔۔

 دل کی ڈالی پہ کلیاں سی کھلنے لگیں 

جب نگاہیں نگاہوں سے ملنے لگیں۔

ایک دن اس طرح ہوش کھو جائیں گے۔

قلب چلتا ہوا اس کے قریب آیا۔۔۔

پاس آئے تو مدھوش ہو جائیں گے۔

میں نے سوچا نہ تھا۔۔۔

پریا نے آخری لفظ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔۔۔

بس ہو لیا خوش؟؟؟؟؟

وہ بولا بھی تو کیا؟

اس کی چبھتی ہوئی نظریں بات کرنے کا ٹھٹھرتا ہوا لہجہ۔

وہ چونکی،

اور حیرت زدہ نظروں سے اس کے سپاٹ چہرے کا سرد پن دیکھا۔

قلب نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چابیوں کا گچھا نیچے پھینکا۔۔۔۔

اٹھاؤ اسے۔۔۔۔

اس نے حکم جاری کیا۔۔۔

میں ؟؟؟

پریا نے پوچھا ۔

تمہارے علاؤہ ادھر اور کوئی نظر آرہا ہے ؟

نہیں نا ۔۔۔

تو پھر تمہیں سے کہہ رہا ہوں اٹھاؤ اسے۔۔۔۔

وہ دانت پیستے ہوئے بولا۔

پریا نے ایک ہاتھ سے اپنا لہنگا سنبھالا اور جھک کر ایک ہاتھ سے چابیاں اٹھانی چاہی۔

اس نے چابیوں کو ہاتھ میں لیا ہی تھا کہ مقابل  نے پاؤں میں موجود شوز اس کے ہاتھ پر رکھا۔۔۔

اور اس کا ہاتھ اپنے جوتوں تلے کچلنے لگا۔۔۔

آہ !!!!

وہ درد کے مارے بلبلا اٹھی۔۔۔

قلب یہ کیا کر رہے ہیں پاؤں پیچھے کریں۔۔۔

You are hearting me.....

ہرٹ کرنا کسے کہتے ہیں اس بات کا تو ابھی آپ کو اندازہ بھی نہیں۔۔۔۔۔

مگر میں ہوں نا ۔۔

جلد ہی آپ کو اس جذبے سے روشناس کروانے کا پورا ارادہ رکھتا ہوں۔

اب اس کا جوتوں والا پاؤں اس کی کلائی تک پہنچا اور کلائی میں موجود سرخ کانچ کی چوڑیاں بھی چھنک کر ٹوٹیں۔

چوڑیوں کے چند کانچ اس کی کلائی میں چبھے تو کچھ ٹکرے فرش کی زینت بنے۔۔۔۔۔

قلب نے اس پر سے اپنا پاؤں ہٹایا تو وہ برستی اور شکوہ کناں نگاہوں سے اٹھ کر اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔

میرا عشق سچا ہے۔

اور میں نے جو بھی کیا آپ کو پانے کے لیے کیا۔۔۔

اب آپ چاہے مجھے جو بھی سزا دیں میں ہنس کر سہہ لوں گی۔۔۔

وہ اٹل لہجہ میں بولی۔۔۔

ہمممممم۔۔۔۔

مسز ملک قلب عباس میں ایسے ہی گٹس ہونے چاہیے بھی۔۔۔

اس کے بتائے گئے نام پر پریا نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔۔۔۔

کیوں چونک گئی نا؟؟؟؟

وہ استہزائیہ انداز میں میں مسکرا کر بولا ۔۔۔

اس کے لہجے میں اک عجیب سی چبھن تھی۔

اور پراسرار مسکراہٹ!!!!!

جانتی تو ہوگی ہی نا عالیان ملک کا بھائی اور شایان ملک کا بیٹا۔۔۔۔

وہ سراسیمہ نگاہوں سے اسے تکنے لگی۔۔۔۔

کیوں نام سن کر بولتی کیوں بند ہو گئی۔۔۔

اب بھی بولو نا مسسز ۔۔۔۔۔

وہ ابرو اچکا کر طنزیہ انداز میں بولا۔۔۔۔

وہ کشمکش میں مبتلا ہوئے اپنے لب دانتوں تلے کچلنے لگی۔۔۔۔

Baby ......

چچچچچچچہ۔۔۔۔۔

You are sooooooo Stupid......

وہ سو کو لمبا کھینچ کر بولا

چلو تمہاری اس پریشانی کو بھی دور کیے دیتے ہیں ۔۔۔

وہ کیا ہے نا کہ مجھ سے کسی کو پریشان حالت میں دیکھا نہیں جاتا۔۔۔۔

تمہیں پتہ ہے کہ ہم امیر لوگوں میں کیا خامی ہے ؟؟؟

وہ جامد کھڑی دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ اسی کو سن رہی تھی اس وقت اس کا ایک ایک عضو کان بن چکا تھا۔

ہم نا اگنورینس برداشت نہیں کر سکتے ۔۔۔

کیونکہ بچپن سے ہماری ہر خواہش پوری ہوتی ہے۔

ہمیں پلیٹ میں سجائے سب ملتا ہے۔

ہم جس چیز پر ہاتھ رکھتے ہیں اسے اپنے پیسے کے بل پر اپنا بنا لیتے ہیں۔

لیکن اگر کوئی ہمیں۔۔۔۔

ہم امیر زادوں کو اگنور کرےتو ؟؟؟

کیا مجال تھی اس کی جو ہمیں نظر انداز کر گیا۔۔۔۔اس کی تو اب خیر نہیں۔

اور وہی تمہارے ساتھ بھی کیا میں نے۔۔۔

تمہیں اگنور کر کہ۔۔۔۔

لڑکے جتنا پاس پاس آتے ہیں لڑکیاں اتنے نخرے دکھاتی ہیں۔

لیکن جب لڑکے اگنور کریں تو وہی لڑکیاں ان کے پیچھے خاک چھانتی ہوئی نظر آتیں ہیں۔

یہ میرا نظریہ ہے ،

ہو سکتا ہے تمہیں میری اس بات سے اختلاف ہو ۔۔۔۔

But I don't care.....

تو پھر ہوا کچھ یوں مسسز کے آپ میرے ہی ہاتھوں کی کٹھ پتلی بنی انجانے میں میرے ہی اشاروں پر ناچتی رہی۔۔۔۔

مجھے زیادہ محنت ہی نہیں کرنی پڑی اس بات کے لیے تو مجھے آپ کو داد دینی پڑے گی۔۔۔

اس نے دونوں ہاتھوں سے تالی بجا کر اسے داد دی۔۔۔

بہت ہی آسان شکار ثابت ہوئیں آپ تو۔۔۔۔

باتیں تھیں یا گویا چنگاریاں ۔۔۔جو اسے اپنے وجود میں چبھتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔

کبھی کبھی بادشاہ کو مات دینے کے لیے یونہی چھوٹے چھوٹے پیادے ہی کام آتے ہیں۔

 وہ حقارت ذدہ لہجے میں بولا۔

 تمہارے اس خود غرض باپ نے میرے بھائی کی کوئی غلطی نا بھی ہوتے ہوئے اسے موت کے گھاٹ اتارا۔۔۔۔

غلطی اس کی بیٹی نے کی 

اور سزا میرے معصوم بھائی کو۔۔۔۔۔

اب جو گناہ تمہارے اس گھٹیا باپ نے کیا اس کی سزا تو تمہیں ہی بھگتنی ہو گی نا ڈئیر۔۔۔۔

نا۔۔۔۔نا۔۔۔۔۔نا۔۔۔

صرف تم ہی نہیں بلکہ تمہارے ساتھ تمہارا باپ بھی بھگتے گا یہ سزا۔۔۔۔

کوئی مر جائے اور سامنے نا توکبھی نا کبھی  دل کو چین آ ہی جاتا ہے۔

مگر کوئی زندہ رہ کر بھی سامنے نہ آئے تو یہ تڑپ دیکھنے کا تو اپنا ہی مزہ ہے ۔۔

کیوں ؟؟؟

کیا کہتی ہو؟؟؟

وہ لبوں پر مسکراہٹ لیے بولا۔۔۔۔

قلب نے میز پر موجود اس کا کلچ اٹھا کر کھولا۔۔۔۔

اور اس میں اسے اس کا موبائل کر پوری قوت سے نیچے پھینکا۔۔۔

جو گر کر ٹوٹ گیا۔۔۔۔

بیٹری باہر گری اور سم بھی 

اس نے سم کو اٹھا کر دو ٹکروں میں منقسم کیا۔۔۔۔

تمہاری اطلاع کے لیے عرض ہے اس گھر میں فون کی سہولیات میسر نہیں اس لیے کوئی ایسی بودی سی کوشش بھی مت کرنا۔۔۔۔

وہ ساکت سی اپنی جگہ کھڑی اپنی بے بسی اور بے وقوفی پر آنسو بہا رہی تھی۔۔۔

اب تمہارا باپ تمہیں ایک نظر دیکھنے کے لیے ترسے گا مگر صد افسوس۔۔۔۔ترستا ہی رہ جائے گا۔۔۔۔

وہ کیا کہا تھا ؟؟؟؟

ہاں یاد آیا۔۔۔۔۔

وہ سوچنے کے انداز میں کنپٹی پر انگلی رکھ کر بولا

تمہیں پیار نہیں عشق ہے مجھ سے۔۔۔۔

اب اتنی جلدی عشق کا بھوت اتر گیا تمہارے سر سے؟؟؟؟

چلو بس بہت ہوا یہ رونے دھونے کا ڈرامہ 

اپنی شکل گم کرو میرے سامنے سے۔۔۔۔

وہ تنفر بھرے انداز میں بے زاری سے بولا۔۔۔

گر بازی عشق کی بازی ہےجو چاہو لگا دوڈر کیسا

گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں۔

(فیض احمد فیض)

وہ اپنی آنکھوں میں سے آئے آنسو صاف کرتے ہوئے پختہ عزم سے بولی۔۔۔۔

یہ تو وقت ہی بتائے گا کس کو شہ ملی اور کس کو مات ۔۔۔۔۔

قلب نے بھی اسی کے انداز میں تلخ لہجے میں جواب دیا ۔۔۔

اور وہ جو آپ کی مما ؟؟؟؟

اس نے من میں آیا آخری سوال کیا۔۔۔۔

اوہ وہ ۔۔۔۔۔۔۔

وہ تو میں کچھ مہینوں سے اس غریب آنٹی کی مدد کے لیے ان کے ساتھ رہ کر انہیں ڈبل کرایا ادا کر رہا تھا ۔۔۔

کیا پتہ تھا جاتے ہوئے وہ بھی میری مدد کر جائیں گی۔

پولس اسٹیشن سے چھوٹنا میرے دائیں ہاتھ کا کھیل تھا ،

مگر یہ میری ہی چال تھی ،

مجھے پتہ تھا تم مجھے کبھی وہاں رہنے ہی نہیں دو گی۔۔۔۔

وہ غرور سے بولا۔۔۔۔

کیوں مسسز صحیح کہا نا میں نے ؟؟؟؟

🎲🎲🎲🎲🎲🎲

 سنا ہے........

 جب ہچکی آتی ہے،تو کوئی یاد کرتا ہے۔

اگر اس بات میں تھوڑی سی بھی حقیقت ہے

تو ناممکن ہے کہ آپکی ہچکی 

ایک پل بھی  رکتی ہو گی۔

میں تو ہر وقت آپ کو یاد کرتی ہوں,وہ موبائل سکرین پر نظریں جمائے ہوئے اس کی تصویر سے مخاطب تھی ،،،،

ایسا ایک لمحہ بھی نہیں گزرا جب میں آپ کی یاد سے غافل ہوئی ہوں۔۔۔۔۔

آج آپ کو پتہ ہے کیا تاریخ ہے ؟؟؟

آج کا بے شک آپ کو پتہ ہو یا نہ ہو مگر کل یعنی آج رات بارہ بجے کیا تاریخ ہو گی وہ تو آپ کو اچھے سے یاد ہو گا۔

آج آٹھ اگست میری برتھ ڈے۔۔

اور کل نو اگست آپ کی برتھ ڈے ۔

کاش ہم دونوں ایک ہی دن پیدا ہوتے !!!

چلو کوئی بات نہیں،برتھ ڈے تو اکٹھی سیلیبریٹ کر سکتے ہیں نا۔۔۔۔

آج آپ 34کے اور میں 20 سال کی ہو جاؤں گی۔۔۔

بارہ بجنے میں بس کچھ ہی  سیکنڈز باقی تھے۔۔۔۔

انسٹا کی آئی ڈی پر بارہ بجتے ہی اسے برتھ ڈے وشز کے ڈھیروں ڈھیر میسجز آنے لگے۔۔۔

کاش میں بھی آپ کو وش کر پاتی!!!!

مگر آپ کیا سمجھیں گے کہ میں کیسی لڑکی ہوں جو کسی انجان کو ایسے وش کر رہی ہے۔

اور اتنے زیادہ میسجز میں میرا میسج تو شاید آپ کی نظروں میں بھی نا آپائے۔۔۔۔

اس کے ہاتھ کانپے۔۔۔۔

میسج لکھنے کا حوصلہ ہی نا پید ہوا۔۔۔

نہیں یہ ٹھیک نہیں۔۔۔۔۔

میں نے کبھی آپ سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔

اور نا ہی کبھی کروں گی۔۔۔

میں چاہتی ہوں اللّٰہ تعالیٰ میرے پیار کی سچائی اور شدت دیکھ کر خودی آپ کو میری قسمت میں لکھ دیں۔۔۔

اس کی ایک تصویر پر اس کے چہرے کے نقوش کو گمان میں چھو کر محسوس کرتے ہوئے،وہ مسرور ہوئی۔۔۔۔

مجھے آپ کی ظاہری خوبصورتی نے کبھی اٹریکٹ نہیں کیا آپکی طرف ۔

بلکہ آپ کے اندر کی چھپی ہوئی روح کی خوبصورتی نے مجھے اپنے حصار میں باندھ رکھاہے۔۔۔

جسے میں چاہ کر بھی خود کو کبھی جدا نہیں کر پاؤں گی۔۔۔۔

شاید وہ پھر سے دروازے کو لاک کرنا بھول چکی تھی۔

کے چرچراہٹ کی آواز سے دروازہ کھلا۔۔۔۔

دارم کو سامنے دیکھ اس نے فورا اپنا موبائل لرزتے ہوئے ہاتھوں سے تکیے کے نیچے چھپایا۔۔۔

دارم نے ہاتھ میں ایک بڑا سا پیکٹ پکڑا ہوا تھا جسے اس نے صوفہ پر رکھا۔۔۔۔

آ۔آپ یہاں؟؟؟؟

کیوں میرے یہاں آنے پر پابندی عائد ہے؟؟؟

دارم نے جواب دینے کی بجائے الٹا اس سے سوال کیا۔۔۔

پاپا ک۔۔۔۔ک۔۔۔۔کیسے ہ۔۔۔۔۔ہیں؟وفا کانپتی ہوئی آواز میں اس کا سوال نظر انداز کرتے  بولی۔۔۔۔

ہوسپٹل سے واپس لے آیا ہوں انہیں اب تم مل سکتی ہو ان سے ،مگر اب صبح ہی ملنا ،کچھ دیر پہلے ہی میڈیسن لے کر سوئے ہیں۔

م۔۔مگر ہوا کیا ہے پاپا کو؟

ان کا بلڈ پریشر شوٹ کر گیا تھا جس کی وجہ سے۔۔۔۔۔

وہ تھوڑا رکا۔۔۔۔

انہیں فالج کا اٹیک ہوا اور ان کی رائیٹ سائڈ پیرالائزڈ ہو گئی ہے۔۔۔۔

"کیا؟.....ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟..... آپ سچ کہہ رہے ہیں ؟؟؟

اس کے غلافی نین کٹورے دفعتاً آنسوؤں سے لبریز ہوئے۔۔۔

جیسے مہہ کا جام بھر کر چھلکتا ہے ہو بہو ویسے ہی سیال اس کے چشم آہو سے چھلکنے لگا۔۔۔۔۔

دل تو چاہا کہ آگے بڑھ کر ان انمول موتیوں کو سمیٹ لے۔

مگر ابھی ان حقوق سے محروم تھا۔

دوسرا وہ ایسی کوئی گستاخی کر بھی ڈالتا اگر مقابل کی ناراضگی کا ڈر نا ہوتا۔۔۔۔

اس دن اسکے سوئے ہوئے وجود کو دیکھ کر ایک چھوٹی سی گستاخی کا مرتکب بھی ہوا تھا۔۔۔

میرا اس بات پر تم سے مذاق کرنا بنتا ہے ؟

اچھا خیر جو اللّٰہ کی مرضی۔۔۔۔۔

سب سے اہم بات جسے کرنے کے لیے میں یہاں آیا ہوں ۔۔۔۔

پھر تم نے کیا سوچا ہے ؟؟؟

اس نے اپنی گیلی آنکھوں کو دوپٹے سےصاف کرتے ہوئے اس کی طرف ناسمجھی سے دیکھا۔۔۔۔

ایک دم اس دن والی بات دماغ کے جھروکوں سے گزری۔۔۔۔

اس کی سیاہ آنکھوں کی پتلیاں سکڑ کر ضرورت سے زیادہ پھیلیں۔۔۔۔

وہ حیرت سے اسے تکنے لگی۔۔۔۔

پلیز میں آپ سے کوئی بھی تعلق نہیں بنا سکتی ۔۔۔۔

مجھ پر رحم کریں۔۔۔وہ ہاتھ جوڑ کر منت بھرے انداز میں بولی۔۔۔۔

وہ چل کر اس کے پاس آیا۔۔۔۔

اور اس کو دونوں شانوں سے تھام کر ہلکا سا جھٹکا دیا۔۔۔۔

اس نے تو ہلکا سا دیا مگر وہ نازک کلی پوری کی پوری ہل کر رہی گئی۔۔۔۔

رحم تو تم مجھ پر کرو حامی بھر کر ۔۔۔۔

اگر تم نے ایسا نا کیا نا تو ......

دارم ابھی بھی اس کو شانوں سے تھامے ہوئے تھا ،اس کا سر تکیے پر لگاتے ہوئے خود اس پر جھکا۔۔۔۔

کر تو میں بہت کچھ سکتا ہوں۔۔۔

اور آج تو تمہیں مجھ سے بچانے بھی کوئی نہیں آنے والا۔۔۔۔

وہ تمہارا باپ تو بالکل بھی اب اس قابل نہیں رہا کہ اپنی بیٹی کی عزت بچا سکے۔۔۔۔

دارم کی گرم سانسیں اسے اپنے چہرے پر محسوس ہو رہی تھیں،جو اس کا چہرہ جھلسائے جا رہی تھیں۔۔۔۔

مجھے بغیر نکاح کے بھی تم سے رشتہ بنانے میں کوئی اعتراض نہیں۔۔۔۔

اگر تم ایسا ہی چاہتی ہو تو۔۔۔۔

یہ کہتے ہوئے وہ اس کی گردن پرجھکا۔۔۔۔

نہیں ۔۔۔۔۔پلیز ۔۔۔۔۔

ایسا مت کریں۔۔

"آپ انہیں کیسے بلا رہے ہیں ؟"وہ آپ کے بھی تو پاپا ہیں"۔۔۔۔۔

اس نے اپنے نازک ہاتھوں سے اسے پیچھے دھکیلا۔۔۔۔۔

وہ بھی فورا پیچھے ہوا۔۔۔۔

اصل میں ،میں صرف تمہیں تھوڑا سا ڈرا رہا تھا۔۔۔

اس نے دل میں سوچا۔۔۔۔

"میں انہیں جیسے بھی بلاؤں اس بات کو تو تم رہنے ہی دو "دارم نے اکتاہٹ بھرے انداز میں کہا

آپ چاہیں تو میری جان لے لیں مگر نا تو میں یہ سب چاہتی ہوں اور نا وہ جو آپ چاہتے ہیں۔۔۔۔

دیکھو وفا اب پھر تم مجھے غصہ دلا رہی ہو میں نا سننے کا عادی نہیں ہوں۔۔۔۔

یہ میں تمہارے لیے لایا تھا۔۔۔۔

اس نے صوفے پر رکھا ہوا پیکٹ اس کے پاس رکھا۔۔۔۔

"صبح یہ پہن کر اچھے سے تیار ہو جانا ہمارا نکاح ہے"۔۔۔۔

دارم یہ کہتے ہی ایک آخری نگاہ اس پر ڈالتا ہوا وہاں سے باہر نکلا۔۔۔۔

اس کے کمرے سے باہر جاتے ہی وہ بستر پر اوندھے منہ گرے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔۔۔۔

🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲

نیا دن طلوع ہوا،وہ وہیں لاؤنج میں ہی فرش پر بیٹھے ہوئے صوفے پر سر رکھ کر سوئی ہوئی تھی،  شاید آنسو بہاتے ہوئے وہیں آنکھ لگ گئی تھی۔

چہرے پر کسی نے ایک دم اچانک سے پانی بھر کر پھینکا۔۔۔۔

وہ ہڑبڑا کر اٹھی۔۔۔۔

اپنی آنکھیں کھول کر یہ جاننے کی سعی کی کہ آخر کار ہوا کیا ہے؟؟؟

وہ دشمن جاں ہاتھوں میں خالی جگ لیے کھڑا تھا۔شاید اسی جگ میں پانی بھر کر اس کو اٹھانے کی کوشش کی گئی تھی۔

"م ابھی تک اسی حلیے میں ہو" ؟؟؟

وہ کاٹ دار آواز میں غرایا۔۔۔۔

"تمہارا بیگ گاڑی میں موجود ہے نکال کر لاؤ اور چینج کرنےکہ پورے دس منٹ بعد ڈائینگ پر میرا ناشتہ موجود ہونا چاہیے۔۔۔

نا ایک منٹ کم نا ایک زیادہ۔۔۔

انڈرسٹینڈ؟؟؟؟

کل ملازمین نے ہی اس کا سامان سے بھرا بیگ گاڑی میں رکھا تھا۔

میں کیسے اٹھاؤں گی؟اس نے دل میں ہی کہا 

مگر اس کے سامنے کہنے کی ہمت نا تھی۔۔۔۔

وہ خاموشی سے اس کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے باہر آئی ۔

اور کافی تگ و دو کے بعد بمشکل بیگ نکال لیا۔۔۔

صد شکر کہ اس کے وہیل تھے جسکی وجہ سے اسے گھسیٹنے میں آسانی ہوئی۔۔۔۔

گھر میں آتے ہی پہلے خالی کمرے میں جاتے ہی اس نے بیگ کھولا۔

اور اپنا سادہ سی لیمن اور سی گرین کلر شلوار قمیض نکال لی۔۔۔

شاور لے کر فریش ہوئے اس نے دیوار گیر کلاک پر وقت دیکھا تو اپنے گیلے بالوں کو سلجھائے ویسے ہی کھلا چھوڑے باہر کی طرف بھاگی۔۔۔۔

کچھ وقت لگا اسے کچن مل ہی گیا۔۔۔

فریج کھول کر دیکھا تو اس میں بریڈ ،بٹر جیم ،انڈے، دودھ سب موجود تھا۔

ٹوسٹر میں ٹوسٹ سینکے،دوسری طرف چائے کے لیے پانی چڑھا دیا،دوانڈے فرائی کیے،

چائے دم پہ تھی،پریا نے زرا سا چہرہ نکال کر باہر دیکھنا چاہا۔۔۔

وہ ڈائینگ پر بیٹھا موبائل یوز کر رہا تھا۔۔۔۔

شاید ناشتے کے انتظار میں تھا۔۔۔

اس نے جلدی جلدی ہاتھ چلایا۔۔۔

چائے کپ میں ڈالی اور باقی کی چیزیں ٹرے میں رکھ کر باہر آئی۔۔۔

اور اس کے سامنے رکھیں۔۔۔۔

"یہ کیا ہے "؟؟؟

قلب نے موبائل سے نظریں ہٹا کر کھردرے پن سے پوچھا۔۔۔

"ناشتہ "اس نے یک لفظی جواب دیا۔

"میں ناشتے میں پراٹھا کھاتا ہوں "وہی بنا کر لاؤ جلدی'

وہ کہہ کر پھر سے موبائل پر ٹائپنگ میں مصروف ہوا۔۔۔۔

اسے اپنی جگہ پر جما ہوا دیکھ اس نے نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔۔۔

"جاؤ یہاں سے"وہ بولا کم دھاڑا زیادہ ۔۔۔۔

وہ اپنی جگہ پر ہل کر رہ گئی۔۔۔

"مجھے پراٹھا بنانا نہیں آتا "اس نے اپنی ہاتھوں کی انگلیوں کو مروڑتے ہوئے بے بسی سے کہا۔۔۔

"ہاں پر مجھے لوگوں پر جھوٹھا الزام لگا کر انہیں پھنسانا ضرور آتا ہے"

قلب نے طنز بھرے جملے کے نشتر سے اس پر وار کیا۔۔۔

وہ بغیر ناشتہ کیے وہاں سے اٹھا۔

آج سارا دن گھر میں رہ کر پراٹھا بنانے کی پریکٹس کرو۔۔۔

کل سے مجھے ناشتے میں وہی چاہیے۔

میرے آنے تک مجھے سارا گھر صاف چاہیے۔

اور ہاں یہاں سے بھاگنے کی کوشش بھی مت کرنا ۔۔۔۔

ہو سکتا ہے مجھ سے بچ کر نکل بھی جاؤ مگر یہاں کے جنگلی جانوروں کے ہتھے چڑھ جاؤ گی۔

آگے تمہاری مرضی۔۔۔وہ عام سے انداز میں کندھے اچکا کر کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔۔۔

پریا کو دروازے کے باہر سے لاکڈ کرنے کی آواز سنائی دی۔۔۔۔

وہ ڈائینگ کی کرسی گھسیٹ کر اس پر نڈھال سی ہو کر بیٹھی۔۔۔۔

"میں نے کہاں جانا ہے تمہیں چھوڑ کر '

جسے پانے کے لیے سب کیا ،اسے ایسے ہی چھوڑ دوں گی میں؟

🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲

"مام مجھے آپ کو کچھ بتانا ہے"درام نے کہا۔

وہ جو نیوز پیپر کی سرخیوں پر نظریں دوڑا رہی تھیں۔

چونک کر سر اٹھایا اور اس پر نظر ڈالی۔

ہہہم۔۔۔بولو کیا بات ہے ؟

"آج میں وفا سے نکاح کرنے والا ہوں "''

بات تھی یا کوئی بم جو ان کے سر پر گرایا گیا تھا۔۔۔۔

وہ جھٹکے سے اخبار چھوڑے اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی۔۔۔

"تم کوئی پاگل واگل تو نہیں ہو گئے جو ایسی بنا سر پیر کے باتیں کر رہے ہو؟

اوہ !!!!!

"کہیں صبح صبح پی تو نہیں رکھی جو ایسے فضول کی ہانک رہے ہو؟

وہ اندازہ لگاتے ہوئے بولیں۔۔۔۔

"میں اپنے پورے ہوش و حواس میں ہوں "

وہ تلخ لہجے میں گویا ہوا۔۔۔۔۔

اگر تم ہوش میں ہو تو کیا دنیا میں لڑکیوں کا کال پڑ گیا ہے؟ جو تمہیں شادی کرنے کے لیے وہ سائیکو لڑکی ہی ملی۔۔۔۔۔

کیا کمی ہے اس میں مجھے وہی پسند ہے ،میں فیصلہ کر چکا ہوں ،اور اب یہ بدلنے والا نہیں ۔

مجھے لگتا ہے تم بھی پاگل ہو چکے ہو جو اس طرح کی بہکی ہوئی باتیں کر رہے ہو۔۔۔

ویسے مام آپ کو نہیں لگتا ون سائیکو پلس  این ادر سائیکو از ایکوئیل ٹو سپر سائیکو۔۔۔۔۔

وہ کیا کہتے ہیں نا ایک سے بھلے دو۔

کیا خوب مزہ آئے گا جب مل بیٹھے گے دیوانے دو۔

وہ مسرور انداز سے بولا۔۔۔۔

دارم میں ایسا کبھی نہیں ہونے دوں گی۔۔۔وہ نفی میں سر ہلا کر غصے سے بولی۔۔۔۔

ایسا ہو کہ رہے گا ۔۔۔

کون روکے گا مجھے ؟؟؟

آپ ؟؟؟

اگر آپ نے زرا سا بھی شور مچایا نا تو مجھے آپ کو تاعمر سلاخوں کے پیچھے بھیجنے میں ایک لمحہ نہیں لگے گا ۔۔۔

آئی بات سمجھ میں ؟؟؟

اس نے انگلی اٹھا کر انہیں کڑے تیوروں سے وارن کیا۔۔۔۔

وہ یک ٹک حیران نظروں سے اس کے بدلے ہوئے روپ کو تکنے لگیں۔۔۔۔

So....

My Dear mom....

آپ کی بھلائی اسی میں ہے چپ چاپ جو میں کہہ رہا ہوں مان جائیں ۔۔۔۔

ورنہ میں اس راز سے پردہ اٹھاؤں گا نا کہ ۔۔۔۔۔

🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲🎲

اسے تیار کرنے شہر کے مشہور ترین سلیون سےایک ماہر بیوٹیشن اور اس کی ہیلپر آئی تھی۔

مگر وہ خود کو اندر کمرے میں قید کیے ہوئے تھی۔

"وفا دروازہ کھولو" !!!

دارم کی گرجدار آواز نے اس کے حواس مختل کرنے میں کوئی کسر نا چھوڑی۔۔۔۔۔

وہ مرے مرے قدموں سے چلتی ہوئی دروازے تک آئی اور اسے ان لاکڈ کیا۔۔۔

دارم خانزادہ کی غضب ڈھاتیں ہوئی بھوری آنکھیں جیسے اس کی جان لینے کے دپے تھیں۔

"جو یہ کریں خاموشی سے انہیں کرنے دینا اب مجھے تمہاری طرف سے شکایت کا موقع نا ملے"۔۔۔۔

ورنہ میں خود تمہیں تیار کروں گا جو تمہیں قطعاً نا گزیر ہو گا"

وفا نے بھیگی ہوئی شکوہ کناں نگاہوں سے اسے دیکھا۔۔۔۔

دارم کے پیچھے دو لڑکیاں تھیں۔

دارم نے انہیں اندر آنے کا راستہ دیا۔۔۔

اور خود باہر نکل گیا۔۔۔

ایک لڑکی نے اسے بیڈ پر بٹھایا اور اس کے ہاتھوں کو ماہرانہ انداز میں مہندی کے دلکش ڈیزائن سے تیزی سے بھرنے لگی۔

"میم آپ کے ڈریس کا کلر کیا ہے" ؟؟؟

"میں اس سے ہم رنگ میک اپ نکال لوں"؟؟؟

دوسری نے وفا سے پوچھا۔۔۔۔

وفا ہونٹوں کو باہم پیوست کیے جیسے صبر جیسے جذبے سے گزرنے کے آخری مراحل میں تھی۔

"کیا یار مام آپ ابھی تک ایسے ہی گھوم رہی ہیں "؟

آخر آپ کے اکلوتے بیٹے کی شادی کا موقع ہے ۔

نیلم رئیسانی نے اس پر ایک تفصیلی نگاہ ڈالی۔۔۔۔جو پہلی بار بلیک کلر کی برینڈڈ شلوار قمیض میں ملبوس تھا۔

جو اس کی سرخ و سفید رنگت پر خاصی نمایاں ہو رہی تھی۔

اپنے دارز قد بیٹے کو پہلی بار اس حلیے میں دیکھ وہ اسے دل میں سراہے بنا نا رہ سکی۔

مگر منہ سے ایک لفظ نہیں کہا ۔۔۔

اپنی طرف سے ان کی خفگی کا اظہار تھا۔

جائیں مام اپنی ہونے والی بہو کو لے کر آئیے روم سے باہر مولوی صاحب انتظار کر رہے ہیں۔۔۔۔

وہ اپنے شانوں تک آتے ہوئے سلکی بالوں میں ہاتھ پھیر کر بولا۔۔۔ 

ڈیڈ تو باہر آ نہیں سکتے کیوں نہ یہ فریضہ ان کے سامنے ان کے کمرے میں ہی انجام دیا جائے۔۔۔۔

ایسا کریں آپ وفا کو وہیں لے آئیں۔۔۔۔۔

نیلم رئیسانی منہ پھلائے ہوئے وفا کے کمرے تک بڑھ گئیں۔۔۔۔۔

کچھ دیر میں سب سلیمان رئیسانی کے کمرے میں موجود تھے یہ روم رئیسانی مینشن کا سب سے بڑا اور لگژری روم تھا

مولوی صاحب نے نکاح کی رسم ادا کرنا شروع کی۔۔۔۔

سلیمان رئیسانی کو دارم کی مشکوک حرکتیں بری طرح کھٹک رہی تھیں۔۔۔۔

وہ اپنے ایک ہاتھ کو حرکت دیتے ہوئے مسلسل نفی کا اشارہ کر رہے تھے۔۔۔۔

منہ سے ایک لفظ بھی نا بول پا رہے تھے۔۔۔

دارم نے ایک تلخ مسکراہٹ ان کی بے سی پر اچھالی۔۔۔۔

سرپرست کے سائن کا وقت آیا تو سلیمان رئیسانی نے سائن کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنے تاثرات سے خوب نفی کی ۔۔۔

مگر مقابل پر اس کا زرا سا بھی اثر نا تھا۔۔۔۔

مولوی صاحب یہ دستخط نہیں کر پائیں گے۔۔۔

اس نے سلیمان رئیسانی کا ہاتھ زبردستی اپنے قابو کیے ان پر سیاہی لگا کر تھمب پرنٹ لگایا۔۔۔۔

لیں مولوی صاحب یہ کام تو ہو گیا۔۔۔وہ چبھتی ہوئی نظریں سے سلیمان رئیسانی کی طرف دیکھ کر بولا۔۔۔۔

اپنے پاپا کی حالت دیکھتے ہوئے وہ انہیں دکھ نا دینے کا سوچتی ہوئی اپنی زندگی قربان کر گئی۔۔۔۔

اور نکاح نامے پر سائن کر دئیے۔۔۔

مگر گھونگھٹ کہ اوڑھ میں وہ ہچکیوں سے بے آواز آنسو بہا رہی تھی۔۔۔۔

جیسا انسان سوچتا ہے وہ کب ہو پاتا ہے ہوتا وہی ہے جو اس کی قسمت میں لکھا ہوتا ہے۔

ہمارے پاس زندگی کا ایک حیران کن تصور موجود ہوتا ہے کہ چیزیں ایسی ہونی چاہئے۔۔ویسے ہونی چاہیے

اور جب ہمارا سوچا گیا حقیقت میں نہیں ڈھلتا تو ہم مایوس ہو کر ہمت ہار جاتے ہیں۔۔۔

اپنے ہی خود کے خواہشات کے بنائے گئے محل جب ریت کی مانند بکھر جاتے ہیں تو ہم خود بھی ٹوٹ جاتے ہیں۔

ایسا ہی اس کے ساتھ ہوا وہ بری طرح ٹوٹ کر بکھری تھی۔۔۔

میڈ سے کہو وفا کو روم میں چھوڑ آئے۔۔۔۔

نیلم رئیسانی نے مولوی صاحب کے جانے کے بعد دارم کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔۔

اس گھر میں کوئی میڈ نہیں ۔۔۔۔

یہ کام آپ کا ہے اور آپ ہی اسے میرے روم تک چھوڑ کر آئیں گی۔۔۔

کیوں میڈز کہاں گئیں ؟؟؟

وہ تنک کر بولیں۔۔۔

آپ پہلے اسے روم میں چھوڑ کر آئیں پھر بتاتا ہوں ۔۔۔۔

وہ وفا کے بازو کو سختی سے پکڑے تقریباً گھسیٹنے کے انداز میں ساتھ لے جا رہی تھی۔

اور وفا کا گھونگھٹ میں بے جان شکستہ وجود اپنے آپ ہی گھسٹتا چلا جا رہا تھا۔۔۔۔

انہوں نے اسے دارم کے کمرے میں لاکر بیڈ پر دھکا دینے کے انداز میں پھینکا۔۔۔۔

"ہنہہ۔۔۔۔۔۔معصوم صورت اور کالے کرتوت "

میرے بیٹے کو اپنی معصومیت سے پھنسا لیا۔۔۔۔

ہے بیس سال کی زرا سی لڑکی ،اورمردوں کو پھنسانے کے حربے چیک کرو زرا اس کے ۔۔۔۔

 تمہارا جینا نا حرام کر دیا تو میرا نام بھی نیلم نہیں۔۔۔۔وہ پھنکارتی ہوئی تیز قدموں سے باہر نکلی۔۔۔۔

تم آخر چاہتے کیا ہو ؟؟؟

نیلم رئیسانی نے تیر کی تیزی سے کمرے میں آتے ہی پوچھا۔۔۔۔

اس وقت کمرے میں سلیمان رئیسانی،نیلم اور دارم خانزادہ وہ تینوں ہی موجود تھے۔۔۔۔

پہلے تم نے گارڈز کو فارغ کیا۔پھر میڈز کو ؟

وجہ بتاؤ؟؟؟وہ کمر پر ہاتھ رکھ کر لڑاکا انداز میں بولی۔۔۔۔

چچچچچچچ۔۔۔۔۔۔۔

آپ دونوں اتنے بھی معصوم نہیں جتنا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔۔

آپ دونوں کے اصل سے میری پہچان آج سے کافی سال پہلے ہی ہو چکی ہے۔۔۔

مجھے آج بھی وہ رات اچھے سے یاد ہے جب میرے بابا واسع خانزادہ گھر نہیں تھے اور یہ ذلیل گھٹیا انسان ہمارے گھر پہ آیا تھا۔۔۔۔

میں آپ کو ڈھونڈھنے آیا تو ۔۔۔۔۔۔

آگے تو آپ بہتر جانتی ہیں۔۔۔۔۔

وہ کاٹ دار آواز میں بولا

بابا اچانک گھر آگئے اور میں سہم کر دروازے کی اوٹ میں ہوگیا۔۔۔

میں نے وہ سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا جب بابا نے آپ دونوں کو ساتھ دیکھا تو وہ آگ بگولہ ہوگئے۔۔۔۔

اس گھٹیا شخص اور بابا کے بیچ ہاتھا پائی ہوئی اور آپ نے اس کمینے انسان کو بچانے کے لیے بابا کے سر پر شیشے کے گلدان سے پیچھے سے وار کیا۔۔۔۔۔

آپ کے زرا بھی ہاتھ نا کانپے میرے بے گناہ باپ کی جان لیتے ہوئے۔۔۔۔

میرا وجود تو پوری طرح کانپ رہا تھا۔۔۔اپنے بابا کی زندگی کی دعائیں مانگ رہا تھا۔۔۔

اور ان کی رہی سہی سانسیں اس ظالم انسان چھین لیں۔۔۔۔

آپ دونوں قاتل ہیں میرے بابا کے۔۔۔۔

اور میں اس قتل کا چشم دید گواہ۔۔۔۔۔

اس وقت میں اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ آپ کے خلاف کوئی کارروائی کرتا۔۔۔

بس صحیح وقت کا انتظار تھا۔۔۔۔۔

میں چاہتا تو یوں ۔۔۔۔یوں وہ انگلیوں سے چٹکی بجاتے ہوئے بولا ۔۔۔

یوں تمہاری جان لیتا۔۔۔۔۔

وہ سلیمان رئیسانی کی طرف تنفر بھری نگاہوں سے دیکھتا ہوا بولا۔۔۔۔

مگر جو انسان اتنی موتوں کا سبب ہو وہ ایک جھٹکے میں مر جائے ۔۔۔۔یہ تو ذیادتی کی بات ہوئی۔۔۔

ہے نا میری ِکلر مام ۔۔۔۔وہ نیلم رئیسانی کے شانے پر کہنی ٹکاتے ہوئے ابرو اچکا کر بولا۔۔۔

تم دونوں تو وہ سانپ ہو ۔۔۔۔۔

No.no..... I think.....I am Wrong.....

سانپ کہنا جائز نہیں بلکہ ایسے اژدھے ہو جو وقت پڑنے پر اپنوں کو ہی سالم نگل لیتے ہو۔۔۔۔

جیسے تم نے اپنی بیٹی کو نگلا ۔۔۔۔اور تم نے اپنے شوہر کو ......

وہ ان دونوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے زہر خند لہجے میں بولا۔۔۔۔

تم نے تو اس دولت کو کمانے کے لیے بزنس میں اپنا نام کمانے کے لیے جانے کتنے بے گناہوں کی جان لی۔۔۔۔۔

پر افسوس!!!!!!!! ہنہہہ

آج وہ بزنس بھی تمہارا نہیں رہا۔۔۔۔وہ ہنکارا بھر کر بولا۔۔۔

وہی گارڈز تمہارے مددگار تھے نا ان سب غیر قانونی اور انسانیت سے گری ہوئی حرکات کو انجام دینے میں انہیں بھی میں نے فارغ کیا۔۔۔۔

آج تم لاچار اور بے بس ہو خود اپنے لیے اٹھ کر پانی بھی نہیں پی سکتے۔۔۔۔

اس سے زیادہ اور سزا کیا ہوگی تمہارے لیے۔۔۔۔

اس بے وفا عورت کے لیے تم نے میرے باپ کی جان لی تھی نا ۔۔۔۔

دیکھنا وقت پڑنے پر یہی تمہیں سب سے پہلے چھوڑ کر بھاگے گی۔۔۔۔

جو اپنے وفادار شوہر کی نا بن سکی وہ تمہاری کیا بنے گی۔۔۔۔۔

اس نے نیلم کوبھی آئینہ دکھایا۔۔۔۔

وہ خاموش کھڑی صرف تلملا کر رہ گئی۔۔۔

فی الحال اس کے بس میں کچھ نا تھا۔۔۔۔

میں تمہیں یونہی تل تل کر مرتے دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔۔

اور آج میری وہ خواہش پوری ہو گئی۔۔۔۔

آج تم دونوں خالی ہاتھ رہ گئے ۔۔۔۔

میں چاہتا تو کچھ بھی غلط کر سکتا تھا مگر میری رگوں میں واسع خانزادہ کا خون دوڑ رہا ہے ۔۔۔

تم لوگوں کو بس سبق سکھانا چاہتا تھا۔۔۔

کسی کی بھی جان لینے کا حق ہمیں ہمارے خدا نے نہیں دیا۔۔۔۔

وہ حق صرف و صرف اس پاک ذات کا ہے۔۔۔۔

اب تڑپتے رہو یونہی پڑے پڑے۔۔۔

اور آپ ۔۔۔۔

وہ نیلم رئیسانی کی طرف پلٹ کر بولا۔۔۔

اگر جیل کی ہوا نہیں کھانا چاہتی تو چپ چاپ کام پر لگ جائیں ۔۔۔۔

ساری زندگی بڑی عیاشیوں میں گزاری ہر وقت پارٹیز اور این جی اوز کے بہانے گھر سے باہر۔۔۔۔

یہ وقت ہے اپنے گناہوں سے توبہ کا اللّٰہ اللّٰہ کریں۔۔۔۔

اور ہاں ۔۔۔۔

صبح سے گھر کا سارا کام آپ کریں گی ۔۔۔

اس گھر میں کوئی میڈ نہیں آئے گی۔۔۔

Understand.......

دارم تم وہ اس کی بات سن کر غصے سے کھولتی ہوئی اس کی جانب بڑھیں۔۔۔۔

اس سے پہلے کے نیلم کا ہاتھ دارم کے منہ پر اٹھتا۔۔۔

دارم نے بیچ میں سے ہی اسے اچک لیا۔۔۔۔

اگر آپ ایک اچھی ماں ثابت ہوئی ہوتیں تو میں خوشی خوشی یہ تھپڑ قبول کرتا ۔۔۔

مگر آپ نے کبھی مجھے ماں ہونے کا احساس تک نا کروایا۔۔۔

مجھے آج تک  آپ کا پیار بھرا آپ کا ممتا بھرا ایک بھی لمس یاد نہیں۔۔۔

کبھی آپ نے اس جذبے سے مجھے روشناس کروایا ہوتا تو اب مجھے بھی آپ کو دیکھ کر ایک ماں کا احساس ہوتا ۔۔۔

اس نے آہستگی سے ان کا ہاتھ نیچے کرتے ہوئے چھوڑا۔۔۔۔

اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔۔

روم میں آیا تو وہ سامنے اس کے بستر پر گٹھری بنی بیٹھی تھی۔۔۔۔

اس وقت اس کی پیشانی کی رگیں اُبھری ہوئی معلوم ہو رہی تھیں۔۔۔

غصہ تھا کہ کنٹرول سے باہر ہو رہا تھا۔۔۔۔

اپنے دشمنوں کا غصہ اس پر نکالے یا پیار کرے ؟

ذہن اسی کشمکش میں گِھرے ہوئے تھا۔۔۔۔

تو پھر آج تم پوری کی پوری میری ۔۔۔۔۔

وہ اسے سر تا پا گہری نگاہوں سے اس کا ایکسرے کرتا ہوا کروفر ذدہ لہجے میں پھنکارا۔۔۔۔۔۔

مگر وہ اپنی جگہ جامد رہی جیسے کوئی برف کا بنا مجسمہ ۔۔۔۔

اس کے سرخ ذرتار آنچل کے باہر اس کی گوری کلائیاں جو بھر بھر کر سہاگ کی سرخ چوڑیوں سے سجی ہوئی تھیں

۔نازک مخروطی انگلیاں آپس میں پیوست حنائی ہاتھوں اور بازوؤں پر اسی کے نام کی مہندی لگائےہوئے تھی۔

گھونگھٹ اٹھاو۔۔۔۔۔

وہ اس نے حکم جاری کیا۔۔۔۔

مگر اس کی حالت ٹس سے مس نہ ہوئی۔۔۔۔

صرف اتنا فرق آیا کہ اب گھونگھٹ میں موجود نفس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔۔۔۔

اور قطار در قطار موتیوں کی مانند اسی کے اپنے ہاتھوں پر گرنے لگے۔۔۔۔۔

اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ وہ واقعی ایک ذندہ ہستی ہے۔۔۔۔

زہر لگتی ہیں ہر وقت مگرمچھ کے آنسو بہاتی ہوئی لڑکیاں ۔۔۔۔۔

اس نے اس کے تن سے آنچل ایک ہاتھ سے کھینچ کر اتارا اور زمین پر پھینکا۔۔۔۔

وہ سہمی ہوئی چڑیا کی مانند آنکھیں میچیں اپنی اتھل پتھل ہوتی ہوئی سانسوں کو بحال کرنے میں کوشاں تھی۔۔۔۔۔

اس کی نظر جب اس کے سوگوار حسن پر پڑی تو پلٹنا بھول گئی۔۔۔۔

آتشی گلابی عروسی لباس میں ملبوس،خفت ذدہ سا گلابی چہرہ ، بھیگی پلکیں ، درد کو سہتے نچلے ہونٹ کو دانتوں میں دبائے ۔۔۔۔۔۔ اسے لگا کہ وہ سب بھول گیا کہ وہ یہاں کیوں آیا ہے ؟اس سے بھی بدلہ لینے یا ؟؟؟؟

اُسے دیکھ کر وہ ساری دنیا بھول جاتا تھا،اور آج بھی وہی ہوا۔۔۔۔۔

 کیونکہ اُس کے محبوب کی ہر ادا ہی نرالی تھی ۔ ابھی وہ اُس کے سجے سنورے روپ کو آنکھوں کے راستے دل میں اُتار رہا تھا کہ اُس کی آواز خانزادہ کو ہوش میں لائی جو چہرے پر پریشانی لئے پوچھ رہی تھی ۔

میں جاؤں؟؟؟؟اس کا جسم ڈر کے باعث ہولے ہولے لرز رہا تھا۔۔۔۔۔

 وہ آتشی گلابی رنگ کے ہی میک اپ میں سجی اپنے دو آتشہ روپ سے اسے مزید اپنا اسیر بنارہی تھی۔

اس کے گالوں پر کچھ دیر پہلے نکلنے والے آنسو جم کر اپنے مٹے مٹے نقوش چھوڑے ہوئے تھے۔۔۔۔۔

اس نے دارم کی بھوری آنکھوں کی تاب نہ لاتے ہوئے خوف سے آنکھیں میچیں۔۔۔۔اور اسے یاد کرنے لگی۔۔۔۔

اس کے تھرتھراتے ہوئے لب ،شاید کچھ بڑ بڑا رہے تھے۔۔۔۔۔

ش۔۔۔شی۔۔۔شہہ۔۔۔۔۔

کون ہے یہ ش۔۔۔۔۔؟؟؟وہ اس کے لبوں سے یہ لفظ سن کر دھاڑا۔۔۔۔۔

اس کے تھرتھراتے ہوئے لب باہم پیوست ہوئے۔۔۔۔۔

سر نفی میں ہلا۔۔۔۔مگر حلق میں سے آواز نکلنے سے انکاری تھی۔۔۔۔۔

آنکھوں میں کسی کی شبیہہ لہرائی۔۔۔۔

وہ جو اس کی زندگی تھا۔

وہ جو اس کے جینے کی وجہ تھا۔

اس کا دل جب جب دھڑکتا اسی کا نام لیتا۔۔۔

ایک ایک سانس پر اسی کا نام تھا اسی کی اجارہ داری قائم تھی۔۔۔

وہ سانس لینا تو بھول سکتی تھی مگر اسے نہیں۔۔۔۔۔

 کمرے میں اندھیرا چھاتے ہی جیسے اس کی زندگی میں بھی اندھیرا چھا گیا۔۔۔۔

اس نے اس کے ٹخنے پر گرفت جماتے ہوئے ایک جھٹکے سے کھینچ کر بستر پر گرایا۔۔۔۔۔

وہ ذندہ لاش کی طرح بے حس و حرکت پڑی رہی۔۔۔۔۔

وہ اس کے وجود پر قابض ہوا۔۔۔

مگر من اور روح میں جگہ پانا قسمت والوں کے نصیب میں ہوتا ہے۔

ملک قلب ِ عباس اپنا والد ملک شایان کا بزنس سنھبالنے کی بجائے اپنی باٹنی کی سپیشیلائزیشن  کمپلیٹ کیے فارسیٹ آفیسر کے عہدے پر قائم تھا۔جب اسے اپنے بھائی عالیان ملک کی اچانک وفات کی خبر ملی تو وہ چھٹی لیے اپنے شہر لوٹ آیا۔

اپنے بھائی کی نا حق موت کا بدلہ لینے کے لیے اس نے ایک پلان ترتیب دیا۔۔۔۔

مگر اس سارے معاملے سے اس کے گھر والے انجان تھے۔

قلب عباس کی پوسٹنگ دوسرے شہر ہو چکی تھی وہ یہی سمجھ رہے تھے کہ وہ وہاں جا چکا ہے۔

اس ایریا میں آج اس کا پہلا دن تھا جوائننگ

کا۔

اور یہ بہت ہی تھکا دینے والا دن ثابت ہوا۔۔۔۔ 

رات کو وہ تھکا ہارا گھر لوٹا تو لاک کھول کر اندر داخل ہوا۔۔۔۔

سارا گھر بالکل صاف ستھرا دکھائی دیا۔۔۔

اس نے صفائی کرنے والی ہستی کی تلاش میں ادھر ادھر نظریں دوڑائیں۔۔۔۔

مگر وہ کہیں بھی نظر نہیں آئی ۔۔۔۔

فی الحال وہ بھی کسی لڑائی کے موڈ میں نہیں تھا اور نا ہی اس کا چہرہ دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔

پہلے کمرے کی دہلیز کے نیچے سے آتی نائٹ بلب کی مدھم سی روشنی سے اس نے اندازہ لگایا کہ وہ سو چکی ہے۔۔۔

اسی لیے کچن کا رخ کیا۔۔۔

مگر خالی کچن اس کا منہ چڑا رہا تھا۔۔۔

فریج کھول کر دودھ کا پیکٹ نکالا ۔۔۔

چائے بنانے کی بھی خود میں ہمت نا پاکر اس نے ایک گلاس دودھ کا بھرا اور خالی پیٹ میں ڈالا۔۔۔

نیند سے آنکھیں بوجھل ہو رہی تھی تو وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔

💕💕💕💕💕💕💕

شفق پھوٹی تو ہر طرف اجالا پھیلا۔۔۔

اس نے کسمسا کر اپنی آنکھیں کھولیں تو خود کو اس کی گرفت میں قید پایا۔۔۔

جیسے ایک دیو کی قید میں ننھی سی پری۔۔۔

بمشکل خود کو اس سے جدا کیے وہ بستر سے نیچے اتری۔۔۔

دو قدم بھی نا چلا گیا ۔۔۔وہ پیٹ پر ہاتھ رکھے درد سے دہری ہوئی۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ لڑکھڑا کر گرتی۔۔۔

کسی کی مضبوط بانہوں نے اسے سہارا دیا۔۔۔

"واش روم جانا ہے"

اس کی گھمبیر آواز اسے اپنے کانوں کے قریب

سنائی دی۔

اس میں آنکھ اٹھا کر بھی دیکھنے کی ہمت نا پید تھی۔۔۔۔

دارم نے اسے بانہوں میں بھر کر واش روم کا دروازہ پاؤں کی ٹھوکر سے کھولا۔۔۔

اور اسے اندر چھوڑا۔۔۔۔

ٹاول اور باتھ روب کبرڈ سے نکال کر اندر لٹکاتے ہوئے خود باہر آیا اور بستر پر بیٹھا۔۔۔

اپنی آنکھیں زور سے میچے ہوئے اس نے اپنے بالوں کو مٹھیوں میں جکڑا۔۔۔

یہ میں نے کیا کردیا؟؟؟؟

وہ افسوس ذدہ لہجے میں خود سے ہی مخاطب ہوا۔۔۔

کیا حالت ہو گئی اس کی۔۔۔۔وہ کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔۔۔

ہوش میں تب آیا جب واش روم کا دروازہ کھلا اور اس نے باہر آنے کے لیے قدم اٹھایا۔۔۔

"ایک منٹ رکو"

دارم نے اسے باہر نکلنے سے روکا۔۔۔

اور پھر سے اس کے پاس آکر اسے اٹھاتے ہوئے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے رکھے ہوئے سٹول پر بٹھایا۔۔۔

اس دوران وہ آنکھیں جھکائے بالکل خاموش رہی۔۔۔۔

دارم نے اس کے بالوں میں سے ٹاول نکال کر ایک طرف رکھا۔۔۔

اور ہیئر برش اٹھا کر نہایت نرمی سے اس کے بال سلجھانے لگا۔۔۔۔

اس نے بہت کوشش کی کہ وہ ایک بار نظر اٹھا کر اسے دیکھے مگر اس کی یہ خواہش ادھوری ہی رہ گئی۔۔۔

اب تم آرام کرو۔۔۔۔

دارم نے اسے اٹھا کر واپس بستر پر لٹاتے ہوئے کہا۔۔۔۔

مگر اس کے بالوں سے آتی ہوئی بھینی بھینی مہک اس کے حواس چھین رہی تھی۔۔۔۔

اسے مدھوش ہونے میں لمحہ لگا۔۔۔۔

اس نے بستر پر لیٹتے ہوئے اسے اپنے حصار میں لیا۔۔۔۔

مائی لٹل ڈول!!!!میری طرف دیکھو۔۔۔۔

اس کی فرمائش پر وفا نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔۔۔۔۔

اس کی جذبے لٹاتی ہوئی آنکھوں میں اس وقت طلاطم برپا تھا۔۔۔۔۔۔

I am really very Sorry......

پلیز ہو سکے تو مجھے معاف کر دو۔۔۔

یار سچ!!!! دل سے کہہ رہا ہوں ۔۔۔

وہ اس کے گیلے بالوں سے ٹپکتی ہوئی بوندوں کو اپنی گردن پر محسوس کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔

وہ خالی نظروں سے اسے دیکھتی رہی ۔۔۔۔

میں بہت برا ہوں نا ؟؟؟

"مجھے بہت غصہ آتا ہے ،اور غصے میں مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا کیا کر جاتا ہوں۔۔۔

بعد میں یاد آنے پر پچھتاتا ہوں۔

میں نے اپنے بچپن سے لے کر اب تک کے تمام تر درد اور وحشتیں جو میرے حصے میں آئیں وہ سب تم میں انڈیل دیں'۔۔۔۔

'"مجھے پتہ ہے یہ بہت تکلیف دہ امر تھا۔۔۔ جو میں نے تمہاری رضا نا جانی اور تم پر دھونس جمائی ۔۔۔

اور اپنے ساتھ اس  بندھن میں بندھ جانے پر مجبور کیا۔۔۔۔۔ 

شاید یہ سب ناقابلِ معافی ہے"۔۔۔۔

"مگر میں سچ میں شرمندہ ہوں ۔۔۔۔

میں چاہتا تو تمہارے باپ کا بدلہ تم سے لیتا۔۔۔

بنا کسی بندھن میں باندھے تمہیں حاصل کر لینا میرے لیے کوئی مشکل نہ تھا۔

مگر میں تمہیں سچے دل سے چاہنے لگا ہوں۔۔۔

یہ میری محبت ہی ہے کہ آج ہم دونوں ایک پاکیزہ بندھن میں بندھ چکے ہیں۔

میں بہت اکیلا ہوں مجھے کسی بہت اپنے کی ضرورت تھی"۔۔۔

تمہیں دیکھ کر ایسا لگا وہ "اپنا"صرف تم ہو میرے لیے۔۔۔۔

جانے کب دل میں تم سمائی کہ اسے اور کچھ سجھائی  ہی نہیں دیا۔۔۔۔

یار میں کونسا فرشتہ ہوں ایک عام سا بندہ ہوں اور غلطیاں توانسانوں سے ہی ہوتی ہیں۔

مگر تمہیں پتہ ہے معاف کر دینے والوں کا درجات زیادہ بلند ہیں۔

وفا کی چپ نہیں ٹوٹنی تھی اور نا ٹوٹی۔۔۔۔

اس نے ایک پیار بھری چھوٹی سی جسارت کر ڈالی۔۔۔۔

مگر وہ بنا تاثرات کے سپاٹ رہی۔۔۔۔

جیسے کوئی بے جان مجسمہ ہو۔۔۔۔

میں ابھی تمہیں پین کلر لاکر دیتا ہوں ۔۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔

ویسےوفا ایسے میں تو سنا ہے لڑکیاں شرم سے دوہری ہو جاتی ہیں ان کے گالوں پر لالیاں پھوٹتی ہیں مگر تم تو ۔۔۔۔۔

کیا بات ہے وفا مجھے نہیں بتاؤ گی؟؟؟

دارم نے اس کے بالوں کو کان کے پیچھے اڑستے ہوئے گال پر نرمی سے ہاتھ رکھ پوچھا۔۔۔۔

اس کے پھر سے کوئی جواب نا دینے پر وہ اسے کچھ وقت دیتا ہوا شاور لینے کے لیے چلا گیا۔۔۔

مگر جانے سے پہلے اس کے لیے اپنے پسند کے لائے گئے کپڑوں میں سے ایک خوبصورت سا سوٹ نکال کر اس کے قریب رکھ گیا۔۔۔۔۔

وفا نے اٹھ کر اس کے باہر آنے سے پہلے چینج کیا۔۔۔۔۔

دروازے کو کسی نے باہر سے ایک ہی منٹ میں بری طرح پیٹ ڈالا۔۔۔۔

وفا نے دروازہ کھولا تو سامنے نیلم کو دیکھا۔۔۔

صبح ہو گئی مہارانی کی۔۔۔۔

چلیں اب باہر تشریف لائیں۔۔۔۔

آپ کے شوہرِ نامدار نے سارے ملازمین کی چھٹی کروا دی ہے۔۔۔۔

مجھے چائے کی سخت طلب ہو رہی ہے چلو جلدی سے چائے بناؤ میرے اور دارم دونوں کے لیے۔۔۔۔

وہ اسے حکم جاری کیے اسی کے ساتھ چلنے کے انتظار میں تھی۔۔۔۔

وفا آہستہ آہستہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے کچن میں آئی۔۔۔۔

زندگی میں کبھی اس نے اپنے لیے تو کچھ بنایا نا تھا تو یہ چائے نما چیز کیسے بناتی۔۔۔

مگر پھر نیلم کے ڈر سے اس نے سٹو آن کیا اور چائے کا پانی چڑھایا۔۔۔

اس میں چینی اور چائے کی پتی کا ڈھیر شامل کرنے کے بعد دودھ شامل کیا۔۔۔

مگر شکل سے وہ کسی عجیب و غریب محلول لگا۔چائے کے سوا باقی سب لگا۔۔۔

نیلم رئیسانی دروازے پر کھڑی اس کی بنائی ہوئی چائے کے انتظار میں تھی۔۔۔۔

اس نے لڑکھڑاتے ہوئے ہاتھوں سے ایک کپ میں چائے ڈالی ابھی دوسرے میں ڈالنے لگی تو چائے کا برتن اس کے ہاتھ سے چھوٹا اور دوسرے ہاتھ پر گرا ۔۔۔۔

آہ!!!!!!وہ درد سے کراہ اٹھی۔۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕💕💕

پریا رات کو جلدی سوجانے کی وجہ سے صبح جلدی اٹھ گئی اور کچن میں جا کر آٹا گوندھا۔۔۔۔

اس کام میں اسے آدھ گھنٹہ لگا ۔۔

کیونکہ وہ جیسے جیسے آٹا گوندھنے کی کوشش کرتی وہ اور پھیلتا چلا جاتا۔۔۔

وہ پھر اس میں تھوڑا اور آٹا شامل کرتی مگر ہاتھوں سے چپک جاتا۔کبھی پانی زیادہ تو کبھی آٹا ۔۔۔

ایک مشکل جدوجہد کے بعد آخر کار وہ یہ معرکہ سر انجام دینے میں کامیاب ہو ہی گئی۔۔۔۔

اب بڑا مسلہ جو درپیش تھا وہ پراٹھا بنانے کا۔۔۔اس نے روٹی بیلنے کی کوشش کی جو روٹی کم اور کسی مغربی ملک کا نقشہ زیادہ لگ رہی تھی۔۔۔

آئیڈیا!!!!!

اس نے خود سے کہا۔۔۔

اور ایک گول پلیٹ لے کر اسے بیلی ہوئی روٹی پر رکھ اسے گول شیپ میں کٹ کیا۔۔۔

اور گرم توے پر ڈالی۔۔۔۔

ابھی وہ بنا کر فارغ ہوئی ہی تھی کہ آملیٹ کے لیے پیاز کٹ کرنے لگی۔۔۔۔

آنکھیں پانی سے بھر گئیں۔۔۔

میرے کپڑے پریس نہیں کیے؟

پیچھے سے قلب کی آواز سنائی دی تو اس نے پلٹ کر دیکھا۔۔۔

"نہیں ابھی کر دیتی ہوں آپ نکال دیں"۔۔۔

وہ سب کام چھوڑ کر اس کے پیچھے پیچھے چل دی۔۔۔

قلب نے کبرڈ سے ایک پینٹ شرٹ نکال کر دی۔۔۔"فی الحال یہ پریس کرو ۔۔

اور آج میرے سارے کپڑے پریس کر کہ کبرڈ میں ہینگ کر دینا"۔۔۔

"جی"کہتے ہوئے اس نے سر اثبات میں ہلایا۔۔۔

پریا اس کے کپڑے لیے آئرن سٹینڈ کے پاس آئی۔۔

کپڑوں پر استری کرتے ہوئے اس کا دھیان وفا کی طرف گیا۔۔۔۔

پتہ نہیں کیسی ہو گی؟؟

پچھلی بار بھی اس نے خود کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی،میں اپنی الجھنوں میں اتنا الجھ گئی کہ اس سے ایک بھی نہیں پوچھا کہ اس نے یہ قدم کیوں اٹھایا تھا۔۔۔

وہ اپنے ہی خیالوں میں گم تھی کہ ایک طرف رکھی ہوئی استری کو بے دھیانی میں دوبارہ سے پکڑا تو ہاتھ استری کے گرم حصے کو چھو گیا۔۔۔

وہ ایک لحظہ میں تڑپ اٹھی۔۔۔

اور ہاتھ پیچھے ہٹایا۔۔۔۔تھوڑا سا جھلس کر اب سرخی مائل دکھائی دے رہا تھا،یک لخت اس کی آنکھیں جھلملانے لگی۔۔

💕💕💕💕💕💕

دارم جو شاور لے کر باہر آیا اور وفا کو روم میں نا پایا تو پریشان ہوا ۔۔

کدھر چلی گئی؟؟

وہ اسے ڈھونڈنے کے لیے باہر آیا تو کچن میں کسی کی موجودگی کے احساس کے تحت وہاں آیا۔۔۔

آخری منظر جو اس کی آنکھوں نے دیکھا وہ گرم چائے کا وفا کے ہاتھ پر گرنا اور اس کا درد سےتڑپ جانا۔۔۔۔

وہ ایک ہی جست میں بھاگتا ہوا اس تک پہنچا اور اس کو اپنے ساتھ لیے سنک تک لے گیا۔۔۔

جس قدر ہو سکا اس قدر تیزی سے اس نے نل کھولا اور وفا کا سرخی مائل ہاتھ پانی کے نیچے رکھا۔۔۔۔

"اب کچھ ٹھیک لگ رہا ہے"؟

وہ منہ سے کچھ نا بولی مگر آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں۔۔۔۔

دارم نے اس کی حالت دیکھتے ہوئےایک گہرا سانس لیا۔۔۔

'تم کچھ دیر یونہی اپنا ہاتھ چلتے ہوئےپانی کے نیچے رکھو،سکون ملے گا"

"کس نے کہا تمہیں یہ سب کرنے کے لیے"؟دارم نے اس سے پوچھا۔۔۔۔

مگر جواب ندرارد۔۔۔۔

ضرور مام کے لیے تم نے چائے بنائی ہو گی ایک کپ تو بچ گئی۔۔۔

مام یہ آپ پی لیں!

وہ چائے کا کپ اٹھائے نیلم رئیسانی کی طرف بڑھا۔۔۔۔۔

نیلم نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا کپ کو پکڑنے کے لیے۔۔۔۔

تو کپ میں موجود گرما گرم چائے چھلک کران کے ہاتھ پر گری۔۔۔۔

"دارم تم نے یہ جان بوجھ کر کیا ہے نا"نیلم نے اپنے ہاتھ پر سخت جلن محسوس کی تو چلا کر بولی۔۔۔۔

وہ طنزیہ انداز میں مسکرایا۔۔۔۔

"آئندہ آپ کو یاد رہے گا کہ میری بیوی پر بے جا رعب جمانے کا کیا انجام ہوتا ہے'"

وہ ایک تلخ نگاہ ان پر ڈالتے ہوئے وفا کے پاس گیا اور اسے بازوؤں میں اٹھا کر کچن سے باہر نکلنے لگا تو نیلم رئیسانی زہر خند لہجے میں بولی ۔۔۔

اس کا ہاتھ ہی جلا ہے نا پاؤں تو سلامت ہیں ۔۔۔۔

یا تمہیں ویسے ہی بچے گود لینے کا شوق چرایا ہے ؟

وہ بھی طنز کا تیر پھینکنے سے باز نہ آئیں۔۔۔

"کبھی اپنے بچوں کو تو گود میں اٹھایا نہیں آپ نے چلو اب اپنا پوتا پوتی کو اٹھانے کا موقع ضرور دوں گا آپ کو"""اس نے بھی جاتے ہوئے ہانک لگائی ۔۔

جبکہ وفا نے اس کی فضول گوئی پر آنکھیں میچ لیں۔۔۔۔

دارم نے اسے لاکر بستر پر بٹھایا اور میڈیکل باکس سے کوئینچ کریم نکال کر اس کے ہاتھ پر نرمی سے لگائی اور ساتھ ساتھ پھونک بھی مار رہا تھا تاکہ اسے جلن نا ہو۔۔۔

اس کریم سے جلدہی ہاتھ ٹھیک ہو جائے گا اور جلے ہوئے کا نشان بھی نہیں پڑے گا۔۔۔

درام نے اسے پیار سے سمجھایا۔۔۔

میں تمہارے کھانے کے لیے کچھ لاتا ہوں۔

تم یہاں آرام کرو۔۔۔۔

وہ اس کی سہولت کے لیےکمر کے پیچھے تکیہ اور کشن رکھے باہر نکلا۔۔۔۔

💕💕💕💕💕💕💕

ہوئے پریس یا نہیں ؟؟؟

مجھے دیر ہو رہی ہے۔۔۔۔پیچھے سے اس کی تیز آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی تو وہ اپنا درد بھلائے تیزی سے ہاتھ چلانے لگی۔۔۔

"یہ لیں ہو گیا"

وہ کمرے میں آئی تو وہ ویسٹ پہنے شیشے کے سامنے کھڑا اپنے بال بنا رہا تھا۔۔۔۔

تازہ بنی شیو سے اس کے چہرے پر نیلاہٹیں نمایاں تھیں۔۔۔

وہ وہیں کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔۔۔

قلب نے خود پر اس کی نظروں کا ارتکاز محسوس کیا تو پلٹ کر اسے گھور کر دیکھا۔۔۔

وہ اس کے اچانک ایسے دیکھنے پر گڑ بڑا کر رہ گئی۔۔۔۔

اور کپڑے بستر پر رکھے تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔

قلب تیار ہو کر باہر آیا۔۔۔

ٹیبل پر اپنا ناشتہ دیکھا۔۔۔

پراٹھا اور دھواں اڑاتا ہوا آملیٹ۔۔۔۔

"آج مجھے بریڈ اور چائے چاہیے تھی۔۔۔۔

دو منٹ ہیں تمہارے پاس جلدی بنا کر لاؤ مجھے پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے"

وہ اسے ایک نیا آرڈر جاری کرتا ہوا اپنی کلائی پر بندھی رسٹ واچ دیکھ کر بولا۔۔۔

وہ حیران کن نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔

کیسے پل پل وہ رنگ بدلتا ہے۔۔۔

کل پراٹھے کے لیے مرا جا رہا تھا بریڈ کھانے کو راضی نا تھا ۔۔۔اور آج بریڈ چاہیے۔۔۔

اپنی صبح کی کی گئی ساری محنت کو اکارت جاتی دیکھ وہ تلملائی۔۔۔

مگر خود پر ضبط کرتی ہوئی واپس کچن کی طرف بڑھی۔۔

"یہ شخص کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے گا مجھے ٹیز کرنے کا  "وہ منہ میں بڑبڑاتے ہوئے ہاتھ تیزی سے چلانے لگی معا کہیں پھر سے کوئی نیا آرڈر جاری نہ ہو جائے۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕💕💕

"زندگی میں تعلق ہوتا ہے،تعلق میں زندگی نہیں،

کچھ لوگ غلطی سے تعلق کو زندگی سمجھنے لگ جاتے ہیں ،اور تعلق ٹوٹنے سے۔ خود بھی ٹوٹ جاتے ہیں۔

اسی طرح زندگی میں محبت ہوتی ہے،محبت میں زندگی نہیں،

زندگی میں حادثہ ہوتا ہے ،حادثے میں زندگی نہیں،

زندگی میں درد ہوتا ہے ،درد میں زندگی نہیں۔

کچھ بھی ختم ہونے سے زندگی ختم نہیں ہوتی ،

فرسٹ سیشن:

"کیا اللّٰہ ہے" ؟؟؟؟؟؟

اس کے الفاظ کا چناؤ ،لہجے کا ٹھٹھرتا ہواسرد پن۔سامنے بیٹھے سائکائٹرسٹ کو بھی پل بھر کے لیے چونکنے پر مجبور کر گیا۔۔۔

یہ وہ سوال ہے جو عام بندے کی سمجھ سے باہر ہوتا ہے۔

کوئی بھی دوسرا سننے والا شخص یہ سوچے گا کہ یہ تو کفر کر رہا ہے۔

مگر بطور ماہر نفسیات میں نے سوچا کہ اس کے اندر موجود دکھ کی گہرائی کتنی زیادہ ہے کہ اسے مالک ِ کائنات کے ہونے پر بھی شک گزرنے لگا۔

بے شمار حادثات سے گزرنے والے اسی طرح گمان کرتے ہیں؟؟؟

میں تب بھی اسی کی رہوں گی جب یہ بہاریں بیت جائیں گی۔سڑک پر پڑے سڑتے ہوئے زرد سوکھےپتے اپنے اوپر سے انہیں توڑ کر جانے والوں سے گریہ و زاری کریں گے۔۔۔۔

اگر مجھے وہ نہ ملا تو میری موت واقع ہو جائے گی۔مجھے لگتا ہے بس وہی میرا علاج ہے ۔

"اسے دیکھنا، اسے سننا بھلا لگتا ہے۔مجھے ہر طرف صرف وہی دکھائی دیتا ہے جیسے صحرا میں پیاسے کو پانی۔۔۔۔

آج سے کئی سال پہلے جب میری مما مجھے چھوڑ کر اللّٰہ تعالیٰ کے پاس چلی گئی تو میں بالکل اکیلی رہ گئی۔۔۔

میرے پاس کوئی نا تھا بات کرنے کے لئے۔

مجھ سے پیار کرنے کے لیے۔۔۔

نا پاپا اور نا اپیا۔۔۔اور نا کوئی دوست ،سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہتے۔۔۔۔

بس ایک دن اپیا نے میری تنہائی دور کرنے کے لیے مجھے موبائل لا کر دیا۔۔۔

میں نے اس میں ایک ایسے انسان کو دیکھا جو کسی کو دیکھ کر ہنس رہا تھا۔۔۔

میں نے حسرت سے اسے دیکھا ۔۔۔

یہ کتنا خوش قسمت ہے جو اس کے پاس ہنسنے کی وجہ ہے۔

اور جس طرح وہ پیار بھرے انداز سے کسی کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔

من نے خواہش کی کاش کبھی وہ مجھے بھی یونہی پیار بھری نظروں سے دیکھے۔۔۔۔

سیکنڈ سیشن: 

کیا اسے بھی آپ سے محبت ہے ؟؟؟

"نہیں"وہ تو مجھے جانتا بھی نہیں'

"آج کے دور میں ایسی محبت کون کرتا ہے بھلا" ؟لوگ نہیں سمجھیں گے۔

"جب یادوں کے مندر میں اس کی یاد کی گھنٹیاں بجنے لگ جاتی ہیں،تو عجیب سی گھٹن ہونے لگتی ہے۔کسی دمہ کے مریض کے مانند،کھینچ کھینچ کر منہ سے سانس لینی پڑتی ہے۔تنہائی کی کھڑکیاں کھولنے سے بھی اس کیفیت میں کمی واقع نہیں ہوتی،بے چینی اسقدر بڑھ جاتی ہے کہ

 مجھے سمجھ ہی نہیں آتی کہ میں کدھر کا رخ کروں"؟

"جدائی کی پہلی خواہش موت کے سوا کچھ نہیں"

"کوئی بھی دنیا کا کتنا ہی بیمار انسان کیوں نا ہو وہ موت نہیں مانگتا ،

مگر محبت میں بیمار انسان جدائی کے بعد موت کے سوا اور کچھ نہیں چاہتا"

کیا تڑپ تا عمر میرا مقدر بنے گی ؟

کون ہے وہ ؟

میں نے دیکھا وہ ایک دو سیریل کیے انڈسٹری سے غائب ہو گیا ۔۔۔شاید سیکھنے کے لئے۔۔۔پھر کچھ سالوں بعد ان کی مویز آئیں۔۔۔اور اب ۔۔۔۔

پھر میں نے ان کے ہر انٹرویوز دیکھے۔۔۔

ان کی پسند نا پسند ۔۔۔

ان کے قریبی دوستوں نے جب اس کی تعریفیں کیں تو میں اور بھی اس کی مداح ہوئی۔۔۔۔

تھرڈ سیشن:

میں نے سجدے بھی کیے پرہیز بھی آنسو بھی بہائے ،اپنی سوچ بدل لی۔

میں بہت سے منتیں مانگیں۔۔۔

اس سے غائبانہ وعدے بھی کیے۔۔

میں نے اس سے محبت بھی اتنی خاموشی سے کی میری خاموشی بھی چیخ اٹھی۔۔۔۔

مگر آج نا اس کی تمنا ہے نا طلب۔۔۔۔

وہ سرد آہ بھر کر بے چارگی سے بولی۔۔۔

 اگر آپ کو اس کی طلب نہیں تو ایسا کیوں کہا۔۔۔؟

اسی لیے کیونکہ آپ کو ابھی بھی وہی مطلوب ہے۔

"میں تنہائی میں اکیلے میں روتی ہوں چیختی چلاتی ہوں مگر اندر ڈیرا ڈالے ہوئے غبار نکلتا ہی نہیں۔مجھے سکون نہیں ملتا۔۔۔

آپ نماز پڑھیں آپ کو سکون ملے گا۔۔۔

ایک لڑکی نے ان کے گھر جا کر ان سے انٹرویو لیا ، میں نے انہیں اس میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا میں بھی نماز پڑھنے لگی۔۔۔

آپ کو پتہ ہے ایک بار ان کا بائیک سے ایکسیڈنٹ ہوا تو میں نے بھی خود کو وہی درد دیا جس سے وہ گزرا۔۔۔۔

مجھے خود بھی پتہ نہیں چلا جانے  کب میرے اندر محبت کی جڑیں بہت مضبوط ہوتیں گئیں۔۔۔ اگر ایک بار محبت ہو جائے تووہ ہمیں جکڑ لیتی ہے، خون کی طرح ہمارے جسم و روح میں شامل ہو کر گردش کرنے لگ جاتی ہے۔ 

اس وقت وہ پاکستان کے سب سے بہترین ماہر نفسیات کے سامنے تھی۔

مگر وہ صرف یک طرفہ جذبہ ہے صرف آپ کی طرف سے۔۔۔۔

"جب دوسری طرف سے محبت کے ملنے کا عمل نا ہو تو وہ ایک جگہ ٹہر جاتی ہے"

"ٹاکسک Toxic ہو جاتی ہے"

اور ایک دن مردہ ہو جاتی ہے۔اور مردہ محبت آپکے زندہ وجود کو بھی مردہ کر دیتی ہے۔

 اور اگر آپ اس مردہ محبت کو اپنے اندر دبائے بیٹھے ہیں تو یقین جانیے آپ خود پر ظلم کر رہے ہیں۔

مگر ڈاکٹر کیا یہ بے وفائی کے ذمرے میں نہیں آتا جو میں نے اس سے وعدے کیے اسے توڑ کر نئی ان چاہی دنیا بسا لی۔۔۔۔

وہ وعدے اس سے نہیں آپ نے خود سے کیے۔۔۔

بے وفائی وہ نہیں ،بے وفائی یہ ہے جو اب آپ کر رہی ہیں۔۔۔

اس نے چونک کر دیکھا۔

ڈاکٹر پھر میرا نا نام وفا نہیں 'بے وفا' ہونا چاہیے نا۔۔۔۔

نا تو جس سے محبت کی اس سے وفا کر پائی اور نا تو جس سے شادی ہوئی اس سے"""اس نے خود کا محاسبہ کیا۔۔۔

اگر آپ دل سے اسے بھلانے کا فیصلہ کریں تو سب ٹھیک ہو جائے گا"

اب آپ شادی شدہ ہیں۔

آپ کو پتہ ہونا چاہیے اپنے شوہر کے علاؤہ کسی غیر کو سوچنا بھی گناہ ہے۔

"مگر میں یہ سب نہیں چاہتی تھی'۔۔۔

پر ایسا ہو تو چکا ہے۔۔۔۔وہ بولے۔

ایک بات پوچھوں آپ سے ؟

"جی پوچھیں"

زلیخا بھی تو شادی شدہ تھی ،اسے بھی حضرت یوسف علیہ السلام سے محبت ہوئی ۔۔۔

اس کی سچی لگن سے آخر کار اس نے انہیں پا ہی لیا نا ۔

اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں حضرت یوسف علیہ السلام دے دئیے۔۔۔

توپھر میں کیوں نہیں؟

پہلی بات وہ مسلمان نہیں تھی اسے معلوم نا تھا کہ ایک شوہر کے ہوتے ہوئے دوسرے کے بارے میں سوچتے ہوئے گناہ کی مرتکب ہو رہی ہے۔

بے شک اس کی لگن سچی ہو گی ،مگر اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت یوسف کے زریعے اسے ہدایت دی۔

وہ مسلمان ہو گئی۔

اور آپ تو ہیں ہی خوش قسمتی سے مسلمان, تو پھر جانتے بوجھتے یہ گناہ کیوں؟؟؟

اس نے آنکھیں بند کیے خود کو پر سکون کیا۔۔۔

ایک اور بات۔۔۔۔

جی پوچھیں....

یہ دنیا تو فانی ہے ختم ہو جائے گی،جیسے تیسے گزر جائے گی ،مگر آخرت کی زندگی ہمیشہ رہنے والی ہے ۔

کیا مجھے اس زندگی میں نہیں تو لافانی زندگی  میں اس کا ساتھ میسر ہو سکتا ہے؟

اگر آپ اس زندگی میں اچھے اعمال کریں گی تو ہی جنت میں جائیں گی۔

پھر آپ جو بھی خواہش کریں گی جنت میں وہ پوری ہو جائے گی۔

مگر شرط نیک اعمال ہیں!!!!

آپ اپنے شوہر سے بے وفائی کر کہ گناہگار بن رہی ہیں۔۔

اس زندگی میں وفادار ،باکردار ،باحیا رہیں،تو نتیجہ جنت ہے ۔

بھول جائیں اسے۔۔۔۔

اس محبت کو بھلانا ہی ضروری ہے کیونکہ یہ آپ کی زندگی میں آنے والی نئی خوشیوں کی راہ میں روکاوٹ ڈالے ہوئے ہوتی ہے،

پرانی محبت کی لاش کو باہر پھینکے گے تو ہی کسی دوسری محبت کو آنے کا موقع ملے گا۔

ماہر نفسیات نے اسے سمجھانے کی پوری کوشش کی۔۔۔۔

سیشن کمپلیٹ ہوتے ہی وہ روم سے باہر نکلی تو دارم محو انتظار تھا۔

شادی کے کئی دن گزرنے کے باوجود بھی وفا کی خاموشی نا ٹوٹی اور دام کو اس کے اس عجیب و غریب رویے کی سمجھ نا آئی تو دارم اسے ایک سائیکائٹرسٹ کے پاس لے گیا۔۔۔

اب چند ماہ سے اس کا علاج چل رہا تھا۔

دارم وفا کو گھر چھوڑ کر پھر سے فزیشن کے پاس آگیا۔۔۔۔

آج ان دونوں کی وفا کو لے کر اہم میٹنگ تھی۔

 مسٹر دارم خانزادہ !!!!!

وہ سائیکالوجیکل ڈس آرڈر کا شکار ہیں۔

اگر وہ سائیکالوجیکل ہیلپ نہیں لیتی تو وہ یونہی اندر ہی اندر تڑپتی رہتی۔۔۔

ایک ماہر نفسیات کے مطابق تین ماہ میں ایسا انسان اس طرح کے ٹراما سے باہر نکل آتا ہے ۔مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس طرح کی محبت میں بالکل ڈوب چکے ہوتے ہیں۔انہیں چھ ماہ تک لگ جاتے ہیں اس سے باہر نکلنے میں۔۔۔۔

وہ ٹھیک تو ہو جائے گی؟

انہیں اس محبت سے باہر نکالا جا سکتا ہے، یہی تو ایک ماہر نفسیات کا کام ہے۔

دیکھیں مسٹر دارم آپ انہیں غلط سمجھ کر منفی سوچ مت رکھیے گا۔۔۔

وہ تنہائی اور خود ترسی کا شکار ہیں۔مینٹلی ڈسٹرب ہیں ،انہیں جس وقت محبت کی چاہت تھی ،تب اسے جو نظر آیا اس نے اسے اپنا آئیڈیل بنا لیا۔۔۔

کچی عمر میں اگر دل میں کوئی بس جائے تو اسے باہر نکالنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

انہیں وقت دیں سنبھلنے کے لیے۔۔۔۔

آپ دونوں میں آج آخری بات کیا ہوئی تھی؟

ڈاکٹر میں نے اسے ہر طرح سے خوش رکھنے کی کوشش کی ۔اس کا دن رات خیال رکھا پیار دیا ۔جو بن پڑا وہ کیا۔۔۔

مگر وہ مجھے کوئی ریکشن ہی نہیں دیتی۔

مجھے تو کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہی کیا کروں میں ؟؟؟

وہ اپنے بالوں کو مٹھی میں جکڑتے ہوئے شکستہ لہجے میں بولا۔۔۔۔

آج صبح جب میں نے اس سے پوچھا ۔۔

مجھ سے بات نہیں کرتی کچھ ٹھیک سے کھاتی نہیں ایسی حالت میں تمہیں اپنی صحت کا خاص خیال رکھنے کے لیے ڈاکٹر نے کہا ہے تم وقت پر میڈیسن نہیں لیتی آخر چاہتی کیا ہو تم ؟؟؟؟؟

تو پتہ ہے اس نے مجھے کیا جواب دیا۔۔۔۔

صرف ایک لفظ۔

""چھٹکارا"""""

آپ سوچ نہیں سکتے مجھے اس بات پر کتنا غصہ آیا مگر میں اسے کچھ بھی نا کہتے ہوئے وہاں سے باہر نکل گیا۔۔۔۔

رکیں مسٹر دارم۔۔۔

یہیں آپ غلطی پر ہیں ۔۔۔

اگر کوئی کہے کہ اسے آپ سے چھٹکارا چاہیے 

تو اصل میں وہ آپ سے توجہ کی خواہشمند ہوتا ہے۔

وہ چاہتا ہے کہ کوئی اسے پیار سے پوچھے تمہیں کیا چاہیے اس کا دکھ سکھ بانٹے ۔۔۔۔

I swear...... Doctor.

میں اپنی طرف سے بہت کوشش کرتا ہوں .....

آپ اپنی کوشش جاری رکھیےگا۔۔۔

ایک اور سیشن کے بعد مجھے امید ہے وہ کافی بہتر ہو جائیں گی۔۔۔۔

مگر اس وقت انہیں اکیلا مت چھوڑئیے گا اتنا مینٹلی ڈسٹربڈ انسان خود کو نقصان پہنچانے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔۔۔۔

انہیں پیار سے سمجھانے کی کوشش کیجیے۔۔۔۔

دارم کو کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا دیکھ کر وہ بولے۔۔۔۔

آپ نام جاننا چاہتے ہیں اس کا ؟؟؟؟

دارم نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا۔۔۔

تم سوچ رہے ہو گے کہ مجھے کیسے پتہ چلا۔۔۔

وہ تھوڑا سا مسکرائے۔۔۔

یہی تو ماہر نفسیات کا کام ہے لوگوں کی سوچ پڑھنا۔۔۔۔

وہ وہاں سے اٹھ کر واپس گھر کی طرف جانے والے راستے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔

ریش ڈرائیونگ کرتے ہوئے وہ واپس گھر آیا۔۔۔۔

نیلم اور سلیمان رئیسانی دونوں کہیں نظر نہیں آئے۔۔۔۔

نیلم رئیسانی کبھی کبھار دارم سےچھپ کر پارٹیز میں چلی جاتی ۔۔۔اتنے سالوں کی عادت اتنی جلدی کہاں چھوٹتی ہے۔۔۔۔

اور سلیمان رئیسانی کا علاج چل رہا تھا۔۔۔

دارم نے وقتی اپنا بدلہ تو لے لیا تھا مگر پھر انسانیت کے ناطے اس نے اصلی فیملی ڈاکٹر کو بلا کر ان کا علاج شروع کروا دیا تھا۔۔۔۔

جس کے باعث ان کی حالت اب پہلے سے بہتر تھی وہ اب بول تو پاتے تھے مگر ابھی بولنے میں تھوڑی مشکل پیش آتی۔۔۔۔

دارم اپنے روم میں آیا تو وفا کہیں نظر نہیں آئی۔۔۔

بستر پر پڑا ہوا اس کا موبائل نظر آیا۔۔۔۔

اس نے آج تک کبھی اس پر شک نہیں کیا۔۔۔اور نا ہی کبھی بھی اس کا موبائل دیکھا۔۔۔

مگر آج ۔۔۔۔۔

اس نے موبائل آن کیا ۔۔۔فیس بک پر انسٹا پر صرف ایک ہی انسان کو فالو کیا گیا تھا۔۔۔۔

گیلری کھولی۔۔۔

شہریار منور صدیقی کی بے شمار تصاویر سے گیلری بھری ہوئی تھی۔۔۔۔

اس کے ماتھے کی شکنوں میں اضافہ ہوا۔۔۔

پھر رگیں پھولنے لگیں۔۔۔۔۔

اپنے جبڑوں کو دانت پیستے ہوئے سختی سے بھینچا۔۔۔۔

آنکھوں سے خون چھلکنے لگا۔۔۔۔

Be Calm Daram....

It's just a Celebrity's  Crush....

Nothing else.......

اس نے لمبی سانس کھینچ کر خود کو ہی سمجھاتے ہوئے نارمل کیا۔۔۔۔

Silly girl......

اس نے سر جھٹکا۔۔۔۔۔

My Little Doll..

Where are you?

واش روم چیک کیا ۔۔۔۔

باہر نکل کر سارا گھر چھان مارا مگر وہ کہیں نظر نہیں آئی۔۔۔۔

کہاں جا سکتی ہے؟

اس نے دل میں سوچا۔۔۔۔

ہیلو !

اسلام وعلیکم!

کیسی ہیں آپ؟

وعلیکم السلام!

میں بالکل ٹھیک ہوں بیٹا،تم نے اس وقت وفا کو اکیلے کیوں آنے دیا اس حالت میں؟؟؟

وفا وہاں آئی ہے ؟؟؟

اس نے حیرانگی سے پوچھا۔۔۔

ہاں ابھی کچھ دیر پہلے ہی پہنچی ہے۔۔۔

جی ٹھیک ہے میں آتا ہوں نانی جان آپ وفا کو مت بتائیے گا کہ میں آرہا ہوں۔۔۔

اچھا ٹھیک ہے تم آ جاؤ میں نہیں بتاتی اسے۔۔۔

دارم تیزی سے باہر نکلا۔۔۔۔

گاڑی فل سپیڈ سے بھگاتے ہوئے وفا کی نانی اماں کے گھر پہنچا۔۔۔۔

جو ایک مڈل کلاس علاقے میں تھا۔۔۔

اسی گھر سے وہ ایک دن پہلے بھی وفا کو اٹھا کر لے گیا تھا ،جب وفا کو انجانے میں چوٹ بھی آئی تھی۔

آگئے تم ؟

جی نانی جان ۔۔۔

وفا کہاں ہے ؟

تم دیکھ لو کچھ دیر پہلے تو کمرے میں گئی تھی اب پتہ نہیں کہاں ہے ۔۔۔

میں تھک گئی ہوں بس تمہارا ہی انتظار تھا اب دوائی لے کر سوؤں گی۔۔۔

بیٹا تم رات بے شک یہیں گزار لینا رات کافی ہو چکی ہے۔۔۔

جی ٹھیک ہے آپ آرام کریں میری فکر مت کریں ۔۔۔

میں وفا کو دیکھتا ہوں۔۔۔۔

اس نے وفا کی تلاش میں ادھر ادھر نظریں دوڑائیں۔۔۔

مگر وہ کہیں نظر نہیں آئی۔۔۔۔

پھراسے ڈھونڈتا ہوا چھت پر آیا۔۔۔۔

چھت بھی خالی.....

اس کی نظر چھت کی بیک سائیڈ پر بنے قبرستان میں پڑی۔۔۔۔

جہاں ایک ہیولہ نظر آیا۔۔۔

اس نے غور کیا وہ اور کوئی نہیں ۔۔۔۔اس کی وفا تھی۔۔۔۔

وہ تیزی سے بھاگتا ہوا سیڑھیاں نیچے اترا اور برق رفتاری سے اس کے قریب پہنچا۔۔۔۔

وہ جو اندھیری رات میں قبرستان میں بیٹھی ہوئی اپنے نازک چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے مٹی کھود رہی تھی۔۔۔

دارم کو وہاں دیکھ کر شاک رہ گئی۔۔۔۔۔

وفا تمہیں زرا سا بھی احساس ہے ،مجھ پر کیا گزری ان لمحات میں۔۔۔۔

مگر تمہیں کیسے احساس ہو گا؟؟؟

تمہارے دل میں میرے لیے احساس ہی تو نہیں۔۔۔۔

کتنی بار معافی مانگی ہے میں نے تم سے مگر تمہارا دل تو پتھر کا بن چکا ہے میرے معاملے میں ۔۔۔۔

بولو ایسا کیا کروں جو تمہارے دل میں اپنے لیے جگہ بنانے میں کامیاب ہو جاؤں؟ ۔۔۔۔۔

اس نے وفا کو دونوں شانوں سے پکڑ کر جھنجھوڑا۔۔۔۔۔

یہ کیا کر رہی تھی؟؟؟ دارم نے اسے اٹھا کر کھڑا کیا۔۔۔۔

اس نے ایک چھوٹا سا کھودا ہوا گڑھا دیکھ کر پوچھا۔۔۔۔

چھوڑ دو مجھے ۔۔۔۔وہ اس سے اپنا آپ چھڑوا کر زور سے چیخی۔۔۔۔

رات کے اس پہر خاموشی کے باعث اس کی آواز دور تک گونجی۔۔۔۔

میں مر جانا چاہتی ہوں ۔۔اپنے لیے قبر کھود رہی تھی۔۔۔۔۔

دارم نے اس کی بات سن کر طیش میں آکر اپنا ہاتھ اٹھایا۔۔۔

اسے اپنے ضبط کی طنابیں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوئیں۔۔۔

اس سے پہلے  کہ وہ غصے میں کوئی غلط قدم اٹھاتا۔۔۔

اس نے ہوا میں معلق اپنا ہاتھ وہیں روکا۔۔۔۔اور پھر ڈھیلا چھوڑ دیا۔۔۔۔۔

یار !!!!!!

وہ جھک کر اپنے گھٹنوں پر دونوں ہاتھ رکھ کر شکستہ لہجے میں بولا۔۔۔۔

جب چند لمحوں کے بعد اٹھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔۔۔۔

تمہیں کیسے یقین دلاؤں؟؟؟؟؟

کہ میں تم سے کتنا پیار کرتا ہوں ۔۔۔۔

تمہیں کتنا چاہتا ہوں۔۔۔

اس سے پہلے کہ میں تمہیں اپنے پیار کا یقین دلاتے دلاتے تھک جاؤں ۔۔۔

واپس آجاؤ ۔۔۔۔

لوٹ آؤ میرے پاس۔۔۔

تم اکیلی نہیں میں ہوں نا تمہارے ساتھ۔۔۔

جو وقت گزر گیا تنہائی میں سو گزر گیا۔۔۔۔

جو وقت ملا ہے اسے مل کر گزار لیں۔۔۔

تمہاری طرح میں بھی تنہا تھا۔۔۔۔

میں سمجھ سکتا ہوں تمہیں۔۔۔۔

وفا سمجھو مجھے۔۔۔۔۔پلیز اس نے منت بھرے انداز میں کہا۔۔۔

گھٹنوں کے بل کچی مٹی پر گرا ۔۔۔۔۔

آنکھوں میں سے آنسوؤں کی برسات جاری تھی۔۔۔۔

نظر اٹھا کر وفا کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے۔۔۔

مرد بھی جذبات رکھتے ہیں وہ بھی جب ٹوٹتے ہیں تو ایسے ہی روتے ہیں۔۔۔۔

اب پیار نہیں ہوگا مجھ سے پھر دوبارہ۔۔۔۔

میری بن جاؤ!!!!

مجھے اگر پھر زندگی ملی تب بھی تمہیں ہی مانگوں گا اپنے خدا سے۔۔۔۔

تمہارے دور جانے سے دن رات ڈرتا ہوں۔مجھے کبھی چھوڑ کر مت جانا۔۔۔۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔۔۔

 جس میں تم راضی میں وہی کروں گا۔۔۔جو تمہیں پسند ہو گا وہی کروں گا۔۔۔۔

ایک بار مجھ پر بھروسہ کر کہ تو دیکھو۔۔۔۔

مجھے پتہ ہے تم کسی اور کو پسند کرتی ہو۔۔۔

وفا نے اس بات پر اس کی آنکھوں میں دیکھا۔۔۔۔

کیا یہ سزا کافی نہیں میرے لیے؟؟؟؟۔۔۔۔

ایک شوہر یہ کبھی برداشت نہیں کرے گا کہ اس کی بیوی کے من میں کوئی اور ہو۔۔۔۔

مگر میں پھر بھی تمہیں چاہتا ہوں ۔۔۔۔

ہمارے رشتے کے لیے میری چاہت ہی کافی ہے۔۔۔

بس تمہاری ایک پیار بھری نظر کی تمنا ہے۔۔۔

ایک بار !!!

بس ایک بار پیار سے دیکھ لو۔۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ اس کی بات کا جواب دیتی زوردار چکر سے اس نے اپنے سر پر ہاتھ رکھا۔۔۔

دارم نے اسے بروقت سنبھالا۔۔۔

اپنے بازوؤں میں اٹھائے وہ اسے وہاں سے باہر لایا اور گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لٹا کر گاڑی کا رخ ہسپتال کی طرف کیا۔۔۔۔۔

دس منٹ کی مسافت طے کیے ایک ہاسپٹل نظر آیا تو اسی کے سامنے گاڑی روکتے ہوئے وہ اسے لیے اندر آیا۔۔۔۔

ڈاکٹر پلیز اسے دیکھیں کیا ہوا ہے ؟؟؟

یہ تو ایمرجنسی کیس ہے  ؟؟؟؟وہ اس کی حالت دیکھ کر بولے

پھر اسے سٹریچر پر ڈالے ہوئے فورا آئی سی یو میں لے گئے۔۔۔

ایک ایک پل سو سو سال کے برابر لگا۔۔۔۔

وقت کاٹے نہیں کٹ رہا تھا۔۔۔

وہ بے چینی سے باہر ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہا تھا۔۔۔۔۔

دل کی دھڑکنوں کی تھاپ اس کو کانوں میں سنائی دینے لگی۔۔۔۔

اللّٰہ تعالیٰ !میری وفا کو کچھ نا ہو۔۔۔۔

اسے بچا لیں۔۔۔۔۔اس نے آنکھیں بند کیے پورے جذب سے دعا کی۔۔۔۔

آپریشن تھیٹر کی جلتی ہوئی لائٹ بند ہوئی تو دارم نے بے قراری سے اندر سے آنے والے ڈاکٹر کو دیکھا۔۔۔

اور تیز قدموں سے چلتا ہوا ان کے قریب پہنچا۔۔۔۔

سب ٹھیک ہے نا ڈاکٹر ؟؟؟

اس نے پوچھا۔

I am Sorry ....

وہ اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر افسردہ لہجے میں بولے۔۔۔۔

🖤🖤🖤🖤🖤🖤🖤🖤

کبھی کبھی زندگی ہمارا امتحان لینے پہ آجاتی ہے اور وہ بھی پوری طاقت کے ساتھ ،

امتحان بھی ایسا کہ نہ کسی کو بتایا جاسکے اور نا کسی سے مدد لی جا سکے۔۔۔۔۔

ہم نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی مگر ہم آپ کے بے۔بی۔کو بچا نہیں پائے۔۔۔۔

دارم کا دل ایک بار رک کر پھر سے دھڑکا۔۔۔۔

وفا کیسی ہے ؟؟؟

اس نے ڈرتے ہوئے سوال کیا۔۔۔۔

آپ پلیز تحمل سے میری بات سنیے گا۔۔۔

ڈاکٹر نے دارم کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔۔۔

اس کا ایک ایک عضو کان بنا وفا کے بارے میں جاننے کے لیے۔۔۔۔

پیشنٹ شاید دماغی طور پر کافی ڈسٹرب تھیں۔۔۔۔

آپریٹ کے دوران وہ بالکل بھی رسپانس نہیں دے رہی تھی ،ایسے جیسے وہ جینا ہی نہیں چاہتی۔۔۔

ان کی حالت کافی کریٹیکل ہے۔آنے والے اڑتالیس گھنٹے ان کے لیے بہت اہم ہیں۔۔۔دعا کریں انہیں ہوش آجائے ورنہ.....

یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ڈاکٹر ایسا نہیں ہو سکتا۔۔۔۔

اس نے تڑپ کر غمزدہ لہجے میں کہا۔۔۔۔

ایک اور بات۔۔۔۔

دارم نے نم آنکھوں سے ان کی طرف دیکھا ۔۔۔

جیسے کہنا چاہتا ہو اب اور کون سی قیامت ڈھانا رہ گئی ہے۔۔۔

اب  اگر آپ کی وائف ٹھیک ہو بھی گئی تو کبھی ماں نہ بن پائیں۔۔۔اگر ایسا ہوا تو کوئی معجزہ ہی ہو گا۔۔۔

وہ ڈھیلے وجود کے ساتھ الٹے قدم لیتا ہوا دیوار کے ساتھ جا لگا۔۔۔۔

غم کی زد میں اگر بگڑ جائیں 

تو قسمتیں کہاں بدلتی ہیں۔۔۔۔

🖤🖤🖤🖤🖤🖤

وہی بے کیف دن اور بوجھل راتیں۔۔۔

ایک موسم گزرا تو دوسرے موسم کی آمد ہوئی۔۔۔

مگر دل کا موسم تو وہیں ٹہر گیا تھا۔۔۔

اپنی انا کا گلہ گھونٹ کر اس کی ہر بڑی چھوٹی بات بنا چوں چراں تسلیم کرتی۔

جب کہتا وہ اٹھتی ،جب کہتا وہ بیٹھتی۔

پریا نے اس کی خاطر خود کو کتنا تبدیل کر لیا تھا۔۔۔

پڑھائی ادھوری رہ گئی۔

اس کا غم نہیں۔

گھر والوں سے دور ہوئی 

وہ غم بھی دل سے نہ لگایا۔

محبت میں رسوائی مقدر ٹھہری۔۔۔

اسے بھی قبول کیا۔۔۔

دن رات کی زلت سہی ۔۔۔

اور اب بھی چپ چاپ اسی کی سن رہی تھی۔

جسے کچھ بنانا نہ آتا آج وہ ایک بالکل ایک گھریلو خاتون کی زندگی گزار رہی تھی۔

صبح اس کے اٹھنے سے پہلے اس کے کپڑے پریس کرتی ،پھر ناشتہ تیار کرتی۔۔۔

اس کے جانے کے بعد سارے گھر صفائی ،برتن دھونا ،کپڑے دھونا ،شام کا کھانا بنانا۔۔۔

غرض ہر کام کرتی۔۔۔

مگر ابھی تک اس کی نظروں میں سر خرو نا ہو پائی تھی۔۔۔

حلانکہ ایک بار قلب کا موبائل اس کے ہاتھ لگا بھی تھا مگراس کی خوشی کی خاطر کبھی گھر والوں سے رابطہ کرنے کی کوشش بھی نہیں کی ۔۔

جنگلاتی علاقہ تھا ،برسات کا موسم جب سے شروع ہوا تھا،یہاں موسم زیادہ تر ابر آلود رہتا ۔۔

صبح سے آسمان کو سیاہ بادلوں نے گھر رکھا تھا ۔

ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا نے ماحول کو مزید خوشگوار بنا رکھا تھا۔

وہ چھت پر آئی۔۔۔۔

دور دور تک کوئی گھر دکھائی نہیں دے رہا تھا جہاں تک نگاہ جاتی صرف ہرے بھرے درخت ہی دکھائی دے رہے تھے۔۔۔

بارش کی ننھی منی بوندیں اپنے وجود پر محسوس کر کہ اسے بہت اچھا لگا۔۔۔۔۔

ابھی وہ اسی موسم کو محسوس کر رہی تھی کہ دور سے ایک بلیک کار آتی دکھائی دی۔۔۔

یہ کس کی گاڑی ہے ؟؟؟

اس نے سوچا۔۔۔

قلب کی گاڑی تو سلور گرے ہے۔۔۔۔اس نے ذہن پر زور دیتے ہوئے کہا۔۔۔

گاڑی کو اپنے گھر کے قریب آتے دیکھ وہ سیڑھیاں اترے ہوئے نیچے آئی۔۔۔۔

جتنی دیر میں نیچے پہنچی گاڑی اس کے گھر کے گیٹ کے قریب کھڑی ہارن بجا رہی تھی۔۔۔

مگر پریا نے ڈور نہیں کھولا۔۔۔

کیونکہ وہ تو باہر سے لاکڈ تھا ہمیشہ کی طرح ۔۔۔

قلب آج بھی باہر سے لاکڈ کر کہ گیا تھا۔۔۔

جو بھی باہر تھا اس نے باہر لگی ہوئی بیل پر ہاتھ رکھا۔۔۔

آپ کون ؟؟؟

پریا نے اندر سے مہذب انداز میں پوچھا۔۔۔

میں شایان ملک۔۔۔ملک قلب عباس کا والد۔۔۔

ڈور کھولیں بیٹا۔۔۔

انہوں نے بھی اندر سے کسی اجنبی لڑکی کی آواز سن کر عزت سے کہا۔۔۔

انکل ڈور باہر سے لاکڈ ہے آپ پلیز قلب کو کال کرلیں تاکہ وہ آکر ڈور کھولیں۔۔۔

شایان ملک اس کی بات سن کر پریشان ہوئے۔۔

مگر پھر کوٹ کی پاکٹ موبائل نکال کر قلب کا نمبر ملایا۔۔۔

اسلام وعلیکم!!!؟ڈیڈ

قلب نے  موبائل پر اپنے ڈیڈ کی کال آتے ہوئے دیکھی تو سب کام چھوڑ کر فورا کال ریسیو کی۔۔۔

اسلام وعلیکم کے بچے ۔۔۔

کہاں ہو تم ؟؟؟

ڈیڈ میں آفس میں۔۔۔

کیوں کیا ہوا ؟

آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟؟

کیونکہ تمہارا باپ تمہارے گھر کے باہر کھڑا ہے اور گھر باہر سے لاکڈ ہے اور ابھی تو پھوار پر رہی ہے ۔۔۔

جلدی گھر پہنچو اس سے پہلے کے بارش تیز ہو جائے اور میں پوری طرح بھیگ جاؤں۔۔۔

ڈیڈ میں بس کچھ ہی دیر میں آتا ہوں ۔۔۔

آپ پلیز گاڑی میں ہی بیٹھ جائے اتنی دیر۔۔۔

وہ فون کان سے لگائے ہوئے کیز لیے آفس سے باہر نکلا اور گاڑی میں بیٹھا۔۔۔

مجھے تمہارے مشوروں کی ضرورت نہیں کہاں بیٹھوں کہاں نہیں۔۔۔

گھر پہنچو پھر تمہاری کلاس لیتا ہوں اچھے سے۔۔۔

انہوں نے مصنوعی دھمکی دیتے ہوئے کال بند کی۔۔۔

تھوڑی دیر میں ہی قلب گھر پہنچ چکا تھا۔۔۔

اسلام وعلیکم ڈیڈ!

وعلیکم السلام!

وہ ان کے گلے لگا۔۔۔

کیسے ہیں آپ ؟؟؟

تمہیں اس سے کیا ہم جئیں یا مریں۔۔۔

وہ مصنوعی غصہ دکھاتے ہوئے بولے ۔۔

سوری ڈیڈ ۔۔۔

اس نے ایک کان پر ہاتھ رکھ کر ہنستے ہوئے کہا۔۔۔۔

اس نے کیز نکال کر ڈور ان لاکڈ کیا۔۔۔

تمہاری ماں بھی تمہیں یاد کر رہی تھی۔۔۔

دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اندر آ رہے تھے۔۔۔

پریا نے جب قلب کی گاڑی کی آواز سنی تو وہ بھاگ کر اندر جا چکی تھی۔۔۔

کتنی بار کہا ہے کہ میں اکیلا اتنا بڑا بزنس نہیں سنبھال سکتا چھوڑو یہ نوکری ۔۔۔

اور اپنا بزنس سنبھالو اس طرح تم ہمارے ساتھ بھی رہ سکو گے۔اس جاب کی وجہ سے تم ہم سے مہینوں مہینوں مل نہیں پاتے۔۔۔مگر تم ہو کہ سنتے ہی نہیں۔۔۔

سارے شکوے کھڑے کھڑے ہی کر لیں گے۔۔۔

آئیں پہلے پانی تو پی لیں۔۔۔

پریا ٹرے میں دو جوس کے گلاس رکھے ہوئے لاؤنج میں آئی۔۔۔

اسلام وعلیکم!

پریا نے ان کے آگے ٹرے کیا تو انہوں نے اس میں سے گلاس اٹھا کر لبوں سے لگایا

وعلیکم السلام!

شایان ملک نے اس کو جواب دیا۔۔۔

مگر سامنے بیٹھے قلب کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔۔۔

اس نے بھی آنکھوں ہی آنکھوں میں انہیں رکنے کا اشارہ دیا۔۔۔

ڈیڈ کے لیے اچھا سا کھانا بناؤ رات کا کھانا سپیشل ہونا چاہیے۔۔۔

جاو جا کر تیاری کرو۔۔۔۔

"جی "بس اتنا کہہ کر وہ کچن کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔

وہ خاموشی سے صوفے پر ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔۔۔

اور قلب کے بولنے کے انتظار میں تھے۔۔۔

کون ہے یہ ؟؟؟

بالآخر وہ بول پڑے۔۔۔

آپ کو کیا بالکل یاد نہیں آپ نے اس کو کہاں دیکھا ہے ؟؟؟

سوال میں نے پوچھا ہے مجھے اس کا جواب دو۔۔۔

سلیمان رئیسانی کی بیٹی۔۔۔پریا رئیسانی۔۔۔

وہ چند لمحوں کے لیے تو شاک رہ گئے۔۔۔۔

قلب مجھے ٹھیک سے بتاؤ کہیں تم نے اس سے بدلہ لینے کے لیے تو نہیں ؟؟؟؟؟

قلب سر جھکائے ہوئے خاموش بیٹھا تھا۔۔۔

تمہاری اس خاموشی کا کیا مطلب لوں؟

وہ تیکھے لہجے میں بولے ۔۔

دیکھو قلب بھول جاؤ سب بار بار اس بات کو یاد کر کہ خود کو اذیت مت دو ۔

اب ہماری کل کائنات صرف تم ہو ہماری جمع پونجی۔۔۔

تمہیں دکھ میں دیکھ کر ہم بھی خوش نہیں رہ پائیں گے ۔۔

جسے جانا تھا وہ چلا گیا شاید یہی اس کی قسمت میں لکھا تھا ۔۔

قسمت میں لکھا تھا نہیں ڈیڈ قسمت میں لکھا گیا تھا ۔۔۔۔۔

اس نے لکھا ۔۔۔۔۔

وہ زہر خند لہجے میں گویا ہوا۔۔۔۔

عصر کی اذان ہوئی تو دونوں نے خاموشی سے اذان سنی ۔۔۔

میں نماز ادا کر کہ آتا ہوں پھر بات کرتے ہیں ۔۔۔

وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑے ہوئے۔۔۔۔

دونوں نماز کی ادائیگی کے بعد وہیں واپس آکر بیٹھے۔۔۔۔

شایان ملک نے دھیرے سے اپنی بات کا آغاز کیا۔۔۔۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ!

"اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا ،تاکہ تمہاری آزمائش کرے،کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے ۔

اور وہ زبردست بخشنے والا ہے"

(سورت الملک 67.آیت2)

"اِن اللّٰہ مع الصّابِرِین)

"بے شک اللّٰہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے غصہ، بدلہ اور انتقام تینوں کو ایک ہی مقام پر موضوع بنا کر ان کے حدود و قیود واضح کر دی ہیں ۔ سورہ شوری میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ!

’’(اللہ کا بہترین بدلہ ان اہل ایمان کے لیے ہے کہ جنھیں )

اگر غصّہ آجائے تودرگزرکرجاتے ہیں ۔ ۔ ۔ 

اورجب ان پرزیادتی کی جاتی ہے  تواس کامقابلہ کرتے ہیں ، 

برائی کابدلہ ویسی ہی برائی ہے ،

 پھرجو کوئی معاف کر دے اوراصلاح کر لے اس کا اجراللہ کے ذمہ ہے ۔

شاہان ملک نے اسے بتایا۔۔۔۔

مگر ڈیڈ !!!

 اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا ۔

 اور جو لوگ ظلم ہونے کے بعد بدلہ لیں

 ان کو  ملامت نہیں کی جا سکتی ۔ 

ملامت کے مستحق تو وہ ہیں جودوسروں پر ظلم کرتے ہیں

 اورزمین میں ناحق زیادتیاں کرتے ہیں ۔ 

ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے ۔

اور جس نے صبر کیا اور  معاف کیا ،

 تو بے شک یہ بڑ ی اولوالعزمی کے کاموں میں سے ہے ۔

‘‘ (شوریٰ 42: 36-43)

 قلب کے رکنے پر شایان ملک نے پھر سے کہا۔۔

 تاہم اس بات کی اجازت ہر گز نہیں کہ ایک شخص کابدلہ دوسرے سے لیا جائے ۔

یہ لڑکی بے قصور ہے ۔اس سے بدلہ لینا جائز نہیں۔۔۔

 اسی طرح بدلہ لیتے وقت کسی قسم کی زیادتی کرنے کی اجازت قطعاً نہیں ہے ۔

میں نے اچھی طرح پڑھا ہے کہ!

سورہ بنی اسرائیل کی آیت میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ قتل کے جواب میں قاتل کی جان لینے تک کا حق اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو دیا ہے اور ریاست بدلہ لینے کے اس عمل میں اس کی مدد کرے گی ۔

میں بھی اس بات کو جانتا ہوں ۔۔۔۔

لیکن ھمیں اللہ کا یہ حکم بھی یاد رکھنا چاھیۓ کہ بدلہ لینے کی استطاعت کے باوجور جو معاف کرتا ھے اور در گذر کرتا ھے وہ اللہ کے خاص لوگوں میں جگہ پا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ بھی فطری عمل ھے کہ ایک مظلوم انسان اپنے پر ھونے والے ظلم کا بدلہ لے کر اپنے دل کا اضطراب کم کرتا ھے ۔ لیکن جب وہ  اپنے اس اختیار کو بھی خدا کی محبت میں عفو ر در گذر سے بدل دےتوکیا ہی بات ہے ۔ پس معاف کر دینے والا شخص اللہ کی بارگاہ میں بدلہ لینے والے کی نسبت کئی بلند درجات پا جاتا ھے ۔ یہی معرفت الہی ھے،

اب ان باتوں سے کیا نتیجہ نکلا؟؟؟

تم اسے معاف کرو گے یا نہیں ؟؟؟

ڈیڈ آپ کے لیے کھانا لگواوں ؟؟

جو میں نے کہا اس کا جواب دو ۔۔۔

میں نے پہلی نظر میں ہی پہچان لیا تھا تم نے ابھی تک اسے برابری کا درجہ نہیں دیا۔۔۔

ایسی کوئی بات نہیں ڈیڈ۔۔۔

اسے ہر چیز میسر ہے اس گھر میں ۔۔۔کسی چیز کی کمی نہیں۔۔۔

جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ تم سمجھ نہیں رہے یا سمجھنے کی کوشش نہیں کرنا چاہتے؟؟؟

اسے اس کا مقام دو۔۔۔۔

پریا جو بتانے آرہی تھی کہ کھانا تیار ہو چکا ہے ان کی آخری باتیں سن کر اس کے قدم وہیں جمے۔۔۔۔

میری باتوں پر غور ضرور کرنا۔۔۔۔

جی ڈیڈ ۔۔

بہت بھوک لگی ہے اپنی بہو کے ہاتھوں کا کھانا قسمت والوں کے نصیب میں ہوتا ہے۔

بھئی مجھ سے تو اب اور صبر نہیں ہو رہا ۔۔

پریا بیٹا!!!

انہوں نے وہیں سے اسے آواز لگائی۔۔۔۔

وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے وہاں آئی ۔۔

کھانا تیار ہو گیا ؟؟؟

جی پاپا....

اس نے نرمی سے کہا۔۔۔

ادھر آؤ....

انہوں نے اسے اپنے پاس بلایا ۔۔۔

وہ ان کے پاس آکر صوفے پر بیٹھ گئی۔۔۔

انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ شفقت بھرے انداز میں کہا۔۔۔

مجھے بہت اچھا لگا تم نے مجھے اپنے پاپا کی جگہ دی۔۔۔

آج سے تم میری بہو نہیں میری بیٹی ہو۔۔۔

انہوں نے اسے اپنے ساتھ لگایا۔۔۔

تو وہ بھی ان کے شانے سے لگی ۔۔۔آنسو گالوں پر پھسلے۔۔۔۔

اپنے پاپا کی یاد آتے ہوئے۔۔۔

اب یہ باپ بیٹی کا میلو ڈرامہ ختم ہو گیا ہو تو کھانا ملے گا؟؟؟

وہ چڑ کر بولا۔۔۔۔

جی ۔۔۔وہ اٹھ کر کچن کی طرف بڑھی کھانا نکالنے کے لیے۔۔۔۔

رات کی تاریکی ہر طرف اپنے پر پھیلائے ہوئے تھے۔مگر چھاجوں چھاج برستی ںارش نے ماحول میں ارتعاش پیدا کر رکھا تھا۔

بجلی کی خوفناک کڑک نے درختوں کو بھی سہما دیا۔۔۔

وہ ایسے موسم میں کبھی باہر نا آتی مگر یہ جو بے لگام دل ہے نا اگر کہیں کسی سے لگ جائے نا تو انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا۔۔۔

وہ کاموں سے فارغ ہوئے باہر لان میں آئی۔۔۔

شاید دل میں چھایا غبار اس بارش میں دھل جائے۔۔۔چھٹ جائے۔۔۔۔

شایان ملک اپنے کمرے میں آرام کرنے جا چکے تھے۔۔۔

قلب اپنے روم میں تھا۔۔۔آج کی باتوں کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا کہ بجلی کی گرج نے اسے اس کے خیالوں سے باہر نکالا۔۔۔

وہ ہوا کے زور سے کھلی ہوئی کھڑکی کو بند کرنے کے لیے اٹھا تو باہر اس کی نظر باہر لان میں پڑی۔۔۔

وہ بارش میں مکمل طور پر بھیگ چکی تھی۔۔۔

چہرہ آسمان کی جانب اٹھائے آنکھیں بند کیے لان کی گھاس پر لیٹی تھی۔۔۔۔

عجیب پاگل لڑکی ہے بستر چھوڑ باہر بارش میں لیٹی ہے۔۔۔

وہ تیز قدموں سے دروازہ کھول کر باہر نکلا۔۔۔

سامنے اس پر ایک تفصیلی نظر ڈالی۔۔۔جس کا سراپا بھیگنے کی وجہ نمایاں ہو رہا تھا۔۔۔۔

بجلی پھر زور سے کڑکی۔۔۔

مگر وہ اپنی حالت سے ٹس سے مس نا ہوئی۔۔۔

"اندر چلو""وہ دھاڑنے کے انداز میں بولا۔۔۔

پریا نے آنکھیں کھول کر دیکھا وہ دشمن جاں سامنے موجود تھا۔۔۔

"جاؤ یہاں سے"اتنے مہینوں کی چپی ٹوٹی تو وہ بھی اسی کے لہجے میں بولی۔۔۔

"میں نے جو کہا سنائی نہیں دیا """

"سب سنائی دیتا ہے "

"پہلے یہ بتاؤ تم مجھ سے پیار کرتے ہو ؟"

"میں اس سوال کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتا"وہ جان چھڑانے کے انداز میں بولا

"پہلے مجھے میرے سوال کا جواب چاہیےپھر ہی جاؤں گی۔"وہ بھی اپنی بات پر بضد ہوئی۔۔۔

"نہیں کرتا پیار یہی سننا چاہتی تھی تو اچھے سے سن لو نہیں کرتا پیار "وہ چلایا مگر اس کی آواز تیز بارش کی آواز میں دب کر رہ گئی۔۔۔

وہ اس کے جواب پر آنکھیں موندے رونے لگی۔۔۔اس کے آنسو برسات کے پانی کے ساتھ ساتھ پانی بن کر بہنے لگے۔۔۔۔

"مل گیا جواب اب چلو کمرے میں"

کونسے کمرے میں ؟؟؟

وہ تیز بارش میں بمشکل آنکھیں کھول کر بولیں ۔۔۔

بارش کی تیز بوندیں اسے بار بار پلکیں جھپکانے پر مجبور کر رہی تھی۔۔۔

جہاں تمہیں ہونا چاہیے۔۔۔

"اوہ !  اچھا !"تم اپنے پاپا کہ کہنے پر میرے ساتھ اپنا رشتہ نبھانے آئے ہو "

وہ طنزیہ انداز میں مسکراتی ہوئی بولی۔۔۔

"تم کچھ زیادہ نہیں میرے سر پر چڑھ رہی ؟

جو کہا ہے اتنا کرو چلو اندر۔۔۔

وہ اپنی پیشانی پر بکھرے گیلے بالوں میں ہاتھ ڈالے انہیں پیچھے کرتا ہوا بولا۔۔۔

"میں بھی دیکھتی ہوں آج کون مجھے یہاں سے لے کر جاتا ہے ۔۔۔نہیں چاہیے مجھے کسی کے کہنے پر تمہاری بھیک میں دئیے گئے چند قربت کے پل" ۔۔۔۔۔

تم اب مجھے غصہ دلا رہی ہو مرد کو غصہ دلانے کے بعد نقصان عورت کے حصے میں ہی آتا ہے "

وہ تھوڑا نیچے جھکا اور اس کی کمر میں ہاتھ ڈالے ہوئے اسے اٹھا کر اپنے شانے کی ایک طرف ڈالا۔۔۔

اور اندر کی جانب قدم اٹھانے لگا۔۔۔

"چھوڑو مجھے ۔۔۔۔میں کہہ رہی ہوں چھوڑو مجھے"وہ اس کی پشت پر مکے برسانے لگی۔۔۔

وہ اس کا رخ اپنے کمرے کی بجائے قلب کے کمرے کا دیکھ کر اور طیش میں آئی اور اس کے شانے پر دانت گاڑ دئیے۔۔۔۔

چھوڑو مجھے ۔۔۔۔۔

مگر مقابل پر اثر نا ہونے کے برابر تھا۔۔۔

اس نے پریا کو لاکر بستر پر پھینکا۔۔۔۔

"دیکھو مجھے جانے دو پلیز ۔۔۔کیوں لائے ہو مجھے یہاں "وہ اس کے ارادوں سے سہم کر بولی۔۔۔۔

وہ جو گیلی شرٹ کے بٹن کھول رہا ۔۔۔

پریا نے وہاں سے اٹھ کر بھاگنے کی کوشش کی۔۔۔

مگر وہ شاید اس کا ارادہ بھانپ چکا تھا۔۔۔۔

یہی تو تم چاہتی تھی کہ تمہیں پیار کروں ،تو اب کیا ہوا؟؟؟

وہ سلگتے ہوئے لہجے میں بولا۔۔۔

"پیار اور حوس میں فرق ہوتا ہے ,

تم جانتی بھی ہو حوس کیا ہوتی ہے جو بکواس کر رہی ہو ؟؟؟

وہ اس کے جبڑوں کو دبوچتا ہوا پھنکارا۔۔۔۔

"قلب میں آخری بار کہہ رہی ہوں جانے دو مجھے اس وقت تم ہوش میں نہیں"۔۔۔۔

"آج ہی تو ہوش میں آیا ہوں "اس نے اسے پھر سے بستر پر دھکا دیااور اس پر جھکا۔۔۔

"م۔م۔۔۔میں پاپا کو بلاؤں گی ۔۔۔۔وہ دھمکی آمیز انداز میں بولی۔

پاپہ۔۔۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ اس کے گلے سے آواز نکلتی قلب نے اسی کے دوپٹے کو اس کے منہ میں ٹھونسا اور اس کی آواز کا گلہ گھونٹ دیا۔۔۔۔

اس کی انگلیوں میں انگلیاں پھنسانے ۔۔۔۔۔

وہ نفی میں سر ہلانے لگی ۔۔۔۔

مگر اس کا بے آواز احتجاج کسی کام نا آیا۔۔۔۔

🖤🖤🖤🖤🖤🖤🖤 

آج چار روز بعد جب وفا کی حالت ٹھیک ہونے کی خبر ملی تو دارم کی تو خوشی کی انتہا نہ رہی۔۔۔

سب سے پہلے اس نے شکرانے کے نوافل ادا کرنے کا سوچا ۔۔۔

وفا کی حالت کی وجہ سے اس نے دل میں منت مانی تھی کہ اس کے ٹھیک ہوتے ہی وہ اس سے ملنے سے پہلے خدا کے حضور حاضر ہو کر نوافل ادا کرے گا۔۔۔

مگر چار روز تک ایک بار بھی گھر نہیں گیا لمحہ بہ لمحہ وہ اس کے پاس رہا۔۔۔

اب کپڑے کافی میلے لگ رہے تھے اس نے ایک نرس کو اس کی ذمہ داری سونپی ۔۔۔اور گھر شاور لے کر کپڑے تبدیل کرنے آیا۔۔۔۔

سلیمان رئیسانی جو وہیل چیئر پر بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔

اور نیلم ان کی وہیل تھامے پیچھے کھڑی تھیں۔شاید وہ ابھی سلیمان کے کہنے پر اسے باہر لائی تھی۔۔۔

دا۔۔۔دار۔۔۔دارم ۔۔۔

وہ لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولے۔۔۔

دارم ان کی آواز سن کر رکا۔۔۔

پ۔۔پریا۔ کا۔۔پ۔پتہ کیا؟؟؟

میں نے پولیس اسٹیشن میں رپورٹ لکھوا دی ہوئی ہے مگر ابھی تک کوئی بھی سراغ نہیں لگا سکی پولیس۔۔۔

میں خود بہت پریشان ہوں ۔۔۔

مگر آپ کو کیا؟؟؟

گھر ،بزنس اور اوپر سے وفا کی حالت ۔۔۔۔

میں پاگل ہو کر رہ جاؤں گا۔۔۔۔

وہ جھنکھلا کر کہتا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔

فجر کی اذان کی آواز سنائی دی تو اس کی نیند کھلی۔۔۔وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر واش روم کی طرف بڑھ گیا۔۔۔

شاور لیے واپس آیا تو وہ ہنوز اپنی جگہ پر سو رہی تھی ،گالوں پر آنسوؤں کے مٹے مٹے نقش تھے۔اس نے پریا کے سوئے ہوئے چہرے پر نظر ڈالی۔۔۔

سر پر سفید ٹوپی پہن کر اس نے کبرڈ کے اوپر سے تہہ کی ہوئی جائے نماز اٹھائی۔۔۔

"اٹھ جاؤ "قلب نے اسے آواز دی۔

"کیا تکلیف ہے "؟

وہ اس کی آواز سن کر نیند میں ہی بڑبڑائی۔۔۔

نماز کا وقت ہو گیا ہے اٹھ جاؤ ۔۔۔

اس نے ایک بار پھر سے بات دہرائی۔۔۔

"ہنہہہ ۔۔۔تم اپنی نمازوں کی فکر کرو اپنی کی میں خود کر لوں گی....

"جب تک میرے ساتھ ہو تمہیں سدھارنا میرا کام ہے۔اور بگڑے ہوؤں کو سدھارا کیسے جاتا ہے میں اچھے سے جانتا ہوں" ۔۔۔

"صبح صبح میرے منہ مت لگو"۔۔۔

وہ پھر سے کمفرٹر منہ تک اوڑھے ڈھیٹ بنی ۔

قلب نے اس پر سے کمفرٹر اٹھا کر نیچے پھینکا۔۔۔۔

یہ کیا بدتمیزی ہے ؟؟؟

وہ سرخ آنکھوں سے اسے گھور کر بولی۔۔۔

ابھی میری بدتمیزی تم نے دیکھی کہاں ہے ؟

وہ اس کا بازو پکڑ کر کھینچتے ہوئے واش روم میں لے گیا۔۔۔

وہ تو حیرت سے اس کا منہ تکنے لگی۔۔۔

قلب نے اسے شاور کے نیچے دھکیل کر شاور کھولا۔۔۔

جس سے نکلتا ٹھنڈا پانی اس موسم میں اس کے حواس سن کر گیا۔۔۔۔

"جب اچھے سے ہوش آجائے تو آجانا"

وہ تلخ لہجے میں کہتا ہوا دروازہ بند کر کہ باہر نکل گیا۔۔۔۔

ابھی رات والی ہی حرکت سے وہ اس سے سخت خفا تھی کہ اب ایک اور ۔۔۔۔۔۔

اس نے غصے میں ہاتھ مار کر سامنے بنے ریک میں سے شیمپوز ،باڈی واش ،اور شیونگ کریم برش وغیرہ سب نیچے پھینکے۔۔۔۔

مسجد یہاں سے کافی دور تھی اس لیے وہ گھر ہی نماز ادا کرتا تھا۔۔۔

وہ نماز سکون سے ادا کرنے کے لیے باہر لاؤنج میں آیا ایک صاف گوشے میں جائے نماز بچھائے پورے خشوع و خضوع سے نماز ادا کرنے لگا۔۔۔

فارغ ہوا تو سامنے ہی شایان ملک چلے آرہے تھے۔۔۔

کیا ہوا ڈیڈ کچھ چاہیے تھا؟

اس نے پوچھا۔۔۔

نہیں نماز ادا کرنے کے بعد یونہی باہر آگیا تھا دراصل میں تو تمہیں اپنے ساتھ واپس لے جانے آیا تھا ۔

تمہاری ماں تمہیں بہت یاد کر رہی ہے۔۔۔

مگر ڈیڈ میں ابھی واپس نہیں جا سکتا آپ کے ساتھ۔۔۔

"میری جاب ہے یہاں" ۔۔۔

"توچھٹی لے لو" ۔۔۔انہوں نے اسے راہ بتلائی۔۔۔

"ڈیڈ میں پہلے ہی اس سال تین ماہ کی چھٹیاں لے چکا ہوں مزید چھٹیاں نہیں ملیں گی""

تو وہ تین ماہ کی چھٹیاں تم نے گھر کی بجائے اور کدھر گزاریں؟

ڈیڈ!!!

وہ سر جھکا گیا اتنا کہہ کر۔

"اوہ !اچھا سمجھ گیا۔۔۔۔

یہ جو شادی کا چکر چلایا ہے اسی میں گزارا ہو گا۔۔۔

ڈیڈ پلیز اب شرمندہ تو نہ کریں۔۔۔

جو کیا ہے وہ کر کہ تو شرمندہ نہیں ہوئے اب کیوں شرمندہ ہو ؟؟؟

پلیز ڈیڈ اب اور کتنی کلاس لیں گے بس بھی کریں۔۔۔۔

اس نے چہرے پر معصومیت لاتے ہوئے کہا۔۔۔۔

اچھا زیادہ نہیں تو ایک دو دن کے لیے چلو اور ہاں بہو کو دیکھ کر تمہاری ماں بہت خوش ہو گی۔۔۔

ڈیڈ میں اسے وہاں کیسے ساتھ لے کر جا سکتا ہوں مام کو پتہ چلا کہ یہ کون ہے تو وہ کبھی بھی اسے اپنی بہو کے روپ میں تسلیم نہیں کریں گی۔۔۔۔

تم یہاں بیٹھے بیٹھے ہی نہ گوہر فشانیاں کرتے رہو ۔۔۔

ایسا کچھ نہیں ہو گا ،بے شک اس نے اپنے بیٹے کو کھویا ہے ۔مگر وہ تمہاری طرح ایک معصوم سے کبھی بھی اپنے بیٹے کی موت کا بدلہ نہیں لے گی۔۔۔۔

"بہو سے کہو تیاری کر لے ہم کچھ دیر میں نکلتے ہیں" ۔

"مگر ڈیڈ میں نے آفس میں اطلاع دینی ہے۔۔۔

"یار فون پر اطلاع دے دینا"۔۔۔

"پر ڈیڈ ناشتہ تو کر لیں پھر نکلتے ہیں"۔۔۔

ابھی بھوک نہیں ایسا کرتے ہیں راستے میں کر لیں گے تم لوگ بس نکلنے کی تیاری کرو۔۔۔

جی ڈیڈ میں کہتا ہوں اسے ۔۔۔۔

انہیں کہہ کر وہ اپنے روم کی طرف بڑھ گیا۔۔۔

💞💞💞💞💞💞💞

اس کی کھلی آنکھیں دیکھ وہ بنا سانس لیے تڑپ کر اس کے پاس پہنچا۔۔۔۔

اس کے چہرے کا ایک ایک نقش اپنی آنکھوں میں بسانے لگا۔۔۔۔

"تمہیں سلامت دیکھ ایسے لگا جیسے میری آنکھیں دل بن کر دھڑکنے لگیں،انہیں نوید زندگی مل گئی ہو "وہ اس کے گال کو نرمی سے چھو کر بولا۔۔۔۔۔

وفا کی آنکھیں جھلملانے لگیں۔۔۔

انمول موتی لیکروں کی مانند گال پر پھسلنے لگے۔۔۔۔

"کیا ہوا؟"

وہ اس کے دونوں گالوں کو اپنے ہاتھوں کے پیالوں میں بھر کر بولا۔۔۔۔

"سوری"

وہ نقاہت ذدہ آواز میں فقط اتنا ہی کہہ پائی ۔۔۔۔

باقی کے لفظ حلق میں اٹک کر رہ گئے۔۔۔۔

"میں قاتل ہوں ایک معصوم جان کی "

وہ ہچکیوں سے روتے ہوئے بولی ۔۔۔۔

"تم نے کچھ نہیں کیا ۔۔۔شاید اس کا ساتھ ہمارے مقدر میں نہیں لکھا تھا"۔۔۔

"مگر "وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔۔۔۔

Stop my Little Doll....

Don't cry.......

وہ اپنے لبوں سے اس کے آنسو چنتا ہوا بولا۔۔۔

دونوں ایک دوسرے کی پیشانی سے پیشانی لگائے اپنے سانجھے غم پر آنسو بہانے لگے۔۔۔

وفا اس کی شرٹ کا کالر مٹھی میں دبوچ لیا۔۔۔۔

وہ اس کے بال سہلا کر اسے چپ کروانے لگا۔۔۔۔

شاید ادوایات کا اثر تھا کہ وہ پھر سے غنودگی میں چلی گئی۔۔۔۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

شام کے وقت وہ سب ملک ہاؤس پہنچے تھے۔۔۔

صنوبر بیگم پریا سے مل کر بہت خوش ہوئی اور اس کی خوب آؤ بھگت کی۔۔۔

شایان ملک نے انہیں پریا کے آنے کی اطلاع پہلے ہی کر دی تھی تاکہ وہ اس کے لیے کچھ خصوصی اہتمام کریں۔۔۔

پریا کے گھر میں داخل ہوتے ہی انہوں نے دہلیز پر تیل بہایا۔۔۔

پھر اس کا اور قلب کی نظر اتار کر صدقہ دیا۔۔۔۔

وہ پریا کا ہاتھ تھامے اپنے کمرے میں لے گئیں۔۔۔

"یہ میری بہو کے لیے "انہوں نے سونے کے جڑاؤ کنگن اپنی کبرڈ سے نکال کر اس کی کلائیوں میں پہنائے۔۔۔۔

"کیسے ہیں؟"

"بہت خوبصورت ہیں"وہ مسکراتے ہوئے انہیں اپنی انگلیوں کی پوروں سے چھو کر بولی۔۔۔

ان کے خلوص کی وجہ سے وہ انہیں کنگن لینے سے انکار نا کر پائی۔۔۔۔

ان لوگوں کی آمد کی وجہ سے صنوبر نے رات کے کھانے پر خاص اہتمام کروایا تھا۔

خوشگوار ماحول میں پرتکلف ڈنر کیا گیا۔۔۔۔

پھر چائے کا دور چلا۔۔۔۔

سب خوش گپیوں میں مصروف تھے۔۔۔

قلب عباس کا رویہ بھی اپنے والدین کے سامنے خاصا معقول تھا۔

پریا نے بھی انہیں اپنے اور قلب کے درمیان رشتے کے تناؤ کی  بالکل بھی بھنک نہ پڑنے دی۔

شایان ملک سفر کی تھکان کی وجہ سے اپنے کمرے میں آرام کی غرض سے چلے گئے۔۔۔۔

"مام میں بھی روم میں جا رہا ہوں بس دو دن کی چھٹی ملی تھی ۔ایک تو آج گزر گیا۔

صبح نکلوں گا تو شام تک پہنچوں گا۔

پرسوں وقت پر آفس پہنچنا ہے"۔۔۔

"ایک تو اتنے مہینوں بعد آئے ہو اور اب جانے کی بات کر رہے ہو"وہ افسردگی سے بولیں۔

"مام پھر جلدی واپس آنے کی کوشش کروں گا"۔۔۔اس نے تسلی آمیز انداز میں کہا۔

"پھر میری بہو کو یہیں چھوڑ جاؤ میرے پاس۔۔۔۔۔ویسے تو تمہیں ہماری یاد آنی ہی نہیں ،مگرجب یہ میرے پاس ہو گی تو دیکھنا دوسرے دن ہی دوڑے چلے آؤ گے"

میری نہیں تو اسی کی خاطر۔۔۔وہ مسکرا کر بولیں۔۔۔

"خوش فہمی ہے آپکی "وہ منہ میں بڑ بڑائی۔۔۔

مگر ہلکی آواز میں کی گئی بات قریب بیٹھے ہوئے قلب کے کانوں سے مخفی نا رہ سکی۔۔۔

"ٹھیک ہے مام آپ اپنی بہو کو رکھ لیں پاس ہی ،مگر فی الحال ابھی اجازت دیں بہت نیند آرہی ہے۔صبح جانے سے پہلے آپ سے مل کر جاؤں گا"

"اچھا چلو ٹھیک ہے تم جاؤ آرام کرو اپنے کمرے میں"۔۔۔۔

وہ اسے اجازت دینے کے انداز میں بولی۔۔۔

"چلو پریا روم میں "قلب نے پریا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔۔۔

"میں ابھی تھوڑی دیر اور مما کے پاس بیٹھوں گی آپ کو نیند آئی ہے تو آپ جا کر سو جائیں"

وہ تنک کر بولی۔۔۔

اس کی بات پر قلب کے چہرے کے زاویے بگڑے۔۔۔۔

جو صنوبر بیگم نے بخوبی جانچ لیے۔۔۔۔

"پریا بیٹا اب تم ادھر ہی ہو ہم صبح باتیں کریں گے ،ابھی میرے بیٹے کو ناراض نہیں کرو چلو جاؤ شاباش اچھی بیویوں کی طرح اس کی بات مانو "انہوں نے اسے پیار سے کہا۔

"ٹھیک ہے مما شب بخیر!

شب بخیر!

وہ بھی جوابا بولیں۔۔۔

قلب کے پیچھے پیچھے پریا بھی روم میں آئی ۔۔۔۔

خوبصورت گرے اور وائٹ کمبینیشن کا پینٹ کیا گیا تھا روم میں اور وائٹ اور گرے ہی پردے ۔گرے کلر کا دبیز قالین فرش پر بچھا ہوا۔۔۔

جدید طرز کا ڈریسر ، وال پر قلب عباس کی انلارج پکچر جس میں وہ سوٹ پہنے اپنی ازلی مغرور انداز میں نظر آرہا تھا۔۔۔۔

اس کی نظریں اسی تصویر پر رکیں۔۔۔

'تصوہر دیکھ کر دل کو ٹھنڈک کیوں پہنچا رہی ہو جب پورے کا پورا بندہ سامنے موجود ہے "

وہ اپنی گھڑی ،والٹ اور موبائل سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر بولا۔۔۔۔

وہ بنا کوئی جواب دئیے ڈریسر کی طرف آئی اور ہاتھوں سے کنگن نکال کر سامنےرکھے ۔

کھلے بالوں کا میسی سا جوڑا بنائے،اپنے ائیر رنگز اتارنے لگی۔۔۔

"بس بھی کرو ۔۔۔۔لائٹ بند کر کہ ادھر آؤ "

اس کی بات سن کر گویا اسے کیسے پتنگے لگ گئے ہوں۔۔۔

وہ پلٹی۔۔۔۔۔

"تم کسی خوش فہمی میں مت رہنا ایک دن تمہاری من مانی چل گئی روز نہیں چلے گی"

وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے انگلی اٹھا کر تلخ لہجے میں بولی۔۔۔

"جنگلی وحشی انسان زرا سا بھی احساس نہیں اپنی غلطی کا"

"تمہیں تو جیسے بڑا احساس ہے اپنی غلطی کا جو مجھے سنا رہی ہو" ؟؟؟؟

"ایک بار بھی آج تک کہا ہے کہ میں نے تم پر جھوٹا الزام لگایا تھا اپنے گھر والوں کے سامنے مجھے ذلیل کروانے کا باعث بنی ہو اور تو اور تمہارے اس نام نہاد بھائی نے مجھے مارا بھی صرف اور صرف تمہاری وجہ سے""

"کبھی معافی مانگی تم نے اپنے اس گھٹیا پن کی جو میں مانگوں"!!!!!!!

اس کے آئینہ دکھانے پر وہ بھونچکا رہ گئی۔۔۔

"تمہیں بغیر نکاح کہ بھگا کر نہیں لایا ۔۔۔نکاح کیا ہے حق رکھتا ہوں تم پر ،تمہارے وجود پر تمہاری ایک ایک سانس پر """"

"مجھے زیادہ وقت برباد کرنا پسند نہیں،جو میں نے کہا ہے وہی کرو ۔۔۔۔

ورنہ کل تو پھر بھی رعایت دی تھی ،آج انکار کرنے پر میرا وہ روپ دیکھو گی جس کا کبھی خیال بھی نا کیا ہوگا"۔۔۔۔

وہ مرے مرے قدم اٹھاتے ہوئے سوئچ بورڈ کے پاس گئی اورلائٹ آف کر کہ اپنی جگہ پر آئی۔۔۔

اپنی طرف کے تکیے پر سر رکھے سانسیں روکے ہوئے لیٹی تھی کہ اس نے ایک جھٹکے سے اسے اپنی طرف کھینچ لیا۔۔۔۔

اس کے رونے کی دبی دبی سسکیاں کمرے کی معنی خیز خاموشی میں پھیلنے لگیں۔۔۔۔

"مجھے سکون چاہیے ،اب کی بار آواز آئی نا تو بہت برے طریقے سے خاموش کرواوں گا"

اس کی دھمکی کارگر ثابت ہوئی۔۔۔اور وہ خاموش ہو گئی۔۔۔

۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

 وفا کی حالت اب سنبھل چکی تھی۔۔۔

ہاسپٹل سے چھٹی ہوتے ہی دارم اسے سائیکٹریسٹ کے پاس لے گیا اس کا لاسٹ سیشن تھا۔۔۔۔

ماہر نفسیات نے لاسٹ تھراپی میں اس کے اندر جو بھی جذبات پنہاں تھے انہیں اس میں سے نکال دیا۔۔۔۔۔

اب وہ کافی حد تک اس سیشن کے بعد نارمل ہو چکی تھی۔۔۔۔

اس کی باتوں کے تھوڑے بہت جواب بھی دینے لگی تھی۔

جہاں پہلے وہ بولتی نہ تھی اب کچھ نہ کچھ کہتی تھی۔۔۔۔

وہاں سے آنے کے بعد وہ دونوں  گھر میں تھے۔۔۔۔

"وفا !

دارم نے اسے آواز دی جو نیم دراز سی بستر پر لیٹی ہوئی تھی۔

"جی"وہ دھیرے سے بولی۔۔۔

میں نے اپنی پیکنگ کر لی ہے تم اپنی چیزیں بتاؤ کیا کیا رکھنا ہے؟"

"کیوں کیا ہم کہیں جا رہے ہیں ؟"

وہ حیرت سے بولی 

"ہاں ہم امریکہ جا رہے ہیں"

اس نے کہا۔

"مگر کیوں "؟

"میں چاہتا ہوں کہ ہم اس ماحول سے دور کسی اچھی نئی جگہ پر جائیں اپنی نئی دنیا بسائیں۔۔۔۔اس جگہ کی تلخ یادیں یہیں چھوڑ جائیں "

"تم چلو گی نا میرے ساتھ "؟

دارم نے مان بھرے انداز میں اس کی طرف دیکھ کر پوچھا۔

اس کی خاموشی دیکھ کر بیگ میں کپڑے رکھتا ہوا اس کا ہاتھ پل بھر کو رکا۔۔۔

"اگر تم نہیں جانا چاہتی تو کوئی بات نہیں "

ہم نہیں جاتے "

"میں چلوں گی آپ کے ساتھ "

اس کی اس بات نے گویا دارم میں نئی جان سی بھر دی۔۔۔۔

"سچ تم چلو گی نا ؟"وہ مسرور سا بے یقینی سے بولا۔

وفا نے بمشکل اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔

💞💞💞💞💞💞

 اوکے مام میں جا رہا ہوں ،اس نے جانے سے پہلے ان کے پاس آکر کہا۔

صنوبر نے اٹھ کر اس گلے سے لگایا۔۔۔

مام آپ ناراض تو نہیں میرے فعل سے؟

نہیں قلب میں ناراض نہیں بس ایک بات گانٹھ باندھ لو بدلہ لینے کا اختیار بے شک دیا گیا ہے مگر معاف کر دینے والے کا درجہ زیادہ بڑا ہے۔اور معاف کر دینا ہی ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفت ہے۔۔۔۔

"جی مام "وہ محض سر ہلا کر رہ گیا۔۔۔

دھیان سے جانا میں نے تمہیں اللّٰہ کی امان میں دیا۔۔۔۔

وہ شفقت بھرے انداز میں بولیں۔۔۔

💞💞💞💞💞💞💞

دارم اور وفا کو سامان سمیت گھر سے نکلتا ہوا دیکھ نیلم اور سلیمان رئیسانی نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا۔۔۔۔

یہ لیں ڈیڈ۔۔۔۔

دارم نے جانے سے فائلز ان کی طرف بڑھائی۔۔۔

یہ۔۔۔یہ کی۔کیا ہے ؟؟؟

سلیمان رئیسانی لڑکھڑاتی ہوئی آواز اور لرزتے ہاتھوں سے وہ فائلز پکڑ کر بولے۔۔۔۔

"میں نے آپ سے بزنس اور گھر جوسب دھوکے سےاپنے نام کروا لیا تھا۔۔۔

ان پر سائن کردئیے ہیں۔سب واپس کر دیا ہے مجھے اب اس کی ضرورت نہیں"

وہ اٹل لہجہ میں بول کر لب بھینچ گیا۔

م۔م ۔۔مگر دارم مجھے یہ ۔۔س۔سب ۔ن۔نہی۔نہیں چاہیے مجھے بس تم چاہیے ۔۔۔

یہ سب تمہارا ہے ۔۔۔۔

مگر میں مزید یہاں رکنا نہیں چاہتا آپ کا گھر آپ کی دولت آپ کو مبارک مجھے سکون چاہیے جو مجھے یہاں میسر نہیں۔میرے پاس میرے پاپا کا دیا ہوا سب کچھ ہے۔وہی میرے اور میری بیوی کے لیے کافی ہے۔وہ قطعی انداز میں بولا

ہمیں تنہا کر کہ ذلیل و رسواء کر کہ تم بھی چین سے نہیں رہ پاؤ گے ۔۔۔نیلم اسے دیکھ کر بھڑک کر بولی۔۔۔

میں نے آپ کو ذلیل و رسواء نہیں کیا۔۔۔

یہ تو مکافات عمل ہے۔

جو آپ نے دوسروں کے ساتھ کیا وہی آپ کو ملا۔۔۔

یہ تو دنیا کا عمل ہے جو بوو گے وہی کاٹو گے۔

اس دنیا میں کیے گئے برے اعمال کا نتیجہ یہیں پر بھگت کر جاؤ گے۔

میں کون ہوتا ہوں آپ کو آپ کے کئیے کی سزا دینے والا بے شک بہترین منصف خدا کی ذات ہے۔

میں نے آپ کو معاف کیا۔۔۔میرا ضمیر مطمئن ہے۔اس حوالے سے ۔۔۔۔۔

آپ دونوں خوش رہے ایک ساتھ ۔اسی ساتھ کو پانے کے لیے تو آپ نے میرے ڈیڈ کی جان لی تھی۔یہ ساتھ مبارک آپ کو۔۔۔۔

وہ اپنا بیگ اٹھا کر وفا کا ہاتھ تھامے ہوئے باہر نکلا۔۔۔۔

دا۔۔۔دارم۔۔۔۔پیچھے سے سلمان رئیسانی کی آواز آئی۔۔۔۔

وہی شخص جو مغرور طبیعت کا مالک تھا آج اس کا سارا غرور اور طنطنہ سب چاک میں مل چکا تھا۔۔۔۔۔

💞💞💞💞💞💞💞

دارم کے باہر نکلتے ہی وفا بھی اس کی تقلید میں باہر نکلی۔۔۔۔۔

اس نے ایک بار بھی نظر اٹھا کر اپنے پاپا کی طرف نہ دیکھا۔۔۔۔

سلیمان رئیسانی اس کے اس عمل پر دل مسوس کر رہ گئے۔۔۔۔

"میں نے کبھی بھی اسے وقت نہیں دیا ،نا پیار دیا ۔۔۔جب اسے میری ضرورت تھی ،تب میں اس کے پاس نہیں گیا۔۔۔آج وہ بھی خاموشی سے مجھ سے منہ موڑ گئی۔۔۔

اگر عورت کو رونے کا کاندھا میسر نا ہو تو اور بھی مضبوط ہو جاتی ہے،محتاج نہیں رہتی کسی کی بھی،ایک بار اسے دلاسہ نا ملا تو دوبارہ اپنا ٹوٹا، بکھرا ،چھلنی وجود لے کر کبھی بھی کسی کے پاس نہیں جائے گی ،خودی کے گرد چٹانوں سا قلعہ تعمیر کر لے گی۔

شاید یہی میری سزا ہے ۔آج اسے بھی میری ضرورت نہیں رہی۔۔۔

شاید دارم نے ٹھیک کہا کہ یہی مکافات عمل ہے۔

وہ آنکھیں موندے تنہائی کےکرب سے گزر رہے تھے۔۔۔ 

🖤🖤🖤🖤🖤🖤

صبح آنکھ کھلی تو وقت دیکھا دیوار گیر کلاک صبح کے سات بجا رہا تھا۔

"اوہ ِشٹ"وہ اپنے ایک ہاتھ کی مٹھی بنا کر دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر مار کر خودی سے بولا۔۔۔

سفر کی تھکان کی وجہ سے صبح فجر کی نماز بھی قضا ہو گئی وہ احساس ندامت سے دو چند ہوا۔۔۔۔۔

"کپڑے بھی پریس نہیں "۔۔۔

وہ جلدی سے اٹھ کر کبرڈ میں دیکھ کر بولا۔

پھر ڈریس پینٹ اور شرٹ نکالے آئرن سٹینڈ کی طرف بڑھا۔۔۔

تیزی سے ہاتھ چلاتے ہوئے اس نے اپنے کپڑے پریس کیے۔۔۔

شاور لے کر فریش ہوا تو ڈائینگ پر آکر بیٹھا ناشتے کے انتظار میں۔۔۔۔

"ناشتہ تیار ہوایا نہیں "

وہ حسبِ عادت زور سے چلایا۔۔۔

کچھ یاد آنے پر جھنجھلاہٹ کا شکار ہوا اور پیشانی مسلنے لگا۔۔۔

شادی سے پہلے وہ اپنے کام خود کرتا تھا مگر 

جب سے پریا آئی تھی اس کے سب کام وہی کرتی تھی،اس کے اٹھنے سے پہلے ہی کپڑے پریس کردیتی تھی۔اس کے ٹیبل پر آنے سے پہلے ہی کھانا تیار کر دیتی۔۔۔

مگر آج نہ کپڑے پریس نا کھانا تیار۔۔۔

اسے کل صبح کا واقع یاد آیا جب وہ اپنے والدین کے گھر سے یہاں آنے کے لیے تیار ہو رہا تھا ۔۔۔

"میں واپس جا رہا ہوں '"

تو جاؤ میری بلا سے"وہ تڑخ کر بولی۔

"ذرا تمیز سے"وہ ابرو اچکا کر سپاٹ لہجے میں بولا۔

"کیوں کیا ساری تمیز صرف تمہیں آتی ہے ؟

وہ کمر پر ہاتھ رکھ کر لڑاکا انداز میں بولی۔

"شوہر ہوں تمہارا تمیز سے بات کیا کرو ۔۔۔لگتا ہے تمہیں مینرز بھی مجھے ہی سکھانے ہوں گے"

"مجھے ہر چیز سکھانے کا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے کیا؟"۔

"تم مجھے تم کہو اور میں تمہیں آپ "

"اسلام میں مرد اور عورت کو برابری کا درجہ دیا گیا ہے۔"

تم مجھے جو کہو گے وہی میں بھی کہوں گی۔

"اسلام نے جہاں عورت اور مرد کو برابری کا درجہ دیا ہے وہاں احترام کا بھی درس دیا ہے۔

جس کی تمیز تمہیں چھو کہ بھی نہیں گزری ہوتے ہیں کچھ لوگ ایسے ہی ڈھیٹ ،خود سر اور انا کے مارے ہوئے جنہیں عزت راس نہیں آتی۔۔۔۔

"میرے آنے تک اپنا دماغ درست کر لو اسی میں تمہاری بھلائی ہے "

وہ بنا کوئی جواب دئیے واش روم میں گھس گئی اور داروزہ کھٹاک سے اس کے منہ پر بند کیا۔۔۔۔

کل کا واقع سوچ کر اس نے زور سے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔

دماغ کی شریانیں کھولنے لگیں۔۔۔۔

"معاف انہیں کیا جاتا ہے جنہیں اپنی غلطی پر اپنے کیے پر پچھتاوا ہو "

"اسے جب کسی بھی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تو میں کیوں اس کے بارے میں سوچ رہا ہوں ۔

وہ بنا کچھ کھائے پیئے اپنی کیز ،والٹ اور موبائل لیے باہر نکلا۔۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖

 کئی گھنٹوں کا سفر طے کیے وہ دونوں ائیر پورٹ پر موجود تھے۔۔۔۔

دارم کی نظریں بار بار کسی کو تلاش کر رہی تھیں۔۔۔۔۔

کچھ ہی دیر میں اسے سامنے سے ولید(ولیم)آتا دکھائی دیا۔۔۔

Hey....Buddy....

What's up......

اس نے دارم کے پاس آتے ہی کہا۔۔۔

"Fine"

وہ جوابا بولا۔

اس نے دارم کے ساتھ کھڑی ہوئی وفا پر تفصیلی نگاہ ڈالی۔۔۔

کمر کو چھوتے ہوئے ہیزل بال ،بڑی بڑی سیاہ آنکھیں،کھڑی ستواں ناک ،باریک گلابی لب،میک اپ سے ممبرا شاداب چہرہ، مشرقی ڈریس میں ملبوس ،بس قد میں دارم کے سینے کو چھوتی ہوئی کوئی گڑیا سی لگی۔۔۔

وہ زور سے دارم کے گلے لگا۔۔۔

Eastern Beauty Attracts me much....

ولید نے شرارتی لہجے سے کہا۔۔۔۔

دارم نے اس کی بات پر اسے خود سے علیحدہ نا کیا بلکہ اسے زور سے خود میں بھینچ کر بولا۔۔۔

Be careful.....

بھابھی ہے تیری کوئی الٹی سیدھی حرکت کی نا تو تیرا منہ توڑنے میں ایک باربھی نہیں سوچوں گا۔۔۔۔

Hey angry boy ....

It was just a joke ....

So just chill.....

دارم کا ایک پل میں سرخ ہوا چہرہ اس کی بات پر کچھ نارمل ہوا۔۔۔۔

Hello...

بھابھی ۔۔۔۔

اس نے ہاتھ آگے کیا۔۔۔۔

جسے وفا نے ہونٹوں پر مصنوعی مسکراہٹ لاتے ہوئے تھام لیا۔۔۔۔

دارم سامان لینے دوسری طرف گیا۔۔۔

ولید نے اس کا ہاتھ زور سے دبایا۔۔۔

وفا نے ہاتھ چھڑوانا چاہا تو اس نے زور سے دبا کر چھوڑ دیا۔۔۔۔

اس کی آنکھوں میں وفا نے کچھ عجیب سا محسوس کیا۔۔۔۔

مگر اپنی غلط فہمی جان کر دارم کی تلاش میں نظریں دوڑائیں۔۔۔

ولید کی گاڑی میں وہ تینوں فلیٹ پہنچ گئے۔۔۔

جہاں دارم پاکستان جانے سے پہلے رہتا تھا۔

تھینکس ولید !

فلیٹ کے دروازے تک پہنچ کر دارم نےاس کا شکریہ ادا کیا۔۔۔۔

No need.... It's ok ..D.K.

کسی بھی چیز کی ضرورت ہو مجھے کال کرنا۔۔۔

یا ڈور ناک کر دینا۔۔۔۔

ہمممم۔ٹھیک ہے۔دارم نے کہا۔۔۔

وہ دونوں یونیورسٹی فیلو تھے۔اور ان کے فلیٹ بھی ساتھ ساتھ تھے۔

وفا نے اندر آکر دیکھا وہ ایک خوبصورت اور ویل فرنشڈ فلیٹ تھا۔۔۔۔

کیسا لگا؟؟

"اچھا ہے "

دارم نے سامان فی الحال ایک طرف رکھا۔۔۔

"اسے کل سیٹ کریں گے کبرڈز میں ابھی میں تمہیں ڈریس دیتا ہوں تم فریش ہو جاؤ ۔۔۔۔

یہ کہہ کر وہ بیگ کھولے اس میں سے وفا کا ڈریس نکالنے لگا۔۔۔

سردی سے وفا کے گال سرخ ہو چکے تھے۔۔۔"یہاں موسم سرد ہے اس لیے گرم کپڑے تبدیل کر لو۔۔

اس نے کپڑے نکال کر بستر پر رکھے۔۔۔

جس میں بلیو جینز اور گرم سوئیٹر تھا۔۔۔

وہ بستر سے پاؤں لٹکائے ہوئی بیٹھی کمرے کا جائزہ لے رہی تھی۔۔۔

کہ اپنے پاؤں سے وزن کم ہوتا ہوا محسوس ہوا تو دیکھا۔۔۔

"یہ آپ کیا کر رہے ہیں "اس نے دارم کو اپنے پاؤں سے سینڈلز نکالتے ہوئے دیکھا تو حیرت سے بولی۔۔۔

"یہ تو میں روز کرتا ہوں "

"وہ الگ بات ہے کہ تم نے محسوس آج کیا ہے"

وہ حیرت سے اس کا منہ تکنے لگی۔۔۔

کیا سچ میں وہ ایسا کرتا تھا اور اسے پتہ بھی نا چلتا تھا کیا وہ اتنی خیالوں میں ڈوبی رہتی کہ اسے باقی کا ہوش ہی نا رہتا تھا۔۔۔

اس نے شرمندگی سے سر جھکایا۔۔۔۔

"اس میں شرمندگی والی کوئی بات نہیں اگر ایک بیوی اپنے شوہر کی خدمت کر سکتی ہے تو شوہر بھی اس کا خیال رکھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔

یہ الگ بات ہے کہ مجھے ابھی تک بیوی کی خدمت کا سکھ نہیں ملا ،مگر میری خیالی دنیا میں مجھے اپنےمستقبل میں چانسز بہت نظر آرہے ہیں۔وہ مسکرا کر بولا

"میں چینج کر کہ آتی ہوں "وہ کپڑے لیے واش روم میں چلی گئی۔۔۔۔

دارم اس کے انتظار میں بیٹھا تھا۔۔۔

چند منٹس بعد وہ باہر آئی تو دارم نے اس کے نمایاں ہوتے ہوئے سراپے پر نظر ڈالی۔۔۔۔

اور اس کے قریب آیا۔۔۔۔

ڈریسر سے برش اٹھا کر اس کے بالوں میں پھیرنے لگا۔۔۔۔

"میں خود ہی کر لوں گی۔۔۔وہ شیشے میں اس کی جذبے لٹاتی ہوئی آنکھوں سے نظریں چرا کر بولی۔۔۔

"My Little Doll....

اب تو آپ کے بال بھی میرے ہاتھوں سے سلجھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔۔۔۔

دل تو چاہ رہا تھا اس تازہ کھلے گلاب کو خود میں سمو لے ۔۔۔۔

مگر وہ دل کے ارمانوں پر بند باندھتا ہوا بولا۔۔۔

کھانا کھاؤ گی؟؟؟

"نہیں مجھے بھوک نہیں بہت نیند آرہی ہے اب میں سوؤں گی۔۔۔۔

ٹھیک ہے لیٹ جاؤ آرام کرو۔

وہ جا کر بستر پر لیٹی تو دارم نے ایک دو بکھری ہوئی چیزوں کو ان کی جگہ پر رکھا اور لائٹ آف کیے اپنی جگہ پر آکر لیٹ گیا۔۔۔۔

کچھ دیر بعد محسوس کیا کہ وہ ابھی بھی جاگ رہی ہے ۔۔

"کیا ہوا نیند نہیں آرہی ؟؟؟

"ہہہم۔۔۔وہ صرف اتنا کہہ پائی۔۔۔

"یہاں آؤ "

دارم نے اپنی بازو رکھی تو اس نے سر اس پر رکھ دیا۔۔۔۔اور آنکھیں موندلیں۔۔۔

وہ اس کے نم بالوں میں انگلیاں چلانے لگا تو اسے سکون محسوس ہوا۔۔۔

چند لمحوں میں ہی وہ نیند کی وادیوں میں کھو گئی۔۔۔۔

دارم بھی اس کے معصوم چہرے کو تکتا ہوا نجانے کب تھک کر سو گیا۔۔۔۔

💞💞💞💞💞💞💞

صبح اس کی جاگ کھلی تو دیکھا وہ کمرے میں اکیلی تھی۔۔۔

سامنے لگی گھڑی پر وقت دیکھا جو دوپہر کے بارہ بجا رہی تھی۔۔۔

"میں اتنی دیر سوتی رہی اور وہ نیند کی ٹیبلیٹس کے بغیر۔۔۔۔اس نے حیرانگی سے سوچا۔۔۔۔

دروازہ کھلا اور سامنے سے دارم اندر داخل ہوا۔۔۔ہاتھ میں ٹرے پکڑے ہوئے۔۔۔۔

وفا نے اسے غور سے دیکھا۔۔

وائٹ پینٹ اور وائٹ ہی ہائی نیک پہنے سمارٹ اور جاذب نظر باڈی لیے۔۔۔

دراز قد جو تقریبا دروازے کو چھو رہا تھا۔

سفید رنگت تازہ شیو کی وجہ سے نیلاہٹ نمایاں تھی۔بھوری آنکھیں اور گھنی پلکیں،

دارم نے اسے اپنی طرف یوں ٹکٹکی باندھ کر تکتے ہوئے پایا تو ہلکی سے مسکان نے اس کے لبوں کو چھوا۔۔۔۔۔

وہ جو اسے تک رہی تھی اس کے مسکرانے پر اس کے عنابی لبوں سے سفید موتیوں سے دانت جھب دکھلا کر غائب ہوئے۔۔۔۔

"آپ نے کٹنگ کیوں کروائی ؟"

وہ ناراض لہجے سے بولی۔۔۔

وہ جس کے بلیک سلکی بال شانوں کو چھوتے تھے جو اس کا منفرد انداز تھا ۔

اب نہیں تھا۔۔۔اس وقت وہ فوجی ہیئر کٹ میں تھا۔۔۔۔

وہ دل ہی دل میں خوش ہوا کہ وہ اس میں دلچسپی لینے لگی ہے۔

"میں نے سوچا شاید تمہیں میرا وہ ُلک پسند نہیں بس اسی لیے"۔۔۔اس نے اپنی تبدیلی کی صفائی پیش کرنی چاہی۔۔۔

"اس بات کو تم سے بہتر اور کون جانتا ہے کہ محبت کا پہلا اصول ہے اپنے آپ کو اپنے محبوب کی پسند میں ڈھال لینا۔۔۔میں نے بھی ایک چھوٹی سی کوشش کی ہے اگر تمہیں اچھا نہیں لگا تو کوئی بات نہیں یہ تو گھر کی کھیتی ہے پھر سے آجائیں گے۔۔۔۔

وہ دھیمی سی مسکراہٹ اچھال کر بولا۔۔۔۔

"تمہارے لیے بریک فاسٹ بنایا ہے کھا کر بتاؤ کیسا بنا" ؟؟؟

"آپ نے ناشتہ کیا "؟؟؟

ابھی نہیں۔۔۔۔

وفا نے سینڈوچ اس کے منہ کی طرف بڑھایا۔۔۔

اس نے اسی کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر پہلے بائٹ وفا کے منہ میں ڈالی اور پھر اپنے منہ میں۔۔۔۔

"سنیں"وہ دھیرے سے بول کر اس کے دل کے تار چھیڑ گئی۔۔۔

"سنائیں"وہ دھیرے سے اپنا چہرہ اس کے چہرے کے قریب کر کہ بولا۔۔۔۔

اتنی قربت پر اس کے رخسار دہکنے لگے۔۔۔۔

Finally I got it.....

وہ مسرور لہجے میں اپنی جگہ سے کھڑا ہوتا ہوا بولا۔۔۔۔۔

وہ حیرت سے اپنی بڑی بڑی آنکھوں کی پتلیاں سکیڑ کر اسے دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔

"You are blushing......

اس کی بات سن کر وہ سر جھکائے اپنے ہونٹوں پر آتی ہوئی مسکراہٹ کو روکنے کے جتن کرنے لگی۔۔۔

۔

دارم نے اس مزید تنگ کرنے سے اجتناب کیا اور بولا۔۔۔۔

"ویسےمسز سنیں میڈم "

"آپ مسسز دارم خانزادہ ہیں تو آپ مجھے مجھے سنیں وغیرہ چھوڑ کر سیدھا دارم بھی کہہ سکتی ہیں"۔۔۔

اپنے تئیں اس نے حل پیش کرنا چاہا۔۔۔

"مگر آپ بڑے ہیں مجھے آپ کا نام لینا اچھا نہیں لگتا"""

"تو پھر جو تمہیں پسند ہو اس نام سے مجھے بلا لو"۔۔۔

وہ سوچ میں پڑ گئی۔۔۔

"میں سوچوں گی پھر بتاؤں گی"۔۔۔۔

اتنے میں ڈور ناک ہوا تو دارم باہر نکلا۔۔۔۔

وہ بھی جلدی سے بریک فاسٹ ختم کیے اس کی تقلید میں باہر آئی۔۔۔۔

ولید نے جب وفا کو اندر سے ویسٹرن حلیے میں باہر آتے دیکھا تو اس کی نظروں میں چمک ابھری۔۔۔۔

ڈی۔کے آج کا کیا پلان ہے ؟

کچھ خاص نہیں وہ بولا۔

"میں سوچ رہا ہوں پہلے سینما جائیں گے پھر کلب جائیں گے کچھ ڈرنک ہو جائے بہت دیر ہو گئی مل کر ڈرنک کیے ہوئے"تم کیا کہتے ہو ؟؟؟

سینما تو ٹھیک ہے مووی دیکھنا بیٹر آپشن ہے وقت گزارنے کا مگر کلب نہیں۔۔۔

"وہ کیوں" ؟؟؟وہ پریشانی سے بولا۔

"یار میں نے ڈرنک کرنا چھوڑ دیا "۔۔۔۔

"لگتا ہے یہ تبدیلی بھابھی کی وجہ سے ہے۔اس بار تو بالکل بھی پہلے والا دارم کہیں سے بھی نہیں لگ رہا۔۔۔یو آر لکنگ ٹوٹلی چینجڈ برو۔۔۔۔

تم تھوڑی دیر ویٹ کرو ہم دونوں ابھی تیار ہو کر آتے ہیں۔۔۔

"وفا چلو گی مووی دیکھنے ؟؟؟

دارم نے اس سے پوچھا۔۔۔۔

💞💞💞💞💞💞💞💞

معافیاں غلطیوں کی ہوتی ہیں ،

زیادتیوں کی نہیں،

کیا تم خوش ہو مجھے یوں روند کر میرے جذباتوں سے کھیل کر ؟

اپنی مردانیت دکھا کر ؟

کیا غلطی تھی میری ؟

یہی ناکہ میں نے تم سے سچی محبت کی ،تمہیں پانے کے لیے ہر جائز نا جائز طریقہ استعمال کیا۔۔۔۔

ان سب کے پیچھے چھپی ہوئی میری محبت نظر نہیں آئی تمہیں ۔۔

اگر میں برباد ہوئی ہوں تو خوش تم بھی نہیں ہو گے۔۔۔

کیا کیا نہیں کیا میں نے تمہاری خوشی کے لیے؟؟؟؟

خود کو تمہارے رنگ میں رنگا۔۔۔۔

مگر آج مجھے اس بات کا اندازہ اچھے سے ہو رہا ہے کہ آپ کسی کے لیے کتنی بھی محنت کر لو اسے خوش کرنے کے لیے ایک نہ ایک دن وہ آپ کی قیمت خاک سے بھی بدتر کردے گا 

"اللّٰہ تعالیٰ نے مرنا حرام کر رکھا ہے اور تم نے میرا جینا دوبھر کر دیا قلب"

میری لمحوں کی غلطی تھی مگرصدیوں کا پچھتاوا بن گئیں۔۔۔۔

پریا بیٹا کن سوچوں میں گم ہو ؟

نہیں کچھ نہیں مام۔۔۔آپ کہاں جا رہی ہیں ؟

میں نہیں ہم دونوں جا رہی ہیں۔۔۔

وہ کہاں ؟

اس نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا

میں نے سوچا کیوں نہ تھوڑی سی شاپنگ کر لی جائے ۔۔۔

چلو گی نا میرے ساتھ۔۔۔انہوں نے اتنے پیار سے پوچھا کہ وہ انکار نہ کر سکی۔۔۔

جی مام چلتے ہیں ۔۔۔

پھر ڈرائیور کے ساتھ وہ دونوں قریبی شاپنگ مال تک آئیں اور ایک دوسرے کی پسند سے اپنی شاپنگ کرنے لگیں۔۔۔۔

ملک ہاؤس میں صنوبر اور شایان ملک کا رویہ اس سے بہت اچھا تھا۔

سارا دن بہت اچھا گزرتا ان کے ساتھ مگر رات کو تنہائی میں نا چاہتے ہوئے بھی اس کی یاد آجاتی۔۔۔۔کتنی دیر کروٹیں بدلتی رہتی مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور ہوتی۔۔۔۔

اس نے جانے کے بعد ایک بار بھی اسے کال کر کہ اس کا حال نہ پوچھا۔۔۔

پریا نے بھی اسے کال نہیں کی۔

ملک ہاؤس میں فون موجود تھا سب کے پاس اپنا اپنا موبائل بھی تھا ۔

ایک بار تو اس کا دل کیا گھر فون کرنے کا مگر پھر قلب کی ایک بار پھر ناراضگی مول لے کر اپنی باقی ماندہ زندگی کو برباد نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔

اس لیے چاہتے ہوئے بھی ایسا نہ کر سکی۔۔۔۔

دن یونہی بے کیف گزرنے لگے۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

سینما حال میں وہ تینوں داخل ہوئے تو اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھے پہلی پر دارم دوسری پر وفا اور اس کے ساتھ ہی ولید ۔

انگلش ایکشن مووی تھی۔۔۔مووی کو چلتے ہوئے ابھی آدھ گھنٹہ ہی ہوا تھا کہ وفا کو بوریت سی محسوس ہوئی۔۔۔

اس نے دارم کی طرف دیکھا جو پورے انہماک سے مووی دیکھنے میں مگن تھا ۔۔۔

ایک ہاتھ میں پاپ کارن پکڑے وفا کے آگے کیے ہوئے تھے اور دوسرے سے لمحہ بہ لمحہ اپنے منہ میں ڈال رہا تھا۔۔۔۔

اس نے پھر سے کوشش کی مووی کی سٹوری کو سمجھنے کی۔۔۔۔

کہ اچانک اپنے ہاتھ پر کسی کی گرفت دیکھی۔۔۔

وفا نے جب اس کی طرف رخ کیا تو وہ کمینگی ہنسی ہنستے ہوئے دانت نکال رہا تھا۔

اس نے سہم کر اپنا ہاتھ جو اس کے ہاتھ کے نیچے دبا ہوا تھا اسے نکالا۔۔۔

اور دارم کی بازو کو اپنے دونوں ہاتھوں سے زور سے جکڑ کر اپنا سر اس کے شانے کے ساتھ لگایا۔۔۔۔

اور آنکھیں موند لیں۔۔۔

دارم نے اس کی حرکت بخوبی محسوس کی۔۔۔

مگر جب نظر اس کی لرزتی ہوئی پلکوں پہ پڑی تو پریشانی سے پیشانی پر سلوٹیں لاتے ہوئے بولا۔۔۔۔

Are you okay my Little Doll.....

اس نے فقط نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔

ولید یہ لو ۔۔۔اس نے پارپ کارن والا باکس اسے پکڑایا۔۔۔

"ایسا کر تو مووی انجوائے کر ہمیں کہیں جانا ہے"

وہ وفا کے شانے سے اپنا بازو گزارتے ہوئے اسے اپنے حصار میں لیے ہوئے وہاں سے باہر نکلا۔۔۔۔

ولید اس طرح اس کے جانے سے سخت بد مزہ ہوا۔۔۔۔۔

اس کی یونیورسٹی کی ایک مسلم علینہ نامی  لڑکی سے اسے محبت ہو گئی تھی۔

اسی نے ولید سے شادی کرنے کے لیے شرط رکھی تھی کہ وہ پہلے مسلم ہو جائے۔۔۔۔

مگر کچھ حالات کی وجہ سے اسے دبئی واپس جانا پڑا وہاں اس کے والدین نے خاندان میں ہی اس کی شادی کردی ۔۔۔

اور ولید تنہا رہ گیا۔۔۔۔تب سے اسے مسلم لڑکیوں سے چڑ ہونے لگی۔وہ نام کا تو مسلمان ہو چکا تھا اپنے لیے نہیں بلکہ کسی کے لیے۔

جب تک آپ دل سے کسی چیز کو اپنا نا لو دل سے کلمہ نہ پڑھو تب تک آپ اس دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہوتے ۔

جیسے کئی صدیوں پہلے کچھ لوگ دکھاوے کے لیے تو مسلمان بن جاتے تھے مگر پیٹھ پیچھے وہ مسلمانوں کی ہی برائیاں کرتے تھے۔۔۔۔

جس طرح اللہ تعالٰی کسی کو زبردستی ہدایت نہیں دیتا بالکل اسی طرح گمراہ بھی نہیں کرتابلکہ سب سے پہلے غافلوں اور گناہگاروں کو بذریعہءپیغمبر انکے سوءِ اعمال پر متنبہ کرتا ہےایسا نہیں ہے کہ ایسے لوگوں کوایک یا دو بار نصیحت کرنے اور اسکو قبول نہ کرنے کے نتیجے میں انکے دلوں پر اسی وقت مہر ثبت کر دیتا ہےبلکہ ایک خاص مدت تک ان کو اپنے آپ کی اصلاح کرنے کا پورا پورا موقع فراہم کرتا ہے۔۔۔۔۔۔

 اور اگر ایسے لوگ  اپنی سابقہ غلط روش کو بدلنے کی بجائے اسی پر جمےرہیں تو اللہ تعالٰی ایسے لوگوں کو گمراہ کر دیتا ہے ، ان میں حق کو قبول کرنے کی کوئی صلاحیت باقی نہیں رہی اورانکا ضمیر بالکل مردہ ہو چکا ہے تب اللہ تعالٰی کا ان کے حق میں آخری فیصلہ ان کے دلوں پر مہر کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

وہ دونوں وہاں سے باہر نکلے تو روڈ پر چلنے لگے۔۔۔۔۔

وفا اس وقت بلیک جینز اور ریڈ لانگ کوٹ پہنے گلے میں بلیک مفلر گول گھما کر لپیٹے ہوئے تھی۔۔۔

اپنے کمر تک آتے ہوئے ہیزل بال آدھے کیچر میں مقید کیے ہوئے تھی۔۔۔

موسم کافی سرد تھا۔۔۔یخ بستہ ہوا چل رہی تھی۔۔۔

اس کے بال اڑ اڑ کر اسی کے چہرے کو چھو رہے تھے۔۔۔۔

وہ دونوں ہاتھ کوٹ کی جیبوں میں گھسائے ہوئے تھی۔

کچھ دور ہی چلے تھے کہ راستے میں آئس کریم کی شاپ نظر آئی۔۔۔

جہاں سے بچے اور کچھ کپلز کون خرید کر لے جا رہے تھے۔۔۔اور اس موسم کا لطف دوبالا کر رہے تھے۔۔۔۔

وہ انہیں دیکھ ایک جگہ پر رکی۔۔۔

دارم نے اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا۔۔۔

"آئس کریم کھانی ہے ؟"

اس نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔

"تم یہیں ویٹ کرو میں ابھی آیا "وہ اسے کہہ کر خود آئس کریم لینے چلا گیا۔۔۔۔

اس کی نظریں دارم پر ہی تھیں۔۔۔

وہ جو کافی دیر سے وہاں کھڑا اپنی باری کے لیے رش ختم ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔

ایک شاپ پر کھڑی لڑکی جو کون ڈال کر دے رہی تھی۔۔۔

وہ دارم کو پر شوق نیلی نگاہوں سے سر تا پا گھور رہی تھی ۔۔۔۔

وفا نے دارم کا جائزہ لیا ۔۔۔

جو بلیو جینز پر بلیک ہائی نیک  اور اس پر بلیک لیدر جیکٹ پہنے کسی بھی صنف مخالف کو زیر کرنے کی تمام تر صلاحیتوں سے مالا مال لگا۔۔۔۔

اس لڑکی نے دو کون دارم کو پکڑائیں۔۔۔

تو وہ اسے پیمنٹ کیے اس کی طرف آیا۔۔۔۔

"یہ لیں جی آپ کی آئس کریم "اس نے ایک کون اس کی طرف بڑھائی۔۔۔۔

وفا نے اس کے ہاتھ سے کون تو لے لی مگر پھر واپس اسی شاپ کی طرف بڑھنے لگی۔۔۔۔

"ارے کہاں جا رہی ہو وفا؟

وہ اس کے پیچھے آتے ہوئے بولا۔۔۔

مگر وہ سن سنی کرتے ہوئے تیز قدموں سے چلتی ہوئی اس لڑکی تک پہنچی اور ہاتھ میں موجود کون اس کے منہ پر مل دی۔۔۔۔

وہ لڑکی تو وفا کے اس عمل پر ہکا بکا رہ گئی۔۔۔۔

اور ہونقوں کی طرح اس چھوٹی سی لڑکی کا منہ تکنے لگی۔۔۔۔اسے کہاں امید تھی کہ اس کے ساتھ کچھ ایسا ہونے والا ہے۔۔۔۔

You flirty women....

You deserve it.....

وہ تلخ لہجے سے کہتے ہوئے واپس مڑی۔۔۔۔

دارم اس کے پیچھے پیچھے۔۔۔۔

"یہ کیا حرکت تھی"؟؟؟؟

"اس فرنگن کی آنکھیں نکال دیتی نہیں بلکہ میں اس کا منہ نوچ لیتی اگر کہیں میرے ناخن لمبے ہوتے ،اسے زرا شرم نہیں آرہی تھی آپ کو ایسے للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوئے۔۔۔۔۔

"Are you jealous???

وہ ابرو اچکا کر لبوں پر شرارتی مسکراہٹ سجائے ہوئے پوچھ رہا تھا۔۔۔۔

ابھی بتاتی ہوں آپ کو ۔۔۔وہ دارم کے ہاتھ سے اس کی کون جھپٹ کر بولی۔۔۔

دارم آگے بھاگا اور وہ ہنستی ہوئی اس کے پیچھے۔۔۔۔۔

بھاگتے بھاگتے اس کی سانسیں پھول چکیں تھیں۔۔۔

اور کون کہیں پیچھے ہی گر چکی تھی اب وہ گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر نڈھال ہوتے ہوئے سانس لینے کے لیے رکی۔۔۔۔

دارم نے اسے یوں دیکھا تو مزید بھاگنے کا ارادہ ترک کرتے اس کے پاس آیا۔۔۔۔

وہ بھاگتے بھاگتے ایک کھلے میدان میں آ گئے تھے جو سارا برف سے ڈھکا ہوا تھا۔۔۔۔

وہ تھک کر برف پر لیٹی۔۔۔۔

دارم بھی اس کے قریب آیا۔۔۔۔

کچھ ہی دیر میں آسمان کو گہرےبادلوں نے ڈھک لیا اور سنو فالنگ شروع ہو گئی۔۔۔۔

روئی نما سنو فال اس نے زندگی میں پہلی بار دیکھی تھی۔۔۔

وہ اسے ہاتھ پھیلائے ہوئے محسوس کرنے لگی۔۔۔۔

وفا بہت ٹھنڈ ہے یہاں تم نے گلوز بھی نہیں پہنے دیکھو ہاتھ کیسے نیلے پڑ رہے ہیں۔۔۔

چلو گھر چلتے ہیں ورنہ بیمار پڑ جاؤ گی۔۔۔۔

"نہیں پلیز مجھے ابھی اور یہاں رہنا ہے ۔۔۔اس نے منت بھرے انداز میں کہا۔۔۔

تو دارم کو چارو ناچار وہاں رکنا پڑا۔۔۔۔

وہ وہیں لیٹی ہوئی تھی تو دارم نے ایک جھاڑی اٹھا کر اس کے گرد ایک موجود برف پر جھاڑی کی مدد سے دل بنایا۔۔۔۔

وفا نے اٹھ کر دیکھا وہ دونوں دل میں کھڑے تھے۔۔۔۔۔

یہ منظر آنکھوں بہت بھایا۔۔۔مگر وہ دارم کو نظر انداز کرتی ہوئی بولی۔۔۔۔

"سنیں وہ دیکھیں کتنا خوبصورت ہے مجھے اسے چھونا ہے "اس نے زور سے کہہ کر اس کی توجہ ایک درخت پر دلوائی جس کی شاخیں پوری طرح برف سے ڈھک چکی تھیں۔۔۔۔

Are you mad?

دارم اس اونچے درخت کو دیکھ کر بولا۔۔۔

"میں نہیں بولتی آپ سے "وہ رخ پھیر کر خفگی سے منہ پھلائے ہوئے بولی۔۔۔۔

دارم  اس کے بچپنے پر مسکرایا۔۔۔

"اچھا چلو آؤ ادھر ۔۔۔۔

اس نے اسے اپنے شانوں کی طرف اشارہ کیا۔۔۔

وہ اچنبھے سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔

"تم میرے شانوں پر بیٹھ جاؤ میں تمہیں اونچا کروں گا تو تم انہیں چھو لینا۔۔۔۔۔

وہ دارم کے پیچھے سے آکر اس پر بیٹھ گئی۔۔۔

دارم نے اسے اوپر اٹھایا تو اس کا ہاتھ با آسانی درخت کی شاخوں تک پہنچا۔۔۔۔

اس نے انہیں ہاتھ میں لے کر زور سے جھٹکا دیا تو ساری برف دارم پر گری۔۔۔۔

ہی۔۔۔۔۔ہی۔۔۔۔۔ہی ۔۔۔وہ کھلکھلا کر ہنسی۔۔۔۔

دارم اس کی ہنسی کی مدھر کھلکھلاہٹوں میں کھو گیا۔۔۔۔

کچھ دیر بعد دارم نے اسے نیچے اتارنا چاہا تو وہ اس کے شانوں سے تو نیچے اتر گئی مگر پیچھے سے اس کی گردن میں بانہیں ڈالے جھولنے لگی۔۔۔۔

دارم نے بھی اپنے ہاتھ پیچھے سے گزارے ہوئے اسے پکڑا اور چلنے لگا۔۔۔۔

بہت مزہ آرہا ہے آج تو وہ ہنستے ہوئے بولی۔۔۔

اس خوشگوار ماحول کا اثر تھا شاید جو وہ اس سے اس قدر فری ہو رہی تھی۔۔۔

اور دارم تو ان لمحات کودل سے محسوس کر رہا تھا۔۔۔۔

دونوں نے مل کر سنو مین بنایا ۔۔۔۔سنو مین آخری مراحل میں تھا کہ وفا کو جانے کیا شرارت سوجھی اس نے برف کا گولا بنا کر دارم کی گردن پر مارا۔۔۔۔

اور خود آگے بھاگی۔۔۔

"مائی لٹل ڈول اب تیار ہو جاؤ بدلے کے لیے"۔۔۔۔

وہ بھی اس کے پیچھے بھاگا۔۔۔۔

بھاگتے ہوئے وہ دونوں روڈ پر آچکے تھے۔۔۔۔

بالآخر دارم نے اسے پکڑ لیا۔۔۔

اسے کمر سے تھامتے تھے اس کا رخ اپنی جانب موڑا۔۔۔۔۔

پھر اس کی پیشانی سے اپنی پیشانی لگا کر لمبے لمبے سانس لینے لگا۔۔۔۔

سخت سردی میں جب دونوں کا چہرہ ٹھنڈ سے نیلا پڑ چکا تھا۔وہاں پر حدت گرم سانسیں ایک دوسرے کے سکون کا باعث بنیں۔۔۔دارم کی پر حدت سانسوں سے اتنی سردی میں بھی اسے اپنا چہرہ جھلستا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔

چہرے پر قوس قزح کے رنگ بکھرے ۔۔۔۔۔

دارم کے لب ہولے سے اس کے لبوں کو چھوئے۔۔۔۔اسے ایسا لگا جیسے ساری بدن میں کپکپی سی دوڑ گئی ہو۔۔۔۔

وفا نے چہرے کا رخ پھیرا تو وہ خفگی سے منہ پھلائے دوسری جانب چلنے لگا۔۔۔۔

"سنیں "اس نے جب دارم کو دوسری طرف جاتے دیکھا تو اس کے پیچھے ہولی اور اسے روکنے کے لیے آواز دی ۔۔۔۔

مگر دارم خانزادہ کو نہ رکنا تھا وہ نہ رکے۔۔۔۔

"پلیز رک جائیں نا "اس نے پھر سے آواز دی وہ پاکٹس میں ہاتھ ڈالے تیزی سے قدم اٹھاتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا۔۔۔۔

جب اس کی رندھی ہوئی آواز سنائی دی تو اپنی ناراضگی بھلائے پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔۔

اس سے پہلے کہ قریب سے گزرتی ہوئی گاڑی اسے کچل جاتی وفا نے بروقت اس کے قریب پہنچ کر اسے اپنی جانب کھینچا۔۔۔

"مائی گڈ لک اگر آپ کو کچھ ہو جاتا تو؟ " 

وہ دارم کی بھوری آنکھوں میں اپنی نم آنکھوں سے دیکھ کر جذبات سے چور لہجے میں بولی۔۔۔۔

یہ کہتے ہوئے وہ اسے کے سینے میں منہ چھپا گئی۔۔۔۔

دارم نے اس کا چہرہ اٹھایا۔۔۔۔

اور اپنے ہاتھوں کے پیالے میں بھرا۔۔۔۔

اس کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسوؤں کو اپنے لبوں سے چنا۔۔۔۔

کچھ نہیں ہوا مجھے میں ٹھیک ہوں۔۔۔اس نے اسے تسلی دی۔۔۔

وفا نے دارم کے شوز پر اپنے پاؤں رکھ کر اس تک پہنچنے کی کوشش کی۔۔۔۔

پھر دھیرے سے اس کی گال پر اپنے لب رکھ دئیے۔۔۔۔

شاید آج وہ اپنے حواسوں میں نہ تھی۔۔۔

اس کا یہی عمل دارم کو مزید بہکانے کا سبب بنا۔۔۔۔

دارم نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اونچا کیا اب وفا کے پاؤں ہوا میں معلق ہوئے اور چہرہ بالکل دارم کے چہرے کو چھو رہا تھا۔۔۔

دارم کی نظروں کا ارتکاز محسوس کرکہ اس بار اس نے اپنا چہرے کا رخ تبدیل نہ کیا بلکہ آنکھیں میچ لیں۔۔۔

دارم اس کی رضامندی دیکھ اس کے لبوں پر جھکا۔۔۔۔۔

دونوں آنکھیں موندے ایک دوسرے کی سانسیں  محسوس کرتے ہوئے کسی اور ہی جہان میں محو سفر تھے۔۔۔۔

جانے کتنے ہی پل بیت گئے۔۔۔۔دل اور ماحول میں چھایا فسوں اس وقت ٹوٹا جب ارد گرد سے گزرتے ہوئے لوگوں نے انہیں یوں کھلے عام اپنے پیار کا اظہار کرتے پایا تو انہیں سراہنے کے لیے تالیاں بجائیں۔۔۔

وہاں تو یہ سب عام تھا۔۔۔۔

دونوں کی آنکھیں کھلیں ۔وفا نے تو شرم کے مارے اپنی آنکھیں جھکا لیں۔۔۔۔

جبکہ دارم تھوڑا شرمندہ ہوتا ہوا اپنے بالوں میں ہاتھ پھیر کر رہ گیا۔۔۔۔۔

پھر وہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر ہنستے ہوئے ہجوم سے دور بھاگے۔۔۔۔

واپسی پر دارم نے ڈنر کے لیےپزا خریدا ۔۔۔۔

فلیٹ میں پہنچ کر انہوں نے لاک لگایا اور اندر آئے۔۔۔

وفا نے سب سے پہلے اپنا لانگ کوٹ اتارا پھر شوز ۔۔۔۔

دارم نے آتے ساتھ ہی روم میں ہیٹر آن کر دیا۔۔۔

اور خود کی جیکٹ اتار کر ایک طرف رکھی۔۔۔

پھر ہاتھ دھو کر پانی پیا اور پزا پلیٹ میں رکھے کولڈ ڈرنکس لیے روم میں آیا۔۔۔۔

"میرے گلے میں درد ہو رہی ہے "وفا نے گلے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔

ابھی تو آئس کریم نہیں کھائی ورنہ پتہ نہیں کیا ہو جاتا۔۔۔۔

ادھر آؤ چیک کروں گلے خراب کی وجہ سے ٹمپریچر تو نہیں ہو گیا۔۔۔۔

اس نے وفا کے گال سرخ دیکھے تو کہا۔

وہ چلتی ہوئی اس کے قریب آئی تو دارم نے اسے تھائی پر بٹھایا۔۔۔۔

اور اس کے گال چھو کر دیکھے۔۔۔۔

"شکر ہے ٹمپریچر نہیں "اچھا ایسا کرتے ہیں ہم پہلے کچھ کھا لیتے ہیں پھر میں تمہیں میڈیسن لا دوں گا ۔۔۔

"اب یہ کولڈ ڈرنک نہیں پینا میں تمہارے لیے کافی بنا دیتا ہوں "

"پزا کے ساتھ کافی کا کیا کمبینیشن ہوا بھلا؟

وہ منہ ٹیرھاکیے خفگی سے بولی۔۔۔

"یہ نیو کمبینیشن ہے جو دارم خانزادہ کی ایجاد ہے اپنی لٹل ڈول کی کئیر کے لیے۔۔۔۔

وہ اس کے خفگی سے پھولے ہوئے گال کو اپنی پوروں سے دبا کر بولا۔۔۔۔

"مجھے کولڈ ڈرنک ہی پینی ہے "وہ بضد ہوئی۔۔۔۔

"بہت ضدی ہے میری کیوٹ وائف"

اچھا پی لو پر پہلے یہ کھاؤ ۔

اس نے پزے کا ایک پیس اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اس کے منہ کی طرف بڑھایا ۔۔

وفا نے بائٹ لی ۔۔

"سنیں "

وہ دھیرے سے پیار بھرے لہجے میں بولی۔۔۔

"سنائیں"وہ دوگنی شدت سے لہجے میں مٹھاس  سموئے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔

 اب مجھے نیچے اتاریں آپ ٹھیک سے بیٹھ کر کھائیں"۔۔۔

"آپ قریب ہوں تو سب ٹھیک "

"ایک بات یاد آئی اس وقت تو میری لٹل ڈول کی قربت نے ہمیں سوچنے سمجھنے کی تمام تر صلاحیتوں سے مفقود کر دیا تھا آپ نے مجھے مائی گڈ لک کہا تھا ؟؟؟؟

اس کی بھوری آنکھوں میں پنپتے ہوئے شوریدہ جذبات دلدوز تھے۔۔۔۔

"وہ نہ مجھے واش روم جانا ہے"یہ کہتے ہوئے وہ اس کی بات کو ان سنا کرتے ہوئے تیزی سے واش روم کی طرف بھاگی۔۔۔۔۔

پیچھے دارم اس کی چالاکی پر مسکرا کر رہ گیا۔۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖

پریا کو ملک ہاؤس آئے ہوئے دو ماہ ہو چکے تھے اس دوران ایک بار ہی قلب کی کال آئی تھی وہ بھی صنوبر بیگم کے موبائل پر۔۔۔

انہوں نے فون پریا کی طرف بڑھایا تو اس نے بھی سرسری سا حال دریافت کر لیا۔۔۔۔

آج صبح سے ہی اسے اپنی طبیعت کچھ بوجھل محسوس ہو رہی تھی۔۔۔

کیا بات ہے پریا بیٹا دیکھ رہی ہوں صبح سے تم چپ چپ سی ہو کہیں اپنے شریک حیات کی یاد تو نہیں آرہی ؟؟؟

انہوں نے اسے پیار سے دیکھتے ہوئے کہا۔

ان دونوں کی آپس میں کافی بننے لگی تھی جس کی وجہ سے وہ دونوں ایک دوسرے سے کھل کر باتیں کرلیتی تھیں ان دونوں میں ساس بہو والا کم اور دوستوں والا زیادہ ریلیشن شپ قائم ہو چکا تھا۔۔۔۔

"نہیں مما ایسی بات نہیں بس طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی ،بار بار چکر سے آ رہے ہیں"

"میڈ نے بتایا کہ تم نے صبح سے ناشتہ بھی نہیں کیا "وہ پریشان انداز میں بولیں۔

"بس مما کچھ بھی کھانے کو دل نہیں کر رہا"وہ بے دلی سے بولی ۔۔

"یہ دل تو پاگل ہے اس دل کی مت سنو دماغ کی سنو اچھی صحت کےلیے بروقت کھانا اچھا ہے چاہے تھوڑا سا کھاؤ مگر کھاؤ ضرور۔"

"کھانا کھانے کو دل نہیں تو کچھ فروٹس یا جوس لے لیتی"

جی مما میں لے لیتی ہوں ۔۔۔

"پریا ایسا کرو تم تیار ہو جاؤ ہم ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں ایک بار چیک اپ کروانا بھی مناسب رہے گا "وہ کچھ دیر خاموشی سے سوچنے کے بعد بولیں۔

"نہیں مما اب ایسی بھی کوئی زیادہ طبیعت خراب نہیں جو ڈاکٹر کے پاس جانا پڑے ،ہو جاؤں گی ٹھیک آپ فکر مت کریں "

"پریا بیٹا لاپرواہی اچھی بات نہیں قلب نے سنا تو کیا کہے گا کہ ہم نے اس کی بیوی کو اپنے پاس رکھ تو لیا مگر اس کا خیال نہیں رکھا۔۔۔۔۔

چلو شاباش میں جوس منگواتی ہوں اسے پیو اور تیار ہو جاؤ میں ڈاکٹر سے فون پر اپائنٹمنٹ لیتی ہوں پھر چلیں گے ۔۔۔

"جی ٹھیک ہے مما "اس نے فرمانبرداری سے کہا۔۔۔۔

ڈاکٹر نے پانچ بجے کا وقت دیا تھا اس لیے وہ دونوں مقررہ وقت پر پہنچ چکیں تھیں۔

ڈاکٹر نے اس کا چیک اپ کیا پھر اس کی بتائی ہوئی علامات کو دیکھتے ہوئے ایک چھوٹا سا ٹیسٹ کیا جس کی رپورٹ پوزیٹو تھیں۔

کانگریچولیشنز !

مسز شایان ملک آپ دادی بننے والی ہیں۔۔۔۔

یہ بات سن کر کہاں صنوبر بیگم کے چہرے پر خوشی کے تاثرات ابھرے وہیں اس خبر سے پریا کے اوسان خطا ہوئے۔۔۔۔

یکدم اس کے چہرے کے نقوش تنے ،اس نے آنکھیں بند کر کہ اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔۔۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖

وہ سب چھوڑ کر واپس ملک ہاؤس پہنچا۔۔۔۔

اسلام وعلیکم مام!!!

وعلیکم السلام!

آج تو خوشی میرے بیٹے کے چہرے سے خوب جھلک رہی ہے۔۔۔

انہوں نے قلب کے مسکراتے ہوئے لبوں سے دیکھ کر اندازہ لگایا۔۔۔۔

"جی مام میں بہت خوش ہوں جونئیر عالیان آئے گا ماما اس گھر میں پھر سے خوشیاں ہی خوشیاں ہوں گی۔۔۔

I am really very excited...."

وہ انہیں دونوں بازوؤں سے پکڑ کر گول گول گھماتے ہوئے مسرور لہجے میں بولا۔۔۔۔

"مجھے تو چھوڑو اپنی بوڑھی ماں کی ہڈیاں توڑنے کا ارادہ ہے کیا ؟؟؟

"نہیں مام ابھی تو آپ کو ایک بار پھر سے عالیان کو اپنے ہاتھوں سے بڑا کرنا ہے"۔۔۔۔

اس نے انہیں تھام کر صوفے پر بٹھایا۔۔۔۔اس نے کسی کی تلاش میں نظریں ادھر ادھر دوڑائی۔۔۔۔

"تمہاری نظریں جسے ڈھونڈ رہی ہیں وہ یہاں نہیں اپنے روم میں ہے۔"

اس بار وہ ان کی بات سن کر کھل کر مسکرایا۔۔۔۔

"جاؤ اپنے روم میں ہے مل لو جا کر """

جی مام....

کمرے کا دروازہ دھیرے سے کھول کر وہ اندر آیا۔۔۔۔

وہ کھڑکی کے پاس کھڑی کسی گہری سوچ میں اتنا ڈوبی ہوئی تھی کہ اس کے اندر آنے کی اسے خبر بھی نہیں ہوئی۔۔۔۔

"کیسی ہو" ؟کیا میرا انتظار کر رہی تھی ؟

اس نے حد درجہ پیار بھرے انداز میں پوچھا۔

وہ چونک کر مڑی اس کی مانوس آواز سن کر۔

"ہنہہہ۔۔۔۔۔تو آخر اس خبر نے تمہیں یہاں آنے پر مجبور کر ہی دیا".....

وہ طنزیہ انداز سے ہنکارا بھر کر بولی۔۔۔

ویسے مجھے کسی کے انتظار کرنے کی بیماری ابھی تک لاحق نہیں ہوئی۔۔۔۔

" توکیا نہیں آنا چاہیے تھا مجھے؟"

وہ ابرو اچکا کر اس کا طنز محسوس کرتے ہوئےسپاٹ لہجے میں بولا۔

'شوق سے آؤ گھر ہے تمہارا' ....."مگر جس وجہ سے تم نے یہاں آنے کی بھول کی ہے اس 'وجہ'کو ہی میں اس دنیا میں آنے ہی نہیں دوں گی "

وہ تڑخ کر بولی۔۔۔

"کیا بکواس کر رہی ہو ؟اس معصوم کی کیا غلطی جس نے ابھی دنیا میں قدم بھی نہیں رکھا"

" میں کسی کے غصے کی بھینٹ چڑھے، زبردستی اور بدلے کی نشانی کو کبھی اس دنیا میں آنے ہی نہیں دوں گی"وہ پھنکارتے ہوئے زخمی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

اس سے پہلے کہ اس کی بات پر وہ آگ بگولہ ہوتا ،وہ خود کو نارمل کیے اس کے قریب آیا۔

اگر ایک فریق غلطی کر رہا ہے تو دوسرے کو سیخ پا ہونے کی بجائے ٹھنڈے دماغ سے کام لینا چاہیے دونوں طرف ایک سا معاملہ بات کو بگاڑ سکتا ہے۔

اسے اپنے ضبط کی طنابیں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوئی مگر وہ خود کو سنبھال کر جوں جوں اس کی طرف بڑھ رہا تھا اس نے ٹیرس میں موجود کھڑکی پر اپنا پاؤں رکھا 

"دیکھو قلب وہیں رک جاؤ ۔۔۔۔میں کہہ رہی ہوں میرے قریب مت آنا ۔۔۔۔ورنہ میں یہاں سے کود جاؤں گی۔۔۔۔ختم کر لوں گی آج اس نفرت کی نشانی کو بھی اور خود کو بھی""""

اوپری منزل پر بنے ان کے کمرے کی کھلی کھڑکی کی اطراف پر وہ دونوں ہاتھ جمائے نیچے کودنے کو تھی ۔۔۔۔۔

اگر قلب ایک لمحہ کی بھی تاخیر کرتا تو آج وہ اپنی جان پر کھیل جاتی۔۔۔۔

کسی بھی انسان کے لیے اس کی زندگی سے بڑھ کر کوئی انمول تحفہ نہیں ہوتا مگر کچھ لوگ ایسے ہی طیش میں آکر اپنی زندگی کو داؤ پر لگا جاتے ہیں،غصے میں انسان کا ذہن کام کرنا بند کر دیتا ہے اور وہ اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں کہ سوچے سمجھے بغیر کوئی بھی قدم اٹھا لیتے ہیں۔

قلب نے بنا تاخیر کیے بجلی کی سرعت سے لپک کر اس کا بازو تھام لیا۔۔۔۔

جواب میں پریا نے یوں سرخ انگارہ آنکھوں سے دیکھا جیسے اسے کچا چبا جائے گی۔

"بازو چھوڑو میرا"وہ غرائی۔۔۔۔۔

مگر قلب نے پرواہ نہ کی۔

"ایسی حرکتوں کا کوئی فائدہ نہیں.....جو کچھ ہو چکا ہے اسے ہم بدل نہیں سکتے.....

مگر اس سے مزید برا ہونے سے روک تو سکتے ہیں ......'

"واہ ! بہت جلدی یاد آگیا تمہیں ....."

پریا نے اسے شانوں سے دھکا دیتے ہوئے خود سے دور دھکیلا۔۔۔۔۔

"انسان اندر سے بہت کمزور ہوتا ہے لفظوں اور لہجوں کی مار اسے توڑ کر رکھ دیتی ہیں ،تم نے میری ہستی کو بکھیر کر رکھ دیا قلب "وہ رندھی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔۔

"مانا کہ میں نے غلطیاں کیں ،بہت کیں مگر میں انہیں سدھارنے کے لیے خود کو بے مول کر دیا تمہارے سامنے تم نے کہا اٹھو تو میں اٹھی تم نے کہا بیٹھو تو میں بیٹھی ،کیا کیا نہیں کیا میں نے تمہارا پیار حاصل کرنے کے لیے؟"

"تمہارا پیار حاصل کرنے کے لیے خود کو زمانے کے سامنے رسوا کر دیا ،مگر تم نے کبھی میرے پیار کی قدر نہیں کی،تمہیں کبھی میرا پیار نظر نہیں آیا نظر آیا تو صرف 'بدلا'۔۔۔۔ 

کمزور لوگ بدلہ لیتے ہیں اور مضبوط لوگ معاف کرتے ہیں ،تم کمزور ہو بہت کمزور ۔۔۔۔۔

آج میں ہاتھ جوڑ کر تم سے اپنی ساری کوتاہیوں کی معافی مانگتی ہوں،ہو سکے تو مجھے معاف کر دو مگر اب میں اپنی جان تو دے دوں مگر اسے اس دنیا میں نہیں آنے دوں گی۔۔۔۔وہ اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر بولی۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

Hey Neelum You are looking so much gorgeous today....

وہ اس کی تعریف میں رطب اللسان ہوا۔۔۔۔۔

نا کرو اذلان تم بھی نا بس یونہی ۔۔۔۔

وہ اس کے شانے پر ہاتھ مار کر شرماتے ہوئے بولی۔۔۔۔

'"تم کب جان چھڑوا رہی ہو اس بڈھے سے" ؟

"تم فکر مت کرو جلد ہی "وہ اس کے کالر کو جکڑ کر اسے اپنے قریب کرتے ہوئے بے فکری سے بولی۔

"جلدی کرو مائی مسسز ٹو بی۔۔۔اب تم سے اور دوری برداشت نہیں ہوتی۔"وہ بھی اس کی کمر کے گرد بازو حمائل کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔

اذلان ،سلیمان رئیسانی کا پی۔اے تھا عمر میں پینتیس سے چالیس کے درمیان آفس میں ہی نیلم سے ہیلو ہائے ہوئی اور اب بات یہاں تک پہنچ چکی تھی۔

نیلم رئیسانی جو اڑتالیس کی تھی مگر جم کرکہ اپنے فگر کو مینٹین کیے ہوئے اور اپنی بیوٹی پر توجہ دینے کی وجہ سے پینتیس سے زیادہ کی نہ لگتیں۔

اوپر سے عمدہ سے عمدہ ڈائیزائینر کی ساڑھیاں زیب تن کیے وہ گہرے میک اپ سے مقابل کو مائل کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی تھیں۔

"تم نے پیپرز بنوا لیے ؟"

ہاں بنوا لیے 'ایک منٹ رکو "

وہ ٹیبل کے ڈارور سے ایک نیلے رنگ کی فائل نکال کر لایا۔

"یہ لو جلدی کام ختم کرو ،اور ہاں ساری جیولری اور اپنے حصے کی جائیداد وہ سب دھیان سے لانا ،دبئی جا کر سب سیٹ کرنے میں یہ سب ہی کام آئے گا"

"ڈونٹ یو وری "تم بس جانے کی تیاری کرو "

وہ اس کے شانے پر لگی ان دیکھی گرد جھاڑتے ہوئے ادا سے بولی۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

"یہ پکڑو اور اس پر سائن کرو"

نیلم رئیسانی نے چند کاغذات سلمان رئیسانی کی طرف بڑھائے ۔

"کیا ہے یہ سب ؟"

سلیمان رئیسانی جو اب پہلے سے کافی بہتر تھے اور ڈائینگ پر بیٹھے ہوئے سر جھکائےکھانا کھا رہے تھے ۔۔۔۔سر اٹھا کے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا۔۔۔

"طلاق کے پیپرز "وہ سپاٹ انداز میں بولی۔

سلیمان رئیسانی کے ہاتھ سے چمچ ایک بار تو لرز کر رہ گیا۔۔۔۔

"اس عمر میں تمہیں یہ کیا سوجھی؟"

"عمر تمہاری بیتی ہو گی مجھے کیا ہوا ہے میں تو ابھی بھی جوان ہوں "وہ اپنے سٹریٹ ڈائی میرون بالوں کو شانے سے جھٹک کر بولی۔۔۔

"میں تمہارے سامنے نا ہاتھ جوڑ کر منتیں کروں گا نا اپنی محبت کا واسطہ دوں گا تمہیں مجھے چھوڑ کر جانے سے روکنے کے لیے۔"

"غلطی شاید میری ہی تھی ،میں نے ہی شاید دیر کردی تمہیں سمجھنے میں ایک عورت جو اپنے وفا دار شوہر کی نا ہوئی وہ کبھی میری بھی نہیں ہو سکتی تھی ،میرے لیے یہی سزا ہی ٹھیک ہے کہ میں تنہا رہ جاؤں "۔۔۔۔

"جاؤ تمہیں آزاد کیا "وہ سامنے رکھے گئے پیپرز پر سائن کرتے ہوئے بولے۔۔۔

اور فائل نیلم کی طرف بڑھائی۔۔۔۔

"بہت شکریہ بنا کوئی چوں چراں کیے میری بات ماننے کے لیے۔بہت اچھا وقت گزرا تمہارے ساتھ مگر جو آنے والا وقت ہے وہ اور بھی حسین ہونے والا ہے "

وہ تصوراتی آنکھوں سے آنے والے وقت کے لیے خواب ُبنتے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔

اور فائل لیے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تاکہ اپنا سامان سمیٹ سکے۔۔۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

رات کا تیسرا پہر تھا جب اسکی آنکھ دروازہ ناک ہونے کے احساس پر کھلی مندی مندی آنکھوں سے اس نے اطراف میں دیکھنا چاہا لیکن کمرے میں اندھیرا ہونے کہ باعث اسے اٹھ کر سائیڈ ٹیبل پر موجود لیمپ جلانے کی کوشش کی مگر شاید لائٹ نہیں آ رہی تھی۔ اس نے ڈریسنگ ٹیبل کے سکینڈ ڈروار سے کینڈلز نکال کر جلائیں۔۔۔۔۔

ان کہ جلتے ہی کمرے میں ہلکی سی روشنی پھیلی۔۔۔اپنے گلے پر ہاتھ رکھے اسے پانی کی طلب ہوئی شاید تبھی اسکی آنکھ کھلی تھی۔۔۔ نے سائیڈ ٹیبل پر کانچ کہ جگ کو دیکھا تو خالی تھا۔

وفانے جالی دار سفید پردہ ہٹایا جو بیڈ کے چاروں کونوں سے چھت سے ساتھ ملے ہوۓ تھے۔۔۔

ہمت کرتے اس نے آنکھیں بند کرتے دوبارہ کھولیں ۔۔۔

"مگر دروازہ کھٹکنا"۔۔۔۔۔

"اوہ۔۔۔۔،شاید میرا وہم تھا۔۔خود سے کہتی وہ اٹھ کھڑی ہوئی بےبسی سےخالی جگ پرنظر ڈالتی ہوئی اسے اٹھا کر کمرے سے نکلی وہ صبح سے بھوکی تھی دارم کے انتظار میں پر اتنی ٹھنڈ میں بھی پیاس زیادہ دیر برداشت نہیں ہورہی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ گلے میں کانٹے چبھ رہے تھے۔

ابھی وہ باہر ہی نکلی تھی کہ دروازے کے باہر موجود شخصیت نے دروازے کو بری طرح پیٹ ڈالا۔۔۔۔۔

"ضرور دارم ہی ہوں گے"وہ خود سے بڑبڑائی۔۔۔۔

بغیر پوچھے ہی دروازہ کھولا تو سامنے موجود شخص کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔۔۔۔

"ہیلو بھابھی جی "

"کیسی ہیں "؟

وہ زبردستی راستہ بناتے ہوئے فلیٹ میں گھس آیا۔۔۔۔۔

"آپ پلیز جائیے یہاں سے "دارم آئیں گے تو پھر آجائیے گا اس وقت وہ گھر نہیں "

ارے بھابھی جی وہ گھر نہیں اسی لیے ہی تو آیا ہوں "

"کیا بدتمیزی ہے یہ ؟آپ نکلیے باہر" ۔۔۔۔

"بھابھی جی اب ایسی بھی کیا بے رخی اپنے چاہنے والے سے وہ وفا کے دوپٹے کا پلو اپنے ہاتھ پر لیٹتے ہوئے خباثت سے بولا۔۔۔۔

"دو ماہ سے اسی موقع کی تلاش میں تھا۔آج جا کر ملا ہے تو کون اسے گنوانا چاہے گا۔"

"ٹرسٹ می بہت ہی پیار سے پیش آؤں گا "

وہ کمینگی ہنسی ہنستے ہوئے دانت نکال کر بولا۔۔۔۔

وہ الٹے قدم لیتی ہوئی اس سے دور ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔

"دارم مجھے ملا تھا اسی نے کہا تھا کہ آپ کو پیغام دے دوں کہ وہ لیٹ ہو جائے گا 

مگر دیکھو نا میری گڈ لک ۔۔۔۔وہ لیٹ ہوا تو  گلیشیر گرنے سے راستے بلاک ہو گئے اور وہ بیچارا ادھر ہی پھنس گیا۔۔۔۔"

"چلو نا ایک گولڈن نائٹ ہو جائے"

اس کی بیہودہ خواہش سن کر اس کے اعصاب جھنجھنا اٹھے۔۔۔۔۔

جسم لرزنے لگا ۔۔۔۔

مگر ان دوماہ میں دارم کی محبت نے اسے اتنا مضبوط بنا دیا تھا کہ وہ اس کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار تھی اور اب تو سوال اس کی عزت کا تھا جو اس کے ساتھ ساتھ دارم کی بھی ملکیت تھی۔

اس نے آنکھیں بند کر کہ ایک گہری سانس لی۔۔۔

"آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں "

"ہمیں وقت برباد نہیں کرنا چاہیے "آئیے میرے ساتھ "

اس کے یوں آسانی سے حامی بھر لینے پر ولید کی تو خوشی سے باچھیں کھل گئیں۔۔۔

اس کی تو جیسے لاٹری نکل آئی اور وہ خود کو ہواؤں میں اڑتا ہوا محسوس کرنے لگا۔۔۔۔

چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی  وہ بنا اردگرد دیکھے آگے بڑھ رہی تھی،

ولید نے اس کا پیچھا کیا۔۔۔۔۔ جب لاونج سے گزررہے تھے تو یکدم ہی ولید کو سخت سردی لگنے لگی  جانے یہ اتنی تیز ہوا کہاں سے آرہی تھی کہ ولید کے جسم میں سنسناہٹ دوڑ گئی

مگر وہ اس کی تقلید میں چل رہا تھا۔۔۔

 ہوا سے وفاکے کھلے بال پشت پر اٹھکلیاں کررہے تھے۔

وہ اس کے پیچھے کمرے میں داخل ہوا ۔۔۔۔۔

چاروں طرف موم بتیاں روشن نظر آئیں۔۔۔۔

کمرے کا خواب ناک ماحول اس کا دل دہلانے لگا۔۔۔۔وہ پہلے ہی ان سب چیزوں سے ڈرتا تھا ایک بار اس کے دوستوں نے فن کے لیے بورڈ پر انگلی رکھ کر روحوں کو بلانے کا مذاق کیا 

تھا اور وہ مذاق ان پر بہت بھاری پڑا تھا۔۔۔

بالکل ویسی سچویشن دیکھ کر اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔۔۔۔۔

وفا کے کھلے بال اب اس کے چہرے پر بکھرے ہوئے تھے ۔۔۔۔وہ بیڈ پر آلتی پالتی مارے ہوئے بیٹھ کر عجیب و غریب آوازیں نکالنے لگی۔۔۔۔ 

 ولید  نے تھوک نگل کر موم بتیوں کو بجھتے دیکھا لمبا سا دھواں اٹھتا ہوا میں تحلیل ہو رہا تھا اتنی ٹھنڈ میں بھی اسکی پیشانی عرق آلود ہوئی تھی ٹانگیں جیسے ہلنے سے انکاری ہوئیں  اسکو اپنا دل بند ہوتا محسوس ہوا اتنی رات گئے نیم اندھیرے بیڈ کی اطراف میں لگے  سفید پردے ہوا کی دوش پر پھڑپھڑاتے اس کی جان لینے کو تھے ۔۔۔۔۔

"ادھر آؤ ۔۔۔۔۔۔"وہ گردن کو گول گھماتے ہوئے بولی ۔۔۔۔اب اس کے بال اور گردن مسلسل گھوم رہی تھی ۔۔۔اور آواز میں بھی عجب سا سرد پن تھا جس نے اسے ٹھٹھک جانے پر مجبور کردیا۔۔۔۔اس سے قبل وہ ڈر کے باعث ہوش و خروش سے بیگانہ ہو کر وہیں گرتا اپنے ارادوں کو ترک کرتا الٹے قدم لیتا وہاں سے باہر کی جانب بھاگا۔۔۔۔۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

"تم ایسا کچھ نہیں کرو گی اور نا میں تمہیں ایسے کسی بھی گناہ کا مرتکب ہونے دوں گا"

"زندگی کا سب سے خوبصورت رشتہ وہی ہوتا ہے جہاں ایک ہلکی سی مسکراہٹ اور چھوٹی سی معافی سے زندگی پہلے جیسے ہو جائے۔

ہر پرانی بات کو دل پر لگائے رکھیں گے تو نئی آنے والی خوشیوں سے بھی محروم ہو جائیں گے۔بھول جاؤ سب پرانی تلخ یادیں ہم مل کر نئی دنیا بسائیں گے نئی خوشگوار یادیں بنائیں گے۔یہ زندگی بہت مختصر ہے جب اس کی سمجھ آتی ہے تو آدھی سے زیادہ گزر چکی ہوتی ہے۔جتنی رہ گئی ہے اسے یادگار بنا لیں۔۔۔۔۔۔۔

میں نے تمہیں دل سے معاف کیا ۔۔۔

کیا مجھے بھی معافی مل سکتی ہے"؟

قلب نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا اور اپنا ہاتھ اس کے آگے کیا۔۔۔۔۔

"ناراض ہو گی یہ تو مجھے معلوم تھا مگر اتنی زیادہ اس بات کا اندازہ نہیں تھا"

اس کی آنکھوں سے آنسو لڑیوں کی مانند بہہ رہے تھے دل گومگوں کی کیفیت میں مبتلا تھا ،

"اذیت کے بدلے اذیت دے کر کبھی تسکین نہیں ملتی،سکون معاف کر دینے کے بعد ہی ملتا ہے "وہ دھیمے سے بول کر اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے گئی۔۔۔۔۔

قلب نے اسے ہاتھ سے کھینچ کر اپنے ساتھ لگایا ۔۔۔

اور خود میں زور سے بھینچ لیا۔۔۔پریا نے بھی اس کے گرد اپنے بازو حمائل کیے آج پہلی بار وہ اپنی خوشی سے ایک دوسرے کے قریب آئے تھے۔جانے کتنے ہی پل گزر گئے انہیں ایک دوسرے کو یوں محسوس کرتے ہوئے ۔۔۔

"ایک بات پوچھوں ؟"پریا نے کہا

"ہمممم'وہ سرگوشی نما آواز میں اس کے گالوں کو اپنے لبوں سے چھو کر بولا۔۔۔۔

"اب بولتی کیوں بند ہو گئی" قلب کا اس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو چھونے سے وہ خود کو مزید بولنے کے قابل ہی نہ پا رہی تھی،

گلابی گال اس کی حد درجہ قربت پہ دہک کر اناری ہو چکے تھے۔

"آپ مجھ سے پیار کرتے ہیں ؟"دل میں مچلتا ہوا سوال آخر کار زبان پر آیا۔۔۔

قلب نے جھک کر اس کی بولتی بند کر دی۔۔۔۔

دل جیسے اپنی جگہ سے نکل کر حلق میں اٹک گیا ہو۔۔۔

اس ذو معنی خاموشی میں دونوں کی تیز رفتار دھڑکنیں ایک دوسرے کو بخوبی سنائی دے رہی تھیں۔۔۔۔

کچھ دیر بعد جب قلب نے اس کے گداز لبوں کوآزادی بخشی تو وہ نظریں جھکائے اپنے سانس بحال کرنے لگی۔

"مل گیا جواب اپنے سوال کا یا ابھی اور یقین دلانا پڑے گا اپنی محبت کی شدت کا" ؟؟؟؟

وہ اس کا شرم زدہ چہرے اپنی پوروں سے اوپر اٹھا کر بولا۔۔۔۔

وہ اس کے کشادہ سینے میں اپنا چہرہ چھپا گئی۔۔۔۔قلب نے اسے اپنے حصار میں لے لیا۔۔۔۔

دونوں آسودگی سے مسکرا دئیے۔۔۔۔۔

تکلیف ،غم ناراضگی سب مٹ گئے،سب غموں کا مداوا ہو گیا،بدلے ،نفرت اور محبت کے درمیان چھڑی جنگ میں بلآخرجیت ہوئی صرف محبت کی۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

"واؤ آخر کار ہم دبئی پہنچ ہی گئے۔۔۔۔"

وہ دبئی ائیر پورٹ پر اترتے ہوئے بولی۔۔۔

"ہم نکاح کب کریں گے؟"

"اتنی جلدی بھی کیا ہے وہ بھی ہو ہی جانا ہے پہلے ہوٹل چل کر کچھ دیر ریسٹ کرتے ہیں پھر کر لیں گے"

اذلان نے لاپرواہ انداز سے کہا ۔۔۔۔اور لگیج لیے باہر کیب ڈھونڈھنے کے لیے بڑھا۔۔۔۔

کچھ ہی دیر کی مسافت طے کرنے کے بعد وہ ایک شاندار ہوٹل میں آئے وہاں پہلے سے ہی روم بکڈ تھا۔۔۔

"یہاں بکنگ تم نے کروائی "؟

نیلم نے اچنبھے سے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا۔

"ظاہری بات ہے میں ہی کرواؤں گا اور کس نے کروانی ہے ؟میں نے خورای سے بچنے کے لیے پہلے ہی سب انتظام کر لیا تھا۔"

اس نے اسے تسلی آمیز انداز میں کہا۔۔۔

وہ نا چاہتے ہوئے بھی اس پر یقین پر مجبور ہو گئی کیونکہ اس کے سوا اور کوئی چارہ بھی تو نہ تھا۔

ڈور پر ناک ہوا تو اذلان جو کوٹ اتار کر ایک طرف رکھ رہا تھا اس نےاپنا کام ملتوی کیے دورازہ کھولا۔۔۔

'"سر یہ آپ کی چائے "

ہوٹل سروسز میں سے ہی ایک نے آکر کہا اور اسے چائے والا ٹرے تھمایا ۔۔۔۔

نیلم اور اذلان چائے پینے لگے۔۔۔۔

کچھ ہی دیر میں اسے شاید تھکان کی وجہ سے نیند آگئی یا کچھ اور بات تھی ۔۔۔۔۔؟

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

اس کے جاتے ہی وہ زور زور سے اپنی کارکردگی پر ہنسنے لگی۔۔۔۔

"میں نے کیسے پاگل بنایا اسے.......

"میری آنکھیں نیند سے سرخ تھیں اور وہ جانے کیا سمجھا ؟؟؟؟ہا۔۔ہا ۔۔ہا۔۔۔۔

وہ کھسیا کر خود کو آئینے میں دیکھ کر بولی۔۔۔۔

اور اوپر سے لائٹ چلی گئی تو سونے پر سہاگے کا کام ہوا۔۔۔ 

"آج تو تیز ہواؤں نے بھی میرا ساتھ دیا ۔۔۔

وہ دونوں ہاتھوں کو آپس میں مار کر خوشی سے بولی۔۔۔۔

"سچی مزہ آگیا ڈرانے کا ۔۔۔۔آج پہلی بار کسی کو ڈرایا ہے ۔۔۔۔واہ وفا تم تو بڑی ایکٹر نکلی۔۔۔۔

وہ خود کو داد دینے لگی۔۔۔۔

"میں کہاں اس وولف کا مقابلہ کر سکتی تھی اکیلے ؟دماغ نے کام کیا اور میں خود کو بچانے کے لیے ایک چھوٹی سی کوشش کی جو کامیاب ٹہری۔۔۔۔۔

اس نے جا کر ڈور لاک کیا اور واپس آکر اپنے بستر پر دوبارہ سے اوندھے منہ گر گئی۔۔۔۔

"میں انہیں کچھ نہیں بتاؤں گی "دارم کے بارے میں سوچتے ہوئے جانے کب اس کی پھر سے آنکھ لگ گئی۔۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

"اٹھو مہارانی "

کسی نے اس کے منہ پر ٹھنڈے پانی سے بھرا ہوا جگ پھینکا۔۔۔۔

"ابے یہ تو اس اذلان کے بچے نے ہمارے ساتھ دھوکا کیا ہے لڑکی کی قیمت میں بڑھیا دے کر ہم سے غداری ؟؟؟؟

"اسے ڈھونڈھو جلدی اور جہاں ملے پہلی فرصت میں اسے گولی سے اڑا دینا۔۔۔۔میرے پاس لانے کی بھی ضرورت نہیں"آخر کنگ سے دھوکے کا انجام اسے بھی تو پتہ چلے"

وہ گرجدار آواز میں اپنے ماتحت ساتھیوں پر دھاڑا۔۔۔۔۔

نیلم نے ہڑبڑا کر اپنی آنکھیں کھولیں۔۔۔۔

"اوئے میک اپ کی دکان بڑھیا تو نہیں بکے گی مارکیٹ میں ،تیرا تو ٹیم (وقت) گیا ....

"چل جا تجھ پر رحم کیے دیتا ہوں ۔تیرا کام ہے ان لڑکیوں کے کام کرنا ،

چل تجھے صفائی ستھرائی پر لگا دیتا ہوں اگر کوئی بھی گڑ بڑ کی تو تیری عمر کا بھی لحاظ نہیں کروں گا اور وہ کرواؤں گا تجھ سے جس کے بارے میں سوچ کر تیری روح بھی کانپ اٹھے گی۔۔۔

"مگر آپ ہیں کون ؟اور مجھے کیوں یہاں لائے ہیں ؟اور اذلان کہاں ہے ؟؟؟؟وہ وہاں کے عجیب و غریب ماحول کو سراسیماں نظروں سے دیکھ کر بولی۔۔۔۔

"تیرے فضول سوالوں کا جواب دینے کے لیے اپُن کے پاس ٹیم نہیں۔چل اب کام پہ لگ جلدی "وہ ہاتھ میں موجود گن سے اسے اشارہ کرتا ہوا تنفر بھرے انداز میں بولا۔۔۔۔

وہ یقین ہی نا کر پا رہی تھی کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے ۔۔۔۔۔

اپنے شکستہ وجود سے وہ وہیں ڈھ گئی۔۔۔۔۔

شاید اس نے آج تک جو گناہ کیے یہ اس کی سزا تھی۔۔۔جو اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنے لیے منتخب کی تھی۔۔۔۔

"کیا میں باقی ماندہ زندگی یہیں گزار دوں گی اس دوزخ میں ؟؟؟؟

اس نے تڑپ کر خود سے کہا۔۔۔۔۔

نہیں ایسا نہیں ہو گا ۔۔۔۔نہیں ایسا نہیں ہوگا اور نیم پاگلوں جیسی حالت میں چلانے لگی اور اپنے بالوں کو نوچنے لگی۔۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

ولید ڈر کے مارے تیزی سے باہر نکلا مگر اندھیرے میں اس کا پاؤں پھسلا اور وہ سیڑھیوں سے لڑھکتا ہوا نیچے گرتا گیا۔۔۔۔۔

سر پر گہری چوٹ لگنے سے خون تیزی سے بہنے لگا۔۔۔۔

رات کے اس وقت کوئی بھی وہاں موجود نا تھا جو اس کی مدد کے لیے آتا۔۔۔۔

 اس نے وہیں تڑپتے ہوئے چند لمحوں میں اپنی جان سے ہاتھ دھو دیئے۔۔۔۔

سوسائٹی کے گیٹ کیپر نے جب ایک خون سے لت پت وجود کو سیڑھیوں کے پاس مردہ حالت میں پایا تو فورا پولیس کو کال کی ۔۔۔

دارم جو راستہ کھل جانے کی وجہ سے واپس آ رہا تھا پہلے فجر کی نماز ادا کی پھر فلیٹ کا رخ کیا۔۔۔۔

پولیس کی بھاری نفری اور ایمبولنس وہاں دیکھ کر حیران ہوا۔۔۔۔گاڑی ایک طرف پارک کی، بھاگتا ہوا آیا اور

 آگے بڑھ کر دیکھا وہ اس کا دوست ولید تھا۔۔۔۔

حیرت اور دکھ کے آثار اس کے چہرے سے ہویدا ہوئے ۔۔۔

اس نے اس کے پاس جانے کی کوشش کی مگر پولیس نے ایسا کرنے سے منع کر دیا اور اس کی باڈی کو پوسٹ مارٹم کے لیے ہاسپٹل لے گئے۔۔۔۔

وہ اپنے دوست کی موت پر کرب ذدہ چہرہ لیے پژمردگی سے قدم اٹھاتا ہوا اپنے فلیٹ میں آیا اور ڈپلیکیٹ چابی سے ڈور کھولا۔۔۔۔

اپنے کمرے میں آیا تو وفا سوئی ہوئی تھی۔۔۔

اس نے اس کے آرام کے خیال سے واپس پلٹنا 

چاہا۔۔۔۔

"سنیں"اس کی خمار آلود آواز سن کر وہ واپس اس تک آیا۔۔۔۔

"یہاں لیٹیں"دوسرا حکم جاری ہوا۔۔۔

وفا کو دیکھ کر وہ ولید کی پریشانی سرے سے بھول چکا تھا۔۔۔۔۔

دارم  اپنی جکیٹ اتار کر ایک طرف رکھے اس کے ساتھ لیٹا ۔۔۔

"یہاں بازو رکھیں "تیسرا حکم۔۔۔

"دارم نے اپنی بازو رکھی تو وفا نے اپنا سر اس کی بازو پر دھرا۔۔۔

"اب ملا نہ سکون" وہ اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر پیار بھرے انداز سے بولی آنکھیں ابھی بھی ہنوز بند تھیں 

وہ اس کی بات پر دھیرے سے مسکرایا۔

"آپ کو پتہ ہے ساری رات مجھے اچھے سے نیند نہیں آئی بہت برے ہیں آپ، یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا ہے ۔"وہ پر شکوہ لہجے میں بولی 

"میں نے کیا کیا ؟"اس نے حیرت زدہ لہجے میں کہا۔

"آپ کے اس بازو کے بغیر مجھے کہیں نیند نہیں آتی آپ نے مجھے اپنا اتنا عادی بنا دیا ہے ۔اور اب عادی بنا کر مجھ سے دور چلے گئے "

وہ نروٹھے انداز میں منہ پھلائے بولی ساتھ ساتھ اس کی بیرڈ کو اپنے انگوٹھے سے سہلا رہی تھی۔۔۔۔

"بس یار راستہ بند ہوگیا اور اسی وجہ سے رات گھر نہیں آسکا ۔۔۔آئندہ ایسا نہیں ہوگا ۔۔۔

سوری "۔۔۔۔وہ اٹھ کر اس کے اوپر جھکا۔۔۔۔

وفا کے محبت بھرے انداز پر اسے بھی تو خراج تحسین پیش کرنا بنتا تھا۔۔۔۔

"تم ملی تو میرےعشق کو زبان ملی ،وہ دھیرے سے اس کی غزالی آنکھوں کو چھو کر بولا۔۔۔

"تمہارایہ دلربا ُپر فسوں حسن میری آنکھوں کو خیرہ کر گیا۔وہ اس کے گداذ گالوں کو دھیرے سے چھو گیا ۔۔

"آپ میری اتنی تعریف نا کریں کہ میں اپنے ہوش گنوا بیٹھوں۔۔۔"وہ بھی ان سحر انگیز لمحوں میں دھڑکتے ہوئے دل پر قابو پاتے ہوئے سرگوشی نما آواز میں بولی۔

"ایسا نا ہو آپکی چاہت میں اس دنیا کو بھلا دوں" ۔

"یہی تو چاہتا ہوں تم سب بھلا کر صرف مجھے یاد رکھو۔۔۔ صرف مجھے محسوس کرو"

وہ اس کی کان کی لو کو اپنے ملائم لبوں سے چھو کر اس کے کانوں میں رس گھولنے لگا۔۔

Ever since you touched my heart.

When I breathe in.

I close my eyes.

I see you my Little Doll.

Now my lips has your name only....

  جب تم ملی میں تنہا تھا ،تمہیں پاکہ مجھے سہارا ملا ۔۔۔۔۔میں وحشتوں میں ڈوبا تھا ،تمہیں پا کہ میری ڈوبتی ہوئی ناؤ کو کنارہ ملا۔۔۔۔

میں پیچھے مڑ کر دیکھوں تو زندگی کے آئینے میں کتنا ادھورا تھا میں۔۔۔

اب جب تمہیں خود سے جوڑ کر دیکھاہے تو میں مکمل لگا۔۔۔

میرے ہر زخم کی دوا تھی تم ،تم نے میری محبت کو قبول کر کہ مجھے جو خوشی دی اسے تو میں کبھی لفظوں میں بیان بھی نہیں کر پاؤں گا ۔

تم نے مجھے سرتا پا بدل دیا۔۔۔آج میں جو بھی ہوں اس کے لیےتمہارا شکریہ ۔۔""""

"یہ سب تو میں آپ سے کہنے والی تھی ،آپ کو میرے دل کی آواز کیسے پتہ چلی؟"

وہ حیرت زدہ لہجے میں بولی۔

"بس جہاں سچی محبت ہو وہاں ایسے ہی الہام ہوتے ہیں"

وہ اس کی ناک سے اپنی ستواں ناک کو آہستگی سے رب کرتے ہوئے کہہ گیا۔۔۔

"آپ میری زندگی میں آئے ہوئے وہ خوش بخت ستارہ ہیں جہنوں نے میری اندھیری زندگی کو خوشیوں کے اجالے سے منور کر دیا"

"میری زندگی میں آنے کے لیے شکریہ "

اس کی بڑھتی ہوئی گستاخیوں سے اب کی بار اس کی زبان لڑکھڑائی۔۔۔

"اجازت ہے "

وہ اس بات اس کی رضامندی مانگ رہا تھا۔

اس بڑی بات اس کے نزدیک اور کچھ نہ تھی۔

اس نے دارم کے گلے میں بازو ڈال کر اپنی آنکھیں میچ لیں۔

اس کی رضامندی کا اظہار دیکھ کر دارم نے اسے خود میں سمو لیا۔۔۔

آج دونوں اپنی رضامندی سے  نئی زندگی کا آغاز کر چکے تھے۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

تین سال بعد:

رات کا گہرا پہر تھا۔ماحول میں خاموشی کا راج تھا سب اپنے اپنے کمروں میں نیند کی وادیوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔

اس کا سارا جسم پسینے سے شرابور ہو گیا۔۔۔

"میں نے انہیں معاف کر دیا ان کے کیے کے لیے مگر اس نے تمہارے ساتھ تو زیادتی کبھی نہیں کی تم کبھی ان کی پلٹ کر ایک بار بھی خبر نہیں لی۔۔۔"

وہ جھٹ سے اٹھ کر بیٹھی۔۔۔

انہیں کی آوازیں اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔

اس کے یوں جھٹکا کھا کر اٹھنے سے ساتھ لیٹا ہوا قلب بھی خمار ذدہ آنکھیں ملتا ہوا اٹھا۔۔۔

"کیا ہوا ؟"

وہ اسے یوں حواس باختہ دیکھ کر اٹھ بیٹھا اوراس سے پوچھنے لگا۔

"میں نے مما کو خواب میں دیکھا"

"آپ پلیز میری ایک بات مانیں گے ؟اس نے آس بھری نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"کہو"وہ اس کے گال پر اپنی ہتھیلی رکھ کر بولا۔

"ایک بار مجھے پاپا سے ملوا دیں"

"دیکھو پریا میں ان لوگوں میں سے نہیں جو دل میں تو ایک دوسرے کے خلاف بغض و عداوت رکھتے ہیں اور چہروں پر مصنوعی مسکراہٹ سجائے ہوئے ہوتے ہیں۔"

"پلیز بس ایک بار میری خاطر "وہ منت بھرے انداز میں بولی۔

وہ گہری سانس لے کر رہ گیا۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

"مجھے سلیمان رئیسانی سے ملنا ہے "

 سفید سادہ سی شلوار قمیض میں ملبوس ایک بزرگ جس کی سفید ہی داڑھی تھی،ہاتھ میں تسبیح لیے جائے نماز بچھائے اس پر اللّٰہ تعالیٰ کی حمدو ثناء میں مصروف تھا۔

پریا نے رئیسانی مینشن میں موجود ایک شخص کو دیکھ کر کہا۔۔۔

اس بزرگ نے نظریں اٹھا کر دیکھا۔۔۔۔

پریا کو ان کا چہرہ شناسا سا لگا۔۔۔۔

"پاپا"

وہ امید بھری نگاہوں سے اسے دیکھ رہے تھے۔

چند لمحے ہی لگے اسے انہیں پہچاننے میں۔

وہ نیچے بیٹھ کر ان کے شانے سے لگی۔۔۔۔

انہوں نے اپنا دست ِ شفقت اس کے سر پر رکھا۔۔۔۔

"وفا نہیں آئی "انہوں نے پریا کے پیچھے دیکھتے ہوئے پوچھا 

"میں آگئی ہوں تو وہ بھی آجائے گی "

"وہ نہیں آئے گی ۔"وہ افسردہ لہجے میں گویا ہوئے۔۔۔۔

"پاپا آپ فکر نا کریں "وہ انہیں تسلی دینے لگی۔۔۔

اپنے پاپا کی کایا پلٹ پر وہ حیران رہ گئی برانڈڈ سوٹ پہننے والا آج ایک سادہ سے سوٹ میں تھا ،کبھی نماز نہ پڑھنے والا آج اپنی زندگی کے تلخ تجربات کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ کے سامنے سربسجود تھا۔اس کا غرور وتکبر سب ختم ہو چکا تھا ،آج اس نے سب کھو کر اپنے اصل کو پا لیا تھا،جو اصل اس کا اس دنیا میں آنے کا تھا۔دنیا کی رنگینیوں میں ڈوب کر ہم اپنے اس دنیا میں آنے کی وجہ کو بھول جاتے ہیں کہ خدا نے ہمیں اپنی عبادت کے لیے بھیجا ہے۔اس دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے اسلامی اصولوں سے نواز ہے۔جس کے تحت ہم فانی زندگی گزاریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ دنیا عارضی ہے اک دن ہمیں لوٹ جانا ہے۔اسی دنیا میں کیے گئے اعمال پر ہمیں سزا اور جزا ملے گی۔

انہوں نے اپنا سارا بزنس ایک ٹرسٹ کے حوالے کر دیا۔۔۔اور خود تنہا رئیسانی مینشن میں اپنی باقی ماندہ زندگی گزار رہے تھے۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

"کیسی ہیں نانی جان آپ؟

وہ ان کے گلے لگ کر بولی ۔

وہ اس وقت کافی ضعیف ہو چکی تھی۔جھریوں زدہ چہرے اور ہاتھ وہ انہیں دیکھ کر پشیمان ہوئی۔

"میں بہت شرمندہ ہوں ایک بار بھی آپ کی خبر نا لے پائی ۔۔۔۔"

"بس بیٹا شادی کے بعد لڑکیاں میکے کہاں آ پاتی ہیں ،میں سمجھتی ہوں تمہاری مجبوری تم شرمندہ نہ ہو "

"نانی جان کیا وفا کا کوئی فون آتا ہے ؟"

"ہاں کبھی کبھار دو تین ماہ بعد کر لیتی ہے میرا حال چال پوچھنے کے لیے"

"آپ کے پاس اس کا نمبر ہے "

"ہاں بیٹا فون میں ہوگا تم ڈھونڈھ لو"

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

آج اتنے عرصے بعد رئیسانی مینشن میں پھر سے چہل پہل تھی۔کھکھلاہٹوں کی آوازیں گونج رہی تھیں۔

سب پریا کے بڑے بیٹے عالیان ملک کا دوسری برتھ ڈے سلیبریٹ کر رہے تھے۔

پریا اور وفا دونوں نے بلیک نیٹ کی خوبصورت ساڑھیاں زیب تن کر رکھی تھی۔

جبکہ دارم اور قلب نے بلیک ایک جیسےسوٹ پہن رکھے تھے۔

عالیان نے بھی ان سے ملتا ہوا بلیک سوٹ پہنا ہوا تھا۔

سب نے مل کر آج کے فنکشن کے لیے بلیک کلر کے ڈریسز کا انتخاب کیا تھا۔

سلمان رئیسانی کا بدلاؤ دیکھ کر دارم اور قلب پہلے تو حیرت زدہ رہ گئے مگر پھر وہ  ان کے کیے کوبھلائے نارمل ہو گئے۔۔۔۔

"یہ پکڑنا نہ زرا حریا کو "پریا نے اپنی ایک سالہ حریا کو وفا کو پکڑانا چاہا۔۔۔۔

"ہائے اپیا یہ کیا "وہ زور سے چیخی۔۔۔۔

"ابھی میں اپنے فتنوں سے جان چھڑوا کر آئی ہوں انہیں اپنے "سنیں "کے حوالے کر کہ اور آپ مجھے پھر سے """""

وہ چڑ کر بولی۔۔۔۔

"وفا تم بڑی کام چور ہو گئی دارم بھائی نے  تمہیں چھوٹ دے کر بالکل بگاڑ رکھا ہے "

وہ زرا غصے میں بولی۔

"لاؤ دو مجھے میری بیٹی واپس "

"ایویں انہوں نے مجھے کوئی بگاڑا نہیں،وہ مجھ سے پیار کرتے ہیں تبھی میرا خیال رکھتے ہیں"۔۔۔وہ ِاترا کر بولی ۔"آپ زرا اپنے میاں کو کہیں نہ اسے پکڑیں ،جیسے تمہارے "سنیں "تمہارا خیال رکھتے ہیں اسی طرح میں بھی اپنے قلب کا خیال رکھتی ہوں "اس نے مڑ کر قلب کی طرف دیکھتے ہوئے پیار سے کہا۔

"تم دونوں آپس میں مت جھگڑا کرو گڑیا کو مجھے دے دو ،اور آؤ سب مل کر کیک کاٹیں پہلے ہی بہت وقت ہو چکا ہے " سلمان رئیسانی نے پریا کی گود سے حریا کو لیتے ہوئے کہا۔۔۔۔

پھر سب نے مل کر کیک کٹ کیا اور ایک فیملی پکچر لی جس میں سب کے چہروں پر اطمینان بھری مسکراہٹ تھی۔

بد گمانیوں اور نفرت کے بادل چھٹ چکے تھے،چہار سو بہار کی آمد تھی۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

"سو گئے دونوں "؟

وفا نے اپنے جڑواں بیٹوں داور خانزادہ اور درید خانزادہ کو آرام سے بستر پر سوئے ہوئے 

دیکھا تو آہستہ آواز میں بولی۔۔۔

""ہممممم۔۔۔ابھی سوئے ہیں"دارم نے بھی آہستہ آواز میں جواب دیا تاکہ ان کی نیند نہ خراب ہو ۔

وفا آئینے کے سامنے کھڑی اپنے ہاتھوں میں سے چوڑیاں نکال کر ایک طرف رکھ رہی تھی۔

دارم دبے پاؤں چلتا ہوا اس کے قریب آیا۔۔۔

دونوں کی نگاہیں شیشے میں ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے ملیں۔۔۔۔

"سنیں "

"جی سنائیں"

"اگین تھینکس"وفا نے کہا۔

"فار واٹ"

"آپ مجھے واپس پاکستان پاپا سے ملوانے لائے سچ انسان کہیں بھی چلا جائے مگر جو سکون اپنے ملک کی فضاؤں میں ہے وہ اور کہیں نہیں۔"

"ہممم۔سچ کہا"

دارم نے اس کی پشت پر بکھرے ہوئے ہیزل بال ہاتھ سے ہٹا کر ایک طرف رکھے۔۔۔۔

اور اس کے گلے کی زینت بنا نفیس سا نیکلس اتار کر ڈریسر پر رکھا۔

پھر پشت سے اس کی کمر کے گرد اپنی بانہوں کا حصار بناتا ہوا بیچ میں بنی دوری کا خاتمہ کر گیا۔۔۔

اس کی صراحی دار سفید گردن پر اپنے لمس چھوڑنے لگا۔۔۔۔

وفا آنکھیں موند کر ساتھ لگےاس احساس کو دل سے محسوس کرنے لگی۔۔۔۔

وہ سرگوشی نما آواز میں دھیرے سے بولا۔۔۔

"جدھر ہے تو ادھر ہے عشق،

جاوداں ہے امر ہے عشق،

تیرا جلوہ سرِ منزل،

سرِ منزل ،سفر ہے عشق،

خدا جانے کہ تیرے ہجر میں دلدار می رقصم،

سرِ خانہ ، سرِ محفل،سرِبازار می رقصم،

کبھی خوابیدہ می رقصم،

کبھی بیدار می رقصم،

سرِ ہستی ،سرِ مقتل ،دیوانہ وار دلِ رقصم ❤️

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


 Dil e Raqsam Romantic  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Dil e Raqsam  written by Hina Asad. Dil e Raqsam  by Hina Asad is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  7

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages

Contact Form

Name

Email *

Message *