Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 21To 25 - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Tuesday, 8 October 2024

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 21To 25

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 21To 25

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Storiesa

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 21To 25

Novel Name: Hum Mi Gaye Yuhi 

Writer Name: Ismah Qureshi  

Category: Continue Novel

 گاڑی اس جگہ سے تھوڑی دور روکتے درمان اور دیار اب پیدل آگے کی طرف بڑھنے لگے۔انہیں حدشہ تھا کہ کہیں آس پاس لوگ نگرانی پر نہ بیٹھے ہوں۔ جس گھر میں وہ پیچھے کے رستے سے داخل ہوۓ وہ باہر سے دیکھنے پر بظاہر عام تھا۔خراب ہوا پینٹ ، دیواروں پر لگا سیمنٹ بھی جگہ جگہ سے بھربھرا ہوکر گرا ہوا تھا۔

جس راستے سے وہ گھر میں داخل ہوۓ تھے اندر موجود لوگوں کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوئ کہ کوئ یہاں ان کے ٹھکانے پر آچکا ہے۔یا پھر جو پہرہ دار باہر موجود تھے انہوں نے خود ان کے لیے راستہ ہموار کردیا تھا وہاں سے ہٹ کر۔۔۔!!!!

بادل بھی تو یہی چاہتا تھا کہ یہ لوگ اپنا بھائ آج لے ہی جائیں ۔جتنے بھی لوگ نگرانی پر وہاں موجود تھے وہ سب دلاور کے نہیں بادل کے وفادار تھے۔اور دلاور اگر مر کر بھی زندہ ہوجاتا تب بھی اسے یہ بات خود سے کبھی پتہ لگ نہیں سکتی تھی کہ بادل کتنی پہنچی ہوئ چیز ہے۔۔۔!!!

"صاحب وہ دونوں آپ کے کہے کے مطابق یہاں آچکے ہیں ۔!!! اور ہمارے آدمیوں نے آپ کے کہے کے مطابق بالکل معاملے سے لاتعلقی اختیار کرلی ہے۔اب آگے کیا حکم ہے ہمارے لیے۔...!!!"

گھر کے ایک کونے میں موجود شخص جس نے ان دونوں کو وہاں ابھی دیکھا تھا اس نے فورا دوسری طرف جاکر بادل خان کو یہ خبر دی۔

جو ہاتھ میں چاۓ کا کپ پکڑے کرسی پر آرام سے بیٹھا ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا سے لطف اندوز ہورہا تھا۔موسم برف باری والا بنا ہوا تھا۔آسمان پر سفید گہرے بادل برف کی چادر کی طرح چھاۓ ہوۓ تھے۔

اس ہوا میں گہرا سانس خارج کرکے بادل نے چاۓ کا سپ لیا۔

"آگے بس تم سب اپنا اپنا شکل پر کپڑا ڈال لو۔اندھا، گونگا، بہرہ ، لنگڑا جو جو بن سکتا ہے بن جاؤ۔ادھر اب جو ہوگا تم کو کچھ نہیں پتہ۔تم سب کو ان جنات کے بچوں نے کوئ گیس پھینک کر سلادیا تھا۔سمجھا نہ تم۔اپنا سب کراۓ کا غنڈہ کو بھی بتا دینا کہ اگر بادل سے غداری کرے گا تو بادل پھر صرف گرجے گا نہیں۔ 

بادل برسے گا بھی اور بجلی بھی گراۓ گا تم سب پر۔ سیلاب بھی لاۓ گا اور تم سب کو اسی سیلاب میں بہا کر عبرت کا نشان بھی بناۓ گا ۔!!! دلاور کمینہ کے سامنے مسکین صورت بنادینا جو بھی ہوا اس پر ۔۔!! باقی ہم جانے اور ہمارا کام جانے ۔۔!!!"

اس نے پراسرار سے لہجے میں کہا۔اس کی بات سنتے ہی اس آدمی نے ہاں میں سر ہلایا جیسے وہ سامنے ہی موجود ہو۔اپنی بات کہہ کر بادل نے فون بند کردیا۔

"بادل تیاری کرلو ہمارا اکلوتا بھانجی کا نکاح ہونے والا ہے۔۔۔!!! ہمارا شہزادی یہاں سے رخصت ہونے والا ہے۔۔!!! اس کا ماموں جان اب ایسے حلیے میں تو اچھا نہیں لگے گا نا ۔!!! ہم جاکر اپنا تیاری تو پورا کرے ۔ سالوں بعد کوئ اچھا کام ہوگا اس گھر میں بھی۔۔!! ورنہ تو یہاں آج تک شیطان کو پوجنے کے سوا اس دلاور کمینہ نے کچھ نہیں کیا ۔اوپر سے یہ چاپلوسی کا ڈرامہ واللہ۔۔!!! 

ہم تو اس کمینہ کا کمینہ صورت روز دیکھتا دیکھتا تھک گیا ہے اب تو۔ گٹر کا کیڑا یارا اس سے اچھا صورت رکھتا ہے ۔!! ایک بار ہمارا بھانجی اس گھر سے نکلے ۔پھر ہم اپنا بہن بھی اس گھر سے نکالے گا اور پھر شروع ہوگا زوال دلاور لعین کا۔!!"

کپ خالی کرکے اس کپ کو انگلی پر سٹائل سے گھماتے ہوۓ وہ کرسی سے اٹھا۔اور ایک نظر اس برف کی چادر جیسے بادلوں پر ڈالی۔

پھر سکون سے چلتا ہوا گھر کے اندرونی حصے کی جانب بڑھ گیا۔اب اس کی بھانجی کون تھی اور اس کا نکاح وہ کس سے کروانے والا تھا یہ بھی جلد پتہ لگ جاتا۔

وہی درمان اور دیار دونوں نے کمروں کی تلاشی لینا شروع کی۔گھر کے برعکس کمرے کسی فائیو اسٹار ہوٹل جیسے تھے جیسے یہ کسی محل کا اندرونی منظر ہو۔

وہ دونوں حیران تھے کہ یہ جگہ جتنی کھنڈر باہر سے دیکھنے میں ہے اتنی شاہانہ اندر سے کیسے ہے آخر۔۔۔!!!

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

فدیان نے اپنا حلیہ مسکینوں جیسا کرہی لیا تھا۔ہلکے سے سلوٹ زدہ کپڑے جن پر گرد جمی تھی جو پہنتے اس کا دل بھی خراب ہوا تھا لیکن ہمدردی حاصل کرنا اتنا آسان نہیں یہی سوچ کر اس نے وہ پہن لیے۔ آستینیں فولڈ کرکے اپنے بال ہاتھ سے ہی بگاڑ کر وہ اس وقت کرسی پر رسیوں سے مضبوطی سے بندھا ہوا بیٹھا تھا۔

 اپنی کلائیاں انہی رسیوں کے ساتھ کچھ دیر تک رگڑ کر اس نے رسیوں کے نشان آخر کار اپنی کلائیوں پر چھاپ ہی لیے۔ساتھ میں ان دونوں کو دھمکا کر اس نے اپنے چہرے پر تھپڑ اور مکوں سے نقش بھی بنوالیے۔دائیں آنکھ کے نیچے خراش سے ہلکا سا خون بہہ رہا تھا۔ہونٹ کے کنارے بھی پھٹے ہوۓ تھے اور وہ مسلسل سر جھٹک کر ہوش میں رہنے کی کوشش کررہا تھا۔ ہونٹوں پر ابھی بھی شرارتی مسکراہٹ سجی ہوئ تھی۔

اب وہ باضد تھا کہ لوہے کے راڈ سے یہ لوگ اس کا سر پھاڑ دیں تاکہ وہ یہاں سے سیدھا آئ سی یو میں جاۓ۔اور ڈاکٹر اس کے گھر والوں سے کہیں کہ آپ کے بیٹے کا بچنا مشکل ہے۔ سب روئیں دعائیں مانگیں ۔۔!!!

انہیں پتہ لگے کہ وہ ان کے لیے کیا ہے۔پھر ڈرامائی انداز میں وہ مر کر زندہ ہو جاۓ۔۔!!

اس کی خطرناک پلیننگ سن کر وہ دونوں کانپ اٹھے تھے کہ یہ کیا کوئ کرنے والا کام ہے جو وہ چاہتا ہے۔وہ اگر مرگیا تو وہ بادل خان کو کیا جواب دیتے ۔

جس نے ابھی تک اسے خراش بھی آنے نہیں دی تھی۔پہلے ہی دونوں نے جو حال فدیان کی خواہش پر اس کا کردیا تھا وہ بھی ان دونوں کو قبر میں پہنچانے کے لیے کافی تھا۔پھر لوہے کے راڈ سے اسے مارنا ۔۔!!!!

"یار مار دو نا۔...!!! دیکھو یہ خراشیں ایک دو دن میں ٹھیک ہو جائیں گی۔ان سے مجھے فرق نہیں پڑرہا تو میرے گھر والے تو سمجھیں گے کہ میں اغواہ ہوکر واپس نہیں آیا چھٹیاں گزار کر واپس آرہا ہوں۔میری عزت کا سوال ہے مارو مجھے۔میں بار بار ہاتھ نہیں لگوں گا مارو مجھے اور لے لو بدلہ۔۔۔!!!!"

 اپنی بند ہوتی آنکھیں کھول کر اس نے ہنستے ہوۓ کہا۔پتلا اغواہ کار جو ہاتھ میں لوہے کا راڈ پکڑے کھڑا تھا اس کی ٹانگیں کانپ گئیں ۔کہ یہ پاگل ہی ہے۔ دو مہینے اس نے انہیں خود دل کھول کر ذلیل کیا اب بادل کے ہاتھوں مروانا چاہتا ہے۔۔!!!

درمان اور دیار بھی اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے اسی طرف ہی آرہے تھے۔

"کوئ آرہا ہے یہاں ۔مجھے مارو اور دونوں تے خانے کے پچھلے راستے سے یہاں سے نکل جاؤ۔پیچھے مڑکر دیکھنا بھی نہ۔۔!!! میرا بھائ بہت ظالم ہے اگر اسے میں ہوش میں ملا تو اغواہ کاروں کے ہاتھوں مار کھانے پر وہ مجھے مزید مارے گا اور تم دونوں کے تو ہاتھ ہی کاٹ دے گا۔اسے اپنے سے جڑے لوگوں پر کسی کی نظر بھی گوارہ نہیں تو تم دونوں نے تو مجھے دو مہینوں تک یہاں رکھا ہے۔ مجھے بچالو اس کے ہاتھوں سے مار دو یار۔۔۔۔۔!!!

مارو ورنہ میں رسیاں توڑ کر تم دونوں کو اسی راڈ سے ماروں گا۔۔۔!!! مارو۔...!!!"

وہ دبی ابھی آواز میں غرایا ۔اس کی آنکھوں میں وارننگ تھی یہ اغواہ والا ایڈونچر اسے پوری فیلنگ کے ساتھ ختم کرنا تھا وہ ہاسپٹل کے بیڈ پر آنکھ کھولنا چاہتا تھا۔

اس شخص نے ڈر کر آنکھیں میچیں اور پوری قوت سے راڈ ماردیا۔جو سر کے پچھلی طرف لگنے کی بجاۓ اس کی کنپٹی پر لگ گیا۔ فدیان کی تو دنیا ہی ہل گئ۔وہ لمحے کے لیے سب سننا ، اور سمجھنا ہی بھول گیا۔

پتلو کے ہاتھ سے راڈ گرا اور موٹے اغواہ کار نے اسے دھکا دے کر ایک طرف کیا اور خود فدیان کے پاس آیا جس کی کنپٹی سے خون کا فوارہ نکل رہا تھا۔

فدیان کے لیے اب چیخیں روکنا مشکل ہوگیا ۔درد سے اس کی جان جا رہی تھی۔مشکل سے آنکھیں کھول کر اس نے آنکھیں ترچھی کرکے کانپتے ہوۓ پتلو کو گھورا۔

"کمینو ۔!! س۔سر پر مارنا تھا ۔کنپٹی پر نہیں۔۔!!! میں ب۔بہرہ ہوگیا تو کسی نے مجھے اپنی بیٹی بھی نہیں دینی ۔۔!! یہاں سے دفع ہوجاؤ ۔ورنہ میرے قتل کے جرم میں دونوں کو پھانسی ہوگی۔۔!!!"

ان کا دھندلا عکس دیکھتے ہوۓ فدیان چیخا۔

موٹا اغواہ کار جانا تو نہیں چاہتا تھا کیونکہ فدیان کی حالت بہت بری تھی پر فدیان اور کسی کو اپنے سامنے کھڑا بھی ہونے دے ۔

ناممکن ۔۔۔!!! 

نا نا کرتے بھی وہ دونوں وہاں سے بھاگ گۓ۔

ان کے آنکھوں سے اوجھل ہوتے ہی وہ درد کی شدت نہ سہتے چیخا۔

فدیان اور دیار قریب ہی تھی تبھی اس کی چیخ سن کر وہ اسی تے خانے میں آگۓ۔ سامنے کا منظر دل لرزا نے والا تھا۔فدیان کو زخمی دیکھ کر درمان تو ایک ہی جگہ صدمے سے جم گیا۔پر دیار نے فورا اس کی رسیاں کھولنا شروع کیں۔

"شکر ہے میری زندگی میں بھی کچھ فلمی ہونے جارہا ہے اب۔ ہاسپٹل میں مر کر زندہ ہونا کیا فلمی سین ہوگا یہ۔۔۔!! کتنی خواہش تھی میری آئ سی یو میں جانے کی۔۔!!! بس اللہ میرے بھائ کو نہ پتہ چلے کہ یہ سب کوئ ڈرامہ ہے ورنہ خیر نہیں ہوگی میری ۔باقی تو سب بہت اچھا ہورہا ہے میرے ساتھ۔۔!!! بہت اچھا۔۔ !!!"

بے ہوش ہونے سے پہلے آخری سوچ فدیان کے ذہن میں یہی آئ تھی۔اسے کوئ دکھ نہیں تھا کہ کہیں وہ مر ہی نہ جاۓ۔ یا کومہ میں چلا جاۓ۔۔!! اسے بس اپنی لائف فلمی بنانی تھی اور کچھ نہیں ۔۔ !!!

یہ سب کرنے کے پیچھے ایک اور وجہ بھی تھی ۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا بھائ ان دونوں موٹو ، پتلو کو کچھ کہے۔وہ اچھے لوگ تھے جنہوں نے دو مہینے اسے برداشت کیا تھا۔اسی لیے وہ چاہتا تھا کہ اس کے بھائ کو اتنا بڑا جھٹکا لگے کہ اس کے ہوش میں آنے تک وہ دونوں وہاں سے بہت دور بھاگ چکے ہوں ۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

فدیان آئ سی یو میں تھا۔چوٹ عین دماغ کی خاص نس کے پاس لگی تھی تبھی اس کے بچنے یا ہوش میں آنے کے چانسز بہت کم تھے۔ 

 اسے تین سٹریچز لگے تھے ۔ڈاکٹرز کہہ چکے تھے کہ اگر وہ بچ گیا تو یہ کوئ معجزہ ہی ہوگا۔

درمان کا دل تو اس ہاسپٹل کو تہس نہس کرنے کو کیا جن سے ایک مریض بھی ٹھیک نہیں ہو پارہا تھا۔پہلے وہ اور دیار اور اب فدیان ۔ !!!

کئ گھنٹے وہ وہیں کھڑا رہا اور ڈاکٹرز فدیان کی وجہ سے یہاں وہاں بھاگتے رہے ۔ جب انہوں نے بتایا کہ فدیان کی حالت اب سٹیبل ہے وہ جلد اٹھ بھی جاۓ گا تو یہ بات سن کر اسے سکون ملا ۔!!

"درمان تم گھر جاؤ۔۔!!! میں ہوں نہ یہاں ۔ اگر ضرورت پڑی تو میں تمہیں انفارم کردوں گا۔۔!!"

درمان دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا تھا جب دیار نے پانی کی بوتل اس کے سامنے کی جس نے گہرا سانس خارج کرکے سر نفی میں ہلادیا۔

"میں یہیں ٹھیک ہوں۔تم گھر چلے جاؤ۔ !!"

"درمان تمہارے یہاں بیٹھنے سے کچھ نہیں ہوجاۓ گا۔ تمہیں ذہنی طور پر پرسکون ہونے کی ضرورت ہے ۔تاکہ اگلے جرگے میں پیش ہوسکو۔ جو سب بگڑا تھا امید ہے وہ اس دفعہ ٹھیک ہو جاۓ گا۔تم چلے جاؤ گھر میں ہوں یہاں۔۔!!!"

دیار نے دوستانہ انداز میں کہا۔درمان جیسا بھی تھا دیار اس کے مشکل وقت میں کوئ بھی پرانی بات یاد کرکے اسے اذیت نہیں دے پایا تھا۔تبھی اسے جانے کا کہہ کر وہ خود وہیں کرسی پر بیٹھ گیا۔

درمان کے ذہن میں اچانک زرلشتہ کا خیال آیا وہ صبح بھی اس سے نہیں مل پایا تھا۔ اور اب دل بھی بے چین ہورہا تھا۔جیسے اگر اسے نہ دیکھا تو کچھ بہت برا ہوجاۓ گا۔ اوپر سے جرگے میں پیش ہونے کی الگ ٹینشن ۔۔۔!!!

اسے پتہ تھا وہاں زرلشتہ اور اس کے نکاح کا معاملہ بھی دہرایا جاۓ گا۔ہوسکتا ہے وہ اسے زرلشتہ کو چھوڑنے کا کہہ دیں۔ 

درمان نے گہرا سانس خارج کیا کہ جو بھی ہوجاۓ وہ اسے نہیں چھوڑے گا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

درمان کی گاڑی ابھی راستے میں تھی۔جب اسے زرلشتہ کی ناراضگی یاد آئ۔گاڑی کو سائیڈ پر روک کر اس نے باہر سڑک کر جگمگاتی روشنیوں کو دیکھا۔

"مصیبت کے سامنے میں خالی ہاتھ گیا تو یہ مصیبت مجھے پھر ٹیرس پر کھڑا کردے گی۔ بہت سردی ہوتی ہے وہاں۔پہلے ہی میرے جیسی بنتی جارہی ہے۔۔۔ !!!

پتہ نہیں ٹھیک بھی ہوگی یا نہیں۔ میں ہوں ہی پاگل جو اسے تکلیف دیتا رہتا ہوں۔ہوسکتا ہے وہ میری اب شکل بھی دیکھنا گوارہ نہ کرے ۔!!!

لیکن اتنی سنگدل وہ نہیں ہے۔پیاری سی تو ہے ۔۔!!! "

اس کا چہرہ یاد آتے ہی وہ مسکرایا ۔ پھر وہاں سے اس کے لیے خوبصورت سے پھول اور چاکلیٹس پیک کرواکر وہ واپس گاڑی میں بیٹھ گیا۔ اسے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ آگے اس کے ساتھ ہونے کیا والا ہے۔جس کے لیے وہ اتنا سوچ رہا ہے وہ ناجانے اب کس حال میں ہوگی۔۔۔!!!!

علاقے سے گزرتے اسے کافی وقت لگ گیا۔سڑکیں برف سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ برف باری ابھی جاری تھی اور راستے بلاک ہوتے جارہے تھے۔

رات کے آٹھ بجے کے قریب طویل اور تھکا دینے والا دن گزار کر وہ گھر میں داخل ہوا۔ اس وقت گھر میں پن ڈراپ سائیلینس تھی۔ اس نے کسی کو بھی ابھی فدیان کے ملنے کی خبر نہیں دی تھی۔

"ہوپ سو کہ تم ٹھیک ہو زرلشتہ۔...!!!"

 ہاتھ میں پھول اور چاکلیٹ پکڑے اس نے دروازہ کھولا ۔سامنے گھپ اندھیرا تھا۔روشنی کا نام و نشان نہیں تھا وہاں۔اسے یہ اندھیرا ٹھٹھکا۔ زرلشتہ رات کے آٹھ تو کیا گیارہ بجے بھی سونے والوں میں سے نہیں تھی۔ اسے تو نیند ہی بارہ کے قریب آتی تھی۔یا وہ دن میں سوئی رہتی تھی۔ اس وقت اس کا سونا عجیب لگا درمان کو۔

"مصیبت ۔۔!!! کہیں گھر تو نہیں چھوڑ گئ تم...!!!"

 لائٹ آن کرتے وقت درمان نے اونچی آواز میں کہا۔ پر جواب نادارد۔۔ !!!!

کمرے میں روشنی پھیلی تو اس نے کمرے کا حشر دیکھا جو کل جیسا ہی تھا۔ویسے ہی بیگز بکھرے ہوۓ تھے اور سائیڈ پر کپڑوں کا ڈھیڑ ویسا کا ویسا لگا ہوا تھا۔

بیڈ پر کمفرٹر میں دبک کر زرلشتہ سوئ ہوئ تھی۔

"مصیبت کہیں بغاوت کا علم تو نہیں بلند کردیا تم نے۔کہ اب کمرے کو اسی طوفانی حلیے میں رکھو گی ہمیشہ۔دیکھو یہ ناانصافی ہے۔۔۔!!! یہ میرا نہیں کسی دس سال کے بچے کا کمرہ لگ رہا ہے۔ بچے کا کیا یہ تو سٹور روم لگ رہا ہے۔۔!!! میری مانو تو دونوں بات چیت سے یہ مسئلہ حل کرلیتے ہیں تم کہو گی تو میں معافی بھی مانگ لوں گا۔۔۔!!!

کچھ بولو بھی اب۔۔۔!!!"

اس نے وہ پھول اور چاکلیٹس وہیں سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیے اور جھک کر ملال سے کہا۔ زرلشتہ کو کسی چیز کی ہوش ہی نہیں تھی تو وہ جواب کیا دیتی۔ زرلشتہ صحیح کہتی تھی یہ کمرہ قید خانہ تھا اس کے لیے جہاں اسے اس میں رہنے پر بھی سزا ملتی تھی اور یہاں سے باہر جانے پر بھی سزا ملتی تھی۔

"زری۔۔۔!!!!!! سچ میں سوی ہوئ ہو یا پھر یہ ناراضگی جتانے کا کوئ طریقہ ہے۔۔!!! "

اس کے بال سہلاتے اس نے نرم مگر فکر بھرے لہجے میں کہا اب اسے بھی فکر ہوتی تھی کہ وہ اس وقت سو کیوں رہی ہے۔

"اٹھ جاؤ نا یار۔۔۔!!! زری۔۔۔!!!"

درمان نے اس کا چہرہ اپنی طرف کیا پر سامنے کا منظر دیکھ کر اس کا سانس وہیں اٹک گیا۔آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں ۔اس کے رخسار پر خون جما ہوا تھا۔ گال پر تھپڑ کا نشان بھی تھا۔ ساتھ میں ہونٹ کا کنارہ بھی پھٹا ہوا تھا۔

وہ پوری ٹھنڈی پڑچکی تھی جیسے جسم میں جان رہی ہی نہ ہو۔

"ک۔کیا ہوا ہے تمہیں زری۔۔!!!کس نے کیا یہ سب۔۔!!"

وہ وہیں اس کے پاس بیٹھ گیا۔اس کے زخم دیکھتے ہوۓ اس کا لہجہ زندگی میں پہلی بار کانپ گیا۔ اسے لگا جیسے یہ تکلیف اسے ملی ہو۔ درمان کا دل تو کسی نے مٹھی میں جھکڑ لیا تھا۔جو سانس بھی اب بس براۓ نام لے رہا تھا۔ یہ کیفیت کیا تھی درمان سمجھ نہ سکا کہ زرلشتہ کی تکلیف اس کی جان نکالنے لگی۔

"ہوش میں آؤ زرلشتہ ۔۔!!!! کیا ہوگیا ہے تمہیں ۔بول کیوں نہیں رہی تم کچھ۔۔۔!!!! کچھ بولو بھی ۔۔۔!!!!"

 درمان نے اس کے بال چہرے سے ہٹاۓ ۔اس کی آنکھو سے ایک آنسو کا قطرہ گرا۔

اس جیسا مضبوط مرد بھی اپنی بیوی کو بے جان ہوتا دیکھ کر انجانے میں رو پڑا تھا۔ اسے یاد آیا جب زرلشتہ نے کہا تھا کہ میں مرجاؤں اور تم مجھ پر تڑپ تڑپ کر روتے رہو۔۔ !!!!

تو کیا یہ اس کی سزا تھی؟ زرلشتہ کی دعا پوری ہوگئ ؟ وہ مرگئ؟ 

درمان کے سر میں درد کی ایک ٹھیس اٹھی۔آنکھیں دھندلانے لگیں ۔اس کے حلق میں کانٹے چبھے۔ کہ یہ نہیں ہوسکتا ۔۔!!!!

وہ تو موت کو قریب سے دیکھ کر پھر اس درد کو اتنا عرصہ جھیلتے نہیں رویا تھا۔وہ تو دوست کو کھوکر نہیں رویا تھا۔۔۔!!! وہ تو ابھی بھائ کو مرتا دیکھ کر بھی مضبوط بننے کی کوشش کرتا رہا تھا۔ پر اس کی ساری ہمت ، سارا حوصلہ اس لڑکی کے آگے ہار گیا۔۔!!!

زرلشتہ اسے اپنے عشق میں پاگل کررہی تھی۔اور کرتی ہی جارہی تھی۔..!!! 

پر یہاں نا وہ جانتی تھی جو اسے دیوانہ بنارہی تھی نا وہ جانتا تھا جو دیوانہ بن رہا تھا۔۔۔!!!

"تم نہیں جاسکتی مجھے چھوڑ کر ۔ !!!! میں تمہیں۔ کہیں جانے نہیں دوں گا ۔۔!!! اگر جانا ہی تھا تو تم آئ ہی کیوں۔۔!!! زرلشتہ سنو میری بات ۔۔۔!! تم نہیں جاسکتی کہیں پر بھی۔۔!!!!! تم میری ہو تو میرے ساتھ میرے پاس ہی رہو گی ہمیشہ۔۔۔۔!!!!!"

اس کا چہرہ دیکھتے وہ تکلیف سے چیخا ۔زرلشتہ کو تو پتہ بھی نہیں تھا کہ وہ کچھ بول رہا ہے ۔۔!!! 

اپنے آنسو پونچھ کر درمان نے کانپتے ہاتھوں سے اپنا فون پاکٹ سے نکالا ۔اس کی حالت ایسی تھی کہ کسی کی کوئ قیمتی چیز چھن رہی ہو اور وہ سواۓ فریاد کرنے کے کچھ نہ کرسکے۔

راستے سارے بلاک ہوچکے تھے۔ اگر وہ اسے ہاسپٹل لے کر جاتا تو شاید بہت دیر ہوجاتی۔ اسے ابھی کچھ کرنا تھا۔ یہاں پاس میں ہی ایک کلینک تھا۔جو اسی نے ہی بنوایا تھا۔جہاں کے سٹاف کے نمبرز اس کے پاس موجود تھے۔

اس نے اس میں سے لیڈی ڈاکٹر کا نمبر ڈائل کیا۔ جو دوسری بیل پر اٹھا لیا گیا۔

"ڈاکٹر ۔۔!!! میری وائف بے ہوش ہوگئ ہے۔ وہ اٹھ ہی نہیں رہی۔اس کے سر سے خون بہہ رہا ہے۔۔!! کیا آپ آسکتی ہیں میرے گھر پر۔۔!!! پلیز جلدی آئیں۔۔!!"

اس نے مشکل سے ڈاکٹر کو زرلشتہ کی کنڈیشن بتائ۔ پھر اس کا ہاتھ تھاما جس کی سکن اب بھی ریڈ تھی۔

"پلس چیک کروں۔۔!!! اوکے میں کرتا ہوں ۔۔۔!!"

فون اپنے کندھے اور کان کے بیچ میں پن کرتے ہوۓ اس نے زرلشتہ کی کلائی پر انگوٹھا رکھ کر نبض تلاش کی۔ جو اسے محسوس ہی نہ ہوئ۔ اس کی ساکت آنکھوں سے آنسو گرے۔

وہ کہتی تھی یہ لوگ اسے مار دیں گے۔۔۔!!

تو کیا یہ اسے مار چکے تھے۔۔!!!

فون کے دوسری طرف سے ڈاکٹر کچھ پوچھ رہی تھی۔ پر درمان تو ساکت تھا کہ اس کی نبض نہیں چل رہی ۔

"زری اٹھو یار۔۔۔!!!! آئ ایم سوری ۔۔!!!! میں جانتا ہوں میں نے غلط کیا تھا تم پر اپنا غصہ اتار کر مجھے یہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔!! پر پلیز مجھے چھوڑو تو مت۔۔!!! تم چلی گئ تو میں کیسے رہوں گا اب۔مجھے عادت ہوگئ ہے تمہاری ۔!!! اٹھو اور بتاؤ مجھے کس نے تمہیں ہاتھ لگانے کی جرات کی ہے۔ کس نے تمہیں اس حال کو پہنچایا ہے۔۔۔!!! اٹھو بھی زری۔!!!"

فون اس کی گود میں گر گیا ۔اس کی نبض تلاش کرتے ہوۓ درمان بھی روپڑا اور اسے پکارنے لگا۔ جب اچانک اسے اس کی نبض چلتی ہوئی مل گئ۔ اس کے ساتھ ہی اس کا اٹکا سانس بھی بحال ہوا کہ وہ ابھی یہیں ہے۔کہیں نہیں گئ۔

کال کٹ گئ تھی کچھ دیر میں ڈاکٹر بھی وہاں پہنچ جاتی۔

زرلشتہ کے بے جان وجود کو خود میں بھینچ کر درمان نے گہرا سانس خارج کیا۔ 

"سب میری وجہ سے ہوا نا۔۔۔!!! بہت برا ہوں میں ۔پر تم تو اچھی ہو نا تو پلیز مجھے نا چھوڑو۔۔!!! میں کیسے رہوں گا تمہارے بغیر۔۔!!! "

اس کی پیشانی پر عقیدت بھرا لمس چھوڑتے درمان کی آنکھوں سے آنسو اس کے چہرے پر گرے۔ جس کی پلکوں میں جنبش ہوئ۔

"م۔مان۔۔۔!! " نیم بے ہوشی کی کیفیت میں زرلشتہ نے مدھم سی پکار دی جو اس پکار پر چونک اٹھا اور اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔

"زرلشتہ۔۔۔!!! تم ڈرا رہی ہو مجھے۔۔۔!!! غصہ کرلو مجھ پر۔۔!! چیخ لو۔۔!! چاہو تو مار لو پر چپ تو نہ ہو۔۔!! تمہاری باتیں سننے کی عادت ہوگئ ہے مجھے۔میں تمہاری خاموشی کو برداشت نہیں کرسکوں گا۔۔!! مرجاؤں گا میں بھی۔۔!!!"

درمان بھی اسی کی طرح مدھم آواز میں کہہ سکا۔

"م۔مان آجائیں۔ درد ہ۔ہورہا ہے۔ پ۔پلیز آجائیں۔۔!!"

زرلشتہ نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی۔کمزوری کی وجہ سے وہ ہل بھی نہیں پارہی تھی۔ جیسے جسم سے ساری جان ہی نکل گئ ہو۔

"میں یہیں ہوں تمہارے پاس۔۔!!! ابھی ڈاکٹر آکر تمہیں میڈیسن دے دے گی تو تم ٹھیک ہوجاؤ گی۔بالکل پہلے جیسی ہوجاؤں گی تم۔۔!!! تمہیں کس نے مارا ہے مجھے اس کا نام بتاؤ۔۔!! آخر کس نے یہ جرات کی۔تمہارا مان ہے نا اپنی زری کو ہاتھ لگانے والوں کو آسانی سے نہیں چھوڑے گا ۔۔!!! کچھ بتاؤ نہ مجھے ۔!!!"

اسے سہارا دے کر بٹھاتے ہوۓ درمان نے کمرے میں پانی کا جگ ڈھونڈا ۔تو فرش پر بکھرا کانچ اسے دکھا۔گلاس بھی تو کل اس نے ہی توڑا تھا۔ اور کمرے میں پانی بھی نہیں تھا۔

"ب۔بابا کے پاس جانا ہے ۔۔۔!!!! م۔مجھے بابا کے پاس ج۔جانا ہے۔۔!!! ی۔یہاں سب گندے ہیں۔م۔مارتے ہیں۔"

وہ اب بھی اپنے ہی خیالوں میں کھوئ ہوئ تھی۔درمان کا دل پسیج گیا اس کی حالت دیکھ کر۔وہ جان گیا تھا کہ یہ سب اس کی مورے نے کیا ہے۔ اس کے رخسار پر جو نشان تھا وہ انہی کی انگوٹھی کا ہی تھا ۔ ان کے علاؤہ اس گھر میں زرلشتہ کو ہاتھ لگانے کی ہمت کسی میں نہیں تھی۔

"اچھا نہیں کیا آپ نے مورے۔۔۔!!! بالکل اچھا نہیں کیا۔۔۔!!!! یہ لاوارث نہیں ہے جسے جس کا دل کرے اپنے سامنے جھکانا چاہے۔۔!! یہ بیوی ہے میری۔لگتا ہے اب اس گھر کے لوگوں پر یہ بات واضح کرنے کا وقت آگیا ہے۔۔!!! "

درمان نے لب بھینچے اور اس کے رخسار پر ہاتھ رکھا تو درد سے ہاتھ خود ہی پیچھے کرگیا۔

"یہ گھر ہے تمہارا زرلشتہ۔۔!!! تمہیں یہیں رہنا ہے اب۔۔!! میرے ساتھ۔۔!!! لیکن میری بیوی کی حیثیت سے۔ نا کہ کسی ونی کی حیثیت سے ۔۔!!! "

اسے اپنے حصار میں قید کرتے جیسے اس نے کچھ سوچا تھا۔ جو حالت ابھی زرلشتہ کی تھی اس کا بس نہ چلا کہ یہ حویلی ہی نیست و نابود کردے۔جہاں انسانیت ہی ختم ہوتی جارہی تھی۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

دس منٹ بعد ہی ڈاکٹر وہاں آچکی تھی۔ جس نے پہلے اس کا بلڈ پریشر اود شوگر لیول چیک کیا تھا۔ اسی دوران ایک تیز نظر بت بن کر کھڑے درمان ہر بھی ڈالی تھی۔ 

اسے ڈریپ لگا کر اس میں کچھ طاقت کے انجیکشنز انجیکٹ کرکے اس نے زرلشتہ کے زخم صاف کیے۔

ایک عورت ہونے کی حیثیت سے زرلشتہ کا اتنا برا حال دیکھ کر دل تو اس کا پولیس کو فون کرنے کو کیا تھا۔ ایک معصوم سی لڑکی اس وقت زندگی اور موت کے بیچ لٹکی ہوئی تھی۔  پھر درمان کا اثر و رسوخ دیکھ کر وہ چپ کرگئ۔ بڑے لوگوں کا پولیس بگاڑ بھی کیا سکتی ہے۔البتہ وہاں بکھرے بیگز اور کپڑے درمان ٹھکانے لگا چکا تھا۔یعنی ڈریسنگ روم میں ویسے ہی رکھ چکا تھا۔

 کچھ دوائیاں چٹ پر لکھ کر اس نے باقی کی دوائیاں وہیں سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیں جو ابھی زرلشتہ کو دینا ضروری تھیں۔

پھر اپنا سامان بیگ میں رکھ کر وہ درمان کے سامنے کھڑی ہوئ۔

"کیا یہ بیوی ہے آپ کی۔۔!!! " اس نے زرلشتہ کی طرف اشارہ کیا تو درمان نے بھی اپنے آنسو پیچھے دھکیلے ۔ضبط کی وجہ سے اس کی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں۔

"جی ہاں۔۔!!! وہ بیوی ہے میری۔۔!!!"

 یہ جواب سن کر ڈاکٹر بھی طنزیہ مسکرائ۔ اس کی عمر تقریبا چالیس سے پینتالیس سال تک تھی۔ خاصہ تجربہ تھا اسے اس فیلڈ میں۔ ایسے بہت سے کیسز دیکھے تھے اس نے جس میں شوہر بیویوں کو تشدد کا نشانہ بناتے تھے۔ اور ان کی بیویوں کی حالت بھی بری ہوتی تھی ۔ پر اتنی بری حالت وہ بھی زرلشتہ کی ایج کی لڑکی کی اس نے آج دیکھی تھی۔ وہ بھی تب جب وہ ایک پڑھے لکھے سمجھدار شخص کی بیوی تھی۔

"مسٹر درمان آفریدی۔۔!!! میں آپ کو بڑے عرصے سے جانتی ہوں۔ آپ غصے کے تیز ہیں پر اتنے بے حس تو نہیں جو ایک بے ضرر لڑکی کو ان فضول رسموں کی وجہ سے موت کے منہ میں پہنچادیں۔۔!!! نکاح کا رشتہ مزاق نہیں ہوتا۔ بیوی مرد کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ جس کا حساب اس سے آخرت میں لیا جاۓ گا۔۔۔!!! یقین جانیں آپ کے سارے فلاحی کام فضول ہیں اگر گھر کی چار دیواری میں موجود ایک معصوم سا وجود آپ کے غصے سے محفوظ نہیں اور اس حال میں زندگی اور موت کے بیچ لٹکا ہوا ہے ۔۔!!!! 

ذرا حال تو دیکھیں آپ ان کا۔۔!!! ایک ڈائبیٹک پیشنٹ ناجانے کب سے بھوکا ہے ۔ بلڈ پریشر ناہونے کے برابر، شوگر لیول خطرناک حد تک لو، ہارٹ بیٹ رکنے کے قریب۔۔!! چہرے پر تھپڑ کے نشان، خون خود ہی بہہ بہہ کر رک گیا۔۔!!!

یہ مربھی سکتی تھیں آج ۔۔!! یا شاید مر جائیں ۔۔!! ان کی حالت جیسی ہے میں کوئ فیصلہ نہیں سنا سکتی ۔!!"

اسے لگا تھا یہ سب درمان نے کیا ہے تبھی اس نے دبی دبی غراہٹ میں درمان کو ہوش کرنے کو کہا۔ جو اپنی صفائ میں کچھ بھی نہ بول پایا۔ اسے بھی لگتا تھا یہ سب اسی کی وجہ سے ہی ہوا ہے۔

لیکن ڈائبیٹک پیشنٹ کا لفظ سن کر وہ ٹھٹھکا ۔اور ناسمجھی سے انہیں دیکھا۔ زرلشتہ کی بیماری کا اسے بالکل بھی پتہ نہیں تھا۔ اس کی آنکھوں میں موجود سوال پڑھتے ڈاکٹر بھی حیران ہوئ۔

"مسٹر درمان آفریدی شی از سفرنگ فرام ہائیپو گلیکسیمیا ۔۔!!!! کیا آپ کو واقعی یہ نہیں پتہ۔۔!!! کمال بات ہے یہ کہ آپ کو اپنی وائف کی بیماری کا بھی نہیں پتہ ۔۔!!!

خیر آپ اب ان کا پلیز خیال رکھیے گا۔ اگر یہ ونی ہوکر آئ ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کو ان کے گھر والوں کا بدلہ ان سے ہی لینا ہے۔ رحم کریں ان پر۔۔!!! اور خود پر بھی۔۔!!!

کسی کے مرنے کے بعد افسوس کرنے اور رونے سے بہت بہتر یہ ہے کہ اس کی زندگی میں اسے سکون دینے کی وجہ آپ بن جائیں۔۔!!!

امید ہے آپ سمجھ گۓ ہوں گے میری بات۔اور یہ کچھ دیر میں ہوش میں آجائیں گی تو آپ انہیں کچھ کھلا کر میڈیسن دے دیجۓ گا ۔ !!!"

درمان تو ایک ہی جگہ جما ہوا تھا۔ ڈاکٹر خود ہی وہاں سے چلی گئ۔ پیچھے درمان کے دل نے دہائ دی کہ وہ لڑکی جو اس کے دل پر قابض ہوتی جارہی ہے وہ آج مربھی سکتی تھی۔ اگر وہ واپس نہ آتا تو وہ بے یارو مددگار بس اسے پکارتے ہوۓ ہی مرجاتی ۔!!!

یہ انکشاف ہی جان لیوا تھا اس کے لیے۔۔ !!!

 ان سوچوں کو جھٹک کر درمان اس کے پاس آیا اور اس کا مرجھایا ہوا چہرہ دیکھا۔ 

پہلے دن جب اس نے اس مصیبت کو دیکھا تھا تو وہ دنیا جہان سے بے خبر ہوکر اسے اپنے بیڈ پر جمپ کرتے ملی تھی۔ کھلا ہوا چہرہ ،پیاری سی مسکراہٹ , بے فکر زندگی کی ایک چمک جو اس کا خاصہ تھی۔ وہ سب یاد کرتے اس نے اب اس زرلشتہ کو دیکھا۔

مرجھایا ہوا چہرہ، ایک اداسی کا عالم، تکلیف، دکھ ، اذیت , زندگی سے روٹھنے کی جھلک سب اس کے چہرے پر تھا۔

"مجھے نہیں بدلنا اب تمہیں ۔۔!! تم پہلے جیسی تھی ویسے ہی اچھی تھی۔بیوقوف سی، معصوم سی، ہنستی مسکراتی زرلشتہ۔۔!!! میری زری بن کر۔۔!!! تم اگر بدل گئ تو نقصان میرا ہی ہوگا۔۔!!!"

اسے سمجھ آگئ کہ زرلشتہ جیسی ہے اسے ویسا ہی رہنا چاہیے۔ اپنے لائف پارٹنر کو صرف اپنی تسکین کے لیے زبردستی وہ بنانا جو وہ ہے ہی نہیں غلط ہے۔

"تم پر صرف میرا حق ہے۔۔!! صرف میرا ۔!!! تم پر غصہ بھی صرف میں ہوسکتا ہوں ۔میرے علاؤہ کوئ تمہیں ہاتھ بھی لگانے کا حق نہیں رکھتا۔ مارنا تو دور کی بات تھی۔۔!!!

پھر کیسے مورے نے میری زری کو تھپڑ مارا ۔!!"

درمان نے اس کے رخسار پر موجود نشان پر ہاتھ رکھا اور آنکھیں میچ گیا۔ اس کے اندر کا وہ غصیلا درمان جاگا تھا۔ 

"تمہیں میرے علاؤہ کوئ تکلیف بھی نہیں دے سکتا۔۔۔۔!!!! تمہاری ہنسی، ان آنسوؤں پر اور تم پر صرف درمان آفریدی کا حق ہے۔۔!!! تو ان لوگوں کو یہ سادہ سی بات بھی کیوں سمجھ میں نہیں آتی۔..!!!

مجھ سے تمہاری تکلیف نہیں دیکھی جارہی زری۔۔!!! تم میرے ہواسوں پر چھا چکی ہو۔ کب ، کیوں، کیسے میں نہیں جانتا پر مجھے تم اب اچھی لگنے لگی ہو۔۔!!! محبت کا تو نہیں پتہ پر تمہارے لیے میں ساری دنیا سے بھی کرسکتا ہوں اب۔۔!!! خود سے بھی۔۔!!!"

آنکھیں کھول کر اس نے اس کے سر پر ہلکے سے ہاتھ پھیرا۔کہیں اس کی نیند نہ خراب ہوجاۓ۔

زرلشتہ تو بے خبر تھی کہ یہ شخص جو ابھی محبت کا بھی صحیح سے اقرار نہیں کررہا یہ محبت سے بھی آگے نکل چکا ہے۔

"جب تک میں زندہ ہوں وعدہ رہا تم سے تمہیں مجھ سے کوئ الگ نہیں کرپاۓ گا۔ تمہارا بھائ بھی نہیں ۔۔۔!!! جو بھی بگڑا اسے میں ٹھیک کروں گا۔۔!!! تمہاری خاطر ۔!!"

درمان کے لہجے میں جنون کی جھلک تھی۔ جیسے وہ ایسا سوچنے والوں کو بھی زندہ نہیں چھوڑے گا۔

"تم آرام کرو میں تمہاری تکلیف کا حساب لے کر آؤں اس پورے گھر سے۔۔!!! میری بیوی لاوارث نہیں جو اس کے اپنے شوہر کے گھر میں اس کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاۓ۔۔!! "

اس کا لہجہ سخت ہوا۔ لب بھینچ کر وہ اب اپنی مورے سے جواب لینے کے لیے وہاں سے چل پڑا کہ آخر کس حق سے انہوں نے اتنی گری ہوئ حرکت کی ہے۔

وہاں وہ بھی اسی کے ڈر سے چپ کرکے بیٹھی تھیں کہ ناجانے وہ اب کون سا نیا طوفان کھڑا کرے گا۔ دل کے کسی کونے میں شنایہ بیگم مطمئن بھی تھیں کیونکہ زرلشتہ کے گلے پر جو انگلیوں کے نشان اور اس کی ناک پر جو زخم انہوں نے دیکھا تھا۔انہیں پتہ تھا وہ سب ان کے بیٹے کا ہی کیا دہرا ہے ۔

جو بیٹا خود اسے مار سکتا ہے وہ ان سے اس بیوی کے لیے جواب کیوں مانگنے آۓ گا۔جو اس کے لیے بھی فضول ہی ہے۔پر درمان سے تو اس کی ماں بھی ابھی پوری طرح واقف نہیں تھیں۔

"مورے،آغا جان مجھے بات کرنی ہے آپ دونوں سے۔۔۔!!!!"

درمان نے ان کے کمرے کا دروازہ کھولا ۔سامنے شنایہ بیگم صوفے پر بیٹھی چاۓ پینے میں مصروف تھیں۔ اور دراب آفریدی ہاتھ میں کوئ کتاب پکڑے اس کے مطالعے میں مگن تھے۔ درمان کی آواز سن کر انہوں نے اپنی کتاب بند کرکے وہیں اپنے پاس رکھی اور آنکھوں کے سامنے سے گلاسز اتار کر درمان کو دیکھا۔

"اندر آجاؤ ۔۔۔۔!!!؛ وہاں کیوں کھڑے ہو تم۔۔؟؟"

اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر انہیں اندازا ہوگیا کہ جو بات وہ کرنے آیا ہے وہ عام تو نہیں ہے۔ آج جو بھی گھر میں ہوا تھا انہیں بالکل بھی خبر نہیں تھی۔وہ تو خود کچھ دیر پہلے ہی واپس لوٹے تھے۔

درمان نے ان کی بات سنی انسنی کردی اور اپنی مورے کو دیکھا ۔

"مورے۔۔۔!!!! آپ نے میری بیوی پر کس حق سے ہاتھ اٹھایا ہے۔۔!!! کیوں مارا ہے آپ نے اسے۔۔؟؟ بتانا پسند کریں گی آپ۔۔!!"

اس نے لفظ چبا چبا کر اس کیے۔ شنایہ بیگم کے حلق میں جاتا چاۓ کا گھونٹ پھنسا۔ اسی سوال سے تو وہ بچنا چاہتی تھیں۔ حیران تو دراب آفریدی بھی ہوۓ کہ درمان بات کس بارے میں کررہا ہے آخر ۔!!!

چاۓ کا گھونٹ زہر کی طرح حلق میں اتار کر شنایہ بیگم نے کپ وہیں سامنے ٹیبل پر رکھ دیا۔

"درمان یہ کس لہجے میں بات کررہے ہو تم مجھ سے۔۔!! بھول گۓ ہو کہ میں تمہاری ماں ہوں۔ اور مجھ سے سوال جواب کرنے کی ہمت کیسے کی تم نے۔۔۔۔۔!!!"

الٹا وہ اسی ہر چڑھ دوڑیں جس کے تاثرات اب بھی ویسے کے ویسے تھے۔ ذرا نرمی نہیں آئ تھی اس کی آنکھوں میں ۔

"اسی لہجے میں بات کررہا ہوں جس میں اگر میں پہلے آپ کو صاف لفظوں میں زرلشتہ کی حیثیت سمجھا دیتا تو آج نوبت یہاں تک نہ پہنچتی ۔۔!!! اور میں نہیں آپ بھول رہی ہیں کہ آپ میری ماں ہیں زرلشتہ کی نہیں۔۔۔!!! آپ کے پاس کوئ حق نہیں کہ اس کے ساتھ جانوروں کی طرح کا سلوک کریں۔ !!! اور میں یہاں زرلشتہ کا شوہر ہونے کی حیثیت سے آپ سے سوال جواب کررہا ہوں۔ بات گھمائیں مت۔ بتائیں آپ نے اسے ہاتھ بھی کیوں لگایا ....!!!!"

اس نے سخت لہجے میں پوچھا پر آواز اونچی نہیں تھی۔ وہ بھلے زرلشتہ کا شوہر بن کر بات کررہا تھا پر یہ نہیں بھولا تھا کہ سامنے بیٹھی عورت ماں ہے اس کی۔ جس سے وہ اونچی آواز میں بات کرنا نہیں چاہتا ۔

شنایہ بیگم بھی طنزیہ مسکرائیں۔ اس وقت ان کا دل کانپ رہا تھا۔کہ اگر وہ جھوٹی پڑگئیں تو کیا ہوگا پھر ۔

"تو چھین ہی لیا اس فتنی نے تمہیں مجھ سے۔!!! بڑی چالاک نکلی وہ تو تمہارے آتے ہی اس نے میری جھوٹی شکایتیں لگائیں اور تمہیں مجھ سے لڑنے کے لیے بھیج دیا۔ بدتمیز لڑکی۔۔!!! اور میں نے صرف تھپڑ مارا تھا مجھے کیا پتہ تھا وہ نازک سا پھول ایک تھپڑ بھی برداشت نہیں کرپاۓ گا اور نیچے گرجاۓ گا۔ویسے بھی اوقات بھول گئ تھی وہ اپنی۔ وہی یاد دلائ ہے میں نے بس اسے۔زیادہ زبان چلنے لگی تھی اس کی۔ونی کہیں کی۔!!! اور تم اس ونی کی طرف داری کرو گے مجھے امید نہیں تھی۔۔!!!! قابو میں کرلیا ہے اس نے تمہیں بھی۔۔۔!!!"

انہوں نے اس کی آنکھوں میں سختی دیکھی تو ہڑبڑا گئیں پھر اپنی بات سنبھالنے کی کوشش کرنے لگیں۔درمان ان کا بیٹا تھا پل میں سمجھ گیا کہ سارا قصور اس کی ماں کا ہی ہے۔ وہ معصوم سی لڑکی کیا تھپڑ برداشت کرنے کی طاقت رکھتی تھی وہ بھی تب جب وہ پہلے سے ہی اتنی بیمار تھی۔

"وہ بدتمیزی کرے یا جو بھی کرے۔ آپ نے اسے ہاتھ کیوں لگایا۔اور تھپڑ مارا ہی کیوں ۔!!!!! وہ فالتو ہے کیا اس گھر میں ۔۔!!! میں مرگیا تھا کیا جو سارے فیصلے کرنے کا اختیار آپ نے اپنے سر لے لیا۔میں مر بھی جاؤں پھر بھی دنیا کا کوئ قانون آپ کو حق نہیں دیتا میری بیوی کو موت کے منہ میں پہنچانے کا۔اتنی آسانی سے آپ کہہ رہی ہیں کہ آپ نے بس تھپڑ مارا تھا ۔!!! لیکن وہ تھپڑ مارنے کی جرات بھی کیسے کی آپ نے اسے۔ ۔!!!! "

اپنے غصے کو آخری حد تک ضبط کرنے کی اخیر کوشش کرتے وہ دبی دبی آواذ میں غرایا۔

دراب آفریدی معاملے کی سنگینی کا خیال کرتے وہاں سے اٹھ گۓ۔ شنایہ بیگم تو کانپ کرہی رہ گئیں۔۔درمان کے غصے سے تو وہ بھی واقف تھیں۔ وہ ابھی جو بھی کرجاتا اسے خود بھی اندازا نہ ہوتا۔

"اور کیا اوقات ہے اس کی صاف لفظوں میں مجھے بتائیں آپ۔۔!! مورے وہ بیوی ہے میری ۔۔!! شرعی اور قانونی بیوی۔۔!!! جس کے ساتھ جو بھی ہو جواب دہ میں ہوں۔ اگر کوئ اسے کچھ کہے تب بھی جواب لینے کا حق اس ساری دنیا میں سب سے زیادہ مجھے ہے۔ ملکیت ہے وہ میری۔۔۔!!!! سنا آپ نے ملکیت۔۔!!!! اور اپنی دسترس میں موجود وجود کے معاملے میں میں کتنا جنونی ہوسکتا ہوں سوچ ہے آپ کی۔۔!!!

 مجھے جواب دیں میری بیوی کو آپ نے ہاتھ لگایا ہی کیوں ۔کیوں مارا آپ نے اسے۔!!! کوئ مسئلہ تھا تو مجھے بتاتیں میں زندہ ہوں ابھی مر نہیں گیا ۔۔!!!"

درمان کے حلق میں کانٹے چبھے ڈاکٹر کی بات یاد کرکے جب اس نے کہا تھا کہ وہ شاید مرجاتی۔۔!!!

وہ چیخ نہیں سکتا تھا لیکن اندر پل رہے لاوے کا کیا کرتا جو ابل ابل کر باہر آنے کو تیار تھا۔ غصے کو ضبط کرتے وہ پھٹ پڑا ہاتھ کی مٹھی بناکر زور دار مکہ دروازے پر مارا۔ جو پورا ہل کر رہ گیا۔

پہلے سے زخمی ہاتھ سے خون دوبارا جاری ہوا۔ اس نے خواہش کی کہ کاش وہ یہ سارا گھر ہی تہس نہس کردے۔۔!!!

دراب آفریدی آگے بڑھے تو درمان نے اسی خون آلود ہاتھ سے انہیں اشارہ کرکے وہیں روک دیا۔

"درمان ہوش میں رہ کر بات کرو۔۔!!! یہ کوئ طریقہ نہیں ہے بات کرنے کا ۔۔!!! خود کو تکلیف مت دو۔۔!!! گہرا سانس لو بیٹھو یہاں پر.ہمیں ںتاؤ تو سہی ہوا کیا ہے۔۔!!"

دراب آفریدی نے اسے پرسکون کرنا چاہا جو آج تو ناممکن تھا۔

درمان آنکھیں میچ گیا۔  شنایہ بیگم تو معاملہ بگڑتا دیکھ کر اب کسی نۓ منصوبے کی تلاش میں تھیں کہ کیسے بات سنبھالیں ۔

"مجھے بیٹھ کر کوئ بات نہیں کرنی آغاجان۔۔!!! مجھے جواب چاہیے ۔آخر مورے نے یہ سب زرلشتہ کے ساتھ کیوں کیا۔۔۔؟؟؟؟ میری بیوی اگر آج میرے آنے سے پہلے ہی مرجاتی تو بتائیں میں تب کیا کرتا۔۔!!!! وہ جب میرے نکاح میں ہے تو یہ کیوں اسے حقیر تصور کرتی ہیں ۔ یہ ونی جیسے لفظ کب تک اس معصوم کے لیے استعمال ہوں گے۔۔!!! آخر کب اس گھر سے یہ جہالت نکلے گی۔۔!!!"

وہ دو قدم پیچھے ہوا۔ گردن کی ابھرتی نسوں کو ہاتھ سے سہلاتے اس نے جنونی انداز میں اپنے باپ سے سوال کیا۔ جنہوں نے جواب میں شنایہ بیگم کو دیکھا جو مگرمچھ کے آنسو بہانے میں مصروف ہوگئیں۔

"چھین لیا اس ونی نے مجھ سے میرا بیٹا۔۔!!! اللہ غارت کرے اس چھٹانک بھر کی لڑکی کو۔ منحوس کہیں کی کھاگئ میرے گھر کا سکون۔۔!!! میرے بیٹے نے آج تک مجھ سے اونچی آواز میں بات نہیں کی تھی اور اب یہ یہاں مجھ پر چلّا رہا ہے۔ درمان وہ بھڑکا رہی ہے تمہیں میرے خلاف۔۔!!! یہ سازش ہے اس مکار لڑکی کی۔۔!!! ہوش کرو تم۔ تم کیسے اس ونی کے آگے جھک سکتے ہو۔۔!!!"

اپنے آنسو پونچھ کر انہوں نے افسوس سے اسے دیکھا ۔جو جواب میں ہنسنے لگا۔ ایک جنون بھری ہنسی۔ اس کی آنکھوں میں خون اترا۔

دراب آفریدی بھی اس وقت اس لڑکے کے لیے خیر کی دعا مانگ رہے تھے جس کے غصے پر اس کی ماں پیٹرول چھڑک کر مزید آگ لگارہی تھیں۔

"شنایہ چپ نہیں ہوسکتی تم کیا۔۔!!! کچھ شرم کرلیا کرو۔ معصوم سی بچی کو بددعائیں کیوں دے رہی ہو تم ۔۔۔!!! اور یہ جھوٹے آنسو بہانا بھی بند کرو۔ اتنی تم نیک پروین۔۔!!!"

انہوں نے شنایہ بیگم کو آنکھیں دکھائیں جنہوں نے ان کی گھوری دیکھ کر تھوک نگلا۔ 

"واہ مورے واہ۔۔!!!! بقول آپ کے آج تو معجزہ ہی ہوگیا۔۔!! آپ کو لگتا ہے مجھے زرلشتہ نے بھڑکایا۔ وہ لڑکی جس کے بارے میں ڈاکٹر کو بھی کنفرم نہیں کہ وہ بچے گی بھی یا نہیں۔ جسے یہ بھی نہیں پتہ کہ اس کے گرد ہوکیا رہا ہے۔ جو بول بھی نہیں پارہی کچھ ٹھیک سے۔ اس نے مجھے اس حال میں آپ کے خلاف بھڑکادیا۔۔۔!!!

گریٹ۔۔ !!!! میں تو شاکڈ رہ گیا اس بات پر۔۔!"

جنونی انداز میں طنز کرتے اس نے آخر میں دروازے کو زور دار ٹھوکر ماری جس کی گونج پورے  کمرے میں گونجی۔شنایہ بیگم کے تو جھوٹے آنسو بھی اسے پگھلا نہیں سکے تھے۔

"مورے کسی کو بھڑکانے کے لیے ہوش میں رہنا ضروری ہوتا ہے۔ اور وہ کمرے میں جس حال میں پڑی ہے میرا اپنا دل کررہا ہے کہ خود کو ہی مار دوں کہ میرے جیسے کم ظرف شوہروں کی بیویاں جنہیں وہ اپنے سو کالڈ گھر والوں کے سہارے چھوڑ دیتے ہیں ان بیچاریوں کی ایسی ہی حالت ہوتی ہے۔۔ !!! جو تھپڑ آپ نے زرلشتہ کے منہ پر مارا ہے اس کا درد مجھے یہاں ہورہا ہے یہاں۔۔!!!"

وہ چند قدم ان کی طرف بڑھا جھک کر ان کا چہرہ دیکھتے دبی دبی غراہٹ میں اپنے دل کے مقام کی طرف اشارہ کیا۔پھر جھٹکے سے اس جگہ سے ہی دور ہوگیا۔

ماحول میں یکدم سکوت چھاگیا۔

پھر اپنے خون آلود ہاتھ کو جھٹکتے وہ دیوار کے پاس آیا۔ اس کا واقعی دل سب تہس نہس کرنے کا تھا۔ اس کے اندر کا لاوا ابلتا جارہا تھا بس پھٹنے کی دیر تھی۔

"تف ہے مجھ پر تف پر۔۔!!!! جس کی بیوی رو رو کر اسے بلاتی رہی اور اسے احساس بھی نہ ہوا۔ اگر میں مزید کچھ دیر کردیتا تو وہ مجھے زندہ واپس کبھی نہ ملتی ۔۔!!! آغاجان یہ نکاح آپ نے کروایا تھا۔ اور نکاح کے وقت ہم دونوں کی ایسی کوئ ڈیل نہیں ہوئ تھی کی میں بےغیرتوں کی طرح اپنی بیوی کو یہاں پٹتا ہوا دیکھتا رہوں گا ۔

اسے یہ لوگ کچھ کھانے کو نہیں دیں گے ۔اس گھر کا بڑا بیٹا ہونے کے باوجود میری بیوی چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے ترستی رہے گی ۔!!!تو پھر کیوں ہورہا ہے یہ سب۔۔!!!"

وہ غرایا۔ دراب آفریدی نے لب بھینچے۔ وہ زندگی میں پہلی دفعہ ان سے نالاں نظر آرہا تھا صرف ان کی بیوی کی وجہ سے۔ جو درمان کی ماں بھی تھی۔ لیکن احساس انہیں بالکل نہیں تھا۔ شنایہ بیگم نے اس کی غراہٹ سن کے آنکھیں میچ لیں ۔کہ اب اللہ جانے وہ کیا کرے گا ۔

"بس بہت ہوگیا۔۔!!! آج فیصلہ ہوگا اور اسی وقت ہوگا۔۔!! اگر کوئ میرئ بیوی کو تکلیف دے گا تو اسے میں کبھی نہیں بخشوں گا۔ !!"

کچھ سوچ کر وہ کمرے سے باہر نکلا۔

دراب آفریدی نے ایک حقارت بھری نظر شنایہ بیگم پر ڈالی۔اور درمان کے پیچھے گۓ کہیں وہ کچھ غلط نہ کردے۔

"منحوس لڑکی کیا چلا جاتا اگر آج یہ مرجاتی تو۔ جان چھوٹ جاتی میری اس سے۔ معصومیت کا ڈرامہ کرکے میرا بیٹا چھین گئ یہ مجھ سے۔ کہہ رہی تھی کہ اسے اپنے عشق میں پاگل کرے گی۔ مجھے لگا تھا محض بات کررہی ہے ۔اس لڑکی نے تو اسے پاگل کربھی دیا۔ 

دوپہر کو اس نے بات کی اور رات تک میرا بیٹا پاگل ہوبھی گیا۔اللہ جانے کہ کیا جادو ہے اس فتنی کے پاس ۔جو چاہتی ہے کردیتی ہے ۔۔!!! اس نے ابھی مزید بھی بہت کچھ کہا تھا۔۔۔!!

کیا ہوگا اب۔۔!!!"

وہ بھی ان دونوں کے پیچھے باہر نکل گئیں۔ زرلشتہ نے انہیں بھی حیران کردیا تھا۔ جو کہہ کر گئ تھی بغیر کوئ ایفرٹ کیے اس نے شنایہ بیگم کے ہوش اڑادئیے تھے۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"کون ہوں میں ۔۔!!!"

درمان نے دونوں ہاتھ پشت کی طرف باندھے سنجیدگی سے اپنے سامنے کھڑی ملازمین کی فوج سے پوچھا۔

یہ سب وہ تھے جو خاص طور پر حویلی کے اندر کے سارے کام سنبھالتے تھے۔کھانا بنانا ، صفائ کرنا وغیرہ وغیرہ۔۔!!!

درمان نے باہر لاؤنج میں ان سب کو حاضر ہونے کو کہا تھا۔ آج آر یا پار ہو ہی جاتا ۔!!!

دراب آفریدی اس کے ساتھ کھڑے تھے۔ پیچھے شنایہ بیگم بھی آکر کھڑی ہوگئیں ۔سب اس انوکھے سوال کے پیچھے کی گہری لوجک تک پہنچنے کی کوشش کررہے تھے۔

درمان کے سوال پر سارے ملازمین نے لب بھینچے۔ نورے کو زرلشتہ کی دھمکی یاد آئ تھی ساتھ والے قبرستان میں شفٹ ہونے کی۔۔!! اس کی پیشانی پر پسینے کے قطرے چمکے ۔

"چ۔چھوٹے سردار ہیں آپ۔۔!!!!" نورے نے ڈرتے ہوۓ کہا۔جواب میں درمان نے سر جھٹکا اور گہرا سانس خارج کیا۔ اس کے زخمی ہاتھ سے خون رس کر فرش پر گررہا تھا اور اسے ذرا پرواہ نہیں تھی۔

"سردار۔ہمم صحیح ہے۔۔!!!!! اور یہ  لوگ کون ہیں ۔!!"

اب اس نے اپنے ماں باپ کی طرف اشارہ کیا۔ وشہ بھی اپنے بھائ کی دھاڑتی آواز سن کر وہاں آچکی تھی۔

"سردار صاحب اور بڑی بیگم صاحبہ۔۔۔!!!!"

نورے نے اب بھی ان دونوں کو کن اکھیوں سے دیکھتے ہوۓ مؤدب انداز میں جواب دیا۔

درمان نے سمجھ کر سر ہاں میں ہلادیا۔

"اور یہ۔۔!!!!" اب اس کا اشارہ وشہ کی سمت تھا۔ جو آج یونیورسٹی میں ہونے والے فنکشن کی وجہ سے لیٹ گھر آئ تھی۔اسے بھی کچھ نہیں پتہ تھا کہ گھر میں کیا قیامت گزر چکی ہے۔

"چھوٹی بی بی۔۔!!!"

جواب اب بھی بالکل یقین سے آیا تھا۔ 

"اور جو لڑکی میرے ساتھ اس گھر میں رہتی ہے وہ کون ہے؟"

یہ تھا اصل سوال جو درمان کے لیے پوچھنا ضروری تھا۔

"وہ لڑکی ونی ہے۔۔!!! تلافی میں نکاح ہوا ہے اس کا آپ کے ساتھ۔ اور ونی کی حیثیت تو ملازمہ سے بھی بدتر ہوتی ہے۔ چھوٹے سردار وہ لڑکی ملازمہ کی حیثیت رکھتی ہے اس گھر میں۔۔۔!!"

ابھی نورے نے جواب دینے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ وہاں کھڑی ایک اور ملازمہ فرفر اپنی ہی موت کا انتظام کرگئ۔

"فٹے منہ اس منحوس کا ۔!! آج تو موت پکی ہے ہماری۔۔!!! شنایہ بی بی کہیں کا نہیں چھوڑا آپ نے ہمیں ۔۔!!" نورے نے دل میں سوچا ۔

یہ جواب دراب آفریدی کو بھی برا لگا تھا۔پر وہ چپ رہے۔

"اوووو تو ونی ملازمہ ہوتی ہے۔ اور کیسا سلوک کرتے رہیں ہیں آپ لوگ اس ونی کے ساتھ۔ وہ بھی تو بتادیں۔ تاکہ مجھے بھی تو پتہ لگے کہ کیا ہماری جدی پشتی روایات صحیح سے نبھائ گئ ہیں۔ یا پھر آپ لوگوں نے کوئ کوتاہی برتی ہے۔۔!!! چلیں اب بتانا شروع کریں۔۔!! جھجھکنا نہیں جو جو کیا ہے سب بتادو ۔!! تاکہ انعام بھی سب کو مل سکے ۔!!!"

زبردستی مسکراتے ہوۓ درمان نے ان لوگوں کو بیوقوف بنادیا۔ جن کے چہرے اس انعام والی بات پر چمک اٹھے تھے۔ وہیں شنایہ بیگم نے دکھ سے آنکھیں بند کیں کہ یہ لوگ اب سب کچھ فر فر بتائیں گے۔

"صاحب بڑی بی بی کا حکم تھا کہ ونی کو کھانا نہ دیا جاۓ۔ تو ہم لوگوں نے پوری کوشش کی کہ وہ بھوکی ہی رہیں۔ تاکہ انہیں اندازہ ہو کہ وہ ونی ہیں۔انہیں ایسے ہی مرنا ہے۔۔۔!"

بڑے فخر سے ایک ملازمہ نے اپنا کارنامہ بتایا۔

جو درمان کے دل پر تیر کی طرح چلا کہ زرلشتہ کیسے اپنی بیماری کے باوجود سروائیو کرتی رہی تھی بغیر کچھ کھاۓ۔

"صاحب بڑی بی بی کا حکم تھا کہ انہیں کمرے سے نہ نکلنے دیا جاۓ تو ہم لوگ کبھی کبھار ان کے حکم کے مطابق ان کے کمرے کا دروازہ بند کردیتے تھے۔ وہ بہت کم باہر نکلتی تھی کیونکہ بند دروازے سے تو باہر نکلنا مشکل تھا۔ بی بی کا کہنا تھا کہ ایسے وہ قید رہیں گی۔"

اس کے برابر میں کھڑی ملازمہ نے بڑے فخر سے اپنا گناہ قبول کیا۔درمان کو تب یاد آیا وہ اکثر ٹیرس پر ہی رہتی تھی۔ کمرے سے باہر نکلنے کی اجازت نہ تھی تو ٹیرس پر شاید وہ اپنی قید پر ہی روتی تھی۔

" بڑی بی بی کا حکم تھا کہ اگر وہ کبھی ہمیں دکھ جائیں تو ان کا حکم کیا بات ماننے ہی بھی ضرورت نہیں تو ہم نے بھی کبھی نہیں مانی۔ وہ ہم سے بھی کمتر ہیں تو ہم جو چاہے انہیں کہہ سکتے ہیں ۔!!!"

ایسے ہی وہ لوگ اپنے ان گنت گناہوں کا اعتراف بڑے فخر سے کرتے گۓ۔ آخر تک تو درمان کا دل بھی پھٹنے والا تھا۔ 

"زرلشتہ اتنا سب برداشت کرکے بھی تم ہنستی تھی۔ تم روئ نہیں کبھی۔ نا کبھی کوئ شکایت لگائ تم نے۔ ایک بار کچھ تو بتاتی مجھے۔ میں برا تھا تمہارے لیے پر کسی کو کبھی تمہیں درد دینے کا تو دور دیکھنے کا بھی حق نہ دیتا ۔۔!!"

درمان نے اٹکا ہوا سانس کھینچا۔ یہ انکشافات جہاں درمان کی جان نکال رہے تھے وہیں وشہ کو بھی اپنی ماں پر غصہ آرہا تھا ۔کہ کوئ کسی اور کی بیٹی کے ساتھ یہ سب کیسے کرسکتا ہے۔

وہیں دراب آفریدی بھی ششدر تھے کہ شنایہ بیگم عورت نہیں عورت کے نام پر دھبہ ہیں۔

لیکن آخری انکشاف تو سب کو ایک اور جھٹکا دے گیا۔

" ص۔صاحب کچھ دن پہلے جب زرلشتہ بی بی بیمار تھیں تب بڑی بیگم صاحبہ نے غصے سے انہیں سیڑھیوں سے دھکا دیا تھا۔ میں تب وہیں کھڑی تھی ۔وہ تو خدا کا شکر ہے کہ زرلشتہ بی بی نے بروقت ہاتھ ریلنگ پر رکھ لیا ورنہ وہ بیچاری تو بے موت ماری جاتیں۔ میں کبھی کبھار انہیں ان سے چھپ کر کھانا دے آتی تھی۔ وہ ونی ہیں تو کیا ہوا انسان تو ہیں نا۔ اور ہیں بھی تو اتنی پیاری سی۔ مجھے تو کبھی انہوں نے ملازمہ نہیں سمجھا۔ ماں کی حیثیت دی ہے انہوں نے۔ دل کی ملکہ ہیں وہ۔"

یہ آواز سب سے آخر سے آئ تھی۔ جہاں ایک ادھیڑ عمر کی عورت کھڑی تھی ۔سب نے اپنے جرم بڑے فخر سے بتاۓ تھے۔ لیکن اس نے جو سچ تھا وہ بتادیا۔

"اور آج بھی بڑی بیگم صاحبہ نے جان بوجھ کر ان کا راستہ روکا تھا۔ورنہ وہ تو سکون سے جارہی تھیں۔پھر ان پر بڑی بی بی چیخیں بھی اور تھپڑ بھی ماردیا۔ وہ تو ہیں ہی پھول سی بچی۔ بڑی بری طرح گری تھیں وہ ۔اور ستم کہ ان کے ہوتے ہم انہیں اٹھا بھی نہ سکے۔ سب کے جانے کے بعد میں کمرے میں گئی تھی تب وہ آپ کا نام لے کر ہی رو رہی تھیں۔میں نے آپ کو فون بھی کرنا چاہا لیکن بڑی بیگم صاحبہ کو خبر ہوگی اور انہوں نے مجھے ہی کمرے میں بند کردیا۔

صاحب ونی وغیرہ کچھ نہیں ہوتی۔ یہ سب انسانوں کی بنائ رسمیں ہیں۔اصل حیثیت تو نکاح کی ہوتی ہے۔ باقی آپ اس غلطی کی جو سزا دیں گے مجھے منظور ہے۔ پر سچ یہی ہے کہ بڑی بیگم صاحبہ نے زرلشتہ بی بی کو ایک نہیں کئی بار جان سے مارنے کی کوشش کی ہے۔!"

ملازمہ نے بولتے ہی خوف سے درمان کو دیکھا۔ جو اب اپنی ماں کو شکوہ بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔کوی کیسے اتنا گرسکتا ہے۔۔!!

"لیں اب تو ثابت بھی ہوگیا کہ آپ ہی بری ہیں۔ مورے ۔مائیں ایسی نہیں ہوتیں جو اپنے ہی بیٹے کی خوشیوں کی دشمن بن کر اسی کی بیوی پر ظلم کریں۔۔!!!!"

اس نے چہرہ موڑ کر اب ان ملازموں کو دیکھا۔

"بہت خوب۔۔!!!! گھٹیا پن کی ساری حدیں تم لوگوں نے پار کرکے رکھی ہیں ۔ کمال ہے یار ۔!!! میں سردار اور میری بیوی ملازمہ سے بھی کمتر ۔۔۔!! لاجک تو اچھی ہے تم سب کی ۔!! تو چلو اب میں انعام دیتا ہوں سب کو ۔!!"

اپنے دونوں ہاتھ پشت کی طرف کرکے وہ دوستانہ لہجے میں ان سے مخاطب ہوا۔ جو اب خود ہی اصل معاملہ سمجھ چکے تھے۔ اپنے ہی منہ سے ان سب نے اپنا جرم قبول کیا تھا۔ سزا بہت برتر ہوتی ان کی۔

"پہلی بات تو یہ کہ زرلشتہ کوئ ونی نہیں ہے ۔وہ بیوی ہے میری ۔۔۔۔!!!!! سنائ دے رہا ہے نا تم سب کو کہ زرلشتہ میری بیوی ہے۔۔!!!! نہیں ہے وہ کوئ ونی۔۔۔۔!!!!!! "

انہیں دیکھتے ہوۓ وہ دھاڑا۔ اس ہی دھاڑ لاؤنج کا پوری حویلی میں گونجی۔ یہ وہ بات تھی جو وہ ان سب کو بتانا فرض سمجھتا تھا۔ دھاڑ اتنی بلند تھی کہ وشہ نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ اس کی مورے کا سانس رکا کہ یہ سچ میں اس کے عشق میں پاگل ہوچکا ہے۔ البتہ دراب آفریدی خاموش کھڑے رہے۔ وہ ان کا بیٹا تھا یہ لہجہ تو وراثت میں ملا تھا اسے ۔

"کریم ۔۔۔۔!!!!! "

اس نے کسی کو آواز دی۔ جو بوتل کے جن کی طرح وہاں حاضر ہوگیا۔ سارے نفوس حیران تھے کہ اب کیا ہوگا۔

"ان سب کو علاقے سے دور جو ہماری ویران حویلی ہے وہاں بھیج دو۔ دو مہینوں کے لیے ۔سواۓ ان محترمہ کے۔آپ اپنے کوارٹر میں چلی جائیں!!"

درمان کا لہجہ اٹل تھا۔اس نے اسی عورت کی طرف اشارہ کیا جس نے سارا سچ بتایا تھا اسے۔وہ سر کو خم دے کر وہاں سے چلی گئ۔پیچھے  سب کے ہوش اڑے۔ کیونکہ جہاں وہ بھیج رہا تھا وہ جگہ کسی صحرا سے کم نہ تھی۔ نہ پانی کا صحیح نظام، نہ بجلی، نہ ہی کوئ اور سہولت ۔ وہاں وہ اپنے دشمنوں کو سزا دینے کے لیے بھیجا کرتا تھا۔

" دل کھول کر کام کرواؤ ان سے۔جو چاہے سزا دے دینا انہیں۔۔!!! اور دو مہینے پورے ہوتے ہی ان سے جان چھڑوالینا۔ پھر یہ جانیں اور ان کے گھٹیا ذہن جانیں۔۔!!! مجھے ان سب میں سے کوئ بھی آئندہ اس حویلی کے آس پاس بھی نہ دکھے۔۔!!!! نۓ سرونٹس ہائیر کرو کل تک۔ اور سب کو اچھے سے بتادینا کہ سردار درمان آفریدی کی بیوی کے سامنے کسی نے چوں چراں کی تو اس کی زبان میں خود کاٹوں گا۔۔!!!"

وہ درشتگی سے بولا۔ شنایہ بیگم کا منہ حیرت کی زیادتی سے کھلا۔ کہ وہ کیسے اس ونی کی خاطر پورا سٹاف ہی نکال سکتا ہے۔

"درمان یہ گھر میرا ہے اور یہ سب میرے ملازم ہیں۔ تم انہیں نہیں نکال سکتے۔۔!!! یہاں میرا حکم چلتا ہے۔۔!!" 

شنایہ بیگم کو ذرا افسوس نہیں تھا اپنے کیے پر انہوں نے غصے سے درمان کے فیصلے کو چیلنج کیا۔

جس نے مڑ کر ابرو آچکا کر حیرت کا اظہار کیا۔

"اووو تو یہاں آپ کا حکم چلتا ہے ۔۔!! ایسا کرو کریم گاڑی نکلواؤ۔۔!! میں یہ گھر چھوڑ کر جارہا ہوں۔ اپنی بیوی کے ساتھ ۔یہ اپنے گھر میں خوش رہیں۔ الحمدللہ اللہ نے اتنا نوازا ہے کہ مجھے اس جائیداد میں سے ایک روپیے کی بھی ضرورت نہیں ۔ 

آغاجان ، مورے آپ دونوں کو آپ کی یہ جائیداد اور انا مبارک ۔میرے لیے میری بیوی سے زیادہ کچھ اہم نہیں۔۔۔!!! کریم گاڑی تیار رکھو میں ابھی آرہا ہوں زرلشتہ کو لے کر۔۔!!"

پل میں اس کے رنگ بدلے۔ اس نے تو معاملہ ہی ختم کردیا اور سیڑھیوں کی طرف قدم بڑھائے دراب آفریدی گڑبڑا کر اس کے سامنے ہوۓ۔

"زوۓ۔۔!!! کہاں جارہے ہو تم۔۔!! یہ تمہارا گھر ہے۔ وارث ہو تم ہمارے۔ تم کیوں اپنا گھر چھوڑ کر کہیں اور جاؤں گے۔ اور کریم تم کیوں کھڑے ہو یہاں پر ۔لے کر جاؤ ان لوگوں کو اور جو درمان کہہ رہا ہے وہی کرو۔ صبح تک یہاں سارے ملازم نۓ ہونے چاہییں۔۔!! جاؤ بھی۔۔!!!"

وہ غراۓ۔ تو کریم نے ان سارے ملازموں کی طرف دیکھا جو گونگے ہوچکے تھے۔ اگر اب کچھ بولتے تو سیدھا قبرستان ہی پہنچتے ۔ شنایہ بیگم نے رونی صورت بنائ ۔ کہ ہر بار وہ ہی رسوا کیوں ہوتی ہیں۔

درمان خاموش کھڑا تھا۔ پر اس کا سرخ ہوتا چہرہ گواہ تھا کہ وہ اندر سے کتنی اذیت کا شکار ہے۔

"اس لڑکی کے بھائ کی وجہ سے میرا فدیان ناجانے زندہ بھی ہے یا نہیں۔ !!! میں ترس گئ ہوں اس کی شکل دیکھنے کے لیے ۔اور اس لڑکی نے درمان کو بھی چھین لیا مجھ سے۔ یا اللہ مجھے صبر دے۔!!!! ایک ماں کی بددعا لگے گی اس لڑکی کو دیکھ لینا تڑپ۔۔!!!"

درمان کو پیچھے سے اپنی مورے کے رونے کی آواز آئ۔ وہ مڑا تو شنایہ بیگم اپنے ڈرامے میں مصروف تھی۔ ابھی وہ زرلشتہ کو بددعائیں دینے ہی والی تھیں کہ وہاں رکھا شوپیس اٹھا کر درمان نے وہیں لاؤنج میں قوت سے پھینکا ۔

زور دار آواز پیدا ہوئ اور اسی کے ساتھ ہی لاؤنج میں سناٹا چھاگیا۔

شنایہ بیگم کی بددعا بیچ میں ہی رک گئ۔ حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر انہوں نے فرش کو دیکھا جہاں شوپیس کے ٹکڑے پھیلے ہوۓ تھے اور ان پر درمان کا خون بھی تھا۔

"معذرت۔۔۔ !!!! اتنی گری ہوئ اور نیچ حرکت میں کرنا تو نہیں چاہتا تھا۔ آخر ماں جو ہیں آپ میری۔ میں چاہ کر بھی کچھ سخت نہیں کہہ سکتا آپ کو۔ ہمارا دین اجازت نہیں دیتا کہ آپ کی غلطیوں کے باوجود بھی میں اپنا لہجہ سخت کروں۔ پر آپ مجھے مجبور کرکے مجھے گنہگار بنارہی ہیں۔۔۔۔۔!!!!!!

زرلشتہ کے لیے کوئ برا لفظ استعمال نہ کیجۓ گا۔ اور رہی بات فدیان کی تو وہ مل گیا ہے ۔ دیار کے پاس سے نہیں کسی اور کے پاس سے۔ اس وقت سٹی ہاسپٹل میں ہے وہ۔ صبح تک ہوش آجاۓ گا اسے۔ تو اب دوبارہ زرلشتہ کو کچھ بھی نہ کہیے گا۔ ورنہ فدیان تو مل گیا واپس آپ کو۔ میں واپس نہیں ملوں گا۔۔!!!"

اپنے دوسرے ہاتھ سے اپنی پیشانی مسلتے ہوۓ وہ الفاظوں پر زور دے کر بولا۔ یہاں ایک اور جھٹکا لگا تھا سب کو۔

کہ فدیان واپس مل چکا ہے۔ وہ سب تو سمجھ چکے تھے کہ شاید وہ اس جہاں میں تو انہیں واپس نہ ملے۔ پر وہ مل چکا تھا۔

"آپ جانتی ہیں یہ بات ۔میں گیا تو مرکر بھی واپس نہیں آؤں گا۔ اس لیے آئندہ میری بیوی کو کسی جہالت کا حصہ نہ بنائیے گا۔ اسے ہاتھ لگانے کی قطعی ضرورت نہیں آپ کو۔۔!!! وشہ سوپ بنادو زری کے لیے کل سے بھوکی ہے وہ۔ انسانیت نام کی چیز ہی نہیں بچی ان لوگوں میں تو۔۔!!! بے حس لوگ۔۔!!!"

شروع میں اس کا لہجہ جتنا سخت تھا آخر میں اس میں کرب شامل ہوگیا۔ وشہ کو حکم سناکر وہ وہیں سے اوپر چلا گیا۔

باقی نفوس تو شاکڈ تھے کہ فدیان کے ملنے پر خوش ہوں یا پھر زرلشتہ کی اس حالت پر افسوس کریں۔

وشہ نے کچھ نہ کہا اور خاموشی سے کچن کی طرف چلی گئی۔ اسے بھی پتہ تھا کچھ بھی کہنا فضول ہے یہاں۔ اس کی ماں کچھ بھی سمجھ نہیں سکتی ۔

البتہ دراب آفریدی کا پارہ بھی ہائ تھا بہت ..!!!

وہ چند قدم گم سم کھڑی شنایہ بیگم کے پاس آۓ۔

"شنایہ ۔۔۔۔۔۔۔ !!!!!!! یاد رکھو اگر ہمارا درمان تمہاری وجہ سے یہ گھر چھوڑ کر گیا تو یہ تمہارے لیے بالکل بھی اچھا نہیں ہوگا۔ اور زرلشتہ کے ساتھ جو کیا ہے نا تم نے دل تو کررہا ہے یہیں تمہاری قبر بنادیں ہم۔ پتھر ہے تمہارے سینے میں دل کی جگہ پر۔۔۔!!!! ابھی تک تمہیں ذرا شرم نہیں آئ اپنے کیے پر۔ !!!!"

وہ ان کے بالکل سامنے آۓ۔ اور ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ درشتگی سے کہان شنایہ بیگم کو اس پورے گھر میں صرف ان سے ہی ڈر لگتا تھا۔ تبھی وہ سر جھکا گئیں۔

"س۔سردار ہمارا بیٹا مل گیا ہے۔وہ۔۔!!"

انہوں نے بات بدلنی چاہی۔

"شششششش۔۔۔!!!! بالکل چپ ۔۔!!!! آواز نہ آۓ اب تمہاری۔۔!!! تمہیں سمجھانا بیکار ہے ہم جانتے ہیں۔ تمہارے اس شیطانی دماغ میں کسی کی بات نہیں اتر سکتی ۔تو بہتری اسی میں ہے کہ اپنی خاطر ہی ہمارے بچوں کی زندگیوں میں زہر نہ گھولو۔۔۔!!!!

زرلشتہ کے ساتھ تم یہ سب کیوں کرتی ہوں ہم بھی جانتے ہیں۔ سال گزر گۓ پر تمہاری نفرت نہیں ختم ہوئ زکیہ کے لیے ۔۔!!! وہ مرگئ ہے اب تو بخش دو اسے۔ اور زرلشتہ سے دور رہا کرو ۔وہ صرف زکیہ کی بھتیجی نہیں ہمارے درمان کی بیوی اور اس گھر کی بڑی بہو بھی ہے۔ 

تو اس پر اپنی جہالت دیکھانے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں۔آئندہ کوئ غلطی کی تم نے تو ہم تمہیں ایسی سزا دیں گے کہ پل پل تڑپو گی تم۔اور ہم ایسا کر بھی گزریں گے۔ سالوں کے رشتے پل میں کیسے توڑے جاتے ہیں یہ ہنر بھی ہم سیکھ چکے ہیں۔ تو حد میں رہا کرو تم اپنی۔۔!!!! "

ان کی بات کو کاٹ کر انہوں نے پر اسرار سے لہجے میں کہا۔ وہیں شنایہ بیگم خوف کے مارے 

لب سی گئیں ۔ابھی کچھ بھی بولنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ 

انہیں وارننگ دے کر دراب آفریدی باہر کی طرف چلے گۓ تاکہ فدیان سے مل سکیں ۔ہاسپٹل کا ایڈریس انہیں گارڈز سے پتہ لگ جاتا۔ 

پیچھے شنایہ بیگم نے ان کے جاتے ہی غصے سے ہنکار بھرا۔

"زکیہ ، زکیہ، زکیہ، تنگ آگئ ہوں میں اس چھٹانگ بھر کی لڑکی کا نام سن سن کر۔ سال گزر گۓ پر یہ ابھی بھی وہیں اٹکے ہوۓ ہیں۔ اوپر سے یہ زرلشتہ ۔۔۔!!!! جو ہوبہو اس کے جیسی ہے۔ شکل و صورت، باتیں ، بولنے کا انداز, لڑنے کا طریقہ ۔۔!!! کوئ ہوبہو کسی جیسا کیسے ہوسکتا ہے۔ وہ تو مرگئ تھی پر اسے تو موت بھی نہیں آتی۔۔!!!

بھاڑ میں جائیں یہ۔ اس کی وجہ سے میں اب اپنے فدیان سے ملنے بھی نہیں جاسکتی۔ بس ایک موقعہ۔۔!!!! اور اس زرلشتہ کے ساتھ وہ کروں گی کہ اسے بچانے کا وقت بھی کسی کو نہیں ملے گا ۔لیکن فلحال کے لیے خاموشی ہی بہتر ہے۔۔!!!"

کڑہتے ہوۓ وہ وہیں رکھے صوفے پر بیٹھ گئیں۔ ان کا سالوں سے جمع کیا گیا وفاداروں کا ٹولا درمان نے ایک ہی لمحے میں اٹھا کر باہر پھینکوا دیا تھا۔ اب وہ اکیلی ہوگئ تھیں بالکل اکیلی ۔!!! 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

وشہ سوپ دے گئ تھی درمان کو۔ زرلشتہ کی حالت دیکھ کر اسے بھی برا لگا تھا۔ آخر دوست تھی وہ اس کی۔

درمان کو اس کے اٹھنے کا انتظار تھا تاکہ اسے سوپ پلا سکے۔ ڈریپ ختم ہوگئ تھی تبھی اس نے اتار دی۔

"م۔مان۔۔!! آ۔آجائیں۔ درد ہ۔ہورہا ہے۔۔!!!"

درمان ابھی اس کی میڈیسنز دیکھ رہا تھا جب اسے مدھم سی آواز سنائ دی۔ اس نے زرلشتہ کی سمت دیکھا۔ جو آنکھیں کھولنے کی کوشش کررہی تھی۔ پر کمزوری کی وجہ سے یہ مشکل تھا۔ اس وقت بھی اسے بس درمان ہی یاد تھا ۔

"زری۔۔!!!! ٹھیک ہو نہ تم۔۔!!! میں یہیں ہوں تمہارے پاس ۔۔!!! شکر ہے تمہیں ہوش تو آیا۔کب سے کھڑا میں تمہارے اٹھنے کا ہی انتظار کررہا تھا۔بہت سوتی ہو تم۔۔!!"

درمان نے اسے سہارا دے کر بٹھایا اور خود بھی اس کے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔ڈریپ کی وجہ سے اب اس کے بے جان وجود میں جان پڑگئ تھی۔ یا پھر یہ درمان کی موجودگی کا اثر تھا۔

"محترمہ کچھ بولنے کا بھی ارادہ ہے یا پھر آج آپ کے حصے کا بھی میں ہی بولتا رہوں ۔ویسے سلام ہے تمہاری ہمت کو جو تم اتنا بولتی ہو پھر بھی نہیں تھکتی ۔ورنہ یہ بہت محنت طلب کام ہے۔ ٹیلنٹڈ بندی ہو تم۔ "

اس کی باتیں سمجھ تو زرلشتہ کو آہی نہیں رہی تھیں ۔پر اس کے دماغ میں اپنی باتیں گھوم رہی تھیں جو اس نے شنایہ بیگم کو کہیں تھیں ۔

درمان کو بھی پتہ تھا وہ جواب نہیں دینے والی۔ لیکن وہ کوشش کررہا تھا کہ وہ کچھ تو بول ہی دے۔

"س۔سب کو گھر سے نکلوا دوں گی میں۔ آ۔آپ کے بیٹے کو اپنے ع۔عشق میں پاگل کر دوں گی میں۔ س۔ساسوں ماں دیکھتی جائیں اب وہ ہوگا ج۔جو زرلشتہ چاہے گی۔"

وہ مدھم سی آواز میں بولی۔ تو درمان نے چونک کر اپنے حصار میں بیٹھی اپنی معصوم سی بیوی کو دیکھا۔ جو اچھی خاصی لیکن مزے دار دھمکیاں دے رہی تھی کسی کو۔

"کس کو پاگل کرنا ہے تم نے اپنے عشق میں۔۔!! مانا تم ہوش میں نہیں ہو پر یہ بول کیا رہی ہو تم۔۔!!"

پیار سے اس کا چہرہ اپنے سامنے کرتے اس نے خفگی سے پوچھا ۔

"م۔مان میرے ساتھ ہی رہیں گے۔ آپ کا بیٹا اب م۔میرا ہے۔ م۔میرا۔۔!!" 

وہ پھر سے وہیں سب بولنے لگی تو اس کی باتوں کا مطلب سمجھ کر درمان دلکشی سے مسکرایا۔اور سر کو نفی میں جنبش دی۔

"خود تو تم ہوہی پاگل۔ اچھا ہے مجھے بھی پاگل کردو۔ پر پتہ ہے تمہیں۔ یہ سب کرو گی کیسے تم۔ تم مجھے غصے سے پاگل کردوں گی پر عشق میں پاگل کیسے کرنا ہے اس چھوٹے سے دماغ میں آ ہی نہیں سکتا۔۔!! بہت زور سے مارا تھا نا مورے نے ۔نشان پڑگیا ہے تمہارے چہرے پر ۔!!"

درمان نے مسکراتے ہوۓ کہا پر جب اس کا زخمی رخسار دیکھا تو آنکھوں میں چبھن ہوئ۔

آنکھیں خود بخود نم ہونے لگیں۔عشق میں پاگل ہونا یہی تو ہوتا ہے۔ زخم محبوب کو ملے اور درد عاشق کو ہو۔

ساری سوچیں جھٹک کر وہ اسے سوپ پلانے لگا۔ اسے اس کام کا پہلے بھی تجربہ تھا تبھی زیادہ مشکل نہ ہوئ۔ البتہ اس دوران بھی زرلشتہ کا اعلان جاری رہا کہ مان اسی کے ساتھ رہے گا ۔ساسوں مان سن لیں کہ وہ اسی کے عشق میں پاگل ہوگا۔ اور درمان اس کی جرات پر ہنستا رہ

"ڈاکٹر ہمارا بیٹا کیسا ہے اب۔۔؟؟ کیا ہوا ہے اسے؟"

دراب آفریدی گھر سے سیدھا ہاسپٹل پہنچے۔ جہاں دیار اب بھی بیٹھا ہوا تھا۔آتے ہی انہوں نے آئ سی یو میں فدیان کو دیکھا جس کے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور چہرے پر آکسیجن ماسک لگا تھا۔پورے کمرے میں بس مشینوں کی ٹک ٹک کی آواز تھی۔اپنے لاڈلے بیٹے کو اس حال میں دیکھ کر ان کا دل پسیج گیا۔ کہاں وہ کسی کو اپنے سامنے بولنے بھی نہیں دیتا تھا اور کہاں اب قابلِ رحم حالت میں زندگی اور موت کے بیچ لٹکا تھا۔

 انہیں کہاں پتہ تھا کہ ان کے ثبوت نے محض ایڈونچر کے چکر میں یہ سب کیا ہے۔ وہ بھی جناب بے ہوش نہیں بس آرام فرما رہے ہیں۔جب نیند پوری ہوگئ تو خود ہی اٹھ جائیں گے۔ فدیان جیسے زلزلے کو یونہی ماردینا ناممکن تھا۔ جب تک وہ خود نہ چاہتا۔

 راستہ برف کی وجہ سے بلاک تھا تبھی انہیں یہاں پہنچنے میں گھنٹے لگ گۓ۔چہرے پر دنیا جہاں کی بے چینی لیے انہوں نے اپنے سامنے کھڑے ڈاکٹر سے پوچھا۔ جن کے ہاتھ میں فدیان کی رپورٹس تھیں۔

"پیشنٹ کی کنڈیشن سٹیبل ہے اب۔بلڈ پریشر ،وائٹلز سب نارمل ہیں۔جلد ہوش بھی آجاۓ گا انہیں۔۔۔!! آپ پریشان نہ ہوں۔بس خون زیادہ بہنے اور برین کی سینسیٹو نرو ڈیمج ہونے کی وجہ سے ان کی جان کو خطرہ تھا۔بٹ یو شد بھی تھینک فل ٹو مسٹر دیار درانی۔وہ انہیں وقت پر ہاسپٹل لے آۓ اور تب سے خود بھی یہیں پر موجود بھی ہیں۔پیشنٹ زندہ ہیں تو کریڈٹ انہیں وقت پر یہاں لانے شخص کو ہی جاۓ گا۔باقی ہم اپنی طرف سے پوری کوشش کررہے ہیں۔ کہ یہ جلد ہوش میں آجائیں اور آپ بھی دعا کریں۔انشاء اللہ سب بہتر ہوگا ۔!!!"

دراب آفریدی کی نظریں شیشے کے پار بیڈ پر لیٹے فدیان پر ٹکی تھیں اور سماعتیں ان لفظوں پر جو ڈاکٹر کہہ رہا تھا۔

فدیان کی رپورٹس دیکھتے ہوۓ ڈاکٹر نے پروفیشنل انداز میں انہیں فدیان کی کنڈیشن بتادی ۔جنہوں نے سب سن کر بھی کچھ نہ کہا۔لیکن دیار کا نام سن کر بے ساختہ انہوں نے ڈاکٹر کی سمت ناسمجھی سے دیکھا تھا۔جیسے اس نام کو سننے کی انہیں امید نہیں تھی۔انہیں تو دیار مجرم لگتا تھا پر یہاں تو وہ ان پر احسان کرگیا تھا۔ان کے بیٹے کی جان بچا کر ۔!!!!

ڈاکٹر کے جاتے ہی ان کی نظر وہیں دور ایک کرسی پر آنکھیں موندے بیٹھے دیار پر پڑی ۔جس کے چہرے پر اطمینان تھا۔ فدیان کے مل جانے کے بعد سب ٹھیک ہوجاۓ گا. یہی سوچ کر وہ سکون میں تھا۔ پر بے خبر تھا کہ اس الجھی کہانی میں سکون ملنا اتنا آسان نہیں ہے۔ ابھی تو کہانی ایک نۓ موڑ کی طرف چل پڑی ہے جہاں ایک اور آزمائش اسی کی منتظر ہے۔

دراب آفریدی نے لب بھینچے ۔

"دیار درانی۔۔!!!! تم ہم پر احسان کرو گے یہ بات ہم اگر نہ بھی مانیں تو یہ بات بدل نہیں سکتی ۔ تم واقعی دل کے اچھے ہو جو اتنا سب ہونے کے باوجود بھی ہمارا ساتھ نہیں چھوڑ گۓ۔ ورنہ جو تمہارے ساتھ ہوا تھا کوئ اور ہوتا تو اصل مجرم ملتے ہی خاموش بیٹھنے کے بجاۓ ایک طوفان برپا کر چکا ہوتا۔۔!!!!

خون سے زیادہ تربیت کا اثر ہوتا ہے انسان کی شخصیت پر۔ تم پر بھی اسی تربیت کا اثر ہے۔۔!!!"

انہوں نے گہرا سانس بھرا اور آنکھیں بند کرکے خود کو پرسکون کرنے لگے۔ دیار کے سامنے جا کر اب کچھ بھی کہنے یا سننے کی پوزیشن میں نہیں تھے وہ۔ یہ تو دیار کا بڑا پن تھا اس کی عاجزی تھی جو اس نے کسی کو بھی اب تک کوئ طعنہ نہیں دیا تھا۔

سچ یہی تھا کہ زکیہ کی تربیت اس کی محبت دیار کے ہر انداز سے جھلکتی تھی۔اور دیار کی تربیت تو زرلشتہ کی صورت موجود بھی تھی۔ دونوں اسی ایک وجود کے دو روپ تھے۔ خون سے زیادہ ان میں اس کا عکس چھلکتا تھا۔ 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

 "بادل کیسے ہوگئ اتنی بڑی غلطی ہم لوگوں سے۔۔۔!!! کیسے ہم لوگ اس دیار کے منصوبے تک نہ پہنچ سکے۔۔!!! وہ کل کا لڑکا ہماری آنکھوں میں دھول جھونک کر ہمیں بیوقوف بناکر ہمارے ہی سامنے فدیان کو بازیاب کرواکر لے گیا۔ اور ہم کچھ کر بھی نہیں سکے۔۔۔ !!!!

زندگی میں پہلی بار شکست ہوئ ہے ہم لوگوں کو۔وہ بھی اس لڑکے کے ہاتھوں ۔۔!!! میرا تو بس نہیں چل رہا کہ زندہ گاڑ دوں اسے۔ کیسے وہ دلاور خان کو ہرا گیا ۔کیسے ۔۔۔!!! کیسے ۔۔!!"

مٹھیاں بھینچ کر دلاور خان چیخے۔ ان کے چہرے پر شکست کی شرمندگی اور غصہ تھا۔ بادل خان ان کے دائیں طرف انہیں حوصلہ دینے کے لیے کھڑا تھا۔ یا مزید سلگانے کے لیے ۔اس کے چہرے پر دبی دبی مسکراہٹ سے انداز لگانا مشکل تھا۔

 اس وقت وہ دونوں سٹڈی روم میں کھڑے تھے ۔ابھی کچھ دیر پہلے ہی وہ دونوں ڈیرے سے لوٹے تھے جہاں دلاور کے آدمیوں نے انہیں سب بتادیا تھا کیسے دیار نے جگہ بدل کر انہیں بیوقوف بنایا۔ پھر عین ٹائم پر ان پر حملہ کیا۔ کسی گیس سے انہیں بے ہوش کرکے وہ سکون سے فدیان کو لے گیا ۔ اور وہ لوگ کچھ کر بھی نہ سکے ۔

کہانی اچھی طرح بادل نے اس کے سامنے پیش کی تھی کہ اسے شک کیا ہوتا الٹا وہ دیار کی ہوشیاری کا قائل ہوگیا۔

"دل جان ۔!! غلطی سارا ہماری ہے۔ہم اتنا بہادر ہوکر بھی اس بچے کے کھلاڑی دماغ تک نہ پہنچ پایا ۔ہم تو خود کو مار ہی دیتا پر کیا کرے ہم نہ رہتا تو تم بھی اکیلا پڑجاتا۔ تم جانتا ہے اس وقت تمہارا سارا آدمیوں میں سے صرف بھروسے کا قابل ہم ہے۔۔!!!

 ہم تمہارے خاطر چار گولیاں کھایا تھا۔ سر درد کا نہیں بندوق کا گولیاں۔۔!!! اگر ہم تم کو ناجان کر تمہارا لیے جان داؤ پر لگا سکتا ہے تو تم کو جان کر تمہارا لیے علاقے کو آگ کیا تمہارا بیٹے کو چماٹ بھی لگا سکتا ہے ۔!!!! پر ہم کو دل جانا ہمارا یہ دل سکون نہیں لینے دے رہا۔ تم ایسا کرو اپنے ان مردود ہاتھوں سے ہمارا گلا گھونٹ دے۔ ہم کو مار دے۔ دل جانا۔۔۔!!!"

اپنی ٹوپی ٹھیک کرکے بادل خان اس کے سامنے بیٹھا اور ایکٹنگ کی انتہا کرتے ہوۓ دہائ دی۔ پھر اس کے ہاتھ پکڑ کر اپنے گلے پر رکھے جس نے وہ ہاتھ ہی واپس کھینچ لیے۔

"بادل خان مجھے تم یشاور سے زیادہ عزیز ہو۔ اس نالائق نے آج تک میرا پیسہ پانی کی طرح بہانے کے سوا کچھ نہیں کیا پر تم نے تو میرا سارا کام ہی سنبھال رکھا ہے۔میرا بازو ہو تم۔!! میں کیسے ایک چھوٹی سی شکست پر تمہیں مار سکتا ہوں۔ چھوڑ دو اب آگے کا سوچ آگے کیا کرنا ہے۔۔!!"

دلاور خان کا لہجہ عام سا تھا ۔ بادل پر انہیں خود سے بڑھ کر یقین تھا۔ آخر اس جیسا ایماندار، وفادار ، وفا شعار انسان انہیں گدھا گاڑی پر سفر کرکے بھی نہ مل پاتا۔ بادل نے دکھ سے رخ موڑا ۔

"تمہارا بازو کیا ہم تو ایک دن تم کو کاٹ کر ہی پھینکے گا۔ ابلیس کا بچہ ہے تم۔۔!!! سڑا ہوا ٹینڈا ۔۔!!"

اس نے دل میں کہا۔ پھر شکل پر مسکینیت طاری کرکے رونی صورت بنائ۔

"ہم معصومہ بچی کی شادی کا تیاری میں اتنا مصروف ہوگیا تھا کہ ہم جان ہی پایا ہمارا یار ، ہمارا دل دار، ہمارا جان ,ہمارا خان ، فرعون کا دوسرا عکس منہ کے بل دیار کے جوتوں میں گرے گا۔جو ناک ہمیشہ اٹھا رہتا تھا اب وہ ناک اس کے سامنے رگڑ کھاگیا ہے۔ مانا تم کتا صفت آدمی ہے۔ پر کیا کرے ہم ،ہم کو تو اس صفت پر بھی تم سے عشق ہوا ہے(لعنت اس منہ پر جسے دیکھ دیکھ کر ہمارا حلق بھی کڑوا ہوجاتا ہے۔ نیچ کمینہ انسان) "

بات بات پر دلاور خان کو کتوں کی طرح ذلیل کرنا تو کوئ بادل خان سے سیکھتا جو ذلیل کرکے کور بھی اچھے سے کرتا تھا ۔کہ دلاور خان بھی سواۓ اسے گھورنے کے کچھ نہیں کر پاتا تھا۔

"بادل مجھے تم ابلیس ، فرعون، کتا ، کمینہ کیا کیا بناگۓ ہو۔ ایک بار سوچ لو کہ میں ہوں کیا۔ روز روز نۓ نۓ لقب ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔!!! تمہاری یہ زبان تمہیں مرواۓ گی میرے ہاتھوں سے۔۔!!"

وہ اٹھ کھڑے ہوۓ تو بادل خان بھی اٹھ گیا۔ کھسیانی سی ہنسی ہنستے وہ دلاور خان کے راستے سے ہٹا اور اس کے پیچھے جاکھڑا ہوا۔

 "ہم تو ایسا ہی دل دارا۔ !! کیا کرے تم کو دیکھ کر ہمارا دل تمہارا تعریف میں کوڑے کے ڈھیر پر تمہارے نام لکھنے کو کرتا ہے۔ دل کرتا ہے کہ کتوں کو کھڑذ کرکے ہم تم کو سلامی دلواۓ۔ جوتوں کا ہار ۔!!!!"

بادل پھر سے بولنے لگا ۔اس کا ٹیلنٹ ایسا تھا کہ کوئ جان ہی نہ پاتا کہ وہ بے عزت کررہا ہے یا واقعی تعریف کررہا ہے۔ اس دفعہ دلاور خان نے مڑ کر اسے دیکھا اور گھور کر چپ ہونے کو کہا۔ جو منہ بناکر چپ ہوگیا۔

"چھوڑ دو اس بات کو آگے سوچو کہ کرنا کیا ہے اب۔۔!! دیار معصومہ سے اس سب کے بعد شادی کرے گا یہ بات ماننے میں نہیں آتی ۔ اور میرا نام بھی ان سب میں نہیں آنا چاہیے۔ یشاور پر ڈال دو تم یہ سب۔۔!!

! اور یہ بات بھی کسی کو پتہ نہ لگے کہ یشاور کی بجاۓ وہ حملہ میں نے کروایا تھا درمان پر۔ دیکھو اس دفعہ کوئ گڑ بڑ نہ ہو۔ جو میں چاہتا ہوں وہی ہو۔ زیادہ مسئلہ ہو تو تم یشاور کے کارنامے بھی سامنے لے آنا۔دیار کو پہلے بھی وہ پسند نہیں اچھا ہے آسانی سے سب مان جاۓ گا۔"

وہ اتنی آسانی سے سب یشاور پر ڈالنے کا کہہ رہے تھے کہ یہ ان کے لیے بہت آسان کام ہے۔ بادل نے تاسف سے سر جھٹکا جسے اپنی اولاد کی بھی فکر نہ ہو۔اس سے خیر کی امید رکھنا بے کار ہے۔

"پھر تم یشاور کو آسانی سے بچالے گا۔ معصومہ بچی کو ان ظالموں کے سامنے پیش کرکے کہ اس گدھے کا بچے کو چھوڑ کر اس بچی سے بدلہ لے لے۔ اور وہ مان بھی جاۓ گا۔ اور تم مکھن میں سے بال کی طرح اس سارے واقعے سے بری الزمہ ہوجاۓ گا۔

 کیا گھٹیا ، نیچ سوچ ہے تمہاری، ہم تم کو ایویں بزرگ شیطان تو نہیں کہتا نہ جو سب خود کرکے اپنے بچوں پر ڈال دیتا ہے۔ ویسے یارا آپس کا بات ہے۔ ڈائن بھی سات گھر چھوڑ کر وار کرتا ہے پر تم تو ڈائن سے بھی گرے ظرف کا مالک ہے۔ چچ چچ چچ۔۔۔!!

 جو اپنا ہی اولاد کو تباہ و برباد کرنا چاہتا ہے۔ چلو جیسا تم چاہے وہ تمہارا بچے ہیں۔ان پر تمہارا مرضی چلے گا۔ ہم بھی چلتا ہے اب ہمارا سونے کا ٹائم ہوگیا ہے۔کل جرگے میں ذلیل بھی تو ہونا ہے ہم کو۔اچھا ہے کہ ہم تھوڑا سو لے۔ تم بھی اپنا منافقت کا ماسک اتار کر تھوڑا سا سو لو۔ کل کا کل دیکھا جاۓ گی۔۔!!!"

دلاور خان کی سوچ کو اپنے انداز میں داد دیتے ہوۓ جب اس نے دلاور کی غصے سے سرخ ہوتی آنکھیں دیکھیں تو جمائ روکتا وہاں سے چلا گیا۔

سوچنے کی بات تو تھی کہ کوئ باپ اپنے ہی اکلوتے بیٹے پر اپنا جرم بھی آسانی سے کیسے ڈال سکتا ہے۔پر وہ دلاور خان تھے۔ دوغلے،منافق انسان تو جو چاہتے کردیتے ۔!!!!

"کہاں سے لاتا ہے یہ ایسی باتیں ،بزرگ شیطان ، کتا صفت، ڈائن ، یہ اور اس کی باتیں۔پر کیا کرے بیچارا محبت کھوکر دیوانہ ہوگیا ہے۔ کوئ ہے بھی نہیں اس کا تو۔۔!!!! محبت چیز ہی ایسی ہے اگر مل جاۓ تو کھونے کا ڈر نہ ملے تو پانے کی چاہ۔۔!!! 

اگر حسرت ہی ختم ہوجاۓ تو موت کی تمنا۔۔!! بادل خان تم کو بھی اس دنیا میں صبر نہیں آنے والا۔ باقی اللہ تمہارے حال پر رحم کرے۔۔!!"

اس کے وہاں سے جاتے ہی اس کی فضول باتیں یاد کرکے دلاور خان نے جھرجھری لی ۔ پھر اس کی وہ ناکام محبت جس کا درد انہوں نے چار سال سے اس کی ویران آنکھوں میں دیکھا تھا ۔اسے یاد کرکے وہ افسوس کرنے لگے پھر خود بھی اپنے کمرے کی طرف چلے گۓ۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"دلاور خان ۔۔!!! جس دن ہم اپنا بدلہ لے لے گا نہ ۔تب ہمارا روح کو بھی چین آجاۓ گا۔ تم نے اچھا نہیں کیا تھا ہمارے ساتھ۔۔!!! تم کو تو یاد بھی نہیں ہوگا کہ تم ہمارا خوشیوں کا قاتل ہے۔ تم ہماری زندگی میں طوفان لانے والا درندہ ہے۔

 اللہ جانتا ہے ہم کو اپنا ہی مجرم اپنے سامنے دیکھ کر کیسا لگتا ہے ۔ہم چار سال سے روز تم کو دیکھ کر مرتا ہے ۔۔!! پر ہماری ابھی کچھ مجبوریاں ہیں ۔ایک بار ہم کو ان مجبوریوں سے نکلنے دو۔ ہم تم کو وہ موت مارے گا کہ تم پانی بھی نہیں مانگ پاؤ گے۔ ابھی تو آغاز ہے شکست کا ہم تم کو آہستہ آہستہ تباہ کرے گا۔۔!! "

اپنے کمرے میں آتے ہی بادل خان نے دروازہ بند کیا اور اپنے سر سے وہ پٹھانوں والی ٹوپی اتاری جو سالوں سے اپنے سر پر سجا کر وہ گھوم رہا تھا ۔اس پر لگے اس پر کو چھو کر درد سے وہ آنکھیں میچ گیا۔ 

دل نے پوچھا تھا بادل تم زندہ کیوں ہو اب تک۔ محبوب نہ رہے تو عاشق جیسے سانسیں لیتا ہے وہ کیفیت کانٹوں پر لوٹنے کے مترادف ہوتی ہے۔ پھر آنکھیں کھول کر ان آنکھوں میں آئ نمی کو خود میں اتار کر اس نے دلاور کا جرم یاد کیا۔ جو اس کی خوشیوں کا قاتل تھا۔

"روح۔۔!! ہم بدلہ لے گا ضرور لے گا۔۔!!! تم بے فکر رہنا ہم ہے ابھی۔۔!!! تمہارا ایک ایک مجرم کو جب تک ہم بے بسی کی موت نہیں مارے گا۔اسے تڑپاۓ گا نہیں ۔  تب تک خود بھی نہیں مرے گا۔۔!!! روح۔۔!!! ہم بدلہ لے گا ۔!!"

اس پر کو اتار کر اس نے عقیدت سے اسے چوما۔ اس کی جان تھی اس میں ۔دیوانہ تھا وہ کسی کا۔۔!!! دیوانے تو ایسے ہی ہوتے ہیں ۔۔!! 

اب اس کی باقی کی رات اپنی روح سے باتیں کرنے میں نکل جاتی۔ وہ یہاں سونے تو نہیں آیا تھا۔اسے تو اب نیند بھی براۓ نام آتی تھی۔وہ تو سکون کی تلاش میں آیا تھا۔ عشق اس سے اس کا اپنا آپ بھی بڑی بے دردی سے چھین گیا تھا۔

وہ صرف بدلے کے لیے زندہ تھا۔یہاں بدلہ پورا ہوتا وہاں وہ اپنی روح کے پاس ہوتا ۔!!!

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

اگلے دن کا سورج اپنی پوری آب و تاب سے افق پر جلوہ افروز ہوچکا تھا۔گزری سیاہ رات کا ذرا سا بھی اثر اس سورج پر ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل سکتا تھا۔ آہستہ آہستہ چادر کی طرح شاہراہوں پر پھیلی برف بھی پگھلنے لگی تھی۔ آج کا دن بہت اہم تھا آج کئ زندگیوں کے فیصلے ہونے تھے ۔ کون کس کا نصیب بنتا اور کون کس کے ظلم کے کفارے میں پیش ہوجاتا ، کس کی محبت بچی رہتی اور کون کس سے ہمیشہ کے لیے بچھڑنے والا تھا آج سب طے ہوجاتا ۔

قسمت میں کیا لکھا تھا وہ تو وقت آنے پر پتہ لگ جاتا۔ پر یہ تو طے تھا آج کے دن ان سارے کرداروں کی زندگیاں بدلنے والی تھیں۔ 

_______________________

"ٹھیک سے کھاؤ اور پورا ختم کرنا ہے تم نے اسے۔۔!!! اور کل تم نے کچھ کھایا کیوں نہیں تھا۔ مجھ پر غصہ تھا اگر تمہیں تو مجھ پر اتارتی نہ خود کو تکلیف دینے کی کیا ضرورت تھی۔۔!!! رات سے میں تمہارے ہوش میں آنے کا انتظار کررہا تھا کہ کب تم اٹھو اور کب میں تمہاری کلاس لگاؤں۔۔!!! "

درمان نے اس کے ہاتھ سے دلیے کا باؤل پکڑا جو وہ مشکل سے تھوڑا تھوڑا کھانے کی کوشش کررہی تھی۔ آٹھ بجے کے قریب اسے مکمل ہوش آیا تھا۔ تب درمان نے اس کا فیس واش کرواکر اس کے لیے دلیہ بنوالیا تھا۔ابھی وہ یہ بھی کھالیتی تو بڑی بات ہوتی اس کے لیے ۔

زرلشتہ کا چہرہ ایک ہی دن میں مکمل مرجھا گیا تھا۔ وہ اب بھی تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھی تھی اور درمان اس کے سامنے بیٹھا تھا ۔

جواب میں زرلشتہ نے اپنی نم شکوہ بھری آنکھوں سے درمان کی نیلی فکر بھری آنکھوں کو دیکھا۔ جس کا اپنا حال بھی اس جیسا ہی تھا۔ زرلشتہ کے دل نے پوچھا تھا کہ کیا اس شخص کو واقعی تمہارے جینے یا مرنے سے فرق پڑتا ہوگا۔ یہ تو خود تم سے تنگ ہے ۔!!!

 پر اس کی نیلی آنکھوں میں جھانکنے سے جو جواب اسے مل رہا تھا وہ اس جواب کو قبول کرنا ہی نہیں چاہتی تھی۔

"اگر طبیعت خراب تھی تمہاری تو تم نے مجھے فون کیوں نہیں کیا تھا۔ اتنا خون ضائع ہوگیا ہے تمہارا اور یہ نشان۔۔۔!!! وہ تو اللہ کا شکر ہے جس نے تمہیں نئ زندگی دے دی ۔ورنہ ناجانے کیا ہوجاتا ۔۔!!!"

اس کی آنکھوں کے درد سے نظریں چڑا کر درمان نے چمچ اس کی طرف بڑھایا۔ جس نے بغیر کچھ کہے کھالیا۔ اس وقت بھی اسے اس شخص سے ڈر لگ رہا تھا۔ جسے کبھی بھی غصہ آسکتا تھا اور اس غصے کے چلتے وہ اسے مار بھی سکتا تھا۔

اس رات کا وہ منظر جب درمان اسے مارنے والا تھا وہ یاد آتے ہی اس کی آنکھیں بھیگیں۔وہ روکر درمان کو مزید ازیت میں ڈال رہی تھی۔ 

"ف۔فون نہیں ہے میرے پاس ۔آپ نے لے لیا تھا مجھ سے۔ اور وشہ بھی گھر پر نہیں تھیں ۔روم بھی لاک تھا۔۔۔!!! اور اگر فون ہوتا بھی تو میرے بلانے پر آپ کبھی یہاں نہ آتے۔آخر مجھ جیسی پاگل،بیوقوف، بقول آپ کے جاہل لڑکی کے جینے یا مرنے سے آپ کو کہاں فرق پڑنا تھا۔آپ کو میری کوئ فکر نہیں یے۔ میں بوجھ ہوں آپ پر جس سے آپ بھی تنگ ہیں۔آپ بہت برے ہیں۔"

 اس کی آنکھوں سے آنسو بہنا جاری ہوچکے تھے۔اس نے کانپتے ہاتھوں سے اپنے آنسو پونچھے۔  الفاظوں کا زہر ایسا ہی ہوتا ہے روح بھی چھلنی کرجاتا ہے اور بولنے والے کو پتہ بھی نہیں لگتا۔ایسی ہی درمان نے اس کی روح چھلنی کی تھی اور اب اس کے لفظ اسے تڑپا گۓ تھے۔

اس کے لہجے میں اذیت کی انتہا تھی وہ اپنی دنیا میں مگن رہنے والی لڑکی جب باہر کی اس بے حس ، بے رحم دنیا سے واقف ہوئ تھی تو اس کا ننھا سا دل بھی بری طرح زخمی ہوا تھا۔

اسے روتا دیکھ کر درمان نے وہ باؤل سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔ اور خود اس کی اور جھکا جو ڈر کر پیچھے ہوگئ تھی۔

"سوری ۔۔!!! غلطی سے بول دیا تھا۔اب نہیں بولوں گی۔آپ کو برا۔۔۔!!! سوری ۔۔۔!!!! معاف کردیں ۔پلیز ماریے گا مت۔۔!!!! درمان سوری۔میں نہیں کہوں گی کچھ بھی۔۔!!!"

درمان کو اپنے پاس ہوتا دیکھ کر اسے یہی لگا تھا کہ وہ اسے مارنے والا تبھی وہ آنکھیں میچ کر پیچھے ہوئ اور ڈرتے ہوۓ اپنے دونوں ہاتھ اپنے چہرے کے سامنے کرلیے۔

یہاں درمان کا دل ڈوبا ۔یہ لڑکی کسی سے ڈرنے والی نہیں تھی۔ ڈرنا تو اسے آتا ہی نہیں تھا پھر بھی اس سے ڈرنا۔ درمان نے خود پر لعنت بھیجی کہ وہ کیسے اسے وہ بناگیا جو وہ تھی ہی نہیں۔

"زرلشتہ ۔۔!!! کیا ہوگیا ہے تمہیں ۔!!! یہاں آؤ میرے پاس ۔تمہیں بولنے سے میں کیوں روکوں گا۔ تمہاری آواز سننے کے لیے تو ترس گیا تھا میں ۔۔!!! مجھ سے کیوں ڈر رہی ہو پاگل لڑکی ۔میں کچھ نہیں کروں گا اب۔میں برا ہوں پر تم بوجھ نہیں ہو۔ تم تو میرا سکون ہو۔۔۔!!"

اس کے سہمے ہوۓ وجود کو اپنے حصار میں قید کرتے اس نے تکلیف سے کہا۔زرلشتہ کی ہچکیوں کی آواز کمرے میں گونجنے لگی۔دل میں بیٹھا خوف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ختم ہوتا۔ تب تک اب درمان کو ہی صبر کرکے اسے یقین دلانا تھا کہ وہ ویسا نہیں ہے جیسا وہ اسے سمجھنے لگی ہے۔

"آ۔آپ نے خود کہا تھا میں عذاب ہوں آپ پر ۔!!!"

اس کی شرٹ مٹھی میں دبوچ کر بامشکل اس نے شکوہ کیا۔اس کے سارے شکوے جائز تھے۔درمان نے اس کی تذلیل تو کی تھی۔ بھلے غصے میں کی تھی پر وہ قصوروار تھا۔

"میں غصے میں تھا تب۔۔!! سارا غصہ تم پر نکل گیا۔ میں جانتا ہوں میں نے ظلم کیا تھا تمہارے ساتھ ۔پر پلیز معاف کردوں مجھے۔آئندہ ایسا کچھ نہیں کروں گا۔"

اسے خود میں بھینچتے درمان نے پارے ہوۓ انداز میں کہا۔ جواب دینے کی بجاۓ زرلشتہ کے رونے میں تیزی آگئ۔ اپنے واحد ہمدرد کو پاس پاکر اس کا دل اس تکلیف پر پھٹنے والا تھا جو اس نے اکیلے سہی تھی ۔

" اور میں آج واپسی پر تمہیں فون بھی لادوں گا۔کوئ بھی مسئلہ ہو تم بس ایک کال کردینا باقی درمان جانے اور اس کا کام جانے۔۔!!! لیکن آئندہ مجھ سے ڈرنا مت۔ میری شیرنی ڈرتے ہوۓ اچھی نہیں لگتی ۔!!! ڈر میری پٹھانی کے لیے بنا ہی نہیں ۔اور درمان کی بیوی کو غصہ سوٹ کرتا ہے ڈرنا نہیں ۔۔!!"

درمان کے حلق میں کانٹے چبھے بڑی مشکل سے اسے چپ کروانے کی کوشش کرتے ہوۓ اس نے محبت اور فکر سے لبریز لہجے میں اس کا ڈر کم کرنا چاہا۔ 

زرلشتہ نے اس کی بات سنی تو آنسو روکنا چاہے۔ سر میں درد کی ٹھیس اٹھی تھی۔ جو برداشت سے باہر تھیں۔

"م۔میں نے آپ کو بہت آوازیں دی تھیں درمان۔۔!!! بہت ۔۔!!! میں نے آپ کو بلایا تھا ۔پر آپ نہیں آۓ۔۔!!! م۔مجھے اتنا درد ہورہا تھا۔ خون بھی نکل رہا تھا۔ بھوک بھی لگی تھی ۔ دل گھبرا رہا تھا۔ مجھے لگا تھا میں مرجاؤں گئ۔اور کسی کو خبر بھی نہیں ہوں گی۔

ونی مر ہی تو جاتی ہے۔ درمان مجھے آپ نہ مارنا ۔ابھی مجھے نہیں مرنا۔ میرے لالہ یہ صدمہ نہیں سہہ پائیں گے۔ نا مما اور بابا کو صبر آۓ گا۔ پلیز آپ جو کہو گے میں مانوں گی۔ کہو گے کہ میں اپنا حلیہ بدل لوں۔ میں بدل لوں گی۔ اگر آپ کہیں گے میں زیادہ بولا نہ کروں تو میں نہیں بولوں گی۔وعدہ۔۔۔!!! آپ کی ساری باتیں مانوں گی پلیز مجھے نہیں ماریے گا آپ۔بہت درد ہوتا ہے۔ میرا گال بھی دکھ رہا ہے۔پلیز نہ آپ نہ مارنا مجھے۔!!!"

زرلشتہ کی باتیں سن کر درمان کو خود پر غصہ آیا۔ کہ اس کی باتوں میں یہ ذکر کیوں نہیں کہ وہ بھی اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اسے سب یاد ہیں پر وہ یاد ہی نہیں ۔۔!!! 

غلطی بھی تو اسی کی ہی تھی۔

"بس۔۔!!! اب چپ کرجاؤ ۔میں کچھ نہیں کہوں گا تمہیں۔تمہارے زخموں کا درد مجھے بھی ہورہا ہے۔ میں سب ٹھیک کردوں گا۔۔!! اور تم ونی نہیں بیوی ہو میری۔ تمہیں جیسے رہنا ہے رہو۔ پر رو مت ۔!!! میں کیسے چپ کرواؤں تمہیں ۔ !!! میں برا ہوں نا۔ بہت برا ۔۔!!! جو تمہارے بلانے پر بھی نہیں آیا۔آۓ ایم ایکسٹریملی سوری ۔۔!!! اچھا تم میری ایک بات مانو گی ۔!!!"

جب درمان کو کچھ بھی سمجھ نہ آیا تو کچھ سوچ کر اس نے اس کا چہرہ سامنے کیا۔ پھر اس کے آنسو پونچھے اور اس کے گال پر لگا زخم دیکھ کر آنکھیں چرائیں پھر  اس کے پاس بیٹھ گیا۔زرلشتہ نے ہاں میں سرہلادیا۔

انکار کرکے ایک اور سزا وہ نہیں جھیل سکتی تھی۔

"ویری گڈ۔۔!!!"

اس کا قرار سن کر درمان نے وہاں سے باؤل واپس اٹھایا اور چمچ اس کے سامنے کیا۔ زرلشتہ تو اس شخص کے بدلے تیور دیکھ کر صدمے میں آگئ۔ یہ مغرور انسان محبت دکھاکر کسی کو فرش سے عرش تک لاسکتا تھا۔چوں چراں کیے بغیر اس نے منہ کھولا اور دلیہ کھالیا۔ جس کا ٹیسٹ اسے اچھا تو نہیں لگ رہا تھا ۔پر مجبوری تھی ابھی۔ درمان کا غصہ اسے ابھی نہیں دیکھنا تھا۔ جب پچھلے زخموں کا درد اس کی جان نکال رہا تھا۔

"مجھ سے دوستی کرلو۔میرا سچ میں کوئ دوست نہیں ہے ۔۔!!دیکھو میرا اکلوتا دوست بھی مجھے اب منہ نہیں لگاتا۔ مطلب وہ اب میری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا۔ اور میں اس کے پیر پکڑنے کے موڈ میں نہیں ہوں فلحال تو۔ ذرا حالات اچھے ہو جائیں پھر پیر بھی پکڑ لوں گا۔۔۔!! تو میں سوچ رہا ہوں کہ اپنی تنہائ کو دور کرنے کی خاطر اب ایک لڑکی سے دوستی کرلوں۔لڑکیاں لڑکوں کے معاملے میں شاید اچھی دوست ثابت ہوتی ہوں۔اور مجھے جس لڑکی سے دوستی کرنی ہے وہ تم ہو۔ تو بتاؤ بنو گی میری دوست ۔!!"

سمجھ تو اسے آیا ہی نہیں کہ اب دوستی کی آفر کیسے کرے ۔وہ حیران تھا کہ لوگ آخر اتنے ٹیلنڈڈ کیسے ہوتے ہیں جو جب چاہیں جس سے چاہیں آسانی سے دوستی کرسکتے ہیں۔ وہ بیچارا تو اپنی بیوی کو دوستی کی آفر کرتے ہچکچا رہا تھا۔

اس کا اپنے سامنے دوستی کی پیشکش کے لیے بڑھا ہاتھ دیکھ کر زرلشتہ کا دل ہی کانپ گیا۔

"آپ سے تو نہ دوستی اچھی نہ دشمنی اچھی۔۔!! کیا پتہ کل کو دوستی کے تقاضے پورے نہ ہونے پر میرا قتل ہی کردیں۔ اللہ بچاۓ ایسی خطرناک دوستی سے مجھے ۔!!!"

مدھم سی آواز میں فورا اس کے منہ میں جو آیا اس نے بول دیا ۔ درمان اپنی تعریف سن چکا تھا۔لیکن چپ ہی رہا ۔

"کچھ کہا تم نے۔۔؟؟ بتاؤ نہ کرو گی دوستی مجھ سے۔۔!!"

درمان نے لفظوں پر زور دیا۔ زرلشتہ نے بلا ارادہ سر نفی میں ہلادیا۔ پہلی بار درمان نے خود کسی کے سامنے جھکنے کا فیصلہ کیا تھا اور یہ لڑکی اس کی آفر ریجکٹ کرچکی تھی۔ڈر تو تھا پر بعد میں پھنسنے سے اچھا ابھی انکار کرنا اسے لگا ۔

"ل۔لڑکیوں سے دوستی نہیں کرنی چاہیے لڑکوں کو۔ اچھی بات نہیں ہے یہ ۔ گ۔گناہ بھی ملتا ہے۔اور اللہ ناراض بھی ہوجاتا ہے۔ آپ نہ یہ گناہ مجھ سے نا کرواؤ۔ کسی اور لڑکی کو دوستی کی آفر دے دو۔ وہ مان جاۓ گی۔ اور میں تو ہوں ہی پاگل میں اچھی دوست ثابت نہیں ہوسکتی۔"

اس نے آنکھیں پٹپٹاتے ہوۓ اپنی مٹھیاں ہی بھینچ گئ۔ جیسے درمان اس کا ہاتھ زبردستی تھام لے گا۔ درمان نے ابرو اچکائیں کہ پہلی بیوی ہے یہ جو اپنے شوہر کو کسی اور لڑکی سے دوستی کی اجازت دے رہی ہے۔ انٹرسٹنگ۔۔!!!

"زرلشتہ شوہر سے دوستی کرنے سے گناہ نہیں ملتا۔ مصیبت۔۔!! میں بھی جانتا ہوں کہ لڑکا اور لڑکی بغیر کسی محرم رشتے کے دوست نہیں بن سکتے۔ یہ اللہ کی قائم کی گئ حدود کے خلاف ہے۔ اور تم تو میری بیوی ہو۔ مجھ سے دوستی کرنے سے تمہیں گناہ نہیں ملے گا۔

 زرلشتہ میرا سچ میں کوئ دوست نہیں ہے۔ اس وقت واحد آپشن تم ہی ہو میرے لیے۔ لیکن اگر تمہیں منظور نہیں تو میں تمہیں فورس نہیں کروں گا۔۔!!"

درمان نے تو آج دوستی کرکے ہی اٹھنا تھا۔زرلشتہ سمجھ گئ۔ اس نے ڈرتے ہوۓ اس کا چہرہ دیکھا ۔

"دیکھنے میں تو بہت سے بھی زیادہ اچھے ہیں۔ ہیں بھی میرے شوہر ۔۔!! پر غصہ بہت کرتے ہیں۔ اللہ انہیں ہدایت بھی دے رہا ہے۔ امیر بھی ہیں ۔!! کیرنگ بھی ہیں تھوڑے سے ۔!!! اگر کوئ فایدہ ہے اس دوستی میں تو وہ جان کر کرلیتی ہوں۔ کہیں انکار پر میری جان ہی نہ نکال دیں ۔ یا اللہ میں تو ہاں بھی نہیں کہہ سکتی اور نہ کرکے مجھے اوپر نہیں جانا۔۔!!!"

زرلشتہ نے حلق تر کیا پھر اس کی نیلی آنکھوں میں دیکھا ۔ 

"کوئ فایدہ ہوگا یا پھر یونہی دل بہلانے کے لیے آفر دے رہے ہیں۔ آپ شوہر ہیں میرے تو میں آفر ریجکٹ نہیں کررہی۔ ورنہ کردیتی ۔..!!! اگر مجھے بھی کوئ فایدہ ہوگا اس دوستی سے تو میں تیار ہوں۔۔!!"

بات ختم کرکے اس نے آنکھیں میچ لیں کہ اب اللہ جانے درمان کیا کہے گا۔وہیں درمان بھی اب فایدہ سوچنے لگا ۔

"میں تمہاری خواہشیں پوری کروں گا، تم سے پیار سے بات کروں گا، غصہ بھی نہیں کروں گا، جہاں کہو گی وہاں گھمانے کے لیے بھی لے کر جاؤں گا۔ چاکلیٹس بھی لاکر دوں گا۔ بہت ساری۔۔!!! جو تم کہو گی سب مانوں گا۔ پر پہلے دوستی شرط ہے ۔۔!!! ہاتھ تھامو میں تمہیں مایوس نہیں کروں گا۔۔!!!"

درمان کی بات سن کر زرلشتہ نے رونی صورت بنائ۔ کہ اب کیا کرے اسے بس اس کے غصے سے ڈر لگتا تھا۔باقی تو درمان اس کے نادان دل کو بھی بھاگیا تھا۔

"ابھی لاکر دیں چاکلیٹس ۔پھر وعدہ رہا دوستی کرلوں گی۔۔۔!!!"

زرلشتہ نے تھک کر کہا۔ جو یہ سب کر دلکشی سے مسکرایا ۔ کہ اس لڑکی کو اس 

حالت میں بھی سکون نہیں ۔ دماغ اب بھی پورا چل رہا ہے اس کا۔

"اگر لادوں تو دوستی ساری زندگی کی ہوگی۔ تم چاہو گی پھر بھی توڑنے نہیں دوں گا ۔!!"

اس نے باؤل اس کے ہاتھوں میں تھما دیا اور اٹھ گیا۔ زرلشتہ نے باؤل دیکھا پھر درمان کو دیکھا۔ یہاں کمرے میں پڑی ساری چاکلیٹس وہ صفا چٹ کرچکی تھی تو اب کوئ ٹینشن نہیں تھی۔

"وعدہ پھر آپ جب تک چاہیں گے میں آپ کی دوست بن کر رہوں گی۔ لیکن اگر آپ نہ لاسکے تو پھر مجھے میرے گھر بھیج دیجۓ گا۔۔!!! اوکے۔۔!!"

وہ بھی عقلمندی سے بولی تو درمان کی مسکراہٹ گہری ہوئ۔ وہ بغیر جواب دیے ڈریسنگ روم میں گیا اور کل رات جو چاکلیٹس وہ لایا تھا وہ لے کر باہر آگیا۔

"دوستی مبارک ہو مسز درمان ۔۔!!! درمان کی زندگی میں خوش آمدید۔۔!!"

اس نے چاکلیٹس کا ڈبہ اس کے سامنے کیا۔

زرلشتہ نے جب چاکلیٹس دیکھیں تو اس کا سر چکرایا۔ کہ جوش میں آکر وہ ایک چاکلیٹ کے ڈبے کے پیچھے خود کو ساری زندگی کے لیے ظالم پٹھان کے ساتھ دوستی کے رشتے میں باندھ چکی تھی۔ اس نے تھوک نگلا۔ سر چکرانے لگا۔

اس کی بند ہوتی آنکھیں دیکھ کر درمان کے بھی ہوش اڑے۔ چاکلیٹس سائیڈ پر رکھ کر اس نے باؤل اٹھایا اور اس کا چہرہ دیکھا جو بس رونے کو تیار تھی۔

"اب آپ پوری زندگی مجھے ٹ۔ٹارچر کریں گے۔ ماریں گے۔ اس کمرے میں قید رکھیں گے۔ کبھی ٹ۔ٹیرس پر لاک کردیں گے۔ چاۓ بنواتے رہیں گے۔ کھانا بھی نہیں دیں گے۔ آپ کی مورے بھی مجھے ذلیل کریں گی۔ بہت گھاٹے کا سودا کردیا میں نے۔

میں صرف دکھنے میں پاگل نہیں لگتی ۔میں ہوں ہی پیدائشی پاگل۔اس چند ہزار کے چاکلیٹ کے ڈبے کے بدلے میں میں نے آپ کو ساری زندگی کی دوستی دے دی۔یا اللہ میں نے کیا کردیا یہ۔۔!!!"

کانپتے ہوۓ اپنی عادت سے مجبور ہوکر اس نے درمان کے ری ایکشن کی پرواہ کیے بغیر جو منہ میں آیا بول دیا۔ پھر چاکلیٹ کا ڈبہ دیکھا۔ جسے وہ شام تک ختم کرسکتی تھی سکون سے ۔درمان کو یہ سب اپنی توہین ہی لگی۔

"میں نے دوستی کی ہے تم سے ۔!!! تمہیں عمر قید کی سزا نہیں سنائ۔۔!!! نہیں کرنی تو نہ کرو۔ پر مجھ سے ڈرو مت۔۔!!میں جیلر نہیں ہوں تمہارا شوہر ہوں۔"

وہ خفا ہوکر جانے لگا۔ اس کی خفگی زرلشتہ کو چبھی تھی۔ اسے درمان اچھا لگ رہا تھا اپنے نیو لک میں ۔

"اچھا وعدہ کریں آپ اپنی مورے سے مجھے بچالیں گے۔ اور ظالم بھی نہیں رہیں گے۔ پھر میں بھی آپ کو تنگ نہیں کروں گی۔ دوستی منظور ہے مجھے ۔!!"

یہ کڑوا گھونٹ زرلشتہ نے بھر لیا۔ درمان نے مڑ کر اسے دیکھا ۔جو اب اس کے جواب کی منتظر تھی۔ اس نے اپنا دایاں ہاتھ اس کے سامنے کیا۔

جو ہچکچاتے ہوئے اس نے پکڑ لیا۔

"میں کیوٹ پٹھان بھی بننے کو تیار ہوں۔ ہاں ظالم والا فیچر ختم ہونے میں وقت لگے گا۔ کیا کروں میں اب ہوں ہی ایسا۔ پر جہاں اتنا تبدیل ہوگیا ہوں تو تھوڑا اور سہی ۔۔!!! چلو اب یہ کھاؤ۔ اور میڈیسن لے کر آرام کرو۔ میں بھی فریش ہوجاؤ ۔ ابھی فکریں ختم کہاں ہوئ ہیں۔۔!!"

وہ واپس بیٹھا اور باؤل میں باقی کا دلیہ اسے کھلانے لگا۔جسے اندر ہی اندر اب اس کی دوستی سے ڈر لگ رہا تھا۔ 

اسے میڈیسن دے کر وہ اس کے سونے کا انتظار کرتا رہا۔ تاکہ فریش ہوکر جرگے میں جاسکے ۔ جہاں اب اسے اس مصیبت کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے لڑنا تھا۔

"جھوٹ ہے یہ سب۔ درمان دشمنی نکال رہا ہے مجھ سے۔ بابا جان میرا یقین کریں میں اس کے بھائ کو اغواہ ضرور کروانا چاہتا تھا۔پر میں ایسا کچھ کر ہی نہیں سکا ۔ اس سے پہلے ہی کوئ اور اسے اغواہ کرکے لے گیا تھا۔ جو میں نے کیا ہی نہیں درمان اس کا الزام کیسے مجھ پر لگا سکتا ہے۔

 اور وہ لوگ میرا نام کیوں لے رہے ہیں میں نہیں جانتا۔۔۔!!!!! میں لاکھ برا سہی پر جو برائ میں نے کی ہی نہیں وہ بھی مجھ پر ڈال دینا کہاں کا انصاف ہے۔۔ !!!"

یشاور تنگ آکر اپنے بابا کے سامنے کھڑا ہوا۔ وہ انہیں وضاحت دینا چاہتا تھا کہ یہ سب اس نے نہیں کیا۔ صبح ہی دلاور خان نے اسے اس پر ثابت ہوۓ الزام اور آج جرگے میں اس کی پیشی کی خبر سنائ تھی جسے سن کر اس کے ہوش مکمل اڑے تھے۔ 

وہ تو ہر کام میں ناکام ہوتا تھا۔ درمان کو مارنے گیا وہاں سے ناکام لوٹا۔فدیان کو اغواہ کرنے گیا وہاں سے ناکام لوٹا۔ پھر وشہ کو اغواہ کروانے کی کوشش پر مار کھا کر مہینہ بستر پر پڑا رہا۔ دوسروں کا محتاج بن کر۔

اور آج بڑے فخر سے یہ بات پورے علاقے میں پھیلی ہوئ تھی کہ اصل ماسٹر مائنڈ یشاور تھا اس سارے کھیل کے پیچھے۔۔ !!!

جو خود صدمے سے باہر نکل نہیں پارہا تھا کہ اس نے کیسے دو مہینے تک اس طوفان کو قید کرکے رکھا۔ اور وہ خود ہی نہیں جانتا۔۔!!!

"تم نے درمان پر حملہ کروایا تھا اور یہ بات مجھ سے چھپا کر رکھی ۔ پھر وشہ کو اغواہ کروانے کی کوشش میں اس رات دیار اور درمان کے ہاتھوں آدھ موۓ ہوکر سوالیہ نشان بنے ۔۔!!!

اور اب فدیان کو بھی تم نے ہی اغواہ کروایا ہے اور لاتعلق بننے کی کوشش کررہے ہو۔ تم نے اپنا جرم بے قصور دیار پر لگواکر اسے پورے علاقے میں رسوا کروایا۔ کیا دیار تمہاری غلطی کی وجہ سے رسوا نہیں ہوا پورے علاقے میں بتاؤ۔تمہارے وہ کراۓ کے کتے پورے علاقے میں چیخ چیخ کر تمہارا جرم بتارہے ہیں کیا یہ بھی جھوٹ ہے۔میری سالوں کی بنائ عزت تم نے دو کوڑی کی کردی۔ اب مجھے ہی بیوقوف بنارہے ہو جیسے میں تو تم سے واقف ہی نہیں ۔!!!"

انہوں نے دونوں ہاتھ پشت پر باندھے پھر یشاور کی اوشن گرین آئیز میں درشتگی سے دیکھتے اسے اس کے جرم یاد کرواۓ۔ اس میں اپنے گناہ بھی شامل کرکے۔ کہ یشاور چند لمحوں کے لیے بولنا ہی بھول گیا۔

"بابا ۔۔!!! میں مانتا ہوں میں ایک نمبر کا گھٹیا انسان ہوں۔ نالائق۔ کمینہ جو چاہیں کہہ لیں۔ پر میں نے آج تک آپ سے کوئ بات نہیں چھپائ۔ میں نے اگر آج تک کسی کا گریبان بھی پکڑا ہے تو آپ کو وہ بات بھی خود بتائ ہے۔ 

بابا اس دن میں نے درمان کو مروانا چاہا تھا پر وہ گلریز اور دیار کی انٹری پھر دیار کی رسوائ قسم لیں لے مجھ سے میں نے کسی کو دیار کا نام لینے کا نہیں کہا تھا۔ میں نے تو دیار کا نام لینے والوں کا منہ توڑ دیا تھا وہ آپ کے دوست کا بیٹا ہے ۔ میں کیسے اسے ذلیل کرواسکتا ہوں ۔ بابا آپ تو یقین کریں مجھ پر میں نے اس فدیان کو اغواہ نہیں کروایا یہ جھوٹ ہے۔۔۔!!!!"

جھنجھلا کر اپنی پیشانی مسلتے اس نے پوری کوشش کی کہ انہیں اپنی بے گناہی کا یقین دلاسکے جو آج کے وقت میں تو تقریبا ناممکن تھا۔ جواب میں دلاور خان نے دروازے کے پاس کھڑے بادل خان کو امید طلب نظروں سے دیکھا۔ اب وہی واحد امید تھی ان کے لیے وہ یشاور کا منہ بند کرواسکتا تھا۔ وہ بھی اچھے سے۔

"تو تم کیا کہنا چاہتا ہے تمہارا باپ نے اس طوفان کو اغواہ کروایا تھا۔ کیا اس نے درمان کو مروانا چاہا تھا۔ کیا وہ اپنا جرم تم پر تھوپ رہا ہے۔۔!! ہاں بولو کیا تمہارا باپ اصل مجرم ہے۔۔۔!!!! ہمارا یار ہمارا دل دار۔ !!! جس نے تم کو اس دوزخ کے رستے پر چلایا ۔ تمہارا معصومیت چھینا۔ تمہارا ہر گناہ میں تمہارا ساتھ دیتا رہا۔تم آج اس کا سامنے ڈٹ کر اسے کمینہ کہہ رہا ہے ۔!!!  تم اپنا باپ کو دو نمبر، آوارہ، کم ذات اور نیچ انسان کہنا چاہتا ہے۔۔۔!!!"

دلاور کا اشارہ سمجھ کر بادل خان فورا آگے بڑھا اور غصے سے یشاور کو دیکھ کر پھنکارا۔ دلاور خان نے آنکھیں میچیں اتنی تذلیل اور صاف گوئی پر۔۔!!

وہیں یشاور بوکھلا گیا۔ ایسا اس نے کب کہا تھا۔

"میں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔اور تم تو چپ ہی رہو بابا کے چمچے۔ !! میرا باپ چھین لیا ہے تم نے۔اور اب خود سے باتیں بڑھا چڑھا کر مجھے ان سے مزید دور کررہے ہو تم۔۔!! بابا جان وہ درمان جھوٹا ہے  جو مجھ پر الزام لگارہا ہے۔ اسے تو آج میں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ آج یا وہ رہے گا یا میں۔۔!!!"

بادل کی باتوں پر وہ غصے سے چیخا بادل نے کانوں پر ہاتھ رکھے اس کی آواز سن کر۔ وہیں دلاور خان خاموش رہے جو کرتا اب بادل ہی کرتا۔

یشاور نے اپنے بابا کو دیکھا پھر وہاں سے جانے لگا جب بادل خان اس کے سامنے آگیا۔

"یہی وقت آنا رہ گیا تھا اب کہ بچہ باپ کو دو کوڑی کا جھوٹا انسان سمجھے۔۔!!!! 

ٹوٹا ہوا شاور تم مجرم ہے۔ بس بات ختم ہوا۔ اب منہ نہ کھولنا تم۔۔۔!!! 

بس جرگہ میں اپنا اس منافق زبان سے اپنا منافقت کا فرفر اقرار کرنا ہے تم کو بس۔۔۔!!!

پھر پھانسی کا پھندا جانے اور پھندا کھینچنے والا جانے ۔۔ !!!"

بادل نے ڈرامائی انداز میں کہا جب پھانسی کے پھندے کا سن کر یشاور نے اپنے گلے پر ہاتھ رکھا۔ دلاور خان نے بادل کو گھورا کہ وہ اسے ڈرا کیوں رہا ہے۔ وہ ان کا اکلوتا بیٹا تھا اسے مرنے تو وہ کبھی نہ دیتے۔

"بادل اسے ڈراؤ مت ۔!! اور یشاور تم بھی پرسکون رہو۔ تمہارے گناہ آج تک میں چھپاتا آیا ہوں اور آگے بھی تم پر آنچ نہیں آنے دوں گا۔ تم بس اپنا جرم قبول کرکے معافی مانگ لینا۔ پھر میں جانوں اور میرا کام جانے۔۔!!!

پاسہ کیسے پلٹنا ہے مجھے اچھے سے آتا ہے۔ اب تم جاؤ اور جاکر اپنا حلیہ درست کرو۔ ہمیں جرگے کے لیے نکلنا یے۔اور وہاں کوئ فضول بات نہ بولنا تم ۔۔!!!"

انہوں نے اس کا رخ اپنی طرف کیا جو لب بھینچ کر چہرہ موڑ گیا۔ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ یوں کبھی کسی ناکردہ جرم پر اس کا سر جھکے گا۔وہ اپنے باپ کی دولت پر عیش کرنے والا انسان تھا جسے بچپن سے ہی اس کے والد نے مغرور اور اناپرست بنادیا تھا۔ نہ صحیح غلط کی تمیز نہ خدا کا کوئ خوف تھا اس میں۔۔!!

پر آج بے بنیاد الزامات سن کر اس کا دل واقعی درمان سے مزید نفرت کرنے لگا تھا۔ جو اب بھی اسی کا دشمن بناہوا ہے۔ جب یشاور نے خود ہی ہتھیار ڈال کر اس کے راستے سے اپنا رستہ ہی الگ کرلیا ہے تب بھی ۔!!!

"صحیح ہے مان لیتا ہوں میں۔ وہ دو قتل بھی، درمان پر حملہ بھی حالانکہ اس کے لیے بھی اکسایا آپ نے تھا مجھے۔ دیار پر لگے الزامات بھی اپنے کھاتے میں ڈال لیتا ہوں میں، گلریز کے جرم بھی مجھ پر ڈال دیں۔ اور بھی جو جو مل رہا ہے مجھ پر ڈال دیں ۔کچھ نہیں بولوں گا میں۔ پر اس کے بعد مجھ سے کسی کام کی امید نہ رکھیے گا آپ۔۔!!!

یہ بادل خان ہے نہ آپ کا چمچہ۔۔!!! آپ کا چاپلوس آپ کا رائیٹ ہینڈ۔۔!!! 

اسی سے کام چلائیں اب۔۔!! کیا زمانہ آگیا ہے۔ بے قصور ہونے کے باوجود مجھے ہی کتا، کمینہ ثابت کیا جارہا ہے۔یشاور نہ ہوگیا سچ میں ٹوٹا ہوا شاور ہوگیا میں۔ اس سے تو اچھا تھا کہ میں ہی فدیان کو مروادیتا کم از کم مجھے پتہ تو ہوتا کہ میں مجرم ہوں۔!!"

کلس پر کہتے وہ سائیڈ سے ہوکر باہر نکل گیا۔ پیچھے دلاور خان نے ابرو اچکائیں کہ یہ اتنا حساس کب سے ہوگیا۔بادل بھی مسکراہٹ روک رہا تھا۔ یہی تو وہ چاہتا تھا کہ یشاور بھی دلاور خان کا ساتھ چھوڑ دے۔ اور صرف وہی ایک بچے دلاور کا واحد ہمدرد ، اس کا ہمراز بن کر۔ !!!

"یہ تمہارا اپنا بچہ ہے یا کسی سے مانگا تھا تم نے۔۔!! دل خانا۔۔!! اس میں تو تھوڑا سا شرم اور غیرت اب بھی بچہ ہوا ہے۔ورنہ تم تو یہ دونوں چیزیں بیچ کر کھاچکا ہے۔ ہاں وہ بھابھی کا بھی تو خون ہے نہ اس میں اس کا بھی تو اثر ہونا ہی تھا نا یارا ۔!!

چل پھر ہم بھی چلتا ہے اور تم بھی آجانا۔ اور اس کا منہ تو اچھے سے بند ہوا ہے اب یہ ادھر بھی چپ ہی رہے گا۔

نالائق کہیں کا آج تک تمہارا کام تو آیا نہیں یہ اب چلا ہے تم کو ہمارا نام کا طعنہ دینے۔ جل ککڑا۔۔!!"

منہ بناتے ہوۓ بادل خان نے دلاور خان کو دیکھا ۔ پھر یشاور کو یاد کرکے وہ بھی اسی کے انداز میں ہنکار بھر کر چلا گیا۔پیچھے دلاور خان نے پیشانی پر ابھرا پسینہ صاف کیا جو اتنی بےعزتی کے بعد اکثر ان کے ضبط کی وجہ سے چمک اٹھتا تھا۔

"یہی تو دکھ ہے اس میں اس کی ماں کا بھی خون شامل ہے۔ جو کبھی بھی جوش مارسکتا یے۔پھر یہ مڑکر بھی مجھے نہیں دیکھے گا۔ اسی لیے تو اس کے پیدا ہونے سے لے کر اب تک میں نے اسے اپنے رنگ میں رنگنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ اور رنگ بھی چکا ہوں مکمل۔۔!!!

  تھوڑی سی شرم جاگی ہے اس میں ابھی وہ بھی کل تک واپس ابدی نیند سوجاۓ گی۔ پھر یہ درمان نامی کانٹا اپنی انا کی تسکین کے لیے خود راستے سے ہٹاۓ گا ۔۔!!"

وہ پراسرار سا مسکراۓ ۔اپنی تربیت پر پورا یقین تھا انہیں ۔اور یقین بجا بھی تھا۔ اس بے عزتی کے بعد یشاور کیوں چپ رہتا۔ انہیں یقین تھا وہ بدلہ ضرور لے گا درمان سے۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

جرگے کے لیے تیار وسیع و عریض میدان کی زمین جو تھی ہی تقریبآ بنجر محض انا کی تسکین کے لیے یہاں جو فیصلے ہوتے تھے انہوں نے اس کی زرخیزی ہی چھین لی تھی ۔پر درمیان میں بڑا سا برگد کا درخت لگا تھا جس نے آج تک کئ بے گنہاہوں کو سسکتے ، روتے اور تڑہتے ہوۓ کسی کے جرم میں پیش ہوتے دیکھا تھا۔ وہ چشم دید گواہ تھا ہر بے گناہ کی فریادؤں کا اور طاقت وروں کی طاقت کے زور کا ۔!!!

اسی درخت کے ساۓ میں زرلشتہ کی زندگی کا فیصلہ ہوا تھا اور آج بھی یہاں کئ زندگیوں کو ہلانے کا بندوبست پوری طرح کیا گیا تھا۔

قبائلی علاقوں میں رائج ان فرسودہ رسومات کے حوالے سے یورپی یونین کے تحت کام کرنے والے ادارے ’انٹی گریٹیڈریجنل انفارمیشن نیٹ ورکس ‘ نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق پاکستان 21ویں صدی میں رہنے کے باوجود فرسودہ رسومات کا غلام ہے۔ اس رسومات میں سرفہرست” سوارا“ہے۔جسے آسان زبان میں ونی کہا جاتا ہے۔ اور یہ آج تک رائج ہے۔ 

ونی کی گئ لڑکیوں کو جبری شادی کے پردے میں دوسرے قبیلے کے سامنے صلح کے لیے پیش کردیا جاتا ہے اور معاملہ ختم کردیا جاتا ہے۔ جو ناصرف انسانی حقوق کے خلاف ہے بلکہ اسلام کے قوانین کے بھی خلاف ہے۔اسلام میں عورتوں کو بھیڑ بکریاں نہیں سمجھا جاتا جو کسی کے گناہ یا حرجانے میں پیش کی جائیں۔ پر یہ بات سمجھتا بس کوئ کوئ ہے 

 افسوس آج بھی کئ قبائلی علاقوں میں بڑی خاموشی سے ان افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے جو اس رسم کے خلاف بولیں ۔

 2004ء میں ونی یا سوارا کے خلاف پارلیمنٹ نے باقاعدہ قانون سازی کی اور تعزرات پاکستان اور پاکستان پینل کوڈ کے قوانین میں ترمیم کی گئیں جس کے تحت اسے قابل جرم قرار دیتے ہوئے پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 310اے کا اضافہ کیا گیا جس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ خواتین کو” بدل صلح“ کی شکل میں پیش کرنا قانوناً جرم ہے جس کی سزا کم از کم تین سال اور زیادہ سے زیادہ 10سال ہوگی۔

لیکن اس پر عمل درآمد کروانا مشکل نہیں ناممکن ہے کیونکہ اثر و رسوخ رکھنے والے لوگ آسانی سے یہ سب کرکے اس پر پردہ بھی ڈال دیتے ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہو۔ اور بولنے والا ابھی ابدی نیند سوجائیں۔

 •┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

دوپہر ڈھلتے ہی وہاں دونوں علاقوں کے معززین آنا شروع ہوچکے تھے۔ پورے علاقے میں یہ بات پھیل چکی تھی کہ دیار بے قصور تھا ۔اس پر تہمت لگائی گئی اور لگانے والا اس علاقے کے دوسرے بڑے معزز انسان دلاور خان کا بیٹا یشاور خان ہے۔ جس نے محض بغض کے چلتے درمان پر حملہ بھی کروایا اور پھر دیار کو مجرم ثابت بھی کروادیا۔ جبکہ فدیان بھی اسی کے ہاں سے ملا ہے۔ 

سردار غیث نے ان تینوں غداروں کا اعترافی بیان سنا جو دیار کے آدمیوں میں شامل تھے۔

سب واضع ہونے کے بعد انہوں نے اب فیصلہ سنانا چاہا۔جو اب خاصہ دلچسپ ہونے والا تھا۔

"آج دیار زوۓ کی بے گناہی سب کے سامنے ثابت ہونے کے بعد ہم اصل گنہگار تک پہنچ چکے ہیں۔جو یہی۔ بیٹھا ہے۔۔۔!!!  آج میں پورے جرگے کے سامنے دیار کو ہر الزام سے بری الزمہ قرار دیتا ہوں۔ جو کردار کشی اس کی کی گئ جو بدنامی اس نے ان دو مہینوں میں سہی ہے اب بے گناہی ثابت ہونے پر دونوں علاقوں کے لوگوں کے سامنے اس کا جھکا سر پھر سے اٹھ چکا ہے۔

 کچھ دن بعد دونوں علاقوں کے لوگوں کو جمع کرکے اسے اس کا پہلے والا مقام واپس لوٹایا جاۓ گا۔ پورے مان کے ساتھ۔۔!!! 

اور یہ حکم بھی جاری کرتا ہوں کہ کوئ بھی شخص اب کوئ پرانی بات نہیں دہراۓ گا۔ جس نے جو جو تہمت بچے پر لگائ ہے بہتری اسی میں ہے کہ اس سے معافی مانگ کر اپنی آخرت تباہ ہونے سے بچا لے۔ !! 

باقی اس جرم کی سزا یشاور کو ضرور دی جائے گی تاکہ آئندہ کوئ بھی شخص ایسا کام کرنے کے بارے میں سوچے بھی نہ ۔!!"

سردار غیث نے فیصلہ سنانا شروع کیا۔ پہلے انہوں نے دیار کو دیکھا جس کی نظروں کا رخ ہی دوسری سمت تھا اسے اب ملنے والی عزت افزائی میں رتی برابر بھی دلچسپی نہیں تھی۔

البتہ جب انہوں نے یشاور کو دیکھا تو اس کا حال بھی مختلف نہ تھا لب باہم پیوست کیے وہ سر جھکاۓ اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں ملا کر خاموش بیٹھا تھا۔

البتہ درمان صاحب کے ذہن میں اس وقت بھی چل رہا تھا کہ دوپہر ہوگئ ہے پتہ نہیں زرلشتہ اٹھی بھی ہوگی یا نہیں ۔اسے بھوک تو نہیں لگی ہوگی ۔ اسے درد تو نہیں ہورہا ہوگا۔ کہیں وہ رو تو نہیں رہی ہوگی۔۔۔!!!

عشق کا آغاز درمان کرچکا تھا اب بس انتہا کا انتظار تھا۔

"آپ کچھ بھول رہے ہیں سردار صاحب۔۔!! بات صرف میری بے گناہی یا یشاور کے جرم کی نہیں ہے۔ میری طرف سے مجھ پر لگے الزام ویسے ہی لگے رہنے دیں ۔مجھے اب ان لوگوں کی نظروں میں باعزت بننے میں کوئ دلچسپی نہیں جو بس قیاس آرائیوں پر یقین کرکے کسی کی سالوں کی عزت مٹی میں ملا سکتے ہیں ۔

میں نے ابھی اسی وقت ہر اس شخص کو دل سے معاف کیا جس نے میری دل آزاری اور کردار کشی کی تھی۔ میں اپنے اللہ کے سامنے شروع سے سرخرو تھا بس یہ کافی ہے۔

یہاں بات اس معصوم سے وجود کی ہے جسے بس آپ نے امن قائم رکھنے کے لیے دشمنوں کے حوالے کرگیا تھا۔ اب اسے سرے سے فراموش کررہے ہیں۔ مجھے میری بہن واپس چاہیے جو درمان کو ونی میں دی گئ تھی۔ پھر میری طرف سے بات ختم۔۔!!! 

میرا مطالبہ مانا جاۓ مجھے بس اپنی بہن چاہیے۔۔!!!"

دیار جو رخ موڑ کر بیٹھا تھا اب سردار غیث کو دیکھ کر لفظوں پر زور دے کر بولا۔ اس خوش اخلاق شخص کا یہ لہجہ سن کر وہاں بیٹھے سب نفوس ساکت رہ گۓ۔ اس کا لہجہ اجنی تھا۔ اسے سچ میں اب کسی سے کوئ مطلب نہیں تھا۔

چونک تو درمان بھی گیا۔ اس نے بے یقینی سے درمان کو دیکھا۔نیلی آنکھوں میں حیرت تھی کہ وہ کیسے یہ بے تکا مطالبہ کرسکتا ہے ۔

بہراور درانی تو دراب آفریدی کو جانتی نظروں سے دیکھ رہے تھے جنہوں نے بھرے مجمعے میں انہیں بے بسی کی حدوں تک پہنچایا تھا۔

"وہ ونی میں نہیں آئ نکاح میں ہے میرے۔ یہاں بیٹھے سارے لوگوں کے سامنے میں اسے بیوی بناکر یہاں سے لے کر گیا تھا وہ عزت ہے میری۔ اس کا ذکر اس مجمعے میں نہ کرو تو بہتر ہوگا۔ 

یہاں کوئ مزاق نہیں ہوا جو کل کو میرا نکاح ایک لڑکی سے ہوا تھا اور آج کہا جارہا ہے میں اسے واپس کردوں ۔وہ انسان ہے کوئ کھلونا نہیں ہے۔ نہ میں اتنا بے غیرت ہوں جو اپنی عزت کا فیصلہ یہاں بیٹھے کسی بھی شخص کو کرنے دوں گا۔ اسے تو سردار غیث کا فیصلہ بھی مجھ سے نہیں چھین سکتا ۔ سن لیں یہاں سب میں اپنی بیوی سے دستبردار نہیں ہونے والا..!!"

درمان دبی دبی آواز میں غرایا  اس کی رگیں تن گئیں۔ کوئ کیسے اس کی جان سے عزیز بیوی اس سے دور کرنے کا سوچ بھی سکتا ہے 

وہیں دیار کا غصہ بھی بڑھا ۔

"وہ سگی بہن ہے میری کوئ کھلونا نہیں ہے جسے سب نے بے حس بن کر تمہارے حوالے کردیا تھا اور تم نے مجھے اس کی صورت دیکھنے کے لیے ترسا دیا ہے۔ میں تو یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ زندہ بھی ہے یا تمہارے گھر والے اسے پل پل مار رہے ہیں۔

 بس بہت ہوگیا یہ تماشہ۔ سردار صاحب آج یہ معاملہ یہی ختم کریں۔ میری بہن ابھی اسی وقت مجھے واپس دیں میں دوبارا اس علاقے کی طرف رخ بھی نہیں کروں گا۔ پھر اپنی یہ جہالت بھری رسمیں سب مل کر نبھاتے رہیے گا۔ بہت ہوگیا ہے یہ کھیل ۔!!

 اسلام میں بھی کسی بہن کو اس کے بھائ سے ملنے سے نہیں روکا جاتا، اسے نکاح کے نام پر قید نہیں کیا جاتا اور یہ سب سامنے بیٹھے لوگوں نے کیا ہے۔ میں مزید اب کچھ بھی برداشت نہیں کروں گا۔۔!!!"

دیار نے بھی وہی بات دہرائی وہ سنجیدہ تھا۔ اس کا انداز بتارہا تھا کہ وہ آج اپنی بات منواکر ہی یہاں سے جاۓ گا۔ وہیں جرگے میں بیٹھے نفوس ششدر تھے کہ شاید ان کی کئ سو سال پڑانی اس روایت میں آج پہلی بار طلاق بھی ہوہی جاۓ گی کیا۔۔!!!!

درمان نے مشکل سے اپنے غصے کو ضبط کیا۔ بہت مشکل تھا بار بار زرلشتہ سے دور جانے کی بات سوچنا بھی۔وہ غصے سے اٹھا اور دیار کا گریبان دبوچ لیا۔ اپنی خون چھلکاتئ آنکھیں مقابل کی اذیت سے چور آنکھوں میں گاڑ کر وہ ماحول میں سکوت برپا کرگیا ۔

"بار بار ایک ہی بات کو مت دہراؤ دیار۔۔!!! میں کہہ چکا ہوں کہ اپنی عزت کا ذکر میں اس جرگے میں نہیں چاہتا تو تم کیوں بار بار ایک ہی رٹ لگارہے ہو ۔۔!!! کیا چاہتے ہو تم۔۔ !!!"

وہ غرایا۔ دیار غصے میں بھی اپنے آپے سے باہر نہیں ہوتا تھا تبھی لب بھینچ کر اس نے اپنے گریبان پر رکھے اس کے دونوں ہاتھ ہٹانا چاہے۔

جرگے میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں کہ اب کون جیتے گا ۔پہلے درمان یہ نکاح کرنا ہی نہیں چاہتا تھا اور اب نکاح ختم نہیں کرنا چاہتا وہ چاہتا کیا ہے آخر۔

"شاباش بچو۔۔!!! لڑو مزید لڑو تم آپس میں ۔ ایک دوسرا کا گریبان چاک کردو۔منہ نوچ دو۔ یا قتل ہی کردو ایک دوسرا کا۔ خانہ خراب۔۔!!! عجیب منطق ہے دونوں کا دوستی میں بھی یہ جنونی تھا اور دشمنی میں بھی یہ جنونی ہے۔ اچھا ہوتا کہ ہم ساتھ میں پاپ کارن کا پیکٹ ہی لے آتا تاکہ اس ایکشن مووی سے ہم کو لطف اٹھانے کا موقع تو مل جاتا ۔!!!"

بادل عین دلاور آفریدی کے پیچھے کی نشست پر بیٹھا تھا۔ اس لڑائ سے لطف اندوز ہوتے ہوۓ وہ دل ہی دل میں بولا۔ البتہ یشاور کو ان دونوں میں کوئ دلچسپی نہیں تھی۔ وہ چپ ہی تھا۔ اور بہراور درانی کی نظریں چہرہ دوسری طرف پھیر کر بیٹھے دراب آفریدی پر ٹکی تھیں۔

"بس بہت ہوگیا بیٹھ جاؤ دونوں واپس۔۔!! اگر سارے فیصلے تم دونوں نے خود ہی کرنے تھے تو پھر اس جرگے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ توڑ دیتے ایک دوسرے کا منہ اور ختم کردیتے سارا معاملہ۔ واپس بیٹھو ورنہ دونوں کے ساتھ برا ہوگا ۔۔!!"

ان کی لڑائ دیکھ کر سردار غیث نے حکم دیا ۔ ان کی آواز سن کر درمان نے خود ہی دیار کا گریبان چھوڑا اور اپنی نشست پر واپس بیٹھ گیا۔ اسے امید تھی کہ اس کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی ۔

"پھر ہماری رسوائ کا کیا سردار ۔!!! یہ انصاف نہیں ہے۔ ہماری بچی کو بھرے جرگے میں لاکر ہماری عزت تار تار کی گئ تھی۔ جسے ونی کا مطلب نہیں پتہ تھا اسے ظلم کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ اور اب جب ہم بے گناہ ثابت ہوگۓ تو آپ کوئ مناسب فیصلہ سنانا ہی نہیں چاہتے۔ 

صرف دیار کے اعزاز میں کوئ تقریب رکھ لینا یا پھر یشاور کو کڑی سزا دے دینا کافی نہیں ہوگا۔ جیسے دراب آفریدی نے میرے گھر کی عزت اس جرگے میں بلائ تھی اب ویسے ہی مجھے انصاف بھی چاہیے۔ انصاف کریں آج ورنہ مجھ سے کوئ بھلائ کی امید نہ رکھے۔ "

اپنی چپ توڑ کر بہراور درانی اٹھ کھڑے ہوۓ۔ بغور دراب آفریدی کے تاثرات دیکھتے انہوں نے سرد لہجے میں معاملے کو ایک نیا رخ دے دیا۔درمان کو تو ان باپ بیٹے کے مطالبے پر ہی غصہ تھا پر اب ایک دفعہ پھر ونی کی بات ۔ !!!

وہ کچھ بھی سمجھ نہ سکا۔

"زرلشتہ کو واپس لانے کے لیے مجھے ملک کی عدالتوں میں کیوں نہ جانا پڑا میں جاؤں گا۔ میری بیٹی ونی ہوئ ہے وہ بھی ذبردستی ۔سوارا کی سزا پاکستان کے قانون میں کیا ہے سردار صاحب بھی جانتے ہیں۔۔!!! 

میں چاہوں تو اس جرگے میں بیٹھے ایک ایک شخص کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دوں۔ اب فیصلہ آپ کریں یا ہمیں بھی ونی دیں یا پھر رسوائ کے لیے اور خبروں کی زینت بننے کے لیے سب کے سب تیار ہو جائیں ۔!!"

دراب آفریدی کی نظریں بھی بہراور درانی کے چہرے پر پڑیں۔ چہرے کا رنگ فق ہوا۔ کہ یہاں ہوکیا رہا ہے۔ ایک اور ونی۔۔۔!!!! وہیں سردار غیث تو اس دھمکی پر ہکا بکا تھے۔ کہ یہ لوگ پاگل ہوچکے ہیں۔جو دھمکا کر ان سے بات منوانا چاہتے ہیں۔

 دیار بھی جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس بات نے اس کا سر گھمادیا تھا۔

"بابا میں یہاں ایک غلطی سدھار رہا ہوں اور آپ یہاں ان لوگوں سے ایک اور ونی مانگ رہے ہیں۔ میری منگنی ہوچکی ہے کچھ دن بعد نکاح ہے میرا تو یہ مطالبہ واپس لیں۔ البتہ عدالت والی بات کے لیے میں بھی تیار ہوں۔ اچھا ہے نہ یہ رسم جڑ سے ہی ختم ہوجاۓ۔۔!!!"

سرگوشی نما انداز میں دیار نے انہیں روکنا چاہا۔ 

جو آج لوگوں کو نظروں سے ہی نگلنا چاہتے تھے ۔

انہوں نے دلاور خان پر سخت نگاہ ڈالی۔جو اپنی سوچوں میں گم تھے۔

"وہ رشتہ تو تم ختم سمجھو۔ جس شخص کے بیٹے نے میرے بیٹے کو بدنام کرکے رکھ دیا ۔ میری عزت تار تار کردی۔ اب اسی کی بیٹی کو میں اپنے اکلوتے بیٹے کی بیوی بناؤں گا کبھی نہیں ۔ !!!! اس خاندان سے مجھے کوئ رشتہ نہیں جوڑنا۔

البتہ درمان کی بہن بہتر آپشن ہے ہمارے لیے  یوں ہماری زرلشتہ کو بھی وہ لوگ ہاتھ نہیں لگائیں گے۔ اچھا ہے جو میں کررہا ہوں مجھے کرنے دو ۔۔!!"

انہوں نے فیصلہ سنایا تو دیار نے آنکھیں میچ کر اللہ سے صبر مانگا ۔ سب اسے پاگل کرنا چاہتے تھے۔ باقی لوگ متجسس تھے کہ یہ لوگ آخر کیا راز و نیاز کررہے ہیں.درمان کا پارہ ہائ ہوچکا تھا کہ یہ اس کی بہن کیسے ونی میں مانگ سکتے ہیں۔

"بابا میں اب صبر نہیں کروں گا۔ میں زندہ نہیں چھوڑوں گا ان لوگوں کو اب اگر کسی نے میری بیوی یا بہن کا ذکر بھی کیا تو۔ کیا یہاں کوئ مزاق ہورہا ہے۔ یہ نہ ہوا تو ونی دے دو۔ بے عزتی ہوگئ تو ونی دے دو۔ تعلق خراب ہورہا ہے ونی دے دو۔ ہمارے ساتھ ظلم ہوا ونی دے دو۔

آخر یہ ونی کی رسم بنائ کس سیانے نے تھی ۔!!! منحوس خود تو مرگیا بیچاری لڑکیوں کو زمانے میں رسوا ہونے کے لیے چھوڑ گیا۔ زلیل کہیں کا ۔!!!"

درمان نے دانت بھینچے۔ دراب آفریدی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے اٹھنے سے روکا ۔قسمت انصاف ضرور کرتی ہے۔ جیسے کبھی انہوں نے ان سے ونی مانگی تھی اور آج وہ ونی مانگ رہے تھے۔وقت پلٹا کھارہا تھا۔

"درمان تم عقل سے پیدل کیوں ہوگۓ ہو۔ اپنے آباو اجداد کو یہ سب کہنا کیا درست ہے۔ یہ رسم صدیوں سے چلتی آرہی ہے اور جرگہ بیٹھا تو ہوا ہے یہاں جو فیصلہ ہونا ہوا ہوجاۓ گا۔۔ !! تم چپ ہی رہو۔"

انہوں نے اسے گھورا۔ جو دانت کچکچاکر رہ گیا۔

"درمان کہاں کا بہترین انتخاب ہے ۔۔!! وہ سرپھرا کونسا میری راہ میں پھول بچھاۓ گا یا ہمارے استقبال میں زمین آسمان ایک کردے گا ۔

ہمارے مراسم ان لوگوں کے ساتھ زیادہ برے ہیں۔ انہوں نے ہمیں رسوا کیا تھا۔

 بابا یہ مطالبہ نہ کریں آپ۔ میں اس یشاور کو ہی اپنا سالا بنالوں گا۔پر درمان نہیں ۔۔!! مجھے کھائ میں دھکا نہ دیں ۔ وہ درمان تو مجھے اس ہوا میں سانس بھی نہ لینے دے ۔وہ کیا میں تو خود اس ہوا میں سانس نہ لوں جس میں وہ ہے تو پھر اس کی بہن سے نکاح ناممکن۔۔!!!! "

دیار نے آخری کوشش کی۔ اسے یشاور سے تعلق جوڑنا درمان کے مقابلے میں صحیح لگا۔ پتہ نہیں کیوں پر اسے درمان کی بہن کو ونی میں لانا گوارہ نہیں تھا۔ آخر دوست کی غیرت کو وہ کیوں ونی میں لاتا۔ !!!

"بس فیصلہ ہوگیا۔ اگر یہ بات یہیں ختم کرنا چاہتے ہیں آپ. تو آپ کو دراب آفریدی کی بیٹی کا نکاح اس بے عزتی کی تلافی کرنے کے لیے میرے بیٹے دیار درانی سے کرنا ہوگا جو ان لوگوں کے بے بنیاد شک کی بنا پر ہم لوگوں نے سہی۔ جیسے میری معصوم سی بچی بس ان لوگوں کی انا کی تسکین کے لیے ان کے ہاں گئ ہے ویسے ہی اب ہماری جگ ہنسائی کی تلافی بھی کی جاۓ۔

 ورنہ زرلشتہ ہمیں واپس چاہیے۔ کیا ہوا اگر آج تک ہمارے آباؤ اجداد میں  طلاق جیسا لفظ دہرایا بھی نہیں گیا۔ اب زمانہ بدل گیا ہے درمان ایک پڑھا لکھا لڑکا ہے دنیا کی جدیدیت سے واقف ہے یہ تو یہ آسانی سے میری بیٹی کو طلاق دے سکتا ہے۔ اب فیصلہ آپ کریں یا ونی دیں یا پھر میری بیٹی مجھے واپس دیں۔۔!!!"

بہراور درانی نے دراب آفریدی کی جلتی آنکھوں کو دیکھتے اپنی پچھلی رسوائ کو یاد کیا۔ پھر کسی چٹان جیسے لہجے میں سردار غیث کو دیکھتے اپنا مطالبہ پیش کردیا۔ دیار بے گناہ ثابت ہوچکا تھا تو اب وہ لوگ بھی اپنی بی عزتی کا بدلہ چاہتے تھے۔

البتہ اپنی نشست سنبھالنے سے پہلے انہوں نے اپنے اکلوتے داماد درمان کا چہرہ بھی ضرور دیکھا تھا جہاں طلاق کا لفظ سنتے ہی شعلے بھڑک اٹھے تھے ۔

"ظلم صرف بہراور کے ساتھ نہیں ہوا۔ ہمارے ساتھ بھی ہوا ہے۔ اگر بہراور کی اولاد کی زندگیوں میں ہلچل مچی تھی تو سکون میں میرے بچے بھی نہیں تھے۔ ہمارے مجرم کو بھی سزا دی جاۓ۔ یشاور مجرم ہے ہمارا ۔۔۔!!"

دراب آفریدی نے موضوع بدلنا چاہا۔ اپنی جان سے پیاری بیٹی کا تذکرہ ونی کے لیے سن کر ان کے دل میں کچھ چبھا تھا۔ انہیں یاد آیا کہ کیسے بہراور درانی کو بھی انہوں نے یہی تکلیف دی تھی۔ بیٹی تو بہراور درانی کو بھی اپنی بے حد پیاری تھی۔

"میں مانتا ہوں میرے بیٹے نے غلط کیا۔ اور وہ شرمندہ بھی ہے۔ ہم ہر قسم کی تلافی کے لیے تیار ہیں۔ میں اپنی بیٹی ونی کے طور پر دراب آفریدی کے بیٹے کو دینے کو تیار ہوں۔ مجھے کوئ اعتراض نہیں بھلے وہ اس کا نکاح درمان سے کردے یا فدیان سے ۔!!!

یہ لڑائ جو شروع ہوئ ہے اسے ختم کرنے کو میں جو کرسکا کروں گا۔ آپ بس حکم کریں ۔!!"

معاملہ بگڑتا دیکھ کر شیر خان نے مخلص بننے کی ساری حدیں پار کرنے کی کوشش کرنا چاہی۔ ہر پاس کھڑے بادل خان کو تو یہ خود غرض ہی لگا تھا۔البتہ یشاور کو اس موضوع میں۔ کوئ دلچسپی نہیں تھی۔ وہ تو سوچ چکا تھا کہ اب اس کے باپ کو یہ بادل خان ہی مبارک ہو۔

وہ اب دوبارا ان سے بات بھی نہیں کرے گا ۔

"کمینہ کہیں کا۔ کیسے کتے کی دم جیسا سیدھا بن رہا ہے یہ ۔یہ دلاور خان نہیں ہم کو تو کوئ منجھا ہوا سیاست دان لگ رہا ہے۔ پل میں رنگ بدلتا ہے یہ۔ ۔۔!!! گلا ہوا ٹماٹر کہیں کا۔ !!!! اور ان درانی اور آفریدی کا قبیلہ کا تو دیکھو ۔ سب ونی ایسے مانگ رہا ہے جیسے مزار پر رکھی دیگ سے ایک شاپر شاولوں کا مانگ رہا ہو۔ کوئ احساس نہیں ان پیسے کے بچاریوں کو معصوم سی بچیوں کا۔ "

بادل نے اس بحث کو سن کر منہ پیچھے کرکے استغفار کہا۔ یہ لوگ تو اسے بھی حیران کررہے تھے۔

"زما خدایا ہم کو تو معاف کر دینا ہم اب کیا کرتا ہمارا بدلہ کا راہ میں یہ ایٹم بم،کلاشنکوف ، چلتے پھرتا میزائل رکاوٹ بن رہا تھا تو ہم ان کو ٹھکانہ لگا دیا۔

اب فدیان سنبھالے گا معصومہ کو اور دیار کو تو وہ وشہ ہی سنبھالے گا۔ یارا جب اس جیسا شیرنی کو یہ ونی میں لاۓ گا تو وہ اس سے پیار سے بات کرکے اس کا نظر اتارنے سے اور اس کا آگے پیچھے پھر کر خیال رکھنے سے تو رہا۔ دیار زوۓ برا وقت شروع ہوتا ہے تمہارا اب ۔اس کا ذمہ دار ہم نہیں وہ عوام ہوگا جو تئیس قسطوں سے تمہارا اور اس پٹاخہ لڑکی کا نکاح کرنے کا نعرہ لگا رہا تھا۔اب تو وہ بھی خوش ہوہی جاۓ گا۔ !!! ویسے سکون میں تو وہ سپیس شپ فدیان بھی نہیں رہے گا۔ کروڑوں جو ہم اس پر لگایا ہے اب وصولنے کا بھی وقت آگیا ہے 

بادل خان ویسے تم نے اچھا نہیں کیا۔ پر یہ سب تھا تو اسی قابل ہی۔۔!!!"

بادل نے کندھے آچکا دیے ۔ جو ہورہا تھا صحیح ہورہا تھا۔ درمان نے گہرا سانس بھرا ایک اور ونی۔۔۔!!!!!

"یا اللہ کیا ہورہا ہے یہاں۔۔!!! کیا یہ لوگ پورے علاقے کو ونی کریں گے۔ جس نے بھی یہ رسم بنائ تھی نہ بیڑا غرق ہو اس کا۔۔!!

پہلے زرلشتہ کے ساتھ ظلم ہوا اب جب مجھے عقل آگئ تو نئ کہانیاں کھل گئیں یہاں پر۔

فدیان پاگل ہوجاۓ گا یہ سن کر کہ یشاور کی بہن کا نکاح اس سے کیا جارہا ہے ۔!!"

سردار غیث نے اب ان سب لوگوں کو دیکھا۔

کسی کو معافی چاہیے تھی تو کسی کو تلافی۔۔!!

کسی کو بہن واپس چاہیے تھی اور کسی کو بیوی کا تذکرہ بھی یہاں سننا گوارہ نہیں تھا۔ اب تو آخری فیصلہ وہی کرتے کہ آخر ایسا کیا کہا جاۓ کہ یہ سب خاموش بھی ہو جائیں اور علاقے کا امن بھی قائم رہے ۔

البتہ جرگے کے لوگ سردار غیث کو اس مسئلے میں پھنسا دیکھ کر دبی دبی مسکراہٹ لیے فیصلے کے منتظر تھے۔سب کو اپنے اشاروں پر نچانے والا سردار اب تینوں فریقین کے بیچ پھنس چکا تھ

"ہم نے جب ونی مانگی ہی نہیں تو کیوں آپ اس بات کو غلط رخ دے رہے ہیں۔۔!!! ہمیں معاملہ یہیں ختم نہیں کرنا۔ یشاور ہمارا مجرم ہے۔ اسے سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے۔۔!!! یہاں انصاف ہونا چاہیے۔ نا کہ سالوں پرانی اس دقیانوسی ونی کی روایت کو ہمیں نبھانا چاہیے۔تو موضوع پر رہ کر بات کریں دلاور خان۔!!!!! "

درمان نے دلاور خان اور اس کے ساتھ اپنی ہی سوچوں میں گم یشاور خان پر گہری نگاہ ڈالتے خاصے جتاتے انداز میں کہا۔ اسکے چہرے کا رنگ ضبط سے سرخ ہوتا گیا۔ کنپٹی کی رگیں پھڑکنے لگیں۔ یہاں بات صرف بگڑ رہی تھی۔

"درمان بچے۔۔!! آپ آسانی سے ہمارے آباؤ اجداد کی امن کی خاطر قائم کردہ ونی کی رسم کو دقیانوسی کہہ کر ان کی توہین نہیں کرسکتے۔۔!! مانا آپ اور دیار جدید دور کے رنگ میں رنگ کر ہمارے جرگے کی حرمت اور ان رسم و رواج کی قدر کو بھول گۓ ہیں۔ پر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم ان روایات کو ختم کرکے اپنے بزرگوں کی ارواح کو تکلیف دیں۔ "

دلاور خان نے سخت لہجہ اختیار کیا۔ درمان نے بامشکل خود کو کچھ کرنے سے روکا۔ سردار غیث تو تماشائی بنے بیٹھے تھے۔ اب کون یہاں سر کھپاتا۔

وہیں بادل بھی چپ ہی رہا۔

"اور کرو اس کمینہ دلاورا سے بحث۔۔!!! اس کو بس ہم ہی کتا ، کمینہ کہہ سکتا ہے۔ کسی اور میں یہ ہنر نہیں ہے۔کیا اچھا ہوتا ہم سچ میں پاپ کارن لے آتا تو آج اس ایکشن اور تھرلر سے بھرپور فلم کا مزہ اچھے سے لے پاتا ۔کوئ نہ ہم بس دیکھ کر ہی محفوظ ہوجاۓ گا۔دیکھنا یہ نیچ انسان آج یہاں جرگے میں بیٹھا ایک ایک شخص کو ونی دینے اور لینے پر قائل کرکے اٹھے گا۔ گھٹیا کوالٹی کا مردود ۔۔۔!!! یارا جلدی ختم کرو اس کھیل کو ہم کو تو نیند آرہا ہے اب ۔۔!!"

بادل نے جمائ روکی پھر ایک ہاتھ گال کے نیچے ٹکا کر آنکھیں آدھی کھول کر یوں بیٹھ گیا جیسے اب بور ہونے لگا ہو۔ یہ بہت ڈریگ کررہے تھے بات کو۔

"مت بھولیں درمان زوۓ دیار کو بچانے کی خاطر بہراور درانی نے بھی اپنی بیٹی ونی میں ہی آپ کو دی تھی۔ تو آج ہماری دفعہ کیوں اس رسم پر عمل نہ کیا جاۓ۔ ہمارے علاقے کی بہن ، بیٹیاں صدیوں سے اپنے باپ ، بھائ کے تحفظ کے لیے دشمنوں کو پیش کی جاتی رہی ہیں۔ اور آئندہ بھی یہی ہوتا رہے گا۔ ان روایات کے خلاف اٹھنے کا مطلب کھلم کھلا بغاوت ہے۔ جو آپ تو نہیں کریں گے۔ آخر مستقبل کے سردار ہیں آپ اپنے علاقے کے۔ وہیں دیار بھی تو اپنے علاقے کا ہونے والا سردار ہے۔۔!!!! بہراور اور دراب اگر آپ کے بچوں کو ہماری روایات ہی قبول نہیں تو کیا انہیں سرداری کا عہدہ دینا جائز ہے۔ ذرا سوچیے گا ضرور۔۔!!!"

دلاور خان پراسرار سا مسکراۓ ۔درمان اور دیار کی دکھتی رگ دبا کر انہیں سکون بہت ملا تھا۔ یہاں دیار بھی تلملا اٹھا۔ یہ کہاں کا انصاف تھا اب بھی ایک ہی بات کا طعنہ دیا جارہا تھا۔ 

"اپنے الفاظوں کی درستگی کیجۓ۔ دلاور خان صاحب۔۔!!! میں مرنے کو تیار تھا۔ تھا کیا اب بھی تیار ہوں تو میرا حوالہ نہ دیں آپ۔ بہت ہوگیا یہ ڈرامہ۔۔!!! تب جو بھی ہوا غلط تھا اب دوبارا ہمیں کچھ غلط نہیں کرنا۔ نہ مجھے درمان کی بہن سے نکاح کرنا ہے نا آپ کی بیٹی ونی میں انہیں چاہیے ۔۔!!!

یہاں پہلے میری بہن کا فیصلہ کریں۔ وہ معصوم کیوں ونی کا ٹائٹل لگا کر جیے گی۔۔!!!"

اس نے بھی غلط فہمی دور کردی دوبارا زرلشتہ سے دور ہونے کی رٹ سن کر درمان پھر سے گرجنے کو تیار ہوا۔یہ جان بوجھ کے اس کے جائز نکاح کو بیچ میں لاکر اسے غصہ دلارہے تھے۔

"کہا ہے نا میں نے میری بیوی کا ذکر بار بار یہاں نہ کیا جاۓ۔ وہ کوئ ونی نہیں ہے میری بیوی ہے۔ یہاں نکاح ہوا تھا میرا۔ جس میں سب لوگ موجود تھے۔میں زبردستی اسے لے کر نہیں تھا گیا۔ تو کیوں بار بار میرے نکاح کو بیچ میں لایا جارہا ہے۔ باخدا اب ایک بار پھر کسی نے میرے نکاح پر بات کی تو میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ چاہے وہ سردار غیث ہی کیوں نہ ہوۓ۔۔!!!"

درمان غرایا تو جو لوگ آپس میں چہ مگویوں میں مصروف تھے وہ بھی بوکھلا کر سیدھے ہوگۓ۔ ایک لمحے کو ہر طرف خاموشی چھاگئ۔

اور سردار غیث نے بھی اسی طوفان کو دیکھا جو انہیں مارنے کو بھی تیار تھا۔ یہاں جرگے کے نام پر کھلم کھلا بدمعاشی ہورہی تھی۔

بادل جو بس سونے والا تھا اس دھاڑ پر وہ بھی ہڑبڑا کر اٹھ گیا۔

"کیا جرگہ ختم ہوگیا ۔۔!!! یا سچ مچ کا بم گرگیا ہے یہاں۔۔!!! یہ بچہ لوگ بھی دھاڑ دھاڑ کر بولتا ہے یہ نہیں کہ کوئ شاید سویا ہوا ہو ادھر تو اس کا ہم سونے دے۔ سارا نیند خراب کردیا ہمارا۔ ہم کو ادھر آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ یہ تو ہم کو سونے بھی نہیں دے رہا۔"

اپنی آنکھیں مسل کر بادل کرسی سے ٹیک لگا کر سیدھا بیٹھ گیا۔ درمان کے پتھریلے تاثرات دیکھ کر اس نے یوں بات کی تھی جیسے اسے ڈر نہیں لگا بلکہ ناگوار گزری ہے یہ حرکت۔

" زما خدایا یہ بحث ختم کروادے۔ اس سے پہلے کہ ہم ہی کسی دھاڑ پر دل نہ سنبھالتے اوپر پہنچ جاۓ۔ سردار غیث ہے تو یہ بھی پورا کمینہ سارا علاقوں کو آگے لگاکر پھرتا ہے اور آج کیسے ان بچوں سے ڈر کر بیٹھا ہے۔ درمان جانا آج اس بادل کی مان تو اس فتنہ کو مار ہی دے۔ یارا قدم تو بڑھا تم کو بچانا ہمارا کام ہے۔ ہم پہلے اس دلاور خانا کو سولی پر لٹکا لے پھر اس سردار غیث سے ونی والا اصلاح آرام سے نکالے گا۔اس سے کیا ہم تو آس پاس کے لوگوں سے بھی یہ گند نکالے گا۔ بس آج تم سمجھو یہ آخری ونی ہوا ہے یہاں۔۔۔!!"

اس نے اپنی پاکٹ سے ایک کینڈی نکالی۔ فضول میں بیٹھنے کا کوئ ارادہ نہیں تھا اس کا۔ تو اچھا تھا وہ اب کینڈی ہی چباتا رہتا ۔ کم از کم نیند تو نہ آتی اسے ۔

"بس ایک دم چپ ۔۔!! بہت ہوگیا ہے ہنگامہ۔ اگر سارے فیصلے خود ہی کرنے تھے تو پھر یہاں کیوں آۓ ہو۔ چھیڑ دیتے نا ختم ہونے والی جنگیں ۔تاکہ پورا علاقہ اسی نفرت کی نظر ہو جاتا۔۔!!!"

تنگ آکر سردار غیث بھی دھاڑ اٹھے۔درمان نے ناگواری سے منہ پھیر لیا۔ البتہ دلاور خان کو پتہ تھا جو بھی ہوگا اس کے حق میں اچھا ہوگا ۔بادل نے سردار غیث کو دیکھ کر ناگواریت سے آنکھیں پھیریں تو آنکھوں میں لگاۓ سیاہ لینز اسے چبھے۔ آنکھوں میں بھرتا پانی انگلی سے صاف کرکے اس نے سامنے دیکھا۔

"اصولوں کے مطابق فیصلہ کرنے کا اختیار سردار ہونے کے ناطے مجھے ہے۔ میرے نزدیک امن مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہے لوگوں کی جان سے بھی زیادہ ۔۔!!!"

انہوں نے فیصلہ سنانا شروع کیا۔ بادل نے غور سے اس سو سالہ آدمی کو دیکھا۔ (تھا تو وہ کوئ ستر سے اسی تک کا پر بادل کو وہ سو سالہ ہی لگا)

"یہ اب تک انسان کیوں ہے اس کو تو ناگ نہیں بن جانا چاہیے۔ ویسے بادل خان اگر فیصلہ سناتے سناتے یہ ناگ بن جاۓ تو کیا مزہ آۓ گا نہ ہم کو۔سردار غیث کا خفیہ روپ بے نقاب ۔۔!! فیصلہ سناتے ہوۓ سردار غیث اپنا اصل روپ میں آگۓ۔ناگ بننے کے بعد لوگوں کے بیچ سے رینگنے کی جگہ ڈھونڈنے کی کوشش میں لوگوں کی چیخوں  کی تاب نہ لاتے جاں بحق ۔"

اس نے مسکراہٹ روکی ۔ مزہ آیا تھا اسے سردار کا یہ روپ امیجن کرکے ۔

جو کچھ دیار کے ساتھ ہوا اس کی تلافی کرنے کے لیے اور آئندہ کے لیے ان کے تعلقات آفریدی قبیلے سے بحال کرنے کے لیے میں اعلان کرتا ہوں کہ دراب آفریدی کی بیٹی کا نکاح آئندہ ہفتے دیار سے کیا جاۓ گا۔ جو کچھ یشاور خان نے کیا اس سے ہونے والے نقصان کی بھرپائ کے لیے دلاور خان کی بیٹی کا نکاح اسی روز دراب آفریدی کے بیٹے سے کیا جاۓ گا۔ چاہے وہ درمان ہو یا فدیان۔۔!!! 

اور دوبارا ایسی کوئ حرکت نہ ہو اور یشاور نے جو کیا اسے عبرت کا نشان بنانے کے لئے یشاور کو ہمیشہ کے لیے اس علاقے سے بدر کیا جاتا ہے۔دوبارا وہ اگر اس جگہ کے آس پاس بھی دکھا تو اس کی سزا سخت ہوگی۔ باقی جہاں تک سوال اٹھتا ہے درمان کے نکاح کا تو اگر ونی میں دی گئ بچی خود اس کے ساتھ رہنا چاہے تب ہم کیا کوئ عدالت بھی اس نکاح کو ختم نہیں کرسکتی۔

 دونوں بالغ ہیں تو نکاح قائم رکھنے یا منسوخ کرنے کا فیصلہ بچی خود کرے گی۔ البتہ اگر وہ درمان کے ساتھ رہنا چاہے تب درمان اسے اس کے گھر والوں سے ملنے سے نہیں روک سکتا۔ یہ اس کا قانونی اور شرعی حق ہے۔ جرگہ ایک ہفتے کے لیے منسوخ کیا جاتا ہے۔ ٹھیک ایک ہفتے بعد بچوں کے نکاح کروادیے جائیں گے۔ اگر کسی کو فیصلے سے اختلاف ہے تو اسے بھی علاقے سے نکال دیا جاۓ گا۔۔!!

امید ہے اب سب کے ساتھ انصاف ہوگیا ہے۔ مجھے بھی اجازت دیں۔ فی امان اللّٰه ۔۔!!"

یہاں انہوں نے فیصلہ سنایا اور اسی لمحے اٹھ کر چلے بھی گۓ۔ یہاں جو فیصلہ بادل چاہتا تھا بالکل وہی ہوا تھا۔ اس کے چہرے پر دلکش سی مسکراہٹ چھائ۔ 

وہاں سے اٹھ کر وہ ذرا فاصلے پر ویرانی والی جگہ پر گیا اور اپنا فون نکالا ۔

"ہاں یارا۔۔!!! ہمارا کام تو ڈن ہوگیا ۔اب تم بھی اس سردار کا بیٹے کو چھوڑ دے۔ بڑا اچھل رہا تھا کہ ہمارا بات نہیں مانے گا دلاور خان کے خلاف فیصلہ نہیں دے گا۔ بڈھا اچھا دھاڑی سانپ کہیں کا۔

 اب لائن پر آیا نا۔ اور یارا اس کا بیٹے کو آگے اب اس کا بیٹے کا دھمکی دے دینا تاکہ وہ بھی اپنا تین ساڑھے تین انچ کا زبان بند رکھے۔۔!!! ہم اب رکھتا ہے فون دلاور اکیلا ہوگیا ہے اب ہم کو اسے تسلی بھی تو دینا ہے۔۔!!!

اور یارا یہ لینز کسی اچھا کوالٹی کا لایا کرو ۔ ہم کہیں اندھا ہوگیا تو پھر چیک پر سائن کرتے بھی ہم کو کچھ نظر نہیں آنا۔۔!! سارا آنکھ دکھ رہا ہے ہماری..!!"

اپنی آنکھ پر ہاتھ رکھتے بادل خان نے غصے سے کہا۔ پھر مقابل کی جانب سے تسلی بخش جواب سن کر کال ڈسکنیکٹ کرکے فون پاکٹ میں رکھ دیا اور خود دلاور خان کا دماغ اس کی جگہ سے ہلانے کے لیے اس کے پاس جانے لگا۔

سردار غیث تو بغیر کسی سے مصافحہ کیے یوں نکلنے تھے گویا اگر کچھ دیر مزید یہاں رکے تو درمان اور دیار اس فیصلے پر ان کا قتل ہی کردیں گے۔ انہیں تو اپنے بیٹے کی بھی فکر تھی جسے بادل خان نے اپنی قید میں رکھا تھا۔ 

کل رات اس کے آدمی گۓ تھے سردار غیث کے پاس اسے قائل کرنے کہ فیصلہ وہی سنایا جائے جو وہ کہہ رہے ہیں ۔پر سردار غیث کو اس کا انوکھا فیصلہ سنانے اور اپنی مرضی کو پس پشت ڈالنے میں کوئ دلچسپی نہیں تھی تو پھر کیا ہونا تھا بادل گرجا بھی اور برسا بھی تب تک جب تک وہ جو چاہتا تھا وہ نہ ہوگیا۔

تبھی تو سب کی بات سن کر آخر میں بادل کا بتایا گیا فیصلہ ویسے ہی دہرا کر وہ وہاں سے نو دو گیارہ ہوگیے۔

درمان کو اب فکر تھی کہ اپنی مصیبت کو کیسے مناۓ کہ وہ اس کے ساتھ رہنے کی بات خود کرے۔اسے یاد تھا جتنا وہ اس سے ڈررہی تھی اسے اپنے ساتھ رہنے پر راضی کرنا آسان کام نہیں تھا۔

اور دیار تو دکھ اور غصے کی ملی جلی کیفیت میں وہاں بیٹھا تھا۔ اس نے دن رات ایک کیے تھے فدیان کو ڈھونڈنے میں تاکہ اسے اس کی بہن واپس مل جاۓ۔ پر یہاں تو بدلے میں اسے ہی ونی دی جارہی تھی۔ غصے سے وہ تو وہاں سے نکل گیا۔ اب یہاں بیٹھنے اور درمان کو دیکھنے کا حوصلہ نہیں تھا اس میں ۔

وہیں یشاور بھی سرد تاثرات سنگ وہاں سے اٹھ گیا۔ آج تک اس نے جب بھی کچھ غلط کیا تھا اسے کبھی سزا نہیں ملی تھی اور آج بے قصور ہوتے ہوے علاقہ بدر ہوجانا ۔ سب کی نظروں میں ذلیل ہوجانا۔ اسے چبھ رہا تھا۔

اس نے ایک سخت نظر درمان پر ڈالی۔پھر بغیر اپنے باپ کا انتظار کیے وہ بھی وہاں سے چلا گیا۔

البتہ دلاور صاحب بھی اس کی بجاۓ بادل کے پیچھے گۓ تھے تاکہ اس سے پوچھ سکیں کہ یہ کیسا فیصلہ ہوگیا ہے یہاں پر۔

وہ ذرا فاصلے پر گئے تو انہیں بادل خان سر جھکاۓ کھڑا نظر آیا۔

"بادل خان۔۔!! معصومہ تک تو بات ٹھیک تھی پر یشاور کو ہمیشہ کے لیے اس علاقے سے نکال دینا۔ یہ بات مجھ سے برداشت نہیں ہورہی ۔ اس فیصلے کو بدلوانے کے لیے کچھ کرو تم۔۔!!"

وہ امید طلب لہجے میں کہتے اس کے پاس آۓ۔ جس نے آنکھیں میچیں ۔

"ہاں نہ بادل خان کے پاس تو جادو کا چھڑی ہے ۔تم جو بولے گا کاٹھ کا الو کی طرح ہم وہی کرے گا۔ ہم کو تو اس نے ڈگڈگی پر ناچنے والا بندر سمجھ لیا ہے۔ ہمارا پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گیا ہے۔ اور ابھی ہمارا موڈ نہیں اس بزرگ شیطان کا منہ دیکھنے کا۔۔!!!"

آںکھیں کھول کر اس نے اپنی سرخ ہوتی آنکھوں سے دلاور خان کو دیکھا۔ پھر اگلے ہی لمحے روتی صورت بناکر رخ پھر گیا۔

"یارا۔۔!! ہم اس وقت تمہارا سامنا کرنے کا حالت میں نہیں ہے ۔ہمارا ایک غلطی نے تم سے تمہارا گدھے کا بچہ چھین لیا۔ مانا وہ کم ظرف ، نالائق، بد تمیز ، کتے کا دم جیسا ٹیڑھا، مکھی جیسا غلیظ سوچ رکھنے والا لڑکا پلاسٹک کا شاور تمہارا بیٹا ہے۔ پر ہمارا بھی وہ کچھ لگتا تھا۔

  آج وہ اس علاقے سے منہ کالا کروا کر رخصت ہوجاۓ گا۔ ہم کو ابھی شرمندگی کے بھنور نے جھکڑا ہے۔ ہم ذرا شرمندگی کو کمینگی کی مار مار کر تمہارا کمینہ صورت دیکھنے کا ہمت پیدا کرلے ۔ پھر آۓ گا ہم اس جہنم میں۔ تم بے فکر رہ اور آگ کے تندور میں اکیلا جل۔ شام تک ہم تم کو کمپنی دینے کو آجاۓ گا۔تب تک کے لیے

اچھا چلتا ہوں جہنم میں یاد رکھنا ۔۔۔!!!!

اپنی نیچ زبان پر جوتوں کا ہار رکھنا۔...!!!!!

اپنے گناہوں کی وزنی فہرست کو اچھے سے سنبھال رکھنا....!!!!!

شام تک اپنے منہ پر میری طرف سے فٹے منہ بھی ڈال رکھنا...!!!!!

زما خدایا۔۔!!!! ہمارا یار کا بیٹا کتوں کی طرح آج ذلیل ہوگیا۔ ہم کو حوصلہ دے دے ۔!!! زما خدایا۔۔!!!"

ایک ہاتھ سے پانچ انگلیاں اور ہتھیلی کھول کر دلاور کی طرف لعنت کا اشارہ کرتے وہ صحیح اوور ایکٹنگ کی بھر مار کرتے وہاں سے نکل گیا۔اس کی بے سری آواز نے ماحول میں سماں بھی باندھا تھا۔اس جرگے کی زمین نے بھی آج پہلی بار کسی مجرم کی تذلیل سنی تھی۔اسے بھی مزہ ضرور آیا ہوگا۔

پیچھے تو دلاور خان کے کانوں سے دھواں نکل آیا تھا یہ سب سن کر۔

"یا اللہ۔۔!! یہ انسان میرے گناہوں کی سزا ہے یا پھر دنیا میں ہی مجھے جہنم دکھانے کے لیے آیا ہے۔ اتنی تذلیل۔۔!!!"

اپنے دونوں کانوں کو ہاتھ لگا کر دلاور خان جیسا کمینہ انسان بھی استغفار کہہ کر گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ جو ہونا تھا وہ تو ہوچکا تھا۔

جرگہ ہفتے تک کے لیے موخر کردیا گیا تھا۔ اب ہفتے کو دو نکاح اور ساتھ ہی درمان کے نکاح کا فیصلہ ہوجاتا۔ اور یشاور کو آج شام ہی اس علاقے کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہنا تھا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"ماں صدقے جاۓ ۔۔!! میرا بچہ میری آنکھوں کا سکون ۔ کتنا یاد کیا میں نے تمہیں ۔کہاں چلے گۓ تھے تم۔۔!!"

ہاسپٹل کے بیڈ پر فدیان سکون سے بیٹھا تھا پر کمرہ کھلتے ہی جیسے اس کی ماں اندر داخل ہوئ۔ اس سے انہیں دیکھتے ہی اپنی شکل پر مسکینیت طاری کرلی۔

اسے صبح ہی ہوش آیا تھا۔ تب سے وہ کمرے میں لگی LCD پر کوئ مووی دیکھ رہا تھا۔ ماں کے آتے ہی بڑی مہارت سے اس نے LCD آف کی اور ریموٹ وہیں تکیے کے نیچے کردیا۔

"مورے آپ۔۔!!! میں اغواہ ہوگیا تھا مورے۔!! آپ کا فدیان کہیں خود نہیں گیا تھا اسے دو موٹے موٹے سانڈ زبردستی سر پر ڈنڈا مار کر لے کر گۓ تھے۔ ورنہ فدیان کہاں آپ کو چھوڑ دیتا۔ !!"

انہوں نے آتے ہی اس کی پیشانی چومی تو فدیان نے بھی مسکین بننے میں سڑک پر بھیک مانگنے والے بھیکاریوں کو بھی پیچھے چھوڑدیا۔

اور درد سے انہیں خود پر بیتی جھوٹی کہانی سنانے لگا۔ جو وہیں اس کے پاس بیٹھ گئیں۔

سر پر ڈنڈا مارنے کا سن کر ان کا دل لرزا۔ وہیں فدیان نے اپنی آنکھوں سے بہتے نادیدہ آنسو پونچھے ۔

"ڈ۔ڈندا مار لے کر گۓ وہ تمہیں ۔ پر تم تھے کہاں۔ کتنا ڈھونڈا تھا ہم نے تمہیں ۔۔!!!"

شنایہ بیگم کا لہجہ کانپ اٹھا۔ دوسروں کی اولادوں کو ٹھوکروں پر رکھنے والی وہ عورت اپنے بچوں سے سب سے زیادہ پیار کرتی تھی۔سپیشلی فدیان سے ۔

وہ ڈرامے باز تو بچپن سے سب کے حصے کا پیار خود ہی بٹورتا رہا تھا۔

"ڈنڈا تو چھوٹا لفظ ہے ماں۔۔!! یہ دیکھو آپ کے لخت جگر کو لوہے کا راڈ مارا ہے انہوں نے۔ غلطی صرف اتنی تھی کہ میں نے کہا تھا کہ مجھے اپنی ماں سے ملنا ہے۔ اتنی سی غلطی اور سزا دیکھیں۔۔!!!

اور مورے آپ جاننا چاہتی ہیں نہ کہ میں کہاں گیا تھا تو سنیں میں کسی نالے سے بھی بدتر مقام پر اپنی زندگی کے دو مہینے گزار کر آیا ہوں۔ ٹوٹی کرسی، لوہے کے برتن، اندھیرا کمرہ سچ میں مورے ایسی جگہوں پر تو جنات بھی بسیرا نہیں کرسکتے۔ جہاں آپ کا فدیان رہتا رہا ہے ۔۔!!! "

اپنی پٹی کی طرف اشارہ کرتے اس نے آہ بھری۔ پھر تکیے سے ٹیک لگا کر آنسو ضبط کرنے لگا۔

اس کی ایکٹنگ ایسی تھی کہ جو بھی اس کی نیچر سے واقف نہ ہوتا وہ ابھی رونا شروع کردیتا کہ اتنا ظلم وہ بھی اس بیچارے پر ۔۔!!!

اس کی مورے کے تو ہوش ہی اڑ گۓ۔

"میرا بچہ اتنا ظلم ہوا تم پر ۔۔!!! میرے لعل ۔۔!! "

انہوں نے فکر سے کہا تو وہ جھٹکے سے اٹھا اور اشارے سے انہیں کچھ بھی بولنے سے روک دیا ۔

"ماں مجھے لعل نہ کہنا۔۔!!! آگے ہی یہ لعل ،لال ،پیلا ،ہرا نیلا سب ہوگیا ہے اب نہیں ۔ ماں وہ لوگ مجھے گندے کپڑے سمجھ کر دھوتے تھے پٹخ پٹخ کر۔۔!!!! 

نسلی دھوبی سے تھے وہ کمینے۔پہلے پٹخ کر دھوتے تھے پھر نچوڑتے تھے  اور آخر میں سکھانے کے لیے ڈال دیتے تھے ۔!! میں چیختا تھا تو کہتے تھے کیا آواز ہے لڑکے کی۔ ماشاء اللہ ۔!!

ایسے ہی گانا گاتے رہو۔۔!!

 میں کیا اتنا سریلا روتا ہوں مورے۔۔!! اور مورے مجھ پر وہ وہ ظلم ہوئے کہ آپ نہ پوچھو۔ نہیں ایسا کرو کہ پوچھ لو۔ پوچھنے کی بھی کیا ضرورت ہے میں خود ہی بتادیتا ہوں ۔!!"

فدیان نے ہاتھ نچا نچا کر دہائیاں دیں۔  پھر مزید کچھ سوچ کر اپنی ڈریپ جو تقریبا ختم ہوگئ تھی وہ خود ہی سکون سے اتار دی ۔ تاکہ مزید اچھے سے خود پر ہوۓ ظلموں کی روداد سنا سکے۔

اس کی مورے کی تو کسی نے زبان ہی چھین لی تھی۔ اتناااااااااااااا ظلم ۔۔۔!!!!!

"مورے ان کمینوں نے مجھے فٹ بال سمجھ کر پیٹا ، مجھ سے اپنے گندے کپڑے دہلواۓ، جالے اترواۓ، واش روم تک دہلواۓ۔ میں جب بھی انکار کرتا تھا تو اپنا پانچ کلو کا سانڈ جیسا ہاتھ مجھے دکھا کر ڈراتے تھے۔ دھمکاتے تھے۔ آپ تو جانتی ہیں نہ مورے میں بچپن سے ہی کمزور دل کا مالک ہوں  تو میں ڈر کر ان کی بات مان لیتا تھا۔

 ان میں سے ایک تو میرا سگھڑ پن دیکھ کر مجھ سے اتنا متاثر ہوگیا تھا کہ اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کرواکر مجھے اپنا داماد بنانا چاہا۔ پر میں نے انکار کردیا ۔ان دھوبیوں کا داماد بننے میں مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔باپ دھوبی ہے تو بیٹی بھی دھوبن ہوگی۔ میری ہڈیاں اب مزید تشدد نہیں سہی سکتیں ۔!!"

اس نے جتاتے ہوئے کہا کہ اغواہ ہونے کے باوجود لوگ اس سے متاثر ہوۓ تھے۔ پھر آخر میں درد کی ایکٹنگ کرتے اس نے کمر پر ہاتھ رکا۔ ساری ایکٹنگ کی ندیاں اس نے آج ہی بہانی تھیں ۔

اس کی ماں تو باقاعدہ آٹھ آٹھ آنسو بہا کر اس کے دردوں پر تکلیف کا اظہار کررہی تھیں۔

جان تو تھی اس کی ایکٹنگ میں تبھی کمرے میں کھانا لے کر آتی نرس بھی اسی درد میں کھوگئ۔

ٹرے شنایہ بیگم کو پکڑواکر اس نے فدیان کی زخمی صورت کو دیکھا۔ جو جب سے اٹھا تھا تب سے ڈاکٹروں سے لے کر نرسوں تک سب کو اپنے دکھڑے ہی سنا رہا تھا۔

"سر آپ پر کیا واقعی اتنا ہی ظلم ہوگیا۔ اتنا ظلم تو کبھی انڈین سیریلز کی بہوؤں پر بھی نہیں ہوا۔ جتنا پاکستان میں رہنے کے باوجود آپ جیسے ہیرو کی پرسنیلٹی رکھنے والے انسان کے ساتھ ہوا ہے۔ سر آپ نے کیا ان لوگوں کو پکڑ کر جواب نہیں دیا تھا۔ مطلب کوئ مار دھاڑ ۔ !! 

فلم کی طرح کی۔ !!!"

نرس نے کھوۓ ہوۓ انداز میں کہا۔ تو فدیان نے گہرا سانس بھرا۔ اب کیا کہتا کہ وہ تو فلمی ہیروز کو بھی پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ اغواہ ہونے کے باوجود ایک luxurious life گزارنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔

"سسٹر۔۔!!! میری کہانی سچی ہے۔ میں کوئ فلمی ہیرو نہیں ہوں۔ نا ہی ولنز کو پھونک مار کر ہوا میں اڑا سکتا ہوں۔ نہ یہ انڈیا ہے۔یہ پاکستان ہے۔ یہاں جو ہوتا ہے سچ ہوتا ہے۔ اور ان اغواہ کاروں کو میں کیوں مارتا مجھے کیا کسی پاگل کتے نے کاٹا تھا۔ جو ان اعلی نسل کے دھوبیوں سے پنگا لے لیتا میں۔ وہ دس لوگ تھے اور میں تن تنہا مجبور, لاچار لڑکا۔۔!!"

فدیان کا لہجہ سنجیدہ ہوا۔ جسے سن کر نرس کو بھی اب درد ہوا۔ وہ بیچارا کس حال کو پہنچ چکا تھا۔

"میں اگر انہیں ایک مکا مارتا تو اب تک مرچکا ہوتا۔ اور مجھے ابھی زندہ رہنا ہے۔ ایک چھوٹی بہن اور بیمار ماں کی ذمہ داری ہے میرے کندھوں پر۔ جن سے میں لاپرواہی نہیں برت سکتا۔ ایک بوڑھا باپ ہے میرا جو پہلے ہی بیمار ہے اور ایک بے حس بھائ جسے اپنی بیوی کے علاؤہ کوئ نہیں دکھتا۔ پیچھے بچا میں اکیلا کفیل ان لوگوں کا۔ اور کسی نے کہا تھا کہ ہر مکے کا جواب دینا ضروری نہیں ہوتا۔ کئ لوگوں کو صبر کی مار مارنی چاہیے ۔میں انہیں صبر کی مار مار کر آیا ہوں۔ دیکھنا اب مجھے ثواب ملے گا اور انہیں گناہ۔۔!!"

اس کی بل بک ختم ہوئ تو دروازے کی اوٹ میں کھڑے دو لوگوں نے کانوں کو ہاتھ لگاۓ۔انہیں یاد آیا کیسے وہ اس کے پیر دباتے تھے، اس کی خواہشات پوری کرتے تھے۔ اس کے ایک حکم پر اس کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔اور یہ یہاں ثواب اور گناہ کی بات کررہا تھا ۔

اتنا جھوٹا انسان انہوں نے آج ہی دیکھا تھا۔ انہیں یہاں بادل نے بھیجا تھا کہ دیکھ کر آئیں اگر وہ ٹھیک ہے تو دونوں سلامت رہیں گے ورنہ وہ انہیں مار ہی دے گا۔ پر جتنا یہاں فدیان ٹھیک تھا اس کے سامنے تو تندرست سے تندرست بندہ بھی بیمار ہو جاتا ۔

اس پر دو حرف بھیج کر وہ اغواہ کار جیسے آے تھے ویسے ہی وہاں سے چلے گۓ۔

پیچھے فدیان نے ابھی مزید رونے رونے تھے ۔ابھی تو وہ ہمدردیاں بٹورنے لگا تھا۔ تو بات ختم کیوں کرتا ۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

خان خویلی کی مضبوط بنیادوں نے آج تک جہاں دلاور خان کے بے شمار گناہ دیکھے تھے ۔ ویسے ہی اس کی منافقت کی گواہ بھی تھیں یہ دیواریں۔ وہ صدا کا جھوٹا اور دوغلہ انسا جو سلوک اپنے گھر والوں سے برتتا تھا یہ دیواریں کیا یہاں کی فضا بھی یہاں بستے ایک معصوم سے وجود کی خوف میں لی گئ ایک ایک سانس پر گریہ کرتی رہی تھیں۔

ہمیشہ ہر کسی کو ہاتھ سے مارنا ضروری نہیں ہوتا نہ لفظوں کی مار مارنا ضروری ہوتا ہے کئ لوگ کچھ نہ کہہ کر بس آنکھوں میں بستی نفرت، لہجے کی سختی اور اجنبی رویے سے کسی کی روح تک کو چھلنی کرجاتے ہیں ۔

یہاں بھی تو روز یہی ہوتا تھا ۔ یشاور واپس آیا تو گھر میں نیا طوفان کھڑا ہوگیا۔ دلاور خان کا ملازموں پر بے جا غصہ، سبرینہ بیگم پر ان کا چیخنا چلانا، حویلی میں اتری ان کی دہشت نے جہاں ہر سو خوف طاری کیا تھا کوی تھا جو خود کے مارے کہیں چھپا ہوا تھا۔

 اپنے ہی گھر میں کوئ اجنبی بن کر بھی رہتا تھا۔ جس کی صورت بھی شاید یشاور یا دلاور خان کو اچھے سے یاد نہ ہو۔ وجہ وہی تھی اس کا خوف اسے ان کے سامنے آنا بھی قبول نہیں تھا۔

"اسے تم نے چھینا ہے مجھ سے سبرینہ ۔۔!!! ورنہ جیسے یشاور مجھے عزیز ہے میں معصومہ کو بھی اپنے دل میں بسا سکتا تھا۔ اسے لوگوں سے کم از کم بات کرنا ہی سکھا سکتا تھا۔پر تم نے اسے ہمیشہ اسی کمرے میں بند رکھا ہے۔ جیسے میں باپ نہیں دشمن تھا اس کا۔ اب بھی تم وہی کررہی ہو۔۔!!! 

اسے باہر لاؤ ۔ مجھے بات کرنی سے اس سے۔۔!!"

دلاور خان دھاڑے۔ لاؤنج میں سکتہ چھاگیا۔ سامنے سبرینہ بیگم کھڑی تھیں ہاتھ میں شاپنگ بیگز پکڑے جو وہ معصومہ کے لیے لے کر آئ تھیں۔ اور راستے میں انہیں دلاور خان مل گۓ تھے۔ ان کی بات سن کر سبرینہ بیگم نے حیرت سے انہیں دیکھا ۔

"دل میں بسائیں گے آپ اسے۔ صورت بھی یاد ہے آپ کو اس کی؟ اچھا یہ بتادیں وہ کتنے سال کی ہے۔ کمرہ کونسی سائیڈ پر ہے اس کا ۔؟؟ مشکل سوال پوچھ لیا میں نے تو بتادیں پورا نام کیا ہے اس کا۔۔!!"

وہ استہزائیہ ہوئیں تو دلاور خان نے لب بھینچے۔ اپنی زندگی میں وہ اتنا مگن تھے کہ انہیں سچ میں معصومہ کا پورا نام بھی نہیں پتہ تھا۔

سبرینہ بیگم مسکرانے لگیں ۔ یہ باپ اپنی بیٹی کو دل میں بساتا۔ مزاق اچھا تھا۔

"نہیں پتہ نہ پورا نام۔۔!! وہ معصومہ خانم ہے۔ میری بیٹی۔۔!!! صرف اور صرف میری بیٹی ۔۔!! اسے بولنا نہیں آتا ٹھیک سے تو کیا ہوگیا کم از کم وہ منافق نہیں ہے آپ کی طرح ۔ اور جناب اسے میں نے آپ سے دور نہیں کیا اسے آپ نے دھتکارا تھا۔ مت بھولیں یہ بات! بیٹی نہیں چاہیے تھی نہ آپ کو۔ تبھی مجھے اور اسے ہاسپٹل میں مرنے کے لیے چھوڑ گۓ تھے آپ۔ یاد ہے نہ تب ڈاکٹر نے کہا تھا شاید معصومہ مرجاۓ۔ اس کی کنڈیشن اچھی نہیں تو آپ نے کہا تھا میرا کیا جاتا ہے مرجاۓ۔ !!!

میری طرف سے دونوں ماں بیٹی ہی مرجائیں۔ کیونکہ بیٹی پیدا کرکے میں نے گناہ کیا تھا۔ دلاور خان ۔!!! معصومہ میرا خون ہے۔ میری جان بستی ہے اس میں تو اس جان کو آپ کے پاس بھی نہ بھٹکنے دوں میں ۔ اور معصومہ کو اپنے پاس بلانے کے پیچھے آپ کا جو بھی مقصد ہے اسے بھول جائیں۔ میرے جیتے جی تو میری بچی آپ کے پاس نہیں آۓ گی ۔بیٹا تو چھین لیا آپ نے ہر بیٹی نہیں دوں گی میں ۔!!!"

وہ بھی انہی کے انداز میں غرائ۔ ان کے تیور بدلے ہوئے تھے۔ دلاور خان کے لب سل گۓ۔ ان کا کہا گیا ایک ایک لفظ سچ تھا۔ انہیں سچ میں اپنے سوا کسی کی فکر نہیں تھی۔ کسی کی بھی نہیں۔۔!!

 انہیں وہیں چھوڑ کر وہ خود معصومہ کے کمرے میں چلی گئیں۔ پیچھے دلاور خان نے ایک ٹھوکر ٹیبل کو رسید کی۔

"پاگل ہوگئ ہے یہ عورت۔۔!!!! کیا سمجھتی ہے میں کیا اس سے اجازت لوں گا ۔اس کا فیصلہ کرنے سے پہلے۔ نہیں بس ایک بار یہ ہفتہ گزر جانے پھر معصومہ ونی ہوکر جاۓ گی۔ مجھے روکنے کی ہمت نہیں ہے اس میں۔۔!!".

ہنکار بھر کر ایک عزم کرکے وہ بھی اپنے کمرے کی سمت چلے گۓ۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

کمرے میں آتے ہی اپنے ہاتھ میں پکڑے بیگز ایک طرف انہوں نے بیڈ پر رکھ دیے۔ کمرہ خالی تھا جس کے پاس وہ آئ تھیں وہ یہاں نہیں تھی۔

"مما کی جان کہاں ہے؟ کیا ہائیڈ اینڈ سیک کھیلنے کا پروگرام بن گیا ہے تمہارا۔۔!! پر مما اچھی بہت تھکی ہوئی ہیں تو جہاں بھی ہو باہر نکل آؤ۔۔!!! معصومہ۔۔!!!" 

انہوں نے کمرے میں چار و اطراف دیکھا ۔ کمرہ بہت خوبصورت تھا۔ وائٹ اور سکاۓ بلو کلر کی تھیم کا۔ دیواروں پر  hello kitty کی کیوٹ سی تصویریں بنی تھیں۔ 

گول شیپ کے بیڈ پر اسی کے جیسے تکیے رکھے تھے۔ اور بیڈ کی دیوار پر بھی Hello kitty کی پک ہی لگی تھی ۔ایک طرف پیارے سے کاروٹونک ورلڈ کی تھیم جیسے صوفے اور سائیڈ پر خوبصورت سا کبرڈ رکھا تھا۔ جس پر چھوٹے چھوٹے سے سٹیکرز چسپاں تھے. hello kitty کے ۔

لگتا تھا جیسے یہ کمرہ سچ میں کسی بلی کا ہے۔ پورے کمرے میں جہاں دیکھو وہاں Hello kitty  ہی تھی۔

"صوفے پر جاۓ نماز تے کرکے رکھی ہوئ تھی یعنی وہ بھی ابھی کمرے میں ہی کہیں تھی۔ گہرا سانس بھر کر انہوں نے کبرڈ کا رخ کیا۔

"معصومہ کتنی بری بات ہے یہاں کون چھپتا ہے۔ اگر الماری غلطی سے باہر سے لاک ہوجاتی تو تمہیں پتہ بھی نہیں کہ کونسا حادثہ ہوسکتا تھا ۔"

انہوں نے الماری کھولیں تو توقع کے عین مطابق وہ بلی انہیں وہیں ملی۔ 

انہوں نے خفگی سے اسے ڈانٹا تو جواب میں اس نے اپنے آنسو پونچھے۔ بچپن سے گھر کے کونے اور ایسی جگہیں جہاں انسان آسانی سے دوسروں کی نظروں میں آنے سے بچ سکتا ہے وہ اس کی پسندیدہ تھیں۔ وہ اکثر و بیشتر بیڈ کے نیچے، کبرڈ اور ایسی ہی جگہوں میں انہیں ملتی تھی ۔

"م۔مما مجھے ڈر لگ رہا تھا۔ با۔بابا چیخ رہے تھے آپ پر۔ وہ م۔میرا نام بھی لے رہے تھے۔ وہ مارتے م۔مجھے۔ جیسے آپ کو مار۔مارتے ہیں۔تو میں چھپ گئ"

اس نے اٹکتے ہوۓ اپنے یہاں ہونے کی وجہ بھی بتادی ۔ دھیما سا لہجہ۔ جو خوف میں ڈوبا تھا اسے سن کر اس کی ماں نے لب بھیچے۔ انہوں نے اسے اس کے باپ سے بچاتو لیا تھا پر افسوس اس کی شخصیت کو وہ نکھار نہیں پائ تھیں۔ وہ تو ہر شے سے ڈرتی تھی۔ خاص طور پر اپنے باپ اور بھائ سے۔۔!!!

جواب میں انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے باہر نکالا۔ لوگ پتہ نہیں ایسے کیوں ہوتے ہیں جو اپنا رعب قائم کرنے کے لیے چیخنا چلانا فرض سمجھتے ہیں۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ان کے علاؤہ بھی آس پاس لوگ رہتے ہیں کمزور دل کے، ڈرے سہمے جنہیں ایسے رویے اچھے نہیں لگتے۔کئ لوگ ہوتے ہی کم ظرف ہیں۔ جنہیں معصوم سے لوگوں کی آہوں اور سسکیوں سے بھی فرق نہیں پڑتا۔وہ نہیں سمجھتے کہ انسان کی خوبصورتی تو اس میں ہے کہ اسے دیکھ کر اس کی بہن ، بیٹیاں ڈریں نہیں بلکہ انہیں دیکھ کر انہیں تحفظ کا احساس ہو۔ وہ ہر بات ان سے شیئر کرسکیں ۔ نا کہ خواہش کریں کہ وہ انہیں نظر ہی نہ آۓ۔ 

وہ پیاری سی لڑکی تھی۔ تقریبا سولہ سے سترہ سال کی۔ سادہ سا پنک کلر کا سوٹ پہنے دوپٹے کو اچھے سے سر پر حجاب کی صورت میں لپیٹے سادہ سے پرنور چہرے کے ساتھ اپنی رات کی تاریکی جیسی سیاہ آنکھوں جن کے گرد کی سفید جگہ رونے سے سرخ ہورہی تھی۔ اپنی ماں کے سامنے کھڑی رونے میں مصروف تھی 

انہوں نے اسے بیڈ پر بٹھایا۔ اور اس کے آنسو پونچھے۔

"کتنا رونا ہے تم نے میرا بچہ۔۔!!! چھوڑو بابا کی باتوں کو ان کا تو کام ہی غصہ کرنا ہے۔ اور میری بچی کو ہاتھ تو لگاکر دکھائے کوئ ۔میں ہوں نا ابھی۔ اسے کسی اور کو ہاتھ لگانے کے قابل نہیں چھوڑوں گی۔ تمہارے بابا مجھے مارتے ہیں میں برداشت کرلیتی ہوں۔ پر میری بچی پر نظر بھی اٹھائ انہوں نے تو اس گھر میں زلزلہ آۓ گا۔ بنیادیں ہلادوں گی ان کی۔۔۔!!!"

انہوں نے سائیڈ ٹیبل سے پانی کا گلاس اٹھا کر اسے تھمایا ۔ جس نے کانپتے ہاتھوں سے وہ پکڑ لیا۔ پھر اپنی ماں کا انداز دیکھ کر وہ مبہم سا مسکرائی ۔ جنہوں نے آج تک کسی کو اسے ہاتھ تک لگانے کی اجازت نہیں دی تھی۔ ورنہ دلاور خان تو بچپن میں ہی اسے مار چکے ہوتے۔

یہ بھی سچ تھا کہ معصومہ کے پیدا ہوتے ہی انہوں نے آنکھیں پھیر لی تھیں دونوں سے۔ انہوں نے رحمت کو بھی آج تک زخمت ہی سمجھا تھا۔ اور اب اسے اپنے کیے کو چھپانے کے لیے دشمنوں کے حوالے کرنے کو بھی تیار تھے۔ پر عجیب بات یہ تھی کہ وہ جارہی تھی فدیان جیسی فلم کے پاس۔ جو پتہ نہیں کیسا سلوک کرتا اس معصوم سی لڑکی کے ساتھ۔ !!!

جاری ہے۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Hum Mi Gaye Yuhi Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Hum Mi Gaye Yuhi  written by Ismah Qureshi   Hum Mi Gaye Yuhi  by Ismah Qureshi is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages