Rehnuma E Dil Novel By Umm E Omama Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Wednesday, 4 September 2024

Rehnuma E Dil Novel By Umm E Omama Complete Romantic Novel

Rehnuma E Dil By Umm E Omama New Complete Romantic Novel

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Rehnuma E Dil Novel By Umm E Omama Complete Romantic Novel


Novel Name: Rehnuma E Dil  

Writer Name: Umm E Omama

Category: Complete Novel

سر پر ہوڈی پہن کر اسنے کھڑکی کے زریعے دبے پاؤں گھر میں قدم رکھا اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی اپنی منزل کی جانب جانے لگی

وہ قدم بھی اتنی آہستہ رکھ رہی تھی کہ اسے خود بھی ٹھیک سے اپنے قدموں کی آواز نہیں آرہی تھی

کمرے کے دروازے کے قریب پہنچتے ہی اس سے پہلے وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوتی گھر کی ساری لائٹس جل چکی تھیں جسے دیکھ کر اسنے اپنی آنکھیں بند کرلیں 

اب ڈانٹ پکی تھی 

وہ یہ بات سوچ کر رہ گئی

گہرا سانس لے کر اسنے مڑ کر پیچھے دیکھا جہاں وہ شخص سادہ سے ٹراؤزر اور شرٹ میں صوفے پر بیٹھا ہوا تھا

"آپ ابھی تک جاگ رہے ہو مسٹر درانی"

"آپ مجھے سونے کہاں دیتیں ہیں مس درانی"

"ڈیڈ آپ تو ایسے کہہ رہے ہیں جیسے میں آپ کی نیند بھی اپنے ساتھ لے جاتی ہوں"اگلے ہی پل وہ اپنے اصلی انداز میں واپس آئی

"تم نے میری نیندیں حرام کی ہوئی ہیں علیحہ"

حالانکہ نیندیں تو آپ کی مام کی وجہ سے حرام ہونی چاہیے" اسکی شرارتی نظروں کو نظر انداز کرکے اس نے علیحہ کو اسکے کمرے میں جانے کا اشارہ کیا

جس کے بعد وہ اپنے کمرے میں چلی گئی اور خود وہ بھی اپنے کمرے میں چلا گیا علیحہ گھر آگئی تھی تو اب اسے سکون کی نیند آنی تھی

°°°°°

"بات سنیں"

اس وقت وہ سب یونی کے گراؤنڈ میں بیٹھے باتوں میں مصروف تھے جب ایک نرم سی آواز انکے کانوں میں پڑی

چونک کر وہ سب اس طرف دیکھنے لگے جہاں وہ لڑکی اپنی انگلیاں مڑورتی ہوئی ان سب کے دیکھنے پر اچھی خاصی نروس ہوچکی تھی

اسنے اس وقت سمپل سی کرتی اور ٹراؤزر کے ساتھ سر پر سلیقے سے حجاب باندھ رکھا تھا اور اسکا حجاب دیکھتے ہی حیدر نے اسے اپنے دل میں ایک نام دیا مس حجابن

اس طرح کی لڑکیوں کو دیکھ کر اسے ایسے ہی نام دیا آتے تھے حجابن مولانی پارسا بی بی

"میرا آج یونی کا پہلا دن ہے تو پلیز مجھے بتادیں گی میرا ڈیپارٹمنٹ کس طرف ہے" ان سب کے کوئی جواب دینے پر اسنے جھجکتے ہوے خود ہی وہاں بیٹھی لڑکی سے پوچھا

جس کے بعد لڑکی نے اسکے ڈیپارٹمنٹ کا نام پوچھ کر اسے راستہ بتادیا

اسکے بتانے پر سکندر جو اپنی کتاب سامنے کھولے پڑھ رہا تھا حیرت سے اسکی طرف دیکھنے لگا

لیکن اس سے پہلے وہ اس لڑکی کو بتا پاتا کہ اسے غلط راستہ بتایا گیا ہے وہ تیز تیز قدم اٹھاتی وہاں سے جاچکی تھی

"یہ کیا حرکت ہے تم نے اسے غلط راستہ کیوں بتایا وہ مدد مانگ رہی تھی تم سے" اسکے جاتے ہی سکندر نے گھور کر اپنے سامنے بیٹھی منزہ کو دیکھا

جس پر حیدر نے لاپروائی سے اسکے چوڑے شانے پر ہاتھ مارا

"ریلیکس ہوجا تیری کون سی بہن لگتی ہے یہ تو ہمارا ہر روز کا کام ہے"

اسکے کہنے پر سکندر غصے سے بڑبڑا کر دوبارہ اپنی کتاب کی طرف متوجہ ہوگیا ان لوگوں سے بات کرنا فضول تھا

ان پانچ دوستوں کا گروپ تھا جس میں دو لڑکیاں اور تین لڑکے تھے

ویسے تو سکندر کے لیے اسکے سارے دوست ہی اہم تھے لیکن انکی ہر وقت کی مذاق مستی اسے بہت بری لگتی تھی

°°°°°

منزہ کے بتاے گئے راستے پر جانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ دوبارہ اسی جگہ پر آکر کھڑی ہوگئی جہاں پہلے کھڑی ان سے راستہ پوچھ رہی تھی

اسے قہقہوں کی آواز سنائی دی جس پر اسنے چہرہ موڑ کر دیکھا جہاں سواے سکندر کے وہ سب اب اسکی طرف دیکھتے ہوے زور زور سے ہنس رہے تھے

اسنے اپنی نم آنکھیں جھکالیں اور وہاں سے جانے لگی جب اسکے کانوں میں وہاں بیٹھے لڑکے کی بھاری آواز سنائی پڑی

"رکیں" اسے پکار کر سکندر اپنی جگہ سے اٹھنے لگا جب حیدر نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا جسے چھڑا کر وہ اسکی جانب بڑھ گیا

"آئیں میں چھوڑ آتا ہوں" اسنے مناہل کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا جسے دیکھ کر وہ اسکے پیچھے چل دی

°°°°°

شاور لینے کے بعد اسنے سفید شرٹ کے ساتھ نیلی جینز زیب تن کرکے شرٹ کی آستینوں کو کونیوں تک چڑھا لیا اور گیلے بالوں کو کھلا چھوڑے کمرے سے باہر نکل گئی

سفید جوگرز پہنے وہ تیز تیز قدم اٹھاتی کمرے سے نکل کر سیدھا باہر جانے لگی جب پیچھے سے اسکے کانوں میں کسی کی آواز پڑی

"پاپا کی غنڈی پھر باہر جارہی ہے" اسنے مڑ کر پیچھے کھڑے ازہار کو دیکھا 

علیحہ کی حرکتیں دیکھ کر وہ اسے پاپا کی پری کے بجائے پاپا کی غنڈی ہی کہتا تھا

"کیا مسلہ ہے"اسنے منہ بگاڑ کر پوچھا

"جب دیکھو ہر وقت چڑی رہتی ہے کبھی بندہ پیار سے بھی بات کرلیتا ہے"

"جس سے پیار سے بات کرنی چاہیے میں کرلیتی ہوں اب تمہاری فضول بکواس ختم ہوگئی تو میں جاسکتی ہوں"

"جیسے اگر تمہیں کہوں گا مت جاؤ تو تم نہیں جاؤ گی اتنا تم میرا کہنا مانتی ہو نہ" اسکے کہنے پر علیحہ نے اپنا سر نفی میں ہلایا اور بنا جواب دیے وہاں سے چلی گئی

اسکے جانے پر ازہار بھی اپنا منہ بناتا وہاں سے چلا گیا کبھی جو یہ لڑکی اس سے پیار سے بات کرلے 

پیار تو وہ کرتی تھی لیکن وہ عام لڑکیوں کی طرح نہیں تھی ان سے تھوڑی مختلف تھی اسلیے اسکے پیار کا انداز بھی تھوڑا مختلف تھا

وہ علیحہ درانی تھی اپنوں پر جان وار دیتی اور دشمنوں کو جان سے مار دیتی

وہ خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتی تھی

اسکے شوق باقی لڑکیوں سے مختلف تھے اسے بندوق چلانا اچھا لگتا تھا لڑکوں کی طرح کپڑے پہننا اچھا لگتا تھا ڈوپٹہ کیا چیز ہے اس سے وہ ناواقف تھی 

اسے پھولوں سے نہیں بندوقوں سے کھیلنے کا شوق تھا

اسکے باپ نے اسے بنایا ہی ایسا تھا مظبوط جو کسی بھی حالات میں ڈرے یا گھبرائے نہیں بلکہ بہادری سے انکا مقابلہ کرسکے

°°°°°

"یہ رہی آپ کی کلاس" اسے کلاس کے سامنے چھوڑ کر وہ جانے لگا جب مناہل نے اسے پھر پکارا

"بات سنیں" سکندر نے مڑ کر اسکی طرف دیکھا

"جی کہیں"

"آپ کا بہت بہت شکریہ"

"اس میں شکریہ کی کوئی بات نہیں ہے اور اگر کسی اور چیز کی ضرورت ہو یا کسی قسم کا ایشو تو تو آپ مجھے یاد کیجیے گا بندہ ہمیشہ حاضر ہے" اسکے کہنے پر مناہل نے ہلکے سے مسکرا کر اپنا سر ہلایا اور کلاس میں چلی گئی

°°°°°

"واؤ علیحہ یو آر دا بیسٹ" فائل ریڈ کرتے ہی صالحہ نے خوشی سے اسے اپنے گلے لگایا

صالحہ ایک صحافی تھی جو اپنے کام کی دنیا میں بہت مشہور تھی کیونکہ اسکے پاس ہمیشہ پکے ثبوت کے ساتھ ہر مشہور کی ہستی کی الگ الگ خبریں ہوتی تھیں

لیکن یہ خبریں اسے صرف علیحہ کے ذریعے ملتی تھیں جنہیں وہ خود معلوم کرتی تھی وہ کیسے کرتی تھی یہ جاننے میں صالحہ کو آج تک دلچسپی محسوس نہیں ہوئی تھی اس کے کام کی وجہ سے کئی بار وہ زخمی بھی ہوچکی تھی لیکن اسے فرق نہیں پڑتا تھا اسے ان کاموں میں مزہ آتا تھا اور صالحہ کے لیے تو وہ کچھ بھی کرلیتی

وہ اسکی اکلوتی دوست تھی بھلے انکی دوستی کو اتنا وقت نہیں ہوا تھا لیکن علیحہ کے لیے اسکی اکلوتی دوست بہت اہمیت رکھتی تھی

جبکہ اسکے برعکس صالحہ کی اس سے دوستی صرف اس وجہ سے تھی کیونکہ علیحہ کی وجہ سے اسے ہمیشہ فائدہ ہی ملتا تھا

صالحہ جس کام سے جڑی ہوئی تھی اس میں اسکی جان کو بھی اکثر خطرہ رہتا تھا اس وجہ سے وہ اپنے گھر والوں کے پاس رہنے کے بجائے ہاسٹل میں رہتی تھی

"کوئی بڑی بات نہیں ہے میں چلتی ہوں بس تمہیں فائل دینے آئی تھی"

"ارے رکو تو میں فارغ ہونے والی ہوں پھر ساتھ لنچ پر چلیں گے" اسنے علیحہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے کرسی پر بٹھایا جب اسکا موبائل رنگ ہونے لگا

اسنے موبائل نکال کر دیکھا جہاں گھر کے نمبر سے کال آرہی تھی

اسنے مسکراتے ہوے کال پک کی آج ویسے بھی وہ گھر والوں سے ملنے کے لیے جانے والی تھی کام کے باعث اتنے دنوں سے نہ تو ان سے ملاقات ہوسکی اور نہ ہی فون پر کوئی رابطہ ہوسکا

"ہیلو امی"

اسکے چہرے کی مسکراہٹ انکی بات سنتے ہی غائب ہوگئی

°°°°°

"پہلا دن کیسا گزرا میرا بیٹا"

گھر میں داخل ہوتے ہی فہد صاحب سب سے پہلے مناہل کے کمرے میں گئے جو انکے آتے ہی اپنا سر پر پھیلا ڈوپٹہ مزید صحیح کرکے پھیلانے لگی

مناہل فہد صاحب کی اکلوتی بیٹی تھی جسے انہوں نے بہت نازوں سے پالا تھا

لیکن انہیں یہ بات ہرگز پسند نہیں تھی کہ گھر کی عورتوں بغیر ڈوپٹے کے باہر جائیں بلکہ گھر میں بھی سر ڈھانپ کر رہے 

کچھ انکی تربیت تھی تو کچھ خود اسکی عادت 

بغیر حجاب کے وہ باہر نہیں جاتی تھی اور گھر میں بھی ڈوپٹہ ہر وقت اسکے سر پر رہتا تھا

"اچھا گزرا لیکن آپ کو پتہ ہے میں نے وہاں بیٹھی ایک لڑکی سے راستہ پوچھا تو اسنے مجھے غلط راستہ بتادیا"وہ تفصیل سے پوری بات انہیں بتانے لگی

"پھر ایک لڑکا آیا اور وہ مجھے میری کلاس تک چھوڑ کر گئے"

"کون تھا وہ لڑکا" انکی بات سن کر اسکی چلتی زبان رکی

"وہ مجھے کلاس تک چھوڑنے آے تھے لیکن میں اب آئیندہ کسی لڑکے سے بات نہیں کروں گی ابو"

"نہیں بیٹا ضرورت ہو تو بات کرو اور چاہو تو دوستی بھی کرلو لیکن ایسے ہی آنکھیں بند کرکے کسی پر اعتبار مت کرنا مجھے اپنی بیٹی پر بھروسہ ہے جو جی میں آے کرو بس اپنی حدود مت بھولنا"

اسنے نظریں جھکا کر ہولے سے اپنا سر ہلادیا

دراز کھول کر اسنے اپنے پسندیدہ کف لنکس نکالے اور جاکر ڈریسنگ کے سامنے کھڑا ہوگیا

وائٹ شرٹ کے سارے بٹن لگا کر اسنے گھنے بالوں میں برش پھیرا اور ڈریسنگ سے پرفیوم کی بوتل اٹھا کر خود پر چھڑکنے لگا

پرفیوم کی خوشبو دھیرے دھیرے سارے کمرے میں پھیلنے لگی

بیڈ پر رکھا اپنا کوٹ اٹھا کر اسنے بازو پر لٹکایا اور سائیڈ ٹیبل پر رکھا اپنا موبائل اٹھایا جو کب سے بجے جارہا تھا

"ہیلو" کمرے کے خاموش ماحول میں اسکی سنجیدہ سی آواز گونجی

"سر آپ کے آفس میں کوئی میڈم ملنے آئی ہیں کافی دیر سے آپ کا انتظار کررہی ہیں اور آپ کے بارے میں پوچھ رہی ہیں"

"نام کیا ہے"

"صالحہ حبیب"

"کس سلسلے میں ملنا ہے"

''طیب حبیب کے کیس کے سلسلے میں کچھ بات کرنی ہے"

طاہر کی بات سن کر ماتھے پر پڑے بلوں میں اصافہ ہوا

"آرہا ہوں" 

اسنے کال کاٹ کر ڈریسنگ پر رکھی اپنی گاڑی کی چابی اٹھائی اور تیز تیز قدم اٹھاتا اس عالیشان کمرے سے نکل گیا

°°°°°

"کتنی پیاری تھی وہ لڑکی معصوم سی کچھ الگ بات تو تھی اس میں"

سر کے نیچے ہاتھ رکھے وہ بیڈ پر لیٹا اس وقت اپنی سوچوں میں گم تھا اور سوچوں کا رخ صرف مناہل تھی جو پہلی ہی ملاقات میں اسکے زہہن پر حد سے زیادہ سوار ہوچکی تھی

"کیا سوچ رہے ہو"

تحریم کی آواز پر وہ ہوش کی دنیا میں لوٹا

وہ اپنی سوچوں میں اتنا مگن تھا کہ وہ کب اسکے کمرے میں آئی اسے علم ہی نہ ہوسکا

"کچھ خاص نہیں"

"کچھ تو خاص ہے بھائی ورنہ آج سے پہلے تو تم اس طرح کبھی خیالوں کی دنیا میں نہیں گئے" اسکا انداز اس وقت کسی ڈیٹیکٹیو کی طرح تھا جیسے اسکے اندر کی ساری باتیں جان لے گی

"کچھ نہیں ہوا ہے تم بتاؤ کہاں سے آرہی ہو جب سے گھر میں آیا ہوں دکھی ہی نہیں" اسنے تحریم کا دھیان دوسری طرف لگانا چاہا جس میں کامیاب بھی ٹہرا

"وہ وسیم کے ساتھ گئی تھی" اسنے شرمیلی سی مسکراہٹ لبوں پر سجا کر کہا جسے دیکھ کر سکندر بےاختیار مسکرایا

وسیم اسکا منگیتر تھا جس سے چند ماہ پہلے ہی اسکی منگنی ہوئی تھی انکی شادی کب ہونی تھی یہ ابھی طے نہیں ہوا تھا

"اچھا تو کیا کرنے گئے تھے"

"ہم شاپنگ پر گئے تھے رکو میں دکھاتی ہوں" اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ جلدی سے کمرے سے باہر نکلی تاکہ وہ سارا سامان لا کر سکندر کو دکھا سکے جو وسیم نے اسے دلایا تھا

°°°°°

آفس روم میں داخل ہوتے ہی اسنے طاہر کو ویٹنگ روم میں بیٹھی صالحہ کو بلانے کے لیے کہا اور اپنا بلیک کوٹ اسٹینڈ پر لٹکا کر خود چئیر پر بیٹھ گیا

آفس روم میں داخل ہوتے ہی صالحہ نے وہاں بیٹھے اس سنجیدہ سے شخص کو دیکھا

وہ بیریسٹر وجدان راحم شیرازی تھا جو ایک مشہور اور کامیاب وکیل تھا جس کی  گندمی رنگت اور بھورے رنگ کی پرکشش آنکھیں تھیں

اسکے چہرے پر سختی اور پیشانی پر لاتعداد بل ہمیشہ رہتے تھے

کچھ لوگوں کے لیے وہ بددماغ تھا تو کچھ لوگوں کے لیے انصاف پسند

وہ پیشے کا وکیل تھا جس نے اپنے کام سے ہمیشہ انصاف کیا تھا نہ اسے خود جھوٹ پسند تھا اور نہ جھوٹ بولنے والے

"بیٹھ جائیں مس حبیب" اسنے صالحہ کو بیٹھنے کا اشارہ کیا 

وہ آگے بڑھ کر اسکے قریب ضرور آئی تھی لیکن بیٹھی نہیں

"میرا بھائی اس وقت جیل میں ہے"

"وہ کافی دنوں سے ہے حیرت ہے آپ کو اب پتہ چلا"

اسکے کہنے پر صالحہ نے ضبط سے آنکھیں بند کیں اسکا بھائی واقعی کافی دنوں سے جیل میں تھا لیکن اسکے گھر والوں نے اسے اطلاع تک نہیں دی

انکے نزدیک وہ یہ معاملہ خود حل کرلیتے لیکن ایسا نہیں ہوا چاہ کر بھی وہ طیب کی ضمانت نہیں کرا سکے اس پر کیس بن چکا تھا 

جس لڑکی کے ساتھ اسنے بدتمیزی کی تھی اسکے ماں باپ اب اسے عدالت تک میں لے جانا چاہتے تھے تاکہ اسے اسکے کیے کی سزا مل سکے 

اسلیے اس معاملے میں اسکے گھر والوں کے لیے صالحہ کی موجودگی ضروری تھی کیونکہ اسکے علاؤہ کوئی اور یہ معاملہ حل نہیں کرسکتا تھا والد تھے نہیں اور وہ گھر کی سب سے بڑی اولاد تھی وہ اپنے گھر کی لیڈر تھی

"میرے بھائی نے کچھ نہیں کیا ہے"

"آپ کا بھائی اس وقت ریپ کیس کی وجہ سے جیل میں ہے مس حبیب اور آپ جانتی ہیں وہ غلط ہے اسنے جو کیا ہے وہ غلط ہے"

"کوئی ثبوت ہے آپ کے پاس بیریسٹر صاحب"اسکا لہجہ تلخ ہوا

"میرے پاس گواہ ہیں آپ کا بھائی کافی دنوں سے اس لڑکی کو تنگ کررہا تھا اور پھر ایک دن اسے زبردستی اٹھا کر اپنے ساتھ لے گیا اسے زیادتی کا نشانہ بنایا اور پھر اسے اسکے گھر کے باہر پھینک گیا" اسنے بےتاثر چہرے کے ساتھ کہا

"آپ کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے" اسنے اپنی بات پر زور دیا

"میرے پاس ثبوت بھی ہیں اور گواہ بھی عدالت میں آپ کو دکھا دوں گا"

اسکے کہنے پر صالحہ نے گہرا سانس لے کر اپنے چہرے پر آیا پسینہ صاف کیا اسے یہ معاملہ اسے آرام سے سلجھانا تھا

"دیکھیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ہمارے یہاں ایسے معاملے ہر روز ہوتے ہیں ڈیل کرکے اس معاملے کو یہیں ختم کریں"اسنے اپنے دونوں ہاتھ ٹیبل پر رکھ کر تحمل سے کہا

جبکہ اسکی بات سن کر بھی وجدان کے چہرے کے تاثرات ایسے ہی رہے جیسے پہلے تھے

"آپ کی ایک چھوٹی بہن ہے اسکے ساتھ کل جب یہ حادثہ ہو تو کیا تب بھی آپ یہی کریں گی"

"اپنی بکواس بند کرو"وجدان کی بات سن کر وہ چیخی جبکہ اسکا انداز دیکھ کر وجدان کے لبوں پر تنظیہ مسکراہٹ آئی

"دیکھو تمہیں جتنا پیسہ چاہیے لے لو بس اس معاملے کو ختم کرو" وہ اسے اس چیز کی آفر کررہی تھی جس کی اسے نہ کبھی ضرورت تھی اور نہ ہے ہوتی بھی تو کم از کم وہ اس طرح کا کام ہرگز نہیں کرتا

"رشوت دینا چاہ رہی ہیں"

"ہاں" اسنے کھلے لفظوں میں اقرار کیا

"گیٹ آوٹ"

"واٹ" اسے لگا اسنے کچھ غلط سن لیا تھا لیکن اسنے غلط نہیں سنا تھا

"آئی سیڈ گیٹ آؤٹ فرام ہئیر" اسکے لہجے کی سختی دیکھ کر صالحہ نے دونوں ہاتھ ٹیبل پر رکھے اور آگے کی طرف جھکی

"تم جانتے نہیں ہو مجھے صالحہ حبیب نام ہے میرا ایسی خبر چھاپوں گی تمہارے خلاف ساری زندگی پچھتاتے رہو گے"اسنے دانت پیستے ہوے کہا

"تم مجھے نہیں جانتی ہو جان لیتیں تو تمہارے لیے اچھا ہوتا" اسکے چہرے کی سختی مزید بڑھی

"میں بیرسٹر وجدان شیرازی ہوں تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ہو اپنی کہی باتوں پر عمل کرکے دکھاؤ تمہیں ایسے کیس میں پھنساؤں گا کہ ساری زندگی قید خانے میں گزارنی پڑے گی"

اسکے کہنے پر صالحہ نے ایک غصے بھری نظر اس پر ڈالی اور بنا کچھ کہے وہاں سے چلی گئی

اسے پتہ تھا اب معاملہ سیدھے طریقے سے حل نہیں ہوگا

°°°°°

"اے آیت کہاں جارہی ہے بنا ناشتہ کیے"دودھ کا گلاس جلدی سے ختم کرکے وہ جانے لگی جب اماں بی نے اسے روک لیا

"کالج جارہی ہوں اماں بی"

"یہ دودھ کا گلاس پی کر کالج جاے گی پہلے کچھ کھا تو لے"

"نہیں پہلے ہی بہت دیر ہوگئی ہے"

"دیکھ آیت کھا کے جا ورنہ تیری ممانی کو پتہ چلا کہ تو بنا کچھ کھاے ایسے ہی چلی گئی تو بہت ڈانٹ پڑے گی"

"اسلیے تو جلدی نکل رہی ہوں تاکہ ممانی کے شاور لینے سے پہلے پہلے گھر سے نکل جاؤں مجھے جانا ہے پہلے ہی بہت لیٹ ہوگئی ہوں پہلی کلاس ہی ایک سڑے ہوے ٹیچر کی ہے لیٹ پہنچی تو جلاد نے کلاس سے باہر کردینا ہے" اسنے اپنی چھوٹی سی ناک چڑھائی جبکہ اسکی بات کا مطلب سمجھ کر اماں بی نے گھور کر اسے دیکھا

"ایسے نہیں بولتے بری بات"

"واپس آکر ضرور پوچھوں گی اماں بی کہ کس طرح بولتے ہیں لیکن ابھی مجھے جانا ہے اللہ حافظ"انکے گلے مل کر وہ جلدی سے باہر بھاگ گئی

کیونکہ اسکی ممانی جان کمرے سے باہر جو آگئی تھیں اور اگر پتہ چل جاتا کہ آیت میڈم بنا ناشتے کے جارہی ہیں تو اسے زبردستی بٹھا کر کھلانے لگ جاتیں لیکن کھاے بنا جانے نہیں دیتیں

°°°°°

"تم نے بات کی ہے نہ جب تمہاری نہیں سنی تو میری کیا سنے گا"صالحہ کی ساری بات سن کر اسنے جواب دیا

"لیکن تمہارے بات کرنے کا انداز مختلف ہوتا ہے علیحہ تم لوگوں کو اپنی بات ماننے پر مجبور کر دیتی ہو"

"صالحہ تمہارے بھائی نے غلطی کی ہے میں کیوں اسکی حمایت کروں"

"میں جانتی ہوں اسنے غلطی کی ہے لیکن وہ میرا بھائی ہے میں اس ایسے نہیں چھوڑ سکتی تم پلیز اس سے ایک بار بات کرکے دیکھو پلیز"

اسنے منت بھرے انداز میں کہا جسے دیکھ کر چند لمحوں بعد علیحہ نے اپنا سر ہلادیا

ایک کوشش تو وہ اپنی دوست کے لیے کر ہی سکتی تھی

°°°°°

"حیدر سنا ہے تمہاری انگیجمنٹ ہونے والی ہے"اس وقت وہ سب ہمیشہ کی طرح فری ٹائم میں یونی گراؤنڈ میں بیٹھے ہوے تھے جب منزہ نے اس سے پوچھا

"ہاں تو"

"حیرت ہے مجھے تو لگا تم منزہ سے شادی کرو گے" جواب میں اسکا اقرار سن کر رمشہ نے حیرت سے کہا کیونکہ وہ حیدر اور منزہ یونی میں ہمیشہ لورز کی طرح ہی رہتے تھے

"تمہیں ایسا لگ بھی سکتا ہے کیونکہ میں نے آج تک ایک مہینے سے زیادہ کسی لڑکی کو اپنے ساتھ نہیں رکھا منزہ پہلی ہے جو تین سالوں سے میرے ساتھ ہے لیکن اب ہمارے درمیاں کچھ نہیں ہے کیونکہ اسکے ساتھ اتنی وقت گزاری کافی ہے" اسنے لاپروائی سے شانے اچکاے جبکہ اسکی بات سن کر منزہ منہ بنا کر رہ گئی لیکن کہا کچھ نہیں

سکندر اور حیدر انکے گروپ کے امیر بندے تھے فرق یہ تھا کہ سکندر ایک نرم خو پولائٹ سا بندہ تھا اور حیدر بگڑہ ہوا رئیس زادہ

لڑکیاں اسکے لیے ایک کھیل تھیں آج بور تو کل چینج لیکن یہ بات جاننے کے باوجود بھی ہر لڑکی کو اسکے ساتھ کی خواہش تھی وجہ اسکا امیر ہونا اور بےانتہا خوبصورتی

"ہمارا سکندر کہاں ہے" سکندر کی غیر موجودگی دیکھ کر اسنے قریب بیٹھے سمیر سے پوچھا

"ہمارا سکندر آج کل کہیں اور ہی گم ہے"

اسکی بات سن کر حیدر نے ماتھے پر بل ڈالے ناسمجھی سے اسے دیکھا

"کیا مطلب"

"تمہاری مس حجابن سے اسکی کافی دوستی ہوگئی ہے" اسکی بات سن کر حیدر نے قہقہہ لگایا

"مجھے پتہ تھا یہ لڑکیاں خاص طور پر جو حجاب اور برقع پہنتی ہیں یہ ایسی ہی ہوتی ہیں زرا سا لڑکے نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا فورا تھام لیتی ہیں"

"وہ ایسی نہیں ہے حیدر" رمشہ نے اسکی بات کی نفی کی جتنا سکندر کی زبانی اسنے مناہل کے بارے میں سنا تھا اس سے تو وہ اسے ہر طرح سے ایک شریف اور باحیا لڑکی ہی لگی تھی

"ایسی ہی ہے"

"اچھا تو تم کرکے دکھاؤ اس سے دوستی پھر میں مان لوں گی وہ واقعی میں ایسی ہی ہے"

"ٹھیک ہے میں کرکے دکھاؤ دوں گا پر شرط ہے اسکے بدلے مجھے کچھ ملے"

"کیا چاہیے تمہیں"

"تمہاری ایک کس"

اسکے کہنے پر چند لمحے سوچ کر اسنے منزہ کی طرف اشارہ کیا

"منزہ دے گی تمہیں کیوں منزہ"اسنے منزہ سے راے لی جس پر اسنے اپنے کندھے اچکا دیے

اسکے لیے یہ کونسی نئی بات تھی وہ حیدر کے ساتھ پہلے بھی یہ کام کرچکی تھی

لیکن حیدر نے آج تک کس کے علاؤہ اسکے ساتھ مزید کوئی حد پار نہیں کی تھی

تیز تیز قدم اٹھاتی وہ جنگل میں بھاگ رہی تھی اسکے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹے ہوے تھے جبکہ بدن پر بھی زخموں کے نشان موجود تھے

بھاگتے ہوے اسنے چند لمحے رک کر اپنا سانس بحال کیا جب سامنے نظر آتے منظر کو دیکھ کر اسکے قدم اپنی جگہ جم گئے

اسکے سامنے ایک شیر موجود تھا یہ جنگل خطرناک جانوروں سے بھرا پڑا تھا اسلیے یہاں کسی شیر کی موجودگی کوئی حیرانی والی بات نہیں تھی

لیکن وہ خوفزدہ تھی شاید کوئی بھی شخص اس خطرناک جانور کو اپنے سامنے دیکھ کر ہو جاتا خوف سے اسکا وجود کپکپارہا تھا آج تک اگر کبھی اس خطرناک جانور کو اسنے دیکھا بھی تھا تو صرف پنجرے میں لیکن آج وہ کسی پنجرے میں قید نہیں تھا

وہ سانس بھی نہیں لے رہی تھی اسنے الٹے قدم اٹھانے شروع کیے جب اسکے قدموں کی آواز سن کر وہ شیر اسکی جانب متوجہ ہوا اور اپنے شکار کو دیکھتے ہی اس پر جھپٹنے لگا

اسے اپنے قریب آتے دیکھ کر وہ خوف سے اگلے ہی پل بےہوش ہوچکی تھی

بھاگ کر وہ شیر اسکے قریب آیا لیکن اس سے پہلے وہ اسے کوئی نقصان پہنچا پاتا ایک گولی سیدھا آکر اس شیر کو لگی اسی طرح دوسری اور تیسری بھی

درد سے تڑپتا ہوا وہ وہیں پر گر گیا

جب تیز تیز قدم اٹھاتا وہ نوجوان اس نازک وجود کے قریب آیا اور اپنی رائفل سائیڈ پر رکھ کر اسکے بےہوش وجود کو اپنی بانہوں میں اٹھالیا اور اسے لے کر وہاں سے چلا گیا 

اس جانوروں سے بھرے جنگل میں وہ اس انجان لڑکی کو اکیلا تو نہیں چھوڑ سکتا تھا

°°°°°

"اسلام و علیکم اماں جان" گھر میں داخل ہوتے ہی وہ سیدھا ناز بیگم کے کمرے میں گیا تھا جو قرآن پاک کی تلاوت کرکے اسے جزدان میں رکھ رہی تھیں

"وعلیکم اسلام میرا بیٹا تم تو آفس چلے گئے تھے نہ"

"جی بلکل گیا تھا لیکن آپ کے لاڈلے کا کارنامہ سن کر واپس آنا پڑا" اسکی بات سن کر ناز بیگم بےساختہ مسکرا اٹھیں

"بیٹا وہ اب اس لڑکی کو جنگل میں ایسے ہی چھوڑ آتا"

"اماں جان ہم جانتے بھی نہیں ہیں وہ لڑکی کون ہے"شک کرنا اسکی عادت میں شمار تھا کم از کم تب تک تو جب تک وہ بات کی مکمل تحقیق نہیں کرلیتا تھا

"ہوسکتا ہے کسی دشمن کی بھیجی ہوئی ہو وہ کیسے ایک انجان لڑکی کو یہاں لے آیا "

"جاکر اپنے بھائی سے ہی بات کرو وجدان وہ تمہیں زیادہ اچھے سے سمجھا دے گا"

"کہاں ہے وہ"

"براق کے ساتھ ہے" انکے کہنے پر وجدان اٹھ کر انکے کمرے سے باہر چلا گیا

°°°°°

کلاس خالی ہوچکی تھی اپنا بیگ اٹھا کر وہ بھی کلاس سے جانے لگی جب وہاں کھڑے ازہار نے اسے اپنی جانب کھینچ لیا اور اسکی اس اچانک عمل کے باعث وہ سیدھا اسکے سینے سے ٹکرائی

"ازہار چھوڑیں مجھے" آیت نے اپنا بازو اسکی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کی

"ایسے کیسے چھوڑ دوں رات کو جو تم علیحہ کے کمرے میں سوئی تھیں نہ اسکے باعث مجھے میری مارننگ کس نہیں ملی ہے چلو ابھی دے دو"

"ہم کلاس میں ہیں" آیت نے اسے جگہ کا احساس دلانے کی کوشش کی

"تو کیا ہوا"

"مورننگ ختم ہوچکی ہے"

"پھر بھی دے دو"

"ازہار کوئی دیکھ لے گا"

"ابھی تو نہیں دیکھ رہا نہ" اسکے کہنے پر آیت نے تنگ آکر جلدی سے اسکے گال پر اپنے لب رکھے جانتی تھی جب تک اسے اسکی مارننگ کس نہیں دے گی تب تک وہ اسے چھوڑے گا نہیں

یہ ازہار کی روٹین میں شامل تھا جب تک وہ آیت کے کمرے میں جاکر اس سے اپنی مارننگ کس نہیں لیتا تھا تب تک اسکے دن کی شروعات نہیں ہوتی تھی

رات کو وہ علیحہ کے کمرے میں سوگئی تھی جس کے باعث وہ صبح یہ کام سر انجام نہیں دے پایا اسلیے اب موقع ملتے ہی آیت سے کس لینا اسنے اپنا فرض سمجھا

°°°°°

اسکے سارے بال اس وقت ماتھے پر بکھرے پڑے تھے جبکہ چہرے کی سنجیدگی ہمیشہ کی طرح برقرار تھی

اور وہ اپنے پسندیدہ کام یعنی ہورس رائڈنگ میں مصروف تھا جانوروں کا اسے شوق نہیں تھا لیکن براق وہ واحد جانور تھا جو اسے دل و جان سے عزیز تھا

وہ سفید رنگ کا ایک عربی گھوڑا تھا جس کی قیمت لاکھوں میں تھی اور وہ صرف اپنے مالک کے اشارے پر ہی چلتا تھا

"مشارب" وجدان کے پکارنے پر اسنے تیز تیز دوڑتے براق کو روکا اور اسکی طرف متوجہ ہوا

ہلکی ہلکی دھوپ سیدھا اسکے چہرے پر پڑنے لگی جس کے باعث اسکی سفید رنگت جیسے چمک رہی تھی

اسکے سفید چہرے پر ہلکی ہلکی داڑھی مونچھیں اسکی خوبصورتی میں مزید اِضافہ کرتی تھیں

دیکھنے والے کو کبھی کبھی یہ سمجھ نہیں آتا تھا کہ اسکی رنگت زیادہ سفید ہے یا بال زیادہ سیاہ ہیں اس کے اوپر سے اسکی سیاہ آنکھوں میں ایک عجیب سی کشش تھی

اگر کوئی کہتا کہ مشارب راحم شیرازی خوبصورتی کا مجسمہ ہے تو یہ غلط بات نہیں تھی

"رحیم بابا" گھوڑے سے اتر کر اسنے کونے میں کھڑے رحیم بابا کو اپنی طرف بلایا 

براق کا خیال رکھنے ذمیداری مشارب نے صرف انہی دی تھی انکے علاؤہ وہ کسی اور ملازم کو اس کے پاس بھٹکنے بھی نہیں دیتا تھا

"جی چھوٹے صاحب"رحیم بابا نے اسکے قریب آکر پوچھا

"براق کو لے جائیں تھک گیا ہوگا نہ میرا بچہ" اسنے براق کو تھپتھپاتے ہوے کہا اور وجدان کے قریب چلا گیا

°°°°°

"کیا ہوا"

"بتانا پسند کرو گے ایس پی صاحب یہ تحفہ کہاں سے اٹھا کر لاے ہو" اسکے کہنے پر مشارب بےساختہ مسکرایا

"شکار پر گیا تھا وہاں سے ہی ملی"

"اور کیوں لے کر آے ہو"

"وجدان ہر کسی پر شک کرنے کی عادت چھوڑ دو تم نے اس لڑکی کی حالت نہیں دیکھی تھی ورنہ کبھی ایسا نہیں کہتے"

"مشارب نہ میں نے اسکی حالت دیکھی ہے اور نہ مجھے دیکھنی ہے" اسکے پیشانی پر لاتعداد بل نمودار ہوئے

"اسے ہوش آجاے تو میں اس سے بات کروں گا اس سے پوچھوں گا وہ کہاں رہتی ہے پھر اسے وہاں چھوڑ آؤں گا"

"ہوش آگیا ہے اس لڑکی کو"

"تو بتایا کیوں نہیں"اسکے بتانے پر مشارب نے اسے گھورتے ہوے کہا اور اندر کی طرف چلا گیا

°°°°°

کتابیں سنبھالتی ہوئی وہ لائبریری کی طرف جارہی تھی

اس یونی میں اس کی اب تک صرف ایک سکندر سے ہی دوستی ہوئی تھی وہ اچھا تھا بلکہ بہت اچھا

اسکا مزاج ہمیشہ دھیما اور لہجہ نرم رہتا تھا مناہل کے لیے وہ ایک خاص دوست تھا لیکن سکندر کے لیے وہ بہت کچھ بن چکی تھی

"مناہل" حیدر کی آواز پر اسنے مڑ کر اسکی طرف دیکھا جو اسکے دیکھنے پر اپنا ہاتھ اسکی طرف بڑھا چکا تھا

"تم سے دوستی کرنا چاہتا ہوں"

"لیکن مجھے آپ سے دوستی نہیں کرنی"

"سکندر سے تو کرلی تھی"

"سکندر اچھا ہے"

"لڑکیاں مرتی ہیں مجھ سے دوستی کے لیے اور اگر تمہاری بات کہوں تو میں بھی تمہیں وہ سب کچھ دے سکتا ہوں جو سکندر تمہیں دے رہا ہے کیا چاہیے تمہیں پیسہ یا پھر میرے ساتھ پیار بھرے لمحات"

"چٹاخ" کی آواز کے ساتھ ہی ہر طرف سناٹا چھا گیا تھا سب حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہے ایسا پہلی بار ہی تو ہوا تھا کہ کسی نے حیدر گیلانی پر ہاتھ اٹھانے کی ہمت کی تھی

"یہ باتیں بھی جاکر انہیں سے کرو جو لڑکیاں تم سے دوستی کے لیے مرتی ہیں مجھے ان جیسا مت سمجھنا" اسے غصے سے گھورتے ہوے وہ وہاں سے چلی گئی جبکہ وہ خود بھی اپنا غصہ ضبط کرتا وہاں سے چلا گیا

اس تھپڑ کا بدلہ تو وہ ضرور لیتا اتنی آسانی سے وہ اب اس لڑکی کو چھوڑنے والا نہیں تھا

°°°°°

آنکھ کھلتے ہی اسنے حیرت سے اس نئی جگہ کو دیکھا وہ زندہ تھی جب کہ اسے تو لگ رہا تھا وہ شیر اب تک اسکی ہڈیاں بھی نگل چکا ہوگا

کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک لڑکی اندر داخل ہوئی

"آپ ہوش میں آگئیں میں چھوٹے صاحب کو بتاکر آتی ہوں" اسے دیکھتے ہی وہ خوشی سے واپس باہر چلی گئی

اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ لڑکی کمرے کا جائزہ لینے لگی جب دھیان اپنے کپڑوں کی طرف گیا اسے جہاں تک یاد تھا اسکے کپڑے تو پھٹ چکے تھے لیکن یہ کپڑے بلکل صحیح حالت میں تھے

یقیناً اسکے نہیں تھے اسکے نازک وجود کے لیے وہ بہت ڈھیلے ڈھالے تھے 

لیکن اسکا دھیان صرف اس بات پر تھا کہ اسکے کپڑے چینج کس نے کیے

دروازہ پھر کھلا اور وہ خوبرو مرد اندر داخل ہوا اسنے ایک نظر اٹھا کر سامنے کھڑے مشارب کو دیکھا اور اپنی الجھن بھری نظریں جھکالیں

°°°°°

اسکی الجھن وہ بہت آرام سے محسوس کرچکا تھا اسلیے خالا بی کو آواز دینے لگا جسے سن کر وہ جلدی سے بھاگتی ہوئی کمرے میں آئیں

"کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے" انہوں نے ایک نظر اس لڑکی پر ڈالی جو اس وقت نظریں جھکائے بیٹھی تھی جبکہ اسکے کھلے بال بکھر رہے تھے

"آپ کے کپڑے انہیں کچھ ڈھیلے نہیں آرہے کم از کم دیکھ کر تو پہناتیں"اسکے کہنے کا مقصد صرف سامنے والے کو یہ بتانا تھا کہ اس کے کپڑے کس نے تبدیل کیے

"بیٹا تو کیا کرتی میرے جوڑے تو اس بچی کو ایسے ہی آنے تھے تم فکر مت کرو کل زلیخہ (بیٹی) کے پاس جاکر اسکا نیا جوڑا لے آؤں گی وہ انہیں ٹھیک آجاے گا"

انکے کہنے پر اسنے اپنا سر ہلاکر انہیں جانے کا اشارہ کیا اور اسکی طرف متوجہ ہوا

اسکے زخموں پر اماں جان نے پٹی کردی تھی اور کپڑے خالا بی نے تبدیل کردیے تھے اسلیے اسکی حالت پہلے کی نسبت کافی بہتر تھی

"کیسی ہو تم"

آپ کا تکلف کیے بنا وہ سیدھا تم تک آیا

اسکے کہنے پر سامنے بیٹھے وجود نے ہولے سے سر کو جنبش دی

"میں آپ کو کہاں ملی آپ مجھے یہاں کیوں لائے"

"تم مجھے جنگل میں ملی تھیں بےہوش ویسے میرے لحاظ سے کوئی بھی لڑکی اتنے خطرناک جانور کو اپنے قریب دیکھے گی تو یہی ردعمل دے گی اب تم مجھے اپنے بارے میں بتاؤ تم کہاں رہتی ہو وہاں جنگل میں کیا کررہی تھیں"اسنے مشکوک نظروں سے سامنے کھڑے مشارب کو دیکھا

"مجھ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے میں ایک پولیس آفیسر ہوں تمہاری مدد ہی کروں گا"

"میں اپنے چاچا کہ ساتھ رہتی تھی انکا بیٹا مجھے پسند کرتا تھا جب اسنے چاچی سے مجھ سے شادی کی خواہش کی تو چاچی نے مجھ پر الزام لگا کر مجھے گھر سے نکال دیا انہیں ڈر تھا اگر میں وہیں رہتی تو اسکے دباؤ میں انہیں مجبورا اپنے بیٹے سے میری شادی کرنی پڑتی راستے میں میرے پیچھے کچھ لڑکے لگ گئے تھے"

بتاتے بتاتے اسکا لہجہ بھیگ چکا تھا

"وہ میرے ساتھ بدتمیزی کرنا چاہتے تھے میں ان سے بچ کر بھاگ رہی تھی اور بھاگتے بھاگتے اس جنگل میں چلی گئی"

"تو اب تم وہاں تو نہیں جاسکتی ہو پھر کہاں جاؤ گی"

"مجھے نہیں پتہ لیکن کوئی نہ کوئی راستہ  نکل ہی آے گا آپ کا بہت شکریہ آپ نے میری مدد کی" وہ بیڈ سے اترنے لگی جب مشارب اسکے قریب آیا 

"دیکھو تم ابھی نہیں جاسکتی ہو کم از کم تب تک تو نہیں جب تک تمہارے زخم نہیں بھر جاتے"

"دیکھیں"

"ڈرنے یا گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے تم محفوظ جگہ پر ہو یہاں کوئی تمہیں کچھ نہیں کہہ سکتا میں تمہیں یہاں لایا تھا تم کہاں جاؤ گی یہ تمہارا مسلہ ہے لیکن جب تک تم ٹھیک نہیں ہوجاتی ہو تب تک میں تمہیں یہاں سے جانے نہیں دے سکتا" اسنے نظریں اٹھا کر اس سیاہ آنکھوں والے خوبرو شخص کو دیکھا اور نظریں واپس جھکالیں

"مجھے فلحال جانا ہے لیکن کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو گھر میں خواتین ہیں ان سے تم بلا جھجک کہہ سکتی ہو کوئی پریشانی ہو تو اماں جان سے کہہ کر مجھے فون کردینا"

ایک گہری نظر اسکے چہرے پر ڈال کر وہ جانے لگا لیکن پھر ایک خیال آتے ہی مڑ کر اسکی طرف دیکھنے لگا

"تم نے اپنا نام نہیں بتایا" مشارب کے کہنے پر اسکے لب ہولے سے ہلے

"د--دعا دعا حیدر"

اپنا سر ہلاکر وہ اسکے کمرے سے چلا گیا

"تمہیں اس پر ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیے تھا مناہل" سکندر کے کہنے پر وہ اپنے نرم لب چبانے لگی

"میں نے بتایا کہ آپ کو اسنے مجھ سے کیا کہا تھا بس اسلیے مجھے غصہ آگیا"

"مناہل تم اگنور کر دیتیں لیکن اس پر ہاتھ نہیں اٹھاتیں" حیدر چاہے جیسا بھی تھا لیکن تھا تو اسکا دوست نہ ایسے میں مناہل کا اس پر سب کے سامنے ہاتھ اٹھانا اسے برا لگا تھا

دوسرا اس بات کا ڈر بھی لگ رہا تھا کہ حیدر اب مناہل کے ساتھ کچھ الٹا سیدھا نہ کردے مناہل نے اسے سب کے سامنے تھپڑ مارا تھا وہ تو کسی کی اونچی آواز تک برداشت نہ کرے یہاں تو پھر بات تھپڑ کی تھی 

جس وقت یہ واقعی ہوا اس وقت وہ یونی کے بیک سائیڈ پر تھا اسے یہ ساری باتیں رمشہ سے پتہ چلی تھیں اگر وہ خود اس وقت وہاں پر موجود ہوتا تو مناہل کو کبھی ایسی حرکت نہ کرنے دیتا

"میں ان سے معذرت کرلوں"

"ہاں تم کرنا چاہو تو کرلو باقی میں بھی اسے سمجھاؤں گا آج کے بعد تم سے اس طرح کی گفتگو نہ کرے"

اسکی بات سن کر وہ پھر سے اپنے لبوں کو چپانے لگی سکندر سے بات کرنے کے بعد اب تو اسے بھی حیدر پر ہاتھ اٹھانے کا افسوس ہورہا تھا

°°°°°

"کہیے آپ کون ہیں اور مجھ سے کیوں ملنا تھا آپ کو" اسکے آفس میں داخل ہوتے ہی وجدان نے سنجیدگی سے پوچھا اور پہچاننے کی کوشش کی لیکن وہ چہرہ اسکے لیے انجان تھا وہ اس چہرے  کو زندگی میں پہلی بار دیکھ رہا تھا

"میں علیحہ درانی ہوں اور مجھے آپ سے طیب حبیب کے کیس کے سلسلے میں کچھ بات کرنی تھی"

"طیب حبیب سے آپ کا کیا تعلق ہے"

"وہ میری دوست کا بھائی ہے"

"تو آپ اسکی سفارش کرنے آئی ہیں"

"نہیں میں بس اپنی دوست کی طرف سے ایک درخواست کرنے آئی ہوں طیب نے غلطی کی ہے لیکن آپ اسے بچا سکتے ہیں"

"تاکہ وہ پھر سے یہ غلطی بلکہ گناہ کرے" اسکے کہنے پر علیحہ نے گہرا سانس لے کر اپنا سر نفی میں ہلایا

"نہیں وہ ایسا کچھ نہیں کرے گا اور اگر اسنے پھر سے کچھ ایسا کرنا چاہا تو میں خود اسے گولی مار دوں گی" اسکی بات سن کر بھی وجدان کا چہرہ بےتاثر رہا

"مس درانی آپ کو جو بھی بات کہنی ہے عدالت میں کہیے گا آپ بےحد خوبصورت ہیں شاید آپ کی دوست نے اسی لیے آپ کو یہاں بھیجا ہے لیکن مجھ پر آپ لوگوں کی ان گھٹیا چالوں کا کوئی اثر نہیں ہونا" اسکے کہنے پر علیحہ نے غصے سے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں

"تم کیا کہنا چاہتے ہو" اس بار اسنے آپ کہنے کا تکلف نہیں کیا تھا جبکہ اسکی آواز پہلے کی نسبت تیز تھی

"وہی جو آپ سمجھ رہی ہیں"

اسکے کہنے پر علیحہ غصے سے اسکی طرف بڑھی

"میں گھٹیا نہیں ہوں گھٹیا تمہاری سوچ ہے"

"ایسا آپ کو لگا تب ہی تو آپ کو یہاں بھیجا گیا ہے" اسکے کہنے پر علیحہ نے غصے سے اسکا گریبان پکڑنا چاہا لیکن اس سے پہلے ہی وجدان اسکی دونوں کلائیاں اپنی گرفت میں لے چکا تھا

اس وقت علحیہ درانی کو اندازہ نہیں تھا کہ سامنے کھڑا شخص باقی لڑکوں کی طرح نہیں ہے جن سے وہ آج تک الجھتی آئی تھی

"آج کے بعد یہ غلطی مت کرنا"اسکی سخت آواز پر علیحہ نے غصے سے اسکے پیٹ میں زوردار لات ماری

جو کچھ زیادہ ہی زور سے لگ گئی تھی تکلیف کے باعث وجدان نے اسکا ہاتھ چھوڑا یہ حملہ اچانک تھا ورنہ وہ اپنا بچاؤ ضرور کرتا

"آج کے بعد مجھے غلطی سے بھی مت چھونا" علیحہ نے ایک غصے بھری نگاہ اس پر ڈالی اور اسکے آفس سے چلی گئی جبکہ وجدان اسکے نظروں سے اوجھل ہونے تک اپنی سرخ ہوتی آنکھوں سے اسکی پشت کو گھورتا رہا

°°°°°

کام مکمل ہوتے ہی وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر باہر جانے لگا ارادہ اب گھر جانے کا تھا جب شایان اسکے پاس آیا

"سر گیلانی آج رات کو میٹینگ کے لیے جارہا ہے" اسکی بات سن کر مشارب پوری طرح اسکی جانب متوجہ ہوا

"کس جگہ" اسکے کہنے پر شایان اسے ساری ڈیٹیل بتانے لگا جو اسے ملی تھی

جس کیس پر وہ اس وقت کام کررہا تھا وہ اب تک کا سب سے بڑا کیس تھا جو کئیں پولیس آفسیرز کی ناکامی کے بعد اسکے ذمہ آیا تھا اور اسے یقین تھا کہ وہ بہت جلد اس کیس کو حل کرلے گا

گیلانی ایک ایسا شخص تھا جو ہر قسم کے برے کاموں میں ملوث تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پولیس یہ بات جاننے کے بعد بھی آج تک اسے پکڑ نہیں پائی تھی 

وجہ اسکی پاور اسکا پیسہ جن سے وہ کتنے ہی آفیسرز کو خرید چکا تھا دوسرا کوئی آج تک اسکے خلاف پکا ثبوت نہیں ڈھونڈ سکا تھا

مشارب شیرازی وہ پہلا بندہ تھا جس نے اسکے خلاف کئیں ثبوث اکھٹے کرلیے تھے 

بس تھورا اور انتظار پھر اسنے گیلانی کا کھیل ہمیشہ کے لیے ختم کردینا تھا

°°°°°

"سوری"

بنا مڑے بھی وہ جانتا تھا کہ یہ آواز کس کی ہے

"نہیں تم کیوں سورہی کررہی ہو سوری تو مجھے کرنی چاہیے مجھے تمہیں ایسی باتیں نہیں کہنی چاہیے تھی" اسنے ایک نظر اپنے پیچھے کھڑی مناہل کو دیکھا اور چہرہ واپس موڑ لیا

"غلطی میری بھی ہے مجھے آپ کو تھپڑ نہیں مارنا چاہیے تھا بس غصے میں غلطی سے ہوگیا"

"کوئی بات نہیں تمہیں اتنا برا فیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں واقعی میں تم سے دوستی کرنا چاہتا تھا لیکن تمہارے انکار کی وجہ سے غصے میں وہ سب کہہ دیا"

"آپ مجھ سے دوستی کیوں کرنا چاہتے ہیں حیدر"

"کیونکہ تم اچھی لڑکی ہو تم سکندر کی دوست ہو اور جو سکندر کا دوست ہے وہ میرا بھی دوست ہے" اسکے کہنے پر مناہل بےساختہ ہنسی اور اپنا نرم ہاتھ اسکی طرف بٹھادیا 

جسے پہلے تو اسنے حیرانی سے دیکھا لیکن پھر اگلے ہی لمحے اسکے بڑھے ہوے ہاتھ کو تھام لیا

°°°°°

گھر آتے ہی وہ سیدھا اس کمرے میں گیا تھا جو اسنے دعا کو دیا تھا

کمرے میں داخل ہوتے ہی اسکی نظر دعا کے ساتھ بیٹھی ناز بیگم پر پڑی ہلکے سے مسکرا کر اسنے سلام کیا جس کے جواب میں انہوں نے مسکراتے ہوے سر کو جنبش دی

"تم فریش ہوجاؤ مشارب تمہارے لیے تب تک چاے بنوا دیتی ہوں" انکی بات سن کر مشارب نے اپنا سر ہلایا اور انکے کمرے سے جانے کے بعد اسکی طرف متوجہ ہوا 

جو خود اسکی طرف دیکھ رہی تھی اور اسکے دیکھنے پر سٹپٹا کر جلدی سے نگاہوں کا رخ بدلا

وہ اس وقت اپنی یونیفارم میں ملبوس تھا اور دعا اسے اس وقت یہ نہیں بتاسکتی تھی کہ اسنے پہلی بار کوئی ایسا شخص دیکھا ہے جو پولیس یونیفارم میں اس قدر دلکش لگ رہا تھا

"طبیعت کیسی ہے تمہاری"

"ٹھیک ہوں"

"کھانا کھالیا" اسکی سنجیدہ آواز پر دعا نے ہلکے سے اپنا سر ہلایا جسے دیکھ کر واپس جانے لگا جب اسے جاتے دیکھ کر دعا نے اسے جلدی سے پکارا

"مشارب"

مشارب نے مڑ کر اسکی طرف دیکھا جو اب اپنے لب چپاتی ہوئی اپنی بات کہنے کی کوشش کررہی تھی

"جہاں تک مجھے یاد ہے میں نے تمہیں اپنا نام نہیں بتایا تھا"

"جی وہ آپ کی والدہ نے بتایا تھا" اسنے جلدی سے وضاحت دی

"کہو"

"مجھ پر اتنے احسان کررہے ہیں تو ایک اور کردیں میرے لیے رہنے کی جگہ ڈھونڈ دیجیے میں واپس اس گھر میں نہیں جانا چاہتی جہاں سے مجھے الزام لگا کر نکالا گیا تھا"

"کہو تو ان لوگوں پر کیس کردوں" اسکے کہنے پر دعا نے جلدی سے اپنا سر نفی میں ہلایا

"نہیں"

"کیوں انہوں نے تمہیں گھر سے نکال دیا ہے انہیں سزا ملنی چاہیے ہر اس برے کام کی جو انہوں نے تمہارے ساتھ کیا ہے"

"وہ چاہے جیسے بھی ہیں انہوں نے مجھے پالا ہے میں انکے ساتھ کچھ برا نہیں کرسکتی"اسکے کہنے پر مشارب نے اپنے کندھے اچکاے 

اسکے گھر کا معاملہ تھا وہ جو کرنا چاہے کرتی پھرے

"دیکھو دعا"

"میرا نام دعا نہیں ہے" مشارب کے کہنے پر اسنے جلدی سے کہا جس پر اسنے اپنی بھنویں اچکا کر اسے دیکھا

"تو کیا میں نے کل دعا حیدر غلط سنا تھا" اسکے کہنے پر دعا نے جلدی سے اپنا سر نفی میں ہلایا پتہ نہیں اس بندے کی سیاہ آنکھوں میں کیا مسلہ تھا جو اچھے خاصے بندے کو کنفیوز کردیتا تھا

"مطلب میرا نام دعا ہے لیکن سب مجھے دیا بلاتے ہیں"

"تو تم چاہتی ہو میں بھی تمہیں دیا بلاؤں"

"نہیں آپ دعا بلا لیں" اسے ایسا لگ رہا تھا اسکا سانس رک رہا ہو اور اگر یہ بندہ تھوڑی دیر تک اسی طرح مزید سوال کرتا رہتا تو شاید واقعی میں اسکا سانس بند ہو جاتا

"خیر دعا کیا یہ تمہارا ہے جب تم بےہوش تھیں تو خالا بی کو تمہارے پاس ملا تھا" اسنے اپنی جیب سے ایک نازک سا بریسلیٹ نکال کر اسکی طرف بڑھایا جسے اسنے جلدی سے اسکے ہاتھ سے چھینا لیکن پھر خود ہی اپنی حرکت پر شرمندہ ہوگئی

"سوری میں دراصل پریشان تھی یہ میرے لیے بہت قیمتی ہے مجھے مل نہیں رہا تھا اب آپ کے ہاتھ میں دیکھا تو بس تھوڑی جذباتی ہوگئی"

اسکی بات سمجھ کر مشارب نے اپنا سر ہلایا

"یہ دکھنے میں ہی کافی مہنگا لگ رہا ہے شاید اسکی قیمت لاکھ کے قریب ہے یہ تمہیں کس نے دیا"

"یہ میری والدہ کا ہے یہ میرے بچپن میں انہوں نے مجھے دیا تھا اور تب سے یہ میرے پاس ہی ہے" اسکی بات سن کر مشارب نے اپنا سر ہلایا اسی لیے اس بریسلیٹ کو دیکھ کر وہ اتنی جذباتی ہوگئی تھی

"خیر اپنا خیال رکھنا مجھے ایک ضروری کام سے واپس جانا ہے"

مظبوط قدم اٹھاتا وہ اسکے کمرے سے چلا گیا اور اسکے جانے کے بعد دعا نے اپنا رکا ہوا سانس بحال کیا جو اس شخص کی موجودگی میں اٹکا ہوا تھا

°°°°°

"مام ڈیڈ کہاں ہیں"ٹیبل پر بیٹھتے ہی اسنے خالی کرسیاں دیکھ کر پوچھا

"مسٹر درانی اپنی مسز کو ڈیٹ پر لے کر گئے ہیں" جواب ازہار نے دیا

"اور آیت کہاں ہے"

"وہ پڑھ رہی ہے اسکے ہینڈسم سے ٹیچر نے اسے ایک ٹیسٹ دیا ہے"

"ازہار ہر وقت اس پر ٹیچر ہونے کا رعب مت جھاڑا کرو" اسے گھورتے ہوے علیحہ نے بریانی کی ٹرے اپنی جانب کھسکائی 

"جھاڑنا پڑھتا ہے میری بہنا میں چاہتا ہوں وہ جلدی سے اپنی پڑھائی مکمل کرلے اور ڈیڈ کو یہ نظر آجاے کہ اب وہ بچی سے بڑی ہوچکی ہے اور پھر اسے میرے ساتھ رخصت کر دیا جاے"

اسکے کہنے پر وہاں بیٹھی اماں بی نے زور سے اسکے بازو پر اپنی چھڑی ماری

"نکاح تو تیرا ہوہی گیا ہے رہتی وہ اسی گھر میں ہے پھر کیا آفت پڑی ہے جو ہر وقت رخصتی کے پیچھے پڑا رہتا ہے"

"آپ تو جیسے جانتی ہی نہیں ہیں اس گھر میں رہتی ہے میرے کمرے میں میرے قریب تھوڑی رہتی ہے" اسکی بات سن کر اماں بی نے اسے بےشرم کے لقب سے نوازا اور پھر اپنی چھڑی اٹھا کر اسے مارنے لگیں جب انکے اس عمل کو دیکھ کر وہ جلدی سے اس جگہ سے اٹھ کر دوسری کرسی پر بیٹھ گیا

اسے دیکھ کر اماں بی نے اپنا سر نفی میں ہلایا اور علیحہ کی جانب متوجہ ہوئیں

"اور تجھے کیا ہوا ہے جب سے آئی ہے بس ہاتھ دھوئے جارہی ہے"

"ہاں پانچ بار تو میں نے ہی دیکھا تھا ہاتھ دھوتے ہوے" بریانی منہ میں ڈال کر اسنے علیحہ کو دیکھتے ہوے کہا جس پر اسنے غصے سے اسے گھور کر دیکھا کبھی جو یہ بندہ کوئی بات اپنے اندر رکھ لے

"کچھ نہیں ہوا اماں بی"

اب انہیں کیا بتاتی کہ کسی نامحرم کا لمس اپنے ہاتھوں پر بار بار محسوس ہونے کی وجہ سے وہ اپنے ہاتھ بار بار دھو رہی تھی

آج تک اسے کسی نامحرم نے نہیں چھوا تھا کسی نے ایسا کرنا چاہا تو وہ سامنے والے کا ہاتھ تک توڑ چکی تھی

وجدان راحم شیرازی وہ پہلا شخص تھا جس نے اسے چھوا تھا اور تب سے ہی اسے اس شخص پر غصہ آرہا تھا بےانتہا 

"کیا نام ہے اس لڑکی کا" شوکت کے کمرے میں داخل ہوتے ہی اسنے پوچھا اور سگریٹ اپنے لبوں سے لگالیا

"جہاں تک مجھے پتہ چلا ہے اس لڑکی کا نام علیحہ ہے"

"اسکا ایڈریس کیا ہے" دھواں فضا میں چھوڑ کر اسنے اگلا سوال پوچھا

"جی وہ ابھی تک معلوم نہیں ہوا ہے گیلانی صاحب" شوکت کے کہنے پر اسنے گھور کر اسے دیکھا

"تو پھر جلدی معلوم کرو"

"میں کوشش کررہا ہوں"

"تم جو بھی کررہے ہو جلدی کرو تمہیں اندازہ نہیں ہے جب سے اس لڑکی کو دیکھا ہے میں پاگل ہوگیا ہوں مجھے کسی بھی قیمت پر وہ لڑکی چاہیے"

اسنے شوکت کو جانے کا اشارہ کیا اور خود واپس علیحہ کے خیالوں میں کھو گیا

°°°°°

"تمہارے بھائی نے غلط حرکت کی ہے گناہ کیا ہے میں پھر بھی تمہارے کہنے پر اس بددماغ شخص سے ملنے گئی جو پتہ نہیں مجھے کیا سمجھ رہا تھا اور اب تم چاہ رہی ہو میں پھر اس سے بات کروں"اسکی بات سنتے ہی علیحہ بھڑک اٹھی جو اسے پھر سے وجدان سے ملنے کا کہہ رہی تھی

"تو تم اسے اپنے طریقے سے سمجھاتیں"

"صالحہ میں کیوں اسے اپنے طریقے سے سمجھاؤں جبکہ وہ اپنی جگہ ٹھیک ہے تمہارا بھائی غلط تھا میں نے جانتے ہوے بھی اسے بچانے کی ایک کوشش کی لیکن اب میں دوبارہ ایسی کوئی حرکت نہیں کروں گی"

"تم میرے لیے یہ نہیں کرسکتی ہو علیحہ"

"تمہارے لیے ہی کیا تھا پر اب اور نہیں کروں گی" وجدان شیرازی کی کہی بات جب جب اسے یاد آرہی تھی تب تب اسے غصہ آرہا تھا اب تو وہ اس شخص کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی تھی

"ٹھیک ہے مت کرو تم کچھ جو کرنا ہے میں خود کرلوں گی" غصے سے کہتی ہوئی وہ وہاں سے چلی گئی اسکے جانے پر اس بار علیحہ نے اسے نہیں روکا اور ایسا پہلی بار ہوا تھا

°°°°°

"تم جب تک چاہے یہاں رہ سکتی ہو اسے اپنا ہی گھر سمجھنا" ناز بیگم کے کہنے پر اسنے ہولے سے مسکرا کر اپنا سر ہلایا

اس وقت وہ انکے کمرے میں بیٹھی ان کے ساتھ باتیں کررہی تھی خالا بی کے ذریعے انہوں نے چند نئے جوڑے اسکے لیے منگوائے تھے

جو وہ اپنے اندازے کے مطابق لے آئی تھیں فٹ تو وہ بھی اسے ٹھیک سے نہیں آرہے تھے لیکن ان کپڑوں کی نسبت بہت اچھے تھے جو اسنے خالا بی کے پہنے ہوے تھے

"آپ کا بہت شکریہ لیکن میں نے مشارب سے کہہ دیا ہے کہ وہ میرے لیے رہنے کی کوئی جگہ تلاش کرلیں اسکے بعد پھر مجھے یہاں سے جانا ہے"

"اکیلے رہ لو گی تم"

"میں ساری زندگی ہی اکیلی رہی ہوں آنٹی بس فرق یہ ہے پہلے جہاں تھی اس گھر میں لوگ چلتے پھرتے دکھ جاتے تھے اب میں تنہا ہوں گی"

"تم یہاں ہی رہ لو میرے پاس میری بیٹی بن کر" دعا کی بات سنتے ہی انہوں نے اپنی فطرت سے مجبور ہوکر کہا جس پر وہ بس ہلکے سے مسکرا دی البتہ کہا کچھ نہیں

"اچھا تم یہاں بیٹھو میں زرا یہ کپڑے رکھ آؤں" بیڈ پر رکھے کپڑے طے کرکے وہ اٹھنے لگیں

"میں رکھ آتی ہوں کس کے کپڑے ہیں"اسے اندازہ تھا کہ یہ کپڑے مشارب کے ہی ہوں گے لیکن اسنے پھر بھی پوچھنا اپنا فرض سمجھا

"نہیں بیٹا میں رکھ آوں گی"

"آپ نے ہی تو کہا بیٹی بن کر رہو پھر ایسے میرے ہوتے ہوے آپ کام کریں گی تو مجھے اچھا نہیں لگے گا پلیز مجھے دے دیں" اسکے کہنے پر ناز بیگم بےساختہ مسکرائیں اور طے کیے ہوے کپڑے اسے تھمادیے

"یہ مشارب کے ہیں"

"کہاں ہے انکا کمرہ"

"اوپر جاؤ گی تو سب سے پہلا کمرہ اسی کا ملے گا" انکی بات سن کر وہ اپنا سر اثبات میں ہلاتی ہوئی انکے کمرے سے نکل گئی

°°°°°

"یہ تم نے کیا کیا ہے مناہل" اسکے اچانک سامنے آنے پر پہلے تو وہ گھبرآئی لیکن پھر اسے دیکھ کر جلد ہی مطمئن ہوگئی

"آپ نے تو مجھے ڈرا دیا تھا سکندر"

"میں نے پوچھا تم یہ کیا کرکے آئی ہو"

"کیا کرکے آئی ہوں"اسنے ناسمجھی سے سکندر کی طرف دیکھا

"بات صرف معافی کی ہوئی تھی تم نے حیدر سے دوستی کیوں کرلی"

"آپ سے بھی تو کی ہے" اسکے کہنے پر سکندر اسے یہ بھی نہیں کہہ سکا کہ اس میں اور حیدر میں بہت فرق ہے

تھپڑ کے بعد حیدر نے مناہل سے اتنی آرام سے دوستی کرلی تو یقینا اسکے پیچھے بھی اسنے کچھ سوچ ہی رکھا ہوگا لیکن مناہل یہ بات نہیں سمجھ سکتی تھی وہ حیدر کو نہیں جانتی تھی

"حیدر کی کسی بھی لڑکی سے دوستی کا مطلب کیا ہوتا ہے یہ میں بہت اچھے سے جانتا ہوں میں کہہ رہا ہوں مناہل تم بس اس سے دور رہو"

"سکندر آپ نے ہی تو کہا تھا حیدر آپ کے دوست ہیں"

"ہاں لیکن اسکا یہ مطلب نہیں ہے تم بھی اس سے دوستی کرنے بیٹھ جاؤ آج کے بعد میں تمہیں حیدر کے ساتھ نہ دیکھوں" اسکا انداز حکمیہ تھا جبکہ مناہل بس اسکی باتیں سمجھنے کی کوشش کررہی تھی بھلا حیدر میں ایسی کیا برائی تھی جو وہ اس طرح سے کہہ رہا تھا

°°°°°

مشارب اس وقت گھر پر نہیں تھا اور یہ موقع اسکے لیے بہت اچھا تھا اسکے کمرے کے سامنے کھڑے ہوکر اسنے چاروں طرف دیکھا کوئی نہیں تھا

شکر بھرا سانس لے کر وہ جلدی سے اسکے کمرے میں داخل ہوئی اور دروازہ بند کرکے ہاتھ میں پکڑے کپڑے بیڈ پر پھینکنے کے انداز میں رکھ کر جلدی سے اسکے کمرے کی تلاشی لینے لگی

اسنے سائیڈ ڈراز چیک کیں لیکن وہاں اپنی مطلوبہ چیز نہ پاکر اسکی الماری کھول کر چیک کرنے لگی پہلے حصے میں صرف کپڑے تھے

اسنے الماری کا دوسرا حصہ کھولا وہاں چند اشیا کے علاؤہ لاکر بھی رکھا ہوا تھا

دعا نے اسے جلدی سے کھولنا چاہا لیکن بنا کوڈ کے وہ کھلنے والا نہیں تھا اپنے اندازے کے مطابق اسنے دو بار کوڈ ڈالا لیکن وہ لاکر بند ہی پڑا رہا

اسنے اپنی پیشانی پر آیا پسینہ صاف کیا جب اسے باہر سے کسی کے قدموں کی آواز سنائی دی اسنے جلدی سے الماری بند کی اور بیڈ پر رکھے کپڑے اٹھالیا

°°°°°

کمرے کا دروازہ کھولتے ہی اسکی پہلی نظر اپنے کمرے میں موجود دعا پڑ پڑی

اپنے کمرے میں اسے دیکھ کر مشارب کی پیشانی پر بل پڑے اسے یہ بات بلکل پسند نہیں تھی کہ اسکی غیر موجودگی میں کوئی اس کے کمرے میں قدم رکھے

اسکے کمرے کی مکمل صفائی ناز بیگم اپنی موجودگی میں کرواتی تھیں کیونکہ اگر اسکی کوئی بھی چیز ادھر سے ادھر ہوجاتی تو وہ پورا گھر سر پر اٹھا لیتا تھا

"یہاں کیا کررہی ہو"

"وہ میں آپ کے کپڑے رکھنے آئی تھی آنٹی نے دیے تھے" اسنے ہاتھ میں پکڑے کپڑوں کی طرف اشارہ کیا

"تمہارا بہت شکریہ بیڈ پر رکھ دو"اسکے سنجیدہ لہجے میں کہنے پر دعا نے شرافت سے کپڑے بیڈ پر رکھ دیے

"دعا آج کے بعد میری غیر موجودگی میں کبھی میرے کمرے میں قدم مت رکھنا"

اسکی بات سن کر دعا نے نظریں جھکائے اپنا سر ہلایا اور اسکے کمرے سے چلی گئی

اسکے جانے پر مشارب گہرا سانس لے کر رہ گیا یقیناً اس کا اس طرح کہنا سامنے والے کو برا لگا ہوگا لیکن وہ کون سا اسکی بیوی تھی جس کے روٹھنے منانے کی وہ فکر کرتا

°°°°°

"چھوڑو اسے کیا ہر وقت کتابوں میں گھسی رہتی ہو کتابیں کام نہیں آئینگی تمہارے شوہر کی خدمت کرو وہ کام آئے گا"

اسکی گود میں رکھی کتابیں ہٹا کر ازہار نے اسکی گود میں اپنا سر رکھ لیا

"خود ہی تو کہتے ہیں پڑھو اب پڑھ رہی ہوں تو پڑھنے نہیں دے رہے"

"تم صرف تب پڑھو جب میں تمہارے ساتھ نہیں ہوتا جب میں تمہارے پاس ہوں تو صرف مجھ پر دھیان دیا کرو"

"آپ یہاں کر کیا رہے ہیں جائیں یہاں سے کسی نے دیکھ لیا نہ تو اچھا نہیں لگے گا"

"دیکھ لیا تو کیا ہوگا بندہ اپنی بیوی کے کمرے میں بیٹھا ہوا ہے اس میں غلط کیا ہے"گود سے سر اٹھا کر اسنے آیت کی طرف دیکھا

"اچھا جب ماموں آپ کو یہاں میرے کمرے میں دیکھیں گے نہ تو یہی کہیے گا"

"تو کہہ دوں گا میں کیا ڈرتا ہوں ان سے"

"اچھا تو پھر"اس سے پہلے وہ مزید کچھ کہتی ازہار اسے بیڈ پر لٹا کر اس کے اوپر جھک چکا تھا

"ازہار دور رہیں" آیت نے گھبرا کر اسکے سینے پر اپنا ہاتھ رکھا جب اسکے دونوں ہاتھوں کو بیڈ سے لگا کر وہ اسکے اوپر جھکنے لگا 

لیکن اس سے پہلے وہ کوئی گستاخی کرپاتا کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز پر جلدی سے اسکے اوپر سے اٹھا

°°°°°

"واؤ یہاں تو رومینس چل رہا ہے" ان دونوں کو دیکھتے ہی علیحہ نے شرارت سے کہا جس پر ازہار تو ڈھٹائی سے ہنسنے لگا لیکن ازہار کی وجہ سے آیت کی جھکی نظریں شرمندگی کے باعث مزید جھک چکی تھیں

"دیکھ لیا نہ اب جاؤ ہمیں ڈسٹرب مت کرو"

"اور تم نے مجھے پاگل سمجھ رکھا ہے کہ یہ سب دیکھ کر اس معصوم بچی کو میں تمہارے ساتھ اکیلا چھوڑ کر جاؤں گی"

"میں بھی یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گا" اپنا پورا وجود بیڈ پر پھیلا کر وہ لیٹ گیا

مطلب اٹھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا

"تو تم پڑے رہو یہاں آیت تم چلو میرے کمرے میں چلتے ہیں" اسنے آیت کو اپنے پاس بلایا اور اسکا اشارہ پاتے ہی وہ بیڈ سے اٹھی

اسے بیڈ سے اٹھتے دیکھ کر ازہار نے اسکا ہاتھ پکڑنا چاہا لیکن اس سے پہلے ہی وہ جلدی سے اٹھ کر علیحہ کے پاس چلی گئی

"جلتی ہو تم مجھ سے علیحہ تم سے سال بھر چھوٹا ہوں لیکن اپنا جانو ہے میرے پاس اور تم ویلی پھر رہی ہو" اسنے علیحہ کو گھورتے ہوے کہا جسے نظر انداز کرکے وہ آیت کا ہاتھ پکڑے اسے اپنے ساتھ لے گئی

اسکے جانے کے بعد وہ گہرا سانس لے کر پھر سے بیڈ پر لیٹ گیا آخر کرتا بھی تو کیا یہ سب تو تب تک چلنا تھا جب تک آیت رخصت ہوکر اسکے پاس نہیں آجاتی

آہستہ آہستہ ساری کلاس خالی ہونے لگی اپنا سارا سامان بیگ میں ڈال کر وہ خود بھی کلاس سے باہر جانے لگی جب اسکے باہر نکلنے سے پہلے ہی حیدر کلاس میں داخل ہوگیا

سکندر کے کہنے پر اسنے حیدر سے دوستی ختم نہیں کی تھی کیونکہ سکندر کی باتیں اسے بے معنی لگ رہی تھیں اگر حیدر اتنا ہی برا تھا تو وہ خود اس سے دوستی کرکے کیوں بیٹھا ہوا تھا

حیدر سے دوستی ہوے بھی کتنا وقت ہوچکا تھا لیکن اسے حیدر میں ایسی کوئی بری عادت نظر نہیں آئی جیسا سکندر نے اسے کہا تھا

اسنے حیدر کی دوستی قبول ضرور کی تھی لیکن سکندر آج بھی اسکے لیے فرینڈ لسٹ میں پہلے نمبر پر ہی آتا تھا

"کیا ہوا"اسے اپنے سامنے کھڑا دیکھ کر مناہل نے پوچھا

"تم سے کچھ کہنا تھا"

"کہیں"

وہ اسکے بولنے کی منتظر تھی جب اچانک وہ اسکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا مناہل حیرت سے اسے دیکھنے لگی

"میں تم سے بہت پیار کرنے لگا ہوں مناہل تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں مجھ سے شادی کرو گی" وہ حیرت سے اپنے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھے حیدر کو دیکھ رہی تھی مناہل کو اس سے کسی ایسی چیز کی امید جو نہیں تھی

"جواب دو مناہل شادی کرو گی مجھ سے" چند لمحے سوچ کر اسنے آہستہ سے اپنا سر ہاں میں ہلا دیا جسے دیکھ کر حیدر نے مسکراتے ہوے اسکا نازک ہاتھ تھام کر اسکی انگلی میں ڈائمنڈ رنگ پہنادی

°°°°°

کتنی دیر سے مسکراتے ہوے وہ دور کھڑے براق کو دیکھ رہی تھی اور یہ بات کہنے میں اسنے بلکل دیر نہیں کی تھی کہ وہ زندگی میں پہلی بار اتنا حسین گھوڑا دیکھ رہی ہے

اس وقت دعا نے بےبی پنک کلر کا سوٹ پہنا ہوا تھا جبکہ کھلے بال تیز ہوا سے بار بار چہرے پر بکھرے جارہے تھے

ہونٹوں کو دانتوں میں دبا کر وہ اسکی طرف بڑھی جب اسے براق کی طرف بڑھتا دیکھ کر رحیم بابا جلدی سے اسکے پاس آئے

"بیٹا آپ اسکے پاس نہیں جانا"

"کیوں"اسنے حیرت سے پوچھا اسنے کونسا اس گھوڑے کو کھا جانا تھا صرف اسے چھو کر دیکھ ہی تو رہی تھی

"چھوٹے صاحب کے علاؤہ کوئی اور اسکے پاس نہیں جاتا"

"تو کیا ہوا میں چلی جاتی ہوں" کندھے اچکا کر وہ پھر سے اسکی جانب بڑھنے لگی لیکن اس بار رحیم بابا نے اسے روکا نہیں تھا کیونکہ وہ اس جانب آتے مشارب کو دیکھ چکے تھے انہیں پتہ تھا اب جو بھی ہوگا مشارب اسے خود ہی سنبھال لے گا

"ہیلو میرا نام دعا ہے" اس سے تھوڑے فاصلے پر کھڑے ہوکر دعا نے کہا جیسے اس گھوڑے کو اسکی بات کتنی سمجھ آئی ہوگی

مسکراتے ہوے اسنے اپنا ہاتھ اسکی طرف بڑھایا تاکہ اسکے نرم وجود کو چھو سکے لیکن اسکا اپنی جانب بڑھتا ہاتھ دیکھ کر وہ بے قابو ہوا

اسے اس طرح دیکھ کر خوف سے اسنے اپنی آنکھیں بند کرلیں اس وقت خوف کے باعث اسے ایک بار بھی بھاگنے کا خیال نہیں آیا لیکن اس سے پہلے وہ دعا کو کوئی نقصان پہنچا پاتا مشارب اسکی لگام کھینچ کر اسے قابو میں کرچکا تھا

"بری بات براق ایسا نہیں کرتے" اسے سہلاتے ہوے وہ اس طرح سے کہہ رہا تھا جیسے وہ کوئی انسان ہو

اسنے مڑ کر اپنے سے چند انچ دور کھڑی دعا کو دیکھا جو آنکھیں بند کرکے سانس روکے کھڑی تھی

"یہاں کیا کررہی ہو تم"اسکی سخت آواز سن کر دعا نے اپنی آنکھیں کھولیں اور خوفزدہ نظروں سے براق کی جانب دیکھنے لگی

"م-میں تو بس اسے ہاتھ لگانے آئی تھی"

"تو لگاؤ منع کس نے کیا ہے" رحیم بابا کے بعد وہ دوسری ایسی شخصیت تھی جسے مشارب براق کو چھونے کی اجازت دے رہا تھا

"مجھے نہیں لگانا" وہ واپس جانے لگی جب اسکا ہاتھ پکڑ کر مشارب نے اسے اپنے قریب کیا اور اسکا نرم ہاتھ براق پر پھیرنے لگا

جبکہ وہ بس سانس روکے کھڑی تھی پتہ نہیں کس وجہ سے

اس شخص کے اتنے قریب آنے پر یا پھر اس گھوڑے پر ہاتھ پھیرنے کی وجہ سے

"دیکھا کچھ نہیں کہتا میرا براق بہت شریف ہے" مشارب نے اسکا ہاتھ چھوڑا اور اپنے ہاتھ کو آزاد پاتے ہی وہ بنا دیر کیے وہاں سے بھاگ گئی

اسکے بھاگنے پر مشارب کے چہرے پر دلکش مسکراہٹ نمودار ہوئی جو اسکی شخصیت میں مزید اِضافہ کررہی تھی

"بری بات براق وہ تو بس تمہیں پیار کررہی تھی آج کے بعد ایسا مت کرنا جانتے نہیں ہو وہ کون ہے خیر نہیں جانتے تو بہت جلد ہی جان جاؤ گے" اسکے قریب کھڑا ہوکر وہ اسے سمجھا رہا تھا اور اسکے ہنہنانے پر مشارب کو اندازہ ہوگیا کہ وہ اسکی بات سمجھ چکا ہے

°°°°°

حیدر نے مناہل کو پرپوز کیا جسے اسنے ایکسیپٹ کرلیا یہ بات دھیرے دھیرے پوری یونی میں پھیل چکی تھی کیونکہ جس وقت حیدر اسے پرپوز کررہا تھا اس وقت حیدر کی کلاس کے سارے اسٹوڈنٹس کلاس کے باہر کھڑے اسکے جواب کے ہی منتظر تھے

اور مناہل کا جواب پاتے ہی کسی بریکینگ نیوز کی طرح یہ خبر سارے اسٹوڈنٹس میں پھیل چکی تھی

اس وقت بھی وہ لائبریری میں بیٹھی ہوئی تھی جبکہ چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی حیدر اسکے بارے میں ایسا سوچتا ہوگا اسنے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا

اپنا بیگ اٹھا کر وہ لائبریری سے باہر نکلی بیٹھی تو یہاں پڑھنے کے لیے تھی لیکن اب پڑھا جا کہاں رہا تھا

لائیبریری سے باہر نکلتے ہی اسنے بیگ میں سے اپنا فون نکالا جو کب سے وائیبریٹ ہورہا تھا

"یہ تم نے کیا کیا ہے مناہل" کال اٹھاتے ہی اسے سکندر کے چلانے کی آواز آئی اور اسکی اتنی تیز آواز سن کر فون اسکے ہاتھ سے گرتے گرتے بچا

"سکندر کیا ہوگیا ہے"

"حیدر نے تمہیں پرپوز کیا ہے" سکندر کے پوچھنے پر چند لمحے خاموش رہ کر اسنے جواب دیا

"جی"

"اور تم نے ہاں کہہ دیا" وہ آج یونی نہیں آیا تھا یہ باتیں اسے فرینڈز گروپ میں ہوتی چیٹنگ سے پتہ چلی تھیں جن کا آج موضوع گفتگو صرف مناہل اور حیدر تھے

"جی میں نے ہاں کہہ دیا"

حیدر سے دوستی کرنے پر اسنے مناہل کو دوبارہ کچھ نہیں کہا تھا کیونکہ اسے لگ رہا تھا حیدر واقعی اپنی کہی باتوں پر شرمندہ ہے لیکن جب سے اسے یہ بات پتہ چلی تھی 

کہ حیدر نے اسے پرپوز کیا ہے تب سے اسے اس بات کا یقین ہوگیا تھا کہ جو بات حیدر کے بارے میں اسنے پہلے سوچیں تھیں وہی درست تھی وہ حیدر تھا اتنی آسانی سے وہ مناہل کا تھپڑ کیسے نظر انداز کردیتا اب بھی اسکے پرپوزل کی وجہ یقیناً یہی تھی

"مناہل تم اسے انکار کردو"

"میں انہیں کیوں انکار کروں گی سکندر جہاں تک میں نے انہیں جانا ہے مجھے ان میں ایسی کوئی بری بات نظر نہیں آئی جس کی بنا پر انکار کیا جائے"

"میں تم سے محبت کرتا ہوں مناہل صحیح وقت کے لیے اپنے جذبات آج تک تم سے چھپائے لیکن اب مزید نہیں چھپا سکتا میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں پلیز تم میری ہوجاؤ حیدر تمہارے لائق نہیں ہے"

"یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں سکندر" یہ بات اسکے لیے کسی صدمے سے کم نہیں تھی اسنے تو صرف اسے ہمیشہ اپنا دوست سمجھا تھا اسے تو پتہ ہی نہیں تھا سکندر اسکے لیے اس طرح کے جذبات رکھتا تھا وہ بھی نہ جانے کب سے 

سکندر کبھی بھی اس طرح سے اپنے جذبات کا اظہار اسکے سامنے نہیں کرنا چاہتا تھا یہ بات وہ صحیح وقت پر نہایت ہی خوبصورت طریقے سے اسے بتانا چاہتا تھا 

لیکن اس سے زیادہ وہ مزید اپنے اندر یہ بات نہیں رکھ سکتا تھا حیدر اسکے سامنے اسکی محبت کو لے جاتا یہ بات بھلا وہ کیسے برداشت کرتا شاید اپنی محبت کے خاطر وہ سمجھوتہ کر بھی لیتا 

لیکن صرف اس شرط پر کہ حیدر مناہل سے واقعی میں سچی محبت کرتا اسے یقین تھا وہ یہ ساری حرکتیں صرف تھپڑ کا بدلہ لینے کے لیے کررہا تھا 

اسے پتہ تھا کہ حیدر جب بھی شادی کرتا کسی ایسی ہی لڑکی سے کرتا جو اسکے اسٹیٹس پر پوری اترتی اور مناہل ایسی نہیں تھی سب سے بڑی بات یہ کہ اسکی منگنی ہوچکی تھی

منگنی یہ لفظ زہہن میں آتے ہی وہ چونکا

"مناہل اسکی انگیجمنٹ ہوچکی ہے"

"انکی انگیجمنٹ کے بارے میں ، میں جانتی ہوں سکندر انہوں نے مجھے یہ بات بتادی تھی اور انہوں نے کہا تھا کہ وہ اپنی انگیجمنٹ میری وجہ سے توڑ چکے ہیں"

"وہ جھوٹ کہہ رہا ہے مناہل پلیز تم میرا یقین کرو" سکندر کی باتیں اسے واقعی میں کنفیوز کر رہی تھیں سکندر اسکا دوست تھا بھلا وہ اس سے جھوٹ کیوں بولتا

"سکندر آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں حیدر آپ کے دوست ہیں"

"حیدر میرا دوست ہے لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ تمہیں اسکے ساتھ جانے دوں میں حیدر سے بہتر آبشن ہوں مناہل بہت محبت کرتا ہوں تم سے بھلے تم مجھے اپناؤ یا نہیں یہ تم پر ہے لیکن میری ایک بات تم کان کھول کر سن لو تم حیدر کو صاف انکار کرو گی اور تم نے ایسا نہیں کیا تو میں جو کہوں گا وہ تمہیں بلکل اچھا نہیں لگے گا انکار کردیا ورنہ تم سوچ بھی نہیں سکتی ہو میں کیا کروں گا" اسکا انداز دھمکی دینے والا تھا جسے سن کر مناہل نے جلدی سے کال کاٹ دی پہلی بار سکندر اسکے ساتھ اس لہجے میں بات کررہا تھا

اور اسکی باتیں مناہل کو ڈرا رہی تھیں اگر اسنے انکار نہیں کیا تو سکندر کیا کرتا اسکے ساتھ وہ بس سوچ کر رہ گئی

°°°°°

کل اسے عدالت جانا تھا جہاں اسکے بھائی کی زندگی کا فیصلہ ہونا تھا

وجدان شیرازی کوئی عام وکیل نہیں تھا وہ ہمیشہ بات پکے ثبوت کے ساتھ کرتا تھا یقیناً ابھی بھی اسکے پاس اسکے بھائی کے خلاف ثبوت ہوں گے

صالحہ کے دو ہی بہن بھائی تھے جو اس سے چھوٹے تھے گھر کے حالات کے باعث اسنے بچپن میں ہی ان سب کی ذمیداری اٹھالی تھی ایسے میں وہ خود کہاں تھی یہ تو اسے یاد ہی نہیں تھا بس پتہ تھا تو اتنا کہ اسکے لیے اسکی فیملی اہم ہے

پھر بھلا کیسے وہ اپنے بھائی کے ساتھ کچھ برا ہونے دیتی اسے اپنے بھائی کو بچانا تھا کسی بھی طرح اسکے لیے چاہے اسے کوئی بھی قدم اٹھانا پڑھتا اسے پرواہ نہیں تھی

°°°°°

گھر کا ماحول آج کچھ عجیب سا تھا یا شاید اسے لگ رہا تھا جب سے اسنے سکندر سے بات کی تھی تب سے دماغ بند ہورہا تھا

شاید اسے حیدر کو اتنی جلدی ایکسیپٹ نہیں کرنا چاہیے تھا کم از کم پہلے گھر میں تو اس بارے میں بات کرنی چاہیے تھی 

اندر داخل ہوتے ہی اسنے وہاں بیٹھے فہد صاحب اور زینت بیگم کو دیکھا دروازہ بھی کھلا ہوا تھا اور وہ دونوں بھی خاموش بیٹھے ہوے تھے

کچھ دیر خاموش رہ کر اسنے سلام کیا جب وہ دونوں اسکی جانب متوجہ ہوے اپنی سوچوں میں وہ اس قدر ڈوبے ہوے تھے کہ انہیں مناہل کی موجودگی کا بھی علم نہیں ہوسکا

"آپ لوگ ایسے کیوں بیٹھے ہیں کچھ ہوا ہے" اسکی بات سن کر فہد صاحب نے گہرا سانس لیا

"ایک لڑکا آیا تھا کہہ رہا تھا تمہیں جانتا ہے"

"کون"

"اسنے کہا کہ تم اسے پسند کرتی ہو"

اسکا دل زور سے دھڑکا کہیں حیدر اسکے گھر پر تو نہیں آگیا تھا بھلے وہ اسے پسند نہیں کرتی تھی لیکن اسنے حیدر کو اقرار میں جواب دے دیا تھا تو بھلا اسکے علاؤہ کون اسکے گھر پر آسکتا تھا 

اسنے نامحسوس انداز میں اپنی انگلی میں موجود حیدر کی پہنائی ہوئی انگھوٹھی اتاری یہ بات تو اسنے سوچی ہی نہیں تھی اگر زینت بیگم یا فہد صاحب اس انگھوٹھی کو دیکھ لیتے تو وہ کیا کہتی اسنے کبھی اپنے ماں باپ سے جھوٹ نہیں کہا تھا تو اب کیسے کہہ دیتی لیکن شکر تھا انہوں نے اس طرف دھیان نہیں دیا

"تمہارے بارے میں وہ اس قدر گھٹیا باتیں کرکے گیا ہے کہ میں بیان نہیں کرسکتا"انکی اگلی بات سن کر اسے صدمہ لگا لیکن فہد صاحب اسکی طرف متوجہ نہیں تھے وہ اپنی کہے جارہے تھے

"لیکن میں نے اسکی کسی بات پر یقین نہیں کیا بلکہ اسے دھکے دے کر گھر سے نکال دیا"

ایک آنسو ٹوٹ کر اسکی آنکھ سے بہہ نکلا کیا حیدر ایسا شخص تھا یقیناً تھا تب ہی تو سکندر اسے حیدر سے دور رہنے کے لیے کہتا تھا دل ہی دل میں وہ خود سے مخاطب ہوئی

"میں نہیں جانتی اسنے کیا کہا لیکن آپ اس شخص کی باتوں پر یقین مت کیجیے گا ابو"

"ہاں بیٹا میں جانتا ہوں چاہے کوئی بھی آکر کچھ بھی کہے مجھے میری بیٹی پر پورا یقین ہے تم نے ایک دو بار اسکا ذکر کیا تھا کہ وہ تمہارا دوست ہے مجھے لگا وہ اچھا شخص ہے لیکن وہ اچھا نہیں ہے آج کے بعد اس سے ہمیشہ فاصلہ رکھنا" اسنے حیرت سے اپنے باپ کو دیکھا بھلے حیدر سے اسکی دوستی کو کافی وقت ہوگیا تھا لیکن اسنے آج تک حیدر کا نام ان کے سامنے نہیں لیا تھا

"اسکا نام کیا تھا"

"سکندر" 

اسے پہلے سے زیادہ صدمہ لگا تھا سکندر اس طرح کی کوئی حرکت کرے گا وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی اسکے گھر میں آکر وہ اسکے ماں باپ کو اس سے بدگمان کرنا چاہ رہا تھا

اسکا دل چاہ رہا تھا کہ کاش سکندر اسکے سامنے ہوتا تو وہ اسے ایک تھپڑ لگاتی 

اسنے حیدر کا پرپوزل ریجیکٹ نہیں کیا تھا اور سکندر نے کہا تھا کہ اگر اسنے ایسا نہیں کیا تو وہ کچھ ایسا کرے گا جس کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتی اور اسنے واقعی نہیں سوچا تھا کہ سکندر کچھ ایسا کرے گا

ہیلمیٹ پہنے وہ اس وقت فل اسپیڈ میں اپنی بائیک چلا رہی تھی جب اچانک اسکی رفتار سے زیادہ تیز رفتار گاڑی اسکے سامنے آئی اور اسکی بائیک سیدھا سامنے والے کی گاڑی میں لگی یہ تو شکر تھا اسنے جلدی سے اپنی بائیک روک لی اور سامنے والے نے بھی اپنی گاڑی روک لی تھی

لیکن نقصان دونوں طرف کا ہی ہوچکا تھا علیحہ نے غصے سے اپنا ہیلمیٹ اتار کر اس شخص کو دیکھا جو گاڑی سے اتر کر اپنی بھوری آنکھیں اس پر جمائے اسے گھور رہا تھا اور علیحہ کو دیکھتے ہی اسکی پیشانی کے بلوں میں اصافہ ہوچکا تھا

"جب چلانی نہیں آتی تو چلاتی کیوں ہو" اسکے قریب جاکر وجدان نے غصے سے اسے گھورا

"تمہیں تو آتی ہے نہ خود دیکھ کر چلا لیتے" اسنے وجدان سے زیادہ تیز آواز میں کہا

"جانتی ہو مجھے زبان دراز لڑکیوں سے بےحد نفرت ہے" اسنے دانت پیستے ہوے کہا اسکا بس نہیں چل رہا تھا سامنے کھڑی اس لڑکی کو اٹھا کر کسی تہہ خانے میں بند کردے اور تب تک باہر نہ نکالے جب تک اسکی عقل ٹھکانے نہ لگ جائے 

"تو میں کون سا چاہتی ہوں کہ تم مجھے پسند کرو ایک تو میرا نقصان کردیا ہے اوپر سے مجھے ہی باتیں سنا رہے ہو"

"اور جو تم نے میرا نقصان کیا ہے" اسنے اپنی گاڑی کی طرف اشارہ کیا

"میری غلطی نہیں ہے غلطی تمہاری ہے تم نے میری بائیک کو نقصان پہچایا ہے''

"تو پھر تمہارا جو نقصان ہوا ہے اس میں بھی میری غلطی نہیں ہے پہلے اپنی غلطی مانو پھر شاید میں بھی اپنی غلطی تسلیم کرلوں" اسکے کہنے پر علیحہ اپنی نظریں ارد گرد دوڑانے لگی اور اپنی مطلوبہ چیز ملتے ہی اسے اٹھالیا وہ ایک اینٹ تھی جسے بنا لمحہ ضائع کیے اسنے وجدان کی گاڑی پر پھینک دیا اور اگلے ہی پل اس کی گاڑی کا شیشہ ٹوٹ چکا تھا

"ہاں اب یہ میں نے کیا ہے اسنے اپنی غلطی تسلیم کی جبکہ وجدان کا اس وقت بس نہیں چل رہا تھا کہ سامنے کھڑی اس لڑکی کا گلا دبا دے

اسنے اپنے قدم علیحہ کے قریب بڑھائے اور ایک زور دار لات وہاں کھڑکی اسکی بائیک کو مار دی اسنے اسٹینڈ نہیں لگایا تھا اسلیے وجدان کے اتنی زور سے مارنے کی وجہ سے وہ بائیک سیدھا دور جاگری

"ہاں اب یہ بھی میری غلطی تھی حساب برابر"وہ صدمے سے اپنی پسندیدہ بائیک کو دیکھ رہی تھی جس کی حالت ہی بدل چکی تھی کچھ ٹکر لگنے کے باعث تو کچھ وجدان کی حرکت کی وجہ سے

اسنے غصے سے گھور کر وجدان کو دیکھا جو اسکے اگلے عمل کا منتظر تھا

"تم دیکھنا تمہاری یہ حرکت تمہیں بہت مہنگی پڑے گی" اسنے وجدان کو گھورتے ہوے کہا اور غصے سے وہاں سے چلی گئی لوگ جمع ہورہے تھے اگر مزید وہ کچھ کرتی تو یقیناً کوئی تماشہ بن جانا تھا اور اسے بھری محفل میں اپنا تماشہ بنانے کا کوئی شوق نہیں تھا

اسکے جانے کے بعد وجدان نے اپنی جیب سے موبائل نکال کر طاہر کو کال ملائی

وہ لڑکی جس طرح اسکی گاڑی کا نقشہ بگاڑ کر گئی تھی اسکے بعد تو اب وہ استعمال کے لائق بھی نہیں تھی کم از کم وجدان راحم کے لیے تو نہیں

°°°°°

"میں نے آپ کو اپنا دوست سمجھا تھا اور آپ نے کیا کیا میرے ساتھ"اسکے کال اٹھاتے ہی مناہل نے بھیگی آواز میں کہا سکندر کی،کی گئی حرکت پر اسے واقعی بہت دکھ ہوا تھا

"میں نے کیا کردیا مناہل"

"یہ آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں کیوں کیا آپ نے ایسا سکندر میں نے آپ کو دوست سمجھا تھا لیکن پتہ نہیں تھا کہ آپ دوست بن کر میرے ہی کردار کو مشکوک بنادیں گے وہ بھی میرے ہی ماں باپ کے سامنے"

سکندر اسکی کہی ہر بات کو سمجھنے کی کوشش کررہا تھا وہ کیا کہہ رہی تھی اور اس طرح کیوں کہہ رہی تھی

"مناہل تمہیں ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے میں کیوں تمہارے کردار کو کسی کے سامنے مشکوک بناؤں گا"

"میں نے آپ کی وضاحت سننے کے لیے کال نہیں کی ہے بس یہ بتانا تھا کہ آج کے بعد کبھی مجھے کال مت کیجے گا ہمارے درمیان جو دوستی کا رشتہ تھا وہ آپ کی اس حرکت کی وجہ سے ختم ہوچکا ہے" اپنی بات کہہ کر وہ کال کاٹ چکی تھی

سکندر نے پریشانی سے اسکا نمبر دوبارہ ملایا لیکن اسنے نہیں اٹھایا تھا اور نہ اسے اب کبھی سکندر کی کال اٹھانی تھی

°°°°°

فائل سے نظریں ہٹا کر اسنے اپنے بجتے موبائل کو دیکھا جہاں انجان نمبر سے کال آرہی تھی

"ہیلو"کال پک کرتے ہی اسے دوسری طرف سے صالحہ کی سہمی ہوئی آواز سنائی دی

"و-وجدان پلیز میری ہیلپ کریں لڑکے میرے پیچھے پڑے ہوے ہیں پلیز مجھے بچا لیں"

"تمہارے پاس میرا نمبر کہاں سے آیا" اسنے صالحہ کی بات جیسے سنی ہی نہیں تھی کیونکہ اسکی فالتو بات سے زیادہ وجدان کے لیے یہ بات زیادہ اہم تھی کہ صالحہ کے پاس اسکا نمبر کیسے آیا

"اس وقت یہ ضروری نہیں ہے اس وقت مجھے آپ کی مدد چاہیے پلیز میری ہیلپ کریں" وہ اسے جلدی جلدی اس جگہ کے بارے میں بتانے لگی جس جگہ اس وقت وہ موجود تھی

جبکہ اسکی بات سن کر وجدان بےزاری سے کال کاٹ چکا تھا

اسے کوئی شوق نہیں چڑھا تھا رات کے اس وقت کسی انجان لڑکی کے لیے خوار ہونے کا اور یہ بھی پتہ نہیں کہ وہ سچ کہہ رہی تھی یا جھوٹ یقیناً جھوٹ یا شاید سچ

اسنے فائل بند کرکے سائیڈ پر رکھی پہلی بات جو زہہن میں آئی تھی وہ یہ کہ صالحہ نے اسے ہی کیوں کال کی

آگر وہ واقعی کسی مصیبت میں ہوئی تو اسنے وجدان کو مدد کے لیے پکارا تھا اور اگر اسکے ساتھ واقعی میں کچھ ہوجاتا تو وجدان خود کو کبھی معاف نہیں کر پاتا کیونکہ اختیار میں ہوتے ہوے بھی وہ اس لڑکی کو بچا نہیں پایا

کچھ دیر سوچ کر اسنے اپنا موبائل اور گاڑی کی چابی اٹھائی اور تیز تیز قدم اٹھاتا وہاں سے نکل گیا

°°°°°

"تمہیں فائل مل گئی دعا"

"نہیں ابھی نہیں ملی" اسنے آہستہ سے فون کال پر موجود دوسری جانب شخص سے کہا جو اسکی بات سن کر بھڑک اٹھا

"اب تک کر کیا رہی ہو تم ایک فائل تک حاصل نہیں کرپائیں"

"میں ایک بار گئی تھی مشارب کے کمرے میں وہاں ایک لاکر ہے اور مجھے پورا یقین ہے فائل اسی لاکر میں ہے بس ایک بار مجھے اس لاکر کا کوڈ پتہ چل جاے پھر مسلہ نہیں ہے"

"تو پتہ کرو اسکا کوڈ کیا ہے"

"میں کیسے پتہ کروں"

"مشارب سے معلوم کرو" اس کی بات سن کر دعا نے ضبط سے آنکھیں بند کرلیں وہ مشارب کے پاس کوڈ مانگنے جاتی اور مشارب اسے آرام سے کود بتادیتا

"اس شخص کو یہ بات تک نہیں پسند کہ میں اسکے کمرے میں جاؤں آپ کوڈ کی بات کررہے ہیں جیسے وہ مجھے بتا ہی دے گا"

"تو اسکے قریب رہو اسکا بھروسہ جیتو تم نے پہلے بھی ایسے کام کیے ہیں تمہارے لیے یہ کام مشکل نہیں ہے" اسنے بنا جواب دیے کال کاٹ دی اور جلدی سے موبائل چھپادیا 

کیونکہ باہر سے کسی کے قدموں کی آواز آرہی تھی اسکے پاس موبائل ہے اس بات سے گھر میں سب ہی انجان تھے اسلیے وہ جب بھی بات کرتی تھی تو ہمیشہ احتیاط کرتی تھی

کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کسی کو اس پر زرا سا بھی شک ہو

°°°°°

گاڑی روک کر وہ اپنی بلیک مرسیڈیز سے اترا جو اسنے چند گھنٹوں پہلے ہی خریدی تھی

وہ سڑک بلکل ویران پڑی تھی بس سامنے ایک گاڑی تھی جسے دیکھ کر اسے پہلا خیال صالحہ کا آیا تیز تیز قدم اٹھاتا وہ اس گاڑی کی جانب آیا جہاں اسکا سر اسٹیئرنگ پر ٹکا ہوا تھا یقیناً وہ بےہوش تھی

وجدان نے احتیاط سے اسے اٹھایا جس کے باعث اسکا چہرہ واضح دکھنے لگا اسکے ماتھے پر چوٹ لگی ہوئی تھی لیکن وہ صالحہ نہیں تھی وہ علیحہ تھی بقول وجدان راحم کے وہی زبان دراز لڑکی

"ہیلو مس اٹھو" وجدان نے اسکا گال تھپتھپایا لیکن اسکے وجود میں کوئی حرکت نہیں ہوئی اس وقت اسکے پاس یہی ایک راستہ تھا کہ اس لڑکی کو اپنے ساتھ لے جاتا 

کیونکہ اس ویران سڑک پر وہ اس لڑکی کو تہنا نہیں چھوڑ سکتا تھا 

اچانک اس جگہ پر دھواں پھیلنا شروع ہوچکا تھا اسنے اپنا سانس روک لیا لیکن دماغ جیسے بند ہورہا تھا اسنے محسوس کیا جیسے کوئی اسکے قریب آیا وجدان نے اپنی آنکھیں مسل کر اس شخص کو دیکھا جس کا چہرہ نقاب سے ڈھکا ہوا تھا

اس شخص نے وجدان کے مظبوط بازو پر ہاتھ رکھا جبکہ اسکی اس حرکت پر وجدان نے زور دار گھونسا مار کر اسے خود سے دور کیا اسکے بعد اسکے ساتھ کیا ہوا تھا اس چیز سے انجان وہ تھا

°°°°°

آنکھیں کھولتے ہی اسکی پہلی نظر علیحہ پر گئی جو اسکے سینے پر سر رکھے سورہی تھی اور اس وقت سوتے ہوے وہ نہایت ہی معصوم  لگ رہی تھی

غائب دماغی سے وجدان نے اسکے چہرے پر بکھرے بال پیچھے کیے اور زہہن پر زور دیا جس کے باعث دھیرے دھیرے گزرا ہر منظر اسے یاد آنے لگا اور یاد آتے ہی اسنے اپنے سینے پر سوئی ہوئی علیحہ کو خود سے دور پھینکا جیسے وہ کوئی اچھوت ہو

اسکے دھکا دینے پر علیحہ نے نیند سے بھری آنکھیں کھول کر اسے دیکھا اور نظر سامنے بیٹھے وجدان کے چوڑے برہنہ سینے پر پڑتے ہی اسکی آنکھیں پوری کھل گئیں

وجدان نے زمین پر پڑی اپنی شرٹ اٹھائی اور جلدی سے اسے پہنے لگا وہ دونوں حیرت و بےیقینی سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے یا شاید اپنے ساتھ ہوئی اس کاروائی کو سمجھنے کی کوشش کررہے تھے 

لیکن اس سے پہلے ان دونوں میں سے کوئی کچھ کہہ پاتا کمرے کا دروازہ بجنے کی آواز پر وہ دونوں اس جانب متوجہ ہوئے

باہر سے آتی آوازوں کو سن کر وجدان کے لیے یہ بات جاننا مشکل نہیں تھا کہ باہر اس وقت میڈیا کھڑی ہوئی تھی

اسنے غصے سے اپنا ہاتھ دیوار پر مارا جاننے میں دیر نہیں لگی تھی کہ معاملہ کیا ہوا تھا

"باہر کون ہے اور میں یہاں کیا کررہی ہوں" حواس بحال ہوتے ہی اسنے چلا کر پوچھا

"جاکر پوچھنا اپنی دوست سے کہ تم یہاں کیا کررہی ہو" اسنے اپنی جیب سے فون نکال کر طاہر کو میسیج کیا اسے پتہ تھا ایسی سیٹیوایشن میں اسے کیا کرنا تھا شاید جو وہ کرنے جارہا تھا وہ ٹھیک نہیں تھا لیکن اسکے علاؤہ اور راستہ بھی تو نہیں تھا

اپنا کام اسنے آج تک ایمانداری سے کیا تھا لوگ اسے جانتے تھے 

یہ بات جانتے تھے کہ وہ ایک انصاف پسند آدمی ہے

اسکی سالوں کی محنت ایک لمحے میں ختم ہوجاتی اور وہ کچھ نہیں کرتا ایسا تو ہو نہیں سکتا تھا

"کیا کہنا چاہتے ہو تم کیا پوچھوں میں اپنی دوست سے"اسنے ناسمجھی سے پوچھا جس پر وجدان نے گھور کر اسے دیکھا اتنی بےوقوف وہ لگتی تو نہیں تھی کہ بات کی تہہ تک نہیں پہنچ پاتی

"وہاں اس جگہ پر کیا کررہی تھیں تم"

"مجھے صالحہ نے فون کیا تھا"

"اور اسنے کہا ہوگا کہ اسکے پیچھے لڑکے پڑے ہوے ہیں تم وہاں گئی ہوگی تمہاری گاڑی کا ایکسیڈینٹ ہوگیا ہوگا جو یقیناً تمہاری اس دوست نے ہی کروایا ہوگا"

"تم جھوٹ کہہ رہے ہو"

"بی بی میری بات سنو مجھے کوئی شوق نہیں چڑھا تمہارے ساتھ اس کمرے میں بند ہوکر اپنا کرئیر خراب کرنے کا یہ سارا کیا دھرا تمہاری دوست کا ہے اور اگر مجھے پتہ چلا کہ تم اسکے ساتھ ملی ہوئی ہو تو دیکھنا تمہارے ساتھ میں کیا کرتا ہوں"

اسے غصے سے جواب دے کر اسنے دروازہ کھولا جو کب سے بج رہا تھا یہاں سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا اور اگر ہوتا بھی تو بھی اسے امید تھی کہ اس جگہ کے چاروں طرف ہی لوگ ایک نئی خبر جاننے کے لیے پھیلے ہوں گے

دروازہ کھولتے ہی وہ سارے کے سارے ان دونوں کے قریب آئے انکے ہاتھ میں مائیک کیمرہ اور اسی طرح کی الگ الگ چیزیں تھیں

جنہیں علیحہ بس غائب دماغی سے دیکھ رہی تھی اس طرح کا حادثہ اسکی زندگی میں پہلی بار ہوا تھا

اسے وجدان سے مزید کسی وضاحت کی ضرورت نہیں تھی اسے پتہ تھا صالحہ اپنے بھائی کو بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتی تھی لیکن یہ نہیں پتہ تھا کہ اس سب میں وہ اسے بھی گھسیٹ لے گی

لوگ عجیب طرح کی باتیں کررہے تھے اسکے بارے میں اور وہ بس یہ سوچ رہی تھی کہ جب اسکے باپ کو ان سب باتوں کا علم ہوگا تو کیا ہوگا

اسنے ہمیشہ اسے کھلی آزادی دی تھی کیا اسلیے کہ ایک دن علیحہ درانی اسکا سر جھکا دے

اسکے کانوں میں لوگوں کی آوازیں آرہی تھیں لیکن وہ انکی طرف متوجہ نہیں تھی اسکی نظریں کچھ فاصلے پر کھڑی صالحہ پر تھیں جس کے چہرے پر فخریہ مسکراہٹ بکھری پڑی تھی جیسے وہ کتنا بڑا کارنامہ سر انجام دے چکی ہو

"سر یہ لڑکی کون ہے"

"آپ بھی ایسے کام کرتے ہیں مسٹر شیرازی"

"کیا وضاحت دینا چاہیں گے"

"یہ لڑکی آپ کے ساتھ یہاں کیوں ہے"

اسکا دل چاہ رہا تھا ان سارے سوال پوچھنے والوں کے کیمرے اور مائیک انکے منہ میں ڈال دے اور وہ ایسا کرنے میں دیر بھی نہیں لگاتی لیکن اس سے پہلے ہی وجدان کے الفاظ اسے سکتے کی کیفیت میں ڈال چکے تھے

°°°°°

"بیوی ہے یہ میری نکاح میں ہے میرے"

"کیا ثبوت ہے آپ کے پاس اور اگر یہ آپ کی بیوی ہے تو ابھی تک آپ نے یہ بات چھپائی کیوں تھی" ایک اور سوال آیا

"میری زندگی ہے میں جیسے چاہے جیوں اور جہاں تک بات ہے ثبوت کی تو میں نکاح نامہ ہر وقت اپنے ساتھ لے کر نہیں گھوم سکتا"

"تصویر تو دکھا سکتے ہیں" یہ آواز صالحہ کی تھی وہ آج کسی بھی طرح اسے چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتی تھی

"بلکل دکھا تو سکتا ہوں"

اسنے موبائل نکال کر ایک تصویر ان سب کے سامنے کی وہ نکاح نامہ تھا علیحہ درانی اور وجدان شیرازی کا

وہ ایک وکیل تھا جسے لوگوں کو انصاف دلانے کے لیے اگر جھوٹ کا سہارا بھی لینا پڑتا تو وہ لے لیتا تھا اسکے پاس ہر کام کے لیے ایک بندہ موجود تھا

سامنے والے کو انصاف دلانے کے لیے اسنے اکثر جھوٹ کا سہارا لیا تھا  تو یہ کیسے ممکن تھا کہ اپنے لیے وہ کچھ نہیں کرتا

لوگ اس سے مزید سوال پوچھ رہے تھے جس میں سارے سوال صرف علیحہ کے متعلق تھے اور وہ انکی ساری باتوں کا جواب بہت اعتماد سے دے رہا تھا جیسے وہ علیحہ کو کتنا جانتا تھا

علیحہ ایک ایسی لڑکی تھی جو صالحہ کے ساتھ جڑی ہوئی تھی وہ اپنے سے جڑے سارے کیس کی مکمل ڈیٹیل رکھتا تھا اسی طرح اسنے علیحہ کی بھی ساری ڈیٹیل پہلے ہی نکلوالی تھی

باہر میڈیا تھی اور یہ بات جانتے ہی اسنے طاہر کو میسیج کرکے فورا ہی اس جھوٹے نکاح نامے کا انتظام کروالیا تھا

وہ ایک کامیاب وکیل تھا لوگوں کے لیے لڑتا تھا تو بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ اپنے لیے نہ لڑتا

اسکی طرف سے سارے پکے ثبوت پاکر ان سب کو یہ تو یقین ہوچکا تھا کہ وہ وجدان شیرازی کی بیوی ہے لیکن ایک نیا موضوع بھی مل چکا تھا جسے اب ہر نیوز چینل کی زینت بن جانا تھا

°°°°°

"یہ کیا کردیا تم نے خود کو بچانے کے لیے تم نے مجھے پھنسا دیا"ان سے کے جاتے ہی اسنے وجدان کو اپنی جانب متوجہ کیا

"ہاں میں نے اپنا کرئیر بچایا ہے لیکن تمہیں بھی بچایا ہے کیا کہتیں سب سے کہ کیوں ہو تم ایک غیر مرد کے ساتھ اس کمرے میں بند"علیحہ کی بات سن کر اسنے چلاتے ہوئے کہا

"میں جو بھی کہتی وہ میرا مسلہ تھا تم نے مجھے بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا تم نے صرف اپنا رتبہ اپنی جھوٹی عزت بچانے کے لیے یہ سب کیا ہے" اسنے وجدان سے زیادہ تیز آواز میں کہا جب اسکے کانوں میں سکندر کی آواز پڑی

"علیحہ"

علیحہ نے چہرہ موڑ کر دروازے پر کھڑے سکندر کو دیکھا اور اسے دیکھتے ہی بھاگ کر اسکے گلے لگ گئی اور ایسا کرتے ہی اسکی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ وہ روتی تھی

"ڈیڈ میں نے کچھ نہیں کیا"

"میں جانتا ہوں تم نے کچھ نہیں کیا مجھے اپنے بچے پر پورا اعتبار ہے" اسنے علیحہ کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا 

اسکے آنسو صاف کرکے سکندر نے اسے واپس اپنے سینے سے لگالیا اور وہاں کھڑے وجدان کی طرف متوجہ ہوا

"تم سے کچھ بات کرنی ہے"

°°°°°

"تم نے سب سے یہ کہہ دیا کہ علیحہ تمہاری بیوی ہے اب کیا کرو گے" 

اس وقت وہ سب سکندر کے فلیٹ پر موجود تھے جو اس جگہ سے تھوڑا دور ہی تھا جہاں صالحہ نے وجدان اور علیحہ کو رکھا تھا

باقی سب اس وقت دوسرے کمرے میں موجود تھے جبکہ وجدان سکندر کے ساتھ دوسرے کمرے میں موجود تھا

"ضرورت سے زیادہ جلدی پہنچ گئی آپ تک یہ خبر"اسکی بات سن کر سکندر نے گہرا سانس لیا

"تم مجھ تک پہنچنے کی بات کررہے ہو یہ خبر ہر جگہ پھیل چکی ہے"

"دیکھیے درانی صاحب میں نے جو کچھ بھی کیا وہ اپنا آپ بچانے کے لیے کیا ہاں شاید آپ کی بیٹی کا نام لے کر میں نے غلطی کی لیکن اگر میں ایسا نہیں کرتا تو آپ کی بیٹی کے ساتھ بھی کیا ہوسکتا تھا آپ بہتر جانتے ہیں"

"میں بس اتنا جانتا ہوں کہ تم نے اس سے جھوٹے نکاح کا دکھاوا کیا ہے اب سچا نکاح کرو میری بیٹی کو اپنے نکاح میں لو" اسکی بات سن کر وجدان نے حیرت سے اسے دیکھا

°°°°°

"میں سوچ رہا ہوں کہ شادی کرلوں عمر ہوگئی ہے نہ میری پورے تیس سال کا ہوگیا ہوں اب وجدان تو کر نہیں رہا اسلیے یہ کام مجھے ہی سر انجام دینا پڑے گا"اس وقت وہ براق کے ساتھ کھڑا اس سے باتیں کرنے میں مصروف تھا کچھ دیر پہلے ہی وہ گھر آیا تھا

"لیکن میری شادی ہوگئی تو پھر تمہیں اکیلا تو نہیں چھوڑ سکتا نہ سوچ رہا ہوں تمہارے لیے بھی ایک پیاری سی کڑی ڈھونڈ لوں"اس سے باتیں کرتے ہوے اسے خود پر کسی کی نظروں کی تپش محسوس ہوئی

اسنے نگاہوں کا رخ دوسری جانب کیا جہاں کمرے کی کھڑکی پر کھڑی دعا اسے ہی دیکھ رہی تھی لیکن اسکے دیکھنے پر سٹپٹا کر جلدی سے پیچھے ہوگئی اور اسکی اس حرکت پر مشارب کے لب مسکرا اٹھے

اب اسکا ارادہ ناز بیگم کے پاس جانے کا تھا جب اسکا فون بجنے لگا

اسنے اپنے بجتے فون کو نکالا جہاں طاہر کی کال آرہی تھی وہ اسے صرف تب ہی کال کرتا تھا جب کوئی پریشانی کی بات ہوتی

°°°°°

اپنے کمرے کی کھڑکی پر کھڑی اس وقت وہ دور کھڑے مشارب کو دیکھ رہی تھی

کیسا شخص تھا وہ جو دھیرے دھیرے اسے اپنے سحر میں جکڑ رہا تھا

اسے دیکھتے ہی دل کی کیفیت عجیب سی ہونے لگتی اور ایسا پہلی بار ہوا تھا وہ اپنی کیفیت سے بخوبی واقف تھی لیکن جان بوجھ کر اس حقیقت کو جھٹلا رہی تھی

وہ اس کے چہرے کا ایک ایک نقش دیکھ رہی تھی اور اسے دیکھ کر لگ رہا تھا کہ خدا نے اس بندے کو فرصت سے بنایا ہے

وہ غور سے اسے دیکھ رہی تھی جب مشارب نے چہرہ اٹھا کر اسکی جانب دیکھا اور اسکے دیکھنے پر وہ سٹپٹا کر پیچھے ہوئی 

ساتھ ہی خود کو ڈپٹہ کیا ضرورت تھی اسے دیکھنے کی پتہ نہیں اب وہ کیا سوچ رہا ہوگا

اسے ان سب فضولیات میں نہیں پڑھنا تھا وہ یہاں جس کام کے لیے آئی تھی اسے بس وہی کرنا تھا اور یہاں سے چلے جانا تھا

°°°°°

"کیا ہوگیا ہے آپ کو ڈیڈ آپ ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں میں کسی بھی قیمت پر اس شخص کے ساتھ نکاح نہیں کروں گی"

سکندر کی بات سنتے ہی اسے حقیقتاً صدمہ لگا تھا اسے امید نہیں تھی اسکا باپ اسے کچھ ایسا کرنے کے لیے کہے گا

"علیحہ میں تمہارے لیے کوئی غلط فیصلہ نہیں کروں گا بھروسہ ہے نہ مجھ پر"

"بلکل ہے لیکن میں یہ نکاح نہیں کروں گی"

"میری خاطر کرلو میں یہ سب تمہاری بھلائی کے لیے کررہا ہوں"

"آپ کو اس نکاح میں میری بلائی نظر آرہی ہے"

"ہاں بلکل آرہی ہے اور تم انکار نہیں کرو گی تمہیں میری یہ بات ماننی ہی ہوگی"اسکا لہجہ سخت ہوا

"اگر میں آپ کی سگی اولاد ہوتی تب بھی یہی کرتے"

"علیحہ" اسکی بات سن کر سکندر چیخا جبکہ اپنی بات کی وجہ سے اسکی آنکھوں میں نمی دیکھ کر علیحہ کو اندازہ ہوا کہ اسنے انجانے میں ایک غلط بات کہہ دی ہے

"آئی ایم سوری لیکن میں اس سے نکاح نہیں کروں گی باقی کچھ بھی کہیں کرلوں گی بس یہ کام مت کہیں"

اسکے کہنے پر سکندر نے اپنی بھیگی آنکھیں صاف کرکے اسے اپنے سینے سے لگایا

"بس ایک مہینے کی بات ہے اس کے بعد اگر تم یہ رشتہ نہیں رکھنا چاہو گی تو میں تمہیں بلکل فورس نہیں کروں گا لیکن ابھی کے لیے مان جاؤ میری خاطر"

"بس ایک مہینہ پرامس کریں صرف ایک مہینہ" اسنے اپنا ہاتھ اسکی طرف بڑھا کر اس بات کی تصدیق کرنی چاہی کے یہ نکاح صرف ایک مہینے تک ہی رہے گا جس کے جواب میں سکندر نے اپنا سر ہاں میں ہلادیا 

°°°°°

"علیحہ درانی ولد سکندر درانی آپ کا نکاح وجدان شیرازی ولد راحم شیرازی کے ساتھ دس لاکھ حق مہر سکہ رائج الوقت طے پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے"

اسنے ایک غصے سے بھری نگاہ اپنے سامنے بیٹھے وجدان پر ڈالی دل چاہ رہا تھا سامنے بیٹھے اس شخص کے چہرے کا نقشہ بگاڑ دے جس کی وجہ سے آج اسے یہ نکاح کرنا پڑ رہا تھا

مولوی صاحب کے دوبارہ پوچھنے پر بھی اسنے کوئی جواب نہیں دیا جب سکندر نے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا اسنے چہرہ موڑ کر سکندر کی طرف دیکھا جس نے اسکے دیکھنے پر اپنی پلکیں چھپکا کر اسے ہاں کا اشارہ کیا

اسکے لب ہولے سے ہلے لمحوں کا کھیل تھا کچھ لمحوں بعد ہی وہ علیحہ سکندر درانی سے علیحہ وجدان شیرازی بن چکی تھی

°°°°°

"علیحہ تم ٹھیک ہو" مولوی صاحب اور وہاں موجود چند افراد کے جاتے ہی مناہل نے اسکے جھکے سر کو دیکھتے ہوے پوچھا

اس وقت وہاں پر انکے گھر کے افراد کے علاؤہ صرف وجدان اور مشارب موجود تھے جسے نکاح سے پہلے سکندر نے ہی بلایا تھا

"علیحہ"

مناہل کے دوبارہ پکارنے پر اسنے غصے سے ٹیبل پر رکھا نکاح نامہ اٹھایا اور جاکر وجدان کے منہ پر پھینک دیا اس کاغذ کا ٹکڑا چہرے پر لگنے سے اسے کوئی نقصان تو نہیں ہوا تھا لیکن سب کے سامنے علیحہ کی اس حرکت پر وہ بس ضبط کرکے رہ گیا

جبکہ اسکی اس حرکت پر پیچھے کھڑے مشارب نے اپنی مسکراہٹ دبائی چلو فائینلی اسکے بھائی کو بھی کوئی اسکے ٹکر کی مل گئی

"مل گیا سکون لو ہوگیا نکاح تم ہو اس سب کے ذمیدار"

"علیحہ"

اسکی حرکت پر سکندر نے سخت لہجے میں پکارا جبکہ بنا کسی کی طرف دیکھے وہ سیدھا باہر نکل گئی

"سکندر روکیں اسے وہ کہاں جارہی ہے"اسکے باہر جانے پر مناہل خود بھی اسکے پیچھے جانے لگی جب سکندر نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا

روکنے سے وہ کونسا رک جاتی ابھی اسکا جانا ہی بہتر تھا اور وہ کہاں جارہی تھی یہ بھی سکندر جانتا تھا

"ازہار اسکے پیچھے جاؤ"

اسکے کہنے پر ازہار بنا لمحہ ضائع کیے باہر نکل گیا

وہ سیدھا صالحہ کے آفس گئی تھی لیکن وہاں اسکی غیر موجودگی دیکھ کر وہ آفس کے سامنے بنے کافی شوپ میں چلی گئی

وہ جانتی تھی صالحہ اگر اپنے آفس میں موجود نہیں تھی تو پھر اسے اسی کافی شاپ میں ہونا تھی اور اسکے اندازے کے عین مطابق وہ وہیں موجود تھی

اس پر نظر پڑھتے ہی علیحہ تیز تیز قدم اٹھاتی اسکے قریب گئی اور بنا کوئی لحاظ کیے زور دار تھپڑ اسکے گال پر مارا

اسکے مارنے کی وجہ سے سب لوگ ان دونوں کی طرف متوجہ ہوچکے تھے اور ان سب کی نظریں خود پر دیکھ کر صالحہ اچھی خاصی شرمندہ ہوچکی تھی اسنے غصے سے علیحہ کو دیکھا جو خود نفرت بھری نگاہوں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی

اپنی جگہ سے اٹھ کر صالحہ اسکے سامنے کھڑی ہوئی جب علیحہ نے اسے دوسرا تھپڑ مارا

اسکا دوسرا تھپڑ کھا کر صالحہ خود بھی اسے مارنے لگی لیکن اسکا اپنی جانب بڑھتا ہاتھ علیحہ بیچ میں ہی روک چکی تھی

تھوڑی ہی دیر میں لوگوں کی بھیڑ وہاں جمع ہوچکی تھی گارڈز اور مینیجر علیحہ کو اس سے بچانے کی کوشش کررہے تھے کیونکہ وہ صالحہ کی حالت کچھ زیادہ ہی بگاڑ چکی تھی

اسے ہاسپٹل لے جانے کی ضرورت تھی لیکن علیحہ اسے چھوڑ ہی کب رہی تھی مینیجر اسے صالحہ سے دور کرنے کی کوشش کررہا تھا کیونکہ اس طرح انکے باقی کسٹمرز خود کو بےآرام محسوس کررہے تھے 

لیکن وہ ایک لڑکی تھی مینیجر اسے صرف اپنی باتوں یا دھمکیوں سے ہی دور کرنے کی کوشش کرسکتا تھا اور کر بھی رہا تھا 

لیکن علیحہ پر کوئی اثر نہ ہوتے دیکھ کر اسنے پولیس کو کال ملانے کا سوچا پر اس سے پہلے ہی ازہار وہاں پہنچ چکا تھا ورنہ علیحہ نے تو اسکی حالت مزید بگاڑ دینی تھی

°°°°°

گاڑی گھر کے سامنے رکتے ہی اسنے پہلے حیرت سے اس جگہ کو دیکھا لیکن پھر اپنے برابر بیٹھے ازہار کو گھورا

اسے نہیں پتہ تھا کہ یہ گھر کس کا ہے لیکن وہاں لگی شیرازی مینشن کی تختی دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ اسے کہاں لے کر آیا ہے

"تمہیں بھی پٹنا ہے ازہار"

"تمہارا ہی بھائی ہوں اور ہماری تربیت کرنے والا باپ ایک ہی ہے جو اسنے تمہیں سکھایا ہے وہی مجھے بھی سکھایا ہے اسلیے تمہارا زور کم از کم مجھ پر تو نہیں چل سکتا"

"سیدھی بات کہو یہاں کیوں لائے ہو"اسکی بات کا بنا کوئی جواب دیے ازہار نے اپنے موبائل سے سکندر کا نمبر ملایا اور اسکی جانب بڑھا دیا

"یہ سب کیا ہے ازہار مجھے یہاں کیوں لایا ہے" کال ریسیو ہوتے ہی اسنے بیزاری سے پوچھا

"کیونکہ اب وہ تمہارا گھر ہے"

"بات صرف ایک مہینے کی ہوئی تھی"

"ہاں پر میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ اس ایک مہینے میں تم اس گھر میں نہیں رہو گی" اسکے کہنے پر علیحہ کی پیشانی پر بل نمودار ہوئے

"کیا چھپا رہے ہیں مجھ سے یا پھر کس سے چھپا رہے ہیں مجھے"کوئی بات تو ضرور تھی اتنا اندازہ اسے ہوچکا تھا 

"جب اتنا جان گئی ہو تو یہ بھی جان لو کہ میں جو کررہا ہوں تمہاری بھلائی کے لیے کررہا ہوں تمہارے لیے کررہا ہوں"

"آپ جانتے ہیں نہ میں اپنا خیال خود رکھ سکتی ہوں تو پھر یہ سب کیوں کررہے ہیں" اسکا لہجہ تیز ہوا جو کچھ بھی آج اسکے ساتھ ہوا تھا اسکے بعد تو اسکا دل چاہ رہا تھا کہ ہاسپٹل میں پڑی صالحہ کا قتل کردے

"علیحہ بس ایک مہینے کی بات ہے میرا بچہ اپنا خیال رکھنا اور مجھ پر ہمیشہ بھروسہ کرنا میں تمہارے لیے کوئی غلط فیصلہ نہیں کروں گا اور ہاں وہاں کوئی الٹی سیدھی حرکت مت کرنا"

"ٹھیک ہے" 

ابھی کے لیے وہ اس سے زیادہ کہہ بھی کیا سکتی تھی

°°°°°

"میں مٹر پلاؤ اچھا بنالیتی ہوں اسکے علاؤہ کچھ اتنا خاص بنانا نہیں آتا ویسے یہ میری فیورٹ ڈش بھی ہے" اسکے کہنے پر ناز بیگم بےساختہ ہنسی 

اس وقت وہ دونوں لاونج میں بیٹھی باتیں کررہی تھیں

"کیا ہوا" انکے ہنسنے پر اسنے اچھنبے سے پوچھا

"مشارب کو بھی مٹر پلاؤ بہت پسند ہے اسکی بھی پسندیدہ ڈش ہے" انکے کہنے پر دعا کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ بکھری 

جب ان دونوں کی نظر گھر میں داخل ہوتے مشارب پر پڑی 

اسکے ساتھ کھڑی لڑکی کو دیکھ کر دعا کا دل تیز تیز دھڑکنا شروع ہوچکا تھا وہ کون لڑکی تھی اور مشارب کے ساتھ کیوں تھی

"اسلام و علیکم اماں جان" اسکے سلام کا جواب دے کر انہوں نے اسکے پیچھے کھڑی علیحہ کو دیکھا جو اس وقت بلیک شرٹ اور بلیک جینز میں ملبوس تھی

"یہ لڑکی کون ہے مشارب"

"آپ کی بہو ہے اماں جان" اسکے کہنے کر دعا کا تیز تیز دھڑکتا دل جیسے ایک دم سے رک گیا اسنے دل میں دعا کی کہ جو اسنے سنا ہے کاش وہ غلط ہو ابھی تو اسنے ٹھیک سے اپنے دل کی کیفیت کو بھی نہیں سمجھا تھا اور سامنے کھڑا شخص یہ کیا کہہ رہا تھا

"کیا کہا تم نے''

''میں آپ کو سمجھاتا ہوں'' اسنے خالا بی کو آواز دی اور علیحہ کو وجدان کے کمرے میں لے جانے کا کہا جو حیرت سے اس نئے چہرے کو دیکھ رہی تھی

"خالا بی انہیں وجدان کے کمرے میں لے جائیں"

"لیکن کس لیے بیٹا"

"کیونکہ یہ وجدان کی بیوی ہیں" اسکے کہنے پر خالا بی نے حیرت سے علیحہ کو دیکھا لیکن پھر اپنا سر ہلاکر اسے وجدان کے کمرے میں لے گئیں جبکہ اسکی بات سن کر دعا نے شکر بھرا سانس لیا

ان دونوں کے وہاں سے جانے کے بعد وہ ناز بیگم کو مختصر لفظوں میں آج گزرا واقعہ بتانے لگا

°°°°°

"کیا تم وجدان کی بیوی ہو" اسکے کمرے میں داخل ہوتے ہی خالا بی نے پوچھا

انکی تو ابھی تک حیرت ہی ختم نہیں ہورہی تھی کہ وجدان نے شادی کرلی جبکہ انکے کہنے پر علیحہ نے اپنا سر نفی میں ہلایا

"نہیں باہر جو لڑکا مجھے لے کر آیا ہے نہ اسکی بیوی ہوں"

"لیکن وہ تو کہہ رہا تھا تم وجدان کی بیوی ہو" انہوں نے الجھن بھری نظروں سے علیحہ کی جانب دیکھا

"جب سن لیا تو کیوں دوبارہ پوچھ رہی ہیں" اسکے کہنے پر خالا بی دل میں اسے بدتمیز کہہ کر منہ بناتی ہوئی کمرے سے باہر چلی گئیں

"استغفر اللہ نہ جانے کہاں سے اٹھا لائے اسے ساس کے سر سے تو کبھی ڈوپٹہ نہیں اترا اور بہو رانی کے پاس سرے سے ڈوپٹہ ہی نہیں ہے" وہ بڑبڑاتے ہوئے چلی گئیں

کتنے سالوں سے وہ اس گھر میں کام کررہی تھیں آج تک کسی نے ان سے اس طرح بات نہیں کی جس طرح اس لڑکی نے پہلی ہی ملاقات میں کری تھی

°°°°°

"سکندر"

مناہل کی آواز پر سکندر نے چونک کر اسکی طرف دیکھا

"ہاں کیا ہوا"

"آپ نے علیحہ کا نکاح کیوں کیا میں جانتی ہوں کہ آپ نے اسکی بدنامی کے ڈر سے نکاح نہیں کیا کیونکہ آپ جانتے ہیں آپ کی بیٹی غلط نہیں ہے پھر چاہے دنیا کچھ بھی کہتی کوئی بھی الزام لگاتی آپ اسے کچھ نہیں کہتے لیکن آپ نے اسکا نکاح کردیا بتائیں مجھے کیوں کیا ہے آپ نے ایسا"

اسکے کہنے پر سکندر نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے قریب بٹھایا

"کیونکہ میں اسکی حفاظت کرنا چاہتا ہوں مناہل"

"وہ اپنی حفاظت خود کرسکتی ہے سکندر"

"تم جانتی ہو دو دن پہلے آفس میں میرے پاس ایک آدمی آیا اور اسنے مجھ سے کہا کہ میں اپنی بیٹی کی شادی اس سے کردوں لیکن میں نے انکار کردیا اور مجھے اسی بات کا ڈر تھا" 

"کہ میرے انکار کی وجہ سے کہیں وہ میری بیٹی کو کوئی نقصان نہ پہنچائے اگر میں اسے نہیں جانتا تو بات کچھ اور ہوتی لیکن میں اسے اچھے سے جانتا ہوں اگر وہ کسی چیز کی خواہش کرے تو اسے حاصل کیے بنا چین نہیں لیتا اسلیے میں نے اسکا نکاح کردیا تاکہ میری بیٹی محفوظ رہے"

اسکی بات پر مناہل نے حیرت سے اسے دیکھا وہ خود اس لائق تھا کہ اپنی بیٹی کی حفاظت کرسکتا تھا پھر اسنے کیوں یہ نکاح کردیا

"لیکن اسے محفوظ رکھنے کے لیے آپ کو کسی اور کی ضرورت کیوں پڑی آپ کافی تھے اسکے لیے"

"میں اپنی بیٹی کے لیے ہر کسی سے لڑ سکتا ہوں لیکن حیدر سے نہیں"کوئی بم تھا جو اسنے مناہل کے سر پر پھاڑا تھا

"ح-حیدر" اسکے لب کپکپائے

"ہاں وہ علیحہ سے شادی کرنا چاہتا ہے"

"تو بتا دیتے اس شخص کو کہ جس لڑکی کے لیے وہ یہ سب کہہ رہا ہے وہ اسکی اپنی بیٹی ہے"

مناہل کی بات پر اسنے ضبط سے آنکھیں بند کرلیں نفرت ہوتی تھی اسے ان لفظوں سے جب کوئی کہتا تھا کہ علیحہ اسکی نہیں کسی اور کی اولاد ہے

°°°°°

دروازہ ناک کرکے وہ آفس روم میں داخل ہوا جہاں حیدر اپنی آنکھیں موندیں بیٹھا ہوا تھا

"گیلانی صاحب اس لڑکی کے بارے میں کچھ بات کرنی تھی" علیحہ کا زکر سنتے ہی حیدر اسکی جانب متوجہ ہوا

"کیا ہوا سکندر نے شادی کے لیے ہاں کہہ دیا"

"ایک بات پوچھوں" اسنے جھجکتے ہوئے پوچھا وہ حیدر گیلانی تھا جس کی مراد کوئی بھی لڑکی اس عمر میں بھی پوری کرسکتی تھی تو پھر وہ ایسی لڑکی کے پیچھے کیوں پڑا تھا جو اسکا ساتھ ہی نہیں چاہتی تھی

"ہاں پوچھو"

"آپ اس لڑکی سے شادی کیوں کرنا چاہتے ہیں" اسکی بات سن کر حیدر نے قہقہہ لگایا آج موڈ کچھ زیادہ ہی اچھا تھا ورنہ اس طرح کا سوال پوچھنے کی اجازت اسنے کسی کو نہیں دی تھی

"کیونکہ وہ لڑکی مختلف ہے جانتے ہو میں نے سالوں پہلے بلکل ایسی ہی لڑکی دیکھی تھی علیحہ درانی جیسی مجھے وہ بہت اچھی لگتی تھی لیکن اپنی انا کی خاطر میں نے اسے نہیں اپنایا لوگ کیا کہتے جس لڑکی نے حیدر گیلانی کو بھری محفل میں تھپڑ مارا تھا حیدر گیلانی نے اسی سے شادی کرلی" 

"میں نے بس اسی لیے اس سے شادی نہیں کی لیکن علیحہ کو دیکھ کر مجھے پھر سے اس میں اسی لڑکی کی جھلک محسوس ہورہی ہے ایسا لگتا ہے وقت لوٹ آیا ہے مجھے بس وہ لڑکی چاہیے کسی بھی قیمت پر" 

حیدر کی باتیں سن کر اسے اپنی بات کہنی مشکل لگ رہی تھی جسے کہنے وہ یہاں آیا تھا

"گیلانی صاحب بریکنگ نیوز میں دیکھا ہے کہ اس لڑکی کا وجدان شیرازی کے ساتھ نکاح ہوچکا ہے" اسکی بات سن کر حیدر جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھا

"جانتی ہو مناہل حیدر کی ایک بیٹی پیدا ہوئی تھی لیکن اسے بیٹی نہیں چاہیے تھی اسلیے اس نے کہہ دیا کہ اسکی بیٹی بھی اسکی بیوی کے ساتھ ہی مرچکی ہے لیکن اسکی بیٹی مری نہیں تھی اسکی بیٹی زندہ ہے جس کے ذریعے آج وہ اپنے آپ کو محفوظ رکھتا ہے اگر اسے اپنی ڈیلینگ میں کوئی مسلہ ہو یا کوئی آفیسر اسکے خلاف کیس لڑنے آئے تو وہ اپنی بیٹی کے زریعے خود کو بچاتا تھا"

مناہل نے اس سے یہ نہیں پوچھا تھا کہ وہ یہ سب باتیں کیسے جانتا ہے کیونکہ اگر سکندر کو اسے کوئی بات بتانی ہوتی تھی تو اسکے بنا پوچھے بھی بتادیتا تھا اور اگر نہیں بتانی ہوتی تو پوچھنے پر بھی نہیں بتاتا تھا

"تم نے کیا کہا ابھی کہ میں حیدر کو بتادوں کہ علیحہ اسکی بیٹی ہے کیا مان لے گا وہ یہ بات ویسے بھی نہیں میں چاہتا کہ اسے یہ بات کبھی پتہ چلے اگر اسے یہ بات پتہ چل گئی تو نہ جانے وہ کیا کرے گا"

سکندر درانی اور حیدر گیلانی اپنی اپنی جگہ اس ملک کی مشہور شخصیت تھیں اگر کسی کو بھی یہ بات پتہ چل جاتی کہ علیحہ اسکی نہیں حیدر کی بیٹی ہے تو اس دنیا نے ان کا جینا حرام کردینا تھا

"تو کیا کریں گے آپ ایسے ہی ڈرتے رہینگے"

"نہیں ڈرتا کیوں رہوں گا مشارب اس وقت حیدر کے کیس پر کام کررہا ہے اور اب تک جتنی اسکی کامیابی ہے انشاء اللہ بہت جلد وہ حیدر کو حراست میں لے چکا ہوگا ہمیں بس تب تک کا انتظار کرنا ہے اسکے بعد انشاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا"

اسکے کہنے پر مناہل نے بھی انشاء اللہ کہا اور اپنا سر اسکے کندھے پر رکھ کر سکون سے آنکھیں بند کرلیں

سکندر کی اپنے قریب موجودگی اسے ہمیشہ ہی سکون دیتی تھی

°°°°°

ساری رات اسنے گھر سے باہر گزاری تھی جانتا تھا گھر پر وہ زبان دراز آگئی ہوگی اسلیے گھر جانے کا دل ہی نہیں کیا لیکن آخر کب تک وہ گھر سے باہر رہتا واپس تو جانا تھا

گھر پہنچتے ہی وہ بنا کسی سے ملے سیدھا اپنے کمرے میں گیا تھکن حد سے زیادہ ہورہی تھی اس وقت اسے بس شاور لینا تھا

لیکن کمرے میں داخل ہوتے ہی نظر بیڈ پر سوئی ہوئی علیحہ پر پڑی

موڈ جو تھوڑا درست ہوا تھا وہ پھر بگڑ گیا اسنے زوردار آواز کے ساتھ دروازہ بند کیا جسے سن کر علیحہ نے کسمسا کر کروٹ بدلی لیکن نیند اسکی برقرار رہی

اپنا کوٹ صوفے پر پھینک کر اسنے غصے سے علیحہ کو دیکھا جو مزے سے اسکے بیڈ پر سورہی تھی

"لڑکی" 

اسنے تیز آواز میں کہا لیکن کوئی رسپانس نہ ملنے پر زور سے اسکا بازو ہلانے لگا

"لڑکی اٹھو"

"کیا ہے" 

نیند میں ڈوبی آنکھیں بمشکل کھول کر اسنے اپنے سامنے کھڑے وجدان کو دیکھا

"یہ میرا کمرہ ہے"

"تو تمہارے بھائی نے ہی بھیجا تھا"

"تو بھائی نے یہ کہا تھا آکر میرے بیڈ پر پڑ جاؤ سونا ہے تو جاکر صوفے پر سو"

"دیکھو میرا نہ دماغ پہلے ہی خراب ہے مزید خراب مت کرو" اسنے منہ بگاڑ کر کہا جب وجدان نے اگلے ہی لمحے اسے اپنی بانہوں میں اٹھایا اور لے جاکر کسی فالتو چیز کی طرح صوفے پر پھینک دیا

اور اس سب میں علیحہ بس یہ سوچتی رہ گئی کہ اسکے ساتھ ہوا کیا ہے

وہ ساری رات کی جاگی ہوئی تھی اب کہیں جاکر تو اسکی آنکھ لگی تھی لیکن کھڑوس نے آکر پھر نیند خراب کردی

اسنے غصے سے وجدان کو دیکھا جو اپنے کپڑے نکال کر واشروم میں چلا گیا

"جب سونا نہیں تھا تو مجھے کیوں اٹھایا" اسنے چلا کر پوچھا

"کیونکہ مجھے نہیں پسند کوئی میرے بیڈ پر سوے صوفے پر جگہ دے دی ہے اس پر بھی شکر مناؤ" 

وجدان کی آواز سن کر وہ غصے سے بڑبڑانے لگی جب نظر صوفے پر رکھے اسکے کوٹ پر گئی

اسے اٹھا کر علیحہ نے زور دار لات مار کر دور پھینکا وجدان نہ سہی اسکا کوٹ ہی سہی 

دل کو تھوڑا قرار ملا جیسے اسنے کوٹ کو نہیں واقعی میں وجدان کو مارا ہو

°°°°°

کپڑے چینج کرکے وہ سیدھا کچن میں گیا جہاں کھڑی خالا بی پراٹھا تل رہی تھیں اور علیحہ مزے سے وہاں بیٹھی ہوئی تھی

"یہ کس کے لیے بنایا جارہا ہے خالا بی" اسنے منہ بنا کر اس پراٹھے کو دیکھا نہ وہ خود اس طرح کی چیزیں کھاتا تھا نہ گھر میں کسی کو کھانے دیتا تھا

"تمہاری بیگم کے لیے ہے" خالا بی نے بھی منہ بناکر جواب دیا 

ایک تو علیحہ کی کل کی بات پر ہی انہیں اتنا غصہ آرہا تھا اوپر سے میڈم اب ان سے پراٹھا بھی تلوارہی تھیں

"پہلی بات اس لڑکی کو میری بیوی مت کہیں دوسری بات کوئی ضرورت نہیں ہے یہ تلنے کی چھوڑیں اسے"

"کیوں ضرورت  نہیں ہے میں یہی ناشتہ کرتی ہوں اگر نہ کروں تو میرا پیٹ نہیں بھرتا"

"تو جاکر اپنے معدے کا علاج کراؤ میرے گھر میں یہ چیزیں بنوانے کی ضرورت نہیں ہے"

"میں کیوں کرواؤں تم اپنے معدے کا علاج کراؤ یہ گھاس پھوس کھاتے ہو تب ہی تو دماغ میں کچرا بھر ا ہوا ہے"اسنے وہاں رکھی سبزیوں کی جانب اشارہ کیا

اسے نہیں پتہ تھا کہ وہ وہاں کیوں رکھی گئی ہیں لیکن گھر میں کوئی نہ کوئی تو کھاتا ہوگا جب ہی تو رکھی ہیں اور وجدان کی باتوں سے تو یہی لگ رہا تھا کہ وہ ہی یہ سب کھاتا ہوگا

"بیٹا تم طے کرلو کہ بنانا ہے یا نہیں میں جب تک راشد کو دیکھ آتی ہوں کچھ ضروری سامان منگانا تھا"

راشد انکا بیٹا تھا جو خود یہاں پر کام کرتا تھا گھر ضرورت کا سارا سامان وہی لاتا تھا

"دیکھو لڑکی میری بات سنو اور غور سے سنو صرف ایک مہینے کے لیے آئی ہو تم یہاں تو اپنے یہ نخرے یہاں مت دکھاؤ یہ میرا گھر ہے یہاں ہر کام صرف میری مرضی کا ہوتا ہے" 

اسکا لہجہ بےحد سخت تھا اور علیحہ سر جھکائے اسکی بات سن رہی تھی وہ لڑکی ایسی تھی تو نہیں جو اتنے آرام سے اسکی ہر بات سن لیتی پھر بھی سن رہی تھی کیوں نہ اسنے سوچا نہ اسے سوچنا تھا 

اس سے پہلے وہ اسے مزید کچھ کہہ پاتا پیچھے سے ناز بیگم کی آواز پر مڑ کر انکی طرف دیکھنے لگا اور سمجھ بھی آگیا زبان دراز لڑکی اتنی خاموشی سے اسکی بات کیوں سن رہی تھی

"یہ تم کس طرح سے بات کررہے ہو اور اس طرح سے بات ہی کیوں کررہے ہو کیا ہوا ہے" انہوں نے علیحہ کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا یقینا انہوں نے وجدان کا آخری جملہ ہی سنا تھا

"دراصل مجھے پراٹھا کھانا تھا اسکے بنا مجھے ناشتہ کرنے کی عادت نہیں ہے لیکن وجدان جی کہہ رہے ہیں کہ یہاں یہ سب نہیں بن سکتا" وجدان حیرت سے آنکھیں پوری کھولے اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا

اسکے سامنے تو زبان بڑی کینچی کی طرح چلتی تھی تو اب کیا ہوگیا اور سب سے بڑھ کر اسے جس چیز کا صدمہ لگا تھا وہ اسکے وجدان جی کہنے پر لگا تھا

'ارے بیٹا بس یہ تو وجدان کی وجہ سے نہیں بنتا ورنہ کوئی پابندی تھوڑی ہے تم جو کھانا چاہو بلاجھجک کہہ دینا میں بولتی ہوں انکی خالا بی سے تمہیں پراٹھا بنادیں"انکے کہنے پر علیحہ نے مسکرا کر اچھے بچوں کی طرح سر ہلادیا جبکہ وجدان تو ابھی تک حیرت سے اس رنگ بدلتے گرگٹ کو دیکھ رہا تھا

"وجدان خبردار جو اسے کچھ کہا اسکا جو جی میں آئے یہ کرے گی اور تم اسے کچھ نہیں کہو گے" انکے کہنے پر وجدان فقط اپنا سر ہلاکر رہ گیا

°°°°°

ناز بیگم کے جاتے ہی اسنے اپنا رخ علیحہ کی جناب کیا

"میں تمہیں کس طرح مخاطب کروں لڑکی میرے سامنے تو یہ زبان بڑی چل رہی تھی اب کیا کٹ گئی ہے"اسکا منہ کھول کر وہ باقائدہ اسکی زبان دیکھنے لگا کہیں سچ مچ اسکی زبان کو کچھ ہو تو نہیں گیا جبکہ اسکے ایسا کرنے پر علیحہ نے زور سے اسکے ہاتھ پر مار کر اسکا ہاتھ پیچھے کیا

"اپنے ہاتھ آئیندہ مجھ سے دور ہی رکھنا"

"مجھے بھی کوئی شوق نہیں چڑھا تمہیں ہاتھ لگانے کا"

"پھر بھی لگا رہے تھے"

"اماں جان کے سامنے یہ زبان کہاں تھی"

"تب بھی منہ میں ہی تھی اب بھی منہ میں ہی ہے"

"دیکھو لڑکی"

"علیحہ نام ہے میرا"

"علیحہ وکیلہ جو بھی نام ہے میری بلا سے مجھے نہیں جاننا"

"تمہیں شرم نہیں آرہی تم میرا نام بگاڑ رہے ہو"

"ہاں بگاڑ رہا ہوں کیا کرو گی تم" 

اگر اس وقت لوگ دیکھ لیتے کہ انکا سنجیدہ سا بیریسٹر وجدان یہاں کھڑا ایک لڑکی کے ساتھ بحث کررہا ہے تو حیرت و صدمے سے بےہوش ہو جاتے

"وجدان یہ تم کیا کررہے ہو" 

مشارب کی آواز پر اسنے اپنی بحث روک کر اسے دیکھا

"میں کچھ نہیں کررہا جو کررہی ہے یہ لڑکی کررہی ہے" اسنے علیحہ کی جانب اشارہ کیا جو اب اسکی طرف متوجہ نہیں تھی اسکا رخ تو اب مشارب کی جانب تھا

"اوے ہینڈسم منڈے تمہارا نام کیا ہے"

"مشارب شیرازی"

"ہائے بہت پیارا ہے اگر میرا اس وقت نکاح نہیں ہوا ہوتا نہ تو تم سے شادی کرلیتی کیا لگتی ہماری جوڑی دنیا دیکھ کر رشک کرتی" اسنے مسکراتے ہوئے سوچا جبکہ اسکی سوچ پر وہ دونوں بس اپنا سر نفی میں ہلا کر رہ گئے

"وہ کون ہے" اسکے کہنے پر ان دونوں نے مڑ کر دیکھا

جو کچھ فاصلے پر کھڑی دعا کی جانب اشارہ کررہی تھی 

اس وقت وہ باہر جارہی تھی لیکن ان تینوں کی نظریں خود پر دیکھ کر اسکے قدم رک گئے 

ان تینوں کو اپنی جانب دیکھتا پاکر وہ اچھی خاصی کنفیوز ہو چکی تھی جیسے اسکی کوئی چوری پکڑ لی ہو

"تمہاری بیوی ہے" اسنے مشارب کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا جس نے اسکی بات سن کر اپنی مسکراہٹ دبائی

"ہاں بلکل میری بیوی ہے دعا ادھر آو اپنی جیٹھانی سے ملو ویسے میں آپ کو کیا کہوں بھابھی صاحبہ یا پھر نام سے پکاروں"

"سب سے پہلے تو تم مجھے تم کہہ کر مخاطب کرو دوسرا بھابھی وابی سے تو مجھے پکارنا بھی مت صرف علیحہ کہو"

"اچھا تو علیحہ تمہیں بتاؤں دعا میری بیوی ہے اور ہماری لائف میں تو بہت جلد ایک نیا مہمان بھی آنے والا ہے"

"کیا سچ میں" اسنے ایکسائیٹیڈ ہوکر پوچھا جیسے وہی تو پھوپھو بننے جارہی تھی جبکہ اسکے کہنے پر جہاں دعا شرم سے سرخ ہوکر باہر بھاگ گئی وہیں وجدان اپنا بس گہرا سانس لے کر رہ گیا

"دونوں ایک جیسے تھے نہ تو ان دونوں کی خوب بننی تھی" 

علیحہ اور مشارب کو باتیں کرتے دیکھ کر اسکے زہہن میں پہلی سوچ یہی آئی

°°°°°

ٹیبل پر بیٹھی وہ اپنے ناشتے سے بھرپور انصاف کررہی تھی جب خالا بی نے اسے ٹوکا

"لڑکی ایک بات پوچھوں تم سے"

ضبط کرکے اسنے انکی طرف دیکھا اچھا بھلا نام تھا اسکا پتہ نہیں پھر سب اسے لڑکی کیوں بلارہے تھے

"جی کہیے آپ کو پوچھنے کی کیا ضرورت"

"تمہارے پاس کوئی لڑکیوں والے کپڑے نہیں ہیں"

"نہیں ہیں"

"تو میں لادوں گی وہ نہ مرد ملازم بھی ہیں اس گھر میں تو اچھا نہیں لگ رہا تم ایسے بغیر ڈوپٹے کے بیٹھی ہوئی ہو" انکی بات سن کر اسنے چہرے پر زبردستی مسکراہٹ سجا کر انہیں دیکھا

"بی جان"

"ارے نہیں خالا بی کہو سب مجھے وہی کہتے ہیں"خالا بی نے ہنستے ہوئے کہا 

"خالا بی میں ایسے ہی کپڑے پہنتی ہوں اور انہی کپڑوں میں خود کو آرام دہ محسوس کرتی ہوں آپ کا بہت شکریہ لیکن میں ایسے ہی ٹھیک ہوں" آخری نوالہ منہ میں ڈال کر وہ اپنی جگہ سے اٹھ گئی

اسکا زہہن اس وقت اپنی سوچوں میں گم تھا جبکہ نظریں دور کھڑے براق پر مرکوز تھیں

"کیا کروں مشارب کو بتادوں کہ میں یہاں کیوں آئی تھی ہاں میں انہیں یہ بات بتادوں گی اسکے بعد وہ سب کچھ ٹھیک کریں گے یا شاید مجھے ناپسند کرنے لگ جائیں لیکن کم ازکم دل کا یہ بوجھ تو ہلکا ہو جائے گا" اسے خیالوں سے دور مشارب کی آواز نے کیا جس پر دعا نے چونک کر اسکی طرف دیکھا

اسکے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی اور اس وقت دعا اسے یہ بات نہیں بتا سکتی تھی کہ اسکے چہرے پر مسکراہٹ کتنی حسین لگتی ہے

"کیا سوچ رہی ہو"

"کچھ نہیں بس اس گھوڑے کو دیکھ رہی تھی کاش موقع ملتا اس کی سواری کرنے کا لیکن یہ کسی کو اپنے قریب بھی نہیں آنے دیتا" اسنے مسکراتے ہوئے جلدی سے بات بنائی

ورنہ حقیقت تو یہ تھی کہ اس دن کے بعد سے اسے خود براق سے خوف آتا تھا وہ تو اب خود اسکے پاس نہیں جانا چاہتی تھی

"اچھا تو آؤ تمہیں اسکی سواری کرواتے ہیں" مشارب کی بات سن کر اسے اپنے کہے لفظوں پر پچھتاوا ہورہا تھا

"نہیں مجھے اسکے پاس نہیں جانا"

"ارے کچھ نہیں کہتا میرا براق بہت شریف ہے" اسکا ہاتھ پکڑ کر وہ اسے زبردستی براق کے قریب لے گیا

"مشارب میرا ہاتھ چھوڑیں مجھے نہیں بیٹھنا"

اسکی بات کو نظر انداز کرکے مشارب نے اسے کمر سے تھام کر براق پر بٹھایا اور اس بار اسکے قریب آنے پر براق نے بھی کچھ نہیں کیا تھا کیونکہ سامنے مشارب جو کھڑا تھا

"اب تم کرو اسکی سواری"

"مجھے نہیں کرنی"

"چپ چاپ بیٹھی رہو" 

اسکی بات کو اگنور کرکے وہ اترنے لگی لیکن مشارب کی گھورتی نظروں نے ایسا ہونے نہیں دیا

"براق دعا میڈم کو اپنی سواری کرواؤ دوڑو جتنا تیز ہوسکے دوڑو"مشارب نے اسے تھپتھپا کر کہا اور اسکی بات سن کر اس سے پہلے دعا کچھ کہہ پاتی براق بھاگنا شروع کرچکا تھا

اتنا تیز تو وہ دوڑ نہیں رہا تھا جتنی تیز دعا کی چیخیں نکل رہی تھیں

"مشارب اسے روکیں" اسنے چلا کر کہا

"دعا اسکی لگام تمہارے ہاتھ میں ہے تم خود روکو" 

اس وقت ڈر زہہن پر اتنا سوار تھا کہ اسے مشارب کا کہا ایک لفظ بھی سمجھ نہیں آیا

"مشارب پلیز پلیز اسے روکیں" اسکے منت بھرے انداز پر مشارب نے قریب جاکر دوڑتے براق کو روک لیا اور اسکے رکتے ہی دعا جلدی سے نیچے اتری

لیکن اترتے ہی گھومتے سر کے باعث قدم لڑکھڑائے اور اس سے پہلے وہ زمیں بوس ہوتی مشارب اسے تھام چکا تھا

"یقینا سر گھوم رہا ہوگا کہو تو اندر لے جاؤں" مشارب کی سیاہ آنکھیں اس پر جمی ہوئی تھیں جبکہ ایک ہاتھ اسکی کمر کے گرد حائل تھا اور دوسرا اسکے بکھرے بالوں کو سنوار رہا تھا

"چھوڑیں مجھے" اپنے آپ کو اسکی گرفت سے چھڑا کر وہ اندر چلی گئی

جس پر وہ خود بھی اپنے کندھے اچکا کر وہاں سے چلا گیا یقیناً اسکی اس حرکت کی وجہ سے دعا اس سے ناراض ہوچکی تھی 

لیکن وہ کون سی اسکی بیوی تھی جس کی ناراضگی کی وہ فکر کرتا

°°°°°

"کہاں جارہی ہو تم" تیز تیز قدم اٹھاتی وہ گھر سے باہر جارہی تھی جب اسے پیچھے سے وجدان کی آواز سنائی دی

"تمہیں کیوں بتاؤں"

"کیونکہ اس وقت تم میرے گھر میں ہو اور تم کہاں جارہی ہو اس بات کا مجھے علم ہونا چاہیے اور سب سے اہم بات جہاں بھی جانا ہو جب بھی جانا ہو اماں جان کو بتاکر جایا کرو"

"میں کہاں جارہی ہوں کیوں جارہی ہوں کیسے جارہی ہوں یہ بات آج تک مجھ سے میرے ماں باپ نے نہیں پوچھی تو تم کون ہوتے ہو پوچھنے والے"

"زبان دراز لڑکی کبھی ڈھنگ سے جواب دے سکتی ہو تم" 

اسنے ضبط کرکے کہا ورنہ دل چاہ رہا تھا اس لڑکی کا منہ توڑ دے 

پر شکر تھا کہ وہ ایک لڑکی تھی ورنہ وجدان اسکا منہ توڑنے میں دیر بھی نہیں کرتا

"جواب ہی تو دے رہی ہوں مجھے باہر جانا ہے تو کیا چلی جاؤں" اسکی آواز اچانک بدلی سختی کی جگہ نرمی نے لے لی اور وجدان حیرت سے اسے دیکھنے لگا

"وجدان تم پھر اسے ڈانٹ رہے ہو" 

پیچھے سے ناز بیگم کی آواز سن کر اسنے ضبط سے آنکھیں بند کرلیں یہ لڑکی اسکی سوچ سب زیادہ چالاک تھی اب بھی یقینا اسکا لہجہ اماں جان کو دیکھ کر ہی بدلہ ہوگا

'نہیں اماں جان میں نہیں ڈانٹ رہا تھا"

"میں نے خود سنا ہے اگر وہ باہر جانا چاہ رہی ہے تو جانے دو اسے بیٹا کہاں جانا ہے تم نے"انہوں نے علیحہ کی جانب دیکھ کر پوچھا

"وہ مجھے اپنے گھر جانا تھا میرا سارا سامان وہیں ہے تو بس وہی لانا تھا" 

اسکے کہنے پر ناز بیگم نے اسکے کپڑوں کو دیکھا کل سے وہ اسی حولیے میں پھر رہی تھی انہوں نے خود بھی دھیان نہیں دیا ورنہ دعا سے کہہ کر ہی اسے ایک سوٹ دلوا دیتی

"تم اب اس گھر کا حصہ ہو اسلیے تمہاری جو بھی ضروریات ہیں وہ یہیں سے پوری ہوں گی وجدان اسے پیسے دو"انہوں نے اپنا رخ وجدان کی جانب کیا

جو انکی بات سنتے ہی گہرا سانس لے کر رہ گیا

اپنے والٹ میں سے پانچ ہزار کے دو نوٹ نکال کر اسنے علیحہ کی جانب بڑھائے

"یہ کیا بھیک دے رہو"

'اماں جان دس ہزار ہیں"

"کہہ تو ایسے رہے ہو جیسے دس لاکھ ہیں کارڈ دو اپنا"

"میرے پاس اتنا فالتو پیسہ نہیں ہے جو اس لڑکی پر خرچ کروں سوری زبان دراز اور چالاک لڑکی پر" اسنے اپنے لفظوں کو درست کیا جبکہ اسکے کہنے پر ناز بیگم بس اسے گھور کر رہ گئیں

"تم یہیں رہو میں لے کر آتی ہوں پیسے"

"اماں جان اسکی ضرورت نہیں ہے"

"تم چپ کرو وجدان" انکے کہنے پر علیحہ نے سر جھکا کر اپنی ہنسی دبائی چلو کوئی تو تھا جس سے بیریسٹر صاحب بھی دبتے تھے

"یا میرے خدا مجھے صبر دے" اسنے دانت پیستے ہوئے اپنے والٹ میں سے اپنا کاڑد نکالا اور علیحہ کی جانب بڑھا دیا

"اسے پکڑو اور فورا نکلو یہاں سے اماں جان پوچھیں تو کہنا میں نے تمہیں کارڈ دیا ہے لیکن اس کارڈ میں سے بھی صرف دس ہزار کی شاپنگ کرنا اس سے زیادہ خرچ ہوا تو تمہیں چھوڑوں گا نہیں"

"فکر مت کریں وجدان جی صرف دس کی ہی کروں گی" اسنے چہرے کر شرارتی مسکراہٹ سجا کر کہا اور وہاں سے چلی گئی

°°°°°

گھر سے باہر نکلتے ہی اسے ازہار کی گاڑی کھڑی دکھ گئی تھی وہ باہر کھڑا اسکا کب سے انتظار کررہا تھا یہ بات گارڈ اسے کافی دیر پہلے آکر بتاچکا تھا 

اسلیے وہ باہر اسی سے ملنے جارہی تھی نہ کے اپنے گھر وہ تو اسنے ایسے ہی ایک بات بنائی تھی لیکن اب وجدان کا کارڈ اسکے ہاتھ میں تھا تو کیا ہی حرج تھا کہ ایک مہینے کے شوہر کے پیسوں سے تھوڑی شاپنگ کرلی جائے

"کیوں آئے ہو یہاں" گاڑی میں بیٹھتے ہی اسنے ازہار کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا

"ویسے دیکھنے تو گھر والوں کو آیا تھا تمہارے ہوتے ہوئے سب سہی سلامت ہیں بھی یا نہیں خاص طور پر میرے بہنوئی صاحب"

"ازہار فیری فنی" اسنے منہ بنا کر کہا

"اچھا خیر سچ بتاؤں تو تم سے ملنے آیا تھا کالج ٹرپ پر جارہا ہوں کچھ دنوں کے لیے تو بس اسی وجہ سے"

"آیت بھی جارہی ہے"

"میں آیت کی وجہ سے جارہا ہوں اسے اکیلا تو نہیں جانے دے سکتا بس اسی لیے اسکے ساتھ جارہا ہوں"

"ہاں جیسے میں تو تمہیں جانتی ہی نہیں"

آیت کو اس طرح کی چیزیں کبھی بھی پسند نہیں تھی اسے پتہ تھا اگر آیت جارہی ہے تو اسکی وجہ سے ہی جارہی ہوگی  کیونکہ ازہار نے اسے فورس کیا ہوگا

°°°°°

"سکندر"

اسکے آفس روم میں داخل ہوتے ہی حیدر دھاڑا جس پر سکندر گہرا سانس لے کر رہ گیا اسے پتہ تھا کہ علیحہ کی شادی کی خبر سن کر حیدر بہت جلد ہی اس سے ملنے آئے گا

"یہاں کیا کررہے ہو تم حیدر"

"جب میں نے تم سے کہا تھا کہ علیحہ کی شادی مجھ سے کرو تو تم کیسے اس کی شادی کسی اور سے کرسکتے ہو" اسکی بات سن کر سکندر کا دل چاہ رہا تھا کہ سامنے کھڑے اس شخص کا منہ توڑ دے

"کچھ شرم لحاظ ہے تم میں حیدر تمہاری بیٹی کی طرح ہے وہ"

"بیٹی تو نہیں ہے"

"بیٹی ہوتی تو کیا کرتے"

"تو اسے جان سے مار دیتا لیکن وہ میری بیٹی نہیں ہے تو اب شرافت سے یہ قصہ ختم کردو" حیدر کی بات سن کر اسنے ضبط سے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں

"اپنا یہ گھٹیا وجود لے کر یہاں سے دفعہ ہوجاؤ حیدر اس سے پہلے میں اپنا ضبط کھو دوں"

"جا ضرور رہا ہوں میں لیکن میری بات نہ مان کر تم نے خسارے کا سودا کیا ہے سکندر درانی اب دیکھنا میں کیا کرتا ہوں"

حیدر نے اسے غصے سے گھورتے ہوئے کہا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا

°°°°°

ڈیوٹی سے واپس آتے ہی وہ سیدھا ناز بیگم سے ملنے گیا تھا اور انکی بات سن کر اسے بےساختہ ہنسی آئی

"میں سوچ رہی تھی کہ وجدان کا ولیمہ کردوں جن لوگوں کو اس کی شادی کا معلوم نہیں ہوا انہیں اس بات کا علم ہو جائے"

اگر وجدان انکی یہ بات سن لیتا تو غصے سے اسنے سارا گھر سر پر اٹھا لینا تھا

"اماں جان فلحال اس قسم کی بات وجدان کے سامنے مت کیجیے گا"

"کیوں"

ان دونوں نے ہی ابھی تک ناز بیگم کو اس بات سے لاعلم رکھا تھا کہ علیحہ اور وجدان کی شادی فقط ایک ماہ کے لیے ہے جیسے ہی اسنے حیدر گیلانی کا کیس سولو کرلینا تھا ویسے ہی علیحہ نے اس گھر سے چلے جانا تھا

"اماں جان ابھی اس رشتے کے بارے میں جتنے کم لوگ جانے اتنا ہی بہتر ہے وجدان اور علیحہ کی شادی جن حالات میں ہوئی ہے تو ابھی کچھ بھی نارمل نہیں ہے انہیں وقت دیں ایک دوسرے کو سمجھنے کا" اگر وہ یہ بات کہہ دیتا کہ ان دونوں نے یہ رشتہ ختم کردینا تھا تو اماں جان نے اسکے سامنے اس موضوع پر ایک لیکچر شروع کردینا تھا

"اچھا میں سوچ رہی تھی کہ ہم ایسا کرتے ہیں تمہارا بھی نکاح کر دیتے ہیں تاکہ پھر وجدان اور تمہارا ولیمہ ایک ساتھ ہی ہو جائے اور میں اپنے دونوں بچوں کی خوشیاں دیکھ لوں"انکے کہنے پر اسکے لب کے ساتھ ساتھ سیاہ آنکھیں بھی مسکرا اٹھیں

"اچھا ایسا ہے تو پھر دیر کس بات کی"

"مطلب تم راضی ہو بتاؤ پھر لڑکی کون ہے"

"وہی جو اس گھر میں رہتی ہے"

"دعا کی بات کررہے ہو" 

انہیں حیرت نہیں ہوئی تھی بلکہ خوشی ہوئی تھی کیونکہ یہ تو انکی خود کی خواہش تھی کہ دعا اور مشارب کی شادی ہو جائے وجدان بڑا تھا لیکن انہوں نے اسکی دعا میں کبھی بھی اس طرح دلچسپی نہیں دیکھی تھی جیسی مشارب کے انداز میں دکھتی تھی

"جی بلکل دعا حیدر کی بات کررہا ہوں"

"تم نے اس سے بات کی ہے"

"نہیں آپ اس سے بات کرینگی"

"ٹھیک ہے میں اس سے بات کروں گی" انہوں نے مسکراتے ہوئے اپنا سر ہلایا

"دیکھو گھوڑے مانا تمہارا مالک بہت ہینڈسم ہے لیکن اسکا یہ مطلب تھوڑی تم کسی اور پر دھیان ہی نہ دو تم مجھے بہت پیارے لگتے ہو لیکن تم مجھے اپنے قریب ہی نہیں آنے دیتے اب جب بھی میں تمہیں ہاتھ لگاؤں تم اچھے بچوں کی طرح خاموشی سے کھڑے رہنا" کمر پر ہاتھ رکھ کر وہ اپنے قریب کھڑے براق سے کہہ رہی تھی جب اسے اپنے پیچھے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا

اسکا دل زوروں سے دھڑکا اسے یقین تھا پیچھے وہی کھڑا ہوگا

اسے ایک ہی پوزیشن میں دیکھ کر مشارب نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسکا رخ اپنی جانب کیا اور اسکی تھوڑی پر ہاتھ رکھ کر اسکا جھکا چہرہ اٹھایا

"اتنا گھبراتی کیوں ہو مجھ سے" اسکی گمبھیر آواز سن کر دعا کا تیز دھڑکتا دل مزید تیز رفتار پکڑ چکا تھا

اس شخص کی اپنے قریب موجودگی اسکا ایسا ہی حال کر دیتی تھی

"تم سے کچھ بات کرنی تھی" اسکی کمر پر ہاتھ رکھ کر مشارب نے اسے اپنے بےانتہا قریب کرلیا

"ک-کہیں"

"شادی کرو گی مجھ سے" اسکی بات پر دعا نے حیرت سے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا

"کیا ہوا یار بتاؤ نہ کرو گی مجھ سے شادی"

شرمیلی سی مسکراہٹ اسکے لبوں پر بکھر گئی

اسنے چند لمحوں بعد دھیرے سے اپنا سر اثبات میں ہلادیا اور اسکا اقرار سن کر مشارب کے چہرے پر خوشی سے بھرپور مسکان بکھر گئی

اسنے دعا کے نرم گال پر اپنا مظبوط مردانہ ہاتھ رکھا اور اگلے ہی پل اسکے لبوں پر جھک گیا

°°°°°

"یا میرے خدا" وہ تیزی سے اٹھی

پتہ ہی نہیں چلا لیٹے لیٹے کب آنکھ لگ گئی بےساختہ اسنے اپنا ہاتھ اپنے ہونٹوں پر رکھا

"اف میرے اللہ اب یہ بندہ میرے خوابوں میں بھی آئے گا اف حد ہے دعا اس طرح کا خواب بھی کوئی دیکھتا ہے بھلا'' اسنے خود پر لعنت بھیجی

اسکا دل ابھی تک تیز تیز دھڑک رہا تھا پتہ نہیں مشارب کی شخصیت میں ایسا کیا تھا وہ جب بھی اسے دیکھتی تھی کہیں اور دیکھنے کا دل ہی نہیں چاہتا تھا

وہ دعا حیدر تھی اسکے چہرے پر بےانتہا معصومیت تھی اپنی معصومیت سے وہ کسی کو بھی اپنے قابو میں کرلیتی تھی لیکن اندر سے وہ کیا تھی یہ تو وہ خود بھی نہیں جانتی تھی

جس کام کے لیے وہ یہاں آئی تھی اس طرح کے کام وہ پہلے بھی بہت بار کرچکی تھی لیکن یہاں معاملہ مختلف تھا کیونکہ یہاں معاملہ دل کا تھا

دروازہ ناک ہونے کی آواز پر وہ اپنی سوچو سے باہر نکلی اور سائیڈ پر پڑا ڈوپٹہ اٹھا کر خود پر پھیلا کر باہر کھڑے شخص کو اندر آنے کی اجازت دی

"آنٹی آپ کو ناک کرنے کی بھلا کیا ضرورت" اسنے ناز بیگم کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر کہا

"تم سے کچھ بات کرنی تھی" وہ بیڈ پر اسکے قریب جاکر بیٹھ گئیں

"جی کہیں"

"صاف لفظوں میں بات کرتے ہیں میری خواہش ہے کہ تمہاری اور مشارب کی شادی ہو جائے" یہ بات اسکے لیے کچھ زیادہ ہی حیران کن تھی کیونکہ ابھی اسی متعلق تو اسنے خواب دیکھا تھا

"کیا آپ نے مشارب سے پوچھا"

"اسی کے کہنے پر تو آئی ہوں میری تو یہ خواہش تھی ہی لیکن مشارب کی بھی ایسی کوئی خواہش ہے مجھے نہیں پتہ تھا"

"آپ مجھے کچھ وقت دیں سوچنے کے لیے"

"بلکل بیٹا یہ فیصلے جلد بازی کے نہیں ہوتے تم سوچ کر مجھے جواب دینا اور اگر انکار کرنا چاہو تو بھی کردینا میرے لیے تم پھر بھی میری بیٹی ہی رہو گی" انہوں نے نرمی سے اسکا گال تھپتھپایا اور اٹھ کر وہاں سے چلی گئیں

°°°°°

آفس سے نکلتے ہی وہ غصے سے آکر اپنی گاڑی میں بیٹھا دن تو آج حد سے زیادہ برا گزرا تھا اسے پتہ تھا کیوں 

کیونکہ آج اسنے صبح ہی صبح زبان دراز کو جو دیکھ کیا تھا

زبان دراز نام لیتے ہی وہ یاد آگئی یقیناً ابھی بھی اسکے گھر پر بیٹھی یا تو مزے سے پھر سے پراٹھا بنوا کر ٹھوس رہی ہوگی یا پھر باہر کہیں کھڑی اسکے دیے دس ہزار سے مزے کررہی ہوگی

"دیکھو تو سہی دس ہزار میں بندہ کیا کچھ نہیں کرلیتا اور میری والدہ کا کہنا ہے کہ دس ہزار دینا بھیک دینے کے برابر ہے" اسنے منہ بنا کر سر جھٹکا اور وہاں رکھا اپنا موبائل اٹھالیا

لیکن موبائل کھولتے ہی دس لاکھ کی رقم دیکھ کر اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا

اسنے گاڑی سائیڈ پر روکی اور آنکھیں کھول کر بار بار اس میسیج کو دیکھنے لگا وہ دس ہراز نہیں تھے وہ دس لاکھ ہی تھے جو اسکے کارڈ سے خرچ کیے گئے تھے

"اس کارڈ میں سے بھی صرف دس ہزار کی شاپنگ کرنا اس سے زیادہ خرچ ہوا تو تمہیں چھوڑوں گا نہیں"

"فکر مت کریں وجدان جی دس کی ہی کروں گی"

اسے علیحہ کی بات یاد آئی اور یاد آتے ہی اسنے غصے سے گاڑی اسٹار کرکے گھر کی جانب دوڑا دی 

°°°°°

"آیت تم نے پیکنگ کرلی" مناہل کے کہنے پر آیت نے ناسمجھی سے اسکی طرف دیکھا

"کس چیز کی"

"ازہار کہہ رہا تھا تم دونوں کالج ٹرپ پر جارہے ہو"

"نہیں ممانی میں نہیں جارہی آپ کو پتہ ہے نہ مجھ یہ سب چیزیں نہیں پسند"

"لیکن جانا تو پڑے گا کیونکہ میں تمہارا نام لسٹ میں لکھوا چکا ہوں" ازہار کی آواز پر وہ دونوں اسکی طرف متوجہ ہوئیں 

وہ ابھی ابھی گھر میں داخل ہوا تھا

"تو کیا ہوا نام تو کٹ بھی جائے گا"

"مائی دیر مام نہیں کٹ سکتا"

"کیوں نہیں کٹ سکتا تمہارے لیے تو کوئی مشکل نہیں ہوگی آخر تم ایک ٹیچر جو ہو اگر اسے نہیں جانا تو وہ نہیں جائے گی" مناہل کے کہنے پر اسنے منہ بنا کر آیت کو دیکھا جو اپنی پوری بتیسی دکھا کر مزے سے چیری کھا رہی تھی

مناہل اور سکندر ہمیشہ سے ہر بات میں اسی کی سائیڈ لیتے تھے اور ازہار بیچارا فقط منہ بنا کر رہ جاتا

"مسسز ازہار'' 

مناہل کے اٹھتے ہی وہ آیت کی طرف متوجہ ہوا اور پلیٹ میں رکھی چیری اٹھالیں

''تم شرافت سے چل لو ورنہ پھر مجھے زبردستی لے جانا پڑے گا"

"اچھا جی ایسی بات ہے پھر تو میں ہر گز نہیں جاؤں گی لے جاکر دکھائیں مجھے زبردستی"

"اور اگر لے گیا تو"

"ماموں ممانی میری ٹیم میں ہیں اسلیے آپ مجھے زبردستی نہیں لے جاسکتے اور اگر لے گئے تو پھر میرا نام بھی آیت وسیم نہیں"

"وہ تو تمہارا نام اب ویسے بھی نہیں ہے تمہارا نام کب کا آیت ازہار ہوچکا ہے اور ایک اچھا شوہر ہونے کی وجہ سے میں تمہیں پیار سے کہہ رہا ہوں کہ میرے ساتھ چل لو"

"نہیں جاؤں گی"

"تم جانتی ہو نہ تمہاری کلاس کی حرا مجھ پر کتنی فدا ہے اگر تم نہیں جاؤ گی تو میں وہاں جاکر اسکے ساتھ وہ سب کروں گا"

"وہ سب کیا"

"وہی سب جو سب میں وہاں جاکر تمہارے ساتھ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں اگر تمہیں لگتا ہے میں جھوٹ کہہ رہا ہوں تو میں وہاں جاکر تمہیں ہماری پک بھی سینڈ کردوں گا"

"ممانی میں پیکنگ کرنے جارہی ہوں" اسنے غصے سے پلیٹ ٹیبل پر پٹخھی ورنہ دل تو چاہ رہا تھا ازہار کے سر پر مار دیتی

اسے پتہ تھا کہ ازہار جیسا کہہ رہا ہے ویسا کچھ نہیں کرے گا ہاں لیکن اسے جیلیس کرنے کے لیے اپنی اور حرا کی پکچر ضرور بھیجے گا تو بہتر تھا کہ انکی تصویر دیکھ کر جیلیس ہونے کے بجائے وہ خود ہی چلی جاتی

اسے دیکھ کر ازہار نے اپنی ہنسی دبائی اگر اسے ہنستے ہوئے دیکھ لیتی نہ غصہ مزید بڑھ جانا تھا

°°°°°

گھر میں داخل ہوتے ہی وہ تیز تیز قدم اٹھاتا اپنے کمرے میں گیا اور اس میں داخل ہوتے ہی اسے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ اپنے کمرے کے بجائے کسی کپڑوں کی دکان میں آگیا ہو

پورے کمرے میں مختلف سامان پھیلا ہوا تھا

لیڈیز پینٹ شرٹ سن گلاسز جوگرز بیلٹ

اس سارے سامان میں میک اپ یا جیولری نام کی کوئی چیز موجود نہیں تھی

"وجدان جی دیکھیں یہ کیسی ہے" وجدان پر نظر پڑھتے ہی اسنے اپنے ہاتھ میں پکڑی شرٹ اسے دکھائی

جبکہ اسکا انداز دیکھ کر وجدان نے ضبط سے آنکھیں بند کرلیں

"یا میرے اللہ مجھے صبر دے" اسنے ہلکے سے بڑبڑا کر کہا

"لڑکی میں نے تم سے کیا کہا تھا کتنے کی شاپنگ کرنی ہے''

"دس کی"

"دس ہزار کہے تھے سنائی نہیں دیا تھا"غصہ تو اسے پہلے ہی آرہا تھا اوپر سے علیحہ کا مطمئن انداز اسے مزید بھڑکا چکا تھا

"بیریسٹر صاحب اتنے کنجوس کیوں بن رہے ہو صرف ایک مہینے کی بیوی ہوں اب اس ایک مہینے میں تم میرے بیوی والے نخرے تو اٹھا ہی سکتے ہو میں کون سا یہ حق تم سے ساری زندگی کے لیے مانگ رہی ہوں"

"بلکل اٹھا سکتا ہوں پر شرط ہے تم بھی میرے شوہر والے نخرے اٹھاؤ میرے حق پورے کرو میں کون سا یہ حق تم سے ساری زندگی کے لیے مانگ رہا ہوں" اپنا کوٹ اور ٹائی اتار کر اسنے دور پھینکا جبکہ اسکا بدلہ لہجہ اور انداز دیکھ کر علیحہ کے ارد گرد خطرے کا سائرن بجنے لگا

"تو پھر کیا کہا اسنے"

"سوچنے کے لیے وقت مانگا ہے اور اچھا ہی ہے ایسے فیصلے جلد بازی کے نہیں ہوتے"

"کرنی تو اسنے ہاں ہی ہے اماں جان"

"تمہیں کیسے پتہ"

"کیونکہ وہ اس گھر میں رہتی ہے انکار کرنا اسے اچھا نہیں لگے گا" مشارب کی بات پر انہوں نے گھور کر اسے دیکھا

"یہ بات بھی میں نے اس سے کہہ دی ہے کہ اگر وہ انکار کرنا چاہے تو کرسکتی ہے کوئی زبردستی تھوڑی نہ ہورہی ہے" انکی بات سن کر اسنے اپنا سر ہلایا لیکن اس بات کا اسے یقین تھا کہ دعا انکار نہیں کرے گی

"آنٹی"

نرم سی آواز اسکے کانوں میں پڑی جسے سنتے ہی اسکے لبوں پر بےاختیار مسکراہٹ پھیل گئی

مسکراہٹ دبا کر اسنے اپنا چہرہ اٹھا کر دروازے پر کھڑی دعا کو دیکھا اسے پتہ تھا وہ یہاں کیوں آئی ہے

"ہاں بیٹا کہو" ناز بیگم کے کہنے پر بھی وہ اپنی جگہ پر کھڑی رہی 

جو بات اسے کہنی تھی وہ مشارب کے سامنے تو کہہ نہیں سکتی تھی لیکن اسے یہ بھی تو نہیں کہہ سکتی تھی کہ اٹھ کر یہاں سے چلے جاؤ

لیکن شاید مشارب اسکی یہ پرابلم سمجھ چکا تھا اسلیے اپنی جگہ سے اٹھ کر کمرے سے نکل گیا

"دعا کیا ہوا ہے اندر آو" انکے کہنے پر وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی انکے قریب جاکر کھڑی ہوگئی

"کیا ہوا ہے کچھ کہنا چاہتی ہو"

"جی مجھے" چند لمحوں کے لیے وہ اٹکی

"م-مجھے اس رشتے پر کوئی اعتراض نہیں ہے" انکے کہنے پر ناز بیگم کے چہرے پر گہری مسکراہٹ بکھر گئی

"اگر تم چاہو تو مزید وقت لے لو دعا"

"نہیں مجھے جتنا وقت لینا تھا میں لے چکی ہوں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے"

اپنی جگہ سے اٹھ کر ناز بیگم نے مسکراتے ہوئے اسے اپنے ساتھ لگایا دعا کی بات سن کر انہیں دلی خوشی ملی تھی

°°°°°

وجدان کو اپنی جانب بڑھتا دیکھ کر اسنے ہاتھ میں پکڑی شرٹ بیڈ پر پھینکی اور اٹھ کر وہاں سے جانے لگی جب وجدان نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے قریب کرلیا

"یہ کیا حرکت ہے چھوڑو میرا ہاتھ"

"کیوں چھوڑوں ابھی تو بڑے حق کی بات کررہی تھیں"

"ہاتھ چھوڑو میرا صبح تو بڑا کہہ رہے تھے کہ مجھے ہاتھ لگانے کا شوق نہیں ہے اب کیوں لگا رہے ہو"

"اس وقت تم میرے کمرے میں موجود ہو وہ بھی میری بیوی کے حق سے ایسے میں تمہیں ہاتھ بھی نہ لگاؤں یہ تو غلط بات ہوگی ویسے تمہیں ہاتھ تو میں ابھی بھی نہیں لگانا چاہتا"

"تو پھر چھوڑو مجھے کیوں ہاتھ لگا رہے ہو" اسنے وجدان کی سخت گرفت سے اپنا ہاتھ چھڑانا چاہا اور اسکے ایسا کرنے پر وہ اپنی سخت گرفت کو مزید سخت کرگیا 

"ہاتھ لگانے کا دل نہیں چاہ رہا بلکہ منہ لگانے کا دل چاہ رہا ہے"

"بکواس بند کرو اپنی"اسنے اپنا دوسرا ہاتھ استعمال کرنا چاہا جب وجدان اسکا دوسرا ہاتھ بھی اپنی گرفت میں لے چکا تھا

اپنے دونوں ہاتھوں کو اسکی قید میں دیکھ کر اسنے اپنی سیدھی ٹانگ پہلے کی طرح اسکے پیٹ میں مارنی چاہی لیکن اب کی بار وہ اس چیز میں کامیاب نہ ہوسکی

اسکے دونوں ہاتھ وجدان کی گرفت میں تھے جبکہ ٹانگ جو وجدان کو ماری تھی وہ بھی اب وجدان کے دوسرے ہاتھ میں تھی

اس وقت وہ صرف اور صرف وجدان  کے سہارے پر کھڑی تھی اگر وہ اسے چھوڑ دیتا تو یقیناً اسنے زمیں بوس ہو جانا تھا

"جاہل انسان چھوڑو مجھے یہ کیا حرکت ہے" اسکا سرخ چہرہ دیکھ کر وجدان یہ سمجھنے کی کوشش کررہا تھا کہ وہ غصے سے سرخ ہورہی ہے یا شرم سے

"آج کے بات مجھے اس طرح سے مخاطب مت کرنا" اسکا لہجہ سخت ہوا 

غصے سے اسنے علیحہ کو اپنی گرفت سے آزاد کیا 

جبکہ اسکے اچانک چھوڑنے پر علیحہ سیدھا زمین پر جاگری

شرمندگی کے احساس سے اسکا سرخ چہرہ مزید سرخ ہوگیا اور اسکے اوپر وجدان کی مسکراہٹ نے جلتی پر تیل کا کام کیا

°°°°°

سکندر کے کمرے میں داخل ہوتے ہی اسنے اپنے ہاتھ میں پکڑی کتاب بند کرکے سائیڈ پر رکھی

"آج آپ جلدی آگئے"

"ہاں زیادہ کام نہیں تھا تو بس آگیا بچے نظر نہیں آرہے" اسنے کوٹ اتار کر ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی

"ازہار آیت کو شاپنگ پر لے کر گیا ہے بس آنے والے ہوں گے"اسکی بات سن کر سکندر نے اپنا سر ہلایا اور اسکے قریب جاکر بیٹھ گیا

"کچھ کہنا چاہتی ہو" اسکے کہنے پر مناہل نے اپنا سر ہلایا

"مجھے علیحہ سے ملنا تھا پتہ نہیں وہ وہاں کیسی ہوگی اس سے ملنے چلیں سکندر"

"ابھی تمہاری بیٹی کو وہاں دو دن نہیں ہوئے اور تمہیں یاد ستانے لگی"

"سکندر یہ سب اسکے لیے بہت نیا ہے اوپر سے جن حالات میں شادی ہوئی ہے ایسے میں تو میرا اس سے ملنا زیادہ ضروری ہے"

"مناہل تم بھی جانتی ہو اسکے لیے کہیں بھی رہنا کوئی مشکل بات نہیں ہے وہ ہر جگہ آرام سے ایڈجسٹ ہوجاتی ہے جہاں تک بات ہے اس سے ملنے کی تو اسنے ہمارے پاس ہی تو آنا ہے باقی ازہار گیا تھا اس سے ملنے وہ ٹھیک ہے"

"لیکن پھر بھی بس ایک بار ملوں گی" اسکے منت بھرے انداز پر سکندر نے تھک کر اپنا سر ہاں میں ہلایا جانتا تھا جب تک وہ علیحہ سے نہیں ملے گی تب تک اسی طرح بےچین رہے گی

"تھینک یو"

مسکراتے ہوئے اسنے اپنا سر سکندر کے سینے پر رکھ لیا جبکہ اسکی اس حرکت پر سکندر کو اپنی ساری تھکان اترتی محسوس ہوئی

°°°°°

"ہنسو مت تم نے گرایا ہے مجھے اور خبردار جو آج کے بعد مجھے ہاتھ لگایا"

"اچھا ورنہ کیا کروگی تم"

"تم مجھے جانتے نہیں ہو اب ہاتھ تو لگا کر دکھاؤ دیکھنا میں کیا کرتی ہوں تمہارے ساتھ"

علیحہ نے اسے گھورتے ہوئے دھمکی دی جس پر وجدان نے داد دیتی نظروں سے اسے دیکھا وہ وجدان شیرازی کو دھمکی دے رہی تھی داد دینا تو بنتا تھا

اسکی خود پر جمی نظروں کو نظر انداز کرکے وہ وہاں پھیلا اپنا سامان اٹھانے لگی جب وجدان نے اسے اپنے قریب آنے کا شارہ کیا

"اوے زبان دراز ادھر آو زرا"

"کس لیے"

"پہلے اپنی بات پوری کرو کیا کہا تم نے اگر میں نے تمہیں ہاتھ لگایا تو تم میرے ساتھ کیا کروگی زرا بتانا"

وہاں پر پڑا سامان جو اسنے اٹھایا تھا اسے واپس پھینک کر وہ اسکے قریب آکر کھڑی ہوئی

"تو میں تمہارے ساتھ وہ کروں گی جو تم سوچ بھی نہیں سکتے تم جانتے نہیں ہو علیحہ درانی ہے کیا چیز" اسکے کہنے پر وجدان نے بھنویں اچکا کر اسے دیکھا اور اسکی کمر کے گرد بازو حائل کرکے اسے اپنے نردیک کرلیا

"دیکھو تم پھر مجھے ہاتھ لگا رہے ہو"

"اسی لیے تو لگا رہا ہوں دیکھنا چاہتا ہوں تم کیا کرو گی"

"چھوڑو مجھے"اسنے اپنے ہاتھ وجدان کے سینے پر رکھ کر اسے خود سے دور کرنا چاہا لیکن وہ اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہیں ہلا تھا

اس سے پہلے وہ مزید کچھ کہہ پاتی وجدان اسکے لبوں پر جھک گیا جو کب سے اسے اپنی جانب متوجہ کررہے تھے

اسکی اپنے اتنے قریب موجودگی پر علیحہ اپنی جگہ دم بخود رہ گئی وہ پہلا ایسا شخص تھا جو اس کے اس قدر قریب آیا تھا

جبکہ دوسری طرف وجدان ہر چیز سے بے نیاز اسکے لبوں پر جھکا اسکی سانسوں کو قید کیے جارہا تھا

اس وقت علیحہ کو اپنے اس قدر قریب پاکر وہ جیسے ہر چیز کو فراموش کرچکا تھا اگر کچھ یاد تھا تو بس اتنا کہ یہ لڑکی جو اسکے قریب ہے اسکی بیوی ہے اسکی ملکیت جس پر اسکا پورا حق تھا

ہوش میں آتے ہی علیحہ نے اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے خود سے دور کیا اور اسکے ایسا کرتے ہی وجدان بھی ہوش میں آیا ساتھ ہی اپنی بےخودی پر خود کو ڈپٹہ

اسنے سامنے کھڑی علیحہ کو دیکھا جو سرخ چہرہ لیے نظریں جھکائے کھڑی تھی اور وجدان جو چند لمحوں پہلے خود کو ڈپٹ رہا تھا اب پھر سے بےخود ہونے لگا

کیونکہ علیحہ کے بھیگے لب اسے پھر سے بہکارہے تھے لیکن اس سے پہلے وہ پھر سے کوئی حرکت کرپاتا علیحہ تیز تیز قدم اٹھاتی کمرے سے باہر نکل چکی تھی

اسکے جانے کے بعد وجدان کے چہرے پر گہری مسکراہٹ بکھر گئی بھلے جو کچھ اسنے کیا تھا وہ صرف جذبات میں بہک کر کیا تھا 

لیکن اس سے اسے یہ بات تو پتہ چل گئی تھی کہ زبان دراز لڑکی اسکے کنٹرول میں کیسے آئے گی

°°°°°

"ازہار میں آپ کو کب سے ڈھونڈ رہی ہوں آپ یہاں کھڑے ہیں"

کتنی دیر سے وہ ازہار کو ڈھونڈ رہی تھی کہہ کر تو وہ یہ گیا تھا کہ وہ فوڈ کورٹ میں جارہا ہے کیونکہ آیت کی شاپنگ ہی ختم نہیں ہورہی تھی

لیکن جب وہ خود وہاں گئی تو ازہار کی غیر موجودگی اسے پریشان کرچکی تھی کتنی دیر سے وہ اسے ڈھونڈ رہی تھی اور اتنی دیر سے ڈھونڈنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ بالآخر ازہار صاحب اسے مل ہی گئے تھے

"میں تو جا رہا تھا لیکن سامنے نظر ٹکی تو ٹکی ہی رہ گئی"

اسنے سامنے کی طرف اشارہ کیا جس پر آیت نے بھی سامنے کی طرف دیکھا وہاں جینز شرٹ میں ملبوس ایک لڑکی کھڑی تھی

آیت نے صدمے سے منہ کھول کر اسے دیکھا

"مطلب حد ہوتی ہے ازہار میں آپ کو کتنی دیر سے ڈھونڈ رہی ہوں اور آپ یہاں کھڑے اس لڑکی کو گھور رہے ہیں"

اسکے کہنے پر ازہار نے حیرت سے اسے دیکھا

"کون لڑکی"

"وہی لڑکی جو سامنے کھڑی ہے اسے ہی دیکھ رہے ہیں نہ"

"میں لڑکی کی بات نہیں کررہا اسکے پیچھے جو چیز ہے اسکی بات کررہا ہوں" اسکے کہنے پر آیت نے پھر سے اس طرف دیکھا جب اسے لڑکی کے پیچھے وہ چیز نظر آگئی

وہ ڈسپلے پر لگی ایک پنک کلر کی جالی دار نائیٹی تھی جسے دیکھ کر آیت کے گالوں پر سرخی چھا گئی

"یہ کس لیے چاہیے"

"میں تو یہ نائٹی پہنوں گا نہیں ظاہر ہے تمہارے لیے ہی لوں گا نہ"

"مجھے نہیں چاہیے''

"میں تمہاری رائے نہیں پوچھ رہا" اسکا ہاتھ پکڑ کر وہ اس شاپ کی طرف جانے لگا جب آیت نے اسے پھر ٹوکا

"ازہار میں نے کہا نہ مجھے نہیں پہننی"

"پہننی تو پڑے گی اور اب تو علیحہ بھی نہیں ہے تمہیں بچانے کے لیے"

اسکے کہنے پر آیت نے غصے سے اسکا ہاتھ چھوڑا

"مرضی ہے میں نہیں پہنوں گی اتنی اچھی لگ رہی ہے تو خود لے کر آئیں اور خود ہی پہن لیں" غصے سے کہتی ہوئی وہ وہاں سے جانے لگی لیکن ازہار کی باتوں نے اسکے قدم روک دیے

"ویسے حرا پر یہ نائیٹی کیسی لگے گی" اسکے کہنے پر آیت نے ضبط سے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور ازہار سے پہلے ہی شاپ میں گھس گئی

جبکہ اسکے گھنسے پر ازہار کے چہرے پر گہری مسکراہٹ چھا گئی

°°°°°

کمرے سے باہر نکل کر وہ گہرے گہرے سانس لینے لگی

یہ سب اسکے ساتھ ہوا کیا تھا

اسے تو چاہیے تھا کہ اس شخص کا منہ توڑ دیتی نہ کہ کمرے سے بھاگ کر آتی

"اف علیحہ تمہیں اسے ایک تھپڑ مارنا چاہیے تھا بلکہ مارنا کیا چاہیے تھا وہ تو میں اب بھی مار سکتی ہوں" وہ خود سے بڑبڑا کر دوبارہ اندر جانے لگی

لیکن اب اندر جانے کی ہمت نہیں ہورہی تھی

اسلیے اپنا اندر جانے کا ارادہ کینسل کرکے وہ وہاں سے چلی گئی

اب صبح تک تو وہ اس کمرے میں بلکل نہیں جانے والی تھی

صبح اٹھتے ہی وہ اپنے معمول کے مطابق تیار ہونے لگا

کپڑے نکالنے کے لیے اسنے جیسے ہی الماری کھولی وہاں بےترتیبی سے رکھا سامان اسکے قدموں میں آ گرا جسے دیکھ کر وجدان کو یاد آگیا کہ اس کمرے میں اب ایک عورت کا وجود بھی رہتا ہے

کل علیحہ جو کمرے سے گئی اسکے بعد سے اسنے دوبارہ اپنی شکل نہیں دکھائی تھی اسلیے وجدان نے خود ہی اسکا سامان الماری میں پھینک دیا

کیونکہ اسکے سامان کی وجہ سے سارا کمرہ پھیلا ہوا تھا

اپنے کپڑے نکال کر اسنے زمیں پر گرا علیحہ کا سامان اٹھایا اور الماری میں ڈال دیا لیکن وہ ڈھیٹ پھر اسکے قدموں میں جا گرا اور اس بار وجدان نے اسے اٹھانے کی زحمت نہیں کی تھی

گرا ہوا تھا تو گرا رہے

اسنے اپنے کپڑے نکالے اور الماری بند کرکے واشروم میں چلا گیا

°°°°°

شاید ناز بیگم کو دعا اور مشارب کے نکاح کی کچھ زیادہ ہی جلدی تھی اسلیے دعا کا اقرار سنتے ہی انہوں نے دو دن بعد ہی نکاح  کی تاریخ رکھ دی

سادگی سے نکاح ہونا تھا کوئی تیاری تو کرنی نہیں تھی اور جو کرنی تھی اسکے لیے دو دن بھی کافی تھے

انکا کہنا تھا کہ دعا کے چند عزیز و قریب رشتے داروں کو اسکے نکاح میں بلا لیا جائے لیکن مشارب انہیں منع کرچکا تھا جب ان سب کو دعا کی پرواہ نہیں تھی تو پھر اسکی خوشی میں انہیں کیوں شامل کیا جاتا

روز کی طرح ڈیوٹی پر جانے سے پہلے وہ ان سے ملنے آیا تھا لیکن آج وہ باقی دنوں کی نسبت کچھ مصروف تھیں 

کیونکہ انہیں دو دن میں ہی دعا اور مشارب کے نکاح کی تیاری کرنی تھی اور انکی جلد بازی دیکھ کر مشارب کہے بغیر نہ رہ سکا

"اماں جان آپ کچھ زیادہ ہی جلدی کررہی ہیں"

"کوئی جلدی نہیں ہے میرا بس چلتا تو آج ہی نکاح رکھ لیتی لیکن تیاری بھی تو کرنی تھی اسلیے دو دن بعد رکھ لیا"انکی بےتابی وہ اچھے طریقے سے جانتا تھا

وجدان اور مشارب کی شادی کرنا تو انکی اولین خواہش تھی اور اب جب یہ خواہش پوری کرنے کا وقت آیا تھا تو وہ مزید دیر نہیں کرنا چاہتی تھیں

"اچھا جیسے آپ کو ٹھیک لگے" انکے ماتھے پر پیار کرکے اللہ حافظ کہتا وہ باہر چلا گیا

اسکے جانے کے بعد وہ پھر سے اپنے کام میں مصروف ہوگئیں جب انکے کانوں میں وجدان کی آواز پڑی

"اماں جان یہ سب کیا ہورہا ہے"

آج گھر کا ماحول روز کی نسبت کچھ مختلف لگ رہا تھا اسلیے وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکا

"آؤ تمہارے جاگنے کا ہی انتظار کررہی تھی بیٹھو یہاں"انہوں نے اسے اپنے برابر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور اسکے بیٹھتے ہے اسے ساری بات بتادی

جسے سن کر عادت کے مطابق وہ بھڑک اٹھا

"آپ بھلا ایسا کیسے کرسکتی ہیں اماں جان مشارب سے تو پوچھ لیتیں"

"یہ سب مشارب کی مرضی سے ہی ہورہا ہے"

"اماں جان میں اس لڑکی کو اس گھر میں رکھنے پر راضی نہیں تھا اور آپ مشارب سے اسکا نکاح کروانا چاہ رہی ہیں" اسکے کہنے پر ناز بیگم نے خفگی سے اسے دیکھا

"کیا برائی ہے دعا میں زرا بتاؤ مجھے"

"اماں جان میں نہیں جانتا اس میں کیا برائی ہے یا پھر کیا اچھائی ہے اور نہ ہی میں جاننا چاہتا ہوں"

"تو پھر کچھ کہو بھی مت اور اگر کچھ کہنا ہے تو مشارب سے کہو وہ خود تمہیں اپنے لفظوں میں سجھا دے گا اور اب میرے سامنے دعا کے بارے میں ایک لفظ مت کہنا بہت پیاری اور شریف بچی ہے اب میں اسکے بارے میں کچھ الٹا سیدھا نہیں سنو گی"

ناز بیگم کے کہنے پر اسنے گہرا سانس لے کر اپنا سر نفی میں ہلایا اب اس معاملے میں تو اسے مشارب سے ہی بات کرنی تھی

"زبان دراز کہاں ہے"اسکے کہنے پر ناز بیگم نے گھور کر اسے دیکھا جانتی تھیں کس کو مخاطب کیا جارہا ہے

"اب ایسے مت دیکھیں اماں جان اسے کچھ کہنے سے منع تھوڑی کیا ہے"

"اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے تم اسے کچھ بھی کہتے پھرو خبردار جو آئندہ اسے اس طرح سے مخاطب کیا"

"وہ ہے کہاں"

"میرے کمرے میں سورہی ہے" انکا جتاتا لہجہ سن کر وجدان کھٹکا

"آپ ایسے کیوں کہہ رہی ہیں میں نے منع تھوڑی کیا تھا اپنے کمرے میں سونے سے"

"ہاں منع نہیں کیا تھا لیکن ٹھیک سے سونے بھی تو نہیں دیا تھا بتایا اسنے مجھے کہ تم اسے بیڈ پر سونے نہیں دے رہے تھے اور صوفے پر وہ ٹھیک سے سو نہیں پاتی اسلیے بچی میرے پاس سونے آگئی"

ناز بیگم کی بات سن کر وہ بنا کچھ کہے اپنی جگہ سے اٹھ کر انکے کمرے کی طرف چلا گیا

ہاں اسنے بیڈ پر سونے سے منع کیا تھا لیکن یقینا علیحہ نے یہ بات بھی اس طرح سے بتائی ہوگی جس سے وجدان ظالم اور علیحہ مظلوم لگتی

اسکی ماں یا تو ضرورت سے زیادہ سیدھی تھی یا پھر علیحہ ضرورت سے زیادہ چالاک

°°°°°

ناز بیگم کے کمرے میں داخل ہوتے ہی اسے وہ بیڈ پر سوتی نظر آئی

جہاں اسکے کھلے بال بکھرے پڑے تھے اسکے بال زیادہ لمبے نہیں تھے لیکن بےحد خوبصورت تھے

لیکن وجدان اسکے بالوں کی خوبصورتی میں نہیں کھویا تھا وہ تو بس گھور کر اسے دیکھ رہا تھا

اسکی ماں کے سامنے اسے ظالم ثابت کرکے وہ کتنی آرام سے یہاں سورہی تھی

وجدان کا ارادہ اسے اٹھانے کا تھا لیکن نظر تب ہی اسکے پیٹ پر پہنے موتی پر جاٹکی

اسکے بےتکے پن سے سونے کے باعث اسکی پہنی ہوئی شرٹ اوپر ہوچکی تھی

بے ساختہ اسنے اپنا ہاتھ اسکے موتی پر رکھا اور کسی کی انگلیوں کا لمس اپنے پیٹ پر محسوس کرکے علیحہ نے نیند سے بھری آنکھیں کھول کر اسے دیکھا اور نظر اس پر پڑھتے ہی اسکا اپنے پیٹ پر رکھا ہاتھ جلدی سے ہٹایا

"یہ تم کیا کررہے تھے"اسنے سوال پوچھا لیکن پھر خود ہی جواب بھی دے دیا

"تم میری نیند کا فائدہ اٹھا رہے تھے"

"اگر مجھے تمہارا فائدہ اٹھانا ہوا تو تمہارے جاگتے میں بھی اٹھا لوں گا اور یہ تم نے پہنا کیا ہوا ہے" اسنے علیحہ کے پیٹ کی جانب اشارہ کیا اور اسکا اشارہ اپنے پیٹ کی جانب دیکھ کر علیحہ جلدی سے اپنی شرٹ درست کرکے کھڑی ہوئی

"اسے پئیرسنگ کہتے ہیں بیلی بٹن پئیرسنگ" 

"میں بھی جانتا ہوں اسے کیا کہتے ہیں بس حیرت میں کہا تھا کیونکہ پہلی بار کسی لڑکی کا بیلی پئیرسنگ دیکھا ہے"

"آج تک تم کتنی لڑکیوں کے پیٹ دیکھ چکے ہو" اسنے مشکوک نظروں سے وجدان کو دیکھا

اسکے کہنے پر وجدان کے لبوں پر مسکراہٹ بکھری اور اسنے اگلے ہی پل علیحہ کی کمر کے گرد بازو حائل کرکے اسے اپنے قریب کر لیا 

"تم پہلی ہو اور یقین جانو پہلی بار ہی اتنے قریب سے دیکھا ہے" اسنے اپنا ہاتھ علیحہ کے پیٹ پر پھیرا اور اسکا لمس پھر سے اپنے پیٹ پر محسوس کرکے علیحہ نے اسے دھکا دے کر خود سے دور کیا

اسکی گرفت ڈھیلی تھی اسلیے اس بار علیحہ کو اسے خود سے دور کرنے کے لیے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی

"اپنی یہ گندی گندی حرکتیں میرے ساتھ مت کیا کرو ورنہ سچ میں اچھا نہیں ہوگا"اسے دھمکی دے کر وہ کمرے سے باہر بھاگ گئی 

اس شخص کی حرکتوں کے باعث علیحہ کو اسکے سامنے کھڑا ہونا مشکل لگ رہا تھا

°°°°°

کمرے میں داخل ہو کر وہ دھڑام سے آکر بیڈ پر گرا

"دعوت نامہ آیا ہے ہمارے لیے"

"کہاں سے آیا ہے"

"آپ کی بیٹی کا جو دیور ہے اسکا نکاح ہے تو بس اسی لیے آپ کی بیٹی کی ساس نے ڈیڈ کو فون کرکے آنے کے لیے کہا ہے"

"میری بیٹی ہی ہے نہ تمہاری تو جیسے کچھ لگتی ہی نہیں" اسنے خفگی سے کہا جس پر ازہار نے لاپروائی سے شانے اچکاے

"بینر لگانا شروع کردوں علیحہ درانی میری بہن ہے"

"خیر کس سے ہورہی ہے شادی"

"اتنا مجھے علم نہیں ہے بس اتنا پتہ ہے کہ وہ لڑکی انکے گھر میں رہتی ہے اور اسکا نام دعا حیدر ہے ، ویسے آج کل یہ حیدر نام سننے کو بڑا مل رہا ہے آفس میں بھی ایک حیدر آیا تھا"اسکی بات سن کر مناہل چونکی

"کون حیدر"

"پتہ نہیں مجھے تو مینیجر نے بتایا تھا کہ ڈیڈ سے ملنے کوئی حیدر گیلانی آیا تھا کہہ رہا تھا انکا دوست ہے پہلے بھی ایک دو بار آچکا ہے" 

اسکی بات سن کر مناہل کو یہ جاننے میں دیر نہیں لگی تھی کہ کون حیدر سکندر سے ملنے آیا تھا

"اچھا تم اپنے کمرے میں جاؤ میں نے تمہاری پیکنگ کردی تھی دیکھ لو جاکر کچھ رہ تو نہیں گیا"اسکی بات سن کر ازہار اپنا سر ہلاتے ہوئے کمرے سے چلا گیا اور اسکے جانے کے بعد مناہل اپنی سوچوں میں گم ہوگئی

آج حیدر کی برتھ ڈے تھی جس کی پارٹی اسنے اپنے سب دوستوں کو اپنے فارم ہاؤس پر دی تھی

حیدر کے اسرار ہر ہی اسنے فہد صاحب سے جانے کی اجازت لی تھی اور خلاف توقع انہوں نے اجازت دے بھی دی تھی

کیونکہ منزہ خود اسکے گھر پر اسے لینے آئی تھی اور فہد صاحب سے اسے واپس چھوڑنے کا وعدہ بھی کیا تھا

ویسے تو منزہ اسے اتنی خاص پسند نہیں تھی لیکن وہ حیدر کے گروپ میں تھی اسکی دوست تھی اسلیے مناہل نے بھی اس سے دوستی کرلی

البتہ اس دن کے بعد سے اسنے سکندر سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا اسکی کوشش کے باوجود بھی نہیں

کیونکہ بقول مناہل کے اب انکی یہ دوستی ختم ہوچکی تھی

°°°°°

واشروم سے نکلتے ہی خاموشی نے اسکا استقبال کیا

افراد تو یہاں پر ویسے بھی اتنے زیادہ نہیں تھے لیکن اب تو جیسے ہر طرف سناٹا تھا

وہ منزہ کو ڈھونڈنے لگی کیونکہ اسے منزہ کے ساتھ ہی واپس جانا تھا ویسے بھی اسے یہاں آئے ہوئے کافی وقت ہوگیا تھا

"منزہ"

وہ باہر جاکر اسے ڈھونڈنے لگی لیکن جب باہر جاکر بھی وہ مناہل کو کہیں نہیں ملی تو واپس اندر آکر وہ اسے پکارنے لگی

جب اسکی نظر سیڑھیوں کی جانب گئی کیا پتہ وہ سب اوپر ہوں یہی سوچتے ہوئے وہ اوپر کی جانب جانے لگی لیکن تب ہی نظر وہاں بنے کمرے کے کھلے دروازے کی طرف چلی گئی

اوپر جانے کا ارادہ ترک کرکے وہ اس کمرے میں چلی گئی لیکن وہ بھی خالی تھا اندر داخل ہوکر اسنے واشروم کا دروازہ بجایا

جب پیچھے سے کمرہ بند کرنے کی آواز آئی گھبرا کر وہ جلدی سے مڑی لیکن پھر حیدر کو دیکھ کر پرسکون ہوگئی

"حیدر کہاں تھے آپ سب لوگ میں پریشان ہوگئی تھی"

"وہ سب تو چلے گئے"

"پر مجھے منزہ کے ساتھ جانا تھا"

"میں تمہیں چھوڑ آوں گا پہلے تم کچھ وقت میرے ساتھ گزار لو"اسکے قریب آکر حیدر نے اسکا ہاتھ پکڑا

جب اسکی اس حرکت پر مناہل نے جلدی سے اسکی گرفت سے اپنا ہاتھ آزاد کیا

"ہ-ہم روز ہی تو ملتے ہیں ابھی دیر ہورہی ہے تو پلیز مجھے گھر چھوڑ آئیں"

"تم خبریں دیکھتی ہو مناہل" 

اسکی بےتکی بات پر مناہل نے ناسمجھی سے اسکی طرف دیکھا

"میرا مطلب ہے کہ زیادہ تر خبروں میں یہی تو دکھاتے ہیں کہ لڑکی محبت کے جال میں پھنس کر لڑکے کے پاس گئی اور لڑکا اسے لوٹ کر چلا گیا میں جب بھی اس طرح کی چیزیں دیکھتا یا پڑھتا تھا تو بس ایک ہی بات سوچتا تھا کہ لڑکیاں اتنی بےوقوف کیوں ہوتی ہے"اپنے قدم وہ اسکے قریب بڑھانے لگا اور اسے اپنے قریب آتے دیکھ کر مناہل کے قدم پیچھے کی طرف جانے لگی جس کے باعث اسکی کمر دیوار سے جالگی

"تم بھی انہی لڑکوں میں شامل ہوتی ہو مناہل" حیدر نے اسکی خوفزدہ آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا جو ڈر کے مارے اپنا سانس روکے کھڑی تھی

اتنی بچی یا ناسمجھ نہیں تھی وہ جو حیدر کی کہی باتیں اسے سمجھ نہیں آتیں

"آپ ایسے کیوں کہہ رہے ہیں حیدر آپ نے تو کہا تھا آپ مجھ سے پیار کرتے ہیں"اسکی بات سن کر حیدر بےساختہ ہنسا اور مناہل کا ہاتھ تھام کر اپنے گال پر رکھا

"اس گال پر تھپڑ مارا تھا تم نے مجھے مناہل فہد وہ بھی پوری یونی کے سامنے تمہاری اس حرکت کے باوجود بھی میں تمہیں اپنا لوں گا یہ سوچ تمہارے دماغ میں کیسے آسکتی ہے"

"آ--پ نے جو بھی کہا وہ ج-جھوٹ تھا"

"ہاں میں نے جو بھی کہا وہ جھوٹ تھا اور ایک اہم بات بتاؤں سکندر تمہارے گھر کبھی گیا ہی نہیں تھا وہ میں تھا سکندر تو بہت شریف ہے وہ ایسا کبھی نہیں کرسکتا" 

"وہ میرا دوست ہے پر مجھے یہ سب اسلیے کرنا پڑا کیونکہ وہ ہمیشہ تمہیں مجھ سے بدگمان کرنے کی کوشش کرتا رہتا تھا اگر تم اسکی باتوں میں آجاتیں تو میں اپنی منزل تک کیسے پہنچ پاتا بس اسی لیے میں تمہارے گھر گیا اور وہ سب باتیں سکندر کے نام سے کہہ دیں"

اسکی باتیں سن کر مناہل کے زہہن میں سکندر کا کہا ایک ایک لفظ گونج رہا تھا

اسے یہ بات اب سمجھ آرہی تھی کہ سکندر اسے ہمیشہ حیدر سے دور رہنے کے لیے کیوں کہتا تھا

"تو اب تم شرافت سے میری بات مان لو ورنہ زبردستی کرنا مجھے اچھا نہیں لگے گا"مناہل کے وجود پر نظریں جمائے وہ اپنی شرٹ کے بٹن کھولنے لگا جب اسے دھکا دے کر وہ باہر بھاگنے لگی

لیکن اس سے پہلے وہ باہر بھاگتی حیدر اسے بالوں سے پکڑ کر واپس اپنی طرف کھینچ چکا تھا

اسنے اپنے بالوں میں پھنسا اسکا ہاتھ نکالنا چاہا لیکن حیدر کی گرفت سخت تھی

اسکے رونے کو نظر انداز کرکے وہ اسکے چہرے پر ہاتھ پھیرنے لگا

"ح-حیدر مجھے جانے دو پلیز میں سب کے سامنے معافی مانگ لوں گی پر ابھی م-مجھے جانے دو"

"میں اتنا بیوقوف نہیں ہوں مناہل جو ایسا حسین موقع ہاتھ سے جانے دوں گا"

وہ اپنا ہاتھ اسکے لبوں پر پھیرنے لگا جب اسکے اس حرکت کی وجہ سے مناہل نے غصے سے اسکے منہ پر تھوک پھینکا

اس وقت اسے حیدر سے خوف محسوس ہورہا تھا لیکن خود سے زیادہ نفرت ہورہی تھی

اسے اپنی گرفت سے آزاد کرکے حیدر نے اپنا چہرہ صاف کیا اور اسکی اس حرکت پر غصے سے اسے دیکھا اور زور دار تھپڑ اسکے گال پر رسید کیا

جس کی وجہ سے وہ سیدھا بیڈ پر جاگری

اسکا سر بیڈ کراؤن سے لگا تھا ایک لمحے کے لیے اسنے تکلیف سے آنکھیں بند کرلیں لیکن اس وقت اسے اپنی کوئی تکلیف نہیں دیکھنی تھی اس وقت اسے بس یہاں سے نکلنا تھا

وہ جلدی سے بیڈ سے اترنے لگی جب اسکے اوپر جھک کر حیدر نے اسے اپنی سخت گرفت میں قید کرلیا

°°°°°

آنکھ کھلنے پر اسنے غائب دماغی سے ہر جگہ کو دیکھا

اور حواس بحال ہوتے ہی اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا کیونکہ اس وقت وہ اپنے گھر میں اپنے کمرے میں موجود تھی

وہ جھٹکے سے اٹھی اور ایسا کرتے ہی سر میں شدید تکلیف ہوئی اسنے سر پر ہاتھ رکھا جہاں پٹی بندھی ہوئی تھی یقیناً اسکے سر پر چوٹ لگی تھی

اسے گزرا ہر لمحہ یاد آنے لگا اور یاد آتے ہی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے جو دھیرے دھیرے شدت اختیار کرگئے

اسکے رونے کی آواز سن کر فہد صاحب اور زینت بیگم کمرے میں داخل ہوئے انکے ساتھ سکندر بھی تھا

اسے روتے دیکھ کر زینت بیگم نے آگے بڑھ کر اسے اپنے حصار میں لیا اور انہیں اپنے نزدیک پاتے ہی وہ مزید شدت سے رونے لگی روتے روتے اسکی ہچکیاں بندھ چکی تھیں لیکن نہ کسی نے اس سے کچھ پوچھا نہ اسنے بتایا

اس میں کچھ بتانے کی ہمت تھی بھی نہیں پر یہ ایک ایسی حقیقت تھی جو وہ چھپا بھی نہیں سکتی تھی

اسے مسلسل روتے دیکھ کر سکندر نے ان دونوں کو باہر جانے کا اشارہ کیا اور اسکے ایسا کرتے ہی اپنا سر ہلاکر وہ دونوں باہر چلے گئے

ان کے جانے کے بعد سکندر اسکے قریب آکر بیٹھا

"مناہل رونا بند کرو"

م-میں یہاں ک--کیسے آئی"

"میں لایا ہوں تمہیں یہاں تم مجھے سڑک پر بےہوش ملی تھیں بتاؤ مجھے تمہارے ساتھ کیا ہوا تھا" اسکے کہنے پر مناہل نے ہچکیوں سمیت اسے ساری بات بتادی

جسے سن کر اسکی کیفیت عجیب سی ہوگئی  دکھ کی غصے کی

مناہل اسے سڑک پر بےہوش پڑی ملی تھی اور

مناہل جس حالت میں اسے ملی تھی اسے دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ اسکے ساتھ کیا ہوا ہے لیکن یہ سب حیدر نے کیا ہوگا یہ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا

حیدر ایک ایسا انسان تھا جو اپنے بدلے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا تھا لیکن وہ اس حد تک چلا جائے گا اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا

جس ہاسپٹل میں وہ مناہل کو لے کر گیا تھا وہاں ایک لیڈی ڈاکٹر تحریم کی دوست تھی اسکے ذریعے ہی سکندر نے اسکا سارا ٹریٹمنٹ کرایا تھا

یہ شاید ایک اتفاق ہی تھا جس پر اسنے خدا کا شکر ادا کیا جو ڈریس مناہل نے پہنی تھی بلکل ویسی ہی ڈریس تحریم کے پاس بھی موجود تھی اور اسی کے سائز کی تھی

اسلیے تحریم کو کال کرکے اسنے ڈرائیور کے زریعے وہی ڈریس مناہل کے لیے منگولیا تھا

ورنہ مناہل کے کپڑے جس حالت میں تھے ایسی حالت میں وہ اسے اسکے ماں باپ کے سامنے نہیں لے جاسکتا تھا

اسکا ٹریٹمنٹ ہوتے ہی وہ اسے اسکے گھر لے آیا کیونکہ یقیناً اسکی غیر موجودگی اسکے ماں باپ کو پریشان کررہی ہوگی

اسنے گھر آکر ان دونوں کو یہی بتایا تھا کہ راستے میں کچھ لڑکوں نے مناہل اور منزہ کے ساتھ بدتمیزی کرنے کی کوشش کی تھی لیکن سکندر کے صحیح وقت پر وہاں پہنچنے کی وجہ سے وہ دونوں محفوظ تھیں بس مناہل چوٹ لگنے کی وجہ سے بےہوش ہوگئی تھی 

سکندر یہ بات انہیں پہلے ہی بتا چکا تھا کہ جب وہ اٹھے گی تو روئے گی ضرور 

کیونکہ جو کچھ آج اسکے ساتھ ہوا اسکے بعد وہ اچھی خاصی گھبرا چکی تھی اسلیے اسکے رونے کی وجہ زینت بیگم اور فہد صاحب کو یہی لگی کہ وہ ابھی تک اس حادثے کے باعث خوف میں ہے

°°°°°

وہ حیدر پر کیس کرنا چاہتا تھا لیکن اگر وہ ایسا کچھ کرتا تو جو بات اسنے مناہل کے گھر والوں سے چھپائی تھی وہ ان سب کے سامنے آجانی تھی اور وہ ایسا ہر گز نہیں چاہتا تھا

حیدر نے غلط کیا یہ کوئی نہیں دیکھتا مناہل اسکے فارم ہاؤس پر گئی یہ چیز ساری دنیا نے دیکھنی تھی کیونکہ اس معاشرے کے مطابق غلط تو ہمیشہ صرف عورت ہی ہوتی ہے

وہ مانتا تھا کہ غلطی مناہل کی بھی تھی لیکن اتنی بھی نہیں کہ اسے سب کے سامنے قصوروار ٹھہرایا جاتا

مناہل کی حالت بہتر ہوتے ہی وہ اپنی والدہ اور تحریم کو اسکے گھر بھیج چکا تھا

مناہل اسکی محبت تھی جسے وہ کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتا تھا اور اس وقت وہ جس کیفیت میں تھی ایسے میں سکندر جلد از جلد اسے اپنے پاس لے آنا چاہتا تھا 

تاکہ اسکا خیال رکھ سکے اسے اس مشکل وقت سے نکال سکے

اسکا پروپوزل آتے ہی زینت بیگم اور فہد صاحب بنا دیر کیے ہاں کہہ چکے تھے

بھلے سکندر سے انکی اتنی جان پہچان نہیں تھی لیکن جتنی اس سے ملاقات ہوئی تھیں اسکے حساب سے تو سکندر ایک بہت اچھا انسان تھا

ان دونوں کے پوچھنے پر مناہل بھی ہاں کہہ چکی تھی انکار کا کوئی جواز بنتا نہیں تھا

سکندر پہلے ہی اسے یہ بات بتاچکا تھا کہ وہ اسکے گھر پر رشتہ بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے

جس کا جواب اسنے ہاں کی صورت میں دینا ہے ورنہ انکار کی صورت میں سکندر اور اسکا تعلق یہیں ختم ہو جانا تھا

وہ کیسے انکار کرسکتی تھی اسے پتہ تھا کہ سکندر ایک اچھا انسان ہے لیکن سکندر اسکی سوچ سے زیادہ اچھا انسان تھا

جب وہ اسے ہر بات جاننے کے بعد قبول کررہا تھا تو پھر وہ کیوں انکار کرتی انکار کی صورت میں وہ صرف اسے کھو دیتی اور وہ سکندر کو نہیں کھونا چاہتی تھی

اس وقت اسے جس کی سب سے زیادہ ضرورت تھی وہ سکندر تھا جو اسے سمجھتا تھا اپنے ماں باپ کے سامنے وہ خود کو نارمل ظاہر کررہی تھی تاکہ وہ پریشان نہ ہوں

لیکن اس وقت وہ کس کیفیت سے گزر رہی تھی یہ تو صرف اس کا خدا وہ خود یا پھر سکندر ہی جانتا تھا

°°°°°

ایک ہفتے بعد ہی سادگی سے ان دونوں کا نکاح ہوگیا اور مناہل سکندر کے نام ہوگئی

گھر آکر ساری رسومات ہوتے ہی وہ اسے اپنے ساتھ اپنے فارم ہاؤس پر لے گیا لیکن وہاں مناہل کی خراب ہوتی طبیعت کے باعث وہ اچھا خاصا پریشان ہوچکا تھا

پہلا خیال اسے یہی آیا کہ شادی کی وجہ سے اسکی طبیعت خراب ہوگئی ہوگی لیکن پھر بھی وہ مناہل کے معاملے میں کوئی لاپروائی نہیں کرسکتا تھا

اسلیے بنا دیر کیے اسے ہاسپٹل لے گیا جہاں جاکر اسے مناہل کی پریگنینسی کا علم ہوا

ان دونوں کی زندگی جو نارمل لائف پر آئی تھی وہ پھر سے خراب ہوگئی

دو دن بعد انکا ولیمہ تھا اور ان دو دنوں تک وہ مناہل کے ساتھ فارم ہاؤس پر ہی رہا

جانتا تھا اس وقت ان دونوں کی جو کیفیت ہے اسکے باعث گھر میں سب نے ان دونوں کو مشکوک نظروں سے دیکھنا تھا اور پہلا اندازہ یہی لگانا تھا کہ ان دونوں کی لڑائی ہوگئی یا کوئی پھر کوئی اور بڑی بات

ان دونوں کے بیچ خاموشی کی ایک دیوار بن چکی تھی جسے سکند نے گرانا تھا

اسے پتہ کہ اب مناہل کی سوچیں ہر وقت بس اسی بچے کے ارد گرد گھومتی رہتی ہوں گی کہ سکندر اسے اپنائے گا یا نہیں اگر سکندر نے اسے چھوڑ دیا تو پھر کیا ہوگا

لیکن سکندر اسے بھلا کیسے چھوڑ سکتا تھا سکندر کی تو اس میں جان تھی یہ اولاد بھلے حیدر کی تھی لیکن اسکا مطلب یہ تو نہیں تھا کہ حیدر کے کیے کی سزا اسکی اولاد کو ملتی

وہ تو ایک ننھا سا معصوم سا وجود تھا جسے دنیا کا کچھ علم ہی نہیں تھا سکندر اسے کیسے تکلیف دے سکتا تھا 

°°°°°

اپنے ولیمے پر بھی اسنے صرف خاص لوگوں کو دعوت دی تھی مناہل پریگنینٹ ہے اس بات سے سکندر کے علاؤہ سب ہی انجان تھے اور سکندر کا ان سب کو یہ بات چند دن بعد بتانے کا ارادہ تھا

یونی کا کوئی بھی شخص اسنے وہاں نہیں بلایا تھا نہ ہی کوئی میڈیا تھی وہ نہیں چاہتا تھا کہ حیدر یا انکے گروپ کے کسی بھی شخص کو انکی شادی کا علم ہو

وہ ان سب لوگوں سے ہر رابطہ ختم کرچکا تھا یہاں تک کہ اپنا گھر بھی تبدیل کر چکا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ انکی زندگی میں پھر سے حیدر نامی باب کھلے

لیکن زندگی کے ایک موڑ پر آکر یہ باب پھر سے کھل چلا تھا

°°°°°

علیحہ اسکی زندگی تھی

اسنے علیحہ کے لاڈ اٹھائے تھے لیکن اسے کسی بھی طرح نازک نہیں بننے دیا تھا

وہ چاہتا تھا کہ علیحہ ایک مظبوط اور بہادر لڑکی بنے جس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکے اور اپنی اس کوشش میں وہ کامیاب بھی ٹہرا تھا

علیحہ اسکی بیٹی تھی جو اسے جان سے زیادہ عزیز تھی

وہ جانتا تھا کہ حالات جیسے بھی ہوں علیحہ ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرسکتی ہے

لیکن پھر اس دن حیدر کی اپنے آفس میں موجودگی اسے حیران کر چکی تھی

اتنے سالوں میں انکے درمیان کوئی رابطہ نہیں رہا تھا حیدر نے کبھی کرنا بھی چاہا تو اسنے خود وہ دروازہ بند کردیا لیکن آج وہ اسکے سامنے کھڑا تھا

اور اسکے آنے کی وجہ سن کر سکندر کا جیسے دماغ گھوم چکا تھا

وہ یہاں اسکے آفس میں کھڑا اسکی بیٹی کا رشتہ مانگنے آیا تھا وہ بھی بہت فخر سے

اسکا ارادہ علیحہ کو یہاں سے دور بھیجنے کا تھا لیکن اس سے پہلے ہی انکی زندگی میں وجدان شیرازی داخل ہوگیا

اور اس حادثے نے سکندر کو بہت کچھ سوچنے کر مجبور کردیا

اسے پتہ تھا کہ حیدر کے پیچھے پولیس لگی پڑی ہے اسکے کرتوتوں کی وجہ سے

لیکن آج تک کوئی اسے پکڑ نہیں پایا تھا وجہ اسکا پیسہ اسکی پاور

لیکن اس بار جو آفیسر اسکے پیچھے پڑا تھا وہ مختلف تھا اس حادثے سے پہلے اسنےمشارب سے ہی بات کی تھی

حیدر کو وہ اچھے سے جانتا تھا اسے پتہ تھا حیدر کیا کام کرتا ہے اگر آج تک اسنے حیدر کے خلاف کچھ اسٹینڈ نہیں لیا تھا تو صرف اسلیے کیونکہ اسے حیدر کے کسی بھی معاملے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن اب یہاں بات اسکی بیٹی کی تھی جس کے لیے وہ کچھ بھی کرسکتا تھا

اسنے مشارب سے ایک تفصیلی ملاقات کی تھی جس میں اسنے مشارب کو ہر وہ بات بتائی جس کا اسے حیدر کے بارے میں علم تھا

°°°°°

"دیکھیے درانی صاحب میں نے جو کچھ بھی کیا وہ اپنا آپ بچانے کے لیے کیا ہاں شاید آپ کی بیٹی کا نام لے کر میں نے غلطی کی لیکن اگر میں ایسا نہیں کرتا تو آپ کی بیٹی کے ساتھ بھی کیا ہوسکتا تھا آپ بہتر جانتے ہیں"

"میں بس اتنا جانتا ہوں کہ تم نے اس سے جھوٹے نکاح کا دکھاوا کیا ہے اب سچا نکاح کرو میری بیٹی کو اپنے نکاح میں لو" اسکی بات سن کر وجدان نے حیرت سے اسے دیکھا

"یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ"

"وجدان میری بیٹی اس وقت اگر محفوظ رہ سکتی ہے تو صرف تمہارے پاس"

"اور میں آپ کی بیٹی کو محفوظ کیوں رکھوں گا وہ میری ذمیداری نہیں ہے"

"اس مصیبت میں وہ صرف تمہاری وجہ سے پھنسی ہے ویسے بھی اگر یہ نکاح نہیں ہوا تو تم بھی پھنس سکتے ہو کیونکہ اس وقت لوگوں کی زبان پر صرف ایک ہی ٹاپک ہے تو بہتر ہے میری بات مان لو علیحہ سے نکاح کرلو کچھ وقت بعد جب یہ معاملہ ٹھنڈا ہو جائے گا تو ہم اس معاملے کو ختم کردیں گے"

"آپ کی بیٹی غیر محفوظ ہے کس سے" اسکے کہنے پر سکندر نے گہرا سانس لیا اور مختصر لفظون میں اسے ساری بات بتادی

مشارب اس کیس پر کام کررہا تھا اور جیسے ہی اسنے حیدر کا کیس سولو کرنا تھا ان دونوں کے نکاح کا چیپٹر بھی ختم ہوجانا تھا مگر جب تک کے لیے یہ نکاح ضروری تھا

اسکی بات سمجھ کر وجدان نے ہولے سے اپنا سر اثبات میں ہلایا وہ خود بھی جانتا تھا کہ اس وقت اسکے پاس خود بھی ایک یہی راستہ موجود ہے

"تم خوش ہو اس نکاح سے" 

نکاح ہوتے ہی وہ اسکے قریب بیٹھ کر اس سے پوچھنے لگی جس پر دعا ہلکا سا مسکرائی

"تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے اگر میں کہوں میں خوش نہیں ہوں تو تم یہ نکاح یہیں ختم کردو گی"

"بس ایسے ہی پوچھ لیا ویسے تم دونوں کے نکاح کا سن کر مجھے بہت حیرت ہوئی تھی کیونکہ مجھے واقعی میں یہی لگا تھا تم مشارب کی بیوی ہو اور واقعی میں کوئی چھوٹو آنے والا ہے" اسکے کہنے پر دعا نے مسکرا کر اپنا سر جھکا لیا آج تو مسکراہث جیسے اسکے لبوں سے جدا ہی نہیں ہورہی تھی

اور اسکا یہ شرماتا مسکراتا روپ اسکی خوبصورتی میں مزید اِضافہ کررہا تھا

اسنے آف وائٹ رنگ کا گرارہ پہنا ہوا تھا ساتھ ہی ہلکی پھلکی جیولری اور برائیڈل میک اپ کے ساتھ وہ بےانتہا حسین لگ رہی تھی

جبکہ اسکے برعکس علیحہ نے آج کے دن کی مناسبت سے وائٹ سمپل کرتی کے ساتھ بلیو جینز پہنی ہوئی تھی اور یہ اسکی شادی کے لیے بیسٹ ڈریسنگ تھی

اسکے کپڑے دیکھ کر ناز بیگم کا دکھ ختم نہیں ہورہا تھا کہ وہ اپنے اکلوتے دیور کی شادی میں ایسے ہی آگئی ساتھ ہی خود پر غصہ بھی آرہا تھا 

انہیں اندازہ نہیں تھا کہ علیحہ کے پاس شادی کے حساب سے کوئی جوڑا ہے یا نہیں اور نہ ہی مصروفیت میں انکا دھیان اس بات پر گیا اوپر سے وہ وجدان کے ساتھ سب سے آخر میں ہال میں آئی تھی ورنہ اگر وہ لوگ گھر میں ہوتے تو ناز بیگم اسے اچھے کپڑے ہی دے دیتیں

اسے بار بار اپنے پاس بلا کر وہ لوگوں سے اسے اپنی بہو کے طور پر متعارف کروارہی تھیں جبکہ وجدان انہیں پہلے ہی اس بات سے منع کرچکا تھا کہ علیحہ کو کسی سے نہیں ملوانا

جب یہ رشتہ ہی نہیں رہنا تھا تو پھر کیا فائدہ اسے لوگوں کی نظروں میں لانے کا

لیکن وجدان کی بات ایک کان سے سن کر وہ دوسرے سے نکال چکی تھیں

°°°°°

تھوڑی دیر بعد اسے اسٹیج پر بیٹھے مشارب کے ساتھ لاکر بٹھادیا گیا

اور اس پر نظر پڑھتے ہی دعا جیسے اپنی جگہ سن ہوچکی تھی

ڈارک بلیو کلر کے پرنس کوٹ میں آج وہ ضرورت سے زیادہ حسین لگ رہا تھا

"دعا اپنی نظروں کو تھوڑا قابو میں رکھو جان اس طرح تم میرے جذبات جگا رہی ہو" اسکے کہنے پر دعا نے سٹپٹا کر نظریں پھیریں اور اپنی بےخودی پر خود کو کوسنے لگی

"ایسی کوئی بات نہیں ہے''

"کیسی بات نہیں ہے"اسنے دلچسپی سے پوچھا

"میں آپ کو نہیں دیکھ رہی تھی"

"تم دیکھ رہی تھیں لیکن اس میں چھپانے والی کوئی بات نہیں ہے تمہاری اپنی پراپرٹی ہوں تم نہیں دیکھو گی تو کون دیکھے گا" اسکے کہنے پر دعا نے نگاہوں کا رخ دوبارہ اسکی جانب موڑا

مشارب کی بات سن کر وہ اپنے اصلی انداز میں لوٹ کر اسے یہ نہیں کہہ سکتی تھی کہ اب وہ اپنی پراپرٹی پر کسی کی نظر پڑھنے بھی نہیں دے گی

"آپ نے میری تعریف نہیں کی"

"تم خوبصورت لگ رہی ہو میں اس وقت اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کیونکہ میں تفصیلی تعریف بعد میں فرصت سے کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں"

اسکی بات کا مطلب سمجھ کر اسنے اپنی نگاہیں جھکالیں اور اس سے پہلے وہ اسکی جھکی نظروں پر بھی کوئی تبصرہ کرپاتا وہاں پر شایان آکھڑ ہوا

°°°°

"سر کچھ بات کرنی تھی" اسنے جھجکتے ہوئے کہا کیونکہ اس وقت مشارب کو اسکے اتنے خاص موقع پر تنگ کرنا اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا

اپنی جگہ سے اٹھ کر اسنے شایان کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور تھوڑے فاصلے پر جاکر کھڑا ہوگیا جہاں شور تھوڑا کم تھا

"کیا ہوا ہے"

"سر وہ سوری میں آپ کو ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن اگر نہیں بتاتا تو آپ بعد میں غصہ کرتے"

"شایان جو بات ہے وہ بتاؤ" اسکے سختی سے کہنے پر شایان جلدی سے اسے بتانے لگا

"سر وہ گیلانی کی میٹنگ ہے آج رات کو وہ خود بھی ہوٹل میں آئے گا"

"تم نے اچھا کیا جو مجھے بتادیا میں اتنا اچھا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے سکتا پر دکھ بھی ہوا تم نے میرا اتنا اہم دن برباد کردیا"

مشارب کی پہلی بات سن کر جہاں اسکے چہرے پر خوشی کے تاثرات ابھرے وہیں اسکی دوسری بات سن کر وہ سارے تاثرات غائب ہوگئے

"سوری سر"

"اب چلو" اسے چلنے کا اشارہ کرکے وہ سیدھا وجدان کے پاس گیا

"وجدان مجھے ضروری کام سے جانا ہے"

"مشارب آج کے دن سکون سے بیٹھ جاؤ"

"میرا جانا ضروری ہے تم یہاں سب سنھبال لینا"

"کچھ نہیں سمبھالنا مجھے تمہاری شادی ہے تم ہی سنبھالو" اسنے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا

"مانا کے تم اس شادی سے خوش نہیں ہو پر بھائی کے لیے تھوڑا مینیج نہیں کرسکتا" 

اسکا کندھا تھپتھپا کر وہ جلدی سے وہاں سے چلا گیا

جس پر وجدان اپنا سر نفی میں ہلاکر ناز بیگم کو ڈھونڈنے لگا انہیں بتانا بھی تھا کہ انکا لاڈلا اپنی شادی چھوڑ کر کام پر چلا گیا

اسے مشارب اور دعا کے رشتے پر اعتراض نہیں تھا تو خوشی بھی نہیں تھی

اسنے مشارب سے اس بارے میں تفصیلی بات کی تھی کیونکہ وہ کسی بھی ایسی لڑکی کو اپنے گھر کا فرد نہیں بنانا چاہتا تھا جس کے بارے میں اسے کچھ پتہ ہی نہ ہو

دعا کے بارے میں اسنے چو کچھ بھی سنا تھا وہ صرف مشارب کی زبانی ہی سنا تھا

اوپر سے یہ لڑکی اسے ہمیشہ سے مشکوک لگتی تھی جتنی معصوم وہ دکھتی تھی اتنی وہ تھی نہیں اور اس بات کا وجدان کو یقین تھا

لیکن اسکے ہر سوال کا مشارب کے پاس جواب موجود تھا

اسے دعا سے ہی شادی کرنی تھی وہ ایک عقل شعور رکھنے والا سمجھدار انسان تھا وہ خود جانتا تھا کہ وہ کیا کررہا ہے اور جب وہ خوش تھا تو پھر وہ بھی اپنے بھائی کی خوشی میں خوش تھا

°°°°°

گھر پہنچتے ہی ناز بیگم نے علیحہ کے ساتھ اسے مشارب کے کمرے میں بھجوادیا انکا تو کب سے غصہ ہی ختم نہیں ہورہا تھا کہ مشارب اپنی شادی چھوڑ کر چلا گیا

ایسا بھی کیا کام کہ اپنی دلہن کو ہی اسٹیج پر اکیلا چھوڑ گیا اوپر سے نہ تو اب تک وہ واپس آیا تھا اور نہ ہی کوئی کال پک کررہا تھا

بس وجدان کے موبائل پر ایک میسیج بھیج دیا کہ اسے آنے میں دیر ہو جائے گی اور تب سے ہی ناز بیگم کا غصہ بڑھے جارہا تھا

انکا بس نہیں چل رہا تھا کہ گھر کے سارے دروازے بند کردیں تاکہ مشارب اندر ہی داخل نہ ہوسکے اور اگر وہ یہ سب کرنے کی وجہ پوچھے تو پھر اسے کہیں کہ جاکر اب بھی اپنا کام ہی کرو

°°°°°

اسے بیڈ پر اچھے سے بٹھا کر وہ خود کمرے سے چلی گئی

جب اسکے جانے کے بعد دعا پورے کمرے کا جائزہ لینے لگی جسے آج نہایت ہی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا

اسنے کبھی کہیں سوچا تھا کہ وہ کبھی اس کمرے میں اس حق سے آئے گی وہ تو یہاں اس مقصد سے آئی ہی نہیں تھی

پر شاید خدا نے اسی طرح اسکے نصیب میں مشارب کو لکھا تھا

اسے مشارب سے محبت تھی کب کیسے وہ شخص دل کی گہرائیوں میں اترتا چلا گیا اسے علم ہی نہ ہوسکا لیکن اسنے کبھی بھی اسکے ساتھ کی تمنا نہیں کی تھی

ایسے میں وہ اسے بن مانگے مل گیا تھا اور اسے یہ سب ایک کرشمہ لگ رہا تھا

اسنے مسکراتے ہوئے بکھرے پھولوں کو اپنے ہاتھ میں لیا یہ وہی کمرہ تھا جس میں مشارب نے اسے آنے سے منع کیا تھا اور اب وہ پورے حق سے یہاں بیٹھی تھی

زہہن کے پردے پر وہ بات یاد آتے ہی وہ چونکی

"دعا آج کے بعد میری غیر موجودگی میں کبھی میرے کمرے میں قدم مت رکھنا"

وہ جلدی سے بیڈ سے اتری مشارب یہاں نہیں تھا لیکن جب آجاتا اور اسے اپنے بیڈ پر دیکھتا تو شاید غصہ کرتا کیونکہ اسے اپنے کمرے میں آنے سے وہ منع کرچکا تھا

چند لمحے سوچ کر وہ اس کمرے سے نکل گئی ویسے بھی یہاں بیٹھ کر کیا کرنا تھا جس کی وجہ سے وہ یہاں موجود تھی وہ تو پتہ نہیں کہاں غائب تھا

°°°°°

کل کی طرح وہ پھر سے ناز بیگم کے کمرے میں آگئی ارادہ آج بھی ان کے پاس سونے کا تھا کیونکہ اگر اس بیریسٹر کے پاس جاتی تو اس میں پھر سے کوئی چھچھوری روح گھس جاتی

"علیحہ بیٹا تم اپنے کمرے میں جاکر سوجاؤ"

"کیوں آنٹی آپ کو میرا یہاں سونا اچھا نہیں لگتا"

"نہیں ایسی بات نہیں ہے یہ بھی تمہارا اپنا کمرہ ہے پر تمہارے یہاں ہونے سے وجدان کا برا لگتا ہوگا"

"نہیں لگتا بلکہ انہیں تو اچھا لگتا ہوگا کیونکہ انہیں میرا اس کمرے میں رہنا نہیں پسند اگر میں جاؤں گی تو پھر صوفے پر سولائینگے" اسنے معصومیت بھرے انداز میں کہا

شاید اس کا معصومیت بھرا انداز دیکھ کر ناز بیگم اسے نہ بھیجیں 

"نہیں سولائے گا میں نے اسے سمجھایا ہے اور اگر ایسا کرے تو سیدھا تم میرے پاس آنا اب جاؤ شاباش"

انکی بات سن کر وہ مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجائے انکے کمرے سے چلی گئی

یقیناً آنٹی جی کو آج اسے وجدان کے کمرے میں بھیجے بنا نیند نہیں آنی تھی

"پتہ نہیں وہ کون سی ساس ہوتی ہیں جو بیٹوں اور بہوؤں کو لڑواتی رہتی ہیں میری بچاری ساس تو ہمیشہ ملواتی رہتی ہیں" بڑبڑاتے ہوئے وہ وجدان کے کمرے کی طرف چلی گئی

°°°°°

"کیا ہوا آج اماں جان نے کمرے سے نکال دیا "اسکے کمرے میں داخل ہوتے ہی وجدان نے کہا جس پر وہ منہ بنا کر رہ گئی

"نہیں دراصل انکا خیال ہے کہ میرا وہاں سونا تمہیں برا لگتا ہے اسلیے انہوں نے مجھے یہاں بھیج دیا"

"درحقیقت انہوں نے بس تمہیں تھوڑی عزت کے ساتھ اپنے کمرے سے دفعہ کیا ہے سیدھے سیدھے کہتیں تو تمہیں برا لگتا"

"میرا اس وقت تم سے بحث کو کوئی موڈ نہیں ہے"

"میرا بھی نہیں ہے"

"پھر بھی کررہے ہو"

"پلیز زبان دراز ابھی کے لیے چھوڑ دو ان باتوں کو جاکر خاموشی سے صوفے پر سوجاؤ" اسنے صوفے کی جانب اشارہ کیا لیکن پھر کچھ یاد آتے ہی لبوں کر مسکراہٹ بکھر گئی

"زرا اپنا موتی تو دکھانا" اسکے کہنے پر علیحہ نے اپنی شرٹ ہر طرف سے سیٹ کرنے لگی

"میرے ساتھ یہ گندی باتیں کرنے کی ضرورت نہیں ہے" اسکے کہنے پر ہنستے ہوئے وہ اپنی جگہ سے اٹھا 

جبکہ بھوری آنکھیں علیحہ کے وجود پر جمی ہوئی تھیں

"اگر تم اس حسین موتی کو اس لفظ سے پکارتی ہو تو پھر تم یہ گند کرواسکتی ہو ہم کیا کہہ بھی نہیں سکتے" اسکے قریب آکر وجدان نے اسکی کمر پر اپنا ہاتھ رکھا اور جھٹکے سے اسے اپنے قریب کرلیا

°°°°° 

"دیکھو مجھ سے تو دور ہی رہو"

"بس ایک کس ہی لوں گا"

"مجھے اس وقت بہت نیند آرہی ہے تم میرے قریب آؤ گے تو مجھے پھر برش کرنا پڑے گا" اسکی بات سن کر وجدان نے حیرت و ناسمجھی سے اسے دیکھا

"کیا مطلب جب میں تمہیں کس کرتا ہوں تو تم برش کرتی ہو"

"ہاں کرتی ہوں جب تم نے مجھے کس کیا تھا تو میں نے دو دفعہ برش کیا تھا اور جب تم نے ایسے ایسے مجھے ہاتھ لگایا تھا نہ تو میں نے شاور لیا تھا کیونکہ مجھے نہیں پسند تمہارا ہاتھ لگانا"وہ باقاعدہ اسی طرح اپنے وجود پر ہاتھ پھیر کر اسے دیکھانے لگی جس طرح وجدان نے اسکے وجود پر پھیرے تھے

"اچھا دیکھتا ہوں میں تم میرے قریب آنے پر کب تک یہ کام کرتی ہو" اسے اپنے بےحد نزدیک کرکے وہ اسکے لبوں پر جھک گیا

اور اسکا شدت بھرا انداز دیکھ کر علیحہ کو اپنے کہے لفظوں پر پچھتاوا ہوا اگر برش کرتی ہی تھی تو اسکے سامنے بولنے کی بھلا کیا ضرورت تھی

"چھوڑو مجھے" سانسوں کو آزادی ملتے ہی اسنے وجدان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے خود سے دور کیا اور وہ بھی گیا

"جاؤ برش کرکے آو"اسکے کہنے پر وہ منہ بناتی ہوئی واشروم میں چلی گئی

نیند اس وقت کچھ زیادہ ہی آرہی تھی اسلیے برش صبح کرنے کا ارادہ کرکے اسنے بس کلی کرلی

باہر آتے ہی وہ صوفے پر جاکر سونے لگی جب وہاں کھڑے وجدان نے اسے اپنے قریب کھینچا اور پھر سے اسکے لبوں پر جھک گیا

"کیا مسلہ ہے" اسکے دور ہٹتے ہی علیحہ نے سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ جھنجھلا کر کہا جس پر اسکے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ بکھری

"جاؤ نہ ڈارلنگ برش کرکے آو"

"تم نے مجھے پاگل سمجھا ہوا ہے"

"سمجھا ہوا نہیں ہے مجھے یقین ہے تم پاگل ہو"

"تمہاری اماں جان نے کہا تھا اگر وجدان تمہیں دوبارہ کچھ الٹا سیدھا کہے تو مجھے بتانا اور اب میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گی بلکہ سیدھا انہیں ہی بتاؤں گی"

منہ پر ہاتھ پھیرتی ہوئی وہ کمرے سے جانے لگی جب اسکا ہاتھ پکڑ کر وجدان نے اسے بیڈ پر دھکا دیا اور اسکے اوپر جھک گیا

علیحہ نے گھبرا کر جلدی سے اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر اس سے فاصلہ بنانا چاہا

"میری اماں جان بہت سیدھی ہیں انہیں تم جیسی چالاک لڑکی سے دور رکھنا پڑے گا"

"اچھا نہیں جارہی میں چھوڑو مجھے"

"نہیں چھوڑ رہا تم یہیں سوؤ گی میرے پاس میرا قریب آنا تمہیں برا لگتا ہے تو اب تم ساری رات ایسے ہی میری بانہوں میں ہی سوؤ گی"

"اگر یاد ہو تو بتادوں کہ تم نے ہی مجھے بیڈ پر سونے سے منع کیا تھا" اسنے وجدان کی کہی بات اسے یاد دلائی

"تو بیڈ پر سونے کے لیے بھی میں ہی کہہ رہا ہوں" اسنے اپنے لفظوں پر زور دیا

"میں تمہاری غلام نہیں ہوں جو تمہاری ہر بات مانوں گی"

"بلکل تم میری غلام نہیں ہو میری بیوی ہو" اسے اپنے ساتھ لگائے وہ بیڈ پر ٹھیک سے لیٹ گیا جب علیحہ نے اٹھنا چاہا لیکن اسکے دونوں پاؤں اور ہاتھوں سمیت وہ اسے ہر طرح سے اپنی قید میں لے چکا تھا

''چھوڑو مجھے ورنہ میں چیخوں گی''

"ساؤنڈ پروف ڈور ہے جتنا چیخنا ہے چیخ لو کوئی نہیں آنے والا اور اگر مجھے پریشان کرنے کے لیے یہ کروگی تو شوق سے کرو مجھے اس سب سے کوئی فرق نہیں پڑھنا"

اسکے اطمینان سے کہنے پر علیحہ نے غصے سے اسکے سینے پر ہاتھ مارنا چاہا لیکن کیسے مارتی ہر طرف سے وہ اسکی گرفت میں قید میں تھی

کچھ سوچ کر وہ وجدان کے مزید قریب ہوئی اور اسکے سینے پر اپنے دانت گاڑھ دیے 

اپنے سینے پر چبن محسوس کرکے وجدان نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا اسے تکلیف ہورہی تھی لیکن اسکے چہرے پر کوئی تکلیف دہ تاثرات نہیں تھے اسنے سکون سے واپس اپنی آنکھیں بند کرلیں

اور دوسری طرف اسکی جانب سے کوئی رسپانس نہ پاکر علیحہ تھک ہار کر خود ہی پیچھے ہٹ گئی اب ساری رات اسنے ایسے ہی گزارنی تھی یہ تو طے تھا

°°°°°

رات بھر وہ گھر سے باہر رہا تھا فجر کے وقت اسکی واپسی ہوئی

مسجد میں نماز فجر ادا کرکے وہ سیدھا گھر آیا اور آتے ہی تیز تیز قدم اٹھاتا اپنے کمرے میں چلا گیا لیکن خالی کمرہ دیکھ کر اسکے ماتھے پر بل پڑے

قدم واپس موڑ کر وہ دعا کے کمرے کی طرف گیا اور اندازے کے عین مطابق وہ وہیں تھی

چہرے پر معصومیت سجائے کتنے آرام سے وہ سورہی تھی اور اسکی معصومیت دیکھ کر مشارب کو اپنا سارا غصہ اترتا محسوس ہوا

آگے بڑھ کر اسنے دعا کے نازک وجود کو اپنی بانہوں میں اٹھایا اور اپنے کمرے کی طرف چلا گیا

°°°°°

اسنے نیند سے بھری آنکھیں کھول کر مشارب کو دیکھا اور اسے اتنے نزدیک دیکھ کر ساری نیند اڑ گئی

لمحوں میں ہی اسے سمجھ آگیا کہ وہ اس وقت کہاں تھی

"مشارب نیچے اتاریں مجھے"

"اس کمرے میں کیا کررہی تھیں تم"

"تو اور کہاں جاتی" اسنے الٹا سوال کیا

"ہمارے کمرے میں" 

کمرے میں داخل ہوکر اسنے ٹانگ سے دروازہ بند کرکے دعا کو بیڈ پر بٹھایا

"آپ نے ہی تو کہا تھا کہ آپ کی اجازت کے بغیر آپ کے کمرے میں نہ آوں"

"ہاں پر یہ بات میں نے جب کہی تھی جب میرا تم سے کوئی رشتہ نہیں تھا اب تم میری بیوی ہو اور مجھ سمیت میری ہر چیز پر تمہارا اتنا ہی حق ہے جتنا میرا ہے" اسکی بات پر دعا نے سمجھنے والے انداز میں اپنا سر ہلایا جس پر مسکراتے ہوئے وہ اپنی جگہ سے اٹھ گیا

"آپ کہاں جارہے ہیں"

"جاگنگ پر میری یونیفارم نکال دینا آج تک میرے سارے کام اماں جان کرتی تھیں پر اب یہ تمہاری ذمیداری ہے جاگنگ سے میری واپسی دیر سے ہوتی ہے تو تب تک تم چاہو تو سوجانا"

"لیکن آپ رات کے گئے تو اب گھر آئے ہیں" اسکا فکر مند لہجہ دیکھ کر مشارب کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی

"تمہیں دیکھ لیا نہ تو میری ساری تھکن اتر گئی" اسکے گال پر ہاتھ رکھ مشارب نے اسکے ماتھے پر اپنی محبت کی پہلی مہر ثبت کی

سونے کا اب اسکا کوئی ارادہ نہیں تھا کیونکہ یہ وقت اسکے جاگنے کا ہوتا ہے

وارڈروب سے ٹریک سوٹ نکال کر وہ واشروم میں گھس گیا جس پر دعا بھی کندھے اچکا کر دوبارہ لیٹ گئی لیکن اب اسے نیند نہیں آنی تھی یہ الگ بات تھی

°°°°°

آنکھ کھلتے ہی اسکی پہلی نظر ڈریسنگ مرر کے سامنے کھڑے وجدان پر گئی جو شرٹ لیس کھڑا تھا

اسکے سینے پر گھنے مردانہ بال دیکھ کر علیحہ نے اپنی نگاہوں کا رخ پھیر لیا

"اٹھ گئیں تم دیکھو اپنا کارنامہ" اسے اٹھتے دیکھ کر وہ جاکر اسکے قریب کھڑا ہوا جس پر علیحہ نے حیرت سے اسکی طرف دیکھا

"کس کارنامے کی بات کررہے ہو"

"میں زخم کی بات کررہا ہوں"

"کون سا زخم"

"جو تم نے اپنے دانتوں سے مجھے دیا ہے" اسکے کہنے پر علیحہ کی نظر اسکے سینے پر گئی لیکن وہاں بالوں کے علاؤہ اور کچھ دکھا ہی نہیں

"اس جنگل میں کوئی زخم تم ہی ڈھونڈ سکتے ہو" اسکے کہنے پر وجدان نے اسے جھٹکے سے بیڈ سے اٹھایا اور اسکی کمر کے گرد بازو حائل کرکے اسے اپنے قریب کرلیا

"ڈھونڈو گی تو زخم تمہیں اس جنگل میں بھی مل جائے گا" اسنے علیحہ کا ہاتھ پکڑ کر اس جگہ پر رکھا جہاں علیحہ نے اپنے دانتوں کا نشان چھوڑا تھا اسکے دانتوں کے باعث وہاں واقعی زخم بن چکا تھا لیکن وہ حد سے زیادہ معمول چھوٹ تھی کم از کم وجدان جیسے بندے کو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑھنا چاہیے تھا

"دکھا" اسکے کہنے پر علیحہ نے جلدی سے اپنا ہاتھ اسکے سینے سے ہٹایا 

دل میں عجیب سی ہلچل مچ رہی تھی

اسکے ہاتھ اپنی کمر سے ہٹا کر وہ بیڈ سے اتر کر بھاگنے کے انداز میں واشروم میں گھس گئی

کیونکہ وجدان کا یہ انداز اسے وجدان کے سامنے کھڑا نہیں ہونے دے رہا تھا

°°°°°

اسکا سارا سامان نکال کر دعا نے بیڈ پر رکھا جب واشروم کا دروازہ کھلا

اسنے ایک نظر اسے دیکھ کر نگاہوں کا رخ پھیر لیا اس وقت وہ اپنی یونیفارم میں ملبوس تھا

اور یہ بات دل میں کہنے میں دعا نے دیر نہیں لگائی تھی کہ اس پر یہ وردی خوب ججتی تھی

جاگنگ سے واپس آتے ہی وہ تیار ہونے کے لیے چلا گیا تھا کیونکہ اسکی ڈیوٹی کا ٹائم ہونے والا تھا

"ویسے ایک بات بتاؤ" اسنے گھڑی پہنتے ہوئے سامنے کھڑی دعا سے پوچھا جس پر وہ سوالیہ نظروں سے اسکی جانب دیکھنے لگی

"جی کہیں"

"تم نے مجھ سے نکاح کے لیے حامی کیوں بھری مانا بہت ہینڈسم بندہ ہوں پر لڑکیاں اسکے علاؤہ بھی بہت کچھ دیکھتی ہیں"

"آپ بتائیں میں نے آپ سے شادی کیوں کی ہوگی"

"اگر دولت کے خاطر کی ہے تو یہ فیصلہ تمہارا غلط ہے کیوں کہ یہ دولت یہ مینشن یہ سب کچھ وجدان کا ہے یہ سب اسکی محنت ہے میں تو ایک عام سا پولیس آفیسر ہوں"

"آپ عام نہیں ہے آپ خاص ہیں مشارب تب ہی تو میں نے آپ کو چنا ہے" اسکے کہنے پر مشارب نے مسکراتے ہوئے اسے اپنے قریب کیا

"واقعی"

"جی بلکل" اسنے سائیڈ پر رکھا اسکا والٹ اٹھا کر اسے دیا

"کچھ پوچھوں آپ سے"اسنے جھجکتے ہوئے کہا جس پر مشارب نے اپنا سر ہلایا

"وہ آپ کے کپڑے نکال رہی تھی نہ تو اس میں ایک لاکر دیکھا تھا اس لاکر میں کیا ہے"

"میری ضروری فائلز ہیں"

"اسکا کوڈ کیا ہے" اسنے جلدی سے پوچھا جس پر مشارب نے بھنویں اچکا کر اسے دیکھا

"وہ اگر آپ کو ضرورت ہوئی اور آپ گھر میں نہیں ہوئے تو ایسے وقت میں مجھے پتہ تو ہونا" اسکے دیکھنے پر دعا نے جلدی سے وضاحت دی

"اچھا ہوا بتادیا ورنہ مجھے تو لگ رہا تھا تم میری فائل چرانے والی ہو" 

اسکے کہنے پر دعا نے گھبرا کر اسکی طرف دیکھا ایک پل کے لیے اسے لگا وہ سب حقیقت جان گیا ہے لیکن وہ ہنس رہا تھا وہ مذاق کررہا تھا جسے دیکھ کر اسنے سکون بھرا سانس لیا

"نہیں ایسی بات نہیں ہے"

"خیر میرا کوڈ yeux verts ہے"

"اسکا کیا مطلب"

"تم خود ڈھونڈو" موبائل جیب میں رکھ کر اسنے دعا کا ہاتھ پکڑا اور کمرے سے باہر نکل گیا

"خالا بی میرا ناشتہ آج میری بیگم بنائینگی" ڈائیننگ روم میں داخل ہوتے ہی اسنے وہاں کھڑی خالا بی سے کہا کیونکہ ناشتہ اور کھانا وہی بناتی تھیں

اسکے کہنے پر خالا بی نے اپنا سر ہلایا جبکہ علیحہ منہ کھولے حیرت سے اسے دیکھنے لگی 

"میں کیوں بناؤں گی"

"ہاں وجدان وہ کیوں بنائے گی ابھی شادی کو وقت ہی کتنا ہوا ہے جو تم اسے کچن میں بھیج رہے ہو ویسے بھی پہلے علیحہ کچھ میھٹا بنائے گی یہی رسم ہوتی ہے"

"امان جان آپ تو ایسے کہہ رہی ہیں جیسے ہماری شادی کتنی رسم و رواج کے ساتھ ہوئی ہے خیر میں ہمارے رشتے کو سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں میں چاہتا ہوں علیحہ میری پسند نہ پسند جانے مجھے جانے" 

وجدان کے کہنے پر علیحہ نے گھور کر اسے دیکھا اب اس کے لیے وہ زبان دراز سے علیحہ ہوچکی تھی

"جاؤ علیحہ میرے لیے ناشتہ بناؤ خالا بی تمہیں بتادیں گی میں کس طرح کا ناشتہ کرتا ہوں"

"سمیہ اسکے ساتھ ہی رہنا اسے کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو اسکی مدد کرنا" ناز بیگم نے خالا بھی کی طرف دیکھتے ہوئے تاکید کی جس پر وجدان بس گہرا سانس لے کر رہ گیا

"اماں جان کچن میں جارہی ہے جنگ پر نہیں" ناز بیگم نے اسکی بات کا کوئی جواب نہیں دیا تھا یقیناً انہیں علیحہ کا اسے کچن میں بھیجنا برا لگ رہا تھا ابھی اسکی شادی کو وقت ہی کتنا ہوا تھا

لیکن انہوں نے کچھ کہا نہیں تھا کیونکہ یہ سب وہ اپنے رشتے کو سمجھنے کے لیے کررہا تھا

"علیحہ بیٹا پہلے ناشتہ کرلو"

"نہیں آنٹی اب تو ناشتہ وجدان جی کے ساتھ ہی کروں گی" 

وجدان کو زبردست گھوری سے نواز کر وہ کچن میں چلی گئی بہت شوق چڑھ رہا تھا بیرسٹر صاحب کو اسکے ہاتھ کا ناشتہ کرنے کا تو اب وہ اسے اچھا سا ناشتہ کرانے کا ارادہ رکھتی تھی

"خالا بی آپ میرے پیچھے مت آئیں جاکر آرام کریں" اسنے اپنے ساتھ چلتی خالا بی کہا

کیونکہ آج کچن میں وہ ناشتہ بنانے جارہی تھی اور اس کے بعد جو کچن کی حالت ہونی تھی تو اسے پھر خالا بی نے ہی تو صاف کرنا تھا تو پھر بہتر تھا کہ انہیں تھوڑی دیر کے لیے آرام کرنے دیا جائے

°°°°°

اسکے ڈائیننگ روم میں داخل ہوتے ہی ناز بیگم کا غصہ اسے یونیفارم میں دیکھ کر مزید بڑھا

"مشارب یہ کیا حرکت ہے کل تو تمہاری شادی ہوئی ہے اور تم آج ڈیوٹی پر جارہے ہو"

"اماں جان آپ جانتی ہیں گھر میں فارغ بیٹھنا مجھے نہیں پسند اوپر سے آج کل ایک بہت اہم کیس پر کام کررہا ہوں چھٹی نہیں کرسکتا" اسکی بات سن کر وہ اپنا سر نفی میں ہلا کر رہ گئیں اس معاملے میں مشارب نے کون سا انکی بات سننی تھی

گھر کا ماحول آج بھی شور شرابے والا ہورہا تھا کیونکہ کل مشارب کا ولیمہ تھا جس کی تیاریاں ہورہی تھیں

ویسے تو ناز بیگم کا ارادہ ان دونوں کا ولیمہ ساتھ ہی کرنے کا تھا لیکن وجدان پتہ نہیں کب یہ کام کرتا اور تب تک وہ مشارب کو لٹکا کر نہیں بیٹھنے والی تھیں اسلیے نکاح کی تاریخ کے ساتھ ساتھ ولیمے کا دن بھی انہوں نے طے کرلیا تھا

"رات کو کب آئے تھے تم"

"تین بجے" اسکے جھوٹ پر دعا نے پوری آنکھیں کھول کر اسے دیکھا

"جھوٹ مت بولو"

"دعا سے پوچھ لیں" اسنے دعا کی طرف اشارہ کیا اور ناز بیگم کی نظریں خود پر محسوس کرکے وہ گڑبڑا گئی

"دعا کب آیا تھا یہ"

"تین بجے" اسنے ہلکی آواز میں کہا

"بیٹا بتاؤ مجھے کب آیا تھا جھوٹ مت بولو مجھ سے"

"ڈانٹینگی تو نہیں" اسکی معصوم سی آواز پر ناشتہ کرتے مشارب کے لب کھل کر مسکرائے

"تمہیں تھوڑی کچھ کہوں گی"

"انہیں بھی کچھ مت کہیے گا"

"مت بتاؤ تمہارا شوہر ہے تم ہی جانو کب آتا ہے جب جاتا ہے"

انکے لہجے میں غصہ نہیں تھا لیکن پھر بھی اسے لگا کہ وہ اس سے ناراض ہوچکی ہیں

اداسی سے وہ ناز بیگم کی پشت کو دیکھنے لگی اور مشارب پیار بھری نظروں سے اپنی معصوم سی بیوی کو

°°°°°

اماں جان بھی جاچکی تھیں اور مشارب بھی ناشتہ کرکے جاچکا تھا بس ایک وہی تھا جو کب سے اپنے ناشتے کا انتظار کررہا تھا

آج اسے آفس نہیں جانا تھا اسلیے بھی وہ آرام سے بیٹھا ہوا تھا

تھوڑی دیر مزید انتظار کرنے کے بعد وہ اٹھ کر جانے لگا 

ارادہ یہ دیکھنے کا تھا کہ علیحہ میڈم اتنی دیر سے کچن میں کیا کررہی تھیں لیکن تب ہی دعا اسکے راستے میں آگئی

"وجدان بھائی کچھ پوچھنا تھا"

"ہممم"

"Yeux verts"

"اسکا مطلب کیا ہوتا ہے"

"مشارب نے کہا ہوگا تم سے یہ لفظ" اسکے کہنے پر دعا نے اپنا سر اثبات میں ہلایا

"ٹین ایج میں اسے الگ الگ زبانیں سیکھنے کا شوق چڑھا تھا تب اسنے فرینچ زبان سیکھی تھی یہ فرینچ زبان کا لفظ ہے پر اسکا مطلب کیا ہے یہ مجھے نہیں معلوم"اسکی بات سن کر وہ تھنک یو کہتی وہاں سے چلی گئی اور اسکے جانے کے بعد وجدان بھی کچن میں چلا گیا

°°°°°

"یہ سب کیا ہے"کچن کا حال دیکھتے ہی صدمے سے اسکا منہ کھلا رہ گیا

ایسا لگ رہا تھا وہاں کوئی کشتی لڑی گئی ہو سبزیوں کے چھلکے جگہ جگہ پر بکھرے پڑے تھے جبکہ فرائی پین جس میں پتہ نہیں اس نے کیا کارنامہ سر انجام دیا تھا پورا جل چکا تھا ایک انڈا زمیں پر گرا پڑا تھا تو دوسرا چولہے پر جبکہ وجدان کے لیے بنایا گیا ناشتہ بڑی شان سے اسنے ٹرے میں سجا رکھا تھا

وجدان نے قریب جاکر ٹرے اٹھائی جس میں جلا ہوا ٹوسٹ اور ٹوٹا ہوا ہاف فرائیڈ ایگ رکھا تھا اس انڈے کو ہاف فرائے کہنا بیچارے ہاف فرائے کی بےعزتی ہوگی وجدان کو تو ایسا ہی لگا

جبکہ ایک طرف باؤل میں انڈے کے ساتھ اسنے موٹے موٹے پیاز کے ٹکرے ڈالے ہوئے تھے شاید آمیلیٹ بنانے کی کوشش کی جارہی تھی

"یہ کیا حال کیا ہے تم نے کچن کا" ٹرے غصے سے سلپ پر رکھ کر وہ علیحہ کی طرف متوجہ ہوا

"تمہارے لیے ناشتہ بنایا ہے"

"اسے ناشتہ کہتے ہیں"

"ہاں تو مجھے نہیں آتا کچھ بنانا"

"زبان درازی کے علاؤہ کچھ آتا بھی ہے تمہیں"

"ہاں لوگوں کی ہڈیاں توڑنا مجھے بہت اچھے سے آتا ہے" وہ اپنی آستین اوپر چڑھانے لگی جیسے واقعی میں کسی کی ہڈیاں توڑنے کا ارادہ ہو 

اس سے پہلے وجدان اسکی بات پر اسے کوئی جواب دیتا نظر اسکے ہاتھ کی طرف گئی

"یہ کیا ہوا ہے"

"جل گیا تھا تمہاری وجہ سے" اسنے آرام سے بتایا اور وجدان پہلی بار ایسی لڑکی دیکھ رہا تھا جو اپنی کسی چوٹ پر واویلا کرنے کے بجائے آرام سے کھڑی تھی

"دکھاؤ مجھے" اسنے علیحہ کا ہاتھ پکڑنا چاہا جب اسنے اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا

"اتنا بھی نہیں جلا خود ہی ٹھیک ہو جائے گا"

"کم از کم مجھے دیکھنے تو دو"

"نہیں دکھانا" اسکے کہنے پر وجدان نے غصے سے وہاں رکھا گلاس زمیں پر پھینکا اور اسکے ایسا کرتے ہی علیحہ میڈم نے رونا شروع کردیا

"میرا ہاتھ جل گیا بہت تکلیف ہورہی تھی" وجدان نے پہلے حیرت سے اسے دیکھا لیکن پھر خود ہی سمجھ گیا یقیناً کہیں پیچھے ناز بیگم موجود ہوں گی تب ہی وہ یہ حرکتیں کررہی تھی

اور اسکا اندازہ سہی تھا چند سیکینڈ بعد ہی ناز بیگم وہاں پر آگئیں

"ہائے اللہ کیا ہوا" وہ علیحہ کا ہاتھ پکڑ کر دیکھنے لگیں جو سوں سوں کرتی رو رہی تھی

اسکے آنسو مگرمچھ کے تھے یہ بات وہ تو جانتا تھا لیکن اسکی بھولی ماں نہیں

"یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے وجدان جب منع کیا تھا تو کیا ضرورت تھی اسے کچن میں بھیجنے کی مل گیا بیوی کے ہاتھ کا ناشتہ" اسے جھڑک کر وہ خالا بی کو آواز دینے لگیں اور علیحہ کو اپنے ساتھ کمرے میں لے گئیں

°°°°°

کمرے میں داخل ہوتے ہی اسنے لاکر کھولا جو اسکے کوڈ لکھتے ہی کھل گیا

وہاں الگ الگ فائلز رکھی ہوئی تھیں ساری فائلز نکال کر وہ جلدی سے دیکھنے لگی جب اسے اپنی مطلوبہ فائلز مل گئی

اسنے کھول کر دیکھا وہ حیدر گیلانی کی ہی فائل تھی 

کتنی محنت سے مشارب یہاں تک پہنچا ہوگا اور وہ کتنی آرام سے اسکی ساری محنت برباد کررہی تھی یہ بات سوچتے ہی وہ دل میں خود کو لعنت ملامت کرنے لگی

اسنے باقی کی ساری فائلز واپس لاکر میں رکھیں اور اسے بند کردیا

اسکا کام ہوچکا تھا مطلب اب اسنے یہاں سے چلے جانا تھا اس سے پہلے مشارب کو اسکی حقیقت کا علم ہوتا

اس سے دور جانے کے خیال سے دل میں جیسے اک دم سے اداسی چھا گئی لیکن جانا تو تھا وہ کون سا یہاں ہمیشہ کے لیے آئی تھی

اسے باہر سے آتی ناز بیگم کی آواز سنائی دینے دی جسے سن کر اسنے ہاتھ میں پکڑی فائل جو اسنے لاکر سے نکالی تھی دوسری وارڈروب میں کپڑوں کے نیچے رکھی اور باہر چلی گئی

°°°°°

"جی آنٹی آپ نے بلایا تھا" اسنے باہر جاکر ناز بیگم سے پوچھا 

"ہاں یہ شایان ہے" انہوں نے وہاں کھڑے پولیس یونیفارم میں ملبوس شایان کی طرف اشارہ کیا

جسے دیکھتے ہی اسے یاد آگیا کہ اس شخص کو اسنے اپنی شادی والے دن دیکھا تھا

"اسے مشارب نے بھیجا ہے کچھ ضروری فائز چاہئیں وہ کہہ رہا ہے اسکے لاکر میں ہے" انکی بات سن کر اسکا دل زوروں سے دھڑکا اگر مشارب نے حیدر گیلانی کی فائل منگوائی ہوگی تو پھر وہ کیا کرے گی

اسے اپنے کام میں آج تک اتنا ڈر کبھی نہیں لگا تھا

"کون سی فائل"

"بلیو کلر کی ہے آپ مجھے فائلز دکھا دیں میڈم میں خود دیکھ لیتا ہوں" اسکے کہنے پر اپنا سر ہلاکر وہ اندر گئی

اسنے لاکر کھول کر وہاں رکھی تمام بلیو فائل اٹھائیں اور باہر جاکر اسکے سامنے رکھ دیں جن میں سے اپنی مطلوبہ فائلز نکال کر اسنے باقی ساری اسے واپس دے دیں

"یہ مشارب سر نے بھجوایا تھا" اسنے ایک گفٹ باکس اسکی جانب بڑھایا

اسنے حیرت سے شایان کے ہاتھ میں موجود وہ باکس دیکھا اور اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیا

°°°°°

وجدان کے کمرے میں داخل ہوتے ہی اسنے منہ بنا کر اپنا رخ پھیر لیا اس وقت وہ ناز بیگم کے کمرے میں بیٹھی ہوئی تھی جبکہ اسکے برابر میں ناشتے کی خالی ٹرے پڑی ہوئی تھی

"تم سے زیادہ ڈرامے باز لڑکی میں نے آج تک نہیں دیکھی"

"اب تو دیکھ لی نہ"

"ہاں بلکل" اسنے اپنا سر اقرار میں ہلایا اور جاکر اسکے قریب بیٹھ گیا

اسکے بیٹھنے پر علیحہ پیچھے ہونے لگی جب وجدان نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے قریب کرلیا

غلطی تو اسے خود اپنی ہی لگ رہی تھی اسے پہلے علیحہ سے پوچھنا چاہیے تھا کہ اسے کھانا بنانا آتا بھی ہے یا نہیں

"ہوگیا معائنہ'' علیحہ نے اسے غور سے اپنا ہاتھ دیکھتے ہوئے ہوچھا جس کا جواب دیے بنا وہ وہاں رکھی سائیڈ دراز میں سے ٹیوب باکس نکالنے لگا

باکس نکال کر اسنے آئین مینٹ نکالا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر جلے ہوئے حصے پر لگانے لگا

علیحہ غور سے اسکی ہر حرکات دیکھ رہی تھی پہلی بار ہی تو وہ اتنے غور سے اسے دیکھ رہی تھی

اسکے ماتھے پر چند لٹیں جھول رہی تھیں جبکہ وہ کسی ماہر ڈاکٹر کی طرح اپنا کام کررہا تھا

"ہوگیا" اسکے کہنے پر علیحہ ہوش کی دنیا میں واپس آئی اور جلدی سے اس سے فاصلے پر ہوکر بیٹھی

"تم نے نیوز دیکھی آج کی"

"اپنی تعریف سننا چاہتے ہو"

"نہیں بس جاننا چاہ رہا تھا"

"ہاں دیکھ لی"

صالحہ کا بھائی اس وقت جیل میں تھا وجدان نے کہا تھا وہ یہ کیس جیتے گا اور اسنے جیت کر دکھایا تھا آج صبح سے اسے ہر طرف یہی خبر دیکھنے اور سننے کو مل رہی تھی اور یہ خبر سنتے ہی اسکے دل میں سکون کی لہریں دوڑ رہیں تھیں 

°°°°°

کمرے میں داخل ہوکر اسنے باقی فائلز لاکر میں رکھیں اور دوسری وارڈروب کھول کر اس فائل کو دیکھا وہ وہیں تھی جہاں اسنے رکھا تھا شکر بھرا سانس لے کر وہ اپنے ہاتھ میں موجود گفٹ باکس کھولنے لگی جس میں موبائل تھا 

اسکے پاس موبائل تھا لیکن یہ بات گھر میں کسی کو پتہ نہیں تھی اسی لیے مشارب نے اسے یہ تحفہ بھیجا تھا

"یہ فرینچ زبان کا لفظ ہے"

وجدان کی بات یاد آتے ہی اسنے موبائل کھولا اور وائی فائی کا پاسورڈ ڈال کر گوگل پر اس لفظ کا مطلب سرچ کرنے لگی جو مشارب نے اپنا کوڈ لگایا ہوا تھا

اسکا مطلب تھا گرین آئیز اس لفظ کا مطلب بڑھ کر اسے بےحد حیرت ہوئی

"گرین آئیز اب بھلا یہ لگانے کا کیا مقصد تھا" وہ خود سے بڑبڑاتے ہوئے سوچنے لگی

جب ہاتھ میں پکڑا موبائل بجنے لگا انجان نمبر سے کال آرہی تھی لیکن اسے پتہ تھا کہ یہ کال یقیناً مشارب کررہا تھا

"ہیلو"

"فون پسند آیا تمہیں"

"جی اچھا ہے لیکن اسکی ضرورت نہیں تھی"

"اسکی ضرورت تو آج کل سب کو ہوتی ہے اور یہ میں نے تمہاری ضرورت کے لیے نہیں لیا اپنی ضرورت کے لیے لیا ہے"

"اس سے آپ کی کیا ضرورت پوری  ہوگی" اسنے ناسمجھی سے پوچھا

"اس سے میری یہ ضرورت پوری ہوگی کہ جب مجھے کام کرتے وقت تمہاری یاد ستائے گی تو یہ فون کم ازکم تمہاری آواز تو سنائے گا" اسکی بات سن کر دعا نے اپنے لبوں کو دبا کر مسکراہٹ روکی

"میں بعد میں بات کروں مشارب ابھی مجھے آنٹی بلارہی ہیں"اسکے کہنے پر مشارب نے ٹھیک ہے کہہ کر کال کاٹ دی

دعا نے مسکراتے ہوئے موبائل کان سے ہٹایا لیکن جلدی ہی اسکی مسکراہٹ سمٹ گئی اسے اب یہاں سے جانا تھا اس سے پہلے مشارب گھر آجاتا

اسنے موبائل سائیڈ ٹیبل پر رکھا آج وہ اس گھر سے جانے والی تھی لیکن یہاں سے کوئی چیز وہ اپنے ساتھ نہیں لے جانا چاہتی تھی

اسے پتہ تھا یہاں سے جاکر بھی مشارب کی یادیں اسکا پیچھا نہیں چھوڑیں گی اسلیے وہ کوئی ایسی چیز نہیں لے جانا چاہتی تھی جسے دیکھ کر مشارب کی یاد مزید ستائے

اسنے الماری میں رکھی وہ فائل نکالی اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی گھر سے باہر جانے لگی 

گھر کے سارے افراد اس وقت اپنے کمرے میں موجود تھے ایسے میں وہ آرام سے یہاں سے جاسکتی تھی

کیب وہ پہلے ہی منگواچکی تھی

°°°°°

"فائل چینج کرلی کامران" اسنے فون کال پر موجود دوسری جانب کامران سے کہا

"جی سر کرلی اور اسکے بدلے دوسری بھی رکھ دی تھی"

اسکے کہنے پر مشارب نے ہنکار بھر کر کال کاٹ دی اسے پتہ تھا دعا نے یہ کام آج ہی سر انجام دینا تھا اسلیے اسنے ساری پلیننگ پہلے ہی کرلی تھی

اسکے کمرے میں سی سی ٹی ڈی کمیرے لگے ہوئے تھے اور یہ بات گھر میں وجدان کے علاؤہ اور کوئی نہیں جانتا تھا

اسلیے کیمرے کے زریعے اسنے آسانی سے دعا کی ساری کاروائی دیکھ لی تھی یقیناً وہ اس بات سے انجان تھی کہ مشارب کے کمرے میں کیمرے لگے ہوئے تھے ورنہ کبھی بھی اتنی لاپروائی سے کام نہیں کرتی

اسنے کامران اور شایان کو پہلے ہی وہاں بھیج دیا تھا

تاکہ جیسے ہی دعا فائل نکالے شایان اسکا دھیان بٹائے اور کامران فائل بدل دے

اب بس اسے انتظار تھا تو دعا کے جانے کا اسے جاننا تھا کہ وہ جا کہاں جارہی تھی

بجتے فون کی آواز پر وہ خیالوں کی دنیا سے باہر نکلا شایان کی کال آرہی تھی

"سر دعا میڈم گھر سے نکل چکی ہیں"

"دعا بھابھی کہو شایان"

"سوری سر دعا بھابھی گھر سے نکل چکی ہیں"

"پیچھا کرو اسکا دیکھو وہ کہاں جارہی ہے اور ساتھ ساتھ مجھے بھی بتاتے رہو اور یہ کام اتنی خاموشی سے ہونا چاہیے کہ اسے اس بات کا علم نہ ہو" اسکا لہجہ سنجیدہ تھا

"فکر مت کریں سر"

"ایک لیڈی آفیسر تمہارے ساتھ ہونی چاہیے وہاں پولیس کے پہنچتے ہی دعا کو وہ لیڈی آفیسر لے جائے گی یاد رہے شایان یہ تمہاری ذمیداری ہے پولیس کے وہاں پہنچتے ہی دعا وہاں سے غائب ہونی چاہیے" اسکی بات سمجھ کر شایان نے اپنا سر ہلایا

"بےفکر رہیں سر ان کو گھر تک چھوڑنا میری ذمیداری ہے"

°°°°°

کیب کے رکتے ہی وہ جلدی سے اتری 

یہ ایک کھنڈر نما جگہ تھی

لیکن اسے اس طرح کی جگہ دیکھ کر حیرانی نہیں ہوئی کیونکہ وہ یہاں پہلی بار نہیں آئی تھی

"حیدر صاحب کہاں ہیں" اندر داخل ہوتے ہی اسنے سنجیدگی سے وہاں کھڑے آدمیوں سے پوچھا

حیدر اسکا باپ تھا لیکن وہ ہمیشہ اسے مسٹر گیلانی حیدر صاحب یا پھر مسٹر حیدر کہہ کر مخاطب کرتی تھی

"وہ نہیں آئے تم فائل لائی ہو" شوکت نے آگے اسکے قریب آکر پوچھا

وہ حیدر کا سب سے خاص ملازم تھا اسکے سارے کام وہی کرتا تھا

اسکے کہنے پر دعا نے ہاتھ میں کپڑے فائل اسکی طرف بڑھائی جسے اسنے اگلے ہی لمحے تھام لیا

لیکن فائل کھولتے ہی اسنے غصے سے دعا کی جانب دیکھا

"یہ کیا ہے" اسنے غصے سے فائل زمیں پر پھینکی

جس پر دعا نے اسے حیرت سے دیکھا اور جھک کر خود وہ فائل اٹھالی لیکن حیرت کا پہاڑ اسکے سر پر بھی گرا کیونکہ فائل میں اندر صرف کورے کاغذ تھے

اسنے یاد رکنے کی کوشش کی لاکر سے تو اسنے یہی فائل نکالی تھی پھر بدل کیسے گئی

اسنے گھر سے نکلنے سے پہلے ایک بار بھی فائل کھول کر نہیں دیکھی تھی کیونکہ یہ فائل بلکل ویسی ہی تھی جیسی اسنے لاکر سے نکالی تھی

اور اس فائل کو چیک نہ کرنا ہی اسکی سب سے بڑی بےوقوفی تھی

"دعا کیا ہے یہ" شوکت کے چلانے پر دعا نے گھور کر اسے دیکھا آج تک دعا حیدر پر چلانے کی ہمت جو کسی نے نہیں کی تھی

"اپنی آواز قابو میں رکھو"

"میں رکھ لوگ گا تمہارا باپ نہیں رکھے گا اتنے وقت سے تم وہاں یہ کررہی تھیں" اسکا لہجہ سخت تھا لیکن آواز پہلے کی نسبت ہلکی تھی 

اس سے پہلے وہ مزید کچھ کہہ پاتا وہاں اندر آتے لڑکے کی موجودگی اسے خاموش کراگئی

"شوکت پولیس نے ہر طرف سے گھیر لیا ہے" اسکے کہنے پر شوکت سمیت وہاں سب نے دعا کی طرف دیکھا 

کیونکہ انکا خیال یہی تھا کہ یہ سب کرنے والی دعا ہے لیکن اس وقت انہیں اپنی جان بچانی تھی نہ کہ دعا سے بحث

'بھاگو سب" شوکت کے چلاتے ہی وہاں بھگ دڑ مچ گئی جب دو سے تین پولیس اہلکار اندر داخل ہوئے انکے ہاتھ میں گنز تھیں

اور یہ سب دیکھ کر دعا کوئی قدم اٹھا پاتی اس سے پہلے ہی کسی نے اسے گردن سے دبوچ کر اسکے چہرے پر رومال رکھ دیا جس کے باعث تیز خوشبو اسکی ناک میں چڑھی

اسنے اپنی گردن پر موجود اس ہاتھ کو جھٹکا لیکن اس سے پہلے وہ مزید کچھ کرپاتی انکھوں کے آگے اندھیرا چھانے کے باعث وہیں بےہوش ہوکر گر گئی

"میں نے کیا کہا تھا اسے سب سے پہلے یہاں سے لے کر جانا"مشارب نے گھور کر اس لیڈی آفیسر کو دیکھا

"سر میں یہی کرنے والی تھی" اسکے گھورنے پر لیڈی آفیسر نے جلدی سے کہا

اسکی بات کا بنا کوئی جواب دیے مشارب نے دعا کو اپنی بانہوں میں اٹھایا اور اسے لے کر باہر چلا گیا

اس جگہ پر زیادہ افراد نہیں تھے اور جو تھے پولیس انہیں اپنی حراست میں لے چکی تھی

اس جگہ پر ڈرگز اور اس طرح کی کئیں غیر قانونی چیزیں رکھی ہوئی تھیں جو اب انکے ہاتھ لگ چکی تھیں

°°°°°

آنکھ کھلتے ہی اسکی پہلی نظر کمرے کی چھت پر گئی جسے دیکھتے ہی وہ سمجھ گئی کہ وہ اس وقت مشارب کے کمرے میں موجود تھی 

اسنے اٹھ کر بیڈ سے ٹیک لگائی اور نظر صوفے پر اطمینان سے بیٹھے مشارب پر گئی جو اس وقت سادہ سی بلیک شرٹ اور بلیک جینز میں ملبوس تھا

"فائل آپ نے بدلی تھی"

"ہاں" 

جواب نہایت ہی اطمینان سے ملا

"آپ جانتے تھے میں فائل چرانے والی ہوں"

"تمہاری نیت میں پہلے دن سے جانتا تھا"

"پھر بھی مجھے یہاں رکھا"

"یہ بات مجھے جلد ہی پتہ چل گئی تھی اور مجھے پتہ تھا کہ تم ہی مجھے حیدر گیلانی تک پہنچاؤ گی"

"تو اسلیے مجھے اپنے گھر میں رکھا تھا اسلیے مجھ سے نکاح کیا تھا"اسکے لبوں کر تنظیہ مسکراہٹ بکھری جسے دیکھ کر مشارب نے اپنا سر نفی میں ہلایا اور اپنی جگہ سے اٹھ کر اسکے قریب آ کھڑا ہوا

"ہاں گھر میں تمہیں اسی لیے رکھا تھا البتہ نکاح اس وجہ سے نہیں کیا نکاح تو اسلیے کیا ہے کیونکہ تم پسند ہو مجھے" اسنے اپنا چہرہ دعا کے قریب کیا جو بنا بلک چھپکائے اسے دیکھ رہی تھی 

مشارب کو دیکھ کر وہ ہمیشہ خوفزدہ ہوجاتی تھی لیکن آج اسکی آنکھوں میں کوئی خوف نہیں تھا

"اور شکر کرو تم مجھے پسند آگئیں ورنہ یقین جانو میرے دشمن کی بھیجی ہوئی لڑکی ہو تم اپنا کام مکمل ہوتے ہی گولی مار دیتا تمہیں"

"تو ماردیں میں ڈرتی نہیں ہوں آپ سے"اسکا سخت لہجہ ہوا جبکہ اسکا یہ انداز دیکھ کر مشارب کے لب کھل کر مسکرائے

"تمہیں اندازہ نہیں ہے تمہارا یہ روپ مجھے کتنا اچھا لگ رہا ہے ایک اہم بات بتاؤں جب میں تمہیں اپنی بانہوں میں اٹھا کر گھر میں لایا تو اماں جان نے پوچھا میری بچی کو کیا ہوا ہے بتاؤں انہیں انکی یہ معصوم دکھنے والی بچی اندر سے کیا ہے"

اسکی بات پر دعا نے اپنا چہرہ موڑ لیا وہ یہ کبھی بھی نہیں چاہتی تھی کہ ناز بیگم کے سامنے اسکی سچائی آئے وہ نہیں چاہتی تھی کہ یہ بات جان کر اس محبت میں کبھی بھی کمی آئے جو ناز بیگم اس سے کرتی تھیں

اسکی تھوڑی پر ہاتھ رکھ کر مشارب نے اسکا چہرہ اپنی جانب کیا

"فکر مت کرو یہ راز تمہارے اور میرے درمیان ہی رہے گا"

"اب آپ مجھے چھوڑ دیں گے"

"مشارب شیرازی مر تو سکتا ہے پر دعا مشارب کو چھوڑ نہیں سکتا"

"سب کچھ جاننے کے باوجود بھی آپ مجھے نہیں چھوڑیں گے" اسنے بےیقینی سے پوچھا

"تمہاری حقیقت سے میں کبھی بھی لاعلم نہیں تھا اگر چھوڑنا ہی ہوتا تو اپناتا کیوں"

"مجھ سے کوئی وضاحت کوئی صفائی نہیں مانگیں گے"

"تم نے مجھ سے نکاح کے لیے ہاں کیوں کہا تھا"

"کیونکہ مجھے آپ سے محبت ہے" اسنے بنا دیر کیے اظہار کیا

"تو پھر مجھے کچھ کیوں نہیں بتایا پہلے تمہاری مجبوری میں سمجھ سکتا ہوں پر جب میرا تم سے نکاح ہوچکا تھا تو تم نے مجھے سچائی کیوں نہیں بتائی"

"کیونکہ مجھے ڈر تھا اگر میں آپ کو سب بتاتی اور حیدر گیلانی کو یہ بات پتہ چل جاتی تو آپ کی جان کو خطرہ ہوتا"

"میری جان کسی انسان کے ہاتھ میں نہیں ہے میری جان اللہ کے ہاتھ میں ہے دعا تو پھر میں کسی انسان سے کیوں ڈروں" اسکے کہنے پر دعا نے اپنی نم آنکھیں بند کیں اور اسکے سینے سے لگ گئی

"میں آپ سے دور نہیں جانا چاہتی مشارب"اسنے رندھی ہوئی آواز میں کہا 

"تمہیں مجھ سے دور کر کون رہا ہے دعا" اسنے نرمی سے دعا کی کمر سہلائی

"میں آپ کو کبھی خود سے دور نہیں جانے دوں گی" اسنے مشارب کے گرد اپنی گرفت مزید تنگ کی جسے محسوس کرکے وہ بےاختیار ہنسا

"کہہ دو پھر کتنی محبت کرتی ہو مجھ سے کہہ دو کہ اس دل پر صرف مشارب راحم شیرازی کا قبضہ ہے" اسے خود سے دور کرکے مشارب نے اسکے گال پر پھیلے آنسو صاف کیے اور اسکے دل کے مقام پر اپنے لب رکھ دیے جس پر دعا شرما کر دوبارہ اس کے سینے سے لگ گئی

"میں بہت محبت کرتی ہوں آپ سے میرے دل پر صرف آپ کا قبضہ ہے میرے وجود پر میری روح پر صرف آپ کا حق ہے" دعا نے اسکے سینے سے سر اٹھا کر اسے دیکھا

"میں آپ کی محبت میں اس قدر ڈوب چکی ہوں کہ اب آپ سے دور جانا میرے لیے ممکن نہیں ہے"

"پھر بھی تم مجھ سے دور جارہی تھیں"

"تب اقرار نہیں کیا تھا مجھے لگا آپ سب جاننے کے بعد مجھے چھوڑ دیں گے نفرت کریں گے آپ کے نام کے ساتھ ساری زندگی آپ سے دور تو رہ سکتی ہوں لیکن آپ کی بے رخی برداشت نہیں کرسکتی"

مشارب نے اسکے بھیگے گالوں پر نرمی سے اپنے لب رکھے

"Je t'aime ma dame aux yeux verts épouse"

(بہت پیار کرتا ہوں تم سے میری سبز آنکھوں والی بیگم)

اسکے بولنے پر دعا نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا اسکے پورے جملے میں سے اسے صرف yeux verts کا مطلب ہی سمجھ آیا تھا

"اب تم اسکا مطلب پوچھو گی"

"میں جانتی ہوں یہ فرینچ زبان ہے اورyeux verts کا مطلب گرین آئیز ہوتا ہے لیکن سمجھ نہیں آیا بھلا ایسا کوڈ بھی کوئی لگاتا ہے"

"میں لگاتا ہوں اور یہ کوڈ میں نے تب لگایا تھا جب تمہیں اس گھر میں پہلی بار لے کر آیا تھا تمہیں دیکھ کر اس سے اچھا نام یاد نہیں آیا"

"اور مجھے دیکھ کر یہی نام کیوں یاد آیا"

"کیونکہ تمہیں پہلی بار جب دیکھا تھا تو تم نے گرین لینسز لگائے ہوئے تھے" اسکے کہنے پر چند لمحے سوچ کر دعا کو یاد آگیا کہ مشارب نے اسے پہلی بار کب دیکھا تھا کیونکہ اسنے گرین لینسز زندگی میں اب تک صرف ایک ہی بار لگائے تھے اور مشارب نے یقیناً اسے وہیں دیکھا ہوگا

"مطلب آپ مجھے بہت پہلے سے جانتے تھے"

"نہیں میں نے تمہیں صرف دیکھا تھا جانا تو اب ہے" اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر مشارب نے اسکے ہاتھ کی پشت پر اپنے لب رکھے

"اجازت دیتی ہو کہ تمہیں ہر طرح سے اپنا بنا سکوں" اسکے کہنے پر دعا نے  نظریں اٹھا کر اسے دیکھا اور نظریں جھکا کر ہولے سے اپنا سر ہلادیا

اسکا اقرار سن کر مشارب نے اسے اپنی باہوں میں اٹھایا اور اسے بیڈ پر لٹا کر اسکے لبوں کر اپنی گرفت میں لے لیا

اسے اپنے اس قدر قریب پاکر دعا نے بےساختہ اپنے ہاتھ اس کے سینے پر رکھ کر فاصلہ بنانا چاہا لیکن اب ایسا ممکن کہاں تھا

اسکے لبوں کو آزاد کرکے وہ اسکی گردن پر جھک کر اپنے لمس سے اسکی گردن کو مہکانے لگا اور اسکا یہ انداز دعا کو آنکھیں میچنے پر مجبور کر گیا

اسکی گردن سے چہرہ نکال کر مشارب نے اسکے سرخ چہرے کو دیکھا اور نرمی سے اسکی بند آنکھوں پر اپنے لب رکھ دیے

اسکا لمس اپنی آنکھوں پر محسوس کرکے اسنے اپنی آنکھیں کھولیں اور اسے دیکھتے ہی شرم سے اپنے چہرے کا رخ پھیر لیا

مشارب نے اسکے چہرے کا رخ واپس اپنی جانب موڑا اور پھر سے اسکے نرم لبوں پر جھک گیا

ہوش میں آتے ہی اسنے اپنے آپ کو کرسی پر بندھا ہوا پایا

اسے جہاں تک یاد تھا وہ ایک لڑکی کے ساتھ ہوٹل کے اس کمرے میں آیا تھا اسکے بعد اچانک ایسا کیا ہوا کہ وہ بےہوش ہوگیا اور اب ہوش میں آتے ہی اسنے خود کو ان رسیوں کی قید میں بندھا ہوا پایا

اسنے اپنے آپ کو ا قید سے آزاد کرنے کی کوشش کی لیکن باندھنے والے نے وہ رسی بہت زیادہ مظبوطی سے باندھی تھی جو اسکی کوشش کے باوجود بھی کھل نہیں پارہی تھی

"اس سب کا کوئی فائدہ نہیں ہے" 

کسی لڑکی کی آواز اپنے کانوں میں پڑھتے ہی وہ چونکا یہ بات تو وہ بھول ہی گیا تھا کہ کسی نیت سے وہ ایک لڑکی کو اس کمرے میں بھی لایا تھا

"اس سب کا کوئی فائدہ نہیں ہے سفیان صاحب"

سفیان نے گھور کر اس لڑکی کو دیکھا جس نے بلیک پینٹ شرٹ کے ساتھ بلیک جیکٹ پہنی ہوئی تھی

اسنے بالوں کی اونچی پونی بنائی ہوئی تھی جبکہ آنکھوں پر گرین کلر کے لینسز لگائے ہوئے تھے

وہ جب بھی اپنے کسی شکار کے پاس جاتی تھی تو عام دنوں سے مختلف حولیے میں جاتی تھی

وہ حیدر گیلانی کی بیٹی تھی جس کا باپ برائی کے ہر کام میں ملوث تھا

اسکے باپ کو اس سے محبت نہیں تھی اور یہ بات وہ بچپن سے جانتی تھی اسکی ماں اسے چھوڑ کر جا چکی تھی جبکہ باپ کو اس سے کوئی سروکار ہی نہیں تھا

اگر تھوڑی بہت پرواہ وہ اسکی کرنے لگا تھا تو تب سے جب سے وہ بڑی ہوئی تھی

کیونکہ اسے پتہ تھا آگے جاکر اسکی بیٹی نے اسکے کتنے کام آنا ہے

حیدر گیلانی کا بزنس کی دنیا میں ایک نام تھا لیکن اسکے علاؤہ اسکا جرم کی دنیا میں بھی ایک نام تھا

لیکن کوئی اسے آج تک پکڑ نہیں پایا تھا وجہ اسکی پاور اور اسکا پیسہ

اگر کوئی پولیس آفیسر اسکے خلاف لڑنا چاہتا تو وہ پہلے اسے اپنے پیسے کے ذریعے خاموش کرواتا اور جب وہ نہیں مانتا تو پھر یہ کام دعا کرتی تھی

آج تک جتنے بھی آفیسرز اسکے خلاف لڑنے آئے تو وہ سب پیچھے ہٹ چکے تھے کچھ اسکے پیسے کے زور پر 

تو کچھ دعا کے باعث اور جو دونوں وجہ سے نہیں ہٹے انہیں اسنے خود دنیا سے ہی ہٹا دیا

°°°°°

دعا نے آگے بڑھ کر اسکے لبوں سے ٹیپ کھینچنے کے انداز میں اتارا

"بنا وقت ضائع کیے بتادو حیدر گیلانی کے خلاف تمہارے پاس جو بھی ثبوت ہیں وہ اس وقت کہاں ہیں"

"نہیں بتاؤں گا"

"سوچ لو اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو شور مچا کر سب کو یہاں بلا لوں گی میرا کچھ نہیں بگڑے گا پر تمہاری اچھی خاصی بدنامی ہو جائے گی" اسنے اپنی جیب سے نوک دار چاقو نکال کر اسکی شہہ رگ پر رکھا

"جلدی بتاؤ کہاں ہیں وہ سارے ثبوت"

"وہ یہاں نہیں ہیں"چاقو کا دباؤ اپنی گردن پر محسوس کرکے اسنے جلدی سے کہا

"تو پھر کہاں ہیں"

وہ میرے گھر پر ہیں" اپنی گردن پر اس چاقو کا دباؤ محسوس کرکے وہ جلدی جلدی اسے وہ جگہ بتانے کا جہاں اسنے سارے ثبوت رکھے تھے

اسکی بات سن کر دعا نے اپنی جیب سے فون نکالا اور کال کرکے وہ جگہ اس شخص کو بتانے لگی جہاں کا سفیان نے بتایا تھا

تھوڑی دیر انتظار کے بعد اسکے موبائل پر میسیج رنگ ٹون بجی جسے بنا دیکھے بھی وہ جانتی تھی کہ ڈن کا میسیج لکھا ہوگا

اور ایسا ہی تھا اسنے مسکراتے ہوئے میسیج پڑھا اور پہلے کی طرح ہی سفیان کو پھر سے بےہوش کردیا

اسکے بےہوش ہوتے ہی دعا نے اسے رسیوں سے آزاد کیا اور وہ رسیاں وہاں رکھے اپنے بیگ میں ڈال لیں 

وہ اپنی موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں چھوڑتی تھی 

آج اسے اس کام میں زیادہ وقت نہیں لگا تھا کیونکہ سفیان نے اسکی امید سے زیادہ جلدی اسکا کام کردیا تھا

سفیان کے گھر کے باہر وہ پہلے ہی ایک شخص کو کھڑا کرچکی تھی

کیونکہ اسے اندازہ تھا سارے ثبوت اسکے گھر میں ہی ہوں گے

اور اس بات کا یقین ہوتے ہی اسنے سفیان کے گھر کے باہر کھڑے شخص کو اس جگہ کے بارے میں بتادیا جسے سنتے ہی وہ سیدھا اس جگہ پر گیا جہاں کا دعا نے اسے سمجھایا تھا

اسکے گھر کے سارے افراد اس وقت اسی ہوٹل میں موجود تھے اسلیے اسکے بھیجے ہوئے شخص کو اندر جانے میں زیادہ مشکلات کا سامنا انہیں کرنا آپڑا

اسے یقین تھا اب تک تو وہ سارے ثبوت جل کر راکھ بھی بن چکے ہوں گے

°°°°°

ڈی ایس پی صاحب نے اپنی بیٹی کی شادی کی خوشی میں اس ہوٹل میں دعوت رکھی تھی جس میں انہوں نے اپنے سب ہی ساتھوں کو فیملی سمیت بلایا تھا

سفیان بھی وہاں اسی سلسلے میں گیا تھا جب اسکی نظر وہاں کھڑی دعا پر پڑی

وہ لڑکی خود اسے اپنے قریب بلا رہی تھی تو وہ کیسے نہ جاتا لیکن اسے پتہ نہیں تھا کہ اپنی اس حرکت سے وہ کتنا بڑا نقصان اٹھا چکا تھا اسکی مہینوں کی ساری محنت ایک لمحے میں تباہ ہوچکی تھی

°°°°°

یہاں سکیورٹی کافی سخت تھی صرف وہی لوگ اندر ہوٹل میں آرہے تھے جنہیں انویٹشں ملا تھا 

کیونکہ باہر کھڑے گارڈز بغیر انویٹشن کے کسی کو اندر نہیں آنے دے رہے تھے

اتنی سخت سکیورٹی میں وہ ہوٹل کے اندر کس طرح آئی تھی یہ تو صرف وہ خود جانتی تھی

کمرے سے باہر نکلتے ہی وہ تیز تیز قدم اٹھاتی جانے لگی جب اسکی کسی سے زور دار ٹکر ہوئی اسنے ایک نظر اٹھا کر اپنے سامنے کھڑے مشارب کو دیکھا

وہ اس وقت پولیس یونیفارم میں نہیں تھا لیکن اسے پتہ تھا کہ وہ آدمی پولیس والا ہی ہوگا

پہلی بات وہ دکھنے میں ہی کچھ ایسا لگ رہا تھا دوسرا یہاں پر زیادہ تر پولیس فورس کے لوگ ہی آئے ہوئے تھے

"سوری"

کہتی ہوئی وہ جلدی سے وہاں سے چلی گئی

مشارب نے چہرہ موڑ کر اس لڑکی کی پشت کو دیکھا وہ چہرے کبھی نہیں بھولتا تھا چاہے سامنے والے شخص کی ایک جھلک ہی کیوں نہ دیکھی ہو

پر اگلی بار اس چہرے کو دیکھنے پر اسے یاد بھی آجاتا تھا کہ اسنے یہ چہرہ کہاں دیکھا تھا

°°°°°

ایک ہاتھ میں کافی کپ پکڑے وہ دوسرے ہاتھ سے موبائل اسکرولنگ کرنے میں مصروف تھی جب کمرے کا دروازہ کھول کر حیدر اندر داخل ہوا اسے ایک نظر دیکھ کر وہ دوبارہ اپنے موبائل میں مصروف ہوگئی

ان کے درمیان کام کے علاؤہ اور کوئی بات نہیں ہوتی تھی

"تم سے کچھ بات کرنی ہے دعا"

"ہمم"اسکی نظریں ہنوز موبائل پر جمی ہوئی تھیں

"تمہیں ایس پی مشارب کے پاس جانا ہے وہ آج کل میرے پیچھے پڑا ہوا ہے مجھے پتہ چلا ہے کہ اس کہ پاس میرے خلاف کافی ثبوت جمع ہوچکے ہیں تمکیں اسکے پاس جانا ہے اور وہ ثبوت ڈھونڈنے ہیں پر وہ باقیوں کی طرح نہیں ہے میں کوشش کرکے دیکھ چکا ہوں اسے اپنی اداؤں سے مت پھنسانا اسے پھنسانے کے لیے تمہیں اس بار کچھ اور کرنا پڑے گا"

"جس نے بتایا ہے کہ اسکے پاس آپ کے خلاف ثبوت ہیں تو اسی سے وہ ثبوت بھی ڈھونڈ والو"

"میں نے کوشش کی تھی پر وہ نہیں ملے اسنے میرے خلاف ایک فائل تیار کی ہوئی ہے اور وہ فائل اسکے گھر میں ہے تمہیں کسی بھی طرح اسکے گھر میں جاکر اس فائل کو ڈھونڈنا ہے"

"میں اس بار کچھ نہیں کرنے والی مسٹر حیدر اور ویسے بھی ہر وقت ہی کوئی نہ کوئی آپ کے خلاف کیس کھول کر بیٹھا ہوتا ہے ایسا کام ہی کیوں کرتے ہیں جو ہر وقت اسی ڈر میں جیتے رہتے ہیں"اسنے تلخی سے کہا جس پر حیدر نے گھور کی اسے دیکھا

"تم سے جتنا کہا ہے اتنا کرو ورنہ اپنے لیے کوئی اور بندوبست کرلو تم جانتی ہو جو بندے میرے کام کے نہیں ہوتے میں انہیں اپنے پاس نہیں رکھتا" اسکا لہجہ ہر قسم کے جذبات سے عاری تھا

اپنی بات کہہ کر وہ بنا رکے وہاں سے چلا گیا اسکے جانے کے بعد دعا نے غصے سے کپ زمیں پر پھینکا

اسے نفرت تھی حیدر سے پر یہ بھی سچ تھا کہ وہ یہاں سے جانا نہیں چاہتی تھی وہ عیش وعشرت میں پلی ہوئی لڑکی تھی جس نے زندگی میں ہمیشہ پیسہ پانی کی طرح بہایا تھا اگر کہیں اور چلی بھی جاتی تو کیسے رہتی

اور اگر جاتی بھی تو کہاں جاتی اس دنیا میں اسکا صرف ایک یہی ٹہکانہ تھا جہاں نام کا ہی سہی پر اسکے پاس ایک رشتہ تو تھا

"کہاں ملے گا وہ"

اسنے حیدر کو میسیج ٹائپ کیا اور ٹھیک دو منٹ بعد ہی اسے حیدر کا جواب موصول ہوگیا

"فارغ وقت میں وہ اکثر شکار پر جاتا ہے جب مجھے اسکے جانے کی خبر ہوگی تو تمہیں بتادوں گا تم بھی وہیں جانا اس سے مل کر تمہیں کیا کہنا ہے یہ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے یہ کام تم خود بہت اچھے سے کرلیتی ہو"

°°°°°

"آپ مجھ سے ملنا چاہتے تھے" 

پولیس اسٹیشن میں داخل ہوتے ہی جو بات اسے شایان سے سننے کو ملی وہ یہ تھی کہ سکندر درانی اس سے ملنا چاہتا ہے اور اسکے انتظار میں کب سے بیٹھا ہوا تھا

سکندر درانی کون تھا یہ بات وہ اچھے سے جانتا تھا لیکن یہاں کیوں آیا تھا یہ اسکے لیے سوچنے والی بات تھی

"ہاں میں نے سنا ہے حیدر گیلانی کے کیس پر تم کام کررہے ہو اسکے کہنے پر مشارب ایک پل کے لیے چونکا 

وہ یہ بات کیوں پوچھ رہا تھا

"جی بلکل"

"میں تمہاری اس میں مدد کرسکتا ہوں"

"مجھے آپ کی مدد نہیں چاہیے الحمدللہ میں اپنا کام خود ہی بہت اچھے سے کررہا ہوں"

"ٹھیک ہے جیسا تمہیں اچھا لگے پر کبھی بھی اس معاملے میں میری ضرورت ہو تو تم مجھ سے مدد مانگ سکتے ہو" اسکے کہنے پر مشارب نے اپنا سر ہلایا لیکن زہہن میں ایک الجھن تھی

"پر آپ میری مدد کیوں کرنا چاہتے ہیں مسٹر درانی"

"کیونکہ میں حیدر کے بارے میں بہت کچھ ایسا جانتا ہوں جو تمہارے کام آسکتا ہے"

"اور آپ کیسے جانتے ہیں"

"وہ کبھی میرا دوست ہوا کرتا تھا"

"اور آپ اپنے دوست کے ساتھ یہ سب کررہے ہیں"

"میں نے کہا وہ میرا دوست ہوا کرتا تھا پر اب دشمن سے کم نہیں ہے" اس بار اسکے لہجے میں حیدر کے لیے نفرت تھی

وہ کیوں اس سے نفرت نہ کرتا اسنے پہلے مناہل کو اس سے چھینا اور اب علیحہ کے پیچھے پڑ گیا تھا 

پہلے وہ خاموش ہوگیا تھا لیکن اس بار سکندر کا اسے چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا

°°°°°

تیز تیز قدم اٹھاتی وہ جنگل میں بھاگ رہی تھی اسکے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹے ہوے تھے جبکہ بدن پر بھی زخموں کے نشان موجود تھے

بھاگتے ہوے اسنے چند لمحے رک کر اپنا سانس بحال کیا جب سامنے نظر آتے منظر کو دیکھ کر اسکے قدم اپنی جگہ جم گئے

اسکے سامنے ایک شیر موجود تھا یہ جنگل خطرناک جانوروں سے بھرا پڑا تھا اسلیے یہاں کسی شیر کی موجودگی کوئی حیرانی والی بات نہیں تھی

لیکن وہ خوفزدہ تھی شاید کوئی بھی شخص اس خطرناک جانور کو اپنے سامنے دیکھ کر ہو جاتا خوف سے اسکا وجود کپکپارہا تھا آج تک اگر کبھی اس خطرناک جانور کو اسنے دیکھا بھی تھا تو صرف پنجرے میں لیکن آج وہ کسی پنجرے میں قید نہیں تھا

وہ سانس بھی نہیں لے رہی تھی اسنے الٹے قدم اٹھانے شروع کیے جب اسکے قدموں کی آواز سن کر وہ شیر اسکی جانب متوجہ ہوا اور اپنے شکار کو دیکھتے ہی اس پر جھپٹنے لگا

اسے اپنے قریب آتے دیکھ کر وہ خوف سے اگلے ہی پل بےہوش ہوچکی تھی

بھاگ کر وہ شیر اسکے قریب آیا لیکن اس سے پہلے وہ اسے کوئی نقصان پہنچا پاتا ایک گولی سیدھا آکر اس شیر کو لگی اسی طرح دوسری اور تیسری بھی

درد سے تڑپتا ہوا وہ وہیں پر گر گیا

جب تیز تیز قدم اٹھاتا مشارب اس نازک وجود کے قریب آیا 

اور اپنی رائفل سائیڈ پر رکھ کر اسنے دعا کے بےہوش وجود کو اپنی بانہوں میں اٹھالیا اور اسے لے کر وہاں سے چلا گیا 

اس جانوروں سے بھرے جنگل میں وہ اس انجان لڑکی کو اکیلا تو نہیں چھوڑ سکتا تھا

°°°°°

اسے اپنی بانہوں میں اٹھائے وہ گھر میں داخل ہوا اور اسے سیدھا گیسٹ روم کی طرف لے گیا

اسے بیڈ پر لٹا کر اسنے خالا بی اور اماں جان کو آواز دی جو اسکی آواز سنتے ہی جلدی سے اس کمرے میں آئیں

"کیا ہوا سب خیریت تو ہے" ناز بیگم نے کمرے میں داخل ہوتے ہی پوچھا لیکن تب ہی نظر وہاں لیٹی دعا پر گئی

انہوں نے ناسمجھی سے مشارب کی جانب دیکھا

"مشارب یہ لڑکی کون ہے"

"یہ مجھے جنگل میں ملی تھی امان جان میں اسے وہاں اکیلا کیسے چھوڑ آتا اسلیے یہاں لے آیا پلیز اس کے کپڑے چینج کرائیں میں تب تک ڈاکٹر کو کال کردیتا ہوں"

"پھر اس لڑکی کا کیا کرنا ہے"اسے جاتے دیکھ کر خالا بی نے جلدی سے پوچھا 

"پہلے اسے ہوش میں آنے دیں پھر دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے"

اسنے ایک گہری نظر دعا پر ڈالی اور کمرے سے چلا گیا

وہ شکلیں کبھی نہیں بھولتا تھا جنگل میں اس لڑکی کو دیکھ کر ہی اسے یاد آگیا تھا کہ وہ پہلے بھی اس لڑکی کو دیکھ چکا ہے اور اسکے چہرے پر غور کرنے سے پتہ بھی چل گیا کہ اس لڑکی کو اسنے ہوٹل میں دیکھا تھا 

سبز آنکھوں والی لڑکی لیکن یہ بات بھی وہ جانتا تھا کہ وہ سبز آنکھیں اسکی اپنی نہیں تھیں اسنے لینسز لگائے ہوئے تھے

پہلے وہ لڑکی اسے ہوٹل میں ملی اور اب کچھ ٹائم بعد جنگل میں یہ بات تو طے تھی جب تک وہ ہوش میں نہیں آجاتی اور مشارب اس سے بات نہیں کرلیتا 

تب تک اسنے اسی کشمکش میں رہنا تھا کہ وہ لڑکی واقعی میں اس جنگل میں غلطی سے آئی تھی یا اسکے دشمنو کی بھیجی ہوئی تھی

°°°°

آنکھ کھلتے ہی اسنے حیرت سے اس نئی جگہ کو دیکھا وہ زندہ تھی جب کہ اسے تو لگ رہا تھا وہ شیر اب تک اسکی ہڈیاں بھی نگل چکا ہوگا

وہ خوفزدہ تھی شاید زندگی میں پہلی بار

اسنے اس خطرناک جانور کو اپنے اتنے قریب دیکھا تھا اسکا خوفزدہ ہونا بنتا بھی تھا

وہ اسی طرح خوف زدہ ہوکر اس منظر کو سوچ رہی تھی جب ایک لڑکی اس کمرے میں داخل ہوئی

"آپ ہوش میں آگئیں میں چھوٹے صاحب کو بتاکر آتی ہوں" اسے دیکھتے ہی وہ خوشی سے واپس باہر چلی گئی

اسکے جانے کے بعد اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ کمرے کا جائزہ لینے لگی جب دھیان اپنے کپڑوں کی طرف گیا اسے جہاں تک یاد تھا اسکے کپڑے تو پھٹ چکے تھے لیکن یہ کپڑے بلکل صحیح حالت میں تھے

اسنے بےاختیار اپنی چوٹوں پر ہاتھ رکھا خود کو مظلوم ظاہر کرنے کے لیے اسنے چوٹیں بھی اپنے آپ کو خود لگائی تھیں اور کپڑے بھی جگہ جگہ سے پھاڑ دیے تھے لیکن اب اسکی چوٹ پر بھی مرہم پٹی ہوچکی تھی اور اسکے کپڑے بھی تبدیل کیے جاچکے تھے

اس وقت جو کپڑے اسنے پہلے ہوئے تھے یقیناً اسکے نہیں تھے اسکے نازک وجود کے لیے وہ بہت ڈھیلے ڈھالے تھے 

لیکن اسکا دھیان صرف اس بات پر تھا کہ اسکے کپڑے چینج کس نے کیے

دروازہ پھر کھلا اور وہ خوبرو مرد اندر داخل ہوا اسنے ایک نظر اٹھا کر سامنے کھڑے مشارب کو دیکھا اور اپنی الجھن بھری نظریں جھکالیں

اسکی الجھن شاید مشارب بھی سمجھ چکا تھا 

اسلیے اسنے خالا بی کو بلا کر جان بوجھ کر اسکے کپڑوں کا زکر کیا تھا تاکہ اسے پتہ چل جائے کہ اسکا لباس کس نے تبدیل کیا تھا

شیر کا خوف تو پہلے ہی نہیں اترا تھا اوپر سے یہ بندہ سامنے کھڑا اسے مسلسل گھور رہا تھا

اسکا زہہن اس وقت جیسے بند ہوتا جارہا تھا اور اسی بند ہوتے زہہن کے ساتھ جو سب سے بڑی غلطی اسنے کی تھی وہ تھی مشارب کو اپنا نام بتانا

"تم نے اپنا نام نہیں بتایا" مشارب کے کہنے پر اسکے لب ہولے سے ہلے

"د--دعا دعا حیدر"

°°°°°

اپنی اس بےوقوفی کا اسے بعد میں جی بھر کر پچھتاوا ہوا 

اسنے اپنا نام اسے بتادیا اگر وہ اسے پہچان گیا تو

ویسے تو حیدر نے آج تک اسے اپنی بیٹی کے طور پر کسی سے نہیں ملوایا تھا پر پھر بھی وہ کوئی رسک کیوں لیتی

وہ حیدر گیلانی کی بیٹی تھی یہ بات صرف اسکے خاص بندے ہی جانتے تھے

سوچی ہوئی کہانی تو اسنے مشارب کو سنادی تھی کہ وہ جنگل تک کیسے پہنچی اور شاید اسکی کہانی پر مشارب کو یقین بھی ہوگیا تھا

لیکن پھر بھی دل میں ایک ڈر بیٹھ گیا تھا کہیں وہ اسکی حقیقت نہ جان لے 

یقینا مشارب کبھی اس بات کو نہیں جان پاتا کہ وہ حیدر گیلانی کی بیٹی تھی پر پھر بھی وہ اپنی اس غلطی کو درست کرنا چاہتی تھی تاکہ کہیں کوئی غلطی کی گنجائش نہ رہے

پر اسے یہ نہیں پتہ تھا کہ مشارب تو اسکی ساری انفارمیشن اسکے نام بتاتے ہی نکلواچکا تھا

اسکا نام دعا حیدر تھا اور اس وقت وہ حیدر گیلانی کے کیس پر کام کررہا تھا پہلا شک اسے یہی ہوا کہ اسے حیدر گیلانی نے بھیجا ہے اور پھر ساری معلومات نکلوا کر اسکا شک یقین میں بدل گیا

اسے حیدر نے ہی بھیجا تھا پر وہ اسکی بیٹی تھی یہ بات جان کر اسے بےحد حیرت ہوئی تھی کیونکہ حیدر گیلانی کی کوئی بیٹی ہے یہ بات آج تک کبھی سامنے نہیں آئی تھی

°°°°°

اسکا ارادہ اپنی غلطی ٹھیک کرنے کا تھا پر اس غلطی کو ٹھیک کرنے کے لیے وہ ایک اور غلطی کرچکی تھی

وہ کوئی بہانہ بناسکتی تھی کہ اسکا حقیقی نام کچھ اور ہے لیکن غلطی سے اسنے اس بات کی تصدیق کردی کہ اسکا نام دعا ہی ہے

"دیکھو دعا"

"میرا نام دعا نہیں ہے" مشارب کے کہنے پر اسنے جلدی سے کہا جس پر اسنے اپنی بھنویں اچکا کر اسے دیکھا

"تو کیا میں نے کل دعا حیدر غلط سنا تھا" اسکے کہنے پر دعا نے جلدی سے اپنا سر نفی میں ہلایا پتہ نہیں اس بندے کی سیاہ آنکھوں میں کیا مسلہ تھا جو اچھے خاصے بندے کو کنفیوز کردیتا تھا

"مطلب میرا نام دعا ہے لیکن سب مجھے دیا بلاتے ہیں"

"تو تم چاہتی ہو میں بھی تمہیں دیا بلاؤں"

"نہیں آپ دعا بلا لیں" اسے ایسا لگ رہا تھا اسکا سانس رک رہا ہو اور اگر یہ بندہ تھوڑی دیر تک اسی طرح مزید سوال کرتا رہتا تو شاید واقعی میں اسکا سانس بند ہو جاتا

مشارب کے جانے کے بعد اسنے سکون بھرا سانس لیا لیکن پھر خود کو ڈپٹہ کیا ضرورت تھی اسکے سامنے یہ سب کہنے کی

لیکن اب کیا ہوسکتا تھا اب تو جو ہونا تھا ہوگیا

°°°°°

اسے یہاں رہتے ہوئے کافی وقت ہوگیا تھا اور یہ بات اسنے تسلیم کرنے میں دیر نہیں لگائی تھی کہ یہ گھر اسکے اپنے گھر سے کافی اچھا تھا 

یہاں ایسے لوگ تھے جن سے اسکا کوئی رشتہ نہیں تھا پھر بھی وہ اسکا ہر طرح سے خیال رکھ رہے تھے اور ایک اسکا باپ تھا جس نے ہمیشہ اسے صرف اپنے مطلب کے لیے استعمال کیا تھا

یہ گھر اسے واقعی میں بہت اچھا لگا تھا اگر دکھ تھا تو بس اس بات کا کے ایک دن اسنے یہاں سے چلے جانا تھا

اسے خود بھی پتہ نہیں چلا تھا کہ گزرتے وقت کے ساتھ مشارب کب اسکے دل پر قبضہ کرکے بیٹھ گیا

پر یہ بات اسنے ہمیشہ اپنے دل میں ہی رکھی تھی اسے پتہ تھا یہ ساری باتیں بے معنی ہیں مشارب تو اسکے بارے میں کچھ ایسا سوچتا بھی نہیں ہوگا

پر اسے حیرت ہوئی تھی جب ناز بیگم نے اسکے سامنے یہ کہا کہ وہ مشارب کے کہنے پر اسکے پاس ان دونوں کے رشتے کی بات کرنے آئی تھیں

وہ انکار کردینا چاہتی تھی یقیناً اسکی حقیقت پتہ چلنے پر مشارب اس سے نفرت کرتا لیکن حیدر اسے اس بات سے منع کرچکا تھا

وہ جانتا تھا کہ دعا نکاح کے بعد باآسانی اپنا کام سر انجام دے سکتی تھی جس کے لیے وہ وہاں گئی تھی تو پھر اس نکاح میں انکار کی وجہ کیا تھی بعد میں بھلے یہ رشتہ ختم ہو جاتا اسے پروا نہیں تھی

حیدر کا اقرار سن کر اسنے خود بھی اقرار کردیا

بھلے وہ مشارب سے دور چلی جاتی لیکن اسکا نام تو اسکے ساتھ جڑا رہتا نہ اور اسکے لیے یہی کافی تھا

اسلیے فائل ملتے ہی وہ وہاں سے چلی گئی تھی

کیونکہ جتنا وقت وہ وہاں گزار رہی تھی وہاں سے جانا اتنا ہی مشکل لگ رہا تھا 

پر یہ بات وہ سوچ چکی تھی کہ یہاں سے جانے کے بعد وہ حیدر کے پاس واپس نہیں جائے گی اب وہ مزید اسکی کوئی بات نہیں ماننے والی تھی اب اسے اپنی زندگی خود جینی تھی

پر اس سب کی نوبت ہی نہیں آئی تھی کیونکہ مشارب اسے اس جگہ سے لے کر آچکا تھا 

اور اسکی ساری حقیقت جاننے کے بعد بھی وہ اس سے نفرت نہیں کررہا تھا یہ بات اسکے دل کو سکون پہنچا گئی 

وہ سب کچھ جانتا تھا شروع سے پھر بھی انجان بنا رہا یہ بات جان کر اسے بےحد حیرت ہوئی تھی لیکن دل میں سکون بھی محسوس ہوا

اچھا تھا مشارب سب کچھ خود ہی جانتا تھا ورنہ وہ تو شاید ساری زندگی اسے یہ حقیقت نہیں بتا پاتی

"یہ کیا ہے"

ناز بیگم کے ہاتھوں سے بوکس لے کر اسنے حیرت سے پوچھا

"یہ میں کل تمہارے لیے لائی تھی تم نے شادی پر بھی عام سا جوڑا پہنا ہوا تھا اسلیے میں تمہارے لیے یہ لے آئی"

"لیکن آنٹی اس کی ضرورت نہیں تھی آپ نے فضول میں تکلیف کی" 

اسکے کہنے پر ناز بیگم نے مسکراتے ہوئے اسکی تھوڑی کو چھوا

"تمہارے اوپر خرچ کرنے سے مجھے بھلا کیا تکلیف ہوگی یہ تو میرے لیے خوشی کی بات ہے اب اپنا سامان نکالو اور دعا کے ساتھ پارلر چلی جاؤ"

"آنٹی یہ سوٹ پہن لوں گی پر پارلر نہیں جاؤں گی" اسنے منہ بنایا

"اپنے دیور کی شادی میں ایسے ہی چلی جاؤ گی"

"نہیں میں گھر میں ہی تیار ہوجاؤں گی پلیز پارلر جانے کے لیے اسرار مت کیجیے گا" اسکے منت بھرے انداز پر وہ مسکراتے ہوئے اپنا سر ہلا کر باہر چلی گئیں

انکے جانے کے بعد گہرا سانس لے کر اسنے باکس کھولا اس میں سرخ رنگ کی ساڑھی تھی

اسنے حیرت سے اسے نکال کر دیکھا آج تک تو اسنے ڈوپٹہ نہیں لیا تھا کیونکہ اس سے سنبھالا نہیں جاتا تھا اور کہاں ناز بیگم اسے یہ ساڑھی دے گئی تھیں

جس کو پہننا اسے نام کو نہیں آتا تھا

دانتوں میں لب دبائے وہ اس ساڑھی کو دیکھ رہی تھی جب کمرے کا دروازہ ناک ہوا

ساڑھی بیڈ پر رکھ کر اسنے دروازہ کھولا وہاں ملازمہ ہاتھ میں بیگ پکڑے کھڑی تھی

"یہ بڑی بیگم نے بھجوایا ہے وہ آپ کو دینا بھول گئی تھیں"اسنے بیگ اسکے ہاتھ سے لیا اور اسکے جاتے ہی دروازہ واپس بند کرکے بیگ میں موجود سامان دیکھنے لگی

جس میں سارا میک اپ کا سامان موجود تھا سامان دیکھ کر اسنے منہ بناتے ہوئے بیگ سائیڈ رکھا

مطلب ناز بیگم اسکی تیاری کا سارا احتمام پہلے ہی کرچکی تھیں

°°°°°

"خالا بی" 

اسنے کچن میں کام کرتی خالا بی کو نرم لہجے میں پکارا جس پر انہوں نے چونک کر اسکی طرف دیکھا

اپنے لیے علیحہ کا ایسا لہجہ انہوں نے بھلا پہلے کب سنا تھا

"ایک مسلہ ہے"

"ہاں کہو"

"کیا آپ کو پتہ ہے ساڑھی کیسے پہنی جاتی ہے" اسکے کہنے پر خالا بی نے شرما کر ڈوپٹہ دانتوں میں دبایا

"میرے شوہر جی نے تو جوانی میں مجھے اتنی ساڑھیاں پہنائیں ہیں کہ میں تو اس کام میں اچھی خاصی ماہر ہوچکی ہوں"

"گڈ تو جلدی سے آئیں میری مدد کریں" اسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرکے وہ جلدی سے کمرے میں چلی گئی 

جبکہ اسکی بات سن کر گھر میں داخل ہوتے وجدان کے لب مسکرائے 

تو میڈم کو ساڑھی پہننے میں مدد چاہیے

''خالا بی میرے لیے جلدی سے چاے بنا دیں"خالا بی جو جلدی جلدی برتن رکھ کر وجدان کے کمرے کی طرف جارہی تھیں اسکے پکارنے پر منہ بنا کر رہ گئی

"وہ بیٹا علیحہ نے بلایا ہے تو پہلے اسے دیکھ آوں"

"نہیں آپ میرے لیے چائے بنائیں پھر جس کی چاہیں دیکھتی رہیے گا" اسکے کہنے پر اپنا سر ہلا کر وہ واپس کچن میں چلی گئیں

اور انکے جاتے ہی وہ خود بھی اپنے کمرے میں چلا گیا

°°°°°

کمرے میں داخل ہوتے ہی اسنے علیحہ کو دیکھا جو اپنے ہاتھوں میں ساڑھی پکڑے کھڑی تھی

"میں مدد کردوں"

اسکی آواز سن کر وہ بری طرح چونکی اسے تو یہی لگا تھا کہ خالا بی آئی ہوں گی

"ضرورت نہیں ہے میں خود کرلوں گی"

"اگر تمہیں خود کرنی آتی تو خالا بی سے نہیں کہتیں"

"ہاں نہیں آتی مجھے باندھنی پر تمہاری مدد تو بلکل نہیں لوں گی" اسکے کہنے پر وجدان نے گہری مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھا اور اسکے قریب جا کھڑا ہوا

"پر میں تو مدد کرنا چاہتا ہوں" اسکی بہکی بہکی نظریں علیحہ کے اوپر جمی ہوئی تھیں

اسے اپنے اس قدر قریب دیکھ کر وہ پیچھے کی طرف ہونے لگی

جب اسکے قدم لڑکھڑائے لیکن اس سے پہلے وہ پیچھے بیڈ پر گرتی اسکی کمر کے گرد بازو حائل کرکے وجدان اسے گرنے سے روک چکا تھا

"ن--نہیں چاہیے تمہاری مدد" اسنے لڑکھڑاتے ہوئے کہا اور اپنا لہجہ دیکھ کر اسے خود بھی حیرت ہوئی آج تک گن چلاتے ہوئے اسکے ہاتھ نہیں کانپے تھے لیکن اس شخص کے قریب آتے ہی اسکا جیسے سانس رک جاتا تھا

"ویسے تو تمہاری زبان بڑی چلتی ہے میرے قریب آتے ہی اسے کیا ہو جاتا ہے"

"کچھ نہیں ہوتا چھوڑو مجھے" اسنے وجدان کو دھکا دیا اور اسکے دور ہوتے ہی ساڑھی اٹھا کر کمرے سے باہر بھاگ گئی

یہ بات پہلے زہہن میں کیوں نہیں آئی خالا بی کی مدد لینے سے بہتر تھا وہ نیٹ پر طریقہ دیکھ لیتی

"اف علیحہ تم بھی نہ" اسنے پیشانی پر ہاتھ مار کر اپنی عقل پر ماتم کیا

°°°°°

تیار ہوکر وہ سیدھا مشارب کے کمرے میں گیا سب ہی تیار ہوگئے تھے بس دعا کو پارلر سے پک کرنا تھا

"مشارب تیار ہو" 

اسنے کمرے میں داخل ہوکر پوچھا اور اسے دیکھ کر لبوں پر بےاختیار مسکراہٹ پھیل گئی

بلیک کلر کا پینٹ کوٹ پہنے وہ آج ہمیشہ سے کچھ زیادہ ہی خوبرو لگ رہا تھا

یا شاید شادی کی خوشی میں اس پر اتنا روپ آگیا تھا

"ہاں بلکل میں تیار ہوں کیسا لگ رہا ہوں" اسنے مڑ کر وجدان کی طرف دیکھا

"بہت اچھے لگ رہے ہو بس تمہارے بال ٹھیک نہیں لگ رہے" اس نے مشارب کے بکھرے بالوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا یقینا ابھی تک اسنے اپنے بال نہیں بنائے تھے اور کہہ رہا تھا تیار ہوں

"ہاں بس یہی رہ گئے تھے "اسکے قریب جاکر وجدان نے اسے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے رکھی کرسی پر بٹھایا اور خود اسکے بال بنانے لگا

جبکہ اسکی اس حرکت کی کے باعث مشارب کو اپنا آپ کسی بچے کی طرح لگا

°°°°°

"علیحہ کو تو لے آو" اسے گاڑی میں بیٹھتے دیکھ کر ناز بیگم نے ٹوکا جس پر وہ منہ بگاڑ کر اندر چلا گیا 

"سب جارہے تھے اس لڑکی کو خود بھی خیال ہونا چاہیے تھا ابھی تک اسکی تیاری ہی مکمل نہیں ہوئی

تیز تیز قدم اٹھاتا وہ ناز بیگم کے کمرے کی طرف جانے لگا کیونکہ علیحہ وہیں پر تیار ہورہی تھی

اسکے دروازہ کھولنے سے پہلے ہی دروازہ کھل گیا اور کمرے سے نکلتے اس وجود کو دیکھ کر وہ دم بخود رہ گیا

پہلی بار ہی تو وہ علیحہ کا ایسا روپ دیکھ رہا تھا

اسنے سرخ رنگ کی ساڑھی پہنی ہوئی تھی جبکہ میک اپ کے نام پر اسنے صرف آنکھوں میں کاجل اور لبوں پر لپسٹک لگائی ہوئی تھی

لیکن اس تیاری میں بھی وہ وجدان کا دل دھڑکا رہی تھی

"کیسی لگ رہی ہوں"علیحہ نے اسے اپنے سامنے کھڑے دیکھ کر پوچھا اور اسکی آواز سن کر وجدان ہوش کی دنیا میں واپس آیا

"منہ بند رکھو تو پیاری لگو گی منہ کھولو تو زبان دراز ہی لگو گی" اسکی تعریف پر علیحہ بس اسے گھور کر رہ گئی

"مجھے بعد میں دیکھ لینا ابھی چلو" اسکے کہنے پر وہ منہ بناتی ہوئی چلنے لگی لیکن اسکی رفتار آج دھیمی تھی

یقینا ساڑھی کی وجہ سے وہ اس ساڑھی میں غیر آرام دہ تھی اور یہ بات وجدان بھی محسوس کرچکا تھا لیکن وہ اسے یہ بات ہر گز نہیں کہنے والا تھا کہ جاکر چینج کرکے آجاؤ کیونکہ ان کپڑوں میں وہ ضرورت سے زیادہ حسین لگ رہی تھی اور وجدان بس اسکا یہ روپ اپنی آنکھوں میں بسا لینا چاہتا تھا

°°°°°

"علیحہ میری جان کتنی پیاری لگ رہی ہو" اس پر نظر پڑھتے ہی مناہل حیرت سے کہا

اسنے پہلی بار ہی تو علیحہ کو ساڑھی میں دیکھا تھا 

ساڑھی تو دور کی بات اسنے تو آج تک کمیز شلوار نہیں پہنی تھی اسلیے اسے ایسے دیکھ کر مناہل کی حیرت تو بنتی تھی

"آج تو میری بیٹی واقعی میں ایک لڑکی لگ رہی ہے"

"مام ویری فنی" اسنے منہ بنایا جس پر مناہل کو اس پر مزید پیار آیا

"ازہار اور آیت کہاں ہیں"

"وہ دونوں تو برات کے اگلے دن ہی کالج ٹرپ پر چلے گئے تھے"

"ہائے میری معصوم بلی کو اسکے ساتھ اکیلے کیوں بھیج دیا"

"اب تم ٹرپ پر تو اسکے ساتھ نہیں جاسکتی تھیں"

"جا تو سکتی تھی لیکن فلحال اس بات کو چھوڑیں میں آپ کو آنٹی سے ملواتی ہوں آپ کا پوچھ رہی تھیں"مناہل کا ہاتھ پکڑ کر وہ اسے ناز بیگم کے پاس لے گئی

°°°°°

اسنے کمرے میں داخل ہوتے ہی سوچوں میں گم بیٹھی دعا کو دیکھا

جو بےبی پنک کلر کی میکسی پہنے کوئی گڑیا لگ رہی تھی

تقریب میں تو وہ اسے ٹھیک سے دیکھ ہی نہیں پایا اسلیے اب گہری نظروں سے اسکے خوبصورت وجود کو دیکھ رہا تھا

"کیا سوچ رہی ہو"

اسکی آواز پر وہ چونکی جب مشارب کی نظر اسکے ہاتھ میں موجود موبائل پر پڑی وہ موبائل وہ تو نہیں تھا جو اسنے دعا کو دیا تھا

لیکن اس سے پہلے وہ کچھ پوچھ پاتا دعا کے ہاتھ میں موجود موبائل تھرتھرانے لگا اسکے ہاتھ سے موبائل لے کر وہ خود دیکھنے لگا جہاں پر حیدر گیلانی لکھا آرہا تھا

کال کاٹ کر اسنے دعا کی طرف دیکھا جو اسکے ہاتھوں میں موجود موبائل کو دیکھ رہی تھی

"کیا ہوا ہے"

"وہ مجھے فون کررہے ہیں لیکن میں نہیں اٹھا رہی"

"کیوں نہیں اٹھا رہی ہو"

"اٹھالیا تو وہ مجھے پھر سے کہیں گے کہ میں انکا کام کروں اگر میں نے نہیں کیا تو دھمکی دینے پر آجائیں گے"اسکا لہجہ بھیگنے لگا

اسکی بھیگی آواز سن کر مشارب نے اسکے موبائل میں سے سم نکالی اور اسے دو حصوں میں تقسیم کرکے دور پھینک دی

"جو چیز پریشان کرے اسے زندگی میں رکھنا ہی نہیں چاہیے"

اسنے موبائل سائیڈ پر پھنکینے کے انداز میں رکھا اور اسے اپنے سینے سے لگالیا

"میرے ساتھ رہو گی تو تمہیں اپنے باپ سے دور رہنا پڑے گا"

"میں ویسے بھی انکے ساتھ نہیں رہنا چاہتی"

"اس شخص سے تم اتنی نفرت کیوں کرتی ہو"

اسکے کہنے پر دعا نے اسکے کندھے سے سر اٹھا کر اسکی طرف دیکھا

اسکی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں

"محبت کی انہوں نے کوئی وجہ ہی نہیں دی مشارب" 

"انہیں اپنی اولاد سے کوئی سروکار ہی نہیں تھا جب میں انکے قریب جاتی تھی تو وہ مجھے ہمیشہ جھٹک دیتے تھے اور اسی وجہ سے میں نے انکے قریب جانا چھوڑ دیا میرے ساتھ ایک گورنرس ہمیشہ رہتی تھی انہوں نے ہی مجھے پالا بڑا کیا تھا اور دنیا کی سمجھ سکھائی تھی لیکن پھر ایک دن وہ بھی مجھے چھوڑ کر چلی گئی"

"انکے جانے کے بعد میں جانتی تھی کہ اب اپنا سہارا مجھے خود بننا ہے اسلیے میں نے خود کو مظبوط بنایا میں نے خود سیکھا کہ اس دنیا میں کیسے رہا جاتا ہے اور پھر اسی طرح ایک دن میرے باپ کو لگا کہ میں اسکے کسی کام آسکتی ہوں اور اسی وجہ سے اسے یاد آیا کہ اسکی ایک بیٹی بھی ہے"

"انہوں نے خود مجھے مخاطب کیا تھا مشارب زندگی میں پہلی بار اتنے پیار سے انہوں نے مجھے کہا تھا کہ میں چاہ کر بھی انہیں کسی کام کے لیے انکار نہیں کرپائی پر مجھے یہ نہیں پتہ تھا کہ وہ صرف مجھے اپنے مطلب کے لیے استعمال کررہے ہیں میں یہ سب نہیں کرنا چاہتی تھی کبھی بھی نہیں لیکن میرے منع کرنے پر وہ ہمیشہ مجھے گھر سے نکل جانے کا کہتے تھے اور اسی بات سے میں ڈرتی تھی وہ میرے پاس ایک واحد رشتہ تھے وہ چاہے جیسے بھی تھے پر تھے تو میرے اپنے میں انہیں چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی تھی"

وہ اب ہچکیوں سمیت رہ رہی تھی

مشارب نے سائیڈ پر رکھا پانی کا گلاس اٹھا کر اسکے لبوں سے لگایا جس میں سے چند گھونٹ پی کر اسنے گلاس سائیڈ پر رکھ دیا

"تو اب کیوں چھوڑ رہی ہو انہیں"

"کیونکہ میں غلط تھی مجھے لگتا تھا کہ اگر میں نے انہیں چھوڑ دیا تو شاید میں اس دنیا میں تنہا نہیں رہ پاؤں گی پر ایسا نہیں ہے میں انکے بنا اس دنیا میں رہ سکتی تھی پر ایسا ہوا نہیں کیونکہ خدا نے مجھے اس ایک رشتے کے بدلے بہت خوبصورت رشتے دے دیے ہیں"

مشارب نے اسکے بھیگے گال صاف کرکے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھے اور اسے اپنے سینے سے لگالیا 

وہ اسے سننا چاہتا تھا وہ ساری باتیں سننا چاہتا تھا جو اسنے آج تک کسی سے نہیں کہیں اسکا دکھ تکلیف کا ہر لمحہ وہ سننا چاہتا تھا

رات کافی ہونے کے باعث وہ سب سونے کے لیے اپنے کمروں میں چلے گئے

دو سے تین اسٹوڈنٹس کو ایک ہی روم شئیر کرنا تھا جبکہ سارے ٹیچرز کو الگ الگ روم دیا گیا تھا 

سارے اسٹوڈنٹس میں بس ایک آیت ہی تھی جسے الگ کمرہ دیا گیا تھا کیونکہ وہ ایک ٹیچر کی بیوی تھی

اسلیے اسکے لیے تھوڑا وی آئی پی والا ماحول رکھا گیا تھا

انکا یہ ٹرپ دو سے تین دن کا ہی تھا جو ختم ہونے والا تھا اور کل انہیں واپس جانا تھا

کپڑے تبدیل کرکے وہ کمبل درست کرکے لیٹنے لگی جب اسکے کمرے کا دروازہ بجا

اسنے گھڑی کی طرف دیکھا رات کا ایک بجنے والا تھا اس وقت کون ہوگا

فکرمندی سے کہتے ہوئے اسنے دروازہ کھولا جہاں ازہار کھڑا تھا جبکہ اسکے ہاتھ میں ایک بیگ تھا

'ازہار اس وقت آپ میرے کمرے میں کیا کررہے ہیں"

"اندر نہیں بلاؤ گی"

"نہیں"

"شاید تم بھول رہی ہو آیت یہ الگ کمرہ تمہیں میری وجہ سے ملا ہے"

آیت کے اندر نہ بلانے پر وہ اسے سائیڈ کرتا خود ہی اندر آگیا

°°°°°

"ازہار دیکھیں ابھی جائیں ہم صبح بات کرینگے"

اسکی بات کا بنا کوئی جواب دیے اسنے آیت کو سائیڈ کرکے دروازہ بند کیا اور بیگ اسکے ہاتھ میں پکڑا دیا

"جاؤ اسے پہن کر آو"

ازہار کے کہنے پر اسنے بیگ میں ہاتھ ڈال کر اس چیز کو نکالا جو ازہار اسے پہننے کے لیے کہہ رہا تھا

لیکن اس بیگ میں نائٹی دیکھ کر حیرت سے اسکا منہ کھل گیا

وہ نائٹی ازہار نے اسے شاپنگ مال میں دلائی تھی لیکن اسے امید نہیں تھی کہ ازہار اسے یہاں اٹھا کر لے آئے گا

"اف ازہار حد ہوتی ہے یہ چیز کوئی ٹرپ پر لاتا ہے"

"میں لایا ہوں نہ اب جاؤ اور جلدی سے چینج کرکے آو"

"میں نہیں جارہی ہوں اسے پکڑیں اور اپنے کمرے میں جائیں"اسنے نائٹی ازہار کے منہ پر پھینکی

"اچھا تمہیں نہیں پہنی تو کوئی مسلہ نہیں ہے تم یہ بعد میں پہن لینا ابھی بس میرے پاس آجاو" اسکا ہاتھ پکڑ کر اسنے آیت کو اپنے قریب کھینچا

ازہار کی اس حرکت پر اسنے بوکھلا کر اسکی جانب دیکھا

"ازہار یہ کیا حرکت ہے چھوڑیں مجھے"

"میری جان آج میں تمہارا یہ چھوڑنے والا ڈائیلاگ نہیں سننا چاہتا" اسکے بالوں میں ہاتھ پھنسا کر وہ بنا اسکی مزید کوئی بات سنے اسکے لبوں پر جھک گیا

اور اسے اپنے اس قدر پاکر آیت کی گھبراہٹ میں مزید اِضافہ ہوا

اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر آیت نے اسے خود سے دور کیا جو اس سے دور ہوتے ہی اسکی گردن پر جھک کر اپنا پیار بھرا لمس چھوڑنے لگا

"ازہار پلیز چھوڑیں مجھے" 

اسنے گھبرا کر اسے خود سے دور کرنا چاہا لیکن شاید آج ازہار کا اس سے دور ہونے کا کوئی ارادہ نہیں تھا

"ازہار پلیز یہ غ-غلط ہے ہماری رخصتی نہیں ہوئی ہے" اسکے کہنے پر ازہار نے اسکی گردن سے چہرہ نکال کر اسکی طرف دیکھا

"تم میرے نکاح میں ہو آیت میری محرم ہو ایک پاک بندھن میں بندھے ہیں ہم دونوں تمہارے قریب آنے کے لیے کیا یہ سب کافی نہیں ہے"

"ا-ازہار آپ میری بات کو س-سمجھیں" اسکے لفظ لڑکھڑائے

"تم سمجھو میری محبت کو میرے جذبوں کو" اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لیے وہ پھر سے اسکے لبوں پر جھکا اور اس بار جیسے اسکی سانوں کو آزاد کرنا ہی بھول گیا

اپنی رکتی سانسوں کے باعث اسنے ازہار کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے خود سے دور کرنا چاہا لیکن اسکی اس حرکت پر ازہار کا انداز مزید شدت اختیار کرگیا

اسکے لبوں کو آزاد کرکے ازہار نے اسکے کندھے سے کمیز ہٹائی اور وہاں پر اپنے لب رکھ دیے

"ازہار چھوڑیں م-مجھے" اپنی کمر پر اسکی انگلیوں کا لمس محسوس کرکے اسکی جان نکلی

"ا--ازہار" 

اسے خود سے دور نہ ہوتا دیکھ کر اسنے اگلے ہی پل ازہار کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے زور سے دھکا دیا جس کی وجہ سے وہ پیچھے بیڈ پر جاگرا

شرمندگی کے احساس سے اسکا چہرہ سرخ ہوا

"ازہار آئی ایم سوری"

وہ اپنی حرکت پر شرمندہ ہوئی اسکا ایسا کوئی ارادہ تو نہیں تھا وہ تو بس اسے خود سے دور رکھنا چاہ رہی تھی

بھلے وہ ازہار کے نکاح میں تھی لیکن اسکے ساتھ رخصت تو نہیں ہوئی تھی نہ

"ا-ازہار"

اسنے اپنا کپکپاتا ہاتھ ازہار کے کندھے پر رکھا جب اسکا ہاتھ جھٹک کر وہ تیز تیز قدم اٹھاتا اسکے کمرے سے چلا گیا

ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا جب اسکے قریب آنے پر آیت نے مزاحمت کی ہو وہ ہمیشہ یہی کرتی تھی دکھ اسے اگر ہوا تھا تو اسکے دھکا دینے پر ہوا تھا

اسے خود سے دور کرنے پر ہوا تھا وہ مزاحمت کرتی بری نہیں لگتی تھی لیکن آج اسکا ایسا انداز ازہار کو برا لگا تھا

°°°°°

ڈوپٹہ گلے میں ڈال کر وہ نیچے آئی

جہاں گارڈن بنا ہوا تھا اسنے اپنے کمرے کی کھڑکی سے ازہار کو وہیں کھڑے دیکھا اسلیے خود بھی وہیں آگئی

وہ ناراض ہوچکا تھا اور جب تک وہ مان نہیں جاتا تب تک آیت کو سکون نہیں ملنا تھا

اسنے کھڑکی سے جب اسے دیکھا تھا تب وہ اکیلا تھا لیکن اب اسکے ساتھ ایک اور وجود کھڑا تھا

وہ حرا تھی جو ازہار سے چند انچ کے فاصلے پر کھڑی تھی اسے ازہار کے ساتھ دیکھ کر وہ اپنی جگہ رک گئی

"یہاں کیا کررہی ہو تم"

"آپ کو اکیلے دیکھا تو یہاں آگئی"

آیت ازہار کے نکاح میں تھی یہ بات وہ جانتی تھی لیکن پھر بھی وہ ازہار کے آس پاس گھومتی رہتی تھی اس امید کے ساتھ کہ شاید کبھی تو ازہار کو اسکی محبت دکھ جائے

"آپ کو میرا یہاں کھڑا ہونا اچھا نہیں لگ رہا تو میں چلی جاتی ہوں"

اسکے کہنے پر ازہار نے چہرہ موڑ کر اسکی طرف دیکھا جب اسے کچھ فاصلے پر کسی کی موجودگی کا احساس ہوا اور بنا دیکھے بھی اسے پتہ تھا کہ وہ آیت ہوگی لیکن اس وقت وہ اس سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتا تھا

"ایسی بات نہیں ہے حرا تم رکنا چاہو تو رک جاؤ" 

اسکی بات سن کر جہاں حرا کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی وہیں اسکی بات سن کر پیچھے کھڑی آیت کی آنکھیں نم ہوگئیں

بنا کچھ کہے وہ وہیں سے واپس پلٹ گئی اس وقت جیسے کہنے کے لیے اسکے پاس کچھ نہیں تھا

"تم جانتی ہو نہ حرا آیت میرے نکاح میں ہے" اسنے سنجیدگی سے پوچھا

"جی"

"تو پھر کیوں خود کو جھوٹے خواب دکھا رہی ہو حرا آیت میری بچپن کی محبت ہے میں اسے کبھی نہیں چھوڑ سکتا اور اسکے سوا میری زندگی میں کوئی اور لڑکی آ بھی نہیں سکتی ہے بہتر ہے اس بات کو سمجھ جاؤ اور یہ فضول کے خیالات اپنے دماغ سے نکال دو"

حرا اسکے بارے میں کیسے بھی جذبات رکھتی اسے پرواہ نہیں تھی لیکن بہتر تھا ایک بار اسے یہ بات اچھے سے سمجھا دی جاتی کہ وہ صرف آیت کا ہے اسکی زندگی میں کسی اور لڑکی کی گنجائش نہیں تھی

°°°°°

بجتے الارم کی آواز سن کر وہ جلدی سے اٹھی

اسے جہاں تک یاد تھا کمرے میں آکر وہ روتے روتے ہی سوگئی تھی

اور اب بجتے الارم کی وجہ سے آنکھ کھلی تھی

اسے ازہار کی حرکت بری لگی تھی اسکا ناراض ہونا نہیں حرا سے بات کرنا اور جب وہ ازہار کو منالے گی تو اس بات کی شکایت اس سے ضرور کرے گی

اپنے کپڑے بیگ میں سے نکال کر وہ واشروم میں گھس گئی ناشتہ وہ سب باہر کرنے والے تھے اور اسکے بعد انہیں نکلنا تھا

°°°°°

نیچے آتے ہی اسکی پہلی نظر ازہار پر پڑی جو بلیو جینز اور وائٹ شرٹ کے ساتھ بلیو جیکیٹ پہنے کھڑا تھا

اور دوسری نظر اسکی حرا پر پڑی جو دوسری سائیڈ پر کھڑی اپنا میک اپ چیک کررہی تھی

اسنے بالوں کی اونچی بندھی پونی مزید ٹائٹ کی اور دانت پیستے ہوئے جاکر اسکے قریب کھڑی ہوگئی

"تم کل رات کو ازہار سے کیا بات کررہی تھیں"

"جو بھی باتیں کروں تمہیں کیا"

"حرا میڈم ان سے دور ہی رہو تو تمہارے لیے اچھا ہوگا"

"ورنہ تم کیا کرلو گی آیت" اسکا انداز آیت کو مزید سلگا چکا تھا

"اس سے دور رہنا حرا"

"اب تو اور پاس رہنا پڑے گا" اس نے مسکراتے ہوئے ایک آنکھ دبائی جس پر آیت بےقابو ہوتی اس پر چھبٹی اور اسکے بال نوچنے لگی اسے اپنے بال نوچتے دیکھ کر حرا بھی اسکے بال نوچنے لگی

ان دونوں کو اس طرح لڑتے دیکھ کر وہاں کھڑی لڑکیاں انہیں چھڑانے کی کوشش کرنے لگیں لیکن وہ دونوں تو جیسے ایلفی سے چپک چکی تھیں جو ہٹنے کا نام نہیں لے رہی تھیں

انہیں ایک دوسرے سے دور نہ ہٹتے دیکھ کر ان سب کے شور مچانا شروع کردیا جسے سن کر دوسرے سائیڈ پر کھڑے ٹیچرز بھاگ کر آئے یہاں کا منظر تو انکے لیے بھی کافی حیران کن تھا

"چھوڑو یہ کیا ہورہا ہے محلے کی عورتوں کی طرح لڑرہی ہو دونوں"

مس ندا ان دونوں کو الگ کروانے لگیں

جب ازہار نے آیت کے دونوں ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے کی طرف کھینچ لیا

"یہ کیا حرکت ہے اتنی بڑی ہوگئی ہو دونوں اور مینرز نام کی کوئی چیز نہیں ہے"

"اسنے شروعات کی تھی" اسنے ازہار کی طرف دیکھ کر اپنی صفائی دینے کی کوشش کی جس نے ایک سے دوسری نظر بھی اس پر نہیں ڈالی تھی

جبکہ اسکا اشارہ اپنی طرف پاکر حرا کا پورا منہ کھل گیا

"نہیں میم اسنے شروعات کی تھی پہلے اسنے میرے بال نوچنا شروع کیے تھے"

"تو تم میرے شوہر کے بارے میں ایسے بات کرو گی اور میں کھڑی کھڑی سنتی رہوں گی" غصے سے وہ اسکی طرف واپس بڑھنے لگی جب ازہار نے اسے واپس پیچھے کھینچ لیا 

البتہ اسکی بات سن کر لبوں پر مسکراہٹ ضرور پھیلی تھی جسے وہ بڑے ہی آرام سے چھپا گیا

مطلب لڑائی اسکی وجہ سے ہوئی تھی

"آیت جھوٹ بول رہی ہے میڈم میں نے کچھ نہیں کہا"

"بس کرو تم دونوں کو تو اب میں کالج جاکر ہی دیکھتی ہوں" مس ندا کے کہنے پر اسنے غصے سے آیت کو دیکھا

پتہ نہیں اب انکے ساتھ کیا ہونا تھا آیت کی سفارش کے لیے تو ازہار ہی کافی تھا پر اسکے ساتھ اب کیا ہوتا اسے تو پکا کوئی بڑی پنشمنٹ ملنی تھی

آیت کو گھورتے ہوئے وہ مسلسل یہی سوچ رہی تھی

"دعا بس کرو یہ تمہاری تیسری کینڈی ہے"

دو کوٹن کینڈی وہ پہلے کھاچکی تھی اور تیسری اسکے ہاتھ میں تھی جبکہ چوتھی کی فرمائش جاری تھی

"ہاں تو آئیسکریم کھلانے سے آپ مجھے منع کر چکے ہیں اب اس پر کوئی پابندی مت لگائیں" اسے گھورتے ہوئے اسنے کینڈی منہ میں ڈالی

موسم سرما کا آغاز تھا اور آج موسم کچھ زیادہ ٹھنڈا لگ رہا تھا اسلیے ناز بیگم نے اسے ہر طرح سے ڈھک کر بھیجا تھا تاکہ کہیں اسے ٹھنڈ نہ لگ جائے

بلیو جینز اور وائٹ ہائی نیک کے ساتھ اسنے ریڈ کلر کی شرٹ پہنی ہوئی تھی

کھلے بال دونوں شانو پر بکھرے پڑے تھے جبکہ سر پر اسنے ریڈ کلر کا وولین کیپ پہنا ہوا تھا

"ہاں میں نے کہا تھا آئیسکریم نہیں کھلاؤں گا کیونکہ موسم نہیں دیکھ رہی ہو تم فضول میں بیمار پڑ جاؤ گی"

اسکے کہنے پر وہ منہ بنا کر اپنی کینڈی کھانے لگی

اپنے کام کی وجہ سے مشارب تین دنوں کے لیے فیصل آباد جانا تھا اسلیے وہ دعا کو اپنے ساتھ لے کر جارہا تھا اب تو ایسا ممکن ہی نہیں تھا کہ تین دن تک وہ اس سے دور رہتا

لیکن تھوڑی ڈرائیو کرنے پر ہی دعا کی نظر سامنے بنے پارک کی طرف گئی

جو انکے گھر سے کچھ فاصلے پر ہی تھا

اسکی ضد کی وجہ سے مشارب نے گاڑی وہیں روک دی 

اس پارک میں کوئی ایسی رائیڈ نہیں تھی جس میں دعا نہیں بیٹھی ہو

اسنے کہا تھا کہ اسنے اپنی زندگی نہیں جی اپنا بچپن کھل کر نہیں جیا

وہ اسکا گزرا وقت تو واپس نہیں لاسکتا تھا لیکن اپنے ساتھ گزارے اسکے ہر لمحے کو خاص اور یاد گار تو بنا سکتا تھا نہ

°°°°°

"یہ کیا جاہلوں کی طرح لڑ رہی تھیں" اسکا ہاتھ پکڑ وہ اسے دوسری طرف لے کر گیا جہاں لوگ کافی کم تھے

"میں نے کچھ نہیں کیا بس اسنے آپ کے بارے میں بات ایسی بولی تھی اسلیے مجھے غصہ آگیا" اسنے ہونٹ لٹکا کر معصومیت سے کہا

"اچھا تو تمہیں کیا مسلہ ہے کوئی میرے بارے میں کچھ بھی کہے تمہیں فرق نہیں پڑنا چاہیے"

"کیوں فرق نہیں پڑنا چاہیے شوہر ہیں آپ میرے"

"ابھی تو ہمارا صرف نکاح ہوا ہے جب رخصتی ہو گی تب تم مجھ پر پورا حق رکھو گی اسلیے اب کوئی میرے بارے میں کچھ بھی کہے تم کچھ نہیں کہو گی"

آیت نے بھیگی آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا یقیناً وہ اسکی رات والی حرکت کی وجہ سے ایسا کہہ رہا تھا

'ازہار میں نے جان بوجھ کر کچھ نہیں کیا تھا"

"آیت میرا اس وقت تمہارے منہ لگنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اپنا سامان لے کر آو اور اب اس طرح کی کوئی حرکت کی تو میں برداشت نہیں کروں گا"

اسے گھوری سے نواز کر وہ وہاں سے چلا گیا اسکے جانے پر آیت نے نم آنکھوں سے اسکی پشت کو دیکھا 

پتہ نہیں اب ازہار نے اپنی ناراضگی کب ختم کرنی تھی

°°°°°

"تو بتاؤ کیا چاہیے تمہیں" اسنے گن اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اس سے پوچھا

وہ دکھنے میں بلکل اصلی گن لگ رہی تھی لیکن وہ اصلی تھی نہیں 

وہ اس وقت شوٹنگ گیم کھیل رہے تھے جس میں انہیں گن سے نشانہ لگا کر دور رکھے ڈسپوزیبل کپ گرانے تھے اور سارے کپ گرنے پر وہاں رکھی چیزوں میں سے وہ کچھ بھی لے سکتے تھے

"پہلے نشانہ تو لگائیں جب لگ جائے تب مجھ سے پوچھیے گا کہ کیا چاہیے"

"تم جانتی نہیں ہو مجھے ایس پی مشارب کا نشانہ کبھی غلط نہیں ہوتا"

اسنے اپنے ہاتھ میں پکڑی گن نشانے پر رکھی اور چند لمحوں بعد اسکا نشانہ دیکھ کر وہ واقعی میں حیران رہ گئی

"اب بتاؤ کیا چاہیے" 

سارے کپ گرا کر اسنے دعا کی طرف دیکھا جو ابھی تک حیرت میں تھی

"مجھے چاہیے وہ ٹیڈی" 

اسنے وہاں رکھے وائٹ ٹیڈی کی طرف اشارہ کیا جس کے بیچ میں لال رنگ کا دل بنا ہوا تھا اور اس پر آئی لو یو لکھا ہوا تھا

دعا کے کہنے پر وہاں کھڑے آدمی نے وہ ٹیڈی اٹھا کر اسے دیا جسے لے کر اسنے اپنے سینے سے لگالیا اور اسکی اس حرکت پر مشارب کھل کر ہنسا

°°°°°

"جب دیکھو کام ہی کرتے رہتے ہو" 

اس وقت لاونج میں بیٹھا وہ سامنے میز پر رکھی فائلوں میں اپنا سر کھپا رہا تھا

جب ناز بیگم کی بےزار سی آواز اسکے کانوں میں پڑی

اسنے چونک کر انکی طرف دیکھا جو ابھی ابھی وہاں آئی تھیں

"تو اور کیا کروں اماں جان"

"ارے مشارب سے ہی کچھ سیکھ لو اب دیکھو نہ اپنی بیوی کو لے گیا گھمانے"

"امان جان وہ کام کے سلسلے میں گیا ہے" اسنے ناز بیگم کی غلط فہمی دور کرنی چاہی

"بھلے کام کے لیے گیا ہے لیکن لے کر تو گیا ہے نہ کم از کم دونوں اب ساتھ کچھ وقت ہی گزار لیں گے تمہاری طرح تھوڑی جب سے شادی ہوئی ہے بیوی کو گھر میں ہی بند کر رکھا ہے" وہ خاموشی سے انکی تقریر سن رہا تھا

یقینا انکے کہنے کا مطلب یہی تھا کہ وہ بھی علیحہ کو کہیں گھمانے کے لیے لے جائے

"اماں جان آپ کیا چاہتی ہیں میں کیا کروں"

"تم بھی علیحہ کو کہیں لے جاؤ زیادہ نہیں تو کم از کم کھانے پر ہی لے جاؤ"

"جی اماں جان میں لے جاؤں گا پر پہلے کام کرلوں"

"آج ہی لے جانا" انکی بات کر اسنے اپنا سر ہلایا 

اسے پتہ تھا اب جب تک وہ علیحہ کو ڈنر پر نہیں لے جاتا اماں جان نے اسی طرح اسکے پیچھے پڑے رہنا تھا

°°°°°

"مجھے تو چکر آرہے ہیں" 

ٹگاڈا رائیڈ سے اترتے ہی اسنے اپنے سر پر ہاتھ رکھا 

اسے اس طرح دیکھ کر مشارب نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے وہاں رکھی چئیر پر بٹھادیا

"کیا ہوا ہے تمہیں"

"وہ رائیڈ اتنی تیز تیز گھوم رہی تھی ایسا لگ رہا ہے میں ابھی تک اس میں بیٹھی ہوئی ہوں"اسنے اپنی انگلی کو تیز تیز گھماتے ہوئے اسے بتایا کہ رائیڈ کتنی تیز گھوم رہی تھی جبکہ اسکے انداز پر مشارب بےساختہ ہنسا

وہ پورا پارک گھوم چکی تھی سوائے ان دو رائیڈز کے اور ان بیچاری رائیڈز کا کیا قصور تھا جو دعا ان میں نہیں بیٹھی

اسلیے ان میں بیٹھنا بھی اسنے اپنا فرض سمجھا

اپنا ٹیڈی تو وہ پہلے ہی گاڑی میں رکھ آئی تھی تاکہ گھومنے کے چکر میں وہ گھوم ہی نہ ہوجائے

"بس اب کسی رائیڈ میں نہیں بیٹھو گی"

"لیکن ایک رہتی ہے"

"دعا ہم پھر کبھی آئینگے ابھی دیر ہورہی ہے زیادہ دیر یہاں گزاری تو وہاں پہنچتے ہوئے رات ہو جائے گی ابھی چلتے ہیں"

اسکی بات سمجھ کر دعا نے اپنا سر ہلایا

"اچھا ٹھیک ہے لیکن وعدہ کریں دوبارہ لے کر آئینگے"

"ہاں وعدہ کرتا ہوں دوبارہ ضرور لاؤں گا" اسکا ہاتھ پکڑ کر مشارب نے اسے کھڑا کیا

"ہائے مشارب وہ دیکھیں" اسنے وہاں کھڑے آدمی کی طرف اشارہ کیا جس کے ہاتھ میں چند غبارے موجود تھے

"دیکھ لیا اب کیا کروں"

"پلیز ایک بیلون دلادیں" اسکا انداز اس وقت بچوں جیسا تھا

"دعا تم اسکا کیا کرو گی"

"مجھے اچھے لگتے ہیں"

"اچھا ٹھیک ہے آو" اسکا ہاتھ پکڑ کر وہ اسے اس آدمی کے پاس لے گیا اور اسکے ہاتھ میں موجود سارے غبارے خرید کر اسے دے دیے

"دھیان سے پکڑنا کہیں ایسا نہ ہو تمہیں ہی اڑا لے جائیں"

"میں اتنی نازک بھی نہیں ہوں" اسنے منہ بنایا جس پر مسکراتے ہوئے مشارب نے اسے اپنے قریب کرکے اسکے گال پر اپنے لب رکھے

"میرے لیے تو تم بہت نازک ہو دل چاہتا ہے تمہیں ہر وقت اپنی بانہوں میں ہی اٹھائے رکھوں"اسکی بات سن کر دعا کے گال لال ہوئے جنہیں وہ بڑی فرصت سے دیکھنے لگا

"اب ہم چلیں" اسے مسلسل خود کو دیکھتا پاکر اسنے یاد دلایا کہ انہیں اب جانا تھا

"ہاں چلو" 

اسکا ہاتھ پکڑ کر وہ باہر کی طرف جانے لگا جب دعا کے ہاتھ میں موجود غباروں میں سے ایک اڑتا ہوا دور چلا گیا

"میرا بیلون اڑ گیا"

"کوئی بات نہیں ایک ہی تو ہے"

"نہیں میں لے کر آتی ہوں"مشارب کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑا کر وہ اسکے پیچھے بھاگی جو اڑتے اڑتے پارک سے باہر جاچکا تھا

اور اس وجہ سے وہ خود بھی باہر چلی گئی

بھاگتے ہوئے اسنے زمیں پر گرا غبارہ اٹھایا اور مڑ کر مشارب کو دیکھنے لگی جو اس سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا

"میں نے پکڑ لیا" اسکا بتانے کا انداز ایسا تھا جیسے اسنے کتنی بڑی کامیابی حاصل کرلی ہو

"بہت اچھا کیا دعا اب آجاؤ ہم چلتے ہیں" اسنے اسے اپنے قریب آنے کا اشارہ کیا

جسے دیکھ کر وہ اسکی جانب بڑھنے لگی لیکن تب ہی ایک تیز رفتار کار اسے ٹکر مار کر چلی گئی

"دعا" 

اسکے لبوں سے بےساختہ چیخ نکلی 

بھاگتا ہوا وہ اسکے قریب جانے لگا جو ٹکر لگنے کے باعث کافی دور جاگری تھی اسکے ہاتھ میں موجود سارے غبارے ہوا کے ذریعے اس سے دور جارہے تھے

"دعا ، دعا میری جان" اسکے قریب جاکر مشارب نے اسے اپنی بانہوں میں لیا

وہ بےہوش ہوچکی تھی اور اسکی یہ حالت دیکھ کر مشارب کی جان پر بن آئی تھی

لوگوں کی بھیڑ انکے ارد گرد جمع ہونے لگی

"کال دی ایمبولینس"

اسکے چلانے پر وہاں کھڑے لوگوں میں سے ایک لڑکے نے جلدی سے اپنا موبائل نکالا

°°°°°

مشارب کی کال سنتے ہی وہ تیز ڈرائیو کرتا ہاسپٹل پہنچا

"مشارب دعا کیسی ہے"

وجدان نے اسکے قریب آکر پوچھا جس پر اسنے ہلکے سے اپنا سر ہلادیا

"کیسے ہوا یہ سب"

"یہ سب حیدر گیلانی نے کیا ہے"

اس وقت اسکی آنکھیں حد سے زیادہ سرخ ہورہی تھیں یقینا وہ اپنا غصہ ضبط کررہا تھا

"تمہیں کیسے پتہ"

اپنے ولیمے والے دن ہی وہ وجدان کو دعا کی ساری حقیقت بتاچکا تھا

جانتا تھا کبھی نہ کبھی تو یہ بات اسکے سامنے آتی تو بہتر تھا کہ وہ خود ہی بتادیتا

"جس گاڑی سے ایکسیڈینٹ ہوا ہے وہ گاڑی حیدر گیلانی کی ہے وجدان میرا ارادہ بس اسے گرفتار کرنے کا تھا پر اب ایسا نہیں ہوگا میں اسے سزا دلاؤں گا اسنے میری بیوی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے اسکی سزا اسے ضرور ملے گی" 

وہ ایک ایک لفظ چبا چبا کر ادا کررہا تھا جیسے اگر اسکا بس چلتا تو وہ حیدر کو جان سے مارنے میں دیر نہیں کرتا 

"مشارب اندر جاؤ اس وقت دعا کو تمہاری ضرورت ہے اسکے پاس جاؤ ہم اس بارے میں بعد میں بات کریں گے"

اسے کمرے میں بھیج کر اسنے ناز بیگم کو کال ملائی کیونکہ آتے وقت وہ یہ بات انہیں بھی بتا چکا تھا یقیناً وہ پریشان ہورہی ہوں گی اور جب تک وجدان نے انہیں کال کرکے مطمئن نہیں کرنا تھا تب تک انہوں نے ایسے ہی پریشان رہنا تھا

وجدان انہیں ہاسپٹل کا نام نہیں بتا کر آیا تھا ورنہ اب تک تو وہ یہاں پہنچ چکی ہوتیں

کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ جاکر اسکے قریب کھڑا ہوگیا ابھی تک وہ ہوش میں نہیں آئی تھی

آج پہلی بار ہی تو ایسا ہوا تھا کہ بنا کسی ڈر کے وہ زندگی کو کھل کر جی رہی تھی لیکن حیدر اسے پھر اسے اسی زندگی کی طرف لے آیا جہاں سے وہ دور جانا چاہ رہی تھی

یقینا وہ جان چکا تھا کہ اب دعا اسکے کسی کام ہی نہیں تھی ہاں لیکن دعا کے پاس ایسا بہت کچھ تھا جو وہ حیدر کے خلاف استعمال کرسکتی تھی ایسے میں حیدر کے پاس اسے مارنے کے علاؤہ اور کوئی آپشن ہی نہیں بچا تھا

"اب میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا تمہاری زندگی میں اب کوئی غم نہیں آنے دوں گا دیکھنا تم تمہاری زندگی کو خوشیوں سے بھر دوں گا یہ وعدہ ہے مشارب شیرازی کا"

اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے اسنے اپنا دوسرا ہاتھ اسکے چہرے پر پھیرا اور نرمی سے اسکی پیشانی پر اپنے لب رکھ دیئے 

°°°°°

پورے راستے نہ ازہار نے اس سے کوئی بات کی نہ اسے خود بات کرنے کا موقع ملا

گھر پہنچتے ہی وہ سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا اور وہ خود مناہل سے ملنے چلی گئی تاکہ انہیں اپنے آنے کا بتا سکے

"اسلام و علیکم ممانی"کمرے میں داخل ہوکر اسنے سلام کیا اور اسکی آواز سن کر کتاب پڑھتی مناہل چونکی

"آیت تم لوگ کب آئے"

"بس ابھی آئے تھے میں نے سوچا آپ سے مل لوں" وہ اسکے قریب جاکر بیٹھ گئی

"ازہار کہاں ہے"

"وہ اپنے کمرے میں چلے گئے"

"کھانا کھایا تم لوگوں نے"

"جی راستے میں کھالیا تھا"

"اچھا تو تم جاکر آرام کرو سفر سے آئی ہو تھک گئی ہو گی"

"آپ سے کچھ بات کرنی تھی"

"ہاں کہو"وہ پوری طرح آیت کی جانب متوجہ ہوکر بیٹھی

"میری ازہار سے لڑائی ہوگئی" 

ازہار کی ناراضگی دیکھ کر اسے اپنا رویہ غلط لگ رہا تھا وہ اسکا شوہر تھا اسکا محرم اگر وہ اسکے قریب آ بھی رہا تھا تو اس میں برائی کیا تھی

یہ بات وہ علیحہ کے سامنے کھل کر کہہ سکتی تھی لیکن مناہل کے سامنے نہیں پر کسی سے تو بات کرنی تھی نہ

"کیوں"

اب اس کیوں کا وہ بھلا کیا جواب دیتی

"وہ حرا ہے نہ جو میری کلاس میں پڑھتی ہے وہ ازہار سے بات کررہی تھی میں نے انہیں منع کیا تھا اس سے بات کرنے کے لیے لیکن انہوں نے پھر بھی کری تھی تو بس اسی بات پر ہماری لڑائی ہوگئی اور وہ اب مجھ سے ناراض ہیں" 

اصل ناراضگی تھی کس بات پر یہ بات تو وہ مناہل کو بتا نہیں سکتی تھی

"آیت بھلا بات کرنے میں کیا برائی ہے"

"بات کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے ممانی لیکن وہ ازہار کو پسند کرتی ہے وہ تو اسکی طرف غلطی سے دیکھتے بھی ہیں تو وہ خوشی سے پاگل ہوجاتی ہے اور ایسے میں وہ اس سے بات کررہے تھے وہ بلا وجہ میں کسی غلط فہمی کا شکار ہوجائے گی" اسکی بات سن کر مناہل ہلکا سا مسکرائی

بات اتنی بڑی نہیں تھی کہ اس پر لڑائی کی جاتی اگر واقعی میں اس بات پر لڑائی ہوئی تھی تو بس آیت کی جیلیسی کی وجہ سے

"آیت وہ لڑکی جو بھی سوچتی ہے سوچتی رہے یہ تمہارا مسلہ نہیں ہے اور ازہار نے اس سے ایسی تو کوئی بات نہیں کہی نہ جس کی بنا پر وہ کسی غلط فہمی کا شکار ہوجاتی وہ ازہار کی اسٹوڈنٹ ہے ہوسکتا ہے وہ اسی حیثیت سے بات کررہی ہو ہاں اگر تمہیں ازہار کا اس سے بات کرنا نہیں پسند تو تم کہہ سکتی ہو کہ وہ اس لڑکی سے بات نہ کرے"

"میرے کہنے پر وہ اس سے بات کرنا چھوڑ دیں گے"

"ہاں بلکل جب وہ یہ خواہش رکھتا ہے کہ تم صرف اسکی رہو اسکی بات مانو تو پھر اسے بھی تمہاری بات ماننی چاہیے"

"ویسے اگر وہ میری ہر بات مانیں گے پھر تو مجھے بھی انکی ہر بات ماننی چاہیے نہ"

"ہاں بلکل اگر وہ کوئی غلط خواہش نہیں ہے تو اسے پورا کرنے میں بھلا کیا ہی حرج ہے" 

اسکی بات سمجھ کر آیت نے ہلکے سے مسکرا کر اپنا سر اثبات میں ہلایا اور اٹھ کر وہاں سے چلی گئی

°°°°°

اسنے غصے سے گھور کر وہاں بیٹھے مشارب کو دیکھا جو اسکی حالت سے کافی لطف انداز ہورہا تھا

کیونکہ ناز بیگم اسکی بیماری ٹھیک کرنے کا سارا سامان اٹھا کر لائی تھیں

ابھی ابھی انہوں نے اسے سوپ کا پیالہ پلایا تھا جسے پی کر اسکے منہ کا ذائقہ ہی بگڑ چکا تھا

یقینا وہ سوپ خالا بی نے ہی بنایا تھا

"اب میں تمہیں ہلدی والا دودھ پلاتی ہو دیکھنا اسے پیتے ہی تمہارا سارا درد ختم ہو جائے گا" انہوں نے اپنے برابر رکھا تھرماس اٹھایا جس پر دعا نے مزید منہ بنایا

معصوم تو وہ ویسے بھی لگتی تھی اور اس وقت اسکے چہرے پر آتے ایکسپریشن اسکی معصومیت میں مزید اِضافہ کررہے تھے مشارب نہ سہی لیکن شکر تھا کہ وجدان کو اسکی حالت پر رحم آگیا تھا

"اماں جان ابھی اسنے سوپ پیا ہے چھوڑ دیں تھوڑی دیر میں پی لے گی"

اسنے شکر بھری نظروں سے وجدان کی طرف دیکھا کیونکہ اسکی بات سن کر ناز بیگم تھرماس واپس پہلے والی جگہ پر رکھ رہی تھیں

"اب آپ گھر جائیں کافی دیر ہوگئی ہے آپ کو یہاں بیٹھے ہوئے"

"ارے بیٹا ابھر جاؤں گی بھی تو دعا کی ہی فکر لگی رہے گی اوپر سے اسنے دودھ بھی نہیں پیا دودھ پلا کر جاؤں گی"

ڈوپٹہ اچھے سے سر پر اوڑھ کر وہ اسکے سرہانے بیٹھ گئیں اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس پر پھونک مارنے لگیں

یہ تو طے تھا وہ اسے اپنا ہلدی والا دودھ پلائے بنا یہاں سے جانے نہیں والی تھیں

°°°°°

اپنے گیلے بال ٹاول سے رگڑتے ہوئے وہ واشروم سے باہر نکلا جب نظر بیڈ پر بیٹھی آیت پر گئی اسے دیکھ کر ازہار کی پیشانی پر بل پڑے

"یہاں کیا کررہی ہو''

"ازہار پلیز اب یہ ناراضگی ختم کرلیں آپ جانتے ہیں جب آپ مجھ سے ناراض ہوتے ہیں تو میں بےچین ہو جاتی ہوں"

اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ اسکے قریب آئی

"نہیں ہوں میں ناراض"

"تو پھر بات کیوں نہیں کررہے"

وہ اسے یہ نہیں کہہ سکی کہ ہمیشہ کی طرح اسے اپنے قریب کیوں نہیں کررہا

"بات کرنے کا ٹائم نہیں ملا نہ ابھی تک" اسکا لہجہ ہمیشہ کی طرح نرم نہیں تھا اس میں سختی  کا عنصر شامل تھا

"اگر آپ کہینگے تو میں وہ نائٹی پہن لوں گی" نظریں جھکا کر اسنے جھجکتے ہوئے کہا شاید یہ بات سن کر ازہار اپنی ناراضگی ختم کردے

"تم اب وہ نائٹی پہنو یا نہ پہنو مجھے کوئی فرق نہیں پڑھتا" ٹاول صوفے پر پھینک کر وہ کمرے سے چلا گیا

اسکے جانے پر آیت نے بھیگی سانس اندر کھینچی وہ ناراض تھا اور پتہ نہیں کب اسنے راضی ہونا تھا

°°°°°

اپنا موبائل نکال کر اسنے کال پک کی اور کمرے سے باہر نکل گیا

ڈرائیو کی کال آرہی تھی جسے اسنے ہی کہا تھا کہ ناز بیگم کو گھر چھوڑ کر علیحہ کو یہاں پر لے آئے

"ہاں کہو"

"سر وہ علیحہ میڈم گھر پر نہیں ہیں" اسکی بات سن کر وجدان کی پیشانی پر بل پڑے

"کیا بکواس کررہے ہو گھر کے علاؤہ وہ کہاں ہو سکتی ہے"

"سر میں نے گارڈ سے پوچھا تھا اسنے کہا کہ وہ تو بیس منٹ پہلے ہی کیب منگوا کر ہاسپٹل کے لیے نکل چکی ہیں" 

اسکی کال کاٹ کر وجدان نے اگلی کال سکندر کو ملائی جو دوسری ہی بیل کر پک کرلی گئی

"کیسے ہو وجدان"

کال پک کرتے ہی اسنے وجدان کی خیریت دریافت کی لیکن اس وقت وہ اسے اپنی خیریت بتانے کی کنڈیشن میں نہیں تھا

"انکل آپ کہاں ہیں"

"میں تھوڑی دیر پہلے ہی گھر پہنچا ہوں کیوں کیا ہوا ہے"

"علیحہ آپ کے گھر پر ہے"

"نہیں وہ یہاں نہیں ہے" اسکی آواز میں پریشانی در آئی اور اس سے پہلے وہ کچھ کہہ پاتا وجدان کال کاٹ چکا تھا

وہ وجدان کے گھر پر نہیں تھی سکندر کے گھر پر بھی نہیں تھی اگر بیس منٹ پہلے بھی وہ ہاسپٹل کے لیے نکلی تھی تو بھی اسے اب تک تو پہنچ جانا چاہیے تھا

"کیا ہوا ہوگا اسکے ساتھ اس وقت کہاں ہوگی وہ"

وہ یہی سب سوچ رہا تھا جب ایک بچہ اسکے قریب آیا اسکے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا جو وہ وجدان کی طرف بڑھا رہا تھا

موبائل جیب میں رکھ کر اسنے وہ کاغذ ہاتھ میں پکڑا

"تمہاری بیوی میرے پاس ہے میں اس سے شادی کرنا چاہتا تھا پر سکندر نہیں مانا اور اسنے اسکا نکاح تم سے کردیا اسنے غلطی کی تھی اور اسکی سزا تو اسے ملنی چاہیے"

اس کاغذ پر بھیجنے والے کا نام کہیں نہیں لکھا تھا لیکن وہ پھر بھی جانتا تھا کہ یہ کام حیدر کا ہی ہے اسکے علاؤہ بھلا کون تھا جو علیحہ کے پیچھے پڑا تھا

کاغذ وہیں پھینک کر وہ واپس کمرے میں چلا گیا

حیدر گیلانی علیحہ کو کہاں لے جاسکتا ہے یہ بات تو اسے اس وقت صرف دعا ہی بتاسکتی تھی

پانی کی چھینٹے اپنے چہرے پر محسوس کرکے اسنے اپنی آنکھیں کھولیں

اسے آنکھیں کھولتے دیکھ کر حیدر نے وہاں کھڑے اپنے گارڈ کو باہر جانے کا اشارہ کیا جو علیحہ کے قریب کھڑا اسے ہوش میں لانے کی کوشش کررہا تھا اور خود اٹھ کر اسکے قریب آگیا 

جو اب اپنے وجود میں حرکت دینے کی کوشش کررہی تھی لیکن اسکے دونوں ہاتھ پیچھے کی طرف لے جاکر رسی سے باندھے گئے تھے

"مجھے جانتی ہو تم"

اسکی کرسی کے سامنے ایک اور کرسی رکھ کر وہ اس پر بیٹھتے ہوئے پوچھنے لگا جس پر علیحہ نے نفرت بھری نظروں سے اسے دیکھا

اسنے ایک بار غلطی سے مناہل اور سکندر کی باتیں سنی تھیں جس میں وہ اس بات کا اقرار کررہی تھی کہ علیحہ اسکی بیٹی نہیں ہے

یہ بات اسکے لیے کسی صدمے سے کم نہیں تھی

بعد میں اس بات کی تفصیل اسنے مناہل نے پوچھنے میں دیر نہیں لگائی تھی اور اسکے پوچھنے پر مناہل بھی اسے ہر بات بتا چکی تھی

اسے یہ پتہ تھا کہ سکندر اسکا باپ نہیں ہے لیکن یہ نہیں پتہ تھا کہ اسکا باپ کون ہے

لیکن پھر ایک دن اسے یہ بات بھی پتہ چل گئی جب اسکا وجدان سے نکاح ہوا

مناہل کی عادت تھی وہ اس سے کبھی بھی کچھ نہیں چھپاتی تھی خاص کر وہ بات تو بلکل نہیں جن کا تعلق علیحہ سے ہوتا تھا

اور اسی لیے وجدان سے نکاح کے بعد اسنے یہ بات بھی علیحہ کو بتانے میں دیر نہیں لگائی تھی کہ اسکا باپ کون ہے

سامنے کھڑے اس شخص کے لیے اسکے دل میں کبھی کوئی جذبہ پیدا نہیں ہوا تھا لیکن جب مناہل نے اسے یہ بات بتائی تھی کہ اسکا باپ حیدر ہے اور اس سے شادی کا خواہش مند ہے تب سے اسے حیدر سے نفرت ہوچکی تھی بےانتہا 

اسکی خواہش تھی کہ زندگی میں ایک بار حیدر گیلانی اسکے سامنے آئے اور وہ اپنے ہاتھوں سے اسکا قتل کردے

آج وہ اسکے سامنے تھا لیکن وہ اسے قتل نہیں کرسکتی تھی کیونکہ وہ اسکی قید میں تھی

°°°°°

"حیدر گیلانی نام ہے میرا"

"جانتی ہوں" اسکا چہرہ بےتاثر تھا

"میں نے شادی کی بات کی تھی تمہارے باپ سے پر اسنے انکار کردیا اور اسکے انکار کی سزا اب تمہیں ملے گی تاکہ تمہارے باپ کو اندازہ ہو جائے کہ اسنے کسے انکار کیا تھا"

"تم مجھے جانتے ہو" 

حیدر کی بات کا بنا کوئی رسپانس دیے اسنے سوال پوچھا لیکن پھر خود ہی اپنا سر نفی میں ہلایا

"تم مجھے نہیں جانتے"

"تم سکندر درانی کی بیٹی ہو" اسکے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی

"نہیں میں حیدر گیلانی اور مناہل درانی کی بیٹی ہوں جسے سکندر درانی نے اپنی بیٹی بنا کر پالا" علیحہ کے کہنے پر اسکی مسکراہٹ سمٹی

"جھوٹ"

یہ ایک لفظ ہی اسکے لبوں سے بمشکل نکلا لیکن دل اور دماغ کہیں اس بات کو سچ بھی مان رہے تھے اسنے آج تک یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ سکندر کی بیوی کون ہے

"کاش یہ جھوٹ ہی ہوتا کاش میں سکندر درانی جیسے انسان کی بیٹی ہوتی پر حقیقت بدل نہیں سکتی میں حیدر گیلانی کی بیٹی ہوں جس نے میری ماں کو دھوکے سے اپنے فارم ہاؤس پر بلایا اور اس سے اپنے تھپڑ کا بدلہ لیا"

آنکھیں پوری کھولے وہ صدمے سے اپنے سامنے بیٹھی لڑکی کو دیکھ رہا تھا جس لڑکی کو وہ اپنے بستر تک لانا چاہتا تھا وہ اسکی اپنی بیٹی تھی

"تمہارے گھٹیا پن کی کوئی حد ہے شاید نہیں"

"ہاں نہیں ہے میرے گھٹیا پن کی کوئی حد" اسکی آواز دھیمی مگر لہجہ سخت تھا

"ابھی تم نے میرا گھٹیا پن دیکھا ہی کہاں ہے تم جانتی ہو تمہیں استعمال کرکے میں تمہیں ماردیتا اور تمہاری لاش سکندر کے پاس تحفے میں بھیجتا جو لوگ میرے کسی کام کے نہیں ہوتے میں انہیں اپنی زندگی میں نہیں رکھتا"

"جیسے دعا کے ساتھ کیا تم نے" اسکے کہنے پر حیدر نے قہقہہ لگایا

"ہاں وہ اب میرے کسی کام کی نہیں تھی لیکن اسکے پاس میرے بہت سے راز تھے جو مجھے خطرے میں ڈال سکتے تھے"

"تمہیں بتادوں کہ وہ زندہ ہے"

"ایک بار بچ گئی ضروری نہیں ہر بار بچ جائے گی لیکن یہاں ہم تمہاری بات کررہے ہیں تم میرے اب کسی کام کی نہیں ہو تو پھر تمہیں بھی زندہ رکھنے کا کیا فائدہ"

"کیا کرو گے میرے ساتھ مجھے مار کر میری لاش میرے باپ کو بھجواو گے"

"ہاں یہی کروں گا" 

"یہ سب کرکے تم بچو گے نہیں حیدر گیلانی"

اسکی بات سن کر حیدر نے ہنستے ہوئے اپنی جیب سے گن نکالی اور پہلی گولی اسکے بازو میں مار دی

درد کے باعث چیخ اسکے لبوں سے نکلی 

چاہے وہ خود کو کتنا ہی مظبوط بنالیتی 

تھی تو ایک صنف نازک ہی

°°°°°

حیدر اسے کہاں لے کر گیا تھا اس معاملے میں وہ شیور نہیں تھی لیکن اپنے اندازے کے مطابق وہ دو سے تین جگہ کا ایڈریس وجدان کو دے چکی تھی جہاں حیدر علیحہ کو لے کر جاسکتا تھا

اور شاید یہ اسکی خوش قسمتی ہی تھی کہ پہلی جگہ پر پہنچ کر ہی اسے علیحہ مل گئی اسکا موبائل باہر ٹوٹا ہوا پڑا تھا 

جیسے کسی نے جان بوجھ کر اسے پھیکا ہو وہ علیحہ کا ہی موبائل تھا جسے دیکھ کر اسکے لیے اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ علیحہ یہاں پر ہی ہوگی

مشارب اور پولیس فورس اسکے ساتھ تھی لیکن انہیں کوئی بھی قدم اٹھانے سے وہ منع کرچکا تھا وہ نہیں چاہتا تھا اسکی کسی بھی لاپروائی سے علیحہ کو کوئی نقصان پہنچے

اس جگہ پر باہر کھڑے گارڈز کو وہ پکڑ چکے تھے اور یہ کام اتنی خاموشی سے ہوا تھا کہ اندر موجود افراد کو اس بات کا علم ہی نہیں ہوسکا

"وجدان تم اکیلے اندر نہیں جاؤ گے" اسے اندر کی طرف جاتے دیکھ کر مشارب نے ہلکی آواز میں کہا

"کچھ نہیں ہوگا مشارب تم سب یہیں رہو گے میں کسی قسم کا رسک نہیں لے سکتا" 

اسکی بات سمجھ کر مشارب نے اپنا سر ہلایا اور اپنی کار میں رکھی گن اسکے ہاتھ میں پکڑا دی

"کوئی بھی مسلہ ہو تو ہمیں آواز دے دینا"

"ہاں آواز دے کر سب پر یہ ظاہر کردوں نہ کہ باہر پولیس کھڑی ہے"

"وجدان سر آپ کچھ ایسا کہیے گا جس سے کسی کو آپ پر شک بھی نہ ہو اور ہمیں سگنل بھی مل جائے جیسے آپ کسی جانور کی آواز میں ہمیں سگنل دے سکتے ہیں کسی کو شک نہیں ہوگا"شایان نے اپنے دانت دکھا کر اپنا مشہورہ دیا

جس پر وجدان اور مشارب نے پہلے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر اسے گھور کر دیکھنے لگے

انکے گھورنے پر اسنے فورا اپنے دانت اندر کرلیے وہ تو بس ماحول کی سنجیدگی کو تھوڑا کم کرنے کی کوشش کررہا تھا لیکن ان دونوں کی گھورتی نظریں دیکھ کر لگ رہا تھا اسکی بات ان دونوں کو پسند نہیں آئی

"وجدان"

مشارب نے اسے اندر جانے کا اشارہ کیا لیکن اس سے پہلے وہ اندر جاتا 

علیحہ کی چیخ اسکے کانوں میں پڑی 

جسے سن کر وہ جلدی سے اندر بھاگا

°°°°°

اندر کوئی گارڈ نہیں تھا جو بھی تھے وہ باہر ہی تھے شاید حیدر کو یقین تھا کہ وجدان یہاں تک نہیں پہنچ سکتا اسلیے اسنے اپنی سیکیورٹی اتنی ٹائیٹ نہیں رکھی تھی

تیز تیز قدم اٹھاتا وہ اندر کی طرف گیا جہاں کا منظر دیکھ کر اسکی آنکھوں میں خون اترا

بنا لمحہ ضائع کیے اسنے اپنے ہاتھ میں پکڑی گن چلادی جو حیدر کے پاؤں پر جاکر لگی

جس کے باعث وہ اگلے ہی پل زمین پر جاگرا اور ہاتھ میں پکڑی گن فاصلے پر جاگری

اسنے دوسری گولی حیدر کی دوسری ٹانگ پر چلائی اور اس سے پہلے وہ تیسری گولی اس پر چلاتا مشارب کی آواز نے اسے روک لیا

"وجدان یہ مرنا نہیں چاہیے" اسنے ضبط سے آنکھیں بند کرکے بندوق دور پھیکی

اسنے مشارب سے کہا تھا کہ وہ اندر نہیں آئے گا لیکن ایسا ہوسکتا تھا کہ یہ بندہ اسکی کوئی بات مان لے

اسے اگنور کرکے وہ علیحہ کی جانب بڑھا جس کے بازو سے خون تیزی سے بہہ رہا تھا

اسنے علیحہ کے بندھے ہاتھ کھولے جو اسکے ہاتھ کھولتے ہی نڈھال سی ہوکر گرگئی

"علیحہ اٹھو" 

اسکا وجود اپنی بانہوں میں بھر کر وجدان نے اسکا گال تھپتھپایا وہ ہوش میں تھی لیکن بےہوش ہونے کے قریب تھی

اپنا کوٹ اتار کر اسنے علیحہ کے بازو پر باندھا تاکہ اسکے بہتے خون میں کچھ کمی آجائے

"مشارب یہ مجھے زندہ چاہیے"

"فکر مت کرو وجدان یہ تمہیں زندہ ہی ملے گا"

علیحہ کو اپنی بانہوں میں اٹھاے اسنے ایک نفرت بھری نگاہ حیدر پر ڈالی اور وہاں سے چلا گیا

°°°°°

"علیحہ کیسی ہے" اسکے کمرے میں داخل ہوتے ہی دعا نے جلدی سے پوچھا 

وہ ابھی تک ہاسپٹل میں ہی ایڈمٹ تھی لیکن رات تک اسنے ڈسچارج ہوجانا تھا

"وہ ٹھیک ہے انشاء اللہ جلد ہی ہوش بھی آجائے گی" وہ اسکے قریب جاکر بیٹھ گیا

"علیحہ پر گولی انہوں نے چلائی تھی" اسنے سوالیہ نظروں سے مشارب کو دیکھا جبکہ جواب تو وہ خود بھی جانتی تھی

"ہاں میں اسے اریسٹ کرچکا ہوں" 

اسکی بات کا دعا نے کوئی جواب نہیں دیا تھا نہ ہی اسکے چہرے پر کوئی تاثرات آئے 

کبھی نہ کبھی تو یہ کام ہونا ہی تھا

"دعا اسکے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے وہ ایک مجرم ہے اور اسے اسکے جرم کی سزا ضرور ملنی چاہیے"

"میں جانتی ہوں"

"میں چاہتا ہوں تم زہہنی طور پر ہر چیز کے لیے تیار رہو میں نہیں چاہتا بعد میں تمہیں کوئی تکلیف ہو"

"مجھے کوئی تکلیف کیوں ہوگی حیدر جیسے شخص کا انجام ہمیشہ برا ہی ہوتا ہے بلکہ یہ تو میری خواہش ہے کہ کاش موقع ملے تو ایک گولی میں اسکے سینے میں اتار سکوں"

اسے اپنے باپ سے نفرت تھی یہ بات مشارب جانتا تھا لیکن اتنی نفرت تھی کہ وہ اس پر گولی چلانے سے بھی گریز نہیں کرتی یہ بات اسے نہیں پتہ تھی

"اگر یہ تمہاری خواہش ہے تو میں ضرور پوری کروں گا" اسکے چہرے پر آتی چھوٹی چھوٹی لٹوں کو پیچھے کرکے مشارب نے اسکے ماتھے پر نرمی سے اپنے لب رکھ دیے

°°°°°

"خدا جہنم نصیب کرے کم بخت کو" 

علیحہ کے برابر بیٹھیں وہ کب سے اس شخص کو بدعا دے رہی تھیں جس نے انکی بہو کو یہاں تک پہنچایا تھا

"اماں جی" شایان کی آواز پر انہوں نے مڑ کر اسکی طرف دیکھا جو ہاتھ میں پکڑا پرچہ انکی طرف بڑھا رہا تھا 

کافی دیر سے وہ دیکھ رہی تھیں کہ کاغذ ہاتھ میں پکڑے وہ کچھ لکھ رہا تھا لیکن اس پر دھیان دینا انہیں ضروری نہیں لگا لیکن اب وہی کاغذ وہ ناز بیگم کی طرف بڑھا رہا تھا

"یہ کیا ہے" کاغذ ہاتھ میں پکڑ کر انہوں نے حیرت سے پوچھا

"وہ آپ اتنی دیر سے اس شخص کو بددعائیں دے رہی تھیں نہ سوچا آپ کی مدد کردوں اس پر کچھ بددعائیں لکھ دی ہیں آپ یہ بھی دے دیں"

وجدان کی گھورتی نظریں دیکھ کر اسے جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ یقینا پھر کچھ غلط کردیا ہے اسلیے جلدی سے ناز بیگم کے ہاتھ سے وہ کاغذ لے لیا 

"میں تو مذاق کررہا تھا" اسنے جلدی سے کاغذ کو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا

"وجدان مناہل اور سکندر کو بتادیا تھا"

"جی اماں جان وہ بس آنے والے ہوں گے" اسکی بات سن کر انہوں نے اپنا سر اثبات میں ہلایا اور اٹھ کر کمرے سے چلی گئیں انہیں دعا کو بھی دیکھنا تھا اب اسکی طبیعت کیسی تھی 

انکے جانے کے بعد وجدان نے وہاں بیٹھے شایان کو باہر جانے کا اشارہ کیا جو اسکا اشارہ پاتے ہی باہر چلا گیا

اسکے جانے کے بعد وہ علیحہ کی جانب دیکھنے لگا جو آنکھیں بند کیے لیٹی ہوئی تھی

پتہ نہیں اسے ہوش کب آنا تھا کیونکہ اس طرح خاموشی لیٹی ہوئی وہ وجدان کو بلکل اچھی نہیں لگ رہی تھی

"تمہارے مجرم کو سزا ضرور دلاؤں گا"اسکے بالوں پر ہاتھ پھیر کر وجدان نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور اسکے ہاتھ کی پشت پر اپنے لب رکھ دیے

وجدان کے خاموش ہوتے ہی پورا کمرہ خاموشی میں ڈوب گیا

کورٹ روم کے خاموش ماحول کو جج صاحب کی آواز نے توڑا

"تمام ثبوتوں اور گواہوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے"

وہ حیدر گیلانی کو اسکے کیے تمام گناہوں کی سزا سنا رہے تھے اور وہ کٹہرے میں سرجھکائے کھڑا تھا

اسنے ایک نظر اٹھا کر وہاں بیٹھی مناہل کو دیکھا کتنے سالوں بعد وہ اسے دیکھ رہا تھا

مناہل نے اسے تھپڑ مارا تھا بےعزت کیا تھا بدلے میں اسنے بھی اس سے اسکا سب سے قیمتی سرمایہ چھین لیا

لیکن کیا فائدہ ہوا اس سب کا آج وہ اپنی زندگی میں بےحد خوش اور پرسکون تھی

وہ آج تک اپنے کیے ہوئے گناہوں سے بچتا آیا تھا لیکن آج نہیں بچ سکتا تھا کیونکہ اب اسکی سزا کا وقت شروع ہوچکا تھا

وہ چاہ کر بھی نہیں بچ سکتا تھا کیونکہ سارے ثبوت اسکے خلاف تھے اور سب سے بڑھ کر اسکی بیٹی نے اسکے خلاف گواہی دی تھی

آج اسکی زندگی کا فیصلہ ہورہا تھا اسکے کیے تمام گناہوں کے بدلے اسے عمر قید کی سزا سنائی جارہی تھی

وہ اپنے آپ کو بچانے کی جتنی کوشش کرسکتا تھا کرچکا تھا لیکن پھر بھی ہار گیا

وجدان شیرازی ایک مشہور اور کامیاب وکیل تھا وہ تو غیروں کے لیے بھی پورے دل سے لڑتا تھا یہاں تو بات پھر اسکے اپنوں کی تھی

ہفتوں مہینوں سے چلتے اس کیس کا آج اختتام ہوا جس میں ہار حیدر گیلانی کی ہوئی

کیونکہ برائی کبھی جیت نہیں سکتی تھی

اسکا دماغ جیسے بند ہورہا تھا اور وہ غائب دماغی سے سامنے کھڑے اس پولیس آفیسر کو دیکھ رہا تھا جو اسکے ہاتھوں میں ہتھکڑی پہنا رہا تھا

اور وہ بس یہی سوچ رہا تھا کہ کہاں گئی اسکی وہ دولت جس کے بل بولتے پر اسنے ہمیشہ لوگوں کو نیچا دکھایا تھا

اسنے نظریں اٹھا کر وہاں کھڑی علیحہ اور دعا کو دیکھا وہ اسے نظر نہیں آرہی تھیں کیونکہ آنکھوں میں آنسو کے باعث ہر منظر دھندلا رہا تھا

وہ رو رہا تھا شاید ہاں پہلی بار وہ رو رہا تھا اور نظروں کے سامنے اپنا آج تک کیا ہر گناہ کسی فلم کی طرح چل رہا تھا

°°°°°

سکندر کی بات سن کر اسنے اپنے ہونٹ بھینچ لیے جو علیحہ کو اپنے ساتھ لے جانے کا کہہ رہا تھا

کیس کی وجہ سے وہ اس قدر الجھا پڑا تھا کہ ہر چیز ہی زہہن سے نکل گئی حتیٰ کہ یہ بھی کے علیحہ نے واپس جانا تھا 

ایک نہ ایک دن تو اسنے واپس جانا تھا

"میں اسے کہیں لے کر جانا چاہتا ہوں اسکے بعد گھر پر چھوڑ دوں گا" اسکی بات سن کر سکندر نے اپنا سر ہلایا اور مناہل کو لے کر وہاں سے چلا گیا

"کہاں لے کر جاؤ گے تم مجھے"

اسکی بات کا بنا کوئی جواب دیے وجدان نے اسکا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنی گاڑی کی طرف لے گیا

°°°°°

گاڑی رکتے ہی اسنے حیرت سے اس جگہ کو دیکھا 

وہ ایک چھوٹی سی خالی عمارت تھی جو اس وقت پوری خاموش پڑی تھی

"تم مجھے یہاں کیوں لائے"

"گاڑی سے اترو" سیٹ بیلٹ کھول کر وہ گاڑی سے اترا اور اسکے اترتے ہی علیحہ بھی گاڑی سے اتر کر اسکے پیچھے چلنے لگی

اندر جاکر اسے وہاں پر مشارب اور دعا نظر آئے اور سامنے کرسی پر بندھا حیدر گیلانی

"یہ یہاں کیا کررہا ہے اسے تو جیل میں ہونا چاہیے تھا" اسے اپنے سامنے دیکھ کر وہ حیرت سے وجدان کی جانب دیکھ کر پوچھنے لگی

"جیل جانے سے پہلے اپنی غلطیوں کا حساب تو چکا دے" 

ہاتھ میں پکڑی دو گنز میں سے ایک مشارب نے سامنے رکھی چھوٹی سی ٹیبل پر رکھ دی جبکہ دوسری دعا کے ہاتھ میں پکڑا دی جو اسنے کپکپاتے ہاتھوں سے تھام لی 

""یہ تمہارا مجرم ہے اسکے سینے میں جتنی گولیاں اتارنا چاہو اتار دو"

اسکے کہنے پر دعا نے نم آنکھوں سے اسکی طرف دیکھا اسے یاد تھا ہاسپٹل میں اسنے کہا تھا کہ کاش وہ ایک گولی حیدر گیلانی کو مار سکتی ایک گولی اسکے سینے میں اتار سکتی جس کے جواب نے مشارب نے کہا تھا کہ وہ اسکی یہ خواہش ضرور پوری کرے گا اسے امید نہیں تھی کہ وہ اسکی یہ خواہش واقعی میں پوری کرے گا

"چلاؤ گولی اور جتنی گولیاں اسکے سینے میں اتار سکتی ہو اتار دو"مشارب نے ان دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا

اس وقت حیدر کو اسے جیل میں ڈالنا تھا لیکن وہ چاہتا تھا کہ جیل جانے سے پہلے حیدر ان باتوں کا حساب تو چکا لیتا جو غلطیاں اسنے کی تھیں

اسے سزا ضرور ملنی تھی لیکن ان کے ہاتھوں جن کے ساتھ اسنے غلط کیا تھا

"ٹھاہ"

گولی کی آواز نے ماحول کی خاموشی کو توڑا جو ان دونوں نے ایک ساتھ چلائی تھی اور پیچھے کھڑے وجدان اور مشارب سنجیدگی سے انہیں دیکھ رہے تھے

ہوسکتا تھا کہ اس سب کے بعد حیدر مرجاتا لیکن اگر اس سب کے بعد وہ مر بھی جاتا تو بھی مشارب کو پرواہ نہیں تھی کیونکہ وہ پہلے ہی ایک کور اسٹوری بنا چکا تھا کہ حیدر کو کیوں مارا

°°°°°

بھیگی آنکھوں سے اسنے اپنے سامنے خون میں لت پت پڑے اس وجود کو دیکھا بندوق چھوٹ کر اسکے ہاتھوں سے گری

وہ مرچکا تھا نہ بھی مرا ہوتا تو اس حالت میں پڑے پڑے اسنے کچھ ہی دیر میں مرجانا تھا اور اسے مارنے والی اسکی اپنی بیٹی تھی

وجدان علیحہ وہ لے کر یہاں سے جاچکا تھا لیکن وہ ابھی تک وہیں کھڑی اس کے وجود کو دیکھ رہی تھی

اسکی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلےاور روتے ہوئے وہ وہیں بیٹھ گئی

حیدر کے جسم سے نکلتا خون بہتے ہوئے زمین پر رکھے اسکے ہاتھ تک آگیا

اسنے نم آنکھوں سے اپنے ہاتھ کو دیکھا جس پر حیدر کا خون لگا ہوا تھا

اسے اسکی جگہ سے کھڑا کرکے مشارب نے اپنے قریب کیا اور جیب سے رومال نکال کر اسکا خون والا ہاتھ صاف کرنے لگا

"شایان اس جگہ کو صاف کرواؤ" اسنے وہاں کھڑے شایان سے کہا جو اسکی بات پر اپنا سر ہلاکر باہر چلا گیا

اسکے جانے کے بعد مشارب نے دعا کے بھیگے گال صاف کیے

"کیا ہوا"

"میں نے انہیں مار دیا مشارب"

"اور تم نے کچھ غلط نہیں کیا جو لوگ دوسروں پر رحم نہیں کرتے دعا ان پر بھی رحم نہیں کیا جاتا اس شخص کے لیے مت رو یہ اس قابل نہیں تھا کہ تم اسکے لیے اپنے قیمتی آنسوؤں بہاؤ" اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھ کر مشارب نے اسے اپنے سینے سے لگایا اور اسے لے کر باہر چلا گیا

°°°°°

اسکی گاڑی درانی ہاؤس کے سامنے رکی

علیحہ نے چہرہ موڑ کر اس گھر کی طرف دیکھا اور پھر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے وجدان کو جس کی چہرے کے تاثرات اس وقت بےانتہا سخت تھے

"تمہارے ساتھ وقت اچھا گزرا بیریسٹر صاحب اور جو کچھ تم نے میرے لیے کیا اسکے لیے تمہارا بہت شکریہ"

اپنی بھوری آنکھوں سے وہ علیحہ کے چہرے کو غور سے دیکھ رہا تھا جیسے اس کے ہر نقش کو دل میں بسا لے گا آج وہ جارہی تھی یہ دن کبھی نہ کبھی تو آنا ہی تھا

"اب تم بھی خوش ہوجاؤ زبان دراز سے تمہاری جان چھوٹ گئی"

اسکے کہنے پر وجدان اسے یہ بات نہیں بتا سکا کہ اب وہ اس زبان دراز کو کہیں جانے نہیں دینا چاہتا تھا بلکہ وہ تو ساری زندگی اسکی زبان درازی سننا چاہتا تھا

"اپنا خیال رکھنا اور کسی اچھی سی لڑکی سے شادی کرلینا جو صرف دس ہزار کی شاپنگ کرے تمہارا ہر حکم مانے اور کوئی زبان درازی بھی نہ" ابھی اسکے الفاظ منہ میں ہی تھے 

جب وجدان بےخود ہوتا اسکے لبوں پر جھکا اور اسکے باقی کے لفظوں کو اپنی قید میں لے لیا

اسکی اچانک اس حرکت پر علیحہ شاکڈ ہوچکی تھی

اسکے خود سے دور ہوتے ہی وہ بنا ادھر ادھر دیکھے جلدی سے گاڑی سے اتری اور اندر بھاگ گئی

جبکہ اسکے نظروں سے اوجھل ہونے تک وجدان اسکی پشت کو دیکھتا رہا

°°°°°

گھر میں داخل ہوکر اسنے گہرا سانس لیا وجدان سے اسے اس طرح کی کسی حرکت کی امید نہیں تھی

"علیحہ کیا ہوا ہے"سکندر کی آواز پر اسنے چونک کر اسکی طرف دیکھا

"کچھ نہیں"

"وجدان چھوڑ کر گیا ہے تمہیں"

"جی"

"تو پھر اسے گڈ بائے کہہ دیا"سکندر کے لبوں پر شرارتی مسکراہٹ نمودار ہوئی

"یا پھر واپس جانا چاہتی ہو اسکے پاس" اسکے کہنے پر علیحہ نے ناسمجھی سے اسکی طرف دیکھا

"مطلب"

"مطلب یہ سب یہیں ختم یا اسکے پاس واپس جانا چاہتی ہو"

"اب آپ نے رشتہ جوڑا ہے تو میں کیسے ختم کرسکتی ہوں آپ میرے لیے کچھ غلط تھوڑی نہ کریں گے" اسنے شرافت سے نظریں جھکا کر کہا جبکہ اسکا اتنا شرافت بھرا انداز دیکھ کر سکندر کا قہقہہ گونجا

"میری شریف بچی" اسکا ہاتھ پکڑ کر سکندر نے اسے اپنے ساتھ لگالیا

°°°°°

سائیڈ ٹیبل پر رکھا لیمپ کمرے میں ہلکی پھلکی روشنی کا باعث بن رہا تھا اور باقی کا پورا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا پڑا تھا جس سے اسے کوئی فرق بھی نہیں پڑھنا تھا کیونکہ اس وقت تو وہ اپنی سوچوں میں گم تھا

اتنے وقت سے علیحہ اسکے ساتھ تھی اب تو جیسے اس کمرے کو بھی اسکی عادت ہوگئی تھی تب ہی اسکے جانے کے بعد اتنا سونا ہوگیا تھا یا شاید اسے ایسا لگ رہا تھا

اسنے چہرہ موڑ کر بیڈ کے دوسری سائیڈ پر ہاتھ رکھا جو خالی تھی

جب سے علیحہ نے اسے کہا تھا کہ اسکے کس کرنے پر برش کرتی ہے تب سے وجدان روز رات کو اسے کس بھی کرتا تھا اور ساتھ ہی اسے اپنے بےحد قریب کرکے بھی سوتا تھا صرف اسے چڑانے کے لیے لیکن یہ تو اب اسکی خود کی عادت بن چکی تھی اسے اپنی بانہوں میں لے کر سونا

لیکن اب وہ نہیں تھی کمرہ اسکے وجود سے خالی تھا جب اسکا نکاح ہوا تھا تب وہ گن گن کر دن کاٹ رہا تھا کہ علیحہ کب جائے گی اور اب ایسا لگ رہا تھا جیسے وقت پر لگا کر اڑ گیا

کیا وہ اسے چھوڑ سکتا تھا نہیں ہر گز نہیں

اسکا دل چاہ رہا تھا کہ کاش علیحہ اسکے سامنے ہوتی اور زبان درازی کرتی اسکے ساتھ بحث کرتی

پتہ نہیں وہ لڑکی اسکی زندگی میں اسکے دل میں کس مقام پر تھی لیکن اسکے لیے اب وہ بہت خاص ہوچکی تھی

اسے چھوڑنے کا تو اب کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہونا تھا

کمرے میں داخل ہوکر مشارب نے لائٹ آن کی اور تیز روشنی اپنی آنکھوں پر پڑھتے ہی اسنے آنکھیں بند کرلیں

"اوے مجنوں کی اولاد اگر اتنی ہی یاد آرہی ہے تو جانے کیوں دیا"

اسکی بات پر وجدان نے اپنے لب بھینچ لیے

ایک سنجیدہ نظر اسنے مشارب پر ڈالی اور اٹھ کر بیٹھ گیا

"کیا مسلہ ہے"

"کافی اداس لگ رہے ہو"

"نہیں میں کیوں اداس ہونے لگا"

"علیحہ کے جانے کی وجہ سے" مشارب کے کہنے پر اسنے اپنا چہرہ جھکا لیا

"ہاں یاد آرہی ہے مجھے اسکی پر یہ سب صرف اسلیے ہورہا ہے کیونکہ وہ کافی وقت تک میرے ساتھ رہی تھی مجھے اسکی عادت ہوگئی ہے بس اور کوئی بات نہیں"

"پکا عادت ہی ہوئی ہے اور کوئی بات نہیں ہے"

"کیا سننا چاہتے ہو مشارب"اسنے تپ کر کہا

"کچھ نہیں اب جبکہ امان جان کے سامنے ساری بات آہی گئی ہے تو انہوں نے اور سکندر انکل نے مل کر ایک فیصلہ کیا ہے اور ایک مہینے بعد تمہاری اور علیحہ کی شادی کی ڈیٹ رکھ دی ہے" اسکی بات سن کر وجدان نے جھٹکے سے اپنا جھکا سر اٹھا کر اسے دیکھا

"لیکن تم انکار کررہے ہو تو میں منع کردیتا ہوں" اپنی مسکراہٹ دبا کر وہ وہاں سے جانے لگا جب وجدان تیز تیز قدم اٹھاتا اسکے قریب آیا اور اسے اپنے کمرے میں دوبارہ کھینچ لیا

"کیا بات ہوئی ہے ان دونوں کے درمیان"

"تمہیں کیا فرق پڑتا ہے"

"مشارب پٹے کا میرے ہاتھوں سے" اسکی بےچینی دیکھ کر مشارب نے قہقہہ لگایا

"اماں جان نے شادی کی تاریخ ایک ماہ بعد کی طے کردی ہے"

"اور یہ سب کب ہوا"

"جب تم علیحہ کو اسکے گھر چھوڑنے گئے تھے تب ہم سب نے مل کر یہ سب طے کرلیا تھا"

"تو مجھے کیوں نہیں بتایا"

"بتایا تو ہے"

"پہلے کیوں نہیں بتایا"

"محبوب سے دوری کے باعث جو تمہاری بےچینی تھی نہ اسے دیکھ کر مزہ آرہا تھا"

اسکی بات سن کر وجدان نے گھور کر اسے دیکھا لیکن پھر خود ہی ہنس پڑا

اداس دل میں جیسے اک دم بہار آگئی تھی

°°°°°

کمرے میں داخل ہوتے ہی اسکی نظر بیڈ پر سوچوں میں گم بیٹھی دعا پر گئی یقیناً اسکی سوچوں کا مرکز آج ہوا واقعہ ہی تھا

اپنا موبائل اور والٹ سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر وہ جاکر اسکے قریب بیٹھ گیا اور اسکے بیٹھتے ہی وہ سوچو کی دنیا سے باہر نکلی

"کیا سوچا جارہا ہے جانم"

"کچھ نہیں"

"میں بلا وجہ خوش فہمی کا شکار ہورہا تھا کہ تم میرے بارے میں سوچ رہی ہو" اسکی کمر کے گرد بازو حائل کرکے مشارب نے اسے اپنے قریب کرلیا اور اسکی گردن میں اپنا چہرہ چھپالیا

"مشارب دور ہٹیں"

"کس لیے" اسکی گردن سے چہرہ نکال کر وہ اسکے چہرے پر کھلتے رنگ دیکھنے لگا

"وہ مجھے آ-آنٹی نے بلایا تھا"

"اچھا اور یہ بات تمہیں اب یاد آئی ہے"

"جی ہاں اب یاد آئی ہے" اسکے قریب سے اٹھ کر وہ جانے لگی جب مشارب نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے واپس اپنے قریب بٹھالیا اور سائیڈ پر رکھی اپنی ہتھکڑی اٹھا کر اسکے ہاتھ میں پہنادی 

"مشارب یہ کیا حرکت ہے کھولیں اسے"

"چابی کہیں کھو گئی ہے"

"پلیز کھولیں"

"نہیں کھولوں گا"

"مشارب کھولیں اسے"

"نہیں کھولوں گا یہ ایس پی مشارب کی قید ہے جس سے تم کبھی راہ فرار حاصل نہیں کرسکتی ہو" اسکے کہنے پر دعا نے مسکرا کر اسکے کندھے پر اپنا سر رکھا

"مجھے ایس پی مشارب کی قید سے راہ فرار چاہیے بھی نہیں میں تو خود ہمیشہ اسکی قید میں قیدی بن کے رہنا چاہتی ہوں"

اسکی بات سن کر مشارب نے مسکراتے ہوئے اسکے نرم لبوں کو اپنی گرفت میں لے لیا اور کچھ دیر بعد اسکے لبوں کو آزاد کرکے مشارب نے اسکا نازک وجود اپنی بانہوں میں اٹھایا اور اسے خود اپنی مظبوط گرفت میں قید کرتا چلا گیا

آفس روم میں بیٹھی وہ اپنے کام میں مصروف تھی جب اسے مینیجر کا پیغام ملا کہ صالحہ حبیب اس سے ملنے آئی ہیں چند لمحے سوچ کر اسنے اسے اندر بلالیا

اسنے چند دنوں پہلے ہی آفس جوائن کیا تھا وہ بھی صرف اس وجہ سے کہ اسکے گھر میں رہنے سے مناہل اسے زبردستی کچن میں لے جاتی تھی 

تاکہ وہ کچھ گھر داری سیکھ سکے اور اسی وجہ سے علیحہ نے آفس آنا شروع کردیا تاکہ گھر کے کاموں سے اسکی جان چھوٹی رہے جنہیں کرنے سے اسے سخت چڑ تھی

گھر میں ہر طرف شادی کی تیاریاں چل رہی تھیں آج آیت اور ازہار کی برات کا دن تھا اسلیے آج وہ صرف تھوڑی دیر کے لیے آفس آئی تھی وہ بھی چند ایک ضروری کاموں کے باعث ورنہ آج اسکا آفس آنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا

ازہار کی شادی ہر طرح کی رسم کے ساتھ ہوئی تھی مایوں مہندی کے علاؤہ مزید ایک دو چھوٹے چھوٹے فکنشنز ہوئے تھے

جن میں سے وجدان کسی میں بھی شرکت نہیں کر پایا تھا کیونکہ ایک ضروری کیس کے سلسلے میں وہ ایک ہفتے سے دوسرے شہر میں تھا اور اسکی واپسی آج ہی ہوئی تھی

جبکہ خود وجدان یہ سب تقریبات کرنے سے منع کرچکا تھا

اسکے لیے بس بارات اور ولیمے کا فنکشن ہی کافی تھا

اس ایک مہینے میں اسنے وجدان سے ایک بھی ملاقات نہیں کی تھی کیونکہ وجدان سے اب وہ اپنی شادی والے دن ہی ملنا چاہتی تھی

ہاں البتہ چند بار بات ضرور ہوچکی تھی جس میں بھی وہ دونوں کسی نہ کسی معاملے پر بحث کی کرتے رہتے

°°°°°

اسکے آفس روم میں داخل ہوتے ہی علیحہ نے اپنے دونوں ہاتھ تھوڑی کے نیچے رکھ لیے

وہ اسکے کچھ بولنے کی منتظر تھی لیکن وہ بس اپنا سر جھکائے کھڑی تھی اسلیے اسنے خود ہی بات شروع کردی

"کیا کام ہے تمہیں"

"تم سے معافی مانگنے آئی تھی"

"کس لیے"

"جو کچھ میں نے تمہارے اور وجدان کے ساتھ کیا تھا اسکے لیے تم جانتی ہو نہ میں اپنے گھر والوں سے کتنی محبت کرتی ہوں مجھے بس یہی ایک راستہ نظر آیا اپنے بھائی کو بچانے کا"

"لیکن وہ پھر بھی بچ نہیں سکا سزا تو اسے پھر بھی ملی"اسنے افسوس سے کہا

"ہاں کیونکہ کسی کو برباد کرکے ہم اپنی خوشیاں نہیں پاسکتے غلطی میری تھی میں نے ان سب کو بہت لاڈ پیار میں پالا اگر تھوڑی سختی کرتی تو یہ سب کبھی نہیں ہوتا"

"صالحہ تم یہاں مجھے اپنی دکھ بھری داستان سنانے آئی ہو" اسکی بات سن کر علیحہ نے بےزاری سے کہا

"نہیں تم سے معافی مانگنے آئی تھی تم نے ہمیشہ میری بہت مدد کی ہے علیحہ تم میری بہت اچھی دوست تھیں بس میں تمہاری قدر نہیں کرسکی پلیز مجھے معاف کردینا"

"میں نے تمہیں معاف کیا پر ہماری جو دوستی تھی وہ ختم ہوچکی ہے تم ایک اچھی بیٹی ہو بہن ہو لیکن ایک اچھی دوست نہیں ہو"

"علیحہ ایک موقع"

"دوسرا موقع میں کسی کو نہیں دیتی"اسکی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی علیحہ نے کاٹ دی جس پر صالحہ ہلکا سا مسکرائی 

"تم نے مجھے معاف کردیا میرے لیے یہی کافی ہے میں ویسے بھی تمہاری دوستی کے لائق نہیں تھی" اسنے مسکراتے ہوئے اپنے آنسو صاف کیے اور وہاں سے چلی گئی علیحہ کے اسے معاف کرنے پر بےچین دل کو تھوڑا قرار ملا تھا

وہ کب سے اسکے پاس آنا چاہتی تھی اپنی غلطی کی معافی مانگنے لیکن شرمندگی ایسی تھی کہ قدم اٹھایا ہی نہیں گیا پر آج وہ ہمت کرکے اسکے سامنے آہی گئی اور اسکے معاف کرنے پر دل کو قرار بھی مل گیا تھا

°°°°°

مہرون کلر کی لانگ فراک پہنے وہ تیز تیز قدم اٹھاتی سیڑھیوں سے نیچے کی طرف آنے لگی جب مشارب کی غصے سے بھری آواز اسکے کانوں میں پڑی

"دعا"

اسنے نظریں اٹھا کر سامنے کھڑے مشارب کو دیکھا

وجدان اور اسنے ایک جیسی سفید رنگ کی کمیز شلوار پہنی تھی بس فرق اتنا تھا کہ اسنے بلیک کوٹ پہنا تھا اور وجدان نے ڈارک براؤن

وہ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ بےحد خوبرو لگ رہے تھے

"کیا ہوا"

"کون سی بس چھوٹ رہی ہے جو اس طرح بھاگ کر آرہی ہو"

"مشارب خبردار جو ایک لفظ مزید کہا آپ نے تو میرے چلنے پھرنے پر بھی پابندی لگادی ہے"اسنے منہ بگاڑتے ہوئے کہا

وہ دو ہفتوں کی پریگنینٹ تھی اور ان دو ہفتوں میں ہی اسے اپنا آپ جیسے واقعی میں کسی قیدی کی طرح لگ رہا تھا 

ناز بیگم اسے پتہ نہیں اپنے زمانے کی کون کون سی ڈشز بنا کر کھلاتی تھی جبکہ مشارب صاحب کا تو بس نہیں چلتا تھا اسے بیڈ پر ہی باندھ دیں

ہاں اسے اپنی بھی تھوڑی غلطی لگتی تھی وہ احتیاط نہیں کرتی تھی پر اسے اس سب کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی کیونکہ یہ کام گھر کے افراد بخوبی سرانجام دیتے تھے

"میں نے کوئی پابندی نہیں لگائی دعا تم اپنی حرکتیں سدھار لو ورنہ میں واقعی میں تم پر پابندی لگانا شروع کردوں گا"

"مجھے کہیں نہیں جانا میرا موڈ خراب ہوچکا ہے اب بندہ گھر میں چل پھر بھی نہیں سکتا"

قدموں کو چھوتی فراک اٹھا کر وہ واپس اوپر جانے لگی جب مشارب نے اسے کمر سے تھام کر اپنی بانہوں میں اٹھالیا

"میری جان تمہیں کیا ضرورت ہے چلنے پھرنے کی کوئی بھی کام ہو مجھے بتادیا کرو یہ بندہ حاضر ہے نہ تمہارے لیے"اسے اپنی بانہوں میں اٹھائے وہ گھر سے باہر چلا گیا

°°°°°

ڈوپٹہ پہننے سے اسے ہمیشہ چڑ تھی اسلیے اپنے لیے ہمیشہ وہ وہی کپڑے لیتی تھی جس میں ڈوپٹہ نہیں ہوتا تھا

اس وقت بھی اسنے بلیو کلر کی لانگ فراک پہنی ہوئی تھی جبکہ بالوں کا خوبصورت سا جوڑا بنایا ہوا تھا

اپنی فراک پکڑ کر وہ تیز تیز قدم اٹھاتی جانے لگی جب اسکا ہاتھ پکڑ کر کسی نے اسے اپنی جانب کھینچا

اسنے گھور کر وجدان کو دیکھا اگر اسکی جگہ کوئی اور ہوتا تو اس وقت وہ اپنا ہاتھ چھڑا چکی ہوتی لیکن وجدان سے وہ اپنا ہاتھ نہیں چھڑا سکتی تھی

اسے بیک سائیڈ پر لے جاکر وجدان نے اسکا ہاتھ چھوڑا

"کیا مسلہ ہے"

"تم بتاؤ تمہارے ساتھ کیا مسلہ ہے ملاقات تو اتنے وقت میں تم نے مجھ سے ایک دفعہ بھی نہیں کی ہے اوپر سے میرا فون بھی تم پک نہیں کرتی ہو"

"ہینڈسم منڈے نے بتایا کہ تمہیں میری بہت یاد آرہی ہے بس اسی لیے سوچا کیوں نہ تھوڑی مستی کرلی جائے" اسنے شرارتی نظروں سے وجدان کی طرف دیکھا جو اسکی بات سن کر گھورتے ہوئے اسے دیکھنے لگا اور اگلے ہی پل اسکی کمر کو اپنی سخت گرفت میں لے کر وجدان نے اسے اپنے قریب کرلیا

"مجھے تڑپا کر بہت مزا آرہا ہے تمہیں"

"میری جدائی سے تم تڑپ رہے ہو"

"ہاں"

"تو آج تک بتایا کیوں نہیں" 

"آج تو بتا رہا ہوں نہ اصل تڑپ کیا ہوتی ہے یہ بات مجھے اس ایک مہینے میں پتہ چل چکی ہے بہت یاد آتی ہے تمہاری اور تم سے زیادہ تمہارا یہ موتی جب یاد آتا ہے تو قسم سے میرا چین اڑ جاتا ہے" 

اسنے علیحہ کے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر اس کے موتی کو چھوا جب اسکی اس حرکت پر علیحہ کرنٹ کھا کر اس سے دور ہوئی

"حد ہوتی ہے وجدان کچھ شرم کرو جگہ تو دیکھ لو"

"ابھی میں نے ایسا کچھ کیا ہی کب ہے جو تم مجھے شرم دلارہی ہو" گہری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے وہ اسکے قریب جانے لگا جب اسے اپنے قریب آتے دیکھ کر علیحہ جلدی سے وہاں سے بھاگ گئی اور اسکے بھاگتے ہی وجدان کے چہرے پر گہری مسکراہٹ چھا گئی

°°°°°

اسنے دعا کے لیے الگ سے کھانا برائیڈل روم میں لگوا دیا تھا تاکہ وہ وہاں پر آرام سے کھا سکے

خود وہ بھی وہیں اسکے پاس بیٹھ گئی تھی کیونکہ ناز بیگم نے اسے خاص کہا تھا کہ جب تک دعا اچھے سے کھانا نہیں کھا لیتی تب تک علیحہ اسکے پاس ہی بیٹھی رہے

"ایسا لگ رہا ہے مشارب نے مجھے ایک کمرے میں قید کردیا ہے تمہیں پتہ ہے علیحہ میں واشروم جانے کے لیے بھی اٹھتی ہوں تو وہ اٹھ جاتے ہیں انکا تو بس نہیں چل رہا کہ ہر جگہ مجھے اپنی بانہوں میں ہی لے کر جائیں" اسنے منہ بناتے ہوئے وہاں رکھا کباب اٹھا کر اپنی پلیٹ میں رکھا اور اسکا انداز دیکھ کر علیحہ بےساختہ مسکرائی

"ہاں ہنس لو جب تمہارے اوپر یہ وقت آئے گا تب پوچھوں گی"

"ویسے میرے ساتھ شاید ایسا کوئی سین نہ ہو کیونکہ جہاں تک میرا اندازہ ہے وجدان مشارب جتنا کئیرنگ نہیں ہے"

"ایسی بات نہیں ہے"

"خیر چھوڑو اس بات کو جب وقت آئے گا تب دیکھیں گے تم اچھے سے کھانا کھاؤ مجھے آنٹی کو پوری رپورٹ دینی ہے تمہارے کھانے کی" اسکی خالی ہوتی پلیٹ علیحہ نے پھر سے بھر دی

°°°°°

اپنے لپسٹک سے سجے لبوں کو دانتوں میں دبائے وہ بیڈ پر رکھے پھول توڑ رہی تھی جبکہ دل آنے والے لمحات کا سوچ کر گھبرا رہا تھا

ازہار اس سے بات کررہا تھا بلکل نارمل جیسے پہلے کرتا تھا لیکن اس دن کے بعد سے ازہار نے اسے چھوا بھی نہیں تھا اور یہی بات سوچ سوچ کر اب اسے ٹینشن ہورہی تھی کہ اب کمرے میں آکر وہ کیا کرے گا کیونکہ اسکی مزید ناراضگی آیت اب برداشت نہیں کرسکتی تھی 

دروازہ کھولنے کی آواز پر وہ اپنی سوچو سے باہر نکلی نظریں اٹھا کر اسنے سامنے کھڑے ازہار کو دیکھا جو آف وائٹ کلر کی شیروانی پہنے کھڑا تھا اسے ایک نظر دیکھ کر آیت نے نظریں دوبارہ جھکا لیں

چند لمحے مزید خاموشی سے سرکے اور چلتا ہوا وہ بیڈ پر اسکے قریب آکر بیٹھ گیا اور گہری نظروں سے آیت کے وجود کو دیکھنے لگا جو سرخ رنگ کے شرارے میں بےانتہا حسین لگ رہی تھی

"آیت اجازت ہو تو کیا آج تمہارے قریب آسکتا ہوں پہلے ہی بتادو میں نہیں چاہتا مجھے پھر سے دھکا دیا جائے"

اسکے کہنے پر آیت نے خفگی سے اسے دیکھا وہ ابھی تک اس بات کو لیے بیٹھا تھا

"نہیں دے رہی میں اجازت خبردار جو میرے قریب آئے"

"ٹھیک ہے تم کہتی ہو تو نہیں آتا" گہرا سانس لے کر وہ اٹھنے لگا جب آیت نے غصے سے اسکی شیروانی اپنی مٹھیوں میں دبوچی اور اسکی اس حرکت کے باعث وہ سیدھا آیت کے وجود پر جاگرا

"ازہار پلیز نہ بس ختم کریں یہ ناراضگی"

"پر میں تو ناراض نہیں ہوں"

"ہیں آپ مجھ سے ناراض ہیں اگر راضی ہوتے تو پھر اپنی چھچھوری حرکتیں دکھاتے"

"تو تم مس کررہی ہو میری ان حرکتوں کو" ہولے سے مسکرا کر وہ آیت کے چہرے پر اپنا ہاتھ پھیرنے لگا

"ہاں مجھے عادت ہوگئی ہے آپ کی ان حرکتوں کی مس کرتی ہوں میں آپ کو پلیز یہ ناراضگی ختم کرلیں اب کبھی آپ کو خود سے دور نہیں کروں گی" اسنے اپنی نم آنکھوں سے ازہار کی طرف دیکھا جو گہری نظروں سے اسکے چہرے کا ہر نقش دیکھ رہا تھا

"اب خود سے دور تو تم مجھے ویسے بھی نہیں کرسکتی ہو اور اگر تم نے اب مجھے خود سے دور کرنے کی کوشش بھی کی تو تمہارے یہ ہاتھ ہی توڑ دوں گا جن سے تم مجھے دور کرتی ہو"

"آپ میرے ہاتھ توڑ دینگے" اسنے صدمے سے کہا پہلے پہل اسے یہ ایک مذاق لگا لیکن ازہار کا سنجیدہ لہجہ بتارہا تھا کہ اسنے یہ بات مذاق میں نہیں کہی

"ہاں جان اگر تم نے پھر کبھی ایسی حرکت کی تو میں تمہارے ہاتھ توڑنے میں دیر نہیں لگاؤں گا"

"اسکی ضرورت پیش نہیں آئے گی میں اب ایسی غلطی دوبارہ نہیں کروں گی" اسنے معصومیت سے نظریں جھکا کر کہا 

اسکا یہ انداز دیکھ کر ازہار کو اس پر ٹوٹ کر پیار آیا

اسکی نتھ اتار کر ازہار نے اسکی چھوٹی سی ناک پر اپنے لب رکھے

"ازہار"

"ہمم"

"میں نے سوچا تھا جب آپ مان جائینگے تو میں آپ سے ایک شکایت کروں گی آپ مان گئے ہیں تو مجھے اب ایک شکایات کرنی ہے"

"کہو"

"آپ نے اس دن حرا سے بات کی تھی جو مجھے بلکل اچھا نہیں لگا" اسکی بات سن کر ازہار کے چہرے پر گہری مسکراہٹ آئی

اسے تو کہہ رہی تھی کہ پرانی بات کو بھول جائیں اور خود انہی باتوں کو ابھی تک زہہن پر سوار کرکے بیٹھی ہوئی تھی

"آیت میں نے اس سے بات صرف اسلیے کی تھی تاکہ میں اسے سمجھا سکوں کہ میری زندگی میں اسکی کوئی جگہ نہیں ہے کیونکہ ازہار درانی کی زندگی میں صرف آیت وسیم ہے ازہار درانی کے دل پر صرف آیت وسیم کا قبضہ ہے اسکے علاؤہ نہ ہی کبھی کوئی تھا نہ ہی کبھی کوئی ہوسکتا ہے"

اسکی بات سن کر آیت کے دل کو ڈھیروں سکون ملا بلآخر اتنی محنت کے بعد اسے اسکا پرانہ ازہار مل ہی گیا تھا جو بات بات پر اس کے سامنے اپنی محبت کا اظہار کرتا تھا

"میری منہ دکھائی تو آپ نے دی ہی نہیں" اسکی بات سن کر ازہار اسکے اوپر سے اٹھا اور سائیڈ ٹیبل پر رکھا چھوٹا سا باکس اٹھا لیا

اس میں ڈائمنڈ کی رنگ تھی جسے بوکس سے نکال کر اسنے آیت کی انگلی میں پہنادی

آیت نے مسکرا کر اس انگوٹھی کو دیکھا اور اسے مسکراتے دیکھ کر ازہار نے اسکے لبوں پر جھک کر اسکی مسکراہٹ میں اپنی مسکراہٹ کے رنگ شامل کردیے

اپنی تیاری مکمل کرکے وہ جلدی سے باہر جانے لگا جب اسے مشارب کی آواز سنائی دی

"وجدان والٹ تو لے لو" اسنے بیڈ کے سائیڈ پر رکھا اپنا والٹ دیکھا اور اسے اٹھا کر جانے لگا جب اسے پھر سے مشارب کی آواز سنائی دی

"موبائل رہ گیا ہے" اسنے گھور کر بیڈ پر بیٹھے مشارب کو دیکھا

جس نے وائٹ شرٹ کے ساتھ بلیو کلر کا ویسٹ کوٹ اور بلیو کلر کی پینٹ پہنی ہوئی تھی جبکہ اسکا بلیو کوٹ بیڈ کے سائیڈ پر رکھا ہوا تھا

"ایک ہی بار دے دو"

"تم موقع ہی کہاں دے رہے ہو جانے کی اتنی جلدی ہے پہلے کم از کم ایک نظر اپنی تیاری پر تو ڈال لو میں جب تک دعا کو دیکھ کر آتا ہوں"

اسکا موبائل اسکے ہاتھ میں پکڑا کر اسنے اپنا کوٹ اٹھایا اور اسکے کمرے سے باہر چلا گیا

°°°°°

کمرے میں داخل ہوتے ہی اسکی نظر بیڈ پر بیٹھی دعا پر پڑی جس نے بلیک کلر کی ساڑھی پہنی ہوئی تھی اور ڈارک میک اپ کے ساتھ اس وقت وہ بےانتہا حسین لگ رہی تھی

لیکن اس وقت وہ بنا اپنی تیاری کا خیال کیے بیڈ پر بیٹھی کیری کھانے میں مصروف تھی

"یہ تم صبح سے کتنی بار کھا چکی ہو تین بار تو میں ہی تمہیں دیکھ چکا ہوں"

"آپ میرے کھانے پر نظر رکھ رہے ہیں"

"میں نظر نہیں رکھ رہا دعا پر ہر چیز ایک لمٹ میں رہ کر کھانی چاہیے یہ زیادہ کھانے سے تمہارا گلا خراب ہوسکتا ہے"

"کچھ نہیں ہوتا میرا گلا بلکل ٹھیک ہے میں آپ کی ہر بات مانوں گی لیکن اس چیز پر سمجھوتا نہیں کرسکتی کیری کھانے کا میرا جب دل چاہے گا میں کھاؤں گی اور آپ مجھے نہیں روکیں گے" اسنے حکمیہ انداز میں کہا اور اسکا انداز دیکھ کر مشارب نے مسکراتے ہوئے اپنا سر ہلایا

"ٹھیک ہے نہیں کررہا میں تمہیں منع جو دل چاہے وہ کھاؤ"اسکے قریب جاکر مشارب نے اسکی پیشانی پر اپنے لب رکھ دیے

"بہت پیاری لگ رہی ہو"

"میرے خیال سے میں آپ کو کبھی بری لگتی ہی نہیں ہوں" اسکے کہنے پر وہ بےاختیار ہنسا

"ہاں مجھے تو تم ہمیشہ ہی خوبصورت لگتی ہو لیکن آج ضرورت سے زیادہ حسین لگ رہی ہو"

"اچھا جی"

"ہاں"

مشارب کی سیاہ آنکھیں اسکے خوبصورت چہرے پر جمی ہوئی تھیں اور اس سے پہلے وہ کوئی گستاخی کرتا باہر سے آتی ناز بیگم کی آواز نے اسے ایسا کرنے سے روک دیا جو ان سب کو اب چلنے کا کہہ رہی تھیں

"چلو نیچے چلیں"

"نہیں میں زرا سا چلتی ہوں تو آپ ڈانٹتے ہیں اسلیے میں نہیں جارہی مجھے لے جانا ہے تو اپنی گود میں اٹھا کر لے جائیں"

اسکے کہنے پر مشارب نے اپنا سر ہلایا ایسا ہوسکتا تھا وہ اسکی کوئی بات ٹال دیتا

اسے نرمی سے اپنی بانہوں میں اٹھائے وہ نیچے کی طرف چلا گیا اور دعا نے مسکراتے ہوئے اسکے مظبوط سینے پر اپنا سر رکھ لیا

اسے یاد تھا کہ ایک بار اسنے کہیں پڑھا تھا کہ برے وقت میں صبر کرنا چاہے اور جس نے صبر کرلیا اسے بہت خوبصورت انعام ملتا ہے

اسنے صبر کیا تھا جب تک کرسکتی تھی تب تک کیا تھا 

لیکن پھر ایک وقت ایسا آیا جب اسے اپنی ہمت ٹوٹتی محسوس ہوئی

اسے لگ رہا تھا کہ اب اپنی زندگی میں وہ مزید کچھ بھی برا برداشت نہیں کرسکے گی وہ زندگی سے بےزار ہوچکی تھی اسکی برداشت جیسے ختم ہوگئی تھی

اور بھلا ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ رب اپنے بندوں کو انکی برداشت سے زیادہ آزمائے

اسکی زندگی میں خدا نے مشارب کو بھیجا تھا اسکے صبر کا خوبصورت انعام ایک بےانتہا خوبصورت تحفہ 

جو خدا نے اسے دیا تھا جس کے لیے وہ خدا کا جتنا شکر ادا کرتی کم تھا

اسنے بےاختیار مشارب کے دل کے مقام پر اپنے لب رکھے جبکہ اسکی اس حرکت سے مشارب کے لبوں پر دلکش مسکراہٹ نمودار ہوئی

"مشارب"

"بولو جان مشارب"

"Je t'aime"

(آئی لو یو)

مشارب کے ساتھ رہ کر فرینچ کے چند الفاظ تو اسنے بھی سیکھ لیے تھے

"je t'aime aussi mon amour"

(آئی لو یو ٹو مائی لو)

اسکے الفاظ سن کر دعا نے سکون سے اپنی آنکھیں موند لیں

°°°°°

ان دونوں کا نکاح ہوچکا تھا لیکن کافی لوگ اس بات سے انجان تھے اسلیے سکندر نے دوبار سے ان دونوں کا نکاح کروایا تھا

نکاح کی رسم ادا ہوتے ہی ہر طرف مبارک باد کا شور مچ اٹھا

اور کچھ دیر بعد اسٹیج پر اسکے ساتھ علیحہ کو لاکر بٹھا دیا گیا

آج علیحہ کی رخصتی کے ساتھ ساتھ ازہار کا ولیمہ بھی تھا اسلیے دو اسٹیج بنائے گئے تھے

علیحہ کے اپنے قریب بیٹھتے ہی وہ حیرت سے اسکے سنگھار ہوئے روپ کو دیکھنے لگا آج تک اسنے اپنی زبان دراز کو بھلا کب ایسے دیکھا تھا

اسنے سرخ رنگ کی برائیڈل فراک پہنی ہوئی تھی جبکہ وہ علیحہ جس کے پاس تو دور دور تک ڈوپٹہ نہیں دکھتا تھا آج بڑے ہی سلیقے سے ڈوپٹہ سر پر جمائے اسکے برابر بیٹھی تھی

"بیرسٹر صاحب نظریں ہٹا لو بھری محفل میں بیٹھیں ہیں ہم" اسکی آواز سن کر وجدان جلدی سے سیدھا ہوا

"بہت پیاری لگ رہی ہوں کیا" اسنے سوالیہ نظروں سے وجدان کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا

"نہیں اتنی بھی کوئی خاص نہیں لگ رہی ہو"

"تم بھی کوئی ایسے خاص نہیں لگ رہے ہو بس تمہاری شیروانی اچھی لگ رہی ہے"

اسنے وجدان کی ڈارک براؤن کلر کی شیروانی دیکھتے ہوئے کہا اسے شیروانی بھی صرف اسی وجہ سے اچھی لگ رہی تھی کیونکہ وہ اسنے خود آرڈر پر بنوائی تھی

"تمہاری تعریف کا بہت شکریہ علیحہ"

°°°°°

وقت لمحوں میں گزر گیا اور پھر مکمل رسم و رواج کے ساتھ رخصت ہوکر علیحہ شیرازی مینشن آگئی

وہ یہاں پہلی بار نہیں آئی تھی پر پہلے وہ یہاں مجبوری میں آئی تھی لیکن اب اپنی خوشی سے

اسے وجدان کے کمرے میں بٹھا کر دعا چلی گئی اور اسکے جانے کے بعد علیحہ منہ کے ٹیڑھے میڑھے نقشے بنا کر کمرے کی سجاوٹ دیکھنے لگی

اسے ان کپڑوں میں الجھن محسوس ہورہی تھی نہ ہی اسے یہ سب کچھ پسند تھا اور نہ ہی یہ سب پہننے کی عادت تھی 

وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور اپنا ڈوپٹہ اتار کر دور پھینکا ساری جیولری اتار کر اسنے ڈریسنگ پر رکھ دی اور اپنے آرام دہ کپڑے نکال کر واشروم میں گھس گئی

واشروم میں جاکر اسنے اپنا چہرہ اچھے سے دھویا جسے دھو کر ایسا لگ رہا تھا جیسے منہ پر رکھا کتنا وزن اتر گیا ہو

واپس کمرے میں آکر اسنے وارڈروب کھولی اور اس میں سے وجدان کا بلیک کوٹ نکال کر پہن لیا جو وہ کام پر جاتے وقت پہنتا تھا

°°°°°

کمرے میں داخل ہوکر اسے وہی منظر دیکھنے کو ملا جیسا اسنے سوچا تھا علیحہ کیا کرے گی یہ تو اسے نہیں پتہ تھا لیکن اسکے انتظار میں بیڈ پر نہیں بیٹھی رہے گی اس بات کا اسے یقین تھا اور ایسا ہی ہوا اسکا بلیک کوٹ پہنے وہ اسکی طرح مردانہ چال چلنے کی کوشش کررہی تھی لیکن یہ کام اسکے بس کا نہیں تھا یہ اور بات تھی

"زبان دراز میرا کوٹ اتارو" اسکی آواز سن کر علیحہ چونکہ ورنہ وہ تو خود میں اتنی مگن تھی کہ اسکی موجودگی کا بھی علم نہیں ہوسکا

"کیوں اتاروں مام کہتی ہیں کہ شادی کے بعد شوہر کی ہر چیز پر بیوی کا حق ہوتا ہے"

"بلکل جیسے بیوی کی ہر چیز پر شوہر کا حق ہوتا ہے" اسنے معنی خیزی سے کہا جبکہ اسکی نظروں کا مفہوم جان کر علیحہ نے اپنی نظریں جھکالیں

"میں اتار رہی ہوں نہیں چاہیے تمہارا کوٹ" وجدان کا کوٹ اتار کر اسنے واپس اسی جگہ پر رکھ دیا جہاں سے اٹھایا تھا جبکہ اسکی اس حرکت پر وجدان کھل کر ہنسا

"تم چاہے یہ کوٹ اتارو یا پھر پہنو آج راہ فرار ممکن نہیں ہے"ایک ہی جست میں اس تک پہنچ کر وجدان نے اسکی کمر پر اپنا مظبوط ہاتھ رکھا اور اسے اپنے قریب کرلیا

"وجدان چھوڑو مجھے" اسکی بات کو اگنور کرکے وجدان اسکے موتی کو چھونے لگا جب اسکی اس حرکت سے علیحہ نے جلدی سے اسکا ہاتھ تھاما

"تمہیں پتہ ہے تمہارا یہ موتی مجھے بہت پسند ہے جان اٹکی ہے میری اس میں دل کرتا ہے اسے اپنے لبوں سے چھو لوں لیکن جب تم میرا ہاتھ روکتی ہو تو مجھے بہت غصہ آتا ہے"

"مجھے نہیں پسند تم اسے ہاتھ لگاؤ پلیز اسے ہاتھ مت لگایا کرو مجھ ایسا لگتا ہے جیسے کوئی کرنٹ لگ گیا ہو" پہلی بار وہ وجدان کو اتنی معصوم لگ رہی تھی لیکن وہ اسکی معصومیت میں نہیں آنے والا تھا کیونکہ اندر سے وہ کیا چیز تھی اس بات سے وہ بخوبی واقف تھا

"تم جانتی ہو آج کیا ہے"

"کیا ہے"

"اقرار کی رات پیار کی رات" اسکی بات سن کر علیحہ نے اپنا تھوک نگلا

"میں اظہار کے معاملے میں بہت کچا انسان ہوں مجھے سمجھ نہیں آتا کہ کسی بھی چیز کا اظہار کیسے کرتے ہیں لیکن اپنے دل میں چھپے لفظ تمہیں بتادیتا ہوں"

"تم میرے لیے بہت خاص ہوگئی ہو علیحہ شیرازی اتنی خاص کہ تمہارے بنا وجدان شیرازی اب کچھ ہے ہی نہیں تم زندگی میں آئی ہو تو اس سیدھے سادے دل کو رہنمائی مل گئی ہے"

"رہنمائی"

"ہاں میرا سیدھا سادا دل رہنمائے دل کی طرف نکل پڑا"

"لیکن رہنمائی کا مطلب تو سیدھا راستہ ہوتا ہے"

"محبت کرنا اور پھر محبت میں نکاح کرنا اس سے زیادہ سیدھا راستہ بھلا اور کیا ہوگا"

اسکی بات سن کر علیحہ ہلکا سا مسکرائی اور اسے مسکراتے دیکھ کر وجدان اسکے مسکراتے لبوں پر جھک گیا

اپنے لبوں کو اسکی قید میں دیکھ کر علیحہ نے سختی سے اسکی شیروانی کو اپنی مٹھیوں میں دبوچ لیا

جب اسکے لبوں کو آزاد کرکے وجدان گہری نظروں سے اسکے چہرے پر بکھرتے شرم و حیا کے رنگ دیکھنے لگا

"تم زبان درازی کرتی ہوئی مجھے اچھی لگتی ہو لیکن اس سے زیادہ تم مجھے شرماتے ہوئے اچھی لگتی ہو"

اسکا نازک وجود اپنی بانہوں میں اٹھا کر وجدان نے اسے بیڈ پر لٹا دیا اور اسکے اوپر اپنا جھکاؤ کرکے نرمی سے اسکے دل کے مقام پر اپنے لب دم رکھ دیے جبکہ اسکی اس حرکت سے علیحہ نے سختی سے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور چند لمحوں بعد اسے اپنے پیٹ سے اپنی کمیز سرکتی محسوس ہوئی اور پھر وجدان کے لبوں کا لمس اپنے ننھے سے موتی پر محسوس ہوا 

وجدان کی اس حرکت کے باعث اس کے لب علیحہ کے پیٹ کو بھی چھو گئے اور اس کی اس حرکت سے علیحہ کا سانس تک رک چکا تھا

"علیحہ زندگی بھر کے لیے میرا ساتھ قبول کرتی ہو" اسکی بات سن کر علیحہ نے اپنی آنکھیں کھولیں

"میں تو تمہارا ساتھ زندگی بھر کے لیے قبول کرسکتی ہوں پر کیا تم مجھے میری زبان درازی سمیت عمر بھر کے لیے قبول کرسکتے ہو"

"خوشی سے"

اسکی گردن پر جھک کر وہ اپنا شدت سے بھرپور لمس چھوڑنے لگا

"و-وجدان"

اسکا شدت بھرا انداز دیکھ کر علیحہ نے گھبراتے ہوئے اسے پکارا جس پر وجدان نے اسکی گردن سے چہرہ نکال کر اسے دیکھا اور اسے ایک نظر دیکھتے ہی علیحہ نے اپنی نظریں جھکالیں

وجدان نے اسکی جھکی نظروں پر اپنے لب رکھے اور پھر سے اسکے لبوں کو اپنی گرفت میں لے کر اسے ہر طرح سے خود میں قید کرتا چلا گیا

°°°°°

اپنا کوٹ اتار کر اسنے اپنے بازو پر لٹکایا اور تیز تیز قدم اٹھاتا اپنے کمرے کی طرف چلا گیا

جہاں کمرے میں داخل ہوتے ہی اسے آیت صوفے پر خود میں سمٹی ہوئی ملی

اسنے لائٹ بلیو کلر کی میکسی پہنی ہوئی تھی اور شرمائی شرمائی سی وہ پوری تقریب میں ہی ازہار کی نظروں کا مرکز بنی رہی لیکن اس وقت یہ خود میں سمٹی ہوئی آیت اسے بلکل اچھی نہیں لگ رہی تھی

"آیت کیا ہوا ہے" اپنا کوٹ صوفے کے سائیڈ پر پھینک کر وہ آیت کے قریب بیٹھ کر پوچھنے لگا

"ازہار وہ بیڈ پر چھپکلی بیٹھی ہے" اسنے بیڈ کی طرف اشارہ کیا جسے دیکھ کر ازہار اٹھ کر اپنے بیڈ کی طرف گیا جہاں بیڈ کے بیچو بیچ وہ نواب زادی بڑی شان سے بیٹھی ہوئی تھی

لیکن وہ نکلی تھی آیت غور کرتی تو اسے بھی یہ بات پتہ چل جاتی لیکن صدا کی ان چیزوں سے ڈرنے والی آیت بھلا اس بات پر کیسے غور کرتی

یقینا اس چھپکلی کو علیحہ ہی رکھ کر گئی تھی

"آیت جان یہ نکلی ہے" اسے اپنے ہاتھ میں اٹھا کر وہ آیت کو دکھانے لگا جس پر آیت کا منہ مزید بگڑا

"ازہار اسے پھینک دیں کھڑکی سے باہر پھینکیں"

"دیکھو تو سہی" وہ اسکے قریب جانے لگا جب اسے اپنے قریب آتے دیکھ کر آیت نے چیخ ماری

"ازہار دور رہیں ورنہ میں کمرے سے چلی جاؤں گی"

"اچھا یار نہیں آرہا تمہارے قریب"

"اسے پھینکیں" اسکے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ازہار نے کھڑکی کھول کر اسے باہر پھینک دیا جب آیت کی طرف سے ایک نیا حکم صادر ہوا

"ہاتھ دھو کر آئیں اچھے سے رگڑ رگڑ کر" اسکی بات سن کر وہ اپنا سر نفی میں ہلاتے ہوئے واشروم چلا گیا

"اب ٹھیک ہے" واشروم سے باہر نکلتے ہی اسنے اپنی ٹائی اتار کر دور پھینکی جبکہ اسکے پوچھنے پر آیت نے اپنا سر ہاں میں ہلادیا

"ہاں"

"تو پھر دیر کس بات کی ادھر آؤ میرے پاس"

"ازہار بیڈ شیٹ چینج کرلوں وہ کیسے لیٹی ہوئی تھی اس پر"

"آیت وہ نکلی تھی"

"لیکن پھر بھی"

آیت"

اسکی گھورتی نظریں دیکھ کر آیت مزید بنا کچھ کہے اسکے قریب چلی گئی اور اسکے قریب آتے ہی ازہار نے اپنا ہاتھ اسکی کمر پر رکھا اور اسے اپنے قریب کرکے اسکے نرم لبوں کو اپنی گرفت میں لے لیا

°°°°°

آنکھ کھلتے ہی اسنے اپنے آپ کو وجدان کی بانہوں میں پایا شرمیلی سی مسکراہٹ اسکے لبوں کر بکھر گئی

اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ جانے لگی جب اسے اٹھتے دیکھ کر وجدان نے اسکی کمر کے گرد اپنا بازو حائل کرکے اسے پھر سے اپنی بانہوں میں بھر لیا 

"کہاں جارہی ہو"

"اٹھنا ہے مجھے" اسنے نظریں جھکا کر کہا اس وقت وجدان کے سامنے نظریں اٹھانا اسے دنیا کا سب سے مشکل کام لگ رہا تھا

"مس زبان دراز کیا تم شرما رہی ہو"

"نہیں میں نہیں شرما رہی" اسنے اپنا سر نفی میں ہلایا جبکہ گھنی پلکیں اب تک سجدہ ریز تھیں

"ویسے میں کچھ سوچ رہا تھا"

"کیا"

اسنے ہاتھ بڑھا کر وجدان کے سینے کے بالوں کو چھوا

"تم میرے کس کرنے پر برش کرنے جاتی تھیں تو اب کیا ایسیڈ سے شاور لو گی کیونکہ اب تو" 

اسکی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی علیحہ نے اسکے لبوں پر اپنا نازک ہاتھ رکھ دیا اور شرم سے سرخ ہوکر چہرہ اسکے سینے میں چھپالیا 

لیکن اسکی بات سن کر وہ اسکے سینے پر زور دار مکا مارنا نہیں بھولی تھی جبکہ اپنے سینے میں چھپی اس شرمائی ہوئی لڑکی کو دیکھ کر وجدان کی مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی

(پانچ سال بعد)

اپنا سامان اٹھا کر وہ باہر جانے لگا جب اسکے باہر جانے سے پہلے شایان اندر آگیا

"آپ گھر نہیں گئے سر"اسنے مشارب کو دیکھ کر پوچھا

"شایان اگر میں گھر گیا ہوتا تو تمہیں یہاں نظر آتا"

"نہیں مطلب میں تو ایسے ہی کہہ رہا تھا" اسکے انداز میں جھجک تھی اور ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ شایان اس سے کوئی بات کرتے ہوئے جھجک رہا تھا

ان گزرے سالوں میں انکے عہدے تبدیل ہوچکے تھے جہاں پہلے وہ ایس پی مشارب راحم شیرازی تھا اب وہیں ایس ایس پی مشارب راحم شیرازی بن چکا تھا

لیکن اسکے باوجود بھی شایان کا رویہ اسکے ساتھ ہمیشہ کی طرح ہی رہا تھا پھر آج وہ کیا بات کرنے آیا تھا جس کے لیے اتنا جھجک رہا تھا

"شایان کیا کہنا ہے"

"وہ امی جان چاہتی ہیں کہ میں اب شادی کرلوں"

"تو تم کیا مجھ سے اجازت لینے آئے ہو" وہ بےساختہ ہنسا

"نہیں وہ دراصل مجھے ایک لڑکی پسند ہے لیکن امی جان کے سامنے اسکا ذکر کرنے سے پہلے میں چاہتا ہوں میں خود اس سے ملوں اس کی رائے جان لوں اور یہ سب آپ کی مدد کے بنا نہیں ہوسکتا"

"اچھا کون ہے وہ لڑکی" مشارب کے پوچھنے پر وہ اپنا گلا کھنکارنے لگا

"صالحہ"

"صالحہ حبیب" اسنے تصدیق کرنی چاہی

"جی"

"پوری دنیا میں تمہیں وہی ایک لڑکی ملی تھی"

"یہ تو دل کا معاملہ ہے سر میں کیا کرسکتا ہوں" اسنے دانتوں کی بھرپور نمائش کی

"خیر تمہاری زندگی ہے تم جس کے ساتھ گزارنا چاہو لیکن اس معاملے میں تمہاری مدد علیحہ ہی کرسکتی ہے میں اس سے بات کرلوں گا"

"تھینک یو سر" اسکے چہرے پر خوشی کے تاثرات آئے جسے دیکھ کر مشارب نے مسکراتے ہوئے اسکا کندھا تھپتھپایا اور وہاں سے چلا گیا

°°°°°

آج واپسی معمول کے مطابق دیر سے ہوئی تھی اسکا ارادہ سیدھا کمرے میں جانے کا تھا جب چلتے قدم لاونج میں بیٹھی دعا کو دیکھ کر رکے

جو اپنا سر ٹیبل پر رکھے سورہی تھی یقیناً اسکا انتظار کرتے کرتے ہی وہ یہاں سوگئی ہوگی

"دعا اٹھو" اسکے قریب جاکر مشارب نے اسکا بازو ہلایا جس پر وہ چونک کر اٹھی اور اسکے اٹھتے ہی وہ بنا کچھ کہے اپنے کمرے کی طرف چلا گیا

دعا نے گہری سانس لے کر اسکی پشت کو دیکھا اور اٹھ کر کمرے میں چلی گئی مشارب نے اس سے کوئی بات نہیں کی تھی یقینا اسکی ناراضگی ہنوز جاری تھی

"مشارب آپ اب بھی مجھ سے ناراض ہیں" اسنے مشارب کے پیچھے آکر کہا جو اسکے کمرے میں داخل ہوتے ہی اسے گھورنے لگا

"یہ یہاں کیا کررہا ہے" اسنے بیڈ پر سوئے میکائیل کی طرف اشارہ کیا

"اسے میرے پاس سونا تھا اسلیے یہاں آگیا"

"دعا میں نے اسکا الگ کمرہ دیکھنے کے لیے نہیں بنوایا"

اسنے میکائیل کے لیے ایک الگ کمرہ بنوایا تھا لیکن پھر بھی وہ اسکے کمرے میں آکر دھمک جاتا جس کی وجہ سے مشارب نے اپنے کمرے میں ہی اسکے لیے ایک چھوٹا سا بیڈ رکھوالیا تھا لیکن پتہ نہیں اس لڑکے کو کیا مسلہ تھا 

مشارب کی غیر موجودگی میں تو وہ اپنے کھیل میں مگن رہتا لیکن اسکے گھر میں داخل ہوتے ہی میکائیل کو یاد آجاتا کہ اسکی ایک عدد ماں بھی ہے اور پھر اسکی گود میں چڑھ کر پتہ نہیں وہ کون سے جہان کی باتیں کرتا رہتا

اسکا مقصد بس اپنی ماں کو اپنے باپ سے دور رکھنا ہوتا تھا اس معاملے میں وہ بہت پوزیسو تھا یہ بات اسے بلکل برداشت نہیں ہوتی تھی کہ اسکی ماں اسکی موجودگی میں کسی اور کو پیار کرے لیکن مشارب سے وہ اس معاملے میں وہ لڑ نہیں سکتا تھا اسلیے اسکے گھر میں داخل ہوتے ہی وہ ایلفی کی طرح دعا کے ساتھ چپک جاتا

رات بھی اسنے یہی کیا تھا اپنے کمرے کو چھوڑ کر اسکے کمرے میں آگیا اور مشارب کے منع کرنے کے باوجود بھی اسکے بیڈ پر ہی چپکا رہا

مشارب جانتا تھا کہ اگر دعا اسے کمرے سے جانے کا کہتی تو وہ چلا جاتا اسلیے اسنے دعا سے یہی کہا تھا لیکن وہ بھلا کچھ کیوں کہتی وہ تو اسکی بات کو اگنور کرکے میکائیل کو اپنے قریب کرکے سوگئی

اسکی اس حرکت پر مشارب غصے سے کمرے سے باہر چلا گیا  اور تب سے ہی دعا سے اسکی ناراضگی چل رہی تھی

"مشارب کیا ہوگیا ہے بچہ ہے سونے دیں یہاں پر"

"ٹھیک ہے سونے دو اسے یہاں اور اب اسے ہی اپنے پاس سلانا"اپنا سامان ڈریسنگ پر رکھ کر وہ غصے سے باہر جانے لگا جب اسکا ہاتھ پکڑ کر دعا نے اسکا رخ اپنی جانب کیا اور اسکے سینے سے لگ گئی

"پلیز مشارب اب اپنی یہ ناراضگی ختم کردیں"

"اچھا تو تمہیں فکر ہے میری ناراضگی کی"

"بلکل ہے"

"تو پھر اسے اٹھا کر کمرے سے باہر پھینکو" اسکے کہنے پر دعا نے خفگی سے اسے دیکھا

"مشارب وہ بیٹا ہے آپ کا"

"میرے لیے میرے بیٹے کا ٹائم الگ ہے اور بیوی کا الگ اور یہ وقت میرا میری بیوی کے لیے ہے

اسلیے میں نہیں چاہتا کوئی اور اس میں دخل اندازی کرے"

بیڈ پر سوئے میکائیل کو اٹھا کر اسنے وہاں رکھے اسکے چھوٹے بیڈ پر لٹا دیا

"کھانا کھالیں"

"مجھے اس وقت صرف تمہیں کھانا ہے یہاں پر آؤ اور میری ناراضگی دور کرو" بیڈ پر بیٹھ کر اسنے دعا کو اپنے قریب آنے کا اشارہ کیا

"میرے خیال سے آپ کی ناراضگی دور ہوچکی ہے" اسکے قریب بیٹھ کر دعا نے اسے بتانا چاہا کہ اپنی ناراضگی وہ ختم کرچکا ہے

"نہیں ہوئی ہے" اسکے بال ایک طرف کرکے اسنے نرمی سے دعا کی گردن کو اپنے لبوں سے چھوا

"مشارب"

"چلو کس کرو مجھے"اسکے کہنے پر دعا نے مسکراتے ہوئے ہلکے سے اسکے لبوں کو چھو لیا

"یہ کس نہیں ہوتی"

"مشارب آپ آج کل کچھ زیادہ ہی بگڑتے جارہے ہیں"

"مجھے بگاڑنے والی تم ہی تو ہو" اسکے دونوں ہاتھ اپنی گرفت میں لے کر مشارب نے اسے بیڈ پر لٹا دیا 

اس وقت کمرے میں صرف ایک سائیڈ لیمپ جل رہا تھا جو کمرے میں روشنی کرنے کا سبب بن رہا تھا

لیکن مشارب ہاتھ بڑھا کر اسے بھی بند کرچکا تھا

°°°°°

واشروم سے نکلتے ہی اسکی پہلی نظر بیڈ پر بیٹھے میکائیل پر گئی جو اپنے ہاتھ میں گن لے کر بیٹھا ہوا تھا

"بڑے بابا دیکھو" وجدان کو دیکھتے ہی اسنے گن اسکی طرف کرکے دکھائی

"میکائیل ادھر دو کہاں سے آئی تمہارے پاس"

"عالی نے دی ہے" عالی کہنا علیحہ نے ہی اسے سکھایا تھا کیونکہ بڑی ماما پھوپھو خالا سننا اسے پسند نہیں تھا

"میکائیل ادھر دو یہ بچوں کے کھیلنے کی چیز نہیں ہے" وجدان اسکی جانب بڑھا جب اسے اپنی جانب بڑھتے دیکھ کر وہ تیزی سے کمرے سے بھاگ گیا

غصے سے وجدان بھی اسکے پیچھے گیا جبکہ چلاتے ہوئے علیحہ کو پکارنا وہ نہیں بھولا تھا

°°°°°

کمرے سے نکلتے ہی وہ تیز تیز قدم اٹھاتا میکائل کے پیچھے گیا اور اسے بازو سے کھینچ کر پکڑ لیا ڈھائی فٹ کا تو تھا وہ کہاں تک بھاگ سکتا تھا

"علیحہ"

"کیا مسلہ ہے جج صاحب کیوں چلارہے ہو" اسکے چلانے کی آواز سن کر وہ کچن سے نکل کر اسکے پاس آئی

جب سے وہ جج کے عہدے پر فائز ہوا تھا تب سے علیحہ اسے بیرسٹر صاحب چھوڑ کر جج صاحب کہنے لگی تھی

"یہ چیز کوئی بچوں کے ہاتھ میں دیتا ہے" اسنے میکائیل کے ہاتھ سے بندوق لی جسے لیتے ہی اندازہ ہوگیا کہ میکائیل کے ہاتھ میں یہ چیز تھما کر علیحہ اتنے آرام سے کیوں گھوم رہی تھی

"خالی ہے یہ گن تمہارے دماغ کی طرح"

"تمہارے کچرے والے دماغ سے تو میرا خالی دماغ ہی بہتر ہے"

"بس کرو تم دونوں اب صبح صبح لڑنا مت شروع کردینا" ناز بیگم کی آواز سن کر ان دونوں نے اپنی بحث روکی

وہ دونوں اچھے خاصے سمجھدار تھے لیکن جب ایک دوسرے کے سامنے ہوتے تھے تو بچوں کی طرح لڑنا شروع کر دیتے تھے 

وجدان تو پھر بھی کبھی خاموشی ہو جاتا تھا لیکن علیحہ جب تک دل کی بھڑاس نہیں نکال لیتی تب تک خاموش نہیں ہوتی تھی اور جب بھی اسکی علیحہ سے بحث ہوتی تھی تب اسے بس ایک ہی لمحہ یاد آتا جب علیحہ پریگنینٹ تھی 

اس وقت اسکی تکلیف دیکھ کر وجدان کو تکلیف ہورہی تھی لیکن اس لڑکی نے اپنی بحث ہمیشہ کی طرح اس وقت بھی جاری رکھی تھی

"مشارب جلدی سے گاڑی نکالو" علیحہ کا وجود اپنی بانہوں میں اٹھائے اسنے چلاتے ہوئے کہا جسے سن کر مشارب جلدی سے اپنی جگہ سے اٹھا

"بس علیحہ کچھ نہیں ہوا ہے ہم ابھی ہاسپٹل پہنچ جائیں گے" گاڑی میں اسے اپنے ساتھ بٹھا کر اسنے علیحہ کا وجود اپنے سینے سے لگایا جس کے چہرے پر تکلیف دہ تاثرات تھے

"ت-تمہاری وجہ سے ہورہا ہے یہ سب"

"اچھا میری وجہ سے ہو رہا ہے"

"ہاں" 

"مجھے اپنی ادائیں تم ہی دکھاتی ہو اور اب کہہ رہی ہو میری وجہ سے ہورہا ہے"

"ہاں تمہاری وجہ سے ہورہا ہے"

"زبان دراز لڑکی تکلیف میں ہو تم کچھ تو خیال کرلو ابھی بھی بحث کیے جارہی ہو چپ ہوجاؤ"

"تم کررہے ہو میری تکلیف کا خیال جو میں چپ ہوجاؤں" 

ان دونوں کی بحث دیکھ کر گاڑی چلاتے مشارب نے چلا کر کہا

"بس کرو تم دونوں وجدان تم ہی خاموش ہوجاؤ اسکی حالت نہیں دکھ رہی ہے تمہیں" اسکی بات سن کر وجدان بھی خاموش ہوگیا کیونکہ پتہ تھا اس تکلیف میں بھی علیحہ میڈم نے اپنی بحث جاری ہی رکھنی تھی

علیحہ کے ساتھ گزرا لمحہ وہ جب بھی یاد کرتا تھا تو لبوں پر مسکراہٹ چھو جاتی لیکن یہ وہ واحد لمحہ تھا جسے وہ جب بھی یاد کرتا تو سمجھ نہیں آتا اس لمحے کو سوچ کر غصہ کرے یا پھر ہنسے

°°°°°

ناشتہ لگتے ہی گھر کے سارے افراد ڈائیننگ ٹیبل پر بیٹھ گئے جب ناز بیگم نے نظریں اٹھا کر مشارب اور دعا کو دیکھا

"ناراضگی ختم ہوگئی تم دونوں کی" 

مشارب اس سے ناراض تھا اور یہ بات وہ کل سے نوٹ کررہی تھیں

"امان جان ہماری کوئی ناراضگی نہیں چل رہی تھی" مشارب نے انکی غلط فہمی دور کرنی چاہی 

لیکن وہ جھوٹ کہہ رہا تھا اور یہ بات وہاں بیٹھی دعا کے ساتھ ساتھ میکائیل بھی بخوبی جانتا تھا لیکن وہ اپنی ماں کی طرح اپنے باپ کے جھوٹ میں اسکا ساتھ ہرگز نہیں دینے والا تھا

"نہیں دادو ڈیڈ ناراض تھے ماما سے لیکن ماما نے رات کو انہیں منا لیا" اسکی بات سنتے ہی دعا اور مشارب نے ایک ساتھ سر اٹھا کر اسے دیکھا

"ڈیڈ نے کہا کہ میری ناراضگی دور کرو اور مجھے کس کرو پھر ماما نے انہیں کس کردیا" اسکی بات سنتے ہی دعا اپنا ناشتہ ٹیبل پر چھوڑ کر وہاں سے چلی گئی جبکہ مشارب تو اس وقت اسے گھور بھی نہیں پارہا تھا

"میرے خیال سے ماما کے کس کرنے سے ڈیڈ کی ناراضگی"

"بس بہت کھالیا" اپنی جگہ سے اٹھ کر اسنے جلدی سے میکائیل کو اپنی گود میں اٹھایا اور اسے لے کر وہاں سے چلا گیا جبکہ ٹیبل پر بیٹھے باقی افراد اپنی ہنسی ضبط کرنے کی کوشش میں لگے رہے

°°°°°

اسے کمرے میں لاکر مشارب بیڈ پر بیٹھ گیا اور اسے اپنے سامنے کھڑا کرلیا

وہ دکھنے میں دعا کی طرح تھا جبکہ چہرے پر موجود معصومیت تو دعا سے بھی زیادہ تھی اسنے اپنے باپ سے بس گہری سیاہ آنکھیں لی تھیں

لیکن انداز میں وہ کس پر گیا تھا یہ تو کوئی بھی نہیں جانتا تھا وہ ایک نمبر کا ڈھیٹ انسان تھا

ایک دفعہ اسنے حیا کو تھپڑ مارا تھا جس کی وجہ سے مشارب نے اسے ڈانٹ دیا اسکے ڈانٹنے کر خفا ہوکر اسنے دعا سے یہ کہا کہ اسکے لیے نئے ڈیڈی لائے جائیں

پھر ہونا کیا تھا میکائیل شیرازی کا نرم گال تھا اور مشارب شیرازی کا بھاری ہاتھ

اسکے تھپڑ مارنے پر میکائیل رونا شروع ہوچکا تھا اور اپنے رونے سے وہ پورا گھر پر سر اٹھا چکا تھا

سب اسے چپ کروا کر تھی چکے تھے لیکن وہ تب تک چپ نہیں ہوا جب تک اسکا خود کا موڈ ٹھیک نہیں ہوا لیکن اس دن کے بعد سے ایک بات جو اسنے اپنے چھوٹے سے دماغ میں بھٹالی تھی وہ یہ تھی کہ اسکے نئے ڈیڈی کبھی نہیں آئینگے اسلیے اسے جو کام چلانا ہے انہی ڈیڈی سے چلانا ہوگا

"میکائیل جو پوچھوں گا اسکا صاف صاف جواب دینا'' اسکے کہنے پر میکائیل نے شرافت سے اپنا سر ہلایا

"رات کو جاگ رہے تھے تو بتایا کیوں نہیں"

"اگر میں بتادیتا کہ میں جاگ رہا ہوں تو آپ مجھے کمرے سے نکال دیتے اور پھر مجھے میرے کمرے میں بھیج دیتے"

"رات کو کیا دیکھا تھا"

"رات کو آپ کمرے میں آئے پھر ماما سے لڑنے لگے اور پھر ماما کو اپنے پاس بٹھایا"وہ تفصیل سے اسے ایک ایک بات بتانے لگا

"پھر کیا دیکھا" اسنے جلدی سے پوچھا اسے اس وقت بس یہ فکر ستا رہی تھی کہ میکائیل نے رات کو کیا دیکھا

"پھر آپ نے ماما سے کس کرنے کو کہا ماما نے آپ کو کس کیا"

"پھر"

"اس سے زیادہ کچھ دیکھ ہی نہیں پایا آپ نے لائٹ جو بند کردی تھی اور لائٹ بند ہوتے ہی میں بھی سوگیا تھا" اسکے کہنے پر مشارب نے سکون بھرا سانس لیا

دعا ٹھیک کہتی تھی اسکا بیٹا اب بڑا ہورہا تھا اسلیے اپنے بے لگام جذباتوں کو اسے تھوڑا لگام ڈالنے کی ضرورت تھی

°°°°°

مشارب کے کمرے سے نکلتے ہی وہ حیا کو ڈھونڈنے لگا جو اسے باہر لان میں بیٹھی نظر آگئی

لائٹ پرپل کلر کی فراک پہنے وہ دو پونیاں بنائے گھاس توڑ کر اپنے منہ میں ڈال رہی تھی

وہ ساڑھے تین سال کی تھی اور دکھنے میں وہ بلکل اپنے باپ کی طرح تھی اپنی ماں سے اسنے کچھ نہیں لیا تھا 

اسکی گندمی رنگت تھی اور وجدان کی طرح بھورے رنگ کی بڑی بڑی آنکھیں

کہنے کو وہ علیحہ کی بیٹی تھی لیکن اس سے بلکل مختلف تھی وہ ہر چھوٹی چھوٹی بات پر گھبرا جاتی اور کسی تیز آواز پر وہ رونا شروع کر دیتی تھی

اسے ٹھیک سے ابھی بولنا نہیں آتا تھا اور وہ بولتی بھی بہت کم تھی اسلیے اسے کیا کہنا ہوتا تھا اسکے کہنے سے پہلے ہی میکائیل کہہ دیتا تھا

"یہ تم کیا کررہی ہو حیا" اسکے قریب جاکر میکائیل نے صدمے سے کہا جس پر وہ گھبرا کر اسکی طرف دیکھنے لگی جیسے اسنے کتنی بڑی غلطی کردی ہو لیکن غلطی کیا کی تھی یہ اسے نہیں پتہ تھا

"تم گھاس کیوں کھارہی ہو یہ کھانا اچھی بات نہیں ہوتی"

"کیوں"

"یہ گندے لوگ کھاتے ہیں اور جو اسے کھاتے ہیں وہ بھی گندے ہو جاتے ہیں" کمر کر ہاتھ رکھ کر وہ بڑے لوگوں کی طرح اسے سمجھانے لگا

جبکہ اسکے منہ سے اپنے لیے گندا لفظ سن کر اسکی بڑی بڑی آنکھیں پانی سے بھر چکی تھیں

اسکی بھیگی آنکھیں دیکھ کر اس سے پہلے میکائیل کچھ کہہ پاتا وہاں پر وجدان آچکا تھا جس نے وہاں بیٹھی حیا کو اپنی گود میں اٹھا لیا لیکن اسکی بھیگی آنکھیں دیکھ کر وہ خود بھی چونک گیا

"کیا ہوا حیا رو کیوں رہی ہو" اسکے پوچھنے پر حیا نے میکائیل کی طرف اشارہ کیا

"اسنے مجھے گندا کہا"وہ جملے تیزی سے نہیں بول پاتی تھی لیکن آسان لفظوں کی اردو اسے آسانی سے سمجھ آتی تھی

اسکے کہنے پر وجدان نے گھور کر میکائیل کو دیکھا

"تو نے رلایا ہے میری بیٹی کو"

"نہیں نہیں نہیں" اسکے گھورنے پر میکائیل نے جلدی سے اپنے دونوں ہاتھ ہلاتے ہوئے اپنا سر نفی میں ہلایا کہیں وجدان اسے غلط سمجھ کر مارنا ہی نہ شروع کردے

"یہ گھاس کھا رہی تھی بڑے بابا میں نے تو بس منع کیا تھا کہ یہ کھانا اچھی بات نہیں ہوتی" اسکی بات سن کر وجدان نے اپنی گود میں موجود حیا کو دیکھا

"حیا گھاس کیوں کھا رہی تھیں بھوک لگی تھی تو ماما سے کہتیں"

"مجھے اتھی(اچھی) لگتی ہے" اسکی بات سن کر وجدان اتنا تو سمجھ گیا تھا کہ یہ حرکت اسنے پہلی دفعہ نہیں کی تھی

"میکائیل ایک ذمیداری سونپ رہا ہوں تمہیں"

"کیا"

"آج کے بعد حیا کبھی بھی یہ حرکت کرے تو تم اسے روکو گے"

"اوکے"

اسنے جوش اور جذبے سے کہا یہ جوش اور جذبہ اسکے اندر اکثر جاگتا رہتا تھا کبھی مشارب کو پولیس یونیفارم میں دیکھ کر تو کبھی وجدان کو بلیک گاؤن میں دیکھ کر

اسلیے وجدان اسکے لیے اسکے سائز کے مطابق ایک پولیس یونیفارم اور بلیک کوٹ بھی لاکر دے چکا تھا تاکہ اپنا شوق وہ پورا کرسکے

"وجدان"

علیحہ کی آواز پر اسنے مڑ کر دیکھا

"مام کا فون آیا تھا ہاسپٹل جانا ہے"

°°°°°

"ہائے کتنی پیاری ہے یہ" علیحہ نے اپنی گود میں موجود اس بچی کو دیکھتے ہوئے کہا جسے دنیا میں آئے ہوئے ابھی چند گھنٹے ہوئے تھے

فائنلی وہ پھوپھو بن ہی گئی تھی

ازہار جانتا تھا آیت کو پڑھائی کا کتنا شوق ہے اسلیے یہ عہد اسنے خود سے کیا تھا کہ جب تک آیت کی پڑھائی مکمل نہیں ہوجاتی تب تک وہ اس پر بچوں کی کوئی ذمیداری نہیں ڈالنے والا تھا

"شکریہ علیحہ تم نے بتادیا ہمیں تو پتہ ہی نہیں تھا یہ کتنی پیاری ہے" ازہار کی بات پر اسنے منہ بنا کر اسے دیکھا لیکن پھر اگنور کرکے دوبارہ اس بےبی کو دیکھنے میں مصروف ہوگئی

"ماما نے مجھے تو اتنا تیار(پیار) نہیں کیا" مشارب کی گود میں چڑھی حیا نے خفگی سے اس نئے وجود کو دیکھا جو مزے سے اسکی ماں سے پیار لے رہی تھی

اسنے کہا تو آہستہ آواز میں ہی تھا لیکن علیحہ پھر بھی اسکی آواز سن چکی تھی

"ہائے میری جان ایسے مت بولو ادھر آؤ ماما پیار کریں تمہیں"اسے ازہار کی گود میں دے کر اسنے حیا کی طرف اپنے ہاتھ بڑھائے جو مسکراتے ہوئے بنا دیر کیے اسکی گود میں آگئی

"انکل ہمیں بھی دکھا دیں" میکائیل نے سر اٹھا کر ازہار کو دیکھتے ہوئے کہا جس پر اسنے جھک کر اس بےبی گرل کو اسکے سامنے کردیا

"یہ بات نہیں کرتی"

"ابھی چھوٹی ہے نہ پہلے سیکھے گی"

"تو کھیلے گی بھی نہیں"

"جب سو کر اٹھے گی تو پھر کھیلے گی" اسکے کہنے پر میکائیل نے اپنے لب دانتوں میں دبائے اور اسکے گال پر تھپڑ مار کر اسے اٹھانے لگا اور اس کوشش میں کامیاب بھی ٹہرا کیونکہ اسکا تھپڑ کھاتے ہی وہ رونا شروع ہوچکی تھی اور اسے روتے دیکھ کر میکائیل گھبراتے ہوئے بھاگ کر وہاں کھڑی دعا کے پیچھے چھپ گیا

ورنہ ازہار کچھ کرے نہ کرے مشارب نے اسکا کان ضرور کھینچنا تھا

°°°°°

ہاسپٹل سے واپس آتے ہوئے کافی رات ہوچکی تھی جبکہ حیا اور میکائیل گاڑی میں ہی سوچکے تھے 

اسلیے انہیں اپنی گود میں اٹھا کر مشارب اور وجدان خاموشی سے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے تاکہ انکی نیند خراب نہ ہو

°°°°°

میکائیل کو اسکے کمرے میں لٹا کر وہ اپنے کمرے میں آگیا جہاں دعا واشروم سے نکل رہی تھی اسنے نائٹ سوٹ پہنا ہوا تھا اور یقینا اب سونے کی تیاری تھی لیکن مشارب کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا

"دعا سونا مت"

"مشارب مجھے نیند آرہی ہے"

"میں کہہ چکا ہوں بعد میں نیند خراب ہو تو مجھ سے شکایت مت کرنا" اپنی بات کہہ کر اسنے وارڈروب سے اپنا ٹراؤزر اور شرٹ نکالا اور واشروم میں چلا گیا

دعا نے گھور کر واشروم کے دروازے کو دیکھا جیسے اسے نہیں مشارب کو دیکھ رہی ہو اور اسکی بات کو اگنور کرکے سونے کے لیے لیٹ گئی

جب تھوڑی دیر بعد نیند میں اسے اپنے چہرے پر مشارب کا لمس محسوس ہوا ہو

وہ نیند میں تھی لیکن اسکا لمس اپنے چہرے پر محسوس کرکے اسکی لبوں پر مسکراہٹ بکھر چکی تھی

جسے دیکھ کر مشارب اسکے لبوں پر جھک گیا

"مشارب مجھے نیند آرہی ہے" اسکے دور ہٹتے ہی دعا نے منہ بنایا

"ہر وقت تو تمہارا ٹڈا ساتھ رہتا ہے ایسے موقع مجھے کم ہی میسر آتے ہیں جب وہ ہمارے درمیان نہ ہو اور ایسے موقع میں ضائع نہیں کرنا چاہتا"

"آپ میرے بیٹے کو ٹڈا کہہ رہے ہیں"

"ہاں ٹڈا کہہ رہا ہوں پتہ نہیں کیا چیز ہے ایسا لگتا ہے اسنے تمہارے اندر کوئی الارم فٹ کیا ہے جب بھی میں تمہارے قریب آتا ہوں الارم بج جاتا ہے اور وہ ٹڈا اڑ کر ہمارے درمیان آجاتا ہے" 

اسکی بات سن کر وہ بےساختہ ہنسی جس پر مشارب نے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھے

جب اسکے کانوں میں دروازے ناک ہونے کی آواز آئی

"دعا کیا یہ آواز تمہیں بھی آرہی ہے یا میرے کان بج رہے ہیں" اسنے تصدیق کرنی چاہی جس پر دعا نے اپنا سر ہلادیا

اسکا سر ہاں میں ہلتا دیکھ کر وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور جاکر دروازہ کھول دیا جہاں اسکے اندازے کے عین مطابق وہ ٹڈا ہی کھڑا تھا

نیند میں ڈوبا ہوا جبکہ دونوں ہاتھوں میں اسنے اپنا چھوٹا سا تکیہ پکڑا ہوا تھا

"آپ مجھے اس کمرے میں اکیلا چھوڑ آئے ڈیڈ" اسنے معصومیت کے سارے ریکارڈ توڑ دیے تھے لیکن وہ مشارب شیرازی کی ہی اولاد تھا جسکی وہ رگ رگ سے واقف تھا اسلیے اسکی معصومیت میں کم از کم وہ تو نہیں آنے والا تھا

"میرا بیٹا جب اکیلے کمرے میں سو گے تو ہی بہادر بنو گے"

"تو پھر آپ کیوں ماما کے ساتھ سوتے ہو" اسکے کہنے پر دعا نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی ہنسی دبائی جبکہ مشارب گہرا سانس لے کر رہ گیا

"کیونکہ تمہاری ماں اکیلے سونے سے ڈرتی ہے اسلیے مجھے اسکے ساتھ سونا پڑتا ہے"

"میں بھی بچہ ہوں اور میں بھی اکیلے سونے سے ڈرتا ہوں" تکیہ سینے سے لگائے وہ اندر کمرے میں داخل ہوا جب دروازہ بند کرکے مشارب نے اسے اپنی گود میں اٹھایا

"بچہ حرکتیں ہیں بچوں والی" اسکا تکیہ بیڈ پر پھینک کر وہ اسکے پیٹ پر گدگدی کرنے لگا جس کی وجہ سے کمرے میں میکائیل کی ہنسی گونجنے لگی

وہ ہنستے ہوئے اپنی ماں کو مدد کے لیے بلارہا تھا اور ایسا کیسے ہوسکتا تھا کہ وہ دعا کو پکارتا اور وہ نہ جاتی اسلیے وہ اپنے معصوم بیٹے کو اسکے ظالم باپ سے بچانے کی جدو جہد میں لگ گئی

جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب وہ بھی مشارب کے شکنجے میں آچکی تھی جس کی وجہ سے میکائیل کے ساتھ ساتھ کمرے میں دعا کی بھی ہنسی گونجنے لگی

°°°°°

اپنے کمرے میں داخل ہوکر وجدان نے نے آرام سے اسے بیڈ پر لٹایا اور اٹھ کر خود چینج کرنے کے لیے چلا گیا

چینج کرکے وہ باہر نکلا جب نظر بیڈ پر حیا کے پاس بیٹھی علیحہ پر گئی جو گہری نظروں سے سوتی حیا کو دیکھ رہی تھی

"میری بیٹی کو نظر لگاؤ گی"

"میں سوچتی تھی کہ حیا کو بھی اپنے جیسا بناؤں گی مظبوط جو ہر طرح کے معاملے کو فیس کرنا جانتی ہو لیکن لگتا نہیں ہے یہ ایسی بنے گی"

"مجھے اسے بنانا بھی نہیں ہے میرے لیے ایک ہی علیحہ کافی ہے میں یہ چاہتا ہوں کہ میری حیا عام لڑکیوں کی طرح رہے" اسکے کہنے کر علیحہ آنکھیں چھوٹی کرکے اسے گھور کر دیکھنے لگی

"کیا مطلب ہے میں لڑکی نہیں ہوں"

"نہیں یار میں نے تو یہ کہا ہے کہ یہ عام لڑکیوں کی طرح بنے شرمیلی سی معصوم سی تمہاری طرح زبان دراز نہ ہو"

"وجدان صاحب تم نے ہی کہا تھا کہ میری زبان درازی تمہیں ساری عمر خوشی سے قبول ہے"

ارے یار نیا نیا محبت کا خمار چڑھا تھا جب اترا تو پتہ چلا کہ اس وقت کیا کہہ دیا تھا"

اسکے کہنے پر علیحہ نے وہاں رکھا کشن اسکے اوپر پھینکا جو سیدھا اسکے منہ پر جا لگا جبکہ وجدان کی گھورتی نظریں اب اس پر ٹکی تھیں

"بچ کر دکھاؤ تم مجھ سے"کشن سائیڈ پر پھینک کر وہ اپنی جگہ سے اٹھا جبکہ اسے اٹھتے دیکھ کر وہ جلدی سے کمرے سے باہر جانے لگی لیکن اس سے پہلے ہی اسکا ہاتھ پکڑ کر وجدان اسے صوفے پر گرا چکا تھا

"پہلے حساب تو چکاو"

"وجدان حیا اٹھ جائے گی"

"وہ اپنی نیند پوری کیے بنا نہیں اٹھتی ہے"

"میکائیل آجائے گا"

"وہ اس وقت مشارب کا دماغ کھا رہا ہوگا"

"اماں جان نے بلایا تھا"

"رات کے اس وقت وہ تمہیں نہیں بلانے والی"

وہ خاموش ہوگئی اسکے ہر ںےتکے سوال کا جواب وجدان کے پاس موجود تھا

"کیا کرنا ہے مجھے"

"تمہیں کچھ نہیں کرنا جو کرنا ہے مجھے کرنا ہے" اسکی بات سن کر علیحہ نے مسکراتے ہوئے اپنی نظریں جھکالیں جب وجدان نے کارپٹ پر پھکا کشن اٹھایا اور اس کے منہ پر مار دیا

اسکی اس حرکت کے باعث علیحہ کی مسکراہٹ غائب ہوئی اسے تو لگ رہا تھا وجدان کوئی رومینٹک سی حرکت کرے گا لیکن یہ بندہ بھی نہ

صوفے سے اٹھ کر اسنے کشن اٹھا کر دوبارہ وجدان کے اوپر پھینکا

پھر کیا تھا شروع ہوگئی علیحہ اور وجدان کی لڑائی

°°°°°

"آیت میں کیا سوچ رہا ہوں"عادت کے مطابق وہ دھڑام سے بیڈ پر گرا جس پر آیت نے گھور کر اسے دیکھا

کیونکہ اسکی اس حرکت سے بےبی کی نیند خراب ہوسکتی تھی جسے اتنی مشکل سے مناہل سلا کر گئی تھی

"کیا سوچ رہے ہیں" 

"ہم اسکا نام حرا رکھ دیں"

"کوئی ضرورت نہیں ہے اپنی سوچ اپنے پاس رکھیں"

"ارے یار اسنے بھی تو اپنے بیٹے کا نام ازہار رکھا ہے میں سوچ رہا تھا ہم بھی حرا رکھ لیتے ہیں"

حرا کی شادی یونیورسٹی لائف میں ہی ہوگئی تھی جس پر آیت نے شکر بھرا سانس لیا لیکن پھر حیرت کا شدید جھٹکا اسے تب لگا جب اسنے اپنے بیٹے کا نام ازہار رکھا تھا صرف اسلیے کیونکہ اسکی محبت کا نام ازہار تھا

"جی نہیں میں اپنی بیٹی کا نام حرا نہیں رکھنے والی اسکا تو میں کوئی پیارا سا نام رکھوں گی"

"جیسے"

"جیسے" وہ سوچنے لگی

"ایمان ازہار درانی"

"اچھا جی ٹھیک ہے تو پھر اب سے آپ ایمان ازہار درانی ہیں"وہ کمبل میں لپٹے اس ننھے وجود کو بتانے لگا جبکہ اسکا انداز دیکھ کر آیت بےاختیار ہسی

°°°°°

کمرے میں داخل ہوتے ہی اسے کمرہ خالی ملا

مناہل کی غیر موجودگی دیکھ کر وہ واپس باہر اسے دیکھنے کے لیے جانے لگا جب وہ اسے بیلکونی میں کھڑی دکھائی دی وہ خود بھی وہیں چلا گیا

"مناہل یہاں کیا کررہی ہو ٹھنڈ ہورہی ہے"

"میں کچھ سوچ رہی تھی سکندر"

"کیا سوچ رہی تھی" سکندر نے اسے پیچھے سے اپنے حصار میں لیا

"میں نے آج تک آپ کا شکریہ ادا نہیں کیا"

"تمہیں میرا شکریہ کس بات کے لیے ادا کرنا تھا مناہل"

"ہر اس چیز کے لیے جو آپ نے میرے لیے کی تھی میں نے آپ کو برا بھلا کہا آپ کی بات نہیں سنی آپ نے پھر بھی میرا ساتھ نہیں چھوڑا میرے ماں باپ کے سامنے ہمیشہ میری عزت رکھی علیحہ کو قبول کیا مجھے عزت بھری زندگی دی" بولتے بولتے اسکی آواز رندھ گئی

"مناہل شکریہ ادا کرنا ہو تو ہمیشہ اللہ کا کرنا چاہیے سچ کہوں تو میں نے بھی تو اپنا ہی فائدہ دیکھا تھا محبت تھیں تم میری میں تمہیں چھوڑ نہیں سکتا تھا اسلیے تمہیں اپنانے کے لیے یہ سب کیا"

"محبت میں بھی ہر کوئی ساتھ نہیں دیتا سکندر اور جہاں تک بات ہے اللہ کا شکر ادا کرنے کی تو یہ کام میں ہر نماز میں کرتی ہوں اور ساری زندگی بھی شکر ادا کرتی رہوں تو بھی ٹھیک سے شکر ادا نہیں کر پاؤں گی کہ خدا نے مجھے آپ جیسا تحفہ دیا"

اسکے کہنے پر سکندر کے چہرے پر دلکش مسکراہٹ نمودار ہوئی آج پہلی بار وہ اس طرح کھلے لفظوں میں اپنے جذبات کا اظہار کررہی تھی وہ کیسے خوش نہیں ہوتا

اسے اپنے قریب کرکے سکندر نے نرمی سے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھے اور اسے اپنے سینے سے لگالیا

°°°°°

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Rehnuma E Dil Romantic  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Rehnuma E Dil written by Umm E Omama  Rehnuma E Dil by Umm E Omama is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages