Sulagti Yadon Ke Hisar Mein Novel By RJ Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Friday, 20 December 2024

Sulagti Yadon Ke Hisar Mein Novel By RJ Complete Romantic Novel

Sulagti Yadon Ke Hisar Mein Novel By RJ Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Sulagti Yadon Ke Hisar Mein Novel By RJ Complete Romantic Novel


Novel Name: Sulagti Yadon Ke Hisar Mein 

Writer Name:  RJ 

Category: Complete Novel

چچ چچ چچ۔۔۔۔تم ہار گئے شاہ میر حسن۔۔۔۔دیکھوتم ہار گئے۔۔۔تم ہار گئے۔۔۔“  وہ سامنے کھڑی چیخ چیخ کر اُسکی شکست کا برملا اظہار کررہی تھی اور پھر ساتھ ہی کھنکھناتی آواز میں بلند ہوتے اُسکے  قہقے مقابل کا ضبط ختم کرچکے تھے۔ 

”آآآآ۔۔۔۔بس بہت ہوگیا۔۔۔۔خاموش ہوجاؤ اب۔۔۔۔ایکدم چُپپپ۔۔۔۔نہیں ہوں میں ہارا۔۔۔۔میں کبھی ہار ہی نہیں سکتا۔۔۔کیونکہ آج تک صرف جیت ہی شاہ میر حسن کا مقدر ٹھہری ہے۔۔۔اور ہمیشہ جیتنے والے کبھی ہارا نہیں کرتے۔۔۔کبھی بھی نہیں۔۔۔۔سنا تم نے؟؟؟“  اُسنے شدید غصے کے عالم میں پاس پڑا واز اٹھا کر سامنے نظر آتے عکس پر دے مارا تھا اور چیختے ہوئے اپنی واضح شکست کو چند جذباتی لفظوں کی آڑ میں چھپانے کی ناکام کوشش کی تھی۔

تب تک واز اُسکے آرپار ہوتا دیوار سے لگ کر چکنا چور ہوچکا تھا جس پر وہ طنزیہ مسکراہٹ سمیت اُسکی بکھری حالت دیکھنے لگی۔

”لیکن تم تو ہارگئے۔۔۔خود کی حالت دیکھو۔۔۔کیا بازی جیت جانے والا شخص ایسا ہوتا ہے۔۔۔؟؟؟ تمھارا ازلی غرور آج تمھیں پوری طرح لے ڈوبا ہے شاہ میر حسن۔۔۔اور یہ بات تم سے بہتر اور کوئی جان ہی نہیں سکتا۔۔۔“ اب کی بار وہ  اُسکے سامنے سے غائب ہوکر اُسکی پشت پر نمودار ہوئی تھی اور اُسکے کان کے قریب جھک کر  زہر اگلتے ہوئے اُسے سخت اذیت سے دوچار کرگئی۔

”آخر تم دفعہ کیوں نہیں ہوجاتی میری زندگی سے۔۔۔۔؟؟؟خدارا تنہا چھوڑدو مجھے اور چلی جاؤ یہاں سے۔۔۔گیٹ لاسٹ۔۔۔گیٹ لاسٹٹٹ۔۔“  حقیقت سے نظریں چراتا وہ پسینے میں شرابور بےبسی سے حلق کے بل چلایا تھا۔ہاں وہ جانتا تھا کہ وہ صحیح کہہ رہی تھی اُسکے انکار سے ذیادہ اُسکی بات میں حددرجہ وزن تھا لیکن کسی کے سامنے اپنی شکست تسلیم کرنا اُس اناپرست کے بس کی بات نہ تھی۔چاہے پھر وہ کسی بےضرر سی لڑکی کا عکس ہی کیوں ناں ہو۔۔۔

 شاہ میرحسن کی کھوکھلی دھاڑ پر وہ کھلکھلا کر ہنسی تھی۔

”لیکن میں تو خود کو تمھاری خلوتوں کا محرم گردانتی ہوں۔۔۔۔پھر کیسے تمھاری زندگی سے دور ہوجاؤں۔۔۔بات وہ کرو جو میرے بس میں ہو۔۔۔۔“  لبوں پر تمسخرزدہ مسکراہٹ سجائے وہ ہر لحاظ سے اُسکا امتحان لے رہی تھی۔

”فی الحال کے لیے میری نظروں سے دور ہوجاؤ۔۔۔“  وہ اس سمے بےبسی کی انتہا کو پہنچا ہوا تھا جب وہ نفرت سے اُسکی جانب دیکھتی ہوئی اپنی بائیں کلائی سہلانے لگی اور دھیرے دھیرے ہوا میں تحلیل ہوتی غائب ہوگئی۔

وہ اندر ہی اندر کلستا اب ہر شے تہس نہس کرنے کے درپے ہوا تھا۔

”آبرو۔۔۔۔آبرو۔۔۔۔آبرو۔۔۔۔“  اِس نام پر سختی سے دانت کچکچاتے ہوئے اگلے ہی پل وہ اپنی شکست تسلیم کرگیا تھا۔

*****************************

ہر رات کی طرح یہ رات بھی سب کے لیے معمول کے مطابق عام سی ہی تھی لیکن دو وجود ایسے بھی تھے جن پر یہ سیاہ رات قہر بن کر ٹوٹ رہی تھی۔جو اس رات کی بھیانک تاریکیوں اور برستی وحشتوں کو شدتوں سے محسوس کررہے تھے۔خوف سے لمحہ بہ لمحہ اُنکے دل کی کمزور پڑتی دھڑکنیں مزید مدھم ہوتی جارہی تھیں۔

”مت کرو۔۔۔خدارا یہ ظلم مت کرو۔۔۔کیوں جانتے بوجھتے یہ گناہ کمارہے ہو۔۔۔۔؟؟؟اُس خدا کے قہر سے ڈرو جس کی لاٹھی بےآواز ہے۔۔۔مت کرو ایسا۔۔۔“  وہ عورت خود کی پرواہ کیے بغیر گڑگڑا کر ہاتھ جوڑتے ہوئے اپنی معصوم بچی کے لیے اُس ظالم سے رحم کی بھیک طلب کر رہی تھی لیکن شاید مقابل کے سینے میں دل کی جگہ پتھر تھا تبھی وہ روتی بلکتی آٹھ سالہ نیلی آنکھوں والی بچی کو بازو سے پکڑتے ہوئے  پشت پر کھڑے آدمیوں کی طرف بے دردی سے دھکیل چکا تھا۔

”چھوڑو مجھے۔۔۔مما۔۔۔بچاؤ۔۔۔مجھے کہیں نہیں جانا۔۔۔مجھے مما کے پاس جانا ہے۔۔۔چھوڑدو مجھے گندے انکل۔۔۔“  جیسے ہی وہ اُسے کندھے پر ڈالے باہر کی طرف لپکے وہ چیختی ہوئی اُن ظالموں سے 

اپنی ماں کی طرح ہی گڑگڑا کر فریاد کرنے لگی۔

لیکن یہ شاید اُن ماں بیٹیوں کی بدقسمتی ہی تھی جو وہاں اُن کی صدائیں سننے والا کوئی بھی انسان موجود نہیں تھا۔وہ آنسوؤں اور زخموں سے چُور تیزی سے اُٹھ کر اُن نقاب پوش آدمیوں کے پیچھے اپنی بیٹی کو چُھرانے کی نیت سے لڑکھڑاتی ہوئی بھاگی تھی لیکن پاس کھڑے نفوس نے سرعت سے آگے بڑھ کر اُسے بازو سے جکڑتے ہوئے بیچ میں ہی روک لیا۔

”چھوڑو مجھے ذلیل انسان۔۔۔نہیں تو وہ میری بچی کو لے جائیں گے۔۔۔“  وہ تکلیف سے بمشکل بولتی ہوئی اُسکی آہنی گرفت سے مسلسل اپنا بازو چھڑوانے کی نحیف سی تگ و دو کررہی تھی جب اُسنے اُسے زور سے اپنی اوڑھ جھٹکا دیا۔سرخ آنکھوں میں بجھتی بدلے کی آگ اب سرد پڑنے لگی تھی۔گھنی مونچھوں تلے سیاہ لب ہنوزمسکرا رہے تھے جسے دیکھ کر اُسے شدید قسم کی کراہیت محسوس ہوئی تھی۔

”یہ جو بھی میں نے ابھی کیا وہ کوئی ظلم نہیں تھا۔۔۔بلکہ یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے۔۔۔جیسا بوؤ گے ویسا کاٹو گے۔۔۔۔اب یہ خود انسان پر منحصر ہے کہ وہ بدلے میں کیا پانا چاہتا ہے۔۔۔“  لہجے میں نفرت و حقارت سموئے وہ اُس پر بہت کچھ جتاگیا تھا۔اگلے ہی پل اُسے بےرحمی سے پڑے دھکیلتا ہوا وہ فتح یاب سا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

اِس بات کی پرواہ کیے بغیرکہ زمین پر ڈھیر  پل پل ساکت پڑتے وجود میں سانسیں باقی بھی تھیں کہ نہیں۔۔۔۔ 

*****************************

وہ آئینے کے سامنے کھڑی خود کا گہری نظروں سے بغور معائنہ کررہی تھی۔

سانولی سی رنگت،مناسب قدوقامت،گہرے جامنی رنگ کے سوٹ میں واضح ہوتا دبلا پتلا سا فگر،کمر تک آتی سیاہ گھنے بالوں کی چوٹی،مہارت سے تراشی ہوئی بھنوؤں تلے گہری کالی آنکھیں جن کے ساتھ پلکوں کے نام پر گنتی کے صرف چند بال جڑے تھے۔تیکھی ناک پر ٹکا بڑے بڑے شیشوں والا چشمہ،بھرے بھرے ہلکے سیاہی مائل لب،پچکے گال اور دائیں گال کے بیچ و بیچ چمکتا ہوا موٹا سا کالا تل لیکن وہ اتنی حسین و جمیل تو ہرگز نہیں تھی جو قدرت نے اُسکی نظر اتارنے کے لیے یہ اتنا بڑا تل اُسے عطا کردیا تھا۔

اپنی صورت دیکھتے ہوئے بےساختہ اُسکے دل میں شکوہ ابھرا تھا۔

”تمھارا یہ خوبصورت تِل تمھارے سلونے چہرے پر بہت جچتا ہے۔۔۔اتنا کہ میں چاہ کر بھی اس پر سے اپنی توجہ نہیں ہٹاپاتا۔۔۔“ معاً کانوں میں رس گھولتی بھاری آواز اُسے اپنے بہت قریب سے سنائی دی تھی۔

بےاختیار اپنے تل کو چھوتے ہوئے وہ کھل کر مسکرائی کہ تبھی اُسکی نظریں آئینے میں دکھائی دیتے اپنے سفید دانتوں پر پڑیں جو بدقسمتی سے قدرے ٹیڑھے تھے۔

”تمھیں معلوم ہے جب تم کھل کرمسکراتی ہو تو مجھے کس قدر حسین لگتی ہو۔۔۔یونہی مسکراتی رہا کرو۔۔۔لیکن صرف میرے لیے۔۔۔“  ایک بار پھر سے وہی دلکش آواز اُسکا دل شدتوں سے دھڑکا گئی تھی۔

سیاہی مائل مگر شفاف ہونٹوں پرمعدوم پڑتی مسکان پھر سے زندہ ہوئی تھی۔

”مجھے یقین ہے کہ تم حجاب کی بانسبت کھلے بالوں میں ذیادہ دلکش لگتی ہوگی۔۔۔“  اپنی بالوں کی چوٹی کو پکڑ کر کندھے سے آگے کرتے ہوئے اُسے اُسکا حسرت زدہ لہجہ یاد آیا۔

”تمھارا یہ ظالم چشمہ اِن حسین آنکھوں کا حسن ہمیشہ چرالیتا ہے۔۔۔۔پلیز اسے میرے سامنے مت لگاکرآیا کرو۔۔۔“  اب کی بار آواز میں خفگی تھی اور انداز دھونس بھرا۔

کنپٹی سے لال دستہ پکڑکر چشمے کو اپنے چہرے سے الگ کرتے ہوئے اُسنے اپنی بڑی بڑی گہری سیاہ آنکھوں کو جھپکایا تھا۔

”اگر تم خود کو میری نظر سے دیکھو تو اپنے آپ کو اِس دنیا کی سب سے حسین ترین لڑکی تصور کرو۔۔۔۔“   اُسکا دلفریب لہجہ اُسکی بکھرتی دھڑکنوں کو مزید بکھیرگیا تووہ مسکراتی ہوئی خود سے ہی شرماگئی۔

”میں اتنی خوش قسمت کب سے ہوگئی جو مجھے اس قدر چاہنے والا شخص مل گیا۔۔۔؟؟؟“  خود کی جھلک آئینے میں دیکھتے ہوئے جہاں وہ اپنی قسمت پر نازاں تھی وہی اس سوال کے زیرِاثر بےیقینی کا عنصر بھی شامل تھا۔

لیکن کچھ ہی لمحوں میں وہ ذرہ بھر بےیقینی بھی اُسکے وجود میں آباد خوشیوں کے جہاں تلے دب کر رہ گئی تھی۔

********************************

وہ خاموشی سے کمرے میں داخل ہوا تو وہ توقع کے عین مطابق  گھٹنوں میں سر دئیے رونے میں مصروف تھی۔

”تیار کیوں نہیں ہوئی ابھی تک۔۔۔؟؟؟“  وہ سخت تیور لیے قدم قدم چلتا اُس تک پہنچا اور اُسکے بکھرے سراپے کو نظروں میں بھرتے ہوئے سر پر کھڑا بازپرس کرنے لگا۔

وہ ایک پل کو اپنے قریب سے آتی مانوس مگر سخت آواز پر چونکی ضرور تھی مگر ہنوز اُسی پوزیشن میں ڈھیٹ بنی بیٹھی رہی۔

”میں تم سے مخاطب ہوں۔۔۔“  اُسکی خاموشی پر چبا چبا کر بولتے ہوئے اُسنے اپنی موجودگی کا احساس دلایا تھا۔

”جہاں ماتم کی صفیں بچھی ہوں وہاں کس خوشی کی تمناء کررہے ہیں آپ صاحب۔۔۔۔؟؟؟  گھٹنوں سے ہلکا سا سر اٹھاکر سامنے پڑے نکاح کے سرخ جوڑے کو تنفر سے دیکھتی ہوئی وہ طنزیہ انداز میں غرائی تو وہ لب بھینچ کر رہ گیا۔

اُسکی طرف دیکھا ابھی بھی نہیں تھا۔جیسے ڈر ہو کہ اگر دیکھے گی تو سارا ضبط کھو بیٹھے گی۔

”فضول کی بکواس نہیں کرو میرے ساتھ۔۔۔چلو شاباش اٹھو اور دس منٹ کے اندر اندر ریڈی ہوکر کمرے سے باہر نکلو۔۔۔اتنا فالتو وقت نہیں ہے ابھی میرے پاس جو تمھارے بےجا نخرے اٹھاتا پھیروں۔۔۔۔ہری اپ۔۔۔“  اُسکے لب و لہجے اور گریز کو بمشکل نظرانداز کرتا ہوا وہ قدرے بےزاری سے گویا ہوا۔

سر تا پیر آگ ہی تو لگا دی تھی قابل کی باتوں نے اُسے۔دوسرے ہی پل دونوں کی نظروں کا زبردست تصادم ہوا تو ناچاہتے ہوئے بھی وہ اُسکی بھیگی مگر بےخوف آنکھوں میں دیکھتا ہوا اپنے دل کی ایک بیٹ مس کرگیا۔

”مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے آپ سے اپنے نخرے اٹھوانے کا۔۔۔آپ بھی کسی خوش فہمی میں مت رہیے گا۔۔۔نہیں ہونا مجھے تیار۔۔۔اور نہ ہی آپ سے کوئی رشتہ جوڑنا ہے۔۔۔دفع ہوجائیں میری نظروں کے سامنے سے۔۔۔“  سلگ کر چیختے ہوئے وہ اپنے سامنے رکھے سرخ جوڑے پر جھپٹی اور ایک ہی وار میں اُسے بے دردی سے دور اچھال دیا۔

اُسکی ڈھٹائی اور کھلی بدتمیزی کا نظارہ کرتے ہوئے اُسکی چمکتی پیشانی پر رگیں ابھر آئیں تھیں۔اگلے ہی پل اُسکی مومی کلائی کو سختی سے جکڑتا ہوا وہ جھٹکے میں اُسے اپنے مقابل کھڑا کرگیا تو اس اچانک افتاد پر اپنی چیخ روکنے  کی کوشش کرتی وہ لبوں کو سختی سے دانتوں تلے دبا گئی جبکہ دل ایکدم ہی خوف سے پھڑپھڑایا تھا۔اُسکی سیاہ آنکھوں میں ہلکورے لیتی سرخی اُسکے شدید غصے کا پتا دے رہی تھی۔

”اگر نہیں چاہتی کہ تمھاری ماں صدمے سے کل کی مرتی آج ہی مر جائے۔۔۔تو چپ چاپ وہی کرو جو تم سے کرنے کو بولا جارہا ہے۔۔۔اور سب سے مین بات۔۔۔آئندہ پھر کبھی میرے سامنے ایسی بدتمیزی کا مظاہرہ کیا تو مجھ سے کسی بھی نرمی کی امید مت رکھنا۔۔۔۔گیٹ اٹ۔۔۔“  اُسکی پھٹی پھٹی آنکھوں میں شدت سے دیکھتا ہوا وہ ناپسندیدگی کی کاٹ لیے پھنکارا تھا اور اپنی بات مکمل کرتے ہی اُس کو واپس بیڈ پر پٹختا ہوا تیزی سے کمرے سے باہر نکل گیا۔پیچھے وہ گرنے کے انداز میں لیٹی اپنی بےبسی پر شدت سے رودی تھی۔

****************************

سیاہ آسمان پر ٹمٹماتے ستاروں کا پھیلا ہوا وسیع جال اور پرسکون سی ٹھنڈی روشنی بکھیرتا چاند قدرت کا حسین ترین منظر پیش کررہا تھا۔

اسی حسین چاندنی رات تلے کوٹھے کا بڑا سا ہال نہایت خوبصورتی کے ساتھ سجایا گیا تھا جہاں خوبصورت دوشیزاؤں کا دل بہکا دینے والا رقص اپنے جوبن پر تھا۔اردگرد بیٹھے موصوف اس دلچسپ نظارے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے مزے سے جام نوش فرمارہے تھے لیکن بس ایک وہی تھا جس نے کسی بھی قسم کا مشروب لینے سے انکار کردیا تھا۔

”یار کب آئے گی وہ ملکہِ حسن۔۔۔۔؟؟؟اب ہم سے مزید انتظار نہیں ہوتا۔۔۔“  وہاں پر بیٹھے پینٹ کوٹ میں ملبوس پچاس سالہ مرد کے چہرے پر بیزاری سے ذیادہ بے چینی کے تاثرات واضح ہورہے تھے۔اُسکی حالت سمجھتے ہوئے وہاں پر بیٹھے بہت سوں کے چہروں پر حظ اٹھاتی مسکراہٹ بکھرگئی۔

یہ دیکھ کر نجانے کیوں اُسے بھی شدت سے خواہش ہوئی تھی اُس لڑکی کو دیکھنے کی جسکے حسن کے چرچے اس رنگین محفل میں زبانِ زد خاص و عام ہورہے تھے۔

تو کیا بھلا وہ اُسکی حسین و جمیل شریکِ حیات سے بھی ذیادہ خوبصورت ہوسکتی تھی جسے وہ آج ہی پورے حق سے اپنے نام کرکے آیا تھا اورجسکا وہ پوری طرح دیوانہ ہوچکا تھا۔۔۔؟؟؟

اس سوچ پر اُسکے دل میں ہلکی سی بغاوت نے سراٹھایا تھا۔

موسیقی کے اختتام پر ایکدم سے اطراف میں نیم اندھیرا چھایا تھا۔تبھی خاموشی میں گونجتی گھنگھروں کی مخصوص چھنکار نے جہاں سب کو اپنے کان کھڑے کرنے پر مجبور کردیا تھا وہی اُسکا دل تیزی سے دھڑک اٹھا۔اگلے ہی پل چہار سو  مختلف رنگوں کی روشنیوں کا طوفان برپا ہوا تھا اور وہ چہرے پر سرخ  گھونگھٹ اوڑھے اپنے ہوشربا حسن سمیت سب کے سامنے اپنے دلنشین انداز میں جلوہ ِ افروز ہوئی تھی۔مرد حضرات کی تالیوں اور سیٹیوں کے اختتام پر نئے گانے کے دلنشین سُر شروع ہوئے تو وہ مہارت سے اپنی لچکتی کمر کے ساتھ سارے وجود کو دلنشین انداز میں حرکت دینے لگی۔ 

”ملکہِ حسن کی ہر ادا ہی دلفریب ہے۔۔۔۔کمال ہے۔۔۔۔لاجواب ہے۔۔۔۔“  ایک آدمی نے آگے بڑھ کر اُس پر بڑے بڑے نوٹوں کی بارش برسادی۔اُسکا رقص مزید تیز ہوا تھا جو کہ قابلِ تعریف تھا۔

 گھونگھٹ کے پار اُسکا نوخیزحسن دیکھنے کو حددرجہ بےتاب ہوتا وہ ضبط سے اپنی مٹھیاں بھینچ گیا تھا۔معاون لڑکیوں کے بیچ  گول گول گھومتی ہوئی وہ ایکدم ہی گھٹنوں کے بل زمین پر جھکی تھی اور پھر واپس سیدھی ہوتی ایک جھٹکے میں اپنا گھونگھٹ حسین چہرے پر سے اٹھا کر پیچھے دھکیل دیا۔صبر کی گھڑیاں ختم ہوچکی تھیں۔اُسکے دیدار پر جہاں سارے تماشائیوں کی آوارہ سیٹیاں ایک بار پھر سے سپردِ فضا ہوتے ہوئے دل کی دھڑکنیں بےہنگم ہوئی تھیں وہیں اُس کا زوروں سے دھڑکتا دل بےساختہ بند ہوا تھا۔

************************

کون ہے بھئی جسکی کال تمھیں بار بار کٹ کرنی پڑ رہی ہے۔۔۔؟؟؟“  وہ تینوں فارم ہاؤس میں ٹیبل کے گرد رکھی کرسیوں پر براجمان تھے جب  افروز موبائل اسکرین دیکھنے کی کوشش کرتا ہوا شام سے مخاطب ہوا۔

”ہوگی کوئی حسینہ۔۔۔کیونکہ جناب کی لسٹ میں تو میلز کم ہی نظرآتے ہیں۔۔۔“  فواد نے اُسے دیکھ کر لطیف سا طنز کیا جس پر وہ سرجھٹکتا ہوا مسکرادیا۔

”چل بتا بھی دے۔۔۔اب ہم سے کیا چھپانا برو۔۔۔؟؟؟“  افروز کو لڑکیوں کے نام پر چُپی کسی بھی طور ہضم نہیں ہوتی تھی اور اُسکی اس عادت سے وہ دونوں کیا بلکہ سب ہی واقف تھے۔

”ابے یار۔۔۔رابعہ ہے۔۔۔ٹاپ کی ڈھیٹ۔۔۔اتنی بار اُسکی کال کاٹ چکا ہوں لیکن بجائے سمجھنے کے کہ اگلا بندہ بات کرنے میں ذرا بھی انٹرسٹڈ نہیں ہے ڈھیٹوں کی طرح کال پہ کال کیے جارہی ہے مجھے۔۔۔پاگل۔۔۔“  شام پھر سے اُسکی کال کاٹتا ہوا بےزاری سے بولا اور موبائل پاور آف کردیا جس پر دونوں اُسے دیکھ کر رہ گئے۔

”ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئےتجھے رابعہ سے فرینڈشپ  کیے اور اتنی جلدی بور بھی ہوگیا تُو اس سے۔۔۔۔حد ہے یار۔۔۔“  فواد تاسف سے اُسکا چہرہ  دیکھ کر کہنے لگا۔

”شکر کرو کہ یہ جمعہ جمعہ آٹھ دن نکال لیے اُسکے ساتھ۔۔۔ورنہ میں تو دو ہی دن میں بور ہوگیا تھا اُس سے۔۔۔چپکو ہے پوری۔۔۔“  سلگتا ہوا سگریٹ لبوں کے بیچ دباتا ہوا وہ لاپرواہی سے بولا۔

”اگر میں تیری جگہ ہوتا تو کم از کم ایک ماہ تک کام چلاہی لیتا۔۔۔پر رابعہ میڈم ہمیں لفٹ کروائے تب ناں۔۔۔“  افروز کو دکھ ہوا تھا رابعہ کی بےقدری پر لیکن اس سے ذیادہ خود کے ٹھکرائے جانے کا افسوس تھا۔کچھ دن پہلے اُسنے رابعہ کو فرینڈ شپ کی آفر کی تھی لیکن اُسنے بنا لگی پٹی رکھے سیدھے سیدھے انکار اُسکے منہ پر دے مارا۔

”ٹرائی کرلے۔۔۔شاید اب کی بار مان جائے۔۔۔۔“  شام بائیں آنکھ کی قدرتی لمبی پلکوں کو آپس میں پل کے لیے میچتے ہوئے بولا۔انداز لطف لینے والا تھا جسکو  اَن دیکھا کرتا ہوا افروز گہری سوچ میں پڑگیا۔

”میں حیران ہوں کہ اتنی لڑکیاں تجھ جیسے فلرٹی ٹائپ بندے پر کیسے مرمٹتی ہیں یار۔۔۔؟؟؟“  ہمیشہ کی طرح اب کی بار بھی فواد نے اپنا وہی سوال دُہرایا تھا۔مانا کہ وہ کافی ہینڈسم تھا۔رئیس تھا۔چھ فٹ کی ہائیٹ پر چہرے کے دلکش نقوش اُسکی شخصیت کو منفرد بناتے تھے۔اور ہر طرح کی ڈریسنگ اُس پر جچتی تھی۔سب سے بڑھ کر وہ اپنی ذات کو لےکر حددرجہ مغرور تھا جو کہ شاید اُسکا خاندانی خاصہ تھا اور اُس پر سوٹ بھی کرتا تھا۔

تو کیا۔۔۔۔؟؟؟

وہ کوئی کوہ قاف کا شہزادہ تھوڑی تھا جولڑکیاں اُسی کے خواب دیکھتی رہتی تھیں۔

”بس دیکھ لے۔۔۔کبھی غرور ہی نہیں کیا تیرے بھائی نے۔۔۔“  جواد کی بات کو بھرپور طریقے سے انجوائے کرتے ہوئے اُسنے  گہرا کش بھرا تھا اوربہت سا دھواں منہ سے خارج کرتے ہوئے فضا میں چھوڑدیا۔

”وہ تو دِکھ رہا ہے۔۔۔لیکن اصل مزہ تو تب ہے اگر تو اُس مولانی کو پھنسا کردیکھائے۔۔۔“  افروز کا انداز چیلنجنگ تھا جس پر شام کی مسکراہٹ پل میں سمٹ گئی۔

”کون۔۔۔؟؟؟وہ جونئیر۔۔۔حرمین زہرا۔۔۔؟؟؟“  جواد نے چونک کراُسکا نام لیا۔

”ہاں وہی۔۔۔پوری یونی میں ریکارڈ ہے اُسکا۔۔۔آج تک کسی سے بھی نہیں پٹائی گئی وہ۔۔۔“  افروز نے پٹانے پر زور دیتے ہوئے شام کی طرف دیکھ کر اپنی آنکھ دبائی۔اب چھیڑنے کی باری اُسکی تھی۔

”چھوڑ یار اُسے۔۔۔اُسے پٹانا بھی کون چاہے گا۔۔۔؟؟؟میں تو اُسے دیکھتے ہی بور ہوجاؤں گا۔۔۔اور ویسے بھی تُو اچھے سے جانتا ہے کہ اُس ٹائپ کی لڑکیوں سے سخت قسم کی الرجی ہے مجھے۔۔۔ “  اُسکا سراپا نظروں میں گھومتے ہی اُسکا دل کھٹا سا پڑگیا۔

”سیدھی طرح بول کہ تو ہار مان رہا ہے۔۔۔۔باقی سب تو  تیرے کھوکھلے بہانے ہیں بس۔۔۔“  افروز نے اس بار اُسکی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا تھا۔وہ اور فواد اکثر اُسے اس طرح کے چیلنجز میں الجھادیا کرتے تھے اور پھر تینوں مل کر انجوائے کرتے تھے۔شام تو اس کھیل کا ماہر کھلاڑی ثابت ہوا تھا۔اُس نے تو جیسے کبھی ہارنا سیکھا ہی نہیں تھا۔

اُسکی بات سن کر جہاں شام کے ماتھے پر سلوٹیں ابھری تھیں وہی جواد کے چہرے پر خباثت والی مسکراہٹ پھیل گئی۔

”ہار اور میں۔۔۔۔ہونہہ۔۔۔امپاسیبل۔۔۔۔اور جہاں تک بات اُس مولانی کی ہے تو۔۔۔جسٹ ویٹ اینڈ واچ۔۔۔جیت ہمیشہ کی طرح میری مٹھی میں قید ہوگی۔۔۔“  بڑی طرح بگڑتے ہوئے وہ پل میں افروز کا چیلنج ایکسپٹ کرگیا تھا۔لہجے میں غرور کی جھلک تو تھی ہی ساتھ میں بلا کا اعتماد بھی شامل تھا جبکہ وہ دونوں اپنا تیر سیدھا نشانے پر لگتا دیکھ کرکمینگی سے ہنس پڑے۔

*********

وہ مکمل ریڈی ہوکر اپنے روم سے باہر نکلا تھا۔چند ہی سیکنڈز میں ساری سیڑھیاں سرعت سے اترتے ہوئے اُسکا کندھے سے لٹکتا بیگ بھی اچھل اچھل جارہا تھا۔دوسرے ہاتھ سے اپنا قیمتی موبائل بلیو جینز کی جیب میں پھنساتے ہوئے اُسنے بیگ کو جھٹکادے کر بیسٹ پوزیشن دی تھی۔

”شام۔۔۔بیٹا رکو ذرا۔۔۔۔“  آئمہ بیگم جو پاس کھڑی ملازمہ کو آج کی دعوت پر جانے کے لیے اپنے کپڑے استری کرنے کا بول رہی تھیں،اپنے لاڈلے بیٹے پر نظریں پڑتے ہی اُسے جانے کا اشارہ کرتی ہوئی اُسکی جانب بڑھیں۔

”جی موم۔۔۔۔؟؟؟“  اپنے نام کی پکار پر وہ مکمل اُنکی جانب مڑا۔

”تم رات پھر گھر لیٹ آئے تھےناں۔۔۔؟؟؟“  تفتیشی انداز میں پوچھتی ہوئی وہ پُریقین تھیں جس پر وہ آنکھیں گھماتا ہوا اُنکے کندھے تھام گیا۔

”کم آن موم۔۔۔فرینڈز کے ساتھ لیٹ نائٹ پارٹی انجوائے کررہا تھا۔۔۔ایسے میں دیرسویر تو ہوہی جاتی ہے۔۔۔اور ویسے بھی میں کوئی بچہ نہیں ہوں جو رات جلدی گھر آنے کے بےکار سے رولز فالوکروں گا۔۔۔“  وہ قدرے بےزاری سے گویا ہوا تو وہ گہرا سانس بھر کر رہ گئیں۔

”لیکن عائل کے لیے تو تم ہمیشہ بچے ہی رہوگے ناں۔۔۔جانتے ہو تمھاری ان حرکتوں سے کتنا پریشان ہوتا ہےوہ۔۔۔؟؟؟لیکن تم ہوکہ باز ہی نہیں آتے۔۔۔۔اور تمھارے ڈیڈ۔۔۔اُنکی تو تم بات ہی چھوڑدو۔۔۔ “  ایک تو اُسکا یہ بڑا پرابلم تھا جہاں کہیں بھی اپنے دوستوں کے ساتھ جاتا تو اپنا فون بندکردیتا۔عائل کا نام سن کر شام کے بےزار تاثرات فوراً سے بھی پہلے نرم مسکراہٹ میں ڈھلے تھے جبکہ اپنے ڈیڈ کے ذکر پر اُسنے توجہ دینا ضروری نہیں سمجھا تھا۔

وہ اپنے بڑے بھائی سے شروع سے ہی کافی اٹیچ تھا۔اتنا کہ اپنے باپ کو چاہ کر بھی وہ ایسا مقام نہیں دے پایا تھا۔شاید حسن صاحب کا حد سے ذیادہ سخت لہجہ اُسے متنفر کرچکا تھا۔

”بھائی کو پتا ہے میرا۔۔۔وہ چاہ کر بھی اس آزاد پنچھی کو ہتھکڑیاں لگا کر اپنی قید میں نہیں کرسکتے۔۔۔“  عائل کی کارکردگی کو مدِنظررکھتا ہوا وہ آنکھ دباکر مزے سے بولا۔لہجے میں مان سے ذیادہ دعویٰ تھا۔

”تم کبھی نہیں سدھروگے۔۔۔۔“   عائمہ بیگم نے تاسف سے اپنے بگڑے ہوئے لاڈلے کو دیکھتے ہوئے ہمیشہ والا جملہ دُہرایا۔

”کبھی نہیں۔۔۔“  بدلے میں وہ اُنکی بات کی تصدیق کرتا ہوا ڈھیٹوں کی طرح نفی میں سرہلاگیا جب اچانک اُسکا فون بج اٹھا۔

”اچھا اب میں یونی کے لیے مزید لیٹ نہیں ہونا چاہتا۔۔۔اُممما۔۔۔بائے موم۔۔۔۔“  شاید وہ جانتا تھا کہ اُسکے دوستوں کا فون تھا تبھی بنا کال پِک کیے وہ عائمہ بیگم کو گال پر بوسہ دیتے ہوئے تیزی سے باہر کی جانب لپکا۔

”ارے۔۔۔ناشتہ۔۔۔۔“  اُسکو جاتا ہوا دیکھ کر عائمہ بیگم کی بات منہ میں ہی دبی رہ گئی۔تبھی اُنکے موبائل کی بھی رنگ بجی جو صوفے پر پڑا عائمہ بیگم کاشدت سے منتظر تھا۔آئل کی کال دیکھتے ہوئے بےاختیار اُنکے لبوں پر مسکراہٹ بکھرگئی۔

**************************

وہ سڑک کے کنارے کھڑی نیناں کے ساتھ مزے لے لے کر گول گپے کھانے میں مصروف تھی۔آج اُسنے نفیسہ بیگم سے ضد کرکے کالج سے چھٹی کی تھی اور ضروری شاپنگ کرنے کے لیے اپنی بیسٹ فرینڈ کے ساتھ مارکیٹ آئی ہوئی تھی۔ابھی اُسنے پلیٹ میں قطار سے لگے گول گپوں میں سے تیسرا گول گپا اٹھاکر کھٹے پانی میں ڈبوتے ہوئے باہر نکالا ہی تھا جب اچانک اُسے اپنے قریب سے کسی کتے کے بھونکنے کی آواز سنائی دی۔اُسکے منہ کی طرف جاتا گول گپا بےساختہ پلیٹ میں گرا جب وہ اُسکے ایک بار پھر زور سے بھونکنے پر جھٹکا کھا کر پلٹی۔

” کک۔۔۔کک کتا۔۔۔“  خود کی جانب خونخوار نظروں سے گھورتے ہوئے  گھنے بالوں والے براؤن کتے کو دیکھ کر آرزو کی سانس سینے میں اٹک گئی۔اُسے بچپن سے ہی  کتوں اور اندھیرے کا فوبیا تھا۔اُسنے سختی سے نیناں کا ہاتھ پکڑ لیا جو اس صورتحال سے خود بھی گھبرا گئی تھی۔وہ شاید کسی کا پالتو کتا تھا جو اپنے مالک سے خود کا پٹہ چھڑوا کر اُنکی جانب چلاآیا تھا۔شاید نہیں یقیناً اُسکا دماغ گھوم گیا تھا۔

”ارے بیٹیا گھبراؤ نہیں۔۔۔یہ بس ڈرا رہا ہے کہے گا کچھ بھی نہیں۔۔۔“  ریڑھی والے بابا نے اُنھیں ڈرا ہوا دیکھ کر پُرسکون کرنا چاہا کہ تبھی وہ بھونکتا ہوا پیچھے کو سرکتی حاویہ کی جانب تیزی سے لپکا۔اگلے ہی پل اُس نے گول گپوں والی پلیٹ ہوا میں اچھالی تھی اور چیختے ہوئے سرپٹ دوڑلگادی۔

”آآآ۔۔۔۔بچاؤ۔۔۔۔بچاؤ۔۔۔۔کتا۔۔۔کوئی تو بچاؤ۔۔۔۔“  وہ مسلسل بولتی ہوئی اندھا دھند آگے کو بھاگتی جارہی تھی یہ جانے بغیر کہ بیچ راستے میں ہی کتے کے مالک نے اُسے پکڑ کر اپنے قابو میں کرلیا تھا۔

لیکن وہ پیچھے مڑ کر دیکھتی تب ناں۔۔۔

وہاں پر کھڑے لوگ اُسے یوں اکیلے بھاگتے ہوئے دیکھ کر حیران ہوئے تھے۔

ڈر کے مارے نمکین پانیوں سے بھری آنکھوں نے آگے کا منظر دھندلا کردیا تھا تبھی وہ سامنےصحیح سے دیکھ نہیں پائی تھی اور سیدھا مقابل کی پشت سے جاٹکرائی۔

عائل جو فون پر آئمہ بیگم سے تقریباً بات ختم کرتے ہوئے خدا حافظ کہہ چکا تھا اچانک پیچھے سے دھکا لگنے پر سرعت سے پلٹا اور اپنے سامنے حجاب میں موجود لڑکی کو زمین بوس ہونے سے پہلے ہی بازوؤں سے تھام لیا۔

حاویہ نے اپنی گھنیری پلکیں زور زور سے جھپکتے ہوئے اپنے سامنے با وردی پولیس آفیسر کو دیکھا جو پوری طرح اُسی کی جانب متوجہ تھا۔پولیس موبائل کی بیک سیٹ پر مجرم کے ساتھ بیٹھا انسپیکٹر باسط بھی آگے کھسک کر باہر کا منظر دیکھتا ہوا چونکا۔ 

”آر یو اوکے میڈم۔۔۔۔؟؟؟“  اُسکا زرد پڑتا چہرہ دیکھ کر عائل نے فکرمندی سے پوچھا تو وہ شدت سے نفی میں سرہلاتی ہوئی اُس کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرنے لگی۔

”پلیز میڈم۔۔۔آپ مجھے بتائیں۔۔۔کیاکوئی آپکے پیچھے پڑا ہے۔۔۔؟؟؟کیا کوئی آپکو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہا ہے۔۔۔؟؟؟“  عائل اپنے پروفیشنل انداز میں تفتیش کرتا ہوا اُسکی جانب رخ موڑگیا جو کافی گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی۔

”جج جی آفیسر۔۔۔۔وہ کتا۔۔۔میرے پیچھے پڑا ہے اور۔۔۔مجھے جان سے مارنا چاہتا ہے۔۔۔پلیز مجھے بچالیجیے اُس سے۔۔۔پلیزززز۔۔۔“  گہرے سانس لیتی وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔ساتھ ہی اُس راستے کی طرف نگاہ دوڑائی جہاں سے وہ بھاگ کر آئی تھی۔لیکن اب اُس خونخوار کتے کا دور دور تک کوئی نام ونشان نہیں تھا۔

”کون ہے وہ۔۔۔؟؟؟اور اس وقت کہاں پر ہے۔۔۔؟؟؟آپ پلیز مجھے ذرا اُسکا حلیہ بتائیں۔۔۔تاکہ ہم مجرم کی باآسانی شناخت کرکے اُسے پکڑسکیں۔۔۔“  عائل کو لگا شاید وہ اُس انسان کو غصے میں گالی دے رہی ہے جو چند لمحے قبل اُسکے پیچھا پڑا ہوا تھا تبھی اُسکا سہما ہوا سلونا روپ نظروں میں رکھتے ہوئے نرمی سے استفسار کرنے لگا۔

”جی بتاتی ہوں۔۔۔وہ بہت خوفناک تھا۔۔۔اُسکے لمبے براؤن بال تھے۔۔۔چار ٹانگیں تھیں۔۔۔ایک عدد ہلتی ہوئی دُم۔۔۔اور منہ سے باہر کی جانب لٹکتی ہوئی لمبی سی زبان۔۔۔“  وہ اپنے آنسو صاف کرتی ہوئی سوچ سوچ کر بتانے لگی۔

”وہااااٹ۔۔۔۔“  مجرم کی ایسی شناخت پر عائل کو حقیقیتاً جھٹکا لگا تھا۔

اُسکے غیر متوقع ری ایکشن پر وہ آنکھیں پھیلائے اُسے دیکھنے لگی جو اب کافی غصے سے اُسے گھوررہا تھا۔

”تم۔۔۔تم تب سے ایک اصلی والے کتے سے ڈر رہی تھی اور میں سمجھا کہ۔۔۔۔اففف پاگل لڑکی۔۔۔تمھارا دماغ تو سیٹ ہے۔۔۔؟؟؟فری میں میرا اتنا قیمتی ٹائم برباد کرڈالا تم نے۔۔۔حد ہے۔۔۔“  وہ اپنے لہجے کو حد سے ذیادہ سخت بناتے ہوئے دانت پیس کر بولا تو وہ نظریں جھکاتی ہوئی خاموشی سے آنسو بہانے لگی۔

کسی اجنبی کے ہاتھوں اچھی خاصی بےعزتی ہونے پر خفت کے مارے اُسکا انگ انگ دہک اٹھا تھا۔

اُسکا جھکا ہوا سر دیکھتے ہوئے عائل نے اپنا غصہ ضبط کرنے کے لیے  گہرا سانس بھرا۔

”مجھے کتوں سے اور اندھیرے سے شروع سے ہی بہت ڈر لگتا ہے۔۔۔“  اپنی صفائی دیتے ہوئے وہ تقریباً منمنائی۔

”یو مین فوبیا۔۔۔۔؟؟؟“  عائل کے صحیح اندازہ لگانے پر وہ اثبات میں سرہلاگئی۔آنسوؤں میں مزید روانی آئی تھی۔

”اوہ گاڈ۔۔۔۔“   بےساختہ اُسکی حالت دیکھتے ہوئے اُسے اپنے سخت لب و لہجے کا احساس ہوا تو وہ اپنے منہ پر ہاتھ پھیر کر رہ گیا۔

اس سے پہلے کہ عائل واپس سے نرم لہجہ اختیار کرتا کہ تبھی قریب سے آتی نسوانی آواز پر وہ دونوں ہی چونک گئے۔

”حاویہ۔۔۔۔“  نیناں نے اپنی بیسٹ فرینڈ کو پولیس موبائل کے قریب کھڑےکسی آفیسر کے ساتھ محوگفتگو دیکھا تو حیرت سے اُنکی جانب لپکی۔

”نیناں۔۔۔شکر ہے تم آگئی۔۔۔۔“  اُسے ہاتھ میں شاپنگ بیگز پکڑے اپنی طرف آتا دیکھ  کر وہ بھیگی آنکھوں سمیت مسکراتی ہوئی اُسکی جانب مڑی۔عائل نے اُسکے سانولے سلونے چہرے پر دھوپ چھاؤں کا یہ عالم بغور دیکھا تھا۔

”میں تو پریشان ہی ہوگئی تھی کہ آخر تم کہاں چلی گئی ہو۔۔۔۔؟؟؟سب ٹھیک تو ہے ناں۔۔۔؟؟؟تم رو کیوں رہی ہو۔۔۔؟؟؟“  حاویہ کا ہاتھ تھامتے ہوئے نیناں نے الجھی نظروں سے عائل کی جانب دیکھا جو سنجیدگی سے اُنہی کی جانب دیکھ رہا تھا۔

”چلو گھر چلیں۔۔۔ماما بہت پریشان ہورہی ہوں گی۔۔۔پہلے ہی کافی دیرہوگئی ہے۔۔۔“  نیناں کے پھرسے ہلتے لب دیکھ کر حاویہ جھٹ سے آنسو صاف کرتی ہوئی بولی اور ساتھ ہی زور سے اُس کا ہاتھ دبایا۔صاف اشارہ تھا کہ ابھی وہ کوئی بھی بات نہ پوچھے۔نیناں نے اُسکی جانب دیکھا تو اُسکی نظروں کا مفہوم سمجھتے ہوئے بےبس سی چپ ہوگئی اور دونوں وہاں سے چلتی بنیں۔

”حاویہ صاحبہ۔۔۔خاص آپ کے لیے ایک بہت مفید مشورہ ہے میرے پاس۔۔۔۔تھوڑی سی دور ایک مینٹل ہاسپٹل واقع ہے۔۔۔اگر من ہوا تو وہاں کا چکر ضرور لگائیے گا۔۔۔شاید کچھ افاقہ ہوجائے۔۔۔“  جانے کیوں وہ اپنی سنجیدہ طبیعت کےخلاف جاکرمسکراتی آواز میں اپنا اظہارِ خیال پیش کرگیا تھا جو بغیر تھینک یو یا سوری بولے بےمروتی کا مظاہرہ کرتی ہوئی خاموشی سے اپنی دوست کے ساتھ رفوچکر ہونے کے چکروں میں تھی۔لہجے میں واضح نرمی تھی۔

اپنے نام کی پکار سمیت  اُسکے واضح طنز پر حاویہ صدمے سے رک کر پیچھے مڑی اور اُسے آنکھیں سکیڑ کر محض غصے سے گھورنے پر ہی اکتفا کیا۔ورنہ دل تو بہت کررہا تھا کہ اُس پولیس آفیسر کو ابھی دوچار باتیں سنادے جواُسے دل کھول کر ہرٹ کرچکا تھا۔جواب میں وہ براہِ راست  اُس کی بھوری آنکھوں میں سنجیدگی سے دیکھتا ہوا بےنیاز سا کندھے اچکاگیا۔البتہ اُسکے انداز پر عائل کی مسکراہٹ اب مفقود ہوچکی تھی۔اگلے ہی پل وہ کشمکش میں کھڑی نیناں کو ساتھ لےکر وہاں سے تن فن کرتی ہوئی چلی گئی۔

”پاگل۔۔۔۔“  اُسکی حرکت یاد کرتے ہوئے بے اختیار اُسکے ہونٹوں پر مسکراہٹ در آئی تو وہ سر جھٹکتا ہوا فرنٹ سیٹ کی جانب بڑھ گیا۔

***************

وہ تینوں خلاف توقع اس وقت سکینڈ فلور پر موجود تھے۔فواد نے بالوں بھری کلائی میں پہنی واچ کا جائزہ لیا۔لیکچر ختم ہوئے دو تین منٹ گزرچکے تھے۔تبھی وہ کندھے سے لگی سٹرِِپ پر اپنی پکڑ مضبوط کیے اپنی دوست علیزہ کے ساتھ سب سے آخری کلاس سے برآمد ہوئی تھی۔دائیں جانب مڑتے ہی راہداری پارکرتے ہوئے وہ علیزہ کی کسی بات پر ہنستی ہوئی بےاختیار منہ پر ہاتھ رکھ گئی۔

 ”اوئے شام۔۔۔سامنے دیکھ۔۔۔ہنستا مسکراتا شکار خود چل کر شیر کے پاس آرہا ہے۔۔۔چل جا اب چلادے اس حسینہ پر بھی اپنی سوہنے پن کا جادو۔۔۔“  حرمین کو اپنی سمت آتا دیکھ کر افروز اُسے ٹہوکا دیتے ہوئے جوشیلے انداز میں بولا تو وہ دیوار سے ٹیک ہٹائے بغیر گردن ترچھی کرکے اُن دونوں کی طرح اُسکا تفصیلی جائزہ لینے لگا۔

نیلے رنگ کی سادہ سی شلوار قمیض پر ہم رنگ دوپٹے کا حجاب کیے وہ تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی اُن کے قریب سے قریب تر ہوتی جارہی تھی۔

”ابے جائے گا بھی یاں تیری جگہ میں کوشش کرکے دیکھوں۔۔۔۔؟؟؟“  اُسے ہنوز اُسی  پوزیشن میں کھڑا دیکھ کر فواد چڑکر بولا۔

”ریلکس بڈی۔۔۔ابھی میری اینٹری کا ٹائم نہیں ہوا۔۔۔۔“  حرمین پر سے نظریں ہٹائے بغیر وہ اپنی آبرو اچکاتا قدرے اطمینان سے گویا ہوا۔

”مطلب۔۔۔۔؟؟؟“  دونوں نے ایک کورس میں پوچھتے ہوئے الجھ کر اُسکی جانب دیکھا تو وہ ہولے سے مسکرایا۔اُسکی تیز نظریں حرمین کے پیچھے لپکتی لڑکی پر پڑچکی تھیں جس سے تھوڑی دیر پہلے ہی وہ دو منٹ کی خفیہ میٹنگ کرکے آیا تھا۔

”مطلب یہ۔۔۔ کہ تُو بس دیکھتا جا آگے ہوتا ہے کیا کیا۔۔۔۔“  اُنکی کیفیت سے حظ اٹھاتا ہوا وہ اپنی آنکھ دباگیا۔

تبھی اُن تینوں کو قندیل کی خاصی بلندغصیلی آواز نے اپنی جانب متوجہ کیا۔

”او حرمین میڈم۔۔۔میری اسائنمنٹ چرا کر کہاں بھاگی جارہی ہو۔۔۔؟؟؟ذرا اسے تو واپس کرتی جاؤ۔۔۔۔“  طنزیہ لہجہ اپناتے ہوئے وہ اُسکی جانب لپکی تو حرمین اپنا چشمہ صحیح سے ناک پر ٹکاتی ہوئی حیرت اور کچھ صدمے سے پیچھے پلٹی۔علیزہ بھی حیران ہوئی تھی اس بےبنیاد الزام پر۔

”یہ تم کیا بات کررہی ہو۔۔۔۔؟؟؟میں بھلا تمھاری اسائنمنٹ کیوں چوری کروں گی۔۔۔؟؟؟“  اپنی کلاس فیلو کو تیوری چڑھا کر دیکھتے ہوئے وہ اُسکے برعکس تھوڑا مدھم لہجے میں بولی جو اُنکے پاس بھاگتی ہوئی پہنچی تھی اور اب گہرے گہرے سانس بھر رہی تھی۔پاس سے گزرتے ابھی چند ایک سٹوڈنٹس کی توجہ ہی اُنکی جانب کھینچی تھی۔

”تم شاید یہ بھول رہی ہو قندیل میڈم۔۔۔۔حرمین زہرا یونی کے ٹاپرز میں سے ایک ہے۔۔۔پھر اُسے تمھاری اسائنمنٹ کی کیا ضرورت۔۔۔جو نجانے کتنی ہی غلطیوں سے پُر ہوگی۔۔۔؟؟؟“  علیزہ نے اُس کو گھورتے ہوئے اپنی فرینڈ کی اہمیت بتائی تھی جبکہ آخری جملہ وہ منہ میں بڑبڑائی جو قندیل نے بمشکل سنا تھا۔اگرچہ حرمین کے فادر کی ڈیتھ کے بعدسے اُنکے اخراجات پہلے کی نسبت محدود ہوکررہ گئے تھے لیکن یہ اُسکی اعلیٰ ذہانت کا ہی کمال تھا جو اُسے اسکولرشپ کے بل بوتے اس بڑی یونیورسٹی میں آرام سے ایڈمیشن مل گیا تھا۔اور ویسے بھی حرمین کے پیرنٹس کی بھی ہمیشہ سے یہی خواہش رہی تھی کہ اُنکی اولاد ذیادہ سے ذیادہ پڑھ لکھ جائے۔لیکن افسوس کے ٹاپر ہونے کے باوجود بھی وہ ایک دبو سی لڑکی تھی جو کم ہی اپنے لیے سٹینڈ لیتی تھی۔

”تمھارے کہنے کا مطلب ہے کہ میں جھوٹ بول رہی ہوں۔۔۔؟؟؟ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری۔۔۔واہ بھئی کیا کہنے تم لوگوں کے۔۔۔“  اس ٹھوس دلیل پر پہلے تو وہ گڑبڑائی لیکن پھر اپنے اعتماد کو پل میں بحال کرتی ہوئی تڑخ کر بولی تو اپنی اپنی کلاسوں کی جانب جاتے سٹوڈنٹس رک کر اُنھیں دیکھنے لگے۔

”سنو قندیل۔۔۔بہت ہوگیا ہاں۔۔۔بس کرو اب۔۔۔جب میں کہہ رہی ہوں کہ مجھے نہیں معلوم تمھاری اسائنمنٹ کا تو تم مان کیوں نہیں لیتی۔۔۔؟؟؟“  تھوڑا گھبرا کر بولتے ہوئے حرمین نے اپنا دفاع کرنا چاہا تو آگے سے وہ مزید بگڑگئی۔

”اچھا۔۔۔میں بس کروں۔۔۔تو ٹھیک ہے پھر۔۔۔ابھی کہ ابھی یہاں چیکنگ کرواؤ مجھے۔۔۔خود ہی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔۔۔“  ناک کے نتھنے پھیلاتے ہوئے اب وہ پلین کے مطابق اگلی کاروائی پر اتر آئی اور کسی کو بھی کچھ سوچنے سمجھنے کا موقع دئیے بغیر اُس کے کندھے سے سلور بیگ جھپٹ لیا۔

شام ٹیک ہٹاتے اب سیدھا کھڑا ہوگیا اور ابھرے ہوئے مضبوط سینے پر بازو باندھے دلچسپی سے سب دیکھنے لگا۔

اہانت کے شدید احساس سے حرمین کا روم روم کانپنے لگا۔وہ چاہ کر بھی قندیل کو ایسا کرنے سے روک نہیں پارہی تھی۔چشمے کے پار تیزی سے بھیگتی ہوئی گہری کالی آنکھیں اطراف میں گھومیں تو شام سمیت اُسکے دوستوں کو اپنی جانب متوجہ پاکر اُسکا رنگ مزید پھیکا پڑا۔وہ اس سمے بلاوجہ یونی کے سب سے ڈیشنگ مگر پلے فل گروپ کی توجہ کا مرکز بنی بیٹھی تھی۔اُنکی آمد کی ٹھوس وجہ جاننے سے فی الحال قاصر تھی۔شرمندگی سے لب کچلتی وہ سرعت سے نظریں پھیر گئی لیکن تبھی اپنے بیگ سے کسی اور کی اسائنمنٹ نکلتی دیکھ کر صحیح معنوں میں اُسکے ہوش اڑے تھے۔

”ی یہ۔۔۔۔کیسے؟؟؟“  بےیقینی اس قدرتھی کہ اُسے بولنا بھی محال لگا۔علیزہ کا بھی منہ کھلا تھا یہ دیکھ کر جبکہ قندیل کے لب شاطرانہ انداز میں مسکرائے۔

”دیکھا۔۔۔میں نہ کہتی تھی کہ میری اسائنمنٹ تمہی نے چرائی ہے۔۔۔اب بولو مس ٹاپر۔۔۔کہاں گیا تمھارا سارا کونفیڈینس۔۔۔؟؟؟نہیں نہیں۔۔۔مس ٹاپر کیوں۔۔۔۔بلکہ مس چورنی۔۔۔“  بنا کسی خطا کے اُسکے ماتھے پر سرعام چورنی کا ٹیگ چپکاتے ہوئے وہ بالکل بھی نہیں جھجکی تھی۔

شام نے اُسے داد دینے والی نظروں سے مسکرا کر دیکھا جوصرف اُسکے ایک بار پیار سے کہنے پر اُسکی مدد کو فوری سے بیشتر تیار ہوگئی تھی۔

سٹوڈنٹس کے درمیان چہ مگوئیاں ہونے لگیں تو حرمین کی نم آنکھیں احساس توہین کی شدت سے چھلک پڑیں۔

”برو۔۔۔یہ سب تیرا پلین تھا کیا۔۔۔؟؟؟“  اُسے دلکشی سے مسکراتا دیکھ   کر فواد نے اُسکے کان میں تقریباً گھس کر تصدیق چاہی۔

”یپپ۔۔۔اور اب اینٹری مارنے کا ایگزیکٹ ٹائم آگیا ہے۔۔۔۔“  شام نے  کندھوں سے بلیک ٹی شرٹ اوپر اچکاتے ہوئے اسٹائل سے جواب دیا تو اپنی بھنویں اوپر اٹھاتے ہوئے اُن دونوں کے لب بےاختیار او کی شیپ میں ڈھلے تھے۔

اگلے ہی لمحے وہ بڑی سنجیدگی سے جینز کی پاکٹس میں ہاتھ پھنسائے قدم قدم چلتا ہوا حرمین کے پہلو میں جاکر کھڑا ہوگیا۔اتنا کہ اُسکا مضبوط کندھا اُسے چھونے لگا۔حرمین جھٹکا کھا کر دو قدم پیچھے ہوئی تھی۔اُسکی یہ حرکت شدت سے محسوس کرتے ہوئے شام کی بادامی رنگ آنکھوں میں ناگواری در آئی۔اگلے ہی پل وہ گہرا سانس بھرتا ہوا مجبوراً ضبط کرگیا۔وہ بھلا ایسے گریز کا کہاں عادی تھا۔لڑکیاں تو اُسکے ساتھ چپکے رہنے پر ذیادہ انٹرسٹڈ ہوتی تھیں۔افروز اور جواد وہی پر کھڑے رہ کر لائیو ڈرامہ انجوائے کرنے لگے۔

”ابے یار۔۔۔۔اپنے شام کے پٹانے کا انداز تو اِس بیچاری چڑیا پر کافی بھاری پڑگیا۔۔۔۔“  افروز کمینگی سے بولتے ہوئے دھیما سا ہنسا تو جواد نے بھی مسکرا کر تائیدی انداز میں سرہلاگیا۔

”جانے دو قندیل۔۔۔کیا ہوگیا ہے یار۔۔۔ضروری تو نہیں یہ سب حرمین نے کیا ہو۔۔۔ہوسکتا ہے کسی نے مذاق میں آکر ایسا کردیا ہو۔۔۔“  خود کو بمشکل کمپوز کرتے ہوئے وہ قدرے نرمی سے گویا ہوا  تو جانے کیوں شام کے بولنے پر حرمین کو حیرت کے ساتھ ساتھ مزید رونا بھی آیا۔

”لیکن۔۔۔میری اسائنمنٹ اسی کے پاس سے ملی تھی۔۔۔“  قندیل شام کی بات پر دھیرے سے منمنائی تھی جبکہ اُسکے یار کہنے پر دل میں ہلکی ہلکی گدگدی سی ہوئی۔

”اووو رئیلی۔۔۔اُسکے آنسو دیکھو۔۔۔کیا یہ تمھیں کہیں سے بھی جھوٹے لگتے ہیں۔۔۔؟؟؟نہیں ناں۔۔۔؟؟؟ہم سب جانتے ہیں کہ حرمین ایسی لڑکی نہیں ہے۔۔۔الٹا وہ تو دوسروں کی ہیلپ کرتی ہے۔۔۔۔“  اُسکے انداز سے پل پل ٹپکتی اپنائیت پر حرمین سمیت باقی سب تو حیران ہوئے ہی تھے،قندیل بھی اُسکی ایکٹنگ کی فریفتہ ہوچکی تھی۔

حرمین نے آنکھیں پھیلائے شام کی طرف دیکھا تھا جسکی گہری آنکھیں اُس کے سانولے بھیگے ہوئے نقوش پر ہی ٹھہری ہوئی تھیں۔حرمین کے دل کی دھڑکنوں نے ایکدم ہی تیز رفتار پکڑلی تھی جسکی وجہ یقیناً اُس کا مخصوص انداز تھا۔

کچھ سٹوڈنٹس اپنی اگلی کلاس میں لیٹ پہنچنے کے ڈر سے وہاں سے چپ چاپ کھسک گئے جبکہ کچھ لاپرواہ بنے وہی پر کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے۔البتہ اُنکی کھسرپھسر میں چند نئی سرگوشیوں کا اضافہ ہوا تھا جو یقیناً شام اور حرمین کے متعلق تھیں۔

شام کی عجیب نگاہوں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ لب بھینچے اگلے ہی پل اپنی بھیگی نظروں کا رُخ سرعت سے بدل گئی۔دوسری بار اُسکا یہ انداز شام کو اندر ہی اندر پیچ وتاب کھانے پر مجبور کرگیا تھا۔ ماؤف ہوتا دماغ اور شدت سے دھڑکتا دل اس وقت بےشمار الجھنوں کا شکار تھا کہ وہ کچھ سوچنے سمجھے کی حالت میں نہیں تھی۔

پہلے چوری کا الزام۔۔۔

پھر اُسکی تصدیق ہوجانا۔۔۔

اور پھر ایسےلڑکے کا حمایت میں بولنا جسکا دور دور تک اُس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔۔۔

آگے جانے اور کیا کیا ہنگامے ہونے والے تھے۔۔۔۔؟؟؟

”شام بالکل ٹھیک بول رہے ہیں قندیل۔۔۔ضرور یہ کسی اور کی شرارت ہے۔۔۔۔حرمین بےقصور ہے۔۔۔“ اُسی کے ساتھ ملوث قندیل کی دوست نے بھی ہمددری بانٹتے ہوئے ہلکا سا ٹکڑا لگایا تھا۔ 

”شاید تم سب ٹھیک کہہ رہے ہو۔۔۔۔آئی ایم سوری حرمین۔۔۔۔مجھے تمھیں اس طرح بالکل بھی ٹریٹ نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔۔“  شام کے نامحسوس انداز میں کیے جانے والے اشارے پر شرمندہ ہونے کی بھرپور اداکاری کرتے ہوئے  قندیل نے حرمین سے جھٹ معذرت کی تو وہ اُسکے ایکدم سے بدلتے تیوروں پر اُسے دیکھ کر رہ   گئی۔

”اٹس اوکے۔۔۔“  کچھ توقف کے بعد کمزور آواز میں بولتی ہوئی وہ برہم سی دکھائی دی اور مزید کچھ بولے بغیر سٹوڈنٹس کے بیچ سے نکلتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔

”اوور ایکٹنگ۔۔۔۔“  آنکھیں گھماتا ہوا وہ حقارت سے بڑبڑایا اور قندیل کو اُسکی خوش آمد مسکراہٹ سمیت اگنور کرتا ہوا تیزی سے اُسکے ہمقدم ہوا۔

”آپ ٹھیک ہیں مس حرمین۔۔۔۔؟؟؟“  لہجے میں واضح فکر تھی جس پر وہ چونک کر رکی نہیں تھی۔

”جی۔۔۔۔“  اپنے پھر سے بہتے آنسوؤں کو رگڑتے ہوئے اُسنے اپنی موجودہ حالت کے برعکس ایک لفظی جواب دیا تھا۔

” گڈ۔۔۔۔آپ کو ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کی ٹینشن لینی بھی نہیں چاہیے۔۔۔“  وہ بات بڑھانے کی کوشش میں اُسے مزید الجھا گیا تھا۔

دور سے اس نئے کپل کا بخوبی نظارہ کرتی رابعہ کی آنکھیں جل اُٹھی تھیں۔دوسرے ہی پل وہ دل برداشتہ ہوتے ہوئے پیرپٹختی وہاں سے چلی گئی۔

”تھینک یو۔۔۔۔“  رک کر شام کی جانب مُڑتی ہوئی وہ مروتاً ہلکا سا مسکراکر بولی تو شام کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔

اس سے پہلے کہ اُسکی دلکشی  کا جادو واقعی حرمین کے کمزور سے دل پر چلتا وہ اُسکے وجیہہ چہرے پر سے اپنی نظریں ہٹاتی تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے وہاں سے نکلتی چلی گئی اس بات سے قطعی بےخبر کہ وہ اپنے گریز کے باعث شام کی بھڑکتی ضد کو مزید ہوا دےچکی تھی۔کچھ فاصلے پر ہوکر چلتی علیزہ بھی اُس کے پیچھے سرعت سے لپکی۔

حرمین کی پشت پر بغور نظریں جمائے شام کے نرم تاثرات یکدم سرد ہوئے تھے۔

”مان گئے برو۔۔۔۔تیرا دماغ پڑھائی سے ذیادہ لڑکیوں کو پٹانے میں تیز چلتا ہے۔۔۔۔“  اُسکے کندھے پر ہاتھ مارتا ہوا طنز کا نشتر چلانے والا یہ جواد تھا جس پر افروز بھی کھل کر ہنسا تھا۔

”ذیادہ بکو مت۔۔۔۔یہ ٹاسک تھوڑا ٹف ضرور ہے لیکن اس سے بھی ذیادہ دلچسپ لگا ہےمجھے ۔۔۔بس کچھ دن اور۔۔۔پھرمیری جیت کے ساتھ ہی یہ چیپٹر بھی جلد ہی کلوز ہوجائے گا۔۔۔۔“  اُسکے انداز میں شدت تھی جو نجانے آگے جاکر حرمین کی بظاہر خوشنماء زندگی میں کیا رنگ لانے والی تھی۔۔۔

**********

”کر آئی ہو اپنی ساری شاپنگ۔۔۔۔؟؟؟بڑی دیر لگادی آنے میں۔۔۔اور نیناں۔۔۔ وہ تمھارے ساتھ نہیں آئی۔۔۔۔؟؟؟“  وہ پھولے ہوئے منہ کے ساتھ گھر میں داخل ہوئی تو نفیسہ بیگم نے شاپرز پر ایک سرسری سی نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھا۔

”جی۔۔۔کر آئی ہوں اپنی ساری شاپنگ۔۔۔۔اور نیناں کو گھر جلدی جانا تھا اسی لیے وہ نہیں آئی میرے ساتھ۔۔۔“  حاویہ نے جواب دے کر ہاتھ میں پکڑے چند شاپرز باہر رکھے صوفے پر پھیلائے اور دو کمروں کے سامنے سے گزر کر نفیسہ بیگم کے پیچھے کچن میں جاتے ہوئے وہی چیئر پر بیٹھ گئی۔نیناں کے اصرار پر وہ راستے میں اُسے منہ بگاڑکر اپنی اور اُس پولیس والے کی ساری سٹوری بتا چکی تھی۔نیناں کی ہنسی رک ہی نہیں رہی تھی اور اوپر سے وہ اُسے اُس کھڑوس کے نام سے چھیڑنے بھی لگی تھی تبھی وہ اُس سے ناراض ہوکر اکیلی گھر واپس چلی آئی۔ایک پل کو تو اُسنے خود کو خواہ مخواہ کالج سے چھٹی کرنے پر بھی کوسا تھا۔

” کیا بات ہے حاویہ۔۔۔سب خیریت تو ہےناں۔۔۔تمھارا منہ کیوں اترا ہوا ہے۔۔۔؟؟؟“  اُسکی طرف سے ہنوز خاموشی کا احساس پاتے ہوئے چائے بناتی نفیسہ بیگم نے پلٹ کر اُسکا گم سم چہرہ بغور دیکھا۔

”بس تھکاوٹ سی چڑھ گئی ہے ماما۔۔۔اپیہ نہیں آئیں ابھی تک یونی سے۔۔۔“  نفیسہ بیگم کے یوں استفسار کرنے پر حاویہ کو بے ساختہ اُس کتے اور پولیس آفیسر کا خیال ایک ساتھ آیا تو وہ اپنے انداز میں تھکاوٹ ظاہر کرتی اصل بات چھپاگئی اور خود سے دھیان ہٹانے کی خاطر حرمین کی بابت پوچھنے لگی۔

”بس آنے ہی والی ہوگی۔۔۔۔وہ آجائے پھر اکھٹے بیٹھ کر کھانا کھائیں گے۔۔۔“  نفیسہ بیگم اطمینان سے جواب دیتی ہوئی واپس اپنے کام میں مگن ہوگئیں جبکہ حرمین کے ذکر پر اُنکے لب خوشی سے مسکرااٹھے۔آج اُنھیں نسیمہ آپا نے ایک بہت بڑی خوشخبری سنائی تھی جو وہ اپنی دونوں بچیوں سے ایک ساتھ شئیر کرنا چاہتی تھیں۔

”جی بہتر۔۔۔تب تک میں اپنا سامان کمرے میں رکھ کر آتی ہوں۔۔۔“  اپنی ہی کیفیت میں گم وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی کچن سے باہر نکل گئی۔

**

عائل دروازہ ناک کرتا ہوا اندر داخل ہوا تو شام بیڈ پر پیٹ کے بل لیٹا اپنے موبائل پر کوئی کار گیم کھیلنے میں منہمک تھا۔

”اہہم اہہم۔۔۔۔شام۔۔۔۔“  اُسے یونہی شانِ بےنیازی سے گیم میں دھت دیکھ کر عائل اپنا گلا کھنکارتا ہوا اُسکے پاس جاکر بیٹھ گیا تو وہ جھٹ سے سیدھا ہو بیٹھا۔

”اوہ بھائی۔۔۔آپ۔۔۔سوری مجھے آپکے آنے کا بالکل بھی اندازہ نہیں ہوا۔۔۔“  اپنے موبائل کوآف کرکے سائیڈ پر رکھتا ہوا وہ تھوڑی شرمندگی سے گویا ہوا۔

اُسکے خود کی جانب دل و جان سے متوجہ ہونے پر عائل ہولے سے مسکرایا۔

”کھانے کی ٹیبل پر موم ڈیڈ تمھارا کب سے ویٹ کررہے ہیں۔۔۔اور تم یہاں بیزی ہو۔۔۔۔نیچے کیوں نہیں آئے۔۔۔۔؟؟؟“  آنکھوں میں شکوہ لیے وہ نرم لہجے میں بولا تو شام بےاختیار پہلو بدل کر رہ گیا۔ملازمہ اُسے کچھ دیر پہلے ہی کھانے کا بول کر گئی تھی لیکن بھوک ہونے باوجود بھی وہ حسن صاحب کی موجودگی کے باعث اس بات کو ناک پر سے مکھی کی طرح اُڑا گیا۔ اپنی ضدی طبیعت کی وجہ سے مجبوراً اُسے  کمرے میں پڑے سنیکس سے گزارا کرنا پڑا تھا۔

”مجھے بھوک نہیں تھی بھائی۔۔۔اسی لیے۔۔۔“  وہ تھوڑا اٹکتے ہوئے جھوٹ بول گیا۔

یونی سے واپسی پر شام کا بدقسمتی سے حسن صاحب سے ٹکراؤ ہوگیا تھا جوکہ کم ہی ہوتا تھا۔اور پھر کیا تھا۔اُسکی گزرتی لائف اور بگڑی ہوئی حرکتوں پر تنقید کرتے ہوئے حسن صاحب نے اُسکے موڈ کا بیراغرق کرکے رکھ دیا تھا۔تب سے وہ اپنے کمرے میں بند پڑا تھا۔

”ڈیڈ سے ڈانٹ پڑی ہے ناں۔۔۔؟؟؟“  وہ پُریقین تھا جس پر وہ سر جھٹک کررہ گیا۔

”یہ کوئی نئی بات تو نہیں۔۔۔۔ڈیڈ چاہتے ہیں کہ میں فائنل سمیسٹر کا دی اینڈ ہوتے ہی اُنکا بزنس جوائن کروں۔۔۔۔جوکہ میں بالکل بھی نہیں چاہتا۔۔۔ڈیڈ کے ساتھ مل کر کام کرنا۔۔۔۔ناٹ پاسیبل یار۔۔۔“  اپنے سنگین مسئلے کا اظہار کرتے ہوئے وہ معمول سے ہٹ کر اس لمحے حد درجہ سنجیدہ لگ رہا تھا۔بے اختیار عائل کو بھی اپنے لاڈلے بھائی کی فکر ہوئی۔

”تو تم کیا چاہتے ہو۔۔۔؟؟؟“  اُسکی رائے جاننا عائل کے لیے سب سے اول ترجیح تھی۔

”میں بھی آپکی طرح  کچھ ہٹ کر کرنا چاہتا ہوں بھائی۔۔۔کچھ الگ۔۔۔کچھ خاص۔۔۔“  جنون سے بولتا ہوا وہ اپنے بڑے بھائی کو مزید تجسس میں ڈال چکا تھا۔

”اور وہ کیا ہے۔۔۔۔؟؟؟“  اب کے وہ ذرا بےچین ہوا تھا۔

”عیش برو۔۔۔۔جسٹ عیش۔۔۔ابھی میری عمر ہی کیا ہے۔۔۔؟؟؟“  اُسکی سنجیدگی کو دیکھتا ہوا وہ قہقہ لگا کر ہنس پڑا تو عائل اُسکا منہ دیکھ کررہ گیا۔

”شریر کہیں کے۔۔۔۔موم بالکل ٹھیک کہتی ہیں۔۔۔تم کبھی نہیں سدھرو گے۔۔۔نجانے اپنی لائف کو لےکر تم کب سریس ہوگے۔۔۔؟؟؟“  اپنے پاگل بنائے جانے پر عائل نے مسکراکر نفی میں گردن ہلاتے ہوئے اُسکے سر پر ہلکی سی چپت لگائی۔

پولیس والا ہوکر بھی وہ پورے دن میں دو بار پاگل بن چکا تھا۔معاً عائل کے ذہن میں وہ سانولا سلونا گھبرایا سا چہرہ تازہ ہوا تو لبوں کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔

”جب میں آپکے کیوٹ سے دوچار بچوں کا ہنڈسم چاچو بن جاؤں گا۔۔۔۔تب۔۔۔۔“  اپنی ہنسی روک کر دوبدو جواب دیتے ہوئے وہ پھر سے غیرسنجیدہ ہوا۔

 ایک بار پھر سے وہی چہرہ اُسکی نظروں میں گھوما تو اپنی بے لگام سوچ کی اِس گستاخی پر اگلے ہی لمحے وہ سر جھٹک گیا۔

”ذیادہ پھیلو مت اور چلو اب نیچے۔۔۔۔موم ڈیڈ ہم دونوں کا ویٹ کررہے ہیں۔۔۔۔“  دل میں خود کے لیے بولے جانے والے الفاظ شام کی جانب اچھالتا وہ اُسے ہاتھ پکڑ کر اٹھانے لگا۔

”بھائی۔۔۔۔؟؟؟اچھا چلیں۔۔۔۔“  وہ جو اُسے روکنا چاہ رہا تھا اُسکی خود کی جانب پلٹتی سنجیدہ نظروں پر ہتھیار ڈالتا اُسکے ساتھ جانے کے لیے بیڈ سے اٹھ کھڑا ہوا۔

*****************************

”حرمین۔۔۔۔بیٹا نسیمہ آپا نے تمھارے لیے ایک بہت ہی اچھا رشتہ بتایا ہے۔۔۔لڑکا ریسٹورنٹ کا منیجر ہے۔۔۔خوبصورت اور ویل ایجوکیٹڈ بھی ہے۔۔۔فیملی ذیادہ بڑی نہیں ہے۔۔۔اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ کل تمھیں دیکھنے کے لیے آنا چاہ رہے ہیں۔۔۔۔میں نے نسیمہ آپا کو خوشی خوشی ہاں کہہ دی ہے۔۔۔۔تو تم کل یونی مت جانا۔۔۔“  کھانے کی ٹیبل پر نفیسہ بیگم پُرمسرت انداز اپنی دونوں بیٹیوں سے مخاطب تھیں۔

اُن کی بات پر جہاں حرمین کے کھانا کھاتے ہاتھ ساکت ہوئے وہی حاویہ نے چونک کر اپنی ماں کا مسکراتا چہرہ دیکھا۔اور پھر اپنی اپیہ کا بجھتا ہوا روپ۔

”تو یعنی ایک بار اور میری قسمت میں ریجکیٹ ہونا لکھا جا چکا ہے۔۔۔۔“  ٹھہر ٹھہر کر بولتے ہوئے اُسکے لب بےدردی سے مسکرائے تھے۔

وہ خود کے ساتھ ساتھ اُن دونوں کو بھی گہری تکلیف سے دوچار کرگئی تھی۔چھ سے سات رشتے تھے جو اُنکے گھر کی دہلیز پار کرتے ہوئے جس طرح سے آئے تھے اُسی طرح خالی ہاتھ واپس پلٹ گئے۔کچھ نے تو اُسکی جگہ حاویہ کا سوال کرڈالا تھا جو شکل و صورت کے لحاظ سے اُس سے بہت بہتر تھی۔اور وہ ہر بار خالی دامن رہ کر دلبرداشتہ ہوجایاکرتی تھی۔فیضان صاحب کے انتقال کے بعد نفیسہ بیگم کی اپنی دونوں بچیوں کے لیے فکر پہلے سے ذیادہ بڑھ گئی تھی۔نفیسہ بیگم کے بڑے بھائی نے اُن پر ہمیشہ اپنا شفقت بھرا ہاتھ رکھا تھا لیکن اپنے بڑے سے گھرمیں رہائش اختیار کرنے کی آفر کبھی نہیں کی تھی۔شاید اپنی چہیتی بیوی کے دباؤ میں آکر وہ ہمیشہ مجبور ہوجاتے تھے۔لیکن نفیسہ بیگم کے لیے اتنا ہی کافی تھا جو اُنکا بھائی اُنکا تھوڑا بہت خیال کرلیا کرتا تھا۔یہ حرمین کا یونی میں سیکنڈ لاسٹ سمیسٹر چل رہا تھا۔وہ حرمین کی پڑھائی مکمل ہوتے ہی فوری طور پر اُسکی شادی کردینا چاہتی تھیں۔لیکن کچھ رشتے آنے کے بعد سے اُن پر جو نیا انکشاف کھلا تھا وہ اُنکی پریشانی کو مزید بڑھاوا دے چکا تھا۔

”مایوسی کی باتیں مت کرو حرمین۔۔۔۔اللہ پر کامل یقین رکھو گی تو سب بہتر ہوجائے گا بیٹا۔۔۔اُسکے گھر دیر ضرور ہے پر اندھیرنہیں۔۔۔۔“  

”ماما۔۔۔آپ بھی تو سمجھے ناں۔۔۔۔صرف علم ہی کافی نہیں ہوتا۔۔۔۔لوگ حسن بھی مانگتے ہیں۔۔۔۔جو میرے پاس بالکل بھی نہیں ہے۔۔۔۔تھک گئی ہوں میں لوگوں  کے سامنے بھیڑبکریوں طرح پیش ہوتے ہوتے۔۔۔نہیں برداشت ہوتے اُنکے انکار جو وہ منہ پر مار کر واپس لوٹ جاتے ہیں۔۔۔۔“  پلیٹ میں چمچہ پٹختے ہوئے وہ اپنی بےقدری پر پھٹ پڑی تھی۔دل میں جانے کب کا جمع شدہ غبار تھا جوآج پوری طرح نکلنے کو تھا۔ کچھ یونی میں ہونے والی کاروائی کا بھی اثر تھا جس پر وہ مزید سلگ اٹھی تھی۔اگرچہ حقیقت کا یہ روپ اُسکے لیے حد درجہ تلخ تھا لیکن وہ اُسے مجبوراً تسلیم کرچکی تھی۔حرمین کے اس قدر متنفرہوجانے پر جہاں حاویہ کی آنکھیں پھٹی تھیں وہی نفیسہ بیگم کی آنکھوں میں نم اتری تھی جسے دیکھ کر وہ ایکدم گہرا سانس چھوڑتی نرم پڑی تھی۔

”آئی ایم سوری ماما۔۔۔میرا مقصد آپکو ہرٹ کرنا بالکل بھی نہیں تھا۔۔۔پتا نہیں کیسے میں آپ سے اتنی اونچی آواز میں بات کرگئی۔۔۔۔؟؟؟سو سوری ماما۔۔۔اچھا ٹھیک ہے۔۔۔میں کل یونی نہیں جاؤں گی۔۔۔آپ اُن لوگوں کو بلالیجیے گا۔۔۔۔اوکے۔۔۔“  وہ اپنی چیئر کو اُنکے قریب کھینچ کر شرمندہ سی نفیسہ بیگم کے ہاتھ تھام گئی اور اپنی مرضی کو اُنکی رضا میں شامل کرتی بھیگی آنکھوں سمیت مسکرائی۔

”تم اپنا دل چھوٹا مت کیا کرو حرمین۔۔۔۔مجھے تمھاری مزید فکر ہونے لگتی ہے اس طرح۔۔۔۔لوگ تو پاگل ہیں جو حسن کے پیچھے بھاگتے ہیں۔۔۔ صورت سے ذیادہ سیرت کا اچھا ہونا ضروری ہوتا ہے بیٹا۔۔۔صورتیں کتنی بھی حسین ہوں۔۔۔ہمیشہ سیرتوں کی محتاج ہوتی ہیں۔۔۔ تم دل کی خوبصورت ہو جو بہت کم لوگ ہوتے ہیں۔۔۔۔کیا اتنا کافی نہیں۔۔۔“  نفیسہ بیگم نے اُسے محبت سے سمجھاتے ہوئے حقیقیت کا دوسرا رُخ بھی دکھایا تو وہ مزید شرمندہ ہوتی اپنا سرجھکاگئی۔ 

”آپ دیکھنا اپیہ۔۔۔میرا دل کہتا ہے کہ آپ نہ صرف اُن لوگوں کو پسند آؤگی بلکہ میرے ہونے والے جیجا جی کو بھی آپ سے پہلی ہی نظر میں محبت ہوجائے گی۔۔۔آپ یہ رشتہ پکا ہی سمجھو بس۔۔۔“  حاویہ کے شرارتی لہجے پر بظاہر تو وہ مسکرادی پر اُسکی بات پر اندر سے روتا دل اپنے ہی آنسوؤں میں ڈوب سا گیا۔

”انشاءاللہ۔۔۔۔انشاءاللہ۔۔۔“  نفیسہ بیگم نے خوشدلی سے مسکراتے ہوئے اُسکا گال ہلکے سے تھپتھپاکر گویا تسلی دی تو وہ اپنی ماں بہن کی خاطر بےبسی سے مسکرادی۔

***********

وہ اس وقت اپنے آفس روم میں بیٹھ کر لیپ ٹاپ سے ایک امپورٹینٹ فائل دوسری کمپنی کو میل کررہا تھا۔بلیک کلر کے تھری پیس سوٹ میں وہ جتنا ہینڈسم دِکھ رہا تھا وجیہہ چہرے پر اُسی قدر سنجیدگی رقصاں تھی۔ایک وقت تھا جب شرارتی انداز اور بہکتی مسکراہٹیں ہر لمحہ اُسکی شخصیت کا خاصہ ہوا کرتی تھیں لیکن اب ایسی بہت سی عادات تھیں جو وقت  کے ساتھ ہی کہیں بہت پیچھے چھوٹ گئی تھی۔یا شاید مجبوراً چھوڑنا پڑی تھیں۔زندگی تھی جو چھوٹی موٹی تمام من مستیوں سے بالاتر ایک خاص ڈگر پر چل پڑی تھی۔لیپ ٹاپ سے فارغ ہوتے ہی اُسکی متلاشی نظروں نے مطلوبہ فائل کو سامنے ٹیبل پر ڈھونڈنا چاہا لیکن وہ وہاں پر ہوتی تو دکھائی دیتی۔۔۔

فائل کی عدم موجودگی پر بےاختیار شاہ کی آنکھوں میں اُس پری پیکر کا سندر مکھڑا گھوم گیا۔اُسکی اپنے پاس پھر سے موجودگی کی سوچ جانے کیوں اُسکا بےحس دل شدت سے دھڑکا گئی تھی۔اگلے ہی پل وہ سر جھٹکتا ہوا انٹرکام کی جانب سرعت سے لپکا تھا۔

”جی سر۔۔۔۔؟؟؟“  اسپیکر سے ابھرتی تابعدار آواز شاہ کے کانوں میں پڑی تھی۔

”مس آبرو کو میرے روم میں بھیجیں۔۔۔فوراً۔۔۔۔“  رعب بھرے انداز میں بولتے ہی اُسنے اگلے کا جواب سنے بغیر انٹر کام واپس جگہ پر رکھ دیا۔

”کم اِن۔۔۔۔“  کچھ ہی دیر میں دروازہ ناک ہوا تو وہ ٹیک ہٹا کے سیدھا ہوبیٹھا۔

تبھی وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔ گلابی حجاب میں اُسکا گلاب چہرہ مزید کھل اٹھا تھا۔اوپر سے غضب اُسکی گہری نیلی آنکھیں جو سامنے والے کو اپنے سحر میں جکڑلیتی تھیں۔شاہ بڑی فرصت سے اُسے دیکھنے میں مگن تھا جب اچانک اُسکی میٹھی آواز نے چھایا سکوت توڑ ڈالا۔ 

”آپ نے مجھے بلایا تھا سر۔۔۔۔؟؟؟“  شاہ کے وجیہہ چہرے پر ایک سرسری سی نگاہ ڈالتے ہوئے اُسنے سادگی سے پوچھا اور دوسرے ہی لمحے اپنی عادت کے مطابق پلکیں جھکاگئی۔شاید اُسکی گہری نظروں کی تپش سہنا اُسکے بس کی بات نہیں تھی۔

نیلے آسمان پر ایکدم سے چھاجانے والی سیاہ بادلوں کی گھنی چھاؤں شاہ کا موڈ غارت کرچکی تھی۔اُسکے نزدیک یہ شرم و حیاء کم اور گریز ذیادہ تھا جوہربار اُسکی برداشت کو آزماجاتا تھا۔

”جی۔۔۔آپ نے ابھی تک مجھے فائل تیار کرکے کیوں نہیں دی مس آبرو۔۔۔؟؟؟یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ اس وقت کتنی ضروری ہے میرے لیے۔۔۔۔“  اُسکا جھکا ہوا چہرہ دکھتے ہوئے وہ سخت انداز میں بولا۔

”سر بس کچھ وقت میں فائل آپکے ٹیبل پر موجود ہوگی۔۔۔“  گڑبڑا کر بولتی ہوئی وہ پھر سے اُسکی سرد پڑتی آنکھوں میں دیکھنے کی گستاخی کرچکی تھی۔

”آپکو یہ جان لینا چاہیے کہ مجھے کسی بھی کام میں دیری بالکل بھی پسند نہیں۔۔۔۔“  اُسکی گھبراہٹ سے محفوظ ہوتا اب کی بار وہ قدرے نرم لہجے میں بولا تو وہ اپنے باس کے پل پل بدلتے روپ پر الجھ کررہ گئی۔

”سوری سر۔۔۔۔آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔۔۔میں پوری احتیاط کروں گی۔۔۔“  اُس فائل کی اہمیت کا اُسے بھی بخوبی اندازہ تھا تبھی اپنی غلطی تسلیم کرتی ہوئی وہ اُس سے معذرت کرنے لگی۔

”اگر آپ احتیاط کرنے کی بجائے پورا دھیان دیں گی تو یہ ذیادہ بہتر رہے گا آپکے لیے۔۔۔“  شاہ کو اُسکے پنکھڑی لبوں سے نکلتا لفظ ”احتیاط“ کچھ خاص پسند نہیں آیا تھا جبھی معنی خیز انداز میں بولتا ہوا وہ اُسے چونکنے پر مجبور کرگیا۔

”اب میں جاؤں سر۔۔۔۔۔؟؟؟“  اُسکی خاموش مسکراہٹ اور بولتی نظروں سے خائف ہوتی آبرو بےچین سی ہوکر سر جھکائے وہاں سے جانے کے لیے پرتولنے لگی تو شاہ کی دلفریب مسکراہٹ اُسکے تقاضے پر سمٹ گئی۔

وہ ان چند دنوں میں یہ نہیں سمجھ پارہا تھا کہ اُسکا یہ بےکار سا گریز اُسکی اکڑ کی علامت تھی یا فطری عادت۔۔۔؟؟؟  

خیر وجہ جو بھی تھی لیکن شاہ پر بہت گراں گزرتی تھی اور اب تو اُسکو ضد سی ہونے لگی تھی۔

”ہممم۔۔۔۔شیور۔۔۔۔“  کچھ توقف کے بعد اُسے اپنی نظروں کے حصار سے آزاد کرتا ہوا وہ نظریں پھیر گیا اور اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے قدرے اکھڑے لہجے میں بولا تو گھبراہٹ میں اپنی انگلیاں چٹخاتی آبرو بنا کوئی لمحہ ضائع کیے روم سے باہر نکلتی چلی گئی۔پیچھے وہ سیٹ پر سر ٹکاتا بےبس سا مٹھیاں بھینچ کررہ گیا۔

***********

آج حرمین یونیورسٹی نہیں آئی تھی۔شام جو آج اُس ملانی کو اپنی جانب قائل کرنے کی غرض سے کچھ نیا پلین کرکے آیا تھا یہ جان کر پل میں اُسکا موڈ غارت ہوا تھا لیکن تاشہ کی بروقت انٹری پر مجبوراً اُسے میٹھا بننا پڑا۔

”شام۔۔۔یہ لو اپنی اسائنمنٹ۔۔۔میں نے کمپلیٹ کردی ہے۔۔۔تمھارے بعد میں نے اپنی اسائنمنٹ تیار کی تھی اسی وجہ سے کل رات ٹھیک سے سو نہیں پائی۔۔۔“  اُسکے ٹیبل پر دھرے بازوؤں کے بیچ سر باقر کا دیا ہوا اسائنمنٹ رکھتی وہ اطمینان اور کچھ تھکاوٹ سے بولی۔

”سو سویٹ آف یو ہنی۔۔۔تم ہمیشہ میرا خود سے ذیادہ خیال رکھتی ہو۔۔۔اتنی اچھی کیوں ہو تم۔۔۔؟؟؟“  اپنا مطلب پورا ہوجانے کے بعد  یہ جملہ وہ جانے کتنی ہی لڑکیوں کو بول چکا تھا۔

فواد نے اُسکے از حد معصوم بننے پر آنکھیں گھوماتے ہوئے تاشہ کو دیکھا تھا۔

”میں کہاں اتنی اچھی۔۔۔۔؟؟؟تم بھی ناں بس۔۔۔“  تاشہ اپنی خوشاآمد ہوتے دیکھ شرماتے ہوئے کھل کر مسکرائی تو شام ابرو اچکا گیا۔

تبھی افروز آندھی طوفان کی طرح وہاں آیا اور فواد کے ساتھ والی چیئر کھینچ کر بیٹھ گیا۔

وہ جو شام اور رابعہ کے تازہ تازہ بریک اپ کے بعد بڑے خوشگوار موڈ میں اُسے اپنی گرلفرینڈ بنانے گیا تھا،پہلے کی بانسبت اس بار ذیادہ بےعزتی کروا کے واپس لوٹا تھا۔سب نے اُسکے سخت تیور دیکھے تھے جو اب ضبط کے گہرے سانس بھرتا تاشہ کے وہاں سے دفع ہونے کا انتظار کررہا تھا۔

تینوں کی بےزار نظروں اور خاموشی سے وہ بھی یہ بات سمجھ گئی تھی۔

”اوکے شام۔۔۔۔اب میں چلتی ہوں۔۔۔اگر مجھ سے پھر کوئی کام پڑا تو بلا جھجک مجھے یاد کرلینا۔۔۔“  افروز کی خود پر پڑتی غصیلی نظریں محسوس کرتی ہوئی وہ جھٹ سے بولی تو شام زبردستی مسکراتے ہوئے سرکو جنبش دےگیا۔

”ہاں بھئی اب بول۔۔۔۔اتنی سویٹ سی شکل کیوں بنا رکھی ہے تُو نے۔۔۔؟؟“  تاشہ کے جاتے ہی فواد نے غیرسنجیدگی سے اُسکی طرف دیکھ کر پوچھا۔

وہ ہنستا مسکراتا جتنا اچھا لگتا،غصے میں اُسی قدر کوجا لگنے لگتا۔

”کمینی۔۔۔خود کو پتا نہیں کیا سمجھ کر بیٹھی ہے۔۔۔ہے کیا وہ۔۔۔؟لڑکی کم اور سوکھی لکڑی ذیادہ لگتی ہے مجھے۔۔۔ہمت تو چیک کرو ذرا اُس رابعہ کی یار۔۔۔ مجھے۔۔۔مجھے انکار کردیا اُسنے۔۔۔افروز صدیقی کو۔۔۔“  افروز تو جیسے اسی پل کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا تبھی ایکدم سے پھٹ پڑا اور اپنے سینے پر انگلی رکھتا دونوں سے ذیادہ خود کو یقین دلانے لگا۔

”وہ بھی دو بار۔۔۔۔“  شام نے اپنے موڈ کی پروا کیے بغیر مسکراتی آواز میں اُسکے زخموں پر نمک چھڑکا تھا۔

”ذیادہ بکواس نہیں کر میرے ساتھ۔۔۔۔یہ تیرا ہی غصہ تھا جو اُسنے مجھ بے قصور پر اتاردیا۔۔۔لڑکی تھی اسی لیے چپ کرگیا ورنہ بتاتا اُسے اچھے سے کیا چیز ہوں میں۔۔۔اور مجھے یہ بیہودہ سا مشورہ  دینے والا بھی تُو ہی تھا سالے جو میں پھر سے اُسکے پاس چلا گیا۔۔۔ورنہ تو میری جوتی بھی راضی نہیں تھی اُسے منہ لگانے کو۔۔۔“  اپنا حساب بےباک کرتے ہوئے وہ قدرے تپ کر بولا تو شام اُسکی مزید بگڑتی شکل دیکھتے ہوئے کھل کر ہنس دیا۔

یہ دیکھ کر فواد کی بھی دبی دبی سی ہنسی چھوٹ گئی۔

”تم دونوں کوئی بہت ہی بڑے۔۔۔۔(گالیاں)###۔۔۔ہو۔۔۔بائے گاڈ۔۔۔“  وہ دونوں کو غصے سے گھورتے ہوئے تاسف زدہ لہجے میں بولا پر شاید اُنہوں نے بےشرمی میں پی ایچ ڈی کر رکھی تھی تبھی فل سٹاپ لگائے بغیرڈھٹائی سے ہنستے جارہے تھے۔

”میری جان۔۔۔میری بات مان تو اچھے بچے کی طرح اب اُسے اپنی بہن بنالے۔۔۔۔پٹالیا تُونے اُسے جتنا پٹانا تھا۔۔۔پورا پُھس ہے تُو اس گیم میں کمینے۔۔۔“  فواد نے مزید مرچی لگاتے ہوئے اُسے مزے سے مشورہ دیا جس پر افروز اپنا سارا ضبط کھوچکا تھا۔

”ابے ڈھکن۔۔۔بہن ہوگی تیری۔۔۔مجھے دو بہنیں ہی کافی ہیں۔۔۔اور پٹانے کی کیا بات کرتا ہے۔۔۔؟؟چالیس لڑکیوں کو پٹاکے بھلا بھی چکا ہوں۔۔۔۔“  فواد کے سر پر زور کی ایک ٹھوکتے ہوئے وہ دوسری مارنے  پر بھی آیا تھا جب فواد نے بوکھلاتے ہوئے بیچ میں ہی اُسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے قابو میں کرلیا۔

شام نے ہولے سے ہنستے ہوئے اپنا فون باہر نکالا اور کی بورڈ پر تیزی سے انگلیاں چلاتے ہوئے کچھ ٹائپ کرنے لگا۔

”سالے۔۔۔دیکھ تو کتنے بال اُ گ آئے ہیں تیرے۔۔۔گھر جاکے ویکس ضرور کرلی یو۔۔۔۔“  افروز کو غصے سے اپنا ہاتھ چھڑواتا دیکھ کر فواد نے پھر سے بھڑکی مکھیوں کے چھتے کو چھیڑا تھا۔

جہاں شام کی سنجیدگی پھرسے ہنسی میں بدلی تھی وہی افروز نے فواد کو دوسری بھی ٹھوک ڈالی۔

اُن دونوں کی نوک جھونک پر ہی سہی لیکن شام کا موڈ فریش ہوچکا تھا۔

اور شاید وہ دونوں چاہتے بھی یہی تھے۔

***************************

وہ اس وقت چپ چاپ سی بیڈ پہ ٹانگیں سمیٹ کر بیٹھی سامنے دیوار کو تکے جارہی تھی۔اُسے اب بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ ذباب نامی لڑکے سمیت اُسکی چھوٹی سی فیملی اُسے پسند کرکے جاچکی تھی۔

پسند کرکے کیا جا چکی تھی بلکہ رشتہ طے ہونے کی پکی یقین دہانی کرواچکی تھی۔لڑکا شکل و صورت کے لحاظ سے حرمین کو خود سے کافی بہتر لگا تھا۔لیکن جس چیز نے اُسے ذیادہ اٹریکٹ کیا تھا وہ ذباب کی اچھی سیرت تھی۔

اس کے باوجود بھی جانے کیوں اُسکے دل میں ایک ڈر سا بیٹھ گیا تھا۔

جیسے کچھ ہی دنوں بعد اُن کی فیملی کو کوئی اور خوبصورت لڑکی پسند آجائے گی اور پھر وہ فون پر ہی اس رشتے سے انکار کردیں گے۔یہ سوچ ہی اُسکے رونگٹے کھڑے کردیتی تھی۔

وہ اپنے آپ میں اس قدر کھوئی ہوئی تھی کہ اُسے حاویہ کے کمرے میں آنے کا بھی پتا نہیں چل پایا تھا۔

”اووووو۔۔۔اپیہ۔۔۔میری پیاری اپیہ۔۔۔میں نے بولا تھا ناں کہ آپکا رشتہ آج کے آج ہی پکا ہوجائے گا۔۔۔آخر میرے ہونے والے زی زو(جیجو)کو آپ سے پہلی نظر میں محبت ہوہی گئی۔۔۔ہووووو۔۔۔“  حاویہ نے آتے ساتھ ہی اُسے جھنجھوڑ کر اپنی خوشی کا اظہار کیا تھا جس پر وہ بری طرح چونکتے ہوئے اُسکی حرکت پر مسکرا کر رہ گئی۔

نیناں کے ساتھ کالج سے واپس گھرآتے ہی حاویہ نے سلام دعا کے فوری بعد دھڑکتے دل کے ساتھ نفیسہ بیگم سے حرمین کے رشتے کی بابت پوچھا تھا۔

آگے سے جب اُسے مثبت جواب ملا تو وہ پرجوش سی بیگ صوفے پر پھینکتی اپنے روم کی جانب بھاگی جبکہ نیناں وہی کھڑی نفیسہ بیگم سے خوشی خوشی ساری تفصیل جاننے لگی۔

نیناں حاویہ کی بیسٹ فرینڈ ہونے کے ساتھ ساتھ اُسکی اچھی پڑوسن بھی تھی اسی لیے اکثر اُنکے گھر پر ہی بلاجھجک اپنا وقت گزارلیتی۔

”مبارکاں اپیہ۔۔۔۔مبارکاں۔۔۔۔میری اپیہ چھیل چھبیلی میں تو ناچوں گی ناچوں گی۔۔۔ناچوں گی۔۔۔“  خوشی حاویہ کے سر چڑھ کر بول رہی تھی تبھی وہ اردگرد سے بےبہرہ بیڈ پر چڑھ کر بےہنگم سا ڈانس کرنے لگی۔

”اب بس بھی کرجاؤ حاویہ۔۔۔بیڈ توڑو گی کیا۔۔۔؟؟“  اب کے اسے لُڈی ڈالتا دیکھ کرحرمین نے بمشکل اپنی ہنسی روکتے ہوئے اُسے منع کیا۔

ساتھ ہی اپنا چشمہ بھی اوپر چڑھایا تھا جو محترمہ کے اچھلنے پر ناک کے سرے پر آ ٹھہرا تھا۔

”ارے خدا کو مانیں اپیہ۔۔۔۔ایسے کیسے بس کرجاؤں۔۔۔؟ٹریٹ نکالیں ٹریٹ۔۔۔وہ بھی گرینڈ والی۔۔۔“  وہ ایکدم سے خود کے عضو قابو کرتی ہوئی دھپ سے حرمین کے پاس بیٹھتی اپنا تقاضا کرگئی۔

”بالکل ٹھیک بول رہی ہے حاوی۔۔۔ یوں سوکھی سوکھی مبارکیں تو ہم بھی آپکو وصولنے نہیں دیں گے حرمین آپی۔۔۔“  تبھی نیناں بھی حرمین کو بولنے کا موقع دئیے بغیر حاویہ کی تائید میں بولتی ہوئی مٹھائی کی پلیٹ پکڑے کمرے میں داخل ہوئی۔

”تم دونوں تو پاگل۔۔۔۔“  اُنکی ڈیمانڈ سن کر وہ جو اُن دونوں کو ٹالنے ہی والے تھی حاویہ نے اچانک پورے کا پورا گلاب جامن پکڑکر زبردستی اُس کے منہ میں ڈالتے ہوئے اُسکی بولتی بندکردی تھی۔

”آپ چپ کرکے یہ گلاب جامن کھائیں اور کسی اچھے سے ہوٹل میں ہمیں آج کا ڈنر کروائیں۔۔۔بس بات ختم۔۔۔“  حاویہ مستحکم لب و لہجے میں بولتی ہوئی مسکراہٹ سمیٹ گئی۔

حرمین نے بمشکل گلاب جامن حلق سے نیچے اتارتے ہوئے دروازے پر کھڑی نفیسہ بیگم کی جانب بےبس نظروں سے دیکھا۔

اُنھوں نے مسکرا کر اثبات میں سرہلاتے اپنی رضامندی کو ظاہر کیا تو حاویہ سمیت نیناں بھی اُنکے پُرنور چہرے کو دیکھتی خوشی سے اچھل پڑیں۔

***********

”باسط۔۔۔یہ خبرپکی ہے۔۔۔؟؟؟“  عائل نے کسی بھی قسم کا سخت ایکشن لینے سے پہلے انسپکٹر باسط سے ایک بار پھر کنفرم کرناچاہا۔

اُن کے مخبر کی طرف سے ملنی والی انفارمیشن کے مطابق پاشا جی دار سپر فاسٹ ہوٹل میں اپنے ساتھیوں سمیت پہنچ چکا تھا جہاں خفیہ طور پر ڈرگز اسملنگ کے حوالے سے میٹنگ کی جانی تھی۔

اس کام میں چار لوگ شامل تھے۔پاشا جی دار چھوٹے سے گینگسٹر گروپ کا باس تھا جو بہت سے غیر قانونی کاموں میں ملوث رہ چکا تھا۔

عائل کی اس پر بہت پہلے سے نظر تھی جو ہر بار کسی نہ کسی طرح بھاگ نکلتا۔لیکن اب وہ یہ سنہری موقع کسی بھی طرح ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتا تھا۔

”یس سر۔۔۔ہنڈرڈ پرسنٹ۔۔۔۔“  انسپیکٹر باسط نے پورے یقین سے جواب دیا تو عائل کے چہرے پر جوش کے ساتھ ساتھ سختی در آئی۔

”بہت خوب۔۔۔تو پھر دیری کس بات کی ہے۔۔۔۔؟؟؟چلو نکلتے ہیں۔۔۔۔آج پاشا جی دار اپنے ساتھیوں سمیت ہمارے چنگل سے کسی بھی صورت نکلنا نہیں چاہیے۔۔۔کیونکہ میں اُنھیں ہر حال میں قانون کی سخت گرفت میں تڑپتا مچلتا ہوا دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔گیٹ اٹ۔۔۔“  ٹیبل پر زور سے ہاتھ مارتا ہوا اگلے ہی پل وہ اُٹھ کھڑا ہوا تھا اور انسپیکٹر باسط کو آڈردیتے ہوئے بجلی کی سی تیزی سے باہر کی جانب لپکا۔

”یااللہ مدد۔۔۔۔۔“  سلوٹ مار کر عائل کے پیچھے لپکتا وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑایا تھا۔

کیونکہ خدانخواستہ اگر آج پاشا جی دار نہیں پکڑا جاتا تو عائل کا غضب ناک روپ پھر اُن سب کو جھیلنا پڑنا تھا۔

***************************

”یاہوووووو۔۔۔۔۔ہوووو۔۔۔۔ہوووو۔۔۔۔۔“  دوسری بائیکس کو پیچھے چھوڑتے ہوئے جیسے ہی شام کی ہیوی بائیک ریڈ لائن کو چیڑتی ہوئی ذرا سے فاصلے پر بریک کھاتی رکی،وہاں پر بیٹھے لوگ ایکدم سے اپنی جگہ سے اُٹھ کر شور مچاتے ہوئے اپنے ہاتھ پیٹنے لگے۔

وہ سرشار سا ہیلمٹ سر سے اتارتے ہوئے اپنی بائیک سے نیچے اُترا اور بھوری آنکھوں میں فتح کی چمک لیے اپنے ساتھیوں کی جانب آیا۔

پیچھے دوسرے پارٹی سپیٹرز اپنی شکست پر ہاتھ ملتے رہ گئے۔شام ہر ماہ اس ریس میں پورے اشتیاق سے حصہ لیتا تھا اور یہی چیز حسن صاحب کو زہر لگتی تھی۔

جیت کر وہ جہاں کئی لوگوں کو مایوس کرتا تھا وہیں بہت سوں کو اپنا دیوانہ بھی بنا چکا تھا۔

”کنگریجولیشن یار۔۔۔میں جانتا تھا ہمیشہ کی طرح یہ ریس بھی تمہی جیتو گے۔۔۔کبھی تو ہارنا سیکھ لو۔۔۔تاکہ تمھارے مخالف بھی جیتنے کا اصل سواد چکھ سکیں۔۔۔“  ہادف جوکہ اس ریس کا بڑا پرانا کھلاڑی تھا شام کو گلے سے لگاتے ہوئے سرشار سا گویا ہوا۔

”نو چانس برو۔۔۔۔۔“  جواب میں شام نے مسکراتے ہوئے آنکھ دبائی تھی اور اپنی جیت کی خوشی میں مچلتی لڑکیوں پر بھرپور نگاہ ڈالی جو اُس تک پہنچنے کے لیے محض چند قدموں کے فاصلے پر ہی رہ گئی تھیں۔

”یہ کمینہ کبھی نہیں ہارے گا۔۔۔۔سو اپنا منہ دھورکھو۔۔۔۔“  افروز لقمہ دیتے ہوئے مسکرایا اور فواد سمیت تینوں نے پلٹ کر شام کی طرف دیکھا جو اب وجیہہ چہرے پر جیت کا غرور سجائے اپنے فینز کے ساتھ کھڑا مختلف پوز میں سیلفیاں لے رہا تھا۔

****************************

وہ چاروں اس وقت ہوٹل میں بیٹھ کر ڈنر سے بھرپور انصاف کررہے تھے جب حاویہ ایکدم سے اپنی سیٹ چھوڑ کر اُٹھ کھڑی ہوئی۔

” کہاں میڈم۔۔۔۔؟؟“  نیناں نے اُسے وہاں سے جاتا دیکھ کر بےاختیار پوچھا تو نفیسہ بیگم سمیت حرمین بھی اُسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔

”اتنا پریشان کیوں ہورہے ہیں سب۔۔۔؟؟؟واشروم تک ہی تو جارہی ہوں۔۔۔فکر نہیں کریں اُسکا بل پے نہیں کرنا پڑے گاآپکو۔۔۔“  اُنکے چہروں پر چھائی فکر سے لطف لیتی وہ شرارتی انداز میں گویا ہوئی تو سب نفی میں سر ہلاکررہ گئے۔

ٹریٹ کی خوشی میں حاویہ نے کچھ ذیادہ ہی آڈر کردیا تھا لیکن اب سب ختم کرنا اُسے محال لگنے لگا تو وقتی طورپر نفیسہ بیگم کی ڈانٹ سے بچنے کےلیے واشروم سے بہتر اُسے اس وقت اور کوئی بیسٹ آپشن دکھائی نہیں دیا تھا۔

”کھایا ہے نہیں اور نکالنے کی دیکھو کتنی جلدی ہے محترمہ کو۔۔۔۔“  نیناں جو اُسکی رگ رگ سے واقف تھی اُسکی ڈرامے بازی پر زیرِ لب بڑبڑائی۔

اگر حاویہ اُسکی یہ بات سن لیتی تو یقیناً ایک جھاپڑ پکا پڑنا تھا اُسے۔

”جلدی جاؤ اور جلدی واپس آؤ۔۔۔۔پھرتم نے اپنا سوپ بھی ختم کرنا ہے اور ہمیں گھر بھی جانا ہے۔۔۔“  نفیسہ بیگم اُسے آڑے ہاتھوں لیتی ہوئی بولیں تو اُسکی مسکراہٹ معدوم پڑتی ختم ہوگئی۔

”اوکے ماما۔۔۔۔“  سنجیدگی سے بولتی ہوئی وہ واشروم والے ایریے کی جانب نکل گئی۔

پیچھے سے حرمین اور نیناں اُسکی حالت پر دبا دبا سا ہنس پڑیں جبکہ نفیسہ بیگم ان سے بےخبر کھانے میں مگن تھیں۔

ابھی حاویہ کو وہاں سے گئے چند منٹ ہی ہوئے تھے جب اچانک دروازے سے پولیس کی ٹیم ہوٹل میں داخل ہوئی اور سب کو آتے ساتھ ہی وارن کرنے لگی۔

دور کونے میں ٹیبل کے گرد بیٹھے چار افراد ایکدم آنے والی آفتاد پر بوکھلاتے ہوئے بنا سوچے سمجھے وہاں سے اٹھ کر مخالف سمت بھاگے تھے۔

”وہ رہے۔۔۔پکڑو اُنھیں۔۔۔“  پاشا جی دار کو اپنی جان بچانے کی خاطر فرار ہوتے دیکھ کر عائل اپنی بیلٹ ہولسٹر سے پسٹل باہر نکالتے ہوئے زور سے چلایا۔

تبھی اُن میں سے ایک نے سب کو خوفزدہ کرنے کے لیے بے دھڑک ہوائی فائرنگ کردی تو لوگوں 

میں بھگدڑ سی مچ گئی۔سب اُٹھ اُٹھ کر باہر کی جانب بھاگنے لگے۔

”حرمین۔۔۔حاویہ۔۔۔حاویہ واشروم میں ہے۔۔۔۔اُسے واپس لاؤ۔۔۔حرمین میری بچی۔۔۔۔“  نفیسہ بیگم دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے لرزتی آواز میں گویا ہوئیں۔

وہ تینوں بھی باقیوں کی طرح خوفزدہ ہوکر وہاں سے باہر بھاگ جانا چاہتی تھیں لیکن حاویہ کی غیر موجودگی نے اُن سب کو اس خطرناک سچویشن میں مزید خوف میں گھیرتے ہوئے یہی رکنے پر مجبور کردیا تھا۔

”چلو نیناں۔۔۔ہمیں حاویہ کو لے کر جلدی یہاں سے نکلنا ہوگا۔۔۔“  گھبراتی ہوئی حرمین نے  نفیسہ بیگم کو تسلی دی اور نیناں کو ہاتھ پکڑے ابھی دو قدم ہی اٹھائے تھے جب اچانک ہوٹل کی ساری لائٹس ایکدم سے آف ہوگئیں۔

اُسی کے ساتھ چاروں طرف نیم اندھیرا چھاگیا تھا۔تب تک پولیس ٹیم دو مجرموں کو پکڑچکی تھی۔

پاشا جی دار نے رک کر وارنگ کے طور پر ہوا میں فائر کیا اور لوگوں کے دھکے کھاتا تیزی سے آگے کو لپکا۔

”شِٹ۔۔۔۔“  اُنکی چالاکی پر دانت پیستے ہوئےعائل نے فوری سے بیشتر موبائل ٹارچ آن کی تھی۔

لیکن ایک طرح سے اُسے اطمینان بھی تھا۔اگر وہ ہوٹل سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوبھی جاتے تو ہوٹل کے اطراف میں پھیلی پولیس سے بچ کر فرار نہیں ہوپاتے۔

اگلے ہی پل اُسکی تیز نظروں نے دور تک جاتی ناکافی روشنی میں پاشا جی دار کو واشروم ایریا کی جانب گم ہوتے دیکھا تھا۔بنا کوئی لمحہ ضائع کیے وہ بھی ساری لائٹس آن کرنے کا آڈر دیتے ہوئے  لمبے لمبے ڈگ بھرتا سرعت سے اُسکے پیچھے لپکا۔

”ماما حاویہ۔۔۔۔۔“  حاویہ کے اندھیرے سے ڈر کا سوچ کر حرمین چند موبائلوں کی مدھم روشنیوں میں چیخی تھی۔

اس سے پہلے وہ حاویہ کے لیے واشروم کی طرف جاتیں کانسٹیبل نے اُنھیں وہیں پر روک دیا۔

*

واشروم سے باہر نکل کروہ لمبی قطار میں بنے واش بیسن کے آگے کھڑی ہوکر ہاتھ دھورہی تھی اور ساتھ ہی آئینے میں خود کو دیکھتے ہوئے مسکرائے جارہی تھی۔

”نشیلی آنکھیں۔۔۔دھیما لہجہ۔۔۔حُسن تو قیامت۔۔۔واللہ!!۔۔۔ہم فنا ہوجائیں گے خود کو شیشے میں دیکھتے دیکھتے۔۔۔واہ واہ۔۔۔واہ واہ۔۔۔“  بہت دن پہلے کا رٹا رٹایا شعر بڑی ادا سے مدھم لہجے میں بولتی ہوئی وہ آخر میں کھکھلا کر ہنسی تھی جب باہر بڑھتے شور کے ساتھ فائرنگ کی آواز پر وہ بری طرح چونکتی ایکدم چپ ہوئی تھی۔

اس سے پہلے کہ باہر مچے کہرام سے باخبر ہونے کے لیے وہ باہر کی جانب قدم اٹھاتی اگلے ہی پل اُسکی خوف سے پھیلتی آنکھوں میں اندھیرا چھایا تھا۔

”مم۔۔۔ماما۔۔۔اپ۔۔۔پیہ۔۔۔ماما۔۔۔۔“  گھٹی گھٹی آواز میں چیختی وہ وہیں پر جم گئی تھی۔

دل کی دھک دھک کرتی دھڑکنیں اُسے زور و شور سے سنائی دے رہی تھی کہ وہ بےساختہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کراُسے مسلنے لگی۔

معاً حاویہ کو پھرسے چلنے والی گولی کی آواز کے ساتھ قریب آتے قدموں کی چاپ سنائی دی۔

”ماما۔۔۔میں یہاں ہوں۔۔۔مج۔۔۔ھے۔۔۔بہت ڈر۔۔۔لگ رہا ہے۔۔۔اپیہ۔۔۔“  اس دبیز تاریکی میں وحشت زدہ بہتی آنکھوں سے اُسنے سامنے کھلتے دروازے کو دیکھا تھا۔

اپنوں کی موجودگی کا سوچ کر اُسکے کپکپاتے لب ہولے سے مسکرائے۔

لیکن اگلے ہی پل موبائل ٹارچ کی روشنی کے ساتھ اُسے ایک ہٹا کٹا اجنبی شخص دروازے کو لاک لگاکر تیزی سے اپنی جانب آتا ہوا دکھائی دیا جس کے ہاتھ میں پسٹل دبی ہوئی تھی۔

اس غیر متوقع صورتحال پر حاویہ کی جان ہوا ہوئی تھی۔

اُسنے اپنی بےجان ہوتی ٹانگوں سے کسی ایک واشروم میں بھاگنا چاہا مگر اس سے پہلے ہی پاشا جی دار بڑی پھرتی سے اُسے اپنی گرفت میں لےچکا تھا۔کھینچا تانی سے اُسکا پیچ کلر کا حجاب ڈھیلا پڑتے ہی کھلتا چلاگیا۔

”چھ۔۔۔چھوڑو مجھے۔۔۔۔۔ماما۔۔۔۔بچ۔۔۔اؤ۔۔۔بچاؤؤؤ۔۔۔۔۔“  اپنا آپ اُس سے چھڑاتی وہ روتی ہوئی چلارہی تھی۔

”اے۔۔۔چپ کر۔۔۔نہیں تو تیرے دماغ میں اسکی ساری گولیاں گھسا دوں گا ابھی کہ ابھی۔۔۔۔سمجھی۔۔۔“  اُسکی کنپٹی پر پسٹل ٹھوکتا وہ حاویہ کو حددرجہ ڈرا چکا تھا۔

وحشت سے پُر روشنی میں اپنی شفاف گردن پر اُسکے مضبوط بازو کا دباؤ محسوس کرتی وہ سسک پڑی تھی۔

اس پل اُسکے لرزتے دل نے شدت سے کسی مسیحا کے آنے کی دعا مانگی تھی کہ تبھی زور زور دروازہ بجنے لگا۔

”اوپن دی ڈور۔۔۔۔میں جانتا ہوں پاشا۔۔۔تم اندر ہی ہو۔۔۔ڈیمٹ۔۔۔اوپن اِٹ۔۔۔“  عائل کی دھاڑ پر جہاں پاشا محتاط ہوا تھا وہیں حاویہ اِس آواز پر چونکی۔

”دروازہ توڑو۔۔۔۔فوراً۔۔۔۔“  عائل کی کرخت آواز کے ساتھ ہی ہوٹل کی تمام لائٹس جگمگا اُٹھی تھیں۔

کچھ ہی دیر میں لاک ٹوٹنے کی آواز آئی تھی اور اگلے ہی لمحے عائل چند کانسٹیبلز سمیت دھڑام سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔

یہ دیکھ کر پاشا حاویہ کو بےدردی سے ساتھ گھسیٹتے ہوئے دو قدم پیچھے ہٹا تھا۔

عائل جو ہر طرح کی صورتحال سے نمٹنےکے لیے پہلے سے ہی تیار کھڑا تھا پاشا جی دار کے چنگل میں پھنسی حاویہ کو ہراساں دیکھ کر بری طرح ٹھٹکا۔

حاویہ کی بھی حالت اُس سے کچھ مختلف نہیں تھی جو اب مدد طلب نظروں سے اُسی کو تکے جارہی تھی۔

”آگے مت بڑھنا۔۔۔ورنہ اس لڑکی کو میں یہی مارڈالوں گا۔۔۔“  پاشا عائل کے چہرے پر پھیلتی پریشانی کو بھانپتا ہوا غصے سے بولا تو عائل کے اُسکی جانب بڑھتے قدم وہی تھم گئے۔

”لیسن پاشا۔۔۔اس لڑکی کوچھوڑدو۔۔۔۔ادروائز آئی ول کل یو۔۔۔۔“  حاویہ کے بھیگے چہرے سے بمشکل لہو ہوتی نظریں ہٹاتا وہ شہادت کی انگلی پاشا کی طرف اٹھا کر غرایا تو جواب میں وہ بےہنگم قہقہ لگا کر ہنس پڑا۔

”ہونہہ۔۔۔مجھے کیا پاگل سمجھ رکھا ہے تُونے اے۔ایس۔پی جو میں اس سنہری طوطی کو یونہی جانے دوں گا۔۔۔؟؟چل اب ذیادہ ہوشیار مت بن اور جیسا میں بولتا ہوں ویسا ہی کر۔۔۔نہیں تو یہ لڑکی جان سے جائے گی۔۔۔“  سفاکیت سے بولتے ہوئے اُسنے حاویہ پر اپنی گرفت مزید سخت کی تھی۔

نتیجتاً حاویہ کی ہلکی سی چیخ نکلی تھی جو اُسکے ساتھ ساتھ عائل کو بھی تکلیف سے دوچارکرگئی۔

”پلیزززز آفیسر۔۔۔۔“  وہ التجائیہ نظروں سے عائل کی جانب دیکھتی سسکی تھی۔

”دیکھو۔۔۔۔میں تم سے آخری بار بول رہا ہوں۔۔۔لڑکی کو آرام سے میرے حوالے کردو۔۔۔اگر اسے کچھ بھی ہوا تو یقین جانو میرے ہاتھوں سے زندہ نہیں بچو گےتم۔۔۔۔“  بے اختیار ایک قدم آگے بڑھتا وہ بےبسی سے مٹھیاں بھینچتے ہوئے دانت پیس کر گویا ہوا۔اُسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ پاشا جی دار کے ہزار ٹکڑے کردے۔

”کیوں بے سالے۔۔۔۔دھمکی دے رہا ہے مجھے۔۔۔؟؟؟“  پاشا جی دار اُسے اپنی سرخ آنکھیں دکھاتا ہوا پھنکارا۔

”صرف دھمکی نہیں دے رہا۔۔۔۔بلکہ کرکے بھی دکھاؤں گا۔۔۔۔“  غضب ناک نظروں سے اُسے گھورتا ہوا وہ پُر یقین تھا۔

”پلیز مجھے بچالو۔۔۔۔۔“  وہ پل پل تڑپ رہی تھی اُسکی مضبوط پکڑسے نکلنے کے لیے۔اس لمحے جانے کس احساس کے تحت عائل کا سامنے کھڑی لڑکی کو اپنے تحفظ بھرے حصار میں لینے کا شدت سے دل چاہا تھا۔

”بس بہت ہوا۔۔۔چپ چاپ یہاں سے کھسک لے۔۔۔اور اپنے کتوں سے بول کہ وہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو یہاں سے جانے دیں۔۔۔ورنہ۔۔۔“ تڑخ کر بولتے ہوئے پاشا جی دار نے ٹریگر پر انگلی کا ہلکا سا دباؤ ڈالا تو 

سر پہ منڈلاتی موت کو مزید قریب سے دیکھتی حاویہ خوف سے آنکھیں میچتی اپنی سانسیں روک گئی تھی۔

پاشا کی یہ حرکت دیکھتے ہوئے آئل اپنا ضبط کھوچکا تھا اور اگلے ہی پل گولی کی آواز وحشت زدہ سناٹے کو چیڑ گئی۔

”ٹھاہ۔۔۔۔۔“  حاویہ کے سر سے کچھ انچ کے فاصلے پر ہوا میں معلق پاشا کے ہاتھ میں دھنستی گولی پاشا کو بری طرح بُلبلانے پر مجبور کرگئی جس کے ساتھ ہی پسٹل جھٹکے سے فرش پر جاگری۔

اِدھر حاویہ کے سر کو زور کا جھٹکا لگا تھا جس پر وہ چیختی ہوئی چار قدم پیچھے ہٹی اور مارے وحشت کے اپنے سن ہوتے کانوں پر سختی سے ہاتھ رکھ گئی۔

موقعے کا بھرپور فائدہ اٹھاتا ہوا عائل سرعت سے پاشا جی دار تک پہنچا تھا اور اُسے سنبھلنے کا موقع دئیے بغیر پے در پے اُس پر مکے  برسانے  لگا۔

”گھسیٹتے ہوئے لےجاؤ اس ذلیل شخص کو یہاں سے۔۔۔۔“  پاشا کو آدھ موا چھوڑتا وہ غصے سے آڈر دیتے ہوئے اُسکے پاس سے اُٹھ گیا اور گہرے سانس لیتا چہرے پر آیا پسینہ اپنی سرخ آنکھوں سمیت بازو سے پونچھ ڈالا۔

”یس سر۔۔۔۔“   کانسٹیبلز اُسکے کہے پر عمل کرتے ہوئے پاشا جی دار کو بازوؤں سے تقریباً گھسیٹتے ہوئے وہاں سے لے گئے جو نیم بے ہوشی کی حالت میں ڈھیلا پڑچکا تھا۔

”تم ٹھیک تو ہو۔۔۔۔؟؟؟“  عائل نے مڑکر واش بیسن کے ساتھ لگ کر کھڑی حاویہ کو دیکھا اوراُس کے پاس جاکر قدرے فکرمندی سے پوچھا تو نفی میں سر ہلاتی ہوئی وہ باآواز رونے لگی اور اگلے ہی پل اپنا سارا ضبط کھوتی بے اختیار اُسکے سینے سے جالگی۔

عائل اپنی جگہ ساکت ہوا تھا حاویہ کے اس طرح خود سے قریب آنے پرکیونکہ اُسے مقابل سے اس چیز کی توقع قطعی نہیں تھی۔

اُس نے زرا سا سر جھکاکر اُسکی جانب دیکھا تو بےساختہ اُس کے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی لیکن وہ اُسکے دل کی بگڑتی حالت سے یکسر انجان ابھی بھی خوف کے زیرِ اثر رونے کا شغل پورا کررہی تھی۔

اُسکی شرٹ کو مٹھیوں میں دبوچے جانے کیوں حاویہ کو اُس کے حصار میں تحفظ کا احساس ہوا تھا۔شاید اسی لیے کہ وہ قانون کے ساتھ ساتھ اُسکی جان کا بھی رکھوالا بن گیا تھا۔

لیکن اپنے مسیحا پر غصہ بھی بہت آرہا تھا جس نے اتنے قریب کرکے گولی چلائی تھی۔

اگرنشانہ چُوک جاتا تو۔۔۔۔؟

یہ سوچ کر حاویہ کے رونے میں مزید تیزی آئی تھی۔

”آپ بہت سنگدل ہیں۔۔۔۔“  وہ اُسکے چوڑے سینے میں منہ دیے ہچکیوں کے درمیان دبا دبا سا چیخی۔

”پتا ہے۔۔۔۔“  اُسکے خوف سے کانپتے نازک وجود کے گرد آہستگی سے اپنا ایک بازو حائل کرتا وہ قدرے آرام سے اعتراف کرگیا۔

”بدتمیز بھی۔۔۔۔“  اب کی بار نازک سی مٹھی کا مکا بناکر پوری قوت سے دل کے مقام پر مارا گیا تھا۔

”اب یہ بہت ذیادہ ہورہا ہے۔۔۔۔اوکے۔۔۔۔“  اُسنے جیسے وارن کیا تھا لیکن اُسکی خوفزدہ حالت کے پیشِ نظر لہجہ ہنوز نرم تھا۔

”پتا نہیں۔۔۔۔“  منہ بسور کربھرائی آواز میں بولتی وہ آنسوؤں سمیت اپنی بہتی ہوئی سرخ ناک اُسکی شرٹ سے صاف کرچکی تھی۔

اپنے صاف ستھرے یونیفارم کا بیڑا غرق ہوتا دیکھ کر اُسکی گہری سیاہ آنکھیں ایک پل کے لیے صدمے سے پھیلی تھیں۔

چلو آنسوؤں کی حد تک تو ٹھیک تھا لیکن سُوں سُوں کرتی ناک۔۔۔۔

”اوئے گندی لڑکی۔۔۔۔یہ سرکاری وردی ہے کوئی ٹشو پیپر نہیں جسے تم اپنا مال سمجھ کر کھلم کھلا استعمال کررہی ہو۔۔۔۔“  اگلے ہی پل وہ تمام لحاظ نرمی بلائے طاق رکھتے اُسے خود سے الگ کرتا ہوا تپ کربولا تو وہ اُسے گھورتی ہوئی ہونٹوں کے کنارے نیچے لٹکاگئی۔یعنی مقابل کا سخت رویہ برداشت نہ کرتے ہوئے پھر سے رونے کی پوری پوری تیاری پکڑلی گئی تھی۔

عائل جو جیب سے رومال نکال کر اپنی شرٹ کو صاف کررہا تھا اُسکی معصوم سی رونی صورت دیکھ کر چونکا۔

”پلیز پلیز۔۔۔۔رونا نہیں بلکل بھی۔۔۔میں تمھارے آنسو مزید افورڈ نہیں کرپاؤں گا۔۔۔۔ہممم۔۔۔۔“  اپنے تاثرات پل میں نرم کرتا وہ تھوڑا قریب آیا اور حاویہ کو تقریباً بچوں کی طرح ٹریٹ کرتے ہوئے رومال کی دوسری سائیڈ سے اُسکی گال پر لڑھکتے آنسو صاف کرنے لگا۔

ایسے میں وہ حق دق سی اُسے  یک ٹک دیکھتی چلی گئی۔

”جانتا ہوں۔۔۔۔بہت ہینڈسم ہوں۔۔۔لیکن فی الوقت مجھے یہ بتاؤ کہ کیا تم یہاں اپنی فیملی کے ساتھ آئی ہو۔۔۔۔یا پھر اپنی کسی فرینڈ کے ساتھ۔۔۔؟؟؟“  اُسکی حیران بھوری آنکھوں میں جھانکتا وہ مسکراتے ہوئے رومال پیچھے ہٹاگیا تھا۔

”وہ۔۔۔وہ ماما۔۔۔اپیہ۔۔۔نیناں۔۔۔سب باہر میرا ویٹ کررہی ہوں گی۔۔۔۔اُففف۔۔۔۔“  اُسکے اچانک پوچھنے پر وہ ہوش میں آئی اور شدتوں سے دھڑکتے دل کو سنبھال کر پیچ دوپٹہ سر پر اوڑھتی  باہر کی جانب بھاگی تھی۔

”پاگل۔۔۔۔“  اُسکے یوں نظریں چرا کر بھاگنے پر وہ بالوں میں ہاتھ پھیر کر ہنستا ہوا اُسکے پیچھے ہی باہر نکل گیا۔

وہ لڑکی اب بھی اُسے مروتاً تھینک یو بول کر نہیں گئی تھی جو رفتہ رفتہ اُسکے دل میں بسنے لگی تھی۔

**************

”ماما۔۔۔۔“  وہ نفیسہ بیگم کو کانسٹیبل سے بحث کرتا دیکھ فوری اُنکی جانب دوڑی تھی۔

عائل نے کانسٹیبل کو پیچھے ہٹنے کا اشارہ کیا تو حاویہ جھٹ سے نفیسہ بیگم کے گلے جالگی۔

”حاویہ۔۔۔۔میری بچی تم ٹھیک تو ہوناں۔۔۔؟؟تمھیں کچھ ہوا تو نہیں ناں۔۔۔ہاں۔۔۔؟؟“  اُسے اپنے آپ میں سموتے ہوئے وہ پریشانی سے گویا ہوئیں تو وہ اپنوں کا سہارا پاتے پھر سے رونے لگی۔

”ماما میں بہت ذیادہ ڈرگئی تھی۔۔۔وہ غنڈہ۔۔۔اُسنے مجھے پکڑلیا تھا۔۔۔اور۔۔۔اورجان سے مارنے کی کوشش کی تھی۔۔۔لیکن پھر یہ پولیس آفیسر ٹائم پر آگئے۔۔۔اور اِنھوں نے مجھے اُس غنڈے سے بڑی مشکلوں سے بچایا۔۔۔“  حاویہ کے گہری سانسوں کے بیچ وضاحت دینے پر جہاں نفیسہ بیگم سمیت حرمین کے دل کو ہاتھ پڑا تھا وہیں پیچھے کھڑا عائل اُسکے آخری جملے پر لب بھینچ کررہ گیا۔

نیناں جو عائل کو آنکھیں پھاڑ کر دیکھ رہی تھی اگلے ہی پل اُسکی یہ حیرت حاویہ کو دیکھتے ہوئے معنی خیز مسکراہٹ میں بدل گئی۔

اتنے بڑے ہنگامے کے بعد چاروں مجرموں کو ہتھکڑیاں ڈال کر گاڑی میں پٹخ دیا گیا تھا اور اس کامیابی کا اظہار  پولیس ٹیم کے چہروں سے پھوٹتی خوشی سے بخوبی ہورہا تھا۔

”تمھارا بہت شکریہ بیٹا۔۔۔خدا تمھیں ہمیشہ سلامت رکھے۔۔۔اگر تم بروقت میری بیٹی کی مدد کو نہیں پہنچتے تو نجانے کیا ہوجاتا۔۔۔۔؟؟“  نفیسہ بیگم عائل کی جانب غور کرتی تشکرآمیز لہجے میں گویا ہوئیں۔

”شکریہ کی کوئی بات نہیں آنٹی۔۔۔یہ تو میرا فرض تھا۔۔۔“  نرمی سے بولتے ہوئے اُسنے گہری نظروں سے حاویہ کو دیکھا تھا جو نفیسہ بیگم کے سینے سے لگی چور نظروں سے اُسے ہی دیکھ رہی تھی۔

پر آئل سے نظریں ملتے ہی گڑبڑا کر پلکیں جھکاگئی جس پر اُسکے لبوں پر عیاں ہوتی ہلکی سی مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی۔

”آپ۔۔۔؟؟آپ شام کے بھائی ہیں ناں۔۔۔اے۔ایس۔پی۔عائل حسن۔۔۔۔“  حرمین جو کب سے الجھی ہوئی تھی دماغ پر زور ڈالتے ہوئے عائل سمیت سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کرواگئی۔

حاویہ نئی جان پہچان نکل آنے پر چونک کر سیدھی ہوتی آئل کو دیکھنے لگی۔

”جی بالکل۔۔۔۔پر سوری میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔۔۔۔ایم شیور کہ اس سے پہلے ہماری کبھی ایک دوسرے سے ملاقات بھی نہیں ہوئی ہوگی۔۔۔“  اپنے متعارف ہونے پر وہ ذرا کنفیوز ہوا تھا۔نیناں کو بھی وہ پہچان چکا تھا لیکن اس لڑکی کو جو شاید حاویہ کی بڑی بہن تھی کبھی نہیں دیکھا تھا۔

”ایکچولی میرا نام حرمین زہرا ہے اور میں شام کی یونیورسٹی میں ہی پڑھتی ہوں۔۔۔۔وہ سینئر ہیں مجھ سے۔۔۔یونی میں ایک دو دفعہ آپکو آتے جاتے دیکھا تھا۔۔۔تو اسی لیے بس۔۔۔۔“  اپنا چشمہ صحیح سے ناک پر ٹکاتے ہوئے وہ مسکرا کر دھیمے لہجے میں بولی۔

”اوہ۔۔۔۔میں سمجھ گیا۔۔۔“  حرمین نے تھوڑا سا جھجکتے ہوئے وضاحت دی تو عائل تائید میں سرہلاتا خوش اخلاقی سے گویا ہوا۔

”آپ نے میری سسٹر کی جان بچائی۔۔۔اس کےلیے تھینکس۔۔۔“  حرمین حاویہ کو بھیگی گال رگڑتا دیکھ کر تشکر آمیز لہجے میں بولی تو عائل کا دھیان ایک بار پھر سے اُسکی جانب کھینچتا چلا گیا جسکے دلکش نقوش جانے کیوں خفا خفا سے تھے۔

”نیڈڈ ناٹ۔۔۔۔اچھا اب اجازت دیں۔۔۔۔خدا حافظ۔۔۔۔“  جس کے بولنے کا وہ منتظر تھا وہ تو منہ سیئے خاموش کھڑی تھی تبھی وہ انسپیکٹر باسط کو اندر داخل ہوتا دیکھ کر بےبسی سے گہرا سانس بھرتا  ایک آخری نگاہ حاویہ پر ڈال کر وہاں سے پلٹ گیا۔

”اللہ کے حفظ و امان میں رہو بچے۔۔۔۔“  نفیسہ بیگم نے دل سے دعا دی تو عائل کی پشت کو دیکھتے ہوئے بےاختیار حاویہ کے لب ہولے سے آمین کہے جانے والے انداز میں پھڑپھڑائے جسکا شاید وہ خود بھی اندازہ نہیں کرپائی تھی۔

*****************************

 پنتالیس سالہ تابین بائی نے دروزاے پر ہاتھ رکھ کر دباؤ ڈالا تو وہ اندر کی طرف کھلتا چلاگیا۔کمرے میں قدم پڑتے ہی نیم تاریکی نے اُن کا استقبال کیا تھا۔اگلے ہی پل وہ اندازے سے سوئچ بورڈ کی جانب پلٹی تھیں اور ”ٹچ ٹچ ٹچ۔۔۔“ کی گونج پر اطراف میں سفید روشنی بکھرگئی۔

سامنے ہی وہ گہری نیند میں ڈوبی ہوش و خرد سے بیگانہ محوِ خواب تھی۔ ایک پل کو تابین بائی کو اُسکی نیند پر رشک سا آیا تھا جو مختلف ساز میں بجتے تبلے گھنگھروں کی چھنکاروں اور اِس حویلی نما کوٹھے میں جوبیس گھنٹے ہونے والے شوروغل میں بھی خوابوں کی سیر کو نکل جاتی تھی۔

”اُففف۔۔۔میری ننھی کلی۔۔۔۔“  ساری کا گلابی رنگ پلو پشت سے گھما کر ہاتھ میں لیتے وہ مسکرا کر اُسکی جانب بڑھی جو اپنا دودھیا رنگ بازو آنکھوں پر چڑھائے سوئی تھی۔

”رابی۔۔۔۔میری جان۔۔۔۔اُٹھ جاؤ اب۔۔۔وقت گزرتا جارہا ہے۔۔۔اور کتنی دیر سوتی رہوگی تم۔۔۔۔؟؟“  اُسکے سرہانے بیٹھ کر وہ نرمی سے اُسکا بازو پیچھے ہٹاتی بولیں تو رابی کسمساکر زرا سی آنکھیں کھول کر اُلجھے انداز میں اُنھیں دیکھنے لگی۔

”ارے خواجہ صاحب آنے والے ہیں آج رات کو تمھارے لیے۔۔۔۔جانتی تو ہو اگر تمھارے حسن کا دیدار کرنے میں ذیادہ دن بیت جائیں تو اُنکی طبیعت میں بے چینی سی بھرجاتی ہے۔۔۔“  وہ یقیناً آج کی رات منعقد ہونے والی محفل کے بارے میں بھول گئی تھی تبھی تابین بائی نے تحمل سے اُسکا گلاب چہرہ دیکھتے ہوئے یاددہانی کروائی تو وہ اپنی گلابی پڑتی آنکھوں میں نیند کا خمار لیے اُٹھ کر بیٹھ گئی۔

”واللہ۔۔۔ کیا کہنے خواجہ صاحب کے۔۔۔اچھے سے واقف ہوں میں اُنکی طبیعت سے۔۔۔بس آپ فکر نہیں کریں بی بی جان۔۔۔۔ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی وہ یہاں سے خوش ہوکر جائیں گے۔۔۔اور کرکے بھی جائیں گے۔۔۔“  اپنے چہرے پر آئی لٹوں کو پیچھے کرتے بےتاثر لہجے میں بولتی ہوئی اب وہ کمر پر بکھرے بالوں کو دونوں ہاتھوں سے سمیٹ رہی تھی۔

”میں چاہتی ہوں کہ آج کی محفل میں تم سبز رنگ کا جوڑا زیب تن کرو۔۔۔۔خواجہ صاحب تمھیں اپنے من پسند رنگ میں دیکھ کر بہت خوش ہوں گے۔۔۔“  تابین بائی پرجوش سی بولتی اُسکی الماری کی طرف بڑھی تھیں جس کا پٹ کھولتے ہی رنگ برنگے جوڑوں کا انبار دکھائی دینے لگا۔

”یہ رنگ تو سالار کا بھی من پسند ہے۔۔۔کیا وہ بھی اس محفل میں موجود ہوگا۔۔۔۔؟؟؟“  اُن کے ہاتھ میں گہرے سبز رنگ کا خوبصورت کام والا شرارہ کرتی دیکھ کر رابی کو بےاختیار اپنے دیوانے کی یاد آئی تھی جو نجانے کتنی ہی رنگین محفلوں میں شرکت کرتے کرتے اُسے سنجیدہ لے بیٹھا تھا۔

”اُس کم ذات کا تو نام بھی مت لو میرے سامنے۔۔۔اتنے دن ہوگئے ہیں لیکن ابھی تک اُسنے مجھے ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں دی تمھارے نام کی۔۔۔جھوٹا کہیں کا۔۔۔بس لارے لگائے جارہا ہے۔۔۔اگر آج آ بھی گیا تو اپنے آدمیوں سے کہہ کر اُسے باہر پھینکوا دوں گی۔۔۔جب تک وہ اپنی جیب خالی نہیں کرتا اُسکا یہاں داخلہ ممنوع ہے۔۔۔۔“  کپڑے اُسکے سامنے رکھتی تابین بائی سالار کے نام پر بری طرح چڑ گئی تھیں جو چند دن پہلے اُن کے ساتھ بدتمیزی کرنے پر بھی آمادہ ہوچکا تھا لیکن صرف رابی کی خاطر خاموشی اختیار کرگیا تھا جسے اپنی بی بی جان سب سے بڑھ کر دل عزیز تھیں۔

”واللہ۔۔۔کیا کہنے اُسکے بھی۔۔۔میرے حق میں تو سستا ترین عاشق ثابت ہوا سالار خان۔۔۔۔“  عادت کے مطابق اپنے مخصوص انداز میں بولتی وہ ہولے سے ہنسی تھی۔

شاید سالار خان کی بےوقوفی پر جو اُسے دل سے چاہنے لگا تھا یاپھر اپنی بدقسمتی پر جو وہ چاہ کر بھی کسی کی نہیں ہوسکتی تھی۔

وہ خود بھی صحیح سے جان نہیں پائی تھی۔

*****************************

وہ آفس کے بعد اپنے فرینڈز کے ساتھ باہر لنچ کرنے گیا تھا اور اب شام کے سائے گہرے ہوتے ہی تھکا ہارا واپس لوٹا تھا۔اپنے شاندار سے فلیٹ کا دروازہ کیز کی مدد سے کھولتے ہوئے شاہ بوجھل قدموں سے اندر داخل ہوا اور بازو پہ دھڑا کوٹ سامنے تھری سیٹر صوفے پر اچھالتا خود بھی ساتھ ہی ڈھے گیا۔

”اففف۔۔۔آج کا دن بہت ٹف گیا۔۔۔۔“  اپنے بالوں میں ہاتھ چلاتا وہ پشت پر سر ٹکاکر آنکھیں موند گیا جب ایکدم اُسکے فون پر رِنگنگ ہوئی۔

بڑے ضبط سے آنکھیں کھولتے اُسنے اپنے فون کی اسکرین چیک کی تھی جس پر ”موم کالنگ“ لکھا نظرآرہا تھا۔

”ہیلو موم۔۔۔۔سب خیریت۔۔۔فون کیوں کرنا ہوا۔۔۔۔؟؟“  گہرا سانس بھرتے اُسنے کال پِک کی اور بظاہر نرمی لیے عجلت بازی سے پوچھا۔

”کیا مطلب کیوں کرنا ہوا۔۔۔؟کیا اب مجھے اتنا حق بھی نہیں کہ تمھیں اپنی مرضی سے فون کرسکوں۔۔۔؟؟“  اپنی ماں کی بھڑکی آواز سن کر شاہ کے ماتھے پر پڑتے بل اگلے ہی لمحے غائب ہوگئے۔

”نہیں ایسی بات ہرگز نہیں ہے۔۔۔بس تھوڑا کام کا برڈن تھا ناں تو اسی لیے۔۔۔خیر چھوڑیں یہ سب۔۔۔۔آپ اپنی بتائیں۔۔۔۔؟؟“  بظاہر تھکاوٹ سے بولتا وہ حال احوال پوچھنے پر آیا۔

”کیا بتاؤں بیٹا۔۔۔تمھارے دور جانے سے میرا دل ہر وقت بےچین رہتا ہے۔۔۔اتنے دن گزر گئے لیکن تم ہوکہ ابھی تک گھر ملنے نہیں آئے۔۔۔۔کب آؤں گے۔۔۔۔؟؟“  اپنے دل کی بات زبان پر لاتے وہ شاہ کو بھی ایک پل کے لیے بے چین کرگئی تھیں لیکن دوسرے ہی پل اُسکا انداز سرد ہوا تھا۔

”جلد آؤں گا۔۔۔بس ایک پروجیکٹ میں پھنسا ہوا ہوں۔۔۔وہ کمپلیٹ کرتے ہی آپ سے ملنے کے لیے چلا آؤں گا۔۔۔“  وہ آپ پر زور دیتے ہوئے سنجیدگی سے گویا ہوا تو دوسری طرف وہ خوشی سے مسکرا دیں۔

”تمھارے لیے دن رات رشتے دیکھتی پھر رہی ہوں۔۔۔کچھ خوبصورت لڑکیاں ہیں جو میری نظروں سے گزری ہیں۔۔۔۔اُنکا فیملی بیک گراؤنڈ بھی اچھا ہے۔۔۔لیکن میرے لیے ان میں سے کسی ایک کو سلیکٹ کرنا خاصا مشکل ہوگیا ہے۔۔۔۔سوچا اس میں تمھاری رائے۔۔۔“  وہ اپنی ہی دھن میں بول رہی تھیں جب شاہ ایکدم صوفے سے ٹیک چھوڑ کر اُنھیں مزید بولنے سے روک گیا۔

”موم۔۔۔موم۔۔۔جسٹ ریلکس۔۔۔۔“  اپنے بائیں ہاتھ کو تیزی سے اوپر نیچے جنبش دیتا ہوا وہ لب بھینچ گیا۔

”ریلکس ہی تو نہیں ہوا جاتا مجھ سے۔۔۔۔بس جلدی سے اپنی شادی کرواؤ۔۔۔۔اور مجھے دادی بناؤ۔۔۔اب اور انتظار نہیں ہوتا مجھ سے۔۔۔“  وہ پھر سے اپنی بےتابیاں اپنے بیٹے پر انڈلنے لگی تھیں۔

”وہ بھی بن جائیں گی۔۔۔انشاءاللہ جلد ہی بن جائیں گی۔۔۔۔“  اپنی ماں کی بےصبری پرشاہ قدرے تحمل سے گویا ہوا۔

”تو بتاؤ پھر۔۔۔۔؟؟“  شاہ کے بات ٹالنے کے انداز کو اُسکا اقرار سمجھتی وہ پھرسے اُس سے رائے مانگنے لگیں۔

”آپ کو میرے لیے بےکار میں لڑکیاں دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔میں خود ہی اپنے لیے کوئی اچھی سی خوبصورت لڑکی پسند کرلوں گا۔۔۔۔اوکے۔۔۔۔“  ٹھوس لہجے میں بولتا وہ آخر میں مسکراتی آواز میں گویا ہوا۔

چمکتی آنکھوں میں بےاختیار آبرو کا حسین سراپا گھوما تو وہ اپنے احساسات جان کر بری طرح چونکا۔

وہ لڑکی اُس کے لیے محض ضد کا سامان نہیں تھی بلکہ اُسکی پہنچ اس سے بھی کہیں آگے کی نکلی تھی جسے وہ صرف نام اور کام کی حد تک ہی جانتا تھا۔

زندگی میں پہلی بار اِس عجیب  احساس سے دوچار ہوتے شاہ کے لب آپ ہی آپ مسکرائے تھے۔تبھی اسپیکر سے اُبھرتی تلخ آواز پر اُسکا سکتہ ٹوٹا۔

”بالکل۔۔۔جیسے پہلے پسند کی تھی۔۔۔۔“  انداز طنز بھرا تھا۔

طنز کیا تھا نشتر تھا جو شاہ کے سینے میں پیوست ہوتا اُس کو مسکراہٹ سمیٹتے ہی سختی سے مٹھیاں بھینچنے پر مجبور کرگیا۔

دل تو شدت سے چاہا تھا کہ موبائل فون دیوار پر دے مارے لیکن پتا نہیں کیسے وہ خود پر ضبط کرگیا۔

”فار گاڈ سیک موم۔۔۔۔میں فی الحال اس طرح کے جھمیلوں میں نہیں پڑنا چاہتا۔۔۔آپ کسی اور سے ایسی فرمائشیں کریں۔۔۔یہ آپ کے لیے ذیادہ بیسٹ آپشن رہے گا۔۔۔مجھے ان سب سے معاف ہی رکھیں آپ۔۔۔پلیزززز۔۔۔۔“  کچھ توقف کے بعد کڑے تیوروں سے ٹھہر ٹھہر کر بولتا ہوا وہ اگلے کو اپنی جلدبازی میں کی جانے والی غلطی کا احساس دلاگیا تھا

”لیکن۔۔۔۔“  

”خدا حافظ۔۔۔۔“  اکھڑے لہجے میں بولتے ہوئے وہ اگلے ہی پل کال کاٹ کر موبائل کو صوفے پر پٹختا بالوں کو سختی سے مٹھیوں میں جکڑ گیا تھا۔

****************************

آج سنڈے تھا۔سب گھر پر ہی موجود تھے لیکن عائل کو ایک ضروری کیس کے سلسلے میں صبح ہی صبح اپنی ڈیوٹی پر جانا پڑا۔

”یہ سب کیا ہے شام۔۔۔۔؟؟؟“  وہ بےنیاز سا ناشتہ کرنے میں مگن تھا جب حسن صاحب نے اپنے موبائل کی چمکتی اسکرین اُسکے سامنے کرتے ہوئے سخت لہجے میں استفسار کیا۔شام نے سر اٹھا کر دیکھا تو وہ تصویر میں ہیلمٹ کو بغل میں دبائے لڑکیوں کے بیچ کھڑا مسکرارہا تھا۔پیچھے ریس کا سارا منظرصاف نظر آرہا تھا جو حسن صاحب کو غصے میں لانے کے لیے کافی تھا۔کسی حسد خورے نے شام کی پِک حسن صاحب کو جان بوجھ کر سینڈ کرکے اپنی شیطانی دکھائی تھی۔اِن دونوں کی نوک جھونک کا سوچ کر پاس ہی بیٹھی عائمہ بیگم کی سانس سینے میں اٹکی تھی۔

”آفکورس ڈیڈ۔۔۔میری پِک ہے۔۔۔سمپل۔۔۔“  ایک پل کو وہ چونکا ضرور تھا لیکن اپنے باپ کے غصیلے روپ سے مرعوب ہوئے بنا خود کو لاپرواہ ظاہر کرتا وہ آرام سے کندھے اچکاگیا۔

خود کے نظرانداز کیے جانے پر شام کو واپس ناشتہ کرتے دیکھ کر حسن صاحب کو مزید طیش آیا تھا۔

”جب میں نے تمھیں ہزار بار منع کیا ہے ایسی واہیات ریسز میں شرکت کرنے سے۔۔۔تو پھر تم دوبارہ کیوں گئے وہاں۔۔۔ہممم۔۔۔۔؟؟کوئی شرم لحاظ ہے کہ نہیں تم میں۔۔۔؟؟ہر بار اپنی خراب حرکتوں سے میرا دماغ گھومادیتے ہو۔۔۔اور پھر بولتے ہو کہ میں بلاوجہ میں تم پر سختی کرتا ہوں۔۔۔پہلے اس قابل تو بن جاؤ کہ تم سے پیار جتایا جائے۔۔۔دیکھو تو ذرا اس بےشرم کو۔۔۔کیسے لڑکیوں کے ساتھ چپک کر کھڑا ہے۔۔۔؟؟“  درشتگی بھرے انداز میں اُنھوں نے شام کو اُسکی اوقات دکھائی تھی اور ساتھ ہی اسکرین پر پھر سے گہری نگاہ ڈالتے حقارت سے بڑبڑائے جس پر وہ مارے ضبط کے سختی سے اپنے لب بھینچ گیا۔

عائمہ بیگم  اپنے شوہر کے غصے سے خائف ہوتی چاہ کر بھی کچھ نہیں کرپارہی تھیں۔

غلطی اُنکے بیٹے کی ہی تھی جو ہر بار کی طرح اب بھی اپنی اکڑ دکھانے سے باز نہیں آیا تھا۔

”ڈیڈ۔۔۔ریس لگانا میرا شوق ہے۔۔۔اور شوق پورا کرنا میری ضد۔۔۔ایم سو سوری فار اِٹ۔۔۔میں آپکی یہ بات پوری نہیں کرسکتا۔۔۔اینڈ سیکنڈلی۔۔۔ میں لڑکیوں کے ساتھ نہیں بلکہ لڑکیاں میرے ساتھ چپک کر کھڑی ہوتی ہیں۔۔۔“  ہاتھ میں پکڑا سلائس واپس ڈش میں پٹختا وہ حسن صاحب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے سرد مہری سے گویا ہوا۔

”یہ۔۔۔یہ دیکھ رہی ہو تم اپنے لاڈلے سپوت کو۔۔۔کس طرح اپنے باپ سے برابر زبان لڑا رہا ہے۔۔۔؟یہ سب تمھاری اور عائل کی دی ہوئی بلاوجہ ڈھیل کا نتیجہ ہے۔۔۔لیکن فکر نہیں کرو مجھے بھی بگڑے ہوؤں کی لگامیں اچھے سے کسنی آتی ہیں۔۔۔بس ایک بار اسکی اسٹڈیز مکمل ہوجانے دو۔۔۔پھر دیکھتا ہوں کیسے یہ سب فضول کام چھوڑ کر بزنس کی طرف نہیں آتا۔۔۔۔؟؟“  تڑخ کر بولتے ہوئے حسن صاحب نے شام کے ساتھ ساتھ اب عائمہ بیگم کو بھی بیچ میں گھسیٹا تھا اور دوسرے ہی پل اپنے سامنے پڑی پلیٹ کو غصے سے پیچھے دھکیلتے اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔

اپنے بگڑے ہوئے خودسر بیٹے کی بغاوت دیکھ کر یقیناً اُنکی بھوک مرچکی تھی تبھی وہ تن فن کرتے اپنے کمرے میں چلے گئے۔

شام جو اپنے باپ کی چبھتی دھمکی پر غور کرتا سامنے پڑی ڈشز کو غصے سے گھوررہا تھا اچانک پاس 

پڑے مینگو جوس سے بھرے جگ کو جھٹکے سے ہاتھ مارتا سارا ٹیبل گیلا کرچکا تھا۔

”شام۔۔۔۔“  عائمہ بیگم نے دبی آواز میں چیختے ہوئے بےاختیار اُسے ٹوکا۔

”اسی لیے۔۔۔اسی لیے مجھے ان کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا پسند نہیں۔۔۔لیکن آپکو اور بھائی کو یہ بات سمجھ نہیں آتی۔۔۔یار۔۔۔یہ مجھے کبھی خوش ہوتا دیکھ ہی نہیں سکتے۔۔۔کئی بار تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے میں انکا بیٹا ہوں ہی نہیں۔۔۔“  شہادت کی انگلی اٹھا کر اُنھیں اصل معاملہ باور کرواتا وہ حددرجہ تلخ ہوا تو عائمہ بیگم پریشان ہوتی نظریں پھیرگئیں۔

”موم مجھے ایک بات تو بتائیں۔۔۔میں سچ میں انہی کا بیٹا ہوں ناں۔۔۔۔؟؟“  بھوری آنکھوں میں سرخی لیے وہ اس پوائنٹ پر الجھا تھا تبھی عائمہ بیگم نے اُسے غصے سے گھورا۔

”شام اب بس بھی کرو۔۔۔کیسی فضول باتیں کررہے ہو۔۔۔۔؟تم جانتے تو ہو اپنے ڈیڈ کے غصے کو۔۔۔اپنی پیاری بہن کی موت کے بعد سے وہ خاصے چڑچڑے ہوگئے ہیں۔۔۔ایسے میں وہ کسی کا بھی لحاظ نہیں کرتے۔۔۔مت کیا کرو ایسے کام جن سے اُنکا موڈ خراب ہوجاتا ہے۔۔۔“  بہت سال پہلے اپنی اکلوتی نند کی موت کا حوالہ دیتی عائمہ بیگم نے حسن صاحب کے بڑھتے چڑھتے غصے کا سبب بتایا تو آگے سے وہ چٹخ گیا۔

”اور میرے موڈ کی آپکو کوئی پرواہ نہیں جو وہ ہمیشہ خراب کردیتے ہیں۔۔۔مجھ پرغصہ تو ایسے اتارتے ہیں جیسے کہ میں نے اُنکی بہن کی جان لی ہو۔۔۔۔آپ میری ایک بات اچھے سے سن لیں موم اور بےشک اُنھیں بھی سمجھادیں۔۔۔نہ تو میں اُنکا بورنگ سا بزنس جوائن کروں گا اور نہ ہی اُنکی ضد کے آگے اپنے شوق چھوڑوں گا۔۔۔دیٹس فائنل۔۔۔۔“  اپنا اٹل فیصلہ سناتا ہوا وہ  چیئر سے اُٹھ کھڑا ہوا اور ناشتہ ادھوڑا چھوڑ کر بگڑے تیوروں کے ساتھ وہاں سے نکلتا چلاگیا۔

عائمہ بیگم نے اُسے ناشتہ بیچ میں چھوڑجانے پر روکا نہیں تھا کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ وہ  کہنے پر بھی نہیں رکے گا۔

”اُففف۔۔۔یہ باپ بیٹا تو اپنے چکر میں مجھے پاگل کرکے چھوڑیں گے۔۔۔یااللہ کیا کروں میں۔۔۔۔؟؟“  بھوک تو عائمہ بیگم کی بھی اُڑ چکی تھی تبھی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے وہیں سر پکڑ کربیٹھ کر گئیں۔

****************

” تُو مان نہ مان حاوی۔۔۔وہ آفیسر تجھ سے محبت کرنے لگا ہے۔۔۔“  وہ  دونوں اِس وقت گراؤنڈ میں بیٹھ کر چپس کترنے کے ساتھ ساتھ کتاب آگے رکھ کر گپیں بھی ہانک رہی تھیں جب پھر سے نیناں کا دھیان آئل کی جانب کھنچتا چلاگیا۔

اُسکی بات حاویہ کے حرکت کرتے ہاتھوں کے ساتھ ساتھ دل کی دھڑکنیں بھی پل بھر کو رکی تھیں۔

نظروں کے سامنے بےاختیار عائل کا وجیہہ چہرہ گھوما تھا جو اُسے ساری رات جگائے رکھنے کا سبب بنا تھا۔

مگر بظاہر چہرے پر سخت تاثرات لیے اُسنے گردن موڑکر نیناں کو گھورا۔

”اور تُو مان نہ مان نینی۔۔۔۔مجھ سے دو کرارے جھانپڑ کھاکر ہی تیرا دماغ ٹھکانے پر آئے گا۔۔۔“  خود کے بدلے بدلے احساسات پر قابو پاتی وہ وارنگ دینے والے انداز میں بولی۔

شکر تھا کہ اُسنے نیناں کو یہ نہیں بتایا تھا کہ کل رات کو وہ کافی دیر تک جاگتی رہی تھی ورنہ وہ میڈم اُسکا خوب ریکاڈ لگاتی۔

اُسکے کندھے سے کندھا ملا کر بیٹھی نیناں تھوڑاسا پیچھے کھسکی مبادا تھپڑ ہی نہ پڑجائے۔

” کیا یار حاویہ۔۔۔تم اتنی بےمروت کیوں ہو آخر۔۔۔؟؟تمھارے یہی انداز مجھے زہر لگتے ہیں قسمے۔۔۔اُسنے دو دفعہ تمھاری جان بچائی ہے۔۔۔دو دفعہ۔۔۔لیکن تم نے ایک بار بھی اُسکو تھینک یو بولنے کی زحمت نہیں کی۔۔۔اگر میں ہوتی ناں تمھاری جگہ تو اب تک دس بار تھینک یو بول چکی ہوتی اے۔ایس۔پی عائل حسن کو۔۔۔۔“  اُسکے ہاتھ سے چپس کا پیکٹ جھپٹ کر وہ مزید فاصلے بناکر اُسکے مقابل بیٹھتی ہوئی مسلسل اُسکی کلاس لے رہی تھی۔

نیناں کی باتوں میں وزن محسوس کرتی حاویہ کو چند لمحوں کے لیے چُپی لگی تھی۔

”یار۔۔۔دونوں ٹائم پر میں ڈری ہی اتنا ہوئی تھی کہ اُسکا شکریہ ادا کرنا دماغ سے نکل گیا میرے۔۔۔۔“  منہ بسور کر بولتے ہوئے اُسنے اپنی شرمندگی کو مٹانا چاہا تو نیناں اُسکے بونگے بہانے پر اش اش کراٹھی۔

”ہاں ہاں۔۔۔کیوں نہیں۔۔۔جیسے کہ میں تو کچھ جانتی ہی نہیں ناں تمھارے بارے میں۔۔۔تمھاری رگ رگ سے واقف ہوں میں محترمہ اسی لیے میرے سامنے جھوٹ بولنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔سمجھی۔۔۔؟؟“  شروع میں مصنوعی مٹھاس سے بولتی نیناں کے تیور ایکدم سےسختی میں ڈھلے تھے۔

”اچھا ناں بس۔۔۔اگر پھر کبھی وہ آفیسرمیرے سامنے آیا۔۔۔جوکہ مجھے پتا ہے کہ نہیں آئے گا۔۔۔تو میں اُسے تھینک یو بول دوں گی۔۔۔اوکے۔۔۔“  شکست خوردہ انداز میں کہتے ہی اُسنے بڑے اطمینان سے اُسکے ہاتھ سے چپس کا پیکٹ آگے ہوکر جھپٹا مگر خالی پیکٹ ہاتھ میں آتے ہی حاویہ کا موڈ پھرسے بگڑا۔

جواب میں نیناں نے پورے استحقاق سے اپنی سفید بتیسی کی نمائش کی تھی جو اُسے بڑے غور سے گھورنے میں بزی تھی۔

”یہ بھی کھالو بھوکی۔۔۔۔“  خالی پیکٹ مٹھی میں گھچومچھو کرکے واپس اُسی کی جانب اچھالتی وہ دانت پیس کر بولی تو نیناں مزید ہنسنے لگی۔

”نہیں یہ تمہی کھالو۔۔۔میں اتنی بھی بےمروت نہیں ہوں۔۔۔تمھاری طرح۔۔۔“  اُسے مزید چڑاتے ہوئے وہ وہاں سے اُٹھ کر بھاگی تھی کیونکہ حاوی کتاب بند کرکے اُسکے سارے انجر پنجر ڈھیلے کرنے کے لیے اپنے بازو اوپر چڑھا کر چکی تھی۔

”ٹن ٹن ٹن۔۔۔۔۔“  اُن دونوں کو ایک دوسرے کے آگے پیچھے بھاگتے ابھی چند ہی پل گزرے تھے جب اچانک بریک ٹائم ختم ہونے پر بیل بجنا شروع ہوگئی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

رات کی سیاہی چہار سو اپنے پنکھ پھیلا چکی تھی لیکن حویلی نما کوٹھے میں جگمگ کرتی روشنیاں اسکے برعکس دن کا سا سماء پیش کررہی تھیں۔

کچھ دیر پہلے ہی بڑے سے ہال میں منعقد ہونے والی رنگین محفل اپنے اختتام کو پہنچی تھی۔تابین بائی کی نگرانی میں سرخ  کارپٹ پر بکھرے ہزاروں کے نوٹ اکٹھی کرتی لڑکیاں سارا مال باری باری اُنکے کے حوالے کررہی تھیں جب رابی اپنے ڈیڑھ گھنٹے کے رقص پر شدت سے تھکاوٹ محسوس کرتی اپنے کمرے میں چلی گئی۔

ابھی وہ پلنگ پر براجمان ہوتی صحیح سے سکون کا سانس بھی نہیں لے پائی تھی جب ایکدم سے دروازے کے وا ہوتے پٹ اُسکا سارا دھیان اپنی جانب کھینچ گئے۔

”واللہ کیا کہنے۔۔۔میں جانتی تھی۔۔۔۔تم میرے بنا دو دن بھی نہیں نکال پاؤگے۔۔۔۔“  سالار خان کو کمرے میں داخل ہوکر دروازہ بند کرتا دیکھ کروہ گھنگرؤں کو پاؤں سے اتارتی کھل کر مسکرائی۔

اُسکے لہجے میں مان تھا یا غرور۔۔۔۔؟؟

پلٹ کر اُسکی جانب آتا سالارخان اُسکے تاثرات بغور دیکھ کر بھی سمجھ نہیں پایا تھا۔

”تمھاری بی بی جان کو پیسے دے کر آیا ہوں۔۔۔“  اُسکے پاس پلنگ پر بیٹھ کر بظاہر نرمی سے بولتا وہ اپنے غصے کو ٹھنڈا کرنے لگا جو کچھ دیر پہلے تابین بائی کے ساتھ ہوتی بحث کی وجہ سے امڈآیا تھا۔

”تو یعنی میری قیمت ادا کرکے آئے ہو۔۔۔۔“  خود کی ذات کے بارے میں تلخ الفاظ بولتی وہ ہولے سےمسکرائی تو سالار خان ضبط سے اپنے لب بھینچ گیا۔

اسی طرح کے جملے تھے جو اُسے زہر لگتے یا شاید کچھ وقت سے لگنے لگے تھے۔

تبھی وہ رنگین محفلوں کا حصہ بننا بھی لگ بھگ چھوڑ چکا تھا جہاں رابی کے لیے بہت سی قابلِ اعتراض تعریفیں کی جاتی تھیں۔

لیکن اُسکے علاوہ یہاں کسی کو اِسکی رتی بھر بھی پرواہ نہیں تھی۔یہاں تک کہ خود رابی کو بھی نہیں۔یہی وجہ تھی کہ وہ دل کے ہاتھوں بُرا پھنسا تھا۔

اگر اُسکا بس چلتا تو اُسے اس بدنامی کی دنیا سے بھگا کرہمیشہ کے لیے اپنی تنہا مگرحسین دنیا میں لے جاتا۔

لیکن جس ذی روح کے لیے یہ سب سے اہم مرحلہ تھا وہی اس تقاضے پر سرے سے انکاری تھی اور وہ ہربار بےبس ہوکررہ جاتا۔

”میں نے کبھی بھی کسی کو تمھاری قیمت ادا نہیں کی رابی۔۔۔اور نہ ہی تم سے ملنے کے لیے اسکا پابند ہوں۔۔۔بس تابین بائی کی بکواس برداشت نہیں کرسکا تو نوٹوں سے اُسکا منہ بھرآیا۔۔۔۔پلیزمیرے سامنے ایسی فضول گوئی سے پرہیز کیا کروتم۔۔۔۔“  بےاختیار اُسکی نازک کلائی کو اپنی سخت گرفت میں لیتا وہ سرد لہجے میں گویا ہوا۔

”اور تم بھی  بی بی جان کے معاملے میں اپنی حد میں رہنے کی کوشش کیا کرو سالار خان۔۔۔۔“  رابی جہاں اُسکے عزت دینے والے انداز پر مسکرائی تھی وہیں تابین بائی کے خلاف اُسکی بات سن کر پل میں اپنا ہاتھ اُسکی نرم پڑتی گرفت سے چھڑواتی سیخ پا ہوئی۔

اُسکی ناراضگی کو شدت سے محسوس کرتے ہوئے سالار خان کے وجود میں بےچینی سی بھرنے لگی تو وہ بےاختیارنرم پڑا۔

”واللہ۔۔۔۔میرے پسندیدہ رنگ میں تم خفا خفا سی اور بھی پیاری لگنے لگتی ہو۔۔۔“  اُسکی من موہنی سی صورت کو نظروں میں بھرتا وہ پُرشوخ لہجے میں مسکراتے ہوئے بولا جو آج بھی گہرے سبز رنگ کی فراک اور چوڑی دار پاجامے میں ملبوس ہربار کی طرح اس بار بھی اُسکا دل دھڑکاگئی تھی۔

رابی نے آنکھوں میں شکوہ لیے اُسکی جانب دیکھا۔

”واللہ۔۔۔کیا کہنے تمھارے بھی سالار خان۔۔۔تم اور تمھاری دن بدن بڑھتی گستاخیاں کسی دن مجھے تم سے بہت دور کردیں گی۔۔۔۔“  تابین بائی کے حوالے سے اُسکی بدلحاظی اور اکھڑلب و لہجے پر چوٹ کرتی وہ مزید دیر تک اپنی ناراضگی برقرار نہیں رکھ پائی تھی تبھی اپنے مخصوص لہجے میں بولتی اُسکی مونچھوں کو تاؤ دینے لگی جوکہ مقابل کے وجیہہ چہرے پر خاصی جچتی تھیں۔

البتہ پنکھڑی لبوں سےمسکراہٹ ہنوز سمٹی ہوئی تھی۔

”واللہ۔۔۔ایسا ظلم مجھ معصوم پر مت کیجیے گا۔۔۔ورنہ آپکا یہ دیوانہ کہیں کا نہیں رہے گا میرے دل کی ملکہ۔۔۔“  اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کرتا وہ قدرے سنجیدگی سے بولا تو رابی اُسکے چوڑے سینے پر دھپ رسید کرتی اس بارکھلکھلا اُٹھی۔

”تمھارا اور میرا ساتھ بالکل شہزادے سلیم اور انارکلی جیساہے۔۔۔جسے یہ ظالم سماج کبھی ایک نہیں ہونے دے گا۔۔۔۔“  اپنے تعلق کو تاریخی قصے سے جوڑتی وہ بڑی دور کی کوڑی لائی تھی۔

”تم غلط بول رہی ہورابی۔۔۔انارکلی نے تو شہزادے سلیم کی خاطر اپنی جان تک کی بازی لگادی تھی۔۔ لیکن یہ والی انار کلی اپنے سلیم کی خاطر بدنامی بھری زندگی چھوڑنے تک کو تیار نہیں ہے۔۔۔“  اُسکی بات کی شدومد سے نفی کرتا وہ شکوہ کرگیا تو رابی کے لبوں پر رینگتی مسکراہٹ معدوم پڑتی سمٹ گئی۔

”مت چلو ایسی راہ پر جسکی کوئی منزل نہیں ہے۔۔۔تھک جاؤ گے۔۔۔“  جواب میں اُسکے خالی دامن میں ناامیدیاں بھرتی وہ قدرے مدھم لہجے میں بولتی اگلے ہی پل اُسکے کندھے سے لگتی آنکھیں موندگئی۔

سالار خان نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئےاُسکی یہ ادا ملاحظہ کی تھی جسکا صاف اشارہ تھا کہ وہ مزید کوئی بات نہیں کرنا چاہتی تھی ماسوائے چیختی خاموشی کے۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

وہ دونوں اردگرد سے بےبہرہ آرام آرام سے سیڑھیاں چڑھتی ساتھ ساتھ مسلسل باتیں بھی کیے جارہی تھیں۔اُنکا اگلاسٹاپ انگلش کی کلاس تھی جس کا لیکچر شروع ہونے میں بس کچھ ہی منٹس باقی بچے تھے۔

”یہ تو بہت زبردست نیوز ہے حرمین۔۔۔مجھے تو اب بھی یقین کرنا مشکل ہورہا ہے کہ تمھیں تمھارے خوابوں کا شہزادہ مل گیا ہے۔۔۔واہ یار۔۔۔اٹس امیزنگ۔۔۔“  علیزہ کے لہجے میں خوشی سے ذیادہ حیرانی تھی۔

”منہ میٹھا کرلیا تم نے لیزی۔۔۔اور تمھیں ابھی بھی یقین نہیں آرہا۔۔۔رکو زرا۔۔۔۔“  اُسکی بےیقینی پر چڑتی حرمین نے اُسکے بازو پر زور کی چٹکی بھری تو وہ آخری اسٹیپ چڑھتی بلبلااٹھی۔

”اُوئی چوَل۔۔۔درد ہوتا ہےیار۔۔۔“  سرعت سے اُسکا ہاتھ جھٹکتی وہ اپنا بازو مسلنے لگی تو حرمین اُسکے بگڑے تیور دیکھ کر ہنس پڑی۔

”اب بولو۔۔۔یقین آیا۔۔۔؟؟؟یا میں پھر سے۔۔۔۔“  علیزہ سے بھرپور تصدیق مانگتے ہوئے اُسنے پھر سے اپنی انگلیوں کو مخصوص انداز میں حرکت دیتے ہوئے اُسکے قریب کیا تو وہ اچھل کر دور ہوئی۔

”نہیں نہیں پلیز۔۔۔مجھے یقین آگیاہے۔۔۔۔ایک سو ایک پرسنٹ یقین آگیاہےکہ تمھارا ذباب جیجو سے رشتہ پکا ہوچکا ہے۔۔۔اب بس چٹ منگنی اور پٹ بیاں کی دیر ہے۔۔۔“  فرفربولتے ہوئے آخر میں علیزہ کا انداز اُسے چھیڑنے والا تھا جس پر وہ اُسے گھورکر رہ گئی۔

”تو بتاؤ پھر کب تمھیں انگوٹھی پہنانے آرہے ہیں وہ۔۔۔۔؟؟“  کلاس کی جانب مڑتے ہوئے اُسنے سوال داغا۔

”بس کچھ ہی دنوں تک۔۔۔۔“  وہ شرماکر مسکراتی ہوئی بےاختیار نگاہیں جھکاگئی۔

”ہائے میں مرجاواں۔۔۔۔آریو بلشنگ حرمین۔۔۔۔“  اُسکے سانولے رنگ گالوں پر ہلکی ہلکی سرخائی دیکھتی علیزہ خوشی سے اچھلی جس پر گڑبڑاتی ہوئی وہ ایک بار پھر سے اُسکے بازو پہ ہلکی سی چٹکی بھرتی کلاس میں بھاگ گئی۔

”اُففف۔۔۔حرمین کی بچی۔۔۔۔روکو ذرا تم۔۔۔۔ابھی بتاتی ہوں تمھیں۔۔۔۔“  علیزہ بھی غصے سے اپنا بازو مَلتے تیزی سے اُسکے پیچھے لپکی تھی۔

جبکہ چند قدموں کے فاصلے پر چلتا فواد اپنی حیرانگی پر قابو پاتا جیبوں میں ہاتھ پھنسائے ہوئے جس خاموشی کے ساتھ وہاں آیا تھا اُسی خاموشی سے اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف نکلتا چلا گیا۔

کیونکہ جو بھی مرچ مصالحہ اُسے چاہیے تھا بنا کسی مشکل کے وہ بڑی آسانی سے اُسے حاصل کرگیا تھا۔

اب کمی تھی تو بس اِس دھماکہ دار خبر کے ذریعے شام کو مرچ مصالحہ لگانے کی۔۔۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

عائمہ بیگم لان میں بیٹھی مزے سے چائے پی رہی تھیں جب وہ بھی گاڑی سے اتر کر سیدھا اُنہی کے پاس چلاآیا۔

”اسلام علیکم موم۔۔۔۔“  عائل سر سے کیپ اتارتا اُن کے سامنے والی چیئرپر بیٹھ گیا۔

”وعلیکم اسلام۔۔۔وعلیکم اسلام۔۔۔۔جیتے رہو میرے بچے۔۔۔۔آمنہ۔۔۔جلدی سے چائے کا ایک کپ بناکر لےآؤ۔۔۔“  بڑی چاہت سے اُس پر سلامتی بھیجتی ہوئی عائمہ بیگم نے ساتھ ہی ملازمہ کی انیس سالہ بیٹی کو آواز لگائی۔

”تھینکس موم۔۔۔۔میرا بھی یہی دل چاہ رہا تھا۔۔۔۔“  عائل ہلکی ہلکی تھکان محسوس کرتا نرمی سے گویا ہوا تو اپنا خالی کپ جھک کر ٹیبل پر رکھتی وہ کھل کر مسکرا اُٹھیں۔

”خیریت۔۔۔آج تو بڑی جلدی ڈیوٹی سے واپس آگئے ہو تم۔۔۔سب ٹھیک تو ہےناں بیٹا۔۔۔۔؟؟“  اُسکے وقت سے بہت پہلے ہی گھر آنے پر وہ اپنی حیرانگی مزید چھپانہیں پائی تھیں۔

”جی الحمداللہ سے سب کچھ ٹھیک جارہا ہے۔۔۔ایکچولی آج مجھے عبدالجبار صاحب نے ملنے کے لیے خاص طور پر اپنے آفس بلایا تھا۔۔۔کافی دن پہلےسرکاری زمین کو لےکر کچھ ایشو بن گیا تھا۔۔۔اور اب وہ کیس تقریباً سولو ہوچکا ہے۔۔۔تو اسی پر وہ میرا شکریہ اداکرنا چاہتے ہیں۔۔۔سوچا پہلے گھر سے فریش ہولوں پھر اُنکی طرف بھی چلا جاؤں گا۔۔۔“  گہرا سانس بھرتے اپنے بالوں میں ہاتھ چلاکر اُنھیں سنوارنے کی کوشش کرتا وہ آرام سے بتاتا چلاگیا۔

”یہ تو تم نے بہت اچھا کیا بیٹا۔۔۔پہلے صحیح سے فریش ہولو پھر آرام سے چلے جانا۔۔۔“  عائمہ بیگم کے نرم لہجے میں فکر سی سمٹ آئی۔

تبھی آمنہ لال دوپٹے میں خود کو اچھے سے ڈھانپے ہاتھ میں گرم چائے کا کپ پکڑے وہاں آگئی۔

عائمہ بیگم نے ایک حقارت زدہ نظر اُس پر ڈال کر اپنا منہ پھیر لیا جبکہ اتنے دنوں بعد اُسے اپنے روبرو دیکھ کر عائل کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھرآئی۔

”صاحب جی۔۔۔آپکی چائے۔۔۔۔“  عائمہ بیگم کی موجودگی میں ذرا سا گھبراتی وہ کپ عائل کی جانب بڑھاگئی۔

”شکریہ مُنی۔۔۔۔اور بتاؤ۔۔۔کام کے ساتھ ساتھ پڑھائی بھی جاری رکھی ہوئی ہے ناں۔۔۔۔؟؟“  احتیاط سے کپ پکڑتا وہ اُسکے بارے میں کسی ٹیچر کی طرح پوچھ گچھ کرنے لگا تو وہ اُسکے طرز تخاطب اور بات پر پرجوش سی مسکرادی۔

عائل اپنے کاموں میں بزی ہی اتنا ہوتا تھا کہ کبھی کبھار ہی اُن دونوں میں کھل کر کوئی بات چیت ہوپاتی۔

اور یہ چیز  بھی عائمہ بیگم کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی جبکہ شام تو اُسے اور اُسکی ماں کو کام کے علاوہ بلانا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔

”جی صاحب۔۔۔رات کو فارغ ہوتے ہی میں اپنی کتابیں لےکر بیٹھ جاتی ہوں پڑھنے۔۔۔۔“  اگرچہ سکول میں مڈل کرنے کے بعدسے اُسکی تعلیم کا سرکٹ ختم ہوچکا تھا لیکن یہ عائل کی کوششوں کا ہی نتیجہ تھا کہ وہ اپنے شوق کو گھر بیٹھے ہی پورا کررہی تھی۔

”ویری گڈ۔۔۔یہ تعلیم ہی ہوتی ہے جو انسان کو بلندیوں کی طرف لے جاتی ہے۔۔۔یہ سنہری موقع کبھی ضائع مت ہونے دینا۔۔۔۔“  وہ  مسرور سا چائے کے گھونٹ بھرتا اُسے مزید سمجھانے لگا تو وہ بھی ساتھ ساتھ تائید میں سرہلانے لگی۔

”جی صاحب۔۔۔۔میں خوب من لگا کر پڑھوں گی۔۔۔اور جس طرح آپ پولیس آفیسر بن کر لوگوں کی مدد کرتے ہیں اسی طرح میں بھی ڈاکٹرنی بن کر دوسروں کی مددکیا کروں گی۔۔۔۔“  عائمہ بیگم کی غصیلی نظروں کی تپش خود پر محسوس کرنے کے باوجود بھی وہ بخوشی اپنی دلی خواہش کا اظہار عائل کے سامنے کرگئی۔

”ماشاءاللہ بہت ہی اچھے خیالات ہیں تمھارے مُنی۔۔۔ انشاءاللہ ایک دن ایسا ضرور ہو گا۔۔۔۔لیکن میری بار میں خود بیمار مت پڑجانا فیوچر کی ڈاکٹرنی صاحبہ۔۔۔“  اُسکے نیک خیالات جان کر خوشدلی سے مسکراتا وہ آخر میں شرارتی انداز اپناگیا۔

جہاں عائمہ بیگم نے عائل کی آخری بات پر برہمی لیے اُسکی جانب دیکھا وہیں آمنہ دل پر ہاتھ رکھتی بوکھلائی۔

”اللہ نہ کرے صاحب کہ آپ کو کبھی بھی کسی ڈاکٹر کی ضرورت پیش آئے۔۔۔اللہ آپکو ڈھیروں صحت و تندرستی عطا کرے۔۔۔“  دل سے دعادیتی وہ عائل کو اُسکی اتنی فکر کرنے پر ہنسنے پر مجبورکرگئی۔

”اچھا اب تم جاؤ یہاں سے اور اپنی ماں کو بولو کے دوپہر کے کھانے کے ساتھ گاجر کا حلوہ بنانا مت بھولے۔۔۔اور ساتھ ہی اُسے یہ بھی بتادینا کہ کل کی طرح سالن میں مرچیں پھیکی نہ رکھے۔۔۔سمجھ گئی۔۔۔؟؟“  تھوڑے دھیمے مگر سلگتے لہجے میں بولتی ہوئی وہ عائل کی موجودگی میں صبرکرگئی تھیں۔

ورنہ دل تو چاہ رہا تھا کہ اُس نوکرانی کو اچھا خاصا جھڑک کر وہاں سے ابھی کہ ابھی دفع دور کردیں۔

”جی بیگم صاحبہ۔۔۔۔“  اپنی مسکراہٹ سمیٹتی وہ پھیکے سے لہجے میں بولتی ہوئی وہاں سے نکلتی چلی گئی تو عائل بھی سنجیدگی سے باقی بچی چائے کے گھونٹ بھرنے لگا۔

دوسروں کے ساتھ اپنی ماں کا ایسا رویہ اُسے ہمیشہ سنجیدہ کردیا کرتا تھا۔

”بیٹا میں نے تمھیں مسزشاہنواز کے بارے میں بتایا تھا ناں۔۔۔وہی خواجہ انڈسٹریز والے۔۔۔دراصل آج مجھے اُنکا فون آیا تھا۔۔۔وہ ہمارے گھر آنا چاہ رہے ہیں۔۔۔۔“  عائمہ بیگم لہجے میں چاشنی سموئے مین پوائنٹ پر آئی تھیں۔

”یہ تو اچھی بات ہے۔۔۔۔آنے دیں پھر اُنھیں۔۔۔۔“  اِس بات پر سرسری سا دھیان دیتے وہ اپنی طرف سے بات ختم کرگیا تھا۔

”بیٹا۔۔۔بات صرف اتنی سی نہیں ہے۔۔۔“  اپنے مدعے کی جانب بڑھتے ہوئے اُنکی مسکراہٹ معدوم پڑی تھی۔

”تو پھر۔۔۔۔۔؟؟؟“  خالی کپ کو ٹبیل پر رکھتے وہ الجھا۔

”دراصل وہ تم میں بہت انٹرسٹڈ ہیں اور تمھارے ساتھ اپنی بیٹی عروسہ کا رشتہ کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔“  اصل حقائق کھول کر سامنے رکھتی وہ آس بھری نظروں سے اُسے دیکھنے لگیں جس کا چہرہ ایکدم سے سپاٹ ہوا تھا۔

گہری کالی آنکھوں میں بےاختیار وہ معصوم سا سانولا سلونا چہرہ گھوما تو وہ سختی سے اپنے لب بھینچ گیا۔

”بٹ موم۔۔۔۔آپ جانتی ہیں کہ مجھ پر پہلے ہی بہت سی دوسری ذمہ داریاں ہیں۔۔۔فی الحال کے لیے میں شادی جیسی بڑی ذمہ داری کو اپنے سر نہیں لےسکتا۔۔۔۔“  کچھ توقف کے بعد بڑی صفائی سے انکار کرتا وہ اُنھیں مایوسیوں کے سمندر میں دھکیل گیا۔

”تو اِس میں کیا قباحت ہے۔۔۔آج نہیں تو کل تمھیں یہ ذمہ داری بھی سر لینی ہی پڑے گی عائل۔۔۔بلکہ یہ تو اچھا ہے تم اس طرح اپنی ذمہ داریوں کو مزید اچھے طریقے سے سمجھ پاؤ گے۔۔۔۔اور مجھے بھی اچھی کمپنی میسر آجائے گی۔۔۔“  اپنی تمام تر ہمت ٹوٹنے کے بعد بھی وہ اُسے اس بےکار سی ضد پر سمجھانے لگیں مگر عائل خاموشی سے سنتا کسی اور ہی خیال میں گم تھا۔

”کہیں ایسا تو نہیں کہ تمھارے انکار کی وجہ تمھارا کسی اور کو پسند کرنا ہے۔۔۔؟؟اگر تم کسی اور لڑکی میں انٹرسٹڈ ہوتو مجھے بتاسکتے ہو۔۔۔شاید اس طرح سے ہم دونوں کی مشکل آسان ہوجائے۔۔۔“  عائمہ بیگم اُسے مشکوک نظروں سے دیکھتی اپنے دل میں شدت سے پنپتے سوال کو زبان پر لائیں تو عائل نے چونک کر اُنھیں دیکھا۔

”فی الحال تو میرےساتھ ابھی ایسا کوئی بھی چکر نہیں ہے موم۔۔۔۔لیکن اگر ہوا بھی تو سب سے میں پہلے آپ ہی کو بتاؤں گا۔۔۔۔ڈونٹ وری۔۔۔آپ بس اُن لوگوں کو انکار کردیں تاکہ وہ اپنے اِس ارادے سے باز رہ سکیں۔۔۔۔“  لبوں پر دلکش مسکراہٹ سجائے وہ اُنھیں وارن کرتا اُٹھ کر وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

پیچھے عائمہ بیگم اُسکے ایکدم سے بدلتے تیوروں پرٹھٹھکتی مزید شک و شہبات میں گھرسی گئی تھیں کیونکہ عائل کے لبوں پر مچلتی ہوئی مسکراہٹ اس بار ذرا ہٹ کر تھی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

وہ جیسے ہی کلاس میں داخل ہونے لگا تو سامنے سر باقر کو وائٹ بورڈ پر مارکر گھسیٹتے دیکھ وہی ٹھٹھک کر رک گیا۔وہ یقیناً لیٹ ہوچکا تھا جسکا فوری احساس اُسے کلائی میں بندھی گھڑی کی سوئیوں کا مشاہدہ کرکے ہوا تھا۔

تبھی اُسکے لبوں نے بےاختیار”او شٹ“کہنے والے انداز میں حرکت کی۔

سر باقر نے ایک نظر فواد پر ڈالی اور اُسے نظرانداز کرتے ہوئے پھرسے اپنے کام کی طرف متوجہ ہوگئے۔

”سر۔۔۔۔مے آئی کم اِن۔۔۔؟؟؟“  وہ بڑے اطمینان سے مسکراکرگویا ہوا تو اُسکی قدرے بلند آواز پر شام سمیت ساری کلاس اُسکی جانب چند پلوں کے لیے متوجہ ہوگئی۔

”نو۔۔۔۔“  مگن انداز میں ایک لفظی جواب دیتے سرباقر اُسے خاصا مایوس کرگئے۔

”بٹ سر میری کلاس۔۔۔۔“  ایک نظر کلاس پر ڈالتے ہوئے ماتھے پر شکنوں کا جال سجائے فواد نے احتجاج کرنا چاہا جب وہ ایکدم سے مارکر ڈائز پر پٹختے اُسکے مدِمقابل آکر کھڑے ہوگئے۔

”لیکچر اسٹارٹ ہوئے پندرہ منٹ گزرچکے ہیں فواد مسعود۔۔۔باقی کے منٹس بھی آپ  کلاس سے باہر رہ کر گزار سکتے ہیں۔۔۔مجھے کوئی ایشو نہیں۔۔۔اینڈ ایم شیور کہ آپکو بھی اپنا امپورٹینٹ لیکچر مس کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔۔۔۔“  سرباقر نے لہجہ نرم رکھتے ٹکاکر اُسکی انسلٹ کی تھی۔

لیکچر بیچ میں ہی سٹک ہوجانے پر تقریباً سبھی سٹوڈنٹس کلاس روم کی ایکدم سے بدل جانے والی دلچسپ حالت پر مزے لیتے اُن دونوں کی تکرار دیکھنے لگے۔

”سر اٹ از نسیسری فارمی۔۔۔۔نیکسٹ ٹائم ایسا نہیں ہوگا۔۔۔“  خود پر بمشکل ضبط کرتا وہ اپنی طبیعت کے خلاف جاکر نجانے کیسے ابھی بھی تمیز و تہذیب کے دائرے میں رہ کر بات کررہا تھا۔

شام منہ میں پین دبائے بھرپور انجوائے کرتا ہنوز مسکرا رہا تھا۔

افروز تو اُنھیں دلچسپی سے دیکھتا اپنا رجسٹر ہی بند کرچکا تھا۔

”آپکو ایک دفعہ کی بات سمجھ نہیں آتی کیامسٹر فواد یا پھر آپ کو اس وقت فارسی زبان سننے کا شوق ہورہا ہے۔۔۔۔؟؟نو مینز نو۔۔۔آؤٹ۔۔۔۔“  اُسکی سرد لہجے میں کی جانے والی التجا پر وہ چڑتے ہوئے تڑخ کر بولے اور ساتھ ہی شہادت کی انگلی سے اُسے باہر کا رستہ دکھایا تو بےاختیار سب کی دبی دبی سی ہنسی چھوٹ گئی۔

اپنی اس قدر بےعزتی پر فواد پوری کلاس پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہوئے مٹھیاں بھینچتا خجالت سے سرخ پڑا تھا۔

اپنی تازہ تازہ بنی گرلفرینڈ کی تاسف زدہ نظریں اور جانِ عزیز کمینے دوستوں کی ہنسی دیکھ کر وہ مزید جلا تھا جو اُسے دیکھ کر فلائنگ کس بھی   کرچکے تھے۔

 ”کیپ کوائیٹ پلیز۔۔۔۔“  سر باقر نے سب کو ڈپٹتے ہوئے خاموش کروایا۔

”سالا بڈھا ٹھرکی۔۔۔۔آؤٹ کا بچہ نہ ہو تو۔۔۔۔ہونہہ۔۔۔“  سرباقر کے سفید بالوں کے ساتھ ساتھ اُنکی دوسری ٹیچرز کے ساتھ فرینک نیس پر بھی زیرِ لب چوٹ کرتا وہ وہاں سے پلٹنے سے پہلے اُنھیں گھورنا نہیں بھولا تھا۔

سر باقر بھی اُسکے حد درجہ بگڑتے موڈ کا اثر لیے بغیر واپس مارکر پکڑتے وائٹ بورڈ کی جانب پورے دھیان سے متوجہ ہوگئے۔

تبھی وہ بھی تن فن کرتا وہاں سے نکلتا چلاگیا۔

کچھ ہی دیر میں لیکچر اپنے پورے ٹائم پر ختم ہوا تو باقی سٹوڈنٹس کے ساتھ وہ دونوں بھی کلاس روم سے نکل کر باہر آگئے۔

فواد سامنے ہی پلر کے ساتھ ٹیک لگائے قدرے بےنیازی سے کھڑا موبائل اسکرین پر دونوں انگھوٹے چلانے میں مگن تھا۔اُسکے لبوں پر رینگتی مسکراہٹ دیکھ کر کہیں سے بھی نہیں لگ رہا تھا کہ اس بندے کی کچھ دیر پہلے رکھ کر بےعزتی کی گئی تھی۔

”ہاں بھئی۔۔۔۔مزا آیا پھر دھوپ سیک کر۔۔۔؟؟؟“  اُسکے قریب جاتے ہی افروز نے لبوں پر دل جلادینے والی مسکراہٹ سجائے اُسکے مضبوط کندھے پر ہاتھ مارا تو شام بھی اس لطیف سے طنز پر ہنسا۔

”یہ سب چھوڑ کمینے۔۔۔اور شام تُو جلدی سے منہ میٹھا کروانے کی تیاری پکڑ۔۔۔۔“  وہ تپے بغیر موبائل جینز کی پاکٹ میں گھساتا قدرے اطمینان سے تقاضا کرگیا۔

”کیوں بے۔۔۔۔؟سر باقر کا لیکچر چھوٹ جانے کی خوشی تیرے سر چڑھ کر بولنے لگی ہے۔۔۔۔؟؟یاں پھر اپنی تازہ تازہ انسلٹ پر تیرا منہ کڑوا ہوچکا ہے جو میٹھا کھانے کو اس قدر دل چاہ رہا ہےتیرا۔۔۔۔؟؟“  شام ہنوز مسکراتا ابھی بھی غیر سنجیدہ تھا۔

”اڑالے جتنا مذاق اڑانا ہے میرا سالے۔۔۔مگر جب میں بولنے پر آؤں گا ناں تو تیری شکل دیکھنے لائق ہوگی بیٹا۔۔۔“  وہ بنا اثر لیے مسکرا کر بولا تو اپنی مسکراہٹ سمیٹتا شام صحیح منعوں میں الجھا۔

”سیدھا سیدھا بول معاملہ کیا ہے۔۔۔۔؟؟؟“  وہ ایکدم ہی سنجیدہ ہوا تو  اُسکے لہجے سے مزے لیتا فواد کھل کر مسکرایا۔

”معاملہ بہت گرم ہے شام صاحب۔۔۔وہ چڑیا جسے تُو پٹانے کی تگ و دو میں تھا وہ تو جال میں پھنسنے سے پہلے ہی اُڑ گئی۔۔۔۔شوووووکرکے۔۔۔۔“  شام پر مبہم انداز میں بم پھوڑتا وہ آخر میں ہاتھ کا ہوائی جہاز بناتا بھرپور اداکاری کرنے لگا جس پر دونوں کے تیوری چڑھنے لگی۔

”یعنی کہ اُس ملانی کا رشتہ پکا ہوچکا ہے برو۔۔۔۔اُسکا ریکاڈ ابھی تک قائم ہے۔۔۔پر تیرا ریکاڈ وہ ضرور توڑگئی ہے۔۔۔“  اُن دونوں کو ابھی بھی خود کی جانب ناسمجھی سے تکتا پاکر وہ شام کو بھرپور مرچ مصالحہ لگاتے مزید وضاحت دینے لگا۔

”بکواس بند کر اپنی۔۔۔۔“  اُسکے طنز پر شام دہاڑا تھا۔

”اب کیا کرے گا۔۔۔۔؟؟وہ تو چلی گئی۔۔۔کھیل شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگیا ہے یار۔۔۔۔“  اُسکے اچانک بھڑکنے پر جہاں فواد کی ساری شوخی جھاگ کی مانند بیٹھی تھی وہیں افروز نے قدرےسنجیدگی سے اُسکی رائے جاننا چاہی۔

”اصل گیم تو شروع ہی اب ہوئی ہے جسے میں کھیلوں گا بھی تو اب اپنے طریقے سے۔۔۔۔اگراُسے اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہ کردیا تو میرا نام بدل دینا تم لوگ۔۔۔۔وہ ملانی کہیں بھی چلی جائے  میری مٹھی میں ہے۔۔۔ “  حقارت زدہ لہجے میں بولتا وہ پُریقین تھا۔

اُسکے انداز میں اس قدر شدت تھی کہ وہ دونوں چونکتے ایک دوسرے کا منہ دیکھ کررہ گئے۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆ 

اجازت ملنے پر وہ ہاتھ میں ٹرے پکڑے جیسے ہی روم میں داخل ہوئی تو شاہ آنکھوں میں ڈھیروں چمک لیے اُسے دیکھتا ہوا بےاختیار لیپ ٹاپ پیچھے گھسیٹ گیا۔

”سر۔۔۔۔ کافی۔۔۔۔“ سر جھکائے مدھم لہجے میں بولتی وہ آگے بڑھی کہ تبھی وہ بھی اپنی سیٹ سے اُٹھ گیا۔

کالے شوز میں مقید اُسکے قدموں کو اپنی جانب آتا دیکھ کر وہ وہی  رک گئی۔گھنیری پلکیں اُٹھاتے ہی آبرو کو ایک قدم کے فاصلے پر رکتے مقابل کا وجیہہ چہرہ دکھائی دیا تو  دل شدت سے دھڑک اٹھا۔

”ویسے تو میں کافی نہ ہونے کے برابر پیتا ہوں۔۔۔لیکن اگر مجھے آپکے ہاتھ کا ٹیسٹ پسند آیا تو ہر روز اسی طرح مجھے کافی پیش کرنا آپکی جاب کا حصہ ہوگا مس آبرو۔۔۔۔“  ہاتھ جیبوں میں پھنسائے اُسکی اٹھتی جھکتی پلکوں کا کھیل دیکھتے ہوئے وہ اپنے مخصوص لب و لہجے میں گویا ہوا تو اُسکی دلفریب مسکراہٹ سے نظریں چُراتی وہ محض سرہلاگئی۔

شاہ نے ٹرے کے بیچ میں سے مگ اٹھانے کی بجائے جان بوجھ کر پوری ٹرے ہی اُسکے مومی ہاتھوں سے لے لی۔

آبرو کو اپنی انگلیوں پر اُسکا سلگتا لمس محسوس ہوا تو وہ ہڑبڑا کر بےاختیار اپنے ہاتھ کھینچ گئی۔

اُسکی گھبراہٹ پر ٹرے ٹیبل پر رکھتے شاہ کے لب ہولے سے مسکرائے جو اب سر جھکائے اپنی نازک و مخروطی انگلیاں شدت سے مروڑ رہی تھی۔

”ہممم۔۔۔۔اٹس امیزنگ۔۔۔۔آئی لائیک اِٹ۔۔۔“  مگ اٹھاکر کافی کا لمبا گھونٹ بھرتا وہ ستائش بھرے لہجے میں بولا تو آبرو نے بےساختہ اُسکی جانب دیکھا۔

”تھینک یو سر۔۔۔۔“  بمشکل مسکرا کر اپنی تعریف وصولتی وہ اپنی پکی ڈیوٹی لگ جانے پر اندر ہی اندر رنجیدہ ہوئی تھی۔

”آپکے ہاتھ کے ٹیسٹ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آپ کو کوکنگ میں بھی خاصی مہارت حاصل ہے مس آبرو۔۔۔۔میں صحیح کہہ رہا ہوں ناں۔۔۔۔؟؟؟“  کافی کے مزید سِپ لیتے شاہ نے تعریف کرتے ہوئے قدرے دلچسپی سے استفسار کیا۔

”یس سر۔۔۔۔۔۔“  وہ اُسکے اتنی باریک بینی سے درست اندازہ لگانے پر حیران ہوئی تو وہ اُسکی نیلی آنکھوں میں شدت سے جھانکتا کھل کر مسکرایا۔

”گڈ۔۔۔۔کاش کہ مجھے بھی آپ جیسی کُک مل جائے ہمیشہ کے لیے۔۔۔ میری جو میڈ ہے اُس سے تو میں مکمل اکتا چکا ہوں۔۔۔بہت فضول کوکنگ کرتی ہے وہ۔۔۔۔“  ڈھکے چھپکے الفاظ میں اپنی دلی خواہش کا اظہار وہ بڑے دھڑلے سے کرگیا تھا مگرساتھ ہی اپنا پرسنل میٹربھی بڑے آرام سے شیئر کرتا وہ اُسے حیران پر حیران کرتا جارہا تھا۔

”سر۔۔۔۔آپکو اور کوئی کام ہے۔۔۔یا میں جاؤں۔۔۔۔؟؟؟“  اُسکی باتوں سے پل پل خائف ہوتی آبرو کی حالت غیر سی ہونے لگی تو وہ بولے بغیر رہ نہ سکی۔

” کام تو بہت سے ہیں آپ سے۔۔۔لیکن پہلے مجھے یہ بتائیں کہ آپ ہر وقت اتنی جلدی میں کیوں رہتی ہیں مس آبرو۔۔۔۔؟؟“  معنی خیز انداز میں بولتا شاہ اُسکے تقاضے کو بڑی صفائی سے رد کرگیا۔

”نہیں تو۔۔۔۔ایسا تو کچھ نہیں۔۔۔میں تو بس کام کی وجہ سے۔۔۔“  عجلت میں بولتی وہ اس شکایت پر رودینے کو ہوئی تو شاہ کو اپنی طبیعت کے برخلاف اُس پر رحم سا آگیا۔

”ریلکس۔۔۔۔آپ جاسکتی ہیں۔۔۔اور ہاں۔۔۔ہرروز اسی ٹائم پر کافی میرے روم میں لےکر آنا اب آپکی ذمہ داری ہے۔۔۔مجھے دُہرانے کی ضرورت پیش نہیں آنی چاہیے۔۔۔از دیٹ کلیئر۔۔۔۔؟؟“  اپنے غارت ہوتے موڈ کی پرواہ کیے بغیر گہرا سانس بھرتا وہ بھرپورسنجیدگی سے بولا۔

”یس سر۔۔۔۔“  تیزی سے سر کو جنبش دیتی وہ اگلے ہی پل وہاں سے نکلتی چلی گئی۔

پیچھے وہ اپنی کافی جوکہ اُسے ہمیشہ سے ناپسند رہی تھی کا آخری گھونٹ بھرتا پُرسوچ انداز میں مسکرادیا۔

اُسکے ہاتھ کا ٹیسٹ تو وہ حاصل کر ہی چکا تھا بس اب اُس پری پیکر کو حاصل کرنا باقی تھا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

ٹیچر کی عدم موجودگی کے باعث پوری کلاس میں سٹوڈنٹس کی باتوں کا شور پھیلا ہوا تھا جب وہ کافی عجلت بھرے انداز میں لب کاٹتی اپنا پنک بیگ ٹٹول رہی تھی۔

اگلے ہی پل فارم پیج ہاتھ آتے ساتھ ہی اُسکے لب خوشی سے پھیلے تھے۔

تبھی وہ شکر کا سانس بھرتی اپنے پاس بیٹھی نیناں کا ہاتھ پکڑتی ہوئی سیٹ سے اُٹھ گئی۔

” کہاں بھئی۔۔۔۔؟؟؟“  وہ جو اردگرد سے بےبہرہ نوٹس پر جھکی بیٹھی تھی خود کو ایکدم سے اُسکے ساتھ گھسٹتا محسوس کرکے بےاختیار چلائی۔

”یہ فارم میں نے فل کردیا تھا لیکن ابھی تک سر کو جمع نہیں کروایا۔۔۔وہی دینے جارہی ہوں سر کے پاس۔۔۔تم بھی چلو میرے ساتھ۔۔۔“  اپنا بھول پن اُس پر دھیمے لہجے میں واضح کرتی وہ اُسے کلاس روم سے باہرتک لے آئی تھی۔

”ویسے تو تمھاری بڑی زبان چلتی ہے۔۔۔اور اتنی اہم چیز بھول گئی تم۔۔۔حد ہے ویسے۔۔۔“  اس اچانک افتاد پر پھیکی پڑتی نیناں اپنی زبان کو قینچی کی طرح  چلنے سے روک نہیں پائی تھی تبھی حاویہ نے اُسکا ہاتھ جھٹکتے اُسے غصے سے گھورا۔

”ذیادہ بکواس نہیں کرو میرے ساتھ۔۔۔۔چلنا ہے تو چلو۔۔۔نہیں تو میں اکیلے ہی چلی جاتی ہوں۔۔۔“  حاویہ اُس پر برہم ہوتی اُسے وہیں چھوڑ کر بس دو قدم ہی آگے بڑھی تھی جب ہوش میں آتی نیناں نے اُسے بازو سے پکڑ کر روکا۔

”او او۔۔۔میری پیاری بہن ایک تو تم چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنی یہ چھوٹی سی ناک پھلاکر بیٹھ جاتی ہو ناں بس۔۔۔۔چل تو رہی ہوں تمھارے ساتھ۔۔۔“  قدرے نرمی سے بولتی وہ حاویہ کو اُسکی برائی گنواتی ہوئی منانے کی اپنی سی کوشش کرنے لگی۔

”چلو۔۔۔۔“  اُسکے سر پر ہلکی سی چپت لگاتے وہ احسان کرنے والے انداز میں بولی تو نیناں اُسکے اتنی جلدی مان جانے پر کھل کر مسکراتی اُسکے ہمقدم ہوئی۔

”مے آئی کم اِن سر۔۔۔۔۔؟؟؟“  دروازے سے ذرا سا سرنکال کر اندر جھانکتی ہوئی قدرے نرمی سے اجازت طلب کرتی حاویہ براہ راست سرعبدالجبار سے مخاطب تھی۔

ایسے میں وہ یقیناً آفس کے اندر بیٹھے اے۔ایس۔پی عائل حسن کی موجودگی سے قطعی بےخبر تھی جو اُسکی آمد پر پل بھرکو چونکتا سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔

”یس۔۔۔۔کم اِن۔۔۔۔“  سر عبدالجبار ناچاہتے ہوئے بھی اخلاق کے تقاضے پورے کرتے اُسے آرام سے اجازت دےگئے تو وہ دونوں پورا دروازہ کھول کر آفس میں داخل ہوگئیں۔

تبھی حاویہ کی نظر بائیں جانب دیوار کے ساتھ رکھے ٹوسیٹر صوفے پر گئی جہاں عائل بلیک شرٹ اور جینز میں آنکھوں میں چمک لیے بظاہر سنجیدگی سے اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔

وہ الگ بات تھی کہ اُسکی یہاں موجودگی پر وہ اپنی حیرت بڑی صفائی سے چھپا گیا تھا۔

بھوری آنکھوں سمیت ہولے سے منہ کھولتی وہ اپنی جگہ پر جم سی گئی تو وہ اُسکی حالت دیکھ کر بےساختہ امڈ آنے والی مسکراہٹ کو روکتا لب بھینچ گیا۔

نیناں کی حالت بھی حاویہ سے کچھ کم نہیں تھی۔

”جی۔۔۔۔؟؟؟“  دونوں کی بےوجہ خاموشی کو شدت سے محسوس کرتے سر عبدالجبار نے اُنکی اچانک آمد کی وجہ جاننا چاہی تو بروقت ہوش میں آتی نیناں نے حاویہ کو خفیہ انداز میں ٹہوکا دیا۔

” کیا ہے بھئی۔۔۔۔؟؟؟  وہ جو عائل کی موجودگی کو یقینی بنانے کی غرض سے اُسے سرتاپیر گھوررہی تھی ایکدم سے جھٹکا کھانے پر نیناں پر بھڑکتی اگلے ہی پل ہوش میں آئی۔

”وہ۔۔۔سس۔۔۔سررر۔۔۔یہ فارم۔۔۔میں نے اسے فل کردیا ہے۔۔۔“  سرعبدالجبار کو خود کی جانب حیران نظروں سے تکتا پاکروہ کھسیانی ہوتی ہاتھ میں پکڑا فارم پیج بےاختیار اُنکی جانب بڑھا گئی۔

حاویہ کے یوں اٹکنے پر عائل اب کی بار کھل کرمسکرادیا۔

”اوکے اب آپ جائیں۔۔۔“  فارم پیج کو دراز کھول کر دوسرے فارمز کے اوپر رکھتے وہ مصروف سے انداز میں بولے مگر حاویہ اُنکے آڈر کو ان سنا کرتی کشمکش کی حالت میں کبھی عائل کو دیکھتی تو کبھی سرعبدالجبار کو جنھیں اُسکی دماغی حالت پر اب شبہ سا ہونے لگا۔

”لگتا ہے اِن محترمہ کو کوئی شکایت درج کروانی ہے مجھ سے جبھی تو یہاں سے جانے کو انکا دل نہیں چاہ رہا۔۔۔۔“  ٹانگ پر ٹانگ جمائے وہ اُسکے مزید یہاں رکنے پر حظ اٹھاتا آرام سے طنزکرگیا۔

حاویہ نے سر عبدالجبار کی گھوری کو محسوس کرتے اُسکی دل جلادینے والی دلکش مسکراہٹ کوآنکھیں سکیڑتے دیکھا تو نیناں بھی مسکرانے لگی۔

”ہونہہ۔۔۔خوش فہمیاں۔۔۔۔“  وہ اپنے شدتوں سے دھڑکتے دل پر قابو پانے کی کوشش کرتی غصے سے زیرلب بڑبڑاتی ہوئی اگلے ہی پل پلٹی اور دروازہ کھول کر نیناں سمیت آفس سے باہر نکل گئی۔

عائل سرجھٹکتا بمشکل سنجیدہ ہوتے ہوئے پھرسے سرعبدالجبار سے اپنی گفتگو کا منقطع سلسلہ دوبارہ سے جوڑ چکا تھا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

”ذرا سنیے آفیسر۔۔۔۔“  عائل جیسے ہی سرعبدالجبار سے رخصت لیتا آفس سے باہر نکلا تو کچھ فاصلے پر اُسکی راہ تکتی حاویہ نے ہمت کرتے اُسے آواز لگائی۔

وہ الگ بات تھی کہ نیناں کے زور کا ٹہوکا دینے پر ہی دبی دبی سی آواز اُسکے حلق سے نکلی تھی جو عائل کی تیز سماعتوں سے فوراً جا ٹکرائی۔

وہ حیرانگی سے اُسکی جانب پلٹا پر اگلے ہی پل اُسکی گڑبڑاہٹ محسوس کرتا اپنے لبوں پر آئی بےساختہ مسکراہٹ بڑی صفائی سے چھپاگیا۔جیبوں میں ہاتھ ڈالے قدم قدم چلتا وہ اُسکے سامنے آکھڑا ہوا جس پر حاویہ جھجھک کر اُسکے چہرے سے نظریں ہٹاتی نیناں کو دیکھنے لگی۔

”آپ یہاں تب سے کھڑی کس کا ویٹ کررہی ہیں۔۔۔۔؟؟آپکی کوئی کلاس نہیں ہورہی کیا۔۔۔۔؟؟یاں پھر آپ کلاسز بنک کرنے کی شوقین ہیں۔۔۔؟؟“  بڑی سادگی سے پوچھتا وہ اُسے صحیح معنوں میں سلگا گیا تھا۔

جبکہ دل اُسے پھر سے اپنے روبرو پانے کی خواہش پوری ہوتا دیکھ کر خوشی سے مچل رہا تھا۔

”میں یہاں اتنی دیر سے صرف آپکو تھینک یو بولنے کے لیے کھڑی تھی۔۔۔لیکن آپ ہیں کہ بس مجھے باتیں سنائے جارہے ہیں۔۔۔بلکہ نہیں۔۔۔جب سے میں آپ سے ملی ہوں تب سے۔۔۔“  اپنے دل کے پھپھولے پھوڑتی وہ دھیمی آواز میں برہم سی غرائی۔

اگر اُسکا دغا دیتا دل اور نیناں اُسے مجبور نہیں کرتی تو وہ اس وقت کبھی اُسکا شکریہ ادا کرنے کے لیے اُسکے سامنے موجود نہیں ہوتی۔

”اوہ اچھا۔۔۔۔لیکن بقول تمھارے میں تو بدتمیز ہوں ناں۔۔۔اور سنگدل بھی شاید۔۔۔۔تو پھر ایسے حالات میں تم مجھ سے کسی اچھے کی امید کیسے کرسکتی ہو محترمہ۔۔۔؟؟؟“  اُسکی ہر ادا پر دل ہارتا وہ بظاہرسنجیدہ سا اپنی بھنوؤں کو سکیڑ گیا۔

”آپ بہت برے بھی ہیں عائل صاحب۔۔۔جائیں نہیں بولنا مجھے آپکو کوئی تھینک یو وینک یو۔۔۔۔میں جارہی ہوں۔۔۔“  مقابل کی سفاکی پر روہانسی ہوتی وہ جانے کے لیے پلٹی جب سرعت سے اُسکی کلائی تھامتا وہ اُسے اپنی جانب گھوما گیا۔

اپنی ہنسی روکتی نیناں نے منہ پر ہاتھ رکھے محتاط سی ہوکر اطراف میں دیکھا جہاں ابھی تک کسی کا بھی گزر نہیں ہوا تھا۔

”ایسے کہاں جارہی ہولڑکی۔۔۔؟؟میرے تھینک یو کا حساب تو پورا کرتی جاؤ۔۔۔۔“  نیناں کی پرواہ کیے بغیراُسکی پھیلی ہوئی نم آنکھوں میں شدت سے دیکھتا وہ اب کی بار دلکشی سے مسکراتا ہوا اپنا معصومیت بھرا تقاضا کرگیا۔

”تھ۔۔۔۔ینک یو۔۔۔۔“  اُسکے لمس پر کلائی چھڑواتی حاویہ کی سانسیں اٹکی تھیں جب وہ بڑی نرمی سے اُسے آزادی بخش گیا۔ 

”بس اتنا ہی۔۔۔۔؟؟؟“  کسرتی سینے پر ہاتھ باندھتا وہ تیوری چڑھائےشکوہ کرگیا تو دل کی بگڑتی حالت پر بےچین ہوتی حاویہ اُسے بنا سوچے سمجھے معصوم سی بددعا دے گئی۔

”اللہ کرے آپکو آپ سے بھی ذیادہ کھڑوس بیوی ملے جو بعد میں آپکی ساری اکڑ نکال دے۔۔۔“  

اسکی بات پر عائل بےاختیار قہقہ لگاتا اُسے جھینپنے پر مجبورکرگیا۔

”افسوس پر یہ تو اب پاسیبل نہیں ہے۔۔۔۔“  اداس ہونے کی اداکاری کرتا وہ پُر یقین لہجے میں گویا ہوا۔

”وہ کیوں۔۔۔؟؟؟“  حاویہ اپنی بات کی نفی ہونے پر حیران ہوئی تو اُسکی بےاختیاری پر عائل نے قدرے دلچسپی سے اُس کی جانب دیکھا۔

”کیونکہ مجھے اِن بھوری آنکھوں میں اپنے مستقبل کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔۔۔۔“  ایک قدم کا فاصلہ مٹاتا وہ اُسکی جانب جھکتا رازدارانہ انداز میں بولا۔

وہ جو اُسکے قریب آنے پر بےاختیار ایک قدم کا فاصلہ بناتی ناسمجھی سے اُسکا چہرہ دیکھ رہی تھی اُسکی معنی خیز بات کی گہرائی تک جاتے ساتھ ہی سرخ پڑی اور اگلے ہی پل اُسکی جذبے لٹاتی نظروں سے رُخ موڑتی شورمچاتی دھڑکنوں سمیت وہاں سے سرپٹ دوڑ لگادی۔

”ابھی میرا حساب پورا نہیں ہوا۔۔۔۔پاگل۔۔۔۔“  اُسکے شرمانے کے اِس انداز پر اپنا دل سنبھالتا عائل پیچھے سے شوخ  لہجے میں ہانک لگاتے ہوئے آخر میں زیرِ لب بڑبڑایا اور اپنی جانب دیکھتی نیناں پر ایک سرسری نگاہ ڈال کر بالوں میں ہاتھ پھنسائے وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

اوہ نو۔۔۔۔اب میں گھر کیسے جاؤں گی۔۔۔؟؟؟“  وہ سٹاپ پر پہنچی تو تب تک پوائنٹ جاچکی تھی۔

اس تپتی دھوپ میں روڈ اس وقت تقریباً سنسنان ہی تھا جہاں نگاہ دوڑانے پر اُسے دور سے ایک دو آدمیوں کی پشت دکھائی دی تو وہ وحشت زدہ سی سینے سے لگے رجسٹر پر گرفت سخت کرتی پریشانی میں اپنے لب کاٹنے لگی۔

چھٹی کرنے کی وجہ سے حرمین کے کئی امپورٹنٹ لیکچرز چھوٹ گئے تھے جسے آج  اپنے رجسٹر پر نوٹ کرتے ہوئے اُسے وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوپایا تھا۔لیکن جب اُسے ہوش آیا تو تب تک کافی دیر ہوچکی تھی۔

”یااللہ۔۔۔۔۔“  مزید کچھ دیر گزرنے پر بے بسی سے اپنا چشمہ ٹھیک کرتی وہ بےاختیار چند قدم آگے کو اٹھاگئی۔انداز ایسا تھا جیسے مزید کوئی راہ نظر نہ آئی تو وہ روتے روتے پیدل ہی گھر کی جانب چل پڑے گی۔

 کم بخت کوئی رکشہ بھی دور دور تک آتا جاتا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

معاً اُسے اپنے پیچھے گاڑی کا ہارن سنائی دیا تو جھٹکا کھاکر پلٹتی وہ سہم سی گئی۔

” کیا ہوا ڈارلنگ۔۔۔۔اپنی پوائنٹ مس کردی کیا۔۔۔۔؟؟“  ایک لڑکا شیشے سے سر باہر نکالے انتہا کی بےتکلفی سے اُسے اوپر سے نیچے تک گھورتا قدرے آوارہ انداز میں بولا تو حرمین کی ریڑھ کی ہڈی میں خوف کی سرد لہر دوڑگئی۔اس اچانک افتاد پر گھبراتی وہ بغیر کوئی جواب دئیے اطراف میں مددطلب نم نظروں سے دیکھنے لگی۔

”ارے سوئیٹی پریشان کیوں ہورہی ہو۔۔۔؟؟ہم ہیں ناں اویل ایبل تمھارے لیے۔۔۔جہاں کہوگی وہیں چھوڑ آئیں گے۔۔۔ایک بار پیار سے بول کر تو دیکھو۔۔۔“  اب کی بار وہ اپنے ساتھی سمیت گاڑی سے باہر نکل کر قہقہ لگاتا اپنی بےلگام نظروں اور باتوں سے حرمین کو حددرجہ ڈرا چکا تھا تبھی وہ اُن پر لعنت بھیجتی ناک کی سیدھ میں سرپٹ بھاگی تھی۔

”پکڑ سالی کو۔۔۔۔۔“  اُسے فرار ہونے کی کوشش کرتا دیکھ وہ دونوں بھی اطراف کا جائزہ لیتے تیزی سے اُسکے پیچھے لپکے اور اُس سے دوگنی رفتار کے باعث چند لمحوں بعد ہی اُسے اپنی سخت گرفت میں دبوچ لیا۔

”آہ۔۔۔۔چھوڑو۔۔۔مجھے گھٹیا انسان۔۔۔مجھےکہیں بھی نہیں جانا تم لوگوں کے ساتھ۔۔۔۔پلیزمیں خود چلی جاؤں گی۔۔۔۔“  پسینے میں پوری طرح شرابور اُسکے چنگل سے نکلنے کی جان توڑ کوشش میں چیختی وہ آخر میں  فریاد کرتی رو پڑی۔

”ایسے کیسے خود چلی جاؤ گی۔۔۔۔؟؟اپنا نہیں تو ہمارا ہی کچھ خیال کرلو ظالم حسینہ۔۔۔۔“  حرمین کی بازو پر پکڑ مزید سخت کرتے ہوئے اُسے اپنی جانب کھینچتے وہ دونوں کمینگی سے ہنس پڑے۔

”پلیز تمھیں خدا کا واسطہ ہے۔۔۔مجھے جانے دو۔۔۔نہیں تو میں شور مچاکر سب کو یہاں اکٹھا کرلوں گی۔۔۔“  ان دونوں کی گستاخیاں اُسے شدتِ خوف میں مبتلاکررہی تھیں کہ اتنا ڈر اُسنے اپنی زندگی میں کبھی محسوس نہیں کیا تھا اور نہ ہی پہلے کبھی اُسکے ساتھ ایسا ناقابلِ برداشت حادثہ پیش آیاتھا۔

”اچھاااا۔۔۔۔تو اب تُو ہمیں دھمکی دے گی سالی۔۔۔۔ابھی دیکھ تیرا میں کیا حشر کرتا ہوں۔۔۔پھر کسی کو بھی دھمکی دینے لائق نہیں رہے گی۔۔۔اُوے تبریز۔۔۔گاڑی یہاں لےکرآ فوراً۔۔۔“  حرمین کی کپکپاتی دھمکی پر ایکدم بگڑتا وہ ہتھے سے اکھڑا اور ساتھ ہی اپنے دوست کو آڈر دیا۔

وہ تائید میں سر ہلاتا  فوراً سے کچھ فاصلے پر کھڑی اپنی گاڑی کی جانب بھاگا تھا۔

”نن۔۔۔نہیں۔۔۔چھوڑو مجھے۔۔۔بچاؤ۔۔۔کوئی ہے۔۔۔پلیز مدد۔۔۔“ اُنکے اس عمل پر حرمین کی جان حلق میں پھنسی تھی مگر مقابل کا مضبوط ہاتھ اُسکے چیختے لبوں پر پڑتے ہی سانسوں کے ساتھ ساتھ اُسکی آواز بھی بندکرگیا۔

”اممم۔۔۔۔اممم۔۔۔۔“  نتیجتاً اُسکا چشمہ لڑھک کر نیچے گرا تھا تبھی وہ مزید مچلتی سر مسلسل نفی میں ہلانے لگی۔

مہرون حجاب بھی ڈھیلا پڑ کر تقریباً کھل چکا تھا۔

”چپ ایکدم چپ۔۔۔اگر اب تیری زرا سی بھی میں میں مجھے سنائی دی تو زبان گدی سے کھینچ نکالوں گا تیری۔۔۔۔ابے جلدی کرتُو بھی۔۔۔تیرے ہاتھ پیرکیوں سست پڑگئے ہیں گدھے۔۔۔۔؟؟اس سے پہلے کوئی آجائے ہمیں اسے لے کرجلدی یہاں سے نکلنا ہوگا۔۔۔۔جلدی کر جلدی۔۔۔“  سختی سے بولتا وہ اُسکی نازک سی کلائی پکڑکر مروڑگیا اور ساتھ ہی اپنے دوست کو بھی لتاڑا جو گاڑی ڈرائیو کرکے اُنکے قریب پہنچ چکا تھا۔  

حرمین کی سانسیں مدھم ہوئی تھیں یہ دیکھ کر۔

”چھوڑ لڑکی کو۔۔۔۔“  اس سے پہلے کہ وہ لڑکا گاڑی کا دروازہ کھول کر حرمین کو پچھلی سیٹ پر پٹختا اپنی پشت سے ابھرتی سرد آواز پر بری طرح چونکتا حرمین سمیت پیچھے پلٹا۔

وہ دونوں ہاتھ جینز کی جیبوں میں پھنسائے قدرے نڈر انداز میں غصے سے اُسے دیکھ رہا تھا۔بھوری آنکھوں میں صاف وارنگ ہچکولے لے رہی تھی۔

”شا۔۔۔م۔۔۔۔۔“  دل کی ایکدم سے تیز ہوتی دھڑکنوں سمیت حرمین کے سیاہی مائل لب اُس ظالم کی مضبوط ہتھیلی کے پیچھے پھڑپھڑائے۔

”کیوں بے ہیرو۔۔۔۔ہیروگیری کرنے آیا ہے یہاں پر۔۔۔۔؟؟میرا ذیادہ دماغ خراب مت کر اور نکل لے یہاں سے۔۔۔چل چل۔۔۔شاباش۔۔۔“  خود کی گھبراہٹ پر قابو پاتے اُسنے شام کو وہاں سے رفوچکر کرنا چاہا پر اگلے ہی لمحے شام نے حرمین کے منہ پر دھڑا اُسکا ہاتھ اپنی گرفت میں لیتے ہی ایک جھٹکے سے مروڑ ڈالا۔

جواب میں وہ درد سے بلبلاتا  پل پل سسکتی حرمین کو اپنی گرفت سے بے ساختہ آزادکرگیا۔

جس پر وہ بجلی کی سی تیزی سے شام کو اپنا مسیحا سمجھتی  اُسکی پشت پر جاکھڑی ہوئی اور اُسکی گرے شرٹ کو اپنی مٹھیوں میں جکڑگئی۔

تبھی وہ مقابل کے وار کو بڑی آسانی سے روکتا ایک زوردار کِک اُسکے پیٹ پر مارکر پیچھے کی جانب تپتی سڑک پر پٹخ چکا تھا۔

”تیری تو۔۔۔۔“  تبھی دوسرا لڑکا بھی یہ تماشہ دیکھ کر گاڑی سے باہر نکلتا شام کو پیٹنے کے ارادے سے اُسکی جانب لپکا۔

” تُو بھی آجا بیٹا۔۔۔۔“  چیلنج بھرے انداز میں بولتے ہوئے وہ اُسکا پنچ کھانے سے پہلے ہی بھرپور شدت سے وارکرتا اُسکی ناک سے خون نکال چکا تھا۔

وہ ایکدم سے چیختا ہوا اپنی ناک کی ٹوٹی ہڈی پکڑ کر وہیں بیٹھ گیا تو سہمی نظروں سے یہ سب دیکھتی وہ اپنی پکڑ اُسکی پشت پر مزید سخت کرگئی۔

اپنی واضح شکست پر وہ شام کی طاقت کا اندازہ لگاتے مسلسل کراہتے ہوئے وہاں سے اٹھے اور پلک جھپکتے اپنی گاڑی میں بیٹھتے ساتھ ہی وہاں سے بھاگ نکلے۔

شام بھی اُنکے پیچھے جاکر اُنھیں مارنے کا ارادہ ترک کرتا ہوا اُسکی جانب پلٹا۔

”آریو اوکے حرمین۔۔۔۔تمھیں کوئی نقصان تو نہیں پہنچایا ناں اُن کمینوں نے۔۔۔؟؟؟“  وہ فکرمند سا ہوکر اُسکا بھیگا بھیگا چہرہ دیکھ رہا تھا جسے اپنا حجاب بھی ٹھیک کرنے کی ہوش نہیں رہی تھی۔

شام نے پہلی بار اُسے بغیر حجاب اور چشمے کے اتنے قریب سے بغور دیکھا جس پر دل حقارت سے کروٹ بدلتا مچلا تھا۔

”نہیں۔۔۔۔“  اپنے ساتھ ہوئے سنگین حادثے کی بابت سوچتے آنسو بےاختیار اُسکی گالوں پر پھسلنے لگے۔

”ریلکس یار۔۔۔۔رو تو نہیں۔۔۔سب ٹھیک ہے۔۔۔۔“  بڑی دقت سے ہاتھ بڑھا کر اُسکے آنسو انگلیوں کی پوروں سے صاف کرتا وہ خود پر قابو پاگیا۔

”اگر۔۔۔آپ وقت پر نہیں آتے تو نجانے وہ لوگ میرے ساتھ کیا کردیتے۔۔۔۔؟؟“  اُسکا سہارا پاتے ہی وہ بےاختیار ہوتی اُسکے کندھے سے لگی خوف سے سسکنے لگی تو شام بھی اُسکے لرزتے وجود کو اپنے حصار میں لیتا بھنویں اچکائے فتح یاب سا مسکرایا۔

”ششش۔۔۔بس چپ۔۔۔بھول جاؤ سب۔۔۔۔کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔۔۔میں ہوں ناں تمھارے ساتھ۔۔۔۔“  اُسکے جوڑے میں مقید بالوں کو سہلاتا وہ نرماہٹ بھری سرگوشیاں کررہا تھا جب اچانک حرمین ہوش میں آتی جھٹکے سے اُسکا حصار توڑتی الگ ہوئی۔

اُسے کانپتے ہاتھوں سے اپنا حجاب سیٹ کرتا دیکھ شام نے لب بھینچ کر ضبط کا گہرا گھونٹ بھرا اور اگلے ہی پل سڑک پر پڑے چشمے کو ا ٹھاتا اُسکی ناک پر ٹکاگیا۔

شام کے اس قدر کئیرنگ انداز کو شدت سے محسوس کرتی ہوئی وہ اُسکے وجیہہ چہرے کو کچھ حیرت سے تکتی بےساختہ وہ اپنے دل کی ایک بیٹ مس کرگئی۔

اپنے باپ کے بعد سے کسی بھی مرد نے اُسے اتنے پیار سے چشمہ نہیں پہنایا تھا۔

بلاشبہ شام کے پرُاثر حرکتوں اور دلکش نقوش کا جادو ناچاہتے ہوئے بھی اُسکے کمزور سے دل پر چل گیا تھا جس پر وہ اپنی بے ہنگم ہوتی دھڑکنوں پر قابو پانے کی کوشش کرتی بےاختیار نظریں چراگئی۔

”آپ بہت اچھے ہیں شام۔۔۔۔بہت ذیادہ اچھے۔۔۔۔اُس دن آپکے بھائی نے میری چھوٹی بہن کی جان بچائی اور آج آپ نے میری عزت۔۔۔“  تہے دل سے اُسکا شکریہ اداکرتی وہ اُسکے بڑے بھائی کا احسان بھی اُس پر آشکار کرگئی تو وہ عائل کے ذکر پر پل بھرکو چونکتا بمشکل مسکرایا۔

”ایک لڑکی کے لیے اُسکی عزت ہی سب کچھ ہوتی ہے حرمین۔۔۔اور یقین جانو میرے لیے تمھاری عزت سب سے بڑھ کر ہے۔۔۔“  اپنے خوبصورت لفظوں سے اُسے معتبر کرتا وہ اُسکے کمزور دل کو مزید گھائل کرنے لگا تو وہ اپنی بگڑتی حالت پر شدت سے پریشان ہوتی اب کی بار اپنا رخ بدل گئی۔

تبھی اُسکی گہری سیاہ نظروں نے سامنے سے آتے رکشے کو پکڑا تو شام نے بھی سنجیدگی سے اُسے دیکھا۔

”اب گھر تک کیسے جاؤگی۔۔۔۔؟؟چلو میں تمھیں ڈراپ کردیتا ہوں۔۔۔تم بس مجھے اپنے گھر کا ایڈریس بتادو۔۔۔“  اُسکی مزید ہیلپ کرنے کی اداکاری کرتا وہ نرمی سے بولا تو مسکرا کر نفی میں سر ہلاتی وہ اگلے ہی پل ہاتھ سے رکشہ روک گئی۔ 

”نہیں۔۔۔۔میں اس رکشے میں چلی جاؤں گی۔۔۔پلیز آپ رہنے دیجیے۔۔۔۔پہلے ہی آپ میری حد سے ذیادہ ہیلپ کرچکے ہیں۔۔۔اب اور نہیں۔۔۔“  رکشے میں بیٹھتی وہ اُسکی مدد لینے سے انکار کرگئی  جسکا شام کو پہلے سے ہی خوب اندازہ تھا۔

”آر یو شیور۔۔۔۔؟؟؟“   بھرپورفکرمندی ظاہرکرتے اُسنے کنفرم کرنا چاہا تو وہ زورشور سے اثبات میں سرہلاتی مسکرادی۔

تبھی ڈرائیور مہارت سے رکشہ اسٹارٹ کرتا تیزی سے آگے بڑھا چکا تھا۔

ابھی وہ رکشہ شام کی بھوری نظروں سے اوجھل بھی نہیں ہوا تھا جب اچانک اُسکے فون پر بیل ہونے لگی۔

”ہاں بولو۔۔۔۔“  فون کان سے لگاتے اُسکے تاثرات سمیت اُسکی آواز بھی سرد ہوئی۔

”سر آپ نے ہمیں پلین سے ہٹ کر کچھ ذیادہ ہی زخمی کردیا ہے۔۔۔۔اس حساب سے پیسے بھی ذیادہ ہوں گے۔۔۔۔“  اسپیکر سے ابھرتی تبریز کی تحکم بھری آواز میں درد کا گھلاملا احساس بھی شامل تھا۔

”ڈونٹ وری۔۔۔۔مل جائیں گے۔۔۔۔۔“  آنکھیں گھماکر گہری سانس فضاء میں خارج کرتا وہ اپنی بات مکمل کرتے ساتھ ہی قدرے لاپرواہی سے کال کاٹ چکا تھا۔

خالی سڑک پر مسکراتی نگاہ ڈالتا اگلے ہی پل وہ اپنے طریقے سے کھیلی گئی گیم پر پہلی فتح کا ٹیگ لگاتے ہوئے سرشار سا سیٹی بجاتا فاصلے پر کھڑی ہیوی بائیک کی جانب لپکا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

وہ سب کام چھوڑ چھاڑ کر اپنے آفس روم میں بے چینی سے اِدھراُدھر ٹہل رہا تھا۔

جیسے جیسے اُسکی نظریں کلائی میں بندھی قیمتی گھڑی پر جارہی تھیں ویسے ہی اُسکے غصے کا گراف مزید بڑھتا جارہا تھا۔

اُسنے آبرو کو کب سے اپنے روم میں آنے کو بولا تھا مگر وہ تھی کہ ابھی تک نہیں آئی تھی۔

معاً ایک بار پھر سے اُسکی بھوری آنکھوں کے آگے کچھ دیر پہلے کا منظر گھوما تھا جب وہ منیجر کے پاس کچھ خاص انسٹرکشنز دینے کے لیے گیا تھا لیکن گلاس ڈور کے پار دکھائی دیتا ناقابل برداشت منظر اُسے آگ لگاگیا۔آبرو ارگرد سے بےبہرہ وہاں ایک آفس ورکر کے ساتھ ہنستی مسکراتی باتیں کرنے میں مگن تھی۔

تبھی شاید رحمان نامی لڑکے سے ٹائپ کرنے میں کچھ غلطی ہوئی تھی جس پر وہ اپنے مومی ہاتھ سے اُسکی کی بورڈ پر چلتی انگلیاں پکڑ کر ہٹاتی ذرا سا اُسکے قریب جھکی اور مسکراتے ہوئے خود ٹائپ کرنے لگی۔رحمان بھی اُسکا حسین چہرہ نزدیک سے دیکھتے کھل کر مسکرادیا۔

”او جسٹ سٹاپ دیٹ۔۔۔۔“  اپنے خیال کو آپ ہی جھٹکتا وہ بےاختیار خود پرچلایا کہ تبھی روم کے دروازہ پر ناکنگ ہوئی۔

”کم اِن۔۔۔۔۔“  سرد آواز میں پرمیشن دیتا وہ دروازے کی جانب رخ موڑ گیا تو آبرو شاہ کے اندر بھڑکتے لاوے سے قطعی انجان اندر داخل ہوئی۔

”آپ نے بلایا تھا سر۔۔۔۔؟؟“  وہ جو شاہ کو بہت پہلے کافی دےکر خوشگوار موڈ میں چھوڑ کر گئی تھی اُسکے بگڑے تیور دیکھ کر پل بھرکو چونکی۔

شاہ جواب دینے کی بجائے غصے سے اُسکے خوبصورت مگر الجھے نقوش دیکھتا ہوا قدم قدم اُسکی جانب بڑھنے لگا۔نتیجتاً آبرو اُسکے قدموں کو رکتا نہ پا کر حیران پریشان سی پیچھے کو کھسکتی ہوئی دروازے سے جالگی۔

کہاں تھی تم۔۔۔۔؟؟؟“  خود پر بمشکل ضبط کیے وہ آپ سے تم کا فاصلہ پل میں طے کرتا ہوا پھنکارا تھا۔

”جج۔۔۔جی سر۔۔۔وہ میں بس آہی رہی تھی آپ کےپاس۔۔۔“  

اُسکی سرخ ہوتی بھوری آنکھوں میں حیرت سے جھانکتی وہ ہکلاکربولی۔

”مجھے ابھی تک میرا جواب نہیں ملا۔۔۔کس کے ساتھ تھی تم۔۔۔؟؟“  ہاتھ کی مٹھی بناتا وہ ٹھہر ٹھہر کر بولتے ہوئے اب کی بار اپنا سوال بدل گیا۔

لیکن بدقسمتی سے جواب ایک ہی تھا۔

”رحمان۔۔۔رحمان کے ساتھ اُسکی فائل بنوارہی تھی۔۔۔“  

مقابل کی نزدیکی پر کپکپاتی ہوئی آواز اُسکے گلے میں پھنسی تھی۔

بے اختیار وہ اپنی آنکھیں میچ کردوبارہ کھول گیا۔جیسے ضبط کی انتہا پرہو۔

”کتنے منٹ گزرگئے تمھیں میرا میسج ملے۔۔۔۔؟؟؟“  سخت تیوروں سے تفتیش کرتا وہ ایک ہاتھ اُسکے سر کے قریب دروازے پر ٹکاگیا تو اُس نے ہراساں ہوکر اُسکی جانب دیکھا۔

”بب۔۔۔بیس منٹ۔۔۔۔“  مجرموں کی طرح سر جھکاتی وہ نم پڑتی آنکھوں سمیت منمنائی۔

”اور تم نے مجھے۔۔۔میری ذات کو اگنور کرکے اُس دوٹکے کے امپلائے کو مجھ پر ترجیح دی۔۔۔۔کیسے۔۔۔ہممم۔۔۔۔کیسےےےے؟؟؟“  دانت پیس کر ایک ایک لفظ اُسے باور کرواتا وہ ضبط کی طنابیں چھوٹتے ہی چلایا اور دروازے پر دھڑے ہاتھ کا مکا بناکر پوری قوت سے اُس جگہ پر دے مارا۔

”سس سوری سر۔۔۔۔سوسوری۔۔۔۔پلیز۔۔۔“  نتیجتاً آبرو اس افتاد پر شدت سے گھبراتی ہوئی بےاختیار اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں سے ڈھانپتی بےآواز رونے لگی تو وہ چہرے پر ہاتھ پھیرتا جیسے ہوش میں آیا۔

”مس آبرو۔۔۔ایم۔۔۔ایم سوری۔۔۔پتہ نہیں میں کیسے آپ پر اتنا غصہ کرگیا۔۔۔؟؟پلیز آپ پہلے رونا بند کریں۔۔۔آبرو۔۔۔؟؟“  وہ اس بار قدرے نرمی سے معذرت کرتا فکرمند سا اُسکے چہرے سے ہاتھ ہٹاگیا۔

بدلے میں اُسکا آنسوؤں سے تر بھیگا چہرہ دیکھنے کو ملا تو شاہ سختی سے اپنے لب بھینچ گیا۔

”آ۔۔۔پ نے مجھے بہت ذیادہ ڈرادیا تھاسر۔۔۔آپ مجھے ہمیشہ اپنی باتوں اور حرکتوں سے اسی طرح ڈرا دیتے ہیں۔۔۔آخر آپ ایسا کیوں کرتے ہیں میرے ساتھ۔۔۔؟؟کیا قصور ہے میرا۔۔۔۔؟؟“  اُسکی گرفت سے اپنے دونوں ہاتھ چھڑواتی وہ  کانپتی آواز میں بےبس سی شکوہ کر گئی تو وہ ہولے سے مسکرادیا۔

”میں نے تمھیں کبھی بھی ڈرانا نہیں چاہا آبرو۔۔۔اور نہ ہی خود سے بدظن کرنا چاہا ہے۔۔۔بس میں تم پر اپنا حق جتاتاہوں۔۔۔میں مانتا ہوں کہ میرا انداز تھوڑا بہت الگ ہے۔۔۔مگر تم مجھے اس سب سے روک نہیں سکتیں۔۔۔اور تمھارا قصور یہ ہے کہ تم سب جانتے ہوئے بھی انجان بن جاتی ہو۔۔۔تم نے کبھی میری فیلنگز کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔۔۔میرا یقین کرومیں تم سے بہتتتت محب۔۔۔۔“  پھر سے اُسکے ہاتھ تھام کر وہ دیوانہ وار اُسکے خفا خفا سے نقوش دل میں اتارتا اپنے سچے جذبات کا کھل کر اظہار  کررہا تھا جب اچانک بت بنی آبرو تڑپ کر اُسے مزید بولنے سے روک گئی۔

”مت کریں سر۔۔۔۔پلیز مت کریں یہ میرے ساتھ۔۔۔۔میں یہ سب ڑیزرو نہیں کرتی۔۔۔بالکل بھی نہیں کرتی۔۔۔“  وہ شدومد سے اُسکی چاہت و محبت کی نفی کرتی اُسے پل بھرکو ساکت کرگئی۔

شاہ کی محبت کے زورپر چمکتی آنکھیں شدتِ ضبط سے بے اختیار لہورنگ پڑی تھیں۔

زندگی میں پہلی بار کسی لڑکی کی واضح دھتکار نے اُسے اہانت کے شدید احساس سے دوچار کرکے رکھ دیا تھا۔

اُسکے بدلتے تیوروں سے وحشت زدہ ہوتی آبرو اُسکے سینے پر پوری شدت سے دباؤ ڈال کر اُسے چند قدم پیچھے دھکیل گئی اور راہِ فرار ملتے ہی پلٹ کر دروازہ کھولتی باہر کی جانب بھاگتی چلی گئی۔

یہ جانے بغیر کہ اپنے اس چھوٹے سے عمل سے وہ خود کے لیے کتنی مشکلات بڑھاگئی تھی۔

یہ پل پل اپنا ضبط کھوتا شاہ ہی تھا جس نے خود سے اُسے وہاں سے جانے دیا تھا ورنہ ممکن تھا کہ وہ غصے میں پاگل ہوکر اُسے کوئی نقصان پہنچا دیتا۔

”ڈیم۔۔۔۔۔“  اپنی انا پر سخت وار برداشت نہ کرتے ہوئے وہ تنی رگوں کے ساتھ ٹیبل کی جانب آیا تھا اور وہاں پڑی ساری چیزوں کو جھٹکے میں ہاتھ مارتا زمین پر بکھیر گیا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

جینز کی پاکٹ میں ایک ہاتھ پھنسائے جبکہ دوسرے ہاتھ میں پکڑے موبائل کو کان سے لگائے وہ اپنے کمرے کی قدآور کھڑکی کے سامنے کھڑے ہوکر انسپیکٹر باسط سے کسی کیس کو لے کر محوِگفتگو تھا۔

سیاہ آنکھیں ڈھلتی شام کے گہرے سائے میں ڈوبتے وسیع لان کو مسلسل تکتے ہوئے کچھ ڈھونڈنے کی ناکام کوشش کررہی تھیں جب آمنہ کے سوئچ بورڈ پر ہاتھ مارنے سے سارا لان ایکدم سے جگمگاتی روشنیوں میں گھرا تھا۔

تبھی شام کانوں میں ہینڈ فری لگائے زیرِلب مسلسل کچھ گنگناتا ہوا کمرے میں داخل ہوا تو آہٹ محسوس کرتے ہی عائل نے گردن موڑ کر اُسکی جانب دیکھا۔

”ہاں ٹھیک ہے۔۔۔تم کل جاکر خود اچھے سے وہاں کی چیکنگ کرلینا اور پھر مجھے انفارم کردینا۔۔۔۔ہممم۔۔۔صحیح ہے۔۔۔۔اوکے۔۔۔اوکے۔۔۔خدا حافظ۔۔۔۔“  اپنی بات مکمل کرتے ہی وہ کال ڈسکنکٹ کرتا شام کی جانب پلٹا جو تب تک بڑے مست موڈ میں اُسکے جہازی سائز بیڈ پر ٹانگیں نیچے لٹکائے ڈھے چکا تھا۔ 

”ہیلوووو برادر۔۔۔۔کیا ہورہا تھا۔۔۔۔؟؟؟“  عائل جیب میں موبائل پھنساتا اُسکے سامنے صوفے پر بیٹھا تو وہ کانوں سے ہینڈفری ہٹاتا قدرے بےتکلفی سے پوچھنے لگا۔

وجیہہ نقوش پر خوشی کے واضح رنگ چھائے ہوئےتھے جبکہ بھوری آنکھوں میں گہری چمک تھی جسے دیکھ کر عائل بھی خوشدلی سے مسکرادیا۔

وہ کم ہی ایسا رویہ اپناتا تھا۔

آج اُسکا موڈ حد سے ذیادہ اچھا تھا یہ بات تو وہ اچھے سے جان ہی چکا تھا مگر وجہ کیا تھی؟اس سے وہ اب تک قطعی بےخبر تھا۔

”کچھ خاص نہیں۔۔۔۔بس ایک چھوٹا سا کیس تھا اُسی کو لےکر ہمارے بیچ ڈسکشن چل رہی تھی۔۔۔تم بتاؤ۔۔۔کیا کرتے پھر رہے ہو آجکل۔۔۔؟؟؟  اُسکے لاڈ جتانے پر مسکرا کر وضاحت دیتے آخر میں اُسکا انداز بالکل حسن صاحب کی طرح ہوا تھا۔آنکھوں میں شرارت واضح تھی۔شام مسکرایا۔

”میں۔۔۔؟؟؟کچھ خاص تو نہیں۔۔۔۔ بس آج آپکے بہادر بھائی نے ایک لڑکی کو چند آوارہ بدمعاشوں سے بچایا ہے۔۔۔اور مزے کی بات بتاؤں۔۔۔؟؟جس لڑکی کی مدد میں نے کی۔۔۔وہ اُسی لڑکی کی بڑی بہن تھی جسکی جان اُس دن آپ نے بچائی تھی۔۔۔۔“  اپنی کالی کرتوت پر  کھوکھلی بہادری کا پردہ ڈالے وہ لیٹے لیٹے ہی فخر سے اپنے کالر جھاڑتا عائل کو اپنی بات سے الجھاگیا۔

”مطلب۔۔۔۔؟؟تم کن لڑکیوں کی بات کررہے ہو۔۔۔۔۔؟؟؟میں ٹھیک سے سمجھا نہیں۔۔۔۔“  واقعی اُسکے دماغ میں شام کی مبہم انداز میں کی جانے والی گفتگو فوری طورپر نہیں بیٹھی تھی جس پر وہ اپنی گھنی بھنوؤں کو سکیڑتا بھرپور سنجیدگی سے گویا ہوا۔

حرمین زہرا اور اُسکی چھوٹی بہن کی بات کررہا ہوں یار۔۔۔۔حرمین زہرا وہی جو میری یونیورسٹی میں پڑھتی ہے۔۔۔وہ آپکو اچھے سے  جانتی ہے بھائی۔۔۔اور آج میرے ساتھ ساتھ آپکی بھی خاصی تعریف کررہی تھی کہ کس طرح آپ نے اُسکی چھوٹی بہن کی جان بچائی۔۔۔“  شام سیدھا ہوکر بیٹھتے ہوئے حرمین کے نام پر زور دیتا کھل کر وضاحت دینے لگا تو عائل کے ذہن میں ایکدم سے جھماکہ ہوا۔ 

”اچھا اچھا۔۔۔۔۔تو تم حاویہ کی بڑی بہن کی بات کررہے ہو۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔جب ہوٹل میں، میں اُس سے اتفاقاً ملا تھا تو اُسنے مجھے اپنا انٹرو کروایا تھا۔۔۔۔اب تو وہ ٹھیک ہے ناں۔۔۔۔؟؟“  ساری بات سمجھ آتے ہی اُسے اُس معصوم لڑکی کے ساتھ ہوئے ناخوشگوار واقعے کی بابت جان کر حقیقتاً افسوس ہوا تھا۔

”حرمین کی بہن کا نام حاویہ ہے۔۔۔؟؟بلیومی بھائی مجھے آج ہی یہ بات آپ سے معلوم پڑی ہے۔۔۔۔“  اُس کے سوال کو نظرانداز کرتےشام کا لہجہ شوخ رنگ ہوا جہاں افسوس کی کوئی بھی رمق باقی نہ تھی۔

یہ پہلی بار تھا جو عائل کو شام کا حاویہ کے نام پر چھیڑتا لہجہ دل سے بھایا تھا۔بےساختہ اُسکے لبوں پر دلفریب مسکراہٹ رینگ گئی۔

حاویہ کے بوکھلائے بوکھلائے سے دلکش نقوش بےاختیار اُسکی یاداشت میں تازہ ہوتے چلے گئے۔

”اُسکی جان بچاتے بچاتے کہیں آپ اپنا دل تو نہیں گنوا بیٹھے بھائی۔۔۔؟؟اگر ایسی بات ہے تو مجھےابھی سے بتادیں۔۔۔موم تو الریڈی آپکے پیچھے پڑی ہوئی ہیں کہ شادی کرلو۔۔۔ شادی کرلو۔۔۔۔اچھا ہے اُنکی خواہش بھی جلد ہی پوری ہوجائے گی۔۔۔“  شام کی لمحہ بہ لمحہ بڑھتی گستاخیاں اُسے مزید مسرور کرتی اُس لڑکی کی یادوں میں مکمل طور پر دھکیل چکی تھیں جب اُسکی عدم توجہ محسوس کرتا وہ ذرا چونکا۔

”بھائی۔۔۔۔؟؟؟“  اُسے کھوئے انداز میں مسکراتا دیکھ شام کی مسکراہٹ معدوم ہوتی ایکدم سے غائب ہوئی تھی۔

البتہ وہ خود کبھی اِن احساسات سے حقیقتاً دوچار نہیں ہوا تھا لیکن بھٹک جانے والے ایسے انداز و حالات سے جہاں انسان دوسروں سے قطعی غافل محض اپنی سوچوں میں گم آپ ہی آپ مسکرانے لگے خوب واقف تھا۔

 ”بھائی۔۔۔۔؟؟؟“   خود کے نظرانداز کیے جانے پر بمشکل ضبط کرتے اُسنے اس بار بآواز بلند اُسے مخاطب کیا۔

”ہاں۔۔۔۔۔؟؟؟“  اپنے گہرے خیالوں سے چونکتا وہ پل میں اُسکی جانب متوجہ ہوا۔

”مطلب۔۔۔سچ میں آپ اُس لڑکی کو اپنا دل دے بیٹھے ہیں۔۔۔پلیز سچ بتائیے گا مجھے۔۔۔۔“  اپنی حیرانگی پر قابو پانے کی ناکام کوشش کرتا وہ پُریقین سا عائل کو بری طرح ٹھٹھکانے پر مجبور کرگیا۔

”بچ جاؤ میرے ہوہاتھوں سےشام۔۔۔۔بہت سوال پوچھنے لگے ہو اب تم مجھ سے۔۔۔“  عائل نے بات کو بدلتے ہوئے اُسے واضح طور پر ٹالنا چاہا پر وہ ٹلنے کو ابھی تیار ہی کہاں تھا۔۔۔

”پلیزبھائی۔۔۔آپ اب بات گھومائیں نہیں۔۔۔۔آئی ایم سریس یار۔۔۔۔“  قدرے سنجیدگی سے پیشانی پر بل ڈالتا وہ ضد پر اتر آیا۔

ماحول کے ساتھ ساتھ اُسکے لہجے میں بھی قدرے دھیما تناؤ آگیا تھا۔

”اچھی لگتی ہے وہ مجھے۔۔۔۔بہت اچھی۔۔۔۔“  اپنے بھائی کے سامنے ہتھیار ڈالتا وہ دبے لفظوں میں آرام سے اعتراف کرگیا۔

بالوں میں ہاتھ چلاتے اُسکے لب بےاختیار مسکرانے لگے تھے۔

”اٹس مین یور آر اِن لوَ بھائی۔۔۔۔فائنلی یوآر اِن لوَ۔۔۔۔“  فقط اُس لڑکی کے لیے عائل کے لب ولہجے سے ٹپکتی چاشنی اور محبت ملاحظہ کرتے ہوئے وہ جیسے اُسے باور کروانے سے ذیادہ دھیمے لہجے میں بولتا ہوا خود کو یقین دلارہا تھا۔

جواب میں وہ  بنا جھجکے سر تائید میں ہلاتا شام کا موڈ صحیح معنوں میں تباہ کرگیا۔

اُسکے دل میں بےاختیار جلن اور اُس اجنبی لڑکی کے لیے نفرت سی ابھرنے لگی تھی۔

”اُسے بھی معلوم ہے یہ بات۔۔۔۔۔؟؟؟“  اگلے ہی پل وہ سرجھٹکتا بظاہر  دلکشی سے مسکرایا تو عائل گہری ہوتی مسکراہٹ سمیت نفی میں سر ہلاگیا۔

”تمھارے علاوہ کسی کو بھی نہیں پتا۔۔۔۔اور موم کو تو بالکل بھی نہیں۔۔۔جب تک میں نہیں کہوں گا تم اپنا منہ بند ہی رکھوگے۔۔۔سمجھ گئے۔۔۔۔“  اُسکے پل پل سلگتے احساسات سے قطعی انجان سنجیدگی سے شہادت کی انگلی اُسکی جانب اٹھاتا وہ وارن کرنے والے انداز میں بولا۔

شاید اُسے فکر تھی کہ کہیں اگر عائمہ بیگم کو معلوم پڑگیا تو وہ حاویہ کا اسٹیٹس کلیئر ہوتے ہی اُسے ریجیکٹ کردیں گی اور ایسا وہ بالکل بھی نہیں نہیں چاہتا تھا۔

معلوم تو یہ شام کو بھی اچھے سے تھا لیکن وہ فی الوقت ایسی ویسی کوئی بھی بات بول کر عائل کی مسکراہٹ کو اُسکے لبوں سے جدا نہیں کرنا چاہتا تھا۔

”آپ بےفکر رہےہیں بھائی۔۔۔۔آپکا یہ سیکرٹ بوائے لائف ٹائم گرنٹی کے ساتھ ہمہ وقت ایویل ایبل ہے۔۔۔۔“ آنکھ دبا کربولتے ساتھ ہی شام نے اپنے لبوں پر ان دیکھی زپ کو بند کرتے کڑا اطمینان دلایا تو عائل اُسکے اسٹائل پر اس بار کھل کر ہنس پڑا۔

تبھی ادھ کھلے دروازے کو مکمل وا کرتی آمنہ کسی کام سے بے دھڑک روم میں داخل ہوئی لیکن عائل کے ساتھ شام کی تمام تر توجہ خود پر سمٹتی دیکھ حقیقتاً  بوکھلاگئی۔

”تم میں سینس نام کی کوئی چیز نہیں ہے کیا جو یوں منہ اٹھا کر سیدھا اندر گھسی چلی آرہی ہو۔۔۔۔؟؟؟ کسی کے روم میں آنے سے پہلے ناک کیا جاتا ہے۔۔۔۔پھر پرمیشن لے کر اندر آتے ہیں۔۔۔۔جاہل لڑکی۔۔۔۔“  اپنے اندر کی کھولن بےاختیار اُس پر اتارتا وہ اُسے پوری طرح سہما گیا تھا۔

”شام۔۔۔۔۔“  اُسکے اچانک سے بگڑنے پر چونکتا عائل تنبیہی انداز میں گویا ہوا۔

”بھائی۔۔۔اس کو اتنا سر پر چڑھا کر مت رکھا کریں یار۔۔۔۔“  سر جھٹکتا وہ خود پر بمشکل ضبط کرنے لگا تو آمنہ اپنی تذلیل پر بھیگتی آنکھوں سمیت اگلے ہی پل وہاں سے بھاگتی چلی گئی۔

”تم جانتے ہو ناں مجھے ایسا بےہیویر بالکل پسند نہیں۔۔۔۔پھربھی تم۔۔۔۔“  آمنہ کے وہاں سے ہٹتے ہی وہ قدرے تاسف سے بولتا لب بھینچ کررہ گیا۔

”اچھا ناں سوری۔۔۔۔۔۔“  اپنی بےاختیاری پر گہرا سانس بھرتے اُسے عائل کی عدم مسکراہٹ کا شدت سے احساس ہوا تو لاڈ سے بولتا وہ فوری معذرت کرگیا۔

”تم کبھی نہیں سدھرو گے۔۔۔۔۔۔“  اُسکے سر پر ہلکی سی چپت لگاتا آخر میں وہ ہولے سے مسکرادیا تو شام بھی اس جملے پر سرشار سا مسکراتا اپنے بالوں میں لاپرواہی سے ہاتھ چلانے لگا۔

************************

رات قطرہ قطرہ بیت رہی تھی لیکن  بےچینی سے کروٹیں بدلتے دو وجود نیند سے کوسوں دور بظاہر آنکھیں بند کیے اپنی اپنی سوچوں میں پوری طرح منمہک تھے۔

”اپیہ۔۔۔سچی مح۔۔۔۔بت کی نشانی کیا ہوتی ہے۔۔۔۔؟؟؟“  زوروں سے دھڑکتے دل پر اپنا نازک ہاتھ جمائے وہ بےقرار سی حرمین کی جانب کروٹ بدلتی لفظ”محبت“ پر اٹکی تھی۔

خود کے اندر پنپتے ناقابلِ بیان احساسات نے اُسے اپنی ہچکچاہٹ کو روندتے یہ سوال پوچھنے پرحددرجہ مجبورکردیا تھا۔

مگر وہ بنا کوئی ردِ عمل ظاہر کیے یونہی بے حس و حرکت آنکھیں میچے لیٹی پڑی تھی۔دماغ اس سمے لاتعداد الجھنوں کا شکار تھا جسے سلجھانا اُسکے لیے فی الوقت حد سے ذیادہ مشکل مرحلہ ثابت ہورہا تھا۔

”بولیں ناں اپیہ۔۔۔۔“ مقابل کی حالت سے بےبہرہ وہ اس بار اپنا اعتماد قدرے بحال کرتی اُسے بازو سے جھنجھوڑگئی تو وہ دھیرے سے اپنی نیند کے خمار سے سرخ پڑتی آنکھیں کھول گئی۔

”کیا۔۔۔۔۔؟؟؟“  سیاہی مائل لبوں نے ہولے سے آواز نکالی تھی۔

”اپیہ۔۔۔۔مجھے آپ کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی۔۔۔کچھ ہوا ہے کیا۔۔۔۔؟؟؟بتائیں مجھے۔۔۔۔“  اگلے ہی پل اپنی کیفیات کو فراموش کیے وہ اُسکی بکھرتی حالت پر پھر سے غور کرتی اس بار حددرجہ فکرمند دکھائی دی۔

حرمین جب سے گھر آئی تھی عجیب سی خاموشی اختیار کیے بس اپنے کمرے میں ہی بند پڑی تھی۔حتیٰ کہ بیگم نفیسہ کے مجبور کرنے پر کھانا بھی ٹھیک سے نہیں کھایا تھااُسنے۔

یہ سب بقول اُسکے محض تھکاوٹ کی علامات تو نہیں ہوسکتی تھیں۔۔۔۔۔

جواب میں حرمین نے نفی میں گردن ہلاتے مسکرانے کی ناکام سی کوشش کی تھی۔

”توپھر۔۔۔۔؟؟؟کہیں ذباب جیجو کی یاد تو نہیں آرہی آپکو۔۔۔۔ہممم۔۔۔۔بولیں بولیں۔۔۔؟؟صحیح کہہ رہی ہوں ناں میں۔۔۔؟؟انہی کی یاد ستارہی ہے ناں آپکو۔۔۔۔؟؟“  دوسرے ہی پل ٹھوس وجہ تلاشتی وہ پُرجوش سی مزید اُسکی جانب کھسک گئی۔

بھرپور تصدیق چاہتے ہوئے اب فکرمند نقوش شرارتی مسکراہٹ میں ڈھلے تھے۔

”نہیں۔۔۔ شام کی۔۔۔۔“  غوروفکر سے  قطعی لاتعلق  اُسکے لب اس پل شدتِ بےبسی سے پھڑپھڑائے جسے بمشکل سماعتوں میں گھولتی حاویہ اپنی جگہ ٹھٹھک کر رہ گئی۔

”شام۔۔۔۔۔یہ آپ کیا بات کررہی ہیں اپیہ۔۔۔؟؟؟“  توقع کے برعکس حرمین کے منہ سے ذباب کی جگہ کسی اور کا نام سنتے ہی حاویہ کی چھوٹی سی پیشانی پر بےاختیار تیوری چڑھی۔

”کیونکہ آج اُسنے میری عزت کو تار تار ہونے سے بچایا حاوی۔۔۔۔اپنی جان کی پروا کیے بغیر وہ اُن اوباشوں سے لڑمرنے کے لیے تیار تھا۔۔۔فقط میرے لیے۔۔۔۔اگر اُس پل وہ مسیحا بن کر بروقت مجھ تک نہیں پہنچتا تو شاید اب تک میں کسی ویرانے میں کوڑے کے ڈھیر کی طرح پڑی اپنی آخری سانسیں بھررہی ہوتی۔۔۔۔یاں پھر ممکن تھاکہ تم لوگوں کو ڈھونڈنے کے باوجود بھی میری لاش نہ ملتی۔۔۔۔“ وہ یہ سب شدت سے بولنا چاہتی تھی۔

اپنے اندر کافی دیر سے چیختی ان سرسراتی سرگوشیوں کو بآواز بلند زبان پر لانا چاہتی تھی پر ہنوز خاموشی اختیار کیے وہ چاہ کر بھی یہ سب بول نہیں پارہی تھی۔

اور وجہ صاف تھی۔۔۔۔

اپنی پریشانیوں کو وہ ہمیشہ کی طرح اپنے اندر تو سمیٹ سکتی تھی مگر اپنی وجہ سے اپنوں کو تکلیف دینے سے قطعی گریزاں تھی۔

”اپیہ۔۔۔آپ کچھ تو بولو چپ کیوں ہو۔۔۔؟؟جواب دو ناں مجھے۔۔۔ذباب جیجو کی جگہ آپ شام کو کیوں سوچ رہی ہو۔۔۔۔؟؟“  دماغ پر زور ڈالتے وہ شام کی بابت کچھ کچھ اندازہ تو لگاہی چکی تھی تبھی تھوڑا تلخ ہوتی اُسکی طویل مگر چیختی خاموشی کو شدت سے محسوس کرتی وہ اُسے جھنجھوڑ کر اُس کی توجہ اپنی جانب کھینچ گئی۔

دل میں بہت سے خدشے گھر کرنے لگے تھے۔

”پلیز حاوی اس وقت مجھ سے کچھ بھی مت پوچھو۔۔۔۔اس وقت میری ایسی حالت نہیں ہے کہ تمھاری کسی بھی بات کا جواب دےسکوں۔۔۔میں بہت تھک گئی ہوں۔۔۔۔اور اب صرف سونا چاہتی ہوں۔۔۔۔صرف سونا۔۔۔۔“  اُسکے پل پل بگڑتے لہجے اور سوالوں کی بےتابانہ بوچھاڑ سے عاجز آتی وہ اپنی نم پڑتی آنکھوں سمیت  تڑخ کر بولتی ہوئی اگلے ہی پل اُسے چپ کرواگئی۔ 

”اپیہ۔۔۔۔۔“  حرمین کو مخالف سمت کروٹ بدلتا دیکھ وہ دوسرے کمرے میں سوئی بیگم نفیسہ کی نیند خراب ہونے کے ڈر سے بےبس سی منمناکررہ گئی۔

البتہ اُس کے سلگتے لہجے کی کڑواہٹ بمشکل اپنے اندر اتارتے ہوئے اُسکی سوچوں کا محور و مرکز عائل کی جگہ اب اُسکا بھائی تھا۔

************************

چمکتے ستاروں سے محروم سیاہ و تاریک آسمان میں وقفے دقفے سے کڑکتی بجلیاں اور بادلوں کی کان پھاڑتی گڑگڑاہٹ ماحول میں اس وقت وحشت بھری ہولناکیاں برپا کررہی تھی۔

مگر وہ اپنے روم میں موجود ہر شے کے خوف سے بےبہرہ آنکھیں موندے کش پر کش بھرتا جارہا تھا۔پاس پڑا ایش ٹرے جلی بجھی سگریٹوں سے بھرا اس بات کی واضح تصدیق کررہا تھا کہ وہ وجود اپنی صحت کی پرواہ کیے بغیر اب تک تین سے چار سگریٹ کے پیک ختم کرچکا تھا۔

مگر سکون اُسے کم سے بھی کم میسر آیا تھا جو فی الوقت اُسکے لیے کسی بھی طور کافی نہیں تھا۔

بند آنکھوں کے پار مسلسل اُس پری پیکر کا چہرہ گھوم رہا تھا جو اُسکی غیر ہوتی حالت کی ذمہ دار تھی۔

کچھ ہی پلوں میں انگلیوں کے بیچ دبا یہ سگریٹ بھی ختم ہوا تھا جس پر شاہ مزید ایک اور سگریٹ کا مزہ لینے کے لیے بے اختیار اپنی آنکھیں کھول گیا۔

پر اگلے ہی پل اپنی لہورنگ آنکھوں کے سامنے وہ اُسے پورے وجود سے مسکراتی ہوئی نظرآئی تو وہ پل بھر کو چونکتا بےاختیار ٹیک چھوڑگیا۔

ایک وقت تھا جب وہ اُسکی بے وقت آمد پر بوکھلاکر پسینہ پسینہ ہوجایا کرتا تھا۔

پر اب تو جیسے اُسے اس بن بلائی آفت کی خاصی عادت سی ہوگئی تھی جس پر وہ محض لمحہ بھر کے لیے چونکنے پر ہی اکتفا کرتا تھا۔

البتہ نفرت کا گہرا سمندر تیزی سے اپنی جگہ رواں دواں تھا۔

”تم۔۔۔۔۔؟؟؟تم پھر آگئی۔۔۔۔؟؟؟“  اُسکے وحشتوں بھرے چہرے سے ہمیشہ کی طرح خار کھاتا وہ حقیقتاً چٹخ گیا۔

”میں تو ہمیشہ ہی تمھارے پاس ہوتی ہوں۔۔۔۔بس تمہی کو  مجھے دیکھنے کی فرصت نہیں ملتی۔۔۔۔“  اُسکی سخت چڑچڑاہٹ کا جواب بظاہر نرمی سے دیتی وہ ہرپل سلگتی قدم قدم اُسکی جانب بڑھنے لگی۔

”ہونہہ۔۔۔۔تم صرف میری تکلیف پر جشن منانے ہی میرے پاس آتی ہو۔۔۔اور اب بھی اسی لیے آئی ہو تاکہ دل کھول کر میری بےبسی کا تماشہ دیکھ سکو۔۔۔۔میری ہار کا شدت سے مزہ لینے کی تڑپ تمھارے وجود کو پل پل جھلسائے دیتی ہے۔۔۔۔تم مجھ سے فقط میری بربادی ہی چاہتی ہو۔۔۔ہے ناں۔۔۔۔؟؟؟یہی سب چاہتی ہو ناں تم۔۔۔؟؟“  اُسکی دلی آرزوؤں کو سلگتے لفظوں کی صورت بیان کرتا وہ اُسے حددرجہ مسرورکرگیا۔

”ہاہاہاہا۔۔۔۔۔جب تم میرے بارے میں سب جانتے ہو تو بار بار پوچھتے کیوں ہو۔۔۔۔؟؟؟“  مقابل کی بات پر دل کھول کر قہقہ لگاتی سوال کے بدلے سوال کرتے ہوئے اسکے حددرجہ نزدیک پہنچ چکی تھی۔

”پر افسوس جو تم  اب تک یہ نہیں جان پائی کہ میری شکست دیکھنا تمھاری ایک ادھوری خواہش ہے جسے تم چاہ کر بھی کبھی پورا نہیں کرپاؤ گی۔۔۔“  اپنے مضبوط کندھوں پر اُسکے دھواں دھواں ہوتے نازک بازوؤں کو لپٹا دیکھ وہ شدید غصے میں بھی مسکراتا اُسے آگ لگاگیا۔

”تمھاری گھٹیا سوچ پر مجھے ہمیشہ سے افسوس ہوتا آیا ہے۔۔۔۔کیا یہ بےبسی تمھارے لیے کافی نہیں جو تم ناچاہتے ہوئے بھی مجھے میری مرضی کے مطابق دیکھنے کے پابند ہو۔۔۔۔؟؟“  قدرے سکون سے بولتی وہ اُسکے لبوں سے دلفریب مسکراہٹ نوچ گئی تھی۔

”او یو جسٹ شٹ اپ۔۔۔۔تم اسے میری بےبسی کا نام ہرگزنہیں دے سکتی۔۔۔۔کیونکہ مجھے اس پر بھی خاصا اختیار حاصل ہے۔۔۔سمجھی تم۔۔۔“  درشتگی بھرے لہجے میں اُسکے دل جلادینے والے لفظوں کی شدت سے نفی کرتا وہ اپنی بات ثابت کرنے کی غرض سے اگلے ہی پل سختی سے آنکھیں میچے اُسے اپنی نظروں سے غائب کرگیا۔

وہ اُسکے ضد جتانے والے اِس انداز پر بےساختہ زہرخند لہجے میں مسکرائی۔

”مان لو شاہ میر حسن۔۔۔۔بےبس ہو تم میرے آگے۔۔۔۔۔۔“  اُسکے کان کے قریب جھک کر سرگوشی کرتی وہ پھر سے اپنی کھنکھناتی ہنسی زہر کی مانند اُسکے کانوں میں انڈیل گئی۔

کیونکہ مقابل شدت سے چاہنے کے باوجود بھی ایک بےضرر عکس کے بازوؤں کا  پل پل تنگ ہوتا نامحسوس گھیرا خود پر سے ہٹانہیں پایا تھا۔

****************************

وہ پل پل بڑھتے غصے اور بےچینی پر بمشکل قابو پائے ہال نما کمرے میں اِدھر سے اُدھر چکر کاٹ رہا تھا۔

سامنے ہی دیوان صوفے پر گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے تابین بائی اُسکی ہر حرکت کا مشاہدہ کرتی بے چین ہورہی تھیں جو بیچ بیچ میں گھڑی کی سوئیاں دیکھنے کی غرض سے رک بھی جاتا۔

تابین بائی کے وجود میں بھرتی بے چینی کی اصل وجہ اُسکی پہلی دفعہ دن دیہاڑے  بےوقت آمد تو تھی ہی مگر ساتھ میں گولڈ کی وہ بریسلٹ بھی اُنکی بےتابی کو بڑھا رہی تھی جو سالار خان اپنی محبت میں ڈوب کر فقط رابی کے لیے لایا تھا۔

”اور کتنی دیر لگے گی اُسے آنے میں۔۔۔۔؟؟؟“  قدرےجھنجھلا کر بولتا وہ تیسری بار تابین بائی کی جانب لپکا تو وہ اپنی ٹانگیں دبیز قالین پر جماتی اُسکی بےصبری پر ٹھنڈی آہ بھرکررہ گئیں۔

”آجائے گی۔۔۔۔“  مختصر جواب دیتی وہ حقیقتاً مقابل کی برداشت

آزماگئی تھیں۔

”کیا آجائے گی۔۔۔۔؟؟تین گھنٹے ہونے کو آئے ہیں اور ابھی تک اُسکا دور دور تک کوئی اتا پتہ نہیں ہے۔۔۔۔نہیں کہاں۔۔۔؟؟؟ہے کہاں وہ۔۔۔۔؟؟خدا کا واسطہ ہے کچھ تو بول دیں۔۔۔۔“  تابین بائی کا تب سے ایک ہی راگ الاپنے پر وہ تڑخ کر بولتا کڑے تیوروں سے استفسار کرنے لگا تو وہ اپنی موٹی کمر پر  چوڑیوں بھرے دونوں ہاتھ جماتی اُسے سخت نظروں سے گھورنے لگیں۔

”میرے سامنے اتنا اچھلنے کی ضرورت نہیں ہے تمھیں بابو۔۔۔۔اگر نہیں انتظار ہورہا تو یہ بریسلٹ مجھے دے دو اور چلتے بنو یہاں سے۔۔۔۔خواہ مخواہ میں خود کا وقت بھی ضائع کررہے ہو اور میرا بھی۔۔۔۔“  ہاتھ نچانچا کر نخوت سے بولتی وہ ایکدم اُسکے قریب ہوتی چوڑے سینے پر دباؤ ڈالے اُسے آدھا قدم پیچھے دھکیل گئیں تو وہ مٹھیوں سمیت لب بھینچ کررہ گیا۔

”کہیں آپ نے اُسے اپنے دباؤ میں لاکر کسی امیرمرد کے پاس۔۔۔۔“  دبیز قالین پر پُرسوچ نظریں جمائے وہ اپنے دماغ کے محدود میدان میں عقل و شہبات کے تیز گھوڑے دوڑاتا پھنکارا جب اُسکی بات بیچ میں کاٹتی وہ اُس سے دوگنا بھڑک اٹھیں۔

”یہ کیا بکواس کررہے ہو تم۔۔۔۔؟؟پاگل تو نہیں ہوگئے۔۔۔۔؟؟وہ شاپنگ کرنے گئی ہے۔۔۔سمجھے۔۔۔شاپنگ کرنے۔۔۔۔چاہو تو یہاں پرکسی سے بھی پوچھ سکتے ہو۔۔۔۔“  اُسکے اس حد تک چلے جانے پر تابین بائی پھاڑ کھانے والے انداز میں اُس پر برستی اُسے پل میں کڑا اطمینان دلاگئی تھیں۔

اُنکے شدومد سے نفی کرنے پر اُسکے دل کو دھاڑس سی ملی تھی۔

وہ صرف اسکی تھی یہ سوچ کر سالار کے رگ و پے میں سکون سا اتراآیا۔

تابین بائی پیسے کی خاطربغیرتی کی ساری حدیں پار کرنے کی قائل تھیں لیکن صد شکر تھاکہ اس حد تک کبھی نہیں گئی تھیں۔پل بھر کو اُن کے اس احسان پر خوش ہوتا وہ اس بات کا اعتراف کرگیا۔ 

”تم ایسا کرو یہ بریسلٹ مجھے دےدو۔۔۔خدا قسم میں رابی تک اُسکی یہ امانت صحیح سلامت پہنچا دوں گی۔۔۔۔“  سالار خان کو آپ ہی آپ مسکراتا دیکھ وہ تاسف سے سر جھٹک گئیں۔

اور اُسکی مٹھی میں جکڑا بریسلٹ کا چمکتا سرا نگاہوں میں بھرتے  بے دھڑک آگے بڑھ کر اُسے اپنے قبضے میں لینا چاہا جب اپنے دلفریب خیالوں سے چونکتا وہ اپنا ہاتھ بے اختیار اوپر کو اٹھاتا اُنھیں بےبس کرگیا۔

”یہ بریسلٹ میں آپکے حوالے کردوں۔۔۔۔؟؟ہونہہ۔۔۔۔مجھے دماغ سے کھسکا ہوا سمجھ لیا ہے کیا۔۔۔۔؟؟جس کی یہ چیز ہے میں اُسے خود دے دوں گا۔۔۔۔آپ کو فکر کرنے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔ہممم۔۔۔۔“  تابین بائی کے بیس سے چمکتے ماتھے پر لاتعداد بل پڑتے دیکھ وہ ہتک آمیز لہجے میں بولتا اُنھیں سلگتے انگاروں پر لوٹا گیا۔

”بہت ہی کوئی بدتمیز انسان ہو تم۔۔۔۔اللہ بچائے تم جیسوں کے شر سے۔۔۔۔نجانے میری معصوم سی بچی تمھارے چنگل میں کیسے پھنس گئی۔۔۔؟؟مجھے تو حیرت ہوتی ہے سوچ سوچ کر۔۔۔۔“  اُس سمیت بریسلٹ پر بھی بمشکل لعنت بھیجتی وہ فی الوقت اپنی لالچی کو تھپکی دے کر سلاچکی تھیں۔

”حالانکہ ابھی تک میں نے آپ کے سامنے اپنی تھوڑی سی بھی بدتمیزی کا عملی مظاہرہ نہیں کیا۔۔۔۔لیکن جس دن میں نے واقعی میں آپکو اپنا آپ دکھادیا ناں۔۔۔۔تو حقیقتاً مجھ جیسوں کے شر سے اپنے رب کی پناہیں مانگتی پھریں گی آپ جیسیاں۔۔۔۔“  رابی اور خود کے تعلق کی بابت اُنکی حددرجہ پھسلتی زبان سے ناپسندیدہ تبصرہ سن کر سالار خان نے قدرے بگڑے موڈ کے ساتھ اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے اپنے سارے حساب بےباک کرڈالے۔

جس پر وہ اندر تک کلستی نیلی ساری کا پلو تھامے واپس صوفے پر براجمان ہوں چکی تھیں۔

اتنی دیر اُس خوبرو نوجوان کے مقابل کھڑے رہ کر مقابلہ بازی کرنا اُنکی عمر کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا تھا۔

”اب جبکہ تم نے اپنی طرف سے خود پر شریفوں کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے لیکن میری نظروں میں پھر بھی بدتمیز ہی ہو۔۔۔یقین کرو تم جیسا بدلحاظ اور بےغیرت شخص واقعی میں،میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔۔۔۔“  بظاہر نرم لہجے میں طنز و مزاح کے نشتر اُسکے وجود میں پیوست کرتی وہ اُسے مکمل طور پر زچ کرنے کے در پر تھیں جب وہ خود پر سے پل پل ضبط کھوتا لمبی سانس بھر کے رہ گیا۔

”اللہ مجھے صبر دے اس مکار عورت کی چلتربازیوں پر۔۔۔۔رابی کی دیرآمدکا کڑوا گھونٹ تو میں جیسے تیسے بھی کرکے پی لوں گا۔۔۔لیکن اگر آپکی بکواس سننے کے لیے مزید یہاں ٹھہرا تو حقیقتاً اپنا ضبط کھو بیٹھوں گا۔۔۔۔جبکہ میرا دل اپنی رابی کو ناراض کرنے پر ذرا بھی آمادہ نہیں ہے۔۔۔۔اسی لیے جارہا ہوں میں یہاں سے۔۔۔۔ہونہہ۔۔۔۔“  اپنے خالق ِیکتا سے زیرِلب مدد طلب کرتا اگلے ہی لمحے وہ تابین بائی پر اُنکی اوقات ظاہر کرگیا اور اُنکے سرخ لبوں کی مسکراہٹ چھینتے تن فن کرتا وہاں سے نکلتا چلاگیا۔

”تو جاؤ میری بلاسے کہیں بھی۔۔۔۔آیا بڑا۔۔۔۔۔۔کمینہ کہیں کا۔۔۔۔“  کمرے کا دروازہ زور سے بند ہونے پر وہ قدرے تلخی سے بڑبڑاتی اگلے ہی پل سوچوں کی دلدل میں پھنستی چلی گئیں جس کا محور و مرکز یقیناً رابی ہی تھی۔

**************************

آج وہ دونوں کافی عرصے بعد شام کے اصرار پر اُسکے گھرآئے تھے اور اس وقت اُن کے شاندار ڈرائنگ روم میں بیٹھے گپ مارنے میں مصروف تھے۔

فواد اور افروز شام کے گھر آنے سے اکثر کتراتے تھے جسکی مین وجہ عائل اور حسن صاحب تھے جو اُنکو کچھ خاص پسند نہیں کرتے تھے۔

یہی وجہ تھی کہ وہ جب بھی شام کے گھر آتے تو اُن دونوں اکڑ باپ بیٹے کی غیرموجودگی میں ہی آتے یاں پھر اپنا ذیادہ وقت مستی میں اُسکے ذاتی فارم ہاؤس میں گزاردیتے۔

اسکے برعکس عائمہ بیگم فقط اپنے لاڈلے بیٹے کی خوشی کی خاطر اُن دونوں کا ہربار خوشدلی سے استقبال کیا کرتی تھیں۔

”دیکھا تھا تم لوگوں نے اُسے۔۔۔۔کیسے بار بار مسکراکر صرف مجھے ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔مطلب سمجھ رہے ہوں ناں اس بات کا۔۔۔۔؟؟؟“  ڈرائی فروٹ کی ٹرے میں سے مونگ پھلی اٹھاتے افروز کی پیٹھ پر ہولے سے دھپ مارتا وہ پرجوش سا بولا تو وہ پل بھرکو چونکتا سر ہلاگیا۔

آج یونی میں حرمین نے بارہا شام کو اپنی نظروں کے سامنے دیکھا تھا جو کبھی اُسکے لیکچر ٹائم پر کلاس کے باہر کھڑا کسی سے محوِ گفتگو ہوتا۔

کبھی اپنے فرینڈز کے ساتھ لائبریری میں تو کبھی کیفے میں۔۔۔۔

بار بار دل دھڑکا دینے والے اِس اتفاق پر جی بھرکر حیران ہوتی وہ ہر بار اُسے دیکھ کر احسان کے بوجھ تلے خوشدلی سے مسکرادیتی جس پر بھرپور حظ اٹھاتا شام اپنی چالاکیوں پر دلکشی سے مسکراتے مزید اُسکا نازک دل دھڑکا جاتا۔

اِس بڑی تبدیلی کو اُن تینوں کے علاوہ دوسروں نے بھی خاصے تجسس کے ساتھ محسوس کیا تھا۔

 ”مطلب ہاتھ گئی چڑیا دھیرے دھیرے دام میں پھنس رہی ہے۔۔۔۔“  افروز کی بجائے فواد نے جواب دیا تو شام شہادت کی انگلی اُسکی جانب جھٹکتا پرجوش سا چلایا۔

”یہ بات۔۔۔۔۔“  

”مونگ پھلی میں چھلکے اور لڑکیوں میں نخرے نہیں ہوتے تو زندگی کتنی آسان ہوتی ناں۔۔۔۔؟؟؟آہ۔۔۔۔سالے۔۔۔۔“  اپنی پسندیدہ مونگ پھلی چھیلتے وہ تاسف زدہ لہجے میں بولا تو اُسکے ڈرامائی انداز پر بدمزہ ہوتا شام اگلے ہی پل اُسکی کمر پر زور کا دھموکا جڑ گیا۔

”اتنی انسلٹ کروانے کے بعد بھی وہ چڑیل تیرے دماغ سے نہیں نکلی ناں۔۔۔۔؟؟؟“  رابعہ کی بابت پوچھتا وہ چڑچڑا سا ہوا۔

”نام بھی مت لے اُس چڑیل کا میرے سامنے۔۔۔۔میں اُسے چھوڑ کر باقی ساری لڑکیوں کی بات کررہا تھا۔۔۔۔اچھا چھوڑ اور ہمیں اپنے کارنامے کے بارے میں بتا۔۔۔۔ایسا کیا جادو کردیا تُونے اُس ملانی پر۔۔۔۔؟؟مطلب ایک عدد فیوچر فیانس کے باوجود بھی تجھ جیسے فلرٹی پر چانس ماررہی ہے۔۔۔بندہ بھی وہ جو ہروقت گرلفرینڈز جیب میں لیے گھومتا ہے۔۔۔۔“  شام کے صحیح اندازے پر مصنوعی غصہ دِکھاتا وہ فٹ سے لائن پر آیا تھا۔ حالانکہ ایک بھی رات ایسی نہیں گزری تھی جس میں وہ اُس دل جلی کے خوبصورت نقوش کو یاد کرتا خود نہ جلا ہو۔

” ابے کہاں یار۔۔۔۔؟؟آجکل اُس ملانی کی نظروں میں اچھا بننے کی خاطرساری گرلفرینڈز سے مجبوراً دوری اختیار کررکھی ہے میں نے۔۔۔۔اور کچھ جلن کی وجہ سے خود ہی دور ہو گئیں۔۔۔۔“  افسردہ لہجے میں بولتا وہ سر جھٹک گیا جب دونوں نے اپنے بیچ بیٹھے اپنے کمینے دوست کو گھورکردیکھا۔

”صرف یونی ایریا کے اندر اندر۔۔۔۔باہر تو تُو پھر بھی باز نہیں آتا جھوٹے۔۔۔۔“  اب کے فواد نے اُسکے مضبوط کندھے پر دھموکا جڑتے حقیقت کھول کر سامنے رکھی۔

”تو جلتا رہ بس۔۔۔۔۔“  کندھے پر اٹھنے والے دھیمے درد کو سرے سے نظرانداز کرتا وہ بالوں میں ہاتھ چلاتے ہنس کر گویا ہوا۔

تبھی آمنہ عائمہ بیگم کے فوری حکم پر ٹرے میں تین بڑے بڑے چائے کے مگ سجائے قدرےجھجھک کر اندر داخل ہوئی۔

تینوں نے اپنی باتیں روک کر اُسکی طرف متوجہ ہوئے۔

شام تو اُسے سرسری سا دیکھ  کر اگلے ہی پل کوفت سے اپنی نگاہیں پھیر چکا تھا مگر وہ دونوں ابھی بھی اُسکے دوپٹے میں چھپے سراپے کو تفشیشی انداز میں گھوررہے تھے۔

”صاحب۔۔۔۔چائے۔۔۔۔“  اپنے چھوٹے صاحب کے آوارہ دوستوں کی خود پر جمی نظریں شدت سے محسوس کرتی وہ جلدی سے آگے بڑھی اور ٹرے اُنکے سامنے رکھ کرجانے کے لیے پلٹی ہی تھی جب اچانک سے افروز نے اُسے پیچھے سے آواز لگائی۔

”رکو۔۔۔مجھے یہ بسکٹ کی پلیٹ بھی پکڑاتی جاؤ۔۔۔۔اتنی دور کون پاگل رکھتا ہے۔۔۔۔؟؟“  دو ہاتھ کے فاصلے پر رکھی بیکری بسکٹس سے بھری پلیٹ کی جانب آنکھ سے اشارہ کرتا وہ ڈپٹنے والے انداز میں بولا تو وہ بمشکل تھوک نگلتی اثبات میں سر ہلاگئی۔

”یہ ل۔۔۔یں۔۔۔صاحب۔۔۔۔“  جیسے ہی آمنہ ٹھوڑی کے نیچے سے دوپٹے کو کس کر پکڑے پلیٹ اٹھاتی اُسکی جانب بڑھانے لگی تو افروز نے  پلیٹ کی بجائے سرعت سے ہاتھ آگے بڑھا کر اُسکی نازک کلائی کو اپنی گرفت میں جکڑلیا۔

آنکھوں میں واضح کمینگی چمک رہی تھی جبکہ فواد آمنہ کے پوری طرح بوکھلا کر ہراساں ہونے پر لطف لیتا کھل کر ہنس پڑا۔

”صص۔۔۔۔صاحب۔۔۔ہمارا۔۔۔ہاتھ۔۔۔ہاتھ چھوڑو صاحب۔۔۔۔“  اُسکی زہر لگنے والی مسکراہٹ کو دیکھ کر روہانسی انداز میں بولتی وہ رودینے کو تھی۔

اُسکی ہوس بھری آنکھوں میں جھانکتے اس پل اُسے کیا کچھ یاد نہیں آیا تھا۔۔۔۔گزرے وقت کی تلخ یادیں پھر سے اُسکے حواسوں پر طاری ہوتی اُسے مقابل سے شدید نفرت کرنے پر مجبور کرگئیں۔

تبھی اُسکے کپکپاتے ہاتھ سے چھوٹتی پلیٹ کو تب سے خاموش بیٹھ کرتماشہ دیکھتے  شام نے آگے بڑھ کر نیچے گرنے سے بچایا تھا۔افروز پر ایک ضبط بھری نگاہ ڈالتا اگلے ہی پل وہ اُسکی سخت گرفت سے آمنہ کی سرخ  کلائی چھڑواگیا تو وہ جھٹکے سے دور ہوئی۔

”یاررر۔۔۔۔۔شام۔۔۔۔۔“  اُسکی حرکت پر جی بھر کر بدمزہ ہوتا وہ اندر ہی اندر پیچ و تاب کھاکررہ گیا۔

یہ دیکھ کر فواد کی مسکراہٹ بھی سمٹی تھی۔

”دیکھ کیا رہی ہو۔۔۔۔؟؟چلو اب  دفع ہوجاؤ یہاں سے۔۔۔۔“  اُسکی آنسو ٹپکاتی تشکر بھری نگاہیں خود پر جمی دیکھ کر شام ایکدم سے اُس پر چلایا۔

”جج۔۔۔۔جی صاحب۔۔۔۔“  اُسکی دھاڑ پر بےاختیار اپنے دل پر ہاتھ رکھتی وہ تیزی سے ڈرائنگ روم کے دروازے کی جانب لپکی۔

”بعد میں یہ برتن آکر ضرور سمیٹ لینا۔۔۔۔ہمیں گندگی بالکل بھی پسند نہیں ہے۔۔۔سمجھی۔۔۔“  خود پر ضبط کرتا افروز پیچھے سے زور کی ہانک لگانا نہیں بھولا تھا جسے وہ سرے سے اَن سنی کرتی وہاں سے جاچکی تھی۔

”یار ہے تو یہ بھی بڑی مست چیز۔۔۔۔بس لیول سے آکر مارکھاگئی سالی۔۔۔۔“  مگ اٹھا کر لبوں سے لگانے سے پہلے فواد نے اپنی رائے دینا ضروری سمجھا۔

جہاں افروز کھلے دروازے کے پار دیکھتا سر ہلائے مسکرایا تھا وہیں پیشانی پر بل ڈالے اپنی آنکھوں سمیت لمبی پلکوں کو انگلیوں تلے مسلتا شام جھٹکے سے اُنکی جانب مڑا۔

”اب تم دونوں مجھ سے نہ مار کھالینا سالو۔۔۔۔چپ چاپ چائے پیواپنی ۔۔۔۔اگر عائل بھائی یہاں پر موجود ہوتے اور تمھاری یہ حرکت دیکھ لیتے ناں تو یقیناً تم دونوں کا اس گھر میں آنا جانا ساری عمر کے لیے بند ہوجاتا۔۔۔۔ہرجگہ بس شروع مت ہوجایا کروتم لوگ یار۔۔۔۔“  اُنہی کی فکر میں غصے سے دونوں کی کلاس لیتے اُسکا موڈ تقریباً غارت ہوچکا تھا۔

اگرچہ اُسکا لہجہ قدرے تلخ تھا مگر اُسکی بات سو فیصد درست تھی جسکا احساس اِس لمحے اُن دونوں کو ہی ہو چکا تھا۔

”کیا یاررر۔۔۔۔اب اپنے بھائی کی دھمکی دے کر تُو ہمیں انڈراسٹیمیٹ کرےگا کیا۔۔۔۔؟؟جانتا تو ہے مجھے۔۔۔۔میں اپنی عادت کی وجہ سے ذرا مجبور ہوں۔۔۔۔“  افروز اُسکے تنے نقوش دیکھتا قدرے غیرسنجیدگی سے گویا ہوا۔

”تیری مجبوری کی تو۔۔۔۔۔##(گالی)۔۔۔۔“  بےاختیار اُسکے سر پر ٹھوکتا وہ اُسکے سلیقے سےسنورے بال بکھیرگیا۔

جواب میں پاس پڑا کشن غصے سے اُسکی جانب اچھالتا وہ زیرِلب شام کو نت نئے القابات سے نوازنے لگا جب وہ کشن کیچ کرتا واپس اُنکے بیچ آکر بیٹھ گیا۔

” تُو بھی اپنی بتیسی اندر کرلے نہیں تو توڑدوں گا۔۔۔۔“  ایک سائیڈ پر لگے فواد کو دھمکی دیتے ہوئے وہ اپنے بال ساتھ ساتھ سیٹ کررہا تھا۔

فواد اثر لیے بغیرسرجھٹک گیا۔

”چھوڑ ناں اس فضول انسان کو۔۔۔۔یہ تو بکواس کرتا ہی رہے گا تو یہ بتا کہ وہ ملانی تیری طرف مائل کیسے ہوگئی۔۔۔۔؟؟؟“ سنجیدہ بیٹھے شام کو پھر سے سابقہ ٹاپک کی طرف دھکیلتا فواد اُسکا دھیان بھٹکانے میں کامیاب ٹھہرا تھا۔

اب کے افروز بھی چائے کی چسکیاں لیتا دلچسپی سے اُسے دیکھنے لگا۔

”اب اپنے ٹیلنٹ کے بارے میں کیا بتاؤں یاروں۔۔۔بس ذرا لمبی کہانی ہے۔۔۔۔۔“  بیک وقت اُسکے سیاہی مائل لبوں کی مسکراہٹ اور آنسوؤں سے لبا لب گہری سیاہ آنکھوں کو یادداشت میں تازہ کرتا وہ ہولے سے مسکرادیا۔

***************************

وہ قدرے فکرمند سا ماتھے پر سلوٹیں ابھارے اُسکے سامنے مجرموں کی طرح ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔

مگر فائل کے صفحے الٹ پلٹ کرتے مقابل کا اطمینان اس پل قابلِ دید تھا۔

تبھی خود کے حواسوں پر بمشکل کنٹرول کرتی آبرو پورے فکس ٹائم پرٹرے ہاتھوں میں تھامے اجازت لیتی روم میں داخل ہوئی۔

”سرآپکی کافی۔۔۔۔“  دھیمے لہجے میں بولتی وہ ٹرے میں سے کافی کا مگ اٹھا کر اُسکے سامنے ٹبیل پر رکھے دو قدم پیچھے ہٹ گئی۔

مگر شاہ نے بولنا تو دور اُسکی جانب دیکھنا تک گوارا نہیں کیا تھا جسکا اُسے شدت سے کھٹکا لگا۔

”بٹ سر آپ ایسے کیسے فائر کرسکتے ہیں مجھے۔۔۔۔؟؟؟حالانکہ میری کوئی غلطی بھی نہیں۔۔۔۔“  آبرو پر سے اپنی نظریں ہٹاتا رحمان شکایتی انداز میں بولا تو وہ شاہ کو دیکھتی صحیح معنوں میں چونکی۔

یہ پہلی بار تھا جب شاہ اُسکے سوال پر نہ صرف مسکرایا تھا بلکہ آبرو کے حیران نقوش پر پل بھر کے لیے جتاتی نگاہ ڈالتا واپس بھی موڑ گیا۔

”کیونکہ آپکا اور ہمارا ساتھ بس یہی تک خدا کو منظور تھا مسٹر رحمان اصغر۔۔۔۔اور پلیز غلطی پر غلطی دُہراکر اگرآپ اپنی بےوقوفی کا ثبوت نہیں دیں گے تو یہ ذیادہ بہتر رہے گا آپ کے لیے۔۔۔۔ناؤ یو کین گو فرام ہیر فارایور۔۔۔۔“  اپنے تاثرات ایکدم سے سپاٹ بناتا وہ دوبدو جواب دے کراُسکی بولتی پل بھر کو بند کرواگیا۔

وہ جو دس دنوں کی کڑی محنت کے بعد ایک امپورٹینٹ پروجیکٹ پر اپنی فائل کمپلیٹ کرتا شاہ کے پاس داد وصولنے کی غرض سے آیا تھا مگر آگے سے اُس کے سکون بھرے لہجے میں دیئے جانے والے آڈر پر اُسے خود کا سر چکراتا ہوا محسوس ہوا۔

”پلیز سر۔۔۔۔مجھے یوں جاب سے مت نکالیں۔۔۔اگر انجانے میں مجھ سے کوئی بھی مسٹیک ہوگئی ہے تو اس پر میں آپ سے تہے دل سے معافی مانگتا ہوں۔۔۔۔پر پلیز۔۔۔۔مجھ پر رحم کریں میرے سر پر میرے بیوی بچوں کی بھی ذمہ داری ہے۔۔۔۔ایسے میں۔۔۔میں اتنی جلدی دوسری جاب کہاں سے ڈھونڈوں گا۔۔۔۔؟؟پلیز سر۔۔۔۔“  اُسے کسی بھی طور قائل نہ ہوتا دیکھ رحمان بےبسی کی انتہا پر پہنچتا اب کی بار بھرپور منتوں پر اتر آیا۔

مگر نہ تو اُس بےحس کو فرق پڑنا تھا اور نہ ہی اُسے کوئی فرق پڑا تھا۔

اندر ہی اندر آبرو رحمان کی بےروزگاری کی ذمہ دار خود کو ٹھہرانے لگی تھی۔

” گیٹ آؤٹ۔۔۔۔مسٹر رحمان۔۔۔۔وہ رہا دروازہ۔۔۔۔“  اُسکے جوڑے ہاتھ اور تراتر چلتی زبان دیکھ کر دانت بھینچتے وہ باہر کی جانب اشارہ کرتا خود پر سے ضبط کھونے لگا جب رحمان کے لیے پریشان ہوتی آبرو ہمت جُٹاتی دو قدم آگے بڑھی۔

”سس۔۔۔سررر۔۔۔۔۔“  وہ کچھ بولنا چاہتی تھی مگرپل میں بپھرتے شاہ نے اُسے آواز نکالنے کا کوئی موقع ہی فراہم نہیں کیا تھا۔

”آئی سیڈ گیٹ آؤٹ۔۔۔۔اگر نہیں چاہتے کہ گارڈز کے ہاتھوں دھکے کھاتے ہوئے یہاں سے سب لوگوں کے سامنے بےعزت ہوکر جاؤ تو۔۔۔۔آؤٹ۔۔۔۔ابھی اور اسی وقت۔۔۔۔“  اُسکی بلند دہاڑ میں غضب ہی غضب ہچکولے لے رہا تھا جسکی وجہ یقیناً آبرو کا اُس دو ٹکے کے ملازم کی حمایت میں ذرا سی آواز نکالنا تھا۔

جہاں آبرو اُسکے حددرجہ بگڑے تیور دیکھتی اپنی نیلی کانچ سی آنکھیں پھیلائے بےاختیار اپنے قدم پیچھے لینے پر مجبور ہوئی تھی وہیں رحمان اپنی پھیکی پڑتی رنگت سمیت ایک آخری نظر آبرو پر ڈالتا شکست زدہ سا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

دروازہ بند ہونے کی آواز پر ہوش میں آتی آبرو اُسکے عتاب سے بچنے کی خاطر وہاں سے نکلنے کوتھی جب شاہ کی انتہائی سرد آواز نے اُسکے بڑھتے قدموں کو وہی پر جمادیا۔

”مس آبرو۔۔۔۔آپکو کسی نے بولا یہاں سے جانے کو۔۔۔۔؟؟۔۔۔۔ہممم۔۔۔۔؟؟“  تلخ لہجہ اپنائے وہ اُسکے وجود کی کپکپاہٹ  میں مزید اضافہ کرگیا۔

”سس۔۔۔۔سوری سر۔۔۔۔۔“ واپس پلٹتی وہ حلق میں پھنستی آواز کو بمشکل اُسکے سامنے نکال پائی تھی۔

دل مقابل کے خوف کے تحت تیزی سے دھڑک رہا تھا۔

اُسکی اس قدر غیر ہوتی حالت پر کافی گہرائی سے غورکرتا شاہ اپنے غصے کی پرواہ کیے بغیر پل بھرکو مسکرایا۔

جبکہ آبرو بےدھیانی میں اُسکے لبوں پر غور کرتی رہ گئی۔۔۔آیا وہ شدید غصے میں مسکرایا بھی تھا یا پھر یہ محض اُسکا وہم تھا۔۔۔۔؟؟

گہری نظروں کی تپش سے وہ اُسکے ننھے سے دماغ میں آئی سوچ بآسانی پڑھ گیا اور بےساختہ اُمڈ آنے والی مسکراہٹ کو چھپانے کی غرض سے اگلے ہی پل ہاتھ کی مٹھی بناتا لبوں پر جماگیا۔

اپنی اس قدر بےاختیاری پر سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں وہ اپنی نگاہوں کو ماربل پر جماتی پل میں سرخ  پڑی۔

مگر شاید وہ نہیں جانتی تھی کہ اُسکے سرخ گلاب رخسار اور بےخبری میں دانتوں کے نیچے سختی سے دبا پنکھری لب مقابل کے دل پر گہرا وار کرگیا تھا۔

”مس آبرو۔۔۔۔آپ یہ بات تو اچھے سے جانتی ہی ہیں کہ مسٹر رحمان اصغر کی سیٹ خالی ہوچکی ہے۔۔۔۔لہٰذا اُنکے حصے کا کام روک کر میں کسی بھی قسم کے بزنس لاس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔۔۔۔اسی لیے میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ اُنکے حصے کا سارا کام اب سے آپ کریں گی۔۔۔۔“  گلاکھنکار کر خود کو بمشکل سنبھالے وہ سکون سے بولتا اُسکا سکون بڑی آسانی سے چھین چکا تھا۔

”میں۔۔۔۔؟؟؟“  اپنی جانب انگلی گھماتی وہ حیرتوں کے سمندر میں ڈوبتی چلی گئی۔

”جی آپ۔۔۔۔۔ ویسے بھی بہت شوق ہے ناں آپکو مسٹر رحمان کی ہیلپ کرنے کا۔۔۔۔تو میں آپ کو دل کھول کر چانس دے رہا ہوں۔۔۔۔۔ناؤ اٹس یور ٹائم ٹو پروو یورسیلف۔۔۔۔اینی مور کوئسچن۔۔۔۔؟؟؟“  سرد لہجے میں دوٹوک بات کرتا وہ مسلسل اُسکی مشکلات کو بڑھتا ہی جارہا تھا۔

”نو۔۔۔نونو۔۔۔“  اُسکی پیشانی پر بل پڑتے دیکھ کر شدت سے خائف  ہوتی وہ اب کے رودینے کو تھی پر اس بار وہ اُس اناپرست کو چاہ کر بھی”نہ“  کرنے کا رسک نہیں لےسکی تھی۔

شاہ کی اس قدر بےرحمی پرحسین آنکھوں کی بھیگتی نیلاہٹ پل پل آنسوؤں کی صورت اختیار کرنے لگی تھی۔

اُسکے سر پہلے سے ہی بہت سی مجبوریاں اور ذمہ داریاں تھیں۔

مگر مقابل کا ان سب سے کوئی لینا دینا ہوتا تو پرواہ بھی کرتا۔۔۔۔وہ تو شاید انتقام کی آگ میں سلگتا سامنے والے کے ہر درد سے لاتعلق تھا۔

آنسو بےاختیار گھنیری پلکوں کی باڑ پھلانگتے گالوں پر پھسلے تھے۔

”اب آپ جاسکتی ہیں۔۔۔۔“  پہلی دفعہ دل پر پتھر رکھ کر اُسے خود سے دور جانے کی اجازت دیتا وہ اپنے اِس نئے اور سرد انداز سے اُسے دوبارہ حیران کر گیا۔

اگلے ہی پل وہ سختی سے اپنے گال رگڑتی دروازے کی جانب لپکی جب وہ اُسے پھر سے اپنے حکم کا پابند بناگیا۔

”رکیں۔۔۔۔یہ کافی ٹھنڈی ہوکر بالکل ہی بدذائقہ ہوگئی ہے۔۔۔بالکل میرے اندر کی طرح۔۔۔۔سو پلیز اسکی جگہ دوسری کافی بناکرلائیں میرے لیے۔۔۔۔“  اُس کا رخ اپنی جانب گھومتا دیکھ وہ قدرے لاپرواہی سے بولتااُسکی بےبسی کا جی بھرکے فائدہ اٹھا رہا تھا۔

بھوری آنکھیں اُسکے دبے دبے غصے کو محسوس کرتی اس پل شدت سے مسکرارہی تھیں۔

”اوکے سر۔۔۔۔۔“ بےدلی سے بولتی ہوئی وہ اُسکی جانب لپکی اور ٹرے کو ٹیبل سے اٹھاتی بغیر اُسکی جانب دیکھے وہاں سے نکلتی چلی گئی۔

”اففف آبرو اففف۔۔۔۔ابھی تو یہ شروعات ہے۔۔۔۔اور جہاں تک مجھے اندازہ ہے تمھارے جیسی معصوم مگر ضدی چڑیا میرا وار سہنے کی ذرا سی بھی طاقت نہیں رکھتی۔۔۔۔لیکن اب کیاکیا جاسکتا ہے۔۔۔۔؟؟مجھے اس حد تک لانے پربھی تمہی نے مجبور کیا ہے۔۔۔۔اب برداشت تو کرنا ہی پڑے گا۔۔۔۔“  ریوالونگ چیئر کی پشت پر سر ٹکائے سرد آہ بھرتا وہ خیالوں میں بھی فقط اُسی سے مخاطب تھا۔

اپنے ہی دل کے قرار کو بےقرار کرنے کے لیے وہ کس حد تک جانے والا تھا شاید یہ وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔۔۔

سوائے اسکے کہ آبرو سکندر کو اپنی محبت کے آگے گھٹنے ٹیکنے پرہر صورت مجبور کرنا تھا۔۔۔۔

**

وہ اپنے سب سے عزیز فرینڈ کو ایئرپورٹ تک سی آف کرکے سیدھا گھرآیا تھا۔گرمی کی شدت اور ایسے میں چائے کی طلب اُسے بےچین کیے دے رہی تھی۔اوپر سے تھکاوٹ کا معاملہ اور دماغ میں مسلسل پنپتے ایک نئے کیس کا الجھاؤ۔۔۔۔

آج وہ حقیقتاً تھک چکا تھا۔

بازو پہ کوٹ دھڑے وہ اپنے کمرے کی جانب جارہا تھا جب کچن سے آتی کھٹ پٹ کی آوازوں نے اُسے دو سیڑھیوں سے واپس مڑنے پر مجبور کردیا۔

”مُنی۔۔۔۔پلیز ایک کپ چائے بناکر میرے کمرے میں لے آؤ۔۔۔۔سر درد سے پھٹا جارہا ہے۔۔۔۔“  کچن کی دہلیز پر کھڑے ہوکر برتن دھوتی آمنہ کی پشت کودیکھتا وہ مسلسل اپنا ماتھا مسل رہا تھا۔

”جی صاحب ابھی لائی۔۔۔۔“  عائل کے نرم مگر عجلت بھرے انداز سے چونکتی وہ ذرا سی گردن موڑے دھیرے سے بولی۔

برتنوں پر گرتے نل کے پانی کا شور اُسکی بھیگی آواز کو دبا گیا تھا جس پر غور کیے بنا وہ اگلے ہی پل وہاں سے واپس پلٹ گیا۔

”صاحب چائے۔۔۔۔“  کچھ ہی دیر میں اُسکے کہے کی تعمیل کرتی وہ چائے کا مگ ٹرے میں سجائے قدرے محتاط انداز میں اُسکے روبرو سرجھکائے کھڑی تھی۔

چائے بھرا  مگ اٹھاتے وہ جواباً مسکرایا۔

”آہ۔۔۔۔تھینکس مُنی۔۔۔۔تیز پتی والی چائے بناکر تو تم نے بہت اچھ۔۔۔ااا۔۔۔۔“  تیزدم چائے کا کڑک سواد منہ میں گھلتے ہی اُسنے تب سے پہلی بار اُسکا دوپٹے کے ہالے میں گھرا زرد چہرہ دیکھا تھا مگر یہ سرسری سی نگاہ اگلے ہی پل اُسکی سرخ آنکھوں میں جھانکتی گہری نگاہ میں ڈھلی تھی۔

”مُنی۔۔۔ تم روئی ہو۔۔۔۔؟؟تمھاری آنکھیں کس قدر سرخ پڑرہی ہیں۔۔۔۔“  پوچھتے ہوئے ماتھے پر ایکدم سے بل پڑے تھے جس پر وہ گھبراتی شدومد سے نفی میں سر ہلاتی مسکرانے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔

”نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔نہیں تو صاحب۔۔۔۔وہ بس کھانا بناتے وقت مرچیں آنکھوں میں گھس گئی تھیں۔۔۔۔“  آنکھوں میں آنے والی نمی کو سرعت سے صاف کرتی وہ روہانسی آواز میں بےڈھنگا سا بہانہ بناگئی۔

مگر مقابل بالکل بھی مطمئن نظر نہیں آرہا تھا۔

”ایک ساتھ دونوں آنکھوں میں۔۔۔۔؟؟؟مت بھولو کہ میں ایک پولیس آفیسر ہوں۔۔۔۔رونے اور آنکھوں میں مرچی چلے جانے کےچھوٹے سے فرق کو بآسانی سمجھ سکتا ہوں۔۔۔۔چلو اب بتاؤ۔۔۔۔کیا بات ہے۔۔۔؟؟“  مگ کو سائیڈ پر رکھتا وہ اپنی تمام تر توجہ اُسکی جانب سمیٹ گیا تو اُسکے لہجے میں چھپی فکر اور اپنائیت محسوس کرتے اُسے خود کے اجڑنے پرمزید رونا آنے لگا۔

”موم نے ڈانٹا ہے۔۔۔۔؟؟؟“  اُسے خاموش پاکر بذاتِ خود حقیقت کی تہہ تک پہنچنے کی ہلکی سی کوشش کرتے اُسکا لہجہ سرد ہوا۔

جہاں تک عائل کو معلوم تھا اُسکے اکثر افسردہ ہونے کی وجہ عائمہ بیگم کی ڈانٹ ڈپٹ ہی ہوا کرتی تھی۔

مگر اسکے باوجود بھی وہ کبھی اس حد تک نہیں گئی تھی کہ رو رو کر اپنی حالت ہی خراب کرڈالے۔

”نہیں صاحب۔۔۔۔قسم لے لو۔۔۔۔اُنھوں نے تو مجھ سے کام کے علاوہ اور کوئی بات نہیں کی۔۔۔۔“  گالوں پر لڑھکتے بےقابو آنسوؤں کو سختی سے مسلتی وہ کمزور سی آواز میں اپنی صفائی دینے لگی جب خود کا ہی ہاتھ لگنے سے دوپٹہ ہلکا سا پیچھے سرکتا پیشانی کی تازہ چوٹ کو واضح کرتا چلاگیا۔

”یہ۔۔۔یہ چوٹ کیسے لگی۔۔۔۔؟؟“  عائل کی گہری سیاہ آنکھوں نے سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اُسکے ماتھے پر ابھرے زخم کو حیرت سے پکڑا تو وہ اُسکے سوال پر بوکھلاتی  دوپٹے کا سرا سرعت سے بھنوؤں تک کھینچ گئی۔

اب کیا بتاتی اُسے کہ جو کارنامہ اُسنے نادانی میں سرانجام دیا تھا اُس پر اُسکی اماں کا دیا ہوا پہلا تحفہ تھا یہ۔۔۔۔

اُسے گہری سوچ میں مسلسل خاموش دیکھ کر ضبط سے عائل کا سر درد سے مزید پھٹنے لگا۔ 

”گڑیا۔۔۔۔اپنے صاحب سے اپنا مسئلہ شیئر نہیں کروگی کیا۔۔۔۔۔؟؟؟گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے پگلی میں ہوں ناں تمھارے ساتھ۔۔۔۔شاباش بتاؤ ہوا کیا ہے۔۔۔۔؟؟“  گہرا سانس بھرتے اگلے ہی پل وہ اپنے عصاب ڈھیلے چھوڑگیا۔

اُسکے نرم لہجے میں التجاء صاف جھلک رہی تھی۔

وہ جو کب سے اندر ہی اندر گھٹ گھٹ کر مررہی تھی مقابل کے مان اور ہمددر بھرے لہجے سے جی جان سے مرعوب ہوتی پل میں اپنا آپ اُسکے سامنے کھولنے کا فیصلہ کرگئی۔

اس لمحے اُسے انجام کی بھی کوئی پرواہ نہیں رہی تھی۔

”صص صاحب۔۔۔۔وہ۔۔۔۔جج۔۔۔جنید۔۔۔۔“  وہ ہمت کرتی ابھی بول ہی رہی تھی جب اچانک اپنی پشت سے ابھرتی اپنی اماں کی حدرجہ سخت آواز پر ٹھٹھک کر چپ ہوئی۔

”آمنہ۔۔۔۔تُو یہاں کھڑی ہے پگلی اور بیگم صاحبہ تجھے نیچے بلارہی ہیں۔۔۔۔چل جلدی سے جاکر اُنکے لیے مالٹے کا جوس بنادے نہیں تو وہ ناراض ہوکر تجھے پھرسے ڈانٹ دیں گی۔۔۔۔چل جلدی نیچے جا شاباش ۔۔۔۔“  بروقت اُسے منہ کھولنے سے روکتی وہ بےاختیار اُسکے کندھے پر وارن کرتے انداز میں تھپ رسید کرگئی۔

”ایک منٹ طلعت۔۔۔۔پہلے ہماری بات مکمل ہولینے دو۔۔۔۔پھر وہ موم کا بھی کام کردے گی۔۔۔۔ہاں بولو مُنی۔۔۔۔کس جنید کا بتارہی تھی تم مجھے۔۔۔۔؟؟“  وہ جو نیا معاملہ کھلنے پر چونک کر سیدھا ہوا تھا طلعت کی غلط ٹائم آمد پر سخت بدمزہ ہوتا سپاٹ لہجے میں بولا۔

”ارے صاحب یہ تو پوری جھلی ہے۔۔۔۔بنا سوچے سمجھے کچھ بھی بک دیتی ہے۔۔۔آپ اسکی باتوں پر دھیان مت دو۔۔۔۔یونہی آپکا قیمتی وقت ضائع ہوگا۔۔۔۔“  وہ لہجے کو نرم رکھتے بمشکل مسکراتی عائل کو ٹالنے کی کوشش میں تھی مگر پھربھی اپنے ڈگمگاتے لفظوں کی گھبراہٹ اُس سے چھپا نہیں پائی تھی۔

”میں نے تم سے کوئی مشورہ نہیں مانگا طلعت۔۔۔۔بہتر ہے ہمارے معاملے میں مت پڑو۔۔۔۔اگر پھر بھی خاموش نہیں رہا جاتا تو دروازہ کھلا ہے۔۔۔۔تم جاسکتی ہو یہاں سے۔۔۔۔“  طلعت کو آمنہ کا بازو پکڑکے وہاں سے لےجاتا دیکھ وہ اپنی جگہ کھڑا ہوتا لہجے میں شدید برہمی لیے بولا تو ناچار طلعت کو اُسکا بازو چھوڑنا پڑا۔

”میں سن رہا ہوں مُنی۔۔۔۔جو بھی دل میں ہے سب بےجھجک بول دو گڑیا۔۔۔۔“  اپنے تاثرات پھر سے نرم بناتا وہ اپنے سینے پر ہاتھ باندھ گیا جب وہ طلعت کی سخت گھوری کی پرواہ کیے بغیر عائل کی جانب متوجہ ہوئی۔

شاید اب وہ تھک گئی تھی خود سے تنہا لڑتے لڑتے اور جب اپنے مسیحا کا مضبوط سہارا مل رہا تھا تو پھر کیوں قدم پیچھے لیتی۔۔۔۔

 ”صاحب۔۔۔۔وہ لڑکاجنید۔۔۔۔ہم دونوں ایک دوسرے سے بےپناہ محبت کرتے تھے صاحب۔۔۔۔اور اسی محبت میں اندھی ہوکر میں نے سب کے احساسات کی پرواہ کیے بغیر اُس سے چھپ کر نکاح  کرلیاتھا۔۔۔۔لیکن پھر۔۔۔۔“  شرمندگی سے بھیگتے لفظوں کو رفتہ رفتہ زہر کی  مانند اُسکی سماعتوں میں گھولتی وہ اس لمحے ڈوب مرنے کے مقام پر تھی جب لڑکھڑاتی آواز نے ایکدم سے ساتھ چھوڑا تھا۔

اس کھلے انکشاف پر اُسنے قدرے بے یقینی سے اُسکے معصوم دِکھنے والے پھیکے نقوش بڑی گہرائی سے دیکھے تھے جو اس پل اُسکی زباں سے پھسلتے حدرجہ تلخ لفظوں سے کسی بھی طرح میل نہیں کھا پارہے تھے۔

تبھی وہ گہرا سانس بھرتی پھرسے بولنے کے لیے اپنے کپکپاتے لبوں کو کھولنے کی گستاخی کرگئی۔

اپنی بےقابو بیٹی کا پھر سے کھلتا منہ دیکھ کر پاس ہی کھڑی طلعت کا بےبسی کے مارے بلڈلو ہورہا تھا۔

سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیسے پل پل بگڑتے معاملے کو سنبھالے۔۔۔؟؟؟

 ”جب جب اُسے موقع ملا اُسنے پورے استحقاق سے میرے وجود کی دھچیاں اڑائیں صاحب۔۔۔اور میں پاگلوں کی طرح اُس ذلیل انسان کی ہوس کو محبت سمجھتی رہی۔۔۔۔محض چند دن کا کھیل تھا جب اُسکے سر سے اِس کھوکھلی محبت کا بھوت بھی اترگیا۔۔۔۔جس خاموشی سے اُسنے مجھے اپنایا تھا اُسی خاموشی سے تین بولوں کا ٹھپہ میرے ماتھے پر مارکر اُس ظالم نے مجھے اپنی زندگی سے ہمیشہ کے لیے نکال باہر کیا۔۔۔۔میں نے بھی دل پر پتھر رکھ کے یہ سب بڑی خاموشی سے برداشت کرلیا صاحب۔۔۔لیکن۔۔۔“  وہ کس اذیت سے اپنے دل کا بھاری بھرکم بھید اُس پر قطرہ قطرہ ظاہر کررہی تھی یہ صرف وہی جانتی تھی اور وہ کس قدر ضبط سے لب بھینچے یہ سب سن رہا تھا یہ بھی صرف اُسے ہی معلوم تھا۔

”لیکن کیاااا۔۔۔۔۔۔؟؟؟“  اُسکی چبھتی خاموشی پر بےاختیار مٹھیاں پھینچتے وہ بے چین سا غرایا۔

یعنی اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود بھی اُسکا لفظ ”لیکن“ پیچھے باقی تھا۔

”مت بول آمنہ۔۔۔۔۔خدارا چپ ہوجا نہیں تو غضب ہوجائے گا۔۔۔۔“  طلعت گھٹتے دل کے ساتھ زیرِلب التجاء کرتی اگلے ہی پل سہارے کی تلاش میں دروازے کا ہینڈل تھام گئی۔

وہ شدت سے چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرپارہی تھی۔

”لیکن اب میں بدقسمتی سے اُسکے بچ۔۔۔بچے کی م۔۔۔ماں۔۔۔۔۔“  ہنوز بہتی ہوئی جھکی آنکھوں سے وہ بمشکل اپنی ٹوٹی بکھری ہمت کو مجتمع کرتی اُسکے سر پر ایک اور دھماکہ کرگئی تھی جسکا مطلب فوراً سے بھی پہلے سمجھتا وہ اُسے وہی پر دہاڑتے ٹوک گیا۔

”شٹ اپ۔۔۔۔۔جسٹ شٹ اپ۔۔۔۔“  وہ اس پل ضبط کی تمام حدوں کو پار کرگیا تھا جبکہ مقابل کی آنکھوں سے پھوٹتی چنگاڑیوں اور درشتگی بھرے لہجے پر وہ طلعت سمیت  اپنی جگہ پر اچھل کررہ گئی۔

اگلے ہی پل بے اختیاری میں تھپڑ کی صورت اٹھتا عائل کا ہاتھ بےبسی سے ہوا میں ہی معلق رہ گیا تھا جس پر آمنہ دبا سا چیختی فوری اپنی آنکھیں میچ گئی۔

دل تو شدت سے چاہ رہا تھا کہ اُسکا بھیگا چہرہ ابھی تھپڑوں سے لال کردے مگر صد افسوس کہ وہ عورت پر ہاتھ اٹھانے کا قائل نہیں تھا تبھی ہاتھ کی سخت مٹھی بناتااگلے ہی پل اُسکی طرف سے اپنا رخ پھیرگیا۔

دل میں موجود اُس لڑکی کے لیے عزت و اپنائیت کی عمارت پل میں ملیامیٹ ہوئی تھی جسے وہ خود سے پڑھا لکھا کر جانے کیا سے کیا بنانا چاہتا تھا۔۔۔۔مگر وہ کیا نکلی تھی۔۔۔۔؟؟

بدکردار۔۔۔۔یاں دھوکے باز۔۔۔۔؟؟

”ایڈریس بتاؤ مجھے اُس خبیث کا۔۔۔۔؟؟“  نفرت سے پھنکارتا وہ اگلا لائحہ عمل سیکنڈوں میں ذہن نشین کررہا تھا۔

وہ جو عائل کے حددرجہ سخت لب و لہجے پر آنکھیں کھولے تکلیف اور صدمے سے اُسکی پشت دیکھ رہی تھی اُسکے پلٹ کر غصے سے دیکھنے پر کپکپاتی فوری سب کچھ بتاتی چلی گئی۔

”صاحب۔۔۔۔۔۔؟؟؟“  اُسے موبائل سکرین پر تیزی سے انگلیاں چلاتا دیکھ وہ آنسو پونچھتی اُسکی جانب بڑھی۔

”ہاں راشد۔۔۔۔میں نے تمھیں جو ایڈریس ابھی سینڈ کیا ہے گاڑی لے کر فوری وہاں پہنچو۔۔۔۔تب تک میں بھی وہاں پہنچتا ہوں۔۔۔۔اور ہاں ہتھکڑی ساتھ لانا مت بھولنا۔۔۔۔اوکے خدا حافظ۔۔۔۔“  سب انسپیکٹر سے بات کرتا وہ اُسے بالکل نظرانداز کرگیا جبکہ اُسکی بات سن کر وہ دونوں چونک کررہ گئیں۔

”صص صاحب۔۔۔صاحب آپ کدھر جارہے ہو۔۔۔۔؟؟؟ مجھ سے انجانے میں بہت بڑی غلطی ہوگئی۔۔۔۔خدارا مجھے معاف کردو صاحب۔۔۔۔صاحب۔۔۔۔۔“  اُسے کوٹ پکڑتے کمرے سے جاتا دیکھ  آمنہ بدحواس سی اُسکے سامنے آکر ہاتھ جوڑے کھڑی ہوگئی جب وہ اُسے جھٹکے سے پیچھے دھکیل گیا۔

”کوشش کرنا کہ اب سے مجھے اپنی شکل مت دکھانا۔۔۔۔ورنہ ممکن ہے کہ میں اپنا ضبط کھو بیٹھوں۔۔۔۔۔“  شہادت کی انگلی اٹھائے قدرے تنفر سے بولتا وہ اُسے بھبھک کر رونے پر مجبور کرگیا جبکہ اپنی بیٹی کی بےوقوفیوں کی وجہ سے طلعت سے نظریں ہی اوپر نہیں اٹھائی جارہی تھیں۔

”افسوس کہ تم اپنی اکلوتی بیٹی کی صحیح سے حفاظت بھی نہیں کرسکی طلعت۔۔۔۔اور شاید نہ ہی میں۔۔۔۔۔“  کمرے کی دہلیز پھلانگنے سے پہلے وہ طلعت کو احساسِ جرم سے دوچار کرنا نہیں بھولا تھا اور پھر اگلے ہی پل لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے نکلتا چلاگیا۔

”کلموہی۔۔۔۔منحوس ماری۔۔۔۔کیا آفت پڑگئی تھی تجھے عائل صاحب کے سامنے سب بکنے کی۔۔۔۔؟؟اتنا بڑا کانڈ چھپ کر کرلیا اور اب کھلے عام اسکا ڈھنڈورا پیٹتی میرے سر پر خاک ڈلواتی پھررہی ہے۔۔۔۔اپنی پھسلتی زبان سے ہماری روزی روٹی پر لات مارہی دی ناں تُونے بےوقوف۔۔۔۔دیکھنا ابھی کچھ ہی دیر میں ہمیں اس گھر سے دھکے مار کر باہر نکال پھینکیں گے یہ لوگ۔۔۔۔یااللہ مدد کر ہماری۔۔۔۔“  طلعت نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور آمنہ کو دوپٹے سمیت بالوں سے جکڑتی ایک ساتھ کئی چماٹ جڑ ڈالے۔

”اماں اب یہاں رہنا ہی کون چاہتا ہے۔۔۔۔۔ہم خود ہی یہاں سے چلے جائیں گے۔۔۔۔۔“  اپنی تکلیف کی پرواہ کیے بغیر وہ بڑے ضبط سے بولتی طلعت کو مزید آگ بگولا کرگئی۔

تبھی کوئی کھٹکے کی آواز کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا تو دونوں نے بھیگی آنکھوں سے بےاختیار پلٹ کر پیچھے دیکھا۔

”بب۔۔۔بیگم صاحبہ۔۔۔۔آ۔۔۔پ۔۔۔۔“  عائمہ بیگم کے غصے سے لبریز خطرناک تیور دیکھ کے دونوں ماں بیٹیوں کی جان ہوا ہوئی تھی۔

*************************** 

آج اتوار کا دن تھا۔برائے نام آرام کا دن جو کہ حاویہ کے لیے کسی وبال سے کم نہیں تھا۔ایک سنڈے سارے کاموں کا ذمہ اُسکے سر ہوتا اور دوسرا سنڈے حرمین کے نام ہوتا۔

مگر بدقسمتی سے یہ والا سنڈے اس بار اُسکے حصے میں آیا تھا۔نفیسہ بیگم نسیمہ آپا کے ساتھ حرمین کے ہونے والے سسرال گئی ہوئی تھیں۔

حالانکہ اُسکا بھی جانے کو بہت من ہورہا تھا پر نفیسہ بیگم نے ساتھ لےجانے سے صاف منع کردیا تھا۔سو اُس نے بھی سب معاملات سمجھتے ہوئے ذیادہ ضد نہیں کی تھی۔

حرمین بھی پڑھائی کے سلسلے میں اس وقت اپنی فرینڈ علیزہ کی طرف گئی ہوئی تھی۔

شاید یہی وجہ تھی جو وہ سارے کام چھوڑے اس وقت دیوار کے ساتھ لگی چیئر پر کھڑی ہوکرنیناں سے گپیں ہانکنے میں مصروف تھی۔

”اچھا بس بس۔۔۔بہت ہوگئیں باتیں۔۔۔اب مجھے کام کرنے دو۔۔۔۔وہاں دھونے والے کپڑوں کا انبار لگا پڑا ہے۔۔۔جو مجھ بیچاری کو اکیلے ہی دھونا پڑے گا۔۔۔۔تم کونسا آکر میری مدد کروں گی۔۔۔۔بس باتیں کروالو تم سے جتنی مرضی۔۔۔میں تو چلی۔۔۔۔تم جاکے اب اپنے مہمانوں کو سنبھالو۔۔۔“  نیناں کو اچھی خاصی جھاڑ پلاتی وہ رفوچکرہونے کو تھی جب وہ اُسے آواز دے کر ایکدم سے روک گئی۔

نیچے سے اُسے اپنی امی کی مسلسل آوازیں پڑرہی تھیں۔

”اچھا اچھا۔۔۔میری ایک آخری بات تو سنتی جاؤ۔۔۔۔میں تمھیں سب سے امپورٹنٹ بات بتانا تو بھول ہی گئی۔۔۔۔“  قدرے عجلت میں سر پر ہاتھ مارتی وہ اُسے اچھا خاصا تجسس دلاگئی۔

”جلدی بول نیناں۔۔۔اتنا فالتو وقت نہیں ہے میرے پاس۔۔۔۔“  منہ بسور کر بولتی وہ مزید ایڑیاں اچکاگئی۔

”وہ بختی ہے ناں۔۔۔۔ارے بختیارکی بات کررہی ہوں۔۔۔۔وہ کل ہی دبئی سے واپس آیا ہے۔۔۔۔اُسکی چھوٹی بہن آئی تھی ہماری طرف۔۔۔بتارہی تھی کہ اُسکا بھائی بہت چیزیں لایا ہے اُن سب کے لیے۔۔۔۔“  پرجوش سی بولتی وہ حاوی کے سر پر دھماکہ کرگئی اور اگلے ہی پل پھر سے اپنی امی کی چیختی آواز پر نیچے کی جانب بھاگی جہاں اُنکے مہمان یقیناً آچکے تھے۔

پیچھے وہ حق دق سی جہاں کھڑی تھی وہی کھڑی رہ گئی۔

بختی کے نام پر دل ایکدم خوف و غم سے پھڑپھڑایا تھا جسے وہ اپنے دل و دماغ سے تقریباً نکال ہی چکی تھی۔

قدرے ڈھیلے انداز میں چیئر سے نیچے اترتے ہوئے بےاختیار اُسکے دماغ میں اُسکی زبردستی قربت کے خیالات گھومنے لگے تو وہ اندر تک کانپ کررہ گئی۔

”یا میرے اللہ۔۔۔۔مجھے اُس شیطان کے شر سے ہمیشہ محفوظ رکھنا۔۔۔۔۔ہمیشہ بس اپنی پناہ میں رکھنا۔۔۔بےشک عزت اور ذلت تیرے ہی ہاتھ ہے میرے مالک۔۔۔۔“  بےاختیار آسمان کی جانب نم آنکھوں سے دیکھتی وہ اپنے رب کی رحمت و تحفظ کی شدت سے طلبگار تھی۔

اور پھر کچھ ہی پلوں میں خود کو پرسکون کرتی سامنے کمرے کی جانب بڑھ گئی جہاں دھونے والے کپڑوں کا  ڈھیر ٹب میں پڑا یقیناً اُسکی کے انتظار میں تھا۔

***********************

وہ اس وقت گھر کے کھلےصحن میں کرسی پر براجمان ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھا فون پر کسی لڑکی سے محوِ گفتگو تھا۔

ماں باپ اور چھوٹی بہن اس وقت گھر میں موجود نہیں تھے جو شہر سے باہر اپنے دور کے رشتہ دار کی شادی اٹینڈ کرنے گئے تھے۔

ایسے میں اُسے کھلی چھوٹ مل چکی تھی۔

باتیں تو باتیں۔۔۔انداز بھی ایک دم چھچھوڑا تھا جس پر دوسری طرف سے شرمانے کی بھونڈی اداکاری کرتی لڑکی کی کھنکھناتی ہنسی سنائی دی۔

”پلیز بےبی۔۔۔۔صرف آج کے لیے میرے پاس آجاؤ ناں۔۔۔۔گھر پر اگلی صبح تک کے لیے مکمل پرائیویسی دستیاب ہوگی۔۔۔۔پھر شاید ہی کبھی ہمیں ایسا سنہری موقع ملے ملاقات کے لیے۔۔۔۔میرا دل بہت بےقرار ہورہا ہے تمھیں دیکھنے کے لیے۔۔۔۔اب صرف تم ہی ہو جو اِس پیاسے دل کو سیراب کر سکتی ہو۔۔۔۔تم آؤگی ناں۔۔۔۔؟؟؟  وہ اُسکی مکمل توجہ سمٹے مزید مست ہوتا اصل مدعے کی جانب بڑھ رہا تھا لیکن تبھی زور زور سے بجتے دروازے کے درمیان لڑکی کا واضح انکار اُسکا موڈ حددرجہ خراب کرگیا۔

”ٹھک ٹھک ٹھک۔۔۔۔۔“  مسلسل دروازہ توڑ دستکوں پر وہ گالی بکتا تیزی سے مین گیٹ کی جانب بھاگا۔

”کون ہے بے۔۔۔۔۔؟؟صبر کر آرہا ہوں۔۔۔۔“  غصے سے چیختا وہ کنڈی کھول گیا لیکن سامنے پینٹ کوٹ میں کسی اجنبی شخص کے ساتھ ایک باوردی سب انسپیکٹر کو دیکھتے اُسکی سٹی گم ہوئی تھی۔

”جنید امجد۔۔۔۔تمہی ہو۔۔۔۔۔؟؟؟“   کڑے ضبط سے پوچھتا یہ عائل تھا۔

”جج۔۔۔جی صاحب۔۔۔۔پر میں نے آپکو پہچانا نہیں۔۔۔کون ہیں آپ۔۔۔۔؟؟؟“  پولیس کو دیکھ کر ماتھے پرآیا  پسینہ ہاتھ کی پشت سے صاف کرتا وہ تحمل سے مسکراتے ہوئے استفسار کرنے لگا۔

”چل آجا پھر۔۔۔۔ابھی اچھے سے پہچان کرواتا ہوں تجھے کہ کون ہوں میں بےغیرت انسان۔۔۔۔“  اپنے سوال کی مکمل تصدیق پر وہ اگلے ہی پل دانت پیس کر بولتا ہوا اُسے گریبان سے پکڑ کر دہلیز سے باہر کھینچ چکا تھا۔

”ارے صاحب یہ کیا کررہے ہو۔۔۔۔؟؟؟چھوڑو مجھے۔۔۔۔صص۔۔اااا۔۔۔۔۔حب۔۔۔۔“  اُسکی مضبوط گرفت سے اپنی خاکی رنگ قمیض کا کالر چھڑوانے کی کوشش کرتا سانولی رنگت کا جنید گھبراتے ہوئے چلایا جب ایکدم سے منہ پر پڑنے والا زور کا مکا اُسکی بولتی بند کروانے کے ساتھ ہی اُسے زمین بوس کرچکا تھا۔

یہ منظر دیکھ کر آس پاس محلے کے لوگ تماشا دیکھنے کے لیے آہستہ آہستہ  جمع ہونے لگے۔کچھ ہی دیر میں اطراف میں بھیڑ لگ چکی تھی جن میں سے

کچھ اس آوارہ لڑکے کی دھلائی ہوتے دیکھ حیرانگی اور کچھ دلچسپی سے تکنے لگے جبکہ ان میں سے چند ایک  آگے بڑھ کر جنید  کو عائل کے ہاتھوں بچانے کی سوچ میں تھے مگر باوردی سب انسپیکٹر کی حاضری سمیت عائل کا حددرجہ غصہ دیکھ کر اپنی جگہ بےبس کھڑے رہ گئے۔

جبکہ وہ اردگرد سے بےبہرہ آمنہ کے لفظوں کی کھولن اُس پر پوری طرح اتارتا پل پل بے قابو ہوتا چلاجارہا تھا۔

***************************

”یااللہ خیر۔۔۔۔۔“  لمحہ بہ لمحہ بلند ہوتے شور پر گھبراتی وہ دھونے والے کپڑوں کا ڈھیر وہیں پر چھوڑے بنا دوپٹے کے ٹیرس کی جانب تقریباً بھاگتی ہوئی لپکی۔تجسس اس قدر حاوی تھا کہ ہاتھ میں پہلے سے ہی جکڑی پانی سے آدھی بھری بالٹی کا بھی دھیان نہیں رہا تھا۔نیچے جھانکتے ہی اُسے بہت سے لوگوں کا ہجوم دکھائی دیا لیکن اگلے ہی پل جس چونکا دینے والے منظر نے اُسکی توجہ شدت سے اپنی جانب کھینچی تھی وہ ٹھیک نیچے اُنکے محلے کے آوارہ ٹائپ لڑکے کی دب دبا کے ہونے والی کٹائی تھی۔اپنی جانب پشت ہونے کی وجہ سے وہ اُس دبنگ شخص کا چہرہ نہیں دیکھ پارہی تھی جو پینٹ کوٹ میں ملبوس بنا رکے اُسے کپڑے کی طرح دھونے میں کوئی کثرباقی نہیں چھوڑرہا تھا۔

”چچ۔۔۔اب یہ نیا مدمعاش کون ہے بھئی۔۔۔۔؟؟؟“  خود کے بالوں سے الجھتی وہ مزید آگے کو ہوئی جس کے ساتھ ہی دیوار کے سہارے ٹکی بالٹی پر اُسکی گرفت بے دھیانی میں ڈھیلی پڑی تھی۔

”مج مجھے۔۔۔معاف کردو صاحب۔۔۔غلطی ہوگئی مجھ سے۔۔۔مم میں حلالہ کرواکر آمنہ کو پھرسے اپنالوں گا۔۔۔بس مجھے چھوڑدو۔۔۔“  وہ لڑکا اپنے دفاع میں ہاتھوں کو آگے پھیلائے فوری حل نکالتا پھٹے لبوں سے اپنی جان بخشی کی بھیک مانگ رہا تھا۔

”حلالہ تو تیرا جیل جانے کے بعد میں خود کرواؤں گا ذلیل انسان۔۔۔۔“  اُسکی نازیبا بات پر بھڑک کربولتے ہوئے اُسنے نیچے گرے لڑکے کو گریبان سے پکڑکراپنے مقابل کھڑا کیا جب اچانک اوپر سے گرتا جھاگ والا پانی اُسکے پورے وجود کو تیزی سےبھگوتا اگلے ہی پل اُسے بری طرح حواس باختہ کرگیا۔

”کیا بیہودگی ہے یہ۔۔۔۔؟؟؟“  ضبط سے گہرا سانس بھرتے اپنے بھیگے چہرے کو دائیں ہاتھ سے صاف کرتا وہ شدید غصے میں برہم سا چلایا اور اگلے ہی پل پلٹ کر سرخ آنکھوں سمیت اوپر کی جانب دیکھا جہاں وہ ویسے ہی جھکی سانس روکے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اُسے ہی دیکھ رہی تھی۔

بالٹی کا کھلا منہ بھی قدرے آگے کو جھک کر عائل کو بخوشی سلامی پیش کررہا تھا۔

وہ حاویہ کے دل ڈگمگانے دینے والے ملگجے حلیے سمیت اُسکا زرد پڑتا چہرہ دیکھ کر پل بھر کو بری طرح چونکتا قدرے ضبط سے مٹھیاں بھینچ گیا۔

”او تیری ی ی ی ی۔۔۔۔۔“  عائل سمیت وہاں کھڑے سب لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول ہوتے دیکھ وہ اگلے ہی پل چھپنے کی کوشش میں جھٹکے سے بالٹی سمیت گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھی تھی۔

”وہ یہاں کیا کررہا تھا۔۔۔۔؟؟“  عائل کی غصیلی نظروں کو اندر تک محسوس کرتی وہ شدت سے دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھ گئی۔

”پاگل۔۔۔۔بےوقوف۔۔۔۔“  اُسے فوراً سے بھی پہلے سب کی نظروں سے اوجھل ہوتا دیکھ وہ دانت پیستے ہوئے سختی سے لب بھینچ گیا اور مُڑکر جنید سمیت سب کی طرف دیکھا جو اپنی نگاہوں کا زاویہ بدلتے واپس اُسے ہی دیکھ رہے تھے۔

بہت سوں کی نظروں میں خود کے لیے تمسخر محسوس کرتا وہ واپس جنید کی جانب متوجہ ہوا جو اب سوجھی ہوئی آنکھ سے اُسے گھورنے میں مصروف تھا۔

”لے جاؤ اسے۔۔۔اور جب جب یہ بولے اسکی اچھی خاطرتواضع کرنا مت بھولنا۔۔۔۔بہت خاص مہمان ہے یہ ہمارا۔۔۔۔۔“  زہرخندق لہجے میں راشد کو حکم دیتا وہ جنید کو گریبان سے پکڑکر اُسکی جانب دھکیل گیا۔

”نن۔۔۔نہیں صاحب۔۔۔۔خدارا معاف کردو۔۔۔۔مم۔۔۔میں پیر پکڑتا ہوں آپکے صاحب۔۔۔۔نہیں چھوڑو مجھے۔۔۔۔چھوڑو۔۔۔۔“  راشد اُسے اپنے قابو میں کیے ہاتھ میں ہتھکڑی ڈالتا جونہی اپنے ساتھ گھسیٹ کر کچھ فاصلے پر موجود موبائل تک لے جانے لگا تو وہ پھر سے زخمی پرندے کی طرح پھڑپھڑانے لگا۔

موبائل تک پہنچتے ہی راشد اُسکی گردن پر زور کا چھانپڑ چھوڑتے اُسے بےدردی سے اندر پٹخ گیا اور سٹینڈ کے ساتھ ہتھکڑی کا دوسرا سرا بھی لاکڈ کرتے اُسے مکمل بےبس کرگیا۔

”تماشہ ختم ہوچکا ہے۔۔۔۔اب آپ لوگ بھی جاسکتے ہیں یہاں سے۔۔۔۔“  موبائل کو دورجاتا دیکھ عائل ایکدم سے تالی بجاتا لوگوں کو مخاطب کیے بھیڑ ختم کرنے کا آڈر دےگیا۔

تبھی ایک ایک کرکے سب لوگ چہ مگوئیاں کرتے وہاں سے ہٹتے چلے گئے۔

 تبھی آخری نگاہ واپس ٹیرس کی جانب اچھالتا وہ بےاختیار اپنا گیلا کوٹ ہاتھ مار کے جھاڑ گیا جہاں اب اُس لڑکی کا دور دور تک کوئی نام و نشان نظر نہیں آرہا تھا۔

 ”ایڈیٹ۔۔۔۔۔“  اگلے ہی پل وہ اُسکے گھر کی نشاندہی کیے پیرپٹختا اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔

****************************

”بس عشق۔۔محبت۔۔اپناپن

  بس عشق۔۔محبت۔۔اپناپن 

  بس عشق۔۔محبت۔۔اپناپن۔۔۔۔“  

وہ قدم قدم چلتا ہال کے دروازے کے سامنے جارکا تو مدھم مدھم سی موسیقی اُسکی سماعتوں میں گھلنے لگی۔

اگلے ہی پل ہاتھ سے دباؤ ڈالے وہ ایک پٹ وا کرتا اندر داخل ہوا تو سامنے ہی وہ زرک برگ لباس میں ملبوس لڑکیوں کے بیچ مہارت سے اپنے پورے وجود کو دلنشین انداز میں حرکت دینے میں مگن تھی۔

برقی قمقموں کی طرح اُسکا دلکش حسن بھی سنہرے رنگ لباس میں لشکارے مارتا اردگرد بیٹھے جانے کتنے ہی رنگین مزاج مردوں کو اپنا اسیربنا رہا تھا۔

یہ دیکھ کر سالار خان کے وجیہہ چہرے پر بےاختیار شدت کی ناگواری چھائی تھی۔

تراتر بجتے طبلوں کا شور اُسکے دماغ میں ہتھوڑے کی مانند برس رہا تھا جبکہ اُسکا دل بہکادینے والا رقص اتنے عرصے بعد براہِ راست دیکھتے ہوئے اُسکی آنکھوں میں مرچیں سی بھرنے لگیں۔

وہ جو اپنے کاموں سے بمشکل وقت نکال کر رابی سے اپنی ادھوری ملاقات پوری کرنے کے لیے یہاں آیا تھا آج رات کی اِس رنگین محفل سے قطعی بے خبر تھا۔

اپنی انتہائی غلط وقت آمد پر وہ ہاتھ میں پکڑی بریسلٹ سمیت قدرے ضبط سے مٹھیاں بھینچ گیا۔

اپنی لانبی انگلیوں کو ایک ادا سے چہرے کے حسین نقوش کے آگے لہراتی وہ زرا سا دائیں جانب مڑی تو نگاہیں بے ساختہ سامنے کھڑے سالار خان پر جاٹھہرئیں جو لب بھینچے برہم سا اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔پل بھرکو  رُکتی رابی کے دل کی  گداز دھڑکنیں بےاختیار تیز ہوئی تھیں مگر دوسرے ہی لمحے وہ اُس کو اپنی نظروں کے حصار میں رکھتی سریلے لفظوں پر خود کو پھرسے مست کرگئی۔

”مغل اعظم ذلِ الہی

 ماہبلی تیری دیکھ لی شاہی

 زنجیروں سے کہاں رکے ہیں

 پیارسفر میں عشق کے راہی

 گاتے پھریں گے جوگی بن بن

 عشق۔۔ محبت۔۔اپنا پن 

  بس عشق۔۔ محبت۔۔ اپنا پن۔۔۔“  

شدت سے دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھتی وہ مخصوص انداز میں گھومنے لگی تو ناچاہتے ہوئے بھی سالار خان اپنے قدموں پر واپس لوٹنے کی بجائے ٹرانس کی کیفیت میں اُسکی سمت بڑھنے لگا۔

سامنے ہی تابین بائی آج کی محفل کے خصوصی مہمان کے ساتھ لکڑی کے جھولے پر بیٹھی بےتلکلفی سے باتیں کرنے میں مگن تھی جبھی تو وہ سالار خان کی آمد کا بھی کچھ خاص نوٹس نہیں لےسکی تھیں۔مگر وہ اُس شخص کو لمحوں میں ناپ چکا تھا جس کی غلیظ نظریں گاہے بگاہے رابی کے جھومتے وجود کی جانب اٹھ رہی تھیں۔

غم و غصے کی کیفیت میں سر جھٹکتا وہ رقص سے حِظ اٹھاتے تماشائیوں کے ساتھ دو زانوں بیٹھ گیا۔رابی کی صحرزدہ سی خشک آنکھوں میں مایوسیوں کا عالم فقط اُسے ہی محسوس ہورہا تھا مگر یاقوتی لبوں پر بکھرا تبسم بھی سالار خان کو الجھائے دے رہا تھا۔

تڑپتے دل کے ساتھ اپنی محبت کا سرِعام تماشہ دیکھتے ہوئے ابھی کچھ ہی پل سِرکے تھے جب دیوان ملک خود پر سے ضبط کھوتا تابین بائی کے پاس سے اُٹھ کر رابی کی جانب لپکا۔

سالار نے ذرا سی گردن موڑ کر اُس عیاش کی جانب دیکھا تو پل میں اُسکے ارادے بھانپتے بےاختیار ماتھے پر بل پڑتے چلے گئے۔

”آہ جانِ جہاں۔۔۔کیوں دور سے ہی جان لینےپر تُلی ہوئی ہو۔۔؟پاس آکر بھی تو یہ کام اچھے سے کرسکتی ہوتم۔۔۔“  آگےبڑھ کراُسکی جھومتی کمر پر ہاتھ ڈالتاوہ اگلے ہی پل اُسےاپنی جانب کھینچ چکا تھا۔اپنےفعل میں

غرق جہاں وہ مقابل کی اِس اچانک گستاخی پر بوکھلاتی اُسکے سینے پرسرعت سے اپنی نازک ہتھیلیاں جماگئی تھی وہیں وہ تماشائیوں کے بیچ  بمشکل ضبط کیے بیٹھا اِس ناقابلِ برداشت نظارے پر جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔

”واللہ۔۔۔دیوان صاحب چھوڑئیے ہمیں ورنہ رقص سےلطف اندوز ہونے والوں کو بڑی دقت کا سامنا ہوگا۔۔۔“ اُسے غصے میں تیزی سے اپنی جانب لپکتا دیکھ وہ فوری گردن موڑتی مقابل سے التجاء کرگئی مگر وہ 

اُسکی درخواست کو ناک پرسے مکھی کی طرح اڑاتا اپنی خباثت بھری مسکراہٹ مزید گہری کرگیا۔

”چھوڑ اِسے۔۔۔“  پل میں اُسکے سر پر پہنچتا وہ سختی سےمٹھیاں بھینچے شدتِ نفرت سے پھنکارا تو دیوان ملک چونک کراُس خوبرو جوان کی جانب متوجہ ہواجبکہ وہ اگلےلمحوں کی بابت سوچتی مزیدپریشانی میں گھری تھی۔

”کیوں چھوڑوں۔۔۔؟یہ صرف تمھاری ملکیت نہیں ہے بلکہ یہاں پر بیٹھا ہروہ شخص اِس رقاصہ پر برابر کاحق رکھتا ہے جو اِسکے بےداغ حسن سے گھائل ہوکر اندھا دھنداِس پر پیسوں کی برسات کرتاہے۔۔۔“  اُسکی سرخ انگارہ آنکھوں میں جھانکتا وہ قدرے بےباکی سے بولا۔ساتھ ہی انتہا کی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتا اُسکی نازک سی کسمساتی کمر پر اپنی گرفت مزید سخت کرگیا۔مگر دوسرے ہی لمحے منہ پر مقابل کا بھرپور شدت سے پڑنے

والامکا اُسے اپنے بازوؤں کا سخت گھیرا پوری طرح کھولنے پر مجبورکرگیا۔

”یہ فقط میری ملکیت ہے۔۔۔فقط سالارخان کی ملکیت جس پرکسی بھی دوسرے کاکوئی حق نہیں ہے۔۔۔اب اگرکسی نےاِسےانگلی سےبھی چھونے کی کوشش کی تو میں اُسکا بازو ہی کندھے سےاکھاڑپھینکوں گا۔۔۔یاد 

رکھنا میری بات!“  پورے استحقاق سے رابی کی چوڑیوں بھری کلائی تھام کر اُسے اپنے پیچھے کرتا وہ انگلی اٹھائےتقریباً سب کو ہی کھلے عام دھمکی دےگیا۔

حیرت کا مجسمہ بنی رابی نے اِس جنونی محبت پر آنکھیں پھیلائے سالار خان کو دیکھا جو اُسے اپنی پشت پرکھڑا کرتاایک بےنام سا تحفظ دے گیا تھا۔ 

دیوان ملک کو پھٹے ہونٹ پر ہاتھ رکھ کے بلبلاتا دیکھ وہاں بیٹھے لوگ حیرانگی اور کچھ تجسس سے اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔

نظارہِ عشق دیکھنے لائق تھا۔۔۔۔

خوشگوارمحفل ایکدم ہی ٹینشن زدہ ماحول میں ڈھلی تھی۔ساری شوخیاں،رنگ رلیاں اور مستیاں پل میں اڑن چھو ہوگئی تھیں۔ہوش میں آتی تابین بائی جھٹکے سے جھولے سے اٹھی تھیں۔اُس کی اِس گستاخی پر بےاختیار اُسے قتل کرنے کو دل چاہا تھا۔

”تیری اتنی ہمت سالے۔۔۔۔تُونے دیوان ملک پر ہاتھ اٹھایا۔۔۔۔تجھے تو میں ابھی تیری اوقات پر لاتا ہوں۔۔۔۔“  بےیقینی سے اپنی انگلیوں پر لگے خون کو دیکھ کر وہ اگلے ہی پل وحشی سا سالار خان پر جھپٹا۔

اُسکے محبت بھرے اعتراف سے ذیادہ اُسے بھری محفل میں اپنی ذلالت کا دکھ مارے جارہا تھا۔

دیوان ملک کے ہاتھوں کو اپنے گریبان پر پہنچنے سے پہلے ہی وہ اُنھیں اپنی مضبوط گرفت میں لیتا دوسرا دھموکا بھی جڑ چکا تھا۔

” تُو ابھی خود سالار خان کی اوقات سے صحیح طرح سے واقف نہیں ہے ورنہ اِس گریبان پر ہاتھ ڈالنے کی حماقت کبھی نہیں کرتا۔۔۔۔“  اپنی شرٹ کا کالر پکڑ کر صحیح کرتا وہ اُس پر اپنی اہمیت واضح کرگیا جو خونخوار نظروں سے بےبس سا اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔

”واللہ۔۔۔۔سالار خان جاؤ یہاں سے۔۔۔۔خدارا چلے جاؤ۔۔۔۔“  رکتے دل کے ساتھ جہاں رابی نے اُسکی شرٹ کو بازو سے دبوچا تھا وہیں اپنا تمام تر صبرکھوتی تابین بائی بگڑے تیوروں کے ساتھ سالار خان کی جانب تیزی سے لپکیں۔

”کیا۔۔۔؟؟کیا چاہتے کیا ہو تم۔۔۔؟؟کس حق سے اتنی بڑی بڑی باتیں کررہے ہو میری بیٹی کے بارے میں۔۔۔؟؟کیا بیوی ہے وہ تمھاری۔۔۔؟؟یاں پھر ماں بہن لگتی ہے جو غیرت کے معاملے میں اتنے اکڑے جارہے ہو۔۔۔؟؟“  اُسکا گریبان دونوں ہاتھوں سے دبوچتی وہ اُس پر طوفان بن کر نازل ہوئی تھیں۔

”محبت ہے وہ میری۔۔۔۔بےغیرت عورت۔۔۔۔محبتتتت۔۔۔۔“  تابین بائی کے گہرے واروں پر آپے سے باہر ہوتا وہ جھٹکے سے اُنھیں پیچھے دھکیل گیا۔

نتیجتاً وہ پیچھے کو گرتی کمرے پکڑے کراہ اٹھیں یا شاید جان بوجھ کر گرنے کا دکھاوا کیا گیا تھا۔۔۔۔

رابی نے سرعت سے آگے بڑھ کر اٹھنے کی کوشش کرتی تابین بائی کو بازوؤں سے تھام کر سہارا دیا تھا۔

یہ سرکشی کی حد نہیں تو پھر کیا تھا۔۔۔۔۔؟؟

اگلے ہی پل وہ شش و پنچ میں کھڑے سالار خان کی جانب پلٹی تھی اور تڑاخ کی پُرزور آواز گہرے سکوت کو توڑتی چلی گئی۔

”را۔۔۔بی۔۔۔۔۔“  تپتے رخسار پر چند انگلیاں جماتا وہ بےیقین سا زیرلب اُسے مخاطب کرگیا جو اُسے نم مگر خونی نظروں سے گھور رہی تھی۔

اُسکے پورے وجود میں نئے سرے سے تڑپ جاگ اٹھی تھی۔

سالار خان کے اِس قدر دلچسپ انجام پر جہاں دیوان ملک کا فلک شگاف قہقہ حلق سے نکلا تھا وہیں تابین بائی آنکھوں میں حقارت لیے ہولے سے مسکرائیں۔

”دفع ہوجاؤ میری نظروں کے سامنے سے سالار خان۔۔۔اور ہوسکے تو کبھی مجھے اپنی شکل مت دیکھانا۔۔۔۔نکل جاؤ۔۔۔۔“  چوڑے سینے پر دباؤ ڈال کر اُسکا ڈھیلا وجود پیچھے دھکیلتی وہ غرائی تو وہ لہورنگ آنکھوں سے اپنے  مخالفوں کو مسکراتا دیکھ اگلے ہی لمحے رخ پھیرتا لوگوں کے بیچ سے نکلتا چلاگیا۔

تبھی تابین بائی کے اشارے پر نئے سرے سے موسیقی اور طبلوں کا دور چلا تھا۔

گہرا سانس بھرتی رابی جہاں خود کو آنے والے وقت کے لیے تیار کرتی بےحسی سے مسکرائی تھی وہیں سب کی نظروں سے بچتی بچاتی تابین بائی دبیز قالین پر سے گولڈ کی بریسلٹ اٹھاتی اپنی جامنی ساری کے پلو میں چھپاگئیں۔

***************************

وہ لاؤنج میں پُرسوچ سا بیٹھا دو انگلیوں سےمسلسل اپنا ماتھا مسل رہا تھا۔پاس ہی صوفے پر بیٹھی عائمہ بیگم پوری تندہی سے آمنہ اور طلعت میں سے بھربھرکے کیڑے نکالتی اگلے پچھلے سارے حساب بےباک کرنے میں مصروف تھیں جنھیں اپنا بوریا بسترا سمیٹ کر اِس گھر سے نکلے کئی گھنٹے بیت چکے تھے۔

”میں اور شام تم سے ہمیشہ یہی بات بولتے رہے کہ اُس لڑکی کو اتنا سر پر مت چڑھاؤ۔۔۔اب دیکھ لیا ناں اپنی مہربانیوں کا نتیجہ۔۔۔۔مجھے تو بہت پہلے سے ہی اُس پر شک تھا۔۔۔شک کیا یقین تھا پورا۔۔۔۔وہ میسنی گھنی شکل سےجتنی معصوم دِکھتی تھی کرتُوتوں کی اتنی ہی کالی نکلی کمبخت۔۔۔۔دیکھو تو سہی۔۔۔اتنی سی عمرمیں ایک ناجائز بچے کی ماں بننے جارہی ہے۔۔۔۔ توبہ توبہ۔۔۔اللہ معاف ہی رکھے ایسی بدکار عورتوں سے تو۔۔۔۔“  کانوں کو ہاتھ لگاتی وہ حد سے تجاوز کرگئیں تو عائل نے کچھ حیرت سے عائمہ بیگم کے آخری لفظوں پر غور کیا۔

”پلیز موم۔۔۔۔جو کچھ بھی ہوا تھا نکاح کے بعد ہی ہواتھا۔۔۔اب ایسے میں آپ اُسے ناجائز قرار دے کر ذیادتی تو مت کریں۔۔۔۔“  سرد لہجے میں عجلت بھری برہمی سموئے وہ بےاختیار آمنہ کی حمایت میں بول گیا جبکہ انہیں اپنے بیٹے کا یہ انداز ایک آنکھ نہیں بھایا تھا۔

یعنی اتنا سب کچھ ہوجانے کے باوجود بھی وہ اُنہی ماں بیٹی کے حق میں بولتا خود کی ماں سے احتجاج کررہا تھا۔

”کیا معلوم نکاح کی بابت بھی وہ جھوٹ بول رہی ہو۔۔۔۔خیرجو بھی تھا تمھیں خواہ مخواہ پرائے پھڈے میں نہیں پڑنا چاہیے تھا عائل۔۔۔“  اپنے آپ کو ہرلحاظ سے صحیح ثابت کرنے کی خاطر خود سے غلط اندازے لگاتی اب کے وہ بھی ذرا خفگی سے گویا ہوئیں جس پر وہ محض گہری سانس بھرکے رہ گیا۔

جنید کے جیل میں بندہونے کی خبر مانو اُنھیں آگ ہی تو لگاگئی تھی۔ 

”آپ یہ سب چھوڑیں موم اور  مجھے بس اتنا بتائیں کہ اُن دونوں کو آپ نے خود زبردستی تو نہیں نکالا تھا۔۔۔؟؟؟یعنی وہ خود اپنی مرضی سے یہاں سے  گئی تھیں۔۔۔۔؟؟؟“  اُن دونوں کی بے بسی اورمجبوریوں کی فکر کرتا وہ بظاہر بےتاثر لہجے میں بولا۔ 

اُسے قطعی اس بات کی امید نہیں تھی کہ آمنہ اور اُسکی ماں خود اپنی مرضی سے یہاں سے چلی جائیں گی۔وہ بھی ایسے میں جب اُنکے پاس نہ تو کوئی دوسرا روزگار تھا اور نہ ہی آمنہ کا باپ اُنکی کفالت کی ذمہ داری اٹھانے کے قابل تھا۔

عائل کے تفتیشی سوال پر ایک پل کو ٹھٹھکتی وہ فوراً سے اپنے تاثرات مضبوط بناگئیں۔

”وہی تو میں بھی تم سے کہہ رہی ہوں بیٹا۔۔۔۔اُن ماں بیٹیوں نے مجھے موقع ہی کب دیا کہ میں دھکے مار کر اُنھیں اِس گھر سے باہرنکال سکتی۔۔۔؟؟بلکہ وہ دونوں خود ہی چوروں کی طرح منہ چھپاکر اپنا سامان سمیٹتی یہاں سے چلتی بنیں۔۔۔مگر جاتے جاتے اُسکی ماں اپنا حساب کتاب چکتا کرنا نہیں بھولی۔۔۔حد ہے بھئی بےشرمی کی بھی۔۔۔۔“  سچ ملا جھوٹ بےدھڑک عائل کے سامنے پیش کرتی وہ پل میں اُسے کڑا اطمینان دلاگئی تھیں۔

حقیقتاً تو طلعت نے گڑگڑا کر اُن سے تب تک یہاں ملازمت کرنے کی درخواست کی تھی جب تک کہ اُنھیں کوئی دوسری جگہ مناسب نوکری  نہ مل جاتی۔

مگر وہاں پرواہ کسے تھی۔۔۔؟؟

تبھی عائمہ بیگم نے اُنھیں جلی کٹی باتیں سناکر بغیر ترس کھائے منٹ میں گھر سے نکال باہر کیا تھا۔

”ہوں۔۔۔۔۔“  ایک نظر اُنکے نفاست سے کیے گئے میک اپ شدہ چہرے پر ڈالتا وہ سرد ہنکارا بھرگیا۔

”اففف میرا بچہ کتنا تھک گیا ہے ناں۔۔۔تم رکو میں ابھی نئی ملازمہ سے بول کر تمھارے لیے ٹیبل سیٹ کرواتی ہوں۔۔۔۔“  اُسکے چہرے پر جمی تھکاوٹ دیکھ کر عائمہ بیگم کو بےاختیار اُسکی بھوک کا احساس جاگا جس نے جانے کتنے وقت سے کچھ نہیں کھایا تھا۔

جواب میں وہ نئی ملازمہ کے نام پر پل بھرکو چونکتا دھیرے سے سرہلاگیا۔

”اور ہاں۔۔۔۔میں تمھیں ایک اہم بات بتانا تو بھول ہی گئی۔۔۔۔“  وہاں سے جاتے جاتے وہ ایکدم سے رکتی اُسکی جانب پلٹیں تو عائل اُنکے پرجوش انداز پر ٹیک چھوڑتا اُنکی جانب متوجہ ہوگیا۔

”کونسی بات۔۔۔۔؟؟کیا ڈیڈ بزنس ٹور سے واپس آگئے ہیں۔۔۔؟؟“  اُنکے چہرے کی مسکراہٹ کا کنکشن حسن صاحب کی گھرواپسی سے جوڑتا وہ بھی خوشدلی سے مسکرایا۔

”نہیں وہ تو آہی جائیں گے۔۔۔۔بتانا یہ تھاکہ شام کی برتھ ڈے آرہی ہے۔۔۔۔جانتے ہوناں اس دن کو لے کر وہ کتنا ایکسائٹڈ ہوتا ہے۔۔۔۔؟؟“  شام کی بابت اُسے یاددہانی کرواتی وہ قدرے مسرور لہجے میں بولیں۔

”اوہ ہاں۔۔۔۔وہ میں کیسے بھول سکتا ہوں۔۔۔۔؟؟چھوٹے نواب کو بہت اچھے والا سرپرائز دوں گا میں اِس بار۔۔۔۔“  حسبِ توقع وہ بھی مسکاتی آنکھوں سے اپنے مائنڈ میں نئے نئے پلینز سوچنے لگا تھا۔

شام کے علاوہ باقی سب سوچوں سے فی الوقت اُسکا دھیان ہٹ چکا تھا اور شاید عائمہ بیگم بھی یہی چاہتی تھیں۔

”تمھیں جو بھی کرنا ہے کرو۔۔۔۔بس میرا بچہ خوش ہوجائے۔۔۔۔اور دعا کروکہ اس بار حسن صاحب اپنے غصے کے چکر میں شام کا اسپشل ڈے خراب نہ کردیں۔۔۔۔۔نہیں تو اُسے منانا مشکل ترین کام ہوجائے گا۔۔۔۔۔“  خود کے ساتھ ساتھ اُسے بھی نئی الجھنوں میں الجھاتی وہ حسن صاحب کے غصے سے خائف ہوتی قدرے فکرمند ہوئی تھیں۔

پچھلی بار کا تماشہ اُنھیں اچھے سے یاد تھا۔

جب شام نے اپنی برتھ ڈے پارٹی پر کسی معروف ڈانسر کو مدعو کیا تھا جس پرحسن صاحب اچھے خاصے بھڑک اٹھے جبھی تو سب مہمانوں کا لحاظ کیے بغیر وہ اُسے اچھی خاصی جھاڑ پلاگئے تھے۔

نتیجتاً شام بھی زبان درزای کرنے کے بعد ناراض ہوکر فارم ہاؤس چلاگیا تھا اور پھر کافی اصرار پر دو دن بعد گھرواپس لوٹا تھا۔

”ڈونٹ وری اباؤٹ دیٹ موم۔۔۔۔۔انشاء اللہ سب اچھا ہی ہوگا۔۔۔۔“  پُریقین سا بولتا وہ مسکرایا تو گہرا سانس بھرتی عائمہ بیگم اثبات میں سرہلاگئی اور کچن کی جانب مڑتی  ”راشدہ“ نامی ملازمہ کو اونچی اونچی آوازیں دینے لگیں۔

*************************

وہ اپنا سارا میک اپ صاف کرکے واشروم سے باہر نکلی تھی۔ہلکے گلابی رنگ کا سوٹ جس پر جگہ جگہ نفیس کام ہوا تھا  اُسکی پھیکی رنگت پر اپنی رونق کھورہا تھا۔ڈریسنگ سے اپنا چشمہ اٹھاکر تیکھی ناک پر ٹکاتی وہ گم صم سی بیڈ پر بیٹھ گئی۔گنے چنے چند افراد سمیت چھوٹا سا فنکشن اٹینڈ کرنے کے باعث تھکاوٹ اُسکے سر چڑھ کر بول رہی تھی۔

مگر ذہنی اذیت اس جسمانی تھکاوٹ سے کئی بڑھ کر تھی جو اُسے پل پل بےچین کیے دے رہی تھی۔

”ذباب۔۔۔۔۔“  اپنی انگلیوں کو چہرے  کے سامنے پھیلائے اُسکی بے تاثر نگاہیں اس سمے گولڈ کی رِنگ پر اٹکی ہوئی تھیں جو کچھ دیر پہلے اُسے ذباب کے نام سے پہنائی جاچکی تھی۔

 کتنی شدت سے انتظار تھا اُسے اِن لمحات کا مگر جب یہ خوشگوار پل اُسکی زندگی میں آکر گزربھی گئے تھے تو پھر کیوں اُسے خوشی نہیں ہورہی تھی۔۔۔؟؟

کیوں زباب کے نام پر کوئی جذبہ اُسکے اندر نہیں پنپ رہا تھا۔۔۔۔؟؟

کیوں اُسکے نازک سے مایوس دل کی دھڑکنیں بےہنگم نہیں ہورہی تھیں۔۔۔؟؟بالکل ویسے ہی جیسے شام کے ذرا سے ذکر پر۔۔۔۔۔۔!!

کب سے اپنے آپ سے الجھتی حرمین اس پوائنٹ پر آکربےساختہ ٹھٹکی۔

دل بےاختیار دھڑکا تھا۔

 کیا وہ اُسے چاہنے لگی تھی۔۔۔؟؟

اِس چھ لفظی سوال کے بدلے نفی کی تو کہیں بھی کوئی گنجائش نہیں تھی۔

نہیں۔۔۔یہ غلط ہے۔۔۔۔۔!!

اِس گہرے انکشاف پر جہاں اُسکے الجھے ذہن کی اذیت کچھ کم ہوئی تھی وہیں کہیں اندر سے چیختی آواز نے حرمین کے اعصاب کو جھنجھوڑا کر رکھ دیا مگر وہ اِس بےایمان دل کا کیاکرتی جو ان لمحوں میں شدت سے دھڑکتا اعتراف کرنے کے درپے تھا۔

جبھی تو وہ پل میں خودغرض بنتی  ضمیر کی آواز کو گہری سانسوں کے درمیان اندر ہی کہیں دباگئی تھی۔

شام کی شدت بھری توجہ۔۔۔۔دل میں اترجانے والی شریں گفتگو۔۔۔۔دلفریب مسکراہٹ۔۔۔۔اور چاہت بھری نظریں۔۔۔۔کچھ بھی تو ٹھکرانے کے قابل نہیں تھا۔۔۔۔

اُسکی برائے نام خوبیوں کو یبک وقت گنتی وہ جذباتی سی تکیہ اٹھا کر اپنے حصار میں سختی سے جکڑ چکی تھی۔

اور سب سے بڑھ کر وہ اُسکی عزت کا رکھوالا تھا۔۔۔۔ایک ایسا مسیحا جو انجانے میں اُسکے بےجان دل کو اپنی چاہت سے آشناکرواتا دھڑکنا سیکھاگیا تھا۔۔۔۔

شریر اذہان میں پنپتے ناپاک ارادوں سے قطعی انجان ایک اور ٹھوس جواز اُسکے دھڑکتے دل نے پیش کیا تھا۔

تو پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ شام کی نرمی و اپنائیت کا جواب بے حسی اور سنگدلی سے دیتی۔۔۔۔

فیصلہ کن موڑ پار کرتی حرمین کے سیاہی مائل لبوں پر ایک کھوئی کھوئی سی مسکراہٹ بکھری تھی۔

وہ خود کی گہری سوچوں میں مزید ڈوبتی اردگرد سے اس قدربےبہرہ ہوچکی تھی کہ اپنے موبائل فون پر آنے والی ذباب کی چھٹی کال بھی مسڈ کال میں بدل چکی تھی۔

**************************

وہ جو سینے سے فائل لگائے  تھکے تھکے سے انداز میں اپنے فلور پر آئی تھی سامنے ہی شاہ کو اپنے کیبن کے پاس کنزا سے گفتگو کرتا دیکھ ٹھٹک کر اپنی چال سست کرگئی۔

”گڈ مارننگ سر۔۔۔۔۔“  قدرے دھیمی آواز میں مسکرا کر بولتی وہ پہلے سے ہی متوجہ شاہ کو مکمل اپنی جانب متوجہ کرواگئی۔

شاہ نے ایک گہری نظر اُسکے حسین مگر مرجھائے نقوش پر ڈالی تھی اور اگلے ہی پل اُسکی نیند نہ پوری ہونے کے باعث گلابی پڑتی آنکھوں سے نگاہیں ہٹاتا آبرو کو اُسکی گڈمارننگ سمیت پوری طرح اگنور کرگیا۔

”مس کنزہ۔۔۔۔آپ یہ ٹوٹل اپ ڈیٹس وقار صاحب تک پہنچادیں۔۔۔۔اور وہ اپائنٹمنٹ لیٹر۔۔۔۔؟؟؟  قدرے پروفیشنل انداز میں سنجیدگی سے بولتا وہ آبرو کی مسکراہٹ چھیننے میں مکمل کامیاب رہا تھا جو اب کنزہ کے ذرا حیرت میں ڈھلتے تاثرات دیکھ کر خوامخواہ شرمندہ سی ہونے لگی تھی۔

”جی سر وہ بھی ریڈی ہے۔۔۔۔“  شاہ کو سوالیہ انداز میں آبرو اچکاتا دیکھ وہ تیزی سے اپنا سر ہلاگئی جبکہ گم صم سی وہیں پر کھڑی آبرو نے اپائنٹمنٹ لیٹر کے ذکر پر چونک کر شاہ کو دیکھا جو اب بھی اُسے سرے سے نظرانداز کیے کنزا سے محوِ گفتگو تھا۔

”گڈ۔۔۔۔اب آپ جاکر اپنا کام کریں۔۔۔۔“  کنزا کو سرسری سی داد دیتا وہ اگلا آڈربھی دے چکا تھا جس پر وہ گردن ہلاتی منیجر وقار صاحب کے روم کی جانب اپنے قدم بڑھاگئی۔

تبھی ہوش میں آتی آبرو نے بھی وہاں سے کھسک جانا ہی بہتر سمجھا تھا مگروائے رے قسمت۔۔۔

ابھی اُسنے پہلے کے بعد دوسرا قدم اٹھایا ہی تھا جب شاہ نے اُسے راہِ فرار تلاشتا دیکھ موقع پر چوکا مارا۔

”مس آبرو۔۔۔۔ذرا روم میں آئیں میرے۔۔۔۔“  آواز میں کرختگی کا عنصر واضح تھا جس پر وہ بے اختیار اپنی آنکھیں سختی سے موندکر کھلتی اُسکی جانب پلٹی۔

”جی سر۔۔۔۔۔؟؟؟“  فائل پر پکڑ مزید سخت کرتی وہ بےبس سی نظریں جھکائے اُسکے پیچھے پیچھے چل پڑی۔

روم میں پہنچ کر آبرو نے اپنے ہٹلر باس کی جانب نظر بھر کر دیکھا جو اپنی سیٹ پر براجمان ہونے کی بجائے اب ماتھے پر تیوری چڑھائے اِدھر سے اُدھر ٹہل رہا تھا۔

اُسکے بگڑتے تیور ملاحظہ کرتی آبرو کو اپنے ناکردہ جرم کی سزا کا اندیشہ ہوا کہ تبھی وہ رک کر اُسکی جانب گھوما۔

”یہاں کی باس آپ ہیں یاں میں آبرو صاحبہ۔۔۔۔۔؟؟“  پاکٹس میں ہاتھ ڈالتا وہ سرد لہجے میں بولا۔

”آپ سر۔۔۔۔“  اُسکے غیرمتوقع سوال پر پل بھر کو گڑبڑاتی وہ پورے اعتماد سے اُسے جواب دے گئی تو وہ پُرسوچ انداز میں سرہلاتا اُسکے مقابل آکھڑا ہوا۔

”اس حساب سے تو پھرآپکو مجھ سے بھی پہلے یہاں پر موجود ہونا چاہیے۔۔۔ناں کہ میرے بعد۔۔۔۔مگر آپکو دیکھ کر مجھے تو ایسا لگتا ہے جیسے آپ کوئی رُول فالو کرنے کے لیے بنی ہی نہیں۔۔۔۔“  بظاہر سخت نظروں سے گھورتا وہ آبرو کو ٹارچر کرنے کا ایک اور سرا ہاتھ میں تھام چکا تھا۔

”اب ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے سر۔۔۔۔فرسٹ ٹائم ہی لیٹ ہوئی ہوں ورنہ تو ہمیشہ ٹائم پر ہی آتی ہوں میں۔۔۔۔ایکچولی کام کا لوڈ ہی اتنا تھا مجھ پر کہ ساری رات جاگ کر کام کرتی رہی ہوں۔۔۔۔اسی لیے صبح ذرا دیر سے آنکھ کھلی تھی میری۔۔۔۔“  شاہ کے انسلٹ کرنے کے اس نئے انداز پر اپنے اندر امڈتی حیرت پر قابو پاتی اب کے وہ بھی ذرا چڑ کر بولی۔

” تو کیا کروں پھر۔۔۔۔؟؟؟تالیاں بجاکر داد دوں کہ آپ نے اپنا کام پورا کرکے مجھ پر احسان کیا ہے۔۔۔۔؟؟“  اُسکے انداز کو اندر ہی اندر انجوائے کرتا وہ بےاختیار دونوں ہاتھوں سے شور برپا کرگیا تو اُسکا حددرجہ تلخ لہجہ محسوس کرتی آبرو سہم کر ایک قدم پیچھے کو ہوئی۔

”نو سر۔۔۔۔میرا وہ مطلب ہرگز نہیں تھا۔۔۔۔میں تو بس۔۔۔۔“  وہ شرمندہ ہوتی آنکھوں کے بھیگتے گوشوں سمیت سر جھکاگئی۔

اُس پر غالب آنے کا ہنر وہ اچھے سے جانتا تھا۔

”آپکے بی ہیویر سے تو مجھے یہی مطلب سمجھ آیا ہے مس آبرو۔۔۔۔میں غلط تو نہیں کہہ رہا ناں۔۔۔۔؟؟؟“  اُسے روہانسا دیکھ کر نرمی سے بولتا وہ اب بھی اُسے زچ کرنے سے باز نہیں آرہا تھا۔

”سوری سر۔۔۔۔۔“  سرخ گال پر لڑھکتا آنسو صاف کرتی وہ بغیر اُسے نظریں ملائے معذرت کرگئی تو جانے کیوں شاہ کو اُسکے آنسو دیکھ کر برا لگا تھا۔

”سوری سے کیا ہوگا۔۔۔۔؟؟اس طرح آپ اپنی عادتیں بدل لیں گی۔۔۔؟؟؟“  پھر سے سوال کرتا وہ ایک قدم کا فاصلہ مٹاتا اُسکے حددرجہ قریب آگیا تو آبرو نے شکوہ کناں نظروں سے اُسکی خمار آلود ہوتی آنکھوں میں دیکھا۔

شاہ ہولے سےمسکرایا اور اگلے ہی پل اُس کا سارا دھیان اُسکے تیزی سے بھیگتے گالوں کی جانب چلاگیا۔

اسکا اپنے چہرے کی جانب بڑھتا ہاتھ دیکھ کر آبرو شدت سے دھڑکتے دل سمیت سرعت سے اپنا چہرہ پھیرتی پیچھے ہوئی۔

یہ دیکھ کر شاہ ہوا میں ٹھہرے ہاتھ کی مٹھی بناتا بےخودی میں مسکراتے لب بھینچ گیا۔وہ ہربار اُسے نظرانداز کرکے دل پر گہراوارکرجاتی تھی۔

”نیکسٹ ٹائم اگر آپ سے کوئی بھی مسٹیک ہوئی یاں پھر آپ نے یہاں کے رولز سے اوائڈ کرنے کی کوشش کی تو سزا کے لیے ریڈی رہیے گا مس آبرو۔۔۔۔اس بات کا اندازہ اب تک تو آپکو بھی اچھے سے ہوگیا ہوگا کہ میں کسی کو بھی چُھوٹ دینے کا قائل ہرگز نہیں ہوں۔۔۔۔“  اپنے اندر انگڑائیاں لیتے غصے کو دبائے بغیر وہ اُسکی جانب انگلی اٹھائے چبا چبا کر بولتا آخر میں طنزکرنا نہیں بھولا تھا۔

”اندازہ تو اچھے سے ہے۔۔۔۔آئندہ سے خیال رکھوں گی۔۔۔۔“  اُسکی سخت نظروں سے خائف ہوتی وہ بڑے دھیمے انداز میں تقریباً منمنائی۔

وہ الگ بات تھی کہ اُسکے بدلتے تیوروں کی وجہ سمجھتی وہ دل ہی دل میں مسرور ہوئی تھی۔

آخر کو وہ بھی تو اپنے کھڑوس باس کو بغیر ہتھیار کے  گھائل کردینے کی سکت رکھتی تھی۔۔۔۔

”گڈ۔۔۔اب اگر آپ نے شوق سے میرا قیمتی ٹائم برباد کرلیا ہو تو پلیز یہ فائلز مجھے پکڑائیں اور جائیں یہاں سے۔۔۔ مجھے اور بھی ضروری کام کرنے ہیں۔۔۔۔“  اچانک ہی اُسکے ہاتھوں سے دونوں فائلز تقریباً جھپٹتا اگلے ہی پل وہ اپنا رخ پھیرگیا۔

اشارہ صاف تھا کہ اب وہ یہاں سے جاسکتی ہے ورنہ ممکن تھا کہ وہ اُسے حد سے ذیادہ ٹارچر کرجاتا جوکہ اس پل اُسکا دماغ یہ سب کرنے کو شدت سے اُ کسا بھی رہا تھا۔

”شیور سرررر۔۔۔۔۔“  اُسکی چوڑی پشت کو تاسف سے دیکھتی وہ ناک منہ چڑھاتی وہاں سے نکلتی چلی گئی جبکہ وہ فائل کے پیج پلٹتا دروازہ بند ہونے کی زوردار آواز پر ضبط سے گہرا سانس بھر کے رہ گیا۔

*************************

وہ بالائی لب کے اوپری حصے پر آیا پسینہ ہاتھ کی پشت سے پونچھتی گیٹ کھول کر اندر داخل ہوئی۔

”اسلام علیکم۔۔۔۔۔“   کندھے سے پھسلتے  بیگ کی سٹرپ کو واپس اوپر چڑھاتی حاویہ معمول کے مطابق  بآواز بلند سلام لیتی اندر کی جانب لپکی تھی

لیکن سامنے صوفے پر نفیسہ بیگم کے ساتھ بیٹھے اضافی وجود کو دیکھ کر پھیلتی آنکھوں سمیت اُسکا حلق بےساختہ خشک پڑا تھا۔

بختی ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے مسکاتی آنکھوں میں ڈھیروں چمک لیے اُسے ہی دیکھنے میں مصروف تھا۔

چار سال بعد آج وہ اُسے اپنے سامنے دیکھ رہی تھی یاں یوں کہنا بہتر ہوگا کہ اُسے دیکھنے پر مجبور تھی۔

اِس پل کیا کچھ یاد نہیں آیا تھا اُسے مقابل کا چہرہ دیکھ کر۔۔۔۔

وہ اُسکا بہانے بہانے سے قریب آنا۔۔۔جان بوجھ کر ٹچ کرنا اور پھر معنی خیز باتیں کرنا جو وہ اپنی کم عمری کی وجہ سے کبھی سمجھ نہیں پائی تھی یاں پھر سمجھ کر بھی اُسکے ڈر کی وجہ سے جھٹلادیا کرتی تھی۔۔۔۔

”وعلیکم اسلام۔۔۔۔دیکھو تو ذرا کون آیا ہے ہم سے ملنے۔۔۔۔پہچانا تم نے حاویہ۔۔۔۔؟؟؟“  اُسکی حیرت زدہ آنکھوں میں خوشی سے جھانکتی نفیسہ بیگم نے اُسے الجھانا چاہا تو وہ فوری ہوش میں آتی بےدلی سے سر ہلاگئی۔

کالی ٹی شرٹ اور سفید ٹراؤز میں بختیار عرف بختی کا کسرتی جسم واضح ہورہا تھا جبکہ شیو کی بجائے اِس بار داڑھی کا فرق آیا تھا۔

لیکن اُسکی خباثت کا لیول پہلے کی نسبتاً بڑھ چکا تھا جسکا اندازہ حاویہ اُسکی مسلسل گھورتی نظروں سے ہی لگاچکی تھی۔

”جی۔۔۔۔بختی بھائی آئے ہیں۔۔۔۔کیسے ہیں آپ بھائی۔۔۔۔؟؟“  بھائی پرخاصا زور دیتی وہ مروتاً اُسکا حال احوال پوچھ گئی۔

کہنے کو تو وہ نفیسہ بیگم کا منہ بھولا بھانجا تھا اور فیضان صاحب کی وفات کے بعد سے ایک بیٹے کی ہی طرح اُسنے بہت سی ذمہ داریاں اپنے سر لی تھیں۔سب ٹھیک چل رہا تھا  لیکن پھر پتا نہیں کب اور کیسے بختی کی نیت اُس پر خراب ہوگئی تھی؟یہ بات وہ خود بھی کبھی جان نہیں پائی تھی۔

”میں ایکدم پرفیکٹ باربی ڈول۔۔۔۔تم اپنے بارے میں بتاؤ۔۔۔۔کونسی کلاس میں پڑھ رہی ہو۔۔۔۔؟؟“  اُسکے بھائی بولنے پر پھیکی پڑتی مسکراہٹ کو بمشکل بحال کرتا وہ قدرے اشتیاق سے پوچھنے لگا۔

”جی میں سیکنڈائیر میں پڑھ رہی ہوں بھائی۔۔۔۔“  اُسکے شریں لہجے اور طرزِتخاطب سے خار کھاتی وہ اپنے کمرے میں جانے لگی تو بختی اُسکی حدرجہ سنجیدگی شدت سے محسوس کرتا فوراً ٹوک گیا۔

”ارے کہاں جارہی ہو حاوی۔۔۔۔؟؟کچھ دیر ہمارے پاس بھی تو بیٹھو۔۔۔۔ماشاءاللہ۔۔۔۔دیکھیں تو خالہ جب میں اِسے چھوڑ کر گیا تھا تو تب اتنی سی تھی یہ۔۔۔۔بالکل باربی ڈول جیسی۔۔۔۔اور اب۔۔۔۔کتنی بڑھی ہوگئی ہے ناں۔۔۔۔وقت اتنی تیزی سے گزرگیا مجھے پتا ہی نہیں چلا۔۔۔۔“  بظاہربڑاپن دکھاتا وہ ایکسرے کرتی نظروں سے حاویہ کا دلکش سراپا نظروں میں بھرتے نفیسہ بیگم کو بھی اندر گھسیٹ گیا تو حاویہ ضبط کے مارے اپنے دکھتے کندھے سے لٹکے بیگ پر گرفت سخت کرگئی۔

”ہاں بیٹا یہ تو تم بالکل صحیح بول رہے ہو۔۔۔۔بس اب میں اپنی دونوں بیٹیوں کے فرائض پورے حق کے ساتھ اداکردوں تو مجھے اور فیضان صاحب کی روح کو سکون سا مل جائے گا۔۔۔۔“  وہ جو بختی کی تمام باتوں کو محض ایک بڑے بھائی کے نظرئیے سے لیتی مسکراتے ہوئے تائید میں سر ہلارہی تھیں لگے ہاتھوں اُسکے سامنے اپنی خواہش کا بھی اظہارکرڈالا۔

”ماما۔۔۔میں فریش ہونے جارہی ہوں۔۔۔۔آپ بختی بھائی کو کمپنی دیں۔۔۔۔“  اپنی برداشت کھوتی حاویہ بمشکل خود کو نارمل رکھتی اگلے ہی پل اپنے کمرے کی جانب تقریباً بھاگتی ہوئی لپکی تھی۔

لیکن اسکے باوجود بھی وہ بختی کی نظروں کی تپش آخر تک محسوس کرسکتی تھی جو وہ حاویہ کے کمرے میں گم ہوتے ہی واپس نفیسہ بیگم کی جانب موڑ گیا۔

”خالہ آپ نے حرمین کا رشتہ تو طے کردیا ہے۔۔۔تو کیا حاوی کا بھی کہیں دیکھ رکھا ہے۔۔۔۔؟؟؟“  دل میں پنپتے اندیشے کو الفاظ دیتا وہ اپنے اندر بےچینی سموئے بظاہر پُرجوش سا بولا۔

”نہیں بختی بیٹا۔۔۔۔فی الحال تو ابھی وہ پڑھ رہی ہے۔۔۔۔اسی لیے اتنا دھیان نہیں دے رہی اسکی طرف۔۔۔۔پہلے حرمین اپنے گھر کی ہوجائے پھر اسکے بارے میں بھی سوچوں گی۔۔۔۔بس اللہ سب بچیوں کے نصیب اچھے کرے۔۔۔۔آمین۔۔۔۔“  نفیسہ بیگم اُسکی بات کی شد و مد سے نفی کرتی انجانے میں اُسے اندر تک مسرور کرگئی تھیں۔

”جی جی کیوں نہیں۔۔۔۔بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ۔۔۔۔اللہ سب بہتر کریں گے انشاءاللہ۔۔۔۔“  سامنے پڑی پیسٹریز اٹھاکر منہ میں ڈالتا وہ اپنی طرف سے اِس خوشخبری پر منہ میٹھا کرگیا تھا۔

تبھی بیک وقت دونوں کے نتھنوں سے کسی شے کے جلنے کی کافی تیز بو ٹکرائی تھی۔

”اوہ ہو۔۔۔میں تو چولہے پر سالن چڑھا کر آئی تھی۔۔۔۔لگتا ہے جل گیا ہے سارے کا سارا۔۔۔۔“  ایک جھٹکے سے اپنی جگہ پر سے اٹھتی نفیسہ بیگم پریشان سی کچن کی جانب لپکی تھیں۔

نفیسہ بیگم کے جاتے ہی بختی بھی اپنی جگہ سے اٹھا تھا اور کچھ سوچ کر سنگل صوفے پر رکھی چیزیں ہاتھوں میں پکڑتا حاویہ کے کمرے کی طرف بڑھا گیا۔

بند دروازے کے ہینڈل کو گھماتے ہی دروازہ آرام سے کھلتا چلا گیا تو وہ بنا شور کیے مسکراتا ہوا کمرے کے اندر قدم جماگیا۔

دروازے بند کرتے ساتھ ہی اُسنے اطراف میں نظریں گھمائیں جہاں حاوی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا۔

اِس سے پہلے کہ وہ اُسے مائے باربی ڈول کہہ کر مخاطب کرتا تبھی حاویہ اپنے دھیان سے واشروم کا دروازہ کھول کر باہر نکلی تھی۔

بنا دوپٹے کے اُسکا نازک سا سراپا دیکھ کر جہاں بختی کی نظریں ساکت پڑی تھیں وہی حاویہ یوں اچانک سے اُسے اپنے کمرے میں دیکھتی بوکھلااٹھی۔

”آپ۔۔۔آ۔۔۔۔پ۔۔۔۔ناک کرکے کیوں نہیں آئے کمرے میں۔۔۔۔؟؟؟“  اگلے ہی پل وہ بیڈ پر رکھے دوپٹے کی جانب تیزی سے لپکتی شدید برہمی سے بولی اور ساتھ ہی ہلکے فیروزی دوپٹے کو اچھے سے اپنے چہرے کے گرد لپیٹ لیا۔

”لو مجھے کیا پڑی ہے ناک کرنے کی۔۔۔۔؟؟لیکن اگر تمھیں پسند نہیں آیا تو نو پرابلم۔۔۔۔میں ناک کرکے پھرسے آجاتا ہوں۔۔۔“  اُسکی بھیگے چہرے سے چھلکتے غصے سے مرعوب ہوئے بغیر وہ قدرے ڈھٹائی سے بولتا واپس مڑا تو حاویہ اُسکے لبوں کی مسکراہٹ سمیت اُسکی حرکت پر بل کھاتی رہ گئی۔

”آپکو اگر کوئی کام ہے تو پلیز آپ ماما سے بول لیں۔۔۔۔“  ننھی سی پیشانی پر ناپسندیدگی کی سلوٹیں ابھارتے ہوئے اُسنے دبے لفظوں میں بختی کو یہاں سے دفع ہونے کا بولاتھا لیکن وہ کوئی اثر لیتا تب ناں۔۔۔۔

”خالہ سے تو  مجھے کوئی کام ہی نہیں رہا۔۔۔۔اب جو بھی کام ہے وہ بس تمہی سے ہے مائے باربی ڈول۔۔۔۔“  پلٹ کر گہری نظریں اُس پر ٹکائے وہ قدم قدم اُسکی جانب بڑھتا خمار آلود لہجے میں بولا تو حاویہ اُسکے تیوروں سے خائف ہوتی بے اختیار اپنے قدم پیچھے لے گئی۔

”آپ کہنا کیا چاہ رہے ہیں۔۔۔۔؟؟پلیز آپ جائیں یہاں سے۔۔۔۔“ اُسکی معنی خیز بات پر ناچاہتے ہوئے بھی وہ تلخ ہوتی دبا دبا سا چیخ اٹھی۔

”ارے اتنا گھبراکیوں رہی ہو مجھ سے۔۔۔۔؟؟میں پہلے والا ہی بختی ہوں۔۔۔۔تمھارا بختی۔۔۔۔خیر چھوڑو یہ سب اور یہ دیکھو۔۔۔۔میں تمھارے لیے دبئی سے کیا کچھ لےکر آیا ہوں۔۔۔۔یہ والا ڈریس دیکھو۔۔۔۔اسکا کلر تم پر بہت سُوٹ کرے گا۔۔۔۔“  اتنے عرصے بعد اُسکی گھبراہٹ سے جی بھر کر لطف اٹھاتا وہ کھل کر ہنسا تھا اور ہاتھ میں پکڑی چیزوں کو بیڈ پر پھینکتا دوسرے ہی پل ڈیپ ریڈ کلر کا ڈریس ہاتھ میں تھامے پھرسے اُسکی جانب لپکا۔

”مجھے اِن میں سے کچھ بھی نہیں چاہیے۔۔۔۔آ۔۔۔پ اسے واپس رکھ لیں اور پلیز جائیں یہاں سے بختی بھائی۔۔۔۔نہیں تو میں ماما کو بلالوں گی یہاں۔۔۔۔“  وہ جو سوٹ اُسکے ساتھ لگاکر دیکھنا چاہ رہا تھا حاویہ غصے میں کپڑوں کو خود سے دور جھٹکتی دھمکی آمیز لہجے میں ذرا سا اٹک کر بولی۔

مگر اگلے ہی پل بختی ساری نرمی و مسکراہٹ ایک سائیڈ پر رکھتا سختی سے اُسکا بازو جکڑگیا۔

”یہ تم کچھ ذیادہ ہی بھائی بھائی کی گردان نہیں کرنےلگ گئی اب۔۔۔۔ہممم۔۔۔۔؟؟لگتا ہے میری پہلے والی سمجھائی بات بھول گئی ہو غالباً جبھی تو ایسی بچگانہ حرکتوں پر اتر آئی ہوتم۔۔۔۔اور اگر اب میری دی ہوئی کسی شے سے انکار کیا ناں تو پھر میں بہت سختی سے پیش آؤں گا تمھارے ساتھ۔۔۔۔اور خالہ سے تمھاری شکایت الگ سے کروں گا۔۔۔۔سمجھ رہی ہوناں میری بات۔۔۔۔ہممم۔۔۔۔؟؟“  اُسکی بازو پر اپنی گرفت پل پل سخت کرتا وہ اُسکی نم پڑتی آنکھوں میں جھانکتا وارنگ دے رہا تھا اور وہ ناچاہتے ہوئے بھی اُسکے ڈر سے کانپتی خاموش کھڑی سب برداشت کرنے پر مجبورتھی۔

پہلے کی طرح وہ اس بار بھی اُس پر اپنا اچھا خاصا روعب جماگیا تھا۔

”ارے بیٹا تم یہاں ہو۔۔۔۔مجھے لگا کہ تم چلے گئے ہو۔۔۔۔“  بختی نے شاطر مسکراہٹ لبوں پر سجاتے جیسے ہی اُسکا بازو جھٹکے سے چھوڑا عین اُسی وقت نفیسہ بیگم دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوئیں۔

”نہیں خالہ۔۔۔۔میں تو بس یہ چیزیں حاوی کو دینے آیا تھا۔۔۔۔اور دیکھیں اسے پسند بھی بہت آئی ہیں۔۔۔۔“  بغیر ہچکچائے دھڑلے سے جھوٹ بولتا وہ ہاتھ میں پکڑا ڈریس واپس بیڈ پر اچھال گیا تو نفیسہ بیگم اُسکی اتنی چاہت پر سرشار سی مسکرااٹھیں۔

”تمھارا بہت بہت شکریہ بیٹا جو تم ہمارے لیے اتنا کچھ لے آئے ۔۔۔۔ویسے خوامخواہ کی زحمت کی ہے بس تم نے بھی۔۔۔“  تشکرآمیز لہجے میں بولتے ہوئے اُنہوں نے ایک نظر حاویہ پر ڈالی جو بھیگی ہوئی بھوری آنکھوں کو چھپانے کی غرض سے چہرہ جھکاتی بمشکل مسکرائی۔

”ارے خالہ۔۔۔بیٹا بھی بولتی ہیں اور شکریہ بھی۔۔۔۔اٹس ناٹ فیئر ہاں۔۔۔۔آپ مجھے اپنا بیٹا ہی سمجھیں اور یہ تھینکس وینکس بولنے سے پرہیز کریں پلیز۔۔۔“  چاشنی گھلے لہجے میں شکوہ کرتا وہ نفیسہ بیگم کا پہلے سے جیتا دل مزید اپنے قبضے میں کرگیا جبکہ حاویہ اندر ہی اندر آنسو پیتی اُسکے پل پل بدلتے روپ دیکھ کر رہ گئی۔

**********************

وسیع و عریض رقبے پر قابض پورے قد سے کھڑی اِس یونیورسٹی کی شاندار عمارت میں آج بھی معمول کے مطابق پُررونق افراتفری کا عالم برپا تھی۔جہاں پڑھاکو طلباء و طلبات کلاسز اور لائبریریز میں گھسے صفحات پر چھپے لفظوں کو سمجھنے کی تگ دو میں غرق تھے وہیں کئی منچلے سٹوڈنٹس پڑھائی سے بےنیاز الگ تھلگ جگہوں پر ٹولہ بنا کرکھڑے دلچسپ معاملات پر آپس میں محوِ گفتگو تھے۔

”پلیز شام۔۔۔۔مجھے انکار مت کرنا۔۔۔۔آئی نو کہ یہ بہت اوور ہورہا ہے۔۔۔پر میں اپنے اِس باغی دل کا کیا کروں جو جانے کتنی دیر سےتمھارے لیے تڑپ رہا ہے۔۔۔۔۔“  لانبی انگلیوں کے بیچ سرخ گلاب کا پھول دبائے وہ بڑے بولڈ انداز میں اُسے اپنی محبت کا یقین دلارہی تھی اور وہ قدرے اشتیاق سے اُسکا میک اپ سے سنورا حسین چہرہ دیکھ رہا تھا۔

اپنی زندگی کے من پسند لمحات گزارتے ہوئے اُسکی بھوری آنکھوں میں غرور سمیت گہری چمک تھی۔

البتہ سمٹے لبوں سے مسکراہٹ مفقود تھی۔

پاس ہی کھڑے فواد اور افروز سینے پر ہاتھ باندھے جینز اور ریڈ ٹاپ میں ملبوس اس نئی پٹاخہ کو ایکسرے کرتی نظروں سے دیکھ رہے تھے جو بدقسمتی سے کسی جوالہ مکھی کی طرح پھٹ کر اُن کے جگڑی یار کے مقابل آکھڑی ہوئی تھی۔

”بٹ تم جانتی ہو شمسہ کہ میں اب گرلفرینڈز نہیں بناتا۔۔۔۔میں تمھارا دل۔۔۔توڑنا تو نہیں  چاہتا پر کیا کروں یار۔۔۔۔؟؟مجبوری ہے۔۔۔۔سمجھو بات کو۔۔۔۔“  اپنی بےبسی کا اظہار دبے لفظوں میں  کرتا وہ حقیقتاً افسردہ ہوا۔

”ہمارا بچہ اب شریف ہوگیا ہے لڑکی۔۔۔۔اس لیے ساری حسیناؤں سے فاصلہ بنا کررکھتا ہے۔۔۔۔ایویں اسکے پیچھے خود کو مت تھکاؤ۔۔۔۔باقی سب بھی تو ہیں۔۔۔۔تم اُن پر ٹرائے کرسکتی ہو۔۔۔۔بائے دا وے آئی ایم سنگل آن دیٹ ٹائم۔۔۔۔“ شمسہ کا ہاف سلیو بازو نرمی سے تھام کر اُسکی تمام تر توجہ اپنی جانب سمیٹتا افروز بےتکلفی سے گویا ہوا تو شام اُسکی مداخلت پر ضبط سے بالوں میں ہاتھ چلاتا لب بھینچ گیا۔

یہ دیکھ کر فواد نے بھی تاسف سے گردن ہلائی جو آجکل ہر لڑکی پر چانس مارتا پِھررہا تھا۔

”ایسی بھی کیا مجبوری ہے شام کہ تمھیں میری سچی محبت بھی دکھائی نہیں دے رہی۔۔۔۔؟؟پلیز بس ایک بار مجھے چانس دے کر دیکھو۔۔۔۔ایم

شیور کہ تمھیں اپنے اس فیصلے پر کبھی کوئی پچھتاوا نہیں ہوگا۔۔۔۔“ بڑی سہولت سے افروز کا ہاتھ جھٹکتی وہ واپس شام کی جانب متوجہ ہوئی تو فواد افروز کے پل میں بگڑتے تاثرات دیکھ کر لبوں سے پھوٹنے والی  ہنسی کو بروقت روک گیا۔

”چانس۔۔۔۔۔“  اُسکی آنکھوں میں نمی دیکھتا وہ اب کہ سوچ میں پڑگیا۔

اندر کہیں کم آن مین۔۔۔کم آن۔۔۔ کی سرگوشیاں شدت سے سنائی دیتی اُسے یہ آفر قبول کرنے پر اکسارہی تھی۔

”بس ایک بار۔۔۔۔۔پلیزززز۔۔۔۔“  ایک بار پھر سے گلاب کا مہکتا پھول وہ اُسکے چوڑے سینے کے قریب لے گئی جب اچانک اُسکی بھوری نگاہوں نے سامنے سیڑھیوں تک کا فاصلہ پل میں مانپا۔

حرمین اردگرد سے بےپرواہ سینے سے رجسٹر چپکائے سیکنڈ فلور پر جانے کے لیے ایک کے بعد دوسرا سٹیپ عبور کررہی تھی۔

”آئی کال یو لیٹرشمسہ۔۔۔۔۔ایکس کیوزمی۔۔۔۔“  قدرے عجلت میں اُسکے ہاتھ سے گلاب کا پھول تقریباً جھپٹتا وہ سڑھیوں کی جانب بجلی کی سی رفتار سے لپکا۔

جبکہ شمسہ سمیت وہ دونوں بھی اُسکی اس قدر تیزی پر حیران رہ گئے۔

”ہائے حرمین۔۔۔۔۔۔۔“  سکینڈوں میں اُس تک پہنچتا وہ گہری سانسوں کے بیچ بےاختیار اُسے مخاطب کرگیا۔

وہ جو کلاس میں لیٹ پہنچنے کے ڈر سے باقی بچے دو سٹیپ ایک ساتھ پھلانگنے والی تھی اپنی پشت سے ابھرتی مانوس سی آواز پر بوکھلاکر بےاختیار پیچھے پلٹی۔

اگلے ہی پل اُسکا توازن بگڑا تھا اور دبی چیخ سمیت وہ شام کے اوپر گرتی خوف سے آنکھیں میچ گئی۔ہینڈ بیگ کندھے سے جھولتا کہنی پر آکر اٹکا تھا جبکہ بلیو شرٹ کا کالرسختی سے اُسکی نازک مٹھیوں میں قیدسلوٹ زدہ ہوچکا تھا۔

”او۔۔او۔۔اووووو۔۔۔۔۔“  سرعت سے اُسکی کمر کے گرد مضبوط بازوؤں کا گھیرا باندھتا وہ خود کے ساتھ ساتھ اُسے بھی بروقت سٹیبل کرگیا۔

البتہ درمیان میں آڑ بنتا موٹا رجسٹر دونوں کے بیچ تھوڑا بہت بھرم رکھ گیا تھا۔

”اب تم اپنی آنکھیں کھول سکتی ہو کیوٹی پائی۔۔۔۔فکر نہیں کرو۔۔۔جب تک میں تمھارے ساتھ ہوں تمھیں کبھی گرنے نہیں دوں گا۔۔۔۔“  اُسکے خوف سے زرد پڑتے چہرے پر ایک گہری نگاہ ڈالتا اگلے ہی پل وہ اپنے لب اُسکے کان کے قریب کرتا سرگوشی نما آواز میں بولا۔

کہ تبھی وہ اُسکے وجود سے اٹھتی کلون کی دلفریب مہک کو شدت سے محسوس کرتی ڈرتے ڈرتے اپنی آنکھیں کھول گئی۔

”شش۔۔۔۔شام۔۔۔۔“  مقابل کی لمبی پلکوں کو اس قدر قریب سے دیکھتے ہوئے اُسکی سانسیں سینے میں اٹکی تھیں۔

”تم ٹھیک ہو۔۔۔۔؟؟؟“  خود کی قربت کے سبب اُسکی بگڑتی حالت کی پرواہ کیے بنا وہ اب بھی اُسے اپنے حصار میں لیے جم کرکھڑا تھا۔

اسی لمحے کسی نے دور سے کیمرہ زوم کرکے اِس قابلِ اعتراض منظر کو پل میں اپنے پاس قید کیا تھا جس سے وہ دونوں ہی بےخبر انجانے میں ایک دوسرے کے نقوش شدت سے ازبرکرتے چلے جارہے تھے۔

”ہ۔۔۔ہاں۔۔۔۔“  اگلے ہی پل ہوش میں آتی وہ جھٹکے سے اُسکا حصارتوڑتی پیچھے ہٹی تو شام رجسٹرر زمین بوس ہونے سے پہلے ہی اُسے بروقت اپنی مضبوط گرفت میں لےگیا۔

البتہ اس چکر میں گلاب کا پھول اپنی چند پتیوں سے محروم ہوتا نیچے گرچکا تھا۔

ٹیڑھا چشمہ ناک پر صحیح سے ٹکاتے ہوئے حرمین شرمندگی سے لب چباتی  شام سے اپنا رجسٹرپکڑچکی تھی۔

”اٹس فار یو۔۔۔۔“ جھک کر اپنی بےقدری پر روتا سرگلاب کا پھول اٹھاتا وہ اُسکے سامنے کرگیا تو حرمین کی بےہنگم دھڑکنوں نے مزید شدت پکڑی۔

”ایسے کیا دیکھ رہی ہویار۔۔۔۔تمھارے لیے ہی ہے۔۔۔۔“  چشمے کے پیچھے دکھائی دیتی اُسکی بےیقین نظروں میں جھانکتے ہوئے وہ دلکشی سے مسکراتا اُسکا دل مزید گھائل کرگیا جسکا اُسے بخوبی اندازہ تھا۔

”تھ۔۔۔۔تھینک یو شام۔۔۔۔۔“  خشک لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے وہ ہچکچاہٹ کی حدود پھلانگتی اُسکا ادنیٰ سا تحفہ قبول کرگئی جو اس پل اُسے دنیا کی ہرشے سے قیمتی لگا تھا۔

اسی کے ساتھ ایک اور پِک کیپچرکی گئی تھی۔

”اُففف لڑکی ایک تو تم بات بات پر یہ تھینک یو بہت بولتی ہو۔۔۔۔لیکن کبھی یہ سوچا ہے کہ میں تمھارا تھینک یو ایکسیپٹ کرتا بھی ہوں کہ نہیں۔۔۔۔“  جینز کی پاکٹس میں ہاتھ پھنساتا وہ اُسے بڑے آرام سے ایک نئی الجھن میں پھنساگیا۔

”ک۔۔کیا مطلب۔۔۔کیا نہیں کرتے۔۔۔۔؟؟؟“  گنتی کی چند پلکیں اٹھاتی وہ حیرانگی سے اُسے دیکھنے لگی تو اُسکی اس قدر سادگی پر شام کو جانے کیوں عجیب سی چڑ ہوئی۔

”پہلے کا تو پتا نہیں بٹ اب میں صرف ایک ہی شرط پر تمھارا تھینک یو ایکسپٹ کروں گا۔۔۔۔اب یہ تم پر ڈ یپینڈ کرتا ہے کہ تم میری ڈیمانڈ پر پوری اترتی ہو کہ نہیں۔۔۔۔“  حرمین کو اپنے سوچے سمجھے لفظوں کے اثر تلے دباتا وہ اُسے مزید پریشانی میں ڈال گیا۔

” کیسی شرط۔۔۔۔۔؟؟  اُسکے سیاہ مائل لب بے چینی سے ہلے جو اس پل شام کی نظروں میں تھے۔

”ایکچولی میری برتھڈے آرہی ہے۔۔۔اور میں چاہتا ہوں کہ تم اُس میں سپیشل ون کے طور پر آؤ۔۔۔۔مینزکہ تمھیں میری برتھڈے پارٹی میں آکر مجھے وارملی وِش کرنا پڑے گا۔۔۔۔“ جھٹ سے اپنی نظریں پھیرتا وہ دھیمے انداز میں فرفر بولتا چلاگیا تو وہ شدت سے دھڑکتے دل سمیت تذبذب کا شکار ہوئی۔

”ارے حرمین۔۔۔۔“  اس سے پہلے کہ وہ شام کو کوئی جواب دے پاتی جبھی ایک نسوانی آواز نے بیک وقت دونوں کی توجہ اپنی جانب کھینچی۔ 

”علیزہ نہیں آئی آج۔۔۔۔ایکچولی اُسکےنوٹس تھے میرے پاس جو میں نے اُسے ٹائم پر واپس کرنے تھے۔۔۔۔“  دونوں کو ایک دوسرے کے قریب دیکھ کر شانزے اپنی حیرت پر قابو پاتی ذرا سنبھل کر بولی۔

”نن۔۔۔نہیں۔۔۔۔وہ آج نہیں آئی۔۔۔۔“  اپنی کلاس فیلو کی جانچتی نظریں گلاب کے پھول پر محسوس کرتی وہ ناچاہتے ہوئے بھی گھبراگئی۔

جبکہ اُسکی  گھبراہٹ سے لاپرواہ وہ بےزار سا اُنکی بےمعنی گفتگو سننے پر مجبور تھا۔

”اوکے پھر میں چلتی ہوں۔۔۔۔اینڈ ہاں۔۔۔۔میں تو بھول ہی گئی۔۔۔۔گنگریجولیشن حرمین۔۔۔۔“  جاتے جاتے کچھ یاد آنے پر وہ اچانک رکی۔

اُسکے یوں مبارکباد پیش کرنے پر جہاں حرمین نئے سرے سے گھبرائی تھی وہیں شام نے چونک کر اُسے دیکھا۔

”علیزہ نے مجھے بتایا تھا کہ کل تمھاری انگیج منٹ تھی۔۔۔۔سچ میں بہت خوشی ہوئی جان کر۔۔۔۔۔بیسٹ آف لک ڈیئر۔۔۔۔“  فساد پھیلاتی وہ ہنستی مسکراتی وہاں سے جاچکی تھی جب حرمین نے بڑے ضبط سے شام کے تنے نقوش دیکھے۔

اگلے ہی پل وہ بنا کچھ بولے شدید غصے میں سرعت سے سیڑھیاں اترتا اُسے بوکھلاگیا۔

”شام۔۔۔۔۔رکیں پلیز۔۔۔بات تو سنیں میری۔۔۔۔۔شام۔۔۔۔۔“  اپنی چیخوں کا گلا گھونٹتی وہ بھی بے اختیار اُسکے پیچھے لپکی تھی جب اچانک دوسری سیڑھی سے لڑکھڑاتی وہ سرعت سے ریلنگ کو جکڑگئی۔

نیچے گرے رجسٹر کو دیکھتے ہوئے اُسکی گہری سیاہ آنکھیں دھندلائی تھیں جسے اُس سمیت تھامنے والا وہاں سے کب کا جاچکا تھا۔

************************

دبیز قالین پر قدم جماتی وہ اندر داخل ہوئیں تو وہ اپنی گہری سوچوں سے چونکتی تابین بائی کی جانب متوجہ ہوئی۔

خود کو ہوش دلاتی وہ بےاختیار مسکرائی لیکن اِسکے باوجود بھی اُسکے حسین چہرے کی اداسی تابین بائی کی تیز نگاہوں سے مخفی نہیں رہ پائی تھی۔

اُس رات کی محفل کے بعد سے وہ اکثر گم صم سی رہنے لگی تھی۔

”میری جان۔۔۔۔دیکھو توکتنی مرجھاگئی ہو تم۔۔۔۔اور ہر وقت اداس بھی رہنے لگی ہو۔۔۔۔اس بےچینی کی وجہ وہ سالار خان ہی ہے ناں۔۔۔۔؟؟؟یاں پھر تمھارا۔۔۔۔۔“  اُسکے سامنے پلنگ پر بیٹھ کر وہ نرمی سے بولتی رابی کے گھٹنوں کے گرد بندھے دونوں ہاتھ تھام گئیں جب وہ اُنکا نرماہٹ میں لپٹا شکوہ شدت سےمحسوس کرتی تابین بائی کو بیچ میں ہی ٹوک گئی۔

”واللہ  بی بی جان اُس شخص کا میرے سامنے نام بھی مت لیں۔۔۔۔اُسکی آپ کے ساتھ کی گئی بدتمیزی مجھے بھلائے نہیں بھولتی۔۔۔۔“  اُس شخص کے نام پر اُسکی آواز کے ساتھ ساتھ نقوش بھی سخت ہوئے جو کہیں نہ کہیں اُسکی سوچوں کا مرکز ومحور تھا۔

”وہ تو دِکھ ہی رہا ہے۔۔۔لیکن تمھاری خاموشی مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتی ہے رابی۔۔۔۔“  اُسکے اتنا مان دینے پر سرشار ہوتی وہ پھرسے اپنی فکر ظاہر کرگئیں تو وہ گہرا سانس بھرتی ہولے سے مسکرائی۔

”میں بالکل بھی اداس نہیں ہوں۔۔۔۔اور رہی بات مرجھانے کی تو میں آپکی یہ غلط فہمی بھی ابھی نکال دیتی ہوں۔۔۔۔وہ سامنے آئینہ دیکھ رہی ہیں ناں۔۔۔۔؟؟؟“  سرعت سے تابین بائی کی توجہ سامنے دیوار پر لگے قدآور آئینے کی جانب مبذول کرواتی وہ اُنھیں نئی الجھن میں ڈال گئی۔

”ہاں۔۔۔۔دیکھ رہی ہوں۔۔۔۔“  اپنے ساتھ ساتھ ہلکے گلابی رنگ فراک میں اُسکا نکھرتا عکس دیکھتی وہ اثبات میں سر ہلاگئیں۔

”میرے عکس سے پھوٹتی  حسن کی تابناک شعاعوں میں یہ آئینہ بھی اپنی بے رونقی میں کھل سا اٹھا ہے۔۔۔۔ایسے میں اگر آپ میرے حسن کو مرجھایا ہوا کہیں گی تو یہ مجھ سمیت میری قدرکرنے والوں کے ساتھ اچھی خاصی ناانصافی ہوجائے گی بی بی جان۔۔۔۔“  اُسکے اطمینان دلانے کے اِس نئے انداز پر پل بھر کو خاموش ہوتی تابین بائی اپنے حلق سے نکلتا شفاف قہقہ روک نہیں پائی تھیں۔

بیچ میں رابی کی بھی کھنکتی ہنسی شامل ہوئی تھی۔

”بہت تیز دماغ ہو تم لڑکی۔۔۔۔اپنی باتوں سے ہمیشہ مجھے لاجواب کرجاتی ہو۔۔۔۔“  اُسکے لفظوں سے پھوٹتی ذہانت پر شدت سے رابی کی جانب مرعوب ہوتی وہ ہنوز مسکرا رہی تھیں۔

”واللہ کیا کہنے آپکے بھی بی بی جان۔۔۔۔اس وقت میں جو بھی ہوں جیسی بھی صرف آپکے دم سے ہوں۔۔۔۔ورنہ تو۔۔۔۔“  تابین بائی کے احسانوں تلے دبی وہ اپنی زندگی میں اُنکی اہمیت واضح کرتی اُنھیں مزید معتبر کرگئی۔

آخر میں نم پڑتی آنکھوں سمیت ہنستا مسکراتا لہجہ پل میں ڈگمگایا تھا۔

”تمھاری یہی ادائیں تو مجھے تمھاری ہر بات ماننے پر مجبور کرجاتی ہیں اور میں چاہ کر بھی تمھاری کسی بھی بات کا انکار نہیں کرپاتی۔۔۔۔کیا ہو تم۔۔۔۔؟؟؟“  اپنی بےبسی کا کھل اظہارکرتی وہ اُسکے ہونٹوں کی سمٹی مسکراہٹ پھرسے واپس لے آئیں۔

”آپکی بیٹی۔۔۔۔اور مجھے ہمیشہ آپکا یہی اعتماد،ساتھ اور پیار چاہیے بی بی جان۔۔۔۔“  بےاختیار اپنی ٹانگیں سمیٹتی وہ بڑے مان سے ان کی گود میں اپنا سررکھ گئی۔

”ہم کچھ ذیادہ ہی ایموشنل نہیں ہوگئے۔۔۔۔خیر چھوڑو اسے اور مجھے یہ بتاؤ کہ اگر تمھارا وہ دیوانہ پھر تمھارے لیے یہاں چلاآیا تو۔۔۔۔؟؟؟“  رابی کے جوڑے میں مقید بالوں کو نرمی سے کھولتے ہی اُن میں اپنی انگلیاں چلاتے ہوئے انہوں سے اپنا خدشہ ظاہر کرنا ضروری سمجھا۔

خدشہ کیا پورا یقین تھا اُنہیں سالار خان کی واپسی کا۔۔۔۔۔اور یہ بات تو رابی بھی بخوبی جانتی تھی۔

”صاف صاف معاملہ ہے۔۔۔۔گارڈز سے کہہ کر اُسے نکال باہر کریے گا۔۔۔۔“  دغاباز دھڑکنوں کی شدت سے مخالفت کرتی وہ سپاٹ لہجے میں گویا ہوئی۔

”میں جانتی ہوں کہ یہ سب تم صرف میری وجہ سے دل پر پتھر رکھ کر بول رہی ہو۔۔۔۔لیکن شاید اسی میں ہم سب کی بہتری پوشیدہ ہے۔۔۔۔خیرجیسی تمھاری مرضی میری معصوم کلی۔۔۔۔۔“  اُسکی رائے سے متفق ہوتیں تابین بائی کے دل میں سکون سا بھرتا چلاگیا 

جبکہ وہ اُنکی انگلیوں کے نرم لمس کو اتنے عرصے بعد شدت سے محسوس کرتی ہنکارا بھر کر سکون سے آنکھیں موند گئی۔

جانے اُنکے فیصلوں میں کونسے راز۔۔۔کونسی مصلحتیں۔۔۔اور کونسی بہتریاں پوشیدہ تھیں۔۔۔۔۔؟؟

***************************

وہ اس وقت ٹیسٹ کی تیاری میں بری طرح غرق ہرشے سے بےپرواہ تھی۔

”اُففف انگلش۔۔۔۔اُففف۔۔۔۔“  پلنگ پر التی پالتی مار کر بیٹھی حاویہ انگلش کی بُک میں زبردستی سر دھنسائے زور زور سے ہلارے لے رہی تھی۔

یاد کرنے والا اتنا ذیادہ تھا جبکہ ٹائم حد سے بھی کم۔۔۔۔۔

کل کے ٹیسٹ کے لیے یقیناً اُسکی تیاری نہ ہونے کے برابر تھی اور ایسا شاید اُسکے ساتھ پہلی بار ہورہا تھا۔

جبھی نیناں دھڑام سے اُسکے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی جسے دیکھ کر وہ یکدم ہلنا جُلنا چھوڑگئی۔

اگلے ہی پل سامنے پڑی انگلش کی بُک ٹھک سے بند ہوئی تھی۔

اور شاید محترمہ بھی اسی پل کے انتظار میں تھیں۔۔۔

”ٹیسٹ کی تیاری کیسی ہے تیری نینی۔۔۔۔؟؟“  لہجے میں بےچارگی سموئے وہ اُسکے احوال پوچھنے پر اُترآئی۔ 

”ارے فکر نہیں کرو۔۔۔تمھارے جیسی ہی ہے۔۔۔۔خیر اسے چھوڑو اور یہ دیکھو میں تمھارے لیے کیا لائی ہوں۔۔۔۔؟؟؟“  اُسکے معصوم نقوش پر بارہ بجتے دیکھ کر وہ بےفکری سے بولی تو حاویہ کے دل کو بھی کچھ سکون ہوا۔

لیکن اگلے ہی پل رجسٹر سے بے ڈھنگے انداز میں پھاڑے گئے آدھے سے کم صفحے کو اُسکی انگلیوں کے بیچ دبا دیکھ وہ الجھی جس پر غالباً کسی کا نمبر کیڑے مکوڑوں کی صورت تحریر کیا گیا تھا۔

”یہ کیا لے کر آئی ہو میرے لیے۔۔۔۔۔؟؟؟“  منہ بسور کر پوچھتی وہ حیران ہوئی۔

”تمھاری اماں کے ہونے والے چھوٹے داماد کا نمبر ہے بہن۔۔۔۔۔“  ایک ادا سے بول کر اُسکے پہلو میں گرتی وہ قدرے اطمینان سے اُس پر دھماکہ ہی تو کرگئی تھی۔

”کیاااا۔۔۔۔تمھیں عائل کا نمبر کہاں سے ملا۔۔۔۔؟؟؟“  اُسکی گہری بات کا مطلب سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں سمجھتی وہ دبی آواز میں چیخی۔

”بس دیکھ لو۔۔۔ضروری نہیں کہ ہمیشہ ہیرو ہی ہیروئن کو تنگ کرنے کے لیے اُسکا نمبر نکلوائے۔۔۔۔کبھی کبھی ہیروئن کی دوست بھی ہیرو کا نمبرنکلوالیتی ہے بھئی۔۔۔۔“  شہادت کی انگلی اُسکی ٹھوڑی کے نیچے ٹکاتی نیناں اُسکا حیرت سے کھلا منہ بند کرتے ہوئے آنکھ دباگئی۔

چہرے پر رقصاں شرارتی مسکراہٹیں قابلِ ستائش تھیں۔

”پاگل ہوگئی ہو کیا۔۔۔۔؟؟میں اُس کھڑوس سے بات کروں گی۔۔۔۔؟؟اور وہ بھی پولیس اسٹیشن کال کرکے۔۔۔۔؟؟نو۔۔۔۔نیور۔۔۔۔“  نیناں کو موبائل فون پر نمبر ملاتا دیکھ اُسکا دماغ صحیح معنوں میں گھوم گیا جبھی وہ اُسکا ارادہ بھانپتی قطیعت بھرے لہجے میں غرائی۔

”حاوی۔۔۔۔تو بات کرے گی تو بس کرے گی۔۔۔۔میں بول رہی ہوں ناں کچھ نہیں ہوگا۔۔۔۔جسٹ چِل یار۔۔۔۔“  حاویہ کو موبائل فون پر جھپٹتا دیکھ وہ سرعت سے اپنا ہاتھ پشت پر ٹکاگئی۔

”وہ میری اُس دن والی حرکت پر پہلے سے ہی بہت غصہ ہوگا نینی۔۔۔ایسے میں میں جان بوجھ کر شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالنے کا رسک نہیں لے سکتی میڈم۔۔۔۔نونونو۔۔۔۔ایم سوری۔۔۔۔“  عائل کا گدلے پانی سے بھیگا وجود بھوری نظروں میں گھومتے ہی وہ بےاختیار جھڑجھڑی لے بیٹھی۔

اُسکی غصے کی ذیادتی سے سرخ آنکھیں اور تلخ لہجہ وہ بھلا کیسے بھول سکتی تھی۔۔۔۔

”اپنی جان پر کھیل کر میں نے تمھارے  اے۔ایس۔پی۔ کا نمبرپرنسپل سر کے آفس سے نکلوایا ہے۔۔۔۔نکلوایا نہیں بلکہ بذاتِ خود چُرایا ہے۔۔۔۔اب نہ نہ بول کر میرا موڈ مت خراب کرو پلیز۔۔۔۔“  حاوی کو ڈپٹتی وہ اُس پر بری طرح بگڑی۔

”نہ کر نینی۔۔۔۔اگر اُسے معلوم پڑگیا کہ میں بات کررہی ہوں تو وہ۔۔۔۔“  اُسکا پھولا ہوا منہ اور آنکھوں میں اترتی ہلکی ہلکی نمی دیکھ کروہ نرم لہجے میں بےبس ہوتی التجاء کرگئی۔

”کچھ پتا نہیں چلے گا پاگل۔۔۔۔بس تُو وہی کر جو میں کرنے کو بول رہی ہوں۔۔۔۔“  بےاختیار اُسے ٹوکتی وہ کئی لمحوں پر محیط گنے چنے لفظوں کا لائحہ عمل اُسے سمجھا بھی چکی تھی۔

”اگر اُسنے پوچھا کہ کون بات کررہا ہے تو پھر میں کیا کہوں گی آگے سے۔۔۔۔؟؟“  اُسکی شدید ناراضگی کے ڈر سے وہ اِس بے جا ضد کے سامنے پھرسے وہی جواز پیش کرگئی۔

”کہہ دینا کہ آپکی لوَر بول رہی ہوں۔۔۔۔“  اُسکی ایک ہی رٹ پر چڑتی وہ جھنجھلاکر بولی۔

”ہاں۔۔۔۔اور وہ مجھے جواب میں خوشی خوشی آئی لوَیو بول دے گا۔۔۔۔ہے ناں۔۔۔۔؟؟“  اُسے قدرے احتیاط سے اسکرین پر انگلیاں چلاتے دیکھ کر حاویہ کا بس نہیں چل رہا تھاکہ اپنی جان سے پیاری دوست کا سر پھاڑدے۔

اور پھر اِسکا خود کا دھڑکتا دل۔۔۔وہ بھی تو عین وقت پر اُسکی مخالفت کرجاتا تھا۔۔۔جیسے کہ اب کررہا تھا۔

”ششش یہ لے پکڑ پکڑ۔۔۔۔۔“  موبائل فون کو اسپیکر پر ڈالتے ہی وہ سیل اُسکے ہولے ہولے لرزتے ہاتھوں میں تھما چکی تھی۔

بیل جارہی تھی جب حاویہ نے قدرے بےچارگی سے اُسکی طرف نظر بھرکردیکھا۔

اگلے ہی پل بھاری دلکش آواز دونوں کی سماعتوں سے ٹکراتی اُنھیں چونکاگئی۔

”ہیلو۔۔۔۔جی کون بات کررہا ہے۔۔۔۔؟؟؟“ عائل پروفیشنل انداز میں پوچھتا نرمی سے گویا ہوا۔

مگر کئی لمحے بیت جانے پر بھی جواب ندارد تھا۔۔۔

”میں نے پوچھا کون بات کررہا ہے۔۔۔؟؟“ دوسری جانب مسلسل کھٹ کھٹ کی آواز پر بیزارہوتا وہ سخت لہجے میں بولا۔

”جج۔۔جی وہ میں۔۔۔کیا آپ اے۔ایس۔پی عائل حسن بول رہے ہیں پولیس اسٹیشن سے۔۔۔؟؟“ نیناں کے زور کا ٹہوکا دینے پر وہ بمشکل اپنی آواز بدل کربولی۔دل اپنی بےوقوفی پرشدتوں سےدھڑک رہا تھا۔

”جی میں ہی بات کررہا ہوں۔۔۔آپ کون بول رہی ہیں بی بی اور یہاں فون کرنے کا کوئی خاص مقصد۔۔۔؟؟“  کسی لڑکی کے ہکلاکر بولنے پر پل بھرکو چونکتا وہ ٹیک چھوڑ کر قدرےسنجیدگی سے گویا ہوا۔

”وہ۔۔۔وہ ناں ہمارے گھرزبردستی کچھ چور گھس آئے ہیں۔۔۔اسی لیے آپکی ہیلپ چاہیے تھی۔۔۔کمینی تُو مجھے برا پھنسوائے گی۔۔۔“  سیکھے سکھائے  لفظوں کو باریک آواز میں اگلے کی سماعتوں میں گھولتی وہ بےساختہ اپنی دوست پر برس پڑی۔یہ جانے بغیر کہ مقابل اُسکا نہایت دھیمے انداز میں بولا گیا آخری جملہ بھی سن کر ماتھے پر لاتعداد بل ڈال چکا تھا۔

”ہہممم۔۔۔توآپ ایسا کریں کہ فوراً مجھے اپنے گھر کا ایڈریس بتائیں۔۔۔میں ابھی پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ وہاں پہنچتا ہوں۔۔۔بلکہ آپ رہنے دیں میں خود ہی آپکی کال ٹریس کرکے لوکیشن معلوم کرلیتا ہوں۔۔۔“  اپنے غصے پر قابو پائے وہ سرد لہجے میں بولتا حقیقتاً اُسے خوفزدہ کرگیا۔

بدلے میں اُسنے نیناں کو آنکھیں پھاڑ کر ایسے دیکھا جیسے کہہ رہی ہو۔۔۔لو بیٹا بُراپھنسی۔۔۔اب کہ نیناں خودبھی یہ سن کرپریشان ہوچکی تھی۔

”نن۔۔نہیں آپ رہنے دیں۔۔۔چورتو آپکی بھاری بھرکم آواز سنتے ہی ڈرکے بھاگ گئے تھے۔۔۔“ اسکے پُراثرلفظوں کے جال میں پھنستی وہ جومنہ میں آیابول گئی جب اچانک چنگاڑتی ہوئی آواز اسپیکر سےابھری۔

”میری بات کان کھول کےسنو۔۔۔تم انتہائی بےوقوف اور جاہل قسم کی لڑکی ہو۔۔۔اب اگر دوبارہ کسی بھی پولیس والے کےساتھ ایسا گھٹیا مذاق کرنےکی کوشش کی تو چوروں کا پتا نہیں۔۔۔لیکن تمھیں تمھاری دوست سمیت حوالات کی سیرضرور کروا ڈالوں گا میں۔۔۔اور پھینٹی الگ سے۔۔۔سمجھی۔۔۔“ کانوں میں صور پھونکتا وہ دونوں کے ہی چھکے چھڑاگیا۔

”چلو اب فون رکھو۔۔۔۔ایڈیٹ۔۔۔۔“  چلتی کال پر اُسکا سکتہ محسوس کرتا وہ تڑخ کر بولا تو وہ دونوں بھی جیسے ہوش میں آئیں۔

”اللہ میری توبہ۔۔۔۔۔آپ واقعی میں بہت برے ہیں عائل صاحب۔۔۔۔خدا حافظ۔۔۔۔“  بےدھیانی میں اپنے قدرتی لب و لہجے میں بولتی ہوئی وہ اس بار عائل کو بری طرح ٹھٹھکاتی کال کاٹ گئی۔

”حاویہ۔۔۔۔۔اففف پاگل لڑکی۔۔۔۔تو یہ تم تھی۔۔۔۔“  ان ناؤن نمبرکو غور سے دیکھتا وہ نچلا لب دانتوں تلے دباگیا۔

بھلا وہ یہ آواز یہ انداز کیسے بھول سکتا تھا جو ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اُسکے دل میں ہلچل مچاگئے تھے۔

”اب تو محترمہ کو  جلد ہی اپنی ملاقات کا شرف بخشنا پڑے گا۔۔۔۔اُففف۔۔۔۔“  زیرلب خود سے مخاطب ہوتا وہ کئی دنوں سے دل میں مچلتی خواہش پر اب سنجیدگی سے غوروفکر کرنے لگا تھا۔

جبکہ دوسری جانب بند کمرے تک محدود نیناں اور حاویہ کے بیچ ہونے والی بچگانہ لڑائی قابلِ دید تھی۔۔۔

**************************

وہ ہاتھ میں فائل پکڑے بےچین سی آفس روم سے باہر نکلی تھی۔گہری نیلی آنکھوں کی چمک مدھم پڑتی فکر کے سایوں میں گھل رہی تھی۔

وجہ شاہ کی اپنے روم میں تو کیا۔۔۔اِس پوری بلڈنگ میں غیرموجودگی تھی۔ورنہ تو آفس آتے ہی اُسکے وجیہہ نقوش کا دیدار ہوجاتا تھا۔

اپنے دل کی بدلی ہوئی حالت پر حقیقتاً پریشان ہوتی وہ اپنی ہی دھن میں چلتی جارہی تھی۔

لیکن برا ہوا جو وہ سامنے سے آتی کنزہ کو دیکھ نہیں پائی تھی اور نتیجتاً دونوں کا قابلِ برداشت تصادم ہوا تھا۔

” کہاں گم ہیں آپ محترمہ۔۔۔۔۔؟؟؟اپنا چشمہ کہیں رکھ کر بھول گئی ہیں کیا۔۔۔۔؟؟؟“  اپنے پیشانی کو سائیڈ سے مسلتی وہ اُسکی آنکھوں پر چوٹ کرگئی تو آبرو بھی اپنے سر کو تھامتی خجالت سے نفی میں سرہلاگئی۔

”وہ۔۔۔ایکچولی سر۔۔۔۔سر نہیں آئے۔۔۔۔؟؟؟“  دل کی بےچینی لفظوں کی صورت مقابل کے سامنے ظاہر کرتی وہ شاہ کی بابت پوچھ بیٹھی۔

”ہممم۔۔۔۔تو اصل معاملہ یہ ہے۔۔۔۔یعنی کہ دل کا معاملہ۔۔۔۔“  اُسکے حسین مکھڑے سے عیاں ہوتی بےسکونی کو وہ شاہ کی غیرحاضری سے جوڑتی ٹھوڑی پر انگلی ٹکاگئی جب آبرو نے اُسے مزید پھیلنے سے بے اختیار ٹوکا۔

”ایسا کچھ بھی نہیں ہے جیسا تم سوچ رہی ہو۔۔۔۔مجھے بس سر کو اِن فائلز کی ڈیٹیل چیک کروانی تھی۔۔۔اور بس۔۔۔لیکن اگر تمھیں نہیں بتانا تو ٹھیک ہے۔۔۔۔لیکن پلیز خود سے فلاسفی جھاڑنا بندکرو۔۔۔۔ “  فائلز اُسکے چہرے کے سامنے لہراتی وہ کنزہ کو اچھا خاصا لتاڑ گئی تو وہ بھی ذرا سنجیدہ ہوئی۔

”ارے لڑکی کیا ہوگیا۔۔۔۔؟؟اگر سر نے تمھیں ذیادہ کام دے دیا ہے تو اس چیز کا غصہ تم مجھ بیچاری پر کیوں اتار رہی ہو۔۔۔۔؟؟؟“  منہ بسور کر بولتی وہ اُسے حقیقتاً اُسکی ذیادتی کا احساس دلاگئی جو جانے کیوں بات بات پر اتنا ہائپر ہورہی تھی۔۔

”نہیں بس۔۔۔وہ میں۔۔۔“  آبرو لب کچلتی شرمندہ سی ہوئی جب وہ اُسکی مشکل آسان کرگئی۔

”سر آج آفس نہیں آئے۔۔۔۔“  

”مگر کیوں۔۔۔۔؟؟“  بےساختگی قابلِ دید تھی۔

”وہ آج کافی ٹائم بعد اپنی فیملی سے ملنے کراچی گئے ہیں۔۔۔۔پتا نہیں کیسے اتنا عرصہ اپنوں سے دور رہ لیتے ہیں۔۔۔۔مجھے تو لگتا ہے یہی مین وجہ ہے جو وہ اتنے رُوڈ ہیں۔۔۔۔یو ناؤ فیملی ایشوز۔۔۔۔“  گہرا سانس بھرتی وہ حد سے کچھ ذیادہ ہی بول گئی تھی لیکن پھرآبرو کے یکدم تنے نقوش دیکھ کر  چونکی جو جانے کن گہری سوچوں میں ڈوبتی کسی غیر مرئی نقطے کو گھورنے لگی تھی۔

”خیر مجھے کیا لینا دینا اِن سب چیزوں سے۔۔۔۔تم یہ فائلز اِدھر دو۔۔۔ مجھے یہ سمن کو دینی ہیں۔۔۔“  لاپرواہی سے کندھے اچکاتے ہوئے کنزہ نے اُسکے ہاتھوں سے فائلز پکڑیں تو وہ چونکتی خیالوں سے باہر نکلی۔

”ل۔۔۔لیکن مجھے یہ سر کو دینی ہیں۔۔۔۔اِس میں یہ سمن بیچ میں کہاں سے آگئی۔۔۔۔؟؟؟“  خود کو کمپوز کرتی وہ اپنی تین راتوں کی محنت کسی اور کے ہاتھوں میں جاتا دیکھ کر احتجاجاً بولی۔

نیلی آنکھوں کی گلابیت مزید گہری ہونے لگی تھی۔

”یہ تو تم نے سنا ہی ہوگا۔۔۔۔جسکا کام اسی کو ساجھے۔۔۔۔“  اطمینان سے بولتی وہ اپنی مسکراہٹ دباگئی۔آبرو کی ڈگمگاتی حالت اُسے مزہ دے رہی تھی۔

”مطلب۔۔۔۔؟؟؟“  وہ الجھی۔

”مطلب یہ کہ جو پوسٹ خالی ہوچکی تھی اُسکے لیے سر نے مس سمن لطیف کو اپائنٹ کرلیا ہے۔۔۔۔سو اب سے تم صرف اپنے حصے کا کام کیا کروگی جیسے کہ پہلے  کرتی تھی۔۔۔۔نو ایکسٹرا ورک۔۔۔۔ہہمم۔۔۔۔۔“  اپنی طرف سے اُس کے سر پر چھوٹا سا بم پھوڑتی کنزہ اُسکے چہرے پر خوشی اور حیرانگی کے مشترکہ تاثرات دیکھنا چاہ رہی تھی جو اُسے ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے تھے۔جبھی وہ تاسف سے سر ہلاتی فائلز لیے وہاں سے نکلتی چلی گئی جبکہ وہ سرد نگاہوں سے اپنے خالی ہاتھوں کو دیکھتی اَن گنت سوچوں میں پھر سے گھری تھی۔

****************************

وہ عائمہ بیگم کے حکم پر اس وقت  شام کے کمرے میں گھسی ہلکی پھلکی ڈسٹنگ کرنے کے بعد اب بیڈ کور ٹھیک کررہی تھیں جب یکدم کسی خیال کے تحت اُسنے کنارے سے میٹریس اٹھاکر نیچے دبی کسی شے کو دیکھا۔

تجسس کے مارے وہ اگلے ہی پل سلور کلر کا سگریٹ کیس ہاتھ میں پکڑتی بیڈ کور دوبارہ سے سیٹ کرگئی۔

سگریٹ کیس سے الجھتے راشدہ نے ایک محتاط نظر واشروم کے بند دروازے پر بھی ڈالی جہاں شاور سے گرتے پانی کا شور اُسکے اطمینان کے لیے کافی تھا۔

”ہائے اللہ۔۔۔۔۔۔“  بےدھیانی میں اُسکے انگوٹھے کا دباؤ سائیڈ پر بنے ابھرے ہوئے گول دائرے پر پڑا تو اچانک سگریٹ کیس کا منہ جھٹکے سے کھلتا اُسکو ڈرا کر رکھ گیا۔

”ارے یہ تو سگریٹ کا پیکٹ ہے۔۔۔اسے گدّے کے نیچےکس نے گھسا دیا تھا۔۔۔۔؟؟؟“  برانڈ کے سگریٹ بغور دیکھتی وہ حیران ہوئی۔

پر اس چکر میں وہ بند ہوتے شاور پر توجہ نہیں دے پائی تھی۔

”چھوٹے صاحب پیتے ہیں تو یقیناً  یہاں رکھنے والے بھی وہی ہوں گے ناں۔۔۔۔اُن کے سوا بھلا اور کون یہ کام کرسکتا ہے۔۔۔۔میں بھی ناں جانے کیا کیا سوچنے لگ جاتی ہوں۔۔۔۔؟؟“  اپنے آپ سے الجھتی اب وہ اُسے بند کرنے کی تگ ودو میں تھی کہ تبھی  کلک کی ہلکی سی آواز کے ساتھ واشروم کا دروازہ کھلا اور وہ مصروف سے انداز میں اپنے گیلے بال ٹاول سے جھاڑتا روم میں آیا۔

اگلے ہی پل اُسکی اٹھتی نگاہ راشدہ کی پشت سے ٹکراتے ہی ٹھٹھکی۔

”تم۔۔۔۔؟؟تم میرے کمرے میں کیا کررہی ہو اس وقت۔۔۔۔؟؟؟اور یہ۔۔۔۔“  اُسکے تڑخ کر بولنے پر راشدہ شدت سے گھبراتی پلٹی تو اُسکے ہاتھ میں اپنا سگریٹ کیس دیکھ کر بے اختیار شام کی تیوریاں چڑھیں۔

”چھو۔۔۔ٹےصص۔۔۔صاحب۔۔۔وہ جی میں تو بس صفائی کرنے آئی تھی یہاں۔۔۔۔بیگم صاحبہ نے مجھے بولا تھا ایک بار پھر سے آپکا کمرہ صاف کردوں۔۔۔۔“  اُسکے غصے سے خائف ہوتے ہوئے راشدہ کی بھٹکتی نظریں ناچاہتے ہوئے بھی  مقابل کے کسرتی جسم سے پھسلتی پانی کی شفاف بوندوں پر اٹک کررہ گئیں۔

”یہ۔۔۔۔یہ اس چیز کی صفائی کرنے آئی تھی تم یہاں۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔؟؟؟تمھاری ہمت کیسے ہوئی میری پرسنل چیز کو چھونے کی۔۔۔۔؟؟؟“  آگے بڑھ کر اُسکے ہاتھ سے اپنا سگریٹ کیس جھپٹتا وہ درشت لہجے میں بولا تو وہ بےاختیار نفی میں سرہلاگئی۔

اُسے راشدہ پر جی بھر کر قہر چڑھ رہا تھا جو اُسکی چھپائی گئی پرسنل چیزوں پر بڑی آسانی سے ہاتھ ڈال گئی تھی۔

 گھروالوں میں سے کوئی بھی اُسکی سموکنگ کرنے کی عادت سے واقف نہیں تھا۔

مگر یہ دو ٹکے کی نوکرانی۔۔۔۔۔

وہ ضبط سے مٹھیاں بھینچ گیا۔

”نن۔۔۔نہیں صاحب۔۔۔۔وہ تو میں۔۔۔۔“  اُسکی نزدیکی پر راشدہ کی گھگھی سی بندھ گئی جب وہ اُسکی گھبراہٹ پر لعنت بھیجتا ایک بار پھر سے دہاڑا۔

”شٹ اپ۔۔۔۔نکلو یہاں۔۔۔۔فوراً نکلو اور خبردار جو اِس روم میں دوبارہ قدم بھی رکھا تو۔۔۔۔آؤٹ۔۔۔۔“  ایک ہاتھ سے سگریٹ کیس جینز کی پچھلی پاکٹ میں پھنساتا وہ بنا لحاظ کے دوسرے ہاتھ سے راشدہ کا بازو جکڑے اُسے آدھ کھلے دروازے کی جانب گھسیٹ کر لے جانے لگا۔

اور وہ بھی بنا کسی مزاحمت کے بس صاحب جی صاحب جی کرتی رہ گئی۔

اسی دوران کمرے کا پورا دروازہ کھول کر اندر آتے حسن صاحب اِس قابلِ اعتراض منظر کو دیکھتے ہوئے ٹھٹھک کر رکے تو وہ بھی اُنھیں سامنے دیکھ کر چونک گئے۔

”شام۔۔۔۔یہ کیا بدتمیزی ہے۔۔۔۔؟؟گھر کی ملازماؤں کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا جاتا ہے کیا۔۔۔۔؟؟؟یہی تربیت کی ہے ہم نے تمھاری۔۔۔۔؟؟؟“  پل میں اُنکا ازلی غصہ عود کر سامنے آیا جو شام کو ہمیشہ حد سے بڑھ کر محسوس ہوتا تھا۔

”ڈیڈ یہ جاہل عورت میری غیرموجودگی میں میری پرسنل چیزوں سے چھیڑخانی کررہی تھی۔۔۔۔بس اسی لیے میں اُسکو اِسکی اوقات دکھارہا تھا۔۔۔اس میں بدتمیزی کہاں سے آگئی۔۔۔۔؟؟؟“  قدرے سرد مہری سے جواب دیتے ہوئے وہ اگلے ہی پل اُسکا بازو اپنی سخت گرفت سے جھٹکتا آزاد کرگیا۔

”ایک غیرعورت کے سامنے جس حالت میں تم دھڑلے سے کھڑے ہو۔۔۔اگر ایسے میں بھی تمھیں حیا نہ آئے تو یہ بدتمیزی کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے۔۔۔۔؟؟؟افسوس ہوتا ہے مجھے تمھاری گھٹیا حرکتوں پر۔۔۔۔“  اُسکی شرٹ لیس باڈی پر چوٹ کرتے ہوئے حسن صاحب نے اُسے شرم دلانا چاہی تو ایک بار پھر راشدہ کی نگاہیں اُسکے بےداغ جسم پر جاٹھہریں جہاں اب ٹاول موجود نہیں تھا۔

شاید وہ اس سرگرمی کے دوران اُسکے کندھے سے پھسل کر پہلے ہی دبیز قالین پر گرچکا تھا۔

”شرم وحیا کی بات آپ میرے سامنے نہ ہی کیجیے تو بہتر ہوگا ڈیڈ۔۔۔۔مرد سے ذیادہ عورت کو اپنی عزت کا خیال ہونا چاہیے۔۔۔۔اور فی الحال جس کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے تھا وہ تو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر میری اِس حالت کو انجوائے کررہی تھی۔۔۔۔“  بناکسی شرم لحاظ کے وہ کچھ دیر پہلے راشدہ کی خود پر محسوس کی جانے والی نظروں کی بابت بےباکی سے بولتا حسن صاحب کو مزید سیخ پاکرگیا۔

”شام۔۔۔۔۔“  حسن صاحب تنبیہی انداز میں دہاڑے تو وہ ایک ملازمہ کی وجہ سے اپنے باپ کی حددرجہ سخت آواز پر ضبط سے پہلو بدل کررہ گیا۔

بھوری آنکھوں میں ذلت کے احساس سے سرخائی گھلنے لگی تھی۔

”بڑے صاحب۔۔۔یہ جھوٹ بول رہے ہیں جی۔۔۔ میں تو بس بیگم صاحبہ کے کہنے پر انکے کمرے کی دوبارہ سے صفائی کرنے آئی تھی جی۔۔۔۔اور پھر بیڈکی چادر صحیح کرتے وقت میرے ہاتھ اچانک انکے سگر۔۔۔۔“  تب سے خاموش کھڑی راشدہ اس الزام پر نم آنکھوں سے دوپٹے کا پلو مڑورتی اپنی صفائی میں بول رہی تھی جب اُسکے سارے رازوں پر پردہ اٹھانے سے پہلے ہی شام سرعت سے پلٹتا اُسکی آواز دباگیا۔

”تم اپنی بکواس بند کرو اور نکلو یہاں سے ابھی کہ ابھی۔۔۔۔گیٹ لاسٹ۔۔۔۔۔“  حسن صاحب کی سلگتی نظروں کا اثر لیے بغیر وہ چلاکر بولا۔اُسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس ملازمہ کو اٹھاکے چھت سے نیچے پھینک دے۔

اگلے ہی پل راشدہ اُسکے غصے سے خائف ہوتی اپنے منہ پر دوپٹہ لپیٹے وہاں سے نکلتی چلی گئی۔

”ک۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔۔۔سب ٹھیک تو ہے ناں۔۔۔۔؟؟“  تبھی آئمہ بیگم بھی وہاں آتی گہری سانسوں کے بیچ معاملہ سمجھنے کی کوشش میں پریشان زدہ آواز میں استفسارکرگئیں۔

دونوں باپ بیٹے کو تنے نقوش سمیت ایک دوسرے کے مدِمقابل دیکھ کر اُنھیں حقیقتاً فکر لاحق ہوئی تھی۔

”سوچا تھا کہ تم سے آکر چند پل سکون سے بات کرلوں گا لیکن تم اپنی حرکتوں سے مجھے ہربار مایوس کردیتے ہو۔۔۔۔۔وقت رہتے سدھرجاؤ برخوردار نہیں تو تمھاری یہ خودسری تمھیں کسی روز بہت بڑے خسارے میں ڈال دے گی۔۔۔۔۔“  وہ جو عائمہ بیگم کی باتوں سے مرعوب ہوکر اپنے باغی بیٹے اور خود کے سرد معاملات کچھ بہتر بنانے آئے تھے،ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اُسکی ضدی طبیعت اور ہٹ دھڑمی پر اپنا ارادے بدل گئے۔

”پلیز ڈیڈ۔۔۔۔آپ نے مجھے ہمیشہ کسی نہ کسی بات پر شوق سے ذلیل کیا ہے۔۔۔لیکن اب گھر کی دوٹکے کی ملازمہ کی وجہ سے میں آپکے ہاتھوں خود کی ذلالت بالکل بھی برداشت نہیں کروں گا۔۔۔۔سو پلیز پرہیز کیا کریں اِن سب سےآپ۔۔یاں پھر مجھ سے بات ہی مت کیا کریں یار۔۔۔۔“  اپنی ماں کی موجودگی میں مزید شے پاکر وہ حسن صاحب پر اپنی برہمی جتاتا اگلے ہی پل بیڈ پہ رکھی گرے شرٹ اٹھا کر واشروم میں جا گھسا۔  

”شام۔۔۔۔۔یہاں واپس آؤ۔۔۔ابھی میری بات ختم نہیں ہوئی۔۔۔۔شام۔۔۔۔۔“  عائمہ بیگم کی خود پر شکوہ کناں نگاہیں محسوس کرتے ہوئے حسن صاحب بےتاثر لہجے میں اُسے بلاتے رہ گئے لیکن وہ کسی بھی آواز پر کان دھڑے بغیر شیشے کے سامنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا اپنی ہی دھن میں مست ہوچکا تھا۔

***************************

وہ ناک منہ پھلائے دوسری لڑکیوں کی طرح کالج کا گیٹ سرعت سے عبور کرتی باہر نکلی۔ہاتھ میں پکڑا فولڈر اُسکی شدیدگرفت میں اپنی رہائی کی دہائیاں مانگتا بےبس ہورہا تھا۔

آج کلاس میں لو مارکس آنے پر اُسے ٹیچر سمیت بہت سوں کی باتوں اور بےیقین نظروں کا نشانہ بننا پڑا تھا۔

اور سب سے بڑھ کر اُسے اِس مشکل وقت میں تسلیاں دینے والی واحد ہستی آج خود چھٹی پر تھی۔

اِس دغا پر بھوری آنکھوں میں پھر سے پانی بھرنے لگا۔

ضبط سے سوچتی وہ اپنی ہی دُھن میں کچھ فاصلے پر کھڑی وین کی جانب قدم اٹھارہی تھی جب کوئی شناسا سی نرم آواز اپنی پشت سے سنائی دیتی اُسے چونکا گئی۔

”کہاں باربی ڈول۔۔۔؟؟؟میں اِدھر کھڑا ہوں۔۔۔۔“  بختی بولتا ہوا سرعت سے اُسکے سامنے آیا تو وہ پل بھرکو بوکھلاتی سختی سے لب بھینچ گئی۔

تو یعنی سچ میں آج کا دن اُسکے لیے برا ثابت ہوا تھا۔۔۔۔

”مجھے آپکے ساتھ نہیں جانا۔۔۔۔میری وین میرے انتظار میں کھڑی ہے میں اُس میں چلی جاؤں گی۔۔۔۔“  قدرے رکھائی سے گویا ہوتے ہوئے حاویہ نے اُسکے سامنے سے ہٹنے کا انتظار کیے بغیر ہی سائیڈ سے نکلنا چاہا جب وہ پُھرتی سے اُسکی راہ میں حائل ہوگیا۔

”میں وین والے کو پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ تمھیں گھر تک میں خود ڈراپ کردوں گا۔۔۔۔اسی لیے ذیادہ سردرد لینے کی ضرورت نہیں ہے تمھیں۔۔۔“  اُسکی سانولی رنگت میں گھلتی ہلکی ہلکی سرخائی کو شدت سے دیکھتا وہ سنجیدگی سے بولا۔

”میں نے کہا ناں کہ میں آپکے ساتھ نہیں جاؤں گی۔۔۔۔“  آتے جاتے لوگوں کی طرف ایک سرسری نگاہ ڈالتی وہ بمشکل خود کو نارمل رکھے دھیمی آواز میں احتجاجاً بولی۔

”کیوں۔۔۔کھاجاؤں گا میں تمھیں۔۔۔۔؟؟؟یار تم اتنا ڈرتی کیوں ہو مجھ سے۔۔۔۔مانتا ہوں ڈرتے ہوئے تم بہت کیوٹ لگتی ہو مجھے لیکن میں تم سے اتنا پیار بھی تو کرتا ہوں۔۔۔پر پھربھی تم۔۔۔۔چچ۔۔۔۔خیرچھوڑو یہ سب بحث اور جلدی سے گاڑی میں بیٹھو۔۔۔۔۔“  دانت پیس کر پٹر پٹر بولتا اگلے ہی پل وہ بنا ہچکچائے اُسکی کلائی تھام گیا۔

”آپ پبلک پلیس میں میرے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتے۔۔۔۔چھوڑیں میرا ہاتھ۔۔۔۔مجھے نہیں جانا۔۔۔۔“  بختی کی سرعام جرات پر جہاں وہ حیران ہوتی کھل کے مزاحمت بھی نہیں کرپائی تھی وہیں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر الجھن زدہ نظروں سے یہ منظردیکھتا عائل کچھ متفکر سا ہوا۔

”گرمی پہلے ہی بہت ہے اوپر سے تم نہ نہ کرکے میرا دماغ مزید گرم مت کرو باربی ڈول۔۔۔۔چپ کرکے بیٹھو یہاں پر۔۔۔۔اور خالہ کو معلوم ہے کہ تم میرے ساتھ ہو۔۔۔۔فکر نہیں کرو آئسکریم کھلاکر تمھیں گھرچھوڑدوں گا۔۔۔۔“  فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول کر حاویہ کو آرام سے بیٹھاتا وہ گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ کی طرف آیا۔انداز ایسا تھا کہ کوئی بھی یہ نہیں بول سکتا تھا کہ وہ حاویہ کے ساتھ واقعی میں کوئی زبردستی کررہا ہے۔

کچھ ہی لمحوں میں پرانے ماڈل کی کار عائل کی بڑی گاڑی کے پاس سے گزرتی بےپرواہ سی آگے بڑھ گئی جبکہ وہ اندر ہی اندر بے سکون ہوتا اسٹیرنگ پر اپنی پکڑ مزید سخت کرگیا۔

حاویہ کے معصوم چہرے کا اطمینان سوچتے ہوئے اُسکی آنکھوں کے سرخ ڈورے گہرے ہوئے تھے۔

***************************

”میں ماما کو سب کچھ بتادوں گی آپکے بارے میں۔۔۔۔“  اپنے خشک لبوں پر زبان پھیرتی وہ بےچین سی سڑک پر نظریں جمائے پہلی بار بختی کو کھلے عام دھمکی دے گئی تھی۔

”کیا بتاؤ گی میرے بارے میں۔۔۔۔۔؟؟؟“  بےاختیار اُسکے کشادہ ماتھے پر بل پڑے۔

”یہی کہ آپ مجھے بار بار ہراساں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔“  گود میں رکھے بیگ پر اپنی گرفت سخت کرتی وہ بڑی ہمت سے بختی کی دکھتی رگ پر پاؤں جما چکی تھی جب اگلے ہی پل گاڑی ایک جھٹکے سے رکی۔

”اگرتم نے ایسی حماقت کرنے کی کوشش بھی کری تو میں تمھیں جان سے ماردوں گا۔۔۔۔سمجھی۔۔۔۔“  حاویہ کو کندھوں سے تھام کر اپنی جانب کھینچتا وہ چبا چبا کر بولا تو وہ سارے دن کی پریشان حال ضبط کھوتی پھوٹ پھوٹ کر روپڑی۔

”رونا بندکرو اپنا۔۔۔۔“  اُسکے بھیگتے گالوں سے نظریں ہٹاتا وہ اُسے اپنی سخت گرفت سے آزاد کرگیا۔

البتہ لہجہ ابھی بھی سختی لیے ہوئے تھا۔

”میں آپکی پولیس میں کمپلین کردوں گی۔۔۔۔“  بےبسی سے چیخ کر بولتے ہوئے اُسکا دماغ پھٹنے لگا تھا۔

جانے کیوں اُسے اِس پل عائل کی شدت سے یاد آئی تھی جو ہر مشکل میں اُسکے ساتھ کھڑا ہوتا تھا۔۔۔۔لیکن اب بدقسمتی کہیں بھی نہیں تھا۔

عائل کی کچھ دیر پہلے کی موجودگی سے قطعی بے خبر جہاں حاویہ کے آنسوؤں میں روانی آئی تھی وہیں اُسکی معصوم سی دھمکی پر بختی کا حلق سے نکلتا قہقہ بے ساختہ تھا۔

حاویہ نے نفرت سے اُسکی جانب دیکھا۔

”شوق سے کردینا جانم۔۔۔۔لیکن پہلے میری دسترس میں تو آجاؤ۔۔۔۔میں سوچ رہا ہوں کہ مناسب موقع دیکھ کر خالہ سے ہماری شادی کی بات کرہی ڈالوں۔۔۔۔ورنہ جس طرح کی تمھاری عادتیں ہوگئی ہیں ناں۔۔مجھے تو فکرہی لگ گئی ہے۔۔۔۔“  حاویہ کو اپنے ارادوں کی بابت آگاہ کرتا وہ اُسے زہر ہی تو لگا تھا۔اس پل اُسکا دل شدت سے چاہا تھا اُسکے لبوں کی اذیت دیتی مسکراہٹ نوچ لینے کو۔

”میں مرجاؤں گی لیکن تم جیسے گھٹیا انسان سے شادی کرکے اپنی زندگی برباد نہیں ہونے دوں گی۔۔۔۔سنا تم نے۔۔۔“  دل میں چیختی وہ بےبس سی شیشے کی جانب چہرہ موڑگئی۔

جبکہ بختی اُسکی بلاوجہ کی برہمی محسوس کرتا تاسف سے سرہلاکررہ گیا۔

**************************

سموک کلر کے تھری پیس سوٹ میں لبوں سے پھوٹتی دلکش مسکراہٹ سمیت وہ اس پل اپنی ماں کی پیاسی آنکھوں کا تارا بنا بیٹھا تھا۔

”اللہ تیرا شکر ہے جو آج میرا بیٹا۔۔۔میرے دل کا ٹکڑا میری آنکھوں کے سامنے موجود ہے۔۔۔۔آنکھیں ترس گئی تھیں میری تمھاری ایک جھلک  دیکھنے کو۔۔۔۔“  وہ کافی دیر بعد شاہ کو اپنے روبرو دیکھ کر جذباتی ہوتی رو پڑی تھیں۔

”موم۔۔۔۔یار میں آپ سے ملنے آ تو گیا ہوں۔۔۔۔اب آپ یوں آنسو بہاکر کیوں میرا یہاں رہنا مشکل بنارہی ہیں۔۔۔؟؟؟“  ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے ذرا بےزاری سے بولتا وہ ایک ہی نگاہ میں پورے ہال کا جائزہ لے چکا تھا۔

شاہ کی والدہ محترمہ نے اپنی عادت کے مطابق اِس بار بھی حسن پیلس کی سیٹنگ چینج کروادی تھی۔گوکہ ہرشے قابل ستائش تھی لیکن یہ بھی حقیقت ہی تھی جو اِن چیزوں کی طرح یہاں کے رہنے والے مکین بھی بدل گئے تھے۔

سوائے اُسکی ایک ماں کو چھوڑ کر جو ہر وقت اُسکی فکر میں گھلتی رہتی تھیں۔

لیکن فقط اتنی سی اہمیت اُسکی ذات  اور انا کی تسکین کے لیے کافی نہیں تھی۔

”کیوں دور چلے گئے ہو ہم سب سے۔۔۔۔دل نہیں کٹتا تمھارا اس طرح۔۔۔واپس یہی آجاؤ ناں ہمیشہ کے لیے۔۔۔۔تمھارا گھرتمھارے سب اپنے یہاں پر ہیں۔۔۔۔وہاں کیا رکھا ہے۔۔۔۔؟؟“  اُسکی بیزاری کی پرواہ کیے بغیر وہ شاہ کی دوری کو شدت سے کوستی اب بھی آنسو بہائے جارہی تھیں۔

”بزنس۔۔۔۔۔۔“  مضبوط لہجے میں یک لفظی جواب دیتا وہ اُنھیں پل بھرکو خاموش کرواگیا تھا۔

جب یکدم اُسکی نظریں سامنے سے آتی اُس لڑکی پر پڑیں۔

اُسے دیکھ کر جہاں شاہ کے چہرے پر شدید ناگواری چھائی تھی وہیں پیلے رنگ کپڑوں میں مقابل کا وجود پل بھرکو ساکت ہوتا شعلوں کی زد میں آگیا۔

ضبط کے مارے ہاتھوں میں تھاما ٹرے چائے سمیت لرزہ تھا جو وہ کسی اجنبی مہمان کے لیے خود اپنے ہاتھوں سے بناکرلائی تھی۔

لیکن یہاں تو مہمان کی بجائے اُسے اپنے حریف کا کھٹکتا وجود دیکھنے کو ملا تھا جسکی بےلحاظ گہری نگاہوں نے اُسکے تن بدن میں آگ سی بھردی تھی۔

مسزحسن بھی جھٹ سے اپنے بھیگے رخسار صاف کرتی قدرے محتاط ہوئی تھیں۔

اگلے ہی پل وہ اپنے دل میں شدت سے ابھرتی خواہش کو دبائے بنا شاہ کے قریب آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے گرم چائے کا کپ بڑی بےخوفی سے اُسکے قیمتی سوٹ پر اُنڈیل دیا۔

”واٹ دی ہیل از دِس۔۔۔۔؟؟؟“  بری طرح بوکھلاتا وہ جھٹکے سے صوفے سے اُٹھتا چیخا تو وہ جواب میں پیچھے ہٹتی جلادینے والے انداز میں مسکرائی۔

مسز حسن ساکت سی آنکھیں پھاڑے اپنی بڑی بہو کی جرات پر دنگ ہی تو رہ گئی تھیں۔

”تمھاری اوقات۔۔۔۔۔۔یہ ہے تمھاری اوقات۔۔۔۔“  کرخت لہجے میں بولتی وہ اُسکی عزت دو کوڑی کی بناگئی جبکہ شاہ اپنے اندر شدت سے امڈتے اشتعال کو بمشکل دباتا  اُس نڈر لڑکی کو دیکھ کررہ گیا جو بدقسمتی سے اُسکی بھابی کے درجے پر فائز ہوچکی تھی۔

چائے کی گرماہٹ سے ذیادہ اُس کا حقارت بھرا لہجہ شاہ کے ابھرے سینے کو تپا گیا تھا۔

”بہت پر پُرزے نکل آئے ہیں ناں تمھارے۔۔۔۔صبرکرو ذرا۔۔۔۔آلینے دو آج میرے بیٹے کو۔۔۔۔اِن پروں سمیت تمھاری گزبھرلمبی زبان نہ کٹوادی تو کہنا۔۔۔۔“  مسزحسن نے اُسے سخت چتونوں سے گھورتے ہوئے کھلے عام دھمکی دی تو وہ اُنکے چیلنچنگ انداز پر آئی برو اچکاگئی۔

”یہ بھی کرکے دیکھ لیں۔۔۔۔میں بھی دیکھنا چاہتی ہوں کہ آپ اپنے اِس لاڈلے کی خاطر کس حد تک گرتی ہیں۔۔۔۔“  سینے پر بازولپٹتی وہ سردمہری سے گویا ہوئی جب شاہ اُسکی کھلی بدتمیزی پر اپنے آپے سے باہر ہوگیا۔

”یوبلڈی۔۔۔۔۔باس۔۔۔۔“  سلگتی نظروں سے اُسکی جانب دو قدم بڑھاتا وہ غرایا جب وہ کڑے تیوروں سے وارن کرتی اُسے بیچ میں ہی ٹوک گئی۔

”خبردار۔۔۔۔گالی مت دینا۔۔۔۔مجھے گالی مت دینا نہیں تو یہ ناپاک زبان کاٹ  کے تمھارے ہاتھ میں پکڑادوں گی میں۔۔۔۔سمجھے۔۔۔۔“  بھیگی آنکھوں سمیت شہادت کی انگلی اُسکی جانب اٹھاتی وہ تڑخ کر بولی تو وہ اُسکے جلالی روپ کے آگے پل بھرکو تھم سا گیا۔

شدتِ جذبات سے اُسکا انگ انگ کانپ رہا تھا۔

”اِس سے پہلے کہ تم پر میرا ہاتھ اُٹھ جائے۔۔۔اپنی منحوس شکل لے کر دفع ہوجاؤ یہاں سے۔۔۔۔“  غصے سے بپھرے شاہ کو سائیڈ پر کرتی مسز حسن نفرت سے اُسکی جانب دیکھتی چلائیں۔

گہری سانسوں کے بیچ دونوں کی جانب دھندلائی نظروں سے دیکھتی وہ اگلے ہی پل  پیرپٹخ کر اپنے کمرے کی جانب تقریباً بھاگتی ہوئی لپکی۔

آخری سیڑھی سے اُسے اوجھل ہوتا دیکھ شاہ نے اپنی لہورنگ نظروں کو اپنی ماں کی طرف پھیرا جو اُس سے نظریں بچانے کو اب ملازمہ کو فرسٹ ایڈ باکس لانے کے لیے اونچا اونچا پکاررہی تھیں۔

”یہ۔۔۔۔یہ دیکھا آپ نے۔۔۔۔اپنے ہی گھر میں مجھے کتوں کی طرح ذلیل کیا جارہا ہے اور آپ بول رہی ہیں کہ میں یہاں آجاؤں ہمیشہ کے لیے۔۔۔۔سریسلی موم۔۔۔۔۔؟؟؟“  ذرا سا اُنکی جانب جھک کر اپنے داغ شدہ کوٹ کو زور سے جھٹکتا وہ سرتاپیر شکوہ کناں ہوا۔

”چچ۔۔۔ بیٹاتم۔۔۔تم اس بات کو ذیادہ ایشو مت بناؤ۔۔۔۔وہ لڑکی اِسی طرح منہ پھاڑ کربدزبانی کرتی ہے۔۔۔۔جبھی تو اس گھراور اپنے شوہر کے دل میں اپنا کوئی خاص مقام نہیں بناپائی ابھی تک۔۔۔۔“  اُسے ٹھنڈا کرنے کی ناکام کوشش کرتی وہ گڑبڑاگئیں تو اِس پُھس دلیل پر وہ زور سے سرجھٹک گیا۔

”دل تو کررہا ہے اِس چھٹانک بھر کی لڑکی کو ابھی اٹھا کر گھر سے باہر پٹخ دوں لیکن صرف آپکے اُس ضدی بیٹے کی وجہ سے خاموش ہوں جسکی بدولت آج ہم سب اِس حال کو پہنچ گئے ہیں۔۔۔۔“  ضبط سے بالوں میں ہاتھ چلاتا وہ اپنی دلی خواہش سمیت بےبسی کا اظہارکرگیا تو مسزحسن سرد آہ بھرکررہ گئیں اور ساتھ ہی رُخ موڑ کر پھر سے ملازمہ کو آواز لگائی جو جانے کہاں مرگئی تھیں۔۔۔

جبکہ اتنی ذلت کے بعد شاہ کی انا اُسے مزید یہاں پر رکنے سے منع کررہی تھی اور شاید وہ اپنا جلتا سینہ مسلتے ہوئے یہاں سے جانے کا سوچ بھی چکا تھا۔

****************************

وہ گزشتہ روز کی طرح آج بھی خالی کلاس میں گم صم سی بیٹھی سامنے بورڈ کو بےوجہ تکتی کسی غیر مرئی نقطے کو گھور رہی تھی۔چشمے کے پار گہری سیاہ آنکھوں میں گھلی گلابیت اُسکے ضبط کا پتا دے رہی تھی۔

”حرمین۔۔۔۔۔“  تحمل سے پکارے جانے پر اُسنے چونک کر علیزہ کی جانب دیکھا۔

”مت کرو خود کے ساتھ ایسا یار۔۔۔۔یہ تم کس راہ پر نکل پڑی ہو۔۔۔۔؟؟؟پہلے تو تم ایسی نہیں تھی۔۔۔۔“  اُسکی بکھری حالت پر گہری نگاہ ڈالتی وہ قدرے تاسف سے گویا ہوئی۔

دو دن ہوچکے تھے اُسے شام کے ہاتھوں بری طرح اگنور ہوتے ہوئے۔

اور اِن دو دنوں میں وہ بالکل ہی مرجھاکررہ گئی تھی۔

سب کے سامنے مضبوط بنتی وہ اُسکے سامنے بکھرجاتی تھی۔

”پہلے میری زندگی میں شام بھی تو نہیں تھا۔۔۔۔۔“  دھڑلے سے اُسکی اہمیت کا اعتراف کرتی وہ زخمی سا مسکرائی تو بے اختیار علیزہ کی پیشانی پر تیوری چڑھی۔

”مت بھولو کہ اب تمھاری زندگی میں ذباب احمد کا وجود بھی شامل ہوچکا ہے۔۔۔۔تمھارا حال اور مستقبل۔۔۔جسے نظرانداز کرکے تم اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کررہی ہو حرمین۔۔۔۔ہوش کے ناخن لو یار۔۔۔۔یہ صحیح نہیں ہے۔۔۔۔“  برہمی سے بولتی وہ اُسے شدت سے صحیح غلط کا احساس دلانا چاہ رہی تھی لیکن شاید وہ یہ نقصان مول لینے کے لیے دلی طور پر آمادہ  ہوچکی تھی جبھی تو کوئی بھی بات اُس پر اپنا اثر نہیں ڈال رہی رہی تھی۔

”کیا کروں۔۔۔۔؟؟دل کا معاملہ ہے جو کسی بھی منطق کو نہیں مانتا۔۔۔۔خدا قسم اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔۔۔۔یہ جو بھی کیا دھڑا ہے ناں۔۔۔ صرف اِس دل کا ہے۔۔۔۔یہی تو ہے جو مجھے اُسکی یادوں کے حصار سے باہرنہیں نکلنے کی اجازت نہیں دیتا۔۔۔۔“  دل کے مقام کو بارہا انگلیوں سے چھوتی وہ بےبسی سے گویا ہوئی تو علیزہ اُسے دیکھتی رہ گئی۔

فقط پڑھائی لکھائی کی باتیں کرنے والی وہ ٹاپر لڑکی آج نم آنکھوں سے عشق محبت کا حوالہ دیتی اُس کا منہ بندکرگئی تھی۔

جبھی اُن دونوں کی سماعتوں سے  کلاس کے باہر کسی کی  بھاری دلکش آواز ٹکرائی تو جہاں علیزہ نے نخوت سے سرجھٹکا وہیں حرمین کی دھڑکنیں بےاختیار تیز ہوئیں۔

اگلے ہی پل وہ بینچ سے اٹھتی باہر کی جانب بھاگی تھی۔

پیچھے علیزہ اُسکی اس قدر عجلت پر تاسف سے سر ہلاکررہ گئی۔

وہ دشمنِ جاں اُسے خالی کوریڈور سے دائیں جانب مڑتے غائب ہوتا نظر آیا تو وہ بھی سرعت سے اُسکے پیچھے لپکی۔

”شام۔۔۔۔۔۔“  حرمین نے تڑپ کر اُسے پکارا۔

ماتھے پر تیوری چڑھائے اُسنے بڑی دقت سے پلٹ کر اُسے دیکھا جو اب تیز تیز قدم اٹھاتی اُسی کی جانب آ رہی تھی۔

” کیا ہوا ہے تمھیں۔۔۔۔؟؟اس طرح بی ہیو کیوں کررہے ہو تم میرے ساتھ۔۔۔۔؟؟“  گہری سانسوں کے بیچ اُسکا مکمل رُخ اپنی جانب موڑتی وہ مقابل کی خفگی کی وجہ جاننے کے لیے حددرجہ بےتاب ہوئی۔

تبھی وہ اپنے کسرتی بازوؤں سے اُسکے نازک ہاتھ جھٹک گیا جو اُسکے اس طرح خود سے قریب آنے پر ہولے ہولے لرزرہے تھے۔

”یہ کیا ہے۔۔۔۔؟؟؟ذرا ایکسپلین کروگی مجھے۔۔۔؟؟“  اگلے ہی پل اُسکی کلائی کو اپنی سخت گرفت میں لیتا وہ گولڈ رِنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سردمہری سے گویا ہوا۔

اُسکے کڑے سوال پر شدت سے دھڑکتے دل سمیت وہ اپنی جگہ چور بنتی بمشکل اُسکی گرفت سے اپنی کلائی چھڑواگئی۔

ساتھ ہی اپنی منگنی کی نفیس سی رِنگ کو دوپٹے تلے چھپانے کی اپنی سی کوشش کی گئی تھی جسے دیکھ کر شام کی نظروں میں تمسخر پھیلا۔

مقابل کا اکھڑ لب و لہجہ مزید برداشت نہ کرتے ہوئے حرمین کی آنکھیں تیزی سے بھیگی تھیں۔

”میری روح سمیت دل کو پل پل زخمی کررہی ہو اور چاہتی ہوکہ تم سے کھل کر خفا بھی نہیں ہوں میں۔۔۔۔یہ ناانصافی نہیں تو اور کیا ہے حرمین۔۔۔۔؟؟؟“  اُسکے سانولے گالوں پر لڑھکتے آنسو دیکھتا وہ تھوڑے نرم لہجے میں شکوہ کرگیا۔

البتہ پل پل بھیگتے گالوں کو صاف کرنے کی زحمت ابھی بھی نہیں کی گئی تھی۔

شام کے اس قدر کھلے اظہار پر حرمین کی دھڑکنیں پل بھرکو تھمی تھیں۔

مقابل کا دبے لفظوں میں کیاگیا یہ اظہار ایسا تھا کہ جس میں لفظ محبت کا دور دور تک کوئی نام و نشان ہی نہیں تھا۔

لیکن اُسے کوئی پرواہ ہی کب تھی۔۔۔۔

”تو اب کیا کروں میں۔۔۔۔؟؟؟“  ہاتھ کی پشت سے اپنے گال رگڑتی وہ الٹا سوال کرگئی۔لہجے میں اس لمحے بےبسی ہی بے بسی تھی۔

اُسکے یوں استفسار کرنے پر شام کو کمینی سی خوشی ملی تھی۔

 بھوری آنکھوں میں گہری چمک سموئے وہ اِس بار اُسکے دونوں ہاتھ نرمی سے تھام گیا۔

”اپنے دل کی سنو۔۔۔۔جو وہ کرنے کو کہہ رہا ہے بس وہی کرو۔۔۔۔بلیومی میں ایسی ہزار رِنگز تم پر وار دینے کو تیار ہوں۔۔۔۔پر پلیز اس رِنگ کو اپنے ہاتھ کی زینت بناکر مجھے مت تڑپاؤ۔۔۔۔اسکے ساتھ جڑی وجہ جان کر میرے دل کو بڑی تکلیف ہوتی ہے یار۔۔۔“  دلنشین لہجے میں اُسے نئی راہ دیکھاتا آخر میں وہ رنگ پر ضبط بھری نظر ڈالتے ہی تنفر سے منہ پھیر گیا جبکہ وہ لب بھینچے اپنے دل کی دھڑکنوں کا بڑھتا شور سنتی اُسکے لہجے کی تڑپ دیکھ کر رہ گئی۔

******************************

وہ شور سن کر حیران سی باہر کی جانب بھاگی تھی جہاں وہ گارڈز کے ساتھ بری طرح الجھتا زبان کے ساتھ ساتھ ہاتھ پیر بھی چلارہا تھا۔

آج اتنے دنوں بعد اُسے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتی وہ شدتوں سے دھڑکتے دل کے ساتھ بےاختیار پلر کو تھام گئی۔

اُسکے پیچھے ہی چند لڑکیاں بھی نکلتی آنکھوں میں اشتیاق سموئے رابی کے لیے سالار خان کی دیوانگی دیکھ رہی تھیں۔

ملگجا حلیہ،پھٹا گریبان،بکھرے بال اور لہورنگ آنکھوں کی طرح ہونٹ سے نکلتا لہو۔۔۔وہ اس وقت حقیقتاً قابلِ رحم لگ رہا تھا۔

”میں نے کہا چھوڑو مجھے۔۔۔۔مجھے میری رابی سے ملنا ہے۔۔۔ہرقیمت پر ملنا ہے۔۔۔کیوں مجھ سے الجھ کر اپنی جان کے دشمن بننا چاہتے ہو۔۔۔۔مجھے اچھے سے پتا ہے کہ تمھیں تمھاری بڑی میم نے میری راہ میں رکاوٹ بنا کر حائل کیا ہے۔۔۔۔“  سلگ کر بولتا وہ اپنے مدِمقابل سینہ تان کر کھڑے گارڈ کو پوری قوت سے دھکا دے گیا۔

”ہمیں بڑی میم نے نہیں بلکہ رابی میم نے روکا ہے۔۔۔ہمیں اُنکے سختی سے آڈرز ملے ہیں کہ اگر سالارخان یہاں آنے کی زبردستی جرات کرے تو اُسے دھکے مارکر یہاں سے باہرنکال دیا جائے۔۔۔“  اُس گارڈ نے اُسکا پھٹا گریبان پکڑ کر مضبوط لہجے میں صفائی دیتے ہوئے جوابی کاروائی میں ایک زور کا پنچ مارا تو وہ کچھ حیران سا دو قدم پیچھے کو لڑھکا۔

اگلے ہی پل اُسکی نظریں خود کی جانب بھیگتی نگاہوں سے تکتی رابی پرپڑی تھیں۔

”رابی۔۔۔رابی۔۔۔بس ایک بار مجھ سے بات کرلو۔۔۔اِن سے بولو کہ مجھے اندر آنے دیں۔۔۔۔آئی پرامس میں تمھاری ساری ناراضگی دورکردوں گا۔۔۔۔“  وہ پُرجوش سا چلاتا بےاختیار آگے کو لپکا تھا جب گارڈز نے اُسکے چورے سینے پر بازو لپٹتے اُسے پھر سے پیچھے دھکا دیا۔

اس بار وہ نرم گھاس پر زمین بوس ہوا تھا۔

”آنے دو اسے۔۔۔۔“  اپنا لہجہ سپاٹ بناتی وہ سالار خان کو دلکشی سے مسکرانے پر مجبور کرگئی۔

دور سے یہ سب دیکھتی تابین بائی نے رابی کی بات پر افسوس کرتے سالار خان کو نفرت بھری نظروں سے دیکھا تھا۔

”جاؤ۔۔۔۔۔“  یک لفظی حکم دیتے گارڈز ایکدم سے اُسکا راستہ صاف کرگئے تو وہ بھی اطراف سے بےبہرہ تیزی سے فاصلہ مانپتا رابی کی جانب لپکا۔

اتنے دنوں بعد اُسکا ضبط سے تمتماتا سرخ چہرہ قدرے قریب سے دیکھتا وہ جیسے سکون میں آگیا تھا۔اس پر تضاد اُسکی غضب ڈھاتی قاتل نگاہیں۔۔۔۔اُسے حقیقتاً اپنا دل لوٹتا ہوا محسوس ہوا۔

”میں نے تمھیں بہت یاد کیا رابی۔۔۔۔پل پل یاد کیا۔۔۔۔تمھاری ناراضگی نے مجھے چین ہی کب لینے دیا ہے۔۔۔۔تم نے بھی مجھے یاد کیا ناں۔۔۔۔؟؟“  رابی کے مومی ہاتھوں کو نرمی سے تھامتا منانے کی پہلی کوشش میں وہ بےتاب سا پوچھنے لگا۔

”یہاں کس مقصد سے آئے ہو سالار خان۔۔۔۔؟؟؟“  اُسکے سوال کو یکسرفراموش کرتی وہ خود سوال داغ گئی تو وہ بےاختیار مسکرایا۔

”میرا تو ایک ہی مقصد باقی رہ گیا ہے جسے اب صرف تمہی پورا کرسکتی ہو۔۔۔۔“  اپنی گرفت کا دباؤ مزید بڑھاتا وہ پُرامیدسا گویا ہوا تو وہ ٹھٹکی۔

” کیسا مقصد۔۔۔۔؟؟؟“  اُسکے نازک ہاتھ ہنوز اُسکی مضبوط پکڑ میں تھے۔

”مجھ سے شادی کرلو رابی۔۔۔۔میں وعدہ کرتا ہوں تمھیں ہرخوشی دوں گا۔۔۔دل و جان سے بھی عزیز رکھوں گا۔۔۔۔تمھارا ہر گلہ شکوہ مٹا دوں گا۔۔۔۔بس میرے عشق کو کامل کردو۔۔۔۔مجھ سے ایک پاکیزہ بندھن میں بندھ کر میرے وجود کو کامل کردو۔۔۔۔بخدا میری ذات پہ کیاگیا تمھارا یہ احسان میں زندگی بھرنہیں بھولوں گا۔۔۔۔“  وہ دیوانہ وار بولتا رابی کو کوئی پاگل مجنوں ہی لگا تھا۔

جہاں تابین بائی نے شدید غصے میں پہلو بدلا تھا وہیں دوسری لڑکیاں دانتوں میں انگلیاں دبا کر رہ گئیں۔

بالآخر دل دلگی کا انجام وہی ہوا تھا جس سے وہ ڈرتی تھی۔۔۔۔

نوبت شادی تک آپہنچی تھی۔۔۔۔

نتیجتاً وہ غم و غصے کی کیفیت میں سختی سے اُسکے ہاتھ جھٹک گئی تو وہ بھی جیسے کسی ٹرانس سے باہر نکلا۔

”میری زندگی صرف تمھارے مقصد تک محدود نہیں ہےسالار خان۔۔۔میرے خود کے بھی کچھ مقصد ہیں جن پر میری پوری زندگی ٹکی ہے۔۔۔۔تمھارا یہ مقصد ایک ایسے سراب کی مانند ہے جسکے پیچھے مسلسل بھاگتے رہنے سے بھی تم اسے کبھی پا نہیں سکو گے۔۔۔ہاں البتہ پیاسے سسک سسک کر ضرور مرجاؤگے۔۔۔۔میری صلاح مانو تو ایسے جان لیوا شوق سے پیچھاچھڑالوسالار خان۔۔۔۔واللہ سکون میں آجاؤگے۔۔۔۔“  دل کی دہائیوں کو جبراً اندر ہی کہیں دفن کرتی وہ نم پڑتی آنکھوں سمیت قدرے تلخی سے گویا ہوئی تو وہ ضبط کی آخری حدوں کو چھوتا قدرے نرمی سے اُسکے ہاتھ دوبارہ تھام گیا۔

مقابل کی خود کے لیے یہ دیوانگی دیکھ کر رابی کو اُس سے ذیادہ اپنے آپ پر غصہ آیا تھا جس کی وجہ سے اُسکی زندگی میں حقیقتاً بہت سے کانٹے بچھ سکتے تھے۔

”میرا یہ شوق جانلیوا ہی سہی۔۔۔پر تمھارے بغیر سکون ملنا ممکن نہیں ہے۔۔۔۔“  دل کی کیفیت بیان کرتا وہ رابی کو انتہا کا ڈھیٹ لگا تھا۔

”اور میں تمھیں مل جاؤں۔۔۔یہ بھی ممکن نہیں ہے۔۔۔۔“  مشتعل سی  دوبدوجواب دیتی وہ اُسے پل پل ٹوٹنے پر مجبورکررہی تھی۔

اب کہ تابین بائی بھی خود پر سے ضبط کھوتی دہلیز پھلانک کر باہرلان میں نکل آئی تھیں۔رابی پر لاکھ یقین ہونے کے باوجود بھی دل میں بےنام سا خدشہ سراٹھانے لگا تھا۔

کہ تبھی سالار خان کی اگلی حرکت پر رابی سمیت تقریباً سبھی گہرا سانس بھرکررہ گئیں۔

وہ شخص جھکنا نہیں جانتا تھا پر اب وہ فقط اپنی محبت جیتنے کی خاطرآخری داؤ آزماتا یہ کڑوا گھونٹ بھی پی گیا تھا۔

”تمھارے بغیر جینے کا تصور کرنا میرے لیے خود کی سانسیں روک لینے کے مترادف ہے۔۔۔۔ میں مرجاؤں گا یار۔۔۔۔اور تم یہ بات اچھے سے جانتی ہو۔۔۔۔۔“  اُسکے سامنے گھٹنوں کے بل گرتا وہ اِس پل بےبسی کی انتہا پر تھا۔

”واللہ۔۔۔تم ہو یاں پھر میں۔۔۔اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔؟؟مرنا تو ہرکسی کو ہے۔۔۔۔موت ایسی تلخ حقیقیت ہے جس سے کوئی چاہ کر بھی انکار نہیں کرسکتا۔۔۔۔۔“  ڈوبتے دل سمیت بھیگی نظروں کو پل بھر کے لیے چراتی وہ سنگدلی کی انتہا ہی تو کرگئی تھی۔

اُسنے چونک کر سراٹھاتے اُسکا بےتاثر چہرہ دیکھا۔

”مم۔۔۔میں سچ کہہ رہا ہوں رابی۔۔۔۔میں مرجاؤں گا تمھارے بغیر۔۔۔۔“  اندر لگی آگ کی پرواہ کیے بنا وہ بڑے ضبط سے بولتا اُسکی ضد اور دلیلوں کے سامنے ناچاہتے ہوئے بھی ہاررہا تھا۔

”میں بھی سچ ہی بیان کررہی ہوں۔۔۔اگر میں تمھاری زندگی میں رہی تو تم ویسے ہی جیتے جی مرجاؤگے۔۔۔ایک بدنام لڑکی کو زندگی بھرکے لیےسرکی عزت بناکر رکھناتم جیسے باکردار شخص کے بس کی بات نہیں ہے۔۔۔خدارا دور چلے جاؤ میری زندگی سے۔۔۔۔“  حقیقت کا کرارا طمانچہ اُسکے منہ پر جڑتی آخری لمحے پروہ بہتی آنکھوں سمیت ہاتھ جوڑگئی۔

وہ لب کھولے ساکت سا اُسے دیکھتا چلاگیا جو اب اپنے بھاری لفظوں کا مزید بوجھ اُس کے کمزور پڑتے وجود پر ڈال رہی تھی۔

”واللہ۔۔۔۔سالار خان۔۔۔۔اگر تم نے کبھی رتی بھر بھی مجھ سے محبت کی ہے تو اُسکے صدقے میں۔۔۔کبھی بھی واپس میری طرف لوٹ کر مت آنا۔۔۔۔ورنہ میں یہی سمجھوں گی کہ تمھیں بھی عام مردوں کی طرح میری روح سے ذیادہ میرے وجود کی چاہ تھی۔۔۔۔“  بول کر وہ رکی نہیں تھی بلکہ آنسوؤں سمیت اُسکی محبت کو بےمول کرتی وہاں سے نکلتی چلی گئی۔

ہاں۔۔۔اُسے ہارا کر وہ وہاں سے جاچکی تھی۔

ایک تھکا ہوا آنسو اُسکے رخسار پر لڑھکتا بےمول ہوا تھا۔

تابین بائی نے ہوا میں سکون کا سانس خارج کرتے ہوئے ایک تمسخرانہ نگاہ ساکت بیٹھے سالار خان پر ڈالی اور اگلے ہی پل اپنی ساری کا پلو ایک ادا سے تھامتی وہاں کھڑی لڑکیوں کو اپنے سنگ لیتی حویلی کے اندر چلی گئیں۔

”مجھے رابی کی روح سے محبت ہے۔۔۔اُسکے وجود سے نہیں۔۔۔مجھے فقط رابی کی روح سے محبت ہے۔۔۔ہاں۔۔۔عشق ہے مجھے اُس سے۔۔۔۔“  دھندلاتی نگاہ سے سبز زمین کو دیکھتا وہ زیرِلب بڑبڑایا اور اگلے ہی پل شبنم کے قطروں سے نم گھاس پر ہتھیلیاں جماتا اپنے شکست خوردہ قدموں پر کھڑاہوگیا۔

محبت اور جنگ دونوں میں ہی اُسے گہری مات دی جاچکی تھی۔

”گیٹ بندکرو۔۔۔۔مجنوں صاحب پر سوار عشق کا بھوت لیلیٰ میڈم نے اچھے سے اتاردیا ہے۔۔۔۔“  سالار خان کو صدمے کی حالت میں حدود پار کرتا دیکھ گارڈ نے طنز کیا تو دوسرے گارڈز بھی اُسکی بات پر دبادبا سا ہنس دئیے۔

جبکہ وہ اِن سب سے بےبہرہ اپنی گاڑی میں جانے کی بجائے پیدل ہی بےمنزل راہ پر نکل گیا۔

*****************************

ٹیچر کی غیرموجودگی میں کلاس کے کھلے دروازے سے بےوجہ اندر باہر ہوتی لڑکیاں اس پل بےخوف دکھائی دےرہی تھیں۔جہاں چند ایک آپس میں سر جوڑے سرگوشیوں میں اپنے راز ایک دوسرے کی سماعتوں میں گھولنے میں مصروف تھیں  وہیں باقی بھی بآواز بلند قہقے لگاتی گپیں جھاڑ رہی تھیں۔ایسے میں نیناں خود بھی اپنی جانب متجسس انداز میں تکتی کچھ لڑکیوں سے بےپرواہ اُسکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھی جانے کب سے اُسے منانے کی کوششوں میں تھی لیکن مقابل کے خفا خفا سے نقوش ہنوز بگڑے ہوئے تھے۔

”معاف کردے میری ماں۔۔۔۔معاف کردے مجھے۔۔۔۔بہت بڑی غلطی  ہوگئی مجھ سے جو میں نے تجھے بن بتائے ہی کالج سے چھوٹی کرلی تھی۔۔۔۔میری توبہ جو میں دوبارہ یہ کام کروں۔۔۔۔“  اپنی انگلیوں میں پھنسی اُسکی نازک انگلیاں مزید جکڑتی وہ دہائی دینے والے انداز میں بولی۔

”ایسے کیسے معاف کردوں میں تمھیں۔۔۔۔؟؟تمھاری وجہ سے میرے جو اتنے آنسو ضائع ہوئے ہیں اُن کا حساب کون چکائے گا۔۔۔۔؟؟“  اپنے اندر کی باقی کھولن بھی اُس پر اتارتی وہ تڑخ کر بولی تو نیناں کو بےاختیار کوفت سی ہونے لگی۔

”تو یعنی تم ایسے نہیں مانو گی۔۔۔؟؟“  بجھتے دل کے ساتھ اُسنے تصدیق چاہی۔انگلیوں کے گرد گرفت ڈھیلی پڑی تھی۔

”نہیں۔۔۔۔“  ٹکا سا جواب حاضر تھا۔

وہ الگ بات تھی کہ دل اُسکی بےچاری سی شکل دیکھ کر پگھل پگھل جارہا تھا۔

”ٹھیک ہے۔۔۔مت مانو۔۔۔ویسے اگر تم مان جاتی  تو میں تمھیں بتاتی کہ کل کس طرح مجھے تمھارے اے۔ایس۔پی کی کال آئی تھی۔۔۔۔اور آگے سے میں نے اُس سے کیا کیا باتیں کیں۔۔۔۔؟؟؟لیکن افسوسسس۔۔۔۔“  اُسکے ہاتھوں کو آزاد بخشتی وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہونے ہی والی تھی جب حاویہ نے جھٹکے اُسکی کلائی اپنی جانب کھینچ کر اُسے واپس گھٹنوں کے بل بیٹھادیا۔

”کیا مطلب۔۔۔۔؟؟؟عائل جی نے تمھیں کال کی تھی۔۔۔۔؟؟پر کیوں۔۔۔۔؟؟“  تمام تر خفگی بھلائے وہ حیرت زدہ سی اُس سے استفسار کرگئی تو نیناں اُسکی بےاختیاری پرمسکراہٹ دباتے ہوئے چہرہ پھیرگئی۔

”تم تو مجھ سے بات ہی نہیں کرتی۔۔۔۔تو پھر میں تمھیں یہ سب کس حق سے بتاؤں محترمہ۔۔۔؟؟“  اب کہ سود سمیت بدلہ لینے کی باری نیناں کی تھی۔

”نینی میرا دماغ خراب مت کرو۔۔۔تم سیدھی طرح بتاؤ کیا بات ہوئی ہے تم دونوں کے بیچ۔۔۔؟؟نہیں تو میں تمھارا گلا دبادوں گی۔۔۔۔کہیں اُنھوں نے ہمیں اریسٹ کرنے کی دھمکی تو نہیں دے دی۔۔۔۔؟؟“  سب کچھ پل میں جان لینے کو بےتاب ہوتی وہ روہانسی ہوکر بولی۔

آواز ہنوز مدھم تھی لیکن تیزی سے دھڑکتے دل کا شور مزید بڑھنے لگا تھا۔

”نہیں بتاؤں گی۔۔۔۔“  اُسکے اس قدر خوف پر امڈتے قہقے کو بڑی آفتوں سے روکتی وہ حقیقتاً اُسکا صبر آزماگئی تھی۔

”ٹھیک ہے۔۔۔۔مت بتاؤ۔۔۔پھر میں بھی ابھی جاکر پرنسپل سر کو بتاتی ہوں کہ تم نے اُنکے آفس میں گھس کر نمبرررر۔۔۔۔۔“  اُسکی ہٹ دھڑمی سے بری طرح خار کھاتی وہ چٹخ گئی جب نیناں اُسکے ایکدم اونچے ہونے والے والیوم پر بوکھلاتی سرعت سے اُسکے لبوں پر اپنی ہتھیلی جماگئی۔

”آہستہ بول کمینی۔۔۔۔کیوں مروانا چاہ رہی ہے مجھے۔۔۔؟؟؟“  دانت پیس کر دھیمی آواز میں غراتی وہ حاویہ کو اُسکی بےاختیاری کا شدت سے احساس دلاگئی تھی جب اچانک کلاس میں مدھم پڑتا شور شرابہ اچانک سے سناٹے کی زد میں آ گیا۔

نیناں نے حاویہ کے لبوں کو ہنوز اپنی گرفت میں لیے جہاں ناسمجھی سے کلاس کی تقریباً ساری لڑکیوں کو دیکھا تھا وہیں حاویہ کی بھوری آنکھیں ٹیچرندا کو دروازے پر کھڑا پاکر بے اختیار پھیل گئیں۔

”نیناں۔۔۔۔یہ کیا طریقہ ہے کلاس میں بیٹھنے کا۔۔۔۔؟؟؟آپ میں مینرز نام کی کوئی چیز باقی ہے کہ نہیں۔۔۔۔؟؟گیٹ اپ ناؤ۔۔۔۔آئی سیڈ گیٹ اپ۔۔۔“  اپنی پشت سے سنائی دیتی مس ندا کی سخت آواز پر نیناں آنکھیں پھاڑے جھٹکے سے اٹھتی پیچھے پلٹی۔

لڑکیوں کی دبی دبی ہنسی پر اُسکا گلا مزید خشک پڑا تھا۔

حاویہ کی سانسیں کیا ہی بحال ہونی تھیں الٹا مس ندا کی یکلخت آمد اور اُس پر مستزاد اُنکے بگڑے تیور دیکھ کر مزید دھیمی پڑگئیں۔

”میم۔۔۔۔وہ میں۔۔۔۔“  اپنی بوکھلاہٹ پر بمشکل قابو پائے اُسنے اپنی صفائی دینا چاہی جب مس ندا کو اُسکے مزاحمت کرتے لب قدرے ناگوار گزرے۔

”شٹ اپ۔۔۔۔یہاں کوئی فلم کا سین شوٹ نہیں ہورہا جو آپ دونوں آپس میں کسی رومینٹک کپل کی طرح سب کے سامنے شوخیاں جھاڑتی پھر رہی ہیں۔۔۔یہ کالج ہے۔۔۔پڑھنے کی جگہ۔۔۔یہاں سب پڑھنے آتی ہیں نہ کہ یہ قابل اعتراض حرکتیں کرنے۔۔۔جب سینئر کلاس کا یہ حال ہے تو ایسے میں جونیئرز سے کیا توقع رکھی جاسکتی ہے۔۔۔۔؟؟؟“  اس بار مس ندا  نیناں کے ساتھ ساتھ حاویہ کو بھی اندر گھسیٹتی اچھا خاصا جھاڑگئیں۔

یہ اُن دونوں کی بدقسمتی ہی تو تھی جو وہ بھری کلاس میں مس ندا کے خراب موڈ  کا شکار ہو گئی تھیں۔

”میم ہم معصوموں کا جونیئرز سے مقابلہ مت کیجیے۔۔۔وہ پڑھائی کے علاوہ ہر کام میں ہم سے بہت آگے ہیں۔۔۔۔اور رہی بات قابلِ اعتراض حرکتوں کی تو اپنی ناراض دوست کو منانا میری نظر میں کوئی شرمناک حرکت نہیں ہے۔۔۔۔“  موقع کی مناسبت سے اپنا لہجہ دھیماکرتی وہ دوبدو بولی۔

”اب آپ مجھے سیکھائیں گی محترمہ کہ مجھے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔۔۔؟؟؟“  چٹخیلے انداز میں بولتی وہ اُسکے سر پر جا پہنچیں۔نیناں کا آگے سے جواب دینا آگ ہی تو لگاگیا تھا اُنھیں۔

”سوری میم۔۔۔۔۔“  بدزبانی کا ارادہ ترک کرتی وہ شکست خوردہ سی نگاہیں جھکاگئی تو مس ندا اُسکی معذرت کو خاطر میں لائے بغیر دیوار پر نصب گھڑی کی سوئیوں کا مشاہدہ کرتی تاسف سے سر جھٹک گئیں۔

جبکہ حاویہ نیناں کی فکر میں گھلتی اپنی تمام تر ناراضگی پر کب کی لعنت بھیج چکی تھی اور بلاشبہ اس فکر میں عائل کے نام کی بےچینی بھی گھر کرگئی تھی۔۔۔

*************************

اُسکی آنکھوں پر ہتھیلی جمائے وہ اُسے دہلیز پار کرواتا اپنے قدم پورچ کی جانب موڑگیا۔لبوں پر دلکش مسکراہٹ ہنوز برقرار تھی۔اُن دونوں کی تقلید میں چلتی پُرجوش سی آئمہ بیگم بھی اپنے لاڈلے بیٹے کی خوشی دیکھنے کے لیے اِس پل قدرے بےتاب دکھائی دے رہی تھیں۔

ایسے میں مالی بابا سمیت گیٹ کے قریب پہرہ دیتے گارڈز بھی بروقت اپنے کام سے توجہ ہٹاتے حسرت بھری نگاہوں سے اپنے چھوٹے صاحب کے لاڈ اٹھوانے والے اِس منظرکو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے تھے۔

” اورکتنی دور ہے بھائی۔۔۔۔؟؟؟مجھ سے مزید ویٹ نہیں ہوپا رہا یار۔۔۔۔“  بند آنکھوں میں سمائی سیاہ تاریکی سے حقیقتاً چڑتا وہ جھنجھلاکر گویا ہوا تو عائل سمیت عائمہ بیگم کی مسکراہٹ اُسکی بےصبری پر مزید گہری ہوتی چلی گئی۔

حسن صاحب کے علاوہ شام تقریباً سبھی سے اپنی برتھڈے وِشز وصول چکا تھا اور شاید اُسے اپنے باپ کی خود سے برتی گئی اِس لاتعلقی کی بابت کوئی خاص فرق پڑتا بھی نہیں تھا۔گزشتہ رات سوئی کے بارہ کا ہندسہ پار کرتے ہی اُسے بےتحاشہ میسجز اور کالز نے اپنے گھیرے میں آن جکڑا تھا جس کا جواب دیتے دیتے نتیجتاً وہ ساری رات ہی نیندسے کوسوں فاصلے پر جاگتا رہا تھا۔

”بس دو کلو میٹر کا فاصلہ باقی رہ گیا ہے پھر ہم یقیناً تمھارے گفٹ تک پہنچ جائیں گے انشاءاللہ۔۔۔۔“  مسکاتی آواز میں بولتا ہوا وہ اپنے تمسخرے پن سے شام کو چڑچڑاتی طبیعت کے باوجود بھی مسکرانے پر مجبورکرگیا۔

”انسپیکٹر صاحب۔۔۔اپنے جان سے بھی عزیز چھوٹے بھائی کو ستانے کے جرم میں قانون کونسی سزا عائد کرتا ہے آج ذرا یہ بات بھی آپ مجھے بتادیں۔۔۔؟؟؟“  اُسکی پیروی میں احتیاط سے قدم اٹھاتا وہ اپنی مسکراہٹ دبائے ذرا سنجیدگی سے گویا ہوا۔

”معاملہ جو بھی ہو بس کسی بھی حال میں انسان کو صبر۔۔۔خاموشی اور برداشت کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دینا چاہیے۔۔۔۔“  اُسکے سوال پر بےاختیار ہنستا وہ آرام سے بولا۔

”اور سچ کا بھی۔۔۔۔“  اپنی آنکھوں پر موجود عائل کے ہاتھ کی پشت کو ہولے سے تھپتھپاتا وہ ہنسا جب اگلے ہی پل اُسے مضبوط دباؤ کے احساس تلے ٹھٹھک رکنا پڑا۔

”کیا۔۔۔؟؟؟ہوگئے دوکلو میٹر پورے۔۔۔۔؟؟؟“  عائل کے ایک جگہ جم جانے پر قدرے تحمل سے پوچھتے ہوئے اُسنے جیسے تصدیق چاہی۔

جبھی عائل اُسکی گھنی خم دار پلکوں سے اپنی مضبوط ہتھیلی پرے ہٹاگیا تو زور سے پلکیں جھپکاتا وہ سامنے کھڑی بلیوکلر کی لشکارے مارتی ہیوی بائیک کو دیکھ کر پل بھر کو ٹھٹھکا۔

”کیسا لگا سرپرائز۔۔۔۔۔؟؟؟“  شام کی اس قدر گہری محویت محسوس کرتے ہوئے جہاں عائمہ بیگم پُرسکون ہوتی کھل کر مسکرائی تھیں وہیں عائل اُسکے کندھے پر بازو دھڑتا اُسے ہوش کی دنیا میں واپس لایا۔

” کمال کردیا ہے آپ نے تو یار۔۔۔۔مطلب کہ۔۔۔۔“ چونک کر خوشگوار حیرت سے بالوں میں ہاتھ چلاتا وہ ہولے سے ہنسا۔مارے خوشی کے الفاظ گویا لبوں پر ہی دم توڑگئے تھے۔

”میں جانتا تھا تمھیں یہ گفٹ ضرور پسند آئے گا۔۔۔۔“  اُسے ہیوی بائیک کی جانب تیزی سے لپکتا دیکھ عائل پُریقین سا بولا جو اب گہری نظروں سے ماڈل نیم پڑھتا مزید پُرجوش ہوتا جا رہا تھا۔

”یہ بولنے کی ضرورت ہی کیا ہے عائل بیٹا۔۔۔؟؟دیکھ نہیں رہے اُسکے چہرے پر بکھرے خوشیوں کے رنگ۔۔۔اپنی ماں سے بھی ذیادہ اُسے تمھارا دیا تحفہ پسند آیا ہے۔۔۔۔“  نرم لہجے میں میٹھاس بھرا طنز گھولتی عائمہ بیگم کی نگاہیں بےاختیار شام کی کلائی میں دمکتے سلور ڈائل پر پڑیں تھیں جو کہ اُنہی کی جانب سے شام کو دیا جانے والا پہلا قیمتی نذرانہ تھا۔

”ڈیڈ تو یقیناً ناراض ہوگئے ہوں گے آپ سے۔۔۔“  کالی سیٹ کی شفاف سطح پر انگلیاں پھرتے جہاں اُسکے دماغ میں چند دنوں میں ہونے والی نیو ریس کا خیال تیزی سے کوندا تھا وہیں حسن صاحب کی شدید ناراضگی کا سوچتے ہوئے اُسکے لبوں کی مسکراہٹ بےاختیار مدھم پڑی۔

بھوری آنکھوں میں یکدم ہی سردمہری گھلی تھی۔

اپنی بات کے فراموش کیے جانے سے ذیادہ حسن صاحب کے نام پر عائمہ بیگم کا منہ کڑوا پڑا تھا۔

”ایسی کوئی بات نہیں ہے شام۔۔۔انفیکٹ وہ تو مجھے تمھیں بائیک کی بجائے گاڑی گفٹ کرنے کا مشورہ دے رہے تھے۔۔۔پرتمھاری پسند کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مجھے یہی چوائس بیسٹ لگی۔۔۔۔۔“  اُسکے درست اندازے پر سمٹتی مسکراہٹ کو پل میں بحال کرتا وہ کچھ مفاہمتی انداز میں گویا ہوا۔

”ہونہہ۔۔۔جیسے کہ میں تو جانتا ہی نہیں ناں اُنکے مشورے کے پیچھے کا مقصد۔۔۔۔“  زیرلب بڑبڑاتا وہ اپنا موڈ مزید خراب کیے بغیرسرجھٹک کر مسکراتا ہوا عائل کی جانب لپکا۔

”آئی لو یو برو۔۔۔۔۔“  گفٹ کے بدلے قدرے لاڈ سے اُسکے کشادہ سینے سے لگتا وہ عائل کے دل میں اپنی چاہت مزید بڑھاگیا تو پاس کھڑی عائمہ بیگم کے لبوں سے بےاختیار اپنے بیٹوں کی تاعمر خوشیوں کی دعا نکلی۔

”میں تو اپنی بیوی کو ہی بولوں گا۔۔۔۔“  مدھم لہجے میں آنکھ دباکر بولتا وہ پل میں اُسکی مسکراہٹ چھین گیا۔

”کسے۔۔۔۔وہ جو حر۔۔۔۔“  جواب میں وہ بھی الگ ہوتا عائمہ بیگم کے سامنے ہی سارے راز کھولنے پر اتر آیا جب عائل گڑبڑاتا ہوا اُسے بیچ میں ہی ٹوک گیا۔

”اچھا تو یہ فارم ہاؤس کا کیا سین ہے۔۔۔۔؟؟؟موم بتارہی تھیں کہ تم اس بار اپنی برتھ ڈے پارٹی وہاں ارینج کررہے ہو۔۔۔۔“  ناسمجھی سے خود کی جانب تکتی عائمہ بیگم کو ایک نظر دیکھ کر عائل نے  بظاہرسنجیدگی سے سینے پر بازو لپٹتے تصدیق چاہی تو وہ اُسکی بروقت ہوشیاری پرمسکراتا بےساختہ اثبات میں سرہلاگیا۔

”جی بھائی۔۔۔۔ایسا ہی ہے۔۔۔۔ایکچولی یونی فرینڈز کی ریکوئسٹ تھی الگ سے ہلہ گُلہ کرنے کی تو کچھ میرا موڈ بھی یہی ہورہا تھا۔۔۔۔بس اسی لیے۔۔۔۔“  اچھے خاصے منصوبے کو سرسری سا انداز دیتا وہ کچھ لاپرواہی سے بولا جبکہ عائل اُسکے ہلے گُلے کو عام معنوں میں لیتا تائید میں گردن ہلانے لگا۔

”ہوں۔۔۔۔ڈیڈ تو یقیناً انوائٹڈ ہوں گے اس پارٹی میں۔۔۔؟؟؟“  عائل نے جان بوجھ کر اُسے پھرسے چھیڑا تو عائمہ بیگم کی اُس کی جانب اُٹھتی گھوری بےساختہ تھی۔

” کیا بھائی آپ بھی۔۔۔۔؟؟کیوں میرے سارے فرینڈز بھگانے کے چکروں میں ہیں یار۔۔۔۔؟؟؟“  پچھلے ہنگاموں کو مدِنظر رکھتا وہ قدرے بےچارگی سے بولا۔

”سدھرجاؤ بگڑے نواب۔۔۔۔۔۔اب اگر میرے ڈیڈ کے خلاف ایک بھی بات منہ سے نکالی تو سچ میں اپنی ڈیوٹی چھوڑ کر اُن کے ہمراہ تمھاری پارٹی میں چلاآؤں گا۔۔۔۔“  شہادت کی انگلی اٹھائے بظاہر ڈپٹنے والے انداز میں بولتا وہ ہنوز غیرسنجیدہ تھا۔

”لیں نہیں بولتا کچھ بھی۔۔۔۔آپکو ہی آپکے سویٹ سے ڈیڈ مبارک ہوں۔۔۔۔“  مقابل کی دھمکی پر مصنوعی گھبراہٹ کا دکھاوا کرتا وہ لبوں پر انگلی دھڑتے دونوں کو ہی کھل کرمسکرانے پر مجبور کرگیا۔۔۔

**************************

وہ کافی عجلت میں بغیر ناک کیے آفس روم میں داخل ہوئی تھی۔دو دن گزرجانے کے بعدآج وہ شاہ کو اپنے روبرو دیکھنے والی تھی شاید جبھی دل کی بےہنگم دھڑکنیں اُسے بےچین کرتی دغا دینے پر تلی تھیں۔

لیکن اگلے ہی پل جو نظارہ  بدقسمتی سے اُسکی اُٹھتی پلکوں تلے نیلی نگاہوں نے دیکھا تھا وہ اُسکے نازک وجود کو پتھرانے کے لیے کافی تھا۔

گھبرائے تاثرات چہرے پر بکھیرے  نیو امپلائے سمن لطیف اپنے بازو شاہ کے مضبوط کندھوں پر لپیٹے شدت سے اُسکے فکرمند نقوش ازبرکررہی تھی جب اُسکی آمد پر وہ دونوں ہی ایک پل کو بوکھلاتے سنبھل کر دور ہوئے۔

ٹرے کے کناروں کو سختی سے جکڑتے ہوئے بےاختیار ہی آبرو کے سینے میں آگ سی جلنے لگی۔

”تم ٹھیک ہو۔۔۔۔؟؟؟“  اپنا کالر ٹھیک کرتا شاہ آبرو کے ضبط سے سرخ پڑتے مکھڑے کو بغور دیکھتا  بظاہرسمن سے مخاطب تھا۔

یہ دیکھ کر آبرو نے بےاختیار گہرا سانس بھرتے نظریں پھیری تھیں جیسے آکسیجن کی شدید کمی ہوگئی ہو۔

”ی۔۔۔یس۔۔۔یس سر۔۔۔ایم آل رائٹ۔۔۔اگر میں نے بروقت آپ کا سہارا نہیں لیا ہوتا تو یقیناً اس وقت نیچے بیٹھی اپنی کمر مسل رہی ہوتی۔۔۔۔اور شاید پاؤں بھی۔۔۔۔تھینک یو سو مچ جو آپ نے مجھے گرنے سے بچالیا۔۔۔۔“  شدت سے احسان مند ہوتی سمن کھل کر مسکرائی۔پھسلنے سے بچنے کی خاطر وہ اپنے باس کا سہارا تو پاگئی تھی لیکن اس چکر میں جو اُسکا دل اُسکے کنٹرول سے پھسلتا حدود پھلانگ گیا تھا اُسکا وہ کیا کرتی۔۔۔؟؟

”سہارا دینے کا تو میں دل سے قائل ہوں مس سمن۔۔۔۔لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنی کم عقلی کے باعث میری اس عنایت کو ڈیزرو کرنے کے قابل نہیں رہتے۔۔۔۔“  دبے لفظوں میں براہِ راست آبرو کے دامن بچانے پر گہری چوٹ کرتا وہ ہنوز اُسی پر نظریں ٹکائے ہوئے تھا جب سمن نے کچھ ناسمجھی سے شاہ کی جانب دیکھا۔آبرو کو وہ ابھی بھی پورے اعتماد سے مکمل نظرانداز کیے ہوئے تھی۔

”سر۔۔۔آپکی کافی۔۔۔۔“  اپنے بڑھتے غصے سمیت بےچینی کا بمشکل گلا گھونٹتی وہ بےتاثر لہجے میں اپنے اٹھتے قدم ٹیبل کی جانب بڑھاگئی جبکہ اُسکی پل پل بدلتی ہر ادا آج شاہ کو ایک الگ ہی مزہ دےرہی تھی۔

اور وجہ اُسکی منفرد اداؤں میں گھلی جلن تھی جو شاید وہ پہلی بار محسوس کرتا شرسار سا ہورہا تھا ورنہ تو اُسکا لاپرواہ انداز اُسے ہمیشہ ہی نئی اذیت سے دوچار کرجاتا۔انجانے میں آبرو کو سرتاپیر سلگانے کا ایک اور سرا بغیر کسی تگ و دو کے شاہ کے ہاتھ لگ گیا تھا جسے وہ آگے جاکر مزید کھینچنے کا ارادہ  انہی لمحوں میں بنا چکا تھا۔

”ہوں۔۔۔۔آپ نے فرسٹ میں ہی بہت اچھا ورک شو کیا ہے مس سمن۔۔۔ویل ڈن۔۔۔۔آپ ایسا کریں کہ مجھے آج ہی دوسری فائل بھی ریڈی کرکے دے دیجیے۔۔۔۔اس کے بعد ہی میٹنگ فائنل ہوپائے گی۔۔۔۔“  بے اختیار ماتھے کی نوک کو انگوٹھے سے کھجاتا ہوا وہ سمن کی جانب متوجہ ہوا جو کہ اب اپنی اِس قدر تعریف پر اترانے سی لگی تھی۔وہ الگ بات تھی کہ شاہ کی جانب سے ملنے والا مزید کام اُسکے کندھوں پر پہاڑ جتنا بوجھ پڑنے کے ہی مترادف تھا لیکن وہ اُسکی بھوری آنکھوں میں شدت سے جھانکتی اسے بھی بخوشی قبول کرگئی تھی۔

”اوکے سر۔۔۔۔۔“  اُسکے چہک کر بولنے پر جہاں شاہ نے اپنی آئی برو اچکائی تھی وہیں آبرو نے چبھتی نظروں سے اُسکا قابلِ اعتراض کپڑوں میں گھرا سراپا بغور دیکھا۔

”م۔۔۔میں اب چلتی ہوں سر۔۔۔۔کام بہت ہے ناں۔۔۔۔“ اپنی  بےاختیاری پر کھسیانی ہوتی وہ اگلے ہی پل ٹیبل سے فائل اٹھاتی پلٹی اور ایک اچٹتی نگاہ آبرو پر ڈالتی روم سے باہر نکل گئی۔

 دروازہ بند ہونے پر شاہ نے آبرو کا سراپا اپنی نرم نگاہوں میں بھرا تھا۔

”اب کیا وہیں پر کھڑے رہنے کا ارادہ ہے آپکا مس آبرو۔۔۔۔؟؟اپنی گہری سوچوں کو فی الحال کے لیے گڈ بائے بولیے اور کافی یہاں مجھے پکڑائیں۔۔۔میں کب سے ویٹ کررہا ہوں۔۔۔۔“  اُسے ہنوز دروازے کی جانب تکتا پاکر وہ مسکاتی آواز میں بولا تو وہ اپنی سوچوں سے چونکتی کچھ ناسمجھی سے اُسکی جانب دیکھنے لگی۔چند ہاتھ کے فاصلے پر رکھی گئی کافی کا مگ اٹھانا بھی اُسے محال لگ رہا تھا جس میں سے مدھم مدھم اٹھتا دھواں ابھی بھی اُسکے حددرجہ گرم ہونے کا ثبوت دے رہا تھا۔

”آپ سے مخاطب ہوں مس۔۔۔۔پکڑائیے۔۔۔۔۔۔“  سنجیدگی سے اپنی بات پر زور دیتا وہ اُسے اپنا آپ منوانے پر مجبورکرگیا تو وہ بھی پل بھر کے لیے اُسے گھورتی ہوئی آگے بڑھ کر ٹرے سے مگ اٹھاتی اُسکے ہاتھ میں پکڑاگئی۔

احتیاط کے باوجود بھی شاہ اُسکی انگلیوں پر اپنا دل دھڑکا دینے والالمس چھوڑ گیا تھا جبھی وہ مقابل کی ضد پر لب بھینچتی سرعت سے دور ہوئی۔

”اممم ہہمم۔۔۔اتنی کڑوی کافی۔۔۔۔بالکل زہر کی طرح۔۔۔مجھے مارنے کا ارادہ ہے کیا آپکا۔۔۔؟؟بادا وئے آج آپکے تیور بھی مجھے اس سے کچھ الگ نہیں لگ رہے مس آبرو۔۔۔لگتا ہے آج آپ نے اپنے لہجے کی ساری کڑواہٹ ایک ساتھ ہی میری بےزبان کافی میں گھول دی ہے۔۔۔۔ورنہ آپکے ایسے ظلم پر یقیناً یہ بھی چیخ اٹھتی۔۔۔“  مگ سے پہلا گھونٹ بھرتے ہوئے بےاختیار اپنے نقوش بگاڑتا وہ اُسکا ضبط توڑنے پر ہی تو اترآیا تھا۔

”سر۔۔۔۔کافی بالکل ویسے ہی بنی ہے جیسےکہ روز بنتی ہے۔۔۔اسکے ٹیسٹ میں رتی بھربھی فرق نہیں آیا۔۔۔ہاں اگر آپکے ٹیسٹ میں فرق آجائے تو وہ الگ بات ہے۔۔۔۔“  طنز سے بھیگا نشتر اُسکی جانب پھینکتی وہ سلگتے لہجے میں دوبدو بولی تو شاہ اُسکا دبادبا غصہ یکدم لاوے کی صورت پھٹتا دیکھ بے اختیار قہقہ لگاگیا۔

ایک پل کو ٹھٹھکتی آبرو نے  ناچاہتے ہوئے بھی اُسکی دل دھڑکا دینے والی شفاف ہنسی کو پورے استحقاق سے دیکھا تھا جو بے اختیاری میں اپنے اندر کی جلن کھولن سمیت اُس پر واضح کرگئی تھی۔

”تو آپ میرا ٹیسٹ چینج کردیں۔۔۔۔آئی سویئر مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔۔۔۔۔“  اپنی ہنسی کو پل میں دلفریب مسکراہٹ میں ڈھالتا وہ معنی خیزی سے گویا ہوا۔

”م۔۔۔مطلب۔۔۔؟؟؟“  مقابل کی بےباکی کو سمجھ کر جھینپتے ہوئے بھی وہ انجان بنی۔دل نے بےہنگم سا شور مچایا تھا۔

”چلیں چھوڑیں اس بات کو۔۔۔۔آپ یوں کریں کہ اس میں سے دو چار سِپ لے لیں تاکہ اسکی کڑواہٹ کچھ حد تک کم ہوجائے۔۔۔اینڈ ایم شیور مجھے اسکا ٹیسٹ ضرور پسند آئے گا۔۔۔۔اٹ از آ بیسٹ آپشن فار یو۔۔۔۔اسی طرح آپ یقیناً دوسری کافی بنانے سے بھی بچ جائیں گی اور وقت کی بھی الگ سے بچت ہوجائے گی۔۔۔۔“  پُر حدت نظروں سے اُسکے چہرے کی سرخی مزید گہری ہوتے دیکھ وہ بظاہر درپیش مسئلے کا خود سے حل پیش کرتا اُسے حقیقتاً پریشانی میں ڈال گیا۔

اس سے پہلے کہ آبرو اُسکی اِس بےجا من مانی پر دھڑلے سے انکارکرتی،شاہ اُسکے چہرے پر رقم ہوتے بغاوتی تاثرات پڑھتا سرعت سے اپنی جگہ سے اٹھتا اُسکی جانب لپکا۔

سراسیما نگاہوں سے اُسے اپنے قریب رکتا دیکھ جانے کیوں وہ شدت سے دھڑکتے دل سمیت فوری طور پر احتجاج نہیں پائی تھی۔

”کم آن۔۔۔ڈونٹ ویسٹ دی ٹائم۔۔۔۔پیو اِسے۔۔۔۔“  قدرے دلچسپی سے اُسکے حیرت میں ڈھلے نقوش دیکھتا وہ کافی کا مگ بڑے استحقاق سے اُسکے لبوں کے قریب کرگیا۔

”م۔۔۔معاف کیجیے گا سر۔۔۔۔لیکن یہ میری جاب کا حصہ بالکل بھی نہیں ہے۔۔۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میں کسی کا جھوٹا کھانے پینے کی عادی ہرگز نہیں ہوں۔۔۔۔“  پل بھر کو گڑبڑاتی وہ انکار سمیت  مگ کو تیزی سے چھوتی پرے ہٹاگئی۔

دبے لفظوں میں خود کی ذات کے پرخچے اڑائے جانے پر جہاں مقابل کی دلکش مسکراہٹ لبوں پرسمٹی تھی وہیں مگ سے چھلکتی گرم کافی گرے کوٹ تلے سفید شرٹ کو سرعت سےبھگوتی اُسکا پہلے سے ہی تپا سینہ مزید تپاگئی۔اگلے ہی پل مگ اُسکے اشتعال کی نذر ہوتا جھٹکے سے زمین بوس ہوتے ہی کئی ٹکڑوں میں بٹا تھا۔یہ سب دیکھ کرحقیقتاً گھبراتی وہ بےاختیار ایک قدم پیچھے کو لےگئی۔

”کیا۔۔۔؟؟سمجھتی کیا ہوتم خود کو۔۔۔ہہمم۔۔۔؟؟؟کہیں کی مہارانی ہو۔۔۔؟؟یاں پھر میں بہت گیا گزرا لگتا ہوں تمھیں۔۔۔؟؟نہیں آخر اتنا غرور ہےکس شے کا تمھیں۔۔۔؟؟ہوں۔۔۔؟؟اگر میں چاہوں ناں تو دو منٹ میں تمھاری یہ ساری اکڑ ملیا میٹ کرسکتا ہوں۔۔۔لیکن افسوس کہ میرے اندر پنپتی تمھارے لیے یہ جومحبت ہے ناں۔۔۔وہ میرے اندر کے ضدی انسان کو ہربار تھم جانے پر مجبور کردیتی ہے۔۔۔“ بازو سے کھینچ کر اُسے خود سےقریب کرتا وہ دبی آواز میں پھنکارا تو وہ ڈوبتے دل سمیت اپنی نم پڑتی آنکھیں پھیلائے اُسکی ابھری نسیں دیکھتی رہ گئی۔

ایک بار پھر سے مقابل کے کیے گئے اعتراف محبت پر دل شدتوں سے دھڑکا تھا۔

”چھ۔۔۔چھوڑیں مجھے پلیز۔۔۔۔یہ کیا بدتمیزی ہے۔۔۔؟؟“  بےاختیار نظریں چراتی وہ اُسکی جارحانہ گرفت سے رہائی پانے کومچلی۔

مقابل کے نتھنوں سے پھوٹتی گہری سانسوں میں اُسے خود کا چہرہ جھلستا ہوا محسوس ہوا تھا۔

”بدتمیزی۔۔۔جانتی بھی ہو بدتمیزی کا اصل لیول ہوتا کیا ہے۔۔۔؟؟؟“  تنا ہوا چہرہ مزید قریب کرتے وہ اُسے سانسیں روکنے پر مجبور کرگیا۔

”آپکو کو سچ میں کسی نے تمیز نہیں سکھائی۔۔۔پلیزدوررہیں مجھ سے۔۔۔“  اُسکے سینے پر نازک ہتھیلیوں کا دباؤ ڈالتی وہ مقابل کو پیچھے ہٹانے کی ناکام کوشش میں چہرہ پھیرتی چلائی جب وہ تیوروں سمیت اپنی گرفت اُسکے بازوؤں پر مزیدسخت کرگیا۔

”تم میری تربیت پر سوال اٹھا رہی ہو۔۔۔۔؟؟؟یونو واٹ اگر تمھارے ماں باپ نے تمھیں ذرا سی بھی تمیز سکھائی ہوتی کہ اپنے سے اونچے لوگوں  کے ساتھ کس طرح پیش آیا جاتا ہے تو یقیناً اس وقت تم یوں میری گرفت میں کسی زخمی چڑیا کی طرح پھڑپھڑا نہ رہی ہوتی۔۔۔۔“ اُسکے گلاب رخساروں پر ٹوٹ کر لڑھکتے آنسو دیکھ کر وہ سرد مہری سے بولتا  اُس پر اپنی حیثیت واضح کرگیا۔

”میرے ماں باپ کا نام بھی مت لیجیے گا اپنی زبان سے۔۔۔۔“   جھٹکے سےآنکھوں میں آنکھیں ڈالتی وہ وارنگ دینے والے انداز میں تڑخ کر بولی۔

دونوں کی آنکھوں میں گھلی سرخائی مزید گہری ہوئی تھی۔

”اچھاااا۔۔۔۔کیا کرلو گی۔۔۔۔؟؟شکایت کروگی اپنے ماں باپ سے میری کہ میرے باس نے آپکا نام لے کر مجھے ہرٹ کیا۔۔۔۔؟؟یاں پھر یہ بتاؤ گی کہ میں نے کس طرح تمھیں اپنے شکنجے میں تڑپایا۔۔۔۔؟؟؟“  اُسکے بپھرے تیوروں سے پل بھر کو چونکتا وہ تمسخرانہ انداز میں گویا ہوا تو وہ مجبوراً ضبط کرتی سختی سے لب بھینچ کررہ گئی۔

ایک اپنی انا برقرار رکھنے کو جانے انجانے میں مقابل کی دکھتی رگ پر سختی سے قدم جمائے پیچھے ہٹنے سے گریزاں تھا تو دوسرے کے سینے میں بھڑکتی ان دیکھی آگ رگوں میں سرائیت کرتی اُسکا روم روم سلگاتی جارہی تھی۔

”کاش کہ میں اُن سے شکایت کرنے کے قابل ہوتی۔۔۔کاش کہ وہ اس قابل ہوتے کہ میری شکایت سن سکتے تو آج  میں واقعی اِس حال کو کبھی نہ پہنچتی۔۔۔۔“  بھرائی آواز میں چباچبا کر بولتی وہ اپنی زندگی کا سب سے تلخ باب اُسکی ذات پر ناچاہتے ہوئے بھی دبے لفظوں میں کھول گئی تھی۔

مقابل کا اذیت سے پُر لہجہ اور شدتِ بےبسی سےجھکتی ہوئی نم پلکیں شاہ کے رگ و پے میں عجیب سی بےچینی بھر تے چلے گئے۔

اُسکے مبہم لفظوں کے زیر اثر  پل میں بےشمار الجھنوں میں گھرتا وہ بےاختیار اپنی گرفت اُسکے بازوؤں پر ڈھلی کرگیا۔

آبرو کے ماں باپ۔۔۔۔ہاں!شاہ اُن  کے بارے میں کیا جانتا تھا۔۔۔؟؟ کچھ بھی تو نہیں۔۔۔۔

اُسکی واقفیت تھی تو فقط آبرو سکندر کے نام کی حد تک تھی۔اس سے آگے کی حدود بدقسمتی سے اُسکی لاعلمی پر مبنی تھیں۔

”واٹ ڈویو مین بائے دِس۔۔۔۔۔ویئر از یور پیرنٹس۔۔۔؟؟؟“  دھیمے لہجے میں پہلی بار اسکے ماں باپ کی بابت خود سے پوچھتا وہ کچھ حیران ہوا۔

سب کچھ پل میں جان لینے کا تجسس اُسکے اندر شدت سے انگڑائیاں لینے لگا تھا۔

”میں آپکو بتانا ضروری نہیں سمجھتی۔۔۔۔۔چھوڑئیے مجھے۔۔۔۔“ درشتگی سے اُسکے ہاتھ جھٹکتی وہ پل میں اُسکی نرم گرفت سے رہا ہوئی تھی اور تقریباً بھاگتی ہوئی اُسے تنہا چھوڑے وہاں سے نکلتی چلی گئی جبکہ دروازہ بند ہونے کی پُرزور آواز پر گہرا سانس بھرتا شاہ  اُسکی گہری نیلی آنکھوں میں ناچتی وحشتوں بھری اذیت  کا سوچ کر مزید بےسکون ہوا۔

”ناٹ اگین۔۔۔۔۔ناٹ اگین۔۔۔۔“  سینے پر پھیلے بےڈھنگے داغ کو شدت سے مسلتا وہ اپنے قدموں میں پڑے بےوقعت ٹکڑوں کو ٹھوکر سے دور اچھال گیا۔ ناچاہتے ہوئے بھی اُسے آبرو سے برتے گئے اپنے لہجے کی بدصورتی کا احساس شدت سے ہونے لگا تھا۔۔۔

************************* 

”آپکی دوست کو بھلا لیٹ نائٹ فنکشن رکھنے کی کیا ضرورت تھی اپیہ۔۔۔؟؟دوپہر بارہ بجے بھی تو وہ یہ سب ہنگامے آرام سے کرسکتی تھی۔۔۔۔مگر نہیں۔۔۔اپنے چکروں میں اُسے آپکی پرواہ کیوں ہوگی۔۔۔؟؟بھلے ہی دوسرے پریشان ہوتے رہیں مگر آپکی موجودگی اُسے اپنے پاس ہرحال میں چاہیے۔۔۔“  حرمین آئینے کے سامنے کھڑی اپنے مہرون دوپٹے کو تہہ در تہہ فولڈ کرتی حجاب کررہی تھی جب وہ اُسکے پہلو میں ٹھہرتی منہ بسور کر پٹر پٹر بولنے لگی۔

”حاوی۔۔۔۔ذرا دو کو کامن پنیں تو پکڑانا مجھے پلیززز۔۔۔۔“  اُسکی نان سٹاپ چلتی زبان کی پرواہ کیے بنا وہ پل بھرکو اُسکے عکس پر نظریں جماتی عجلت میں بولی۔

”آپکی ضد کے آگے ماما نے اپنی رضامندی تو دے دی ہے لیکن درحقیقت وہ آپکو لے کر کافی فکرمند ہیں۔۔۔۔“  پنز کی تلاش میں دراز کھول کر چیزیں الٹ پلٹ کرتے اب بھی اُسکی زبان مگن انداز میں متواتر چلتی جارہی تھی۔

”چچ۔۔۔جلدی۔۔۔۔۔“  تہہ پر ہاتھ جمائے حرمین کچھ چڑ کر بولی تو جہاں حاویہ کے ہاتھ مطلوبہ چیز آئی تھی وہیں قدرے کونے میں اپنی بےقدری پر روتی چمچماتی انگوٹھی دیکھ کر وہ بےاختیارٹھٹھکی۔

حرمین سے صبرکرنا مشکل ہونے لگا جبھی وہ خود ہی آگے بڑھتی اُسکے ہاتھ سے پنیں کھینچ گئی۔اپنا ڈھلکتا حجاب دوبارہ سے سیٹ کرتی وہ حاویہ کے الجھن میں ڈوبے نقوش تک فراموش کرگئی تھی۔جانے کی جلدی اُسے بےتاب جو کیے دے رہی تھی۔

”اپیہ۔۔۔۔آپ نے اپنی رِنگ کیوں اتاردی۔۔۔؟؟؟“  اُسکی تلخی کو بمشکل نظرانداز کرتی وہ انگوٹھی اٹھائے کچھ حیران سی گویا ہوئی تو حرمین کی حرکت کرتی انگلیاں اس غیرمتوقع صورتحال پر بےاختیار اپنی جگہ تھم سی گئیں۔

”ی۔۔۔یہ۔۔۔۔بس میرا دل نہیں چاہ رہا تھا پہننے کو۔۔۔۔۔اسے واپس وہیں رکھ دو۔۔۔۔“  لحظے بھر کو ہکلاتی وہ اپنی گھبراہٹ کو چھپائے عام سا جواز پیش کرگئی جو مقابل کو کسی طور مطمئن نہیں کرپایا تھا۔

”دل تو آپکا اب اور بھی بہت کچھ کرنے کو نہیں چاہتا اپیہ۔۔۔۔“  اُسکے حکم کو یکسرفراموش کرتی وہ حرمین کی اپنے برائے نام منگیتر سے برتی جانے والی بلاوجہ کی بےرخی پر براہِ راست چوٹ کرگئی۔

نتیجتاً وہ اس گہرے طنز پر لاجواب ہوتی بےاختیار اپنی نگاہیں واپس آئینے کی جانب پھیرگئی تو حاویہ شدتِ ضبط سے انگوٹھی اپنی مٹھی میں بھینچ گئی۔

”آپی میں یہ تو نہیں جانتی کہ اس وقت آپکے من میں کیا چل رہا ہے۔۔۔؟؟ لیکن مجھے اتنا یقین ہوچلا ہے کہ آپ کہیں نہ کہیں بہت غلط راستے کا انتخاب کرچکی ہیں۔۔۔۔“  اُسکی خاموشی کو اپنے اندر شدت سے امڈتے اندیشوں کا اقرارسمجھتی وہ مزید گویا ہوئی۔لہجے میں تلخی سی گھل چکی تھی۔

”حاویہ۔۔۔۔تمھیں یاد ہے تم نے مجھ سے ایک سوال کیا تھا۔۔۔۔؟؟؟“  اُسکی تاسف بھری نظروں سے بچنے کی ناکام کوشش میں بےاختیار ہارمانتی وہ اپنی ساری تیاریاں چھوڑگئی۔کہیں نہ کہیں حاویہ بھی اُسکے بدلتے رویوں کی اصل وجہ سے آگاہ تھی۔

” کیسا سوال۔۔۔۔؟؟؟“  سوال کے بدلے سوال داغتی وہ بےتاثر لہجے میں بولی۔

”یہی کہ سچی محبت کی نشانی کیا ہوتی ہے۔۔۔۔؟؟؟“  حرمین کے لفظوں نے ناچاہتے ہوئے بھی اُسکا دل دھڑکادیا تھا۔اپنے ہی پوچھے گئے سوال کا جواب جاننے کے لیے اب جانے کیوں اُسکے لب بےدم سے ہوگئے تھے۔

”سچی محبت کی نشانی یہی ہوتی کہ اسکے بعد پھر کسی سے محبت نہیں ہوتی۔۔۔۔“  اُسکی طول پکڑتی خاموشی پر اُسکے دونوں ہاتھ تھامتی وہ قدرے ٹھہرے ہوئے لہجے میں ایک طرح سے اپنی مجبوری اُس پر ظاہر کرگئی تھی۔

”تو کیا میں یہ یقین رکھوں کہ آپکی پہلی اور آخری محبت ذباب احمد کے نام سے منسلک ہے۔۔۔۔؟؟؟“  کچھ ہی لمحوں میں اپنی شدت پکڑتی دھڑکنوں پر زبردستی بند باندھتی وہ مقابل سے بہت سخت بات کرگئی تھی۔

حرمین جو اپنی بات بول کر شام کی یادوں تلے دبنے لگی تھی چونک کر حاویہ کا سپاٹ چہرہ دیکھتی ضبط کھوبیٹھی۔

”ماما ٹھیک کہتی ہیں۔۔۔بہت ذیادہ سر چڑھ چکی ہو تم ہمارے۔۔۔ ہٹو راستے سے۔۔۔دیر ہورہی ہے جانا ہے مجھے۔۔۔۔“  چٹخ کر بولتی وہ ڈھلکی شال کو واپس اپنے نازک کندھوں پر ڈالتے ہوئے آدھی ادھوری تیاری میں ہی کمرے سے نکلتی چلی گئی جبکہ حاویہ اُسکا خودسری بھرا انداز نم پڑتی آنکھوں سے دیکھتی چاہ کر بھی یہ سوال نہیں کر پائی تھی کہ آیا وہ اپنی دوست کے ہاں ہی جارہی تھی یاں پھر اِس برائے نام دوستی کی آڑ میں چھپے شام نامی جال میں پھنسنے۔۔۔۔۔۔؟؟؟

****************************

”چچ۔۔۔بےچارہ سالار خان۔۔۔۔“  وہ اپنے کمرے میں جارہی تھی جب سماعتوں سے ٹکراتی چھمی کی تاسف زدہ آواز پر اُسکے اٹھتے قدم دھیمے پڑتے رُک سے گئے۔

”آہستہ بول چھمی کی بچی۔۔۔۔اگر کہیں رابی جی یاں تابین بی بی نے بذاتِ خود تیری قینچی کی طرح چلتی اِس زبان کے جوہر دیکھ لیے ناں تو بڑی مصیبت ہوجائےگی۔۔۔خود تو مرے گی ہی کمینی ساتھ میں میری لٹیا بھی ڈبوائے گی خوامخواہ میں۔۔۔۔۔“  چھمی کو اُسکی سنگینی کا احساس دلانے کی سعی کرتی لالی بےاختیار اُسکا کندھا دبوچ گئی۔

”ارے پرے ہٹ رے لالی۔۔۔۔تُو تو ہمیشہ بزدل ہی رہی یو بس۔۔۔۔بھلا دل کی بات۔۔۔زبان پہ لانے سے بھی کوئی ڈرتا ہے کیا۔۔۔۔؟؟؟میں تو نہیں ڈرتی ورتی    کسی سے بھی۔۔۔چاہے پھروہ تیری رابی جی ہوں یاں پھر تابین بی بی۔۔۔ہونہہ۔۔۔۔“  چڑکر اُسکا ہاتھ جھٹکتی وہ تنفر سے گویا ہوئی تو ادھ کھلے دروازے سے اُسکا نڈر لہجہ محسوس کرتی رابی ضبط سے گہرا سانس بھرگئی۔

” تُو سچ میں پاگل ہوگئی ہے چھمو۔۔۔۔۔“  اُسکی اس قدر جرات پر لالی کو فی الوقت اُسکی دماغی حالت پر شبہ ہوا تھا جو جانے آج کن ہواؤں میں اڑتی مدہوش ہونے کے درپے تھی۔  

”ہائےےے۔۔۔۔بس ایک بار۔۔۔۔ایککک بار اگر وہ بندہ مجھے بول دیتا ناں کہ چھمی جان۔۔۔۔میرے ساتھ چلی چلو۔۔۔۔تو خداقسم اُس کی خاطر ہرشے پیروں تلے روندکر اُسکے سنگ نکل جاتی زندگی بھرکےلیے۔۔۔۔لیکن وہ سنگدل ہےکہ اُسے میرے حالِ دل کی کوئی خیرخبرہی نہیں۔۔۔۔“  خود کی فکر میں ہلکان ہوتی لالی کی پرواہ کیے بنا ہی وہ حسرت زدہ سی بولی تو جہاں لالی کا دل اپنا ماتھا پیٹ لینے کو کیا تھا وہیں پل بھرکو حیران ہوتی رابی شدتِ ضبط سے مٹھیاں بھینچ کر رہ گئی۔

اس قدر بےایمانی پر آنکھوں کی گلابیت میں سرخی سی  گھلنے لگی تھی۔

”منہ دھو رکھو چھمی جان۔۔۔۔سالار خان عاشق دیوانہ ہے تو فقط رابی جی کا۔۔۔تیرا کیا ہے۔۔۔۔؟؟نہ عقل نہ شکل۔۔۔۔۔چلی ہے عاشقیاں نبھانے۔۔۔ہونہہ۔۔۔ احسان فراموش۔۔۔۔“  اُسکی حددرجہ سانوالی رنگت پر تھوپے گئے سرخ سنگار کا حقیقتاً مذاق اڑاتی وہ چھمی کو پل میں اُسکی اوقات یادکرواگئی تو اس واضح حقیقت پر رابی کے جلتے دل کو چندپلوں کے لیے قرار ساآیا۔

جواباً چھمی اپنی جانِ عزیز دوست کو گھورتی تپی تھی۔

”تم مجھے احسان فراموش کہہ رہی ہو۔۔۔؟؟حقیقتاً احسان فراموش تو وہ رابی ہے جس نے سالارخان کے احسانوں کا بدلہ ہمیشہ بےوفائی کی صورت ہی اتارا ہے۔۔۔کم از کم میں اُس جیسی ناقدری تو ہرگز نہیں ہوں جو آج تک  انمول محبت کی قدروقیمت ہی نہیں جان پائی۔۔۔۔“  لفظوں کی صورت زہر اگلتی وہ رابی کو بِل میں چھپے بیٹھے سانپ کی مانند ہی تو لگی تھی جو بغاوت پر اترتی انجانے میں اپنے سارے بھرم توڑتی چلی جارہی تھی۔

”اب بس بھی کرجا چھمو۔۔۔۔پھوڑلیے تُو نے اپنے دل کے چھالے۔۔جتنے پھوڑنے تھے۔۔۔۔اپنا منہ بندکرلے کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں یہی تلخ الفاظ تیرے لیے وبالِ جان ثابت ہوں۔۔۔۔“ اُسکی مسلسل چخ چخ کے آگے بری طرح چڑتی لالی کسی انجانے خوف کے تحت بےاختیار اُسے چپت لگاتی سختی سے ٹوک گئی۔

لالی کی جائز ڈانٹ ڈپٹ پر جہاں چھمی نے اپنی چوڑیوں بھرا ہاتھ جھٹک کر منہ بسورا تھا وہیں برداشت کی آخری حدوں کو چھوتی وہ آگے کا لائحہ عمل سیکنڈوں میں طے کرتی وہاں سے نکلتی چلی گئی۔

مختلف سوچوں کی آماجگاہ بنا دماغ ایک خاص نتیجے پر پہنچتا اب قدرے  سکون میں آچکا تھا۔۔۔

***************************

معمول کے مطابق رات کی لامحدود سیاہی دھیرے دھیرے وسیع آسمان کو اپنی لپیٹ میں لیتی وحشت زدہ سی بناتی چلی جارہی تھی۔ایسے میں خاموش اندھیرے میں ڈوبتا یہ فارم ہاؤس اِس سمے اپنے اطراف میں پھیلی بےرونقی کو پیش پیش مات دےرہا تھا جہاں پارٹی کے نام پر کھلی بےحیائی کا مظاہرہ سرِعام کیا جاسکتا تھا۔ملٹی شیڈز ڈسکو لائٹ میں فل لاؤڈ میوزک پر جھومتے تھڑکتے کتنے ہی وجود اِن سرکتے لمحوں میں محرم و نامحرم کا فرق بھلائے ایک دوسرے کی بانہوں میں بری طرح مست تھے۔

کلب اور یہاں کے ماحول میں کوئی خاص فرق نہیں رہا تھا۔جہاں ڈی۔جے والا بابو جھومتے ہوئے والیم اپ ڈاؤن کرتا مزید جوش دلارہا تھا وہیں آوارگی پسند لڑکے لڑکیاں ہر فکر و خوف سے بےبہرہ معمولی حدود پھلانگنے کے لیے قدرے بےتاب دکھائی دے رہے تھے۔

ایسے میں وہ خود بھی شعلہ جوالہ بنی شمسہ کے گرد اپنا نرم گھیرا پھیلائے ڈانس کے ہر موومنٹ پر اُسے پل پل معتبر کررہا تھا۔پھٹی جینز پر بلیک ٹی شرٹ اس پر مستزاد سر پر ذرا ٹیڑھے اسٹائل میں اٹکی چارلی چیپلن کیپ میں وہ جانے کتنی ہی لڑکیوں کی بھٹکتی نگاہوں کا مرکز بنا ہوا تھا۔

”تمھیں نہیں پتہ شام۔۔۔میں تمھارے سنگ یہ حسین پل گزارنے کے لیے کس قدر بےچین تھی۔۔۔۔“  اُسکے ابھرے سینے پر موجود موٹی چین مٹھی میں دبوچتی وہ اُسے بڑی بےباکی سے اپنے مزید قریب کھینچ چکی تھی۔

شمسہ کا بہکتا انداز اور کاجل بھری نگاہوں کا خمار قدرے قریب سے محسوس کرتا وہ بےاختیار مسکرایا۔خوبصورت لڑکیوں کی یہی بےباکیاں تو اُسے اپنی جانب حد سے ذیادہ اٹریکٹ کرتی تھیں۔

موومنٹس دھیمے پڑتے اب تھم چکے تھے۔

”اس سونگ کے میجیکل ورڈز۔۔۔۔ہمارا لوَنگ کپل۔۔۔۔اور کبھی نہ بھولنے والے یہ ڈریمی مومنٹس۔۔۔۔اُففف۔۔۔سب کچھ کتنا پرفیکٹ ہے ناں۔۔۔“  اُسکے کان کے قریب جھکتی وہ شریں آواز میں بولی جسے شور کے باعث بمشکل اُسے سنتا وہ اپنے مسکراتے لب بھینچ گیا۔

”تم خوش ہو۔۔۔۔؟؟؟“  ڈانس کے سٹیپس دوبارہ سے شروع کرتے شام نے اُسکے چہرے سے پھوٹتی دیدنی خوشی کو مزید پرکھنا چاہا۔

”بہت۔۔۔۔بہت ذیادہ۔۔۔۔“  اُسکی رہنمائی میں گول گول گھومتی وہ کھکھلاکر ہنسی۔

جبکہ شام کی عروج پر پہنچتی کھلکھلاہٹیں دور سے دیکھتا افروز اپنی سلگتی نظریں واپس مدہوش ہوتے اُس کپل کی جانب گھوماگیا۔رابعہ کسی لڑکے کی بانہوں میں جھولتی اپنی بےاعتناعی سے اُسے پل پل جھلسارہی تھی لیکن وہ ہاتھ میں ڈرنک دبوچے خلاف توقع بالکل خاموش بیٹھا تھا۔دو بار ٹھکرائے جانے کی وقتی اذیت سے ذیادہ رابعہ کا کسی اور کے سنگ بہکنا افروز کو حددرجہ بےسکون کرگیا تھا جب فواد بھی اپنی گرلفرینڈ کو ڈرنکس کا بول کر اُسکی طرف چلاآیا۔

”کیوں بے تاڑوو۔۔۔یہاں بیٹھ کر کیوں لڑکیوں کو تاڑ رہا ہے۔۔۔۔؟؟؟آجا۔۔۔۔ڈانس فلور پر چل کر مزے کرتے ہیں۔۔۔۔ڈونٹ بی وری۔۔۔۔تجھ جیسے لنگور کو کوئی نہ کوئی میٹھا انگور مل ہی جائے گا۔۔۔“  تیزی سے رنگ بدلتی روشنیوں میں افروز کا سپاٹ چہرہ دیکھتا وہ اُسکی بےلگام نظروں پر شرارتاً چوٹ کرگیا۔

”ذیادہ بکواس نہیں کرمیرے ساتھ۔۔۔۔بس اتنا بتا کہ یہ لڑکی یہاں پر کیا کررہی ہے۔۔۔۔؟؟؟“  فواد کی مسکراہٹ سمیت اُسکے آنکھ دبانے پر بری طرح چڑتا وہ قدرے تیز لہجے میں بولا تو جواباً اُسے بھی سنجیدہ ہونا پڑا۔

”یہ۔۔۔۔؟؟؟شام نے انوائٹ کیا تھااسے۔۔۔انکار نہیں کرسکی تو چلی آئی۔۔۔“  رابعہ کی جانب نگاہیں پھیرتا وہ سادگی سے بولا۔

”تو پھر اُسکا(گالی)۔۔۔۔##۔۔۔۔بوائے فرینڈ ساتھ کیوں آیا ہے۔۔۔۔؟؟“  غصے میں گلاس سامنے ٹیبل پر پٹختا وہ فواد کو اپنی پرسنالٹی سے ہٹ کر کوجا لگا تھا۔

”کیا یاررر۔۔۔۔تیرا دماغ ابھی تک اسی منحوس لڑکی پر اٹکا ہوا ہے۔۔۔۔لعنت بھیج ان دونوں پر اور چل میرے ساتھ۔۔۔۔چل چل اُٹھ شاباش۔۔۔۔“  اُس پر سخت برہم ہوتا وہ اُسے زبردستی صوفے سے اٹھانے کی تگ و دو کرنے لگا جب احتجاج کرتے افروز کی بیزاریت یکدم ہی کمینی مسکراہٹ میں بدلی۔

فواد نے اُسکی بلاوجہ کی مسکراہٹ پر چونک کر اگلے ہی پل اُسکی نظروں کے تعاقب میں دوبارہ رابعہ کی جانب دیکھا جو اپنے بوائے فرینڈ کی راہ تکتی منتظر سی یہاں وہاں دیکھ رہی تھی۔

اُسے بالکل تنہا پاتا افروز برق رفتاری سے اُسکی جانب لپکا تو فواد اُس کے ڈھیٹ پنے پر سرجھٹک کر رہ گیا۔

”ہے ای سوئیٹی۔۔۔میرے ساتھ ڈانس کروگی۔۔۔۔۔؟؟؟“  رابعہ کا سیلولیس بازو پکڑ کراپنی جانب گھوماتا وہ حقیقتاً اُسے چونکاگیا۔

”ناٹ آ چانس مسٹر۔۔۔۔“  اپنے مقابل افروز کو دیکھتی جہاں وہ اُسکا ہاتھ جھٹکتی چڑی تھی وہیں اُسکی سفاک دھتکار پر افروز کے تیور پھرسے بگڑے۔

”یو۔۔۔۔۔“  رابعہ کو وہاں سے جاتا دیکھ وہ سرعت سے اُسکا بازو دبوچتا اُسے اپنی جانب کھینچ گیا۔

”آہ۔۔۔۔افروز۔۔۔۔ہاؤڈیئر یو ٹو ٹچ می۔۔۔۔۔؟؟“  اُسکی سخت گرفت پر ضبط کھوتی وہ دبا سا چیخی تو اُسکی آواز مزید بلند ہوتے بھڑکیلے شور تلے دب کررہ گئی۔

”اور کتنا ذلیل کروگی مجھے۔۔۔۔؟؟ہاں۔۔۔۔؟؟ایسی بھی کیا اکڑ ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لےرہی۔۔۔۔؟؟؟“  رابعہ کی نظروں میں سرخ نظریں گاڑتا وہ حقیقتاً اُسکی بےرُخی سے اکتا گیا تھا۔

”آئی ہیو الریڈی آ بوائے فرینڈ۔۔۔۔سو مجھے تمھاری ضرورت نہیں ہے اوکے۔۔۔“  اُسکی تلخی میں گھلی بےچینی محسوس کرتی وہ اب کی بار ذرا نرم پڑی لیکن الفاظ ہنوز سختی لیے ہوئے تھے۔

”بٹ آئی ہیو نو اینی گرلفرینڈ۔۔۔۔مجھے تم جیسی خوبصورت گرلفرینڈ کی ضرورت ہے یار۔۔۔۔“  اُسکی سوچ اور بوائے فرینڈ دونوں پر شدت سے لعنت بھیجتا وہ قدرے بےبسی سے اپنی مجبوری بیان کرگیا۔

”جسٹ لیومی افروز۔۔۔نہیں تو میرا بوائے فرینڈ آکر تمھارے دونوں ہاتھ توڑ ڈالے گا۔۔۔۔“  اُسکی ڈھٹائی سے عاجز آتی وہ خود کو چھڑانے کی سعی میں دھمکی دے گئی۔

”اوشٹ۔۔۔۔“  اس سے پہلے کہ افروز اِس ضدی لڑکی کو صحیح معنوں میں اسکی اوقات دکھانے پر اترآتا اچانک اُسکی نگاہ ٹھٹھک کر قدآور سلائیڈنگ ونڈو کی جانب گئی۔شفاف شیشے کے پار دکھائی دیتا وجود اُسکی آنکھوں میں حیرت سمیت عجیب چمک ابھار گیا۔

اگلے ہی پل وہ رابعہ کو جھٹکے سے چھوڑتا سرعت سے شام کی جانب لپکا تھا۔

”ایڈیٹ۔۔۔۔سائیکو مین۔۔۔۔“  بےاختیار اپنے دونوں بازو سہلاتی رابعہ اپنی جانب آتے خود کے رومیو کو دیکھ کر نارمل ہونے کی کوشش کرنے لگی۔

”برو۔۔۔۔وہ آگئی ہے۔۔۔۔“   کندھے پر مضبوطی سے ہاتھ جماتا وہ شام سمیت شمسہ کو بھی ٹھٹھک کر رکنے پر مجبور کرگیا۔

”کون۔۔۔۔۔؟؟؟“  اُسکی ادھ برہنہ کمر سے بازو ہٹاتا وہ افروز کی جانب مڑا تو پوچھتے ہوئے بے اختیار اُسکی بھوری نگاہیں بھی شیشے کے پار حرمین کے نازک وجود سے ٹکراتی پل بھرکو حیران ہوئیں۔

”لیسن بی کیئر فلی شمسہ۔۔۔۔۔“  اگلے ہی پل وہ واپس اُسکی جانب گھومتا اُسے بازوؤں سے تھامے اپنے حددرجہ قریب کرگیا۔

اُسکے کلون کی دلفریب مہک شدت سے محسوس کرتی شمسہ کے الجھے نقوش ناچاہتے ہوئے بھی مدہوش سے ہونے لگے۔

”ناؤ یور ٹائم از اپ بےبی۔۔۔سو۔۔۔۔میرے آس پاس  بھٹکنے کی کوشش بھی مت کرنا۔۔۔۔ہہمم۔۔۔۔؟؟؟“  وہ مدھم لہجے میں بولتا اُسکے نازک گال برابر تھپتھپا رہا تھا جب وہ مقابل کے میٹھے لہجے سے ہٹ کر الفاظ پر غورکرتی  پل میں اُسکے سحر سے باہر نکلی۔

”ل۔۔۔لیکن شام۔۔۔یہ تم۔۔۔۔۔“  اپنی حیرت پر قابو پاتی وہ اُسکے پل میں بدلتے روپ پر شدت سے احتجاج کرنا چاہتی تھی جب وہ اُسکے دوآتشہ لبوں پر انگلی جماتا بیچ میں ہی اُسے سختی سے ٹوک گیا۔

”اننففف۔۔۔۔ذیادہ سوال نہیں۔۔۔۔جو کہہ رہا ہوں صرف اسی پر عمل  کرو ورنہ مجھے  بالکل بھی اچھا نہیں لگے گا۔۔۔۔اور جب مجھے اچھا نہیں لگتا تو پھر میں کچھ بھی کرگزرتا ہوں۔۔۔۔۔اور یقین جانو اسکا اندازہ مجھے بعد میں ہوتا ہے۔۔۔۔“  دبے لفظوں میں کھلے عام دھمکی دیتا وہ جھٹکے سے اُسے پیچھے دھکیل گیا تو اپنی اس قدر بےوقعتی پر شمسہ کی آنکھیں تیزی سے بھیگتی چلی گئیں۔

حسین پلوں نے اچانک ہی کسی بری بلا کا روپ دھاڑن کیا تھا۔

شمسہ کو اُسکی اوقات دکھاتا وہ عادتاً آنکھ دباگیا تو اپنے جگری یار کی سفاکی پر افروز کے لبوں پر استہزائیہ مسکراہٹ در آئی۔

جہاں افروز کے کندھے پر بازو جماتے ہوئے شام نے ساکت کھڑی شمسہ سے اپنا رُخ موڑا تھا وہیں حرمین بھی حددرجہ جھجھکتی دروازہ کھول کر اندر قدم جماگئی۔یہاں کا آزادانہ ماحول دیکھتے ہوئے بےاختیار اُسکا حلق پل بھرکو خشک پڑا تھا۔۔۔۔

**************************

پریکٹس ہال میں گونجتے  تبلوں کی آواز میں گھنگھروؤں کی بھی مسلسل چھنچھناہٹ شامل تھی۔بظاہر رقص کرتی لڑکیوں کی تیاری پر آخری بار غور و فکر کرتی وہ آنے والے لمحوں میں ہنگامہ برپا کرنے کے لیے خود کو قائل کرچکی تھی۔اپنے رقص کی چند غلطیوں کو سُروں کے مطابق ڈھالتی  چھمی خود پر پڑنے والی پُرتپش نگاہوں سے یقیناً بےخبرتھی۔

”واللہ میری چین۔۔۔۔میری چین کہاں گئی۔۔۔؟؟؟“  شفاف صراحی دار گردن کو یکدم لانبی انگلیوں سے چھوتی وہ پریشان زدہ سی بولتی تقریباً سبھی کو اپنی جانب متوجہ کرواگئی۔

تھاپ سمیت ایک ہی دھن میں ہلتے وجود چونکتے ہوئے اپنی جگہ تھمے تھے۔

”رابی جی۔۔۔ آج صبح سویرے ہی تو میں نے آپکی گردن میں سونے کی چمچماتی ہوئی چین دیکھی تھی۔۔۔۔اتنی قیمتی شے بھلا یوں اچانک سے کہاں غائب ہوسکتی ہے۔۔۔؟؟؟“  اُن دس بارہ لڑکیوں میں سے ایک بےساختگی میں آگے بڑھ کر رابی کی سُونی گردن پر گہری نظریں جمائے قدرے حیرت سے گویا ہوئی۔

یہاں سبھی اُس بےجان شے کی قدروقیمت سے بخوبی آگاہ تھیں کیونکہ وہ تابین بائی کی جانب سے رابی کو دیا جانے والا خاص تحفہ تھا۔خود پر پڑنے والی اس اچانک افتاد پر تقریباً سب ہی شک کے دائرے میں آچکی تھیں سو ایسےمیں سب کا بےچین ہوکر خیر کی طلب کرنا تو لازم سی بات تھی۔

”ہاں۔۔۔۔کسی کی بھی اتنی  مجال نہیں کہ اس حویلی کی چاردیواری میں رہ کر آپکی سب سے خاص شے چرانے کی گستاخی کرجائے۔۔۔۔ورنہ تو یہ سیدھا سیدھا اپنا  نقصان آپ ہی کرنے والی بات ہوگئی۔۔۔۔“ بدقسمتی سے اس بار جذباتی انداز میں مداخلت کرنے والی چھمی تھی۔

 خود کی پرواہ میں گھلتی چھمی کا دوغلاپن دیکھتی رابی  ضبط سے لب بھینچ گئی۔

”واللہ۔۔۔کوئی لوٹ مار کرے یا براہِ راست بغاوت پر اتر آئے۔۔۔میری نظروں میں تو دونوں ہی برابر سزا کے مستحق ہواکرتے ہیں۔۔۔۔“  رابی کے بولنے کا انداز ایسا تھا کہ اُسکی خود پر جمی نگاہیں محسوس کرتی  چھمی ناچاہتے ہوئے بھی پل بھرکو گڑبڑاتی نگاہیں پھیر نے پر مجبور ہوگئی۔

”تو اب کیا کیا جائے رابی جی؟؟؟یہاں سب موجود لڑکیوں کی فرداً فرداً تلاشی لے لی جائے۔۔۔؟؟؟اگر تابین بی بی کو اس حوالے سے معلوم پڑا تو  ہم سب کے سروں پر بڑی آفت ٹوٹ پڑے گی۔۔۔۔“  وہی لڑکی ٹھوڑی کے نیچے چند انگلیاں ٹکاتی سنجیدگی اور پریشانی کی ملی جلی کیفیت میں بولی تو وہاں پر موجود حق دق کھڑی تمام لڑکیاں پل میں چوکنا ہوگئیں۔

”فی الحال کے لیے اسکی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ کچھ وقت پہلے میں پول والی سائیڈ پہ بیٹھی تھی۔۔۔شاید اپنے بھول پن میں چین وہیں کہیں گرا آئی ہوں۔۔۔۔؟؟؟جاؤ چھمی ذرا ایک نظر تم وہاں بھی ڈال آؤ۔۔۔۔“  اُن کو رعایت دینے والے انداز میں تحمل کا مظاہرہ کرتی وہ پُرسوچ نگاہوں سے فرش کو تکتی چھمی کو چونکا گئی۔

”ا۔۔۔بھی۔۔لیجیے رابی جی۔۔۔۔بس چھمی یوں گئی اور یوں آئی۔۔۔۔“  خود کا ڈگمگاتا لہجہ پل میں بحال کرتی وہ چُٹکی بجاتے ہوئے سرعت سے دروازے کی جانب لپکی تو جہاں نظروں سے اوجھل ہوتی اُسکی پشت دیکھ کر رابی کے پنکھری لبوں پر ہولے سے تبسم بکھرا تھا وہیں باقی لڑکیاں کھوئی ہوئی شے کے مل جانے کی دعائیں کرنے لگیں۔۔۔

***************************

”کہاں پھنسا دیا اِس رابی جی نے۔۔۔۔؟؟؟“  مشترکہ روشنیوں میں اپنی متلاشی نگاہوں کا محدود زوایہ اطراف میں گھوماتی وہ اس پل کافی عجلت میں دکھائی دے رہی تھی۔رات کو منعقد ہونے والی محفل میں بس کچھ ہی وقت باقی بچا تھا اور ابھی تک وہ تیار بھی نہیں ہوئی تھی۔اُسے یہاں وہاں تانکا جھانکی کرتے ابھی کچھ ہی لمحے سرکے تھے جب اگلے ہی پل اُسکی بھٹکتی نظروں کو ٹھٹھک کررکنا پڑا۔سوئمنگ پول کے بالکل کنارے پر رولتی چین کی موجودگی کو یقینی بناتی وہ سرعت سے اُسکی جانب لپکی۔

”آہ۔۔۔تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے ربا جو یہ چین مجھے یہی پر مل گئی۔۔۔ورنہ تو رابی کے بھولپن کا خمیازہ بھی ہم معصوموں کو ہی بنا کسی جرم کے بھگتنا پڑنا تھا۔۔۔آہ۔۔۔ہااااا۔۔۔۔“  چہکتے لہجے میں کڑوے الفاظ بولتی وہ مطلوبہ شے اپنی گرفت میں دبوچنے کی غرض سے ابھی جھکی ہی تھی جب اچانک پشت پر پڑنے والے سخت دباؤ سے اُسکا  توازن پل میں بگڑتا دبی چیخ کی صورت اختیار کرگیا۔

اگلے ہی پل چھپاک کی پُرزور آواز کے ساتھ اُسکے ڈگمگاتے وجود نے ساکن پانی میں شدت بھرا ارتعاش برپا کرکیا تھا۔

خنک راتوں میں ہڈیوں کو منجمد کردینے والا سرد پانی چھمی کے ابھرتے بدن کی سانسیں پل بھرکو روک گیا۔

” کس کی ہمت ہوئی۔۔۔ میرے ساتھ ایسی بیہودگی رچانے کی۔۔۔؟؟؟“  بمشکل  پلٹتی وہ گہری سانسوں کے بیچ چیخی لیکن اپنے مقابل رابی کو دیکھ کر اُسکی ساری طراری پل میں ہواہوئی تھی جوکہ اب جھک کر چین اپنی بند مٹھی میں دبوچتی اُسکی جانب مکمل طور پر متوجہ ہوچکی تھی۔

”واللہ چھمی۔۔۔کیا کہنے تمھارے بھی۔۔۔یقین کرو اس کا بیہودگی سے قطعی کوئی واسطہ نہیں ہے بلکہ یہ تو تمھاری خود کی بغاوت کا نتیجہ ہے جسکا بھگتنان تمھیں اس صورت بھگتنا پڑرہا ہے۔۔۔۔“  سماعتوں سے ٹکراتی رابی کی بےلچک آواز نے اُسے حیرت کی حقیقی گہرائیوں میں اتارا تھا۔گہرے پانی میں ہنوز ہاتھ پاؤں چلاتی وہ بے اختیار نفی میں سرہلاگئی۔

”رابی جی۔۔۔رابی جی۔۔۔۔باہر نکالیے مجھے۔۔۔۔مجھے تیرنا نہیں آتاااا۔۔۔۔“  اُسکے سامنے اپنی مجبوری بیان کرتی وہ حددرجہ خوفزدہ تھی۔

”واللہ کیا کہنے تمھارے بھی چھمی۔۔۔۔دیکھو تو ذرا تمھارا یہ بھیگا وجودکس قدر پُرکشش لگ رہا ہے۔۔۔۔میں دعوے سے کہہ سکتی ہوں کہ اگر کوئی بھی مرد تمھیں اِس حالت میں دیکھ لے تو اپنا دل ایک بار تم پر ضرور ہاردے گا۔۔۔۔پھر چاہے وہ تمھارے دل پر راج کرتا تمھارا عشق سالار خان ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔“  ایک  گہری نگاہ اُسکے پانی میں مچلتے تڑپتے بدن پر ڈالتی وہ اپنے تلخ لفظوں سے مزید اُسکے ہوش اڑاتی جارہی تھی۔

 گہرے سانس بھرتے ہوئے چھمی نے بے چین ہوکر رابی کی پشت پر کھڑی حیرت کا مجسمہ بنی تمام لڑکیوں کو دیکھا جن میں فی الوقت آگے بڑھ کر اُسے بچانے کی ہمت ہرگز نہیں تھی۔

اور وجہ یقیناً رابی کی یہاں موجودگی تھی جو جانے کتنے عرصے بعد اپنے سفاک روپ میں واپس لوٹی تھی۔

وہ جانتی تھی کہ  مقابل سے بھیک مانگنےکے سوا کوئی چارہ نہیں ہے سو وہ مانگ رہی تھی۔

”خد۔۔۔۔خدارا۔۔۔۔رحم کرو۔۔۔۔را۔۔۔بی جی۔۔۔۔م۔۔۔میں ڈوب رہی ہو۔۔۔۔مجھے بچالوووو۔۔۔۔“  کپکپاتی آواز میں بےڈھنگے انداز میں ہاتھ پیر مارتی وہ کئی بار غوطے کھا چکی تھی۔

”ًمیں حقیقتاً احسان فراموش ہوں۔۔۔۔کسی کی لاکھ خدمتیں ہوں یا واحد انمول محبت۔۔۔۔قدر کرنا میری فطرت میں شامل نہیں ہے۔۔۔۔بے وفائی اور انتقام کی بھڑکتی آگ میری رگ رگ میں بستی ہے چھمی۔۔۔۔“  سفاکیت کی انتہاؤں کو چھوتی وہ اپنی حقیقیت بذاتِ خود اُسے سنارہی تھی۔ اُسکا بے تاثر لہجہ چھمی کا دل مسلسل دہلائے جارہا تھا۔

”مع۔۔۔۔اف۔۔۔کر۔۔دو۔۔۔م۔۔۔میں مر۔۔۔جاؤں گی۔۔۔۔“  لمحہ بہ لمحہ ہوش کھوتی وہ مدد کے لیے آخری بار پوری قوت سے چیخی جب وہ اُسکی دھیمی پڑتی دھڑکنوں کی پرواہ کیے بغیر ایک قدم اٹھاتی ذرا سا اُسکی جانب جھکی۔

”موت کے ڈر سے گڑگڑا کر زندگی کی بھیک مانگنا بزدلی کی انتہا ہے اور میرے نزدیک ایک بزدل۔۔۔نڈر اچھا نہیں لگتا۔۔۔۔اُس پر فقط خوف کے گہرے سائے ہی جچتے ہیں۔۔۔۔اور ایک آخری بات۔۔۔جسے میں نظرانداز کروں اُسکی حد سے ذیادہ خبر رکھتی ہوں۔۔۔۔“  اُسکی کھوکھلی بےخوفی پر گہری چوٹ کرتی وہ طنز کا شدت بھرا آخری طمانچہ اُسکے منہ پر جڑتے ہوئے وہاں سے جاچکی تھی۔

”ارے جلدی نکالو اسے۔۔۔۔۔کہیں اسکی سانسیں ہی بند نہ ہوجائیں۔۔۔۔یااللہ رحم۔۔۔۔“  اُسکا بےجان ڈوبتا وجود دیکھ سرعت سے آگے بڑھتی لالی اپنے دوست کے انجام پر نم آنکھوں سے چیخی تو باقی بھی ہوش میں آتی اُسکی تقلید میں چھمی کی جانب بھاگی تھیں۔

جبکہ دور سے متفکر نگاہوں کے ساتھ یہ منظردیکھتی تابین بائی اپنی معصوم کلی کے اشتعال کی ٹھوس وجہ جاننے کو بے چین ہوئی تھیں۔۔۔۔

*************************

”میرے ساتھ ڈانس کرو گی۔۔۔۔؟؟؟“  گال پہ لگی کیک کریم کو ٹشو سے صاف کرتی وہ پلٹی تھی جب اچانک اُسکے سامنے ہاتھ پھیلاتا وہ اُسے چونکا گیا۔

چند لمحے قبل کان پھاڑتی شوخ آواز اب لائٹ سے رومانٹک سونگ میں بدلتی ماحول کو خوابناک سا بناگئی تھی اور یہ عنایت بھی یقیناً برتھڈے بوائے کی ہی طرف سے ہی کی گئی تھی۔

”ڈ۔۔۔ڈانس۔۔۔۔؟؟پ۔۔۔ر۔۔۔شام۔۔۔مجھے یہ سب نہیں آتا۔۔۔۔انفیکٹ میں نے زندگی میں کبھی بھی ایسا کوئی فن نہیں کیا۔۔۔۔“  وہ جو پہلے ہی یہاں کے آوارہ ماحول سے ٹچی ہونے کی کوشش میں ناکام ٹھہررہی تھی مقابل کی خواہش پر پریشان ہوتی دبے لفظوں میں انکار کرگئی۔

”میری خاطر بھی نہیں۔۔۔۔“  اُسکی نفی پر ضبط کیے بظاہر بڑے مان سے پوچھتا وہ اُسے حقیقتاً امتحان میں ڈال گیا۔

حرمین کی جانب بڑھا ہوا ہاتھ تھامے جانے کی امید میں ہنوز ہوا میں معلق تھا۔

جواباً وہ اُسکی شفاف ہتھیلی کو پُرسوچ  نظروں سے تکتی لب چبانے لگی۔عروج پر منڈلاتی ہچکچاہٹ میں اب کہ مقابل کے خفا ہوجانے کا خوف بھی شدت سے گھلنے لگا تھا۔

”ڈونٹ وری۔۔۔میں سب سیکھادوں گا ناں یار۔۔۔۔“  حرمین کو تذبذب کا شکار ہوتا دیکھ اُسنے کھلے دل سے آفرکی اور اگلے ہی پل اُسے کچھ بھی سمجھنے کا موقع فراہم کیے بغیر قدرے نرمی سے  اپنی جانب کھینچتا بوکھلانے پر مجبورکرگیا۔

”شا۔۔۔م۔۔۔۔۔۔“  بے یقینی کے بوجھ تلے ٹوٹتے لفظ اُسکی خود کے ساتھ برتی گئی بےباکی پر بےدم ہوئے تھے۔سانوالے رخساروں پر بےاختیارسرخائی اترنے لگی۔

”یہ۔۔۔یہاں اسطرح رکھو۔۔۔۔یس اینڈ دِس۔۔۔۔پرفیکٹ۔۔۔۔“  اُسکی غیر ہوتی حالت کی پرواہ کیے بنا ہی وہ اُس سمیت خود کی پوزیشن بڑی پُھرتی سے سیٹ کرگیا۔ 

اُسکی تقلید میں ہولے ہولے ڈانس کے اسٹیپ لیتی حرمین کا دل بند ہونے کے قریب تھا۔

اپنی گھبراہٹ میں وہ خود پر پڑتی شمسہ کی نم شعلہ بار نگاہوں کا ارتکاز بھی محسوس نہیں کرپائی تھی۔اگلے ہی پل وہ اپنا کلچ سنبھالے پیرپٹختی وہاں سے نکلتی چلی گئی کیونکہ جس مقصد سے وہ ضبط کیے یہاں ٹھہری ہوئی تھی وہ تو اب پورا ہوچکا تھا۔

”شام۔۔۔۔۔“  اُسے کانپتی آواز میں ایک بار پھر مخاطب کرتی وہ ملتجی ہوئی۔

ذرا فاصلے پر کھڑے شام کے دوست دلچسپ نگاہوں سے ایک کا گھبرانا شرمانا تو دوسرے کا بےباکی سے مزے اڑانا دیکھ رہے تھے۔

” کیسا محسوس کررہی ہو۔۔۔۔؟؟؟“  الٹامسکرا کر پوچھتا وہ یقیناً اُس سے کسی اچھے جواب کی توقع کررہا تھا لیکن مقابل بھی حرمین تھی۔

دبو سی لڑکی جو اتنے سارے لوگوں کے بیچ خود کی ایسی حالت پر مارے شرم کے پانی پانی ہوئے جارہی تھی۔

”عجیب۔۔۔۔عجیب لگ رہا ہے بہت۔۔۔۔“  اپنی کمر پر محسوس ہوتی اُسکی نرم گرفت سے کہیں ذیادہ اُسے لڑکیوں کا مُڑ مُڑ کر خود کی جانب دیکھنا بےچین کرگیا۔

حرمین کی صاف گوئی پر شام  پل میں اپنی مسکراہٹ سمیٹتا لب بھینچ گیا۔

”کیا میرا اس طرح سے تمھارے قریب آنا تمھیں پسند نہیں آیا۔۔۔۔؟؟؟“  یکدم رکتا وہ اپنی ناگواری چھپانہیں پایا تھا۔

”نن۔۔۔نہیں۔۔۔۔ایسی بات نہیں ہے۔۔۔۔میں بس تھوڑی سی نروس  ہوں۔۔۔۔“  اُسکی تیوری دیکھ وہ چشمہ اچکاتی بوکھلائی۔

”تھوڑی نہیں بہت۔۔۔۔اینی وے۔۔۔اگر تم چاہو تو ہم کہیں بیٹھ جاتے ہیں۔۔۔کہیں اکیلے میں کسی پُرسکون سی جگہ پر۔۔۔۔“  تباہ ہوتے موڈ کے ساتھ وہ اُس سے فاصلہ بناتا زبردستی مسکرایا تو حرمین اُسکے لبوں کا تبسم دیکھتی کچھ پُرسکون ہوئی۔

”پر۔۔۔۔آپکے فرینڈز۔۔۔۔؟؟؟“  وہ منظرِ عام سے فوری ہٹ جانا چاہتی تھی مگر شام کی سب میں غیرموجودگی کی بابت سوچتی متفکر سی گویا ہوئی۔

”تم اُنکی ٹینشن مت لو۔۔۔۔وہ میری غیرموجودگی کا بالکل بھی مائینڈ نہیں کریں گے کیونکہ میں اُن کو  پہلے ہی اپنا اچھا خاصا ٹائم دے چکا ہوں۔۔۔۔اب باقی کا سارا وقت میں صرف تمھارے سنگ گزارنا چاہتا ہوں۔۔۔۔“  ایک نظراپنے دوستوں پر ڈالتا وہ اس بار شریں لہجہ اپنانے میں کامیاب ٹھہرا تھا۔

”اب چلیں۔۔۔۔؟؟؟“  حرمین کی جھکتی نگاہوں کے جواب میں وہ ہاتھ سے قدرے کونے میں اوپر کو چڑھتی بل دار سیڑھیوں کی جانب اشارہ کرتا ابرو اچکاگیا تو وہ چونک کر شدت سے دھڑکتے دل سمیت اثبات میں سرہلاگئی۔

اگلے ہی پل دونوں آگے پیچھے سیڑھیاں چڑھتے سب کی متجسس نظروں سے اوجھل ہوتے چلے گئے اس بات سے قطعی انجان کہ چند لمحے قبل دونوں کے قربت بھرے لمحات کیمرے کی شاطر آنکھ میں قید  کیے جاچکے تھے۔۔۔

***************************

ِتاحد نگاہ تک پھیلے تاریک آسمان پر ٹمٹماتے ہوئے ان گنت ستارے دیکھنے میں قدرے بھلے لگ رہے تھے۔ان ستاروں میں گھرا آدھا چاند تکتے ہوئے وہ دونوں ریلنگ پر ہاتھ جمائے اسی نیم تاریکی کا خاموش حصہ لگ رہے تھے۔ایسے میں اطراف میں اُگے سرسبزوشاداب درختوں کے گرد گھوم کر اُن تک پہنچتے نرم ہوا کے میٹھے جھونکے روح کو مزید آرام پہنچا رہے تھے۔نیچے کا ماحول جس قدر ہنگامہ خیز تھا یہاں سماعتوں سے ٹکراتے مدھم مدھم شور کے باوجود بھی سکون تھا۔

”اب تو عجیب نہیں لگ رہا۔۔۔یوں اکیلے میں میرے ساتھ اسطرح۔۔۔؟؟؟مینزکہ ایزی ہو ناں اب تم۔۔۔۔؟؟؟ہوں۔۔۔؟؟“  حرمین کی جانب زرا سی گردن موڑے اُسکی بےجا گھبراہٹ پر چوٹ کرتا وہ بظاہرفکرمندی سے گویا ہوا تو حرمین نے چاند کی گھلی ملی نیم روشنی میں اُسکے نقوش پر بکھری برہمی کو گہری نظروں سے دیکھا۔

اگلے ہی پل شام کے مضبوط کندھے پر ہاتھ جماتے ہوئے وہ بےاختیار ہوتی اُسکا رخ اپنی جانب موڑ گئی۔

”مجھے آپکے ساتھ کبھی بھی عجیب نہیں لگا شام بلکہ میں تو جب بھی آپکے ساتھ ہوتی ہوں خود کو ریلکس فیل کرتی ہوں ۔۔۔۔آپ اسے میری عادت کہہ لیں یاں پھر بزدلی لیکن میں لوگوں کی بھیڑ میں ناچاہتے ہوئے بھی گھبرا جاتی ہوں۔۔۔۔ایسے ماحول سے میری آشنائی بالکل بھی نہیں ہے جس میں۔۔میں نے فقط آپکی خوشی کے لیے شرکت کی ہے۔۔۔۔“  اپنے تیئں ٹھوس جواز پیش کرتی حرمین نے اُسے خود سے متنفر ہونے سے باز رکھنے کی پوری کوشش کی تھی۔

جانے کیوں شام کو اس پل اُسکی تیکھی ناک پر ٹکے  چشمے سمیت اُسکے حجاب میں لپٹے چہرے سے عجیب سی وحشت ہوئی تھی۔

کتنی ہی حسین لڑکیوں کے چہرے بیک وقت اُسکی بھوری نگاہوں کے سامنے گھوم گئے جنھیں وہ فقط اس پھیکی صورت کے پیچھے گنوا بیٹھا تھا۔

وجہ صرف اپنی انا کا برہم رکھنا تھا۔اپنے یاروں کو چاروں خانے چِت کرنے کے لیے جیت کی بازی مارنا تھی جو مقابل کھڑی لڑکی کو ہارا کر ہی ممکن تھی۔

ہار بھی ایسی جو اُسکی ذات سمیت وجود کو ریزہ ریزہ ہونے پر مجبورکردیتی۔

ہلتے ہوئے سیاہی مائل لبوں کو تمھتا دیکھ کر بھی اُسکا سکتہ نہیں ٹوٹ پایا تھا۔

”ایسے کیا دیکھ رہے ہیں۔۔۔۔؟؟؟“  اُسے عجیب نظروں سے خود کی جانب تکتا پاکر وہ پل بھر کو گڑبڑائی۔مقابل کی فکرمیں وہ خود کی بڑھتی نزدیکی کا بھی دھیان نہیں رکھ پائی تھی سو سرعت سے فاصلہ بناگئی۔

”دیکھ رہا ہوں کہ تمھارا یہ خوبصورت تِل تمھارے سلونے چہرے پر بہت جچتا ہے۔۔۔اتنا کہ میں چاہ کر بھی اس پر سے اپنی توجہ نہیں ہٹاپاتا۔۔۔۔“  چونک کر اُسکے بےرنگ لبوں سے موٹے تِل تک کا فاصلہ پل میں ناپتا وہ بروقت اپنی حقارت کو پسندیدگی میں ڈھال گیا تو بے اختیار اپنے دائیں رخسار پر ابھرے تِل کو انگلیوں سے چھوتی وہ نگاہیں جھکاگئی۔

مسکراتے ہوئے سلونے چہرے پر حیا کی پھیکی لالی گہری ہوئی تھی۔

”کیا ہوا۔۔۔۔؟؟شرماگئی۔۔۔۔؟؟بس اتنے میں ہی۔۔۔۔؟؟“  ذرا سا اُسکی جانب جھک کر وہ معنی خیز لہجے میں مسکرا کر بولا تو وہ ایک عجیب سے سرور سے آشنا ہوتی اندر ہی اندر کپکپا اٹھی۔

”آ۔۔۔پ۔۔۔سے۔۔۔ ایک بات پوچھوں۔۔۔۔؟؟؟“  دماغ کو تیزی سے چھوتے ایک خیال کے تحت حرمین نے بمشکل سر اٹھا کر اُسکی سرخ پڑتی آنکھوں میں جھانکا۔

”ایک کیوں۔۔۔۔؟؟دس پوچھو بیوٹیفل گرل۔۔۔۔“  شریں لہجے میں بولتا وہ قدرے نرمی سے اُسکے ہاتھ تھام گیا۔

”وہ۔۔۔ایکچولی۔۔۔آپکو۔۔۔۔“  جانے کیوں اُسکے الفاظ لبوں پر آتے دم توڑ رہے تھے۔

”ہوں ہوں۔۔۔۔؟؟؟  سر کو تیزی سے جنبش دیتا وہ اُسے کھل کے بولنے پر اکسانے لگا۔

”آپ کو مجھ میں کیا اچھا لگا۔۔۔؟؟؟یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں۔۔۔میں بالکل بھی خوبصورت نہیں ہوں۔۔۔۔“  خشک لبوں کو زبان سے تر کرتی وہ اس پل ضبط کی حدوں کو چھونے لگی تو وہ اُسکے اس قدر صاف کورے اعتراف پر چونک سا گیا۔

”اُففف لڑکی کس قدر نیگیٹو سوچتی ہوتم۔۔۔۔میں نے اپنی پوری زندگی  شاید ہی کوئی ایسی لڑکی دیکھی ہوگی جو خود کو بدصورت کہے۔۔۔۔مینز کہ آجکل کی لڑکیوں کی پہلی ڈیمانڈ ہی یہ ہوتی ہے کہ اُنکی خوبصورتی کو دن رات سراہا جائے۔۔۔اور تم ہوکہ۔۔۔اوگاڈ۔۔۔۔سریسلی۔۔۔۔؟؟؟“  اُسکی متجسس نگاہوں میں دکھتی بےتابی کو یکسرفراموش کرتا وہ حیرت زدہ سا ہنس دیا۔

”پر میں اُن لڑکیوں جیسی بالکل بھی نہیں ہوں جو خود کو جانتے بوجھتے دوسروں کی تعریفوں کا محتاج بنالیتی ہیں۔۔۔بلکہ میں تو ان سب سے ہٹ کر حقیقیت پسند ہوں۔۔۔۔“  مقابل کے لاپرواہ انداز میں گھلا تمسخر شدت سے محسوس کرتی وہ بےاختیار اپنے ہاتھ اُسکی نرم گرفت سے نکال گئی۔لہجے کی گھبراہٹ اب کہ حددرجہ سنجیدگی میں بدلی تھی لیکن دل مقابل کے جواب کا منتظر ابھی بھی شدتوں سے دھڑک رہا تھا۔

”اب انسان کو اِس حد تک بھی حقیقیت پسند نہیں ہونا چاہیے کہ سچ بھی جھوٹ لگنے لگے۔۔۔۔اگرتم خود کو میری نظرسے دیکھو تو اپنے آپ کو اِس دنیا کی سب سے حسین ترین لڑکی تصور کرو۔۔۔۔اور بلاشبہ یہ سچ میرے نزدیک سب سے بڑی حقیقت کا درجہ رکھتا ہے۔۔۔“  قدرے نرمی سےاُسکی گندمی رنگ انگلیوں میں خود کی شفاف انگلیاں پھنساتا وہ ایک جذب سے بولتا چلاگیا جبکہ وہ اپنی سانسیں روکے اُسکے لہجے کی شدت خود میں اتارتی ہولے سے لرز اٹھی۔

دل کی دھڑکنیں بےچین ہوتی سینے میں ہی مچل رہی تھیں۔

”سچ میں۔۔۔۔۔؟؟؟“  ہولے سے لبوں کو جنبش دیتے اُسنے جیسے تصدیق چاہی۔

”تمھاری قسم۔۔۔۔۔“ بڑی دلیری سے اُسکے ہاتھ کی پشت پر اپنا دہکتا ہوا نرم لمس چھوڑتا وہ اُس کمزور سی لڑکی کا دل پورے وجود سمیت کئی پلوں کے لیے ساکت کرگیا۔۔۔۔۔

************************

رات کے تیسرےپہر۔۔نیم اندھیرے کو توڑتی پیلے رنگ کی مدھم سی روشنی اس پل سناٹوں کی زد میں آئے اِس کمرے کی وحشت کو کم کرنے میں قدرے ناکام ٹھہررہی تھی جب اچانک لحاف میں لپٹے اُس نازک سے وجود میں گہری نیند کی وادیوں میں اترنے کے باوجود بھی ہولے سے جنبش ہوئی تھی۔بند آنکھوں میں سمائی سیاہ تاریکی دھیرے دھیرے حرکت کرتی اب ایک عجیب سے منظر میں ڈھلنے لگی تھی۔

ایک جانا پہچانا سا دھندلایا ہوا منظر۔۔۔بےبس سماعتوں سے ٹکراتی عجیب مگر شناسائی چیخیں۔۔۔اور اِن میں گھلے بےشناسا مردانہ قہقے۔۔۔

اسکی ہموار سانسوں میں بےچینی سی بھرنے لگی۔

اِن زور پکڑتی آوازوں کے سنگ اگلے ہی پل بندآنکھوں کے سامنے سب کچھ آئینے کی مانند صاف شفاف ہوا تھا۔

”وحشی ہو تم۔۔۔درندے ہو۔۔۔خدا۔۔خدا غارت کرے تمھیں۔۔۔۔ چھوڑومجھے۔۔۔۔“  دوپٹے سے محروم وہ عورت کسی زخمی چڑیا کی مانند اُس ظالم کی آہنی گرفت میں پھڑپھڑاتی خود کو چھڑوانے کی ناکام کوششوں میں ہلکان ہورہی تھی مگر وہ اُسکی سسکتی ہوئی بےبس آہوں سے بےبہرہ اُسے بےدردی سے خود کے ساتھ گھسیٹتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔

”نن۔۔نہیں۔۔۔۔“  آبرو کے لرزتے لب بے آواز پھڑپھڑائے۔اطراف میں پھیلی موسم کی پُرسکون ٹھنڈک کے باوجود بھی وحشت کے شدید احساس تلے وہ لمحہ بہ لمحہ پسینے میں بھیگنے لگی تھی۔نم ہوتی بند پلکوں پر اترتی کپکپاہٹ کے ساتھ ساتھ اُسکی دھڑکنوں میں بھی شدت کی تیزی آتی جارہی تھی۔ 

”مونسٹر انکل۔۔۔میری م۔۔مما کو چھوڑدو پلیز۔۔۔۔“  سامنے ہی نقاب پوش بھیڑیوں کے نرغے پھنسی دو پونیوں والی وہ چھوٹی سی بچی اپنی ماں کی ابتر حالت دیکھتی ہنوز بلک رہی تھی۔

مگر وہاں پرواہ کسے تھی۔۔۔

معاً بند دروازوں پر لات مارتے اُس شخص کی گھنی مونچھوں تلے سیاہ لب اپنی منزل قریب جان کر بےساختہ مسکرائے تھے۔۔جبکہ خود پر بیتنے والے قیامت خیز لمحوں کی بابت سوچ کر اُس عورت کا خون خشک پڑا۔

شدومد سے نفی میں سرہلاتی وہ خود کو رہائی دلوانے کی غرض سے بےاختیار اُسکے ہاتھ کی پشت پر جھپٹتی اپنے دانت گاڑ گئی جب اگلے ہی پل بھرپور شدت سے گال پر پڑتا تھپڑ اُسے زمین بوس ہونے پر مجبور کرگیا۔

”مم۔۔ا۔۔۔۔“  کڑکتی بجلی سے کہیں ذیادہ اُس بچی کو اپنی ماں کے ہونٹ سے رستا خون دیکھ کر وحشت ہوئی تھی۔

”نن۔۔۔نہیں۔۔۔۔چھوڑ۔۔۔دو۔۔۔ “  لحاف کو سختی سے مٹھیوں میں دبوچتی وہ بےتاب سی سر اِدھر اُدھر جھٹکنے لگی۔بند آنکھوں سے نکلتےآنسو کنپٹیوں پر پھسلتے ہوئے بالوں میں گم ہونے لگے تھے۔

گہرے سانس بھرتی وہ اِن وحشتوں سے ہرممکن جان چھڑالینا چاہتی تھی لیکن معائے افسوس جو اعصاب پر حاوی نیند کے پُراثر اثرات اسکو اس بات کی اجازت دینے سے فی الوقت انکاری تھے۔

”آجاؤ جانِ من۔۔۔۔تمھارا خاندانی حساب چکتا کروں۔۔۔“  اگلے ہی پل وہ سفاک شخص بےباک سا اُسے  کمر سے دبوچتا کمرے میں گم ہوا تو وہ سسکتی ہوئی اُسکے سنگ کھنچتی  چلی گئی۔دروازے کے روغنی پٹ بند ہونے پر بےاختیار نقاب پوش آدمیوں کے خباثت بھرے قہقہے نکلتے اُس بچی کو مزید سہماگئے۔

”نہیں۔۔۔وہ۔۔۔وہ۔۔۔ماردے گ۔۔ا۔۔۔وہ ماردے گاااا۔۔۔۔“  جہاں بآواز بلند چیختے۔۔آبرو کے تکیے پر سرپٹخنے میں شدت آئی تھی وہیں بند آنکھوں میں سمائے سانسیں روک دینے والے مناظراب ہچکولے کھاتے دھندلانے سے لگے۔

کچھ ہی پلوں میں بند دروازوں کے پیچھے لٹتی آبرو پر حلق سے پھوٹنے والی نسوانی چیخیں اطراف میں پھیلے سناٹوں کو چیڑتی ہوئی اُس بچی کے ہچکیاں بھرتے وجود کو ساکت کرگئی تھیں۔

”نہیںںںںں۔۔۔۔۔“  تبھی وہ بھی ایک دلخراش چیخ کے ساتھ جھٹکے سے آنکھیں کھولتی اُٹھ بیٹھی۔سینے میں پھڑپھڑاتا نازک سا دل یکدم ساکت ہوا تھا۔

بمشکل گہرے سانس بھرتی وہ نیم اندھیرے میں ڈوبی کمرے کی چاردیواری کو بے یقینی سے گھورنے لگی تو وحشت کا احساس اُس پر مزید حاوی ہوتا چلا گیا۔ بھیگے ڈوروں کی سرخائی مزید  گہری ہوئی تھی۔

اگلے ہی پل ٹچ ٹچ کی آواز پر پورا کمرہ روشنیوں میں نہایا  تو آبرو نے کچھ خوف سے اندر آنے والی اُس عورت کا خود کے لیے فکرمند چہرہ دیکھا جو یقیناً اُسکی چیخیں سن کر یہاں بھاگی بھاگی چلی آئی تھیں۔اگلے ہی پل آنکھوں میں ٹھہرے نیلے رنگ سمندر میں گھلتی شناسائی  اُسکی چیخوں کا گلا گھونٹ  گئی تھی۔

” کیا ہوا میری بچی۔۔۔۔؟؟تم۔۔۔تم ٹھیک تو ہونا میری جان۔۔۔۔؟؟“  سرعت سے اُسکے مقابل بیٹھ کر اس کا بھیگا چہرہ اپنی انگلیوں کی نرم پوروں سے چھوتی وہ پریشان سی گویا ہوئیں جسکا تنفس نفی میں سر جھٹکتے ہنوز بگڑا  تھا۔

”تم نے پھرسے وہی خواب دیکھا ہے ناں۔۔۔۔؟؟؟“  وہ شاید اُسکی ابتر حالت سے قطعی انجان نہیں تھیں تبھی اُسکے بکھرے بالوں کو سنوارتی درست اندازہ لگا گئیں۔نظروں میں فکر کے بعد تاسف بھرا احساس جاگا تھا۔

آبرو نے تڑپ کر نم پلکیں اٹھاتے اُنکی جانب دیکھا۔ مقابل کے لفظوں پر وہ جیسے ہوش میں آئی تھی۔

”خواب۔۔۔؟؟؟نہیں۔۔نہیں۔۔۔وہ فقط ایک خواب نہیں تھا۔۔۔۔وہ میری ماں کی آبرو کا۔۔۔۔او۔۔اور اُنکی چلتی سانسوں کا آخری دن تھا۔۔۔۔آخری دن تھا وہ میری ماں کی زندگی کا۔۔۔۔۔ہاں۔۔آ۔۔۔خری۔۔۔۔“   سسکتی سانسوں کے بیچ چیختی وہ اُنکے لفظوں کی تصحیح کرتی بےاختیار اپنے پھٹتے دماغ کو ہتھیلیوں تلے جکڑگئی۔دل کا درد حد سے سوا ہونے لگا تھا۔

”بس میری جان بس۔۔۔۔سب ٹھیک ہے۔۔۔۔“  اس پوشیدہ حقیقت پر اُس عورت نے نم آنکھوں سمیت بےبسی سے لب بھینچتے اُسکا بکھرا وجود اپنی بانہوں میں سمیٹا تھا اور پھر ہاتھ بڑھا کر سائیڈ ٹیبل کا دراز کھولتے اُسکی دوائیوں بھرا لفافہ باہر نکالا جن کو وہ یقیناً کچھ دنوں سے لینا چھوڑ گئی تھی۔۔۔۔

**************************

”حاویہ۔۔۔۔سارا ناشتہ ختم کرکے جانا بیٹا۔۔۔۔نہیں تو خالی پیٹ ذیادہ دماغ نہیں چلے گا۔۔۔۔“  گھٹنوں پر دھڑے رجسٹر پر تحریر الفاظ بغور دیکھتی وہ سامنے پڑے بچے کھچے پراٹھے اور آملیٹ کو یکسر فراموش کرچکی تھی جب کچن سے آتی نفیسہ بیگم کی تنبیہی آواز پر چونک سی گئی۔

”نہیں ماما۔۔۔اگر ذیادہ کھالیا۔۔۔تووو میرا دماغ نہیں چلے گا۔۔۔۔آپ جانتی تو ہیں میرا اندرونی نظام دوسروں سے ذرا ہٹ کر ہے۔۔۔پھر بھی آپ۔۔۔چچ۔۔۔۔“  اسپیچ کی تیاری میں بےچین ہوتی وہ کچھ لاپرواہی سے بولی تو نفیسہ بیگم کے روٹی بیلتے ہاتھ پل بھر کو رُکے۔اُنکے بگڑتے تیوروں سے انجان حاویہ  کا فوکس ہنوز لفظوں پر ہی تھا۔

”ذیادہ باتیں مت بگاڑو میرے ساتھ۔۔۔ یہ جو دنوں میں تم دونوں بہنوں کے تیور بدل سے گئے ہیں ناں۔۔۔۔سچ میں بہت تنگ آگئی ہوں میں۔۔۔۔۔اگر چاہتی ہوکہ آج کا دن اچھا جائے تو پلیٹ صاف کرکے جانا۔۔۔۔“  توے پر پڑی روٹی کا رخ سرعت سے پلٹتی وہ ڈپٹتے ہوئے اُسے دھمکی دے گئیں تو ٹھٹھک رجسٹر سے سراٹھاتی وہ پل میں بےسکون ہوئی۔نفیسہ بیگم کی ایسی چھوٹی موٹی دھمکیوں سے وہ جانے کیوں ہمیشہ ہی خائف رہتی تھی۔

”اچھا بھئی کھا رہی ہوں۔۔۔کھاااارہی ہوں میں۔۔۔اور آپ ناں ہروقت مجھے اسطرح سے بلیک میل نہیں کرسکتیں۔۔۔انسان کی اپنی بھی کوئی مرضی ہوتی ہے۔۔۔۔“  بنا تاخیرکیے پلیٹ اپنی جانب کھینچتی وہ جتاکر بولی تو اُسکی منہ بسورتی تابع داری پر نفیسہ بیگم کے لبوں پر سرشار سی مسکراہٹ درآئی۔

بے دلی سے لقمے توڑتی وہ بمشکل ہی انھیں زہر مار کر پارہی تھی جب ایکدم سے اپنے دائیں بائیں اُبھرتے مردانہ ہاتھوں کا حصار ناسمجھی سے دیکھتی وہ چونکی۔

”بُووووو۔۔۔۔۔“  اس سے پہلے کہ وہ کسی خاص نتیجے پرپہنچ پاتی معاً بھاری آواز سمیت کان سے ٹکراتا گرم سانسوں کا گولہ پل میں اُسکے رونگھٹے کھڑے کرگیا۔

”ہ۔۔۔اااا۔۔۔۔“  لبوں سے نکلتی چیخ بےساختہ تھی جسے بختی بروقت بھاری ہتھیلی تلے دباتا اسکا سر چیئر کی پشت سے ٹکا گیا۔اس گستاخی پر حاویہ نے سختی سے اپنی آنکھیں میچی تھیں۔

”ریلکس باربی ڈول۔۔۔۔“  ایک محتاط نگاہ کچن کی جانب اچھال کر پھرسے اُسکے کان کے قریب جھکتا وہ سرگوشی نما آواز میں بولا تو اُسکے نازک وجود سے اٹھتی مہک نتھنوں سے ٹکراتی اُسے مسرور سی کرنے لگی۔

بختی کی خود سے حدردجہ قریب موجودگی حاویہ کو تڑپا ہی تو گئی تھی جو اب بےخوف سا براہِ راست ساری حدیں پار کرنے پر اتر آیا تھا۔بمشکل اُسکا ہاتھ پڑے جھٹکتی وہ اپنی جگہ سے اٹھتی سرعت سے پلٹی۔

”ہاہاہا۔۔۔۔کیا ہوا جانم۔۔۔۔؟؟ڈرگئی تھیں کیا۔۔۔۔؟؟“  اُسے گہرے سانس بھرتا دیکھ وہ اُسکے گھبرائے نقوش سے ہمیشہ کی طرح حظ اٹھارہا تھا جو تیز رفتار سے چلتے پنکھے کے باوجود بھی  پسینہ پسینہ ہوگئی تھی۔

”اففف یہ معصوم چہرہ اور سہمے سہمے انداز۔۔۔واللہ۔۔سیدھا یہاں پر وار کرتے ہیں۔۔۔۔ کیا تمھیں مجھ پر ذرا سا بھی رحم نہیں آتا۔۔۔۔؟؟؟یہ بندہ تو  پہلے سے ہی گوڈے گوڈے تمھارے عشق میں ڈوبا ہوا ہے۔۔۔اب اور کتنا  بس میں کروگی اپنے۔۔۔ہہمم۔۔۔؟؟؟“  اُسکی خاموش گھوری پر سینے پر ہاتھ دھڑے ہولے سے اُسکی جانب جھکتے ہوئے انداز بالکل مجنوؤں والا تھا جب وہ ضبط کی انتہاؤں کو چھوتی بروقت دو قدموں کا فاصلہ بناتی پیچھے ہٹی۔

”آپ اس وقت یہاں کیوں آئے ہیں۔۔۔۔؟؟اپنے گھر میں سکون نہیں ملتا کیا آپکو۔۔۔۔؟؟؟“  نم آنکھوں سمیت دبی سی آواز میں غراتی جانے کیوں وہ اُسکا لحاظ کرگئی تھی ورنہ دل تو مقابل کا گریبان پکڑ کر چیخنے کو چاہ رہا تھا۔

” گھر پرکیا رکھا ہے جانم۔۔۔۔؟؟؟حقیقی سکون تو میرا یہاں بستا ہے۔۔۔اور اب میں اپنے دل کے سکون کو بہت جلد اپنے گھر میں بسانے کی سوچ رہا ہوں۔۔۔۔“  خباثت  سےمسکراتا وہ بڑے شریں مگر دھیمے لہجے میں بول رہا تھا۔جبھی وین کا پُرشور ہارن دونوں کی سماعتوں سے ٹکرایا۔

” کک۔۔۔کیا مطلب۔۔۔۔؟؟؟“  بےچین سی خشک لبوں پر زبان پھیرتی وہ الجھی تو بےاختیار مقابل کی بہکتی نگاہیں اُسکے گلاب لبوں پر جا ٹھہریں۔

”سیدھا سیدھا سا مطلب ہے جان۔۔۔میں یہاں خالہ سے ہماری شادی کی بات کرنے آیا ہوں۔۔۔وہ کیا ہے ناں کہ اب مزید صبر کی گنجائش نہیں رہی مجھ میں باربی ڈول۔۔۔۔“  آنکھ دبا کر بولتا وہ شوخ ہوا تو اِس بیہودہ مذاق پر حاویہ کا دل کیا اُسکا سر پھاڑدے۔

”یہ کیا بکواس ہے کررہے ہیں آپ۔۔۔۔؟؟؟ہوش میں تو ہیں۔۔۔؟؟؟نہیں کرنی مجھے آپ سےکوئی شادی وادی۔۔۔سنا آپ نے۔۔۔؟؟؟اپنے اس غلیظ ذہن کو لگام ڈال کر رکھیے اسی میں آپکی بہتری شامل ہے اور۔۔۔میری ماما کے سامنے ایسی بہودہ خرافات بکنے سے بھی آپ پرہیز کیجیے  گا۔۔۔۔“  برداشت کھوتی وہ پھنکارتی ہوئی بختی کے لبوں کی مسکراہٹ پل میں نوچ گئی۔گال پر پھسلتے آنسو رگڑتی جانے وہ خود کے حق میں بولنے کی ہمت آج کہاں سے کر بیٹھی تھی۔ہارن پھر سے بجا تھا۔

”تم۔۔۔۔۔“  اُسکے کاری وار پر حیرت کو پیچھے چھوڑ کر دانت بھینچتا وہ بےساختہ اُسکی عقل درست کرنے کو آگے بڑھا جب کچن سے باہر نکلتی نفیسہ بیگم نے بروقت اُسکے بےقابو عضو جکڑلیے۔

”حاویہ تم ابھی۔۔۔۔ارے بختی بیٹا تم کب آئے۔۔۔۔؟؟؟“  وہ جو مگن انداز میں ماتھے پر آیا پسینہ پلو سے پونچھتی حاویہ کی خبرگیری کے لیے کچن سے باہر نکلی تھیں سامنے بختی کو دیکھ کر ٹھٹھک کر رکیں۔

”اسلام علیکم خالہ جان۔۔۔۔آپ  سے ملنے کو بہت دل چاہ رہا تھا تو بس سوچا  کام پر جانے سے پہلے آپکی خیرخیریت معلوم کرتا جاؤں۔۔جبھی تو میں صبح سویرے منہ اٹھا کر آپ کے گھر چلاآیا ہوں۔۔۔۔یہی کوئی دو منٹ ہی ہوئے ہیں مجھے آئے۔۔۔“  پل میں گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا وہ مسکرا کر وضاحت دینے لگا تو حاویہ شدتِ ضبط سے اپنی نازک مٹھیاں بھینچ کررہ گئی۔

اس قدر مکار شخص اُسنے شاید ہی کبھی زندگی میں دیکھا تھا۔۔

”ارے بیٹا ایسے بیگانوں کی طرح کیوں وضاحتیں دینے لگے ہو۔۔۔؟؟تمھارا اپنا  گھر ہے یہ۔۔۔جب جی چاہے آؤ۔۔۔۔“  قدرے خوش اخلاقی سے بولتی وہ حاویہ کی پلیٹ کی جانب دھیان نہیں دے پائی تھیں جہاں بچا پراٹھا آملیٹ ہنوز اپنی بےقدری پر نالاں تھا۔

”یہ تو میں بھی اچھے سے جانتا ہوں خالہ۔۔۔بس یونہی آپکو تنگ کرنے کے لیے یوں وضاحتیں دے گیا۔۔۔“  اتنی اہمیت ملنے پر شرسار ہوتا وہ ایک جتاتی نگاہ حاویہ پر ڈالنا نہیں بھولا تھا۔

”ماما۔۔۔میں جارہی ہوں۔۔۔دعا کیجیے گا کہ شیطانوں کے شرسے ہمیشہ محفوظ رہوں۔۔۔۔خدا حافظ۔۔۔۔“  اب کہ دبے لفظوں کی آڑ میں بہت کچھ جتانے کی باری حاویہ کی تھی جو اُسے شیطان کا درجہ دیتی سرعام اُسکی تذلیل کرگئی تھی۔

اُسے سینے سے رجسٹر چپکاتے دیکھ بختی کی آنکھوں میں سرخائی بھرنے لگی جو نفیسہ بیگم کی جانب مسکراہٹ اچھالتی بنا اُسے دیکھے عجلت بھرے قدم باہر کی طرف بڑھاگئی۔

”خیر سے جاؤ۔۔۔۔اللہ تمھارا حامی و ناصرہو۔۔۔۔اور تم بیٹھو بچے۔۔۔میں تمھارے لیے  ابھی چائے بنا کر لاتی ہوں۔۔۔۔“  پیچھے سے دعا دیتی وہ پل میں بختی کی جانب  متوجہ ہوئیں تو وہ چونک کر اُنکی جانب دیکھنے لگا۔

”جی۔۔۔؟؟جی خالہ۔۔۔ضرور۔۔۔۔“  اُسکے بے دھیانی میں ہامی بھرنے پر نفیسہ بیگم مسکرا کر سرہلاتی واپس کیچن میں چلی گئیں تو اُسکی سرد نگاہیں دوبارہ دہلیز کے پار جا ٹھہریں جہاں سے حاویہ کا نازک سراپا اب نظروں سے اوجھل ہوچکا تھا۔۔۔

*************************

 آج وہ تینوں خلافِ توقع اس وقت شاپنگ مال کی بلند عمارت میں موجود تھے لیکن شام کی عنایت تلے فواد اور افروز اپنی یہاں موجودگی کی وجہ سے قطعی بےخبر تھے۔اس پر مستزاد اُسکے سلے لب اُنکی برداشت مزید آزما رہے تھے۔

”یار اب کچھ بتا بھی دے۔۔۔؟؟آخر تُونے جانا کدھر ہے۔۔۔؟؟کب سے فضول میں ہمیں اِدھر اُدھر گھمائے جارہا ہے۔۔۔۔“ میانہ روی سے اوپر کو رینگتی سیاہ سیڑھیاں باقیوں کی طرح اُن تینوں کا بوجھ بھی بآسانی سہتی اُنھیں تیسرے فلور پر لے جارہی تھیں جب فواد بےصبرا ہوتا بولا۔

”پٹر پٹر بند کر۔۔پتا چل جائے گا ابھی۔۔۔۔“  اُسکی تلخی پر ناپسندیدہ نظروں سے اُسکی جانب گھورتا وہ بھرپورسنجیدگی سے بولا اور اگلے ہی پل اپنے قدم چمکتے فرش پر جماگیا تو اُسکے ہمراہ ہوتا فواد منہ بسورکررہ گیا۔افروز بھی کندے اچکاتا دو اسٹیپ ایک ساتھ پھلانگ کر اُن کے ہمقدم ہوا۔

اب وہ تینوں ناک کی سیدھ پر چل رہے تھے جب شام یکدم بائیں سائیڈ مڑتا جیولرز ایریا کی جانب بڑھا۔

”او بھئی۔۔۔غلط ٹریک پر جارہا ہے۔۔۔۔؟؟؟“  اُن دونوں کا حیران ہوکراُسے ٹوکنا بےساختہ تھا۔

اُنکی ہنوز بےخبری پر شام کے لب بےاختیار مسکراہٹ میں ڈھلے۔

”شام خود کے لیےکبھی غلط ٹریک چوز نہیں کرتا اور اگر ٹریک غلط ہو بھی جائے تو اُسے اپنے طریقے سے درست کرنے کا ہنر جانتا ہے۔۔۔۔“ اُنھیں ہونقوں کی طرح وہیں کھڑا دیکھ کر جینز کی جیبوں میں ہاتھ پھنساتا وہ ایک غرور سے بولا پھر آنکھ دباکر مسکراتا ہوا آگے بڑھ گیا۔سو چارو ناچار اُنھیں بھی اُسکی تقلید میں چلنا پڑا۔

”وہ تو ٹھیک ہے لیکن یہاں کرنے کیا آیا ہے۔۔۔۔؟؟؟“  اُسے تیز روشنیوں میں گھری جیولری شاپ کے سامنے رکتا دیکھ فواد ہنوز ناسمجھی سے جھنجھلاکر گویا ہوا جو مایا جیولرز کا بڑا سا سائن بورڈ بغور دیکھ رہا تھا۔

”اُس دوٹکے کی لڑکی کی قیمت پوری کرنے کے لیے۔۔۔۔“  بےنیازی سے بول کر اُنھیں پیچھے حیران چھوڑتا وہ گلاس وال دھکیل کر شاپ میں داخل ہوچکا تھا جب وہ بھی ہوش میں آتے اُسکے پیچھے لپکے۔خود کے یہاں ہونے کی حقیقی وجہ اُن اب جاکر سمجھ میں آئی تھی جبکہ حرمین کی بابت اُنھیں اپنے جگری یار کے ارادے اور انداز حقیقتاً سوچ میں ڈال گئے۔

”یس سر۔۔۔۔؟؟؟ہاؤ کین آئی ہیلپ یو۔۔۔۔؟؟“  تین لڑکوں کو آگے پیچھے اندر آتا دیکھ شلوار سوٹ میں ملبوس جیولر قدرے اخلاق سے بولتا اُن کی جانب لپکا۔چمکتی نظروں سے اُنھیں سر تا پیر بغور دیکھتے اُسے انداز ہوچکا تھا کہ آج  اُسکے ہاتھ بھاری گاہک لگے ہیں جبھی وہ اپنے ایک ملازم کو بھی ٹھنڈا لانے کا اشارہ کرچکا تھا۔

وہاں  پہلے سے ہی  بیٹھ کر ٹاپس دیکھتی عبائے میں موجود دو لڑکیوں نے بھی نظر بھر انھیں دیکھا جو شکل سے ہی کسی امیر کبیر خاندان کے سپوت لگ رہے تھے۔

”مجھے جو سب سے ذیادہ ایکسپینسیو رِنگز ہیں وہ دکھاؤ۔۔۔۔“   چئیر کھینچ کر بیٹھتا شام بےتاثر لہجے میں بولتا ٹانگ پر ٹانگ جما چکا تھا جبکہ اُسکے پہلو میں نشستیں سنبھالتے افروز اور فواد نے کونے میں بیٹھی اُن لڑکیوں کو نظربھرکر گھورا جو خود کے لیے ٹاپس پسند کرنے میں ہنوز تذبذب کا شکار تھیں۔

”شیور سر۔۔۔۔“  خوشدلی سے مسکراتا وہ کچھ ہی پلوں میں پھرتی دکھاتا شام کے آگے چمچماتی انگوٹھیوں کے تین کیس رکھ چکا تھا۔

”یہ دیکھیں سر۔۔۔۔آپکے کہے کے مطابق یہ سب سے ذیادہ ایکسپینسیو رِنگز ہیں۔۔۔اور ڈیزائنز بھی ایکدم نیو ہیں۔۔۔“  اُسے خود کے مال کی جانب قائل کرتا وہ اُسے چن چن کر سب سے نفیس اور مہنگی رنگز دکھا رہا تھا لیکن مقابل پر پھر بھی کچھ خاص اثر نہیں پڑا تھا۔

”نو۔۔۔۔اٹس ناٹ ایمپریسو۔۔۔کچھ اور دیکھاؤ۔۔۔۔“  شیشے کے کاؤنٹر پر دھڑے کیس کو ہلکا سا پڑے کھسکاتا وہ کچھ بےزاری سے بولا۔

زندگی میں پہلی بار صنفِ نازک کے لیے جیولری خریدتا شام ہر معاملے کی طرح اِس معاملے میں بھی کافی چوزی ثابت ہوا تھا۔

اپنی دال گلتی نہ دیکھ کر جیولر کی مسکراہٹ معدوم پڑتی سمٹی لیکن پھر اگلے ہی پل وہ زبردستی مسکراتا سر ہلا کے دیوار میں نصب بڑی سی الماری کی طرف پلٹا۔

”آپ سیکنڈ رو میں جو وائٹ سٹون والے ٹاپس ہیں وہ سلیکٹ کرلیں ناں۔۔۔بہت جچے گے آپ پر۔۔۔۔“  کہنی کے بل قدرے آگے کو جھکتا افروز لبوں پر خوشامدی مسکراہٹ سجائے اپنی طرف بیٹھی لڑکی سے مخاطب ہوا تو وہ چونک کر کچھ حیرانگی سے اُسکی جانب دیکھنے لگی۔

”بیلیومی۔۔بیوٹیفل گرل۔۔۔۔“  اُسکےنظریں ملانے پر بےباکی سے آنکھ دباکر یقین دہانی کرواتا وہ اُسے سیٹ کرنے کے چکروں میں تھا مگر اُسکی سوچ کے برعکس وہ لڑکی بری طرح سٹپٹاتی سیاہ چادر میں لپٹا خود کا سادہ چہرہ سرعت سے پھیرگئی۔

معاً افروز کی بجھتی نگاہیں دوسری لڑکی کے ضبط سے سرخ ہوتے چہرے پر پڑیں جو غصے سے اسی کو گھور رہی تھی۔وہ شاید اُسکی بہن تھی جسے اُسکا ٹھرکی جھاڑتا انداز قطعی پسند نہیں آیا تھا۔اگلے ہی پل سنجیدگی سے گہرا سانس بھرتا وہ شریف سا سیدھا ہوکر بیٹھ گیا لیکن اپنی جانب تکتے فواد کو دیکھ کر وہ خجل پڑا تھا جسکی دبی ہنسی صاف بتارہی تھی کہ وہ تمام کاروائی سے خاصا حِظ اٹھا چکا ہے۔

”دانت اندر کر نہیں تو پنچ مارکے توڑدوں گا۔۔۔۔“  اُسے ہنوز کولگیٹ کی تشہیر کرتا دیکھ وہ دھیمی آواز میں غرایا تو اچانک سماعتوں سے ٹکراتی شام کی بھاری آواز اُن دونوں کی توجہ اپنی جانب کھینچ گئی۔

امم۔۔۔ایسا کرو تم مجھے وہ والا نیکلس دیکھاؤ۔۔۔“  ٹھوڑی کو ہلکے سے کھجاتے اُسنے ٹاپ شیڈ پر رکھے گئے بلیک ویلوٹ سٹینڈ کی جانب اشارہ کیا تو شام کی نگاہوں کے تعاقب میں تھری لئیرڈ نیکلس کو دیکھتے جیولر کے لب آپ ہی آپ مسکرانے لگے۔  

”یہ لیں سر۔۔۔۔“   قدرے مہارت سے بذاتِ خود اُس سٹینڈ کو شیڈ سے  اتار کر ہاتھوں میں بھرتا وہ شام کے آگے کاؤنٹر پر رکھ چکا تھا۔

وائٹ گولڈ کی تین موٹی چین کناروں سے اکٹھی جڑی تھیں جن میں جڑے چھوٹے چھوٹے اناری نگ مرکری بلبوں کی روشنی میں چمکتے دمکتے نہایت بھلے لگ رہے تھے۔اس وقت وہ نیکلس اپنی دلکشی کے زور پر شاپ میں بیٹھے سب نفوس کی توجہ اپنی جانب کھینچے ہوئے تھا۔

تبھی ملازم بھی ہاتھ میں شیشے کی بوتلیں پکڑے اندر داخل ہوا لیکن کسی کے بھی ہاتھ نہ لگانے پر مجبوراً وہ کولڈ ڈرنکس سائیڈ پر پڑے ٹیبل پر رکھ گیا۔

”ہہمم۔۔۔۔اٹس ایمپریسو۔۔۔۔تم اسے پیک کردو۔۔۔۔“  اُسے چھوکردیکھتا وہ بنا تاخیر کیے اُسے خریدنے کا حتمی فیصلہ کرتا جیولرکا سیروں خون بڑھا گیا۔

”یارشام۔۔۔اتنا قیمتی پیس تو اُس مولانی کے لیے خرید رہا ہے۔۔۔؟؟؟مطلب کہ ہوش و حواس تو قائم  ہیں ناں تیرے۔۔۔؟؟؟“  دھیمے لفظوں میں شام کو اُسکی حماقت کا احساس دلاتا فواد اُسکی جانب جھک کر کچھ حیرت سے گویا ہوا تو جواباً وارنگ دیتی نظروں سے گھورتا وہ اُسے لب بھینچنے پر مجبورکرگیا۔۔جسکی زبان آج حد سے کچھ ذیادہ ہی چل رہی تھی۔

”نائس سر۔۔۔۔آپکی چوائس کی داد دیتا ہوں میں۔۔۔۔آپ نے مجھ سے جو ماسٹر پیس خریدا ہے وہ یقیناً آپکی مسز کے حُسن کو چار چاند لگادے گا۔۔۔۔“ بڑی پھرتی سے تھری لئیرڈ نیکلس بلیک کیس میں بند کرتا وہ اپنی بات سے شام کی سنجیدگی کو پل میں استہزائیہ ہنسی میں ڈھال گیا۔

”ہاااہ۔۔۔حُسن۔۔۔۔چیک تو کرو یارو۔۔۔بن دیکھے ہی اُس محترمہ کی خوبصورتی کے چرچے یہاں پر بھی ہونے لگے ہیں۔۔۔۔ماننا پڑے گا بھئی۔۔بہت خوش قسمت لڑکی ہے حرمین زہرا۔۔۔۔“  تمسخر اڑاتے لہجے میں اپنے دوستوں سے مخاطب ہوتا وہ جیولر سمیت اُن دو لڑکیوں کو بھی اپنی باتوں سے پل بھرکے لیے کنفیوز کرگیا۔

”یو آر رائٹ یار۔۔۔خوش قسمت تو وہ ہے۔۔۔نہیں تو اس وقت تُو یہاں  نہیں ہوتا۔۔۔۔“  مسکاتے لہجے میں بظاہر شام کی تائید کرتے اُنکا واضح اشارہ نیکلس کی طرف تھا جو اس پل اُسکی خوش نصیبی کا سرعام چرچا کررہا تھا۔

”یہ لیں سر۔۔۔۔آپکی امانت۔۔۔“  سر جھٹک کر مایا برینڈ کا بیگ اُسکے سامنے رکھتا وہ پُرسکون ہوا۔

”پرائز بولو۔۔۔۔؟؟؟“  ذرا اچک کر جینز کی پچھلی پاکٹ سے والٹ نکالتا وہ اپنے مخصوص لب و لہجے میں بولا تو جیولر کی آنکھیں چمک اٹھیں۔

”تین لاکھ۔۔۔۔“  بنا کسی رعایت کے بڑھ چڑھ کر قیمت بتاتا وہ پورے اطمینان سے گویا ہوا۔شاید وہ اچھے سے جان گیا تھا کہ مقابل بحث کرنے والا بندہ ہرگز نہیں تھا۔

”اتنی قیمت بہت ہیں اُسکے لیے۔۔۔۔۔“  خود کا کریڈٹ کارڈ جیولر کی جانب بڑھاتے ہوئے اُسکے شفاف لبوں پر معنی خیز مسکراہٹ درآئی تھی۔۔۔جبکہ مقابل کو خود کی توقعات پر پورا اترتے دیکھ جیولر کی کریڈٹ کارڈ پکڑتے باچھیں کھل چکی تھیں۔۔۔

*************************

وقفے وقفے سے حلق سے پھوٹتی مردانہ چیخیں لاک اپ کی مضبوط دیواروں  سے ٹکراتی اِن لمحوں وحشت بھرا ماحول برپا کررہی تھیں۔پسینے سے بھیگی برہنہ کمر پر سخت ضربیں لگاتے ہوئے جانے کتنی ہی بار اُسکا ڈنڈا اپنی جگہ سے پھسلا تھا پر وہ بنا لحاظ کیے پل پل اُسکے اوسان خطا کرنے میں کوئی کثر باقی نہیں چھوڑ رہا تھا۔

”صص۔۔۔صاحب جی۔۔۔۔صاحب جی۔۔۔بتاتاہوں میں۔۔۔سب بتاتا ہوں۔۔۔پر خدارا اپنا یہ ڈنڈا مجھ سے پرے ہٹالو۔۔۔۔ماں قسم میرے تمام جوڑوں میں اب شدید درد اُٹھ رہا ہے۔۔۔“  پچھلے بیس منٹوں سے مار کھاتا شیدا گرمی کی شدت اور اس پر مستزاد بدن کے مختلف حصوں پر ہوتی شدید جلن پر اب کہ جیسے اپنی تمام تر برداشت کھوچکا تھا جبھی خود پر ایک بار پھرسے ڈنڈا برسنے سے پہلے ہی اُسکے سامنے باقاعدہ ہاتھ جوڑگیا تو عائل کا ہوا میں اٹھا ہاتھ یکدم ساکت پڑتا دھیرے سے نیچے ہوا۔

”گڈ۔۔۔جلدی ہی عقل ٹھکانے لگ گئی ہے تمھاری۔۔۔مجھے تو لگا تھا کہ تم کچھ وقت مزید لوگے۔۔۔“   ہولے ہولے ڈنڈا سرخ ہتھیلی پر بجاتا وہ  مسکرایا۔فرش پر التی پالتی مار کر بیٹھے اُس پینتیس سالہ شخص کی ہٹ دھڑمی کو توڑنے کی غرض سے وہ خود بھی پسینہ پسینہ ہوچکا تھا جبکہ شیدے کو اُسکے لبوں پر رینگتی مسکراہٹ سے بھی وحشت ہوئی تھی۔مقابل کا ڈر حقیقی معنوں میں اُسکی سرخ پڑتی چمڑی میں بیٹھ چکا تھا۔

”نہ صاحب نہ۔۔۔۔میرےکو نہیں چاہیے کوئی مزید وقت۔۔۔پوچھو جو پوچھنا ہے میں سب کچھ بتانے واسطے تیار ہوں۔۔۔“  نفی میں گردن ہلاتے اُسکی آنکھیں پھرسے نم پڑیں تو آستینوں کے کف مزید اوپر کو فولڈ کرتا عائل چئیر پر ہی آگے کو کھسکتا ایکدم سے اُسکی جانب جھکا۔

”تو بتاؤ کس گروہ سے تعلق ہے تمھارا اور اس سے  پہلے تم اپنے ساتھیوں سمیت کتنے بچوں کو اغوا کرچکے ہو۔۔صرف بچوں کو ہی اغوا کرتے ہو یہاں پھر جوان لڑکیاں اٹھانے کا بھی دھندا سنبھال رکھا ہے۔۔۔سچ سچ بتانا مجھے۔۔۔؟؟؟اور یہ بات یاد رکھنا اگر کچھ بھی جھوٹ ہوا تو اس بدن کی ساری کھال کھینچ اتاروں گا۔۔۔سمجھے۔۔۔“ اُسے اچانک بالوں سے جکڑتا وہ سختی سے بولتا چلا گیا تو  پل بھرکو تکلیف سے آنکھیں میچتا وہ  مشکل سے تھوک نگل پایا۔

آج ہی اُسنے ایک دس سالہ بچے کو دن دھاڑے سنسان سڑک پرسے اغوا کرنے کی غلطی کی تھی اور عائل کے ہاتھوں بروقت پکڑے جانے کی صورت میں یہ غلطی اب اُسکے گلے کا پھندا بن چکی تھی۔

 ”نن۔۔نہیں صاحب ہم۔۔صرف بچے ہی اٹھاتے ہیں۔۔فی الحال تو ہمارے گینگ میں بس تین لوگ ہی شامل ہے۔۔۔۔میں۔۔۔میرا سالا اور بڑا بہنوئی۔۔۔یہ ایک قسم کا خاندانی گینگ ہے صاحب۔۔مشکل سے چھ مہینے ہی ہوئے ہیں ہمیں یہ دھندا کرتے کہ پھوٹی قسمت جو آپکے ہتھے چڑھ گئے۔۔۔ماں قسم صاحب جی ہم نے۔۔۔آ۔۔۔آج تک کسی ایک بھی بچے کو جانی نقصان نہیں پہنچایا۔۔۔بس فقیروں کے بھیس میں سنسان جگہوں سے بچے اٹھاتے ہیں اور اُنکے ماں باپ سے اپنی مرضی کا تاوان بھروا کر چھوڑدیتے ہیں۔۔۔اس کے علاوہ تو۔۔۔۔“ پھنسی پھنسی آواز میں بولتا وہ خود کے کالے چٹھوں کو بڑے ہلکے انداز میں تول رہا تھا جب منہ پر پڑتے بھاری تھپڑ نے اُسکی آواز حلق میں ہی کہیں اٹکادی۔

”باسط۔۔۔۔“  سیدھا ہوتا وہ دھاڑا۔

شیدا ہتھیلی ہنوز گال پر جمائے حیران سا اپنی غلطی سمجھنے کی کوشش کررہا تھا۔

”یس سر۔۔۔۔؟؟؟“  قدرے عجلت میں لاک اپ کے اندر قدم جماتے باسط نے فوری سلوٹ کیا۔ 

”اس خبیث انسان سے ساری کی ساری ڈیٹیل نکلواؤ اور اس کیس کی ایک فائل ریڈی کرکے فوراً میرے ٹیبل تک پہنچاؤ۔۔۔“  چئیر سے اٹھ کراُسکی جانب پلٹتا وہ اکھڑپن سے بولا جب پاکٹ میں پڑا موبائل فون یکدم رنگ ہونے لگا۔

”اوکے سر۔۔۔۔“  عائل کو عجلت اور بےزاری میں دیکھتے ہوئے وہ جلدی سے بولا۔

”اوشٹ۔۔۔۔“  چمکتی اسکرین پر ہیڈماسٹر کالنگ دیکھ کر وہ پیشانی مسلتے گہرا سانس بھرکے رہ گیا۔یوں معلوم ہورہا تھا جیسے وہ خود پر بڑا ضبط کررہا ہو۔

”کیا ہوا سر۔۔۔۔؟؟؟“  باسط فکرمند ہوا۔

”دیر ہوگئی۔۔۔۔“  تاسف زدہ لہجے میں جواب دیتا وہ بنا تاخیر کیے کال ریسیو کرتا موبائل فون کان سے لگا چکا تھا۔

”اسلام علیکم عبدالجبار صاحب۔۔۔جی۔۔جی مجھے سب اچھے سے یاد ہے بس اگر بیچ میں ایک ارجنٹ کام نہ پڑتا تو اس وقت میں آپکے پاس پہنچ چکا ہوتا۔۔۔۔جی بالکل۔۔۔آپ فکر نہیں کریں میں بس تھوڑی دیر میں نکلتا ہوں۔۔۔جی اوکے۔۔۔اوکے خدا حافظ۔۔۔۔“  پلکیں جھپکاتا وہ ٹھہر ٹھہر کر معذرت طلب لہجے میں نرمی سموئے بولتا جارہا تھا پھر بات پوری ہونے پر مسکرا کر کال کاٹ دی۔

”سر۔۔سب خیریت ہے۔۔۔۔؟؟؟“  ہونقوں کی طرح کھڑا وہ ذیادہ کچھ سمجھ نہ آنے پر کچھ پریشانی سے بولا۔

”ہاں خیریت ہے سب۔۔۔۔عبدالجبار صاحب کو تو تم جانتے ہی ہو اچھے سے۔۔۔دراصل وہ چاہتے ہیں کہ آج کی تقریب میں۔۔میں بطورِ مہمانِ خصوصی لازمی طور پر شرکت کروں۔۔میں چاہ کر بھی اُنھیں انکار نہیں کرپایا۔۔۔۔خیر میں پہلے ہی لیٹ ہوں۔۔۔سو اب مجھے جلدی نکلنا ہوگا۔۔۔۔“  سادگی سے تفصیلاً سب بات بتاکر اُسے پُرسکون کرتا عائل خود کی فولڈ  آستینں برابر کرچکا تھا۔وجیہہ چہرے پر کچھ لمحوں  پہلے کی نرمی کی جگہ اب فکر کے آثار نمایاں ہوئے تھے۔

”سر میں بھی چلوں ساتھ میں۔۔۔۔؟؟“  وہ ہمراہی کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا تھا سو عائل کو پلٹتا دیکھ بےاختیار بول پڑا تو جواباً وہ اُسکی جانب دیکھتا پل بھرکو مسکرایا۔

”نہیں۔۔۔تم میرے پیچھے کا سب سنبھالو۔۔۔اور اس خبیث کا سارا بیان لفظ بہ لفظ نوٹ کرلینا۔۔۔۔باقی سب میں آکر خود دیکھ لوں گا۔۔۔۔“  مٹھیاں بھینچتے اُسکا لہجہ ایکدم کرخت ہوا تو تب سے اُن کے مابین ہوتی گفتگو کو غور سے سنتا شیدا عائل کی خود کے لیے کی جانے والی تنبیہ پر ٹھٹھک کر پہلو بدل گیا۔

”یس سر۔۔۔۔“  جوشیلے لہجے میں سلوٹ مارتا وہ بآواز بلند بولا تو عائل مزید دیری کیے لمبے ڈگ بھرتا لاک اپ سے باہر نکل گیا۔ 

”اُدھر کیا دیکھتا ہے سالے۔۔۔اِدھر میری طرف دیکھ اور بنا رکے شروع ہوجا۔۔شاباش۔۔۔۔“  شیدے کا جبڑا پکڑ کر اپنی اوڑھ جھٹکا دیتا باسط اب عائل کی سیٹ سنبھالے اپنی آستینیں اوپر چڑھا چکا تھا جبکہ خود کو سترویں بار کوستا شیدا اس نئے وبال  کے لیے خود کو قائل کرتا اب دھیرے دھیرے لب ہلانے لگا۔۔۔

************************

س حرمین۔۔۔۔“ ڈائس کے سامنے کھڑے سر حمزہ کی سپاٹ آواز کلاس میں گونجی تو اپنے نام کی پکار پر اُسنے چونک کر سراٹھاتے اُنکی جانب دیکھا۔خفیہ طور پر شیٹ پر پھرتی سے چلتی پین کی نوک ساکت ہوئی تھی۔

”ی۔۔۔یس سر۔۔۔۔؟؟؟“ عادتاً اپنا چشمہ صحیح سے ناک پر ٹکاتی وہ محتاط سی سیٹ سے اٹھتی ہکلائی۔اُسے قطعی امید نہیں تھی کہ سر حمزہ سب سے پہلے اُسے مخاطب کریں گے۔۔

”اپنی اسائمنٹ لائیں پلیز۔۔۔۔۔“ سیاہ و سفید مونچھوں پر اطمینان سے انگلیاں پھیرتے وہ اُسکے سانولے چہرے کا زرد پڑتا رنگ صاف دیکھ سکتے تھے۔گوکہ انہوں نے اپنے تجربے کی بناء پر صحیح وقت پر صحیح شکار پکڑا تھا۔

”آئی سیڈ اسائمنٹ۔۔۔۔کم آن۔۔۔۔چیک می۔۔۔“ اُسے اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوتے دیکھ وہ اِس بار قدرے اونچا بولے تو وہ بھی چند پلکیں جھپکاتی جیسے ہوش میں آئی۔

ساری کلاس کی توجہ اب کہ حرمین پر سمٹ کر رہ گئی تھی۔

”سوری سر۔۔۔پر وہ مجھ سے ک۔۔۔کمپلیٹ نہیں ہوپائی۔۔۔۔“ خشک حلق سے نکلتی دھیمی آواز بھری کلاس میں گہری خاموشی کے باعث صاف سنائی دی تو اُسکے پہلو میں بیٹھی علیزہ اسکی فکر میں بےچین سی ناخن چبانے لگی جسکی خودکی اسائمنٹ نامکمل تھی۔

”واٹ ڈویو مین بائے کمپلیٹ نہیں ہوئی۔۔۔۔؟؟مس حرمین آپکو کچھ اندازہ بھی ہے کہ آجکل آپ کس لاپرواہی کا مظاہرہ کرتی پِھر رہی ہیں۔۔۔۔؟؟آئی تھنک نو۔۔۔۔یو ہیو نو آئیڈیا آباؤٹ یور اوبجیکشنل جینجز۔۔۔۔۔۔“ ماتھے پر ناگواری کے بل ڈالتے اُنکی پُھرتیلی آواز میں پل پل تلخی گھلنے لگی جب وہ پل بھر کے لیے سانس لینے کو رکے۔

اُن کے برہم رویے پرحرمین کی آنکھوں میں گھلی حیرت تیزی سے نم پڑنے لگی تو گہرا سانس بھرتے اُنھوں نے اپنی منقطع گفتگو کا سلسلہ پھر سے جوڑا۔

”شاید آپ یہ بات بھول رہی ہیں کہ لکیلی آپکا شمار یونی کے ٹاپرز میں ہوتا ہے۔۔۔اور ایسے میں اگر آپکی اسٹڈیز کو لےکر ٹیچرز کو شکایات ہونے لگیں تو یہ آپ سمیت ہم سب کے لیے انتہائی قابلِ افسوس بات ہے۔۔۔کیا وجہ ہے جو آپ اس لیول تک پہنچ گئی ہیں۔۔۔؟؟؟“ غصے میں اُسے بہت کچھ باور کرواتے اُنھیں حرمین کی بابت حقیقتاً افسوس ہورہا تھا جو گزشتہ کچھ دنوں سے اُن سمیت مزید ایک دو ٹیچر کی نظروں میں آچکی تھی۔

جبکہ وہ۔۔۔سرحمزہ کے شکایتی لفظوں پرسرجھکائے کھڑی دھندلائی نظروں سے اپنے لمبے شفاف ناخنوں کو گھورتی کچھ بھی بولنے کے قابل نہیں بچی تھی جنھوں نے پچھلی بار کی طرح اس بار اُسکے حساس پنے کا بھرم رکھنے کی بالکل بھی کوشش نہیں کی تھی۔۔الٹا کسی بم کی طرح اُس پر پھٹ پڑے تھے۔

کئی سٹوڈنٹس کے چہروں پر حیرت کی پرچھائیاں رقصاں تھیں تو کچھ کے لبوں پر حظ اٹھاتی مسکراہٹیں مچل رہی تھیں۔

”سر جی۔۔۔جب لائق فائق سٹوڈنٹس عشقیہ لوجی کے چکر میں پڑجائیں ناں۔۔تو پھر اِن فضول پڑھائی ڈگریوں کے چکر میں نہیں پھنستے۔۔۔۔“ جبھی لاسٹ بنچ سے کوئی من جلی اپنی پونی ٹیل کو مزید کستی تمسخرے پن سے بآواز بلند گویا ہوئی تو بےاختیار کلاس میں اٹھتا دبی دبی ہنسی کا شور حرمین کو اہانت کے شدید احساس تلے پلوں میں سرخ کرگیا۔سٹرکٹ ٹیچر کی موجودگی میں خود کی پرسنل لائف پر بھری کلاس میں مزے سے کیے جانے والا طنز بھرا تبصرہ سن کر حرمین کا دل کیا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔بےساختہ چشمے کے پار گہری سیاہ آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کر اُسکی گالوں پر پھسلے تو نتھنے پھولاتی علیزہ نے ملامتی نظروں سے سب کی لطف لیتی ہنسی کو دیکھا۔

ایسے میں لب بھینچ کر یک ٹک حرمین کی جانب سنجیدہ نگاہوں سے تکتے قیصر غازی کا دل شاید پہلی بار اُسکے معاملے میں بےچین ہوتا پھڑپھڑایا تھا۔۔۔کیوں۔۔۔؟؟یہ وہ خود بھی نہیں جان پایا تھا۔

”جسٹ کیپ کوائیٹ سٹوڈنٹس۔۔۔۔۔“ حرمین کی بابت اُس لڑکی کی بات پر پل بھر کو چونکتے سرحمزہ سخت لہجے میں بولے تو اُنکی ڈپٹ پر جلد ہی کلاس میں گہرا سکوت چھاگیا۔

”آئی نو مس حرمین۔۔۔۔ایشوز الموسٹ ہر انسان کو ہی ہوتے ہیں لیکن اسکے پیچھے اپنا فیوچر داؤ پر لگا دینا کوئی عقل مندی نہیں بلکہ ایک ناقابل برادشت حماقت ہے۔۔۔سب جانتے ہیں کہ میں ہمیشہ ہی آپ جیسے لائق فائق سٹوڈنٹس کی دل سے قدر کرتا آیا ہوں۔۔لیکن اُن سے ایسی لاپرواہی کی توقع ہرگز نہیں رکھتا جسکا مظاہرہ فی الوقت آپ کررہی ہیں۔۔۔“ خود کے لہجے میں کچھ نرمی لاتے وہ حرمین کی جانب دیکھتے ہوئے ہنوز سنجیدگی سے بولے جو برائے نام بھیگی پلکیں جھپکا جھپکا کرمزید بہتے آنسوؤں کو اندر اتارنےکی ناکام کوشش میں لرز رہی تھی۔

”ا۔۔۔ایم سوری سر۔۔۔آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔۔۔“ سرحمزہ سے بمشکل سرخائی گھلی نم نگاہیں ملاتی حرمین نے منمناتی آواز کانپتے لبوں سے نکالی تو اُسکی معذرت پر سرہلاتے وہ گہرا سانس بھرکے رہ گئے۔

معاملہ سرد پڑتا دیکھ بہت سے سٹوڈنٹس عدم دلچسپی کا اظہار کرتے واپس سابقہ سرگرمیوں میں مصروف ہوچکے تھے جبکہ کچھ کی چہ مگوئیاں ہنوز برقرار تھیں۔

”معذرت کرنے کی بجائے اگر آپ خود کو پہلے جیسا بنانے کی کوشش کریں گی تو مجھے ذیادہ خوشی ہوگی۔۔۔اینڈ آئی ہوپ کہ میری بات کا مان رکھتے ہوئے آپ آئندہ اپنے کسی بھی ٹیچرکو شکایت کا موقع ہرگز نہیں دیں گی۔۔۔آئی ایم رائٹ۔۔۔؟؟“ اس بار ہولے سےمسکراتے وہ نرم تنبیہ سمیت خود کی امیدیں بھی اُس پر واضح کرگئے تو بےاختیار اقراری انداز میں زورشور سے اثبات میں سر ہلاتی وہ بے احتیاطی سے گال رگڑگئی۔

اُسکا یہ بچوں کا سا انداز دیکھ کر قیصر غازی کے لب بےاختیار نرم مسکراہٹ میں ڈھلے۔۔اگلے ہی پل وہ سر جھٹکتا سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔

”گڈ۔۔۔۔سِٹ ڈاؤن پلیز۔۔۔۔“ ڈائس سے مارکر اٹھاتے سر حمزہ نرمی سے بولتے قدرے اطمینان سے بورڈ کی جانب پلٹے تو جہاں سب سٹوڈنٹس اُنکا لیکچر کورے صفحات پر اتارنے کو چوکنا ہوئے وہیں بورڈ پر تیزی سے بکھرتے لفظوں کو تکتی حرمین کی سوچیں ناچاہتے ہوئے بھی پھرسے بے لگام ہوتیں شام کی طرف موڑی تھیں جو حقیقتاً اُسکے بگاڑپن کی وجہ بنتا جانے کیوں دو دنوں سے یونی نہیں آرہا تھا۔۔۔

*************************

وہ اس وقت آفس کے منی کچن میں کھڑی مصروف سے انداز میں کافی کے لوازمات سمیٹ رہی تھی۔خود کے لیے بنائی گئی گرم کافی کا کپ شلف پر رکھتے اُسنے بےاختیار اپنی دکھتی کنپٹیاں دبائیں پھر لاپرواہی سے سر جھٹک کرسمیٹا گیا سامان واپس کیبن میں رکھتی سنک کی جانب بڑھی۔نل کھول کر ہاتھ دھونے کے بعد جونہی وہ پلٹی تو سامنے کھڑے شاہ کو کافی کا بلیک کپ لبوں سے لگائے دیکھ بےساختگی میں منہ سے نکلتی چیخ کو نم ہتھیلی تلے دباگئی۔معاً اُسکے دماغ میں درد کی قابلِ برداشت ٹیس اٹھتی مدھم پڑی تھی۔

”آپ ٹھیک ہیں مس آبرو۔۔۔۔؟؟؟“ استہزائیہ مسکراہٹ لبوں پر بکھیرتا وہ انجان بنا تو زور پکڑتی دھڑکنوں پر آہستہ سے ہاتھ رکھتی وہ بےاختیار اثبات میں سرہلاگئی۔

کتنے دنوں بعد وہ مقابل کے لبوں پر بکھری شوخ مسکراہٹ دیکھ رہی تھی۔۔ورنہ تو اُس روز کی تلخ کلامی کے بعد سے اُن دونوں میں سنجیدگی و اجنبیت کی ایک دیوار سی کھڑی ہوگئی تھی جسے کچھ سپیس کے بعد ریزہ ریزہ کرنے والا خود شاہ ہی تھا۔

”اگر آپ کو کافی چاہیے تھی۔۔تو آپ مجھے بول دیتے سر۔۔۔۔میں پھرسے بنادیتی۔۔۔۔“ اُسکی کافی کی طلب کا احساس کرتی وہ سادگی سے بولی جو بلاتکلف اُسے دیکھتا برابر گھونٹ بھررہا تھا۔۔حالانکہ وہ پہلے ہی اپنی کافی پورے وقت پر لے چکا تھا۔

”آپ نے مجھے بولنے کی ضرورت پیش ہی کب آنے دی مس آبرو۔۔۔۔؟؟بن کہے کافی بھی بن گئی اور اب میں آرام سے کھڑا پی بھی رہا ہوں۔۔۔۔آپ میری طلب بہت اچھے سے سمجھتی ہیں۔۔۔آئی ایم ایمپریسڈ۔۔۔“ شیلف پر ہنوز ایک ہاتھ ٹکائے اطمینان بھرے لہجے میں بولتا وہ اُسے لانبی پلکیں جھکانے پر مجبور کرگیا جو چاہ کر بھی اپنے دکھتے سر کی بابت اُسکی غلط فہمی کا علاج نہیں کرپائی تھی۔

”آپ کو۔۔کوئی کام تھا مجھ سے۔۔۔۔؟؟؟“ چند لمحے چیختی خاموشی کی نذر ہوئے تو مقابل کھڑے اُس شخص کی بھوری نگاہوں کے پُرتپش ارتکاز پر انگلیاں چٹخاتی وہ جلدی سے بول پڑی۔لرزتی پلکوں تلے گہری نیلی نگاہیں ذرا کی ذرا اٹھتی شاہ کے وجیہہ نقوش کا شدت سے دیدار کرگئی تھیں۔

”کام۔۔۔۔“ وہ ایک قدم کے فاصلے پر اُسکے قریب رکتا اِس بار گھمبیر لفظوں سے اُسکا دل دھڑکانے کا ارادہ رکھتا تھا کہ تبھی کوئی اچانک ادھ کھلے دروازے کو پورا کھول کر دھڑلے سے اندر آیا۔شاہ چونک کر پلٹا اور ناگوار نظروں سےٹھٹھک کر رکتی سمن کو دیکھا۔آبرو بھی کچھ جھجکتی ہوئی پیچھے ہٹی تھی۔

”ایکسکیوزمی سر۔۔۔میٹنگ روم میں سب آپکا ویٹ کررہے ہیں۔۔۔۔“ مشکوک نظروں سے آبرو کو گھورتی وہ بظاہر آرام سے بولی تو مٹھیوں کو بھینچ کر پل میں کھولتا وہ مجبوراً سر کو جنبش دے گیا۔

”ہہمم۔۔۔آپ جائیں۔۔۔آرہا ہوں میں۔۔۔۔“ کپ ہنوز ہاتھ میں دبوچے وہ سرد مہری سے گویا ہوا تو سمن اُسکے بگڑتے تیوروں پر صبر کے گھونٹ بھرتی مروتاً مسکرا بھی نہ سکی۔آبرو کے سامنے شاہ کا بیگانہ سا رویہ اُسے خود کی تذلیل کا احساس دلاگیا تھا۔

”اوکےسر۔۔۔۔“ اُسکے آڈر پر مرتی کیا نہ کرتی کہ مصداق سپاٹ لہجے میں بولتی وہ وہاں سے نکل گئی لیکن جانے سے پہلے آبرو کی دلکش نگاہوں میں بھرتی چمک سخت نظروں سے دیکھنا نہیں بھولی تھی۔

دروازہ بند ہونے کی آواز پر شاہ گہرا سانس بھرتا پھر سے اُسکی جانب متوجہ ہوا۔

”آئی تھنک یہ کافی آپ نے اپنے لیے بنائی تھی جوغلطی سے میں نے ٹیسٹ کرلی۔۔۔۔“ ادھ بھرا کافی کا مگ ذرا سا اوپر اٹھاتا وہ کچھ تاسف سے بولا تو اُسکے یوں اچانک اپنی غلطی پوائنٹ آؤٹ کروانے پر وہ پل بھر کو گڑبڑاتی انکار میں سر ہلاگئی۔

”ناٹ آ بگ ایشو سر۔۔اٹس اوکے۔۔۔۔میں۔۔۔میں اپنے لیے دوسری بنالوں گی۔۔۔“ دھیمے سےمسکراتے ہوئے اُسنے شاہ کو اپنی نرم دلی سے آگاہ کیا تھا جب وہ نفی میں سر جھٹکتا پھر سے اُسکے قریب آیا۔

آبرو کی مسکراہٹ سمٹی تو دل نے بےاختیار ایک بیٹ مس کی۔

”اب میں اتنا بھی ظالم نہیں ہوں جو آپکو مزید زحمت سے دوچار کروں۔۔۔یہ لیجیے اپنی کافی۔۔۔۔اینڈ ایم شور۔۔۔اسے پینے کے بعد آپکا سر درد بھی پوری طرح ختم ہوجائے گا۔۔۔۔“ کافی کا کپ اُسکے ہاتھوں میں پکڑاتا وہ آرام سے بولتا اُسکے نقوش پر حیرت کی چھاپ چھوڑ گیا۔

تو یعنی اُسے اندازہ تھا کہ وہ سر میں وقفے وقفے سے اٹھتی درد کی لہروں سے بےچین ہے۔مقابل کی آگاہی پرآبرو کا دل شدتوں سے دھڑکا۔۔جبکہ مقابل اُسکی گہری نیلی آنکھوں کی حیرت میں بہکنے لگا تھا۔

”آبرو۔۔۔۔“ کپ کے گرد لپٹے اُسکے لرزتے ہوئے نرم ہاتھوں پر اپنی گرفت مضبوط کرتا وہ گھمبیر آواز میں بولا تو آبرو کا سکتہ ٹوٹا۔

”جج۔۔۔جی سر۔۔۔۔“ شاید پہلی بار اُسکے سحر میں کھوتی وہ چاہ کر بھی خود کو اُس سے دور نہیں کرپائی تھی۔۔دل کے کسی گوشے میں تلخ باتوں کے واپس دوہرائے نہ جانے کا ایک اطمینان بھی تھا۔

مگر یہ کیا۔۔۔ گلابی حجاب میں کھلتے اُسکے گلاب نقوش شدت سے ازبر کرتا شاہ حدود پھلانگنے کے ڈر سے جھٹکے سے اُس سے دور ہوا تھا پھرضبط سے سرخ پڑتی نگاہیں اُس پر ڈالتا سختی سے لب بھینچے بنا خاموشی سے دروازہ کھول کر وہاں سے نکل گیا۔

سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا تھا کہ پیچھے تنہا کھڑی آبرو حیران سی دروازے کو دیکھتی رہ گئی جہاں سے وہ دہلیز پھلانگ کر باہر گیا تھا۔معاً اُسنے ہاتھ میں پکڑی کافی کو بغور دیکھا پھر منتشر دھڑکنوں کا شمار کرتی کپ کو لبوں سے لگاگئی جو بدقسمتی سے ٹھنڈی پڑ چکی تھی۔۔۔لیکن کافی کا ذائقہ اُسکے منہ میں گھلتا اُسکے دماغ میں ایک عجیب سی ٹھنڈک بھرتا چلا گیا۔۔۔اگلے ہی پل ایک ناقابلِ فہم مسکراہٹ اُسکے پنکھری لبوں پر بکھرتی اُسکی نگاہوں کی چمک مزید بڑھا گئی تھی۔۔۔

*******************************

سفید روشنیوں میں گھرے اِس بڑے سے ہال میں بیٹھے تقریباً سب ہی لوگ،چند اہم شخصیات سمیت۔۔۔روسٹرم پر کھڑی اُس لڑکی کی پُرجوش تقریر سن رہے تھے جسکے کپکپاتے لبوں سے پھسلتے صاف لفظ اُن سب کی توجہ شدت سے اپنی جانب کھینچے ہوئے تھے۔

” کہ ہم۔۔۔سمندروں کا سینہ چیڑ کر۔۔پہاڑوں کے ذرے ذرے کو جھنجھوڑ کر۔۔ہواؤں کا رخ موڑ کر فتح یاب رہے اور یہ سچے لوگ تھے جنھوں نے عشق سے آگے کی ٹھانی۔۔صدرِ عالی وقارمگر افسوسسس۔۔۔۔۔مگر افسوس یہ عشق پھر بھی ناکام نکلا۔۔۔۔“ مائیک کی بدولت پورے ہال میں گونجتی اُسکی ولولہ انگیز آواز اور شفاف سطح پر بجتی ہتھیلی کی تھاپ اطراف میں چھائے سناٹے کو وقفے وقفے سے توڑ رہی تھی۔اُسکا لہجہ،انداز،پھر لفظوں کا اتار چڑھاؤ حقیقتاً پُراثر اور قابلِ ستائش تھا۔

تبھی وہ بھی پٹتی تالیوں کے درمیان عبدالجبار صاحب کے ہمراہ مصروف انداز میں باتیں کرتا ہال میں داخل ہوا۔لبوں پر تازگی بھری مسکراہٹ رقصاں تھی۔اُسکے نرم تیور دیکھ کر کوئی کہہ ہی نہیں سکتا تھا کہ وہ پولیس اسٹیشن میں کسی مجرم کی اچھی خاصی کٹائی کرکے یہاں آیا تھا۔۔۔۔

”ویسے تو آپ نے کئی دم دار تقریریں اپنے فرض کے پیچھے مس کردی ہیں عائل صاحب لیکن پھر بھی میں آپ سے یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ۔۔۔اتنی بھی دیر نہیں کی مہربان آتے آتے۔۔۔قوم کا حقیقی جوش تو اب بولنے پر آیا ہے۔۔۔“ مضبوط لہجے میں اپنی بات باور کرواتے عبدالجبار صاحب نے فخریہ مسکراہٹ لبوں پر سجائے بےاختیار اسٹیج کی جانب اشارہ کیا تو دور سے ہی نسوانی آواز سماعتوں میں گھولتا وہ بےاختیار سراٹھا گیا۔

اگلے ہی پل اُسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا۔سفید یونیفارم پر جامنی حجاب کیے وہ لڑکی یقیناً حاویہ تھی جو اپنی بے دھیانی میں اُسکی موجودگی سے ہنوز انجان سب پر اپنے ہنر کا جادو بکھیررہی تھی۔خوشگوار حیرت پر عائل کی چال سست پڑتی یکدم تھمی تو اُسکے یوں چونکنے پر عبدالجبار بھی رک گئے۔

”کیا ہوا اے۔ایس۔پی صاحب۔۔۔۔؟؟آپ رک کیوں گئے۔۔۔۔؟؟چل کے بیٹھتے ہیں ناں وہاں۔۔۔“ اُسکی کیفیات سے مکمل بےبہرہ انھوں نے اُسکی توجہ سٹیج کے قریب رکھی گئیں مخصوص نشستوں کی جانب کروانا چاہی تو اُس نازک لڑکی کے سحر میں گم وہ محض سر ہلاکررہ گیا۔ گہری سیاہ نگاہیں ہنوز اُسکے بولتے نقوش پر تھیں۔اُسکے سامنے ہمیشہ ہکلاکر بولنے والی وہ نازک سی لڑکی آج بناجھجھکے اپنے تیز لفظوں کا ریلہ بہائے جارہی تھی۔دھڑکتے دل کے ساتھ اُسکے لب آپ ہی آپ مسکرانے لگے تو اُسے اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوتے دیکھ عبدالجبار صاحب ناسمجھی سے اُسے گھورتے کچھ حیران ہوئے جو اب جیبوں سے ہاتھ باہر نکالتا چوڑے سینے پر لپیٹ چکا تھا۔

بار بار خشک پڑتے لبوں پر زبان پھیرتے حاویہ نے خود کے آگے دھڑے پیج پر ایک سرسری سی نگاہ ڈالی جہاں بیچ و بیچ بلو مارکر سے واضح کیا گیا اقبال کا شعر اُسے مزید چوکنا کرگیا۔معاً گہرا سانس بھرتے اُسنے جھکا سر اٹھایا۔

” کھول آنکھ۔۔زمین دیکھ۔۔فلک دیکھ۔۔فضا۔۔د۔دیکھ۔۔۔۔“ دلنشین ادا سے بولتی وہ شاید اس بار بھی اطراف میں بھٹکتی خود کی نگاہیں بےنیازی سے پھیرلیتی جو اگر ایک خاص مرکز پر ٹھٹھک کر رکتی پوری طرح سے کھل نہ جاتیں۔

پولیس یونیفارم میں مسکراتے ہوئے پُرشوق نظروں سے اُسے تکتا وہ اے۔ایس۔پی عائل حسن ہی تھا۔آنکھوں میں پوری طرح اترتی شناسائی پر بےاختیار اُسکے دل کو دھڑکا لگا۔پورے ہال میں پل بھرکو سناٹا چھاگیا۔

چند پلوں کا کھیل تھا۔۔نظروں سے نظریں ملی تھیں اور اگلے ہی پل حاویہ کے دماغ کی سلیٹ پر تحریر بقیہ الفاظ چھوووو کرکے اُڑے تھے۔

آدھے شعر پر اُسکی طول پکڑتی خاموشی نے وہاں بیٹھے سبھی حضرات کو چونکنے پر مجبور کردیا۔تیسری رو میں چئیر پر بیٹھ کر دلچسپی سے حاویہ کی جانب دیکھتی نیناں کی مسکراہٹ بھی اپنی دوست کی بدلتی حالت پر سمٹی تھی۔

”بولو بچے۔۔شاباش گھبراؤ نہیں۔۔۔“ اُسکے نقوش پر بکھرتی زرد رنگت دیکھ سٹیج کے قریب صوفے پر بیٹھے قعلہ کالج سے آئے ہیڈ ماسٹر نے قدرے نرم آواز میں اُسے تسلی دی تو لب کاٹتے ہوئے اُسکی کانچ سی بھوری آنکھیں تیزی سے بھیگتی چلی گئیں۔

کیسے بولتی۔۔۔؟؟دل دھڑکاتے اُن وجیہہ نقوش کے سوا جب کچھ یاد ہی نہیں رہا تھا تو کیونکر اپنے لرزتے لبوں پر بھولے بھٹکے لفظوں کا تعین کرتی۔۔۔۔؟؟

جبھی وہ بےبسی سے مٹھیاں بھینچتی شرمندگی تلے سرجھکاگئی۔اچانک پلٹا کھاتی صورتحال پر ہوش میں آتا عائل مضطرب سا سینے سے بازو ہٹاتا سیدھا ہوا۔لبوں کی دلکش مسکراہٹ سمٹتی اب بھرپورسنجیدگی میں ڈھلی تھی۔

عبدالجبار صاحب بھی اس بگڑتے معاملے پر حیران پریشان ہوئے تھے۔

”اوہ۔۔۔لگتا ہے بھول گئی ہے۔۔۔۔بیچاری۔۔۔۔اکثر ایسا ہوتا ہے۔۔۔ویسے اسپیچ اچھی کررہی تھی یہ لڑکی۔۔۔برا ہوا اس کے ساتھ۔ ۔۔۔اگر بھولتی نہیں تو فرسٹ پوزیشن ضرور لے جاتی۔۔۔“ ایسی بہت سی چہ مگوئیاں اردگرد ہوتی حاویہ کی سماعتوں میں زہر کی مانند گھلنے لگیں تو اناؤنسر کو فکرمند سا اپنی جانب آتا دیکھ برداشت کھوتی وہ تیزی سے اسٹیج سے اتری پھر عائل کے چہرے پر پھیلا تفکر پُرشکوہ نگاہوں سے دیکھتی اُسکے پاس سے گزرتی باہر کی جانب بھاگتی چلی گئی۔کسی نے بھی اُسے روکنے کی کوشش نہیں کی تھی۔جبکہ عائل لب بھینچے اُسے نگاہوں سے اوجھل ہوتا دیکھ اپنی انجانے میں کی گئی غلطی سے قطعی انجان تھا۔

”اہمہمم۔۔۔عبدالجبار صاحب۔۔۔ایکچولی مجھے ایک بہت امپورٹینٹ کال کرنی ہے کسی کو۔۔۔تو میں کچھ دیر تک آتا ہوں واپس۔۔۔۔“ گلا کھنگارتا وہ دھیمی آواز میں عبدالجبار صاحب کی جانب متوجہ ہوا تو خیالوں سے چونکتے وہ اُسکے بہانے سے قطعی بےخبر دھیرے سے سر ہلاگئے۔

جواباً ہولے سے مسکراتا وہ سرعت سے وہاں سے پلٹ گیا۔

اب کہ اناؤنسر مائیک کے آگے معذرت کرتا دوسری لڑکی کو اسٹیج پر آنے کے لیے کال کررہا تھا۔

عبدالجبار صاحب نے حاویہ کی بابت سوچتے تاسف سے آہ بھری۔

وہ ٹیلنٹڈ سٹوڈنٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت اچھی اوریٹر(تقریر کرنے والی)بھی تھی لیکن اب اُنکے کالج کی جیت کا دارومدار اُس سے ہٹ کر یہاں سلیکٹ کرکے لائی گی دوسری لڑکی پر منحصر ہوکر رہ گیا تھا۔۔۔جو تالیوں کی پُرزور گونج میں لبوں پر تبسم بکھیرے اسٹیج پر چڑھ آئی تھی۔

ادھر نیناں جو حاویہ کی فکر میں اُسکے پیچھے جارہی تھی عائل کو پاس سے گزر کر تیزی سے باہر جاتا دیکھ ٹھٹھک کر رکی۔اگلے ہی پل حیرت کو جھٹکتی وہ لبوں پر معنی خیرمسکراہٹ سجاگئی پھر اپنے تمام ارادے ترک کرتی واپس اپنی سیٹ پر آکر بیٹھ گئی اور دوسری لڑکی کی ہال میں بلند ہوتی آواز توجہ سے سننے لگی۔۔۔شاید وہ عائل حسن کی منزل کو بخوبی جان گئی تھی جو سیدھا اُسکی دلعزیز دوست تک جاتی تھی۔۔۔اور حقیقت بھی یہی تھی۔۔۔

************************** 

 اپنا قیمتی موبائل فون جیب میں پھنساتا وہ جیسے ہی ہال سے نکل کر باہر آیا تو گہری سیاہ نظریں بےاختیار اُسکے تعاقب میں چاروں اطراف  بھٹکنے لگیں۔چند پل بےچینی سے سرکنے پر معاً  اُسکی نگاہیں مخصوص جگہ پر سمٹ کررہ گئیں جہاں وہ قطار میں بنے چند سرسبز و شاداب درختوں کی گھنی چھاؤں تلے سرگھٹنوں میں دئیے بیٹھی اردگرد سے مکمل بےبہرہ تھی۔

اپنی تلاش پوری ہونے پر عائل نے  گہرا سانس بھرتے اُسکی جانب قدم اٹھائے۔لبوں پر پُرسکون مسکراہٹ در آئی تھی۔

”حاویہ۔۔۔۔۔“  دو قدم کے فاصلے پر رکتا وہ فکرمند سا بولا تو بھاری مردانہ آواز پر چونکتی وہ سر اوپر اٹھاگئی اور نگاہوں کی دھندلاہٹ بھگانے کو  نم پلکیں جھپکا جھپکا کرسامنے والے کا چہرہ دیکھنے کی کوشش کرنے لگی۔

”آپ۔۔۔۔؟؟؟“  اگلے ہی پل جھٹکے سے کھڑی ہوتی وہ مٹھیاں بھینچ کررہ گئی۔

”ارےتم۔۔۔تم  رو رہی ہو۔۔۔؟؟؟مگر کیوں۔۔۔۔؟؟؟“  اُسکے بھیگے رخسار دیکھ کرٹھٹھکتا وہ کچھ حیرت سے گویا ہوا تو مقابل کے یوں انجان بننے پر اُسے مزید رونا آیا۔عادتاً لبوں کے کونے نیچے لٹکاتی وہ اُسے اس پل کوئی چھوٹی بچی ہی لگی تھی جو اپنی اِس معصوم سی ادا سے اُسکا دل دھڑکا گئی تھی۔

”آپکی وجہ سے۔۔۔۔“  بھرائی آواز میں چیختی وہ اُس کی حیرت میں ڈھیروں اضافہ کرگئی۔

”میری وجہ سے۔۔۔سریسلی۔۔۔؟؟؟“  بھنوؤں کو سکیڑتے اُسنے خود کی جانب انگلی اٹھاکر جیسےتصدیق چاہی۔بھرے ہال میں سے اپنی اسپیچ ادھوری چھوڑ کر وہ آئی تھی اور اب اپنے خاموش آنسوؤں کا سارا ملبہ اُس پر ڈال رہی تھی۔

”اور نہیں تو کیا۔۔۔۔نہ آپ اپنے دیدے پھاڑ پھاڑ کے مجھے گھورتے اور نہ ہی میں اپنی اسپیچ بھول کر یہاں رونے بیٹھتی۔۔۔اتنے دن لگا کے تیاری کی تھی میں نے۔۔۔لیکن آپکی وجہ سے سب۔۔۔۔“  اپنی صفائی میں تڑخ کر بولتی ایکدم ہی اُسکی آواز صدمے کی شدت سے حلق میں اٹکی۔

”فار یور کائنڈ انفارمیشن محترمہ۔۔۔۔ میری طرح وہاں بیٹھے سب لوگ بھی آپکو دیدے پھاڑ پھاڑ کر ہی دیکھ رہے تھے۔۔۔۔“  اُسکے بھلکڑ پنے کی حقیقی وجہ جان کر پل بھر کے لیے چونکتا وہ ہنوز سنجیدہ تھا۔

”نہیں۔۔۔اُن کے اور آپکے دیکھنے میں بہت فرق تھا۔۔۔۔“  مٹھیوں سے گال رگڑتی وہ پُراعتمادی سی بولی تو  اُسکی حالت کو پیشِ نظر رکھتا وہ اپنی مسکراہٹ دبا کر رہ گیا۔

”اچھا۔۔۔؟؟کیا فرق تھا۔۔۔؟؟ذرا کھل کر ایکسپلین کرو مجھے صحیح سے سمجھ نہیں آرہا۔۔۔۔“  قدرے جھک کر اُسکی بھوری آنکھوں میں جھانکتا وہ میٹھی آواز میں بولا جب وہ اُسکی روشن آنکھوں کی گہری ہوتی چمک بغور قریب سے دیکھتی کنفیوز سی نگاہیں جھکا گئی۔دل بےہنگم انداز میں دھڑکا تھا۔

”پت۔۔۔پتا نہیں۔۔۔۔“  آنسوؤں کو روکنے کی کوشش میں نچلا لب دانتوں تلے دباتی وہ یقیناً مقابل کی لطف لیتی مسکراہٹ سے انجان تھی۔

”سیدھی طرح مان کیوں نہیں لیتی کہ تم میں کونفیڈنٹ کی شدید ترین کمی ہے۔۔۔۔؟؟کیونکہ نہ تو تم لوگوں کے سامنے کھل کے بول سکتی ہو اور نہ ہی میرے سامنے۔۔۔۔“  ایک قدم اُسکی جانب بڑھاتا وہ اِس بار چاہ کر بھی اپنی شفاف ہنسی روک نہیں پایا تھا جبھی وہ جھٹکے سے سر اٹھاتی پل بھرکو حیران ہوئی۔

”آپکو بالکل بھی اندازہ نہیں کہ آپ کس قدر بدتمیز پولیس آفیسر ہیں۔۔۔کبھی اپنی غلطی نہیں مانتے آپ۔۔۔“  اگلے ہی لمحے نازک مٹھیوں سےاُسکے مضبوط سینے پر وار کرتی وہ اُسے پیچھے دھکیلنے کی ناکام کوشش میں ہلکان ہوئی تو بےاختیار وہ اُسکی کلائیاں اپنی گرفت میں لیتا اُسے اپنی اوڑھ جھٹکا دے گیا۔اُسکے کلون کی دلفریب مہک پل میں حاویہ کے حواسوں پر چھائی تھی۔

”بدتمیز تو تم بھی ہو جو بنا اجازت ہروقت میرے دل و دماغ پر قابض رہتی ہو۔۔۔۔میں نے تم سے شکوہ کیا کبھی۔۔۔؟؟؟“  اُسکی پانیوں بھری بھوری آنکھوں میں شدت سے جھانکتا وہ اُسے پل بھرکو ساکت کرگیا۔شریں لہجہ جذبوں کی آنچ لیے ہوئے تھا۔

اسی پل کوئی وجود گارڈ کی اجازت ملنے پر بڑا سا سفید گیٹ ایک ہی جست میں پھلانگتا قدرے اشتیاق سے اندر داخل ہوا تھا۔

”اس میں بھی آپکی خود کی غلطی ہے عائل صاحب۔۔۔آپکو اپنے دل و دماغ کو میرے معاملے میں یوں بےلگام نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔۔۔۔“  شدتوں سے دھڑکتے دل کو قابوکرنے کی ناکام کوشش میں وہ نگاہیں جھکاتی دھیمے لہجے میں بولی۔مقابل کی نگاہوں کی وارفتگی سہنا اب محال ہی تو تھا۔البتہ نازک کلائیاں ہنوز اُسکی کی نرم گرفت میں تھیں۔

اطراف کا تیزی سے جائزہ لیتی بختی کی سیاہ پُتلیاں یکدم ٹھٹھکتی پورے وجود سمیت تھمی تھیں۔قدرے کونے پر سرسبز و شاداب درختوں کے پاس سفید یونیفارم میں کھڑی اُس کم عمر لڑکی پر اُسے جیسے حاویہ کا گمان ہوا تھا۔ ”اگر میں لگامیں ڈال دیتا تو یقیناً پاگل ہوجاتا۔۔۔۔اور ایک پاگل انسان کی شدتوں سے واقفیت پھر تمھاری ہی نازک جان کو مشکلوں میں ڈال دیتی۔۔۔تب بھی تم نے یقیناً مجھے ہی موردِ الزام ٹھہرانا تھا۔۔۔۔سوبہتر ہے جیسا چل رہا ہے ویسا ہی چلنے دو۔۔۔۔“  نرمی سے اُسکی کلائیاں چھوڑتا اب کہ وہ سرخائی گھلے نم گالوں کو ہلکے سے نرم پوروں سے چھوتا حاویہ کو پاگل کرنے پر اترا تھا۔

دل کی دھڑکنیں تو پہلے ہی اُسکے سنگ شور مچاتی پاگل سی ہورہی تھیں۔

 ”آ۔۔پ۔۔۔پلیز اس طرح نہیں چھوا کریں مجھے عائل صاحب۔۔۔۔“ بختی کی گہری نگاہوں کی تپش سے انجان وہ بےاختیار ہوتی عائل کے ہاتھ کو اپنی نازک گرفت میں دبوچتی گھبرائے لہجے میں بولی تو اُسکی بات سمجھتے ہوئے عائل کی مسکراہٹ سمٹ گئی۔

آگے بڑھ کر دوری کو چند قدم کم کرتا بختی حاویہ کے نقوش ایک سائیڈ سے بغور ٹٹولتا پلوں میں پُریقین ہوا تھا۔۔۔

وہ لڑکی سو فیصد اُسکی باربی ڈول ہی تھی۔۔مگر۔۔اگلے ہی پل دماغ کو شدت سے چھوتی اُس باوردی پولیس والے کی حددرجہ نزدیک موجودگی اُسکے اندر تباہیاں مچانے کو کافی تھی جسکی قربت میں وہ نازک لڑکی گلاب کی طرح مہکتی چلی جارہی تھی۔۔۔

”تمھیں شک ہے میری نیت پر۔۔۔۔؟؟؟“  اُسکی آنکھوں میں کچھ حیرت سے دیکھتا وہ سنجیدگی سے بولا۔اُسکی بےاعتباری پر دل میں چبھن سی ہونے لگی تھی۔

حاویہ اُسے اپنی بات کا غلط مطلب نکالتا دیکھ بوکھلاتی شدت سے نفی میں سر ہلاگئی۔وہ تو اُسکے بارے میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتی تھی کجا کہ شک۔۔۔بختی اور اُس میں تو زمین و آسمان کا فرق تھا۔

”نن۔۔نہیں۔۔۔بالکل بھی نہیں۔۔۔میں نے تو آپکو ہمیشہ اپنا محافظ سمجھا ہے۔۔۔لیکن۔۔۔جب آپ میرے قریب آتے ہیں ناں۔۔۔تو آپکے ذرا سے لمس پر میرا یہ دل زوروں سے دھڑکنے لگتا ہے۔۔۔۔اتنے زوروں سے کہ۔۔کبھی کبھی تو ڈرلگنے لگتا ہے کہیں میری سانسیں ہی نہ تھم جائیں۔۔۔۔“  بےبسی سے آنکھیں پٹپٹاتی وہ اُسے اپنا مسئلہ سمجھانے لگی تو اُسکی اس قدر معصومیت پر حیران ہوتا عائل ہولے سے ہنسا۔سادگی سے اپنے دل کا حال بیان کرتی وہ اُسے اندر تک سرشار کرگئی تھی۔

 کب۔۔ کہاں۔۔ کیسے دل پہ گہرا وار کرنا ہے وہ نازک سی لڑکی اپنے بھولپن میں سب جانتی تھی۔۔

”تو فائنلی تمھیں بھی مجھ سے ہوگئی ہے۔۔۔۔“  شوخ سا لب دانتوں تلے دباتا وہ اُسے الجھا گیا۔مضبوط ہاتھ ہنوز اُسکی نازک گرفت میں تھے جسے چھڑانے کی اُسنے کوشش کی بھی نہیں تھی۔

” کیا۔۔۔۔؟؟؟“  اُسکی بات پر حاویہ نے ناسمجھی سے اُسکی جانب دیکھا۔

”محبت۔۔۔۔۔لیکن چاہتی ہو کہ اظہار میں پہل میری جانب سے ہو۔۔۔“   ذرا سا اُسکی جانب جھک کر وہ رازداری سے گویا ہوا تو بےاختیار حاویہ کی ریڑھ کی ہڈی میں سنساہٹ سی دوڑگئی۔

اگلے ہی پل اُسکے پنکھری لبوں پررینگتی شرمیلی مسکراہٹ دیکھ کر عائل کے لب بھی دلکشی سے مسکرائے۔

لہو ہوتی آنکھوں سے ملن کا یہ جانلیوا منظر دیکھ کربختی نے اس قدر سختی سے مٹھیاں بھینچی تھیں کہ ہاتھوں کی نسیں باہر کو ابھرآئی تھیں۔

”یہ کیا بکواس ہے کررہے ہیں آپ۔۔۔۔؟؟؟ہوش میں تو ہیں۔۔۔؟؟؟نہیں کرنی مجھے آپ سےکوئی شادی وادی۔۔۔سنا آپ نے۔۔۔؟؟؟اپنے اس غلیظ ذہن کو لگام ڈال کر رکھیے اسی میں آپکی بہتری شامل ہے اور۔۔۔میری ماما کے سامنے ایسی بہودہ خرافات بکنے سے بھی آپ پرہیز کیجیے  گا۔۔۔۔“  معاً حاویہ کے صبح کے بولے گئے تلخ الفاظ اُسکے آس پاس شدت سے چیختے اُسکے وجود میں شرارے سے بھر گئے۔

ضبط کی حد ہی تو ہوئی تھی۔

اس سے پہلے کہ وہ عائل کو گریبان سے دبوچ کر حاویہ سے دور کرنے کی خودساختہ خواہش پوری کرنے کو تیزی سے اُنکی جانب لپکتا۔۔حاویہ پوری قوت سے عائل کو پیچھے دھکیلتی اندھا دھند اندر کو بھاگی۔۔تو جہاں عائل اُسکی بچگانہ حرکت پر بالوں میں ہاتھ پھیرتا کھل کر ہنسا تھا وہیں بختی اپنی جگہ جم کر کھڑا اُسے نظروں سے اوجھل ہوتا دیکھ دانت پیس کر رہ گیا۔تبھی جینز کی جیب میں پھنسے موبائل فون نے شور مچاتے اُسکی توجہ شدت سے خود کی جانب کھینچی تو گالی نکال کر موبائل فون سرعت سے باہر نکالتا وہ پلٹا اور کال اٹینڈ کرتے ہی کان سے لگاگیا۔اسی پل عائل نے بھی پلٹ کر انجان نگاہوں سے بختی کی پشت دیکھی پھر بےنیازی سے سر جھٹکتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

”بول کیا بیماری ہے۔۔۔؟؟؟“  بنا لحاظ کیے وہ بھڑک کر بولا تو دوسری جانب پل بھر کو خاموشی چھاگئی۔

”ار۔۔ے یار بختی۔۔۔ تُو اس وقت جہاں پر بھی ہے ناں۔۔بس سیدھا ہسپتال آجا ۔۔۔۔تیری امی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے یار۔۔۔اور وہ بار بار بس تجھے ہی یاد کرے جارہی ہیں۔۔۔“  اسپیکر سے ابھرتی دوست کی فکر کھاتی آواز اُسے کانوں میں صور پھونکنے کے برابر لگی۔

”کک۔۔ کیا بول رہا ہے یار۔۔۔؟؟ایسے کیسے امی کو۔۔۔؟؟تُو۔۔تُو مجھے ایڈریس سینڈ کر میں فوراً نکل رہا ہوں یہاں سے۔۔۔۔“  بےچینی سے منہ پر ہاتھ پھیرتا وہ بنا تاخیر کیے گیٹ کی جانب تقریباً بھاگتا ہوا لپکا۔

آج صبح ہی تو وہ اُنکو چنگا بھلا چھوڑ کر گھر سے باہر نکلا تھا۔۔۔تو پھر یہ سب اچانک کیا ہوگیا تھا۔۔؟؟

”اوکے میں کرتا ہوں۔۔۔۔تُو بس آجا۔۔۔۔“  دوسری جانب سے بات مکمل ہوتے ہی کال کٹی تھی۔

وہ جو نفیسہ بیگم کی اضافی معلومات پر یہاں خاص اپنی باربی ڈول کا تقریر کرتا جوشیلا روپ نظروں میں بھرنے آیا تھا اب جلن اور سرخی بھرتا بھاری بوجھ کے ساتھ واپس جارہا تھا۔

گیٹ پار کرنے سے پہلے اُسنے ایک بار پلٹ کر پیچھے دیکھا جہاں اب سورج کی ڈھلتی روشنی میں اپنی رونق کھوتے درختوں کے سوا وہاں اورکوئی بھی نہیں تھا۔

”بےخبری میں اپنی عاشقی کا پردہ میرے سامنے فاش کرکے تم نے اپنی بربادی کو خود دعوت دی ہے حاویہ فیضان۔۔۔۔تم پر اور تمھارے اس عاشق پر اگر میں قہر بن کر نہ ٹوٹا تو میرا نام بھی بختیار دلاور نہیں۔۔۔۔“ دونوں کو تصور میں مخاطب کرتا وہ زہرخند لہجے میں زیرِ لب بولا۔۔پھر تیزی سے گیٹ پار کرتا وہاں سے نکل گیا۔

میٹل چئیر پر گن پکڑ کر بیٹھے اُس گارڈ نے کچھ حیرت سے اُس نوجوان کو قدرے غصے میں اپنی پرانے ماڈل کی گاڑی زن سے وہاں سے بھگاتے دیکھا اور اگلے ہی پل سر جھٹکتا اطمینان سے واپس ٹیک لگاگیا۔۔۔

*************************

”ساتھ ساتھ  چلنے  والے  راہیں  کیوں  بدلتے  ہیں

  راہیں   جب   بدل   جائیں   تو   راستے   بھٹکتے  ہیں

 دور  ہو  نظر  سے  چاہے  دل کے  پاس  ہوتا  ہے

 چاہے  دو  جہاں   بھی  پالو   وہ  ہی  خاص ہوتا ہے

 مانگو میں اب کیا رب سے پایا ہے تجھ  کو جب سے

 عشق    تیرا    ہم  پہ    طاری    رقص   میں   جہاں“

وہ آج بھی کمرے سے ملحقہ ٹیرس پر کھڑے ہوکرآسمان پر پھیلی وسیع تاریکی کو بغور دیکھتا  خود کی محبت کا غم غلط کررہا تھا۔کندھوں پر دھڑی مہرون چادر خنک ہوا کے جھونکوں سے اُسکا بچاؤ کیے ہوئے تھی۔

لیکن چادر سے بےنیاز چوڑا سینہ موسم کی جنوں خیزی سے برف ہورہا تھا جس میں بھڑکتی آتش نے اُسکا پورا وجود سلگا ڈالا تھا۔اس سے پہلے کہ  انگلیوں کے بیچ دبا دھواں اڑاتا سگریٹ وہ واپس لبوں میں لیتا  کھٹکے کی آواز پر چونک کر پلٹا۔

چوکھٹ پر کھڑی ملازمہ کی تیز نگاہیں پل میں مقابل کا اجڑا اجڑا سا حلیہ دیکھتی فوری طور جھکی تھیں۔

”خان جی۔۔۔۔بیگم حضور نے آپکو یاد کیا ہے۔۔۔۔“  وہ دھیمی آواز میں بولی تو نم آنکھوں کو جھپکاتا وہ دھیرے سے سر ہلاگیا۔

”تم جاؤ۔۔۔۔میں آتا ہوں۔۔۔۔“  لہجے میں گھلا اکھڑپن اُسکے ضبط کو ظاہرکررہا تھا جو اپنا رُخ پھر سے کھلے آسمان کی جانب موڑچکا تھا۔شاید وہ اپنے بلائے جانے کی ٹھوس وجہ سے بخوبی آگاہ تھا  جبھی خود کو آنے والے کڑے لمحوں سے نمٹنے کے لیے قائل کرنے لگا تھا۔

”جی بہتر۔۔خان جی۔۔۔۔“  سالار خان کی پشت کو نظر بھر کر دیکھتی وہ وہاں سے نکلتی چلی گئی جب سلگتا سگریٹ مسل کر پڑے اچھالتا وہ گہرے گہرے سانس بھرنے لگا۔

”میں دھیرے دھیرے خود پر سے ضبط کھورہا ہوں رابی۔۔۔تمھارے بے معنی لفظوں نے جو بیڑیاں میرے پیروں میں باندھ رکھی ہیں میری ٹوٹتی برداشت اُنھیں بھی پل پل توڑ رہی ہے۔۔۔خدارا واپس آجاؤ نہیں تو تمھارا سالار خان تمھارے بغیر یونہی تڑپ تڑپ کے اپنی سانسیں گنوادے گا۔۔۔۔“  بےبسی کی انتہاؤں پر رابی کے تصور سے مخاطب ہوتا وہ بے اختیار اپنا تپتا سینہ مسل کر رہ گیا۔لبوں سے پھوٹتی یہ فریاد جانے وہ کتنی ہی بار اُس سے کرچکا تھا لیکن سننے والا تو شاید خود کے وجود سے بھی بےبہرہ تھا۔

 کچھ لمحے یونہی خاموشی سے سرک جانے کے بعد چمکتے چاند سے محروم تاریک آسمان پر سےنگاہیں ہٹاتا وہ اگلے ہی پل ٹیرس سے کمرے میں داخل ہوا اور من ہی من ایک مضبوط فیصلہ کرتا کمرے سے باہر نکل گیا۔

************************

”تم اصل حقائق کھول کر سامنے کیوں نہیں رکھ دیتے سالار خان۔۔۔؟؟آخر کیا وجہ ہے جو تم اُس معصوم لڑکی سے بیاہ کرنے سے مسلسل انکاری ہو۔۔۔؟؟؟“  اپنے خوبرو بیٹے کی خودسری پر حتمی صفائی مانگتے ہوئے خنساء بیگم کا لہجہ کرخت ہوا تو  اُنکے یوں طرز تخاطب پر وہ کچھ حیران ہوتا اُنھیں دیکھنے لگا جو آج یقیناً سب آر پار کرنے کے درپے تھیں۔

پلر کی اوٹ میں چھپ کے کھڑی اُس نازک سی لڑکی کا تیزی سے دھڑکتا دل بھی وجہ جاننے کو بری طرح مچلا تھا۔

جواباً وہ بے چینی سے بالوں میں ہاتھ چلاتا نظروں کا زاویہ بدل گیا جب اُسکی نگاہیں غیرارادی طور پر سیاہ آنچل پر پھسلتی اُسے حلیمہ کی موجودگی کا بھی پتا دے گئیں۔جبھی اُسے اپنا ہدف مزید آسان ہوتا نظر آیا۔

”سیدھا سا معاملہ ہے اماں حضور۔۔۔مجھے اُس لڑکی کی چاہ نہیں ہے۔۔۔اُسکی تو کیا۔۔۔مجھے کسی بھی لڑکی کی کوئی چاہ نہیں ہے۔۔۔تو پھر کیوں میں خود کو کسی اَن چاہے رشتے سے زبردستی باندھ کر اپنے ساتھ ساتھ کسی اور بےگناہ کی زندگی بھی جانتے بوجھتے برباد کروں۔۔۔؟؟؟“  گردن موڑ کر سپاٹ لہجے میں سادہ سا جواز پیش کرتا وہ بے حس بنا۔ آنکھوں میں اتری سرخائی اُسکے ضبط کا پتا دے رہی تھی۔اُسکی بلاوجہ کی ڈھٹائی پرخنساء بیگم نے قدرے بے چینی سے پہلو بدلا۔ 

بن ماں باپ کے پلی بڑھی دل عزیز بھانجی کا دکھ بدقسمتی سے آج اُنھیں اپنے ہی جگر کے ہاتھوں اٹھانا پڑرہا تھا جو اب ہرلحاظ سے شادی کے قابل ہوچکی تھی۔حلیمہ کو اپنی بہو کے روپ میں دیکھنے کی پاداش میں وہ گھر کی دہلیز پھلانگ کر آئے جانے کتنے ہی رشتوں کو بذاتِ خود دھتکار چکی تھیں۔۔مگر اب اُنکا خود کا بیٹا ہی اُس انمول ہیرے کو بڑے دھڑلے سے ٹھکرارہا تھا۔ہاں یہ سچ تھا کہ سالار خان نے اس رشتے کو لے کر کبھی بھی اپنی دلچسپی یا آمادگی ظاہر نہیں کی تھی جس کے لیے خنساء بیگم ہر بار اُسے مجبور کرتی تھیں لیکن اِن دنوں تو وہ صاف کوری مخالفت پر اترآیا تھا۔

”لیکن اُس بےگناہ سے تمھیں چاہنے کا جو گناہ سرزد ہوچکا ہے اُسکا کیا۔۔۔؟؟؟بچپن سے لے کر اب تک اُسنے نے اپنی آنکھوں میں صرف تمھارے حوالے سے ہی خواب سجائے ہیں سالار خان۔۔۔۔اُسکے لیے یہ زبردستی کا نہیں بلکہ چاہت بھرا رشتہ ہے جسے ٹھکرا کر تم سراسر بےوقوفی کررہے ہو۔۔۔۔“  اُسے حلیمہ کی بابت اُسکی حماقتوں کا احساس دلاتی وہ بپھڑیں۔ 

ایسے میں اپنے ڈوبتے دل کو بمشکل سنبھالتے ہوئے حلیمہ نے بےاختیار اپنے خشک لبوں پر زبان پھیری۔ایک ہاں کی امید میں اُسکی نم نگاہوں میں چمکتی بےبسی مزید گہری ہوئی۔ 

”کسی کی یکطرفہ چاہت کی خاطر اپنے ہی عشق کو ٹھوکر مارکر دور اچھال دینا میرے نزدیک اُس سے بھی بڑی بےوقوفی ہے اماں حضور۔۔۔۔اور ایسی بےوقوفی کے بدلے ملنے والی اذیت یقیناً میری جان لے لے گی۔۔۔۔“  کلس کر بولتا جہاں وہ خنساء بیگم کو بیٹھے سے کھڑا ہونے پر مجبور کرگیا تھا وہیں وہ بے اختیار ہوتی خود کی سانسیں روک گئی۔اُسے لگا کسی نے پگلا ہوا سیسہ اُسکی سماعتوں میں انڈیلا ہے۔

”ت۔۔۔م۔۔۔۔تم کسی پرائی لڑکی کے عشق میں گرفتار ہو اورہمیں خبرتک نہیں۔۔۔۔“  اِس غیرمتوقع انکشاف پرخنساء بیگم اُسکے مقابل آکر ٹھہرتی قدرے بے یقینی سے گویا ہوئیں۔اپنے اکلوتے سپوت کی بابت خود کی بےخبری اُنھیں بری طرح کھلی تھی۔

”ایسا ہی ہے اماں حضور۔۔۔۔میں فقط اُسی سے شادی کروں گا جس سے میں عشق کرتا ہوں۔۔۔۔نہیں تو میرے بیاہ کا جو خواب آپ نے اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رکھا ہے وہ کم از کم میرے جیتے جی تو کبھی پورے نہیں ہونے والا۔۔۔۔“  اُنکی حیرت بھری نگاہوں میں براہِ راست دیکھتا وہ بے دھڑک بول گیا۔قطعیت بھرے انداز میں سرکشی واضح تھی۔

حلیمہ نے بےاختیار اپنے سسکتے لبوں پر ہتھیلی جمائی۔چھن سے ٹوٹتے دل کا  شور اُسے اپنی سماعتوں تک سنائی دیا تھا جو ہنوز پلر کی اوٹ میں چھپی پل پل بکھررہی تھی۔

”کیا وہ بھی تمھارے عشق میں اسی حد تک پاگل ہے جس حد تک کہ تم خود جاچکے ہو۔۔۔۔؟؟؟“  قدرے تحمل سے پوچھتے جانے کیسے اُن کی خشک آنکھوں میں نمی اترآئی تھی۔۔نہیں تو وہ سیاہ نگاہیں اشک بہانا بھلا کہاں جانتی تھیں۔۔؟؟

”پاگل تو بہت ہے پر جان بوجھ کر اپنا آپ ظاہر نہیں ہونے دیتی۔۔۔۔اپنی فطرت میں بڑی ضدی ہے وہ۔۔۔“   یکطرفہ عشق میں دوطرفہ وفاؤں کے رنگ گھولتے ہوئے اُسنے خنساء بیگم سے ذیادہ جیسے خود کو یقین دلایا تھا۔

اسکے مسکاتے جواب پر حلیمہ کا دل کرلانے لگا تو بےچین ہوتی وہ سینے پر پڑے دوپٹے کو مٹھی میں جکڑگئی۔

”کون ہے وہ لڑکی۔۔۔۔؟؟؟“  پوچھتے ہوئے اُن کے چمکتے ماتھے پر ناگوار لکیروں کا جال ابھرا۔ مقابل کی دیوانگی  کے آگے ناچاہتے ہوئے بھی وہ شاید ایک ماں بن کے خود کی ضد ہارنے لگی تھیں البتہ بھانجی کی سرعام بےقدری پر لہجے میں بسی برہمی اور ناپسندیدگی کی کاٹ ہنوز برقرار تھی۔

”خالہ حضور۔۔۔۔“  خود کا مقدمہ ہارتی خنساء بیگم کو اپنے لاڈلے کے حق میں پینترا بدلتے دیکھ اُسکے پنکھری لب بےبسی کے شدید احساس تلے پھڑپھڑائے۔آنکھوں میں گھلی بےیقینی سرعت سے گالوں پر لڑھکی تھی۔

”رابی۔۔۔۔“  پشت پہ ہاتھ باندھتا وہ قدرے ٹھہر کر بولا تو سراپا سماعت بنی حلیمہ اُسکے لہجے کی  میٹھاس شدت سے محسوس کرتی پاگل سی ہونے لگی۔ اگلے ہی پل ضبط کی ساری حدیں توڑتی وہ آنسوؤں سے تربتر چہرہ لیے وہاں سے بھاگی تھی۔ 

”فقط اتنا سا تعارف۔۔۔؟؟؟خاندان۔۔۔حسب و نصب۔۔۔کہاں رہتی ہے کیا کرتی ہے۔۔۔؟؟؟اِن سب باتوں سے تو تم  بخوبی آگاہ ہوگے ناں برخوردار۔۔۔؟؟؟سو اُس لڑکی کے حوالے سے جو کچھ بھی جانتے ہو ہمیں تفصیلاًسب بتاؤ۔۔۔۔“  ضبط کے کھلے گھونٹ بھرتی وہ کڑی تفشیش پر اتر آئیں تو بےاختیار لب بھینچتے  اُسکی ان گنت رگوں میں دوڑتا خون پل بھرکو منجمد پڑا۔اب کہ کٹھن مرحلے سے گزرنے کی باری سالار خان کی تھی جسکا فیصلہ وہ پہلے سے ہی کرکے یہاں آیا تھا۔

”رقاصہ ہے وہ۔۔۔۔۔“  بڑے ضبط سے تین لفظوں میں رابی کی پوری شناخت سمیٹتا وہ پل میں اُنکے چودہ طبق روشن کرگیا۔

************************

”راشدہ۔۔۔اے راشدہ۔۔۔۔“  دکھتی کنپٹیاں سہلاتی وہ اپنے کمرے سے باہر نکلی تھیں جب نگاہیں اپنے دھیان سے ڈائنگ ٹیبل سے ناشتے کے بچے کھچے لوازمات سمیٹتی راشدہ پر پڑیں۔۔تو عادتاً رعب سے بلاتی وہ بے اختیار اُسکی جانب لپکیں۔

”جج۔۔جی بیگم صاحبہ۔۔۔؟؟“  وسیع ہال میں گونجتی عائمہ بیگم کی کرخت پکار پر چونکتی وہ ہاتھ میں تھامے ڈونگے سمیت اُنکی جانب پلٹی۔

”میں نے صبح جو نئے پودے منگواکردئیے تھے تمھیں۔۔وہ جاکر مالی کو دے دئیے تم نے۔۔۔؟؟اور وہ جو لان کی گھاس برابر کٹوانے کا بولا تھا اُسکا کیا بنا۔۔۔۔؟؟“  آج گھرمہمانوں کی آمد سے قبل ہی وہ سارے بکھیرے احسن طریقے سے نپٹالینا چاہتی تھیں۔۔سو لان کی ابتر حالت کی بابت فکرمندی سے پوچھتی اُسے بےچین کرگئیں۔

”ہائے او ربّا۔۔۔میرا تو آج صبح سے ہی مالی کی طرف کوئی چکر نہیں لگا جی۔۔۔معاف کرنا بیگم صاحبہ۔۔۔پر پتا نہیں کیسے میں یہ بات بھول گئی۔۔۔؟؟“  بےاختیار خود کا ماتھا پیٹتی وہ عائمہ بیگم کے غصےکو اچھی خاصی ہوا دے چکی تھی۔

”بھول گئی۔۔۔؟؟تمھارا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا بےوقوف عورت۔۔۔؟؟آجکل کن خیالوں میں گم رہتی ہو جو میری ایک بھی بات  تمھیں ڈھنگ سے یاد نہیں رہتی۔۔۔؟؟ہاں۔۔۔؟؟“  پل بھر کا توقف لیتی وہ پھر سے شروع ہوئیں۔

”میری ایک بات کان کھول کر سن لو راشدہ۔۔۔آج گھرپر بہت ہی خاص مہمان آرہے ہیں۔۔اگر تمھاری اِن لاپرواہیوں کی وجہ سے مجھے اُن کے سامنے شرمندہ ہونا پڑا ناں۔۔ تو یاد رکھناتمھیں کام سے فارغ کرنے میں ایک سیکنڈ نہیں لگاؤں گی میں۔۔۔سمجھی۔۔؟؟“  نخوت سے اُس پر برستی وہ اپنے اندر کی کھولن کم کرنے میں ابھی تک ناکام ٹھہری تھیں۔۔جبکہ راشدہ خود پر اٹھی تیر کی مانند انگلی اور قابلِ فکر دھمکی پر غور کرتی ہونقوں کی طرح اپنی اکھڑمزاج مالکن کو ٹُکرٹُکر دیکھنے لگی۔۔جو جانے کیوں ہر وقت اُس سے بلاوجہ کا بیرباندھے رکھتی تھی۔۔؟؟

فون پر محوِ گفتگو عائل سست روی سے سیڑھیاں اترتا  عائمہ بیگم کا ملازمہ پر چیخنا چلانا بخوبی سن چکا تھا۔۔سو اس دوران ماتھے پر پل بھرکو پڑتی شکنیں اسپیکر سے ابھرتی آواز پر متوجہ ہوتے ہی غائب ہوئی تھیں۔

”اب یوں کھڑی مجھے گھور کیا رہی ہو۔۔۔؟؟شکل گم کرو اپنی یہاں سے اور فوراً جاکر مالی سے بولو کہ وہ پورے لان کی اچھے سے صفائی کردے۔۔۔اور یاد رہے یہ کام مہمانوں کے آنے سے بہت پہلے ختم ہوجانا چاہیے۔۔۔“  راشدہ کے پھٹے پھٹے دیدوں پر کھل کر چوٹ کرتی وہ بگڑکر بولیں تو وہ بھی ہوش میں آتی جلدی سے سر ہلانے لگی۔

”جج۔۔جی بہتر بیگم صاحبہ۔۔۔جیسا آپ کہیں۔۔میں ابھی جاکر مالی کو بولتی ہوں۔۔۔اور کام بھی ٹھیک وقت پر پورا ہوجاوے گا بس آپ فکر نہ کریں جی۔۔۔“  مقابل کی پیشانی پر چڑھی تیوری سے خائف ہوتی وہ فوراً جانے کو پلٹی تو عائمہ بیگم نے بےساختہ اُسے ٹوکا۔

”رکو۔۔۔واپس آنے کے بعد چائے کا ایک کپ بناکر میرے کمرے میں لیتی آنا۔۔۔سر درد سے پھٹا جارہا ہے میرا۔۔۔اور اب میری کہی یہ بات بھول مت جانا۔۔۔ہلکی کھوپڑی کی ناں ہو تو۔۔کام چور۔۔۔اب جاؤ۔۔۔۔“  وہ جو اپنی طلب سمیت اُسے مزید سخت سست سنارہی تھیں عائل کی موجودگی کا احساس پاتے ہی چونک کر پلٹیں۔

راشدہ نے بھی ڈھیٹ پنے سے اُن کے تعاقب میں نظر بھرکر عائل کی جانب دیکھا۔۔جو اب بات کو آخری سرے تک پہنچاتا وہی جم کر کھڑا ہوچکا تھا۔

”تم۔۔تم ابھی تک یہیں پرکھڑی ہو۔۔۔اُففف۔۔۔اب جاؤ بھی یہاں سے۔۔۔“  وہ جو پلوں میں عائل کے پہناوے کا سرہاتی نظروں سے جائزہ لینے میں مگن تھی عائمہ بیگم کے ایک بار پھرسے دبی آواز میں ڈپٹنے پر گڑبڑاتی ہوئی تیزی سے وہاں سے کھسکی۔

”بڑے لوگ سو بڑے نخرے۔۔۔ہونہہ۔۔۔“  البتہ جاتے جاتے اپنی مالکن کو عائل کی جانب پلٹتا دیکھ وہ عادتاً پیٹھ پیچھے حقارت سے بڑبڑانا قطعی نہیں بھولی تھی۔

”عائل۔۔۔بیٹا یہ اس وقت کہاں جانے کی تیاری ہورہی ہے۔۔۔؟؟سب ٹھیک تو ہے ناں۔۔۔؟؟  اُسکے مقابل آکر ٹھہرتی وہ کچھ حیرت سے گویا ہوئیں۔لہجے میں نرمی خودبخود ہی گھلتی چلی گئی تھی۔

”موم۔۔میرا ایک دوست ہے سرمد۔۔اُسی کی طرف جارہا ہوں۔۔۔اور پھر مجھے کچھ انویسٹی گیشن کے لیے بھی ایک جگہ پہنچنا ہے۔۔سو۔۔۔“  قدرے نرمی سے اُنھیں اپنے ارادوں سے باخبرکرتا وہ دھیرے سے مسکرایا تو عائمہ بیگم کے لبوں پر بکھرا تبسم سمٹا۔

”آج اتوار کا دن ہے۔۔لیکن مجال ہے جو تمھیں اپنے فرضوں سے رتی برابر بھی فرصت ملے۔۔۔خیر جو بھی ہو۔۔تم تھوڑا جلدی گھر واپس آنے کی کوشش کرنا۔۔۔سمجھ رہے ہوناں میری بات۔۔۔؟؟“  اُسکے لمبے ٹور کی پلاننگ اُنھیں کچھ خاص بھائی نہیں تھی سو تنبیہی انداز اپناتی کچھ بےقرار سی  ہوئیں۔

”خیریت۔۔۔۔؟؟“  وہ حیران ہوا۔

”ہاں وہ دراصل۔۔۔دوپہر میں کچھ گیسٹ آرہے ہیں تو اس دوران تمھاری موجودگی ضروری ہے۔۔۔۔“  اُسکی لاعلمی پر ناپ تول کر بات کو آگے بڑھاتی وہ اس بار کچھ محتاط ہوئی تھیں۔

”گیسٹ۔۔۔۔؟؟کون لوگ ہیں۔۔۔؟؟؟“  مہمانوں کی بابت عائل نے تفصیلاً جاننا چاہا تو اسکے یوں دلچسپی لینے پر وہ پل بھرکو ہچکچائیں۔

”مسز۔۔۔مسزشاہنواز کی فیملی کو آج میں نے تمھارے ڈیڈ کے کہنے پر کھانے پر انوائٹ کیا ہے۔۔۔تو اسی وجہ سے۔۔۔۔“  اپنی بات جان بوجھ کر ادھوری چھوڑتے ہوئے انھوں نے اپنے بیٹے کے چہرے کے تاثرات جانچنا چاہے جو توقع کے عین مطابق سرد پڑ چکے تھے۔۔

مہمان کون تھے۔۔۔اور انکے آنے کا مقصدکیا تھا۔۔؟؟ وہ آدھی ادھوری بات پر ہی سب جان گیا تھا۔۔

”موم اگر وہ لوگ صرف کھانے پینے کی غرض سے یہاں آرہے ہیں۔۔۔تو ایک بار چھوڑ کر سو بار آئیں۔۔مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔۔لیکن اگر اُن کے ارادے میری ناپسندیدہ سوچوں اور آپکی من مرضیوں پر پورے اترے تو۔۔۔ایم ویری سوری۔۔۔اُنھیں ملاقات کا شرف بخشنا پھر میرے لیے ایک ناممکن سا عمل ہوجائے گا۔۔۔۔“  وہ قدرے سنجیدگی سےٹھہر ٹھہر کربولتا اپنے مضبوط ارادے اُنھیں باورکروارہا تھا۔لہجہ قطیعت بھرا تھا۔

اُسکی صاف گوئی پر عائمہ بیگم چٹخ سی گئیں۔

”وہ بس تمھیں چند گھڑی دیکھنا چاہتے ہیں عائل۔۔۔تم سے مل کر ایک بار بات کرنا چاہتے ہیں تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔۔۔؟؟بتاؤ بھلا۔۔مہمانوں کے گھر آنے پر خود ہی گھر سے فرار ہوجانا کہاں کی اخلاقیات ہیں یہ۔۔۔؟؟؟ایک تو ہروقت تمھارے یوں صاف دامن بچانے کی ٹھوس وجہ بھی تو میری سمجھ میں نہیں آتی۔۔۔“  مقابل کی سرکشی پر دبی آواز میں کلستے ہوئے درحقیقت اُنھیں اپنی دی ہوئی زبان کی فکر لاحق ہوئی تھی۔

اُنکے غصے کے آگے بےبسی سے گہرا سانس بھرتا وہ ریلنگ کے سرے پر ہاتھ جماگیا۔

”اگر بات صرف دیکھنے کی حد تک ہے تو حقیقتاً کوئی حرج نہیں ہے موم۔۔۔لیکن دوسرے کی مرضی کی پرواہ کیے بغیر زبردستی کے رشتے جوڑنا بھی اخلاقیات کے زمرے میں نہیں آتا۔۔۔۔خیر آپ فکر نہیں کریں۔۔۔ٹائم لگا تو میں آپکے مہمانوں کوکمپنی دینے آجاؤں گا۔۔۔فی الحال تو مجھے دیر ہورہی ہے۔۔اب میں نکلتا ہوں۔۔۔خدا حافظ۔۔۔۔“  ٹالنے والے انداز میں اُنھیں نرمی سے کندھوں سے تھام کر اپنے آگے سے ہٹاتا وہ وہاں مزید رکا نہیں تھا۔۔پیچھے عائمہ بیگم نے تاسف اور غصے کی ملی جلی کیفیت میں عائل کی چوڑی پشت کو لمحوں میں داخلی دروازے سے گم ہوتے دیکھا۔

”اللہ اس معاملے میں تھوڑی سی عقل میرے بیٹے کو بھی دے دے۔۔۔آخر کیوں یہ اپنی ماں سے بلاوجہ کی ضد لگاکر بیٹھ گیا ہے۔۔۔؟؟“  شکستہ لب و لہجے میں بےساختہ اپنے رب سے فریاد کرتی اب وہ خود کے کمرے کی طرف مڑنے کی بجائے اپنے بگڑے نواب زادے کی آرام گاہ کی جانب لپکی تھی جو شاید رات بھر کا جاگا اب جاکر سکون سے اپنی نیندیں پوری کررہا تھا۔۔۔

**************************

وہ تینوں ماں بیٹیاں عیادت کی غرض سے اس وقت ہسپتال کے پرائیوٹ روم میں موجود تھیں۔سامنے ہی سٹریچر پر ریشماں بیگم بھی دیگر مریضوں کی طرح کل سے زیرِ علاج تھیں اور نیندآور دوائیوں کے باعث اب گہری غنودگی میں جاچکی تھیں۔روڈ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے سر پر گہری چوٹ آنے کے علاوہ اُنکی ریڑھ کی ہڈی بھی قدرے متاثر ہوئی تھی۔ابھی کچھ دیر پہلے ہی بختی اُن تینوں کو ریشماں بیگم کے پاس چھوڑتا خود کسی ایمرجنسی میں وہاں سے نکلا تھا۔۔مگر جب تک وہ وہاں ٹھہرا رہا تھا۔۔حاویہ اُسکی خود پر وقفے وقفے سے پڑتی گہری نگاہیں اور ان میں چھپا عجیب سا تاثر محسوس کرتی کتنی ہی بار پہلو بدل چکی تھی۔۔

”حاوی۔۔۔میری جان تم یہی پر ریشماں خالہ کے پاس ٹھہرو۔۔۔میں ذرا ماما کو لے کرسینئر ڈاکٹر سے بات کرنے جارہی ہوں۔۔۔“ وہ جو اردگرد سے بیگانہ سی بےتابانہ سفید فرش کو گھور رہی تھی حرمین اور نفیسہ بیگم کو یکدم پاس سے اٹھتا دیکھ ہڑبڑا کر ہوش میں آئی۔

پچھلے کچھ دنوں سے نفیسہ بیگم کے دماغ میں اٹھتی وقت بے وقت کی ٹیسیں اکثر ناقابلِ برداشت ہوکر اُن سمیت حرمین اور حاویہ کو بھی بےچین کر جاتی تھیں سو کب بیٹھے بیٹھے اُنکا ڈاکٹر کے پاس جانے کو پلین بنا۔۔ یاں پھر زبردستی بنایا گیا تھا۔۔؟؟ وہ انجان تھی۔

”پراپیہ۔۔میں بھی چلتی ہوں ناں ساتھ میں۔۔۔مجھے بھی جاننا ہے ڈاکٹر ماما کی طبیعت کو لے کر کونسی رائے قائم کرتے ہیں۔۔۔۔“  وہ بھی متفکر سی انہی کے ساتھ کھڑی ہوتی حقیقتاً بختی کی نامعلوم چالوں سے خائف تھی۔

حرمین کی زبردستی پر پہلے ہی ٹال مٹول سے کام لیتی نفیسہ بیگم  ڈاکٹر کے پاس جانے کو دلی طور پر رضا مند نہیں تھی تو جہاں حاویہ کی بےصبری پر اُن کا دل مزید بوجھل ہوا تھا وہیں حرمین کی سیاہ نگاہوں میں ابھرتا تاسف حاویہ کو مایوس کرگیا۔

” حاویہ بچی مت بنو۔۔۔بختی بھائی جاتے ہوئے خالہ کی ذمہ داری خاص طور پر ہمارے سرڈال کر گئے تھے ناں۔۔۔؟؟تو ایسے میں اُنھیں بالکل ہی اکیلا چھوڑ جانا اچھا لگے گا کیا۔۔۔؟؟اور ویسے بھی ہم کونسا سمندر پار جارہے ہیں بس یہی دوسرے فلور تک ہی تو جانا ہے۔۔پھر آجائیں گے ناں تمھارے پاس واپس۔۔۔اور ٹینشن نہیں لو بعد میں۔۔میں تمھیں سب کچھ ڈیٹیل میں بتادوں گی۔۔اوکے۔۔۔؟؟“  حرمین ذرا سا تلخ ہوتی سمجھانے والے انداز میں بولی تو اُسکی تسلی پر کافی حد تک بہلتی وہ شکستہ سی سر جھکا گئی۔

”اوکے۔۔۔پر پلیز تھوڑا جلدی آئیے گا۔۔۔۔آپکو پتا ہے ناں انجان جگہوں پر اکیلے میں میرا دم گھٹتا ہے۔۔۔۔“  اُسنے منہ بسورکر اُنکی جانب دیکھتے ہوئے بظاہر کھلے دل سے اجازت دی تو اُسکے یوں مان جانے پر وہ دونوں اثبات میں سر ہلاتی دھیرے سے مسکرائیں پھر مزید تاخیر کیے بنا پلٹ کر تیزی سے دروازے کی جانب لپکیں۔

حاویہ نے بےبسی سے لب کچلتے اُنھیں دہلیز پھلانگتے دیکھا تھا۔

دروازہ بند ہونے کی آواز پر جہاں حاویہ کی سانس پل بھرکو سینے میں اٹکی تھی وہیں پرائیوٹ روم کی جانب آتے وجود کے قدم اُن ماں بیٹی کو سیڑھیوں کی جانب لپکتے دیکھ سست پڑتے تھمے۔

پلوں میں سارا معاملہ سمجھتے ہوئے ایک زہریلی مسکراہٹ تھی جو پرائیوٹ روم کے بند دروازے کی جانب دیکھتے ہوئے شدت سے اُسکے لبوں کا احاطہ کرگئی۔۔لمحوں میں بنتے خباثت بھرے ارادے اور ان ارادوں میں چھپا اشتعال اب کہ باہر ابلنے کو بےتاب ہوا تھا۔۔۔

*************************** 

وہ جانے کتنی دیر سے کمرے کی دہلیز پر کھڑی بار بار راہداری کی جانب دیکھتی بےچین سی انگلیاں چٹخا رہی تھی جب اچانک وہ مصروف سا چوڑے کندھوں پر پڑی مردانہ شال کو ٹھیک کرتا اُسے اپنی جانب آتا دکھائی دیا۔

حلیمہ پھرتی سے دروازے کے ساتھ لگتی خود کو چھپاگئی تھی۔

ًبھاری قدموں کی چاپ قریب سے قریب تر ہوتی اُسکی دھڑکنوں میں ایک طلاطم سا برپاکرگئی تھی۔

مزید کچھ پل تیزی سے سرکے تھے۔۔معاً وہ بناتاخیر کیے آگے بڑھی اور مقابل کو سنبھلنے کا موقع دئیے بغیرہی اُسے کھینچ کر اندر کمرے میں گھیسٹ لائی۔۔

پھولی سانسوں کے بیچ حلیمہ کو دروازہ بند کرتا دیکھ سالار خان کی حیرانگی غصے تلے دبی تھی۔

”یہ کیا حرکت تھی۔۔۔؟؟پاگل ہوگئی ہوکیا۔۔۔۔؟؟“  پلوں میں سارا معاملہ سمجھتا وہ  کچھ تلخی سے بولا تو پلٹ کر براہِ راست  اُسکی آنکھوں میں جھانکتی وہ اپنے انداز سے اُسے پل بھر کو چونکنے پر مجبور کرگئی۔

”ہاں ہو گئی ہوں میں پاگل۔۔۔لیکن صرف آپکے پیچھے خان۔۔۔پوری پگلاگئی ہوں میں۔۔۔اور میرے اس پاگل پن کا علاج صرف آپ ہی کرسکتے ہیں۔۔۔اگر چاہیں تو۔۔۔“  بے جھجک ایک قدم کا فاصلہ مٹاتی وہ دھیمی آواز میں بولی تو اُسکے یوں کھلم کھلا اعتراف پر وہ سختی سے لب بھینچ گیا۔

”تو پھرمت کرو یہ سب کیونکہ میں ایسا نہیں چاہتا۔۔۔میں تو خود  کسی اور کے پیچھے پاگل ہوں تمھارا کیا علاج کروں گا۔۔۔؟؟“  بےتاثر لہجے میں بولتا وہ استہزائیہ مسکراتا ہوا اُسکی جانب سے رخ  پھیرگیا۔

اُسکی چوڑی پشت کو تکتے ہوئے حلیمہ کی آنکھیں پل میں نم ہوئی تھیں۔۔۔مگر اگلے ہی لمحے گھوم کر اُسکے مقابل آتی وہ ضبط کھونے لگی۔۔تو اُسے اپنے نازک کندھوں سے نارنجی رنگ چادر ہٹاتے دیکھ سالار خان کی آنکھوں میں واضح الجھن اتری۔۔جبکہ وہ بےخوف سی بنا پلک جھپکائے شدت سے اُسی کی جانب دیکھ رہی تھی۔۔

وجود میں اترتی کپکپاہٹ اُسکی ہمت کے بالکل برعکس تھی جوکہ سالار خان کی نگاہوں سے چھپی نہیں تھی۔

اگلے ہی پل پوری چادر خود کے تن سے جدا کرتی وہ  بڑی دیدہ دلیری سے اُسے دبیز قالین پر پٹختی سالار خان پر حیرتوں کے پہاڑ توڑ گئی۔

”دیکھیں میری طرف۔۔۔غور سے دیکھیں اور بتائیں۔۔؟؟کیا کمی ہے مجھ میں۔۔۔؟؟کیا اندھی ہوں۔۔بہری ہوں۔۔گونگی ہوں۔۔۔خوبصورت نہیں ہوں یاں پھربدچلن ہوں۔۔؟؟بتائیں مجھے۔۔۔؟؟کیا۔۔۔کیا کمی کیا ہے مجھ میں جو آپ میری طرف کبھی مائل نہیں ہوتے۔۔۔؟؟“  ہوئی دبی آواز میں چیختی وہ حد ہی تو کرگئی تھی۔

”حلیمہ۔۔۔۔“  دہاڑ کے ساتھ سالار خان کا بھاری ہاتھ بےساختہ ہوا میں بلند ہوا تھا جب وہ سہمتی ہوئی سرعت سے دو قدم پیچھے ہٹی۔

بڑے ضبط سے مٹھی بھینچتا وہ بےاختیار اُسکے لرزتے ہوئے سراپے سے انگارہ ہوتی نگاہیں چرا گیا۔اُسے حقیقتاً اس بھولی بھالی لڑکی سے اس قدر بےباکی کی قطعی کوئی امید نہیں تھی جو اپنا آپ اتنی آسانی سے اُسے پیش کرتی اُسکی رگیں پھلانے کا باعث بنی تھی۔

”فوراً چادر اٹھاؤ اور ڈھکو خود کو۔۔۔۔“  صبر کے کڑوے گھونٹ بھرتا وہ سلگتے ہوئے لہجے میں غرایا تو اُسکے حکم پر بےچین سی جھک کر چادر اٹھاتی وہ خود کو ڈھانپنے لگی۔لب کاٹتے ہوئے آنسوؤں میں روانی آئی تھی۔

گزرے لمحوں کی بابت سوچتے ہوئے اُسکا ایک بار پھر غصہ حد سے سوا ہونے لگا تو کچھ غلط نہ ہوجانے کے ڈر سے اُس پر حقارت بھری آخری نگاہ ڈالتا وہ وہاں سے جانے کو پلٹا۔۔تو حلیمہ تیزی سے سراٹھاتی اُسے روک گئی۔

”مت جائیں خان۔۔۔خدارا چھوڑدیں اپنی یہ بےکار کی ضد۔۔۔۔کیوں آپ ایک رقاصہ کے پیچھے مجھ جیسی پاکدامن لڑکی کو ٹھکرا رہے ہیں۔۔۔؟؟میری برسوں کی محبت کو اپنی وقتی دل لگی کی آڑ میں کیوں بےمول کررہے ہیں آپ۔۔۔؟؟“  اُسکی ہٹ دھڑمی کے سامنے وہ اب بھی اپنے حق میں چیخنے سے باز نہیں آئی تھی۔

کل رات ہی تو بلقیس بیگم  اُس پر سالار خان کی بےمنزل محبت کا راز کھولتی اُسے امید کا دامن تمھاکر گئی تھیں۔۔تو پھر کیسے وہ اُسے اتنی آسانی اُسے خود سے دور جانے دیتی۔۔؟؟

اُسکے گستاخانہ آمیز لہجے پر سالار خان نے پلٹ کر مٹھیاں بھینچتے سخت نگاہوں سے اُسے گھورا۔

 ”جسے تم وقتی دل لگی کہہ رہی ہو وہ عشق ہے میرا۔۔۔اور رقاصہ کی کیا بات کرتی ہو۔۔۔؟؟آج جو حرکت تم میرے سامنے کرچکی ہو اس کے بعد سے میرے نزدیک تم میں اور رابی میں کوئی خاص فرق نہیں بچتا۔۔۔“ زہرخند لہجے میں چبا چبا کر بولتا وہ صحیح معنوں میں اُسےاسکی اوقات باورکرواگیا۔

حلیمہ نے تڑپ کر اُسکی جانب دیکھا۔

”ا۔۔ایسا مت کہیں خان۔۔۔جذبات کی رو میں بہہ کر میرے صاف کردار پر اتنی آسانی سے کیچڑ مت اچھالیں۔۔۔مم۔۔میں محبت کرتی ہوں آپ سے۔۔ میں نے جو بھی کیا فقط آپکی محبت میں۔۔پ۔۔پاگل بن کر کیا۔۔۔“   صدمے کی حالت میں بمشکل لب کشائی کرتے اُسنے مقابل کو اُسکی سفاکیت کی بابت احساس دلانے کی سعی کی تو اپنے بولے گئے لفظوں پر غور کرتا وہ بھی کچھ ہوش میں آیا۔

”میرے ان جوڑے ہاتھوں کو دیکھیں۔۔۔خدا کے واسطے اپنالیں مجھے۔۔۔لیکن اتنا ظلم مت کریں کہ میں جیتے جی مرجاؤں۔۔۔۔“ اُسے خاموشی سے اپنی جانب تکتا پاکر وہ شدتِ بےبسی سے اُسکے آگے ہاتھ جوڑتی ملتجیانہ سی گویا ہوئی۔

”میری بلا سے  جو مرضی آئے کرو لیکن میرا فیصلہ اٹل ہے۔۔۔تمھیں اپناکر رابی کو ٹھکرانا میرے بس کی بات نہیں ہے۔۔۔“  جھنجھلاکربولتے ہوئے اُسکا لہجہ کڑواترین ہوا تھا۔

حلیمہ نے اُسکے لہجے کی کڑواہٹ اندر اتارنے کو ہاتھ نیچے ڈھلکاتے پل بھرکو آنکھیں میچیں۔گویا صبر کی حد ہوئی تھی۔

”خالہ حضور ایک طوائف کو کبھی اپنی بہو کی صورت قبول کرکے اس گھر میں نہیں لائیں گی خان۔۔۔اس باعزت اور اونچے گھرانے کی پرانی روایات کبھی بھی آپکے بےمنزل عشق کی بھینٹ نہیں چڑھیں گی۔۔۔“  اُس پتھر کو کسی صورت موم نہ ہوتا دیکھ حلیمہ نے اس بار قدرے سوچ سمجھ کر آخری وار کیا تو اس تلخ حقیقت پر سالار خان کی سرخ آنکھوں میں جلن سی اترنے لگی۔

”اگر ایسا ہوا تو پھر کوئی بھی لڑکی اس گھر کو کبھی بہو کی صورت نصیب نہیں ہوگی۔۔۔تم تو بالکل بھی نہیں۔۔۔سو بہتر ہوگاکہ اس حویلی کی بوسیدہ روایات کی فکر چھوڑ کر اگلے گھر کی فکرکرو۔۔۔“  قطیعت بھرے لہجے میں  آگاہی دلاتا وہ اُسے تن بدن جھلساتا ہوا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔۔۔اس بات لاتعلق کہ اُسکے پختہ ارادوں اور بےجا ضد کے اونچے قعلے کو ملیامیٹ کرنے کے لیے فقط ایک مضبوط ٹھوکر کی ضرورت تھی۔

پیچھے وہ دبیز قالین پر گرنے کے سے انداز میں بیٹھتی لبوں پر ہاتھ جمائے اُسکی سفاکیت پر بری طرح سسکنے لگی۔۔۔

**************************

وہ دیوار کے ساتھ لگے بلیک لیدر کے صوفے پر براجمان ہونے کی بجائے سیدھا ریشماں بیگم کے پیروں کے قریب بچی تھوڑی سی جگہ پر گھس کر بیٹھ چکی تھی۔گویا خود کی حفاظت کے لیے کی جانے والی شاید ایک نحیف سی کوشش تھی۔

جہاں کسی نفوس کے۔۔کسی بھی لمحے واپس لوٹ آنے کا وہم بارہا ستارہا تھا وہیں سناٹے بھرے پل دھیرے دھیرے سرکتے چلے جارہے تھے۔۔۔اِس گنے چنے وقت میں وہ جانے کتنی ہی بار محتاط سی پلٹ کر بند دروازے کی جانب دیکھ چکی تھی۔۔۔پر ابھی تک اس کمرے کی دہلیز پھلانگ کر  نہ تو کوئی آیا تھا اور شاید نہ ہی کسی کو آنا تھا۔

وہ کچھ پُرسکون سی ہوتی اب ریشماں بیگم کے ہاتھ کی جھری زدہ پشت کو بغور دیکھنے لگی جہاں ڈرپ کے کئی نشانات موجود تھے جبھی اچانک کسی کے سوئچ بورڈ پر ہاتھ مارنے سے ساری بتیاں جھٹکے سے گُل ہوئی تھیں۔

”ہاہ۔۔۔ااا۔۔۔۔“  اطراف میں پھیلے اندھیرے میں حاویہ کا نازک سا دل ڈوب کرابھرا۔

سراسیمہ نگاہوں میں بھری تاریکی کے زیرِ اثر سٹریچر سے  اترتے ہوئے اُسکے رگ و پے میں بےاختیار خوف اترتا چلاگیا۔

”ی۔۔یہاں اندھیرا۔۔کک۔۔کیسے ہوگیا۔۔۔؟؟مم۔۔ماما۔۔۔“   گھٹی آواز میں خود سے پوچھتی وہ اگلے ہی پل اندھا دھند دروازے کی جانب لپکی تھی جب کوئی بڑی پھرتی سے اُسے بازو سے دبوچتا دیوار سے لگاگیا۔۔اس دوران کپکپاتے لبوں سے نکلتی بےساختہ چیخ کو مقابل پہلے ہی اپنی بھاری ہتھیلی تلے بےدردی سے دبا چکا تھا۔

پل بھرکا کھیل تھا جو حاویہ کے دھڑکنوں میں شدت لاتا اُسکے حواسوں کو مختل کرگیا۔

پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنی رکتی سانسوں کے بیچ وہ سامنے والے کی سخت گرفت میں بری طرح مچلتی اُسے مزہ ہی تو دے گئی تھی۔اے۔سی کی ٹھنڈک کے باوجود بھی اُسے صرف چند پل لگے تھے پسینے تلے بھیگنے میں۔

اور وجہ مقابل کا خوف تھا۔

”کیا ہوا باربی ڈول۔۔۔؟؟ڈر لگ رہا ہے۔۔۔؟؟ہہمم۔۔۔؟؟“  اُسکی مزاحمت کی پرواہ کیے بغیر وہ قدرے جھک کر اُسکی سماعتوں میں اپنی سرد پھنکار گھولتا اُسے پل بھرکو ساکت کرگیا۔ہراساں وجود کی کپکپاہٹ شدت سے محسوس کرتے ہوئے ایک سکون سا اُسکے اندر اترا تھا جب وہ جیب سے لائیٹر نکالتا  ڈگمگاتے شعلے میں اُسکی بھیگی آنکھیں دیکھ کر دھیرے سےمسکرایا۔

”تمھارا لرزتا وجود اور شدت سے شور مچاتی یہ دھڑکنیں صاف بتارہی ہیں کہ تم اس وقت خطرناک حد تک خوفزدہ ہو۔۔۔اتنی کہ سانسیں لینا بھی اب دشوار ہونے لگا ہے۔۔لیکن مجھے ابھی بھی یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ اس حسین ڈر کی حقیقی وجہ کیا ہے۔۔۔؟؟اطراف میں پھیلا یہ سیاہ اندھیرا۔۔یاں پھر میری جانلیوا قربت۔۔۔؟؟“  سرد لہجے میں استفسار کرتے اُسکی رگیں تن سی گئیں۔ہتھیلی ہنوز اُسکے نازک لبوں پر مضبوطی سے دھڑی تھی۔

”اممم۔۔۔اممم۔۔۔۔“  بند ہوتی سانسوں کے بیچ اپنا ضبط کھوتی وہ بےساختہ اُسکے ہاتھ کی پشت پر اپنے ناخن سختی سے گاڑ گئی۔

”سی۔۔۔۔“  اُسکے کمزور احتجاج پر دھیمی سی بلبلاہٹ کے ساتھ وہ پل میں اپنا ہاتھ اُسکے پنکھری لبوں سے ہٹاگیا اور اگلے ہی پل بنا سوچے سمجھے شدت بھرا تھپڑ اُسکے نازک سے گال پر دے مارا۔اس دوران چند پلوں کے لیے بجھتا آگ کا شعلہ انگوٹھے کا دباؤ پڑنے پر پھرسے جل اٹھا تھا۔

”ما۔۔ما۔۔۔“  وہ جو رہائی ملنے پر گہرے سانس بھررہی تھی رخسار پر ہونے والی شدید جلن پر ہاتھ رکھتی بے اختیارسسک پڑی۔

”میری پناہوں میں آکر تمھارا وجود اذیت اور خوف کے زیرِ اثر کسی زخمی چڑیا کی مانند پھڑپھڑانے لگتا ہے۔۔لیکن جب اُس دو ٹکے کے پولیس آفیسر کی بانہوں میں جھولتی پھرتی ہوتو مسکراہٹ لبوں سے جدا ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔۔ہہمم۔۔؟؟الو کا پٹھا سمجھ رکھا ہے کیا مجھے۔۔۔؟؟“  اُسے بھیگے گالوں سے دبوچ کر خود سے قریب کرتا وہ اپنے سلگتے لمس سمیت غراتے لفظوں سے اُسکی جان نکال گیا۔

تو کیا وہ عائل حسن کے بارے میں سب جان گیا تھا۔۔۔۔؟؟

یہ وہ سوال تھا جسکا یک لفظی جواب بدقسمتی سے ہاں میں تھا۔۔۔اور یہ ہاں مقابل کے کلون کی ناپسندیدہ مہک سے بھی کہیں ذیادہ اُسکے حواسوں کو بری طرح جھنجھوڑ کررکھ دینے کی صلاحیت رکھتی تھی۔

 کب۔۔؟؟کہاں۔۔؟؟ کیسے۔۔؟؟ تھمتی دھڑکنوں کے ساتھ یہ سب سوچنے کی سکت فی الوقت حاویہ کے وجود میں باقی نہیں بچی تھی۔

”کیا سمجھی تھیں۔۔۔؟؟کہ مجھےکبھی پتا نہیں چل پائے گا تمھارے معاشقے کے بارے میں اور تم یونہی میری پیٹھ پیچھے بڑے آرام سے عشق یاریاں نبھاتی پھرو گی۔۔۔؟؟؟ہاں۔۔۔؟؟یہی۔۔یہی گھٹیا سوچ تھی ناں تمھارے اس بھیجے میں۔۔۔بولو۔۔۔؟؟“  اُسکے زرد چہرے کی حیرت دیکھ کر اپنی گرفت مزید سخت کرتا وہ دانت پیس کر بولا تو وہ درد کی شدت سے بلبلا اٹھی۔

زہر ہی تو لگی تھی بختی کو اُسکی یہ حیرانگی۔۔یہ سہمے سہمے تیور۔۔جو اسکے بولے گئے ہر لفظ کی تصدیق کے لیے کافی تھے۔

”نن۔۔نہیں۔۔نن نہیں۔۔۔“  ہچکیاں بھرتے حاویہ کا وجود جھٹکوں کی زد میں آیا تھا جب اُسنے بمشکل اُسکی گرفت سے اپنے دکھتے جبڑے چھڑوائے۔

ایسے میں چہرے کے گرد کس کے لپٹا عنابی رنگ حجاب اتنے تشدد کے بعد اب خراب ہوکر قدرے ڈھیلا پر چکا تھا۔

اُسکی مزاحمت سمیت جھوٹی صفائی پر بختی کی آنکھوں کی سرخائی مزید گہری ہوئی۔

”چپ۔۔۔ایکدم چپ۔۔۔“  لبوں پر انگلی رکھتا وہ اُسے اپنے سخت تیوروں سے سہماکر رکھ گیا۔وہ بہتی آنکھیں جھکاتی سسکی۔  

”تمھاری اس جانلیوا بےوفائی کے ادراک کے بعد سے میرے اندر پہلے ہی بےتحاشہ آگ لگ چکی ہے۔۔۔اب اس پرمزید جھوٹ کا پردہ گرا کر اسے اتنا مت بھڑکاؤ کہ تمھارے پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے کر راکھ کردے یہ آگ۔۔۔۔“  گہری نیند میں غرق ماں کی موجودگی کا کچھ لحاظ باقی رکھتے ہوئے وہ پھر سے اُسکا بازو جکڑتا ہنوز دھیمی مگر سخت آواز میں غراتا پل پل اُسکے اوسان خطا کررہا تھا۔

لائیٹرپر مسلسل دباؤ ڈالتے ہوئے اب انگوٹھا دکھنے لگا تھا۔

”خ۔۔خدا کے واسطے۔۔چھو۔۔ہاہ۔۔“  اُسکے اشتعال تلے کپکپاتی جانے کیسے وہ اپنے آنسوؤں کی ذیادتی سے بھیگتے لبوں پر زبان پھیرتی بولنے کی سعی کرگئی تھی۔۔جب آدھی ادھوری بات پر یکدم کھٹکتا دروازہ اُن دونوں کو بری طرح چونکا گیا۔۔۔۔

”ماماااا۔۔۔۔۔“  اگلے ہی پل حاویہ کے حلق سےنکلتی غیرمتوقع چیخ نے اس بار بختی کے اوسان خطا کیے تھے۔۔۔

***********************

”شام۔۔۔۔۔۔“  تیزی سے برستی ان گنت ٹھنڈی بوندوں تلے اُسنے اپنے نم بالوں میں بھرپور انداز میں ہاتھ پھیرتے گہرا سانس بھرا تھا جب بھیگتی سماعتوں سے ٹکراتی آئمہ بیگم کی متفکر سی آواز پر پل بھرکو چونکتا وہ تھما پھرسرجھٹکتا شاور بندکرگیا۔

”اففف یہ لڑکا اور اسکے بکھیرے۔۔۔جانے کب سدھرے گا یہ۔۔۔۔؟؟“  توقع کے برعکس اتنی جلدی بستر سے اٹھتا وہ انھیں حیران تو کرگیا تھا لیکن الماری کے ادھ کھلے پٹ سے باہرکو لٹکتے اور کچھ بیڈ پر بکھرے کپڑے حقیقتاً عائمہ بیگم کو تھکاوٹ بھرا احساس دلاگئے جبھی تاسف سے بڑبڑاتی وہ اُنھیں سمیٹنے کو آگے بڑھیں۔

”ہزار مرتبہ منع کیا ہے اسے کہ اس طرح سے کمرے میں گندمت پھیلایا کرو ۔۔پر مجال ہے جو۔۔۔“   بازو پر دھڑی جینز شرٹس کو ایک ایک کرکے سلیقے سے الماری میں اتارتی وہ ہنوز خفگی سے بولتی جارہی تھیں جب کپڑوں کے بیچوں بیچ دبے بلیک کیس نے جھٹکے سے اپنا نظارہ کرواتے ہوئے اُنھیں ٹھٹھکنے پر مجبور کردیا۔

عائمہ بیگم نے پل بھر کی بھی تاخیر کے بنا تقریباً جھپٹتے ہوئے اُسے کھولا تھا۔

اگلے ہی پل پوری شان و شوکت سے چمچماتا تھری لئیرڈ نیکلس اپنی بھرپور جھلک دکھلاتا اُنکی الجھن بھری نگاہوں میں حددرجہ حیرت گھول گیا۔

”یہ۔۔۔یہ اتنا قیمتی نیکلس شام کی الماری میں کیا کررہا ہے۔۔۔۔؟؟؟  چھوٹے چھوٹے اناری نگوں پر نرمی سے انگلیاں پھیرتے اُنکے لب دھیرے سے پھڑپھڑائے۔

معاً وہ بھی عادتاً شرٹ لیس۔۔ٹاول کو گلے میں ڈالے دبا دبا سا گنگناتا ہوا واش روم سے باہر نکلا مگر عائمہ بیگم کو ہاتھوں میں بلیک کیس جکڑے دیکھ حقیقی معنوں میں اُسے حیرت کا جھٹکا لگا۔

”نیکلس۔۔۔او شٹ۔۔۔۔“  ٹاول کو نم گردن سے کھینچ کر اتارتا وہ اُسے بیڈ پر اچھالے تیزی سے اُنکی جانب لپکا جو اُسکی آہٹ پر چونکتی اب شکوہ کناں نگاہوں سے اُسے گھور رہی تھیں۔

”موم لائیں ادھر۔۔یہ مجھے دیں پلیز۔۔۔۔“  بےاختیار ہاتھ آگے کو بڑھاتا وہ اُسے لینے کی کوشش میں تھا جب عائمہ بیگم نے اُسے اس عمل سے باز رکھنے کو سرعت سے بلیک کیس کو اپنی پشت پر کیا۔

”ایک منٹ شام۔۔۔کس کا ہے یہ نیکلس۔۔۔؟؟؟ اور اس وقت تمھارے پاس کیا کررہا ہے۔۔۔مجھے سچ سچ بتاؤ۔۔۔تمھارا اپنی کسی گرلفرینڈ کے ساتھ سیریس والا معاملہ چل رہا ہے ناں۔۔۔؟؟اُسی کے لیے اتنا قیمتی تحفہ خریدا ہے ناں تم نے۔۔۔ہہمم۔۔۔بولو۔۔۔؟؟  پلوں میں معاملے کی تہہ تک پہنچتی وہ بےحدسنجیدہ تھیں جبکہ اُنکا خود کے لیے یہ تفشیشی انداز اور تلخ ہوتا لہجہ مقابل کو رتی برابر بھی نہیں بھایا تھا جبھی وہ ضبط سے نم چہرے پر ہاتھ پھیر کر رہ گیا۔

”موم موم۔۔۔موم۔۔۔جسٹ ریلکس یار کیا ہوگیا ہےآپکو۔۔۔؟؟جیسا آپ سوچ رہی ہیں ویسا کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔اور یہ نیکلس۔۔۔“  تسلی دیتے لہجے میں بےاختیار وقفہ لیتا وہ اگلے ہی پل اچک کر بڑی پھرتی سے اُنکی گرفت سے کیس نکال لے گیا تو عائمہ بیگم نے اس گستاخی پر اُسے پھر سے آنکھیں دکھائیں۔

”یہ تو افروز کا ہے۔۔اُس نے اپنی گرلفرینڈ کے لیے لے کر رکھا ہوا تھا لیکن کسی مجبوری کے تحت  امانتاً میرے پاس رکھوانا پڑگیا اُسے۔۔۔۔دیٹ سِٹ۔۔۔۔“  قدرے اطمینان سے اپنی بات پوری کرتے وہ اُنھیں اپنے لفظوں کے جال میں پھنساتا مسکرایا  جب اُسکے جواب پر پل بھرکو چونکتی وہ کچھ حیران ہوئیں۔

”اچھا۔۔تو یہ بات ہے۔۔۔ویسے تمھارے دوست کوایسی بھی کونسی مجبوری آن پڑی تھی شام جو وہ ایک چھوٹا سا نیکلس بھی اپنے پاس ڈھنگ سے سنبھال کر نہیں رکھ سکا۔۔۔؟؟یقین مانو لیکن تمھاری یہ بات میرے دل کو ابھی تک کھٹک رہی ہے۔۔۔“  اُسکی بے جھجھک صفائی پر آدھا ادھورا اعتماد کرتی وہ اب بھی کچھ مشکوک لہجے میں بولیں تو شام کھلے کیس کو جھٹکے سے بند کرتا لب بھینچتے اُنھیں دیکھتا رہ گیا۔بھوری نگاہوں میں بےاختیار شکوہ سا در آیا۔

 ”موم۔۔۔میرے اتنا ایکسپلین کرنے کے باوجود بھی آپکو مجھ پر ڈاؤٹ ہے۔۔۔؟؟؟حیرت ہورہی ہے مجھے۔۔۔بیلیومی یار یہ افروز کی ہی امانت ہے میرے پاس۔۔۔۔“  گھنی پلکیں جھپکا جھپکاکر اکھڑے لہجے میں پوچھتا وہ بری طرح جھنجھلایا تو  گڑبڑا کر فوراً سے اُسے اعتماد کی ڈور تھماتی وہ بڑی مشکلوں سےمسکرائیں۔

”دیکھو بیٹا۔۔۔مجھے تم پر ٹرسٹ ہے۔۔۔انفیکٹ بہت ہے جبھی تو میں نے آج تک کسی بھی معاملے کولےکر تم پر بےجا پابندیاں نہیں لگائیں۔۔۔جیسا کہ تمھارے ڈیڈ کرتے ہیں۔۔۔اورجہاں تک بات گرلفرینڈز کی ہے تو ایک چھوڑ کر سو بناؤ۔۔مجھے کوئی ایشو نہیں ہے۔۔لیکن کسی کے لیے اس حد تک سنجیدہ ہونے کی تمھیں قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے جو حق صرف تمھاری ہونے والی بیوی ہی ڈیزرو کرتی ہے۔۔۔“  اُسکی پیشانی پر چپکے نم بالوں کو شفقت سے پیچھے ہٹاتی وہ قدرے نرمی سے شام کو اُسکی حدود کا احساس دلارہی تھیں۔بظاہر تابعداری سے سر کو ہولے سے جنبش دیتا وہ اِن بندشوں سے کوسوں دور تھا۔

”آئی نو موم۔۔۔آئی نو۔۔۔مجھے میری حدود کا بہت اچھے سے اندازہ ہے۔۔ لیکن شاید آپکو اس بات کا بالکل بھی اندازہ نہیں کہ غصہ کرتے ہوئے آپ کس قد حسین لگتی ہیں۔۔۔آپکے شوہرنایاب تو فوراً ہی پگھل جاتے ہوں گے آپکا یہ لال بھبھوکا چہرہ دیکھ کر۔۔۔؟؟“  بےزارکرتی باتوں کا رخ موڑنے کو دلچسپی سے اُنکے سرخ رخسار دیکھتا وہ شوخ پن سے آنکھ دباگیا تو عائمہ بیگم اپنی خامی گھلی تعریف پر ٹھیک سے خوش بھی نہ ہوسکیں۔

”ہونہہ۔۔۔خوش فہمیاں ہیں تمھاری بیٹا۔۔۔۔پتھر جیسا سخت دل رکھنے والے تمھارے ڈیڈ پتھرکو تو پگھلا سکتے ہیں لیکن خود پگھلنا اُنکی فطرت میں شامل نہیں ہے۔۔۔۔“  حسن صاحب کی ذات کو لے کر بولتے ہوئے اُنکا کڑوا لہجہ حسرت لیے ہوئے تھا جب وہ عائمہ بیگم کو انہی حسرتوں میں چھوڑ کرتاسف سے سرجھٹکتا الماری کے کھلے پٹ کی جانب آیا تھا۔۔ لیکن اب کی بار بلیک کیس کو بداحتیاطی سے کپڑوں میں چھپانے کی بجائے وہ براہِ راست لاکرکو استعمال میں لایا تھا۔۔۔۔

**************************

حرمین کے تیسری بار شدت سے دروازہ پیٹنے پر ایک جھٹکے سے دروازہ کھلا تو اُنکے عجلت میں کمرے کی دہلیز پھلانگتے ہی حاویہ سسکتی ہوئی نفیسہ بیگم کے حصار میں سمٹتی اُنھیں بری طرح بوکھلانے پر مجبور کرگئی۔

”مم۔۔ماما۔۔۔ماما۔۔۔مجھ۔۔۔ے۔۔۔“  اُنھیں پوری قوت سے خود میں  جکڑتی وہ ہنوز بختی کے خوف میں تھی جبھی تو بے ربط لفظوں میں اپنی بات پوری کرنا محال ہورہا تھا۔

حرمین بھی  سکتے کی سی کیفیت میں اُسکی یہ بکھری حالت دیکھتی بے چین ہوئی۔

”حا۔۔حاویہ چندا کیا ہوا ہے۔۔۔؟؟کیا ہوا ہے تمھیں۔۔؟؟کیوں ایسے رو روکر ہلکان ہورہی ہو۔۔۔۔ہیں بتاؤ مجھے۔۔۔؟؟“  معاملہ سمجھنے کی ناکام تگ و دو میں شدت سے اُسکی پشت تھپکتی وہ اُسے بولنے پر اکسارہی تھیں جب نگاہیں نادانستگی میں سٹریچر کے قریب دنگ کھڑے بختی پر جا ٹھہریں۔

”بختی بچے تم ہی بتاؤ۔۔۔کیا ڈر گئی ہے یہ کسی شے کو دیکھ کر۔۔۔؟؟ہاں۔۔؟؟کتوں اور اندھیرے سے بہت ڈرتی ہے ناں میری بچی۔۔۔۔“  اس غیرمتوقع افتاد پرسن ہوتے ذہن کے ساتھ وہ فی الوقت بختی کو شک میں لینے کی حالت میں ہرگز نہیں تھی سو اسی سے پوچھتی مزید الجھیں۔

”پت۔۔پتا نہیں خالہ۔۔۔“  جواباً ہتھیلی کو پسینے سے نم چہرے پر پھیر کر بےاختیار جھٹکتا وہ بمشکل ہی بول پایا۔

شدت سے اپنے رعب میں لاتا وہ حاویہ بولتی بند رکھنے کی کھلی دھمکیاں تو  پہلے ہی دے گیا تھا۔۔مگر جانے کیوں اُسکے بےچین دل میں اطمینان کی جگہ عجیب سے خدشے  ہچکولے لینے لگے تھے۔۔۔جیسے آج کہیں وہ اپنوں کا سہارا پاکر اُسکے خلاف اندر دبا ڈھیر سارا زہر باہر اُگل کر اُسکی ذات کی دھچیاں نہ بکھیرکر رکھ دے۔۔۔

 مگر اگلے ہی پل وہ ایسے وحشت بھرے وہموں سے چھٹکارا پانے کو زور سے اپنا سر جھٹکتا پھر سے اُنکی جانب متوجہ ہوا۔

”حاویہ بچے بس کرجاؤ رونا۔۔۔میرا دل بیٹھا جارہا ہے۔۔۔ادھر میری طرف دیکھ کر بتاؤ کیا بات ہے۔۔۔؟؟“  ضبط کھونے پر نفیسہ بیگم نے حاویہ کو زبردستی خود سے الگ کرتے جھنجھوڑا تو اسکا بھیگا چہرہ اپنی نم آنکھوں کے سامنے دیکھتی وہ ٹھٹھک سی گئیں۔

تمتماتی ہوئی نم سانولی رنگت پر چھپی انگلیوں کی نیلاہٹ واضح تھی۔

”ی۔۔یہ کیا ہے۔۔؟؟تمھارے گال پر یہ نشان کیسے ہیں حاویہ۔۔۔۔؟؟“  بے اختیار دل پر ہاتھ دھڑتی وہ تشویش زدہ سی بڑبڑائیں تو حاویہ نے متوحش سی ہوکر اپنے سوجھے گال پر چھپے انگلیوں کے نشان پر نرم پوروں کو دھنسایا۔

درد کی مدھم پڑتی لہر میں ہلچل سی مچ گئی تھی۔گزرے لمحوں کی وحشت کا سوچ کر بےساختہ آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کر اُسکی گالوں پر پھسلے۔۔جبکہ اپنی ذیادتی پربختی کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا۔

معاً اُسکا رویا رویا سا چہرہ اپنی جانب گھوماتی۔۔حرمین بھی اُسکے  نازک گال کا حشردیکھتی نئی اذیت میں گھری تھی۔

 ”آ۔۔۔آپ نے یہ نشان۔۔۔یہ نشان دیکھے۔۔۔؟؟یہ۔۔یہ سارا اس شخص کا کیا دھڑا ہے۔۔۔“  ضبط کی طنابیں ہاتھ سے چھوٹتے ہی وہ بختی کی جانب انگلی کرتی بپھری تھی۔

اُسکی دیدہ دلیری پر جہاں پل بھرکو بوکھلاتے بختی کے تیوری چڑھی تھی وہیں اسِ غیرمتوقع انکشاف پر حرمین سمیت نفیسہ بیگم کو بےیقین سا دھچکا لگا۔

”یہ تم کیا بات کررہی ہو حاویہ۔۔۔؟؟“  وہ حیرت تلے کچھ ڈپٹنے والے انداز میں گویا ہوئیں۔

”میں سچ بول رہی ہوں۔۔۔ا۔۔پیہ۔۔۔اپیہ۔۔۔آپ میرا یقین کریں۔۔۔یہ شخص۔۔انسان نہیں۔۔بھیڑیا ہے بھیڑیا۔۔جو صرف مجھے تباہ کرنا چاہتا ہے۔۔۔“  یکدم حرمین کے ہاتھوں کو دبوچ کر آپے سے باہر ہوتی آج وہ سب کچھ اگل دینے کے درپے تھی۔

اپنے خدشوں کو کڑوی ترین حقیقیت میں ڈھلتا دیکھ وہ چشمے کے پار حرمین کی وحشت گھلی غصیلی نگاہوں کا ارتکاز خود پر محسوس کرتا جیسے ہوش میں آیا۔

”یہ تم کیا بکواس کیے جارہی ہو۔۔۔؟؟ہوش میں تو ہو۔۔۔؟؟خالہ پتا نہیں کیا ہوگیا ہے اسے۔۔۔؟؟کچھ بھی بولے جارہی ہے یہ پاگل لڑکی۔۔۔“  وہی کھڑے کھڑے برداشت کھوتا وہ اپنی صفائی پر بے اختیار چلایا تو نفیسہ بیگم نے حاویہ کی اس قدر خراب حالت پر آنسو بہاتے اُسے اپنی جانب کھینچا۔اتنی بھیانک حقیقت کو پلوں میں تسلیم کرنا مشکل ہورہا تھا۔

”حاویہ۔۔۔میری بچی یہ تم کیسی بہکی بہکی باتیں کررہی ہو۔۔۔؟؟ہوش میں آؤ وہ بڑا بھائی ہے تمھارا۔۔۔یقیناً تمھیں کوئی بہت بڑی غلط فہمی ہوئی ہوگی یا پھر جاگتے میں برا خواب دیکھ لیا ہوگا۔۔۔کیوں تم  اپنے بچپنے میں خود کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی  ناقابلِ برداشت اذیت سے دوچار کرنے پر تلی ہو بیٹا۔۔۔۔۔“  جھٹکا دے کر اُسکی حماقت کا احساس دلاتے اُنکا بھیگتا لہجہ کپکپایا تھا۔دل نے شدت سے دعا کی تھی یہ سب جھوٹ ہو۔۔۔مگر اگلے ہی پل حاویہ کا شدت سے نفی میں ہلتا سر اُنکی دلی خواہش جیسے ریزہ ریزہ کرنے کو بےتاب ہوا۔

”کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی مجھے۔۔۔بھائی کبھی بری نظرنہیں ڈالتے اپنی بہنوں پر۔۔۔“   اُنکے لرزتے ہاتھ شدت سے جھٹکتی وہ چیخی۔

جہاں حرمین سمیت نفیسہ بیگم کا دل ڈوبا تھا وہیں بختی کا اشتعال تلے پھڑپھڑاتا دل بےاختیار اُس بپھری لڑکی کا گلا دبانے کو چاہا۔

اس دوران سٹریچر پر لیٹی ریشماں بیگم کی سماعتوں میں یکجا آوازوں کی عجیب سی ہلچل ہوئی تو چہرے پر پل بھرکو ابھرتی الجھن پھر سےسمٹتی چلی گئی۔

”اگر یہ بھائی ہوتا تو مجھے کبھی بھی ہراساں نہیں کرتا جو یہ ہمیشہ سے مجھےکرتا آیا ہے۔۔۔ میرا یقین کریں میں سچ بول رہی ہوں۔۔۔۔“   اُنکے اتنی آسانی سے  نہ ماننے پر وہ ہذیانی کیفیت میں دبا سا چیختی ملتجی ہوئی جب آنکھوں میں سرخی لیے بختی دانت کچکچاتا ہوا تیزی سے اُسکی جانب لپکا۔

”اے بس بہت ہوا۔۔۔بند کرو یہ الزام تراشی کا ڈھونگ رچانا۔۔۔اتنا گھٹیا نہیں ہوں میں جتنا تم مجھے سب کی نظروں میں بنانے کی ناکارہ کوششیں کررہی ہو۔۔۔کوئی تمھاری باتوں کا یقین نہیں کرے گا بے سود ہے یہ سب۔۔سمجھی۔۔۔“  اُسے بازو سے جکڑتے ہوئے بے اختیار اپنی جانب جھٹکا دیتا وہ غرایا تو اُسکے سخت لمس سے خائف ہوتی وہ سسکی۔

یہ دیکھ کر نفیسہ بیگم کے جھنجھناتے دماغ  میں بےاختیار درد کی شدید ٹیس اٹھی تھی جب  بھیگی آنکھوں کو جھپکا کر بجلی کی سی تیزی سے آگے بڑھتی حرمین۔۔حاویہ کو اُسکے شکنجے سے زبردستی چھڑواتی اپنے حصار میں سمیٹ گئی۔حاویہ نے روتے ہوئے بےساختہ آنکھیں میچ لیں۔

”اگر یہ  الزام تراشی کا ڈھونگ رچا رہی ہے تو پھر اسکے گال پر یہ انگلیوں کے نشان کیسے چھپے۔۔۔۔؟؟؟دروازے کا یوں اندر سے لاکڈ ہونا۔۔اور پھر بند کمرے میں آپکی موجودگی کیا ظاہر کرتی ہے۔۔۔؟؟جواب دیں۔۔۔یہ اسکا ڈر۔۔رو رو کر سوجھائی گئیں آنکھیں۔۔۔ سب سے بڑھ کر اسکی بولی گئی ایک ایک بات۔۔۔کچھ بھی تو قابلِ فراموش نہیں ہے۔۔۔۔“  حاویہ کے دفاع میں بختی کے سامنے پہلی بار درشت لہجہ اپناتی وہ اپنے سخت تیوروں سے اُسے حیران ہی تو کرگئی تھی۔مضبوط لہجے کے برعکس وجود میں سرسراتی کپکپاہٹ واضح تھی۔

”او بہن خدا کے واسطے میرا یقین کرو یہ سب صرف مجھے پھنسانے کے لیے کیا جارہا ہے اور کچھ نہیں۔۔۔میں صرف امی کی خاطر یہاں آیا تھا۔۔۔اور خالہ آپ تو کچھ۔۔۔۔“  ہاتھ جوڑ کر اس نئی افتاد سے جان چھڑوانے کو بگڑتا وہ نفیسہ بیگم کی جانب متوجہ ہوا۔۔مگر اُنکی بھیگی آنکھوں میں نفرت آمیز تاثر پرکھتا وہ چونکا۔

”خالہ۔۔۔آپ ایسے کیوں دیکھ رہی ہیں میری طرف۔۔۔اففف۔۔۔کہیں آپ بھی اپنی بیٹیوں کے پاگل پن پر یقین کرکے مجھے قصوار تو نہیں سمجھ رہیں۔۔۔اگر ایسا ہے تو۔۔۔“  آگے کو لپک کر مضبوطی سے اُنکے تھامتا وہ اُنھیں اپنی جانب قائل کرنے کی بےفائدہ  تگ و دو میں تھا جب نفیسہ بیگم نے قدرے غصے میں اُسکے ہاتھ جھٹک ڈالے۔

”میں نے تم پر آنکھیں بندکرکے اندھا اعتبار کیا۔۔تمھیں اپنی سگی اولاد سے بڑھ کر ایک خاص مقام۔۔ایک درجہ دیا۔۔اورتم۔۔تم کیا نکلے۔۔۔؟؟آسیتن کا سانپ۔۔جو پلٹ کر اپنوں کو ہی بےدردی سے ڈستا ہے۔۔۔“  اپنے تلخ لفظوں سے حقیقت کی مار مارتی وہ پلوں میں اُسے اسکی اوقات باور کرواگئیں جو کچھ بے یقین سا اُنہی کی جانب دیکھ رہا تھا۔

”خالہ۔۔۔خالہ۔۔۔کیا ہوگیا ہے آپکو۔۔۔؟؟کیوں آپ اپنی کم عقل بیٹیوں کے پیچھے لگ کر اس قدر بے اعتباری دکھا رہی ہیں اپنے بھانجے کو۔۔۔؟؟یہ میرے خلاف سوچ سمجھ کر پھیلائے گئے فساد سے ذیادہ کچھ بھی نہیں ہے یقین کریں میرا۔۔۔“  سنگین حالات کے پیشِ نظرملتجیانہ گویا ہوتا وہ تھوڑا نرم پڑا۔۔۔ماؤف پڑتے دماغ سے فی الحال کے لیے حاویہ کے معاشقے کی بات نکل چکی تھی۔۔

”تو پھر ثابت کرو۔۔۔ثابت کرو میری بیٹیوں کے خلاف اپنی بےگناہی  اورتسلی بخش جوابات دے کر میری روح کے اندر تک اطمینان اتار دو کہ تم پر لگائے گئے سب الزامات بے بنیاد ہیں۔۔۔فریب ہے یہ سب۔۔۔تمھیں پھنسانے کو بس ایک جال ہے۔۔۔“  بولتے ہوئے اُنکا لہجہ بھاری ہوگیا۔مقابل کے ظلم سے کہیں ذیادہ انھیں اپنی بیٹی کی بابت خود کی بےخبری نے اذیت سے دوچار کیا تھا۔

جواباً مٹھیوں سمیت لب بھینچتے اُسنے ضبط بھری نگاہ پل بھرکو اطراف میں دوڑائی۔

”ماما یہ صرف باتیں گھمائے گا بس۔۔کوئی خاطرخواہ جواب نہیں دے گا۔۔کیونکہ  اپنی کالی کرتوتوں کے بعدسے یہ اس قابل بچا ہی نہیں جو اپنی سچائی سے آپکی روح کو تسکین دے سکے۔۔۔“  اُسکے یوں نظریں چرانے پر حرمین نے گہری چوٹ کی تو بختی نے اُسکی کھلی بدتمیزی پر اُسکے ناک سے ذرا نیچے کو پھسلتے چشمے سمیت اُسے سخت چتونوں سے گھورا۔

”کیا بےکار کی باتیں کررہی ہو تم۔۔۔ہاں۔۔؟؟ کیا اکھاڑا ہے میں نے تمھارا جو تم یوں ہاتھ دھو کر مجھ معصوم انسان کے پیچھے پڑگئی ہو۔۔۔؟؟پوچھو ناں اپنی پاگل بہن سے۔۔اگر ایسا ہی تھا تو پھر کیوں یہ اتنے عرصے تک خاموش رہی۔۔۔میری کرتوتوں کے حوالے سے کسی کو کچھ بتایا کیوں نہیں اس نے۔۔؟؟؟“  اُسکے آگے سینہ تان کر کھڑا ہوتا وہ ہرلحاظ سے رعب جماتا اپنا دامن بچارہا تھا۔لہجہ ہنوز انگارے چباتا ہوا تھا۔

”کیونکہ تم نے مجھے روکا ہوا تھا۔۔۔تمھارے ڈر اور جانلیوا دھمکیوں نے مجھے چپ رہنے پر مجبور کیا تھا۔۔۔لیکن اب میں تمھاری ذیادتیاں مزید برداشت نہیں کروں گی ۔۔۔چیخ چیخ کر سچ بتاؤں گی سب کو۔۔۔۔“  حرمین سے الگ ہوکر کپکپاتے لہجے میں دوٹوک جواب دیتی وہ اُسے لاجواب کرگئی۔

اگلے ہی پل بختی کا توانا وجود سب کی نفرت بھری نگاہوں کی زد میں آیا تھا۔

”تم تو دماغ سے بالکل ہی فارغ ہو گئی ہو۔۔۔چلو میرے ساتھ۔۔۔خالہ والا ڈاکٹر ابھی اِدھر ہی ہے تمھارا پراپر علاج کروادیتا ہوں میں اُسکے پاس سے۔۔۔“  اپنی خجالت مٹانے کو زبردستی اُسے کلائی سے کھینچتا وہ دیدہ دانستہ گستاخی کرنے پر اتر آیا جب نفیسہ بیگم ضبط کھوتی اُسکے چوڑے سینے پر شدت سے دو ہتھڑ مارتی اُسے پیچھے دھکیل گئیں۔چند قدم لڑکھڑاتا وہ بروقت سنبھلا۔

”دور رہو میری بچی سے۔۔۔خبردار اب جو اُسے غلطی سے بھی چھونے کی کوشش کی تو۔۔۔ابھی میں زندہ ہوں اپنی بچیوں کی حفاظت کرنے کو۔۔۔مری نہیں جوتم انھیں لاوارث سمجھ کر اپنی منمانیاں کرتے پھررہے ہو۔۔۔“  سلگتے لہجے میں چیختی وہ بختی کو توہین کی انتہا پر پہنچاگئی تھیں۔

اس جذباتی پن پر پل بھرکو وہ سکتے میں آیا۔کب سوچا تھا کہ ہمیشہ شائستگی سے بات کرنے والی نفیسہ بیگم کا یوں جلالی روپ بھی اُسے برداشت کرنا پڑے گا۔

اگلے ہی پل اُسنے  کاٹ دار نظروں سے حاویہ کے چہرے پر اترتے اطمینان کو دیکھا جو اُسے اپنی جانب تکتا پاکر حقارت سے نگاہیں پھیر گئی تھی۔ 

تبھی ادھ کھلے دروازے کو پورا دھکیل کر ایک نرس پراپر یونیفارم میں غصے سے دندناتی ہوئی اندر داخل ہوئی۔

”یہ کیا شور مچارکھا ہے آپ لوگوں نے یہاں۔۔۔؟؟مت بھولیں کہ یہ ایک ہاسپیٹل ہے۔۔۔آپکا گھر نہیں۔۔۔پلیز ہمارا نہیں تو کم از کم اپنے اردگرد بیمار پڑے پیشینٹس کا ہی کچھ لحاظ خیال کرلیں۔۔۔“  اُن سب پر دبا دبا سا چیختی وہ سٹریچر پر چت لیٹی ریشماں بیگم کی جانب اشارہ کرتی تاسف سے سر ہلانے لگی جو دوائیوں کے زیرِ اثر ہنوز گہری نیند کی وادیوں میں جھول رہی تھیں۔

بختی نے نرس کی مداخلت پر غصے سے سر جھٹکتے ہوئے ایک نظر پلٹ کر اپنی ماں پر اچھالی۔

”ایم سو سوری سسٹر۔۔۔ہم بس جاہی رہے تھے یہاں سے۔۔۔“  اپنا چشمہ ٹھیک سے ناک پر ٹکاتی حرمین نرس کی جانب دیکھتی دھیمے لہجے میں بولی تو جواباً وہ نخوت سے سر جھٹکتی وہاں سے نکلتی چلی گئی۔

اگلے ہی پل نفیسہ بیگم چند قدم اٹھاتی بختی کے مقابل آئی تھیں۔

”میرے سوالوں کے جواب میں تمھارے اس جاہلانہ رویے نے مجھ پر ساری حقیقت کھول کر رکھ دی ہےبختی۔۔۔اسی لیے آج اور ابھی سے میں ہمارے بیچ کے ہر رشتے کو بذاتِ خود ختم کرتی ہوں۔۔۔آئندہ سے مجھے اور میری بچیوں کو اپنی یہ شکل کبھی مت دیکھانا۔۔۔پلے سے باندھ لو میری یہ بات۔۔۔چلو لڑکیوں۔۔۔“  نفیسہ بیگم سرمہری سے اُسکی لہو رنگ آنکھوں میں جھانکتی پل میں سارے رشتے پیروں تلے روندگئیں تو اُنھیں اپنے بیٹیوں کے سنگ وہاں سے پلٹتا دیکھ بختی کا فشار خون ابالے مارنے لگا۔

اُنکے نکلتے ہی کمرے میں وحشت بھرا سکوت چھایا تھا۔

”بہت پچھتاؤگی تم حاویہ فیضان۔۔۔یہ دوسری بار بے وفائی کری ہے تم نے میرے ساتھ۔۔۔دیکھ لوں گا میں تمھیں اور تمھاری ان محافظ چوکیدارنیوں کو بھی۔۔۔سالی۔۔سب کی نظروں میں دوکوڑی کی عزت بناگئی میری۔۔۔ہاہ۔۔۔دیکھ لوں گا۔۔۔ایک ایک کو۔۔۔دیکھ لوں گا۔۔۔“  اس قدر رسوائی پر بالوں میں ہاتھ پھنسائے شدت سے کڑھتا ہوا وہ اِدھر اُدھر ٹہلنے لگا۔ان پلوں میں انتقام کی آگ شدت پکڑتی اُسکے وجود میں مزید بےسکونی اتار گئی۔۔۔۔

*********************

سرد فضاء میں گہری تپش چھوڑتی سورج کی چمکتی کرنیں اِس وقت ریسٹورنٹ کے گلاس والز سے ٹکراتی اندر بیٹھے نفوس کو بھی گرم سا لطف بخش رہی تھیں۔ایسے میں وہ اس پرسکون حصے میں مسٹر ہاشم فاروق  کے ساتھ ارینج کی گئی میٹنگ میں سنجیدہ سا مگن بظاہر مس انجمن کی خود پر بار بار پڑتی گہری نگاہوں سے لاپرواہ بنا بیٹھا تھا۔بلیک پینٹ کوٹ میں اُسکی مردانہ وجاہت قابل ستائش تھی۔

”بائے دا وئے۔۔کنگریجولیشن آن دی گریٹ سکسیس آف پریویس سبجیکٹ۔۔۔۔انفیکٹ اتنی امید نہیں تھی جتنی کامیابی دیکھنے کو ملی۔۔۔یو آر رئیلی آ گریٹ بزنس مین۔۔۔“  آگے پڑا لیپ ٹاپ بند کرتے ہوئے مسٹر ہاشم فاروق نے سابقہ پروجیکٹ کی فتح یابی پر مبارکباد دینا ضروری سمجھا تو خود کی تعریف وصولتا وہ دلکشی سے مسکرایا۔مس انجمن شاہ کے لبوں پر بکھرے مغرور تبسم کو بغور دیکھتی خود بھی شدت سے مسکرائیں۔

”تھینک یو سو مچ فار دیس نائس کمپلیمنٹ مسٹر ہاشم فاروق۔۔۔بقول آپکے یہ سچ میں ایک منافع بخش اور شاندار کامیابی تھی جو ہمیں ملی۔۔۔اور اسی کو خاص وجہ بناکر ہماری کمپنی کی طرف سے ایک بزنس پارٹی کا خصوصی ارینج  کیا گیا ہے۔۔۔سو یو وِل ڈیفینیٹلی کم ٹو دِس پارٹی۔۔۔۔“  تب سے ہاتھ میں جکڑی بلیک سن گلاسز کو گہرا سانس بھرتے ہوئے ٹیبل پر مگ کے پہلو میں دھرتا وہ بخوشی مروت نبھاگیا تو اس نئی اطلاع پر پل بھر کو چونکتے ہوئے اُن دونوں نے سرسری سی نگاہ ایک دوسرے کی جانب اچھالی۔

”شیور۔۔۔وائے ناٹ۔۔۔ہمیں خوشی ہوگی اس بزنس پارٹی میں شرکت کرکے۔۔۔اینڈ آئی ہوپ اپنے نیکسٹ پروجیکٹ میں بھی آپ ہمیں پاٹنرشپ کرنے کا موقع فراہم کریں گے مسٹر شاہ۔۔۔ “  گود میں پڑے ریڈ فولڈر کو کناروں سے جکڑتی مس انجمن اُسے مزید شراکت داری کرنے کو اکساتی پُرجوش سی گویا ہوئیں۔

مسٹرہاشم فاروق نے بھی فائدہ تکتے اُسکی تقلید میں سر کو ہولے سے جنبش دی تو شاہ اُنھیں مطمئن کرنے کو بےساختہ مسکرایا۔بزنس کی دنیا میں حقیقتاً فائدہ تو اُسے تھا۔

”آفکورس۔۔۔ایسا کریں کہ میری طرف سے آپ مسٹرجنیدملک کو بھی ہاں کا آپشن پاس کردیجیے اور اُن سے کہیے گا کہ ہم بہت جلد میرے آفس میں ایک میٹنگ ارینج کریں گے انشاءاللہ۔۔۔۔“  پل بھرکو کان کی لو مسلتے ہوئے نرم لہجے میں آفر دیتا وہ مس انجمن سے مخاطب تھا۔۔جبکہ اِن بڑھتے تعلقات پر اُنکے  کھلتے چہروں پر کھلتی مسکراہٹیں دوڑگئیں۔

”اوکے مسٹر شاہ۔۔آپ بے فکر رہیں میں بول دوں گی اُنھیں۔۔۔۔“  خوش اخلاقی سے گویا ہوتی وہ بےاختیار حامی بھرگئیں تو ٹیک چھوڑتے ہوئے شاہ کی بھوری نگاہیں بےاختیار کلائی پر بندھے سلور ڈائل پرپھسلیں۔

”اوکے دین۔۔۔میٹنگ ٹائم از اپ ناؤ۔۔۔۔آئی ہوپ جلد ملاقات ہوگی۔۔۔“  ٹیبل پر پڑا اپنا قیمتی موبائل فون اور سن گلاسز اٹھاتا وہ فوری اٹھ کھڑا ہوا تو اُسے وقت کا اس قدر پابند دیکھ کر وہ دونوں بھی بے دقت اپنی جگہ سے اُٹھے تھے۔

”ہمیں بھی انتظار رہے گا۔۔۔۔“  حسبِ توقع ہاتھ ملاتے مسٹر ہاشم فاروق گرمجوشی سے گویا ہوئے تو جواباً اثبات میں سر ہلاتے اُسکے لبوں کو بھی دھیمی سی مسکان نے چھوا۔

ایسے میں مس انجمن بھی کہاں پیچھے رہنے والی تھیں سو قدرے آگے بڑھ کر ہاتھ ملاتی وہ مسکرائیں۔

”میرے پاس مزید کچھ یونیک آئیڈیاز ہیں۔۔۔اگر چاہیں تو ہم اس حوالے سے کال پر بات کرلیں گے۔۔۔“  اُسکی جانب جھکتی بظاہر کام کی آڑ میں وہ اُسے اپنی جانب پیش قدمی کی سادہ سی دعوت دے رہی تھی۔

”اوکے۔۔۔۔“  بےزاری سے اُسکی کَسی گرفت سے ہاتھ چھڑواتے ہوئے بلیک گلاسز آنکھوں پر چڑھاتا وہ اثبات میں سرہلاگیا تو مس انجمن کی آنکھوں کی چمک مزید بڑھ گئی۔

لمحے بھر کی مسکراہٹ خود کی جانب متوجہ ہاشم فاروق پر ایک بار پھر ڈالتا وہ پلٹا پھر تیزی سے وہاں سے نکلتا چلاگیا۔

البتہ لوٹتے ہوئے وہ ٹیبل پر پڑی مینیو ڈائری میں بل کے ساتھ ٹِپ رکھنا قطعی نہیں بھولا تھا۔

پارکنگ ایریا کی جانب بڑھتے اُسے دور سے ہی اپنی پجارو سمیت سینے پر بازو لپیٹے دھوپ کے مزے لیتا ڈرائیور دکھائی دیا تو اُسکی شاہانہ چال میں بے اختیار تیزی آئی۔۔مگر اگلے ہی پل شاہ کے سرعت سے فاصلہ ماپتے قدموں میں واضح لڑکھڑاہٹ آئی تو پل بھر کی بوکھلاہٹ پر اُسے بےساختہ رکنا پڑا۔۔۔اور وجہ وہ تصادم تھا جو یقیناً مقابل کی لاپرواہی سے ہوا تھا۔

”یُو فول مین۔۔۔۔دیکھ کر نہیں چل سکتے تم۔۔۔؟؟“  قدرےتلخی سے بولتے اُسنے جھٹکے سے کالا چشمہ آنکھوں سے کھینچ اتارا۔۔مگر منظر صاف ہونے پر بھوری نگاہوں کو جو چہرہ دیکھنے کو ملا تھا اُسکی توقع شاہ کو ہرگزنہیں تھی۔تنے ہوئے اعصاب بےاختیارحیرت کی ذیادتی سے ڈھیلے پڑے۔

سامنے والے کی حالت بھی اِس سے کچھ کم نہیں تھی۔

”آ۔۔آئی کانٹ بیلیو یار۔۔۔یہ۔۔۔یہ سچ میں تم ہو۔۔۔۔؟؟؟“  بڑھی ہوئی شیو میں پہلے کی بانسبت کمزور سا چہرہ لیے بےیقینی سے اٹک اٹک کر بولتا وہ یقیناً افروز عالم ہی تھا جسکا ڈریسنگ سینس آج بھی نہیں بدلا تھا۔

”کیسے ہو برو۔۔۔۔؟؟؟“  ہوش میں آتے ہی اُسنے شاہ سے جوشیلے انداز میں بغل گیر ہونا چاہا جب وہ بےدردی سے اُسکے سینے پر پوری قوت سے ہاتھ مارتا اُسے خود سے دور دھکیل چکا تھا۔

ماضی کی چندسلگتی یادیں تیزی سے اُسکی یادداشت میں تازہ ہوتی اُسکے وجود میں چنگاڑیاں سی بھر گئیں۔

اُسکے شیدید ترین ری ایکشن پر جہاں افروز دو قدم پیچھے کو لڑکھڑاتا گرنے سے بمشکل بچا تھا وہیں کالا چشمہ شاہ کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گرا۔۔۔جسے اُس بندے کے سامنے جھک کر اٹھانا اُسنے ضروری سمجھا بھی نہیں تھا۔

”تم جیسے مکار اور دھوکےباز شخص سے واقفیت بھی میری شخصیت کی توہین ہے۔۔۔آئندہ مجھ سے ٹکرانے کی غلطی۔۔غلطی سے بھی مت کرنا۔۔۔نہیں تو پھر جو غلطی میں کروں گا وہ تم برادشت نہیں کرپاؤ گے۔۔۔سمجھے۔۔۔“  ضبط سے سرخائی گھلی نگاہیں اُسکی ساکت نگاہوں میں گاڑتا وہ شہادت کی انگلی اُٹھائے ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا تو جانے کیوں افروز اُسکے لفظوں پر شرمندہ سا ہوتا پل بھرکو نگاہیں پھیر گیا۔

اُسکے یوں نظریں چرانے پر ایک تمسخر بھری مسکراہٹ نے شاہ کے لبوں کو چھوا۔اگلے ہی پل وہ سرجھٹکتا اُسکے پاس سے گزرکر بےنیاز سا آگے نکل گیا تو وہ خجل سا اپنی انا کو بھاڑ میں بھیج کرسرعت سے اُسکی جانب لپکا۔

گاڑی سے ٹیک لگا کر کھڑے ڈرائیور کی نظریں اپنی جانب غصے سے آتے شاہ پر پڑی تو وہ محتاط ہوتا فوراً سے دروازہ کھول کر ڈرائیونگ سیٹ سنبھال گیا۔

”کہاں جارہا ہے تُو۔۔۔۔؟؟؟یار ایک بار میری بات تو سن لے۔۔۔پلیز رک جا۔۔۔۔م۔۔میں کب سے تجھ سے معافی مانگنا چاہتا تھا پر میرے ہاتھ اتنے وقت سے صحیح موقع نہیں لگا۔۔۔یاررر پلیز رک تو۔۔۔۔دیکھ۔۔اُسے میری نادانی سمجھ کر بھول جا۔۔پاگل تھا میں جو۔۔۔“  اُسکے پیچھے تیزی سے لپکتا ہوا وہ باقاعدہ منتوں پر اتر آیا تھا جبکہ اُسے ہرلحاظ سے ان سنا کرنے کی کوشش میں ہلکان ہوتا وہ سختی سے مٹھیاں بھینچتا اب کہ جیسے انگاروں پر لوٹنے لگا۔اُسکے لفظوں پر نئے سرے سے اذیت ہوئی تھی۔

پلٹ کر افروز کے منہ پر پنچ مارنے کی شدید خواہش کو بڑی مشکلوں سے اپنے اندر دباتا  وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر پچھلی سیٹ پر بڑے آرام سے براجمان ہوچکا تھا۔

”گھر لے چلو۔۔۔۔“  سرد لہجے میں آڈر دیتا وہ بےاختیار اپنی تنی کنپٹیاں دبانے لگا جب افروز بھی اُس تک پہنچتا شدت سے شیشے پر ہاتھ مارتے ہوئے اُسے پکارنے لگا۔

ناک کی سیدھ میں تکتے شاہ نے ایک بار بھی شیشے کے پار اُسکی شکل دیکھنا گوارا نہیں کیا تھا۔

ہنوز شیشہ بجاتے گہرے سانس بھرتا وہ ہانپ رہا تھا مگروہاں پرواہ کسے تھی۔۔۔

”سر۔۔۔شاید کوئی شخص آپکو باہر بلارہا ہے۔۔۔۔“  جھٹکے سے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے ڈرائیور نے باہر پاگل ہوتے شخص کی ہمدردی میں  یونہی شاہ کی توجہ اُس جانب دلانا چاہی تو آپے سے باہر ہوتا شاہ بےاختیار ڈرائیونگ سیٹ کی پشت پر زور کی ٹھوکر مارتا اُسے سہماکررکھ گیا۔

”شٹ اپ۔۔۔جسٹ شٹ اپ اینڈ جسٹ موو ڈیمٹ۔۔۔۔۔“  اُسکے کان کے پاس چیختا وہ ڈرائیور کو تو اُسکی اوقات باورکروا ہی چکا تھا۔۔ساتھ میں افروز کو بھی اپنے اشتعال تلے تھمنے پر مجبور کرگیا۔

 ”سس۔۔سوری سر۔۔سوری۔۔“ ویو مرر سے اُسکی شعلہ بار نگاہوں کی جھلک دیکھ وہ دھیمے لہجے میں معذرت کرتا تقریباً بڑبڑایا پھر اطراف سے مکمل بےبہرہ ہوتے ہوئے اگلے ہی پل گاڑی ریورس کرتا زن سے وہاں سے بھگا لے گیا۔

پیچھے افروز شدتِ بےبسی سے مٹھیاں بھینچتا پل پل دور جاتی گاڑی کو محض نم پڑتی نظروں سے دیکھتا رہ گیا۔۔وقت اور حالات انسان کو اُسکی شخصیت سمیت کس قدر تیزی سے بدل کر رکھ دیتے ہیں آج اسکا ایک بھرپور نمونہ وہ بظاہر خود اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا۔۔۔۔۔شرمندگی کے بھاری بوجھ نے نئے سرے سے اُسکے وجود کو ان دیکھی اذیتوں میں مبتلا کیا تھا۔۔۔

**********************

رات کی لامحدود سیاہی جہاں بےجھجک کھلے آسمان کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی وہیں تیزی سے کھسکتے ان لمحوں سے لاپرواہ وہ تینوں ابھی تک حسن پیلس میں ٹھہرے اس وقت خوش گپیوں میں مصروف تھے۔اس دوران چائے کا چلنے والا یہ دوسرا دور تھا۔

وہ جو پہلے ہی شدید تھکاوٹ کا بوجھ کندھوں پر ڈالے جان بوجھ کر دیر سے گھر واپس لوٹا تھا اس غیرمتوقع صورتحال پرمہمانوں سے محض مروت نبھانے کو اپنی بےزاری چھپاتا بات چیت کرنے پر مجبور تھا۔

عین مقابل ٹانگ پر ٹانگ جماکر بیٹھی عروسہ شاہنواز چائے کی چسکیاں بھرتی اُسی کے وجیہہ چہرے کو ہنوز دلچسپ نگاہوں کا مرکز بنائے ہوئے تھی۔

اُسکی بےخودی کو کب سے محسوس کرتا عائل اب اندر ہی اندر الجھن کا شکار ہونے لگا۔

ٹائٹ جینز کے اوپر وائٹ لوز شرٹ پہنے وہ شوخ چنچل سی لڑکی ہر بات میں حصہ ڈالتی۔۔ڈائی شولڈر کٹ بالوں سمیت ہلکے پھلکے میک اپ میں اُسے ایک آنکھ نہیں بھائی تھی۔۔۔

کجا کہ عمر بھر کا ساتھ۔۔۔

عائل نے بےساختہ سر جھٹکا۔

”موم۔۔۔۔آئی لائیک ہِم۔۔۔۔بس آپ اِن لوگوں کو یس کا سائن دیں اور بات آگے بڑھائیں پلیز۔۔۔۔“  

معاً خود پر پڑتی عائل کی سرسری سی بےزار نگاہ پر بےاختیار ہوتی وہ پہلو میں بیٹھیں حسنہ بیگم کی جانب جھکی تو اُسکی سرگوشی کوسمجھتی وہ لبوں پر تبسم بکھیرے سر کو ہولے سے جنبش دے گئیں۔

محوِ گفتگو ہونے کے باوجود بھی اُسکی یہ بےاختیاری عائل سمیت عائمہ بیگم کی نگاہوں سے مخفی نہیں رہ پائی تھی۔۔جبکہ حسن صاحب نے شام کی غیر موجودگی کا لحاظ برتتے ہوئے تقریباً چوتھی بار سامنے دیوار گیر گھڑی پر پل بھرکی بےچین سی نگاہ جمائی تھی۔

 ہاتھ میں پکڑا خالی کپ شیشے کی میز پر رکھتے ہوئے حسنہ بیگم نے باقاعدہ بات کا آغاز کرنے کو گلا کھنگارا تو عائمہ بیگم بھی ٹیک چھوڑتی اپنی جگہ محتاط سی ہوئیں۔

”بسس جی ساری باتیں ایک طرف۔۔۔ہمیں تو آپکا قابل اور ذمہ دار بچہ اپنی عروسہ بیٹی کے لیے  ہر لحاظ سے بھایا ہے۔۔۔اگر ایک ماں باپ کا نظریہ پرکھا جائے تو یقیناً عائل جیسا لڑکا ہماری بچی کے لیے ایک بہترین انتخاب ہے۔۔۔

اور ان سب باتوں کے بعد تو ہمارا اب آپ لوگوں سے بس یہی ایک تقاضا ہے کہ اس دوستی کو جلد از جلد قریبی رشتہ داری میں بدل دیا جائے۔۔۔“ 

 اپنے آنے کا اہم مقصد اُنھیں باور کرواتی وہ بڑے مان سے گویا ہوئیں تو جہاں انکے بے دھڑک پہل کرنے پر عائمہ بیگم گڑبڑائی تھیں وہیں عائل نے سختی سے لب بھینچتے شکوہ کناں نگاہیں اپنی ماں پر ڈالیں جو اب کچھ فکرمندی سے پہلو بدلتی اس خوشگوار خبر پر ٹھیک سے خوش بھی نہیں ہوپائی تھیں۔۔۔

یقیناً عروسہ اُنھیں اپنی بہو کے روپ میں ہرلحاظ سے بھائی تھی۔

اپنے رشتے کی بابت سن کرایک ادا سے لمبی سی مصنوعی  پلکیں جھکاتی شرمانے کی بھونڈی سی کوشش کرنے لگی تو اُسے یوں مسکراہٹ روکنے کی چکر میں لب کاٹتے دیکھ  عائل کو بےساختہ کوفت ہوئی۔

”جی بالکل حسن صاحب۔۔۔ہماری سالوں کی دوستی ہے۔۔اور اب اس دوستی کو رشتے داری میں بدل جانا چاہیے۔۔۔ویسے بھی عائل مجھے اپنی بیٹی کے لیے شروع سے ہی بہت پسند ہے۔۔لہٰذا اس معاملے میں،میں نہ سننے کا روادار ہرگز نہیں ٹھہروں گا۔۔۔“ 

 شاہنواز صاحب نے بھی اپنی زوجہ کی تقلید میں لگے ہاتھوں اپنا موقف بیان کرڈالا تو اُنکی اس قدر اپنائیت جتانے پر جواباً۔۔حسن صاحب سیاہ وسفید مونچھوں کو عادتا ًتاؤ دیتے کھل کر ہنس دئیے۔

”یہ تو آپ لوگوں کی پُرخلوص محبت کا نتیجہ ہے جو آپ  میرے بیٹے کو اپنا داماد بنانے پر دل سے بضد ہیں۔۔۔لیکن میرا خالص تجربہ تو یہی کہتا ہے کہ رشتوں کا گٹھ جوڑ کرنے سے پہلے لڑکی اور لڑکے کی رضامندی لینا بھی بہت ضروری امرہوتا ہے۔۔۔“ 

 ٹانگ سے ٹانگ ہٹاکر ٹیک چھوڑتے ہوئے اُنھوں نے سنجیدہ لہجے میں بڑی گہری بات کی تھی۔

”یہ تو آپ نے خوب کہی بھائی صاحب۔۔۔ہم بھی آپکی رائے سے خاصے متفق ہیں۔۔۔اسی لیے اگر عروسہ اور عائل بیٹے کو تنہائی میں بات چیت کرنے کے لیے کچھ وقت میسر آجائے تو ہمیں انکی رضامندی کا بھی معلوم پڑجائے گا اور آگے کا فیصلہ لینا بھی آسان ہوجائے گا۔۔۔۔“ 

 عائل جو کافی دیر سے سب کی منمانیاں بڑے جگرے سے برداشت کررہا تھا اس نئے تقاضے پر بھی صبرکے گھونٹ بھرتا ہنوز خاموش تھا۔۔

جبکہ اسکے برعکس اُسکا دماغ صبرسے کام لینے کو قطعی آمادہ نہیں تھا جبھی مختلف سوچوں کی آماجگاہ بنا پلوں میں اگلا لائحہ عمل ترتیب دے رہا تھا۔

”ہوں۔۔۔یہ مناسب ہے۔۔۔ہمیں بھی کوئی اعتراض نہیں۔۔۔بیٹا عائل۔۔عروسہ بیٹی کو اپنے ساتھ لے جاؤ۔۔۔امید ہے کہ ہمارے اس فیصلے کے نتائج اچھے ثابت ہوں گے۔۔۔“ 

 عائمہ بیگم کی پریشان نظروں سے کچھ الجھتے ہوئے۔۔حسن صاحب اپنے بیٹے کی ناپسندیدگی سے قطعی انجان لبوں پر مسکراہٹ سجاتے قدرے شائستگی سےگویا ہوئے تو عائل  ضبط سے پل بھرکو آنکھیں بند کرتا گہرا سانس بھر کے رہ گیا۔

”جی ڈیڈ۔۔۔“ 

 لہجے کو مودب رکھنے کی کوشش کرتا وہ جلتے دل کے ساتھ بمشکل اپنی جگہ سے اٹھا تو اُسکے یوں آسانی سے مان جانے پر عائمہ بیگم کو خوشگوار حیرت ہوئی۔

عائل نے عروسہ کی جانب دیکھتے ابرو اچکائی تو مزید شرمانے کی تگ دو ترک کرتی وہ جھٹکے سے کھڑی ہوئی پھر وہاں بیٹھے نفوس پر پل بھرکو نگاہیں ڈالتی عائل کی تقلید میں سب کے بیچ سے نکلتی چلی گئی۔

آگے پیچھے سیڑھیاں پھلانگتے اگر ایک کی دھڑکنیں ملن کے لمحوں کا سوچ کر بےہنگم ہو رہی تھی تو وہیں دوسرے کا دل مزید بوجھل ہوتا اندر کی بےقراری کو اب باہر ابھارنے لگا تھا۔۔۔۔

بمشکل کچھ ہی پل گزرے تھے جب شام کانوں سے ہیڈ فونز ہٹاتا داخلی دروازے سے اندر داخل ہوا۔۔

تو جہاں سب چونک کر اُسکی جانب متوجہ ہوئے تھے وہیں حسن صاحب کے ماتھے پر چڑھتی تیوری بغور دیکھتے شام کے لب  شوخ سی مسکراہٹ میں ڈھلے۔۔

جبکہ بھوری نگاہوں میں واضح چیلنج تھا۔۔۔

**************************

”کیاآپکو شروع سے ہی یہ فورس جوائن کرنے کا شوق تھا۔۔۔؟؟؟“ 

 اُسے کمرے سے ملحقہ ٹیرس کی جانب نکلتے دیکھ وہ بھی سرعت سے اُسکے پیچھے لپکتی قدرے دلچسپی سے گویا ہوئی۔

”ہوں۔۔۔بچپن سے ہی۔۔۔۔“  گہرے تاریک آسمان پر ٹھنڈی روشنی  بکھیرتے چاند کو بغور دیکھتا وہ ناپ تول کر بولا تو وہ سمجھنے والے انداز میں سرہلاتی پرجوش سی مسکرائی۔

”او۔۔نائس۔۔۔تو آپ جناب دل کے شوق پورے کرنے کے خاصے شوقین لگتے ہیں۔۔۔ویل۔۔۔میں تو اپنے ڈیڈ کی طرح بزنس میں بہت ذیادہ انٹرسٹ رکھتی ہوں۔۔۔آفٹرآل فیوچر میں ڈیڈ کی سیٹ مجھے ہی تو سنبھالنی ہے۔۔۔“ 

 اندازِ بےتکلفی قابلِ دید تھی۔

وہ جو سوچ رہا تھا اپنے دل کی بگڑتی حالت اُس پر ظاہرکرنے کوکن مناسب لفظوں کا سرا تھامے۔۔؟؟اُسکے پٹر پٹر بولنے پر ضبط سے ریلنگ کے گرد گرفت پکڑتا سخت کرگیا۔

اُسکی خاموشی پر وہ چونکی۔۔پھر سر جھٹک کر سینے پر بازو لپیٹتی ریلنگ کے سہارے جا لگی۔

”آں۔۔آپ بھی تو کچھ بتائیں مجھے اپنی پسند ناں پسند کے بارے میں۔۔۔۔؟؟اپنے فرائض سے ہٹ کر اور کن کن چیزوں میں انٹرسٹ رکھتے ہیں آپ۔۔۔؟؟“  

خود کا باتونی لہجہ اور مقابل کی ہنوز بےنیازی کا احساس کیے بغیر وہ اب بھی قدرے بےتکلفی سے گویا ہوئی۔ 

جواباً لب بھینچ کر گردن ترچھی کرتے ہوئے اُسنے بغور اُس بولڈ لڑکی کی جانب دیکھا جوعمر بھرکے لیے اُسکے نام سے منسوب ہونے کی شدید خواہش رکھتی تھی۔

”میں۔۔۔؟؟“ 

 کچھ سوچ کر اثبات میں سر ہلاتا وہ پھر سے سامنے دیکھنے لگا۔

”ایک لڑکی ہے۔۔جس میں سنجیدگی کی آخری حد تک انٹرسٹ رکھنے لگا ہوں۔۔۔اور پورا ارادہ ہے کہ شادی بھی اُسی سے رچاؤں۔۔۔“  

اپنی پسندیدگی کی بابت اُسے بےجھجھک آگاہ کرتا وہ انجانے میں اُسے خوش فہمیوں کے گہرے بھنور میں دھکیل چکا تھا۔۔

”سوانٹرسٹنگ۔۔۔اور۔۔وہ لڑکی کون ہے۔۔۔؟؟؟“  

بالوں کی گھنی لٹ کو شوخ انداز میں انگلی کے گرد لپٹتی اب وہ باقاعدہ اُسکے لبوں سے اپنا نام سننے کو بےتاب ہوئی۔۔

انداز صاف ٹٹولتا ہوا تھا۔

”حاویہ۔۔۔پورا نام حاویہ فیضان۔۔۔۔“ 

 بڑے سکون سے اُسکے پنکھڑی لبوں پر مچلتی شوخ مسکراہٹ کو اپنے لفظوں تلے کچلتا اب وہ ریلنگ سے ہاتھ ہٹائے اُسکے مقابل آ کھڑا ہوا تھا۔

”واٹ۔۔؟؟آر یو سیریس۔۔۔؟؟شاید تمھیں اندازہ نہیں مسٹر لیکن مجھے اس وقت تمھارا یہ مذاق انتہائی چیپ لگا ہے۔۔۔“  

جھٹکے سے سیدھی کھڑی ہوتی وہ آپ سے تم تک کا فاصلہ پل میں ماپتی یکدم اُس پر بگڑی تو جینز کی جیبوں میں ہاتھ پھنساتے مقابل کی بےتاثر آنکھوں میں واضح ناگواری در آئی۔

”مس عروسہ شاہنواز۔۔کیا مجھے دیکھ کر تمھیں کہیں سے بھی ایسا لگ رہا ہے کہ میں اس وقت رتی بھربھی تمھارے ساتھ مذاق کے موڈ میں ہوں۔۔۔؟؟“

  ایک ایک لفظ پر زور دے کر پوچھتا وہ اُسے اہانت کے بھاری بوجھ تلے سرخ پڑنے پر مجبور کرگیا۔

”ا۔۔اگر ایسا تھا تو پھر مجھے اپنے ساتھ یوں تنہائی میں لاکر میرا وقت برباد کرنے کی کیا ضرورت تھی تمھیں۔۔۔؟؟وہیں پر سب گھر والوں کے سامنے ڈائریکٹ انکار کیوں نہیں کردیا اس رشتے سے۔۔۔؟؟“

  سارے بھرم تڑاتڑ ٹوٹنے پر اُسے شدت سے اپنی ریجیکشن کا بدترین ادراک ہوا تو بے ساختہ چیختی وہ اُسکا گریبان دبوچنے کو اُس پر جھپٹی۔۔

مگر وہ بیچ میں ہی اُسکی کلائیاں بروقت اپنی مضبوط گرفت میں لیتا اُسکی یہ کوشش ناکام بناگیا۔

”او جسٹ سٹاپ دیس نان سینس ایڈیٹ۔۔۔“  اُسکی بولڈنیس کے ساتھ ساتھ بدتمیزی بھی قابل اعتراض تھی سو وہ بھی مشتعیل سا غراتا اُسے جھٹکا دے کر اوقات میں لایا۔

”میں نہیں چاہتا تھا کہ سب کے سامنے میرے انکار سے تمھاری انا کو براہِ راست ٹھیس پہنچے۔۔تبھی میں نے پرسنلی طور پر تمھیں اپنے ارادوں سے باخبر کرنا ضروری سمجھا۔۔۔

ایم سوری عروسہ بٹ میں تمھاری آمد سے بہت پہلے ہی عشق محبت جیسے مرض میں مبتلا ہوچکا ہوں۔۔۔اور بقول تمھارے دل کے شوق پورے کرنے کا خاصا شوقین بھی ہوں۔۔۔سو ایسے میں تو تم سے شادی کرنے کا پھرکوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔۔“ 

اُسکی ڈبڈبائی آنکھوں میں دیکھتا وہ کچھ نرم پڑا جب اُسکی وضاحت پر نفی میں سر ہلاتی وہ جھٹکے سے خود کی کلائیاں چھڑواگئی۔۔

یاں یوں کہنا بہتر ہوگا کہ اُسکی بےضرر سی مزاحمت پر عائل نے خود ہی چھوڑدی تھیں۔

”نوووو۔۔۔نیور۔۔۔انکار چاہے اکیلے میں ہوا ہو یاں سرعام۔۔۔میری انا کو توٹھیس تم پہنچا ہی چکے ہو عائل حسن۔۔۔اور تمھاری جانب سے میری ذات پر کیا گیا یہ کاری وار میں عمر بھر نہیں بھلا پاؤں گی۔۔۔

سنا تم نے۔۔۔“ 

 چہرے پر آئے بالوں کو درشتگی سے پرے ہٹاتی وہ اُس پر اپنا بھیگا قہر برستاتی وہاں رکی نہیں تھی۔

جبکہ اُسے نگاہوں سے اوجھل ہوتا دیکھ عائل نے برداشت کھوتے خودکی ہتھیلی پر زورکا پنچ مارا تھا پھر بےچینی سے بالوں میں ہاتھ چلاتا وہ بھی ٹیرس سے نکل گیا۔۔۔

مگر اس سے پہلے کہ وہ اپنے کمرے کی دہلیز سے پار قدم دھڑتا اچانک رِنگ ہوتے موبائل فون نے بےساختہ اُسکے بڑھتے قدم جکڑلیے۔۔۔

**********************

”موم۔۔۔ڈیڈ۔۔۔۔“ 

 پھولی سانسوں کے ساتھ تیزی سے اُنکی جانب لپکتی عروسہ تقریباً چلا کربولی تو جہاں سب اُسکی بکھری حالت دیکھ کر سکتے میں آئے تھے وہیں چونک کر اُسکی جانب دیکھتے۔۔شام کا جھلاتا پاؤں ساکت پڑا۔

ابرو اچکا کر قدرے بےباکی سے اُسنے جینز شرٹ میں پوشیدہ اُسکا دلکش سراپا پلوں میں تولا تھا۔

بھابیوں والا ادب و احترام اپنے اندر جگانے کی زحمت اُسنے گوارا نہیں کی تھی۔۔کیونکہ اِس رشتے کا سوچا سمجھا انجام اُسکی نظروں کے سامنے تھا جبھی لبوں پر استہزائیہ مسکراہٹ پل بھر کو اپنی جھپ دکھلاتی فوراً سے غائب ہوئی تھی۔

”ع۔۔عروسہ۔۔بیٹا کیا ہوا ہے تمھیں۔۔۔؟؟تم۔۔۔اس طرح سے کیوں رو رہی ہو مائے ڈول۔۔۔؟؟“  

سب سے پہلے حسنہ بیگم کو ہوش آیا تو بوکھلا کر اٹھتی وہ سرعت سے اُسکی جانب لپکیں۔

ماسوائے شام کے تقریباً ہر فرد ہی پریشان سا بیٹھے سے اٹھ چکا تھا۔

”پلیز آپ چلیں یہاں سے ابھی اور اسی وقت۔۔۔“  

اپنے بھیگے چہرے پر حسنہ بیگم کا نرم لمس محسوس کرنے سے پہلے ہی وہ بیچ میں اُنکے ہاتھ پکڑتی خفت زدہ سی گویا ہوئی۔

ایسے میں کچن سمیٹتی راشدہ بھی اپنا کام ادھورا چھوڑتی خبریں لینے کو فوراً سے وہاں چلی آئی۔

”ہمیں بتاؤ بیٹا  کیا بات ہے۔۔۔؟؟تم کیوں اس قدر جذباتی ہورہی ہو۔۔۔؟؟کیا عائل نے تم سے کچھ کہا ہے۔۔۔؟؟“  

اس بار گہرا سانس بھرتے حسن صاحب نے نرمی سے بیچ میں مداخلت کی تو جانے کیوں شام کو اپنے باپ کا کسی اور کے لیے فکر کرتا یہ نرم انداز دیکھ کر گھٹن سی ہونے لگی۔۔

جواباً عروسہ نے تیز نگاہوں سے اُنکا چہرہ دیکھا۔

”بے دھڑک ریجکیٹ کردیا ہے مجھے آپکے بیٹے نے۔۔۔کیونکہ وہ کسی اور لڑکی کے عشق میں گرفتار ہے۔۔سو شادی بھی اُسی کے ساتھ رچائے گا۔۔۔۔“ 

 آتش فشاں بنی وہ غالباً حسن صاحب کا لحاظ کرنا بھی بھول گئی تھی۔۔تو جہاں اُسکے غیر متوقع انکشاف پر حسن صاحب سمیت سب پر حیرت کا پہاڑ ٹوٹا تھا وہیں اُسکے یہ تیور دیکھ کر بےاختیار شام کے تیوری چڑھی۔

”یہ تم کیا کہہ رہی ہو لڑکی۔۔۔؟؟کیا عائل نے بذاتِ خود تمھیں اپنی پسند سے آگاہ کیا ہے یاں پھر تم نے بظاہر اُسکے رویے سے خود ہی یہ سب اندازے اخذ کرلیے ہیں۔۔۔؟؟“  

ذرا پاس آکر پوچھتے ہوئے عائمہ بیگم کے لہجے میں بےیقینی واضح تھی۔۔

عروسہ اُنکے استفسار کرنے کو بھی اپنی توہین سمجھتی نظرانداز کرنے والے انداز میں حقارت سے منہ پھیر گئی۔

اور یہی۔۔اپنی ماں سے برتی گئی اس بدلحاظی پر شام کا ضبط ٹوٹا تھا۔

”او ہیلو۔۔۔کیا ہاں۔۔۔۔؟؟؟“  

صوفے سے اٹھ کر اُسکے مدِ مقابل اکڑ کر کھڑا ہوتا وہ بدتمیزی سے بولا تو عروسہ اپنا رونا دھونا بھول کر اُسے گھورنے لگی۔

”شام۔۔۔۔“  

حسن صاحب کی تنبیہی آواز پر بھی وہ ٹس سے مس نہیں ہوا تھا۔۔

جبکہ آئمہ بیگم اُسے خود کے حق میں بھپرا دیکھ مزید بے چین ہوئیں۔

”یہ جو گھٹیا سی اینگری لُوک ہے ناں تمھاری۔۔ گھر جا کر اپنے ماں باپ کو دیکھانا۔۔۔میرے ہی گھر میں کھڑے ہوکر میرے ماں باپ کو دیکھانے کی ضرورت نہیں ہے تمھیں۔۔۔ہہمم۔۔۔؟؟

ابھی تک صرف لحاظ کررہا ہوں تمھارا۔۔۔ گریز کرو اتنا غصہ دیکھانے سے نہیں تو پھر میرا گریز نہ کرنا یقیناً تمھارے لیے بہت سی مشکلات پیدا کردے گا۔۔۔“  

 فقط اپنے باپ کے لحاظ میں اُسے کندھوں سے دبوچ کر جھنجھوڑنے کی خواہش بمشکل دل میں دباتا وہ کاٹ دار لہجے میں سرعام  دھمکی دے گیا تو عروسہ اُسکے رعب میں آتی چاہ کر بھی آگے سے کچھ بول نہیں پائی تھی۔

البتہ نئے سرے سے ہونے والی اس عزت افزائی پر اُسکے گلابیت میں مزید سرخائی گھلی تھی۔

تبھی حسنہ بیگم جوابی کاروائی کرنے کو آگے ہوکر کچھ کڑوا بولنے ہی والی تھیں جب شاہنواز صاحب شام کی کھلی بدتمیزیوں پر بڑے ضبط کا مظاہرہ کرتے بروقت اُنھیں کچھ بھی کرنے سے روک گئے۔

”بس کرجاؤ شام۔۔۔آگے ہی بہت فساد پھیل چکا ہے۔۔۔اب تمھیں بیچ میں مزید فساد پھیلانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔“  

اب کہ حسن صاحب نے غصے سے اُسکا کندھا پکڑ کے اُسے پیچھے کھینچا تو عروسہ کو ہنوز سخت چتونوں سے گھورتا وہ ایک سائیڈ پر ہٹا۔

اگلے ہی پل سرعت سے سیڑھیاں اترتا عائل وہاں آتا سب کو شدت سے اپنی جانب متوجہ کرگیا۔

”فار گاڈ سیک  موم ڈیڈ چلیں یہاں سے۔۔۔اتنی انسلٹ کروانے کے بعد اب میرا دم گھٹنے لگا ہے یہاں۔۔۔۔۔“

  عائل کی جانب ایک غصیلی نگاہ اچھال کر اپنی ہچکیوں پر بمشکل قابو پاتی وہ اپنے ماں باپ سے ملتجیانہ انداز میں گویا ہوئی تو ضبط کرتے وہ اقرار میں سرہلاگئے۔

”ڈیڈ وہ میں۔۔۔۔“

  عائل حسن صاحب سے مخاطب ہوا تو  تب سے خاموش کھڑے شاہنواز صاحب نے اپنے جگڑی دوست کی جانب تاسف بھری نگاہوں سے دیکھتے اُسکی بات بیچ میں ہی کاٹ دی۔

”ہمیں آپ سے ایسی بدسلوکی کی قطعی کوئی امید نہیں تھی حسن صاحب۔۔۔میری پھول سی بچی کو تکلیف پہنچاکر آپکے بیٹے نے حقیقتاً ہمیں اذیت پہنچائی ہے۔۔۔

اور میں یہ بےعزتی اتنی آسانی سے نہیں بھولوں گا۔۔۔۔یاد رکھیے گا میری یہ بات۔۔۔چلو یہاں سے۔۔۔“  

اپنی بیٹی کے آنسوؤں پر ضبط کھوتے وہ قدرے تلخی سے بولے تو اپنے دوست کی بےرخی پر حسن صاحب عائل پر ایک شکوہ کناں نگاہ ڈال کر سختی سے لب بھینچتے صبر کرگئے۔

وجہ اپنے لاڈلے جگر کی نادانی تھی ورنہ اُنکی شخصیت ضبط کرنے والوں میں سے تو ہرگز نہ تھی۔۔۔

شاہنواز صاحب کے سخت رویے پر مٹھیاں بھینچتے ہوئے اب کہ عائل کا ضبط ٹوٹنے لگا۔

اس سے پہلے کہ وہ غصے میں آکر اپنا کوئی ری ایکشن دکھاتا جبھی وہ تینوں مزید کوئی تلخ  کلامی کیےبغیر۔۔۔بنا کسی سلام دعا کے منہ ناک پھلاتے وہاں سے نکلتے چلے گئے۔

”یہ سب کیا تھا برخوردار۔۔۔۔؟؟ہمیں تم سے اس قدر بچگانہ حرکت کی ہرگز امید نہیں تھی۔۔۔“  

تاسف زدہ نگاہوں سے  دیکھتے وہ پشت پر ہاتھ باندھے سرد لہجے میں بولے تو اس متوقع سوال پر اُسنے ایک بےبس سی نگاہ اطراف میں دوڑاتے گہرا سانس بھرا۔

”ڈیڈ۔۔۔میں موم کو بہت پہلے ہی اس معاملے سے آگاہ کرچکا تھا کہ میں فی الحال کےلیے شادی جیسے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتا۔۔۔“ 

 ٹھہرے ہوئے دھیمے لہجے بولتا وہ جانے کیوں اُن کی آنکھوں میں جھانکنے سے گریزاں ہوا تھا۔۔

اُسکی صفائی پر ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے حسن صاحب نے بے اختیاز عائمہ بیگم کو گھورا تو پل بھرکو سٹپٹاتی اب کہ وہ عائل کی جانب غصے سے دیکھنے لگیں۔

”اور تم جو عشق جیسے جھنجھٹ میں پڑچکے ہو۔۔۔اُسکے بارے میں کیا کہو گے۔۔۔۔؟؟مجھے تمھارے پہلی دفعہ کے انکار پر ہی یہ بات سمجھ جانی چاہیے تھی کہ شادی کے نام سے کوسوں دور بھاگنے کی وجہ تمھارے سر پڑی ذمہ داریوں کا بوجھ نہیں بلکہ کسی لڑکی کے لیے تمھاری شدت پسندی تھی۔۔۔“

 غصے اور بےبسی کے احساس تلے سرخ پڑتی وہ تنک کر بولیں۔۔

جبکہ شام اُن کی تلخ گفتگو پر کان دھڑے اب کہ ساتھ ساتھ موبائل کی اسکرین پر چھیڑخانی کرتا حرمین کو بھی سکون بخش جوابات دے رہا تھا۔

”ہاں تو میں کب اِس بات سے مُکررہا ہوں۔۔۔۔؟؟ہنڈرڈ پرسنٹ یہی وجہ تھی میرے شادی کے نام سے دور بھاگنے کی کیونکہ میں حاویہ کے علاوہ کسی اور سے شادی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔۔۔

محبت کرتا ہوں اُس سے۔۔آپ نے میرے واضح انکار کو کوئی ویلیو نہیں دی سو اسی کے نتیجے پر مجھے مجبوراً یہ اقدام کرنا پڑا۔۔۔“  

اس بار قدرے جھنجھلاکر اعتراف کرتا وہ بآواز بلند گویا ہوا تو اُس انجان لڑکی کے حق میں دل سے کیے جانے والے اظہارِمحبت پر کئی پل یونہی خاموشی سے سرک گئے۔

بے آواز کی بورڈ پر تیزی سے ٹائپنگ کرتے شام کے گرد ایک کڑواہٹ سی پھیلتی چلی گئی۔

حسن صاحب نے بے اختیار اپنا گلا کھنگارا۔

”تو برخوردار تمھیں یہ بات  پہلے مجھے بتانی چاہیے تھی ناں۔۔نہ کہ صرف اپنی ماں تک محدود رکھتے۔۔۔۔مجھ سے یوں حقیقت چھپاکے کیا حاصل ہوا۔۔۔۔؟؟الٹا گھر آئے مہمانوں کی ناراضگی مول لے لی۔۔۔“ 

 بولتے ہوئے اس بار اُنکے لہجے میں سختی نہیں بلکہ ہمدردی تھی۔

”ایم سوری ڈیڈ۔۔۔میں بس کسی مناسب موقع کے انتظار میں تھا۔۔۔“ اُنکے کوئی تردد نہ کرنے پر نگاہیں جھکاتا وہ دھیرے سے مسکرایا۔

اپنی پسند کے ٹھکرائے جانے پر جہاں عائمہ بیگم نے تنفر سے سر جھٹکا تھا وہیں شام کے وجود میں ایک ان دیکھی سی آگ بھڑکنے لگی۔

کیوں۔۔۔۔؟؟وہ خود نہیں سمجھ پایا تھا یاں شاید جانتے بوجھتے سمجھنا نہیں چاہ رہا تھا۔ 

معاً نادانستگی میں اُسکی سلگتی نظروں نے قدرے کونے میں ساکت کھڑی راشدہ پر تک سفر ایک پل میں طے کیا تھا جو دانتوں میں چادر کا پلو دبائے۔۔ جانے کب سے وہاں ہوتے ہنگاموں سے لطف لے رہی تھی۔

”ہے ای یُو کام والی بائی۔۔۔ واٹ۔۔۔ہاں۔۔۔؟؟یہاں کھڑی کیا کررہی ہو تم۔۔۔۔؟؟“ 

 ایکدم اچانک سے شام کو خود پر بھڑکتے دیکھ وہ اپنے خیالوں سے چونکتی  بُری طرح سٹپٹائی۔

”نن۔۔نہیں چھوٹے صاحب۔۔۔وہ۔۔۔“  سب کی خود پر مرکوز ہوتی نگاہیں اُسکا سانس خشک کر گئی۔

معاً عائل کے ایک بار پھرسے رنگ ہوتے موبائل فون نے اُسکے ماتھے پر فکرکی لکیریں ابھاریں تو بنا تاخیر اُسے اٹینڈ کرتا وہ معذرت بھری نظریں سب پر ڈال کر فوراً سے وہاں سے نکلا۔

”لے لی اے ٹو ذی رپوٹ۔۔۔؟؟ہہمم۔۔۔؟؟نکلو فوراً یہاں سے ۔۔۔آؤٹ۔۔۔آؤٹ آؤٹ۔۔۔۔“ 

 انگارے چباتی زبان سمیت انگلی کے واضح اشارے سے راشدہ کو ذلیل کرتا وہ شاید اپنے اندر کی گھٹن کم کررہا تھا سو وہ بھی اُسکے حکم پر ماتھے پر آئے پسینے کو صاف کرتی واپس کچن میں بھاگی۔

”اور تم۔۔۔۔“

  وہ جو کب سے شام کی بدتمیزیاں برداشت کررہے تھے کرخت لہجے میں گویا ہوئے تو وہ بھی شانِ بے نیازی سے اُنکی جانب پلٹا۔

”کون۔۔۔؟؟“

 چونک کر متلاشی نگاہوں سے اردگرد دیکھنے کی اداکاری قابلِ دید تھی۔

میں۔۔۔؟؟“  

معاً خود کی جانب اشارہ کرتے اُسنے جیسے تصدیق چاہی تو حسن صاحب نے اُسکی حرکت پر بھنویں سکیڑیں۔

”اتنے بھولے مت بنوتمہی سے مخاطب ہوں۔۔۔تم تو کہیں عشق جیسے جھنجھٹ میں نہیں پڑے۔۔۔؟؟؟یاں پھر پڑ گئے۔۔۔؟؟“ 

 وہ جو ہمیشہ ہی اُسکی فکروں میں حد سے ذیادہ گھلتے اُسے خود سے متنفر کرچکے تھے۔۔۔

اس پہلو پر بھی غوروفکر کرتے واضح تفشیش پر اتر آئے۔۔

سوال سے کہیں ذیادہ وہ طنزکا نشتر تھا جو اُسکے سینے میں اتارتے حسن صاحب اب جانچتی نظروں سے اُسے ہی گھور رہے تھے۔۔کم از کم شام کو تو ایسا ہی لگا تھا جس پر عائمہ بیگم بھی بے چین ہوتی اُسے سوالیہ نظروں سے تکنے لگیں۔۔

بڑا تو پہلے ہی ہاتھ سے نکل چکا تھا اب چھوٹے کو بھی اس بےمنزل راہ پر چلتا دیکھنے کی فی الوقت ہمت اُن میں قطعی نہیں تھی۔

”سریسلی ڈیڈ۔۔۔؟؟آپکو میں کس اینگل سے یہ مجنوں عاشق ٹائپ لڑکا لگتا ہوں۔۔۔؟؟؟فائن۔۔۔آوارہ ہوں۔۔بدتمیز ہوں ایون کہ آپکے بقول نافرمان بھی  ہوں۔۔۔

لیکن محبت میں پاگل دیوانہ۔۔اففف۔۔یہ خرافات فیلنگز میرے ٹائپ کی ہیں ہی نہیں یار۔۔۔آفکورس ناٹ۔۔۔ناٹ ایٹ آل۔۔۔“  

مغرور لہجے میں حقارت گھولتا وہ اپنی بے حسی کے آگے عائمہ بیگم سے ذیادہ حسن صاحب کو مطمئن کرتا وہاں مزید رکا نہیں تھا۔

 ”حسن صاحب اب میرا بیٹا اتنا بھی برا نہیں جتنا آپ اُسے سمجھتے ہیں۔۔۔اپنے لاڈلے کی طرف ہی دیکھ لیں۔۔۔کیسے ہماری مرضی کے خلاف جاکر بلاوجہ کی منمانیاں کرکے گیا ہے ابھی۔۔۔“ 

 خود کو اپنے مجازی خدا کی ڈپٹ سے بچانے کو عائمہ بیگم نے دکھتی ٹانگوں کے لحاظ میں صوفے پر براجمان ہوتے خواہ مخواہ میں چڑھائی کرنا ضروری سمجھا۔۔۔

جبکہ حسن صاحب  عائمہ بیگم کے کھوکھلے انداز وہ بخوبی سمجھ رہے تھے۔

”ہاں تو اس میں غلط ہی کیا ہے۔۔۔؟؟جب عائل اپنی پسند کی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے جوکہ اُسکا حق بھی ہے تو کیوں تم اپنی پسند کی طوق زبردستی اُسکے گلے میں ڈالنا چاہتی ہو۔۔۔؟؟“

 حسن صاحب نے کڑے تیوروں سے گھورتے انھیں ایک حساب سے اُنکی خواہشوں سمیت روندا تھا۔۔جواباً عائمہ بیگم نے شکوہ کرتی نظروں سے اُنکی جانب دیکھا۔

”حسن صاحب بات اگر زبردستی کی ہے  توپھر۔۔وہ تو آپ بھی میرے چھوٹے بیٹے کے ساتھ کررہے ہیں۔۔۔آپکے بنائے گئے منصوبوں پر چلنے کے لیے رضامند تو دل سے وہ بھی نہیں ہے۔۔۔“ 

 شام کے حق میں بولنے کی ہمت جٹاتی وہ صحیح معنوں میں حسن صاحب کی برداشت آزما گئیں۔

جبھی آگے کو لپکتے اُنھیں نے بےدردی سے اُنکا منہ اپنی مضبوط گرفت میں دبوچا تو اس طرح کھلے میں خود کے ساتھ برتے جانے والے اس سلوک پر عائمہ بیگم کی سانسیں اٹک گئیں۔

”میرے بیٹوں کے لیے کیا بہتر ہے اور کیا نہیں۔۔یہ چیز مجھ سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا۔۔۔تم بھی نہیں۔۔۔

سو بہتر ہے کہ میرے سامنے قینچی کی طرح چلتی اس زبان کو لگام دو۔۔۔نہیں تو میری برداشت کتنی کم ہے یہ تم سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔۔۔ہونہہ۔۔۔“

 اُنکی سماعتوں میں زہر گھولتے ساتھ ہی انھیں نے جھٹکے سے اُنکے جبڑے چھوڑے تھے۔

”جج۔۔جی۔۔سمجھ گئی۔۔۔بھلا مجھ سے بہتر کون جانے گا آپکی برداشت۔۔۔۔۔“ 

 ہمیشہ کی طرح اس بار بھی وہ اُنکے رعب تلے  اچھا خاصا دب چکی تھیں۔۔۔

سو شکست خوردہ انداز میں تائید کرتی وہ چاہ کر بھی اپنی غلافی آنکھوں کو بھیگنے سے روک نہیں پائی تھیں۔۔۔

”اِن گھنگروں کی چھنکار تمھارے ان کومل پیروں میں کس قدر بھلی لگتی ہے رابی۔۔۔

ہربار دل کے تار چھیڑ جاتی ہے۔۔۔

یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ گھنگرو تمھارے لیے نہیں بلکہ تم ان گھنگروں کے لیے بنی ہو۔۔۔۔۔“ 

 اپنے گھٹنے پر دھڑے اُسکے پیر کی نرمی شدت سے محسوس کرتا ساتھ ساتھ وہ  گھنگرو کی ہکیں بھی کھول رہا تھا۔

اس دوران وقفے وقفے سے سماعتوں میں گھلتی چھنکار خواجہ کے قیمتی لباس میں ڈھکے قابلِ قبول۔۔

ہٹے کٹے وجود کو ایک الگ ہی لطف سے دوچار کیے دے رہی تھی۔

اس واہیات تعریف پر وہ رخسار پر جھولتی سنہری لٹ کو دھیرے سے کان کے پیچھے اڑستی بظاہر دلکشی سےمسکرائی۔

”واللہ خواجہ صاحب۔۔۔

میرے پیروں میں بندھے ان گھنگروں کی محض چھنکار اگر آپکے دل پر اتنے گہرے اثرات چھوڑتی ہے۔۔

پھرتو میری قاتلانہ ادائیں دیکھ کر یقیناً آپکے کمزور سے دل پر تیز دھار خنجر چلتے ہوں گے۔۔۔“

  گھنگروں کی سرخ پٹی اترتے ہی اپنا پاؤں اُسکے گھٹنے سے پرے ہٹاتی وہ شدت سے اترائی تو گھنگرو کی چوڑی پٹی کو مٹھی میں بھینچتا وہ اُسکی کیفیات سے محفوظ ہوا۔

”یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے جانِ بہاراں۔۔۔

میری حالت سے ہی اندازہ لگا لو کہ کس قدر دیوانہ ہوں میں تمھاری اِن جانلیوا اداؤں کا۔۔۔۔“ 

 اپنی خمار سے سرخ پڑتی آنکھیں اُسکی جانب اٹھاتے وہ بےاختیار اپنے گھائل دل پر ہاتھ رکھ گیا۔

اپنے حسن پر نازاں وہ کھلکھلا کر ہنسی۔

”اگر ایسی بات ہے تو پھر اتنے دنوں سے آپ میرے دیدار کو حویلی کیوں نہیں آئے تھے۔۔۔۔

پہلے تو مجھ سے فقط کچھ دنوں کی دوری آپکی طبیعت میں بےچینی سی بھردیتی تھی۔۔۔

مگر اب آپکی دلگی کےآثار مجھے مدھم پڑتے دکھائی دینے لگے ہیں خواجہ صاحب۔۔۔۔“ 

 اپنے نقوش یکدم مصنوعی خفگی میں ڈھالتی وہ شکوہ کناں ہوئی۔۔

جب اُسکی ہر ادا پر اپنا کمزور سا دل ہارتا وہ اچانک اُسے کلائی سے دبوچ کر جھٹکا دیتا اپنے دامن میں گرا گیا۔

اُسکی بےدھڑک جسارت پر جہاں رابی کے پل بھر کو تنے اعصاب گہرا سانس بھرتے ہی ڈھیلے سے پڑے تھے وہیں اُسکی نازک کلائیوں کو بے جھجھک اپنی نرم گرفت میں بھرتا وہ اُسے اپنے حصار میں لے گیا۔

”کیا بات کرتی ہو جانِ بہاراں۔۔۔

ایسی ذیادتی تو ہم سے بھولے سے بھی نہ ہوگی جو خدشے تم حقیقتاً دل میں پالے بیٹھی ہو۔۔۔۔

یقین جانو اگر بیوی بچوں کی یہ مجبوریاں نہ ہوتیں تو کون کمبخت تم سے دور ہونا پسند کرتا۔۔۔“

 اُسکے نازک کندھے پر اپنی شیو ہوئی ٹھوڑی جماتا وہ مدہوش آواز میں بولا تو خواجہ کی ناپسندیدہ قربت میں پل بھرکو تڑپتا رابی کا دل  ہمیشہ کی طرح بےحسی کے غلاف میں لپٹتا جیسے خود سے ہی خفا ہوا تھا۔

”واللہ نہ کیجیے خواجہ صاحب۔۔

یہی مجبوریاں تو ہیں جو مجھ معصوم کے حق میں بہتر ثابت ہوتی ہیں۔۔۔“ 

 اپنے گرد بےخودی میں پل پل مضبوط ہوتے گھیرے کو رابی زبردستی پرے ہٹاتی اُس سے دور ہوئی تو وہ بھی اُسکی پھرتی پر بوکھلاتا جیسے ہوش میں آیا۔

ان مدہوش پلوں میں بروقت اُس کے تعین کردہ حدود کو قائم رکھنے پر خواجہ اندر ہی اندر پیچ و تاب کھاتا اپنے لب بھینچ کر اُسکی نازک پشت  دیکھتا رہ گیا۔۔

جو اب کمرے کے قدرے کونے میں پڑی شیشے کی میز تک لپکتی اُسے تہی داماں کرگئی تھی۔۔

جبکہ شیشے کی میز پر ترتیب سے پڑی جام کی بوتلیں کب سے رابی کے نرم ہاتھوں سے خود کے ڈھکنے کھلوانے کو بےتاب ہورہی تھیں۔

معاً دبیز قالین پر بےترتیبی سے پڑےتکیوں کے پہلو میں دھڑا خواجہ کا موبائل فون یکدم چنگھاڑا تو وہ ٹھٹھک کر اگلے ہی پل موبائل فون ہاتھ میں تھام گیا۔

نظروں کے سامنے چمکتی ہوئی اسکرین پر بیگم صاحبہ کا نام واضح جگمگا رہا تھا۔ماتھے پر تیوریاں چڑھاتے اُسنے غصے سے کال کاٹی۔

”ایک تو اِس بے صبری عورت کو بھی کہیں سکون نہیں ہے۔۔۔۔

مجال ہے جو دو پل چین سے گزرنے دے میرے۔۔۔“  

موبائل فون واپس دبیز قالین پر پٹختے خواجہ کا لب و لہجہ زہرہوا۔

اُسکی بیزاریت سے حظ اٹھانے کے باوجود بھی جام کی بوتل کو گلاس میں انڈیلتے رابی کے انہماک میں کوئی خاص فرق نہیں آیا تھا۔

اور یہی لاپرواہ انداز نیم دراز ہوتے خواجہ کے ذہن کو کافی دنوں سے اندر دبی سوچ کی جانب کھینچ لے گیا۔

”سنا ہے کہ وہ رئیس لونڈا۔۔

ارے کیا نام بتایا تھا شہاب نے اُس لونڈے کا۔۔۔

ہاں۔۔۔سالار خان۔۔۔“ 

 بیچ میں اٹکتے اُسنے ذہن پر مزید زور ڈالا تو ڈھکن واپس چڑھاتے رابی کی لانبی انگلیاں اس مخصوص تذکرے پر کچھ پلوں کو ساکت پڑی۔

اسکے برعکس دل باغی سا پھڑپھڑایا تھا۔

کتنے دنوں بعد سماعتوں نے دل دھڑکانے کی صلاحیت رکھتا یہ نام سنا تھا۔

”وہ نواب تم سے بیاہ کرنے کو مراجارہا تھا۔۔۔؟؟

مگر۔۔۔“  

اُسکی آنکھوں میں اترتے گلال سے بےخبر وہ اُسکے پل بھرکے لیے چونکتے وجود کو دیکھتا مزید متجسس ہوا تھا جب وہ ہاتھ میں جام بھرا شفاف گلاس تھام کر پلٹتی اُسکے الفاظ اچک گئی۔

”مگر میں نے انکار کردیا۔۔۔۔“ 

 رابی کا لہجہ سرد ہوا۔۔محض لہجہ کیا اُسکےدیکھنے کا انداز بھی بدلا تھا۔

”واللہ۔۔۔

پھرتو کیا کہنے تمھارے۔۔۔۔

اگر تمھارا من وہاں نہیں بھیگتا تو مجھ سے شادی رچالو۔۔۔

خدا قسم تمھیں زندگی بھراپنے دل کی رانی بناکر رکھوں گا۔۔۔“

  اُسکی نخریلی طبیعت پر سرشار سا سیدھا ہوکے بیٹھتا وہ دل پھینک انداز میں گویا ہوا تو جھک کر اُسے جام کا گلاس تھماتے رابی نے کچھ حیرت سے اُس رنگ بدلتے شخص کی جانب دیکھا جو چند لمحے قبل جان بوجھ کر اپنے چبھتے استفسار سے اُسکا دل جلا چکا تھا۔

تبھی پل بھر کے سکوت میں شور مچاتے موبائل فون  نے خواجہ کو اپنی جانب متوجہ کرکے خود سے خاصا بدظن کیا تھا۔

اس سے پہلے کہ وہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ اپنی بیگم کی کال کاٹ کر موبائل فون کو دور پلنگ پر اچھال دیتا معاً رابی اُسکے تیور بھانپتی۔۔موبائل فون کو بروقت اپنی گرفت میں لیتی۔۔فقط چند لمحوں میں یہ کام بذاتِ خود سرانجام دے چکی تھی۔

خواجہ کو اُسکی یہ تیزی شدت سے بھائی تھی جبھی اُسکے پلٹ پر قریب کھسکنے پر گلاب مکھڑے کو پیاسی نظروں کی زد میں رکھتے ہوئے وہ اسی طرح  گلاس سے گہرے گہرے گھونٹ بھرنے لگا۔

”واللہ خواجہ صاحب۔۔۔

آپکی نیت کا بھی کوئی مول نہیں۔۔۔

ایک جھگڑالو بیوی سے مستفید ہونے کے باوجود بھی آپ ایک رکھیل سے شادی کا تقاضا کرتے ہیں۔۔۔۔؟؟؟“ 

 رابی نے بات کو وہی سے چھیڑتے۔۔گویا مقابل کو حقیقت کا آئینہ دیکھاتے ہوئے ایک طرح سے اُسے دل کے چھالے پھوڑنے پر اکسایا تھا۔۔

اور نتیجتاً وہ چِھڑ بھی گیا تھا۔

”ارے موٹی بھینس کی مانند محض چارہ چرنے والی بیوی بھی کوئی فائدہ دینے کی شے ہے کیا۔۔۔؟؟

اور تم رکھیل نہیں رانی ہو رانی۔۔۔۔

اس دل کی رانی میری جانِ بہار۔۔۔“ 

 بنا کسی آڑ کے وہ اپنی دلی کیفیات کا پرچار کرتا انجانے میں کسی ان دیکھے وجود پر دھڑا دھڑ بجلیاں گرا گیا تھا۔

اُسکی حاضر جوابی پر سمٹ کر مزید اُسکے قریب ہوتی وہ کھلکھلا کر ہنسی۔

”میں پھربھی آپ سے شادی نہیں کروں گی خواجہ صاحب۔۔۔

بروقت خوش فہمیوں کے بھنور سے باہر نکل آئیں گے تو تکلیف کم ہو گی۔۔۔۔“ 

رابی کے لہجے میں ٹھہراؤ کے ساتھ کھلی آگاہی بھی تھی۔۔شاید آنے والے سخت وقت سے بچانے کو ایک بےسود سی آگاہی جسے سمجھنا فی الوقت مقابل کے حواسوں سے پرے تھا۔

”کیوں۔۔۔؟؟

اب تو تابین بائی نے بھی دل پر بھاری بھرکم پتھر رکھ کرتمھیں اپنے میاں کے ساتھ رخصت ہونے۔۔کی کھلی چھوٹ  دے رکھی ہے۔۔۔

ایک رقاصہ ہونے کے باجود بھی۔۔۔

تو پھر یہ ممانعت کیسی۔۔۔؟؟؟ 

 جام کے آخری گھونٹ کے زیراثر کچھ مدہوش ہوتا وہ حیران ہوا تو اُسکا کھوج لگاتا انداز رابی کو مسکراہٹ سمیٹنے پر مجبور کرگیا۔

وہ اُسکی ذاتیات کو لے کر کچھ ذیادہ ہی واقف ہو چلا تھا۔

”ممانعت نہیں۔۔۔

تلاش۔۔۔

تلاش میں ہوں کسی خاص شخص کی جو میرے معیار۔۔میری حسرتوں پر پورا اترسکے۔۔۔

جیسے ہی یہ تلاش پوری ہوگی تو رخصتی کا یہ معرکہ بھی میں اپنی بی بی جان کی کرم نوازیوں سے بآسانی سرکرجاؤں گی۔۔۔“ 

 بولتے ہوئے اُسکے لہجے میں تابین بائی کے لیے بلا کا احترام تھا۔

تبھی وہ خالی گلاس قالین پر لڑھکاتا اُسکی گود میں ڈھیر ہوا تھا۔

رابی نے سختی سے لب بھینچے۔

”تو یعنی تمھاری تلاش ابھی ادھوری ہے۔۔۔۔“ 

 بند کھلتی آنکھوں سے اُسکی ٹھوڑی کو ہولے سے چھوتے اب کہ اُسکا لہجہ ڈھیلا پڑنے لگا تھا۔

”واللہ۔۔۔

ایسا ہی ہے۔۔۔“ 

 اُسکی گستاخی کرتی انگلیاں اپنی مٹھی میں بھرتی وہ کسی غیر مری نقطے کو گھورنے لگی۔۔

جبکہ نرم انگلیاں دھیرے دھیرے سے اُسکے بالوں میں چلنے لگی تھیں۔

”و۔۔ویسے کس خوش قسمت انسان  کے سنگ۔۔ت۔۔تم اپنی ساری زندگی گزارو گی۔۔۔؟؟

وہ جو تمھاری ۔۔شش۔۔شناخت کو پس پشت ڈال کر تمھیں جنون کی حد تک چاہے گا۔۔۔؟؟؟“ 

  گہرے قیاس لگاتے ہوئے نشہ اُسکےسر چڑھتا اُسے پوری طرح مدہوش کررہا تھا۔

اس پر مستزاد رابی کا سکون پہنچاتا لمس۔۔۔

”نہیں۔۔۔

بلکہ اُس انسان کے سنگ جسے میں بربادی کی حد تک چاہوں گی۔۔۔۔“ 

دھیما لہجہ سلگتا ہوا تھا۔جہاں قاتلانہ نگاہوں میں بہت کچھ پالینے کی چاہ تھی وہیں پنکھری لبوں پر دھیرے سے ایک ناقابلِ فہم مسکراہٹ بکھری۔

دل و دماغ کے مابین چِھڑتی جنگ سے نبردآزما ہوتے ہوئے۔۔

جہاں رات کی گہری تاریکی میں پھیلی وحشت اب کہ رابی کے وجود میں بھی بھرنے لگی تھی۔۔

وہیں پلنگ پر اوندھے پڑے موبائل فون کی اسکرین۔۔چلتی کال کٹنے پر یکدم شفاف ہوئی تھی۔۔۔۔

***********************

”آہ۔۔ااا۔۔اللہ۔۔۔۔“  

اسٹاف روم کی جانب سے آئے بلاوے کی فکر میں۔۔لائبریری سے نکلتی حرمین کی اندھا دھند پھرتی قابلِ دید تھی جب زبردست تصادم پر زمین بوس ہونے سے قبل وہ کسی کی مضبوط بانہوں میں مقید ہوئی تھی۔

اس دوران ناک پر ٹکا چشمہ اُسکی بےساختہ آہ کے ساتھ جھٹکے سے نیچے گرا۔۔

سہمتی دھڑکنوں پر بےاختیار اُسکی کی آنکھیں سختی سے بند ہوئیں تو مقابل کی پریشان نگاہیں اُسکے چشمے سے آزاد سانولے نقوش کو تکتی ٹھہر سی گئیں۔

اس پل دل نے عجیب سی حالت میں بےچین ہوکر پلٹا کھایا تھا۔

ایسے میں راہداری کے اختتام پر  چند سیڑھیاں اترتے شام کا رخ موبائل اسکرین کو چھیڑتے ہوئے اب کہ لائبریری کی جانب تھا۔۔

جب  یونہی غیر ارادی طور پر اُسکی نگاہیں اسکرین سے ہٹ کر سامنے اٹھیں۔

معاً وہ چونکا۔

 اُسنے بےاختیار آنکھیں سکیڑیں تو ان میں اتری الجھن ذرا دور کا منظر صاف شفاف ہونے پرسرخائی میں ڈھلتی چلی گئی۔

دانت پیستا وہ فوراً سے بیشتر موبائل فون جینز کی جیب میں پھنسائے تیزی سے اُنکی جانب لپکا تھا۔

اس دوران چوڑے کندھے سے سرکتی بیگ کی سلور اسٹرپ کو جھٹکا دیتا وہ پہلے ہی بیسٹ پوزیشن دے گیا۔

”تم۔۔

تم ٹھیک تو ہو۔۔۔؟؟؟“ 

 لہجے میں فکر گھولتا قیصر نرمی سے گویا ہوا تو بھاری آواز پر وہ پٹ سے آنکھیں کھول گئی۔

خود کو مضبوط مردانہ حصار میں پاکر بےچینی کی ایک بھرپور لہرتھی جو اُسکے دبلے پتلے وجود میں سرائیت کرتی اُسکا حلق خشک کرگئی۔

معاً وہ اُسکے سینے کو خود سے پرے دھکیلتی اُسکا حفاظتی حصار ایک جھٹکے میں توڑ گئی تو قیصر اُسکا حددرجہ محتاط انداز شدت سے محسوس کرتا لب بھینچ کر رہ گیا۔

تبھی بجلی کی سی تیزی سے اُن تک پہنچتا شام۔۔حرمین کو بازو سے پکڑ کر خود کی پشت میں کرتا بپھرا سا قیصر کے مقابل آیا۔

”ہاتھ کیسے لگایا اُسے۔۔۔؟؟؟“

  سینے پر پوری قوت سے دباؤ ڈالتا وہ اُسے پیچھے دھکیل چکا تھا۔آواز میں بپھرے شیر جیسی پھنکار تھی۔

اِس غیر متوقع افتاد پر جہاں حرمین کی سہمی دھڑکنیں سینے میں اٹکی تھیں وہیں قیصرغازی بھی پل بھرکو بوکھلاتا بروقت سنبھلا۔

”ذیادہ ہاتھ پیر چلانے کی قطعی ضرورت نہیں ہے تمھیں۔۔۔

سوآرام سے بات کرو۔۔۔“

 ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچتا وہ بڑے تحمل سے گویا ہوا تو

آگ برساتی نگاہوں سے اُس مڈل کلاس لڑکے کو گھورتا وہ پھر سے قریب آیا۔اس دوران آس پاس بکھرے سٹوڈنٹس رک کر کچھ حیرت سے اس طول پکڑتے تماشے کو دیکھ رہے تھے۔ 

”شش۔۔

شام۔۔۔پلیز۔۔۔۔؟؟“ 

 بےسود سی مداخلت کرتے حرمین میں خود کا کپکپاتا وجود اُن دونوں کے بیچ گھسیٹنے کی ہمت بالکل بھی نہیں پڑرہی تھی۔

”جو پوچھ رہا ہوں صرف اُسکا جواب دو مجھے۔۔۔

ہمت کیسے ہوئی تمھاری میری گرلفرینڈ کو چھونے کی۔۔۔۔؟؟ہہمم۔۔۔؟؟“ 

 ایک بار پھرآپے سے باہر ہوتا وہ حرمین کو اپنے طرزِ تخاطب سے  کان کی لوؤں تک سرخ ہونے پر مجبورکرگیا۔۔

جانے یہ کیسی جلن تھی جو اندر تک اترتی اُسے مزید جنونی بناتی چلی جارہی تھی۔۔

”میں آخری بار بول رہا ہوں شام تمیز کے دائرے میں رہ کر بات کرونہیں تو مجبوراً مجھے بھی اپنی تمیز بھلانی پڑے گی۔۔۔۔

میں صرف اُسکی ہیلپ کررہا تھا۔۔۔

اوربسسس۔۔۔“

  اُسکے دوبارہ سے دھکا دینے پر اب کہ وہ بھی اپنی برداشت کھونے لگا جب اُسکے یوں انگلی اٹھاکر صفائی دینے پر شام کی پل بھرکو مٹتی تیوریاں پھر سے چڑھیں۔

”ہیلپ۔۔۔۔؟؟

کسی مجبور لڑکی کی بےبسی کا فائدہ اٹھا کر اُسے زبردستی اپنی بانہوں میں بھرنے کو تم ہیلپ کہتے ہو۔۔۔؟؟

ایسی ہوتی ہے ہیلپ۔۔۔۔؟؟ہہمم۔۔۔۔؟؟

بغیرتی کے نام پر کی جانے والی یہ ہیلپ ہے تمھاری۔۔۔؟؟ 

 کندھے سے جھولتے بیگ کو جھٹک کر سائیڈ پر اچھالتا وہ ایک ہی جست میں اُسکا گریبان دبوچ چکا تھا۔

 ”مجبوری میں لڑکی کو ٹچ کرنا بےغیرتی ہے۔۔۔تو کیا گرلفرینڈ بنانا بےغیرتی نہیں۔۔۔؟؟“ 

اپنا گریبان چھڑواتا وہ حقیقتاً مقابل کو آگ لگاگیا تو جہاں اُسکے چیلنج کرتے سوال پر حرمین کا دل ڈوب مرنے کو کیا تھا وہیں شام اپنا سارا ضبط کھوتا قیصر کے ساتھ بری طرح گتھم گتھا ہو چکا تھا۔

زمین پر ڈھیتے ہوئے ایک دوسرے کو زد وکوب کرتا دیکھ جہاں لبوں کو ہتھیلی سے دبوچتی حرمین کی آنکھیں شدتِ بےبسی سے بہنے لگی تھیں وہیں اطراف میں بڑھتی بھیڑ کی چہ مگوئیاں عروج پر جا پہنچیں۔

حرمین زہرا کے لیے شام کا یہ پوزیسو روپ لڑکوں سے ذیادہ لڑکیوں کو بری طرح چبھ رہا تھا۔۔

ایک دو نے ہمت کرکے اُنکو ایک دوسرے سے چھڑوانے کی کوشش کی تو بدلے میں زور دار دھکا کھا کر خود ہی پیچھے ہٹ گئے۔

ہنگامے کا لطف پل پل بڑھ رہا تھا جب۔۔۔عین اسی وقت فواد اور افروز بوکھلائے سے بھیڑ کو چیڑتے ہوئے شام تک لپکے۔

”شاااام۔۔

چھوڑ یاراُسے۔۔۔

کیاکررہا ہے تُو۔۔۔؟؟“ 

 فواد آگے بڑھ کر اُسے کسرتی بازوؤں سے جکڑتا چلایا جب بےدردی سے اُسے پرے دھکیلتا شام دکھتے جبڑے سمیت واپس قیصر پر جھکا۔

”سالے۔۔۔

اب تجھ جیسا دو کوڑی کا گھٹیا شخص مجھے میری بےغیرتی کے قصے گنوائے گا۔۔۔ہہمم۔۔۔؟؟

اتنی اوقات آگئی ہےتجھ میں۔۔۔؟؟

اب بول کے دکھا جو کہہ رہا تھا۔۔۔

بول میرے سامنے پھرسے۔۔۔“ 

 درشتگی سے کہتے ہوئے۔۔شام نے قیصر کے پھٹے گریبان کو دبوچتے بےاختیار منہ پر بھاری ہاتھ کا مکا مارنا چاہا جب فواد اور افروز بےتابانہ اُس تک لپکتے اس بپھرے شیر کو بمشکل اپنے قابو میں کر گئے۔

اس دوران حرمین نے تڑپتے دل کے ساتھ نیچے گرا چشمہ اٹھاکر بڑی مشکلوں سے آنکھوں پر ٹکایا۔

”ابے بس کردے یاررر۔۔۔

اُس غریب کی حالت دیکھ۔۔پہلے ہی بہت خراب کرچکا ہے تُو۔۔۔اس سے پہلے کہ سرطارق یہاں آکر اپنی دبنگ حاضری لگوائیں۔۔

چپ چاپ نکل لے ہمارے ساتھ۔۔“  اُسے کھینچ کر قیصر سے دور کرتے اُن دونوں کے سانس پھول چکے تھے۔

”اور تم لوگ بھی۔۔۔

تماشہ ختم ہوچکا ہے اب رش ہٹاؤ یہاں سے۔۔چلو چلو۔۔۔نکلو شاباش۔۔۔“ 

 ساتھ ہی چٹکی بجاکر تلخ  لہجے میں بولتے افروز نے اطراف میں خاموش کھڑے تماشائیوں کو وہاں سے بھگانا چاہا۔۔

تو چند ایک کے سوا باقی سب منہ ناک بسورتے منظرِ عام سے ہٹنے لگے۔

قیصر نے بادقت اٹھ کر بیٹھتے اپنے لب کے کنارے سے نکلتی خون کی لکیر کو بےدردی سے پونچھا پھر خونخوار نگاہوں سے شام کو گھورا۔۔

جو اُسکی بجائے اب اپنے دوستوں کو شعلہ بار نظروں سے گھور رہا تھا۔

”چھوڑو یار۔۔۔

ڈرتا نہیں ہوں میں کسی سے۔۔۔“

خود کو جھٹکے سے اُنکی سخت گرفت سے آزاد کرواتا وہ بری طرح جھنجھلایا تو ہمت کرکے اُسکے مقابل آکر کھڑی ہوتی حرمین کا وجود شدت سے کپکپایا۔

”شام۔۔۔

خدا کا واسطہ ہے آپکو بند کردیں اب یہ لڑائی جھگڑا۔۔۔

کیوں خود کے ساتھ ساتھ میری ذات کا بھی تماشہ بنوارہیں آپ۔۔۔۔؟؟؟“ 

 اپنے بھیگے گال رگڑتی وہ ملتجیانہ سی گویا ہوئی۔

مریل آواز میں آنسوؤں کی واضح آمیزش تھی۔۔جبکہ حرمین کا شکوہ اُسکی سماعتوں میں زہر کی مانند گھلتا اُسکا خون کھولاگیا۔

پیچھے قیصر کسی کی بھی مدد لینے پر لعنت بھیجتا خود ہی اُٹھ کھڑا ہوا۔وجود میں اٹھتی درد کی ٹیسیں اُسنے زخمی لب بھینچ کر برداشت کی تھیں۔پھر بھی ایک اطمینان سا تھا۔۔ہاتھوں سے ذیادہ نہ سہی مگر تلخ لفظوں کی مار سے وہ شام کے وجود کو کافی حد تک گھائل کرچکا تھا۔

”تماشہ میں بنا رہا ہوں۔۔۔؟؟

سریسلی حرمین۔۔۔؟؟

اُس گھٹیا شخص نے تمھیں ہاتھ لگایا۔۔۔

اور پھر تم نے میرے ہوتے ہوئے اُسے خود کو چھونے کی اجازت کیسے دے دی۔۔۔

ہاں۔۔۔؟؟

بیس سیکنڈز۔۔۔

پورے بیس سیکنڈز اُسنے تمھیں اپنی گرفت میں پکڑے رکھا۔۔۔اور یہ سوچ مجھے پاگل کررہی ہےحرمین۔۔۔

پاگل۔۔۔

نہیں برداشت کرسکتا یار میں تم پر کسی اور کا ٹچ۔۔

اتنی سی بات سمجھ میں نہیں آتی کیا تمھیں۔۔۔؟؟“

  شدید برہمی سے غراتا وہ خود کو اُس نازک سی جان پر برسنے سے روک نہیں پایا تھا سو اگلے ہی پل اُسکے مزید روانی سے بہتے آنسوؤں کی پرواہ کیے بنا مزید خراب ہوتے دماغ کے ساتھ پلٹتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔۔۔۔

حرمین ساکت نظروں سے اُسکا پل پل دور جاتا وجود دیکھتی اُسکے لفظوں پر حقیقتاً خود پاگل ہونے لگی تھی۔۔

جب اُسکے دوستوں کو بھی وہاں سے پلٹتا دیکھ قیصرنے ایک تاسف بھری نگاہ حرمین کی پشت پر ڈالی اور پھر خاموشی سے وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

ایسے میں بے دم ہوتے وجود کو بمشکل سنبھالے کھڑی حرمین نے دھندلائی نگاہوں سے علیزے کو اپنی جانب تقریباً بھاگ کر آتے ہوئے دیکھا تو بےاختیار ہمت ہارتی زمین پر گرنے کے سے انداز میں بیٹھتی چلی گئی۔۔۔

********************

یہ ہیون سٹار کے وسیع ہال کا منظر تھا جہاں منعقد کی جانے والی بزنس پارٹی میں رنگ و رونق کا ایک الگ ہی جہاں آباد تھا۔

ہال میں اتری مختلف روشنیوں میں چلتے پھرتے قدموں سے کہیں ذیادہ حلق سے پھوٹتے بےہنگم قہقوں کی آوازیں بلندتھیں۔۔

اس پر مستزاد وقفے وقفے سے تبدیل ہوتے بھڑکیلے میوزک نے ماحول میں ایک شوخ پن سا پربا کررکھا تھا۔۔

ایسے میں کتنے ہی مرد عورتیں بزنس کی آڑ میں محض مروت نبھانے کو ایک دوسرے کے کندھوں پر بے تکلفانہ انداز میں ہاتھ رکھے واضح بےباکیوں پر اتر آئے تھے۔

کئی دوشیزائیں حد سے ذیادہ اسٹائلش لباس زیب تن کیے کونے میں کھڑی مختلف پوز میں سیلفیز لینے میں مگن تھیں۔۔تو کچھ اُنھیں بظاہر لاپرواہی سے اوپر سے نیچے تک تکتے دور سے ہی اپنی پیاسی نگاہوں کو تسکین پہنچانے میں۔۔

جبکہ وہ ان سب التفات لحاظ سے قدرے بےنیاز جیبوں میں ہاتھ پھنسائے کھڑا۔۔اس وقت چند بےشناسا جانی مانی شخصیات سے خود کا تعارف کرواتا براہِ راست مخاطب تھا۔

 گرےسموک کلر کے تھری پیس سوٹ میں بالوں کو جیل سے سیٹ کیے آج  اُسکی مردانہ وجاہت مزید نکھری تھی۔

”ایسا ہی ہے دبیر صاحب۔۔۔

انفیکٹ ہمارے بزنس کی مین شاخیں تو کراچی شہر کی آخری حدود تک پھیلی ہوئی ہیں۔۔۔

اور اُسے۔۔۔۔“ 

 شاہ جو خود سے ہٹ کر اب اپنے باپ کے بزنس کا مکمل حوالہ دینے کے موڈ میں تھا مقابل کی یکدم بدلتی نگاہوں کو نوٹ کرتے لمحے بھرکو چونکا پھر لب بھینچتے اُسکی نظروں کے تعاقب میں پلٹ کر پیچھے دیکھا تو سرسری سی نگاہ پل بھر کوٹھٹھکتی قدرے گہری ہوتی چلی گئی۔

گھٹنوں سے ذرا اوپر تک آتی مہرون شفون کی شارٹ فراک جس پر کاپر کلر کا خوبصورت کام ہوا تھا اور کاپر کلر کا ہی ٹراؤزر پہنے۔۔۔وہ اپنے تمام تر حسن سمیت نگاہیں جھکائے دھیمی چال چلتی اُسی سمت آرہی تھی۔ 

تہہ در تہہ سیٹ کیے گئے ہم رنگ مہرون حجاب میں اُسکے گلاب نقوش کی دلکشی مزید بڑھ گئی تھی۔

شاہ کے لیے وقت پل بھرکو رکا اور پھر جیسے اپنی جگہ تھم سا گیا۔اُسنے پہلی بارسادگی سے ذرا ہٹ کر اُسکا دل موہ لینے والا یہ سجا سنورا روپ دیکھا تھا۔۔۔

اُس سمیت کتنی ہی سراہتی نظریں اُس منفرد لڑکی کی جانب اٹھتی پل بھرکو ساکت ہوئی تھیں جو باقیوں کی طرح بےپردہ نہ ہوتے ہوئے بھی سب سے حسین لگ رہی تھی۔

جبھی آبرو نے بھی اپنی گھنیری پلکیں اٹھاکر براہِ راست شاہ کی بھوری نگاہوں میں جھانکا تو گرے ٹائی کی ناٹ کھینچ کر ذرا ڈھیلی کرتے اُسکے دل نے بےاختیار ایک بیٹ مس کی۔۔۔

گہری نیلی آنکھوں کی ادا جانلیوا تھی۔

ہائر کیے گئے فوٹوگرافر نے باقیوں کی طرح بڑی پھرتی سے آبرو کی بھی دو سے تین تصاویر کھینچ اتاریں۔

شاہ کی اپنی جانب محویت محسوس کرتی آبرو کے قدم دھڑکنوں سمیت لمحے بھرکے لیے تھمے جو بنا پلکیں جھپکائے ابھی تک مبہوت سا اُسے ہی تکے جارہا تھا۔

اس پر مستزاد رواں موسیقی کے ٹھنڈے میٹھے سے سُر۔۔۔شرمیلی مسکراہٹ روکنے کو عنابی لب دانت تلے دباتے ہوئے رابی کی گھنیری پلکیں بےساختہ گالوں پر سجدہ ریز ہوئیں تھیں۔

”ہے ای آبرو۔۔۔یہاں پر۔۔۔“

  معاً کنزہ نے آبرو کو بآواز بلند مخاطب کرتے تیسرے ٹیبل پر اپنی جانب نشاندہی کروائی تو شدت سے شور مچاتی دھڑکنوں پر ہاتھ رکھتی وہ شاہ کے پاس سے گزرکر سرعت سے آگے بڑھ گئی۔

اُسکی جلد بازی پر وہ بھی سرجھٹکتا جیسے ہوش میں آیا۔۔

لبوں پر ہولے سے مسکراہٹ اتری تھی۔

دور سے شاہ کی بےخودی کا یہ عالم بخوبی ملاحظہ کرتی سمن اپنا ضبط کھوتے ہی ہاتھ میں پکڑا کلچ زور سے ٹیبل پر پٹخ گئی۔۔ 

پھر گردن موڑتے تیکھی نظروں سے آبرو کا نکھرا چہرہ دیکھا جو وقفے وقفے سے مسکراتی اب کنزہ کے ساتھ محو گفتگو تھی۔

”واٹ آپیور بیوٹی۔۔۔۔“  

آبرو کو تکتے دبیر کاظمی کی نگاہوں میں واضح  ستائش تھی۔

شاہ نے چونک کر اُسے دیکھا اور اگلے ہی پل بھنویں سکیڑتے اُسکا کندھا اپنی مضبوط گرفت میں لیا۔دبیر کاظمی نے اپنے کندھے پر اُسکی سختی محسوس کرکے کچھ حیرت سے اُسکی جانب دیکھا جسکا چہرہ جانے کیوں سپاٹ ہوچکا تھا۔۔

”بٹ ڈونٹ فارگیٹ۔۔۔

شی از اونلی مائن۔۔۔۔مینز کہ۔۔۔اونلی مائن۔۔۔۔

ہہمم۔۔۔۔؟؟“

  سرد لہجے میں ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولتا وہ اُسے ایک طریقے سے وارن کررہا تھا جسے بروقت سمجھ کر اثبات میں سر ہلاتا وہ شوخ سا مسکرایا۔

”اووکے۔۔۔۔

ویسےاگر آپ اپنی ملکیت کو لے کر اس قدر حساس ہیں تو یقین جانیے مسٹر شاہ۔۔۔

آپ نے اِن محترمہ کو ایسی بےلگام محفل میں مدعو کرکے یقیناً بہت بڑا رسک لیا ہے۔۔۔

سونے پر سہاگہ اُنکا سجا سنورا معصوم حسن ہے جو کسی بھی مرد کو اپنی جانب قائل کرنے کی بڑی صلاحیت رکھتا ہے۔۔۔“  

اپنے کندھے پر دھڑے شاہ کے ہاتھ کی پشت ہولے سے تھپکتا وہ بولنے سے باز نہیں آیا تھا جب وہ اس قابلِ قبول حقیقیت پر ضبط سے لب بھینچتا ہاتھ پرے ہٹاگیا۔

ایک بےاختیار نگاہ آبرو کے سندر روپ پر ڈالتے اُسکی آنکھوں میں سرخائی سی اتری۔

اُسی کی جانب دیکھتی آبرو نے نگاہیں ملنے پر گڑبڑا کر چہرہ پھیرا تو شاہ کے لب بے اختیار مسکرائے۔

”میرے لیے اتنی فکر دکھانے کا بہت شکریہ دبیر کاظمی صاحب۔۔

لیکن رسک چھوٹا ہو یاں بڑا۔۔۔مجھے لینے میں ہمیشہ سے مزا آتا ہے۔۔۔

انفیکٹ رسک جیسی امیزنگ شے کو چاروں خانے چت کرکے جیت کو اپنی مٹھی میں قید کرنا تو میرا پسندیدہ مشغلہ رہا ہے۔۔۔“  

ذرا جھک کر ٹیبل سے سافٹ ڈرنک کا شفاف گلاس اٹھاتے وہ ایک غرور سے بولتا بظاہر پرسکون ہوا۔۔

جبکہ ایک عرصے بعد ایسی ٹون اور لفظوں کا چناؤ کرتے اُسکے وجود میں ایک عجیب سی کھلبلی مچی تھی۔

جواباً دبیر کاظمی محض مسکرانے پر اکتفا کرتا اُسے دیکھتا رہ گیا جو اطراف میں نگاہیں دوڑاتا اب بےدلی سے گھونٹ گھونٹ مشروب حلق میں انڈیلنے لگا تھا۔۔۔۔۔

**

”بولا تھا ناں کہ مجھ سے دغا بازی مت کرنا۔۔۔

ورنہ میرے انتقام کی بھڑکتی آگ تمھارے وجود کو جلاکر خاکستر کردے گی۔۔۔۔

کہا تھا کہ نہیں۔۔۔؟؟؟“ 

 وہ اُسے بالوں سے دبوچے غرارہا تھا۔۔

مگر وہ پور پور لرزتی جانے کیوں اپنے بےسدھ پڑے وجود کو چاہ کر بھی حرکت نہیں  دے پارہی تھی۔

حد سے ذیادہ کھلی آنکھوں میں مقابل کے خوف کے بھیگے سائے لڑھکتے ہوئے مسلسل کنپٹیوں میں جذب ہورہے تھے۔

”پر تم نے کری۔۔۔

میرے منع کرنے کے باوجود بھی تم نے دغابازی کری میرے ساتھ۔۔۔“  اُسکے پسینے سے نم زرد چہرے پر جھکتا وہ اب کی بار چیخا تو اُسے اپنی دھڑکنیں تھمتی ہوئی محسوس ہوئیں۔

 ”معا۔۔۔معاف کردو۔۔۔۔“

  اُسکےسسکتے لب بمشکل پھڑپھڑائے تو نفی میں سرہلاتا وہ سرخ چہرے کے ساتھ مسکرایا۔

مسکراہٹ ایسی تھی کہ شدتِ بےبسی سے دیکھتے حاویہ کا سکڑتا دل تڑپ کر رہ گیا۔

 ”نہ نہ نہ۔۔۔

معافی نہیں۔۔اب تو بس سزا ملے گی تمھیں۔۔۔۔

میری بےپناہ چاہت میں کسی اور  شریک ٹھہرانے کی سزا۔۔۔

مجھ سے کھلے عام بغاوت کرنے کی سزا۔۔۔

مجھے دوسروں کی نظروں میں مجرم بنانے کی سزا۔۔۔

اب اگلے پچھلے سارے حساب چکتا کرنے کا وقت آگیا ہے جو تم کرو گی۔۔۔“  

ایک ایک کرکے اُسے اسکی ساری حماقتیں گنواتا وہ اپنا ہاتھ اُسکی نازک گردن تک لے گیا۔۔

جبکہ دوسرا ہاتھ ہنوز بالوں کو جکڑے اُسے مسلسل اذیت میں مبتلا کیے ہوئے تھا۔

”نن۔۔نہیں۔۔۔

خدا۔۔را۔۔نن نہیں۔۔۔“ 

 مقابل کو اپنی پسینے سے بھیگی گردن سے دوپٹہ ہٹاتے دیکھ اُسکی جان ہوا ہوئی تھی مگر صد افسوس جو وہ سوائے سسکنے کے ذرا سی مزاحمت کرنے کی بھی متحمل نہیں تھی۔

معاً گردن کے گرد شکنجہ کسنے سے اُسکے حلق میں گھٹن سی پھیلنے لگی۔

”مجھے دھوکہ دینے کی پاداش میں۔۔میں تمھاری سانسیں بندکردوں گا حاویہ فضیان۔۔۔

یہی تمھاری سزا ہے۔۔۔موت۔۔حاویہ۔۔موت۔۔۔“  

سفاکی سے بولتا ہوا وہ پل پل اپنی گرفت میں شدت لاتا جارہا تھا۔

نتیجتاً اُسکی آنکھیں تکلیف کی شدت سے باہر کو اُبل پڑیں۔

جان جیسے حلق میں ہی کہیں اٹکنے لگی تھی۔

ایسے میں دباؤ مزید بڑھا تھا۔

وہ زندگی کے آگے ہمت ہارنے کو تھی جب گھٹن کا احساس یکدم کم ہوتے پلوں میں ختم ہوا تو اُسنے ایکدم سے گہرا سانس کھینچا۔

مگر یہ کیا۔۔۔۔؟؟

مقابل کے ہاتھ گردن سے سرکتے اب کہ اُسکے کندھوں تک آئے تھے۔

”حاویہ۔۔۔

حاوی۔۔۔اُٹھو۔۔۔

آنکھیں کھولو حاوی۔۔۔۔“ وہ جوئی بھی تھا اب کندھے جھنجھوڑتا اُسے مسلسل پکاررہاتھا۔

سماعتوں میں گھلتی سفاکیت بھری مردانہ آواز اب کہ مانوس سی نسوانی دہائی میں بدلی تو اندر ہی اندر خود سے جنگ لڑتی وہ غنودگی میں ہی چونکی۔

نقاہت سمیت گہری نیندکے بوجھ تلے آنکھیں کھلنے سے فی الوقت انکاری ہوئی تھیں۔

”حاوی۔۔۔“ 

 آواز کان کے پردے کے پار گونجی تو دبا سا چیختی وہ جھٹکے سے اُٹھ بیٹھی۔

نیناں نے تفکر بھری نگاہوں سے اُسکا گھبرایا ہوا سرخ چہرہ دیکھا تو نرمی سے اسکے ہاتھ تھام گئی۔

ہلکے ہلکے بخار کے زیرِاثر اُسکا وجود اب بھی تپا ہوا تھا۔

مقابل کو حیرت سے تکتے اگلے ہی پل حاویہ کی تیزی سے دھندلاتی آنکھوں میں شناسائی گھلی تو بےاختیار ٹانگیں سمیٹتی وہ اُسکے کندھے پر سر رکھ گئی۔

”وہ ماردے گا۔۔۔

وہ۔۔

وہ میری جان لے لے گا۔۔۔مجھے بچالو نینی۔۔۔

مجھے بچالو اُس سے۔۔۔“ 

 وہ اب بھی خواب کے گہرے اثر تلے خوفزدہ سی بولتی چلی گئی تو نیناں کو اُسکی بکھری حالت دیکھ کر حقیقتاً افسوس ہوا۔

اُسے ہرگز توقع نہ تھی کہ خالہ زاد بہن کی شادی سے واپس لوٹنے پر اُسے اپنی ہنستی مسکراتی دوست کی یہ حالت دیکھنے کو ملے گی۔جیسے ہی نفیسہ بیگم نے اُسے بختی کی کارستانیوں کی بابت آگاہ کیا تو وہ سب چھوڑ چھاڑ کر اُس سے ملنے چلی آئی تھی۔

”کون مارے گا۔۔۔؟؟

کس کی بات کررہی ہے تو حاوی۔۔۔؟؟

ادھر میری طرف دیکھ۔۔یہاں اس کمرے میں میرے سوا کوئی بھی نہیں ہے تیرے پاس یار۔۔۔“  

زبردستی اُسکا چہرہ اپنے مقابل لاتے اُسنے حاویہ کو اطمینان دلانا چاہا تو بےاختیار اطراف میں دیکھتی وہ پل بھر کو خاموش ہوئی۔

بھیگی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کر گالوں پر پھسلے تھے۔

”مم۔۔مگر۔۔وہ بختی بھائی۔۔

وہ ا۔۔ابھی مجھے دھمکیاں دے رہے تھے۔۔

میرا گلا بھی دبایا۔۔۔

میں سچ بول رہی ہوں۔۔وہ مجھےاب ماردیں گے نینی۔۔۔وہ مجھے نہیں چھوڑیں گے۔۔۔“ 

 اپنی تپتی گردن پر شدت سے انگلیاں پھیرتی وہ سسکی تو بختی کے نام پر نیناں کے اردگرد بھی کڑواہٹ پھیلنے لگی۔

”ریلکس ہوجاؤ میری جان۔۔

تم نے صرف ایک برا خواب دیکھا ہے۔۔اور کچھ بھی نہیں۔۔۔ہہمم۔۔۔

پرسکون ہوجاؤ بس۔۔۔“

  نینی نے بڑی نرمی سے اُسکے آنسو اپنی پوروں میں جزب  کیے تو وہ اُسکے مسکاتے چہرے کو جانچتی نگاہوں سے تکنے لگی۔

”تم سچ۔۔۔

سچ بول رہی ہو۔۔۔؟؟

وہ دوبارہ سے میرے قریب تو نہیں آئے گا ناں۔۔۔؟؟“ 

 وہ چاہ کر بھی خوف کے حصار سے نہیں نکل پارہی تھی سو نینی کی باتوں پر اعتبار کرنے کو ہاتھ تھامتے ہوئے شدت سے تصدیق چاہی۔

”ہاں وہ نہیں آئے گا حاوی۔۔۔

بس تم اُس گھٹیا شخص کو اپنے اعصاب پر اتنا سوارمت ہونے دو۔۔نہیں تو اس طرح کے بھیانک خواب آنا تمھارے لیے روز کا معمول بن جائیں گے۔۔۔

کیا تم چاہتی ہو ایسا ہو۔۔؟؟“ 

 اپنے تئیں اُسے تلخ حقیقت سے آگاہ کرتی وہ بڑی سمجھداری سے اُسے اپنی جانب قائل کررہی تھی۔

”نن نہیں۔۔

میں ایسا ہرگز نہیں چاہتی۔۔بلکہ اب سے میں اُس گھٹیا انسان سے نہیں ڈروں گی۔۔۔

ہ۔ہاں۔۔نہ میں اُس سے ڈروں گی۔۔نہ ہی وہ میرے خوابوں میں آکر مجھے اذیت دے گا۔۔۔۔“ 

 خود کو بمشکل نڈر ظاہرکرتی وہ  قطعیت بھرے نتیجے پر پہنچی تو جواباً نیناں کے لبوں پر بکھرتی مسکراہٹ اُسکا حوصلہ مزید بڑھا گئی۔

معاً نفیسہ بیگم غیرمعمولی ہلچل محسوس کرتی دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوئیں تو اُنہی کے پیچھے اندر آتی  نسیمہ آپا حاویہ کو آنسو پونچھتا دیکھ ٹھٹھک گئیں۔

”ہائے ہائے نفیسہ۔۔۔

یہ بچی کو ایکدم سے کیا ہوگیا۔۔۔؟؟

بڑی کملائی ہوئی لگ رہی ہے۔۔۔“  قدم قدم اُسکی جانب آتی وہ حیرت کا اظہار کیے بنا نہ رہ سکیں۔۔

نیناں نے ذرا سیدھا ہوکر بیٹھتے بے اختیار کوفت سے آنکھیں گھمائیں۔

”بس کیا بتاؤں نسیمہ آپا۔۔۔

بےموسمی بخار نے میری بچی کو اپنی جکڑمیں لےلیا ہے۔۔۔

مگر اب اسکی طبیعت پہلے کی نسبت کافی بہتر ہوگئی ہے۔۔۔۔“  حاویہ کو پہلو بدلتا دیکھ نفیسہ بیگم نے آگے بڑھ کر اُسکے سر پر ہاتھ رکھتے سنجیدگی سے جواب دیا تو وہ حقیقت سے انجان کچھ مطمئن ہوتی سر ہلاگئیں۔

”صدقہ اتارو بچی کا۔۔۔

پھر دیکھنا سر آئی ساری بلائیں ٹل جائیں گی۔۔۔“  

اُنھوں نے لگے ہاتھوں تاکید کرنا ضروری سمجھا تو جہاں نفیسہ بیگم سر کوجنبش دیتی ہولے سے مسکرائیں وہیں حاویہ اپنے آنسوؤں پر ضبط کرتی مزید سر جھکاگئی۔۔۔۔

******************

 کنزہ کی غیرموجودگی میں شاہ کی پشت پر ایک گہری نظر ڈالتی وہ اپنے شفاف لبوں پر بےخودی میں بکھرتی مسکراہٹ سے خود انجان تھی جب اچانک اپنے قریب کھڑے ہوتے شخص کی موجودگی محسوس کرتے اُسکی محویت ٹوٹی۔

آبرو کو چونک کرخود کی جانب متوجہ ہوتا دیکھ جنید ملک کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی جومسٹر ہاشم فاروق کی جگہ خود مس انجمن کے ہمراہ اس پارٹی میں آیا تھا۔

”آپ کو شاید اندازہ نہیں مس۔۔

لیکن پھر بھی میں آپکو یہ بات بتائے دیتا ہوں کہ آپ صرف حسین نہیں۔۔

بلکہ حسن کا شاہکار ہیں۔۔۔“ 

 ہاتھ میں پکڑی ڈرنک ٹیبل پر رکھتے ہوئے بےڈھرک تعریف کرتا وہ انجان شخص آبرو کو بیٹھے سے اٹھنے پر مجبورکرگیا۔

”ایکس کیوزمی۔۔۔۔؟؟؟“  

مقابل کے دلربانہ انداز پر پل بھرکو جھینپتے اُسنے بےاختیار بھنویں سکیڑیں تو مونچھوں تلے اُسکی مسکراہٹ مدھم پڑی۔

”شاید میری یوں کھل کے تعریف کرنا آپکو پسند نہیں آیا۔۔۔

مگر وہ کیا ہے کہ حسین لڑکیوں کی تعریف کرنے میں کنجوسی دکھانا میری عادت نہیں ہے۔۔۔

لیکن پھربھی اگر آپکو میری ڈائریکٹ سچائی بیان کرنا اتنا برا لگا ہے تو اسکے لیےآئی ایم رئیلی سوری۔۔۔“ 

اُسکے محتاط تیوروں پر ہاتھ جیبوں میں گھساتا وہ عیاش پسند شخص کچھ معذرت کرتے لہجے میں بولا تو آبرو مقابل کی مصنوعی شرمندگی دیکھتی بےاختیار نرم پڑی۔

”نہیں مجھے برا نہیں لگا۔۔۔۔

ویسے میری تعریف تو آپ نے بخوبی کردی ہے سر۔۔۔

لیکن آپکی تعریف۔۔۔؟؟“  

مروت نبھانے کو آہستگی سے مسکراتی وہ جنید ملک کے پست پڑتے حوصلے اچھے خاصے بلند کرگئی۔

”مجھ ناچیز کو جنید ملک کہتے ہیں۔۔

میں ایک بزنس مین ہوں اور بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ابھی تک سنگل ہوں۔۔۔۔“  سنجیدگی سے اپنا تعارف کرواتا وہ آخر میں پھر سے شوخا ہوا۔

اور یہی وہ وقت تھا جب دبیز کاظمی کے ابرو اچکاتے اشارے پر شاہ الجھ کر پلٹا تو مطلوبہ منظر ملاحظہ کرتے ہوئے بے اختیار اُسکی پیشانی پر بل پڑے۔

”سریسلی۔۔۔؟؟؟

آپ  کو پہلی نظر میں دیکھ کر تو مجھے یہی لگا تھا کہ آپکے  تین نہیں تو۔۔کم از کم دو بچے ضرور ہوں گے۔۔۔“

  خوشگوار حیرت کا اظہار کرتی وہ جنید ملک کے بہانے سے فاصلہ مٹانے پر متوجہ نہیں ہوپائی تھی۔۔

اور اُسکی یہی لاپرواہی شاہ کا ضبط آزما رہی تھی۔

”آپکو نہیں لگتا مس کہ اتنے ہینڈسم شخص کو وقت سے پہلے ہی دو بچوں کا باپ بناکر آپ ذیادتی کررہی ہیں میرے ساتھ۔۔۔“  

 مصنوعی تاسف سے بولتا وہ ہنوز غیرسنجیدہ تھا جب اُسکی بات سمیت تاثرات کا لطف لیتی وہ بے اختیار ہنستی چلی گئی۔۔

تو اُسکے کھکھلاتے وجود کو حسرت بھری نگاہوں سے تاڑتے جنید ملک کی آنکھوں کی چمک مزید بڑھی۔

جہاں شاہ نے مٹھیاں بھینچتے آبرو کی کھنکھناتی ہنسی کو جلتی آنکھوں سے دیکھا تھا۔۔

وہیں خود کے اندازے کی اتنی جلدی تصدیق ہوجانے پر دبیرکاظمی کے لبوں پر تمسخرانہ مسکراہٹ ابھری۔۔

ابھی تو بامشکل چار سے پانچ منٹ کا وقفہ گزرا تھا۔۔

اور نتائج سامنے تھے۔

مگرحقیقی معنوں میں شاہ کا ضبط تو وہاں ٹوٹ کر بکھرا تھا جب جنید ملک ٹیبل پر ہاتھ جماتا دیدہ دلیری سے اُسکی جانب جھکا۔

”ویسے اگر آپ ہاں کردیں تو۔۔۔

دو کی جگہ چار بچوں کا بھی سوچا جاسکتا ہے۔۔۔وٹ سے بیوٹی فل گرل۔۔۔۔؟؟“  مسکاتی سی خمار آلود آواز میں جھک کر آبرو کے کان میں سرگوشی کرتا وہ اُسے سن کرگیا۔

”بس بہت ہوا۔۔۔۔“  

شاہ دانت پر دانت جماتے ادھ بھرا گلاس ٹیبل پر پٹختا سرعت سے اُنکی جانب لپکا۔

مقابل کا سرد ناک اپنے کان کے اوپری حصے پر شدت سے محسوس کرتی وہ اگلے ہی پل جھٹکے سے اُس سے دور ہوئی۔

”اب آپ حد سے بڑھ رہے ہیں جنید سر۔۔۔۔“ 

 اُسکی معنی خیز بات پرخفگی سے اُسے گھورتی وہ اِس کھلی بےباکی پر زہرخند لہجے میں گویا ہوئی تو جواباً وہ بجائے شرمندہ ہونے کے ڈھٹائی سے ہنس دیا۔

معاً آبرو کی نظریں اپنی جانب سخت تیوروں سمیت آتے شاہ پر پڑیں تو خشک لبوں پر زبان پھیرتے اُسکے دل کی متوازن دھڑکنوں میں بےاختیار شدت آئی۔

”چلو میرے ساتھ۔۔۔۔۔۔“

  آتے ہی اُسکی کلائی اپنی پکڑ میں لیتا وہ یقیناً منظرِعام پر تماشہ لگانے سے گریزاں ہوا تھا لیکن شاید جنید ملک۔۔

شاہ کے گریز کو اس وقت سمجھنے کے موڈ میں نہیں تھا جبھی آبرو کی دوسری کلائی سرعت سے تھام کر اُسے روکنے کی گستاخی کرگیا۔

”ایک منٹ رکیے مسٹرشاہ۔۔۔

ان حسینہ کو ہم سے دور لے جانے کی اتنی بھی کیا جلدی ہے آپکو۔۔۔؟؟

ابھی تو ہمارے بیچ تکلف کی دیوار گرنے لگی تھی۔۔۔اور آپ نے بے وقت مداخلت کرکے۔۔۔“ 

اُسکے بگڑتے تاثرات سے مرعوب ہوئے بنا وہ بڑی ڈھٹائی سے بولتا جارہا تھا جب شاہ نے اچانک پلٹ کر اُسکی سرخ ٹائی اپنی مٹھی میں دبوچتے  اُسکی بولتی رکوائی۔

اس حرکت پر آبرو ایک پل کوسہمتی جھٹکے سے جنید ملک کی کمزور پڑتی گرفت سے اپنی کلائی چھڑوا گئی۔۔

مگر شاہ کی آہنی گرفت سے اپنا آپ رہا کروانا اُسے فی الوقت محال لگا تھا۔

”جنید ملک۔۔۔مجھے کب کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔۔۔

یہ تمھیں بتانے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے مجھے۔۔۔

اس سے پہلے کہ تمھاری یہ بڑھتی بےتکلفی تمہی پر بھاری پڑ جائے۔۔۔

جسٹ گیٹ آؤٹ فرام دِس پارٹی۔۔۔۔۔“  

ٹائی کو کسی پٹے کی طرح جنبش دیتے ہوئے شاہ نے سلگتے لہجے میں اُسے اسکی اوقات باور کرواتے ساتھ ہی جھٹکے سے ٹائی چھوڑی تو ذلت کے شدید احساس تلے۔۔چہرے سمیت اُسکی آنکھوں کا رنگ بدلا۔

”یہ آپ مجھ سے کس طرح سے بات کررہے ہیں مسٹر شاہ۔۔۔؟؟

آپکا کوئی رائٹ نہیں بنتا میرے ساتھ ایسی بدتمیزی کرنے کا۔۔۔“

جنید ملک کو اُس سنجیدہ پسندشخص سے اس قدر بدتمیزی کی قطعی کوئی توقع نہیں تھی سو اطراف میں ایک بےچین نگاہ دوڑاتا وہ دبا سا غرایا۔۔

آبرو نے بھی غیرارادی طور پر پلکیں جھپکاتے اردگرد دیکھا۔

چند ایک کےسوا باقی سب لوگ اپنی اپنی شوخ سرگرمیوں میں مشغول اُنکی جانب  کچھ خاص متوجہ نہیں ہوپائے تھے۔

”ایک بات اور۔۔۔۔

ہمارے درمیان طے پائی جانے والی ساری ڈیلز کینسل۔۔۔

بتادینا اپنے کولیگز۔۔۔

ناؤ جسٹ آؤٹ۔۔۔۔“  

اُسکے کڑھتے استفسار کو ہوا میں اڑاتا وہ مروت سے عاری ٹھنڈے ٹھار لہجے میں بولا تو اُسکی آنکھوں میں گھلی سرخائی دیکھتے۔۔

جنید ملک کا غصہ بے ساختہ حیرت تلے دبا۔

”پ۔۔پر مسٹر شاہ۔۔۔۔۔“ 

 اس نے مخالفت کرنا چاہی جب شاہ اُسے اپنے حق میں احتجاج کرنے کا موقع دئیے بنا۔۔

بے نیاز سا اپنے پہلو میں حق دق کھڑی آبرو کو ساتھ لیے وہاں سے پلٹ گیا۔

ایسے میں سارا تماشہ نم آنکھوں سے دیکھتی سمن کے لیے بھی وہاں مزید رکنا اب محال ہوا تھا سو جبھی کسی کا بھی لحاظ کیے بنا اپنا کلچ موبائل اٹھاتی تپے موڈ کے ساتھ انٹیرنس کی جانب بڑھ گئی۔

”عجیب پاگل آدمی ہے یہ تو۔۔۔

اُففف یارا۔۔۔

اب میں اپنے کولیگز کو کیا وضاحت دوں گا اس سب کی۔۔۔۔؟؟؟“ 

قدرےپریشانی میں چہرے پر ہاتھ پھیرتے اُسنے تنفر بھری نگاہ شاہ کی دور ہوتی پشت پر ڈالی۔۔۔

جب واشروم ایریا کی سائیڈ سے واپس آتی مس انجمن کودیکھ کر اُسکا موڈ مزید غارت ہوا۔

ایسے میں اس دبے ہنگامے کے دوران براؤن پینٹ کوٹ میں ملبوس قدرے کونے میں کھڑے اُس چالیس پنتالیس سالہ شخص نے شاہ کے سنگ گھسٹتی ہوئی آبرو کا نظروں سے اوجھل ہوتا نازک سا دلکش سراپا بڑی مشکوک نگاہوں سے بغور دیکھا تھا۔۔۔۔

***********************

”سر۔۔۔

چھوڑیں مجھے۔۔۔

یہ کیا طریقہ ہے۔۔۔۔؟؟“  

وہ اُسے یونہی کھینچتا ہوا اپنے ساتھ  کارنر سائیڈ پر بنے روم میں لایا تو اپنی دکھتی کلائی چھڑوانے کو مزاحمت کرتی وہ دبا سا چیخی۔

معاً شاہ نے اُسے کھینچ کر اپنے مقابل کیا۔

”آسان لفظوں میں تو اسے میرا ضبط کہتے ہیں لیکن تمھاری نظر میں میری یہ کاوش زبردستی سے ذیادہ کچھ نہیں ہے۔۔۔۔“ 

 ٹھہر ٹھہر کر اکھڑ لب ولہجے میں بولتا وہ حددرجہ سنجیدہ تھا۔

”ک۔۔کیا چاہتے ہیں آپ۔۔۔۔۔؟؟“

 ہکلائے لہجے میں پوچھتے ہوئے آبرو کی نگاہوں میں ضبط کی بھیگی لالی ابھرنے لگی۔

”تمھیں پتا ہے ناں کہ مجھے تمھارے وجود کی جانب اٹھتی ہرنگاہ زہر سے بھی زہریلی لگتی ہے۔۔۔

تو پھر سوچو کسی غیر مرد کا تمھیں چھونا مجھ پر کیا قیامت ڈھاتا ہوگا۔۔۔؟؟؟“ 

 اُسکے بوکھلائے بوکھلائے سے نقوش بےتابانہ دیکھتا وہ ہر لفظ چبا چبا کربولا تو مقابل کے اس جذبات بھرے شکوے پر اُسکے یاقوتی رنگ لبوں  کوتمسخراڑاتی مسکان دھیرے سے چھوکر سمٹی۔

”محرم تو آپ بھی نہیں ہیں میرے۔۔۔

کبھی آپ نے سوچا کہ آپکا یوں بار بار میرے قریب آنا۔۔

میری ذات پر بلاوجہ کا حق جمانا مجھ پر کیا حشر برپا کرتا ہوگا۔۔۔؟؟؟“

  اپنی کلائی اُسکی مضبوط گرفت سے چھڑوانے کی ناکام شش میں دوبدو جواب دیتی وہ اُسکی بھوری آنکھوں کی جلن مزید بڑھاگئی۔

”تو نکاح کرلو مجھ سے۔۔۔

بنالو مجھے اپنا محرم۔۔دے دو سارے حق اعتراض کس کافر کو ہے۔۔۔۔؟؟

اور رہا شکوہ قریب آنے کا تو جان لو کہ شاہ میر حسن نے اپنے اِس گستاخ دل کی بےپناہ طلب کے باوجود۔۔آج تک اپنی محبت میں حد سے گزر جانے  کی ایک حقیر سی کوشش بھی نہیں کی۔۔۔“  

نازک کلائی کو اپنی اورھ جھٹکا دیتے ناچاہتے ہوئے بھی اُسکے لہجے میں ہولے سے خمار اترا تھا۔

اُسکے کھڑے جذبات کی شدت پر بکھرتی دھڑکنوں سمیت پل بھرکو گڑبڑاتی وہ بےاختیار نگاہیں چراگئی۔

”میں آپ سے نکاح نہیں کرسکتی۔۔۔۔“  

ہر بار کی طرح وہ بضد ہوئی تو نتیجتاً سختی سے لب بھینچتے اُسنے اپنا باہر کو ابلتا غصہ پینے کی ایک ادنیٰ سی شش کی۔ 

”کیوں۔۔۔؟؟

کیوں نہیں کرسکتی۔۔۔؟؟

کیا وجہ ہے جو تمھیں ہر بارمجھ سے دور بھاگنے پر مجبور کرتی ہے۔۔۔؟؟“ وجہ تھی یاں وجوہات اپنی انا کو فی الوقت پسِ پشت ڈالتا وہ جاننے کو سرتاپیربےچین ہوا۔

نگاہیں بےاختیار لرزتی ہوئی گھنیری پلکوں سے پھسلتی اب کہ یاقوتی لبوں پر جاٹھہری تھیں۔

”اپنے ذاتی معاملات کے حوالے سے میں آپکو وضاحت دینے کی پابندہرگز نہیں ہوں۔۔۔

اب ہٹیے سامنے سے۔۔۔“  پیچھے دھکیلنے کو اُسکے چوڑے سینے پر دباؤ ڈالتی وہ تھوڑا چڑکر بولی تو نتیجتاً وہ بھی اپنا ضبط کھونے لگا۔

”تو پھر کس چیز کی پابند ہو۔۔۔؟؟

غیرمردوں کے سامنے یوں سج سنور کرجانے کی۔۔۔اپنی نازک ادائیں دکھا کر اُنھیں خود کی جانب مائل کرنے کی۔۔۔۔؟؟

ہہممم۔۔۔؟؟؟“  اُسکی اس حد تک بےنیازی اور دھتکارتے لہجے پر اب کہ وہ کلائی چھوڑکر بازو دبوچتا بپھرا۔

تنقیدی نگاہوں سے نازک سراپا جانچتے ہوئے بےاختیار یاداشت میں کچھ دیر پہلے والا ضبط آزماتا منظرتازہ ہوا تھا۔

”میری مرضی میں کچھ بھی کروں۔۔۔

کوئی بھی میری ادائیں دیکھ کر مجھ تک کھینچا چلا آئے۔۔۔یا پھر مجھے چھوئے۔۔

یہ میری زندگی ہے آپکو اس سے کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے۔۔۔۔؟؟؟“ 

نم آنکھوں سمیت دبا سا چیختی جانے کیوں وہ آج خودسری پر اتر آئی تھی۔

 ”تم کوئی رکھیل نہیں ہو جو ہر کوئی تمھارے جذبات کے ساتھ کھیلنے کو اپنے دل کی حسرتیں اتارنے تم تک چلا آئے گا۔۔۔۔؟؟؟

اگر کسی نے تمھیں چھونے کی جرات کی تو اُسکی جان تو میں لوں گا ہی لیکن ساتھ میں تمھیں بھی نہیں بخشوں گا۔۔۔۔“

  اُسکا اس حد تک باغی پن مقابل کوحقیقی معنوں میں اشتعال کی بھڑکتی بھٹی میں جھونک گیا جبھی  اُسکے حددرجہ قریب ہوتا وہ اپنے آپکو  غلط الفاظ کا چناؤ کرنے سے باز نہیں رکھ پایا تھا۔

لیکن اگلے ہی پل اُسکی گال پر پوری شدت سے پڑنے والا نازک تھپڑ۔۔۔

فقط تھپڑ نہیں بلکہ ایک جلتا ہوا انگارہ تھا جو اُسکا گال سلگا کر رکھ گیا۔

لفظ”رکھیل“  نے آبرو کے تن بدن میں جیسےآگ سی بھردی تھی۔

ایک جھٹکے سے اپنا بازو اُسکی ڈھیلی گرفت سے چھڑواتی وہ مزید چٹخی تو نازک تھپڑ کی جلن پر چند پل بے یقینی میں کھڑے شاہ کا سکتہ اُسکی کانپتی ہوئی جذباتی آواز پر ٹوٹا۔

”شاید یہی وجہ ہے جو میں اب تک تمھاری جذباتی محبت قبول نہیں کرپائی شاہ

 میر

 حسن۔۔۔

اگر میری ذات کو لے کر کسی اور طریقے سے اپنی کڑواہٹ نکالتے تو اپنی نوکری بچانے کو ہمیشہ کی طرح مجبوراً وہ بھی برداشت کرجاتی۔۔۔۔

لیکن اب جو زہر تم نے میرے خلاف اگلا ہے اسکے بدلے میں تم صرف یہی تھپڑ ڈیزرو کرتے تھے۔۔۔

اس سب کے بعد اگر تم مجھے اس جاب سے نکال بھی دو۔۔تو یقین کرو مجھے رتی برابر بھی فرق نہیں پڑنے والا۔۔۔۔“

  بے خوف سی اُسکی جانب دیکھتی وہ خود کی آنکھوں سے گالوں پر لڑھکتے اشکوں کو روک نہیں پائی تھی۔

لیکن مقابل اُسکی سن ہی کہا رہا تھا۔۔

وہ تو فقط اپنے اندر اٹھتے شدید اشتعال کو اُس نازک وجود پر اتارنے کے لیے بےتاب ہورہا تھا جبھی اُسے کندھوں سے دبوچ کر دیوار سے لگاتا وہ غرایا۔

”جانتی ہو اس تھپڑ کا خمیازہ بھگتنا تمھاری جان پر کس قدر بھاری پڑسکتا ہے۔۔۔؟؟؟ 

اسکے انداز اور پکڑ میں ایسی شدت تھی کہ آبرو  کپکپا کے رہ گئی۔

بھوری نگاہوں میں گہری ہوتی سرخائی اُسکے اندرونی اشتعال کی واضح عکاسی کررہی تھی۔

”سس۔۔۔۔سر۔۔۔۔“ 

 نتیجتاً اُسکی ساری بہادری ہمت ضد غصہ اکڑ۔۔سب جیسے پل میں ملیامیٹ ہوا تھا۔

”ایک بار پہلے بھی کسی نے یہی گستاخی کی تھی اور انجام۔۔۔

انجام جانتی ہو کیا ہوا تھا۔۔۔؟؟؟“  

سلگتی یادوں کے حصار میں بری طرح گھرتا وہ خود بھی سلگ اٹھا تھا۔پورے وجود میں شرارے سے دوڑنے لگے۔ 

”جانتی ہو۔۔۔؟؟؟“

  اُسکی خاموشی پر شدت سے دہاڑتا وہ آبرو کو اپنے تیوروں سے مزید خوفزدہ کرگیا۔ 

”مم۔۔میں نہیں۔۔جج۔۔جانتی۔۔۔۔۔“  

آبرو کے لب بمشکل پھڑپھڑائے تو سرکو شدت سے جنبش دیتا وہ اُسے حواسوں سے باہر لگا۔

”میں بتاتا ہوں کیا ہوا تھا انجام۔۔۔

سانسیں رکنے پر تمام ہوا تھا یہ انجام۔۔۔

ہاں۔۔سانسیں فنا ہوگئی تھیں اُسکی۔۔۔ختم ہوگیا تھا اُسکا نازک سا وجود۔۔۔۔“  ٹھہرٹھہرکر پھنکارتا وہ اُسے گنگ کرگیا۔

ہاں۔۔

یہیں سے۔۔

بالکل یہیں سے تو اُسکی تباہیوں کا حقیقی آغاز ہوا تھا۔۔۔

اگلے ہی پل پھٹتے دماغ کے ساتھ اُسے جھٹکے سے چھوڑتا وہ رخ پلٹ گیا۔

”چلی جاؤ یہاں سے آبرو سکندر۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ میں خودپر سے اپنا سارا ضبط کھودوں۔۔۔

آؤٹ۔۔۔“ 

 اپنی پیشانی  مسلتا وہ خود پر قابو پانے کی ناکام کوشش میں چلایا تو اُسکے لہجے کی سختی نے آبرو کا دل لرزا کر رکھ دیا۔۔

مگر وہ خود پر ضبط کیے۔۔وہیں کھڑی دھندلائی نگاہوں سے شاہ  کو ویسٹ پر ہاتھ رکھے گہرے گہرے سانس بھرتا دیکھتی رہی۔

”آئی سیڈ گیٹ آؤٹ فرام ہیر۔۔۔۔“

  اُسکی موجودگی کو محسوس کرکے پلٹتا وہ پھر سے اُس پر دہاڑا تو بری طرح اچھلتی وہ ایک قدم پیچھے لے گئی پھر پلٹ کر دہلیز پھلانگتی وہاں سے بھاگتی چلی گئی۔

پیچھے وہ صوفے پر ڈھیتا پُراذیت لمحوں سے بھاگنے کی ناکام کوشش میں اپنے بال جکڑ کررہ گیا۔۔۔۔

************************

حرمین۔۔۔

چندا سو گئیں کیا۔۔۔۔؟؟؟“   عین بیچ سے کھلی کتاب کے شفاف صفحات پر گال جمائے وہ شاید نیم خوابیدہ حالت میں تھی جب نفیسہ بیگم نے دودھ بھرا گلاس ٹیبل پر رکھتے ہوئے قدرے نرمی سے اُسکے چہرے پر آئے بالوں کو پیچھے ہٹایا۔

نتیجتاً وہ ہڑبڑا کر کچی نیند سے جاگی تھی۔

”نن۔۔نہیں بس وہ۔۔

پڑھتے پڑھتے یونہی کچھ پلوں کے لیے میری آنکھ لگ گئی تھی۔۔۔۔“  ستے ہوئے چہرے پر ہاتھ پھیرتے اُسنے سادہ سا جواز دیا تو نفیسہ بیگم سربراہی چیئر کھینچ کر براجمان ہوتی ہولے سےمسکرائیں۔

”میں تمھارے لیے یہ دودھ لائی تھی۔۔۔

پہلے اسے پی لو۔۔۔باقی کا پھر پڑھ لینا۔۔۔۔“ حرمین نے بکھری کتابوں کے پہلو میں دھڑا چشمہ اٹھاتے ہوئے سرعت سے آنکھوں پر چڑھایا تو اُسے واپس کتاب پر جھکتا دیکھ اُنھوں نے بےساختہ ٹوکا۔

حرمین نے سرخائی گھلی نگاہوں سے اُنکا حد سے ذیادہ کھلا شفیق چہرہ دیکھتے پل بھرکو لب بھینچے۔۔

اُنکی سیاہ آنکھوں سے پھوٹتی چمک کا بھید پانا فی الوقت اُسے مشکل ترین لگا تھا۔

”ملائی اتارا ہوا دودھ ہے ناں یہ۔۔۔؟؟؟

آپ جانتی ہیں ورنہ میں نہیں پیوں گی۔۔۔“  بےدلی سے گلاس اپنی جانب گھسیٹتی جانے کیوں وہ جانتے ہوئے بھی سوال پوچھ بیٹھی تھی۔۔

یونیورسٹی میں ہونے والے واقعے کی بابت سوچیں پھرسے اُسکے بیدار ہوتے دماغ پر حاوی ہوتی اُسکا دل الگ سے بوجھل کرنے لگی تھیں۔

”تمھارے پینے کے لیے ہی لائی ہوں۔۔

سو بےفکر ہوکر پیو۔۔۔“  اُسکی  تسلی کو وہ نرمی سے گویا ہوئیں تو پھیکے پن سے مسکراتی وہ شریں دودھ گھونٹ گھونٹ حلق میں اتارنے لگی۔

”آج نسیمہ آپا آئی تھیں گھر۔۔

تمھارے رشتے کے حوالے سے بات کرنے۔۔۔“  انگلیوں کو آپس میں اُلجھاکر ہاتھ ٹیبل پر دھڑتی نفیسہ بیگم اصل مدعے کی جانب آئیں تو اُنکی بات پر غور کرتی حرمین کے لیے مزید گھونٹ بھرنا دو بھرہوا۔۔

سو بڑےتحمل سے ادھ بھرا گلاس ٹیبل پر رکھ گئی۔

” ک۔۔کیا بات۔۔۔؟؟“

پوچھتے ہوئے بےساختہ اُسکا دل ڈوب کر ابھرا۔

سست اعصاب میں پل میں چستی بھری تھی۔

”ذباب کے گھر والے تم دونوں کے نکاح کا شدت سے تقاضہ کر رہے ہیں۔۔اور مناسب تاریخ رکھنے کی غرض سے ہماری طرف آنا چاہتے ہیں۔۔۔۔“ 

 بے اختیار گلاس کے گرد سختی سے لپٹا اُسکا ہاتھ تھامتی وہ خوشگوار لہجے میں گویا ہوئیں تو حرمین کو حقیقتاً اپنی سانسیں نم حلق میں اٹکتی ہوئی محسوس ہوئیں۔

”نکاح۔۔۔؟؟

پر۔۔۔پر میری پڑھائی۔۔۔؟؟“ بروقت بہانہ گھڑتی وہ بوکھلائی۔

تیزی سے نم پڑتی آنکھوں کے سامنے بے اختیار شام کا دل دھڑکاتا وجیہہ مکھڑا گھوما تھا۔۔

جس سے قطعی انجان اب وہ ہاتھ بڑھا کر اُسکی ٹھوڑی چھوتی دھیمے لہجے میں اُسے اطمینان بخش رہی تھیں۔

”میری بچی نکاح کا تمھاری پڑھائی پر کچھ اثر نہیں پڑے گا۔۔۔

اور یہ تو شروع دن سے طے شدہ ہے کہ رخصتی تمھاری پڑھائی مکمل ہونے کے بعد ہی ہوگی۔۔۔

میں نے سوچا پہلے تمھیں اس معاملے سے آگاہ کرکے تمھاری رائے جان لوں۔۔پھراس حوالے سے نسیمہ آپا سے بھی بات کرلوں گی۔۔۔“ 

 اب کہ اُنکے لہجے میں مان بھی گھلا تھا۔۔

جبکہ سماعتیں اُسکی ہاں سننے کو بےتاب ہوئیں۔

”یہ بہت جلدی ہے ماما۔۔

یہ سراسرجلدبازی کا کام ہے۔۔۔“  اپنی ٹھوڑی نفیسہ بیگم کی حدرجہ نرم گرفت سے چھڑواتی۔۔وہ ٹیبل کی شفاف سطح کو بےچین سی ناخنوں سے کھڑوچتی بہت آہستگی سے گویا ہوئی۔

جھکی پلکوں سے آنسو ٹوٹ کر سرعت سے گالوں پر لڑھکے تھے۔

جیسے نگاہیں ملانے کی ہمت نہیں تھی۔

اُسکے دبے انکار پر نفیسہ بیگم کے لبوں کی مسکراہٹ دھیمی پڑتی سمٹی۔

”اُنکی اپنائیت کو جلد بازی کا نام مت دو میری بچی۔۔

وہ لوگ تو بس تمھیں خود کی امانت سمجھ کرمستقیل طور پر اپنے بیٹے کے حق میں محفوظ کرلینا چاہتے ہیں۔۔۔

اور پھر ذباب خود بھی تو بڑوں کے اس فیصلے سے خاصا متفق ہے۔۔۔تو پھر تم کیوں نہیں۔۔۔؟؟“  حرمین کے ہوائیاں اُڑے پھیکے چہرے پر تفکر بھری نگاہیں جمائے وہ اُسکے ناقابلِ فہم تیوروں سے الجھنے لگی تھیں۔۔

مگر لب کچلتے ہوئے اُسکی بےنیازی میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔

”میں تمھارے فرض سے جلد ازجلد خلاصی چاہتی ہوں حرمین۔۔۔

پیچھے تمھاری چھوٹی بہن بھی رہتی ہے ابھی۔۔

ویسے بھی جس طرح کے حالات پیدا ہوگئے ہیں اس دوران فریدہ بہن کا یہ فیصلہ میری روح میں ٹھنڈک بن کر اترا ہے۔۔“ 

 اُسکے چہرے کا رخ  زبردستی اپنی جانب موڑکر وہ اُسے اپنے احساسات کھل کر بتاتی اپنی جانب قائل کرنے کے لیے کوشاں تھیں۔

اُنکی بات پر حرمین نے  پل بھرکو بھیگتی نگاہوں کا زاویہ بدلا۔

جہاں وہ اپنے باغی دل کے پیشِ نظر بارہا نگاہیں چرانے پر مجبور ہورہی تھی وہیں اُنکی دلی خواہش کے احترام میں فی الوقت کوئی گستاخی کرنے سے بھی گریزاں تھی۔

”مگرمیرا دل نہیں مانتا یہ نکاح کرنےکو۔۔۔“  بے دردی سے بھیگے گال رگڑتی وہ روہانسی ہوئی۔

اس بار نفیسہ بیگم کو اُسکا ٹوٹتا لہجہ بری طرح چونکاگیا۔

”اِدھر میری آنکھوں میں دیکھو۔۔

مجھ سے کچھ چھپا رہی ہوحرمین۔۔۔؟؟

اگر کوئی بات تمھارے دل کو پریشان کررہی ہے تو مجھے بتاؤ۔۔۔

کیا مسئلہ ہوا ہے۔۔؟؟“ 

 دل کو بےچین کرتے خدشوں کو آواز دیتے ہوئے نفیسہ بیگم نے سنجیدگی سے پوچھا تو اپنی ماں کی بجھتی نگاہوں میں جھانکتے حرمین کو اپنی بےاختیاری کا احساس ہونے لگا۔

”آپکو تنہا چھوڑ کر جانے کو میرا من نہیں کرتا ماما۔۔۔

پلیز مجھے اتنی جلدی پرایا مت کریں۔۔تھوڑا سا وقت دے دیں۔۔۔

بس تھوڑا سا۔۔۔۔“

معاً اُنکے سینے پر سر رکھ کر بھرائی آواز میں دہائی دیتی وہ اپنے جذباتوں پر جدائی کا واضح رنگ چڑھا گئی تو اپنے سارے خدشوں کو بے دم ہوتا دیکھ نفیسہ بیگم نے اُسکے سسکتے وجود کو بےاختیار خود میں سمیٹا۔

جہاں وہ حرمین کے مسلسل انکار کو اپنوں سے دوری کی فطری تڑپ سمجھ کر نم آنکھوں سے مسکرائیں تھیں وہیں کمرے کے ادھ کھلے دروازے پر کھڑی حاویہ کی بھیگتی آنکھوں میں صاف تاسف ابھرا تھا۔۔۔۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

 قدآور آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر قدرے سست انداز میں سفید شرٹ کے بٹن کھولتا وہ خود کا عکس سرد نظروں سے بغور تک رہا تھا۔

سرخائی گھلی نگاہوں میں ایک بار پھر خود پر اٹھتے نازک ہاتھ کا دل چیڑتا منظر گھوما تو بےاختیار اپنے رخسار کو انگلیوں سے چھوتا وہ سختی سے لب بھینچ گیا۔

معاً اپنی پشت پر ابھرتا ایک دوسرا نازک عکس شفاف آئینے میں دکھائی دیتا اُسے چونکا گیا۔

”بہت تکلیف ہورہی ہے۔۔۔؟؟؟“  

مصنوعی ہمدردی سے پوچھتی وہ یقیناً اُسکا مذاق اڑارہی تھی۔

جواباً ہوش میں آتا وہ اپنا ہاتھ سرعت سے تپتے گال سے پرے ہٹاتا مٹھی کی صورت بھینچ گیا۔

رخ ہنوز قدآور آئینے کی جانب تھا مگر شعلہ بار نگاہوں کا مرکز اُسکے نرم لبوں کی گہری ہوتی مسکراہٹ تھی۔۔

جو شفاف آئینے میں دِکھتی حقیقتاً اُسے ذلت کے شدید احساس سے دوچار کرگئی تھی۔

”اگر تم سوچ رہے ہوکہ محبت میں اٹھائی گئی اذیت گال پر ہوتی اس معمولی سی جلن کا نام ہے تو تم سراسر غلط ہو۔۔۔

درحقیقت محبت میں ملنے والی اذیت انسان پر اُسکی سانسیں تنگ کرچھوڑتی ہے۔۔

اور تم ابھی تک اس قابل نہیں ہوئے کہ تمھاری سانسیں تم پر تنگ پڑجائیں۔۔۔“  اُسکی چبھتی خاموشی پر مزید گہرے وار کرتی وہ بڑی دیدہ دلیری سے اُسکے تازہ زخموں پر نمک چھڑک رہی تھی۔

 ”بھاڑ میں جاؤ۔۔۔۔“ 

 اس تلخ بکواس پر سرجھٹکتا وہ سخت قسم کا جھنجھلایا جب اُسکی حالت سے حظ اٹھاتی وہ پل میں اُسکے حددرجہ قریب ہوئی۔

انگلیوں کا روئی کی مانند نرم لمس کمر سے رینگتا ہوا اُسکے چوڑے شانے تک آیا تھا۔

”اب بدلے میں کیا سزا دو گے اُسے۔۔۔؟؟

اپنی مکاریوں اور چالبازیوں کی بنا پر اُس معصوم کی بھی سانسیں تباہ کردوگے۔۔۔؟؟

آخر کوتمھاری لامتناہی انا پر اتنا گہرا وار جو کیا گیا ہے۔۔۔بالکل اُسی طرح جیسے میں نے کیا تھا۔۔۔

یاد آیا۔۔؟؟“  

بڑی ڈھٹائی سے آگ پر آگ برساتی وہ شاہ کا دل سمیت سینہ جھلسانے سے باز نہیں آرہی تھی جب وہ اُسکا ہاتھ جھٹکنے کی بےسود کوشش میں چٹختا ہوا اُسکی جانب پلٹا۔

”بکواس بند کرو اپنی۔۔

محبت ہے وہ میری۔۔۔

جنون ہے وہ میرا۔۔۔

فقط اتنا ہی نہیں۔۔بلکہ میرے وجود میں سانسوں کا درجہ رکھتی ہے وہ۔۔۔

سنا تم نے۔۔؟؟

اور ویسے بھی میں تمھارے جتنا بزدل تو ہرگز نہیں ہوں جو اپنے ہی ہاتھوں سے خود کی سانسوں کا گلا گھونٹ دوں۔۔۔۔“

اپنی دہاڑتی آواز سے سرتاپیر عذاب کی سی اذیت سے دوچار کرتا وہ اُسے ساکت کرگیا۔

حقیقت کا آئینہ اُسکے عکس کو پور پور زخمی کرنے لگا تھا۔

”کاش کہ تم کوئی آسیب یاں بدروح ہوتی تو کسی پیر بزرگ سے دم تعویز کروا کے تم سے ہمیشہ کے لیے پیچھا چھڑوا بھی لیتا۔۔۔

لیکن افسوس......

 کہ تم ان میں سے کچھ بھی نہیں ہو۔۔بلکہ میرے دماغ کا صرف ایک دل چیڑتا فتور ہو۔۔۔میرے مردہ ضمیر کو جھنجھوڑنے والی وہ تلخ آواز ہو جو میری سماعتوں میں گھل کر ہمیشہ مجھے بےسکون کردیتی ہے۔۔۔

ایک ایسا تخیلاتی  وجود ہو جو وقت بے وقت دکھائی دے کر میری آنکھوں میں سوئیوں کی طرح چبھنے لگتا ہے۔۔۔“

وہ اُسکی بھیگی آنکھوں میں لہورنگ آنکھیں گاڑتا بڑی تندہی سے بولتا جارہا تھا جب وہ گہرے سانس بھرتی اُس سے دو قدم دور ہوئی۔

مقابل کے لفظوں کی اذیت جانلیوا ہی تو تھی۔

”میں تو جو ہوں سو ہوں۔۔۔

لیکن تم کیا ہو۔۔۔؟؟

ہاں۔۔۔؟؟“  اُسکی ہمت جٹاتی آواز پر شاہ کی پیشانی پر لکیروں کا جال ابھرا۔

”تمھیں تو شاید خود بھی اندازہ نہیں ہے کہ تمھاری اصل شناخت کیا ہے۔۔۔۔؟؟

شام۔۔۔

شاہ۔۔۔

یاں پھر شاہ میر حسن۔۔۔۔

کیا۔۔ہوکیا تم۔۔۔۔؟؟“  حقیقی معنوں میں اُسکی ذات کے پرخچے اڑاتی وہ  قدرےتلخی سے گویا ہوئی تو شاہ کے لیے جیسے ضبط کی آخری حد ہوئی تھی۔

”شٹ اپ۔۔۔

جسٹ شٹ اپ۔۔۔۔

میں جو کوئی بھی ہوں لیکن میری شناخت تمھارے اس دھواں دھواں ہوتے وجود سے کہیں ذیادہ اہمیت رکھتی ہے ڈیمٹ۔۔۔

بہت ذیادہ۔۔۔۔“  

درشتگی سے بولتا وہ اپنی انا کا بھرم رکھنے کو اُسکی جانب لپک کر اب کہ اپنا ہاتھ بھی اُسکے بےضرر وجود کے آرپارکرچکا تھا۔

ایک بار۔۔۔

 دو بار۔۔۔۔

 بار بار۔۔۔۔

یہاں تک کہ اُسکا لرزتا وجود اب دھیرے دھیرے چھٹنے لگا تھا۔

”جس دن تمھاری یہ انا۔۔

اور سانپ کی مانند سر اٹھا کے پھنکارتا غرور مٹی میں ملیا میٹ ہوگا ناں شاہ میر حسن۔۔

تو یاد رکھنا پیچھےتمھارا بھی فقط یہی دھواں دھواں ہوتا وجود بچے گا جس سے نفرت میں تم اس قدر پاگل ہوئے جارہے ہو۔۔۔۔۔“  اُسکی بےرحمی پرسسکتی ہوئی وہ پلوں میں ہوا میں تحلیل ہوئی تھی۔

”چپ ہوجاؤ۔۔۔۔

چپ ہوجاؤ یو باسٹرڈ۔۔۔

نہیں سننا مجھے تمھارا کوئی گھٹیا بھاشن۔۔۔

جسٹ گیٹ لاسٹ۔۔۔گیٹ لاسٹ۔۔۔“  اُسکے  یوں اوجھل ہونے پر کمرے کے چاروں اطراف بپھرا سا نگاہیں دوڑاتا وہ اب بھی خرافات بولنے سے باز نہیں آرہا تھا جب ایکدم ہی درد کی ذیادتی سے اُسکا سرچکرایا۔

”اوہ گاڈ۔۔۔۔۔۔۔“ 

اگلے ہی پل پیشانی کی تنی رگوں کو مسلتا وہ اپنے جہازی سائز بیڈ کی جانب تقریباً لڑکھڑاتا ہوا لپکا تھا پھر بوٹوں سمیت ہی پیٹھ کے بل بستر پر ڈھ سا گیا۔

سختی سے آنکھیں میچنے دوران ناچاہتے ہوئے بھی دل و دماغ  پر آبرو سکندر کی جگہ اب ایک بےضرر سے عکس کے بےچین کرتے نقوش قابض ہوئے تھے۔۔۔۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

”یہ آجکل کے سرپھرے نوجوانوں کا خون بھی پتا نہیں کیوں حد سے ذیادہ جوش مارنے لگا ہے۔۔۔۔؟؟

لوگ لڑکیوں کو امپریس کرنے کے چکروں میں خود کی جان گنوانے سے بھی گریز نہیں برتتے۔۔۔۔“  

وہ سب کافی دنوں بعد آج باقاعدہ ایک ساتھ ناشتے کی ٹیبل پر موجود تھے جب حسن صاحب نے اخبار کے صفحے پر چھپی قابلِ افسوس خبر پر اپنا تبصرہ دیتے بےزاری سے اُسے جھٹکا۔

شام سمیت سب نے چونک کر ان کی جانب دیکھا جو اب اخبار فولڈ کرتے سائیڈ پر رکھ چکے تھے۔

”کیا ہوا ڈیڈ۔۔۔۔؟؟

آج نیوز پیپر میں پھرسےکوئی بری خبر چھپی ہے۔۔۔؟؟“  عائل نے چائے کا کپ لبوں سے ہٹاتے سنجیدگی سے پوچھا تو آنکھوں سے نظر کا چشمہ ہٹاتے انھوں نے گہرا سانس بھرا۔

عائمہ بیگم نے ناشتہ چھوڑ کر جلدی سے اُنکے ادھ بھرے کپ کو گرم چائے سے بھرا تھا۔

”ہاں بیٹا بسس۔۔

وہی اندھا دھند بائیک چلانے کے جانلیوا نقصانات۔۔۔

اور کیا ہوسکتا ہے۔۔۔؟؟“  بظاہر تو حسن صاحب کا لہجہ تاسف بھرا تھا لیکن طنزیہ نگاہیں خود کو لاتعلق ظاہر کرتے شام پر ہی جمی تھیں۔۔۔

یقیناً وہ آج منعقد ہونے والی واہیات ریس سے بےخبر نہیں تھے جس میں بڑھ چڑھ کرحصہ لینا اُنکے چھوٹے سپوت پر جیسے واجب الفرض تھا۔

جہاں عائل اُنکی بات سمجھتا دھیرے سے سرہلاگیا وہیں اُن کے جتاتے انداز پر شام کی بھوری نگاہوں میں واضح ناگواری در آئی۔ 

”بائے دا وے ڈیڈ۔۔

اگر آپ۔۔۔۔“  

اُنھیں بھڑکانے کو وہ ٹیبل پر کہنیاں ٹکاتا بھرپور لب کشائی کرنے کا ارادہ رکھتا تھا جب عائمہ بیگم نے بروقت ٹوکتے اُسے چپ کروایا۔۔

”شام۔۔۔

خاموشی سے ناشتہ کرو بیٹا۔۔

ویسے سے بھی آج تمھیں یونیورسٹی جلدی پہنچنا ہے ناں۔۔۔۔؟؟“

 اُنکے یوں بیچ میں مداخلت کرنے پر شام نے لب بھینچ کر آئمہ بیگم کو دیکھا جن کی نظروں میں تنبیہہ سمیت ایک التجاء بھی تھی۔

”فائنل ایگزیمز کب  ہیں تمھارے۔۔۔۔؟؟؟“ 

 اُسی کی جانب متوجہ حسن صاحب نے آگے پڑا چائے کا کپ پکڑتے متانت سے پوچھا تو وہ سیدھا ہوکر بیٹھا۔

”نیکسٹ منتھ کے اسٹارٹ میں۔۔۔۔۔“ 

 سامنے پڑے فروٹ سیلڈ کو گھورتا وہ دھیمی مگر سرد آواز میں بولا۔

آج اُسے یونیورسٹی سے سسپینڈ ہوئے تیسرا دن تھا مگر اُسنے گھر کے کسی بھی فرد کو اس حوالے سے کانوں کان خبر تک نہیں ہونے دی تھی۔ایک ویک پر محیط یونیورسٹی سے ملنے والی اس آزادی کو اُسنے اپنی شوخ سرگرمیوں میں کیسے برباد کرنا تھا۔۔؟؟

یہ وہ اچھی طرح جانتا تھا۔۔

”ہوں۔۔۔

اچھی بات ہے۔۔۔جلد از جلد اِن تعلیمی سرگرمیوں سے جان چھڑواؤ اور اپنا بزنس سنبھالو تاکہ میری بوڑھی ہوتی ہڈیوں کو بھی تھوڑا آرام ملے اور تم بھی اپنے پیروں پر مضبوطی سے کھڑے رہنے کے عادی ہوجاؤ۔۔۔۔“ 

 باقاعدہ چائے کے گھونٹ بھرتے حسن صاحب اطمینان سے گویا ہوئے تو اُنکی پلینگ سن کر شام کے ماتھے پر باقاعدہ بل پڑے۔

”ڈیڈ۔۔

آپ پلیز غلط فہمیوں سے باہر نکل آئیے کیونکہ میں آپکا بزنس قطعی جوائن نہیں کرنے والا۔۔۔۔“  اب کہ وہ خود کو صاف کورا جواب دینے سے روک نہیں پایا تھا۔

حسن صاحب نے تیوری چڑھاتے کپ ٹیبل پر پٹخنے کے انداز میں رکھا۔

عائمہ بیگم جن لمحوں سے بچنا چارہی تھیں اُنہی کو نگاہوں کے سامنے انجام پاتا دیکھ۔۔انہوں نے پریشان ہوکر عائل کی جانب دیکھا جو خود بھی کھانے پینے سے ہاتھ روکتا سنجیدہ سا اُن باپ بیٹے کی طرف متوجہ ہوچکا تھا۔

”تو پھر کیا کرو گے۔۔۔؟؟

ساری زندگی باپ کے پیسوں پر عیش کرنا چاہتے ہو۔۔؟؟

یاں پھر اپنے لوفر دوستوں کے ساتھ عمر بھر یاریاں نبھانے کا ارادہ کرلیا ہے تم نے۔۔۔؟؟

نہیں کیا۔۔کرنا کیا چاہتے ہو تم۔۔؟؟آج مجھے کھل کر بتاہی دو اپنے ارادے۔۔۔۔“

پوچھتے ہوئے جہاں اُنکا لہجہ تلخ ہوا تھا وہیں آواز بھی خاصی بلند تھی۔

شام کا چہرہ شدتِ ضبط سے سرخ پڑا۔

یکدم چیئر پیچھے گھسیٹتا وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔

”آزادانہ طور پر اپنی مرضی سے کچھ بھی کروں گا ڈیڈ لیکن غلاموں کی طرح آپکا بزنس ہرگزنہیں سنبھالنے والا میں۔۔

اور نہ ہی آپ مجھے میری مرضی کے خلاف جاکر اس سب کے لیے فورس کر سکتے ہیں۔۔۔“  

ایک ایک لفظ پر زور دے کر قدرے مضبوط لہجے میں بولتا۔۔وہ سب سمیت خود کا موڈ بھی غارت کرتا وہاں مزید رکا نہیں تھا۔

”شام۔۔۔

 کہاں جارہے ہو۔۔؟؟

رکو تو۔۔۔۔“  اُسے جلتا بھنتا وہاں سے نکلتا  دیکھ کر عائمہ بیگم کی تفکر بھری پکار میں عائل کی آواز بھی گھلی تھی۔۔جب حسن صاحب نے فوری اُنھیں ٹوک دیا۔

”جانے دو اُسے۔۔

کوئی ضرورت نہیں ہے اتنے لاڈ جتانے کی۔۔۔اور ویسے بھی یہ تم دونوں کا یوں پیچھے سے پکارنا ہی اُسے ہمیشہ آگے بڑھنے سے روک دیتا ہے۔۔۔“ 

شانِ بے نیازی بولتے ہوئے وہ شام کے نگاہوں سے اوجھل ہوتے ہی نظریں پھیر گئے۔

”ابھی بچہ ہے وہ۔۔۔

وقت کے ساتھ ساتھ جب عقل آئے گی تو خود ہی سارے معاملات سمجھ جائے گا۔۔۔“  شام کے خفگی سے آدھا ادھورا ناشتہ چھوڑ کر جانے پر عائمہ بیگم کی فکر بےساختہ تھی۔

عائل بےبس سا لب بھینچ گیا۔

بھوک تو اُسکی بھی اُڑ چکی تھی۔

”کیا اس عمر میں بھی اُسے عقل آنا ابھی باقی ہے۔۔۔۔؟؟

حد ہے۔۔۔“  اپنی بیگم کی منطق پر وہ کچھ حیرت سے گویا ہوئے تو وہ بےبسی سے اُنھیں دیکھ کر رہ گئیں۔

”ریلکس ڈیڈ۔۔۔۔“ ماحول میں آیا تناؤ کم کرنے کو عائل نے آہستگی سے کہا تو کچھ پل یونہی خاموشی سے سرک گئے۔

”ہوں۔۔

عائل بیٹا۔۔۔آج میرے آفس کا چکر لازمی لگانا۔۔۔مجھے کچھ کام ہے تم سے۔۔۔“  کچھ توقف کے بعد گلا کھنکھارتے ہوئے حسن صاحب نے موضوع بدلا تھا۔

”جی ڈیڈ۔۔۔“  وہ تابعداری سے سر اثبات میں ہلاگیا۔

”اور ہاں وہ۔۔

تمھاری پسند کو لے کر میں نے تمھاری ماں کی رائے جانی تھی۔۔۔“  اس بار وہ سرسری سا انداز اپناتے عائل کا دل دھڑکا گئے۔۔

جبکہ اُس دن کے بعد سے اب نتائج جاننے کو اُسکا دل بری طرح  مچلنے لگا۔

دونوں کے بیچ ہوتی گفتگو پر اب کہ عائمہ بیگم کا دھیان بھی بٹا تھا۔

”اور بلاشبہ ہماری بیگم ایک مڈل کلاس بن باپ کی بچی کو اپنی بہو کی صورت قبول کرنے پر دل سے رضامندنہیں ہیں۔۔۔

دیکھو بیٹا۔۔۔

میں تمھاری پسندیدگی کی قدر کرتا ہوں اور مجھے اُس لڑکی سے حقیقتاً کوئی مسئلہ نہیں ہے۔۔

لیکن ساری بات تمھاری ماں پرآکر ختم ہوتی ہے۔۔

آخر کو اُن کے گھر رشتہ لے کر جانا تو اسی کو ہے۔۔۔“  بظاہر اپنی رضامندی سے عائل کو آگاہ کرتے ہوئے حسن صاحب نے بندوق چلانے کے لیے براہِ راست عائمہ بیگم کا کندھا استعمال کیا تھا۔

درحقیقت تو عائمہ بیگم کی زبانی حاویہ کےمتعلق ساری معلومات جان لینے کے بعد انھیں خود عائل کی پست پسند سے اعتراض ہوا تھا۔۔

جبکہ پوری بات سن کر عائل کا دل ڈوب سا گیا۔

”اور مجھے نہیں لگتا کہ وہ دن کبھی آئے گا۔۔۔

اب اتنا بھی برا وقت نہیں آیا ہم پر جو ہائی لیول خاندان کی لڑکیاں چھوڑ کر ایک ایسے عام گھرانے کی لڑکی کو گھر اٹھا لائیں کہ جسکی ہم سے برابری کرنے کی بھی اوقات نہیں ہے۔۔۔“ 

 اپنے سرتاج کو یوں اپنے حق میں ہوتا دیکھ عائمہ بیگم اپنی حیرت کو دباتی اپنے ازلی مغرورانہ لہجے میں گویا ہوئیں تو بےساختہ عائل کی بھنویں تن گئیں۔

”موم پلیز۔۔۔

آخر لوگوں کے سٹیٹس اور کلاس میں فرق کرنا آپ کب چھوڑیں گی۔۔۔؟؟

فار گاڈ سیک عام لوگوں کو حقیر سمجھنا چھوڑدیجیے۔۔۔حاویہ میری پسند ہے۔۔اور ایسے میں آپکو منفی باتیں سوچنے کی بجائے صرف اپنے بیٹے کی پسند کو اول ترجیح دینی چاہیے۔۔۔

بالکل ویسے ہی۔۔جیسے کہ ڈیڈ دے رہے ہیں۔۔۔“  اُسے حقیقتاً اپنی ماں کے خیالات جان کر تکلیف ہوئی تھی جبھی انھیں اپنی خواہش سے آگاہی دلانے کو زور دے کر بولا۔۔

جبکہ اسکے یوں چڑنے پر حسن صاحب نے کچھ ناپسندیدگی سے پہلو بدل لیا۔

”ہوگیا میرا بھی۔۔۔۔

چلتا ہوں اب۔۔۔

خدا حافظ۔۔۔“  اس سے پہلے کہ عائمہ بیگم اُسے اپنے سٹینڈرڈ کی بابت سمجھانے کو کچھ بولتیں۔۔وہ برہم سا اپنی جگہ سے اٹھتا ادھورا ناشتہ چھوڑ کر وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

پیچھے وہ دونوں اپنی اولاد کے سرکش رویوں کے متعلق سوچتے ناچاہتے ہوئے بھی آنے والے وقت کے لیے متفکر ہوئے تھے۔۔۔۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

 حویلی کے نکھرے نکھرے سے وسیع باغیچے میں باقی دنوں کی بانسبت آج دھوپ ذیادہ کھل کر اتری تھی۔۔۔

اور اس ٹھنڈ میں سکون پہنچاتی حدت کو محسوس کرنے کی غرض سے وہ صبح سے بوجھل ہوتی طبیعت کے باوجود بھی اس وقت بیرونی علاقے سے آئیں دو خواتین مہمانوں کے ساتھ باغیچے کے وسط میں براجمان تھیں۔

دو ملازمائیں بڑی پھرتی کے ساتھ دسترخوان سے انواع واقسام کے لوازمات سمیٹتی اب کہ حویلی کے اندر جا گھسی تھیں۔

”ماشاءاللہ۔۔۔

بھئی بہت ذائقہ ہے بچی کے ہاتھ میں۔۔

کھیر کا سواد تو ابھی تک میری زبان میں گھلا جارہا ہے۔۔۔“  حلیمہ کی بابت دل کھول کر تعریف کرتی زرمین بیگم خوشدلی سے گویا ہوئیں۔۔

لہجے کی چاشنی حد سے ذیادہ تھی جس کی وجہ خنساء بیگم سے ہرگز ڈھکی چھپی نہیں تھی۔

جبھی لب بھینچ کر اثبات میں سرہلاتے اُنھوں نے اپنی بات شروع کرنے کو ایک گہرا سانس بھرا۔

”دیکھیے زرمین بہن۔۔

آپ لوگوں کی مہمان نوازی کا حق ادا کرکے ہمیں حقیقتاً بہت خوش ہوئی ہے۔۔لیکن جس تقاضے کے ساتھ آج آپ نے یہاں تشریف لانے ضرورت محسوس کی ہے اُس سے ہم بالکل بھی خوش نہیں ہوئے۔۔۔“ 

 خنساء بیگم اپنے تحمل کو دباتی مخصوص لب و لہجے میں گویا ہوئیں تو انکی بات سمجھ کر زرمین بیگم سمیت ان کی نند کے لب بھی سمٹ گئے۔

”مطلب۔۔؟؟

کیا آپ ہمیں انکار کررہی ہیں۔۔۔؟؟“  وہ جو اپنے خوبرو بیٹے کے لیے حلیمہ کا ہاتھ مانگنے آئی تھیں پوچھتی ہوئی وہ کچھ بے یقین سی ہوئیں۔

”انکار کی بجائے اگر صاف انکار کہیں تو یہ موجودہ صورتحال کے لیے ذیادہ مناسب الفاظ ہوں گے۔۔۔

آدھا زمانہ یہ بات جانتا ہے کہ حلیمہ ہمارے سالار کی امانت ہے۔۔۔

تو پھر کیسے آپ نے سوچ لیا کہ یہاں فیصلہ آپکے حق میں ہوگا۔۔۔؟؟“ 

 صاف کورا جواب دیتے ہوئے اس بار خنساء بیگم نےاپناتحمل ظاہر کرنے کی بالکل بھی کوشش نہیں کی تھی جو وہ ان خواتین کے معاملے میں کافی دیر سے کررہی تھیں۔۔

جبکہ اُنکی دھتکار اور اس پر مستزاد اپنی نند کی خود پر پڑنے والی تمسخر اڑاتی نظروں کو محسوس کرتے زرمین بیگم کا چہرہ خجالت سے سرخ پڑا۔

معدے کے اندر گیا کھانا اب کہ جلن کا واضح احساس دلانے لگا تھا۔

”اپنی لاعلمی کے حوالے سے مجھےحقیقتاً بہت افسوس ہوا ہےخنساء بہن۔۔

لیکن اگر آپ اپنی خواہش کو محض لفظوں سے جتائیں گی تو ہم جیسے تقاضا کرنے والوں کو خوش فہمیاں تو ہر صورت لاحق ہوں گی۔۔۔

بچی ابھی تک آپکے در پر کنواری  بیٹھی ہے۔۔

کوئی خوشی۔۔

کوئی رسم۔۔۔

کچھ بھی تو نہیں کیا آپ نے اُسکے نام کا۔۔۔۔“  بظاہر ادب کے دائرے میں رہتے  اُنھوں نے ٹھنڈے ٹھار لہجے میں خنساء بیگم کو اُنکی خامیوں کا احساس دلایا تو اُنکے نفوش پل بھرکے لیے تن سے گئے۔

وجود میں عجیب سی نقاہت کا احساس بڑھنے لگا تھا۔

”یہ بات تو بالکل ٹھیک کہی ہے بھابی صاحبہ نے۔۔۔

اور انہی وجوہات کو سامنے رکھ کر تو ہم یہاں آئے تھے۔۔۔“  بیچ میں تھوڑا سا لقمہ دیتی زرمین بیگم کی نند نے بھی اس بار اپنی خاموشی کو توڑا تھا۔

ان پلوں میں سالار خان کی ضد اور ہٹ دھڑمی پر آتے اشتعال کو اندر ہی اندر دباتی خنساء بیگم بڑے ضبط سے مسکرائیں۔

”ہمیں بروقت آگاہی دلانے کے لیے آپ لوگوں کا بہت بہت شکریہ۔۔۔

مگر ہم آپکو اس بات کا پورا یقین دلاتے ہیں کہ آج کے دن کی بانسبت حلیمہ اور سالار کے نکاح پرآپکی اس سے بھی بڑھ چڑھ کرخاطرتواضع کی جائے گی۔۔

اور بلاشبہ ہم یہ مبارک موقع آپکو بہت جلد میسر کریں گے۔۔۔“

 قدرے مضبوط لہجے میں بولتے ہوئے خنساء بیگم کا استہزائیہ انداز انکی عزت افزائی کرنے والا تھا۔۔

جس پر پل بھرکو چونکتی وہ دونوں مروتاً مسکرا بھی نہ سکیں۔

”خدا کرے آپکے نیک خیالات جلد ہی خیرو عافیت سے انجام پا جائیں۔۔۔

آپکی خوشیوں میں شامل ہوکرہمیں یقیناً خوشی ہی ہوگی خنساء بہن۔۔۔“ 

پھیکے پن سے بولتی وہ دونوں اپنی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی تھیں۔

اب تک جتنی عزت افزائی اُن کی ہوچکی تھی اُن دونوں کے لیے مزید وہاں ٹھہرنا محال ہوا تھا۔۔۔

سو قیمتی بٹوے پرس سنبھالتی اپنی چادریں ٹھیک سے اوڑھنے لگیں۔

 اُنکی آنکھوں میں چیختی مایوسیاں دیکھ کر خنساء بیگم بھی دھیرے سے سر ہلاتی شانِ بےنیازی سے اٹھیں۔

”بہت دیر ہوچلی ہے خنساء بہن۔۔۔اب ہمیں اجازت دیجیے۔۔

خدا حافظ۔۔۔۔“  بیت چکے تین گھنٹوں کو طویل دیری کا سبب بناتی وہ سپاٹ لہجے میں بولیں۔۔حالانکہ یہاں تک پہنچتے پہنچتے اُنھیں تقریباً پانچ چھ گھنٹوں کا سفر جھیلنا پڑا تھا۔۔

اور بدلے میں اب انھیں یوں خالی ہاتھ واپس لوٹنا پڑرہا تھا۔

”خدا حافظ۔۔۔۔“ 

اطمینان سے پشت پر ہاتھ باندھتے اُنھوں نے دونوں کو الوداعی پروانہ ہاتھ میں تمھایا تھا۔۔

جب  ضبط سے لب بھینچ کر اُنکے پاس سے گزرتی وہ دونوں تیزی سے بڑے سے مین گیٹ کی جانب لپکیں۔

چوکیدار اُن خواتین کو اپنی جانب آتا دیکھ پہلے ہی گیٹ کھول چکا تھا۔

ایسے میں کافی دیر سے اپنے کمرے کی کھلی کھڑکی سے لان کا نظارہ کرتی حلیمہ کے پنکھڑی لب۔۔

اس ستم ظریفی پر زخمی مسکراہٹ میں ڈھلے تھے۔

اگر ایک طرف بیٹا اُسکے وجود کو دیکھنے تک کا روادار نہیں تھا تو دوسری طرف ماں۔۔۔

اُس کی دوری جھیلنے سے گریزاں ہورہی تھی۔

منہ ناک چڑھاتی وہ خواتین حویلی کی دہلیز پھلانگتی باہر نکلیں تو خنساء بیگم کے سپاٹ چہرے پر تھکاوٹی تاثرات ابھرآئے۔

معاً کسی کام سے لان کی جانب آتی ملازمہ اُن کو انگلیوں تلے زور سے پیشانی دباتے دیکھ قریب چلی آئی۔

”بیگم حضور۔۔۔

اگر آپکی طبیعت ٹھیک نہیں تو میں لے چلوں آپکو آپکے کمرے تک۔۔۔؟؟“

 اپنی مالکن کی فکر میں خود کی خدمات پیش کرتی وہ ساتھ ہی نرمی سے اُنکا بازو تھامنے کو تھی جب اُسکا ہاتھ درشتگی سے جھٹکتے انھوں نے اُسے گھورا۔

”اب ہم اتنے بھی کمزور نہیں پڑے کہ اپنی آرام گاہ تک پہنچنے کو ہمیں تم جیسی ملازماؤں کا سہارا لینا پڑے۔۔

الحمداللہ سے ٹھیک ٹھاک طبیعت ہے سو خود چلیں جائیں گے۔۔

تم جاکر حلیمہ کو بھیجو ہمارے پاس۔۔۔“  قدرے رعونت سے اُسکی اوقات باور کرواتے ان کا لہجہ مزید سخت ہوا تو وہ شرمندگی سے سر جھکانے پر مجبور ہوگئی۔

”جیسا آپ کہیں بیگم حضور۔۔۔“

 مقابل کےحکم پر منمناتی ہوئی وہ جانے کو پلٹی جب اُسی کے پیچھے دو قدم اٹھانے پر خنساء بیگم کا بھاری ہوتا سر بری چکرایا۔

سر کو تھامتے اگلے ہی پل اُنکے قدم بری طرح لڑکھڑائے تھے سو وہ چاہ کر بھی خود کا نڈھال ہوتا وجود سبز رنگت کی نرم گھاس پر گرنے سے روک نہیں پائی تھیں۔

”خالہ حضور۔۔۔۔۔“  

جہاں ملازمہ چونک کر پلٹتی حواس باختہ سی اُنکی جانب لپکی تھی وہیں سینے پر بازو لپیٹ کر کھڑی حلیمہ کے حلق سے اس ہوش اڑا دینے والے منظر کو دیکھ کر بےاختیار دبی سی چیخ نکلی۔

اگلے ہی پل وہ پریشان سی اندھا دھند کمرے سے باہر کی جانب بھاگی تھی۔۔۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

تیز دھوپ کی گرماتی روشنی تلے۔۔تپتی سڑکوں پر رواں دواں بے تحاشہ گاڑیوں سے نکلتا دھواں معمول کے مطابق ماحول میں بڑھتی آلودگی کا واضح سبب بنے ہوئے تھا۔۔

جبکہ اپنی اپنی زندگیوں کی بھاگ دوڑ میں مصروف ترین افراد اس آفت سے قدرے لاپرواہ مطلوبہ منزلوں کی جانب گامزن تھے۔

ایسے میں وہ موبائل فون کو کندھے اور کان کے بیچ دبائے گلاس ڈور اپنی جانب دھکیلتا سٹور سے باہر نکلا تھا۔

ہاتھ میں پکڑی مینرل واٹر کین اس وقت ٹھنڈی ٹھار ہورہی تھی جو اُسکی نرم گرم ہتھیلی کو پلوں میں ٹھنڈک پہنچاتی اُسکے خشک حلق کی پیاس مزید بڑھاگئی۔

”یس ڈیڈ۔۔۔

میں پولیس اسٹیشن سے نکل چکا ہوں۔۔

اور ٹھیک دس منٹ تک آپکے آفس میں موجود ہوں گا۔۔

سو ڈونٹ وری۔۔۔“  موبائل فون ٹھیک سے پکڑ کر کان پر لگاتا وہ پل بھرکو رکا۔اس دوران سیاہ نگاہوں نے لاپروائی سے اطراف کا جائزہ لیا تھا۔

”آجاؤ پھر۔۔۔۔“  

دوسری جانب اُسکی بات سنتے وہ اطمینان سے مسکرائے۔

”ہاں بھائی۔۔

اسی جگہ۔۔

بس یہی پر اتار دو مجھے۔۔۔“ 

 مٹھی میں پہلے سے ہی بھینچا ہوا کرایہ رکشہ ڈرائیور کی جانب اچک کر بڑھاتی نفیسہ بیگم اطمینان سے گویا ہوئیں تو بروقت عائل کے ٹھیک سامنے چند قدم کے فاصلے پر اپنا رکشہ روکتا وہ اگلے ہی پل اپنی حلال پسینے کی کمائی اُنکے ہاتھوں سے تھام چکا تھا۔

”اوکے ڈیڈ۔۔۔

خدا حافظ۔۔۔۔“ 

  ایک اچٹتی نگاہ رکشے کے کھلتے دروازے پر ڈالتا وہ کال کاٹ گیا پھر باہر نکلتی خاتون کو دیکھے بنا ہی۔۔ایک سائیڈ پر کھڑی اپنی گاڑی کی جانب لپکا۔

اس دوران قدرے احتیاط سے رکشے سے نیچے اترتے ہوئے نفیسہ بیگم کا ابھی ایک پیر ہی سڑک پر پڑا تھا جب رکشہ ڈرائیور نے اُن پر غور کیے بنا ہی پھرتی سے رکشہ اسٹارٹ کرتے آگے بڑھا دیا۔ 

”یاااا میرے اللہ۔۔۔۔“ 

 نتیجتاً جھٹکا کھاتی وہ بری طرح کہنی کے بل تپتی سڑک پر گری تھیں۔

سماعتوں سے ٹکراتی چیختی دہائی پر جہاں عائل نے چونک کر پلٹتے اُس انجان خاتون کی جانب دیکھا تھا وہیں رکشہ ڈرائیور اپنی عجلت بازی کا سنگین نتیجہ دیکھ کر۔۔رکنے کی بجائے مزید اسپیڈ بڑھاتا ہوا فوری سے بیشتر وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔

اس دوران اردگرد چلتی گاڑیوں میں بیٹھے تو کچھ دکانوں سے باہرکو جھانکتے لوگوں نے تجسس و حیرت سے اس غیر متوقع منظر کو دیکھا تھا۔

اگلے ہی پل عائل نے دانت پیستے ہوئے ایک قہر بھری نگاہ دور جاتے رکشے پر ڈالی پھر تیزی سے خود کا بازو پکڑ کر ہولے ہولے سے کراہتی ہوئی اُس ضعیف عورت کی جانب لپکا۔۔۔۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

”کیا وہ آئے گی۔۔۔۔؟؟؟“

 ریس کی شروعاتی تیاریوں کا باقاعدہ آغاز ہوچکا تھا جب فواد نے اطراف میں پل بھرکو نگاہ دوڑاتے شام کی جانب دیکھ کر پوچھا۔

” کہاں یار۔۔۔؟؟

یہ کمینہ انسان اُس محترمہ کی ذات کا جتنا تماشہ مجمعِ عام میں بنا چکا ہے ناں۔۔۔

مجھے نہیں لگتا اسکے بعد وہ اِس ریس ویس میں معمولی سی بھی دلچسپی لے۔۔

بیٹھی ہوگی کہیں اپنی آخری کلاس لینے۔۔۔۔“  

فواد کے کندھے پر ہاتھ دھڑتے ہوئے افروز نے طنزاً مسکرا کر جواب دیا تو شام نے سلگتی سگریٹ کو جھٹکا دیتے کچھ لاپرواہی سے بالوں میں ہاتھ چلایا۔

اُس کے برعکس اس ریس میں شریک دیگر افراد اپنے کپڑوں کی سیٹنگ درست کرنے میں تو کچھ اپنی ہیوی بائیکس پر ان دیکھی گرد کو رگڑ رگڑ کر صاف کرنے میں مگن دکھائی دے رہے تھے۔

”آنا تو اُسے پڑے گا۔۔۔

کیونکہ مجھے اُسکی کھوکھلی انا سے کہیں ذیادہ خود کی قابلیت پر یقین ہے۔۔

پچھلے دو دنوں سے وہ تیرے بھائی کو لاتعداد کالز اور میسیجز کرچکی ہے۔۔

لیکن اسکے جواب میں جتنا اٹیٹوڈ دکھا کر میں نے اُسکے وجود میں تڑپ بھردی ہے ناں ڈیوڈ۔۔

اسکے بعد تو میں ہنڈرڈ پرسنٹ شیور ہوں کہ وہ یہاں ضرور آئے گی۔۔۔“ 

 اُسکے اس حد تک چیلنجنگ انداز پر جہاں فواد کمینگی سے کھل کر مسکرایا تھا وہیں افروز کو اُسکے پُریقین لہجے سے ایک عجیب سی چڑ ہوئی۔

” کیا یار تُو بھی۔۔۔۔؟؟

ختم کر ناں اب اِس حرمین زہرا نامی بور سے قصے کو۔۔۔

خوامخواہ میں ہی لٹکا کے رکھ دیا ہے بس۔۔۔بائے گاڈ سیریس والا پک گیا ہوں میں اس فلاپ کیس کولے کر۔۔۔“ 

حرمین کی بابت بے زاری سے بولتا وہ چاہ کر اپنے لہجے کی کاٹ نہیں چھپا پایا تھا۔

افروز کی بات سن کر جہاں شام کے تیوری چڑھی تھی وہیں اُسکی بےجا مداخلت پر فواد کے مسکاتے لب سمٹ گئے۔

”ابے سالے ایسے نازک معاملات میں اتنی بھی عجلت بازی ٹھیک نہیں ہوتی۔۔۔

الٹا گلے پڑجاتی ہے۔۔۔

اور ویسے بھی جس ٹائپ کی وہ لڑکی ہے ناں جلدبازی دکھانے پر بنا بنایا کام بگڑ بھی سکتا ہے۔۔۔“ 

 قدرے برہمی سے بولتا وہ ضبط کے چکر میں ادھ جلی سگریٹ بوٹوں تلے مسل چکا تھا۔۔

ایسے میں جانے کیوں وہ اپنا سوچاسمجھا لائحہ عمل اُنھیں بتانے سے بھی فی الوقت گریزاں ہوا تھا۔

”یاد کر جب تُونے خود کچھ دنوں کا بولا تھا۔۔۔

بس کچھ دنوں کا۔۔۔

اور اب دیکھ بات دنوں سے مہینوں تک جا پہنچی ہے۔۔۔۔

اگر میں تیری جگہ ہوتا ناں تو بیلیو می اس ایک ڈیڑھ مہینے کے کھیل کو یوں۔۔یوں دو دنوں کے اندر اندر خلاس کرکے جیت تیرے منہ پر دے مارتا۔۔۔“ 

 اُسکے بدلتے تیوروں سے مرعوب ہوئے بنا افروز کی زبان۔۔چٹیکوں کے ساتھ ساتھ فراٹے بھرتی چلی جارہی تھی۔۔

جب اُسکی اس حد تک بڑھتی تلخی پر شام نے اپنا ضبط کھوتے بےاختیار اُسے کالر سے دبوچا۔

یہ دیکھ کر پل بھر کو گڑبڑاتا فواد فوراً سے محتاط ہوا تھا۔

”اگر ابھی تک جیت میرا مقدر نہیں بنی تو ہار بھی مجھ سے کوسوں دور ہے۔۔۔

اور یہ جو گیم کے کانٹینیو ہونے کی بات کررہا ہے ناں تو سالے۔۔ اسکی وجہ بھی میں خود ہی ہوں۔۔۔جب من کرے گا اسے ختم کرنے کو تو کردوں گا۔۔

تمھارے مشوروں کی ضرورت نہیں ہے مجھے۔۔

سمجھا۔۔۔“

  شام نے قہربار نگاہوں سے گھورتے اُسے اچھا خاصا لتاڑا تھا۔

جواب میں افروز اپنا گریبان چھڑوائے بنا۔۔ضبط سے مٹھیاں بھینچے برابر اُسکی آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔

 ذرا قریب میں کھڑے صرف چند گنے چنے افراد ہی تھے جو اپنی کاروائی روک کر اس دبے ہنگامے کی جانب متوجہ ہوپائے تھے۔

”چھوڑ یار شام۔۔

جانے دے ناں۔۔

تجھے تو پتا ہے اسکا۔۔عجیب پاگل آدمی ہے یہ۔۔مطلب بنا سوچے سمجھے کچھ بھی بول دیتا ہے۔۔

ایویں۔۔۔“  فواد کے ذرا جھجھک کر احتجاج کرنے پر شام نے جھٹکے سے اُسکا گریبان چھوڑا تو اپنا کالر درست کرتا وہ تھوڑا پیچھے ہٹا۔

”سمجھالے اس کم عقل انسان کو نہیں تو اپنی زبان درازی کی وجہ سے کسی روز برا پِٹے گا میرے ہاتھوں۔۔۔

یقیناً اُس دن والی اُس مڈل کلاس لڑکے کی دھلائی کا سین بھول گیا یہ کمینہ۔۔۔“  

شام افروز کو پہلو بدلتا دیکھ مستحکم لب و لہجہ اختیار کرتا بظاہر فواد سے مخاطب ہوا تو اُسکے یوں یاد دہانی کروانے پر وہ برہم سا سر جھٹک گیا۔

تبھی ہادف بھی نیوی بلیو ہیلمٹ ہاتھ میں پکڑے ان لوگوں کی طرف آیا۔

”ہے ای بڈی۔۔

اگر باتیں ختم ہوگئی ہوں تو چلیں۔۔۔؟؟

ریس اسٹارٹ ہونے میں صرف کچھ ہی وقت باقی بچا ہے یار۔۔۔“  ہادف شام کی نامکمل تیاری دیکھ کرعجلت بھرے لہجے میں بولا تو  اُسکا تفکر دیکھ کروہ گہرا سانس بھرتا سراثبات میں ہلاگیا۔

”یاہ۔۔۔

لیس گو۔۔۔“  

آہستگی سے بولتا وہ وہاں سے نکلنے سے پہلے افروز کو تنبیہی نگاہوں سے گھورنا نہیں بھولا تھا جو اُسکی نظروں کی تپش محسوس کرتا ہنوز اُس سے منہ پھیرے کھڑا تھا۔

”سالا بزنس مین کی بگڑی اولاد۔۔۔

سمجھتا کیا ہے خود کو۔۔؟؟

 خوامخواہ  میں ہی ہمارا باپ بنا پھرتا ہے۔۔

یقین جان دو ٹکے سے ذیادہ کی اوقات نہیں ہے اسکی ہمارے بغیر۔۔۔“ 

 اگلے ہی پل افروز نے گردن گھماکر شام کی پشت کو غصے سے گھورتے ہوئے۔۔

دل میں کب سے دبی بھڑاس باہر نکالی تو فواد نے کچھ حیرت سے اُسکا یہ باغی روپ دیکھا۔

”اوئے کمینے چپ کرجا۔۔

چپ کرجااا اب۔۔ لپیٹ لے اپنی اِس دس گز لمبی زبان کو اندر۔۔کیوں تجھے اپنے جگری یار کے ہاتھوں پِٹنے کا فضول میں اتنا شوق ہورہا ہے۔۔۔؟؟

ہہمم۔۔؟؟“  بےاختیار اُسکے سر پر چپت لگاتا وہ دانت پیس کر گویا ہوا تو فواد کی  چمچمہ گری پر چٹختا افروز گالی سمیت  اُسکی کمر پر شدت بھرا دھموکا جڑچکا تھا۔

اگلے چند ہی پلوں میں وہ اردگرد کا لحاظ کیے بنا آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ گتھم گتھا ہوچکے تھے۔حالانکہ ایسا کرتے ہوئے فواد کے لبوں پر چڑاتی مسکراہٹ واضح تھی۔۔۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

”آمین۔۔۔۔“  

وہ دعا کی صورت بلند ہوئی شفاف ہتھلیاں  اپنے نم چہرے پر آہستگی سے پھیرتی کچھ پرسکون ہوئی تھی جب زوروں سے بجتا بیرونی گیٹ اُسے پل بھرکو بوکھلاکر رکھ گیا۔

”لگتا ہے ماما واپس آگئی ہیں۔۔۔۔“  

اگلے ہی پل سبز رنگ مصلیٰ جلدی سے طے لگا کر ایک سائیڈ پر رکھتی وہ تقریباً بھاگتی ہوئی باہر کی جانب لپکی۔

عجلت میں وضو کرنے کے باعث تن سے لگا سفید یونیفارم ہنوز بھیگا ہوا تھا جسے کالج سے آنے کے بعد اتارنے کی زحمت اُسنے بالکل بھی نہیں کی تھی۔

 گیٹ ایک بار پھر شدت سے بجایا گیا تھا۔

”ایک سیکنڈ رکیں بس۔۔

آگئی ہوں۔۔۔۔“

  گیٹ تک پہنچ کر پھولی سانسوں کو ہموار کرتی وہ فوری کنڈی ہٹاگئی۔۔۔

مگردہلیز کے پار دکھنے والا منظر اُسے ساکت کرنے کو کافی تھا۔

مقابل نفیسہ بیگم بازو پر سفید پٹیوں کا تھان سا باندھے۔۔بمشکل عائل کے سہارے کھڑی اندر آنے کو بےتاب تھیں۔

زرد چہرے میں گھلا درد انھیں سختی سے لب بھینچنے پر مجبور کیے ہوئے تھا۔

ایسے میں وہاں پر موجود محلے کے گنے چنے صرف چند افراد ہی تھے جو اپنے مشاغل سے دھیان ہٹاتے یہ نظارہ بغور دیکھ پائے تھے۔

”ما۔۔ما۔۔۔

ی۔۔یہ۔۔یہ سب کیسے۔۔۔؟؟“ 

 تڑپ کر پوچھتی وہ روہانسی سی آگے بڑھنے کوتھی جب اُسکے بےچین وجود کو سائیڈ پر ہٹاتا وہ نفیسہ بیگم کو ساتھ لگائے عجلت میں اندر داخل ہوا۔

”ذیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔

سب ٹھیک ہے۔۔۔

تم بس یہ بتاؤ انکا کمرہ کس طرف ہے۔۔؟؟؟“ 

 اُسے ہلکا پھلکا کرنے کو نرمی سے پوچھتا وہ وہاں رکا نہیں تھا۔

سو وہ بھی بنا تاخیر کیے گیٹ بند کرتی۔۔۔پھرتی سے اُسکے سنگ نفیسہ بیگم کا سہارا بنتی کمرے تک رہنمائی کرنے لگی۔

اس دوران آنسو سرعت سے اُسکے گالوں کو بھیگو رہے تھے۔

بازو کی ہڈی میں وقفے وقفے سے اٹھتی درد کی شدید ٹیسوں کے باوجود بھی کمرے میں داخل ہوتے۔۔نفیسہ بیگم کے بھینچے لبوں پر عائل کے اس حد تک احساس جتانے پر پل بھرکے لیے شفقت و تشکر بھری مسکراہٹ در آئی۔

اُسکے ماں باپ نے حقیقتاً اُسکی بہت اچھی تربیت کی تھی۔

”آ۔۔آرام سے۔۔۔“ 

 عائل کو قدرے احتیاط سے اُنکا کپکپاتا وجود بستر پر نیم دراز کرتا دیکھ حاویہ بھرائی آواز میں ذرا جھجھک کر بولی تو ایک نظر اُسکے بھیگے چہرے کو دیکھتا وہ دھیرے سے اثبات میں سر ہلاگیا۔

چند پلوں میں پھرتی سے کام مکمل کرتا وہ پیچھے ہٹا تھا۔

”ماما۔۔

آپ تو گھر کے سامان کی خریداری کے لیے بازار  گئی تھیں ناں۔۔تو پھر یہ حادثہ کیسے پیش آگیا آپکے ساتھ۔۔۔؟؟

ہاں۔۔؟؟

یامیرےاللہ۔۔آپکو تو یہاں بھی خاصی چوٹ آئی ہے ماما۔۔۔“ 

  نفیسہ بیگم کے سرہانے بیٹھ کر باریک بینی سے اُنکے مرجھائے نقوش فکرمندی سے تولتے ہوئے اب کی بار اسے پیشانی پر چپکا سنی پلس بھی دکھائی دیا تھا۔

”ذیادہ پریشان مت ہو میری بچی۔۔۔

بس اُس رکشے والے کی ذرا سی جلدبازی نے مجھے سڑک کے کنارے منہ کے بل گرنے پر مجبور کردیا تھا۔۔

یہ تو بھلا ہو اس بچے کا جو اپنے سب کام چھوڑ چھاڑ کر مجھ بڑھیا کی مدد کو چلا آیا۔۔

اور پھر علاج کے لیے  ہسپتال بھی لے کر پہنچ گیا مجھے۔۔۔“ 

 نفیسہ بیگم کی نحیف سی وضاحت پر جہاں حاویہ اُنکی فکر میں مزید گھلی تھی وہیں یکدم اپنی جانب دونوں ماں بیٹیوں کی تشکر آمیز نم نگاہوں کو خود پرمحسوس کرکے۔۔سینے سے ہاتھ ہٹاتا وہ دھیرے سے مسکرایا۔

”اللہ تمھارے دل کی ہرمراد پوری کرے بیٹا۔۔۔

برے وقت میں تم ہمارا ساتھ نبھانے سے ذرہ برابر بھی نہیں ہچکچائے۔۔۔

اور تمھارے اس بے مطلب خلوص کے بدلے میں۔۔میں تمھیں اس وقت دعاؤں سے بہتر اور کوئی خاص شے دے بھی نہیں سکتی۔۔

رب تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ تمھارا دامن ہمیشہ خوشیوں سے بھرا رہے۔۔۔“  نفیسہ بیگم میٹھے مگر نقاہت زدہ لہجے میں بول رہی تھیں جس پر عائل کے لبوں کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔

”یہ تو آپکی اعلیٰ ظرفی ہے آنٹی جو آپ میری معمولی سی کاوشوں کے بدلے میں مجھے اتنی قیمتی دعاؤں سے نواز رہی ہیں۔۔۔

اور یقین جانیے آپکی مدد کرکے مجھے ہمیشہ خوشی محسوس ہوتی ہے۔۔۔“ 

 عادتاً ہاتھوں کو جیبوں میں پھنساتا وہ سچے دل سے گویا ہوا۔۔

تو سفید پٹیوں تلے بازو میں وقفے بھر کے لیے اٹھتی درد کو برداشت کرتی وہ خوشدلی سے مسکرائیں۔

”تھینک یو سو مچ عائل صاحب جو آپ نے اپنی ڈیوٹی چھوڑ کر میری ماما کی اتنی ہیلپ کی۔۔۔۔“ 

 تب سے پہلی بار بغور جائزہ لیتی حاویہ کو عائل کے باوردی ہونے کا احساس ہوا تو وہ بھیگے گال رگڑتی مزید احسان مند ہوئے بنا نہ رہ سکی۔

”تمھیں تھینکس بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔

انفیکٹ انسانیت کے ناطے یہ بھی ایک طرح سے میری ہی ڈیوٹی تھی۔۔۔

اور۔۔

یہ  کچھ میڈیسنز ہیں جو تمھیں پورے ٹائم پر آنٹی کو دینا پڑے گی۔۔

باقی کی انفارمشن بھی اسی میں ہے۔۔تم دیکھ لینا۔۔

اوکے۔۔۔؟؟“  

حاویہ کو سنجیدگی سے ٹوکتا ہوا وہ یاد آنے پر ساتھ ہی سائیڈ ٹیبل پر رکھے دوائیوں کے شاپر کی جانب اُسکی متوجہ مبذول کرواگیا جو وہ کمرے میں آتے ساتھ ہی وہاں رکھ چکا تھا۔

”جی اوکے۔۔۔۔“ 

 ایک نظر شاپر پر ڈال کر تائیدی انداز میں سرہلاتی وہ نم پلکیں جھکاگئی تو عائل دھیرے سے مسکرا کر سر جھٹکتا دوبارہ نفیسہ بیگم کی جانب متوجہ ہوا۔

”اچھا آنٹی اب آپ مجھے اجازت دیجیے۔۔۔

پہلے ہی کافی دیر ہوگئی ہے اور مجھے ابھی ڈیڈ کے آفس بھی جانا ہے۔۔

سو اب میں چلتا ہوں۔۔۔۔“   لہجے کو قدرے نرم رکھتا وہ جانے کو ملتجیانہ سا گویا ہوا۔

حاویہ نے جھٹکے سے سر اٹھاکر اُسکی جانب دیکھا تو جانے کیوں اُس سے نگاہیں ملنے پر عائل کو اُن بھوری آنکھوں میں ایک عجیب سی بے چینی دکھائی دی۔

”ارے ایسے کیسے بیٹا۔۔؟؟

پہلی بار ہمارے گھر آئے ہو کم از کم مہمان نوازی کا تھوڑا بہت حق تو ادا کرنے دو ہمیں۔۔۔“ 

 اُسکے یوں عجلت دکھانے پر نفیسہ بیگم کو تکلیف میں بھی خاطرمدارت کی فکر لاحق ہوئی تو اُنکے زور دینے پر وہ پل بھرکو گڑبڑایا۔

”اٹس اوکے آنٹی آپ کو خومخواہ میں تکلف کرنے کی بالکل بھی ضرورت نہیں۔۔۔

فی الحال تو آپ  مکمل ریسٹ کریں۔۔

پھر کبھی صحیح۔۔۔۔“ 

 ہتھیلیوں کو آپس مسلتے ہوئے عائل نے معذرت کرنا چاہی۔۔

مگر نفیسہ بیگم اُسکے مشورے پر اس وقت بالکل بھی مطمئن دکھائی نہیں دے رہی تھیں۔

”تکلف کیسا بچے۔۔۔؟؟

ایک کپ چائے کا تو پیتے جاؤ۔۔۔میری حاویہ بڑی ذائقہ دار چائے بناتی ہے۔۔۔

حاویہ۔۔

چندا جاؤ جاکر  عائل بیٹے کے لیے اچھی سی چائے بناکرلاؤ۔۔۔“  نرمی سے بولتے ساتھ ہی انھوں نے ذرا سی گردن موڑ کر حاویہ کو کچن میں بھیجنا چاہا تو ہوش میں آتی وہ فوراً جانے کو کھڑی ہوئی۔

”بس ابھی لائی۔۔۔۔“  

اپنے سگھڑ پن کے چرچے پر تھوڑا خجل ہوتی وہ

 عائل سے نگاہیں ملائے بنا دروازے کی جانب پلٹی جب سماعتوں سے ٹکراتی  بھاری آواز نے اُسکے دل کی دھڑکنیں بڑھا دیں۔

”آنٹی آپ اتنے پیار سے اصرار کررہی ہیں تو آپکی بات مان لیتا ہوں۔۔۔

جانے سے پہلے ذائقے دار چائے کا ایک عدد کپ ضرور پی کر جاؤں گا۔۔۔۔“ 

 مسکاتے لہجے میں بولتا وہ فرمانبردار بنا تو حاویہ لب کاٹتی تیزی سے باہر نکل گئی۔

”تم بیٹھو تو بیٹا۔۔۔

کب سے کھڑے ہو۔۔تھک گئے ہوگے۔۔۔“ 

 نفیسہ بیگم اُسکا خیال کرتی شائستگی سے گویا ہوئیں تو مسکرا کر اثبات میں سر ہلاتا وہ سامنے دیوار کے ساتھ لگے صوفے پر آرام سے بیٹھ گیا۔۔

معاً جیب میں رِنگ ہوتا موبائل فون نفیسہ بیگم سمیت عائل کی توجہ اپنی جانب کھینچ گیا۔

”ڈیڈ کالنگ۔۔۔۔“  

موبائل فون باہر نکال کر چمکتی اسکرین پر نگاہیں جماتے ہوئے عائل کے لب دھیرے سے پھڑپھڑائے تھے۔۔۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

حسن صاحب کی کال اٹینڈ کرکے پلٹتا وہ نفیسہ بیگم کے پاس واپس کمرے میں جانے کا ارادہ رکھتا تھا جب کسی شے کے جلنے کی بو شدت سے نتھنوں سے ٹکراتی اُسے کچن کی طرف لپکنے پر مجبور کرگئی۔۔

موبائل فون جیب میں پھنساتا ہوا وہ پلوں میں کچن تک پہنچتا سامنے کی صورتحالِ دیکھ کر ٹھٹھکا۔

تیز آنچ پر چڑھی چائے پک پک کر اپنی جلتی بو اطراف میں پھیلاتی اب کہ پیندے کو سیاہ کر چکی تھی مگر سلف پر ہاتھ جمائے وہ اطراف سے بیگانہ سی ہنوز اپنی سوچوں میں غرق تھی۔

حاویہ کی اس  قدر بےخبری پر عائل ابرو اچکاتا  کچھ حیران ہوا۔

”محترمہ چولہا بند کردیجیے کیونکہ چائے جل کے سوا ہوچکی ہے۔۔۔“ 

 لطیف سا طنز کرتا وہ آگے بڑھ کے چولہا بند کرچکا تھا جب وہ خیالوں سے چونکتی فوراً سے پین کی جانب متوجہ ہوئی۔

”ی۔۔یہ۔۔۔

میں نے تو۔۔۔“ 

 سیاہ پیندے کو نم آنکھیں پھاڑ کر دیکھتی وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوئی تو بےاختیاری میں شدت سے تپتے ہوئے گرم پین کو چھوتی اُسکی مومی انگلیاں پل میں جھلسیں۔

”سسی۔۔۔۔“  

شدید جلن پر فوری ہاتھ پیچھے کھینچتی وہ سسکی تو عائل نے بوکھلاتے ہوئے اُسکا ہاتھ جلدی سے اپنی گرفت میں لیا۔ 

”اففف پاگل لڑکی۔۔

کیا ضرورت تھی تمھیں اتنے گرم برتن کو چھو کر چیک کرنے کی۔۔۔؟؟

ہہمم۔۔۔

خود کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی تکلیف دینا بہت بھاتا ہےتمھیں۔۔۔؟؟“  

اُسکی بےوقوفی پر بری طرح برہم ہوتا وہ اُسے تیزی سے سنک کے پاس لے آیا۔۔۔

جبکہ عائل کا پرواہ کرتا انداز انگلیوں کی پوروں پر ہوتی جلن پر حاوی ہوتا حاویہ کے دل کی دھڑکنیں بری طرح منتشر کرگیا۔

اگلے ہی پل عائل نل کھول کر اُسکی انگلیاں پانی کے نیچے کرتا  اُسے سکون بھرے لمحات سے آشنا کرواگیا۔

اس دوران دھندلائی نگاہیں مقابل کے پریشان نقوش شدت سے ازبر کررہی تھیں۔۔

جبکہ نم پلکوں سے آنسو ٹوٹ کر سانولے رنگ گالوں پر یکے بعد دیگرے پھسلتے چلے جارہے تھے۔

”کچھ سکون ملا۔۔؟؟

یاں ابھی بھی شدید تکلیف ہورہی ہے۔۔۔؟؟

گھر میں اگر کوئی برنال ٹیوب۔۔۔۔“  اُسے بنا پلک جھپکائے خود کی جانب مسلسل تکتا پاکر وہ اس بار نرم لہجے میں فکر سموئے گویا ہوا۔۔

جب اُسکے لفظوں کو ان سنا کرتی وہ بیچ میں ہی اُسکی بات کاٹ گئی۔

”آپ دوسرے مردوں سے اتنے منفرد کیوں ہیں۔۔۔؟؟

کیوں میری ذات کو لے کر آپکی نیت میں کوئی کھوٹ یاں میل شامل نہیں ہے۔۔۔؟؟“  

بھیگے لہجے میں حیرت سے ذیادہ شکوہ سموئے وہ الٹا سوال داغ گئی۔

عروج پر پہنچتی بےخودی اس پل قابلِ دید تھی۔

”واااٹ۔۔۔؟؟؟“ 

 وہ جو اُسکی بھیگی آنکھوں میں کھوتا پل بھرکو تھم سا گیا تھا۔۔۔

اِس عجیب  استفسار پر حیران سا اُسے دیکھتا رہ گیا۔۔

اگلے ہی پل وہ عائل کے ماتھے پر ابھرتی لکیروں کو نظرانداز کرتی آہستگی سے نگاہیں پھیرگئی۔

اس کی نرم گرفت میں مقید مومی انگلیاں تیزی سے بہتے شفاف پانی تلے ہنوز درد سے بے شناسا تھیں۔

”جانتے ہیں؟؟

عورت کے سینسز بہت تیز ہوتے ہیں۔۔

اتنے کہ وہ اچھی بری نظر۔۔اور نیت دونوں پل میں بھانپ لیتی ہے۔۔۔۔“ 

اُسکے کپکپاتے  لب بہت آہستگی سے ہلتے مقابل کو شدت سے نئی الجھنوں میں دھکیلتے چلے جارہے تھے۔

کسی غیر مرئی نقطے کو گھورتی پانیوں بھری آنکھوں میں گھلی وحشت شفاف آنسوؤں کی صورت ٹوٹ کر اُسکے گالوں پر پھسلی تھی۔

”آپکی نظروں کی پاکیزگی مجھے ہمیشہ آپکی صاف ستھری نیت کا احساس دلاتی ہے۔۔۔

لیکن جب وہ مجھے چھوتا ہے ناں۔۔۔

تو اُسکے ذرا سے لمس سے بھی اُسکی گندی نیت صاف ٹپکتی ہے۔۔م

جھے اُسکا چھونا اُسکا جان بوجھ کر میرے قریب آنا بالکل بھی اچھا نہیں لگتا۔۔۔

 م۔۔میری روح اُسکی نزدیکی پر بری طرح کپکپااٹھتی ہے۔۔۔۔“  اپنے اندر دبی راکھ کی چنگاریوں کو بےخودی میں شدت سے ہوادیتی وہ مقابل کا دماغ بھک سے اڑا گئی تھی۔

”کون چھوتا ہے تمھیں۔۔۔؟؟؟

کس کا ٹچ اچھا نہیں لگتا۔۔۔بولو؟؟؟

بتاؤ مجھے۔۔کس کی بات کررہی ہوتم۔۔۔؟؟؟“

  اِس دنگ کردینے والے انکشاف پر بےاختیار اُسے بازو سے تھام کر جھٹکا دیتا وہ بےتاب سا بولتا چلا گیا تو وہ بھی بری طرح چونکتی جیسے گہری نیند سے جاگی۔

”کک۔۔کون۔۔؟؟

کوئی۔۔کوئی بھی تو نہیں۔۔۔“ 

 مقابل کی آنکھوں میں اترتی سرخائی کوحیرت سے دیکھتی وہ نفی میں سرہلاتی صاف ہکلائی جبکہ اپنی اس قدربےاختیاری پرآنسوؤں میں مزید روانی آئی تھی۔

”مگرتم۔۔

تم نے ابھی کچھ لمحے پہلے خود میرے سامنے یہ اعتراف کیا ہے کہ کوئی تمھیں۔۔۔۔۔“

  اُسکے یوں صاف مکر جانے پر دبی آواز میں غراتا وہ اُس سے بازپرس کرنے پرآیا تھا جب اس نئی اذیت سے بچنے کو وہ بنا سوچے سمجھے اُسے پوری قوت سے پرے دھکیلتی وہاں سے بھاگی۔

اُسکی حرکت پر نئے سرے سے حیران ہوتا وہ شلف کا سہارا لیتے ہوئے بروقت سنبھلا۔

”حا۔۔حاویہ۔۔

رکو۔۔۔میری بات سنو پہلے۔۔۔

حاااویہ۔۔۔“  اُسکے پیچھے تیزی سے کچن سے باہرکو لپکتے ہوئے اُسکے بھاری لہجے میں غصے کی آمیزش واضح تھی۔۔

مگر وہ اُسکی پکار سے بےبہرہ سی۔۔اُسکی سلگتی نگاہوں کے سامنے ہی نفیسہ بیگم کے کمرے میں گم ہوچکی تھی۔

مجبوراً عائل کو اپنے اٹھتے قدم وہیں پر روکنے پڑے۔

”ِشِٹ۔۔۔۔۔“ 

 شدتِ بےبسی سے بالوں میں ہاتھ پھنساتا وہ چند پل بند دروازے کو گھورتا رہا پھر شکست خوردہ سا مٹھیاں بھینچتا وہاں سے پلٹ گیا۔

اُس معصوم لڑکی کے ڈانواں ڈول لہجے نے یقیناً اُسکے وجود میں بے چینیاں سی بھردی تھیں۔۔۔۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

وہ دوسروں سے قدرے الگ تھلگ سی سانس روکے کھڑی فقط اُسی پر اپنی تفشیشی نگاہیں جمائے ہوئے تھی جو بار بار اپنا راستہ کاٹتی بلیک ہیوی بائیک کو مات دینے میں مسلسل ناکام ٹھہررہا تھا۔

تیز رفتاری سے آگے کو بڑھتی ہیوی بائیکس اور ڈبیوں کی صورت  سیاہ و سفید فنشن لائن کے درمیان کا فاصلہ بہت کم بچا تھا۔

مقابلے کا پل پل نزدیک آتا اختتام جتنا مشکل ترین ہورہا تھا اُسی قدر قابلِ دید بھی تھا۔

”ابے یاررر۔۔۔

اس کمینے کو آج یہ کونسی نئی سستی چڑھ گئی ہے۔۔۔؟؟

اُسے جاکر بتا ناں کہ مولانی بھی اُسکی جیت دیکھنے کے لیے یہاں آگئی ہے۔۔۔

شاید اسی طرح  جوش میں آتا وہ جیتنے کے قابل ہوجائے۔۔۔۔“ 

 افروز شام پر سے نگاہیں ہٹاتا اپنے پہلو میں پریشان کھڑے فواد سے ملتجیانہ سا گویا ہوا تو جواب میں اُسنے کڑے تیوروں سے اسے کو گھورا۔

”بکواس بند کر سالے یہ سب تیرے لفڑے کا ہی نتیجہ ہے۔۔

دعا کر کہ شام اول درجے کے ساتھ یہ ریس  جیت جائے ورنہ سیکنڈ پوزیشن آنے کی صورت وہ تیرا منہ ضرور توڑ دے گا۔۔۔۔“

  شام کی جانب سے انگلی اٹھاکر حوالہ دیتا وہ افروز کو مزید متفکر کرگیا۔

”ہونہہ۔۔۔

ایسا کچھ بھی نہیں ہونے والا۔۔۔۔

وہ جیت کر ہی واپس لوٹے گا دیکھ لینا تم۔۔۔“ 

 اُسکے یوں ڈپٹنے پرتنفر سے ہنکارا بھرتا وہ برائے نام پُریقین ہوا تو فواد اُسکے اڑے اڑے رنگ دیکھتا تاسف سے سر ہلاگیا۔

اگلے ہی پل دونوں کی بےچین نگاہیں واپس نیوی بلیو ڈریس میں پوری طرح فٹ شام پر مرکوز ہوئی تھیں۔

تیزی سے سرکتے پل فنش لائن کو قریب سے قریب تر کرتے جارہے تھے۔

اس دوران حاظرین میں پھیلا ہوا تجسس عروج پر تھا۔

”یااللہ مدد۔۔۔۔“ 

 چشمے کے پار سکیڑی گئی آنکھوں میں ابھرتی نمی کو جھپک جھپک کر اندر اتارتے ہوئے حرمین کے سیاہی مائل لب اس پل شدت سے پھڑپھڑائے۔

وجود میں بےچینی سی بھرنے لگی تھی۔

جبھی شام اسپیڈ کو آخری حد تک  بڑھاتا پلوں میں اپنے مخالف کی برابری میں آیا تھا۔

بلیک ہیلمٹ پہنے اُس نفوس نے شام کی خود پر بارہا پڑتی کڑی نگاہوں کو شدت سے محسوس کرتے ہوئے نظر بھر کر اُسکی جانب دیکھا۔۔

اور شاید یہی وہ بھٹکاتا ہوا لمحہ اُسکے حق میں لعنتی ثابت ہوا تھا جب اُسکی اسپیڈ میں  لمحے بھر کی لڑکھڑاہٹ آئی۔

معاً شام نے جھٹکے سے اگلا ٹائر اوپر اٹھاتے دس قدموں کے فاصلے پر محیط فنش لائن کو بجلی کی سی تیزی سے چیڑتے ہوئے جیت کا جھنڈا اپنے نام  بلندکروایا تھا۔

”یاہوووووو۔۔۔۔۔ہوووو۔۔۔۔ہوووو۔۔۔۔۔“ 

 حلق سے پھوٹتی شوخ سیٹیوں سمیت حاضرین کی پٹتی تالیوں کا ایک ہنگامہ کن شور تھا جو اطراف میں پھیلتا شام کی ہیلمٹ سے ڈھکی سماعتوں سے جاٹکرایا۔

”یااااہ۔۔۔۔۔

یس یس یییسس۔۔۔۔“  

کچھ دیر پہلے کی بدمزگی پر لعنت بھیجتے جہاں افروز اور فواد اپنے جگری یار کی جیت پر پُرجوش سے چیختے ایک دوسرے سے لپٹے تھے وہیں حرمین نے مسکراتے ہوئے سانولے رنگ گالوں پر پھسلتے تشکر بھرے اشکوں کو آہستگی سے صاف کیا۔

بلیک ہیوی بائیک کے کچھ پلوں بعد ہی جہاں دوسری بائیکس نے آگے پیچھے فنشنگ لائن کو پار کیا تھا جبکہ شام کی نیوی بلیو بائیک ایک مخصوص فاصلے پر بریک کھاتی رک چکی تھی۔

اگلے ہی پل وہ سرشار سا ہیلمٹ سر سے اتار کر بائیک پر دھڑتا نیچے اُترا۔

بھوری آنکھوں میں فتح کی خاص چمک تھی جبکہ لبوں سمیت بھنوؤں کی جنبش مغروریت سے پُر تھی۔

ریس جیت کر ایک بار پھر کئی لوگوں کو مایوس کرتا وہ۔۔اسکے برعکس بہت سوں کو اپنا دیوانہ بنا چکا تھا۔

داد وصولنے کو اپنے ساتھیوں کی طرف بڑھنے کی بجائے وہ سیدھا قدرے کونے میں کھڑی حرمین کی جانب لپکا تھا۔

پیچھے دوسرے پارٹی سپیٹرز اُسکی پشت کو حسد بھری نگاہوں سے دیکھتے اپنی شکست پر بری طرح ہاتھ ملتے رہ گئے۔

سب چھوڑ چھاڑ کر شام کو اپنی جانب آتا دیکھ حرمین کے نازک دل کی دھڑکنیں بری طرح مچلی تھیں۔

یارِ دیدار کی لالچ میں سابقہ دنوں کی برہمی اورفکر۔۔۔

سب پل میں ہوا ہوئی تھی۔ 

”ک۔۔کنگریجولیشنز۔۔۔۔

مجھے یقین تھا کہ یہ ریس تمہی جیتو گے۔۔۔“

  اُسے اپنے قریب رکتا دیکھ وہ پل بھر کو جھجھکتی نگاہ اطراف میں ڈالتی دھیمی آواز میں بولی تو  اُسکے مسکاتے نقوش شدت سے تکتا وہ سر کو ہولے سے جنبش دے گیا۔

”اور جاتنی ہو مجھے کیا یقین تھا۔۔؟؟

اگر تم نہیں آتی تو میں یہ ریس بری طرح ہار جاتا۔۔۔آخری مومنٹ پر تمھاری ایک جھلک دیکھی تھی بس۔۔

اور پھرجیت میرا مقدر بن گئی۔۔۔“  

گھمبیر لہجے میں بولتا وہ دھیرے سےمسکرایا تھا۔انداز سمیت مسکراہٹ اس قدر دلفریب تھی کہ اُسکے لفظوں پر شدتوں سے دھڑکتے دل سمیت حرمین کو آس پاس سب کچھ رکتا ہوا محسوس ہوا۔

”میرے ساتھ چلو گی۔۔۔؟؟؟“ 

 معاً اُسکے آگے اپنی مضبوط ہتھیلی پھیلاتا وہ پل میں اُسکی محویت بکھیر گیا۔

جہاں فواد اور افروز اُسکے بدلتے تیوروں پر بری طرح الجھتے چلے جارہے تھے وہیں اُسے داد دینے کو بےچین فینز بھی اُسکی یوں کنارہ کشی پر حیرت زدہ تھے۔

”ک۔۔کہاں۔۔۔۔؟؟“  

اُسکی سفید رنگت پیشانی سے لڑھکتی پسینے کی بوند سے نگاہ ہٹاتے حرمین نے ٹھٹھک کر شام کا ہنوز خود کے سامنے پھیلا ہاتھ دیکھا۔

پوچھتے ہوئے چشمے کے پار سیاہ نگاہوں میں الجھن در آئی تھی۔

”اِن سب سوچوں فکروں سے بہت دور۔۔۔

میری اپنی ایک چھوٹی سی دنیا میں۔۔میرا فارم ہاؤس۔۔۔

جہاں صرف تم۔۔میں۔۔اور ہمارے بیچ سکون بھرے چند لمحات ہوں گے۔۔

میں اپنی جیت کی خوشی صرف تمھارے ساتھ سیلیبریٹ کرنا چاہتا ہوں حرمین۔۔

کیا تم اسے کچھ وقت کےلیے یاد گار بنانے میں میری مدد کرو گی۔۔۔۔؟؟“

 دھیما لہجہ مان بھرا تھا۔۔

اس قدر کہ خشک لبوں پر زبان پھیرتی حرمین کو خود کے پاس انکار کی گنجائش ختم ہوتی نظرآئی۔

جانے کس سوچ کے تحت اُسکی نگاہ پل بھرکو بھٹک کر ڈھلتے سورج کی جانب گئی تھی۔۔

”ہاں۔۔بالکل۔۔۔۔۔“ 

اگلے ہی پل مقابل کی مضبوط گرفت میں اپنا لرزتا ہاتھ تھماتی وہ اُسے دلکشی سے مسکرانے پر مجبور کرگئی۔

اسی لمحے کسی نے دور سے کیمرہ زوم کرکے اِس دلکش منظر کو پل میں اپنے پاس قید کیا تھا۔۔۔

شاید آخری بار۔۔۔

حرمین کے سیاہی مائل لبوں پر بکھرتی شرمیلی سی مسکراہٹ جہاں اس کی تباہی کے در کھلنے پر پچھتائی تھی وہیں شام کی آنکھوں میں جیت کی چمک مزید بڑھتی چلی گئی۔۔۔

اب بازی اُسکے ہاتھ میں تھی۔۔

شاید رچے رچائے کھیل میں آخری داؤ آزمانے کا وقت آچکا تھا جس سے ہر کوئی بے خبر محض اُسکا بےحسی کی حدوں کو چھوتا دل و دماغ ہی واقف تھا۔۔۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

وہ رات کی سیاہی گہری ہونے پرحویلی واپس لوٹا تھا لیکن ملازمہ کی جانب سے ملنے والی خنساء بیگم کی طبیعت خرابی کی اطلاع اُسے حقیقی معنوں میں بے چین کرگئی۔۔

جبھی وہ اپنی تھکاوٹ کو پسِ پشت ڈال کرسرعت سے سیڑھیاں پھلانگتا ہوا اوپر کمرے کی جانب بھاگا تھا۔

بند دروازے کے آگے پہرہ دیتی ملازمہ نے چونک کر سالار خان کو اپنی جانب آتا دیکھا تو سوکھے لبوں پر زبان پھیرتی وہ فوراً سے محتاط ہوئی۔

وہ ملازمہ کو یکسرنظرانداز کرتا ہوا اندر جانے کو تھا جب بروقت اُسکے آگے اپنا بازو پھیلاتی وہ مقابل کے قدم روکنے کی جرات کر گئی۔

”خطا معاف خان جی۔۔

لیکن آپ اندر نہیں جاسکتے۔۔۔۔“ 

 سالار خان کے بگڑتے نقوش دیکھ کر نگاہیں جھکاتی وہ دھیمی آواز میں منمنائی۔

”تمھاری اتنی اوقات کہ تم مجھے روکو۔۔۔؟؟؟“ 

 اُسے سخت نظروں سے گھورتا وہ پھنکارا۔

ایسے میں ملازمہ کی سانس اٹکی تو صفائی دینے کو اسنے جلدی سے منہ کھولا۔

”نہ خان جی نہ۔۔

میں تو فقط آپکے جوتوں کی دھول صاف کرنے کے قابل ہوں مگراس گستاخی کی حقیقی وجہ بذاتِ خود بیگم حضور ہیں۔۔ہم ملازمائیں تو بس اُنکے حکم کی پابند ہیں۔۔

بےبس اور۔۔۔“  

 ”بکواس بند کرو اپنی اور ہٹو سامنے سے۔۔۔“

 وہ بول رہی تھی جب سالار خان غصے سے اسکی بات بیچ میں کاٹتا۔۔اگلے ہی پل اسے پیچھے دھکیل چکا تھا۔

نتیجتاً ملازمہ دیوار کے ساتھ رکھی میز سےٹکرائی تو اوپر رکھا واز فرش پر گرکے پل میں چکنا چور ہوگیا۔

واز اور ملازمہ کے انجام سے بےبہرہ وہ قدرے بےتابی سے دروازہ کھولتا کمرے میں داخل ہوا تو پلنگ پر نیم دراز خنساء بیگم سمیت حلیمہ نے چونک کر اسکی جانب دیکھا۔

”اماں حضور۔۔۔۔“  

اپنی ماں کی طبیعت سے چھلکتی نقاہت اور زرد رنگت دیکھ کر سالار خان کے دل پر گھونسا پڑا۔۔

لیکن تکلیف میں دگنا اضافہ تو اس وقت ہوا جب خنساء بیگم نے قدرے رکھائی سے اسے اپنی جانب آنے سے روکا تھا۔

انکے ہاتھ کے لرزتے اشارے پر وہ کچھ حیران سا ناچاہتے ہوئے بھی وہیں تھم گیا۔

گہری نگاہوں میں ضبط کی سرخائی پھیلنے لگی تھی۔۔

لیکن خود سے اس رواں سلوک کی اصل وجہ کیا تھی۔۔

وہ فوری طور پرسمجھ نہیں پایا تھا۔

کچھ تاسف سے اسکی پھیکی پڑتی رنگت دیکھتی حلیمہ کا دل ڈوبنے لگا۔

سالار خان کے معاملے میں خنساء بیگم اتنی سخت دل کبھی نہیں رہی تھیں۔۔

 لیکن اب شاید موجودہ حالات نے انھیں ایسا بننے پر مجبور کردیا تھا۔

”حلیمہ۔۔

اسے کہہ دو کہ چلا جائے یہاں سے۔۔۔

اپنی نافرمانیوں کا سواد تو یہ ہمیں بہت پہلے سے چکھا چکا ہے۔۔

اب مزید اسکی جھوٹی ہمدردیوں اور برائے نام دلاسوں کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔“  

اسکی جانب سے منہ پھیرتی وہ براہ راست حلیمہ سے مخاطب ہوئیں جو پریشان سی۔۔ان کے قریب بیٹھے سے اب اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔

لفظ ”نافرمانی“ پر ایک پل لگا تھا اسے ساری بات سمجھنے میں۔۔

”ممم مگر۔۔

خالہ حضور۔۔۔۔“  

وہ جو پہلے ہی خنساء بیگم کو اتنا سنگدل ہونے سے باز رکھنے کی ناکام کوششیں کررہی تھی اس اچانک حکم پر گڑبڑا سی گئی۔۔

سالار خان نے سرخ ہوتی ناگوار نظروں سے حلیمہ کی طرف دیکھا تھا۔

سارے فساد کی جڑ ایک وہی تو تھی۔

معصوم سی دکھنے والی چال باز عورت جو اسکی سیدھی سادی  زندگی میں عذاب بن کر آئی تھی۔

”تم۔۔۔۔۔“ 

 اگلے ہی پل دانت پیستا ہوا وہ بجلی کی سی تیزی سے اس کی جانب لپکا تو حلیمہ نے کچھ سہم کر اسکی جانب دیکھا۔

”اب کونسا نیا زہر گھول کر پلایا ہے تم نے میری اماں حضور کو جو وہ اپنے بیٹے کی شکل تک دیکھنے کی بھی روادار نہیں رہیں۔۔

ہہمم۔۔؟؟

بتاؤ مجھے۔۔۔؟؟“  

سالار خان اُسے بازو سے دبوچتا قدرے بلند آواز میں بولا۔

اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ اسکا نازک وجود ہی اس جہاں سے مٹادے۔۔

جبکہ ایک عرصے بعد مقابل کے یوں خود سے قریب آنے پر بمشکل نفی میں سر ہلاتی حلیمہ کی آنکھیں تیزی سے بھیگتی چلی گئیں۔

دل کی دھڑکنیں تیز تر ہوئی تھیں۔

”سالار خان۔۔۔۔“  

خنساء بیگم کو ہتھیلیوں کے زور پر سیدھا ہو کر بیٹھنا پڑا جب قدرے سختی سے ملنے والی اس تنبیہہ پر وہ جھٹکے سے اسکا بازو چھوڑتا انکی جانب پلٹا۔

”اماں حضور۔۔

خدا کا واسطہ ہے بس کردیں اب۔۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ مجھے آپکی بےرخی ذرہ برابر بھی برداشت نہیں ہوتی۔۔

پھربھی ایسا بیگانہ رویہ اپنا کر کیوں آپ مجھے تڑپانا چاہ رہی ہیں۔۔۔؟؟“

 پورے حق سے ان کے قریب بیٹھ کر ہاتھ تھامتے ہوئے اسکی بھاری آواز شدید بےبسی تلے پل بھرکو ڈگمگائی تھی۔

خنساء بیگم نے کچھ غصے سے اسکی جانب دیکھا۔

”اور جو تم اپنی نافرمانیوں سے ہمیں دن رات تڑپا رہے ہو اسکا کچھ اندازہ ہے تمھیں۔۔۔؟؟“

  کھانسی کو بمشکل روکے رکھے ان کا لہجہ ہنوز اکھڑا اکھڑا سا تھا۔

”اپنے حق میں بولنا اگر آپکو نافرمانی کے مترادف لگتا ہے تو آئندہ سے میں اپنے دل کی آواز دل کے اندر ہی دبا کر رکھوں گا۔۔

لیکن آپکو تکلیف دینے کا میں سوچ بھی نہیں سکتا اماں حضور۔۔

کجا کہ آپکی یہ حالت۔۔۔“  عاجزی سے بولتا وہ بےاختیار انکے ہاتھوں پر اپنی تپتی پیشانی ٹکا گیا۔

ایسے میں پل بھر کے لیے خنساء بیگم کا دل نرم پڑا تھا۔

نم گالوں پر لڑھکتے آنسوؤں کو صاف کرتے سمے حلیمہ کا دل کیا وہاں سے چلی جائے۔۔

لیکن جانے کیوں دبیز قالین میں پیوست اسکے قدموں نے ان پلوں میں ساتھ چھوڑ دیا تھا۔

”ہماری مخالفت کرکے تم  پہلے ہی ہمیں بے پناہ  تکلیف میں مبتلا کرچکے ہو برخوردار۔۔۔۔

اور تمھارے تیوروں سے لگتا ہے کہ اس تکلیف کا مداوا کرنا شایدتمھارے بس کی بات نہیں ہے۔۔۔

سو چلے جاؤ یہاں سے۔۔۔ چلے جاؤ کہ تمھارے اس باغی پن سے ہمیں تمھارے محروم باپ کی بو آتی ہے۔۔۔“

تلخی سے بولتے ہوئے آخر میں ملنے والا طعنہ بڑا سخت ترین تھا۔

”اماں حضور۔۔۔“ 

 سالار خان نے تڑپ کر سر اٹھایا۔

حلیمہ نے بھی اس غیرمتوقع طنز پر قدرے حیرت سے خنساء بیگم کی جانب دیکھا تھا۔۔

جن کی شاید یہی پر بس نہیں ہوئی تھی۔

”اُسکی منمانیوں نے تو ہمیں جیتے جی مار دیا تھا۔۔

تم بھی اُسی کا خون ہو۔۔۔

ماضی کی تلخ یادوں کو تو دہراؤ گے ہی۔۔۔“

  بھلا کیسے بھول سکتی تھیں وہ اپنا بدترین ماضی جب ان کے من چاہے شوہر نے ایک پرائی عورت کی خاطرخاندانی روایات کے ساتھ ساتھ ان  سے بھی سرعام بےوفائی کر ڈالی تھی۔۔۔

اور اس طویل بے وفائی کو ان کے برائے نام شوہر نے اپنے اچانک قتل تک نبھایا تھا۔

گو کہ انکی مغفرت کی خاطر وہ ایک اچھی بیوی کے طور پر انھیں دل سے معاف کرچکی تھیں۔۔

لیکن کیا کچھ نہ سہا تھا انہوں نے اپنی زندگی میں اور اب ان کا اپنا بیٹا بھی اسی ڈگر پر چل پڑا تھا۔۔

 بھیگتی آواز میں بولتے ہوئے اگلے ہی پل خنساء بیگم کو کھانسی کا زبردست دورہ پڑا تھا۔

چمکتے ہوئے دو آنسو تھے جو ان کی گال پر لڑھکتے ہوئے۔۔سالار خان کے مضبوط ارادوں کی بنیاد بری طرح ہلاکر رکھ گئے تھے۔

”اماں حضور میں صرف آپکا بیٹا ہوں۔۔۔

فقط آپکی پرچھائی۔۔۔خدارا مجھے میرے باپ سے مت ملائیے کیونکہ میں ان جیسا ہرگز نہیں ہوں۔۔

اور نہ ہی ایسا کبھی بننا چاہتا ہوں۔۔۔“ 

 انکی کھانسی تھمنے پر وہ مدھم سلگتے لہجے میں بولا۔

”تو پھر ثابت کرو یہ بات۔۔۔“ 

 کچھ نرمی سے بولتے ہوئے خنساء بیگم کو بازی اب پوری طرح اپنے ہاتھوں میں آتی ہوئی محسوس ہوئی۔

شاید نہیں یقیناً۔۔۔

وہ ایک  گہری ٹھوکر لگ چکی تھی جو مقابل کے ضد اور بغاوت کے قلعے کو ملیا میٹ کرنے کے لیے کافی تھی۔

”مجھ سےکیا چاہتی ہیں آپ۔۔۔؟؟؟“ 

 منہ پر ہاتھ پھیرتا وہ  شکست خوردہ لہجے میں گویا ہوا۔

انداز تھکا تھکا سا تھا۔

”تمھاری خالہ زاد حلیمہ سے تمھارا نکاح۔۔۔

وہ بھی بنا کسی دیری کے۔۔۔“  گہری سانسوں کے بیچ جواب توقع کے عین مطابق آیا تھا۔

خنساء بیگم کے اس بھرپور تقاضے پر جہاں انگلیاں مروڑتے ہوئے حلیمہ کا دل شدتوں سے دھڑکا تھا وہیں وہ بھی اپنے لب سختی سے بھینچ گیا۔

”مگر وہ میرے ساتھ کبھی خوش نہیں رہ پائے گی اماں حضور۔۔۔

میں دعوے سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ آپکی اس جذباتی خواہش کے نتیجے میں۔۔ میں تو بےسکون رہوں گا ہی۔۔

ساتھ ہی ساتھ آپکی اکلوتی بھانجی کی خوشیاں بھی برباد ہوجائیں گی۔۔۔۔“  

 وہ بڑی سنجیدگی سے اُنھیں آنے والے کل کی بابت آگاہ کررہا تھا۔۔۔

آگاہ کیا کررہا تھا۔۔

اپنی پشت پر سراپا سماعت بن کے کھڑی اُس لڑکی کو اپنے تیئں ڈرا دھمکا رہا تھا۔۔

مگر وہاں پرواہ کسےتھی۔۔۔

”ہونہہ۔۔۔

انسان تو خود کی چلتی ہوئی سانسوں کی گرنٹی دینے کے بھی قابل نہیں ہے برخوردار۔۔تو پھرتم کیسے اتنے یقین سے کسی کے دکھ سکھ کی گرنٹی دے سکتے ہو۔۔۔؟؟

ان کھوکھلی پیشن گوئیوں کی بجائے ہمیں صرف اتنا بتاؤ کہ۔۔کیا تم ہماری اس دلی خواہش کا احترام کرو گے۔۔

یاں پھراس بار بھی نافرمانی کی راہ چن کے اپنی اماں حضور کو گہری اذیت میں مبتلا کرنے کا ارادہ کرلیا ہے۔۔۔؟؟؟“ 

 اسکی باتوں کو ہوا میں اڑاتی وہ خاصے بے لچک انداز میں بولیں تو  گہرا سانس بھرتا وہ سر جھکا گیا۔

”آپ جانتی ہیں کہ آپکی رضامندی میں میری رضا نہیں بلکہ بے بسی کی انتہا شامل ہے۔۔

لیکن صرف آپکی دلی تسکین کی خاطر۔۔

مجھے یہ پچھتاوے بھرا سودا بھی منظور ہے۔۔۔۔“  

اپنا آپ مار کے ہامی بھرتا وہ مزید وہاں  رکا نہیں تھا بلکہ ایک اچٹتی ہوئی کاٹ دار نگاہ حلیمہ کے جھکے سر کی جانب اچھال کر وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

پیچھے جہاں ایک کا وجود ہنوز بے یقینی کے عالم میں گھرا ہوا تھا وہیں دوسرے کی ڈبڈبائی آنکھیں خوشی و سرشاری کے بل پر مزید چمک اٹھیں۔

اگلے ہی پل جانے کتنی ہی ملازماؤں کے نام بلند پکار کی صورت خنساء بیگم کی زبان سے نکلتے چلے گئے لیکن حلیمہ کا سکتہ ہنوز قائم رہا تھا۔۔۔

☆....☆....☆....☆

فارم ہاؤس کے چاروں اطراف پھیلی گہری تاریکی۔۔مہیب سناٹے کے سنگ  پل پل بڑھتی چلی جارہی تھی۔

فضا میں مدھم ہوا کے باعث درختوں کے پتے بھی دھیمی سی سرسراہٹ پر رقصاں تھے۔

ایسے میں وہ کسی مجسمے کی طرح  کھلی کھڑکی کے سامنے کھڑی۔۔آسمان پر چمکتے بے داغ چاند کو بنا پلک جھپکائے یک ٹک دیکھتی چلی جارہی تھی جب وہ دروازہ کھول کر کمرے میں آیا۔

اپنی جانب بڑھتے دبے قدموں کی آہٹ پر بھی حرمین کی محویت ہنوز قائم تھی۔

”اس خوبصورت چاند میں کیا کھوجنے کی کوشش کررہی ہو۔۔۔

اپنا عکس۔۔۔؟؟“ 

 اسکے قریب رکتا وہ مسکاتی آواز میں بولا تو حرمین بھاری لب و لہجے پر اپنے خیالوں سے چونکتی اُسکی جانب پلٹی۔

پھرمسکراتی ہوئی نفی میں سر ہلاگئی۔

شام جو ہاتھ پشت پر باندھے پُرسوچ نگاہوں سے اسی کے نقوش دیکھ رہا تھا۔۔

اچانک ہی بلیک کیس والا ہاتھ آگے لاتا اسے ایک بار پھرسے چونکا گیا۔

”یہ۔۔۔

تمھارے لیے۔۔۔۔“

  لاپرواہی سے ایک ہاتھ بالوں میں چلاتے ہوئے اسکے انداز میں ایک غیرمعمولی سی ہچکچاہٹ تھی۔

”مم۔۔میرے لیے۔۔۔۔؟؟“

حرمین کو حیرت کا شدیدجھٹکا لگا۔

مقابل کی یہ حرکت بالکل ہی غیرمتوقع تھی۔

”کھول کر نہیں دیکھو گی۔۔۔؟؟“

  کیس اسےتھماتا وہ کچھ بےتاب سا ہوا تو ہنوز حیرانگی کی کیفیت میں گھری حرمین بمشکل اثبات میں سرہلا پائی۔

خود کے نکاح کی دل گھٹاتی خبر کے حوالے سے ذہن میں ترتیب دئیے گئے سب الفاظ اس پل جیسے بھولتے چلے گئے۔

لرزتی انگلیوں سے بلیک ویلوٹ کیس کے لاکس کھولتے ہوئے اسکا الجھا دل بےہنگم انداز میں دھڑک رہا تھا۔۔

جبکہ شام سینے پر بازو لپیٹتا اب کہ اسکا ایک ایک تاثر قدرے دلچسپی سے گہری نظروں کے حصار میں لیے ہوئے تھا۔

اگلے ہی پل کمرے میں کئی روشن بلبوں تلے وائٹ گولڈ کا تھری لیئرڈ نیکلس پوری آپ و تاب سے چمکتا ہوا۔۔چشمے کے پار اس کی آنکھوں کی سیاہی مزید گہری کرگیا۔

اناری رنگ نگوں پر دھیرے سے انگلیاں پھیرتی حرمین کے لیے نیکلس پر سے فوری طور نظریں ہٹانا مشکل ترین ہوا تھا۔

”جانتی ہو لائف میں پہلی بار کسی لڑکی کے لیے خود سے ایسا کوئی گفٹ خریدا ہے۔۔۔

انفیکٹ میں تو کبھی موم کے لیے بھی اتنا پریکٹیکل نہیں ہوا جتناکہ تمھارے لیے۔۔۔۔“  

اپنی بات پر وہ آپ ہی دھیرے سے ہنس دیا۔

حرمین نے کچھ میکانکی انداز میں چاند کی روشنی تلے اسکا وجیہہ چہرہ دیکھا۔

”م۔۔مگرشام۔۔

یہ تو۔۔۔بہت قیمتی ہے۔۔

انفیکٹ بہت ہی ذیادہ قیمتی۔۔۔“  

اس قدر اہمیت ملنے پر اسےسمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیسے اپنے جذبات کا اظہار کرے سو اناری رنگ نگوں کی دمکتی خوبصورتی کو فراموش کرتی وہ بےساختہ قیمت پر فکر مند ہوئی۔

شام کی دلکش مسکراہٹ میں بےاختیار تمسخر گھلا تھا۔

”ہاں پر تم سے ذیادہ قیمتی نہیں ہے سویٹ ہارٹ۔۔۔“ 

 ذرا سا اسکی جانب جھک کر مخصوص لب ولہجے میں بولتا وہ حرمین کی دھڑکنوں میں مزید شدت لے آیا۔

”آپکو یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں تھی شام۔۔

میں۔۔۔“  وہ مزید کہنا چاہتی تھی۔۔

انکار کردینا چاہتی تھی جب شام ان رسمی نخروں سے بچنے کو درمیان میں ہی بول پڑا۔

”مگر مجھے اس وقت تمھاری اجازت کی بےحد طلب ہے۔۔۔۔“ 

 شدت سے سانولے نقوش تکتا وہ اپنی بات سے اسے الجھا گیا۔

”مطلب۔۔۔؟؟؟“  

اگلے ہی پل اسکی مضبوط ہتھیلیوں تلے دبے خود کے نازک ہاتھوں کو محسوس کرتی حرمین نے بغور اسکی لمبی خمدار پلکوں کو دیکھا۔

ایک عجیب سا سرور تھا جو دھیرے دھیرے سے اسکے دماغ پر حاوی ہونے لگا تھا۔

شاید مقابل کی موجودگی کا اثر تھا یاں پھر اس بد ذائقہ ایپل جوس کا جسے وہ نفیسہ بیگم سے موبائل فون پر بات کرنے کے بعد آدھا پی کر ہی چھوڑ گئی تھی۔۔۔

علیزہ کے ساتھ اپنی کمبائن اسٹڈی کی بابت نفیسہ بیگم کو آگاہ کرتی وہ انھیں خود سے خاصا مطمئن کر تو چکی تھی۔۔۔۔

لیکن جانے کیوں لفظ لفظ جھوٹ بولتے وقت حرمین کی زبان پل بھر کے لیے بھی نہیں لڑکھڑائی تھی اور نہ ہی دل میں کوئی شرمندگی کا ذرہ برابر احساس اجاگر ہوا تھا۔

وہ دبو سی حقیقت پسند لڑکی حقیقتاً بہت بدل گئی تھی۔

شام اسکے پوچھنے کے انداز پر ہولے سے مسکراتا اگلے ہی پل کیس اسکے ہاتھوں سے لے چکا تھا۔۔۔

”مطلب یہ کہ۔۔۔

اپنے ہاتھوں سے خود تمھیں یہ نیکلس پہنانا چاہتا ہوں۔۔۔

سو۔۔اجازت ہے؟؟“  

نیکلس نکال کر کیس سائیڈ پر رکھتے ہوئے شام کے نرم لہجے میں صاف گزارش تھی۔۔۔

اور اس گزارش میں پوشیدہ۔۔حجاب اتارنے کا اشارہ حرمین سے بالکل بھی مخفی نہیں رہا تھا۔

آنے والے زندگی اجاڑ لمحوں سے انجان وہ بے اختیار سیاہی مائل لبوں پر در آنے والی شرمیلی مسکراہٹ پر سے ضبط کھوتی۔۔۔

چاہ کر بھی مقابل کو انکار نہیں کرپائی تھی سو اسکی نگاہوں میں گھلتی گلابیت سے نگاہیں چراتی پلٹی۔

اگلے ہی پل آئینے کے سامنے جاکر کھڑی ہوتی وہ ایک ایک کرکے عنابی رنگ حجاب میں پیوست پنیں کھینچ کر نکالنے لگی۔

انداز میں سستی اور ہچکچاہٹ صاف تھی۔

نیکلس مٹھی میں بھینچے وہ بھی قدم قدم چلتا ہوا اسکی پشت پر آ کھڑا ہوا۔

 ”مجھے یقین ہے کہ تم حجاب کی بانسبت کھلے بالوں میں ذیادہ دلکش لگتی ہوگی۔۔۔“ 

 شام کا حسرت زدہ لہجہ حرمین کو مزید شرمانے پر مجبور کرگیا۔

معاً کھلی کھڑکی سے بےدھڑک اندر کو کودتے سرد ہوا کے جھونکے نے ان دونوں کو موسم کے بدلنے کا خوشگوار احساس دلایا تھا۔

عنابی رنگ حجاب حرمین کے سلکی بالوں سے پھسل کر نازک کندھوں سے ہٹتا ہوا شام کے دل کی دھڑکنیں تیز کرگیا۔

سانولی سی صراحی دار گردن اسکی گہری نگاہوں کے سامنے تھی۔

مزید پل اسی کیفیت میں سرکے تو وہ ایکدم سے سرجھٹکتا آگے کو ہوا۔

پھر پورے استحقاق سے قیمتی نیکلس کو اسکے گلے میں اتارتے ہوئے۔۔

اب کہ وہ قدرے اطمینان کے ساتھ پیچھے سے ہک بند کررہا تھا۔

اس دوران حرمین اسکی مردانہ انگلیوں کی سرسراہٹ پر ضبط کرتی سر تا پیر  کانپ گئی۔

سانسوں سمیت سانوالے گالوں پر اترتی سرخائی مزید گہری ہوئی تھی۔

”بیوٹیفل۔۔۔۔“  

بنا پیچھے ہٹے وہ آئینے میں دکھائی دیتے نیکلس پر اپنی بھوری نگاہیں جماتا سراہتی ہوئی آواز میں گویا ہوا۔۔

تو بے اختیار خود کو نظر بھرکر آئینے میں دیکھتی وہ اگلے ہی پل لبوں پر شرمیلی مسکراہٹ بکھیرے  نگاہیں جھکا گئی۔

”تمھیں معلوم ہے جب تم کھل کرمسکراتی ہو تو مجھے کس قدر حسین لگتی ہو۔۔۔

یونہی مسکراتی رہا کرو۔۔۔

لیکن صرف میرے لیے۔۔۔“  

نازک کندھے تھام کر شام اسکی ذات کو ہرلحاظ سے معتبر کرتا چلا جارہا تھا۔

اسے یاد نہیں پڑتا تھا کہ کب اسنے تنہائی بھرے لمحات میں اس قدر نرمی کسی دوسری لڑکی کے ساتھ بھی برتی تھی۔۔۔

”جانتے ہیں شام مجھے اپنی تعریف سننا پسند نہیں ہے۔۔۔

شاید اس لیے کہ  کسی نے مجھے اس قابل سمجھا ہی نہیں کبھی۔۔۔

لیکن جب آپ کرتے ہیں تو بہت اچھا لگتا ہے۔۔۔۔“  

آئینے میں اسکے وجیہہ نقوش بےتابانہ تکتی وہ ایک ٹرانس کی سی کیفیت میں بولی تو وہ بھنویں اچکا گیا۔

”ہہممم۔۔۔اگر ایسی بات ہے تو اب کی بار تمھیں ایک خامی بھی بتائے دیتا ہوں۔۔۔

کہیں ایسا نہ ہو بعد میں غرور تمھارے سر چڑھ کے بولے۔۔۔“  سنجیدگی میں گھلتی شوخی حرمین کو بھی متفکر کرگئی۔

معاً وہ بے خود ہوتی اسکی جانب پلٹی۔

”بتائیں۔۔۔؟؟“  

آنکھیں بند کرکے کھولتی وہ دھیرے سے بولی تھی۔

کافی کم مقدار میں جوس میں گھلا نشہ اسکے اعصاب پر مزید  گہرا ہوتا چلا جارہا تھا۔

”یہ جو تمھارا  بڑے بڑے شیشوں والا چشمہ ہے ناں۔۔۔

یہ تم پر بالکل بھی سوٹ نہیں کرتا یار۔۔۔

ہاف پرسنٹ بھی نہیں۔۔۔

جانتی ہو کیوں۔۔۔؟؟؟“

  ایک ہاتھ نرمی سے اسکی نازک کمر کے گرد حائل کرکے اپنی جانب کھینچتا وہ اگلے ہی پل اسکی آنکھوں سے چشمہ اتار کر پیچھے پلنگ پر اچھال چکا تھا۔

” کیوں۔۔۔؟؟؟“  

اسکی بےباکی برداشت کرتی حرمین نے بےاختیار اسکے سینے پر اپنی ہتھیلیاں جماتے۔۔اسی کے انداز میں بھنویں اچکائیں۔

ہچکچاہٹ میں اترتی نشے کی سی کیفیت اسے شرمیلے احساسات سے دورکررہی تھی۔۔

اور یہی تو مقابل چاہتا تھا۔۔۔

بےباکیاں ہی تو تھیں جو اسے شدت سے اپنی جانب اٹریکٹ کرتی تھیں۔

”کیونکہ۔۔

تمھارا یہ ظالم چشمہ اِن حسین آنکھوں کا حسن ہمیشہ چرالیتا ہے۔۔۔۔پلیز اسے میرے سامنے مت لگاکرآیا کرو۔۔۔“  

اسکی گلابیت گھلی آنکھوں میں قریب سے جھانکتے ہوئے اب کی بار اسکی آواز میں خفگی شامل تھی اور انداز بھی کچھ دھونس لیے ہوئے تھا۔

حرمین کو بےساختہ ہنسی آئی۔

اسکے خامی بیان کرنے کا انداز بھی دل دھڑکانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔

جانے کیوں شام کو اسکی یہ معمولی سی ہنسی بھی اس فسوں خیز لمحات میں حسین ترین لگی تھی جبھی بے خود ہوتا وہ اسکی پلکوں پر جھکا تھا۔۔

اورلمحوں میں ان پر اپنا نرم لمس چھوڑتا حرمین کا وجود پتھرکرگیا۔

مزید۔۔۔

اسکے سکتے کی کیفیت کو اقرار سمجھ کر بالوں کا جوڑا کھولتا۔۔اب کہ وہ اسکے بال بھی آہستہ سے اسکے کندھوں پر بکھیرتا چلا گیا۔

شام کی بڑھتی پیش قدمی حرمین کو ایکدم سے ہوش کی دنیا میں واپس پٹخ لائی تھی۔

”ی۔۔یہ غلط ہے۔۔۔“ 

 پل میں اسکا نازک حصار توڑتی وہ متوحش سی پیچھے ہٹی تو شام نے پل بھر کو حیرت تلے دبتے اسکی جانب دیکھا۔

اسکے اس قدر اچانک گریز پر پیشانی پر بے اختیار بل پڑے تھے جنھیں انگلیوں تلے مسلتا وہ پھرسے اسکے قریب ہوا۔

”کچھ غلط نہیں ہے میری جان۔۔۔

اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کرنا کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں ہے۔۔۔

انفیکٹ۔۔۔آجکل تو یہ سب بہت کامن ہے۔۔۔نارملی چلتا ہے یار۔۔۔سو جسٹ ریلکس۔۔

 ہہمم ۔۔

گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے تمھیں بالکل بھی۔۔۔۔۔“ 

 قدرے بےباکی سے اپنی کیفیات کو بیان کرتا وہ اسکا بگڑتا تنفس نارمل کرنے کی کوششوں میں تھا۔

جبکہ گہرے سانس بھرتی حرمین ۔۔واپس مقابل کے نرم گھیرے میں آنے سے ذیادہ اسکے ارادے جان کر گھبرائی تھی۔

”میں آپکی چاہتوں کا بہت احترام کرتی ہوں شام۔۔

لیکن اگر کسی کو آپکی ان شدتوں کا علم ہوا تو اسکے انجام پر۔۔

زمانے سے زیادہ اپنے گھروالوں سے نظریں ملانا میرے لیے مشکل ترین ہوگا۔۔۔“  

چکراتے دماغ پر قابو  پانے کی بھرپور کوشش کرتی وہ ہنوز خائف تھی۔

اندر ہی اندر پیچ و تاب کھاتے شام نے ضبط سے لب بھینچ لیے۔وہ لڑکی اسے خود سے قریب کرکے اب بلاوجہ ہی تڑپا رہی تھی۔

”حرمین دیکھو۔۔

تم مجھ سے بے پناہ محبت کرتی ہو۔۔رائٹ۔۔؟؟

اور محبت میں یہ ہرگز نہیں سوچا جاتا کہ اسکے بعد لوگ کیا سوچیں گے۔۔۔

انفیکٹ تمھیں تو اس وقت صرف یہ سوچنا چاہیے کہ میں تمھارے بارے میں کیا سوچ رکھتا ہوں یار۔۔۔

عشق محبت کے معاملے میں تو لوگ اپنی جانیں تک گنوا بیٹھتے ہیں۔۔۔اور میرا تقاضا تو پھر بھی صرف تمھاری قربت پانے کا ہے۔۔۔

دیٹ سٹ۔۔۔۔“  ٹھہر ٹھہر کر تحمل سے سمجھاتا وہ اسکے گالوں پر اتری ضبط و حیا کی سرخائی کو پوروں تلے نرمی سے چھورہا تھا۔۔

اسکی ڈانواں ڈول ہوتی ذات کو ہر طرف سے گھیرنے کی ہر ممکن کوششیں کررہا تھا۔۔

جب اسکی بےجا ضد پرحرمین زہرا کا گلا خشک پڑنے لگا تو بےساختہ لرزتے لبوں کو تر کیا۔

”میں بھی خود کو صرف آپکی ذات  تک محدود کرلینا چاہتی ہوں۔۔۔

لیکن ڈرتی ہوں کہ اس عشق محبت کی عمارت کھڑی کرتے کرتے کہیں اپنی نسوانیت نہ ہاردوں۔۔۔

بغیر کسی جائز رشتے کے میرے لیے۔۔۔۔“ 

 وہ بگڑتے تنفس سے بےپرواہ اسکی سرد آنکھوں میں دیکھتی بول رہی تھی جب شام بیچ میں ہی برہم ہوتا اسے ٹوک گیا۔

 ”کیا تمھیں مجھ پر یقین نہیں ہے۔۔۔؟؟“ 

اسے بازوؤں سے تھام کر جھٹکا دیتا وہ حددرجہ متاسف ہوا تھا۔

 بھوری نگاہوں میں چیختے جذبات سمیت برہمی صاف عیاں تھی کہ نم ہوتی آنکھوں سمیت حرمین کی سانسیں تھمنے سی لگیں۔

نتیجتاً اسکی طول پکڑتی خاموشی پر شام چٹختا ہوا اگلے ہی پل اسے پیچھے دھکیل چکا تھا۔

پورے وجود سمیت  ڈگمگاتی وہ بمشکل سنبھلی۔

پھر تڑپ کر آگے بڑھتی اس کا گریبان اپنی مٹھیوں میں دبوچ گئی۔۔

اس جرات پر وہ شام کو اپنے حواسوں سے پرے لگی تھی۔

”ہ۔۔ہے یقین۔۔

بہت ہے۔۔

لیکن اپنی قسمت سے ڈر لگتا ہے۔۔

ہمیشہ کی طرح کب ۔۔کک۔۔کہاں ساتھ چھوڑ جائے۔۔؟؟

کچھ پتا نہیں۔۔۔“ 

 آنسو اسکی گال پر پھسل کر بے مول ہوئے تھے۔

اب کی بار وہ خود سے اسکے قریب آئی تھی۔۔

بہت قریب۔۔

اور شاید مقابل بھی اسی پیش قدمی کا منتظر تھا۔

”اگر یقین کرتی ہو تو پھر میری بےتاب دھڑکنوں کو قرار بخش دو حرمین زہرا۔۔۔

اس سے ذیادہ میں تم سے کچھ نہیں مانگتا یار۔۔۔۔“ 

 ہاتھ بڑھا کر اسکے چہرے کی نمی کو بظاہر محبت سے صاف کرتا وہ ملتجی ہوا۔

 خمار گھلے لہجے میں چیختی بےتابیاں عروج پرتھیں۔

حرمین نے آنکھیں میچتے ہوئے سختی سے نچلا لب کچلا۔

وہ ناچاہتے ہوئے بھی اُسکے لفظوں کی مٹھاس اور لمس کی نرمی پاکر اپنا آپ ہارنے لگی تھی۔

بند کھلتی آنکھوں پر بے دم ہوتے احتجاج اگلے ہی پل اسے شام کے چوڑے سینے میں اپنا چہرہ چھپانے پر مجبور کرگئے۔

شاید۔۔۔

شاید وہ مقابل کی انا کو تسکین پہنچانے کی غرض سے خود کا وجود کرچی کرچی بکھیرنے کو نیم رضامند ہوگئی تھی۔

دھیرے سے لبوں پر سرشار سی مسکراہٹ سجاتے شام کے رگ و پے میں سکون اترتا چلاگیا۔

”دیٹس مائے لوَلی گرل۔۔

تمھاری یہ بےتابانہ چاہت۔۔۔

اور اس چاہت پر قائم یہ بھروسہ مجھے مزید تمھارے قریب کرگیا ہے حرمین۔۔۔

بہت قریب۔۔اتنا کہ اب میں ہر فاصلہ مٹادینا چاہتا ہوں۔۔۔۔“  ضبط کے کڑے بندھن توڑتا شام اسکے لرزتے وجود کو خود میں بھینچے مسلسل سرگوشیاں پر اترآیا تھا۔

سن ہوتے دماغ نے آخری بار حرمین کو سرتاپیر جھنجھوڑنا چاہا تھا۔۔۔۔

لیکن۔۔۔۔

دل کی دھڑکنوں کا شور ہی اس قدر تھا کہ وہ دونوں ایک دوسرے کی ذات میں گم ہر شے سے بےبہرہ ہوتے چلے گئے۔

جہاں پرسکون روشنیاں بکھیرتا چاند مایوس ہوتا پوری طرح گہرے بادلوں تلے جا چھپا تھا وہیں دو وجود ہوش وحواس کی حدود سے رہائی پاتے۔۔پوری طرح سے نفس کی قید میں جکڑے جاچکے تھے۔

ایسے میں قطرہ قطرہ سرکتی رات اُن دونوں کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے بہت پرے دھکیل چکی تھی۔۔۔۔

اففف۔۔۔میرے خدایا۔۔۔۔“ 

 اسنے قدرے عجلت میں کافی بھرا مگ ٹرے میں رکھا تھا جب  تپتی ہوئی کافی جھٹکے سے باہر کو چھلکتی اسکے ہاتھ کی پشت  پلوں میں سرخ کرگئیں۔

آبرو نے جلن والی جگہ پر جلدی سے پھونکیں مارتے ہوئے ہاتھ جھٹکا پھر ضبط سے۔۔نم آنکھیں میچتی ہوئی  گہرے گہرے سانس بھرنے لگی۔

متاثرہ حصہ اب کہ اسکی نازک ہتھیلی تلے سختی سے دبا ہوا تھا۔

ہاں۔۔۔

ایک عدد تھپڑ سے گال لال کرنے کے باوجود بھی وہ اس وقت آفس کی عمارت میں کھڑی۔۔۔اپنے باس کی جانب سے سونپی گئیں سابقہ ذمہ داریوں میں سے ایک کو بن کہے ہی نبھارہی تھی۔۔۔

جسکا شاید اسنے گزشتہ شب سوچا بھی نہیں تھا۔

وہ کبھی اپنی جاب واپس نہ سنبھالتی جو اگر مینجر وقار صاحب کی جانب سے اسے زور دے کر واپس نہ بلایا جاتا۔۔۔

اور پھر خود شاہ کی کال بھی تو آئی تھی اسے جو بظاہر سرد مہری سے بات کرتا اس بار بھی اپنی انا کو اسکے معاملے میں پیچھے چھوڑ گیا تھا۔

”مس آبرو سکندر۔۔۔

جہاں تک میرا خیال ہے آپ میرے آفس میں ایز اے کامن ایمپلائی کام کرتی ہیں۔۔۔

ایسے میں جاب سے فائر ہوئے بغیر خود ہی سے بلاوجہ گھر بیٹھ جانا آپکی  کم عقلی کا واضح ثبوت ہے۔۔۔

بہتر ہوگا اپنا اور ہمارا قیمتی وقت برباد کرنے کی بجائے آپ کل سے ریگولرلی آفس جوائن کریں۔۔۔

یو گیٹ دیٹ۔۔۔؟؟“  

اسکا بھاری لب و لہجہ کس قدر بےتاثر ہورہا تھا۔

اتنا کہ وہ چاہ کر بھی اپنے دل کی دھڑکنیں۔۔پل بھرکو بےترتیب ہونے سے روک نہیں پائی تھی۔

سو خاموشی سے اسکا بیگانہ انداز تسلیم کرتی وہ کچھ بھی نہ بولی۔

اتنے دنوں سے چپ چاپ گھر بیٹھی وہ شاہ کے سامنے اپنی ذات اور انا کا بھرم رکھ تو گئی تھی لیکن مجبوریوں تلے خود کی اجیرن زندگی کا بھرم رکھنے کے لیے بھی اسکا۔۔کہا ماننا  وقت کی ضرورت تھی۔

جواب میں طول پکڑتی خاموشی کو اسکا اقرارسمجھتا شاہ اگلے ہی پل کال کاٹ چکا تھا۔۔۔

ذہن میں کھلبلی مچاتی مختلف سوچوں کو یکدم جھٹکتی آبرو فوراً سے اپنی گلابیت گھلی آنکھیں کھول گئی۔

جلن ہنوز ہاتھ کی پشت سمیت دل کو جلارہی تھی لیکن وہ گزرے لمحوں میں خود کو کافی حد تک کمپوزکر چکی تھی۔

سو مضبوطی سے ٹرے پکڑتی باہر نکل گئی۔۔۔

کچن کے سامنے کی چھوٹی سی راہداری پار کرتے اسکے قدموں کا رخ سیدھا شاہ کے مخصوص روم کی جانب تھا جب وہ اسے سامنے ہی سمن سے گفتگو کرتا دکھائی دے گیا۔

آبرو کی چال میں بےاختیار سستی آئی تھی۔

سفید شرٹ پر بلیک کوٹ اس وقت ندارد تھا جبکہ مصروف انداز میں بات چیت کرتے ہوئے وجیہہ نقوش ہنوز نکھرے نکھرے سے تھے۔

اتنے دنوں بعد اسے نظر بھر دیکھنے کی گستاخی پر آبرو کا دل بے ساختہ دھڑک اٹھا۔

اسی کی جانب رخ کرکےسمن سے خان انڈسٹری کی بابت ڈسکشن کرتا شاہ بھی اسے سست روی سے اپنی جانب آتے دیکھ چکا تھا۔

”اممم۔۔۔

ایسا ہے کہ۔۔

کل آفٹرنون میں جو ہماری خان انڈسٹری کے ساتھ میٹنگ فکس ہوئی ہے۔۔

میں چاہتا ہوں اُسے کینسل کرکے نیکسٹ ڈے پر لےجایا جائے۔۔۔“ 

 شاہ کے سنجیدہ لہجے میں اچانک سے گھلتی حددرجہ نرماہٹ سمن کو چونکاگئی۔

”ا۔۔اوکے سر۔۔۔۔۔“  

سینے سے فائل چپکائے وہ تابعداری سے بولی۔

لپ سٹک لگے سرخ لبوں پر دیوانی سی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی۔

”مزید اس حوالے سے آپ خان انڈسٹری کو لازمی طور پر انفارم کردیجیے گا۔۔۔۔میں نہیں چاہتا کہ کسی بھی طرح کی بےخبری کے سبب انھیں بلاوجہ کا تکلف اٹھانا پڑے۔۔۔

ہہمم۔۔۔۔“

 پاس آکر رکتی آبرو کی جانب دوسری نگاہ ڈالے بنا وہ مزید بولا۔

”میں انفارم کردوں گی سر۔۔۔

اور کوئی آڈر۔۔۔؟؟“ 

 شاہ کے مسکاتے لہجے پرپونی ٹیل کو برابر ہلاتی وہ کچھ شوخ ہوئی پھر ذرا سا پلٹ کر آبرو کو دیکھتی ٹھٹھکی۔

”گڈ مارننگ سر۔۔۔۔“

 آبرو کچھ ہچکچاکر بولی۔

جواباً سرسری سا اسکی جانب دیکھ کرسر اثبات میں ہلاتا وہ واپس سمن کی جانب متوجہ ہوا۔

”ابھی کے لیے بس اتنا ہی۔۔۔

ویسے آپ کہیں جارہی تھیں۔۔۔۔؟؟؟“  

اسکے شوخ نقوش گہری نگاہوں سے تکتا شاہ ایکدم یاد آنے پر بولا۔

وہ یقیناً کسی کام سے جارہی تھی جب اسنے پیچھے سے آواز دے کر اسے رکا تھا۔

لہجہ ہنوز نرم تھا۔۔۔

فقط لہجہ کیا۔۔۔

آواز۔۔۔

انداز۔۔۔

یہاں تک کے دیکھنے میں بھی نرمی ہی نرمی تھی۔

لیکن کس کے لیے۔۔۔؟؟

سمن لطیف کے لیے۔۔۔؟؟

جانے کیوں ان باریکیوں پر غور کرتی آبرو کا دل ڈوبنے لگا۔

”یاہ سر۔۔۔ 

وہ ایکچولی۔۔وقار صاحب نے امپورٹنٹ پیپرز دئیے تھے کچھ۔۔

وہی  کاپیز کروانے جارہی تھی۔۔۔۔“ 

 آبرو کی موجودگی سے کچھ بیزار سی ہوتی وہ فائل دکھاتی بولی۔

سمن کی یہ بیزاری ان دونوں سے ہی چھپ نہیں سکی تھی۔

اگلے ہی پل آبرو ضبط سے پنکھری لب بھینچتی ان دونوں کے پاس سے آگے گزرگئی۔

پلکیں جھپکا جھپکا کر نمی کو اندر دھکیلنے کی کوشش میں ٹرے کے کناروں پر پکڑ سخت ہوئی تھی۔

”مس آبرو۔۔۔“  

شاہ نے پلٹ کر بےساختہ پکارا تو جہاں سمن نے حقارت سے اپنی ابرو اچکائی تھی وہیں وہ بھی دھڑکتے دل سمیت تذبذب کی سی کیفیت میں جلدی سے مڑی۔

”سمن۔۔۔

آپ اس طرح کیجیے کہ یہ فائل مس آبرو کو دے دیں وہ خود اسکی فوٹو کاپیزکروا کے وقار صاحب تک پہنچادیں گی۔۔

اور آپ پلیز ایک دبنگ سی چائے بناکر میرے روم میں لے آئیں۔۔۔۔“ 

 آبرو کو اپنی جانب متوجہ کرواتا وہ براہ ِراست سمن سے مخاطب ہوا۔۔

جبکہ شاہ کی ایک کے بعد ایک نئی عنایت پرسمن حیرت تلے پلکیں جھپکاتی اپنے باس کو دیکھ کر رہ گئی۔

”مم۔۔مگرسر۔۔

میں نے الریڈی آپکی کافی۔۔۔“  آبرو نے سٹپٹا کر بولنا چاہا جو اپنی پسند ہی بدل چکا تھا۔۔

 مگر شاہ۔۔شانِ بے نیازی سے اسے ٹوک گیا۔

”ڈونٹ ویسٹ دی ٹائم۔۔۔

جیسا کہا گیا ہے ویسا ہی کریں۔۔۔“  ایک بھرپور سرد نگاہ حق دق سی کھڑی آبرو کی جانب اچھالتا اگلے ہی پل وہ جیبوں میں ہاتھ پھنساتا اسکے پاس آیا تھا۔

”اس بار میں نیا  ذائقہ آزمانا چاہتا ہوں۔۔۔

شاید اس لیے کہ پرانے میں اب وہ لذت باقی نہیں رہی۔۔۔

سو ویلکم بیک ٹو مائے آفس آبرو سکندر۔۔۔۔“ 

ذرا سی گردن ترچھی کرکے اسکی پرشکوہ  نیلی نگاہوں میں اشتیاق سے جھانکتا۔۔وہ تمسخر گھلے مدھم لہجے میں بولا تو آخر میں اسکے لبوں پر در آنے والی مسکراہٹ کو آبرو نے تاسف سے دیکھا۔

اسے لگا جیسے تپتے چھینٹے ایک بار پھر سے اسکی جانب اچھلتے اب کی دفعہ اسکے دل کو نشانہ بنا گئے ہوں۔

اگلے ہی پل شاہ سنجیدہ ہوا اور اسکے ہاتھ کی سرخائی سے بالکل انجان۔۔

 سرخ چہرے سے نظریں ہٹاتا۔۔

 وہاں سے نکلتا چلاگیا۔۔۔

تبھی سمن تمسخرانہ نظروں سے اسکا سپاٹ چہرہ دیکھتی ایک ادا سے اسکی طرف لپکی تھی۔

”لگتا ہے سر کو اب تمھارا ٹیسٹ کچھ خاص پسند نہیں رہا۔۔۔

جبھی تو وہ اب کچھ نیا ٹرائے کرنا چاہتے ہیں۔۔۔“  

ہاتھ آیا موقع وہ خوب استعمال میں لارہی تھی۔

آبرو نے بھیگی نظریں مگ سے ہٹاتے ہوئے بڑے ضبط سے اسکی مکروہ مسکراہٹ دیکھی تھی۔

”سوچو اگر پہلی ہی بار میں اُنھیں میرے ذائقے کا چسکا لگ جائےتو۔۔۔

مجھے پوری امید ہے پھرتمھاری رسائی صرف ان بے مطلب کی فائلوں تک ہی محدود ہوکر رہ جائے گی آبرو سکندر۔۔۔۔“

  طنز کے بھیگےنشتر اسکے وجود میں گھسیڑنے کی کامیاب کوشش کرتی وہ اگلے ہی پل ٹرے اسکے ہاتھ سے لیتی فائل اسے تھما چکی تھی۔۔۔

آبرو نےتنفر سے اسکی جانب دیکھا جو اسکے امڈتے غصے سے بے پرواہ۔۔

اپنی ہنسی روکتی اگلے ہی پل وہاں سے نکلتی چلی گئی۔۔۔۔

پیچھے فائل کو سختی سے گرفت میں دبوچتے ہوئے آبرو کے دو آنسو ٹوٹ کر گہرے سیاہ کور پر پھسلتے بےمول ہوئے تھے۔۔۔۔

☆....☆....☆....☆

 تپتی ہوئی ریت سورج کی بھڑکتی کرنوں تلے چمکتی اسکے وجود کو بھی بھڑکا رہی تھی۔

چاروں اطراف نم نگاہیں دوڑانے پر وہ لامحدود سی جگہ اسے کوئی ویران سا صحرا ہی لگا تھا جسکے ہر حصے سے جھلکتی وحشت اسکی ہمت کو مزید کھوکھلا کرتی چلی گئی۔

ایسے میں گرم ہوا کے سنگ وقفے وقفے سے اڑتی ریت اسکی مشکلات مزید بڑھائے دے رہی تھی۔

 گہرے سانس لیتے ہوئے اسنے آنسو ملا پسینہ بازو سے پونچھا پھر سینے میں انجان وسوسوں تلے۔۔شدتوں سے پھڑپھڑاتے دل کے ساتھ آگے بڑھی۔

”آہ۔۔۔ہ۔۔۔“ 

 ابھی وہ دو چار قدم آگے کو چلی ہی تھی جب دایاں پیر حد سے ذیادہ ریت میں دھنسنے پر وہ لڑکھڑا کر منہ کے بل نرم سلگتی ریت پرگری۔

ایک آگ کی سی لہر تھی جو اسکے رگ و پے میں سرائیت کرتی اسے ایک نئی اذیت سے دوچار کرگئی۔

بےبسی اس قدر تھی کہ اسے شدت سے رونا آنے لگا۔

معاً اسے اپنے پیچھے کسی دوسرے وجود کی موجودگی کا  احساس ہوا تو سرعت سے ہتھیلیوں پر زور دے کر کھڑی ہوتی وہ وحشت زدہ سی پیچھے پلٹی۔

دل خوف کی ذیادتی سے پھٹنے کے قریب ہوا تھا جب اگلے ہی پل بھیگی آنکھوں میں اترتی شناسائی اسے بے یقینی میں دھکیلتی چلی گئی۔

”با۔۔با۔۔۔۔۔۔“

 مقابل شخص کو دیکھ کر اسکے لب بے آواز کپکپائے تھے۔

 گرد آلود کپڑوں کونظرانداز کرتی وہ انکا زردچہرہ دیکھ کر روہانسی ہوئی تھی مگر توقع کے الٹ وہ بیگانے سے اسکے پاس سے گزرگئے۔۔

یوں جیسے جانتے ہی ناں ہوں۔۔۔

اس قدر بےنیازی پر حرمین کے وجود میں نئے سرے سے تڑپ جاگ اٹھی تو بے تابانہ ان کے پیچھے لپکی۔۔

”بابا۔۔

رک جائیں خدارا۔۔۔

میں ہوں آپکی حرمین۔۔۔آپ۔۔کی۔۔۔“  

وہ پل پل بگڑتے تنفس کی پرواہ کیے بنا مسلسل پیچھے سے انھیں پکار رہی تھی پر وہ ہر التجاء سے بے بہرہ کسی ربوٹ کی مانند بنا رکے ایک مخصوص سمت میں چلتے جارہے تھے۔

”بابا۔۔۔۔“  

اپنا ضبط کھوتی حرمین تقریباً بھاگ کر ان کے آگے آئی تو فیضان صاحب ایکدم سے رکے۔

نم آنکھوں میں اب کی بار شناسائی موجود تھی۔۔۔

 مگر ساتھ ہی ان میں دکھنے والا وہ کرب کیسا تھا۔۔۔؟؟

حرمین کا دل ڈوبنے لگا۔

”تکلیف ہورہی ہے۔۔۔

بے حد تکلیف۔۔۔

وجود جھلستا چلا جارہا ہے۔۔۔

مگر بہت تلاشنے کے باوجود بھی سکون کہیں میسر نہیں آرہا۔۔۔۔“ 

 سینے پر بےتابانہ ہاتھ مسلتے وہ خود کے ساتھ ساتھ اسے بھی تڑپا گئے تھے۔

”بابا۔۔۔۔“

 بے اختیار ہاتھ بڑھا کے وہ انھیں چھونے کے قریب ہوئی۔۔

انداز میں حسرت صاف تھی۔۔

جب اچانک انکا وجود ریت ہوتا۔۔گرم ہوا میں تحلیل ہونے لگا۔

اس غیرمتوقع صورتحال پر حرمین کا دل دھک سے رہ گیا۔

”م۔۔مت جائیں بابا۔۔۔۔

مجھےا۔۔اس طرح سے اکیلا چھوڑ کرمت جائیں۔۔

میں اس ویرانے میں تنہا مرجاؤں گی مجھے ضرورت ہے آپکی۔۔۔۔۔۔“ 

 پھوٹ پھوٹ کر روتی وہ انھیں روکنے کی ناکام کوششوں میں پاگل ہورہی تھی لیکن ہاتھ میں آتے ریت کے تپتے ذرات اسکی چیختی التجاؤں سے انکاری ہوتے۔۔

اسکا وجودمحرومیوں کے عذاب سے دوچارکرتے چلے گئے۔۔

”ہااا۱۔۔۔۔ہ۔۔۔۔“  

وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھی تھی۔

آنکھیں نیند کے خمار سے اس پل سرخ ہورہی تھیں جب سامنے کھڑکی کے کھلے پٹ سے اندر کو جھانکتی نکھری نکھری سی کرنوں پر اسے اسی صحرا کی دھوپ کا گمان ہوا۔

”بابا۔۔۔۔؟؟“  

گہرے سانسوں کے بیچ بڑے سے کمرے کو انجان نظروں سے دیکھتی وہ ہنوز لاعلمی کے عالم میں تھی۔

شدتوں سے دھڑکتا دل تھا کہ اس لمحے سینہ توڑ کر باہر آنے کو بےتاب ہورہا تھا۔

معاً اسکی سہمی نگاہوں نے نادانستگی میں اپنے پہلو میں سوئے شام تک سفر کیا تھا جو اسکی جانب اپنی پشت کیے گہری نیند میں تھا۔

معاً حرمین کے تمام حواس ایکدم سے بیدار ہوتے چلے گئے۔

”تمھاری یہ بےتابانہ چاہت۔۔۔

اور اس چاہت پر قائم یہ بھروسہ مجھے مزید تمھارے قریب کرگیا ہے حرمین۔۔۔

بہت قریب۔۔

اتنا کہ اب میں ہر فاصلہ مٹادینا چاہتا ہوں۔۔۔۔“  

تیزی سے نم پڑتی گہری سیاہ آنکھوں میں گزشتہ رات کے تمام جذباتی مناظر ایک ایک کرکے گھومتے چلے گئے تو بے یقینی تلے نفی میں سر ہلاتی وہ اگلے ہی پل سرعت سے بیڈ سے اتری۔

”ی۔۔یہ کک۔۔کیا ہوگیا۔۔؟؟

یہ مجھ سے۔۔کیا۔۔؟؟“  

اس حساس معاملے میں خود کی شامل رضامندی یاد آئی تو وہ اپنے بالوں کو بےاختیار مٹھیوں میں دبوچ گئی۔ 

سانولی رنگت آنسوؤں سے بھیگتی ہوئی اس وقت زرد پڑ رہی تھی۔

خود اپنی مرضی سے نفس کی دلدل میں اترتی وہ داغدار ہوچکی تھی۔۔

اور یہ وہ سیاہ حقیقت تھی جسے فوری طور قبول کرنا اس وقت اسے محال لگ رہا تھا۔

”عشق محبت ہی سہی۔۔۔

پ۔۔پر ہمارے بیچ کی یہ لازم حدیں اس طرح سے پار نہیں ہونی چاہیے تھیں۔۔

نن۔۔ نہیں ہونی چاہیے تھیں۔۔۔

پھرمیں کیوں بہک گئی۔۔۔

کک۔۔کیسے۔۔؟؟“  

شام سے ذیادہ خود کو قصوروار ٹھہراتی حرمین نے بےساختہ ہتھیلی تلے اپنی سسکی دبائی تو اسے اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہونے لگا۔

جہاں عشق کا بوجھ اسکی سانسوں پر بھاری پڑنے لگا تھا وہیں رات گھر سے باہر گزارنے کا احساس اسے مزید بےچین کرگیا۔۔

دوسرے ہی پل خود کا رلتا دوپٹہ جھک کر اٹھاتے ہوئے کتنے ہی آنسو اسکی سرخ آنکھوں سے بہہ کر دبیز قالین میں جذب ہوئے تھے۔

ایسے میں شام کی گہری نیند میں رتی برابر بھی فرق نہیں آیا تھا۔

جلدی جلدی دوپٹے کا حجاب بناتی وہ مسلسل لرز رہی تھی۔

اپنا بکھرا وجود بڑی مشکلوں سےسمیٹتی وہ فوری وہاں سے نکل جانا چاہتی تھی ورنہ ممکن تھا کہ اسکی سانسیں ہی رک جاتیں۔۔

پھٹتے دماغ کے ساتھ حرمین چشمے سمیت اپنا بیگ سنبھالتی  تیزی سے دروازے کی طرف لپکی تھی جب قدموں سے الجھتا بلیک کیس اسے منہ کے بل نیچے گرنے پر مجبور کرگیا۔

ایسے میں منہ سے نکلتی چیخ بےساختہ تھی۔

”کیا مصیبت ہے یار۔۔۔“

 وہ جو کسمساتا ہوا کروٹ بدل رہا تھا عجیب سے شور پر زیر لب بڑبڑاتا ہوا بے اختیار اپنی دراز پلکیں وا کرگیا۔

پھر مندی مندی آنکھوں کو پورا کھول کر سامنے دیکھا تو وہ دروازے کے پاس زمین پر بیٹھی سسک رہی تھی۔

”حرمین تم۔۔۔۔۔؟؟“  

معاملہ سمجھنے کی کوشش میں وہ جلدی سے بیڈ سے اترتا اسکی جانب بڑھا تھا جب وہ اپنا آپ سنبھال کر۔۔

بنا کچھ کہے سنے تیزی سے اٹھتی کمرے سے باہر بھاگ گئی۔۔

اسکے اس قدر جذباتی ردعمل پر شام کچھ حیران ہوا تھا جس نے ٹھیک سے اس سے نگاہ ملانے کی بھی جرات نہیں کی تھی۔

گزشتہ رات اپنا سب کچھ لٹا دینے کے بعد بھی اتنا گریز۔۔۔۔؟؟

اسکے پیچھے جانے کی بجائے اسنے وہیں رک کر بےاختیار بالوں میں ہاتھ چلایا تھا پھر الٹے قدم پیچھے کی جانب لیتا پیٹھ کے بل بیڈ پر ڈھے سا گیا۔      

گریبان کے اوپری بٹن ہنوز کھلے اسکے چوڑے سینے کا دیدار کروارہے تھے۔

بے اختیار ایک نگاہ سائیڈ ٹیبل پر پڑے اپنے قیمتی موبائل فون پر ڈالتا وہ کمینگی سے مسکرایا۔

”شاہ میرحسن کو ہارانا کیا اتنا ہی آسان ہے۔۔۔۔؟؟؟“

خود کی ذات پر ٹوٹ کر مان کرتا وہ چیلنجنگ انداز میں گویا ہوا۔

گزشتہ رات کی بابت سوچتے ہوئے بھوری آنکھوں میں جہاں جیت کی چمک گہری ہوئی تھی وہیں اگلے ہی پل لبوں سے پھوٹتا مدھم سا قہقہ اسکی سفاکیت کو مزید بڑھاگیا۔۔

☆....☆....☆....☆

”آپ دوسرے مردوں سے اتنے منفرد کیوں ہیں۔۔۔؟؟

کیوں میری ذات کو لے کر آپکی نیت میں کوئی کھوٹ یاں میل شامل نہیں ہے۔۔۔؟؟“ 

بھیگی ہوئی مترنم سی آواز اسکی سماعتوں میں اترتی ہوئی اسکی دھڑکنیں بےچین کرگئی تھی۔

سادگی میں کیا گیا شکوہ کس قدر جانلیوا تھا یہ کوئی اس وقت عائل حسن سے پوچھتا۔۔

”آپکی نظروں کی پاکیزگی مجھے ہمیشہ آپکی صاف ستھری نیت کا احساس دلاتی ہے۔۔۔

لیکن جب وہ مجھے چھوتا ہے ناں۔۔۔

تو اسکے ذرا سے لمس سے بھی اسکی گندی نیت صاف ٹپکتی ہے۔۔۔“  

ذہن میں ناقابل فراموش لفظوں کی بازگشت پھر سے ہوئی تو اسکی پیشانی پرنسیں صاف ابھرتی چلی گئیں۔

ایسے میں بند آنکھوں سمیت  چئیر کی شفاف پشت پر دھیمے سے سرپٹخنے میں بےاختیار تیزی آئی تھی۔

”مجھے اسکا چھونا۔۔

اسکا جان بوجھ کر میرے قریب آنا بالکل بھی اچھا نہیں لگتا۔۔۔

م۔۔میری روح اسکی نزدیکی پر بری طرح کپکپا اٹھتی ہے۔۔۔“  

نازک وجود کا سسکنا یاداشت کے پردے پر لہرایا  تو خود پر سے ضبط کھوتا۔۔وہ بےاختیار آنکھیں کھولتا ہوا ٹیک چھوڑ گیا۔

ایسے میں بےتاب نگاہوں نے حاویہ کو اپنے سامنے۔۔اپنے پاس دیکھنے کی شدت سے چاہ کی تھی۔۔

لیکن اسکی جگہ باسط ہونقوں کی طرح منہ کھول کے کھڑا اپنے افسر کی یہ سب کیفیات ملاحظہ کررہا تھا سو عائل کو چونک کر اپنی جانب متوجہ ہوتا دیکھ گڑبڑا سا گیا۔

”آ۔۔۔آپ ٹھیک ہیں سر۔۔۔؟؟

میں کب سے آپکو آوازیں دے رہا تھا۔۔

مگر آپ کو تو شاید میری موجودگی کی بھی خبر نہیں ہوئی۔۔۔“

  دھیمے لہجے میں بولتا وہ کچھ فکرمندا سا ہوا تو عائل نے منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے گہرا سانس خارج کیا۔

وہ جب سے وہاں سے ہوکر آیا تھا۔۔۔

ایک بےنام سی اذیت کا شکار ہوچکا تھا۔

حاویہ کی آدھی ادھوری باتوں سے مکمل قصہ اخذ کرلینے میں مسلسل ناکامی اسکی اس اذیت میں پل پل اضافہ کرتی چلی جارہی تھی۔۔۔

پر وہ اسکی بے حس خاموشی کےآگے بےبس تھا۔

”ٹھیک ہوں۔۔۔

تم اپنا بتاؤ کیا کہہ رہے تھے۔۔۔؟؟؟“  

سرجھٹکتے ہوئے اسنے اپنی ذاتی سوچوں کو فی الحال کے لیے پرے دھکیلا۔

سیاہ آنکھوں میں اترا گلال باسط کی نگاہوں سے مخفی نہیں رہا تھا۔

”دراصل آپکی غیر موجودگی میں۔۔

اسحاق باجوہ کی بیوی آئی تھی تھانے۔۔۔

اپنے شوہر کی ضمانت کی غرض سے وکیل کو بھی ساتھ ہی ہائر کرکے لائی تھی وہ۔۔۔

سو ہمیں اسکے شوہر کو چھوڑنا پڑا۔۔۔۔“

 باسط نے پشت پر ہاتھ باندھتے ہی آج کی تفصیل بتائی تو پُرسوچ انداز میں پیشانی مسلتا وہ اثبات میں سر ہلاگیا۔

”ہہمم۔۔۔

تم اسکی تمام کاروباری سرگرمیوں پرنظر رکھنا باسط۔۔

مجھے یقین ہے کہ جلد بادیر وہ کوئی نیا پنگاہ ضرور لے گا۔۔۔“  

اسحاق باجوہ کی بابت اسے خبردار کرتا وہ اپنے تھکے ذہن کے لیے نئی سوچوں کے در وا کرگیا تھا۔

”جیسا آپ کہیں سر۔۔۔“ 

تابعداری سے بولتا وہ تھوڑا جھجکا۔

”سر وہ ایک اور بات کرنی تھی آپ سے۔۔۔۔“ 

 باسط کالرکو بےوجہ ہی ٹھیک کرتا بولنا چاہ رہا تھا۔۔

جب شیشے کی شفاف سطح پر پڑا عائل کا موبائل فون ایکدم سے بجتا ہوا دونوں کی توجہ اپنی کھینچ گیا۔

اسکرین پر آئے نمبر کو دیکھ کر عائل نے ضبط سے اپنے لب بھینچے پھر باسط کو بعد میں آنے کا اشارہ کرتا کال ریسیو کرگیا۔۔۔

سو وہ بھی چپ چاپ سر ہلاتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

”کیا مسئلہ ہے تمھیں۔۔۔؟؟

کیوں تم  کال پہ کال کیے جارہی ہو مجھے۔۔۔؟؟

 چاہتی کیا ہو۔۔۔؟؟“ 

 عروسہ شاہنواز کی مدھرآواز پر وہ بھڑک ہی تو اٹھا تھا۔

”تم سے اکیلے میں ملنا چاہتی ہوں۔۔۔دیٹس اٹ۔۔۔“  

اسپیکر سے ابھرتی آواز بہت پرسکون تھی۔

بارہا ایک ہی تقاضے پر عائل نے ضبط سے سانس کھینچی۔

”جب ہم میں سب معاملات پہلے سے ہی کلئیر ہوچکے ہیں تو پھر یوں اکیلے میں ملنے کی اب کیا تُک بنتی ہے۔۔۔؟؟؟

کچھ بھی ہو مگر میرا تم سے خفیہ طور پر میٹنگ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔۔۔“ 

 عائل نے قدرے چڑکر صاف صاف انکار کیا۔

اسے لگا تھا کہ جتنی انا وہ لڑکی۔۔۔اُس سمیت سب گھر والوں کے سامنے دیکھا کر حسن پیلس سے نکلی تھی اسکے بعدتو کبھی اسے دیکھنا بھی نہیں چاہے گی۔۔۔

کجا کہ ملنے کا تقاضا۔۔۔

”تُک بنتی ہے ناں۔۔۔

کیا تم نہیں چاہتے کہ ہم دونوں کی فیملیز کے بیچ سب کچھ پہلے کی طرح ٹھیک ہو جائے۔۔

یہ رنجشیں جو انھوں نے ہماری وجہ سے پال رکھی ہیں وہ دور ہوجائیں۔۔۔؟؟“  

دوسری طرف پل بھر کو اہانت محسوس کرتی عروسہ نے دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر اسکی تلخی کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا تھا۔

وہ بندہ بھلائے نہ بھولنے والی شے بن کر اسکے دل کی گہرائیوں میں اترا تھا۔

عروسہ کی بات پر بےاختیار اسکی پیشانی پر بل پڑے۔

”تم مجھے بلیک میل کرنے کی کوشش کررہی ہو۔۔۔۔؟؟“  

عائل کا لہجہ دھیما سلگتا ہوا تھا۔

”آفکورس ناٹ۔۔۔

تم مجھے غلط سمجھ رہے ہو عائل۔۔۔

دیکھو میں نہیں چاہتی کہ ہماری نادانیوں کی وجہ سے ہمارے بڑوں کا رشتہ خراب ہو۔۔

یاں پھر سالوں کی دوستی ملیامیٹ ہوجائے۔۔

بیلیو می میں نے ڈیڈ کو دیکھا ہے۔۔

میرے ساتھ ساتھ انھیں اپنی دوستی کھودینے کا بھی بے حد ملال ہے۔۔۔آئی تھنک ہمیں ان بگڑے معاملات کو سنبھالنے کے لیے ایک آدھ ملاقات تو کرنی ہی چاہیے۔۔۔۔“ 

 اس اوکھے مزاج بندے کو اپنی جانب قائل کرنے کے لیے عروسہ نے لمبی وضاحت دی تو عائل کی پیشانی پر پڑے بل ذرا سے سمٹے۔

بظاہر تو حسن صاحب نے بھی منہ سے کچھ نہیں کہا تھا لیکن کہیں نہ کہیں وہ بھی ان سب سے پریشان سے تھے۔

آخر کو دوستی کے ساتھ ساتھ ان کے بزنس کے ایک آدھ پروجیکٹ میں بھی تو قابل برداشت خلل پڑا تھا۔

”اور تم یہ سب ایک آدھ ملاقات میں کیسے ٹھیک کرو گی۔۔۔۔؟؟“

  عائل نے سنجیدگی سے جانچنا چاہا۔

”اوففف او۔۔

تم مجھ سے پہلے ملو تو سہی۔۔

پھر سب ٹھیک بھی ہو جائے گا عائل ٹرسٹ می۔۔۔“ 

 اسکی جلدبازی پر عروسہ پل بھر کو جھنجھلائی۔

”ہہمم۔۔۔

امید کرتا ہوں کہ ان سب کے پیچھےتمھارے خیالات نیک ہوں۔۔

خیر ان دنوں تو میں بےحد مصروف ہوں۔۔۔سو تمھاری اس آفر کے بارے میں تسلی سے بیٹھ کر سوچوں گا۔۔

پھر فیصلہ کروں گا کہ کیا کرنا بہتر ہے۔۔۔

خدا حافظ۔۔۔“

  اپنی بات مکمل کرتا وہ بنا اسکی مزید کوئی بات سنے کال کاٹ چکا تھا۔۔

اگلے ہی پل موبائل اسکرین پر دکھتی نمبروں کی لسٹ تکتے ہوئے اب کہ عائل کا ارادہ شام کو کال ملاکر اسکی خبرلینے کا تھا۔۔۔

وہ کچھ مطمئن سی کال کاٹتی کچن کی طرف آئی تھیں جہاں پہلے سے ہی موجود راشدہ پکتے ہوئے قورمے میں چمچا ہلاتی خوشبو کو مزید پھیلائے دے رہی تھی۔

”حسن صاحب کی چائے تیار کردی تم نے۔۔۔؟؟؟“  

سیلف کے قریب کھڑی ہوتی عائمہ بیگم نے چھوٹتے ہی پوچھا۔

”ہوگئی بیگم صاحبہ جی۔۔۔

بس کپ میں انڈیلنا باقی ہے۔۔۔“  

راشدہ جلدی سے پلو سے ہاتھ صاف کرتی ہوئی فوراً اسٹینڈ سے کپ اتارنے کو پلٹی۔

ابھی کچھ لمحے پہلے ہی وہ تیز پتی والی چائے کے نیچے سے ہلکی آنچ بندکرکے ہٹی تھی۔

عائمہ بیگم نے ایک سراہتی ہوئی نگاہ چولہے پر چڑھائے سالن پر ڈالی۔اطراف میں پھیلی۔۔پکوان کی خوشبو راشدہ جیسی کم ذات عورت کے ہاتھ کا ہنر بخوبی واضح کررہی تھی۔

کٹے ہوئے دھنیے کے ساتھ ہی باداموں کی پیالی الگ سے پڑی تھی۔

”سنو۔۔۔

اسکے ساتھ میں کباب بھی ضرور تل لینا۔۔۔

آج رات ڈنر پر ہمارے ساتھ شام بھی ہوگا اسی لیے میں چاہتی کہ ہوں کہ ہر شے اسکی پسندکی بنے۔۔۔“  

عائمہ بیگم نے بروقت سوچ آنے پر ایک نئی فرمائش کر ڈالی تو مطلوبہ سامان شیلف پر دھرتی وہ زبردستی مسکرائی۔

اگر جو آج صبح عائمہ بیگم نے اسے دو چار کے حساب سے اپنی جھوٹی اترن دینے کا وعدہ نہ کیا ہوتا تو وہ یقیناً بیماری کا بہانہ بناکر بروقت وہاں سے کھسک لیتی۔۔

اور پھر ڈنر کی لسٹ بھی کم لمبی نہیں تھی۔ایسے میں ایک اور شے بنانے کا اضافہ۔۔۔

جواب میں وہ بڑی مشکلوں سے مسکرائی۔

”کیوں نہیں بیگم صاحبہ جی۔۔۔

کھیربنانے کے فوراً بعد ہی تل لوں گی کباب بھی۔۔۔

اور یہ تو بڑی اچھی بات ہے جی۔۔کہ چھوٹے صاحب بھی آج رات گھر پر ہی ٹھہریں گے ورنہ تو بڑے صاحب کے غصے سے خائف ہوکر وہ اپنی ذیادہ تر راتیں فارم ہاؤس پر ہی گزار کر آتے ہیں۔۔۔۔“

 بڑے آرام سے کپ میں چائے انڈیلتی وہ مالی سے سنی سنائی باتیں عائمہ بیگم کے گوشِ گزار کر رہی تھی۔۔۔

جبکہ اس کا عامیانہ لہجہ مقابل کے دبے زخم ادھیڑ گیا۔

”یہ حسن صاحب کی تلخیاں بھی ناں بس۔۔۔

کبھی کبھی تو حد سے ذیادہ ہی مجھ سمیت میرے بیٹے کی برداشت آزمالیتے ہیں۔۔۔

اور ایک وہ ہے روٹھا نواب۔۔

مجال ہے جو ایک بار بھی اسے اپنی تڑپتی ہوئی ماں کا خیال آجائے۔۔۔

کتنی بار کہا ہے کہ اپنے باپ کی باتوں کو دل پر مت لیا کرے۔۔

پر وہ ہے کہ سمجھنے کی بجائے مزید ہتھے سے اکھڑ جاتا ہے۔۔۔۔“  

 بےاختیار ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچتی وہ سلگتے ہوئے دھیمے لہجے میں بولیں تو انکی اس قدر لب کشائی پر راشدہ نے چونک کر سر اٹھاتے خوشگوار حیرت سے انکی جانب دیکھا۔۔۔

جن کی پرسوچ نگاہوں کا مرکز ہنوز گرم چائے سے بھرا کپ تھا۔

”اس حساب سے میرا بندہ تو بہت بیبا ہے جی۔۔۔

مجال ہے جو کبھی میرے سامنے ذرا سی بھی اف کرجائے وہ۔۔۔

تلخ کلامی تو بہت دور کی بات ہے بیگم صاحبہ۔۔

تلوے چاٹتا ہے وہ میرے تلوے۔۔۔۔

ہاں البتہ بچوں سے کبھی کبھار لڑ جھگڑ پڑتا ہے۔۔۔

اب مرد ہے کہیں نہ کہیں تو کثر نکلے گی ہی ناں اسکی بھی۔۔۔“

  راشدہ کے جتاتے لہجے میں اپنے شوہر کی خوبیوں سے کہیں ذیادہ طنز کے نشتر گھلے ہوئے تھے۔

اور پھر جواب میں عائمہ بیگم نے جس انداز میں اسے گھورا تھا اس سے صاف پتا چلتا تھا کہ وہ اسکے طنزوں سے ٹھیک ٹھاک گھائل ہوئی ہیں۔

”ایسے بندے کو شوہر کم زن مرید ذیادہ کہتے ہیں بی بی۔۔۔

اور پھر جب تم  گھر بیٹھے شوہر کو خود اپنے ہاتھوں سے کما کما کر کھلاؤ گی تو وہ تمھارے آگے اف تک تو کرنے سے رہا۔۔۔“  

ان کے اس قدر سخت لہجے اور حساب  بےباک کرنے پر راشدہ نے گڑبڑا کر جلدی سے نفی میں گردن ہلائی۔

”تمھاری حقیقتیں مجھ سے چھپی نہیں ہے راشدہ۔۔

سو بہتر یہی ہے کہ زبان چلانے کی بجائے ہاتھ پیر چلانے پر ذیادہ دھیان دو۔۔۔

آئی بڑی بے کار شوہر کے گن گانے والی۔۔۔

ہونہہ۔۔۔۔“ 

 اپنے آگے پڑی ٹرے کو جھپٹنے کے سے انداز میں پکڑتی وہ اسے جانے سے پہلے کڑی تنبیہہ کرنا نہیں بھولی تھیں جبکہ وہ ڈھیٹ بنتی بےاختیار پیچھے سے ہانک لگا گئی۔

”ارے بیگم صاحبہ۔۔۔

آپ تو ناراض ہی ہوگئیں میرے سے۔۔۔

خدا قسم  آپکو غصہ دلانے کا میرا ہرگز کوئی مقصد نہیں تھا۔۔۔

اور وہ جو آپ نے اپنے پرانے کپڑے دینے کا بولا تھا  مجھے۔۔۔

اسکا تو بتاتی جائیں۔۔۔۔؟؟؟“ 

 پیچھے سے راشدہ بولتی چلی گئی لیکن عائمہ بیگم اسکی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی تنفر سے ہنکارہ بھرتی وہاں سے سیدھا اسٹڈی روم میں چلی آئی تھیں۔

سامنے ہی حسن صاحب شیلف کے قریب کھڑے کسی مخصوص فائل کا مطالعہ کرنے میں مصروف تھے۔۔۔

عائمہ بیگم کو چائے اندر لاتے دیکھ وہ اپنی توجہ واپس فائل کے کھلے صفحے پر مرکوزکرگئے۔

”یہ آپکی چائے۔۔۔۔“ 

 ان کی بےنیازی پر صبر کے گھونٹ بھرتی عائمہ بیگم نے دھیمے لہجے میں انھیں مخاطب کیا۔

”ہوں۔۔۔رکھ دو وہیں پر۔۔۔“ 

 چشمے کے پار دیکھائی دیتی تحریر پر نگاہیں جمائے انکی لاپرواہی میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔

عائمہ بیگم ٹرے خاموشی سے قریب پڑی میز پر رکھ کے پلٹی۔

پھر گہرا سانس بھرتی وہیں کھڑے کھڑے اپنے لفظوں کو ترتیب دینے لگیں۔

”وہ۔۔شام کی کال آئی تھی مجھے کچھ دیر پہلے۔۔۔

کہہ رہا تھا کہ آج رات ہمارے ساتھ ہی ڈنر کرے گا۔۔۔۔“ 

 گلا کھنگارتی وہ نرمی سے بولیں تو حسن صاحب کی سماعتیں انکے لفظوں کی جانب کھینچتی چلی گئیں۔

البتہ نظریں ہنوز صفحے پر بکھرے انگریزی لفظوں کو باریک بینی سے ٹٹول رہی تھیں۔

”میں چاہ رہی تھی کہ اس دفعہ آپ اس کے ساتھ تلخ  کلامی اور حوصلہ شکن باتیں کرنے سے پرہیز برتیں۔۔۔

پہلے ہی وہ چوبیس سو گھنٹے بعد گھر واپس لوٹ رہا ہے۔۔

ایسے میں اگر آپ۔۔۔“

  دل میں دبے خدشوں کو  التجا کی صورت پیش کرتی وہ حسن صاحب کو اپنی جانب پلٹ کے بیچ میں ٹوکنے پر مجبور کر گئیں۔

”میری نصیحتوں کو تلخ کلامی کا نام دے کر غلط بات مت کرو عائمہ بیگم۔۔۔

درحقیقیت تمھارا بیٹا خود ایک آوارہ گرد لڑکا ہے جبھی تو گھر کی چاردیواری میں اسکا دم گھٹنے لگتا ہے۔۔۔۔“ 

 فائل کو نخوت سے بند کرتے وہ انکی جانب آئے تو لفظ ”آوارہ گرد“ پر عائمہ بیگم نے کچھ حیرت سے انکی جانب دیکھا۔

اگر بیٹا باپ سے متنفر تھا تو باپ بھی اس معاملے میں کم پیچھے نہیں تھا۔۔۔

”دن یونیورسٹی اور رات فارم ہاؤس میں گزارنا کوئی آوارہ گردی تو نہیں ہے حسن صاحب۔۔۔

اور وہ فارم ہاؤس۔۔جہاں وہ جاتا ہے 

وہ بھی ہماری اپنی ہی ملکیت ہے۔۔۔

آپ ایسے آوارہ گرد تو مت بولیں اسے۔۔۔بیٹا ہے وہ آپکا۔۔۔۔“  

وہ شام کے حق میں تڑپ کر احتجاج کرنے سے خود کو روک نہیں پائی تھیں۔

جواباً حسن صاحب بےتاثر چہرے کے ساتھ چشمہ اتار کر فائل سمیت اسے ٹیبل پر پٹخنے کے انداز میں رکھتے۔۔۔اگلے ہی پل صوفے پر بیٹھ گئے۔

چائے کا کپ تھام کر لبوں سے لگاتے سمے بھی انکے حلق سے کوئی تسلی بخش الفاظ نہیں نکلے تھے۔

جواب میں انکی طول پکڑتی خاموشی پر عائمہ بیگم کی نگاہوں میں ملامت سی اترآئی۔

کچھ پل سرکتے ہوئے مزید چبھتی خاموشی کی نذر ہوئے تو ان سے ہنوز چپ چاپ قریب کھڑا رہنا محال ہوگیا۔

”آج ڈیوٹی پر جانے سے پہلے عائل ایک بار پھرسے مجھ سے منت سماجت کر کے گیا ہے۔۔۔“  

سینے پر ہاتھ باندھتے انکا انداز حسن صاحب کو چونکا دینے والا تھا۔۔

”کیا کہہ رہا تھا وہ۔۔۔۔؟؟؟“

  کپ ٹرے میں واپس رکھتے ہوئے انکا فوری طور پوچھا جانے والا سوال حسب توقع تھا۔

عائمہ بیگم انکی کشادہ پیشانی پر پڑتی۔۔پھر مٹتی لکیریں صاف دیکھ سکتی تھیں۔

”کہہ رہا تھا کہ بچوں کی پسند کے آگے ماؤں کی خواہشیں اور ترجیحات بدل جاتی ہیں۔۔۔

اور پھرڈیڈ خود بھی راضی ہیں۔۔۔

اسی لیے آپ بھی مہربانی کرکے راضی ہوجائیں اور اس لڑکی کے گھر جلد از جلد میرا رشتہ لے کر جائیں۔۔۔

حسن صاحب کیا آپ واقعی میں اس حوالے سے راضی ہیں کہ وہ تھرڈ کلاس لڑکی ہمارے گھر کی بہو بنے۔۔۔۔؟؟؟“ 

 لفظ لفظ تفصیل بتاتی عائمہ بیگم نے آخر میں ذرا سا ان کی جانب جھک کر۔۔۔

انکے ارادے ٹٹولنا چاہے تو حسن صاحب نے قدرے سنجیدگی سے انکی جانب دیکھا پھر دھیرے سے نفی میں سر ہلاتے سامنے دیکھنے لگے۔

”نہیں۔۔۔

اگر میں عائل کی پسند سے ذرا سا بھی متفق ہوتا تو اسکی بجائے  یوں کھلے عام تمھارا ساتھ نہیں دیتا۔۔۔

عائل ابھی ناسمجھ ہے جو اتنی آسانی سے عشق محبت کے چکروں میں پڑ گیا ہے۔۔۔

وہ نہیں جانتا کہ یہ محبت بظاہر دکھنے میں تو بہت خوبصورت احساس لگتا ہے لیکن اندر سے اسکی حقیقت اس قدر بدصورت ہے کہ جان کو آجائے۔۔۔“ 

 بولتے بولتے حسن صاحب کے لہجے میں ایک عجیب سی وحشت  اتر آئی تھی۔۔۔

جبکہ ان باتوں کی گہرائی سے کہیں ذیادہ ان کا ناقابل فہم لہجہ ہمیشہ کی طرح عائمہ بیگم کو خود سے بیزار کرگیا۔

ایک بار پھر انکے لبوں پر اترتی خاموشی دیکھ کر اگلے ہی پل وہ تاسف سے سرجھٹکتی وہاں سے نکلتی چلی گئیں۔۔۔

*****************

کراچی شہر کے گڈشارٹ سنوکر کلب میں دن کی بانسبت رات میں ذیادہ کھلبلی برپا تھی۔

مختلف فلورز پر جہاں مڈل کلاس آوارہ لڑکوں کی تعداد میں کمی نہیں تھی وہیں امیر گھرانے کے عیاش پسند جوان بھی اپنا شغل پورا کرنے کی خاطر خود کے لیے الگ سے پول ٹیبل مختص کیے ہوئے تھے۔

ایسے میں فواد سیکنڈ فلور کے مخصوص ایریا میں اپنے مخالف پارٹنر سے گیم کھیلتا۔۔کافی الجھا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔

اس وقت بائیس میں سے صرف چھ بالز باقی بچی تھیں جنھیں وہ کارنر پاکٹ میں پاٹ کرنے کی ناکام کوششوں میں ہنوز مصروف تھا۔

خلاف توقع افروز بھی آج منظر عام پر سے غائب تھا۔

اگر اپنے باپ کی جانب سے سونپے گئے کاروباری کام کے سلسلے میں اسے مجبوراً دوسرے شہر نہ جانا پڑتا تو وہ ہر صورت فواد کے ہمراہ اس آوارگی میں بھی پیش پیش ہوتا۔

”چل اب تیری باری۔۔۔“ 

 فواد کی جانب دیکھ کر بازی مارتا مقابل لڑکا تمسخرانہ گویا ہوا تو کیو (سٹک) سے ٹھوڑی ہٹاتا وہ فوراً سیدھا ہوا۔

تبھی وہاں آتے شام نے بالوں میں ہاتھ چلاتے ہوئے بےاختیار اطراف میں نگاہیں پھیریں تو فواد بآسانی اسے پول ٹیبل پر جھک کر اپنی پوزیشن سنبھالتا دکھائی دے گیا۔

اگلے ہی پل وہ بنا تاخیر کیے اسکی جانب لپکا تھا۔    

”پہلے میں اتنے جوشیلے موڈ میں نہیں تھا پر اب آگیا ہوں۔۔

بس اب تُو دیکھ بیٹا کیسے میں تیری اس مکروہ مسکراہٹ کے پڑخچے اڑاتا ہوں۔۔۔“ 

 چیلنجنگ انداز میں بولتے ہوئے اس بار فواد نے قدرے ناپ تول کر شارٹ مارا تھا لیکن اس سے پہلے کہ ریڈ بال اسکے چیلنج پر پورا اترنے کو سیدھا کارنر پاکٹ میں گھستی۔۔۔

اچانک کسی نے بجلی کی سی تیزی سے آگے بڑھ کے بال کو بروقت اپنی مضبوط گرفت میں دبوچا تھا۔

”ابے اوئے سالے۔۔۔۔۔۔“ 

 اپنی کامیابی کو ایکدم سے ناکامی کی صورت ڈھلتا دیکھ فواد تقریباً  چیخ ہی پڑا۔

پر اگلے ہی پل شام کو مقابل پاکر اسکے تنے ہوئے اعصاب تھوڑے ڈھیلے پڑے۔۔۔

ورنہ ممکن تھا کہ اسکی زبان بہت سی ناقابلِ برداشت گالیاں بک دیتی۔

شام بال کو ہوا میں اچھالتا ہوا اسی کی جانب دیکھ کر دلکشی سے مسکرارہا تھا۔

مخالف سمت کھڑے لڑکے کے تاثرات  جہاں اسکی مداخلت پر سرد پڑے تھے وہیں فواد کو مزید پوائنٹس سے ہارتا دیکھ اسے ایک کمینی سے خوشی محسوس ہوئی۔

” کیا یار شام۔۔۔؟؟

پہلے ہی خود کے ہائی پوائنٹس نہیں بنا پارہا ہوں اور اب تُو بھی بیچ میں آکر ساری کسریں پوری کررہا ہے۔۔۔

چل ادھر پکڑا بال۔۔۔“ 

 کچھ برہمی سے بولتا وہ اسکی جانب آیا۔

معاً شام نے پول ٹیبل پر بکھری بال میں سے ایک پر۔۔دوسری بال کھینچ کر مارتے ہوئے اختتام کو پہنچتی گیم کا پلوں میں ستیاناس کیا تو دونوں حق دق سے اسکی کاروائی دیکھتے رہ گئے۔

”بیٹا یہ ہار اس ہار کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے جسکی دلچسپ جھلک تُو ابھی میرے ہاتھوں دیکھنے والا ہے۔۔۔“ 

 اسکی خفگی کی پرواہ کیے بنا وہ ہاتھ جھاڑتا ہنوز غیرسنجیدہ تھا جب فواد نے مٹھیاں پھینچتے خود پر ضبط کیا۔

”کیامطلب ہے تیرا۔۔۔؟؟

کس ہار کی بات کررہا ہے تو کمینے۔۔۔۔؟؟؟“  

مٹھی میں بھینچی کیو کو پرے پھینکتا۔۔۔

وہ اسکے قریب رکتا ہوا شدت سے الجھا تو شام کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔

”اس گیم کو ادھورا مت سمجھنا افروز۔۔۔

میں جیت گیا ہوں سو حساب کتاب بعد میں مل کر پورے کروں گا تم سے۔۔۔“ 

 ان دونوں کو ایک دوسرے کے مقابل دیکھ وہ لڑکا خود کی موجودگی کو بےکار سمجھتا ہوا بگڑے تاثرات لیے وہاں سے پلٹ گیا۔۔۔

جبکہ وہ دونوں بڑی لاپرواہی سے اسکے وجود سمیت لفظوں کو سن کر بھی نظرانداز کرگئے۔

”کیا کہا تھا۔۔۔؟؟

اصل مزہ تو تب ہے شام اگر تُو اس مولانی کو پھنسا کر دیکھائے۔۔۔۔

پورا ریکارڈ ہے اس لڑکی کا۔۔۔

آج تک کسی مائی کے لال سے نہیں پٹائی گئی وہ۔۔۔

فلاپ۔۔۔

لٹکا ہوا۔۔۔

بورنگ سا کیس ہے۔۔۔

 ختم کرو بس۔۔۔

تجھ سے کچھ نہیں ہوگا۔۔۔

بلا بلا بلا ہہمم۔۔۔۔؟؟

یہی۔۔یہی سب کہا تھا ناں تم لوگوں نے مجھ سے۔۔۔؟؟؟“

  اپنی جینز کی پاکٹس میں ہاتھ پھنساتا وہ ماضی میں کہے گئے افروز سمیت مقابل کے لفظوں کو روانی سے دوہراتا چلاگیا تو فواد کا ماتھا ٹھنکا۔

مقابل کا لہجہ تو لہجہ۔۔۔

بھوری آنکھوں کے رنگ بھی اس پل بدلے بدلے سے تھے۔

ان میں چھلکتی چمک کو فوری طورسمجھنا اسکے لیے مشکل ترین ہوا تھا۔

”ہاں تو۔۔۔۔؟؟

تو نے کونسا تیر ماردیا ہے اب تک۔۔۔؟؟

درست ہی تو بولا ہے کہ اسکا ریکارڈ ابھی تک کوئی بھی۔۔۔۔“

  خود کو کھپانے کی بجائے سر جھٹکتا وہ کچھ لاپرواہی سے کہہ رہا تھا جب شام تندہی سے اسکی بات بیچ میں کاٹتا بول پڑا۔

”میں۔۔۔!

میں توڑ کر آرہاہوں اسکا ریکارڈ۔۔۔

انفیکٹ میں ہی وہ مائی کا لال ہوں جس نے گزشتہ رات پورے حق سے حرمین زہرا کے بنے بنائے ریکارڈ سمیت اسکی کھوکھلی شرافت کی دھچیاں بکھیر ی ہیں۔۔۔۔“  

بھرپورسنجیدگی سے بولتا وہ فواد کو حیرت تلے ساکت ہی تو کرگیا تھا۔۔۔

جبکہ۔۔۔۔

اسکے قابلِ دید تیور اپنی توقع پر پورے اترتے دیکھ شام کے اندر کہیں سکون سا اترا تھا۔

معاً فواد کے ذرا سے وا لب پل میں واپس ملتے مسکراہٹ کی صورت ڈھلے۔

پھر مسکراہٹ سے ہنسی کا سفر پلوں میں طے کرتا ہوا وہ اس بار شام کو چونکنے پر مجبور کرگیا۔

”تجھے کیا لگتا ہے یار۔۔۔؟؟

تو آرام سے آکر بول دے گا اور میں۔۔

میں شرافت سے مان بھی جاؤں گا۔۔۔

ہاں۔۔۔؟؟“  

بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے اس پر مسلسل ہنسی کا دورہ ہنوز طاری تھا جب اسکے ردعمل پر شام کے تیوری چڑھنے لگی۔

”ناٹ برو۔۔۔

اگر افروز یہاں پرہوتا تو جانتا ہے پہلی فرصت میں کیا مانگتا۔۔۔؟؟

ثبوت۔۔۔

بول ہے تیرے پاس۔۔۔؟؟“ 

 اسکے چوڑے کندھے پر باقاعدہ ہاتھ جماتا وہ بمشکل اپنی ہنسی روک پایا تو اسکا قابل برداشت انداز شام کے نقوش پر ناگواری کی گہری چھاپ چھوڑگیا۔

شام کا موڈ غارت کرتا وہ یقیناً اس کی کچھ دیر پہلے کی جانے والی ناپسندیدہ حرکت پر اس سے اپنا حساب چکتا کررہا تھا۔

کچھ پل تو وہ فواد کو یونہی سنجیدگی سے دیکھتا رہا پھرتائیدی انداز میں سر ہلاتا اسکا ہاتھ پرے ہٹاگیا۔

”جانتا تھا تو کمینہ ہے۔۔۔

پر افروز جتنا کمینہ نکلے گا یہ اب پتا چلا۔۔۔

خیرثبوت دیکھنا ہے ناں تجھے خبطی انسان۔۔۔؟؟

رک ذرا ایک سیکنڈ۔۔۔

کھولتا ہوں تجھ پہ ساری اصلیت۔۔۔۔“ 

 کہتے ہوئے شام نے جیب سے اپنا قیمتی موبائل فون کھینچ کر باہر نکلا تو اسے ہر لحاظ سے سنجیدہ پاکر فواد کی مسکراہٹ بےاختیار معدوم پڑنے لگی۔

تو کیا وہ مذاق سے پرے ہٹ کر حقیقتاً سچ بول رہا تھا۔۔۔؟؟

حرمین زہرا کی نسوانیت قدموں تلے روند کر۔۔۔۔۔

کیا وہ۔۔۔؟؟

مقابل کا حدردجہ اعتماد اسکی سوچوں کے اقرار کے لیے کافی ہورہا تھا جب اچانک شام نے اسے مزید پرکھنے سمجھنے کا موقع دئیے بنا سرعت سے  موبائل فون کی چمکتی اسکرین کو اسکی نظروں کے اسکے سامنے کیا۔

تصویر میں دیکھائی دیتے شام کو تو فواد کی بےتاب نگاہیں پل میں پہچان چکی تھیں مگر نازیبا حالت میں اسکی بانہوں میں پڑی اس لڑکی کو آنکھیں سکیڑ کر بغور دیکھتے ہوئے اسے جان پہچان میں کئی لمحے لگے تھے۔

”حرمین زہرا۔۔۔۔“  

اگلے ہی پل جہاں فواد کے لب بےیقینی تلے ہلے تھے وہیں سرکو ہولے سے جنبش دیتے شام کے شفاف لبوں پر دھیرے سے خباثت بھری مسکراہٹ اتری۔

”بالکل وہی ہے۔۔۔۔

بڑا زعم تھا ناں اسے خود کی پردہ داری کا۔۔۔

یہ۔۔۔

یہ دیکھ۔۔۔

چیک کر ذرا کس طرح سے سب پردے یوں سیکنڈوں میں میرے آگے گرتے چلے گئے۔۔۔۔“

  تمسخرانہ گویا ہوتا وہ حق دق کھڑے فواد کو ایک کے بعد ایک تصویر دیکھاتا چلا گیا۔

یہ شیطانیت کی حد ہی تو تھی جو اس عیاش فطرت شخص کے لیے فقط دلچسپی کا ایک سادہ سا سامان تھی۔

تبھی فواد خود پر سے ضبط کھوتا ہوا موبائل جھپٹنے کے سے انداز میں اسکے ہاتھوں سے لے گیا۔

اسکی بڑھتی بےچینی دیکھ شام نے بےاختیار اپنی بھنویں اچکائیں۔

”یقین نہیں آرہا یار۔۔

یہ۔۔۔یہ وہی چوبیس سو گھنٹے بظاہر حجاب میں رہنے والی شریف لڑکی ہے جو تیرے ساتھ۔۔۔

اففف۔۔۔

میں نے تو سنا تھا کہ ایک عورت کے لیے بہترین زیور اسکا پردہ ہوتا ہے اور اس نے معمولی سے زیور کی خاطر اپنا پردہ ہی بیچ دیا۔۔۔

 دیکھ تو فقط تین لاکھ میں اپنی عزت کا سودا کرکے کیسے چہرے پر سکون کی سی کیفیت سجا رکھی ہے اس لڑکی نے۔۔۔۔ “  

دھیمے لہجے میں لب کشائی کرتا وہ حرمین کی ہر قابل اعتراض تصویر کو زوم کرکرکے دیکھتا جارہا تھا جو یقیناً سوتے میں کھینچی گئی تھیں۔

بہت سوں میں اسکا سانولا چہرہ صاف دکھائی دے رہا تھا اور کچھ میں وہ اکیلی ہی پوری اسکرین پر قابض تھی۔

آگے آنے والی ویڈیو پر بلا جھجھک کلک کرتا وہ اپنا لب دانتوں تلے دبا گیا تو اگلے ہی پل نگاہوں کے سامنے آتا۔۔۔چادر میں لپٹا حرمین کا وجود ناچاہتے ہوئے بھی فواد کے اندر کھلبلی سی مچاگیا۔

خود کی شکست آمیز گیم تو وہ کب سے بھلا چکا تھا۔۔۔

جبکہ اس سب کے دوران شام ذرا اچھل کر پول ٹیبل کی شفاف سطح پر اطمینان سے بیٹھتا اسکے چہرے کے پل پل بدلتے رنگوں کو دیکھتا ہوا خاصا محفوظ ہورہا تھا۔

”خلوت میں فقط ایک عدد قدم بڑھایا تھا اسکی جانب اور بدلے میں۔۔چار قدم چل کے آئی وہ میری طرف۔۔۔

ثابت کیا ہوا۔۔۔؟؟

جتنی بھی با پردہ یاں باکردار سہی۔۔۔

دو میٹھے لفظوں میں پھنسنے والی ہے تو دو ٹکے کی لڑکی ہی ناں۔۔۔“

  حرمین کی نسوانیت کے بری طرح پڑخچے اڑاتا وہ اس پل اپنی ذات میں بےحدآگے نکل گیا تھا۔

”مان گیا تجھے برو۔۔۔

لڑکیاں تیکھی ہوں یاں پھرپھیکی۔۔۔

تجھ جیسے عیاش پسند بندے پر مرمٹتی ہیں۔۔۔۔“  چلتی سکرین سے بمشکل نگاہیں ہٹاتا وہ شام کی اس ناقابلِ برداشت کرتوت سے حددرجہ متاثر نظرآرہا تھا۔ 

جواباً اسکی بات پرسر جھٹکتا وہ کمینگی سے ہنسا۔

اپنا آپ منوا لینے پر جہاں اسکی بھوری آنکھوں میں سرشاری ہی سرشاری تھی وہیں افروز کی کمی اسکے سینے میں چبھنے سی لگی۔

اگلے ہی پل اسے کال ملانے کی خاطر اچک کر فواد سے اپنا موبائل فون واپس کھینچتا وہ اسکا موڈ خراب کرگیا۔۔

اس بات سے قطعی انجان کہ مقابل ویڈیو سمیت تصاویر افروز کو بھیج کر سینڈنگ ڈیٹا۔۔

سیکنڈوں میں ڈیلیٹ بھی کرچکا تھا۔۔۔۔

اور یہ پھرتی آنے والے دنوں میں کس قدر سنگین ثابت ہوسکتی تھی اس سے حقیقتاً وہ دنوں ہی بےخبر تھے۔۔۔۔

**************************

خاموش   رہ،   تنہا    بیٹھ،   یاد   کر  اسکو

 تُو نے عشق کیا ہے گناہ چھوٹا نہیں تیرا

گھٹنوں کے گردسختی سے بازو لپیٹے۔۔

جانے وہ کتنی دیر سےکسی غیر مری نقطے پر دھندلائی نگاہیں جمائے بیٹھی تھی۔

سیاہ نم پلکیں اسکے بےآواز رونے کی مسلسل چغلی کھا رہی تھیں پر ان پلوں میں وہ اپنی دکھتی آنکھوں سے بھی بےنیاز تھی۔ 

”آخر کب سے تم نے پڑھائی کو خود پر اتنا سوار کرلیا حرمین کہ پوری رات گھر سے باہر گزار آنے میں بھی تمھیں کوئی عیب نہیں لگا۔۔؟؟

اتنی پرواہ تو مجھے میری تکلیف پر نہیں ہوئی تھی جتنی شدید فکرتمھاری غیرموجودگی نے مجھے دی ہے۔۔۔“

  نفیسہ بیگم کا دھیما سا شکوہ کناں لہجہ اسے اپنے کانوں میں چیختا ہوا محسوس ہوا تو گزشتہ روز کی طرح اسکا سانس اس سمے بھی پل بھرکو خشک پڑا۔ 

”ر۔۔رات دیر تک پڑھائی کا معاملہ چلتا رہا تھا۔۔۔

ایسے میں علیزہ نے زبردستی مجھے اپنے پاس ٹھہرانے ضد کی۔۔

تو کچھ اس ضد میں میری مرضی بھی شامل ہوچکی تھی۔۔

اسی وجہ سے۔۔۔۔“  

ان کی چوٹ پر ہنوز تڑپتی ہوئی وہ کتنی آسانی سے حاویہ سمیت انھیں خود کی جانب قائل کرگئی تھی۔

اس دوران لبوں سے لفظ لفظ پھسلتے جھوٹ پر اسکا نگاہیں چرانا ایک بےاختیاری سا عمل تھا۔

اور جواب میں اندھا دھند اعتبار کرنا ان ماں بیٹی کا ظرف۔۔۔

جسکے لائق شاید وہ تھی ہی نہیں۔۔۔

حرمین نے بےاختیار حجاب سے آزاد بالوں میں اپنی انگلیاں پھنسائی تھیں۔

 اپنے اندر کی وحشتوں کو دبانے کی ناکام کوششوں میں وہ پل پل ہلکان ہوئے جارہی تھی۔۔۔

لیکن گہرے سکوت میں اسکے ارگرد چیختی سوچیں اسکا پیچھا چھوڑنے پر رضامند ہی کہاں تھیں۔۔۔

تبھی اس نے بے چین ہو کر اپنی بھیگی پلکوں کو جھپکایا۔

”اگر یقین کرتی ہو تو پھر میری بےتاب دھڑکنوں کو قرار بخش دو حرمین زہرا۔۔۔

اس سے ذیادہ میں تم سے کچھ نہیں مانگتا یار۔۔۔۔“ 

 معاً شام کا بھاری لب و لہجہ ایک بار پھرسے حرمین کی سنسناتی سماعتوں میں اترتا اسکی دھڑکنیں سست کرگیاتو۔۔۔

بےاختیار ایک نگاہ اپنے لُٹے ہوئے وجود کی جانب ڈالتی وہ سسکی روکنے کو نچلا لب دانتوں تلے دباگئی۔

اس شخص کی دھڑکنوں کو قرار پہنچانے کی خاطر وہ پوری رضامندی کے ساتھ اپنے سینے میں اذیتوں کا دریا بھرلائی تھی۔۔۔

لیکن جانے کیوں اس پر اپنا تن من لٹا دینے کے بعد بھی وہ اپنی آزمائی ہوئی محبت میں چاہ کر بھی کوئی کمی نہیں کرپارہی تھی۔۔۔

دل میں شام کی تا ابد وفا کا اطمینان بھی مچل رہا تھا۔۔۔۔

جبکہ اسکے برعکس اندر کہیں دبا ضمیر اسے زنا جیسے گناہ عظیم کا احساس دلانے کی ناکام کوششیں کررہا تھا جسے محض محبت میں بہک جانے کا عام سا جواز بناتا دل و دماغ اس حقیقت سے مسلسل انکاری تھا۔۔۔

معاً سماعتوں سے ٹکراتی موذن کی بآواز بلند اذان پر حرمین کی محویت ٹوٹی تو اسنے چونک کر کھلی کھڑکی کی طرف نگاہیں پھیریں جہاں سحری کا وقت دھیرے دھیرے سرکتا جا رہا تھا۔۔۔

یہ غالباً فلاح کی جانب بلاتے موذن کی لبوں سے نکلتی فجر کی پہلی پہلی اذان تھی۔

تبھی پلنگ کے دوسری سائیڈ کسمساتی ہوئی حاویہ نے حرمین کی جانب کروٹ بدلنا چاہی تو۔۔۔

اسکے اٹھ جانے کے احساس سے بے اختیار انگلیوں تلے آنکھوں کے ساتھ ساتھ بھیگے رخساروں کو رگڑ کر صاف کرتی وہ اپنی سائیڈ سے نیچے اترگئی۔

آنکھوں کے سوجے کناروں کا ن

اپنی غلط فہمی پر سر جھٹکتے ہوئے اسنے بےاختیار جمائی روکی پھر حرمین کی تلاش میں اطراف میں نگاہیں دوڑائے بغیر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔۔۔

کیونکہ واشروم سے گرتے پانی کی آواز اسے اپنی بہن کی موجودگی کا ثبوت دے چکی تھی۔

**وہ ہاٹ شاور لے کر واشروم سے باہر نکلا تھا اور اب بنا شرٹ کے ڈریسنگ مرر کے سامنے کھڑا خود کا نکھرا نکھرا سا عکس بغور دیکھتے ہوئے گیلے بالوں میں ہاتھ چلارہا تھا۔

کسرتی جسم سے پانی کی بوندیں ہنوز پھسل رہی تھیں۔ 

صبح کے گیارہ بجنے کو آئے تھے مگر اپنے فلیٹ میں اسکی اب تک موجودگی اس بات کا واضح ثبوت تھی کہ آج وہ اپنے سست موڈ کے باعث جانتے بوجھتے آفس سے لیٹ ہوا تھا۔

اگلے ہی پل کندھے پر دھرے ٹاول کو کھینچ کر اتارتے ہوئے اس نے خود کا کسرتی سینہ پونچھا۔

آبرو واپس آگئی تھی اس بات کا اسے دلی سکون ہوا تھا البتہ دماغ آنے والے دنوں میں اسے نئی سنگینیوں کا احساس دلانے کی منصوبہ بندیوں سے فی الوقت محروم تھا۔

دھیرے سے مسکراتا وہ مزید گہری سوچوں میں اتر جانا چاہتا تھا مگر ڈریسنگ پر پرفیومز کی شیشیوں  کے پہلو دھرے موبائل فون نے یکدم بجتے ہوئے اسے اس بات کی قطعی اجازت نہیں دی تھی۔

اگلے ہی پل شاہ نے چونک کر ٹاول سائیڈ پر رکھتے ہوئے موبائل فون ہاتھ میں پکڑا۔پھر لب بھینچتا چند لمحے یونہی اسکرین کو گھورتا رہا۔

بجتے ہوئے موبائل فون کی چیخ و پکار میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔

 گہرا سانس بھرتے ہوئے شاہ نے کال بند ہونے سے پہلے ہی ریسیو کرتے  موبائل فون کو کان سے لگایا۔

”اسلام علیکم ڈیڈ۔۔۔۔۔“ 

 ایک عرصے کے بعد ان سے محو گفتگو ہو تے ہوئے اسکا لہجہ بےتاثر تھا۔۔۔

لیکن اسکے برعکس دل کی دھڑکنوں میں بے چینی سی مچ گئی تھی۔

”وعلیکم اسلام برخوردار۔۔۔

کیسے حال ہیں تمھارے۔۔۔۔؟؟؟“  

دوسری طرف سے حسن صاحب نے اپنی آواز کو ڈگمگانے سے بمشکل روکا۔

شاہ کی آواز انکے اندر ایک اطمینان سا بھرنے لگی تھی۔

مقابل کے یوں حال احوال پوچھنے پر ایک تمسخرانہ مسکراہٹ نے تیزی سے اسکے لبوں کو چھوا۔

”ہونہہ۔۔میرا حال پوچھ رہے ڈیڈ۔۔؟؟

یاں پھر اپنے بزنس کا۔۔۔۔؟؟؟

چلیں میں آپ کو بتائے دیتا ہوں کہ آپکا بزنس میرے ہاتھوں میں کافی پھل پھول رہا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب وہ کراچی میں موجود اپنی پہلی برانچ جتنی ہی حیثیت اختیار کرلے گا۔۔۔۔“

  ایک نظر آئینے میں خود کا ضبط سے سرخ پڑتا چہرہ دیکھتا جانے کیوں وہ خود کو گہرا طنز کرنے سے باز  نہیں رکھ پایا تھا۔۔۔

جبکہ اسکے تفصیلی جواب پر حسن صاحب کی مسکراہٹ سمٹ کر سنجیدگی میں ڈھلی۔

”ایک باپ کو اُسکی اولاد سے بڑھ کر کبھی بھی کسی بزنس کی چاہ نہیں ہوسکتی۔۔۔

اور مجھے ان مادی چیزوں سے کہیں ذیادہ تمھاری پرواہ ہے۔۔۔۔“  

اپنے بیٹے کو ہنوز سابقہ نظریات پر قائم دیکھ کر انھوں نے اپنی صفائی دینا ضروری سمجھا تھا۔

ورنہ بات بات پر صفائیاں پیش کرنا ان کی طبیعت میں بھلا کہاں شامل تھا۔۔۔

”پر افسوس کہ میں اُس باپ کا بیٹا ہرگز نہیں ہوں جو مادی چیزوں سے ہٹ کر حقیقتاً اپنی اولاد کی چاہ کرتے ہیں۔۔۔۔“

  دو بدو جواب دیتا وہ خود کے ساتھ ساتھ انھیں بھی سخت اذیت سے دوچارگیا تو حسن صاحب کی پیشانی پر بےساختہ بل پڑتے چلے گئے۔

”لعنت ہے تمھاری ایسی بےتکی سوچ پر۔۔۔۔

مجھے لگا تھا کہ وقت اور حالات تمھیں بدل دیں گے۔۔۔

 مگر یہ وہم پالتے وقت میں یہ بھول بیٹھا تھا کہ فطرت کبھی نہیں بدل سکتی۔۔۔۔“ 

 پل میں بپھڑتے وہ اپنا ازلی غصہ دبا نہیں پائے تھے جب اسپیکر سے ابھرتی تلخ آواز پر شاہ پل بھرکو تھما۔

آنکھوں میں اتری سرخائی مزید گہری ہوئی تھی۔

”میں بدل چکا ہوں ڈیڈ۔۔۔

آپکی سوچ سے بہت ذیادہ بدل چکا ہوں۔۔۔

لیکن اگر اس وقت آپ اپنے اصولوں کے خلاف جاکر میرے لیے بدل جاتے۔۔تو آج میں یہاں تن تنہا اپنی بےمقصد زندگی نہ گزار رہا ہوتا۔۔۔

اپنے خونی رشتوں سے کوسوں دور ہرگز نہ ہوتا۔۔۔

پر آپ نے۔۔۔؟؟

آ۔۔آپ کبھی نہیں بدل سکتے ڈیڈ۔۔۔

کبھی بھی نہیں۔۔۔۔“ 

بےچینی سے بالوں میں ہاتھ چلاتے ہوئے۔۔۔اپنے لہجے کو بھیگنے سے روکنے کی ناکام کوشش کرتا وہ اگلے ہی پل کال کاٹ چکا تھا۔

دوسری طرف چیخ چیخ کر شکوے کرتے ان لفظوں نے حسن صاحب کے دل پر جیسے آریاں چلا دی تھیں۔

اپنے موبائل کی شفاف اسکرین کو وہ کتنے ہی پل خالی خالی نظروں سے دیکھتے رہ گئے تھے۔

شاہ موبائل فون کو ڈریسنگ ٹیبل پر تقریباً پٹختا ہوا۔۔۔ویسٹ پر ہاتھ رکھے گہرے گہرے سانس بھرنے لگا۔

اسکا دکھتا دل شدت سے اس وقت کمرے کی توڑ پھوڑ کرنے کو چاہا تھا پر وہ فرش پر خونی نگاہیں جمائے اپنی جگہ ساکت کھڑا رہا۔

معاً سمن مطمئن سی ادھ کھلا دروازہ پورا کھولتی اندر آئی تو کسی کے یوں بے دھڑک کمرے میں چلے آنے پر شاہ نے سر اٹھا کر کچھ حیرت سے آئینے میں بنتے سمن کے خوبصورت وجود کو دیکھا۔

وہ بھی حیرت تلے ذرا سا منہ کھولے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔

شفاف برہنہ پشت پر ٹکتی نگاہوں کو فوری طور پرے ہٹانا جانے کیوں اسکے اختیار سے باہر ہوا تھا۔

 اگلے ہی پل شاہ کی پیشانی پر ناگوار لکیروں کا جال بنتا چلا گیا۔

”سس۔۔سوری سر۔۔۔۔سوسوری۔۔۔۔“ 

 اسے بنا شرٹ کے مشتعل سا اپنی جانب پلٹتا دیکھ وہ معذرت کرتی سرعت سے اپنی آنکھوں پر بازو چڑھا گئی۔

”تم۔۔۔۔؟؟

تم یہاں کیا کررہی ہو۔۔۔۔؟؟؟“

  قدرے پھرتی سے بیڈ کی جانب لپک کر اپنی شرٹ اٹھاتا وہ دبے دبے غصے میں چلایا تھا۔

”و۔۔وہ ایکچولی سر۔۔۔

م۔۔میں آپ سے خان پراجیکٹ کے متعلق کچھ مین پوائنٹس ڈسکس کرنا چاہ رہی تھی تو۔۔۔

سوچا سٹاف کے سامنے پریزنٹیشن دینے سے پہلے ایک بار آپکے پاس۔۔۔“ 

 بازو تلے ہنوز آنکھیں میچے وہ گھگھیائی تو سیکنڈوں میں شرٹ کے بٹن بند کرتا وہ اسکی توقعات جان کر بےاختیار اپنی بھنویں سکیڑ گیا۔

”پوائنٹس۔۔۔؟؟

سریسلی۔۔۔۔؟؟؟

صرف چند معمولی پوائنٹس ڈسکس کرنے کی خاطر تم بنا کسی پرمیشن کے سیدھا میرے بیڈروم میں ہی گھس آئی۔۔۔؟؟“ 

 سارے لحاظ بلائے طاق رکھتا وہ انتہائی حقارت آمیز لہجے میں بول رہا تھا جب خفت سے مزید سرخ پڑتی وہ بےاختیار اپنا بازو آنکھوں سے پرے ہٹاگئی۔

مقابل سے اس قدر عزت افزائی  کی اسے قطعی کوئی امید نہیں تھی سو آنکھوں میں تیزی سے نمی اترنے لگی۔

”ایم رئیلی سوری سر۔۔۔

مجھے ہرگز یہ اندازہ نہیں تھا کہ آپ اس وقت یوں شرٹ لیس۔۔۔“  

ایک نظر اسکے ڈھکے وجود پر ڈالتے ہوئے اسنے بھرائی آواز میں اپنی صفائی پیش کرنا چاہی تھی جب اسکے مقابل آکر رکتا وہ سختی سے اسے ٹوک گیا۔

”لیسن سمن لطیف۔۔۔

کام کرنے کی بھی کچھ لمٹس ہوتی ہیں جنھیں تم جانتے بوجھتے کراس کررہی ہو۔۔۔۔

آفس ورک آفس تک ہی اچھا لگتا ہے۔۔۔

باس کے فلیٹ یاں بیڈروم تک نہیں۔۔۔

یو گیٹ دیٹ۔۔۔؟؟“ 

 انگلی اٹھا کر اسے اسکی بےتکلفیوں کا احساس دلاتا وہ اپنے تلخ رویے پر ہرگز شرمندہ نظر نہیں آرہا تھا۔

نتیجتاً شرمندگی سے اپنا نچلا لب دانتوں تلے کچلتی وہ بمشکل جھکا سر اقرار میں ہلاپائی۔

اس دوران دوسرے ہاتھ میں پکڑی فائل پر اسکی گرفت شدتِ ضبط سے مزید سخت ہوئی تھی۔

”بڑی معذرت خواہ ہوں آپ سے جو بنا اطلاع دئیے غلط وقت پر یہاں آگئی۔۔

اورپھرآپکا پرسنل ٹائم بھی بلاوجہ ہی برباد کردیا میں نے۔۔۔۔

اپنی سفارشات آپکے پاس لانے کی بجائے مجھے میرے کام خود تک ہی محدود رکھنے چاہیے تھے۔۔۔

آ۔۔آئی تھنک آئی شوڈ لیو ناؤ۔۔۔۔“  

اسکے پتھریلے لہجے کو ہضم کرنے کی ناکام کوشش میں وہ زور زور  سے پلکیں جھپکاتی اپنے آنسو رخساروں پر بہنے سے روک نہیں پائی تھی۔

شاہ نے بےاختیار انگوٹھے اور شہادت کی انگلی تلے اپنی آنکھیں مسلتے خود کو ریلکس کرناچاہا۔

اسکا دماغ اس پل سائیں سائیں کررہا تھا۔

ایک بھرپور شکوہ کناں نگاہ اس پر ڈالتی سمن۔۔۔بےدردی سے اپنے گال رگڑ کر صاف کرتی وہاں سے جانے کو پلٹی جب شاہ بےساختہ پیچھے سے اسے روک گیا۔

”ایک سیکنڈ رکیں مس سمن۔۔۔۔

خالدہ۔۔۔۔خالدہ۔۔۔۔“  

وہ جو اس خوش فہمی میں تیزی سے شاہ کی جانب مڑی تھی کہ شاید شاہ اس سے براہِ راست معذرت کرلے مگر اگلے ہی پل اسکے لبوں سے کسی پرائی عورت کا نام نکلتا دیکھ اسکی آنکھوں کی چمک بجھ سی گئی۔

”جی صاحب۔۔۔۔۔“

   کچن سے نکل کر جلدی سے وہاں آتی خالدہ نے عادتاً سر پر پڑی چادر بےوجہ ہی ٹھیک کی تو سمن نے کچھ حیرت سے اس پنتالیس پچاس سالہ عورت کو دیکھا جو شکل سے ہی گھر کی خدمت گاروں میں سے لگ رہی تھی۔

”میڈم کو ڈرائنگ روم میں بیٹھاؤ اور ان کو چائے کافی پلائے بغیریہاں سے مت بھیجنا۔۔۔۔

تب تک میں آفس کے لیے تیار ہو لوں۔۔۔۔“  

اپنے لہجے میں کچھ نرمی لاتا وہ سمن کو انجانے میں نئے سرے سے بےعزت کرگیا تو ضبط کا گھونٹ بھرتی وہ بے اختیار اسے ٹوک گئی۔

”نو۔۔۔نو سر۔۔۔۔

آپکو میرے لیے اتنا تکلف کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔۔۔ایکچولی مجھے ارجنٹلی پوائنٹس بھی کلئیر کروانے ہیں۔۔۔

سو پھرکبھی سہی۔۔۔“  

مشکلوں سے اپنا آپ قابو رکھتی وہ مسکاتی آواز میں بولی۔۔۔

ورنہ دل تو چیخ چیخ کر اسکی بے رخی پر گریبان سے پکڑ کے شکوے کرنے کو مچل رہا تھا۔

کل کا نرم میٹھا لہجہ رکھنے والا شخص آج اتنا کڑوا کسیلا کیونکر ہوگیا تھا۔۔۔؟؟

یہ سب سمجھنے سے اسکا ماؤف ہوتا دماغ فی الوقت قاصر تھا۔

شاہ نے اسکے عجلت بھرے انکار پر بے اختیار بھنویں اچکا کر اسکا پھیکا چہرہ دیکھا۔

”میں گھر آئے گیسٹ کی مہمان نوازی کیے بغیر اُنھیں رخصت کرنے کا عادی نہیں ہوں۔۔۔

سو پلیز چائے کافی پی کے جائیے گا۔۔۔ہہمم۔۔۔۔“ 

 بےتاثر لہجے میں بولتا وہ وہاں مزید نہیں رکا تھا جبکہ اپنے منہ پر دروازہ زور سے بند ہوتا دیکھ سمن کی نگاہوں میں ضبط کی گہری لالی بکھرتی چلی گئی۔

”میڈم جی۔۔۔

آپ آئیں میرے ساتھ۔۔

 میں آپکو ڈرائنگ روم میں لے چلتی ہوں۔۔۔اور ساتھ میں مجھے یہ بھی بتا دیجیے گا کہ آپ چائے پیے گی یاں کافی۔۔۔؟؟؟“ 

 اسے بلاوجہ دروازے کو گھورتا دیکھ خالدہ نے نرمی سے سمن کا دھیان اپنی طرف سمیٹنا چاہا تو چونک کر اسکی جانب دیکھتی اگلے ہی پل وہ  غصے سے اپنی مٹھیاں بھینچ گئی۔

”جسٹ شٹ اپ۔۔۔۔“ 

 دبی آواز میں اس پر غراتی وہ دوسرے ہی لمحے پیر پٹختی ہوئی وہاں سے نکلتی چلی گئی۔

”ہائیں۔۔۔

یہ کیا بلا تھی۔۔۔۔؟؟؟“  

پیچھے خالدہ اسکے غیرمتوقع رویے پر جی بھر کے حیران ہوتی بے اختیار انگلی دانتوں تلے دباگئی۔۔۔

پھر اس پر جلدی جلدی سے دو حرف بھیجتی شاہ کا ناشتہ بنانے واپس کچن کی جانب لپکی جو وہ اپنے صاحب کے بلانے کی وجہ سے اپنے پیچھے ادھورا ہی چھوڑ آئی تھی۔۔۔۔

**********************

”بھائی کتنے پیسے ہوگئے ان سب کے۔۔۔؟؟؟“ 

 وہ کالج سے واپسی پر گھر لوٹنے کی بجائے سیدھا بک شاپ چلی آئی تھی اور اب کاؤنٹر کے آخری  سرے پر دھری اپنی مطلوبہ چیزوں کو اطمینان سے سمیٹتی ان کی قیمت پوچھ رہی تھی۔

”ویسے تو  کُل ملاکر ایک ہزار روپے بنتے ہیں لیکن تمھیں رعایت دے رہا ہوں اس لیے ان سب  کا نو سو دے دو۔۔۔۔۔“

  عمیر نامی دکاندار کیلکولیٹر پرکیے گئے حساب کتاب کو کلئیر کرتے ہوئے نرمی سے بولا تو حاویہ اثبات میں سرہلاتی اگلے ہی پل کندھے سے اپنا کالج بیگ اتارتی کاؤنٹر پر رکھ گئی۔۔۔

نیناں کی غیرموجودگی کے سبب اسکے حصے کے بھی ٹپس لیتے ہوئے اسے ایک بیزاری سی تھی۔

معاً کوئی پھرتی سے بک شاپ کے کھلے دروازے سے اندر داخل ہوا تھا۔۔۔

مگر بیگ کے اندر کی جیبیں ٹٹول کر پیسے نکالتی حاویہ نے خود سے الجھتے ہوئے وہاں آنے والے شخص پر پلٹ کر ایک سرسری نگاہ ڈالنا بھی گوارا نہیں کیا تھا۔

”او خیراں۔۔۔

آج یہاں کا رستہ کیسے بھول گئے جناب۔۔۔؟؟؟“ 

 عمیر اپنے دوست کو یوں اچانک اپنی دکان پر دیکھ کر خوشگوار حیرت سے گویا ہوا تو جواباً شہادت کی انگلی لبوں پر ٹکاتا وہ اسے چونکا گیا۔

”بھائی یہ پیسے۔۔۔۔“ 

 گن کے رقم پوری کرتی وہ کاؤنٹر کے پیچھے الجھے کھڑے عمیر کے سامنے رکھ گئی۔پھر مختلف کتابوں کے ٹپس بیگ میں ٹھونس کر اسے واپس کندھے پر چڑھاتی جونہی پلٹی۔۔۔

تو اپنے مقابل بختی کو کھڑا دیکھ حاویہ کا دل دھک سے رہ گیا۔

”ب۔۔بختی بھائی۔۔آ۔۔آپ۔۔۔؟؟؟“  

بےیقینی تلے آنکھیں پھیلائے کچھ اٹک کر بولتی وہ اس پل اُس سے سامنا کرنے کی قطعی کوئی توقع نہیں کررہی تھی۔

”کیا ہوا باربی ڈول۔۔۔۔؟؟؟

ڈر گئیں مجھے دیکھ کر۔۔۔۔؟؟؟“  

قدرے دلچسپی سے اسکی اڑی اڑی رنگت دیکھتا وہ حظ اٹھانے والے انداز میں بولا تو حاویہ کے وجود میں بےچینی سی بھرتی چلی گئی۔

 اُسکی نزدیکی سمیت لب و لہجے سے گھبراتی وہ اگلے ہی پل قدرے پھرتی سے اسکی سائیڈ سے نکلی تھی کہ تبھی۔۔۔

بختی ایک ہی جست میں اسے بازو سے دبوچ کر اپنی جانب گھوماتا بری طرح بوکھلانے پر مجبور کرگیا۔

اس دوران عمیر حق دق سا اپنے یار کی کاروائیاں خاموشی سے دیکھ رہا تھا۔

”کیا بدتمیزی ہے یہ چھوڑیں مجھے۔۔۔۔

بھائی انھیں روکے پلیز۔۔۔۔“ 

 اپنا بازو چھڑوانے کی ناکام کوشش کرتی وہ بےاختیار عمیر سے مدد کی درخواست کرگئی تو بختی اسکی مزاحمت روکنے کو ایک زور کا جھٹکا دیتا۔۔۔

اسکی توجہ واپس اپنی جانب کر گیا۔

ایسے میں کندھے سے ڈھلکتے بیگ کی پوزیشن وہ بمشکل درست کرپائی تھی۔

”اس سے مدد کی اپیل کرنا بےکار ہے جانم۔۔۔

کیونکہ وہ میرا جگری یار ہے  اسی لیے میرے خلاف اففف تک نہیں کرے گا۔۔۔۔“

  حاویہ پر کھل کر انکشاف  کرتا وہ ایک غرور سے بولا۔

جواباً حاویہ نے نم ہوتی آنکھوں میں تاسف اور غصہ کے ملے جلے جذبات لیے اسکی جانب دیکھا۔

عمیر ہنوز بےحس کھڑا اسکے لفظوں کو پورا پانی دے رہا تھا۔

”کیا لگا تھا۔۔۔؟؟

تمھاری ماں اور بہن کی حفاظتی تدابیر کے بعد سے میرے لیے تم تک رسائی چاند جتنی مشکل ہوجائےگی۔۔۔؟؟

ہیں۔۔۔؟؟“  

اپنی بات کو اُسکی سوچوں کا رنگ دیتا وہ تمسخرانہ گویا ہوا۔

پھرنفی میں سر ہلاتا بے اختیار ایک قدم کا فاصلہ مٹاگیا تو وہ بھی کچھ سہم کر تھوڑا پیچھے ہوئی۔

”جانتی ہو تمھارا مسئلہ کیا ہے۔۔۔؟؟؟

تم میری ذات کو ہر بار ہلکا لینے کی بےوقوفی کرجاتی ہو۔۔۔

اور اس بار تو تم نے میرے حوالے سے لاپرواہی کی سب سے آخری حدوں کو جا چھوا ہے جانم۔۔۔۔“ 

 اس پر اپنی برتری جتاتا وہ مزید بولا تھا جب پورا زور لگا کر اپنا دکھتا بازو اسکی سخت گرفت سے چھڑواتی۔۔۔وہ اسے خود سے پرے دھکیل گئی۔

”تم جیسوں کی ذات کو میں ہلکا اس لیے لیتی ہوں کیونکہ مجھے میرے خدا پر بھروسہ ہے۔۔۔

میری ماں بہن نہ سہی پر تم جیسے شیطان صفت بندے سے وہ بلند ذات میری حفاظت ضرورکرے گی۔۔۔“

  بپھڑ کر بولتی وہ اپنے رد عمل سے مقابل کو حیران کرگئی تھی۔

بظاہرمضبوط بننے کی کامیاب کوشش میں اسکے لرزتے وجود پر ایک بھرپور نگاہ ڈالتا وہ اگلے ہی پل ڈھیٹ پن سے مسکرایا۔

”اففف۔۔۔

میری غیرموجودگی میں تم نے خود کے حوصلے اس قدر بلند کر لیے باربی ڈول۔۔۔؟؟

کیا بات ہے۔۔۔

مگرشایدتم یہ بھول رہی ہوکہ میرا محض ایک جذباتی قدم اٹھانے کی دیر ہے۔۔۔نتیجتاً تمھارے یہ سارے اسلامی فلسفے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔۔۔“

 قریب آکر سفاکیت سے بولتا وہ اس بار اسکی کلائی دبوچ گیا تو مقابل کی بےجا جرات پر دو آنسو ٹوٹ کر اسکے رخساروں پر پھسلے۔ 

”اب بس کردے بختی۔۔۔

اتنا جذباتی مت ہو لڑکی کے ساتھ۔۔۔

مت بھول کہ تو اس وقت میری دکان پر کھڑا ہے۔۔۔

یہاں کبھی بھی کوئی بھی گاہک بنا اجازت اندر آسکتا ہے یار۔۔۔“  عمیر جسکی ایک نظر اندر تھی اور ایک باہرکو۔۔۔

اپنے یار کی منمانیوں پر ملتجی ہوا۔

 ”اگر تم نے میرے ساتھ کچھ بھی غلط کرنے کی کوشش کی تو میں یہی پر شور مچا کر سب کو اکٹھا کرلوں گی۔۔۔

 چھوڑو میرا ہاتھ۔۔۔ “

  جواباً چیختی وہ بنا کوئی لحاظ رکھے اپنی آواز حددرجہ بلند کرگئی تو عمیر سمیت بختی بھی پل بھرکو گڑبڑا گئے۔

”اےےے۔۔۔

ذیادہ واویلا مچانے کی ضرورت نہیں ہے تمھیں سو اپنی آواز نیچی رکھو اور میری بات دھیان سے سنو۔۔۔۔“

  دبی آواز میں غراتا بختی اتنی چھیڑ چھاڑ کرنے کے بعد اب اصل مدعے کی جانب آیا تھا۔

کلائی ہنوز اسکی سخت گرفت میں تھی۔

حاویہ نے شدتِ بےبسی سے اپنے لب بھینچتے۔۔۔مقابل کے تنے ہوئے نقوش دیکھے۔

”کل میں بڑی باجی کے ہمراہ تمھاری ماں کی طرف آؤں گا تمھارا ہاتھ مانگنے کے لیے۔۔۔

سو بہتری اسی میں ہے کہ اس رشتے کے لیے اپنے گھروالوں کو پہلے سے ہی رضامند کرلو۔۔۔

ورنہ انکار کی صورت جو ذلت تم لوگوں کو میرے ہاتھوں اٹھانا پڑے گی ناں۔۔۔

اسکا سوچ کر ہی تم سب کے رونگٹھے کھڑے ہوجائیں گے۔۔۔سمجھی۔۔۔۔“ 

 دھمکی آمیز لہجے میں بول کر حاویہ کے سانس خشک کرتے ہوئے جہاں اس نے ایک جھٹکے سے اسکی کلائی چھوڑی تھی وہیں ایک لڑکی اپنے بھائی کے ہمراہ بے دھڑک دکان کے اندر داخل ہوئی۔

حاویہ جلدی سے اپنا آپ سنبھالتی ہوئی تقریباً بھاگ کر وہاں سے نکلی تو عمیر نے منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بے اختیار بختی کو ایک شاندار گھوری سے نوازا۔

جواب میں اسکی جانب آنکھ دباکر کمینی مسکراہٹ اچھالتا وہ بھی وہاں مزید نہیں رکا تھا۔۔۔

جبکہ عمیر اسے نظروں سے اوجھل ہوتا دیکھ  اب کہ نئے گاہکوں کی طرف متوجہ ہوچکا تھا۔

***********************

”اس  کا  خرام  دیکھ کے جایا  نہ جائے گا

  اے کبک پھر بحال بھی آیا نہ جائے گا

  اسکا خرام دیکھ کے۔۔۔۔۔“

ادھ ڈھکے حسین مکھڑے سے ہاتھ پرے ہٹاتی وہ موسیقی کے رواں لفظوں پر اپنے بہت سے چاہنے والوں کو رجھاتی چلی گئی تھی۔

گہرے گلے کا نارنجی فراک پہنے وہ حسب ضرورت زیورات سے سجی دھجی ہمیشہ کی طرح اپنے اندر مردوں کو بہکا دینے کی صلاحیت لیے ہوئے تھی۔

بچی کھچی کثر آج دوپٹے سے محروم  کھلے بالوں نے پوری کردی تھی۔

ذرا دور بیٹھ کر رقص سے لطف اندوز ہوتی تابین بائی سمیت سب کی سراہتی نظریں رابی پر ہی ٹکی تھیں۔

آج رات کی اس رنگین محفل کا خاص مہمان پینتیس چالیس کی عمر کے بیچ جھولتا سیٹھ تیمور تھا جسکی آنکھوں میں لہکتا وجود دیکھ کر الگ سے خمار اترتا جارہا تھا۔

”ہم   راہروان  ِ  راہ   فنا   ہیں  برنگ ِ  عمر

  جاویں گے ایسے کھوج بھی پایا نہ جائے گا

  اسکا خرام دیکھ کے۔۔۔۔۔“ 

  نشیلے لفظوں پر اپنے وجود کو بھرپور ادا سے حرکت دیتے اب کہ اسکی سست اداؤں میں تواتر سے بجتے طبلوں پر پھرتی آئی تھی۔

تبھی ایک مرد نے بیٹھے بیٹھے ہی اس پر کئی نوٹ اچھالے۔

تابین بائی کی نگاہ کے اشارے سے پہلے ہی دو لڑکیاں دھیمے دھیمے رقص کرتی پیسے اٹھانے کو آگے بڑھیں۔

ایسے میں چند ایک عیاش پسند مردوں کا دھیان بھٹک کر انکی جانب بھی لپکا تھا۔

ایسے میں ہال کے بیچ و بیچ سرخ رنگ دبیز قالین پر گھومتی رابی کا رقص مزید تیز ہوتا بہت سوں کی دھڑکنیں تیز کرگیا۔

”یہ اسود صاحب کیوں نہیں آئے آج کی اس محفلِ خاص میں۔۔۔؟؟

ہمیں تو بتارہے تھے کہ بچوں سمیت بیوی کو اسکے میکے چھوڑتے ہی سیدھا یہاں چلے آئیں گے۔۔۔“ 

معاً کسی مرد کی بآواز بلند ہانک رابی کی سماعتوں سے ٹکرائی۔۔

کبھی دھیما تو کبھی تیز ہوتا رقص ہنوز جاری تھا۔

”آپ کو علم نہیں جناب پر بیوی بچوں کو میکے چھوڑنا ہی تو اسود صاحب کی عیاشیوں پر بھاری پڑ گیا۔۔۔“ 

 دو آدمی چھوڑ کر تیسری نشست سنبھالے اس شخص کی آواز اس قدر تیز ضرور تھی کہ پاس ہی لہکتی جھومتی رابی کی سماعتوں کو بآسانی چھوسکتی۔

”مطلب۔۔۔۔؟؟؟“  وہ الجھا۔

”آج سالار خان کا نکاح تھا۔۔۔

سو بیوی بچوں کی غیر موجودگی میں انھیں خان برادری سے راہ و رسم بڑھانے کی خاطر مجبوراً خود ہی اُس نیک ستھری محفل میں شرکت کرنا پڑی۔۔۔

ورنہ اسود صاحب یہ بدنام محفل چھوڑجانے والوں میں سے تو ہرگز نہیں ہیں۔۔۔“  تفصیل بتانے والے کا سادہ لہجہ خود میں تمسخر سمیٹے ہوئے تھا۔۔۔

مگر لفظوں کی گہرائی رقص کرتی رابی کے دل میں اس قدر شدت سے چبھی تھی کہ چہرے کے مقابل۔۔۔

بل کھاتے ہاتھوں کی حرکت  بےاختیار دھیمی پڑتی رکی۔

”مجھ سے شادی کرلو رابی۔۔۔۔

میں وعدہ کرتا ہوں تمھیں ہرخوشی دوں گا۔۔۔

دل و جان سے بھی ذیادہ عزیز رکھوں گا۔۔۔

تمھارا ہر گلہ شکوہ مٹا دوں گا۔۔۔۔

بس میرے عشق کو کامل کردو۔۔۔۔

مجھ سے ایک پاکیزہ بندھن میں بندھ کر میرے وجود کو کامل کردو۔۔۔بخدا میری ذات پہ کیاگیا تمھارا یہ احسان میں نہیں بھولوں گا۔۔۔۔“  

بے اختیار اسکی سماعتوں میں زہر کی مانند گھلتی سالار خان کی تڑپتی آواز نے اس کے حسین چہرے کی رنگت پل میں بدلی تھی۔

”تمھارے بغیر جینے کا تصور کرنا میرے لیے خود کی سانسیں روک لینے کے مترادف ہے۔۔۔۔

 میں مرجاؤں گا یار۔۔۔۔اور تم یہ بات اچھے سے جانتی ہو۔۔۔۔۔“  

 بےبسی کے بوجھ تلے کیسے وہ اُسکے سامنے گھٹنوں کے بل گرتا چلا گیا تھا۔

گزرے وقت کی یادیں رابی کے حواسوں پر شدت سے سوار ہوتیں اسے سریلی دھنوں سے بےبہرہ کرتی چلی گئیں۔۔۔

”آج سالار خان کا نکاح تھا۔۔۔۔“

  پھر سے لفظوں کی ہوتی باز گشت پر اس کی آنکھیں بہت تیزی سے نم ہوئی تھیں جنھیں پلکیں جھپک جھپک کر اندر اتارنے  کی کوشش میں ہلکان ہوتے اسنے اپنا سرجھٹکا۔

بارہا  موسیقی کے رواں لفظوں کے مطابق اس نے باقاعدہ  خود کا وجود ڈھالنا چاہا تو اسکی ناکام کوششیں سب تماشائیوں کی توجہ اپنی جانب شدت سے کھینچ گئیں۔

”کیا ہوگیا ہے تمھیں میری معصوم کلی۔۔طبیعت تو ٹھیک ہے ناں  تمھاری۔۔۔؟؟“  

اسکے اچانک رک جانے پر تابین بائی بے چین سی تیمور سیٹھ کے پاس سے اٹھتی تیزی سے اسکی جانب لپکیں تو اسنے چونک کر انھیں اپنے قریب آتے دیکھا۔پھر چاروں اطراف نگاہ دوڑائی۔

سب حیرت تو کچھ تفکر گھلی نگاہوں سے بغور اسے ہی دیکھ رہے تھے۔

اس دوران میٹھے سُر اپنے اختتام کو پہنچتے خاموشی اختیار کرچکے تھے لیکن لبوں سے پھوٹتی چہ مگوئیاں بے آواز نہیں رہی تھیں۔

جام کے گلاس کو سائیڈ پر رکھتے ہوئے اب کہ سیٹھ تیمور کا خمار بھی مدھم پڑنے لگا تھا۔

”زندگی میں پہلی بار تم ناچنا بھول گئی ہو رابی ورنہ تو تمھارے انگ انگ سے پھوٹتے رقص نے مداحوں کے سامنے یہ ہاتھ پیر کبھی رکنے ہی نہیں دئیے۔۔۔۔

آخر یہ۔۔۔یہ نوبت کس سبب سے آئی ہے۔۔۔؟؟؟“ 

 نرمی سے اسکے ہاتھ تھام کر۔۔۔ پریشان سی سب سے نگاہیں چراتی وہ دبی آواز میں گویا ہوئیں۔

کوٹھے کی لڑکیاں بھی حق دق سی بدمزہ ہوتی محفل کا تماشہ دیکھ رہی تھیں۔

”وفا کے عہد و پیماں کرنے والا شخص اگر اپنے ہی لفظوں سے بےوفائی کرجائے تو فقط چند پلوں کے لیے رقص بھول جانے میں کوئی قباحت نہیں ہے بی بی جان۔۔۔“

  حقیقت کو دبے لفظوں میں بیان کرتی وہ اگلے ہی پل نئی موسیقی شروع کرنے کا اشارہ کرچکی تھی۔۔۔

جبکہ تابین بائی اسکے الجھا دینے والے انداز سے مزید پریشان ہوتیں موقع کی مناسبت سے مجبوراً وہاں سے ہٹ گئیں۔

”سحر گہِ  عید  میں  دورِ  سبو   تھا

  پر اپنے  جام  میں تجھ بن لہو تھا۔۔۔۔“

جہاں ایک بار پھر سے نئی موسیقی پر رابی کا دل دھڑکاتا ناچ شروع ہوا تھا وہیں سیٹھ تیمور سیمت سب کے سمٹے لبوں پر دوبارہ سے شوخ مسکراہٹیں بکھر گئیں۔

وہ بڑی تیزی سے اپنا آپ سنبھال گئی تھی۔۔۔۔

لیکن سینے میں دھڑکتی دھڑکنیں ہنوز بے قرار تھیں۔

حقیقتاً اسے سالار خان سے کوئی عشق نہیں تھی۔۔۔

مگر اس شخص کی حددرجہ دیوانگی کے آگے جھکے دل میں تڑپ ضرورتھی۔۔۔۔

اور یہی تڑپ اسکے رگ و پے میں پھیلتی اسکا رقص مزید پھرتیلا کرتی چلی گئی۔

*******************

ہائے حرمین۔۔۔یہ کیا ہے۔۔۔؟؟؟“ 

 پیریڈ فری ہونے کے باوجود بھی وہ دونوں اس وقت خالی کلاس میں بیٹھی تھیں۔۔جب حرمین کے بیگ سے اپنے دھیان میں نوٹس نکالتی علیزہ خود کو چیخنے سے باز نہیں رکھ پائی تھی۔

باز رکھتی بھی کیسے۔۔؟؟

نوٹس کی جگہ چمکتا دمکتا تھری لئیرڈ نیکلس جو ہاتھ لگا تھا۔

”کک۔۔کیا ہوا۔۔۔؟؟؟“  

دبی چیخ پر گڑبڑا کر چئیر سے ٹیک ہٹاتی حرمین نے کچھ حیرت سے اسکی جانب دیکھتے پوچھا۔

اگلے ہی پل علیزہ نے بلا جھجک نیکلس بیگ سے نکال کر حیرت سے اسکے سامنے کیا تو اس بارحرمین کو بھی شدت کا جھٹکا لگا۔

”یہ اتنا بیش قیمتی نیکلس تمھارے بیگ میں کیا کررہا ہے یار۔۔۔؟؟؟

ہائے دیکھو تو کس قدر خوبصورت ہے۔۔۔۔“ 

 اناری نگوں پر بےتابانہ انگلیاں پھیرتی وہ اسکی چمک دمک اور ڈیزائن سے دلی متاثر نظر آرہی تھی جبکہ حرمین تو ان گزرتے دنوں میں ذہنی پریشانی  کے سبب اس تحفے کے بارے میں تقریباً بھول ہی بیٹھی تھی جس کی بدولت اس پچھتاوا کن رات کی اصل شروعات ہوئی تھی۔

”ی۔۔یہ۔۔۔۔۔؟؟؟“

  نیکلس کو خالی خالی نظروں سے تکتے ہوئے ذہن پر زور ڈالنے کے باوجود بھی اسے یاد نہیں پڑرہا تھا کہ کب اسنے اس نیکلس کو حفاظت سے اپنے بیگ میں رکھا تھا۔

گو اس رات شام نے بڑی محبت سے اسکی گردن سے نیکلس نکال کر الگ سے سائیڈ پر رکھا تھا تو کیا بعد میں پھر اسی نے۔۔۔۔۔

تیز ہوتی دھڑکنوں سمیت وہ مزید سوچوں کی گہرائی میں اترجانا چاہتی تھی مگر تبھی سماعتوں سے ٹکراتا تیز لہجہ اسے چونکنے پر مجبورکرگیا۔

”اگر آنٹی نے یہ نیکلس تمھاری شادی کے لیے خرید رکھا تھا تو پھر اسے اپنے ساتھ یونیورسٹی لانے کی کیا ضرورت تھی پاگل۔۔۔؟؟؟

گھر پر ہی حفاظت سے سنبھال کر رکھتی ناں۔۔۔

دکھاوے کے چکر میں گم گما گیا تو۔۔۔۔؟؟؟“

  علیزہ سیانی بن کر اسے اسکی کوتاہی کا احساس دلاتی بے اختیارنیکلس کو اپنے گلے سے لگاکر دیکھنے لگی۔

حرمین کے مقابلے میں وہ اسکی سفید گردن پر  خوب چج رہا تھا۔

”یہ ماما کی طرف سے نہیں ہے علیزے۔۔۔

 بلکہ اسے۔۔شام نے مجھے گفٹ کیا ہے۔۔۔۔“ 

 بڑی آہستگی سے بولتی ہوئی وہ علیزہ کے سر پر نیا بم پھوڑ گئی تو اسنے پوری آنکھیں کھول کر اسے پل بھر کو خود سے  نگاہیں چراتے دیکھا۔

”نہ کرو یار۔۔۔

مذاق کر رہی ہو ناں تم میرے ساتھ۔۔۔؟؟؟

مطلب سچ میں شام نے تمھیں یہ۔۔۔

اففف میرے خدایا۔۔۔۔۔“ 

 نیکلس کو گردن سے ہٹاتی وہ بےیقینی تلے دب جانا چاہتی تھی مگر پھر حرمین کے تاثرات دیکھتی مزید دب نہیں پائی تھی۔

”ایسا ہی ہے۔۔۔۔“

  گہرا سانس بھرتی حرمین نے اثبات میں سرہلا کر گویا کھلی تصدیق کردی۔

علیزہ نے ایک بار پھر سے نیکلس کو بغور دیکھا تو بےساختہ آنکھوں میں حسرت سی ابھر آئی۔

بھلا ایسا نایاب تحفہ کون نہیں لینا چاہے گا۔۔۔

اگر وہ شام کا نام لے رہی تھی تو یقیناً وہ امیرزادہ اتنا قیمتی تحفہ اپنے کسی چاہنے والے کو بآسانی دینے کی صلاحیت رکھتا تھا۔

”وہ سچ میں بہت بدل گیا ہے حرمین۔۔۔۔“ 

 نیکلس کو پل بھر کے لیے مٹھی میں دبا کر واپس بیگ میں رکھتی وہ سنجیدگی سے بولی۔

”کون۔۔۔؟؟؟“ 

 حرمین نے ناسمجھی سے اسکی جانب دیکھا جس کے چہرے کا رنگ جانے کیوں پہلے کی بانسبت بدل سا گیا تھا۔

”تمھارا شام۔۔۔

اور کون۔۔۔“ 

 زبردستی مسکراہٹ لبوں پر لاتی وہ اسے مزید الجھا گئی۔

”اورتمھیں کیسے پتا چلا کہ وہ بدل گیا ہے۔۔۔۔؟؟؟“

  کچھ حیرت سے پوچھتے ہوئے حرمین کو تھوڑی گھبراہٹ ہوئی۔

کہیں وہ نیکلس کی آدھی ادھوری حقیقت سے آگے کا سچ خود سے تو اخذ نہیں کربیٹھی تھی۔۔۔؟؟؟

ایسا سچ جو وہ خود سے بھی چھپائے ہوئے تھی۔

”لو بھلا اس میں پتا لگنے والی کونسی بات ہے یار۔۔۔؟؟؟

سب کو صاف صاف تو دکھتا ہے وہ لڑکا جو کل کو درجنوں لڑکیوں کے ساتھ گرلفرینڈ کے نام پر عیاشی کا کھلم کھلاکھیل کھیلتا تھا۔۔۔

اب فقط تمھاری ہی ذات میں اٹک کررہ گیا ہے۔۔۔

اور شاید زندگی میں کبھی بھی تمھارے بغیر آگے نہ بڑھے۔۔۔۔“  وہ کندھے اچکا کر بظاہرخوش اخلاقی سے گویا ہوئی تو اسکے ایک ایک لفظ کو سمجھتی حرمین کے دل میں اطمینان سا اترا۔

اس حقیقیت کو تسلیم کرتی جواباً وہ ہولے سے مسکرائی  تھی جب علیزے نے اسکی قابلِ قبول صورت کو غور سے دیکھا۔

اندر کہیں ایک ان دیکھی جلن نے دھیرے سے سر اٹھایا تھا۔

یقیناً وہ لڑکی اس سے کم خوبصورت تھی لیکن نصیب میں۔۔۔

”تمھارے ساتھ نے اُسے سر تا پیر بدل کر رکھ دیا ہے حرمین۔۔۔

مجھے تو کبھی کبھی شک پڑتا ہے جیسے تم نے اُسے کچھ گھول کر پلا دیا ہو۔۔۔

سچ سچ بتانا۔۔۔؟؟؟

کیا واقعی میں ایسا ہے یا فقط تمھاری سادگی اور بھولی صورت کا جادو چل گیا ہے اس پر۔۔۔؟؟؟“  

اسکے قریب جھک کر راز دارانہ لہجے میں پوچھتے ہوئے علیزہ کی نگاہوں میں ناقابل فہم چمک تھی۔

”بکو مت۔۔۔

تم جانتی ہو میں جادو ٹونے پر رتی بھربھی یقین نہیں رکھتی۔۔۔

بس وہ شاندار مرد میری قسمت میں تھا۔۔۔

اس سے ذیادہ کچھ بھی نہیں۔۔۔“  علیزہ کے اس انداز پر بےساختہ اسکے سر پر چپت لگاتی وہ ناچاہتے ہوئے بھی کھل کر مسکرائی تھی۔

”ہاں بھئی۔۔

یہ تو ہے۔۔۔

اب اس جیسے رئیس اور ڈیشنگ بندے کے آگے ذباب یاں ہم جیسے غریب لوگوں کو کہاں نظر آئیں گے تمھیں۔۔۔۔“ 

وہ ہنوز اسے چھیڑ رہی تھی۔

”علیزے اسٹاپ اٹ ناؤ۔۔۔۔۔۔“  

وہ دھیمے تنبیہی لہجے میں بولی تو جواب میں علیزہ نے شدت سے اپنا ماتھا پیٹ لیا۔

”اوہ نو۔۔۔“  

اپنے غیر متوقع رویے پر وہ حرمین کو چونکا گئی تھی۔

”اب کیا ہوا تمھیں۔۔۔؟؟؟“

  اگلے ہی پل اسے عجلت میں اپنے سامنے سے اٹھتا دیکھ اسکا سوال بےساختہ تھا۔

”بھول گئی۔۔۔

مس ناہید نے مجھے اسٹاف روم میں بلایا تھا کسی کام کے سلسلے میں۔۔۔

اور میں یہاں تم سے باتوں میں۔۔۔اففف۔۔۔۔“ 

 جلدی اور کچھ تفکر سے بولتے ساتھ ہی وہ مزید کچھ کہے سنے بنا کلاس سے باہر کی جانب لپکی۔

پیچھے حرمین نے کچھ تاسف سے سر ہلاتے ہوئے پلوں میں اسے نظروں سے اوجھل ہوتے دیکھا۔

پھر اپنے ہاتھ بے اختیار بیگ کی جانب بڑھائے۔

اس بات سے حقیقتاً نا واقف۔۔۔آیا اسکی دوست واقعی مس ناہید کے پاس سٹاف روم تک گئی تھی یاں اپنے اندر کی جلن کو محض اس سے چھپانے کا فقط ایک من گھڑت بہانہ تھا۔۔۔؟؟

********####*********

دن سر پر چڑھ آیا تھا مگر وہ خلاف توقع۔۔۔اپنی من مرضی کے سبب ہنوز گھر پر ہی رکا ہوا تھا۔

صبح سویرے جہاں حسن صاحب کو بزنس کے معاملے میں ایمرجنسی پنڈی شہر جانا پڑا تھا وہیں عائمہ بیگم اپنی پرانی دوست کیطرف سے ملنے والی گیٹ ٹوگیدر پارٹی کے انو یٹیشن کو لے کر۔۔۔ چھوٹی موٹی تیاریوں میں صبح سے ہی پورے گھر میں ہلکان ہوتی پھر رہی تھیں۔۔۔

 ابھی ابھی شام انہی کے پاس سے ہوکر آتا سیدھا عائل کے کمرے کی طرف جارہا تھا جو آج دیر سے پولیس اسٹیشن جانے کا ارادہ بنائے ہوئے ہنوز کمرے میں بند تھا۔

”شام جی۔۔۔۔۔؟؟؟“

  معاً راشدہ پیچھے سے آواز لگاتی شام کو اپنی جانب پلٹنے پر مجبور کرگئی۔

”یہ آپکا فریش فروٹ والا جوس۔۔۔۔“

  مسکرا کر بولتی وہ قریب چلی آئی تو شام نے ایک بھرپور نگاہ اس پر ڈالتے ہوئے سرجھٹکا پھر ٹرے کے بیچ رکھا گلاس اٹھاتا ہوا بنا کچھ کہے وہاں سے پلٹ گیا۔

پیچھے راشدہ نے ایک مصنوعی آہ بھری تھی۔

اسکے سیڑھیوں سے اوجھل ہوتے ہی وہ بھی کچن کی طرف مڑگئی۔

”کہاں چلا گیا یہ۔۔۔۔۔؟؟؟“    

شام کا ابھی کمرے میں قدم پڑا ہی تھا جب عائل کی غصے تلے دبی آواز کے ساتھ ہی ایک کشن تیر کی مانند اڑتا ہوا اسکی طرف آیا۔۔۔

تو بروقت خود کو بچانے کے لیے پھرتی سے ایک طرف کو جھکتا وہ جوس کے گلاس کو دبیز قالین پر گرنے سے بچا نہیں پایا تھا۔

عائل چونک کر اسے دیکھتا ہوا رک گیا پھر ایک نظر قالین میں تیزی سے جذب ہوتے جوس کو دیکھا۔

”بھائی۔۔۔۔؟؟؟

کیا ہے یہ سب۔۔۔؟؟؟“ 

 اسکی حرکت سمیت کمرے کی  بکھری حالت پر چوٹ کرتا وہ کچھ حیرت سے بولا۔۔

ورنہ تو عائل حقیقتاً ایک صفائی پسند انسان تھا اور دل اکتاتے پھیلاوے پر بہت کم ہی کمپرومائز کرتا تھا۔

”تم یہاں۔۔۔۔؟؟؟

یونیورسٹی نہیں گئے۔۔۔؟؟؟“ 

 جواباً خودکو کمپوز کرتے ہوئے عائل نے نرم لہجے میں پوچھا تو شام بھنویں اچکاتا اسکے مقابل آ رکا۔

”جی بالکل۔۔۔دل نہیں تھا آج جانے کا۔۔۔

پر آپ مجھے یہ بتائیے اتنے خراب موڈ کے ساتھ کس چیز کو ڈھونڈ جارہا تھا کہ جس کے نہ ملنے پر مجھ بےچارے کو جوس کا ایک  گلاس تک نصیب نہیں ہوا۔۔۔؟؟؟“

  عائل کے چہرے کے تاثرات جانچنے کی کوشش کرتا وہ آخر میں غیرسنجیدہ ہوا تو عائل کو اپنی سابقہ سرگرمی یاد آتے ہی فکر ہوئی۔

”یار وہ۔۔۔

موبائل۔۔۔میراموبائل فون نہیں مل رہا کہیں۔۔۔

ابھی یہی پر رکھا تھا میں نے۔۔پر پتا نہیں پھر ایکدم سے کہاں چلا گیا۔۔۔؟؟؟

مجھے باسط کو ایک ضروری کال بھی کرنی تھی۔۔۔پر۔۔۔۔“ 

 پلٹ کر پھر سے سائیڈ ٹیبل کے کھلے درازوں میں ہاتھ ڈالتا وہ اپنی بے چینی کا حقیقی جواز اس سے چھپا گیا تھا۔

”ریلکس آفیسر صاحب ریلکس۔۔۔۔

اتنا ہائپر کیوں ہورہے ہیں یار۔۔۔؟؟ 

میں ہوناں ڈھونڈ دیتا ہوں آپکا موبائل فون۔۔۔“  

عائل کو تندہی سے چیزیں کھنگالتا دیکھ شام اسے تسلی دیتا ہوا بیڈ کے دوسری طرف ہوا تھا۔

”یہ۔۔۔

یہ دیکھیں۔۔۔یہ رہا۔۔۔۔“

  کچھ دیرتک ادھر ادھر ڈھونڈنے کے بعد شام جیسے ہی بیڈ کے نیچے جھکا تو وہاں موبائل فون الٹا پڑا دیکھ فوراً اسے پکڑتے ہوئے وہ بول پڑا۔

عائل چونک کر سیدھا ہوتا اگلے ہی پل اسکی جانب لپکا۔

اٹھنے سے پہلے غیرارادی طور پر شام کی نگاہیں ذرا سی آگے پڑی ادھ جلے سگریٹ سے بھری ایش ٹرے پر گئیں تو چونک گیا۔

یہ نہیں تھا کہ عائل نے کبھی سگریٹ نوشی نہیں کی تھی۔۔۔لیکن جب کرتا تو شدید ڈپریشن کا شکار ہوکر کرتا۔

”اوہ۔۔۔

یہ یہاں پڑا تھا۔۔پر میں نے تو یہاں نہیں رکھا تھا۔۔۔؟؟؟“ 

 عائل کچھ حیرت سے گویا ہوا تو شام سر جھٹک کر کھڑا ہوتا موبائل فون اسکے ہاتھ میں پکڑاگیا۔

”آپکی یادداشت سے صاف صاف پتا چل رہا ہے کہ آپکو اس عمر میں ایک عدد بیوی کی اشد ضرورت ہے۔۔۔

برائے مہربانی اپنی اس محرومی کو جتنا جلدی ممکن ہوسکے دور کرلیں ورنہ کثرت سے سگریٹ نوشی کی عادت پڑجائےگی۔۔۔۔“   

گھٹنوں کی طرف جینز پر سے نایدیدہ گرد کو جھاڑتا وہ دھیرے سے ہنسا۔

”شام۔۔۔۔۔“  

اپنی کھلتی پول پر لب بھینچ کر پل بھر کو خجل ہوتا عائل اگلے ہی لمحے اسے تنبیہی انداز میں ٹوک گیا۔

”اچھا اوکے اوکے۔۔۔

چلیں بتائیں کیا پرابلم ہے۔۔۔؟؟؟  

معذرت خواہانہ انداز اپناتا وہ ایکدم سے سنجیدہ ہوا تو عائل نے بالوں میں ہاتھ چلاتے گہرا سانس بھرا۔

”تم جانتے ہو۔۔۔

پھر بھی مجھ سے یہ سوال پوچھ رہے ہو۔۔۔“

  تھکے ہوئے انداز میں پائنتی پر براجمان ہوتا وہ دھیمے لہجے  بولا۔

”ہہمم تو یعنی معاملہ عشق محبت کا ہے جسے کچھ دیر پہلے آپ مجھ سے خوامخواہ میں چھپائے پھر رہے تھے۔۔۔؟؟؟“

  اسکے ساتھ لگ کر بیٹھتے ہوئے شام نے نرمی سے پوچھا تو اسکے اتنے درست اندازے پر عائل نے ہاتھوں میں موبائل فون گھوماتے ہوئے ہولے سے اثبات میں سر ہلایا۔

”اندازہ ہے مجھے آپکی پریشانی کا۔۔۔

بخوبی اندازہ ہے پر بھائی آپ مانیں نہ مانیں۔۔۔

موم کے ساتھ ساتھ ڈیڈ بھی آپکے خلاف اس مخالفت میں برابر کے شریک ہیں۔۔۔

بیلیومی۔۔۔۔“

  ہاتھ کی مٹھی بنا کر گھٹنے پر جماتا وہ مضبوط لہجے میں بولا تو اس حقیقیت پر یقین نہ کرتے ہوئے عائل نے گردن موڑ کر شام کی طرف دیکھا۔

”ایسا کچھ نہیں بس وہم ہے تمھارا۔۔۔۔

حاویہ اور میرے رشتے کے معاملے میں ڈیڈ نے خود میرے سامنے اپنی رضامندی ظاہر کی تھی۔۔۔۔“  

موبائل سائیڈ پر رکھتا وہ پریقین لہجے میں بولا تو عائل کو ڈگمگاتا نہ دیکھ شام کھڑا ہوتا اسکے سامنے آگیا۔

یقیناً اسے عائل کا حسن صاحب کی حمایت  میں بولنا کچھ خاص پسند نہیں آیا تھا۔

”یہی تو  غلط فہمی ہے آپکی۔۔۔

جسٹ رضامندی ظاہر کرنے سے کیا ہوتا ہے یار۔۔۔؟؟؟

بندہ عملی طور پر کچھ کرکے دکھائے تب اصل بات بنتی ہے۔۔۔اور جہاں تک مجھے یقین ہے ڈیڈ یہ کبھی بھی نہیں ہونے دیں گے۔۔۔۔

بہتر ہے اپنے لیے خود سے کوئی اسٹینڈ لیں آپ۔۔۔

ورنہ سب ختم ہوجائے گا۔۔۔۔۔“ 

 بےساختہ ہاتھ کی پشت ہتھیلی پر مارتا وہ جذباتی پن سے گویا ہوا تو اسے دیکھ کر رہ گیا۔

آنکھوں میں لالی سی ابھرنے لگی تھی۔

”یار وہ سخت ذہنی اذیت کا شکار ہے۔۔۔

کھل کر کچھ کہہ بھی نہیں پارہی مجھ سے لیکن میں جانتا ہوں۔۔۔

میں جانتا ہوں اسے میری ضرورت ہے۔۔۔

لیکن میری بدقسمتی یہ ہے کہ میں چاہ کر بھی اسکے لیے  کچھ نہیں کرپارہا ہوں۔۔۔اففف۔۔۔۔

کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔“ 

 کہتے ہوئے شدت سے پیشانی مسلتا وہ شدید بےبس دکھائی دے رہا تھا۔

شام نے اسکی حالت کو دیکھتے گہرا سانس بھرا۔

”شدید ناپسند ہے مجھے ایسی محبت جو انسان کو بے بسی کی آخری حد پر لا چھوڑے اور وہ آزاد ہوتے ہوئے بھی خود کو ایک مجبور قیدی کی مانند محسوس کرے۔۔۔

سچ بتا رہا ہوں بھائی اگر آپکی جگہ میں ہوتا ناں تو اتنی مخالفت کے باوجود بھی دماغ کی بجائے صرف اپنے دل کی سنتا۔۔۔

چپ کرکے لڑکی سے نکاح کرتا اور پھر اسے پورے پروٹوکول کے ساتھ  گھر لے کر آتا۔۔۔

پر مسئلہ یہ ہے کہ مجھے محبت ہی تو نہیں ہوتی جس کے لیے اتنے سب بکھیرے کرنے پڑتے ہیں۔۔۔۔“

  وہ اسکے سامنے ہچکچائے بنا اپنی فطرت کا کھلم کھلا اعتراف کررہا تھا۔

عائل نے ضبط سے لب بھینچتے ہوئے شام کی جانب دیکھا جس کی ہر بات اسکے دل میں گھر کر رہی تھی جبکہ کسی کام سے وہاں آتی عائمہ بیگم نے بھی شام کا تلخ لہجہ بخوبی باور کیا تھا۔

”یہ اکیلے میں کیا کیا پٹیاں پڑھائی جا رہی ہیں میرے بیٹے کو۔۔۔؟؟؟ہہہمم۔۔۔۔“  

کچھ غصے سے پوچھتی وہ دونوں کو چونکا گئیں۔

پھر کمرے پر بھرپور نگاہ ڈالتی لب بھینچ گئیں۔

”پٹیاں نہیں پڑھا رہا موم۔۔۔

بھائی کو صرف حقیقت بتا رہا ہوں ۔۔۔

اب وہ ایکسپٹ کریں نہ کریں یہ تو انہی پر ڈیپنڈ کرتا ہے۔۔۔۔“  صاف گوئی سے بولتا وہ اب بھی نہیں ہچکچایا تھا۔

اسکے مسکاتے لہجے پر عائمہ بیگم کی تیوری مزید گہری ہوئی۔

”تمھیں اسکی باتوں پر کان دھرنے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے عائل۔۔۔

اسکا تو دماغ خراب ہوگیا ہے پڑھ پڑھ کر۔۔۔“ 

 سنجیدگی سے بولتے انھوں نے عائل کو اپنی جانب قائل کرنا چاہا تو وہ لب بھینچے انھیں دیکھنے لگا۔ 

”سن لیں بھائی۔۔۔

دماغ خراب ہوگیا ہے میرا۔۔۔

کیا بات کہی ہے موم نے۔۔واہ۔۔۔“

 بالوں میں ہاتھ چلاتا وہ ہنوز غیرسنجیدہ تھا جبکہ عائمہ بیگم اسکی ڈھٹائی پر ضبط کرکے رہ گئیں۔

”میری ایک بات کان کھول کر سن لو۔۔۔۔

اب اس لڑکی یاں اسکے رشتے کی بابت یہاں پر کوئی ذکر نہیں ہوگا۔۔۔۔سنا تم دونوں نے۔۔۔

جب دیکھو اس معاملے کو لے کر ہر زور کوئی نہ کوئی نئی پٹاری کھل ہی جاتی ہے۔۔۔

بس ختم کرو یہ قصہ۔۔۔“  اپنا رعب جمانے کو وہ کڑوے لہجے میں بولیں تو عائل کھڑا ہوتا ان کے مقابل آ کر رک گیا۔

”موم یہ حاویہ اور عائل کا قصہ ہے۔۔۔اتنی آسانی سےختم نہیں ہونے والا جتنا آسان آپکو لگ رہا ہے۔۔۔

ابھی تو محض گزارشات سے کام چلا رہا ہوں لیکن کل کو اگر ضرورت پڑی تو میں انتہائی قدم اٹھانے سے بھی دریغ نہیں کروں گا۔۔۔۔۔“

  سرد مہری سے بولتا وہ اگلے ہی پل پلٹ کر جلدی سے کیز اور موبائل اٹھاتا وہاں مزید رکا نہیں تھا۔

نتیجتاً عائمہ بیگم نے مڑ کر سخت چتونوں سے شام کو گھورا تو جواب میں آنکھ دبا کر مسکراتا ہوا وہ بھی کمرے سے نکل گیا۔۔۔

جبکہ اسکے نہ سدھرنے پر عائمہ بیگم کو حقیقتاً افسوس ہوا تھا۔۔۔۔

*********#####*********

”آئے ہائے خالہ۔۔۔؟؟؟

آخر ایسی بھی کیا کمی دکھائی دے گئی ہے میرے ہیرے جیسے بھائی میں جو بنا کوئی لحاظ مروت رکھے آپ ہمارے منہ پر ہی انکار کیے چلی جارہی ہیں۔۔۔؟؟؟“ 

 وہ اپنے دھیان میں سر پہ پڑی چادر درست کرتی اندر کو آرہی تھی جب سماعتوں سے ٹکراتی تیز تلخ آواز پر ٹھٹک کر رکی۔

دل کی دھڑکنیں گھبراہٹ تلے بےاختیار تیزتر ہوئی تھیں۔۔۔

ہوتیں بھی کیوں نہ۔۔۔

آخر کو چوبیس گھنٹوں بعد اسکے بےچین کرتے خدشے حقیقت بن کر اسے پکار جو رہے تھے۔

”پہلے تو میرا بچہ میرا بچہ پکارتے آپکا منہ نہیں تھکتا تھا۔۔۔

اب ایکدم سے ایسی کیا کاروائی پڑگئی کہ آپ لوگوں نے بختی کی بابت خود کے رویے ہی برے کر ڈالے ہیں۔۔۔۔؟؟؟“ 

 بختی کے حق میں نخوت سے بولتی شکیلہ کی آواز مزید تیز ہوئی تھی۔

ضبط کے چکر میں حاویہ نے بیگ کی بھوری اسٹرپ پر اپنی گرفت مزید سخت کرلی۔اگلے ہی پل خشک لبوں پر زبان پھیرتی وہ مرے مرے قدموں سے آگے بڑھی تھی۔

”جو جس قابل ہو اسے اتنی ہی عزت دی جاتی ہے شکیلہ۔۔۔

بہتر ہے دبی باتوں کو دبا ہی رہنے دو اور بنا کوئی تماشہ لگائے اپنے ہیرے جیسے بھائی کو لے کر چپ چاپ یہاں سے چلی جاؤ۔۔۔۔“

  بختی کی موجودگی میں بڑے ضبط سے اسکی بڑی بہن کی باتیں سنتی نفیسہ بیگم نے بیٹھے سے اٹھتے جان چھڑانے والے انداز میں کہا تو صوفے پر ڈھیٹ بن کر بیٹھے دونوں بہن بھائیوں کے نقوش تن سے گئیں۔

ایک بار پھر سے منہ پر پڑنے والی صاف دھتکار انکے دل ہی تو جلاگئی تھی۔

”ارےبھئی اب تو حد ہی ہو گئی۔۔۔

صاف صاف نکل جانے کو بول رہے یہ تو اپنے گھرسے۔۔۔

ارے خالہ سمجھتی کیوں نہیں ہو تم۔۔۔؟؟بختی محبت کرتا ہے تمھاری لڑکی سے۔۔۔

اور تو اور شریفانہ طور طریقے سے اسے اپنے گھرکی عزت بناکرعمر بھر کے لیے ساتھ رکھنا چاہتا ہے۔۔۔

بھلا اور کیا چاہیے تم لوگوں کو۔۔ یوں گھر بیٹھے بیٹھائے ایک بہترین رشتہ مل رہا ہے۔۔۔

کم از کم بڑی لڑکی کی طرح رشتوں کے چکروں میں سالوں پاپر تو نہیں بیلنے پڑے گے۔۔۔۔“ 

 وہاں آتی حاویہ کو دیکھ کر بھی جہاں بال بچوں والی شکیلہ جذباتی ہوکر طنزوں کی مار مارتی چلی گئی وہیں اسے دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑا ہوتا دیکھ بختی کی آنکھیں چمک اٹھیں۔

گو کہ حاویہ خود کو مضبوط ظاہر کرنے کی کامیاب کوشش میں نفرت سے اسے دیکھتی اگلے ہی پل اپنی نظریں پھیرگئی تھی لیکن اس کے باوجود بھی بختی اسکی آنکھوں میں گھلا خوف بھانپ چکا تھا۔

اتنی سنجیدہ صورتحال پر بھی اسکے لبوں پر دھیرے سے ایک کمینی مسکراہٹ اتری۔

”بس کردو شکیلہ۔۔۔

خدا کا واسطہ ہے بس کردو اب تم۔۔۔۔

اپنی بچی کے لیے رشتوں کے معاملے میں مجھے سالوں پاپر بیلنا منظور ہے لیکن اس عیب لگے انسان سے رشتہ جوڑنا قطعی قبول نہیں ہے۔۔۔

سنا تم نے۔۔؟؟“  

نفیسہ بیگم نے عاجز آتے بےاختیار ان کے آگے ہاتھ جوڑے تو  انکے سخت انکار پربختی ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچتا اٹھ کھڑا ہوا۔

اپنے بھائی کی اصل کرتوتوں سے ہنوز انجان شکیلہ بھی منہ ناک پھلاتی ساتھ ہی کھڑی ہوگئی۔

”یقیناً آپ نے اسکے عاشق کے ساتھ پکی کمٹمنٹ کر رکھی ہے خالہ تبھی تو اتنے دھڑلے سے مجھے انکار پر انکار کیے  جارہی ہیں۔۔۔؟؟؟

ظاہری سی بات ہے جب پہلے سے ہی ایک بندہ نظروں میں ہوگا تو دوسرے کو بنا سوچے سمجھے ٹھکرایا ہی جائے گا ناں۔۔۔“ 

 حاویہ کی جانب دیکھ کر بےجھجھک زہر اگلتا وہ جہاں نفیسہ بیگم سمیت شکیلہ کو اپنے لفظوں سے حیران کرگیا وہیں اس کے سلگتے لہجے پر حاویہ کا دل ڈوب کر ابھرا۔

آج جانے کیوں ایک ایک کرکے اسکے سارے بدترین خدشے سچ ثابت ہوتے چلے جارہے تھے۔

 ”ایسے کیا دیکھ رہی ہیں خالہ۔۔۔؟؟؟

باربی ڈول نے بتائے نہیں اپنے کارنامے۔۔۔؟؟؟چہ۔۔ارے وہیں پولیس آفیسرجس کے ساتھ آپ خود بھی دن دیہاڑے ہسپتال کے چکر کاٹتی رہی ہیں۔۔۔

اسی کی بات تو کررہا ہوں میں بھی۔۔۔پکا عاشق ہے وہ آپکی چھوٹی بیٹی کا۔۔اور کہیں نہ کہیں یہ بھی نادانی میں اپنا دل اسے دے بیٹھی ہے۔۔۔“ 

 نفیسہ بیگم کو خود کی جانب الجھی ہوئی ساکت نگاہوں سے تکتا پاکر وہ مزید گویا ہوا تو پوری بات سمجھ آنے پر نفیسہ بیگم کے اعصاب کو جھٹکا سا لگا۔ 

”اللہ توبہ۔۔۔

اسکا ایک عدد عاشق بھی ہے؟؟؟اور ہم دیکھو کتنا معصوم سمجھتے تھے اس لڑکی کو۔۔۔

توبہ توبہ۔۔۔اصل حیرت تو مجھے تم پر بھی ہورہی ہے بختی جو سب جانتے ہوئے بھی تم ایسی بدکردار لڑکی کو اپنا بنانے کے لیے ان کے ہاتھوں مفت کھاتے ذلیل ہوئے جارہے ہو۔۔۔

اب ایسی بھی کیا اندھی محبت کرنا کہ بندہ اچھے برے میں کوئی فرق ہی نہ کر پائے۔۔۔

چھوڑو پرے۔۔۔۔“ 

 اس نئے انکشاف پر بےساختہ کانوں کو ہاتھ لگاتے شکیلہ نے اگلے پچھلے سارے حساب ایک ساتھ ہی بےباک کرنا اپنا فرض سمجھا تو اپنی ذات پر یوں بلاوجہ کیچڑ اچھلتے دیکھ حاویہ کی آنکھیں تیزی سے بھیگتی چلی گئیں۔۔۔

جبکہ ایسی ضبط توڑتی باتوں پر نفیسہ بیگم تو تڑپ ہی گئی تھیں۔

”یہ کیا بکواس کررہے ہو تم۔۔۔؟؟؟

جب میرے سامنے اپنا آپ منوا نہیں پائے تو اب سیدھا  بہتان طرازی پر اترآئے ہو۔۔۔

یہ جانتے ہوئے بھی کہ تم کتنی کمینی فطرت کے مالک ہو شرم آنی چاہیے تمھیں ایسی بےغیرتی دکھاتے ہوئے۔۔۔۔۔“

  چلا کر بولتی وہ براہ راست بختی سے مخاطب ہوئی تھیں۔

جواب میں وہ خباثت سے مسکرایا۔

”شرم۔۔۔۔؟؟

کیسی باتیں کررہی ہیں آپ خالہ۔۔۔؟؟؟

بھلا حقیقیت سے پردہ اٹھانے پر کیسی شرم۔۔۔۔؟؟

پوچھیے ذرا اپنی ستی ساوتری بیٹی سے۔۔۔ کیا یہ چھپ چھپ کر ملتی نہیں رہی اس دو ٹکے کے پولیس آفیسر سے۔۔۔؟؟

کبھی کالجوں میں تو کبھی ہوٹلوں کے باہر۔۔۔

اور تو اور یہ دونوں فلیٹ پر بھی  تنہائی میں کئی ملاقاتیں کر چکے ہیں۔۔۔۔۔“   

ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے اسنے ہر شے بڑھ چڑھ کر باورکروائی تھی انھیں۔

یہ سن کر شکیلہ کا ہاتھ اب کی بار حیرت سے اسکے لبوں پر پڑا تھا جبکہ اسکی پست ذہنیت کا اندازہ لگاتی حاویہ کا دم گھٹنے لگا تو احتجاجاً اسکا سرخودبخود نفی میں ہلتا چلا گیا۔

”نہیں ماما۔۔۔

ایسا بالکل بھی نہیں ہے ۔۔۔

یہ۔۔یہ شخص جھوٹ بول رہا ہے۔۔۔۔اپنی خودساختہ باتیں بڑھا چڑھا کر آپکے سامنے پیش کررہا ہے میرا یقین کریں۔۔۔۔“

  نفیسہ بیگم کی نظروں کا رخ اپنی جانب دیکھ کر مضبوط لہجے میں بولتی حاویہ کی آنکھیں بہنے لگی تھیں۔

اپنی معصوم محبت کی یوں سرعام برے لفظوں میں تشہیر ہوتے دیکھ اسکا دل بھی اذیت سے پھٹنے کو ہوا تھا۔

اپنی بیٹی کی صفائی پر نفیسہ بیگم کے دل نے چیخ کر حاویہ کے حق میں گواہی دی تھی۔

اگلے ہی پل انھوں نے تنفر سے بختی کی جانب دیکھا تو نفیسہ بیگم کو حاویہ پر یقین کرتا دیکھ وہ پل بھر کو گڑبڑاگیا۔

”خدا قسم میں نے خود اپنی ان گنہگار آنکھوں سے اسے اس دو ٹکے کے انسپکٹر کی بانہوں میں جھولتے دیکھا ہے۔۔۔

لیکن اسکی بدکرداری کے باوجود بھی میں اسے دل و جان سے اپنانے کو تیار ہوں۔۔بس آپ مان جائیں تو سارے مسئلے ہی حل ہوجائیں گے۔۔۔۔“ 

 قدرے بےادبی سے آنکھوں دیکھا حال بیان کرتا وہ حقیقتاً نفیسہ بیگم کو سلگتے انگاروں پر گھسیٹ چکا تھا۔

”بس بہت ہوا۔۔۔۔

اب میں اپنی بیٹی کی بابت تمھارا گھٹیا پن ہرگز برداشت نہیں کروں گی۔۔۔

نکل جاؤ میرے گھر سے۔۔۔۔

دفع ہوجاؤ۔۔۔۔“

 اسکی بے جا دلیلوں پر بپھڑ کر آگے بڑھتی وہ بختی کو دونوں ہاتھوں سے پرے دھکا دے چکی تھیں۔

اس دوران سر میں اٹھتی درد کی ٹیس بےساختہ تھی۔

”ہائے میرا بھائی۔۔۔۔“ 

 نتیجتاً وہ لڑکھڑا کر دو تین قدم پیچھے ہوا تو شکیلہ نے دہائی دیتے ہوئے اسے بازو سے پکڑ کر سنبھالا پھر قدرے غصے سے نفیسہ بیگم کی جانب دیکھا۔

حاویہ بھی کندھے سے بیگ اتار کر نیچے پھینکتی جلدی سے نفیسہ بیگم کیطرف لپکی تھی۔

”ہاں ہاں جارہے ہیں۔۔۔۔

ہمیں بھی کوئی شوق نہیں ہے بی بی یہاں رکنے کا۔۔۔

سنبھال کر رکھو اپنی بدکردار لڑکی۔۔۔

چل بختی بہت بےعزتی کروالی ان احسان فراموش لوگوں کے ہاتھوں۔۔۔

اور اچھا ہی ہوا کہ تُو اماں کو اپنے ساتھ نہیں لے کر آیا ورنہ ان کی کرتوتوں پر اماں کی طبیعت سنبھلنے کی بجائے مزید بگڑ جاتی۔۔

ہونہہ۔۔۔“ 

 بختی کو ہنوز بازو سے تھام کر کھڑی شکیلہ دوسرا ہاتھ ناچا کر بدلحاظی سے گویا ہوئی تو ضبط کے مارے نفیسہ بیگم کا تنفس بگڑنے لگا۔ 

”خدا کا واسطہ ہے اب نکل جائیں آپ لوگ یہاں سے۔۔۔۔۔

چھوڑ دیں ہمیں ہمارے حال پر۔۔۔۔

نکلیں۔۔۔۔“  

نفیسہ بیگم کو کندھوں سے تھامتی وہ روتی ہوئی چیخ کر بولی تو ان دیکھے شعلوں کی زد میں آیا بختی ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ شکیلہ کی گرفت سے چھڑواگیا۔

پھر چلتا ہوا دو قدم قریب آیا تو نفیسہ بیگم اسے غصے سے گھورتی اس کے آگے مزید تن کر کھڑی ہوگئیں۔۔۔

مگربختی کی آگ برساتی  نظریں ہنوز حاویہ کے بھیگے چہرے پر مرکوز تھیں۔

”پہلے بھی وارنگ دی تھی ناں تمھیں کہ اپنے گھر والوں کو ہمارے رشتے کے لیے رضا مند کرلینا۔۔۔۔

پر تم اپنی ضد سے ذرہ برابر بھی پیچھے نہیں ہٹی۔۔۔

یہ اچھا نہیں کیا تم نے حاویہ فیضان نہ میرے ساتھ اور نہ ہی اپنے ساتھ۔۔۔

بس ایک۔۔ایک عدد موقعے کا متلاشی ہوں میں ۔۔۔

اور جیسے ہی وہ موقع میرے ہاتھ لگا تو تمھاری نام نہاد عزت کی دھچیاں بکھیرنے میں پل بھرکے لیے بھی نہیں ہچکچاؤں گا۔۔۔۔

وعدہ رہا یہ میرا۔۔۔۔“  شہادت کی انگلی اٹھاکر قدرے دیدہ دلیری سے گویا ہوتا وہ نفیسہ بیگم کی موجودگی میں بھی دھمکی دینے سے نہیں ہچکچایا تھا۔

نفیسہ بیگم کے شانوں پر بےاختیار اپنی پکڑ سخت کرتی حاویہ کے آنسوؤں میں روانی آئی تھی۔

”ابھی میں زندہ ہوں۔۔۔

دیکھتی ہوں میرے ہوتے ہوئے تم میری بیٹی کا کیا اکھارلیتے ہو۔۔۔۔“ 

 پھنکار کر چیلنجنگ انداز میں بولتی وہ بختی کے ارادوں کو مزید بھڑکا گئیں۔

”چلو بختی۔۔۔۔“  

تب سے تماشہ دیکھتی شکیلہ نے آگے بڑھتے ہوئے کہا تو ایک زہریلی نگاہ دونوں ماں پر ڈال کر وہ پلٹا پھر لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

شکیلہ بھی نخوت سے ہنکارہ بھرتی وہاں سے پلٹ گئی۔

”ماما۔۔۔۔

اس شخص نے گزشتہ روز بھی مجھے اپنے دوست کی دکان پر دھمکایا تھا۔۔۔

مجھے ڈر ہے کہ وہ کہیں کچھ کر نہ دیں۔۔۔“  

ان دونوں کے جاتے ہی سامنے آتی حاویہ نے نم پلکیں جھپکاتے ہوئے نفیسہ بیگم کو تب سے پہلی بار اس سنگین معاملے سے آگاہ کیا تو لب بھینچتی وہ اسے اپنے سینے سے لگا گئیں۔

نئے نئے انجان وسوسوں کی بابت سوچتے جہاں حاویہ کا دل مزید گبھرایا تھا وہیں نفیسہ بیگم کی نم آنکھوں میں پریشانی اور فکر کی ملی جلی کیفیت مزید بھیگنے لگی۔

گہری سوچوں میں جاتے ہوئے انکا حرمین کو اس بدمزگی کی بابت آگاہی دلانے کا یقیناً کوئی ارادہ نہیں تھا۔

اپنے نکاح کے بعد سے وہ ڈھلتی شام کو اب حویلی واپس لوٹا تھا اور خنساء بیگم سے ملے بنا ہی سیدھا اپنے کمرے کی طرف لپکا۔محبت کا سوگ منانے کو عیاش دوستوں کے سنگ جاگ کر رات گزارنے کے سبب اسکے مضبوط اعصاب پر اس پل صاف تھکاوٹ اتری ہوئی تھی۔

دروازہ کھول کر اندر آتے ہوئے سالار خان کی سرخ آنکھوں نے ایکدم سے نیم اندھیرے کا سامنا کیا تھا۔بالکل ایسا ہی اندھیرا خود اسکے اندر بھی پھیلا ہوا تھا۔دروازے بند کرتے ہوئے پل بھرکو انگلیوں تلے آنکھیں مسلتا وہ سیدھا اپنے بیڈ کی طرف آیا۔اس دوران نیند اس پر مہربان ہونے کو قدرے اتاؤلی ہورہی تھی۔

پیروں سے جوتے اتار کر سائیڈ پر رکھتا وہ اگلے ہی پل  بیڈ پر گرنے کے سے انداز میں نیم دراز ہوا تھا جب سماعتوں میں گھستی نسوانی چیخ سمیت کسی نازک وجود کا ساتھ لگ کر جھٹکا کھانا سالار کو پل بھرکے لیے بوکھلاہٹ کا شکار کرگیا۔

جہاں کچی نیند سے بیدار ہوتی حلیمہ گھبرا کر منہ پر ہاتھ رکھتی ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹی تھی وہیں سالار خان سرعت سے سائیڈ لیمپ آن کرتا پیچھے پلٹا۔

حلیمہ بیڈ کے کنارے پر سمٹی بیٹھی سہمی نگاہوں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔گو کہ چہرہ سادہ حسن لیے ہوئے تھا لیکن وہ گزشتہ شب سے اب تک نکاح کے سرخ جوڑے میں تھی۔سالار خان کا دماغ بھک سے اڑگیا۔

”تم۔۔۔۔؟؟؟تم اس وقت میرے کمرے میں۔۔۔میرے ہی بیڈ کے اوپر کیا کررہی ہو۔۔۔؟؟؟بولو۔۔۔کس نے اجازت دی تمھیں یہاں گھسنے کی۔۔۔اور ایسی جرات کرنے کی۔۔۔؟؟؟“  قدرے بلند آواز میں تلخی سے پوچھتا ہوا بیڈ سے نیچے اترا اور مٹھیاں بھینچے گھوم کر اسکے سر پر آکھڑا ہوا۔

جس حقیقیت کو اپنی سوچوں میں تسلیم کرنے کے لیے وہ خود سے ہی نظریں چراتا پھر رہا تھا اب وہ ظاہری اصلیت بن کر اسکی آنکھوں کے  سامنے پورے حق سے موجود تھی۔

جواب میں حلیمہ نے خاموش نم آنکھوں سے اسکے تنے نقوش دیکھے۔

”خ۔۔خالہ حضور نے بھیجا ہے مجھے یہاں۔۔۔اور اس سے بھی بڑا جواز یہ ہے کہ اب ہمارا نکاح ہوچکا ہے۔۔۔فقط کزن ہی نہیں اب میں آپکی بیوی بھی ہوں۔۔۔۔“  ہمت کرکے بولتی وہ سالار کو چند پلوں کے لیے تھمنے پر مجبور کرگئی۔

سنسناتے دماغ پر زور ڈالنے کہ بعد اسے بےاختیار وہ اذیت دیتے پل یاد آئے تھے جب خنساء بیگم نے غیرمتوقع طور پر اس لڑکی کی اس کمرے تک رخصتی کا دھماکہ کر ڈالا تھا۔نکاح کے کاغذات پر تو اس نے اپنا دل تھام کر جیسے تیسے دستخط کردیے تھے۔۔۔لیکن پھر ستم پر ستم برداشت کرنا اسکے لیے مشکل ترین ہوا تو ضبط کھوتا وہ حویلی سے ہی نکل گیا۔

بھلا وہ یہ بات کیسے بھول گیا تھا کہ اپنی عزیز از جان ماں کی بےجا منمانیوں کے سبب دھڑکنوں کو ناقابل برداشت وہ لڑکی اس کی زندگی کے ساتھ ساتھ اسکے کمرے میں زبردستی داخل کی جا چکی تھی۔۔۔اور اس عمل کے پیچھے  انکے جو مقاصد پوشیدہ تھے وہ انھیں بھی اچھے طریقے سے سمجھ رہا تھا۔

”اترو۔۔۔۔اترو بیڈ سے نیچے اور نکلو میرے کمرے سے۔۔۔۔؟؟؟“  معاً حلیمہ کو بازو سے دبوچ کر جارحانہ طریقے سے بیڈ سے نیچے اتارتا وہ دانت پر دانت جمائے بولا۔

”چ۔۔چھوڑیں خان۔۔۔آپ ایسا نہیں کرسکتے میرے ساتھ۔۔۔۔میرا نہیں تو کم از کم اپنی اماں حضور کی طبیعت کا ہی خیال کرلیں۔۔۔وہ ابھی تک پوری طرح سےسنبھلی نہیں ہیں۔۔۔“  بری طرح سے احتجاج کرتی وہ سالار خان کو اپنے لفظوں سمیت زہر ہی تو لگی تھی۔

اگلے ہی پل اسنے رک کر اسکے آنسوؤں سے بھیگتے رخسار دیکھے۔

”تم نے جان بوجھ کر مجھے اس عذاب میں مبتلا کیا ہے ناں۔۔۔؟؟؟میری قربت پانے کے لیے میری ہی اماں حضور کو میرے خلاف لے آئی تم۔۔۔۔“  اسکے بازو پر بےاختیار اپنی گرفت سخت کرتا وہ سلگ کر گویا ہوا۔لہجہ اس بار مدھم تھا۔

”نن۔۔نہیں خان۔۔۔آپ۔۔آپ غلط۔۔۔۔“  تکلیف پر ضبط کرتی  وہ نفی میں سرہلاتی بولنا چاہ رہی تھی مگر مقابل اسے صفائی کا موقع دینے کو تیار ہی کہاں تھا۔۔۔

”مجھے پانے کی خاطر تم نے میری اماں حضور کو میرے خلاف ایک مہرے کی طرح استعمال کیا۔۔۔اور پھر اماں حضور بھی اپنی ضد پوری کرنے کے لیے مجھے میری مرضی کے خلاف ایک مہرے کے طور پر استعمال میں لائیں۔۔لیکن ان سب میں برباد کون ہوا۔۔؟؟؟میں۔۔۔میری بےبس ذات۔۔۔۔“  اب کہ اسے دونوں بازوؤں سے تھام کر اپنے اندر کا زہر باہر اگلتا وہ تقریباً سبھی سے کافی حد تک متنفرنظر آرہا تھا۔

”میں آپ سے محبت کرتی ہوں۔۔۔۔“  نم پلکوں کو جھپکاتی وہ ایک بار پھر سے سالار خان کے سامنے اعتراف کرگئی۔

”بسسس۔۔۔۔۔“  اسکی ایک ہی گردان سے بری طرح چڑتا وہ اسے اپنی اورھ جھٹکا دے گیا۔اسکے یوں ٹوکنے کے انداز پر حلیمہ کے لبوں سے بےاختیار سسکی نکلی تھی۔دل تو پہلے ہی شدتوں سے دھڑکتا اسکا تنفس بگاڑ رہا تھا۔

”میری ایک بات کان کھول کر سن لو تم حلیمہ۔۔۔۔جتنے آنسو تم نے مجھے حاصل کرنے کے لیے بہائے ہیں ناں۔۔۔اس سے کہیں ذیادہ آنسو اب تم مجھ سے نجات پانے کے لیے بہاؤ گی۔۔۔مگر جانتی ہو تمھاری سب سے بڑی بدقسمتی  کیا ہوگی۔۔۔۔؟؟؟تمھیں چاہ کر بھی مجھ سے نجات نہیں مل پائے گی۔۔۔مرتے دم تک نہیں۔۔۔سنا تم نے۔۔۔۔؟؟؟“  سرد مہری سے بولتے ہوئے سالار نے بےدردی سے اسے دبیز قالین پر دھکیلا تو بمشکل سنبھلتی حلیمہ نے پلٹ کر بھیگی نگاہوں سے اسکا بےتاثر چہرہ دیکھا۔اگلے ہی پل ٹانگیں سمیٹ کر اسکی جانب رخ کرتے ہوئے اسکے لبوں پر بےاختیار زخمی سی مسکراہٹ اتری۔

”مجھے ایسی نجات چاہیے بھی نہیں خان جسکا انجام آپکی جدائی کی صورت میرے دامن میں آگرے۔۔۔۔آپکی قہر بھری قید قبول ہے۔۔۔پر اذیت دیتی آزادی ہرگز منظور نہیں ہے۔۔۔۔“  والہانہ انداز میں اسکے تنے نقوش دیکھتی وہ مضبوط آواز میں بولی تو اسکی اس قدر ڈھٹائی پر سالار اسے دیکھ کر رہ گیا۔اس کمزورلڑکی کا اطمینان اسکا سکون چھین رہا تھا۔نیند تو پہلے ہی آنکھوں سے روٹھ کر کوسوں دور جاچکی تھی۔

”پھرمرو شوق سے یہیں پر۔۔۔۔۔“  اسے فوری طور سمجھ نہ آیا کہ جواب میں اسکا دل چھلنی کرنے کے لیے اب کونسا طنز کا تیراسکے سینے میں اتارے جبھی نفرت سے چند الفاظ بولتا کمرے سے ہی باہر نکل گیا۔یقیناً اب کی بار اسکا ارادہ دوستوں کی سنگت میں رات بیتانے کی بجائے ویران سڑکیں ماپنے کا تھا۔۔۔پیچھے حلیمہ بےارادہ ہی اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو بہتی آنکھوں سے تکتی چلی گئی۔جانے اسکی قسمت میں خوشیوں کا بکھیرا تھا بھی کہ نہیں۔۔۔؟؟؟

**********####**********

شام کی طرف سے دیے گئے تھری لئیرڈ نیکلس کو اپنی دوسری چیزوں کے ساتھ محفوظ کن جگہ پر سب سے چھپاکر رکھتی۔۔۔اب کہ وہ آئینے کے سامنے کھڑی خود کا گہری نظروں سے بغور معائنہ کررہی تھی۔

سانولی سی رنگت،مناسب قدوقامت،گہرے جامنی رنگ کے سوٹ میں واضح ہوتا دبلا پتلا سا فگر،کمر تک آتی سیاہ گھنے بالوں کی چوٹی،مہارت سے تراشی ہوئی بھنوؤں تلے گہری کالی آنکھیں جن کے ساتھ پلکوں کے نام پر گنتی کے صرف چند بال جڑے تھے۔تیکھی ناک پر ٹکا بڑے بڑے شیشوں والا چشمہ،بھرے بھرے ہلکے سیاہی مائل لب،پچکے گال اور دائیں گال کے بیچ و بیچ چمکتا ہوا موٹا سا کالا تل لیکن وہ اتنی حسین و جمیل تو ہرگز نہیں تھی جو قدرت نے اُسکی نظر اتارنے کے لیے یہ اتنا بڑا تل اُسے عطا کردیا تھا۔

اپنی صورت دیکھتے ہوئے بےساختہ اُسکے دل میں شکوہ ابھرا تھا۔

”تمھارا یہ خوبصورت تِل تمھارے سلونے چہرے پر بہت جچتا ہے۔۔۔اتنا کہ میں چاہ کر بھی اس پر سے اپنی توجہ نہیں ہٹاپاتا۔۔۔“ معاً کانوں میں رس گھولتی بھاری آواز اُسے اپنے بہت قریب سے سنائی دی تھی۔

بےاختیار اپنے تل کو چھوتے ہوئے وہ کھل کر مسکرائی کہ تبھی اُسکی نظریں آئینے میں دکھائی دیتے اپنے سفید دانتوں پر پڑیں جو بدقسمتی سے قدرے ٹیڑھے تھے۔

”تمھیں معلوم ہے جب تم کھل کرمسکراتی ہو تو مجھے کس قدر حسین لگتی ہو۔۔۔یونہی مسکراتی رہا کرو۔۔۔لیکن صرف میرے لیے۔۔۔“  ایک بار پھر سے وہی دلکش آواز اُسکا دل شدتوں سے دھڑکا گئی تھی۔

سیاہی مائل مگر شفاف ہونٹوں پرمعدوم پڑتی مسکان پھر سے زندہ ہوئی تھی۔

”مجھے یقین ہے کہ تم حجاب کی بانسبت کھلے بالوں میں ذیادہ دلکش لگتی ہوگی۔۔۔“  اپنی بالوں کی چوٹی کو پکڑ کر کندھے سے آگے کرتے ہوئے اسے شام کا حسرت زدہ لہجہ یاد آیا۔

”تمھارا یہ ظالم چشمہ اِن حسین آنکھوں کا حسن ہمیشہ چرالیتا ہے۔۔۔۔پلیز اسے میرے سامنے مت لگاکرآیا کرو۔۔۔“  اب کی بار آواز میں خفگی تھی اور انداز دھونس بھرا۔

کنپٹی سے لال دستہ پکڑکر چشمے کو اپنے چہرے سے الگ کرتے ہوئے اُسنے اپنی بڑی بڑی گہری سیاہ آنکھوں کو جھپکایا تھا۔

”اگر تم خود کو میری نظر سے دیکھو تو اپنے آپ کو اِس دنیا کی سب سے حسین ترین لڑکی تصور کرو۔۔۔۔“   اُسکا دلفریب لہجہ اُسکی بکھرتی دھڑکنوں کو مزید بکھیرگیا تووہ مسکراتی ہوئی خود سے ہی شرماگئی۔

”میں اتنی خوش قسمت کب سے ہوگئی جو مجھے اس قدر چاہنے والا شخص مل گیا۔۔۔؟؟؟“  خود کی جھلک آئینے میں دیکھتے ہوئے جہاں وہ اپنی قسمت پر نازاں تھی وہی اس سوال کے زیرِاثر بےیقینی کا عنصر بھی شامل تھا۔

لیکن کچھ ہی لمحوں میں وہ ذرہ بھر بےیقینی بھی اُسکے وجود میں آباد خوشیوں کے جہاں تلے دب کر رہ گئی تھی۔

”جانتی ہیں اپیہ۔۔۔؟؟؟ماما نے نسیمہ خالہ کو آپکے نکاح کے حوالے سے اپنی رضامندی دے دی ہے۔۔۔کل ہی وہ اس خبر کے ساتھ زباب بھائی کی طرف جائیں گی۔۔۔اور پھر۔۔۔۔“  چند پلوں کے سکوت کو توڑ کر اس بار اسکے اردگرد چیختی۔۔۔۔حاویہ کی آواز نہیں افکار کا سمندر تھا جسے پہلی بار میں سنتے ہی حرمین کے چہرے کا رنگ زرد پڑ گیا تھا۔۔۔

اور پھر جواب میں جذباتی عمل کا مظاہرہ بھرپور کرتی وہ اپنی چھوٹی بہن کے  سامنے کتنی آسانی سے اپنی محبت کے بنے بنائے سارے بھرم ایک حد تک توڑتی چلی گئی تھی۔۔۔

حرمین نے آئینے میں ہنوز خود کا عکس تکتے ہوئے گہرا سانس بھرا۔پھر خشک لبوں زبان پھیرتی بمشکل مسکرائی۔دل کے مچلتے جذبوں کو زبان پر لانے کی کوشش میں اسکی سیاہ آنکھوں کا رنگ مزید گہرا ہوا تھا۔

”شام۔۔۔۔؟؟؟نن نہیں۔۔۔“

”مسٹر شاہ میر حسن۔۔۔؟؟؟میں اپنی زندگی کا ہر لمحہ آپ کے سنگ گزاردینا چاہتی ہوں۔۔۔کیا آپ۔۔۔زندگی بھر کے لیے مجھے اپنا نام دیں گے۔۔۔؟؟؟مجھ سے شادی کرکے اس سارے جہاں کی خوشیاں میری جھولی میں ڈالنا قبول کریں گے۔۔۔؟؟؟“  اپنے لفظوں کی ابتداء سے ہی تصحیح کرتی وہ شدت سے گدگداتے ہوئے دل پر۔۔۔اگلے ہی پل دونوں ہاتھوں تلے اپنا گلاب ہوتا چہرہ چھپاگئی۔

مثبت امیدوں کے بھنور میں بہتے ہوئے اس پل خوشی اسکے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔۔۔مگر خود کے اس قطعیت بھرے فیصلے کے انجام پر کیا یہ شرمیلی مسکراہٹیں باقی رہنی بھی تھیں کہ نہیں۔۔؟؟؟اسکا ذہن فی الوقت اس خیال سے کوسوں پرے تھا۔۔۔

***********####**********

”اوہ میرے خدایا۔۔۔۔اتنی دیرہوگئی مجھے۔۔۔۔؟؟؟“  آفس کی عمارت کے بالکل سامنے سڑک کے کنارے کھڑی وہ یقیناً آٹو رکشے کے انتظار میں متفکر سی بڑبڑائی تھی۔آسمان کی سیاہی پل پل گہری ہوتی اسکی بےچینی میں اضافہ کررہی تھی۔

آبرو سکندر کے لیے یہ تب سے پہلی بار تھا جب ایک ساتھ کئی  کاموں کے بوجھ تلے وہ رات کے گہرے ہوتے سایوں میں آفس سے باہر نکلی تھی۔یہ بھی شاہ کی جانب  سے کی جانے والی بےجا کاروائی کا ہی نتیجہ تھا جو وہ اس سمے ایک نئی پریشانی سے گزر رہی تھی۔

اس سے پہلے کہ وہ شاہ کی ذات کو کوستی معاً وقفے وقفے سے گزرتی کتنی ہی گاڑیوں کے بیچ بے ہنگم شور مچاتا  ایک آٹو رکشہ اسے اپنی جانب آتا دکھائی دیا تو آبرو کی آنکھیں چمک اٹھیں۔

”رکو۔۔۔ر۔۔رکو پلیززز۔۔۔۔۔۔۔“  وہ ہاتھ کے اشارے سے روکتی رہ گئی مگر پہلے سے ہی مسافروں سے کھچا کھچ بھرا آٹو رکشہ بےپرواہ سا اسکے پاس سے گزر کر آگے نکل گیا۔

”اففف۔۔۔اب یہ کیا نئی مصیبت ہے۔۔۔؟؟؟یقیناً میری وجہ سے گھر میں ب۔۔۔۔“

”ر۔۔رابی۔۔۔۔۔۔؟؟؟  کلس کر نازک مٹھیاں بھینچتی وہ بولنا چاہ رہی تھی جب اچانک اپنے پیچھے سے ابھرتی مردانہ پکار پر وہ چونک کر پلٹی۔

سامنے کھڑا شخص بمشکل خود کا وجود متوازن رکھے اپنی پلکیں زور زور سے جھپکتا اسی کےنقوش ٹٹولنے کی کوشش کر رہا تھا۔

آبرو کی گہری نیلی آنکھوں میں در آنے والی الجھن۔۔۔ اگلے ہی پل مقابل کی گرفت میں دبی شراب کی ادھ بھری بوتل دیکھ کر بے چینی میں ڈھلی تھی۔

”ی۔۔یہ تم ہو ناں۔۔۔میری رابی۔۔۔۔؟؟؟میرا سکون۔۔۔؟؟؟“  لڑکھڑاتے قدموں سے اسکی جانب لپکتا سالار خان اس پل نشے میں مکمل دھت تھا جبکہ اسکے یوں بےدھڑک قریب چلے آنے پر آبرو کو اسکی سرخ آنکھوں کا صحیح سے اندازہ ہوا تھا۔۔۔جبھی وہ بدک کر کئی قدم پیچھے ہٹی۔پھرسہم کر بےاختیار اردگرد دیکھا جہاں چند لوگ کافی دور آتے جاتے دکھائی دے رہے تھے۔یہ اسکی بدقسمتی ہی تھی جو آفس کے گیٹ پر مسلح گارڈ بھی اس پل غیرموجود تھا۔

”د۔۔دور تو نہ جاؤ مجھ سے۔۔۔جانتی ہو میں نے تمھیں کک۔۔ کتنا تلاش کیا ہے جان۔۔۔؟؟؟تاروں سے محروم اس سیاہ آسمان پر۔۔۔ان خالی سڑکوں پر۔۔ا۔۔اور۔۔۔اور اپنے اس ویران دل میں بھی۔۔۔“  شہادت کی انگلی کو اوپر سے نیچے تک لاتا  آخر میں وہ اپنا سینہ پیٹتا ہوا بولا۔

حیرت سے اس شخص کی غیر ہوتی حالت دیکھ کر آبرو کا دل گھبراہٹ تلے تیزی سے دھڑکنے لگا۔اسکی بہکی ہوئی بے ربط باتیں اسکی سمجھ سے حقیقتاً پرے تھیں۔

”پ۔۔پرتم ہو کہ مجھے ملتی ہی نہیں۔۔۔مانتا ہوں۔۔ن۔۔نکاح کرلیا ہے میں نے اس لڑکی سے۔۔پر عشق تو تمہی سےکرتا ہوں ناں میں۔۔۔پھرایسی بھی کیا ناراضگی۔۔۔۔؟؟؟مجھے اتنا تڑپا کر بھی تمھارا دل نہیں بھرا۔۔۔ہوں۔۔۔؟؟؟“  ضبط سے نم ہوتی آنکھوں سمیت منہ بسور کر شکوہ کرتا وہ اگلے ہی پل شراب کی بوتل کو پوری قوت سے زمین پر پھینکتا کرچی کرچی کر چکا تھا۔اسکی غیر متوقع حرکت پرآبرو  کا ہاتھ بےاختیار اپنے لبوں پر پڑا۔

اسے سالار سے ذیادہ خود کی صورتحال پر رونا آنے لگا۔

اسکی جانب تکتے سالار کی آنکھوں میں آبرو کا ڈرا سہما روپ دیکھ کر حیرت ابھری تھی۔ پھر فکر۔۔۔جبھی وہ اسے سنبھالنے کو بےاختیار آگے بڑھا تو لبوں سے ہاتھ ہٹاتی آبرو کا دل جیسے حلق میں آگیا۔

”د۔۔دیکھو تم جو کوئی بھی ہو۔۔۔دور رہنا مجھ سے۔۔۔اگر میرے قریب بھی آئے ناں تو۔۔۔“  خشک لبوں کو تر کرتی وہ احتیاطاً دو قدم پیچھے ہٹی تھی جب مقابل بےتابانہ آگے لپک کر اسے خود میں بھینچتا۔۔۔لفظوں سمیت اسکی سانسیں روک گیا۔نتیجتاً آبرو نے اسے دھکا دینے کی ناکام کوشش میں تڑپ کر مزاحمت کی تھی جواباً وہ اپنی گرفت اس پر مزید سخت کرگیا۔

”ت۔۔تم نے کہا تھا ناں کہ۔۔۔اگر میں تمھارے پاس کبھی پلٹ کر واپس آیا تو تم ی۔۔یہی سمجھو گی مجھے تمھارے وجود کی چاہ ہے۔۔۔؟؟؟ہ۔۔ہے ناں۔۔؟؟؟ل۔۔لیکن ایسا نہیں ہے رابی۔۔۔خدا قسم ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔“  اس نازک وجود پر اپنی من پسند رقاصہ کا بھرپور گمان کرتا وہ نشے میں پل پل بہک رہا تھا۔

”چ۔۔۔چھوڑو مجھے گھٹیا انسان کیا بہودگی ہے یہ۔۔۔؟؟چھوڑو نہیں تو میں اپنے ہاتھوں سے تمھاری جان لے لوں گی۔۔۔۔“  اپنے ہاتھ بمشکل اسکی پشت پرلے جاکر پوری شدت سے ناخن گاڑتی وہ دبا دبا سا چیخی تو اس تکلیف دیتی مزاحمت پر پل بھرکو سختی سے لب بھینچتا۔۔۔وہ اپنے جذبات مزید اس پر انڈیلنے کے لیے بےتاب ہوا۔

”مجھ۔۔مجھے تمھارے وجود کی بالکل بھی کوئی چاہ نہیں ہے۔۔۔بلکہ میری چ۔۔ چاہ تو اس وجود سے بہت آگے نکل گئی ہے۔۔یہ۔۔یہ تو روح کی چاہ بن چکی ہے رابی جو مجھے بےبس کرکے پھر سے تم تک کھینچ لائی ہے۔۔۔م۔۔میرے دل کی ہردھڑکن تمھاری روح سے جڑچکی ہے یار۔۔۔ل۔۔لیکن تمھاری جدائی کے عذاب نے میرا وجود بکھیر کے رکھ دیا ہے۔۔توڑ پھوڑ دیا ہے مجھے۔۔۔“  سالار خان کا نشے تلے ڈگمگاتا لہجہ مارے ضبط کے بھیگتا چلاگیا جبکہ اسکے پاس سے آتی مردانہ کلون کی مدھم مہک میں گھلی شراب کی بدبو پرآبرو کا دم گھٹنے لگا۔

اس کے بگڑتی حالت کے برعکس ایک سکون سا تھا جو اس قربت کے زیراثر سالار خان کی رگوں میں اترتا جا رہا تھا۔

”بچاؤ۔۔۔۔کوئی تو۔۔۔۔۔“  بھیگی آنکھوں سمیت اسکی چوڑی پشت پر مکے برساتی وہ بھرائی آواز میں چیخی ہی تھی کہ تبھی کسی نے پیچھے سے سالار کا کالر دبوچ کر اسے پوری قوت سے اپنی جانب کھینچا تھا۔

نتیجتاً وہ جھٹکے سے آبرو سے الگ ہوتا بوکھلایا تو شاہ کو اپنے سامنے دیکھ کر آبرو کو لگا جیسے اسکی پرواز ہوتی روح کو کسی نے واپس اسکے وجود میں دھکیل دیا ہے۔

سالار اپنے چکراتے سر کو جھٹکتا جونہی پلٹا تو شاہ نے بے اختیار بائیں  ہاتھ کا مکا بناکر اسکے منہ پر دے مارا۔مقابل کا وار اس قدر شدید تھا جسے برداشت نہ کرتے ہوئے وہ اگلے ہی پل لڑکھڑا کر پیٹھ کے بل آبرو کے قدموں میں گرا۔

آبرو لبوں سے ہلکی سی چیخ نکالتی اچھل کر پیچھے ہٹی تو شاہ سرعت سے اسکے پاس آیا۔

”تم ٹھیک ہو۔۔۔؟؟؟“  گھنی پلکوں سے ٹوٹ کر اسکے چہرے پر پھسلتے آنسوؤں کو ضبط سے دیکھتا وہ حقیقتاً اسکے فکرمند ہوتا بولا۔

اسکے وجیہہ نقوش پر خود کے لیے پریشانی کی گہری چھاپ دیکھ کر آبرو کا دل شدت سے دھڑکا تو بمشکل اثبات میں سر ہلاتی وہ اسکی تسلی کرگئی۔اس دوران اسکا سیاہ حجاب بھی احتجاج کرنے کے سبب ذرا ڈھیلا پڑ چکا تھا۔

”میں نہیں جانتی یہ ک۔۔کون ہے۔۔؟؟؟معلوم نہیں کیا سوچ کر میرے پیچھے پڑا ہے۔۔۔؟؟؟“  اسکے نم لہجے میں گھلا خوف شاہ کو مٹھیاں بھینچنے پر مجبور کرگیا۔

”جانتا ہوں۔۔۔مجھے تمھارے ساتھ ہی آفس سے باہر نکل آنا چاہیے تھا۔۔۔ کم ازکم میرے ہوتے ہوئے تمھیں یہ سب سہنا تو نہ پڑتا۔۔۔۔“  آہستگی سے اسکے ہاتھ تھامتا وہ متاسف سا گویا ہوا تو آبرو نے نگاہیں جھکاتے لب بھینچ لیے۔اگلے ہی پل ان دونوں کی سماعتوں سے ٹکراتی سالار کی آہ نے انکی توجہ اپنی جانب کھینچی۔

”ر۔۔رابی۔۔۔؟؟م۔۔میرے پاس آؤ۔۔۔مجھ سے دور مت جاؤ اب۔۔م۔۔میں برداشت نہیں کرپاؤں گا ت۔۔تمھاری جدائی۔۔۔س۔۔سن رہی ہو ناں تم۔۔۔؟؟؟“  بائیں نتھنے سے پھوٹتی خون کی لکیر کی پرواہ کیے بنا ہی وہ اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کرتا دھیمے لہجے میں ملتجی ہوا تو آبرو نے نفی میں سر ہلاتے بےساختہ شاہ کا بازو تھام لیا۔

اسکی التجاؤں پر شاہ کی آنکھوں میں اترا گلال سرخائی میں بدلنے لگا۔

تبھی وہ نرمی سے اپنا بازو آبرو کی گرفت سے چھڑواتا واپس سالار کی جانب لپکا۔پھرقریب بیٹھ کر اپنے دونوں ہاتھوں میں اسکا گریبان دبوچتا اسے اپنے قریب لے آیا۔ چہرے اور حلیے سے وہ شاہ کو کسی کھاتے پیتے امیر گھرانے کا لگا تھا۔سالار نے پلکیں جھپکا کر اسکے سرد نقوش دیکھے۔

”یہ تمھاری رابی نہیں۔۔میری آبرو ہے۔۔۔فقط شاہ میرحسن کی آبرو۔۔۔اسے چھونا تو دور۔۔آئندہ اگر اسکے قریب بھی بھٹکنے کا سوچا تو تمھاری جان لینے میں،میں ذرا بھی وقت ضائع نہیں کروں گا۔۔۔یاد رکھنا میری اس پہلی اور آخری وارنگ کو۔۔۔“  ہر لفظ چبا چبا کر بولتا وہ سالار کے بہت قریب ہوکر پھنکارا  تو جواب میں تکلیف برداشت کرتا وہ دھیرے سے ہنسا۔شاہ کی بھنویں تن سی گئیں۔

انگلیاں چٹخاتے ہوئے آبرو کی بےچین نگاہیں مسلسل ان دونوں کو ہی کھوج رہی تھیں۔اپنی ذات کے سبب وہ ان دونوں کی آپس میں ہاتھا پائی بالکل بھی کروانا نہیں چاہ رہی تھی۔اس شرابی کی عقل ٹھکانے لگانے کو تو فقط ایک مکا ہی کافی تھا جو وہ بہت پہلے سے ہی شاہ سے کھا چکا تھا۔۔لیکن یہ محض آبرو کی غلط فہمی ہی تھی کہ وہ ایک مکے سے سدھرجاتا۔

”ساری دنیا ہی ہمیں جدا کرنےپر ت۔۔تلی ہوئی ہے۔۔۔تم بھی انہی میں سے ایک ہو۔۔۔پر تمھاری اس مم۔۔مارا ماری سے میں ہرگز بھی ہمت نہیں ہارنے والا۔۔۔کک۔۔کبھی بھی نہیں۔۔۔وہ رابی صرف۔۔میری ہے۔۔صرف سالار خان کی۔۔۔ہہمم۔۔۔۔“  لبوں پر آتی خون کی گہری لکیر کو پونچھے بناہی ایک نگاہ آبرو کے لرزتے وجود پر ڈالتے ہوئے سالار کی دل جلاتی مسکراہٹ ہنوز قائم تھی۔جہاں اسکی غلط فہمی کا معیار بڑھتا چلا جارہا تھا وہیں وہ پل پل اپنے حواسوں سے بھی دور ہورہا تھا۔

”رابی نہیں ہے وہ۔۔۔ آبرو ہے وہ۔۔۔۔آبرو۔۔۔۔“ اسکی ہٹ دھڑمی دیکھ شاہ کا خون کھول اٹھا جبھی مشتعیل سا اس پر چیختا وہ اگلے ہی پل اسے پوری شدت کے ساتھ ایک بار پھر سے زمین پر دھکیل چکا تھا۔

”سرپلیز۔۔۔۔“  ٹھنڈی زمین پر سر ٹکرانے کے سبب جہاں سالار خان کے پورے وجود میں درد کی ایک شدید لہر اٹھی تھی وہیں آبرو کی تنبیہی پکار بے ساختہ تھی۔

تبھی خود کو کمپوز کرنے کے لیے شاہ بالوں میں ہاتھ چلاتا سالار کے پاس سے اٹھا۔پھر گہرا سانس بھرتا آبرو کی جانب پلٹا جس کی محتاط نگاہیں ہنوز سالار خان پر ہی مرکوز تھیں۔

گو کہ وہ واپس اٹھ کر بیٹھنے کے قابل نہیں رہا تھا لیکن صد شکر تھا کہ کئی پل گزرنے پر بھی سالار کے دماغ سے خون کی دھاریں نہیں نکل کر باہر نہیں بکھری تھیں۔البتہ اس دوران کھلتی بند ہوتی آنکھوں سے سیاہ آسمان کو تکتے اس  کی مسکراہٹ لبوں پر دم توڑ چکی تھی۔

اسی وقت ایک دوسرا آٹو رکشہ اپنی رفتارگھٹاتا ہوا آبرو کے قریب آکر رکا تو آبرو نے چونک کر رکشہ ڈرائیور کی جانب دیکھا۔

”باجی۔۔۔کدھر جانا ہے آپکو۔۔۔۔؟؟؟مجھے پتا بتائیے میں آپکو آسانی سے لے چلوں گا وہیں۔۔۔۔“  چالیس سال کے قریب وہ درمیانی جسامت والا آدمی براہ راست آبرو سے مخاطب ہوتا یقیناً سالار خان کو دیکھ نہیں پایا تھا۔

”چلو آؤ میں تمھیں گھر چھوڑ دوں۔۔۔“  شاہ پاس آکر رکتا عام سے لہجے بولا تو آبرو نے تپ کر اسکی جانب دیکھا۔

”آفر دینے کا بہت شکریہ سر لیکن میں خود چلی جاؤں گی۔۔۔“  کچھ تلخی سے بولتی وہ آگے بڑھ کر رکشے کا دروازے کھولنے کو تھی جب وہ پھر سے بول پڑا۔

”شوق سے یہ آفر نہیں دے رہا۔۔۔تمھارے ساتھ پیش آنے والے اس حادثے کا ذمہ دار کہیں نہ کہیں میں بھی ہوں بس اسی وجہ سے بول رہا ہوں۔۔۔چلو آؤ میں تمھیں اپنی گاڑی میں گھر تک چھوڑ دوں گا۔۔۔“  سرد مہری سے بولتا وہ اپنی پیشانی پر ابھرتی لکیریں چھپا نہیں پایا تھا۔

”آپ خود کو ذمہ دار سمجھ رہے ہیں میرے لیے یہی کافی ہے۔۔۔میری بُوا  گھرپر یقیناً میرے لیے بہت پریشان ہورہی ہوں گی۔۔۔چلتی ہوں۔۔۔۔۔“  پلٹ کر سیدھا سیدھا جواب دیتی وہ اگلے ہی پل دروازہ کھول کر رکشے کے اندر بیٹھ چکی تھی۔۔۔

جبکہ بوا کے نام پر پل بھرکو چونکتے شاہ نے ضبط سے لب بھینچتے اسکی یہ ہٹ دھڑمی دیکھی تھی۔اس دوران تب سے بیزار ہوتے ڈرائیور نے بھی بنا کوئی لمحہ ضائع کیے رکشہ اسٹارٹ کیا اور اپنے نئے گاہک کو ساتھ لیے پلوں میں بھگاتا وہاں سے نکل گیا۔

شاہ نے دور جاتے رکشے سے نگاہیں ہٹاتے گہرا سانس بھرا پھر ایک لاپرواہ نظر دائیں بائیں سر ہلاتے سالار پر ڈال کر پارکنگ ایریا کی جانب بڑھ گیا۔

”رابی۔۔۔۔؟؟؟“   کچھ دیر پہلے کے لمحات یاد کرتے ہوئے سالار خان کے ذہن میں ناچاہتے ہوئے بھی حسین مکھڑے کے گرد لپٹا وہ سیاہ سکارف تازہ ہوا تھا جبھی وہ غنودگی میں جاتا جاتا پل بھر کو چونک سا گیا۔

اسکی رابی تو  دوپٹے کو خود کے تن سے لگانا ہی معیوب سمجھتی تھی۔۔۔۔کجا کہ حجاب۔۔۔؟؟؟

ایک واضح فرق تھا جو اسے تب سے پہلی بار محسوس ہوا تھا۔۔۔اور پھر اسکی آنکھوں کا رنگ۔۔۔۔؟؟؟

اس سے پہلے کہ وہ مزید فرق تلاشتا  مکمل بند ہوتی آنکھیں سالار خان  سے سمجھنے سوچنے کی تمام تر صلاحیتیں مکمل طور پر سلب کرتی چلی گئیں۔۔

ایسے میں پل پل آسمان کے سینے پر چڑھتا سورج الگ سے اپنی قابل برداشت روشنیاں بکھیر رہا تھا جس سے بےنیاز وہ تینوں بند کمرے میں موجود اپنی بےوقتی شوخ سرگرمیوں میں غرق تھے۔

پروجیکٹرلینز سے پھوٹتی رنگین شعاعیں۔۔۔اطراف میں منڈلاتی نیم تاریکی کو بآسانی مات دیتی ہوئی شفاف پردے پر ہولی وُوڈ مووی کے بولڈ سین کی نمائش کررہی تھیں۔۔۔جسے بغور تکتے ان کی آنکھوں کی چمک پل پل بڑھتی چلی  جارہی تھی۔

سپائسی چکن لیگز کے ڈبے صفا چٹ کرنے کے بعدسگریٹ نوشی کا چلنے والا یہ دوسرا دور تھا جو اُنکو عجیب سے سرور سے دوچار کرگیا۔

چلتی سکرین پر یک ٹک کپل کو آپس میں لائٹ رومانس جھاڑتا دیکھ افروز کے چہرے پر ایک بے نام سی بےچینی تھی۔

”ٹھک ٹھک ٹھک۔۔۔۔“  

معاً کسی نے دروازے پر زور سے دستک دے کر ان کی محویت کو توڑا تو تینوں بیک وقت چونک سے گئے۔

”لگتا ہے مہوش آئی ہے۔۔۔۔

تم لوگ مووی انجوائے کرو میں جاکر دیکھتا ہوں۔۔۔۔“  

چلتی سکرین سے نگاہیں ہٹا کرشام  اگلے ہی پل ادھ سلگتا سگریٹ  ایش ٹرے میں مسل کر تیزی سے وہاں سے اٹھ گیا۔

اس دوران ٹھوڑی کھجاتا فواد بےاختیار چوکنا ہوا تھا۔

”مہوش۔۔۔؟؟؟

یہ وہی چھپکلی ہے ناں جس کے ساتھ شام کا پہلے سے افئیر رہ چکا ہے۔۔۔؟؟؟“  

شام کے دروازے تک جانے پر فواد بےاختیار افروز کی جانب دیکھتا دھیمے لہجے میں گویا ہوا تو جواباً سر کو پرسوچ انداز میں جنبش دیتا وہ بے دلی سے چلتی مووی کی طرف واپس نگاہیں پھیر گیا۔

”یار تم اتنی لیٹ۔۔۔ک۔۔۔۔“  

عجلت میں دروازہ کھولتا شام شکوہ کرنے پر آیا تھا جب مہوش کی جگہ حرمین کو اپنے مقابل دیکھ کر اسے حیرت کا جھٹکا لگا۔

اسکے یوں ٹھٹک جانے پرحرمین کے لپ گلوس لگے پنکھری لب دھیرے سے مسکرائے۔

مقابل کے وجیہہ نقوش پر بکھرتی حیرت دلچسپ تھی جبکہ اپنی منزل سامنے پاکر دھڑکتے دل میں ڈھیروں سکون اترا تھا۔

”حرمین۔۔۔تم۔۔۔؟؟؟“ 

 اپنے پیچھے دروازہ بند کرتے شام نے بغور اسکا سراپا دیکھا جو بنا  چشمے اور حجاب کے عنابی رنگ شلوار قمیض میں قدرے شرمائی لجھائی سی دکھائی دے رہی تھی۔

ایسے میں آگے کو آئے کھلے بالوں نے ہم رنگ چادر کو کندھوں سے کافی حد تک ڈھانپ رکھا تھا۔

”تم اس وقت یہاں کیا کررہی ہو۔۔۔؟؟؟

اور تمھیں کیسے پتا چلا میں یہاں فارم ہاؤس پر ہوں۔۔۔۔“  

وہ جو اپنا ذاتی وقت مہوش جیسی بولڈ لڑکی کی سنگت میں گزارنا چاہ رہا تھا۔۔۔حرمین کی سانولی صورت دیکھ کر بظاہر نرمی سے پوچھتا اپنے لہجے کی کاٹ چھپانے میں کافی حد تک کامیاب رہا تھا۔

”آپکا نمبر بند جارہا تھا لیکن پھر افروز نے مجھے آپکی یہاں موجودگی کا  کال پر بتادیا تھا۔۔۔۔

ایکچولی شام میں۔۔۔

ایک بہت ہی خاص موضوع پر آپ سے بات کرنا چاہ رہی تھی۔۔۔

مزید انتظار کرنا محال تھا میرے لیے اسی لیے بنا دیر کیے یہاں چلی آئی۔۔۔۔۔“  

بےتابی سے انگلیاں چٹخاتی۔۔۔وہ اسکی جانب دیکھتی گویا ہوئی تو شام افروز کا نام سن کر اندر ہی اندر پیچ و تاب کھا کر رہ گیا جو رنگ میں بھنگ ڈالنے کا کام اسکے علم میں لائے بغیر کربھی چکا تھا۔اسنے ایک گہرا بھرا۔

”ہاں توکس خاص موضوع پر بات کرنا چاہ رہی ہو تم مجھ سے حرمین۔۔۔؟؟؟

تم کہو میں سن رہا ہوں۔۔۔۔“  

شام نے وہیں کھڑے کھڑے دروازے پر ہتھیلی جماتے کچھ تجسس سے پوچھا تو اسکی مکمل توجہ خود پر مرکوز ہوتے دیکھ حرمین کا دل شدت سے دھڑکا۔

”وہ۔۔۔ذباب۔۔۔

اسکے گھر والے کل ہماری طرف آرہے ہیں۔۔۔

ہمارے نکاح کی ڈیٹ فکس کرنے کے لیے۔۔۔ماما بھی راضی ہیں انفیکٹ سب ہی راضی ہیں۔۔۔۔“  

بےتابی سے بولتے ہوئے اسکے لہجے میں ایکدم سے ہی اداسی گھلی تھی۔

انداز صاف فکرکرتا ہوا تھا۔

”تو۔۔۔۔؟؟؟“

 بےتاثر نگاہوں سے اسکی جانب دیکھتا وہ بھنویں اچکا گیا

جبکہ اسکے بدلتے تیوروں پر غور کیے بنا ہی وہ لبوں پر زبان پھیرتی پل بھرکو گڑبڑائی۔

”ت۔۔تو یہ کہ۔۔۔

میں یہ چاہ رہی ہوں۔۔انکے آنے سے پہلے آپ اپنے پیرنٹس کو لے کر میرے گھر آئیں۔۔

ماما سے اپنے اور میرے نکاح کی بات کریں۔۔۔

مجھے پورا یقین ہے اسکے بعد۔۔۔“  پلکیں جھپکا جھپکا کر اپنے دل کی بات کہتی وہ مزید بولنا چاہ رہی تھی جب اسکی صاف گوئی پر حیرت تلے اسے ٹوکتا وہ سیدھا ہوا۔

”ویٹ ویٹ۔۔۔ویٹ۔۔۔۔؟؟

تم کہنا چاہ رہی ہو کہ میں اپنے پیرنٹس کو لے کر تمھاری طرف آؤں۔۔۔

ہمارے نکاح کی بات کرنے کے لیے۔۔۔رائٹ۔۔۔؟؟؟“ 

 شہادت کی انگلی کو اٹھائے ہاتھ ہلاکر پوچھتا وہ اسے حیاء سے نگاہیں جھکانے پر مجبور کرگیا۔

”ہ۔۔ہاں۔۔۔بالکل ایسا ہی ہے۔۔۔“ 

 شدتوں سے دھڑکتے دل کو سنبھالنے کی ناکام کوشش کرتی وہ مضبوط آواز میں بولی تو اسکے مسکاتے نقوش دیکھتے ہوئے شام کی پیشانی پر ناگوار لکیروں کا جال بکھر کر سمٹا۔

”لیکن میں ایسا کیوں کروں گا یار۔۔۔؟؟؟

 انفیکٹ تم جیسی لڑکی سے شادی ہی کیوں کروں گا۔۔۔۔؟؟؟“

  کہتے ہوئے بھوری نگاہوں میں غرور اور حقارت کا ملاجلا جہاں آباد ہوا تھا جسے نگاہیں اٹھا کر دیکھ لینے پر بھی وہ اسکے استفسار کو محض ایک معصومانہ سوال سمجھتی ہولے سے مسکرائی۔

”کیونکہ ہم ایک دوسرے سے بے انتہا محبت کرتے ہیں۔۔۔۔۔“  وہ مکمل اعتماد سے بولی۔

اس دوران ایک الوہی سی چمک مسلسل حرمین کے سانولے مکھڑے کا احاطہ کیے ہوئے تھی۔

اسکی خوش فہمی پر شام کے لبوں پر کمینی مسکراہٹ اتری۔

”ہم۔۔۔؟؟؟

ہم ناٹ حرمین ڈئیرجسٹ یو۔۔۔۔

صرف تم ہی ہو جسے مجھ سے بے انتہا محبت ہوچکی ہے۔۔۔

مگر اصل بات تو یہ ہے کہ مجھے تم سے بالکل بھی محبت نہیں ہے۔۔۔

انفیکٹ کبھی ہو بھی نہیں سکتی۔۔۔

اور جب محبت ہی نہیں تو پھر یہ نکاح شادی جیسے بکھیروں کا پیچھے کیا جواز رہ جاتا ہے ۔۔۔؟؟؟“  

سفاکیت سے بولتا وہ اپنے لفظوں سے اسکی روح تک کو جھنجھوڑ کر رکھ گیا تھا۔  

”آپ۔۔آپ مذاق میں بول رہے ہیں ناں یہ سب۔۔۔؟؟؟

ا۔۔اگر ایسا ہے تو یقین جانیے مجھے یہ مذاق بالکل بھی اچھا نہیں لگا شام۔۔۔

ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ کو مجھ سے محبت نہ ہو۔۔۔۔۔“  

کچھ توقف کے بعد بڑی مشکلوں سے اپنی مسکراہٹ کو دوبارہ بحال کرتی وہ شدت سے خوش فہمی کا شکار ہوجانا چاہتی تھی مگر مقابل بھی کھلتے لبوں سے مسکراہٹیں نوچنے کا کھلاڑی تھا۔

”میں ہرگز مذاق نہیں کررہا سویٹ ہارٹ۔۔۔

حقیقت بیان کررہا ہوں سو اسےتسلیم کرو۔۔۔

خود سوچو۔۔۔

فیصلہ کرو اور پھر مجھے بتاؤ۔۔۔

ہم نے بارہا ایک ساتھ وقت گزارا ہے۔۔۔

کیا اس دوران ہمارے درمیان ایک بار بھی ایسا لمحہ آیا جس میں نے تم سے اظہارِ محبت کیا ہو۔۔۔؟؟؟

کبھی ایک بار بھی اپنے جذبات تمھارے سامنے کھول کر بیان کیے ہوں۔۔۔۔؟؟؟“

 وہ بڑے اطمینان سے بول رہا تھا اور وہ جو اب تک یہی سمجھتی آئی تھی کہ بے لوث محبت لفظوں کی محتاج نہیں ہے اب خود ہی چند الفاظ کی کھوج میں بار بار دماغ پر ضرور دیتی  ہلکان ہونے لگی تھی۔

شام نے سینے پر بازو لپٹتے بڑی دلچسپی سے اسکا زرد پڑتا چہرہ دیکھا۔

 وہ تیزی سے بھیگتی  نگاہوں کو جھپکا جھپکا کر ناکردہ اظہار تک رسائی حاصل کرنے کی ناکام کوششیں کررہی تھی۔۔۔

لیکن ناسور بن کے پھیلتی چند خوشاآمدنہ تعریفوں کے سوا اسے وہاں کچھ بھی نہ ملا تھا۔

ناکامی پلوں میں آنسوؤں کی صورت اسکی گالوں پر بہہ نکلی۔

معاً شام کی اذیت دیتی ہنسی نے اسکا جانلیوا سکوت توڑا تو اسنے چونک کر شام کی تمسخر اڑاتی نگاہوں میں دیکھا۔

”ت۔۔۔تو کیا۔۔۔تم مجھ سے محبت نہیں کرتے۔۔۔۔؟؟؟“

 صدمے سے پوچھتے ہوئے اسکے پھٹتے دل کی دھڑکنیں تھم جانے کو ہوئیں تو اسکے ”آپ“ سے ”تم“ تک کا فاصلہ طے کرنے پر وہ پل بھرکو مسکرایا۔

پھرسر کو نفی میں جنبش دیتے ہوئے ذرا سا جھک کر اسکی جھلملاتی آنکھوں میں اپنا آپ دیکھنے کی کوشش کی۔

”جانتی ہو؟؟

محبت اور دل کا آپس میں بہت گہرا کنکشن ہوتا ہے۔۔

اتنا گہرا کہ ان دونوں کے درمیان دماغ  کا دور دور تک کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔۔۔۔

فطرتاً انسان کو جب بھی محبت ہوتی ہے ہمیشہ دل سے ہوتی ہے دماغ سے نہیں۔۔۔

لیکن آج یہ حقیقت جان لو حرمین زہرا کہ تمھارے معاملے میں،شاہ میر حسن نے کبھی بھی دل سے کام نہیں لیا۔۔۔

جب بھی لیا ہے فقط اس دماغ سے لیا ہے۔۔۔۔“  

اس کا لہجہ نہیں جلتے ہوئے انگارے تھے جس میں وہ اسکا نازک وجود جھلسا دینا چاہتا تھا اور وہ مقابل کے سلگتے لفظوں پر پور پور جھلستی جارہی تھی۔

اسنے دھیرے سے نفی میں گردن ہلائی۔

 ”ی۔۔۔یہ تم نہیں ہوسکتے۔۔۔۔

بھلا ایسا کیسےکرسکتے ہو تم میرے ساتھ۔۔۔؟؟

میں نے اپنا تن من یقین سب کچھ تم پر اندھا دھند لٹا دیا تو پھر کیسے تم اتنی آسانی سے مجھے دغا دینے کا سوچ سکتے ہو۔۔۔؟؟

کیسےےےے۔۔۔۔؟؟؟“  

 آخر میں بھرائی آواز میں چیخ کر پوچھتی وہ بےدردی سے اسکا گریبان اپنی مٹھیوں میں دبوچ چکی تھی۔

اذیت سے پلکیں جھپکانے پر آنسو تیزی سے گالوں پر لڑھک آئے۔

”ڈونٹ ٹچ می لائیک دیٹ اگین۔۔۔۔“ 

 اسکی جرات پر شام کی آنکھیں جلنے لگیں تو بے اختیار اسکی کلائیوں کو مضبوطی سے پکڑتا وہ اگلے ہی پل اسے پیچھے دھکیل گیا۔نتیجتاً وہ کئی قدم لڑکھڑا کر پیچھے ہٹی تھی۔

فواد اور افروز بھی چیختی آوازوں پر بوکھلائے سے مووی چھوڑ کر جلدی سے دروازہ کھولتے ہوئے باہر نکل آئے۔

حرمین نے دھندلائی نگاہوں میں حیرت سموئے بامشکل اس دھتکار کو قبول کیا تھا۔

تینوں کی موجودگی میں اپنے وجود سے پھسلتی چادر کو ٹھیک کرتے ہوئے اسکا گلال چہرہ اہانت کے شدید احساس تلے مزید سرخ پڑا تھا۔۔۔

مگر مقابل کے بے وفا چہرے پر کوئی پچھتاوا کوئی ملال نہیں تھا۔

”جانتی ہو مجھے حقیقتاً تمھاری طرف کس چیز نے اٹریکٹ کیا تھا۔۔۔۔؟؟؟“ 

 شام کالر کو درشتگی سے جھٹکتے ہوئے بولا تو حرمین کے مردہ دل کی دھڑکنوں میں ہولے سے جنبش ہوئی۔

”تمھاری روڈنیس نے۔۔۔

تمھاری اگنورینس نے۔۔۔۔۔“  قدم قدم چلتا وہ اُسکے مقابل آرکا۔

اسی کی جانب اذیت سے تکتی حرمین کی سانسیں اٹکنے لگیں۔

جبکہ ان دونوں کی جانب خاموشی سے دیکھتے فواد اور افروز کافی حد تک معاملے کی سنگینی کو سمجھ گئے تھے۔

”مجھے لگتا تھا کہ تم وہ لڑکی ہو جو مردوں کی چاپلوسیوں کے آگے کبھی بھی گھٹنے نہیں ٹیک سکتی۔۔۔

عام لڑکیوں سے ہٹ کر ہو تم جو ہم جیسوں کی ضد اور آفر کے سامنے انکار کرنے کی بےمثال جرات رکھتی ہے۔۔۔

پر اس معاملے میں تم نے مجھے غلط ثابت کردیا حرمین۔۔۔

تم نے ثابت کردیا کہ تم بھی ایک قابلِ تسخیر ہدف ہو جسے مشکلوں سے ہی سہی پر میں تسخیرکرچکا ہوں۔۔۔۔۔“ 

جینز کی پاکٹس میں ہاتھ پھنسائے وہ بےدردی سے بولتا اسکی ذات کے پرخچے اڑائے چلا جارہا تھا۔۔۔

اور وہ کمالِ ضبط کا مظاہرہ کرتی اب بھی اپنے پیروں پر اسکے مقابل پورے قد سے کھڑی تھی لیکن تلخ لفظوں کے بوجھ تلے وجود کپکپا اٹھا تھا۔

تبھی دانتوں تلے اپنی سسکی روکتی حرمین اسکے چوڑے سینے پر دھیرے سے اپنی لرزتی ہتھیلیاں جماتی قریب ہوئی۔

شام نے بےتاثر نگاہوں سے اسکے بھیگے نقوش دیکھے تھے۔

”شش۔۔شام۔۔۔

ہمارے بیچ گزرے تمام پل تو محبت میں گزرے پل تھے ناں۔۔۔

خدارا انھیں خود غرضی کا نام دےکر یوں داغدار مت کرو۔۔۔

تمھارے نفس کی تسکین کے سبب میری زندگی برباد ہوجائے گی۔۔۔۔“ 

 پھوٹ پھوٹ کر رونے سے خود کو بامشکل باز رکھتی وہ شدت سے ملتجی ہوئی۔لہو لہان ہوتا دل ہنوز کرلا رہا تھا۔۔۔

جبکہ اپنی محبت میں شدت سے دم بھرتی اس لڑکی کو یوں قریب سے ہلکان ہوتا دیکھ شام کا سفاک دل تب سے پہلی بار اسکے حق میں زوروں سے دھڑکا تھا۔

اس سے پہلے کہ بےوفا ہوتی دھڑکنیں صاف بغاوت پر اترآتی معاً وہ پاکٹس سے ہاتھ باہر نکالتا اسے خود سے پرے کرگیا۔

”تو ہوجائے۔۔۔

آئی ڈیم کئیر۔۔۔“ 

قدرے بےپروائی سے بولتا وہ اسکی ذات سے بے نیاز ہونے میں کامیاب ٹھہرا تھا۔

اسکے جواب پر ساکت ہوتی حرمین کو اپنی سانسیں بھی رکتی ہو محسوس ہوئیں۔

”بائے دا وے کیا۔۔۔کیاسوچا کیا تھا تم نے۔۔۔؟؟؟

ہہمم۔۔۔؟؟؟“

 استہزائیہ انداز میں اسکی جانب دیکھ کر بولتا وہ مزید گویا ہوا تو جہاں بمشکل خود پر ضبط کرتی۔۔حرمین کا تنفس بگڑنے لگا وہیں افروز سمیت فواد اسکی ڈھٹائی کو تاسف سے دیکھ کر رہ گئے۔ 

”شام۔۔۔

چل چھوڑدے یار اب جانے دے بات کو۔۔۔۔۔“  اس طول پکڑتی بدمزگی پر کچھ پریشان ہوتا افروز معاملہ نمٹانے کو جلدی سے بول پڑا۔۔۔

پر وہ ہر التجاء سے بےبہرہ اس وقت کسی کی بھی سننے کے موڈ میں نہیں تھا۔۔۔۔۔

”چار دن تمھارے ساتھ گھوموں گا پھروں گا۔۔۔ایک عدد حسین رات گزاروں گا تو مجھے تم سے بےپناہ محبت ہوجائے گی۔۔؟؟

سریسلی حرمین۔۔۔۔؟؟

یارتمھاری اوقات کیا ہے میرے سامنے۔۔۔؟؟؟

نہ صورت ہے نہ ہی امیری۔۔۔

اور اب تو کریکٹر کے معاملے میں بھی تم بہت پیچھے رہ گئی ہو۔۔۔

میری یہ بات اچھے سے ذہن نشین کرلو کہ تمھاری حیثیت میرے نزدیک  فقط ایک ٹارگٹ۔۔۔۔۔“

 اپنی برتری کو ہر لحاظ سے اس کی کمتر ذات پر ترجیح دیتا وہ ایک غرور سے بول رہا تھا جب اگلے ہی پل گال پر پوری شدت سے پڑنے والا تھپڑ پل میں اسکی بولتی بند کرواگیا۔

”چٹااااخ۔۔۔۔۔“

  وسیع ہال میں گونجتی آواز کو وہاں آتی مہوش نے بخوبی سنا تھا جبھی اس نا قابل یقین منظر کو حیرت سے تکتی وہ اپنی جگہ تھم کر رہ گئی۔

فواد سمیت افروز نے حیرت سے منہ کھول کر اپنے یار کی پشت کو دیکھا جو اس غیرمتوقع حملے پر سختی سے مٹھیاں بھینچے۔۔۔لہو رنگ آنکھوں سے ہنوز سفید ماربل کو گھور رہا تھا۔

اس دوران مہوش کی موجودگی کی آہٹ اسکی سنساتی ہوئی سماعتوں سے پوشیدہ نہیں رہ پائی تھی۔

معاً حرمین نے نفرت بھری نگاہوں سے اسکا ضبط تلے خطرناک حد تک سرخ پڑتا چہرہ دیکھ کر فرش پر تھوکا تھا۔

نظریں اٹھا کر غصے سے اسکی جانب دیکھتے شام کی رگوں میں خون ابلنے لگا۔

”تھو ہے تمھاری اس حسین صورت پر جس پر فدا ہوکر جانے کتنی ہی لڑکیاں خود کی عزت دو کوڑی سے بھی کم کی کر بیٹھتی ہیں۔۔۔

اور تھو ہے مجھ جیسی بدنصیب لڑکی پر جو تم پر فدا ہوئی۔۔۔۔

تم جیسے گھٹیا ترین مرد کے لیے یہ تھپڑ تو کچھ بھی نہیں ہے شاہ میر حسن۔۔۔

اگر میرا  بس چلے تو تمھیں اپنی زندگی برباد کرنے کے جرم میں سیدھا پھانسی پر لٹکا دوں۔۔۔۔۔“  

بےدردی سے اپنے نم گال مسلتی وہ مشتعل ہوکر  بلندآواز میں چیخ رہی تھی۔

مقابل کا حقیقی روپ شدت سے اپنا آپ منواتا حرمین کو اس کے وجود سے شدید نفرت کرنے پر مجبور کر گیا تھا۔

اور بس۔۔۔یہی پر آکر شام کے ہاتھوں سے ضبط کی ساری طنابیں چھوٹتی چلی گئیں۔

جبھی اپنی رگوں میں امڈتے شدید اشتعال کو دبانے میں مزید ناکام ٹھہرتا وہ ایکدم سے حرمین پر جھپٹا۔

”او۔۔یو شٹ اپ۔۔جسٹ شٹ اپ۔۔۔۔

ہمت بھی کیسے ہوئی تمھاری مجھ پر ہاتھ اٹھانے کی۔۔۔ہاں۔۔۔۔؟؟؟

کیسےےے ہوئی جواب دو مجھے۔۔۔؟؟؟“ 

 بازوؤں سے دبوچ کر اپنے بےحد قریب کرتا وہ حرمین کے بوکھلائے چہرے پر دہاڑا۔

لہجے کے ساتھ ساتھ گرفت بھی اتنی سخت تھی کہ بازوؤں میں اٹھتا درد حرمین کی سانسیں خشک کرگیا۔

”شام۔۔۔۔۔“  

وہ دونوں بھی ہوش میں آتے سرعت سے اسکی جانب لپکے۔

”چھ۔۔چھوڑو مجھے جنگلی۔۔۔۔“  

جہاں حرمین ناکام مزاحمت کرتی نفرت سے بولی وہیں ہنوز بت بن کے کھڑی مہوش کی آنکھیں اس دست درازی پر مزید پھیل گئیں۔

گال پر ہوتی جلن کے سبب شام غصے سے پاگل ہوتا شاید ہاتھ اٹھانے سے بھی گریز نہ کرتا اگر جو فواد اور افروز بروقت بیچ میں پڑتے اس بپھڑے شیر کو گھسیٹ کرحرمین سے پیچھے نہیں کرتے۔

”حرمین۔۔۔

پلیز گو۔۔۔۔

چلی جاؤ یہاں سے۔۔۔اگر اپنی خیر چاہتی ہو تو کبھی پلٹ کر واپس مت آنا۔۔۔۔

جسٹ گوٹو دی ہیل ڈیم اٹ۔۔۔

آؤٹ فرام ہیر۔۔۔۔“  

حرمین  کو سسک کر بازو ملتے دیکھ افروز چیخ کر بولا تو ان دونوں کی مضبوط ترین گرفت میں مچلتے شام نے شدت سے اپنا آپ چھڑوانا چاہا۔

”چھوڑو مجھے۔۔۔۔

اسکی تو میں۔۔۔۔“  وہ پل پل بپھڑتا ان دونوں کی طاقت مزید صرف کررہا تھا۔حرمین کا دل ڈوبنے لگا۔

”ت۔۔۔تم نے اپنی نام نہاد جیت کی خاطر جس طرح  مجھ یتیم لڑکی کی زندگی تباہ کی ہے ناں شام۔۔

میری دعا ہے کہ تم بھی اسی طرح  برباد ہوجاؤ۔۔

پل پل سسکو۔۔۔

تڑپو پر تمھیں زندگی میں کبھی سکون نہ آئے۔۔۔“  

جواباً سسک کر بولتی حرمین کے لیے مزید وہاں رکنا محال ہوا جبھی وہ اپنا سب کچھ گنوا ہار کر وہاں سے ہانپتی کانپتی ہوئی بھاگ کر باہر کی طرف نکلتی چلی گئی۔

”تم دوٹکے کی نیچ عورت اب مجھے۔۔۔شاہ میرحسن کو پھانسی پر لٹکانے کی باتیں کروگی۔۔۔؟؟؟

یو بلڈی۔۔###۔۔۔۔“ 

 اسکے لفظوں پر وجود میں اترتی بےچینی پر وہ بدتمیزی کی آخری حدوں کو چھوتا مزید بولنا چاہتا تھا مگر اسے زبردستی گھسیٹ کر واپس کمرے میں لے جاتے ہوئے فواد اور افروز دھاڑ سے دروازہ بند کرگئے۔

ہال خالی ہوتا دیکھ حواسوں میں واپس لوٹتی مہوش بھی بپھڑے شیر کے منہ میں ہاتھ نہ ڈالنے کا ارادہ کرتی اگلے ہی پل جس خاموشی سے آئی تھی تماشہ دیکھ کر اسی خاموشی کے ساتھ وہاں سے نکلتی چلی گئی۔۔۔

جبکہ بند دروازے کے پیچھے شام کی وقفے وقفے سے نکلتی بھڑاس کے سنگ اب توڑ پھوڑ کی آوازیں بھی شامل ہوتی چلی گئی تھیں۔۔۔۔

************************

”تمھیں کچھ یاد کیوں نہیں پڑتا اس بدذات شخص کے حوالے سے۔۔۔؟؟؟

اگر ہمیں ایک بار اسکا نام پتا معلوم ہوجائے تو بنا وقت ضائع کیے اس سمیت اسکی مدمعاشی کو جیل میں جھونک دیں ہم۔۔۔۔“

  اپنے جگڑ کی بگڑی حالت پر خنساء بیگم نم آنکھوں کو جھپکاتی سخت لہجے میں بولیں تو  انھیں اتنے وقت سے ایک ہی موضوع پر اڑا دیکھ کر سالارخان کو اب چڑ سی ہونے لگی۔

”جو ہوا سو ہوا اماں حضور۔۔۔

آپ پلیز اس بات کو ذیادہ طول مت دیں تو بہتر ہے۔۔۔۔“  

بےاختیار بیڈ کراؤن سے ٹیک ہٹاکر صحیح سے بیٹھتا وہ بےتاثر لہجے میں گویا ہوا تو خنساء بیگم اسکی الجھن کو محسوس کرتی اپنے لب بھینچ کر رہ گئیں۔

پھر نرمی سے اسے ٹھوڑی سے تھام کر اسکا زخمی چہرہ مکمل اپنی جانب موڑا۔

 ناک کے ایک طرف کا کافی سارا حصہ مرہم تلے چھپا اتنا بھی بدنما نہیں لگ رہا تھا۔

”تمھارے لیے یہ محض ایک بات ہوسکتی ہے میرے چاند۔۔۔

مگر تمھاری ایسی حالت دیکھ کر حقیقتاً میرے کلیجے کو ہاتھ پڑا ہے۔۔۔۔

کیا معلوم وہ اجنبی مرد ہمارے دشمن خاندان میں سے کوئی ایک ہو۔۔۔؟؟؟

اور بلاشبہ یہ بہت فکر کا معاملہ ہے۔۔۔“  

اسےسمجھانے کو وہ نرمی سے لب کشائی کررہی تھیں۔

ایسے میں سوچوں میں پڑتے سالار خان کی یادداشت میں بےاختیار ایک دھندلا دھندلا سا عکس تازہ ہوا تھا۔ 

”یہ تمھاری رابی نہیں۔۔۔

میری آبرو ہے۔۔۔

فقط شاہ میر حسن کی آبرو۔۔۔۔“  

 اسکا گریبان دبوچ کرجھنجھوڑتا وہ شدت سے اسے باور کروانے کی کوشش کررہا تھا۔

مگر آگے سے اسے خود کا دیا گیا جواب یاد نہیں آیا تھا۔

سالار خان کا سر دکھنے لگا۔

ذہن پر شدت سے زور ڈالنے پر بھی اسے فقط ایک دو منظر ہی یاد رہے تھے۔

باقی کیا ہوا تھا؟

کیسے ہوا تھا؟

وہ سب تو جیسے یاداشت سے مٹ سا گیا تھا۔

شاید گزشتہ شب اسنے اس شخص کی بیوی یاں منگیتر کو شدید مدہوشی کے عالم میں چھیڑکر تلملانے پر مجبور دیا تھا۔۔۔

اور اسکا انجام وہ سر اور ناک میں اٹھتی تکلیف کی صورت بھگت بھی چکا تھا۔۔۔

”کہاں کھوگئے ہو برخوردار۔۔۔؟؟

کیا اب بھی کچھ یاد نہیں آیا اس شخص کے بارے میں۔۔۔؟؟؟“

  خنساء بیگم کے کھوجتے انداز پر وہ اپنے خیالوں  سے چونکتا ان کی جانب متوجہ ہوا۔

”ہوں۔۔۔؟؟

م۔۔معلوم نہیں وہ شخص کون تھا۔۔۔؟؟

مگر جو بھی تھا ہمارا حریف ہرگز نہیں تھا۔۔۔۔“ 

 ایک یقین سے بولتا وہ انکی بات سے صاف انکاری ہوا تو اسکی جانب دیکھتی خنساء بیگم کی پیشانی پر بل پڑے۔

”اور تم یہ بات اتنے وثوق سے کیسے کہہ سکتے ہو۔۔۔؟؟؟“

آدھے ادھورے معاملے سے انجان۔۔۔انکی تفتیش بڑھی تھی۔

”میں کہہ رہا ہوں ناں اماں حضور۔۔۔

بس آپ یقین کرلیں اور مہربانی کرکے پرسکون ہوجائیں۔۔۔

سب ٹھیک ہے۔۔۔۔“ 

 اب کی بار وہ جھنجھلاکر بولا تو ملازمہ کی جگہ۔۔۔

کھانے کا ٹرے پکڑ کمرے میں آتی حلیمہ نے اسکے چہرے کی ناگواری کو بغور دیکھا تھا۔۔۔

جبکہ اس سمے اسے نظروں کے سامنے آتا دیکھ کر سالار خان کا حلق تک کڑوا ہو گیا تھا۔

”ہم تو جیسے تیسے پرسکون ہوجائیں گے برخوردار مگر تمھیں سکون حاصل کرنے کے لیے فقط شراب کے نشے کو ہی اپنا سہارا بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔

اگر اپنے آس پاس غور و فکر کرو گے تو یقیناً اس پھیکے نشے سے کہیں بہتر اور مضبوط سہارےکو اپنا منتظر پاؤگے۔۔۔۔“

  حلیمہ کی موجودگی محسوس کرلینے پر بھی خنساء بیگم دھیمے لہجے میں اسے تنبیہ کرنا نہیں بھولی تھیں۔

گوکہ وہ جانتی تھیں مضبوط بندھن میں بندھنے کے باوجود بھی ان دونوں کے تعلقات مزید سرد ہو گئے تھے اور انھیں اپنے بیٹے کی وقتی ناراضگی سے بھی خوب واقفیت تھی۔۔

مگر وہ سالار خان کی ہٹ دھڑمی کے آگے اسکے مستقبل کو خراب کردینے کی ہمت خود میں بالکل بھی نہیں پاتی تھیں۔

سالار نے کچھ خفگی سے خنساء بیگم کو دیکھا جو اب اسکے پاس سے اٹھ کر ایک بولتی نگاہ حلیمہ پر ڈالتی ہوئی  کمرے سے باہر چلی گئیں۔

”میں یہ کھانا لائی تھی آپ کے لیے۔۔۔۔“  

ان کے جانے کے بعد حلیمہ چلتی ہوئی بیڈ تک آئی تھی اور پھر سالار کے سامنے جھک کر کھانے کی ٹرے رکھتی دھیمے لہجے میں بولی۔

”مجھےبخوبی دکھائی دے رہا ہے۔۔۔

تمھیں بلاوجہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔“ 

 ایک تیز نگاہ اسکے سادہ چہرے پر ڈال کر سردمہری سے بولتا وہ کھانے کی طرف متوجہ ہوا تو حلیمہ اسکے لہجے کی کڑواہٹ کو بآسانی اپنے اندر اتارتی گہرا سانس بھرکے رہ گئی۔

پھر لب سیے سامنے ڈریسنگ ٹیبل کی طرف لپکی۔

ٹرے میں کوفتوں کی ڈش  کے ساتھ۔۔۔علیحدہ پلیٹ میں دھرے ابلے انڈوں کے قتلے دیکھ سالار کی کب سے دبی بھوک ایکدم ہی بھڑک اٹھی تھی۔

ایسے میں الگ سے سائیڈ پر رکھی نمک دانی اور(کالی) مرچ دانی کی اضافی موجودگی حلیمہ کے سلیقے کا منہ بولتا ثبوت تھی۔

پہلے لقمے کا سواد حلق سے نیچے اتارنے پر یکلخت ایک خیال سالار کے دماغ کو تیزی سے چھو کر گزرا تو اسنے نگاہیں اٹھاکرحلیمہ کی پشت کو بغور دیکھا۔

”کھانا کھایا تم نے۔۔۔۔؟؟؟“

  حلیمہ نے نچلا کیبن کھول کر فرسٹ ایڈ باکس باہر نکالا تھا جب سالار کا سرسراتا ہوا سوال اسکی سماعتوں سے ٹکرایا۔

معاً چونک کر سیدھی ہوتی وہ اسکی جانب پلٹی۔

مگر پھراسکے چہرے کے سرد تاثرات دیکھ کر ہولے سے نفی میں سر ہلاگئی۔

”آپکی فکر چھوڑ کر بھلا میں اپنی بھوک کی فکر کیسے کرلیتی خان۔۔۔۔؟؟؟“

  فرسٹ ایڈ باکس کھول کر مطلوبہ میڈیسن نکالتی حلیمہ نے جواب سالار کی توقع کے مطابق دیا تھا۔

بےاختیار ایک کمینی مسکراہٹ پل بھرکے لیے اسکے لبوں پر اپنی چھپ دکھلاکر تیزی سے غائب ہوئی تھی۔۔۔

”یہاں آؤ میرے پاس۔۔۔۔“ 

 اسکی جانب دیکھتا وہ بےتاثر لہجے میں بولا تو وہ رک کر کچھ حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔وہ اسے اپنے قریب بلارہا تھا۔

”میں کچھ کہہ رہا ہوں تم سے۔۔۔۔

اب کیا اونچا سننے لگی ہو تم۔۔۔؟؟؟

ادھر آؤ۔۔۔۔“ 

 اسے وہیں ساکت کھڑا دیکھ اس نے پیشانی پر تیوری چڑھاتے ہوئے قدرے سخت انداز اپنایا تو وہ بھی چونک کر جیسے ہوش میں آئی۔

”جج۔۔۔جی میں۔۔۔“  

جلدی سے اثبات میں سر ہلا کر میڈیسن سمیت فرسٹ ایڈ باکس کو وہیں چھوڑتی وہ تیزی سے اسکی طرف لپکی۔

”بیٹھو۔۔۔۔“  

بھنوؤں سے اشارہ کرتا اب کہ وہ اسے اپنے مقابل بیڈ پر بیٹھنے کو کہہ رہا تھا۔

وہ الجھن بھری نگاہوں سے اسکے تنے نقوش دیکھتی چپ چاپ اسکے سامنے سمٹ کر بیٹھ گئی۔

”بہت فکر کرتی ہو ناں تم میری۔۔۔۔؟؟

تو جواب میں اُس جتنی نہ سہی مگر تھوڑی بہت فکر کرنے کا حق تو میرا بھی بنتا ہے۔۔

بقول تمھارے آخر کو شوہر ہوں تمھارا۔۔۔۔۔“  

علیحدہ سے پلیٹ میں کوفتوں کا سالن نکالتا وہ دھیمے سرد لہجے میں بول رہا تھا جبکہ اسکی اس غیرمتوقع عنایت پر حیرت تلے حلیمہ کی دھڑکنیں تیز تر ہوئی تھیں۔

”اس وقتی فکر کی بجائے کیا آپ عمر بھر کے لیے میری فکر کرنے کا بیڑا نہیں اٹھاسکتے خان۔۔۔؟؟؟“

  اسکے چہرے پر بکھرے اطمینان کو تکتی وہ چاہ کر بھی اپنا حسرت زدہ لہجہ چھپا نہیں پائی تھی۔نمک دانی اٹھاتا وہ تلخی سے مسکرایا۔

”اٹھانے کو تو میں یہ بیڑا بھی زندگی بھرکے لیے اٹھالوں۔۔

لیکن مجھے یقین ہے اس کے بعد تمھیں میرے انداز اور طور طریقوں سے بہت سے اعتراضات ہونے لگیں گے۔۔

سو جانے دو۔۔۔“ 

 کہتے ہوئے فراخدلی سے  سالن میں اضافی نمک چھڑکتا وہ حلیمہ کو اپنے عمل سے حیران کر گیا۔

”خ۔۔خان یہ آپ کیا کررہے ہیں۔۔۔ا۔۔؟؟؟“  

اسنے بےاختیار دبی دبی آواز میں احتجاج کرنا چاہا تھا جب اسکے پھڑپھڑاتے لبوں پر بروقت اپنی شہادت کی انگلی جماتا وہ اسکی جان لبوں پر لے آیا۔

”تمھاری فکر۔۔۔۔۔“  

سنجیدگی سے کہتے ہوئے اسنے اسکے نیم وا لبوں سے اپنی انگلی ہٹائی تھی اور پھر اگلے ہی پل نوالہ بنا کر وہ زبردستی اسکے منہ میں ٹھونس چکا تھا۔

سالار کے فکرکرتے اس انداز پر حلیمہ کی آنکھیں تیزی سے بھیگی تھیں۔

منہ میں گھلتے تیز نمک کے ذائقے پر بھی اسنے نوالہ باہر نہیں تھوکا تھا۔۔۔

اور وجہ مقابل کا خود اپنے ہاتھوں سے کھلانا تھا۔۔۔۔

جبکہ اپنی توقع کے برعکس حلیمہ کو ضبط سے نوالہ چباتا دیکھ وہ چونکا۔وہ لڑکی اسکی سوچ سے ذیادہ ہٹ دھرم نکلی تھی۔

”جانتی ہو اماں حضور چاہتی ہیں میں تم پر توجہ دوں۔۔۔

بدلے میں مجھے تمھاری صورت میں ایک مضبوط سہارا ملے گا۔۔۔۔

لیکن مجھے یہ سمجھ نہیں آتی جو صرف سہارا چھیننا جانتے ہوں وہ کسی کا سہارا کیسے بن سکتے ہیں۔۔۔۔؟؟؟“ 

 اسکا مزید ضبط آزمانے کو سر جھٹک کر دوسرا نوالہ بناتا وہ زہرخند لہجے میں گویا ہوا۔

”بھلے ہی آپ مجھے اپنا سہارا نہ بنائیں خان۔۔۔

لیکن ایک بار میرا سہارا بن کے دیکھ لیں۔۔۔

شاید اس طرح ہم دونوں کی الجھنے سلجھ جائیں۔۔۔“ 

 کڑوے زہر کو بمشکل حلق سے نیچے اتراتی وہ آنسوؤں کو گالوں پر بہنے سے روک نہیں پائی تھی۔

”دونوں صورتوں میں نقصان تو میرا ہی ہے ناں۔۔۔تمھارا کیا بگڑے گا۔۔۔؟؟؟“ 

 ہاتھ کی پشت سے بےمول ہوتے آنسوؤں کو صاف کرتا وہ دوسرا نوالہ بھی اطمینان سے اسے کھلا چکا تھا۔اسکے لمس پر حلیمہ کا دل ڈوبنے لگا تھا۔

”اگر میرا کچھ بگاڑنے سے آپکو واقعی میں دلی سکون ملتا ہے خان۔۔۔تو جی بھرکے بگاڑلیں۔۔۔

م۔۔مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔۔۔۔“  

پل پل ضبط کا دامن چھوڑتی حلیمہ کو متلی سی ہونے لگی۔

مگر اس دوران بھی مقابل کے لیے دیوانگی کا عالم ہنوز برقرار تھا۔

”لیکن تمھاری سانسوں کو تو ابھی سے اعتراض ہونے لگا ہے۔۔۔

درحقیقت تم میری توجہ کے قابل ہو ہی نہیں۔۔۔۔“  

تمسخر اڑاتی نگاہوں سے اسے  گہرے گہرے سانس بھرتا دیکھ سالار خان نے اس بار سفاک پنے کی حد کی تھی۔

”آپ ایک بار میری طرف متوجہ ہو  کر تو دیکھیں۔۔۔

اگر پھربھی اس قابل نہ لگی تو بے شک دوبارہ میری طرف پلٹ کر دیکھیے گا بھی مت۔۔۔۔

بس تقاضا خلوص نیت کا ہے۔۔۔۔“ 

 وہ شدت سے کہنا چاہتی تھی مگر حلق کو چیڑ کر باہر آنے کو بےتاب متلی نے اسے مزید بولنے کی اجازت نہیں دی تھی۔

معاً حلیمہ منہ پر سختی سے ہاتھ جماتی تیزی سے بیڈ سے اتری اور پھر بھاگتی ہوئی واشروم میں بند ہوئی تھی۔

پیچھے منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے سالار خان کو عجیب سی بےچینی نے آن گھیرا تھا۔

ایسے میں وقفے وقفے سے کھانستی ہوئی آوازیں اسکی سماعتوں سے ٹکراتی پیٹ میں کچھ دیر پہلے مچلتی بھوک کو پوری طرح مار چکی تھیں۔۔۔۔

*******************

”آخر ایسا بھی کیا ہے اُس لڑکی میں جس کے لیے تم مجھے۔۔۔یعنی عروسہ شاہنواز خواجہ کو ریجیکٹ کررہے ہو۔۔۔؟؟

خواجہ انڈسٹریز کے مالک کی اکلوتی وارث کو۔۔۔؟؟؟“  

وہ دونوں اس وقت ریسٹورنٹ میں ایک دوسرے کے مدمقابل بیٹھے تھے جب عروسہ ایکدم ہی رواں موضوع سے ہٹ کر پوچھتی عائل کو چونکنے پر مجبورکر گئی۔

کڑواہٹ بھرے لہجے میں اکڑ صاف عیاں تھی۔

”میں تم پر بہت پہلے سے ہی یہ بات صاف واضح کرچکا ہوں کہ میں اُس لڑکی سے بہت محبت کرتا ہوں۔۔۔۔

روح کی گہرائیوں تک چاہتا ہوں اُسکو۔۔۔

کیا بیان کرنے کو اتنی وجہ کافی نہیں ہے۔۔۔؟؟؟“

 ٹھہری ہوئی آواز میں بولتا وہ اگلے ہی پل کافی کا مگ بیزاریت سے ٹیبل پر رکھ چکا تھا۔

کہیں نہ کہیں عائل کو یہ یقین تھا کہ دورانِ گفتگو وہ اپنی ذات کے متعلق اس مباحثے کو بیچ میں ضرور گھسیٹ کرلائے گی۔۔۔

سو توقع پر پوری اترتی وہ حقیقتاً  گھسیٹ بھی لائی تھی۔۔۔

عروسہ کورا جواب ملنے پر اندر تک جھلستی بظاہرمسکرا بھی نہ پائی۔

”پلیز عائل ٹرائے ٹو انڈرسٹینڈ۔۔۔

زندگی گزارنے کے لیے صرف محبت ہی سب کچھ نہیں ہوتی۔۔۔

انسان کو اسکے علاوہ بھی بہت سی دوسری چیزوں کو دیکھنا پڑتا ہے۔۔۔

کمپرومائز کرنا پڑتا ہے جو تم اپنی ذاتی غرض کی وجہ سے بالکل بھی کرنا نہیں چاہ رہے۔۔۔۔“  

بےاختیار ڈیپ ریڈ لبوں پر زبان پھیرتی وہ اسے سمجھانے کو قدرے بےتاب ہوئی تھی۔

”یوآر کمپلیٹلی رونگ عروسہ شاہنواز۔۔۔۔

محبت کے بغیر زندگی کچھ معنی نہیں رکھتی۔۔۔۔

اگر انسان کے پاس سب کچھ ہو پر محبت جیسا خوبصورت احساس نہ ہو تو کھوکھلی زندگی کی طرح وہ خود بھی کھوکھلا ہوکر رہ جاتا ہے۔۔

اور میں ایسا بالکل بھی نہیں چاہتا۔۔۔۔“  

بھنویں سکیڑ کر سرد آواز میں بولتا وہ اسکی سمجھداری سے صاف انکاری ہوا تھا۔

نتیجتاً اسکی سیاہ آنکھوں میں شدت سے جھانکتی عروسہ نے ہولے سے مسکراتے ہوئے ایکدم سے پینترا بدلا تھا۔

آنکھوں کی ادا نرالی تھی۔

”دیکھو مجھے۔۔۔۔

غور سے دیکھو۔۔۔۔

خوبصورت ہوں۔۔۔

ماڈرن ہوں۔۔۔

ویل ایجوکیٹڈ ہوں۔۔۔

بزنس۔۔۔بینک بیلنس ایون کہ سٹرونگ فیملی بیک گراؤنڈ سب کچھ تو ہے میرے پاس۔۔۔

اس کے علاوہ تمھیں اور کیا چاہیے۔۔۔؟؟؟“ 

 مقابل کو خود کی جانب قائل کرنے کی ناکام کوششوں میں ہلکان ہوتی وہ بہکی آواز میں بولتی چلی جا رہی تھی۔۔۔

اور وہ لب بھینچے بنا پلکیں جھپکائے اسی کو دیکھ رہا تھا۔

تراش خراش کے نکالی گئی نسوانی خوبصورتی یقیناً دلچسپ تھی۔

لیکن مقابل بھی عائل حسن تھا۔۔۔

جس کے لیے اپنی نمائش آپ ہی کرواتی ظاہری خوبصورتی سوائے گھٹائے کے سودے کے اور کچھ بھی نہ تھی۔

وجود میں امڈتے اشتعال کے باوجود بھی ایک تمسخر اڑاتی مسکراہٹ نے دھیرے سے اسکے لبوں کا احاطہ کیا تھا۔

یہ دیکھ عروسہ کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔

”حیاء۔۔۔

معصومیت۔۔۔

جھجھک۔۔۔

مروت لحاظ۔۔۔سادگی۔۔۔فطری کشش۔۔۔

میری مرضی کا کچھ بھی تو نہیں ہے تمھارے پاس۔۔۔۔

تو پھر کس بناء پر میں زندگی بھر کے لیے تمھارا انتخاب کروں۔۔۔؟؟؟“

 قدرے اطمینان سے ایک ایک کر کے اپنی طلب اسے بتلا تے ہوئے اسنے آخر میں  ٹھوڑی کو پل بھر کے لیے کھجایا تو عروسہ کے مسکاتے نقوش تن سے گئے۔

”ناؤ یو انسلٹنگ می عائل۔۔۔۔“ 

 اپنی تذلیل محسوس کرتی وہ سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ جہاں دبی دبی سی آواز میں پھنکاری تھی وہیں حاویہ بھی نیناں کی ضد پر اس کے ہمراہ ریسٹورنٹ میں داخل ہوتی سارے شاپنگ بیگز اسکو تھما چکی تھی۔

”اگر ماما نے اس دیری کا ذمے دار مجھے ٹھہرایا ناں نینی۔۔۔تو میں بتا رہی ہوں  تجھے تُو میرے ہاتھوں پکا پٹ جائے گی۔۔۔“ 

 برہمی سے بولتی وہ نیناں کی بے جا منمانیوں پر کلس ہی تو گئی تھی۔

جواباً نیناں نے آنکھیں پٹپٹاتے اسے اپنی بتیسی کا دیدار کروایا تھا۔

اور پھر اگلے ہی پل اطراف میں دوڑتی اسکی چمکتی نگاہیں ٹھٹک کر عائل پر رکی تھیں۔

”ناٹ ایٹ آل۔۔۔

تم نے جو سوال پوچھا تھا میں نے پوری ایمانداری کے ساتھ صرف اُسکا جواب دیا ہے۔۔۔۔“

  حاویہ کی موجودگی سے ہنوز انجان وہ عروسہ کی شاکی نگاہوں میں دیکھتا دو ٹوک لہجے میں گویا ہوا تو اسے کسی بھی طور اپنے موقف سے ہٹتا نہ دیکھ اب کہ عروسہ لب چباتی خود پرسے ضبط کھونے لگی۔

”حاوی وہ دیکھ۔۔۔

عائل بھی یہاں آیا ہوا ہے۔۔۔“ 

 نیناں کے جلدی سے ٹہوکا دینے پر حاویہ نے چونک کر اسکی نگاہوں کے تعاقب میں دیکھا تو عائل کو کسی ماڈرن لڑکی کے ساتھ دیکھ اسکے دھڑکتے دل میں الجھن بھرتی چلی گئی۔

یونیفارم سے ہٹ کر۔۔۔بلیو جینز  پر گرے شرٹ پہنے وہ بلاشبہ قدرے دلکش دکھائی دے رہا تھا۔

”بٹ تم سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں رہے عائل؟؟

آئی لائیک یو۔۔۔۔نو نو۔۔۔

جسٹ ناٹ اِٹ۔۔۔۔

آئی۔۔آئی لو یو سو مچ۔۔۔۔

پلیز ڈونٹ ریجکیٹ می اینڈ میری می۔۔۔۔“ 

 خود میں مچلتے جذبات کو بےدھڑک نیلام کرتی عروسہ اگلے ہی پل آگے ہوکر ٹیبل پر عائل کے دھرے ہاتھوں کو مضبوطی سے تھام گئی۔۔۔

تو اس قابل دید بےباکی پر جہاں عائل نے غصے سے اس کی آنکھوں میں  ہلکورے لیتی بغاوت دیکھی تھی وہیں اس جذباتی ملن پر ذرا سے فاصلے سے تکتی حاویہ کے اندر چھن سے کچھ ٹوٹا تھا۔

ایسے میں ذرا تیز آواز میں کیا گیا اعترافِ محبت اس سمیت کتنوں کی ہی سماعتوں سے ٹکرایا تھا۔۔۔۔

لیکن اذیت میں ڈوبتا دل فقط اسی کا  تڑپا تھا۔

نیناں نے گردن موڑ کر قدرے اداسی سے حاویہ کی تیزی سے بھیگتی آنکھوں کو دیکھا تھا۔

”عروسہ تم۔۔۔۔۔“  

 دانت پیس کر کچھ کہنے کی کوشش کرتا وہ اتنی تیزی سے اپنے ہاتھ نہیں چھڑوا پایا تھا جس تیزی سے اُسکی بھٹکتی نگاہوں نے کاؤنٹر کے پاس کھڑی اُس لڑکی تک سفر طے کیا تھا۔

نتیجتاً یوں نظریں ملنے پر ہوش میں آتی حاویہ نے بے ساختہ چادر کو اپنے آدھے چہرے پر ڈالتی سرعت سے پلٹی تھی جبکہ وہ اُسکا روہانسا چہرہ دیکھتا بےچینی سے اپنی جگہ سے اُٹھ گیا۔

”نینی پلیز چل یہاں سے۔۔۔

نہیں تو میرا دم گھٹ جائے گا۔۔۔۔“

  ناقابلِ برداشت ہوتی تکلیف پر ملتجی ہوتی وہ وہاں سے جانے کو تھی جب سماعتوں سے ٹکراتا مضبوط لہجہ اسے محتاط کرگیا۔

”حاویہ۔۔۔۔۔

پلیز میری بات سنو۔۔۔۔

تم غلط سمجھ رہی ہو مجھے۔۔۔۔“

  لمبے لمبے ڈگ بھرتا عائل پلوں میں اُس تک پہنچتا جھٹکے سے اسکو خود کی جانب موڑ گیا۔۔۔تو حاویہ نے پلٹتے ہی غصے سے اپنی کلائی اسکی مضبوط گرفت سے چھڑوائی۔

آنسو ٹوٹ کر اسکی گالوں پر پھسلے تھے۔

اس دوران وہاں آتے۔۔۔ریسٹورنٹ کے منیجرسمیت بہت کم لوگ اپنی باتیں چھوڑ کر انکی جانب متوجہ ہوپائے تھے۔

ایسے میں اپنی جگہ کھڑی ہوتی عروسہ کی حیرت حاویہ کو دیکھ کر نفرت اور حقارت میں بدلی تھی۔

”لیسن۔۔۔۔۔

تم نے ابھی جو بھی یہاں دیکھا ہے وہ ایک مس انڈرسٹینڈنگ سے ذیادہ  کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔

بیلیو می۔۔۔عروسہ جسٹ۔۔۔۔“  اسکی بھیگی آنکھوں میں ناچتی بے اعتباری کو ضبط سے دیکھتا وہ سنجیدگی سے بول رہا تھا جب اسکی بات کاٹتی وہ بولی نہیں۔۔۔پھنکاری تھی۔

”میں نے آپ سے کوئی صفائی مانگی عائل صاحب۔۔۔؟؟؟

نہیں ناں۔۔۔

تو پھر کیوں مجرموں کی طرح میرے سامنے خود کی صفائیاں پیش کرتے پھررہے ہیں آپ۔۔۔۔؟؟؟“ 

 رخساروں پر مزید پھسلتے آنسوؤں کو گڑر کر صاف کرتی وہ خود کو بےحس ظاہر کرنے کی پوری کوشش کررہی تھی۔

”میں خود کی صفائیاں پیش نہیں کررہا۔۔۔

تمھارے بلاوجہ کے آنسو برداشت نہیں ہوئے تبھی تمھیں حقیقت بتارہا ہوں۔۔۔

یوں آدھی ادھوری جانکاری پر تم خود سے مکمل نتیجے اخذ نہیں کرسکتی۔۔۔۔“  

مٹھیاں بھینچ کر جواب دیتا وہ حاویہ کو اذیت سے مسکرانے پر مجبور کرگیا۔

ان کے قریب ہی کھڑی نیناں جہاں پریشان سی ان کی گفتگو سن رہی تھی وہیں حاویہ کی بڑھتی بدگمانی پر عروسہ کے لبوں پر شاطرمسکراہٹ رینگنے لگی۔

”جو حقیقت میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی ہوں میرے لیے وہی کافی ہے۔۔۔۔؟؟

آپ اپنے لفظوں کے ہیر پھیر سے میرا آنکھوں دیکھا نہیں جھٹلا سکتے اے۔ایس۔پی صاحب۔۔۔

نادانی میں ہی سہی لیکن آپ کی ذات کے لیے میری زبان سے پھسلے الفاظ غلط نہیں تھے۔۔۔

بہت برے ہیں آپ۔۔۔بہت ہی ذیادہ برے۔۔۔۔“  

بھیگے ہوئے درشت لہجے میں بولتی وہ وہاں مزید رکی نہیں تھی بلکہ اُسے بےچینیوں میں چھوڑتی وہاں سے بھاگتی چلی گئی۔

نیناں بھی تاسف بھری نگاہ عائل پر ڈالتی وہاں سے نکل گئی تھی۔

”ڈیم اٹ۔۔۔۔“ 

 تبھی عائل نے شدید غصے میں کاؤنٹر پر پنچ مارکے قریب ہی کرسیوں پر بیٹھے بہت سوں کو اپنی جانب متوجہ کروادیا تھا۔

ایسے میں پرائیوٹ روم کے دروازے پر کھڑا ریسٹورنٹ کا مینجر۔۔۔جو حیرت سے آنکھیں سکیڑ کر سارا معاملہ بغور دیکھ رہا تھا اچانک جیب میں بجتے فون پر ہوش میں آیا۔

پھر سر جھٹک کر موبائل فون باہر نکالا۔

”ہیلو ذباب بیٹا۔۔۔۔۔“ 

 کال ریسیو کرکے کان سے لگاتے ہی اسے اپنی ماں کی فکر کھاتی آواز سنائی دی تھی جو اب عائل کو بھی غصے سے ریسٹورنٹ سے باہر نکلتا دیکھ فون پر سنجیدگی سے محو گفتگو ہوچکا تھا۔۔۔۔

جبکہ عروسہ مزید وہیں رکنے کا ارادہ کرتی۔۔بیٹھ کر اب بچی کچھی کافی کے سرد گھونٹ بھرنے لگی تھی۔

کچھ لمحے پہلے عائل کی خود پر پڑنے والی قہرآلود نظروں کو سوچ کر اسکے لبوں پر لطف لیتی مسکراہٹ بکھر چکی تھی۔۔۔

*********************

پورے روم کا ہاتھوں ہاتھ کیا گیا حشر دیکھنے لائق تھا۔

چاروں اطراف غصے میں بکھیری گئی چیزوں سے بےنیاز وہ کمرے کے بیچ و بیچ ٹہلتا قدرے بےتاب دکھائی دے رہا تھا۔

سامنے ہی وہ دونوں صوفے پر  بیٹھ کر اسکا تباہ ہوا موڈ ہنوز خاموشی سے دیکھ رہے تھے۔

توڑ پھوڑ کے دوران واحد ایک پروجیکٹر ہی تھا جسے فواد نے بڑی مشکلوں سے اسکے اشتعال کی زد میں آنے سے بچا لیا تھا۔

”اُس۔۔۔اس مہوش نے بھی وہاں پر کھڑے ہوکر سارا تماشہ دیکھا تھا۔۔۔

اس کمی کمین کی اتنی اوقات نہیں تھی کہ مجھے یوں سرعام تم سب کے سامنے ذلیل کرکے جاتی۔۔۔

دل تو چاہ رہا ہے کہ ابھی جاکر اپنے ہاتھوں سے اسکا گلا گھونٹ دوں ۔۔۔

ہونہہ۔۔۔چلی تھی مجھ سے شادی کی ڈیمانڈ کرنے۔۔۔۔سالی (گالیاں)###۔۔۔۔۔“  

اسکی خون رنگ آنکھوں کے سامنے بار بار گھومتا تحقیرآمیز منظرایسا تھاکہ کسی بھی صورت ہٹنے کا نام  نہیں لے رہا تھا۔

گال پر تھپڑ کی مدھم ترین جلن نے اب تک اسکے اندر باہر آگ سی لگا رکھی تھی۔

”ت۔۔۔تم نے اپنی نام نہاد جیت کی خاطر جس طرح  مجھ یتیم لڑکی کی زندگی تباہ کی ہے ناں شام۔۔

میری دعا ہے کہ تم بھی اسی طرح  برباد ہوجاؤ۔۔

پل پل سسکو۔۔۔

تڑپو پر تمھیں زندگی میں کبھی سکون نہ آئے۔۔۔“

  تھپڑ کے بعد بد ترین لفظوں سے حملہ کرتی وہ اسے برباد ہوتا دیکھنے کو کس قدر بےتاب ہورہی تھی اُس پل۔۔۔

اور بھیگا لہجہ۔۔۔

اس قدر گہرا ہوا تھا کہ۔۔۔۔

سوچتے ہوئے بالوں میں ہاتھ پھنساتا وہ نئے سرے سے بےچین ہوا تھا۔

اور اسی بے چینی کو کسی شے پر اتارنے کے لیے وہ مدھم غراہٹ کے ساتھ اگلے ہی پل وہاں ایک طرف رکھے پروجیکٹر کی طرف لپکا۔

وہ دونوں بھی پل میں شام کا ارادہ بھانپتے ہوئے تیزی سے اسکی طرف بڑھے تھے۔

”بس کرجا یار۔۔۔

بس کرجا اب۔۔۔

ہر شے تو تُونے پہلے سے ہی بگاڑ کررکھ دی ہے اب مزید اور کتنی توڑ پھوڑ کرے گا تُو۔۔۔؟؟؟“ 

 پیچھے سے دبوچ کر اب کی بار اسے روکنے والا افروز تھا۔

اور یہی روک ٹوک اسکے لیے اگلے ہی پل قدرے سنگین ثابت ہوئی تھی۔

”چٹااااخ۔۔۔۔۔“ 

 پلٹتے ہی شام کا بھاری ہاتھ اسکے منہ پر پڑتا کئی پلوں کے لیے آس پاس سکوت بکھیرگیا۔

”تجھے کس الو کے پٹھے نے مخبر بن کر حرمین تک میری خبریں پہنچانے کا بولا تھا۔۔۔؟؟؟

ہہہممم۔۔۔۔؟؟؟

اصل میں ناں سارے فساد کی جڑ تُو ہی ہے سالے۔۔۔

نہ تو اس لڑکی کو میری فارم ہاؤس میں موجودگی کے بارے میں کنفرم کرکے بتاتا۔۔۔

نہ وہ شادی کا پرپوزل لے کر مجھ تک آتی۔۔۔

نہ اسکی باتوں پر میرا دماغ گھومتا اور نہ ہی مہوش کے سامنے وہ سب تماشہ ہوتا۔۔۔۔۔“  

افروز کے سینے پر بار بار انگلی سے دباؤ ڈال کر طیش زدہ سا بولتا وہ اسے شدت سے شرمندہ کرنے کے در پے ہوا تھا۔۔۔

جو تپتے گال پر ہاتھ رکھے بےیقینی سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

مقابل کی اس بےرحمی پر اندر کہیں بغاوت نے شدت سے سر اٹھایا تھا۔۔۔

مگر وہ فی الحال کے لیے خاموش تھا۔

”ریلکس ہوجا شام۔۔۔

تُو بلاوجہ ہی اس بیچارے پر بھڑک رہا ہے۔۔۔۔۔“ 

 پاس ہی کھڑا  فواد کچھ جھجک کر افروز کی حمایت میں بولتا اب کہ اسکی توپوں کا رخ اپنی جانب موڑ چکا تھا۔

”ریلکس۔۔۔؟؟؟

ریلکس ہوجاؤں میں۔۔۔؟؟؟

سالے تھپڑ مارکے گئی ہے وہ میرے منہ پر۔۔۔تھپڑ۔۔۔

آج تک کبھی زندگی میں میرے باپ نے بھی ایسی جرات نہیں کی جو وہ دوٹکے کی لڑکی ایک سیکنڈ میں کرگئی ہے۔۔۔

سریسلی آئی ول کل ہر۔۔۔“ 

 معاملے کی سنگینی کا احساس کرواتا وہ چبا چبا کر بولا تو فواد مقابل کے اس جواز پر چند پلوں کے لیے چپ ہوکر رہ گیا۔ 

”تو اب کیا واقعی میں تُو اسکا قتل کرے گا۔۔۔؟؟؟

کیونکہ ایسے تو تجھے صبر نہیں آئے گا۔۔۔۔“  

اسکے غصے سے خائف ہوتا وہ اب کہ بڑے دھیمے لہجے میں بول رہا تھا۔

”درست کہہ رہا ہے تُو۔۔۔۔

خیر ڈائریکٹ قتل تو نہیں کروں گا لیکن جوابی کاروائی میں ایسا نایاب داؤ کھیلوں گا کہ وہ جیتے جی موت کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائے گی۔۔۔۔“ 

 مٹھیاں بھینچ کر بولتے ہوئے جہاں شدت ضبط سے اسکی پیشانی کی رگیں ابھر آئیں تھیں وہیں زمین کو گھورتے  افروز نے بھی سرخ نگاہیں اٹھاکر اسکا سپاٹ چہرہ دیکھا۔

”مطلب۔۔۔؟؟

ایسا کیا کرنے والا ہے تُو۔۔۔۔؟؟؟“ 

 فواد کچھ تجسس سے پوچھتا اسکے خطرناک ارادے جاننے میں ناکام ہوا تھا۔

جوابا ًکچھ نارمل ہوتے شام کے لبوں پر زہرخند مسکراہٹ نے دھیرے سے اپنی چاپ چھوڑی تھی۔

محض ایک تھپڑ کے جواب میں جذباتی ہوکر اب نجانے وہ حرمین کی زندگی میں کونسا نیا زہر گھولنے کا والا تھا۔۔۔؟؟؟

لیکن جو کچھ بھی تھا اسکے سفاک دل کی دھڑکنیں بڑھاگیا تھا۔۔۔

*********************

”ہم آپکو صاف صاف یہ بات بتائے دے رہے ہیں نفیسہ بہن۔۔۔

ہمیں آپکی لڑکی اب کسی بھی صورت قبول نہیں ہے۔۔۔

پتا نہیں مزید کس کس کے ساتھ کیا کیا گل کھلائے ہوں گے اس لڑکی نے۔۔۔؟؟

آجکل کی بےفیض دنیا کا تو ویسے بھی کوئی اعتبار نہیں ہے۔۔۔۔“ 

 سب کی موجودگی میں کچھ توقف لے کر بولتی فریدہ بیگم نے باقاعدہ ہاتھ نچایا۔۔تو جلتے دل پر ہتھیلی مسلتی نفیسہ بیگم کی آنکھوں میں نمی مزید بڑھی۔

منگنی کی مطلوبہ انگوٹھی واپس لے کر بھی انھیں کسی طور ٹھنڈ نہیں پڑ رہی تھی۔

کل تک۔۔نکاح بیاہ کرنے کو اتاؤلے ہونے والے وہ لوگ اب یوں گھر آکر ہر رشتہ انکار کی صورت ان کے منہ پر دے ماریں گے۔۔یہ تو کبھی انھوں نے وہم و گمان میں بھی نہیں سوچا تھا۔

مگر۔۔۔اب یہی حقیقت انکا سینہ نوچنے کے درپے ہورہی تھی۔

ایسے میں کچن کی دہلیز پر کنگ کھڑی حاویہ نے میز کی شفاف سطح پر فاصلے سے ہی نگاہیں دوڑائی تھیں جہاں بکھری۔۔وہ چندتصاویر نہیں بلکہ اسکی ماں کے کلیجے پر چلتی وہ آریاں تھیں کہ جسکے سبب وہ اپنی بیٹی کے حق میں رتی بھربھی احتجاج کرنے کے قابل نہیں رہی تھیں۔

معاً ماتھے پر تیوری چڑھائے ذباب نے خود پر قابو پانے کو  گہرا طویل سانس بھرتے ہوئے اپنا رخ موڑا۔۔۔تو کچھ جھجک کر وہاں آتی حرمین کو دیکھ اسکا چہرہ مکمل سپاٹ ہوا۔

اسی کے عقب میں کھڑی اسکی چچا زاد ندا نے بھی حرمین کا نازک وجود بغور دیکھا تو نگاہوں میں اسکے لیے واضح تمسخر ابھرا۔

”ا۔۔اسلام علیکم۔۔۔۔“ 

  نم حلق سے بمشکل قابلِ سماعت آواز نکالتی وہ ان لمحوں حیرت زدہ تھی۔

ذباب سمیت اسکے اپنوں کی یک لخت آمد نے اسے حقیقتاً الجھا دیا تھا۔۔۔

لیکن جواب میں وہاں موجود ہر نفوس جس انداز میں اسکی جانب دیکھ رہا تھا حرمین کا نڈھال دل کسی انہونی کے تحت شدت سے پھڑپھڑایا۔

غصہ۔۔۔۔

بے یقینی۔۔۔

ہمددردی۔۔۔

حقارت و تمسخر۔۔۔

بیک وقت سبھی کچھ تو محسوس ہوا تھا اسے ان چند لمحوں میں۔۔۔

”لوجی۔۔۔۔

آگئی آپکی نیک پروین بچی۔۔۔۔“  طنز کا پہلا نشتر کمان سے بے دھڑک چھوڑا گیا تھا۔ 

”سہ پہر ڈھلے یقیناً اسی لڑکے سے مل کرآرہی ہوگی یہ محترمہ۔۔۔۔“ 

 وہیں کھڑے کھڑے نخوت سے قیاس آرائی کرتی فریدہ بیگم حرمین کی گھبراہٹ ابھارنے میں کافی حد تک کامیاب ٹھہری تھیں۔

”ی۔۔یہ آپ کیا بول رہی ہیں آنٹی۔۔۔؟؟؟“  

وہ جو خود کا ٹوٹا بکھرا وجود بمشکل سنبھالتی ہوئی جانتے بوجھتے دیر سے گھرلوٹ کرآئی تھی 

ایک گھبرائی نگاہ۔۔۔اپنی جانب تکتی نفیسہ بیگم پر ڈالتی ناسمجھی سے بولی پھر سراسیمگی انداز میں اطراف میں پل بھر کو دیکھا۔

جبکہ اسکی ناسمجھی فریدہ بیگم کی کھولن مزید بڑھاگئی تھی۔۔۔

اگلے ہی پل وہ آگے بڑھ کے اسکے مقابل آئی تھیں۔

”وہی جو سچ ہے لڑکی۔۔۔

انسان چاہے جتنا مرضی چھپانے کی کوشش کرلے مگرعشق اور مشک دو ایسی چیزیں ہیں جو آسانی سے چھپائے نہیں چھپتی سو ہمارے سامنے بھی پوری طرح کھل کر ظاہر ہوگئیں۔۔۔“  وہ چٹخ کر بولیں۔

انکے اس قدر زہرخند لہجے پر حرمین کا دل بری طرح ڈوبا تھا۔

”یہ تو بھلا ہو میرے دیور کی بچی ندا کا۔۔۔

جو رہتے وقت ہی تمھارے سارے کرتوت کھول کر ہمارے سامنے لے آئی۔۔۔

ورنہ تو میرے بیٹے کی زندگی برباد کرنے میں تم ماں بیٹی نے کوئی کثر باقی نہیں چھوڑی تھی۔۔۔۔“

  سینے پر ہاتھ لپیٹ کر پیچھے کھڑی ندا کی طرف باقاعدہ اشارہ کرتی وہ مزید گویا ہوئیں تو کھلتی حقیقت پر حرمین سکتے کی کیفیت سے باہر نکلتی بے ساختہ سر کو نفی میں جنبش دے گئی۔

اس دوران لب بھینچے ذباب کی۔۔۔گھائل کرتی پرشکوہ نگاہیں ایک لمحے کے لیے بھی اسکے پھیکے چہرے سے پرے نہیں ہٹی تھیں۔

”آ۔۔۔آپکو ضرور کوئی بہت بڑی غلط فہمی ہوئی ہے۔۔ا۔۔ایسا۔۔۔۔“ 

 خشک لبوں پر زبان پھیرتی حرمین نے بےسود صفائی دینا چاہی

مگر لہجے کی صاف ہکلاہٹ تو جیسے اسکے جھوٹ کو شدت سے عیاں کرنے پر تلی تھی۔۔۔

ایکدم سے اپنا ضبط کھوتا ذباب میز پر پڑی تصاویر اٹھاتا اسکے مقابل آیا تھا۔۔۔

اس تلخی بڑھتے ماحول میں حاویہ کا دم ناخوشگوار احساسات سے گھٹنے لگا۔ 

”اچھا تو یہ ہماری غلط فہمی ہے۔۔ہاں۔۔؟؟؟“  

پوچھتے ہوئے اسنے بےاختیار حرمین کا ہاتھ اپنی گرفت میں لیا تو اس نے سراسیما نگاہوں سے اسکے تنے نقوش ٹٹولے۔

”یہ۔۔۔۔

یہ دیکھو۔۔۔۔

ثبوت ہے ہمارے پاس تمھاری سب دغابازیوں کا۔۔۔۔“ 

 تصاویر زبردستی اسکی ہتھیلی پر جماتے ہوئے اسکے تیور بالکل بھی نرم نہیں تھے۔

سب سے اوپر کی تصویر پر پڑتی حرمین کی سرسری نم نگاہیں بےاختیار کھٹکتی گہری ہوئی تھیں۔

”کیا اس سب کے باوجود بھی تم اتنی ہی دیدہ دلیری سے ہمارے سامنےجھوٹ بولو گی۔۔۔؟؟؟

شرم آنی چاہیے تمھیں حرمین زہرا۔۔۔

شرم آنی چاہیے ایسی شرمناک حرکتیں کرتے ہوئے۔۔۔۔“ 

 معاملے کی سنگینی کا احساس دلانے کو وہ باآواز بلند گویا ہوا تو شام اور خود کی تصاویر کو ایک ایک کرکے دیکھتی حرمین کی سیاہ آنکھیں مزید بھیگتی چلی گئیں۔

”ی۔۔۔یہ۔۔۔۔؟؟؟“  

وہ ان دونوں کی مختلف مقامات پر کافی فاصلے سے کھینچی گئی تصاویر تھیں۔

کہیں یونی کی سیڑھیوں پر بانہوں میں بانہیں ڈالے۔۔۔

 توکہیں فارم ہاؤس کی پارٹی کے دوران ڈانس کرتے ہوئے۔۔۔

مزید کہیں ریس کی جگہ۔۔ہجوم سے قدرے پرے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے۔۔۔

اور اسی طرح کی مزید تصاویر جو اس اینگل سے کھینچی گئی تھیں کہ دیکھتے ہی قابل اعتراض معلوم ہوتی تھیں۔

گویا موجودہ معاملہ بنے بنائے رشتے کو توڑنے کے لیے کافی تھا۔

”حرمین زہرا۔۔۔۔“  

اس دوران نفیسہ بیگم نے حرمین کا فق پڑتا چہرہ نہیں بلکہ اسکی آنکھوں سے چھلکتی شکست کو شکوہ کناں نگاہوں سے دیکھا تھا۔

اور شاید اسی پل انھیں اپنا مطلوبہ جواب مل چکا تھا۔۔۔

جواب بھی ایسا وہ جو پور پور مخالفین کے حق میں تھا۔۔

ندا کے گلابی لبوں پر دبی دبی مسکراہٹ رینگنے لگی۔

حرمین کی بےبسی قابلِ دید ہی تو تھی۔

”پہلے تو میں محض اسے یونی کی ٹاپ سٹوڈنٹ کے حوالے سے ہی تھوڑا بہت پہچانتی تھی۔۔۔

لیکن جب اتفاق سے مجھے تائی اماں کی ہونے والی بہو  کو پکس میں دیکھنے کا موقع ملا تو میری حالت حقیقتاً  دیکھنے لائق تھی۔۔۔۔“  

سینے پر بازو لپیٹ کر بے جھجک معاملے میں کودتی اب کہ وہ بھی زہر اگلنے پر آئی۔۔۔

تو حرمین نے دھندلائی نگاہیں اٹھاکر اسکے شاطر نقوش پہچاننا چاہے۔۔۔

بنا عینک کے آنکھوں تلے حلقے بڑی حد تک نمایاں ہورہے تھے۔

”پہلے صاف صاف بتانے کا ارادہ کیا پھر سوچا کیوں ناں زبانی بدمزگی پھیلانے کی بجائے سیدھا ثبوت ہی آپ سب کے سامنے پیش کردوں۔۔۔

اور یہی سب سوچ کر میں اتنے وقت سے اس سمیت اسکے عاشق کی بارہا مقام پر تصاویر لیتی رہی۔۔۔

تاکہ پیچھے حیلے بہانوں کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔۔۔

اور اب دیکھیے۔۔

حقیقت آپ سب کے سامنے ہے۔۔۔۔“  اپنے لہجے کو نرم رکھنے کی کوشش کیے بنا وہ حقارت سے بولتی چلی گئی۔

ذباب نے نفرت سے مٹھیاں بھینچی۔

حرمین کی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کر گالوں پر پھسلے تھے۔

بلاشبہ مقابل کھڑی ندا الگ ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھنے کے باوجود بھی اسی کی یونی میں پڑھنے والی لڑکی تھی۔۔۔۔

جو اپنی بے جا ہوشیاری کے سبب حرمین کی عزت اچھال کر اپنی چاہت کی راہ ہموار کرنے میں قدرے کامیاب ٹھہری تھی۔

جہاں نفیسہ بیگم نے تھکے سے انداز میں منہ پھیرا تھا وہیں حاویہ کی نم ہوتی آنکھوں میں ندا کے لیے شدید نفرت در آئی۔

”میں تمھاری بےجا اگنورینس کو ہمیشہ تمھاری فطری حیا اور جھجک سمجھ کر قبول کرتا رہا۔۔۔

چاہنے کے باوجود بھی تمھیں کبھی خود سے ملنے پر فورس نہیں کیا۔۔۔۔

لیکن جواب میں تم نے میری مخلصی۔۔میری شرافت کا کیا صلہ دیا حرمین۔۔۔؟؟؟

منگیتر کے مقابل اپنے عاشق کو لے آئی۔۔۔؟؟؟“  

اسکا دھیان واپس اپنی طرف بھٹکاتا اب کہ وہ اسے کرخت لفظوں کی مار۔۔مار رہا تھا۔ 

شدت توہین سے حرمین کے لیے براہ راست اسکی آنکھوں میں دیکھنا محال ہوا۔۔جبھی وہ بےبسی تلے نازک مٹھیاں بھینچتی سر جھکا گئی۔

”م۔۔میں پشیمان ہوں۔۔۔۔“  

بڑی جرات سے اپنا جرم آپ قبول کرتی حرمین کے سیاہی مائل لب ہولے سے پھڑپھڑائے۔۔۔

تو اسکے اعتراف جرم پر تاسف سے سر ہلاتے ذباب کے لبوں پر ایک زخمی مسکراہٹ در آئی۔

”اب اس پشیمانی کا کوئی فائدہ نہیں ہے حرمین۔۔۔؟؟

سب کچھ تو تم بہت  پہلے ہی ختم کرچکی ہو۔۔۔“  

مدھم سلگتے لہجے میں بولتے ہوئے اسنے پل بھر کا توقف لیا تھا۔

”جانتی ہو۔۔۔؟؟

تم وہ پہلی لڑکی تھی جسے میں نے پورے حق سے اپنے دل میں بسیرا کرنے کی اجازت دے رکھی تھی۔۔۔

لیکن میں نہیں جانتا تھاکہ اس سادے معصوم چہرے کے پیچھے اتنی بڑی دھوکے باز چھپی بیٹھی ہے۔۔۔“ 

 اس غیرمتوقع اعتراف پر کچھ حیرت سے سر اٹھا کر اسکی جانب تکتی حرمین کا دل شدتوں سے دھڑکا تھا پر مقابل کے لبوں سے پھسلتے الفاظ تو اسکی دھڑکنیں بند کروا دینے کے درپے تھے۔

”درحقیقت تم میری چاہت اور اس رشتے کے کبھی قابل تھی ہی نہیں  حرمین زہرا۔۔۔

سوائے اس ایک نفرت کے جس کا نظارہ اس وقت تم بخوبی کررہی ہو۔۔۔۔

میں آج اور ابھی سے ہمارے درمیان طے پائے ہر رشتے کو توڑتا ہوں۔۔۔

سنا تم نے۔۔۔۔

سب ختم ہوا۔۔۔۔۔“  

اپنے جذبات سمیت اندر دبی بھڑاس ایک ساتھ اس پر انڈیلتا وہ حد درجہ سفاک ہوا۔۔۔

 تو جہاں کئی دل بےچین ہوتے ان لفظوں پر ڈوبے تھے وہیں ندا سمیت فریدہ بیگم کے لبوں پر پرسکون سی مسکراہٹ دوڑ گئی۔

انگوٹھی تو وہ پہلے ہی اتار کے وہیں کہیں رکھ چکا تھا۔

اب پل میں اسے لفظوں کی قید سے بھی آزاد کرگیا تھا۔

حرمین کو لگا جیسے وہ ذلت کے بوجھ تلے ابھی زمین میں دھنس جائے گی۔

”خدارا ایسا تو مت کریں میرے ساتھ۔۔۔۔

ایک دھتکار نے تو پہلے ہی کہیں کا نہیں چھوڑا۔۔۔

اب آپکی اس دھتکار کے بعد تو ویسے ہی جیتے جی مرجاؤں گی۔۔۔۔“ 

 اذیت کی آخری حد کو پہنچتی حرمین حلق پھاڑ کر شدت سے چیخنا چاہتی تھی مگر اپنے سیاہ بختوں کے بوجھ تلے۔۔۔کوشش کے باوجود بھی اسکی آواز اندر ہی کہیں دب کے رہ گئی تھی۔

سو سسکی روکنے کو دانتوں تلے لب کچلتی نم پلکیں جھکاگئی۔

”دیکھا یہ ہوتی ہے اصل شرافت۔۔۔

ورنہ تو آجکل کے جذباتی لڑکے اپنی منگ کی ایسی سیاہ کرتوتوں کے سبب چہرے پر تیزاب انڈیل کر نکل جاتے ہیں۔۔۔

اور ایسوں کو پوچھنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔۔۔

رب سوہنے کا لاکھ لاکھ شکر ہے جو ہم کوئی بڑا نقصان اٹھانے سے بچ گئے۔۔۔۔

خیریہاں اب مزید رکنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔۔۔

چلو چلیں۔۔۔۔“  وہ عموماً میٹھی زبان بولنے والی۔۔آخری کڑوا وار کرتیں انھیں مزید ذلیل کرگئیں۔۔

جسے وہ تینوں ماں بیٹیاں شدت ضبط سے جانے کیسے سہہ گئی تھیں۔۔

جواباً اپنی ماں کی آگ لگاتی بات پر۔۔۔مٹھیاں بھینچ کر حرمین کے بھیگے چہرے پر شعلہ بار نگاہ ڈالتا ذباب اثبات میں سر ہلاگیا۔

وہ دونوں بنا وقت ضائع کیے اپنا آپ سنبھالتی باہرکو لپکیں تھیں جب انکی تقلید میں وہاں سے جاتا ذباب۔۔۔کچھ یاد آنے پر ایکدم سے پلٹا۔

”آنٹی۔۔۔۔“ 

 اسکے سپاٹ انداز میں مخاطب کرنے پر نفیسہ بیگم نے چونک  کر بےتاثر نگاہوں سے اسکی جانب دیکھا۔

تب تک فریدہ بیگم ندا کے ہمراہ دہلیز پھلانگ کر باہر جا چکی تھی۔

”میری سابقہ امانت تو آپ صحیح سے سنبھال نہیں پائیں لیکن اب اپنی چھوٹی بیٹی کو وقت رہتے ضرور سنبھال لیجیے گا۔۔۔۔

اپنے ریسٹورنٹ میں محبت کے نام پر کھیلا جانے والا ایک نیا تماشہ دیکھ کر آرہا ہوں۔۔۔

میرا خیال نہیں۔۔۔یقین ہے کہ یہ بھی اپنی بہن کی مانند اسی ڈگر پر چل پڑی ہے جہاں انجام پر۔۔۔ رسوائی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔۔۔۔“ 

 کچھ حقارت سے تنبیہہ کرتا وہ مزید وہاں رکا نہیں تھا۔

ایسے میں جہاں حاویہ اس کے کھولتے لفظوں پر کنگ ہوئی تھی وہیں نفیسہ بیگم کا کمزور ہوتا دل مزید ڈوب گیا۔

جبکہ حرمین تو ان پلوں میں شفاف زمین کو غائب دماغی سے تکتی کچھ بھی سوچنے سمجھے کی حالت میں نہیں رہی تھی۔

معاً نفیسہ بیگم ہتھیلیوں پر زور ڈالتی اپنی جگہ سے اٹھیں پھر قدم قدم چلتی  حرمین کے مقابل آئیں۔۔۔

تو حرمین نے چونک کر ان کی نم نگاہوں میں دیکھا۔

”تمھارے سیاہ بختوں کے سبب یہ رشتہ بھی ٹوٹ گیا حرمین۔۔۔

تمھارے نصیبوں کی سیاہی تلے ہمارے غرور۔۔مان۔۔عزتیں سب کچلے گئے۔۔۔۔“  سلگتا مدھم لہجہ اسے خائف کرنے کو کافی تھا۔

”م۔۔میں ایسا نہیں۔۔۔۔۔“  

اسکی بھیگتی آواز نفیسہ بیگم کی بڑھتی تلخی تلے پھر دبی۔

”مجھے کسی کو منہ دیکھانے کے قابل نہیں چھوڑا تم نے۔۔۔“  اب کہ وہ چٹخنے لگی تھیں۔

”ا۔۔ایک بار میری بات تو سنیں پلیز۔۔۔۔“

 حاویہ بھی اپنی حیرت پرے دھکیلتی انکی جانب آئی تھی جب بےساختہ نفیسہ بیگم کا اٹھتا ہاتھ اس سمیت حرمین کو سن کرگیا۔

”چٹااااخ۔۔۔۔۔۔“ 

 گہری گونج نے پل بھر کو اطراف میں سکوت سا بکھیردیا تھا۔

کیا سنو میں تمھاری بات۔۔ہاں۔۔؟؟

کیا سنوووو۔۔۔۔؟؟

اب بھی سننے کو کچھ باقی رہ گیا ہے پیچھے۔۔۔؟؟؟

ارے میں نے تو تمھیں ان اداروں میں عزت اور نیک نامی کمانے واسطے بھیجا تھا۔۔۔

پر تم تو بدلے میں ذلت اور بدنامی کما کر آگئی حرمین۔۔۔“ 

 اسے حق دق کھڑا دیکھ وہ اگلے ہی پل اسے بازو سے جھنجھوڑتی تقریباً چیخ رہی تھیں۔

آدھی ادھوری حقیقت جان کر یہ حالات تھے جو اگر مکمل سچ کھل کر سامنے آجاتا تو۔۔۔۔

رخسار کی جلن شدت سے محسوس کرتی حرمین کی ہچکیاں سی بندھ گئی۔

”مجھے یہی لگتا تھا کہ جب ماں مرجاتی ہے تو ایک باپ۔۔۔کبھی بھی ماں کی جگہ نہیں لے سکتا۔۔۔

لیکن باپ کے مرنے پر ایک ماں۔۔باپ بننے کی صلاحیت ضرور رکھتی ہے۔۔۔

مگر آج اپنی خودسریوں کے سبب تم نے مجھے غلط ثابت کردیا حرمین۔۔۔

ثابت کردیا کہ ہر بیٹی کو حدود میں رکھنے کے لیے فقط ماں کا ہونا کافی نہیں ہوتا۔۔۔

بلکہ باپ کے تحفظ تلے رہنا بھی انتہائی ضروری ہے۔۔۔۔“  بگڑتے تنفس کے ساتھ۔۔شدت سے اسے اسکی گستاخیوں کا احساس دلاتی وہ اپنی اولاد کے ساتھ ساتھ خود بھی ٹوٹ رہی تھیں۔

حرمین نے انکی جانب دیکھتے ہوئے شدت سےنفی میں سرہلایا۔

 ”ا۔۔اپنی کمتری کے سبب میں۔۔بھ۔۔بھٹک گئی تھی۔۔۔

غلطی ہوگئی۔۔۔م۔۔معاف کردیں مجھے۔۔۔۔“ 

 ہچکیوں کے درمیان ہاتھ جوڑ کر بولتی وہ مکمل ہاری ہوئی لگ رہی تھی۔

 ”ماما۔۔۔۔

اپیہ کو بھی تو صفائی میں کچھ کہنے کا موقع دیں۔۔۔

ایک بار ان کی بھی تو سنیے۔۔۔۔“ 

 شام کے حوالے سے حرمین کی ہنوز چپی حاویہ کو تفشیش میں دھکیلتی بولنے پر مجبور کرگئی۔۔۔

جب کنپٹیوں کی دکھن برداشت کرتی نفیسہ بیگم نے دونوں کو قہربار نظروں سے دیکھا پھر بنا کچھ کہے سنے برہم سی وہاں سے اپنے کمرے کی جانب لپکیں تھیں۔ 

پیچھےحرمین جہاں شکست خوردہ سی زمین پر گرنے کے سے انداز میں بیٹھی تھی وہیں کسی شے کے گرنے کی آواز پر حاویہ نفیسہ بیگم کے کمرے کی طرف بھاگی۔۔۔۔

********************

وہ ادکھلے دروازے کو دھاڑ سے پورا کھولتی اپنے کمرے میں آئی تھی۔

گہری سانسوں میں گھلتی اذیت نے اسکی حسین آنکھوں کو تیزی سے نم کیا تھا۔۔۔

ورنہ تو کچھ وقت پہلے حویلی میں۔۔اپنی ذات کے نام پہ لگنے والے الگ تماشے پر ضبط کرتی وہ بظاہر قدرے تحمل مزاج  ثابت ہوئی تھی۔

مگر اب۔۔۔اب کیا ہوا تھا؟؟

تنہائی میسر آتے ہی بے حسی کے سارے پردے ایک ایک کرکے چاک  ہوتے چلے گئے تھے۔۔

معاً اپنے پیچھے دروازے کے دونوں پٹ بند کرتی وہ اگلے ہی پل کمرے میں موجود قدآور آئینے کی جانب لپکی۔

دوپٹے سے بےنیاز بہکا دینے والا نازک سراپا آئینے میں دیکھتے ہی۔۔۔ ضبط کے دو آنسو رابی کے سرخ تپتے رخساروں پر لڑھکے تھے۔

اور پھر ایک پل لگا تھا اسے نم سلگتی نگاہوں کا زاویہ پھیرنے پر۔۔۔

نتیجتاً۔۔۔آئینے میں دکھائی دیتے بازو پر سے۔۔۔کافی حد تک پھٹا نارنجی رنگ ریشمی کپڑا خود کے ساتھ برتی جانے والی دست درازی کا واضح ثبوت دے رہا تھا۔

وجود میں پھیلتی بےسکونی اب کہ رابی کی دماغی نسوں کو جھنجھوڑنے پر آئی تھی۔۔۔

”تم عورت ذات ہوجبھی میں تمھارا لحاظ کرگیا۔۔

ورنہ اس تھپڑ کے جواب میں تمھیں تمھاری دوٹکے کی اوقات کے اچھے سے نظارے کروا دیتا۔۔۔۔“ 

بےاختیار سماعتوں میں گھلتی مردانہ آواز اسکی سانسوں کو مزید گہرا کرگئی۔

”تم جانتی نہیں ہو ابھی مجھے صحیح سے۔۔۔

 شجاع درید نام ہے میرا۔۔۔

شجاع درید۔۔۔“  

 تابین بائی کو آگے سے پیچھے ہٹانے کی کچی کوششوں میں وہ چوڑے وجود کا صحت مند شخص۔۔۔ پھنکار کر بولتا اُس پل بظاہر کچھ غلط کردینے کے درپے تھا۔

آغازی بدتمیزی کے سبب۔۔۔رابی کی جانب سے منہ پر پڑنے والا تھپڑ غیر متوقع تھا۔۔۔

جس کی جلن اس تیس سالہ مرد کی رگوں میں اشتعال کو بھڑکائے دے رہی تھی۔۔۔

پر اس سے کہیں ذیادہ اطمینان مقابل کھڑی رابی کی  گلابیت گھلی خشک نگاہوں میں مچل رہا تھا۔

اس دوران کئی لڑکیاں اس ہنگامے پر کمروں سے باہر۔۔۔ہال میں نکل آئی تھیں۔

”واللہ کیا کہنے۔۔۔

عورت ذات دیکھ کر میرا لحاظ کرگئے تم۔۔۔؟؟

پر اسی عورت کی نسوانیت پر ہوس بھری نگاہیں گاڑھتے ہوئے تمھیں کوئی لحاظ۔۔۔کوئی شرم نہیں آئی۔۔۔۔؟؟“  

دوبدو پوچھتے ہوئے اسکا انداز کس قدر سرد ہوا تھا۔۔

اس قدر خشک کہ کئی لمحوں تک تو وہ بھی کچھ نہیں بول سکا تھا۔

مگر پھر بےساختہ اسکی طیش گھلی نظروں میں صاف تمسخر سمٹ آیا جسے تابین بائی نے محتاط ہوکر دیکھا۔

”ہاں تو رقاصہ ہو تم۔۔۔۔

کوئی ستی ساوتری دوشیزہ نہیں جو میرے ذرا سا ہاتھ لگانے پر یوں بکھرکرریزہ ریزہ ہوجاؤ گی۔۔۔

نت نئے مردوں کے دل لبھانا ہی جب تمھاری اصلیت ہے تو پھر کیوں خودکو پارسا ظاہر کرکے اپنے اصل سے بھاگ رہی ہو تم۔۔۔۔؟؟؟“ 

 بلاوے پر اندر داخل ہوتے گارڈز کو دیکھ کر وہ بے اختیار ڈھیلا پڑا تھا پر رابی کے وجود کو اسی سادگی میں شدت سے بےمول کرگیا تھا۔

گزرے لمحات میں بہتے ہوئے ہنوز آئینے کی شفاف سطح کو۔۔۔دھندلائی نگاہوں سے یک ٹک تکتی رابی کے وجود میں ایک سنساہٹ سی دوڑگئی۔

دل کی دھڑکنیں حد سے سوا ہورہی تھیں۔

جواباً۔۔۔اس بار وہ خاموش ہوئی تھی۔۔۔

ہاں۔۔۔ایسے بےہودہ القابات پر وہ ہمیشہ سے ہی تو چپ اختیار کرتی آئی تھی۔

ایسے میں ضبط کی طنابیں چھوڑتی تابین بائی نے شجاع کو بےساختہ اسکے گریبان سے پکڑ کرجھنجھوڑا تو ان کی جانب دیکھتا وہ بوکھلا سا گیا۔

”اااےےےے۔۔۔۔

گھر میں بیٹھی تیری ماں بہن سے ذیادہ ستی ساوتری اور پارسا ہے میری معصوم کلی۔۔۔۔۔۔

شروع سے لے کر اب تک اس پر نت نئے مردوں کی نگاہیں ضرور پڑی ہیں لیکن تیرے جیسے کمی کمین لوگوں کی دست درازی کا شکار کبھی نہیں ہوئی میری بچی۔۔۔

 سنا تم نے۔۔۔۔“

”بہتر ہے کہ اب خود کے ساتھ ساتھ اپنی یہ بےتکی بکواس سمیٹو اور دفع ہو جاؤ یہاں سے۔۔۔

نکلوووو۔۔۔۔“  وہ پوری قوت سے اسے قریب کھڑے ہوتے دو گارڈز کی جانب دھکیل چکی تھیں۔

جبکہ تابین بائی کے احتجاج کرتے لہجے پر رابی کے نارنجی لبوں پر آہستگی سے ایک بےدم سی مسکراہٹ  بکھری تھی۔

”دیکھ لوں گا تم لوگوں کو اور تمھاری ان نام نہاد پاکیزگیوں کو بھی۔۔۔۔ہونہہ۔۔۔۔۔گالی###۔۔۔۔۔۔“ 

اپنا آپ جھٹک کر خود کو ان سے چھڑوانے کی کوشش کرتا وہ بلند کرخت لہجے میں بولا۔۔

تو گارڈز اشارہ پاتے ہی اسے تقریباً گھسیٹ کر اپنے ساتھ وہاں سے لے کر نکلتے چلے گئے۔

”آاااہ۔۔۔ہ۔۔۔۔۔“  آنکھیں میچ کر بےاختیار آئینے سے سرٹکاتی وہ بےدم ہونے کے قریب ہوئی۔ 

ہاں۔۔۔ وہ سسکنے کی حد تک دل برداشتہ ہورہی تھی۔۔۔؟؟؟

اور وجہ اسکے سینے میں زہر بن کے پنپ رہی تھی۔۔۔

وہ سالوں سے ایسے بہکتے تلخ لہجوں کی عادی تو تھی

مگر مردوں کی دلجوئی کے عوض دست درازی کی عادی کبھی بھی نہیں رہی تھی۔۔۔۔

چند پلوں تک سکوت چھایا تھا۔۔۔

اور پھر۔۔۔۔

”میری بیٹی بڑی ہوکر ایک کامیاب ڈاکٹر بنے گی۔۔۔اور پھر بیمار مریضوں کا  مفت علاج کرکے ان کی ڈھیروں دعائیں سمیٹے گی۔۔۔۔۔“ 

 اس بار اردگرد بکھرتی وہ میٹھی آواز اسے  حقیقتاً تڑپنے پر مجبور کرگئی۔

اگلے ہی پل پیچھے ہٹ کر بال مٹھیوں میں جکڑتی وہ کرلاتی دھڑکنوں سمیت آپے سے باہر ہوئی تھی۔

”آآآ۔۔۔اااا۔۔۔۔۔

آآآ۔۔اا۔۔ہ۔۔۔۔۔۔

میرے ساتھ ہی کیوں۔۔؟؟؟

م۔۔میں ہی کیوں۔۔۔؟؟

ذلت کی ساری حدیں مجھ پر ہی تمام کیوں۔۔۔۔؟؟

کیوں ں ں ں۔۔۔۔۔؟؟؟؟“  

دبیز قالین پر گھٹنوں کے بل زمین بوس ہوتے اسکی بلکتی آواز میں بین نمایاں تھے۔۔۔

بند کمرے کی چاردیواری کی حد تک محدود۔۔۔فراموش کردئیے جانے والے بے تحاشہ بین۔۔۔

*************************

”ارے بی بی آپ مجھے اس طرح سے مسلسل گھورے کیوں چلی جارہی ہیں۔۔۔؟؟؟

سب خیریت تو ہے ناں۔۔۔؟؟

میں کب سے دیکھ رہی ہوں آپ کی نگاہیں لمحے بھر کے لیے بھی میرے چہرے سے ہٹنے کا نام نہیں لے رہیں۔۔۔“  

اچانک اسکی جانب مکمل رخ کرکے پوچھتی عائمہ بیگم اس اجنبی عورت کو ہڑبڑانے پر مجبورکرگئیں۔۔۔

تو وہاں موجود چند خواتین سمیت۔۔آس پاس کام کرتی بیوٹی ایکسپرٹس بھی انکی جانب متوجہ ہوگئیں۔

”مانا کہ یہاں کا سب سے مہنگا ترین وائٹنگ فیشل میں نے ہی کروایا ہے۔۔۔

لیکن اسکا یہ مطلب تو ہرگز نہیں ہے کہ بندہ اب غیراخلاقی حرکتوں پر ہی اتر آئے۔۔۔

حد ہوتی ہے۔۔۔۔“  اس بار اتراتی وہ مزید بولیں۔

مہنگا فیشل کروانے کے بعد انکے نقوش نکھرے نکھرے سے حقیقتاً بھلے لگ رہے تھے۔

”تم۔۔۔؟؟؟

تم حسن کی زوجہ ہو ناں۔۔۔؟؟

کیا نام تھا اسکا جس سے اس نے بیاہ رچایا تھا۔۔۔“  

پوچھتے ہوئے اس عورت کا گھورنا ہنوز تھا۔

جبکہ یوں غیرمتوقع جان پہچان نکل آنے پر وہ ذرا چونک گئیں۔

”ع۔۔عائمہ۔۔۔؟؟

ہاں۔۔۔تم عائمہ ہی ہو ناں حسن خاور کی بیوی۔۔۔۔“ 

 ذہن پر زور ڈالتی وہ بے ساختہ پریقین ہوئی تو جواب میں عائمہ بیگم نے دھیرے سے سرہلایا۔

البتہ کوششوں کے باوجود بھی انکی ٹٹولتی نگاہوں میں اس عورت کے لیے شناسائی کی کوئی رمق نہیں تھی۔

”ہ۔۔ہاں۔۔۔مگر معاف کیجیے گا میں آپکو ابھی تک پہچان نہیں پائی۔۔۔کون ہیں آپ۔۔۔؟؟؟

اور میرے متعلق کیسے جانتی ہیں۔۔۔۔؟؟؟“  

بغور اسکا چہرہ دیکھتی وہ حقیقتاً اس عورت کو پہچاننے میں ناکام ٹھہررہی تھیں جو غالباً اس سے عمر میں دو چار سال بڑی لگتی تھی۔

جواباً وہ انکے نرم لہجے سے مطمئن سی ہوتی مسکرائی۔

ان دونوں کو پرسکون انداز میں باتیں کرتا دیکھ باقی بھی اپنی توجہ ان سے ہٹاچکی تھی۔

”میں رخسار ہوں۔۔۔

تم شاید مجھے ٹھیک سے پہچانتی نہ ہو۔۔۔

لیکن میں تم سمیت تمھارے شوہر اور اسکے پورے خاندان کو بہت اچھے سے جانتی پہچانتی ہوں۔۔۔“  اپنا نامکمل تعارف کرواتی وہ عائمہ بیگم کا تجسس مزید بڑھاگئی۔۔

مگر اس رخسار نامی عورت کی زبان سے۔۔ذرا بلند آواز میں پھسلتے اگلے الفاظ عائمہ بیگم کا دماغ بھک سے اڑادینے کو کافی تھے۔

”مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ کیسے تمھاری سگی نند کے سبب زمانے بھر میں ہونے والی بدنامی نے بہت سو کی زندگیوں میں تہلکہ سا مچا دیا تھا۔۔۔

اور پھر نوبت یہاں تک آچکی تھی کہ تمھارے شوہر کو مجبوراً اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر دوسری جگہ شفٹ ہونا پڑا۔۔۔۔“

اگلے ہی پل وہ اس صاف گوئی پر بے قابو ہوتی جھٹکے سے اٹھی تھیں۔

”ہوش میں تو ہو۔۔۔

یہ کیا خود سے اول فول بکتی چلی جارہی ہو۔۔۔؟؟؟

نہ بندہ دیکھتی ہیں نہ ہی بندے کی ذات۔۔۔جاہلوں کی طرح  لحاظ کیے بنا کہیں بھی شروع ہوجاتی ہو۔۔۔

عجیب بےمروت خاتون ہو تم۔۔۔۔۔“ بے پر کی سناتی وہ حقیقی معنوں میں اس پر برس پڑیں۔

تو جہاں انکی تندہی سے چلتی زبان پرسٹپٹاتی وہ بھی ساتھ ہی اٹھ کھڑی ہوئی تھی وہیں باقی بھی حیرت سے ان دونوں کی جانب دیکھنے لگیں۔ 

”اول فول بکنے کی عادت مجھے نہیں ہے بہن۔۔۔

جو حقیقیت ہے وہی بتا رہی ہوں۔۔۔

کیا یہ سچ نہیں ہے کہ تمھاری نند اپنے عاشق کے ساتھ رات کے گپ اندھیرے میں بھاگ گئی تھی۔۔۔؟؟؟

کیا تم خود بھی اس حقیقیت سے واقف نہیں ہو۔۔۔؟؟؟“  

ہاتھ نچا نچا کر کاٹ دار لہجے میں پوچھتی وہ صحیح معنوں میں جاہل لگ رہی تھیں جبکہ ایک عرصے بعد گڑھے مردے اکھاڑے جانے پر عائمہ بیگم کا رنگ شدتِ توہین سے سرخ پڑگیا۔

سیلون کا پرسکون ماحول انکی شدید تکرار کے سبب بگڑچکا تھا۔

البتہ ذرا فاصلے پر بیٹھنے کے سبب خواتین کا دھیمی چہ مگوئیاں کرنا مشکل ہوا تھا۔

”میں کہتی ہوں وقت پر بندکرلو اپنی بکواس۔۔۔۔

کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے ہاتھوں تمھارا کوئی شدید نقصان ہوجائے۔۔۔۔“ 

 ایک محتاط نگاہ اطراف میں دوڑاتی وہ مٹھیاں بھینچ کر کاٹ دار لہجے میں بولی تو ملنے والی اس تنبیہہ پر اس نے تنفر سے ہنکارہ بھرا۔

”میں ڈرتی نہیں ان کھوکھلی دھمکیوں سے۔۔۔۔“  

کچھ لاپرواہی سے بولتی جانے وہ کونسی دشمنی نکال رہی تھی۔۔

عائمہ بیگم کا پارہ ہائی ہونے لگا۔

”میم۔۔۔پلیز سٹاپ اٹ۔۔۔

ہمارے ساتھ ساتھ دیگر کسٹمرز بھی آپ دونوں کی بلاوجہ کی جھڑپ کے سبب کافی ڈسٹرب ہورہے ہیں۔۔۔

مہربانی کرکے یاں تو آپ آرام سے بیٹھ جائیں۔۔۔

یا پھر یہاں سے جا سکتے ہیں۔۔۔۔“  ہیرکٹ چھوڑ کر ان کے قریب آتی ایک بیوٹی ایکسپرٹ نے بے تاثر لہجے میں کہا تو دونوں نے چونک کر اسکی جانب دیکھا۔

اسکا وارن کرتا لہجہ رخسار خاتون سے ذیادہ عائمہ بیگم کو چبھا تھا جو پلکیں جھپک جھپک کر نمی کو اندر اتارگئی تھیں۔

”ہونہہ۔۔۔

مجھےبھی کوئی شوق نہیں ہے ایسے بدزبان اور جاہل لوگوں کے بیچ مزید رک کے اپنا قیمتی وقت برباد کرنے کا۔۔۔

اور یہ رہی تمھاری  پیمنٹ۔۔۔“ 

 کہتے ہوئے عائمہ بیگم سرعت سے پلٹی اور ایک طرف رکھے ہینڈ بیگ سے مطلوبہ رقم نکالتی وہیں ڈریسنگ پر پٹخ دی۔

اس انداز پر مقابل کھڑی بیوٹی ایکسپرٹ نے ضبط سے لب بھینچے۔

ایک آخری سخت نگاہ اپنی جانب تکتی رخسار پر اچھالتی عائمہ بیگم۔۔۔اگلے ہی پل اپنا آپ سنبھالتی وہاں سے نکلتی چلی گئیں۔

خاندان کے نام پر جس قدر ذلت وہ اب برداشت کرچکی تھیں اس کے بعد اس مہنگے سیلون میں دوبارہ قدم نہ رکھنے کا ارادہ بےساختہ تھا۔۔

جبکہ انکے وہاں سے جاتے ہی خواتین کو کھلم کھلا باتیں کھوجنے کا موقع بآسانی میسر آچکا تھا۔

*************************

ڈھلتی دوپہر میں ساحل سے ذرا پرے۔۔۔نیلگوں سمندر کی مدھم شور مچاتی لہروں کا نظارہ قدرے طمانیت بخش تھا۔۔۔

لیکن قدرت کے روح میں اتر جانے والے اس دلکش نظارے کوتکتی ان پُرسوچ  نگاہوں میں اس وقت طمانیت ہرگز نہیں تھی۔۔۔

سکون کی جگہ ایک ناقابل بیان جلن تھی اور یہی جلن اسکے وجود کا سکون برباد کیے ہوئے تھی۔۔۔۔

ایسے میں ہاتھوں میں لاپرواہی سے گھومتا قیمتی موبائل مسلسل اسکے دل کی دھڑکنیں بڑھانے گھٹانے کا سبب بن رہا تھا۔۔۔۔

نرم ریت پر جوتوں سمیت  کب سے کھڑا شام اب کہ جھنجھناتے ذہن میں گڈمڈ ہوتی سوچوں سے عاجز سا آنے لگا۔

معاً سرجھٹکتا وہ خود کے تھکے اعصاب پرسکون کرنے کے لیے طویل گہرا سانس بھرگیا۔

”بسسس۔۔۔

بہت سوچ لیا۔۔۔

 سمجھ لیا۔۔۔

اب مزید کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔۔۔“  

 بالوں میں ہاتھ چلاتے ہوئے اس نے پل میں حتمی فیصلہ کیا۔

معاً اپنی نگاہیں موبائل اسکرین پر جماتا وہ پلوں میں سوشل میڈیا کے مطلوبہ پیج تک رسائی حاصل کرچکا تھا۔

دو سےتین کلک پر اسکرین پر چلتی ویڈیو نے شام کی بےچین نگاہوں میں ایک انتقامی چمک ابھاری تھی۔

حقیقی معنوں میں حرمین زہرا کو رسوائی سے آشنا کروانے کے لیے  فقط ایک عدد مزید کلک کی ضرورت تھی۔

” ٹھہرو۔۔۔رکو۔۔۔رکو۔۔۔۔“ 

وہ لاسٹ اوپشن پر اپنے انگوٹھے کی چھاپ چھوڑ دینے کے قریب ترین تھا جب اندر کہیں چیختی تنبیہی پکار۔۔۔

اسے مچلتی لہروں کے سبب گہرے سمندر میں اٹھتے شور  سے بڑھ کر سنائی دی تھی۔

”تمھاری دھتکار سے تو وہ بہت پہلے ہی اندر تک برباد ہو چکی ہے۔۔۔

اب یوں اپنی اس انتقامی کاروائی سے اسکی ظاہری عزت کی دھچیاں مت اڑاؤ۔۔۔۔

وہ نازک وجود ستم پر تمھارا ایک اور ستم برداشت کرنے کے قابل نہیں ہے۔۔۔“  

موبائل کی اسکرین میں صاف واضح ہوتے اسکے معصوم سے پرسکون چہرے کو بغور تکتے جانے کیوں۔۔۔اسے دہائی پہ دہائی سنائی دے رہی تھی۔۔۔۔

شام کے دل کی تیز دھڑکنیں مخالف سمت دھڑکنے لگیں۔۔۔

 فقط ایک پل۔۔۔۔

ایک پل کے لیے اس کا دل ویڈیو سمیت قدرے مہارت سے کراپ کی گئی تصاویر کو سرے سے ہی ڈیلیٹ کردینے کا چاہا تھا۔

”چٹااااخ۔۔۔۔۔۔۔۔“ 

 اگلے ہی لمحے تھپڑ کی گونج اسکی سماعتوں میں اتری تھی۔

”تھو ہے تمھاری اس حسین صورت پر جس پر فدا ہوکر جانے کتنی ہی لڑکیاں خود کی عزت دو کوڑی سے بھی کم کی کر بیٹھتی ہیں۔۔۔

اور تھو ہے مجھ جیسی بدنصیب لڑکی پر جو تم پر فدا ہوئی۔۔۔۔

تم جیسے گھٹیا ترین مرد کے لیے یہ تھپڑ تو کچھ بھی نہیں ہے شاہ میر حسن ۔۔۔

اگر میرا  بس چلے تو تمھیں اپنی زندگی برباد کرنے کے جرم میں سیدھا پھانسی پر لٹکا دوں۔۔۔۔۔“  بےدردی سے اپنے نم گال مسلتی کیسے وہ مشتعل سی باآواز بلند چیخ رہی تھی۔۔

ایسے میں سختی سے لب بھینچے۔۔۔شام کے ہمدردی ابھارتے دل نے اچانک ہی پوری جی جان سے پلٹا کھایا تھا۔۔۔۔

”ت۔۔۔تم نے اپنی نام نہاد جیت کی خاطر جس طرح  مجھ یتیم لڑکی کی زندگی تباہ کی ہے ناں شام۔۔۔

میری دعا ہے کہ تم بھی اسی طرح  برباد ہوجاؤ۔۔۔

پل پل سسکو۔۔۔

تڑپو پر تمھیں زندگی میں کبھی سکون نہ آئے۔۔۔“

 اسکی جانب انگلی اٹھا کر بددعا دیتی وہ نئے سرے سے اسے اپنے نازک وجود سے شدید نفرت کرنے پر مجبور کر گئی۔

اور پھر۔۔۔

سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں وہ بے حس انسان لاسٹ آپشن پر کلک کر چکا تھا۔۔۔

”خیر ڈائریکٹ قتل تو نہیں کروں گا لیکن جوابی کاروائی میں ایسا نایاب داؤ کھیلوں گا کہ وہ جیتے جی موت کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائے گی۔۔۔۔“  

اس نے کہا تھا کہ وہ اس لڑکی کی زندگی جہنم بنانے کو ایک نایاب داؤ کھیلے گا۔۔۔سو وہ کھیل چکا تھا۔

ہاں۔۔۔۔

شاہ میر حسن قدرے مہارت سے اپنی شناخت چھپائے۔۔۔

دنیا کے سامنے حرمین زہرا کے وجود کی سرعام تشہیر کروا چکا تھا۔۔۔۔

 ”حرمین زہرا۔۔۔۔۔

تم کبھی بھی میری بخشش کے لائق نہیں تھی۔۔۔۔

اپنے کیے کا بھگتان تو تمھیں بھگتنا ہی تھا۔۔۔

سو اب بھگتو۔۔۔۔۔۔“

سکینڈوں میں بڑھتی ویووزر کی تعداد نے جہاں اسکے شفاف لبوں پر زہرخند مسکراہٹ بکھیری تھی وہیں اندر کہیں ملامت کرتے ضمیر تلے اسکے دل کی دھڑکنیں ذرا کی ذرا ڈوبی تھیں۔۔۔

پر جو بھی تھا اب وہ انجام کی پرواہ کیے بغیر اپنے اس شرمناک اقدام سے پیچھے ہٹنے والا تو ہرگز نہیں تھا۔۔۔

********************

”لبارا برینڈ کی وہ امپورٹینڈ فائل تم نے منیجر تک ٹرانسفر کروائی تھی۔۔۔۔؟؟؟“ 

 میز پر پڑا پیپر ویٹ گھوماتے ہوئے اسکا لہجہ دھیما تھا پرسلگتا انداز آبرو کو چونکنے پر مجبور کرگیا۔

”جی بالکل۔۔۔۔۔“  

بظاہر اعتماد سے بولتی وہ تصدیق کرگئی تو شاہ نے بھوری نگاہیں اٹھا کےاسکی جانب دیکھا۔

ان میں گھلی سرخائی اسکے ضبط کا صاف پتا دے رہی تھی۔

”تم جانتی تھیں ناں کہ میرے لیے یہ ڈیل کس قدر ضروری تھی۔۔۔؟؟؟ 

 بھاری سنجیدہ آواز میں کاٹ سی گھلنے لگی۔

عادتاً انگلیاں چٹخاتی آبرو تفتیش زدہ سی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔

”مگرتمھاری ایک چھوٹی سی کوتاہی نے میری کامیابی کو پلوں میں تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے آبرو سکندر۔۔۔“  

 ایکدم سے دھاڑتا وہ اگلے ہی پل پیپر ویٹ اٹھاکر سامنے دروازے پر مار چکا تھا۔

اس غیرمتوقع صورتحال سے خائف ہوتی وہ بے ساختہ لبوں پر ہاتھ رکھتی بوکھلائی۔

وہ جب سے لبارا کمپنی کی میٹنگ اٹینڈ کرکے واپس آیا تھا۔۔تب سے ہی اسکے تیور بگڑے ہوئے سے تھے۔۔

پر اس حد تک بھی بگڑ سکتے ہیں آبرو کو حقیقتاً اب اندازہ ہورہا تھا۔

”ک۔۔کوتاہی۔۔۔؟؟؟

مگر میں۔۔۔۔“  اسے سیٹ چھوڑ کر اپنی جانب آتا دیکھ وہ حیرت زدہ سی پوچھنے کی کوشش میں ہکلائی۔۔

جب سختی سے اسکی بات بیچ میں کاٹتا وہ اسکے قریب آ رکا۔

”کہنے کو تو عین وقت پر۔۔غلطی سے ری پلیس کی جانے والی وہ فقط ایک غلط فائل ہی تھی۔۔۔

پرتمھاری یہ بےدھیانی میرا ایک کڑور کا ٹینڈر بڑی آسانی سے نگل چکی ہے آبرو سکندر۔۔۔۔“ 

 اپنے لفظوں سے حقیقتاً اسکے ہوش اڑاتا وہ اسے گنگ ہی تو کرگیا تھا۔

ابھی کچھ دیر پہلے وہ آفس منیجر کو بھی بری طرح سے بےعزت کرکے اپنے روم سے نکال چکا تھا جس نے فائل چیک کیے بنا ہی آگے تک پہنچادی تھی۔

”غ۔۔غلط فائل۔۔۔

پر۔۔۔ا۔۔ایسے کیسے۔۔۔؟؟

مجھے یاد ہے میں نے خود منیجر صاحب کو بالکل ٹھیک فائل دی تھی۔۔

بے دھیانی کی تو کوئی گنجائش  ہی نہیں نکل سکتی۔۔۔۔“ 

 عجلت میں اپنی صفائی دیتی وہ خود بھی جیسے الجھ سی گئی۔

”اٹس مین کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں۔۔۔؟؟

میرا منیجر جھوٹ بول رہا ہے۔۔۔؟؟

یہاں تک کہ لبارا کمپنی کا آنر بھی جھوٹ بول رہا ہے۔۔۔؟؟

پر تم۔۔۔۔

تم اپنی جگہ بالکل درست ہو۔۔۔ہہہمم۔۔۔؟؟؟“ 

 تندہی سے پوچھتا وہ اسکی گہری نیلی نگاہیں بھگونے میں کامیاب ٹھہرا تھا۔

”مجھے ن۔۔نہیں معلوم۔۔۔۔“

 اسکی پیشانی پر چڑھی تیوری سے نگاہیں چراتی۔۔۔وہ ذہن پر زور ڈالتی ہوئی صاف ڈانواڈول ہوئی تو شاہ نے اسکے حسین نقوش پر چاپ چھوڑتی گھبراہٹ کو جلتی نگاہوں سے بغور دیکھا۔

”معلوم نہیں۔۔۔

سریسلی۔۔۔؟؟

تمھیں ذرا سا بھی اندازہ ہے کہ تمھاری ان بلاوجہ کی لاپرواہیوں نے مجھ سمیت میری کمپنی کو کس قدر خسارے میں ڈالا ہے۔۔۔۔؟؟؟

تمھاری سال بھر کی سیلری بھی وہ قیمتیں پوری نہیں کرسکتی جو تم ایک سیکنڈ میں ضائع کرجاتی ہو۔۔

اور ایسے میں تمھاری ناواقفیت بھی ہنوز قائم رہتی ہے۔۔۔

امیزنگ۔۔۔۔“

 بے اختیار اسکے بازو کو اپنی  مضبوط گرفت میں لیتے ہوئے اب کہ اسے جنید والا پراجیکٹ بھی یاد  آیا تھا جسے وہ مقابل کھڑی لڑکی وجہ سے جانتے بوجھتے ٹھکرا چکا تھا۔

”آپ۔۔۔۔“  

گھنی پلکیں جھپکانے پر بےاختیار آبرو کے گلال رخساروں پر آنسو پھسلے۔

سست روی سے چلتی دھڑکنوں پر اس نے شاہ کی جانب دیکھا مگر وہ نفی میں سر کو تیزی سے جنبش دیتا اسکی بات کاٹ گیا۔

”اب سوری مت کہنا مجھے آبرو سکندر۔۔۔

مت کہنا کیونکہ یہ معمولی سا ورڈ مجھ سمیت میری کمپنی کو اس خسارے سے باہر نکالنے کے لیے ہرگز کافی نہیں ہے جس میں تم ہمیں بہت آرام سے ڈال چکی ہو۔۔۔۔“  

دل کو پگھلانے کی قابلیت رکھتے اسکے آنسو دیکھ کر بھی وہ صاف سنگدلی پر اتر آیا تھا۔۔۔

جب اپنا ضبط کھوتی آبرو پورا زور لگا کے اپنا بازو ایک جھٹکے سے اس کی مضبوط گرفت سے چھڑوا گئی۔ 

جواب میں شاہ نے تندہی سے بھنویں اچکائیں تھیں۔۔۔

مگر اگلے ہی پل سماعتوں سے ٹکراتے الفاظ اسکا سفاک ہوتا دل شدتوں سے دھڑکانے پر مجبور کرگئے۔

”محبتوں میں اگر مخلص جذبات کی بجائے قیمتوں کی سودے بازی ہونے لگے تو پھر وہ محبتیں۔۔محبتیں نہیں رہتیں۔۔۔

بلکہ ضمیر پر ایک ناقابل برداشت بوجھ بن جاتی ہیں۔۔۔

آپ تو پھر بھی بارہا میرے عشق کے دعو یدار رہ چکے ہیں۔۔۔

ایسے میں بیک وقت دو طرح کے تقاضے آپ پر بالکل بھی نہیں جچتے شاہ صاحب۔۔۔

یاں تو قیمت کا تقاضا کیجیے۔۔۔

یاں فقط محبت کا۔۔۔۔۔“ 

 قدرے گہری بات کرتی وہ مقابل کے دل پر گہرا وار کرچکی تھی۔

جبکہ اسکی حسین سی۔۔نم نیلی نگاہوں میں تیرتی تمسخر بھری اذیت دیکھ کر شاہ کا غصہ بھک سے اڑا تھا۔

”اور ہاں۔۔۔

میں نے اس فائل کو لے کر بے دھیانی میں بھی کوئی ہیرا پھیری نہیں کی۔۔۔

باقی آپ جو بہتر سمجھیں۔۔۔۔۔“

شاہ کو حقیقتاً اسکی محبت کے تقاضے یاد دلاتی وہ۔۔۔اپنی حتمی صفائی دیتی ہوئی اگلے ہی پل وہاں سے نکلتی چلی گئی۔

اس بار لہجہ بھی قدرے مضبوط تھا۔

پیچھے وہ ہنوز گم صم سا اسے وہاں سے جاتا ہوا دیکھتا رہ گیا۔۔۔۔

ایسے میں ہاتھ  مضبوط سینے میں۔۔پھڑپھڑاتے دل پر کب آیا وہ خود بھی انجان تھا۔

”محبت۔۔۔۔“

”عشق۔۔۔۔“

”آبرو۔۔۔۔“  

دل و دماغ میں ہوتی لفظوں کی تکرار میں قیمت کا تقاضا تو کہیں بھی نہیں تھا۔

ہاں یہ حقیقت تھی کہ اس ایک غلط فائل کے سبب اسکا خسارا ہوا تھا پر بروقت دوسرا پراجیکٹ ملنے پر آدھے سے ذیادہ نقصان پورا بھی تو ہوچکا تھا۔

بے اختیار اس نے سر جھٹکتے ہوئے اپنی مڑی ہوئی خم دار کو  پلکوں کو انگلیوں تلے مسلا۔

ایسے میں آنکھوں کی گہری ہوتی سرخی اسکے اندر شرمندگی کا احساس جگانے کو کافی تھی۔۔۔۔ 

*********************

لمحوں کی تیز رفتاری۔۔۔تپش چھوڑتی دوپہر کو اب کہ وحشتوں بھری۔۔۔ گہری رات میں ڈھالنے کے درپے ہوئی تھی۔

ایسے میں وہ اپنے پلنگ پر ایک طرف۔۔۔گٹھڑی بنی کچی نیند کی آغوش  میں تھی۔

گزشہ روز کا ستم اسے ہنوز بھوکا پیاسا۔۔۔تنہا کمرے میں بند کیے ہوئے تھا۔

گداز تکیے پر بکھرے بال جہاں حرمین زہرا کی خود سے برتی گئی لاپرواہی کو ظاہر کررہے تھے وہیں سوجھے پپوٹوں میں بےساختہ ہوتی جنبش اسکے غنودگی سے جاگنے کا سبب بنی تھی۔

دقت سے پوری آنکھیں کھولتی وہ کئی لمحوں تک اپنے آپ سے بیگانہ رہنے کے بعد ایک جھٹکے سے اٹھی۔۔۔

تو دماغ میں اٹھتی شدید ٹیس اسے پل بھرکو سختی سے خشک انگارہ آنکھیں میچنے پر مجبور کرگئی۔

”آااہ۔۔۔۔ہ۔ہ۔۔۔“  

بےاختیار اسنے ہتھیلی تلے اپنی تپی پیشانی مسلی۔۔۔

جب اذیت دیتی سوچوں نے پل میں اسکے سنسناتے ذہن میں ایک حشرسا برپا کیا تھا۔

”اپیہ آپ اب تک کس وجہ سے خاموش ہیں۔۔۔؟؟

ادھر ماما کی حالت آپکی خودسریوں کا سوچ کر بد سے بدتر ہوئے جارہی ہے۔۔۔اور یہاں آپ۔۔۔؟؟  

”چچ۔۔۔آخر بتا کیوں نہیں دیتیں کہ جس انسان کو سب آپکی بدنامی کا سبب سمجھ رہے ہیں۔۔

درحقیقت وہ آپکو زندگی بھرکے لیے اپنانے کی شدید خواہش رکھتا ہے۔۔۔۔“  

سماعتوں میں سیسہ بن کے پگھلتی۔۔یہ فکرکھاتی ہوئی آواز اسکی اپنی بہن کی تھی۔۔جو سوال پر سوال پوچھتی اُس پل کس قدر بے سکون دکھائی دے رہی تھی۔

”زندگی بھر اپنانے کی خواہش۔۔۔۔؟؟؟

  جواباً کچھ حیرت سے اسکی جانب دیکھتے ہوئے اسکی بھیگی آنکھوں میں خود کے لیے تمسخر ابھرا تھا۔

”جو شفاف پیشانی پر صرف بدنامی کا داغ سجانا جانتے ہوں وہ کسی کے کردار کو پاک صاف رکھنے کے لیے خود کی ذات کو داؤ پر نہیں لگایا کرتے حاوی۔۔۔

وہ بھی انہی میں سے ایک تھا۔۔۔۔“  

حقیقت بتلاتے سمےآنسو تواتر سے اسکے سانولے رنگ گالوں کو بھگو رہے تھے۔

بالکل اسی طرح جیسے دم گھٹنے پر پلنگ سے اترتے ہوئے اب بھی بہہ نکلے تھے۔

”ک۔۔کیا مطلب۔۔۔؟؟؟

اسنے آپکو اپنانے سے انکار کردیا۔۔۔۔؟؟؟“ 

 قدرے حیرت سے پوچھتی حاویہ کے لیے فوری یقین کرنا دشوار ہوا تھا۔

جواباً سر کو ہولے سے جنبش دیتی وہ پل میں اسکے بدترین خدشوں کی تصدیق کرگئی۔

”میراخیال تھا کہ عینک کے بنا میں کچھ بھی اچھے سے دیکھنے کے قابل نہیں ہوں لیکن میں غلط تھی۔۔۔

اس عینک کی محتاجی سہہ کر بھی میں اسکا دھوکےباز چہرہ نہیں پہچان پائی۔۔۔

محبت کی کمزوری نے مجھے ہر لحاظ سے اندھا کردیا تھا۔۔

پھربھلا کیسے پہچانتی۔۔۔۔؟؟؟“  

ہنوز اسکے کنگ نقوش تکتے لہجہ بظاہر بے تاثر تھا لیکن دل میں اٹھتی اذیت باکمال تھی۔ 

آگے لپک کر کھڑکی کے دونوں پٹ کھولتے ہوئے حرمین نے گہرا سانس بھرا تو گہرے سکوت میں ایک بار پھر حیرت میں بھیگی نسوانی آواز اسکے آس پاس بکھر سی گئی۔

”پ۔۔پر وہ۔۔۔

وہ تو آپ سے بے پناہ محبت کرتا تھا ناں اپیہ۔۔۔؟؟

آپکی سادگی سے۔۔

آپکی سیرت سے۔۔

آپکی عادتوں سے۔۔۔۔

تو پھر بھلا آپکو  ٹھکرادینے کی جرات کرسکتا ہے وہ۔۔؟؟

اب کیوں اپنے قدم پیچھے  لے رہا ہے۔۔۔کیوں اپنی ہی کہی باتوں سے بھاگ رہا ہے۔۔۔۔؟؟؟“ 

 حقیقی خسارے سے ہنوز بے خبر۔۔۔وہ فقط شاہ میر حسن کے صاف انکار پر تلملا اٹھی تھی۔

جبکہ حاویہ کی دبی دبی غصیلی آواز میں خود کے لیے چھلکتی ہمدردی کو شدت سے محسوس کرتی وہ بھی اپنا ضبط کھونے لگی۔

”جھوٹی محبت کی آڑ میں وہ میری اسی سادگی۔۔۔اسی سیرت کو تو مات دینا چاہتا تھا۔۔۔

سو دے دی۔۔۔

اپنی انا کو بحال رکھنے کی خاطر وہ میری عزت دو کوڑی کی کرگیا حاویہ اور مجھے دیکھو۔۔۔

میں بھی اسکے ساتھ ان سب میں برابر کی قصوروار رہی ہوں۔۔۔“ 

 نئے سرے سے بھیگتی آنکھوں کے گوشے رگڑتے ہوئے اسکا لہجہ مکمل بھیگ چکا تھا۔

اسکی جانب تکتی حاویہ کی نم نگاہوں میں شدت سے الجھن ابھری۔

”سیاہ رات میں م۔۔میرے صاف ستھرے دامن پر سیاہی کی گہری چھاپ چھوڑ گیا وہ انسان۔۔۔

کبھی نہ مٹنے والی گہری چھاپ۔۔۔۔

اور میں کچھ بھی نہیں کرسکی۔۔۔۔

شاہ میر حسن نے م۔۔مجھے ہر لحاظ سے مجھے برباد کردیا ہے حاوی۔۔

ہر لحاظ سے۔۔۔۔“ 

 جہاں وہ اسکی مزید ہمدردی پانے کو سسکتی ہوئی حقیقی معنوں میں اپنا آپ واضح کرگئی تھی۔۔

وہیں بات کی چبھتی گہرائی کو لمحوں میں سمجھتی حاویہ کا دماغ بےیقینی کے سائے تلے بھک سے اڑا۔

”م۔۔میں۔۔۔میں۔۔۔“  لرزتی آواز میں مزید بولنے کی ناکام کوشش کرتی وہ سر ہاتھوں میں تھام گئی۔

 چاند کی بے داغ روشنی کی طرف چہرہ کرکے کھڑی حرمین کے لیے سنساتے لفظوں کے بوجھ تلے اب بھی کھل کے سانس لینا دشوار ہورہا تھا جبھی اذیت سے مٹھیاں بھینچتی وہ آنکھیں میچ گئی۔

”اپیہ۔۔۔؟؟

آ۔۔آپ نے بنا کسی جائز رشتے کے ناپاکی کی حدوں کو پارکردیا اور اب اس پر ماتم کناں ہورہی ہیں۔۔۔؟؟؟“

  پوچھتے ہوئے حاویہ کے نم لہجے میں وحشت سی اتر آئی تو سرسراتی آواز پر وہ سر اٹھاکر اسکی جانب دیکھنے پر مجبور ہوئی۔

”میں مانتی ہوں کہ شام جیسے گھٹیا شخص سے محبت کرنا آپکی غلطی تھی لیکن اس غلطی پر مزید بڑا گناہ کرنے کا آپکو کوئی حق نہیں پہنچتا تھا اپیہ۔۔۔“ 

 نفرت سے بولتی وہ پل پل بپھر رہی تھی۔  

جبکہ اسکے رویے کی تلخی پر پل بھر کو بوکھلاتی وہ  اگلے ہی لمحے اٹھی۔

پھر نفی میں سر ہلاتی مضبوطی سے اسکے کندھے تھام گئی۔

”حاویہ۔۔۔۔

م۔۔میں آخری حد تک بہک گئی تھی۔۔۔“  

وہ اپنے صفائی میں بولنا چاہ رہی تھی جب حاویہ اپنے کندھوں سے اسکے ہاتھ سختی سے جھٹک گئی۔

”میں نے روکا تھا آپکو۔۔۔

باز کیا تھا ناں۔۔۔؟؟

پر آپ نے میری ایک نہیں سنی۔۔۔۔

”آپ اپنے کیے کا انجام بھگت رہی ہیں۔۔۔

ٹھیک ہے۔۔میں بھی بھگت لوں گی پر۔۔۔

پر ہماری ماں یہ رسوائی برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتیں خود میں اپیہ۔۔۔۔

بالکل بھی نہیں رکھتیں وہ۔۔۔۔۔“  شدت سے بولتے ہوئے اسکے آنسوؤں میں بے اختیار روانی آئی تھی۔

”ایسے لفظوں کا چناؤ مت کرو حاوی۔۔۔

م۔۔میں پہلے ہی اپنے ہاتھوں سے کمائی ندامت کو جھیل نہیں پارہی ہوں۔۔۔۔

وہ صرف تمھاری ہی نہیں بلکہ میری بھی ماں ہیں مجھے بھی خیال ہے ان کا۔۔۔۔“  

حرمین کو ناچاہتے ہوئے بھی نئے سرے سے گھبراہٹ ہونے لگی تھی جب شہادت کی انگلی اٹھاتی وہ پھنکاری۔

”میں بتارہی ہوں حرمین زہرا۔۔۔

آپ کے سبب اگر میری ماں کو کچھ بھی ہوگیا ناں تو میں آپکو کبھی بھی معاف نہیں کروں گی۔۔۔

سنا آپ نے۔۔۔؟؟؟

کبھی بھی نہیں۔۔۔۔“

 سلگتے لہجے میں تڑخ کر بولتی وہ وہاں رکی نہیں تھی بلکہ اسکا بچا کھچا سارا اطمینان چھینتی وہاں سےنکلتی چلی گئی۔

”ہا۔۔ااا۔۔۔۔ہ۔۔ہ۔۔۔۔اللہ۔۔۔۔“  

حرمین نے گزشتہ روز کی یادوں کے دلدل سے نکلنے کو گھبرا کر آنکھیں کھولیں تو آنسو بے اختیار گالوں پر لڑھک آئے۔

تنفس بگڑسا گیا تھا۔

”جو ہوا سو ہوا۔۔۔۔

ا۔۔اب کچھ برا نہیں ہوگا۔۔۔۔

م۔۔میں کچھ برا ہونے ہی نہیں دوں گی۔۔۔۔

ہاں۔۔۔میں۔۔۔“  

جانے کیوں ان پلوں میں درد کی انتہاؤں کو چھوتا دل حد سے سوا ہورہا تھا جب سکوت میں موبائل فون کی چنگاڑتی بیل اسے چونک کر پلٹنے پر مجبور کرگئی۔

کئی لمحوں تک بجتی بیل پر حرمین کا دماغ سنسانے لگا۔۔۔

تو بےدردی سے آنسو رگڑتی وہ ناچاہتے ہوئے بھی آگے بڑھی۔

تب تک دوسری طرف سے کال بند ہو چکی تھی۔

سائیڈ ٹیبل پر پڑا موبائل اٹھاتے ہوئے اسنے لاک کھولا۔

معاً علیزے کے نمبر سے بھیجے گئے ویڈیو لنک کا نوٹیفیکشن اسکی اسکرین پر ظاہرہوا۔

”اوپن اٹ۔۔۔اینڈ چیک۔۔۔۔“  

مزید ایک اور میسج آیا تھا۔

حرمین نے دھڑکتے دل سے میسج  کھول کر ویڈیو لنک پر کلک کیا۔

اگلے پل شفاف سکرین پر چلتی ویڈیو میں اپنا آپ ابھرتا دیکھ حرمین زہرا کے ہوش اڑے تھے۔

پھٹی پھٹی بےیقین نگاہوں سے اپنی نازیبا حالت کا معائنہ کرتے ہوئے۔۔ منہ سے نکلنے والی گھٹی گھٹی سی چیخ بےساختہ تھی۔

آدھی ادھوری چادر میں سکون کی نیند لیتی فقط وہ اکیلی اس شرمناک منظر کا حصہ تھی لیکن اسکے وجود کی دھجیاں بکھیرنے والا خود کہیں بھی اس ویڈیو میں موجود نہیں تھا۔

”ش۔۔شام۔۔۔۔۔“   

اس جان نکال دینے والی آفت پر اسکے لرزتے سیاہی مائل لبوں سے فقط ایک نام ہی پھسلا تھا۔

اگلے ہی پل دھندلائی نگاہوں کو تیزی سے جھپکاتے ہوئے اسنے ہزاروں سے لاکھوں کو پہنچتی ویوورز کی تعداد دیکھی تو پھٹتا دل جیسے تھم ساگیا۔

شئیرز کی جانے والی تعداد بھی کچھ کم نہیں تھی۔

حرمین کو لگا جیسے کسی نے چہرے سمیت اس کے وجود پر تیزاب انڈیل دیا ہو۔

اس شیطان نما انسان کا اس قدر انتقامی روپ حقیقتاً اسکی جان نکال گیا تھا۔

اس چلتی ویڈیو کو اس سمیت لاکھوں تجسس بھری نگاہیں دیکھ چکی تھیں۔

”نن۔۔نہیں۔۔۔

نہیں نہیں۔۔۔نہیں ںںںںں۔۔۔۔

ایک تھپڑ کے جواب میں۔۔میں اس سزا کی حقدار نہیں تھی۔۔۔۔

نہیں تھی میں۔۔۔

بالکل نہیں تھی۔۔۔

آاا۔۔اا۔۔ہ۔۔۔“ 

حرمین سے مزید اپنا آپ دیکھنا محال ہوا تو  خوفزدہ سی موبائل کو خود سے پرے اچھالتی اپنے بال مٹھیوں میں جکڑ گئی۔

ذہن کے سیاہ پردے پر حاویہ اور نفیسہ بیگم کے نفرت سے بھیگے نقوش لہرائے تو نڈھال سی ہوتی وہ وہیں نیچے بیٹھتی چلی گئی۔

سب کچھ ختم ہوا تھا۔۔۔

سب کچھ۔۔۔

دوسرے کمرے میں موجود دو نفوس ہنوز برہم۔۔۔نیند کے وادیوں میں جھولتے اس پل اسکی گھٹی گھٹی چیخیں سننے سے محروم تھے۔

ایسے میں علیزے سمیت جانے کتنوں کے ہی ملامت بھرے میسجز آچکے تھے پر وہ دیکھنے کے قابل ہی کہاں تھی۔

وہ تو در حقیقت کہیں کے بھی قابل نہیں رہی تھی۔

بدستور سسکیاں بھرتے وجود میں سانسیں اٹک رہی تھیں پر۔۔۔پر پھٹتے ذہن میں شدت سے ابھرتا سوال یہ تھا کہ 

بوجھ بنتی یہ سانسیں اسکے وجود سے جدا کیوں نہیں ہورہی تھیں۔۔۔؟؟؟

وہ ہنوز زندہ تھی۔۔۔

پر کیوں۔۔۔؟؟

ایک ایک کرکے اپنا سب کچھ لٹا دینے کے بعد بھی وہ اب تک کیوں زندہ تھی۔۔۔؟؟ 

بالوں کو ہنوزسختی سے مٹھیوں میں جکڑے حرمین پاگل ہونے کے درپے تھی۔

اگلے ہی لمحے اسکے ماؤف ہوتے ذہن میں جھماکا ہوا تو بنا کوئی لمحہ ضائع کیے وہ سرعت سے اپنی جگہ سے اٹھی۔

پل میں کیا جانے والا حتمی فیصلہ حقیقتاً جانلیوا تھا۔

اس قدر جانلیوا کہ ہر گزرتا  لمحہ اسکی سانسوں پر بھاری پڑتا چلا گیا۔۔۔۔

سلگتی تلخ یادوں سے

بڑے بے درد ہاتھوں سے

لو!دیکھو ہاردی تم نے۔۔۔

”محبت“

ماردی تم نے۔۔۔!

”خود تو مر کھپ گئی۔۔۔؟؟

لیکن جاتے جاتے ہمارے کندھوں پر بدنامی کا بھاری بھرکم بوجھ لاد گئی آپکی چہیتی بہن۔۔۔۔“  

سلگتے الفاظ  سماعتوں میں گھلتے گویا ان کا پورا وجود ہی سلگا گئے تھے۔۔۔

پر جواب میں پڑنے والا زناٹے دارتھپڑ عائمہ بیگم کو انکی گستاخی کا احساس دلانے کو کافی تھا۔

”اپنی بکواس بند کرو جاہل عورت۔۔۔

اب اگر اس بارے ایک لفظ مزید بولا تو زبان گدی سے کھینچنے میں۔۔میں بالکل بھی گریز نہیں برتوں گا۔۔۔

 یاد رکھنا۔۔۔۔۔“ 

 کچھ دیر پہلے خود کی۔۔۔کی گئی بدسلوکی پر انھیں ہنوز کوئی شرمندگی۔۔۔کوئی ملال نہیں تھا۔

اسٹڈی روم میں چھایا سکوت ہنوز برقرار تھا جب ذہن میں کھلبلی مچاتی تلخ سوچوں نے یکدم پلٹا کھایا۔

”بھ۔۔۔بھااائی۔۔۔

رحم کریں۔۔۔

سگی بہن ہوں میں آپکی۔۔۔

خود سے منسلک خونی رشتوں کو لے کر کوئی اس قدر ظالم کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔؟؟“ 

 اپنے محبوب کی نیم مردہ لاش پر بلک کر ہاتھ جوڑتی وہ بےاختیار بند آنکھوں کے سیاہ پردے پر ابھری تو حسن صاحب کا تنفس مارے ضبط کے گہرا ہونے لگا۔

تاریک رات میں رونما ہوئے یہ ان وحشت زدہ خیالات کا مجموعہ تھا جسے سوچنے سے وہ خود بھی کتراتے تھے۔

سب سے پوشیدہ۔۔۔فقط خود کی ذات تک محدود وحشت زدہ خیالات۔۔۔۔

”لعنت ہے ایسی بہن پر۔۔۔

ایک بار چھوڑ کے ہزار بار لعنت ہے جو خاندانی عزتوں کو سرعام اچھالنے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔۔۔۔“ 

 خود کی ہی چنگھاڑتی آواز اس پل انھیں کسی بھی صورت رحم کھانے کے درپے نہیں لگ رہی تھی۔

”محبت کی ہے بھائی اور ہرصورت نبھائی بھی ہے۔۔۔

کوئی جرم نہیں کیا جسکی سزا دینے کو آپ یوں مرنے مارنے پر اتر آئے ہیں۔۔۔۔“ 

 اس بار کرخت آواز میں سرکشی صاف گھلی تھی جو مقابل کے غصے کو آخری حد تک ہوا دینے کا سبب بنی تھی۔

”ایسی خود غرض محبت پر میں قتل کو ترجیج دینا ذیادہ پسند کروں گا۔۔۔۔

سو ایسے میں خود سے منسلک خونی رشتوں کے لیے بھی رحم کی قطعی کوئی گنجائش  نہیں نکلتی میرے پاس۔۔۔۔“  

اسٹڈی روم میں داخل ہوتے عائل کے قدموں کی چاپ سے کہیں ذیادہ۔۔۔انھیں آبادی سے قدرے دور سنسان جگہ پر چلتی  گولی کی گونج صاف سنائی دی تھی۔

”ہاااا۔۔۔ہ۔۔۔۔“  

ضبط کی کڑی ٹوٹتے ہی جہاں حسن صاحب نے گھبرا کر اپنی بند آنکھیں کھولی تھیں وہیں عائل  کچھ حیرت سے انکی کشادہ پیشانی پر آیا پسینہ دیکھ کر فکر مند سا ہوا۔

ایسے جانلیوا سوچوں کی زد سے باہر نکلنے کے فوری بعد ایک باوردی پولیس آفیسر کو مقابل دیکھنا درحقیقیت چونکا دینے کی صلاحیت رکھتا تھا۔۔۔

سو ایسے میں حسن صاحب کی پیشانی کا عرق آلود ہونا ایک بےساختہ ردِعمل تھا۔

”ڈیڈ۔۔۔طبیعت ٹھیک ہے آپ کی۔۔۔۔؟؟“  

”ہ۔۔ہاں ٹھیک ہوں میں۔۔۔

پرتم۔۔۔؟؟

تم کب آئے یہاں۔۔۔۔؟؟“  

پسینہ صاف کرتے ہوئے۔۔۔فوری طورسنبھل کرحسن صاحب کی طرف سے سوال کے جواب میں سوال داغا گیا تو جواباً عائل بھی مطمئن سا ہوتا اثبات میں سر ہلا گیا۔

”بس ابھی ہی آیا ہوں۔۔۔۔

دراصل مجھے آپ سے ایک بہت ضروری معاملے پر بات کرنی تھی ڈیڈ۔۔۔۔

مزید انتظار نہیں کرسکا سو اسی لیے ڈیوٹی پر جانے سے پہلے سیدھا آپ کے پاس چلا آیا۔۔۔۔“ 

مضبوط ہتھیلیوں کو آپس مسلتا وہ صاف گوئی سے بولا۔۔تو ذرا کی ذرا تیوری چڑھاتے حسن صاحب کو بےاختیار تجسس سا ہوا۔

”کیابات ہے۔۔۔؟؟؟پریشان لگ رہے ہو۔۔۔کسی بڑے کیس کو لے کر کوئی مسئلہ تو نہیں چل رہا ہے۔۔۔۔؟؟؟“  اندازاً بولتے ہوئے وہ عائل کو دھیرے سے مسکرانے پر مجبور کرگئے۔

”کیس کا نہیں۔۔۔نکاح کا مسئلہ ہے ڈیڈ۔۔۔۔“  

بنا لگی پٹی رکھے وہ خاکی رنگ جیبوں میں ہاتھ پھنساتا سنجیدگی سے گویا ہوا تو وہ بھی بیٹھے سے اٹھ کھڑے ہوئے۔

”نکاح۔۔۔۔؟؟؟“

 اسکے مضبوط لہجے پر حسن صاحب نے کچھ حیرت سے اسکی جانب دیکھا جو صبح ہی صبح  کسی کیس کی بجائے غیرمتوقع طور پر اپنے مستقبل کو زیرِبحث لائے ہوئے تھا۔

”بالکل ڈیڈ۔۔۔

میں جلد از جلد حاویہ فیضان سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔۔۔

اب مزید صبرکا دامن تھامے رکھنا میرے اختیار سے تقریباً باہرہوچکا ہے۔۔سو منگنی رسموں کی فارمیلٹیز پوری کرنے پر وقت برباد نہیں کرسکتا۔۔۔“  

قطیعت بھرے لہجے میں اپنے خیالات سے آگاہ کرتا وہ خود کے ساتھ ساتھ حسن صاحب کو بھی مزید سنجیدہ کرگیا تھا۔

”ایک مرد پولیس آفیسر ہونے کے باوجود تم لڑکی ذات  کے لیے اس قدر حساس ہورہے ہو۔۔۔

آخر معاملہ کیا ہے۔۔۔۔؟؟“  

سینہ تان کر پشت پر ہاتھ باندھتے ہوئے انکے اندر ناگواریت سی بھرتی چلی گئی۔

بھرتی بھی کیوں نہ۔۔۔

آخر کو انکا من پسند بیٹا عشق محبت کے معاملوں میں گہرا پھنسا تھا جسے وہ میل بھاؤ دینا بھی گوارا نہیں سمجھتے تھے۔

مگر اس معاملے میں وہ شام سے خاصے مطمئن تھے جو جانے انجانے میں انہی کی ڈگر پر چل رہا تھا۔

”معاملات جب حد سے باہر ہونے لگیں تو  بہتر ہے کہ انھیں وقت رہتے یاں تو واپس حد میں کرلینا چاہیے۔۔۔

یاں پھر جڑ سے ہی ختم کردینا چاہیے۔۔۔

میں چونکہ اپنا معاملہ جڑ سے ختم کرنے کا متحمل قطعی نہیں ہوسکتا جبھی اسے وقت رہتے سنبھال لینا چاہتا ہوں۔۔۔

اور اس سب کے لیے مجھے آپکی رضا مندی کی خاصی ضرورت ہے ڈیڈ۔۔۔۔“  

آدھی ادھوری بات کو پورے لفظوں میں سمیٹتا وہ۔۔۔مکمل اعتماد سے گویا ہوا تو حسن صاحب اسکی حاضر جوابی پر پل بھرکے لیے لب بھینچ گئے۔

اس پل وہ ہر صورت اپنی منوانے کے درپے تھا۔

”پرتمھاری ماں۔۔۔۔“ 

 بظاہر سادگی میں وہ وہی سابقہ جواز پیش کرنا چاہ رہے تھے جب عائل بےچین سا ہوتا بیچ میں ہی ان کی بات کاٹ گیا۔

”موم کی اجازت کی فی الحال مجھے ضرورت نہیں ہے۔۔۔

انکی رضامندی حاصل کرتے کرتے بہت دیر ہوجائے گی۔۔۔

اور میں اس وقت دیری افورڈ کرنے کی حالت میں بالکل بھی نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔“ 

 عائل کے عجلت بھرے لہجے نے حقیقتاً حسن صاحب کے ساتھ ساتھ تندہی سے وہاں سے گزرتی عائمہ بیگم کو بھی دوہرا چونکا دیا تھا۔۔

جبکہ وہ دورانِ گفتگو اپنی پیشانی پر چڑھتی مٹتی تیوریوں سے بھی انجان تھا۔

سو از حد سنجیدہ لہجے پر کیا غور و فکر کرتا۔۔۔۔؟؟

اسے ہنوز بغور تکتے ہوئے کچھ توقف لیتے حسن صاحب نے ایک گہرا سانس بھرا۔

اس دوران عائمہ بیگم ان دونوں باپ بیٹے کی نگاہوں سے اوجھل۔۔مٹھیاں بھینچتی وہیں دروازے پر رک گئیں۔

”تمھارے بقول اگر معمالات اس حد تک سنگین ہیں تو پھر ٹھیک ہے۔۔۔۔

 میرا کانٹینیو پراجیکٹ فی الوقت اپنے آخری مراحل میں ہے۔۔۔

جو تقریباً کل تک مکمل بھی ہوجائے گا۔۔۔۔

اور اسی کے ساتھ میں تمھاری ماں کے ہمراہ انکے گھر باقاعدہ تمھارے نکاح کی بات کرنے جاؤں گا۔۔۔

تم بے فکر رہو۔۔۔۔“  اسکی تمام تر امیدوں پر کھڑا اترتے ہوئے حسن صاحب اسے شدت سے مسکرانے پر مجبور کرگئے۔

”یقین کیجیے ڈیڈ۔۔۔مجھے آپ سے اسی مثبت جواب کی امید تھی۔۔۔۔

انفیکٹ۔۔۔امید کیا پورا یقین تھا کہ آپ مجھے کبھی بھی مایوس نہیں ہونے دیں گے۔۔۔

تھینکس۔۔۔تھینکس آ لاٹ۔۔۔۔۔۔“  

بنا ہچکچائے قدرے عقیدت سے آگے بڑھ کے حسن صاحب کے گلے  لگتا وہ اپنے خوشگوار احساسات چھپا نہیں پایا تھا۔

مسرت تلے ھڑکتے دل میں۔۔حاویہ کی بابت نت نئے خوبصورت خیالات امڈنے لگے۔۔۔

تو جہاں دور کہیں قسمت نے اسکی وقت پر مدھر سا پر جب حسن صاحب اسکی چوڑی پشت پر دھمکی دیتے ہوئے  اس سے الگ ہوئے۔

”خوش رہو میرے بچے۔۔۔۔

جہاں تک میرا دل و دماغ کہتا ہے۔۔۔خیر سے میں تو تمھارے معاملے میں اپنا فرض نبھا چکا ہوں۔۔۔

لیکن اب تمھیں بھی اپنا فرض نبھانے میں دیری نہیں کرنی چاہیے۔۔۔۔“  

بظاہر شفقت سے بولتے وہ اسے لطیف سا چھیڑ گئے۔۔تو عائل انکی بات سمجھتا ہولے سے قہقہ لگائے بنا نہ رہ سکا۔

”جی بالکل ڈیڈ۔۔۔پولیس کی ڈیوٹی میری اولین ترجیحات میں سے ایک ہے۔۔

اینی وے۔۔چلتا ہوں اب۔۔۔۔

خدا حافظ۔۔۔۔“  عائمہ بیگم کی موجودگی سے ہنوز بے خبر۔۔۔وہ بالوں میں ہاتھ چلاتا ہوا ایک جاندار مسکراہٹ حسن صاحب کی جانب اچھال کر۔۔۔وہاں مزید رکا نہیں تھا۔۔۔

بلکہ قدرے عجلت میں دہلیز پھلانگ کر وہاں سے نکلتا اپنے پیٹھ پیچھے کھڑی عائمہ بیگم کو دیکھ نہیں پایا تھا۔

معاً خود پر سے ضبط کھوتی عائمہ بیگم۔۔۔ناراضگی کے باوجود بھی بے دھڑک اندر آتی ہوئی انھیں مخاطب کرگئیں۔

”حسن۔۔۔۔۔۔“

جواباً حسن صاحب نے پلٹ کر ان کی جانب بغور دیکھا جو۔۔۔خود کے رخساروں پر حد سے ذیادہ مصنوعی سرخائی بکھیرے ہوئے کچھ تلخی سے انہی کی جانب دیکھ رہی تھیں۔۔۔

گوکہ تھپڑ کی چھاپ چھپانے کی ایک ادنیٰ سی کوشش کی گئی تھی۔۔۔اور عائمہ بیگم کی ایسی ہی بروقت سمجھداریاں ان کے سفاک دل کو بھا جاتی تھیں۔

آپ نے اتنی آسانی سے کیسے عائل کی جذباتی خواہش پر ہامی بھرلی۔۔۔؟؟؟

جہاں تک مجھے علم ہے۔۔۔آپ تو اول روز سے ہی اس فیصلے کے خلاف تھے ناں۔۔۔؟؟

تو پھر ایکدم سے متفق کیوں ہوگئے۔۔۔؟؟؟“  

سپاٹ لہجے میں پوچھتی وہ انکے اچانک بدلاؤ کی وجہ جاننے کو قدرے بےتاب دیکھائی دے رہی تھیں۔

”کیونکہ مجھے اسکی باتوں میں بغاوت کی بو صاف محسوس ہوئی تھی۔۔۔

اور جب شرافت میں بغاوت کا زہر گھلتا ہے ناں عائمہ بیگم تو وہ ایک ضدی پن انسان کی ضد سے بھی کہیں ذیادہ خطرناک روپ دھاڑن کرلیتا ہے۔۔۔“  

قدم قدم چل کر انکے قریب آکر رکتے وہ سرسراتے لہجے میں گویا ہوئے تو  اس دور اندیشی پر نفیسہ بیگم  ضبط سے لب بھینچ کر رہ گئیں۔

اسٹڈی روم میں دو نفوس کی موجودگی کے باوجود بھی جہاں گہرے سکوت نے پھرسے اپنی جگہ سنبھالی تھی۔۔۔وہیں اندر ہی اندر ان دونوں کو آنے والے کل کی بابت بہت سی فکریں لاحق ہو چکی تھیں۔

انداز البتہ ایک تھا پر افکار کے پہلو ایک دوسرے سے قدرے الگ الگ تھے۔۔۔۔

***********************

 اس نے دھیرے سے خمار آلود آنکھیں کھولنے پر بےاختیار اطراف میں دیکھا۔۔۔

تو نفیسہ بیگم کو کمرے میں کہیں نہ پاکر اٹھ کر بیٹھ گئی۔

معاً واشروم میں کھلتے نل سے بہتا پانی۔۔۔پل میں اسکے اندر اطمینان سا بکھیرگیا۔

اسکے برعکس دل کی دھڑکنیں جانے کیوں ان لمحوں ایک غیرمعمولی سی بےچین کیفیت کا شکار ہوئی تھیں۔۔۔

اگلے ہی پل بکھرے بالوں کو دونوں ہاتھوں سے سمیٹ کر جوڑا بناتی وہ بیڈ سے اتری۔

جہاں حاویہ کے ہاتھوں ہونے والی تیمانداری کے سبب نفیسہ بیگم کی طبیعت میں کافی حد تک سدھار آیا تھا وہیں وہ گزشتہ دو روز سے حرمین سے ہمکلام نہیں ہوئی تھی۔

اور نہ ہی حرمین کی جانب سے اس شدید برہمی کو دوبارہ سے توڑنے کوشش کی گئی۔

خود اسکے ساتھ بھی نفیسہ بیگم کا رویہ  کچھ کھینچا کھینچا سا ہی تھا۔

سر جھٹک کرسرمئی رنگ چپل پہنتے ہوئے اس نے ان تلخ سوچوں سے جان چھڑوانے کی ایک ناکام سی کوشش کی تھی۔

 گہری نیند سے جاگنے کے سبب ذہن ہنوز بھاری سا ہورہا تھا۔

ایسے میں ادھ کھلی کھڑکی سے چھن کرکے اندر آتی سورج کی نکھری نکھری سی کرنیں کافی حد تک صبح کے چڑھ آنے کا صاف پتا دے رہی تھیں۔

پے در پے رونما ہونے والےسنگین حالات کے زیرِاثر  کل کی طرح آج بھی اس کا کالج جانا کاقطعی کوئی ارادہ نہیں تھا۔

دوپٹہ اچھے سے کندھوں پر پھیلالینے کے بعد حاویہ چہرے پر ہاتھ پھیرتی کمرے کی دہلیز پھلانگ گئی۔

ارادہ تو فی الحال کچن میں جاکر نفیسہ بیگم کے ساتھ ساتھ اس بار حرمین کے لیے بھی چائےسمیت۔۔۔ہلکا پھلکا ناشتہ بنانے کا تھا 

پر اس سے پہلے وہ اپنی جسمانی الجھن دور کرنے کو ایک بار واشروم جاکر فریش ہوجانا چاہتی تھی۔

سو خود کے نقوش سپاٹ بناتی اپنے مشترکہ روم کی جانب بڑھی۔

دروازہ کھول کر بےدھڑک اندر آتی حاویہ  اپنی ہنوز برہمی کے سبب۔۔۔حرمین زہرا کو مکمل طور پر نظرانداز کردینا چاہتی تھی۔۔۔

 مگر سامنے پلنگ کے قریب پڑا بےسدھ وجود گویا اسکے ہوش اڑا دینے کو کافی تھا۔

پھیلتی نگاہوں میں شدت سے در آنے والی تشویش۔۔اسکے ٹھٹک کر رکتے وجود میں بےچینیاں سی بھرتی چلی گئی۔

”اپیہ۔۔۔۔؟؟؟“  

اگلے ہی پل پھرتی سے بھاگ کر اسکی جانب لپکتی حاویہ۔۔۔کی ساری ناراضگی بھک سے اڑی تھی۔

”ا۔۔اپیہ۔۔۔

ک۔۔کیا ہوا ہے آپکو۔۔۔؟؟؟“  اسکے پاس جھکتے اسکا دل شدتِ بےسکونی سے دھڑکا۔۔۔

مگر نازک کندھا جھنجھوڑنے پر بھی بے جان وجود میں کوئی اطمینان بخش حرکت نہیں ہوئی تھی۔

”پ۔۔پانی۔۔۔۔

ہاں۔۔۔پانی۔۔پانی کہاں ہے۔۔۔۔؟؟؟“

حرمین زہرا کے سانسوں سے محروم وجود پر صاف بے ہوشی کا گمان کرتی وہ اگلے ہی پل بوکھلا کر اٹھی۔۔

اور پلوں میں سائیڈ ٹیبل سے پانی کا ادھ بھرا جگ اٹھا کر اسکی طرف واپس پلٹی۔

آنسو ٹوٹ کر گالوں پر لڑھکے تھے۔

”ہوش میں آئیں ایپہ۔۔۔پلیزہوش میں آئیں۔۔۔۔“ 

 بےتابانہ اسکے فق چہرے پر پانی کا چھڑکاؤ کرتے ہوئے آواز کے ساتھ ساتھ اب کہ اسکا پورا وجود بھی لرزنے لگا تھا۔۔۔

پر پانی تلے بھیگتی بند آنکھوں کی سیاہ  پلکیں ہنوز ساکت تھیں۔

بے اختیار حاویہ کے رونگھٹے کھڑے ہوئے۔

”اپیہ خدا کا واسطہ ہے آنکھیں کھولیں۔۔۔۔

آپکا یہ بدترین مذاق اب کہ میری جان نکالنے کے درپے ہے۔۔۔بچپنا مت دیکھائیں۔۔۔

م۔۔محض مذاق۔۔مذاق ہی کررہی ہیں ناں آپ میرے ساتھ۔۔۔؟؟“ 

 اسکی مری مری رنگت سے  بمشکل بھیگی نگاہیں چراتی وہ شدت سے ملتجی ہوئی۔

سینے میں چلتی سانسیں اس جانلیوا صورتحال پر رکنے سی لگی تھیں۔

پر حرمین زہرا تو کسی بھی التجاء کو سننے کے قابل نہیں تھی۔۔۔

کجا کہ عمل کرنا۔۔۔۔

دل چیڑتے خدشوں کو ٹالنے کی غرض سے۔۔۔

اگلے ہی پل جگ کو ایک طرف رکھتے ہوئے اسکی کانپتی انگلیوں نے بڑی ہمت سے اسکی ساکت نبض کو۔۔۔شدت سے ٹٹولا تھا۔

نتیجتاً اسے لگا جیسے وہ اگلا سانس نہیں لے پائے گی۔

”نن۔۔۔نہیں۔۔۔“  

حقیقت سے ہنوز انکاری ہوتی اب کہ حاویہ نے ایک آخری کوشش کے تحت شہادت کی انگلی اسکی ناک کے قریب کی۔

آنسو تواتر سے تپتے رخساروں کو بھگوتے چلے جارہے تھے۔

آنکھوں دیکھی جانلیوا صورتحال کے باوجود بھی یقین کرنا مشکل ترین ہو تو تھا۔

ایک سیکنڈ۔۔۔

دو سیکنڈز۔۔۔۔

تین سیکنڈز۔۔۔۔

اور پھر کئی سیکنڈز۔۔۔۔۔

پر۔۔۔۔پر یہ کیا۔۔۔؟؟؟

نتھنوں سے پھوٹتی سانسیں ہنوز ندارد تھیں۔

وحشتوں تلےگھٹا گھٹا سا چیختی وہ ایکدم سے تڑپ کر پیچھے ہٹی۔

”نن۔۔نہیں۔۔نہیں نہیں۔۔۔“    

ج۔۔جھوٹ۔۔۔۔جھوٹ ہے یہ۔۔۔

بالکل جھوٹ ہے۔۔۔بھلا میری اپیہ ایسے کیسے مجھے چھوڑ کر جا سکتی ہیں۔۔۔۔۔؟؟؟“  

فرش پر سختی سے ہتھیلیاں ٹکائے وہ شدت سے نفی میں سر ہلاتی سسک ہی تو پڑی تھی۔

مقابل۔۔۔ریزہ ریزہ  بکھری حقیقت پر یقین تیزی سے اندر تک اتر گیا تھا پر کرنے کا انداز اب بھی نہیں آرہا تھا۔

حرمین زہرا کی مردہ حالت اس پل قابلِ رحم تھی۔۔۔۔

قابلِ رحم ترین تھی۔۔۔۔

سسکیاں بھرتی حاویہ کا تنفس پل پل اسکا تنفس بگڑ رہا تھا۔

معاً حاویہ کی سرخائی گھلی  دھندلائی نگاہوں نے گھبراہٹ میں تب سے پہلی بار فاصلے پر ٹوٹے موبائل کے قریب پڑی شیشی کو بغور دیکھا تھا۔۔جس میں فقط ایک دو ہی سلیپنگ پلز باقی بچی تھیں۔

بمشکل چند پل لگے تھے اسے نتیجے تک پہنچنے میں۔۔۔اگلے ہی لمحے دل و دماغ میں شدت سے ابھرتا یک لفظی سوال اسکی اذیت مزید بڑھا گیا۔

”خودکشی۔۔۔۔؟؟“  

حرمین کے چہرے پر واپس بے یقین نگاہیں جماتی وہ خود بھی جیسے بے جان ہوئی تھی۔

اور پھر۔۔۔

اگلے ہی پل حاویہ کے نم حلق سے پھوٹتی تلخ چیخیں بےساختہ تھیں۔۔

بے تحاشہ تھیں۔۔۔

ڈھلتی دوپہر میں ساحل سے ذرا پرے۔۔۔نیلگوں سمندر کی مدھم شور مچاتی لہروں کا نظارہ قدرے طمانیت بخش تھا۔۔۔

لیکن قدرت کے روح میں اتر جانے والے اس دلکش نظارے کوتکتی ان پُرسوچ  نگاہوں میں اس وقت طمانیت ہرگز نہیں تھی۔۔۔

سکون کی جگہ ایک ناقابل بیان جلن تھی اور یہی جلن اسکے وجود کا سکون برباد کیے ہوئے تھی۔۔۔۔

ایسے میں ہاتھوں میں لاپرواہی سے گھومتا قیمتی موبائل مسلسل اسکے دل کی دھڑکنیں بڑھانے گھٹانے کا سبب بن رہا تھا۔۔۔۔

نرم ریت پر جوتوں سمیت  کب سے کھڑا شام اب کہ جھنجھناتے ذہن میں گڈمڈ ہوتی سوچوں سے عاجز سا آنے لگا۔

معاً سرجھٹکتا وہ خود کے تھکے اعصاب پرسکون کرنے کے لیے طویل گہرا سانس بھرگیا۔

”بسسس۔۔۔

بہت سوچ لیا۔۔۔

 سمجھ لیا۔۔۔

اب مزید کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔۔۔“  

 بالوں میں ہاتھ چلاتے ہوئے اس نے پل میں حتمی فیصلہ کیا۔

معاً اپنی نگاہیں موبائل اسکرین پر جماتا وہ پلوں میں سوشل میڈیا کے مطلوبہ پیج تک رسائی حاصل کرچکا تھا۔

دو سےتین کلک پر اسکرین پر چلتی ویڈیو نے شام کی بےچین نگاہوں میں ایک انتقامی چمک ابھاری تھی۔

حقیقی معنوں میں حرمین زہرا کو رسوائی سے آشنا کروانے کے لیے  فقط ایک عدد مزید کلک کی ضرورت تھی۔

” ٹھہرو۔۔۔رکو۔۔۔رکو۔۔۔۔“ 

وہ لاسٹ اوپشن پر اپنے انگوٹھے کی چھاپ چھوڑ دینے کے قریب ترین تھا جب اندر کہیں چیختی تنبیہی پکار۔۔۔

اسے مچلتی لہروں کے سبب گہرے سمندر میں اٹھتے شور  سے بڑھ کر سنائی دی تھی۔

”تمھاری دھتکار سے تو وہ بہت پہلے ہی اندر تک برباد ہو چکی ہے۔۔۔

اب یوں اپنی اس انتقامی کاروائی سے اسکی ظاہری عزت کی دھچیاں مت اڑاؤ۔۔۔۔

وہ نازک وجود ستم پر تمھارا ایک اور ستم برداشت کرنے کے قابل نہیں ہے۔۔۔“  

موبائل کی اسکرین میں صاف واضح ہوتے اسکے معصوم سے پرسکون چہرے کو بغور تکتے جانے کیوں۔۔۔اسے دہائی پہ دہائی سنائی دے رہی تھی۔۔۔۔

شام کے دل کی تیز دھڑکنیں مخالف سمت دھڑکنے لگیں۔۔۔

 فقط ایک پل۔۔۔۔

ایک پل کے لیے اس کا دل ویڈیو سمیت قدرے مہارت سے کراپ کی گئی تصاویر کو سرے سے ہی ڈیلیٹ کردینے کا چاہا تھا۔

”چٹااااخ۔۔۔۔۔۔۔۔“ 

 اگلے ہی لمحے تھپڑ کی گونج اسکی سماعتوں میں اتری تھی۔

”تھو ہے تمھاری اس حسین صورت پر جس پر فدا ہوکر جانے کتنی ہی لڑکیاں خود کی عزت دو کوڑی سے بھی کم کی کر بیٹھتی ہیں۔۔۔

اور تھو ہے مجھ جیسی بدنصیب لڑکی پر جو تم پر فدا ہوئی۔۔۔۔

تم جیسے گھٹیا ترین مرد کے لیے یہ تھپڑ تو کچھ بھی نہیں ہے شاہ میر حسن ۔۔۔

اگر میرا  بس چلے تو تمھیں اپنی زندگی برباد کرنے کے جرم میں سیدھا پھانسی پر لٹکا دوں۔۔۔۔۔“  بےدردی سے اپنے نم گال مسلتی کیسے وہ مشتعل سی باآواز بلند چیخ رہی تھی۔۔

ایسے میں سختی سے لب بھینچے۔۔۔شام کے ہمدردی ابھارتے دل نے اچانک ہی پوری جی جان سے پلٹا کھایا تھا۔۔۔۔

”ت۔۔۔تم نے اپنی نام نہاد جیت کی خاطر جس طرح  مجھ یتیم لڑکی کی زندگی تباہ کی ہے ناں شام۔۔۔

میری دعا ہے کہ تم بھی اسی طرح  برباد ہوجاؤ۔۔۔

پل پل سسکو۔۔۔

تڑپو پر تمھیں زندگی میں کبھی سکون نہ آئے۔۔۔“

 اسکی جانب انگلی اٹھا کر بددعا دیتی وہ نئے سرے سے اسے اپنے نازک وجود سے شدید نفرت کرنے پر مجبور کر گئی۔

اور پھر۔۔۔

سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں وہ بے حس انسان لاسٹ آپشن پر کلک کر چکا تھا۔۔۔

”خیر ڈائریکٹ قتل تو نہیں کروں گا لیکن جوابی کاروائی میں ایسا نایاب داؤ کھیلوں گا کہ وہ جیتے جی موت کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائے گی۔۔۔۔“  

اس نے کہا تھا کہ وہ اس لڑکی کی زندگی جہنم بنانے کو ایک نایاب داؤ کھیلے گا۔۔۔سو وہ کھیل چکا تھا۔

ہاں۔۔۔۔

شاہ میر حسن قدرے مہارت سے اپنی شناخت چھپائے۔۔۔

دنیا کے سامنے حرمین زہرا کے وجود کی سرعام تشہیر کروا چکا تھا۔۔۔۔

 ”حرمین زہرا۔۔۔۔۔

تم کبھی بھی میری بخشش کے لائق نہیں تھی۔۔۔۔

اپنے کیے کا بھگتان تو تمھیں بھگتنا ہی تھا۔۔۔

سو اب بھگتو۔۔۔۔۔۔“

سکینڈوں میں بڑھتی ویووزر کی تعداد نے جہاں اسکے شفاف لبوں پر زہرخند مسکراہٹ بکھیری تھی وہیں اندر کہیں ملامت کرتے ضمیر تلے اسکے دل کی دھڑکنیں ذرا کی ذرا ڈوبی تھیں۔۔۔

پر جو بھی تھا اب وہ انجام کی پرواہ کیے بغیر اپنے اس شرمناک اقدام سے پیچھے ہٹنے والا تو ہرگز نہیں تھا۔۔۔

********************

”لبارا برینڈ کی وہ امپورٹینڈ فائل تم نے منیجر تک ٹرانسفر کروائی تھی۔۔۔۔؟؟؟“ 

 میز پر پڑا پیپر ویٹ گھوماتے ہوئے اسکا لہجہ دھیما تھا پرسلگتا انداز آبرو کو چونکنے پر مجبور کرگیا۔

”جی بالکل۔۔۔۔۔“  

بظاہر اعتماد سے بولتی وہ تصدیق کرگئی تو شاہ نے بھوری نگاہیں اٹھا کےاسکی جانب دیکھا۔

ان میں گھلی سرخائی اسکے ضبط کا صاف پتا دے رہی تھی۔

”تم جانتی تھیں ناں کہ میرے لیے یہ ڈیل کس قدر ضروری تھی۔۔۔؟؟؟ 

 بھاری سنجیدہ آواز میں کاٹ سی گھلنے لگی۔

عادتاً انگلیاں چٹخاتی آبرو تفتیش زدہ سی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔

”مگرتمھاری ایک چھوٹی سی کوتاہی نے میری کامیابی کو پلوں میں تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے آبرو سکندر۔۔۔“  

 ایکدم سے دھاڑتا وہ اگلے ہی پل پیپر ویٹ اٹھاکر سامنے دروازے پر مار چکا تھا۔

اس غیرمتوقع صورتحال سے خائف ہوتی وہ بے ساختہ لبوں پر ہاتھ رکھتی بوکھلائی۔

وہ جب سے لبارا کمپنی کی میٹنگ اٹینڈ کرکے واپس آیا تھا۔۔تب سے ہی اسکے تیور بگڑے ہوئے سے تھے۔۔

پر اس حد تک بھی بگڑ سکتے ہیں آبرو کو حقیقتاً اب اندازہ ہورہا تھا۔

”ک۔۔کوتاہی۔۔۔؟؟؟

مگر میں۔۔۔۔“  اسے سیٹ چھوڑ کر اپنی جانب آتا دیکھ وہ حیرت زدہ سی پوچھنے کی کوشش میں ہکلائی۔۔

جب سختی سے اسکی بات بیچ میں کاٹتا وہ اسکے قریب آ رکا۔

”کہنے کو تو عین وقت پر۔۔غلطی سے ری پلیس کی جانے والی وہ فقط ایک غلط فائل ہی تھی۔۔۔

پرتمھاری یہ بےدھیانی میرا ایک کڑور کا ٹینڈر بڑی آسانی سے نگل چکی ہے آبرو سکندر۔۔۔۔“ 

 اپنے لفظوں سے حقیقتاً اسکے ہوش اڑاتا وہ اسے گنگ ہی تو کرگیا تھا۔

ابھی کچھ دیر پہلے وہ آفس منیجر کو بھی بری طرح سے بےعزت کرکے اپنے روم سے نکال چکا تھا جس نے فائل چیک کیے بنا ہی آگے تک پہنچادی تھی۔

”غ۔۔غلط فائل۔۔۔

پر۔۔۔ا۔۔ایسے کیسے۔۔۔؟؟

مجھے یاد ہے میں نے خود منیجر صاحب کو بالکل ٹھیک فائل دی تھی۔۔

بے دھیانی کی تو کوئی گنجائش  ہی نہیں نکل سکتی۔۔۔۔“ 

 عجلت میں اپنی صفائی دیتی وہ خود بھی جیسے الجھ سی گئی۔

”اٹس مین کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں۔۔۔؟؟

میرا منیجر جھوٹ بول رہا ہے۔۔۔؟؟

یہاں تک کہ لبارا کمپنی کا آنر بھی جھوٹ بول رہا ہے۔۔۔؟؟

پر تم۔۔۔۔

تم اپنی جگہ بالکل درست ہو۔۔۔ہہہمم۔۔۔؟؟؟“ 

 تندہی سے پوچھتا وہ اسکی گہری نیلی نگاہیں بھگونے میں کامیاب ٹھہرا تھا۔

”مجھے ن۔۔نہیں معلوم۔۔۔۔“

 اسکی پیشانی پر چڑھی تیوری سے نگاہیں چراتی۔۔۔وہ ذہن پر زور ڈالتی ہوئی صاف ڈانواڈول ہوئی تو شاہ نے اسکے حسین نقوش پر چاپ چھوڑتی گھبراہٹ کو جلتی نگاہوں سے بغور دیکھا۔

”معلوم نہیں۔۔۔

سریسلی۔۔۔؟؟

تمھیں ذرا سا بھی اندازہ ہے کہ تمھاری ان بلاوجہ کی لاپرواہیوں نے مجھ سمیت میری کمپنی کو کس قدر خسارے میں ڈالا ہے۔۔۔۔؟؟؟

تمھاری سال بھر کی سیلری بھی وہ قیمتیں پوری نہیں کرسکتی جو تم ایک سیکنڈ میں ضائع کرجاتی ہو۔۔

اور ایسے میں تمھاری ناواقفیت بھی ہنوز قائم رہتی ہے۔۔۔

امیزنگ۔۔۔۔“

 بے اختیار اسکے بازو کو اپنی  مضبوط گرفت میں لیتے ہوئے اب کہ اسے جنید والا پراجیکٹ بھی یاد  آیا تھا جسے وہ مقابل کھڑی لڑکی وجہ سے جانتے بوجھتے ٹھکرا چکا تھا۔

”آپ۔۔۔۔“  

گھنی پلکیں جھپکانے پر بےاختیار آبرو کے گلال رخساروں پر آنسو پھسلے۔

سست روی سے چلتی دھڑکنوں پر اس نے شاہ کی جانب دیکھا مگر وہ نفی میں سر کو تیزی سے جنبش دیتا اسکی بات کاٹ گیا۔

”اب سوری مت کہنا مجھے آبرو سکندر۔۔۔

مت کہنا کیونکہ یہ معمولی سا ورڈ مجھ سمیت میری کمپنی کو اس خسارے سے باہر نکالنے کے لیے ہرگز کافی نہیں ہے جس میں تم ہمیں بہت آرام سے ڈال چکی ہو۔۔۔۔“  

دل کو پگھلانے کی قابلیت رکھتے اسکے آنسو دیکھ کر بھی وہ صاف سنگدلی پر اتر آیا تھا۔۔۔

جب اپنا ضبط کھوتی آبرو پورا زور لگا کے اپنا بازو ایک جھٹکے سے اس کی مضبوط گرفت سے چھڑوا گئی۔ 

جواب میں شاہ نے تندہی سے بھنویں اچکائیں تھیں۔۔۔

مگر اگلے ہی پل سماعتوں سے ٹکراتے الفاظ اسکا سفاک ہوتا دل شدتوں سے دھڑکانے پر مجبور کرگئے۔

”محبتوں میں اگر مخلص جذبات کی بجائے قیمتوں کی سودے بازی ہونے لگے تو پھر وہ محبتیں۔۔محبتیں نہیں رہتیں۔۔۔

بلکہ ضمیر پر ایک ناقابل برداشت بوجھ بن جاتی ہیں۔۔۔

آپ تو پھر بھی بارہا میرے عشق کے دعو یدار رہ چکے ہیں۔۔۔

ایسے میں بیک وقت دو طرح کے تقاضے آپ پر بالکل بھی نہیں جچتے شاہ صاحب۔۔۔

یاں تو قیمت کا تقاضا کیجیے۔۔۔

یاں فقط محبت کا۔۔۔۔۔“ 

 قدرے گہری بات کرتی وہ مقابل کے دل پر گہرا وار کرچکی تھی۔

جبکہ اسکی حسین سی۔۔نم نیلی نگاہوں میں تیرتی تمسخر بھری اذیت دیکھ کر شاہ کا غصہ بھک سے اڑا تھا۔

”اور ہاں۔۔۔

میں نے اس فائل کو لے کر بے دھیانی میں بھی کوئی ہیرا پھیری نہیں کی۔۔۔

باقی آپ جو بہتر سمجھیں۔۔۔۔۔“

شاہ کو حقیقتاً اسکی محبت کے تقاضے یاد دلاتی وہ۔۔۔اپنی حتمی صفائی دیتی ہوئی اگلے ہی پل وہاں سے نکلتی چلی گئی۔

اس بار لہجہ بھی قدرے مضبوط تھا۔

پیچھے وہ ہنوز گم صم سا اسے وہاں سے جاتا ہوا دیکھتا رہ گیا۔۔۔۔

ایسے میں ہاتھ  مضبوط سینے میں۔۔پھڑپھڑاتے دل پر کب آیا وہ خود بھی انجان تھا۔

”محبت۔۔۔۔“

”عشق۔۔۔۔“

”آبرو۔۔۔۔“  

دل و دماغ میں ہوتی لفظوں کی تکرار میں قیمت کا تقاضا تو کہیں بھی نہیں تھا۔

ہاں یہ حقیقت تھی کہ اس ایک غلط فائل کے سبب اسکا خسارا ہوا تھا پر بروقت دوسرا پراجیکٹ ملنے پر آدھے سے ذیادہ نقصان پورا بھی تو ہوچکا تھا۔

بے اختیار اس نے سر جھٹکتے ہوئے اپنی مڑی ہوئی خم دار کو  پلکوں کو انگلیوں تلے مسلا۔

ایسے میں آنکھوں کی گہری ہوتی سرخی اسکے اندر شرمندگی کا احساس جگانے کو کافی تھی۔۔۔۔ 

*********************

لمحوں کی تیز رفتاری۔۔۔تپش چھوڑتی دوپہر کو اب کہ وحشتوں بھری۔۔۔ گہری رات میں ڈھالنے کے درپے ہوئی تھی۔

ایسے میں وہ اپنے پلنگ پر ایک طرف۔۔۔گٹھڑی بنی کچی نیند کی آغوش  میں تھی۔

گزشہ روز کا ستم اسے ہنوز بھوکا پیاسا۔۔۔تنہا کمرے میں بند کیے ہوئے تھا۔

گداز تکیے پر بکھرے بال جہاں حرمین زہرا کی خود سے برتی گئی لاپرواہی کو ظاہر کررہے تھے وہیں سوجھے پپوٹوں میں بےساختہ ہوتی جنبش اسکے غنودگی سے جاگنے کا سبب بنی تھی۔

دقت سے پوری آنکھیں کھولتی وہ کئی لمحوں تک اپنے آپ سے بیگانہ رہنے کے بعد ایک جھٹکے سے اٹھی۔۔۔

تو دماغ میں اٹھتی شدید ٹیس اسے پل بھرکو سختی سے خشک انگارہ آنکھیں میچنے پر مجبور کرگئی۔

”آااہ۔۔۔۔ہ۔ہ۔۔۔“  

بےاختیار اسنے ہتھیلی تلے اپنی تپی پیشانی مسلی۔۔۔

جب اذیت دیتی سوچوں نے پل میں اسکے سنسناتے ذہن میں ایک حشرسا برپا کیا تھا۔

”اپیہ آپ اب تک کس وجہ سے خاموش ہیں۔۔۔؟؟

ادھر ماما کی حالت آپکی خودسریوں کا سوچ کر بد سے بدتر ہوئے جارہی ہے۔۔۔اور یہاں آپ۔۔۔؟؟  

”چچ۔۔۔آخر بتا کیوں نہیں دیتیں کہ جس انسان کو سب آپکی بدنامی کا سبب سمجھ رہے ہیں۔۔

درحقیقت وہ آپکو زندگی بھرکے لیے اپنانے کی شدید خواہش رکھتا ہے۔۔۔۔“  

سماعتوں میں سیسہ بن کے پگھلتی۔۔یہ فکرکھاتی ہوئی آواز اسکی اپنی بہن کی تھی۔۔جو سوال پر سوال پوچھتی اُس پل کس قدر بے سکون دکھائی دے رہی تھی۔

”زندگی بھر اپنانے کی خواہش۔۔۔۔؟؟؟

  جواباً کچھ حیرت سے اسکی جانب دیکھتے ہوئے اسکی بھیگی آنکھوں میں خود کے لیے تمسخر ابھرا تھا۔

”جو شفاف پیشانی پر صرف بدنامی کا داغ سجانا جانتے ہوں وہ کسی کے کردار کو پاک صاف رکھنے کے لیے خود کی ذات کو داؤ پر نہیں لگایا کرتے حاوی۔۔۔

وہ بھی انہی میں سے ایک تھا۔۔۔۔“  

حقیقت بتلاتے سمےآنسو تواتر سے اسکے سانولے رنگ گالوں کو بھگو رہے تھے۔

بالکل اسی طرح جیسے دم گھٹنے پر پلنگ سے اترتے ہوئے اب بھی بہہ نکلے تھے۔

”ک۔۔کیا مطلب۔۔۔؟؟؟

اسنے آپکو اپنانے سے انکار کردیا۔۔۔۔؟؟؟“ 

 قدرے حیرت سے پوچھتی حاویہ کے لیے فوری یقین کرنا دشوار ہوا تھا۔

جواباً سر کو ہولے سے جنبش دیتی وہ پل میں اسکے بدترین خدشوں کی تصدیق کرگئی۔

”میراخیال تھا کہ عینک کے بنا میں کچھ بھی اچھے سے دیکھنے کے قابل نہیں ہوں لیکن میں غلط تھی۔۔۔

اس عینک کی محتاجی سہہ کر بھی میں اسکا دھوکےباز چہرہ نہیں پہچان پائی۔۔۔

محبت کی کمزوری نے مجھے ہر لحاظ سے اندھا کردیا تھا۔۔

پھربھلا کیسے پہچانتی۔۔۔۔؟؟؟“  

ہنوز اسکے کنگ نقوش تکتے لہجہ بظاہر بے تاثر تھا لیکن دل میں اٹھتی اذیت باکمال تھی۔ 

آگے لپک کر کھڑکی کے دونوں پٹ کھولتے ہوئے حرمین نے گہرا سانس بھرا تو گہرے سکوت میں ایک بار پھر حیرت میں بھیگی نسوانی آواز اسکے آس پاس بکھر سی گئی۔

”پ۔۔پر وہ۔۔۔

وہ تو آپ سے بے پناہ محبت کرتا تھا ناں اپیہ۔۔۔؟؟

آپکی سادگی سے۔۔

آپکی سیرت سے۔۔

آپکی عادتوں سے۔۔۔۔

تو پھر بھلا آپکو  ٹھکرادینے کی جرات کرسکتا ہے وہ۔۔؟؟

اب کیوں اپنے قدم پیچھے  لے رہا ہے۔۔۔کیوں اپنی ہی کہی باتوں سے بھاگ رہا ہے۔۔۔۔؟؟؟“ 

 حقیقی خسارے سے ہنوز بے خبر۔۔۔وہ فقط شاہ میر حسن کے صاف انکار پر تلملا اٹھی تھی۔

جبکہ حاویہ کی دبی دبی غصیلی آواز میں خود کے لیے چھلکتی ہمدردی کو شدت سے محسوس کرتی وہ بھی اپنا ضبط کھونے لگی۔

”جھوٹی محبت کی آڑ میں وہ میری اسی سادگی۔۔۔اسی سیرت کو تو مات دینا چاہتا تھا۔۔۔

سو دے دی۔۔۔

اپنی انا کو بحال رکھنے کی خاطر وہ میری عزت دو کوڑی کی کرگیا حاویہ اور مجھے دیکھو۔۔۔

میں بھی اسکے ساتھ ان سب میں برابر کی قصوروار رہی ہوں۔۔۔“ 

 نئے سرے سے بھیگتی آنکھوں کے گوشے رگڑتے ہوئے اسکا لہجہ مکمل بھیگ چکا تھا۔

اسکی جانب تکتی حاویہ کی نم نگاہوں میں شدت سے الجھن ابھری۔

”سیاہ رات میں م۔۔میرے صاف ستھرے دامن پر سیاہی کی گہری چھاپ چھوڑ گیا وہ انسان۔۔۔

کبھی نہ مٹنے والی گہری چھاپ۔۔۔۔

اور میں کچھ بھی نہیں کرسکی۔۔۔۔

شاہ میر حسن نے م۔۔مجھے ہر لحاظ سے مجھے برباد کردیا ہے حاوی۔۔

ہر لحاظ سے۔۔۔۔“ 

 جہاں وہ اسکی مزید ہمدردی پانے کو سسکتی ہوئی حقیقی معنوں میں اپنا آپ واضح کرگئی تھی۔۔

وہیں بات کی چبھتی گہرائی کو لمحوں میں سمجھتی حاویہ کا دماغ بےیقینی کے سائے تلے بھک سے اڑا۔

”م۔۔میں۔۔۔میں۔۔۔“  لرزتی آواز میں مزید بولنے کی ناکام کوشش کرتی وہ سر ہاتھوں میں تھام گئی۔

 چاند کی بے داغ روشنی کی طرف چہرہ کرکے کھڑی حرمین کے لیے سنساتے لفظوں کے بوجھ تلے اب بھی کھل کے سانس لینا دشوار ہورہا تھا جبھی اذیت سے مٹھیاں بھینچتی وہ آنکھیں میچ گئی۔

”اپیہ۔۔۔؟؟

آ۔۔آپ نے بنا کسی جائز رشتے کے ناپاکی کی حدوں کو پارکردیا اور اب اس پر ماتم کناں ہورہی ہیں۔۔۔؟؟؟“

  پوچھتے ہوئے حاویہ کے نم لہجے میں وحشت سی اتر آئی تو سرسراتی آواز پر وہ سر اٹھاکر اسکی جانب دیکھنے پر مجبور ہوئی۔

”میں مانتی ہوں کہ شام جیسے گھٹیا شخص سے محبت کرنا آپکی غلطی تھی لیکن اس غلطی پر مزید بڑا گناہ کرنے کا آپکو کوئی حق نہیں پہنچتا تھا اپیہ۔۔۔“ 

 نفرت سے بولتی وہ پل پل بپھر رہی تھی۔  

جبکہ اسکے رویے کی تلخی پر پل بھر کو بوکھلاتی وہ  اگلے ہی لمحے اٹھی۔

پھر نفی میں سر ہلاتی مضبوطی سے اسکے کندھے تھام گئی۔

”حاویہ۔۔۔۔

م۔۔میں آخری حد تک بہک گئی تھی۔۔۔“  

وہ اپنے صفائی میں بولنا چاہ رہی تھی جب حاویہ اپنے کندھوں سے اسکے ہاتھ سختی سے جھٹک گئی۔

”میں نے روکا تھا آپکو۔۔۔

باز کیا تھا ناں۔۔۔؟؟

پر آپ نے میری ایک نہیں سنی۔۔۔۔

”آپ اپنے کیے کا انجام بھگت رہی ہیں۔۔۔

ٹھیک ہے۔۔میں بھی بھگت لوں گی پر۔۔۔

پر ہماری ماں یہ رسوائی برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتیں خود میں اپیہ۔۔۔۔

بالکل بھی نہیں رکھتیں وہ۔۔۔۔۔“  شدت سے بولتے ہوئے اسکے آنسوؤں میں بے اختیار روانی آئی تھی۔

”ایسے لفظوں کا چناؤ مت کرو حاوی۔۔۔

م۔۔میں پہلے ہی اپنے ہاتھوں سے کمائی ندامت کو جھیل نہیں پارہی ہوں۔۔۔۔

وہ صرف تمھاری ہی نہیں بلکہ میری بھی ماں ہیں مجھے بھی خیال ہے ان کا۔۔۔۔“  

حرمین کو ناچاہتے ہوئے بھی نئے سرے سے گھبراہٹ ہونے لگی تھی جب شہادت کی انگلی اٹھاتی وہ پھنکاری۔

”میں بتارہی ہوں حرمین زہرا۔۔۔

آپ کے سبب اگر میری ماں کو کچھ بھی ہوگیا ناں تو میں آپکو کبھی بھی معاف نہیں کروں گی۔۔۔

سنا آپ نے۔۔۔؟؟؟

کبھی بھی نہیں۔۔۔۔“

 سلگتے لہجے میں تڑخ کر بولتی وہ وہاں رکی نہیں تھی بلکہ اسکا بچا کھچا سارا اطمینان چھینتی وہاں سےنکلتی چلی گئی۔

”ہا۔۔ااا۔۔۔۔ہ۔۔ہ۔۔۔۔اللہ۔۔۔۔“  

حرمین نے گزشتہ روز کی یادوں کے دلدل سے نکلنے کو گھبرا کر آنکھیں کھولیں تو آنسو بے اختیار گالوں پر لڑھک آئے۔

تنفس بگڑسا گیا تھا۔

”جو ہوا سو ہوا۔۔۔۔

ا۔۔اب کچھ برا نہیں ہوگا۔۔۔۔

م۔۔میں کچھ برا ہونے ہی نہیں دوں گی۔۔۔۔

ہاں۔۔۔میں۔۔۔“  

جانے کیوں ان پلوں میں درد کی انتہاؤں کو چھوتا دل حد سے سوا ہورہا تھا جب سکوت میں موبائل فون کی چنگاڑتی بیل اسے چونک کر پلٹنے پر مجبور کرگئی۔

کئی لمحوں تک بجتی بیل پر حرمین کا دماغ سنسانے لگا۔۔۔

تو بےدردی سے آنسو رگڑتی وہ ناچاہتے ہوئے بھی آگے بڑھی۔

تب تک دوسری طرف سے کال بند ہو چکی تھی۔

سائیڈ ٹیبل پر پڑا موبائل اٹھاتے ہوئے اسنے لاک کھولا۔

معاً علیزے کے نمبر سے بھیجے گئے ویڈیو لنک کا نوٹیفیکشن اسکی اسکرین پر ظاہرہوا۔

”اوپن اٹ۔۔۔اینڈ چیک۔۔۔۔“  

مزید ایک اور میسج آیا تھا۔

حرمین نے دھڑکتے دل سے میسج  کھول کر ویڈیو لنک پر کلک کیا۔

اگلے پل شفاف سکرین پر چلتی ویڈیو میں اپنا آپ ابھرتا دیکھ حرمین زہرا کے ہوش اڑے تھے۔

پھٹی پھٹی بےیقین نگاہوں سے اپنی نازیبا حالت کا معائنہ کرتے ہوئے۔۔ منہ سے نکلنے والی گھٹی گھٹی سی چیخ بےساختہ تھی۔

آدھی ادھوری چادر میں سکون کی نیند لیتی فقط وہ اکیلی اس شرمناک منظر کا حصہ تھی لیکن اسکے وجود کی دھجیاں بکھیرنے والا خود کہیں بھی اس ویڈیو میں موجود نہیں تھا۔

”ش۔۔شام۔۔۔۔۔“   

اس جان نکال دینے والی آفت پر اسکے لرزتے سیاہی مائل لبوں سے فقط ایک نام ہی پھسلا تھا۔

اگلے ہی پل دھندلائی نگاہوں کو تیزی سے جھپکاتے ہوئے اسنے ہزاروں سے لاکھوں کو پہنچتی ویوورز کی تعداد دیکھی تو پھٹتا دل جیسے تھم ساگیا۔

شئیرز کی جانے والی تعداد بھی کچھ کم نہیں تھی۔

حرمین کو لگا جیسے کسی نے چہرے سمیت اس کے وجود پر تیزاب انڈیل دیا ہو۔

اس شیطان نما انسان کا اس قدر انتقامی روپ حقیقتاً اسکی جان نکال گیا تھا۔

اس چلتی ویڈیو کو اس سمیت لاکھوں تجسس بھری نگاہیں دیکھ چکی تھیں۔

”نن۔۔نہیں۔۔۔

نہیں نہیں۔۔۔نہیں ںںںںں۔۔۔۔

ایک تھپڑ کے جواب میں۔۔میں اس سزا کی حقدار نہیں تھی۔۔۔۔

نہیں تھی میں۔۔۔

بالکل نہیں تھی۔۔۔

آاا۔۔اا۔۔ہ۔۔۔“ 

حرمین سے مزید اپنا آپ دیکھنا محال ہوا تو  خوفزدہ سی موبائل کو خود سے پرے اچھالتی اپنے بال مٹھیوں میں جکڑ گئی۔

ذہن کے سیاہ پردے پر حاویہ اور نفیسہ بیگم کے نفرت سے بھیگے نقوش لہرائے تو نڈھال سی ہوتی وہ وہیں نیچے بیٹھتی چلی گئی۔

سب کچھ ختم ہوا تھا۔۔۔

سب کچھ۔۔۔

دوسرے کمرے میں موجود دو نفوس ہنوز برہم۔۔۔نیند کے وادیوں میں جھولتے اس پل اسکی گھٹی گھٹی چیخیں سننے سے محروم تھے۔

ایسے میں علیزے سمیت جانے کتنوں کے ہی ملامت بھرے میسجز آچکے تھے پر وہ دیکھنے کے قابل ہی کہاں تھی۔

وہ تو در حقیقت کہیں کے بھی قابل نہیں رہی تھی۔

بدستور سسکیاں بھرتے وجود میں سانسیں اٹک رہی تھیں پر۔۔۔پر پھٹتے ذہن میں شدت سے ابھرتا سوال یہ تھا کہ 

بوجھ بنتی یہ سانسیں اسکے وجود سے جدا کیوں نہیں ہورہی تھیں۔۔۔؟؟؟

وہ ہنوز زندہ تھی۔۔۔

پر کیوں۔۔۔؟؟

ایک ایک کرکے اپنا سب کچھ لٹا دینے کے بعد بھی وہ اب تک کیوں زندہ تھی۔۔۔؟؟ 

بالوں کو ہنوزسختی سے مٹھیوں میں جکڑے حرمین پاگل ہونے کے درپے تھی۔

اگلے ہی لمحے اسکے ماؤف ہوتے ذہن میں جھماکا ہوا تو بنا کوئی لمحہ ضائع کیے وہ سرعت سے اپنی جگہ سے اٹھی۔

پل میں کیا جانے والا حتمی فیصلہ حقیقتاً جانلیوا تھا۔

اس قدر جانلیوا کہ ہر گزرتا  لمحہ اسکی سانسوں پر بھاری پڑتا چلا گیا۔۔۔۔

سلگتی تلخ یادوں سے

بڑے بے درد ہاتھوں سے

لو!دیکھو ہاردی تم نے۔۔۔

”محبت“

ماردی تم نے۔۔۔!

خود تو مر کھپ گئی۔۔۔؟؟

لیکن جاتے جاتے ہمارے کندھوں پر بدنامی کا بھاری بھرکم بوجھ لاد گئی آپکی چہیتی بہن۔۔۔۔“  

سلگتے الفاظ  سماعتوں میں گھلتے گویا ان کا پورا وجود ہی سلگا گئے تھے۔۔۔

پر جواب میں پڑنے والا زناٹے دارتھپڑ عائمہ بیگم کو انکی گستاخی کا احساس دلانے کو کافی تھا۔

”اپنی بکواس بند کرو جاہل عورت۔۔۔

اب اگر اس بارے ایک لفظ مزید بولا تو زبان گدی سے کھینچنے میں۔۔میں بالکل بھی گریز نہیں برتوں گا۔۔۔

 یاد رکھنا۔۔۔۔۔“ 

 کچھ دیر پہلے خود کی۔۔۔کی گئی بدسلوکی پر انھیں ہنوز کوئی شرمندگی۔۔۔کوئی ملال نہیں تھا۔

اسٹڈی روم میں چھایا سکوت ہنوز برقرار تھا جب ذہن میں کھلبلی مچاتی تلخ سوچوں نے یکدم پلٹا کھایا۔

”بھ۔۔۔بھااائی۔۔۔

رحم کریں۔۔۔

سگی بہن ہوں میں آپکی۔۔۔

خود سے منسلک خونی رشتوں کو لے کر کوئی اس قدر ظالم کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔؟؟“ 

 اپنے محبوب کی نیم مردہ لاش پر بلک کر ہاتھ جوڑتی وہ بےاختیار بند آنکھوں کے سیاہ پردے پر ابھری تو حسن صاحب کا تنفس مارے ضبط کے گہرا ہونے لگا۔

تاریک رات میں رونما ہوئے یہ ان وحشت زدہ خیالات کا مجموعہ تھا جسے سوچنے سے وہ خود بھی کتراتے تھے۔

سب سے پوشیدہ۔۔۔فقط خود کی ذات تک محدود وحشت زدہ خیالات۔۔۔۔

”لعنت ہے ایسی بہن پر۔۔۔

ایک بار چھوڑ کے ہزار بار لعنت ہے جو خاندانی عزتوں کو سرعام اچھالنے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔۔۔۔“ 

 خود کی ہی چنگھاڑتی آواز اس پل انھیں کسی بھی صورت رحم کھانے کے درپے نہیں لگ رہی تھی۔

”محبت کی ہے بھائی اور ہرصورت نبھائی بھی ہے۔۔۔

کوئی جرم نہیں کیا جسکی سزا دینے کو آپ یوں مرنے مارنے پر اتر آئے ہیں۔۔۔۔“ 

 اس بار کرخت آواز میں سرکشی صاف گھلی تھی جو مقابل کے غصے کو آخری حد تک ہوا دینے کا سبب بنی تھی۔

”ایسی خود غرض محبت پر میں قتل کو ترجیج دینا ذیادہ پسند کروں گا۔۔۔۔

سو ایسے میں خود سے منسلک خونی رشتوں کے لیے بھی رحم کی قطعی کوئی گنجائش  نہیں نکلتی میرے پاس۔۔۔۔“  

اسٹڈی روم میں داخل ہوتے عائل کے قدموں کی چاپ سے کہیں ذیادہ۔۔۔انھیں آبادی سے قدرے دور سنسان جگہ پر چلتی  گولی کی گونج صاف سنائی دی تھی۔

”ہاااا۔۔۔ہ۔۔۔۔“  

ضبط کی کڑی ٹوٹتے ہی جہاں حسن صاحب نے گھبرا کر اپنی بند آنکھیں کھولی تھیں وہیں عائل  کچھ حیرت سے انکی کشادہ پیشانی پر آیا پسینہ دیکھ کر فکر مند سا ہوا۔

ایسے جانلیوا سوچوں کی زد سے باہر نکلنے کے فوری بعد ایک باوردی پولیس آفیسر کو مقابل دیکھنا درحقیقیت چونکا دینے کی صلاحیت رکھتا تھا۔۔۔

سو ایسے میں حسن صاحب کی پیشانی کا عرق آلود ہونا ایک بےساختہ ردِعمل تھا۔

”ڈیڈ۔۔۔طبیعت ٹھیک ہے آپ کی۔۔۔۔؟؟“  

”ہ۔۔ہاں ٹھیک ہوں میں۔۔۔

پرتم۔۔۔؟؟

تم کب آئے یہاں۔۔۔۔؟؟“  

پسینہ صاف کرتے ہوئے۔۔۔فوری طورسنبھل کرحسن صاحب کی طرف سے سوال کے جواب میں سوال داغا گیا تو جواباً عائل بھی مطمئن سا ہوتا اثبات میں سر ہلا گیا۔

”بس ابھی ہی آیا ہوں۔۔۔۔

دراصل مجھے آپ سے ایک بہت ضروری معاملے پر بات کرنی تھی ڈیڈ۔۔۔۔

مزید انتظار نہیں کرسکا سو اسی لیے ڈیوٹی پر جانے سے پہلے سیدھا آپ کے پاس چلا آیا۔۔۔۔“ 

مضبوط ہتھیلیوں کو آپس مسلتا وہ صاف گوئی سے بولا۔۔تو ذرا کی ذرا تیوری چڑھاتے حسن صاحب کو بےاختیار تجسس سا ہوا۔

”کیابات ہے۔۔۔؟؟؟پریشان لگ رہے ہو۔۔۔کسی بڑے کیس کو لے کر کوئی مسئلہ تو نہیں چل رہا ہے۔۔۔۔؟؟؟“  اندازاً بولتے ہوئے وہ عائل کو دھیرے سے مسکرانے پر مجبور کرگئے۔

”کیس کا نہیں۔۔۔نکاح کا مسئلہ ہے ڈیڈ۔۔۔۔“  

بنا لگی پٹی رکھے وہ خاکی رنگ جیبوں میں ہاتھ پھنساتا سنجیدگی سے گویا ہوا تو وہ بھی بیٹھے سے اٹھ کھڑے ہوئے۔

”نکاح۔۔۔۔؟؟؟“

 اسکے مضبوط لہجے پر حسن صاحب نے کچھ حیرت سے اسکی جانب دیکھا جو صبح ہی صبح  کسی کیس کی بجائے غیرمتوقع طور پر اپنے مستقبل کو زیرِبحث لائے ہوئے تھا۔

”بالکل ڈیڈ۔۔۔

میں جلد از جلد حاویہ فیضان سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔۔۔

اب مزید صبرکا دامن تھامے رکھنا میرے اختیار سے تقریباً باہرہوچکا ہے۔۔سو منگنی رسموں کی فارمیلٹیز پوری کرنے پر وقت برباد نہیں کرسکتا۔۔۔“  

قطیعت بھرے لہجے میں اپنے خیالات سے آگاہ کرتا وہ خود کے ساتھ ساتھ حسن صاحب کو بھی مزید سنجیدہ کرگیا تھا۔

”ایک مرد پولیس آفیسر ہونے کے باوجود تم لڑکی ذات  کے لیے اس قدر حساس ہورہے ہو۔۔۔

آخر معاملہ کیا ہے۔۔۔۔؟؟“  

سینہ تان کر پشت پر ہاتھ باندھتے ہوئے انکے اندر ناگواریت سی بھرتی چلی گئی۔

بھرتی بھی کیوں نہ۔۔۔

آخر کو انکا من پسند بیٹا عشق محبت کے معاملوں میں گہرا پھنسا تھا جسے وہ میل بھاؤ دینا بھی گوارا نہیں سمجھتے تھے۔

مگر اس معاملے میں وہ شام سے خاصے مطمئن تھے جو جانے انجانے میں انہی کی ڈگر پر چل رہا تھا۔

”معاملات جب حد سے باہر ہونے لگیں تو  بہتر ہے کہ انھیں وقت رہتے یاں تو واپس حد میں کرلینا چاہیے۔۔۔

یاں پھر جڑ سے ہی ختم کردینا چاہیے۔۔۔

میں چونکہ اپنا معاملہ جڑ سے ختم کرنے کا متحمل قطعی نہیں ہوسکتا جبھی اسے وقت رہتے سنبھال لینا چاہتا ہوں۔۔۔

اور اس سب کے لیے مجھے آپکی رضا مندی کی خاصی ضرورت ہے ڈیڈ۔۔۔۔“  

آدھی ادھوری بات کو پورے لفظوں میں سمیٹتا وہ۔۔۔مکمل اعتماد سے گویا ہوا تو حسن صاحب اسکی حاضر جوابی پر پل بھرکے لیے لب بھینچ گئے۔

اس پل وہ ہر صورت اپنی منوانے کے درپے تھا۔

”پرتمھاری ماں۔۔۔۔“ 

 بظاہر سادگی میں وہ وہی سابقہ جواز پیش کرنا چاہ رہے تھے جب عائل بےچین سا ہوتا بیچ میں ہی ان کی بات کاٹ گیا۔

”موم کی اجازت کی فی الحال مجھے ضرورت نہیں ہے۔۔۔

انکی رضامندی حاصل کرتے کرتے بہت دیر ہوجائے گی۔۔۔

اور میں اس وقت دیری افورڈ کرنے کی حالت میں بالکل بھی نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔“ 

 عائل کے عجلت بھرے لہجے نے حقیقتاً حسن صاحب کے ساتھ ساتھ تندہی سے وہاں سے گزرتی عائمہ بیگم کو بھی دوہرا چونکا دیا تھا۔۔

جبکہ وہ دورانِ گفتگو اپنی پیشانی پر چڑھتی مٹتی تیوریوں سے بھی انجان تھا۔

سو از حد سنجیدہ لہجے پر کیا غور و فکر کرتا۔۔۔۔؟؟

اسے ہنوز بغور تکتے ہوئے کچھ توقف لیتے حسن صاحب نے ایک گہرا سانس بھرا۔

اس دوران عائمہ بیگم ان دونوں باپ بیٹے کی نگاہوں سے اوجھل۔۔مٹھیاں بھینچتی وہیں دروازے پر رک گئیں۔

”تمھارے بقول اگر معمالات اس حد تک سنگین ہیں تو پھر ٹھیک ہے۔۔۔۔

 میرا کانٹینیو پراجیکٹ فی الوقت اپنے آخری مراحل میں ہے۔۔۔

جو تقریباً کل تک مکمل بھی ہوجائے گا۔۔۔۔

اور اسی کے ساتھ میں تمھاری ماں کے ہمراہ انکے گھر باقاعدہ تمھارے نکاح کی بات کرنے جاؤں گا۔۔۔

تم بے فکر رہو۔۔۔۔“  اسکی تمام تر امیدوں پر کھڑا اترتے ہوئے حسن صاحب اسے شدت سے مسکرانے پر مجبور کرگئے۔

”یقین کیجیے ڈیڈ۔۔۔مجھے آپ سے اسی مثبت جواب کی امید تھی۔۔۔۔

انفیکٹ۔۔۔امید کیا پورا یقین تھا کہ آپ مجھے کبھی بھی مایوس نہیں ہونے دیں گے۔۔۔

تھینکس۔۔۔تھینکس آ لاٹ۔۔۔۔۔۔“  

بنا ہچکچائے قدرے عقیدت سے آگے بڑھ کے حسن صاحب کے گلے  لگتا وہ اپنے خوشگوار احساسات چھپا نہیں پایا تھا۔

مسرت تلے ھڑکتے دل میں۔۔حاویہ کی بابت نت نئے خوبصورت خیالات امڈنے لگے۔۔۔

تو جہاں دور کہیں قسمت نے اسکی وقت پر مدھر سا پر جب حسن صاحب اسکی چوڑی پشت پر دھمکی دیتے ہوئے  اس سے الگ ہوئے۔

”خوش رہو میرے بچے۔۔۔۔

جہاں تک میرا دل و دماغ کہتا ہے۔۔۔خیر سے میں تو تمھارے معاملے میں اپنا فرض نبھا چکا ہوں۔۔۔

لیکن اب تمھیں بھی اپنا فرض نبھانے میں دیری نہیں کرنی چاہیے۔۔۔۔“  

بظاہر شفقت سے بولتے وہ اسے لطیف سا چھیڑ گئے۔۔تو عائل انکی بات سمجھتا ہولے سے قہقہ لگائے بنا نہ رہ سکا۔

”جی بالکل ڈیڈ۔۔۔پولیس کی ڈیوٹی میری اولین ترجیحات میں سے ایک ہے۔۔

اینی وے۔۔چلتا ہوں اب۔۔۔۔

خدا حافظ۔۔۔۔“  عائمہ بیگم کی موجودگی سے ہنوز بے خبر۔۔۔وہ بالوں میں ہاتھ چلاتا ہوا ایک جاندار مسکراہٹ حسن صاحب کی جانب اچھال کر۔۔۔وہاں مزید رکا نہیں تھا۔۔۔

بلکہ قدرے عجلت میں دہلیز پھلانگ کر وہاں سے نکلتا اپنے پیٹھ پیچھے کھڑی عائمہ بیگم کو دیکھ نہیں پایا تھا۔

معاً خود پر سے ضبط کھوتی عائمہ بیگم۔۔۔ناراضگی کے باوجود بھی بے دھڑک اندر آتی ہوئی انھیں مخاطب کرگئیں۔

”حسن۔۔۔۔۔۔“

جواباً حسن صاحب نے پلٹ کر ان کی جانب بغور دیکھا جو۔۔۔خود کے رخساروں پر حد سے ذیادہ مصنوعی سرخائی بکھیرے ہوئے کچھ تلخی سے انہی کی جانب دیکھ رہی تھیں۔۔۔

گوکہ تھپڑ کی چھاپ چھپانے کی ایک ادنیٰ سی کوشش کی گئی تھی۔۔۔اور عائمہ بیگم کی ایسی ہی بروقت سمجھداریاں ان کے سفاک دل کو بھا جاتی تھیں۔

آپ نے اتنی آسانی سے کیسے عائل کی جذباتی خواہش پر ہامی بھرلی۔۔۔؟؟؟

جہاں تک مجھے علم ہے۔۔۔آپ تو اول روز سے ہی اس فیصلے کے خلاف تھے ناں۔۔۔؟؟

تو پھر ایکدم سے متفق کیوں ہوگئے۔۔۔؟؟؟“  

سپاٹ لہجے میں پوچھتی وہ انکے اچانک بدلاؤ کی وجہ جاننے کو قدرے بےتاب دیکھائی دے رہی تھیں۔

”کیونکہ مجھے اسکی باتوں میں بغاوت کی بو صاف محسوس ہوئی تھی۔۔۔

اور جب شرافت میں بغاوت کا زہر گھلتا ہے ناں عائمہ بیگم تو وہ ایک ضدی پن انسان کی ضد سے بھی کہیں ذیادہ خطرناک روپ دھاڑن کرلیتا ہے۔۔۔“  

قدم قدم چل کر انکے قریب آکر رکتے وہ سرسراتے لہجے میں گویا ہوئے تو  اس دور اندیشی پر نفیسہ بیگم  ضبط سے لب بھینچ کر رہ گئیں۔

اسٹڈی روم میں دو نفوس کی موجودگی کے باوجود بھی جہاں گہرے سکوت نے پھرسے اپنی جگہ سنبھالی تھی۔۔۔وہیں اندر ہی اندر ان دونوں کو آنے والے کل کی بابت بہت سی فکریں لاحق ہو چکی تھیں۔

انداز البتہ ایک تھا پر افکار کے پہلو ایک دوسرے سے قدرے الگ الگ تھے۔۔۔۔

***********************

 اس نے دھیرے سے خمار آلود آنکھیں کھولنے پر بےاختیار اطراف میں دیکھا۔۔۔

تو نفیسہ بیگم کو کمرے میں کہیں نہ پاکر اٹھ کر بیٹھ گئی۔

معاً واشروم میں کھلتے نل سے بہتا پانی۔۔۔پل میں اسکے اندر اطمینان سا بکھیرگیا۔

اسکے برعکس دل کی دھڑکنیں جانے کیوں ان لمحوں ایک غیرمعمولی سی بےچین کیفیت کا شکار ہوئی تھیں۔۔۔

اگلے ہی پل بکھرے بالوں کو دونوں ہاتھوں سے سمیٹ کر جوڑا بناتی وہ بیڈ سے اتری۔

جہاں حاویہ کے ہاتھوں ہونے والی تیمانداری کے سبب نفیسہ بیگم کی طبیعت میں کافی حد تک سدھار آیا تھا وہیں وہ گزشتہ دو روز سے حرمین سے ہمکلام نہیں ہوئی تھی۔

اور نہ ہی حرمین کی جانب سے اس شدید برہمی کو دوبارہ سے توڑنے کوشش کی گئی۔

خود اسکے ساتھ بھی نفیسہ بیگم کا رویہ  کچھ کھینچا کھینچا سا ہی تھا۔

سر جھٹک کرسرمئی رنگ چپل پہنتے ہوئے اس نے ان تلخ سوچوں سے جان چھڑوانے کی ایک ناکام سی کوشش کی تھی۔

 گہری نیند سے جاگنے کے سبب ذہن ہنوز بھاری سا ہورہا تھا۔

ایسے میں ادھ کھلی کھڑکی سے چھن کرکے اندر آتی سورج کی نکھری نکھری سی کرنیں کافی حد تک صبح کے چڑھ آنے کا صاف پتا دے رہی تھیں۔

پے در پے رونما ہونے والےسنگین حالات کے زیرِاثر  کل کی طرح آج بھی اس کا کالج جانا کاقطعی کوئی ارادہ نہیں تھا۔

دوپٹہ اچھے سے کندھوں پر پھیلالینے کے بعد حاویہ چہرے پر ہاتھ پھیرتی کمرے کی دہلیز پھلانگ گئی۔

ارادہ تو فی الحال کچن میں جاکر نفیسہ بیگم کے ساتھ ساتھ اس بار حرمین کے لیے بھی چائےسمیت۔۔۔ہلکا پھلکا ناشتہ بنانے کا تھا 

پر اس سے پہلے وہ اپنی جسمانی الجھن دور کرنے کو ایک بار واشروم جاکر فریش ہوجانا چاہتی تھی۔

سو خود کے نقوش سپاٹ بناتی اپنے مشترکہ روم کی جانب بڑھی۔

دروازہ کھول کر بےدھڑک اندر آتی حاویہ  اپنی ہنوز برہمی کے سبب۔۔۔حرمین زہرا کو مکمل طور پر نظرانداز کردینا چاہتی تھی۔۔۔

 مگر سامنے پلنگ کے قریب پڑا بےسدھ وجود گویا اسکے ہوش اڑا دینے کو کافی تھا۔

پھیلتی نگاہوں میں شدت سے در آنے والی تشویش۔۔اسکے ٹھٹک کر رکتے وجود میں بےچینیاں سی بھرتی چلی گئی۔

”اپیہ۔۔۔۔؟؟؟“  

اگلے ہی پل پھرتی سے بھاگ کر اسکی جانب لپکتی حاویہ۔۔۔کی ساری ناراضگی بھک سے اڑی تھی۔

”ا۔۔اپیہ۔۔۔

ک۔۔کیا ہوا ہے آپکو۔۔۔؟؟؟“  اسکے پاس جھکتے اسکا دل شدتِ بےسکونی سے دھڑکا۔۔۔

مگر نازک کندھا جھنجھوڑنے پر بھی بے جان وجود میں کوئی اطمینان بخش حرکت نہیں ہوئی تھی۔

”پ۔۔پانی۔۔۔۔

ہاں۔۔۔پانی۔۔پانی کہاں ہے۔۔۔۔؟؟؟“

حرمین زہرا کے سانسوں سے محروم وجود پر صاف بے ہوشی کا گمان کرتی وہ اگلے ہی پل بوکھلا کر اٹھی۔۔

اور پلوں میں سائیڈ ٹیبل سے پانی کا ادھ بھرا جگ اٹھا کر اسکی طرف واپس پلٹی۔

آنسو ٹوٹ کر گالوں پر لڑھکے تھے۔

”ہوش میں آئیں ایپہ۔۔۔پلیزہوش میں آئیں۔۔۔۔“ 

 بےتابانہ اسکے فق چہرے پر پانی کا چھڑکاؤ کرتے ہوئے آواز کے ساتھ ساتھ اب کہ اسکا پورا وجود بھی لرزنے لگا تھا۔۔۔

پر پانی تلے بھیگتی بند آنکھوں کی سیاہ  پلکیں ہنوز ساکت تھیں۔

بے اختیار حاویہ کے رونگھٹے کھڑے ہوئے۔

”اپیہ خدا کا واسطہ ہے آنکھیں کھولیں۔۔۔۔

آپکا یہ بدترین مذاق اب کہ میری جان نکالنے کے درپے ہے۔۔۔بچپنا مت دیکھائیں۔۔۔

م۔۔محض مذاق۔۔مذاق ہی کررہی ہیں ناں آپ میرے ساتھ۔۔۔؟؟“ 

 اسکی مری مری رنگت سے  بمشکل بھیگی نگاہیں چراتی وہ شدت سے ملتجی ہوئی۔

سینے میں چلتی سانسیں اس جانلیوا صورتحال پر رکنے سی لگی تھیں۔

پر حرمین زہرا تو کسی بھی التجاء کو سننے کے قابل نہیں تھی۔۔۔

کجا کہ عمل کرنا۔۔۔۔

دل چیڑتے خدشوں کو ٹالنے کی غرض سے۔۔۔

اگلے ہی پل جگ کو ایک طرف رکھتے ہوئے اسکی کانپتی انگلیوں نے بڑی ہمت سے اسکی ساکت نبض کو۔۔۔شدت سے ٹٹولا تھا۔

نتیجتاً اسے لگا جیسے وہ اگلا سانس نہیں لے پائے گی۔

”نن۔۔۔نہیں۔۔۔“  

حقیقت سے ہنوز انکاری ہوتی اب کہ حاویہ نے ایک آخری کوشش کے تحت شہادت کی انگلی اسکی ناک کے قریب کی۔

آنسو تواتر سے تپتے رخساروں کو بھگوتے چلے جارہے تھے۔

آنکھوں دیکھی جانلیوا صورتحال کے باوجود بھی یقین کرنا مشکل ترین ہو تو تھا۔

ایک سیکنڈ۔۔۔

دو سیکنڈز۔۔۔۔

تین سیکنڈز۔۔۔۔

اور پھر کئی سیکنڈز۔۔۔۔۔

پر۔۔۔۔پر یہ کیا۔۔۔؟؟؟

نتھنوں سے پھوٹتی سانسیں ہنوز ندارد تھیں۔

وحشتوں تلےگھٹا گھٹا سا چیختی وہ ایکدم سے تڑپ کر پیچھے ہٹی۔

”نن۔۔نہیں۔۔نہیں نہیں۔۔۔“    

ج۔۔جھوٹ۔۔۔۔جھوٹ ہے یہ۔۔۔

بالکل جھوٹ ہے۔۔۔بھلا میری اپیہ ایسے کیسے مجھے چھوڑ کر جا سکتی ہیں۔۔۔۔۔؟؟؟“  

فرش پر سختی سے ہتھیلیاں ٹکائے وہ شدت سے نفی میں سر ہلاتی سسک ہی تو پڑی تھی۔

مقابل۔۔۔ریزہ ریزہ  بکھری حقیقت پر یقین تیزی سے اندر تک اتر گیا تھا پر کرنے کا انداز اب بھی نہیں آرہا تھا۔

حرمین زہرا کی مردہ حالت اس پل قابلِ رحم تھی۔۔۔۔

قابلِ رحم ترین تھی۔۔۔۔

سسکیاں بھرتی حاویہ کا تنفس پل پل اسکا تنفس بگڑ رہا تھا۔

معاً حاویہ کی سرخائی گھلی  دھندلائی نگاہوں نے گھبراہٹ میں تب سے پہلی بار فاصلے پر ٹوٹے موبائل کے قریب پڑی شیشی کو بغور دیکھا تھا۔۔جس میں فقط ایک دو ہی سلیپنگ پلز باقی بچی تھیں۔

بمشکل چند پل لگے تھے اسے نتیجے تک پہنچنے میں۔۔۔اگلے ہی لمحے دل و دماغ میں شدت سے ابھرتا یک لفظی سوال اسکی اذیت مزید بڑھا گیا۔

”خودکشی۔۔۔۔؟؟“  

حرمین کے چہرے پر واپس بے یقین نگاہیں جماتی وہ خود بھی جیسے بے جان ہوئی تھی۔

اور پھر۔۔۔

اگلے ہی پل حاویہ کے نم حلق سے پھوٹتی تلخ چیخیں بےساختہ تھیں۔۔

بے تحاشہ تھیں۔۔۔

غازان چودھری سے بات کرلینا وہ تمھیں گوداموں کی ساری معلو۔۔ما۔۔ا۔۔۔۔۔“  

سیڑھیوں کے آخری دو زینے سست روی سے پھلانگتا۔۔۔وہ کال پر بات کرتے ہوئے حویلی کی وسیع چھت پر آیا تھا۔۔

 جب اچانک سماعتوں میں گھلتی نسوانی چیخ نے اسے چونک کر سامنے دیکھنے پر مجبور کردیا۔

تقریباً دس سے پندرہ قدموں کے فاصلے پر حلیمہ کا ٹھنڈے ٹھار فرش پر بیٹھ کر ٹخنے کو شدت سے مسلنا۔۔۔سالار خان کو حالات کی سنگینی کا پتا دے گیا۔

اس دوران بدقسمتی سے کام کرتی ہوئی ایک بھی ملازمہ اسے وہاں دکھائی نہیں دی تھی۔

بے اختیار کال کاٹ کر اپنا موبائل کرتے کی جیب میں گھساتا ہوا وہ تیزی سے اسکی جانب لپکا۔

ایسے میں حلیمہ نے ٹھٹک کر اسے اپنی طرف آتا دیکھا تو دھیرے سے بھیگتی  پلکیں جھپکائیں۔

قابلِ برداشت تکلیف پر پھڑپھڑاتا دل اس پل شدتوں سے دھڑکا تھا۔ 

”تم۔۔۔؟؟

تم ٹھیک ہو۔۔۔۔؟؟؟“

بنا ہچکچائے گھٹنوں کے بل اسکے سامنے بیٹھتا۔۔۔وہ براہ راست اسکی نگاہوں میں جھانک کر پوچھ رہا تھا۔

جب سر کو نفی میں ہلاتی وہ بےاختیار روہانسی ہوئی۔

”میرا پ۔۔پیر مڑگیاہے خان۔۔۔۔“  

 ٹخنے کو نرم ہتھیلی تلے دباتی حلیمہ نے۔۔۔قدرے تحمل سے جواب دیا۔

اپنے لب بھینچتا وہ اگلے ہی پل اسکے ہاتھ پیچھے ہٹاگیا۔

پھر نامحسوس انداز میں پوروں کا لمس چھوڑتے ہوئے اس نے بغور اسکے پیر کا متاثرہ حصہ دیکھا جہاں اب دھیرے دھیرے سوجن واضح سی ہونے لگی تھی۔

حلیمہ نے بکھرتی دھڑکنوں پر نچلا لب دانتوں تلے کچلا۔

مقابل کی تیوری بھی دلچسپ تھی۔

اس پل فکر میں گھلتا سالار بلاشبہ اس کے کھلے بالوں کو بھی فراموش کرگیا تھا جو اس قدرے حسین بنانے کا سبب بن رہے تھے۔

”تو کیا اب تم عقل سے اس قدر پیدل ہوچکی ہو کہ دیکھ کر چلنا بھی تمھارے لیے دشوار کن ہے۔۔۔؟؟؟

ہر شے میں خرابیاں سہی پر کم از کم ٹھیک سے چلنے پھرنے پر تو دھیان دے ہی سکتی ہو تم۔۔۔۔“

 ہاتھ پیچھے ہٹاتے سالار کو اپنی کرخت آواز میں صاف غصہ محسوس ہوا تھا۔

جبکہ اسکی تلخ لب کشائی پر حلیمہ کے چہرے کی رنگت پل میں بدلی۔

”مانتی ہوں۔۔ میں دھیان نہیں دے پائی۔۔۔

پر اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے خان۔۔۔کہ میں نے آپکا دھیان پانے کی غرض سے یہ سب جان بوجھ کر کیا ہے۔۔۔۔“

  جانے کیوں پیر میں اٹھتی ٹیسوں سے کہیں ذیادہ۔۔۔وہ اس پل مقابل کے تلخ لہجے پر دل برداشتہ ہوئی تھی۔۔۔

جبھی بھیگی آواز میں کہتی اگلے ہی پل خود سے اٹھنے کی جرات کرگئی۔

”آاا۔۔۔ااہ۔۔ہ۔۔۔۔اماں۔۔۔۔“ 

 داہنے پیر پر دباؤ پڑتے ہی وہ کراہتی ہوئی واپس زمین بوس ہونے کو تھی جب سرعت سے آگے بڑھ کر تھامتا وہ اسے مضبوط سہارا دے گیا۔

حلیمہ کی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کر نرم گالوں پر لڑھکے۔

”اب اتنا بھی ظالم نہیں ہوں کہ جانتے بوجھتے ظلم کرنے پر اتر آؤں۔۔۔

بلاوجہ کی ہٹ دھڑمی دکھاؤ گی تو اپنا ہی نقصان کروگی۔۔۔“

سرد ترین لہجے میں حقیقت باور کرواتا وہ اگلے ہی پل بڑی سہولت سے اسکا نازک وجود اپنے مضبوط بازوؤں میں بھر چکا تھا۔

سالار خان کی اس اچانک۔۔۔غیرمتوقع عنایت پر حلیمہ۔۔۔اسکے چوڑے کندھوں پر بازوؤں کا نرم حصار بناتی بے ساختگی میں اپنا سانس روک گئی۔

جوکہ مقابل سے مخفی نہیں رہا تھا۔

 پل بھر کے لیے ایک بے تاثر سی بھرپور نگاہ اسکے نم چہرے پر ڈالتا وہ سیڑھیوں کی طرف پلٹا۔

حلیمہ حیران سی اسکے سپاٹ نقوش تکنے لگی۔

زوروں سے دھڑکتے دل کی دھڑکنیں حد سے سوا ہورہی تھیں۔

”آپ ظاہر نہیں کرتے خان۔۔۔

پر میں جانتی ہوں کہ آپکے دل میں کہیں نہ کہیں میرے لیے پرواہ کے جذبات شدت سے پنپتے ہیں۔۔۔“

 اسکے کندھوں پر اپنی پکڑ مزید مضبوط کرتی وہ گہری۔۔ نرم آواز میں بولی۔۔۔

تو اسکی بات پر وہ واپس نگاہیں جھکا کر اسکی جانب دیکھنے پر مجبور ہوا۔

”خوش فہمیاں لاعلاج ہوا کرتی ہیں جوکہ میری ذات کو لے کرتمھیں  بڑی شدت سے لاحق ہیں۔۔۔۔۔“  

شہدرنگ نگاہوں میں گھلے نم خمار کو تندہی سے جھانکتا وہ سرد مہری سے گویا ہوا۔

حلیمہ کے لبوں کو نرم سی مسکراہٹ چھوگئی تو وہ تنفر سے سر جھٹک کر نظروں کا زوایہ بدل گیا۔

”تو پھر مجھے اذیت میں دیکھ کر ان آنکھوں میں مچلتی تڑپ کیسی۔۔۔؟؟؟“

 یک ٹک اسکے وجہہ نقوش بہت قریب سے ازبرکرتی وہ حقیقتاً اسے زچ کرنے پر آئی تھی۔

نیچے اترنے کو پہلی سیڑھی پر قدم دھرتا اب کہ وہ اسکی لو دیتی نگاہوں سمیت اس بےتکے استفسار سے سخت بےزار ہوا تھا۔

”ہونہہ۔۔۔۔

جیسے تم تڑپ کا نام دے رہی ہو وہ فقط ایک عام احساس سے بڑھ کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔

اور انسانیت کے ناطے یہ احساس کسی کے لیے بھی جاگ سکتا ہے۔۔۔

چاہے پھر وہ حویلی میں کام کرتی ایک کم ذات ملازمہ ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔“

 برجستہ جواب دیتا وہ اسے نئی اذیت کی گہرائیوں میں۔۔۔دھکیلنے میں قدرے کامیاب ٹھہرا تھا۔

”تو کیا اس احساس کو جتانے کی خاطرآپ میری جگہ ایک عام ملازمہ کو بھی یونہی تڑپ کر بانہوں میں سمیٹ لیتے۔۔۔۔۔؟؟؟“ 

وہ جانتی تھی کہ مقابل ہر دوسرے تیسرے پر ایسی عنایات کرنے کا عادی ہرگز نہیں ہے پھر بھی پیر میں وقفے وقفے سے اٹھتی ٹیسوں پر ضبط کرتی اس سے پوچھ رہی تھی۔ 

سالار خان نے آدھی سیڑھیاں احتیاطاً ا ترتے ہوئے شدتِ ضبط سے لب بھینچے۔نگاہوں میں غصے کی سرخی گھلی تھی۔

”میں تمھارا کوئی شاگرد نہیں ہوں جو تمھارے ہربے تکے سوال کا فرفر سے جواب دیتا چلا جاؤں گا۔۔۔۔

اگر نہیں چاہتی کہ بیچ سیڑھیوں میں پھینک کر چلا جاؤں تو اپنی زبان کو فی الحال کے لیے اندر رکھو۔۔۔۔“

اسکی جانب دیکھتے ہوئے چبا چبا کر بولتا وہ اسے اچھا خاصہ جھاڑ گیا۔۔۔

تو جواب میں اب کی بار وہ بھی اسکے رعب تلے دب سی گئی۔۔۔کلون کی دل دھڑکاتی مہک ہنوز شدت سے محسوس ہورہی تھی۔

ایسے میں وہاں سے گزرتی ملازمہ نے رک کر۔۔۔بڑی حیرت سے اپنی چھوٹی بی بی کو سالار خان کی بانہوں میں سمٹے دیکھا تھا۔

اگر جو اس فرحت بخش نظارے کو خنساء بیگم دیکھ لیتیں تو یقیناً شدت سے  خوش فہمیوں میں گھر جاتی۔۔۔۔

اور ایسا وبال وہ ہرگز نہیں پالنا چاہتا تھا۔۔۔

جبھی ملازمہ کی حیرت کو سرے سے نظرانداز کرتا آخری سیڑھی بھی اتر کراپنی چال میں بےاختیار تیزی لایا۔پھر اپنے مشترکہ کمرے کی جانب بڑھ گیا۔۔۔

”تو یعنی خان جی نے حلیمہ بی بی کو دل سے قبول کرلیا ہے۔۔۔۔

اس کا مطلب۔۔۔۔

اب وہ اپنی من پسند رقاصہ کو حقیقی معنوں میں بھلا چکے ہیں۔۔۔۔“ 

 منہ میں بڑبڑاتی ہوئی ملازمہ یونہی سوچوں میں گھلتی کچن کی طرف پلٹ گئی۔۔۔۔

**********************

ڈھلتی شام میں۔۔۔یہ کراچی کی بہترین جمز میں ایک جم ”شیڈو فٹ نیس“ کا منظر تھا۔۔۔

جہاں وہ  چند ایک مخصوص ایکسراسائز کرنے کے نتیجے میں آئے پسینے کو۔۔۔اب بیٹھ کر اپنے کسرتی بازؤں  سے باری باری پونچھ رہا تھا۔

انداز میں صاف سستی تھی۔

اور اس کی وجہ نگاہوں کے ٹھیک سامنے ٹریڈمل مشین پر نارمل انداز میں بھاگتی وہ اجنبی لڑکی تھی۔۔۔جو چست جننز اور ٹائٹ بلیو ٹاپ میں اس سمیت بہت سوں کی توجہ اپنی جانب کھینچنے کا سبب بنی تھی۔

معاً شام کی بھوری نگاہوں کے ارتکاز کو۔۔اسکے اپنے ہی موبائل کی بے وقت چنگھاڑتی آواز نے توڑا۔۔۔

تو  کچھ چونک کر بدمزہ ہوتا وہ پلوں میں موبائل ہاتھ میں تھام کر اس نسوانی حسن سے اپنی توجہ ہٹاگیا۔

”افروز کالنگ۔۔۔۔“  

اسکرین پر بےتاثر نگاہیں جماتے شام نے گہرا سانس بھرا۔۔۔

پھر ناچا ہتے ہوئے بھی اسکی کال اٹھا گیا۔

”ہیلو۔۔۔۔۔۔“ 

 بے زار سے لہجے میں پوچھتا وہ بہت پہلے ہی منی ٹاول کو پہلو میں پھینک چکا تھا۔

اس دوران کمینی چمک ابھارتی نظروں کا واپس اس انجان لڑکی کی جانب پلٹنا بے ساختہ تھا جو اب تھکی تھکی سی مشین آف کرتی نیچے اترنے کو تھی۔

”شام۔۔۔۔

وہ۔۔ح۔۔حرمین۔۔۔۔“

 اسپیکر سے ابھرتی افروز کی آواز پریشان کن تھی۔

جبکہ سماعتوں میں گھلتا اس لڑکی کا دل جلاتا نام۔۔۔تیز روشنیوں تلے چمکتی شام کی پیشانی پر تیوری چڑھانے کا سبب بنا۔

”کیا ہوا ہے۔۔۔؟؟؟“  

اسکے گھگھیائے لہجے پر وہ ناچاہتے ہوئے بھی کچھ محتاط ہوا۔

دوسری طرف افروز نے اصلیت بتانے کو بے اختیار لبوں پر زبان پھیری۔

”کل رات۔۔۔۔۔

حرمین زہرا کی موت واقع ہوگئی ہے۔۔۔۔

شی از نو مور۔۔۔۔

سن رہا ہے ناں تُو۔۔۔؟؟؟اب وہ لڑکی مزید اس دنیا میں نہیں رہی یار۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ 

 حرمین کی بابت۔۔۔اپنی طرف سے شام کے سر پر بھرپور دھماکہ کرتا وہ ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولا۔۔۔تو جواب میں اسکی تیوری پل میں سمٹی۔

اس دوران لب غیرسنجیدہ مسکراہٹ میں ڈھلے تھے۔

”ہہہمم۔۔۔۔انٹرسٹنگ۔۔۔۔“

اسکے بچگانہ مذاق پر شام نے بےاختیار اپنی سائیڈ آتی سوہا نامی لڑکی کو دیکھتے بائیں آنکھ دبائی۔۔۔

تو جہاں وہ شام جیسے ہینڈسم بندے کی غیر متوقع حرکت پر چونکتی ناچاہتے ہوئے بھی سرخ ہوئی تھی۔۔۔ 

وہیں افروز اسکے لفظوں پر شدت سے چونکا۔

”اب اگر تیرا۔۔۔یہ بےتکا سا مذاق ہوگیا ہو تو میں فون رکھوں۔۔۔؟؟؟

فی الحال تو ایک بہت ضروری کام میں پھنسا ہوا ہوں۔۔۔سو تیری مزید بکواس سننے کا اس وقت بلکل بھی موڈ نہیں ہورہا میرا۔۔۔۔“

 جان چھڑانے والے انداز میں بولتا اب کہ وہ افروز کی کال کاٹنے کو تھا۔۔۔جب یک لخت سماعتوں میں گھستی زہر خند آواز شام کی ساری شوخی کو بھک سے اڑا گئی۔

”ابےےےے سالے میں بکواس نہیں کررہا بالکل بھی۔۔۔

بلکہ سچ بتا رہا ہوں تجھے۔۔۔سچ۔۔۔۔

حرمین زہرا از رئیلی ڈیڈ ڈیمٹ۔۔۔۔۔“

قدرے بپھر کر چیختا وہ شام کو بدترین حالات کی سنگینی باور کروانے میں کافی حد تک کامیاب ٹھہرا تھا۔

اس دوران سوہا بھی اپنی اونچی پونی کو مزید کستی ذرا سے فاصلے پر الگ  نشست سنبھال چکی تھی۔

بےاختیار شدید حیرت تلے کھڑے ہوتے شاہ میرحسن۔۔۔کا دل شدت سے ڈوبا۔

”واٹ ربش۔۔۔۔

جانتا بھی ہے تُو کیا کہہ رہا ہے۔۔۔؟؟؟

نہیں مطلب تجھے کس نے بتایا۔۔۔ہاں؟؟

ہ۔۔ہاؤ اٹ از پاسیبل۔۔۔۔؟؟؟“  

اپنی کمزور ہوتی آواز پر بڑی مشکلوں سے قابو پاتا وہ پیشانی کو انگوٹھے تلے شدت سے مسلنے لگا۔

سنسناتے دماغ کے سبب نگاہوں میں سرخی سی ابھرنے لگی۔

پل میں یقین کرلینا دشوار ترین ہی تو تھا۔۔۔۔

جبکہ اسکی شوخی کو ایکدم سے بے سکونیوں میں بدلتا دیکھ اسی کی جانب تکتی سوہا کو حیرت ہوئی۔

”میری بھی ایسی ہی حالت تھی جیسے اس وقت تیری ہورہی ہے۔۔۔

مجبوراً ہی سہی پر یقین کرنا پڑا۔۔۔

کہنے کو تو سب یہی بول رہے ہیں کہ کل رات اچانک ہی اسے ہارٹ اٹیک آیا تھا۔۔۔

اس مختصر سے دورانیے میں اسے ہاسپٹل جانے کا بھی موقع نہیں مل پایا۔۔۔سو سیڈ۔۔۔۔“ 

افروز اپنے تنے اعصاب ایکدم سے ڈھیلے چھوڑتا اب کے چلتا ہوا صوفے کی جانب آیا۔انداز پُرتاسف تھا۔

ساری بات پریشانی میں سنتا شام عجلت میں کیز وائلٹ اٹھاتا اب کہ جم سے نکلنے کو پھرتی سے آگے بڑھا تھا۔

حرمین کی طبی موت کا سن کر مچلتی دھڑکنوں میں کہیں اطمینان بھی اترا تھا۔کم از کم اس کے سر کوئی بوجھ تو باقی نہیں رہا تھا۔

جبکہ اسے وہاں سے یوں چپ چاپ نکلتا دیکھ سوہا کے خوبصورت چہرے پر ناپسندیدگی کے تاثرات نمایاں ہوئے۔

”ویسے شام۔۔۔۔جس طرح سے سوشل میڈیا پر حرمین زہرا کی بدنامی کی دھوم مچی ہے ناں۔۔۔اور اب تک مچ رہی ہے۔۔۔۔

ہوسکتا ہے اسی بدنامی کو خاص جواز بناکر اس نے خودکشی کرلی ہو۔۔۔نہیں۔۔۔؟؟؟“

  کچھ توقف سے سوچ سوچ کر بولتا افروز۔۔۔داخلی دروازے تک پہنچتے شام کو اپنے مضبوط اندازے سے آگ ہی تو لگا گیا تھا۔

”کیا۔۔۔؟؟کیا بکواس کیا کررہا ہے تُو سالے۔۔۔ہہمم۔۔۔؟؟

مطلب کیا ہے تیری اس گھٹیا بات کا۔۔۔؟؟؟

 کہ اسکی موت کے پیچھے میرا ہاتھ ہے۔۔۔۔؟؟

میری وجہ سے حرمین نے سوسائیڈ۔۔۔۔اففف۔۔۔۔

دماغ تو سیٹ ہے تیرا خبطی انسان۔۔۔؟؟؟“  

درشتگی سے گلاس ڈور دھکیل کر باہر نکلتا وہ قدرے بھڑک کر پوچھ رہا تھا۔

اس دوران اپنے مشاغل میں غرق دوسرے لوگ۔۔۔ذرا فاصلے پر کھڑے۔۔۔شام کے غصے کا بھرم رکھنے کے لیے کافی تھے۔

افروز اسکی بات کی گہرائی کوسمجھتا پل بھرکو بوکھلایا۔

”ا۔۔ارے نہیں یار۔۔۔۔تُو مجھے غلط سمجھ رہا ہے۔۔۔میں تو بس اپن۔۔ی۔۔۔۔“ 

وہ خود کی صفائی میں بولنا چاہ رہا تھا جب اپنی ہیوی بائیک کے پاس آکر رکتا۔۔۔وہ ابھری رگوں سمیت شہادت کی انگلی اٹھا کر قدرے ضبط سے گویا ہوا۔

”بات سن میری غور سے۔۔۔۔

اب تو میں تیری الزام تراشی بڑے جگڑے سے برداشت کرگیا ہوں۔۔۔

پر آئندہ اگر تُو نے یہ غلطی۔۔۔غلطی سے بھی کرنے کی کوشش کی ناں۔۔۔تو یقین جان افروز تیرا حشر بگاڑ نے میں مجھے بالکل بھی وقت نہیں لگے گا۔۔۔

میرے اثر و رسوخ سے بھی خوب واقفیت ہے تیری۔۔۔۔

سمجھ رہا ہے ناں جو میں کہنا چاہ رہا ہوں۔۔۔ہہمم۔۔۔۔؟؟“

سلگتے ہوئے تنبیہی انداز میں سمجھاتا وہ اسے کھلم کھلی وارنگ دے رہا تھا۔

اسکی صاف  دھمکی۔۔۔افروز کو سختی سے مٹھی بھینچنے پر مجبور کرگئی۔ 

”ہوں۔۔۔اچھے طریقے سے جانتا ہوں سب کچھ۔۔۔۔“  بےتاثر لہجے میں بولتا وہ مقابل کے غرور کو مزید ہوا دے گیا۔

موجودہ حالاتوں کے سبب ان دونوں کے بیچ کئی تلخیاں پنپنے لگی تھیں جس کی شام کو تو قطعاً کوئی پرواہ نہیں تھی۔۔۔پر افروز جیسے حساس بندے کے وجود میں نئے سرے سے نفرت کو ابھارنے کا کام بخوبی کر رہی تھیں۔

پر اسے فی الحال کے لیے صلح پسندی سے کام لینا تھا۔۔۔جو کہ وہ خود پر بڑی مشکلوں سے ضبط کرتا بخوبی لے بھی رہا تھا۔

”گڈ۔۔۔۔

اور میری ایک بات اچھے سے اپنے اس ناکارہ دماغ میں بیٹھا لے اب۔۔۔

حرمین زہرا اپنی فطری موت آپ مری ہے۔۔۔

خودکشی یا قتل جیسے عمل سے اسکا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے۔۔۔۔“ 

 بات کرتے ہوئے شام نے بے اختیار موبائل گھوماکر دوسری طرف لگایا۔

”اور رہی بات بدنامی کی تو جب بھگتنے والی ذات ہی زندہ نہیں رہی تو  ذلالت جیسا لفظ اسکے لیے بےمعنی ہے۔۔۔۔“  

صاف قصوروار ہوتے ہوئے بھی وہ ہر لحاظ سے اپنے آپ کو بَری الذمہ ٹھہراتا اب کہ بڑے سکون سے بول رہا تھا۔

افروز اسکی طمانیت کو محسوس کرتا بےبسی تلے گہرا سانس بھرگیا۔

”ٹھیک کہہ رہا ہے تُو۔۔۔

اینی وے آرہا ہے ناں اب۔۔۔

آفٹرل آل گزرے وقت میں تیری گرلفرینڈ رہ چکی ہے وہ۔۔۔

ایسے میں افسوس کرنا تو لازمی سی بات ہے۔۔۔۔“  شام کے لیے نئی سوچوں کے در وا کرتا وہ اسکی فوری ہاں کا منتظر تھا۔

”ہہہممم۔۔۔کوئی مناسب سا وقت دیکھ کر جاؤں گا وہاں۔۔۔چل اب فون رکھتا ہوں۔۔۔۔۔۔“  گردن کی پشت کو مسلتے ہوئے وہ کچھ توقف سے بولا۔

اس پل ذہن میں بیک وقت کئی سوچیں چل رہی تھیں۔

”اوکے پھر۔۔۔۔خدا حافظ۔۔۔۔“  افروز نرم لہجے میں گویا ہوا تو سر اثبات میں ہلاتا اگلے ہی پل وہ کال کاٹ گیا۔

پھر منہ پر ہاتھ پھیرتا بےاختیار سیاہ تار کول پر جلتی نگاہیں جما گیا۔

”آپ کو مجھ میں کیا اچھا لگا۔۔۔؟؟؟

یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں۔۔۔

میں بالکل بھی خوبصورت نہیں ہوں۔۔۔۔“  اپنی ذات کے بارے میں اس سے پوچھتی وہ اُس پل کتنی ڈگمگائی ہوئی سی لگ رہی تھی۔

”اگرتم خود کو میری نظرسے دیکھو تو اپنے آپ کو اِس دنیا کی سب سے حسین ترین لڑکی تصور کرو۔۔۔۔

اور بلاشبہ یہ سچ میرے نزدیک سب سے بڑی حقیقت کا درجہ رکھتا ہے۔۔۔“ 

سراسر جھوٹ پر مبنی خود کا جواب یاد آنے پر وہ بے ساختہ آنکھیں موند گیا۔

”ت۔۔تو یہ کہ۔۔۔میں یہ چاہ رہی ہوں۔۔۔۔

ان کے آنے سے پہلے آپ اپنے پیرنٹس کو لے کر میرے گھر آئیں۔۔۔

ماما سے اپنے اور میرے نکاح کی بات کریں۔۔۔مجھے پورا یقین ہے اسکے بعد۔۔۔“  

 ایک اور سرسراتی ہوئی نسوانی آواز اسکی سماعتوں میں گھلی۔

دل عجیب سی لے پر دھڑکنے لگا تھا۔

 ”شی از رئیلی ڈیڈ ڈیمٹ۔۔۔۔۔“  

معاً افروز کی چنگھاڑتی ہوئی آواز آس پاس بکھرتی اسکے دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ گئی۔

اگلے ہی پل وہ کچھ گھبرا کر اپنی انگارہ ہوتی آنکھیں کھول گیا۔

”حرمین۔۔۔زہرا۔۔۔۔۔“ 

 شام کے لب دھیرے سے پھڑپھڑائے تو  ناچاہتے ہوئے بھی وہ ایک بےنام سے۔۔۔بوجھ کے گہرے احساس تلے پل بھرکو خائف سا ہوا۔۔۔

آسمان میں پل پل بکھرتی تاریکیاں اسکے وجود میں بھی سیاہیاں بھرتی چلی جا رہی تھیں۔

اگلے ہی لمحے اپنی تمام تر بے معنی سوچوں کو شدت سے جھٹکتا وہ واپس سے اپنی بے حس ذات میں سمٹا تھا۔

پھر قدرے پھرتی سے ہیوی بائیک پر بیٹھ کر۔۔۔اسے اسٹارٹ کرتا وہ لمحوں میں وہاں سے نکلتا چلا گیا۔۔۔۔

********************

حلیمہ کو ہنوز کسرتی بازوؤں میں اٹھائے۔۔۔وہ کمرے میں داخل ہوکر فوری سے بیشتر بیڈ تک آیا۔۔۔

پھر بڑی نرمی سے اسے بیڈ کے ایک طرف بٹھایا۔

”تمھاری اوقات میرے اس بستر پر اپنا بسیرا جمانے کی ہرگز نہیں ہے۔۔۔

اس لیے اپنے سارے آرام سکون فقط سامنے پڑے اس صوفے تک محدود کرلینا۔۔۔

اب سے یہی تمھاری مستقیل آرام گاہ بنے گی۔۔۔

بالکل تمھاری اوقات کے برابر۔۔۔۔۔“

 یک لخت سماعتوں میں اترتے زہرخند لہجے نے حلیمہ کو گداز بستر پر بیٹھنے سے شدت سے روکا۔۔۔

تو اس نے بےاختیار وہاں سے ہٹنے کی کوشش کی۔

”خان پلیز مجھے صوفے پر۔۔۔۔“ 

سپاٹ لہجے میں گزارش سمیٹتی وہ بولنا چاہ رہی تھی جب سالار خان اسکے ارادے بھانپتا۔۔۔سرعت سے اسکے اٹھنے کی کوشش کو ناکام بنا گیا۔

”بیٹھووو یہاں۔۔۔۔۔

اور صرف اتنا بتاؤ کہ اس وقت ذیادہ درد کہاں ہورہا ہے۔۔۔؟؟؟“ 

 اسکے قریب بیٹھتا وہ بلاجھجک اسکے کومل پیر کو بڑی آسانی سے اپنی نرم گرفت میں لے چکا تھا۔

مقابل کی ایک کے بعد ایک عنایت کرتے چلے جانے پر حلیمہ کے دل کی دھڑکنیں شور مچاتی بکھرنے سی لگیں۔

”دل میں۔۔۔۔۔“ 

 جواب۔۔قدرے بے خودی میں پنکھری لبوں سے پھسلا تو سالار خان نے کچھ تنفر سے بھنویں اچکا کر اسکی جانب دیکھا۔

”جب یہ دل بار بار حدود سے باہر پھلانگنے کی گستاخیاں کرے گا تو بدلے میں خوشگوار انجام کی توقع رکھنا فقط بےوقوفی ہوگی۔۔۔

مت بھولو کہ زبردستی کی شادیوں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔۔۔

دل کو اذیت ملتی ہے۔۔۔۔

اور بار بار ملتی ہے۔۔۔

تمھارے لیے بہتر یہی ہے کہ عشق میں مجھے ڈیفیٹ دینے کی ناکارہ کوششیں چھوڑ دو۔۔۔۔

اس سے تمھیں کچھ حاصل نہیں ہونے والا۔۔۔۔کچھ بھی نہیں سوائے ایک پچھتاوے اور بےتحاشہ خسارے کے۔۔۔۔“ 

 اسے اپنے سرد ترین لفظوں کے جال میں پوری طرح پھنساتا وہ اگلے ہی پل اسکے پیر کو زور کا جھٹکا دے چکا تھا۔

معاً حلیمہ کے حلق سے پھوٹتی درد بھری چیخ پورے کمرے میں بکھرتی چلی گئی۔

”آاا۔۔اا۔۔۔ہ۔۔۔خاااان۔۔۔۔“ 

 بلبلاکر اسے پکارتے ہوئے کتنے ہی آنسو اس کے سرخی گھلے نرم گالوں پر پھسلے تھے۔

نرمی کے بعد اس قدر بےحسی کی توقع وہ مقابل سے ہرگز نہیں کر رہی تھی۔

اسے نم شکوہ کناں نگاہوں سے اپنی جانب تکتا پاکر سالار خان کے لبوں پر پل بھر کو مسکراہٹ سی بکھر گئی۔

”آگے سے دھیان رکھنا۔۔۔۔

ضروری نہیں کہ اگلی بار بھی میری ہی مدد  تمھارے حصے میں آئے۔۔۔۔“ 

 نگاہوں میں ابھرتے تمسخر کو دبائے بنا وہ مزید وہاں رکا نہیں تھا۔

اسے وہاں سے جاتا دیکھ حلیمہ کو شدت سے رونا آیا۔

معاً اسنے جذباتی پنے میں اپنے پیروں کو گھسیٹ کر بیڈ سے نیچے اتارا  تھا۔

پر۔۔۔پر یہ کیا۔۔۔؟؟

وہ بری طرح چونکی۔

پاؤں میں اب وہ پہلے جیسا درد نہیں رہا تھا۔

متاثرہ حصے کو بے یقینی سے چھوتی وہ اگلے ہی پل پیر کو دائیں بائیں حرکت دینے لگی۔

بل نکل چکا تھا۔

بھیگی آنکھوں سمیت مسکراتے لب حلیمہ کو  سالار خان کی مزید ایک نئی عنایت کا احساس دلاگئے۔

تو گویا درد کی آڑ میں وہ اسے حقیقی سکون دے گیا تھا۔

ہاں اسکا انداز منفرد تھا۔۔۔

پر حقیقتاً جانلیوا تھا۔۔۔۔

اس نے آہستگی سے اپنے آنسو صاف کیے۔

”مجھے اس دن کا شدت سے انتظار ہے خان جب آپ اپنی اس وقتی بے حسی کا چولا خود پر سے اتار پھینکیں گے۔۔۔۔

اور پھر انہی آنکھوں میں پرواہ کے ساتھ ساتھ جلتے۔۔۔محبت کے دیے قابل دید ہوں گے۔۔۔

جس پر فقط میرا حق ہوگا۔۔۔۔فقط حلیمہ سالار خان کا حق۔۔۔۔“

شدتوں سے دھڑکتے دل پر ضبط کیے بنا خود سے مخاطب ہوتی وہ ہر لحاظ سے پریقین ہوئی۔

اس قدر پریقین کہ۔۔۔۔دور کہیں قسمت اسکی خوش فہمیوں پر اداسی سے مسکرائی تھی۔۔۔۔

”دیکھیں ناں اپیہ نے خود کشی کرلی ہے۔۔۔و۔۔وہ ایسا انتہائی قدم اٹھانے کی سوچ بھی کیسے سکتی ہیں۔۔۔؟؟“  

قدرے کونے میں دیوار کے ساتھ سر ٹکائے ساکت سی بیٹھی۔۔۔وہ اتنے لوگوں کے بیچ ہوکر بھی وہاں موجود نہیں تھی۔۔۔جب اپنا ہی روتا بلکتا استفسار اسکی سماعتوں میں زہر بن کر اترا۔

”حرمین زہرا کی فطری موت کو خودکشی کا نام مت دو۔۔۔۔

ہارٹ اٹیک کے نتیجے میں آنے والی موت۔۔۔خودکشی نہیں ہوا کرتی۔۔۔۔“  

معاً آس پاس بکھرتی۔۔۔نفیسہ بیگم کی آنسوؤں میں بھیگتی کمزور ترین آواز اسکا دل بھی کمزور کرگئی تھی۔

فقط۔۔۔اپنی مری ہوئی اولاد کو مزید بدنامی سے بچانے کی خاطر وہ کس مہارت سے دوطرفہ گناہوں کی پردہ پوشی کرگئی تھیں۔۔۔

کسی غیر مری نقطے پر ہنوز جمی حاویہ کی بھوری نگاہیں دھندلاگئیں۔

بلاشبہ نفیسہ بیگم کی بےجا دوراندیشی اسکا نازک وجود پل پل سلگائے دے رہی تھی۔

بھلا آسان تھا کیا۔۔۔؟؟

گھر کی دہلیز پھلانگتے بہن کے جنازے پر شدت سے ماتم کناں ہونا۔۔۔

وقت بے وقت غم کھاتی ماں کی۔۔۔بگڑتی سدھرتی حالت پر عجیب وحشتوں کا شکار ہوجانا۔۔۔

اور۔۔۔اور دن کے اجالوں کے برعکس۔۔۔

رات کی گہری تنہائیوں میں اس نازک وجود کی جان نکالتی محرومیوں سے آشنا ہونا۔۔۔۔

بےاختیار لانبی نم پلکیں جھپکانے پر شفاف آنسو ٹوٹ کر اسکے تپتے گالوں پر پھسلے۔

کچھ بھی تو آسان نہیں تھا۔۔۔

لیکن اتنا کچھ غلط کردینے کے باوجود بھی وہ ایک مجرم آسانیوں میں گھرا ہنوز آزاد تھا۔

شاہ میر حسن۔۔۔۔عائل حسن کا بھائی۔۔۔۔

بظاہر وہ جس قدر خاموش تھی اندر اتنے ہی چیختی وحشتوں کے طوفان امڈ رہے تھے۔

یہ اذیت دیتی حقیقتیں جانلیوا ہی تو تھیں۔

حاویہ نے بے اختیار دکھتی کنپٹیوں کو مسلا۔

”بتاؤ بھلا۔۔۔۔

جوان جہان بچی یونہی اللہ کو  پیاری ہوگئی۔۔۔

کیا بیت رہی ہوگی اسکی ماں پر۔۔۔۔۔؟؟چہ چہ۔۔۔“  

سوئم پر۔۔۔محلے سے آئی چند عورتوں میں سے ایک نے۔۔۔

سامنے سمٹ کر بیٹھی نفیسہ بیگم کو نم پلکیں جھپکا جھپکا پارہ پڑتے دیکھا تو بے اختیار اپنی ساتھ والی سے اظہارِ افسوس کیا۔

”اور چھوٹی بہن۔۔۔۔۔

باپ کے سائے سے تو پہلے ہی محروم تھی اب مستقیل بڑی بہن بھی بچھڑگئی۔۔۔بیچاری۔۔۔۔“ 

قریب پڑی میز پر پارہ رکھتی وہ بھی برابر لب کشائی کرنے پرآئی۔

”کہنے کو تو یہ لڑکی اپنی فطری موت مری ہے۔۔۔لیکن جانے کیوں مجھے یقین نہیں آتا۔۔۔؟؟ 

 اب کہ پہلی والی خاتون پل بھر کو جھجک کر محتاط ہوتی۔۔۔معاملے کی گہرائی کریدنے پر آئی تو بمشکل سماعتوں کو چھوتی ان کی باتیں ذرا سے فاصلے پر بیٹھی حاویہ کو چونکا گئیں۔

”ہائیں۔۔۔مطلب۔۔۔؟؟؟“ 

وہ حیران ہوئی۔۔یا پھر شاید بننے کی بھونڈی کوشش کی گئی تھی۔

”یونہی چلتے پھرتے کانوں میں خبر پڑی ہے کہ اسکے لچھن کچھ ٹھیک نہیں تھے۔۔۔۔لڑکے والوں نے خود گھر آکر رشتہ توڑا تھا۔۔۔۔

ایک عدد چنگے بھلے منگیتر کے ہوتے ہوئے بھی پڑھائی کی آڑ میں کسی اور ہی امیر زادے کے چکروں میں پھنس گئی تھی محترمہ۔۔۔۔“  

حاویہ کی آگاہی سے ہنوز بے خبر وہ صاف زہر اگلنے پر آئی۔۔۔تو جہاں دوسری خاتون نے دیدے پھاڑ کے بے اختیار اللہ توبہ کی تھی وہیں حاویہ ضبط کے مارے لب بھینچتی سرخ پڑی۔

”ارے یہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔میں نے اپنی ان گنہگار آنکھوں سے خود اس حجابن کی ایک نہایت قابل اعتراض ویڈیو بھی دیکھ رکھی ہے۔۔۔“

  کچھ لحاظ کرتی وہ بےاختیار اپنی آواز دھیمی کرگئی۔

”بڑی ہی کوئی نازیبا حالت  میں سکون سے آنکھیں موندے۔۔۔ کسی غیر مرد کے بستر کی زینت بنی ہوئی تھی۔۔۔

پر وہ مرد کون تھا بدقسمتی سے یہ کسی کو بھی معلوم نہیں ہوا۔۔۔۔؟؟؟“ 

اسکی حیرتوں سے لطف لیتی وہ خاصا مرچ مصالحہ لگاتے ہوئے مزید گویا ہوئی۔۔۔تو ان سچی لب کشائیوں پر جہاں دوسری خاتون نے اب کہ باقاعدہ اپنے سنسناتے کانوں کو چھوا وہیں گہرے سانس بھرتی حاویہ کا دم گھٹنے لگا۔

اگلے ہی پل اس نے گردن موڑ کر قدرےنفرت سے ان دو عورتوں کی جانب دیکھا جو ذرا الگ تھلگ  بیٹھ کر۔۔۔۔قرآنی پڑھائی کے فوری بعد صاف چغلیوں پر اتر آئی تھیں۔

”توبہ ہے بہن توبہ۔۔۔۔

صحیح کہتے ہیں لوگ۔۔۔۔

جن لڑکیوں کے سر سے باپ کا تحفط بھرا سایہ اٹھ جاتا ہے ناں۔۔۔تو پھر اُنھیں ماں کی بےجا سختیاں بھی باغی ہونے سے روک نہیں پاتیں۔۔۔۔“ 

جھرجھری لے کر بات کرتے ہوئے معاًاسکی نگاہیں۔۔۔اپنی ہی جانب متوجہ حاویہ پر پڑیں تو بےاختیار ہڑبڑاتی وہ ساتھ والی کو ٹہوکا دے گئی۔

اس نے بھی چونک کر حاویہ کی جانب دیکھا جو بگڑے تیوروں سے گال رگڑ کر اٹھتی اب کہ انہی کی جانب بڑھی تھی۔

اس سے پہلے کہ وہ دل میں مچلتی بھڑاس ان پر انڈیلتی۔۔۔معاً نفیسہ بیگم کو پڑتا کھانسی کا شدید دورہ سب کی توجہ پل میں اپنی جانب کھینچ گیا۔

 جہاں پاس بیٹھی عورتوں نے انھیں سنبھالتے ہوئے پاس رکھا پانی فوراً اٹھا کر پلایا تھا وہیں حاویہ بھی ان کی فکر میں سب کچھ بھولتی۔۔۔مطلوبہ سیرپ لینے کو کمرے سے باہر بھاگی۔۔۔۔

*******************

تجھے نہیں لگتا مدد کے نام پر یہ پیسے تو فضول میں اپنے ساتھ لایا ہے۔۔۔؟؟

اگر انھوں نے اپنی خودار طبیعت کے آگے تیری اس ہمددردی کو صاف ٹھکرا دیا تو پھر تجھے ہی گراں گزرے گا بتا رہا ہوں۔۔۔۔“

اس وقت وہ تینوں ادھ کھلا گیٹ کھول کر اندر آئے تھے جب شام کے ساتھ چلتے ہوئے فواد نے بلا جھجک اسے اسکی بےجا ہمدردی کا احساس دلانا چاہا۔

جواب میں شام نے رک کر اسے ناگواری سے گھورا۔

”جب حالات بد سے بدترین ہوجائیں ناں۔۔۔

تو انسان جتنا بھی خودار سہی۔۔۔مجبوریوں کے بوجھ تلے اسکی انا ایک بار ضرور ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوتی ہے۔۔۔

اور اس وقت سیم یہی حالات ان لوگوں کے بھی ہیں جن سے وقتی ہمدردی جتانے کی خاطر میں یہاں آیا ہوں۔۔۔

سو تُو اپنی فضول فکر اپنے پاس سنبھال کے رکھ۔۔۔۔سمجھا۔۔۔۔“  

سرد لہجے میں بولتا وہ اگلے ہی پل اندر کی جانب بڑھ گیا تو فواد۔۔۔افروز کی جانب دیکھ کر لاپرواہی سے کندھے اچکاتا اسکے پیچھے لپکا۔۔۔

وہ بھی اس کے ڈھیٹ پنے پر تاسف سے سر جھٹکتا ان دونوں کی تقلید میں چل پڑا۔

کمرے سے آتی خواتین کی مدھم آوازیں انھیں حال کے بیچ و بیچ رکنے پر مجبور کرگئیں۔

”حالت تو دیکھو ذرا اس چھوٹے سے مکان کی۔۔۔۔

جانے کیسے یہ لوگ اتنے سکون سے یہاں رہ لیتے ہیں۔۔۔۔؟؟؟

سریسلی۔۔۔میرا تو ابھی سے دم گھٹنے لگا ہے۔۔۔۔۔“  

پہلے کی نسبت بڑھی کلین شیو پر انگلیاں پھیرتا شام قدرے حقارت سے بولا۔

غرور گھلی بھوری نگاہیں اطراف میں دوڑاتے ہوئے۔۔۔ایک بےنام سی وحشت نے اندر کہیں دھیرے سے سر اٹھایا تھا۔

جواب میں اسکے لفظوں سے رضامندی جتاتے۔۔۔وہ دونوں بھی چار دیواری کو عدم دلچسپی سے دیکھتے سر کو جنبش دے گئے۔

ایسے میں سیرپ پکڑ کر کچن سے باہر نکلتی حاویہ نے ٹھٹک کر حال میں کھڑے ان تین نفوس کو دیکھا تو۔۔۔ شام پر نگاہیں پڑتے ہی وہ اپنی جگہ ساکت ہوئی۔

سرخائی گھلی نم نگاہوں میں اترتی شناسائی پانی میں آگ لگنے کے برابر ہی تو تھی۔۔۔

تصاویر سے کہیں ذیادہ حقیقت میں وہ اسے زہر لگا تھا۔

”وہ دیکھ سامنے۔۔۔۔

لگتا ہے یہ حرمین کی بہن۔۔۔یاں پھر رشتے دار میں سے کوئی ایک ہے۔۔۔۔“  

معاً افروز کی سامنے اٹھتی نگاہیں ہنوز وہیں جم کے کھڑی حاویہ پر پڑیں۔۔۔تو اگلے ہی پل وہ ان دونوں کی توجہ بھی اسکی جانب مبذول کرواگیا۔

”وہ تو ٹھیک ہے۔۔۔پر یہ ہمیں ایسے کیوں گھور رہی ہے یار۔۔۔۔؟؟؟ 

 فواد بغور اسکے تاثرات کھوجتا کچھ چونک کر بولا تھا۔

”ہمیں نہیں۔۔۔۔

صرف مجھے۔۔۔۔

پر کیوں۔۔؟؟یہ تو فی الحال میں بھی نہیں جانتا۔۔۔۔“  

اسے یوں بھیگی نگاہوں سے یک ٹک اپنی جانب تکتا پاکر شام آہستگی سے فواد کی تصحیح کرتا بظاہر ہولے سے مسکرایا۔۔۔

پر ہوش میں آتی حاویہ کے اگلے لائحہ عمل پر اسکے لبوں کی دلکش مسکراہٹ پلوں میں سمٹتی چلی گئی۔

”یہاں کیسے آئے ہو تم۔۔۔؟؟؟

ہمت۔۔۔۔ہمت کیسے ہوئی تمھاری یہاں آنے کی۔۔۔؟؟؟“

 سیرپ کی شیشی ہنوز سخت گرفت میں دبوچے۔۔۔۔وہ قدم قدم چل کر اسکے مقابل آتی قدرے حیرت سے پوچھ رہی تھی۔

جواباً اسکے بگڑے تیوروں پر چونک کر جینز کی پاکٹس سے ہاتھ نکالتا وہ بھی حددرجہ سنجیدہ ہوا۔

”کیسے کا کیا مطلب۔۔۔۔؟؟

ظاہر سی بات ہے حرمین زہرا کی ڈیٹھ ہوئی ہے۔۔۔

اور میں۔۔۔۔۔“

موقعے کی مناسبت سے وہ ناچاہتے ہوئے بھی پرسکون لہجے میں بات کو سمیٹنا چاہ رہا تھا جب شہادت کی انگلی اٹھاتی وہ ایکدم سے چٹخ گئی۔

”نام مت لینا اپنی اس گندی زبان سے میری بہن کا۔۔۔۔

اسکی سانسیں چھین کے تمھارے سفاک سینے میں سکون نہیں اترا۔۔۔

جو اب اسکی موت پر اپنے دوستوں کے ساتھ۔۔۔دکھاوے کا یہ جھوٹا ڈھونگ رچانے یہاں چلے آئے ہو تم۔۔۔؟؟؟“  

تڑخ کر پوچھتے ہوئے حاویہ کو اپنی آواز میں گھلتی نمی صاف محسوس ہوئی تھی۔۔۔

جبکہ اس کے چونکا دینے والے سلگتے لفظوں پر مقابل کی پیشانی پر شدت سے تیوریاں چڑھیں۔

افروز سمیت فواد نے بھی اس چھٹانک بھر کی لڑکی کا بھڑکتا لہجہ قدرے حیرت سے ملاحظہ کیا تھا جس کی نرم گالوں پر آنسو لڑھک آئے تھے۔

”اب تم حد سے بہت آگے بڑھ کے بات کررہی ہو۔۔۔

مانتا ہوں کہ تمھاری جوان بہن اپنی فطری موت مری ہے۔۔۔

جس کا تمھیں بہت صدمہ بھی ہے۔۔۔

مگر اس صدمے میں پاگل پن کی ساری حدیں پار کرجانا بالکل بھی مناسب نہیں لگتا۔۔۔۔

بہتر یہی ہے کہ اپنی بلاوجہ کی الزام تراشیاں بندکردو۔۔۔ورنہ اسکا انجام بھگتنا تمھاری نازک جان پر بہت بھاری پڑسکتا ہے۔۔۔ہہمم۔۔۔۔“  

اسکے نازک رعب میں آئے بنا وہ سختی سے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچتا۔۔۔کرخت لہجے میں بولا۔

بھوری نگاہوں میں گھلتی سرخی اسکے ضبط کا پتا دے رہی تھی۔

اس رات افروز کی کہی بات کے بعد سے۔۔۔وہ اس موضوع کو سوچنے سے بھی کترا رہا تھا۔۔۔اور یہ جذباتی لڑکی اسی کو منظرِعام پر لانے کے لیے شدت سے کوشاں تھی۔

مقابل کی اس کھلم کھلی دھمکی پر  ضبط کی طنابیں چھوڑتی حاویہ بےاختیار اس پر جھپٹی۔

اس دوران سیرپ کی شیشی کا ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گرنا بے ساختہ تھا۔

”بلاوجہ کی الزام تراشیاں ہرگز نہیں ہیں یہ۔۔۔۔

قاتل ہو تم میری بہن کے۔۔۔

سب سے بڑے مجرم ہو تم۔۔۔۔

تمھاری ہوس نے پہلے اسکی عزت برباد کی پھر اسکی ذات اور آخرت۔۔۔۔

نہیں چھوڑوں گی میں تمھیں شاہ میرحسن۔۔۔

کسی بھی صورت نہیں چھوڑوں گی۔۔۔۔

تمھیں تمھارے اپنے ہی بھائی کے ہاتھوں پھانسی کے پھندے تک پہنچاؤں گی۔۔۔تم دیکھنا۔۔۔۔۔“  

مٹھیوں میں گریبان دبوچ کر چیختی۔۔۔وہ اپنے زہر تلے مقابل کا دماغ بھک سے اڑا گئی تھی۔

”او جسٹ شٹ اپ یُو سائیکو۔۔۔۔“

اس قدر جرات کے سبب اسکے لرزتے وجود کو نظرانداز کرتا شام۔۔۔۔ بےاختیار اسکی کلائیاں مٹھیوں میں دبوچ کر مشتعل سا اسے پیچھے دھکیل چکا تھا۔

حاویہ کی اس بےساختگی میں اسے حقیقتاً حرمین زہرا کی ایک جھلک  دیکھائی تھی۔۔۔جبھی کسرتی وجود میں شرارے سے دوڑنے لگے۔

”میں تب سے شرافت کا مظاہرہ کررہا ہوں اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ تم اب میرے ساتھ صاف فضول گوئی پر اتر آؤ۔۔۔۔

ہمدردی ہے مجھے جو کچھ بھی تمھاری بہن کے ساتھ ہوا ہے۔۔۔

لیکن میری اس ہمدردی کو جرم سمجھ کر اگر تم  مجھے سرعام ذلیل کرنے پر آؤ گی۔۔۔۔تو میں تمھارا یہ گھٹیا پن قطعاً برداشت نہیں کروں گا۔۔۔۔“  

اپنے اندر کی کھولن کو لفظوں میں بہاتا وہ اسکی جانب انگلی اٹھائے۔۔۔طیش زدہ سا بولا۔۔۔

تو جہاں فواد سمیت افروز نے حالات کی سنگینی کے باوجود بھی ان کے بیچ آنا فی الوقت مناسب نہیں سمجھا تھا وہیں اس ابھرتے ہنگامے پر دو چار عورتیں تجسس کے مارے کمرے سے باہر دروازے پر نکل آئیں۔

گہرے سانسوں کے بیچ۔۔۔اترے دوپٹے کو واپس سر پر لیتی حاویہ بے خوف سی ایک بار پھر اسکے مقابل آئی۔

مٹھیاں بھینچ کر کھڑا۔۔۔شام شعلہ بار نگاہوں سے اسی کی جانب دیکھ رہا تھا۔

یہ تھی اسکے بھائی کی پسند۔۔۔؟؟؟

اس قدر پست۔۔۔کہ جس کی محبتوں میں وہ دن رات پگھلتا چلا جارہا تھا۔۔۔۔؟؟؟

شام کو شدتوں سے اس لڑکی سے نفرت ہوئی تھی۔

”فقط ایک محبت کا ہی جرم کیا تھا ناں اس نے۔۔۔

محبت بھی وہ جو ہرلحاظ سے مخلص تھی۔۔۔۔

پر تم نے کیا کیا۔۔۔؟؟؟

اس جرم کی سزا میں اسکی سانسیں ہی چھین لیں۔۔۔؟؟

ذرا سا بھی رحم نہیں آیا تھا تمھیں اس پر۔۔۔۔؟؟“ 

سسک کر پوچھتی وہ اس بار قدرے دھیمی آواز میں بولی تھی۔

اگر جو نفیسہ بیگم کی طبیعت اور کہی باتوں کا خیال نہ ہوتا اسے تو اس پل حقیقتاً وبال کھڑا کردیتی۔

شام نے ناسمجھی سے اپنی جانب تکتی خواتین پر پل بھر کو ایک ضبط بھری نگاہ ڈال کر بے اختیار اپنے سرخ چہرے پر ہاتھ پھیرا۔

وہ سب فاصلے پر کھڑی یقیناً ان کی دھیمی گفتگو سے ہنوز بےبہرہ تھیں۔۔جبھی ایک دوسرے سے چہ مگوئیوں پر اتر آئیں۔

”لیسن حاویہ فیضان۔۔۔۔

میں نے کچھ برا نہیں کیا۔۔۔

کچھ بھی نہیں۔۔۔

اس لیے یہاں میرے خلاف کوئی بھی تماشہ کری ایٹ کرنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے تمھیں۔۔۔۔

ہہمم۔۔۔۔۔“  

دھیرے سے۔۔۔ دانت پیس کر بولتا وہ ہرلحاظ سے انکاری تھا۔۔۔ورنہ دل تو اس پل اسے زمین پر پٹخنے کو چاہ رہا تھا۔

حاویہ بھیگے رخسار صاف کرتی دھیرے سے نفی میں سر ہلاگئی۔

پھر براہ راست اسکی جلتی نگاہوں میں جھانکا۔

”تم نے فقط برا نہیں۔۔۔

بہت برا۔۔۔بلکہ بدترین کیا ہے شاہ میر حسن۔۔۔

جس کا خوف اس وقت تمھاری ان آنکھوں میں صاف تیر رہا ہے۔۔۔

پر تم اعتراف کرنے سے ڈرتے ہو۔۔۔

ڈرتے ہو کہ کہیں تمھارے گھناؤنے کرتوت کھل کر سب کے سامنے نہ آجائیں جس کے سبب میری بہن خود کشی جیسا ناقابلِ برداشت فعل کرنے پر مجبور ہوئی تھی۔۔۔۔“  

مضبوط لفظوں کی حقیقی مار مارتی وہ اس پل صحیح معنوں میں اسکا سفاک دل خوف تلے دھڑکاگئی تھی۔

لفظ ”خودکشی“ پر بیک وقت تینوں کا ردِعمل قابل دید تھا۔

اس واضح انکشاف پر جہاں فواد کی حیرت میں شام کے لیے فکر گھلی تھی وہیں قریب کھڑے افروز کے دل کو جانے کیوں ایک کمینی سی خوشی نے گھیرے میں لیا تھا۔۔۔۔

”آخر یہاں ہو کیا رہا ہے۔۔۔؟؟؟

اور یہ لوگ کون ہیں۔۔۔کوئی کچھ بتائے گا ہمیں بھی۔۔۔۔؟؟؟“ 

 ان میں سے ایک عورت نے بلا جھجک آگے بڑھ کر پوچھا تھا۔ 

اس دوران نفیسہ بیگم اپنی ذرا ذرا سنبھلی طبیعت کے سبب ہنوز کمرے میں موجود تھیں۔

”ہم حرمین کے یونی فیلوز ہیں اور اسی کا افسوس کرنے یہاں آئے تھے۔۔۔۔۔

آئی تھنک اب ہمیں یہاں سے چلنا چاہیے شام۔۔۔۔

یہ نہ تو مزید بات چیت کرنے کا مناسب وقت ہے اور نہ ہی مناسب جگہ۔۔۔۔

کم آن مین۔۔۔بڑی ہوگئیں ہمدردیاں۔۔۔۔شرافت سے نکل چلتے ہیں یہاں سے۔۔۔“  

 ان بڑھتی عمر کی خواتین کو مطمئن کرنے کی غرض سے سرسری سی وضاحت دیتا فواد اگلے ہی پل شام کو جھنجھوڑ کر سرگوشی نما آواز میں گویا ہوا۔۔۔تو شام نے چونک کر اسکی فکر دیکھی۔

”اچھا ایسا ہے۔۔۔۔

فی الحال تو نفیسہ بہن کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔۔۔پر اگر تم لوگ چاہو تو ان سے بھی حرمین کا افسوس کرتے ہوئے جانا۔۔۔۔“  

ان کی اچھی بھلی ظاہری حالت سے مرعوب ہوتی وہ قدرے نرم لہجے میں بولی تو محلے کی۔۔۔۔اس عورت کی مداخلت جہاں جھک کر نیچے گری شیشی اٹھاتی حاویہ کو شدید ناگوار گزری تھی وہیں شام نے ضبط سے سر جھٹکا۔

اس دوران دوسری خواتین کوئی غیرمناسب تماشہ ہوتا نہ دیکھ واپس کمرے میں پلٹ گئی تھیں۔

”افسوس ہوچکا خالہ۔۔۔۔

اب یہ لوگ یہاں سے جارہے ہیں۔۔۔۔“  سیدھی ہوتی وہ سپاٹ لہجے میں بولتی ہوئی نئے سرے سے انکی توہین کرگئی تھی۔

اسکے انداز پر ناچاہتے ہوئے بھی افروز کے بھینچے لبوں پر پل بھر کو مسکراہٹ مچلی جس سے قطعی انجان۔۔۔شام ضبط کھوتا بے اختیار اسکے قریب ہوا۔

حاویہ نے لب بھینچ کر نفرت سے اسکی جانب دیکھا۔

”چاہے جتنی مرضی خوش فہمیاں اپنے اندر پال لو حاویہ فیضان۔۔۔

 پر مجھے کسی  بھی صورت حرمین زہرا کا مجرم نہیں ٹھہرا پاؤ گی تم۔۔۔

ہاں البتہ اپنے لیے دشواریاں ضرور بڑھا لو گی۔۔۔

ان شارٹ کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی تم میرا۔۔۔۔

اور بلاشبہ یہ حقیقت تمھاری سب خوش فہمیوں پر پانی پھیرنے کے لیے کافی ہے۔۔۔۔“ 

 اب کہ بنا اطراف کا لحاظ کیے۔۔۔۔مدھم سلگتے لہجے میں اپنا زہر اسکی سماعتوں میں انڈیلتا وہ مزید وہاں رکا نہیں تھا۔

آدھی ادھوری گفتگو سن کر بھی پاس کھڑی عورت نے قدرے ناسمجھی سے حاویہ کو دیکھا جس کی دھندلائی نگاہوں میں ان تینوں کو آگے پیچھے وہاں سے نکلتا دیکھ قہر ہلکورے لینے لگا تھا۔۔۔۔

اس کے برعکس اپنی جرات پر ہنوز لرزتے دل نے پل میں ایک قطیعت بھرا فیصلہ کیا تھا۔۔۔۔ایسا فیصلہ جس کے انجام کی حقیقتاً اسے کوئی پرواہ نہیں تھی۔۔۔۔۔

”یا خدا۔۔۔۔۔

میری سانسیں۔۔۔۔۔“ 

 قدرے سختی لفٹ کا سٹیل سٹینڈ دبوچے۔۔۔وہ حجاب کے اوپر سے سینہ مسلتی گہرے گہرے سانس بھر رہی تھی۔

وجود میں کھلبلی مچاتی بے چینیوں  کی وجہ وہاں موجود اُس گارڈ کی نگاہوں کا خباثت زدہ ارتکاز تو تھا ہی۔۔۔۔

البتہ اس سے بھی کہیں ذیادہ بےسکونی کا سبب فرسٹ فلور کو اترتی لفٹ کا تقریباً پندرہ منٹ سے اٹکا ہوا ہونا تھا۔

ایسے میں بند لفٹ میں بکھرا ملگجا سا اندھیرا آبرو کی سانسوں میں گھلتی گھٹن کو مزید بڑھائے چلا جارہا تھا۔

”آخر کو تم کچھ کرتے کیوں نہیں ہو۔۔۔؟؟؟

ک۔۔کسی کو تو مدد کے لیے بلاؤ۔۔۔۔۔

کوئی تو حل تلاشو۔۔۔

م۔۔میں اس گھٹن زدہ ماحول کو مزید برداشت نہیں کرپارہی ہوں۔۔۔۔۔“ 

 یک لخت گارڈ کی جانب پلٹتی وہ گھٹا گھٹا سا چیخی تو اسے یوں شدت سے ملتجی ہوتا دیکھ وہ قدرے لاپرواہی سے کندھے اچکا گیا۔

”ارے میڈم آپ بھی کیا عجیب باتیں کرتی ہیں۔۔۔

ذرا یادداشت پر کھل کے زور ڈالیں۔۔۔

بالکل ابھی۔۔کچھ لمحے  پہلے ہی تو ہم دونوں مدد کی غرض سے ڈھیروں آوازیں لگا کر فارغ ہوئے ہیں۔۔۔

اور تو اور سٹیل کی اس ڈھیٹ دیوار کو فضول میں پیٹ پیٹ کے اپنی ہتھیلیاں بھی خاصی سرخ کرچکے ہیں۔۔۔۔

اب اور کیا کیا جتن کروانا چاہ رہی ہیں آپ مجھ سے۔۔۔۔؟؟؟

  گارڈ کے لاپرواہ سے بدلے ہوئے تیور آبرو کی گہری نیلی نگاہوں کو مزید بھگو گئے۔۔

مقابل کی طمانیت۔۔۔اس پر مستزاد مسکاتی ہوئی شریر آواز۔۔۔

اسکی بد نیتی کی صاف عکاسی کرنے کے درپے تھی۔

اور ہوتی بھی کیوں ناں۔۔۔

بند چار دیواری۔۔۔

نیم تاریکی میں میسر حسین دوشیزہ کی تنہائی۔۔۔

اچھے اچھوں کی نیت میں کھوٹ گھولنے کو کافی تھی۔۔۔

مزید وہ خود کے پاس موبائل فون کی موجودگی سے بھی جانتے بوجھتے صاف انکاری ہوگیا تھا۔۔

آبرو کو تو کم از کم یہی سب محسوس ہوا تھا۔

اس کی چالاکیوں پر لعنت بھیجتی اگلے ہی پل وہ قدموں میں پڑی فائلز کو روندتی ہوئی سٹک دروازوں کی جانب لپکی۔

”کوئی ہے۔۔۔۔؟؟

پلیز کھولو اسے۔۔۔۔

ہم یہاں پھنس چکے ہیں۔۔۔۔

مدد کرو ہماری۔۔۔۔۔

سنو۔۔۔کوئی تو سنوووو۔۔۔۔۔۔“  

پوری قوت سے چیخ کر ملتجی ہوتی وہ بےساختہ چہرے کے گرد کسا سرمئی رنگ حجاب کھینچ کے ڈھیلا کرگئی۔

یہ اسکی بد قسمتی ہی تو تھی جو اپنی حددرجہ لاپرواہی کے سبب وہ آج کے دن بھی اپنی مطلوبہ ادوایات نہیں لے پائی تھی۔

اور نتیجہ اب کہ  پل پل بگڑتے تنفس پر بھاری پڑ رہا تھا۔

خود کی بےبسی پر آنسو سرعت سے اس کے گلابیت گھلے رخساروں پر لڑھک آئے۔

اس دوران قدرے بھونڈی ادا سے بالوں میں ہاتھ پھیرتا گارڈ اسکی حالت پرمسکرایا۔

نیت میں فتور بڑھ رہا تھا۔

گہری سانسوں کے بیچ سٹیل کی شفاف سطح پر ہاتھ مارتی وہ ہنوز ملتجیانہ انداز میں پکار رہی تھی جب اسکی ناکام کوششوں کو یکدم حلق سے پھوٹتی ہچکیوں نے بے دم کیا۔

”ہہ۔۔۔ہ۔۔۔ہہ۔۔ہ۔۔۔۔“  

وقفے وقفے سے نکلتی ہچکیوں نے طول پکڑا۔۔۔ تو خود پر سے ضبط کھوتا گارڈ آگے بڑھ کر اس کی کلائی دبوچتا اپنی جانب گھوما گیا۔

اسکی غیرمتوقع ہمت آبرو کو شدت سے بوکھلانے پر مجبور کرگئی۔

”یہ کیا بدتمیزی ہے۔۔۔۔؟؟

ہہ۔۔۔ہ۔۔۔

ت۔۔تمھاری ہمت کیسے ہوئی مجھے چھونے کی۔۔۔۔چھوڑو میرا ہاتھ۔۔۔۔

ہہ۔۔۔ہ۔۔۔۔۔“ 

 ہچکیوں کے بیچ بھڑک کر بولتی وہ اپنی سرخ ہوتی کلائی اسکی سخت گرفت سے چھڑوانے پر آئی۔۔۔تو وہ مزید پھیلتا دوسرا بازو بھی اس کے لرزتے وجود کے گرد حمائل کرگیا۔

”چھوڑنے چھڑانے کی باتیں کرکے کیوں ہماری تنہائی کے ان حسین پلوں کوخراب کرنے پر تلی ہو ظالم حسینہ۔۔۔؟؟؟

ایسا ضروری تو نہیں ہے کہ ہر بار شاہ ہی یہ کومل ہاتھ پکڑ کر تمھارے لمحوں کو حسین بنائے۔۔۔۔۔

امیدوں پر پورے اترنے والے بندے ہیں۔۔۔کبھی ہمیں بھی موقع دے دیا کرو۔۔۔۔“

 انتہائی لوفرانہ انداز میں کہتا وہ آبرو کی بپھری سانسوں کو سلگا ہی تو گیا تھا۔

زہر لگتے اس گارڈ کی اس قدر دیدہ دلیری کی وجہ۔۔شاید شاہ کی اس پوری عمارت میں غیر موجودگی تھی۔۔۔

اور کچھ بد نیتی کا گہرا اثر۔۔۔

”بکواس بند کرو اپنی گھٹیا انسان۔۔۔۔“  

برداشت کھوتی آبرو نے مقابل کو اسکی اوقات یاد دلانے کے لیے بڑی دقتوں سے تھپڑ مارنا چاہا۔۔۔پر سرعت سے اسکا دوسرا ہاتھ بھی دبوچنے پر وہ اسکی کوشش ناکام کرگیا۔

آبرو نے قہر برساتی بھیگی نگاہوں سے اسکے مسکاتے نقوش دیکھے۔

”اگر چاہتے ہو کہ ملازمت کے ساتھ ساتھ تمھاری سانسیں بھی سلامت رہیں تو وقت رہتے ایسی بیہودگیوں سے باز آجاؤ۔۔۔۔

ورنہ شاہ کا اشتعال تم سمیت تمھاری ساری حماقتوں کو نگل جائے گا۔۔۔۔

چھوڑو مجھے جاہل۔۔۔۔۔“  

شاک کی کیفیت تلے ہچکیاں تو رک چکی تھیں پر سانسوں کی تیز رفتاری سمیت  اشتعال دگنا ہوتا چلا گیا۔

جبکہ اسکے یوں مچلنے پر گارڈ کمینی مسکراہٹ مزید ہوتی چلی گئی۔

”چھوڑنا ہی تو نہیں چاہتا محترمہ۔۔۔۔

کیا کروں؟؟مجبور ہوں۔۔۔۔

بڑی حسرتوں کے بعد  تو یہ مناسب وقت اور بہترین موقع ہاتھ آیا ہے جسے گنوانے کی ہمت فی الوقت مجھ میں نہیں ہے۔۔۔

اور نہ ہی انجام کی کوئی خاص پرواہ۔۔۔۔

ہاں البتہ اس پل ہوش گنوانے کی بےتحاشہ ہمت ہورہی ہے۔۔۔۔۔“  

اس کے حد سے سوا بگڑتے تنفس کی پرواہ کیے بنا ہی اب کہ وہ اپنی گرفت مضبوط ترین کرتا اسے مکمل اپنے گھیرے میں لے چکا تھا۔

کمینگی اسکے سر چڑ کر بول رہی تھی۔

”چھوڑ۔۔و۔۔۔۔مجھے۔۔۔۔۔۔“

شدت سے سٹپٹاتی آبرو کا سائیں سائیں کرتا دماغ جہاں ناچاہتے ہوئے بھی

 ماضی کی کمزور کرتی یادوں کی اتھاہ گہرائیوں میں اترنے لگا تھا۔۔۔

وہیں اس گھٹیا شخص کے چنگل میں اس کی مزاحمت دھیرے دھیرے دم توڑنے لگی۔

زبردستی پر اترنے والے مرد کی پل پل سخت ہوتی گرفت۔۔۔۔

وحشتیں پھیلاتا اندھیرا۔۔۔۔

شدت سے التجائیں کرتی نسوانی چیخیں۔۔۔

اور نسوانیت کا مذاق اڑاتے مردانہ قہقے۔۔۔

گہری نیلی نگاہوں کو دکھائی دیتا دھندلا دھندلا سا منظر یکدم ہی بدلا تھا۔

”نن۔۔۔نہیں۔۔۔۔

چھوڑ۔۔دو۔۔۔و۔۔وہ مار دے گا۔۔۔۔

و۔۔وہ۔۔۔میری ماں کو۔۔۔۔مار۔۔دے گا۔۔۔۔“   

بند کھلتی آنکھوں پر کمزور آواز میں سسکتی وہ حد سے ذیادہ قریب آتے گارڈ کو اپنی بے دم ہوتی مزاحمت سمیت لفظوں سے چونکا گئی۔

اس دوران پہلے سے ہی ڈھیلا سرمئی رنگ حجاب کھینچا تانی کے سبب اسکے سر سے اتر چکا تھا۔

معا ً مکمل ڈھیلی ہوتی آبرو گارڈ کے بازوؤں کے گھیرے مین لڑھک گئی تو گارڈ کی ساری شوخیاں غارت ہوتی چلی گئیں۔

”ہیں۔۔۔۔؟؟

ی۔۔۔یہ۔۔۔کیا۔۔۔۔؟؟؟

بے ہوش ہوگئی۔۔۔۔۔۔؟؟؟

ارے ہوش میں آؤ میڈم۔۔۔۔

میں نے تو ابھی حقیقی بدتمیزیاں شروع بھی نہیں کی تھیں۔۔۔۔۔“

 اسے ہنوز اپنی بازوؤں میں سمیٹے۔۔۔۔نازک نم گال تھپتھپاتا ہوا اس بار وہ بوکھلا سا گیا تھا۔

اچانک جھٹکا کھاتی لفٹ اطراف میں بکھرتی روشنی کے ساتھ ہی حرکت میں آئی تھی۔

”ارے بی بی۔۔۔

ڈرامے بازی بند کرکے سیدھی طرح  ہوش میں آجاؤ۔۔۔۔

اب تو لفٹ کا مسئلہ بھی حل ہوچکا ہے۔۔۔۔“ 

 اپنی آواز میں کچھ فکر گھولتا گارڈ۔۔۔خاصا بدمزہ ہوتا بولا۔

پر وہ ہنوز حواس گنوائے ہوئے تھی۔چہرے پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں  صاف محسوس ہورہی تھیں۔

لفٹ لمحوں میں اپنی منزل کو پہنچتی رکی۔

معاً سماعتوں سے ٹکراتی ٹِن کی آواز کے۔۔۔لمحے بعد ہی دروازے بیچ سے   کھلتے چلے گئے تو بےاختیار گہرا سانس بھرتے ہوئے۔۔۔۔وہ اسے سنبھالتا سیدھا ہوا۔

لیکن نگاہیں اٹھانے پر۔۔۔۔اپنے مقابل مینجر کے ہمراہ  شاہ میرحسن کا وجود دیکھ حقیقتاً اسکے ہوش اڑے تھے۔

آبرو کو ابتر حالت میں اس گارڈ کی بانہوں میں جھولتا دیکھ شاہ کی پل بھر کی حیرت شدید اشتعال تلے دبی۔

مقابل دکھائی دیتا۔۔۔منظر ناقابل برداشت ہی تو تھا۔۔۔

جبکہ گارڈ کے چہرے پر اڑتی ہوائیاں چیخ چیخ کر اپنے باس کے خوف کو بخوبی بیان کر رہی تھیں۔

قریب کھڑا مینجر بھی یہ سب دیکھ کر فکرمند سا ہوا تھا۔

 ”ب۔۔باس۔۔۔میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔۔۔

وہ لفٹ۔۔۔۔آاا۔۔ہ۔۔ہ۔۔۔۔“  

اسے مٹھیاں بھینچ کر سرعت سے اپنی جانب لپکتا دیکھ گارڈ نے پھرتی سے آبرو کو چھوڑا۔۔۔۔تو بروقت اسے تھامتا وہ اگلے ہی پل۔۔۔ پوری شدت سے مکا اسکے منہ پر مار چکا تھا۔

”ہاؤ ڈئیر یُو ٹو ٹچ ہر۔۔۔۔

یُو بلڈی۔۔(گالیاں###)۔۔۔۔۔“  

دھاڑ کر پوچھتے ہوئے اس نے بے اختیار آبرو کے زرد پڑتے چہرے پر متفکر سی نگاہ ڈالی۔

بھوری آنکھیں اس پل انگارہ ہورہی تھیں۔

”افففف۔۔۔آااہ۔۔۔ہ۔۔۔۔۔“ 

 نتھنوں سے پھوٹتی نکسیر(خون) گارڈ کو شدید تکلیف سے دوہرا ہونے پر مجبور کرگئی۔

”چ۔۔۔چھوڑ۔۔۔۔دو۔۔۔۔۔۔“  

گہری غنودگی تلے۔۔۔بے خودی میں آبرو کے پھڑپھراتے لب شاہ کے دماغ کی نسیں ابھار گئے۔

اگلے ہی پل اسکا کندھوں پر آیا  حجاب پکڑ کے سر پر ڈالتا وہ پشت پر کھڑے منیجر کو اکھڑ لہجے میں مخاطب کیا۔

”اس سے پہلے کہ گند کا یہ ڈھیر میرے ہاتھوں سے پوری طرح ضائع ہوجائے۔۔۔۔

اٹھا کر باہر پھینک آؤ اسے۔۔۔۔

دوبارہ یہ مجھے کسی بھی صورت یہاں نظر نہیں آنا چاہیے۔۔۔گیٹ اٹ  ۔۔۔“

 سلگتے لہجے میں چبا چبا کر بولتا اسکا غصہ کسی بھی طور کم نہیں ہورہا تھا۔

 اگر جو اس وقت آبرو اسکے نزدیک تر نہ ہوتی تو وہ یقیناً اس خبیث شخص کا حشر نشر بگاڑ کے رکھ دیتا۔

”جیسا آپ کہیں سر۔۔۔۔۔

اوئے چلو ذرا میرے ساتھ۔۔۔۔۔“  

تب سے کھلے دروازوں کے بیچ و بیچ آڑ بن کے کھڑا مینجر تابعداری سے سر ہلاتا  فوری آگے بڑھا۔۔۔۔اور گارڈ کو گھسیٹ کر باہر لے جانے لگا۔

”اور ہاں۔۔۔۔

اس پر ہراسمنٹ کا کیس کروانا مت بھولنا۔۔۔۔۔“  

شاہ پیچھے سے سخت تنبیہہ کرنا قطعی نہیں بھولا تھا۔

جہاں گارڈ کی گھبراہٹ میں مزید اضافہ ہوا تھا وہیں مینجر اطمینان سے سرکو جنبش دے  کر شاہ کی تسلی کرواتا۔۔۔اسے لے کر باہر کو نکلتا چلا گیا۔

شاہ نے ضبط کا گہرا سانس بھرتے۔۔۔نرم نگاہوں سے آبرو کے سوئے نقوش  دیکھے۔

”میرے ہوتے ہوئے تمھیں کوئی بھی بری نیت سے چھونے کی گستاخی نہیں کر سکتا آبرو سکندر۔۔۔

میں ایسا ہونے ہی نہیں دوں گا کبھی۔۔۔۔

آخری سانس تک تمھاری حفاظت کروں گا۔۔۔۔

یہ میرا وعدہ ہے تم سے۔۔۔۔“   

قدرے نرمی سے اسکا نازک وجود۔۔۔ہنوز تھامے۔۔۔شاہ نے دھڑکتے دل کے ساتھ اسے بڑی محبت سے جتایا۔

اس کے برعکس لہجے میں شدت کی تپش تھی۔

جلتی نگاہوں میں تفکر سموئے وہ اگلے ہی پل اسے احتیاط سے بازوؤں میں بھرتا لفٹ سے باہر نکلا۔۔۔۔

سب کاموں کو پس پشت ڈالتے ہوئے اسکے سنسناتے دماغ میں فقط آبرو کی پرواہ مچل رہی تھی۔۔۔۔

اس قدر پرواہ  کہ اپنی گاڑی تک پہنچتے ہوئے وہ پاس سے گزرتے لوگوں کی حیرت زدہ نگاہوں کو بھی بڑے اطمینان سے فراموش کرتا چلا گیا۔۔۔۔

***************

 کراچی شہر میں تیزی سے بکھرتی شام۔۔۔ڈوبتے سورج کی مدھم ترین کرنوں کو خود میں سمیٹتی اب کہ تاریکیاں لانے کو بےتاب ہورہی تھی۔

ایسے میں خراماں خراماں چلتی ہوا کے نرم جھونکے۔۔۔جہاں سرمئی سڑک  کے کنارے چلتے کتنوں کو ہی موسم میں گھلی خوشگواریت کا احساس دلا رہے تھیں۔۔۔۔

وہیں ان سب سے مکمل لاتعلق وہ ہنوز پولیس اسٹیشن میں موجود تھا۔

صفحات پر بکھرے قابل تفتیش لفظوں پر گہری سیاہ نگاہیں جمائے وہ بڑے انہماک سے  ایک ضروری کیس فائل۔۔۔اسٹڈی کرنے میں مصروف تھا۔

اس کے برعکس طمانیت سے پھڑپھڑاتا دل اس کے وجود میں سکون برپا کیے ہوئے تھا۔

اور برپا کرتا بھی کیوں نہ۔۔۔۔

آخر کو حسن صاحب کا وہ پروجیکٹ آج اپنے اختتامی مراحل کو پہنچ چکا تھا جس کے انتظار میں ایک کی بجائے۔۔۔ کتنے ہی دن وہ اپنے آپ میں سلگتا رہا تھا۔

”تیار رہنا برخوردار۔۔۔

کل کی چڑھتی صبح ہم تمھارے نکاح کی بات کرنے ان کی طرف جائیں گے۔۔۔

امید تو۔۔۔۔مثبت جواب ملنے کی ہے۔۔۔۔

پر انسان کو ہمیشہ دو طرفہ سوچ رکھنی چاہیے۔۔۔اسی میں بہتری پوشیدہ ہوتی ہے۔۔۔۔۔“ 

حسن صاحب کا قطیت بھرا مضبوط لہجہ عائل کو کس قدر پرسکون کر گیا تھا ناں۔۔۔

صفحے کی آخری تحریر  پر ایک بھرپور نگاہ ڈالتا وہ اگلے ہی پل فائل بند کرگیا۔۔۔

جب وہ اچانک بپھڑی ہوئی شیرنی کی مانند دھاڑ سے دروازہ کھولتی بے دھڑک اندر داخل ہوئی۔۔۔

عائل حسن نے قدرے چونک کر اس کی جانب دیکھا تو۔۔۔

جہاں دل شدید حیرت تلے دھڑکا تھا وہیں اس سمے اسکی پولیس اسٹیشن میں تن تنہا موجودگی اسکے ماتھے پر بل ڈال گئی۔

عین اسی وقت کانسٹیبل بھی غصے سے ہانپتا ہوا اندر آیا تھا۔

”سر۔۔۔۔۔

میں نے اس لڑکی کو یہاں پر آنے سے روکنے کی کئی کوششیں کی تھیں مگر۔۔۔

یہ پھر بھی۔۔۔۔۔۔“ 

 سلوٹ کرتا وہ بے بسی تلے دانت پیس کر صفائی دینے پر آیا تھا جب بیچ میں ہی ہاتھ اٹھاکر اشارہ کرتا وہ اُسے باہر دفع ہونے کا آڈر دے چکا تھا۔

”جاؤ یہاں سے۔۔۔۔“  

وہ قدرے سختی سے بولا۔

حاویہ بگڑے تنفس پر قابو پاتی بےتاثر چہرہ لیے اسی کی جانب دیکھ رہی تھی۔

پولیس یونیفارم میں رعب جھاڑتا وہ اس کے دل کی دھڑکنوں میں مزید تیزی لے آیا تھا۔

”یس سر۔۔۔۔۔“  

حاویہ کی بابت ہنوز انجان وہ کچھ حیران ہوتا اگلے ہی پل سلوٹ کرگیا۔

پھر وہاں سے جانے کو پلٹا۔

کانسٹیبل کے وہاں سے  جاتے ہی وہ واپس اُسکی جانب متوجہ ہوا جو نازک مٹھیاں سختی سے دبوچے۔۔۔ہنوز وہیں جم کر کھڑی تھی۔

سادے سے سفید رنگ سوٹ پر جامنی رنگ حجاب کیے وہ عائل کو پہلے کی نسبت کافی کمزور لگی تھی۔

”انتہائی غیر مناسب وقت پر یوں تن تنہا۔۔۔پولیس اسٹیشن آنے کی خاص وجہ جان سکتا ہوں میں۔۔۔؟؟؟“  

سرد مہری سے پوچھتا وہ بآسانی اسکے نقوش پر رقصاں خفگی محسوس کرسکتا تھا۔۔۔جو شاید اس روز ریسٹورنٹ والے ہنگامے کو لے کر اسے شدت سے لاحق تھی۔

اسے حقیقتاً حاویہ کا پولیس اسٹیشن آنا کافی ناگوار گزرا تھا۔

”اگر وجہ خاص نہ ہوتی تو اس وقت میں بھی یہاں موجود نہ ہوتی عائل صاحب۔۔۔

بدقسمتی سے اب یہاں ہوں۔۔۔تو ظاہر ہے وجہ بھی بہت خاص  ہوگی۔۔۔“

 وہ جو بڑی دقتوں سے نفیسہ بیگم کے علم میں خود کو لائے بغیر گھر سے سیدھا یہاں تک پہنچی تھی۔۔۔

نمی پرے دھکیلنے کو پلکیں جھپکا جھپکا کرکہتی  اسے اپنی بات سے ٹھیک ٹھاک

 الجھا گئی۔

”فائن۔۔۔۔بیٹھو۔۔۔۔۔۔“ 

کئی پل بغور اسے دیکھنے پر وہ گہرا سانس بھرتا بےاختیار چئیر سے ساتھ ٹیک لگاگیا۔۔۔ساتھ ہی حاویہ کو بھی اپنے مقابل بیٹھنے کا بولتا وہ اصل مدعا جاننے کو بےتاب ہوا تھا۔

جواب میں وہ کئی قدم چل کر اسکی طرف آئی۔

پھر مقابل بیٹھنے کی بجائے۔۔۔ٹیبل کی شفاف سطح پر دونوں ہتھیلیاں جماتی بڑی جرات سے اُسکی جانب جھکی۔

عائل کو اُسکے پہلے کی نسبت قدرے بدلے بدلے سے انداز پل پل چونکا رہے تھے۔۔۔پر اپنی کیفیت کو بخوبی چھپاتا وہ اُسکی بھیگی انگارہ آنکھوں میں دیکھ کر رہ گیا۔

”میں یہاں سکون سے بیٹھنے نہیں آئی اے۔ایس۔پی صاحب۔۔۔۔

فقط انصاف مانگنے آئی ہوں۔۔۔

اور مجھے امید ہے کہ اپنی اس وردی اور رتبے کا لحاظ کرتے ہوئے آپ محض حق سچ کا ساتھ دیں گے۔۔۔۔“ 

 حاویہ کے سلگتے تیوروں کی طرح۔۔۔اُسکی نمی گھلی آواز بھی خاصی تیکھی تھی۔

تو گویا اس سے انصاف کی ایپل کرتی وہ وردی سمیت اسکے سرکاری رتبے کو  بھی بڑی شدت سے چیلنج کرگئی تھی۔

اس قدر سنجیدہ صورتحال میں بھی مسکراہٹ عائل کے لبوں پر  پل بھرکو اپنی چھپ دکھلانے کو مچلی۔

دل چیڑتی سیاہ حقیقتوں سے ہنوز انجان۔۔۔وہ سختی سے لب بھینچتا اگلے ہی پل دلچسپی سے سر کو جنبش دے گیا۔

مقابل کی اس قدر بےخبری پر حاویہ کو کوئی خاص حیرت نہیں ہوئی تھی۔

”اوکے۔۔۔

تمھیں جو بھی کہنا ہے کھل کر کہو۔۔۔۔

کیا۔۔۔؟؟چاہ کیا رہی ہوتم ۔۔۔۔؟؟؟“ 

 مضبوط انگلیوں کو آپس میں پھنساکر ٹیبل پر دھرتے ہوئے اس بار عائل نے سنجیدگی سے پوچھا۔

البتہ لہجے میں سرد پن مفقود ہوچکا تھا۔

”اپنی بڑی بہن۔۔۔۔“   

خود پر سے پل پل ضبط کھوتی حاویہ پل بھر کو اٹکی۔

پلکیں جھپکانے پر آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کر اسکی گالوں پر پھسلے تھے۔۔۔

”حرمین زہرا کے قاتل کو کیفرکردار تک پہنچانا چاہتی ہوں۔۔۔۔

اور یہ بات آپ اچھے سے جانتے ہیں کہ قاتل کے لیے صرف ایک ہی سزا متعین کی جاتی ہے۔۔۔

اور وہ ہے سزائے موت۔۔۔۔۔“  

 ہنوز اسی طرح جھکی۔۔۔وہ پھنکار کر بولتی مقابل کو جھٹکے سے اٹھنے پر مجبور کر گئی۔

”ح۔۔۔حرمین زہرا کا قاتل۔۔۔۔؟؟؟

تم۔۔۔یہ۔۔۔؟؟؟“  

اس غیرمتوقع انکشاف پر شدت سے کنگ ہوتے عائل کے لیے اس پل بولنا محال ترین ہوا تھا۔۔۔

جب ٹیبل کے پار حاویہ سیدھی ہوتی۔۔۔اسکے بےیقینی میں ڈھلے نقوش دیکھ کر اذیت سے سر کو جنبش دے گئی۔

”فوری یقین کرنا دشوارترین ہورہا ہے ناں۔۔۔؟؟

پرصد افسوس کہ یہی حقیقت ہے۔۔۔

ایک بد ترین حقیقت۔۔۔۔۔

میری بہن اب مزید اس دنیا میں نہیں رہی عائل۔۔۔و۔۔وہ۔۔۔۔۔“ 

 بھرائی ہوئی آواز میں بولتی وہ بے اختیار سسکی تو اسکی اذیت دیتی حالت پر عائل تڑپ کر سرعت سے اسکی جانب لپکا۔

”کیسے ہوا یہ سب۔۔۔۔؟؟

کون ہے وہ قاتل۔۔۔؟؟؟

ت۔۔تم مجھے ایک بار اسکا نام بتاؤ۔۔۔

میں تم سے وعدہ کرتا ہوں حاویہ۔۔۔

وعدہ کرتا ہوں کہ حرمین زہرا کے مجرم کو ہر صورت اُسکے گناہوں کی سزا دے کر رہوں گا۔۔۔۔چاہے پھر وہ سزائے موت ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔“ 

 اُسکے قریب آکر رکتا  وہ بےاختیار اسکے نازک ہاتھوں کو اپنی نرم گرفت میں لے گیا۔

حرمین زہرا کا قتل ہوا تھا۔۔۔۔۔

موجودہ حالات کی سنگینی اس قدر شدید تھی کہ عائل حسن۔۔۔پلوں میں یقین کرنے پر مجبور ہوا تھا۔

معاً ایک ہاتھ بڑھا کر انگلیوں کی پوروں پر اسکے بے مول ہوتے آنسو چُنتا  وہ اسے تسلی دینے کو نفی میں سرہلاگیا۔

اندر کہیں شدت سے اپنی بے علمی پر افسوس ستانے لگا تھا۔

دھڑکتے دل پر ضبط کھوتی حاویہ نے دھندلائی نگاہوں سے اسکی جانب دیکھا۔

اسکے سلگتے لہجے کی تڑپ کو شدت محسوس کرتے ہوئے اسکے لب دھیرے سے استہزائیہ مسکراہٹ میں ڈھلے۔۔۔

تو ہاتھ پیچھے ہٹاتے ہوئے۔۔۔اسکی زرد رنگت تکتے عائل کو نئے سرے تشویش ہوئی۔

لیکن۔۔۔اگلے ہی پل حاویہ کے لرزتے لبوں سے پھسلتا دو لفظی جواب عائل حسن کی ذات پر قدرے بھاری ثابت ہوا تھا۔

”شاہ میرحسن۔۔۔۔۔۔“ 

 حقیقی معنوں میں اسکے سر پر دھماکہ کرتی حاویہ نے بڑے انہماک سے مقابل کےتیوروں کو پلٹا کھاتے دیکھا تھا۔

حیرت سے بے یقینی۔۔۔۔اور پھر بے یقینی سے آگے۔۔۔پیشانی پر چڑھتی ناگوار تیوریاں۔۔۔۔

عائل اسکا ہنوز تھاما ہوا ہاتھ چھوڑتا  بے اختیار اس سے ایک قدم دور ہوا تو حاویہ کے دل میں ایک ٹیس سی اٹھی۔

”واااٹ۔۔۔۔؟؟؟

شام۔۔۔۔

شاہ میر حسن۔۔۔؟؟؟

کیا بکواس۔۔۔۔“  اسکی ذہنی حالت پر شدت سے شبہ کرتا وہ بے اختیار نگاہیں پھیرتا بات ادھوری چھوڑ گیا۔

دل کی گہرائیوں میں بسی وہ نازک لڑکی بڑی جرات سے اسکے جان سے قریب تر لاڈلے بھائی کو قاتل بتارہی تھی۔۔۔

شام اور قاتل۔۔۔۔۔؟؟؟

کس قدر مضائقہ خیز بات تھی ناں۔۔۔۔

”حاویہ تم میرے ساتھ مذاق کررہی ہو۔۔۔۔؟؟

سریسلی۔۔۔۔؟؟؟ 

 بےسکونی سے بالوں میں ہاتھ چلاتا وہ واپس اسکی جانب دیکھتا قدرے ضبط سے پوچھ رہا تھا۔

جہاں دماغ سائیں سائیں کررہا تھا وہیں آنکھوں میں سرخی تیزی سے پھیلتی چلی گئی۔

”ذرا سا بھی اندازہ ہے کہ تم کس کے بارے میں کیا بات کر رہی ہو۔۔۔۔؟؟؟

بھائی ہے وہ میرا۔۔۔

اور تم۔۔۔۔۔“  

سختی سے اسے باور کرواتا وہ مر کر بھی یقین کرنے کو تیار نظر نہیں آرہا تھا جب یکدم اسکی بات تندہی سے بیچ میں کاٹتی وہ چٹخ  گئی۔

”اندازہ نہیں ہے یہ۔۔۔

حقیقت ہے۔۔۔

سراسر حقیقت ہے۔۔۔

کیوں۔۔۔؟؟؟کیوں نہیں ہوسکتا وہ قاتل۔۔۔۔؟؟؟

صرف اس لیے کہ ایک ایمان دار پولیس آفیسر کا سگا بھائی ہے وہ۔۔۔۔؟؟؟

نہیں عائل حسن۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔

میری بہن کی خودکشی کا حقیقی ذمے دار ہے تمھارا بھائی۔۔۔۔“  

صاف کھلی بدتمیزیوں پر اترتی وہ عائل کو کئی پلوں کے لیے حق دق کرگئی۔۔۔پر شام کے خلاف اسکا زہر اگلنا ہنوز تھا۔

”لیکن خود کشی سے کہیں ذیادہ وہ ایک قتل تھا۔۔۔

ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔۔۔جس کے تحت میری بہن کو خود کی جان لینے پرمجبورکردیا گیا۔۔۔

اور اس سب کی ذمہ دار فقط شاہ میر حسن کی ذات ہے۔۔۔۔

جھوٹی محبت کی آڑ میں حرمین زہرا کی عزت کی دھچیاں بکھرنے والا ایک لٹیرا ہے تمھارا بھائی۔۔۔۔دنیا بھر میں اس کے وجود کی سرعام تشہیر کرنے والا بےغیرت ترین انسان ہے وہ۔۔۔۔۔۔“ 

بدترین حقیقتوں کا ادراک کرواتے ہوئے۔۔۔چیخ چیخ کر صفائیاں دیتی وہ شدت سے رو دی تھی۔

ایسے میں دبی دبی آوازیں  باہر کو نکلتی یقیناً کئی سرکاری ملازموں کو چونکا گئی تھیں۔

 معاً مشتعل سا اسکی جانب لپکتا عائل۔۔۔ پل میں اسکو بازوؤں سے تھام کر اپنی جانب جھٹکا دے گیا۔

”او یُو شٹ اپ۔۔۔

جسٹ شٹ اااپ۔۔۔

اب میں اپنے بھائی کے خلاف مزید ایک بھی غلط لفظ نہیں سنوں گا۔۔۔۔

تم اپنے ہوش مکمل گنوا چکی ہو حاویہ فیضان۔۔۔پر میرے ہنوز قائم ہیں۔۔۔۔۔۔“  

درشت لہجے میں بولتا وہ بآسانی اسے اپنے رعب تلے دباگیا تھا۔

اس دوران کپکپاتی ہوئی نرم ہتھیلیاں عائل کے مضبوط سینے پر تھیں جس میں پھڑپھڑاتا دل حاویہ کو اس پل سفاک ترین محسوس ہوا تھا۔

”اگر پرائی محبت پر خونی رشتوں کی تڑپ غالب آجائے تو کچھ حیرت نہیں۔۔۔۔

لیکن اگر یہی رشتے انصاف کے تقاضوں کو پوری طرح نگل جائیں تو اس سے بڑا اور کوئی عیب نہیں ہوتا عائل صاحب۔۔۔۔۔“  

 نم زخمی نگاہوں سے اسکی جانب دیکھتی۔۔۔وہ دھیمے بھرائے لہجے میں بولی تو عائل نے ضبط سے جلتی آنکھیں میچ کر کھولیں۔

”بے بنیاد بہتان لگانا میرے نزدیک اس سے بھی بڑا عیب ہے جو تم بڑی آسانی سے میرے بھائی پر لگائے چلی جارہی ہو۔۔۔

اور یقین جانو یہ سب میری برداشت سے بالکل باہر ہے۔۔۔۔۔۔“  

پُریقین سا بولتا وہ اس پر اپنی گرفت مزید سخت کرگیا تو نتیجتاً وہ سسکی۔

نتیجتاً اسکی آنکھوں میں اذیت دیکھ کر وہ ذرا ہوش میں آتا بے اختیار اپنی پکڑ میں صاف نرمی لے آیا۔

”ہوسکتا ہے کہ حرمین زہرا کی خودکشی کی کچھ اور وجوہات ہوں۔۔۔۔

یا پھر ان وجوہات کی حقیقی جڑ کوئی دوسرا مرد ہو۔۔۔۔

لیکن ایک بات میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ شام اس معاملے میں کہیں بھی نہیں ہے۔۔۔

دور دور تک نہیں۔۔۔۔“

  گہرا سانس بھرتا وہ مزید گویا ہوا تو اسکی ڈھیلی پڑتی گرفت پر وہ تندہی سے اپنا آپ چھڑوا گئی۔

”اور میں بھی یہ بات پورے وثوق سے کہتی ہوں کہ شاہ میرحسن کے علاوہ اور کوئی دوسرا مرد اس سب میں شامل نہیں ہے۔۔۔

اور یہی حقیقت ہے۔۔۔۔۔“ 

 گھٹی گھٹی آواز میں بھڑک کر بولتی وہ ہنوز اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی تھی۔

ایسے میں عائل کا بامشکل کم ہوا اشتعال پھر حد سے سوا ہونے لگا۔

 ”حقیقت۔۔۔۔؟؟؟

رئیلی۔۔۔۔؟؟؟

کیا ثبوت ہے تمھارے پاس کہ فقط شام ہی حرمین زہرا کا مجرم ہے۔۔۔؟؟؟

ہے کوئی ٹھوس ثبوت جس کی بنا پر میں تمھارا یقین کر سکوں۔۔۔ہوں۔۔۔؟؟؟“ 

اسنے مٹھیاں بھینچ کر کاٹ دار لہجے میں پوچھا تو لفظ  ”ثبوت“ پر وہ کچھ چونک سی گئی۔

بھیگے گال رگڑ کر۔۔۔ ماؤف ہوتے ذہن پر شدت سے زور ڈالتی۔۔۔وہ کتنے ہی لمحے قابل بیان لفظوں کو تلاش نہیں کر پائی تھی۔

ہاں البتہ ناکام کھوج لگاتے کنپٹیاں ضرور دکھنے لگی تھیں۔

چھپ چھپا کر کی گئی بداعمالیوں کے پیچھے بتانے کو۔۔۔حقیقتاً کوئی بھی تو ثبوت نہیں چھوڑا گیا تھا۔

شام کے شاطر پنے پر حاویہ شدتِ بے بسی سے  نازک مٹھیاں بھینچ کر رہ گئی۔پھر بھیگی نظریں اٹھاکر خود کی جانب تکتے عائل کو دیکھا۔

”میری خود کی گواہی۔۔۔۔ہی میرا ثبوت ہے۔۔۔۔“ 

 لبوں پر زبان پھیرتی وہ مضبوط لہجے میں بولی تھی جب اسکی بات سمجھتا عائل پُرتاسف سا نفی میں سر ہلاگیا۔

”فقط الزام لگانے والے کی لفظی گواہی کافی نہیں ہوتی محترمہ۔۔۔

ان معاملات میں مزید گواہوں اور ثبوتوں کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔۔۔۔“

ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولتا وہ حاویہ کو کمزور ہی تو کرگیا تھا۔

”ع۔۔عائل۔۔۔ایک بار آپ۔۔۔۔م۔۔۔۔“  

اس بار کچھ نرم پڑتی وہ بولنا چاہ رہی تھی جب یکدم ہی دھاڑتا وہ اسے خود سے خوفزدہ کرگیا۔

”انف از انففف۔۔۔۔

اب تم مجھے پاگل کر رہی ہو حاویہ فیضان۔۔۔

مکمل پاگل۔۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ میں آپے سے باہر ہوکر تمھارے ساتھ حقیقتاً کوئی نا انصافی کر بیٹھوں۔۔۔

آؤٹ۔۔۔۔

جسٹ آؤٹ فرام ہیر۔۔۔۔۔“ 

 تلخ حقیقتوں سے  ہنوز بےبہرہ۔۔۔وہ اسکی ذات سے منہ موڑتا ٹھنڈے ٹھار لہجے میں بولا۔

تو اسے ٹیبل کی شفاف سطح پر ہتھیلیاں جماکر ضبط کے گہرے گھونٹ بھرتا دیکھ۔۔۔۔حاویہ کی نم پلکوں سے آنسو ٹوٹ کر گالوں پر لڑھک آئے۔

کچھ دیر پہلے اس کے آنسو پونچھنے والا شخص اب خود ہی ان کے بے مول ہونے کا سبب بن گیا تھا۔

کتنے ہی پل اطراف میں اذیت دیتا سناٹا چھایا رہا۔

”میری بہن نے شام سے محبت کرکے جو غلطی کی سو کی۔۔۔لیکن اب مجھے بھی اسی غلطی کا شدت سے احساس ہورہا ہے جو میں نے آپ سے محبت کر کی۔۔۔۔۔“

جذبات کی رو میں بہہ کر بولتی وہ عائل کو سختی سے لب بھینچنے پر مجبور کرگئی۔پر ان اذیت دیتے لفظوں پر وہ پلٹا پھر بھی نہیں تھا۔

حاویہ نے دھندلائی نظروں سے اسکی  چوڑی پشت تکتے اپنی سسکی روکی۔

ہاں۔۔۔وہ دغا باز دھڑکنوں کے سبب مقابل سے چاہ کربھی نفرت  نہیں کرپا رہی تھی

 لیکن وجود میں اٹھتا درد اس قدر ناقابلِ برداشت تھا کہ ملنے والی جذباتی دھتکار پر اسکے لیے مزید وہاں رکنا محال ہوا تھا۔

اگلے ہی پل گال رگڑتی وہ وہاں سے نکلتی چلی گئی۔

اس بات سے قطعی انجان کہ آنے والے لمحے اس کی نازک جان پر کس قدر بھاری پڑنے والے تھے۔۔۔

اس قدر بھاری کہ جس کا اس نے اپنے وہم و گمان میں بھی نہیں سوچا تھا۔

عائل نے سرعت سے پلٹ کر اسکی پشت دیکھی جو اگلے ہی پل دروازے کے پار ہوتی۔۔۔اسکی جلتی نگاہوں سے اوجھل ہوچکی تھی۔

”ڈیم۔۔۔۔۔۔“  اگلے ہی پل عائل نے مڑکرٹیبل پر پڑی  چیزوں کو ہاتھ مار کر ایک ہی جھٹکے میں پرے اچھالا دیا۔۔۔۔

دل میں شدت سے مچلتی اذیتیں۔۔۔ اسکے وجود کا سکون صحیح معنوں میں غارت کرچکی تھیں۔۔۔۔

” کافی۔۔۔۔۔۔۔“  

دھواں اڑاتا  مگ ہاتھ میں پکڑے وہ ناک کرکے کمرے میں داخل ہوا۔۔۔ تو ادھ کھلی کھڑکی سے دکھائی دیتے رات کے پہلے پہر کو تکتی وہ پلٹی۔

فلیٹ میں آئے ڈاکٹر کے چیک اپ کہ بعد سے وہ کچھ دیر پہلے ہی ہوش میں آئی تھی۔۔۔

اور شاہ کے موبائل فون سے اپنی بوا کو کال کرکے اپنے متعلق آگاہی دے چکی تھی۔۔۔

جواب میں انھوں نے  فکر میں گھلتے ہوئے اس سے واپس گھر لوٹ آنےکا صاف تقاضا کیا تھا جس کو شاہ نے بھی بخوبی سنا تھا۔

”آپکو مجھے یہاں نہیں لانا چاہیے تھا۔۔۔۔۔۔“  

 اسے اپنی جانب آتا دیکھ وہ چاہ کر بھی خود کو شکوہ کرنے سے باز نہیں رکھ پائی تھی۔

اسکی برہمی پر مقابل رکتے شاہ نے کچھ حیرت سے اسکی جانب دیکھا۔

 قدرے مہارت سے سیٹ کیے گئے سرمئی رنگ حجاب میں اسکے حسین نقوش بہت بھلے لگ رہے تھے۔۔۔

”رئیلی۔۔۔؟؟؟تو پھر کہاں لے کر جاتا۔۔۔؟؟؟  

ہوش میں رہ کر تم نے مجھے اپنے بارے میں جاننے کی اتنی اجازت ہی کب دی تھی آبرو۔۔۔کہ تمھاری بے ہوشی کے عالم میں۔۔۔میں تمھیں ڈائریکٹ تمھارے گھرتک چھوڑ کر آسکتا۔۔۔؟؟؟

ہہممم۔۔۔۔؟؟؟“  کافی بھرا  مگ اسکی جانب بڑھاتا وہ حقیقتاً اسے لاجواب کرگیا تھا۔

”مگر۔۔۔۔۔۔“  

بددلی سے مگ تھامتی وہ مزید بولنا چاہ رہی تھی جب شاہ بیچ میں ہی اسکی بات کاٹ گیا۔

”کافی پی کر تھوڑا فریش ہو جاؤ۔۔۔۔

خود اپنے ہاتھوں سے بنائی ہے۔۔۔۔

پھرجیسے کہو گی۔۔۔۔

جہاں کہو گی تمھیں با حفاظت وہیں چھوڑ آؤں گا۔۔۔۔سو بےفکر رہو۔۔۔۔“  

نرمی سے کہہ کر وہ وہاں رکا نہیں تھا۔۔۔بلکہ ایک مسکاتی نگاہ اس پر اچھالتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

پیچھے آبرو نے لب کچل کر عجیب بے چینی تلے کمرے میں نگاہیں دوڑائیں۔

پھر اگلے ہی پل دھڑکتے دل کے ساتھ مگ سے پہلا گھونٹ بھرا۔

منہ میں گھولتا کافی کا حد سے تیز ذائقہ اس کے پنکھری لبوں پر دلکش مسکراہٹ بکھیر گیا تھا۔

کافی بد ذائقہ ضرورتھی مگر اس شدید کرواہٹ میں گھلی چاہت کی مٹھاس اسے شدت سے محسوس ہوئی تھی۔

منتشر دھڑکنوں کے ساتھ مزید دو سے چار گھونٹ بھرتی۔۔۔وہ کچھ سوچ کر اگلے ہی لمحے۔۔۔ مگ وہیں چھوڑتی  کمرے سے باہر نکل آئی۔

وہ سامنے ہی صوفے سے اپنا نیوی بلیو کوٹ اٹھا کر پہن رہا تھا۔

آبرو کو اپنی جانب آتا دیکھ چونکا۔

”سر۔۔۔؟؟؟

تھ۔۔تھینکیو سو مچ۔۔۔۔۔۔“ 

 اسکے قریب رک کر آہستگی سے بولتی وہ شاہ کو لبوں پر مچلتی بےساختہ  مسکراہٹ دبانے پر مجبور کرگئی تھی۔

”کس لیے۔۔۔۔؟؟

کافی کے لیے۔۔۔۔؟؟

اگر ایسا ہے تو پھر تمھیں میرا دل رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔

جانتا ہوں تم سے بہتر کافی نہیں بنا سکتا۔۔۔پر شاید آگے جاکر کچھ بہتری آجائے۔۔۔۔۔“ 

سنجیدگی سے بولتا اب کی بار وہ آبرو کو سختی  سے لب بھینچنے پر مجبور کرگیا۔

اسکے مسکاتے نقوش بغور دیکھتے۔۔۔شاہ کے دل نے بے اختیار ایک بیٹ مس کی تھی۔

”کافی سے ہٹ کر۔۔۔آج جو کچھ بھی آپ نے میری خاطر کیا ہے۔۔۔میں اس سب کے لیے آپکو تھینکس بولنا چاہ رہی ہوں۔۔۔۔۔“ 

 کچھ توقف لیتی۔۔۔وہ براہِ راست اسکی بھوری نگاہوں میں جھانک کر نرمی سے گویا ہوئی  تو بےساختہ اسکی جانب ایک قدم لیتا شاہ نفی میں سر ہلاگیا۔

”تمھیں یہ سب بولنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے آبرو۔۔۔اگر۔۔۔۔۔۔۔“   

اسکا مومی ہاتھ قدرے نرمی سے تھامتا۔۔۔وہ اپنے دل میں دبی اسکی اہمیت جتانا چاہ رہا تھا۔۔۔

جب اگلے ہی پل بھوری نگاہیں بھٹک کر۔۔ٹھیک اسکے پیچھے کھڑے وجود پر جا ٹھہریں۔

وہ گہری سیاہ۔۔۔نم نگاہوں میں شدید نفرت سموئے اسی کی جانب دیکھ رہی تھی۔

”شاہ۔۔۔۔۔؟؟؟“ 

 دل کی تیز دھڑکنوں پر قابو پاتی آبرو  کچھ جھجک کر۔۔۔اسے براہِ راست اسکے نام سے مخاطب کرگئی۔۔۔۔

اسکے یوں چونک کر خود سے بے نیاز ہونے پر بلاشبہ وہ خود بھی حیران ہوئی تھی۔

مگر اسکا سکتہ ہنوز تھا۔

”ایک اور جال بچھا رہے ہو۔۔۔۔؟؟؟

پھر سے فریب دینے کی تیاری میں ہو۔۔۔۔؟؟؟“ 

 نازک مٹھیاں بھینچ کر قدرے تلخی سے پوچھتی وہ شاہ کی دھڑکنیں سست کرگئی تھی۔

”آریو اوکے سر۔۔۔۔؟؟؟“ 

 اسکے کوئی جواب نہ دینے پر آبرو اسکی قدرے ڈھیلی گرفت سے اپنا ہاتھ بآسانی چھڑوا گئی۔۔۔تو اگلے ہی پل ٹھٹک کر ہوش میں آتے شاہ نے آبرو کے الجھے نقوش پر حیران نگاہ ڈالی۔

”ہوں۔۔۔۔یاہ۔۔۔آفکورس۔۔۔۔ایوری تھنگ از اوکے۔۔۔۔۔“ 

 بے اختیارسر جھٹکتا وہ زبردستی مسکرایا۔

پھر چہرے پر ہاتھ پھیرتا پلٹا اور جھک کر ٹیبل سے والٹ سمیت کیز اٹھاگیا۔

آبرو اسکے بدلے تیوروں پر ہنوز اسی کی جانب بغور دیکھ رہی تھی جب خود پر قابو پاتا واپس مُڑا۔

”چچ چچ چچ۔۔۔۔افسوس۔۔۔۔

افسوس کہ اتنے نقصانات اٹھانے کے باوجود بھی تمھاری فطرت ذرہ برابر بھی نہیں بدل پائی شاہ میر حسن۔۔۔۔

اپنی فتوری نیت کے سبب پھرسے تباہی مول لینے  کے لیے خود کو قائل کرچکے ہو ناں تم۔۔۔۔؟؟؟“ 

 اب کہ تڑخ کر بولتی ہوئی وہ آبرو کے آگے آئی تھی۔

”سر آپ۔۔۔۔۔“  

شاہ کو قدرے سخت نگاہوں سے خود کی جانب گھورتا پاکر بےاختیار لبوں پر زبان پھیرتی آبرو نے بولنا چاہا۔۔۔۔

جب شاہ قدرے درشتگی سے اسکی آواز حلق میں ہی دبا گیا۔

”او جسٹ شٹ اااپ۔۔۔۔۔

بندکرو اپنی یہ فضول بکواس اور ابھی کہ بھی  دفع ہو جاؤ میری نظروں کے سامنے سے۔۔۔۔

جسٹ آؤٹ ڈیمٹ۔۔۔۔“ 

 تڑخ کر بولتا جہاں وہ مقابل کھڑی حرمین زہرا کو تاسف سے مسکرانے پر مجبور کرگیا تھا۔۔۔

وہیں آبرو خود کے ساتھ برتی گئی اس صاف بدسلوکی پر گہری نیلی آنکھیں پھیلائے اسے دیکھ کر رہ گئی۔

”م۔۔۔میں۔۔۔۔۔“  

شدتِ توہین سے سرخ پڑتی آبرو کے لیے بولنا محال ہوا۔۔۔تو شاہ کے ذہنی فتور سے قطعی انجان وہ نفی میں سرہلاتی اگلے ہی پل وہاں سے جانے کو دروازے کی طرف  بھاگی۔

”آ۔۔آبرو۔۔۔۔۔۔۔“ 

ایسے میں شاہ نے چونک کر پل بھر کی ناسمجھی سے اسے دروازہ کھول کر وہاں سے جاتے دیکھا۔۔۔

پھر مٹھیاں بھینچ کر شدید غصے میں پیچھے پلٹا۔۔۔۔جہاں اب وہ کہیں بھی نہیں تھی۔۔۔۔

آنکھوں میں اتری سرخی مزید گہری ہوئی تھی۔

”او شٹ۔۔۔۔

آبرووو۔۔۔۔لیسن پلیز۔۔۔۔۔۔۔“ 

معاً وہ سنسناتے دماغ کے ساتھ تیزی سے اسکے پیچھے لپکا۔۔۔

بےخودی میں ہوئی حماقت کے سبب ایک بار پھروہ اس نازک لڑکی کو خود سے خفا کرگیا تھا۔۔

اور وجہ حقیقتاً ناقابل بیان تھی۔۔۔۔

*******************

”آااہہ۔۔۔ہ۔۔۔ہ۔۔۔۔سی۔۔۔۔۔۔“ 

 قدرے بھاری ہوتے سر کے ساتھ اسنے بامشکل اپنی آنکھیں کھولی تھیں۔

پھر ہنوز اتر کر کندھوں پر آئے حجاب کی پرواہ کیے بنا  پلکیں جھپکا جھپکا کر اطراف میں دیکھا۔

مگر یہ کیا۔۔۔۔؟؟

یہ وہ جگہ تو ہرگز نہیں تھی جہاں حقیقتاً اسے اس وقت ہونا چاہیے تھا۔

ایسے میں نازک کلائی کو جکڑی ہتھکڑی دیکھ اسکی بھوری نگاہیں مزید پھیلی تھیں جس کا دوسرا۔۔۔سرا کرسی کے مضبوط ہتھے کو جکڑے ہوئے تھا۔

شدت سے تپتے سورج کی روشنیاں بند کھڑکیوں کے شیشوں سے اندر کو جھانکتی اس گودام سمیت حاویہ کی وحشت بھی مزید بڑھاگئیں۔

معاً اسنے اپنی آنکھیں میچ کر پوری طرح سے بیدار ہوتے ذہن پر زور ڈالا۔

”بھائی یہ۔۔۔۔

یہ کہاں لے کر جارہے ہیں آپ مجھے۔۔۔۔؟؟؟

یہ راستہ تو میرے گھر تک کو نہیں جاتا۔۔۔

فوراً روکو رکشہ۔۔۔

میں نے کہا روکو۔۔۔۔

اتارو مجھے یہی پر۔۔۔۔۔۔۔“   

 گزشتہ شب۔۔۔گھر جانے کو رکشے میں بیٹھی وہ اپنی سوچوں میں اس قدر غرق تھی کہ یکدم بدلتے راستوں کی جانب غور ہی نہیں کر پائی تھی۔۔۔

مگر جب نا آشنا سڑکوں کو دیکھ شدت سے احساس جاگا تو تب تک وقت کی لگامیں ہاتھ سے نکل چکی تھیں۔۔۔۔جبھی گھبرا کر پوچھتے اس نے بےاختیار شور مچانا چاہا۔

معاً ناک تک ہنوز رومال چڑھائے انجان ڈرائیور نے سنسان سڑک پر دوڑتا رکشہ روکا۔

پھر اتر کر سرعت سے اسکی جانب آیا۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ اپنی طرف کا دروازہ کھول کر رکشے سے اترتی ہوئی۔۔۔مزید کوئی مزاحمت کرپاتی۔۔۔

یکدم ناک پر پڑتے رومال نے اسے بدحواس کیا تھا۔

”اممم۔۔۔ممم۔۔۔۔۔۔“ 

 اس زور زبردستی پر اسکا حجاب تو ڈھیلا ہوا ہی تھا مگر وہ مقابل کا منہ نوچنے کی کمزور کوششوں  میں اسکا نقاب چاہ کر بھی نہیں اتار پائی تھی۔

نتھنوں میں گھستی ناقابل برداشت کلوروفارم کی بُو اگلے چند لمحوں میں اسے  بیہوش  کر چکی تھی۔۔۔

اور پھر۔۔۔۔۔۔

”نہیں ں ں ں۔۔۔۔۔“ 

 معاً حاویہ گھٹی چیخ کے ساتھ۔۔۔گھبرا کر تیزی سے نم ہوتی آنکھیں کھول گئی۔

تو کیا وہ اغواء ہو چکی تھی۔۔۔۔؟؟؟

ہاں۔۔۔ہاں وہ ہوچکی تھی۔۔۔۔

شدت سے دکھتی کنپٹیاں اسے حالات کی بد ترین سنگینی کا احساس دلاتی ہلکان کرنے کے درپے تھیں۔۔۔۔

پر اغواکار تھا کون۔۔۔۔؟؟

اور اسکی ذات کو لے کر ایسا گھٹیا پن کیونکر دکھایا گیا تھا۔۔۔؟؟

کس مقصد کے تحت۔۔۔؟؟  

کیا شام۔۔۔۔؟؟  

یاں پھر عائل حسن۔۔۔۔؟؟

جہاں شدت سے ابھرتے سوالات نے اسکا سنساتا دماغ مزید بھٹکایا تھا۔۔۔وہیں دوسرے نام پر اسکا بےچینی تلے پھڑپھڑاتا دل شدت سے انکاری ہوا۔

پر صد افسوس کہ۔۔۔۔ان میں حقیقی نام تو کہیں بھی نہیں تھا۔

”ی۔۔یہ میں کہاں ہوں۔۔۔؟؟

کک۔۔۔کون۔۔۔۔؟؟

کون لایا ہے مجھے یہاں پر۔۔۔۔؟؟“

 چیخ کر پوچھتے ہوئے آنسو بے اختیار حاویہ کے سانولے گالوں پر لڑھک آئے۔۔۔

پر اسکا یہ بےسود استفسار اس ویرانے میں گونج کر اسی کی جانب واپس لوٹ آیا تھا۔

بیک وقت کئی سوچیں۔۔کئی فکریں۔۔اور بےتحاشہ خوف اسکے وجود میں اندر تک سرائیت کرگیا۔

”پلیز کھولو مجھے۔۔۔۔

نکالو یہاں سے۔۔۔۔

کوئی ہے۔۔۔۔؟؟کوئی تو سنو۔۔۔؟؟؟

خدا کا واسطہ ہے کھولو مجھے گھر جانا ہے۔۔۔۔۔“  

بھرائی آواز میں شدت سے ملتجی ہوتی۔۔۔اب کہ وہ بے چینی تلے چئیر سےاٹھ کھڑی ہوئی۔

اس سے پہلے کہ وہ چئیر کو اپنے سنگ گھسیٹ کر گودام کے داخلی دروازے تک پہنچنے کی سعی کرتی۔۔۔

عین اسی وقت کھلتے دروازے نے اس کا ہولے ہولے لرزتا وجود وہیں ساکت کردیا۔

جلدی سے اپنا حجاب سر پر لیتی حاویہ۔۔۔ کے نازک دل کی دھڑکنیں خوف تلے تیز تر ہوئیں تھیں۔

آنے والا اپنے پیچھے دروازہ بند کرتا۔۔۔قدم قدم مزید آگے کو آیا تو حاویہ نے متوحش سی ہوکر دھندلائی نگاہیں جھپکاتے ہوئے آنے والے کی جانب دیکھا۔

اگلے ہی پل بہتے آنسوؤں میں مقابل کا چہرہ صاف ہوا تھا۔

”ب۔۔بختی بھائی۔۔۔۔؟؟“

حاویہ کے دہکتے لب بے یقینی تلے پھڑپھڑائے۔

 بھیگی نگاہوں میں مزید خوف اتر آیا تھا۔

”کیسے مزاج ہیں میری باربی ڈول کے۔۔۔؟؟؟“ 

 ہاتھ میں شاپر تھامے وہ اسکی جانب آتا قدرے خوش اخلاقی سے گویا ہوا۔

آنکھوں میں کمینی سی چمک نمایاں تھی۔

بختی کی طمانیت دیکھ اس کی سانسیں سینے میں اٹکنے لگیں۔۔۔

”اماں نے دال چاول بنائے تھے۔۔۔۔

کھانے بیٹھا تو یکدم تمھارا خیال آگیا۔۔۔

سوچا مل کے کھانے سے محبت بڑھتی ہے جسکو ہمارے بیچ بڑھانے کی ضرورت بھی  کافی ذیادہ ہے۔۔۔۔

اس لیے بنا کچھ کھائے پیے سیدھا تمھارے پاس چلا آیا۔۔۔۔“ 

 اسکے مقابل رک کر بےتکی وضاحت دیتا وہ حاویہ کی  قابلِ دید حالت سے برابر حظ اٹھا رہا تھا۔۔۔

جبکہ وہ آنکھیں پھیلائے اسکی جانب دیکھتی ہنوز ساکت تھی۔

”ارے ایسے کیا گھور کے دیکھ رہی ہو مجھے باربی ڈول۔۔۔۔؟؟ہیں۔۔۔۔؟؟؟

ان دال چاولوں کی جگہ کہیں مجھے ہی تو ثابت نگل جانے کا ارادہ نہیں ہے تمھارا۔۔۔؟؟؟“

اسکی طول پکڑتی خاموشی پر مزید غیرسنجیدہ ہوتا وہ حاویہ کا ضبط ہی تو۔۔۔ توڑ گیا تھا۔

”کچھ خدا کا خوف کرو۔۔۔۔

کچھ تو خدا کا خوف کرو۔۔۔بہن مری ہے میری چند روز پہلے۔۔۔

ابھی تک اسکا کفن بھی میلا نہیں ہوا اور ایسے میں۔۔۔۔ تمھیں اپنی ذاتی دشمنیاں نکالتے ہوئے رتی بھر بھی شرم نہیں آرہی۔۔۔۔؟؟

آخرکس قسم کے انسان ہو تم۔۔۔؟؟؟“ 

 اپنا دوسرا ہاتھ اسکے چہرے کے مقابل لاکر چٹختی وہ اسے شدت سے شرم دلانے کے درپے ہوئی تھی۔

وہ جو اپنے خاندان سمیت حرمین زہرا کی میت پر آنے سے گریزاں رہا تھا۔۔اب کیسے دھڑلے سے اپنا گھٹیا پن دکھانے پر اتر آیا تھا۔۔۔؟؟؟

اسکے نفرت چھلکاتے لہجے پر بختی کے نقوش ایکدم سپاٹ ہوئے۔

”شرم بیچ کھائی ہے میں نے اپنی۔۔۔۔

اسی لیے تم سے ذاتی دشمنیاں نکالنے پر اتر آیا ہوں۔۔۔

اور میری ان دشمنیوں میں پوشیدہ محبت تمھیں چاہ کر بھی نظر نہیں آنے والی۔۔۔۔اس بات کا بھی مجھے بخوبی اندازہ ہے۔۔۔۔۔۔“  

بے اختیارقریب ہوتے ہوئے دانت پیس کر بولتا وہ اسے چئیر پر واپس ڈھے جانے پر مجبور کرگیا۔

”اگر تم اسے محبت کہتے ہو تو۔۔۔ایک بار چھوڑکر ہزار بار لعنت بھیجتی ہوں میں تمھاری ایسی محبت پر۔۔۔

جو سوائے اذیت اور رسوائی کے اور کچھ بھی دینا نہیں جانتی۔۔۔۔۔“ 

 سسک کر بھیگی نگاہیں اسکی جانب اٹھاتی وہ اسکے سینے میں اپنے تند لفظوں کے تیر پیوست کرنے سے باز نہیں آئی تھی۔

جواب میں۔۔۔۔ہاتھ میں پکڑا شاپر پرے پھینکتا وہ مشتعل سا اس کی جانب جھکا تو حاویہ پیچھے ہوتی اپنا لب دانتوں تلے  دباگئی۔

نم انگارہ نگاہیں ہنوز اسکے تنے نقوش پر دلیری سے جمی تھیں۔ 

”ہر لحاظ سے میرے چنگل میں ہوکر بھی تم اتنی دیدہ دلیری سے مجھ پر لعنتیں بھیج رہی ہو۔۔۔۔۔۔

ڈر نہیں لگتا تمھیں اپنے انجام سے۔۔۔ہہمم۔۔۔۔۔؟؟؟

تم۔۔۔۔

میں۔۔۔۔

یہ تنہائی۔۔۔

اور ان تینوں کے بیچ پنپتے۔۔۔کبھی بھی اور کچھ بھی ہوجانے والے خدشات۔۔۔۔

اففف۔۔۔۔۔“ 

 صاف لفظوں میں اسے دھمکاتا وہ اسکے لرزتے وجود میں اپنے خوف کی سنساہٹ دوڑا گیا۔

”ک۔۔کیا۔۔۔۔؟؟

کیا چاہتے کیا ہو تم مجھ سے۔۔۔۔؟؟“

  چیخ کر پوچھتی وہ بڑی مشکلوں سے خود کو پھوٹ پھوٹ کر رونے سے باز رکھے ہوئے تھی۔

جواباً سوچنے کی بھونڈی اداکاری کرتا وہ اسے زہر ہی تو لگا تھا۔

”میں۔۔۔۔۔؟؟؟

تمھاری مزید دو سے چار دن کی گمشدگی۔۔۔۔

اور پھر اس کے نتیجے میں ہونے والی وقتی بدنامی کے بعد تمھارا زندگی بھر کا حسین ساتھ۔۔۔

بس یہی۔۔۔۔۔“  

بڑے سکون سے اسے اپنے خطرناک ارادے باور کرواتا وہ اسکے مزید ذرا سا قریب ہوا۔۔۔

تو وہ بے اختیار سسک کر خود کی پشت مکمل پیچھےکوٹکا گئی۔

آنسو تواتر سے حاویہ کے گالوں پر بہتے مقابل کو سکون سے دوچار کر گئے تھے۔

”میں بدنامی سہہ لوں گی۔۔۔۔

پر تم جیسے گھٹیا ترین انسان کا زندگی بھر کے لیے ساتھ ہرگز برداشت نہیں کروں گی۔۔۔۔

سنا تم نے۔۔۔۔۔“ 

 شدت سے انکاری ہوتی وہ حقیقتاً بختی کے اشتعال کو ہوا دے گئی تھی۔

اگلے ہی پل حجاب سمیت اسکے بالوں کو اپنی مٹھی میں جکڑتا وہ اسے اپنے ساتھ کھڑا کرگیا۔۔۔

ہتھکڑی کا ہنوز جکڑاؤ اسکی نازک کلائی کو سرخ کرگیا تھا۔

”کیا بکواس کری تم نے۔۔۔۔؟؟

ذرا پھر سے اپنے لفظوں کو دُہرانا۔۔۔۔

پہلی بار میں سننے کا کچھ خاص مزہ نہیں آیا مجھے۔۔۔۔“ 

بالوں کو جھٹکا دے کر اپنی گرفت سخت کرتا وہ کرخت لہجے میں بولا۔۔۔تو حاویہ نے سسک کر دوسرے ہاتھ اسے خود کو اسکی گرفت سے چھڑوانے کی ناکام کوشش کی۔

”اگر تم میں ذرا سی بھی انسانیت باقی ہے تو خدا کے لیے مجھے چھوڑ دو۔۔۔۔

ا۔۔ایک رات بیت چکی ہے۔۔۔۔

میری ماں گھر میں بیمار پڑی ہے۔۔۔

و۔۔وہ۔۔۔میری غیر موجودگی سے اب تک یقیناً نڈھال ہو چکی ہوں گی۔۔۔

پلیز مجھے جانے دو۔۔۔۔۔“  

بھرائی آواز میں ملتجی ہوتی وہ اسے خباثت سےمسکرانے پر مجبور کرگئی تھی۔

”چہ چہ چہ۔۔۔۔

یوں سسک سسک کر بھیک مانگتی ہوئی تم مجھے اور بھی خوبصورت لگتی ہو باربی ڈول۔۔۔۔

اور یقین مانو تمھاری یہ خوبصورتی اب مجھے زہر لگنے لگی ہے۔۔۔ زہر۔۔۔۔

جسے گھونٹ گھونٹ پینے کے لیے میں آخری دم تک تیار ہوں۔۔۔۔

بس تم بھی تیار رہنا۔۔۔۔۔“  

کہتے ہوئے ایک جھٹکے سے اسے چھوڑتا وہ اگلے ہی پل وہاں سے جانے کو پلٹا۔

”مت کرو یہ۔۔۔۔

پچھتاؤ گے۔۔۔۔

حد سے ذیادہ پچھتاؤ گے تم۔۔۔۔۔“  

بختی کو وہاں سے جاتا دیکھ حاویہ جلدی سے بولی۔۔۔تو اسکی سخت تنبیہہ پر اسکے تیوریاں چڑھی۔

”اچھااا۔۔۔۔؟؟

اور مجھے پچھتانے پر مجبور کون کرے گا۔۔۔؟؟

وہ دو ٹکے کا پولیس آفیسر۔۔۔۔؟؟؟

تمھارا وردی والا عاشق۔۔۔۔؟؟؟ہیں۔۔۔؟؟؟“ 

 پلٹ کر پھر سے اسکے قریب آکر پوچھتے ہوئے اسکی آنکھوں میں ضبط کی سرخی ہلکورے لے رہی تھی۔

اسکے تیوروں پر جہاں حاویہ نا چاہتے ہوئے بھی گھبرائی تھی۔۔۔وہیں دھڑکنیں عائل کے ذکر پر منتشر سی ہوئیں۔۔۔۔

جب جواب نہ ملنے پر وہ اسے کندھوں سے دبوچ گیا۔

”میری ایک بات اپنے اس چھوٹے سے بھیجے میں اچھے سے فٹ کرلینا تم باربی ڈول۔۔۔۔

اگر اب جو مجھ سے نکاح نہ کرنے کی ذرا سی بھی ضد لگائی ناں تم نے۔۔۔تو  یاد رکھنا۔۔۔۔

خدا قسم تمھاری اس حماقت پر تمھیں وہ سزا دوں گا کہ۔۔۔جب جب اس بابت سوچو گی تب تب تمھارے رونگھٹے کھڑے ہوتے چلے جائیں گے۔۔۔۔

سمجھی۔۔۔۔۔۔“

 کرخت لہجے میں اپنی بات کہتا وہ جھٹکے اسے اسکا نازک وجود چئیر پر دھکیلتا مزید وہاں رکا نہیں تھا۔

پلوں میں دھندلائی نگاہوں سے اوجھل ہوتی پشت دیکھ کر حاویہ۔۔۔اس ستم پر نڈھال سی پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

اس شخص  نے سرعام بولا تھا۔۔۔

بولا تھا کہ وہ موقع پاتے ہی ایسی کاری ضرب لگائے گا۔۔۔۔جس کے نتیجے میں عزت کی دھچیاں بکھرتی چلی جائیں گی۔۔۔

اور اب وہ دھیرے دھیرے بکھیر بھی رہا تھا۔۔۔۔

جہاں زمین پر پڑا کھانا اپنی بے قدری پر نالاں تھا۔۔۔۔وہیں وہ نازک وجود بھی ہچکیوں کی زد میں آتا۔۔۔ اس ستم ظریفی پر شدت سے ماتم کناں ہوا تھا۔

اس دوران بےچینیوں تلے پھڑپھڑاتے دل نے اپنی تمام تر خفگی کے باوجود بھی بڑی آہستگی  سے ”عائل حسن“ کا نام پکارا تھا۔۔۔۔

*************************

وہ اس وقت اپنے عیاش فطرت دوستوں کے ہمراہ کراچی کے مشہور نائٹ”سٹار“ کلب میں موجود تھا۔

جہاں برائے نام کپلز ملٹی شیڈز روشنیوں تلے۔۔۔بھڑکیلے سُروں پر قدرے بےباکی سے خود کے وجود تھرکا رہے تھے۔۔۔

وہیں خلافِ توقع وہ الگ تھلگ سا ٹیبل بار کے قریب سٹول پر براجمان لائٹ ڈرنک کررہا تھا۔

سرخ آنکھوں میں اتری سوچ کی گہری پرچھائیاں اسکا سکون برباد کیے ہوئے تھیں۔

جبکہ اس کے برعکس فواد اور افروز ہر فکر۔۔۔ٹینشن سے کوسوں پرے۔۔۔اپنی اپنی وقتی من چاہی لڑکیوں کے ساتھ فلور پر ڈانسنگ سٹیپ لیتے ہوئے کافی سرشار سے دکھائی دے رہے تھے۔

”تمھارا اور حرمین زہرا کا تعلق کس حد تک گیا تھا۔۔۔۔؟؟؟“

 اس ہنگامہ مچاتے ماحول میں بھی  بھاری سنجیدہ آواز اسکے کانوں میں صاف گھلی تھی۔

”حد مطلب۔۔۔؟؟؟

آپ۔۔۔۔آپ مجھ پر شک کررہے ہیں بھائی۔۔۔؟؟

اپنے چھوٹے بھائی پر۔۔۔۔۔؟؟سریسلی۔۔۔؟؟؟“ 

 گزشتہ شب  اکیلے میں عائل کی براہ راست تفتیش اسکا سینہ ہی تو تپا کر رکھ گئی تھی۔

اسکی بےیقینی پر وہ بے اختیار گہرا سانس بھرکے رہ گیا۔

”شک ہرگز نہیں کررہا ہوں۔۔۔۔۔

خود کی تسلی کے لیے محض ایک سوال پوچھ رہا ہوں تم سے۔۔۔۔۔“

  کچھ نرمی سے بولتا وہ ہنوز اسکے مقابل دستِ سوال دراز تھا۔

 تلخ سوچوں کے گہرے بھنور میں بہتے شام نے اس بار گلاس سے شراب کا لمبا گھونٹ بھرا تھا۔

”ہونہہ۔۔۔۔۔

تسلی بھی وہیں کروائی جاتی ہے جہاں شک کی کچھ گنجائش موجود ہو۔۔۔

اور اس لڑکی نے میرے خلاف آپ کے دل میں یہ گنجائش بآسانی پیدا کردی ہے بھائی۔۔۔دِکھ رہا ہے مجھے۔۔۔۔۔“ 

 اس کی بات پر استہزائیہ انداز میں سر کو جنبش دیتا وہ پرتاسف سا گویا ہوا تو عائل اسکی اس قدر بدگمانی پر ضبط سے لب بھینچ گیا۔

”لیکن پھر بھی میں آپکو۔۔۔۔محض آپکی تسلی کی خاطر یہ بات صاف بتائے دیتا ہوں کہ حرمین زہرا سے میرا تعلق صرف اور صرف برائے نام دوستی کی حد تک تھا۔۔۔

بالکل سادہ اور عام سا۔۔۔

اس سے ذیادہ کچھ بھی نہیں۔۔۔

انفیکٹ وہ تو خود انگیجڈ تھی یار۔۔۔

بھلا ایسے میں میرے ساتھ کیا خاک تعلق بناتی۔۔۔۔۔؟؟؟“ 

 بنا ہکلائے۔۔۔ہچکچائے بڑی صفائی سے جھوٹ بولتا وہ عائل کو ایک حد تک اطمینان دلاچکا تھا۔

”تمھیں جب حرمین زہرا کی موت کے بارے میں پتا تھا تو پھر تم نے ہم سے کسی ایک کو بھی یہ بات کیوں نہیں بتائی۔۔۔؟؟؟

یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہم انکے گھر نکاح کی پیشکش لے کر جانے والے تھے۔۔۔۔؟؟؟“

 مقابل کے مزید ایک سوال پر وہ پل بھرکو لب بھینچ گیا۔

عائل نے اسکی پیشانی پر ناگواری کی چڑھتی تیوریاں اگلے ہی لمحے مٹتی دیکھی تھیں۔

اپنی پشت پر اٹھتے ہنگاموں سے ہنوز بیگانہ۔۔۔شام کا دماغ مزید گہرائیوں میں اترتا اب کہ سنسنانے لگا۔

معاً اسکی یاداشت میں خود کی دی گئی وضاحت تازہ ہوئی تھی۔

”بھائی۔۔۔مجھے خود یہ بات بہت دیر سے پتا چلی تھی۔۔۔۔

اور جیسے ہی مجھے حرمین کی موت کا علم ہوا تو میں فوراً سے اپنے دوستوں کے ہمراہ ان کے گھر اظہار افسوس  کے لیے بھی گیا تھا۔۔۔۔“  

سرد لہجے میں اپنی صفائی دیتا وہ کسی بھی طور خود کو غلط ٹھہرانے کا روادار نہیں تھا جب بات کرتے ہوئے یکدم ہی اسکے انداز بدلے۔۔۔

عائل نے چونک کر اسے دیکھا۔

”لیکن وہاں جو آپکے چھوٹے بھائی کے ساتھ سرعام بدسلوکی کی گئی ہے ناں۔۔۔

جو بے بنیاد الزامات کی بوچھاڑ کی گئی ہے۔۔۔

وہ سب کچھ ناقابلِ برداشت تھا میرے لیے۔۔۔۔

مگرمیں پھر بھی  لحاظ کرگیا۔۔۔

 لحاظ کرگیا صرف اور صرف آپکی خاطر۔۔۔

ورنہ آپ جانتے ہیں کہ میں لحاظ برتنے والوں میں سے ہر گز نہیں ہوں۔۔۔۔۔“  

انگلی اٹھاکر جتاتا اب کہ وہ عائل کے اندر زہر گھولنے پر آیا تھا۔

جواب میں وہ ضبط سے منہ پر ہاتھ پھیرتا رخ پلٹ گیا۔

”یہی بات تو میری خود کی بھی سمجھ میں نہیں آرہی کہ کیوں۔۔۔؟؟

آخر کیوں وہ تمھارے اس قدر خلاف جا چکی ہے۔۔۔۔؟؟؟

بنا کسی ثبوت۔۔۔بنا ٹھوس وجوہات کے کیوں وہ تمھیں ایک لٹیرا اور قاتل بنانے پر تلی ہوئی ہے۔۔۔۔؟؟؟“  

ڈی۔جے نے بیس بڑھاتے ہوئے جہاں ماحول کو مزید بھڑکیلا بنایا تھا وہیں سماعتوں میں اترتی عائل کی اذیت بھری آواز پر۔۔۔آخری گھونٹ بھی حلق میں انڈلیتے شام نے گلاس کو بار ٹیبل پر پٹخا۔

بھوری نگاہوں کی سرخائی مزید گہری ہوئی تھی۔

”پاگل۔۔۔۔

یس بھائی۔۔۔۔۔

بہن کی موت کا صدمہ اسے اس قدر پاگل کرچکا ہے۔۔۔کہ  وہ بنا سوچے سمجھے اس حد تک چلی گئی ہے۔۔۔۔“  

بے اختیار اس کے سامنے آتا وہ عائل کو مزید پریشانی میں دھکیل گیا۔

”آپکو یاد ہو تو ایک بار میں نے چند غنڈوں سے لڑ کر حرمین زہرا کی عزت بچائی تھی۔۔۔

اورعزت کا رکھوالا کبھی بھی ایک لٹیرا نہیں ہوسکتا۔۔۔

لیکن اسے زبردستی لٹیرا بنانے والا پاگل ضرور ہوسکتا ہے۔۔۔

جو کہ وہ الموسٹ  ہوچکی ہے۔۔۔۔“  

اسکی محدود سوچوں کے لیے نت نئے در وا کرتا وہ عائل کا مکمل اعتماد پانے میں قدرے کامیاب ٹھہرا تھا۔

”مجھے بھروسہ ہے تم پر شام۔۔۔۔

پورا یقین ہے کہ میرا بھائی کبھی بھی اتنے گھٹیا پن کا مظاہرہ نہیں کرسکتا۔۔۔۔

ہاں البتہ حاویہ اپنے غلط رویے کے سبب خود کے ساتھ ساتھ  مجھے بھی سخت اذیت سے دوچار کرگئی ہے۔۔۔۔“ 

 وہ جو حالات کی سنگینی کے پیشِ نظر کچھ وقت پہلے ہی حاویہ کی بابت حسن صاحب کو منع کرچکا تھا۔۔۔ اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتا تھکے تھکے سے لہجے میں بولا۔

”سر۔۔۔؟؟؟

مور ڈرنک۔۔۔۔؟؟؟؟“

 معاً ویٹر شام کی جانب آکر پوچھتا اسے اسکی گہری سوچوں سے چونکا گیا۔ 

”ن۔۔نہیں۔۔۔۔۔“ 

 بے اختیار بالوں میں ہاتھ چلاتا وہ مزید ڈرنک لینے سے انکارکرگیا تو ویٹر بھی سر اثبات میں ہلاتا  گلاس اٹھاکر وہاں سے پلٹ  گیا۔

شام نے سر جھٹک کر گہرا سانس بھرا۔

پھر وہیں بیٹھے بیٹھے گردن موڑ کر فلور کی جانب دیکھا۔

اگلے ہی پل اسکی لہو رنگ نگاہیں افروز کے ساتھ دبی دبی بےباکیاں کرتی اس لڑکی پڑیں تو اسکے وجیہہ نقوش شدید حیرت میں ڈھلے۔

”حرمین زہرا۔۔۔۔۔؟؟؟“ 

 ہنوز اس نازک وجود پر ساکت نظریں جمائے شام کے لب دھیرے سے پھڑپھڑائے تو دل شدتوں سے دھڑک اٹھا۔

حرمین زہرا۔۔۔۔۔؟؟؟“  

ہنوز اس نازک وجود پر ساکت نظریں جمائے شام کے لب دھیرے سے پھڑپھڑائے تو دل شدتوں سے دھڑک اٹھا۔

”افففف۔۔۔۔۔۔۔“  

بےاختیار انگلیوں تلے۔۔۔نشے سے خمار آلود ہوتی آنکھیں مسلتے ہوئے اس نے سر جھٹک کر دوبارہ اسکی جانب دیکھا۔

منظر ہنوز تھا۔

وہ مختصر سے سرخ رنگ لباس میں بانہوں میں بانہیں پھنسائے۔۔۔ اب کہ قدرے دھیمے انداز میں افروز کے ساتھ ڈانس کے سٹیپ لے رہی تھی۔

جھٹکے سے سٹول سے کھڑے ہوتے شام کی سانسیں۔۔۔اسکے سیاہی مائل لبوں کی مسکراہٹ دیکھ کر تیز تر ہوئی تھیں۔

ہاں۔۔۔۔

ہاں۔۔۔وہ لڑکی حقیقتاً حرمین زہرا ہی تھی۔

بے یقینی کی جگہ اب کہ شدید اشتعال نے لی۔۔۔تو لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہ سرعت سے ان دونوں کی جانب لپکا۔

اس دوران سن ہوتے دماغ پر نشے کا اثر صاف حاوی ہونے لگا تھا۔

”ہے ای سویٹ ہارٹ۔۔۔

تم مجھے پہلے کیوں نہیں ملی یار۔۔۔۔؟؟؟

جانتی ہو تمھاری تلاش میں۔۔میں کس قدر خوار۔۔۔ہو۔۔و۔۔۔“ 

 رواں میوزک کا لطف لیتا افروز اسکی نازک کمر پر اپنی گرفت مضبوط کرتا اب کہ مزید  کمینے پن پر آیا تھا۔۔۔

جب قریب آتے شام نے بے اختیار اسے کندھے سے دبوچ کر پرے دھکیلا۔

پھر قدرے غصے سے اس لڑکی کے مقابل آیا۔

”ہمت۔۔۔ہمت کیسے ہوئی تمھاری یہاں آنے کی۔۔۔۔؟؟؟

ہوں۔۔۔؟؟؟

جانتی ہو ناں کہ تم۔۔۔۔اور تمھارا یہ ناکارہ وجود اب اس جگہ کے تو کیا۔۔۔۔اس جیتی جاگتی دنیا کے بھی قابل نہیں رہا۔۔۔۔

تو پھر کس مقصد کے تحت اب تم میرے سامنے آئی ہو بولو۔۔۔۔؟؟؟“ 

 اسکا عریاں بازو دبوچ کر پوچھتا وہ قدرے جارحانہ انداز اپنائے ہوئے تھا۔

حرمین زہرا کے دکھائی دیتے سانولے نقوش اس پل اسے زہر ہی تو لگ رہے تھے۔

جہاں جنت نامی لڑکی نے آنکھیں پھاڑ کر مقابل کی اس غیرمتوقع حرکت کو دیکھا تھا وہیں افروز اس بےجا مداخلت پرسختی سے مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا۔

ابھی کچھ دیر پہلے تو کوئی بھڑکتی کلی اسکے ہاتھ آئی تھی اور اب یہ۔۔۔۔

”او ہیلو مسٹر۔۔۔۔واٹ ربش۔۔۔۔؟؟؟

تم ہوتے کون ہو مجھے یوں بلاوجہ کی نصحیتیں کرنے والے۔۔۔۔؟؟؟ 

اینڈ واٹ ڈو یو مین بائے قابل نہیں۔۔۔ہاں۔۔۔؟؟؟

کیا تم اس قابل ہو کہ بنا اجازت مجھے ٹچ بھی کر سکو۔۔۔۔؟؟

جسٹ لیو می۔۔۔۔“  

وہ مردانہ وجاہت رکھنے والا امیرزادہ اسے خاصا بگڑا ہوا بددماغ لگا تھا۔۔۔جبھی جھٹکے سے اپنا بازو چھڑواتی وہ بھی چٹخ کر گویا ہوئی۔۔۔

اسکے یوں بپھرنے پر شام کے ماتھے پر صاف بل پڑے تھے۔

حقیقتاً اسے حرمین زہرا خود کے ساتھ کھلی بدتمیزی کرتی ایک آنکھ نہیں بھائی تھی۔

اس دوران فواد سمیت آس پاس کے محض دوچار لوگ ہی تھے جو انکی جانب متوجہ ہوتے اپنی مشترکہ سرگرمیوں کو تقریباً روک چکے تھے۔

”تم۔۔۔مجھ سے۔۔۔؟؟

مجھ سے پوچھ رہی ہو کہ میں کون ہوں۔۔۔؟؟؟

ہہمم۔۔۔؟؟

اس سے۔۔۔جس نے بذاتِ خود تمھیں کسی شناخت کے قابل نہیں چھوڑا۔۔۔۔“ 

 غصے میں گھلی نشیلی بے خودی مزید بڑھی تھی کہ پھنکار کر بولتا وہ ایک بار پھر سے اسکا بازو اپنی سخت گرفت میں لے گیا۔

وقفے وقفے سے بند کھلتی۔۔۔آنکھوں کا صاف فریب اسے ہنوز پاگل کیے دے رہا تھا۔

جواباً جنت نے اسکی قطعی سمجھ  نہ آنے والی گفتگو پر چڑ کر مزاحمت کی تھی۔

معاً خود پر سے ضبط کھوتے افروز نے آگے بڑھ کر شام کو پلوں میں اس سے دور کیا۔

پھر جنت کو اپنے پیچھے کرتا اسکے مدِمقابل آیا۔

”جسٹ سٹاپ اٹ شام۔۔۔۔

آخرکس حق سے تُو میری گرلفرینڈ کے ساتھ اس قدر بدتمیزی سے پیش آ رہا ہے۔۔۔۔؟؟؟

ایسے کپلز کے بیچ میں زبردستی گھس کر انھیں الگ کردینا کہاں کی اخلاقیات ہیں تیری۔۔۔؟؟؟ہاں۔۔۔۔۔؟؟؟“  

صاف حیرت کا اظہار کرتا وہ مٹھیاں بھینچ کر برہم سا غرایا۔۔۔تو جہاں شام نے پلکیں جھپکا جھپکا کر شدید ناگواری سے اسے دیکھا تھا وہیں ان دونوں کی جان پہچان نکل آنے پر وہ بھی صاف حیران ہوئی۔

اس دوران رنگ برنگی روشنیوں تلے میوزک کی روانگی  ماحول کو ہنوز بھڑکائے ہوئے تھی۔

”کیونکہ۔۔۔یہ لڑکی انہی بدتمیزیوں کی حقدار ہے جو میں اس کے ساتھ کررہا ہوں۔۔۔۔

اور یہ بات تُو بھی بڑے اچھے طریقے سے جانتا ہے۔۔۔۔

اسی لیے بنا کوئی فضول بحث کیے شرافت کے ساتھ میرے آگے سے ہٹ جا۔۔۔۔۔۔“ 

 اسکے سینے پر بارہا شہادت کی انگلی مارتا وہ ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا تو افرور کی آنکھوں کا رنگ بدلا۔

”اور اگر نہ ہٹوں تو۔۔۔۔؟؟؟“  

سپاٹ لہجے میں پوچھتا وہ یونہی اسکے سامنے ڈٹ کر کھڑا تھا۔

اسکا یہ باغی پن دیکھ کر جہاں شام کے تیوریاں چڑھی تھیں وہیں جنت کے آتشی لب۔۔۔افروز کو اپنے حق میں لڑتا دیکھ ایک ادا سے مسکرائے۔

”جان یہ تم نے کس قسم کے سائیکو دوست بنا رکھے ہیں جنھیں لڑکیوں سے بات تک کرنے کی تمیز نہیں ہے۔۔۔؟؟؟“

  بظاہر غصے سے پوچھتی وہ ہنوز افروز کی پشت پر سنبھل کر کھڑی اس صورتحال سے بخوبی لطف لے رہی تھی۔

شام نے مٹھیاں بھینچ کر پل بھر کی سلگتی نگاہ حرمین زہرا کے آدھے واضح ہوتے چہرے پر ڈالی۔

پھرسخت چتونوں سے اپنی جانب تکتے افروز کو گھورا۔

اس پل پل بڑھتے ہنگامے سے محتاط ہوتا فواد بھی اپنی والی سے فوری ایکسکیوز کرتا ہوا۔۔۔اگلے ہی پل دو افراد کے بیچ سے گزر کر انکی طرف آیا تھا۔

”تیری اس اچانک خودسری کی وجہ تو نہیں جانتا سالے۔۔۔

پر تُو یہ بات ضرور جان لے کہ یہ فقط میرا اور حرمین زہرا کا معاملہ ہے۔۔۔سو ہٹنا تو تجھے ہرصورت پڑے گا۔۔۔

اور اب میں یہ وارنگ دوبارہ نہیں دُہراؤں گا۔۔۔چل ہٹ پیچھےےے۔۔۔۔۔۔۔“  

تندہی سے اسکے سینے پر ہاتھ مارتے شام نے بےاختیار اسے ایک طرف دھکا دیا تھا جب قریب تر آتے فواد نے بروقت افروز کو سہارا دے کر سیدھا کھڑا کیا۔

اگلے ہی پل شام حرمین زہرا کی جانب متوجہ ہوا تھا۔۔۔

لیکن یہ کیا۔۔۔۔؟؟

اسکی جگہ کسی اور۔۔۔ناآشنا لڑکی کو گھبرائی نگاہوں سے اپنی جانب تکتا پاکر وہ بری طرح چونکا۔

پھر بے اختیار منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ایک نگاہ اطراف میں دوڑا کر واپس اسے بغور گھورا۔

وہ بہکادینے کی صلاحیت رکھنے والی پٹاخہ سی لڑکی حرمین زہرا تو ہرگز نہیں تھی۔۔۔

”واٹ۔۔۔حرمین زہرا۔۔۔۔؟؟؟

آریو میڈ مین۔۔۔؟؟؟“  

سنبھل کر اسکے قریب آتے افروز نے غصے سے پوچھا تو شام کا سرسراتا ہوا دماغ مزید خراب ہونے لگا۔

اسے اتنی جلدی چڑھتی تو نہیں تھی پر آج فقط ایک پیک کا نشہ اس پل اسکے سر چڑھ کر بول رہا تھا۔

”اپنے ہوش بحال کر سالے اور غور سے دیکھ اس لڑکی کو۔۔۔

دیکھ۔۔۔یہ کسی بھی اینگل سے تیری حرمین زہرا لگتی ہے۔۔۔؟؟

نہیں ناں۔۔۔۔

کیونکہ یہ جنت ہے جنت۔۔۔۔

میری گرلفرینڈ۔۔۔۔

جسٹ مائن۔۔۔سمجھا۔۔۔۔۔“ 

 بے اختیار بوکھلائی سی جنت کو بازو سے تھام کر مزید پاس کرتا وہ اگلے ہی پل اسکا نازک وجود اپنے مضبوط گھیرے میں لے چکا تھا۔

”ج۔۔۔جنت۔۔۔۔؟؟؟“  

ساکت نگاہوں سے اسکے تیکھے نقوش بغور دیکھتے شام نے حیرت سے زیرِلب اسکا نام دُہرایا۔

فواد بھی اسکی بدلے بدلے تیوروں پر حیران سا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

”یس جنت۔۔۔۔

لیکن کیا ہے ناں کہ حرمین زہرا کے چکروں میں تُو اپنے مکمل حواس گنوا بیٹھا ہے۔۔۔

تبھی حقیقت اور فریب میں فرق کرنا تیرے لیے خاصا دشوار ہورہا ہے۔۔۔

اور اب اپنی اسی بدحواسی کے سبب تو خود کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی ذلیل کروانے پر تُلا ہوا ہے سالے۔۔۔۔۔۔“ 

 بےاختیار کسمساتی جنت کو چھوڑ کر سلگتے لفظوں کا زہر مقابل کی سماعتوں میں انڈیلتا ہوا وہ قریب آیا تھا۔۔۔۔

جب ضبط کی طنابیں چھوڑتے شام نے پوری قوت سے ہاتھ کا مکا اسکے چہرے پر دے مارا۔

”او جسٹ شٹ اپ یو بلڈی۔۔۔۔۔جسٹ شٹ اااپ۔۔۔۔۔(گالی##)۔۔۔۔۔“ 

اس اچانک افتاد پر خود کو زمین بوس ہونے سے روکنے کے لیے۔۔۔جہاں افروز نے بروقت فلور پر ہاتھ جمایا تھا وہیں دایاں گال۔۔۔درد کی شدت سے اسے کئی پلوں کے لیے بدحواس کرگیا۔۔۔

اس مارا ماری پر اب کہ کافی لوگ حیرت سے انکی جانب متوجہ ہوچکے تھے۔

ایسے میں جنت کا آنکھیں پھاڑ کر اپنے لبوں کو ہتھیلی تلے دبا لینا بے ساختہ تھا۔

وہ دانت پیستا اسے مزید سبق سکھانے کو بے اختیار اسکی جانب لپکا تھا۔۔۔ جب ہوش میں آتا فواد بروقت اسے سینے سے جکڑتا بیچ میں ہی روک گیا۔

”شام۔۔۔جسٹ سٹاپ اٹ یار۔۔۔

کیا ہوگیا ہے تجھے۔۔۔؟؟؟ہوش کر۔۔۔۔“ 

 فواد دبے لہجے میں غراتا شدت سے ملتجی ہوا تھا مگر اسکی خون ہوتی نگاہیں سیدھے کھڑے ہوتے افروز پر ہی جمی تھیں۔

”اگر آئندہ حرمین زہرا کو لے کر میرے خلاف اس طرح سے بکواس کرنے کی ہمت کی۔۔۔۔

تو تجھ سمیت تیری اس کھوکھلی جرات کو یہی گاڑ دوں گا۔۔۔

یاد رکھنا۔۔۔۔۔“  

درشتگی سے تنبیہہ کرتا شام ہنوز فواد کی گرفت میں تھا۔

اس دوران نشے کا اثر اب کہ کافی حد تک زائل ہو چکا تھا۔

جواباً افروز نے سر جھٹک کر قہرآلود نگاہوں سے اسکی جانب دیکھا۔

پھر مٹھیاں بھینچ کر قدرے ڈھٹائی سے قدم قدم چلتا ہوا اسکے سامنے آیا۔

”ایسا کیا۔۔۔۔؟؟؟

تو لے پھر۔۔۔کروں گا حرمین کے نام پر ایسی جرات۔۔۔۔

ایک بار چھوڑ کر بار بار کروں گا سالے۔۔۔

بہت برداشت کرلی میں نے تیری یہ نام نہاد غنڈہ گردی۔۔۔۔

یہ دکھاوے کا دبدبہ۔۔۔۔

اب تجھے مزید جھیلنے کی برداشت نہیں ہے مجھ میں۔۔۔اور نہ ہی میں جھیلوں گا۔۔۔۔“  

قطیعت بھرے لہجے میں چلاکر بولتا وہ آج اس پر اپنے اندر دبی ساری بھڑاس ایک ساتھ انڈیلنے  پر آیا تھا۔

 اس کے اس قدر باغی لہجے پر فقط ایک پل کے لیے شام چونکا تھا۔

”مجھے اوقات اوقات گنواتا پھرتا ہے۔۔۔۔

خود تُو کیا ہے۔۔۔ہاں۔۔۔؟؟

باپ اور بھائی کے بل بوتے پر اچھلنے والا فقط دو ٹکے کا گھٹیا ترین انسان ہے تُو۔۔۔

اس سے ذیادہ کچھ بھی نہیں۔۔۔۔“

 دوستی کے  رہے سہے باقی بھرم بھی پل میں توڑتا وہ مزید گویا ہوا۔۔۔تو شام کے لیے جیسے برداشت کی حد ہوئی تھی۔

”اوئے ذلیل انسان بکواس بند کرلے اپنی۔۔۔۔

تجھے فضول میں معاملہ بگاڑنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔۔“ 

پریشان سا فواد جلدی سے بول پڑا۔۔۔۔

پر اگلے ہی پل شام پوری قوت لگا کر اسے خود سے پیچھے دھکیلتا افروز کے مدِمقابل آیا تھا۔

اس دوران شدت سے ابھرتے تماشے پر جہاں میوزک کی بھڑکیلی دھنوں میں خاص فرق نہیں آیا تھا۔۔۔وہیں چہ مگوئیاں کرتے ہوئے۔۔ان دونوں کی جانب یک ٹک تکتے لوگوں کی نگاہوں میں اگلے لمحوں کے لیے مزید تجسس در آیا۔

افروز تنے اعصاب کے ساتھ ہنوز سینہ تانے کھڑا تھا۔

”اب تُو خود کی اوقات بھول کر مجھے میری اوقات گنوائے گا ۔۔۔۔؟؟؟

سالے تیری تو۔۔۔(گالیاں##)۔۔۔۔“

 ایک ہی جست میں اسکا گریبان دبوچ کر پوچھتے ہوئے شام نے بے اختیار اسکے منہ پر ایک اور شدت بھرا مکا مارا۔۔۔

جواباً افروز بھی بنا کوئی لحاظ برتے اس کے ساتھ بری طرح گتھم گتھا ہوچکا تھا۔

بوکھلائے سے فواد سمیت کئی لوگ سرعت سے انھیں الگ کرنے کو آگے بڑھے تھے پر ان دونوں  کے سر پر تو  نشے کی جگہ جیسے خون سوار ہوچکا تھا۔

ایسے میں ڈی جے نے اپنے ساتھ کھڑے شخص کو فوری گارڈز ساتھ لانے کا صاف اشارہ کیا۔۔۔تو وہ سر اثبات میں ہلاتا ہوا باہر کو بھاگا۔

افروز کے کئی وار بے پرواہی سے برداشت کرتا شام اسکا نچلا ہونٹ شدید زخمی کرگیا تھا۔

”چھوڑو۔۔۔۔

چھوڑو مجھے۔۔۔۔

آج تو میں اس کمینے کے سارے بل کس نکال باہر کروں گا۔۔۔

سالا مجھ سے دشمنی مول لینے چلا ہے۔۔۔تھوووو۔۔۔۔۔“ 

 دو سے تین بندوں نے پکڑ کر شام کا بپھرا وجود افروز سے دور گھسیٹا تھا جب غرا کر بولتا وہ اگلے ہی پل اسکی طرف تھوک چکا تھا۔ 

ہتھیلیوں کے بل کراہ کر بیٹھتے افروز نے جلتی آنکھوں سے شام کی یہ حرکت دیکھی۔۔۔۔جو اگلے ہی لمحے پوری قوت سے ان سے اپنا آپ چھڑواتا  گہرے گہرے سانس بھرنے لگا۔

پھر دھمکی کے طور پر شہادت کی انگلی اسکی جانب اٹھاکر جھٹکا دیتا۔۔۔۔اگلے ہی لمحے بنا کچھ کہے وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

نچلے لب کے کنارے سے بہتے خون کو انگوٹھے تلے بے دردی صاف کرتا افروز بامشکل کھڑا ہوا۔۔۔۔

تو جہاں فواد نے بالوں میں ہاتھ چلاتے ہوئے۔۔۔۔اس کو تاسف زدہ نگاہوں سے گھورا تھا۔۔۔۔وہیں تب سے دنگ کھڑی جنت نے بھی گارڈز کو وہاں آتے دیکھ  کھسکنے میں ہی خود کی عافیت جانی تھی۔

”حرمین زہرا کی زندگی برباد کرنے کے لیے ایک داؤ تُو نے کھیلا تھا شاہ میر حسن۔۔۔۔

تیری اس نام نہاد پارسائی کے پرخچے اڑانے کے لیے دوسرا داؤ اب میں کھیلوں گا۔۔۔۔۔

جسٹ ویٹ اینڈ واچ۔۔۔۔۔۔“   مٹھیاں بھینچ کر زہر خند لہجے میں خود سے بڑبڑاتا۔۔۔وہ اگلے ہی پل خود سے سوال پوچھتے گارڈ کی جانب متوجہ ہوچکا تھا۔

*******************

رات کی گہری ہوتی سیاہی چاروں اطراف پھیلی ہوئی۔۔۔چاند سے پھوٹتی ٹھنڈی روشنی کو مزید نمایاں کررہی تھی۔

بادلوں کی نرم رکاوٹوں سے قدرے دور۔۔۔آسمان پر نکلا یہ آدھا چاند بھی فطری خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھا۔

خوبصورت۔۔۔

حسین۔۔۔ 

مگر ادھورا۔۔۔۔

بالکل اسکی آدھی ادھوری ذات کی طرح۔۔۔۔

جانے کب سے کمرے سے ملحقہ ٹیرس پر کھڑی وہ اپنی ساکت نگاہیں ہنوز اس چاند پر جمائے ہوئے تھی۔

آج کا سارا دن اس نے بنا کسی رنگین محفل کے اس حویلی میں قدرے خاموشی سے گزار دیا تھا۔

مختلف سوچوں کی آماجگاہ بنا اسکا ذہن مزید گہرائی میں اترنا چاہتا تھا۔۔۔مگر اپنی پشت پر ہوتے بآواز کھٹکے پر وہ سوچوں سے چونکتی سرعت سے پلٹی۔

 کمرے کے بیچ و بیچ  کھڑا سالار خان اُسے پل بھر کا جھٹکا دینے کو کافی تھا۔

”رابی۔۔۔۔۔۔“

 اسکی مدھم پکار میں ایک تڑپ سی تھی۔

حیرت سے لانبی پلکیں جھپکاتی وہ اگلے ہی پل اسکی جانب قدم اٹھاتی کمرے میں آئی۔۔۔۔

تو ان چند پلوں کے سکوت کو چاندی کی چھن چھن کرتی پائل کی آواز توڑتی چلی گئی۔

ایک مختصر عرصے بعد۔۔۔پیاسی نگاہوں سے یک ٹک اسکے حسین نقوش تکتا وہ اسکے مقابل آنے پر دھیرے سے مسکرایا۔

”س۔۔سالار خان۔۔۔۔۔“

 دھڑکتے دل کے ساتھ پل میں اسکی موجودگی کا یقین کرتے ہوئے رابی کے تیور بےاختیار برہم ہوئے۔

تم۔۔۔؟؟تم اتنی دیدہ دلیری سے۔۔۔کیسے میرے کمرے میں گھسے چلے آئے ہو۔۔۔؟؟

کیا گارڈز نے تمھیں حویلی کے اندر آنے سے روکا نہیں۔۔۔۔؟؟؟“  

دھیمے لہجے میں تڑخ کر پوچھتی وہ مقابل کی دلکش مسکراہٹ کو مزید گہرا کر گئی۔۔۔۔

جو ضبط اور لفظوں کی زنجیریں توڑتا آخرکار اس تک پہنچنے کی ہمت کرہی چکا تھا۔

”روکا تھا ناں۔۔۔

پر میرے سنگین ترین جذبوں نے رستے میں حائل ساری رکاوٹیں مٹا دیں۔۔۔

اور نتیجتاً  اب تم میری نگاہوں کے سامنے موجود ہو۔۔۔۔“ 

 ایک جذب سے بولتا وہ اسکے سخت لہجے سے کسی بھی طور مرعوب دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

ایسے میں ہلکے فیروزی رنگ شلوار قمیض میں رابی کا نکھرا نکھرا سا روپ اسکے مچلتے دل کو بےحد بھا رہا تھا۔

اسکی اس قدر نرمی پر وہ اپنی بھنویں اچکاتی پلٹی۔

پھر سامنے پلنگ پر مخصوص ادا میں بیٹھتی اسکی جانب تمسخرانہ نگاہوں سے دیکھا۔

”واللہ۔۔۔تمھارے یہ سنگین ترین جذبے سالار خان۔۔۔۔۔

اگر ان میں اتنی ہی شدت ہوتی ناں تو تم میری ایک جھلک دیکھنے کو  پیسوں کا یوں بے دریغ استعمال ہرگز نہیں کرتے۔۔۔“

 دل پر ضبط کرتے سالار خان نے اسکے ہلتے لبوں کی مدھم مسکراہٹ بغور دیکھی تھی۔

”میں پورے یقین سے  کہہ سکتی ہوں کہ تم اپنے جذبات کے بل بوتے پر نہیں۔۔۔بلکہ بی بی جان کی رضامندی کے سبب مجھ تک پہنچنے کے قابل ہوئے ہو۔۔۔

اور بی بی جان کی یہ رضامندی اس پیسے کے بل بوتے پر ہے جسے تم پانی کی طرح بہا کر مجھ تک آئے ہو۔۔۔۔۔“  

اندازِ بیاں نرم لیکن قاتلانہ تھا۔۔۔

اتنا کہ۔۔۔مقابل کا دل گھائل کرتا اسے بےاختیار نگاہیں چرانے پر مجبور کرگیا۔

وہ اسکی چاہتوں کو چند پیسوں میں تولتی نیلام کر رہی تھی۔

سالار خان سختی مٹھیاں بھینچ گیا۔

پھر اسکی جانب دیکھا۔

”افسوس کہ تمھاری یہ طمانیت لفظ بہ لفظ حقیقت بیان کررہی ہے۔۔۔۔

خیر بے دریغ تو نہیں۔۔۔

ہاں البتہ تمھاری عزیز ترین بی بی جان کے آگے اتنا پیسہ ضرور بہاکر آیا ہوں کہ ایک مکمل رات تمھارے سنگ۔۔۔اپنے اس بے تاب دل کی سناتے سناتے گزار سکوں۔۔۔۔۔“

  کچھ توقف لے کر سنجیدگی سے بولتا وہ رابی کو بھی اپنے لفظوں سے سنجیدہ کرگیا تھا۔

”واللہ کیا کہنے تمھارے۔۔۔۔تو یعنی تم نے ثابت کردیا۔۔۔

کہ تم بھی عام مردوں کی ہی طرح اپنے سینے میں میرے وجود کی لالچ بسائے ہوئے ہو۔۔۔۔۔“  

پھنکار کر بولتی وہ  جھٹکے سے جوڑے میں مقید خود کے بال کھول گئی۔

اسکی برہم اداؤں پر بے قرار دل ہارتا۔۔۔سالار خان قدم قدم چلتا اسکے  قریب آیا۔

پھر دبیز قالین پر گھٹنوں کے بل اسکے مقابل بیٹھا۔۔۔تو بے اختیار دھڑکتے دل پر وہ گہرا سانس بھر کے رہ گئی۔

”ہاں ہے میرے سینے میں لالچ۔۔۔

لیکن فقط تمھاری محبت کی۔۔۔۔۔

تمھیں پانے کی حسرت میری دھڑکنوں میں جو اشتعال برپا کیے ہوئے ہے اس سے تمھاری یہ ناواقفیت مجھے مزید تڑپا کے رکھ دیتی ہے یار۔۔۔

پر تم۔۔۔۔۔۔“  اسکے کومل ہاتھوں کو نرمی سے تھامتا وہ تھکے تھکے لہجے میں گویا ہوا۔۔۔جب وہ اسکی بات بیچ  میں کاٹتی مدھم سلگتے لہجے میں بول پڑی۔

”واللہ۔۔۔۔اگر اتنی ہی تڑپ ہوتی تم میں۔۔۔تو اپنے لفظوں سے یوں مکرنے کی بجائے میرے چند لفظوں کی لاج  ضرور رکھتے تم سالار خان۔۔۔۔“ 

 معاً اپنا ہاتھ اس سے چھڑواتی۔۔۔ وہ اگلے ہی پل۔۔۔چاندی کی پائل اتارنے کو اپنے پاؤں پلنگ پر رکھ گئی۔

سالار کے اندر بےسکونی بھرنے لگی۔

”کیاتمھیں مجھے اپنے قریب دیکھ کر ذرہ برابر بھی خوشی محسوس نہیں ہوئی۔۔۔؟؟؟

کیا میری ہی طرح تمھارا  دل بھی نہیں دھڑکتا۔۔۔؟؟؟“ 

 اب کہ ذرا تلخ لہجے میں پوچھتا وہ وہاں سے اٹھ کر اسکے سامنے۔۔۔پلنگ پر آبیٹھا تھا۔

”یہ دل تو ناجانے اب تک کتنوں کے لیے دھڑک چکا ہے۔۔۔۔

اگر تم ایک ہوتے۔۔۔تو جھوٹ سے ہٹ کر ضرور تمھارا دل رکھتی۔۔۔۔۔“  

پائل اتار کر ایک طرف رکھتی وہ اسے انتہا کی سنگدل لگی۔

ہاں۔۔۔وہ جو پہلے فقط اسکی محبتوں سے صاف انکاری ہوا کرتی تھی۔۔۔اب دوریوں کے اس مختصر دورانیے میں حددرجہ متنفرنظر آرہی تھی۔

سرخ پڑتی آنکھوں میں در آنے والی نمی کو پلکیں جھپکا جھپکا کر اندر اتارتا وہ بے اختیار اسے بازوں سے تھام کر اپنے قریب کرگیا۔

”میرے دل کا قرار چھین کے تمھارا دل کیسے اتنا پرسکون ہوسکتا ہے۔۔۔ہاں۔۔۔؟؟

کیسے۔۔۔۔؟؟؟

کیوں مجھے بھی ایسا سکون میسر نہیں آتا۔۔۔جیسا تمھاری ان آنکھوں سے صاف چھلکتا ہے۔۔۔۔۔؟؟؟“  

شدتِ بےبسی سے پوچھتے ہوئے اسکا چہرہ سرخ ہوا تھا۔

وہ جو دوسرے پاؤں کی پائل اتارنے سے رہ گئی تھی اس کے بگڑے تیوروں پر ایک ادا سے اسے خود سے پرے دھکیل گئی۔

”جہاں تمھیں سکون ڈھونڈنا چاہیے وہاں تم کھوجتے ہی کب ہو۔۔۔؟؟؟

سنا ہے تمھاری بیوی۔۔۔ کسی حور سے کم نہیں ہے۔۔۔۔۔“ 

 نرم لہجے تلے۔۔۔دبے لفظوں میں شکوہ کرتی وہ اسے بری طرح چونکنے پر مجبور کرگئی۔

اپنے معاملے میں وہ حلیمہ کی ذات کو تو مکمل فراموش کر چکا تھا۔۔۔

اور اسے یاد دہانی کروانے والی بذاتِ خود رابی تھی۔

”وہ جتنی بھی حسین کیوں ناں ہو۔۔۔

تمھارے سامنے سب پھیکا ہے۔۔۔“ 

 کچھ توقف لیتا وہ سرد لہجے میں گویا ہوا تو۔۔۔اسے خود سے اپنے دوسرے پیر کی پائل اتارتا دیکھ وہ کھلکھلا کر ہنسی۔

تلخ حقیقت سے نگاہیں چرانے کا اچھا بہانا چنا تھا اس نے۔۔۔

اسکی مدھر ہنسی پر سالار خان نے گہری نگاہوں سے اسکی جانب دیکھا۔

”اگر تمھیں لگتا ہے کہ میری چند وقتی تعریفوں سے تم اس دغاباز دل کو اپنے لیے موم کرنے میں کامیاب ہوجاؤ گے۔۔۔۔تو تم سراسر غلطی پر ہو سالارخان۔۔۔۔۔۔“ 

 گھٹنے پر کہنی ٹکاکر۔۔۔رخسار تلے مٹھی جماتی وہ اسے تپانے کو چھیڑ رہی تھی۔

”یہ وقتی تعریفیں نہیں ہیں۔۔۔

بلکہ میرے دل کے سچے جذبات ہیں جنھیں میں بے دھڑک بیان کرنے میں کوئی آڑ محسوس نہیں کرتا۔۔۔۔

چاہے پھر سامنے میری برائے نام بیوی ہی کیوں ناں ہو۔۔۔۔“ 

 چاندی کی پائل کو مٹھی میں دبوچتا وہ اس پر حلیمہ کی اوقات صاف باور کرواگیا تو۔۔۔۔ رابی اپنی دم توڑتی مسکراہٹ پر اسکے وجیہہ نقوش دیکھ کر رہ گئی۔

”رابی۔۔۔۔۔؟؟؟“  

اسے گہری نگاہوں خود کی جانب تکتا پاکر سالار خان نے اسے گھمبیرتا سے پکارا تو وہ چونک کر بےاختیار سیدھی ہو بیٹھی۔

”کہتے ہیں محبوب کی صرف۔۔۔پاس موجودگی ہی ایک بےقرار دل کو سکون دینے کے لیے کافی ہوتی ہے۔۔۔۔

اور میں حالات سے تھکا ہارا اب  وہیں سکون لینے کی خاطر تمھارے پاس آیا ہوں۔۔۔۔۔

خدا کے لیے اپنے لفظوں کی مسلسل تکرار سے میری تھکاوٹ کو مت بڑھاؤ۔۔۔۔

پہلے ہی بہت سہہ چکا ہوں اب مزید سہنے کی ہمت نہیں ہے مجھ میں۔۔۔۔۔“

  مدھم لہجے میں بولتا ہوا وہ ذرا جھجھک کر اسکی گود میں اپنا سر رکھ چکا تھا۔

اسکی ہمت پر رابی کا دل نا چاہتے ہوئے بھی شدتوں سے دھڑک اٹھا۔

”واللہ تم اس حالت کے حقدار نہیں تھے سالار خان۔۔۔

ہرگز نہیں تھے۔۔۔۔پر افسوس کہ میری بخت کی سیاہی تمھارے سکون پر بھی سایہ افگن ہوچکی ہے۔۔۔۔“ 

دھیرے سے اسکے بالوں میں اپنی انگلیاں چلاتے ہوئے جہاں رابی کی بولتی نگاہوں میں صاف افسوس در آیا تھا۔۔۔

وہیں وہ اس لمس پر مسکراتا پرسکون سا اپنی آنکھیں موند گیا۔۔۔۔چاندی کی پائل ہنوز اسکی سخت گرفت میں دبی ہوئی تھی۔

*************************

”خدا کا واسطہ ہے میری بچی کو بچالو۔۔۔۔

بچالو اس شیطان صفت انسان سے۔۔۔۔

ورنہ وہ۔۔۔وہ اسکی عزت کو تار تار کر دے گا۔۔۔۔

ہ۔۔ہاں۔۔۔۔ہمیں اس شخص سے بارہا کھلی دھمکیاں بھی مل چکی ہیں۔۔۔

پر۔۔۔پر تم ان دھمکیوں کو بخت کی سیاہی میں ڈھلنے سے پہلے ہی میری حاویہ کو بچالاؤ۔۔۔۔۔۔“  

سماعتوں میں گھلتے یہ الفاظ کم۔۔۔سینے کو چھلنی کرتی کرچیاں ذیادہ تھیں۔۔۔جو گاڑی چلاتے عائل کا سرسراتا دماغ مزید گرما گئیں۔

کچھ وقت پہلے ہی ہانپتی کانپتی نفیسہ بیگم۔۔۔اسکی گمشدگی کی اطلاع لے کر اسکے پاس تھانے چلی آئی تھیں۔۔۔

ایسے میں انکا ہاتھ جوڑتے ہوئے سسک سسک کر حاویہ کے حق میں شدت سے مدد طلب کرنا عائل حسن کو تڑپا ہی تو گیا تھا۔

”آپ دوسرے مردوں سے اتنے منفرد کیوں ہیں۔۔۔؟؟

کیوں میری ذات کو لے کر آپکی نیت میں کوئی کھوٹ یاں میل شامل نہیں ہے۔۔۔؟؟“  

معاً اسے حاویہ کا سوال کرتا بھیگا لہجہ یاد آیا تو۔۔۔بےسکونیوں تلے دھڑکتا دل پل بھرکو ڈوب سا گیا۔

محتاط ہوکر ساتھ بیٹھے انسپکٹر باسط نے ایک پریشان نگاہ عائل پر ڈالی تھی۔۔۔جو سختی سے لب بھینچے گاڑی کی رفتار کو پل پل بڑھائے چلا جارہا تھا۔

”آپکی نظروں کی پاکیزگی مجھے ہمیشہ آپکی صاف ستھری نیت کا احساس دلاتی ہے۔۔۔۔

لیکن جب وہ۔۔وہ مجھے چھوتا ہے ناں۔۔۔

تو اُسکے ذرا سے لمس سے بھی اُسکی گندی نیت صاف ٹپکتی ہے۔۔۔

مجھے اُسکا چھونا اُسکا جان بوجھ کر میرے قریب آنا بالکل بھی اچھا نہیں لگتا۔۔۔

 م۔۔میری روح اُسکی نزدیکی پر بری طرح کپکپااٹھتی ہے۔۔۔۔“  

ڈری سہمی سی نم آواز آس پاس بکھرتی  اسکی آنکھوں کی سرخی مزید گہری کرگئی تھی۔

”کون چھوتا ہے تمھیں۔۔۔؟؟؟

کس کا ٹچ اچھا نہیں لگتا۔۔۔بولو؟؟؟

بتاؤ مجھے۔۔کس کی بات کررہی ہوتم۔۔۔؟؟؟“  

بازوؤں سے پکڑ کر بےچینی سے استفسار کرتا وہ اس وقت چاہ کر بھی پوری بات جان۔۔۔سمجھ نہیں پایا تھا۔۔۔۔

”بختیار۔۔۔۔عرف بختی۔۔۔۔۔“  پر اگلے ہی پل سماعتوں میں سیسہ بن کے اترتا نفیسہ بیگم کا بڑے یقین سے دیا جانے والا جواب۔۔۔اسکے روگ و پے میں شدت سے کھلبلی مچاگیا۔

یہ خیال ہی سوہان روح تھا کہ اسکے دل کو پل میں دھڑکا دینے والی وہ نازک جاں لڑکی اس وقت گمشدہ تھی۔۔۔۔

کب سے تھی۔۔۔؟؟

کس حال میں تھی۔۔۔؟؟؟

محفوظ بھی تھی یا پھر۔۔۔

یاپھر۔۔۔۔؟؟؟

”شٹ۔۔۔۔۔۔۔“

معاً خود پر سے ضبط کھوتے عائل نے پوری قوت سے اسٹیرنگ پر ہاتھ مارا تو جہاں۔۔۔

سامنے سے رواں رفتار پر آتی بائیک۔۔۔۔پاس سے گزرتی ہوئی ہٹ ہوتے ہوتے بچی تھی۔۔۔

وہیں باسط بوکھلا کر بےساختگی میں اسے ٹوک گیا۔

”سر۔۔۔سر پلیز سنبھالیں خود کو۔۔۔۔

ہم بس اپنی منزل کو پہنچنے ہی والے ہیں۔۔۔۔سب بہتر ہوگا۔۔۔۔۔“ باسط بولا۔۔۔

پر سر کو شدت سے نفی میں جنبش دیتے ہوئے یہاں پرواہ تھی ہی کسے۔۔۔۔؟؟؟

نہ باسط کے تسلیاں دیتے لہجے کی اور نہ ہی بائیک سوار کی۔۔۔خود کے لیے کی گئی بکواس کی۔۔۔۔

”انف از انففف۔۔۔۔

اب تم مجھے پاگل کر رہی ہو حاویہ فیضان۔۔۔

مکمل پاگل۔۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ میں آپے سے باہر ہوکر تمھارے ساتھ حقیقتاً کوئی نا انصافی کر بیٹھوں۔۔۔

آؤٹ۔۔۔۔

جسٹ آؤٹ فرام ہیر۔۔۔۔۔“   

 پلکیں جھپکا جھپکا کر آنکھوں کی ابھرتی نمی کو  اندر دھکیلتے ہوئے۔۔۔اسے تو فقط اپنی سرد مہری شدت سے یاد آئی تھی۔۔۔

جو وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے کوسوں دور۔۔۔بڑے آرام سے اس سسکتی جان کے ساتھ برت گیا تھا۔

کاش۔۔۔کاش کہ اس ڈھلتی شام میں۔۔۔اسکی ذات سے منہ موڑتا وہ اس قدر سفاکی سے اسے وہاں سے تن تنہا چلے جانے کو نہ بولتا۔۔۔۔

پھرتی سے موڑ لیتے ہوئے وہ اندر کہیں خود کو بھی حاویہ کی ہنوز گمشدگی کا قصوروار ٹھہراگیا تھا۔

گاڑی کو کھلے گلے میں داخل کرتے ہوئے مطلوبہ منزل بہت قریب تر آچکی تھی۔

اگلے چند لمحوں میں۔۔۔بتائے گئے پتے سے آشنا ہوتے عائل نے گاڑی کو سرخ رنگ گیٹ کے آگے فوری بریکس لگائے تھے۔

پھر گہرا سانس بھرتے منہ پر ہاتھ پھیرا۔

”امید تو شدت سے یہی ہے کہ سب بہتر ہو۔۔۔۔

لیکن اگر میری امیدیں ذرہ بھربھی غلط نکل آئیں۔۔۔

تو میں۔۔۔ نہ تو خود کو اس ناکردہ جرم کے لیے کبھی معاف کرسکوں گا۔۔۔

اور نہ ہی اس ذلیل انسان کو زندہ زمین میں گاڑنے سے کوئی گریز برتوں گا۔۔۔۔“ 

 اپنی جانب کا دروازہ کھول کر گاڑی سے اترتے ہوئے۔۔۔اس کے الفاظ جس قدر سلگتے ہوئے تھے۔۔۔لہجہ اس سے بھی ذیادہ سختی لیے ہوئے تھا۔

باسط بھی اسکی حالت پر افسردہ سا لب بھینچ کر اگلے ہی پل گاڑی سے اترا۔

وہ دونوں آگے پیچھے گیٹ تک پہنچے۔۔۔

ایسے میں گرم روشنیاں بکھرتے سورج تلے۔۔۔گلے میں ایک طرف کو کھیلتے دو چار بچے ان کی جانب دور سے ہی متوجہ ہوتے اپنے مشاغل سے فی الوقت کے لیے ہاتھ روک چکے تھے۔

باوردی پولیس سمیت نئے ماڈل کی مہنگی ترین گاڑی ان کے لیے قابلِ توجہ ہی تو تھی۔

بیل خراب ہونے کے سبب باسط نے آگے بڑھ کر دروازہ بجایا۔۔۔۔

جب لب بھینچ کر کھڑے عائل کی سماعتوں سے صاف ٹکراتا۔۔۔۔ کسی کا تیز لہجہ اسے بری طرح چونکنے پر مجبور کرگیا۔

”ابے سالے۔۔۔۔تیرے کبھی نہ ختم ہونے والے یہ بےتکے سے چونچلے میری کاروباری زندگی کا ستیاناس کروا کے رکھ دیں گے۔۔۔

تیری اماں کی لال چنری کے بغیر بھی تو یہ نکاح ہوسکتا ہے ناں۔۔۔۔

پر نہ۔۔۔تجھے تو ہر صورت اپنے جگری یار کا ہی بیڑا غرق کروانا مقصود ہے۔۔۔۔“ 

اپنی دکان بند کرکے آئے عمیر کو اس قدر صدمہ لاحق تھا۔۔۔کہ ہنوز زمین پر نگاہیں جماکر سست روی سے چلتے ہوئے۔۔۔وہ فون پر بھڑاس نکالتا اپنے اطراف سے مکمل بےبہرہ ہوچکا تھا۔۔۔

ایسے میں شور ہنگامے سے قدرے دور تقریباً  ویران پڑے اس گلے میں بآواز کی جانے والی گفتگو کچھ فاصلے سے بآسانی سنی جاسکتی تھی۔۔۔۔

جبھی عمیر کے لفظ لفظ پر عائل کا دل ڈوب کر ابھرا تو اسنے فوراً پلٹ کر قدم قدم قریب آتے اس شخص کی جانب بغور دیکھا۔۔۔

جو اب دوسری طرف سے بات سنتا بے اختیار مسکرایا تھا۔۔۔۔

اس دوران باسط بھی دوبارہ دروازہ کھٹکھٹانے کی بجائے عمیر کی جانب متوجہ ہوچکا تھا۔

پر اسکے منہ سے پھوٹتے اگلے الفاظ عائل حسن کا دماغ بھک سے اڑانے کو کافی تھے۔۔۔

”دیکھ بختی۔۔۔۔۔

میں تجھے صاف صاف بتا رہا ہوں۔۔۔

اب تک میں نے تیرے لیے بہت کچھ کیا ہے۔۔اور بے دریغ کیا ہے۔۔۔۔

اگر جو ان سب کے بدلے تُو نے میری دکان پر سامان نہ ڈلوایا ناں۔۔۔تو۔۔۔و۔۔۔مم۔۔۔۔“  

سخت تنبیہہ کرتے کرتے عمیر نے یونہی سامنے نگاہ اٹھائی تھی۔۔۔

جب بجلی کی سی تیزی سے اپنی جانب  لپکتے باوردی پولیس والے کو دیکھ اسکی آواز حلق میں ہی پھنس کر رہ گئی۔

”جی بولیے صاحب۔۔۔؟؟

کیا کام ہے آپکو۔۔۔۔؟؟؟ 

 جہاں گیٹ کھول کر بختی کی چھوٹی بہن نے ذرا سا منہ باہر نکالتے ہوئے باسط کو اپنی جانب متوجہ کروایا تھا۔۔۔وہیں عائل نے عمیر کو گریبان سے دبوچتے ہوئے اسکا موبائل فون چھین کر اپنے کان سے لگایا۔

”ہیلو۔۔۔۔

عمیر۔۔۔؟؟

تجھے آواز آرہی ہے میری۔۔۔؟؟

اوئے کمینے۔۔۔؟؟اچھا سن میں اپنا فون واپس سے بند کرنے لگا ہوں۔۔۔

تو مولوی اور چند گواہوں سمیت اماں سے لال چنری لے کر فوراً  گودام آجا۔۔۔

اب تیرے یار سے مزید صبر کرنا بڑا دشوار ہورہا ہے۔۔۔اففف۔۔۔۔“ 

کسی شک میں گھرے بنا۔۔۔۔اطمینان سے اپنی بات کہتا وہ اگلے ہی پل خود سے کال کاٹ گیا۔۔۔۔

تو اسکی ناقابلِ برداشت شوخی پر جہاں عائل کی نگاہوں میں پھیلی اذیت کے رنگ مزید گہرے ہوتے چلے گئے۔اس دوران عمیر کو اپنا گلا شدت سے خشک پڑتا محسوس ہوا۔

”جی میں انسپکٹر باسط ہوں۔۔۔اور اپنے سر کے ساتھ یہاں ایک انتہائی اہم معاملے پر تفتیش کرنے آیا تھا۔۔۔

پر اب آپ بے فکر ہوکر واپس لوٹ جائیں۔۔۔ کیونکہ تفتیش کا معاملہ تقریباً حل ہوچکا ہے۔۔۔۔“

باسط نرمی سے کہتے ساتھ ہی  پلٹ کر عائل کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔تو وہ بھی حیران سی زیرِ لب ”اچھا“ کہتی بنا باہر جھانکے جھٹ سے گیٹ واپس بند کرگئی۔ 

عمیر ہنوز عائل کی سخت گرفت میں پھنسا۔۔۔حقیقتاً اسکے سخت تیوروں سے گھبراگیا تھا۔

بقول بختی کہ۔۔۔۔وہ دو ٹکے کا پولیس آفیسر تو کہیں سے بھی نہیں لگتا تھا۔۔۔۔

”کونسے گودام میں ہے وہ اس وقت۔۔۔۔؟؟؟“  

قریب کھڑے باسط کو موبائل پکڑاتا عائل۔۔۔درشت لہجے میں پوچھتا بآسانی اسے اپنے رعب تلے دباگیا تھا۔

”م۔۔میں۔۔۔نہیں جانتا۔۔۔۔۔“

 خشک لبوں پر زبان پھیرتا عمیر جانے کیوں ہکلاتے ہوئے جھوٹ بول گیا تھا۔۔۔۔

مگر اگلے ہی لمحے گال پر پڑنے والا زناٹے دار تھپڑ اس کے دماغ کی نسیں ہلاگیا۔۔۔۔

دور یہ سب تماشہ بغور دیکھتے ان بچوں کی توجہ ہنوز تھی۔۔۔جب اگلے ہی پل عائل اسے گریبان سے جھٹکا دیتا شدتِ ضبط سے غرایا۔

”میرے چنگل سے یوں جھوٹے منہ بچ نکلنا اگر اتنا ہی آسان ہوتا تو اس وقت میں تمھارے سامنے اس سرکاری وردی میں ہرگز موجود نہیں ہوتا۔۔۔۔

اگر نہیں چاہتے کہ تھانے کی بجائے یہی پر ایک ایک کر کے تمھاری ساری ہڈیاں توڑ دوں۔۔۔تو تمھارے لیے فی الوقت بہتر یہی ہے کہ اپنے جگڑی یار کے لیے بےدریغ قربانیاں دینا بند کردو۔۔۔۔“ 

 ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے  عائل کے تیور حددرجہ بگڑے ہوئے تھے۔۔۔تو جہاں زرد رنگت کے ساتھ کچھ توقف لیتے عمیر نے بڑی مشکلوں سے اثبات میں سر ہلایا تھا۔۔۔

وہیں باسط کے لب مسکرائے۔

اگلے ہی پل عمیر کو  دھکیل کر گاڑی کی جانب لاتے ہوئے۔۔۔عائل کا دل حاویہ کی بابت سوچتا  شدتوں سے دھڑک اٹھا تھا۔

بہت پسند کرتی ہو یہ بارش۔۔۔۔؟؟؟“  وہ گلاس وال سے پار مدھم۔۔۔ برستی بارش  کو بغور تک رہی تھی جب اچانک پشت سے ابھرتی بھاری آواز پر چونک کر پلٹی۔

وہ پینٹ کی جیبوں میں دونوں ہاتھ پھنسائے قدرے اشتیاق سے اسی کی جانب دیکھ رہا تھا۔

اس دوران اسکی غیرموجودگی میں ٹیبل پر۔۔۔فائلز کے قریب ہی رکھی گئی کافی میں اب کہ ایک حد تک سرد پن گھل چکا تھا۔ 

وہ بے اختیار دھیرے سے اثبات میں سر ہلاگئی۔

”بہت سے بھی ذیادہ۔۔۔۔۔“  کہتے ہوئے اس نے پلٹ کر دوبارہ گرتی ہوئی ان گنت بوندوں کی جانب دیکھا تو۔۔۔وہ بھی دو قدم آگے بڑھ کر اسکے برابر میں ٹھہرتا مسکراتی نگاہوں سے برستی بارش کو تکنے لگا۔۔۔۔جو اپنے تلے آفس کی عمارت سمیت ہر شے کو بڑھے دھڑلے سے بھگوئے چلی جارہی تھی۔

اُس رات وہ بذاتِ خود اسے بحفاظت۔۔۔اسکے قابلِ رہن  گھر کے دروازے تک چھوڑ کر مطمئن سا واپس لوٹ آیا تھا۔

ایسے میں ایک گہری نگاہ ڈال کر جلدی سے گھر کے اندر جاتی آبرو نے بھی  اسے روکنے کی کوشش نہیں کی تھی۔

”جانتے ہیں اس پسندیدگی کا حقیقی سبب کیا ہے۔۔۔؟؟؟“  قدرت کے اس دل بھاتے منظر کو دونوں کا تکنا ہنوز تھا۔۔۔جب آبرو کچھ توقف لے کر بولی۔۔۔

”جہاں یہ ہمارے دکھ میں برابر برستی ہے۔۔۔وہیں ہمارے آنسوؤں کا بھرم بھی بڑی آسانی سے رکھ لیتی ہے۔۔۔اور بارش کی ان ننھی ننھی بوندوں نے بچپن سے ہی میرے لاتعداد بھرم رکھے ہیں۔۔۔۔۔“   گردن موڑ کر اسکی جانب دیکھتے شاہ نے خوشگوار حیرت سے اسکے اس گہرے جواز کو سنا تھا۔آج وہ کچھ الگ ہی منفرد موڈ میں تھی۔

”پر مجھے بھرم رکھنا کچھ خاص پسند نہیں ہیں۔۔۔۔۔جو بولتا ہوں صاف صاف۔۔۔اور بلا جھجک بولتا ہوں۔۔۔

جیسے کہ۔۔۔۔“  اپنے مخصوص لب و لہجے میں کہتا کہتا وہ بےاختیار رک گیا۔۔۔تو جہاں ثمن لطیف آفس روم کا دروازہ بے آواز کھولتی سامنے دیکھ کر ٹھٹکی تھی۔۔۔وہیں اسکی طول پکڑتی خاموشی پر اب کہ آبرو نے براہ راست اسکی بھوری آنکھوں میں جھانکا۔

”جیسے کہ۔۔۔۔۔؟؟؟“  اسکی بے قرار استفسار پر شاہ کے لب دھیرے سے مسکرائے۔

”جیسے کہ تم بہت حسین ہو۔۔۔۔۔“  مکمل اسکی جانب رخ موڑ کر گلاس وال سے ٹیک لگاتا وہ گھمبیر لہجے میں گویا ہوا۔۔۔تو کچھ حیرت سے اسکی جانب دیکھتی آبرو کا دل شدتوں سے دھڑکا۔

ناب کو سختی سے دبوچ کر ہنوز وہیں کھڑی ثمن کی آنکھیں ان دونوں کو ایک دوسرے کے قریب دیکھ کر جل سی اٹھی تھیں۔

وہ جو خود کی صورت خوب تراش خراش کے۔۔۔ ہمت مجتمع کرتی شاہ کے پاس اپنے دل کی حالت بتانے آئی تھی۔۔۔اب تیزی سے نم پڑتی آنکھوں کو جھپکاتی حوصلہ کھونے لگی تھی۔

”جیسے کہ مجھے تم سے سنجیدگی کی آخری حد تک محبت ہے۔۔۔۔“  بےاختیار اسکے مومی ہاتھ اپنی نرم گرفت میں لیتا وہ آبرو سکندر کو گہرا سانس بھرنے پر مجبور کرگیا۔

ان دونوں کی خود سے برتی جانے والی ہنوز بے خبری پر بری طرح کھولتی ثمن کی حالت بری ہونے لگی۔

وہ ایک فاصلے سے ان دونوں کی مدھم گفتگو سن تو نہیں پارہی تھی پر بظاہر دکھائی دیتی حرکات و سکنات اسے دونوں کے مابین محبتوں بھرا معاملہ سمجھانے کو کافی تھیں۔

”جیسے کہ تمھاری میرے پاس موجودگی میری روح کو تسکین پہنچانے کا سبب ہے۔۔۔۔“  شاہ کا لہجہ اس قدر میٹھا تھا کہ آبرو کی گہری نیلی نگاہیں اسکے وجیہہ نقوش پر ٹھہر سی گئیں۔

”میرے بارہا انکار کردینے کے باوجود بھی۔۔۔بار بار ٹھکرائے جانے کی اذیت سہہ کر بھی۔۔۔۔۔۔؟؟؟“  اسکا استفسار بےساختہ تھا۔

شاہ کے لبوں پر کھلتی مسکراہٹ معدوم ہوئی۔

”ہاں بالکل۔۔۔جانتی ہو کیوں۔۔۔۔؟؟؟  پل بھر کو رکتا وہ اسکے ہاتھوں پر شدتِ جذبات میں دباؤ بڑھاگیا۔

”کیونکہ میں نے اپنے نام پر دھڑکتے تمھارے اس دل کی دھڑکنوں کا شور بار بار سنا ہے۔۔۔بالکل اسی طرح جیسے اب سن رہا ہوں۔۔۔۔۔“  اطراف سے ہنوز بےبہرہ۔۔۔مہرون حجاب میں اس کا گلال چہرہ تکتے ہوئے شاہ کی بھوری نگاہوں میں خماری کی سرخی پھیل رہی تھی۔

آبرو کی منتشر دھڑکنیں مزید بکھرگئیں۔

”دھڑکنوں کا یہ شور جھوٹا بھی تو ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔“  بے اختیار خشک پنکھری لبوں کو تر کرتی وہ مقابل کی بہکتی نظریں مزید بھٹکاگئی تھی۔

ثمن نے بہتے آنسوؤں میں تکلیف سے گہرا سانس بھرتے ہوئے اپنی ییلو شرٹ کا ایکسٹر کھلا بٹن تندہی سے بند کیا۔پھر خود کے لیے پل میں قدرے نامناسب۔۔۔قطیعت بھرا فیصلہ کرتی ادھ کھلے دروازے سے ہی واپس پلٹ گئی۔

ہاں شاید۔۔۔وہ اپنے سارے جذبات ہارتی  شکست خوردہ سی اس عمارت سے ہی مستقل نکل جانے کو تیار ہوچکی تھی۔ 

”اس طرح تو تمھارا مجھے ہر بار کیا جانے والا انکار بھی محض دکھاوا ہوسکتا ہے۔۔۔۔میں یکطرفہ محبت کا عادی ہرگز نہیں ہوں آبرو سکندر۔۔۔۔جان لو کہ شاہ میر حسن اگر محبت کرنا جانتا ہے تو خود سے محبت کروانا بھی خوب جانتا ہے۔۔۔۔۔“   گرفت میں تھامے ہاتھوں کو جھٹکا دے کر اسے اپنے قریب کرتا وہ ایک غرور سے بولا تو آبرو کی گہری نیلی آنکھوں کا رنگ بدلا۔

”محبت ایسا جذبہ نہیں ہے شاہ صاحب۔۔۔۔جو زبردستی یاں پھر ضد کے زور پر کسی سے بھی کروالیا جائے۔۔۔بلکہ یہ تو ایک ایسا نازک احساس ہے جو کسی کو راحت کی طرح ملتا ہے تو کسی کو روگ کی طرح۔۔۔۔۔“  اسکی سانسوں کی تپش مشکلوں سے  برداشت کرتی وہ مضبوط لہجے میں بولی تو اپنا آپ اسکی حسین آنکھوں میں گنواتا شاہ اسکی تمہید پر دھیرے سے ہنسا۔

”اور راحت میں روگ پالنا میرا پرانا ترین مشغلہ رہا ہے سویٹ ہارٹ۔۔۔۔۔۔“  شوخ لہجے میں بولتا وہ بے اختیار اپنا نچلا لب دباگیا تو آبرو بھی اپنے لب بھینچ گئی۔پھر دھڑکتے دل کے ساتھ اپنے ہاتھ چھڑواتی ایک قدم پیچھے ہٹی۔

”کیونکہ آپ سرپھرے ہیں۔۔۔۔۔“  اطمینان سے بولتی وہ وہاں سے جانے کو پلٹی تھی جب شاہ سرعت سے آگے بڑھ کے نازک کلائی کو تھامتا۔۔۔اس سمیت اسکے دل کی دھڑکنوں کو بھی پل بھر کے لیے روک گیا۔

وہ پلٹی پھر بھی نہیں تھی۔

”مانتا ہوں۔۔۔۔پر فقط تمھارے لیے۔۔۔۔“  دوبدو جواب دیتا وہ آبرو کو مسکراہٹ دباکر لرزتی پلکیں جھکانے پر مجبور کرگیا۔

”سنو میں دبئی جا رہا ہوں۔۔۔۔۔۔“  اسکی طول پکڑتی خاموشی سے لطف لیتا وہ مزید بولا۔

”ک۔۔۔کیوں۔۔۔۔؟؟؟“  معاً حیرت سے پلٹ کر پوچھتی وہ شاہ کو شدت سے مسکرانے پر مجبور کرگئی تھی۔

”آفکورس بزنس کے سلسلے میں۔۔۔۔اور وہاں مجھے ایک انتہائی اہم سیمینار میں بھی شرکت کرنی ہے۔۔۔سو میرے لیے جانا ضروری ہے۔۔۔۔۔“ اسکے بتانے پر وہ محض اثبات میں سرہلاتی اگلے ہی پل اپنی کلائی بآسانی اس سے چھڑواگئی۔

”میری غیرموجودگی میں مجھے مس کرو گی۔۔۔؟؟؟“  اب کہ اسے وہاں سے تقریباً بھاگ کر وہاں سے جاتا دیکھ وہ ایک پھرتی سے ایک اور سوال داغ گیا۔

اسکے بہکتے تیوروں پر اپنی حیرت دباتی آبرو نے بے اختیار مڑ کر ایک گہری نگاہ اپنی جانب تکتے شاہ پر ڈالی۔ 

”شاید۔۔۔۔۔“   بکھری دھڑکنوں کے ساتھ بظاہر سادگی سے بولتی وہ مسکراہٹ دباتی وہاں سے نکلتی چلی گئی۔

پر دہلیز پارکرتے ہوئے پہلے سے ہی  کھلے دروازے کو دیکھتی چونک سی گئی تھی۔

”شاید۔۔۔۔؟؟؟رئیلی۔۔۔۔؟؟؟“  پیچھے وہ دھیرے سے ہنستا اگلے ہی پل سر جھٹک گیا۔پھر خوشگوار موڈ کے ساتھ ٹیبل کی طرف بڑھتا کافی کا مگ اٹھاگیا۔

باہر بارش تقریباً تھمنے کے قریب تھی پر۔۔۔ اس پل گلاس وال کی طرف رخ کرکے مزے سے کافی کے ٹھنڈے گھونٹ۔۔۔۔حلق میں اتارتے شاہ کے جذبات تھمنے کی بجائے مزید بھڑک اٹھے تھے۔

************************

”تو حالات اتنے سنگین ترین ہوجانے کے باوجود بھی تم مجھ سے نکاح کرنے پر رضا مند نہیں ہوگی۔۔۔۔۔؟؟؟ہیں۔۔۔۔؟؟؟“  بالوں میں ضبط سے ہاتھ چلاکر پوچھتا وہ اسی کے سرخ چہرے پر اپنی سخت نگاہیں جمائے ہوئے تھا۔

عمیر کو سارے انتظامات کا بولے بھی ایک حد تک وقت گزر چکا تھا پر اس ہٹ دھڑم لڑکی کے بے جا نخرے اب اسکا دماغ خراب کررہے تھے۔

اسکے بنے ٹھنے حلیے کو سرے سے فراموش کرتی حاویہ نے نفرت سے اسکی جانب دیکھا۔

شدت گریہ زاری سے اسکی سانولی رنگت میں لالی سی بھر گئی تھی۔

”تم چاہےجتنی بار مرضی مجھ سے پوچھ لو بختیار۔۔۔۔پر میرا جواب تمھیں ہر بار نہ کی صورت میں ہی ملے گا۔۔۔۔نہ نہ اور صرف نہ۔۔۔سنا تم نے۔۔۔۔۔؟؟“  چٹخیلے پن سے بولتی وہ اسکے بار بار دہرائے جانے والے  تقاضے سے حقیقتاً  چڑ چکی تھی۔

اسکی اس قدر خودسری پر وہ سختی سے مٹھیاں بھینچ گیا۔پھر تندہی سے اسکے مقابل رکھی گئی کرسی پر بیٹھتا اسے ہڑبڑا کر ذرا پیچھے ہونے پر مجبور گیا۔

”سن رہا ہوں۔۔۔اور بخوبی دیکھ بھی رہا ہوں۔۔۔۔تمھارے دل میں اس دو ٹکے کے پولیس آفیسر کی یہ جو بے تحاشہ محبت مچل رہی ہے ناں۔۔۔وہی۔۔۔وہی تمھیں بار بار مجھے دھتکارنے پر مجبور کردیتی ہے۔۔۔۔“  ایک ہی جست میں اسکا منہ دبوچتا وہ سرسراتے لہجے میں بولا تو حاویہ کی خوف سے بکھری دھڑکنوں میں بے اختیار تیزی در آئی۔

”پر فکر نہیں کرو باربی ڈول۔۔۔۔اپنے آخری ہتھیار کو استعمال میں لاتے ہوئے اگر میں نے تمھاری اس” نہ“ کو ”ہاں“ میں نہ بدلا۔۔۔ تو بدلے میں تم میری شناخت بدل ڈالنا۔۔۔۔“  ایک یقین کے ساتھ باور کرواتے ہوئے اسنے بے اختیار اسکا چہرہ جھٹکے سے چھوڑا۔

اس کی بات پر سنتی حاویہ کی انگارہ ہوتی نگاہیں تیزی سے بھیگتی چلی گئیں۔

”تو کیا۔۔۔؟؟؟اپنے اس آخری ہتھیار کی آڑ میں اب تم ایک کمزور عورت کی نسوانیت کو قدموں تلے روندو گے۔۔۔۔؟؟؟ذرہ بھر بھی شرم نہیں آئے گی تمھیں اس قدر بےغیرتی دکھاتے ہوئے۔۔۔۔؟؟؟“  بظاہرسلگ کر حقارت سے پوچھتے ہوئے ایک خوف کی شدید لہر اسکے وجود میں دوڑ گئی۔۔۔۔تو وہ کمینگی تلے بے ساختہ ہنس دیا۔

اس کی سفاک ہنسی پر حاویہ کی بھوری آنکھوں سے دو آنسو ٹوٹ کر تپتے رخساروں پر لڑھک آئے۔

”اس کے لیے تو ایک طویل عمر پڑی ہے جانم۔۔۔پر ابھی کے لیے میرا وہ مخصوص ہتھیار تمھاری اس سوچ سے ہٹ کر بالکل  الگ قسم کا ہے۔۔۔دیکھنا چاہو گی۔۔۔۔؟؟؟“  دلچسپی سے اسکی ناسمجھی میں ڈھلتے نقوش دیکھتا وہ اگلے ہی پل اسکے سامنے سے اٹھا۔پھر لمبے لمبے ڈگ بھرتا پلوں میں وہاں سے باہر نکلتا چلا گیا۔

پیچھے حاویہ کا نازک ترین دل اگلے لمحوں کی بابت سوچتا شدت سے ڈوبا تھا۔

ہنوز ہتھکڑی کے چنگل میں پھنسے۔۔۔جہاں متواتر ایک چئیر پر بےتحاشہ گھنٹے گزار کر اسکا انگ انگ تھکاوٹ سے چور ہوچکا تھا۔۔وہیں بختی کا لایا ہوا ناپسندیدہ کھانا اسکی بھوک مٹانے کو ناکافی ہوتا تھا۔

جانے اب کس ہتھیار کی بات کرکے گیا تھا وہ۔۔۔۔؟؟؟وہ نہیں جانتی تھی۔

بنا کسی امداد کے وہ بے بس سی۔۔۔ایک بےلگام مرد کے سامنے مزید کب تک ٹکنے والی تھی۔۔۔۔وہ یہ بھی نہیں جانتی تھی۔۔۔۔

ہاں البتہ اس بات کی آگاہی شدت سے تھی کہ اسکی اتنے وقت سے گمشدگی۔۔۔اسکی ماں کی حالت خراب کیے ہوئے تھی۔۔۔۔

وہ مزید ان اذیت دیتی سوچوں میں مزید گہرائی سے اترجانا چاہتی تھی جب بختی دروازہ کھول کر واپس آیا۔۔۔تو بھونکتی آواز حاویہ کی سماعتوں سے ٹکراتی اسے بری طرح ٹھٹک کر سامنے دیکھنے پر مجبور کرگئی۔

وہ ہاتھوں میں بھورے رنگ کتے کی رسی تھامے للکارتی نگاہوں سے اسی کی جانب دیکھ رہا تھا۔۔۔پر حاویہ کی بےیقین نگاہیں تو اس جانور پر جم سی گئی تھیں۔۔۔جسے ساتھ لانے والا بھی کسی حیوان سے کم نہیں لگا تھا اسے۔

”ک۔۔کتا۔۔۔۔۔؟؟؟“ اپنی جانب دیکھ کر بھونکتے اس ہٹے کٹے کتے کی وہاں موجودگی کس سبب تھی۔۔؟؟سوچ کر ہی اسکے ہوش اڑے تھے۔

”تو کیسا لگا میرا آخری ہتھیار جانم۔۔۔۔؟؟پسند آیا۔۔۔۔؟؟؟  اسکی خوف سے پھٹی پھٹی آنکھوں میں دلچسپی سے دیکھتے ہوئے اس نے مسکاتی آواز میں پوچھا۔۔۔تو اگلے ہی پل اسے کتے کی رسی گھسیٹے ہوئے اپنی جانب بڑھتا دیکھ اسکا رنگ شدت سے پھیکا پڑا۔

”ن۔۔نہیں۔۔۔میرے قریب مت آؤ۔۔۔۔خدا کے لیے میرے قریب مت آؤ۔۔۔۔تم جانتے ہو مجھے فوبیا ہے۔۔۔۔۔۔“  لرزتی آواز میں شدت سے نفی میں سرہلاتی وہ بے اختیار اپنے دونوں پیر  چئیر پر رکھتی سمیٹ گئی۔آنسو تواتر سے گالوں پر بہہ رہے تھے۔

”کیوں نہ آؤں قریب۔۔۔۔۔؟؟؟تم ایک بار میں میری کہی بات مانتی ہو۔۔۔جو اب میں تابعداری سے تمھاری مان لوں۔۔۔۔؟؟؟ہاں۔۔۔۔؟؟؟صرف ایک عدد نکاح کی ہی تو خواہش کی تھی تم سے۔۔۔۔۔“  ٹھیک دو قدم کے فاصلے پر رکتا وہ اسے سانسیں روکنے پر مجبور کرگیا۔اگر جو چئیر کے ہتھے سے بندھی ہتھکڑی نے۔۔۔اسکی دکھتی کلائی نہ جکڑی ہوتی تو وہ کب کی وہاں سے بھاگ جاتی۔

”بھبھو۔۔۔بھبھو۔۔۔۔۔“  معاً زور کا جھٹکا لگنے پر بھورے رنگ کا وہ کتا ذرا سا آگے کو ہوتا زوروں سے اس نازک جاں پر بھونکا۔۔۔تو وہ خوف سے چیختی ہوئی بھیگے چہرے پراپنا کپکپاتا ہوا ہاتھ جما گئی۔

اسکی یہ ادا دیکھ مقابل کی سفاک مسکراہٹ  گہری ہوئی تھی۔

”ارے۔۔۔۔ابھی تو میں اس معصوم کو ٹھیک سے تمھارے قریب بھی نہیں لایا۔۔۔اور تم خوف سے اس قدر ہلکان ہوچکی ہو۔۔۔چہ چہ چہ۔۔۔سوچو اگر جو میں اسے تمھارے مزید قریب لے آؤں۔۔۔اتنے قریب کہ یہ تمھیں  کاٹ کھائے۔۔۔تو۔۔۔۔؟؟؟“  بھڑکے ہوئے کتے کو ایک اور جھٹکا دے کر مزید قریب کرتا بختی سفاکیت کی آخری حد بھی پار کرگیا تھا۔

سر کو شدت سے جنبش دیتی حاویہ کے لیے یہ انتہا ہی تو تھی۔

”نہیں نہیں نہیں۔۔۔بختی بھائی نہیں۔۔۔۔خدا کے لیے نہیں۔۔۔یہ ظلم مت کریں مجھے پر۔۔۔۔دو۔۔۔دور کردیں اسے پلیز۔۔۔۔۔۔م۔۔میں مرجاااؤں گی۔۔۔۔آاا۔۔۔۔ااہ۔۔۔ہ۔۔۔۔۔“  تڑپ تڑپ کر اس سفاک انسان کے آگے منتیں کرتی حاویہ کا دل جہاں تقریباً بند ہوجانے کے قریب تھا۔۔۔وہیں دبے قدموں وہاں آتے عائل حسن کا دل بھی یہ ناقابل برداشت منظر دیکھ  پل بھرکو ساکت پڑا تھا۔

اگلے ہی پل وہ سختی سے مٹھیاں بھینچتا سرعت سے اسکی جانب لپکا۔

”تو بولو پھر۔۔۔۔اس کو تم پر کھلے عام چھوڑ دوں یا پھر تم اپنی بےتکی ضد چھوڑنے کی ہامی بھرتی ہو۔۔۔۔؟؟ذیادہ مشکل کام نہیں ہے جانم۔۔۔بس جب مولوی تم سے تین بار قبول ہے پوچھے گا۔۔۔۔تو تمھیں بھی جواب میں۔۔۔۔۔۔“  بختی بےاختیار کتے کو پیچھے کرتے ہوئے اس پر جھکتا بول رہا تھا۔۔۔جب کسی نے اسے پیچھے کالر سے دبوچ کر اپنی طرف گھوماتے ساتھ ہی شدت بھرا مکا اس کے چہرے پر دے مارا۔

”دور رہو اس سے ذلیل انسان۔۔۔۔۔“  چیخ کر بولتا جہاں وہ فرش پر اوندھے منہ گرتے بختی کے چودہ طبق روشن کرگیا تھا وہیں حاویہ نے بگڑے تنفس کے ساتھ بے یقینی سے عائل کا سرخ ہوتا چہرہ دیکھا۔

دل شدتوں سے دھڑک اٹھا تھا۔

اس دوران کتا بھی اپنی رسی کے چھوٹتے ہی بھونکتا ہوا بےاختیار ادھ کھلے دروازے کی جانب بھاگ نکلا۔

”ع۔۔۔عائل۔۔۔۔۔۔۔“ اسے با وردی اپنے سامنے دیکھتی وہ کئی پلوں کے لیے ساکت رہی۔۔۔پھر لرزتے لہجے میں اسے پکارتی اگلے ہی پل بھبھبک بھبھک کر رودی تھی۔

وہ آگیا تھا۔۔۔

ہاں وہ اسکے پاس لوٹ آیا تھا۔۔۔۔

عائل نے بے تابانہ اسکا کمزور چہرہ اپنی نگاہوں میں بھرا۔۔۔پھر اسکی بکھری حالت کو  دیکھتے ہوئے اذیت سے لب بھینچ لیے۔

بکھرے بال۔۔۔۔

 بھیگے سہمے نقوش۔۔۔۔

سر سے اتر کر کندھوں پر پڑا بے ترتیب دوپٹہ۔۔۔۔

ہتھکڑی میں جکڑی سرخ کلائی۔۔۔

نڈھال سا وجود۔۔۔۔

یہ سب کچھ اسکا سینے پھڑپھڑاتا دل مٹھی میں جکڑلینے کو کافی تھا۔

اس دوران نتھنے سے پھوٹتے خون کو بے دردی سے صاف کرتا بختی  ہمت کرکے واپس اپنے قدموں پر کھڑا ہوچکا تھا۔

عمیر۔۔۔۔

مولوی۔۔۔۔

گواہوں اور لال چنڑی کی جگہ۔۔۔۔اپنے مقابل اے۔ایس۔پی عائل حسن کو دیکھ حقیقتاً بختی کی ساری طراری بےیقینی تلے ہوا ہو چکی تھی۔

”ت۔۔تم یہاں۔۔۔۔کیسے آئے۔۔۔۔؟؟

عمیر۔۔۔۔؟؟وہی۔۔۔وہی کمینہ تمھیں یہاں تک لایا ہے ناں۔۔۔؟؟

سالا۔۔۔گالی(##)۔۔۔۔دوستی کے نام پر دغا کرگیا میرے ساتھ۔۔۔۔زندہ نہیں چھوڑو گا میں اسے۔۔۔۔“  پلوں میں معاملے کی طے تک پہنچتا وہ عائل سمیت حاویہ کی توجہ اپنی جانب کرواگیا تھا۔

جواباً قہربار نظروں سے بختی کو دیکھتا وہ مٹھیاں بھینچ کر اسکی جانب بڑھا تو وہ بےساختہ اپنے قدم پیچھے لے گیا۔

”اوئےےےے اے۔ایس۔پی۔۔۔۔اگر تجھے یہ لگتا ہے۔۔۔ کہ میں تیرے دو ٹکے کے رعب اور اس سرکاری طاقت کے آگے زیر ہوکر اپنی محبت سے قدم پیچھے ہٹالوں گا۔۔۔تو یہ تیری بہت بڑی بھول ہے۔۔۔میں اپنے ارادوں پر تیرے۔۔۔۔۔“  انگلی اٹھا کر  بظاہر سخت لہجے میں اسے دھمکاتا وہ بول رہا تھا جب عائل ضبط کی کڑی طنابیں چھوڑتا آندھی طوفان کی طرح اس پر جھپٹا تھا۔

”میری محبت کو اپنی محبت کا نام دے کر رسوا کرنے کی ہمت بھی کیسے ہوئی تیری۔۔۔۔۔اغواء کرکے کتوں کے سہارے۔۔۔۔اس سے نکاح کرنا تو بہت۔۔۔۔بہت ہی دور کی بات ہے۔۔۔۔۔“  اشتعال میں پاگل ہوتا وہ اسے پے در پے تھپڑ مکوں سے نواز رہا تھا۔

اپنا بچاؤ کرنے کی ناکام کوشش میں بختی کو حواس باختہ دیکھ حاویہ نے بے دردی سے اپنا نچلا لب کچلا۔اسکا ہرکھوکھلا وار خالی جا رہا تھا۔

”چھوڑ مجھے۔۔۔سالے۔۔۔۔تجھے تو میں آج زندہ نہیں چھوڑوں گا۔۔۔تو دیکھ اب۔۔۔۔۔“  پوری قوت سے اسے دھکا دے کر اپنا آپ چھڑواتا وہ عائل کے ہاتھوں اپنا گریبان چاک کروا گیا۔

پھر بھاگ کر فاصلے پر پڑی چئیر اٹھاتے ہوئے اپنی جانب لپکتے عائل کو دے ماری۔

عاااائل۔۔۔۔۔؟؟“  اسے چوڑے کندھے پر چئیر کی گہری ضرب کھاتے دیکھ گہرے سانس بھرتی حاویہ چیخ کر پکارتی شدت سے فکرمند ہوئی تھی۔

چئیر زمین بوس ہونے پر جہاں عائل نے سختی سے لب بھینچ کر درد کو سہنے کی کوشش کی تھی۔۔۔وہیں بختی کے زخمی لب مسکرائے۔

تبھی باہر بجتے تیز سائرن نے مزید پولیس کی آمد کا صاف اشارہ دیا تھا۔

عائل دانت پیستا بختی کی جانب پلٹا تو بختی کی سماعتوں میں شدت سے خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔

”ہونہہ۔۔۔بس اتنا ہی دم تھا تم میں بختیار عرف بختی۔۔۔۔۔؟؟“  اسکی طرف لپکتا عائل۔۔۔اسکے وہاں سے بھاگنے سے پہلے ہی قدرے پھرتی اسے اپنی گرفت میں لے چکا تھا۔

”ایک کمزور لڑکی کو کھوکھلی محبت کے نام پر ہراساں کرنے کا جرم۔۔۔۔“  بھاری ہاتھ کا شدید تھپڑ درد برداشت کرتے بختی کو زمین بوس ہونے پر مجبور کرگیا۔

”اسے اغواء کرکے پاس رکھنے کا سب سے بڑا جرم۔۔۔۔۔“  وہ پھولے سانسوں کے ساتھ پھنکارتا ہوا اسے ایک ایک حماقت گنوا رہا تھا۔۔۔سر پر ٹھیک سے دوپٹہ لیتی حاویہ نے اگلے ہی پل رخسار پر بہتے آنسوؤں کو صاف کیا۔

”اور باوردی پولیس والے پر ہاتھ اٹھانے کا جرم الگ۔۔۔۔۔ان سب کے بعد تو تمھارا مستقیل ٹھکانہ صرف اور صرف سلاخوں کے پیچھے ہی ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔“  ٹھوکروں کی زد میں آتے بختی کی طراری۔۔۔عاشقی۔۔۔ضد اور غصہ سب جھاگ کی مانند بیٹھ چکا تھا۔

ایسے میں اپنے چنگل میں پھنسے عمیر کو پولیس کے حوالے کرکے وہاں آتا باسط۔۔۔۔تمسخر اڑاتی نگاہوں سے بختی کی درگت بنتے دیکھ وہیں رک گیا۔

نڈھال سا ہوتا وہ اپنا دفاع بھی ٹھیک سے نہیں کرپارہا تھا۔

جبکہ اسکا اس قدر جلالی روپ دیکھ حاویہ کا دم گھٹنے لگا۔

اگلے ہی پل اپنا ہاتھ روکتا وہ اسکے سیاہ کرتے کی جیب سے ہتھکڑی کی مطلوبہ چابی نکال چکا تھا۔پھر قدرے حقارت سے پیچھے ہٹا۔

”اگر مجھ پر ایک خاص حد عائد نہ ہوتی تو اس وقت میں تمھیں اپنی گولیوں ک سامنے رکھ کر اڑانے میں ذرہ برابر بھی دیر نہیں کرتا۔۔۔۔باسط۔۔۔۔“  سیاہ کف سے سرخ چہرے پر آیا پسینہ صاف کرتا وہ اگلے ہی پل باسط کی طرف پلٹا۔

”یس سر۔۔۔۔؟؟؟“  اسکے تندہی سے بلانے پر وہ شدت سے محتاط ہوتا چوکنا ہوا۔

”اس سے پہلے کہ میں اپنی یہ آخری حد بھی بھول جاؤں۔۔۔گھسیٹتے ہوئے لے جاؤ اسے یہاں سے۔۔۔اور پھینکو گاڑی میں۔۔۔۔۔۔“ سختی سے آرڈر دیتے ہوئے عائل کی پیشانی پر رگیں صاف ابھر آئی تھیں۔

”یس سر۔۔۔۔۔۔“  جواباً سلوٹ کرتا باسط پھرتی سے ہنوز زمین پر گرے پڑے نیم بےہوش بختی کی جانب لپکا۔پھر اسے

کرتے کے پھٹے گریبان سے اسے پکڑکر اٹھاتا تقریباً  گھسیٹتے ہوئے وہاں سے لے کر نکلتا چلا گیا۔

عائل کندھے میں اٹھتی درد کو نظرانداز کرتا حاویہ کی طرف پلٹا۔اسے اپنی جانب آتا دیکھ اس کا دل شدتوں سے دھڑکا۔

”تم ٹھیک ہو۔۔۔۔؟؟؟“ اسکے مقابل گھٹنوں کے بل بیٹھتا وہ قدرے بے تابی سے گویا ہوا۔۔۔تو بھیگی نگاہوں سے براہِ راست اسکی سیاہ آنکھوں میں جھانکتی وہ سسکی روکنے کو اپنا نچلا لب دانتوں تلے کچل گئی۔

پھر شدومد سے نفی میں سرہلاگئی۔

عائل کا دل مچلا۔

پہلے نہیں تھی۔۔۔۔پر اب ہوں۔۔۔۔“  وہ بھرائی آواز میں بولی تو۔۔۔وہ اسکے تسلی کروانے کے اس انداز پر دھیرے سے اپنا ہاتھ اسکے نم ہوتے گال پر رکھ گیا۔

مقابل کی بےاختیاری پر۔۔۔۔نرم پوروں کا لمس محسوس کرتی حاویہ کی بھیگی پلکیں پل بھر کو کانپ گئیں۔

عائل کی بے تاب نگاہیں شدت سے اسکے سانولے نقوش ازبر کررہی تھیں۔

”جھوٹی محبت کی آڑ میں حرمین زہرا کی عزت کی دھچیاں بکھرنے والا ایک لٹیرا ہے تمھارا بھائی۔۔۔۔دنیا بھر میں اس کے وجود کی سرعام تشہیر کرنے والا بےغیرت ترین انسان ہے وہ۔۔۔۔قاتل۔۔۔۔“  انگوٹھے تلے نرمی سے اسکے لڑھکتے آنسو پونچھتے ہوئے۔۔۔۔معاً عائل کے ذہن میں تلخ لفظوں کی گونج بکھرتی چلی گئی۔۔۔تو چونک کر وہ اگلے ہی پل اپنا ہاتھ جھٹکے سے پیچھے ہٹا گیا۔

حاویہ بھی اسکے گریز کو صاف محسوس کرتی پل بھر کو چونکی تھی۔۔۔جو بے وجہ ہی اس سے نگاہیں چراتا اب مطلوبہ چابی ہتھکڑی کے چھوٹے سے لاک میں پھنسا چکا تھا۔

”جب تمھیں اچھے سے یہ بات معلوم ہے کہ۔۔۔تم فوبیا جیسے شدید ترین مرض میں مبتلا ہو۔۔۔تو پھر کیوں خود کے پیچھے ہمیشہ بھونکتے ہوئے کتے  لگواتی ہو۔۔۔۔؟؟کبھی دو ٹانگوں والے۔۔۔تو کبھی چار ٹانگوں والے۔۔۔ہہمم۔۔۔۔؟؟؟“  ہتھکڑی کھول کر پڑے پھینکتے ہوئے وہ سوالوں میں قدرے گہرا طنز کرگیا تو۔۔۔بےاختیار اپنی دکھتی کلائی کو مسلتی وہ بھیگی نگاہوں سے اسکے تنے نقوش دیکھنے لگی۔

”م۔۔میں شوق سے نہیں لگواتی۔۔۔وہ سب خود ہی جانتے بوجھتے میرے پیچھے لگ جاتے ہیں۔۔۔۔“  ہاتھ کی پشت سے اپنا نم گال رگڑتی وہ خفگی سےتقریبا ًمنمنائی۔۔۔جواباً وہ انگارہ ہوتی نظروں سے اسکی جانب دیکھنے پر مجبور ہوا۔

”جانتے بوجھتے۔۔۔۔؟؟؟سریسلی۔۔۔۔؟؟محترمہ جب جب انھیں تمھاری صورت میں خود کی جانب راغب کرواتی ہڈی بآسانی دکھائی دیتی ہے ناں۔۔۔تب تب وہ تمھارے پیچھے لپکتے ہیں۔۔۔ورنہ بے مقصد کوئی پیچھے نہیں لگتا۔۔۔۔۔“  اسکی شدت سے دل کو بھاتی معصومیت کو سرے سے فراموش کرتا اب کہ وہ اسکی لاعلمی پر  خاصا تپ کر بولا تھا۔

”آپ مجھ پر الزام لگارہے ہیں۔۔۔۔۔۔؟؟؟“ حیرت سے پوچھتی وہ دبا دبا سا چیخی تو بے ساختہ سرخ ہوتے چہرے پر ہاتھ پھیرتا وہ اسکے پاس سے اٹھ کر رخ پلٹ گیا۔

”الزام نہیں لگا رہا بالکل بھی۔۔۔۔تمھیں فقط تمھاری بےوقوفیوں کا احساس دلانے کی ایک ناکام سی کوشش کررہا ہوں۔۔۔یہی اگر تم مجھے وقت رہتے اس ذلیل انسان کے حوالے سے ایک ایک بات بتا دیتی تو نوبت کبھی بھی اس حد تک نہیں آتی۔۔۔جہاں آج آچکی ہے۔۔۔۔۔“  مٹھیاں بھینچتا وہ قدرے ضبط سے چبا چبا کر گویا ہوا تو اسکی بات سنتی وہ بھی ایک بار پھر سے دوپٹہ ٹھیک کرتی اسکی تقلید میں کھڑی ہوگئی۔

”بہت شوق ہے ناں تمھیں  مجھ سے اپنا آپ  چھپا کر رکھنے کا۔۔۔ہوگئے سارےشوق پورے۔۔۔؟؟؟ہہمم۔۔۔۔؟؟یا پھر ابھی بھی پیچھے کچھ باقی ہیں۔۔۔۔۔؟؟؟“  یکدم پلٹ کر بگڑے تیوروں سے پوچھتا وہ اسکا بازو دبوچ چکا تھا۔

کتنا پوچھا تھا اس نے۔۔۔پر وہ۔۔۔۔۔۔؟؟؟

”میں اسکی دھمکیوں سے ڈرتی تھی۔۔۔۔“  اپنی حیرت دباتی حاویہ نے بھیگی نگاہیں پھیرتے ہوئے دھیرے سے لب کشائی کی۔۔۔۔تو اپنا آپ کنٹرول کرنے کو وہ گہرا سانس بھرکے رہ گیا۔

”اور جو خوف  مجھے لاحق ہوا۔۔۔اسکا کچھ اندازہ ہے تمھیں۔۔۔۔؟؟؟اگر آج تمھیں کچھ ہو جاتا تو۔۔۔۔“  اب کہ  گرفت کے ساتھ ساتھ  عائل خود کا لہجہ بھی خاصا نرم کرگیا تھا۔۔۔جب پیشانی پر صاف تیوری چڑھاتی حاویہ نے تندہی سے اسکی سیاہ آنکھوں میں جھانکا۔

”تو ہو جاتا۔۔۔۔ہو جاتا عائل صاحب۔۔۔۔آپ کو کیوں اتنا فرق پڑ رہا ہے۔۔۔۔؟؟؟“  تڑخ کر بولتی ہوئی جھٹکے سے اپنا بازو چھڑواتی وہ اسے اپنے رنگ بدلتے تیوروں سے حیران ہی تو کرگئی تھی۔

”خود کی زندگی سے بذاتِ خود دھتکارنے والا شخص اب کس حیثیت سے میری اس قدر ذیادہ پرواہ کر رہا ہے۔۔۔۔؟؟؟یہ جھوٹا دکھاوا کیوں۔۔۔۔؟؟؟آخر کیوں۔۔۔۔؟؟؟“ جتانے والے انداز میں سوال پر سوال پوچھتی وہ اسے برداشت کی حدوں کو چھونے پر مجبور کررہی تھی۔

”ہاں کر رہا ہوں پرواہ۔۔۔۔جانتی ہو کیوں۔۔۔۔؟؟کیونکہ جس قدر کھڑی میری پرواہ ہے ناں اسی قدر کھوکھلے تمھارے یہ خدشے ہیں۔۔۔جذبات میں بولے گئے میرے چند لفظوں کو اپنی نفرت کا ذریعہ مت بناؤ حاویہ۔۔۔۔۔۔“ وہ سختی سے تنبیہہ کرتا آخر میں متاسف ہوا تو اس کی صاف گوئی پر حاویہ کا دل عجیب سا ہونے لگا۔

پر اسکے لیے شاہ میر حسن کا معاملہ یونہی جھٹلادینے والا تو ہرگز نہیں تھا۔۔۔۔

”مگر مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔جانتے ہیں کیوں۔۔۔؟؟کیونکہ میری اس نفرت کے لیےآپکے بھائی کا کیا گیا جرم بہت مضبوط جواز ہے عائل صاحب۔۔۔۔۔“  اسی کے انداز میں بولتی وہ قدرے بے حسی سے گویا ہوئی۔

اس سمے اسے صاف بغاوت پر اترتا دیکھ عائل کا دماغ اب کہ خراب ہونے لگا۔

”میرا پہلے سے ہی خراب دماغ اب تم اپنی اس بےتکی بحث سے مزید خراب کر رہی ہو حاویہ۔۔۔۔۔“  بھنویں سکیڑ کر بولتا وہ گویا وارنگ دے رہا تھا۔۔۔۔پر وہ مرعوب ہوتی تب ناں۔۔۔

”میں۔۔۔؟؟؟“  تمسخر اڑاتی نگاہوں سے اسکی جانب دیکھتی وہ نفی میں سر ہلاگئی۔

”درحقیقت ایک سفاک مجرم پر کیے جانے والے اندھے اعتماد نے آپکا دماغ خراب کردیا ہے۔۔۔۔“  سلگ کر بات پوری کرتی وہ اسکا ضبط ہی تو توڑ گئی تھی۔

”تم۔۔۔؟؟؟تم کافی سے بھی ذیادہ باغی ہو چکی ہو۔۔۔۔بس بہت ہوا۔۔۔۔اب چلو یہاں سے۔۔۔۔چلو۔۔۔۔۔“  معاً درشتگی سے اسکی کلائی پکڑتا وہ اسے گودام سے باہر لے کر نکلتا چلاگیا۔۔۔اور وہ بھی بنا کسی مزاحمت کے ان وحشتوں سے دور اسکے سنگ کھنچتی چلی گئی۔۔۔۔۔مچلتے دل کی دھڑکنیں اب سکون میں تھیں۔۔۔۔

*********************

کمرے سے منسلک بالکنی میں کھڑے ہوکر تاریک رات کی گہری وحشتوں کو شدت سے محسوس کرتا وہ شراب کا آخری گھونٹ بھی جلدی سے حلق میں انڈیل گیا تھا۔

خنساء بیگم کی حویلی میں عدم موجودگی۔۔۔اس کو یہ بےباک طلب مٹانے پر شدت سے مجبور کرگئی تھی۔۔۔وگرنہ تو اس حویلی میں شراب تک رسائی سے وہ ہر صورت گریزاں ہوا کرتا تھا۔

اگلے ہی پل اس نے ٹھٹک کر خالی گلاس کو دیکھا۔پھر سر جھٹک کر وہاں سے پلٹتا کمرے میں چلا آیا۔

اطراف میں بکھری مدھم۔۔۔پیلی رنگ روشنی میں اسے مشکل سے ہی سائیڈ ٹیبل پر رکھی شراب کی ادھ بھری بوتل دکھائی دی تھی۔جبھی وہ تیزی سے اسکی جانب لپکا۔

بوتل کھول کر شراب گلاس میں انڈیلتے ہوئے۔۔۔وہ اگلے ہی پل اسے لبوں سے لگانے کو تھا جب کمرے کے سکوت کو چیڑتی  پائل  کی چھنکار سالار خان کی سماعتوں کو چوکنا کرگئی۔

”رابی۔۔۔۔۔؟؟؟“  قدموں کی حرکت پر وہ چھنکار پھر سے صاف بکھری تھی۔۔۔ جبھی وہ گلاس وہیں دھرتا سرعت سے پلٹا۔

پھر نشے تلے لہو رنگ ہوتی نگاہوں کو جھپکا جھپکا کر سامنے کھڑے اس نازک وجود کو دیکھا۔

مدھم روشنی میں پل بھر کو نظر آنے والی حلیمہ اگلے ہی پل رابی کی مسکراتی صورت اسکی نگاہوں میں سمائی تھی۔

”رابی نہیں۔۔۔۔حلیمہ۔۔۔۔حلیمہ ہوں میں سالار خان۔۔۔۔آپکی بیوی۔۔۔۔۔“  ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولتی حلیمہ کا دل اس پل اذیتوں تلے پھڑپھڑا رہا تھا۔

پھڑپھڑاتا بھی کیوں نہ۔۔۔۔

آخرکو اسکا مجازی خدا اسکے مقابل کسی غیرعورت کی محبت میں گھلا جارہا تھا۔۔۔۔

فقط۔۔۔فقط ایک مانوس چھنکار پر کیسے رابی رابی پکار اٹھا تھا۔۔۔

”بیوی۔۔۔۔؟؟“  قدم قدم قریب آتے سالار کو لفظ ”بیوی“ پر خوشگوار حیرت ہوئی۔

”کل ساری رات اسی کی سنگت میں گزار کے آئے تھے ناں آپ۔۔۔۔؟؟؟“  نم خوشمگیں نگاہوں سے اسے تکتی وہ پریقین سی پوچھ رہی تھی۔

آج صبح میں اس کے کپڑے اکھٹے کرتے ہوئے حلیمہ کو اسکے کرتے کی جیب سے باہر گرتی پائل شدت سے اپنی جانب متوجہ کرگئی تھی۔اور پھر معاملے کی طے تک پہنچنے میں اسے صرف ایک پل لگا تھا۔

ڈگمگا کر سنبھلتے سالار کو اسکے سوال پر شدت سے الجھن ہوئی۔

سرخ نگاہوں کا دل بہکاتا فریب ہنوز تھا۔

”پر تمھارے پاس ہی تو آیا تھا۔۔۔۔۔۔پھریہ بلاوجہ کی خفگی کیوں۔۔۔۔؟؟؟ کچھ حیرت سے پوچھتا وہ قدرے نرمی سے اسے کندھوں سے تھام کر اپنے قریب کرگیا۔

اسکے جواب پر دو آنسو ٹوٹ کر حلیمہ کی گال پر پھسلے۔۔۔پر بغاوت کرتا دل۔۔۔اسکے ہاتھوں کی بےباکی پر دھڑک اٹھا تھا۔

”یہ خفگی بھی آپ ہی کی لائی ہوئی ہے خان۔۔۔۔اگر آپ چاہیں تو اسے پلوں میں مٹا سکتے ہیں۔۔۔۔پر حقیقت تو یہ ہے کہ۔۔۔۔مجھے اذیت میں تڑپتا دیکھ کر آپکو جو دلی سکون ملتا ہے۔۔۔آپ اس سے قطعی محروم نہیں ہونا چاہتے۔۔۔۔۔“  اسکے مضبوط سینے پر نرم ہتھلیاں ٹکاتی حلیمہ نے مقابل کے منہ سے آتی شراب کی بُو کو بڑے ظرف سے برداشت کیا تھا۔

”میں۔۔۔میں کیا کروں۔۔۔؟؟؟تمھیں تکلیف دینا نہیں چاہتا پر۔۔۔۔ناچاہتے ہوئے بھی۔۔۔۔۔“  اسکی تکلیف میں دکھی ہوتا وہ بول رہا تھا جب حلیمہ سینے سے اسکے کرتے کو  مٹھیوں میں دبوچتی اسکی بات کاٹ گئی۔

”شرعی بیوی ہوں میں آپکی خان۔۔۔۔میرے بھی کچھ حقوق ہیں۔۔۔کچھ ارمان ہیں۔۔۔۔۔آخر کب تک ایک نیچ رقاصہ کے لیے آپ ان سب کا بےدردی سے گلا گھونٹتے رہیں گے۔۔۔۔؟؟؟کب تک میری مخلص محبت کی یوں دھچیاں بکھیرتے رہیں گے آپ۔۔۔۔؟؟؟“  اسکا بمشکل قدموں پر کھڑا وجود بآسانی جھنجھوڑتی حلیمہ بھرائی آواز میں چیخ کر بولی تو۔۔۔رابی کے نہ سمجھ میں آنے  والے ان شکوؤں پر۔۔۔سالار خان کی پیشانی پر شکنیں ابھرتی چلی گئیں۔

”ت۔۔تم نیچ نہیں ہو رابی۔۔۔۔خدا قسم تم ن۔۔نیچ نہیں ہو۔۔۔۔پر جو بھی ہو۔۔۔ جیسی بھی ہو۔۔۔۔میری م۔۔۔ محبت۔۔۔محبت ہو۔۔۔۔۔۔“ مزید نشے میں اترتے سالار خان نے بڑی محبت سے اسکا بھیگتا چہرہ اپنے ہاتھوں میں بھرا۔

  گو کہ سماعتوں میں اترتی اسکی نسوانی آواز بدلی بدلی سی تھی۔۔۔پر مچلتے دل کو شدت سے بھاتے رابی کے حسین نقوش اسے پاگل کرتے۔۔۔بغاوتوں پر اکسارہے تھے۔

”دور رہیں مجھ سے۔۔۔۔رابی رابی رابی۔۔۔۔نہیں ہوں میں وہ۔۔۔سنا آپ نے۔۔۔۔؟؟؟نہیں ہوں میں وہ۔۔۔۔۔“ لفظ ”رابی“ پر اپنا کڑا ضبط کھوتی حلیمہ بے اختیار اسے پرے دھکا دیتی چلائی۔

ایسے میں وہ جو اسکے نقوش پر جھکنے لگا تھا۔۔۔لڑکھڑاتے قدموں پر پیچھے ہوتا گرتے گرتے بچا تھا۔پھر کھڑے ہوتے حیرت سے اسکی جانب دیکھا۔

ایک پل کو گہرے سانس بھرتے ہوئے اپنی جانب تکتی وہ اسے حلیمہ دکھائی دی۔۔۔تو وہ بے ساختہ سر جھٹک گیا۔

نشیلی نظروں نے اگلے ہی پل پلٹا کھایا تھا۔

وہ۔۔۔وہ رابی تھی۔۔۔۔

ہاں وہ۔۔۔وہی تو تھی۔۔۔

اسکے بےتاب دل میں دھرکتی دھڑکن۔۔۔جو اس پل شدت سے اسے اپنی جانب کھینچ رہی تھی۔

”اتنا پاس لاکر اب کیوں خود سے دور کررہی ہو مجھے۔۔۔۔؟؟؟ی۔۔یہ ظلم مت کرو۔۔۔۔پہلے ہی س۔۔۔ سہہ چکا ہوں۔۔۔اور بار بار سہہ چکا ہوں۔۔۔۔۔ا۔۔اب۔۔۔اب مزید نہیں۔۔۔۔۔۔۔“  وہ جو برہم سی وہاں سے جانے کو پلٹی تھی۔۔۔معاً سرعت سے آگے بڑھ کے اسے اپنی جانب گھوماتا سالار حلیمہ کو اپنی بانہوں کے مضبوط گھیرے میں لے گیا۔

اس دوران پائل کی چھنکار نے زوروں سے سالار خان کی سماعتوں میں شور مچایا تھا۔

مقابل کی جرات پر بوکھلاتی حلیمہ کا دل پل بھرکو ساکت پڑا تھا۔

”رابی نہیں ہوں میں۔۔۔ہوش میں آئیں اور فرق پہچاننے کے قابل بنیں خان۔۔۔۔۔۔“  اب کی بار ملتجی ہوتے اسکا لہجہ بغیر کسی نشے کے لرزا تھا۔۔۔جب پیچھے ہٹانے کو اسکی نرم ہتھلیوں کا دباؤ اپنے سینے پر محسوس کرتے سالار خان نے ضدی بنتے نفی میں سرہلایا۔

”خدا کے لیے مجھ سے د۔۔۔دور مت جاؤ۔۔۔۔مت جاؤ کہ تمھارے یہ خ۔۔خوبصورت نقوش۔۔۔ت۔۔تمھاری قربت۔۔۔۔او۔۔۔اور پائل کی یہ۔۔۔۔چھنکار مجھے پ۔۔۔پاگل کیے دے رہی ہے۔۔۔۔۔“  اسکی عرق آلود ہوتی پیشانی سے اپنی پیشانی مس کرتا وہ جذباتی ہورہا تھا۔

حلیمہ نے شدتوں سے دھڑکتے دل پر آنکھیں میچ کر کھولیں۔

”جس روز آپ اس رقاصہ کی بجائے فقط حلیمہ کے لیے اپنی یہ تڑپ دکھائیں گے ناں خان۔۔۔اسی پل میں بھی آپکی قربت دل و جان سے قبول کرلوں گی۔۔۔۔پر کسی اور کی دیوانگی میں مچلتا یہ شخص مجھے  کس بھی صورت منظور نہیں ہے۔۔۔چھوڑئیے مجھے۔۔۔۔“  خود کو بہکنے سے روکنے کی کوشش کرتی وہ دھیمے لہجے میں بولی۔

”ایک بار ت۔۔تمھارے کہنے پر چھوڑا تھا۔۔۔اور انجام۔۔۔میری سانسوں پر بھاری پڑا تھا۔۔۔۔پر اب کی بار ت۔۔۔تمھاری منمانیوں کے چکر میں۔۔۔میں خود کی سانسوں کو ہلکان کرنے کا۔۔م۔۔ متحمل نہیں ہوسکتا۔۔۔۔۔“ 

”سالار خان۔۔۔۔۔؟؟“  اپنے شوہر کی قربت میں کمزور پڑتی وہ بے ساختہ اسے تنبیہہ انداز میں ٹوک گئی۔ 

سالار خان کا دماغ سنسنانے لگا۔تپتی پیشانی ہنوز اسکے ساتھ مس تھی۔

”ابھی کچھ لمحے پہلے۔۔۔ت تم نے خود یہ اعتراف کیا ہے۔۔۔۔ک۔۔۔ کہ بیوی ہو تم میری۔۔۔۔۔تو پھر یہ ڈر خوف کیسا۔۔۔۔۔؟؟“  شاید وہ اپنی گرفت میں اسکے لرزتے وجود کا ڈر بھانپ گیا تھا۔۔۔جبھی نحیف سی چوٹ کرگیا۔

اسکے دیدہ دلیری سے بیوی پکارنے پر اب کہ حلیمہ کی ہمت بھی جواب دینے لگی تھی۔

محرم کے مقابل دل بہکنے لگا تھا۔

”آپ کے مکر جانے کا۔۔۔۔۔ایک ایک بات۔۔۔ایک ایک لمحے سے پھر جانے کا۔۔۔۔۔“  مزاحمتوں سے مکمل ہاتھ روکتی وہ اپنا حقیقی ڈر اس پر ظاہر کرگئی تھی۔

”محبتوں میں قربان ہوجانا۔۔۔میری فطرت ضرور ہے۔۔۔۔پ۔۔۔پر محبتوں سے مکرجانا سالار خان کی۔۔۔س۔۔سرشت میں شامل نہیں ہے۔۔۔۔۔“  بند کھلتی آنکھوں سے اسے  یقین دہانی کرواتا وہ اگلے ہی پل چہرہ اوپر اٹھاتے ہوئے اسکی پیشانی پر اپنا سلگتا نرم لمس چھوڑ گیا۔۔۔تو حلیمہ بے اختیار اسکے کرتے کو نرمی سے مٹھیوں میں بھینچتے  ہوئے۔۔۔ بہتے آنسوؤں میں مسکرائی۔

”وعدہ۔۔۔۔۔؟؟؟“  مدھم پیلی روشنی میں لرزتے پنکھری لب شدت سے پھڑپھڑائے تھے۔

”وعدہ میری متاع جان۔۔۔۔۔۔و۔۔وعدہ۔۔۔۔۔۔“  لبوں سے پھوٹتی سرگوشی نما آواز پر جہاں اگلے ہی پل دو بےتاب دل ایک دوسرے کی خاطرمحبتوں میں جھکتے چلے گئے تھے۔۔۔وہیں سرد رات کا تیسرا پہر بھی ان تاریک وحشتوں میں دھیرے دھیرے سرکنے لگا۔۔۔۔

”توبہ توبہ ۔۔۔ایک نا محرم مرد کے ہمراہ دو عدد راتیں باہر گزار آنے کے بعد۔۔۔اب یہ کس منہ سے یہاں واپس لوٹی ہے۔۔۔۔؟؟؟“  اس سمے وہ تن تنہا پلنگ پر ٹانگیں سمیٹ کر بیٹھی تھی۔۔۔جب سماعتوں سے انگارے کی مانند ٹکراتا گہرا طنز۔۔۔اسے گزشتہ شب کی وحشتوں سے۔۔شدت سے آشنا کرتا چلا گیا۔

”بڑی بہن تو بدنامی کے ابتدائی مراحل طے کرتی اس دنیا سے چل بسی تھی۔۔۔اور اب چھوٹی  بہن کو دیکھو ذرا۔۔۔ اسی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اس بدنامی کی انتہاء کو پہنچ گئی ہے۔۔۔شاید یہی وجہ ہے جو اکثر مرد بیٹیوں کی پیدائش پر ماتم کناں ہوکر رہ جاتے ہیں۔۔۔۔۔“  گھر آئی محلے کی عورتوں میں سے ایک کا۔۔۔روح کو گھائل کرتا ایک اورحقارت بھرا طنز۔۔۔

ایسے میں مسیحا بن کر اسے آفتوں سے بچانے والا تو۔۔۔ چند اپنائیت بھرے جملوں کا تبادلہ کرتا کب کا اسے چھوڑ کر وہاں سے جا چکا تھا۔

کمرے کی چاردیواری میں بسے گہرے سکوت کو شدت سے محسوس کرتی حاویہ نے سوجھے پپوٹوں سے گال پر لڑھکتے آنسوؤں کو بےدردی سے رگڑا تھا۔

”بسسس کرو۔۔۔۔خدا کے لیے بس کردو اب۔۔۔۔۔پاک دامن ہے میری بچی۔۔۔۔ہر لحاظ سے بے داغ ہے وہ۔۔۔۔۔اور یہ صرف تم لوگوں کی گھٹیا ذہنیت ہے جس کا زہر تم سب میری بےگناہ بچی کے خلاف اپنی اپنی زبانوں سے اگل رہے ہو۔۔۔۔۔“  اسے سینے سے لگاتے ہوئے چیخ کر بولتی نفیسہ بیگم کی آواز میں صاف تلخی تھی۔۔دکھ تھا۔

ایسے میں اس نے بھیگی بھوری نگاہیں اٹھاکر سامنے کھڑے اُن گنے چنے مخالف لوگوں کا مجمع دیکھا تھا۔۔جب انہی میں شامل اپنی دل عزیز دوست نیناں کو دیکھ کر مزید بجھ سی گئی۔

ہاں۔۔۔ہاں صاف تماشہ دیکھتی وہ وہی تھی۔۔۔جو حرمین زہرا کی بدنامی کے بعد سے دوستی کے گہرے ناطے کو ہرلحاظ فراموش کر چکی تھی۔۔۔یا شاید اس سے زبردستی فراموش کروایا گیا تھا۔

حاویہ نے ادھ کھلی کھڑکی سے چھن کرکے اندر آتی گہری دھوپ کو دھندلائی نگاہوں سے تکتے بے اختیار اپنی سسکی روکی۔

”چلو مان بھی لیا کہ تمھاری بچی پاک دامن ہے۔۔۔پر کہلائے گی  تو پھربھی اغواء شدہ ہی ناں۔۔۔دیکھو بی بی تمھاری بڑی بیٹی کی کرتوتوں پر ہم بڑے ظرف سے خاموشی اختیار کرگئے تھے۔۔۔پر اب مزید نہیں۔۔۔

یہ ہمارا عزت دار محلہ ہے۔۔۔اور یہاں صرف شریف لوگوں کے لیے ہی جگہ بنتی ہے۔۔۔کسی بدنام ذات کے لیے نہیں۔۔۔۔ویسے تو اس موجودہ حالت میں کوئی بھی شریف زادہ تمھاری بیٹی سے نکاح کرنے کو رضامند نہیں ہوگا  پر پھر بھی۔۔۔۔۔ یا تو تم اسے کسی کے ساتھ بھی نکاح کرواکے کے یہاں سے چلتا کرو۔۔۔ورنہ خود کا بھی ساتھ ہی بندوبست کرلو۔۔۔اب فیصلہ اور انتخاب تمھارا خود کا ہے۔۔۔۔۔“  بظاہر بڑی عمر کے  شفاف رنگت رکھنے والے وہ بزرگ آدمی دل کے کس قدر سیاہ نکلے تھے ناں۔۔۔

پر آج۔۔۔آج کا دن تو اسکی بےبس ذات کے لیے اس سے بھی ذیادہ  سیاہ نکل آیا تھا۔۔۔

اگلے ہی پل سماعتوں میں زہر کی طرح  گھلتے نفیسہ بیگم کے الفاظ حاویہ کو سسکنے پر مجبور کرتے چلے گئے۔

”ع۔۔عائل بیٹا۔۔۔۔تم جانتے ہو میری حاویہ پاک دامن ہے۔۔۔۔بے گناہ ہے۔۔بے قصور ہے وہ۔۔۔۔

ت۔۔تو کیا تم میری معصوم بچی سے نکاح کرو گے۔۔۔۔؟؟؟  

میں جانتی ہوں کہ تم اسے بےپناہ چاہتے ہو۔۔اور دل سے چاہتے ہو۔۔۔۔

تو کیا اسکو عمر بھر کے لیے خود کے نام سے م۔۔منسلک کرکے اس پر لگے ہر الزام کو غلط ثابت کرو گے۔۔۔۔؟؟؟“   کچھ دیر پہلے گھر بلائے عائل حسن کے سامنے ہاتھ جوڑ کر۔۔۔کی جانے والی نفیسہ بیگم کی بھیگتی درخواست۔۔۔حاویہ کو حقیقتاً اذیت اور شرمندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل گئی تھی۔

جواباً وہ سرعت سے آگے بڑھ کر ان کے جڑے ہاتھ تھام چکا تھا۔

اور پھر فقط ایک پل۔۔۔ایک پل کی خاموشی کے بعد وہ بڑے دھیمے سے نرم لہجے میں ہامی بھرتا نفیسہ بیگم کو کھل کر مسکرانے پر مجبور کرگیا۔

”مجھے منظور ہے آنٹی۔۔۔میں۔۔۔اے۔ایس۔پی عائل حسن۔۔۔آپکی بیٹی حاویہ فیضان سے نکاح کرنے کے لیے دل و جان سے تیار ہوں۔۔۔۔۔“  

آس پاس بکھرتے اسکے میٹھا لہجے پر۔۔دھیرے سے نفی میں سر ہلاتی حاویہ بے اختیار کانوں پر ہاتھ رکھ گئی۔

”پر میں یہ نکاح کسی بھی صورت نہیں کروں گی۔۔۔سنا آپ نے۔۔۔؟؟میری بہن کے قاتل کا بھائی ہے وہ۔۔۔۔خدا کا واسطہ ہے آپ مجھ سے اتنی بڑی توقعات مت لگائیں جسے نبھانے کے قابل میں بالکل بھی نہیں ہوں۔۔۔۔۔؟؟؟“  چیخ کر بولتی وہ اپنے جذباتی رویے پر نفیسہ بیگم سمیت کمرے کے باہر کھڑے عائل کو بھی چند لمحوں کے لیے حیران کرگئی تھی۔

”تمھیں میرے سر کی قسم حاویہ۔۔۔تم یہ نکاح کرو گی اور ہر صورت کرو گی۔۔۔اگر جو تم نے میرے فیصلے کے خلاف جاکر اپنی منمانی کی تو یقین کرو میرا مرا ہوا منہ دیکھو گی تم۔۔۔یاد رکھنا۔۔۔میں پہلے ہی بہت صدمے سہہ چکی ہوں۔۔۔اب مزید سہنے کا حوصلہ باقی نہیں ہے مجھ میں۔۔۔۔۔“  وہ جو اسکے لیے نکاح کا سرخ جوڑا لے کر آئیں تھیں۔۔۔ زبردستی اپنے سر پر اسکا لرزتا ہاتھ رکھواتی۔۔۔اسے حقیقتاً بےبس ہی تو کرگئی تھیں۔

”آپ کی دور اندیشیاں میری سمجھ سے بہت پرے ہیں ماں۔۔۔۔اتنی بڑی قسم دے کر آپ نے اپنی حاویہ کے ساتھ بالکل بھی اچھا نہیں کیا۔۔۔۔بالکل بھی۔۔ا۔۔چھا۔۔۔نہیں۔۔کیااا۔۔۔۔“  ایک ایک کرکے اب تک کی تمام سلگتی یادوں سے نبردآزما ہوتی حاویہ اگلے ہی پل شدتِ بےبسی سے گھٹنوں پر اپنی پیشانی ٹکا گئی تھی۔

معاً عائل حسن خاموشی سے کمرے میں داخل ہوا تو وہ توقع کے عین مطابق  گھٹنوں میں سر دئیے رونے میں مصروف تھی۔

”تیار کیوں نہیں ہوئی ابھی تک۔۔۔؟؟؟“  وہ سخت تیور لیے قدم قدم چلتا اُس تک پہنچا اور اُسکے بکھرے سراپے کو نظروں میں بھرتے ہوئے۔۔۔سر پر کھڑا بازپرس کرنے لگا۔

حاویہ ایک پل کو اپنے قریب سے آتی مانوس مگر سخت آواز پر چونکی ضرور تھی۔۔۔مگر ہنوز اُسی پوزیشن میں ڈھیٹ بنی بیٹھی رہی۔

”میں تم سے مخاطب ہوں۔۔۔۔“  اُسکی خاموشی پر چبا چبا کر بولتے ہوئے اُسنے اپنی موجودگی کا احساس دلایا تھا۔

”جہاں ماتم کی صفیں بچھی ہوں وہاں کس خوشی کی تمناء کررہے ہیں آپ صاحب۔۔۔۔؟؟؟  گھٹنوں سے ہلکا سا سر اٹھاکر سامنے پڑے نکاح کے سرخ جوڑے کو تنفر سے دیکھتی ہوئی وہ طنزیہ انداز میں غرائی۔۔۔تو عائل لب بھینچ کر رہ گیا۔

حاویہ نے اُسکی طرف دیکھا ابھی بھی نہیں تھا۔۔۔جیسے ڈر ہو کہ اگر دیکھے گی تو سارا ضبط کھو بیٹھے گی۔

”فضول کی بکواس نہیں کرو میرے ساتھ۔۔۔چلو شاباش اٹھو اور دس منٹ کے اندر اندر ریڈی ہوکر کمرے سے باہر نکلو۔۔۔اتنا فالتو وقت نہیں ہے ابھی میرے پاس جو تمھارے بےجا نخرے اٹھاتا پھروں۔۔۔۔ہری اپ۔۔۔“  اُسکے لب و لہجے اور گریز کو بمشکل نظرانداز کرتا ہوا وہ قدرے بےزاری سے گویا ہوا۔

سر تا پیر آگ ہی تو لگا دی تھی عائل کی باتوں نے اُسے۔۔۔

دوسرے ہی پل دونوں کی نظروں کا زبردست تصادم ہوا۔۔۔تو ناچاہتے ہوئے بھی وہ اُسکی بھیگی مگر بےخوف آنکھوں میں دیکھتا ہوا اپنے دل کی ایک بیٹ مس کرگیا۔

”مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے آپ سے اپنے نخرے اٹھوانے کا۔۔۔آپ بھی کسی خوش فہمی میں مت رہیے گا۔۔۔نہیں ہونا مجھے تیار۔۔۔اور نہ ہی آپ سے کوئی رشتہ جوڑنا ہے۔۔۔دفع ہوجائیں میری نظروں کے سامنے سے۔۔۔“  سلگ کر چیختے ہوئے وہ اپنے سامنے رکھے سرخ جوڑے پر جھپٹی۔۔۔۔اور ایک ہی وار میں اُسے بے دردی سے دور اچھال دیا۔

اُسکی ڈھٹائی اور کھلی بدتمیزی کا نظارہ کرتے ہوئے۔۔۔تب سے ضبط کرتے عائل کی چمکتی پیشانی پر صاف رگیں ابھر آئیں۔

اگلے ہی پل اُسکی مومی کلائی کو سختی سے جکڑتا ہوا وہ جھٹکے میں اُسے اپنے مقابل کھڑا کرگیا۔۔۔تو اس اچانک افتاد پر اپنی چیخ روکنے  کی کوشش کرتی حاویہ لبوں کو سختی سے دانتوں تلے دبا گئی۔

شدتوں سے دھڑکتا دل ایکدم ہی خوف سے پھڑپھڑایا تھا۔

عائل کی سیاہ آنکھوں میں ہلکورے لیتی سرخی اُسکے شدید غصے کا پتا دے رہی تھی۔

”اگر نہیں چاہتی کہ تمھاری ماں صدمے سے کل کی مرتی آج ہی مر جائے۔۔۔تو چپ چاپ وہی کرو جو تم سے کرنے کو بولا جارہا ہے۔۔۔

اور سب سے مین بات۔۔۔آئندہ پھر کبھی میرے سامنے ایسی بدتمیزی کا مظاہرہ کیا تو مجھ سے کسی بھی نرمی کی امید مت رکھنا۔۔۔۔گیٹ اٹ۔۔۔“  اُسکی پھٹی پھٹی آنکھوں میں شدت سے دیکھتا ہوا وہ ناپسندیدگی کی کاٹ لیے پھنکارا تھا۔۔۔اور پھر اپنی بات مکمل کرتے ہی اُس کو واپس بیڈ پر پٹختا ہوا تیزی سے کمرے سے باہر نکل گیا۔

پیچھے حاویہ گرنے کے سے انداز میں لیٹتی اپنی بےبسی پر شدت سے رودی تھی۔

خود کی ذات کی بابت سارے فیصلے۔۔۔سارے اختیارات اسکے ہاتھوں سے چھوٹتے چلے گئے تھے۔

پیچھے بچے تھے تو محض بھیگی پلکوں سے ٹوٹ کر بےمول ہوتے وہ شفاف آنسو۔۔۔۔جنھیں وہ نکاح کے فوری بعد رخصتی کا سوچتی ہوئی اس پل بہا رہی تھی اور شدت سے بہائے چلی جا رہی تھی۔۔۔۔

جبکہ اسکی تلملاتی کیفیات سے قدرے سے انجان۔۔۔مولوی اور گواہان کمرے سے باہر اسکے شدت سے منتظر تھے۔۔۔

****************************

اس نے بڑی دقت سے اپنی بھاری پلکوں کو جنبش دیتے ہوئے وا کیا تھا۔

بھاری ہوتا سر اس وقت درد کی لہروں سے آشنا ہوتا ہوا۔۔۔اسکے مضبوط وجود کو لیٹے سے۔۔اٹھ کر بیٹھنے پر مجبور کرگیا۔

”آاا۔۔ہ۔۔۔۔ہ۔۔۔۔“  بے اختیار کنپٹیوں کو تھام کر سر جھٹکتے ہوئے اس نے پلکیں جھپکا جھپکا کر اطراف میں دیکھا۔

اس وقت اسکے سوا  کمرے میں کوئی بھی موجودنہیں تھا۔

ایسے میں بند کھڑکی کے شیشوں سے دکھائی دیتی سنہری فضا۔۔۔دن چڑھ آنے کا صاف پتا دے رہی تھی۔

اگلے ہی پل غائب دماغی سے چادر ہٹا کر وہ پلنگ سے نیچے اترنے کو تھا۔۔۔جب نگاہیں سائیڈ ٹیبل پر پڑی شراب کی ادھ بھری بوتل سے ٹکراتی ٹھٹک گئیں۔

”شراب۔۔۔۔۔؟؟“  معاً اسے یاد آیا تھا کہ گزشتہ شب وہ بالکنی میں کھڑے کھڑے ہی آدھی بوتل خالی کرچکا تھا۔

اور پھر۔۔۔۔ 

”یہ خفگی بھی آپ ہی کی لائی ہوئی ہے خان۔۔۔۔اگر آپ چاہیں تو اسے پلوں میں مٹا سکتے ہیں۔۔۔۔پر حقیقت تو یہ ہے کہ۔۔۔۔مجھے اذیت میں تڑپتا دیکھ کر آپکو جو دلی سکون ملتا ہے۔۔۔آپ اس سے قطعی محروم نہیں ہونا چاہتے۔۔۔۔۔“  بے ساختہ جاگتے ذہن نے  مزید آگے کا سوچ کر اسے بری طرح چونکایا۔

اسکے مضبوط سینے پر نرم ہتھلیاں ٹکاتی حلیمہ نے کتنی بے دھڑک ہوکر اس سے شکوہ کیا تھا۔  

قدرے حیرت سے کھڑا ہوتا وہ مزید گہرائی میں سوچنے پر مجبور ہوا تھا۔

”شرعی بیوی ہوں میں آپکی خان۔۔۔۔میرے بھی کچھ حقوق ہیں۔۔۔کچھ ارمان ہیں۔۔۔۔۔آخر کب تک ایک نیچ رقاصہ کے لیے آپ ان سب کا بےدردی سے گلا گھونٹتے رہیں گے۔۔۔۔؟؟؟کب تک میری مخلص محبت کی یوں دھچیاں بکھیرتے رہیں گے آپ۔۔۔۔؟؟؟“  اسے جھنجھوڑ کر پوچھتی وہ کیسے چیخ چیخ اپنا زہر اگل رہی تھی۔

سالار خان کی پیشانی پر صاف شکنیں ابھرتی چلی گئیں۔

گزشتہ شب چاہ کر بھی دکھائی نہ دینے والی حقیقت اب کہ اس کی یاداشت میں وقفے وقفے سے تازہ ہورہی تھی۔۔۔۔پر آدھی ادھوری۔۔۔۔

اگلے ہی پل۔۔چل کر آئینے کے سامنے آتے ہوئے اسے خود کا بے قرار ہونا شدت سے یاد آیا۔

”اتنا پاس لاکر اب کیوں خود سے دور کررہی ہو مجھے۔۔۔۔؟؟؟ی۔۔یہ ظلم مت کرو۔۔۔۔پہلے ہی س۔۔۔ سہہ چکا ہوں۔۔۔اور بار بار سہہ چکا ہوں۔۔۔۔۔ا۔۔اب۔۔۔اب مزید نہیں۔۔۔۔۔۔۔“ 

 اففف۔۔۔اففف۔۔۔اففف۔۔۔۔اسے اپنی سخت گرفت میں لیتا وہ۔۔۔وہ نشے میں خود بھی تو بہک گیا تھا۔

اشتعال تلے سرخ پڑتی نگاہوں سے شفاف آئینے میں اپنی ہار دیکھتے سالار خان نے ڈریسنگ ٹیبل پر شدت سے مکا مارا۔

معاً رابی کا حسین مکھڑا اسکی آنکھوں میں سماتا۔۔۔اسکا دل بری طرح دھڑکا چکا تھا۔

 ”رابی۔۔۔؟؟کہتے ہیں محبوب کی صرف۔۔۔پاس موجودگی ہی ایک بےقرار دل کو سکون دینے کے لیے کافی ہوتی ہے۔۔۔۔

اور میں حالات سے تھکا ہارا اب  وہیں سکون لینے کی خاطر تمھارے پاس آیا ہوں۔۔۔۔“ مدھم لہجے میں بول کر اسکی گود میں اپنا سر رکھتے ہوئے اس وقت کس قدر سکون ملا تھا اسے۔۔۔

پر اب۔۔۔اب وہ سکون۔۔۔وہ قرار اس سے چِھن چکا تھا۔۔۔

سالار خان کا دماغ سنسنانے لگا۔

چِھن چکا تھا یاں۔۔۔پھر جانتے بوجھتے چھینا گیا تھا۔۔۔؟؟

ڈریسنگ ٹیبل پر ذرا سا جھک کر آنکھیں میچتے اسکی اذیت بڑھی۔

دماغ کی نسیں درد کرتیں اسے مزید سوچنے سے روک رہی تھیں۔۔۔جب

واشروم کا دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوتی حلیمہ نے چونک کر اسکی پشت دیکھی۔پھر شدت سے دھڑکتے دل کے ساتھ ہولے سے مسکراتی ہوئی۔۔۔اسکی طرف بڑھی۔

اس دوران کچھ شوق سے پیر میں پہنی پائل واضح  چھنکار کرتے ہوئے سالار خان کو۔۔۔جھٹکے سے اپنی طرف پلٹنے پر مجبور کرگئی۔

یہی چھنکار سن کر تو وہ ان پلوں میں پاگل ہوا تھا۔

نم بالوں کو ہنوز کندھوں پر بکھیرے۔۔۔حلیمہ ٹھٹک کر وہیں رک گئی۔

”خان آپ۔۔۔ک۔۔۔کب جاگے۔۔۔۔؟؟؟  اسے یوں اپنی جانب بغور تکتا پاکر۔۔۔حیا تلے نم پلکیں جھکاتی وہ کچھ ہکلا کر بولی۔۔۔

پر مقابل تو اسکے نکھرے نکھرے روپ کو سرے سے نظرانداز کرتا۔۔۔فقط اسکی پائل کو ساکت نظروں سے گھور رہا تھا۔

شاید۔۔۔شاید اسے خود کے بہکنے کی شروعاتی وجہ مل چکی تھی۔

”کل رات۔۔۔جب میں نشے میں دھت تھا۔۔۔۔تو یہی پائل پہن کر تم میرے پاس آئی تھی ناں۔۔۔؟؟“  سختی سے مٹھیاں بھینچ کر اسکے قریب آتا وہ بڑے ضبط سے پوچھ رہا تھا۔لہجہ دھیما مگر سرسراتا ہوا تھا۔

جواباً پلکیں اٹھا کر اسکی جانب دیکھتی وہ۔۔۔بدقسمتی سے اپنی فطری حیا میں گھلتی اسکے انداز نہیں سمجھ پائی تھی۔

”ایسا ہی ہے خان۔۔۔۔جانے کیوں ؟؟پر میں یہ پائل چاہتے ہوئے بھی خود سے الگ نہیں کرپائی۔۔۔یقین تو تھا۔۔۔مگرسوچا نہیں تھا کہ ہمارے مابین سب فاصلے اتنی جلدی مٹ جائیں گے۔۔۔اتنی مسافتیں طے کرنے بعد اب اپنی منزل پاکر میں بہت خوش ہوں۔۔۔بہت سے بھی ذیادہ۔۔۔۔۔“  شرمیلی مسکراہٹ کو لبوں پر بکھیرتی وہ گویا اسکے سامنے انجانے میں اعترافِ جرم ہی تو کرگئی تھی۔

مگر اگلے ہی پل سارا ضبط کھوتے سالار خان کا بھاری ہاتھ اٹھا تھا۔۔۔ اور اسکے نازک گال پر پوری شدت سے اپنی چھاپ چھوڑتا اسے زمین بوس کرگیا۔

”تڑاااخ۔۔۔۔۔“  کمرے میں گونجتی تیز آواز نے وہاں آتی خنساء بیگم کو بھی اس ناقابل یقین منظر پر اپنی جگہ ساکت کیا تھا۔

سن ہوتے رخسار پر ہاتھ جماتی حلیمہ نے پلٹ کر پھٹی پھٹی نگاہوں سے اپنی ہی جانب  غصے سے تکتے سالار خان کو دیکھا۔

آنکھیں پل میں بھر آئی تھیں۔

”میری با مقصد محبت کی راہ میں تم فقط ایک بے مقصد سی رکاوٹ ہو جسے پیروں تلے روند کر آگے نکل جانا اب میری شدید ترین خواہش بن چکی ہے حلیمہ خان۔۔۔گزشتہ رات مجھے بہکا کر تم اپنا حق تو وصول کر چکی ہو۔۔۔پر یاد رکھنا۔۔۔رابی کی جگہ مرکر بھی نہیں لےسکو گی۔۔۔یہاں۔۔یہاں اس دل میں بستی ہو وہ میرے۔۔۔۔۔“  دہلیز پر جم کے کھڑی خنساء بیگم کی موجودگی سے ہنوز انجان۔۔۔وہ بازو سے دبوچ کر اس پر جھکتا سفاکی سے پھنکارا۔

اسے اپنے سارے مان بھرم۔۔۔خوشیاں۔۔۔اور عزتِ نفس کی پلوں میں دھچیاں بکھیرتا دیکھ وہ نازکِ جان سسک ہی تو پڑھی تھی۔

”محبتوں میں قربان ہوجانا۔۔۔میری فطرت ضرور ہے۔۔۔۔پ۔۔۔پر محبتوں سے مکرجانا سالار خان کی۔۔۔س۔۔سرشت میں شامل نہیں ہے۔۔۔۔۔“  

اس نے کہا تھا کہ وہ مکرے گا نہیں۔۔۔۔مگر اب وہ مکر گیا تھا۔۔۔۔ہاں وہ سر تا پیر مکرتا اسکی محبتوں کو حقیقتاً کھوکھلا ہی تو کر گیا تھا۔

”سالار خان۔۔۔دور ہٹو ہماری بچی سے۔۔۔۔“  ہوش میں آتی خنساء بیگم  تڑخ کر بولتی جلدی سے انکے قریب آئی تھیں اور سالار کو جھٹکے سے حلیمہ سے پرے دھکیلا۔

”ا۔۔اماں حضور۔۔۔۔۔۔؟؟“  انھیں۔۔روتی ہوئی حلیمہ کو سہارا دے کر اپنے ساتھ کھڑا کرتے دیکھ سالار خان منہ پر ہاتھ پھیرتا ناچاہتے ہوئے بھی کچھ شرمندہ ہوا تھا۔اسے قطعی معلوم نہیں تھا کہ وہ صبح سویرے ہی حویلی آچکی ہے۔۔۔

”آج تم نے حلیمہ پر نہیں۔۔۔بلکہ سیدھا ہماری تربیت پر ہاتھ اٹھایا ہے۔۔۔صد افسوس کہ قابل ہوکر بھی۔۔۔تم اسکے قابل نہیں ہوسکے۔۔۔۔دور رہنا اب تم اس سے۔۔۔۔سنا تم نے۔۔۔۔؟؟؟چلو حلیمہ۔۔۔۔“  دبیز قالین کو گھور کر ہچکیاں بھرتی حلیمہ کے سر پر ہاتھ پھیرتی۔۔۔وہ کاٹ دار لہجے میں بولیں۔۔۔پھر جلتے دل کے ساتھ اسے لے کر وہاں سے پلٹ گئیں۔

سالار نے سختی سے لب بھینچ کر ایک نگاہ خنساء بیگم کے ہمراہ جاتی حلیمہ پر ڈال کر پھیر لی۔

سفاکی ہنوز تھی۔۔۔پر کہنے کو ایک لفظ بھی نہیں تھا۔

جان نکالتے اندیشے۔۔جنھیں حلیمہ اب تک جھٹلا چکی تھی اب بدترین حقیقت بن کر زہر کی مانند اسکے اندر اتر رہے تھے۔

معاً  جلتے گال کے ساتھ۔۔۔کمرے کی دہلیز پھلانگتی وہ ایک جھٹکے سے سالار خان کی جانب پلٹی تو جواباً اس نے بھی سرد نظروں اسے دیکھا۔

”میری یہ بات اچھے سے ذہن نشین کرلیجیے گا خان۔۔۔اس ایک تھپڑ کے بعد۔۔۔اب آپکی محبت میں دم بھر کر۔۔۔میں اپنی محبت کی مزید توہین نہیں ہونے دوں گی۔۔۔“  شہادت کی انگلی اٹھا کر سسکتے لہجے میں بولتی وہ مقابل کا سفاک دل پل بھرکےلیے شدتوں سے دھڑکاگئی تھی۔

اگلے ہی پل وہ خنساء بیگم کو بھی وہیں چھوڑتی اپنے سابقہ کمرے کی طرف بھاگتی چلی گئی۔۔۔۔۔۔تو جہاں خنساء بیگم بھی سالار خان کو ملامت کرتی نگاہوں سے گھور وہاں سے چلی گئی تھیں۔۔۔وہیں وہ  عجیب سی بے چینی میں گھرتا بےاختیار مٹھی میں اپنے بال جکڑ گیا۔۔۔۔۔

”یہ عشق تم نہ کرنا

   یہ روگ ہی لگائے

   دفن خود کرے ہے

   پھر سوگ بھی منائے

   عاشقوں کے دل میں

   یہ آس بھی لگائے

   پھر آس کو بجھا کے

   یہ آگ بھی  لگائے۔۔۔۔“

اس وقت وہ واشروم کی دیوار سے ٹیک لگائے۔۔۔سگریٹ پھونکتا ہوا۔۔۔قدرے بےدلی سے سامنے لگے آئینے میں اپنا پھیکا عکس بغور دیکھ رہا تھا۔

فائنل ایگزامز اسٹارٹ ہوچکے تھے۔۔۔جس کے لیے اس نے گزشتہ شب کچھ دیر جاگ کر پڑھائی بھی کی تھی۔۔۔

ایسے میں آج کے دن یونی کی زمین پر دوبارہ چلتے پھرتے۔۔اسکی بےلگام بھوری نگاہوں نے جانے کتنی ہی بار ان راستوں کو بے ارادہ ہی ٹٹولا تھا۔۔۔جہاں کبھی وہ حرمین زہرا کے ہمقدم ہوکر گزرا تھا۔۔۔پر اسکے نازک وجود سے محروم اس پوری عمارت نے۔۔۔اسکے ذہن کو بےمعنی وحشتوں کو اس دوران تلے دبائے رکھا تھا۔

سر دیوار سے ٹکا کر گہرا کش بھرتے شام نے بے اختیار اپنی آنکھیں میچتے۔۔۔لمحے بعد لبوں سے گہرا دھواں باہر کو چھوڑا۔

آج افروز بھی اسے وہاں پر دکھائی دیا تھا۔۔۔جو اسے دیکھ کر اپنا منہ نفرت سے موڑ گیا تھا۔

ہاں البتہ۔۔۔محو گفتگو ہوتے فواد کے تیور ٹھیک تھے اس کے ساتھ۔۔۔۔

ہنوز آنکھیں بند کیے وہ ایک اور گہرا کش لگاتا مزید سوچنا چاہ رہا تھا۔۔۔پر اگلے ہی پل سماعتوں میں اترتی ہوئی صاف نسوانی آواز نے اسے بری طرح ٹھٹک کر نگاہیں کھولتے ہوئے۔۔۔سامنے دیکھنے پر مجبور کیا تھا۔

”م۔۔۔میری سانسیں۔۔۔۔میری سانسیں ختم ہورہی ہیں۔۔۔۔

م۔۔میں مر رہی ہوں۔۔۔پل پل مرررر رہی ہوں۔۔۔۔۔۔“  گردن پر دونوں ہاتھ جماکر سسکتی یقیناً وہ اسے پلوں میں خود سے خوفزدہ ہونے پر مجبور کرگئی تھی۔

”حر۔۔حرمین۔۔۔۔؟؟“  شفاف آئینے میں خود کے عکس کی بجائے۔۔۔اسکے بکھرے وجود کو آنکھیں پھاڑ کردیکھتے ہوئے اسکے سلگتے لب شدت سے پھڑپھڑائے۔

اس دوران ادھ جلے سگریٹ کا شام کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گرنا بے ساختہ تھا۔

”و۔۔وہ دیکھو۔۔۔۔وہ وہاں۔۔۔۔سب دیکھ رہے ہیں۔۔۔۔سب دیکھ رہے ہیں میری طرف۔۔۔۔خدا کے لیے انکی غلیظ نگاہیں مجھ پر سے ہٹاؤ۔۔۔۔ انھیں کہو میری طرف مت دیکھیں۔۔۔م۔۔میری نازیبا حالت بالکل بھی دیکھنے کے قابل نہیں ہے۔۔۔۔۔“  اب کہ اپنے بکھرے بال نوچتی وہ شدت سے چیخ رہی تھی۔

بنا پلکیں جھپکائے۔۔۔ہنوز اسے تکتے شام کی پیشانی پر صاف پسینہ پھوٹ پڑا۔

آیا یہ اسکا وہم تھا۔۔۔۔؟؟

خیال تھا۔۔۔؟؟

جاگتی نگاہوں سے دِکھتا ایک بدترین خواب۔۔۔؟؟

یا۔۔۔یا پھر ذہنی فتور؟؟جو وہ بنا کسی نشے کے۔۔۔اس پل اسے اپنے مقابل صاف دکھائی دے رہی تھی۔

بری طرح گھبراتا وہ چاہ کر ان میں سے کسی بھی ایک نتیجے پر پہنچ  نہیں پایا تھا۔

”م۔۔مگر میرے سوا ک۔۔کوئی بھی تمھیں نہیں دیکھ رہا۔۔۔او۔۔۔اورتمھاری حالت بھی۔۔۔د۔۔دیکھنے لائق ہے۔۔۔۔میرا یقین کرو۔۔۔۔“  ناجانے کیسے وہ جرات کرتا دھیمے۔۔۔نرم لہجے میں اسے ہکلاکر دلاسہ دے گیا تھا۔

اسکی بات سنتی حرمین زہرا کے سسکتے نقوش اچانک سپاٹ ہوئے تھے۔

سرد ترین۔۔۔

”یقین۔۔۔۔؟؟؟تمھارا یقین۔۔۔۔؟؟؟کیا تھا ناں۔۔۔۔اندھا دھند یقین کیا تھا تم پر۔۔۔۔پر بدلے میں تم نے کیا کیا۔۔۔۔۔؟؟؟“  انگارہ نم نگاہیں اسکی جانب اٹھاتی وہ گویا پھنکاری۔

شام نے قابو سے باہر ہوتے دل پر ہاتھ رکھا تھا۔

”صرف ایک تھپڑ کی جلن نے تمھیں اس حد تک گرا دیا شاہ میر حسن کہ تم نے میری عزت سمیت میری روح تک کی دھچیاں بکھیر دیں۔۔۔۔کسی قابل نہیں چھوڑا تم نے مجھے۔۔ہر۔۔ہر لحاظ سے تباہ کردیا میری ذات کو۔۔۔۔۔“  وہ بڑی تندہی سے اسکی جانب انگلی اٹھاکر۔۔۔سماعتوں میں زہر گھول رہی تھی جب شام۔۔۔شدت سےنفی میں سر ہلاتا بے اختیار ایک قدم آگے کو ہوا۔

”میرا یقین کرو حرمین۔۔۔۔میں۔۔میں نے یہ سب کچھ جان بوجھ کر نہیں کیا تھا۔۔۔۔خدا قسم میں ایسا دل سے نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔

ہ۔۔ہاں یہ مانتا ہوں کہ۔۔۔میں تمھیں پل پل تڑپتا۔۔۔سسکتا ہوا ضرور دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔پر تمھاری خود کشی۔۔۔وہ نہیں۔۔۔۔“  وحشتوں تلے وضاحت دیتے اسکا تنفس بگڑرہا تھا جب آخر میں نم آنکھوں سمیت وہ دھیرے سے نفی میں سر ہلاگیا۔

معاً واشروم کا ادھ کھلا دروازہ پورا کھول کر اندر آتی عائمہ بیگم نے شام کو بوکھلاکر اپنی جانب دیکھنے پر مجبور کردیا تھا۔

”شام۔۔۔۔؟؟؟یہ تم اکیلے میں کس سے کیا باتیں کیے جا رہے ہو بیٹا۔۔۔۔؟؟؟تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے ناں۔۔۔۔؟؟؟“  اندر آتے ہوئے وہ کچھ خاص سن تو نہیں پائی تھیں۔۔۔البتہ اس کے سرخ چہرے کو کچھ حیرت سے گھورتی بے اختیار فکرمند ہوئیں۔

جواباً شام نے سرعت سے واپس آئینے کی جانب دیکھا۔۔۔جہاں اب صرف اسکا خود کا حیرت زدہ عکس صاف دکھائی دے رہا تھا۔۔۔

”حرمین زہرا۔۔۔۔۔؟؟“  اسکے لب بے آواز پھڑپھڑائے۔

وہ اب کہیں بھی نہیں تھی۔

تو کیا وہ پاگل ہوچکا تھا۔۔۔۔؟؟؟

منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس نے بےساختہ اطراف میں سرخ نگاہیں دوڑائیں۔

شام۔۔۔۔؟؟؟کچھ ہوا ہے کیا۔۔۔؟؟تم بول کیوں نہیں رہے۔۔۔؟؟کوئی پریشانی کی بات ہے تو مجھے بتاؤ چندا۔۔۔۔؟؟“  اسے ہنوز حیرت سے کچھ ٹٹولتے دیکھ عائمہ بیگم بے قرار سی پوچھتی چلی گئیں۔

” کچھ بھی نہیں ہوا موم۔۔۔۔ٹھیک ہوں میں۔۔۔۔۔سو آپکو بھی میرے بارے میں ذیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ہہمم۔۔۔۔“  ان کے سوالوں سے چڑتا وہ قدرے بے زاری سے گویا ہوا۔

پھر بنا کوئی لمحہ ضائع کیے عائمہ بیگم کی سائیڈ سے ہوتا۔۔۔وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

”پ۔۔پر شام۔۔۔۔۔سنو تو۔۔۔۔“  اسکے بگڑے تیوروں پر پریشان ہوتی عائمہ بیگم اس سے پہلے کہ  خود بھی اسکے پیچھے جاتیں۔۔۔ معاً ان کی بھٹکتی نگاہوں نے نیچے گرے ادھ جلے سگریٹ کو حیرت سے دیکھا۔

پھر تیوریاں چڑھاتی وہ بھی کچھ غصے سے اسکی تقلید میں لپکی تھیں۔

ایسے میں شام جو عجلت میں کمرے کی دہلیز پھلانگتا۔۔۔باہر ہال میں آیا تھا۔۔۔معاً سامنے سے اپنی جانب آتے عائل کو۔۔۔حاویہ کے سنگ دیکھ کر بری طرح چونکتا وہیں ساکت ہو گیا۔

محض پل بھر کو رکتے وہ دونوں بھی شام کو دیکھ چکے تھے۔۔۔جس کے وجہہ نقوش پر سرخ جوڑے میں دلہن بنی حاویہ کو دیکھ کر بے یقینی کی چھاپ صاف تھی۔

”شام۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔۔“  کمرے سے باہر نکلتی عائمہ بیگم بھی اچانک ان پرنظریں پڑتے ہی ٹھٹک کر چپ ہوئی تھیں۔

عائل قدم قدم چلتا ہوا حاویہ کے ہمراہ انکے قریب آکر رکا۔۔۔تو جہاں اسکے چہرے پر ایک اطمینان تھا وہیں حاویہ کا دل نت نئی وحشتوں تلے ڈوبا۔

”بھائی۔۔۔یہ۔۔۔؟؟؟یہ لڑکی اس وقت آپ کے ساتھ۔۔۔یہاں ہمارے گھر میں کیا کررہی ہے۔۔۔۔؟؟؟“  عائل کو اسکی نازک کلائی مضبوطی سے تھامے دیکھ اسنے قدرے حیرت سے پوچھا۔سنسناتا دماغ اس پل شدت سے بہت کچھ غلط ہوجانے کا صاف اشارہ دے رہا تھا۔

”یہ کون ہے عائل۔۔۔۔۔؟؟؟اور اسکا یوں دولہن کے گیٹ اپ میں تمھارے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر۔۔۔ساتھ کھڑے ہونے کا آخر مطلب کیا ہے۔۔۔؟؟؟“  اب کہ ہوش میں آتی عائمہ بیگم نے بھی قدرے بگڑ کر پوچھا۔۔۔۔تو حاویہ نے نم سلگتی نگاہوں کو شام کے سرخ چہرے سے ہٹاکر اپنی ساس کے سخت تیوروں کی جانب پھیرا۔

جواباً عائل نے ایک گہری نگاہ حاویہ پر ڈال کراگلے ہی پل مکمل اعتماد سے انکی جانب دیکھا تھا۔

”مطلب ایک اور صاف ہے۔۔۔۔یہ لڑکی میری قانونی اور شرعی بیوی کے لحاظ سے زندگی بھرکے لیے اب میرے نکاح میں ہے۔۔۔حاویہ۔۔۔حاویہ عائل حسن۔۔۔آپکی بڑی بہو اور شام کی اکلوتی بھابی۔۔۔۔۔“  اسکے بھاری مضبوط لہجے میں کہے جانے والے وہ الفاظ کم۔۔۔پگھلتا سیسہ ذیادہ تھے جو وہ بڑی آسانی سے ان کی سماعتوں میں انڈیل چکا تھا۔

اس تلخ ترین حقیقت پر جہاں سختی سے مٹھیاں بھینچتے ہوئے شام کی آنکھوں کا  رنگ مزید گہرا ہوا تھا۔۔۔وہیں اس نکشاف پر عائمہ بیگم کی پیشانی پر ناگوار شکنیں ابھریں۔

”یہ کیا فضول گوئی کررہے ہو تم عائل۔۔۔۔؟؟ایسا کیسےممکن ہے بھلا۔۔۔۔؟؟ابھی ٹھیک کچھ دن پہلے تم نے خود ہمیں صاف صاف انکار کیا تھا اس کے گھر رشتہ لے جانے سے اور اب خود۔۔۔بنا کسی سے پوچھے۔۔سمجھے اس کو بیوی بنا کر اس گھر میں لے آئے ہو۔۔۔۔ہوش میں تو ہو تم یہ کیا کرتے پھر رہے ہو۔۔۔۔؟؟“  بھڑک کر پوچھتے ہوئے انھوں نے نظروں میں حقارت لیے بغور حاویہ کو دیکھا۔۔۔تو ان کی رشتے والی بات پر وہ چونک سی گئی۔

”بلکل کیا تھا۔۔۔انکار کیا تھا موم پر۔۔۔ان سب باتوں میں آپ یہ بات ہرگز مت بھولیے۔۔۔کہ حاویہ کی خواہش کرنے والا بھی بذاتِ خود میں ہی تھا۔۔۔اور اب اپنی اسی دلی خواہش کو ہرلحاظ سے مکمل بھی کرچکا ہوں۔۔۔۔سو پلیز آپ بھی یہ حقیقت تسلیم کرلیجیے۔۔۔جیسے تھوڑی دیر پہلے ڈیڈ کرچکے ہیں۔۔۔“  نرمی سے بولتے ہوئے اسکا لہجہ ہنوز مضبوط تھا۔

عائل کے یوں دوبدو جواب پر عائمہ بیگم ضبط کرتی خاموش ہوئی تھیں۔۔۔

تو گویا بزنس کے سبب پنڈی میں موجود حسن صاحب بھی اس نکاح کی بابت جان چکے تھے۔

شام نے سر کو غصے سے جنبش دیتے ہوئے گہرا سانس بھرا۔

حرمین زہرا کی سگی بہن کے لیےاس وقت نفرت اس کے اندر ابل رہی تھی۔۔۔پر پھر بھی عائل کے سامنے وہ ایک حد تک ضبط سے کام لے رہا تھا۔

”بھائی جسے آپ بھابی بناکرزندگی بھر کے لیے میرے سر تھوپنا چاہ رہے ہیں۔۔۔کم از کم ایک بار اس سے بھی تو پوچھ لیں۔۔۔کہ وہ مجھے اپنا دیور مانتی بھی ہے یا نہیں۔۔۔۔؟؟؟“   تندہی سے بولتے ہوئے اس نے حاویہ کی جانب دیکھا تو۔۔۔جہاں عائل نے اسکے بگڑے تیور دیکھ کر پل بھرکو لب بھینچے تھے۔۔۔وہیں تب سے چپ کھڑی وہ اس کے سوال پر بےاختیار اپنا ضبط کھوتی چلی گئی۔

”نایاب رشتوں کو نگل جانے والا ایک قاتل انسان۔۔۔ کبھی بھی خود کے رشتے بنانے کے قابل نہیں ہوتا۔۔۔۔میں تمھیں ایک مجرم تو مان سکتی ہوں شاہ میر حسن۔۔۔پر رشتوں کی توہین کرناکبھی بھی پسند نہیں کروں گی۔۔۔۔“ دھیمے سلگتے لہجے میں جواب دیتی وہ شام کو تن بدن آگ ہی تو لگاگئی تھی۔

 عائل نے بےاختیار حاویہ کی کلائی پر اپنی گرفت سخت کی تھی۔

”قاتل۔۔۔مجرم۔۔۔۔؟؟؟“  حیرت سے پلکیں جھپکاتے ہوئے عائمہ بیگم کے دل کو ان لفظوں پر سخت دھڑکا لگا۔

”یہ۔۔۔۔یہ سن رہے ہیں میرے خلاف اپنی بیوی کی بےلگام باتیں۔۔۔۔؟؟؟گھر آئے ابھی مشکل سے پانچ منٹ بھی نہیں گزرے اور اس نے آتے ہی میرے ساتھ۔۔۔جھوٹ کی بنیاد پر ذاتی دشمنیاں پالنا شروع  کردی ہیں۔۔۔۔“   حاویہ کی جانب انگلی اٹھائے۔۔دانت پیس کر بولتا وہ براہِ راست عائل سے مخاطب ہوا۔

”مگر اس سب کے باوجود بھی آپ مجھ سے یہ چاہ رہے ہیں کہ میں ساری زندگی اسے۔۔۔۔ایک محترم بھابی کا درجہ دوں۔۔۔سریسلی بھائی۔۔۔۔؟؟؟آپکو لگتا ہے میں یہ سب کروں گا۔۔۔۔؟؟“  سرد لہجے میں باور کرواتے۔۔شام کی سرخ آنکھوں میں پل بھرکو تمسخر سمٹ آیا۔پھر نفی میں سر ہلاتے بڑے ضبط سے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔

جبکہ عائل کو شام کی اس قدر برہمی تکلیف دے رہی تھی۔

عائمہ بیگم نے مٹھیاں بھینچ کر نفرت سے حاویہ کے سپاٹ چہرے کو گھورا۔۔۔تو گھنی پلکیں جھپکانے پر ناچاہتے ہوئے ایک آنسو ٹوٹ کراس کے سنہری سانولے گال پر پھسلا۔

سخت گرفت کے سبب اب کہ نازک کلائی میں ہلکا ہلکا سا درد اٹھنے لگا تھا۔

معاً کیچن کا سارا کام سمیٹ کر وہاں آتی راشدہ پر تقریباً سبھی کی نگاہیں پڑیں۔

”راشدہ۔۔۔۔۔۔؟؟“  

اچانک عائل کے خود کو آواز دینے پر وہ چونک کر رکی۔پھر قدم قدم چلتی ان سب تک آئی۔

”جی صاحب۔۔۔۔؟؟“  حاویہ کو حیرت سے سرتا پیر دلہن کے روپ میں نظر بھر کر دیکھتی وہ اگلے ہی پل تابعداری سے بولی۔

”اپنی  بی بی کو ساتھ لے جاؤ اور میرے کمرے میں چھوڑ آؤ۔۔۔بہت تھک گئی ہے اسی لیے آرام کی اشد ضرورت محسوس ہورہی ہے اسے۔۔۔۔“  سنجیدگی سے بولتا وہ حاویہ کی کلائی چھوڑ چکا تھا۔

شام نے حقارت سے بھنویں اچکاتے ہوئے اس بےجا فکر پر ناگواری سے پہلو بدلا۔۔۔جبکہ عائمہ بیگم بھی لب بھینچتی صبر گھونٹ بھرتی رہ گئیں۔

”جی بہتر صاحب جی۔۔۔آ۔۔آئیے میرے ساتھ بی بی جی میں آپکو صاحب کے کمرے تک چھوڑ آؤ۔۔۔۔۔“  حاویہ کو نامحسوس انداز میں کلائی مسلتا دیکھ وہ خوش اخلاقی سے گویا ہوئی۔

جواباً آنکھوں میں نم شکوہ لیے اسنے اپنی ہی جانب تکتے عائل کو دیکھا۔۔پھر گہرا سانس بھرتی بنا کسی کی طرف دیکھے۔۔۔ڈوبتے دل کے ساتھ راشدہ کی تقلید میں سیڑھیوں کی طرف لپکی۔

”آخر یہ سب ہوکیا رہا ہے۔۔۔؟؟؟کوئی مجھے کچھ بتائے گا۔۔۔۔؟؟ایک تو پہلے ہی تمھارے نکاح کا دھماکہ ہضم کرنا میرے لیے مشکل ہورہا ہے عائل اور پھر یہ۔۔یہ مڈل کلاس لڑکی اور اس کی بد زبانیاں۔۔۔۔کیا تماشہ ہے یہ سب۔۔۔۔۔۔؟؟“  ان دونوں کے نگاہوں سے اوجھل ہوتے ہی عائمہ بیگم ایک بار پھر پھٹ پڑی تھیں۔

تلخ حقیقتوں سے قدرے انجان وہ کوششوں کے باوجود بھی کچھ سمجھ نہیں پارہی تھیں۔

اور نہ ہی ضبط سے اپنی پیشانی مسلتا عائل فی الوقت انھیں کچھ سمجھانے کے موڈ تھا۔

”بھائی مجھے آپ سے یہ امید بالکل بھی نہیں تھی۔۔۔۔یقین کریں بہت دکھ ہورہا ہے۔۔۔۔سب جانتے ہوئے بھی آپ نے اپنے سگے بھائی پر اس۔۔۔اس سر پھری لڑکی کو ترجیج دی ہے۔۔۔۔سہی کہتے ہیں لوگ۔۔۔۔محبت اندھی ہوتی ہے۔۔۔۔جو اپنے آگے پیچھے کچھ نہیں دیکھتی۔۔۔کسی کو بھی نہیں دیکھتی۔۔۔۔“  عائل کی طرف رخ موڑ کر کہتا وہ جلے دل سے گویا ہوا۔

”شام۔۔۔میں مجبور تھا یار۔۔۔۔تم۔۔۔۔“ شام کی انگارہ آنکھوں میں ہلکورے لیتی اذیت دیکھ عائل بےاختیار اسےسمجھانے کو آگے ہوا تھا۔۔۔

 جب اسکی بات کاٹتا وہ اچانک آپے سے باہر ہوا

”ارے بھاڑ میں گئی ایسی مجبوریاں یار۔۔۔۔جارہا ہوں میں یہاں سے۔۔۔۔۔“   آنکھوں میں آنکھیں ڈالے۔۔بھڑک کر بولتا وہ وہاں مزید رکا نہیں تھا۔۔۔بلکہ سر جھٹک کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

شام کی اس قدر تلخ  کلامی پر عائل نے کچھ حیرت سے اپنی جانب تکتی عائمہ بیگم کو دیکھا۔۔۔تو وہ بھی تاسف سے سر جھٹکتی اپنے کمرے کی طرف پلٹ گئیں۔

پیچھے وہ مٹھیاں بھینچ کر۔۔۔سرخ آنکھوں سے سفید ماربل کو گھورتا۔۔۔ تن تنہا وہیں کھڑا رہ گیا تھا۔۔۔۔۔

خدا کے لیے۔۔۔خدا کے لیے رحم کرو مجھ پر۔۔۔جانے دو مجھےیہاں سے۔۔۔میں اس گند میں ناچنے کے لیے پیدا نہیں ہوئی ہوں۔۔۔نہیں ہوں میں ایسی لڑکی۔۔۔تو پھر کیوں۔۔۔کیوں میرے پاک صاف دامن کو داغدار کرنے پر تلے ہوئے ہو تم ظالم لوگ۔۔۔۔۔؟؟؟چھوڑو مجھے۔۔۔“  آس پاس شدت سے بکھرتی وہ سسکیاں۔۔۔وہ منتیں اسکے خود کے ناچ میں پھرتی لے آئی تھیں۔

اس ہال نما کمرے کے سکوت کو۔۔۔گھنگروؤں کے شور تلے توڑتی گویا وہ خود کو جانتے بوجھتے وحشتوں کا حصہ بناتی چلی جارہی تھی۔

”گھر سے بھاگ کر۔۔۔ عاشق کے ہاتھوں دھوکہ کھانے کے بعد در بدر رلنے والی لڑکیاں کبھی بھی صاف دامن نہیں ہوا کرتیں لڑکی۔۔۔

تمھاری برائے نام تائی نے تو ویسے بھی اب تک تمھیں بدنامی کی گہرائیوں میں اتار دیا ہوگا سو اتنا غم نہ کھاؤ اور اس کڑوی حقیقت کو قبول کرو۔۔۔۔“  منہ دبوچ کر تلخی سے بولتی تابین بائی نے کیسے آج صبح لائی گئی اس کم سن سی یتیم و مسکین لڑکی کا منہ بند کروادیا تھا۔

ہاں البتہ اسکی سرخ بھیگی نگاہیں اپنی بدقسمتی پر ہنوز ماتم کناں تھیں۔

پر وہ۔۔۔وہ تو گھر سے نہیں بھاگی تھی۔۔۔

اس نے تو کسی عاشق کے ہاتھوں دھوکہ نہیں کھایا تھا۔۔۔

مگر پھر بھی۔۔۔

پھر بھی اسکے صاف۔۔۔سفید دامن پر زبردستی بدنامیوں کے گہرے سیاہ داغ ثبت کردئیے گئے تھے۔۔۔

اور یہ سب کرنے والا کون تھا۔۔۔؟؟

”آااا۔۔۔ہ۔۔۔ہ۔۔۔۔“ اس سے پہلے کہ وہ ان دل چیڑتی سوچوں میں مزید آگے کونکلتی۔۔۔معاً ایڑیاں اچکاکر سرعت سے پلٹنے کی کوشش میں جانے کیسے اسکا پیر مڑتا اسے براہِ راست منہ کے بل زمین بوس ہونے پر مجبور کرگیا۔

 کھلے بال جہاں سرعت سے کندھوں سے پھسل کر چہرے کے آگے آئے تھے۔۔۔وہیں  گداز ہتھلیاں بروقت بچھے قالین پر جماتے ہوئے۔۔۔گلابیت گھلی آنکھوں سے دو آنسو ٹوٹ کر نرم سطح میں جذب ہوئے۔۔۔

ایسے میں اٹھ کر بیٹھنے کی بجائے اب کہ وہ اپنا دایاں رخسار باقاعدہ قالین سے ٹکاتی آنکھیں موند چکی تھی۔

گہرے سانس بھرتے ہوئےحسین نقوش پر تھکاوٹ اور بےچینی  کی گہری چھاپ تھی۔

اس دوران آہستگی سے دروازہ کھول کر وہاں آتی لالی نے آنکھیں پھیلا کر اسکے زمین بوس سراپے کو دیکھا۔۔۔

”رابی جی۔۔آپ ٹھیک تو ہیں ناں۔۔۔۔؟؟“  اگلے ہی پل دل پر ہاتھ رکھتی لالی۔۔۔اسکی اس غیر متوقع حرکت پر قدرے فکرمندی سے اسکی طرف لپکی۔۔۔تو  اسکے باآواز استفسار پر چونک کر آنکھیں کھولتی رابی نے اسکی طرف دیکھا۔ 

” کیا لینے آئی ہو یہاں۔۔۔؟؟؟“  سرد لہجے میں سوال کے بدلے سوال پوچھتے ہوئے وہ ناچاہتے ہوئے بھی ہتھلیوں کے زور پر اٹھ کر  بیٹھ چکی تھی۔

”وہ۔۔تابین بائی نے آپکو اپنے پاس بلایا ہے۔۔۔۔حویلی میں آپکے نام کی جو محفل لگنے والی ہے ناں۔۔۔شاید اسی کے حوالے سے  بات کرنا چاہتی  ہیں وہ آپ سے۔۔۔۔“  اسے چہرے پر آئے بالوں کو کانوں کے پیچھے اڑستا دیکھ لالی نے سادگی سے جواب دیا۔ 

”تم جاؤ۔۔۔آتی ہوں میں۔۔۔۔“   جواباً اثبات میں سر ہلاتی ہوئی وہ پھرتی سے اپنے پیروں سے گھنگرو اتارنے لگی۔

”جی اچھا۔۔۔۔“  کہہ کر جاتے جاتے وہ کچھ یاد آنے پر سرعت سے اس کی طرف پلٹی۔

”ویسے انھوں نے میرے سامنے آپکے لیے اپنا نولکھا رانی ہار بھی تالے سے نکال کر باہر رکھا تھا۔۔۔سچ کہوں تو آپکو لے کر مجھے تابین بائی کے ارادے اب کی بار خاصے نیک معلوم ہوتے ہیں رابی جی۔۔۔“  عادتاً گلے میں پڑے جامنی رنگ دوپٹے کا کنارہ ہاتھ میں لے کر مڑورتی وہ پُرجوش سی مزید گویا ہوئی۔۔۔تو دوسرے پیر کے گھنگرو کھولتے ہوئے رابی کے لب دھیرے سے مسکرائے۔

”واللہ۔۔۔مجھے لے کر بی بی جان کے ارادے تو نیک ہی رہے ہیں۔۔۔۔لیکن اپنے ارادوں سے خاصی خوفزدہ ہوں میں۔۔۔اندر کہیں ایک ڈر سا ہے کہ کہیں میرے ارادے مجھے ہی برباد نہ کردیں۔۔۔۔پھر سوچتی ہوں۔۔۔پہلے سے برباد ہوئے کو مزید بربادی کا بھلا کیسا ڈر۔۔۔۔۔؟؟“  بےخودی میں اپنے احساسات کو گہرے لفظوں میں بتلاتے ہوئے جہاں اسکا دل بےچینی تلے شدتوں سے دھڑکا تھا۔۔۔وہیں اسکی بات کو سمجھنے کی کوشش میں لالی اسکے سپاٹ نقوش دیکھ کر رہ گئی۔۔۔پھر بظاہر مسکراتی ہوئی تائید میں سر ہلاگئی۔۔۔

کھڑی ہوتی رابی نے اگلے ہی پل مٹھی میں دبوچے گھنگروؤں کو اسکی جانب اچھالا پھر بےنیاز سی وہاں سے نکلتی چلی گئی۔۔۔۔جبکہ پیچھے بڑی کوششوں کے باوجود بھی لالی ایک گھنگرو ہاتھ میں لیتی لیتی دوسرا زمین بوس کرچکی تھی۔۔۔۔

*********************

”جانتی ہو؟؟ تم بےانتہا حسین ہو۔۔۔اس قدر حسین کہ۔۔۔کچھ دیر پہلے میرے گھر والوں کے ساتھ کی گئی تمھاری بدزبانی کے باوجود بھی میں تمھاری طرف کھینچا چلا آیا ہوں۔۔۔یہ بےبسی کی انتہا ہی تو ہے کہ تمھاری ذات کو فراموش کرنا اس پل میرے لیے مشکل ترین ہورہا ہے۔۔۔۔“  اس پل وہ نارنجی رنگ شلوار قمیض پہنے ہوئے۔۔۔آئینے کے سامنے کھڑی خود کا سادہ عکس بغور دیکھ رہی تھی۔۔۔معاً سماعتوں میں گھلتا بھاری لہجہ اسکے دل کی دھڑکنیں مزید بڑھاگیا۔

گزشتہ شب ٹھیک اسی جگہ آئینے کے مقابل ایک ایک کرکے اپنی جیولری اتارتی اسکی بھوری نگاہیں بھیگتی چلی جارہی تھیں۔۔۔جب اچانک پشت پر ابھرتا عائل کا وجیہہ عکس۔۔۔ آئینے میں صاف دکھتا ہوا اسے بری طرح ٹھٹھکنے پر مجبور کرگیا۔

اس پر تضاد اسکے دل دھڑکاتے۔۔سلگتے الفاظ۔۔۔

ایسے میں کچھ دیر پہلے شاور سے برستے۔۔۔بھیگے شور کا۔۔۔ یک دم سکوت میں بدل جانا بھی۔۔۔مزید سوچوں میں گھرتی حاویہ کی توجہ  اپنی جانب نہیں سمیٹ پایا تھا۔

”آپکو میری ذرا سی بدزبانی برداشت نہیں ہورہی عائل صاحب۔۔۔یہاں تو سوال پھربھی میری بہن کی موت کا ہے۔۔۔بھلا میں کیسے برداشت کرلوں۔۔۔؟؟“  طنز کے جواب میں قدرے گہرا طنز کیا گیا تھا۔

اگلے ہی پل ضبط کھوتا وہ اسکا چوڑیاں اتارتا ہاتھ۔۔ کلائی سے پکڑتے ہوئے اپنی جانب گھوما چکا تھا۔جواباً اسنے بھی کچھ گھبرا کر اسکی گہری سیاہ آنکھوں میں جھانکا تھا۔

ندارد دوپٹہ۔۔۔

گلابیت گھلی نم بھوری نگاہیں۔۔۔

بےساختہ گھبراہٹ میں ڈھلتے سانولے سلونے نقوش۔۔۔۔

اور پھر قریب تر نازک سراپا۔۔۔

سب کچھ ہی تو مقابل کا دل دھڑکانے کو کافی تھا۔۔۔

اسکی یہ کیفیت وہ خود بھی محسوس کرتی اپنی لرزتی پلکیں پل بھرکو جھکاگئی تھی۔۔۔

”میری برداشت کو اپنی سرکشی تلے مزید آزمانے کی کوشش مت کرو حاویہ ۔۔۔۔یقین کرو بدلے میں سوائے خساروں کے تمھیں کچھ بھی حاصل نہیں ہونے والا۔۔۔۔اسی لیے بہتر یہی ہے کہ کسی بڑے نقصان سے پہلے ہی خود کو سنبھال لو۔۔۔میرے لیے نہ سہی تو کم از کم اپنی ماں کے لیے ہی سنبھال لو جس نے بھروسہ کرکے تمھیں مجھے سونپا ہے۔۔۔۔۔“  پل بھر کا توقف لے کر چہرہ مزید قریب کرتے ہوئے سرد ترین لہجے میں بولتا۔۔۔وہ ناچاہتے بھی اپنی گرفت تنگ کرتا اسکی دو سے تین سرخ رنگ چوڑیاں توڑ چکا تھا۔

پھر اسکی نگاہوں کی جھلمل دیکھ کر جھٹکے سے اسے چھوڑتا کمرے سے باہر نکلتا چلا گیا۔

آئینے کو ہنوز تکتی حاویہ نے پلکیں جھپکاتے ہوئے بےاختیار اپنی سونی کلائی پر ہاتھ پھیرا تھا جہاں ایک دو خراشیں اب بھی صاف دکھائی دے رہی تھی۔۔نتیجتاً دو آنسو ٹوٹ کر اسکے رخساروں پر پھسلے۔

وہ اس سے ذیادہ برے کی توقع رکھتی بھی نہیں تھی۔

معاً واشروم کا دروازہ کھول کر وہ پورے یونیفارم میں باہر نکلا تو۔۔۔خیالوں سے چونکتی حاویہ نے جلدی سے گالوں کو رگڑ کر صاف کرتے ہوئے اسکی جانب دیکھا۔

”گڈمارننگ بیوی۔۔۔۔“  سیاہ کف کو مزید نیچے کھینچ کر درست کرتا وہ اسکی طرف نگاہ اٹھائے بنا عام سے لہجے میں بولا۔۔۔تو حاویہ کی گلابیت گھلی نگاہوں میں اتری برہمی مزید گہری ہوئی۔

”میں یہاں بیڈ پر کیسے آئی۔۔۔؟؟جبکہ مجھے اچھے سے یاد ہے۔۔ کہ کل رات میں اس صوفے پر سوئی تھی۔۔۔کیا میں اس بےوجہ جرات کی وجہ جان سکتی ہوں اے۔ ایس۔ پی صاحب۔۔۔۔؟؟؟“  سینے پر باقاعدہ ہاتھ لپیٹتی وہ گزشتہ رات۔۔۔ کی گئی مقابل کی کارگردیگی کی بابت تڑخ کر پوچھ رہی تھی۔

جواباً بھنویں اچکا کر اسکے سلگتے تیوروں کو دیکھتے ہوئے۔۔۔۔مسکراہٹ عائل کے لبوں پر بکھرنے کو شدت سے مچلی۔۔۔تو وہ بےاختیار اپنے لب بھینچ گیا۔پھر آہستگی سے چلتا ہوا اسکے قریب آ رکا۔

”تمھیں یہ تو کافی اچھے سے یاد ہے کہ۔۔۔اپنی بانہوں میں سمیٹ کر تمھیں اس بیڈ تک لانے والا بذاتِ خود میں ہی ہوں۔۔۔۔پر افسوس یہ یاد رکھتے ہوئے تمھاری یاداشت صاف ناقص ہوچکی ہے۔۔۔کہ نیند میں ڈر کر مجھے بےتابانہ اپنی جانب پکارنے والی تم خودتھی۔۔۔۔دیٹس ناٹ فئیر بیوی۔۔۔۔۔“  کافی حد تک  کم۔۔نم بالوں میں ہاتھ چلاتا وہ مصنوعی تاسف سے بولا۔۔۔تو مقابل کے شوخ  لہجے میں دی جانے والی اس وضاحت پر اسے خاصی حیرت ہوئی۔

”جانتے بوجھتے جھوٹ بول رہے ہیں آپ۔۔۔۔یقیناً۔۔ا۔۔۔ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہوگا جیساکہ آپ جتانے کی کوشش کررہے ہیں۔۔۔۔“  معاً ذہن میں تازہ ہوتے گزشتہ شب کے بےچین کرتے خواب نے جہاں اسے بری طرح چونکایا تھا۔۔۔وہیں نگاہیں چراتی وہ صاف مکرگئی۔

”سچ وہی ہے جو میں تمھیں اس وقت بتارہا ہوں۔۔۔۔“   مزید ایک قدم اسکی جانب لے کر مکمل اعتماد سے گویا ہوتا وہ اسے ڈریسنگ ٹیبل کے ساتھ لگ کر کھڑے ہونے پر مجبور کرگیا۔۔۔

اگلے ہی پل اس نے ہاتھ آگے بڑھاکر مضبوط ہتھیلی شیشے پر ٹکائی تو اسکے لبوں پر دبی دبی مسکراہٹ دیکھتی حاویہ نے بے اختیار چوڑے سینے پر ہتھلیاں جما کر اسے پیچھے ہٹایا۔۔۔پھر منتشر دھڑکنوں پر ہاتھ رکھتی اسکے سامنے سے ہٹ کر۔۔۔ کچھ فاصلے پر جا کھڑی ہوئی۔

اسکے اس قدر گریز کے باوجود بھی رخساروں میں گھلتی مدھم سرخی۔۔۔عائل کو سر جھکا کر شدت سے مسکرانے پر مجبور کرگئی تھی۔۔۔

معاً اسنے پلٹ کر گہری نگاہوں سے اسکی جانب دیکھا۔

”ہاں تو  نہ آتے آپ میری پکار پر۔۔۔۔

ترس کھا کر۔۔۔ہمدردی میں آکر آپ نے جو مجھ سے نکاح کیا ہے۔۔۔وہی  احسان میرے سر کافی ہے۔۔۔۔مزید آپکے۔۔۔احسانوں کے بوجھ تلے دب کر نہیں رہنا چاہتی ہوں میں اب۔۔۔سنا آپ نے۔۔۔۔۔“   نازک مٹھیاں بھینچ کر قدرے تلخی سے بولتی وہ اسکی مسکراہٹ پلوں میں چھین گئی تھی۔

اگلے ہی پل حاویہ کی نگاہوں میں تیزی سے گھلتی نمی کو دیکھ وہ ضبط سے منہ پر ہاتھ پھیرتا  اسکی طرف آیا۔۔۔تو بےاختیار اسکی جانب سے منہ موڑتی وہ سختی سے لب بھینچ گئی۔

”محبت کرتا ہوں تم سے۔۔۔۔اسے جانتے بوجھتے فقط ہمدردی اور احسان کا نام دے کر مزید غلط بیانی مت کرو حاویہ عائل حسن۔۔۔اتنی عقل تو میں رکھتا ہوں کہ ہمدردی اور محبت میں فرق جان سکوں۔۔۔پر شاید تم نہیں رکھتی۔۔۔ورنہ ضرور جان جاتی کہ کیوں میں نے تمھیں اپنایا ہے۔۔۔۔؟؟“   نرمی سے۔۔۔ٹھوڑی سے تھام کر اسکا چہرہ اپنی جانب موڑتا وہ قدرے سنجیدگی سے ٹھہر ٹھہر کر گویا ہوا۔

تیزی سے سرکتی گزشتہ رات میں۔۔۔اسکا نازک ہاتھ تھام کر قریب بیٹھا وہ بےسکونیوں تلے پل بھر کے لیے بھی چین کی نیند نہیں لے پایا تھا۔۔۔

پر وہ یہ سب جان پاتی تب ناں۔۔۔۔

”اگر ایسا ہے تو پھر کیوں آپ مجھ پر بھروسہ نہیں کرتے۔۔۔؟؟حالانکہ اعتبار تو اس محبت کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے ناں۔۔۔تو پھر کیوں آپ۔۔۔۔۔۔“  بھرائے لہجے میں صاف شکوہ کرتے ہوئے دو آنسو آہستگی سے اسکی گالوں پر لڑھکے تھے۔۔۔جب عائل اسکی باتوں کی گہرائی کو سمجھتا بے ساختہ اسے ٹوک گیا۔

”کیونکہ تم میرے بھائی کے معاملے میں صاف غلطی پر ہو۔۔۔اور میرے نزدیک تمھاری یہ بچگانہ ضد۔۔ایک حماقت سے ذیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔سنا تم نے۔۔۔؟؟بہتر ہے کہ اس فضول بحث کو اب یہی دفن کردو تم۔۔۔۔۔“   بازوؤں سے تھام کر اسے ہلکا سا جھٹکا دیتا اس بار وہ خاصا چڑ کر بولا۔ 

”شدت سے دعا کرتی ہوں کہ جلد ہی آپ پر وہ ساری کڑوی حقیقتیں کھلیں جس کے بھرم میں آپ مکمل انجان بن کر جی رہے ہیں۔۔۔اورجس روز ایسا ہوگا ناں عائل صاحب۔۔۔۔تب۔۔۔تب میں آپ سے پوچھوں گی کہ کیسا محسوس ہوتا ہے بار بار ایسی حماقت سرانجام دے کر۔۔۔۔؟؟“  اسکے رعب میں آنے کے باوجود بھی وہ اپنا آپ چھڑواتی اس سے بہت کچھ کہہ گئی تھی۔

اس کے صاف چیلنج کرتے انداز پر عائل کے چہرے پر پتھریلے تاثرات در آئے۔

اگلے ہی پل مضبوطی سے اسکی کلائی تھامتا وہ اسے لے کر پھرتی سے دروازے کی جانب لپکا تو۔۔کچھ بوکھلا کر اسکے سنگ زبردستی کمرے کی دہلیز پار کرتی حاویہ نے بےاختیار اسے روکنا چاہا۔

”عائل رکیں پلیز ۔۔۔۔یہ آپ مجھے کہاں لے جارہے ہیں۔۔۔؟؟؟“  ناکام ہوتی کوششوں پر وہ دبا دبا سا چیختی پوچھ رہی تھی پر۔۔۔وہ رکے بنا ہی اسے سیڑھیوں تک لے آیا تھا۔

”کچن تک۔۔۔کیونکہ جتنا تم میرا دماغ خراب کرچکی ہو ناں بیوی۔۔۔اب اتنا ہی دماغ  خراب میرا پسندیدہ ناشتہ بناتے ہوئے تم اپنا بھی کرو گی۔۔۔گیٹ اٹ۔۔۔۔“  رک کر سرد لہجے میں اسے بتاتا وہ اسے اپنے اس نئے تقاضے سے حیران کرگیا تھا۔۔۔

لیکن درحقیقت ارادہ۔۔۔پولیس اسٹیشن جانے سے پہلے خود کے ساتھ ساتھ اسے بھی اپنی موجودگی میں ناشتہ کروانے کا تھا جو گزشتہ شب جانتے بوجھتے  بھوکے پیٹ نیند کی وادیوں میں گم ہوچکی تھی۔۔۔

جبکہ سخت رویے کی آڑ میں چھپے اسکے فکر کرتے ارادوں سے قطعی انجان۔۔۔ وہ اپنے دل میں مزید بدگمانیاں پالتی ہوئی اسکی ہمراہی میں سیڑھیاں اترتی چلی گئی۔۔۔۔

*****************

پل پل ڈھلتا سورج اس وقت اپنے اطراف کو بھی مدھم نارنجی رنگ میں بدلے ہوئے تھا۔

ایسے میں راولپنڈی کی کشادہ سڑکوں پر رواں دواں لاتعداد گاڑیوں میں سے ایک عدد مہنگی گاڑی اسکی خودکی بھی تھی۔۔۔۔ جو قدرے تیزی سے  مطلوبہ منزل کی جانب فراٹے بھرتی چلی جارہی تھی۔

”جی سر۔۔۔آپکے دبئی جانے کے بعد سے مس آبرو سکندر ایک دن بھی آفس نہیں آئیں۔۔۔۔ہم نے ان سے کانٹیکٹ بھی کرنا چاہا تھا۔۔۔مگر بدقسمتی سے ہمارا ان سے لمحے بھر کے لیے بھی رابطہ نہیں ہوپایا۔۔۔۔۔“

آج وہ ٹھیک ساتویں دن بعد دبئی سے واپس پنڈی آیا تھا۔۔۔لیکن گزشتہ روز فون کے اسپیکر سے ابھرتا ریسپشنیٹ کا محتاط لہجہ اسے شدتوں سے الجھاگیا تھا۔

 شفاف شیشے کےپار مناظر کو۔۔۔بددلی سے دیکھتی بھوری نگاہوں میں۔۔اس پل بلا کی بےچینی تھی۔

مگر پھر دبئی کے ائیرپورٹ میں داخل ہوتے سمے۔۔۔موبائل فون پر اچانک آتی آبرو کی کال اسکی فکر کو خوشگوار حیرت میں ڈھال گئی تھی۔

”سوچا نہیں تھا کہ میرے یاد کرنے پر تم بھی مجھے یوں یاد کرو گی۔۔۔۔بالآخر دل نے دغا دینے پر مجبور کر ہی دیا ہےتمھیں مس آبرو سکندر۔۔۔۔۔“  سرعت سے فون کان سے لگاتا وہ کس قدر شوخ ہوا تھا ناں۔۔۔

مگر پھر۔۔۔۔





”ش۔۔شاہ۔۔۔۔؟؟؟“  جواباً سسکتی آواز اسکی مسکراہٹ پل میں چھین چکی تھی۔

”پل پل مررہی ہوں۔۔۔سانس لینا دشوار ہورہا ہے میرے لیے۔۔۔کیا ت۔۔تم صرف ا۔۔ایک بار۔۔میرے پاس آسکتے ہو۔۔۔۔؟؟؟“  بھیگے لہجے میں شدت سے ملتجی ہوتی وہ شاید نہیں۔۔۔یقیناً اپنے حواسوں میں نہیں لگ رہی تھی۔۔۔

جبھی اگلے ہی پل ہچکی بھرکر سرعت سے کال کاٹتی اسے بےسکون ہی تو کرگئی تھی۔

ایک ہاتھ سے ٹائی کی ناٹ کھینچ کر ڈھیلی کرتا وہ اسٹیرنگ کو ہنوز تھامے ہوئے۔۔۔گاڑی کی رواں رفتار مزید بڑھایا گیا۔

اففف۔۔۔جانے وہ ٹھیک تھی بھی۔۔۔ کہ نہیں۔۔۔؟؟؟

ابھی کچھ دیر پہلے بھی وہ اسے کتنی بار فون ملا چکا تھا۔۔۔

پر جواب ہر بار کی طرح ناقابلِ اطمینان۔۔۔

اگلے ہی پل سر جھٹک کر پریشان کرتی ساری سوچوں کو پرے دھکیلتے ہوئے شاہ نے اطراف کا بغور جائزہ لیا تھا۔

پست آبادی میں تیزی سے داخل ہوتے ہوئے منزل قریب سے قریب تر تھی۔

”میں آرہا ہوں تمھارے پاس آبرو۔۔۔۔بس کچھ۔۔۔کچھ ہی لمحے اور۔۔۔۔“   مزید کچھ پل سرکے تھے جب الگ تھلگ سی جگہ پر بنے اس تین مرلہ مکان کے سامنے۔۔۔ گاڑی روکتا ہوا وہ خود سے مخاطب ہوا۔۔۔

پھر عجلت میں اپنی طرف کا دروازہ کھولتا نیچے اترا۔

ایک بار پہلے بھی وہ آبرو کو چھوڑنے یہاں آچکا تھا۔۔۔پر رات کی نسبت ڈھلتے دن میں بھی بےرونقی ہنوز تھی۔دور کہیں دو چار لوگوں کا گزر ہورہا تھا۔۔۔۔جن پر سرسری سی ایک نگاہ ڈالتا وہ سر جھٹک کر آگے بڑھا۔

مگرپھر سامنے گھر کے ادھ کھلے دروازے کو دیکھ کر چونکتا۔۔۔بنا دیری کیے تیزی سے اندر داخل ہوا۔

ڈوبتے دل کے ساتھ ویران سی راہ داری پار کرتے ہوئے وہ سیدھا لاؤنج میں آیا تھا۔

”آبرو۔۔۔۔؟؟“  چاروں طرف متلاشی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اسنے آواز لگائی۔۔پر جواب ہنوز ندارد۔۔۔

آبرو۔۔۔؟؟ آ۔۔۔۔“   دو کمروں میں سے ایک کی طرف لپکتے ہوئے وہ مزید بےقرار ہوا تھا۔۔جب اچانک مخالف کمرے سے بکھری حالت میں باہر نکلتی وہ اسے بری طرح ٹھٹک کر وہیں ساکت ہونے پر مجبور کرگئی۔

سادے پرنٹ کا سفید رنگ سوٹ پہنے ہوئے۔۔۔ ہنوز کمرے کی دہلیز پر کھڑی۔۔۔وہ اسے ہی دھندلائی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

شاہ نے حیرت سے اسکے کندھوں پر بکھرے بالوں کو دیکھا۔پھر اسکے ہاتھ میں تھامے ہوئے فوٹو فریم کی بھوری رنگ پشت کو۔۔۔

”ش۔۔شاہ۔۔۔؟؟“  معاً وہ بھرائے نم لہجے میں گویا ہوئی۔۔تو جواباً شاہ دو قدموں کا فاصلہ پل میں مانپتا اسکے نزدیک آیا۔

”آبرو تم۔۔۔تم ٹھیک ہو۔۔۔۔؟؟؟بتاؤ کیا۔۔۔کیا ہوا کیا ہے تمھیں۔۔۔ہاں۔۔۔۔؟؟دیکھو اب میں آگیا ہوں ناں تمھارے پاس۔۔۔تمھیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔بتاؤ مجھے کیا بات ہوئی ہے۔۔۔۔؟؟“  اسے نفی میں سر ہلاتے ہوئے تواتر سے آنسو بہاتا دیکھ وہ بےاختیار اسکے بازوؤں کو نرمی سے تھام گیا تھا۔۔۔جب اگلے ہی پل فوٹو فریم کا رخ اسکی طرف پھیرتی وہ سسکی۔

”شاہ۔۔۔م۔۔۔میری بوا۔۔۔۔۔میری بوا اب اس دنیا میں نہیں رہیں۔۔۔۔۔“  شفاف شیشے تلے بےداغ تصویر کو۔۔۔ لرزتی انگلیوں سے چھوتی وہ صدمے سے بولی۔۔۔تو اس دل بیٹھاتے انکشاف پر شاہ نے ٹھٹھک کر اس سادہ صورت عورت کا مسکراتا چہرہ بغور دیکھا۔۔۔۔ جو کسی بھی طور آبرو سے میل نہیں کھا رہا تھا۔

پھر قدرے تاسف سے لب بھینچ کر اسکی طرف نگاہیں پھیر گیا۔

”مانتی ہوں کہ وہ بیمار تھیں۔۔۔پرمیں انکا علاج کروا رہی تھی ناں۔۔تو پھر یوں چلے جانے کی کیا تک بنتی تھی بھلا۔۔۔؟؟؟وہ۔۔وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئیں۔۔۔بنا کسی قصور کے۔۔۔بہت د۔۔دور۔۔۔۔

”بالکل اسی طرح۔۔۔اسی طرح۔۔۔ جیسے بچپن میں میرے ماں باپ  مجھے تنہا کر گئے تھے۔۔۔میں نے بہت پکارا بھی انھیں۔۔۔پر کوئی بھی پلٹ کر نہیں آیا میرے پاس ۔۔۔۔ایک بار پھر اکیلی رہ گئی میں شاہ۔۔۔م۔۔میں۔۔میں۔۔۔؟؟“  گہری سانسوں کے بیچ  بچوں کی مانند سب بتاتے ہوئے اس کے لیے مزید اپنا غم ہلکا کرنا محال ہی تو ہوا تھا۔

 اسکے سرخائی گھلے نقوش دیکھتے شاہ نے۔۔۔ضبط سے پلکیں جھپکائیں۔

اسکے ماں باپ نہیں تھے۔۔۔جہاں یہ بات اسے حقیقی معنوں میں اندر تک افسردہ کرگئی تھی وہیں اسکی ذات کو لے کر کئی فکریں اسے لاحق ہوچکی تھیں۔

بےاختیار اسکے ہاتھوں سے فوٹو فریم لےکر۔۔۔اسے قریب پڑے میز پر احتیاط سے رکھتا وہ پلٹ کر اسکے پاس آیا۔۔۔تو آبرو نے شدتِ بےبسی تلے آہستگی سے نچلا لب کچلا۔

”ششش۔۔۔بس اب چپ ہوجاؤ۔۔۔۔جو کچھ بھی ہوا اسکا دکھ ہے۔۔۔بہت افسوس ہے۔۔۔پر تمھیں یہ کس نے کہہ دیا کہ بوا کے بعد اب تم تنہا ہو گئی ہو۔۔۔ہہمم۔۔۔؟؟تم بالکل بھی تنہا نہیں ہوئی آبرو۔۔۔۔میں ہوں ناں تمھارے ساتھ۔۔۔تمھارے پاس۔۔۔تمھارے بہت قریب۔۔۔۔“ حالات کی سنگینی کا شدت سے احساس کرتے ہوئے  اس نے ہاتھ بڑھا کر اسکے آنسوؤں کو باری باری نرمی سے صاف کیا۔

اپنے رخساروں پر اسکے پوروں کا نرم لمس محسوس کرتی آبرو دھڑکتے دل کے ساتھ بےاختیار اپنی گہری نیلی آنکھیں پل بھر کو میچ کر کھول گئی۔۔۔

”جانتے ہو۔۔۔؟؟ب۔۔بچپن میں میری انہی آنکھوں کے سامنے۔۔۔“   نم  پلکوں کو کانپتی انگلیوں سے چھوتی وہ سسک کر بےساختہ اٹکی۔۔تو شدت سے  دیکھتا وہ مزید بے چین ہوا۔

”بند دروازوں کے پیچھے۔۔م۔۔۔میری ماں کی عزت کو تار تار کیا گیا تھا شاہ۔۔۔ا۔۔اور پھر اسی عزت کے ساتھ ساتھ بچی کھچی سانسیں بھی چھین لی گئیں۔۔۔۔“  بڑے ضبط سے ایک ایک کرکے داغدار حقیقتیں کھولتی وہ اس بار مقابل کو اپنے لفظوں سے ساکت ہی تو کرگئی تھی۔

”اور۔۔م۔۔میرا باپ۔۔۔اسے بھی۔۔۔ہاں۔۔۔اسے بھی ذاتی دشمنی کے سبب بڑی بےدردی سے قتل کردیا گیا تھا۔۔۔نہیں بخشا۔۔نن۔۔نہیں چھوڑا۔۔۔۔پر مجھ کمترذات کو زندگی بھر دربدر رُلنے کے لیے زندہ چھوڑ دیا ان ظالموں نے۔۔۔۔۔؟؟؟“  اسکے سینے پر لرزتی ہتھیلیاں جماتی وہ آخر میں دبا دبا سا چیختی تھی۔۔۔جب اگلے ہی پل اسے بھبھک بھبھک کر روتا دیکھ وہ بےتابانہ اسکا بھیگا چہرہ قدرے نرمی سے اپنے ہاتھوں میں لے گیا۔

اس بھاری شناسائی تلے بھوری نگاہوں میں اذیتیں نئے سرے سے  ہلکورے لینے لگی تھیں۔۔

”ک۔۔کون تھے وہ ظالم لوگ۔۔۔؟؟کیا۔۔کیادشمنی کیا تھی ان سب کی تمھارے ماں باپ سے۔۔ہاں۔۔؟؟بتاؤ مجھے۔۔۔۔؟؟“  بھیگتے گالوں کو انگوٹھوں تلے دھیرے سے صاف کرتا وہ تیوری چڑھائے بڑے دکھ سے پوچھ رہا تھا۔۔۔جب ضبط سے اپنے رخساروں پر رکھے اس کے ہاتھوں  کو دھیرے سے تھامتے ہوئے۔۔۔آبرو نے  خالی خالی نظروں سے اسے بغور دیکھا۔

سرخ نگاہوں کا ارتکاز اس پل ناقابل فہم سا تھا۔۔۔

”بتاؤ۔۔۔۔؟؟؟“  شاہ پھر سےگویا ہوا تو وہ بےساختہ چونکتی نفی میں سرہلاگئی۔

پھر لب بھینچ کر نگاہیں چراگئی۔

”نہیں جانتی۔۔۔۔؟؟م۔۔میرے بختوں کی سیاہی نے کبھی بھی ان تلخ حقیقتوں کے آخر تک میری رسائی نہیں ہونے دی۔۔۔پر اس ایک بیوہ عورت نے۔۔۔مجھ بےسہارا بچی تک ضرور رسائی حاصل کرلی تھی۔۔۔

پرائی ہونے کے باوجود بھی۔۔و۔۔وہ عمر بھر کے لیے اپنائیت کے سارے درجے نبھاتی رہی۔۔او۔۔۔اور پھر۔۔۔“ کہتے ہوئے اسکی سانسیں گھٹنے سی لگی تھیں جب بے اختیار اسکے ہاتھ پرے ہٹاتی وہ اپنا رخ موڑ گئی۔

شاہ نے سرخ پڑتی نگاہوں سے اسے گہری سانسوں میں اپنے بال مٹھیوں میں جکڑتے دیکھا تھا۔

”میں یہ سب بھولنا چاہتی ہوں۔۔۔بارہا کوشش بھی کرتی ہوں۔۔۔پر ہر بار ناکام ٹھہرتی ہوں۔۔۔

یہ بدترین ماضی۔۔۔یہ بچپن کی سلگتی یادیں خوابوں کی صورت میری نگاہوں میں بار بار تازہ ہوجاتی ہیں۔۔۔میری سانسوں کو اکھاڑنے لگتی ہیں۔۔۔ م۔۔۔میں کیا کروں۔۔۔آخرکیا کروں میں۔۔۔۔؟؟؟“  شدتِ بےبسی سے چیختی وہ ہلکان ہوئے جا رہی تھی۔۔۔جب شاہ نے ایک جست ہی میں بازو سے پکڑ کر اسے جھٹکے سے  اپنی جانب موڑا۔

”نکاح کرلو مجھے۔۔۔۔“  مضبوط بھاری لہجے میں دیا جانے والا جواب جس قدر برجستہ تھا۔۔۔اتنا ہی قطیعت بھرا بھی۔۔۔

آبرو نے کچھ حیرت سے سنجیدگی میں ڈھلے اسکے وجہہ نقوش دیکھے۔

”خدا قسم زندگی بھر کے لیے مضبوط ترین سہارا بن کر تمھارے ہر درد میں اپنے سکون کے رنگ بکھیردوں گا۔۔۔۔“  ہولے سے اسکے رخسار کو چھوتا وہ  مضبوط لہجے میں اپنی طرف سے تمام مسائل کا واحد حل پیش کررہا تھا۔

مقابل کے انداز پر ناچاہتے ہوئے بھی اس کا دل شدتوں سے دھڑکا۔

”پر۔۔۔م۔۔میں۔۔۔۔“  وہ شدت سے کچھ کہنا چاہتی تھی جب وہ بڑی جرات سے اسکے لزرتے لبوں پر اپنی شہادت کی انگلی جماتا اسے ساکت کرگیا۔

پھر دھیرے سے سر کو نفی میں جنبش دی۔

”بسسس۔۔۔بس اب مزید کوئی بےتکا بہانہ نہیں آبرو سکندر۔۔۔کوئی فضول انکار نہیں۔۔۔

فقط اقرار۔۔۔اقرار سننا چاہتا ہوں میں تمھارے ان لبوں سے۔۔۔۔تمھارا یقین۔۔ تمھاری وفا۔۔۔تمھارا بےخلوص عشق چاہتا ہوں۔۔۔۔“  گھمبیر لہجے میں ٹھہر ٹھہر کر بولتا وہ اسے کمزور ہی تو کررہا تھا۔۔۔اور یہ کمزوری آبرو کے پھڑپھڑاتے دل کو کہیں نہ کہیں شدت سے بھا۔۔۔بھی رہی تھی۔

اگلے ہی پل وہ انگلی پرے ہٹاتا مزید گویا ہوا۔

”یقین کرو تمھارا یوں بےسہارا رہنا اب مجھے مزید گوارا نہیں ہے۔۔۔بس اسی لیے۔۔۔اسی لیےتمھیں ان سلگتی یادوں کے حصار سے باہر نکالنا چاہتا ہوں۔۔۔۔اب تو حالات بھی میرا ساتھ دے رہے ہیں یار۔۔۔بس تمھارے ایک اقرار کی دیری ہے۔۔۔۔۔“  لفظوں کا ہتھیار خاصا پُراثر ہی تو تھا۔۔۔

”م۔۔میرا بدترین ماضی جاننے کے باوجود بھی۔۔۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ تمھارے ہائی اسٹیٹس کے آگے میری شناخت ہر لحاظ سے ناقابل ذکر ہے۔۔۔پھر بھی تم  مجھ جیسی آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کو رضامند ہو۔۔۔۔؟؟“  اسکی تپش بکھیرتی بھوری نگاہوں میں جھانک کر پوچھتی وہ اسے مسکرانے پر مجبور کرگئی۔

”شدید ترین محبت کرتا ہوں تم سے۔۔۔اور میری یہ محبت ہر فرق کو مٹا دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔۔یقین کرو میرا۔۔۔۔۔“  بولتے ہوئے اسکا خود کا دل بھی دھڑک اٹھا تھا۔

”پر یہ محبت تمھارے خاندان کے لیے ہرگز کافی نہیں ہوگی۔۔۔؟؟“ ایک اور ٹھوس جواز پیش کرتی وہ اسکی نگاہوں کی چمک مزید بڑھاگئی تھی۔

”سب کی مرضیوں پر شروع سے ہی شاہ میر حسن کی من مرضیاں غالب رہی ہیں۔۔اور آگے بھی رہیں گی۔۔۔سو تمھاری یہ ساری فکریں بےسود ہیں۔۔۔۔“  مضبوط لہجے میں دوبدو جواب دیتا وہ اس جواز کو بھی بڑی آسانی سے مسترد کرگیا تھا۔

جواباً بے چینی تلے نگاہیں چراتی آبرو نے بےاختیار نچلا لب کچلا جب وہ اسکی طول پکڑتی خاموشی پر گہرا سانس بھرتا شدت سے اسکے مخاطب کرگیا۔

”آبرو۔۔۔۔۔؟؟“ آواز بوجھل سی تھی۔

معاً اسنے چونک کر سوالیہ نظروں سے اسکی جانب دیکھا۔۔۔جب

اگلے ہی پل وہ اپنی تمام تر انا۔۔۔غرور کو پسِ پشت ڈالتا۔۔۔

فقط محبت کی خاطر۔۔۔

اسکے سامنے گھٹنوں کے بل ایک ادا سے جھکتا اسے ساکت کرگیا تھا۔

”میں شاہ میر حسن۔۔۔تمھیں عمر بھر کے لیے اپنے نکاح میں لے کر۔۔۔خود کی ادھوری ذات کو ہر لحاظ سے مکمل کرنے کا خواہشمند ہوں۔۔۔کیا تم مجھ سے نکاح کرو گی۔۔۔۔؟؟؟“  میٹھی نگاہوں سے بےتابانہ اسکے حیرت میں ڈھلے خوبصورت نقوش تکتا۔۔۔وہ اسکے دونوں ہاتھ تھامے ٹھہر ٹھہر کر مدھم لہجے میں پوچھ رہا تھا۔

ہنوز منتشر دھڑکنوں کے سنگ۔۔۔پلکیں جھپکانے پر دو آنسو ٹوٹ کر آبرو کے رخساروں پر پھسلے۔

اور پھر کچھ پلوں کے توقف پر اس کا سر دھیرے سے ہلتا شاہ کے لبوں پر شدت سے مسکراہٹیں بکھیرتا چلا گیا۔۔۔

ہاں۔۔۔۔ہاں شاید وہ مقابل کی داغدار حقیقتوں سے قطعی انجان  آج  ہار مان گئی تھی۔۔۔۔۔اس۔۔۔۔اس شاندار مرد کی محبت آگے  اسکے سارے انکار۔۔۔سارے اعتراضات دم توڑتے چلے گئے تھے۔۔۔۔جو  پہلے سے ہی کسی اور کی معصوم محبت۔۔سمیت روح تک کی بری طرح  دھچیاں بکھیر چکا تھا۔۔۔۔

اس کے برعکس کہیں دور کھڑی قسمت ان دونوں کی حقیقتوں سے مکمل واقفیت رکھتی۔۔۔قدرے اداسی سے مسکرائی تھی۔۔۔۔


”ت۔۔تم۔۔۔؟؟تم یہاں کیا لینے آئے ہو۔۔۔؟؟؟“ وہ ٹوٹی بکھری سی اپنے دھیان میں قبرستان کے داخلی دروازے سے باہر نکلنے کو تھیں۔۔جب اسے مقابل کھڑا دیکھ۔۔۔ ٹھٹھک کر رکتی قدرے حیرت سے گویا ہوئیں۔۔۔

پہلی بار اسکے روبرو ہوتے۔۔۔دل میں ڈھیروں نفرت اتر آئی تھی۔

وہ جو دور سے ہی حرمین زہرا کی قبر پر پھول بکھرتی۔۔۔نفیسہ بیگم پر کب سے اپنی وحشت بھری نگاہیں جمائے ہوئے تھا۔۔۔جواباً ان کی جانب بغور دیکھتا دلکشی سے مسکرایا۔

 حرمین زہرا کے نقوش کافی حد تک ان سے میل کھاتے تھے۔

”آنٹی میں۔۔حرمین زہرا کے پاس بلکل بھی نہیں آیا ہوں۔۔۔سو آپ بےفکر رہیں۔۔ہہہمم۔۔۔؟؟اور ویسے بھی اب اسکے قریب جانے کا کوئی فائدہ بھی تو نہیں رہا ناں۔۔۔یونو۔۔چچ سمجھیں یار۔۔۔۔“  پیشانی کو انگوٹھے تلے کھجا کر تمسخرانہ لب و لہجے میں بولتا شام ان کا سینہ ہی تو چھلنی کرگیا تھا۔۔۔۔

اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود بھی۔۔۔

اس قدر ڈھٹائی۔۔۔۔

اس قدر بے حسی۔۔۔۔

اس قدر سکون۔۔۔۔۔

”کس قسم کے انسان ہوتم۔۔۔۔؟؟ذرا سا بھی ڈر نہیں لگتا تمھیں۔۔۔۔۔؟؟“  تڑپ کر پوچھتی وہ اپنی نم آنکھیں مزید بھیگنے سے روک نہیں پائی تھیں۔

”ڈر۔۔۔۔؟؟یار آنٹی ایک ڈر ہی تو نہیں لگتا مجھے۔۔۔کیا کروں۔۔؟؟آپکی خواہش کے مطابق اگر میں نے ڈرنا شروع کردیا۔۔تو یہ دنیا  مجھے ڈرانے۔۔ دبانے میں کو کسر باقی نہیں چھوڑے گی۔۔۔“  سنجیدگی سے اپنی منطق انھیں باور کرواتا وہ نفیسہ بیگم کو زہر ہی تو لگا تھا۔

اسکے منہ لگنے کی بجائے۔۔۔اگلے ہی پل سختی سے لب بھینچ کر وہ سر پر دوپٹہ درست کرتی وہاں سے جانے کو ہوئیں تو ان کے ارادے بھانپتا وہ بروقت آگے آتا ان کا رستہ روک گیا۔

 ایگزامز سے مکمل فارغ ہوتا اب کہ وہ ایک ایک کو اپنے سوچے سمجھے گئے طریقے سے ہینڈل کرنے پر ہی تو اتر آیا تھا۔

نتیجتاً شام کی جانب کچھ خوف سے دیکھتی نفیسہ بیگم نے بےاختیار دھوپ تلے اس ویران پڑی جگہ پر آس پاس نگاہیں دوڑائیں۔۔۔پھر فی الوقت وہاں کسی کو بھی نہ پاکر واپس شام کے سپاٹ پڑتے نقوش دیکھے۔

”آنٹی اب جو میں کہنے جارہا ہوں ناں۔۔۔وہ ذرا کان کھول کر غور سے سنیے گا۔۔۔۔ہممم۔۔۔۔؟؟

آپکو معلوم ہے آپکی  بیٹی کیا کرتی پھر رہی ہے۔۔۔۔؟؟میرے اپنے ہی سگے بھائی کو میرے خلاف بھڑکانے پر مکمل تلی ہوئی ہے وہ۔۔۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ اسکی کسی ایک بات پر بھی یقین نہیں کرنے والے۔۔۔پھربھی۔۔۔پھربھی وہ بلاوجہ کے پنگے لینے سے باز نہیں آرہی۔۔۔اور خدا قسم یہ بات میرے لیے ہر گزرتے پل کے ساتھ ساتھ ناقابلِ برداشت ہوتی جارہی ہے۔۔۔۔“  شہادت کی انگلی اٹھائے ٹھہر ٹھہر کر سرد لہجے میں وارن کرتا وہ انھیں حقیقتاً حاویہ کی فکر میں ڈال گیا تھا۔

”م۔۔میں نے اسے سمجھایا تھا۔۔اور موقع ملنے پرپھر سےسمجھاؤں گی۔۔۔۔بس تم۔۔۔تم میری بیٹی سے دور رہنا۔۔۔۔ع۔۔عائل اسے سنبھال لے گا۔۔۔۔“  بےاختیار نرم پڑتی وہ بھرائے لہجے میں اسکے آگے شدت سے ملتجی ہوئیں تو  انکے بہتے آنسو دیکھتا وہ بےزار سا بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا۔

”دیکھیں میں برا آدمی نہیں ہوں۔۔۔کیونکہ اگر ہوتا تو پہلے یوں وارنگ دینے اسپیشلی آپکے پاس بالکل بھی نہیں آتا۔۔۔۔بلکہ سیدھا اسکو کوئی گہرا نقصان پہنچاتا۔۔۔پھر میری جگہ ایک عدد بری خبر آپکے پاس آتی۔۔۔پر ابھی تک ایسا کچھ نہیں ہوا۔۔۔۔۔“  وہ ایک بےبس ماں کو اولاد کے معاملے میں ہرلحاظ سے کمزور کررہا تھا اور وہ ہو بھی رہی تھیں۔۔۔

”نن۔۔نہیں۔۔۔تم۔۔۔تم ایسا کچھ بھی مت کرنا۔۔۔میں اب کی بار اسے اچھی طرح سے سمجھاؤں گی۔۔۔ہاں۔۔۔“   وہ تسلی دیتے لہجے میں ہکلاکر گویا ہوئیں تو شام سر کو ہولے سے جنبش دیتا پل بھر کو مسکرایا۔

”جس عزت کو بچانے کے لیے آپ نے اپنی بیٹی کا نکاح میرے بھائی سے  کروایا ہے ناں۔۔۔اگر چاہوں تو سکینڈوں میں اسکی دھچیاں بکھیر دوں۔۔۔۔بہتر یہی ہے کہ اس بڑے نقصان سے پہلے ہی اس دو ٹکے کی۔۔۔جھانسی کی رانی کو میرے راستے میں آنے سے باز رکھیں۔۔۔ورنہ میرے خلاف کی گئی ایک ایک بغاوت اسکی جان پر بھاری پڑ جائے گی۔۔۔۔ٹھیک ویسے ہی جیسے حرمین زہرا پر بھاری پڑی تھی۔۔۔اچھے سے سمجھا دیجیے گا اپنی بیٹی کو یہ سب۔۔۔چلتا ہوں اب۔۔۔خیال رکھیے گا اپنا۔۔۔۔“  اب کی بار پرسکون لہجے میں آخری بار دھمکاتا وہ مزید وہاں رکا نہیں تھا۔۔۔جبکہ وہ نم نگاہوں سے شام کو پلٹ کر وہاں سے جاتا دیکھ اپنی جگہ ہنوز ساکت تھیں۔

اگلے ہی پل بےقرار دل پر دھیرے سے ہاتھ جماتے ہوئےانکے لرزتے لب بےاختیار اپنے رب کے آگے دعاگو ہوئے تھے۔۔۔۔

**********************

”میں فی الوقت کے لیے اپنے چچا جان کے پاس لندن جارہا ہوں۔۔۔۔“ وہ اس وقت بتائی گئی مطلوبہ جگہ پر ریڈ ڈالنے کی تیاریوں میں۔۔۔ہنوز پولیس اسٹیشن میں موجود تھا۔۔۔جب فون کے اسپیکر سے ابھرتا افروز کا سادہ لہجہ اسے کام کے دوران ہولے سے مسکرانے پر مجبور کرگیا۔

”یہ تو اچھی بات ہے۔۔۔ویسے شام نے مجھے اس بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا۔۔۔ابھی تمہی سے پتا چل رہا ہے۔۔۔۔۔“  اسکا براہِ راست ائیرپورٹ سے اچانک کال کرنا عائل کو کچھ عجیب لگا تھا۔۔۔جو ایگزامز کے فوری بعد اب کچھ ہی دیر میں لندن کی راہوں میں گامزن ہونے جارہا تھا۔۔۔

”ہوسکتا ہے اب تک اسے بھی اس بارے میں خبر مل چکی ہو۔۔۔۔پر جاتے ہوئے جو خبر میں آپکو دینے جارہا ہوں۔۔۔۔وہ خاصی غورطلب ہے۔۔۔“  دراز کھول کر گن نکالتا عائل اسکے یک دم بدلتے لہجے پر چونک کر سیدھا ہوا۔۔

”مطلب۔۔۔؟؟کیسی خبر۔۔۔۔؟؟“  بیلٹ ہولسٹر میں گن رکھتے ہوئے اب کہ وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔ 

دوسری طرف افروز نے ائیرپورٹ کی ان گنت روشنیوں تلے۔۔۔آتے جاتے  لوگوں پر نگاہ ڈالتے ہوئے بےاختیار لبوں پر زبان پھیری۔

”میں یہ سب بتانا تو نہیں چاہتا تھا عائل صاحب۔۔۔پر کیا کروں؟؟مکمل طور پر مجبور ہوکر مجھے یہ اسٹیپ لینا پڑرہا ہے۔۔۔۔

بہت سوچا۔۔۔سمجھا۔۔۔۔خود کو بارہا باز بھی رکھنا چاہا۔۔۔پر یہ اندر کا ضمیر۔۔۔یہ دن رات ملامت کرنے سے رتی بھر بھی باز نہیں آیا۔۔۔۔۔“  بظاہر تاسف سے بولتے ہوئے اسکی آنکھوں کی شیطانی چمک بڑھی تھی۔

بڑھتی بھی کیوں ناں۔۔۔

آخر کو جس مناسب موقع کی تلاش میں وہ اب تک کمالِ ضبط کا مظاہرہ کیے ہوئے تھا۔۔۔اب وہ سرکتے لمحوں کے سنگ ٹوٹتا جارہا تھا۔

”تو کیا کسی جرم میں ہاتھ پھنسا کر اب تم میرے پاس واقفیت کے بل بوتے پر نجات کی راہ تلاش کرنا چاہ رہے ہو۔۔۔؟؟“  جواباً قدرے مشکوک لہجے میں پوچھتے ہوئے عائل کی پیشانی پر بے اختیار لکیریں ابھرآئیں۔

پر اگلے ہی پل سماعتوں سے ٹکراتی افروز کی مدھم کھلکھلاہٹ اسکی ناگواریت بڑھا گئی تھی۔

”ایک طرح سے آپکی بات درست ہے۔۔۔

جرم بھی ہوا ہے۔۔۔اور اس میں صاف ہاتھ بھی پھنسایا گیا ہے۔۔۔پر یہ بات اچھے سے ذہن نشین کر لیجیے کہ یہ سب کرنے والا۔۔وہ شخص میں ہرگز نہیں ہوں۔۔۔ہاں البتہ اس بارے میں اچھی خاصی معلومات ضرور رکھتا ہوں۔۔۔۔۔۔“  خود کی مسکراہٹ پر فوری قابو پاتا وہ مضبوط لہجے میں بولا۔۔۔تو اسکے الجھاتے رویے پر عائل کا دماغ ناچاہتے ہوئے بھی خراب ہونے لگا۔

”آخر کہنا کیا چاہتے ہو تم۔۔۔؟؟جو بھی معاملہ ہوا ہے صاف صاف کھل کر بتاؤ۔۔۔۔؟؟“  ضبط سے موبائل فون دوسرے کان سے لگاتے ہوئے وہ چاہ کر بھی اپنا لہجہ نرم نہیں رکھ پایا تھا۔

”میں اس وقت آپکی مرحومہ سالی۔۔۔۔حرمین زہرا کے معاملے پر بات کرنا چاہ رہا ہوں۔۔۔یہ تو اب تک آپ بھی اچھے سے جان چکے ہوں گے۔۔۔کہ ہارٹ اٹیک کی صورت میں ہونے والی اسکی موت۔۔۔محض ایک جھوٹی افواہ سے ذیادہ کچھ بھی نہیں تھی۔۔۔۔“  افروز کافی تجسس پھیلاتے انداز میں بول رہا تھا جبکہ توقع کے برعکس۔۔۔اس پل اسے حرمین زہرا کا موضوع چھیڑتا دیکھ وہ قدرے حیران ہوا۔

”خودکشی کی تھی حرمین زہرا نے عائل صاحب۔۔۔۔اور اسے خودکشی جیسے سنگین اقدام پر مجبور کرنے والا اصل ذمہ دار۔۔۔۔یاں یوں کہہ  لیں۔۔۔حقیقی مجرم۔۔۔کون تھا۔۔؟؟اس کے بارے میں آئی ڈیم شیور آپ ضرور جاننا چاہیں گے۔۔۔رائٹ۔۔۔؟؟؟“  اسکی حیرت بھری خاموشی سے ٹھیک ٹھاک لطف لیتا وہ حددرجہ سنجیدہ تھا۔

”کون۔۔۔؟؟کون ہے وہ مجرم۔۔۔۔؟؟اور۔۔۔تم یہ سب کیسے جانتے ہو۔۔۔۔۔؟؟؟“  منہ پر ہاتھ پھیر کر تلخی سے پوچھتے ہوئے عائل کا دل شدتوں سے دھڑک اٹھا۔

اندر کہیں بلاوجہ کے اندیشے شدت سے سراٹھانے لگے تھے۔

دوسری طرف ٹانگ پر ٹانگ چڑھاتے ہوئے افروز کے لبوں پر کمینی مسکراہٹ شدت سے اپنی جھپ دکھلا کر سمٹی تھی۔

”بدقسمتی سے اس مجرم کے ساتھ میری گہری دوستی رہ چکی ہے۔۔۔اسی لیے اتنا سب جانتا ہوں۔۔۔۔جرم کرنے والا اور پھر بذات خود اپنے جرم کی تصدیق کرنے والا بھی آپکا اپنا سگا بھائی شام ہے۔۔۔

شاہ میر حسن۔۔۔۔“  گہرا سانس لیتے ہوئے ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولتا وہ عائل کے سر پر دھماکہ ہی تو کرگیا تھا۔

چند لمحوں کی بے یقین خاموشی رابطے میں حائل ہوتی افروز کو خباثت سے دانتوں تلے نچلا لب دبانے پر مجبور کرگئی۔

”جھوٹ ہے یہ۔۔۔۔۔۔“  معاً عائل مکمل اعتماد سے گویا ہوتا ٹیبل کے دوسری طرف آرکا۔۔۔

یہی بات کہنے والے اب کہ اسکے بھائی کے خلاف دو لوگ ہوچکے تھے۔۔۔

ایک حاویہ۔۔۔اور دوسرا افروز۔۔۔۔

پرثبوت۔۔۔؟؟

وہ تو کسی ایک کے پاس بھی نہیں تھا۔۔۔۔

لیکن پھر۔۔۔

”پختہ ثبوت ہے میرے پاس جناب۔۔۔جانتا ہوں پولیس والے لفظوں کی بجائے ٹھوس ثبوتوں پر یقین رکھتے ہیں۔۔۔۔“ اگلے ہی پل اسپیکر سے ابھرتی صاف۔۔پرسکون آواز اسکا سکون غارت کرنے کے درپے ہوئی تھی۔

افروز کا لہجہ اس قدر مضبوط تھا کہ پل پل ڈگمگاتے یقین پر عائل کی نگاہوں کی سیاہی بڑھتی چلی گئی۔

”میری ایک بات یاد رکھنا افروز۔۔۔اگر تمھارے بولے گئے یہ الفاظ سراسر جھوٹ ثابت ہوئے تو اس گھٹیا عدوات کے جواب میں تم میرے ہاتھوں بچ نہیں پاؤ گے۔۔۔یاد رکھنا۔۔۔۔“  دانت پیس کر اسے صاف دھمکی دیتا وہ حقیقتاً اپنا ضبط ہی تو کھو رہا تھا۔

جواباً مائک پر بلند ہوتی اناؤنسمنٹ پر تندہی سے کھڑے ہوتے افروز نے اس کے انداز پر تلخی سے بھنویں اچکائیں۔

”ثبوت کے طور پر میں کچھ ڈیٹا سینڈ کررہا ہوں جسے اپنا آپ منوانے کی خاطر میری طرف فارورڈ کرنے والا بھی خود شام تھا۔۔۔اپنی آنکھوں سے خود ساری اصلیت دیکھ لینا اے۔ایس۔ پی عائل حسن۔۔۔میرے لفظوں کی سچائی ثابت ہوجائے گی۔۔۔۔فی الحال تو میری فلائٹ کی اناؤنسمنٹ ہوچکی ہے۔۔۔قسمت میں ہوا تو پھر بات ہوگی۔۔۔خدا حافظ۔۔۔۔۔“   تلخ لفظوں سے آگ لگاتا وہ اب جا کر حقیقی معنوں میں اپنے سارے حساب بےباک کرگیا۔

جواباً سختی سے مٹھی بھینچے۔۔۔عائل نے مزید کچھ کہنا چاہا مگر تب تک وہ کال کاٹ چکا تھا۔

”ڈیم۔۔۔۔۔“  معاًموبائل کان سے ہٹا کر اسکرین کو غصے سے گھورتے عائل  نے پلٹ کر بےاختیار ٹیبل پر سخت ہاتھ دے مارا۔

”مجھے پورا یقین ہے۔۔۔میرا بھائی کبھی اس حد تک گرہی نہیں سکتا۔۔۔۔شام ایسا۔۔۔ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔۔۔“  بےتابی سے بالوں میں ہاتھ پھنساتا وہ خود کو تسلی دیتے لہجے میں بول رہا تھا۔۔۔جب تواتر سے ہوتی مسیجنگ ٹیون اسکے دل کی دھڑکنیں بڑھا گئی۔

”ہاں۔۔۔ہاں مجھے یقین ہے۔۔۔شام کا اس سب میں کوئی۔۔۔۔“  عجلت میں نوٹیفیکشن کھولتا وہ سر ہلائے۔۔۔زیرِ لب بڑبڑا رہا تھا۔۔۔پر اگلے ہی پل اسکرین پر ایک ایک کرکے کلئیر ہوتی تصاویر دیکھتا وہ ساکت پڑا۔

نازیبا حالت میں سوئی حرمین زہرا کو اپنی برہنہ بانہوں میں لے کر خباثت سے مسکراتا وہ۔۔۔وہ شاہ میر حسن ہی تو تھا۔۔۔۔

”شام۔۔۔۔؟؟؟“  بےیقینی تلے لبوں کو جنبش دیتے ہوئے عائل کی  نگاہوں میں تیزی سے سرخی پھیلتی چلی گئی۔

ہاں۔۔۔ہاں وہ اسکا اپنا بھائی تھا۔۔۔اسکا لاڈلا ترین۔۔۔

شفاف اسکرین پر انگوٹھے کو بڑی مشکلوں سے حرکت دیتے ہوئے جانے کیوں وہ اپنا مضبوط یقین پل پل کھورہا تھا۔۔۔۔

ہنوز حق دق کھڑا وہ ایک کے بعد ایک تصویر دیکھاتا چلا گیا۔

ویڈیو سے ہٹ کر۔۔۔دو سے تین جگہ لی جانی سیلفیز میں وہ اسی ایک پوز میں تھا۔۔۔۔جبکہ باقی تصاویر میں حرمین زہرا کا بےبس وجود تنہا تھا۔۔۔۔

یا پھر جانتے بوجھتے تنہا کیا گیا تھا۔۔۔

”تو کیا شام واقعی میں حرمین زہرا کا مجرم تھا۔۔۔۔؟؟

اسکی ذات۔۔۔عزت۔۔۔روح کی دھچیاں بکھرنے والا۔۔۔۔؟؟“  

”حقیقت ہے۔۔۔

سراسر حقیقت ہے۔۔۔

کیوں۔۔۔؟؟؟کیوں نہیں ہوسکتا وہ قاتل۔۔۔۔؟؟؟

صرف اس لیے کہ ایک ایمان دار پولیس آفیسر کا سگا بھائی ہے وہ۔۔۔۔؟؟؟

نہیں عائل حسن۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔

میری بہن کی خودکشی کا حقیقی ذمے دار ہے تمھارا بھائی۔۔۔۔“  سائیں سائیں ہوتے دماغ میں شدت سے ابھرتی حاویہ کی چیختی آواز۔۔۔اسے ڈھیلا ہوکر ٹیبل کے ساتھ لگنے پر مجبور کرگئی تھی۔

”تمھارا اور حرمین زہرا کا تعلق کس حد تک گیا تھا۔۔۔۔؟؟؟“  معاً اسے خود کا شام سے کیا گیا سوال یاد آیا تھا۔

”حد مطلب۔۔۔؟؟؟

آپ۔۔۔۔آپ مجھ پر شک کررہے ہیں بھائی۔۔۔؟؟“  جواباً کس قدر حیران ہوا تھا ناں وہ۔۔۔

 ”لیکن پھر بھی میں آپکو۔۔۔۔محض آپکی تسلی کی خاطر یہ بات صاف بتائے دیتا ہوں کہ حرمین زہرا سے میرا تعلق صرف اور صرف برائے نام دوستی کی حد تک تھا۔۔۔

بالکل سادہ اور عام سا۔۔۔

اس سے ذیادہ کچھ بھی نہیں۔۔۔

انفیکٹ وہ تو خود انگیجڈ تھی یار۔۔۔

بھلا ایسے میں میرے ساتھ کیا خاک تعلق بناتی۔۔۔۔۔؟؟؟“  بنا ہکلائے ہچکچائے۔۔۔کی جانے والی حد کی اداکاری تھی وہ۔۔۔۔

عائل نے اذیت سے بالوں میں ہاتھ پھنسا کر انھیں مٹھی میں دبوچا۔

”خود کشی سے کہیں ذیادہ وہ ایک قتل تھا۔۔۔

ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔۔۔جس کے تحت میری بہن کو خود کی جان لینے پرمجبورکردیا گیا۔۔۔

اور اس سب کی ذمہ دار فقط شاہ میر حسن کی ذات ہے۔۔۔۔

جھوٹی محبت کی آڑ میں حرمین زہرا کی عزت کی دھچیاں بکھرنے والا ایک لٹیرا ہے تمھارا بھائی۔۔۔۔دنیا بھر میں اس کے وجود کی سرعام تشہیر کرنے والا بےغیرت ترین انسان ہے وہ۔۔۔۔۔۔“  اگلے ہی پل حاویہ کی بھیگتی آواز اسکی سماعتوں میں زہر بن کر اتری تھی۔

پر تب۔۔۔تب وہ ان بدترین حقیقتوں کو تسلیم کرنے کی بجائے اسے جذباتی۔۔۔ پاگل ہی تو سمجھ رہا تھا۔

عائل انگارہ آنکھوں میں بےاختیار درآنے والی نمی کو بےدردی سے مسلتا اگلے ہی پل شدید بے چینی تلے رخ موڑ گیا۔

”پاگل۔۔۔۔

یس بھائی۔۔۔۔۔

بہن کی موت کا صدمہ اسے اس قدر پاگل کرچکا ہےکہ  وہ بنا سوچے سمجھے اس حد تک چلی گئی ہے۔۔۔۔آپکو یاد ہو تو ایک بار میں نے چند غنڈوں سے لڑ کر حرمین زہرا کی عزت بچائی تھی۔۔۔اورعزت کا رکھوالا کبھی بھی ایک لٹیرا نہیں ہوسکتا لیکن اسے زبردستی لٹیرا بنانے والا پاگل ضرور ہوسکتا ہے۔۔جو کہ وہ الموسٹ  ہوچکی ہے۔۔۔۔“  بھروسے سے ٹھیک ٹھاک کھیلتا کس قدر فریب دے گیا تھا وہ۔۔۔

سختی سے لب بھینچتے ہوئے بھنویں تن گئی تھیں۔۔۔جب اگلے ہی پل اس نے اشتعال تلے چلاتے ہوئے ہاتھ میں پکڑا قیمتی موبائل فون دیوار پر دے مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا۔

پھر بڑی مشکلوں سے ضبط کے گہرے سانس بھرتا ہاتھ نیچے کرگیا۔

اففف۔۔۔۔یہ ثبوت سیاہ حقیقتوں کو کھولتا۔۔۔اسکی ذات پر حد سے ذیادہ بھاری ثابت ہوا تھا۔

ایسے میں وہاں آتے حوالدار نے قدرے حیرت سے عائل کی بپھڑی حالت دیکھی۔پھر سلوٹ کرتا اسے نرم آواز میں اپنی جانب تندہی سے دیکھنے پر  مجبور کرگیا۔

”سر۔۔۔۔ریڈ ڈالنے کے لیے ہماری ٹیم مکمل تیار ہوچکی ہے۔۔۔اب بس آپکی آمد کے منتظر ہیں سب۔۔۔“  اسکی سلگاتی ہوئی محدود سوچوں کے لیے نئے در وا کرتا اطمینان سے گویا ہوا تو عائل نے بمشکل خود کی حالت پر قابو پاتے ہوئے منہ پر ہاتھ پھیرا۔پھر اثبات میں سر ہلاتے ہوئے آگے ہوکر ٹیبل کے ایک طرف دھری اپنی کیپ اٹھائی۔

شام کے خلاف افروز کی انتقاماً پھیلائی ہوئی آگ اے۔ایس۔پی عائل حسن کے وجود میں پوری طرح سے بھڑک چکی تھی۔۔۔

پر اس سب کے باوجود بھی وہ اپنے فرض سے فارغ ہوکر۔۔۔

فقط ایک بار۔۔۔ایک آخری بار اپنے بھائی کے لبوں سے اعتراف ِجرم سننے کا خواہاں تھا۔۔۔

**********************

”سنو۔۔۔۔۔“  وہ جو کچن کی دہلیز پر چند پل رک کر خاموشی اسے کام کرتا دیکھ رہا تھا۔۔۔اگلے ہی پل اندر آتا اسے مخاطب کرگیا۔

نتیجتاً اسکی بھاری سرد آواز پر خود کے لیے گھی میں شامی کباب تل رہی حلیمہ چونک کر پل بھر کو ساکت ہوئی۔۔پر پلٹی پھر بھی نہیں تھی۔۔

گویا کچھ سنا ہی نہ ہو۔۔۔۔

”میں تم سے مخاطب ہوں۔۔۔۔ایک بار میں سنائی نہیں دے دیتا کیا۔۔۔؟؟؟“  اسے خود کی جانب پلٹنے کی بجائے ہنوز بےنیازی سے کام کرتا دیکھ وہ بےاختیار اسکی طرف لپکتا سپاٹ لہجے میں بولا۔۔۔تو گہرا سانس بھرتی وہ سختی سے لب بھینچ گئی۔

اتنے دنوں کی گہری اجنبیت کے بعد سے اب جانے کس مقصد کےتحت وہ اسے اپنی موجودگی کا شدت سے احساس دلانا چاہ رہا تھا۔۔۔؟؟جبکہ وہ تو اسکے سامنے آنے سے بھی گریزاں تھی۔۔۔

”سننے اور دیکھنے میں بہت فرق ہوتا ہے سالار صاحب۔۔۔میں اگر آپ کی طرف دیکھ نہیں رہی تو اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ میں سننے سے محروم ہوچکی ہوں۔۔۔۔“ چمٹے کی مدد سے ایک ایک کرکے شامی کباب کا بروقت رخ بدلتی ۔۔۔وہ کچھ پل کا توقف لے کر بےتاثر لہجے میں گویا ہوئی۔۔۔

اسکے یوں رکھائی سے دوبدو جواب دینے پر قریب رکتا وہ اگلے ہی پل کچھ جھجھک کر اسکا رخ جھٹکے سے اپنی جانب موڑ چکا تھا۔

”پر میں براہِ راست آنکھوں میں دیکھ کر بات کرنے کا عادی ہوں۔۔۔۔“  اسکے برہم ہوتے نقوش تکتا وہ سنجیدگی سے گویا ہوا۔۔۔تو اسکی جانب دیکھ کر ناچاہتے ہوئے بھی حلیمہ کا دل دھڑک اٹھا۔

”حیرت ہے۔۔۔اتنا سب کرنے کے باوجود بھی براہِ راست آنکھوں میں دیکھنے کی ہمت رکھتے ہیں آپ۔۔۔۔۔“  جھٹکے سے اپنا بازو مقابل کی نرم گرفت سے چھڑواتے ہوئے اس نے۔۔۔گہرے طنز کی آڑ میں اسے حقیقت کا آئینہ دکھایا تھا۔۔۔

وہ آئینہ جس سے نگاہیں چرانا تو سالار خان کو گوارا تھا۔۔۔

پر بغور دیکھنا قطعی گوارا نہیں تھا۔۔۔۔

جواباً ضبط سے لب بھینچ کر بےاختیار اسکے پہلے کی نسبت کمزور ہوچکے چہرے سے نگاہیں ہٹاتا اپنا رخ پلٹ گیا۔۔۔تو حلیمہ نے تاسف سے سر جھٹکتے اگلے ہی پل پلٹ کر ہلکی سی جلتی آنچ بجھائی۔

”مجھے۔۔۔بھوک لگی ہے۔۔۔ کھانے کو جی چاہ رہا ہے میرا۔۔۔۔تم کچھ بھی تیکھا سا بنا دو۔۔۔۔“  شفاف فرش کو گھورتا ہوا وہ سرد لہجے میں حکم دیتا ہنوز وہیں کھڑا تھا۔

”سلمہ کو کہہ دیتی ہوں۔۔۔وہ بنادے گی۔۔۔۔“  مکمل تل چکے شامی کباب ایک ایک کر کے پلیٹ میں رکھتی وہ ملازمہ کا حوالہ دیتے ہوئے اسکی بھوک سے صاف لاپرواہی جتاگئی تھی۔

اس کے اس قدر کورے جواب پر سالار کی پیشانی پر بل پڑتے چلے گئے۔معاً مکمل ضبط کھوکر اسکی جانب پلٹتا اب کہ وہ اسکی کلائی تھام کر اپنی گرفت میں چکا تھا۔

”خان۔۔۔۔۔“  اس کی جانب بےاختیار ہوکر کھینچے چلے جانے پر بوکھلاہٹ کے سبب حلیمہ کے ہاتھ سے چمٹا نیچے گرچکا تھا۔

”اسکے ہاتھوں کا روکھا پھیکا پسند نہیں ہے مجھے۔۔۔۔تمھارے ہاتھوں کا تیز مرچی والا آگ لگاتا ذائقہ چکھنا چاہتا ہوں۔۔۔اب سیدھی سادھی عادتیں بگاڑی ہیں سو مجبوراً برداشت تو کرنا ہی پڑے گا۔۔۔بلاوجہ کے نخرے کیوں دکھارہی ہو۔۔۔۔؟؟“  سالار خان سلگ کر بولتا اسکی کلائی پر اپنی گرفت مزید سخت کرگیا تھا۔

جانے کیوں وہ حلیمہ کا خود کے لیے اس حد تک سرکش لہجہ چاہ کر بھی برداشت نہیں کرپارہا تھا۔

”ہاتھوں اور باتوں سے مرچیں لگانے کی عادت آپکو ضرور ہوگی سالار صاحب۔۔۔۔پر نخرے دکھانے کی عادت مجھ میں قطعی نہیں ہے۔۔۔ اب چھوڑئیے میرا ہاتھ۔۔۔۔۔۔“  نم آنکھوں کے ساتھ بگڑ کر بولتی وہ کوششوں کے باوجود بھی اپنی کلائی نہیں چھڑوا پائی تھی۔

”نہ چھوڑوں تو۔۔۔۔۔؟؟؟“ مزاحمت روکنے کو ہلکا سا جھٹکا دے کر قریب کرتا وہ بھی جیسے ضد میں آیا تھا۔

”ایک بار تھام کر چھوڑ تو چکے ہیں۔۔۔اب کچھ فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔“  اسکی جانب برہمی سے دیکھتی وہ سلگ کر بولی تو سالار اسکی سرخ پڑتی آنکھوں میں بھیگی بھیگی سی اذیت دیکھتا بے اختیار نرم پڑا۔

”حلیمہ میں۔۔۔۔“  لبوں پر زبان پھیرتا وہ کچھ کہنا چاہتا تھا جب درشتگی سے اپنا ہاتھ چھڑاتی وہ اس سے دور ہوئی۔ 

”اپنی بگڑی عادتیں واپس سدھار لیجیے سالار صاحب۔۔۔۔ٹھیک ویسے ہی جیسے میں سدھار چکی ہوں۔۔۔۔مانتی ہوں تھوڑا مشکل ضرور ہے۔۔۔پر بہتری اس مشکل سے کئی بڑھ کر ہے۔۔۔۔۔۔“  گہرے سانسوں کے بیچ سرد لہجے میں کہتی ہوئی وہ بےدردی گالوں پر لڑھکتے آنسو پونچھ گئی۔پھرپلٹ کر شامی کباب کی پلیٹ اٹھاتی تیزی سے وہاں سے جانے کو دہلیز کی جانب لپکی۔

”میرا نہیں تو خود کا ہی خیال کرلو۔۔۔۔خان کی مچلتی بھوک تمھاری سکون بھری نیندیں اڑادینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔۔۔۔“  جلدی سے بولتا وہ جاتے جاتے۔۔۔اسے رکنے پر مجبور کرگیا تھا۔

”عادتیں بدل گئی ہیں۔۔۔۔سو صلاحیتیں بھی بدل چکی ہیں۔۔۔غلط فہمیوں سے باہر نکل آئیے سالار صاحب۔۔۔لاعلاج ہونے کہ ساتھ ساتھ یہ اکثر جانلیوا بھی ہوا کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔“  بنا اسکی جانب پلٹے۔۔۔وہ اپنے دل کی بڑھتی دھڑکنوں کو سرے سے فراموش کرتی۔۔۔ مکمل بے حس بننے میں کامیاب ٹھہری تھی۔

اگلے ہی پل حلیمہ کو ضبط سے سرخ پڑتی نگاہوں سے اوجھل ہوتا دیکھ وہ وہیں کا وہیں کھڑا رہ گیا۔

وہ حقیقتاً حیران تھا۔۔۔

حیران تھا کہ ہمیشہ اسکی محبتوں میں دم بھرنے والی وہ لڑکی دنوں میں کس قدر بدل چکی تھی۔۔۔۔

اسکے ضبط آزماتے رویے کو سوچتے ہوئے سالار کے اندر الگ بے چینی پنپنے لگی تھی۔۔۔۔

معاً غصے سے سر جھٹکتا وہ بھی وہاں سے جانے کو تھا۔۔۔جب اچانک سلمہ نامی ملازمہ سامنے آتی اسے ٹھٹھک کر رکنے پر مجبور کرگئی۔

”خان جی۔۔۔۔آپکا جو بھی تیکھے ذائقے والی شے کھانے کو دل چاہ رہا ہے وہ آپ مجھے بتادیں۔۔۔میں فوری بنادیتی ہوں۔۔۔۔۔۔“  نرمی سے پوچھتی وہ حقیقتاً اسے طیش ہی تو دلا گئی تھی۔

”بکواس بند کرو اپنی اور جاکر اپنی چھوٹی بی بی کو بتادو کہ بھوک مرچکی میری۔۔۔۔۔۔“ بھڑک کر کہتا وہ مزید وہاں رکا نہیں تھا۔۔۔بلکہ ملازمہ کو حیران چھوڑتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔۔۔

***************

ڈھلتی شام پل پل سرکتی اب کہ گہری سیاہ رات میں گھلنے کے درپے ہورہی تھی۔

ایسے میں۔۔۔موسم میں صاف پنپتا بدلاؤ حقیقتاً خوشگوار تھا۔۔مگر کمرے سے ملحقہ ٹیرس پر کھڑی ہوکر لامحدود آسمان کو خالی نگاہوں سے تکتی اس نازک جاں کے تیور۔۔۔چاہ کر بھی خوشگوار نہیں کرپایا تھا۔

کتنے ہی دن گزر گئے تھے اسے شام کی ہنوز غیرموجودگی میں یہاں اجنبیوں کی سی زندگی گزارتے ہوئے۔۔۔

گزشتہ دنوں میں۔۔۔عائل کئی بار خود سے اسکے قریب آتا اس کا دل بری طرح دھڑکا چکا تھا۔۔۔پر اس کے باوجود بھی انا کے خول میں مکمل سمٹی وہ  اسکے اور خود کے بیچ ہنوز ایک گہری حد بنائے ہوئے تھی۔۔۔

دوپٹے سے بےنیاز۔۔۔وہیں کھڑے کھڑے وہ گہرا سانس بھرتی لب بھینچ گئی۔

اس دوران۔۔۔صرف ایک بار ضد کرکے وہ عائل کے ہمراہ نفیسہ بیگم سے ملنے اپنے گھر گئی تھی۔۔۔

ارادہ تو صاف شکوہ و شکایات کرنے کا تھا پر وہ بھی ماں تھیں۔۔۔

جبھی ان سے گھر بسانے کی خاطر لاتعداد نصحتیں اور شفقتیں سمیٹتی شکست خوردہ سی۔۔۔اسی روز واپس لوٹ آئی تھی۔

دوسری طرف حسن صاحب کا سلوک جہاں اس سے سادہ اور کافی حد تک محدود تھا۔۔۔وہیں عائمہ بیگم اس سے چوبیس سو گھنٹے بلاوجہ کا۔۔۔اچھا خاصا بیر پالے ہوئے تھیں۔

”اففف بددماغ لڑکی۔۔۔تمھاری ماں نے امیر لوگوں سے عشق معشوقیاں لڑانے کے سوا تمھیں  کچھ اور ڈھنگ کا سیکھایا بھی ہے کہ نہیں۔۔۔؟؟میرے اتنے قیمتی سوٹ کا ستیاناس کردیا تم نے۔۔۔جان بوجھ کر کیا ہے ناں یہ سب۔۔ہہمم۔۔۔؟؟“  آج صبح ہی کئی گھنٹوں کی انتھک محنت سے وہ جانے کتنے ہی سوٹ استری کر چکی تھی۔۔۔مگر پھر۔۔۔تپتی استری تلے اپنے قیمتی سوٹ کا دامن جلنے پر عائمہ بیگم قدرے بگڑ کر پوچھتی اسے پل بھر کو سہمنے پر مجبور کرگئی تھیں۔

”میں نے جان بوجھ کر کچھ بھی نہیں کیا آنٹی۔۔۔جو بھی ہوا ہے غلطی سے۔۔انجانے میں ہوا ہے۔۔۔۔۔اور رہی بات  عشق معشقیوں کی تو ہاں۔۔۔ مجھے یہ سب کرنے کے علاوہ بخوبی نبھانا بھی آتا ہے۔۔۔پر آپکی اولاد تو محض ڈھونگ رچانے کی حد تک ہی ماہر ہے۔۔۔“  جواباً کیا جانے والا طنز اس قدر گہرا تھا کہ عائمہ بیگم اشتعال تلے بےاختیار اسکا بازو دبوچ گئی تھیں۔

وہ ان افسردہ کرتی سوچوں میں مزید گہرائی سے اترجانا چاہتی تھی۔۔۔جب اگلے ہی پل سماعتوں سے ٹکراتا کسی کا بھاری ہنکارا اسے بڑی طرح ٹھٹھک کر پلٹنے پر مجبور کرگیا۔

”ہاااا۔۔۔ا۔۔۔ہ۔۔۔ہ۔۔۔۔۔۔“  مقابل کو اتنے دنوں بعد اپنے بےحد قریب دیکھ جہاں حاویہ کے لبوں سے نکلتی گھٹی آواز بےساختہ تھی۔۔۔وہیں جینز کے پاکٹس میں دونوں ہاتھ پھنساتا وہ ہولے سے مسکرایا۔

سہمے نقوش دیکھ بھوری نگاہوں کی چمک بڑھی تھی۔

”دھڑلے سے دن رات بڑی بڑی دھمکیاں دینے والی عورت فقط ایک چھوٹے سے ہنکارے پر اس قدر خوفزدہ ہوچکی ہے۔۔۔اففففف بھابی جان اففففف۔۔۔۔“  اسکی بےیقین نگاہوں میں شدت سے جھانکتا شام لطف لیتے لہجے میں گویا ہوا۔۔۔تو اسکی غیرمتوقع آمد پر پل میں یقین کرتی وہ جلدی سے ہوش میں آئی۔پھر قدرے تیزی سے اسکی سائیڈ سے ہوکر نکلتی۔۔۔بیڈ کے کنارے۔۔۔رکھے دوپٹے تک پہنچی۔

اسکی اس قدر پھرتی پر خباثت سے لب دباتا وہ بھی چلتا ہوا اسکے پیچھے آیا تھا۔

ایگزامز کے اختتام پر فارم ہاؤس سے گھر لوٹنے پر۔۔۔گارڈ سے ملتی عائل کی لمبی غیرموجودگی خبر اسے شدت سے یہ قدم اٹھانے پر مجبور کرگئی تھی۔۔۔جبھی تو بنا کسی کی نگاہوں میں آئے وہ سیدھا اسکے پاس کمرے تک چلا آیا تھا۔۔

پھر بھلا دھمکانے کی آڑ میں وہ اس چھیڑخانی سے کیونکر باز آتا۔۔۔؟؟

تم۔۔۔؟؟تم اس وقت یہاں میرے کمرے میں کیا کررہے ہو۔۔۔؟؟؟“  سر پر ٹھیک سے دوپٹہ درست کرتی وہ۔۔۔ اسکے ڈھٹائی سے مقابل آکر رکنے پر دبے دبے غصے میں چلائی۔۔۔ تو شام بغور اسکے تنے نقوش دیکھتا بھنویں اچکا گیا۔

”اطمینان سے دو چار باتیں کرنے آیا ہوں تم سے۔۔۔جسٹ اٹ۔۔۔“ سادگی سے بولتا وہ اپنی جذباتی طبیعت کے برعکس ہنوز پرسکون تھا۔

”پر مجھے اس وقت تم سے دو چار تو کیا۔۔۔ایک بات کرنے میں بھی رتی بھر دلچسپی نہیں ہے۔۔۔سنا تم نے۔۔۔۔اب نکلو۔۔۔ نکلو میرے کمرے سے فوراً۔۔۔۔؟؟“  چٹخ کر بولتی وہ ادھ کھلے دروازے کی طرف صاف اشارہ کرگئی تھی۔

اس بدلحاظی پر اب کہ شام کے وجیہہ نقوش بھی پل میں سپاٹ ہوئے تھے۔

”او ہیلو کیا۔۔۔۔؟؟تمیز سےبات کررہا ہوں ناں میں تم سے۔۔۔۔ہہمم۔۔۔۔۔؟؟کررہا ہوں ناں بات تمیز سے۔۔۔؟؟سو تم بھی سیم تمیز کے دائرے میں رہ کر سکون سے بات کرو مجھ سے۔۔۔۔میں ایسے بگڑے رویوں کا عادی ہرگز نہیں ہوں۔۔سمجھی۔۔۔۔۔“ شہادت کی انگلی اٹھائے۔۔۔جھٹک کر سخت لہجے میں بولتا وہ بےاختیار ایک قدم اسکی جانب لے گیا۔۔۔تو نفرت سے اسے دیکھتی حاویہ احتیاطاً پیچھے کو ہوئی۔

ایسے میں دل وحشتوں تلے پھڑپھڑایا تھا۔

”اور میں کسی گھٹیا انسان کے رعب میں آنے کی عادی نہیں ہوں۔۔سمجھے تم۔۔۔۔۔“  تیکھے لہجے میں دو بدو جواب دیتی وہ اسے ضبط سے بالوں میں ہاتھ پھیرنے پر مجبور کرگئی۔

”ابے باررررر۔۔۔۔چھٹانک بھر کی ہونے باوجود بھی اتنااااا اٹیٹیوڈ۔۔۔کمال ہے۔۔۔۔۔“  اسکے سراپے کو گھور کر دیکھتا وہ ناچاہتے ہوئے بھی تمسخرانہ گویا ہوا۔۔۔تو اسکی بےلگام نگاہوں کو انداز پر حاویہ کے تیوری چڑھی۔

”اور یہ جو اس حسین چہرے پر بلا کا غصہ ناچ رہا ہے ناں۔۔۔ اسکی وجہ بھی خوب اچھے سے سمجھ رہا ہوں میں۔۔۔۔ڈیم شیور دن رات تم بھائی کو میرے خلاف بھڑکاتی پھرتی ہوگی پر بدلے میں وہ تمھاری کسی ایک بھی بات کا یقین نہیں کرتے ہوں گے۔۔۔رائٹ۔۔۔؟؟“  کہتے ہوئے اس نے بنا ہچکچائے اسکے نرم سانولے رخسار کو دو انگلیوں سے چھونا چاہا تھا جب اسکی جرات پر پل بھر کو حیران ہوتی وہ درشتگی سے اسکا ہاتھ پرے جھٹک گئی۔

”اپنی اوقات میں رہو تم۔۔۔۔دوبارہ چھونے کی غلطی مت کرنا ورنہ بہت بھاری پڑے گی تم پر یہ حرکت۔۔۔۔۔“  انگلی اٹھا کر سلگتے۔۔ تنبیہی انداز میں بولتے ہوئے۔۔۔ضبط کے باوجود بھی اسکی نگاہوں میں بھیگی سرخی گھلی تھی۔

جواب میں سمجھنے کی اداکاری کرتے ہوئے  شام سر کو جنبش دیتا۔۔۔ کمینگی سے مسکرایا۔۔۔

مقابل کھڑی لڑکی کو تپانے میں جانے کیوں اسے اس قدر لطف آرہا تھا۔۔۔۔جو بظاہر بہادر بن کر اسکی نزدیکیوں پر مزاحمت کرتی۔۔۔حقیقتاً اسکی موجودگی سے پل پل وحشتوں کا شکار ہورہی تھی۔

”اوقات۔۔۔ہاں۔۔؟؟؟۔۔۔۔اور اپنی اوقات جاننا چاہو گی کیا ہے۔۔۔؟؟میں بتاتا ہوں۔۔۔۔ایک پرائی ملازمہ کی آپ بیتی سن کر اسکے مجرم کو سزا دینے والے شخص کے لیے۔۔۔اپنی ہی بیوی کی سچائی پر یقین کرنا عذاب لگ رہا ہے۔۔۔۔بس یہی۔۔۔۔یہی اوقات ہے تمھاری۔۔۔۔ایک عدد ملازمہ سے بھی گئی گزری۔۔۔۔“  آمنہ نامی اپنی سابقہ ملازمہ  کی بابت حوالہ دیتا وہ گہرے طنز پر حاویہ کی آنکھیں شدت سے بھگو گیا تھا۔

اسے یاد آیا تھا جب عائل حسن انہی کے محلے میں آکر مار دھاڑ کرتا کیسے اس لڑکے کو پولیس موبائل میں ڈال کر تھانے بھیج چکا تھا۔

”کیونکہ مجرم کے طور پر مقابل سگا بھائی ہے۔۔۔وہ بھائی جس پر اندھا اعتماد کرکے میرا شوہر غلطی کررہا ہے۔۔۔اور تم۔۔۔اسی اعتماد کی دھچیاں اڑا کر غلطی نہیں بلکہ گناہ کر رہے ہو گناہ۔۔۔اپنے کیے کی پاداش میں بہت جلد ذلیل ہوگے تم شام۔۔۔یاد رکھنا۔۔۔اتنی آسانی سے اپنی بہن کے مجرم کو معاف نہیں کروں گی۔۔۔۔۔۔“  پلکیں جھپکا جھپکا کر شدت سے باور کرواتے ہوئے اسکا لہجہ ڈگمگایا۔۔ تو آنسو بےاختیار اسکے رخساروں پر لڑھک آئے۔

نتیجتاً لاپرواہی سے سر جھٹکتے ہوئے وہ حقارت سے بھنویں اچکا گیا۔

اطمینان قابلِ دید ہی تو تھا۔

”جانتی ہو؟؟تین لاکھ۔۔۔پورے تین لاکھ میں تمھاری پارسا بہن نے اس رات مجھ سے اپنی عزت کا سودا کیا تھا۔۔۔اُس تھری لئیرڈ نیکلس کو دیکھ کر مکمل پگھل چکی تھی وہ میرے آگے۔۔۔“  سفاکی سے بولتے ہوئے اس نے بے اختیار بےباک نگاہوں سے اسے سرتاپیر بغور دیکھا۔۔۔تو شدتِ ضبط سے گہرے سانس بھرتی وہ نازک مٹھیاں بھینچ گئی۔

”لیکن تم چونکہ۔۔اسکے مقابلے میں خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ کافی حد تک تیکھی بھی ہو۔۔۔ تو تین کی بجائے۔۔چھ لاکھ بھی اڑانے کو تیار ہوں میں تم پر۔۔۔بس تمھاری ایک عدد ہاں چاہیے۔۔۔۔“  ٹھوڑی کھجاکر مست سے لہجے میں بولتا وہ بھابی جیسے رشتے کو بھی فراموش کرچکا تھا۔۔۔جبکہ مقابل کہ اس حد تک گر جانے پر اپنا مکمل ضبط کھوتی وہ بےاختیار اس پر جھپٹ پڑی۔

”تم گھٹیا۔۔۔ ذلیل ترین انسان۔۔۔ہمت بھی کیسے ہوئی تمھاری میرے بارے میں یہ سب سوچنے کی۔۔۔ایسی۔۔ایسی بدترین بکواس کرنے کی۔۔۔۔۔؟؟“   گریبان سے دبوچ کر درشتگی سے پوچھتی وہ اگلے ہی پل اس پر ہاتھ اٹھانے کو تھی۔۔۔جب بروقت اسکی کلائی بیچ میں دبوچتا۔۔وہ دوسری بھی قدرےسختی سے تھام کر اسے اپنی جانب جھٹک چکا تھا۔

اسکی اس قدر جرات پر خائف ہوتی حاویہ کے دماغ کی رگیں پھٹنے کے قریب ہوئی تھیں۔

”اگر جو آج تمھارا یہ تھپڑ غلطی سے بھی میرے چہرے پر اپنی چھاپ چھوڑ جاتا ناں۔۔۔تو یقین کرو حرمین زہرا کا میں نے جو حشر کیا سو کیا۔۔۔پر تمھارا اس سے کہیں ذیادہ بدتر حال کرتا کہ جینا دو بھر ہوجاتا۔۔۔۔“  حاویہ کے رخساروں پر پھسلتے آنسوؤں کو دیکھتا جہاں وہ ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا تھا۔۔۔وہیں دہلیز پر ساکت کھڑے اس وجود کا دل۔۔۔شدتِ تکلیف سے پوری طرح ڈوب گیا۔

”چھو۔۔چھوڑو مجھے غلیظ انسان۔۔چھوڑو نہیں تو میں تمھاری جان لے لوں گی۔۔۔۔۔“  اسکی سخت گرفت میں بری طرح مچلتی حاویہ کی ہراساں نگاہوں نے۔۔۔بےساختہ بھٹک کر سامنے دروازے تک پل میں سفر کیا تو ٹھٹھک کر ساکت ہوئی۔

”عاااائل۔۔۔۔۔۔۔“  اگلے ہی پل چلا کر بولتی جہاں وہ شدت سے اسکا سکتہ توڑ گئی تھی وہیں شام بھی اسے خود سے پرے دھکیلتا جھٹکے سے پلٹا۔۔۔۔


”چھو۔۔چھوڑو مجھے غلیظ انسان۔۔چھوڑو نہیں تو میں تمھاری جان لے لوں گی۔۔۔۔۔“  اسکی سخت گرفت میں بری طرح مچلتی حاویہ کی ہراساں نگاہوں نے۔۔۔بےساختہ بھٹک کر سامنے دروازے تک پل میں سفر کیا تو ٹھٹھک کر ساکت ہوئی۔

”عاااائل۔۔۔۔۔۔۔“  اگلے ہی پل چلا کر بولتی جہاں وہ شدت سے اسکا سکتہ توڑ گئی تھی وہیں شام بھی اسے پرے دھکیلتا جھٹکے سے پلٹا۔۔۔۔

عائل سختی سے مٹھیاں بھینچے۔۔۔قدم قدم چلتا ہوا اسکے مقابل آیا تھا۔

اسکی سرخ پڑتی آنکھوں میں ڈولتا تاثر دیکھ۔۔۔ناچاہتے ہوئے بھی شام کے چہرے کے رنگ بدلے۔

اس دوران حاویہ نے سسک کر کندھوں پر گرا  دوپٹہ سر پر درست کیا تھا۔

”بھائی۔۔بھائی۔۔۔میں۔۔۔۔۔۔“  خود کی جھوٹی صفائی میں اسکے لب شدت سے پھڑپھڑائے تھے۔۔۔جب ضبط کھوتے عائل کا ہاتھ پوری قوت سے اٹھتا اسکی گال سن کرگیا۔

”چٹاااااخ۔۔۔۔۔۔!!“  کمرے میں شدت سے گونجتی تھپڑ کی آواز نے جہاں شام کو ساکت کیا تھا۔۔۔۔وہیں حاویہ بھی حیران نگاہوں سے ان دونوں کو تکنے لگی۔

اگلے ہی پل جلتے گال کو دھیرے سے چھوتے ہوئے شام نے قدرے بے یقینی سے عائل کی جانب دیکھا۔

آج زندگی میں پہلی بار اسکے خود کے سگے بھائی نے بےدردی سے اس پر ہاتھ اٹھایا تھا۔۔۔جس کا شاید وہ کبھی وہم و گمان میں بھی سوچنے کا روادار نہیں ہوسکتا تھا۔

”شرم آرہی ہے مجھے۔۔۔۔بے انتہا شرم۔۔۔یہ سوچتے ہوئے کہ تم جیسا درندہ صفت انسان میرا بھائی ہے۔۔۔ایسا بےغیرت ترین انسان جو صنف نازک کو صرف درندگی کی نظر سے دیکھنا جانتا ہے۔۔۔۔۔“  بے اختیار گریبان سے پکڑتے ہوئے۔۔۔چلاکر بولتا وہ اسے سختی سے مٹھیاں بھینچنے پر مجبور کر چکا تھا۔

ان لفظوں پر جہاں حاویہ نے سکون سے اپنی نم آنکھیں بھینچ کر کھولی تھیں۔۔۔وہیں شام ضبط تلے گہرے سانس بھرتا۔۔۔ڈھٹائی سے اسکے مقابل سینہ تان کر کھڑا ہوگیا۔

”آدھی ادھوری حقیقت بڑی تباہی لاتی ہے۔۔۔اور آپ اسی آنکھوں دیکھی ادھوری حقیقت پر اعتبار کرکے بہت بڑی ناانصافی کررہے ہیں میرے ساتھ۔۔۔۔۔“  اپنا گریبان چھڑوائے بنا وہ شہادت کی انگلی اٹھاتا دانت پیس کر بولا تو اسکی بات پر عائل کے شدت سے تیوری چڑھی۔

مطلب کہ وہ اب بھی اسے گمراہ کرنے کی صاف کوششوں میں تھا۔

”نا انصافی۔۔۔ہاں۔۔؟؟“  اسکی شدت سے سرخ پڑتی نگاہوں میں اپنی لہو رنگ آنکھیں ڈال کر کہتے ہوئے۔۔۔اگلے ہی پل عائل نے اسے بےدردی سے اپنے ساتھ کمرے سے باہر گھسیٹا تھا۔

پیچھے حاویہ بےچینی تلے پھڑپھڑاتے دل پر دھیرے سے ہاتھ جماتی۔۔۔ ڈھے جانے والے انداز میں وہیں دبیز قالین پربیٹھتی چلی گئی۔

تو کیا واقعی میں عائل حسن اسکی ساری باتوں پر اعتبار کرچکا تھا۔۔۔؟؟

بہتے آنسوؤں میں سوچتے ہوئے فی الوقت اسکا ان دونوں کے پیچھے جانا محال ترین ہوا تھا۔

”کالر چھوڑیں بھائی۔۔۔۔۔میں کہتا ہوں چھوڑیں مجھے۔۔آخر یہ کیا جاہلانہ پن ہے۔۔۔؟؟“  تواتر سے سیڑھیاں اترتے عائل کے سنگ درشتگی سے کھینچے چلے جانے پر۔۔۔۔ غصے سے چلا کر بولتے ہوئے اسکی نسیں ابھر آئی تھیں۔

مگر وہ کسی بھی بات پر کان دھرے بنا ہی اسے پلوں میں ہال کے بیچ لاکر دھکیل چکا تھا۔

نتیجتاً لڑکھڑا کرگرنے سے پہلے ہی وہ خود کو بروقت سنبھالتا سیدھا کھڑا ہوا۔پھر اپنی بیلیو شرٹ کا کالر جھٹک کر صحیح کرتے۔۔۔تندہی سے مقابل کھڑئے عائل کی جانب دیکھا۔

”وہ ڈرامے باز عورت۔۔انتہا کی بدتمیزی کرنے کے بعد بلاوجہ مجھ پر ہاتھ اٹھانے والی تھی۔۔۔اسی لیے۔۔۔اسی لیے صحیح غلط کا فرق جانے بغیر غصے میں جوسمجھ آیا میں نے وہ کیا۔۔۔تو۔۔۔؟؟؟کیا غلط کیا۔۔۔؟؟ہہمم۔۔۔۔؟؟؟“ بے اختیار دو قدم چل کر قریب آتے ہوئے دہاڑ کر پوچھتا۔۔۔ وہ اپنے کمرے میں موجود عائمہ بیگم سمیت حسن صاحب کو حیرت سے باہر نکلنے پر مجبور کرچکا تھا۔

”تم نے صرف غلط نہیں۔۔۔بلکہ گناہ کیا ہے گناہ۔۔جس کا اعتراف میں خود ابھی کچھ دیر پہلے تمھاری اس غلیظ زبان سے سن چکا ہوں۔۔۔۔حرمین کی خودکشی کے حقیقی ذمےدار تمہی تھے ناں شاہ میرحسن۔۔۔۔؟؟“  عائل  ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا تو شام اسکے یوں مکمل اعتماد سے گویا ہونے پر بےاختیار تھمتا۔۔۔اسے دیکھ کر رہ گیا۔

”یہ سب ہو کیا رہا ہے یہاں۔۔۔؟؟کیوں بلاوجہ کا ہنگامہ مچا رکھا ہے تم دونوں نے اس وقت۔۔۔۔؟؟“ وہیں کھڑی عائمہ بیگم نے ہڑبڑا کر آگے بڑھتے ہوئے بات سنبھالنا چاہی۔۔۔جبکہ ان سب حقیقتوں سے ہنوز انجان حسن صاحب پیشانی پر بل سجائے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کررہے تھے۔

 راشدہ اپنا تمام تر کام نپٹا کر بہت پہلے ہی جاچکی تھی۔

”جھوٹ ہے یہ سب۔۔۔خدا کی قسم اٹھا کر بول رہا ہوں بھائی سراسر جھوٹ ہے یہ۔۔۔بےبنیاد الزام لگایا جارہا ہے مجھ پر۔۔۔حرمین زہرا۔۔یا اسکے کسی بھی ایک معاملے سے دور دور تک میرا کوئی واسطہ نہیں ہے۔۔۔یقین کریں یار۔۔۔وہ گھٹیا۔۔پاگل عورت صرف اور صرف مجھے پھنسانا چاہ رہی ہے تاکہ سب کی نظروں میں میری ذات کو برا بنا سکے۔۔۔۔۔“  بےاختیار ایک محتاط نگاہ  پشت پر کھڑے باپ پر ڈالتا وہ شدت سے انکاری ہوا۔۔۔تو جہاں عائمہ بیگم نے تنبیہی نظروں سے گھور کر عائل کی جانب دیکھا۔۔۔وہیں ہنوز خاموش کھڑے حسن صاحب کافی حد تک معاملہ سمجھتے اب کہ پریشانی و غصے کی لپیٹ میں آچکے تھے۔

تو گویا ان کا بیٹا اپنے ہی ہاتھوں سے۔۔۔خود کے لیے ایک بڑے خسارے کا چناؤ کرچکا تھا۔۔۔؟؟

عائل کا دماغ اسکے صاف صاف جھوٹ پر مزید سنسنا اٹھا۔

”بکواس بند کرو تم اپنی۔۔۔۔اب مزید جھوٹ بولنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے شام۔۔۔ کیونکہ افروز لندن جانے سے پہلے مجھے تمھاری ساری حقیقت بتا گیا ہے۔۔۔یہاں تک کہ میرے پاس تمھاری سیاہ کاریوں کا ثبوت بھی موجود ہے۔۔۔۔“  کرخت لہجے میں کہتے ساتھ ہی عائل نے جینز کی جیب سے اپنا موبائل فون کھینچ کر باہر نکالا۔۔۔

تو ”افروز“ کے نام پر بری طرح چونکتے شام نے بے چینی سے سرخ ہوتے چہرے پر ہاتھ پھیرا تھا۔۔۔

جانے اب یہ سالا افروز اپنی دشمنی نکالنے کو اسکے خلاف کونسا نیا ثبوت دیکھا چکا تھا عائل کو۔۔۔۔؟؟؟ 

”حیرت ہورہی ہے مجھے جوتم بیوی کی جھوٹی باتوں پر یقین کرتے ہوئے اپنے سگے بھائی کو موردِ الزام ٹھہرارہے ہو۔۔۔یہ سب کچھ اس منحوس لڑکی کا کیا دھرا ہے۔۔۔۔اپنے فسادی ذہن کے سبب محبت سکون سے رہنے والے دو سگے بھائیوں کو آپس میں بھڑوادیا اس بدبخت نے۔۔۔آخر کو دفع کیوں نہیں ہوجاتی یہ ہماری زندگیوں سے۔۔ہاں۔۔؟؟“  معاً عائمہ بیگم نے عائل کی جانب دیکھتے ہوئے حاویہ کی بابت کھل کر اپنی بھڑاس نکالی تھی۔۔جس پر شام نے فوری تائیدی انداز میں سرہلایا۔

 ”ان تصاویر کو دیکھ کر یہاں موجود ہرکسی کو معلوم ہوجائے گا کہ میری بیوی کسی بھی لحاظ سے قصوروار نہیں ہے۔۔۔“  سرد لہجے میں کہتے ہوئے بےاختیار عائل نےاپنے موبائل کی چمکتی سکرین انکی نگاہوں کے سامنے کی تھی۔

سلائیڈنگ موڈ پر رکھی گئی تصاویر ایک ایک کرکے۔۔بارہا سامنے آتی جہاں سیاہ حقیقتیں آشکار کرتی چلی جارہی تھیں۔۔۔وہیں خود کو حرمین زہرا کے ساتھ قدرے نازیبا حالت میں دیکھ۔۔۔ساکت پڑتے شام کو شدید حیرت کا جھٹکا لگا۔

وہ تو یہ سب بیہودہ مواد کب کا ڈیلیٹ کرچکا تھا تو پھر یہ۔۔۔

یہ سب۔۔۔کیسے۔۔۔؟؟؟

”ی۔۔یہ۔۔یہ کیا۔۔۔؟؟کیابکواس ہے یہ۔۔۔؟؟جھوٹ ہے سب۔۔۔سازش۔۔ہاں سازش رچی گئی ہے میرے خلاف۔۔۔اٹس آل فیک۔۔۔۔“  ساکت نگاہیں سکرین سے ہٹاکر عائل کے تنے نقوش دیکھتا وہ ناچاہتے ہوئے بھی شدت سے ہکلاگیا تھا۔۔۔

جہاں ٹھیک پیچھے کھڑے حسن صاحب نے سختی سے مٹھیاں بھینچی تھیں۔۔۔وہیں اسکی اس قدر ڈھٹائی پر عائل کا ضبط پوری طرح سے جواب دے گیا۔

معاً اسکے شام کو واپس گریبان سے دبوچنے پر قریب حیران کھڑی عائمہ بیگم کے دل کو ہاتھ پڑا تھا۔

”پولیس والا ہوں۔۔۔بچہ نہیں جو سچ دیکھ کر بھی پہچان نہ پاؤں۔۔۔لفظ نفرت بھی تمھاری ان سب بد عمالیوں کے آگے بہت چھوٹا پڑرہا ہے جو تم نے صرف اور صرف اپنی عیاشیوں کے لیے سر انجام دیں۔۔۔اور افسوس تو اس بات کا ہے کہ حرمین زہرا کے مجرم ہوتے ہوئے بھی تمھیں اپنے جرم کا رتی بھر بھی کوئی ملال نہیں ہے۔۔کوئی احساس نہیں ہے۔۔۔“  اسے جھنجھوڑ کر بولتے ہوئے عائل کی نگاہوں کی سرخی مزید گہری ہوئی۔۔۔تو اس بار اپنی برداشت کھوتے شام نے بھی درشتگی سے اسکے ہاتھ پرے جھٹکے۔وجود میں شرارے سے بھرنے لگے تھے۔

”ہاں تو۔۔۔؟؟کیا میں نے حرمین زہرا کی عزت کو نیلام۔۔۔سب کے سامنے مجھے تھپڑ مارنے۔۔۔اور پھر میرے منہ پر تھوکنے کی سزا میں۔۔۔کی میں نے اسکی نازیبا ویڈیو دنیا بھر میں وائرل۔۔۔تو کیا۔۔۔؟؟ہاں۔۔۔؟؟

نہ کرتی وہ یہ سب۔۔۔۔نہ کرتی خودکشی۔۔۔گزار لیتی بدنامی بھری زندگی۔۔۔میں نے زبردستی ہاتھ پکڑ کے تو اسے مجبور نہیں کیا تھا ناں خوکشی کرنے کے لیے۔۔۔۔۔“  اسکے ایکدم سے بگڑتے تیور۔۔۔اور جذباتی ہوکر پورے دھڑلے سے کیا جانے والا اطرافِ جرم ناقابلِ برداشت ہی تو تھا۔

”شاااام۔۔۔۔۔۔“  نفرت کی انتہا کو پہنچتے عائل کا ہاتھ بےاختیار مضبوط مٹھی کی صورت تیزی سے اسکے چہرے کی طرف آیا تھا جب۔۔اگلے ہی پل شام اسکی مٹھی کو بروقت اپنی سخت گرفت میں دبوچ گیا۔

پھر اسکی جانب دیکھتے ہوئے دھیرے سے نفی میں سر ہلایا۔

”دوبارہ ہاتھ مت اٹھانا مجھ پر اے۔پی عائل حسن۔۔۔ہاتھ مت اٹھانا ورنہ میں خود کو بدتمیزیوں پر اترنے سے روک نہیں پاؤں گا۔۔۔برداشت کی حد اب مکمل ختم ہوچکی ہے مجھ میں۔۔۔گوٹ اٹ۔۔۔۔“   اس کا ہاتھ پوری قوت سے پرے دھکیلتا وہ قدرے بدلحاظی سے گویا ہوا۔۔۔تو ایک قدم پیچھے ہٹتے عائل کا دل۔۔۔اسکے اس دل برداشتہ روپ کو پل بھر کی حیرت سے دیکھتے ہوئے۔۔ تکلیف پھڑپھڑایا۔

معاً حسن صاحب نے آگے بڑھ کر شام کو کندھے سے پکڑ کر اپنی جانب گھومایا۔۔۔پھر الٹے ہاتھ کا زناٹے دار تھپڑ اسکی گال پر دے مارا۔

”چٹاااااخ۔۔۔۔۔۔۔“  گہری آواز پورے لاؤنج میں بکھرتی چلی گئی تھی۔۔جبکہ وہ اس غیر متوقع حملے پر گہرے سانس بھرتا شفاف زمین کو گھورنے لگا۔

دوسری بار گال کے تپنے پر اسکی عزتِ نفس پر گہرا وار ہی تو کیا گیا تھا۔

مٹھیاں بھینچ کر انگارہ ہوتی نگاہوں سے اس نے اپنے باپ کی جانب دیکھا جو سخت چتونوں سے اسی کے لال چہرے کو گھور رہے تھے۔

حیرت سے لبوں پر ہاتھ جماتی عائمہ بیگم کی آنکھیں بھیگتی چلی گئی تھیں۔

”میراتمھیں ساری زندگی لاڈ پیار نہ کرنے کا یہ نتیجہ ہے۔۔۔اگرکرتا تو پھر۔۔۔تو تم نے کھلے عام آفتیں ڈھانی تھیں۔۔۔آفتیں۔۔۔۔“ وہ پھنکار کر بول رہے تھے۔

جواباً شام  نے نم پڑتی آنکھوں کے ساتھ تاسف سے سر ہلایا۔

”مجھے آپکے لاڈ پیار کی کبھی ضرورت تھی بھی نہیں ڈیڈ۔۔۔۔اور نہ ہی کبھی محسوس ہوئی۔۔۔۔“  جلتے گال کو انگلیوں سے مسلتے ہوئے وہ برجستہ بولا تو حسن صاحب کے ماتھے پر بل پڑتے چلے گئے۔۔

اسکی بڑھتی بدتمیزیوں پر عائل نے ضبط سے بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا۔

”بکواس بند کرو اپنی۔۔۔۔سیاہ کار تو تم بن ہی چکے ہو۔۔۔اب مزید تباہ کار بننے سے بہتر ہے کہ نکل جاؤ۔۔۔۔

میری نظروں سے۔۔۔اس گھر سے۔۔۔اور۔۔۔اس شہر سے دور۔۔۔بہت دور۔۔۔کہ اب تمھارا یہ وجود مجھے مزید اپنی نگاہوں کے سامنے ہرگز برداشت نہیں ہے۔۔۔اسی لیے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تم کل صبح ہی پنڈی نکل جاؤ گے۔۔۔اور وہاں موجود بزنس کو میرے قابلِ اعتمار منیجر کے ساتھ مل کرسنبھالو گے۔۔۔سنا تم نے۔۔۔۔“   پشت پر ہاتھ باندھ کر قدرے غصے سے بولتے۔۔وہ شام کو اپنے لفظوں سے حیران ہی تو کرگئے تھے۔

وہ جانتے تھے۔۔۔کہ بزنس جیسے معاملات سے وہ حددرجہ خار کھاتا تھا۔۔۔پر پھر بھی وہ اس پر زبردستی اپنا فیصلہ تھوپ رہے تھے۔

”یہ۔۔۔یہ کیا بات کر رہے ہیں آپ حسن۔۔۔۔؟؟نہیں۔۔میرا بیٹا کہیں نہیں جائے گا۔۔۔۔سنا آپ نے۔۔۔کہیں بھی نہیں۔۔۔۔۔“  عائمہ بیگم ان کے قطیعت بھرے لہجے کو سنتی تڑپ کر سامنے آئی تھیں۔۔۔

پر حسن صاحب کو کوئی پرواہ تھی ہی کب۔۔۔

”میں بھی آپکے فیصلے سے مطمئن نہیں ہوں ڈیڈ۔۔۔۔“  عائل سرد لہجے میں گویا ہوا تو جہاں دونوں نے چونک کر اس کی جانب دیکھا۔۔۔وہیں شام نے سختی سے اپنی آنکھوں کو مسلا۔۔۔

”گواہ موجود ہیں۔۔۔ثبوت بھی مل چکا ہے۔۔۔۔اعتراف جرم بھی کرلیا گیا ہے۔۔۔اب دیری ہے تو بس مجرم کو سلاخوں کے پیچھے پھینکنے کی۔۔۔۔یہ اس گھر سے جائے گا ضرور۔۔۔پر پنڈی آپکا بزنس سنبھالنے نہیں۔۔۔بلکہ پولیس اسٹیشن اپنے جرم کی سزا کاٹنے۔۔۔۔۔۔۔“  اسکے لبوں سے نکلتے الفاظ شام کی سماعتوں سے صاف ٹکراتے اسے شدید طیش دلاگئے تھے۔۔۔جبھی  تندہی سے پلٹتا وہ اسکے مقابل آیا۔

”اتنی اوقات نہیں تمھاری کہ مجھے۔۔۔شاہ میر حسن کو اپنے دوٹکے کے ۔۔۔حوالات کی سیر کروا سکو۔۔۔۔آگ لگا کے رکھ دوں گا تمھارے ارادوں سمیت سارے کے سارے پولیس اسٹیشن کو۔۔۔۔“  عائل کے سینے پر شہادت کی انگلی رکھتے ہوئے  پھنکار کر بولتا۔۔۔وہ اسے صاف چیلنج کرنے پر اتر آیا تھا۔

”ایسا کیا۔۔۔۔؟؟؟چلو پھر دیکھ لیتے ہیں۔۔۔۔“  سر ہلا کر کہتے ہوئے بےاختیار عائل نے قدرے سختی سے شام کو گردن کی پشت سے پکڑ کر۔۔۔اپنے ساتھ چلنے پر مجبور کیا۔۔۔تو انھیں ڈپٹ کر پکارتے دونوں کا دل کٹنے لگا۔ 

معاً شام نے پلوں میں پوری قوت لگا کر خود کو چھڑوایا۔پھر عائل کے سینے پر ہاتھ جماتے ہوئے اسے خود سے پیچھے دھکا دیا۔

”عائل۔۔۔ہوش میں آؤ اپنے۔۔۔میں تمھارے ان قانونی فرضوں کے چکروں میں سوسائٹی کے سامنے اپنی عزت کی دھچیاں بکھیرنے کا روادار ہرگز نہیں ہوسکتا۔۔جان لو یہ بات اچھے سے۔۔۔“  اب کی بار پھرتی سے ان دونوں کے بیچ آتے حسن صاحب نے تڑخ کر کہا تو گہرے سانس لیتے عائل نے نفی میں سر ہلایا۔

”اور میں انصاف پر ذاتی رشتوں کو ترجیح دینے کا روادار نہیں ہوسکتا ہے۔۔۔“  دوبدو جواب دیتے اس نے سیاہ کف اوپر کھینچے تو حسن صاحب نے سرزنش کرتی نگاہوں سے اسکی جانب دیکھا۔

اس دوران عائمہ بیگم نے آگے بڑھ کر شام کے کندھے پر تفکر سے ہاتھ پھیرا تھا۔

”عائل حسن۔۔۔۔اگر جو تم اپنے اس جذباتی ارادے سے باز نہیں آئے تو پھر حاویہ فیضان کو ابھی اور اسی وقت طلاق دینا ہوگی تمھیں۔۔۔لیکن اگر یہ بھی نہ کرسکے تو خدا قسم پھر میرا مرا ہوا منہ دیکھو گے تم۔۔۔۔“  انگلی اٹھا کر مضبوط لہجے میں بولتے وہ حیران ہوتے عائل کو حقیقی اذیت سے آشنا ہی تو کروا گئے تھے۔۔۔جبکہ اپنے باپ کو یوں اپنے حق میں پینترا بدلتے دیکھ شام نے لاپرواہی سے سر جھٹکا۔

”ایسی قسم کھاکر آپ بہت ذیادتی کررہے ڈیڈ۔۔۔بہت ہی ذیادہ۔۔۔۔“  اسکا دھیما پڑتا لہجہ ناچاہتے ہوئے بھی اس پل مات کھارہا تھا۔۔

وہ حقیقتاً ایک مجرم کے لیے دور اندیشی سے کام لے گئے تھے۔۔

”فی الحال تو میرے نزدیک سنگین حالات کو بہتر کرنے کا بس ایک یہی تقاضا باقی رہ گیا ہے۔۔۔جسے ہر صورت تمھیں ماننا پڑے گا۔۔۔اور تم۔۔۔۔“   کہتے ہوئے وہ اگلے ہی پل شام کی جانب پلٹے۔۔تو ان کے یوں مخاطب کرنے پر۔۔۔شام نے عائل کے پھیکے پڑتے نقوش سے نگاہیں پھیر کر ان کے تنے نقوش دیکھے۔

”دفع ہو جاؤ ابھی کہ ابھی یہاں سے۔۔۔اور یہی کوشش کرنا۔۔۔ کہ اپنا یہ چہرہ دوبارہ ہمیں مت دکھانا۔۔۔۔ناؤ جسٹ گیٹ آؤٹ۔۔۔۔“  پھنکار کر بولتے وہ آخر میں باہر کی طرف اشارہ کرتے دہاڑے۔

عائمہ بیگم نے آنسو صاف کرتے ہوئے ملتجی نگاہوں سے انکی جانب دیکھتے نفی میں سر ہلایا تھا۔

معاً شام شدتِ ضبط سے لب بھینچ کر ایک قدم اٹھاتا حسن صاحب کے قریب ہوا۔

”یہ میرا اپنا گھر ہے۔۔۔اور میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گا۔۔مطلب کہیں نہیں۔۔۔۔۔“  وہ ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا تھا۔

اس دوران مٹھیاں بھینچ کر شفاف زمین کو گھورتے عائل نے پلکیں جھپکا جھپکا کر ابھرتی نمی کو اندر دھکیلا تھا۔

”تو پھر میں بھی عائل حسن کو اس کے ارادے سے مزید نہیں روک پاؤں گا۔۔۔۔“  اسکی صاف ڈھٹائی پر بل کھاتے۔۔ حسن صاحب نے دوبدو جواب دیا تو اسکی آنکھوں میں تاسف سمٹ آیا۔

”بیگانوں کے رویے جو یکایک بیگانے ہوجائیں تو اتنا فرق نہیں پڑتا۔۔۔

مگر اپنوں کے رویوں کا سلگتا بدلاؤ آگ لگانے کو کافی ہوتا ہے۔۔۔۔۔“  شہادت کی انگلی اٹھاکر بولتے ہوئے اسکا دل شدتِ تکلیف سے پھڑپھڑایا تھا۔

”آؤٹ۔۔۔۔۔“  یک لفظی جواب دیتے وہ شدت سے اسے توہین محسوس کرواگئے تھے۔

”یاد رکھوں گا۔۔۔ہمیشہ یاد رکھوں گا یہ بے عزتی جو میرے اپنوں کے ہی ہاتھوں۔۔میری کی گئی ہے۔۔۔بھولوں گا نہیں اتنی آسانی سے۔۔اور نہ ہی بھولنے دوں گا۔۔۔۔“  گہرے سانسوں کے بیچ سختی سے انھیں باور کرواتا وہ  مزید وہاں رکا نہیں تھا۔۔بلکہ وہاں لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔۔

عائل ایک شکستہ نگاہ حسن صاحب کے بےتاثر چہرے پر ڈال کر سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا۔۔۔تو خود کو سنبھال کر مقابل آتی  عائمہ بیگم۔۔۔حسن صاحب سے صاف منتیں۔۔شکوے کرنے پر آئی تھیں۔۔جب اگلے ہی پل سماعتوں سے ٹکراتی توڑ پھوڑ کی آواز پر وہ تیزی سے شام کے کمرے کی طرف لپکیں۔پیچھے حسن صاحب تکلیف سے آنکھیں میچ گئے۔

*********************

”حاویہ۔۔۔۔؟؟؟“  وہ پلنگ کی پائنتی سے سر ٹکائے۔۔آنکھیں موندے ہوئے دبیز قالین پر بیٹھی تھی۔۔۔جب سماعتوں سے ٹکراتی بھاری آواز پر اس نے چونک کر آنکھیں کھولیں۔پھر اسکی جانب دیکھتی جھٹکے سے اٹھی۔

وہ ہنوز یونیفارم میں تھا۔

”ع۔۔عائل۔۔۔اب تو آپ۔۔آپ جان چکے ہیں ناں۔۔۔؟؟میں جھوٹ نہیں بولتی تھی۔۔۔جان چکے ہیں ناں۔۔؟؟کہ شاہ میر حسن ہی میری بہن کا مجرم ہے۔۔۔ہے ناں۔۔۔؟؟“  قریب آکر اس کے سینے پر نازک ہتھلیاں جماتی وہ ہلکان ہورہی تھی۔

خود کی نگاہوں کی بھیگتی سرخی۔۔۔عائل کا ضبط پل پل توڑنے لگی۔

”جان چکا ہوں۔۔۔۔“  اسکے نم چہرے کو نرمی سے تھام کر اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اس کے لب بڑی آہستگی سے ہلے تھے۔

جواباً دھندلائی نگاہوں سے اسکے نقوش دیکھتی وہ بے اختیار مسکرائی۔

”تو۔۔تو پھر آپ نے اسے سزا دی۔۔؟؟ہاں۔۔۔؟؟؟“  اسکے ہاتھوں کی پشت پر دھیرے سے اپنے ہاتھ دھرتی وہ بڑے مان سے پوچھ رہی تھی۔

اس سوال پر عائل کا دل ڈوب کر ابھرا۔

”حاویہ میں۔۔۔۔۔“  وہ بےختیار اٹکا۔۔تو ہنوز اسکی سیاہ آنکھوں میں جھانکتی حاویہ نے دھیرے سے پلکیں جھپکائیں۔

”تمھارا اے۔ایس۔پی ناچاہتے ہوئے بھی حالاتوں کے آگے ہار گیا ہے۔۔۔رشتوں نے ڈنکے کی چوٹ پر مجھے مات دی ہے۔۔۔اگر بخوشی شام کو اسکے کیے کی سزا دے دیتا تو بدلے میں تمھیں چھوڑنے کا دکھ مجھے مار دیتا۔۔۔تمھیں نہ چھوڑتا تو ڈیڈ کی کھائی قسم انھیں جینے نہیں دیتی۔۔۔میں ہرلحاظ سے ہار گیا ہوں حاویہ۔۔ہر طرح سے۔۔۔۔“  اسکے گالوں پر لڑھکتے آنسوؤں کو انگوٹھوں تلے صاف کرتا وہ قدرے اذیت سے بول رہا تھا۔۔جب یک دم اسے اپنے سامنے نڈھال سا گھٹنوں کے بل گرتا دیکھ حاویہ شدت سے بے چین ہوئی۔

وہ اسکے سامنے آکر صحیح معنوں میں بکھرچکا تھا۔

اسکی باتوں کی گہرائی سمجھتی وہ بھی اگلے ہی پل دکھتے دل کے ساتھ اسکے مقابل۔۔۔قریب ہوکر بیٹھی تھی۔

”تو کیا پھر قصوروار ہوتے ہوئے بھی وہ یونہی ہماری نظروں کے سامنے آزاد دندناتا پھرے گا۔۔۔۔؟؟؟“  تکلیف سے پوچھتی وہ اسکے رخسار پر آہستگی سے لڑھکتے آنسو کو اپنی نرم پور پر چُن گئی۔

وہ جان چکی تھی کہ۔۔مقابل کو جانتے بوجھتے انتہا کا بے بس کیا گیا تھا۔۔۔اور یہی بے بسی اسکے اندر بری طرح کھل رہی تھی۔

اسکے نرم لمس کو محسوس کرتے ہوئے عائل کا دل دھڑکا۔

”ڈیڈ نے اسے۔۔۔اس گھر اور۔۔۔اس شہر کو چھوڑ جانے کا بول دیا ہے۔۔۔اب سے وہ ہمارے ساتھ یہاں نہیں رہے گا۔۔۔مگر کب تک کے لیے۔۔؟؟نہیں جانتا۔۔۔“  کہتے ہوئے زخمی مسکراہٹ نے شدت سے اسکے لبوں کا احاطہ کیا۔

حاویہ بھیگی خاموش نگاہوں سے۔۔اسکا ضبط سے سرخ  پڑتا چہرہ دیکھ رہی تھی۔

 کل تک اپنے بھائی کے خلاف ایک لفظ نہ سننے والا آج اسکے حق میں اکیلا اس سے لڑ گیا تھا۔

گو کہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے تھے۔۔۔پر اسکے باوجود بھی دل میں دھیرے سے ایک سکون پنپ رہا تھا۔۔۔

شاہ میر کی کھوکھلی شرافت کا بھید اسکے گھر والوں پر کھل چکا تھا۔۔۔

اسکا شوہر اسکے ساتھ تھا۔۔۔

اور تو اور۔۔۔اب وہ مجرم تمام تر ذلالت کے ساتھ اپنوں سے دور ہورہا تھا۔۔۔

”گنہگار کی رسی دراز ہوسکتی ہے۔۔۔پر بداعمالیوں کا خمیازہ بھگتنے سے خلاصی ہرگز نہیں ہوسکتی۔۔۔۔اس سب کے باوجود بھی مجھے شدت سے اس دن کا انتظار رہے گا جب شاہ میر حسن اپنے کیے کی سزا پائے گا۔۔۔۔“  بڑے ضبط  سے بھیگتے لہجے میں بولتی وہ اسکے ہاتھوں کو نرمی سے تھام چکی تھی۔

عائل نے نم آنکھوں سے اسکی جانب دیکھا۔

”آج میں اس قدر ٹوٹ چکا ہوں۔۔اس قدر بکھر چکا ہوں کہ تمھیں تسلی کے دو بول بولنے کے لیے۔۔فی الوقت میرے پاس سارے الفاظ ختم ہوچکے ہیں۔۔۔پشیمان ہو۔۔۔تمھارے سامنے حد سے ذیادہ پشیمان ہوں میں۔۔۔“  بھیگے لہجے میں بولتا وہ ضبط کھوتے ہوئے اگلے ہی پل اسکی گود میں سر رکھتا۔۔۔اسکا دل شدتوں سے دھڑکا گیا تھا۔

”یاد ہے ایک بار تم نے کہا تھا کہ جب۔۔۔تم پر یہ تلخ حقیقتیں کھلیں گی تو اس دن تم سے پوچھوں گی۔۔۔اب دیکھو ناں۔۔۔ان حقیقتوں نے مجھے ہرلحاظ سے توڑ دیا ہے۔۔۔بکھیر دیا ہے۔۔۔پورے قد سے گرا دیا ہے۔۔۔۔۔“  وہ مزید گویا ہوا تو جواباً اسکے بالوں میں آہستگی سے انگلیاں پھیرتی۔۔۔حاویہ کے آنسو ٹوٹ کر اسکے بالوں میں گم ہوئے۔

”میں ہوں ناں۔۔۔آپکو سمیٹ لوں گی۔۔۔۔“  وہ دھیرے سے بولی تو  اسکی بات سن کر عائل چہرے کا رخ موڑتا اسکے سانولے نقوش  تکنے لگا۔آنسو ٹوٹ کر کنپٹیوں پر پھسلے تھے۔

”تمھیں اب تک مجھ سے نفرت نہیں ہوئی۔۔؟؟جو اب سمیٹنے کی بات کررہی ہو۔۔۔۔۔“  وہ قدرے حیرت سے پوچھ رہا تھا۔

”ہر گز نہیں۔۔۔۔“ وہ اطمینان سے بولتی اسے بےچین ہی تو کرگئی تھی۔  

”مطلب۔۔۔محبت کرتی ہو مجھ سے۔۔۔۔؟؟؟“  بھوری آنکھوں میں شدت سے جھانکتے ایک اور سوال داغا۔

حاویہ کے دل کی دھڑکنوں میں تیزی در آئی۔

”بتاؤ۔۔۔۔؟؟؟“  اسکا ہاتھ تھام کر سینے پر دھرتا وہ اسکی خاموشی پر پھر سے گویا ہوا۔

”ہ۔۔ہاں۔۔۔۔۔“  لبوں پر زبان پھیرتی وہ نگاہیں جھکائے۔۔۔ہولے سے جنبش دے گئی تھی۔۔

کبھی سوچا نہ تھا کہ اعترافِ محبت یوں ہوگا۔

اب کہ نرم ہتھیلی تلے عائل حسن کی دھڑکنیں بھی تیزی پکڑ چکی تھیں۔

”صد افسوس کہ میں تمھیں چاہ کر بھی سمیٹ نہیں سکا تھا۔۔۔۔پر کیا تم میں اتنا حوصلہ ہے کہ اس پل مجھے سمیٹ سکو۔۔۔۔؟؟؟“  اسکی گالوں پر پھیلتی سرخی کو بغور دیکھتا وہ اب کی بار اسے بھی بے چین کرگیا تھا۔

”آ۔۔آپ اس پل کیا چاہ رہے ہیں عائل۔۔۔۔؟؟؟“  اگلے ہی پل۔۔۔اسے اٹھ کر مزید قریب ہوتا دیکھ وہ صاف ہکلائی تھی۔

”تمھارے کہے کے مطابق اس پل شدت سے خود کو تمھارے ہاتھوں سمیٹنا چاہ رہا ہوں۔۔۔۔“  بھاری ہوتے لہجے میں اسے باور کرواتا  وہ پورے حق سے اسکی عرق آلود ہوتی پیشانی پر سلگتا لمس چھوڑگیا۔۔۔تو شور مچاتی دھڑکنوں کے سنگ حاویہ کا تنفس بکھرتا چلا گیا۔۔۔

”خود سمٹنے کے بعد اگر میری ذات کو بکھیر دیا تو۔۔۔۔؟؟؟“  نم آنکھوں سے اسے رکنے کو۔۔۔مضبوط سینے پر ہاتھ جماتی جانے کیوں وہ پوچھ گئی تھی۔

”ایک بار غلطی کرچکا ہوں۔۔۔اب مزید خسارے اٹھانے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔۔۔۔۔“  نرمی سے کہتا وہ حاویہ کو بھیگی پلکیں جھکا کر مسکرانے پر ہو تو مجبور کرگیا تھا۔

دونوں کے درمیان شاہ میر نامی جو ایک گہری خلش پنپتی ان میں فاصلے بڑھائے ہوئے تھی۔۔۔شاید اب وہ کافی حد تک صاف ہوچکی تھی۔۔۔ 

کچھ محبت کے بھڑکتے جذبات تھے۔۔تو  کچھ وقت کا تقاضا بھی۔۔۔

جبھی۔۔جبھی وہ اسکے ساتھ ساتھ خود کو بھی ان بہکتے لمحوں میں بےخود ہونے سے روک نہیں پائی تھی۔۔۔مزید کوئی مزاحمت نہیں کرپائی تھی۔

اگلے ہی پل جہاں عائل حسن اپنے لفظوں کے برعکس خود سمٹنے کی بجائے۔۔۔ اسکا لرزتا وجود خود میں سمیٹتا سکون سے آنکھیں موند گیا تھا۔۔۔وہیں گداز ہواؤں کے رقص سے لطف لیتی سیاہ رات۔۔۔ پل پل  گہری ہوتی چلی گئی۔۔۔۔

******************

کندھے پر پڑی مردانہ چادر جھٹک کر درست کرتا۔۔۔وہ جیسے ہی لاؤنج میں داخل ہوا۔۔۔تو صوفے کے ایک طرف اطمینان سے براجمان خنساء بیگم اسے اپنی طرف آتا دیکھ۔۔۔بےنیازی سے نگاہیں پھیر گئیں۔

برہمی جتانے کا عام سا انداز تھا۔۔۔جو جانے وہ کتنے ہی دنوں سے دیکھتا آرہا تھا۔

”سب خیریت اماں حضور۔۔۔۔؟؟؟یہ لوگ یہاں کس مقصد سے آئے تھے۔۔۔؟؟حالانکہ میری ان کے بیٹے سے کچھ واقفیت بھی ہے مگر خاندان کے ہمراہ اس طرح حویلی تک چلے آنا۔۔کچھ خاص سمجھ میں نہیں آیا میری۔۔۔۔۔۔۔“  بلاجھجھک انھیں مخاطب کرتا۔۔۔وہ کچھ ہی لمحے پہلے حویلی سے باہر نکلتے ان لوگوں کی بابت جاننا چاہ رہا تھا۔۔۔جن سے وہ خوش اخلاقاً سلام دعا کرکے آیا تھا۔

”درحقیقت۔۔راحیلہ بہن ہماری پرانی دوست ہیں۔۔۔ادھر بھی ہمارے کہنے پر ہی آئی تھیں۔۔۔مزید یہ کہ۔۔۔۔“  اسے مقابل صوفے پر بیٹھتا دیکھ وہ بےتاثر لہجے میں بتاتی ہوئی بےساختہ رکیں۔

”کہ۔۔۔۔؟؟“  اطمینان سے ان کی بات سنتا وہ ان کے یوں اٹکنے پر کچھ الجھا۔

”یہ کہ۔۔۔ہم نے راحیلہ بہن سے انکے بیٹے کو لے کر حلیمہ کے نکاح کی بات چلائی ہے۔۔۔اور وہ کافی حد تک رضامند بھی ہیں۔۔۔بس تمھیں اسے طلاق دینا ہوگی۔۔۔پھر سارا معاملہ سیدھا سیدھا ہے۔۔۔“  کچھ جھجک کر رکھائی سے بولتی وہ اسکے سر دھماکہ ہی تو کرگئی تھیں۔

پل میں بات کی گہرائی سمجھتا وہ ایک جھٹکے اسے اٹھا۔

”کیا مطلب ہے اس بات کا۔۔۔۔؟؟؟اماں حضور۔۔؟؟شاید آپ کو اس پل بالکل بھی اندازہ نہیں ہورہا۔۔۔پرآپ میرے سامنے۔۔۔میری ہی بیوی کے نکاح کی بات کررہی ہیں۔۔۔وہ بھی کسی پرائے مرد کے حوالے سے۔۔۔ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہیں آپ۔۔۔۔؟؟“ وہ بڑے ضبط سے ٹھہر ٹھہر کر بول رہا تھا۔اسکے تیوروں پر خنساء بیگم نے صاف تیوری چڑھائی۔

”بیوی۔۔۔؟؟؟ہونہہ۔۔۔سوچ سمجھ کر لفظوں کا چناؤ کرو برخوردار۔۔۔تم نے اس لڑکی کو کبھی بھی اپنی بیوی نہیں مانا۔۔۔اور رہی بات اندازے کی تو ہم تم سے کہیں ذیادہ تجربےکار ہیں۔۔۔۔مزید یہ بھی جانتے ہیں کہ اس بار رتبے میں نہ سہی۔۔۔مگر شخصیت کے لحاظ سے اسکی زندگی میں ایک بہترین مرد آئے گا۔۔۔جو کم از کم تمھاری طرح اسے قدر اور محبتوں سے محروم تو نہیں رکھے گا۔۔۔۔۔“ وہ اس پر صاف۔۔۔صاف طنز کے تیر گہرے وار کرتی چلی جا رہی تھیں۔

حلیمہ کی دن بدن پھیکی پڑتی حالت۔۔۔اور سالار خان کی ہنوز لاپرواہی نے انھیں یہ قطیعت بھرا فیصلہ کروانے پر مجبور کردیا تھا۔

اور پھر حلیمہ نے خود بھی تو اس رات ان سے ہاتھ جوڑ کر صاف صاف کہہ دیا تھا ۔۔۔کہ اگر وہ اس قدر۔۔۔ناقدری کے بعد سالار خان کے ساتھ ایک ہی چھت تلے رہے گی تو گھٹ گھٹ کر مرجائے گی۔۔

سالار خان نے بےاختیار گہرا سانس بھرتے منہ پر ہاتھ پھیرا۔

”خدا کا واسطہ ہے اماں حضور۔۔۔خدا کا واسطہ ہے۔۔۔بس کردیجیے اب۔۔۔میری برداشت کی حدوں کو مزید آمازنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے آپکو۔۔۔اب اگر ان لوگوں میں سے کوئی ایک بھی اس گھٹیا ارادے کے ساتھ دوبارہ یہاں آیا۔۔۔تو مجھ سے برا کوئی بھی نہیں ہوگا۔۔۔یاد رکھیے گا۔۔۔۔۔“  ہاتھ جوڑ کر درشتگی سے بولتا جانے کیوں وہ آپے سے باہر ہورہا تھا۔۔۔

ایسے میں دو ملازماؤں کے ہمراہ کچن میں موجود حلیمہ۔۔۔تپتی چائے کو مزید ابال کر گہرا رنگ نکالتی ہوئی۔۔۔یکدم سالار خان کی سنائی دیتی مدھم بھڑکتی آواز پر چونکی۔

”آواز نیچی کرو اپنی سالار خان۔۔۔۔تمھاری یہ برداشت۔۔۔اس برداشت کے آگے بہت کم ہے جو تم اب تک حلیمہ کی آزما چکے ہو۔۔۔۔

جانتے ہو؟؟ایک عورت صنف ِنازک ہوتے ہوئے بھی سب برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔۔یہاں تک کہ جدائی جیسا تلخ ترین مرحلہ بھی۔۔۔۔پر اپنے من چاہے محرم کی دھتکار اور بےوفائی کسی بھی صورت برداشت نہیں کرسکتی۔۔۔۔۔“  اب کی بار وہ بھی اپنی جگہ سے اٹھتی ہوئی بھڑک کر بولتی اسے حقیقت کا آئینہ دکھا گئی تھیں۔

”تو اسکا حل آپ نے ایک طلاق یافتہ شخص کے ساتھ۔۔۔اس۔۔اس فضول سے رشتے میں تلاش کیا ہے۔۔۔۔؟؟حقیقتاً حد کی انتہا ہوچکی ہے یہ۔۔۔۔“  بے اختیار بالوں کو مٹھی میں جکڑتا وہ اس بار اپنا لہجہ پہلے کی نسبت درست کرگیا تھا۔۔۔پر انداز ہنوز اکھڑا اکھڑا سا تھا۔

”ہم نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ لیا ہے۔۔۔جو اب کسی بھی صورت نہیں بدلے گا۔۔۔۔۔“  مضبوط لہجے میں کہتی وہ اس پل سنگدل ہی تو  بن چکی تھیں اس کی نظر میں۔

”آپ شاید جانتی نہیں ہیں لیکن اگر حلیمہ کو آپکے ان مضبوط ارادوں کی ذرا سی بھی بھنک پڑگئی ناں اماں حضور۔۔۔تو یقین جانیے وہ آپکی اس بےدریغ اپنائیت پر اعتراضات کا ایک طوفان کھڑا کردے گی۔۔پر مجھ سے علحیدگی کبھی اختیار نہیں کرے گی۔۔۔۔“  معاً انکی جانب دیکھ کر بڑے اعتماد سے گویا ہوتا وہ اس سنگین صورتحال میں بھی خنساء بیگم کو تاسف سے مسکرانے پر مجبور کرگیا تھا۔

”غلط فہمیوں سے باہر نکل آؤ سالار خان۔۔۔۔حلیمہ کی مرضی جاننے کے بعد ہی میں نے ان لوگوں سے نکاح کی بات چلائی ہے۔۔۔۔“  تلخی سے کہتی وہ اپنے لفظوں سے اسکے تنے اعصاب ڈھیلے کرگئی تھیں۔

اپنے نکاح کی بابت کیا جانے والا فیصلہ سن کر وہ حیرت تلے دبی ضرور تھی۔۔۔پر اگر جو اس نے صاف ہاں نہیں کی تھی۔۔۔تو انکار بھی کیا تھا۔۔۔البتہ اسکی خاموشی خنساء بیگم کو قدرے افسردگی سے مسکرانے پر مجبور کرگئی تھی۔

”حلیمہ کی مرضی۔۔۔۔؟؟“  سالار خان کے لب بےیقینی سے پھڑپھڑائے تھے۔

”اپنی بگڑی عادتیں واپس سدھار لیجیے سالار صاحب۔۔۔۔ٹھیک ویسے ہی جیسے میں سدھار چکی ہوں۔۔۔۔مانتی ہوں تھوڑا مشکل ضرور ہے۔۔۔پر بہتری اس مشکل سے کئی بڑھ کر ہے۔۔۔۔۔۔“  معاً سماعتوں میں اسکی دل بےچین کرتی آواز شدت سے گھلی تھی۔

آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتے ہوئے کس قدر مضبوط لہجہ تھا ناں اسکا۔

”غلط فہمیوں سے باہر نکل آئیے سالار صاحب۔۔۔لاعلاج ہونے کہ ساتھ ساتھ یہ اکثر جانلیوا بھی ہوا کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔“   صاف منہ پر بولا گیا ایک اور طنز۔۔۔۔

سالار خان نے سختی سے مٹھیاں بھینچ لیں۔

تو کیا واقعی میں۔۔۔حلیمہ خانزادی کی محبت اب اس کے لیے دم توڑ چکی تھی۔۔۔؟؟

”بالکل۔۔۔۔لیکن ان تعلقات کو آگے بڑھانے سے پہلے تم سے آزادی لینا ضروری ہے۔۔۔۔“  اسکا سکتہ دیکھ خنساء بیگم جواب میں مزید گویا ہوئیں۔۔

 تو اس نے چونک کر حیرت سے ان کی جانب دیکھا۔

آنکھوں میں ضبط کی گہری لالی اترتی جارہی تھی۔

”میں اسے طلاق نہیں دوں گا اماں حضور۔۔۔۔“   اس بار وہ ٹھنڈے ٹھار۔۔مدھم لہجے میں بولتا جانے کیوں بلاوجہ کی ضد پر اتر آیا تھا۔

”تو پھر وہ خود تم سے خلع لے لے گی۔۔۔۔پر ایک ایسے شخص کے ساتھ رہنا۔۔۔جو جائز رشتوں پر ہمیشہ ناجائز تعلقات کو ترجیح دیتا ہو۔۔۔اب اس کے لیے ناقابلِ برداشت ہو چکا ہے۔۔۔۔“  اسکی صاف ڈھٹائی پر حددرجہ بگڑتی وہ اسکے منہ پر لفظوں کا زوردار طمانچہ ہی تو مار گئی تھیں۔

سختی سے لب بھینچتے ہوئے اس کا چہرہ  پل میں سرخ ہوا۔

اور پھر۔۔۔ فقط ایک پل لگا تھا اسے اپنی نام نہاد انا کو سب سے آگے لانے میں۔۔۔

”ٹھیک ہے پھر۔۔۔مجھے محض ایک سے دو دن کی مہلت دیجیے اماں حضور۔۔۔اگر جو فیصلہ میرے حق میں ہوا تو میں خود۔۔حلیمہ خانزادی کو خلع کی جگہ طلاق دوں گا۔۔۔لیکن اگر حق میں نہ ہوا۔۔تو بھی مجھے اسکی مرضی سے کسی بھی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہوگا۔۔۔۔“  پشت پر ہاتھ باندھ کر مضبوط لہجے میں کہتا جہاں وہ خنساء بیگم کو ناچاہتے ہوئے بھی حیران ہونے پر مجبورکرگیا تھا۔۔۔وہیں چھناکے سے کچھ ٹوٹنے کی آواز پر چونک کر پیچھے پلٹا۔

وہ جو خنساء بیگم کے لیے چائے لے کر وہاں آئی تھی۔۔۔سالار خان کے لفظوں کا زہر صاف سنتی۔۔شدتِ بےخودی میں کپ کو زمین بوس کرچکی تھی۔

سالار خان نے نیچے پڑے بکھیرے پر ایک نگاہ ڈالتے ہوئے۔۔۔اگلے ہی پل اس کا شدت سے پھیکا پڑتا چہرہ سرد نظروں سے بغور دیکھا۔

”م۔۔مجھے منظور ہے خالہ حضور۔۔۔۔“   پلکوں کو جھپکاتی وہ مقابل سے نم پڑتی نگاہیں پھیر گئی تھی۔

تو جہاں خنساء بیگم نے اسکی لرزتی آواز پر ہولے سے سر کو اثبات میں جنبش دی تھی۔۔۔وہیں گہرے سانسوں کے بیچ ہنوز اپنی جانب تکتے سالار خان کو نفرت سے دیکھتی۔۔۔وہ اگلے ہی پل وہاں سے نکلتی چلی گئی۔۔۔

*********************

سنہری دھوپ پل پل کھل رہی تھی۔اس کے باوجود بھی فضا میں گھلتا ہواؤں کا مدھم رقص جہاں بہت سوں کے دلوں کو بھا رہا تھا۔

وہیں وہ دل کی بےسکونی تلے۔۔۔گلے سے نکل کر اب سڑک کے ایک طرف چل رہی تھیں۔

آپکو معلوم ہے آپکی  بیٹی کیا کرتی پھر رہی ہے۔۔۔۔؟؟میرے اپنے ہی سگے بھائی کو میرے خلاف بھڑکانے پر مکمل تلی ہوئی ہے وہ۔۔۔۔۔اور خدا قسم یہ بات میرے لیے ہر گزرتے پل کے ساتھ ساتھ ناقابلِ برداشت ہوتی جارہی ہے۔۔۔۔“  سماعتوں میں گھلتی تلخ آواز ان کی گھبراہٹ مزید بڑھائے دے رہی تھی۔

اس پل تنبیہہ کرتا وہ کس قدر بپھڑا ہوا لگ رہا تھا ناں۔۔۔۔

نفیسہ بیگم نے چند قدموں کے فاصلے پر بےنیازی سے آتی جاتی بائیکس۔۔۔گاڑیوں پر ایک نگاہ ڈالی۔

”جس عزت کو بچانے کے لیے آپ نے اپنی بیٹی کا نکاح میرے بھائی سے  کروایا ہے ناں۔۔۔اگر چاہوں تو سکینڈوں میں اسکی دھچیاں بکھیر دوں۔۔۔۔بہتر یہی ہے کہ اس بڑے نقصان سے پہلے ہی اس دو ٹکے کی۔۔۔جھانسی کی رانی کو میرے راستے میں آنے سے باز رکھیں۔۔۔ورنہ میرے خلاف کی گئی ایک ایک بغاوت اسکی جان پر بھاری پڑ جائے گی۔۔۔۔ٹھیک ویسے ہی جیسے حرمین زہرا پر بھاری پڑی تھی۔۔۔“  ذہن میں شدت سے ابھرتی اسکی دل دہلاتی دھمکی پر وہ بے اختیار رکیں۔پھر قریب تر آتے رکشے کو دیکھ جلدی سے ہاتھ ہلایا۔

ارادہ رکشہ پکڑ کے جلد از جلد حسن پیلس۔۔اپنی بیٹی کے پاس جانے کا تھا۔۔۔اسے سخت تنبیہہ کرنے اور سمجھانے بجھانے کا تھا۔

جانے کیوں چھوٹے چھوٹے معاملات پر گھبرا جانے والی وہ معصوم سی لڑکی۔۔۔اب اپنے گھر گھرہستی کی پرواہ کیے بغیر دیور کے خلاف اتنی نڈر ہوچکی تھی۔۔۔؟؟

”ر۔۔رکو۔۔۔۔ارے رکو تو بھیا۔۔۔۔۔؟؟؟“  انھوں نے ایک بار پھر شدت سے ہاتھ ہلاتے پکارا۔۔۔لیکن رکشہ ڈرائیور پہلے ہی سوار مسافروں کے سبب ان سنی کرتا۔۔۔قدرے تیزی سے ان کے پاس سے ہوکر آگے گزر گیا۔ 

”یا خدا۔۔۔مدد۔۔۔۔۔“  پریشانی سے بولتی نفیسہ بیگم نے سر پر پڑی سفید چادر درست کی۔۔۔ پھر گہرا سانس بھرتی متلاشی سی آگے کی جانب چل پڑیں۔ہونٹ خشک ہورہے تھے۔

ابھی انھیں نے بمشکل تین سے چار قدم اٹھائے تھے۔۔۔جب تیز رفتاری سے قریب تر آتی گاڑی۔۔۔وارنگ ہارن دئیے بنا۔۔۔جانتے بوجھتے پیچھے سے ہٹ کرتی انھیں بری طرح زمین بوس کرگئی۔

”آااا۔۔ااا۔۔۔ا۔ہ۔۔۔۔۔“  شدت سے گرنے کے سبب جہاں سڑک کی سخت سطح پیشانی سے ٹکراتی پلوں میں لہولہان ہوئی تھی۔۔۔وہیں سیاہ رنگ کی وہ کار برق رفتاری سے سائیڈ سے ہوتی آگے کو نکل گئی۔

ٹانگوں میں شدت سے اٹھتی تکلیف نے انھیں پل پل کراہنے پر مجبور کردیا تھا۔

اگرچہ یہ حادثہ جانلیوا ہرگز نہیں تھا۔۔۔پر حواسوں میں رہ کر برداشت کرنا بھی تقریباً ناممکنات میں سے تھا۔

معاً اس غیر متوقع روڈ ایکسیڈنٹ پر کافی فاصلے پر موجود لوگ۔۔۔تیزی سے بھاگ کر نفیسہ بیگم کی جانب لپکے تھے۔۔۔جو اپنی برداشت کھوتی اب کہ دھیرے دھیرے غنودگی میں جانے لگی تھیں۔۔۔

اس بات سے قدرے انجان۔۔۔کہ اس پل۔۔پنڈی کی حدود میں داخل ہوتا شاہ میرحسن جاتے جاتے اس رواں جنگ میں اپنا  گہرا وار کرگیا تھا۔۔۔جسے لوگ محض لاپرواہی کے سبب ہونے والا ایک قابلِ برداشت حادثہ سمجھ کے متاسف ہورہے تھے۔

(پاسٹ کمپلیٹ۔۔۔۔۔۔)


”قبول ہے۔۔۔

  قبول ہے۔۔۔

  قبول ہے۔۔۔“  پوچھنے پر وقفے وقفے سے۔۔۔سرخ لبوں سے پھوٹتی وہ آواز۔۔۔وہ ادا۔۔۔اور جھکی پلکوں کی دل دھڑکاتی وہ لرزش کس قدر دلفریب تھی ناں۔۔۔

اس قدر دلفریب کہ چوڑے سینے پر ہاتھ باندھ کر جانے کب سے دیوار کا سہارا لیے وہاں کھڑا۔۔۔وہ  پل پل ڈھلتے سورج کو تکتے ہوئے۔۔۔دلکشی سے مسکرایا۔

آج صبح ہی تو وہ مولوی سمیت مطلوبہ گواہان کو لے کر آبرو کے گھر گیا تھا۔۔۔اور پھر باہمی رضامندی کے ساتھ قدرے سادگی سے اس سے نکاح کرچکا تھا۔

اس دوران نم آنکھوں سے ویڈیو کال پر یہ سب مناظر دیکھتی عائمہ بیگم پر حیرت سے کہیں ذیادہ خوشگوار کیفیت چھائی ہوئی تھی۔

دونوں کے لیے نگاہوں سے پھوٹتی محبت اور لبوں سے پھسلتے دعائیہ الفاظ۔۔۔۔شاہ میر حسن کی بتائی گئی خودساختہ باتوں کا ہی تو نتیجہ تھا۔

ایک شوخی سے نچلا لب دانتوں تلے دباتے ہوئے۔۔۔بےاختیار آنکھیں موندتا وہ۔۔۔۔ان دل دھڑکاتی سوچوں میں مزید گہرائی  سے اترتا چلا گیا۔

”نکاح مبارک ہو تمھیں۔۔۔۔“   آئینے میں دِکھتا اسکا بہکادینے والا روپ قدرے دلچسپی سے تکتا۔۔۔وہ اسے شرم تلے گھنیری پلکیں جھکانے پر مجبور کرگیا تھا۔

”آبرو سکندر سے۔۔۔آبرو شاہ میرحسن بن کر اب پل پل جینا مبارک ہو۔۔۔۔۔۔“  سفید کرتے کی جیب سے ساتھ لائی قیمتی سی نفیس چین نکالتا وہ گھمبیر ہوتے لہجے میں مزید گویا ہوا۔

جواباً گہری نیلی نگاہیں پل بھر کو اسکی جانب اٹھا کر۔۔عنابی لبوں کا بےاختیار مسکرانا۔۔۔۔

افففف۔۔۔

حقیقتاً گھائل ہی تو کرگیا تھا اسے۔۔۔۔

میرے دل کی سلطنت میں محبت کی تاعمر قید مبارک ہو۔۔۔۔۔“   ہاتھ آگے بڑھا کر اسکے کھلے بالوں کو ایک سائیڈ کرتا وہ اگلے ہی پل۔۔۔گولڈ کی باریک سی اسٹائلش چین پورے استحقاق سے اسے پہناگیا۔

ڈھلتے سورج کی مدھم۔۔۔ٹھنڈی روشنی  تلے یادوں میں بہتے جہاں اسکے چہرے پر ایک سکون سا بکھرا تھا وہیں مسکاتی نگاہیں ہنوز بند تھیں۔

جواباً اپنی گردن کی پشت پر ہنوز اسکی سرکتی انگلیوں کا سلگتا ہوا۔۔۔مضبوط لمس محسوس کرتی وہ بےاختیار اسکی جانب پلٹی۔۔۔۔تو اسکے رخساروں میں گھلتی سرخی دیکھ وہ ہولے سے مسکرایا۔

”اور اگر کبھی میں اس قید سے آزاد ہوگئی تو۔۔۔۔۔؟؟؟“  جانے کیوں وہ ان خوبصورت لمحوں میں اسکے دئیے تحفے کو سراہنے کی بجائے ایسا سوال کرگئی تھی۔۔۔

قریب سے اسکے نقوش دیکھتا وہ اپنی بھنویں سکیڑ گیا۔

”یہ ناممکنات میں سے ایک ہے۔۔۔۔“  اس پل اعتماد قابلِ دید ہی تو تھا۔

”واللہ۔۔۔۔اتنا یقین ہے۔۔۔۔؟؟؟“  کچھ حیرت سے پلکیں جھپکاکر پوچھتی وہ ہنوز اسکی سنجیدہ ہوتی نگاہوں میں جھانک رہی تھی۔

اسکے  یوں۔۔۔۔”واللہ“ کہنے کی ادا پر وہ دھیرے سے ہنسا۔

”محبت میں اگر یقین نہ ہو تو پھر وہ بے معنی سی ہوجاتی ہے۔۔۔اور میں اپنی محبت کو ہر معنی۔۔۔ہر رنگ دینے کا خواہاں ہوں۔۔۔۔“  کہتا وہ کلائی سے تھام کر بےاختیار اسے مزید اپنے قریب کرگیا تھا۔

نتیجتاً پل بھر کو لاجواب ہوتی وہ گہرا سانس بھرگئی۔

” کیا اس حد تک۔۔۔۔ایسی ہی بے دریغ محبت کسی اور نے بھی آپ سے کی ہے۔۔۔۔جیسی آپ خود کرتے ہیں۔۔۔۔؟؟“   سینے پر دوسرا ہاتھ جماتی آبرو۔۔۔لبوں پر زبان پھیرتی مزید گویا ہوئی۔۔۔تو اپنے ان قیمتی۔۔۔حسین لمحوں میں ناچاہتے ہوئے بھی اسکی یادداشت میں حرمین زہرا کے سانولے نقوش شدت سے ابھرتے چلے گئے۔

ہاں شاید۔۔۔بیت چکے ماضی میں اس نے بھی تو کہیں نہ کہیں ایسی ہی بےدریغ محبت کی تھی۔

معاً سر جھٹکتا وہ بمشکل مسکرایا۔کلائی ہنوز نرم گرفت میں تھی۔

”ہ۔۔ہاں۔۔۔۔تھی ماضی میں ایک ایسی لڑکی۔۔۔پر وہ کسی بھی لحاظ سے شاہ میر حسن کے معیار پر پوری نہیں اتر پائی۔۔۔نہ صورت سے اور نہ ہی سیرت سے۔۔۔سو میرے پاس بھی فوری ٹھکرانے کے علاوہ کوئی آپشن باقی نہیں تھا۔۔۔۔۔“  کچھ جھجھک کر وہ بڑی سنجیدگی سے جھوٹ ملا سچ بول گیا تھا۔

اسکے بدلے بدلے سے تیور دیکھ اگلے ہی پل آبرو نے۔۔۔عنابی رنگ لبوں پر مسکراہت بکھرتے اسکے چوڑے سینے پر اپنی انگلی پھیری تو اس دل بہکاتے لمس پر وہ بےاختیار اپنی ایک بیٹ مس کرگیا۔

”اور کیا میں اترتی ہوں۔۔۔۔؟؟؟“  پوچھتی ہوئی وہ جانے کتنے سوالات کا انبار خود میں سمیٹے ہوئے تھی۔

”ہر لحاظ سے۔۔۔۔

جانتی ہو؟؟میری زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ ہو تم جسے آج میں نے نکاح کی صورت مکمل پالیا ہے۔۔۔۔اب بس چاہتا ہوں تو بنا دیری کے فوری رخصتی۔۔۔۔“  بھاری ہوتے لہجے میں بولتا۔۔وہ اسکی نازک کلائی پر بڑے استحقاق سے اپنا نرم لمس چھوڑتے ہوئے۔۔۔اسکا دل شدتوں سے دھڑکا گیا تھا۔

مگر پھر اگلے ہی پل اسکا یاد آتا جواب۔۔۔شاہ میر کو بےچینی تلے نگاہیں کھولنے پر مجبور کرگیا۔

اوراس بے چینی کی وجہ صاف تھی۔

ہاں وہ اسکے فلیٹ تک فوری طور رخصتی نہیں چاہتی تھی۔۔۔۔

اسکا مزید ایک آخری رات اپنے اسی چھوٹے سے مکان میں گزارنے کا ٹھوس جواز کیا تھا۔۔۔؟؟یہ تو وہ سمجھ نہیں پایا تھا۔۔۔البتہ بڑے مان سے کی جانے والی اسکی بےجا منمنانیوں کے سامنے بےبس ضرور ہوچکا تھا۔۔

دیوار کا سہارا چھوڑ کر سیدھے ہوتے ہوئے شاہ کو اپنے مضبوط جسم میں ایک قسم کا اکڑاؤ محسوس ہوا تھا۔۔۔جسے وہ اگلے ہی پل چست انگڑائی لے کر کافی حد تک کم کرگیا۔

دل گھائل کرتی اس حسینہ کی منمانیوں کا عالم تو یہ تھا کہ وہ۔۔۔اسی کی شدید تر خواہش کے آگے مجبور ہوتا۔۔۔ کچھ دنوں کے وقفے سے واپس کراچی تک جانے کے لیے اپنی رضامندی دے چکا تھا۔

”تنہائی اب مجھے شدت سے کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے شاہ۔۔۔۔شروع سے ہی اپنوں کی تلاش میں ترسی ہوئی ہوں۔۔۔مگر میری ان تمام تر۔۔ ترستی حسرتوں کو اب آپ پورا کریں گے۔۔۔میں نہیں جانتی کہ آپکا خود کی فیملی سے ناراضگیوں کا حقیقی سبب کیا ہے۔۔۔؟؟مگر اس کے باوجود بھی آپ خود کے ساتھ ساتھ مجھے بھی اپنوں سے ملوائیں گے۔۔۔ملوائیں گے ناں۔۔۔۔؟؟؟“  ٹیرس سے پلٹ کر اندر کمرے میں آتے ہوئے۔۔شاہ کی سماعتوں میں آبرو کی منت کرتی آواز صاف گھلی تھی۔۔۔

کتنی معصوم سی صاف دل درخواست تھی ناں اسکی۔۔۔جسے اُس پل سنتا وہ  چاہ کر بھی اپنی حیرت نہیں چھپا پایا تھا۔

ہاں۔۔۔ہاں وہ مستقل نہ سہی۔۔۔مگر ایک  مختصر عرصے کے لیے۔۔۔اپنی بیوی کی اس چاہت بھری ضد کے آگے۔۔۔گھر واپسی کے کھٹن رستے اختیار کرنے کو تیار ہوچکا تھا۔

معاً سامنے ڈریسنگ ٹیبل پر پڑے۔۔۔رنگ ہوتے موبائل فون نے کمرے کا سکوت توڑتے ہوئے شاہ میر کو چونک کراپنی جانب متوجہ ہونے پر مجبور کیا۔

اگلے ہی پل گہرا سانس بھرتا۔۔۔وہ چلتا ہوا ڈریسنگ ٹیبل تک آیا تھا۔پھر موبائل اٹھا کر کال پک کرتا اسے کان سے لگا گیا۔

”اسلام علیکم صفدر صاحب۔۔۔کیسے ہیں آپ۔۔۔۔؟؟؟؟“  شاہ قدرے خوش اخلاقی سے گویا ہوا۔۔۔تو کال کے دوسری طرف وہ بھی مسکرادیا۔

”ٹھیک ہوں بالکل۔۔۔۔اول تو آپ کو نکاح کی بہت بہت مبارک ہو شاہ صاحب۔۔۔۔اور دوسرا۔۔۔بڑی معذرت جناب کہ اچھے دوست ہوتے ہوئے بھی آج ہم آپکو آپکے نکاح کے موقع پر بہترین کمپنی نہیں دے سکے۔۔اور نہ ہی آپکے گواہان میں شامل ہوئے۔۔۔۔۔“  اسپیکر سے ابھرتی  آواز میں یکدم تاسف گھلا تھا۔

جواب میں شاہ میر آئینے میں بےنیازی سے خود کا عکس دیکھتا۔۔۔دھیرے سے ہنس دیا۔

”اگر جو آپ خود کے بزنس کے سبب شہر سے باہر نہ ہوتے۔۔۔تو ڈیم شیور۔۔۔اپنے نکاح کی بابت آپ سے اپنی ناراضگی جتانے میں،میں بالکل بھی نہیں ہچکچاتا۔۔۔۔“  بالوں میں ہاتھ پھیرتا وہ صاف گوئی سے بولا تو اس بار وہ قہقہ لگاگیا۔

آفس کی بجائے۔۔۔ہوٹلز میں دو سے تین بار۔۔۔دونوں کے درمیان ہونے والی متناسب لیول کی بزنس ڈیلنگز۔۔۔یوں اچھی دوستی کی صورت اختیار کرلیں گی۔۔۔۔شاید ہی انھوں نے سوچا تھا۔

”خیر جو ہوا سو ہوا۔۔۔۔۔پر آج کی رات اس بڑی خوشی کے بدلے میں ایک عدد زبردست جشن تو بنتا ہی بنتا ہے۔۔۔۔“  صفدر صاحب نے اپنے ارادے ظاہر کیے تو پل میں بات کی گہرائی کوسمجھتا  وہ ذرا چونکا۔

”صفدر صاحب اگر آپ کسی کلب وغیرہ کو لے کر بات کر رہے ہیں تو۔۔۔پہلے ہی بتا دوں کچھ فائدہ نہیں ہے۔۔۔ایک عرصہ ہوا۔۔۔اب میں ایسی جگہوں پر جانا چھوڑ چکا ہوں۔۔۔۔۔“  اپنا رخ بدلتے اس نے دبے لفظوں میں انکار کرنا چاہا تھا۔

 کراچی کے اُس معروف کلب میں ہوئی افروز سے ہاتھا پائی کے بعد سے۔۔۔وہ ایسی جگہوں سے مکمل بدظن ہوتا۔۔۔مزید کسی اور کلب میں جا ہی نہیں پایا تھا۔

مگر دوسری طرف برا منائے بغیر مقابل مانتا۔۔۔تب ناں۔۔۔۔

”مغربی طرز کی عیاشیاں تو آپ نے خوب کی ہوں گی شاہ صاحب۔۔۔۔مگر اب میرا اپنے چند دوستوں کے ہمراہ اس بار آپکو۔۔بالکل نیا تجربہ کروانے کا ارادہ ہے۔۔۔بلاشبہ لطف دیتی خالص مشرقی طرز کی عیاشیوں کا اپنا ہی ایک الگ لیول ہوتا ہے۔۔۔۔۔“  کھلم کھلی گفتگو کرتا وہ شاہ میر کو پہلی بار قدرے عیاش پسند بندہ لگا تھا۔

”مگر صفدر صاحب میں۔۔ایسی۔۔۔۔۔“   شاہ نے ناپسندیدگی سے پیشانی مسلتے کچھ بولنا چاہا۔۔۔ مگر تیزی سے گویا ہوتا وہ بیچ میں ہی بات کاٹ گیا۔

”پلیز شاہ صاحب۔۔۔انکار کی اب قطعی کوئی گنجائش باقی نہیں ہے۔۔۔۔میرے دوست نے بڑے دل سے اس رنگین محفل میں ہم سب کے شغل کا اہتمام کیا ہے۔۔۔۔سو آپ کو تو خاص کر آنا پڑے گا۔۔۔۔اور فکر مت کیجیے آپکی نئی نویلی بیگم تک یہ خبر ہرگز نہیں پہنچے گی۔۔جو بعد میں کسی ناراضگی کا سبب بنے۔۔۔۔“  وہ نرم لہجے میں درخواست کرتا۔۔۔شاہ کو بےبسی تلے لب بھینچنے پر مجبور کرگیا تھا۔

”ٹھیک ہے صفدر صاحب۔۔۔۔بے فکر رہیں۔۔ میں آجاؤں گا۔۔۔۔“  نہ چاہتے ہوئے بھی۔۔ کچھ توقف سے منہ پر ہاتھ پھیرکر بولتا وہ بےاختیار  گہرا سانس بھرگیا۔۔۔تو جہاں دوسری طرف صفدر صاحب کے چہرے پر اطمینان سا بکھرتا چلا گیا۔۔۔وہیں اس رنگین محفل کی بابت سوچتے شاہ میرحسن  کا دل ایک بےنام سی بےچینی تلے دھڑک اٹھا۔۔۔

آنے والے بھاری ترین لمحوں سے قدرے لاپتہ سا۔۔۔۔وہ اگلے ہی پل مدھم نرم لہجے خدا حافظ بولتا۔۔۔ کال کاٹ چکا تھا۔

*******************

وہ بنا کوئی چاپ پیدا کیے کمرے میں داخل ہوا تھا جب بروقت آئینے میں اسکا چونکتا عکس دیکھتی وہ ہڑبڑا کر پلٹی۔

سادے سے سیاہ رنگ سوٹ کے اوپر۔۔۔۔ ذرا ٹیڑھے سٹائل میں پہنی گئی پولیس کیپ اس پر قدرے جچ رہی تھی۔۔۔جسے بغور دیکھتا وہ بےاختیار دھیرے سے ہنس دیا۔

پھر جیبوں میں ہاتھ پھنسائے۔۔۔چلتا ہوا اسکے مقابل آرکا۔

”بخدا اتنی حسین لیڈی پولیس آفیسر آج تک پوری فیلڈ میں دیکھنے کو   نہیں ملی۔۔۔ڈر ہے کہ کہیں اپنی ایک عدد بیوی کے ہوتے ہوئے اس کے چنگل میں پھنس نہ جاؤں۔۔۔۔۔۔“  دلچسپ نگاہوں سے اسے لبوں پر زبان پھیرتا دیکھ وہ گھمبیر لہجے میں گویا ہوا۔۔۔۔تو جواباً حاویہ اسکا شوخ اندازسمجھتی بھنویں اچکاگئی۔

آج وہ اپنی ڈیوٹی سے کچھ وقت پہلے ہی گھر لوٹ آیا تھا۔۔۔اگر جو اسے رتی بھر بھی علم ہوتا تو الماری میں کپڑے رکھتے وقت وہاں پڑی ایکسٹرا کیپ کے ساتھ بالکل بھی چھیڑخانیاں نہ کرتی۔

”اچھا۔۔۔۔؟؟کیا بہت حسین ہے وہ۔۔۔؟؟جو آپ اتنی آسانی سے اسکی طرف بہک جائیں گے۔۔۔۔“  بےاختیار کمر پر نازک مٹھیاں ٹکاتے ہوئے ۔۔۔آنکھیں سکیڑ کر پوچھتی وہ اپنے انداز کے سبب عائل کو سختی سے مسکاتے لب بھینچنے پر مجبور کرگئی تھیں۔

اگلے ہی پل جیبوں سے ہاتھ باہر نکالتا وہ نازک کندھوں سے تھامے اسکا رخ واپس آئینے کی جانب موڑ گیا۔

حاویہ نے نا سمجھی سے پلکیں جھپکاتے اسکا عکس دیکھا۔۔۔جو رکھی گئی گھنی بئیرڈ میں اب پہلے سے ذیادہ وجہہ لگتا تھا۔

”بہت سے بھی ذیادہ۔۔۔اگرتم اسے دیکھو گی تو یقیناً جل اٹھو گی۔۔۔۔“ ہنوز کندھوں سے تھامے ہوئے۔۔۔وہ اسکے شفاف عکس کی جانب اشارہ کرتا قدرے قریب سے۔۔اسکی سماعتوں میں اپنی چھیڑتی آواز گھول گیا۔۔۔

نتیجتاً منتشر ہوتی دھڑکنوں کے ساتھ اپنا آپ دیکھتی حاویہ کے لب شدت سے مسکرائے۔

مگر پھر یک دم اسکے سانولے نقوش پر تیزی سے پھیلتی افسردگی عائل کو چونکا گئی۔

”حقیقتاً تو بےاولادی کے طنز مجھے اندر تک جلا دیتے ہیں عائل۔۔۔۔“  شدتِ بےبسی سے کہتی۔۔۔وہ کیپ اتار کر سامنے رکھتی اگلے ہی پل اسکی جانب پلٹی۔۔۔تو نا چاہتے ہوئے عائل کو بھی سنجیدہ ہونا پڑا۔

”آپکی ماں کو لگتا ہے کہ میں ان گزرے ڈیڑھ سالوں میں آپ کو۔۔۔

آپکے دل کو۔۔۔اور آپکی روح کو صحیح سے تسخیر نہیں کرسکی۔۔۔اگر مزید دیری ہوئی تو وہ مجبوراً  مجھ پر سوتن لے آئیں گی۔۔۔۔“  آج پھر وہ عائمہ بیگم سے اس بابت گہرے طعنے سنتی دل برداشتہ ہوئی تھی۔

بارہا کوششوں کے باوجود بھی وہ ان سے بنا کر نہیں رکھ پائی تھی۔

اور وجہ بذاتِ خود عائمہ بیگم کے دل میں اس کے لیے دبی نفرت تھی۔۔۔جسے وہ عائل کے سبب کھل کر نکال نہیں پاتی تھیں۔

”آپ۔۔۔آپ اولاد کی خاطر دوسری شادی تو نہیں کریں گے ناں۔۔۔۔؟؟؟“  گہری سیاہ آنکھوں میں شدت سے جھانک کر مزید پوچھتی وہ خائف ہوئی تھی۔

”اگر ہاں کہوں تو۔۔۔۔؟؟؟“  اس کی نرم ہتھیلیوں کا لمس اپنے چوڑے سینے پر محسوس کرتا وہ سوال کے بدلے سوال کرگیا۔۔۔تو اسکی سنجیدگی پر حاویہ کی حیرت زدہ ہوتی نگاہیں تیزی سے نم ہوتی چلی گئیں۔

”تو میں آپکی جان لے لوں گی۔۔۔۔مگر شراکت کسی بھی صورت برداشت نہیں کرپاؤں گی۔۔۔۔۔“ بےاختیار اسکے سینے پر مکا مارتی وہ سلگتی۔۔۔بھرائی آواز میں بولی۔

”وہ تو تم بہت پہلے ہی لے چکی ہو۔۔۔۔۔“  معاً اسکا سر اپنے سینے سے لگاتا وہ دھیرے سے ہنس دیا تھا۔

”آپ بتائیں پہلے۔۔۔۔؟؟“  پلکیں جھپکاتی وہ ملتجی ہوئی۔۔۔تو آنسو ٹوٹ کر گال پر لڑھک آئے۔

”تم بلاوجہ کے خدشات پالے ہوئے ہو بیوی۔۔۔ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔۔۔آئی پرامس۔۔۔۔۔“  بڑے اعتماد سے بولتا وہ اسے کسی حد تک مطمئن تو کرگیا تھا۔۔۔۔مگر عائمہ بیگم کو بارہا سمجھانے پر بھی وہ انھیں ایسی تلخ باتوں سے باز نہیں رکھ پا رہا تھا۔۔۔جو حاویہ کو بڑی تیزی سے منفی سوچوں کی طرف دھکیلتی چلی جا رہی تھیں۔

”اور اگر میں حقیقتاً بانجھ ہوئی تو۔۔۔۔۔؟؟؟“  معاً سینے سے سر اٹھاکر مزید پوچھتی وہ عائل کے تاثرات حدرجہ سرد کرگئی۔

”اول تو۔۔۔مایوسی خسارے کا دوسرا نام ہے۔۔۔۔اس سے بہتر انسان کے لیے صبر کرنا ہے۔۔۔دوسری بات۔۔یہ عرصہ مختصر ہے۔۔۔اگر مجھے دس سال بھی صبر کرنا پڑا تو میں کروں گا۔۔۔۔لیکن اگر پھر بھی تمھارے یہ بےمعنی خدشات سچ ثابت ہوجاتے ہے۔۔۔تو پھر ہم اپنے لیے ایک کیوٹ سا بچہ ایڈاپٹ کرلیں گے۔۔۔دیٹس اٹ۔۔۔۔۔“  بڑی سنجیدگی سے  وضاحت دیتا وہ حاویہ کو اس قدر مضبوط تسلیوں سے بےاختیار مسکرانے پر مجبور گیا تھا۔

”آ۔۔آپ سچ کہہ رہے ہیں۔۔۔۔۔؟؟؟“  ہنوز اسکے مضبوط حصار میں کھڑی وہ خوشگوار حیرت سے گویا ہوئی۔

”بلکل سچ۔۔۔ بس اتنا جان لو کہ میں ان مردوں میں سے ہرگز نہیں ہوں جو بیوی کی خالص محبت پر اولاد کی چاہت کو ترجیج دیتے ہوئے دوسرا بیاہ رچالیتے ہیں۔۔۔بس تم ایسی فضول سی فکروں سے مکمل پرہیز برتو۔۔

یہ اے۔ایس۔پی صرف تمھارا تھا۔۔۔

تمھارا ہے۔۔۔۔

اور آگے بھی جاکر فقط تمھارا ہی رہے گا۔۔۔۔“  ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے۔۔۔اب کی بار اسے ہر لحاظ سے پرسکون کرتا وہ بےاختیار اسکی پیشانی پر اپنا سلگتا لمس چھوڑگیا۔

“عائل۔۔۔آپ۔۔۔۔۔۔۔“  فرطِ جذبات سے اس پل گویا ہونا حاویہ کے لیے محال ہوا تھا۔۔۔جبھی شدتوں سے دھڑکتے دل کے سنگ گلابی ہوتی وہ واپس اسکے سینے سے سر ٹکا گئی۔

وہ ہر معاملے میں کتنے اچھے سے اسے سمیٹنا جانتا تھا ناں۔۔۔۔

”بہت اچھے ہیں۔۔۔جانتا ہوں۔۔۔۔“  اسکی ادھوری بات خود مکمل کرتا عائل پھر سے شوخ ہوا تھا۔

”بہت سے بھی ذیادہ۔۔۔پر میں مطلبی ہوں جو خود کی فکر میں آپ کی تھکن کو بھی نظرانداز کر گئی۔۔۔۔۔“  دھیمے لہجے میں کہتی حاویہ متاسف ہوئی تو عائل کی مسکراہٹ مزید گہری ہوتی چلی گئی۔

”تو اس کا مداوا کرلو بیوی۔۔۔۔“  اس نے فوری تجویز پیش کی تھی۔

”وہ کیسے۔۔۔۔؟؟؟“  سر اٹھا کر بغور اسکی جانب دیکھتی وہ جاننے کو متجسس ہوئی۔

”ایک عدد تگڑی سی چائے بناکر۔۔۔۔یا پھر۔۔۔۔۔“ جانتے بوجھتے بات ادھوری چھوڑتا وہ حاویہ کو اپنی نگاہوں میں اترتے خمار سے بہت کچھ سمجھانے پر مجبور کرگیا تھا۔

”میں آپکے لیے چائے بنا کر لاتی ہوں۔۔۔۔۔“ معاً اسکا حصار پلوں میں توڑکر پیچھے ہٹتی وہ بآسانی انتخاب کرچکی تھی۔

عائل نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے بمشکل اپنی مسکراہٹ دبائی۔۔مگر شوخ تیور ہنوز تھے۔

”سنو تو۔۔۔۔۔“  اگلے ہی پل حاویہ کو عجلت میں کمرے کی دہلیز تک جاتا دیکھ اس نے مزید چھیڑنا چاہا تھا۔۔۔

مگر وہ سنتی۔۔۔تب ناں۔۔۔

کمرے سے باہر نکلتے ہی۔۔۔سینے پر پھیلے دوپٹے کو سر پر درست کرتی ہوئے وہ تواتر سے سیڑھیا اترتی چلی گئی۔

بیت چکے لمحوں کی بابت سوچتے ہوئے لبوں پر مسکراہٹیں مسلسل رینگ رہی تھیں۔

کچن کی جانب رخ کرتی وہ تیز تیز قدم اٹھاتی چلی جارہی تھی۔۔۔جب اسٹڈی روم کے پاس سے گزرتے ہوئے۔۔۔ ادھ کھلے دروازے سے بآسانی باہر آتی عائمہ بیگم کی مضبوط آواز۔۔۔اس شدت سے ٹھٹھک کر وہیں رکنے پر مجبور کر گئی۔

”کچھ دنوں تک میرا بیٹا آرہا ہے یہاں۔۔۔۔۔فیصلہ لے چکا ہے وہ۔۔۔اور بتا بھی چکا ہے۔۔۔۔۔“  عائمہ بیگم کا لہجہ اور الفاظ مقابل کھڑے حسن صاحب کو قطعی پسند نہیں آئے تھے۔

”میری کوششوں سے ایک عدد قابل بزنس مین کیا بن گیا۔۔۔اب باپ کے علم میں لائے بغیر اتنے بڑے بڑے فیصلے کرے گا وہ۔۔۔۔کوئی ضرورت نہیں ہے اسے اپنی بیوی سمیت اس گھر میں آنے کی۔۔۔۔جہاں اب تک رہتا آیا ہے۔۔۔۔اسے ساتھ لے کر وہیں رہے تو بہتر ہے۔۔۔۔۔“  وہ سلگتے تیوروں سے گویا ہوئے۔۔۔تو ہنوز پوشیدگی سے دروازے کے مزید قریب ہوتی حاویہ کا دل بےچینی تلے پھڑپھڑا اٹھا۔

تو کیا وہ واقعی یہاں آرہا تھا۔۔۔۔؟؟وہ بھی اپنی محرم بیوی کےہمراہ۔۔۔۔۔

”بس اب بہت ہوگیا حسن صاحب۔۔۔۔ڈیڑھ سال۔۔۔پورے ڈیڑھ سال تک میں اس لیے خاموش رہی کیونکہ میرا بیٹا بذاتِ خود یہاں آنے کے لیے راضی نہیں تھا۔۔۔۔لیکن اب جبکہ میری مرضی میں اسکی رضامندی بھی شامل ہو چکی ہے تو آپ یہ غلط فہمی نکال دیجیے۔۔۔ کہ اب میں مزید کسی کی بھی سنوں گی۔۔۔شام اس گھر میں آئے گا تو بس آئے گا۔۔۔۔۔۔“  قطیعت بھرے لہجے میں بگڑ کر بولتی اس بار وہ کسی بھی طور اپنے شوہر کے رعب میں آنے کو تیار نہیں تھیں۔

”تو یعنی اب تم نے بھی اپنے شوہر سے بغاوت مول لینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔۔۔۔؟؟“  ماتھے پر تیوریاں چڑھاتے وہ مٹھیاں بھینچ کر پوچھ رہے تھے۔کچھ شاہ میر کا خود کی شادی کے بابت انھیں نہ بتانا بھی تو حقیقتاً تپاگیا تھا۔۔۔۔جو عائمہ بیگم کے کہے کے مطابق اس نے ایک ہائی لیول۔۔خاندانی لڑکی سے رچائی تھی۔

ضبط تلے آنکھوں میں پھیلتی سرخی بھیگنے لگی تو حاویہ جلتے دل کے ساتھ نت نئی پریشانیوں میں شدت سے گھرتی وہاں سے نکلتی چلی گئی۔۔۔

”یہی سمجھ لیجیے حسن صاحب۔۔۔بالکل یہی سمجھ لیجیے۔۔۔اگر آپ ایک ماں کا ظرف اسکی اولاد کے معاملے میں آخری حد تک آزما سکتے ہیں۔۔۔تو پھر میں آپ سے بغاوت کی شروعات کیوں نہیں کرسکتی۔۔۔؟؟خیر جو آپکو بتانے آئی تھی۔۔وہ بتا چکی۔۔۔اب چلتی ہوں۔۔۔۔“  سرد لہجے میں بے دھڑک بولتی وہ مزید وہاں رکی نہیں تھیں۔۔۔بلکہ کچھ عجلت میں وہاں سے نکلتی پیچھے اپنا موبائل فون وہیں ٹیبل پر چھوڑ کر جاچکی تھیں۔

پیچھے حسن صاحب نے گہرے سانس بھرتے پلٹ کر غصے سے زور کا ہاتھ مارا تھا۔

معاً ان کی ضبط سے سرخ پڑتی نگاہیں موبائل فون کی بند اسکرین پر پڑیں۔۔۔جسے وہ ناچاہتے ہوئے بھی اگلے ہی پل تھام چکے تھے۔

موبائل ان لاک کرتے ہوئے ارادہ  اپنی نئی نویلی چھوٹی بہو کو ایک سادہ نظر دیکھنے کا تھا۔۔۔جس کی خاطر عائمہ بیگم یہاں موبائل لائی تھیں۔

لاک کھلتے ہی۔۔۔ پہلے سے اوپن ہوئی گیلری کے سبب اسکرین پر دلہن کے روپ میں ایک حسین شرماتی ہوئی لڑکی کی تصویر شو ہوئی تھی۔۔۔

ایسے میں تصویر کو بغور دیکھتے حسن صاحب کی نگاہیں یک دم ٹھٹھک کر ان نسوانی نقوش پر ساکت ہوئیں۔۔پھر پل پل سرخ ڈوروں میں بے یقینی سی پھیلتی چلی گئی۔

 اگلے ہی پل شدید بے چینی تلے تصویر کو زوم کر کے ایک ایک نقوش کو حیرت سے ٹٹولتے ان کی حالت غیر ہونے لگی تھی۔

”ی۔۔یاسمین سکندر۔۔۔۔۔۔؟؟؟“  گھنی مونچھوں تلے سیاہ لب شدت سے پھڑپھڑائے۔

”ن۔۔ناممکن۔۔۔۔۔“  لرزتے ہاتھوں سے تصاویر کو آگے پیچھے کرتے انھیں اسی لڑکی کے ہمراہ شام بھی سرشار سا دکھائی دیا۔۔۔تو جہاں اگلے ہی پل  موبائل فون دبیز قالین پر  پٹختے  ان کے ماتھے پر پسینہ صاف پھوٹ پڑا تھا۔۔۔وہیں ماضی میں کیے گئے سیاہ کرتوتوں کے سبب سماعتوں میں گھلتی نسوانی چیخوں نے انھیں نڈھال ہوکر قریب چئیر پر ڈھے جانے پر مجبور کردیا۔۔۔

********************* 

سیاہ آسمان پر ٹمٹماتے ستاروں کا پھیلا ہوا وسیع جال اور پرسکون سی ٹھنڈی روشنی بکھیرتا چاند۔۔۔اس پل قدرت کا حسین ترین منظر پیش کررہا تھا۔

اسی حسین چاندنی رات تلے۔۔ کوٹھے کا بڑا سا ہال نہایت خوبصورتی کے ساتھ سجایا گیا تھا۔۔جہاں خوبصورت دوشیزاؤں کا دل بہکا دینے والا رقص اس پل اپنے جوبن پر تھا۔

بجتے طبلوں اور چھنچھناتے گھنگھروں کے دل بھاتے شور میں۔۔۔اردگرد بیٹھے موصوف اس دلچسپ نظارے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے مزے سے جام نوش کررہے تھے۔۔۔ لیکن قدرے پیچھے ہوکر بیٹھا بس ایک وہی تھا جس نے ساتھ آئے اپنے دوستوں کے برعکس۔۔۔ کسی بھی قسم کا مشروب لینے سے انکار کردیا تھا۔

”یار کب آئے گی وہ ملکہِ حسن۔۔۔۔؟؟؟اب ہم سے مزید انتظار نہیں ہوتا۔۔۔۔“  وہاں پر بیٹھے پینٹ کوٹ میں ملبوس پچاس سالہ مرد کے چہرے پر بیزاری سے کہیں ذیادہ بے چینی کے تاثرات واضح ہورہے تھے۔

اُسکی حالت سمجھتے ہوئے وہاں پر بیٹھے بہت سوں کے چہروں پر حظ اٹھاتی مسکراہٹ بکھرتی چلی گئی۔

یہ دیکھ کر نجانے کیوں اُسے بھی اس پل شدت سے خواہش ہوئی تھی اُس لڑکی کو دیکھنے کی۔۔۔ جسکے حسن کے چرچے اس رنگین محفل میں زبانِ زد خاص و عام ہورہے تھے۔

تو کیا بھلا وہ اُسکی حسین و جمیل شریکِ حیات سے بھی ذیادہ خوبصورت ہوسکتی تھی۔۔۔؟؟جسے آج ہی پورے حق سے اپنے نام کرکے وہ چند نامی دوستوں کی ضد پر زندگی میں پہلی بار یہاں آیا تھا۔۔۔

جس کا وہ حقیقتاً پوری طرح دیوانہ ہوچکا تھا۔۔۔؟؟؟

اس سوچ پر اس کے دل میں بےاختیار ہلکی سی بغاوت نے سراٹھایا۔۔۔تو اگلے ہی پل موسیقی کے اختتام پر ایکدم سے اطراف میں نیم اندھیرا پھیلتا چلا گیا۔

معاً اس بکھری خاموشی میں گونجتی۔۔۔ گھنگھروں کی مخصوص چھنکار نے جہاں سب کو اپنے کان کھڑے کردینے پر مجبور کیا تھا۔۔۔وہیں شاہ میر حسن کا دل بھی قدرے تیزی سے دھڑک اٹھا۔

اگلے ہی پل چہار سو مختلف رنگوں کی روشنیوں کا طوفان برپا ہوا تھا۔

وہ چہرے پر بھاری  کامدار۔۔۔سرخ رنگ گھونگھٹ اوڑھے۔۔۔اپنے ہوشربا حسن سمیت سب کے سامنے اپنے دلنشین انداز میں جلوہ ِ افروز ہوئی تھی۔

”شہنشائے من  ماہ راجے من۔۔۔

 شہنشائے من  ماہ راجے من۔۔۔

 نہ  ہی تخت  نہ  ہی تاج  

 نہ  شاہی  نظر  نہ  دھن

بس عشق۔۔ محبت۔۔ اپنا پن۔۔۔

 بس عشق۔۔ محبت۔۔ اپنا پن۔۔۔

 بس عشق۔۔ محبت۔۔ اپنا پن۔۔۔“ 

عیاش پرست مرد حضرات کی تالیوں اور سیٹیوں کے اختتام پر نئے گانے کے دلنشین سُر شروع ہوئے۔۔۔تو رابی قدرے مہارت سے۔۔۔اپنی لچکتی کمر کے ساتھ سارے وجود کو دلنشین انداز میں۔۔۔دھیرے سےحرکت دینے لگی۔ 

”ملکہِ حسن کی ہر ادا ہی دلفریب ہے۔۔۔۔

کمال ہے۔۔۔۔

لاجواب ہے۔۔۔۔“  پہلے سے ہی کھڑے ایک آدمی نے مزید آگے بڑھ کر اُس پر بڑے بڑے نوٹوں کی بارش برسائی۔

جواباً رابی کے رقص میں تیز ی آئی۔۔۔جو کہ حقیقتاً قابلِ تعریف تھا۔

شاہ میر کی بےچین۔۔ٹٹولتی نگاہیں اسی کے کامدار گھونگھٹ پر ٹکی تھیں۔

”مغل  اعظم  ذلِ  الہی

 ماہبلی تیری دیکھ لی شاہی

 زنجیروں سے کہاں رکے ہیں

 پیار سفر میں عشق  کے  راہی

 گاتے پھریں گے جوگی بن بن

 عشق۔۔ محبت۔۔اپنا پن۔۔

  بس عشق۔۔ محبت۔۔ اپنا پن۔۔۔“  

اگرچہ ٹھوڑی تک رابی کا مکھڑا ہنوز پوشیدہ تھا۔۔۔پر شدت سے عیاں ہوتا بدن بہت سوں کی نگاہوں کی تسکین بنے۔۔۔انھیں مزید بہکنے پر مجبور کرگیا۔

 اُسکا مکمل نوخیزحسن دیکھنے کو حددرجہ بےتاب ہوتا شاہ میر ضبط سے اپنی مٹھیاں بھینچ گیا تھا۔۔۔جب اگلے ہی پل معاون لڑکیوں کے بیچ  گول گول گھومتی ہوئی وہ ایکدم ہی گھٹنوں کے بل زمین پر جھکی۔۔۔پھر واپس سیدھی ہوتی۔۔۔ایک ہی جھٹکے میں کامدار گھونگھٹ کو اپنے حسین چہرے سے اٹھاتی پرے دھکیل گئی۔

صبر کی گھڑیاں ختم ہوچکی تھیں۔۔۔۔

اُسکے دیدار پر جہاں سارے تماشائیوں کی آوارہ سیٹیاں ایک بار پھر سے سپردِ فضا ہوتے ہوئے۔۔۔دل کی دھڑکنیں بےہنگم ہوئی تھیں۔۔۔ وہیں بنا پلکیں جھپکائے بغور اسے تکتے شاہ میرحسن کا زوروں سے دھڑکتا دل بےساختہ بند ہوا۔

رنگین محفلوں میں ناچنے والی اس۔۔۔رابی نامی رقاصہ۔۔۔کا ایک ایک نقش اس پل جانے کیوں ہوبہو آبرو شاہ میرحسن سے میل کھا رہا تھا۔۔۔

”زندگی ہاتھوں سے جارہی ہے۔۔

  زندگی ہاتھوں سے جارہی ہے۔۔

  شام سے پہلے رات آرہی ہے۔۔۔۔“  

معاً ہاتھوں کو چہرے کے سامنے۔۔۔ایک ادا سے اوپر نیچے کرتی رابی کی نیلی نگاہیں۔۔۔بےاختیار بھٹک کر اس تک جاتی۔۔۔ ٹھٹھک کر تھم سی گئیں۔۔۔ جو فقط اسے ہی بےیقین سا پھٹی پھٹی نگاہوں کے حصار میں لیے اب کہ اپنے لڑکھڑاتے قدموں پر کھڑا ہوچکا تھا۔

” صاحب عالم کہاں رکے ہو۔۔۔

 کلی تمھاری مرجھا رہی ہے۔۔۔

 جاتے جاتے بھی گا رہی ہے۔۔

 عشق۔۔محبت۔۔اپنا پن۔۔۔

 عشق۔۔ محبت۔۔اپنا پن۔۔۔

 بس عشق۔۔ محبت۔۔ اپنا پن۔۔۔“   

آخری سُریلے بول ہنوز فضاء میں گونج رہے تھے۔۔مگر رابی۔۔بنا کوئی ادا دیکھائے۔۔۔ دھیرے سے کھڑی ہوتی چلی گئی۔

بھلا وہ۔۔۔وہ اس وقت یہاں کیسے ہوسکتا تھا۔۔۔؟؟؟

ناچاہتے ہوئے بھی اسکے بوکھلائے بوکھلائے سے تیور دیکھ اسے اپنا ہر مقصد۔۔۔اب کہ بے مقصد ہوتا دکھائی دیا تھا۔

ایسے میں داخلی دروازے سے وہاں آتے سالار خان نے نگاہیں اٹھا کر براہ راست۔۔رابی کا ایک طرف سے دکھائی دیتا چہرہ شدت سے پھیکا پڑتا  دیکھا۔۔۔

معاً شاہ میر حسن نے سر جھٹک کر بے اختیار اپنی نگاہیں شدت سے مسلتے واپس اسکی جانب دیکھا۔

 پر۔۔۔پر یہ دل چیڑتا  منظر ہنوز تھا۔

وہ حسن۔۔۔۔

وہ نقوش۔۔۔۔

وہ ادا۔۔۔۔

حیران نگاہوں کی وہ نیلاہٹ۔۔۔

اور۔۔۔۔اور دل دھڑکاتا وہ سراپا۔۔۔۔

سب کچھ وہی تو تھا جس کا شاہ میر حسن شدت سے دیوانہ تھا۔۔۔پر۔۔۔

پر وہ خود کیا تھی۔۔۔؟؟؟

رابی۔۔۔۔؟؟یا آبرو۔۔۔۔؟؟؟

فقط رقاصہ۔۔۔۔؟؟؟ یا طوائف۔۔۔؟؟؟

کیا تھی وہ۔۔۔کیا۔۔۔؟؟ کیا۔۔۔؟؟کیا۔۔۔؟؟؟

جہاں سروں سے محروم فضاء اب سونی پڑ چکی تھی۔۔۔وہیں تماشائیوں کو رابی کا مزید رقص دیکھنے کی شدت سے چاہ ہوئی۔

”شاہ۔۔۔۔۔؟؟؟“  لوگوں کے بیچ سے ہوتے ہوئے اسے قدم قدم چل کر اگلے ہی پل۔۔۔ ٹھیک اپنے مقابل رکتا دیکھ رابی کے یاقوتی رنگ لب پھڑپھڑائے۔

اس دوران اپنے دوستوں کے سنگ وہاں بیٹھا صفدر حقیقت سے ہنوز انجان۔۔۔شاہ میر پر یہاں کی عیاشیوں کا شدت سے اثر ہوتا دیکھ کمینگی سے مسکرایا تھا۔

ساتھ ناچتی معاون لڑکیاں اپنے رنگ برنگے گھاگرے سنبھالتی اب کہ ایک ایک کر کے وہاں سے نکلتی چلی گئی تھیں۔

”ی۔۔یہ۔۔۔ تم نہیں ہوسکتی۔۔۔۔۔۔؟؟؟“  اس کے دل بہکا دینے والے نقوش شدت سے تکتے ہوئے۔۔۔معاً اسکے لب دھیرے سے ہلے۔۔۔ تو اس کی نگاہوں میں گھلی نیلاہٹ مقابل کا سرخ پڑتا چہرہ دیکھ مزید گہری ہوئی۔

بڑی مشکلوں سے چھپایا خود کا یہ بھید۔۔۔مقابل پر مناسب وقت سے بہت پہلے ہی یک دم کھل جائے گا۔۔یہ اس نے قطعی نہیں سوچا تھا۔۔۔

اس دوران سالار خان جو رابی کی بابت فیصلہ اپنے حق میں لینے کی خاطر۔۔۔ جذباتی پنے میں آتا۔۔۔خود کی نبض کاٹنے کو تیز دھار بلیڈ بھی جیب میں ڈال کر ساتھ لے آیا تھا۔۔۔اگلے ہی پل شاہ میر کو رابی کے دونوں کندھے سختی سے دبوچتے دیکھ۔۔۔مٹھیاں بھینچتا۔۔۔ناچاہتے ہوئے بھی وہیں رک گیا۔

ناجانے کیوں یہ شخص اسے کہیں دیکھا دیکھا سا لگا تھا۔۔۔

پر کہاں۔۔۔؟؟یہ سوچنے سے پہلے ہی سماعتوں سے بآسانی ٹکراتی اسکی بھاری تلخ آواز سالار خان کی ذات پر بھاری پڑتی چلی گئی۔

”ا۔۔ایک بار آبرو۔۔۔فقط ایک بار کہہ دو کہ۔۔۔کوٹھوں پہ سرعام ناچنے والی  ایک بے حیاء رقاصہ۔۔۔میری محبت۔۔۔میری بیوی نہیں ہوسکتی۔۔۔ناممکن۔۔۔۔“  جلتی نگاہوں سے اسکے یاقوتی لبوں کو دیکھتا شاہ میرحسن چیخ کر شدت سے ملتجی ہوا۔۔۔توجہاں۔۔اسکے دوستوں سمیت وہاں پر موجود سبھی لوگوں نے شدید حیرت تلے ان دونوں کو آنکھیں پھاڑ کر دیکھا تھا۔۔۔وہیں پردہ پیچھے ہٹاکر وہاں آتی تابین بائی بھی۔۔۔ یہ سن کر وہیں رکتی ساکت پڑیں۔

 اسکے خطرناک تیوروں سے رتی پھر بھی مرعوب ہوئے بنا۔۔۔رابی نے ضبط سے آنکھیں بھینچ کر کھولیں۔پھر بےتاثر انداز لیے اس کی انگارہ ہوتی نگاہوں میں بڑی جرات سے جھانکا۔

”بتاؤ مجھے۔۔۔۔۔؟؟؟“  اسکی زہر لگتی خاموشی پر اپنی گرفت مزید سخت کیے۔۔وہ اسے اپنی اورھ جھٹکا دیتا قدرے زور سے چلایا تھا۔۔۔جب اگلے ہی پل پوری قوت لگا کر اپنا آپ چھڑواتی وہ۔۔۔اسکے سینے پر ہتھلیاں جمائے اسے دو قدم پیچھے دھکیل گئی۔

”ہوسکتی نہیں شاہ میر حسن۔۔۔”ہے“۔۔۔۔تمھاری بیوی۔۔۔کوٹھے پر ناچنے والی ایک رقاصہ ہی ہے۔۔۔وہی رقاصہ جس سے محبت میں آکر آج تم نے نکاح کیا ہے۔۔۔۔یہی۔۔۔بالکل یہی حقیقت ہے میری جسے جاننے کے لیے تم اس قدر تڑپ رہے ہو۔۔۔سنا تم نے۔۔۔“  ٹھہر ٹھہر کر قدرے سلگتے  لہجے میں بولتی وہ خود بھی جیسے طیش میں آئی تھی۔

سنساتے دماغ کے ساتھ رابی کا اعتراف سنتے  جہاں سالار خان کا دل کرچی کرچی ہوا تھا۔۔۔وہیں اسکے جواب پر پل بھر کو تھمتے شاہ  کا ضبط ٹوٹ کر مکمل بکھرتا چلا گیا۔

”چٹاااااخ۔۔۔۔۔۔“  ایک قدم آگے آتے ہوئے۔۔بےاختیار اسکا بھاری ہاتھ اٹھا۔۔۔اور اسکے نازک گال پر نشان چھوڑتا ہوا۔۔۔اسے دبیز قالین پر اوندھے منہ گراگیا۔

شدت سے بگڑتی اس ہنگامی صورتحال پر چہ مگوئیاں کرتے تماشائی اب کہ بیٹھے سے اٹھ کھڑے تھے۔

”اےےے بدذات کہیں کے۔۔۔دور ہٹو میری بچی سے۔۔۔۔ہمت بھی کیسی ہوئی تمھاری ایسی گھٹیا حماقت کرنے کی۔۔۔۔؟؟؟“  ہوش میں آتی تابین بائی نے فوری آگے بڑھ کر اسے پوری قوت سے پرے دھکیلا۔۔۔تو با مشکل سنبھلتا شاہ تابین بائی کی جانب دیکھ کر ناچاہتے ہوئے بھی چونک سا گیا۔۔۔پھر بغور تکنے پر اسکی نگاہوں میں ناقابلِ یقین حد تک شناسائی اترتی چلی گئی۔

”بوا۔۔۔۔۔؟؟؟“  اسکے لب جنبش میں آئے تھے۔۔

 میک سے لتھرے ہوئے یہ تنے نقوش اس مرحومہ عورت کے ہی تو تھے۔۔۔جس کی سادگی وہ اس دن فوٹو فریم میں دیکھ کر۔۔۔دل دکھاتی موت پر حد سے ذیادہ متاسف ہوا تھا۔

اس قدر فریب۔۔۔۔؟؟

اس حد تک دھوکہ۔۔۔۔؟؟

شاہ نے قدرے حیرت سے رابی کی جانب دیکھا جو سنبھل کر کھڑی ہوتی اب کہ جلتی نم نگاہوں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔

خود کے یوں مخاطب کیے جانے پر تابین بائی نے کڑے تیوروں سے نگاہیں پھیرتے ہنکارہ بھرا۔

معاً کسی کے بلاوے پر بھاگ کر وہاں آتے دو گارڈز نے۔۔۔سکتے میں کھڑے شاہ میرحسن کو اپنی سخت گرفت میں دبوچا تھا۔

جواباً بری طرح ٹھٹھک کر اپنا آپ چھڑواتے ہوئے اس کی بھوری نگاہوں کی سرخی مزید گہری ہوتی چلی گئی۔

” چھوڑو۔۔۔۔چھوڑو مجھے۔۔۔۔ی۔۔یہ نہیں ہوسکتا۔۔۔۔تم میرے ساتھ یہ سب نہیں کرسکتی۔۔۔ارے عشق کیا ہے میں نے تم سے۔۔عشق۔۔۔نکاح میں ہو تم میرے۔۔۔۔۔“  دو انجان آدمیوں کی سخت ترین گرفت میں پھنسا وہ چیخ رہا تھا۔تلملا رہا تھا۔

”عشق۔۔۔؟؟؟“  جلتی گال کو لب بھینچ کر چھوتی وہ اگلے ہی پل تمسخرانہ ہنسی۔

”ٹھیک تمھاری طرح۔۔۔ہزار مردوں نے بھی مجھ سے عشق محبت کے کھلے عام دعوے کیے ہیں۔۔۔جب ان میں سے کسی ایک کے ساتھ وفا نہیں نبھائی تو تمھارے ساتھ کیسے نبھالوں۔۔۔؟؟؟“  پھنکار کر بولتے ہوئے اسکی آنکھوں کی نیلاہٹ قدرے بھیگ چکی تھی۔

جواباً شدتِ ضبط سے سرخ پڑتے ہوئے اس نے نفی میں سر ہلایا۔

”جھوٹ بولتی ہو تم۔۔سراسر جھوٹ۔۔۔میرا خدا گواہ ہے کہ تمھارے لیے میری محبت۔۔۔میرا عشق۔۔۔ان سب سے ہٹ کر پاک ہے صاف ہے۔۔۔بالکل ویسے ہی۔۔۔ویسے ہی جیسے میری نظروں میں تم ستی ساوتری۔۔۔اور اعلیٰ درجے کی پارسا  تھی۔۔۔پھر یہ دغا کیوں۔۔۔؟؟ یہ ڈھونگ کیوں۔۔۔؟؟اپنی بدترین اصلیت چھپا کر مجھے محبتوں کے جھانسے میں پھنسنانے کی یہ جرات کیوں۔۔۔؟؟آخر کیوں۔۔۔؟؟کیوںںںںں۔۔۔۔۔؟؟؟“  پل پل پاگل ہوتا جہاں وہ گارڈز کو مزید مدد بلانے پر مجبور کرچکا تھا وہیں اسکی پھولتی نسیں دیکھ رابی اپنی نازک مٹھیاں بھینچ گئی۔

ان جانلیوا انکشافات پر اپنی تمام تر ہمت کھوتا سالار خان۔۔۔درد کرتے دل پر دھیرے سے ہاتھ رکھتا پلٹا۔۔پھر نم آنکھوں کو جھپکاتے جس خاموشی کے ساتھ یہاں آیا تھا۔۔۔اسی خاموشی کے ساتھ وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

کسی اور کی بیوی کو اپنا بنانے کی خواہش بھلا اب کہاں گوارا رہی تھی اسے۔۔۔؟؟

”میں تمھارے ہر ایک سوال کا جواب دینے کی پابند ہرگز نہیں ہوں شاہ میرحسن۔۔۔۔ہاں پر اگر تم  چاہو تو ابھی اور اسی وقت مجھے طلاق دینے کے پابند ضرور ہوسکتے ہو۔۔۔۔۔آخر کو عیاش مردوں کے سامنے ایک ناچ ناچئیہ کرنے والی رقاصہ تمھاری غیرت کو گوارا بھی تو نہیں ہوسکتی ناں۔۔۔۔۔۔“ کہتے ہوئے اسکے لہجے میں تمسخر سمٹ آیا تو پلکیں جھپکانے پر گالوں پر لڑھکتے آنسوؤں کو نفرت سے دیکھ شاہ  نے نفی میں سرہلایا۔

”نہ نہ نہ۔۔۔۔طلاق نہیں دوں گا۔۔۔۔۔آگ لگا کے مار دوں گا۔۔۔۔پر طلاق۔۔۔ کسی بھی صورت نہیں دوں گا تمھیں آبرو شاہ میر حسن۔۔۔یاد رکھنا میری یہ بات۔۔۔۔“  غرا کر قطیعت بھرے لہجے میں بولتے۔۔۔اسنے بے اختیار خود کو چھڑوانے کے لیے ایک زور کا جھٹکا دیا تو مزید دو گارڈز وہاں چلے آئے۔

”واللہ۔۔۔کیا کہنے۔۔۔شاہ میرصاحب کو غیرت چھوڑنا تو منظور ہے۔۔۔لیکن بدنام محبت نہیں۔۔۔۔۔“   بےدردی سے گال رگڑتی وہ طنزاً ہنسی۔پھر چند قدم چلتی ہوئی اسکے مقابل آئی۔

دکھتے دماغ کے ساتھ سختی سے مٹھیاں بھینچے۔۔۔ وہ نم پڑتی نگاہوں سے مسلسل اسی کی جانب دیکھ رہا تھا۔ 

”چٹاااااخ۔۔۔۔۔۔“  مگر اگلے ہی پل۔۔۔ گال پر پوری شدت سے پڑنے والا نازک تھپڑ حقیقی معنوں میں شاہ کا خون ابال گیا۔

اس دوران تماشے پر لگتا نیا تماشہ جہاں پل پل لطف لیتے لوگوں کی دلچسپیاں بڑھائے ہوئے تھا۔۔۔وہیں ہنوز حیرت میں ڈوبے صفدر سمیت اس کے دوستوں کو شدت سے افسوس ہوا تھا اسے یہاں لانے پر۔

”وہ وقت قطعی دور نہیں بیوی جب تم ہر لحاظ سے میری گرفت میں ہوگی۔۔۔۔اور جب ایسا ہوگا ناں تو خدا قسم تمھارے سیاہ دامن میں پچھتاوے بھردوں گا۔۔۔۔صرف پچھتاوے۔۔۔۔۔“  زخمی شیر کی مانند۔۔۔گہرے سانس لیتا وہ ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا تو جواباً رابی نیلی نگاہوں کا زاویہ بدل گئی۔

”جتنا تماشہ لگنا تھا سو لگ چکا۔۔۔۔محفل بھی ختم ہوچکی۔۔۔۔اب اٹھا کے باہر پھینک آؤ  اسے۔۔۔۔۔“  اپنی ست رنگی ساری کا پلو دبوچے کھڑی تابین نے نخوت سے بولیں۔۔ تو جہاں گارڈز زبردستی اسکا مضبوط مچلتا وجود اپنے سنگ گھسیٹ کر وہاں سے نکلتے چلے گئے۔۔۔وہیں اسکی چیختی دھمکیاں سنتے دوست سمیت سارے تماشائی بھی اب کہ ایک ایک کرکے وہاں سے جانے لگے۔

تیزی سے سرکتے لمحوں میں ہال خالی ہوچکا تھا۔۔۔جب وہ ٹوٹتے وجود کے ساتھ گرنے والے انداز میں سرخ رنگ دبیز قالین پر ڈھ سی گئی۔

تابین بائی جلدی سے اسکی جانب لپکتی قریب ہی بیٹھ چکی تھیں۔

”بی بی جان۔۔۔۔۔یہاں جو ہوا۔۔۔جو کچھ بھی ہوا۔۔۔۔و۔۔وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔۔۔۔ہرگزنہیں ہونا چاہیے تھا۔۔۔۔۔“  تواتر سے بہتے آنسوؤں میں بولتی وہ خائف سی تابین بائی کی گود میں سر رکھ گئی۔

جواباً اسے نت نئی وحشتوں میں ڈانواں ڈول ہوتا دیکھ وہ دھیرے سے اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے۔۔۔چاہ کر بھی اس پل کوئی تسلی نہیں دے پائی تھیں۔۔۔


”اپنی بارات سے ٹھیک کچھ گھنٹے پہلے بھاگ گئی ہے تمھاری لاڈلی بہن۔۔۔۔

عمر بھر کی رسوائی کو ہماری پیشانیوں پر داغ کر اپنے عاشق کے ہمراہ بھاگ چکی ہے وہ۔۔۔سن رہے ہو تم۔۔۔؟؟؟

ہائے۔۔۔ہااااائےےےے ہماری برسوں کی خاندانی عزت کو خاک میں ملا گئی وہ بدذات۔۔۔۔۔۔۔“  اپنی اماں کی بین کرتی آواز۔۔۔بپھڑے حسن خاور کا دل چیڑنے کا ہی تو سبب بن رہی تھی۔

بدنامی تلے ان کے صاف دامن داغدار کرتی ان کی اکلوتی بہن کشمالہ سب کو چکما دے کر بھاگی بھی تھی۔۔۔تو کس کے ساتھ۔۔۔۔؟؟؟

اس۔۔اس سکندر نامی دو ٹکے کے ملازم کے سنگ۔۔۔جو شادی شدہ اور ایک عدد بچی کا باپ ہونے کے باوجود بھی۔۔اسے عاشقی جیسے ناقابلِ برداشت مرض میں بری طرح مبتلا کرچکا تھا۔

اور پھر حددرجہ ذلالت۔۔رسوائی سہنے کے ٹھیک دو روز بعد۔۔۔

ان دونوں کو کھوج نکالنے پر۔۔ رگوں میں کھولتی غیرت نے حسن خاور کو خفیہ قاتل بننے پر شدت سے مجبور کردیا تھا۔

مگر صد افسوس۔۔۔۔

رگ رگ میں بھڑکتا انتقام اس قدر انتہا کو پہنچ چکا تھا کہ۔۔۔نم نگاہوں کے سامنے رلتی دو نفوس کی لاشیں بھی اس پل سلگتے کلیجے میں ٹھنڈک ڈالنے کو ناکافی ہوئی تھیں۔

بلاشبہ اس گہری ہوتی رات میں اگلا نشانہ اب سکندر کی بیوی ہی تو تھی۔۔۔یاسمین سکندر۔۔۔۔

اسٹڈی روم میں۔۔۔ ہنوز چئیر پر براجمان حسن صاحب کا بے چین دل۔۔۔جہاں ماضی کے سلگتے پنوں کو ایک ایک کرکے کھولتے ہوئے شدت سے ڈوبتا چلا جا رہا تھا۔۔۔وہیں مزید سوچتے وہ بےسکونی تلے آنکھیں میچ گئے۔

”وحشی ہو تم۔۔۔

  درندے ہو۔۔۔

  خدا۔۔خدا غارت کرے تمھیں۔۔۔۔

  چھوڑومجھے۔۔۔۔۔“  زد و کوب ہونے باوجود دوپٹے سے محروم یاسمین سکندر کسی زخمی چڑیا کی مانند ان کی آہنی گرفت میں تڑپتی  صاف بدعائیں دے رہی تھیں۔۔۔

مگر وہ تمام تر سسکتی آہوں سے قدرے بےبہرہ۔۔۔عزت کی دھچیاں بکھیرنے کو اسے گھسیٹتے ہوئے کمرے میں لے جا چکے تھے۔

جب سکندر جیسا دو ٹکے کا ملازم ان کی خاندانی عزت پر ہاتھ صاف کرسکتا تھا۔۔۔تو پھر وہ کیوں نہیں۔۔۔۔

معاً سماعتوں میں اس کی دل بے چین کرتی چیخیں شدت سے گھلتی۔۔۔ حسن صاحب کو ہڑبڑا کر سرخ آنکھیں کھولنے پر مجبور کر گئیں۔پھر بےاختیار سہمے چہرے پر ہاتھ پھیرتے انھوں نے خود کا پسینہ پونچھا۔

ہاں۔۔۔ہاں انھیں یاد آیا تھا۔۔۔انتقاماً اس حسین عورت کی عزت تار تار کرلینے بعد۔۔۔اپنی ماں کی خاطر روتی بلکتی وہ آٹھ سالہ بچی کیسے بے ارادہ ہی ان کی انتہائی غلط نگاہوں کی زد میں آچکی تھی۔۔

ایسی غلط نگاہیں کہ جس نے اس آبرو نامی اس بچی کا ہنستا کھیلتا بچپن پنڈی شہر کے ایک گمنام کوٹھے کی حقیقی بدنامیوں میں جھونک دیا تھا۔

 سلگتی یادوں تلے شدت سے دبتے حسن صاحب کو۔۔۔اپنی تن چکی کنپٹیاں مسلتے خود کا بلڈ لو ہوتا محسوس ہورہا تھا۔۔۔مگر بنا کسی پشیمانی کے گہرائی سے سوچنا ہنوز تھا۔۔۔شدید تھا۔

”ابھی تو یہ قدرے کمسن بچی ہے بابو۔۔۔اس کومل کلی کو بدنام خانے میں لانے کی کچھ ذیادہ ہی جلدی نہیں مچادی آپ نے۔۔۔۔؟؟؟“  ننھی سی ٹھوڑی کو آہستگی سے تھام کر۔۔۔اسکا ستا ہوا چہرہ اپنی جانب موڑتی تابین بائی کچھ حیرت سے گویا ہوئیں۔۔۔جو روتی بلکتی ناچاہتے ہوئے بھی اب کہ نیند کی گہری وادیوں میں جا اتری تھی۔

مقابل۔۔۔وہ جو نگاہوں میں دھیمی دھیمی حدت سمیٹے اس بائی کی ایک ایک ادا کو بغور دیکھ رہے تھے۔۔۔اس بات پر ناپسندیدگی سے بھنویں سکیڑگئے۔

”بلاشبہ عمر میں کمسن ہے۔۔۔مگر حسن میں یہاں موجود ساری عورتوں کو ابھی سے ہی خاصی مات دیتی ہے۔۔۔۔سوچو بائی۔۔۔۔دماغ لگا کرسوچو ذرا۔۔۔جب یہ جوانی  کی حدوں کو چھونے لگے گی تو مردوں کے جذبات بھڑکا کے رکھ دے گی۔۔۔۔“  خباثت سے مقابل عورت کو لالچ دیتے۔۔لہجے میں صاف نفرت  مچل رہی تھی۔

ایسی نفرت کہ جسے سیدھی ہوکر بیٹھتی تابین بائی۔۔۔بخوبی بھانپتی۔۔۔اگلے ہی پل سرخ لبوں کو زبان تلے تر کرنے پر مجبور ہوئی۔

”کیا قیمت ہے اس کی۔۔۔۔؟؟؟“  پل بھر کا توقف لے کر پوچھتی وہ سیدھا مدعے پر آئیں۔۔۔تو مطلب کی بات سنتے حسن خاور کے سیاہی مائل لب ہولے سے زہر خند مسکراہٹ میں ڈھلتے چلے گئے۔

”اول تو اس کلی کو مکمل طوائف بنانا۔۔۔۔

اور دوسرا یہاں۔۔اس بدنام خانے میں سکون کی ایک عدد رات۔۔۔

بس یہی قیمت ہے اسکی۔۔۔۔۔“  قدرے سکون سے بولتا ہوا وہ اجنبی بابو اس پل۔۔ پتھر دل تابین بائی کو حدردجہ سفاک انسان معلوم ہوا تھا۔۔۔

ہاں۔۔۔ہاں بدنامی کے سبب آبائی شہر چھوڑ دینا۔۔۔۔اس پر مستزاد بہن کی موت کا نحیف پچھتاوا۔۔۔انھیں سفاک ترین بننے پر ہی تو مجبور کرگیا تھا۔۔۔۔

”منظور ہے۔۔۔۔۔“  آس پاس بکھرتی اس بائی کی نسوانی آواز حسن صاحب کے ماتھے پر متفکر لکیروں کا جال بنتی چلی گئی۔

جب قیمت لگ چکی تھی۔۔۔

سکون کی ایک عدد رات بھی گزر چکی تھی۔۔۔۔

انتقام کا دہکتا قعلہ تک مکمل ملیامٹ ہوچکا تھا۔۔۔۔

تو پھر اتنے سالوں بعد کیونکر یہ۔۔۔یہ بدترین ماضی آج ان کی نگاہوں کے سامنے آتا انھیں شدت سے پریشان کرگیا تھا۔۔۔؟؟؟

کیوں۔۔۔۔؟؟آخر کیوں۔۔۔۔؟؟؟

سنساتے ذہن میں ابھرتے یہ سوالات حسن صاحب کو دبیز قالین پر گرا موبائل فون اٹھا کر واپس تھامنے پر مجبور کرگئے۔

عجلت بھرے انداز میں پیٹرن لاک کھولتے ہی اسکرین پر شاہ میر کے سنگ وہیں لڑکی مسکراتی ہوئی دکھائی دی تو نگاہوں کی سرخی مزید  گہری ہوتی چلی گئی۔

حسین نقوش سے وہ ساری اپنی ماں کا عکس تھی۔۔۔

اور۔۔۔اور نگاہوں کی وہ گہری نیلاہٹ اس کے بھگوڑے باپ کے سبب سے تھی۔۔۔

ہاں۔۔۔۔ہاں یقیناً اس میں قطعی کوئی شک باقی نہیں رہا تھا۔۔۔۔

وہ وہی بچی تو تھی جو ان کے جرم کے وقت بذاتِ خود عینی شاہد رہ چکی تھی۔

زوم تصویر پر نفرت سے انگلیاں مسلتے حسن صاحب  پر وحشت کا احساس  مزید حاوی ہوتا چلا گیا۔

”آبرو سکندر۔۔۔۔بدنام کوٹھے کا ناقابل ِبرداشت گند۔۔۔۔“  نازیبا الفاظ میں مخاطب کرتے ہوئے انگ انگ سے انتہا کی نفرت پھوٹ  پڑی تھی۔

”اپنے بھگوڑے باپ کی طرح محبت کے نام پر جتنا کھیل تم نے رچانا تھا۔۔۔وہ رچا چکی۔۔۔۔اب مزید میں تمھیں ہماری پرسکون زندگیوں میں  گند گھولنے نہیں دوں گا۔۔۔قطعی نہیں۔۔۔پھر چاہے اس کے لیے مجھے بدترین ماضی کو واپس ہی کیوں نہ  دہرانا پڑے۔۔میں بلا جھجک دہراؤں گا۔۔۔۔“  مضبوط ترین لہجے میں پھنکارتے حسن صاحب جہاں شاہ میرحسن کی ناکارہ پسند پر جی بھر کر مشتعل ہوئے تھے۔۔۔وہیں ان کے سینے میں پنپتے زہریلے ارادے چٹان کی سی سختی اختیار کرتے چلے گئے۔

اب باقی تھی تو بس رو برو ایک عدد ملاقات۔۔۔۔۔جس کے وہ شدت سے منتظر تھے۔۔۔۔

*****************

شفاف سڑک پر تیز رفتاری سے دوڑتی اس گاڑی کا بیلنس بگڑتے بگڑتے بچا تھا۔۔۔۔مگر چلانے والے نفوس کی لاپرواہی اس پل عروج کو پہنچنے کے درپے تھی۔

”ا۔۔ایک بار آبرو۔۔۔فقط ایک بار کہہ دو کہ۔۔۔کوٹھوں پہ سرعام ناچنے والی  ایک بے حیاء رقاصہ۔۔۔میری محبت۔۔۔میری بیوی نہیں ہوسکتی۔۔۔ناممکن۔۔۔۔“ وہ شخص اسے نازک کندھوں سے دبوچے کتنے استحقاق سے بول رہا تھا ناں۔۔۔

بول کیا رہا تھا۔۔۔چیخ رہا تھا۔۔۔برملا اظہار کررہا تھا

اور وہ۔۔۔وہ ساکت کھڑی تھی۔

باقی تماشائیوں کی طرح سن تو وہ خود بھی ہوچکا تھا۔۔۔

”ہوسکتی نہیں شاہ میر حسن۔۔۔”ہے“۔۔۔۔تمھاری بیوی۔۔۔کوٹھے پر ناچنے والی ایک رقاصہ ہی ہے۔۔۔وہی رقاصہ جس سے محبت میں آکر آج تم نے نکاح کیا ہے۔۔۔۔یہی۔۔۔بالکل یہی حقیقت ہے میری جسے جاننے کے لیے تم اس قدر تڑپ رہے ہو۔۔۔سنا تم نے۔۔۔“  اگلے ہی پل سماعتوں میں شدت سے گھلتی رابی کی مشتعل سی آواز سالار کی سرخ نگاہوں میں نمی کا سبب بنی تھی۔

ارے اسے تو محبت کے اس دورانیے میں اسکا حقیقی نام ہی پہلی بار پتہ چل رہا تھا۔۔۔

وہ فقط رابی تو نہیں تھی۔۔۔

حقیقی معنوں میں وہ اس شخص کی ملکیت۔۔۔اسکی بیوی۔۔۔۔آبرو شاہ میرحسن تھی۔۔۔۔

رواں رفتار کے ساتھ گاڑی کو دوسری سڑک پر ڈالتے ہوئے۔۔۔اسٹیرنگ پر تاسف سے ہاتھ مارتے سالار خان کے لبوں کو جہاں ایک زخمی مسکراہٹ نے دھیرے سے چھوا تھا۔۔۔وہیں 

اُس بیت چکی رات کا آدھا ادھورا منظر اسکے سنساتے ذہن میں شدت سے مکمل ابھرتا چلا گیا۔

”یہ تمھاری رابی نہیں۔۔میری آبرو ہے۔۔۔فقط شاہ میرحسن کی آبرو۔۔۔اسے چھونا تو دور۔۔آئندہ اگر اسکے قریب بھی بھٹکنے کا سوچا تو تمھاری جان لینے میں،میں ذرا بھی وقت ضائع نہیں کروں گا۔۔۔یاد رکھنا میری اس پہلی اور آخری وارنگ کو۔۔۔“  گریبان سے دبوچے۔۔ہر لفظ چبا چبا کر بولتا وہ بزنس مین اس کے منہ پر پھنکارا تھا۔

مگر جواب میں اسکی دی تکلیف سہتا وہ ہنس دیا۔

”ساری دنیا ہی ہمیں جدا کرنےپر ت۔۔تلی ہوئی ہے۔۔۔تم بھی انہی میں سے ایک ہو۔۔۔پر تمھاری اس مم۔۔مارا ماری سے میں ہرگز بھی ہمت نہیں ہارنے والا۔۔۔کک۔۔کبھی بھی نہیں۔۔۔وہ رابی صرف۔۔میری ہے۔۔صرف سالار خان کی۔۔۔ہہمم۔۔۔۔“  اس رات نشے کی حالت میں ہونے کے باوجود بھی وہ اسے ٹھیک ہی تو پہچانا تھا۔

لیکن رابی۔۔۔؟؟وہ تو جانتے پہچانتے بھی صاف صاف مکر چکی تھی۔۔۔

شیشے کے پار ہیڈ لائٹس میں دکھائی دیتا سامنے کا منظر دھندلایا تو  تیزی سے پلکیں جھپکانے کے سبب آنسو ٹوٹ کر سالار خان کے رخسار پر پھسلے۔

”میری زندگی صرف تمھارے مقصد تک محدود نہیں ہےسالار خان۔۔۔میرے خود کے بھی کچھ مقصد ہیں جن پر میری پوری زندگی ٹکی ہے۔۔۔۔مگر تمھارا یہ مقصد ایک ایسے سراب کی مانند ہے جسکے پیچھے مسلسل بھاگتے رہنے سے بھی تم اسے کبھی پا نہیں سکو گے۔۔۔ہاں البتہ پیاسے سسک سسک کر ضرور مرجاؤگے۔۔۔۔میری صلاح مانو تو ایسے جان لیوا شوق سے پیچھاچھڑالو۔۔۔۔واللہ سکون میں آجاؤگے۔۔۔۔“  دھتکارتے ہوئے کس قدر بےحسی تھی ناں آبرو کے لہجے میں۔۔۔

تیور میں۔۔۔

آواز میں۔۔۔

 انداز میں۔۔۔۔

مگر آج کے ہوئے بھاری انکشاف تلے تو وہ اپنی محبت سمیٹ ٹوٹ کر بکھرچکا تھا۔

بھیگتی پلکوں پر اتری اذیت گاڑی چلاتے سالار خان کے دل کو مزید سلگانے لگی۔

تو کیا بھلا یہ نامرادی کسی اور کی بددعاؤں کا نتیجہ تھی۔۔۔؟؟

معاً ذہن گرماتی ان سوچوں نے اپنا رخ پل میں حلیمہ کی جانب موڑا تھا۔

”محبت کرتی ہوں آپ سے خان۔۔۔۔شدید ترین محبت۔۔۔باخلوص محبت۔۔۔بےدریغ محبت۔۔۔۔“   آس پاس شدت سے بکھرتی حلیمہ کی آواز بےاختیار اس کا دل دھڑکا گئی تھی۔۔۔جب سامنے سے آتی گاڑی کے بآواز ہارن نے یک دم اسکا ڈوبتا دماغ شدت سے اپنی جانب متوجہ کروایا۔

جواباً نم آنکھوں سے بوکھلاتے ہوئے سالار خان نے تیزی سے اسٹیرنگ بائیں جانب گھوماتے گاڑی کو سائیڈ پر کیا تھا۔۔۔

مگر افسوس کہ اگلے ہی لمحے اسکا شدت سے بگڑتا توازن۔۔۔پلوں میں شدید ایکسیڈنٹ کی صورت اختیار کرتا چلاگیا۔

سائیڈ لگے کھمبے سے بری طرح ٹکراتی گاڑی نے جہاں اس کم ٹریفک روڈ پر  آتے جاتے لوگوں کی توجہ تیزی سے اپنی جانب کھینچی تھی وہیں۔۔۔سالار خان کو اپنا پورا وجود یک دم کسی پھوڑے کی مانند دکھتا ہوا محسوس ہوا۔

 پھٹتی پیشانی سے پھوٹتا خون تیزی سے اسکے چہرے کو بھگونے لگا تھا۔۔۔جب بمشکل سر اٹھاتا وہ اگلے ہی پل نڈھال سا اسٹیرنگ پر اپنا رخسار ٹکاگیا۔

اس دوران رکتی بائیکس گاڑیوں۔۔ سے اتر کر لوگ پھرتی سے اسکی طرف لپکے تھے۔

”ح۔۔حلیمہ۔۔۔۔“  تیزی سے غنودگی میں جاتے سالار خان کے لب بڑے دھیرے سے پھڑپھڑاتے ہوئے۔۔۔اگلے ہی پل ساکت ہوئے تھے۔۔۔

*********************

پل پل تیزی سے سرکتی ہوئی یہ بھیگی گہری رات۔۔۔اب کہ ٹھنڈی ٹھار سہری میں سمونے کو شدت سے اتاولی ہورہی تھی۔۔۔مگر نیچے پائنتی کے ساتھ ہنوز ٹیک لگائے۔۔۔سگریٹ پر سگریٹ پھونکتا۔۔۔وہ ہنوز سلگ رہا تھا۔۔۔تپ رہا تھا۔

ایسے میں گارڈز سے احتجاج کرنے کے سبب پھٹے گریبان سمیت۔۔۔تہس نہس ہوئے اس کمرے میں۔۔۔ٹوٹی بکھری چیزیں اسکے اندر مچلتی تباہیوں کو واضح کرنے کے لیے کافی تھیں۔

”تمھیں پتا ہے ناں کہ مجھے تمھارے وجود کی جانب اٹھتی ہرنگاہ زہر سے بھی زہریلی لگتی ہے۔۔۔تو پھر سوچو کسی غیر مرد کا تمھیں چھونا مجھ پر کیا قیامت ڈھاتا ہوگا۔۔۔؟؟؟“  اسے نازک کلائی سے دبوچتا وہ اس پل کس قدر استحقاق سے بولا تھا ناں۔۔۔۔

مگر محرم و نامحرم میں فرق جتانے والی اُس۔۔۔اُس برائے نام پارسا عورت کو اسکا یوں چھولینا بھلا کہاں پسند آیا تھا۔۔۔ 

تلخی سے سوچتے ہوئے وہ سلگتے لبوں کو بھینچ گیا۔

”محرم تو آپ بھی نہیں ہیں میرے۔۔۔کبھی آپ نے سوچا کہ آپکا یوں بار بار میرے قریب آنا۔۔میری ذات پر بلاوجہ کا حق جمانا مجھ پر کیا حشر برپا کرتا ہوگا۔۔۔؟؟؟“  سنساتے ذہن میں ابھرتا اسکا شکوہ۔۔اگلے ہی پل شاہ کو لمبا کش لینے پر مجبور کرگیا۔

”تو نکاح کرلو مجھ سے۔۔۔بنالو مجھے اپنا محرم۔۔دے دو سارے حق۔۔اعتراض کس کافر کو ہے۔۔۔۔؟؟

اور رہا شکوہ قریب آنے کا تو جان لو کہ شاہ میرحسن نے اپنے اِس گستاخ دل کی بےپناہ طلب کے باوجود۔۔آج تک اپنی محبت میں حد سے گزر جانے  کی ایک حقیر سی کوشش بھی نہیں کی۔۔۔“ اپنا خمار زدہ جواب یاد آتے۔۔ بھوری لہو رنگ نگاہوں میں ضبط کے باوجود بھی نمی سی کھلنے لگی تھی۔

افففف۔۔۔۔

 کس قدر معتبر کرگیا تھا ناں وہ اسے۔۔۔۔

اپنے کھڑے جذبات۔۔۔اپنی بے پناہ محبت میں۔۔۔

مگر۔۔نتیجتاً اس نے کیا کیا تھا۔۔۔؟؟

نکاح میں ہونے کے باوجود بھی جاتنے بوجھتے ناقابلِ برداشت دغا۔۔۔

فریب۔۔۔۔

بےوفائی۔۔۔

ستم در ستم۔۔۔۔۔

”ہوسکتی نہیں شاہ میر حسن۔۔۔”ہے“۔۔۔۔تمھاری بیوی۔۔۔کوٹھے پر ناچنے والی ایک رقاصہ ہی ہے۔۔۔وہی رقاصہ جس سے محبت میں آکر آج تم نے نکاح کیا ہے۔۔۔۔یہی۔۔۔بالکل یہی حقیقت ہے میری جسے جاننے کے لیے تم اس قدر تڑپ رہے ہو۔۔۔سنا تم نے۔۔۔“  سماعتوں میں کڑوا زہر بن کر شدت سے اترتی اسکی تند نسوانی آواز۔۔۔اسے بےاختیار حلق کے بل چیخنے پر مجبور کرگئی تھی۔

”آاااا۔۔۔اا۔۔۔۔“  پیروں کے قریب پڑی۔۔مینی سائز شراب کی خالی بوتل کو ذرا سا آگے ہوکر شدت سے ٹھوکر مارتا وہ گہرے گہرے سانس بھرنے لگا۔

تلخ تھا۔۔۔

کڑوا تھا۔۔۔

جانلیوا تھا۔۔۔

مگر سچ تھا۔۔۔

حقیقت کا دہکتا ہوا ایک عکس تھا۔۔۔

واپس ٹیک لگاتے ہوئے۔۔۔ قدرے تلخی سے بالوں میں ہاتھ پھنسا کر  انھیں مٹھی میں جکڑتا۔۔۔وہ اگلے ہی پل انگلیوں کے بیچ دبے۔۔۔کافی حد تک جل چکے سگریٹ کو دور جھٹک چکا تھا۔

ہاں۔۔۔ہاں اسکی بیوی عیاش فطرت مردوں کے سامنے اپنا آپ پیش کرنے والی ایک بدنام رقاصہ ہی تو تھی۔۔۔یا پھر۔۔۔شاید بدنام طوائف۔۔۔۔؟؟

شدتِ  تکلیف سے ہتھیلی تلے چوڑے سینے کو مسلتے ہوئے شاہ بے اختیار نم انگارہ آنکھیں میچ گیا۔۔۔تو ایک آنسو ٹوٹ کر قدرے آہستگی سے اسکی گال پر لڑھکا۔

افسوس۔۔۔صد افسوس۔۔۔۔سینہ چیڑتے اس غم کو بھلانے کی غرض سے اس نے مناسب حد تک نشہ کیا تو تھا۔۔۔۔مگر یہ نشیلا پن اس کے سر چڑھ کر بول نہیں پا رہا تھا۔۔۔جیسا اسنے چاہا تھا۔

”دل پھٹ رہا ہے۔۔۔۔۔؟؟؟“  گزرتے چند پلوں کے گہرے سکوت کے بعد۔۔معاً سماعتوں سے ٹکراتے نسوانی۔۔پرسکون لہجے پر وہ چونک کر دھیرے سے خمار زدہ ہوتی آنکھیں کھول گیا۔

پھر سنسناتے دماغ کے ساتھ پلکیں جھپکا جھپکا کر اسے بغور دیکھنے کی کوشش کی۔

”پل پل آہیں بھرنے کو بےتاب ہورہے ہو۔۔۔؟؟؟یا پھر شدت سے نفرت کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔۔۔؟؟؟“  سوال پر سوال پوچھتی۔۔۔رُلتی بکھری حالت میں وہ اسکے مقابل ہی تو کھڑی تھی۔

”ح۔۔حرمین زہرا۔۔۔۔؟“  بمشکل شناسائی ہونے پر۔۔۔شاہ کے لب سرگوشیانہ انداز میں ہلے۔

”جانتے ہو۔۔؟؟محبت میں گہری چوٹ کھانے کے بعد میری بھی کبھی ایسی ہی بدترین حالت ہوئی تھی۔۔جس حالت میں آج تم خود ہو شاہ میرحسن۔۔۔مگر اتنا جان لو کہ یہ فقط آغاز ہے۔۔۔

ابھی تو بربادیوں کی ان راہوں میں بہت کچھ سہنا باقی ہے جس کا دوسرا نام محبت ہے۔۔۔۔“   اسے یوں یک ٹک خودکو تکتا پاکر۔۔اس کے لہجے میں صاف کڑواہٹ گھلی تھی۔

”ت۔۔تم۔۔۔۔؟؟تم پھر آگئی مجھ سمیت میری روح کو سلگانے کے لیے۔۔۔؟؟ہہمم۔۔۔۔؟؟کیا۔۔کیا ملتا کیا ہے تمھیں یہ نت نئے ڈرامے رچا کر۔۔۔۔۔؟؟؟بولو۔۔۔؟؟“  خود کے ذہنی فتور سے تنک کر پوچھتا وہ سختی سے مٹھیاں بھینچ گیا۔

حرمین زہرا کی صورت میں آنکھوں دیکھا یہ فریب پیشانی پر پسینہ پھوٹنے کا سبب بنتا۔۔۔ اسے اندر تک گھائل ہی تو کررہا تھا۔

 ”سکون۔۔۔۔۔۔“   سینے پر بازو لپٹتی وہ یک لفظی جواب بڑے اطمینان سے دے گئی تھی۔

جواباً سیاہی مائل لبوں پر دھیرے سے بکھرتی مسکراہٹ کو تکتے۔۔۔شاہ کی نگاہیں جلنے لگی۔

”مگر مجھے نہیں ملتا ناں۔۔۔تمھارا عادی ہونے کے باوجود بھی میرا یہ سینہ وحشتوں تلے تپنے لگتا ہے۔۔۔دماغ کی نسیں پھٹنے کو آجاتی ہیں۔۔۔ بار  بارتمھاری یہ۔۔یہ منحوس شکل دیکھ کر۔۔۔اکتا چکا ہوں۔۔۔بیزار ہو چکا ہوں اب۔۔۔تھک چکا ہوں۔۔۔حد سے ذیادہ۔۔۔“  تنی کنپٹیوں کو شدت سے مسلتے ہوئے۔۔۔چلا کر بولتا وہ پاگل سا ہونے لگا تھا۔

”چچ چچ چچ۔۔۔۔تم ہار گئے شاہ میرحسن۔۔۔۔دیکھوتم ہار گئے۔۔۔ہار ہی تو گئے ہو۔۔۔۔۔“  وہ ہنوز سامنے کھڑی قدرے تاسف سے اُسکی شکست کا برملا اظہار کررہی تھی۔۔۔

اور پھر اگلے ہی پل کھنکھناتی آواز میں بلند ہوتے اُسکے  قہقے مقابل کا ضبط ختم کرتے چلے گئے۔

”آااااا۔۔۔۔بس بہت ہوگیا۔۔۔۔خاموش ہوجاؤ اب۔۔۔۔ایکدم چُپپپ۔۔۔۔نہیں ہوں میں ہارا۔۔۔۔میں کبھی ہار ہی نہیں سکتا۔۔۔

کیونکہ آج تک صرف جیت ہی شاہ میر حسن کا مقدر ٹھہری ہے۔۔۔

اور۔۔۔اور ہمیشہ جیتنے والے کبھی ہارا نہیں کرتے۔۔۔کبھی بھی نہیں۔۔۔۔سنا تم نے۔۔۔؟؟؟“  مشتعل سا بولتا وہ اگلے ہی پل پاس گرا واز اٹھا کر سامنے نظر آتے حرمین کے عکس پر مار چکا تھا۔۔۔ جو دھواں دھواں ہوتے عکس کے آرپار ہوتا۔۔۔دیوار سے لگ کر چکنا چور ہوتا چلا گیا۔۔۔۔

اسے یوں اپنی واضح شکست کو چند جذباتی لفظوں کی آڑ میں چھپانے کی ناکام کوشش کرتا دیکھ حرمین زہرا کے سیاہی مائل لبوں پر صاف طنزیہ مسکراہٹ بکھری تھی۔

”لیکن تم تو ہارگئے۔۔۔خود کی حالت دیکھو۔۔۔کیا بازی جیت جانے والا شخص ایسا ہوتا ہے۔۔۔؟؟؟   اس سنگین صورتحال سے رتی بھربھی مرعوب ہوئے بنا۔۔۔ کچھ نرمی سے پوچھتی اب کہ وہ سامنے سے غائب ہوکر  اُسکی پشت پر نمودار ہوئی تھی۔

ایسے میں۔۔۔خود ہی کے دماغی فتور میں بری طرح پھنستے شاہ کا دانت پیستے ہوئے۔۔دل شدت سے ڈوبنے لگا۔

” تمھارا ازلی غرور آج تمھیں پوری طرح لے ڈوبا ہے شاہ میر حسن۔۔۔اور یہ بات تم سے بہتر اور کوئی جان ہی نہیں سکتا۔۔۔“  اُسکے کان کے قریب جھک کر زہر اگلتی حرمین زہرا اُسے سخت اذیت سے دوچار کرگئی تھی۔

نتیجتاً گہرے سانس بھرتا وہ ضبط تلے جلتی آنکھیں میچ کر کھول گیا۔

”آخر تم دفع کیوں نہیں ہوجاتی میری زندگی سے۔۔۔۔؟؟؟خدارا تنہا چھوڑدو مجھے اور چلی جاؤ یہاں سے۔۔۔گیٹ لاسٹ۔۔۔جسٹ گیٹ لاسٹٹٹ۔۔۔“  تلخ حقیقت سے نم پڑتی نگاہیں چراتا۔۔۔وہ پسینے میں شرابور حلق کے بل چلایا تھا۔

ہاں۔۔۔ہاں وہ جانتا تھا کہ وہ صحیح کہہ رہی تھی۔۔۔

 خود کے۔۔۔کیے گئے بارہا انکار سے کہیں ذیادہ۔۔۔ اُسکی بات میں حددرجہ وزن تھا لیکن کسی کے سامنے یوں اپنی شکست تسلیم کرلینا بھلا اُس اناپرست بندے کے بس کی بات تھی ہی کہاں۔۔۔۔؟؟

چاہے پھر وہ کسی بےضرر سی لڑکی کا عکس ہی کیوں ناں ہو۔۔۔

اسکی کھوکھلی دہاڑ پر خائف ہونے کی بجائے وہ کھلکھلا کر ہنسی۔۔۔

اور پھر بےوجہ ہنستی چلی گئی۔۔۔

تو شاہ نے وحشت تلے سرخ چہرے پر ہاتھ پھیرے۔

”میں تو خود کو تمھاری خلوتوں کا محرم گردانتی ہوں۔۔۔۔پھر کیسے تمھاری زندگی سے دور ہوجاؤں۔۔۔بات وہ کرو جو میرے بس میں ہو۔۔۔۔“   معاً آگے آکر اسکے مقابل۔۔۔قریب تر بیٹھتی وہ ہر لحاظ سے اُسکا امتحان لے رہی تھی۔

شاہ کو کھل کر سانس لینا دشوار لگنے لگا۔

”خدا کا واسطہ ہے۔۔۔فی الحال کے لیے میری نظروں سے دور ہوجاؤ تم۔۔۔چلی جاؤ یہاں سے۔۔۔پلیززز۔۔۔۔۔۔“  وہ اس سمے بےبسی کی انتہا چھورہا تھا۔۔۔ جبھی اس بار مدھم لہجے میں شدت سے ملتجی ہوتا اگلے ہی پل اپنا سر ہاتھوں میں گراگیا۔

جواباً حرمین نم سلگتی نگاہوں سے کئی پل اسے یک ٹک تکتی رہی۔پھربنا کسی تگ و دو کے دھیرے دھیرے ہوا میں تحلیل ہوتی چلی گئی۔۔۔

اس گہرے سکوت میں مزید لمحے سرکے تو یک دم شاہ نے بھاری ہوتا سر اٹھاکر اطراف میں بھوری نگاہیں دوڑائی۔۔۔پھر اسکا تخیلاتی وجود کہیں بھی دیکھائی نہ پڑنے پر۔۔۔لب بھینچ کر سر کو تنفر سے جنبش دی۔

”آبرو۔۔۔۔آبرو۔۔۔۔آبرووووو۔۔۔۔“     اگلے ہی لمحے حلق کے بل چیخ  کر شدت سے اسے مخاطب کرتے۔۔۔ فقط ایک پل لگا تھا اسے اپنی بدترین شکست تسلیم کرنے میں۔۔۔

معاً وہیں دبیز قالین پر ڈھیتے ہوئے۔۔۔۔جہاں جھلستے دل میں شدت سے پنپتے ارادے کسی کی ذات کے لیے حقیقتاً بدترین ثابت ہونے کو تھے۔۔۔وہیں کراچی جانے کے سارے منصوبے سرعت سے دم توڑتے چلے گئے۔۔۔

”دیوار ِ شب اور عکس ِ رخِ یار سامنے

  پھردل کے آئینے سے لہو پھوٹنے لگا

  پھر وضعِ احتیاط سے دھندلاگئی نظر

  پھر ضبطِ آرزو سے بدن ٹوٹنے لگا۔۔۔۔“

************************

”آپ کی چائے۔۔۔۔۔“  نرمی سے بولتی وہ۔۔ان کے مگ تھامنے کی منتظر تھی۔۔۔جب اس پر کاٹ دار نگاہیں جمائے وہ آہستگی سے صوفے سے اٹھ کر کھڑی ہوئیں۔

ہنوز مگ کو احتیاط سے تھامے۔۔۔حاویہ نے سادگی سے پلکیں جھپکا کر ان کا ضبط سے سرخ پڑتا چہرہ دیکھا۔

”بھاڑ میں گئی تمھاری یہ چائے۔۔۔اور دکھاوے کی یہ خدمتیں۔۔۔۔“ تڑخ کر کہتے ہوئے۔۔عائمہ بیگم ہاتھ مار کر تپتی چائے کو اس کے داہنے ہاتھ پر انڈیل چکی تھیں۔۔

جواباً شدتِ تکلیف سے وہ اچھل پڑی۔

”سی۔۔۔آاا۔۔ہ۔۔۔م۔۔میرا ہاتھ۔۔۔۔“  اپنے ہاتھ کی سرخ پڑتی متاثرہ جلد کو شدت سے مسلتی حاویہ  پل بھر کو سختی سےآنکھیں بھینچ  کر کھول گئی۔۔۔پھر ٹوٹے بکھرے مگ سے بھیگتی نگاہیں ہٹاکر کچھ حیرت سے ان کا سفاک چہرہ دیکھا۔

بلاشبہ عائل کی عدم موجودگی میں ان کا رویہ ہتک آمیز ہوتا تھا۔۔۔

مگر آج۔۔۔آج تو وہ بلاجھجک جسمانی اذیت دینے پر اتر آئی تھیں۔

”کیا ہوا۔۔۔؟؟ہاتھ جل گیا۔۔۔۔؟؟ تکلیف ہورہی ہے۔۔۔؟؟؟

مگر جان لو لڑکی کہ یہ تکلیف۔۔۔اس تکلیف کے آگے بہت کم ہے جو اس وقت میرا سینہ جلائے دے رہی ہے۔۔۔۔“  جھٹکے سے اسکی داہنی کلائی دبوچتی وہ پھنکار بولیں تو  جلن سہتی حاویہ نے سختی سے لب بھینچ لیے۔

”مگر آپ کی اس تکلیف سے میرا کیا تعلق۔۔۔۔؟؟؟“  پوچھتے ہوئے وہ زور لگا کر اپنی کلائی ان کی گرفت سے چھڑوانے میں کامیاب ٹھہری تھی۔۔۔جو شاید عائمہ بیگم مڑورنے کا ارادہ کیے ہوئے تھیں۔

دو آنسو ٹوٹ کر اسکے گالوں پر پھسلے۔

”تعلق ہے۔۔۔۔؟؟سارا تعلق تمھارا ہی تو ہے۔۔تمھاری اس منحوسیت۔۔۔اس بدنظری کا۔۔۔جو ہماری تمام تر خوشیوں کو آگ لگانے پر بضد ہیں۔۔۔۔“  اپنی بہو کا بدلحاظی سے کیا جانے والا احتجاج انھیں مزید طیش زدہ کرچکا تھا۔۔جبھی اسے سرمئی رنگ دوپٹے سمیت بالوں سے جکڑتی کراہنے پر مجبور کرگئیں۔

”آا۔۔۔ہ۔۔۔۔۔آنٹی میرے بال چھوڑئیے۔۔۔۔مجھے تکلیف ہورہی ہے۔۔۔۔“  ہاتھ کے بعد بالوں میں اٹھتی تکلیف حاویہ کو شدت سے چلانے پر مجبور کرگئی تھی۔

ایسے میں کچن کے دروازے پر کھڑی شاہدہ حیرت سے کھلے منہ پر ہاتھ جماتی وہیں ساکت تھی۔

آگے بڑھ کر عائمہ بیگم کے خلاف حاویہ کا دفاع کرنا اس کی ملازمت کو خیرباد کہنے کے ہی تو برابر تھا۔

”اب سیدھی طرح بتاؤ کیا بکواس کی ہے تم نے میرے بیٹے سے۔۔۔؟؟؟ایسا کونسا نیا زہر گھولا ہے جو وہ اپنا اس گھر میں آنے کا بنا بنایا ارادہ اچانک بدل چکا ہے۔۔۔۔سچ سچ بتانا۔۔۔۔؟؟ورنہ خدا قسم آج  میرے قہر سے تم کسی بھی صورت نہیں بچ پاؤ گی۔۔۔۔“  اسکی مزاحمت پر اپنی گرفت مزید سخت کرتے اگلے ہی پل عائمہ بیگم نے بالوں کو زور کا جھٹکا دیا تھا۔

عائل اور حسن صاحب کے گھر سے چلے جانے کے کچھ ہی دیر بعدتو انھوں نے بذات خود شاہ میرکو کال ملائی تھی۔کچھ اپنی نئی نویلی بہو سے بھی بات چیت کرنے کا خاصا من ہورہا تھا۔

پہلے تو اسکا کال رسیو نہ کرنا انھیں کچھ تفتیش میں مبتلا کرگیا۔۔۔مگر پھر چوتھی کال پر وہ فون اٹھا چکا تھا۔۔۔

اور بنا کوئی سلام دعا کیے اسکا سلگتا لہجہ انھیں ساکت ہی تو کرگیا تھا۔

”فار گاڈ سیک موم۔۔۔ کالز پہ کالز کرکر کے مزید پریشان کرنا بند کیجیے اب مجھے۔۔۔بدل چکا ہوں میں اپنا ارادہ۔۔۔اب نہیں آرہا  کراچی۔۔۔اور نہ ہی آپکی چہیتی بہو کو لے کر کبھی آسکتا ہوں۔۔۔۔سنا آپ نے۔۔۔۔۔“  تلخی سے بات کرتا وہ اگلے ہی پل کال کاٹ چکا تھا۔۔۔جبکہ عائمہ بیگم حقیقتوں سے قدرے انجان۔۔۔اسکے اس قطیعت بھرے انکار پر دم بخود ہوکر رہ گئی تھیں۔

اور پھر سنسناتے دماغ میں فقط ایک ہی نام نے فتور بھرا تھا۔۔۔۔

حاویہ عائل حسن۔۔۔۔

ایک وہی تو تھی جو نہیں چاہتی تھی کہ اسکی موجودگی میں ان کا لاڈلہ بیٹا اس گھر میں آئے۔۔۔یقیناً اب بھی عائل یاں حسن صاحب کے سبب اپنا کھیل کھیل چکی تھی۔۔۔۔

”میں نے آپکے بیٹے سے کسی بھی قسم کی کوئی بکواس نہیں کی۔۔۔۔اور اگر کسی وجہ سے وہ اس گھر میں نہیں بھی آرہا ہے۔۔۔تو یقین مانیے یہ اس کا خود کے لیے لیا جانے والا ایک بہترین فیصلہ ہے۔۔۔۔ورنہ سکون تو اسے کہیں بھی نصیب نہیں۔۔۔۔“  عائمہ بیگم کی بات سمجھتے جہاں حاویہ کے دل میں ڈھیروں سکون اترا تھا۔۔۔وہیں بڑی مشکلوں سے اپنا آپ چھڑواتی وہ اپنے لفظوں سے انھیں آگ ہی تو لگا چکی تھی۔

”چٹااااااخ۔۔۔۔۔۔“  اگلے ہی پل اس بدزبانی پر برداشت کھوتی عائمہ بیگم کا ہاتھ اٹھا تھا اور اس کے چہرے پر شدت سے اپنا نشان چھوڑتا چلا گیا۔

”بس بہت جھیل لیا تم جیسی ناقابلِ برداشت۔۔دو ٹکے کی فضول سی لڑکی کو۔۔۔۔نکلو میرے گھر سے۔۔۔ابھی اور اسی وقت نکلو۔۔۔تماشہ لگتا ہے تو لگتا رہے میری بلا سے۔۔۔اب مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے کسی کی بھی۔۔۔۔۔“  معاً اسے بازو سے پکڑ کر اپنے سنگ گھسٹتی عائمہ بیگم نے ہال سے باہر کی جانب قدم بڑھائے تھے۔

”میں نہیں جاؤں گی۔۔۔۔چھوڑئیے میرا ہاتھ۔۔۔۔کیوں جاؤں میں یہاں سے۔۔۔؟؟یہ میرے شوہر کا گھر ہے کہیں نہیں جاؤں گی میں۔۔۔چھوڑئیے مجھے۔۔۔۔“  ان کے اس جذباتی اقدام پر حقیقتاً بوکھلاتی حاویہ بھرائے لہجے میں چیختی متواتر مزاحمت کررہی تھی۔۔۔جب کسی ایمرجنسی کے سبب۔۔۔بروقت دہلیز پھلانگ کر وہاں آتے حسن صاحب اس سنگین صورتحال پر ٹھٹھک کر رکے۔پھر تیوری ڈال کر غصے سے عائمہ بیگم کو دیکھا جو ہنوز حاویہ کو سختی سے تھامے ہوئے انہی کی جانب باغی نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں۔

”چھوڑو اس کا بازو۔۔۔۔۔“  قدم قدم چل کر ان دونوں کے سامنے آکر رکتے وہ بڑے ضبط سے گویا ہوئے۔۔ تو جہاں خود کو سنبھالتی حاویہ نے اتر چکے دوپٹے کو واپس سر پر درست کیا تھا۔۔۔وہیں وہ براہ راست نفی میں سر ہلانے کی جرات کرگئیں۔

اس پل پل بڑھتے ہنگامے کے دوران۔۔۔ہنوز کچن کی دہلیز پر کھڑی راشدہ نے۔۔۔احتیا طاً واپس کچن میں پلٹ جانا ہی خود کے لیے مناسب سمجھا تھا۔

”نہیں چھوڑوں گی۔۔۔۔اگر میرا بیٹا اس گھر میں نہیں آسکتا تو پھر اس لڑکی کو بھی یہاں رہنے کا قطعی کوئی حق نہیں ہے۔۔۔۔“  حسن صاحب کی آنکھوں میں امڈتا غصہ دیکھ وہ صاف قطعیت بھرے لہجے میں بولیں۔۔۔تو اس بات پر پل بھر کو حیران ہوتے ہوئے ان کی کشادہ  پیشانی پر مٹتی لکیریں اگلے ہی پل مٹھیاں بھینچتے پھر سے ابھر آئیں۔

”اور ویسے بھی یہ سب آپ لوگوں کی ملی بھگت کا ہی تو نتیجہ ہے یہ جس کے سبب آج میرے شام نے یہاں آنے سے صاف صاف انکار کردیا ہے۔۔۔۔پر اب میں بھی چپ نہیں بیٹھوں گی۔۔۔اسے ہر صورت یہاں سے جانا ہی پڑے گا حسن صاحب۔۔ میں بھی دیکھتی ہوں مجھے کون روکتا ہے۔۔۔۔۔؟؟؟“ مزید گویا ہوتی وہ۔۔۔اگلے ہی پل بےبسی سے آنسو بہاتی حاویہ کو سائیڈ سے ہوکر نکلنے والی تھیں۔۔۔جب اپنی برداشت کھوتے حسن صاحب نے قدرے درشتگی سے حاویہ کو ان کی مضبوط گرفت سے چھڑوایا۔پھر ان کے احتجاج کرتے لبوں کو اپنے بھاری ہاتھ کے تھپڑ سے ساکت ہونے پر مجبور کردیا۔

”چٹاااااخ۔۔۔۔۔“  پورے ہال میں گونجتی اس تند آواز نے جہاں حاویہ کو منہ پر ہاتھ رکھ کر پیچھے ہونے پر مجبور کیا تھا۔۔۔وہیں عائمہ بیگم نے جلتے رخسار پر ہاتھ رکھے۔۔۔قدرے بے یقینی سے اپنے بپھر چکے شوہر کی جانب دیکھا۔

کمرے کی حدود سے باہر وہ سرعام بھی ان پر ہاتھ اٹھا سکتے تھے۔۔۔یہ بات تو انھوں نے کبھی تصور میں بھی نہیں سوچی تھی۔۔۔

”دیکھ لیا۔۔۔؟؟تمھیں لگامے ڈالنے کے لیے ابھی میں زندہ ہوں۔۔۔۔اور زہرلگتی ہے مجھے یہ بغاوت۔۔۔جو میری ڈھیل کے سبب تمھارے اندر شدت سے سر اٹھا چکی ہے۔۔۔بہتر ہے اسے بذات خود اندر ہی ختم کردو ورنہ میرے ختم کرنے کا انداز تمھیں قطعی پسند نہیں آئے گا۔۔۔۔

اور تم۔۔۔۔۔؟؟“ ہر لفظ چبا چبا کر بولتے جہاں وہ عائمہ بیگم کے بھڑکتے جذبات اپنے رعب تلے ٹھنڈے ٹھار کرچکے تھے۔۔۔وہیں اپنا رخ اگلے ہی پل سہمی کھڑی حاویہ کی جانب مکمل موڑ گئے۔

”اس گھر کی حدود پھلانگنے سے کہیں ذیادہ بہتر ہے کہ اپنے شوہر اور کمرے کی حد تک رہنا سیکھو۔۔۔۔جتنا تماشہ لگنا تھا سو لگ چکا۔۔۔اب جاؤ یہاں سے۔۔۔۔“  سرد لہجے میں بولتے وہ اسے صاف تنبیہہ کررہے تھے۔۔۔

جواباً اپنے بھیگے گال صاف کرتی حاویہ نے سر کو ہولے سے جنبش دی۔

پھر ساکت نم نگاہوں سے شفاف فرش کو گھورتی عائمہ بیگم پر ایک خائف سی نگاہ ڈالتی۔۔۔اگلے ہی پل سیڑھیوں کی جانب پلٹتے وہاں سےتقریباً بھاگتی چلی گئی۔۔۔۔

معاً حسن صاحب نے ایک تند نگاہ اپنی ساکت کھڑی بیوی کو دیکھا۔پھر بنا کچھ بولے مطلوبہ۔۔ضروری فائل لینے کی غرض سے اسٹڈی روم کی جانب لپکے۔

پیچھے عائمہ بیگم نے اہانت کے شدید احساس تلے سرخ پڑتے۔۔۔بڑی بےدردی سے اپنے آنسوؤں کو رگڑا تھا۔۔۔۔

ہمارا رتبہ،تمھارا مقام یاد رہے

خِرد سے دورتمھیں عقلِ خام یاد رہے

ادا کیا تو ہے کردار شاہ زادے کا

مگر غلام ہو،ابنِ غلام یاد رہے

ابھی شل ہے میرا وجود سو ہاتھ کھینچ لیا؛

صفحات چاک ہوں گے انتقام کے یاد رہے

نہیں ابھی،تو تمھیں جس گھڑی ملے فرصت

ہمارے ساتھ گزارو گے شام یاد رہے

خمیر میں ہے تمھارے،بڑے بھلکڑ ہو

ابھی لیا ہے جو ذمے تو کام یاد رہے

جو اپنے آپ کو شعلہ بیاں بتاتے تھے؛

سودی ہے ان کی زباں کو لگام یاد رہے

بچھڑ تو جانا ہےاتنا گماں رہتا ہے

لبوں کی سلگتی مہر،دلوں کا پیام یاد رہے

یہ معجزہ بھی تو کوئی دن دیکھنے کو ملے؛

ہمارا ذکر تمھیں صبح و شام یاد رہے

بجا کہ زیر کیا تم نے اپنے مقابل کو

سنبھل سنبھل کر رکھو اب بھی گام یاد رہے

وہ اس پل واش بیسن پر جھکی بار بار اپنے شفاف چہرے پر پانی کے چھینٹے مارتی چلی جارہی تھی۔۔۔جب گہری نیلی نگاہوں میں بھیگتی ہوئی شکست بڑی آہستگی سے اسکے گالوں پر لڑھکی۔

معاً اس نے سر اٹھا کر بغور خود کا عکس آئینے میں دیکھا۔

وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ شاہ کا ایک ہید بار میں کھیلا گیا شدید داؤ اسے جبراً۔۔۔ اس فلیٹ میں ہر لحاظ سے مقید ہونے پر مجبور کردے گا۔۔جس کے لیے  چند روز قبل وہ بذاتِ خود خود کے بنائے منصوبے کے تحت راضی تھی۔۔۔

 مگر اب۔۔۔

 اب تو جیسے بساط مکمل طور پر اسکے خلاف پلٹ دی گئی تھی۔ 

شدتِ بےبسی سے نگاہیں بھینچ کر سوچتے ہوئے اس نے بھیگے چہرے پر آہستگی سے ہاتھ پھیرا۔۔۔تو  بےاختیار سماعتوں میں اترتی مردانہ آواز اسے بیت چکے لمحوں میں دھنساتی چلی گئی۔

 ”تابین بائی۔۔۔آپکے خلاف شاہ صاحب کا ہمارے پاس بیان موجود ہے جس کےمطابق آپ نے ان کی بیوی آبرو شاہ میرحسن کو جبراً اپنے قبضے میں لیا ہوا ہے۔۔۔تاکہ اس کے ذریعے اپنے ناچ گانے کا یہ عیاشیوں بھرا دھندا بحال رکھ سکیں۔۔۔۔“  پولیس والا متواتر خود کی ہتھیلی پر ڈنڈے کی ہلکی ضربیں لگاتا پریقین سا تھا۔

جان پہچان کے چند پولیس اہلکاروں کے ہمراہ شاہ میرحسن کا یوں براہ راست حویلی پر کیا گیا یہ وار غیرمتوقع ہی تو تھا۔۔۔

اس دوران وہاں موجود ایک ایک نفوس اس اقدام پر سرسراتی چہ مگوئیوں پر اتر آیا تھا۔

 ہنوز اپنے عکس کو دھندلائی نگاہوں سے گھورتے ہوئے آبرو نے آہستگی سے پلکیں جھپکائیں۔۔۔تو دو آنسو ٹوٹ کر اسکی تپتی گالوں پر پھسلے۔

”ایک منٹ پولیس آفیسر صاحب۔۔۔اول تو یہاں کا دھندا سالوں پرانا ہے۔۔۔جس کی بھرپائی ہم تم جیسے پولیس والوں کے آگے ماہوار بھتے کی صورت میں پیش کرتے آئے ہیں۔۔۔اور دوسرا۔۔رہی بات اس دھندے کو چلانے کی تو۔۔۔۔جان لو کہ اس گمنام حویلی میں جبراً کچھ بھی نہیں ہوتا۔۔۔۔یہاں موجود تمام تر عورتیں اپنی مرضی سے رہ رہی ہیں۔۔۔۔حتیٰ کہ میری معصوم کلی رابی بھی۔۔۔جسے یہ شخص آپ سب لوگوں کے سامنے یوں اپنی بیوی بناکر پیش کررہا ہے۔۔۔۔“  تابین بائی کا باقاعدہ غصے میں ہاتھ نچا نچا کر کیا جانے والا احتجاج جہاں اس دوغلے پولیس آفیسر کی پیشانی پر تیوری لے آیا تھا۔۔۔وہیں اس کے سنگ قدرے اطمنیان سے کھڑے اس شخص کے لبوں پر تمسخرانہ مسکراہٹ بکھرنےکا سبب بنا۔۔۔جس کی بھوری نگاہوں کا مرکز ہنوز وہی ایک تھی۔۔۔جو اشتعال سے مٹھیاں پھینچے کھڑی  چپ چاپ اسی کو دیکھ رہی تھی۔

آبرو کا دل عجیب احساس تلے گھبرانے سا لگا تو وہ تیزی سے پلٹتی واشروم سے باہر نکل آئی۔

”دیکھو بی بی معاملہ صاف صاف ہے۔۔۔سو ایسے میں ہمیں ورغلانے کی کوشش مت کرو ۔۔۔۔نکاح نامہ۔۔۔اور مولوی سمیت گواہان کی شاہ صاحب کے حق میں گواہی جیسے ثبوت ہمیں مل چکے ہیں۔۔۔۔پر اگر جو تم نے اپنی شرافت نہ دکھائی تو ان تمام تر ثبوتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہمیں مجبوراً تم پر ایک بھاری کیس دائر کرنا پڑے گا۔۔۔۔مزید تمھارا یہ چلتا چلاتا اڈا بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔۔۔۔“  پولیس والا قدرے بےلچک انداز میں تابین بائی کو نت نئی فکریں باور کروارہا تھا۔۔۔اور وہ سرخ لبوں پر زبان پھیرتی ناچاہتے ہوئے بھی فکرمند ہورہی تھیں۔

”مان لیتے ہیں کہ شوہر ہے تو کیا۔۔۔؟؟؟میری بچی اب خود اس کے ساتھ جانے کو راضی نہیں ہے۔۔اب کیا زبردستی اسکی زندگی برباد کردوں۔۔۔۔؟؟؟“  چٹخ کر پوچھتے ہوئے وہ بےبس ہورہی تھیں۔

ایک ایک کرکے تمام تر حقیقتیں بتانا فی الوقت دشوارترین ہی تو تھا۔

”کیا معلوم تمھارے زبردست دباؤ تلے میری بیوی کی مرضی اب دب چکی ہو تابین بائی۔۔۔۔حالانکہ ان تصاویر میں میرےہمراہ اس کا ہنستا مسکراتا چہرہ صاف ظاہر کررہا ہے۔۔۔جو وہ دل سے چاہتی ہے۔۔۔۔۔“ کچھ سلگ کر کہتے ہوئے بے اختیار شاہ نے جیب سے موبائل نکال کر وال پیپر پر لگی نکاح کی تصویر سرعام دکھائی۔۔۔تو جہاں مقابل کھڑی آبرو کا دل اس پل دھڑک اٹھا تھا۔۔۔وہیں اسکا پلڑا بھاری پڑتا دیکھ تابین بائی کا سینہ پیٹ لینے کو دل چاہا۔

”بالکل صحیح۔۔۔اور ویسے بھی ایک لڑکی کے لیے اس سے بہتر اور کیا بات ہوسکتی ہے کہ وہ اس بدنامی سے نکل کر اپنے شوہر کے سنگ ایک عزت بھری زندگی جیئے۔۔۔۔اب تو یہ تمھیں طے کرنا ہے تابین بی بی کہ تم صلح صفائی سے یہ معاملہ ختم کرنا چاہتی ہو۔۔۔۔؟؟یا پھر خود کے ساتھ ساتھ ہمارا سکون بھی برباد کرکے۔۔۔؟؟“  اس بار پولیس آفیسر نے اپنے ساتھ آئے حوالدار کے ہاتھ میں پکڑی ہتھکڑی کی طرف اشارہ کرتے صاف دھمکی دی تھی۔

 اور پھر۔۔۔

 بے چین دل پر ہاتھ رکھ کر بیڈ پر بیٹھتی آبرو کو اُس پل خود کا دیا گیا جواب سماعتوں میں سیسے کی مانند گھولتا ہوا محسوس ہوا۔

” مجھےمنظور ہے۔۔۔۔میں جاؤں گی اس شخص کے ساتھ۔۔۔۔اسکی بیوی کی حیثیت سے۔۔۔۔“  بآواز بلند گویا ہوتی جہاں وہ اپنے اس حتمی فیصلے سے تقریباً سبھی کو ساکت ہونے پرمجبور گئی تھی۔۔۔وہیں وہ اسکی جانب دیکھ کر سر کو ہولے سے جنبش دیتا ایک ادا سےمسکرایا۔

وحشتوں میں دھکیلتی صاف مسکراہٹ۔۔۔۔

 ہاں۔۔۔ہاں وہ ساتھ نہ دیتے ان حالاتوں سے مجبور ہوکر ہی سہی۔۔مگر شاہ میرحسن کے ہمراہ اسکے فلیٹ میں چلی آئی تھی۔۔۔۔ 

ایک طرف۔۔۔ایکسیڈنٹ کے بعد سالار خان کے ہوش میں آنے کی خبر نے اسکے بےچین وجود نے اطمینان تو اتارا تھا۔۔۔مگر اس نئے  ہنگامے کے سبب اسکا یہ اطمینان اب اذیت اور نت نئی فکروں میں ڈھل چکا تھا۔

آبرو اپنے بھیگتے رخساروں کو رگڑ کر صاف کرتی مزید گہرائی میں اترتی چلی جاتی۔۔۔اگر جو دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوتا شاہ  اسکی سوچوں کا تسلسل نہ توڑتا تو۔۔۔۔

کچھ دیر پہلے وہ اسے خود کے کمرے میں چھوڑ جانے کے بعد اب واپس آیا تھا۔۔۔

اگلے ہی پل شاہ میر پلٹ کر انگارہ ہوتی نگاہیں اسکے بےتاثر چہرے پر جمائے ۔۔۔قدم قدم چلتا ہوا اسکے قریب آیا تھا۔

آبرو کو لگا جیسے اب وہ انتقاماً اس پر پے در پے ہاتھ اٹھائے گا۔۔اور اٹھاتا ہی چلا جائے گا۔

مگر یہ کیا۔۔۔؟؟؟

 مزید پل خاموشی کی نذر ہوجانے پر اپنا اندازہ غلط ہوتا دیکھ۔۔۔اس نے کچھ حیرت سے اسکے تنے ہوئے نقوش بغور دیکھے۔

چوڑے سینے پر بازو لپیٹے وہ اسے ہی قدرے عجیب نگاہوں سے گھور رہا تھا۔

”ڈر لگ رہا ہے میری موجودگی سے۔۔۔۔؟؟؟“  بظاہر نرمی سے پوچھتا شاید وہ اسکی کیفیات کو بھانپ چکا تھا۔

آبرو نے سادگی سے پلکیں جھپکائیں۔

”مجھے نہیں لگتا کہ ایک شوہر کی موجودگی اسکی بیوی کے لیے کبھی ڈرنے کا سبب بن سکتی ہے۔۔۔وہ تو بذاتِ خود ایک محافظ ہوتا ہے۔۔۔نہیں؟؟۔۔۔“  سنبھل کر دوبدو جواب دیتی وہ اپنی طراری سے شاہ کو مٹھیاں بھینچنے پر مجبور کرگئی۔

”جانتی ہو بیوی؟؟محبت نہیں۔۔۔عشق کیا تھا تم سے۔۔۔۔تمھاری جھوٹی پارسائی سے۔۔۔تمھاری حیاء۔۔۔ہچکچاہٹ۔۔مسکراہٹ۔۔۔انفیکٹ ہر ادا سے ہی۔۔۔۔“  مدھم۔۔سلگتے لہجے میں بولتے ہوئے اس نے بے اختیار اپنی پیشانی کو سختی سے مسلا۔۔۔تو لب بھینچتی وہ کچھ بےزاری سے اپنا چہرہ  پھیر گئی۔

”مگر اس عشق کے جواب میں تم نے ایسا ناقابلِ برداشت فراڈ کیا ہے میرے ساتھ کہ دل سمیت روح تک جل کر خاکستر ہوچکی ہے میری۔۔۔کیوں؟؟؟۔۔۔۔آخر کیوں برباد کیا میرا سکون۔۔۔۔؟؟؟“  اسکا یوں نگاہیں چرا جانا زہر ہی تو لگا تھا مقابل کو۔۔۔۔ جبھی آگے بڑھ کر۔۔۔درشتگی سے اسکا منہ دبوچ کر سر بیڈ کراؤن کے ساتھ ٹکاتا وہ قدرے زور سے چلایا۔

اسکی رخسار میں دھنستی انگلیاں آبرو کی نیلی نگاہیں نم کرگئی تھیں۔۔۔مگر ان میں بھیگتی بغاوت شاہ کا دماغ خراب کرنے کے لیے کافی تھی۔

”کچھ پوچھ رہا ہوں میں تم سے ڈیمٹ۔۔۔۔؟؟؟یوں چپ رہ کر میرا ضبط مت آزماؤ۔۔۔جواب چاہیے مجھے۔۔۔صرف سچ۔۔۔اسکے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔“  پھنکار کر پوچھتے ہوئے  اب کہ وہ اسکے مقابل۔۔قریب تر بیٹھ چکا تھا۔

”کیونکہ۔۔تمھاری بربادی مجھے سکون پہنچاتی ہے۔۔شاہ میرحسن۔۔۔۔۔“  مٹھیوں میں بیڈ شیٹ کو دبوچتے جہاں اسنے ہنوز اپنا آپ مقابل سے چھڑوانے کی کوشش نہیں کی تھی۔۔۔وہیں شفاف چہرے پر  بکھرتی اس کی سلگتی سانسیں دل کی دھڑکنیں مزید بڑھاگئیں۔

”میری بربادی ہی کیوں۔۔۔۔؟؟؟“  تیوری چڑھاکر پوچھتے شاہ کا دل اس کے جواب پر بھڑکتی بھٹی کی مانند جل رہا تھا۔

”کھیل میں بادشاہ کو مات دینے کے لیے مہروں کی موت لازم ہوتی ہے۔۔۔۔مگر افسوس کہ تم جیسا مہرہ میرے جانلیوا وار سے پہلے ہی اپنی چال بدل گیا۔۔۔۔یا پھر شاید بدقسمتی سے قسمت چال بدل گئی جو میرا سچ یوں تمھارے سامنے آگیا۔۔۔۔“  شدت سے اسکی آنکھوں میں جھانکتی وہ اسی کے انداز میں پھنکار کر بولی۔۔۔تو ضبط کھوتا اگلے ہی پل وہ اسے شفاف گردن سے دبوچتا بستر پر گرا چکا تھا۔

آبرو اس غیرمتوقع افتاد پر شدت سے بوکھلائی تھی۔۔۔جو گھٹنے کے بل پورے استحقاق سے اس پر جھکتا۔۔۔دوسرے ہاتھ سے اسکی نازک کلائی بھی تھام چکا تھا۔

”کون بادشاہ۔۔۔۔۔؟؟ہہمم۔۔۔؟؟؟کس بادشاہ تک پہنچنے کی بات کررہی ہو تم۔۔۔۔؟؟؟یا وحشت۔۔۔یہ بےتکی پہلیاں بجھوانے کا فضول سا ڈرامہ بند کرو اب۔۔۔۔“  سخت تاثرات لیے بڑے ضبط سے پوچھتا وہ آخر میں چٹخ سا گیا۔

اسکی مردانہ کلائی سختی سے تھامے۔۔۔آبرو کی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کر کنپٹیوں پر لڑھکے۔

گردن کے گرد اس کی پکڑ مضبوط ضرور تھی۔۔۔ مگر اتنی سخت قطعاً نہیں تھی کہ سانسیں ہی گھٹ جاتیں۔۔۔ 

”عشق محبت کے ہزار ہا دعوے کرنے کے باوجود بھی۔۔۔حقیقت جان لینے پر اب خاصی نفرت ہوچکی ہے ناں تمھیں مجھ سے۔۔۔۔؟؟؟“   کف تلے کلائی چھوڑ۔۔اب کہ گریبان پکڑتی وہ شاہ کو اپنے غیر متوقع سوال سے چونکا گئی۔

استفسار کرتی نیلی نگاہوں میں اچانک گھلتی تپش ناچاہتے ہوئے بھی اسکا دل دھڑکا چکی تھی۔

کس قدر فریبی عورت تھی ناں وہ۔۔۔قریب سے اسکے نقوش تکتے شاہ کو شدت سے یہ احساس ہوا تھا۔

”مطلب ہو گئی ہے۔۔۔ہونہہ۔۔۔کوٹھے میں ناچتی رقاصاؤں کو بھلا محبت کرتا بھی کون ہے۔۔۔؟؟؟سوائے ایک ہوس کے۔۔۔۔۔“  اسکے یوں تیوری چڑھا کر خاموشی  سے تکنے پر وہ سنگین صورتحال میں بھی تمسخراڑاتے انداز میں گویا ہوئی۔۔۔تو اسکی بات پر اپنا سارا ضبط کھوتے ہوئے شاہ بےاختیار اسکے چہرے پر دہاڑا۔

”بسسسس۔۔۔۔۔“  رقاصہ کےنام نے تو جیسے اسکے جلتے زخموں کو مزید دہکا کر رکھ دیا تھا جبھی کلائی چھوڑتے ہوئے۔۔۔وہ سانسیں گھوٹنے کو قریب پڑا تکیہ اٹھاتا اسکے منہ پر رکھ گیا۔

”بیوی ہو تم میری اب۔۔۔۔بیوی۔۔۔۔کوئی رقاصہ نہیں۔۔۔سنا تم نے۔۔۔۔۔“  شدت سے بوکھلاتی آبرو نے اسے دونوں ہاتھوں سے دھکا دینے کی ناکام سی کوشش کی تھی۔۔۔ جب گردن سے ہاتھ ہٹائے۔۔۔وہ آنکھوں میں بھیگی سرخی لیے چیخ کر کہتا۔۔۔تکیے پر دونوں ہاتھوں سے اپنا دباؤ مزید بڑھاتا چلاگیا۔

”امممم۔۔۔۔امممم۔۔۔۔۔۔“  نتیجتاً تکیے تلے گھوٹتا سانس اب کہ اسے شدت سے مچلنے پر مجبور کرچکا تھا۔۔۔

معاً اسکی مزید سخت ہوتی مزاحمت پر اگلے ہی پل شاہ نے جھٹکے سے تکیہ پیچھے ہٹایا۔۔۔تو ضبط سے سرخ پڑ چکے چہرے کے ساتھ لمبے لمبے سانس بھرتی آبرو  کے رخسار آنسوؤں تلے بھیگتے چلے گئے۔

دل پھٹنے کی حد تک شدتوں سے دھڑک رہا تھا۔

”جانتی ہو؟؟ماضی میں حرمین زہرا نے فقط ایک تھپڑ مارا تھا میرے منہ پر۔۔۔فقط ایک۔۔۔ اور جواب میں،میں نے روح سمیت اسکی عزت کا جنازہ نکال کر رکھ دیا تھا۔۔۔پر یہاں تو تم نے سیدھا میری ذات پر پے در پے تھپڑ مارے ہیں مس آبرو۔۔۔ذرا سوچو۔۔۔۔سوچو کہ تمھارا کتنا برا حال کروں گا میں۔۔۔۔۔؟؟؟“  خود سے مزید خائف کرنے غرض سے قریب ہوتا وہ۔۔۔اپنے جرم کا اظہار کرتے ہوئے اسے صاف دھمکا رہا تھا۔۔۔جب ہنوز بگڑے تنفس کے ساتھ  اسے پوری قوت سے خود سے پرے دھکیلتی وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔

”تو یعنی تم بھی اپنے باپ کی ہی پرچھائی ہو۔۔۔۔حد درجہ ظالم۔۔۔۔“  نفرت سے اسکی جانب دیکھتی وہ بھیگی آواز میں چلائی تھی۔۔۔

وہ جو لڑکھڑا کر سنبھلتا اب بیڈ سے اتر چکا تھا۔۔۔اسکے لفظوں پر کچھ حیرت سے بھنویں سکیڑ گیا۔

بھلا ان دونوں کے معاملے سے اس کے باپ کا کیا تعلق تھا۔۔۔۔

”کیا۔۔؟؟کیا مطلب کیا ہے تمھاری اس بکواس کا۔۔۔؟؟ہہمم۔۔؟؟؟  اسکی جانب دیکھتے اس نے تندہی سے پوچھا تو وہ بھی بیڈ سے اترتی اسکی مقابل آ رکی۔

”تم جاننا چاہتے تھے ناں۔۔؟؟جاننا چاہتے تھے ناں کہ م۔۔میری ماں۔۔۔میرے باپ کا قاتل کون تھا۔۔۔۔؟؟؟“  سسک کر سوال کے بدلے سوال پوچھتی وہ سینے پر ہاتھ رکھے اسے دو قدم پیچھے دھکیل گئی تھی۔۔۔

اس جرات پر شاہ نے اشتعال سے مٹھیاں بھینچ لیں۔

”میں بتاتی ہوں تمھیں۔۔۔۔تمھارا باپ۔۔حسن خاور تھا وہ قاتل۔۔۔۔۔۔“ وہ ایک بار پھر زور لگا کر اسے پیچھے کی جانب دھکا دیتی حلق کے بل چیخی۔۔۔تو اس غیر متوقع انکشاف پر شدت سے دنگ ہوتے شاہ کی پیشانی کے بل بے اختیار سمٹتے چلے گئے۔۔۔

”قاتل۔۔۔۔۔

  زانی۔۔۔۔۔

  سفاک۔۔۔۔

  آزاد مجرم۔۔۔۔۔“  ایک ایک کرکے پوشیدہ حقیقتیں بڑی بےدردی سے اسے باورکرواتی وہ بے اختیار اپنے بال مٹھیوں میں جکڑگئی۔۔۔تو نفی میں سر ہلاتے ہوئے شاہ کی بے یقینی  مزید بڑھتی چلی گئی۔

”جھوٹ۔۔۔۔جھوٹ بول رہی ہو تم۔۔۔۔م۔۔میرا باپ ایسا نہیں ہوسکتا۔۔۔قطعی نہیں۔۔۔۔“  اسکی بگڑی حالت پر ڈوبتے دل کی پرواہ کیے بنا۔۔۔وہ بڑے اعتماد سے گویا ہوا۔

ہاں۔۔۔ہاں وہ سخت طبعیت ہوسکتے تھے۔۔۔

بےحس ہوسکتے تھے۔۔۔۔

نفرت کی حد تک بیگانہ رویہ اپنانے کے متحمل بھی ہو سکتے تھے۔۔۔

مگر۔۔۔قاتل۔۔۔

زانی۔۔۔

مجرم۔۔۔۔

ناممکن۔۔۔۔

ناممکنات میں سے ایک ہی تو تھا شاہ کے لیے۔۔۔۔

دکھ سے اسکی جانب دیکھتی آبرو کا دل اسکے صاف انکار پر اذیت تلے شدت سے مچلا۔

”تمھیں کیا لگتا ہے شاہ میرحسن۔۔۔۔پیدائشی رقاصہ ہوں میں ۔۔۔؟؟ہاں۔۔۔۔؟؟ کوٹھے میں پیدا ہوا ایک گند ہوں۔۔۔۔؟؟؟

نہ نہ شاہ۔۔۔نہ۔۔۔۔انتقام کے نام پر میرے ماں باپ۔۔۔

اور غیرت کے نام پر تمھاری سگی پھوپھی کا قتل کرنے کے بعد۔۔۔مجھے کوٹھے کی زینت بنانے والا ذلیل ترین انسان ہے تمھارا باپ۔۔۔۔“  اسکے حدردجہ قریب آتی وہ شدت سے پھنکاری۔آنسو تواتر سے گالوں کو بھگورہے تھے۔

”جسٹ شٹ اپ یو ڈیمٹ۔۔۔۔جسٹ شٹ اپ۔۔۔ بند کرو میرے باپ پر گھٹیا قسم کے بہتان باندھنا۔۔۔“  ضبط ٹوٹنے پر چیخ کر بولتا وہ اگلے ہی پل اسکی بندھی چوٹی  کو مٹھی میں دبوچ چکا تھا۔

”اب اگر جو تم نے ایک لفظ مزید میرے ڈیڈ کے خلاف بولا تو خدا قسم  زہر اگلتی اس زبان کو گدی سے کھینچ کر الگ کرنے ذرا بھی وقت نہیں لگاؤں گا۔۔۔سمجھی تم۔۔۔۔“  ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولتے ہوئے جہاں  اسکی رگیں صاف پھولتی دکھائی پڑ رہی تھیں۔۔۔۔وہیں آبرو سخت گرفت کے سبب جڑوں میں اٹھتی  تکلیف پر لب بھینچتی۔۔۔بےاختیار سینے سے اسکی شرٹ کو مٹھیوں میں دبوچ گئی۔

”اپنے باپ کی طرح اگر جان سے بھی مار دو گے ناں شاہ میر حسن۔۔۔ تو بھی میں اپنی اس سچ اگلتی زبان کو بےلگام ہونے سے نہیں رکوں گی۔۔۔۔بولوں گی۔۔۔چیخ چیخ کر بولوں گی۔۔۔۔کرلو جو کرسکتے ہو۔۔۔۔“ قدرے ہمت سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نفرت سے گویا ہوتی وہ شاہ کا دل بےسکونی تلے شدتوں سے دھڑکا گئی تھی۔

نتیجتاً اس نے آبرو کے نقوش پر گہرا سانس چھوڑتے ہوئے ضبط سے جلتی آنکھیں میچ کر کھولیں۔

”جانتا ہوں آبرو سکندر۔۔۔اچھے سے جانتا ہوں کہ ایک بار پھر تم مجھے مکروہ فریب دینے کے چکروں میں ہو۔۔۔تمھاری یہ چھلکتی آنکھیں۔۔۔تمھاری کہی باتیں۔۔۔اور تم خود۔۔۔ایک فریب ہو۔۔۔

پر اب ایسا نہیں ہوگا بیوی۔۔۔۔اب فقط وہی ہوگا جو میں چاہتا ہوں۔۔۔۔اور میں  تمھیں اپنی قید میں رکھتے ہوئے۔۔۔ہرلحاظ سے تمھارا سکون برباد کرنا چاہتا ہوں۔۔۔بالکل اسی طرح جیسے تم میرا کرچکی ہو۔۔۔۔“  قدرے مضبوط لہجے میں ٹھہر ٹھہر کر بولتا وہ اسے صاف دھمکا رہا تھا۔

آبرو کے چہرے کی رنگت اس کے ظلمانہ الفاظ پر خطرناک حد تک متغیر ہوئی تھی۔۔۔۔

نیلی نگاہوں میں بھیگتا اشتعال مزید بڑھا تھا۔۔۔جس میں اپنا سفاک عکس بغور دیکھتا وہ اگلے ہی پل اسے بےدردی سے پیچھے بیڈ کی جانب دھکیل گیا۔

پھر شدید غصے میں کمرے کا دروازہ کھول کر وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

پیچھے وہ پل بھر کا توقف لے کر شدتِ بےبسی سے چیختی ہوئی بیڈ شیٹ کو کھینچ کر نیچے پھینکتی۔۔۔اگلے ہی پل خود بھی ڈھے جانے کے انداز سے زمین بوس ہوچکی تھی۔

**********************

دہکتے سورج تلے دل کو وحشت زدہ کرتی ہوئی وہ کوئی قدرے ویران۔۔پتھریلی سی ناہموار جگہ تھی۔۔۔جہاں وہ۔۔۔ان دونوں کے مقابل دوزانوں ہوکر بیٹھا اس پل قدرے اذیت میں دکھائی دے رہا تھا۔

ایسے میں چلتی ہوا کا بہاؤ بھی خاصا ندارد تھا۔۔جبھی اسے حلق میں ہی اپنی سانسیں مزید گھوٹتی ہوئی محسوس ہونے لگیں۔

”ی۔۔یہ۔۔۔یہ دیکھ رہی ہو۔۔۔؟؟؟تمھارے سبب میری حالت کیا سے کیا ہوچکی ہے۔۔۔۔دل کے ساتھ ساتھ میرا سکون۔۔۔میرا وجود خون خون کردیا ہے تمھاری اس بےوفائی نے۔۔۔“ وہ پور پور خوبصورت دلہن میں ڈھلی اپنے محرم شخص کی بانہوں میں سمٹ کر کھڑی تھی۔۔جب  نم سرخ نگاہوں سے محض اسی کی جانب دیکھ کر وہ بھرائی آواز میں چیخا۔

مگر صد افسوس کہ سناٹے کو شدت سے توڑتے اسکے اذیتی شکوے نے نگواریت کے سوا۔۔۔اس جوڑے کے جذباتوں پر کچھ خاص اثر نہیں ڈالا تھا۔۔۔ہاں البتہ دل کے ساتھ ساتھ اب اسے خود کا دماغ شدت سے کٹتا ہوا ضرور محسوس ہونے لگا تھا۔

”مگر افسوس۔۔۔افسوس کہ اس سب کے باوجود بھی۔۔۔میری سانسیں چل رہی ہے۔۔۔دل دھڑک رہا ہے۔۔۔زندہ ہوں میں۔۔۔۔۔۔“  معاً پھٹی پیشانی سے گال پر لڑھکتے لہو کو بےدردی سے رگڑتا وہ اس بار مدھم شکستہ  لہجے میں بولنے پر مجبور ہوا۔۔۔تو بھنویں سکیڑتی وہ شاہ کی بانہوں سے نکل کر اگلے ہی پل اسکے مقابل۔۔۔قریب تر ہوکر بیٹھی۔

گھنگرؤوں کی چھنکار سنتے سالار خان نے  سینے پر ہاتھ دھرے۔۔۔جلتی نگاہوں سے اسکے یک لخت بدلتے تاثرات دیکھے۔

”واللہ۔۔۔سالار خان غلط بیانی مت کرو۔۔۔۔میں نے کبھی بھی تم سے اس بات کا اعتراف نہیں کیا کہ مجھے تم سے بےپناہ تو دور۔۔فقط محبت ہے۔۔۔۔

جب محبت ہی نہیں تو پھر یہ بےوفائی کیسی۔۔۔؟؟؟“  سفاکی سے پوچھتی وہ کس قدر نرم لہجہ اپنائے ہوئے تھی ناں۔۔۔

اس کے نزدیک اپنی اوقات جان کر ہتھیلی تلے سالار کا سلگا دل درد کی شدت سے مزید پھڑپھڑانے لگا۔

”تو پھر کیا یہ شخص تمھاری م۔۔محبت۔۔۔تمھاری منزل ہے۔۔۔۔؟؟؟میں نہیں۔۔۔۔؟؟؟“  شہادت کی انگلی۔۔۔مٹھیاں بھینچ کر ساکت کھڑے شاہ کی جانب اٹھا کر  ٹوٹے لہجے میں پوچھتا ہوا وہ پل پل بکھررہا تھا۔

جواباً رابی گردن موڑ کر شاہ کی جانب دیکھتی قدرے محبت سے مسکرائی۔پھر واپس اسکی جانب متوجہ ہوتی بڑے اعتماد سے اثبات میں سر ہلاگئی۔۔۔

 تو جواباً سالار خان کو پلکوں سے ٹوٹ کر گال پر پھسلتے آنسو صاف محسوس ہوئے۔سلگاتی گرمی پسینے کا سبب بن رہی تھی۔

”میں اپنی منزل کا انتخاب کر چکی ہوں۔۔۔۔اب تمھاری باری ہے۔۔۔ان غلط راہوں کو چھوڑ کر اپنے حق میں درست منزل کا انتخاب کرو۔۔۔۔۔“  تنبیہی انداز میں کہہ کر کھڑی ہوتی وہ اگلے ہی پل صاف اشارے سے اسے  گردن موڑ کر پیچھے دیکھنے پر مجبور کرچکی تھی۔

ایسے میں جہاں آگے بڑھتے شاہ نے واپس رابی کے گرد مضبوط حصار باندھتے ہوئے  اسے پورے استحقاق سے اپنے قریب تر کیا تھا۔۔۔وہیں ایک فاصلے پر اسے بکھری حالت میں ساکت کھڑا دیکھ سالار کا بند ہوتا دل شدتوں سے دھڑک اٹھا۔

”ح۔۔۔حلیمہ۔۔۔۔“  بڑی آہستگی سے کھڑے ہوکر۔۔۔مکمل اسکی جانب پلٹتے ہوئے اسکے سوکھے لب پھڑپھڑائے تھے۔

پھر بےاختیار کچھ حیرت سے رابی کی جانب دوبارہ دیکھنا چاہا۔۔۔تو اس سمیت شاہ کو وہاں نہ پاکر چونکتا وہ واپس اسکی جانب متوجہ ہوا۔

”آپ کا دل تو دھڑک رہا ہے خان۔۔۔۔مگر آپکے سبب میری دھڑکنیں تھم چکی ہیں۔۔۔۔“  معاً بھیگتے لہجے میں اس پر اپنی بدتر حالت عیاں کرتی وہ بےتابانہ اسکی جانب دیکھتی دو قدم پیچھے کو ہوئی تھی۔

”ن۔۔نہیں۔۔۔۔ایسا مت کہو۔۔۔۔“  اسکی بآواز ِبلند بات پر بےسکونی تلے نفی میں سر کو جنبش دیتے وہ چار قدم اٹھاتا اسکی جانب لپکا۔

”آپکی سانسیں چل رہی ہیں۔۔۔۔مگر میری سانسیں۔۔۔؟؟میری سانسیں اب مجھ میں رہنے کے قابل نہیں رہیں۔۔۔۔۔“  دوپٹے سے محروم سینے پر ہاتھ رکھتی۔۔وہ نم آواز میں چیخ کر مزید پیچھے کو کھسکی تھی۔۔۔جب بےاختیار سالارخان کی مزید پرے کو بھٹکتی نگاہوں کو۔۔۔محض چند قدموں کی دوری پر اس پتھریلی زمین کے ختم ہونے کا شدت سے احساس ہوا۔۔۔ 

”رکو۔۔۔۔پیچھے قدم مت لو۔۔۔۔مجھ سے دور مت جاؤ۔۔۔خدا کے لیے مجھ سے دور مت جاؤ۔۔۔۔۔“  اسکی جانب اپنی چال میں روانی لاتے اسکے اندر شدتوں سے خوف چیخا تھا۔

مگر وہ۔۔۔۔

وہ تو اسی تیزی سے۔۔۔متواتر پیچھے کو قدم اٹھاتی اس سے پل پل دور ہوتی چلی جارہی تھی۔

”آپ تو زندہ ہیں خان۔۔۔مگر میں فنا ہوچکی۔۔۔۔ختم ہوچکی خان۔۔۔حلیمہ اب ختم ہو چکی۔۔۔۔“  رو کر بولتی وہ پتھریلے کنارے پر آتی صاف لڑھکی تھی۔۔جب فنا ہوتی روح کے ساتھ وہ پسینے سے تر وجود لیے سرعت سے اسکی طرف بھاگا۔

پھٹتا ذہن اس قدر تکلیف کرنے لگا تھا کہ مقابل وحشتیں بڑھاتا یہ۔۔۔۔ ناقابلِ برداشت منظر اگلے ہی پل تیزی سے شفاف سیاہی میں بدلتا چلا گیا۔

”ہاااا۔۔اا۔۔۔۔ہ۔۔۔۔۔“   نم ہورہی خمارزدہ آنکھیں جھٹکے سے کھولتا وہ شدید گھبراہٹ تلے سادہ بیڈ شیٹ کو بےاختیار مٹھیوں میں دبوچ چکا تھا۔

بیت چکے لمحوں میں دکھتا خواب تھا۔۔۔یا پھر حقیقت کا عکس۔۔۔۔؟؟

سر میں اٹھتی ٹیسوں کے سبب  گہرے گہرے سانس بھرتا وہ فوری سمجھ نہیں پا رہا تھا۔

ایسے میں۔۔۔سینے میں دھڑکتا دل خاصا کمزور ہورہا تھا۔۔۔۔کمزوری تو اس پل اسے پورے وجود میں بھی سرائیت کرتی محسوس ہورہی تھی۔

معاً ہتھلیوں کے زور پر لیٹے سے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے وہ درد تلے سختی سے لب بھینچ گیا۔۔۔۔جب ٹھیک سامنے ڈریسنگ مرر میں دکھائی پڑتا اپنا عکس دیکھتا وہ چونک سا گیا۔

پے در پے سفید رنگ پٹیوں میں جکڑا خود کا بھاری ہوتا سر اسے اپنے ساتھ ہوئے حادثے کی شدت سے یاد دلاتا چلا گیا تھا۔

گہری چوٹ کے سبب۔۔اس چھوٹے سے آپریشن کے بعد گزشتہ روز ہی تو اسے ہوش آیا تھا۔۔۔۔اور پھر نتیجتاً مطلوبہ دوائیوں کے ساتھ ساتھ بیڈریسٹ کے سوا فی الوقت اسکے پاس کرنے کو اورکچھ باقی نہیں رہا تھا۔

اس قدر لاپرواہی کے باوجود بھی صدشکر تھا کہ۔۔۔ اسکا مزید کوئی جسمانی۔۔جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔۔۔

مگر ذہنی اذیت بھی کہاں کم تھی بھلا۔۔۔

خواب کی بےسکون کیفیت جہاں اس پر ہنوز رقصاں تھی۔۔۔وہیں آنکھوں کی گہری ہوتی نمی کو بےدردی سے رگڑتے سالار خان کو حلیمہ کا خود سے روپوش ہوجانا یاد آیا تھا۔۔۔۔

 حواسوں میں رہتے ہوئے بھلا کہاں وہ ایک بار بھی اسکے سامنے آئی تھی۔۔۔۔قریب ہوکر احوال جاننا تو قدرے دور کی بات تھی۔۔۔

سالار خان تاسف سے سرخ ہورہی آنکھیں بھینچ گیا۔۔۔جب کوئی بند دروازے کھول کر کمرے میں داخل ہوا تھا۔

”تم جاگ گئے ہمارے جگر۔۔۔۔اب کیسی طبعیت ہے۔۔۔۔؟؟؟“  متفکر سی پوچھتی خنساء بیگم چلتی ہوئی اس تک آئیں تھیں۔۔۔مگر ان کی جانب چونک کر متوجہ ہوتے سالار کی نگاہوں میں۔۔۔اپنی ماں کی تقلید میں آتی راحیلہ بیگم کو دیکھ کر صاف الجھن در آئی۔

”یہ۔۔۔؟؟؟یہ عورت یہاں پر کیا لینے آئی ہیں اماں حضور۔۔۔۔؟؟؟جبکہ اس روز میں آپ سے صاف صاف کہہ چکا تھا کہ ان لوگوں میں سے ایک بھی اس حویلی میں قدم نہ رکھنے پائے۔۔۔تو پھر۔۔۔۔۔؟؟؟“  مدھم سلگتے لہجے میں پوچھتا وہ چاہ کر بھی اونچا بولنے سے پرہیز برت رہا تھا۔۔۔تو جہاں راحیلہ بیگم اس بیمار شخص کی صاف بدلحاظی پر حیران ہوئی تھی۔۔۔وہیں خنساء بیگم بھی اس کے بگڑے رویے پر چونکیں۔

”راحیلہ بہن۔۔۔بس تمھارا پتا لینے آئی ہیں برخوردار۔۔۔ٹھنڈے ہوجاؤ۔۔۔۔۔۔“  بات سنبھالنے کی کوشش میں وہ نرم لہجے میں گویا ہوئی تھیں۔۔۔

حقیقت بھی تو یہی تھی۔۔۔۔

”کس حق سے۔۔۔۔؟؟؟آپکی دوست ہونے کے حق سے۔۔۔۔یا پھر اپنے ان نئے رشتوں کو نبھانے کی غرض سے۔۔۔؟؟؟جن کا نبھاہ تقریباً ناممکن ہے۔۔۔۔۔“  سر میں اٹھتی ٹیس کی پرواہ کیے بنا وہ راحیلہ بیگم کی جانب دیکھتا۔۔حلیمہ کی بابت گہرا طنز کرگیا۔

اسکا یہ شدید ری ایکشن ان دونوں کے لیے حقیقتاً غیر متوقع تھا۔

”ارے بچے تم بلاوجہ بدگمان کیوں ہورہے ہو ہم  سے۔۔۔۔؟؟؟تمھارے ایکسیڈنٹ کی اطلاع بھی ہمیں خنساء بیگم کی بجائے کہیں باہر سے ملی تھی۔۔۔۔سوجیسے ہی پتا چلا تو میں بنا کچھ سوچے سمجھے عرفان کے ہمراہ فوری احوال پرسی کو یہاں چلی آئی۔۔۔۔“  اسے سمجھانے کی غرض سے انھوں نے بظاہر نرمی سے وضاحت دی تھی۔۔۔جب عرفان کا نام سن کر بھنویں سکیڑتے سالار کی آنکھوں میں صاف غصہ در آیا۔

تو اب وہ عورت خود کے ساتھ ساتھ اپنے طلاق یافتہ بیٹے کو بھی اٹھا لائی تھی۔۔۔۔

حقیقتاً ضبط توڑنے والی جرات تھی یہ۔

”آپ کی ہمت۔۔۔۔۔۔۔“  سختی سے مٹھیاں بھینچے بھڑک کر بولتا وہ اٹھ کھڑا ہونے کو تھا۔۔۔جب فرش پر چھنکاکے سے ٹوٹتے سوپ کے باؤل نے سبھی کی توجہ کھلے دروازے کے پار ان دونوں کے زبردست تصادم پر کروائی۔

”ا۔۔۔ایم سو سوری حلیمہ۔۔۔موبائل فون کی وجہ سے میرا دھیان۔۔۔افففف۔۔۔۔ذیادہ جلا تو نہیں۔۔۔آ۔۔آپ ٹھیک ہیں ناں۔۔۔؟؟؟“  گرم سوپ شاید حلیمہ کے ہاتھ پر بھی گر چکا تھا۔۔۔جبھی عرفان کا کچھ جھجک کر۔۔۔فکر میں ہاتھ کو تھام کر دیکھنا سالار خان کو آگ لگانے کے مترادف تھا۔

اس بگڑتی صورتحال پر خنساء بیگم نے پریشانی سے لب بھینچے۔۔۔جب حلیمہ بے اختیار اپنا جلتا ہاتھ اسکی نرم گرفت سے چھڑواتی ایک قدم پیچھے کو ہوئی۔

”ٹھیک ہوں میں۔۔۔۔۔“  کہہ کر اپنی ہی جانب ساکت لہو نگاہوں سے تکتے سالار خان پر ایک بےتاثر نظر ڈالتی۔۔۔اگلے ہی پل وہاں سےنکلتی چلی گئی۔

تو اس کے یوں نگاہوں سے اوجھل ہونے پر جہاں عرفان نے معذرت کرتی نظروں سے ان سب کی جانب دیکھا۔۔۔وہیں اس نے بڑے ضبط سے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔۔۔

”تم کمینے انسان۔۔۔؟؟؟نکلو۔۔۔۔۔نکلو یہاں سے۔۔۔اس سے پہلے کہ میری بیوی کو چھونے کی پاداش میں۔۔۔میں تمھیں یہیں زندہ گاڑھ کے رکھ دوں۔۔دفع ہوجاؤ میری نظروں کے سامنے سے۔۔اور آئندہ مجھے یہاں کبھی دکھائی مت دینا۔۔۔۔“ سر میں وقفے وقفے سے اٹھتی تکلیف برداشت کرتا وہ دہاڑتے ہوئے شاید عرفان کا گریبان تک پکڑ لیتا۔۔۔جو اگر خنساء بیگم بروقت اسے بازو سے تھام کر وہیں پر نہ روک لیتیں تو۔۔۔

سالار خان کا حلیمہ کے لیے اس قدر حساس ہونا انھیں پریشانی کے سنگ حیران بھی کیے دے رہا تھا۔

”راحیلہ بہن۔۔۔معذرت پر فی الحال آپ لوگوں کا یہاں سے چلے جانا ہی بہتر ہے۔۔۔۔“  موقع کی نزاکت سمجھتے ہوئے انھیں یہی بہتر لگا تھا۔۔۔ جواباً اپنی اس واضح بےعزتی پر جہاں راحیلہ بیگم منہ بناتی دہلیز کی جانب لپکی تھیں۔۔۔وہیں مٹھیاں بھینچ کر اپنا غصہ ضبط کرتا عرفان۔۔۔اپنی ماں کے اشارے پر مجبوراً ان کے ہمراہ وہاں سے چپ چاپ نکلتا چلا گیا۔

پیچھے سالار خان نے تنگ آتے ہوئے بےاختیار سفید پٹیوں میں جکڑا اپنا سر تھاما تھا۔

*********************

”گول گپے کھاؤ گی۔۔۔؟؟؟“  گاڑی کو ٹھیک گول گپے والے اسٹال کے سامنے بریک لگاتے ہوئے اس نے نرمی سے پوچھا۔۔ تو حاویہ نے چونک کر اسے دیکھا۔

پھر ذرا آگے ہوکر اسٹال پر ایک نگاہ ڈالتی ہولے سے مسکرائی۔۔۔

وہ کل سے ہی نفیسہ بیگم کی طرف تھی۔۔۔جبھی عائل اسے واپس لے جانے کی غرض سے جلد ہی اپنی ڈیوٹی سے واپس لوٹ آیا تھا۔ایک عدد ملازمہ کا ہر لحاظ سے خیال رکھنا بھی اب  نفیسہ بیگم کی دن بدن گرتی صحت میں کافی حد تک سدھار لے آیا تھا۔۔۔ورنہ تو اس غیرمتوقع ایکسیڈنٹ کے بعد سے وہ حد درجہ کمزوری کے سبب ڈیڑھ ماہ تک وہیل چئیر کی محتاج بھی رہ چکی تھیں۔

دوسری طرف عائمہ بیگم بھی اس بھڑکتی جھڑپ کے بعد سے جہاں اسے مخاطب کرنا پسند نہیں کرتی تھیں۔۔۔وہیں کافی حد تک اب اپنے کمرے تک ہی محدود ہوکر رہنے لگی تھیں۔

”ضرور۔۔۔کھاؤں گی۔۔۔۔۔“  اپنی کچھ افسردہ ہوتی طبیعت کے باوجود بھی وہ ذرا چہک کر بولی۔۔۔تو سر کو جنبش دیتے عائل نے اگلے ہی پل اپنے سائیڈ کا آدھا شیشہ مکمل نیچے کرتے ہوئے۔۔اپنی جانب متوجہ ہوچکے اسٹال والے کو اشارہ کیا۔۔۔

جواباً فروٹ چاٹ کی بھری پرات ایک طرف دھرتا وہ اپنے ساتھ کام کرتے کم عمر ملازم کو فوری ان کی جانب بھیج چکا تھا۔

حاویہ نے اپنی طرف بھاگ کر آتے اس اٹھارہ سالہ ملازم کو دیکھ کر بےاختیار کچھ حد تک سرک چکا دوپٹہ سر پر واپس درست کیا۔

”جی صاحب۔۔۔۔؟؟کیا لاؤں آپکے لیے۔۔؟؟

گول گپے۔۔۔؟؟

فروٹ چاٹ۔۔۔؟؟

دہی بھلے۔۔۔؟؟؟حکم کیجیے۔۔۔“  عائل کو پولیس یونیفارم میں دیکھ کر بلا جھجک سلوٹ کرتا وہ قدرے پھرتی سے بولا۔۔۔تو عائل ایک مسکاتی نگاہ حاویہ پر ڈالتا واپس۔۔اس ملازم کی جانب متوجہ ہوا۔۔۔

”ایسا کرو گول گپوں کی ایک عدد پلیٹ لے آؤ۔۔۔اور ساتھ میں فروٹ چاٹ کی بھی ایک پلیٹ لیتے آنا۔۔۔۔۔“  اس نے سوچ کر بتاتے ہوئے نرمی سے اسے آرڈر دیا تھا۔۔۔جب تائیدی انداز میں سر ہلاتے ہوئے ملازم کو واپس پلٹتا دیکھ حاویہ نے عجلت میں اسے پکارا۔

”ذرا رکو تو بھیا۔۔۔؟؟؟“  آواز میں بےتابی کا عنصر شامل تھا۔

”جی میڈم جی۔۔۔۔؟؟؟“  چونک کر ایک ادب سے پوچھتا وہ حاویہ کو مزید آگے ہونے پر مجبور کرگیا۔

جبکہ اپنے گھٹنے پر اسکا نرم ہاتھ محسوس کرتے عائل نے بےاختیار منہ پر ہاتھ پھیرا۔

”بھیا۔۔۔؟؟ایکدم تیکھے گول گپے بنائیے گا۔۔۔فل مرچ مصالحہ مار کے۔۔۔اتناکہ اندر تک سواد اتر جائے۔۔۔۔۔۔“ ملازم کی جانب دیکھتی وہ پرجوش سی بولی تو۔۔۔اسکی غیرمتوقع فرمائش بغور سنتا وہ بھنویں سکیڑ گیا۔

”ہرگز نہیں۔۔۔بالکل مناسب مرچیں رکھنا۔۔۔۔“  بےاختیار ٹوکتے ہوئے اس نے گردن موڑ کر اپنی بیوی کو گھورا۔۔جو اسکی بات پر اب کہ تھوڑا سا منہ بسور چکی تھی۔

”مگر کیوں۔۔۔۔؟؟؟اگر آپ سے تیز مرچیں ہضم نہیں ہوتیں تو آپ فروٹ چاٹ کھا لیجیے گا ناں۔۔۔۔میرا ذائقہ  پھیکا کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں۔۔۔۔؟؟؟بھیا جیسا آپ سے  میں نے کہا ہے۔۔۔بس ویسا ہی کیجیے۔۔۔۔۔“  دوبدو جواب دیتی وہ اب کنفیوز ہوچکے سر کھجاتے ملازم کی جانب دوبارہ متوجہ ہوئی۔۔۔تو اسٹیرنگ پر اپنی پکڑ مضبوط کرتا وہ بےاختیار اسکی جانب جھکا۔

 ”جانم۔۔۔؟؟بدقسمتی سے اس وقت میرے پاس کوئی ٹشو پیپر یا رومال موجود نہیں ہے۔۔۔“  دبے سرد لہجے میں کہتا وہ ناچاہتےہوئے بھی اسکا دل دھڑکا چکا تھا۔

 ”ہاں تو۔۔۔۔؟؟؟“  اسکی بات نہ سمجھتے ہوئے وہ بھی بظاہر اسی کے انداز میں اپنی بھنویں سکیڑ گئی۔

”تو یہ کہ بیوی۔۔۔تیز مرچوں کے سبب تمھاری آنکھوں سے بہتا پانی تو میں بخوشی اپنی انگلیوں کی پوروں سے صاف کرلوں گا۔۔۔مگرتمھاری سو سو کرتی ناک۔۔۔اپنی سرکاری وردی سے صاف کروانے کا متحمل میں فی الوقت ہرگز نہیں ہوسکتا۔۔۔سو معذرت۔۔۔۔“  تیز مرچوں کے سبب اسکی ہوجانے واالی حالت ٹھہر ٹھہر کر باور کرواتا۔۔وہ اگلے ہی پل بےساختہ اپنی امڈ آنے والی مسکراہٹ دبائے سیدھا ہوا تھا۔۔

جبکہ اے۔ایس پی عائل حسن کے اس صاف طنز پر وہ قدرے حیرت سے اسے دیکھ کر رہ گئی۔

یاداشت میں بیت چکے وقت کا ابھرتا حادثہ بےساختہ تھا۔۔۔جب بمشکل اس گینگسٹر ٹائپ غنڈے کے ہاتھوں بچتے ہوئے وہ اس شاندار مرد کا دل بھی حقیقتاً لوٹ چکی تھی۔

اس دوران وہ کم عمر ملازم حاویہ کے کہے پر مکمل عمل کرنے کا ارادہ کیے۔۔اپنے کندھے اچکا کر وہاں سے پلٹتا جا چکا تھا۔

”آپ بالکل بھی فکر مت کیجیے اے۔ایس۔پی صاحب۔۔۔اس بار میرا بھی آپکی سرکاری وردی خراب کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔۔۔۔کیونکہ خوش قسمتی سے میرے پاس ایک بہت بڑا رومال الریڈی موجود ہے۔۔۔۔“  سیدھی ہوکر سیٹ سے ٹیک لگاتی وہ  یکدم در آنے والی اپنی جھینپ کو اب کہ کافی حد تک مٹاچکی تھی۔۔۔

سینے پر بازو لپیٹ کر حاویہ کے بڑے اعتماد سے دئیے جانے والے جواب پر پل بھرکو چونکتا وہ اپنی بھنویں اچکا گیا۔

”گڈ گرل۔۔۔ویسےکونسا رومال ہے۔۔۔۔؟؟؟“  اسے ہنوز شفاف شیشے کے پار انہماک سے تکتا دیکھ۔۔عائل مزید چھیڑنے کو دلچسپی سے گویا ہوا۔۔۔تو حاویہ نے سنجیدگی سے پلکیں جھپکا کر براہ راست اسکی مسکاتی نگاہوں میں جھانکا۔

 ”افف کورس میرا دوپٹہ۔۔۔۔۔“  اگلے ہی پل اپنے مہرون رنگ شفون کے دوپٹے۔۔۔ کا پلو اسکے سامنے جھٹکتی وہ مضبوط لہجے میں بولی تو اسکی بات سمجھتے عائل کا اگلے ہی پل لبوں سے پھوٹتا قہقہ بےساختہ تھا۔

حاویہ نے دھڑکتے دل کے ساتھ اس کی ہنسی  بغور دیکھی تھی۔۔۔جو فقط اسی کے سبب سے تھی۔

”اففف بیوی اففف۔۔۔۔جتنی حسین ادائیں۔۔۔اسی قدر بچگانہ عادتیں۔۔۔اتنی سادہ اور معصوم کہ پہلے سے ہی گرویدہ شوہر کا دل مزید لوٹ لیں۔۔۔“  بےاختیار اسکے ہاتھ میں اپنی مضبوط انگلیاں پھنساتا وہ اپنی بات بولتے دھیرے سے ہنسا تو اسکی نگاہوں کی صاف تپش چند پلوں میں ہی حاویہ کو  پلکیں جھکاکر ہولے سے مسکرانے پر مجبور کرگئی۔

ایسے میں شدتوں سے دھڑکتے دل نے سکون دیتے ان لمحات کو یہی روک لینے کی ایک ادنیٰ سی خواہش کی تھی۔۔۔

بازو پر اپنا گرے رنگ کوٹ دھرے وہ اس وقت اوپری منزل کو جاتی  لفٹ میں موجود تھا۔بھوری نگاہوں تلے مدھم حلقے اس کی بےسکونی میں جاگ کر گزاری گئی۔۔رات کو صاف عیاں کررہے تھے۔۔۔

جبکہ سنسناتا ذہن تو اس پل گزشتہ تلخ سوچوں کی جانب گامزن تھا۔

”منہ کھولو۔۔۔۔۔“  نوالہ بناکر بھینچے لبوں کے قریب لے جاتا وہ اسے سردترین لہجے میں حکم دے رہا تھا۔

جب سے وہ اسکے فلیٹ میں آئی تھی۔۔۔اس بدترین بحث کے بعد سے نڈھال سی بھوکی پیاسی فقط اسی کے کمرے میں ہی مقید ہوکر رہ گئی تھی۔۔۔

اس قدر مقید کہ اسے مجبوراً بذاتِ خود اس کے پاس آنا پڑا تھا۔

”نہیں کھولوں گی۔۔بھوکی مرجاؤں گی پر تمھارے ہاتھ سے۔۔۔ایک لقمہ تک نہیں کھاؤں گی۔۔۔سنا تم نے۔۔۔۔۔؟؟؟“  اسکا ہاتھ پوری قوت لگا کر پیچھے جھٹکتی وہ چلائی۔۔۔تو جہاں نوالہ ہاتھ سے چھوٹ کر بیڈ پر گرا تھا۔۔۔وہیں اس صاف ہٹ دھڑمی پر اس کو بھی خاصی تپ چڑھی۔

”نہیں سنا۔۔۔۔اور نہ ہی مجھے تمھیں سننے کی اب کوئی خاص ضرورت ہے۔۔۔سو بہتر یہی ہے بیوی کہ اپنی ہٹ دھڑمی کے سبب تم مجھے مزید زبردستی کرنے پر مت اکساؤ۔۔۔۔“  اسکی باغی نم آنکھوں میں اپنی سرخ پڑتی نگاہیں گاڑتا وہ چبا چبا کر بولا۔۔۔

پھر بڑے ضبط سے دوسرا نوالہ بنا کر اسکے قریب تر لے گیا۔۔۔تو  اسکے پنکھری لبوں پر تمسخرانہ۔۔۔تلخ مسکراہٹ بکھرتی چلی گئی۔

”زبردستی۔۔۔؟؟ہاں۔۔۔۔یہ سب واہیاتیاں کرنا تو شاید تم سفاک لوگوں کا خاندانی وطیرہ ہے۔۔۔۔کبھی میرے ساتھ کرتے ہو۔۔۔تو کبھی میری ماں۔۔ں۔۔۔۔“  اسکے تنے نقوش بےتابانہ دیکھتی وہ پھنکار رہی تھی۔۔۔جب اگلے ہی پل اسکے گالوں کو دبوچتا وہ نوالہ زبردستی اسکے منہ میں ٹھونس چکا تھا۔

”تمھاری بدولت پہلے سے ہی زخمی شیر بن چکا ہوں۔۔۔اب فضول میں میرے باپ کو موردِ الزام ٹھہرا کر مجھے مزید گھائل کرنے کی حماقت مت کرو۔۔۔کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت سے بہت پہلے ہی میں تمھاری نازک جان پر بھاری پڑجاؤں۔۔۔۔۔“  مزید نوالے اسکے منہ میں زبردستی ٹھونستا وہ حقیقتاً اسے ہلکان ہی تو کرگیا تھا۔

”ٹِن۔۔۔۔۔۔۔“  منزل کو پہنچ کر رکتی لفٹ جہاں اگلے ہی پل مطلوبہ آواز کے ساتھ کھلی تھی۔۔وہیں وہ بھی گزشتہ رات کے خیالوں سے چونک کر باہر آیا۔پھر تلخی سے سر جھٹکا۔

ہاں۔۔۔ہاں وہ بد دل سا۔۔سونے کے معاملے میں اس پر چاہ کر بھی کوئی زبردستی نہیں کرپایا تھا۔۔۔۔پر ناقابل فراموش میٹنگ اٹینڈ کرنے کے سبب آتے ہوئے اسے فلیٹ میں لاک ضرور کرآیا تھا۔۔

قدرے پھرتی سےلفٹ سے باہر نکلتے ہوئے۔۔۔اس نے بےاختیار خود کو نارمل کرنے کے لیے بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا۔۔

شفاف ٹائیلز پر بنا بلندآواز کیے۔۔۔تیز تیز قدم بڑھاتے شاہ نے ایک بےزار نگاہ خود سے کچھ فاصلے پر سست روی سے دو لڑکیوں کے ہمراہ چلتے  اس چشمش لڑکے کی پشت کو دیکھا۔۔۔

وہ بلاشبہ اسی کے انڈر رہ کر کام کررہے تھے۔

”نہ نہ۔۔۔میں نہیں مانتی۔۔۔ہر طرف پھیلی یہ افواہ جھوٹی بھی تو ہوسکتی ہے۔۔۔۔“  اپنے موبائل کی اسکرین بند کرتی وہ قدرے بےیقینی سے گویا ہوئی۔۔۔تو پل پل قریب آتے شاہ کی سماعتوں سے صاف ٹکراتی نسوانی آواز اسے چونکنے پر مجبور کرگئی۔

”ارے یہ جھوٹی افواہ بالکل بھی نہیں ہے۔۔۔وہ فیک حجابن آبرو صاحبہ۔۔۔جس نے شاہ میرسرکو اپنی خوبصورت اداؤں سے پھانس کر نکاح تک رچا لیا ہے۔۔۔کوٹھوں پر ناچ ناچئیہ کرتی ایک بدکارترین رقاصہ ہے۔۔۔اور یہ حقیقت شاہ صاحب کے بزنس فرینڈز نے بذات ِخود اپنی آنکھوں سے ملاحظہ کررکھی ہے۔۔۔۔“  اسکی حددرجہ حیرت پر ساجد نامی اس لڑکے سنی سنائی باتوں پر بڑھ چڑھ یقین دہانی کروانا چاہی تھی۔۔۔جب اسکے لفظوں پر اپنی چال سست کرتا شاہ۔۔۔تیوریاں چڑھائے۔۔۔سختی سے مٹھیاں بھینچ گیا۔

تو بالآخر یہ بدترین خبر جنگل میں آگ کی مانند چہارسو پھیل ہی گئی تھی۔

”اوہ مائے گاڈ۔۔۔۔۔اتنی بد ترین حقیقت۔۔۔۔“  پیچھے چلتی قیامت سے ہنوز بےخبر اب کی بار دوسری لڑکی نے بھی حیرت کا پرچار کیا۔

”میرے سننے نے بھی آیا ہے کہ شدید غصے کے عالم میں شاہ صاحب نے۔۔۔اسے منہ پر ایک عدد زور کا تھپڑ بھی جڑدیا تھا۔۔۔اور پھر بدلے میں اس رقاصہ نے بھی سب کے سامنے تھپڑ مار کر اپنا بدلہ سود سمیت واپس اتارا تھا۔۔۔۔۔“ وہ مزید گویا ہوئی تو شاہ کا فشار خون شدت سے بڑھنے لگا۔ضبط کی سرخی بھوری نگاہوں میں گھلنے لگی تھی۔

”افففف۔۔۔۔اس قدر تماشہ۔۔۔؟؟اس قدر ذلالت۔۔۔۔۔؟؟“  قدرے تاسف سے بولتی پہلی لڑکی باقاعدہ اپنے کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہوئی۔ورکنگ ایریا ٹھیک سامنے ہی تھا۔

”اے کاش کہ میں بھی اس تماشے کا حصہ ہوتا۔۔۔تو کم از کم اس حجابن حسینہ کا بھڑکتا ہوا ناچ تو دیکھ لیتا۔۔۔ہاااائےےے۔۔۔۔خدا قسم اگر جو اپنی پوری سیلری بھی اس خوبصورت رقاصہ پر لٹا دیتا ناں۔۔۔تو بھی رتی برابر افسوس نہیں ہوتا مجھے۔۔۔۔۔۔“  اس بار ذرا شوخے ہوتے ساجد نے ہنستے ہوئے ان لڑکیوں کے سامنے قدرے بےباکی سے اپنی کیفیت بیان کی تھی۔۔۔جب ایک ہی جست میں پیچھے سے اسکا گریبان دبوچ کر اپنی جانب گھوماتے ہوئے۔۔شاہ نے پوری شدت سے اسکے منہ پر مکا دے مارا۔

نتیجتاً جبڑے میں یک لخت اٹھتے درد کے سبب جہاں بری طرح حواس باختہ ہوتا وہ بنا سنبھلے پیٹھ کے بل گرا تھا۔۔۔وہیں عینک بھی جھٹکے سے اتر کر دور جاگری۔

ایسے میں خود کے مقابل مشتعیل سے کھڑے شاہ کو دیکھ کر ان دونوں لڑکیوں کا گھبرانا بے ساختہ تھا۔

وہاں کام کرتے آفس ورکرز نے بھی اپنے ہاتھ روک کر شاہ میرحسن کو قدرے حیرت سے دیکھا تھا جو خود سے اٹھنے کی کوشش کرتے ساجد کو  بذاتِ خود گریبان سے پکڑتے ہوئے اب کہ کھڑا کرچکا تھا۔

”اب بھونک۔۔۔۔یہاں میرے منہ پر بھونک کیا خرافات بک کررہا تھا تُو۔۔۔۔۔؟؟ہہممم۔۔۔۔بول ناں۔۔۔؟؟؟“  اسے جھنجھوڑ کر مزید لب کشائی کرنے پر اکساتا وہ پل پل بپھر رہا تھا۔

جواباً ساجد کے لیے حقیقتاً تھوک نگلنا مشکل ہوا۔۔

”س۔۔سر۔۔۔۔م۔۔میں۔۔۔۔“  اپنے دفاع میں صفائی دینے کی ناکام کوشش کرتے اس نے نفی میں سرہلایا۔۔۔تو شاہ کا دماغ مزید گرم ہوتا چلا گیا۔

”سالےنمک حرام۔۔۔۔تیری اتنی اوقات کہ اب تو میری بیوی کو رقاصہ بولے گا۔۔۔ہممم۔۔۔۔؟؟میرے ہی سامنے اس پر پیسہ لٹانے کی بات کرے گا تُو۔۔۔۔۔“  چلا کر پوچھتے ہوئے  زور کا مکا اب کی بار ناک کی ہڈی سے ٹکراتا ہوا ساجد کو بری طرح بلبلانے پر مجبور کرچکا تھا۔

جہاں وہ لڑکھڑا کر اس سے دو قدم پیچھےہوا۔۔۔وہیں اس بڑھتے ہنگامے پر قریب آتے ورکرز ان کے گرد اکٹھے سے ہونے لگے۔

بازو پر دھرا گرے رنگ کوٹ اس سرگرمی میں لڑھک کر کب کا زمین بوس ہوچکا تھا۔

”غ۔۔غلطی ہو گئی سر۔۔۔م۔۔۔معاف کردیں پلیز۔۔آئندہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔“  معاً ناک سے بہتا خون ساجد کو بھی ضبط کی حدوں پر لے گیا۔۔مگر خود کی نوکری بچانے کو کراہ کر لہو صاف کرتا وہ بظاہر معافی تلافی کرنے پر اتر آیا تھا۔

”نہ۔۔۔معافی نہیں دوں گا۔۔۔۔سیدھا جان لے لوں گا میں تیری کمینے۔۔۔آخر ہمت بھی کیسے ہوئی تیری ایسی غلاظت بکنے کی۔۔۔کیسےےےے۔۔۔۔۔؟؟؟“ اطراف کی پرواہ کیے بنا۔۔۔ پھولے سانسوں کے بیچ دھمکاتا ہوا وہ۔۔۔اس بار اسے گردن کی پشت سے پکڑتے ہوئے غصے سے پاگل ہونے کے درپے تھا۔

ایسے میں شدید حیرت تلے مدھم چہ مگوئیاں تو شروع ہوچکی تھیں۔۔۔مگر دونوں میں مداخلت کی جرات ہنوز کسی نے بھی نہیں کی تھی۔

”ہاں تو اگر حقیقت سننے میں اتنی ہی جان جاتی ہے تمھاری تو بدنامی سہنے کی بجائے اس رقاصہ کو طلاق کیوں نہیں دے دیتے تم۔۔۔۔اس طرح نہ باقی رہے گی بدنامی۔۔۔اور نہ ہی اس بدنامی سے پلنے والا کوئی فساد۔۔۔۔“  اپنی تماتر برداشت کھونے پر اسکا ہاتھ نفرت سے پیچھے جھٹکتا۔۔۔اب کہ ساجد بھی صاف بد لحاضی پر اتر آیا۔

”تیری تو۔۔۔۔۔۔۔“  اس کے یوں زہر اگلنے پر پل بھرکو ساکت ہوتا شاہ۔۔۔۔اپنی عزت۔۔اپنے اسٹیٹس کی پرواہ کیے بنا اگلے ہی لمحے اس پر پُل پڑا تھا۔

”رقاصہ نہیں ہے وہ۔۔۔۔سنا تم نے۔۔۔۔شاہ میرحسن کی بیوی ہے وہ۔۔۔۔۔ملکیت ہے میری۔۔۔۔۔“  پے در پے وار کرتا وہ انگاروں پر لوٹ رہا تھا۔

اس دوران بلاوے پر دو گارڈز بھی  بھاگ کر وہاں آچکے تھے۔

 ”اس کے خلاف ایک بھی واہیات لفظ سننے کا روادار نہیں ہوں گا میں۔۔۔۔ہاں مگر واہیاتی بکنے والے کا بد سے بدترین حال ضرور کردوں گا۔۔۔۔“  چیخ چیخ کر باور کرواتے ہوئے اسکی لہو رنگ بھوری آنکھوں میں نمی سی در آئی۔  

ایسے میں ساجد بھی خود کے دفاع کی ناکام کوششیں کرتے ہوئے اسے ایک سے دو بار پسلیوں پر بری طرح مکے رسید کرچکا تھا۔ 

”سر پلیز۔۔۔۔چھوڑ دیں اسے۔۔۔۔اب کافی زخمی ہوچکا ہے یہ۔۔۔سر۔۔۔سر پلیز۔۔۔۔۔“  معا آگے بڑھتے گارڈز نے شاہ کو فوری اس سے دور ہٹانے کی بےتابانہ کوشش کی تھی۔۔۔۔ورنہ ممکن تھا وہ غصے سے پاگل ہوتا۔۔طاقت میں اپنے سے کم ترین اس ورکر کا کوئی بڑا نقصان کر ڈالتا۔۔۔

تناؤ کے شکار شدہ اس ماحول میں مزید وحشت سی پھیلتی چلی جارہی تھی۔

”نکال باہر پھینکو اسے اس عمارت سے۔۔۔نکال باہر پھینکو اس گند کو۔۔۔۔“  بڑی مشکلوں سے ساجد سے دور ہوتا۔۔۔وہ پسلی میں اٹھتی درد کی لہر کو برداشت کرتے ہوئے چلا کر بولا۔۔۔تو گارڈز اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اس کی طرف لپکے۔۔۔جو وہیں پڑا اب بھی کراہ رہا تھا۔

”اور تم دونوں۔۔۔۔۔“  معاً وہ کچھ ہی فاصلے پر کھڑی ان دونوں لڑکیوں کی جانب متوجہ ہوا جو۔۔۔کچھ دیر پہلے اسکے حالاتوں پر متاسف سی ہورہی تھیں۔

اب اسکے یوں نفرت سے مخاطب کرنے پر مزید سہم سی گئیں۔

”اسی کے ساتھ نکل جاؤ۔۔۔جسٹ آؤٹ۔۔۔۔۔“  بھاری۔۔۔تلخ لب و لہجے میں بولتا وہ ان دونوں کو۔۔۔گارڈز کے پیچھے دفع ہوجانے پر مجبور کرچکا تھا۔۔۔جو کچھ نڈھال سی حالت میں بڑبڑاتے ساجد کو احتیاط سے وہاں سے لے کر نکلتے چلے گئے تھے۔

اگلے ہی پل شاہ نے سختی سے لب بھینچ کر جھکتے ہوئے۔۔اپنا نیچے گرا کوٹ تندہی سے اٹھایا۔پھر سیدھے ہوتے ہوئے اپنی جانب متوجہ ورکرز کو بغور دیکھا۔

”یہاں پر اور کوئی ایسی گھٹیا ترین۔۔۔غلیظ سوچ رکھتا ہے۔۔۔۔؟؟؟اگر ہاں۔۔۔تو بنا ہاتھ پیر تڑوائے ابھی کہ ابھی نکل جائے یہاں سے۔۔۔۔کیونکہ میرے آفس میں،میں کسی بھی قیمت پر یہ سب تماشہ برداشت نہیں کروں گا۔۔۔۔۔۔“  وہ تڑخ کر پوچھ رہا تھا۔

جواباً سب نے کچھ جھجک کر نفی میں سر ہلایا۔۔۔تو گہرا سانس بھرتے ہوئے۔۔۔اپنی آنکھوں کو بےدردی سے مسلتا وہ اگلے ہی پل تندہی سے اپنے روم کی طرف بڑھ گیا۔

اس پل دل اگر ناقابل برداشت اذیت سے تر تھا۔۔۔تو وجود قابل برداشت درد سے بےسکون۔۔۔۔

******************

”اوئے پولیس آفیسر۔۔۔میں تجھے آخری بار وارن کررہا ہوں۔۔۔میرے بیٹے کو چھوڑ دے ورنہ اس سرکاری وردی کے بل بوتے ہمارے سامنے ذیادہ اچھل کود کرے گا تو۔۔ہماری مدمعاشی سکت تلے راتوں رات کچلا جائے گا۔۔۔سمجھا۔۔۔۔؟؟؟“  مابین پڑےٹیبل پر بھڑک کر ہاتھ مارتا وہ دھمکاتے ہوئے بولا۔۔۔تو انگوٹھے تلے پیشانی کھجاتے عائل کی بےزاری بڑھ سی گئی۔

”نہیں سمجھا شمس چوہدری۔۔۔اور ویسے بھی ایسی بکواسیات میری سمجھ سے کافی پرے ہیں۔۔۔ہاں البتہ تم یہ ضرور جان لو کہ دن دھاڑے ایک پولیس آفیسر کو یوں سامنے بیٹھ کر سرعام دھمکی دینا۔۔تمھاری ذات سمیت بدمعاشی سکت پر کافی حد تک بھاری پڑسکتا ہے۔۔۔۔“  ٹھنڈے ٹھار لہجے میں دوبدو گویا ہوتے ہوئے آخر میں اسکے لب تمسخرانہ مسکراہٹ میں ڈھلے۔

جواباً انگلیوں میں پہنی انگوٹھیوں کے رنگ برنگ قیمتی نگوں کو پوروں تلے مسلتا شمس چوہدری یک دم سے اپنے تیور بدل گیا۔

کسی پرائی لڑکی کے گینگ ریپ میں عیاشی تلے پھنس چکے سپوت کو۔۔رہائی دلوانے کی ہر کوشش ناکام ہوتی چلی جارہی تھی۔

حتیٰ کہ بن چکے مضبوط کیس پر نہ تو اسکی دی جانے والی محدود رشوت کی آفر کا کوئی اثر ہورہا تھا۔۔۔اور نہ ہی اسکے نام نہاد اثر و رسوخ کا۔

”سمجھ رہا ہوں میں۔۔۔اچھے سے سمجھ رہا ہوں تیری اس بظاہر ایمانداری کے پیچھے چھپی گھٹیا چال کو۔۔۔پیسہ بڑھانے کے وطیرے ہیں یہ سب۔۔۔اچھا چل بول۔۔۔مزید کتنا پیسا بڑھاؤں۔۔۔؟؟دو لاکھ۔۔۔چار لاکھ۔۔۔یا حد پانچ لاکھ۔۔۔۔؟؟؟“  طنزیہ۔۔نرم لہجے میں بولتا ہوا اگلے ہی پل نوٹوں کی گدی ایک ایک کر کے اس کے سامنے پھینکتا۔۔۔وہ اس بار عائل کے مزاج گرمانے کا سبب بنا تھا۔

معاً ضبط کھو کر ٹیبل پر ہتھیلی جماتا وہ کافی حد آگے کو جھک کر اسکا گریبان دبوچ چکا تھا۔

” گھٹیا چال تو تم خود کھیل رہے ہو شمس چوہدری۔۔اپنے اس آوارہ۔۔عیاش سپوت کو بچانے کے چکروں میں جو ایک معصوم لڑکی کے گینگ ریپ میں ملوث رہ چکا ہے۔۔۔پر بےفکر رہو میں ایک رشوت خور پولیس آفیسر ہرگز نہیں ہوں۔۔۔باقی ملزمان کے ہمراہ اسکی بھی پوری پوری چمڑی ادھیڑ کے رکھ دوں گا پر تمھاری یہ چھوٹی موٹی چالیں کسی بھی طور کامیاب نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔“  گریبان کو مزید مضبوطی سے کستا عائل چبا چبا کر بولا تو اسکی سرخ پڑتی آنکھوں میں برابر۔۔تندہی سے دیکھتے شمس چوہدری کی رنگت توہین تلے متغیر ہوئی۔

”اب اس سے پہلے کے میں مزید ایکسٹرا ایمانداری دکھانے کے موڈ میں آجاؤں۔۔تمھارے لیے بہتر یہی ہے کہ اپنا یہ حرام مال اٹھاؤ۔۔۔اور یہاں سے نکلتے ہوئے نظر آؤ مجھے۔۔۔۔بنا کوئی بکواس کیے۔۔۔جسٹ آؤٹ۔۔۔۔“ مزید گویا ہوتا وہ جھٹکے سے اسکا گریبان چھوڑ کر پیچھے ہٹ چکا تھا۔

جواباً شمس چوہدری مشتعل سا مٹھیاں بھینچے چئیر سے کھڑا ہوا۔پھر شکست خوردہ سا دانت پیستا ہوا ایک ایک کر کے نوٹوں کی گدیاں پکڑنے لگا۔

”ابھی وقت تیرا ہے۔۔۔مگر اس کے بعد میں دیکھ لوں گا تجھے اے۔ایس۔پی۔۔۔۔تیری اس نام نہاد ایمانداری کا دیوالیہ نہ نکال دیا تو کہنا۔۔۔سالا مجھے انکار کرتا ہے۔۔۔شمس چوہدری کو۔۔۔ہونہہ۔۔۔۔“  برابر پھنکارتا وہ جاتے ہوئے بھی زہر اگلنے سے باز نہیں آیا تھا۔

”آئی سیڈ گیٹ لاسٹ۔۔۔۔۔۔“  پولیس اسٹیشن کے اس مخصوص روم میں گونجتی  عائل کی آواز میں غضب کی دہاڑ تھی۔

نتیجتاً وارن کرتی نگاہوں سے آخری بار اسکی جانب غصے سے دیکھتا وہ اگلے ہی لمحے دروازہ کھول کر وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

معاً عائل نے سر سے کیپ اتار کر بالوں میں ہاتھ چلایا۔پھر گہرا سانس بھرتا واپس چئیر پر بیٹھا۔۔۔تو اگلے ہی پل ٹیبل پر دھرے موبائل فون۔۔۔پر آتی غیرمتوقع کال نے اسے چونک کر اپنی جانب متوجہ کیا۔

عائل نے موبائل پکڑتے اسکرین کو بغور دیکھا۔کال کسی ان ناؤن نمبر سے آرہی تھی۔۔۔جس کے ڈسکنیکٹ ہونے سے قبل ہی یس کرتا وہ موبائل فون کان سے لگا گیا۔

”ہیلو۔۔۔۔اے۔ایس۔پی عائل حسن اسپیکنگ فرام پولیس اسٹیشن۔۔۔۔“ چہرے پر ہاتھ پھیر کر اپنی آواز کو نارمل کرتا وہ سنجیدگی سے گویا ہوا۔۔۔

جبکہ دوسری طرف ہنوز آفس میں موجود وہ۔۔۔۔

وہ تو ایک عرصے بعد اسپیکر سے ابھرتی اسکی شفاف بھاری آواز سنتا جیسے ساکت سا ہوگیا تھا۔

سرخ بھوری نگاہوں میں در آنے والی نمی سمیت دل کی دھڑکنیں بےاختیار تیز تر ہوئی تھیں۔

”ایکسکیوزمی۔۔۔؟؟جواب میں اب کوئی کچھ بولے گا بھی۔۔۔؟؟یا پھر میں سیدھا کال کاٹ دوں۔۔۔؟؟؟“  ہنوز کوئی جواب آتا نہ دیکھ عائل کا موڈ اب کہ پھر سے بگڑنے لگا۔۔۔تو سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ شاہ نے اپنے لبوں کو جنبش دینا چاہی۔۔۔

مگراس پل حلق سے آواز کا پھوٹنا محال ہی تو ہورہا تھا۔

”عجیب فالتو قسم کے لوگ ہیں۔۔۔وقت بے وقت موڈ برباد کرنے آجاتے ہیں۔۔۔سنوتم جو کوئی بھی ہو دوبارہ یہاں بےوجہ کال مت کرنا۔۔ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔۔۔انڈر سٹینڈ۔۔۔“ اس قدر ڈھٹائی پر حقیقتاً سلگتا عائل دانت پیس کر گویا ہوا۔۔۔جب اسکا ارادہ بھانپتا وہ بےساختہ بول پڑا۔

”ب۔۔بھائی۔۔۔۔؟؟؟“  بےقراری عروج پر تھی۔

اس قدر عروج پرکہ۔۔۔اسپیکر سے ابھرتی بھاری۔۔شناسا آواز عائل کی پیشانی پر چڑھی تیوری کو مٹانے کے لیے کافی ہوئی تھی۔

”کون بات کررہا ہے۔۔۔؟؟؟معذرت پر میں نے پہچانا نہیں آپکو۔۔۔“ 

یہ آواز۔۔۔

یہ انداز۔۔۔

یہ تو۔۔۔۔

حواس بحال کرنے کو سر جھٹکتے ہوئے عائل نے کچھ الجھ کر پوچھا۔

جبکہ دوسری طرف یہ سوال شاہ میر حسن کے لبوں پر ایک زخمی سی مسکراہٹ لے آیا تھا۔

گزشتہ تلخ حالاتوں کے سبب وقت اس قدر تیزی سے بدل چکا تھا کہ اپنوں کا۔۔۔اب اپنوں کو پہچان پانا  ہی مشکل ترین تھا۔

 ”بھائی۔۔۔یہ۔۔م۔۔ میں ہوں۔۔۔آپکا شام۔۔۔۔“  اپنا آپ مکمل اس پر جتاتے۔۔ضبط کا ایک آنسو ٹوٹ کر آہستگی سے اسکی گال پر لڑھکا۔

جبکہ اپنے ابھرتے خدشے کی یوں صاف لفظوں میں تصدیق ہوجانے پر عائل نے دھڑکتے دل کے ساتھ بےساختہ آنکھیں میچ کر کھولیں۔

وہ شاہ میرحسن ہی تھا۔۔۔

کیا کچھ یاد نہیں آیا تھا اسے ان پلوں میں۔۔۔

وہ جرم۔۔۔

وہ انا۔۔۔وہ اکڑ۔۔۔۔

وہ طوفانِ بدتمیزی برپا کرنا۔۔۔۔۔

”کون شام۔۔۔۔۔؟؟؟میں ایسے کسی بھی اپنے سے واقف نہیں ہوں۔۔۔۔۔“  کچھ توقف لیتا وہ قدرے سنبھل کر بےتاثر لہجے میں بولا۔۔۔تو شاہ بےسکونی تلے نفی میں سر کو تیزی سے جنبش دیتا اگلے ہی پل راکنگ چئیر سے کھڑا ہوا۔پھر بےچینی سے چلتا ہوا گلاس وال تک آیا۔

”یہ مت کریں بھائی۔۔۔مجھ سے آپکی لاکھ ناراضگی سہی۔۔۔پر خدا کے لیے اس خفگی کو میری پہچان۔۔۔میرے رشتے۔۔پر ہرگز  بھاری مت پڑنے دیں۔۔۔۔۔“  ضبط سے بھیگتی آنکھیں مسلتا وہ تڑپ ہی تو اٹھا تھا۔

دل جانے کیوں اس پل کمزور ترین سا ہورہا تھا۔

”تمھاری پہچان پہلے ہی بہت سوں کی زندگیوں پر بھاری پڑ چکی ہےشاہ میرحسن۔۔۔جسکا تمھیں اب تک کوئی پچھتاوا۔۔کوئی ملال نہیں ہے۔۔۔سو میرے آگے بھی تمھاری یہ دکھاوے کی تڑپ بےسود ہے اب۔۔۔۔“  سینے میں اٹھتی چاہ کو بڑی مشکلوں سے دباتے ہوئے عائل کا لہجہ ہنوز سپاٹ تھا۔

شاہ نے شدتِ بےبسی سے ہاتھ کی مٹھی بنا کر گلاس وال پر ہٹ کی۔

وسیع آسمان پر سجے سورج کی کرنیں گرماہٹ میں اب کہ بے دم سی ہونے لگی تھیں۔

”احساس ہے ناں بھائی۔۔۔ہے احساس۔۔۔۔یہ سچ ہے کہ بیت چکے وقتوں میں خود کو اچھا ثابت کرتے کرتے بہت برا بن چکا تھا میں۔۔۔پر اب۔۔اب میں مکمل بدل گیا ہوں۔۔۔بیلیو می بھائی۔۔۔میرے حالات۔۔۔احساسات۔۔سوچ۔۔ارادے۔۔انفیکٹ سب کچھ ہی بدل چکا ہے۔۔۔۔۔“  اپنی صفائی پیش کرتا وہ اس بار بھی حرمین زہرا کے نام پر کیا گیا جرم بڑے عام سے انداز میں لے گیا تھا۔

بلاشبہ اسپیکر سے ابھرتا لہجہ متاسف ضرور تھا۔۔۔مگر صرف خود کی ذات کے لیے۔۔۔

اپنے کیے پر ہنوز نہ کوئی پچھتاوا۔۔۔نہ ہی کوئی ملال۔۔۔

کون کہتا تھا وہ بدل چکا ہے۔۔۔۔؟؟

عائل کو صاف دکھ ہوا تھا۔

”بدلتے حالاتوں کے سبب فقط بدل جانا ہی کافی نہیں ہوتا شام۔۔۔؟؟اصل بات  تو اس گناہ کا ازالہ کرنے کی ہے۔۔جو شاید تمھارے لیے اب ایک ناممکن سا عمل بن کر رہ گیا ہے۔۔جان لو کہ گئی جانیں واپس نہیں آیا کرتیں۔۔۔۔“  شرم دلانے کو اس نے حقیقتاً ایک ناکام سی ہی کوشش کی تھی۔

”انٹرسٹنگ۔۔۔بھائی کی اذیت پر بیوی کی خوشی کو ترجیح دینے کی عادت آپ نے اب تک نہیں بدلی۔۔۔اور نہ ہی آپکے اس عمل کے نتیجے میں،میں نے اپنے دل میں اٹھنے والی دکھن کو بدلا ہے۔۔۔۔“   گہرا طنز کرتا وہ ان سنگین پلوں میں تمسخرانہ ہنسا۔

”حقیقی مدعے پر آؤ۔۔۔مجھ سے کیا چاہ رہے ہو اب تم۔۔۔۔؟؟“  سرد مہری سے گویا ہوتے عائل نے بات ختم کرنا چاہی۔

”کم از کم ایک ملاقات۔۔۔ملنا چاہتا ہوں آپ سے۔۔۔بنا کسی فضول سی جھجھک کاشکار ہوئےکھل کر باتیں کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ورنہ ممکن ہے دن بدن بڑھتی یہ بےسکونی مجھے پاگل کردے گی۔۔۔۔۔“  شدت سے ملتجی ہوتا وہ موبائل فون سرعت سے دوسرے کان پر رکھ گیا۔

ناامیدی سے کہیں ذیادہ امید تھی۔۔جیسے وہ نہ نہیں کرے گا۔

آخر کو سگا بھائی تھا اسکا۔۔۔

”مگر میں یہ نہیں چاہتا۔۔۔۔“  بڑے ضبط سے صاف انکار کرتا وہ شام کے لبوں پر بکھرتی مدھم مسکراہٹ کو مٹا چکا تھا۔

”وہ ہمارے باپ کو قاتل کہہ رہی ہےبھائی۔۔قاتل۔۔۔۔کیا اب بھی آپ نہیں چاہیں گے۔۔۔؟؟؟“  معاً قدرے درشتگی سے چلا کر بولتا وہ عائل کو اپنے لفظوں سے بری طرح چونکا گیا تھا۔

”کیا مطلب ہے تمھاری اس بکواس کا۔۔۔کون۔۔۔؟؟کس کی بات کررہے ہو تم۔۔۔؟؟“  حیرت سے کھڑا ہوتا وہ مشتعل سا گویا ہوا۔۔۔تو دوسری طرف منہ پر ہاتھ پھیرتے شاہ نے ضبط سے آنکھیں میچ کر کھولیں۔

”میری بیوی۔۔۔۔۔۔۔۔“  اسپیکر سے ابھرتا دو لفظی جواب حقیقتاً بڑا ہی تلخ ترین تھا۔

****************

اجازت ملنے پر راشدہ پریشان سی کمرے میں داخل ہوئی تھی۔

پریشان ہوتی بھی کیوں ناں۔۔۔۔

آخر کو عائمہ بیگم نے اپنی نام نہاد بہو سے بےتابانہ کام جو کروا ڈالا تھا۔۔۔

بجائے خود سے انکار کرنے کے۔۔۔اب وہ تھکن سے چُور ننھی سی جان۔۔ میلے کپڑوں کا آخری ڈھیر دھوتے سمے چکراتی ہوئی سر تھام کے وہیں گیلے فرش پر بیٹھ گئی تھی۔

عائل کی غیر موجودگی میں ایک بار پھر سے۔۔اپنی پتھر دل ساس کی اپنائیت وصولنے کی یہ حقیقتاً ایک ناکام سی کوشش ہی تو تھی۔

”کیا ہوا ہے۔۔۔؟؟اتنی حق دق کیوں کھڑی ہو تم۔۔۔۔؟؟“  حسن صاحب کی موجودگی میں انھوں نے ٹانگ سے ٹانگ اتارتے ہوئے ازلی نخوت سے پوچھا۔۔۔تو پل بھر کو گڑبڑاتی راشدہ نے سر پر دوپٹہ درست کیا۔

ادھ جلے سگریٹ کو۔۔۔قریب ٹیبل پر پڑے ایش ٹرے میں مسل کر وہیں چھوڑتے حسن صاحب بھی اسکی جانب متوجہ ہوچکے تھے۔

”جی وہ بیگم صاحبہ۔۔۔۔بات دراصل یہ ہے کہ وہ جو چھوٹی بی بی ہیں ناں۔۔۔انھیں کپڑے دھوتے وقت تھکاوٹ کے سبب اچھے خاصے چکر آگئے تھے جی۔۔۔ان سے مزید کام بھی نہیں ہو پارہا تھا۔۔۔تو بس اسی لیے میں انھیں۔۔۔واپس ان کے کمرے میں چھوڑ آئی ہوں جی۔۔۔۔“  راشدہ نے اپنے ازلی پینڈو لہجے میں ٹھہرٹھہر کر وضاحت دی۔۔۔تو جہاں بیڈ کے کنارے براجمان عائمہ بیگم نے تنفر سے بھنویں اچکائیں تھیں وہیں۔۔حسن صاحب نے کچھ تاسف سے اپنی ڈھیٹ بیگم کو دیکھ کر نگاہیں پھیر لیں۔

”چکر۔۔۔۔؟؟؟ہونہہ۔۔۔۔چکر چلانے میں تو یہ محترمہ شروع سے ہی خاصی ماہر رہی ہے۔۔۔اب بھی وہی کچھ کررہی ہے۔۔۔اچھے سے جانتی ہوں میں اس لڑکی کی بہانے بازی کو۔۔۔۔۔“ ان کے لہجے سے صاف نفرت ٹپک رہی تھی۔ہرے رنگ دوپٹے کا پلو انگلیوں میں گھماتی راشدہ انھیں دیکھ کر رہ گئیں۔

”لڑکی نہیں۔۔۔بہو ہے وہ تمھاری۔۔۔۔“  فریش موڈ کے سبب حسن صاحب نےسادگی سے ٹوکا۔۔۔تو عائمہ بیگم کو اس جملے سے کوفت سی ہوئی۔

”اب کھڑی دیکھ کیا رہی ہو تم۔۔۔جاؤ یہاں سے۔۔۔۔اور باقی کے بچے سارے کام نپٹاؤ جاکر۔۔۔“ انھیں مثبت جواب دینے کی بجائے وہ براہ راست راشدہ پر چلائی تھیں۔۔۔

”ج۔۔جی بہتر۔۔۔بیگم صاحبہ جی۔۔۔۔“  چونک کر سیدھی ہوتی وہ سر اثبات میں ہلاگئی۔پھرقدرے پھرتی سے وہاں سے پلٹ گئی۔

”کیوں بلاوجہ کی ذیادتی کررہی ہو تم اس بچی کے ساتھ۔۔۔؟؟؟“  صوفے سے اٹھ کر وہ لان کی طرف کھلتی کھڑکی کی جانب آئے۔

ان کے یوں پرواہ کرتے سوال پر مٹھیاں بھینچتی عائمہ بیگم بھی کھڑی ہوتی ان کے قریب چلی آئیں تھیں۔

”ہمیشہ مجھے اپنے رعب تلے لاکر اصل ذیادتی تو آپ نے میرے ساتھ کی ہےحسن صاحب۔۔۔۔اس روز بجائے میری بات ماننے کے۔۔۔آپ نے اپنی مردانگی کے زعم میں مجھے اس دوٹکے کی لڑکی کے سامنے تھپڑ مار کر۔۔۔میری عزت دو کوڑی کی بنادی تھی۔۔۔۔“  انکی جانب دیکھتے عائمہ بیگم نے قدرے برہمی سے جتایا۔۔تو ہنوز لان کی جانب بےوجہ تکتے ہوئے حسن صاحب کے لبوں پرمسکراہٹ سی بکھر گئی۔

وارنگ کے بعد ہمیشہ کی طرح اس بار بھی کسی بھی تھپڑ کی بابت عائل کو نہیں بتایا گیا تھا۔۔۔حتی کہ عائمہ بیگم کی سخت تاکید پر خود حاویہ بھی کچھ بتانے سے گریزاں ہوئی تھی۔۔۔ورنہ ممکن تھا اس معاملے میں عائل سخت اسٹینڈ لیتا جو۔۔۔حسن صاحب کو تو قطعی پسند نہیں آنا تھا۔

”تم ابھی تک اس پرانی بات کو اپنے دل سے لگائے بیٹھی ہو بیگم۔۔۔۔میں تو کب کا بھلا بھی چکا۔۔۔بہتر ہے تم بھی بھول جاؤ اور اپنی بڑی بہو سے خوامخواہ کے بیڑ پالنا چھوڑ دو۔۔۔ورنہ عائل کو اپنی ان حرکتوں سے بدظن کردو گی۔۔۔۔“  اگلے ہی پل انکی جانب رخ موڑتے وہ آہستگی سے کندھے تھام کر نرمی سے بولے۔

آج جو من چاہا ٹینڈر انھیں ملا تھا۔۔۔یہ نرمی اسی کا نتیجہ تھی۔وگرنہ تو وہ عموماً ایک پل میں جھاڑ کر رکھ دیتے تھے۔

”جب میں آپکو اپنی بجائے دوسروں کی پرواہ کرتا دیکھتی ہوں ناں۔۔۔تو میرا کلیجہ جل سا جاتا ہے۔۔۔کبھی کبھی تو خاصی حیرت ہوتی ہے مجھے۔۔حیرت ہوتی ہے یہ سوچ کر کہ کیا آپ نے واقعی میں مجھ سے محبت کی شادی رچائی تھی۔۔۔؟؟؟“  اپنے کندھوں سے آہستگی کے ساتھ ان کے ہاتھ ہٹاتی وہ دکھ سے گویا ہوئیں۔

بلاشبہ ماضی کے گنے چنے چند دن ہی سہی۔۔۔مگر ان کے اندر دبی حسرتوں کو اکثر جگا دیا کرتے تھے۔

”تو یعنی اب تم میری محبت کو لے کر شک میں مبتلا ہوچکی ہو۔۔۔یہی جتانا چاہ رہی ہو ناں مجھ پر۔۔۔؟؟“ اس بار ذرا تیوری چڑھا کر پوچھتے وہ بھی سنجیدہ ہوئے تھے۔

”گزشتہ سالوں میں محبت کی جگہ۔۔۔اگر آپ اپنی نفرت کی چھاپ بآسانی میرے رخساروں پر چھوڑ سکتے ہیں۔۔تو پھر میں آپکی محبت کو لے کر شک میں مبتلا کیوں نہیں ہو سکتی بھلا۔۔۔۔؟؟؟“ ان کا نم پڑتی آنکھوں سے دیا جانے والا تلخ جواب حقیقتاً شرمندہ کردینے والا تھا۔۔۔مگر وہ بنا کوئی پرواہ کیے مٹھیاں بھینچ گئے۔

”اصل حقیقت تو یہ ہے بیگم کہ تم کسی بھی لحاظ سے نرمی برتے جانے کے لائق نہیں ہو ورنہ میرے سر چڑھ کے بولنے لگو۔۔۔جیسے ڈھیل دینے پر اب بول رہی ہو۔۔۔اب ہٹو میرے سامنے سے۔۔۔۔۔۔“  عائمہ بیگم انکا خوشگوار موڈ خراب کرنے میں کافی حد تک کامیاب رہی تھیں۔۔۔جبھی بگڑ کر بولتے ہوئے انھوں نے آخر میں انھیں دھتکارتے انداز میں سامنے سے پرے کیا۔۔پھرکچھ غصے سے کھلے دروازے کی جانب لپکتے باہر نکل گئے۔

ابھی وہ چند قدم ہی آگے بڑھ پائے تھے جب یک دم آتی کال نے انھیں رک کر اپنا موبائل فون جیب سے نکالنے پر مجبور کردیا۔

 ”ہاں کہو سرمد۔۔۔کیا اپ ڈیٹ ہے وہاں کی۔۔۔۔۔؟؟؟“  کال پک کرتے ہی موبائل فون کان سے لگاتے ہوئے انھوں نے اپنے ہائر کیے ورکر سے پوچھا۔

لہجے میں بےقراری سی تھی۔

”سر۔۔۔۔شاہ میر صاحب کی کلائنڈز کے ساتھ آؤٹ آف سٹی۔۔میٹنگ کا سلسلہ ایک بار پھر سے چل پڑا ہے۔۔۔جہاں جانے کا وہ ارادہ بھی رکھے ہوئے ہیں۔۔۔مزید یہ کہ میں آپکو انہی کے متعلق ایک ویڈیو بھیج رہا ہوں۔۔۔جو شاید آپکی معلومات میں مزید اضافہ کن ثابت ہوگی۔۔۔۔“  دوسری طرف وہ تواتر سے وضاحت دیتا ہوا پل پل حسن صاحب کے رنگ بدلنے کا سبب بن رہا تھا۔

”ہہمم۔۔۔بھیجو جلدی۔۔۔۔۔“  سنجیدگی سے کہتے وہ کال کاٹ چکے تھے۔

نجانے اب کونسا نیا گل کھلانے کو بےتاب ہوا تھا ان کا سپوت۔۔۔۔؟؟؟

مزید دو سے چار پل لگے تھے میسج ٹیون بجنے میں۔۔۔۔جب حسن صاحب چونک کر موبائل اسکرین کی جانب متوجہ ہوئے۔پھرقدرے پھرتی سے کلک پر کلک کرتے چلے گئے۔

ویڈیو اوپن ہوتے ہی آفس فلور پر ہورہی لڑائی کا منظر ان کی بےچین نگاہوں کے سامنے آیا تھا۔

”رقاصہ نہیں ہے وہ۔۔۔۔سنا تم نے۔۔۔۔شاہ میرحسن کی بیوی ہے وہ۔۔۔۔۔ملکیت ہے میری۔۔۔۔۔“  فرش پر گرے کسی شخص پر پے در پے وار کرتا وہ شام ہی تو تھا۔

سماعتوں میں گھلتے ان صاف لفظوں پر حسن صاحب کے نقوش تن سے گئے۔

 ”اس کے خلاف ایک بھی واہیات لفظ سننے کا روادار نہیں ہوں گا میں۔۔۔۔ہاں مگر واہیاتی بکنے والے کا بد سے بدترین حال ضرور کردوں گا۔۔۔۔“  ویڈیو میں چیخ چیخ کر باورکرواتا وہ اطراف سے تقریباً بےخبر ہی تو تھا۔۔۔

ضبط سےمٹھی بھینچتے حسن صاحب کی نگاہوں میں سرخی اترنے لگی۔

معاً دو گارڈز سنبھالنے کو بپھرے شاہ کی جانب آئے تھے۔۔۔جب حسن صاحب نے مزید دیکھنے کی بجائے دانت پیستے ہوئے موبائل کی اسکرین بند کرڈالی۔

کس قدر۔۔۔۔احمق ترین تھا ان کا بیٹا جو ایک غلیظ رقاصہ کی حقیقت جان کر بھی اسکی محبت میں یوں مرا جارہا تھا۔۔۔

سوچتے ہوئے حقیقتاً حسن صاحب کا خون کھول اٹھا۔

ایسے میں اپنے دھیان سے کمرے سے باہر آتی عائمہ بیگم۔۔۔انھیں وہیں رکا دیکھ چونک گئیں۔۔۔جو ان کی جانب پشت کیے کھڑے ہنوز بےسکون کرتی سوچوں میں ڈنواں ڈول تھے۔

بےچینی سے مونچھوں پر ہاتھ پھیرتے وہ اگلے ہی پل چونکے۔

تو کیا اس نے ان کی بدترین حقیقت بھی  کھول کر شاہ میر کے سامنے رکھ دی تھی۔۔۔۔؟؟؟

اگر ہاں۔۔۔۔تو پھر اس نے کوئی استفسار کیوں نہیں کیا تھا۔۔۔۔؟؟؟

شاید۔۔۔شاید ایک بیٹے کی حیثیت سے اس نے اپنے باپ کے خلاف کچھ قبول نہ کیا ہو۔۔۔۔؟؟

یا پھر شاید وہ۔۔۔۔۔۔۔!!!

وہ دماغ پر شدت سے زور ڈالتے مزید گہرائی میں اتر جانا چاہ رہے تھے جب

 کندھے پر ہاتھ رکھتی عائمہ بیگم نے بےساختہ انھیں مخاطب کیا۔

”آپ ابھی تک یہیں پر تھے۔۔۔۔۔؟؟؟“  وہ کچھ حیران ہوئیں تو نتیجتاً بری طرح چونکتے وہ بےاختیار ان کی جانب پلٹے۔

”خیر۔۔مجھے پنڈی جانا ہے۔۔۔اپنے بیٹے اور خاص طور پر چھوٹی بہو سے ملنے۔۔جب سے وہ بیاہی گئی ہے ایک بار بھی ملاقات میسر نہیں آئی۔۔۔۔۔۔“  انکے تاثرات نظرانداز کرتی وہ بظاہر بتارہی تھیں۔۔۔پر انداز صاف اجازت لیتا ہوا تھا۔

اگلے ہی پل حسن صاحب کے تیور خطرناک حد تک کڑے ہوئے تھے۔

”میری اجازت کے بنا تم اس گھر سے ایک بھی قدم باہر نہیں نکالو گی ۔۔۔پنڈی جاکر ملاقات کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔۔۔۔اور جان لو کہ تمھاری فی الحال ایک ہی بہو ہے۔۔۔فقط ایک۔۔۔اور وہ ہے عائل کی بیوی حاویہ۔۔۔دوسری بہو تک رسائی کا وہم و خیال چھوڑ دو۔۔۔سمجھی۔۔۔۔۔۔۔“  کنپٹی پر بارہا شہادت کی انگلی ٹھوکر کر تندہی سے باور کرواتے وہ عائمہ بیگم کا دل بےسکون ہی تو کرگئے تھے۔

”مگر کیوں۔۔۔۔؟؟؟“  پیشانی پر تیوری چڑھائے وہ قدرے حیرانی سے پوچھ رہی تھیں۔

ان کے سوال پر حسن صاحب کی نگاہوں کی سرخی مزید گہری ہوتی چلی گئی۔

”کیونکہ مردہ لوگ تصور میں ہی اچھے لگتے ہیں۔۔۔۔ملاقاتوں میں نہیں۔۔۔“  دبے لفظوں میں۔۔۔اپنے سینے میں پنپتے جانیلوا ارادے عیاں  کرتے ہوئے وہ مزید رکے نہیں تھے۔۔۔بلکہ وہاں سے نکلتے چلے گئے۔

جبکہ پیچھے عائمہ بیگم کچھ بھی ٹھیک سے سمجھ نہ آنے پر بری طرح الجھتی ہوئی۔۔۔انھیں نظروں سے اوجھل ہوتا دیکھ کر رہ گئیں۔

دل انجان وسوسوں تلے بھاری سا ہونے لگا تھا۔

اب کون جانے آنے والے لمحات کس کی ذات کے لیے۔۔۔کس انداز میں۔۔۔کیا بربادی لانے والے تھے۔۔۔۔؟؟؟

***********************

”آپ اس سرپھرے انسان سے جلد از جلد اپنی جان چھڑوائیے حلیمہ۔۔۔پلیز۔۔۔یقین مانیں وہ شخص رتی بھر بھی آپ جیسی نازک مزاج لڑکی کے قابل نہیں ہے۔۔۔کل میں اس کی طبیعت اور تربیت۔۔۔دونوں کو بہت اچھے سے پرکھ چکا ہوں۔۔۔حیرت ہے۔۔۔اب تک آپ کس طرح گزارا کرتی آئی ہیں۔۔۔۔؟؟؟“ بالوں میں تلخی سے ہاتھ پھیرتا وہ خود کے ساتھ ساتھ اسکے لیے بھی قدرے فکرمند تھا۔۔۔جب اسپیکر سے ابھرتی عرفان کی بےچین آواز پر وہ نم پڑتی آنکھوں کو جھپکا گئی۔ 

خنساء بیگم سے کروائی گئی سفارش کے سبب۔۔پہلی بار موبائل فون پر وہ اس سے اس قسم کی گفتگو کرے گا۔۔۔

بھلا کہاں سوچا تھا اس نے۔۔۔۔۔؟؟ 

”کاش کہ آپ دلوں کو بھی پرکھنا جانتے عرفان صاحب تو یوں حیرت ہرگز نہیں ہو رہی ہوتی۔۔۔۔“ کہتے ہوئے اسکے تاسف بھرے لہجے میں تمسخر سا جھلکا۔۔۔تو اسکی بات نہ سمجھتے ہوئے نتیجتاً وہ ذرا چونکا۔

 ”کیا مطلب۔۔۔۔؟؟میں ٹھیک سے سمجھا نہیں آپ کہنا کیا چاہ رہی ہیں۔۔۔۔؟؟“ الجھا الجھا سا لہجہ نرمی لیے ہوئے تھا۔ 

”میری چھوڑئیے۔۔۔آپ اپنی بتائیں۔۔۔آپ کیا چاہ رہیں ہیں۔۔۔۔؟؟“  گہرا سانس بھرتی وہ بات کو ٹال گئی تھی۔ 

عرفان کے لب مسکرائے۔۔۔ 

خیرشدید محبت تو نہیں۔۔۔۔۔۔ہاں مگر بطور ہمسفر وہ اسے اچھی ضرور لگنے لگی تھی۔

ہاتھ تھامنے پر وہ نازک سا لمس حقیقتاً اس کے دل میں ہلچل سی مچا گیا تھا۔

 ”میں چاہتا ہوں کہ آپ فی الفور سالار خان سے طلاق کا مطالبہ کیجیے۔۔۔جو شاید وہ دینا نہیں چاہتا۔۔۔۔اور اگر واقعتاً ایسا ہے تو۔۔۔۔پھرآپ بنا کسی دیری کے۔۔خلع کے نام پر اپنا اختیار استعمال میں لائیں۔۔۔۔“ وہ صاف صاف لفظوں میں اپنے دل میں پنپتی خواہش اسے بتارہا تھا۔

 دبیز قالین پر مرکوز حلیمہ کی مزید بھیگتی۔۔ساکت نگاہوں میں گلال اترنے لگا۔

 ”میری با مقصد محبت کی راہ میں تم فقط ایک بے مقصد سی رکاوٹ ہو حلیمہ خانزادی۔۔۔جسے پیروں تلے روند کر آگے نکل جانا اب میری شدید ترین خواہش بن چکی ہے۔۔۔“ معاً سماعتوں میں گھلتی سالار خان کی پھنکار اسے سختی سے مٹھی بھینچنے پر مجبور کرگئی۔ ”حلیمہ۔۔۔۔؟؟؟“ اسکی بےنیازی پر وہ صاف پکار اٹھا تھا۔

 ”ٹھیک ہے پھر۔۔۔مجھےمحض ایک سے دو دن کی مہلت دیجیے اماں حضور۔۔۔اگر جو فیصلہ میرے حق میں ہوا تو میں خود۔۔حلیمہ خانزادی کو خلع کی جگہ طلاق دوں گا۔۔۔لیکن اگر حق میں نہ ہوا۔۔تو بھی مجھے اسکی مرضی سے کسی بھی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہوگا۔۔۔۔“ دل چیڑتا لہجہ کس قدر سفاک تھا ناں۔۔۔

 اسی قدر سفاک کہ گھٹتی سانسوں کے سبب گھبرا کر کھڑے ہوتے ہوئے۔۔۔حلیمہ کو خود کے لیے حتمی فیصلہ لینے میں فقط ایک پل لگا تھا۔

 ”م۔۔میں۔۔۔میں کروں گی ان سے طلاق کا مطالبہ۔۔بہت جلد۔۔۔۔آپ بےفکر رہیں۔۔۔“ بہتے آنسوؤں کے دوران اپنی نم آواز پر قابو پاتی جہاں وہ۔۔۔فون کے دوسری طرف اسے کھل کر مسکرانے پر مجبور کرگئی تھی۔۔۔وہیں مٹھیاں بھینچ کر۔۔پشت پر ساکت کھڑے سالار خان۔۔۔کا ضبط ٹوٹ کر بکھرتا چلا گیا۔

 معاً آگے بڑھتے ہوئے موبائل فون جھپٹ کر۔۔شدت سے سامنے الماری پر مارتا وہ حلیمہ کو بوکھلا کر اپنی طرف پلٹنے پر مجبور کرچکا تھا۔

 ”کیا بکواس ہے یہ سب۔۔۔ہہمم۔۔۔؟؟؟“ بازو سے دبوچ کر اسے اپنی جانب جھٹکتا وہ شدت سے غرایا۔

 پٹیوں میں جکڑا سر تھا کہ اتنے سے عمل میں ہی وقفے وقفے سے اٹھتے درد کے سبب پھٹنے سا لگا تھا۔

اس دوران بند ہوتےموبائل کی اسکرین بھی ٹوٹ چکی تھی۔ 

”بکواس نہیں خان۔۔۔طلاق۔۔۔طلاق چاہیے مجھے آپ سے۔۔۔۔۔۔“ بڑی مشکلوں سے اس کے نقوش پر بکھرتی اذیت سے لاپرواہ بنتی۔۔۔وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اسی کے انداز میں غرائی۔۔۔تو قدرے قریب سے اسکے باغی نقوش تکتا سالار خان پل بھر کوتھم سا گیا۔

 وہ تو اس سے دونوں کے مستقبل کو سنوارنے کے لیے بات کرنے کی غرض سے یہاں آیا تھا مگر۔۔۔۔ مگر یہاں تو معاملہ ہی حدود سے پوری طرح باہر نکل چکا تھا۔

 ”اور اگر میں نہ دوں تو۔۔۔۔انفیکٹ میں دوں گا ہی کیوں۔۔۔؟؟؟“ شدتِ بےبسی سے اپنی گرفت مزید سخت کرتا وہ اسے درد سے آشنا کروا رہا تھا۔

جہاں پلکیں جھپکانے پر دو آنسو ٹوٹ کر اسکے گالوں پر لڑھکے تھے۔۔وہیں پیشانی پر صاف بل پڑے۔ 

”خان ہونے کے باوجود بھی اپنے کہے لفظوں سے مکر جانا آپکا پسندیدہ مشغلہ ہے۔۔مگر مقابل بھی ایک خانزادی کھڑی ہے۔۔۔اس بار آپکو آپکے کہےلفظوں سے مکرنے نہیں دوں گی۔۔۔بہتر یہی ہے کہ اختلاف کرنے کی بجائے میری مرضی کا احترام کریں خان۔۔۔اور میری مرضی کیا ہے وہ میں آپکو صاف صاف لفظوں میں بتا چکی ہوں۔۔۔۔“ کہتی ہوئی پوری قوت لگا کر اپنا بازو اس سے چھڑواتی وہ۔۔۔اگلے ہی پل پلٹ کر ملحق ٹیرس کی جانب جا چکی تھی۔ 

گہری ہوتی رات میں وہ بھی سرعت سے اسکے پیچھے چلا آیا۔پھر درشتگی سے اسے اپنی جانب گھومایا۔۔۔جو مشکل ہی اپنے بھیگے گال رگڑ پائی تھی۔

 ”نہیں دوں گا میں تمھیں طلاق۔۔۔۔سنا تم نے۔۔۔کسی بھی صورت نہیں دوں گا۔۔۔اور اگر تم خلع بھی لینا چاہو گی ناں۔۔۔تو بھی میں تمھیں یہ کام قطعی نہیں کرنے دوں گا۔۔۔

 تم میری بیوی تھی۔۔۔۔ 

میری بیوی ہو۔۔۔

 اور فقط میری ہی ملکیت بن کر رہو گی۔۔۔فقط میری۔۔۔۔“ چلا کر قطیت بھرے لہجے میں بولتا وہ۔۔۔اگلے ہی پل درد کرتے سر کو تھامے دانت پیس گیا۔

اس کے اس قدر پاگل پن پر ناچاہتے ہوئے بھی حلیمہ کا دل دھڑک اٹھا تھا۔

 ”مگر کیوں۔۔۔۔؟؟؟اب یہ تماشہ کیوں۔۔۔؟؟؟یہی تو چاہتے تھے ناں آپ۔۔۔۔؟؟؟“ اس بار عاجز آتی وہ بھرائے لہجے میں پوچھ رہی تھی۔ 

حقیقت سے ہنوز ناواقف حلیمہ کے لیے۔۔۔اسکی منمانیاں سمجھ سے قدرے پرے ہی تو تھیں۔ 

اسکے بھیگے نقوش دیکھتا وہ بےاختیار نفی میں سر ہلاگیا۔

 ”چاہتا تھا۔۔۔۔۔مگر اب نہیں چاہتا۔۔۔قطعی نہیں چاہتا کہ میری ہوتے ہوئے بھی تم مجھ سے یوں دور چلی جاؤ۔۔۔۔۔“ اب کی بار نرمی سے نازک کندھوں کو تھام کر اسے اپنے قریب کرتا وہ مدھم گھمبیر لہجے میں گویا ہوا۔جلتی آنکھوں میں ضبط کے باوجود بھی نمی سی در آئی تھی۔

 چونک کر اسکے خماری میں ڈھلتے نقوش تکتی حلیمہ کا دماغ سنسانے لگا۔

 اس بار تو وہ نشے میں بھی نہیں تھا۔۔۔

تو پھر یہ سب۔۔۔۔؟؟؟؟

 معاً جھماکا سا ہونے پر اسکا دل ڈوب کر ابھرا۔

 ”رابی نے ٹھکرایا ہےآپ کو۔۔۔۔؟؟؟اور و۔۔وہ ایکسیڈنٹ۔۔۔؟؟؟وہ بھی اسی دکھ میں ہوا تھا۔۔۔۔؟؟؟“ قدرے گہرائی سے سوچتے ہوئے الجھی گتھیاں پل میں سلجھی تھیں۔ 

وہ جو دوسروں کی طرح اسکے ایکسیڈنٹ کو محض گہری لاپرواہی کا نتیجہ سمجھے بیٹھی تھی۔۔حقیقتاً بڑا ہی مضبوط اندازہ لگاگئی تھی۔

سالار خان نے اسکی نم آنکھوں میں یکدم شدت سے ابھرتی حیرت کو چونک کر دیکھا۔پھربےسکونی سے سینے کو مسلا۔ 

”وہ تو اول روز سے ہی میری ذات۔۔۔میرے عشق کو ٹھکراتی آئی ہے۔۔۔حقیقی خطا تو میری خود کی ہے۔۔۔یکطرفہ محبت میں خود بھی جلتا رہا۔۔۔۔اور اپنے پیچھے تمھیں بھی جلاتا رہا۔۔۔ک۔۔کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ تم سب تلخیاں بھول کر میری خطا کو۔۔۔۔۔۔“ ٹوٹ چکے لہجے میں تاسف سے بولتا وہ بےاختیار اسکا چہرہ ہاتھوں میں تھامنے کو تھا۔۔۔۔جب مکمل ضبط کھونے پر درشتگی سے اسکے ہاتھ پیچھے جھٹکتی حلیمہ کا نازک ہاتھ اٹھا۔۔۔اور اسکے چہرے پر پوری قوت سے اپنی چھاپ چھوڑ گیا۔ 

”چٹاااااخ۔۔۔۔۔۔۔۔“ نازک تھپڑ کی تلخ آواز رات کے سناٹے میں گونجتی سالار خان کو ساکت ہی تو کرگئی تھی۔

 معاً قریب ہوتی وہ جذباتی سی اسکا گریبان پکڑ گئی۔

 جبکہ وہ۔۔۔وہ تو اسکا بپھرا روپ دیکھتا ہنوز ساکت تھا۔ 

”سمجھتے کیا ہیں آپ خود کو خان۔۔۔۔؟؟؟ہاں۔۔۔۔؟؟؟کیا سمجھتے ہیں آپ مجھے۔۔۔۔؟؟؟جب فیصلہ اپنے حق میں نہیں ہوسکا تو اب چلے آئے ہیں تاکہ مجھے زبردستی میرے فیصلے سے دستبردار کرسکیں۔۔۔۔۔“ چیخ کر پوچھتی وہ خود میں سینچ سینچ کر رکھے درد کو بھڑاس کی صورت نکال رہی تھی۔۔۔ورنہ ممکن تھا پاگل ہوجاتی۔۔ 

اسکی جانب ضبط سے دیکھتے سالار خان نے سختی سے مٹھیاں بھینچ لیں۔

 ”میری غیرت ابھی مری نہیں ہے حلیمہ سالار خان۔۔۔ کہ اپنی ہی بیوی کو میں جانتے بوجھتے کسی اور مرد کے ہاتھوں چپ چاپ سونپ دوں۔۔۔۔۔“ اسکی ایک کےبعد ایک جرات کو بمشکل برداشت کرتا وہ چبا چبا کر بولا تو۔۔وہ بہتے آنسوؤں میں بےاختیار مدھم سا ہنس دی۔

مگر سسکتادل۔۔۔۔

وہ تو محبوب کی بےدم وفاؤں کے آگے پھٹ سا رہا تھا۔۔۔

 ”تو یہ غیرت تب کہاں تھی سالار خان۔۔۔۔؟؟؟تب کہاں تھی جب اپنی ہی بیوی کی محبت پرآپ۔۔ہر بار ایک پرائی عورت کی محبتوں کا دم بھرتے ہوئے اذیتوں میں مبتلا کردیا کرتے تھے۔۔۔۔۔؟؟“ ہنوز اسکا گریبان مٹھیوں میں دبوچے اسکا نم انداز صاف مذاق اڑاتا ہوا تھا۔

 ”محبت میں بھٹکنا لازم ہے۔۔۔۔۔“ بےاختیار عاجز سا گویا ہوتا وہ اسکی ڈھیلی پڑتی گرفت سے بآسانی اپنا گریبان چھڑواگیا۔ 

”اب میں بھی بھٹکنا چاہتی ہوں۔۔۔مگرمحبت میں نہیں۔۔۔جانتے بوجھتے خسارے میں۔۔۔۔۔“ مضبوط لہجے میں ٹھہر ٹھہر کر باور کرواتی۔۔ وہ اگلے ہی پل اسے درشتگی سے پیچھے دھکیلتی وہاں مزید رکی نہیں تھی۔۔۔بلکہ اسے بےسکونیوں میں اتارتی وہاں سے نکلتی چلی گئی۔

پیچھے اس نے بے اختیار ہوکر اپنا سفید پٹیوں میں دکھتا ہوا بھاری سر قریب پلر پر مارا تھا۔

کیا بہت ضروری ہے۔۔؟؟

خواب پوش آنکھوں میں

آنسوؤں کا بھر جانا۔۔؟؟

حسرتوں کے ساحل پر

تتلیوں کا مرجانا۔۔؟؟

حبس کی ہواؤں میں 

خوشبوؤں کا ڈر جانا۔۔؟؟

دل کے تپتے صحرا میں

حشر ہی بپا ہونا۔۔؟؟

کیا بہت ضروری ہے۔۔؟؟

اب تیراجدا ہونا۔

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Sulagti Yadon Ke Hisar Mein Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Sulagti Yadon Ke Hisar Mein written by RJ . Sulagti Yadon Ke Hisar Mein  by RJ  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages