Rakht E Naseeb Dasht E Harjai Season 2 By Sara Urooj Complete Romantic Novel
Sara Urooj Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Forced Marriage Based Novel Enjoy Reading...
Rakht E Naseeb Dasht E Harjai Season 2 By Sara Urooj Complete Romantic Novel |
Novel Name: Dasht E Harjai Season 2
Writer Name: Sara Urooj
Category: Complete Novel
وہ کیچن میں کھڑی کھانا بنا رہی تھی کہ کسی نے آکر پیچھے سے اسے اپنے حصار میں لیا۔۔اس کے ہاتھ میں موجود نائف وہیں ٹائل پر گری تھی۔۔۔کیونکہ وہ جان چکی تھیں کہ کون ہے۔۔۔۔
مائے گولڈن اینوسینٹ ۔۔۔
گھمبیر لہجے میں کہتا مقابل کے لب نے اس کے کان کی لو کو جھوا تھا ۔۔۔جس سے اس کی سانسیں تھمیں تھیں۔۔۔
اپنے دیدار کی حسرت میں تو مجھ کو سراپا دل کر دے
ہر قطرۂ دل کو قیس بنا ہر ذرے کو محمل کر دے
دنیائے حسن و عشق مری کرنا ہے تو یوں کامل کر دے
اپنے جلوے میری حیرت نظارے میں شامل کر دے
یاں طور و کلیم نہیں نہ سہی میں حاضر ہوں لے پھونک مجھے
پردے کو اٹھا دے مکھڑے سے برباد سکون دل کر دے
گر قلزم عشق ہے بے ساحل اے خضر تو بے ساحل ہی سہی
جس موج میں ڈوبے کشتئ دل اس موج کو تو ساحل کر دے
اے درد عطا کرنے والے تو درد مجھے اتنا دے دے
جو دونوں جہاں کی وسعت کو اک گوشۂ دامن دل کر دے
ہر سو سے غموں نے گھیرا ہے اب ہے تو سہارا تیرا ہے
مشکل آساں کرنے والے آسان مری مشکل کر دے
بیدمؔ اس یاد کے میں صدقے اس درد محبت کے قرباں
جو جینا بھی دشوار کرے اور مرنا بھی مشکل کر دے
س۔۔۔سلمان آپ ۔۔۔۔۔۔!!!!! ۔۔۔بچے باہر ۔۔۔۔
وہ اٹک اٹک کر کہتی اپنے شوہر کو مسکرانے پر مجبور کر گئی تھی ۔۔
معصومہ۔۔۔تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مام ناشتہ۔۔۔۔!!!!!!!!!
ان کے آدھے الفاظ منہ میں رہ گئے تھے۔۔۔کیونکہ عرش صاحب کی آمد ہو چکی تھی۔
وہ دونوں تیر کی تیزی سے ایک دوسرے سے دور ہوئے تھے۔۔۔۔
عرش۔۔۔مینرز بھول چکے ہو؟؟؟؟
وہ تپ کر بولے تھے۔۔۔۔
ایم سوری ڈیڈ میں تو موم سے ناشتے کا پوچھنے آیا تھا مجھے کیا پتہ تھا کہ یہاں۔۔تو۔۔۔۔
وہ ان کو آنکھ مارتے ہوئے بولا ۔۔۔۔
شٹ اپ۔۔۔۔وہ انہیں ڈپٹتے ہوئے وہاں سے واک اوٹ کر گئے۔۔۔
✔️✔️✔️
سفید رنگ کے نیوفورم میں ملبوس وہ کب سے کھڑی اپنی بہن کا انتظار کر رہی تھی اس کا چہرا دھوپ کی شدت سے لال سرخ ہو رہا تھا ۔۔
دھوپ کی تپش سے بچنے کے لئے اس نے آس پاس کوئی جگہ تلاشنی چاہی لیکن کوئی جگہ نہ پا کر وہ ہاتھ میں موجود رجسٹر چہرے پر رکھ گئی جس سے دھوپ اب اس کے چہرے تک نہیں پہنچ رہی تھی۔
🌟🌟🌟🌟
سندل اپنی دھن میں مگن گانا گنگناتی ہوئی گاڑی ڈرائیو کر رہی تھی کہ سامنے سے آتی تیز رفتار کار سے اس کی کار کا زور دار تصادم ہوا ۔۔
او شٹ۔۔۔!!!!
وہ اپنے سر کو تھامے گاڑی سے باہر نکلی اور غصے سے مقابل کی جانب بڑی۔
جب گاڑی چلانی نہیں آتی تو چلاتے کیوں ہو؟؟
وہ گاڑی چلانے والے خوبرو نوجوان پر برستے ہوئے بولی جو کہ ابھی تک اندر اپنی اے سی والی گاڑی میں بیٹھا تھا لیکن اس لڑکی کو شور کرتا دیکھ باہر نکلا ۔
میڈم آپ۔شائد بھول رہی ہیں کہ رونگ وے آپ نے لیا ہے میں نے نہیں۔۔
اپنے بالوں کو سنوارتے وہ ایک نظر آس پاس جمع ہوتے لوگوں کو دیکھ کر بولا
میں ایک دم صحیح راستے آئی ہوں۔۔۔!!!
وہ کٹ کی جانب اشارہ کرتے بولی۔۔
تو۔۔۔۔!!!!
تو؟؟؟؟
وہ حیرت سے اس کا لفظ دوہراتے ہوئے بولی۔
تمہاری وجہ سے میری گاڑی کی ہیڈ لائیٹس ٹوٹ گئی ہیں۔۔
یو گندے مرغے۔۔🐓
اس کے لمبے والوں کی وجہ سے مرغے کا خطاب دیتے ہوئے بولی جبکہ وہ وجاہت سے بھرپور شخص اس لڑکی کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔
واٹ!!! ہاؤ ڈیر یو کال می مرغا۔۔۔؟؟؟
راحب حیرتوں کے سمندر میں ڈوبتا ہوا بولا۔۔
بائے دا وے !!!
یہ لو پیسے ۔۔۔گاڑی ریپئیر کروا لینا۔۔
وہ پانچ ہزار کا کڑک نوٹ اس کی جانب بڑھاتے بولا جب کہ توہین کے مارے اس کا چہرا سرخ ہوا تھا جسے راحب نے بھی بغور دیکھا تھا۔
یو۔۔۔!!!!!
اس نے کہتے ہی کونے پہ رکھا پتھر اٹھا کر اس کی گاڑی کے شیشے پر مارا جو چھناک کی آواز سے ٹوٹا تھا۔
اب کے راحب کا منہ صدمے اور حیرت سے کھلا تھا اپنی برینڈ نیو کار کی حالت دیکھ کر جو ایک ہفتہ پہلے ہی اس نے خریدی تھی۔
سندل سے پنگا لینا اچھی بات نہیں مسٹر اونگا بونگا۔۔۔
وہ دل جلا دینے والی مسکراہٹ کے ساتھ نئے لقب سے نوازتے ہوئے گاڑی میں جا بیٹھی جبکہ وہ پیچھے اس سنہری آنکھوں والی لڑکی پر پیچ و تاب کھاتا رہ گیا۔۔
🌟🌟🌟🌟
وہ نیم تاریک کمرے میں بیٹھا سیگریٹ کے گہرے گہرے کش لگاتے مرئی نقطے وہ دیکھ گہری سوچ میں گم تھا۔۔
سر آپ نے جو ایڈریس بتایا ہے وہاں اب کوئی نہیں رہتا وہ لوگ وہاں سے شفٹ ہو چکے ہیں۔ ان فیملی اس وقت کہاں ہے کوئی نہیں جانتا۔۔
دوپہر میں کی گئی اپنی سیکٹری کی بات اس کے دماغ میں گھوم رہی تھی۔وہ جن کی تلاش میں یہاں آیا تھا وہ لوگ ہی نہیں تھے اور یہ چیز اس کے جنون اور غصے کو ہوا دے رہی تھی۔
بہت دکھ دیے ہیں نہ میں نے تمہیں۔۔۔
مجھے معاف کر دو سمی۔۔۔میں بہت برا ہوں ۔۔تمہیں خوشیاں نہ دے سکا ۔اور جو تمہارے پاس گنتی کی خوشی تھی وہ بھی چھین لی تم سے۔۔۔ جوانی اور دولت کے نشے نے مجھے تم سے بہت دور کر دیا ہے۔۔کیا تم مجھے معاف کرو گی۔۔۔
وہ سماہرا کی قبر پر کھڑا اس سے باتیں کرتے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
یہ دسمبر موسم خواب پُرانے لایا ہے
جو بچھڑ کے گئے اُن کے یہ فسانے لایا ہے
ہر چیز جو سرد پڑی اب دل بھی جم سا گیا
کیوں یادوں کو ہم سے پھر یہ ملانے لایا ہے
(تنزیل اُفق)
پاپا۔۔۔چلیں۔!!
مہر کی آواز سن وہ ہوش میں آیا تھا ۔۔
کچھ وقت وہاں گزارنے کے بعد اس نے واپسی کی راہ لی تھی۔
پچھلے کچھ سالوں سے یہ اس کا معمول تھا وہ مہرالنسا کے ساتھ یہاں آتا تھا۔۔وہ مل کر فاتحہ پڑھتے اور اسکی قبر پر پھول چڑھایا کرتے تھے۔۔
قبر کے دوسری طرف کھڑے شخص نے بہت باریکی سے ان دونوں کا معائنہ لیا تھا اور کوئی خیال آتے اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ چھائی تھی۔۔۔
جس نے خوشی ، نفرت ، تلخی سب شامل تھی۔
🌟🌟🌟🌟
یا اللّٰہ ! آج انٹرویو میں پاس کروا دینا۔۔۔
وہ لفٹ میں کھڑی آس پاس سے بے خبر دعا کرنے میں مصروف تھی جبکہ لفٹ میں کھڑا لڑکا اس کو منہ میں بڑابڑاتا دیکھ کوئی پاگل گمان کر رہا تھا۔ دعا نے خود پر اس کی نظریں محسوس کیے اُس کو گھوری سے نوازا تھا ۔
ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟
آج سے پہلے کوئی لڑکی نہیں دیکھی کیا!!!!
وہ اس کو مسلسل خود کو تکتے دیکھ تپ کر بولی ۔۔۔
دیکھیں ہیں بہت دیکھی ہے مگر تمہاری جیسی پاگل پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔
خود کو پاگل کہنے پر اس کو منہ حیرت سے کھلا تھا اس سے پہلے وہ اسکو کوئی کرارا سا جواب دیتی لفٹ کھلنے کے باعث وہ باہر جا چکا تھا۔جب کہ وہ خون کے گھونٹ بھر کے رہ گئی تھی۔
🌟🌟🌟
ڈیڈ۔۔۔۔۔
اس ویک ہمیں پاکستان جانا ہے وہاں میرا کنسرٹ ہے۔۔
عرش نے رات کے کھانے میں اپنے والدین کو اطلاع دیتے ہوئے کہا جس پر سلمان کے چہرے پر سنجیدگی جبکہ معصومہ کے چہرے پر سایہ سا لہرایا تھا۔
عرش تم یہ بات جانتے ہو ہم پاکستان نہیں جانا چاہتا۔۔
وہ کرختگی سے بولے تھے۔۔
پر ڈیڈ۔۔۔میری پوتی ٹیم وہاں ہی ہے۔۔
تم چلے جاو پر ہم نہیں جائیں گے۔۔وہ کہتے ہی معصومہ کو اندر آنے کا بولتے وہاں سے واک آوٹ کر چکے تھے جبکہ معصومہ کا دل الجھ سا گیا تھا عرش کے چہرے پر اداسی دیکھ کر ۔۔۔
سل۔۔سلمان۔۔۔
وہ ٹیرس میں کھڑے اپنے شوہر کے پاس گئیں تھی۔۔۔
اگر تم عرش کی حمایت میں بولنے آئی ہو تو واپس چلی جاو کیونکہ میں کبھی تمہیں وہاں نہیں لے کر جاوں گا۔۔
وہ چہرا سائڈ پر کیے بولے۔۔
ہم دوسروں کی وجہ سے اپنے بیٹے کی خوشی کو نظر انداز نہیں کر سکتے سلمان۔۔۔
میں سنبھال چکی ہوں خود کو۔۔۔
وہ سب میری قسمت کا حصہ تھا جسے میں قبول کر چکی ہوں۔۔
کہتے ہیں ہر سیاہ رات کے بعد ایک حسین صبح ہوتی ہے۔۔
اور دیکھیں آللہ نے آپ کی صورت میں میری حسین صبح عطا کی ہے۔۔
ہماری ایک روشن جنت ہے جس میں آپ ،میں اور ہماری کل کائنات ہمارا عرش ہے۔۔۔۔
پلیز۔۔۔غیروں کی وجہ سے اس جنت کو خراب نہ کریں۔۔
عرش کی بات مان لیں۔۔۔
معصومہ۔۔۔۔
انہوں نے شکوہ کناں نظروں سے ان کی جانب دیکھا تھا جبکہ وہ بنا کچھ کہے اپنا سر ان کے سینے پر رکھ چکی تھیں۔۔
جس کا مطلب صاف تھا کہ وہ کچھ نہیں سننا چا رہی۔۔
🌟🌟🌟🌟
وہ کب سے ویٹنگ ایریا میں کھڑی اپنی نظریں سامنے کاونٹر پر رکھی ایک تصویر پر جمائے ہوئے تھی ۔ جس نے ایک کھڑی بہت خوبصورت انداذ میں بنی ہوئی تھی جس میں شائد وقت بارہ بج رہے تھے اور آدھی گھڑی کا دائے تتلی کے ٹکروں میں اڑتا اندھیرے آسمان میں گم ہو رہی تھیں۔۔۔
میم اینی ایشو۔۔۔؟؟
کاونٹر پہ کھڑی لڑکی اس کو کب سے ایسے ہی بیٹھا دیکھ کت بولی تھی ۔۔
یس میں انٹرویو کے لئے آئی تھی بٹ ابھی تک میرا نمبر نہیں آیا وہ مسکراتے ہوئے بولی تھی۔۔
او۔۔۔آپ غلط جگہ بیٹھی ہیں انٹرویو یہاں نہیں اوپر والے فلور پر سر کے ایسیسٹنٹ لے رہے ہیں ۔۔
او۔۔مائی میسٹیک۔۔!!
وہ زبان دانتوں تلے دبا کر بولی اور جلدی سے اوپر کی راہ لی تھی اس نے۔۔
جہاں اور بھی لوگ انتظار میں بیٹھے تھے۔۔
وہ بھی خاموشی کے ساتھ ایک صوفے پر جا کر بیٹھ گئی۔۔
اور کچھ ہی دیر میں اپنا نام اناونس ہونے پر اندر روم میں گئی تھی جہاں شاندار کرسی پر بیٹھے ضامن انٹرویو لے رہا تھا۔
مے آئے کم ان سر ؟
وہ ادب کا مظاہرہ کیے ہلکا سا دروازہ کھول کر بولی جبکہ سامنے کرسی پہ براجمان شخص کو دیکھ کر اس کے ہوش سلب ہوئے تھے۔۔۔۔
یس کم ان۔۔۔
وہ انجان بنتے ہوئے بولا ۔اور اس کو بیٹھنے کا کہا تھا ضامن نے جبکہ وہ جو اس انتظار میں تھی کہ وہ کوئی ریکشن کرے گا مگر اس کو اطمینان سا پاکر وہ بھی بیٹھ چکی تھی۔
ہم تو مس دعا آپ نے کیا سوچ کر ہماری کمپنی میں اپلائے کرنا چاہا۔۔۔
وہ ہاتھ میں موجود کاغذات کو ایک طرف رکھے اس سے مخاطب ہوا۔۔
سر میں نے آپکی کمپنی کا نام سنا ہے اور بہت سے ایڈ بھی دیکھے کہ یہاں کا ماحول بہت اچھا ہے اسلئے مجھے خوشی ہو گی کہ میں کسی اچھی جگہ کام کروں۔۔۔
اینڈ سیکنڈ چیز آپ کی کمپنی کو اسٹاف کی نیڈ ہے اور مجھے جاب کی۔۔۔سو!!!!!!
ہہممم۔۔۔تو آپ ایسا کیوں لگتا ہے کہ میں آپ کو جاب پر رکھوں گا؟؟
اس نے بھنونے اچکا کر سوال کیا۔۔۔
میں نے ایسا کب کہا سر کہ آپ مجھے ہی رکھیں گے۔۔۔۔
وہ دوبدو بولی۔۔۔
کالیفیکشن تو کافی اچھی ہے آپ کی مگر تجربہ نہیں آپ کے پاس۔۔وہ اس کا جائزہ لیے بولا۔۔۔
سوری سر بٹ جب تک نیو کمرز کو یہ کہہ کر ریجکٹ کر دیا جائے کہ ان کے پاس ایکسپیرئنس نہیں تو وہ سیکھیں گے کیسے۔۔۔ایسے کوئی تجربہ انہیں حاصل ہی نہیں ہو گا۔۔
کیونکہ تجربہ کام کرنے سے آتا ہے۔۔
سب بڑی کمپنیوں کے سو کالڈ تجربات کے نتیجے۔۔۔
کتنے لوگ بے روزگار، غربت کا شکار اور کتنے ہی نوجوان حالات سے بے بس خود کشی کر چکے ہیں۔۔۔
وہ افسوس کا اظہار لیے بولی اور سامنے بیٹھے شخص کی بولتی بند کروا چکی تھی۔۔۔
ہہہممم گڈ۔۔۔مس دعا یو آر آپوائنٹڈ ۔۔۔
آپ میری پرسنل سیکریٹری کی جاب ۔۔۔۔۔
سوری سر۔۔۔۔اس کی بات بیچ میں کاٹ کر وہ اپنی فائل پکڑے کھڑی ہو چکی تھی۔۔۔۔
میں پرسنل سیکریٹری کی جاب نہیں کروں گی۔۔۔اکاونٹنٹ کی جاب کے لئے آئی تھی۔۔۔
معزرت آپ کا وقت ضائع کیا میں نے۔۔۔
ضامن کو ساکت چھوڑے وہ جا چکی تھی۔۔۔مطلب اس جاب کے لئے لڑکیاں جلدی ہی راضی ہو جایا کرتی تھیں اور وہ۔۔۔۔۔
🌟🌟🌟🌟
بچھڑے ہوئے لوٹ کر آیا نہیں کرتے،
بے وفا ساتھ نبھایا نہیں کرتے،
کوئی ہم سے پوچھے عشقِ ناکامی ک حال؟
ہم بے بسی اپنی بتایا نہیں کرتے۔۔۔
(سارہٓ عروج)
حازم۔۔۔
روباب نے حازم کو ہگ کیا تھا پیچھے سے اور یکدم ہی دور ہی تھی اس سے اگر بتی اور گلاب کے پھولوں کی خوشبو محسوس کیے۔۔۔۔۔۔
آپ پھر آج وہاں گئے تے؟؟؟
اس کا رخ وہ اپنی جانب کیے بولی تھی جو کہ ابھی بھی اپنے سابقہ کام میں مشغول تھا۔۔۔
ک۔۔کیوں ۔۔۔۔آ۔۔آپ اسے بھول نہیں جاتے۔۔۔۔اسے۔۔
حازم۔۔۔
مر چکی ہے۔۔۔وہ لوٹ کر نہیں آئے گی آپ کے وہاں جانے سے۔۔۔
خود تو جاتے ہی ہیں اور ساتھ میں مہر کو بھی لے جاتے ہیں۔۔۔
روباب۔۔۔!!!!
تم سے آج تک میں نے سوال کیا کہ کہاں جاتی ہو کیوں جاتی ہو۔۔۔!!!!!
تم اپنی مرضی کر رہی ہو ۔۔۔گزار رہی ہو نا اپنے مطابق زندگی۔۔۔
اسلئے میرے کام میں بھی دخل اندازی نہ کرو۔۔۔
پہلے اس کا حق تم نے مجھ سے چھینا۔۔۔
اس کے حصے کی محبت، شدت ، دیوانگی یہاں تک کہ اپنا آپ بھی تمہارے نام کر چکا ہوں۔۔۔
ہفتے میں ایک دفع جاتا ہوں اس بیچاری کی آخری آرامگاہ میں فاتحہ پڑھنے اس میں بھی مسئلہ ہے تمہیں۔۔۔۔
وہ غصے سے بولا تھا۔۔۔۔
مت بھولیں کہ یہ حق آپ نے خود مجھے سونپا تھا۔۔۔۔
روباب کی بات نے چپ سی لگا دی تھی اسکو صحیح تو کہہ رہی تھی وہ ۔۔۔
یہ سب اسی ہی کی وجہ سے تو ہو رہا تھا۔۔۔۔
آج وہ پورے 20 سال بعد پاکستان کی سر زمین پر قدم رکھ رہی تھی۔۔۔ایک طویل سانس لیا تھا اس نے ۔۔۔ آس پاس کی جگہ کو محسوس کیے۔۔
آنکھوں میں ایک درد سا اٹھا تھا، اس ملک ، اس شہر کو دیکھ جس میں اس کی کئی تلخ یادیں ، وابستہ تھیں۔۔۔۔
اپنے گرد مضبوط بازوں کا حصار محسوس کیے اس نے ایک نظر اپنے ساتھ کھڑے سلمان کو دیکھا جنہوں اپنے ہونے کا احساس دلایا تھا اسکو۔۔
وہ دونوں چلتے ہوئے کراچی ائیرپورٹ سے گھر کی طرف روانہ ہوئے ۔۔۔۔ معصومہ نے پورا راستہ سلمان کے کندھے پہ سر رکھے گزارا تھا ۔۔
_____________________________
ٹرن۔۔۔۔ٹرن۔۔۔۔۔۔!!!!!!
وہ جو خوابِ خرگوش کے مزے لئے سو رہی تھی فون پر ہوتی بیل اور اس میں سے چنگھاڑتی آواز سن ، اس کی نیند بھک سے اڑی تھی۔۔
ہیلو مس دعا۔۔۔!!!!
ہم زیڈ کرافٹ (Z_craft) کمپنی سے بات کر رہے ہیں۔۔۔
آپ کو اکاؤنٹنٹ کی جاب کے لئے اپوائنٹ کیا گیا ہے۔۔۔
مزید ڈیٹیل کے لئے پلیز آج ریسیپشن سے کونٹیکٹ کریں شکریہ۔۔۔
لڑکی نے کہتے ہی فون رکھ دیا تھا جبکہ وہ جھٹکے سے کھڑی ہوئی تھی کیونکہ اس انجان ملک میں اس کو جاب کج اشد ضرورت تھی۔۔۔
وہ خدا کا شکر ادا کرتے تیار ہوئے نکل چکی تھی۔۔
_________________________
ہم بھی کیا سادہ تھےہم نےبھی سمجھ رکھاتھا
غمِ دوراں سے جدا ہے غمِ جاناں جاناں
اب ترا ذکر بھی شاید ہی غزل میں آئے
اور سے اور ہوئے درد کے عنواں جاناں
آفی۔۔۔۔۔بند کرو یار یہ اپنی غزل کو۔۔۔۔
خوشی تنگ آ کر بولی تھی جو ہر وقت شاعری اور غزلوں میں کھوئی رہتی تھی۔۔۔۔
تمہیں کیا مسلہ ہے۔۔۔؟؟
تم جانتی ہو یہ سب میرا کرش ہے۔۔۔
وہ مسکراتے ہوئے بولی تھی۔۔۔
آفی اس دنیا سے باہر آ کر دیکھو کتنا کچھ ہے کرنے کو۔۔۔
تم نے تو اپنی الگ دنیا بنا لی ہے۔۔۔
وہ اس سے گلا کیے بولی تھی ۔۔
مجھے نہیں آنا اس دنیا میں ، میں اپنی دنیا میں خوش ہوں جہاں میں ، میرا شاعری اور میرے خوابوں کا راج کمار ہے۔۔۔
وہ خیالوں میں اس ظالم کا چہرہ سوچے مسکراتے ہوئے بولی۔۔
خوشی نے تاسف سے سر ہلایا تھا جیسے اس کا کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔
____________________
سر۔۔۔
آپ نے جن لوگوں کے بارے میں معلومات لینے کا کہا تھا ان کی تمام تر انفورمیشن اس فائل میں موجود ہیں۔۔
ہمم گڈ۔۔۔
فیروز نے اس کے ہاتھوں سے فائل لے کر کانچ کی میز پر رکھی اور ایک نظر اس فائل پر ڈالی تھی۔۔۔
ذہن میں آیک پلین ترتیب دیا تھا اس نے ، فون ملا کر کسی کو کچھ کہا ۔۔۔
ایک مسکراہٹ اس کے وجیہ چہرے پر در آئی تھی مستقبل کا سوچ کر۔۔۔
______________&________________
راحب تم مجھے یہ کہاں لے آئے ہو!!!!!
میرے پیرینٹس کو پتہ چلا نہ تو انہوں نے میرا بھرتہ بنا دینا ہے۔۔۔
عرش کلب کے عجیب و غریب ماحول کو دیکھتا منہ کے عجیب و غریب زاویے بناتا بولا تھا
وہ امریکہ میں رہ چکا ہے لیکن آج تک اس کو ایسی جگہوں پر جانے کی اجازت نصیب نہیں ہوئی۔۔۔۔ اور اگر سلمان کو پتہ لگ جاتا کہ وہ یہاں آیا ہے تو اس کی صحیح کی کلاس لگنی تھی۔۔
کچھ نہیں ہوتا ڈوڈ۔۔۔۔
بی ایزی۔۔
وہ وائن کا گہرا سپ لئے بولا۔۔ ساتھ ہی عرش کو بھی آفر کی تھی اس نے جسے اس نے منہ بنا کر رد کی تھی۔۔
سوچو راحب۔۔۔اگر تمہاری ان حرکتوں کا علم بھائی کو ہو جا تو کتنا مزا آئے گا۔۔۔
تمہارے منہ میں خاک عرش۔۔۔
گھوری سے نوازا تھا اس نے عرش کو۔۔۔
For get it....
Tell me about yours consirt?
(اسے چھوڑو ۔۔۔اور اپنے کنسرٹ کے بارے میں بتاو )
کیا بتاوں۔۔۔؟؟!!
سب سیٹ ہے۔۔ کل شو ہے اور مما ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
او شٹ۔۔۔۔کچھ یاد آنے پر ماتھے پر ہاتھ مارے بولا تھا وہ۔۔۔
کیا ہوا؟؟
اس کی عجیب حرکتوں کو دیکھ راحب نے استفسار کیا۔۔۔
مما ۔۔ پاپا پاکستان آئے ہیں۔۔۔
اور میں یہاں تمہارے ساتھ مغز ماری کر رہا ہوں ۔
میں چلتا ہوں کلملتے ہیں۔۔
وہ عجلت میں باہر بھاگتے ہوئے بولا۔۔
__________&______________
وہ منٹوں میں آفس پہنچی تھا جہاں دعا کو اسکی چاہا کے مطابق آکاونٹنٹس کی جاب مل چکی تھی ۔۔۔ اور آج سے ہی جوائننگ کا کہا گیا۔۔۔
وہ بے حد خوش تھی کیونکہ اس کو جاب کی اشد ضرورت تھی۔۔ وہ اس وقت شاندار آفس میں بیٹھی خدا کا شکر ادا کر رہی تھی۔۔۔
____________&&__________
ضامن مجھے نہ گھوڑے کی سواری بہت پسند ہے۔۔لیکن۔۔۔۔۔۔۔
لیکن کیا؟؟؟
وہ ہیرا کے رکنے پر اچھنبے سے اسے دیکھتے بولا۔۔
لیکن مجھ ڈر لگتا ہے۔۔۔
ہاہاہاہا۔۔۔۔۔
اس سے کیا ڈرنا ۔۔ یہ تو بہت معصوم ہوتے ہیں۔۔۔
آو تمہاری دوستی کرواتا ہوں اسے سے پھر مل کر اس پہ سیر کریں گے۔۔۔
ن۔۔ںہیں۔۔نہی۔ ضامن۔۔۔
وہ اپنی جگہ اکڑتے بولی۔۔۔
جبکہ وہ ہنستا ہوا اسے لیے گھوڑے تک آیا ، اور ہیرا کا ہاتھ پکڑے آرام سے اس پر پھیرا تھا۔۔
جب کہ وہ آنکھوں کو بند کیے ہوئے تھی۔۔۔
آنکھیں کھولو ۔۔۔من۔۔۔
وہ گھمبیر آواز میں بولے اس کی بند آنکھوں پر پھونک مارتے ہوئے بولا جس سے اس کی پلکوں میں ہلکی سی جنبش ہوئی تھی۔۔۔
اس نے جھک کر ہیرا کے پھولے ہوئے گالوں پر بوسہ لیتے ہی ہلکی سی بائٹ کی تھی ۔۔جس سے اس نے مصنوعی غصے سے دیکھا تھا اس کو اور مارنے کے لئے پیچھے بھاگی تھی وہ۔۔۔
وہ دونوں قہقے لگاتے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔۔۔
ہنستے ہنستے ضامن کی آنکھوں میں پانی جمع ہونا شروع ہو چکا تھا۔۔۔
وہ یکدم ہوش میں آیا تھا ۔۔۔۔آنکھوں میں پانی اس کے اب بھی موجود تھا ہنسی کی آوازیں اب بھی اس کے کانوں میں گونج رہی تھیں۔لیکن وہاں کوئی موجود نہیں تھا۔۔۔۔
ہیرا۔۔۔۔۔
باریک لبوں سے دھیمی آواز میں صرف یہ نام
مہر کا دل بہت عجیب سا ہو رہا تھا ۔۔ اس کو گھبراہٹ سی محسوس ہو رہی تھی۔۔ آج اس نے کہا بھی تھا کہ اسکو کالج جانے کا من نہیں لیکن سندل اس کو زبردستی لائی تھی۔۔۔
جس پہ وہ برا سا منہ بنا کر کالج تو آ گئی لیکن لیب کے پیچھے موجود پہاڑی پہ جا کے بیٹھ گئی اور سٹوری بک نکال کر پڑھنے لگی ۔۔
آرام سے بیٹھی وہ کہانی میں مکمل طور پر کھو چکی تھی کہ پہاڑی کے پیچھے سے ہی کوئی ہیولہ سا نمایاں ہوا تھا جس نے پل میں کلوروفارم سے بھرا رومال کونے میں بیٹھی مہر کے منہ پہ رکھا تھا۔۔۔ وہ ہاتھ پاوں مارتی خود کے بچاو کے لئے پانچ منٹ میں ہی ہوش و خرد سے بیگانہ ہو گئی۔۔
وہ لوگ پیچھے کے راستے سے اسے کار میں ڈالے جا چکے تھے۔۔۔
_____________
یہ پینٹنگز کس نے بنائی ہیں؟
دعا تصویر کو گہری نظروں سے دیکھتی اپنی کولیگ کرسٹینا سے پوچھتے بولی۔۔۔
یہ ساری پینٹنگز سر نے بنائی ہیں۔۔
ہمممم۔۔۔مطلب سر آرٹس کا شوق بھی رکھتے ہیں۔۔
وہ کھوئے سے لہجے میں بولی۔۔
ہاں ہو سکتا ہے۔۔ ویسے ان کی ساری پینٹنگز ان کے پرسنل روم میں موجود ہیں۔۔ بٹ افسوس کی بات وہاں کی کسی کو جانا آلاؤ نہیں۔۔۔
اوو۔۔۔ اپنے ہونٹوں کو گول شکل میں ڈھالتے ہوئے بولی تھی۔۔
وہ۔۔ جبکہ دماغ کسی گہری سوچ میں تھا۔۔۔
_____________________
سندل جب مہر وہ دیکھنے وہاں آئی تو اسے نہ پا کر اس نے سوچا کہ وہ کلاس میں جا چکی ہو گی۔۔ لیکن چھٹی کے وقت بھی جب وہ باہر نہ آئی تو اس نے کلاس میں جا کر دیکھا جہاں وہ موجود نہ تھی۔۔ دوستوں سے معلوم کیا تو انہوں نے بتایا کہ آج تو اس نے کلاس ہی نہیں لی۔۔۔یہاں اس کا دل صحیح معنوں میں دھڑکنے لگا تھا۔۔ اس کی گمشدگی کا سوچ کر۔۔
وہ دل میں دعا کیے پورے کالج میں اسے ڈھونڈنے لگی لیکن کوئی سراغ ہاتھ نہ آیا۔۔ وہ الجھن زدہ ذہن سے گھر میں داخل ہوئی اور خاموشی سے روم میں بند ہو گئی۔۔
شام میں روباب نے اس سے مہر کے بارے میں پوچھا تو اس نے یہ لہہ کر ٹال دیا کہ آج وہ ضروری آسائمنٹ بنانے کے لئے اپنی دوست کے گھر گئی ہے اسلئے وہ رات تک آئے گی۔۔
روباب بھی مطمئن ہو چکی تھی اس نے بھی آگے سے کوئی سوال نے کیا کیونکہ اکثر وہ لوگ نوٹس یا آسائمنٹ بنانے دوستوں کے گھر جایا کرتی تھیں۔۔
بیٹا ہم جا رہے ہیں۔۔ مہر آئے تو وقت سے کھانا کھا کر آپ لوگ سو جانا ہمیں آتے ہوئے تھوڑا وقت لگ جائے گا۔۔
روباب سندل کو سمجھاتی حازم سے ساتھ گاڑی میں بیٹھے جا چکی تھیں۔۔ جبکہ ان کے جاتے ہی وہ پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔۔ زندگی میں پہلی بار اسے نے اپنے والدین سے جھوٹ بولا تھا۔۔
دعا میں بیٹھتے دل سے مہرالنسا کی سلامتی کی دعا نکلی تھی۔۔
____________________
اندھیرے کمرے میں فسوں خیز سا منظر تھا اس نے اپنی آنکھیں کھول کر دیکھنا چاہا کہ وہ کہاں ہے ،مگر اندھیرے کے باعث جان نہ پائی۔۔۔
وہ گھبراتے گھبراتے بستر سے اٹھی ، اور اندھیرے میں ہی دروازے تک پہنچا چاہا۔۔، تھوڑی دیر کی کاوشوں کے بعد وہ دروازے تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی،
ابھی اس نے دروازے کے ناب پر ہاتھ رکھ کر اسے گھمایا ہی تھا کہ کسی نے اپنا ہاتھ اس کے نازک ہاتھ پر رکھا۔۔۔۔یکدم اس کا دل تیز لہر میں دھڑکا تھا۔۔اس کی سانسیں بند ہونے کے قریب تھیں۔۔، مقابل کی سانسیں اسے اپنے کان اور گردن پر پڑھتی محسوس ہوئیں ۔۔۔۔
مقابل نے اس نازک حسینہ کے ہاتھوں سے ہی دروازے کو واپس لاک کیا۔۔۔اور اس کے دونوں ہاتھوں کو پیچھے اپنی جانب گھمایا۔۔۔
آہہہہ۔۔۔۔۔ہلکی سی کراہ اس کے مکھڑے سے نکلی تھی۔۔۔جو مقابل کے چہرے پر مسکراہٹ کا باعث بنی تھی۔۔۔۔
ک۔۔کون ۔ہ۔۔ہو؟؟؟
وہ اٹکتے ہوئے بولی۔۔۔خوف کے مارے اس کا پورا وجود کانپ رہا تھا۔۔۔۔
ریوینج۔۔۔۔
مقابل کی نفرت اور وحشت سے بھری آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی تھی۔۔
لیو۔۔۔ می۔۔
خود کو اس کی گرفت سے چھڑوانے کی کوشش کرتی بولی جس سے مقابل کے چہرے کو مسکراہٹ آئی تھی اس کی اس فضول سی کاوش پہ۔۔۔
نہیں چھوڑوں گا۔۔۔ چھوڑنے کے لئے تھوڑی نہ تھاما ہے تمہیں۔۔۔
ہاتھوں پہ گرفت مزید سخت ہوئی تھی۔۔
Let me go please....
(مجھے جانا ہے۔)
No...
you have to live with me in your whole life۔
(نہیں۔۔۔ تمہیں ساری زندگی میرے ساتھ رہنا ہے )
مقابل کی بات نے صحیح معنوں میں اسے خوف محسوس کروایا تھا۔۔۔
Ay, gaze upon her rose-wreathed hair,
And gaze upon her smile;
Seem as you drank the very air
Her breath perfumed the while:
And wake for her the gifted line,
That wild and witching lay,
And swear your heart is as a shrine,
That only owns her sway.
'Tis well: I am revenged at last,—
Mark you that scornful cheek,—
The eye averted as you pass'd,
Spoke more than words could speak.
Ay, now by all the bitter tears
That I have shed for thee,—
The racking doubts, the burning fears,—
Avenged they well may be—
By the nights pass'd in sleepless care,
The days of endless woe;
All that you taught my heart to bear,
All that yourself will know.
I would not wish to see you laid
Within an early tomb;
I should forget how you betray'd,
And only weep your doom:
But this is fitting punishment,
To live and love in vain,—
Oh my wrung heart, be thou content,
And feed upon his pain.
Go thou and watch her lightest sigh,—
Thine own it will not be;
And bask beneath her sunny eye,—
It will not turn on thee.
'Tis well: the rack, the chain, the wheel,
Far better hadst thou proved;
Ev'n I could almost pity feel,
For thou art nor beloved.
گھمبیر آواز میں گنگناتا مہر کے دماغ کو سن کیا تھا اس نے ۔۔
( ارے، اس کے گلاب کے پھولوں والے بالوں کو دیکھو،
اور اس کی مسکراہٹ پر نظریں
ایسا لگتا ہے جیسے آپ نے ہوا پی لی ہو۔
اس کی سانسوں میں خوشبو آ گئی:
اور اس کے لیے تحفے کی لکیر کو جگائیں،
وہ جنگلی اور جادوگرنی پڑی ہے،
اور قسم کھاؤ تمہارا دل مزار جیسا ہے
یہ صرف اس کے اختیار کا مالک ہے۔
'یہ ٹھیک ہے: میں نے آخر کار بدلہ لیا ہے،'
تمھیں اس حقیر گال پر نشان لگا دوں،
تیرے گزرتے ہی آنکھ ٹل گئی
الفاظ سے زیادہ بولتے تھے۔
اے، اب تمام کڑوے آنسوؤں سے
جو میں نے تیرے لیے بہایا ہے،
شکوک و شبہات، جلتے ہوئے خوف،
انہوں نے بدلہ لیا ہو سکتا ہے-
راتیں بے خوابی میں گزری
لامتناہی مصیبت کے دن؛
وہ سب جو تم نے میرے دل کو برداشت کرنا سکھایا،
یہ سب آپ خود جان جائیں گے۔
میں تمہیں لیٹا نہیں دیکھنا چاہتا
ابتدائی قبر کے اندر؛
مجھے بھول جانا چاہیے کہ تم نے کیسے دھوکہ دیا
اور صرف اپنے عذاب کو روئیں:
لیکن یہ مناسب سزا ہے،
بیکار میں جینا اور پیار کرنا،
اے میرے دلِ دل، تو راضی ہو جا،
اور اس کے درد پر کھانا کھلائیں۔
تم جاؤ اور اس کی ہلکی سی آہیں دیکھو،
آپ کا اپنا نہیں ہوگا؛
اور اس کی دھوپ والی آنکھ کے نیچے جھکنا،
یہ آپ پر نہیں چلے گا۔
یہ ٹھیک ہے: ریک، زنجیر، وہیل،
اگر آپ ثابت کرتے تو بہتر ہوتا۔
یہاں تک کہ میں تقریباً ترس کھا سکتا تھا،
کیونکہ تم محبوب ہو نہ محبوب۔ )
اپنی شاعری کو ختم کرتے اس نے ہاتھ بڑھا سوئیچ اون کیا تھا
بجلی کے جلنے سے اندھیرا کمرا روشنیوں میں جگمگا گیا تھا۔۔۔
فیروز شمس کو اسٹیل کر دیا تھا ۔۔ اس روشنی نے جیسے ہی اس کی نظر سامنے کھڑی اپنے سے چھوٹی لڑکی پہ گئی تھی جو کالج سے سفید یونیفارم میں ملبوس ڈری سہمی سی آنکھوں کو بند کیے کھڑی تھی۔۔۔
اس کے چہرے پہ چھایا ڈر، معصومیت ، بھولے پن نے معبود کر دیا تھا۔۔ وہ بنا اس کی جانب دوبارا دیکھے باہر کی جانب بڑا تھا۔۔
اس نے جب ڈرتے ہوئے آہستہ آہستہ اپنی آنکھوں کو کھولا تو کسی کو کمرے میں موجود نہ پا کر وہ زمین پہ بیٹھے روتی چلی گئی تھی۔۔۔ اس کو شدت سے اپنے گھر والوں کی یاد آ رہی تھی۔۔
یا خدا میری مدد فرما۔۔
ایک یہی جملا اس کی زبان سے ادا ہو رہا تھا۔۔
____________________
یو۔۔ایڈیٹ میں نے تمہیں کس لڑکی کو لانے کا کہا تھا اور تم کس کو اٹھا لائے ہو۔۔۔
فیروز اس کے کالر کو دبوچے چیخا تھا۔۔
ص۔۔۔صاحب معاف کیجیے گا۔۔یونیفورم میں سب ایک جیسے لگتے ہیں۔۔۔ ی۔۔یہ بھی حازم کی ہی بیٹی ہے۔۔۔
آپ۔۔۔کا مقصد تو صرف بدلہ ل۔۔لینے سے ہے۔۔
ویسے بھی ی۔۔یہ لڑکی حازم کی لاڈلی بیٹی ہے۔۔ ۔۔
وہ شخص اپنے صاحب کو غصےمیں دیکھ ، اپنی جان بخشی کے لئے جو منہ میں آیا بول گیا۔۔۔
گیٹ لوسٹ۔۔۔
اس نے اس شخص کو دھکا دیا تھا ۔۔
وہ فوراً وہاں سے بھاگا تھا۔۔ جب کہ وہ سر ہاتھوں میں گرائے ڈھہ گیا۔۔
اس کا دل و دماغ کسی معصوم کو مہرا بنانے کی نفی کر رہے تھے۔۔ جبکہ شیطان اس کا اکسا رہا تھا کہ جو وہ کر رہا ہے بالکل ٹھیک ہے۔۔۔ اس کی پھوپھو کی بھی کوئی غلطی نہیں تھی جسے سزا دی گئی۔۔
ہاں وہ ٹھیک کر رہا ہے۔۔۔دل ہارا تھا یہاں۔۔۔
وہ ویسے نہیں تو اس کی بیٹی کو اس سے دور کر کے بھی تو بدلہ لے ہی سکتا ہے۔۔۔
اسلئے کہتے ہیں جذبات میں کیے گئے فیصلے ہمیشہ نقصان کا باعث بنتے ہیں۔۔ انسان کو سوچ سمجھ کے ہر فیصلہ کرنا چاہیے۔۔
______________________
Aankhon ke panno pe
Maine likha tha sau dafaa
Lafzon mein jo ishq thaa
Hua na woh honton se bayaan
Khud se naraaz hoon
Kyun be-aawaaz hoon
Meri khamoshiyaan hain sazaa
Dil hai yeh sochta
Phir bhi nahi pata
Kis haq se kahun bataa..
Ke main hoon Hero tera
Ke main hoon Hero teraa.. (x2)
کراچی کے مشہور پارک میں اس وقت عرش سلمان کا لائو کنسرٹ چل رہا تھا چھوٹی سی عمر میں اس نے اپنے اس شوق کو نکھارا تھا۔۔ اس کی اس سریلی آواز کے سب دیوانے تھے۔۔
پارک میں اپنے دوستوں کے ہمراہ لوگوں پہ اپنی آواز کا سحر چلا رہا تھا۔
Aaye…
Main hoon Hero, Hero tera
Aaye…
Raahon mein bhi har kadam
Main tere saath chalaa
Haathon mein thhe yeh haath magar
Phir bhi raha faasla
Seene mein hain chhupe
Ehsaas pyaar ke
Bin kahe tu sun le zara
گانے کے اس بول پہ سلمان نے معصومہ کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیے سینے پہ لگایا تھا جب کے وہ سب کی موجودگی میں سلمان کی اس حرکت پہ سٹپٹا سی گئیں تھیں۔۔۔
Dil hai yeh sochta
Phir bhi nahi pata
Kis haq se kahun bataa..
Ke main hoon Hero tera..
Ke main hoon Hero tera aa.. (x2)
Teri wajah
Se hain mili
Jeene ki sab khwahishein
Paa loon tere
Dil mein jagah
Hai yeh meri koshishein
Main bas tera banu
Bin tere na rahun
Maine toh maangi hai yeh duaa
سلمان کے کندھے پہ سر ٹکا لیا تھا محبت معصومہ نے گانے کے اس فقرے کو دل سے محسوس کیے۔۔
Dil hai yeh sochta
Phir bhi nahi pata
Kis haq se kahun bataa..
Ke main hoon Hero tera..
Ke main hoon Hero teraa.. (x4)
عرش کے رکتے ہی پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا تھا۔۔ جب کہ پنجاب میں بیٹھی آفرین کا دل زور زور سے دھڑک تھا۔۔۔
آج پھر اس کی خواہش ادھوری رہ گئی تھی ۔۔اس شہزادے کو براہ راست دیکھنے کی۔۔ وہ اس کے ملک میں موجود تھا۔۔ لیکن وہ موقع گوان چکی تھی۔۔۔
آفی تو رو کیوں رہی ہے۔۔؟
عنایہ نے اس کے نکلتے ہوئے آنسوں کو دیکھ کر کہا تھا جو بظاہر تو مسکرا رہی تھی ۔۔لیکن چہرا آنسوں سے تر تھا ۔۔
عنو۔۔ میں ملنا چاہتی ہوں۔۔ان سے۔۔۔
میرا دل اس شخص کے لئے بے قرار ہو رہا جو مجھے جانتا تک نہیں۔۔اپنی محبت اپنے عشق کو ایک بار سامنے دیکھ محسوس کرنا چاہتی ہوں۔۔
آفرین۔۔
تم پاگل ہو۔۔
وہ تو تمہیں جانتا بھی نہیں ہو گا ۔۔ اور ویسے بھی کتنی ہی لڑکیاں پاگل ہوں گی اس کے لئے۔۔ کیوں اپنا وقت ۔۔ کسی ایسے لئے ضائع کر رہی ہو جو تمہیں ملنا ہی نہیں۔۔
۔ وہ صرف میری محبت نہیں۔۔ میرا عشق بھی ہے۔۔۔
محبتیں تو مل جایا کرتی ہیں۔۔ مگر عشق کسی کسی کے نصیب میں ہوتا ہے۔۔۔ وہ بے شک مجھے نہ ملیں ۔۔ میرے لئے وہی کافی ہے کہ میں ان کی محبت اپنے دل میں لئے جاوں گی۔۔
حیران کر دیا تھا عنایہ کو آفرین کی اس بات نے۔۔۔
اگر چاچو کو اس بات کا علم ہو گیا۔۔ تو تمہاری زندگی برباد ہو جائے گی۔۔ تم محض ابھی سترہ سال ہو۔۔
اور۔۔۔!!!!!
میری صلاح ہے کہ تم اسے بھول جاو۔
ہنہہ۔۔۔
مسکرائی تھی وہ اس بات پہ۔۔
بھولایا تو ان کو جاتا ہے جن کی یادوں پہ آپ کا بس ہو۔۔
اسں معاملے میں بے بس ہوں میں ۔۔ کیونکہ میں عشق کی منزل طے کر چکی ہوں۔۔اور جو یہ منزل طے کر لیں وہ محبوب کو بھلایا نہیں کرتے۔۔۔ بلکہ ان سے محبوب بھلایا ہی نہیںجاتا۔۔
اس کی بات سن کر عنایہ نے ایک سرد آہ خارج کی تھی۔۔
میں تمہارے لئے صرف دعا ہی کر سکتی ہوں۔۔
کہتے چلی گئی تھی وہ روم سے باہر۔۔۔
_____________________
فلم کے مشہور میوزک پروڈیوسر آئے تھے اسٹیج پہ۔۔ جنکا لوگوں نے بھرپور تالیوں سے استقبال کیا تھا۔۔
امید کرتے ہیں آپ سب نے یہ شو بھرپور انجوائے کیا ہو گا۔۔
عرش سلمان جن کے بارے میں میں کچھ کہنا خاہوں گا۔۔۔یہ وہ نوجوان ہے جسے قدرت نے تحفے میں خوبصورت آواز دی ہے۔۔۔
اور میں چاہوں گا یہ میری فلم کے لئے گانا گائیں۔۔
عرش کو گلے لگایا تھا ان نے۔۔۔
میں مسٹر اینڈ مسسز سلمان کو دعوت دینا چاہوں گا کہ وہ اسٹیج پر آئیں اور ہمارے ساتھ ایک یادگار تصویر میں شامل ہوں۔۔۔
سلمان اور معصومہ جیسے ہی اسٹیج پر گئے تھے۔۔ساکت کر دیا وہاں موجود حازم اور روباب کو۔۔۔
وہ دونوں ہی شاک تھے ان دونوں کو ساتھ دیکھ کر۔۔۔۔۔دونوں کا تالیاں بجاتا ہاتھ رکا تھا۔۔۔
پورے ہال میں تالیوں کی آواز گونج رہی تھی۔۔ جبکہ یہی تالیاں حازم کو اتھوڑوں کی مانند اپنے کانوں میں پڑتی محسوس ہوئیں۔۔۔
سماہرا۔۔۔۔۔
ایک آواز اس کے اندر سے آئی تھی۔۔
سماہرا۔۔۔
حازم اس جانب گیا تھا جہاں وہ گئیں تھیں۔۔ ان جو کسی چیز کا ہوش نہیں تھا۔۔۔ ساتھ بیٹھی اپنی بیوی کو بھی نظر انداذ کر دیا تھا حازم نے۔۔۔
سلمان میں دو منٹ میں آئی۔۔۔
پروڈیوسر سے بات کرتے سلمان کو مخاطب کیا تھا ان نے۔۔
جس پر سر کو اثبات میں ہلا کر مثبت جواب دیا تھا سلمان نے۔۔
سمائرا۔۔۔۔؟؟؟
حازم معصومہ کا پیچھے کرتے کرتے لیڈیز واشروم داخل ہو چکا تھا۔۔ اس وقت اس حصے میں کوئی موجود نہیں تھا وہ دونوں اکیلے تھے۔۔
اپنے نام کی پکار پر نظریں اٹھائیں تھی ان نے۔۔ ۔۔۔
آنکھیں ساکت ،جب کے دھڑکن بہت تیز ہوئی تھی ان کی جب ان نے شیشے کے اس پار حازم کو کھڑا پایا ۔۔۔۔
Who's samaira?
(کون سمائرا سر۔۔؟؟)
I am masooma....masooma salman...
(میرا نام معصومہ ہے۔۔۔ معصومہ سلمان۔۔۔)
جھوٹ بول رہی ہو تم ۔۔۔
تم سماہرا ہو میری سماہرا۔۔۔۔
تمہاری آنکھیں کہہ رہی ہیں۔۔ تم وہی ہو۔۔۔
آنکھوں پہ یقین نہ کریں۔۔ یہ اکثر دھوکہ دے جایا کرتی ہیں۔۔۔
نہیں سماہرا۔۔ ایسا۔۔نہیں ہے۔۔
آپ کا دماغ لگتا خراب ہو چکا ہے۔۔ میں سماہرا نہی۔۔۔۔۔
الفاظ اس کے منہ میں ہی رہ گئے جب حازم نے معصومہ کا ہاتھ تھام کر اپنی جانب کیا تھا۔۔ خاموشی چھا گئی تھی ہر سو۔۔
چٹاخ۔۔۔۔۔
حازم ساکن ہوا تھا جیسے ہی کرارا سا تھپڑ اس کے گال کی زینت بنا تھا۔۔
سماہرا ۔۔
اس نے بے یقینی سے اس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
ہمت کیسے ہوئی مجھے چھونے کی۔۔ اپنے ان غلیظ ہاتھوں سے۔۔
سماہرا نہیں ہوں میں۔۔۔
وہ بیچاری تو کب کی مر چکی ہے۔۔
جو آپ کے سامنے موجود ہے وہ معصومہ ہے۔۔ سلمان کی معصومہ۔۔
سنا آپ۔ نے۔۔۔
وہ چٹخ کر غرور سے بولی تھی۔ ۔۔ جبکہ آنسوں اسکی آنکھوں سے بھی بہہ رہے تھے۔۔۔
میری بات سنو۔۔۔۔
حازم نے پیچھے سے اس کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی تھی جسے اس نے جھٹک کر نا کام بنایا تھا۔۔
مسٹر۔۔میر حازم۔۔
اسٹے اوئے فروم می۔
انگلی اٹھا کر وارن کیا تھا اسکو۔۔۔
جبکہ آنکھوں میں ناگواری واضح تھی۔۔
اور کیا سنوں میں آپکی۔۔
وہی ٹیپیکل باتیں۔۔
تو معاف کیجئے گا۔۔ میرے پاس اتنا وقت نہیں۔۔۔۔جو میں آپ جیسے فضول انسان پہ ضائع کروں۔۔۔
سمی۔۔ ت۔۔تم تم مجھ سے محبت کرتی تھی نہ پھر کیسے چھوڑ سکتی ہو۔۔ مجھے۔۔۔پلیز واپس آ جاو۔۔۔
لفظ بھی کیا خوب ادا کیے ہیں آپ نے۔۔۔"محبت کرتی تھی"
تو سن لی جئے تھی اور ہے میں بہت فرق ہوتا ہے۔۔۔
اور اگر بات آتی ہے چھوڑنے کی تو۔۔
آپ نے خود مجھے چھوڑا تھا اور اپنے عشق اپنی محبت ۔۔۔
کیا نام تھا اسکا؟؟؟۔۔۔۔ بیچ میں جملے کو ادھورا چھوڑا تھا اس نے جان بوجھ کر۔۔
ہاں۔۔۔روباب۔۔۔
اس سے شادی کی تھی۔۔
لوگ ماضی میں نہیں جیا کرتے صاحب۔۔۔۔۔
اسلئے بہتر ہو گا اپنے بیوی بچوں پر توجہ دیں۔۔۔
بہت باریکی سے کہا تھا اسنے۔۔۔
چلتی ہوں میرے شوہر انتظار کر رہے ہونگے۔۔
وہ جو شرمندگی گہرائیوں میں دھنسا اس کی باتیں سن رہا تھا یکدم ساکن ہوا تھا اس کی آخری بات پہ۔۔
جب کہ وہ وہاں سے جا چکی تھی۔۔
🔥🔥🔥🔥🔥
قاضی کا انتظام کرو ۔
اپنے بندوں کو حکم دیے وہ اس کمرے میں گیا تھا جہاں مہر کو رکھا گیا تھا۔۔
وہ گھٹنوں میں سر دیے رو رہی تھی۔۔۔ جب وہ اپنی شان کے ساتھ داخل ہوا تھا روم میں۔۔
اپنی حالت کو درست کر لو ۔۔
کچھ وقت میں نکاح ہے ہمارا ۔۔اور کسی بھی قسم کی کوئی مزاحمت برداشت نہیں کروں گا۔۔۔
وہ احساس سے عاری لہجے میں بولا تھا۔۔
م۔۔میں یہ نکاح نہیں کروں گی۔۔۔
میری زندگی ہے یہ۔۔۔کوئی ۔۔ن۔۔ناول یا ڈرامے کا سکرپٹ نہیں۔۔۔۔
وہ خود کو مضبوط ظاہر کرنے کی کوشش کیے ۔۔۔ بظاہر پر اعتماد لیکن اندر سے اس ظالم کی نظروں سے خوف زدہ ہوتے بولی۔۔۔
نائس۔۔۔ ویری نائس ڈائلاگ۔۔۔!!!
کتنا ٹائم لگا یاد کرنے میں۔۔۔
وہ زہریلی مسکراہٹ اس کی جانب اچھالتے طنزیہ بولا تھا جس سے اس نے اپنی سنہری آنکھوں سے فیروز کی جانب دیکھا تھا۔
جو بھی ہو۔۔۔ میں نہیں کروں گی نکاح۔۔
اپنے پاپا کے بغیر۔۔۔
شٹ اپ۔۔۔۔
نام مت لو اپنے باپ کا۔۔۔۔
وہ زہر خند لہجے میں دھاڑتا مقابل کو کانپنے پر مجبور کر گیا۔۔
غصہ ہی تو دلا دیا اس شخص کے نام نے۔۔۔۔
شرافت کی زبان سے میری بات مان جاو ڈارلنگ ورنہ انجام کی ذمہ دار تم خود ہو گی ۔۔
ن۔۔نہیں۔۔۔
نفی میں سر ہلایا تھا اس نے ۔۔۔
اس کے مسلسل انکار پر تیش سا آیا تھا فیروز کو۔۔۔
ہمم۔۔۔۔
Is this your last decision???
کیا یہ تمہارے آخری فیصلہ ہے۔۔۔؟؟
آئیبرو اچکائے استفسار کیا ۔۔۔
ہاں۔۔۔۔
زبان کے بجائے سر ہلا کر جواب دیا۔۔
کیا اس کو دیکھنے کے بعد بھی۔۔۔۔
موبائل کی اسکرین اس کی جانب کری تھی اس نے۔۔۔اور سامنے چلتا منظر اس کی روح فنا کرنے کے لئے کافی تھا۔۔۔
جہاں اس کے حازم کسی ریسٹورنٹ میں میٹنگ کر رہا تھا اس بات سے انجان کے کوئی آدمی اس پہ گن کا نشانہ تانے ہوئے ہے۔۔۔۔
پ۔۔پاپا۔۔۔۔!!!
ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا ؟؟ ڈاٹر آف اینمی۔۔۔
کہاں گئی وہ بہادری۔۔۔دیدہ دلیری۔۔
اس کی حالت کا بھرپور مزہ لے رہا تھا۔۔ وہ۔۔۔
اگلے پانچ سیکنڈ میں تم نے ہاں نہ کی تو۔۔۔
تمہارا باپ اوپر اور تم آزاد۔۔۔
اس کے سکون کو لمحوں میں غارت کر چکا تھا وہ۔۔۔
پانچ۔۔۔
چار۔۔۔۔۔
تین۔۔۔۔
دو۔۔۔
ا۔۔۔۔
میں راضی ہوں۔۔۔۔
ن۔۔نکاح کے لئے۔۔۔ پر پلیز پاپا کو کچھ مت کرنا ۔۔
وہ ہچکیوں کی صورت میں ہاں کہتی مقابل کے چہرے پہ فتحیاب مسکراہٹ لے آئی تھی۔۔۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ مہرالنسا حازم سے مہرالنسا فیروز شمس بن چکی تھی۔۔۔نکاح کے دوران بھی آنسوں اس کے روانی سے بہہ رہے تھے لیکن فکر کس کو تھی ۔۔۔۔
🔥🔥🔥🔥
حازم آپ اس عورت کے پیچھے گئے تھے نا؟
وہ پہلی بات تھی جو روباب نے اس سے کہی تھی۔ پورے سفر کے دوران ۔۔
کون سی عورت؟
وہ جان کر انجان بنا تھا۔۔
بات کو گھمائیں نہیں آپ جانتے ہیں میں کیا کہنا چاہ رہی ہوں۔۔۔
روباب پلیز خاموش ہو جاو۔۔۔ میرا موڈ نہیں اس وقت بحس کرنے کا۔۔۔
اترو۔۔۔ جلدی ۔
گاڑی گھر کے پاس پارک کی تھی اس نے۔۔۔
حازم۔۔۔آپ صرف میرے ہیں۔۔۔
روانی سے بولتے وہ روتے ہوئے اندر جا چکی تھیں جبکہ اس نے سرد آ خارج کی اور گاڑی ہوٹل کی جانب بڑھائی تھی جہاں اس کی ایک میٹنگ منعقد تھی۔۔۔
پورے راستے اس کی سوچوں کا محور صرف سماہرا عرف معصومہ تھی۔۔۔
میٹنگ میں بھی اس کا کوئی وارم ریسپونس نہیں تھا۔۔
اس کی حالت بہت بیچین سی ہو رہی تھی۔۔۔
کہ اس نے سماہرا کو طلاق نہیں دی پھر کیسے وہ شادی کر سکتی ہے۔۔
#ماضی
سلمان ڈاکٹر کے روم سے باہر نکلا ہی تھا کہ نرس بھاگتی ہوئی آئی تھی اور سماہرا کی چلتی دھڑکنوں کا بتایا ۔۔ سب نہایت حیران تھے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔ جب کہ سلمان خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوا شکر ادا کر رہا تھا۔۔۔
تبھی ایک اور کیس آیا ایکسیڈنٹ کا۔۔۔اس لڑکی کا کوئی وارث نہیں تھا۔۔اور وہی لمحہ تھا جب سلمان کے دماغ میں کچھ کلک ہوا تھا ۔۔۔
اس نے ہسپتال کے عملے سے بات کر کے کچھ ان کو پیسے دیے اس لڑکی کی لاش کو سماہرا کی لاش بتا چکا تھا جب کہ اپنی انٹرنل پاور کی وجہ سے وہ خفیہ طریقے سے اسے اپنے ساتھ لے جا چکا تھا۔۔۔
______
جب وہ باڈی حازم کے گھر میں پہنچی تھی تو وہ بے حد شاک تھا۔۔ اس کی سماعتیں سلب ہو چکی تھیں ۔
تبھی ایک لڑکے نے اس سے کچھ پیپرز سائن کروائے تھے جنہیں اس نے بے دھیانی میں ہسپتال کے کاغذات سمجھ کر دستخط کر دیا۔۔ جبکہ در حقیقت وہ کاغذات طلاق کے تھے۔۔۔۔
جو سلمان کی طرف سے بھیجے گئے تھے۔۔۔۔
سلمان جس نے باہر کے ملک جانا تھا لیکن وہ سماہرا کی وجہ سے جا نہ پایا۔
گھر کے اندر ہی اس نے سماہرا کا علاج کروایا تھا۔ جو کہ جسمانی اور ذہنی دونوں طور پہ کمزور ہو چکی تھی۔۔اپنی محبت کی اجڑی حالت کو دیکھ اس کا دل کٹتا تھا۔۔لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری تھی۔۔
وہ سماہرا امریکہ لے آیا تھا تاکہ ماحول چینج ہو تو اس کی طبیعت ٹھیک ہو۔۔ اور واقعی ایسا ہی ہوا۔ وہ وہاں کی آب و ہوا میں خوش رہنے لگی تھی۔۔کبھی کبھار اس سے بھی بات کر لیا کرتی تھی۔۔
پھر ایک دن موقع دیکھ کر سلمان نے اپنی محبت کا اظہار کیا اور اس سے شادی کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔۔ جسے اس نے کچھ لمحے سوچنے کے بعد قبول کر لی۔۔
شادی کے ایک سال بعد اللّٰہ نے انہیں ایک خوبصورت بیٹے سے نوازا تھا۔۔جس کا نام اس نے عرش رکھا تھا۔۔ اس کا گمان تھا کہ وہ عرش کی مانند ہو گا۔۔بلند و بالا۔۔
پہلی بار جب سماہرا نے عرش کو گود میں اٹھایا تھا تو اس کو اپنی بیٹی کا خیال آیا تھا۔۔آنسوں بہہ تھے اپنی بیٹی کی موت کا سوچ کر۔۔۔
قسمت بھی فیصلہ کر چکی تھی اس کے آنسوں کا حساب لینے کی۔۔
یہ تھی ان کی چھوٹی سی جنت جسے ان دونوں نے مل بنایا تھا۔۔
🔥🔥🔥🔥🔥
یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟
سلمان کو بیگ پیک کرتا دیکھ وہ حیرانی سے بولی۔۔
میں اب اس ملک میں ایک منٹ اور نہیں رہوں گا جہاں میری بیوی اپنے قیمتی آنسوں کو ضائع کرے۔۔۔
وہ جذبات میں بولے تھے۔۔۔
نہیں سلمان۔۔
ہم کہیں نہیں جائیں گے۔۔۔ اب جب انہیں معلوم ہو ہی چکا ہے تو وہ یہ بھی دیکھ لیں کہ سماہرا اپنی زندگی میں بے حد خوش ہے۔۔اور اس شخص کو بھی دیکھ لیں جس کے ساتھ خوش ہے۔۔۔
واو۔۔۔ کتنا پیارا بولتی ہے میی لیڈی۔
انہوں نے محبت سے معصومہ کو اپنی جانب کھینچتا تھا۔۔
جس سے سیدھا وہ ان کے سینے سے ٹکرائی تھیں۔۔۔
کہاں سے بولتی ہے۔۔؟؟؟
آئبرو آچکا کر سوال کیا۔۔۔
ہاں۔یہاں سے بولتی ہے نہ۔۔ سلمان نے ان کے لبوں پہ ہاتھ رکھا تھا۔۔
معصومہ نے گھوری سے نوازا تھا انہیں۔۔۔
جبکہ وہ بنا ان کی گھوری کی پرواہ کیے محبت بھری گستاخی کر چکے تھے جس سے پل میں معصومہ کا چہرا شرم سے سرخ ہوا تھا انہوں نے مصنوعی غصے سے دھموکا جڑا تھا انہیں۔۔۔۔
ہاہاہاہاہاہا۔۔۔
سلمان کا جاندار قہقہہ نکلا تھا اپنی بیوی کی حالت پر۔۔۔
🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥
کیا۔۔۔
مہر صبح سے غائب ہے اور تم مجھے اب بتا رہی ہو۔۔
روباب سندل پر چیختے ہوئے بولیں تھی۔۔۔
اگر تمہارے باپ کو پتہ چل گیا تو وہ کتنا غصہ ہوں گے۔۔
ائم سوری مما میں ڈر گئی تھی۔۔
وہ روتے ہوئے بولی تھی۔۔۔
اف ۔۔۔بے وقوف لڑکی۔۔ اگر ایسی کوئی بات ہوتی ہے تو فوراً اطلاع دیتے ہیں۔۔ وہ بچی نجانے کہاں ہو گی۔
وہ تو دنیا کی حقیقتوں سے بھی بے خبر ہے۔۔۔
وہ اپنا سر تھامتے ہوئے بولیں تھیں۔۔ اور کانپتے ہاتھوں سے حازم کو کال ملائی تھی ان نے۔۔ جن کا نمبر بند جا رہا تھا۔۔
مسسز فیروز شمس ۔۔۔ سر آپ نے باہر آپ کو طلب کیا ہے۔۔۔
ملازمہ سر جھکائے مہر کو پکارتے ہوئے بولی۔۔مہرالنساء کو اس نام سے پکارنے کا حکم فیروز نے خود دیا تھا۔۔
وہ جو سر گھٹنوں میں جھکائے رو رہی تھی ملازمہ کی بات سن کر اسے فیروز پر غصہ آیا جو اسے بلا ایسا رہا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔۔۔
ہنہہ۔۔ میرا نام مہرالنسا میر حازم ہے۔۔۔
خبردار جو اپنے سڑے ہوئے باس کے ساتھ میرا نام جوڑنے کی کوشش کی تو۔۔۔۔
ملازمہ کو غصے سے دیکھ چیخ کر بولی تھی کہ اس کی آواز بآسانی باہر بیٹھے فیروز کو سنائی دی۔۔۔اور وہ ملازمہ کو جانےکا حکم دیتا جاہرانہ تیور لیے اس تک آیا ۔۔۔۔
کیا بکواس کی ہے تم۔۔۔
اس کے کھلے ہوئے بالوں کو اپنی مٹھی میں بھرا تھا اس نے۔۔۔۔۔
درد و خوف سے اس کی چیخ بلند ہوئی تھی جو مقابل کے اگلے عمل سے گھٹ سی گئی تھی۔۔۔
نام کیا ہے تمہارا؟؟؟
مہرالنساء۔۔۔
پورا نام بتاو اپنا۔۔
م۔۔۔۔مہرالن۔۔۔مہرالنساء ف۔۔فیروز شمس۔۔۔
اپنے بال مقابل کی گرفت میں محسوس کرتے ، اور اٹکتے ہوئے بولی۔۔جبکہ آنسوں روانی سے ان نینوں سے بہہ رہے تھے۔۔
شاباش۔۔
اب یہی نام تا حیات تمہارے ساتھ رہے گا۔۔۔ یہی مقدر ہے تمہارا۔۔۔
گرفت ڈھیلی ہوئی تھی اس کے بالوں پر۔۔۔
ہاں۔۔۔۔اور کیا کہا تھا تم نے۔۔۔
اس کو مزید اپنے قریب کیا تھا اس نے۔۔۔
کہ یہ تمہاری زندگی ہے کوئی ناول یا فلم۔۔
اوپس۔۔۔مطلب ڈراموں کا سکرپٹ نہیں۔۔۔
تو سن نے اب تمہاری زندگی بھی ایک ڈرامہ ہی بنے گی۔ جسے بنائے گا کون۔ ۔۔۔۔؟؟؟
میں ۔۔۔ مسٹر فیروز شمس۔۔۔
وہ لو دیتی نظریں اس کے چہرے پر گاڑتے ہوئے پھنکارا تھا۔۔۔
اور شاکٹ کر دیا تھا مہر کو فیروز کی اس بات نے ۔۔
چلو اب خاموش ہو جاو۔۔۔۔
اس کا سر اپنے سینے سے لگائے بؤلا۔۔۔
جبکی اس کا ہولے ہولے کانپنا وہ باخوبی محسوس کر سکتا تھا۔۔۔
🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥
حازم کے گھر پہنچتے ہی روباب پریشانی سے اس تک گئی اور مہر کے غائب ہونے کی اطلاع دی جسے سن کر وہ کافی برہم ہوا ۔۔کتنے ہی وہ پولیس اسٹیشن کے چکر کاٹ چکا تھا اور اپنے اندرونی ذرائع بھی استعمال کر چکا مگر مہر کا پتا اب تک نہیں چلا تھا۔۔۔ اس وقت بھی وہ سر ہاتھوں میں گرائے پریشانی میں گھرا ہوا تھا۔
🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥
ضامن اگر اللّٰہ جی نے مجھے اپنے پاس بلا لیا تو آپ کیا کریں گے؟
ہیرا۔۔۔۔
م۔مطلب کیسی فیلنگ آئیں گی۔۔۔
ضامن کی گھوری پہ اس نے سوال بدلہ تھا۔۔
میں ایسا کبھی ہونے نہیں دوں گا۔۔ اگر تم جاو گی تو تمہارے ساتھ ضامن بھی جائے گا۔۔۔
ہیرا کو اپنے قریب تر کرے وہ جنونی کیفیت میں بولا تھا۔۔۔
ض۔۔ضامن م۔۔میں سچ پوچھ رہی ہوں۔۔
آپ کو پتہ کل میں نے ایک فلم دیکھی تھی اس میں جب ہیروئن مرتی ہے تو ہیرو بہت روتا ہے کیونکہ وہ اس سے محبت کرتا ہے لیکن بعد میں وہ شا۔۔۔شادی کر لیتا ہے۔۔۔
وہ آنسوں بہاتے اداس سی کیفیت میں گویا ہوئی۔۔۔۔
تو؟
اس کے چہرے کو اوپر کیا تھا اس نے۔۔
تو اگر میں غلطی سے آللہ میاں کے پاس چلی بھی گئی نا تو آپ شادی کر لینا ۔۔۔۔۔کیونکہ یہ دنیا اکیلے بندے کو جینے نہیں دیتی۔۔۔
وہ بند آنکھوں کے ساتھ جانے کس احساس سے بولی لیکن ضامن کا دل مٹھی میں آیا تھا ہیرا کی اس بات سے۔۔۔
یہ تمہیں ہو کیا گیا ہے من؟؟
کیوں ایسا بول رہی ہو۔۔۔کوئی بات ہے جو تم مجھ سے چھپا رہی ہو؟؟؟
نہیں۔۔۔وہ سنہری آنکھوں میں پانی لیے نفی میں سر ہلاتے بولی۔۔۔
میں کچھ نہیں جانتی مگر جانے کیوں بہت عجیب سی فیلنگز آ رہی ہیں۔۔۔
بیچین سی کیفیت طاری تھی اس پر۔۔
کھڑی میں سے آتا ہوا کا تیز جھونکا اس کو ہوش کی دنیا میں لایا تھا۔۔۔اپنے چہرے پر کچھ نمی سی محسوس ہونے پر ہاتھ بڑھایا تھا جو کہ آنسوں تھے۔۔۔۔ ہیرا کی یادوں کے آنسوں۔۔۔
میں کبھی دوسری شادی نہیں کروں گا من۔۔۔۔
دل میں اس سے مخاطب ہوا تھا اس سے ۔۔۔۔انجان تھا وہ اس بات سے کہ بہت جلد اس کا یہ دعویٰ اسکا وعدہ جھوٹ ثابت ہونے والا ہے۔۔۔۔
می آئی کم ان سر۔۔۔؟؟؟
شیشے کے دروازے کو ناک کیا تھا اس نے اور اجازت کی طلبگار بنی کھڑی تھی وہ۔۔۔
یس کم ان۔۔۔
اس کو اندر نے کی اجازت دی تھی اس نے ۔۔۔۔
سر یہ سب کا ڈیٹا ریکارڈ کی سلپ بنائی ہے آپ چیک کیجئے پھر میں فائنل کر لوں گی۔۔۔
ضامن کے سامنے ایک فائل بڑھائی تھی جسے اس نے آگے بڑھ کر تھام لیا تھا۔۔۔
ضامن نے ایک نظر سامنے کھڑی دعا کو دیکھا جو گلابی رنگ کے سوٹ میں کوئی کھلا ہوا گلاب لگ رہی تھی۔۔اس کی بات کرنے کا انداز ، چہرے پر چھائی معصومیت کہیں دور ماضی میں لے جا چکی تھی اسے۔۔۔۔
سر میں جاوں؟؟
خود پر اس کی نظریں محسوس کیے کہا تھا اس نے۔۔۔۔
نو۔۔
فل حال بیٹھیں یہاں آپ۔۔۔
اس میں کچھ ایشوز ہیں انہیں کلئیر کریں۔۔پھر مجھے چیک کروائیں۔۔۔
اوکے سر۔ میں ٹھیک کر کے لاتی ہوں۔۔وہ اس کی نظروں سے نروس ہوتی جلدی میں بولی تھی اور فائل اٹھائے وہاں سے نکل چکی تھی جب کہ ضامن نے اس کو جاتا دیکھ سر جھٹکا تھا۔۔
🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥
جانم آو میں تمہیں تیار کروں گا آج۔۔۔۔
سلمان ان کا ہاتھ تھامے کھڑے ہوئے تھے جبکہ ان کی آنکھیں حیرت کی زیاتی سے کھل چکی تھیں۔۔
خدا کا خوف کھائیں۔۔سلمان کیسی باتیں کر رہے ہیں۔۔۔
مصنوعی غصے سے دیکھا تھا ان کو۔۔۔
میں تو میکپ کی بات کر رہا ہوں۔۔۔ تم کیا سمجھی۔۔؟؟؟
بامشکل اپنا قہقہ روکا تھا ان نے۔۔۔
ک۔کچھ ۔ن۔۔۔۔نہیں۔
وہ یکدم سٹپٹائی تھیں اب وہ کیا بتاتی انہیں۔۔
یہ ڈریس لو اور چینج کر کے آو۔
ان کے ہاتھ میں گرین ایمبرائیڈری ڈریس پکڑائی تھی۔۔۔ اور واشروم کی طرف دھکیلا تھا سماہرا کو۔۔۔
ان کے جاتے ہی سلمان نے الماری سے خوبصورت جیولری نکال کر۔ سامنے موجود ڈریسنگ پہ رکھی تھی۔اور وہیں کھڑے ہو کر اپنی معصومہ کا انتظار کرنے لگے۔۔
تھوڑی دیر میں سماہرا اپنے ڈریس کو سنبھالتی باہر آئی تھی۔۔ سلمان کی نظر ان پہ ٹھہر سی گئی تھی۔۔ آج بھی ان میں سب کو مات دینے والا حسن باقی تھا۔۔۔ یا یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ سلمان کی محبت نے انہیں آج بھی جوان رکھا تھا۔۔۔۔
واو جانِ من آپ تو ہم پر بجلیاں گرا رہی ہیں۔۔۔
ہاتھوں کی مدد سے انہیں اپنے بے حد قریب کیا تھا ۔۔
جب کہ ان کی تعریف پر وہ واقعی شرمائی تھیں۔۔
جانم اٹس ناٹ فئیر۔۔۔اگر تم ایسے ہی شرماؤ گی تو کہیں ہم باہر جانے کا ارادہ منسوخ ہی نہ کر دیں۔۔
سماہرا کے جھکے سر کو دیکھ گھمبیر سی آواز میں کہا تھا ان نے اور ساتھ ہی نفیس سا ہار ان کے گلے کی زینت بناتے وہاں محبت سے اپنے لب رکھے تھے جبکہ وہ اپنی آنکھیں بند کیے ان کی محبت اور احساس کو محسوس کر رہی تھیں۔۔
🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥
سندل آج کچھ ضروری سامان لینے مارکیٹ آئی تھی کہ حادثاتی طور پر اس کا ٹکراو سامنے سے آتے راحب سے ہوا۔۔
چھپکلی تم؟؟
وہ سندل کو دیکھ پہچان چکا تھا کہ وہ وہی نمونی ہے جس نے اس کی نیو کار کا کباڑا کیا تھا تبھی حیرت سے بولا۔۔
گھر کی الجھنوں کے باعث دماغ ماوف ہوا تھا اسلئے وہ فورا اسے پہچان نہ پائی تھی لیکن جیسے ہی راحب نے اسے نمونی کے لقب سے نوازا ، پچھلی ملاقات یکدم کلک ہوئی تھی زہن پر تبھی تپ کر بولی ۔۔
ہاں میں۔۔۔!!!!! کیوں کوئی ایشو ہے کیا؟؟
کہہ کر وہ آگے بڑنے لگی تھی کہ راحب کے راستہ روکنے پہ اسے واپس پیچھے ہونا پڑا۔۔
وہ دراصل کیا ہے نا بیب .. اب تم آ ہی گئی ہو تو تھوڑی شاپنگ میں ہیلپ ہی کروا دو۔۔۔
ایک ادا سا آنکھوں پہ گلاسس لگائے تھے اس نے۔۔۔
میں نے ٹھیکا نہیں ۔لیا۔ !!
خود ہی کرو۔۔۔
نخوت سے کہتی اسے پرے دھکیلا تھا۔۔
تو لے دو۔۔
وہ بھی ڈھیٹ بنا بولا تھا۔۔
کہیں اور جا کر یہ فضول کی باتیں کرو میرے پاس وقت نہیں۔
۔میرا دماغ نہ کھاو۔۔
کیا مسئلہ ہے کیوں لڑکی کو پریشان کر رہے ہو؟؟
سائڈ پہ کھڑے کچھ لوگ ان تک آئے تھے۔۔۔
سندل کے چہرے کے زاویے دیکھ جو کہ راحب کی باتوں کا نتیجہ تھے۔۔۔
کچھ نہیں آپ لوگوں کو کیا مسئلہ ہے ، میں اپنی وائف کے ساتھ لگا ہوں۔۔
راحب کی اس بات پر سندل نے حیرت سے دیکھا تھا اس کو۔۔
کیا ہو وائفی !! کتنی دفع کہا ہے کہ پہلے لسٹ بنا لیا کرو پھر بھی ت۔۔۔
چٹاخ۔۔۔
سندل کے ہاتھوں پڑنے والے تھپڑ نے اس کی بولتی بند کروائی تھی ۔۔
کیسی بیوی، کس کی ، کون سی بیوی؟؟؟
میں کوئی بیوی نہیں تمہاری۔۔۔۔۔
پہلے بھی کہا تھا اپنی یہ فضول کی پینگیں کہیں اور جا کر جھاڑو۔۔۔
غصے سے بھپری شیرنی کی مانند دھاڑی تھی وہ۔۔۔
جبکہ راحب تو ابھی بھی حیران پریشان سا اسکو دیکھ رہا جس نے بھری مارکیٹ میں اس کا چہرا تھپڑ سے لال سرخ کر دیا تھا۔۔۔وہ بنا کچھ کہہ وہاں سے واک آؤٹ کر چکا تھا۔۔۔
🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥
نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش، دلِ ریزہ ریزہ گنوا دیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو، تنِ داغ داغ لُٹا دیا
مرے چارہ گرکو نوید ہو، صفِ دشمناں کو خبر کرو
و ہ جو قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا
کرو کج جبیں پہ سرِ کفن ، مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن ، پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا
اُ دھر ایک حرف کے کشتنی ، یہاں لاکھ عذر تھا گفتنی
جو کہا تو ہنس کے اُڑا دیا ، جو لکھا تو پڑھ کے مٹا دیا
جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یاد گار بنا دیا
فیض احمد فیض
آفرین کی ماں ندا بیگم کمرے کا دروازا کھول اندر داخل ہوئی تھیں جہاں بھرے اندھیرے نے ان کا استقبال کیا تھا۔اسی اندھیرے میں آفرین اپنے بیڈ پہ بیٹھی فیض احمد فیض ذ صاحب کی غزل سن رہی تھی ۔۔ندا بیگم نے بہت افسوس سے اپنی بیٹی کو دیکھا تھا جس کا نا جانے کیا ہو گیا تھا ۔۔ الگ ہی دنیا کی داسی بن چکی تھی وہ۔۔۔ سب سے الگ۔۔۔
آفرین بیٹا کیا ہو گیا ہے آپ کو؟؟؟
ایسے تو نہ تھی میری گڑیا وہ تو پر وقت ,ہنستی ، مسکراتی گھر میں رونق لگائے رکھتی تھی۔۔۔
کہتے ان کی آنکھیں بھی بھیگ چکی تھیں اپنی جان سے پیاری بیٹی کی اس حالت پر۔۔ جسے اپنی کوئی پروا ہی نہ تھی۔
کچھ نہیں مما بس ۔۔۔
ایک سرد آ خارج کرتی ہینڈ فری اور موبائیل کو سائد پہ رکھا تھا اس نے ۔۔
کل سے کالج اسٹارٹ ہے ، اور آپ جوائن کر رہی ہیں۔۔
آپ اور خوشی دونوں شہر میں اپنے بھائی کے پاس جا رہی ہیں ۔۔ یہ ہمارا اور آپ کے بابا کا فیصلہ ہے۔۔
وہ کہتے وہاں سے جا چکی تھیں۔۔کراچی جانے کا سوچ اس کا دل خوش ہوا تھا کہ کاش وہ اس سے مل سکے،
مگر اس چیز کا فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے ،
کیا قسمت ملا پائے گی آفرین کو اس کے عشق اسکی محبت سے۔۔۔۔
🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥
تمہارا چہرا کیوں سوجا ہے؟؟؟
عرش نے راحب کا گال دیکھ استفسار کیا تھا۔۔
راحب کے زہن میں آج مال والا واقعہ جھلملایا تھا عرش کے سوال پر۔۔
اس نے کوئی جواب نہیں دیکھا تھا بس خاموشی سے عرش کو دیکھا۔۔
مجھے ایسے لگ رہا ہے جیسے کسی حسینہ کے نازک ہاتھوں نے تیرے گال رنگے ہوں۔۔اس نے گھورنے پہ وہ بمشکل اپنا قہقہ ضبط کیے بولا۔۔۔
ہاہاہاہا۔۔۔۔۔
راحب سے مال والا واقعہ سننے کے بعد عرش کا بلند قہقہ گونجا تھا۔۔۔۔
بکواس بند کر یار...مجھے غصہ آ رہا ہے اور تیری ہنسی بن نہیں ہورہی۔۔۔
وہ تپ ہی تو چکا تھا۔۔۔
۔۔سیریلسلی یار جب کسی اچھے گھر کی لڑکی کے ساتھ ایسا مزاق کرے گا تو وہ پھولوں کا ہار تو پہنانے سے رہی۔۔۔
عرش کی بات سے ایک سوچ اس کے زہن پر سوار ہوئی تھی۔۔۔اب وہ سوچ کیا رنگ لاتی ہے ،،،یہ وقت بتائے گا۔۔۔
ضامن نے دعا کو ایک فائل بنانے کے لئے دی تھی۔ پورے دو دن کی انتھک محنت کے بعد اس نے وہ کام وائنڈ اپ کیا تھا۔۔ چونکہ ضامن آفس میں موجود نہیں تھا بقول اس کے تو اس نے سوچا کیوں نہ ایک رواونڈ نیچے کے آفس کا لگا لیا جائے،
اپنی سوچ کو عملی جامعہ پہنائے اس نے قدم نیچے کی سمت بڑھائے تھے، اس بات سے بے خبر کے وہاں جا کر وہ خود مصیبت کو دعوت دینے والی ہے۔۔
وہ نیچے پہنچتے کونے پہ بنے کمرے میں گئی تھی جس کا دروازا کافی بڑا تھا۔جیسے ہی وہ اندر داخل ہوئی اس کمرے کی سجاوٹ ، ترتیب اور سب سے بڑھ کر وہاں موجود پینٹنگز نے اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی تھی۔ وہ کسی نوعمر خوبصورت لڑکی کی تصویریں تھیں جن کو آرٹ کی شکل میں ڈھالا تھا کسی نے،آرٹ اتنا خوبصورت تھا کہ کسی حقیقی شبہہ کا سا گمان ہو رہا تھا۔۔
زیب تن کیے باغ میں موجود تتلیوں کے پیچھے بھاگ رہی تھی اور دور کھڑا لڑکا اس کو دیکھ مسکرا رہا تھا۔دعا اس تصویر میں کھوئی سی تھی کہ اچانک لائٹ بند ہو گئ۔اس نے موبائل کی ٹارچ جلانی چاہی تو اس کی بھی بیٹری لو تھی۔ اس نے باہر جانے کا سوچ قدم بڑھائے ہی تھے کہ کسی کی سانسیں اپنے چہرے کے قریب محسوس کیے اس کی حالت غیر ہوئی تھی۔
ک۔کون ؟؟
ڈر کے باعث اس کی آواز دبی دبی سے نکل رہی تھی۔
باہر کی جانب بڑھتے قدم تھمے تھے، وہ اسٹیل ہوئی تھی اپنی جگہ پر اپنے بے حد قریب کسی انجان ہستی کو محسوس کیے۔۔
ضامن جس نے ماضی کے لمحوں میں گھم آج کچھ زیادہ ہی ڈرنک کر لی تھی وہ کچھ لمحے اپنی دیوانگی ہیرا کی یادوں میں گزارنا چاہتا تھا۔اس روم کو اس نے خود اپنے ہاتھوں سے سجایا تھا ۔ وہ اپنے آپ کو سنبھالتا جیسے ہی وہاں اینٹر ہوا سامنے کسی لڑکی کے ہیولہ کو دیکھ کچھ لمحوں کے لئے رکا تھا۔آنکھیں دھندلانے کے باعث اور کچھ اندھیرے کی وجہ سے چہرا صاف دیکھائی نہیں دے پا رہا تھا۔
ہی۔۔ہیرا۔۔کہاں چلی گئی تھی اپنے ضامن کو چھوڑ کر، آج بھی دیکھوں ضامن کی ہر رات انگارو پر لٹتی ہے،
س۔۔س۔۔۔۔
اپنے پاس ضامن کی نشے میں ڈوبی آواز سن کر اسکی جان ہوا ہوئی تھی اب وہ صحیح معنوں میں یہاں آنے کے فیصلے پر پچھتا رہی تھی ۔
شششش۔۔۔۔
تمہاری وہ باتیں، ہنسی ، شرارتیں آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہیں۔ سب کہتے ہیں تم مر چکی ہو مگر مجھے پتہ تھا میری ہیرا واپس آجائے گی کیونکہ وہ بھی تو مجھ سے بہت محبت کرتی ہے۔کہتے ہی اس نے اندھیرے میں ہی اس کے ڈوبٹے کو پکڑا تھا۔۔
I wanna feel your love, breath and soul after a long time..
میں تمہاری محبت، سانسوں اور روح کو محسوس کرنا چاہتا ہوں کافی لمبے عرصے کے بعد۔۔
م۔۔میں کوئی ہیرا نہیں د۔۔۔دعا ہوں۔۔پلیز لیو می۔۔۔آنسوں بے در پے در اس کے چہرے پر بہہ رہے تھے، اندھیرے میں وہ دونوں ہی ایک دوسرے کو دیکھنے سے قاصر تھے۔اس سے پہلے ضامن کوئی نہایت قدم اٹھاتا ، وہ جھٹکے سے اپنا آپ چھڑاتی اندھیرے میں ہی دروازا تلاشتی باہر بھاگنے کی کوشش کی تھی لیکن دروازے کو باہر سے لاک پا کر اس کو اپنی بے بسی پہ رونا آیا تھا وہیں دروازے کے پاس بیٹھتی چلی گئی ۔ کتنی ہی سوچیں اس کے زہن پر سوار تھیں کہ وہ اس لمحے اپنے باس کے ساتھ اکیلے ہے اور دنیا والے اس کے بارے میں کیا سوچیں گے۔
ہ۔۔ہیرا۔۔۔من۔۔من۔۔ضامن کی چلاتی آواز سن جس میں نمی گھلی ہوئی تھی، وہ اپنے دونوں ہاتھ کانوں پر رکھ چکی تھی۔
وہ بھی بیڈ پہ اوندھے منہ ڈھ چکا تھا ہیرا کو صدائیں لگائے۔۔
🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥
کچھ دیر پہلے ندا بیگم کی کال آئی تھی جس پر انہوں نے آفرین اور خوشی کو پک کرنے کا کہا تھا۔۔اور اب فیروز پریشان سا کمرے میں ٹہل رہا تھا ۔اگر وہ دونوں یہاں آ جاتی ہیں تو اس کے نکاح کی خبر گاوں پہنچ جانی تھی اور سب سے بڑا مسئلہ وہ مہر کو کہاں رکھے گا۔بہت سی سوچیں اس کے زہن پر سوا تھیں۔
کچھ وقت بعد ایک خیال سا آیا تھا اسکے زہن میں، اس کے دوست کا ایک فلیٹ خالی تھی وہ مہر کو اس میں رکھنے کا فیصلہ کر چکا تھا۔
چلو میرے ساتھ۔۔
مہر کو بنا کچھ کہنے کا موقع دیے ہاتھوں سے تھامے گاڑی میں بیٹھایا تھا جبکہ وہ حیرت کا مجسمہ بنی اسے ہی دیکھ رہی تھی، اس کا من لرز رہا تھا نجانے اب وہ کیا کرنے والا تھا۔۔۔
تھوڑی دیر کی مسافت کے بعد وہ مہر کو اس فلیٹ میں چھوڑے وہاں سے جا چکا تھا ۔اور جاتے جاتے تنقید کرنا نہیں بھولا تھا۔۔۔
جبکہ وہ کنفیوز سی کھڑی اس ویران جگہ کو دیکھ رہی تھی جہاں پہ کوئی بھی نہیں تھا، اس نے من ہی من میں کئی سلوتوں سے نوازا تھا اس کو، جو یہاں اکیلے فلیٹ میں بھوتوں سے باتیں کرنے کے لئے لایا تھا لیکن ساتھ ہی اپنی فیملی سا سوچ واپس چھوٹی سنہری آنکھوں میں نمی گھلی تھی۔۔
مہر کو چھوڑنے کے بعد اب فیروز کا رخ گاؤں کی جانب تھا۔جہاں سے اس نے اپنی بہن اور کزن کو پک کرنا تھا۔۔
🔥🔥🔥🔥🔥
بچپن کی خوشیوں بھری یادوں میں پہنچ چکا تھا وہ جیسے ہی گاڑی گاؤں کی حدود میں داخل ہوئی تھی۔
اپنی پھوپھو کے ساتھ اکثر وہ ندی پہ جایا کرتا تھا، ہر مہینے میلے میں وہ ضد کر کے جاتا ، اور وہاں سے ڈھیروں چیزیں خریدتے تھے وہ، پھر ان کے ساتھ کھیلنا سب یادوں ایک ایک کر لے زہن پہ سوار ہو رہی تھیں۔۔
یہ ماضی کی یادیں بھی کتنی عجیب ہوتی ہیں،جو ہنستے ہوئے بندے کو رولا دیتی ہیں اور روتے ہوئے کو ہنسا دیا کرتی ہیں۔
تلخی سے سوچتا گاڑی کی رفتار مزید بڑھائی تھی فیروز نے ۔
خوشی آج بے حد خوش تھی فیروز کے گاوں آنے کا سن لیکن حیرت تو تب ہوئی جب معلوم ہوا کہ وہ اور آفی دونوں شہر جا رہی ہیں۔تبھی سے وہ اپنے لمبے بالوں کو سنوار ، ہلکا پھلکا سا میک اپ کر چکی تھی اور اس کی یہ تیاری گلابی سوٹ پہ مزید جچ رہی تھی۔
تم تو ایسے تیار ہو رہی ہو جیسے بھائی تمہاری بارات لا رہے ہیں۔آفرین نے بھی اس کو چھیڑا تھا تمہارے منہ میں گھی اور شکر اس نے شرماتے ہوئے کہا تھا ، ویسے میرے ساتھ ساتھ شہر جانے پر اور بھی لوگ خوش ہیں کیا پتا راج کمار ہی مل جائیں ، خوشی نے آنکھ مارتے ہوئے کہا تھا جس پہ ایک مدھم مسکراہٹ نے اس کے روشن چہرے پہ جگہ بنائی تھی۔
پتا نہیں!! یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے ، میں صرف اتنا جانتی ہوں کہ" ۔*محبت اور مقدر میں ازل سے ضد کا رشتہ هے*
*محبت جب بھی ھوتی هے مقدر روٹھ جاتا هے*
بیگ کی زیپ بن کی تھی اس نے اپنی آخری بات کے ساتھ، جسے سن کر ایک لمحے کو آفی بھی کھوئی تھی ان لفظوں کے سحر میں، لیکن باہر سے آتی گاڑی کی آواز سن کر وہ دونوں بھاگی تھیں جہاں فیروز اپنی ساحرانہ شخصیت کے ساتھ کھڑا شمس صاحب اور ندا بیگم سے مل رہا تھا۔خوشی کونے میں کھڑی چور نظروں سے اس کو دیکھ اپنی برسوں کی پیاس بجھانے کی کوشش کر رہی تھی۔
کچھ وقت ان کے ساتھ گزارے ان دونوں کے ہمراہ اس نے شہر کی راہ لی تھی پورا سفر خاموشی میں کٹا تھا تینوں میں سے کسی نے آپس میں کوئی بات نہ کی تھی ، وہ تینوں نفوس ہی اپنی اپنی سوچوں میں مصروف تھے۔
شام کے سائے گہرے ہونے سے پہلے وہ لوگ گھر پہنچ چکے تھے وہ دونوں اتنے بڑے گھر کو دیکھ حیران تھیں ، ہزار گز پہ بنا ویل فیرنشڈ بنگلہ جس میں لان میں موجود پھول اس کی خوبصورتی کو بڑھا رہے تھے۔
تم دونوں کے لئے میں نے اوپر والے رومز سیٹ کروائے ہیں ، اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو میڈ موجود ہے اسے کہہ دینا اب جلدی سے فریش ہو کر آ جاو ،
میں کھانا لگوا رہا ہوں ، مل کر کھائیں گے۔
فیروز نے مسکراتے ہوئے دونوں سے کہا تھا اور خود قدم کیچن کی جانب بڑھائے تھے ، تھوڑی دیر میں جب وہ دونوں واپس آئی تھیں تو تینوں نے مل کر ایک ساتھ کھانا کھایا تھا۔
❤️❤️❤️❤️
دو دن بیت چکے تھے مہر کو اس فلیٹ میں آئے لیکن ابھی تک فیروز واپس پلٹ کے نہیں آیا تھا ، شائد وہ اپنے کسی کام میں مصروف ہو ، یا اسے وہاں چھوڑے وہ بھول چکا تھا یہی خیال مہر کے زہن میں آیا تھا وہ گم سم سی بیٹھی فلیٹ سے باہر کے مناظر دیکھ رہی تھی جہاں اکا دکا گاڑیاں چل رہی تھیں، اپنے آپ کو وہ کوئی پنچھی ہی گماں کر رہی تھی جسے قید میں ڈال دیا ہو ، سوچوں کے محور میں کھوئے ہوئے ہی اس کی نظر فلیٹ کے لاک پر گئی تھی اور پھر ایک خیال اس کے تاریک زہن میں آیا تھا ، جھٹ سے کھڑی ہوتی اپنے خیال کو عملی جامع پہنائے اس نے بال پن کو لاک میں ڈالا کر تین سے چار بار گھمایا جس سے لاک فٹ سے کھل چکا تھا اس کی خوشی کی انتہاہ نہیں رہی تھی،
لاک کو کھلا دیکھ ، وہ کوئی لمحہ ضائع کیے بنا فلیٹ سے نکل چکی تھی اپنے وجود کو سفید ڈوپٹے میں چھپائے۔
پاپا۔۔۔
مہرالنسا جیسے ہی اینٹر ہوئی تھی گھر میں سب کی نظروں کا مرکز بنی تھی وہ تینوں ہی نفوس جلدی سے اس کے پاس آئے تھے ۔۔۔
مہر ۔۔ میری بچی۔۔۔
حازم نے زور سے اس کو خود میں بھینچا تھا ، اپنی بچی کو صحیح سلامت اپنے پاس پا کر وہ پھولے نہیں سما رہا تھا، زبان سے خدا کے لئے شکر کے کلمات ادا ہوئے تھے۔۔
کہاں تھیں تم ؟؟ کس کے پاس۔۔؟؟
یہ پہلا سوال تھا جو حازم کے منہ سے نکلا تھا۔۔
پ۔پاپا۔۔ میں نہیں جانتی ۔
وہ ان کے گلے لگی روتے ہوئے بولی تھی ، کئی سوال ان دونوں میاں بیوی کے ذہنوں میں گردش کر رہے تھے لیکن اس کی حالت کے پیشِ نظر وہ خاموش رہے۔
©©©
خوشی اور آفرین کو شہر آئے ایک ہفتے کا عرصہ بیت چکا تھا وہ دونوں معمول کے مطابق کالج جا رہی تھیں، روزانہ ان کو پک اینڈ ڈراپ ڈرائیور کرتا تھا،
جبکہ فیروز اپنے پروجیکٹ میں ایسا مصروف ہوا تھا کہ اس کے پاس سر اٹھانے تک کا ٹائم نہیں تھا اور آج اپنے اسی پروجیکٹ کو پائے تکمیل پر پہنچا کے اس کا رخ فلیٹ کی جانب تھا۔
جیسے ہی وہ فلور میں اینٹر ہوا دھجکا سا لگا تھا اسکو، فلیٹ کا دروازا کھلا دیکھ کر۔۔
وہ جلدی سے اندر داخل ہوا تھا ، لیکن فلیٹ میں مہر کو نہ پا کر اسے غصہ آیا تھا،
میں نے فلیٹ لاک کیا تھا لیکن وہ باہر کیسے نکلی؟؟
اور اس سوال کا جواب بھی اسے مل گیا تھا جب نیچے پڑی بال پن دیکھی تھی اس نے۔۔
وہ بال پن اٹھا کر اپنی پاکٹ میں رکھی تھی اس نے دروازے کو بند کیے واپس جا چکا تھا فیروز ،
©©©©
عرش اور راحب پروڈیوسر سے ملنے جا رہے تھے کہ روڈ پہ جلتی لال بتی کے باعث ان کو گاڑی روکنی پڑی تھی اور عین اسی وقت ایک اور گاڑی ان کی گاڑی کے پاس آ کر رکی تھی ، اور جیسے ہی اس کی نظروں کا زاویہ دائیں سمت میں بدلہ تھا نظریں ٹھہریں تھیں کچھ لمحوں کے لئے اسکی ،
جہاں ساتھ والی کار میں آفرین رائٹ سائٹ پہ بیٹھی کتاب میں کچھ لکھ رہی تھی ، سفید کالج یونیفورم پہنے ، بالوں کو پونی ٹیل میں قید کیے وہ کوئی مسَری ہی لگ رہی تھی عرش کو، جو اپنی ہی کسی خیالی دنیا میں کھوئی تھی۔
گرین سگنل جل چکا تھا دونوں کی گاڑیاں روانہ ہو چکی تھیں ایک دائیں جانب تو دوسرے کی بائیں جانب،
©©©©
کمرے کی کھڑکی سے آتی سورج کی روشنی ضامن کے چہرے سے ٹکرائی تھی جس کے باعث وہ اپنی نیند سے بیدار ہوا تھا ، اپنے چہرے پہ ہاتھ رکھتے اس نے کروٹ لی ہی تھی کہ دروازے کے پاس بیٹھی دعا کو دیکھ وہ جھٹکے سے کھڑا ہوا تھا، پھر زمین میں گرا اسکا ڈوپٹہ دیکھ ہاتھوں سے اٹھایا تھا اس نے، یکدم گھبراہٹ سی ہوئی تھی اسکو ، یہ یہاں کیا کر رہی ہے؟؟؟
اپنے زہن پہ زور دیتا خود ہی سے ہمکلام ہوا تھا وہ ۔۔
دعا۔۔۔!!!
ضامن نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کے اسے پکارا تھا جو دروازے سے سر ٹکائے بیٹھی تھی ، چہرے پہ آنسوں کے مٹے مٹے نشانات رات بھر رونے کی گواہی دے رہے تھے ۔
دعا۔۔۔۔۔!!!!
جب دوبارا اس کے پکارنے پہ وہ نا اٹھی تھی تو اسکے مومی ہاتھ کو تھام کر ہلایا تھا ، جس کے باعث اس نے اپنی مندی مندی آنکھیں کھولیں تھیں ، لیکن اپنے قریب ضامن کا چہرہ دیکھ حواس بیدار ہوئے تھے اسکے، جھٹکے سے ضامن کو پرے دھکیلا تھا دعا نے۔۔۔
جبکہ ضامن کو اس سے اس قدر ریکشن کی امید نہ تھی ،مانا کہ وہ اچھے خاندان سے تعلق رکھنے والی مشرقی لڑکی ہے لیکن اس نے ضرف ہاتھ ہی تو تھامہ تھا وہ بھی اس کو جگانے کے لئے۔۔
اگر ہوش بحال ہو چکے ہوں تو سائد ہو جاو، مجھے باہر جانا ہے۔۔
اپنی خفگی کو چھپانے کے لئے لب بھینچے ہوئے بولا تھا وہ۔۔
یہ۔۔یہ نہیں کھلے گا ۔۔۔
وہ افسردہ لہجے میں بولتے ، ضامن کو تشویش میں ڈال چکی تھی۔
کیسے نہیں کھلے گا یہ۔۔۔ ڈور کے لاک کو تین سے چار بار گھمایا تھا ، لیکن کچھ فرق نہیں پڑا تھا پھر بلآخر اپنے گارڈ کو کال کیا تھا اس نے ، اور تھوڑی ہی دیر میں دروازا کھل گیا گارڈ کی بدولت ،
وہ دونوں جیسے ہی روم سے باہر نکلے تھے ، باہر کھڑے کچھ ورکرز کی نظروں کا مرکز بنے تھے، جو کسی کام کے تحت نیچے آئے تھے
دعا سب کی نظریں خود پہ بخوبی محسوس کر سکتی تھی لیکن پھر بھی انجان بنے اوپر اپنے کیبن سے بیگ اٹھائے جا رہی تھی ، کہ باہر کی جانب بڑھتے قدم تھمے تھے دعا کے جیسے ہی ایک ورکر کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی تھی۔۔
She spent her whole night in boss room...
ایک غصیلی نظر اس ورکر پہ ڈالے وہ جا چکی تھی وہاں سے۔۔
©©©©
تاریخ تھی دو فروری ، مہرالنسا کی سالگرہ کی ۔۔
جب وہ اس دنیا میں آئی تھی ، کسی کی مسکراہٹ کا باعث بن کر۔
ایک ہفتے سے خاموش بیٹھی تھی وہ ، کسی سے بولتی بھی نہیں تھی بس سارا دن کمرے میں بیٹھی نجانے کیا کیا سوچتی رہتی تھی ، ایک ڈر اس کے وجود میں ٹھہرا ہوا تھا ، اس نے کالج جانا بھی بند کر دیا تھا۔
آج جنم دن والے روز بھی وہ خاموشی سی ٹیرس پہ بیٹھی سوچ رہی تھی ۔
کہ سندل روم میں اینٹر ہوئی تھی اور مہر کے ساتھ تھوڑی سی جگہ بنائے بیٹھ گئی۔۔
کیسی ہے میری جان؟؟
سندل نے اس کو محبت سے گلے لگایا تھا اپنے ،
ٹھیک ۔۔۔۔
وہ مسکرا کر کہتی سامنے ڈھلتے سورج کو دیکھنے لگی تھی۔
ہمممم۔۔۔۔
یہ ڈریس لائی ہوں۔ جلدی سے تیار ہو جاو،
خوبصورت سا لباس اس کے ہاتھوں میں تھمایا تھا اس نے۔۔
مہر نے سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔۔
کسی فنکش میں جانا ہے اس لئے۔۔
اسکے سوال کو سمجھتے جواب میں کہا تھا اس نے۔۔
نہیں۔۔ یار مجھے کہیں نہیں جانا ، آپ لوگ چلے جائیں۔۔
وہ بے دلی سے ڈریس کو وہیں رکھتے ہوئے بولی تھی۔۔
مہرو۔ہم تمہیں اکیلا نہیں چھوڑ سکتے ،
پاپا نے کہا ہے اسلئے جلدی سے تیار ہو جاو ہم نیچے تمہارا ویٹ کر رہے ہیں ۔۔
کہ کر وہ نیچے چلی گئی تھی ۔۔
تھوڑی ہی دیر میں مہر جب تیار ہو کر نیچے آئی تھی کسی کو نہ پا کر حیران ہوئی تھی ، پورے ہول میں وہ اکیلی کھڑی سب کو تلاش رہی تھی کہ عقب سے آتی سونگ کی آواز پہ مڑی تھی ، جہاں حازم، سندل ، روباب کیک کی ٹرالی ہاتھوں سے گھسیٹتے لا رہے تھے۔۔
ہیپی برتھڈے ٹو یو۔۔۔۔
ہیپی برتھڈے ٹو یو۔۔۔۔
۔۔۔۔ سالگرہ بہت بہت مبارک ہو میری جان،
حازم اور روباب نے اسے خود کے گلے لگایا کر ہاتھوں میں نائف تھمائی تھی، وہ جو ابھی تک صدمے سے انہی کو دیکھ رہی تھی۔۔ان کی نائف بڑھانے پہ کیک کٹ کیا تھا۔۔پھر پورا ہال تالیوں کی آواز سے گونجا تھا۔
©©©©©©
فیروز جو اپنی سائڈ پہ کھڑا ورکرز سے کام کروا رہا تھا ، فون کی مخصوص رنگ بجنے پہ کال اٹھائی تھی ۔
اوکے ۔۔ سب چیزیں ریڈی رکھو میں دس منٹ میں پہنچ رہا ہوں۔
مقابل سے کہتا وہ ، ورکرز کو کام سمجھائے جا چکا تھا۔
آخر ایک ہفتے کے انتظار کے بعد وہ دن آ ہی چکا ہے جسکا وہ بے صبری سے منتظر تھا۔۔۔
ائ ایم بیک۔۔۔ مسکراتے ہوئے وہ گاڑی میں بیٹھے جا چکا تھا اپنی منزل کی جانب۔۔۔
©©©©©
ٹھاہ۔۔۔۔!!!!!!
وہاں سب جو سالگرہ کے موقع پر خوشی منا رہے تھے فضا میں ہوتے فائر کی آواز نے ساکت کر دیا تھا سب کو۔۔
جب کہ مہر النساء اس شخص کو دیکھتے اپنے باپ کے پیچھے چھپی تھی اور وہ اسکو خود سے ڈرتے دیکھ مسکراتے ہوئے اس تک آیا۔۔۔
ڈئیر وائف شوہر کے بغیر ہی اتنا خاص دن منا رہی ہو؟اٹس ناٹ فئر۔۔۔۔
یہ کیا بکواس ہے؟
حازم ماتھے پر بلوں کے جال لئے گویا ہوا۔
صبر رکھیں سسر جی۔
داماد سے بات کرنے کے کچھ اصول ہوتے ہیں ۔
وہ دل جلا دینے والی مسکراہٹ اچھالتے بولا۔
تمیز سے بات کرو لڑکے تم داماد نہیں ہو ہمارے۔۔۔
آپ کی بیٹی نے مجھ سے خود نکاح کیا ہے۔۔چاہے تو پوچھ لیں۔۔۔
کیوں وائفی بتاو نا اپنے بابا کو۔۔۔۔
بابا۔۔یہ جھوٹ بول رہے ہیں۔۔۔م۔۔۔میں نے ن۔نکاح نہیں کیا۔۔۔۔ب۔۔بلکہ۔۔
وائفی ۔۔۔۔جھوٹ نہیں بولتے۔۔اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے وہ گویا ہوا۔۔
کیا ثبوت ہے تمہارے پاس؟
میں جانتا تھا آپ ایسا ہی کچھ کہیں گے یہ لیں چاہیں تو ثبوت بھی دیکھ سکتے ہیں وہ نکاح نامہ اور نکاح کی تصویریں ان کی جانب بڑھاتے بولا جسے دیکھے روباب اور حازم دونوں ساکت ہوئے تھے۔۔ایک درد سا ان کی آنکھوں میں نمایاں ہوا تھا۔
یہ جھوٹ ہے میں نہیں ہوں ان کی بیوی۔۔۔
اس نے روتے ہوئے اس نکاح نامے اور تصویروں کے ٹکرے کیے تھے اور وہیں ایک زور دار طمانچہ اس کے منہ پر پڑا تھا اور وہ لہرا کر زمین بوس ہوئی۔۔
نکاح نامہ پھاڑنے سے نکاح ٹوٹ نہیں جایا کرتے!! وہ طنزیہ گویا ہوا۔
گھر سے بھاگ تو بہت آسانی سے گئی تھی کیا لگا تھا میں تمہیں کبھی ڈھونڈ نہیں پاوں گا۔ویسے اب تو تم مل گئی ہو اب اپنی خیر مناو۔
اس کے منہ دبوچے وہ غراتے ہوئے بولا اور کھینچ کر کھڑا کیا تھا اس کو۔
حازم سے یہ سب برداشت کرنا مشکل ہو رہا تھا اس کی آنکھوں کے سامنے وہ درندہ اس کی بیٹی کے ساتھ جانوروں سا سلوک کر رہا تھا اس نے غصے سے آگے بڑھ کر اس کو جدا کیا اس سے۔۔۔
تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری بیٹی پر ہاتھ اٹھانے۔۔۔؟؟
مسٹر حازم یہ میرا اور میری بیوی کا معملہ ہے بہتر ہو گا آپ مجھ سے اور میری بیوی سے دور رہیں۔
لے کر جا رہا ہوں۔ اگر کوئی بھی مسئلہ ہو تو وکیل سے بات کر کے دیکھ لینا۔۔
وہ انگلی اٹھائے اسے وارن کرتے بولا جبکہ حازم کی یادوں میں کئی سال پرانا واقع رونما ہوا تھا ۔
وہ شخص اسی کے سامنے اسی کی بیٹی کو لے کر جا چکا تھا جبکہ وہ چیختی رہی چلاتی رہی۔۔۔
پاپا۔۔۔سیو می پلیز۔۔۔
پاپا مجھے کہیں نہیں جانا پلیز بچا لیں مجھے۔۔۔
وہ کیسے روکتے ان کے پاس کوئی وجہ ہی نہیں بچی تھی اسے روکنے کی سب لوگ خاموش تماشائی بنے ان کی بے بسی دیکھ رہے تھے۔
سیزن ون کی طرح اچھا ریسپونس دے دیں، نئے کرداروں کے ساتھ نئی کہانی بھی موجود ہے😍
لیو می! چھوڑیں مجھے۔۔
فیروز مہر کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے گھر میں لایا تھا جبکہ خوشی اور آفرین جو لان میں بیٹھی تھیں ،
فیروز کے ساتھ کسی لڑکی کو دیکھ حیران ہوئی تھیں، جو اسے کھینچے ہوئے اندر لے کر گیا تھا۔۔
یہ لالا کس کو لائے ہیں؟
آفرین نے کنفیوژن میں خوشی کو دیکھ کر کہا تھا جبکہ خوشی کی تو آواز ہی بند ہو چکی تھی۔
کس سے پوچھ کر نکلی تھی تم فلیٹ سے؟
ایک جھٹکے سے لا کر چھوڑا تھا فیروز نے مہر کو ، یہ حرکت اس کو کافی بری لگی تھی کہ وہ اس کے منا کرنے کے باوجود نافرمانی کر چکی تھی۔۔
پہلے پہل میں نے سوچا تھا کہ تم اپنے باپ جیسی نہیں ہو ، غلط کیا میں نے، پر تم نے یہ حرکت کر کے ثابت کر دیا کہ تم واقعی حازم کی بیٹی ہو۔۔۔
اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں کی گرفت میں لیا تھا جبکہ وہ اپنی آنکھیں بھنیچ چکی تھی۔
"جب کسی پرندے کو بھی قید کر دیا جائے، تو وہ آزاذ ہونے کی کوشش کرتا ہے اور موقع ملتے ہی ایک نا ایک دن اڑ جاتا ہے"۔
میں تو پھر بھی انسان ہوں، کیوں قید کرنا چاہتے ہیں مجھے، کیوں کرنا چاہتے ہیں میرے گھر والوں سے دور مجھے۔۔
وہ بہتی آنکھوں سے مقابل سے سوال کر چکی تھی ، ایک درد کا عنصر اس کے لفظوں میں چھپا تھا جسے وہ باخوبی محسوس کر سکتا تھا۔۔۔
تمہارے باپ کی وجہ سے۔۔۔۔
جھٹکے سے چھوڑتا اسکو اپنی نظریں سامنے شیشے پر مرکوز کر گیا تھا وہ۔۔
اس سب میں میرا کیا قصور ہے؟؟
مہر نے روتے وہ مقابل سے سوال داگا تھا۔۔
فیروز نے ان آنکھوں میں دیکھا تھا جہاں دکھ ، شکوہ ، تکلیف نمایاں تھی۔۔ بنا کچھ کہے وہ کمرے سے واک آوٹ کر گیا تھا جبکہ وہ وہیں بیڈ پہ بیٹھ کر اشک بہانے میں مصروف تھی۔
©©©
یہ کون ہے؟ جس کو آپ اپنے روم میں لے کر گئے ہیں۔
فیروز کے باہر نکلتے ہی خوشی نے بے صبری سے اس سے پوچھا تھا۔
جو بھی ہو ، اس سے تمہارا کوئی سروکار نہیں۔
اپنے کام سے کام رکھو۔۔
وہ جو پہلے ہی تپا ہوا تھا ، خوشی کا یوں سوال کرنا اسے نہایت نا گوار گزرا تھا۔۔
شائد آپ یہاں شہر کی رنگینیوں میں بھول چکے ہیں کہ میں آپ کی منگیتر ہوں؟
پر میں نہیں بھولی۔۔۔۔
وہ مضبوط لہجے میں بولی تھی۔
یہاں تم پڑھنے آئی ہو ، تو بہتر ہو گا اپنی پڑھائی پہ توجہ دو ، یوں میرے معملات میں دخل اندازی مت کرو۔۔
اگر اتنا ہی شوق ہے جاننے کا تو سن لو " بیوی ہے وہ فیروز شمس کی "
کہتا وہ بنا اس پہ غلط نظر ڈالے چلا گیا ، جبکہ پیچھے کھڑی خوشی اور سیڑھیوں سے اترتی آفرین دونوں لفظ بیوی پر ساکت ہوئی تھیں۔
©©©©
دعا غصے سے آفس سے نکل کر سیدھا اسٹاپ پر گئی تھی اور معمول کے مطابق کھڑی بس کا انتظار کر رہی تھی کہ ایک گاڑی اسکے سامنے آکر رکی تھی جسے دیکھ ناگوار سا چہرا بنایا تھا اس نے۔۔
مے آئے ہیلپ یو؟
گاڑی کے شیشوں کو نیچے کرتے ضامن نے سامنے کھڑی دعا سے کہا تھا ۔۔
نو تھینک یو سو مچ سر۔۔۔ ویسے ہی آپ میری بہت مدد کر چکے ہیں، مزید ہیلپ میں ہضم نہیں کر سکوں گی۔۔
طنزیہ لہجے میں کہتی وہ ضامن کو شرمندہ کر گئی تھی۔۔
ائم سوری مس دعا ۔۔ بس میں آپ کی ہیلپ۔۔۔۔!!!!!!
اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ کیا کہے۔۔
سر پلیز جائیں یہاں سے ، آپ کے ساتھ جا کر میں لوگوں کے خیالوں کو مثبت نہیں ہونے دوں گی۔۔
آپ شائد بھول رہی ہیں کہ میں آپکا بوس ہوں ، تو پلیز اپنا لہجہ کلئیر رکھیں۔۔
دعا کے بار بار طنز کرنا ضامن کی ایگو کو ہرٹ کر گیا تھا تبھی بھرم رکھتے ہوئے بولا۔۔
جی بالکل آپ باس ہیں مگر " صرف آفس تک "۔
اتنا کہہ کر وہ جا چکی تھی کیونکہ اس کی بس آ چکی تھی۔
ضامن بھی سر کو جھٹکتا ، گاڑی کو زن سے بھگا کر لے گیا تھا ۔۔ یہ لڑکی ہمیشہ اسے کسی کی یادوں میں ڈال دیتی تھی ۔۔ ، لیکن اس کی پری بہت معصوم تھی جبکہ دعا اسٹریٹ فارورڈ گرل تھی۔جو بنا لحاظ کیے سامنے والے کو شرمندہ کر جاتی تھی۔
©©©©©
حازم تھکا ہارا سا وہیں صوفے پہ ڈھہ گیا تھا ، اس کے دائیں جانب روباب بیٹھی تھی ۔۔۔
سب مہمان جا چکے تھے ان کی حالت پر افسوس کیے ۔۔
ایک دم ہی ان کا گھر ویران پڑ چکا تھا جہاں تھوڑی دیر پہلے ہنسی کی آوازیں گونج رہی تھیں۔
یہ ویرانی ، وحشت کئ سال پیچھے لے گئی تھی انہیں۔۔
ان سب چیزوں، وحشتوں کا زمہ دار وہ خود تھا ، وقتی اٹریکشن، ماڈرن بیوی کی خواہش ، ان سب نے اس کا خوبصورت آشیانہ اجاڑ دیا تھا ،
کتنا بد نصیب باپ ہوں میں جو اپنی بیٹی کی حفاظت نہ کر سکا۔۔۔ چاہنے والی بیوی کی قدر نہ کر سکا۔۔
مجھ جیسا بد نصیب اس دنیا میں کہیں نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سمی ایم سوری ۔۔۔۔۔
یہ سب خیال اس نے سماہرا کو ذہن میں سوچتے ہوئے کہے تھے۔۔
حازم۔۔۔ فکر نہ کریں۔۔۔
روباب نے حازم کے کندھے پر ہاتھ رکھے اسے تسلی دینی چاہی تھی ۔۔
کیسے فکر نہ کروں ؟؟ ہاں ۔۔ کیسے نہ کروں۔۔
تم نہیں سمجھ سکتی۔۔ سگی ماں جو نہیں ہو اسکی، جبکہ میں باپ ہوں اسکا، سگا باپ۔۔۔۔خون کا رشتہ ہے میرا مہر سے۔۔
وہ درد و کرب تم محسوس نہیں کر سکتی جو فل وقت میں کر رہا ہوں ، اپنی بیٹی کے لئے۔۔
ح۔۔۔حازم۔۔۔۔۔۔۔
روباب اس کے ریکشن پہ شاکڈ تھی ،دونوں ہاتھ منہ پہ رکھے آنسوں کا پھندا روکنا چاہا تھا اس نے۔۔
مجھے تو افسوس ہو رہا ہے خود پر جس نے ایک بیٹی کو ماں سے جدا کر دیا۔۔صرف اپنی جوانی کی محبت کے نشے میں چور۔۔۔
آج سماہرا وہ درد میں محسوس کر سکرہا ہوں، جب اس سے ننی جان کو دور کیا تھا میں نے۔۔باپ ہو کر میرا یہ حال ہے جبکہ وہ تو پھر بھی ماں تھی۔۔۔۔
جس نے کتنی تکلیفوں سے اس کو جنم دیا۔۔۔
میں بہت گناہ گار ہوں۔
بلکہ میں اکیلا نہیں تم بھی تھی میرے ساتھ ، اس سب کی زمہ دار تم۔بھی ہو۔۔
حازم نے روباب کے بالوں کو اپنی گرفت میں لیا تھا۔۔جس سے اس کی آواز اور رونے میں شدت آئی تھی۔۔
بولو کیا ملا تھا تمہیں یہ سب کروا کے؟
اس کے چہرے پہ دھاڑا تھا وہ ، جبکہ آنسوں دونوں کی آنکھوں سے رواں تھے۔۔۔
ح۔حازم ل۔۔لیو م۔می۔۔۔۔۔۔
وہ گھٹی گھٹی آواز میں بولی تھی۔۔۔
نو۔۔۔ فرسٹ آئی وانٹ آنسر۔۔۔
چیخا تھا وہ روباب پہ لائف میں پہلی بار۔۔۔
ک۔۔۔کیونکہ م۔۔مجھے لگتا تھا۔اولاد کے ہو جا۔۔جانے کے ب۔۔بعد آپ سماہرا کے اور قریب ہو جائیں گے ۔۔ا۔۔اور مجھے بھول جائیں گے۔۔۔ جو مجھے کسی صورت منظور نہیں تھا ۔۔اسلئے میں نے یہ ۔۔۔یہ شرط رکھی تھی ۔۔کہ آپ کا بچہ میرے پاس ہو گا تو آپ کا دل ، توجہ ، دھیان سب میری جانب ہو گا۔۔۔
وہ اٹک کر کہتی اپنے بال اس کی گرفت سے آزاد کروانا چا رہی تھی۔۔
روباب کی بات سن کر حازم کا دل چاہا اس کا حشر بگاڑ دے ، اس نے جیسے ہی روباب پہ ہاتھ اٹھانا چاہا
تھا عین اسی وقت سندل داخل ہوئی تھی روم میں شور کی آوازیں سن کر۔۔۔
ڈیڈ۔۔ یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟؟
اپنے باپ کو شاکڈ کی کیفیت سے دیکھتے کہا تھا اس نے۔۔۔
ایک نمبر کی کم ظرف عورت ہو تم۔۔
غصے سے کہتا وہ کمرے سے ہی واک آوٹ کر گیا جبکہ روباب سندل کے گلے لگے آنسوں بہانے میں مصروف تھی ۔۔ جبکہ سندل کے سر پہ سے ساری کاروائی گزری رہی تھی۔۔۔
©©©©
آفرین ، اوپر خوشی کے روم میں آئی تو اس کو بیڈ پہ الٹا لیٹ کر روتے پایا تھا جو کہ فیروز کی شادی کا سن کر ہی تب سے روئے جا رہی تھی۔ فیروز کی شادی کا سن کر دکھ اسے بھی ہوا تھا لیکن خوشی کے غم کا اندازا وہ نہیں لگا سکتی تھی جس کی چاہ میں وہ یہاں آئی تھی وہ کسی اور کا ہے۔۔
خ۔۔خوشی۔۔۔
آفی نے اس کے بالوں کو سہلاتے ہوئے پکارا تھا اپنی جان سے پیاری دوست ، کزن کو۔۔۔۔
ا۔۔ان نے شادی کر لی ہے آفی۔۔ ی۔۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں ان کی منگیتر ہوں۔۔ ان کے نام پہ بچ۔۔بچپن گزارا ہے۔۔۔۔
لال آنکھوں سے وہ آفرین کی جانب دیکھ اپنے غم کا اظہار کر رہی تھی جس کا ذمہ دار سامنے بیٹھی لڑکی کا بھائی تھا۔۔
اس کی بات سن کر ایک گہرا سانس لیا تھا اس نے۔۔۔
خوشی۔۔
میں زیادہ کچھ نہیں کہوں گی۔۔بس اتنا کہنا چاہتی ہوں۔ جو ہو گیا سو گیا ، بس خود کو سنبھالو ، کسی کے لئے قیمتی آنسوں زائع نہ کرو ۔۔ چاہے وہ میرا بھائی کیوں نہ ہو۔۔
اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گئی تھی اور خوشی کی جانب سے جواب کی منتظر تھی جو کہ سر جھکائے بیٹھی اپنے ناخنوں سے کھیل رہی تھی۔۔
پھر جب کوئی جواب موصول نہ ہوا تو اٹھ کر اپنے روم میں آ گئی تھی ۔
©©©©
رات کو جب فیروز واپس گھر لوٹا تھا تو مہر کو زمین پہ بیٹھے پایا تھا جو شائد وہیں روتے روتے بیڈ سر پہ ٹکائے سو گئی تھی۔اپنے بھورے چمکتے بوٹوں کے ساتھ قدم اٹھاتا اس تک آیا تھا جو ہر چیز سے انجان خوابوں کی دنیا میں سوئی ہوئی تھی۔۔
کالے رنگ کی میکسی میں بنا میک اپ کے وہ کافی پر کشش لگ رہی تھی۔فیروز کو مہرالنسا کے چہرے میں کسی کی شبیہ نظر آئی تھی جسے وہ نظر انداز کر گیا تھا۔۔
مہر نے اپنے پاس کسی کی موجودگی محسوس کیے آنکھوں کو کھولا تھا لیکن فیروز کو اپنے سامنے دیکھ وہ جھجھک کر پیچھے ہوئی تھی جسے فیروز نے بھی محسوس کر لیا تھا۔
اٹھو اور ڈریس چینج کرو جا کر اپنا۔۔
مہر کو جاگتے دیکھ اپنا نرم تاثرات کو چھپا کر ناگواری ظاہر کرتے کہا تھا اس نے۔۔
آ۔۔آپ نے م۔۔مجھے ٹائم ہی نہیں ۔۔د۔۔دیا تھا ک۔۔کپڑے پیک کرنے کا۔۔کھینچتے ہوئے تو لائے تھے آ۔۔آپ۔۔
اپنی بڑی گہری آنکھوں سے اسکی جانب دیکھتے معصومنا طنز کیا تھا اس نے۔۔
اس کی بات سمجھ کر پہلے تو اسے ہنسی آئی تھی جسے وہ فوراً چھپا گیا تھا۔۔
زبان چلا رہی ہو؟؟
مہر کو اپنی جانب کھینچا تھا اس نے۔۔
م۔۔میں نے کب چلائی ، میں نے تو صرف بتایا ہے۔۔
منمناتے ہوئے کہا گیا تھا۔۔
ابھی تو برداشت کر گیا ہوں " پر دوبارا زبان درازی برداشت نہیں کروں گا "
کہتا وہ آفرین کے روم میں گیا تھا اس سے ایک ڈریس لے کر مہر کو پہنے کے لئے کہا تھا تاکہ وہ اپنی چمکیلی میکسی سے نجات حاصل کر لے۔۔
جب وہ ڈریس پہن کر آئی تو فیروز بیڈ پہ بیٹھا موبائل چلا رہا تھا وہ مضطرب سی کھڑی اپنی انگلیاں چٹخا رہی تھی ۔۔
کیا ہوا وہاں کیوں کھڑی ہو؟؟
اس کو وہیں کھڑے دیکھ فیروز نے کہا تھا۔۔
یہاں آو۔۔
پاس آنے کا حکم دیا گیا تھا۔۔جس سے وہ مزید کنفیوژ ہوئی تھی۔۔۔پھر دھیمے قدم بھرتی اس تک آئی تھی وہ۔۔
یہاں بیٹھو۔۔
آنکھوں کے اشارے سے پاس بیٹھنے کا حکم دیا گیا تھا جس کی تعبیر مہر نے بیڈ کے کونے پہ بیٹھ کر دی۔۔
وہ بہت کنفیوژن کا شکار ہو رہی تھی اس کے سامنے۔۔
فیروز نے بغور اس کا جائزہ لیا تھا جس کا قد تقریباً پانچ فٹ کے لگ بھگ تھا۔
تمہارے گھر میں تقریباً سب کی ہائیٹ لمبی ہے ، تم کس پہ چلی گئی ہو؟
مہر کے بیٹھنے کے بعد یہ پہلا سوال تھا جو فیروز کی جانب سے کیا گیا تھا ، اس کے سوال پر مہر نے عجیب نظروں سے اس کی جانب دیکھا تھا جو اس سے کیسا سوال کر رہا تھا۔۔
وہ بنا اس کو جواب دیے لیٹنے لگی تھی کہ فیروز نے اسکے ہاتھوں سے تھام کر کھڑا کیا تھا۔
میں نے کہا ابھی لیٹنے کو؟
مہر کے چہرے پہ نظریں جمائے کہا تھا اس نے۔۔
اس نے سوالیہ نظروں سے فیروز کی جانب دیکھا تھا۔۔
تمہاری جگہ یہاں نہیں ہے۔۔
ک۔۔کیا مطلب۔۔؟؟
حیرت ہوئی تھی مہر کو فیروز کی اس بے تکی بات پہ۔۔
اور اسکی حیرت مزید حیرانگی میں بدلی تھی جب فیروز اس کو اسٹیرز کے پاس بنے روم میں لایا تھا ، باکی روم کی بانسبت چھوٹا اور کم ویل فرنیشڈ روم تھا وہ ۔۔
میرا مقصد صرف تمہیں تمہارے ماں باپ سے دور کرنا تھا۔۔ اپنی بیوی بنانا نہیں ۔۔پر خیر جو اللہ کو منظور۔۔
اسلئے اب سے تمہاری جگہ یہاں ہے ، اس روم میں ۔۔۔
میرے روم کے آس پاس بھٹکتی نظر نہ آو، جب تک میں نہ کہوں ۔۔اسی روم میں رہو گی تم۔۔
سمجھی۔!!!!
اسکو وہیں چھوڑے واپس روم میں آیا تھا وہ۔۔
©©©©
گھر سے نکلنے کے بعد حازم سیدھا قبرستان گیا اور وہاں موجود قبر سے سماہرا کے نام کو مٹوایا
پھر کچھ دیر تنہائی پانے کی غرض سے اس نے گاڑی کا رخ سمندر کی جانب موڑا تھا ۔۔۔۔
سمندر کی بے ترتیب موجوں کو دیکھا بے نام سا مسکرایا تھا وہ۔۔
آخری یادگار لمحہ سماہرا کے ساتھ اس نے یہیں اسی جگہ پہ گزارا تھا ۔۔جس میں وہ دونوں بے حد خوش تھے لیکن پھر اچانک ہی سب کچھ بگڑتا چلا گیا۔۔
ﻣﺎﺿﯽ ﮐﮯ ﭼﺎﺭ ﺩﻧﻮﮞ ﻧﮯ، ﭼﮭﯿﻦ ﻟﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﮨﻨﺴﯽ
ﺍﺏ ﺣﺎﻝ ﻣﯿﮟ، ﻣﯿﺮﺍ ﺣﺎﻝ،ﻓﯽ ﺍﻟﺤﺎﻝ ﻧﮧ ﭘﻮﭼﮭﻮ۔❤️🥀
©©©
کمرے سے منسلک اسٹڈی روم میں وہ بیٹھی اکیلے فون میں کچھ لکھنے میں مصروف تھی ،جسے اس کے سوا کوئی نہ جانتا تھا۔
فون پہ چلتے اس کے ہاتھ تھمے تھے جیسے ہی ان نے دروازے پہ آہٹ محسوس کی تھی ،
کیا ہوا جانم اتنی رات کو یہاں کیا کر رہی ہو؟
نیند میں ڈوبی آواز کے ساتھ سلمان چلتے ہوئے سماہرا تک آئے تھے۔۔
کچھ خاص نہیں۔۔۔
انہوں نے بھی مسکرا کر کہا تھا جبکہ اس وقت وہ مسکراہٹ ان کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔
چلو مائے گولڈی اینوسینٹ۔۔۔
نیند مین ڈوبی آواز کے ساتھ کہتے انہوں بانہوں میں بھر لیا تھا ان نے۔۔
مسٹر سلمان اس عمر میں بھی جوانی برکرار ہے آپ کی۔۔۔
مسسز سلمان جب اتنی خوبصورت بیوی پاس ہو تو ، کون جوان نہیں بننا چاہے گا؟
باتوں کے دوران وہ انہیں روم میں لے آئے تھے۔
ان کی بات پر سماہرا کا جاندار قہقہہ گونجا تھا ، اس کی اسی ہنسی میں ، ان کے شوہر کی زندگی تھی۔
انہوں نے بھی مسکراتے ہوئے سماہرا کا سر اپنے بازو پہ رکھا تھا، اور نیند کی وادیوں میں کھو گئے۔۔۔
©©©
دعا ابھی گھر میں اینٹر ہو کر بیٹھی ہی تھی کہ فون کی بیل نے اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی تھی وہ جانتی تھی اس وقت کس کا فون ہو گا۔۔
تبھی اس کے فکرزدہ چہرے پر ایک مسکان ٹھہری تھی۔۔
اسلام وعلیکم۔ !ماما۔۔
وعلیکم السلام!
چندہ کیسی ہو؟
انہوں نے بے تابی سے پوچھا تھا، جبکہ ان کی آواز میں نمی گھلی ہوئی وہ دور ہوتے ہوئے بھی محسوس کر سکتی تھی۔۔
الحمداللہ! آپ کی دعاؤں کے سنگ جی رہی ہوں ۔۔
واپس کب آو گی۔۔ کافی عرصہ بیت چکا ہے تمہیں دیکھے ہوئے۔۔
بے بسی سے کہا تھا ان نے۔۔
مما !!
بہت مشکل ہے اب میری واپسی۔۔۔
میں کبھی اس پست ماحول میں نہیں آؤں گی۔۔
یہ کہتے اس کے چہرے پر سرخی سی نمایاں تھی۔۔
پر تمہاری ماں تمہاری منتظر ہے ۔۔
خدا کی امان میں رہو۔۔
کہتے وہ فون رکھ چکی تھیں۔جبکہ کال کٹنے پر دعا نے ایک نظر فون پہ ڈالی تھی پھر خاموشی سے اٹھ کر روم میں آ گئی۔
©©©©
آفرین اور خوشی دونوں کالج یونیفورم میں ملبوس ناشتہ تناول فرما رہی تھیں کہ مہر لاپرواہ سے حلیے میں باہر نکلی تھی۔جب ان کی نظر مہر پہ گئی تھی تو وہ دونوں ہی شاکڈ ہوئیں تھیں اس کو اسٹیرز کے پاس بنے روم سے نکلتے دیکھ۔۔
اسلام وعلیکم۔۔
وہ اپنی ہم عمر لڑکیوں کو دیکھ خوش اسلوبی سے سلام کرتی بولی تھی جبکہ وہ دونوں منہ کھولے اسے دیکھنے میں محو تھیں۔
آپ لوگ مجھے ایسے کیوں دیکھ رہی ہیں؟
ان کی نظروں سے پزل ہو رہی تھی وہ۔۔
م۔مطلب آ۔ آپ اس روم میں کیوں؟؟
آپ کو تو بھائی کے روم میں ہونا چاہیے؟
آفرین نے اپنی حیرت کا مظاہرہ کیے کہا تھا جبکہ فیروز کے ذکر پر مہر نے منہ کا زاویہ بگاڑا تھا۔۔
میں کوئی بیوی نہیں ہوں ان کی۔۔انہوں نے تو مجھے کیڈنیپ کیا اور بد۔۔۔۔۔
مہر۔۔۔۔۔۔!!!!!!
وہ غصہ سے فیروز کے تمام راز ان کے سامنے اگل رہی تھی ، لیکن بات مکمل ہونے سے پہلے ہی فیروز کمرے سے نکلا تھا اور اس کی گورِ افشانی سن کر اپنی گرج دار آواز سے پکارا تھا اس کو جس سے اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی کٹ گئی تھی۔۔
روم میں جاو۔۔۔۔
فیروز کی غصے سے بھری آواز سن کر کرسی سے کھڑی ہوئی تھی وہ۔۔۔
بھائی ی۔۔یہ؟؟
آفرین نے الجھی نظروں سے دیکھ کر کہا تھا۔
کچھ نہیں۔۔ تم دونوں جاو گاڑی میں بیٹھو
فوراً ٹائم ویسٹ کیے بنا ۔۔۔ ڈرائیور ویٹ کر رہا ہے ۔۔
ان کے سوال کو نظر انداز کیے حکم دیتے کہا تھا اس نے ۔۔
تم سے تو میں آ کر نمٹتا ہوں۔۔
اپنی جگہ منجمد کھڑی مہر کے کان کے پاس جھک کر کہتا وہ باہر چلا گیا تھا جبکہ وہ فوراً بھاگتے ہوئے روم میں بند ہوئی تھی۔۔
©©©
خوشی مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی بھائی نے نکاح کر رکھا ہے اور حیرت کی بات یہ کہ انہوں نے اپنی بیوی کو روم بھی دوسرا دیا ہے۔۔
تو؟
خوشی نے لاپرواہی ظاہر کرنا چاہی تھی۔۔۔
اف تم سمجھی نہیں اس پورے سین میں کچھ مسنگ ہے ۔۔
مطلب؟؟
مطلب کچھ ایسا ہے جس کی خبر ہمیں نہیں۔۔
آفی ! کچھ نہیں ، بلکہ ہمیں پوری بات کی ہی خبر نہیں۔۔
خوشی نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔۔
ارے تم میری بات نہیں سمجھ رہی۔۔
جھنجھلا کر کہا تھا اس نے۔۔
دیکھو بھائی نے نکاح کیا اپنی مرضی سے، ایسا بھائی کہہ رہے ہیں۔۔
لیکن وہ لڑکی (مہر) کچھ بتا رہی تھی لیکن بھائی کے آنے پر بات ادھوری رہ گئی تھی۔۔
میں نے ایک ڈر دیکھا تھا بھائی کے آنے پر اس لڑکی کی آنکھوں میں لیکن۔۔۔۔۔۔۔
آفرین بات ادھوری چھوڑ گئی تھی جب کے پر مسرت آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی تھی ، وہ خاموش ہوتی اس آواز کی سمت قدم بڑھا ہی رہی تھی کہ خوشی اسے کھینچتے ہوئے ایڈوٹیرئم کی سائڈ پہ لے آئی تھی۔۔
©©©©
سندل کالج سے اوف کر کے واپس گھر جارہی تھی کہ راستے میں اسکی گاڑی خراب ہو گئی اور اب وہ سڑک کے کونے پہ کھڑی اپنے پاپا کا نمبر ملانے میں مصروف تھی جن کا نمبر ہی پاورڈ اوف شو ہو رہا تھا اس نے جھنجھلا کر فون بند کیا ہی تھا کہ عین اسی وقت ایک گاڑی آ کر اس کے پاس رکی تھی ۔۔
مے آئے ہیلپ یو؟
گاڑی کا شیشہ نیچے کرتے راحب نے سندل کو دیکھ کہا جو پریشانی سے نظریں ادھر ادھر دوڑا رہی تھی۔۔
راحب کو دیکھ سندل نے ناگواری سے نظریں دوسری جانب کی تھیں جبکہ راحب ڈھیٹ بنا مسکرا کر گاڑی سے نکلا تھا۔۔
یہاں سنسان سڑک پہ کیا کر رہی ہو؟
اسکو زچ کرنے کے لئے سوال داگا تھا۔۔
شوق سے کھڑی ہوں تمہیں کوئی تکلیف ہے؟
اوو۔۔ کافی اچھے شوق نہیں پال رکھے آپ نے؟
طنز کا تیر چلا کر مقابل کو مزید برہم کر گیا تھا۔۔
تمہیں میں نے یہاں دعوت نامہ نہیں دیا رکنے کا نکلو یہاں سے۔۔
تپ کر کہتی وہ راحب کو چڑا گئی تھی۔۔
زبان زرہ سنبھال کر بات کرو۔۔ ورنہ بھولو نہیں اس جگہ تم اکیلی ہی ہو؟
سندل کے لہجے کا عنصر محسوس کیے غصہ میں اسے مستقبل سے باخبر کیے کہا تھا اس نے ۔۔
ہنہہ۔۔ تمہاری تربیت کا انداذہ ہوتا ہے تمہاری اس فضول بات سے۔۔۔
وہ تو تمہاری تربیت کا بھی خوب اندازہ ہو رہا ہے جو غیر مرد کے سامنے صرف اس پٹے نما وی میں بغیر ڈوبٹے کے کھڑی ہو۔۔
گیٹ لوسٹ یو چوزے۔۔۔۔۔
غصے سے کہتی وہ گاڑی میں بیٹھنے کو تھی کہ راحب نے اس کا ہاتھ پکڑ کے گاڑی سے پین کیا تھا۔۔
یوں کسی غیر مرد سے زبان نہیں چلایا کرتے بہت بھاری پڑ سکتا ہے،
لڑکیوں کو چاہیے اپنی زبان کو کنٹرول میں رکھیں۔۔۔
اس کے تمام راہ فرار کے راستے مسعود کرتے بولا ۔۔۔
مردوں کو بھی چاہیے اپنی حدوں کو پار نہ کریں۔۔۔
خود سے اسکو پرے دھکیل کر کہا تھا اور خود گاڑی میں بیٹھ کر گھر کال کرنے لگی تھی ، سد شکر اب کے نمبر روباب نے اٹھا لیا تھا۔۔۔
اور تھوڑی دیر میں ڈرائیور آ کر اسے پک کر چکا تھا جبکہ دور کھڑی راحب کی گاڑی بھی جا چکی تھی ، سندل کے جانے کے بعد۔۔۔
©©©©
تری پرنور آنکھوں کو اندھیرے میں دیا کہہ دوں
تری مسرور آنکھوں کی شرارت کو ادا کہہ دوں
تری رنجور آنکھوں کو میں ہر غم کی دوا کہہ دوں
تری مخمور آنکھوں کو نشوں کی انتہا کہہ دوں
اجازت ہو تو کیا کہہ دوں؟ تری زلفوں کو میں عنبر فشاں، ریشم نما کہہ دوں
تری زلفوں کو تپتی دھوپ میں کالی گھٹا کہہ دوں ...
روم میں بیٹھی سماہرا کے سامنے بھاپ اڑاتی کافی رکھتے ،شعر گنگناتے ہوئے کہا تھا سلمان نے۔۔۔
ایک خوبصورت مسکراہٹ نے ان کے چہرے پر رقص کیا تھا ،
اس خوبصورت شعر کے تبصرے میں دو لفظی جواب ہے۔۔۔
وجہ تم ہو!!!!!
سماہرا نے بھی کافی کا گھونٹ بھر کے ترچھی نظروں سے ان کو دیکھ کہا تھا۔۔
معصومہ ۔۔۔
ہہہممم!!
سلمان کے پکارنے پر سوالیہ نظروں سے ان کی جانب دیکھا تھا ان نے۔۔
تم جانتی ہو تمہاری کس چیز نے مجھے تمہارا دیوانہ بنایا تھا؟
نہیں۔بولنے کے بجائے سر نفی میں ہلایا تھا۔۔
تمہاری آنکھوں نے۔۔۔!!!!
جب پہلی بار تمہیں پارٹی میں دیکھا تھا تو ان آنکھوں میں ایک درد ، تکلیف سی تھی جو تم چھپائے بیٹھی تھی میرا دل چاہا تھا کہ تمہارے غم خود میں سمیٹ لوں ۔ہنستے وہ معصومہ کی گہری پرنور آنکھوں میں دیکھا تھا۔۔
پھر تم سے ملاقات کا بہانا مل گیا تھا جب تم باہر تنہا کھڑی ناجانے آسمان میں کیا تلاش رہی تھی ۔۔۔
لیکن میں سرپرائز ہو گیا تھا جب معلوم ہوا کہ تم شادی شدہ ہو۔۔
تلخ سا مسکرایا تھا وہ جبکہ وہ خاموشی سے اس کی بات سن رہی تھی احساس سے عاری تاثرات کے ساتھ۔۔
تمہاری آنکھوں میں اس بے وفا شخص کے لئے محبت کا جہان دیکھا تھا میں نے ۔۔
تم ایک الجھی کتاب کی مانند تھی اس وقت میرے لئے۔۔
جب حازم میرے سامنے تمہیں کھینچتے ہوئے لے کر گیا تھا تمہیں روک لینے کا دل چاہا تھا مگر تب انجان تھا میں۔۔۔
سلمان نے پہلی ملاقات کا حوالہ دیا تھا۔۔
سلمان کی آخری بات کے ساتھ کافی لمحے دونوں میں خاموشی چھائی رہی تھی ، پھر بالآخر اس خاموشی کو سلمان کی آواز نے توڑا تھا۔۔
کیا اب بھی وہ تمہارے ذہن میں ہے؟ اس کی خاموشی کو محسوس کیے بولے تھے۔۔
ان کے سوال پر سماہرا نے ایک سرد آ خارج کی تھی پھر چلتے ہوئے بالکونی میں آئیں تھی اور ان کی پیروی کیے سلمان بھی۔۔۔
میں اپنا تلخ ماضی بھولا چکی ہوں۔۔اور اسے چاہ کر بھی یاد نہیں کرنا چاہتی ۔۔۔
وہ آسمان کی جانب دیکھے ساتھ کھڑے اپنے شوہر سے مخاطب ہوئی۔۔۔
بعض اوقات ہمارا دل کسی سے محبت کر بیٹھتا ہے۔محبت تو بہت خوبصورت احساس ہے۔۔۔
۔مگر بات یہاں پوری ہوتی ہے کہ جس سے ہم محبت جیسا جذبہ عنایت کر رہے ہیں۔۔کیا وہ اس قابل ہے بھی۔۔۔
سلمان نے اپنی معصومہ کے گرد مضبوط حصار بناتے ہوئے بولا۔۔۔
وہ میرا سیاہ ماضی تھا۔۔۔اور آپ میرا حسین آج ہیں۔۔۔جس میں صرف ہم دونوں ہیں۔۔۔اس نے اپنے شوہر کے سینے پر سر رکھتے ہوئی بولی کہا۔۔
اور میرا وعدہ ہے "کہ یہ حسین آج ہمیشہ حسین ہی رہے۔۔"
زنجیروں سے با ندھ کر ہمیں💔
💔لفظو ں ۔۔۔سے مارا گیا۔💔
آسمان میں موجود ڈھلتے سورج کو دیکھتی وہ خود کو گمان کر رہی تھی ، کس کا دل بھی یوں ڈھل سا رہا تھا۔۔
آج کا دن کتنا خاص تھا ان دونوں کے لئے۔۔۔
جب وہ سلمان کی زندگی میں رفیقِ حیات بن کے آئی تھی۔۔
ہر سال سلمان سماہرا کو آج کے دن الگ طرح سے وش کرتا تھا ، پھول اور کارڈ کے ساتھ ، آج بھی وہ یہی سوچ کر اٹھی تھی مگر اس کی تمام خوش فہمی ملیا مٹ ہوئی تھی جب صبح اس نے نہ سلمان کو پایا نہ ہی کوئی پھول نہ ہی کارڈ۔۔۔۔۔
صبح سے کئی بار وہ سلمان کے نمبر پہ کال کر چکی تھی مگر وہ کال رسیو ہی نہیں کر رہا تھا بے دلی سے وہ چھت پہ آ گئی تھی ۔۔
اپنے ہی خیالوں میں کھوئی وہ کسی گہری سوچ میں محو تھی جب کسی وجود کو اپنے بے حد قریب پایا تھا اس نے۔۔۔
کلون ہی اٹھتی مخصوص مہک تھی جس سے وہ پہچان گئی تھیں کہ وہ سلمان ہی ہیں۔۔
یکدم پلٹی تھی وہ۔۔۔
سلمان ۔۔ ک۔۔کہاں تھے آپ ۔۔؟؟
جانتے ہیں کتنی پریشان تھی میں۔۔۔
سوری مائے جانم وہ آفس کے کام میں مصروف تھا۔۔
اور ان کی اس بات نے سماہرا کو صحیح معنوں میں غصہ دلایا تھا۔۔
جب سے ہم یہاں آئے ہیں آپ آفس اتنا نہیں گئے اور آج۔۔۔
آج آپ کو آفس یاد آ گیا؟؟
غصے اور غم کی ملی جلی کیفیت میں کہتی سلمان کو بہت کیوٹ لگی تھیں۔۔
سیریسلی سلمان۔۔
آپ کو کچھ یاد نہیں؟؟
اب وہ روہانسی ہونے کو تھیں۔۔
نو۔۔
کندھے اچکائے ، سنجیدگی سے کہہ گئے تھے۔۔
ہٹیں آپ ۔۔ مجھ سے بات مت کیجیے گا.
انہیں پرے دھکیل وہ جانے کو تھیں، تبھی ان نے ہاتھوں سے تھام کر دیوار سے پن کیا تھا انہیں۔۔
اتنا غصہ کیوں کر رہی ہو جانم؟ اگر مجھے یاد نہیں تو تم ہی یاد دلا دو۔۔ ویسے بھی یہ بندہ بشر بھول جاتا ہے یاداشت جو کمزور ہے۔۔۔
ہنستے ہوئے وہ سماہرا کو غصہ دلا گئے تھے۔۔
میں نہیں بولتی آپ سے جائیں اپنے کام کریں آپ !!
غصے سے کہہ کر وہ نیچے روم میں آ گئی تھیں اور ان کے پیچھے سلمان بھی آئے تھے ۔۔
کیا مسئلہ ہے اب کیوں آئے ہیں آپ ؟ جائیں کام کریں اپنے اب بھی نہیں آنا تھا۔۔
منہ بنائے وہ سائڈ پہ ہوئی تھیں۔۔
خوشبو جیسی آئے جائے
کتنا دل کو وہ تڑپائے
میری سانسیں میری دھڑکن
وہ ہے میرا دیوانہ پن۔۔
سماہرا کے پھولے ہوئے گالوں کو گنگناتے ہوئے تھاما تھا ان نے۔۔۔
بے تابیوں میں ہے وہ راحت کا موسم،
اس کے لئے ہی میری چاہت کا موسم۔۔۔
میں ہوش اسکا وہ بے خودی ہے میری،
سماہرا کو ہاتھوں سے گول گھما کر ڈریسنگ روم میں دھکیلا تھا ساتھ ہی ساتھ گنگا رہے رھے وہ۔۔
میں عشق اسکا وہ عاشقی ہے میری
وہ لڑکی نہیں زندگی ہے میری،
اندر کھڑی سماہرا ان کا گانا سنتے تاصف میں سر ہلا رہی تھیں کہ ان کی نظر ایک خوبصورت ریڈ ڈریس پہ گئی تھی جو کہ سمپل لیکن نہایت خوبصورت تھا اور اس ڈریس پہ رکھی چٹ کو اٹھا کر جیسے پڑھنا شروع کیا ایک شرمیلی مسکان نے ان کے چہرے کا احاطہ کیا تھا۔۔
کچھ ہی دیر میں جب وہ نفیس سا تیار ہو کر باہر آئی تھیں سلمان کا دل دھڑکا گئی تھیں۔۔
بیوٹیفل! ان کے ماتھے پہ محبت کی ایک خوبصورت مہر ثبت کیے گھمار آلود آواز میں بولے ، باہر ہو لیے تھے وہ اپنی معصومہ کا ہاتھ تھامے۔۔۔
©©©
کچھ لمحوں کی مسافت کے بعد وہ دونوں لال پھولوں کی چادر پہ چلتے کسی باشاہ اور ملکہ کی ماند اندر داخل ہوئے تھے،ہر طرف لال غبارے ، لائٹنگ لگی ہوئی تھی ، وہ پورا ایریا پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو سے مہک رہا تھا۔یہ ساری سجاوٹ سلمان نے خود کروائی تھی۔۔
اتنی خوبصورت سجاوٹ دیکھ سماہرا کی خوشی کی انتہاہ نہیں رہی تھی انہوں نے محبت سے سلمان کی جانب دیکھا تھا ۔۔
شادی کی سالگرہ بہت بہت مبارک ہو میری جان۔۔
ٹیبل کے پاس پہنچ کر ، جس پہ چاکلیٹ کیک رکھا ہوا تھا سلمان نے پیار سے ان کو وش کیا تھا۔وہ حیرت اور خوشی سے ان کی جانب دیکھ رہی تھیں۔۔پھر دونوں نے مل کر کیک کاٹا تھا۔
کیا مسسز معصومہ اپنے شوہر نامدار کے ساتھ ڈانس کرنا پسند فرمائیں گی۔۔
گھٹنوں کے بل بیٹھ کر انہوں نے ہاتھ آگے کیا تھا جبکہ ان کے اسٹائل پر سماہرا کو ہنسی آئی تھی۔۔
پایا میںنے پایا تمہیں
رب نے ملایا تمہیں
ہونٹھوں پے سجیا تمہیں
نگمیں سگایا تمہیں
پایا میںنے پایا تمہیں
سب سے چھپایا تمہے
سپنا بنایا تمہیں
نیندون میں بلایا تمہیں
پہلے ٹریک پر سماہرا کے دونوں ہاتھوں کو اپنے کندھوں پہ رکھا تھا اور خود ان کے گرد حصار بنائے، ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے موو کرنے لگے تھے۔
تم جو آئے زندگی
میں بات بن گئی
عشق مذہب عشق
میری ذات بن گئی
یہ گانے کا انترا دونوں کے دل کی عکاسی کر رہا تھا۔۔واقعی ان دونوں کا ملنا خدا کا ایک کرشمہ ہی تھا۔۔ورنہ سچی محبتیں آج کل کے دور میں کہا ملا کرتی ہیں۔
پایا میںنے پایا تمہیں
رب نے ملایا تمہیں
ہونٹھوں پے سجیا تمہیں
نگمیں سگایا تمہیں
پایا میںنے پایا تمہیں
سب سے چھپایا تمہے
سپنا بنایا تمہیں
نیندون میں بلایا تمہیں
ہو تم جو آئے زندگی
میں بات بن گئی
سپنے تیری چاہتوں کے
سپنے تیری چاہتوں کے
دیکھتی ہوں اب گئی
دن ہیں سونا اور
چاندی رات بن گئی
ہو تم جو آئے زندگی
میں بات بن گئی
دو دفع گھما کر ان کی پشت اپنے سینے سے لگائی تھی۔۔
ہاہاہاہا سلمان آپ تو بالکل ٹین ایجر بنے ہوئے ہیں۔۔
گانے کے بیچ میں بولتے کھلکھلائی تھیں وہ۔۔
پایا میںنے پایا تمہیں
رب نے ملایا تمہیں
ہونٹھوں پے سجیا تمہیں
نگمیں سگایا تمہیں
پایا میںنے پایا تمہیں
سب سے چھپایا تمہے
سپنا بنایا تمہیں
نیندون میں بلایا تمہیں
بیگم پہلے بھی کہا تھا، خوبصورت بیوی کے ہوتے ہوئے خودی انسان جوان ہو جاتا ہے۔۔ویسے بھی آج اتنا قیمتی دن ہے ، جب یہ معصومہ ہماری زندگی میں آئی تھیں، البتہ یہ بات الگ ہے دل میں بہت پہلے آ چکی تھیں۔۔
ان کے کندھے پر سر ٹکائے موو کر رہے تھے وہ اور ساتھ ساتھ باتیں۔۔
چاہتوں کا مزا
فاصلوں میں نہیں
آ چھپا لوں تمہیں
ہاسلوں میں کہیں
سبسے اوپر لکھا
ہیں تیرہ نام کو
کھویشوں سے جڑے
سلسلوں میں کہیں
اس ٹریک کے ساتھ سماہرا کو مزید قریب کر لیا تھا وہ انچ بھر کا فاصلہ پھر ختم کر چکے تھے جبکہ شیشے کے اس پار بیٹھا وہ شخص جو کہ اپنے کسی کام سے آیا تھا ان دونوں کو اتنا نزدیک دیکھ کر مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا۔۔من میں ایک کرواہٹ سی گھلی تھی۔۔
زندگی بیوفا ہیں
یہ مانا مگر
چھوڑ کر راہ میں
جاؤگے تم اگر
چین لاؤنگا میں
آسمان سے تمہے
سونا ہوگا نا یہ
دو دلوں کا ناگر
اس ٹریک کے ساتھ ہی سماہرا کی آنکھوں میں پانی جمع ہوا تھا جسے وہ کمال مہارت سے چھپا کر سر سلمان کے سینے سے ٹکا گئی تھی۔۔
رونکے ہیں دل کے در پے
رونکے ہیں دل کے در پے
دھڑکنے ہیں سرمائی
میری قسمت بھی
تمہاری ساتھ بن گئی
ہو تم جو آئے
زندگی میں بات بن گئی
عشق مذہب
عشق میری ذات بن گئی
سلمان نے محبت سے لب ان کے بالوں پر رکھے تھے ۔۔
سپنے تیری چاہتوں کے
سپنے تیری چاہتوں کے
دیکھتی ہوں اب گئی
دن ہیں سونا اور
چاندی رات بن گئی
ہو تم جو آئے
زندگی میں بات بن گئی
پایا میںنے پایا تمہیں
رب نے ملایا تمہیں
ہونٹھوں پے سجیا تمہیں
نگمیں سگایا تمہیں
پایا میںنے پایا تمہیں
سب سے چھپایا تمہے
سپنا بنایا تمہیں
نیندون میں بلایا تمہیں
وہ دونوں ایک دوسرے میں مگن تھے ، کہ گانے کے ختم ہونے پر ہوش میں آئے ۔۔پیار سے اپنی معصومہ کو الگ کیا تھا۔۔
“I dreamt that you were mine, and then I woke up smiling because I realized it was not a dream. You are already mine!”
“You fill all the emptiness in my heart. I’m so thankful to have you in my life. I love you very much!”
گھمبیر آواز میں کہتے دو خوبصورت نفیس سی پائل نکال کر گھٹنوں کے بل بیٹھے تھے پھر ایک ، ایک کر کے ان کے پیر میں پائل پہنائی تھیں۔۔
بیٹوفل!!
وہ بغور ان کا جائزہ لے رہے تھے کہ فون کی بیل بجی تھی۔۔۔
ویٹ جانم۔۔کہتے وہ باہر نکلے تھے جبکہ وہ پلر کے ساتھ کھڑی مسکراتے ہوئے سلمان کو جاتا دیکھ رہی تھی کہ یکدم کسی نے اسے بازوں سے کھینچ کر سائڈ پہ پن کیا تھا ۔۔
اس نے نظریں اٹھائیں تو خون آشام آنکھوں سے حازم کو خود کو تکتا پایا تھا ۔۔ایک لمحے کے لئے اسکی دھڑکنیں ساکت ہوئی تھیں۔
کس سے پوچھ کو اس شخص کو اپنے قریب آنے دیا؟
ایک ایک لفظ چباتا وہ غصے سے بولا تھا۔۔
یہ سوال کرنے کا حق آپ گنوا چکے ہیں۔۔
یہ اختیار سلمان کے پاس ہے ، وہ یہ سوال پوچھنے کا اہل ہے کہ میں , اس وقت کسی غیر مرد کے ساتھ کیا کر رہی ہوں۔۔
اور اپنے پاس سے دور کیا تھا حازم کو۔۔
کیسا شوہر ، کیا میں نے تمہیں طلاق دی ، ؟ جو تم نے شادی کی؟
یا تم لوگوں نے کوئی گناہ کیا ہے جسے چھپانے کے لئے میاں بیوی کا ناٹک کر رہے ہو؟
طنزیہ کہتے وہ سماہرا کا دل چھلنی کر گیا تھا۔غصے کی شدت میں اسے خود بھی اندازہ نہ ہوا وہ کیا کہہ چکا تھا۔۔
چٹاخ۔۔یہی امید تھی مجھے آپ سے۔۔
جو آج بھی نہیں بدلے۔ جس کی ذہنیت آج بھی وہی گندی ہے۔۔
گناہ خود کرتے ہیں اور یہ خطاب مجھے دے رہے ہیں۔۔
میں نے کوئی گناہ نہیں کیا بلکہ نکاح کیا ہے ، بالکل ویسے جیسے آپ نے کیا اپنی محبت سے۔۔تو میں کیوں رہوں پیچھے کیا سارے درد عورت کے حصے میں ہی لکھ دیے گئے ہیں۔۔؟
اور شائد ڈھلتی عمر کے ساتھ آپ کی یاداشت کمزور ہو گئی ہے ۔۔
طلاق کے کاغذات آپ نے خود بھیجوائے تھے۔۔
واٹ نان سینس۔۔۔
میں نے کب؟؟ وہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہوا تھا۔۔
خیر جو بھی ہو۔۔
تم میری تھی ، محبت کی تھی تم نے مجھ پھر کیسے تم کسی اور کو شریک کر سکتی ہو ہماری زندگی میں۔۔
سماہرا کا کھلے بالوں کو اپنی آہنی گرفت میں لیا تھا ۔۔
آپ سے محبت کرنا زندگی کی سب سے بڑی غلطی ثابت ہوئی ہے۔۔
اور جہاں تک بات ہے شراکت داری کی ، اس میں پہل آپ نے کی تھی میں نے نہیں ۔۔۔
اسلئے جائیے یہاں سے ، اور چھوڑیں مجھے دوبارا ہاتھ لگانے کی غلطی مت کرنا ورنہ میرے شوہر ہاتھ توڑنے میں وقت نہیں لگائیں گے۔۔
جھٹکے سے بال چھڑائے تھے اس نے اپنے اور تنک کر بولی تھی۔
تم جانتی نہیں آج بھی میں انگاروں پر لٹ رہا ہوں ، واپس آ جاو سمی۔۔ہم خوش رہیں گے۔۔
کبھی نہیں۔۔ایسا ممکن نہیں۔
آپ نے سوچ بھی کیسے لیا میں ایک ہرجائی کے لئے وفا کرنے والے ساتھی کو ٹھکراوں گی۔۔
آپ میری دشت کے ہرجائی ہیں اور رہیں گے ، وہ گھر جو جنت تھا میری اسے دشت آپ نے بنا دیا میرے لئے ، دوسری عورت لا کر ،
آپکا دل ، آپکی روح آپ خود حسین خواب تھے میرے جنہیں ویرانہ بنا دیا سب کچھ بکھیر دیا آپ نے۔۔۔
آپ کی بے وفائی نے توڑ دیا تھا سماہرا کو اسکے خوابوں کو ،
وہ شہرِ خموشاں بن چکی تھی لیکن پھر ۔۔۔
سلمان میری زندگی میں آئے جنہوں نے سماہرا کے بکھرے ہوئے ٹکروں کو سمیٹ ایک معصومہ بنائی ، اور وہ کوئی اور نہیں بلکہ میں ہی ہوں۔۔اسلئے بہتر ہو گا جائیں اپنی بیوی کے پاس اور دوبارا کبھی لوٹ کر نہ آنا۔
اتنا کہ کر وہ دوسری جانب سے نکلتی سامنے سے آتے سلمان کے پاس گئی تھی ۔حازم نے ان دونوں کو جاتے دیکھا تھا جو کے بے حد خوش لگ رہے تھے وہ ہوا میں ایک سرد آ خارج کرتا گھٹنوں کے بل بیٹھتا چلا گیا تھا۔۔
وہ واقعی ایک ہرجائی ہے۔۔ دشتِ ہرجائی۔۔۔
دشت میں ہے ایک نقشِ رہ گزر سب سے الگ
ہم میں ہے شاید کوئی محوِِ سفر سب سے الگ
چلتے چلتے وہ بھی آخر بھیڑ میں گم ہو گیا
وہ جو ہر صورت میں آتا تھا نظر سب سے الگ
سب کی اپنی منزلیں تھیں سب کے اپنے راستے
ایک آوارہ پھرے ہم دربدر سب سے الگ
بند ہیں گلیوں میں گلیاں ہیں گھروں سے گھر جدا
ہے کوئی شہر میں شہرِ دگر سب سے الگ
ایک ان ہونے سمے کو اوڑھ کر آتی ہے شام
ان دریچوں پر اترتی ہے سحر سب سے الگ
ہے رہ و رسم زمانہ پردۂ بیگانگی
درمیاں رہتا ہوں میں سب کے مگر سب سے الگ
دے کے عادت رنج کی ہوتا ہے مجھ پر مہرباں
اس ستم گر نے یہ سیکھا ہے ہنر سب سے الگ
ان گنت جلووں سے ہیں کون و مکاں روشن مگر
دل کے خاکستر سے اُڑتا ہے شرر سب سے الگ
شہرِ کثرت میں عجب اک روزنِ خلوت کھلا
اس نے جو دیکھا مجھے اک لمحہ بھر سب سے الگ
سرسراتا ہے بہشتِ جاں میں خواہش کا شجر
اس کی شاخوں پر اترتا ہے ثمر سب سے الگ
مست پھر باغِ تحیر میں ہے طاؤسِ سخن
ہو بہو کھلتے ہیں اس کے بال و پر سب سے الگ
ہر کوئی شامل ہوا سرمدؔ جلوسِ عام میں
منہ اٹھائے چل دیا ہے تو کدھر سب سے الگ
(سرمد صبہائی)
©©©
حا۔۔حازم۔۔
روباب نے بھاگتے ہوئے حازم کو تھاما تھا جو کہ کافی ذیادہ ڈرنک کر چکا تھا اور اب اپنے قدموں کو جما نہیں سک رہا تھا۔۔
ت۔۔تم د۔۔دوسری عورت دور ہٹو مجھ سے۔۔
تمہاری وجہ سے سماہرا کسی اور مرد کے ساتھ ہے ۔۔
بہت خوش ہے وہ۔۔
بہت خوش۔۔۔
کیوں؟؟؟؟؟؟؟؟
کیوں ہے وہ خوش۔۔۔
ساتھ رکھی کانچ کی ٹیبل کو دھکا دیا تھا اس نے۔۔جس سے وہ ٹکروں میں بٹی تھی۔۔
ح۔۔حازم سنبھالیں خود کو آپ ہوش میں نہیں ہیں۔۔
وہ پریشانی سے اس کے ہاتھوں کو تھام کر بولی تھی جو کہ کانچ پر گرنے والا تھا۔۔
تم وہ ہو۔۔جس کی وجہ سے میں ہرجائی بنا ہوں۔۔صرف تمہاری وجہ سے میری جنت دشت بن گئی۔۔۔
دشتِ ہرجائی۔۔۔
میں ہوں دشتِ ہرجائی۔۔۔
وہ پاگلوں کی مانند روتے ہوئے قہقہ لگا رہا تھا ،اس کی حالت دیکھ روباب کا دل ٹکروں میں بٹ رہا تھا۔۔۔
آ۔۔آپ اندر چلیں آرام کریں۔۔۔
اس کو اٹھانے کی کوشش کی ہی تھی کہ وہ اس کے ہاتھ کو جھٹک گیا تھا۔۔
ڈونٹ ٹچ می۔۔۔۔
ہمم ڈونٹ ٹچ می۔۔ایسا کہا اس نے۔۔۔
سم۔۔سماہرا آئے لو۔۔یو۔۔۔
آئے لو ہر۔۔بائے ہارٹ۔۔۔
بند ہوتی آنکھوں سے کہتا وہ وہیں صوفے پر ڈھیر ہو گیا۔۔
سماہرا، سماہرا ، سماہرا۔۔
خدا کرے تم مر جاو۔۔
تمہاری وجہ سے ہمارا اچھا خاصا گھر برباد ہو رہا ہے۔۔۔
وہ بھی روتے ہوئے کمرے میں چلی گئی تھی۔۔
اپنا وقت بھلائے کہ ماضی میں وہ بھی یہی سب کچھ کر چکی تھیں۔جس کا صلہ آج وہ بھگت رہی ہیں۔۔
©©©
کدھر؟؟
سماہرا کو ڈریسنگ روم میں جاتا دیکھ انہوں نے ہاتھوں سے تھام کر اپنی جانب کھینچا تھا۔۔
ریلیکس ہونے۔۔۔
اتنی جلدی ابھی تو ہم نے دیکھا ہی نہیں۔۔
سلمان نے تمام معصومیت کے ریکارڈ توڑے تھے۔۔
بس کر دیں۔۔
اور کتنا دیکھنا ہے۔۔
ان کی بات پر حیرت سے دیکھتی بولی تھی۔۔
جب تک موت نہ آ جائے۔۔
سلمان۔۔۔۔۔
ایسے مت بولا کریں۔۔ان کی بات پر جھڑکا تھا انہیں۔۔۔
اوکے جانم۔۔۔
چلیں جلدی سے چینج کر لیں پھر ساتھ مل کر مووی دیکھیں گے۔۔
اس دفع ہم نئے طریقے سے اینیورسری بنائیں گے۔۔
ہاہاہاہا سلمان ۔۔بہت بری بات ہے ، چلیں عرش کو بھی بلا لیتے ہیں وہ بیچارہ نا جانے کیا کر رہا ہو گا۔۔
چھوڑیں بیگم وہ اپنی کسی پری کے خیالوں میں ہو گا۔۔
اور ہم اپنی پری کے خیالوں میں گم ہونا چاہتے ہیں۔۔اب آپ کا وقت ختم اسلئے ایسے ہی مووی دیکھیں گی۔۔
اپنے ساتھ صوفے پر بیٹھایا تھا انہیں۔۔
ارے۔۔رکیں بس پانچ منٹ میں آئی۔۔
تھوڑی دیر میں ہی وہ آرام دا کاٹن کی شلوار سوٹ میں باہر آئی تھیں پھر دونوں نے ایک ساتھ مووی سلیکٹ کی تھی۔۔
"ہم آپکے ہیں کون؟"
یہ فیملی مووی دونوں کی ہی پسندیدہ تھی۔۔
آج کافی سالوں بعد وہ یہ فلم دیکھ رہی تھی ۔۔۔
لیکن اچانک اس کی آنکھوں سے آنسوں بہنا شروع ہو چکے تھے جب اس نے" پریم" کی بھابھی کو سیڑھیوں سے گرتے دیکھا تھا وہ لمحہ اسے کافی سال پہلے ہوئے حادثہ میں لے جا چکا تھا۔۔
سماہرا؟؟
کیا ہوا جانم۔۔انہوں نے جب اپنا ہاتھوں پر نمی محسوس کی تو سماہرا کو روتے دیکھا تھا۔۔
سل۔سلمان۔۔وہ میں۔۔میں ،،سیڑھیاں۔۔۔میرا بچہ۔۔۔۔
اتنا کہتے ہی ان کے کندھے پر سر رکھے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔۔
معصومہ ریلیکس۔۔میں مووی بند کر رہا ہوں۔۔
چلیں رونا بند کریں۔ان کو لے کر بیڈ پر آئے تھے اور آرام سے لٹا چکے تھے۔۔
ان کے سر کو اپنے ہاتھوں سے ہلکا ہلکا دبانا شروع کیا تھا جس سے وہ جلد ہی نیند میں جا چکی تھیں۔۔
پہلے مجھ سے نفرت کا اظہار کیا ، میری خواہشوں کو میری محبت کو بے مول کیا آپ نے حازم ۔۔میرے جذبات میرے احساسات کو توڑا آپ نے،
لیکن جب میں اپنے دل کو سنبھال چکی تھی، احساس دلا چکی تھی کہ "میں آپکی نہیں" تب ۔۔۔ تب دوبارا آپ نے میرے دل کو اپنی جانب مائل کیا۔۔۔
کیوں؟؟
دوبارا رسوا کرنے کے لئے۔۔۔
سماہرا حازم کا کالر دبوچے سراپہ سوال بنی ہوئی تھی ۔۔
جبکہ حازم خاموش تھا اس کی آنکھوں میں موجود درد و تکلیف کو دیکھنے کے باوجود بھی۔۔
آپ نے اس لڑکی کی روح ،اسکی زندگی پہ گہری ضرب لگائی ہے اسکی بیٹی تک کو چیھن کر حازم وہ آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی ،کبھی نہیں۔۔
آپ۔۔۔۔۔
بے وفا۔۔۔۔۔
ہرجائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ن۔۔۔نہیں م۔۔میں۔۔سماہرا۔۔۔۔۔۔
وہ نیند سے بیدار ہوا تھا۔۔چہرا پورا پسینے سے شرابوز ہورہا تھا۔۔
آس پاس نظریں دوڑائیں تو وہاں نہ سماہرا تھی اور نہ اسکی پرچھائی۔۔۔
البتہ پہلو میں اس کی بیوی موجود تھی،جس کی خوبصورتی اسٹیٹس، ایٹیٹیوڈ کے نشے میں بہک کر اس نے محبت کرنے والی بیوی کو دھوکا دیا تھا۔۔
وہ سر ہاتھوں میں گرائے بیٹھا تھا
آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
چاندنی دل دکھاتی رہی رات بھر
گاہ جلتی ہوئی گاہ بجھتی ہوئی
شمع غم جھلملاتی رہی رات بھر
ایک امید سے دل بہلتا رہا
اک تمنا ستاتی رہی رات بھر
وہ ہوش کی دنیا میں واپس لوٹا تھا جب اپنی پشت پر روباب کے ہاتھوں کا لمس محسوس ہوا تھا۔۔۔۔
حازم۔۔اس کے لئے خود کو برباد نہ کریں ، بھول جائیں سب کچھ ۔۔۔
بس اتنا یاد رکھیں آپ کے پاس آپکی بیوی موجود ہے جو کہ آپ سے بے انتہاہ محبت کرتی ہے اور آپ اس سے۔۔۔
حازم نے ان کے اپنے پاس سے دور کرنا چاہا تھا جب ان نے اپنا سر حازم کے کندھے پر رکھا تھا۔
میرے لئے آپ نے سماہرا کو ٹھکرایا تھا اور آج۔۔ آج اس کے لئے مجھے ٹھکرا رہے ہیں۔۔وہ بھول چکی ہے آپ کو ، بڑھ چکی ہے آگے تو آپ کیوں ہیں پیچھے۔۔۔
خاموش بیٹھے حازم کے چہرے کو اپنے قریب کیے سوال کیا تھا ان نے جو دونوں جے رشتے کو مزاق بنانے کے در پہ تھا۔۔
آپ کی روباب آپ سے بے انتہاہ محبت کرتی ہے ، وہ یوں آپ کو اداس نہیں دیکھنا چاہتی بس آپ مجھ سے بات کریں مجھے محسوس کریں ، ہماری محبت کو دیکھیں حازم ۔۔۔
اور پھر ہوا بھی یونہی تھا وہ روباب کی باتوں میں آ چکا تھا صرف چند لمحوں کے سکون کے لئے ، سماہرا کی یادوں سے راہ فرار کے لئے۔۔۔
کامیاب ہو چکی تھی اسکی بیوی اسکو اپنی جانب مائل کرنے میں ۔۔
انجانے میں ہی وہ پھر اس کی یادوں سے بے وفائی کر گیا تھا۔۔۔
©©
آپ کو آفس میں دیکھ کر کافی حیرانی ہوئی مجھے۔۔۔
کمپیوٹر پہ چلتے دعا کے ہاتھ کچھ لمحے کے لئے ساکت ہوئے تھے ضامن کی بات پر۔۔
ورنہ اتنا کچھ ہونے کے بعد مجھے امید نہیں تھی کہ آپکو یہاں دوبارہ دیکھوں گا۔۔
ایک ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈالے دوسرے سے کرسی کو تھامے کھڑا تھا وہ۔۔
کیوں میں نہیں آ سکتی؟
اب کے سوال دعا کی جانب سے کیا گیا تھا۔۔
نہیں مطلب اکثر لڑکیاں تو جاب چھوڑ دیتی ہیں ایسے اسکینڈلز پر ۔۔
مسٹر ضامن ۔۔دوسری لڑکیوں اور دعا میں بہت فرق ہے۔
دعا ایک خود اعتماد لڑکی ہے وہ لوگوں کے خیالوں کو سچ ثابت نہیں ہونے دے گی یہاں سے جا کر بلکہ ان کے خیالوں کو منفی ثابت کرے گی اپنے رویوں سے۔۔۔۔
اب کے دعا کرسی سے کھڑی ہوئی تھی اور مقابل کے روبرو آئی تھی۔۔۔
اسکا مطلب دعا بہت ڈھیٹ ہے۔۔
ضامن نے طنزیہ کہا تھا۔۔
نہیں۔۔وہ ایک مضبوط کردار کی مالک ہے کبھی اپنے کردار پر غلط بات برداشت نہیں کرے گی بلکہ غلط کہنے والوں کو منہ توڑ جواب دے گی اپنے رویے سے۔۔۔
مضبوط لہجے میں کہتی ضامن کو خاموش کروا گئی تھی ۔۔۔
ہمم۔۔۔اس کو تائیدی نظروں سے اسکو دیکھا تھا پھر بنا کچھ کہے وہاں سے نکل گیا۔۔
©©
کانچ کے بنے ویل فرینشڈ آفس میں بیٹھا جہاں ہر چیز نفاست سے رکھی گئی تھی، وہ بیٹھا کسی غیر مرئی نقطے پر غور کر رہا تھا۔۔کہ فون کی بچتی مخصوص ٹون سے وہ خیالات کی دنیا میں لوٹا تھا۔۔۔
کسی انجان نمبر سے کوئی وڈیو موصول ہوئی تھی اسے ، چہرے پہ چھائے تاثرات کچھ پریشان زدہ سے تھے جب اس نے وڈیو اون کی تھی پھر دیکھتے ہی دیکھتے چہرے پہ غصہ ، غم ساتھ جھلکنے لگا تھا۔۔۔
حازم نے فوراً وڈیو بند کر کے کال ملائی تھی مقابل کو جسے دو بیلز کے بعد فوراً موصول کر لیا گیا تھا۔۔۔
کیسے ہیں سسر جی۔۔۔۔
مجھے امید تھی آپکی کال لازمی آئی گی۔۔
میری بیٹی کہاں ہے؟
یہیں ہے اپنے شوہر کے پاس ۔۔۔
چہرے پہ زہریلی مسکان سجائے پہلو میں بیٹھی مہر کی طرف دیکھا تھا جس کی آنکھوں میں آنسوں آنا شروع ہو گئے تھے اپنے باپ کی آواز سن کر اور یہ آنسوں فیروز کو سخت برے لگے تھے۔۔
م۔۔۔میری بیٹی سے بات کرواو......
انہوں نے التجائیہ انداز میں کہا تھا۔۔۔
او۔۔۔بڑا تڑپ رہے ہیں یہ لیں کریں بات۔۔۔کہتے احسان کرنے والے انداز میں فون اس کو تھمایا تھا۔۔۔
پ۔۔۔پا۔۔۔پا۔۔۔!!!
بہتی آنکھوں کے ساتھ پکارا تھا اپنے باپ کو۔۔۔۔
م۔۔مہر۔۔۔میری بچی ۔۔۔۔وا۔۔واپس آ جاو پاپا کے پاس ، اگر اس شخص نے زبردستی شادی کی ہے تو ہم کیس لڑ لیں گے مگر لوٹ آؤ۔۔۔
حازم کی تمام بات فون سپیکر پہ ہونے کے باعث فیروز سن رہا تھا۔۔مہر نے ایک نظر اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا جس کی آنکھوں میں صاف وارننگ نظر آ رہی تھی۔۔
ن۔۔نہیں م۔۔میں نے خود ۔۔۔بس اتنا کہہ کر وہ رخ پھیر گئی تھی دل تو تھا کہہ دے باپ سے آ کر لے جاو اس قید سے مگر ساتھ بیٹھے فیروز کی وجہ سے کہہ نہ پائی تھی۔۔۔
جی تو سن لی آواز اپنی بیٹی کی سسر جی۔۔۔
ہنستے ہوئے کہتا ان کے زخموں کو ہرا کر گیا تھا۔۔۔
اگر میری بیٹی کو کچھ ہوا تو تمہارے خلاف میں کمپیلن کروں گا۔۔وہ باقاعدہ دانت پیستے ہوئے بولے تھے۔۔۔
شوق سے کیجئے گا ۔
طنزیہ کہتے وہ فون بند کر چکا تھا اور ایک طائرانہ نظر روتی مہر پہ ڈالی تھی ۔۔
ایکٹنگ اچھی کر لیتی ہو۔۔آئی ایم امپریسڈ۔۔۔
آئبرو اچکا کر کہتا وہ داد دینے کے انداذ میں بولا ۔۔
لیکن۔۔۔یکدم اس کے بالوں کو اپنی گرفت میں لیا تھا۔۔
اگر یہ بات ہم دونوں کے بیچ سے باہر نکلی تو بہتر نہیں ہو گا تمہارے لئے ۔۔۔
باپ کی آواز پہ آنکھوں میں ابھرنے والی چمک کو باخوبی دیکھ چکا ہوں ، اور یہ خوشی دوبارا ان آنکھوں میں نظر نہ آئے۔۔۔
دغا برداشت نہیں فیروز شمس کو ۔۔۔
جھٹکے سے اس کے وجود کو چھوڑتا نکلتا چلا گیا تھا وہاں سے۔۔۔
آنسوں میں غم ملا کے
تم کو میرا دل دکھا کے
کیا ملا ہے یہ بتا مجھے۔۔۔۔۔
©©
نہ روح تھی جسم میں
نہ آنکھ میں خواب تھے
جو مر چکا ہے اسی کو مار دے
تیری وفا مطلبی ،
نظر ملا کر تو مجھے اپنے غرض کے جوے میں ہار دے۔۔۔
حازم وہیں روتے ہوئے زمین پی بیٹھا تھا وہ اس وقت صرف بے بس باپ لگ رہا تھا اتنا تو وہ جان چکا تھا یہ شادی اس نے اپنی مرضی سے نہیں کی ہے ورنہ کبھی وہ روتی نا۔۔اس کی آواز میں درد و تکلیف کو اس نے شدت سے محسوس کیا تھا حال کا ماحول ماضی میں لے جا کر پٹختا تھا اسے۔۔۔
کون ہے وہ شخص جو اس کی بچی کے پیچھے پڑ چکا تھا۔۔۔
کیا یہ مکافات عمل تھا۔۔
اس کے کیے کی سزا۔۔۔۔
آہہہہ۔۔۔۔غصے سے بالوں کو نوچا تھا اس نے۔۔
وہ پاگل ہو رہا تھا۔۔
©©©
جی تو پیارے دوستوں۔۔
ہمارے کالج کے سپر اسٹار عرش سلمان اپنی خوبصورت آواز سے یہاں کا موسم۔بدلنے والے ہیں۔۔
ہوسٹ کی اس آواز کے ساتھ جہاں تالیوں کی آواز گونجی تھی وہیں سیکنڈ چئیر پہ بیٹھی آفرین کا ڈوپٹہ سیٹ کرتا ساکت ہوا تھا اور نظریں اسٹیج کی جانب اٹھی تھیں جہاں وہ دشمنِ جاں مائک ہاتھوں میں تھاما مسکرا کر سب کو دیکھ رہا تھا۔۔اچانک کی عرش کی نظریں آفرین کی گہری سیاہ آنکھوں سے ٹکرائیں تھیں۔۔۔
وہ دونوں ہی ایک دوسرے کو دیکھنے میں محو تھے ۔کہ۔ہوسٹ کی آواز سے ہوش میں آئے تھے۔۔۔
لیٹس اسٹارٹ یور سونگ۔۔۔۔
آنکھوں میں تیری
عجب سی عجب سی ادائیں ہیں
ہو آنکھوں میں تیری
عجب سی عجب سی ادائیں ہیں
دل کو بنادے جو پتنگ سا سے
یہ تیری وہ ہاویں ہیں
عرش آفرین پہ نظریں جمائے مسکراتے ہوئے سونگ گا رہا تھا۔جب کہ وہ خود پہ اس کی نظریں محسوس کیے کنفیوز ہو رہی تھی اس کے وہم و گماں میں بھی نہ تھا عرش اسکے کالج کا اسٹوڈنٹ ہو گا۔۔۔
آئی ایسے رات ہیں جو
بھاہت خوشنصیب ہیں
چاہیں جیسے دور سے دنیا
وہ میرے قریب ہیں
کتنا کچھ کہنا ہیں
پھر بھی ہیں دل میں
ساول کہیں
سپنوں میں جو روز کہا ہیں
وہ پھر سے کہوں یا نہیں
گانے کے اس بول پر آفرین کی آنکھیں بھی بے اختیار اس کی جانب اٹھی تھیں۔۔
جو کہ اب دوسری جانب دیکھ رہا تھا۔۔ایک ستائش سی اسکی آنکھوں میں رونما ہوئی تھی۔۔۔
آنکھوں میں تیری
عجب سی عجب سی ادائیں ہیں
ہو آنکھوں میں ٹیریجب سی عجب سی ادائیں ہیں
دل کو بنادے جو پتنگ سا سے
یہ تیری وہ ہاویں ہیں
تیرہ ساتھ ساتھ ایشا
کوئی نور آیا ہیں
چاند تیری روشنی کا
ہلکا سا ایک سایا ہیں
تیری نظروں نے دل کا
کیا جو حسر اثر یہ ہوا
اب انمیں ہی دوب
کے ہو جو پار یہی ہیں دعا
آنکھوں میں تیری
عجب سی عجب سی ادائیں ہیں
ہو آنکھوں میں تیری
عجب سی عجب سی ادائیں ہیں
دل کو بنادے جو پتنگ سا سے
یہ تیری وہ ہاویں ہیں
سونگ کے ختم ہوتے ہی سب نے تالیاں بجائی تھیں ۔۔جسے عرش نے مسکرا کر سر کو۔خم کرتے وصول کیا تھا۔اب اس کی کوشش اس جھرمٹ سے نکل کر باہر جانے کی تھی جہاں کچھ دیر پہلے آفرین گئی تھی۔لیکن اپنے عقب سے آتی آواز پر وہ یکدم مسکرا کر پلٹا تھا۔۔
کین آئے ہیو یور آٹو گراف پلیز۔۔۔؟
عرش تو اسے اپنے اتنا قریب دیکھ کر آس پاس کو بھول چکا تھا۔۔۔
آفرین لانگ پیچ کلر کے سوٹ پہ سائڈ پہ ڈوپٹہ ٹکائے سادی سی جیولری پہنے عرش کا دل دھڑکا گئی تھی۔۔۔
ایکسکیوز می۔۔
آفرین کی آواز اس کو ہوش میں لائی تو اس نے مسکرا کر ڈائری تھامی تھی ۔۔۔
پھر کچھ لکھ کر اس کی جانب بڑھائی ۔۔۔
مائے نیم از آفرین۔اینڈ آئے ایم یور بگیسٹ فین۔۔۔
آفرین نے ہاتھ آگے کی جانب بڑھایا تھا۔۔۔
میں بھی۔۔
خواب سی کیفیت میں اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے بولا۔۔۔
یس۔۔۔
آئی مین۔۔میں بھی اتنی خوبصورت لڑکی جو کہ میری فین ہے اسکا فین ہو چکا ہوں۔۔۔
اس کی تیاری کا بھرپور جائزہ لیتے ہوئے کہا تھا اس نے۔۔۔
عرش کے لہجے میں چھایا محبت کا پیغام اسکی دل کی دنیا ہلا گیا تھا۔۔
فیروز تین تلوار روڈ پہ کھڑا فون پر کسی سے بات کر رہا تھا کہ کسی نے آ کر جھٹکے اسکا رخ اپنی جانب کر کے گریبان تھاما تھا۔۔۔
میری بیٹی کہاں ہے؟
حازم آفس سے واپس جا رہا تھا کہ اس کی نظر دور کھڑے فیروز پہ گئی تھی وہ اسے دیکھتے ہی پہچان گیا تھا تبھی گاڑی کو ایک جانب روکتے اسکے پاس آیا تھا فوراً۔۔۔
فیروز نے بھنونے اچکا کر ایک نظر حازم کو دیکھا اور پھر ایک نظر اس کے ہاتھوں کو جو کہ اسکے گریبان پہ تھے۔۔
واٹس ربش مسٹر حازم۔۔
آپ کو اتنا حق کس نے دیا کہ میرا گریبان تھامیں۔۔
فیروز نے جھٹکا تھا اس کے ہاتھوں کو۔۔۔
اور تمہیں یہ حق کس نے دیا کہ میری بیٹی کو مجھ سے جدا کرو اسکی آنکھوں میں آنسوں لاو۔۔
وہ بھی غصیلے لہجے میں بولے تھے ۔۔۔
ہاہاہاہا۔۔۔یہ حق آپ کی بیٹی نے خود نے میرے نام کیے ہیں۔۔
اب میری مرضی میں اس کے ساتھ جو کروں اس سے آپ کو کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے بہتر ہو گا اپنی بیوی پر توجہ دیں۔۔۔
طنزیہ کہتے آخر میں نفرت سے گویا ہوا تھا وہ جبکہ اس کے آخری جملے پہ حازم کو بھی حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔۔
یو۔۔۔ایڈیٹ بوائے۔۔۔
حازم نے غصے سے کہتے ہوئے ایک مکہ اسکے چہرے پہ رسید کیا تھا۔۔۔ایک ، دو ،تین ایسے ہی کئی مکوں کی برسات وہ اس پر کر چکا تھا۔۔۔
فیروز کی آنکھوں میں یکدم خون اترا تھا لب بھینچ گیا تھا وہ لیکن پھر چہرے پر سے خون صاف کرتا مسکرا کر سکون سے گویا ہوا ۔۔۔
ماریں اور ماریں پر یہ یاد رکھ لیجئے گا کہ اس کا خمیازہ آپ کی بیٹی بھگتے گی۔۔۔
اور یہاں پر حازم کے بڑتے ہاتھ تھمے تھے۔۔۔
یو۔۔۔اگر میری بیٹی کو کچھ ہوا تو تم زندہ نہیں بچو گے۔۔۔
انگلی اٹھا کر وارن کرتا اسے چھوڑ گیا تھا۔۔۔
اگر زندہ میں نہیں رہوں گا تو آپکی بیٹی بھی زندہ نہیں رہے گی۔۔۔۔
فیروز نے حازم کا بڑتا ہاتھ تھاما تھا اب جو کہ اسکو مارنے کے لئے بڑھ رہا تھا۔۔
اب یہ غلطی دوبارا نہ کرنا ورنہ اپنے پیروں پہ جانے کے قابل نہیں رہیں گے۔۔
پیچھے کی جانب دھکا دیا تھا اسکو اور وہاں سے رش ڈرائیونگ کرتا نکلتا سیدھا گھر پہنچا تھا۔۔
محبت کا غم ہے ملے جتنا کم ہے
یہ تو زمانہ نہیں جان پائے گا۔۔
فیروز ہال میں بیٹھی خوشی اور آفرین کو اگنور کرتا کمرے میں آیا تھا ، اور غصے سے اٹھا کر اپنا کوٹ صوفے میں پھینکا تھا تبھی اس کی نظر کمرے کی بالکونی میں کھڑی مہر پہ گئی تھی جو کہ اپنے ہی خیالوں میں کھوئی ناجانے کیا سوچ رہی تھی۔اسکو دیکھتے ہی اسے حازم ذہن میں آیا تھا۔۔
مہر۔۔۔۔
ادھر آو۔۔۔
چیخ کر پکارا تھا اسکو۔۔۔
ج۔۔۔جی۔۔۔ مقابل کے سنجیدگی اور دھاڑ کے کہنے پر وہ کانپتی ٹانگوں سے اس تک گئی تھی۔۔۔۔
تمہیں میں نے کیا کہا تھا۔۔۔
ک۔۔۔کیا ک۔۔کہا ت۔۔تھا؟؟؟
اس نے نا سمجھی سے اس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
میں نے کہا تھا کہ تم مجھے اس روم کے آس پاس نظر نہ آو۔۔ پھر تمہاری ہمت کیسے ہوئی آنے کی۔۔۔
مقابل نے بازوں سے اس کو اپنی جانب کھینچا تھا جس سے سیدھا وہ اس سے ٹکرائی تھی۔۔۔
دھڑکنے دونوں کی تیز رفتار میں دھڑک رہی تھیں ۔۔ایک کی خوف سے تو دوسرے کی غصے سے۔۔۔
جب جب وہ اس کے سامنے آتی وہ بے بس سا ہو جاتا تھا ۔۔۔
لیکن وہ جان بوجھ کر اس کو تنگ کرتی تھی۔۔
س۔۔۔سور۔۔سوری۔۔۔۔وہ آ۔۔آنٹی نے روم کی ص۔۔صفائی کرنی ت۔۔تھی تو۔۔۔۔
وہ آنکھوں کو بند کیے آرام سے بولی تھی۔۔۔
بہت شوق ہے نہ تمہیں مجھے تنگ کرنے کا۔۔ ، میری بات کی نفی کرنا تمہارا پیشہ بن چکا ہے۔۔؟؟
اس کی آنکھوں پر باری باری اپنے لب رکھے تھے جبکہ وہ ساکت ہوئی تھی مقابل کی اس جرت پر۔۔
اب کبھی پریشان نہیں کرو گی تم!!!!
گھمبیر آواز میں کہتا وہ باقی کا فاصلہ بھی مٹانے کو تھا کہ مہر نے کانپتے ہاتھوں سے اسے دھکا دیا تھا اور بھاگنے لگی تھی جس سے اس نے اسکے ہاتھوں کو تھام کر ناکام بنایا تھا۔۔
جانتی ہو یہ کس نے کیا؟
اپنے گال پہ بنے نیل کی جانب اشارہ کرتے بولا۔۔۔
نہیں۔۔۔نفی میں سر ہلاتے بولی تھی ۔۔۔
تمہارے باپ نے۔۔
اس کے چٹیا میں مقید بالوں کو اپنے ہاتھوں کی اہنی گرفت میں لے کر کہا تھا اس نے۔۔مہر نے بھی اس کے کالے بالوں کو کھینچا تھا غصے میں وہ خود بھی نہیں جانتی تھی وہ کیا گزری ہے۔۔۔
میرے بال ۔۔ا۔۔اتنے سستے نہیں جنہیں آپ آئے روز کھینچتے رہیں۔۔
ضبط سے گویا ہوئی تھی وہ جبکہ فیروز کی گرفت اس کے بالوں پہ کم ہوئی تھی اسکی اس جرت پہ۔۔۔
پھر یکدم ماتھوں پہ بلوں کا جال بچھا تھا۔۔۔
مہر کے ہاتھ سے اپنے بال چھڑواتا، اسے موڑ کر پیچھے کمر سے لگایا تھا۔۔۔
جاہل لڑکی۔۔۔شرم نہیں آتی شوہر سے بدتمیزی کرتے ہوئے۔۔۔
ت۔۔تو شوہر کو بھی شرم آ۔۔آنی چاہیے۔۔۔
درد کی شدت برداشت کرتے وہ اٹک اٹک کر بولی تھی۔۔۔
میں عمر اور رتبے دونوں میں بڑا ہوں تم سے۔۔۔
وہ غرا کر اسکے کان کے پاس جھکتے بولا کہ اس کی سانسیں اس کی کال اور گال کو چھو رہی تھیں۔۔
میرا جو صنم ہے
زرہ بے رحم ہے
دے کہ مجھے وہ درد مسکرائے گا۔۔۔
ت۔۔تو ب۔۔بڑے ہونے کا نا جائز فائدہ اٹھائیں گے۔۔۔؟
ن۔۔نہیں نا جائز نہیں بیگم جائز۔۔۔
اسکی گہری کانچ سی آنکھوں میں اپنی بھوری آنکھیں گاڑے بولا۔۔۔
دل کو ایسے دل بر پہ بھی ناز ہوتا ہے۔۔۔
کسی اے تم پیار کرو
تو پھر اظہار کرو۔۔
کہیں نا پھر دیر ہو جائے۔۔۔
کہیں نہ پھر دیر ہو جائے۔۔۔
میری زندگی میرا کریئر سب برباد کیا ہے آپ نے صرف اپنے اس سو کالڈ بدلے کے پیچھے اور ستم تو یہ ہے کہ میں یہ بھی نہیں جانتی آپ بدلہ کس چیز کا لے رہے۔۔۔ایسا کون سا راز چھپا ہے آپ کے دل میں جس کی تسکین کے لئے روز مجھے سزا دیتے ہیں۔۔
آنکھوں میں آنسوں لیے وہ اس ستمگر سے سوال کر گئی تھی۔۔جو کہ بے حس بنا کھڑا تھا۔۔۔
جاننا چاہتی ہو ۔۔وجہ ۔۔
جاننا چاہتی ہو تو سنو۔۔۔
تمہارے باپ نے میری آئڈیل پھوپھو کو ہم سے دور کیا۔ ان کی خوشیاں سب کچھ چھین لیا ان سے۔۔کچھ نہیں بچا تھا ان کے پاس ، وہ ہمیں ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر چلی گئیں۔۔میرے دادا دادی ، پاپا ہم سب ان کی یاد میں پل پل تڑپے ہیں۔۔ان کی یاد میں راتوں کو جاگ کر روتے دیکھا ہے اپنی دادی کو ۔
اس کے چہرے کو ایک جھٹکے سے چھوڑا تھا فیروز نے اور نظریں سامنے شیشے کی جانب مرکوز کرتے ، تلخی سے کہا تھا ۔۔
م۔۔میں نہیں مانتی یہ سب۔۔۔
م۔۔میرے پاپا ایسا کر ہی نہیں سکتے ہیں۔۔۔
وہ مسلسل اپنے سر کو نفی میں ہلاتے ہوئے بولی تھی۔۔
تم مانو یا نہ مانو مگر حقیقت یہی ہے تمہارا باپ نہایت ہی گھٹیا اور خود غرض انسان۔۔۔۔۔۔۔۔
چپ۔۔چپ۔م ۔۔میرے پاپا ایسے نہیں ہیں۔۔۔
وہ دونوں ہاتھ کانوں پہ رکھے پیچھے کی جانب جاتے ہوئے بولی تھی۔۔
جبکہ فیروز ایک نظر اسے دیکھنے کے بعد خاموشی سے بنا اسے کچھ کہے فریش ہونے جا چکا تھا۔
تھوڑی دیر میں جب وہ فریش ہو کر باہر آیا تو وہ روم میں کہیں نہیں تھی شائد اپنے روم میں جا چکی تھی۔۔۔ایک سرد آ خارج کیے وہ بالوں کو اچھی طرح تولیے سے رگڑنے لگا تھا ۔۔پھر تولیہ ایک جانب رکھے کچھ لمحے سکون کی غرض سے سونے کے لئے بستر پہ ڈھے گیا تھا۔۔
ض۔۔۔ضامن۔۔۔ضامن۔۔۔
ضامن سیو۔۔می۔۔۔م۔۔میں مرنا نہیں چاہتی۔۔۔
ض۔۔۔ضامن۔۔۔۔۔۔
ہیر۔۔۔اس کی آنکھیں یکدم کھلی تھیں آس پاس دیکھا تو وہ اپنے اسٹڈی روم میں موجود تھا سامنے رکھی ٹیبل پہ لیپ ٹاپ رکھا ہوا تھا یقیناً کام کرتے کرتے اسکی آنکھ لگ چکی تھی۔۔
دلی کیفیت اچاٹ سی ہوئی تھی طبعیت پر گھبراہٹ طاری ہونا شروع ہو چکی تھی۔۔گھڑی میں وقت دیکھا جو کہ تین کا ہندسہ بجا رہی تھی۔۔پھر پاس رکھی اپنی جیکٹ پہنی سیگریٹ اور چابی اٹھا کر باہر کی جانب ہو لیا۔۔۔
اندھیری رات میں جہاں ہر چرند پرند بشر اپنے گھروں میں سکون کی نیند فرما رہے تھے وہیں ضامن اسی رات کے سائے میں اپنی گاڑی کو لے کر نا معلوم سفر پہ نکل چکا تھا۔۔
ابھی اس نے کچھ ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ کوئی لڑکی اچانک اس کی گاڑی سے ٹکرائی تھی۔۔۔ہاتھوں میں جلے سیگریٹ کو پھینکے وہ باہر نکلا تھا۔۔۔
سی۔۔۔سیو می۔۔۔پلیز
ہیلپ م۔۔می۔۔۔
وہ لڑکی پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ اٹک اٹک کر گویا ہوئی۔۔
©©©
آفس سے چھٹی کرنے کے بعد جب دعا گھر جا رہی تھی تو راستے میں اسکی نظر ایک لڑکی پہ گئی تھی جسے وہاں کے آوارہ لڑکے چھیڑ رہے تھے۔۔
یہ کیا بدتمیزی ہے چھوڑو لڑکی کو...
غصیلی نظروں سے ان لڑکوں کو دیکھ کر بولی تھی وہ۔۔۔
ارے واہ ! ایک اور شکار خود چل کر آیا ہے لگتا ہے آج قسمت کچھ زیادہ ہی مہربان ہے۔۔۔
پہلے لڑکے نے قہقہہ لگاتے ہوئے اپنے ساتھی سے کہا تھا۔۔
یو(گالی)....کہتے ہی دعا نے ہاتھ میں موجود پرس گھوما کر ایک لڑکے کے چہرے پر مارا تھا۔۔پھر لڑکی کو اشارہ کیا جس نے چپل اتاری۔۔اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دونوں نے مل کر ان کی درگت بنا رہی تھیں جبکہ آس پاس لوگ جمع ہونا شروع ہو گئے تھے جو کہ پہلے لڑکوں کی حرکت کو اگنور کرتے ہوئے جا رہے تھے۔۔
دعا نے ایک نفرت بھری نظر اس ہجوم پر ڈالی تھی اور پھر ان لڑکوں پر۔۔
©©©
کالج سے آنے کے بعد آفرین نے ڈریس بھی چینج نہیں کیا تھا فوراً بیڈ پہ ڈھہ سی گئی تھی چہرے پہ ایک شرمنگی مسکان سجی ہوئی تھی اور آج ہوئی عرش اور اپنی ملاقات کو سوچنے لگی تھی جب سے وہ ملی تھی اس کے دل کی دھڑکنیں تیز رفتار سے چل رہی تھیں۔۔۔
سنتے ہیں اپنی دھڑکن تیرے تڑپنے میں،
فرق نہیں اب میرے دل کے دھڑکنے میں،
دل کتنا بے کرار سا ہو رہا تھا۔۔یہ وہی جانتی تھی آج کتنی خوش تھی وہ ، عرش کی آنکھوں میں بھی وہی خمار دیکھ کر ، بالکونی سے آتے تیز ہوا کے جھونکے سے اس کے بال اڑ رہے تھے ۔۔یکدم وہ اٹھی تھی بیڈ سے جب یاد عرش کا ڈائری میں دیا گیا آٹوگراف یاد آیا تھا۔۔
جیسے ہی اس نے وہ پیج اوپن کی تھا وہ شاکڈ ہو گئی تھی عرش کے لکھے گئے شعر کو پڑھ کے جس کے نیچے اس نے اپنا دستخط کیا ہوا تھا۔۔
بہت حسیں سہی تیری عقیدتوں کے گلاب
حسین تر ہے مگر ہر گلِ خیال ترا
ہم ایک درد کے رشتے میں منسلک دونوں
تجھے عزیز مرا فن، مجھے جمال ترا
عرش💗
دوسری جانب عرش بھی لان میں بیٹھا اس پری پیکر کے خیالوں میں گم تھا ، آفرین کی جس چیز نے اسے اٹریکٹ کیا تھا وہ تھی اسکی آنکھیں۔۔۔
اسکا کتابی چہرہ جس میں بہت سی باتیں محفوظ تھیں۔۔۔
ایک کشش سی ان دونوں کو ایک دوسرے سے جوڑ رہی تھی۔۔۔
روگ میرا بڑتا جائے کوئی تو سنبھالے نا،
راحتیں ملیں اب ہم کو دل کے دہکنے میں۔۔
©©©
رات کے پہر دعا کی آنکھ آہٹ کی آواز سے کھلی تھی۔وہ یکدم الرٹ ہوئی تھی سرگوشیوں کی آواز پر۔۔۔
اس نے کمفرٹر ہٹایا اور پاوں میں چپل پہن کر دروازے کو ہلکا سا کھول کر دیکھا تو وہی اوباش لڑکے اس کے گھر میں موجود تھے ان کو یہاں پا کر اسکا سانس اٹکا تھا۔۔اسکے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ مصیبت اسکے گلے میں پڑنے والی ہے۔۔
اس نے خاموشی سے جیسے ہی دروازا بند کرنا چاہا تھا ویسے ہی کسی نے جھٹکے سے کھولا تھا دروازے کو اور وہ جو اس عمل کے لئے تیار نہ تھی سیدھا جا کر بیڈ کی سمت میں گری تھی۔۔
کیا ہوا بے بی ہمیں یہاں دیکھ کر اچھا نہیں لگا؟
ایک لڑکا اس کو زمین پر گرا دیکھ کر بولا تھا جس کی آنکھیں ان کے ہاتھ میں موجود چاکو دیکھ کر ہی کھل چکی تھی ۔۔۔
ت۔۔تم لوگ یہاں کیا کر رہے ہو؟ چلے جاو ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔۔
خود میں ہمت جمع کرتے بولی تھی ۔۔۔
ہاہاہاہا! ہمارے ساتھ اچھا نہیں ہو گا یا تمہارے ساتھ ؟ ویسے ٹھیک نہیں کیا ہمیں سب کے سامنے بے عزت کر کے۔۔
پہلے تم نے کیا اب ہماری باری کہتے ہی اس نے قدم اس کی جانب بڑھانے چاہے تھے لیکن حاضر دماغی کے ساتھ دعا نے ٹیبل پہ رکھی تیل کی بوتل کھول کر آہستگی سے زمین پہ پھینکی تھی جس سے آگے بڑتا لڑکا بہت برے طریقے سے سلپ ہوا تھا
موقع کا فائدہ اٹھا کر وہ روم سے تیزی سے نکلی تھی جبکہ غصے کی شدت میں اس لڑکے ہاتھ میں موجود چاکو گھوما کر پھنکا تھا جو دعا کے بازو کو چیرتا آگے نکل گیا ۔۔۔
اس لڑکے کا ساتھی جو فلیٹ کے باہر کھڑا سائد پہرا دے رہا دعا نے اس کی نظروں سے بچ کر نکلنا چاہا تھا۔۔لیکن پہلے لڑکے کی چلاتی آواز پہ اسکی نظر بھاگتی ہوئی دعا پہ پڑ چکی تھی۔۔تبھی وہ دونوں ہی اس کے پیچھے گئے تھے۔۔۔
ہئے۔۔۔اسٹاپ یو ایڈٹ گرل۔۔۔۔
اپنی مخصوص زبان میں کہتے اسکو رک جانے کا کہا تھا مگر وہ ان کی آوازوں کو نظر انداز کرتے بھاگتی چلی جارہی تھی ۔انجان تھی وہ ان راستوں سے جہاں وہ رات کے اس لمحے اپنی عزت بچانے کو بھاگ رہی تھی۔۔
من میں دعائیں کرتی کسی کو مدد کے لئے پکار رہی تھی کہ تبھی سامنے سے ایک گاڑی آتی دیکھائی دی تھی ۔۔۔
س۔۔۔سیو ۔۔سیو می پلیز۔۔ہیلپ می۔۔۔
اکھڑتی سانسوں کے ساتھ بولتی وہ مقابل شخص کے پیچھے چھپ گئی تھی۔۔
جب کہ وہ پیچھے سے آتے لڑکوں کو دیکھ معملہ سمجھ گیا تھا۔۔تبھی دعا کو ایک سائڈ پہ کرتا ان لڑکوں کی جانب بڑا تھا جو اس کو دیکھ کر واپس پلٹ رہے تھے۔۔
وائے یو آر گوئنگ بیگ ؟؟
ان کو دیکھتا تیش سے دھاڑا تھا وہ آنکھیں یکدم سرخ ہوئی تھی اسکی ، سانسیں تیز رفتار سے چل رہی تھیں۔۔یہ منظر اسے کئی سال پہلے لے گیا تھا۔۔اس بارے میں سوچتے اس نے مٹھیاں بھینچی تھیں۔۔سینے میں ایک آگ سی بھڑکی تھی۔۔۔
خود کے غصے پہ کنٹرول کرتا اب وہ دعا کی طرف پلٹا تھا۔۔
مس دعا رات کے اس پہر آپ یوں سڑکوں پہ کیا کر رہی تھیں۔۔؟؟
اس کے دائیں بازو کو غصے کی شدت سے جھنجھوڑ کر کہا تھا ضامن نے کہ یکدم درد سے اسکی سسکی نکلی تھی ۔۔
ضامن نے جب اپنے ہاتھ میں نمی محسوس کی تو ہاتھ کو دیکھا تھا جہاں دعا کے بازو سے خود رس کر اس کے ہاتھ کو بھگو رہا تھا جبکہ وہ بہادر آج اس کے سامنے خاموش آنسوں بہا رہی تھی۔۔۔
دعا۔۔۔۔
پکار پہ دعا نے روئی روئی آنکھوں سے اسکی جانب دیکھا تھا جو کہ رونے کے باعث لال سرخ ہو رہی تھیں۔۔۔
چلو میرے ساتھ۔۔
ان نظروں سے آنکھیں چراتا وہ کہتا آگے بڑھ چکا تھا جبکہ وہ وہیں اس جگہ پہ اسٹیل کھڑی تھی۔۔۔
مس دعا لیٹس کم وی می۔۔
اب کے اس نے دانت پیستے ہوئے کہا اور اسکا ہاتھ پکڑ کے گاڑی میں بیٹھایا تھا۔۔اور زن سے گاڑی بھگاتا اپنے گھر میں لایا تھا۔۔
©©©
فیروز سائڈ پہ گیا وہاں پر ورکرز کو کام سمجھانے کے بعد ابھی آفس میں آکر بیٹھا ہی تھا کہ گھر کے لینڈ لائن سے فون آیا تھا نجانے کیا کہا گیا کہ وہ سو کی سپیڈ سے بھاگتا ہوا گھر میں داخل ہوا تھا۔۔۔
آپ لوگ سب باہر جائیں مجھے اپنی بیوی سے اکیلے میں بات کرنی ہے؟
ان سب کو باہر نکالتا وہ دروازے کو اندر سے لاک کر چکا تھا پھر قدم بھرتا بیڈ پہ لیٹی مہر کے پاس آیا تھا۔۔۔
کتنے درد لے آئے ہیں ہم تو تیری چوکھٹ سے
اپنے غم چھپا لیں گے ہم جھوٹی مسکراہٹ سے
یہ کیسا مزاق ہے مہر؟
اس کے بائیں ہاتھ پہ بندھی پٹی کو دیکھ کر وہ غصے پہ قابو پاتے بولا تھا۔۔
یہ مزاق نہیں ہے حقیقت ہے۔۔۔میری تلخ زندگی کی حقیقت۔۔۔
مجھے دیکھ کر آپ کو اپنی پھوپھو کے ساتھ ہوئی نا انصافی یاد آتی ہے نا؟
میں نے اس وجہ کو ہی ختم کرنا چاہا تھا مگر شائد یہ زندگی بھی مجھے رسوا کروانا چاہتی ہے۔۔۔
اداس مسکان چہرے پہ سجائے وہ فیروز کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی ۔۔۔
اگر مرنے کا اتنا ہی شوق تھا تو مجھے بولتی نہ جانم میں یہ کام بغوبی انجام دیتا یوں خود اتنی محنت کرنے کی کیا ضرورت تھی۔۔
اسکے پٹی بندھے ہاتھ کو اپنے ہاتھو میں لئے کہا تھا اس نے جبکہ مہر نے درد کو ضبط کیے چہرا پھیرا تھا اپنا۔۔
آنہاں۔۔وائفی یوں نظریں نہ چثراو زرہ ہم بھی تو دیکھیں کتنا ضبط ہے ہماری بیگم میں۔۔۔
اسکی لال آنسوں سے بھری آنکھوں کو اپنی جانب کیا تھا جو کہ درد کی شدت کو برداشت کرنے کے باعث تھیں۔۔۔
دوبارا کبھی اگر ایسا گھناؤنا مزاق کیا تو فیروز شمس سے برا پوری زندگی میں تمہارے لئے کوئی نہیں ہو گا۔۔۔
اسکے جبڑے کو تھام کر چہرا اپنی جانب گھومایا تھا۔۔
آپ سے برا میں نے کوئی دیکھا بھی نہیں ہے۔۔۔
جھیل سی گہری آنکھوں کے ساتھ بہتے آنسوں کے ساتھ بولی تھی۔۔۔
فیروز نے ان آنکھوں میں دیکھا تھا جہاں فلکوت عکس اسی کے چہرے کا تھا۔۔۔
جسے وہ جان کر نظر انداز کر گیا تھا۔۔۔
بھیگی بھیگی پلکوں میں عکس تیرا رہتا ہے
آنکھ سے جھلک جائے تو پیار تیرا بہتا ہے۔۔
مہر جو فیروز سے کسی اپنے پن کے احساس کی امید لگائے بیٹھی تھی لیکن۔ اسکا وہی کاٹ دار لہجہ محسوس کر کے اس کے دل کو کتنی ٹھیس پہنچی تھی۔۔
آ۔۔آپ چھوڑ کیوں نہیں دیتے مجھے کیوں زبردستی کے رشتے میں خود بھی بندھے ہیں اور مجھے بھی باندھا ہے کیوں برباد کر رہے ہیں ہم دونوں کی زندگیاں۔۔
م۔۔میں یوں گھٹ گھٹ کر نہیں جینا چاہتی !!
پلیز مجھے آذاد کر دیں اس قید ہے ۔۔۔
اب کے اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو جوڑا تھا اسکے سامنے جبکہ وہ غصے سے لب بھینچ گیا تھا۔۔پھربنا اس کی حالت کا لحاظ کیے کھینچتے ہوئے اپنے ساتھ دوسرے روم میں لایا تھا۔۔۔
ساتھ ساتھ چلنے والے راہیں کیوں بدلتے ہیں
راہیں جب بدل جائیں تو راستے بھٹکتے ہیں۔۔۔
اپنے شوہر کو شدتِ جذبات سے چاہنے والی ، اسکی وفا شعار بیوی شہرِ خموشاں میں جا بسی ۔۔۔کیوں ؟؟؟ کیوں؟؟؟؟
جانتی ہو؟؟؟
صرف تمہارے باپ کی وجہ سے ، جو کہ میری انمول پھوپھو کی قدر نہ کر پایا ، کسی دوسری عورت کو لا بیٹھایا میری پھوپھو کی ہنستی بستی زندگی برباد کی ہے تمہارے باپ اور ماں نے۔۔۔
کیا وہ عورت نہیں تھی ان کا دل ، ان کے جذبات نہیں تھے؟؟
کیا نہیں تھے ہاں؟؟
وہ چلا کر بول رہا تھا جبکہ مہر ابھی تک سناٹوں کی ضد میں تھی سامنے لگی تصویر کو دیکھ کر۔۔۔
ی۔۔۔یہ آ۔۔آپ کی پ۔۔پھوپھو..؟
وہ حیرت کی زیاتی سے بولی تھی ، اس کو سانس بھی بمشکل آ رہا تھا۔۔۔
ہنہ۔۔جن کی زندگی تباہ و برباد کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی تمہارے باپ نے۔۔
ٹکڑے پڑے تھے راہ میں تصویر کے بہت،
لگتا ھے کوئی دیوانہ سمجھدار ھو گیا۔۔!؟؟
شاک میں تھی وہ سماہرا کی تصویر دیکھ کر ۔۔
اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا یہ سب ہو کیا رہا ہے مطلب یہی تصویر وہ پہلے بھی دیکھ چکی تھی مگر اپنے پاپا کے روم میں ، وہ روم جو کہ اوپر والے پورشن میں اس کے روم کے ساتھ تھا جہاں بچپن میں حازم اس کو اکثر لے جایا کرتا تھا ۔۔
اور کئی وقت اس کے ساتھ کھیل کر گزارتا تھا اسی تصویر کے آگے کھڑا باتیں بھی کیا کرتا تھا مگر مہر کے اس ننھے دماغ میں تب یہ باتیں نہیں بیٹھتی تھیں۔۔
مطلب کچھ کچھ اس کی سمجھ میں آ رہا تھا اور وہ بہت بے چین تھی بات کی تہہ میں جانے کی..
میں ڈھونڈنے کو زمانے میں جب وفا نکلا
پتہ چلا کہ غلط لے کے میں پتہ نکلا
آپ کی پھوپھو میرے پاپا کی فرسٹ وائف ہیں؟
اس کے قدم خود بخود تصویر کی جانب بڑھ رہے تھے جبکہ پیچھے کھڑے فیروز کے پاوں تلے زمین کھینچ لی تھی کسی نے جب اس کی نظر مہر کی گردن پہ بنے چاند کے نشان پہ گئی تھی۔بال ڈھیلے جوڑے مقید ہونے کے باعث وہ صاف واضح ہو رہا تھا۔۔
ی۔۔یہ تمہارا برتھ مارک ہے؟
تصویر میں کھوئی مہرالنسا کو رخ جھٹکے سے اپنی جانب موڑا تھا کہ وہ سیدھا اسکے کشادہ سینے سی آں ٹکرائی تھی۔۔
ک۔۔کیا؟ وہ نا سمجھی سے اسکی جانب دیکھتے بولی ۔۔
یہ جو گردن پہ نشان ہے کیا برتھ مارک ہے؟ وہ اپنے ہواس پہ قابو پاتا بولا تھا اور دل میں شدت سے ایک دعا اٹھی تھی کہ جواب نہ میں ہو مگر مہر کے ایک یک لفظی جواب نے اس کی انا ، اسکے غرور سب کو نیست کر دیا تھا۔۔۔
جی ہاں۔۔یہ میرا برتھ مارک ہے اور پوری فیملی میں سے صرف یہ میرے پاس ہی ہے۔
اس کے اس جملے نے فیروز شمس کو کہاں سے کہاں لا کر کھڑا کر دیا تھا۔
وہ اسکا ہاتھ چھوڑ کر باہر نکلتا چلا گیا تھا۔جبکہ۔اس کے گھر سے جانے کے بعد وہاں سے ایک اور وجود نکلا تھا۔۔
جس کے آنے سے مکمل ہو گئی تھی زندگی
دسخطیں خوشیوں نے دیں تھیں مٹ گئی تھی ہر کمی۔۔
©©©
ضامن دعا کو گیسٹ روم میں لایا تھا جبکہ وہ گھبراہٹ کے مارے اپنی انگلیاں چٹخنے میں مصروف تھی۔
مس دعا یہاں بیٹھیں:"صوفے پہ بیٹھنے کا کہتا خود بھی تھوڑا سا فاصلہ بنا کر وہ بھی وہیں بیٹھ گیا تھا اور اسکا ہاتھ تھام کر ڈرسینگ کرنے لگا تھا۔۔۔
سس۔۔۔۔جیسے ہی ڈیٹول لگی روئی نے چھوا تھا دعا کے ہاتھوں ایک سسکی اسکے چہرے سے نکلی تھی۔۔
بی ریلیکس دعا۔۔۔
آرام سے زخم کو صاف کرتا وہ اسے مخاطب کر گیا تھا جس کی آنکھوں میں درد کے باعث آنسوں امڈ آئے تھے۔۔
دعا نے انجانے میں ضامن کے چہرے کو دیکھا تھا جہاں ہمیشہ غصہ اور سنجیدگی رہتی تھی مگر آج اس کے چہرے پہ اطمینان تھا ۔۔
وہ کافی خوبصورت تھا لمبا چہرا ، تیکھی ناک ، پوائنٹڈ آئز ، جن میں ہر لمحہ کسی کا عکس دیکھتا تھا اسے، بھورے سلکی بال جنہیں وہ ترتیب سے سیٹ رکھتا تھا۔۔
ڈریسنگ کرنے کے بعد کاٹن کو ڈسٹبین میں پھینکا تھا پھر اوپر اپنے کمرے میں گیا وہاں سے جیسے وارڈ روب اوپن کی تھی ہیر کے تمام کپڑے ترتیب سے ایک جانب رکھے ہوئے تھے جسے دیکھ کر ایک سرد خارج کی تھی ۔۔
ڈھونڈتا تھا اس پل میں دل جسے یہ سو دفع
ہے سہانا راز اس بن روٹھی شامیں دن خفا
ہیر کا ایک ڈریس نکال کر وہ نیچے بیٹھی دعا کو دے آیا تھا ۔جسے زیب تن کر کے ابھی وہ بیٹھی ہی تھی کہ دروازہ ناک ہوا تھا۔۔ڈوپٹہ ترتیب سے لیتی اس نے دروازہ کھولا تو باہر ضامن ہی موجود تھا۔۔
جی؟
وہ یہ کہنا تھا کہ صبح آفس آپ اپنے ٹائم پر پہنچ جائے گا۔۔
دعا کو وہ ہیر کے لباس میں دیکھنا چاہتا تھا تبھی دروازہ ناک تو کر لیا تھا مگر جب کچھ سمجھ نہ آیا تھا یہی کہہ گیا۔۔
جی سر ۔۔ وہ سر جھکائے کہتی واپس دروازہ بند کر چکی تھی جبکہ وہ اوپر روم میں چلا آیا تھا۔۔
©©©
فیروز نے اپنے پی اے کو فون پر کبھ کہا تھا اور اسکے جواب کا بے صبری سے انتظار کرنے لگا تھا ۔۔آفس میں کھڑا وہ ادھر سے چکر کاٹ رہا تھا دل تھا جو بیچین ہوئے جا رہا تھا۔۔دل میں یہ ہی خیال آ رہا تھا کہ اگر مہر حقیقت میں ہی سماہرا کی بیٹی ہوئی تو وہ اپنے گھر والوں کو منہ دکھائے گا۔۔
اس معصوم کو کیسے بتائے گا کہ اسی ہی کی ماں کے لئے وہ اس سے بدلہ لے رہا تھا۔۔
سوچوں کے محور سے باہر لا پٹخا تھا فون کی اس کال نے۔۔۔
سر۔۔آپ کا شک صحیح ہے۔۔
مہرالنسا ! میم سماہرا ہی کی بیٹی ہیں جنہیں اپنی دوسری وائف کے کہنے پر انہوں نے دنیا والوں کے لئے مار دیا تھا ۔۔مگر درحقیقت وہ بیٹی اپنی سیکنڈ وائف کو دی تھی ان نے۔۔اور برتھ سرٹیفکیٹ پہ ان کی ایج کم کروائی گئی ہے حقیقت تو یہ ہے کہ مہرالنسا میم سماہرا اور حازم کی بیٹی ہیں اور سندل روباب اور حازم کی۔۔۔۔
پی اے کی اس افورمینشن نے اس کا رہا سہا سکون بھی غارت کر دیا تھا۔۔۔
ی۔۔یہ میں نے کیا کر دیا ۔۔۔شٹ
ایک زوردار پنچ اس نے کانچ کے ٹیبل پہ مارا تھا۔۔۔
نہیں۔۔چھوڑوں گا حازم تمہیں۔۔۔
تمہاری وجہ سے ایک اور خسارہ آیا ہے ہماری زندگی میں۔۔۔۔
اس کی آنکھوں میں ایک وحشت ایک غصہ چھایا تھا اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ سب کچھ تہس نہس کر دے۔۔۔
کیوں بے وجہ دی یہ سزا کیوں خواب دیکھے وہ لے گیا۔۔
جیے جو ہم لگے ستم عذاب وہ ایسے دے گیا۔۔۔
©©©©©
کڑی دھوپ کی مسافر وہ لڑکی جس نے اپنے شوہر کو ہرجائی پایا۔۔۔۔۔۔
اسکی زندگی کا پہلا رخ جس میں اسے صرف دکھ ، دھوکہ ، غم ،تکلیف ملا ۔۔۔
وفا کی امید لگائی بیٹھی اس مسافر کو۔۔ لا کھڑا کیا تھا تپتی دھوپ کے صحر میں لیکن پھر۔۔۔۔۔۔۔
حازم نے جیسے ہی وہ بک کی مین لائینز پڑھی تھیں دل بے تاب سے ہوا تھا اس کتاب کو مزید پڑھنے کے لئے۔
رائٹر کا نام دیکھنا چاہا تو وہاں لکھا گیا تھا"گمنام"
یہ کیسی لکھاری ہیں جن نے اپنا نام بھی نہیں لکھا۔۔
ایک کسٹمر جو شائد خود بھی کتاب خریدنے آیا تھا رائٹر کا نام نہ لکھے ہونے کے باعث مزاق اڑاتے ہوئے بولا تھا۔۔
اسکی بات پر ایک نظر دیکھا تھا حازم نے اسے پھر بک کو لیتا نکلتا چلا گیا تھا وہاں شاپ سے اور سیدھا رخ اپنے آفس کے وی آئی پی روم میں کیا تھا۔۔
جس میں ایک مکمل تصویر لگائی تھی اپنی اجڑی فیملی کی ۔۔۔
بیچ میں مہر ، اور سائڈ پہ سماہرا اور حازم۔۔۔
یہ تصویر اس نے اسپیشل ایڈٹ کروائی تھی۔۔۔
اس تصویر کو اس کے علاوہ کسی نے نہیں دیکھا تھا۔۔کیونکہ شادی کے بعد روباب نے آفس کا رخ کبھی نہ کیا تھا۔۔
کڑی دھوپ کے مسافر اس شخص کو
کوئی ہمسفر شناسا سا مل گیا۔۔
سارہٓ
اس کتاب کے پہلے صفحے پر یہ شعر تحریر کیا گیا تھا اس ایک شعر پہ پوری کہانی کا مرکز تھا۔۔یہ کتاب جو ہار کر جیتنے والی لڑکی کی داستان تھی۔۔
یہ کتاب جو چھا گئی تھی آتے ہی ۔۔۔اس کتاب نے لوگوں کو اپنے ساتھ ایک بندھن میں جکڑ لیا تھا۔۔۔
کتاب کے ہر لفظ کو پڑھتے حازم نے شدت سے ان کو محسوس کیا تھا۔۔
اس کتاب میں موجود وہ لڑکی کا لیڈ کردار جس کا نام عروشہ تھا ، اس کو جیلس کروانے پر مجبور ہو چکی تھی جب شوہر کے بے وفائی پر اس لڑکی کا ہاتھ صائم نے تھاما تھا آخری صفحے کو بھی پڑھتے وہ کتاب بند کر چکا تھا۔۔
۔۔شام سے رات ہو چکی تھی اسے یہ کتاب پڑھتے پڑھتے وقت کا انداذہ نہ ہوا تھا اسے۔۔۔
اب شدت سے وہ منتظر تھا اس کے دوسرے حصے کا۔۔۔
©©©
وہ آئیں نہ لے جائے نہ ہاں اسکی یادیں ہے جو یہاں
نہ راستہ نہ کچھ پتہ میں اسکو ڈھونڈو گا اب کہاں
فیروز بار میں بیٹھا حرام مشروب خود میں انڈیل رہا تھا۔۔
کچھ لوگوں کی یہی کمزوری ہوتی ہے وہ مشکل وقت میں خدا کی بارگاہ میں جانے کے بجائے اس حرام جام کو خود میں انڈیل کر خوشی یا غم بانٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔
ک۔۔کیا مہر معاف کر دے گی مجھے اس خطا کی؟؟
گلاس کو ایک نظر دیکھتے خود سے سوال کیا تھا اس نے۔۔
ن۔۔نہیں معاف کرے گی وہ مجھے۔۔۔ن۔۔نہیں معاف کرے گی۔۔
کیا ۔۔۔کیا میں نے معاف کیا تھا اسکو؟؟
کیا میں نے۔۔۔میں نے معاف کیا اس کے باپ کو؟؟
تو وہ مجھے کیسے معاف کرے گی۔۔۔
کانچ کے گلاس میں اپنا چہرا دیکھتا وہ کسی پاگل کی مانند خود سے باتیں کر رہا تھا۔۔
م۔۔میں منا لوں گا اسے۔۔۔
وہ مان جائے گی۔۔۔جب اسکو اسکے باپ کی اصلیت بتاوں گا تو وہ صرف مجھ سے پیار کرے گی۔۔۔
اپنے قدموں کو زمین پہ منجمد کرتا باہر کی جانب قدم بڑھائے تھے اس نے اور بہت مشکل سے ڈرائیونگ کرتا گھر تک پہنچا تھا۔۔۔
م۔۔مہر ۔۔۔
م۔۔مہر
وہ گھر پہ نہیں ہے۔۔
اسکو پکارتا وہ روم میں جانے لگا تھا جب خوشی کی آواز سنتا رکا تھا وہ۔۔
کیا بکواس ہے یہ۔۔؟
کہاں ہے وہ؟
وہ چیختے ہوئے بولا تھا کہ ایک پل کو خوشی بھی سہم چکی تھی۔۔
م۔۔مجھے نہیں پتہ وہ آپ کے پیچھے ہی نکلی تھی۔۔
خوف کے مارے اس نے بمشکل ہی آواز نکال کر کہا تھا۔۔
میں ڈھونڈنے جو کبھی جینے کی وجہ نکلا
پتہ چلا کہ غلط لے کے میں پتہ نکلا۔۔۔
وہ لڑکھڑاتے قدموں سے واپس باہر گر گیا اسے ڈھونڈنے کو ۔۔۔
خوشی تو وہیں کھڑی اسکا جنونی انداز دیکھ رہی تھی مہر کے لئے۔۔۔
وہ بے نام سا سڑکوں پہ مارا مارا پھر رہا تھا اسکی تلاش میں ، پھر کسی خیال کے تحت حازم کے گھر کی جانب گاڑی موڑی تھی۔۔۔
ح۔۔حازم۔۔۔باہر نکلو۔۔۔
کہاں چھپایا ہے میری بیوی کو؟
لاونچ میں وہ چلاتے ہوئے داخل ہوا تھا۔۔۔
جبکہ روم میں موجود روباب اور حازم دونوں باہر نکلے تھے اس کے چلانے پر۔۔
یہ کیا بدتمیزی ہے لڑکے۔۔۔
وہ تمہارے پاس تم ہی تو لے کر گئے تھے!!
روباب نے بھی اسی کے انداذ میں کہا تھا۔۔۔
شٹ اپ یو لیڈی۔۔۔
سسر صاحب بتا دیں کہاں چھپا رکھا ہے مہر کو ورنہ آپ۔دونوں کی اصلیت میڈیا میں لانے میں کوئی گریز نہیں کروں گا۔۔۔
شٹ اپ جسٹ شٹ اپ ۔۔۔واٹ یور نون سینس ۔۔۔
کون سی اصلیت ہاں؟؟
روباب بھی چیخ کر گویا ہوئی تھی۔۔۔
وہی اصلیت جو تم دونوں کی ہے۔۔۔اگر میری بیوی صحیح سلامت نہ ہوئی تو زندہ نہیں چھوڑوں گا تم لوگوں کو میں۔۔
غصے سے کہتا وہ جا چکا تھا وہاں۔۔۔
حازم۔۔۔لیٹس گو۔۔
ائم ایم فیلنگ ٹائریڈ۔۔۔
ان کے ہاتھوں کو تھام کر وہ جیسے ہی اندر لے جانے لگی تھیں اپنے ہاتھوں کو جھٹک کر چھڑایا تھا روباب کے ہاتھوں سے۔۔۔
یو سلی وومن۔۔۔
یہاں میری بیٹی کا کچھ علم نہیں اور آپ کو اپنے آرام کی پڑی ہے۔۔
ح۔۔حا۔۔شٹ اپ ۔۔گو اینڈ لیو می۔۔۔
کہتے وہ جا چکے تھے باہر لان میں۔۔۔
©©©
ضامن جب صبح ڈائٹنگ ٹیبل پہ بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا کہ اسکی نظر دروازے سے باہر جاتی دعا پہ پڑی۔۔۔
مس دعا۔۔آپ کہاں جا رہی ہیں؟
ایک نظر اس پہ ٹکا کر کہا تھا جس نے ابھی تک ہیر کا ڈریس پہنا تھا اور اس میں واقعی وہ خوبصورت لگ رہی تھی۔۔
سر آفس۔۔۔اس نے ضامن کی جانب دیکھ ادب سے جواب دیا تھا۔۔
سیریسلی؟
اور وہ بھی مجھے بنا بتائے؟
ناگواری کے تاثرات چہرے پہ جھلکے تھے۔۔
سر کل آپ ہی نے کہا تھا کہ وقت پہ آفس پہنچ جاوں۔۔۔
اف۔۔ مس دعا ۔۔بٹ اب میں کہہ رہا ہوں آج آپ کی آفس کی چھٹی ہے جائیں ریسٹ کریں۔ویسے بھی آپ کا کام ٹائپنگ کا ہے اور ہاتھ تو ویسے ہی آپکا زخمی ہے۔بٹ سر۔۔کچھ کہنا چاہا تھا اسنے مگر وہ اسے بیچ میں ہی ٹوک گیا تھا۔۔
نو آرگیو۔۔۔مس دعا۔۔۔
کہتا اپنی کیز اور بیگ لئے باہر نکل گیا جبکہ دعا سرد خارج کرتی واپس گیسٹ روم میں بند ہو گئی۔۔
جی تو بتائیے کیسی لگی سرپرائز ایپی؟؟
آپ لوگوں کا ریسپونس بہت کم ہوتا جا رہا ہے جو کہ میرے لئے مایوسی کا باعث ہے۔۔اسلئے برائے مہربانی کمنٹ کرکے حوصلہ افزائی تو کر سکتے ہیں۔۔
نیکسٹ اپیپی اچھے ریسپونس پر۔۔۔۔
Shanzay Butt
فیروز مہر کی سچائی تک پہنچ گیا اب مہر کو بھی اپنے باپ کی سچائی پتہ چل جانا چاہئے اور سماہرا کو بھی اسکی بیٹی مل جانی چاہئے گمنام رائٹر سماہرا ہی ہے جو اپنی داستان زندگی بیان کر رہی سلمان کے بے پناہ پیار عزت اور تحفظ کے باوجود وہ حود میں کمی محسوس کرتی …
تنہائیوں کے درد سے وہ خوب واقف تھا فراز،
پھر بھی دنیا میں مجھے تنہا بنایا اس نے۔
دعا پریشانی سی لان میں بیٹھی اپنے خیالوں میں گم تھی ، ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی وہ ضامن کے ساتھ فلیٹ پر گئی تھی مگر اونر نے اسی وقت دعا کو فلیٹ خالی کرنے کا حکم دیا تھا۔
آپ مجھے تھوڑا سا ٹائم مزید دے دیں ، میں اس وقت کہاں جاؤنگی؟
پریشانی سے کہتی وہ اپنے سامان کو دیکھنے لگی تھی جو کہ کسی کوڑے کی ماند دروازے پہ رکھا گیا تھا۔۔
یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے ہم بہت ٹائم دے چکے ہیں اب آپ جائیے۔کل یہاں نیو فیملی نے آنا ہے۔۔
تقریباً ایک مہینہ پہلے ہی اونر نے اس کو خالی کرنے کا کہہ دیا تھا مگر ابھی تک اسے کوئی نیا فلیٹ یا گھر رہائش کے لئے نہیں مل پایا تھا۔
فکر مند سی وہ اپنا سامان اٹھائے واپس باہر آئی تھی جہاں ضامن ابھی تک گاڑی میں بیٹھا فون استعمال کر رہا تھا۔
کیا ہوا؟
اسکو واپس آتا دیکھ ضامن نے حیرت سے پوچھا تھا۔
جس پر وہ تمام روادار اس کے گوشے گوار گزار چکی تھی
او۔۔۔اب کیا کرنا ہے؟
جانچتی نظروں سے اسکے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لیا تھا۔۔
و۔۔وہ آپ مجھے فل الحال کسی ہوٹل میں چھوڑ دیں۔۔انگلیاں چٹخاتے وہ نظریں جھکائے بولی تھی۔
ہممم۔۔
کچھ سوچ کر اثبات میں سر ہلایا تھا، پچس منٹ کی مسافت کے بعد جیسے ہی گاڑی ضامن کے گھر کے پاس رکی تھی دعا نے حیرانی سے دیکھا تھا اسے۔۔
سر۔۔یہ ۔۔۔
شٹ اپ مس دعا ، بحس نہیں اندر آئیں بس۔۔
روانی سے کہتا وہ اندر چلے گیا اور سامان لے جا کر گیسٹ روم میں رکھا۔
وہ بھی من من قدم اٹھاتے اندر داخل ہوئی۔
®®®
فیروز نے ہر جگہ معلوم کروایا یہاں تک کہ اپنے تمام ریسورسز بھی استعمال کر لئے لیکن مہر کا کچھ پتہ نہ چلا تھا۔۔دوسری جانب حازم کا بھی یہی حال تھا وہ بھی چین سے بیٹھ نہ پایا تھا کیونکہ۔۔اس کا لخت جگر نا معلوم تھا۔۔
دونوں ہی پریشان حال بنے ہوئے تھے،ہسپتال ، مورگ ، پولیس اسٹیشن، ریلوے اسٹیشن ، وغیرہ سب چیک کروا چکے تھے لیکن نتیجہ صفر نکلا تھا۔
©©©
کچھ سال بعد۔۔۔
یہ منظر فیروز شمس کے کمرے کا تھا جہاں پر نیم تاریک اندھیرا چھایا ہوا تھا پورے کمرے میں پھیلی سیگریٹ کی سمیل ماحول کو عجیب طرز بخش رہی تھی کہ کسی عام بندے کا وہاں بیٹھنا محال ہو جاتا جبکہ وہ صوفے پر بے ترتیب حلیہ کھلی شرٹ ، بکھرے بالوں کے ساتھ سوچوں کے محور میں کھویا تھا ، اسکی سوچوں کا مرکز صرف مہر النساء تھی جس کا علم اسے ابھی تک نہ ہوا تھا۔۔
دل میں آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے ، آج سے کچھ سال پہلے بھی یہ شعلے بھڑکتے تھے بدلے کی آگ میں ، کسی کو اس کے انجام تک پہنچانے کے لئے مگر آج یہی آگ کسی کی یاد ، کسی کے ہجر کی وجہ سے تھی۔۔۔۔
ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم
کہ تو نہیں تھا تیرے ساتھ ایک دنیا تھی
ایسی تاریکیاں آنکھوں میں بسی ہیں فراز
رات تو رات ہے ہم دن کو جلاتے ہیں چراغ
مہر گڑیا چلو جلدی سے تیار ہو جاو ہمیں نکلنا ہے تھوڑی دیر میں۔
کدھر جانا ہے آنٹی؟
مہر نے حیرانی سے پوچھا تھا۔
آنہاں۔۔پہلے بھی کہا تھا آنٹی نہیں۔مما بلایا کرو ، عرش کی طرح عزیز ہو مجھے تم۔۔
آج بھی وہ دن یاد ہے جب تم نے ہوش میں آنے کے بعد آنکھیں کھولیں تھیں تو
پہلا لفظ مما پکارا تھا، "کتنا اپنے پن کا احساس دلایا تھا تمہارے اس لفظ نے۔
اسلئے میں چاہوں گی کہ آنٹی نہیں تم مجھے مما ہی کہو۔بہت خوبصورت لگتا ہے یہ لفظ تمہارے منہ سے۔۔
اس کے چہرے کو محبت سے ہاتھوں کے پیالے میں بھرا تھا ان۔۔
اسلئے چلو اب جلدی سے تیار ہو جاو تمہارے بھائی کا رشتہ دیکھنے جا رہے ہیں ۔۔
مسکرا کر کہتی وہ خود بھی تیار ہونے چلی گئی تھیں جبکہ مہر کے چہرے پر بہت مطمئن سی مسکان تھی۔۔
تھوڑی دیر میں ہی سلمان مینشن سے گاڑی نکل کر اپنی منزل کی جانب گامزن ہوئی تھی۔
©©©
حازم اسٹڈی روم میں بیٹھا لیپ ٹاپ پر کچھ میل چیک کر رہا تھا نجانے کیا سوجی کہ کوڈ ڈال کر آفس کے سی سی ٹی وی فوٹیج اون کر کے چیک کرنے لگا ،
سکرول کرتے کرتے ایک جگہ اس کے ہاتھ تھمے تھے جب اس نے اپنے آفس کے پرائیویٹ روم کی وڈیو پلے کی تھی اور جیسے جیسے وہ دیکھتا گیا اس کی آنکھیں لال سرخ ہونا شروع ہو چکی تھیں ،غصے سے رگیں تن سی گئی تھی۔۔
کیا دیکھ رہے ہیں حازم۔۔
روباب نے پیچھے سے آکر ان کے گلے کے گرد بازو حائل کیے اپنے تشنگہ لب ان کے کندھے پہ رکھے تھے ۔۔
حازم نے جلدی سے لیہ ٹاپ کا رخ بدلہ تھا اور پھر روباب کے ہاتھوں کو سر کے پیچھے سے گھما کر اپنے سامنے رکھی ٹیبل پر بیٹھایا تھا۔
کچھ خاص نہیں۔۔
بس دیکھ رہا ہوں کہ میری بیوی مجھ سے کتنی محبت کرتی ہے۔۔
ماتھے پر بکھری زلفوں کو کان کے پیچھے اڑسا تھا ، روباب نے با ساختہ حازم کے چہرے کو دیکھ مسکراتے ہوئے نظریں جھکائے تھیں ۔۔
میری بیوی مجھ سے اتنی محبت کرتی ہے کہ اس نے ، اپنی عزت تک کی پروا نہیں کی ، اپنا آپ سجا کر تھالی میں پیش کیا۔۔
پہلے کافی میں نشا ملایا ، پھر اپنی عزت کو خود مجھ پر لٹا کر ، مجھے ہی ظالم ٹھہرا دیا۔۔۔
واہ روباب واہ۔۔۔
وہ ہاتھ جو کچھ دیر پہلے ان کی زولفوں کو سنوار رہے تھے ، اب اسی سے ان کے بالوں کو اپنی سخت گرفت میں جکڑا تھا حازم نے کہ درد سے روباب بلبلا اٹھی تھیں۔۔
ح۔۔۔حاز لیو می۔۔۔ان کے ہاتھوں پر اپنا ہاتھ رکھے ہٹانا چاہا تھا کہ گرفت مزید سخت ہوئی کہ وہ صرف کرا کر رہ گئیں۔۔
ی۔۔۔یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ م۔۔میں نے ایسا کب کیا؟
ان کی آنکھوں میں دیکھتے اپنی حیرت کو چھپانا چاہا تھا۔۔
جھوٹ کیوں بول رہی ہو؟ اپنی غلطی مان کیوں نہیں لیتی ...
م۔۔میں سچ بول رہی ہوں، میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔۔
بہتی آنکھوں سمیت انہوں نے دبی آواز میں چیخ کر کہا تھا۔۔
اوو۔۔سیریسلی!!!
تو پھر یہ کہا ہے۔؟؟۔لیپ ٹاپ کے سامنے پھینکا تھا انہیں کے وہ اندھے منہ گری تھی زمین پر اور سامنے سکرین پر چلتی وڈیو کو دیکھ دنگ رہ گئی تھی شرم سے سر جھک گیا تھا ان کا اپنے آپ کو ایسے دیکھ ۔۔۔
کیا ہوا ؟ شرم آ رہی ہے؟
جھٹکے سے انکا رخ اپنی جانب موڑا تھا۔۔
یہ سب کرتے جب شرم نہ آئی تو دیکھنے میں کیوں ہاں۔۔۔
دیکھیں نہ اپنے آپ کو اس بے شرمی کے روپ میں ، آج افسوس ہو رہا ہے خود پر کہ میں نے تم سے محبت کی جس نے بے شرمی کی تمام حدود کو ہی پار کر دیا تھا۔۔
کیا میں پوچھ سکتا ہوں اس بے حیائ کی وجہ ، جس کو کر گزرنے کے لئے آپ نے شادی تک کا انتظار نہ کیا۔۔۔۔
جانتی ہو ،" اسی گناہ کی وجہ سے اتنے سالوں سے میں اپنے آپ کو گناہ گار سمجھتا رہا تھا ، مجھے لگتا تھا کہ میں نے غلط کیا تمہارے ساتھ مگر مجھے کیا معلوم غلط کرنے والی ناگن کوئی اور نہیں بلکہ میری وہی نادان محبت ہے۔۔
ح۔۔حازم م۔۔میں م۔۔ح۔۔محبت ک۔۔
شٹ اپ ! روباب یہ لفظ کچھ ججتا نہیں تمہارے منہ پر۔۔
بے شک تم نے کی ہو محبت لیکن تمہاری محبت پاک نہیں ہے روباب ۔۔۔
میری نظر یہ محبت ہی نہیں روباب جس نے تمہیں زنا کرنے پر مجبور کر دیا۔۔۔
وہ افسوس سے کہتے وہ سے نکلنے لگے تھے کہ قدم باہر کھڑے سندل اور راحب
پر گئی جو نجانے کب سے وہیں کھڑے تھے ۔سندل کی آنکھیں آنسوں سے تر تھیں ۔۔
ایک نظر ان دونوں کو دیکھ سندل کے سر پہ ہاتھ رکھے جا چکے تھے وہ۔۔
سندل بھی بنا روباب سے ملے الٹے قدموں سے واپس جا چکی تھی ، دوبارا نہ کبھی آنے کے لئے۔۔۔
جو قربتوں کے نشے تھے وہ اب اترنے لگے
ہوا چلی ہے تو جھونکے اداس کرنے لگے
گئی رتوں کا تعلق بھی جان لیوا تھا
بہت سے پھول نئے موسموں میں مرنے لگے
دروازا کھولے جیسے ہی وہ داخل ہوئے تھے اس روم میں ، سماہرا کی مسکراتی تصویر نے ان کی نظریں اپنی جانب مبذول کروائی تھی۔۔
جس میں وہ لال ہی رنگ کا سوٹ پہنے مسکراتے ہوئے اپنے ہاتھوں کی جانب جھکی ہوئی نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔۔
آج کتنی طویل عرصے کے بعد وہ اس روم میں آئے تھے۔۔
وہ مدتوں کی جدائی کے بعد ہم سے ملا
تو اس طرح سے کہ اب ہم گریز کرنے لگے
غزل میں جیسے ترے خد و خال بول اٹھیں
کہ جس طرح تری تصویر بات کرنے لگے
یہ کیا کیا آپ نے؟؟
وہ حیران پریشان کھڑی اس سے سوال کرتے ہوئے بولی۔۔۔
یار میں نے کون سا شوق سے کیا ہے۔۔؟؟
میری رویل بلو کلر کی شرٹ نہیں مل رہی۔۔
اف۔۔۔وہ تو میں نے چھت پر سکھانے کے لئیے ڈالی ہے آپ انے ایک مرتبہ پوچھ تو لیا ہوتا۔۔۔
آپ ایک مرتبہ مجھ سے پوچھ تو لیتے!!!
میں نے کتنی محنت سے کل الماری سیٹ کی تھی۔۔
اور آگے بڑھ کر کپڑے سمیٹنے لگی تھی۔۔۔
اسے چھوڑو۔۔۔۔
وہ اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولا۔۔
میرا مطلب۔۔ہے کہ اسے بعد میں کرنا پہلے جا کر میری شرٹ لاو ۔۔
سامنے رکھی الماری کو دیکھ کئی سال پہلے بیتا ہوا وقت یاد آیا تھا جسے سوچ وہ مسکرانے لگے تھے لیکن وہ مسکان صرف ایک لمحے کے لئے تھی ۔۔
بہت دنوں سے وہ گمبھیر خامشی ہے فرازؔ
کہ لوگ اپنے خیالوں سے آپ ڈرنے لگے
کمرے کی ویرانی نے انہیں دوبارا لب بھینچے پر مجبور کر دیا تھا وہ خاموشی سے بیڈ پر لیٹے تھے آنکھیں موندے۔۔۔
تھوڑا زور سے دباو!! جان نہیں ہے کیا ہاتھوں میں۔۔
تمہیں نا کبھی عقل نہیں آنی ہے۔۔۔یہاں لیٹو میں بتاتا ہوں کیسے دباتے ہیں۔کہنے کو تو ایک سلیقہ شعار لڑکی ہو مگر کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں کر سکتی ۔۔
حازم اٹھ کر بیٹھا اور سماہرا کا سر اپنی گود میں رکھ کر آرام آرام سے اس کے سر کی مالش کرنے لگا۔۔
اس طرح دباتے ہیں۔۔وہ اس کے سر کی فیزیو کرتے ہوئے بولا۔۔جبکہ دوسری طرف سماہرا سر میں سکون ملنے کے باعث نیند کی وادیوں میں کھو چکی تھی۔۔
سماہرا تم میری ہو، یہ میرا خود سے وعدہ ہے کہ تمہیں واپس لے آؤں گا۔۔۔۔
اور سماہرا کے ساتھ بتائے گئے لمحات کو سوچتا حازم خود سے ایک عہد کرتے وہ نیند کی وادیوں میں کھو گیا تھا۔۔
اب یہ تو وقت بتائے گا کیا سماہرا مل پائے گی حازم کو ۔۔۔۔
®®®™
سلمان لوگوں کی گاڑی جیسے ہی داخل ہوئی اس گھر کی پارکنگ میں مہر کے باہر نکلتے قدم لڑکھڑائے تھے۔۔
م۔۔مما ی۔۔یہاں لڑکی دیکھنے آئے ہیں؟
وہ سماہرا کی آنکھوں میں دیکھتے حیرت سے گویا ہوئی تھی اور مہر کے سوال پر انہوں نے اثبات میں سر ہلایا تھا پھر قدم اندر کی جانب بڑھائے جبکہ مہر النساء نے سماہرا کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے رکھا کہ وہ بے ساختہ مسکرا دی ۔۔
وہ گھر کی ہر چیز کو بغور دیکھ رہی تھی جو کہ اتنے سالوں بعد بھی ویسے ہی تھیں بس رنگ میں کچھ ردوبدل کیا گیا تھا ۔
®®®™
پُر کرو جام کہ شاید ہو اسی لحظہ رواں
روک رکھا ہے جو اک تیر قضا نے کب سے
فیضؔ پھر کب کسی مقتل میں کریں گے آباد
لب پہ ویراں ہیں شہیدوں کے فسانے کب سے
سر نیچے کچھ گیسٹ آئے ہیں آپ سے ملنے کا کہہ رہے ملازمہ نے آکر فیروز کو کہا تھا جو کہ کاپی کا کپ تھامے موبائل میں جھکا ہوا تھا۔
اوکے انہیں لاونچ میں بیٹھاؤ میں آتا ہوں ۔
ہنوز اپنے فون کی جانب جھکے اس نے جواب دیا تھا پھر ملازمہ کے جانے کے بعد اٹھ کر شیشے کی جانب آیا تھا اور ایک نظر اپنے بکھرے حلیہ پر ڈالی آنکھوں کے گرد پھیلے سیاہ ہلکے ، گلابی ہونٹ جو کہ مسلسل سگرٹ نوشی کی وجہ سے سیاہ ہو رہے تھے۔
ہوا میں سرد آ خارج کرتا باہر کی جانب بڑھا تھا۔۔
جیسے ہی اس نے لاونچ میں قدم رکھا بھونچکا رہ گیا تھا وہ سماہرا کو دیکھ کر۔ ۔۔
پ۔۔پھوہھو۔۔۔
آپ۔۔۔آپ زندہ۔۔۔۔وہ تقریباً بھاگنے کے انداز میں ان تک آیا تھا جبکہ سماہرا اور سلمان فیروز کے اس ریکشن پر کھڑے ہوئے تھے اور مہر سائڈ پر کھڑی ان تینوں کے چہرے کو دیکھ رہی تھی ۔
پھوپھو آ۔۔آپ نے پہچانا نہیں؟ میں آپکا فیضی۔۔۔
سماہرا کے چہرے پر اجنبیت دیکھ وہ ان کے بازوں کو تھامے خوشی سے بولا تھا ۔۔
چ۔۔۔چھوٹے!!!!!
سماہرا نے حیرت اور خوشی کی سی کیفیت میں فیروز کو دیکھ کر اپنے گلے سے لگایا تھا۔
پھوپھو ہم سب آپ کو۔بہت یاد کرتے تھے ، ہمیں لگا ہم آپ کو کھو چکے ہیں ، دادا دادی تو آپ کو یاد کیے اس دنیا اس کوچ کر گئے اور سامنے ہی رکھے صوفے پر براجمان ہوا تھا جبکہ ان لوگوں کو آپس میں بات کرتا دیکھ مہر اٹھ کر لان میں آ گئی تھی ، کیونکہ فیروز کی نظر ابھی تک مہرالنسا پر نہیں گئی تھی کیونکہ وہ کارنر پر تھی۔۔۔
آسمان میں چمکتے چاند کو دیکھ کر وہ بھی مسکرا دی تھی کیونکہ آج سماہرا مل چکی تھی اپنی فیملی سے ، فیروز اور سماہرا کے چہرے پر جو خوشی تھی اس نے مہر کو بھی مسکرانے پر مجبور کر دیا تھا۔
کافی عرصے بعد آج سب مل چکے تھے یقیناً اب ایک ساتھ رہیں گے بنا غم کے ۔۔
لیکن ایسا صرف اسے لگتا تھا کیونکہ خوشی اور غم کا بہت گہرا رشتہ ہے ، جہاں خوشیاں ہوں وہاں غم کچھ لمحوں کے لئے ہی صحیح لیکن آ ہی جاتے ہیں۔
بھیا بھابھی کیسے ہیں؟
سماہرا کے اس سوال پر جو ماحول میں خاموشی چھائی تھی وہ انہیں بہت کچھ سمجھنے پر مجبور کر گئی تھی۔۔
فیضی۔۔؟؟
وہ دونوں بھی خالقِ حقیقی میں جا سوئے ہیں۔۔
خود پر ضبط کیے وہ لب بھیچے بولا تھا۔۔
آپ اگر حیات تھیں تو ہمیں کبھی پلٹ کر کیوں نہ دیکھا ، کیا ہماری یاد آپ کو کبھی نہیں آئی ،
فیروز کے اس سوال پر سماہرا نے سلمان کی جانب دیکھا تھا۔۔
دل تو بہت چاہتا تھا ملنے کو مگر "٫زندگی اور اس کی تلخیوں نے اتنا خود غرض بنا دیا کہ چاہ کر بھی پلٹ نہ سکی ۔"
ناخنوں کو کھروجتے وہ تلخی سے ہی گویا ہوئی تھیں جبکہ چہرے پر ایک مسکان تھی شائد لہجے میں چھپی اس تلخی کو چھپانا چا رہی تھیں۔
بائے دا وے پھوپھو آپ یہاں شائد کسی کام سے آئی تھیں؟
اپنی نشست سے اٹھ کر اب وہ سماہرا کے ساتھ بیٹھا تھا کہ سلمان نے دونوں کو گھورنے کے انداز میں دیکھا ، سماہرا اپنی ہنسی چھپا گئی تھی جو کہ سلمان کے چہرے کے ریکشن کو دیکھ کر بے ساختہ نکلنے والی تھی۔
ہم یہاں آفرین کا رشتہ ، اپنے بیٹے عرش کے لئے دیکھنے آئے تھے مگر یہاں آ کر کرشمہ ہو گیا کہ وہ آفرین کوئی اور نہیں میری بھتیجی ہے۔
کیا تم ہمیں اس لائق سمجھتے ہو کہ آفرین کو ہمیں دے دو ؟
انہوں نے ایک امید سے فیروز کا ہاتھ تھاما تھا۔۔
پھوپھو یہ کیسی بات کر رہی ہیں آپ آفرین آپکی ہی بیٹی ہے ، بس میں ایک بھائی ہونے کے ناطے عرش سے ملنا چاہوں گا اگر کوئی مسئلہ نہ ہو تو۔۔
نہیں فیضی عرش تو نہیں آیا ہاں البتہ اس کی بہن ضرور آئی ہے۔۔
انہوں نے مسکرا کر کہا تھا۔۔
کہاں ہے مجھے تو نظر نہیں آئی۔۔
اس نے آس پاس نظریں دوڑائیں تھیں ۔۔
شائد وہ باہر چلی گئی ہے میں دیکھتی ہوں ،
ارے نہیں آپ بیٹھیں میں آفرین اور خوشی کو بھی بلاتا ہوں اور آپکی بیٹی سے مل لیتا ہوں۔۔
ملازمہ سے کہتا خوشی اور آفرین کو بلایا تھا جبکہ خود قدم باہر لان کی جانب لیے تھے جہاں اسے کوئی جانا پہچانا سا وجود کھڑا دیکھائی دیا۔۔
ایکسکیوز می۔۔
مہر نے جب اپنے پیچھے فیروز کی آواز سنی تو اس کے۔دل کی دھڑکنیں تیز رفتار میں دوڑی تھیں آنکھوں کو بند کیے ایک گہرا سانس لیا تھا اس نے پھر آرام سے پیچھے جیسے ہی پلٹی تھی مقابل کھڑے فیروز کو اپنی جگہ ساکت کر گئی تھی۔۔
م۔۔۔م۔۔مہر۔۔۔
ایک ہی دن میں دوسرا دھجکا لگا تھا فیروز شمس کو ۔۔۔۔۔
کہاں تھی تم مہر؟
اس نے لمحوں میں فاصلہ طے کیا تھا۔۔
فیروز شمس پل پل تڑپا ہے تمہاری یاد میں۔۔
اس نے مہر کو چہرے کو اپنے ہاتھوں میں بھر کے محبت سے کہا تھا جبکہ وہ اپنے چہرے پہ چپ کا قفل لگائے بیٹھی تھی۔۔
کتنے عرصے بعد وہ آج اسے دیکھ رہا تھا اپنے سامنے ، اسکے دل کو کرار سا آیا تھا۔
وہ چھوٹی سی لڑکی کب سفر طے کرتی اسکے دل میں چھا گئی اسے انداذہ ہی نہ ہوا ۔۔۔
اب تم آ گئی ہو ، میں تمہیں کہیں نہیں جانے دوں گا۔۔۔
تڑپ کر محبت سے بھینچا تھا اس کو خود میں ، کیا کچھ نہیں اس ملن میں محبت، ہجر کی جدائی، تڑپ ، دیوانگی۔۔۔۔۔۔
مہر نے کچھ کہنے کے لئے لب کھولے ہی تھے کہ پیچھے سے آتے کسی بچے کی آواز سن کر وہ لفظ کہیں اندر ہی دب گئے تھے اس نے آواز کی سمت میں دیکھا ۔۔۔
پاپا۔۔
اس چھوٹے بچے نے جیسے ہی پکارا تھا فیروز کو، لان میں کھڑی مہر کے قدم ڈگمگائے تھے بچے کے ساتھ کھڑی خوشی کو دیکھ کر۔۔۔
اس نے حیرانی اور غم کی ملی جلی کیفیت میں فیروز کی جانب دیکھا تھا۔۔
مبارک ہو۔۔زندگی میں کافی آگے بڑھ چکے ہیں۔۔چہرے پہ تلخ مسکان سجائے ، گلے میں اٹکے آنسوں کو باہر آنے سے روکتے وہ بولی اور پھر قدم اندر کی جانب بڑھائے تھے۔۔
م۔۔مہر م۔۔میری بات سنو۔۔
اسکو اندر جاتا دیکھ وہ اسکے پیچھے آیا اور اسکے ہاتھوں کو تھام کر روکنا چاہا ۔
ہاتھ چھوڑیں میرا کیا سنوں! کچھ کہنے سننے لائق چھوڑا ہے آپ نے۔۔۔
خوشی کو اگنور کیے اس نے فیروز کے ہاتھوں کو جھٹکا تھا ۔۔۔
اور اندر جا چکی تھی جبکہ باہر کھڑا فیروز اپنے خالی ہاتھ کو دیکھتا رہ گیا۔۔
پاپا وہ آنتی کون تی۔۔؟ (پاپا وہ آنٹی کون تھی؟)۔۔۔۔۔
ننھے سے رومان نے فیروز کے ان ہاتھوں کو تھام کر کہا تھا جنہیں کچھ دیر۔پہلے مہر نے غصے میں جھٹکا تھا۔۔
بیٹا وہ آپ کے پاپا کی پرنسس ہیں۔۔
محبت سے رومان کے پھولے ہوئے گالوں پر پیار کیا تھا پھر گود میں تھامے اندر بڑھ گیا۔۔۔
®®®™
دعا آفس سے واپس آئی تو اس کی نظر صوفے پہ بیٹھی آنٹی پر گئی ۔۔
کیا ہوا آنٹی خیریت ؟
ان کو یوں گھٹنے تھامے دیکھ وہ پریشانی سے بولی ۔۔
ہاں بیٹا ! بس یہ صاحب جی کے کپڑے لانڈری والا دے گیا تھا تو وہ روم میں رکھنے جا رہی تھی مگر یہ میز گھٹنے پر لگ گئی ہے۔۔
او۔۔آپ آرام کریں میں رکھ آتی ہوں ۔
بیگ اور فائل میز پر رکھے وہ کپڑے اٹھاتی اوپر ضامن کے روم میں آئی تھی۔
دروازا کھولتے ہی اندھیرے نے اسکا استقبال کیا تھا ،ہاتھ بڑھا کر سوئچ آن کیے تو لمحوں میں ہی کمرا روشنی میں نہا گیا۔۔
ضامن کا روم کافی بڑا اور خوبصورت تھا داد دیے بنا نہ رہ سکی تھی وہ۔۔
ہر چیز نفاست سے اپنی جگہ پر رکھی گئی تھی۔۔
وہ آہستہ سے چلتی الماری تک آئی تھی ، کپڑے رکھ کر ابھی وہ الماری بند ہی کرنے لگی تھی کہ ایک نیلے رنگ کی ڈائری نے اس کی توجہ اپنی جانب کھینچی تھی۔۔
ابھی اس نے ڈائری کھولی بھی نہ تھی کہ کسی نے جھپٹنے کے انداز میں ڈائری اس کے ہاتھوں سے چھینی تھی۔۔
تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری ڈائری کو چھونے کی۔۔۔
اس کے ہاتھوں سے ڈائری چھینے کے انداز میں لی تھی۔ضامن نے۔۔
اور شیر کی مانند دھاڑتے مقابل کھڑی اس چھوٹی سی لڑکی کو لرزنے پر مجبور کر گیا ۔۔۔۔
ای۔۔ایم س۔۔سوری سر۔۔۔ وہ بس م۔میں دیکھ ر۔ رہی تھی۔۔۔۔
وہ اپنے باہر نکل آنے والے آنسوں کو با مشکل روتے ہوئے بولی۔
کیوں دیکھ رہی تھی کسی نے اجازت دی تمہیں۔۔۔۔۔
غصے سے تیوری چڑھائے وہ غرانے کے انداز میں دھاڑا۔۔۔
تمہیں یہاں رہنے کی اجازت دی تھی میری زندگی میں دخل اندازی کرنے کی نہیں۔۔۔
ضامن کی اس بات پر دعا نے شکوہ کناں نظروں سے دیکھا تھا اس کو۔
ایسے کیا دیکھ رہی ہو ، کچھ غلط کہا کیا میں نے؟
بھنونے اچکائے بے زاری ظاہر کی۔۔۔
آئیندہ میری پرسنل چیزوں سے دور ہی رہنا تو یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہو گا۔۔
اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں دبوچا تھآ اس نے ۔۔
جبکہ دعا کی بند آنکھوں میں سے آنسوں روانی سے بہہ رہے تھے اس کے دل توڑ دینے والے رویے پر۔۔۔
اب جاو یہاں سے
م شادی کر لو۔۔۔
واٹ؟؟
شائد تم بھول رہے ہو ۔۔ میں پہلے سے شادی شدہ ہوں۔۔۔
فیروز کی بات سن کر ضامن کو شاک لگا تھا۔۔
تصحیح کرو۔۔شادی شدہ تھے ، ہو نہیں۔۔۔
فیروز۔۔۔!!!
یار میرا مطلب ہے کہ تم نے اس لڑکی کو اپنے گھر میں پناہ دی ، وہ بھی بنا کسی رشتے داری کے ۔۔۔
ایسے اچھی بات نہیں۔۔میری مانو تو اس لڑکی سے شادی کر لو۔۔
آخر تم بھی کب تک ایسے جیتے رہو گے؟؟
وہ اس کو غصے میں دیکھ سیدھا لائن پر آیا تھا۔۔
اور اگر یہی بات میں بولوں تو؟؟
ضامن نے بھی دو ٹوک جواب دیا تھا۔۔
شٹ اپ ضامن۔۔ایک تو تمہیں سمجھا رہا ہوں اور تم الٹا مجھے ہی بولو۔۔
فیروز مجھے مت سمجھاو میں جانتا ہوں ، تم اپنی فکر کرو۔۔۔
اکھڑے ہوئے لہجے میں کہتا وہ فون بند کرنے لگا تھا کہ فیروز کی بات پر رکا تھا۔۔۔
اگر تم شادی نہیں کرنا چاہتے تو نہ کرو، پھر اس لڑکی کو جانے دو اپنے گھر سے۔۔۔
کیونکہ بنا کسی رشتے کے تم دونوں کا ایک چھت تلے رہنا ٹھیک نہیں ہے۔۔
اور ا گر تم ایسا نہ کر سکو تو دوسرا حل صرف شادی ہے۔۔۔اور اسکی وجہ تم مجھ سے بہتر جانتے ہو۔۔۔
اور میری نظر میں تمہارے لئے دعا سے بہتر کوئی لڑکی نہیں۔۔۔
واقعی فیروز کی اس آخری بات نے ضامن کے ذہن پر گہرا اثر چھوڑے، اس کو بہت کچھ سوچنے سمجھنے پر مجبور کر دیا تھا
بہت سوچنے کے بعد وہ ایک فیصلے پر پہنچا تھا ۔
®®®™✓
سندل تم رو رو کر کیوں اپنے آپ کو ہلکان کر رہی ہو؟
بیڈ پر اوندھے منہ لیٹ کر روتی سندل کو دیکھ وہ بولا تھا۔۔
راحب تم جانتے ہو میری مما میری آئیڈل تھیں اور ان کے بارے میں حقیقت جان کر میرا دل ۔۔۔میرا دل کھینچ سا گیا ہے۔۔
و۔۔وہ کیسے ایک عورت ہوتے ہوئے کسی اور عورت کا گھر برباد کر سکتی تھیں ۔۔
م۔۔مگر وہ ایسا کر چکی ۔۔۔اور۔۔اور ان کے کیے کی سزا میری بہن بھگت رہی ہے۔۔۔
انہوں نے کتنا ۔۔۔غ۔۔غلط کیا ہے ۔۔۔۔
ہچکیوں کی صورت میں روتی وہ اپنا دل کا بوجھ راحب پر بیان کر گئی تھی ۔۔۔
اس نے سندل کو اپنے بازو کے حلقے میں لیا اور اس کی کمر سہلانے لگا۔۔۔
بس ہش۔۔۔چپ ہو جاو۔۔۔سندل
یوں اپنے آنسوں کو بے مول نہ کرو۔۔۔
ر۔۔۔راحب تم ن۔۔نہیں جانتے میں "مما کی اس حقیقت کو قبول نہیں کر پا رہی ہوں۔۔
جانتے ہو،"جب آپ کو کسی اپنے سے ایسی امید نہ ہو ، اور وہی کوئی ایسی حرکت کر گزرے جس کی آپ کو توقع نہ ہو ، تو دل پر بہت گہری ضرب لگتی ہے۔۔۔۔۔
غم زدہ لہجے میں وہ بہت گہری بات کہہ گئی۔۔
®®®™✓
ہیرا آج اپنی زندگی میں ایک بہت بڑا قدم اٹھانے جا رہا ہوں ، تمہارے بعد۔۔۔
گاڑی میں بیٹھا وہ ہیرا سے خیالوں میں باتیں کر رہا تھا جبکہ ساتھ والی سیٹ میں بیٹھی دعا اپنی ہی سوچوں میں گم تھی ، وہ سڑکوں پر چلتی گاڑیوں کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
دعا۔۔۔کیا دیکھ رہی ہیں؟
اس کو مسلسل باہر نظریں جمائے دیکھ بولا تھا۔۔۔
"دیکھ رہی ہوں سر ،کہ"یہ دنیا کتنی مطلبی ہے ۔"ہر کسی کو اپنی پرواہ ہے ، کسی دوسرے کا احساس نہیں۔'یہاں ہر کوئی اپنے کام کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔۔۔"
گاڑی کو یو ٹرن دیتے ضامن نے کندھے اچکائے تھے۔۔۔
کیسے؟؟؟؟
وہ دیکھیں سر،"وہاں سامنے وہ ایمبولینس میں مریضہ لیٹی ہیں، لیکن کسی کو اس کی پرواہ نہیں، اس کو راستہ دینے کے بجائے ہر کوئی اپنے کام اور وقت کو دیکھ رہا ہے۔۔۔۔
اسکی بات پر ضامن نے ایک نظر باہر دیکھا تھا جہاں اب وہ ایمبولینس پیچھے کی جانب نکل رہی تھی۔۔۔۔
جہاں دنیا سائنس میں ترقی کر رہی ہے ، وہیں لوگوں کے دل بھی مشینوں کی مانند ہوتے جا رہے ہیں۔۔ان میں سے احساس ، محبتیں، چاہتیں سب ختم ہوتے جا رہے ہیں۔۔۔۔
لیکن ہزاروں ، لاکھوں میں سے کوئی چند لوگ ہوتے ہیں ، جو اس خوش قسمت جذبات کی ضد میں آ جاتے ہیں۔۔۔
گاڑی کو ایک ریسٹورنٹ کے سامنے روکتے ضامن نے کہا تھا اور باہر نکل کر گاڑی کا دروازا کھولا جبکہ دعا اپنے سر کی اس عنایت پر عش عش کر اٹھی تھی۔۔۔
وہ دونوں چلتے ہوئے اندر ریسٹورنٹ میں آئے جہاں ان کی مانند بہت سے لوگ اپنی ہی دنیا میں مگن تھے۔۔
وہ امریکا تھا۔۔۔
ایک ودیش ملک۔۔۔
جہاں کسی کو کسی سے کوئی سروکار نہیں۔۔۔۔
سب کی اپنی ہی ایک الگ دنیا تھی۔۔۔۔۔
مس دعا آپ جانتی ہیں میں آپ کو یہاں کیوں لایا ہوں۔۔۔
جی۔۔کوئی بات کرنی تھی آپ نے۔۔۔
اپنے موبائل فون کو بیگ میں رکھتے اس نے سرسری سا جواب دیا تھا۔۔۔
ہمم۔۔۔کیا آپ وہ بات جانتی ہیں؟؟
اپنے چشموں کو فولڈ کرتے ٹیبل پر رکھا تھا ضامن نے ساتھ ایک بھرپور ںظر اس نے چہرے پر ڈالی۔۔۔
نو سر۔۔اگر میں بات جانتی ہوتی ، تو کبھی یہاں آکر اپنا آور آپ کا ضائع نہ کرواتی۔۔۔
نارمل انداز میں کہا تھا اس نے جبکہ ضامن کو وہ ایک طنز ہی لگا تھا۔۔۔
مس دعا ! اب تک میں آپ کا بوس تھا اور اب میں چاہتا ہوں کہ یہ اختیار میں آپ کو دے دوں ، !!!
واٹ۔۔۔۔
اپنی کرسی سے کھڑی ہو گئی تھی وہ اور سب نے نظریں گھوما کر اس کو یوں شاک ہوتے دیکھا تھا۔۔۔
دعا بیٹھ جائیں۔۔۔
وہ لوگوں کی حیرانی کو نظر انداز کیے اس کو بیٹھنے کا کہہ گیا تھا۔۔۔
سر آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔میں کچھ سمجھی نہیں۔۔۔
اف۔۔بیوقوف تو آپ لگتی نہیں۔۔خیر بتاتا ہوں۔۔۔
میں۔۔یعنی ضامن آپ سے یعنی دعا سے شادی کرنے کا خواہشمند ہوں ،کیا آپ یہ قبول فرمائیں گی۔۔؟؟؟
ہاتھوں کو آگے کیے۔۔۔اس نے انگوٹھی پیش کی تھی جبکہ دعا حیرت کے مارے واپس کھڑی ہو گئی تھی جبکہ اب سب کی دبی دبی ہنسی گونجی تھی وہیں پورے ایریا میں۔۔۔۔
مس دعا ۔۔یہ آپ بار بار ہر بات پر کھڑی کیوں ہو جا تی ہیں۔۔۔
بیٹھ کر بات نہیں کر سکتیں۔۔۔
ا۔۔ائم سوری سر۔۔۔بٹ یہاں میں اپنی تعلیم مکمل کرنے آئی تھی۔۔گھر آباد کرنے نہیں۔۔۔
وہ واپس اپنی کرسی پر بیٹھ چکی تھی۔۔۔
جہاں تک مجھے پتہ ہے آپ اپنی تعلیم مکمل کر چکی ہیں۔۔
جی سر تعلیم تو مکمل ہو چکی ہے، مجبوری کے تحت جاب کی آپ کے آفس میں۔۔۔مجبوری کے تحت رہنا پڑا آپ کے گھر میں لیکن میں نے رینٹ ادا کرتی رہی تھی آپ کو۔۔۔
لیکن مجھے کیا اندازا تھا کہ میرا آپ کے گھر رہنا ٹھیک ثابت نہ ہو گا۔۔۔
میں آج ہی چلی جاؤں گی سر۔۔
بیگ پہنے وہ باہر کی جانب بڑھ گئی تھی جبکہ اس کے پیچھے ضامن گیا تھا۔۔۔
کیا ہم سکون سے بیٹھ کر بات نہیں کر سکتے؟؟
نوسر۔۔
دعا کیا میں جان سکتا ہوں کہ آپ شادی کیوں نہیں کرنا چاہتیں ؟؟
ضامن کے سوال پر اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا ۔۔۔
وہ ہاتھ تھامے اس کو گاڑی میں لے آیا تھا۔۔۔
"میں ایک پٹھان چوہدری فیملی سے تعلق رکھتی ہوں، ہمارے گاؤں میں عورتوں کی تعلیم پر بہت پابندی ہے،وہاں کے مرد عورتوں کو پاؤں کی جوتی کا سا مقام دیتے ہیں۔۔ان کو کوئی نوکرانی کی طرح ٹریٹ کرتے ہیں۔۔
چھوٹی سی عمر میں ہی ان کی شادی کر دی جاتی تھی۔۔
وہاں جب بیٹی کی پیدائش ہوتی ہے تو سوگ منایا جاتا ہے سر اور بیٹوں کی پیدائش پر جشن۔۔۔
وہ تلخ سا ہنسی تھی۔۔۔
اور یہ سب چیزیں مجھے بہت غصہ دلاتی تھیں ، جب اپنی ماں کو اپنے باپ سے بے عزت ہوتے دیکھا کرتی تھی۔۔
آخر تھی تو پٹھانوں کا ہی خون نا۔۔۔
غصہ تو ان ہی مانند ہو گا۔۔۔
مجھے تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا میں نے ضد کر کے میٹرک کیا اور مزید تعلیم کی خواہش بابا کے سامنے رکھی تو انہوں نے مجھے بہت ذلیل کیا تھا۔
ان کی نظروں میں لڑکی زات کو تعلیم کی ضرورت نہیں۔۔
جبکہ میری نظر میں عورتوں کی تعلیم بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی مرد کی۔۔
کیونکہ مرد دن بھر باہر رہتا ہے اور عورت گھر میں بچوں کے پاس ۔۔۔
وہ اپنے بچوں کو سلیقہ سیکھاتی ہے ، دنیا اور جہان کی اونچ نیچ سیکھاتی ہے۔۔
اور اس سب کے لئے اس کا تعلیم یافتہ ہونا بے حد ضروری ہے۔۔۔
اس لئے صرف اپنی اماں جان کو بتائے میں یہاں اس ملک میں آ گئی مجھے یہاں بھیجنے میں میری دوست اور ماں جان کا ہاتھ ہے۔۔۔
میں یہاں سے تعلیم حاصل کر کے جاوں گی اور گاؤں کی اس روایت کو سرے سے ختم کروں گی۔۔عورتوں کو ان کے حقوق دلاوں گی۔۔
وہ اپنی بات کہہ کر خاموش ہوئی تھی اور اپنی گردن پیچھے سیٹ پر گرادی۔۔
میرا وعدہ ہے دعا آپ کے اس خواب کو میں پورا کروں گا۔۔۔
کہتے ہی اس نے دعا کی مخملیں انگلی میں خوبصورت انگوٹھی پہنائی تھی جبکہ وہ خاموشی سے ضامن کو دیکھ رہی تھی۔۔
آئے پرومس آپ ہر قدم پر مجھے اپنے ساتھ پائیں گیں۔۔
ماتھے پر عقیدت بھرا لمس چھوڑا تھا اور گاڑی اسٹارٹ کیے گھر کی جانب موڑی تھی۔۔
جہاں اس کے گارڈز نے نکاح کا انتظام پہلے سے کیے رکھا تھا۔۔
دعا نے ایک نظر دعا کو دیکھا تھا جہاں کوئی شکوہ نہیں تھا ، صرف اطمینان تھا جسے دیکھ وہ خوش ہو گیا تھا۔۔۔
تھوڑی دیر میں ان دونوں کا نکاح طے پایا تھا دعا ، اپنا سر نیم بدل چکی تھی۔
اب وہ دعا ضامن بن چکی تھی ۔۔
ان کے نکاح میں دعا کی ماں نے وڈیو کال کے زریعے شرکت کی تھی ۔اپنی بیٹی کا نکاح یوں دیکھیں گی انہوں نے سوچا نہ تھا مگر وہ مجبور تھیں۔۔
انہوں نے بہت ڈھیر ساری دعاؤں کے تحفے ان کو دیے تھے۔
زندگی بھر ساتھ رہنے کی دعائیں ان کے نام کی تھیں۔۔۔
ضامن بھی خوش ہو چکا تھا۔۔۔دعا کو اپنی زندگی میں لا کر آج کافی عرصے بعد اس کے چہرے پر خوشی کی رمک دیکھائی دی تھی۔۔۔
®®®™✓
کچھ ہفتے بعد۔۔۔۔۔
م۔۔مما آ۔۔آپ اچھا نہیں کر رہیں ۔۔۔
یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ ش۔۔شادی کر چکے ہیں آپ مجھے ان کے پ۔۔پاس بھیج رہی ہیں۔۔۔
دلہن کے لباس میں ملبوس مہرالنسا نے شکوہ کیا تھا سماہرا سے۔۔۔
کیا اگر میری جگہ آپ کی اپنی بیٹی ہوتی ، یا آپ خود اس جگہ پر ہوتیں تو تب بھی آپ کا جواب یہی ہوتا؟؟؟
مہر ! تم میرے لئے میری بیٹیوں سے بڑھ کر ہو۔۔۔اور یہ فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے میں نے۔۔ ،سماہرا نے کہتے ساتھ مالا اٹھائی تھی مہر کے گلے میں پہنانے کے لئے ، لیکن ان کے ہاتھ بھی ساکت ہو گئے تھے جب مہر کی گردن پر ہو بہو اپنے جیسا وہ چاند کا نشان دیکھ تھا۔۔۔۔
م۔۔۔مہر بیٹا۔۔۔۔
ادھر دیکھو۔۔۔ت۔۔تم کس کی بیٹی ہو؟؟؟
مطلب ۔۔۔۔
ت۔تمہارے پ۔۔پاپا کا نام ؟؟
انہوں نے اس کا چہرا اپنی جانب کیا تھا۔۔
م۔۔میر حازم۔۔۔
کہتے ہی وہ سماہرا کا ریکشن دیکھنے لگی تھی جس کے ہاتھوں سے مالا گرتے گرتے بچی تھی،۔۔
کیا ہوا ۔۔میرے پاپا کا نام سن کر آپ اتنی شاکڈ کیوں ہوئی ہیں؟
کیا آپ انہیں جانتی ہیں؟؟
مہرالنسا جانچتی ہوئی نظروں سے سماہرا کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو دیکھ رہی تھیں۔۔
لیکن دوبارا وہ کچھ بولی نہیں تھیں۔۔
بس اس کو ساتھ لئے ہال کی طرف روانہ ہو گئیں۔۔
خاموشی کے ساتھ۔۔۔ا
®®®™✓
لال رنگ کے دلہن کے لہنگے میں ملبوس آفرین کوئی اپسرا معلوم ہو رہی تھی اوپر سے عرش کی محبتوں کے رنگ نے اسے مزید دلکش بنایا تھا۔۔۔
اس کے چہرے پر شادی کی خوشی اور گھبراہٹ دونوں واضح ہو رہی تھیں۔۔
جبکہ دوسری جانب بیٹھی مہرالنسا اکتاہٹ کا شکار نظر آ رہی تھی ، اس نے ایک نظر فیروز پر ڈالی جو کہ رومان کو گود میں اٹھائے اسی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا جبکہ خوشی ، سماہرا لوگوں کے ساتھ مل کر آنے والے مہمانوں کو خوش آمدید کر رہے تھے۔۔۔
مہر النساء اسٹیج پر بیٹھی اپنے مہندی لگے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی جن میں بہت گہرا رنگ آیا تھا لیکِن پھر بھی وہ خوش نہ تھی۔۔
اس نے نظریں اٹھا کر سامنے دیکھا ہی تھا کہ خوشی اور حیرانی کے باعث وہ اپنی جگہ سے کھڑی ہو گئی تھی کیونکہ سامنے ہی سندل کھڑی راحب سے باتوں میں مصروف تھی ، ۔۔۔وہ بنا آس پاس کے لوگوں کی پرواہ کیے اپنا لہنگا سنبھالتے بھاگتے وہ سندل کے گلے لگی تھی بنا اس کو کچھ سمجھنے کا موقع دیا۔۔
ہال میں موجود سب لوگ اس کو شاک نظروں سے دیکھ رہے تھے۔۔۔
آ۔۔۔آپ۔۔۔آپی۔۔۔۔۔
سندل بھی حیران رہ گئی تھی جب مہرالنسا کی آواز کان کے پردوں سے ٹکرائی۔۔۔
م۔۔مہر؟؟
ک۔۔کیسی ہو ؟
اس کے دلہن بنے سراپے پر ایک نظر ڈالے بولی تھی۔۔۔
آنسوں دونوں کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔۔۔
کتنے سالوں بعد دیکھ رہی تھیں دونوں ایج دوسرے کو۔۔
میں ٹھیک ہوں۔۔مما پاپا کیسے ہیں؟ آپ کیسے ہو؟؟
م۔۔میں ٹھیک ہوں۔۔اور ماما پاپا بھی ٹھیک ییں۔۔
ایک گہرا سانس ہوا کے سپرد کیے وہ مسکرا کر بولی تھی۔۔۔
اور یہ کون ہیں؟؟
ایک نظر راحب کو دیکھتے اس نے سندل کو دیکھا تھا۔۔
یہ جیجا ہیں تمہارے۔۔۔
راحب کے ہاتھوں جو تھانے اس نے تعارف کروایا تھا۔۔۔
آ۔۔آپ نے شادی کر لی؟
اب کے مہر کی آنکھیں مزید کھل گئی تھیں۔۔
ہاں میری ماں۔۔میں نے شادی کر لی ہے ، ویسے بھی تم نے تو کر ہی لی تھی میں بچی تھی تو میں نے بھی کر لی۔۔
اب اسٹیج پر بیٹھ جاو ورنہ نمونی دلہن کہلاؤ گی۔۔
آنسوں صاف کرتے اس کو اسٹیج پر واپس لا بیٹھایا تھا اس نے۔۔
ہال میں اچانک لائٹ بند ہوئی تھی، پھر سب کی نظریں وہاں منجمد ہوئی تھی جب اسپاٹ لائٹ اون ہوتے ہی عرش نے ہلکے میوزک میں اپنی سریلی آواز کا جادو دیکھایا تھا۔۔۔
وہ اپنی جانِ حیات پر نظریں مرکوز کیے گانے کے سریلے بول بول رہا تھا۔۔۔
جب کہ سب کے چہروں پر ایک مسکراہٹ تھی۔۔۔۔اس کی اس حرکت پر۔۔۔۔۔
سانسوں کی وہ ہلچل
وہ مہکتا آنچل۔۔۔
بانہوں کے وہ گھیرے
زلف کا وہ بادل۔۔
ہم کو بڑا ہی کرے بے کرار۔۔
وہ پیار پیار پیار۔۔۔۔
آفرین نے اپنی نشیلی آنکھیں اٹھائیں تھی لیکن عرش کے لہجے کا خمار ، اس کی آواز کے سحر محبت کے بوجھل لہجے نے نظریں دوبارا جھکانے ہر مجبور کر دیا تھا اسکو ۔۔۔۔۔
وہ تیرا شرمانہ
وہ نظر کا جھکنا
جاتے جاتے تیرا وہ اچانک مڑنا۔۔
ہم کو بڑا ہی کرے بے کرار۔۔۔
وہ پیار پیار پیار۔۔۔۔
اب عرش سے مائک فیروز نے تھاما تھا اور مہرالنسا کو اپنی نظروں کی ضد میں لئے گانے کا آخری بول گا رہا تھا۔۔۔
وہ لڑائی جھگڑے
بعد میں پچھتانا
روٹھ کے وہ جانا
لوٹ کے پھر آنا
ہمکو بڑا ہی کرے بے کرار وہ پیار پیار پیار ۔۔۔۔۔۔۔
مہر نے فیروز کے پاس جانے کے لئے قدم اٹھائے ہی تھے کہ وہ قدم واپس پیچھے کی جانب لینا شروع ہو گئی تھی جب رومان بھی اسٹیج پر کھڑے فیروز کے پاس گیا تھا۔۔۔۔
مہر کو واپس وہیں بیٹھتا دیکھ اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے مائک واپس عرش کو تھما دیا تھا اور خود وہاں سے چلا گیا ۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر فنکشن چلنے کے بعد رخصتی کا ماحول بنا تھا۔۔۔
جس میں مہر کو عرش ، سماہرا سلمان نے رخصت کیا تھا جبکہ آفرین کو رخصت فیروز نے کیا۔۔۔۔۔
®®®™✓
آج وہ اسی روم میں موجود تھی جہاں کچھ سال پہلے وہ زبردستی کے رشتے میں باندھ کر یہاں لائی گئی تھی لیکن آج وہ پورے اہتمامِ کے ساتھ یہاں موجود تھی ۔۔۔
اسی شخص کی سیج سجائے جو پہلے تو اس سے نفرت کا دعوے دار تھا۔۔۔
پرانے تمام واقعات اس کے ذہن میں گھوم رہے تھے۔۔۔
اس کا یہاں لایا جانا۔۔
اسکی حیثیت۔۔۔۔
فیروز کا رویہ۔۔۔
پھر اچانک فیروز کی پھوپھو کا راز۔۔۔۔
اور اس کا یہاں سے جانا۔۔۔
پھر لوٹ کر آنا۔۔۔
اور آخر اس ستمگر کا دوسرا بیاہ۔۔۔۔۔
سب سوچتے آنکھوں میں جھلمل پانی سا تیرا تھا۔۔۔
کمرے میں آہٹ کی آواز پر پیچھے موڑ کر دیکھا تھا جہاں فیروز شمس آنکھوں میں محبت کا جہاں لیے چہرے پر مسکان سجائے اسی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
یہاں کیا کر رہے ہیں آپ؟؟
جائیں یہاں سے۔۔۔
اپنی بیوی کے پاس ۔۔
وہ دلہن کے لباس میں ملبوس تمام حشر سامانی سمیت ، سامنے کھڑے فیروز شمس سے روتے ہوئے بولی تھی۔۔
بیوی کے پاس ہی ہوں۔۔۔
اس کی ہوش ربا سراپے ہر نظریں ٹکائے دیکھ کر بولا
اپنی د۔۔۔دوسری ب۔۔بیوی کے پاس۔۔۔
بمشکل حلق تر کیے وہ بولی تھی۔۔۔
ان کے پاس بھی چلا جاوں گا لیکن پہلا حق تو تمہارا ہے نا۔۔
آخر کو پہلی بیوی کے عہدے پر جو فائز ہو۔۔۔
محبت سے اس کو خود کی جانب کھینچے دھیمے لہجے میں بولا تھا۔۔۔
نہیں ، مجھے نہیں بات کرنی جائیں یہاں سے آپ۔۔۔
آ۔۔آپ بہت برے ہیں۔۔۔
میں نے آپ سے دور ہو کر بھی آپ سے پیار کیا۔۔۔
چا کر بھی نفرت نہ کر سکی۔۔۔
لیکن آپ نے۔۔۔آپ نے دوسری شادی کر لی۔۔۔
میرا انتظار بھی نہ کیا۔۔۔۔
ہاں میں نے کی ہی دوسری شادی۔۔
یہ تم ہی نے تو کہا تھا کہ میں کر سکتا ہوں۔۔
کب سے گلے میں اٹکے آنسوں بہہ نکلے تھے اس ستمگر کی بات پر۔۔۔
آپ کے سینے میں زرہ سا بھی دل نہیں ہے نا؟؟
ہمیشہ مجھے درد ہی دیا ہے۔۔
کبھی خوش نہیں کیا۔۔۔
آپ موقع تو دے کر دیکھیں، یہ خواہش بھی ہم پوری کر گزریں گے۔۔۔
وہ جان لٹاتی نظروں سے اسے دیکھے شوخ لہجے میں بولا تھا۔۔۔
م۔۔مجھے آ۔۔آپ سے بات نہیں کرنی آپ ۔۔۔آپ جائیں اپنی بیوی اور بیٹے کے پاس۔۔۔
نروٹھے پن سے کہتی وہ مقابل کو بہت پیاری لگی تھی۔۔کہ بے ساختہ وہ اس کے دلنشین چہرے پر پیار کر گیا تھا ۔۔۔
جبکہ وہ اپنے لال سرخ چہرے کو لئے تھوڑا پیچھے کھسکی تھی۔۔۔
ہاہاہاہا۔۔۔مہر تم بھی نا۔۔۔۔
ہنستے ہوئے وہ اس کو گھماتے ہوئے اپنی جانب کیا تھا۔۔۔
وہ میری بیوی نہیں۔۔۔اور نا ہی رومان میرا بیٹا ہے ۔۔۔۔ہاں بیٹے جیسا ضرور ہے مگر بیٹا نہیں۔۔۔۔
اس پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹے تھے فیروز ہی بات پر۔۔۔۔
ی۔۔یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟؟
بالکل ٹھیک کہہ رہا ہوں۔۔دلّ جانم۔۔۔
آج سے کچھ سال پہلے اس اندھیرے میں جب تم مجھے تنہاہ چھوڑ گئی تھی میں نے تمہیں ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی ، یہاں تک کے تمہارے باپ کے گھر بھی گیا لیکن ناکارہ۔۔۔۔۔۔
میں نے خود کو بس اپنے کام تک محدود کر لیا تھا ،خود کو اپنے گھر والوں سے بھی دستبردار کر گیا تھا میں۔۔
کب آفرین اور خوشی نے تعلیم مکمل کی اندازہ ہی نہ ہوا۔۔۔
بابا نے ان دونوں کو گاؤں واپس بلا لیا۔۔۔
وہاں اپنے دوست کے بیٹے سمیر سے خوشی کی شادی کروا دی ۔۔۔۔
خوشی میری منگیتر تھی ، وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتی تھی مگر میں تم سے نکاح کر چکا تھا۔۔۔اور دوسری شادی کا ظلم میں کرنا نہیں چاہتا تھا۔۔۔
میں ایک وقت میں ایک ہی کا بن کر رہنا چاہتا ہوں۔۔۔
مہر کے ہاتھوں کو اپنے سینے سے لگایا تھا اس نے۔۔۔
سمیر ایک آرمی فارس آفیسر تھا۔۔اور تم جانتی ہو آرمی نوجوانوں کی زندگیاں وطن کے نام ہوتی ہیں۔۔سمیر بھی اپنے وطن سے محبت کرنے والا ہی تھا۔۔
جس نے ہر چیز میں پہل وطن اور اسکی عزت کو رکھا تھا۔۔۔
وہ بھی ایسا ہی ایک دن تھا، جب رومان کی پیدائش ہونے والی تھی وہ دونوں ہسپتال میں تھے۔۔۔لیکن سمیر کو ارجینٹ کال آنے کے باعث واپس ڈیوٹی پر جانا پڑا تھا۔۔وہ خوشی کو انتظار کرنے کا کہہ جا چکا تھا کبھی نہ لوٹ کر آنے کے لے۔۔۔
شائد خوشی کی زندگی میں خوشی نہ تھی۔۔۔
وہ انتظار کرتی رہی سمیر نہ آیا۔۔کیونکہ وہ شہید ہو چکا تھا۔۔۔۔
خوشی بہت چپ چپ رہنے لگی تھی۔۔
مما بابا نے ہم دونوں بہن بھائیوں سے بڑھ کر خوشی کو پیار دیا اور اس کی یہ حالت دونوں کے لئے کسی کرب سے کم نہ تھی۔۔۔
بابا کو خوشی کے دکھ نے مزید نڈھال کر دیا تھا وہ زیادہ دن حیات نہ رہ سکے اور اس گورِ فانی سے کوچ کر گئے۔۔اور مما ویسے ہی آدھے فالج میں تھیں۔۔۔
کچھ عرصہ پہلے وہ بھی ہمیں چھوڑ گئی تھیں۔۔۔
خوشی ، رومان اور آفرین ہمیشہ کے لئے یہاں شہر آ گئے تھے میرے پاس۔۔۔
اس کی آنکھوں میں دیکھتے وہ مسکرا کر بولا تھا۔۔۔
اور جانتی ہو؟
رومان نے جب بولنا شروع کیا تو اس نے پہلا لفظ پاپا بولا تھا۔۔۔
وہ اپنی ماں کے بجائے زیادہ وقت میرے ساتھ گزارا کرتا تھا۔۔۔اس ننھی جان نے میرے ازیت بھرے لمحوں کو خوبصورت بنایا تھا۔۔۔۔
وہ باپ کی کمی محسوس نہ کرے اسلئے ہم نے اسے بتایا نہیں۔۔۔
اسلئے میں چاہوں گا کہ تم بھی اسکو ایک اچھی ماں دوست کی طرح ٹریٹ کرو۔۔۔۔
اس میں کوئی مسئلہ نہیں فیروز۔۔۔
مگر۔۔۔۔۔۔
جب وہ بڑا ہو گا تو وہ سمجھ جائے گا حقیقت؟؟؟
ہمم شائد۔۔۔۔
اچھا یہ بتاو ،"اگر میں کہوں ، روباب تمہاری سگی ماں نہیں بلکہ سماہرا ہیں ،"
تو تمہارا ریکشن کیا ہو گا؟
وہ نظریں اس کے چہرے پر مرکوز کیے بولا
ایسا کیسے ممکن ہے ؟
ممکن ہے ، مہرالنسا۔۔۔
یہ حقیقت ہے۔"تمہاری سگی والدہ سماہرا میری پھوپھو ہیں۔"
یہ جو تمہاری گردن پے "چاند" کا نشان ہے ، یہ ہماری خاندانی پہچان ہے۔۔۔
مطلب؟؟؟
وہ کنفیوژ سی بولی تھی۔۔۔۔
مطلب یہ کہ ،"سیم ایسا مارک پھوپھو کی گردن پر بھی ہے ۔"
ک۔۔کیا آپ مزاق کر رہے ہیں؟؟
نہیں میں مزاق نہیں کر رہا ،یہ سچ ہے۔۔۔۔
جب تمہاری پیدائش ہوئی تھی تو تمہارے باپ نے ، تمہیں مردہ ثابت کر کے اپنی محبوبہ یعنی تمہاری دوسری ماں روباب کو تمہیں سونپ دیا۔۔اس کی خواہش کے مطابق۔۔۔۔۔
اور اس حصے کا غم بھی میری پھوپھو اور تمہاری ماں کے حصے میں آیا۔۔۔۔
ضبط سے کہتے وہ اپنی مٹھیاں بھینچ گیا تھا۔۔۔۔
آپ کو کیسے پتہ؟؟؟وہ بے یقینی سے بولی تھی۔۔۔
معلومات۔۔۔۔معلومات بھی کوئی چیز ہوتی ہے ،جو کہ میں نے نکلوائی تھیں۔۔
آنکھ ونک کیے وہ محبت سے اسکو اپنے بازوؤں کے گھیرے میں لیا تھا اور بنا سمجھنے کا موقع دیے اپنی محبت کی بارشیں اس پر نچھاور کرنے لگا۔۔
®®™™✓
عرش پھولوں سے مہکتے ہوئے کمرے میں آیا تو آفرین کو کھڑکی کی سائڈ پر نیچے نماز پڑھتے پایا تھا۔، اس دلکش خواب ناک ماحول میں وہ کوئی حور معلوم ہو رہی تھی اپنے اس عمل سے۔۔۔
چہرا وہ پورا اپنا میکاپ سے پاک کر چکی تھی لیکن پھر بھی اس کی محبت کی محبت کی چمک ، خدا کا نور ، عرش کو پاہ لینے کا احساس وہ سب احساسات اس کے چہرے پر بیک وقت نمایاں ہو رہے تھے جو کہ اس کے قدرتی حسن کو مزید نکھار رہے تھے۔۔۔
وہ بیڈ پر کونیوں کے بل لیٹتا اس کو دیکھنے میں محو تھا۔۔۔۔
دعا سے فارغ ہونے کے بعد آفرین نے مسکرا کر عرش کو دیکھا تھا۔۔۔
کیا ہوا۔۔۔؟؟ ایسے کیا دیکھ رہے ہیں.؛ کہ میں آپ کا انتظار کرنے کے بجائے یہاں دعا کر رہی ہوں؟
اس کی آنکھوں میں ابھرتے سوال کو پڑھتے ہوئے بولی تھی اور ساتھ جائے نماز لپیٹ کر سائڈ پر رکھی۔۔
نہیں۔۔ میں تو یہ دیکھ رہا ہوں ، آج سے پہلی ایسی حسین دلہن کہیں نہیں دیکھی ، جس نے پہلی اہمیت حقیقِ الٰہی کو دی ، جو کہ دلہن ہے لیکن بغیر کسی آرائش کے اتنے نور سے بھرپور۔۔۔
میں بہت قسمت والا✨ ہوں آفرین جسے تمہارا ساتھ نصیب ہوا ہے۔۔۔
اس کے ہاتھوں کو تھامے اپنے پہلو میں بیٹھایا تھا۔۔۔۔
جس رب سے روزانہ آپ کو ہر نماز ، تہجّد میں مانگا ہے ، کیا اس کا اتنا حق بھی نہیں کہ میں ان قیمتی لمحات جو اس نے ہمیں نصیب کیے ، ان میں سے کچھ وقت اس کی شکر گزاری کے کئے وقف کر دوں۔۔۔
محبت سے عرش کی آنکھوں میں دیکھتے اپنے وہی دھیمے لہجے میں بولی تھی جسکا عرش سلمان دیوانہ تھا۔۔۔
میری زندگی کی دعا ہو تم۔۔۔
انمول تحفہ ہو جو خدا نے دیا ہے مجھے۔۔۔
میری کسی انجان نیکی کے سلے میں۔۔۔۔
آنکھوں میں پیار کا جہان لیے، لہجے میں خمار ، آواز نے عشق کا راگ لئے۔۔۔وہ آفرین سے گویا ہوا اور ساتھ ہی اپنی محبت اور عشق کی پہلی مہر اس کی پیشانی ثبت کی۔۔۔
میری محبت ،میرا عشق، میری دیوانگی ہو تم۔۔۔۔۔۔
اس دل کی دلربا ، ملکہ آفرین ہو تم۔۔۔۔
آفرین کو اپنی محبت کی بارش میں بھگوئے ، اسکو شرمانے پر مجبور کر گیا تھا۔۔۔۔
دو دل ، دو جانیں جن کی عشق کی نہ ابتدا تو تھی لیکن انتہاہ نہ تھی۔۔۔
ملا چکی تھی قسمت انہیں، باندھ چکی تھی ان کو ایک مضبوط محرم کے رشتے میں۔۔۔۔
®®®™✓
شادی سے آنے کے بعد سلمان سونے کی تیاری کر رہے تھے جبکہ سماہرا کسی گہری سوچ میں محو تھیں۔۔
کیا ہوا معصومہ اتنی اداس کیوں ہو؟
بیڈ سے ٹیک لگائے وہ ان کی جانب دیکھتے بولے تھے۔۔۔
مہرالنسا میری بیٹی ہے سلمان۔۔۔
جانتا ہوں۔۔۔۔
سماہرا نے فوراً ان کی جانب دیکھا ۔۔۔
ارے بیگم آپ نے دل سے اسے اپنی بیٹی مانس ہے،:آج دیکھ بھی لیا ہے۔۔۔
نہیں سلمان ،"آپ میری بات نہیں سمجھے وہ میری حقیقی بیٹی ہے ،"
اب حیرتوں کی دنیا میں جانے کے باری سلمان کی تھی۔۔۔۔
پر کیسے۔۔۔۔
وہ بات مکمل نہ کر پائے تھے ، خاموش ہونا پڑا تھا انہیں جب باہر سے کوئی شور سنائی دیا تھا وہ دونوں ہی باہر گئے تھے اور دنگ رہ گئے تھے جب باہر کھڑی ہستی کو کھڑے دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں ہی دنگ رہ گئے تھے جب حازم کو پولیس ریسکیو کے ساتھ اپنے گھر میں موجود پایا تھا۔۔۔
انسپیکٹر ایریسٹ ہیم۔۔۔۔
اس شخص نے دھوکے سے مجھ سے طلاق کے کاغذات دستخط کروائے اور میری بیوی سے خود نکاح کر لیا۔۔۔
ہم سب کی نظروں میں اسے مردہ ثابت کیے باہر کے ملک۔۔لے گیا تھا۔۔۔۔
واٹس ربش ! مسٹر حازم۔۔۔
سلمان غصے سے چیخے تھے۔۔۔
اپنی آواز نیچے رکھو سلمان۔۔
کیا تم نے ایسا نہیں کیا؟؟؟
س۔۔سلمان؟؟
سماہرا کی گھٹی گھٹی آواز نکلی تھی۔۔
تم نے سماہرا کو اس بارے میں نہیں بتایا کہ ،"تم نے کس طرح دستخط کروائے؟
وہ حیرت کا مجسمہ بنی سماہرا پر ایک نظر ڈالے طنزیہ بولے تھے۔۔جن کی آنکھوں میں بے شمار سوالات تھے۔۔۔
وہ غرور سے چلتے سماہرا کے پاس آیا تھا۔۔۔
سماہرا اب تم میرے ساتھ چلو گی۔۔
دیکھو آج بھی تم نکاح میں ہو میرے۔۔
ان کا ہاتھ جیسے ہی پکڑا تھا حازم نے وہ جھٹکے سے چھڑا گئی تھی ان ہاتھوں کو۔۔۔
دور رہو ۔۔ڈیمن اٹ۔۔میری بیوی سے۔۔۔
سلمان تیش میں آگے بڑھے تھے اور ایک مکہ حازم کی ناک پر رسید کیا تھا۔۔
حازم نے خون آشام آنکھوں سے ان دونوں کی جانب دیکھا پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ دونوں ایک دوسرے کو ڈھیر کرنے کے در پر تھے۔۔
پولیس ، اور سماہرا نے مل کر ان دونوں کو بہت مشکل سے الگ کیا تھا۔۔
خون دونوں کے چہرے سے بہہ رہا تھا۔۔۔
حازم۔۔۔۔
دور رہیں مجھ سے اور میری فیملی سے۔
کیا کوئی کھلونا ہوں میں؟
یا کوئی مزاق ہوں؟؟
جس کا جب دل چاہا کھیل لیا۔۔۔۔
جو بھی معملات ہیں ، وہ صبح دیکھ لیے جائیں ، اب آپ جائیں اور ہاں۔۔آئندہ میرے گھر میں اپنے ان چیلوں( پولیس) کو لانے کی ضرورت نہیں۔۔۔
ائیم سوری میم۔۔ہمیں کمپلینٹ کے مطابق آپ کے ہسبینڈ کو ایریسٹ کرنا پڑے گا۔۔
یو۔۔۔وہ ہسبینڈ نہیں ہے اسکا۔۔۔
حازم نے انسپیکٹر کو وارن کیا تھا۔۔۔۔
وہ بنا اس کی بات سنے لے جا چکے تھے سلمان کو۔۔۔
جبکہ ان نے روکنے کی بہت کوشش کی تھی۔۔۔
مان لو۔۔سمی آنا تو تمہیں میرے پاس ہی ہے۔۔۔
چہرے پر لگے خون کو صاف کرتے انہوں نے مسکرا کر سماہرا کو دیکھا تھا جن کی آنکھوں سے آنسوں بہہ رہے تھے۔۔۔۔
ان خوبصورت آنکھوں سے آنسوں صرف میرے لئے بہنے چاہیں ، کسی۔۔۔۔۔(۔ ) کے لئے نہیں۔؟۔۔
سماہرا کو اپنے قریب کیے آنسوں صاف کیے تھے جبکہ وہ تڑپ کر پیچھے ہوئی تھیں۔۔
شٹ اپ۔۔۔ائنڈ گیٹ لوسٹ۔۔۔۔۔۔
غصے سے کہتیں وہ کمرے میں جا کر ڈور لاک کر گئی تھیں۔۔جبکہ حازم وہیں اکیلے کھڑے رہ گئے تھے۔۔
جسٹ ویٹ اینڈ واچ سماہرا واپس میرے پاس آو گی۔۔۔
کیونکہ تم میری تھی ، اور میری ہو۔۔۔
ایک بازی تم نے لڑی اور ایک بازی میں لڑوں گا۔۔
ایک نظر کمرے کے بند ڈور کو دیکھتے انہوں نے دانت پیستے کہا تھا۔۔۔
اور وہاں سے نکلتے چلے گئے۔۔۔۔
آج ہی ان کے گھر میں خوشیاں آئی تھیں اور یکدم ہی غم کے بادل چھانے لگے۔۔۔
°°°°
صبح ہوتے ہی وہ سب سے پہلے پولیس اسٹیشن گئی تھیں۔۔
سلمان کی بیل کروانے ۔۔۔
انہیں وہاں دیکھ کر سلمان سخت برہم ہوئے تھے۔۔
سماہرا ! آپ یہاں کیوں آئی ہیں۔۔۔؟؟
ڈرائیور یا کسی اور کو بھیج دیا ہوتا۔۔۔
وہ سخت الفاظوں میں بولے تھے لیکن سماہرا کو کوئی پرواہ نہیں تھی۔۔ان کو ساتھ لئے وہ پولیس اسٹیشن سے نکل رہی تھیں۔
خاموشی سے وہ گاڑی میں بیٹھ چکی تھیں سلمان کی کسی بات کا جواب دینا ان نے گوارا نہ کیا تھا۔۔
معصومہ۔۔۔
میں یہاں پاگل ہوں جو کب سے بول رہا ہوں اور ایک آپ ہیں جو میری باتوں کو ان سنی کر رہی ہیں۔۔
گاڑی کی ونڈو سے انہیں پن کیے وہ خفا خفا سے بولے تھے۔۔
سلمان۔۔۔
انہوں نے ڈرائیور کی جانب ان کی نظریں مرکوز کروائی تھیں ۔
وہ پیچھے ہو گئے تھے مگر انہیں چھوڑا نہ تھا۔۔۔۔
او بے وفا تیری دیوانگی۔۔۔
دیوانگی۔۔۔۔۔۔
آنسوں میں غم ملا کے۔۔۔
تم کو میرا دل دکھا کے
کیا ملا ہے یہ بتا مجھے
یہ ناراضگی کیسے دل سے میرے جائے گی؟
تیری بات میں اثر لگی۔۔۔
پہلی بارش کے جیسے کتنا یہ رولائے گی
جانے کس کی ہے نظر لگی۔۔۔
سماہرا مجھ سے دور نہ جائیے گا۔۔۔
میرے ساتھ رہیے گا۔۔سلمان تم بن ادھورا ہے۔۔۔
ان کو خود میں کی بانہوں کے گھیرے میں لیا تھا ایک ڈر سا تھا ان کے دل میں جو ہلکورے کھا رہا تھا۔۔
میں یوں خفا تو نہیں
مگر گلا ہے مجھے
کیوں بے وفا سے کوئی وفا کرے
رکھا ہوا قید میں
ہے اس کے من میں کہیں
اسے کہو دل میرا رہا کرے
اپنا بنا کیا فنا
تو یہ بتا تھی کیسی یہ دیوانگی۔۔۔۔۔۔
یہ بات وقت بتائے گی سلمان ۔۔۔
میں اس سب میں کچھ نہیں کر سکتی۔۔۔
وہ پیچھے ہو گئی تھیں ، پرس سے گلاسز نکال کر پہن چکی تھیں وہ تاکہ اپنے ان آنسوں کو چھپا سکیں۔۔۔
تھوڑی دیر میں ہی ان کی گاڑی ایک گھر کی جانب رکی تھی ، وہ دونوں ہی داخل ہوئے تھے اس گھر میں ۔۔۔۔۔
°°°°°
کچھ بھی نہیں ہے یہ جہاں
تو ہے تو ہے اس میں زندگی
یہ عشق ہے میرا۔۔۔۔
اس کی خوشبو، اسکا احساس انسان کو سکون فراہم کر تا ہے۔۔۔۔
" رات کے پہر۔۔۔
تیز موسلا دار بارش۔۔۔
آسمان میں چمکتی بجلی جس کے باعث اندھیرے میں کچھ لمحے کے لئے ماحول میں روشنی پھیلتی تھی۔۔۔
اب مجھ کو جانا ہے کہاں
کہ تو ہی سفر ہے آخری
اسی بارش میں ضامن کھڑا خود کے وجود کو بھیگو رہا تھا۔۔۔
ہیرا کے الفاظ اس کے کانوں میں گونج رہے تھے۔۔۔۔
آنکھیں بند کیے ، چہرے آسمان کی جانب اٹھائے وہ آج کتنے عرصے بعد اس بارش کو محسوس کر رہا تھا جس نے تمام خوشیاں چھین لی تھیں اس سے۔۔۔۔
اس کی ہنسی ، وہ خوبصورت مسکراہٹ سب اسی بارش کے پانی میں بہتے چلے گئے تھے۔۔۔
کہ تیرے بنا جینا ممکن نہیں
نہ دینا کبھی مجھ کو تو فاصلے
بارش کا پانی اچانک اس کے وجود پر گرنا بند ہوا تھا البتہ آواز اب بھی آ رہی تھی اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو دعا چھتری لیے اس کے ساتھ سائے کی مانند کھڑی تھی۔۔۔
میں تجھ کو کتنا چاہتا ہوں
کہ تو کبھی سوچ نہ سکے
ضامن۔۔۔آ۔۔آپ یہاں کھڑے کیوں بھیگ رہے ہیں، سردی لگ جائے گی۔۔۔
دعا نے فکرمندی سے کہا تھا۔۔۔
ضامن نے پہلو میں کھڑی دعا کو دیکھا ، پھر ایک نظر اس چھتری اور برستی بارش کو دیکھا تھا۔۔۔
وہ منٹوں میں اس چھتری کے سائے کو ختم کر چکا تھا۔۔۔
اب بارش ان دونوں کے وجود کو بھیگو رہی تھی۔۔
آنکھوں کی ہیں یہ خواہشیں
کہ چہرے سے تیرے نہ ہٹیں
اس بارش نے مجھ سے میری محبت کرنے والی بیوی کو چھینا۔۔۔
دعا کے بارش میں بھیگتے وجود کو اپنی جانب کھینچا تھا ، کسی کٹی پتنگ کی مانند وہ سیدھا اس کے سینے سے آن ٹکرائی۔۔۔
اسے جتنا عشق تھا بارش سے ، یہی بارش اس کی بربادی کا باعث بنی تھی۔۔۔
اس کو خود میں بھینچے اپنا درد عیاں کر رہا تھا۔۔
آنکھیں اس کی لال سرخ ہو رہی تھیں، اور چہرا پورا تر،۔۔۔
اب یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ چہرا آنسوں سے بھیگا ہے یا بارش سے۔۔۔۔۔۔۔
نیندوں میں میری بستے رہیں
خوابوں لیں ہیں کروٹیں
اسی برسات کے موسم کو ہم دونوں ساحل پر گئے تھے ، محسوس کرنے۔۔۔۔۔
یہ بھی اسی ہی کی خواہش تھی۔۔۔
دعا کی گیلی زلفوں کو کان کت پیچھے اڑسا ، جن سے شبنم کے قطروں کی مانند پانی گر رہا تھا۔۔۔
"میری جان ، بیمار ہو جاؤ گی اب چلو۔۔
ضامن نے ہیرا کا ہاتھ پکڑ کر گاڑی کے اندر لے جانا چاہا تھا کہ ہیرا نے ضامن کے ہاتھوں کو کھینچ کر اپنے ساتھ ہی نیچے ریت میں بیٹھا لیا۔۔۔۔
اف ضامن محسوس کریں اس موسم کو۔۔۔
کتنی خوبصورت برسات ہے۔۔
خدا کا تحفہ۔۔۔
اپنا چہرا اوپر کی جانب کیے بولی کے بے ساختہ مقابل کا دل دھڑکا تھا۔۔۔
یہ عشق ہے میرا۔۔۔۔
بارش کے پانی کو ہاتھوں کے پیالے میں بھرا تھا اس نے۔۔۔
اور میرا عشق تم ہو ہیرا۔۔۔۔
اس کے وجود کو بانہوں میں بھرتا گاڑی میں لے جانے لگا تھا کہ پیچھے سے کچھ اوباش لڑکوں کے قہقہے سنائی دیے تھے اسے۔۔۔
استاد ۔۔۔مال تو مست ہے اجازت ہو تو بانٹ لیں۔۔۔۔
انہیں اگنور کیے خود پر ضبط کرتا وہ ہیرا کو لیے گاڑی میں آیا تھا۔۔
باہر مت نکلنا۔۔۔۔
اسے منع کرتا وہ ان لڑکوں کے پاس آیا ۔۔
کیا بکواس کی تھی؟؟
ایک لڑکے کے کالر کو جکڑے وہ خون آشام آنکھوں سے انہیں دیکھتے بولا تھا ماتھے کی رگیں غصے کے بعض ابھرنے لگی تھیں۔۔۔۔۔
یہی کہ مال بہ۔۔
ضامن کے ہاتھ سے پڑنے والے مکوں نے اسے مزید کچھ کہنے کا قابل نہ چھوڑا تھا۔۔۔
وہ غصے اور تیش میں آتا انہیں پیٹ رہا تھا کہ کسی نے پیچھے سے سر میں کانچ کی بوتل ماری۔۔۔۔
آہہہ۔۔۔۔۔
ضامن سر پہ ہاتھ رکھتا مڑا تھا ، خون اسکے سر سے رِس رہا تھا۔۔
ض۔۔۔ضامن۔۔۔۔سی۔۔۔سیو می۔۔۔
دور سے آتی ہیرا کی آواز پر اس نے تڑپ کر اسکی جانب دیکھا تھا جہاں پر وہ مدد کے لئے اسے پکار رہی تھی۔۔۔۔
یو ایڈیٹ۔۔۔۔۔۔۔
لیو مائی وائف۔۔۔۔
آہہہہ۔۔۔وہ زمین پر بیٹھتا چلا گیا تھا جب اسکی ٹانگوں پر ڈنڈے کی گہری ضربیں لگی تھیں۔۔۔
چیختے ہوئے وہ آگے بڑھنا چاہتا تھا لیکن ان لڑکوں نے گھیرا ہوا تھا اسے۔۔۔۔
ضامن۔۔۔۔۔۔ہیرا کی دلخراش چیخیں اسکی جان نکالنے کو کافی تھیں۔۔وہ آگے بڑھنا چاہتا تھا اسکے پاس جانا چاہتا تھا لیکن انہوں نے ضامن کو اس قابل نہ چھوڑا تھا کہ وہ اٹھ کر اس کی مدد کر سکتا۔۔۔
میری پوری دنیا اجڑ چکی تھی جب ہیرا کا بے جان وجود میرے قدموں میں پھینکا گیا تھا۔۔۔۔
گرج چمک کے ساتھ ہوتی وہ بارش جو کچھ دیر پہلے مجھے بہت بھا رہی تھی ، مگر کچھ ہی لمحوں میں اس موسم سے نفرت ہونے لگی تھی۔۔۔
اس طوفانی موسم میں وہ لڑکے قہقے لگاتے جا چکے تھے۔۔۔۔۔جبکہ میں اپنے ادھ مرے وجود کے ساتھ اپنی بے بسی پر کراہ رہا تھا۔۔۔
مجھے پتہ نہ چلا کہ کب صبح ہوئی ، کب ہم وہاں سے گھر لے آئے گئے ، کب ہیرا کی تدفین ہوئی۔۔۔کچھ خبر نہ تھی۔۔۔۔
اپنی بیوی کا آخری دیدار بھی نصیب نہ ہوا تھا مجھے۔۔۔۔
دعا کو خود میں سموئے اپنے غم کی داستان سنا رہا تھا، اسکے آنسوں دعا کی گردن پر گر رہے تھے۔۔۔
تینو اتنا میں پیار کراں۔۔۔
ایک پل وچ سو بار کراں
تو جاوے جے مینو چھڈّ کے
موت دا انتظار کراں۔۔۔۔
تم تو مجھے کبھی چھوڑ کر نہیں جاو گی نا؟؟
کسی ڈر کے تحت اس کے چہرے کو اوپر اپنی جانب کیا
ن۔۔۔نہیں۔۔۔۔
کپکپاتے ہونٹوں کے ساتھ بولی تھی کہ بے اختیار کر جھک وہ اس کی سانسوں ، جذبات کو خود میں قید کر گیا۔۔۔۔
تیرے لئے دنیا چھوڑ دی ہے
تجھ تجھ پر سانس آ کر رکے۔۔۔
آئے لو یو دعا۔۔۔
تم ضامن کی محبت و زندگی ہو۔۔۔
مجھ سے کبھی دور نہ جانا۔۔۔۔
میں یہ نہیں کہوں گا کہ مجھے تم سے عشق ہے،۔۔۔
مگر تم ضامن کے دل کی دھڑکن ہو،
اگر دھڑکن رک جائے تو انسان بیکار ہے۔۔۔
اس کے ماتھے سے ماتھا ٹکائے خمار زدہ لہجے میں بولا۔۔۔
بارش کے اس خوبصورت دل موہ لینے والے موسم میں۔۔۔
وہ دونوں بھیگتے ایک دوسرے کی دھڑکنوں کو محسوس کر رہے تھے۔۔۔۔
°°°°°°°
مفتی صاحب۔۔۔
میں نے ایک لڑکی سے انتہاہ کی محبت کی ،
لیکن وہ شادی شدہ تھیں، میں مذہب سے دور تو تھا مگر اتنا ضرور جانتا تھا کہ شادی شدہ عورت پر نظر کرنا گناہ ہے۔۔
بمشکل دل کو سنبھالے میں پیچھے ہونے لگا تھا۔۔۔
باہر کے ملک جا رہا تھا ہمیشہ کے لئے۔۔۔
لیکن راستے میں ہی اتفاقاً اسی لڑکی کا ایکسیڈینٹ میری گاڑی ہو گیا۔۔وہ اپسرا خون سے لت پت روڈ پر پڑی تھی۔۔۔
بے شک جو بھی تھا میں نے اس لڑکی سے محبت کی تھی
اس کو یوں اس حال میں دیکھنا میرے لئے سوہانِ روح تھا۔۔
میں فوراً سے اس کو ہسپتال پہنچایا اور خود اس کے گھر اسکے شوہر کو اطلاع دینے گیا ، لیکن وہاں جا کر میں دنگ رہ گیا تھا کہ اس کا شوہر کسی اور عورت سے شادی رچائے بیٹھا ہے۔۔۔۔
مجھے تمام معاملات سمجھ آنا شروع ہو گئے تھے۔۔۔
کہ کیوں وہ گھر سے نکلی تھی۔۔۔
میرا دل کیا میری محبت کو اس حال میں پہنچانے والا کا حشر بگاڑ دوں لیکن۔۔۔پھر ایک خیال میرے ذہن میں آیا جس کو میں نے عملی جامعہ پہنایا۔۔۔
طلاق۔۔۔دھوکہ سے طلاق۔۔
کیونکہ میری نظر میں قانونی طلاق صرف عدالت کے کاغذات پر دستخط کروانے سے ہی ہو جاتی تھی۔۔۔
اسلئے میں نے سماہرا کو ان کی نظر میں مر۔۔۔مردہ ثابت کر دیا ۔۔۔
اور ہسپتال کے کاغذات پر ہی طلاق کے کاغذات رکھوا کر سائین کروا لئے۔۔۔۔۔
ا۔۔۔اب آپ بتائیں ؟؟
کیا کریں ہم؟؟؟؟
ان کے سامنے سر جھکائے وہ بے بسی سے بولا تھا۔۔جبکہ یہ حقیقت سلمان کی زبانی سن کر سماہرا کا دل کٹ سا گیا تھا۔۔۔
وہ بھی منتظر تھیں مفتی صاحب کی بات کے۔۔
کہ نجانے وہ کیا حل بتائیں۔۔۔۔
دیکھو بیٹا طلاق ایسے نہیں ہوتی۔۔۔
طلاق دینے والے کو یہ لازماً معلوم ہونا چاہیے کہ وہ طلاق دے رہا ہے۔۔۔۔۔۔
طلاق اور نکاح یہ دونوں چیزیں مزاق نہیں ہیں۔۔
اگر کوئی دو لوگ تین بار نکاح کو آپس میں قبول کرتے ہیں ، لوگوں کی موجودگی میں ، اور وہ اس بات کے گواہ بن جائیں کہ ہاں، " واقعی ان نے نکاح قبول کیا"
تو سمجھیں نکاح ہو گیا۔۔۔۔۔۔
اور اگر ایسے ہی کوئی شخص مزاق میں ہی تین بار بیوی کو طلاق کہتا ہے ، بے شک اس کے سامنے بھی نہ صحیح لیکن جیسے ہی وہ زبان سے اس چیز کو قبول کر لے۔۔۔
تو سمجھیں طلاق طے پا چکی ہے۔۔۔۔۔۔
اور دوسرا۔۔۔۔۔
جس کا غذ پر طلاق دینے کی بات لکھی ہے اسے پڑھ کر یا لڑکے کہنے ہی سے لکھے گئے ہوں تو دستخط کردینے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے، طلاق دیتے وقت یا لکھتے وقت، یا تحریر پر دستخط کرتے وقت لڑکی کا سامنے موجود ہونا ضروری نہیں۔
مفتی صاحب اپنی بات کہہ کر خاموش ہوئے تھے۔۔۔۔
اگر شوہر زندہ ہو اور طلاق بھی نہ ہو تو کیا عورت دوسرا نکاح کر سکتی ہے؟؟
ہاں کر سکتی ہے مگر صرف اس شرط پر کہ
"شوہر کے غائب ہوجانے کی صورت میں اگر بیوی کے لیے پاک دامنی کے ساتھ زندگی گزارنا ممکن نہ ہو تو وہ دوسرا نکاح کرسکتی ہے۔
اور اگر دوسری شادی کے بعد پہلا شوہر لوٹ آئے تو مذکورہ خاتون کا نکاح اس کے پہلے شوہر سے بدستور قائم رہےگا، دوسرے شوہر کے ساتھ اس کا نکاح خود بخود باطل ہو جائے گا؛ اس لیے دوسرے شوہر سے فوراً علیٰحدگی لازم ہوگی۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 414):
"(ولو قضى على الغائب بلا نائب ينفذ) في أظهر الروايتين عن أصحابنا".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 414):
"قلت: ويؤيده ما يأتي قريبا في المسخر، وكذا ما في الفتح من باب المفقود لايجوز القضاء على الغائب إلا إذا رأى القاضي مصلحة في الحكم له وعليه فحكم فإنه ينفذ؛ لأنه مجتهد فيه اهـ".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4 / 295):
وقال في الدر المنتقى: ليس بأولى، لقول القهستاني: لو أفتى به في موضع الضرورة لا بأس به على ما أظن اهـ
المبسوط للسرخسي ـ موافق للمطبوع (11/ 64):
"وأما تخييره إياه بين أن يردها عليه وبين المهر فهو بناء على مذهب عمر رضي الله عنه في المرأة إذا نعي إليها زوجها فاعتدت وتزوجت ثم أتى الزوج الأول حياً أنه يخير بين أن ترد عليه وبين المهر، وقد صح رجوعه عنه إلى قول علي رضي الله عنه، فإنه كان يقول: ترد إلى زوجها الأول، ويفرق بينها وبين الآخر، ولها المهر بما استحل من فرجها، ولا يقربها الأول حتى تنقضي عدتها من الآخر، وبهذا كان يأخذ إبراهيم رحمه الله فيقول: قول علي رضي الله عنه أحب إلي من قول عمر رضي الله عنه، وبه نأخذ أيضاً؛ لأنه تبين أنها تزوجت وهي منكوحة، ومنكوحة الغير ليست من المحللات، بل هي من المحرمات في حق سائر الناس". فقط واللہ اعلم۔۔۔
میں نے سماہرا سے نکاح تو کیا تھا مگر طلاق کے دو سال بعد۔۔۔۔۔
اس عرصے میں وہ اپنے شوہر سے لا علم تھیں۔۔۔ مطلب ملی نہیں تھیں۔۔۔
چہرے پر ایک رمک سی آئی تھی۔۔۔۔
ہممم۔۔۔تو پھر اس لحاظ سے اگر اس لڑکی کا سابقہ شوہر لوٹ آیا ہے تو اس کا نکاح اس کے شوہر کے ساتھ قائم ہے۔۔۔۔
اسلئے انہیں تم سے علیحدگی لے کر ، اپنی عدت پوری کر کے ان کے پاس واپس لوٹ جانا چاہیے۔۔۔۔
شریعت کے مطابق۔۔۔۔
جہاں مفتی صاحب نے اپنی بات مکمل کی تھی ، سلمان کو لگا وہ دوسرا سانس نہیں لے پائیں گے۔۔۔
سماہرا وہاں سے روتے ہوئے نکل گئی تھیں۔۔
جبکہ سلمان ان کے پیچھے۔۔۔۔۔۔۔
°°°°°°°°
مہرالنسا کی آنکھ صبح اپنے چہرے پر کوئی نرم چیز محسوس کر کے کھلی۔۔۔۔
اپنی مندی مندی آنکھیں کھولیں تو فیروز کو خود پر جھکے پایا تھا جو کہ ہاتھ میں گلاب لئے اس کے چہرے پر ٹریس کر رہا تھا۔۔۔
گڈ مارننگ مائے لائف۔۔۔۔
گلاب کا پھول اسکی جانب کیے ماتھے پر محبت سے بھرا لمس چھوڑا۔۔۔۔۔
گڈ مارننگ بٹ۔۔۔
مجھے گلاب پسند نہیں۔۔۔۔!!
وہ منہ کے زاویے بگاڑ کر بولی۔۔۔۔۔
پر کیوں؟؟؟
یہ تو ہر لڑکی کا عشق ہوتا ہے!!!!
فیروز نے اس کے بالوں کی آوارہ لٹ کو کھینچتے ہوتے ہوئے کہا۔۔۔۔
جس پر مہر نے اسکو ایک زبردست گھوری سے نوازا تھا۔۔۔
ہوتا ہو گا ۔۔۔پر میں ان لڑکیوں میں شامل نہیں۔۔۔۔کیونکہ مہر النساء فیروز شمس سب سے الگ ہے۔۔۔۔
اس کے گلے میں بازو ڈالے آنکھیں پٹپٹاتے بولی۔۔
ہممم۔۔۔۔۔سب سے الگ ہے تبھی تو میرے ساتھ ہے۔۔۔۔وہ فخریہ انداز میں کالر جھاڑتے ہوتے بولا۔۔
خیر تمہیں یہ کیوں نہیں پسند ۔۔۔؟؟؟
وہ تھوڑا سنجیدگی سے بولا۔۔۔
کیونکہ یہ تکلیف دیتے ہیں۔۔
بھلا کیسے؟؟؟ وہ حیرت سے گویا ہوا...!!!!
گلاب کے ساتھ لگے کانٹے جب کسی کو لگ جائیں تو بےحد تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔۔۔
کیا۔۔؟؟ تم صرف کانٹوں کی بدولت ان کو ناپسندیدگی کا شرف دے رہی ہو؟؟
اس پر تو گویا حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹے تھے۔۔۔۔
ہاں نا ۔۔۔۔کیونکہ کچھ بھی انسان بھی گلاب کی مانند ہیں۔۔جو خوبصورتی کی آڑ میں انسان کو اپنے تلخ رویوں سے تکلیف دے جاتے ہیں۔۔۔
وہ اچانک مایوس ہوئی تھی کہ فیروز تڑپ ہی تو گیا تھا اس خوبصورت چہرے پر مایوسی دیکھ۔۔۔
جانم آیم سوری ۔۔۔۔۔
ہر اس خطا ، ہر اس غلطی کے لئے ۔۔۔
ہر اس لہجے کے لئے جس نے میری زندگی کو تکلیف پہنچائی۔۔۔
بوجھل لہجے میں کہتے وہ اس کے گال پر جھک گیا اور دھکتہ لمس چھوڑے پیچھے ہوا تھا اور اس کو فریش ہونے کا کہے باہر نکل گیا۔۔۔
°°°°°°°°
سماہرا ۔۔۔۔
اسٹاپ۔۔۔۔
واٹ سلمان۔۔۔؟؟
دھوکہ دیا ہے آپ نے مجھے سلمان اندھیرے میں رکھا مجھے۔۔۔
دو مرد میری زندگی میں آئے اور آپ دونوں نے ہی کوئی کسر نہیں چھوڑی مجھے تکلیف دینے میں۔۔
وہ روتے ہوئے اذیت بھرے لہجے میں بولی تھیں کہ سلمان تڑپ اٹھے تھے۔
معصومہ میری۔۔۔۔
نہیں ۔۔نہیں بولیں مجھے معصومہ ۔۔آپ دونوں نے مل کر مار ڈالا ہے میری شخصیت کو۔۔
اپنے بالوں کو نوچتے وہ زمین پہ بیٹھتی چلی گئی تھیں۔۔
پہلے تھا چرایا جو
گھر تھا پھر بنایا جو
سماہرا گھر چلو وہاں چل کے بات کرتے ہیں آرام سے ۔۔۔
وہ بھی زمین پہ بیٹھے تھے انہی کے ساتھ اور آرام سے منانا چاہا تھا انہیں۔۔
ان کی بات پر جن نظروں سے سماہرا نے دیکھا تھا انہیں ، نظریں چرانے پر مجبور ہو گئے تھے وہ۔۔
دل وہی کیوں توڑ بھی دیا ہے
درد یہ اٹھایا جو
کیا آپ نے ہمارے اس رشتے کو اس قابل چھوڑا ہے کہ میں گھر جاوں؟
دل پہ پھتر رکھے وہ مقابل سے شکوہ کر گئی تھیں۔۔ان کا دل تڑپ رہا تھا اس رشتے کی دراڑ پر ، ان کے خوبصورت آشیانے کو نظر لگ چکی تھی جو کہ انہیں کے خاوند کے جذباتی فیصلے کی بدولت تھا۔۔
کیا ملا آپکو سلمان یہ سب کر کے۔۔۔
کیوں چھپایا آپ نے مجھ سے اس راز کو؟
آپ نے شادی کرنی تھی نا مجھ سے ؟ ہم عدالت میں کیس ہائر کر دیتے ۔۔ میں خلع لے لیتی حازم سے ،مگر یہ دھوکہ۔۔۔
وہ ان کے کالر کو دبوچے چیخ کر بولیں تھیں کہ آس پاس موجود سب لوگ ان کی بے بسی کا تماشہ دیکھ رہے تھے۔۔
ح۔۔حازم کبھی تمہیں طلاق نہ دیتا تبھی میں نے ی۔۔یہ سب۔۔۔
ان کو ہاتھوں کو ہٹایا نہیں تھا اپنے کالر سے بلکہ انہیں پہ اپنے ہاتھ رکھ کر ان کے غصے کو کم کرنا چاہا تھا۔۔۔
اگر ایسے ہی ملنا تھا تو کاش ہم کبھی ملتے ہی نا!!!
اچھا ہی ہوتا کہ میں اس دن مر جاتی۔۔۔نہایت کی بے بسی ، کرب ، تکلیف تھی ان کی آواز میں۔۔۔
مشکلوں سے پایا جو
پھر اسی کو چھوڑ بھی دیا ہے
میرے جذبات ارمانوں کے ساتھ کھیلا ہے ،میری روح کو گھائل کیا ہے آپ دونوں نے جس کے لئے کبھی بھی معاف نہیں کروں گی۔۔
سماہرا اٹھی تھی وہاں سے اور بنا سلمان کی جانب دیکھے نکلتی چلی گئی تھیں جبکہ وہ انہیں چاہنے کے باوجود بھی نہیں روک پارہے تھے۔۔
سلمان نے اپنے بے وقوفانہ ، جذباتی حرکات کی وجہ سے آج خالی ہاتھ رہ گیا تھا۔۔۔
ایک آنسوں کے بعد کئی آنسوں بے مول ہوئے تھے ان کی آنکھوں سے بہہ کر۔۔۔
لگا گلے ، جدا کیا۔۔
تو یہ بتا تھی کیسی یہ دیوانگی
او بے وفا۔۔۔۔تیری دیوانگی۔۔
آج وہ اپنے فلیٹ میں موجود تھیں جو کہ سلمان نے انہیں سالگرہ پر دیا تھا۔۔۔۔
وہاں آتے ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھیں۔۔۔
ان نے سوچا بھی نہ تھا کہ اس تحفے کو وہ یوں استعمال کریں گی ، اسی شخص کی عدت کے لئے۔۔۔۔۔۔
°°°°°°°°
کچھ مہینوں بعد۔۔۔۔۔۔
پھولوں سے سجی دہلیز۔۔۔۔
خوشبوؤں سے مہکتا کمرا۔۔۔۔
نفاست سے رکھی گئی ہر چیز۔۔۔
اور آخر میں نظر جا ٹھہری تھی اس تصویر پر جو کئی سال پہلے کتنے دل اور جذبات سے بنوائی تھی اس نے۔۔۔۔
لیکن تب اور اب میں بہت بڑا فرق تھا،
جیسے فرق ہوتا ہے زمین اور آسمان میں۔۔۔
پہلے اس کے جذبات صرف اس ہرجائی کے لئے تھے۔۔۔
مگر اب جذبات مسیحائی کے لئے ۔۔۔
اس کا ہوں اس میں ہوں اسے ہوں اسی کا رہنے دے
میں تو پیاسا وہ دریا وہ زریعہ وہ جینے کا میرے
مجھے امید تھی تم ضرور آو گی۔۔
اپنے عقب سے آتی حازم کی آواز پر وہ دھیرے سے گھومی تھی۔۔
وہ کچھ نہیں بولی بس یک ٹک اس کے چہرے کو دیکھے گئی جہاں خوشی ہی خوشی تھی۔۔۔
وہ شخص کتنا خوش دیکھائی دے رہا تھا اس کے گھر کی خوشیوں کو چھین کر۔۔۔
سماہرا کے دل میں نفرت سی پیدا ہوئی تھی ۔۔۔
مجھے گھر دے گلی دے شہر دے اسی کے نام کے
قدم یہ چلے اور رکے اور اسی کے واسطے کے
دل مجھے دے اگر درد دے اس کا پر
سن کے وہ ، وہ ہنسی گونجے جو میرے گھر
یہ دیکھو اس روم کو میں نے خود سجایا ہے اپنے ان ہاتھوں سے صرف تمہارے آنے کی خوشی میں۔۔
ان کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا تھا۔۔۔
کیوں؟؟؟
دوسری بیوی سے دل بھر گیا ہے کیا جو اب دوبارا مجھے پا لینے کی خواہش جاگ رہی ہے وہ بھی عمر کے اس آخری حصے میں۔۔۔
ویسے آپ کی وہ سو کالڈ وائف دیکھائی نہیں دے رہیں۔۔۔
طنزیہ کہتے بالکل عمر پر چوٹ کرنا نہ بھولیں تھیں۔۔
اے خدا ! اے خدا !جب بنا اس کا ہی بنا۔۔۔۔
اے خدا ! اے خدا !جب بنا اس کا ہی بنا۔۔۔۔
مجھے کسی سے کوئی سروکار نہیں ہے ، میں اس وقت صرف اپنی اور تمہاری بات کرنا چاہتا ہوں۔۔
آج بہت خوش ہوں تمہیں واپس اپنا بنا کر۔۔۔۔
صحیح کہا آپ نے۔۔۔
آپ کو کسی سے کوئی سروکار نہیں۔۔۔۔
آخر بے وفا جو ٹھہرے۔۔۔
حازم شائد آپ کی فطرت میں ہی بے وفائی ہے۔۔۔
وہ افسوس بھری نظر اس کے وجود پر ڈال کر بولی تھی۔۔۔
میرے ساتھ تو چلیں بے وفائی کی ہی تھی آپ نے ، مگر۔۔۔
جس کی خاطر مجھے ٹھکرایا تھا اب اسی کو بے مول کر رہے ہیں میرے لئے۔۔۔
عجیب۔۔۔۔۔
سماہرا اس وقت میں سب بھول جانا چاہتا اپنا ماضی ہر اس چیز کو، جس نے ہمیں الگ کیا۔۔۔ بس یاد رکھنا چاہتا ہوں تو صرف تمہیں اور ان لمحات کو جو ہم دونوں مل کر بنائیں گے۔۔
دیوار سے پین کیے ان کے چہرے کو بغور دیکھتے کہہ گئے تھے وہ۔۔۔
یہ کمرا ، یہاں کی ہر چیز سے ہماری یادیں جڑیں ہیں سماہرا۔۔۔
ان کی آنکھوں میں دیکھے ان نے جذبات کی لہر میں کہا تھا کہ وہ ہنس دی۔۔
اس ہنسی میں کیا کچھ نہ تھا۔۔
تلخی۔۔
نفرت۔۔۔
افسوس۔۔۔
دکھ۔۔۔
واقعی اس کمرے سے بہت سی یادیں جڑی ہیں۔۔
آپ کی نفرت کا اظہار۔۔۔
مجھے زبردستی کی بیوی کہتے ہوئے دھتکارنا۔۔۔
مڈل کلاس لڑکی کا طعنہ دینا۔۔۔
میری محبت کو لالچ کہنا۔۔۔
اپنی ماں کی موت کا طعنہ دینا۔۔۔
پھر اچانک آپ کا بدل جانا ، مجھ سے محبت کا اظہار کرنا ۔۔۔۔
اور پھر بدل جانا کسی اور لڑکی سے عشق کا اظہار کرتے ہوئے کہ وہ طلب ہے آپ کی مجبوری ہے آپ کی ،
میری بیٹی کو مجھ سے چھین کر اسے دینا۔۔۔
پھر خود بھی اس کے پاس چلے جانا۔۔۔
میرے اس گھر کی ہر خوشی کو اجاڑ دیا آپ نے۔۔۔۔
بس یہی یادیں جڑیں ہیں۔۔
حازم سماہرا کے ایک ایک لفظ کو بغور سن رہا تھا اور اس کی بیٹی لینے والی بات پر حیرت سے اس کی جانب دیکھا ، رنگ یکدم فق ہوا تھا۔۔۔
کیا ہوا شاک لگا ؟ یہ سن کر کہ میں کیسے جانتی ہوں اپنی بیٹی کے بارے میں۔۔۔
طنزیہ ہنستے آج وہ حازم کو ہارٹ اٹیک کروانے کے در پر تھیں۔۔۔
اس دن میں کسی کام سے آئی تھی آپ کے آفس میں، لیکن میں باہر ہی رک گئی تھی اندر آتی آپ اور آپ کی محبوبہ کی محبت بھری باتیں سن کر۔۔۔
"اس کا مطلب ۔۔۔آپ مجھ سے اب شادی نہیں کریں گے۔۔۔۔
وہ آنکھوں میں موٹے موٹے آنسوں لیے بولی۔۔۔
میں۔۔۔۔
حازم پلیز ۔۔ڈونٹ سے نو۔۔۔
ائے کانٹ لیو ود آوٹ یو۔۔۔
وہ دل پر پتھر رکھے اپنے شوہر کی بانہوں میں کسی اور عورت کو دیکھ رہی تھی آنکھوں کے کنارے بھیگنا شروع ہوئے تھے۔۔۔
وہ اس کے ہونٹوں پر اپنی شہادت کی انگلی رکھتے ہوئے بولی۔۔۔
میں نا کیوں بولوں گا۔۔۔؟؟؟
وہ اپنے دل کو سنبھالتے ہوئے بولا۔۔
ڈو یو لو می۔۔۔؟؟؟؟
وہ اس کے کالر کو تھامے اپنا چہرا اس کے چہرے کے قریب کرتے ہوئے بولی۔۔
وہ روح بھی میری یہ جسم بھی میرا
اتنا میرا نہیں جتنا ہوا تیرا
یس۔۔افکورس آئے ڈو۔۔۔
اس کے ان لفظوں نے سماہرا کے دل کو چھلنی کیا تھا ۔۔۔
وہ ان کی اس نزدیکی کو برداشت نہیں کر پا رہی تھی۔۔
اسکا دل چاہا کھینچ کر اس لڑکی کو الگ کر دے حازم سے ،لیکن پھر کچھ سوچ کر وہ رک گئی تھی وہیں پر۔۔۔۔
آپ میرا عشق میرا جنون ہیں حازم ۔۔۔۔
اس کو چہرا دونوں ہاتھوں میں بھرے خمار آلود آواز میں اپنا حالِ دل بیان کر رہی تھی۔۔۔
آپ کو مجھ سے ایک وعدہ کرنا ہو گا۔۔۔۔اور وہ یہ ہے کہ ،"آپ اپنی پہلی اولاد میرے نام کریں گے،'"
روباب کی بات سن کر حازم کے اوپر ساتوں آسمان آ گرے تھے۔۔وہ لڑکھڑاتے قدموں سے پیچھے ہوا تھا۔۔۔۔
اس کے جواب کا انتظار باہر کھڑی سماہرا کو تھا ،وہ سننا چاہتی تھی اپنے شوہر کے لفظوں کو۔۔۔
اسے یقین تھا وہ منع کر دے گا۔۔۔
لیکن جیسے ہی اس کے منہ سے وہ جملے ادا ہوئے تھے باہر کھڑی اس بیوی کے دل پر بہت گہری ضرب لگی تھی۔۔۔
وہ باہر امڈ آنے والے آنسوں کا گلا گھونٹے وہاں سے نکلتی چلی گئی تھی۔۔۔
اوکے۔۔آنکھوں کو بند کیے اس نے جواب دیا تھا ، دل کہہ رہا تھا منع کر دو مگر دماغ تھا بول رہا تھا جو کر رہے ہو ٹھیک ہے۔۔۔۔۔
تو نے دیا ہے جو وہ درد ہی صحیح
تجھ سے ملا ہے تو یہ انعام ہے میرا۔۔۔
حازم آپ نے بہت تکلیف دی ہے اس دل کو ، اس دل نے کسی سے بھی محبت کرنا ہی چھوڑ دیا تھا آپ نے اعتبار کرنے کے قابل نہ چھوڑا تھا مجھے۔۔۔
یہ سماہرا اس کی روح ، اس کی محبت ، اس کے جذبات سب آپ کے تھے حازم ، مگر کسی اور عورت کو بیچ میں لا کر آپ نے سب ختم کر دیا۔۔۔
سب تباہ ہوتا چلا گیا۔۔۔۔۔
پلیز مجھے آزادی دے دیں اس رشتے سے ، اب پورے ہوش و ہواس میں آپ سے اپیل کرتی ہوں یہ ہیں خلع کے کاغذات میں نے سائن کیے ہیں بس آپ سائین کر دیں۔۔
س۔۔۔سمی !!!
یہ کیا کہہ رہی ہو؟؟
مارے حیرت اور غم کے وہ دو قدم پیچھے ہوئے تھے۔۔۔
بالکل ٹھیک کہہ رہی ہوں حازم۔۔
میں آپ کے ساتھ خوش نہیں رہ پاؤں گی۔۔۔
بلکہ میں آپ کے ساتھ رہنا ہی نہیں چاہتی ۔۔۔
ان گزرے سالوں میں سلمان نے مجھے وہ سب دیا ہے جو آپ چاہ کر بھی نہ دے پائے۔۔۔
اعتبار۔۔۔
اپنے پن کا احساس۔۔۔۔
عزت۔۔
چاہت۔۔۔
خود کی زندگی پر اختیار۔۔۔
خود مختاری۔۔۔
اولاد۔۔۔
محبت۔۔۔
وہ سب ایک ٹرانس سی کیفیت میں کہہ رہی تھیں۔۔ان کی آنکھوں میں ایک خوبصورت احساس ، ایک چمک سی ابھری تھی سلمان کے نام پر ، جو کہ میر حازم کو جلا کر بھسم کرنے کو کافی تھا۔۔
میرے چھوٹے چھوٹے خواب ہیں
خوابوں میں گیت ہیں
گیتوں میں زندگی ہے
چاہت ہے پریت ہے۔۔۔
ایسا مت کرو۔۔۔سماہرا۔۔
ابھی تو خدا نے واپس ہمیں ملایا ہے ، ان آنکھوں نے جی بھر کے تمہیں دیکھا بھی نہیں اور ت۔۔۔تم علیحدگی کی بات کر رہی ہو۔۔۔؟؟
میں کبھی ایک بٹے ہوئے شخص کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی جس کو محبت ہے صرف خود سے۔۔۔۔
خود کی عزت سے۔۔۔۔
جو دوسروں کو کھلونا سمجھتا ہے۔۔۔
جس کی نظروں میں دوسروں کے جذبات کی کوئی اہمیت نہیں۔۔۔
سمی ۔۔تم جو بھی کہو۔۔
میں ان کاغذات پر دستخط نہیں کروں گا۔۔
تم ہمیشہ میرے ساتھ رہو گی۔۔۔
انہوں نے ان کاغذات کو غصے سے پھینکا تھا بیڈ پر اور خود بھی وہیں ڈھہ گئے تھے۔۔
آپ کی اس بات سے اندازا ہو گیا ہے کہ "آپ کی نظروں میں صرف اہمیت آپکی اپنی خوشیوں کی ہے "
اپنی جیت ، خوشی کی آگے آپ کو کچھ بھی دیکھائی نہیں دیتا۔۔۔۔
سماہرا ایسا مت کرو۔۔۔
ح۔۔حازم مر جائے گا۔۔۔
وہ شکستہ ہوتے بولے تھے۔۔
سماہرا تو کب کی مر چکی ہے۔۔۔
وہ بھی انہی کے انداز میں بولی تھیں۔۔۔
ک۔۔کیا یہ تمہارا آخری فیصلہ ہے۔۔۔
حازم نے نجانے کس امید سے پوچھا تھا کہ شائد ہی اس کا فیصلہ بدل جائے لیکن ان کی وہ امید بھی ختم ہو گئی تھی جب سماہرا نے ہاں کہا تھا۔۔
خ۔۔خوش رہ۔۔رہو۔۔۔۔۔۔
آنکھوں کو بند کیے انہیں اپنے گلے لگایا تھا۔۔۔
پھر ایک بوسہ ان کے ماتھے پر ثبت کیا تھا جس میں جدائی، غم ، ہجر کی کیفیت شامل تھی۔۔
ایک آنسوں گر کے سماہرا کے چہرے پر گرا تھا۔۔۔
کچھ لمحے کی خاموشی کے بعد کمرے کے فسوں خیز ماحول میں ان کاغذات پر ہاتھ چلا تھا حازم کا۔۔۔۔
وہ دل پر پتھر رکھے ان پر سائن کرتا چلا گیا۔۔۔
آنکھوں سے آنسوں بہتے ان کاغذات پر گرے تھے ۔۔۔
ہے حوصلہ درد کا جو سہہ رہا ہے مجھے
کہ میرے غم کی بھی انتہاہ ہوئی۔۔۔
ی۔۔یہ لو!!
تمہاری آزادی کا پروانہ۔۔۔
آنسوں صاف کرتے انہوں نے چہرا پھیر کر وہ کاغذات ان کے ہاتھ میں تھمائے تھے ، کاغذات کو تھماتے ان کے ہاتھ کانپ رہے تھے لیکن وہ نظر انداز کیے وہاں سے نکلتی چلی گئی تھیں۔۔
تیرے بنا گزار کے جیں گے کسیے بھلا
یہ زندگی تو بے وجہ ہوئی
کیوں اس قدر رولا دیا
تو ہی بتا یہ کیسی ہے دیوانگی۔۔۔
او بے وفا تیری۔۔دیوانگی۔۔
®®®™
چھن سے جو ٹوٹے کوئی سپنا۔۔۔۔
جگ سونا سونا لاگے۔۔۔
جگ سونا سونا لاگے۔۔۔
کوئی رہے نا اپنا۔۔
سماہرا کے جانے کے بعد وہ زمیں پر بیٹھتے روتے چلا گیا۔۔۔۔۔
یہاں کی ہر چیز انہیں ماضی میں لا کھڑا کرتی تھی۔۔۔
کیا سوچا تھا اس نے۔۔کہ وہ آج سے مکمل زندگی گزاریں گے ان کے ساتھ۔۔
مگر وہ یہ بھول چکے تھے کہ ان نے اپنا رتبہ ، کردار سب سماہرا کی نظروں میں گرا دیا ہے۔۔۔۔
اس کمرے پر ایک طائرانہ نظر ڈالی تھی ان نے ، وہاں کی ہر چیز ان نے چلا چلا کر ان کی کی گئی نا انصافی کی داستان سنا رہے تھے۔۔۔۔
ان نے اس بیڈ کو دیکھا تھا جہاں وہ اپسرا پہلی بار اس روم میں آئی تھی اس کی سیج سجائے ، انہوں نے کیا کیا تھا اس کے ساتھ۔۔۔۔
تم اگر اس لمحے یہاں موجود ہو تو صرف موم کی وجہ سے ۔۔پتہ نہیں تم نے ان پر کیا جادو کیا ہے کہ وہ مجھ سے منہ تک موڑ گئیں صرف تمہاری بدولت۔۔۔۔۔
وہ ناگواری سے اس کو تکتے ہوئے بولے۔۔
جگ سونا لاگے۔۔۔
جگ سونا سونا ہے تو۔۔۔
یہ کیوں ہوتا ہے
جب یہ دل روتا ہے
روئیں سسک سسک کے ہوائیں جگ سونا لاگے۔۔۔
اس بات سے انجان سامنے موجود لڑکی کا دل وہ اپنے لفظوں سے چھلنی چھلنی کر رہا ہے۔۔وہ شادی کی پہلی ہی رات اپنے شوہر کے منہ سے لفظوں کی صورت میں ٹپکتی نفرت سے دلبر داشتہ ہو رہی تھی۔۔آنسوں روانی سے بہنے کے لئے تیار تھے۔۔لیکن وہ اس سنگدل کے سامنے بہا کر خود کو کمزور ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔
اب پوری رات کیا یہیں بیٹھے رہنے کا ارادہ ہے۔ اٹھو یہاں سے ۔۔۔وہ اس کو اٹھنے کا حکم دیتا خود مزے سے پورے بستر پر نیم دراز ہو چکا تھا۔۔
جبکہ وہ اپنی تذلیل پر آنسوں سے بھری آنکھوں اور ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ ڈریسنگ روم میں بند ہو گئی۔۔ اور وہیں دروازے کے ساتھ بیٹھتی ہوئی کب سے روکے گئے آنسوں کو بہانے لگی۔۔
کتنا روئی تھی وہ اس دن ۔۔۔ جس طرح آج وہ رو رہے تھے اس فرش پر بیٹھے وقت بدل گیا تھا مگر جگہ وہی تھی۔۔۔
حازم نے مرے قدموں سے رخ کیچن کی جانب کیا تھا۔۔۔۔
جہاں آج وہ جگہ بھی اس کی یادوں میں گھوم رہی تھی۔۔۔
دھیان کہاں ہوتا ہے تمہارا؟؟
مجال ہے کوئی کام ڈھنگ سے کر لو۔۔
حازم جلدی سے برنول لیتا اس تک آیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر دیکھنے لگا جہاں جلنے کے باعث ہاتھ لال سرخ ہو رہا تھا۔۔۔
ہاتھ جلا کر بیٹھ گئی ہو۔۔تاکہ سرونگ نہ کرنی پڑے۔۔
سماہرا جو سمجھ رہی تھی کہ وہ اس کی فکر میں بول رہا ہے ۔لیکن اس کی آخری لفظوں سے اس کو اپنا دل چھلنی ہوتا محسوس ہوا۔۔
آپ فکر نا کریں۔۔سرونگ وغیرہ سب وقت پر ہو جائے گا۔۔
وہ اپنا ہاتھ آرام سے اس کے ہاتھوں سے نکالتے ہوئے بولی۔۔اور برنول۔اپنے ہاتھ پر لگانے لگی۔۔۔
کتنا غلط کرتے رہے وہ اس کے ساتھ۔۔۔
ان کی نظروں میں پہلے وہ واقعی کسی مجسمے سے کم نہ تھی۔۔۔
آنکھوں کو صاف کرتے وہ واپس کمرے میں آئے تھے مطلوبہ چیز کو لئیے۔۔۔۔
تم میں مینرز نہیں ہیں کیا؟
جب تک شوہر گھر پر نہیں آ جاتا تب تک سوتے نہیں ہیں۔۔اس دن تمہارے بابا مجھے تو بڑا درس رہے تھے۔۔اگر تمہیں تھوڑی عقل دے جاتے تو کیا تھا۔۔
ہاتھ میں موجود تیز دھار نائف کو ایک نظر دیکھا اور ایک نظر اپنے ہاتھ کو ، جن سے ہمیشہ سماہرا کو تکلیف دی۔۔۔
یہ ہاتھ ہی ان پر اٹھتے تھے۔۔۔
دل میں ایسا درد اٹھا
دل ہو گیا دیوانہ
دیوانوں نے اس دنیا میں
درد کا نام دوا رکھا۔۔۔۔
آنکھوں کو ضبط سے بھینچے وہ نائف اپنے ہاتھ پر چلا چکے تھے کہ یکدم ہی فرش خون خون ہونے لگا ۔۔۔
اور اس دل میں کیا رکھا ہے
تیرا ہی درد چھپا رکھا ہے۔۔
اور اس دل میں کیا رکھا
تیرا ہی نام لکھا رکھا ہے
او۔۔۔تو تمہیں سچ میں نہیں پتا تمہیں کیا ہوا ہے۔۔۔۔
وہ اپنی مسکراہٹ دبائے تولیے کو صوفے پر پھینکتے اس کے پاس بیڈ پر آ کر بیٹھا جب کہ اس کو اپنے پاس بیٹھتے دیکھ وہ تھوڑا پیچھے کو کھسکی تھی۔۔۔
تم نے مجھ سے اتنی بڑی نیوز کیوں چھپائی۔۔؟؟
وہ مصنوعی غصہ چہرے پر سجائے ذرہ سا اس کی جانب جھکتے ہوئے بولا۔۔۔
ک۔۔کون س۔سی نیوز؟
وہ لڑکھڑاتے لہجے میں بولی۔۔۔۔
یہی کہ ہم پیرینٹس بننے والے ہیں۔۔
وہ خوشی سے چور لہجے میں بولا تھا۔۔۔جبکہ اب جھٹکا لگنے کی باری سماہرا کی تھی۔۔
انہیں کیسے پتا؟ اور یہ تو اتنے خوش ہو رہے ہیں۔۔۔
وہ حیرت کے عالم میں سوچتے ہوئے بولی۔۔۔
کیا ہوا یہی سوچ رہی ہو نا۔۔۔کہ مجھے کیسے پتا ؟
میں نے آپ کو بتانے کی کوشش کی تھی مگر آپ نے میری بات سنی ہی نہیں۔۔۔بلکہ مجھے بد کردار کا الزام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بات ادھوری چھوڑ چکی تھی۔۔۔کل کا منظر یاد کیے اس کی آنکھوں میں ظالم آنسوں پھر سے تیرنے لگے تھے۔۔
شرمندگی کے آثار حازم کے چہرے پر بھی چھائے تھے۔۔
ائم سوری سمی۔۔۔مجھے معاف کر دو۔۔
اب کبھی تمہیں کوئی دکھ نہیں دوں گا۔۔سمیٹ لوں گا تمہارے سب غم خود میں۔۔۔
وہ سماہرا کو شدت سے خود میں بھینچے احساس ِ ندامت سے بول رہا تھا۔۔۔۔
اولاد ہونے کی خوشی میں سماہرا سے محبت کا اظہار کرنا،
اس معصوم کا بے وفا پر اعتبار کرنا۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی شادی والے دن آپ کے لیے ایک عظیم تحفہ ہو گا۔۔۔جو یقیناً آپ سمیت آپکی ہونے والی بیوی کو بہت پسند آئے گا۔۔
یہ آخری بات تھی جو اس نے حازم سے کی تھی۔۔۔۔
وہ روتے ہوئے نکلی تھی روم سے۔۔۔۔
پھر واقعی اس نے اپنا کہا سچ کر دیکھایا۔۔۔
وہ تحفہ دے کر گئی تھی۔۔۔
جدائی کا تحفہ۔۔۔۔ ۔۔
حازم کی آنکھوں میں سماہرا کا ہنستا مسکراتا عکس لہرایا تھا ، دوسرا چہرا اپنی بیٹیوں کا تھا پھر وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہوتا اس فانی دنیا کو خیرباد کہتا دوسرے جہاں میں چلا گیا۔۔۔
ہم نے باندھا ہے تیرے
عشق میں احرامِ جنوں
ہم بھی دیکھیں گے تماشہ
تیری لیلائی کا۔۔۔
ہو کے روپوش۔۔۔۔
روپوش۔۔۔۔۔۔۔۔
حازم ہو چکا تھا اس دنیا سے روپوش۔۔۔۔
ہمیشہ کے لئے۔۔۔۔۔۔۔
حازم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روباب جو حازم سے بات کرنے ، اسے منانے اوپر روم میں آئی تھی لیکن اس کے بے جان وجود کو دیکھ اس کی دلخراش چیخ پورے گھر میں گونجی تھی۔۔۔۔
بھاگتے ہوئے اس کے خون سے رنگے فرش کو عبور کیا۔۔۔۔
حازم۔۔۔۔آنکھیں کھولیں۔۔۔۔۔۔
حازم۔۔۔۔۔۔۔
اس کے چہرے کو تھپتھپا رہی تھی۔۔۔ یکدم ہی اس کا وجود ڈھیلا پڑا تھا۔۔۔۔
نو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ح۔۔ز۔۔۔م۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیری نظروں کے صدقے یہ جاں وار دوں گا۔۔۔۔۔۔
تو جو کہہ دے تو اپنا جہاں وار دوں گا۔۔۔
°°°°°°
کچھ سال بعد۔۔۔۔۔۔
ہر طرف گہما گہمی مچی ہوئی تھی ، ہر کوئی اس کتاب کو لے کر جتنا بے تاب تھا اتنے ہی بے چین وہ سب اس کے لکھاری سے ملنے کو بھی تھے۔
ہر تحریر ہی مقبولیت رکھتی ہے لیکن تحریر سو گنا جاندار ہو جاتی ہے جب اس میں آب بیتی موجود ہو،
اس لکھاری نے وہ کتاب آب بیتی پہ ہی لکھی تھی کہ وہ جنگل میں آگ کی مانند پھیلتی چلی گئی۔تمام اداروں ، ایڈیٹر وغیرہ کے بے حد اصرار پہ وہ آج یہاں اس اسٹیج پہ موجود تھی جہاں پہ اس کا لائیو شو پورے پاکستان میں چل رہا تھا۔
ہر طرف "رختِ نصیب " کے بورڈ لگے ہوئے تھے۔۔۔۔
میری کتاب #رخت۔ِ_نصیب کا ٹائیٹل
"کڑی دھوپ کی مسافر وہ لڑکی جس نے اپنے شوہر کو ہرجائی پایا۔۔۔۔۔۔
اسکی زندگی کا پہلا رخ جس میں اسے صرف دکھ ، دھوکہ ، غم ،تکلیف ملا ۔۔۔
وفا کی امید لگائی بیٹھی اس مسافر کو۔۔ لا کھڑا کیا تھا تپتی دھوپ کے صحر میں "
اس کہانی میں وہ لڑکی کوئی اور نہیں آپ کی مصنفہ ہی ہیں جنہوں نے اپنے پہلے شوہر کو محبت دینے کے باوجود ہرجائی پایا ، میری زندگی کا پہلا رخ تھا وہ، جب میں نے اپنی زندگی، اپنے جذبات ان کے نام کرنے کے باوجود دھوکہ پایا۔۔۔
کہتے ہیں محبت کے بدلے محبت ملتی ہے ، لیکن محبت اس شخص سے محبت کے بدلے صرف دکھ ، تکلیف ، درد ، بے وفائی ، اذیت ملی۔۔۔۔
مجھے کہیں کا نہ چھوڑا تھا ان نے۔۔۔
ایک بیوی ، ایک ماں ، ایک بیٹی کے جذبات سے کھیلا ہے اس شخص نے۔۔۔
تپتی دھوپ کے صحرا میں لا کھڑا کیا۔۔۔
ایک شوہر کو اس کی بیوی سے چھین کر۔۔۔
ایک بیٹی کو ماں سے چھین کر۔۔۔۔۔۔
اسٹیج پر کھڑی سماہرا کے ساتھ وہاں موجود سب لوگوں کی آنکھیں اشک بار تھیں۔۔۔
کہتے ہیں ،" زندگی کی خوشیاں کسی کو مکمل نہیں ملتیں مگر یہ خوشی مجھے مکمل مل چکی ہیں اپنی بیٹی اپنے شوہر ، اپنی مکمل فیملی کے روپ میں۔۔
سامنے ہی بیٹھی اپنی پوری فیملی کی جانب دائیں ہاتھ سے اشارہ کیا تھا۔۔
چہرے پر مسکان جبکہ آنکھوں میں آنسوں بہہ رہے تھے۔۔
میں نا کام تھی ، قسمت کی ہاری لڑکی تھی مگر مجھے سہارا دیا ، میرے ٹوٹے ہوئے وجود کو سمیٹا میرے شوہر سلمان نے۔۔
جو کے مجھ تباہ شدہ لڑکی کی قسمت میں آئے سدا بہار پھول کی مانند جو ہر موسم میں کھلتا ہے ۔۔۔
انہوں نے محبت سے ان کی جانب دیکھا تھا، جہاں سلمان کی آنکھوں کے گوشے بھیگے تھے وہیں سماہرا کے آنسوں بھی بہہ نکلے تھے۔۔۔
میں نے اپنی اس کتاب کا نام #رختِ_نصیب اسلئے ہی رکھا ہے جس میں میری قسمت کے ، میرے نصیب کے ہر ایک موڑ کے بارے میں بتایا ہے۔۔۔
کہ زندگی کے چلتے اس سفر میں ہماری قسمت کیسے رخ بدل لیتی ہے۔۔۔
ایک بیٹی کا رخِ نصیب۔۔۔ایک ماں کا رخِ نصیب۔۔۔۔
اور ایک بیوی کا رخت ِ نصیب۔۔۔۔۔۔۔
©©©✓
خ۔۔۔خون۔۔۔۔خ۔۔خون۔۔۔مٹ۔۔مٹاؤ اسے۔۔۔۔
مٹاؤ۔۔۔۔
پاگل خانے میں بیٹھی وہ عورت اپنے آس پاس دیکھتے چلا رہی تھی اس کی چیخ سن کر وہاں کی عملیہ نے فورآ اس کو قابو کیا۔۔
یہ تو اس عورت کا روز کا ڈرامہ ہے، نجانے کس کا قتل کیا جو ہر وقت خون کی دیکھتی رہتی ہے۔۔
نرس نے روباب کو دیکھتے کہا تھا جس کو ڈاکٹر نے نیند کا انجیکشن لگا کر کنٹرول کیا تھا۔
لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ "اس عورت نے کوئی عام جسم کا قتل نہیں کیا ، بلکہ کسی کی روح کا قتل کیا ، کسی کے ارمانوں ، کسی کے ہنستے بستے گھر کا قتل کیا ہے۔۔ "
حازم کی موت کا صدمہ ، بیٹی کی دوری کا صدمہ یہ سب چیز روباب اپنے دماغ پر لے چکی تھی جس کا اثر اس کے دماغ میں موجود ایک مخصوص رگ پر آیا تھا۔۔
وہ اپنے تمام ہوش و حواس کھو بیٹھی تھی۔۔
یاد رہتا تو صرف حازم کی آخری موت کا منظر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
°°°°°°✓
اپنے گاؤں کی اس دہلیز پر قدم رکھا تھا اس نے۔۔
جسے اپنے خوابوں ،اپنی تقدیر ، اپنے مقصد کے لئے خیر باد کہہ دیا تھا اس نے۔۔
ایک ہاتھ ضامن کے ہاتھ میں جب کہ دوسرے سے اپنی بیٹی روما کو اٹھائے اس نے نظریں سامنے بنی بلڈنگ کی جانب دوڑائی تھیں، جہاں بڑے لفظوں میں لکھا تھا " دعا بیسٹ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ فور گلز"
یہ ڈیپارٹمنٹ ضامن اور دعا دونوں کی محنت کا پھل تھا۔۔
جس کے لئے ان دونوں نے بہت محنت کی تھی۔۔
تھینک یو سو مچ ضامن۔۔۔
اپنے کیے گئے وعدے کو پورا کرنے کے لئے،
مشکور نظروں سے اس کو دیکھتی وہ اشک بار ہوئی تھی جب کہ ضامن نے اس کو اپنے بازوں کے حلقے میں لیا تھا۔
یہ سب آپ ہی کی ایفرٹ ہے میم۔۔
ورنہ ہماری ایسی سوچ کہاں!!
ہنستے ہوئے کہا تھا اس نے اور قدم اندر کی جانب بڑھائے۔۔
جب کہ چھوٹی سی روما اپنے مما پاپا کو ہنستے دیکھ کھلکھلائی تھی۔۔
ختم شد۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
“ Nafrat Se barhi Ishq Ki Inteha’’ is her first long novel. The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ❤️. There are many lessons to be found in the story. This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lesson to be learned from not leaving...., many social evils have been repressed in this novel. Different things which destroy today’s youth are shown in this novel. All types of people are tried to show in this novel.
"Mera Jo Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second-best long romantic most popular novel. Even a year after At the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.
Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is the best novel ever. Novel readers liked this novel from the bottom of their hearts. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.
The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that but also how sacrifices are made for the sake of relationships.
How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice
Rakht e Naseeb Dasht E Harjai Season 2 Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Dasht E Harjai Season 2 written by Sara Urooj .Dasht E Harjai Season 2 by Sara Urooj is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Forced Mariage Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Lin
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment