Rahat E Rooh By S Merwa Mirza New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Tuesday, 3 September 2024

Rahat E Rooh By S Merwa Mirza New Complete Romantic Novel

Rahat E Rooh By S Merwa Mirza New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Rahat E Rooh By S Merwa Mirza New Complete Romantic Novel 


Novel Name: Rahat E Rooh 

Writer Name:S Merwa Mirza 

Category: Complete Novel

انتہائی تاریک، بھیانک اور موسلا دھار قہر ناک بارش والی سیاہ رات تھی، بادل اور بجلی اس وحشت سے گرج رہے تھے کہ دل کانپ سا جاتا۔

اپنے کیے سارے گناہوں کا بوجھ قدرت اسکے کندھے سے اتارنے کا تہیہ کیے بیٹھی تھی، عباد حشمت کیانی نامی گرامی سیاست دان، دشمن کے وار سے اپنے ہی آنگن کو اجڑنے سے نہ بچا سکا تھا۔

علاقے کے نیشنل ہوسپٹل خون میں لت پت نسوانی وجود کو بانہوں میں اٹھائے وہ حلق کے بل چینختا داخل ہوا تھا۔

اسکی سفید شرٹ خون سے تر تھی، چہرے پر کرب کی انتہا، تکلیف کی آخری حد لیے وہ جیتے جی شاید مر سا گیا تھا۔

حسین، دنیا کا فخر، اک وحشی بھی، شاید اک نادانستہ جرم کا مرتکب بھی تبھی تو قدرت نے اسکے اعمال اسکے سامنے لائے تھے 

اسکی ایک جنبش پر کئی ملک کے بڑے بڑے لوگ کٹ پتلی کی طرح ناچتے تھے مگر آج ہوسپٹل میں وہ صرف ایک اجڑا ہوا پور پور بکھرا دیوانہ اپنے ہاتھوں سے ریت کی مانند پھسلتی حیات کے بچاو کے لیے کچھ بھی نہ کرسکنے پر اپنے ہاتھ مل رہا تھا۔

جسے اپنی نہیں گُل مینے اور اسکے وجود میں پلتی ننھی جان کی فکر خون کے آنسو رلا رہی تھی۔

گاڑی پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا، وہ آخری سانسیں لے رہی تھی مگر عباد حشمت کیانی نے اپنی آخری سانس کب کی حلق سے کھینچ لی تھی۔

گُل مینے کو فوری طور پر آئی سی یو روم شفٹ کیا گیا تھا، پورے ہوسپٹل میں ایمرجنسی نافذ تھی۔

خونی جن زاد بن کر بھی بے بسی پر ماتم کرتے عباد سے کچھ فاصلے پر کھڑی ایک مغربی مکمل سیاہ لباس والی عورت بھی کھڑی تھی جو کرب ناک دیکھائی دے رہی تھی۔

"ممکن ہے ہمیں یہ آپریٹ فوری کرنا پڑے، انتظار کیا تو آپکی بیوی کے ساتھ ساتھ آپکے بچے کی جان بھی چلی جائے گی۔ گل مینے کا بہت خون بہہ چکا ہے عباد صاحب، ہمیں اجازت دیں کہ ہم آپکے بچے کو بچانے کی ایک کوشش کر لیں۔ دیر ہو گئی تو ہم مریضہ کے ساتھ ساتھ اس بچے کو بھی کھو دیں گے"

جب ڈاکٹرز اور نرسوں کی پوری ٹیم نے ماں کی ابتر حالت اور بچے کی زندگی کے خطرے کا بتایا تو اس لمحہ اپنی حاکمیت کے باوجود وہ شخص ہارے جواری کا روپ دھار گیا تھا، جسکے ہاتھوں اسکی ساری پونجی لٹ گئی تھی۔

ان پیپرز پر اس سنگین خطرے کے باوجود آپریٹ کی ہامی کے دستخط کرتے وقت وہ لاشعور میں اپنا جنازہ پڑھ رہا تھا، تکلیف نے تو اس سنگدل دل کے ہر کونے میں پنجے گاڑ لیے تھے، گل مینے نے گویا چلے جانا تھا، وہ یکدم اسکی پربہار زندگی کے ہر باب سے ویسے ہی اوجھل ہونے والی تھی جیسے شامل ہوئی تھی۔

بہت اجلت میں، شاید یونہی، بلاوجہ۔۔۔۔

اس سوہان روح انتظار کو کئی گھنٹے گزر گئے، یکدم پورے ہوسپٹل کی ساری روشنیاں گُل ہو گئیں۔

ہر طرف افراتفری مچ چکی تھی۔

دس منٹ ہی گزرے تھے کہ روشنیاں واپس بحال ہو گئیں مگر وہ ایک جملہ عباد پر اس پورے ہوسپٹل کی عمارت گرا گیا۔

"ہم نے آپ کے بیٹے کو بچا لیا تھا وہ بلکل ٹھیک اور صحت مند تھا مگر وہ ناجانے کیسے غائب ہو گیا۔۔۔۔"

اپنی سماعت میں پگھلا سیسہ اترتا محسوس کیے وہ بپھری موج سا آئی سی یو روم کی سمت دوڑا۔

وہاں اسکی بیوی گُل مینے کی لاش تھی، وہ اس بچے کو جنم دینے کے بعد بس چند لمحے جی سکی تھی، اسکے ساکت خاکی وجود پر سفید چادر ڈال دی گئی تھی۔

آنکھیں، روح، جسم اور جان سب ماتم منانے لگے۔

عباد نے اپنا کانپتا ہاتھ بڑھا کر ایک آخری بار گُل مینے کا چہرہ اذیت سے دیکھا۔

پورے ہوسپٹل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، جلد از جلد یہ خبر میڈیا میں پھیل گئی۔

"مشہور جنرلسٹ اور یوتھ کے پاور فل لیڈر عباد حشمت کیانی کا نومولود بیٹا ہوسپٹل سے پُراسرر طور سے غائب ہو گیا"

ہر چینل پر یہی خبر تھی، عباد کی اس تکلیف پر وہ سیاہ کپڑوں والی عورت استہزایہ ہنسی تھی، جیسے اس شخص کی اذیت نے اسے سکون بخشا۔

جو عباد حشمت کے جسم سے لہو کا ایک ایک قطرہ نچوڑ دینے کی خواہاں تھی، اسکے نفیس اور خوبصورت چہرے پر نجس مسکراہٹ اور غرور درج تھا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

اسے لگتا تھا یہ برستی بارش صرف امیر لوگوں کے لطف کا سبب بنتی ہے، اسے انجوائے کرنا تو امیروں کےچونچلے ہیں۔

غریب لوگ جو بمشکل اپنا تن ڈھانپتے ہوں، انکے لیے یہ بارش انکے کچے گھروں کی تباہی تھی۔

وہ دن اسے آج بھی یاد تھا جب وہ کچی بستی کی جھونپڑیوں میں اپنی ماں، بابا، دادی اور دادا کے ساتھ غربت کے باوجود آسودگی سے رہتی تھی، ایک رات چراغ کے جلے رہ جانے نے پوری جھونپڑی کو جلا کر خاکستر کر ڈالا۔

ماں ، بابا اور دادی جھلس کر مر گئے، دادا نے کسی طرح منہا سلطان کو بچا تو لیا مگر وہ خود دھوئیں کے باعث دمہ اور سانس کے مرض کا شکار ہو گئے۔

جس آگ نے منہا کا سارا خاندان نگل لیا وہی آگ اسکے اندر اس ننھی تئیس سالا عمر سے ہی اس سفاک زمانے کے لیے بھری تھی۔

سنسان سڑک پر وہ مکمل بھیگی، آج پھر خود کے ساتھ ہوتی ناانصافی پر یوں راستے میں ہی سارا بلک بلک کر رونا چاہتی تھی۔

جس ہوٹل میں وہ ہفتہ وار کچن کی صفائی کی نوکری پر لگی تھی ان لوگوں نے ہفتے بعد زرا چوری کے الزام پر اُسے بنا تنخواہ دیے دھکے دے کر نکال دیا تھا۔

آج دادا جان کی دوا بھی لینی تھی، ایک دل تو چاہا کاش اتنے پیسے مل جائیں کے وہ دادا کو زہر دے کر خود بھی کھا لے اور اس درد دیتی حیات سے چھٹکارہ ملے۔

دادا نے اسے حکیم کے پیشے کے سنگ محنت مزدوری کیے سرکاری سکول میں پوری بارہ جماعتیں پڑھوائی تھیں مگر پچھلے تین سال سے وہ تقریبا اپنے کام کے مندے ہونے اور اپنی غربت کا سوچ سوچ بستر سے آ لگے تھے، منہا دن میں کئی چھوٹی موٹی نوکری، کام اور دھندا ڈھونڈ ڈھونڈ کر کرتی۔

ہر چھوٹا بڑا کام اسکی ننھی جان سہہ لیتی ، اسے اپنا اور دادا کا خود ہی پیٹ پالنا تھا۔

یہاں تک کہ آج صبح ایک کنسٹرکشن بلڈنگ میں اینٹیں تک اٹھا کر چار سو روپے کما کر آئی تھی مگر یہ چار سو روپے اسے صرف دردناکی سے چِرا رہے تھے، اس کی بے بسی پر ہنس رہے تھے۔

چھوٹا سا دو کمروں والا بوسیدہ، پرانا ہر سہولت کے فقدان والا ڈربہ نما مکان جس کا ہر مہینے تین ہزار کرایہ دینا پڑتا، اسکا اور اسکے دادا کے سر کو ڈھانپنے کا چھوٹا سا وسیلہ تھا۔

مالک مکان کو تو ہر پہلی کو نقط کرایہ درکار ہوتا، اُس ظالم بے حس کو اس سے کیا فرق پڑتا کہ وہ دادا پوتی کرایے کی ادائیگی کے لیے اپنے جسم کا کونسا حصہ پیجیں۔

بارش لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی جا رہی تھی، اور اسی شدت سے منہا کی درد اور تکان میں لپٹی ہچکیاں اس سنسان رات میں گونج رہی تھیں۔

وہ دادا کے سامنے کیسے روتی، جو خود اپنی موت کی دعا مانگتے تھے، حکیم کا پیشہ ٹھپ تھا، آجکل لوگ کہاں حکیموں کے پاس آتے تھے۔

ابھی کچھ لمحے ہی گزرے کہ منہا کو لگا اس نے کوئی بہت دردناک آہٹ سنی ہو، دل دہلاتی کلکاری۔

اپنی ہتھیلی سے آنکھیں رگڑتی وہ سڑک سے ملحقہ کچے راستے کی سمت بڑھی جہاں لکڑیاں اور کچھ ساتھ کچرے کے شاپر دھرے تھے۔

وہاں منصوعی چھت کے باعث بارش پہنچنے سے قاصر تھی۔

وہاں کا دل چیڑتا منظر دیکھ کر اس کا سارا درد اور آہیں گلے میں گھٹ سی گئیں۔

وہ تڑپ کر زمین پر بیٹھی اور وہ چھوٹا سا نومولود کمبل میں لپٹا تڑپتا بچہ فوری اپنی گود میں بھر کر اسکی اکھڑتی سانس پر فوری اپنے کندھے پر لٹکائے بیگ سے چھتری نکالے کھول کر خود پر پھیلا لی، بچے کی ابتر حالت محسوس کیے وہ سر پٹ تیزی سے اپنے گھر کی سمت دوڑی۔

وہ کچھ وقت پہلے پیدا ہوا بچہ گھر پہنچنے تک شاید سانس لینا چھوڑ چکا تھا، دادا جان ، دروازہ کھولنے پر منہا کو ہاتھ میں اس گیلے کمبل میں لپیٹے بچے کو دیکھ کر وہ خود تڑپ کر دروازہ بند کیے پیچھے لپکے۔

"پُتری۔۔۔۔یہ کیا ہے۔۔۔پُتری یہ کس کا بچہ ہے"

دیوار کا سہارہ لیے لڑکھڑاتے ہوئے دادا جان نے دہل کر منہا سے پوچھا جو فی الحال کسی بھی چیز کا جواب دیے بنا اس برہنہ بچے کو باریک گھر کے اکلوتے خشک کمبل میں لپیٹتی بستر پر لٹائے خود تشویش سے دادا جان کی سمت مڑی۔

"دادو یہ مجھے پار والے راستے پر لکڑیوں کے کچرے سے ملا ، یہ تڑپ رہا تھا۔۔۔۔ک۔۔کوئی کیسے کر سکتا ہے اس ننھی جان پر یہ ظلم۔۔۔۔ آپ حکیم ہیں ناں۔۔۔اسے دیکھیں ناں دادو یہ تو لگتا ہے مر جائے گا۔۔۔۔ اسے دیکھیں ٹھنڈ بھی لگ سکتی۔۔۔دادو اسکا دھیان رکھیں میں دودھ کا انتظام کر کے آتی۔۔۔۔"

اپنے کمائے آج کے وہ چار سو کے میلے نوٹ مٹھی میں زور سے دباتی وہ دادا جان کو بھاری اور آنسووں سے بھیگی آواز کے سنگ کہتی خود اُسی بھیگے خلیے میں اچھے سے گرد چادر لپیٹے باہر نکل گئی۔

معظم سلطان اس نومولود بچے کو دیکھ کر اپنی آنکھیں نم ہونے سے نا بچا سکے، فوری طور پر اپنا دوائیوں والا بیگ دیوار پر لگی کیل سے اتار کر وہ اس بچے کہ پاس بیٹھے جو بظاہر سانس نہ لے رہا تھا۔

"او سوہنے مالکا زندگی دے اس بچے کو"

اپنے چمڑے کے بوسیدہ بیگ سے وہ کوٹی خاص جڑی بوٹی کا مرکب زدہ مرتبان کھولے اس میں پسا ہوا کوئی دوائی کا مائع حالت ذخیرہ انگلی پر لگائے اس بچے کی روئی سے بھی نازک گردن اور سینے پر لگانے لگے، ہلکا سا اسکے ناک کے قریب لگایا۔

انھیں اندازہ تھا یہ بچہ چند گھنٹوں پہلے پیدا ہوا ہے، اسکی ناف پر لگا خشک خون اور وہ چٹکی سی بھی لال ہو چکی تھی۔

جھک کر اس بچے کے چھوٹے سے سینے سے کان لگایا تو بہت ہلکی دھڑکن محسوس ہوئی۔

بھلے وہ بچہ عام بچوں کی نسبت زیادہ صحت مند اور انتہائی خوبصورت تھا مگر جو سفاکی اس کے ساتھ ہوئی تھی اسکا بچ جانا اللہ کی کوئی کرامت ہی ہو سکتی تھی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"اب تک تو وہ کسی کُتے بِلے کی خوراک بھی بن گیا ہوگا، ہمارا انتقام تقریبا پورا ہو گیا۔۔۔۔ گُل مینے تو قبر میں جا کر اپنے انجام کو پہنچی ہی ساتھ ساتھ میں نے عباد حشمت کیانی کو تاعمر کی اذیت میں جھونک دیا۔۔۔۔۔ "

ہوسپٹل کے اندھیارے کونے میں پشت کر کے چھپا نسوانی وجود جو مکمل ڈھکا تھا، کسی سے فون پر ہمکلام تھا۔

کوریڈو میں اس بپھرے ریچھ کی ہیجانی ڈھاریں یہاں تک سنائی دے رہی تھیں۔

مقابل وہ ایک نقاب پوش آدمی اسی بارش سے بھیگے چھوٹے سے ڈربے نما گھر کے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا۔

"ہاں سہی کہا، وہ مر گیا ہے۔۔۔۔۔ اب تم جا کر عباد کا غم غلط کرو۔۔۔ میں تم سے چالیسویں کے بعد ملوں گا"

اس پُراسرار آدمی نے کہہ کر کال کاٹی اور سامنے اس گھر پر نظر گاڑے کچھ دیر اس جگہ وہ اچھی طرح ذہن نشین کرتا رہا اور پھر وہاں سے چلا گیا۔

پورے ہوسپٹل کے سٹاف کی روحیں تک تھر تھر کانپ رہی تھیں، پورے ہوسپٹل کو پولیس اور میڈیا نے گھیر رکھا تھا۔

"میں تم سب کو ایک ایک کر کے زندہ زمین میں گاڑ دوں گا، آخر کہاں گیا میرا بچہ۔۔۔۔۔ مجھے ڈھونڈ کر دو، ورنہ تم سب کی جان عباد حشمت کیانی خود لے گا۔۔۔۔"

کوئی نہیں تھا آج اسکا درماں، اندر پڑی گُل مینے کی لاش پر ماتم کرتا یا اپنے بچے کے کھو جانے پر خود کو بھی زندہ کسی قبر میں گاڑ دیتا جسے ابھی تک باپ کی نظر نے دیکھا تک نہ تھا۔

پولیس کے لوگ ہر ایک فرد سے پوچھ گچھ کر رہے تھے ہسپتال سیل کر دیا گیا تھا۔

بڑے بڑے منسٹروں کے تعزیت اور دل جوئی کے فون عباد کے پرسنل تقریبا ہم عمر گارڈ سراج علی کو سینکڑوں تعداد میں آچکے تھے۔

"ہے۔۔۔۔عباد۔۔۔سنبھالو خود کو ہنی، ہم ڈھونڈ لیں گے بے بی کو"

لگ بھگ پچیس سالا خوبصورت سی دوشیزہ ، جس نے آگے بڑھ کر اس سرخ لہو رنگ میں نہائے زخمی شیر کو بانہوں میں سموئے سنبھالنا چاہا مگر وہ اسے بُری طرح دھکا دیتا لہو چھلکاتے چہرے کے سنگ غرایا۔

گر سراج علی بروقت فاریہ کو نہ سہارہ دیتا تو وہ عباد کے دھکا دینے پر ابھی تک زمین بوس ہو جاتی، رہانت اور تضخیک کا احساس بمشکل جبر کرتی وہ سراج کو نفرت سے پرے دھکیلتی پھر سے زخمی شیر کی سمت بڑھی جس نے قنوطیت کے سنگ اس بری طرح مکا ہوا میں لہرا کر دیوار سے مارا کہ خون کی لکیر اسکے ہاتھ کو سرخ انگارہ کر گئی۔

"عباد۔۔۔۔عباد میں جانتی ہوں تم تکلیف میں ہو لیکن حوصلہ رکھو۔۔۔ میں ہوں ناں تمہارے ساتھ، مما بھی ہیں۔۔۔۔ اس مشکل گھڑی میں خود کو تنہا مت سمجھو"

اس بھاری وجود والے کی پشت کو گھمانے کی ناکام کوشش کرتی وہ پھر سے اس وحشت ناک شخص کا چہرہ تھامنے کو قریب آئی اور اس بار عباد نے نفرت چھلکاتی لہو رنگ آنکھیں گاڑے ایک لمحے میں فاریہ کا گلا دبوچا۔

"اگر اپنی زندگی چاہیے تو فی الحال دفع ہو جاو یہاں سے فاریہ۔۔۔۔۔۔اور اپنی اس ماں کو بھی لے کر گم کرو شکل۔۔۔۔۔ تم جیسے مطلب پرستوں کی ہمدردیاں لے گا کیا اب عباد حشمت کیانی۔۔۔۔۔ مرا نہیں ہوں۔۔۔۔ "

بُری طرح حقارت سے اس لڑکی کو راہ سے ہٹاتا وہ پولیس کے لوگوں کی سمت لپکا مگر تمام ذلت کے باوجود فاریہ نے مڑ کر کچھ فاصلے پر سیاہ لباس میں لپٹی اس عورت کو دیکھ کر شیطانی مسکراہٹ دی۔

"مرنے تو تمہیں دیں گے بھی نہیں سوئیٹ کزن، کیا سمجھا تھا تم نے کہ تم فاریہ کیانی کے مقابلے میں اس کوٹھے کی طوائف گُل مینے کو لاو گے اور میں برداشت کرلوں گی، ہاہا گئی تمہاری گُل مینے جہنم میں اور ساتھ تمہارا وہ بے گناہ بچہ۔۔۔۔چچ چچ۔۔۔ عباد حشمت کیانی تم اب فاریہ کے پاس ہی لوٹو گے،اپنی بیوی اور بچے کا غم مٹانے۔۔۔۔۔ مجھے انتظار رہے گا ہنی"

سفاکیت سے بھری ہوئی وہ لڑکی اتنا بڑا ظلم ڈھا کر یہ بھول گئی تھی کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔

اور سب سے بڑھ کر مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہوتا ہے۔

دوسری سمت وہی نقاب پوش جو واپس سڑک کی سمت جا رہا تھا ایک تیز ترین ٹرک سے ٹکرانے کے باعث کئی فٹ دور جا گرا۔

بارش تھم چکی تھی مگر اس آدمی کے سر سے نکلتا خون سڑک پر جمع شدہ کھڑے ہوئے پانی کو لال انگارہ کر گیا۔

ٹرک ڈرائیور باہر نکل کر اس زخمی تک پہنچے جسکی سانس چل رہی تھی اور اسے لے کر ہسپتال روانہ ہو گئے۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"دیکھو غریب لڑکی یہ کوئی بھک منگوں کا لنگر خانہ نہیں کہ تم کب سے بحث کر رہی ہو، کہہ دیا کہ ایک روپیہ بھی معاف نہیں ہوگا اس لیے نکلو شاباش پتلی گلی سے"

چار سو میں چھوٹا سا فیڈر تو آگیا تھا مگر دودھ کے ڈبے کے لیے دو سو کم پڑ رہے تھے، منہا نے آج تک کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلایا تھا مگر اس ننھی جان کے لیے اس وقت دودھ کا ڈبہ اشد اہم تھا۔

"دیکھو بھائی میں وعدہ کرتی کل تم کو پیسے دے جاوں گی، مجھے دے دو پلیز گھر میں بچہ بھوکا ہے۔۔۔۔ اللہ نے اگر اتنا دیا ہے تو کسی مجبور کی مجبوری سمجھنے کی بھی کوشش کرو"

تاسف کے سنگ وہ ہنوز کاونٹرر پر کھڑی بے بسی سے بولی مگر مقابل تو فرعونیت کا راج تھا، پیسے کی ناجانے کونسی اکڑ۔

"جا معاف کر فقیرنی، ایک پھوٹی کوڑی نہیں معاف کروں گا۔۔۔سب جانتا ہوں تم جیسوں کی مکاری۔۔۔۔ دوبارہ تم نے شکل ہی نہیں دیکھانی۔۔۔۔اب نکل یہاں سے ورنہ سیکورٹی بلوا لوں گا"

وہ ہٹ دھرم سا سفاک دکاندار زہریلے لفظوں سے منہا کا کلیجہ چیڑ گیا، مگر وہ اپنے آنسو روکنے پر مہارت رکھتی تھی۔

"اللہ کرے تیرا یہ سٹور آگ سے جل کر خاک ہو جائے، تجھے کھانے کو روٹی نہ ملے پھر تو بلک بلک کر روئے۔۔۔ بدعا دیتی ہے تجھے منہا سلطان۔۔۔۔۔ اور خبردار جو مجھے فقیرنی کہا، تیرے جیسے امیر سے تو لاکھ درجے اچھے ہم غریب ہیں۔ لعنت ہو تجھ پر"

ایک لمحے میں وہ خشک دودھ کا پیکٹ اٹھا کر اس دکاندار کے کاونٹر پر پٹخے تین سو کا وہ چھوٹا سا فیڈر بھی زمین پر پٹخ کر چار سو واپس مٹھی میں دبوچے باہر بھاگ گئی۔

بارش تھم گئی پر اسکی آنکھیں صورت برسات برسیں۔

"یا اللہ ہم جیسے مر بھی سہولت سے نہیں سکتے، مجھے ا۔۔اپنی پرواہ نہیں وہ ننھا وجود مر جائے گا۔۔۔۔ کیوں دیتا ہے تو ان درندوں کو اولاد جو اسکے لائق نہیں ہوتے۔۔۔۔ مجھے راستہ بتائیں ناں ان چار سو روپوں میں اس بچے کی بھوک کیسے مٹے گی"

اپنی سوجھی حلقوں کی زد میں ڈوبی آنکھیں رگڑتی وہ اپنی چپل گھسیٹے سڑک کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔

اچانک کسی آہٹ پر مڑی۔

سامنے ہی اسکے ساتھ ہوٹل میں کام کرنے والی حور نامی لڑکی بھاگتی ہوئی آتی دیکھائی دی۔

منہا نے اپنا چہرہ رگڑے دھندلائی آنکھوں سے اسکو دیکھا جو اسکے قریب آن رکی اور ہزار کے تین نوٹ اسکی سمت بڑھائے۔

"منہا۔۔۔ تم پر ہوٹل والے نے جس چوری کا الزام لگایا تھا وہ غلط فہمی تھی۔ اسکو اسکے پیسے مل گئے تھے، وہ شرمندہ تھا تبھی اس نے یہ تمہاری ہفتے کی تنخواہ بھیجوائی ہے۔۔۔۔ میں ابھی ہی نکلی تھی تم پر نظر پڑ گئی۔۔۔یہ لو اور کل آجانا واپس۔۔۔۔۔اب میں جاتی"

اپنے ہاتھ میں آتے وہ تین نوٹ دیکھ کر منہا کی آنکھیں پھر سے بھیگ گئیں، بھرائی آنکھیں اٹھا کر نظر آسمان پر ڈالی جیسے اس پالن ہار کی شکر گزار تھی۔

فورا سے پہلے دوسرے سٹور کی سمت دوڑی، فیڈر، خشک دودھ کا ڈبہ، زیرو سائز ڈائپر اور دادا کی دوا میڈیکل سٹور سے لیے وہ خوشی خوشی گھر لوٹی۔

تب تک دادا جان چھوٹے سے لوہے کے برتن میں لکڑیاں جلا کر کمرے میں موجود ٹھنڈ کا خاتمہ کرنے میں کامیاب تھے۔

وہ بچہ ابھی بھی سخت تکلیف میں تھا، مگر منہا کے ہاتھوں میں اتنے سارے لوازمات دیکھ کر وہ بھی اس اجاڑ گھر میں اس ننھے بچے کی آمد کی برکت دیکھ کر مسکرائے۔

وہ مکمل بھیگی تھی اب تو کانپ رہی تھی، اسکی کم سن خوبصورتی اسکے حالات نے دبا دی تھی۔

اک نظر بیقراری سے اس بچے کی سمت دیکھتی وہ بھیگا سا مسکائی، دادا جان نے بڑھ کر شفقت سے منہا کا سر چوما۔

"م۔۔یں پالوں گی اسے دادوو، احد سلطان نام رکھتے ہیں اسکا۔۔۔۔ یہ ٹھیک تو ہو جائے گا ناں"

اس روئی کے گولے جیسے نازک بچے کا نرم ملائم سا ہاتھ پکڑ کر سہلاتی وہ مڑ کر تڑپ کر دادا جان سے پوچھتے بولی جو آگے سے تسلی آمیز مسکائے۔

"اگر بخار نہ ہوا تو بہتر ہو جائے گا ان شاء اللہ، لیکن تم جاو یہ گیلے کپڑے بدل لو ورنہ بیمار ہو جاو گی۔۔ میں یہیں ہوں احد سلطان کے پاس"

اپنی جان سے پیاری منہا کی فکر بھانپتے وہ اسے ملائم سی تاکید کرتے بولے جو ایک آخری پیار اور دکھ سے بھری نظر احد پر ڈالتی افسردہ سی دوسرے کمرے کی جانب چلی گئی۔

اگلی صبح طلوع ہو چکی تھی، ماحول کی یاسیت اور تندہی کم ہونے پر نہ آسکی تھی۔

پورے ہوسپٹل کے ایک ایک سٹاف ممبر سے پوچھ گچھ کی جا چکی تھی مگر وہ بچہ کیسے دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہوا ، کوئی بھی سمجھنے سے قاصر تھا۔

فاریہ اس وقت جشن منانے کی خوشی اور اجلت میں ضرور تھی مگر اسکی شاطر ماں اور بھائی کے بقول اس وقت اسے عباد کے ساتھ ہونا چاہیے تاکہ وہ اس سے جو بیری رویہ روا رکھے آیا ہے اسے اپنے رویوں میں نرمی برتنے کا خیال آئے۔

عباد کی پارٹی کے تمام لوگ اگلی صبح پورے وی آئی پی پروٹوکول کے سنگ ہوسپٹل پہنچ چکے تھے، ان امیروں کے بھی اپنے ہی ڈھنگ اور چونچلے تھے، ایک منسٹر کے بچے کا کھو جانا ہوسپٹل میں موجود ہر عام فرد کی زندگی اور موت سے بڑا مسئلہ تھا۔

وہ نقاب پوش آدمی ٹرک کی ٹکر کے بعد بے سدھ ہوئے ایک دوسرے ہسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں تادیر مبتلا ہونے کے بعد کومہ میں جا چکا تھا۔

"ناجانے اسے کب ہوش آئے، کون ہے کوئی علم نہیں۔ اسکے پاس ملنے والا فون گرنے کی وجہ سے بلکل بیکار ہو گیا ہے اور والٹ بھی نہیں ملا ۔۔۔۔ تم ایسا کرو باہر جو پولیس کا آدمی کھڑا ہے یہ فون اور اس بندے کی ساری صورت حال اسے بتا دو۔۔۔۔ اگر اسکا کوئی جاننے والا مل گیا تو اسے لے جائے گا"

دو پروفیشنل انداز میں گفتگو کرتے ڈاکٹرز اسکے کمرے سے نکل کر آپس میں بات کرتے باہر آرہے تھے، اور اندر آئی سی یو روم میں وہ تیکھے نقوش والا رعب دار سا داڑھی مونچھ والا لگ بھگ تیس سالا آدمی ہوش و حواس سے بیگانہ پڑا تھا۔

خدا کی کوئی مصلحت تھی کہ عباد حشمت کیانی کے بچے کے زندہ ہونے کا گواہ بھی صرف وہی تھا مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔

دوسری سمت ہوسپٹل کے تمام ہیڈ سٹاف نے عباد سے خاص طور پر اس کوتاہی کی معافی مانگی۔

اور جس نظر سے وہ انھیں بھینچے چہرے سے گھورا یہ ان سب کے جسموں سے روح نکال گیا۔

"جب تک میرا بچہ نہیں ملے گا یہ ہوسپٹل سیل رہے گا، بھاڑ میں جاو تم لوگ۔۔۔۔وہ کوئی عام بچہ نہیں تھا ، وہ عباد حشمت کیانی کا اکلوتا وارث تھا۔۔۔ کس منہ سے تم لوگ اپنی اس لازوال کوتاہی کی معافی مانگ سکتے ہو۔۔۔۔۔ایک ہفتہ۔۔۔۔صرف ایک ہفتہ ہے تم لوگوں کے پاس۔۔۔۔۔اگر اس ایک ہفتے میں مجھے میرا بچہ زندہ سلامت نہ ملا تو انجام کے ذمہ دار تم لوگ ہوگے۔۔۔"

پورے کوریڈور میں عباد کی پارٹی کے لوگ اور پولیس کے اہل کار جمع تھے، اسکی اس روح نکالتی دھمکی پر ہوسپٹل کے اونر نے تاسف اور بے بسی کے سنگ اس سفاک شخص کو دیکھا جو اپنی اولاد کی وجہ سے ہوسپٹل میں موجود دوسرے ہر مریض کی جان کو جوتی کی نوک پر رکھے دھاڑ رہا تھا۔

"دیکھیں سر آپ سراسر زیادتی کر رہے ہیں، آپ کیسے ہوسپٹل کے باقی لوگوں کو اس کی سزا دے سکتے ہیں۔ ہم آپکو کہہ رہے ہیں کہ یہ جو کچھ ہوا آپ کے نام، شہرت اور کسی دشمنی کے باعث ہوا۔۔۔۔ لائیٹ کا شارٹ سرکٹ یقینا جان بوجھ کر کروایا گیا ہے، سارے کیمراز بند ہو گئے تھے اب آپ خود بتائیں ہم کیا کر سکتے ہیں"

وہ مودب سے اونر ہر درجہ معقول بات بڑے تحمل سے تمیز کا دامن تھام کر بولے، گو لہجے میں اس شخص کے اثر و رسوخ کی دباو زدہ لہر موجود تھی۔

آج تک کی اپنی ساری ناانصافیوں کی قدرت اسے اس درجہ بے بسی سے نواز کر سزا دے گی یہ عباد کیانی نے کبھی نہ سوچا تھا، دل تو کراہ اٹھا، وہ دنیا کا فخر جسکا چہرہ رتن کی سی چمک سے جگمگاتا تھا آج بے بس، بے چارہ اور رندھا دیکھائی دیا۔

ناجانے عضہ حاوی تھا یا بے بسی، عباد نے لہو چھلکاتی آنکھیں اس اونر پر گاڑے خونخواری سے اسکا گریبان دبوچا۔

سراج علی نے بروقت معاملہ سنبھالا مگر اب اس شخص کے رویے سے پورا سٹاف عاجز آچکا تھا۔

"بھائی۔۔۔کام ڈاون۔۔۔چلیں آپ گھر۔۔۔۔یہاں کا معاملہ میں خود دیکھتا ہوں"

وہ ڈر گیا تھا کہیں عباد اب کسی کا واقعی قتل نہ کر دے، ہر سٹاف ممبر کی حراساں سرد مہر نظریں سراج بھی دیکھ چکا تھا تبھی عباد کو پکڑے اسکے ہاتھوں سے اس اونر کا گریبان چھڑوایا۔

"ایک ایک کو حساب دینا ہوگا۔۔۔۔سن لو تم سب کان کھول کر۔۔۔صرف ایک ہفتہ"

شدید بگھڑے تیور لیے وہ سراج علی کے زبردستی لے جانے پر بھی تنبیہی انداز سے دھاڑ کر چلایا، ہر کسی کو جیسے سانپ سونگھ چکا تھا۔

"یہ تو ہم سب کو مارنے پر تُلا ہے، کیسے۔۔۔کیسے ہوا آخر تم سب کہاں مرے تھے۔۔۔ مجھے ہر صورت پتا کر کے بتاو کہ کون لے کر گیا اس بچے کو۔۔۔ ہر چیز دوبارہ جانچو۔۔۔ مین سوئچ بورڈ پر ، گرد و نواح میں انگلیوں کے جتنے نشان ملیں سب اٹھا لو۔۔۔۔۔ "

وہ ہوسپٹل اونر سخت تشویش اور پریشانی سے اپنے سٹاف اور سیکورٹی کے لوگوں کو سختی سے تاکید کر رہا تھا۔

ہر طرف ہلچل تھی ، کہرام تھا۔

پارٹی کے لوگ بھی ہوسپٹل سے نکل چکے تھے، مین ہیڈ کا خیال تھا کہ عباد کو وہ جلد یا بدیر پریس کانفرنس پر آمادہ کریں۔

الیکشن سر پر تھے اور ان سبکو جیسے اب اپنی جان کے لالے پڑتے محسوس ہوئے۔

یہ دنیا مطلب پرستوں کی تھی، کوئی کسی کو پوجتا بھی تبھی تھا کیونکہ اسکی ذات سے ان بھوکے درندوں کے مفادات جڑے تھے۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

ساری رات برستی بارش نے انکے چھوٹے سے گھر کی چھت ٹپکا دی تھی، سویرے کی نتھری دھوپ میں وہ گھر کے چھت پر چڑھ کر دوپٹہ کمر پر کس کر باندھے مٹی اور گارے کا لیپ لگا رہی تھی، چہرے پر بھی گالوں پر مٹی لگ گئی تھی۔

ایسا نہیں تھا کہ وہ کوئی فولادی جسم تھی، بلکہ ابھی تو اس نوخیز کلی نے کِھلنا بھی شروع نہ کیا تھا، مصائب اور دکھوں کے باوجود وہ زندہ دلی سے جیتی جا رہی تھی، جب دل درد سے پھٹ جاتا تو جی بھر کر رو لیتی، اور اپنے آنسووں کو ہی عیاشی سمجھتی۔

اسے لگتا تھا اگر آنسو نہ بہائے جائیں تو جلد دل میں انکا زہر پھیل جاتا ہے۔

رب کے حضور جس طرح آج اس نے احد سلطان کی زندگی گڑگڑا کر مانگی قدرت معترف ہوئی کہ اس بچے سے ایک ماں بھلے لے لی گئی مگر دوسری عطا ہوئی۔

دس بجے اسے ہوٹل نکلنا تھا، اپنی عزت اور آبرو بچا کر جینا وہ خوب جانتی تھی۔

بہت شوق تھا اسے سجنے سنورنے کا، اسکی بڑی بڑی غزالی آنکھیں کاجل کی سیاہی سے خوشمنا لگتیں، نرم ہونٹ گلاب رنگ سے مزید ہوش ربا لگتے لیکن حالات نے سجنے کا نہ موقع دیا تھا نہ کوئی سبب۔

دادا جان چھوٹے سے صحن میں اس بچے کا کمبل دھو کر دھوپ میں پھیلا رہے تھے۔

جب سے دادا جان نے اسے احد کے دھڑکن بہتر ہونے کا بتایا تھا وہ بہت خوش تھی۔

مہارت کے سنگ پورا چھت لیپ کر وہ تھکی ہاری نیچے اتر آئی، دادا نے منہا کا چہرہ دیکھا اور آسودہ مسکرا دیے۔

"کیسے پالے گی اُسے، اور اگر محلے والوں کو اس بچے کی بھنک بھی پڑی تو جینا دوبھر کر دیں گے۔۔۔ پہلے ہی کتنے مصائب سے لڑ رہے ہیں، وہ بچہ ہمارے سر پر ذمےداری کے ساتھ ساتھ بہت بوجھ بھی ہے پُتری"

ان کہا سا ملال تھا جو معظم سلطان کے سادہ لہجے میں کرلایا، صحن میں لگے نل کے پاس بیٹھی اپنے مٹی سے بھرے ہاتھ دھوتی وہ گردن موڑ کر دادا جان کی فکر سے نڈھال حالت تکتی اٹھ کر قریب چلی آئی۔

"اگر اس بچے نے مرنا ہوا تو یہاں بھی مر ہی جائے گا دادوو، لیکن اگر بچنا ہوا تب بھی یہی گھر اسکی مسیحائی کا مرکز ہے۔۔۔ خود سوچیں اندھیاری طوفانی رات میں وہ موت سے جا ملتا کچھ وقت قبل دنیا میں آتا بچہ منہا سلطان ہی کو کیوں ملا۔۔۔۔ وہ پالن ہار تو ہمارے سب حالات جانتا تھا ناں کہ ہم تو اکثر فاقے تک کرتے ہیں۔ پھر بھی رب نے اسے ہمارے گھر پہنچایا۔۔۔ آپ مصلحت سمجھیں زرا۔۔۔ وہ ننھی جان کیا بوجھ بنے گا جو ابھی خود اپنے ساتھ ہوتی سفاکی پر اللہ سے محو کلام ہوگا۔۔۔۔۔ اسے کیوں اتارا ایسے گھر جن درندوں نے اسے کچرے کے ڈھیر پر لا پھینکا"

آہستہ آہستہ چلتی ہوئی وہ کربناک سی بولتی چلی گئی، یہاں تک کہ آنکھوں کے کنارے بھیگے۔

دادا لاجواب ہوئے۔

پوتی نے کیوں، کیا، کیسے جیسے ہر سبب اور وجوہات کا معاملہ سامنے رکھا۔

"قیامت کی نشانیاں ہیں پُتری یہ، مجھے اس بچے سے بہت ہمدردی ہے پر پُتری تیری بھی فکر ہے۔۔۔۔ مجھے کچھ ہو گیا تو کیا بنے گا تیرا اور اسکا۔۔۔ میں تو تیرا بیاہ کرنے کا سوچتا ہوں کہ چلو میرے مرنے کے بعد کوئی تو تیرا ہو پر اس بچے نے میرے ڈر دگنے کر ڈالے"

کمر ٹوٹی پھوٹی سی کرسی کی پشت سے ٹکائے وہ جیسے مترنم لہجے میں تھکے انداز سے منہا کو اپنے ڈر کہہ گئے۔

جسکے ماتھے پر نمودار ہوتی شکنیں دلخراش تھیں۔

"منہا سلطان آپ کے ہونے تک ہی جیے گی، ایسا نہ کہا کریں ناں۔۔۔ پھر مجھے لگتا ہے میں بُری پوتی ہوں۔۔۔۔ ہم جو خود کھائیں گے اسے بھی کھلا دیں گے۔۔۔ اگر وہ کسی کی غلطی بھی ہے دادوو تو اس بچے کا کیا قصور، کیوں اسے اس زلت سے گزارہ گیا۔۔۔۔۔رہی بات محلے والوں کی، آپ کہہ دینا وہ منہا کا بیٹا ہے بس۔۔۔ دھکے دے کر نکال بھی دیا تو اللہ کی زمین بہت بڑی ہے۔۔۔۔ وہ رب جب جان جسم میں اور روح تن میں ڈالتا ہے تو اس بوجھ کو گھسیٹنے کی ہمت بھی دیتا ہے"

قریب آتی وہ دادا جان کا جھڑیوں والا ہاتھ پکڑ کر چومتی اپنی آواز کو گھٹنے سے روک نہ سکی۔

دادا خود آبدیدہ ہوئے، قریب ہوئے اسکا سر چوما جو بختوں والی اس درجہ بے بس ہو کر بھی ہمت نہ ہار رہی تھی۔

"میں تجھے شہزادی کی زندگی نہ دے سکا پُتری، لیکن منہا تو واقعی اس دنیا کی نہیں ہے۔۔۔ جن حادثات اور حالات سے ہم گزر آئے وہ تو زندہ رہنے کی امید نوچ لیتے پر مجھے فخر ہے تجھ پر کہ تُو میرا باہمت خون ہے، میری جان سے پیاری پُتری۔۔۔ تُو فکر مت کر میں احد کا پورا خیال رکھوں گا۔۔۔۔۔تیرے دادا کی تنہائی بھی دور ہوگئی۔۔۔تو جا کام پے دیر ہو جائے گی"

وہ خود جیسے منہا کی ہمت پر رو سے دیے، منہا سلطان اپنے صبر پر خود مسکرا دی۔

کہاں آسان تھا اکیلے میں بلک بلک کر رونے کے بعد دادا کے سامنے زندگی سے خود کو بھر لینا۔

وہ نمی والی آنکھیں چراتی مسکراتی اٹھ کھڑی ہوئی۔

"یہ ہوئی ناں بات، وہ چراغ ہی کیا جو اپنے اردگرد سویرا نہ کر پائے۔۔۔ میں آج دوبارہ سائیٹ پر بھی جاوں گی، جمیل بھائی نے وعدہ کیا تھا آج پورا ہزار دیں گے کام بھی دو گھنٹے کا ہوگا۔۔۔۔ آپکی دو دوائیاں رہتی ہیں وہ لے کر ہی آوں گی۔۔۔ دال پکا دی ہے آپ محلے کے علی سے کہلوا کر روٹی منگوا لینا۔۔۔۔ پانی کا کولر بھی بھر دیا ہے۔۔۔"

جھک کر دادا جان کی گال پر پیار دیے لپٹ کر وہ انھیں ہر روز کی طرح دن گزارنے کا ڈھنگ سیکھاتی اندر چلی گئی، وہ بس آس سے اسے جاتا تکتے رہ گئے۔

اندر پہنچ کر کمبل میں مکمل چھپے احد کو دیکھ کر وہ اسکے پاس ہی بیٹھی، وہ سارے آنسو جو آنکھوں میں دبائے تھے ایک ایک کر کے اسکی پیاری آنکھوں سے گرتے گئے۔

یہاں تک کہ اک آنسو احد کے ننھے چہرے تک جا گرا۔

"اتنے پیارے ہو تم احد، کیا تمہاری ماں اتنی بے رحم تھی جس نے تمہیں خود سے اس بے رحمی سے نوچ ڈالا۔۔۔۔اور تمہارا باپ، اسکا تو ذکر کرنا بھی توھین ہے منہا کی زبان کی۔۔۔۔تم بلکل مت گھبرانا، میں بنوں گی تمہاری ماں۔۔۔۔ کل کتنی مایوس تھی منہا سلطان، تم اچانک سے ملے ہو اور مجھ میں ہمت بھر گئی۔۔۔ اب دیکھنا میں پہلے سے زیادہ محنت کروں گی، تمہارے پیارے پیارے کپڑے لاوں گی، چھوٹے چھوٹے جوتے۔۔۔ میں تمہیں کسی کے ناکردہ گناہ کی سزا جھیلنے نہیں دوں گی، تمہارے لیے ہر وہ چیز لاوں گی جسکی تم خواہش کرو گے، لیکن بس ٹھیک ہو جاو۔۔۔۔ ہنسنے لگو، تھوڑا رو بھی سکتے ہو۔۔۔۔ "

بھیگی آنکھیں رگڑے وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر ننھی سی روئی سی پشت چومتی اسے پیار سے تکتی کمرے میں چلی گئی۔

گنے چنے تین سوٹ دیکھ کر تلخ سا مسکرائی، ایک ہی چپل جسے کئی سال سے گھسیٹ گھسیٹ کر اسکے تلوئے گھسا دیے پر ہمت تھی وہ سلامت تھی۔

دادا بھلے حکیم تھے پر انکی دل کی بیماری انکی دیسی دواوں سے ٹھیک نہ ہوتی تبھی ڈاکٹر کی مہنگی دوائیاں کھانی پڑتیں، ایسا بھی نہیں تھا کہ منہا کے لیے تن تنہا گھر سے نکل کر روٹی کمانا آسان تھا۔

زمانے کی غلیظ ، تاڑتی نظر ، نجس جملے، کھا جاتی نوچ لیتی حوس سب سے اپنا دامن بچابچا کر اب تو وہ ان معاملوں میں بہادر ہو گئی تھی۔

جہاں عزت پر آنچ کا خطرہ ہوتا اس جگہ اپنی حلال کمائی پھینک کر آنی پڑتی تب بھی پھینک آتی۔

یہ سفاک دنیا جس میں محنت کشوں کے قدردان آٹے میں نمک کے برابر تھے پر محنت کش غریب بھی ہو تو زمانہ اسے کچلنے کا کوئی موقع نہ چھوڑتا۔

وہ ہر چیز میں ماہر تھی، اسکے نازک مرمریں ہاتھ اینٹیں اٹھا کر پتھرا جاتے، پتلی انگلیاں جن پر ہوٹل کے برتن دھو دھو کر سوجن آ جاتی، لیکن منہا کو پرواہ ہی کب تھی۔

اسے پتا تھا باہر سے وہ جلد شکستہ و بوسیدہ ہو جائے گی مگر اسکے دل کی خوشبو اسے مہکائے رکھتی۔

ہوٹل میں بارہ ہزار مہینے کی نوکری اسکے لیے اس دنیا میں کسی عیاشی سے کم نہ تھی، لیکن وہ اسکے باوجود ہر ملتا عزت والا کام کرتی۔

لیکن کبھی اپنی خوداری کو ٹھیس نہ پہنچنے دی۔

وہ جب اس گھر سے نکلتی تو رب سوہنا بھی خود اسکی خفاظت کرتا، وہ بہادر تھی، صرف اللہ کے سامنے رونے اور اسی سے ڈرنے والی۔

صبر کرنے والی، اور اللہ تو صابریں کو اپنا پسندیدہ دوست رکھتا ہے۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

ہرے سبزہ زار تاحد نگاہ پھیلے کیانی پیلس کا اکلوتا بادشاہ عباد حشمت کیانی، جسکی زندگی کا مقصد صرف پاور، پیسہ اور آسائیشیں تھیں۔

جس نے ہارنا نہ سیکھا تھا، جو اپنے ساتھ ناانصافی کرنے والوں کو موت کی سزا سنانے میں دیر نہ لگاتا تھا۔

پیدائشی رئیس،حاکم اور لاڈلہ۔

ادا جان کا لاڈلہ جو آج اپنے سب سے عزیز پوتے کے یکدم اجڑنے پر اشک بار تھیں، وہ جب سے آیا تھا انکی گود میں سر رکھے تڑپ رہا تھا۔

وہ چل نہیں سکتی تھیں، ناجیہ نامی سفاک بہو کے رحم و کرم پر جس نے ادا جان کی ٹانگوں کو خود مفلوج کر دیا تھا۔

خدا نے دو بیٹوں سے نوازا تھا، دونوں ہی ادا جان کی آنکھوں کے تارے تھے، بڑا فارس کیانی جسکی ایک ہی اولاد تھی عباد کیانی، بڑے اور دلربا بچے کی اولاد بھی اتنی ہی عزیز تھی۔ فارس اور اسکی بیوی دونوں مر چکے تھے، مرے تھے یا مار دیے گئے اسکا علم کسی کو نہ تھا۔

چھوٹا بیٹا آرش کیانی، جسکی ناجیہ بیوی مگر وہ عورت اس ہنستے بستے گھر کی خوشیاں کسی پُرانے بدلے کے تخت اجاڑنے ہی یہاں آئی تھی۔

اور اس اجاڑ میں اس نے اپنی راہ میں حائل ہوتے اپنے ہی شوہر کو قتل کروا ڈالا۔

دو بچے، فاریہ کیانی، ایک نمبر کی سطحی، لالچی اور مفاد پرست جسے اپنے حسن پر ناز اور اس پوری جائیدار کے اکلوتے وارث عباد کیانی کو تسخیر کرنے کا جنون لاحق تھا، بیٹا حارث کیانی جو ایک نمبر کا عیاش اور سر پھرا سا دو نمبری کے ہر کام میں ملوث زدہ شخص تھا اور ہوسپٹل میں اس وقت کومے میں تھا۔

ادا جان کی آنکھیں خود سرخ تھیں۔

وہ عباد کے بالوں میں انگلیاں چلاتیں پوروں سے درد جذب کر لینا چاہتی تھیں مگر وہ جو دنیا جہاں پر دھاڑ آیا تھا دھاڑیں مار مار کر چینخنا چاہتا تھا۔

"وہ مر گئی ادا جان، میری نحوست کھا گئی اسے۔۔۔۔ میرا بچہ۔۔۔۔ میرا بدنصیب بچہ جسے مجھ جیسے باپ کے ہونے کی سزا ملی۔۔۔۔ میں مر جاوں گا ادا جان میں اسے ک۔۔کہاں سے ڈھونڈوں، وہ گُل مینے کی آخری نشانی مجھ سے کیسے کھو گئی۔۔۔۔میں کیسے جیوں گا ان خساروں کے ساتھ"

وہ سہمے درد کی آخری حد تک اترے تڑپ سا اٹھا، ادا جان کی خود جان سینے میں اٹکی تھی۔

"ہمت مت ہار میرے سوہنے، ان شاء اللہ ڈھونڈ لیں گے اُسے۔۔۔۔جس نے بھی یہ کیا ہے خدا اسے غرق کرے۔۔۔ دادی قربان جائے تجھ پر خود کو ایسا غلط مت کہہ عباد۔۔۔۔ یہاں دیکھ میری طرف، دیکھ ناں سوہنے، دل مت روک"

وہ جیسے خود عباد حشمت کیانی جیسے مضبوط اعصاب والے کے ٹوٹ جانے پر سخت بکھر گئیں۔

اسکا بھیگا سرخ پرتا چہرہ چھوئے رندھی آواز سے بولیں۔

"ن۔۔نہیں ادا جان مجھے میرے کیے کی سزا ملی ہے، قدرت چاہتی ہے میں اب آخری سانس تک تڑپتا رہوں۔۔۔ میں نے جن جن لوگوں کے ساتھ اس حکمرانی میں ناانصافی کی، حق سلب کیے یہ اسی کا بدلا ہے۔۔۔ کہا بھی تھا بابا سائیں کو مجھے اس گندی سیاست سے دور رہنے دیں، لیکن وہ جاتے جاتے مجھے اس دلدل میں دھنسا گئے۔۔۔۔ کہاں گیا میرا پاور فل نام، وہ دبدبہ جب میں اپنے بچے تک کو ڈھونڈ نہ پایا۔۔۔۔۔ میں مر گیا ہوں۔۔۔۔اپنی خوشیوں کی خود قبر بنا کر اس پر ماتم کر رہا ہوں"

وہ تڑپ تڑپ کر سسک اٹھا، اسکی سوجھی شہد رنگ آنکھیں خوفناک حد تک سرخی اوڑھ چکی تھیں، پتھرائی آنکھوں سے آنسو اتر کر داڑھی میں جذب ہو رہے تھے۔

ادا جان کا کلیجہ کٹ رہا تھا، وہ گہرے گہرے سانس لیتا اٹھا، اپنے اس بدنما وجود کو کہیں دفن کرنے کا دل چاہا۔

گُل مینے کا جنازہ شام کو تھا اور شام تک وہ خود کو اس ماتم کے لیے وقف کرنا چاہتا تھا۔

وہ ملک کی سپر ماڈل اور دنیا کی ایک بڑی نامور ہستی تھی جس نے صرف عباد کے لیے اپنا سب وار ڈالا تھا، لیکن وہ خود گُل مینے کے لیے کچھ نہ کر سکا، نہ اسے بچا سکا نہ اسکی دی امانت کو۔

"اسکے ساتھ رہنا سراج علی "عباد کے باہر نکل جانے پر وہ دروازے میں کھڑے افسردہ سراج کو تکلیف کے سنگ تاکید کرتیں خود بھی روتیں ہوئیں سر بیڈ کی پشت سے ٹکا گئیں۔

"اُسے تڑپتا دیکھ کر کلیجے کو ٹھنڈک پہنچی مما، کس طرح اس نے مجھے ٹھکرا کر میری تذلیل کی۔ وہ دنیا جہاں کی غلیظ ، نجانے کس کس کی نورِ نظر ماڈل، طوائف اور خرافہ سے وہ ساری محبت کی جو فاریہ کیانی کا حق تھی۔۔۔۔ اب وہ صرف میرا ہے، نہ گُل مینے رہی نہ اسکی اولاد ۔۔۔۔ وہ بنجر ہو گیا ہے جس پر اب فاریہ کیانی کی زہریلی محبت کی برسات ہوگی، اسے مزید اجاڑ دے گی۔۔۔۔۔میں اُسکی جڑوں میں گھس کر اسے کھوکھلا کروں گی۔۔۔۔۔اپنا، آپکا اور بھائی کا حق چھینوں گی جس پر وہ سانپ بن کر بیٹھا ہے"

جیت کا خمار اسکی نس نس میں ہلکورے لے رہا تھا، ایک سال بہت مشکل سے برداشت کرنے کے بعد وہ عباد سے اسکی سانسیں چھین کر خوشی میں سرمست تھی، کچھ فاصلے پر وہ یہاں کی بہت بڑی این جیو کی مالک ناجیہ کیانی جس نے اس معصوم عباد سے شاید اپنی اور اپنے بچوں کی محرومیوں کا بدلا لیا تھا، نخوت پن لیے ٹانگ پر ٹانگ جمائے براجمان تھی، وہ سیاہ لباس والی ناجیہ ہی تھی۔

وہ جل رہی تھی کیونکہ اس پوری جائیداد اور جاگیر کا عباد حشمت کیانی واحد مالک تھا تبھی ناجیہ ہر صورت فاریہ کی شادی عباد سے کروانے کے در پر تھی۔

اس وقت بھی وہ میز پر چند فائلز کھولے سرسری سا جائزہ لیتی ساتھ ساتھ اپنی بیٹی کی جیت پر فاتحانہ مسکرا رہی تھی یہ جانے بنا کہ انکے کرموں کی تھوڑی سزا حارث کو مل چکی ہے جسکی خبر یقینا گُل مینے کے چالیسویں تک تو کسی کو ہونی ناممکن تھی کیونکہ وہ اوباش یونہی گھر سے غائب رہتا تھا۔

"وہ تو ٹھیک ہے ڈارلنگ لیکن یہاں بیٹھ کر سب خود بخود نہ ہوگا، ابھی لوہا گرم ہے۔۔۔۔ اسکی دل جوئی کرو، اسے اکیلا نہ چھوڑو۔۔۔۔ زخمی شیر ہے وہ، پہلے ہی ہمارے لیے عناد پالے بیٹھا ہے لہذا ہمیں محنت بھی بھرپور کرنی ہوگی"

وہ ایک ماں ہو کر اپنی اولاد کو گڑھے میں دھنسنے کا راستہ دیکھا رہی تھی، فاریہ کی آنکھوں میں گویا رتن سی چمک ابھر چکی تھی۔

"یو آر رائیٹ مائی پریشیس مام۔۔۔آپ نہ ہوتیں تو یہ کبھی ممکن نہ ہو پاتا اور بھائی جنہوں نے اس بچے کو ٹھکانے لگایا لیکن گُل مینے اور عباد کی گاڑی پر حملہ کسی اور نے کروایا تھا، جو کوئی بھی تھا وہ ہاہا ہمارا تو بھلا کر گیا"

تفاخر سے راج ہنس سی گردن اکڑائے وہ شروع میں ناجیہ سے لپٹ کر آخر تک استہزائہ ہوئی تو دونوں ماں بیٹی کے چہرے پر شیطانیت اتر گئی۔

ناجیہ جانتی تھی کہ عباد پر حملہ صرف ایک ہی انسان کروا سکتا ہے، تبھی شاطرانہ تاثر لیے مسرور ہوئی۔

لیکن اس ساری کہانی کے پیچھے ایک نہیں، دو انسان چھپے تھے، اک بظاہر وحشی دیکھائی دیتا مہربان اور دوسرا بظاہر مہربان نظر آتا وحشی اور سفاک۔۔۔

"چلو جاو پھر۔۔۔۔ رات اُسکی گُل مینے دفن ہو جائے گی، جا کر اسکا غم کم کرو۔۔۔اور اُس سراج علی سے محتاط رہا کرو۔۔۔۔ ایک آنکھ نہیں بھاتا وہ عباد کیانی کا منحوس سیکورٹی کیمرہ مجھے، خاص کر جب تمہارے گرد منڈلانے کی کوشش کرتا ہے"

اپنی خود سے کہیں زیادہ فتہ پرور مگر بددماغ بیٹی کو تاکید کیے وہ آخر تک اسے محتاط رہنے کا اشارہ بھی دے گئی جس پر فاریہ نے حقارت سے سر جھٹکا۔

"بچارا ناکام عاشق۔۔۔ویسے ایک دوسرے کا غم غلط کرنے کو وہ دو ہی کافی۔۔۔۔۔ہی ہی۔۔۔مام لیکن پھر بھی میں جا کر دیکھتی اپنے چُنے کاکے کو سنبھالنے دیتا ہے یا ماتم میں ہی رہنا چاہتا ہے۔۔۔۔۔سی یو"

کھسیانی ہنسی کا تبادلہ کرتیں وہ دونوں نجس لگیں، فاریہ چہکتی ہوئی اس آسائشوں اور زیبائشوں سے بھرے کمرے سے باہر نکل گئی البتہ ناجیہ کی آنکھیں کسی غیر مرئی نقطے پر نفرت سے پتھرا گئیں۔

"واہ سرور حسین صاحب، آپ نے تو ناجیہ کیانی کا دل موہ لیا"

آنکھوں میں سرور بھرے اس عورت کا چہرہ نہ جانے کس کے ذکر پر خباثت اور مضحکہ خیز مسکراہٹ میں ڈھل گیا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"آج مجھے تین بجے تک ہر صورت نکلنا ہوگا حور، سائیٹ پر کام ملا ہے۔۔۔ تم مجھے ایک گھنٹہ پہلے چھٹی لے دو گی ناں"

ہوٹل کا بڑا سا تاحد نگاہ پھیلا باورچی خانہ مکمل چمکائے، ایپرن سے ہاتھ صاف کرتی وہ میز اور کرسی کی جانب لپکی جہاں حور سبزیاں کاٹنے میں منہمک تھی، منہا نے دوسری کرسی گھسیٹ کر ساتھ لگائے بیٹھتے ہی ملتجی ہوئے اپنی مجبوری بتائے درخواست کی تو حور رسان سے سر ہلائے مسکرا دی۔

"ہاں لے دوں گی تم چلی جانا۔۔۔ "

یہاں ہوٹل میں حور سے اسکی اچھی سلام دعا تھی اور منہا کی طرح حور بھی اکیلی گھر کی کمانے والی تھی، بوڑھی والدہ تھیں جو کبھی کبھار سلائی کا کام کر لیتیں۔

گھر کے ابتر حالات کے باعث وہ بھی باہر کمانے نکلی تھی، مگر وہ منہا کی طرح پڑھی لکھی نہ تھی بلکہ دو کلاسیں بمشکل پڑھ سکی تھی۔

ہوٹل کے مالک کی بیوی دراصل حور کی ماں سے کپڑے سلواتی تھی تبھی حور کبھی کبھی سفارش کروا کے منہا کو جلدی چھٹی دلا دیا کرتی تھی۔

منہا نے ممنون ہوئے حور کا ہاتھ پکڑے شکریہ کہا مگر اگلے ہی لمحے وہ پریشان سی ہوئی۔

"مجھے کچھ اور بھی کہنا تھا، اگر تمہاری نظر میں کوئی شام سے رات کی پارٹ ٹائم جاب ہو تو مجھے ضرور انفارم کرنا۔۔۔ دراصل کچھ اخراجات بڑھ گئے ہیں تبھی ان پیسوں میں گزارہ ناممکن ہوگا۔۔۔ میں تمہارا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گی"

احد سلطان کی بہتر پرورش کے لیے منہا ایک اچھی نوکری چاہتی تھی تاکہ اسے در در بھٹک کر ایک ایک پیسے کے لیے جوتیاں نہ گھسیٹنی پڑیں۔

بارہ جماعتیں پاس تھی اور اسے اُمید تھی کہ جلد اسے کوئی اچھی اور قابلِ عزت نوکری ضرور ملے گی۔

حور اسکے پوچھنے پر پہلے تو کسی خیال میں کھوئی مگر پھر جیسے کچھ یاد آنے پر چونکی۔

"ہاں سچ یاد آیا۔۔۔ ہماری پروسن ہیں ناں کنزا باجی۔۔۔ارے وہی جنکا شوہر بہت بڑے گھر میں ڈرائیور ہے، کوئی سیاسی بندہ ہے شاید امیر رئیس لوگ ہیں بہت۔۔۔۔ وہ آئی تھیں ایک ہفتے پہلے ہمارے گھر۔۔۔ اس گھر میں ایک آپاہج بزرگ عورت ہیں جنکے لیے انھیں ایک تیمار دار پڑھی لکھی اور سمجھدار لڑکی دیکھ بھال کے لیے چاہیے تھی۔۔۔ تنحواہ بھی پچیس ہزار تھی۔۔ تمہیں تو پتا ہے میں تو پڑھی لکھی نہیں نہ مجھے یہ خیال رکھنے والے کام آتے۔۔۔ اور ویسے بھی اماں کو اتنے وقت کے لیے اکیلا بھی نہیں چھوڑ سکتی تو میں نے تو انکار کر دیا مگر تم اگر مینج کر سکتی ہو تو میں آج ہی کنزا باجی کو تمہارا بتاوں گی"

منہا کو لگا جیسے آج آسمان سے کوئی الگ ہی آسانی اسکے لیے اتری ہو، شکر گزاری سے اسکی آنکھیں نم تھیں۔

دل چاہا حور کا ہاتھ چوم لے مگر پھر بس مسکرا ہی سکی۔

اتنے سارے پیسوں سے وہ احد کو کیا کیا دلا سکتی تھی، یہ سوچ کر ہی منہا کا دل خوشی سے بھر گیا۔

"تم ان سے ضرور کہنا حور۔۔۔ بہت شکریہ تمہارا، میں کر لوں گی مینج بس تم مجھے کسی طرح یہ نوکری دلوا دو، میں ان آنٹی کا پورے دل سے خیال رکھوں گی"

لہجے میں یقین اور آواز میں خوشی بھرے وہ حور کے اس احسان پر کھل اٹھی تھی، حور نے بھی مسکرا کر اسے تسلی دی اور ساتھ ہی کنزا باجی کو اپنے چھوٹے سے فون سے کال ملائی۔

منہا سارا وقت توجہ سے اسے بات کرتا سنتی رہی اور پھر اسکے فون بند کرنے پر منہا کی بیقراری پر اسے خوش خبری بھی دے گئی۔

"میں نے بات کر لی ہے کنزا باجی سے، کل جاب کے بعد ہم انکے گھر جائیں گے۔۔۔ وہ تمہیں اس بنگلے وغیرہ کا ایڈریس دیں گی تم چلی جانا وہاں سراج علی نام کے آدمی ہوں گے وہی تمہارا سرسری سا انٹرویو لیں گے۔۔۔۔ اب خوش ہو جاو لڑکی۔۔۔"

حور کی مسکراہٹ اور منہا کو زندگی کی کرن دیکھانا دونوں ہی حسین تھا، وہ بس پل پل اب اس جاب کو حاصل کرنے کے لیے دعاگو تھی۔

احد کے آنے سے منہا سلطان کی زندگی بھی سنور رہی تھی مگر قدرت تو کچھ اور ہی طے کیے بیٹھی تھی، شاید منہا کی زندگی آسان نہیں البتہ مشکل ضرور ہونے والی تھی۔

ٹھیک تین بجے وہ ہوٹل سے نکل کر سیدھی سائیٹ پر ہی گئی، وہ بہت بڑی کنسٹرکشن بلڈنگ تھی جہاں کے انجینئیر جمیل صاحب تھے، وہ منہا کے دادا کی حِکمت کے باعث جان پہچان کی وجہ سے منہا کو اکثر و بیشتر یہاں اسکی ہمت کے مطابق کام دے دیا کرتے تھے۔

آج بھی اسے کچھ بلاکس اٹھانے تھے، ایک بلاک ہی اتنا بھاری تھا کہ اسے اٹھا کر دوسری جگہ منتقل کرنا اس ننھی پری کو ہلکان کر گیا۔

اوپر سے موسم شام ہوتے ہی پھر سے آبرآلود ہو گیا تھا، بارش کے باعث فضا ٹھنڈ اوڑھ رہی تھی۔

بلاکس اٹھا کر انکی جگہ رکھتے اسے پانچ بج چکے تھے، پورا جسم تھک سا چکا تھا، مگر حسبِ توقع جمیل نے اسے ہزار کے بجائے آج سخت کام کے باعث دو ہزار دیے تھے۔

"منہا اب یہاں تمہارے لیے کام ختم ہو گیا ہے، اس لیے ممکن ہے دوبارہ نہ بلاوں۔۔ لیکن جیسے ہی کوئی تمہاری ہمت والا کام ہوا میں خبر پہنچا دوں گا۔۔۔۔ دادا جی کو میرا سلام کہنا۔۔۔۔"

وہ عمر رسیدہ سے جمیل بھائی اسے گویا مایوسی میں مبتلا کر گئے، وہ رکھائی سے سر ہلاتی وہاں سے نکل کر باہر آگئی۔

نیا کام ملنا نہ ملنا تو بعد کی بات تھی مگر یہاں سے کام ختم ہونے پر وہ تھوڑی افسردہ تھی۔

دادا جان کی چند رہ جانے والی دوائیں لینے وہ فارمیسی چلی گئی، مگر وہاں دور سے ہی مچی بھگڈر اور اٹھتے دھویں نے منہا کے پاوں پتھر کیے۔

کسی انہونی کے احساس نے دل کچلا۔

کئی لوگ وہاں سے ہانپتے کانپتے دوڑ کر باہر نکل رہے تھے، منہا نے بھی پریشانی کے سنگ قریب ہی کھڑے آدمی تک پہنچ کر اس افرتفری کی وجہ جاننی چاہی۔

"بھائی یہاں کیا ہوا ہے؟"

منہا کا لہجہ فکر سے اٹا تھا۔

"یہاں سامنے ہی سٹور میں سلنڈر پھٹ گیا تھا، پورا یوٹینلٹی سٹور چل کر خاک ہو گیا۔۔۔۔ دکاندار کو بچا لیا گیا ہے مگر وہ زخمی ہے شدید"

اپنی سماعت میں اترتی یہ ہولناک بات سن کر منہا پورے وجود سے کانپی، ذہن و دل میں ہتھوڑا برسا۔

کل رات کا منظر اور اپنی دی بددعا سوچ کر وہ الٹے پیروں وہاں سے بھرائی آنکھیں لیے باہر نکلی۔

پوری سڑک سنسان تھی، کنارے پر لگے بلاک پر ٹک کر گہرے گہرے سانس بھرے جیسے خود کو تقویت دینے کی کوشش کی ہو۔

کیا اس بندے کو منہا سلطان کی بددعا لگی تھی، آنکھوں سے قطار در قطار آنسو بہتے گئے۔

سر اٹھائے سیاہ بادلوں کی لپیٹ میں سمٹے آسمان کو دیکھ کر سرد سا سانس بھرا۔

"میں دوبارہ کسی کو بددعا نہیں دوں گی اللہ جی م۔۔مجھے معاف کر دیں۔۔۔۔ آپ تو جانتے ہیں منہا نے دل سے تھوڑی کہا تھا۔۔۔ "

ناجانے کیوں احساسِ جرم اسے کچوکے لگانے لگا حالانکہ وہ جنرل سٹور والا پوری مارکٹ میں بدنیت، بد اخلاق اور سود خور کے نام سے مشہور تھا، وہ گاہکوں کو لوٹتا تھا، ہیرا پھیری کرتا تھا، اسکی سزا تو مقرر تھی مگر منہا کا دل اس دنیا جیسا سفاک نہ تھا، وہ تو روتے ہووں کو دیکھ کر رو پڑنے والی بندی تھی۔

ابرآلود اس قہر ناک جگہ بیٹھے اس نے دوبارہ کسی کو بھی بددعا دینے سے توبہ کی تھی مگر وہ جانتی ہی کب تھی کہ اس کے ساتھ زیادتی کرنے والے ہر انسان کو اسکا پالن ہار بدلا بھی خود دیتا ہے۔

وہ صابر، شاکر منہا سلطان اپنے رب کی نیک روح تھی، شفاف روح، پاکیزہ روح۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

گُل مینے کو قبر میں اتارتے ہی وہ واپس اپنے سنگدل روپ میں آچکا تھا، شام تک پھر سے بارش اتر کر سب جل تھل کر گئی تھی۔

اپنے چہرے پر پتھرایا نقاب اوڑھنا ہی جینے کا واحد سلیقہ تھا، سراج علی اس پورے وقت اس کے ساتھ رہا تھا، فاریہ کو منہ لگانا دور اس نے اپنے آس پاس بھٹکنے تک نہ دیا تھا۔

"ضروری کچھ بھی نہیں اس جہانِ حیرت

تمہارے بعد بھی زندہ رہے تو ہم سمجھے"

جدائی اور تاعمر کی تکلیف اسکے سینے میں کہرام مچائے، لوٹ کھسوٹ کیے رگیں نوچتی جا رہی تھی پر اُسے جینا تھا، سب کچھ اپنی مرضی میں ڈھال لینا تھا۔

وہ عباد حشمت کیانی تھا جسے اپنے اردگرد کی ہوا بھی اپنی مرضی کی چاہیے تھی، وہ جنازے سے واپسی پر اسطبل چلا گیا تھا، سراج کو اسکی حقیقی فکر تھی کیونکہ وہ مکمل بھیگنے کے باوجود اس گرتی قہر ناک بوندوں کو سہتا سیاہ آسمان کی وسعت تلے ایک طویل تنہائی کا طلب گار تھا۔

یہ پورا فارم ہاوس جس کے ساتھ ملحقہ اسطبل تھا عباد کیانی کی ملکیت تھا، مٹھی میں پاور، پیسہ اور شہرت کے باوجود وہ اپنے خالی اور کھوکھلے پن پر اذیت میں تھا، دل سے لے کر روح تک کانٹے بھرے تھے۔

آنکھوں میں لازوال کمی بصارت دھندلا رہی تھی۔

ادا جان نے سراج علی کو ہمہ وقت عباد کے ساتھ رہنے کی تاکید کی تھی تبھی وہ بھی کچھ فاصلے پر ہاتھ باندھے کھڑا بارش میں بھیگ رہا تھا۔

"سراج علی۔۔۔۔ مجھے تنہائی چاہیے، تم واپس چلے جاو۔۔۔۔۔ میں آج کسی کی مداخلت نہیں چاہتا"

دونوں ہاتھ ٹراوزر کی جیبوں میں گھسائے وہ پتھر بن کر کھڑا تاحد نگاہ پھیلی وحشت پر نظر گاڑے حکم کر رہا تھا، سراج نے اک آزردہ نگاہ بھائی پر ڈالی اور بیچ کا فاصلہ کم کرتا عین قریب پہنچا۔

"خود کو سزا مت دیں بھائی، جس نے بھی آپکو اجاڑنے کی یہ گھناونی چال چلی ہے سراج علی اسے خود سزائے موت دے گا۔۔۔ آپ خود کو سنبھالیں، ادا جان آپکے لیے فکر مند ہیں۔۔۔۔۔ میں چلتی ہوا تک سے اس معاملے میں تفتیش کروں گا۔۔۔ بھروسہ کریں مجھ پر، آپ کمزور نہیں ہیں۔ عباد حشمت کیانی ایک مضبوط شیر ہے"

وہ جانتا تھا عباد اول تو کبھی بکھرا نہ تھا اور اگر کبھی اس مضبوط ذات کے حامل شخص کو تکلیف پہنچتی تو وہ ریزہ ریزہ بکھر جاتا تھا، یہاں تک کہ اسے اب وقتی اور سطحی سا سمیٹنے والی گُل مینے بھی منوں مٹی میں دفن ہو چکی تھی۔

"حارث کل سے غائب ہے سراج علی، تمہارا کام اسکی تلاش ہے۔۔۔۔ سرور حسین نے مجھے بیچ میڈیا دھمکی دی تھی مجھے یقین ہے ہماری گاڑی پر اسی نے فائرنگ کروائی۔۔۔ تمہیں پتا ہونا چاہیے سراج علی کہ عباد اتنا کمزور نہیں کہ بنا انتقام لیے دنیا سے کٹ جائے۔۔۔۔ تم جاو میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔آج سے مجھ پر آرام و سکون حرام ہے"

کسی غیر مرئی نقطے پر حقارت سے نظر جمائے وہ ایک ایک لفظ احساس سے عاری ہوئے کہتا وہاں سے چلا گیا، سراج علی کی آنکھوں میں مانو لہو اترا، فورا سے بیشتر اپنے دو گارڈز کو عباد کی ہر وقت حفاظت کی ڈیوٹی سونپتا خود وہ پورچ کی سمت کھڑی گاڑی کی سمت لپک گیا۔

"تو یہ طے ہوا میری مسافت غلط راستے کی سمت تھی، مجھ سے میرے روح اور بدن کا غرور لے لیا گیا، اتنی سنگین سزا کا مستحق نہیں تھا۔۔۔ میں تمہیں ڈھونڈ لوں گا بابا کی جان، اپنا آپ اس تلاش کے لیے وقف کر دوں گا۔۔۔ "

اپنے ساتھ پل پل تڑپتی سانسوں کو مشکل سے دوچار کیے وہ عہد باندھ رہا تھا، اپنی زندگی اس نے بیوی کی آخری امانت کی تلاش کے لیے وقف کی تھی۔

وہ رب جانتا تھا امین بننے تک عباد حشمت کیانی کو اسکی امانت سے دور کیسے رکھنا تھا، ہر کسی کے بس میں نہیں ہوتا امین ہونا۔

دوسری سمت اپنی نئی نوکری کی امید دادا کو دلائے وہ انکی خوشی کو دیکھ کر خود ملال میں لپٹ گئی۔

اپنے پہلو میں ایک پرسکون نیند لیتے احد کو دیکھ کر سارے ملال نے خوشی کا روپ دھار لیا۔

وہ اب کل کی نسبت بہتر تھا، مگر اتنی ننھی سی جان کو دیکھتے ہوئے وہ اسکی تکلیف کا سوچ کر ٹھیک سے مسکرا بھی نہ سکی۔

کروٹ احد کی سمت بدلے وہ اسکی نازک سی پیشانی چومے اپنی آنکھوں میں دنیا جہاں کی محبت سمیٹ لائی۔

"مجھے فکر نہیں ہے اب کہ کوئی تمہیں مجھ سے چھین لے گا، تمہارے والی وارث تو تمہیں بوجھ سمجھ کر اتار گئے لیکن میں جان گئی احد سلطان کہ تم بہت بخت والے ہو۔۔۔۔دیکھو تمہارے آجانے سے منہا کے اندر بجھتی زندگی کسی نئے دیے کی مانند ٹمٹما اٹھی ہے۔۔۔ اور مجھے یقین ہے میں کل جاب بھی حاصل کر لوں گی۔۔۔۔۔ پھر ہم خوشی سے ساتھ رہیں گے۔۔۔"

وہ اس سے بات کرتی کرتی اپنی امید بھری آنکھوں کو مسکراہٹ دیتی بہت پیاری لگی، کب احد کو تکتے تکتے نیند میں اتری اسے خبر ہی نہ ہوئی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

ہوسپٹل میں ہوش و حواس سے بیگانہ حارث کیانی اپنی جلد ہی عبرت پا گیا تھا، اسے لگی بدعا اسکی اس حالت کی ترجمانی تھی۔ یہ مکافات تھا، جتنا وہ اس کرب اور ابتر حالت میں رہتا اتنا اپنے گناہوں کا پھل بھگتتا۔

اس نے تو سنگین گناہ کیا تھا، احد سلطان پر۔۔۔۔ اور اسے اللہ نے ایک بے گناہ ننھی جان پر یہ ظلم ڈھانے پر فوری پکڑ میں بھی لے لیا۔

دوسری طرف رات کا اخیر سناٹا تھا جب یکے بعد دیگرے دس عدد نقاب پوش آدمی دہکتے چمکتے بار میں داخل ہوتے ہی وہاں چلتی واہیات اور غلیظ پارٹی ہوائی فائرنگ سے روک چکے تھے، بار میں موجود وہ نشے میں دھت لڑکے اور انہی جیسی نجس لڑکیاں جو بظاہر اونچے خاندان کی تھیں مگر یہاں اپنے ماں باپ کی عزت کا جنازہ نکال رہی تھیں سب سہم گئے۔

اس مین ہیڈ کی دھاڑ سے سبکو سانپ سونگھ چکا تھا، بار کے جونئیر ہیڈ کو اس نقاب پوش نے گریبان سے بری طرح گھسیٹ کر دیوار سے پٹخا جس پر وہ سر دیوار سے بجنے پر بلبلا اٹھا۔

"کہاں ہے تیرا باس۔۔۔۔۔ کل سے کدھر مرا ہے وہ بھونک جلدی"

کوئی اور نہیں وہ سراج علی تھا،اس نے عتاب و قہر کے سنگ ہر ممکنہ کوشش کیے اس اوباش سے لگ بھگ بیس بائیس سالا لڑکے کی گردن دبوچے قہر ناک آنکھوں سے روح فنا کیے استفسار کیا مگر وہ لڑکا تو خوف سے تھر تھر کانپتا کچھ بول نہ سکا۔

"م۔۔۔مم۔۔۔مجھے نہیں پتا قسم سے۔۔۔۔و۔۔۔وہ کہہ کر گئے تھے کام سے ج۔۔۔جا رہا"

سراج کی انگلیاں اسکی گردن میں دھنسیں تو سانس کی عدم دستیابی پر وہ تڑپ کر رٹو طوطے سا سب کہہ بیٹھا۔

"کونسا کام۔۔۔۔جلدی بکواس کر ورنہ یہیں تیری قبر کھود دوں گا۔۔۔"

سراج کا بس چلتا تو اسکی گچی مڑور ڈالتا مگر اسے عباد نے کبھی بھی کسی کو بے جا موت دینے سے منع کر رکھا تھا، حارث کے تمام دھندے اور اسکے جرائم سب پر عباد نظر رکھواتا آیا تھا۔

اپنے بابا سائیں اور چاچو کی زندگی میں ہی حارث بُری صحبت میں پڑ گیا تھا اور تبھی انہوں نے وصیت میں ساری جائیداد عباد کے نام کی تاکہ وہ جب سدھر جائے یا وہ بہتر جانے تبھی حارث کو اسکا حصہ سونپے مگر ابھی تک عباد کو وہ یا اسکی بہن اس قابل کبھی نہ لگے کہ وہ پرکھوں کی کمائی جمع پونجی ان اوباش اور فتنہ پرور بہن بھائیوں کے سپرد کرتا۔

اور عباد کے اس فیصلے نے ہی ناجیہ اور اسکی اولاد کے دل میں عباد کیانی کے لیے نفرت بھر دی تھی۔

"و۔۔۔وہ ک۔۔۔۔کسی کو "

وہ لڑکا دم دینے کی اذیت میں مبتلا جب سسکا تو سراج نے اپنی قوت کم کیے اسکا جبڑا دبوچا۔

"جلدی بول مردود۔۔۔۔"

سراج کی آواز میں لپٹی دہشت وہاں موجود ہر فرد کو کپکپا کر رکھ گئی۔

"ٹھکانے لگانے کا کہہ رہے تھے، م۔۔۔مجھے چھوڑ دو ۔۔۔م۔۔۔مر جاوں گا"

وہ لڑکا اذیت سے سرخ ہوتا باقاعدہ سراج کی گرفت میں پھڑپھڑایا مگر یہ سنتے ہی سراج نے پوری قوت سے اسکے پیٹ میں گھونسا مارے ہی زمین بوس کیا اور اپنے آدمیوں کو اشارہ کرتے ہی بار سے اسی طرح نکل گیا۔

سارے لڑکیاں اور لڑکے کہرام مچاتے زمین پر نیم جان حالت میں اس لڑکے کی عبرت تکتے بار سے باہر بھاگے، ہر طرف بھگدڑ مچ چکی تھی۔

صبح ناجانے کس وقت وہ واپس پیلس پہنچا، آتے ہی ادا جان کے کمرے کا رخ کیا تھا ، انھیں نیند میں دیکھ کر انکی پیشانی چومے وہ سیدھا اپنے کمرے کی سمت چلا گیا۔

آج اسکی ایک اہم میٹنگ تھی اور وہ سوگ میں بھی بن ٹھن کر رہنے کا عادی تھا تبھی شاور لینے اور اپنے اوپر سے اجاڑ زدہ لبادہ ہٹانے کی بھرپور کوشش میں تھا۔

ایک گھنٹے تک ٹرواز پہنے شرٹ لیس ٹاول گلے میں لٹکائے وہ روم میں آیا، نم نم چہرہ اور بال ٹاول سے رگڑے، کسرتی وجود کی کشش اور اسکی جاندار پرسنالٹی سحر انگیز تھی اور وہ خود اس خاندان کا سب سے پرکشش اور نفیس خدوخال رکھنے والا شخص تھا۔بیڈ گرین ٹی اور ناشتہ ملازم پہلے ہی رکھ گیا تھا۔

بیڈ پر اسکا ڈنر سوٹ بھی نفاست سے دھرا تھا، آئینے کے سامنے کھڑا وہ اپنے آپ کو دیکھتا تلخی سے منہ موڑ گیا، ابھی جھک کر گرین ٹی کا مگ اٹھایا ہی تھا کہ دندناتی ہوئی وہ بے ادب اور غیر اخلاقی عادات والی لڑکی بنا دستک دیے کمرے کا دروازہ کھولے اندر وارد ہوئی۔

عباد حشمت کیانی نے اسکی اس حرکت پر جبڑے بھینچ کر مگ پہلے فرش پر دے مارا اور بپھرے خونخوار درندنے کی طرح اس لڑکی کے ہوش واپس ٹھکانے لگائے گھوری سے نوازا۔

"جاہل عورت تمہیں کسی کے روم میں آنے کی تمیز ہے یا نہیں، گیٹ آوٹ فرام ہیر"

دل تو یہی کیا کھڑے کھڑے اس منحوس کی جان لے مگر وہ جو کل سے اسے باولی بنے تلاش رہی تھی اسکے اس طرح روح فنا کرتے غصے کے باوجود آنکھوں میں سرور لیے عین عباد کے قریب ہوئی۔

انہی نفرت اور غصے سے لال ہوتی آنکھوں پر ہی تو فلیٹ تھی، اس لڑکی کے بے جا لپکتے ارادے بھانپ کر عباد کی تندہی میں اضافہ ہوا۔

مگر وہ تو اسکے ہوش ربا وجود اور اسکی تپش سے آگ کا شعلہ بنی سرور میں لپٹی۔

"لکنگ ہاٹ، ہینڈسم۔۔۔۔اور کسی کے روم کا تو پتا نہیں لیکن عنقریب یہ میرا روم ضرور ہوگا، میں جانتی ہوں عباد تم گُل کے بعد بہت تکلیف میں ہو، تنہا ہو۔۔۔۔ میں ہوں ناں، مجھے تم کیوں دھتکارتے ہو ، میں تمہارے دل اور روح کے ہر زخم کا مداوا کروں گی۔۔۔۔ ہم مل کر بے بی کو ڈھونڈیں گے۔۔۔۔۔ پھر ایک فیملی بن جائیں گے۔۔۔۔گُل مینے کی اتنی ہی زندگی تھی جان اس بات کو تسلیم کرو"

دونوں ہتھیلوں کو عباد کے چوڑے شفاف سینے سے جوڑے وہ بنا اسکی حقارت کی پرواہ کیے اسے اپنے جھوٹے جذبات اور مخلصی کا یقین دلاتی اس وقت عباد کو نہایت گھٹیا لگی مگر ناجانے کیا ہوا کہ عباد نے ساری نفرت وقتی طور پر دبائے اپنے تاثرات بہتر کیے۔

اپنی اولاد اور گُل کے حوالے سے اسکا شک اس سفاک لڑکی اور اسکے خاندان پر تھا اور یہ چیز عباد بنا تحقیق کے کہہ نہ سکتا تھا اور نہ انکو فی الحال اس بات کا پتا لگنے دے سکتا تھا کہ وہ ان لوگوں کی سانپ جیسی حصلت سے بخوبی واقف ہے۔

"اچھا تو کیا کر سکتی ہو میرے لیے تم"

پلوں میں جبڑے بھینچ کر اسے ایک ہی جھٹکے سے لہرا کر کچھ فاصلے پر دیوار سے لگائے وہ خون آشام آنکھوں سے گھورا۔

فاریہ کا دل گویا ہاتھوں سے پھسلا۔

"جو تم کہو۔۔۔ تمہارے لیے جان بھی دے سکتی ہوں"

جذب سے وہ عباد کے چہرے سے ہتھیلی لگائے اسکے گلابی ہونٹوں اور شہد رنگ ظالم آنکھوں کو رغبت سے دیکھتی یقین دلا رہی تھی، عباد حشمت کیانی نے واپس اپنی فتنہ پرور حصلت کو جگایا، اس لڑکی کی ساری گیم اسی پر الٹائی۔

اس لڑکی سے سچ اگلوانے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھا۔

"بھائی کہاں ہے تمہارا، کرتا ہوں اس سے تمہاری اور اپنی شادی کی بات۔۔۔۔ بہت ترس لیا تم نے، آئی تھنک مجھے خود بھی تمہاری اس حسرت کو پورا کرنے کے بارے فیصلہ لینا چاہیے ۔۔۔ روح اور دل کی غذا تو میری گل کی یادیں ہیں پر جسم کی۔۔۔۔۔۔۔۔"

وہ آنکھوں میں منصوعی ذومعنیت سی بھرے فاریہ کے چہرے سے صراحی دار گردن تک کے دہکتے حسن کا تفصیلی جائزہ لیے اک ایسا کھیل رچا گیا جس میں وہ شاطر لڑکی مکمل پھنس گئی بنا کچھ سوچے وہ عباد کے کندھے سے جا لپٹی، اور اسکی اس حرکت پر عباد کی آنکھوں میں جسم کا سارا لہو چھلک آیا۔

خود سے اسے دور کرتا وہ سختی سے گھورا، جیسے اپنے جواب کا منتظر ہو۔

"وہ بھائی اپنے دوستوں کے ساتھ کاغان کی سیر پر گئے، چالیسویں کے بعد آ جائیں گے۔۔۔۔ تم نے واقعی مجھے قبول کرنے کا ہی کہا ہے ناں عباد۔۔۔۔۔۔ تم نہیں جانتے کہ تم نے مجھے کتنی خوشی دی"

فاریہ کو اس قدر باولی خوشی میں دیکھ کر وہ خفیف سا بگھڑے دور ہٹا، وہ اسکے چہرہ موڑ لینے پر بیقراری سے مڑ کر پھر قریب آئی۔

"ابھی دفع ہو جاو پھر یہاں سے، چالیسویں کے بعد ہی قریب بھٹکنا۔۔۔۔۔ ورنہ میرا ارادہ گرگٹ کی طرح بدلے گا اسکا تمہیں اچھے سے علم ہے۔۔۔۔ ویسے بھی تم نے اپنی اس منحوس دیوانگی سے جس قدر مجھے زچ کیا ہے فاریہ کیانی، جی تو چاہتا ہے تمہاری شکل تک نہ دیکھوں۔۔۔۔ اب جاو اور کمرے میں داخل ہونے کے اداب اپنی سیانی ماں سے سیکھ لینا"

تفاخر اور نخوت سے وہ فاریہ کیانی کو دن میں تارے دیکھائے زلیل کرتا خود اپنا سوٹ اٹھائے چینچنگ روم کی سمت بڑھ گیا جبکہ رہانت اور تضخیک کے اس احساس نے فاریہ کا پورا جسم لرزا دیا۔

اسکا بس نہ چلا اس شخص کو بھڑکی بھٹی میں جھونک دے۔

"تم سے محبت کرتی ہے فاریہ کی جوتی، سمجھتے کیا ہو تم ۔۔۔۔۔ تمہیں اپنے بس میں کر کے سسکتا اور تڑپتا دیکھنا چاہتی ہوں، تمہاری ساری پراپرٹی اپنے نام لگوا کر تمہیں سڑک پر بھیک منگوانے کے لائق نہ بنایا تو میرا نام بھی فاریہ کیانی نہیں۔۔۔۔۔اور تمہاری اس طرف دار دادی کو بھی مما جلد اوپر پہنچائیں گی۔۔۔۔ مرو گے تم بھی اور دادی بھی۔۔۔۔۔ بھاڑ میں جاو عباد حشمت کیانی"

اپنے چہرے پر نفرت اور حقارت کی پرچھائیاں لائے وہ آہستہ آواز میں بڑبڑائی اور پیر پٹخے وہاں سے گئی مگر اسکے جاتے ہی عباد دروازے کی اوٹ سے باہر نکل آیا۔

فاریہ کی ساری خرافاتی پلینگ وہ سن چکا تھا اور اسے کچھ دیر پہلے اس ذلیل لڑکی کے ساتھ کیے برتاو پر دلی فرحت نصیب ہوئی۔

بھاڑ میں تو اب وہ اس خرافہ کو پورے پروٹوکول سے چھوڑ کر آنے والا تھا۔

فورا سے بیشتر بیڈ تک پہنچ کر اپنا فون اٹھائے سراج علی کا نمبر ملایا۔

"ادا جان کے لیے میں نے جو لڑکی لانے کا کہا تھا مجھے وہ کل تک چاہیے، یہ کام جلدی نمٹاو سراج"

اپنی پیاری اور جان سے عزیز دادی جان کے لیے وہ کبھی رسک نہ لیتا تھا مگر ناجیہ ہر بار انکی میڈیسن بدل دیتی تھی ، تبھی عباد چاہتا تھا کہ وہ کسی ایسی مخلص اور ایماندار لڑکی کو انکے پاس لائے جو کم از کم اس سارا وقت انکے پاس رہے جب وہ گھر سے باہر ہوتا ہے۔

وہ جانتا تھا جو لوگ تکلیف اور نقصان پہنچانے کے لیے آستین کے سانپ بنے ہیں ان کے سامنے وہ نہ کمزور پڑ سکتا ہے نہ ہلکا، وہ چاہتا تھا اپنے دشمنوں کو حسرت کی مار مارے، اور اسے کمزور اور شکستہ دیکھنا اسکے ان فسادی رشتہ داروں کی اک تشنگی بن کر رہ جائے۔

ایک آخری عناد بھری نگاہ دروازے کی سمت ڈالتا وہ واپس چینج کرنے بڑھ گیا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

حسب معمول دادا جان کو احد کے سپرد کیے وہ ہوٹل نکلی، آج اس نے خاص طور پر اللہ کے حضور نوکری مل جانے کی دعا کی تھی۔

چار بجے تک وہ اپنا کام مکمل کرتی حور کے ساتھ ہی کنزا باجی کے گھر گئی۔

وہ دونوں کو خوش دلی سی ویلکم کیے چائے بنانے چلی گئی تھیں، انکے شوہر نے کچھ دیر پہلے ہی اس معاملے کا پوچھا تھا تو کنزا نے اس لڑکی کا سرسری ذکر بھی کیا تھا۔

چائے لاتیں وہ خود بھی اب منہا اور حور کے سامنے ہی بیٹھی تھیں، حور کو تو وہ اچھے سے جانتی تھیں تبھی منہا پر بھی انھیں بند آنکھوں یقین تھا۔

"میری بات ہوئی تھی سرتاج سے، وہ پوچھ رہے تھے میں نے تمہارا ذکر کیا تھا۔۔۔ یہ رہا انکے پیلس کا ایڈریس ۔ کل تم صبح دس بجے چلی جانا، فضل جو میرے شوہر ہیں انکا حوالہ دے کر اندر بھجوانا چوکیدار کو سراج بھائی کے پاس۔۔۔۔وہ تمہارا تھوڑا سا تعارف پوچھیں گے۔۔۔۔ نوکری کی ٹائمنگ وہ خود بتا دیں گے مگر ایک دن میں چھ گھنٹے لازمی دینے ہوں گے۔۔۔۔تم کو چھ گھنٹوں پر کوئی مسئلہ تو نہیں ہوگا ناں منہا"

سرسری سی تفصیل فراہم کرتیں کنزا، منہا کی اڑی ہوائیاں دیکھ کر فکر اور رسان سے بولیں جس پر وہ فوری سر ہلا گئی۔

"بس پھر ٹھیک ہے، تم کل دس بجے یاد سے چلی جانا۔ میری دعا ہے تمہیں نوکری مل جائے۔ وہاں میرے شوہر فضل ڈرائیور ہیں اور خود سراج بھائی بہت نیک اور اچھے انسان ہیں لہذا کوئی بھی وہاں مسئلہ ہو تو انکو کہہ دینا بلا ججھک بس وہاں کے دو نواب زادوں اور اکلوتی نواب زادی سے زرا محتاط رہنا وہ خاصے سر پھرے ہیں تینوں۔۔۔۔ باقی مجھے پتا ہے حور بتاتی رہتی ہے کہ منہا کتنی بہادر اور مضبوط ہے۔۔۔۔خیر اب تم دونوں بیٹھو میں نے بریانی بنائی ہے رات کے لیے میں تم دونوں کو گھر کے لیے ڈال دیتی"

منہا اور حور کو نثار ہوتی نظروں سے تکتیں وہ اٹھ کر باورچی کی سمت لپکیں تو منہا نے خوف سے جھرجھری لی، اتنے بڑے بنگلے میں جانے کا سوچ کر ہی اسکا دل دہل رہا تھا۔

حور نے اسکی گھبراہٹ بھانپ کر اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے تسلی دینے کو دبایا تو منہا کو بھی چاروناچار مسکرانا پڑا مگر حقیقت میں وہ بہت ڈری ہوئی تھی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"ہمیں بہت دلی افسوس ہے عباد صاحب، آپ پر اور آپکی فیملی پر مشکل وقت ہے سمجھ سکتے ہیں لیکن عوام میں اس خبر سے ہلچل مچ چکی ہے۔۔۔۔ وہ لوگ آپ کے غم میں شریک ہونے کے لیے بیقرار ہیں، انکا لیڈر دکھ میں ہے لیکن وہ آپکو دیکھنے کے لیے بے تاب ہیں۔۔۔ اگر آپ مناسب سمجیں تو ہم کل پارٹی پریس کانفرنس کر لیں۔۔۔۔۔"

میٹنگ روم میں اس وقت ملک کے نامی گرامی سیاسی لوگ عباد حشمت کیانی کے سامنے براجمان تھے جن کے چہروں پر لکھی مطلب کی کہانیاں وہ ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر نخوت سے ملاخظہ کر رہا تھا، دشمن نے یہ وار اسے سوگ میں غرق ہو جانے کے لیے نوازا تھا اور عباد کے دوسرے روز ہی میٹنگ میں شمولیت کسی کے تلووں لگی اور سر پر بجھی تھی۔

اس وقت بھی عباد کی نفرت بھری نگاہیں کسی ناپسند وجود پر پتھر تھیں جو اسکے زاویہ نگاہ سے پہلے ہی گڑبڑا چکا تھا۔

"ہماری سیاسی دشمنی ایک طرف عباد کیانی مگر میں نے اس روز جو میڈیا کے سامنے دھمکی دی تھی وہ صرف میرا وقتی غصہ تھا۔۔۔ میں خود اس حادثے سے بہت افسردہ ہوا۔۔۔۔ دیکھو۔۔۔۔۔"

سرور حسین سفید کرکتے کھدڑ کے سوٹ پر سیاہ چادر اوڑھے ایک مضبوط پارٹی کارکن تھا جسے پیٹھ پیچھے وار کر کے اب اپنے آپ کو ستھرا بھی کرنا تھا، اسکی بات ہاتھ کے اشارے سے واپس منہ میں دفن کرتا عباد اسکی سمت سے نفرت اور حقارت سے منہ موڑ چکا تھا۔

جبڑے بھینچ کر سرور حسین نے یہ تضخیک برداشت کی۔

"جو کوئی اس سب کے پیچھے ہے اسے بیچ میڈیا کے ہی عبرت بناوں گا یہ بات یہاں بیٹھا ہر فرد سن لے، اپنی بیوی کی موت اور بچے کی گمشدگی کا پتا لگوانے تک مجھ پر سوگ تک حرام ہے۔۔۔۔ رہی بات کانفرنس کی تو خالد صاحب آپ کل اسکی تیاری کریں۔ میں عوام سے ضرور بات کرنا چاہوں گا۔ عباد حشمت کیانی کی پشت پر وار کرنے والے سن لیں کے مرا نہیں ہوں ابھی"

اپنے شک کے دائرے میں آتے ہر حریف کو وہ معتوب ٹھہرا چکا تھا، ہر کوئی اسکی پاور اور اسکے رتبے کا معترف تھا، اس پورے شہر میں اسکی حکومت تھی، یہاں کے لوگ عباد حشمت کیانی کی وفاداری کے جہاں معترف تھے وہیں اسکے عتاب سے خوفزدہ بھی۔

اسکے علاوہ بھی وہ شہر کے چیڑٹی معاملات کا صدر تھا، پچھلے دو سالوں میں ہر طرح کے مسائل کو حل کرنے کے ساتھ یہاں پر پھیلے جرائم کی روک تھام سے لے کر عوام کو ہوتے ہر مسئلے پر وہ اپنی پوری توجہ دیتا تھا۔

وہ لوگوں کے دلوں میں دھڑکتا تھا مگر خود کے ساتھ ناانصافی کرنے والوں کو اسے اپنے ہاتھ سے سزا بھی دینی پڑتی تھی۔

اس گندی سیاست کی دلدل میں اتر کر اسکے ہاتھ ناانصافی اور غداری کے قتل میں لہو سے رنگے تھے۔دشمن ہر لمحہ اسکی تاک میں تھا، اسے نقصان پہنچانا اسکے ہر حریف کی اولین خواہش رہتی۔

اور ویسے بھی عباد حشمت کیانی کو باہر کے دشمنوں کی کیا ضرورت جب اسکا پیلس ہی آستین کے سانپوں سے بھرا ہوا تھا۔

سرور حسین کی آنکھوں میں ابلتی نفرت کو عباد جوتی کی نوک پر رکھ چکا تھا، سراج علی کو اس نے کام پر لگا دیا تھا اور خود وہ اب منظر سے ہٹنے کی غلطی نہیں کرنے والا تھا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

بھائی کہاں ہیں؟"

یکے بعد دیگرے دو بڑی گاڑیاں پیلس کے پورچ میں رکیں، دروازہ کھول کر نکلتے سراج علی نے لپک کر قریب ہی کھڑے گارڈ سے سرسری انداز سے پوچھا۔

"میٹنگ تھی انکی، پارٹی کارکنوں کے ساتھ"

وہ اسے مطلع کیے سراج کے اشارے پر وہاں سے ہٹا وہیں سراج علی کے ماتھے پر شکنیں اتریں، لان میں خرافاتی دوستوں کے سنگ انہی کی طرح دانت نکال کر ہنستی فاریہ پر اک سرد نگاہ ڈالے وہ اس سمت لپکا جہاں فاریہ اپنے کچھ یونی لفنگے دوستوں کے ساتھ گپیں ہانک رہی تھی۔

"لو فاری۔۔۔۔ تمہارے گھر کا وہ منحوس سیکورٹی کمیرہ ایکٹیو ہو گیا"

بے ڈھنگے ملبوسات، پھٹی جینز اور سرسری ٹاپس میں لپٹی لڑکیاں اور مردانگی کے نام پر کالک جیسے وہ زنانہ لڑکے جن کو دیکھ کر خوبرو سا جاندار مرد سراج ویسے ہی تپ چکا تھا، وہیں ان میں سے ایک لڑکی نے سامنے سے آتے شیر جواں کے آنے کی خبر دی تو فاریہ نے حقارت سے گردن موڑ کر دیکھا اور تفاخر سے اپنی گردن اکڑائے اٹھ کر سینہ تانے سراج علی کی اچٹتی نگاہوں کے حصار میں آئی۔

اسکے وہ سارے دوست ترسی نگاہیں لیے سراج علی کی پروقار شخصیت دیکھ رہے تھے جو عباد حشمت کیانی کے دلفریبی کے اعلی معیار سے تو کم مگر ایک دلکش مرد ضرور تھا۔

"کتنی بار منع کیا ہے ان نمونوں کو یہاں مت بلایا کرو فاریہ، آسان زبان سے سمجھا دینا اپنے ان لفنگے دوستوں کو کہ دوبارہ یہاں نظر نہ آئیں۔۔۔۔۔ اپنی نہیں تو اس گھر کی عزت کا خیال کرو"

ماتھے پر رگیں ابھریں اور وہ جس تُندہی سے اسکی سمت دیکھ کر جھاڑ رہا تھا فاریہ نے ایک لمحہ لگائے سراج کا گریبان دبوچے قہر آلود آنکھوں سے اسکی اس ہمت پر اسے گھورا۔

"ہاو ڈئیر یو چیپ مین، تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے دوستوں کو پھر سے ایسا کہنے کی۔ اپنی اوقات مت بھولو سمجھے، نوکر ہو نوکر بن کر رہو۔۔۔۔ ہو کون تم فاریہ کیانی کو آرڈر دینے والے"

لہو چھلکاتی آنکھیں سراج کے پھینچے چہرے پر ڈالتی وہ حلق کے بل دھاڑی یہاں تک کہ پورے پیلس کے گارڈز دم سادھ گئے البتہ فاریہ کے بے شرم دوست اس کو انجوائے کر رہے تھے۔

"اپنی حد میں رہنا دوبارہ ورنہ تمہاری یہ اکڑ نکال کر دو منٹ میں تمہارے ہاتھ میں رکھ دوں گا، میں کون ہوں میری کیا اوقات ہے یہ مجھے تم سے جاننے کی ضرورت نہیں۔۔۔ پانچ منٹ میں انکو چلتا کرو ورنہ تمہاری جان سراج علی خود نکالے گا۔۔۔۔۔"

جھٹکے سے فاریہ کی کسی بات کی پرواہ کیے بنا وہ اسکے ہاتھ اپنے گریبان سے آزاد کیے باقاعدہ اسے دھکا دیے روح فنا کرتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے دو گارڈز کے سنگ پیلس کے اندر بڑھ گیا جبکہ فاریہ کیانی کا چہرہ نفرت اور غصے سے سرخ بھبھول ہوا تھا، اسکا بس نہ چلا کہ اس شخص کے ٹکڑے کر ڈالے۔

"مرد ہو تو ایسا۔۔۔۔ہائے"

ایک اور ترسی مخلوق کمنٹ پاس کرتی سراج علی کو جاتا دیکھتی آگے بڑھی، البتہ فاریہ کے دماغ کی اس وقت چولیں ہل چکی تھیں۔

"ہمیں ہمیشہ زلیل ہی کرواتی ہو اس منحوس سے تم فاری، لٹس گو گائیز اب ہم کہیں اور ہی ملیں گے"

یہ ایک زنانہ ٹائپ لڑکا تھا جسے شائد سراج علی جیسے خالص پروقار مرد کو دیکھ کر کچھ زیادہ ہی مرچیں لگیں۔

"اوکے جاو تم لوگ، اسکی طبعیت صاف کر لوں میں پہلے۔۔۔۔۔ میں تم لوگوں سے سوری کرتی یار۔۔۔عباد نے سر چڑھا رکھا اسے، خود کو میرا مالک سمجھتا ہے کمینہ۔۔۔۔ بس پتا نہیں کیوں میں اسکی جان لیتے لیتے رک جاتی۔۔۔۔خیر سی یو"

اپنے تمام دوستوں کو برہم اور منہ بگھاڑ کر جاتا دیکھتی وہ فوری ان سے معذرت کرتی راہ میں آئی مگر سب کی خاص کراری زلت ہوئی تھی تبھی شرم اور غیرت کھائے وہ لوگ چلے گئے مگر فاریہ پیر پٹخے، ناک کے نتھنے پھیلاتی اندر لپکی کیونکہ آج وہ سراج علی کی جان لینے والی تھی۔

ناجیہ اپنے کام سے نکلی تھی اور عباد بھی گھر نہ تھا، آج وہ واقعی اسے مار دینے والی لگی۔

طویل راہداری عبور کیے اس بھول بھولیوں جیسے پیلس کے چپے چپے سے واقفیت کے باعث وہ آخری کنارے تک پہنچے ساتھ ہی گلاس ڈور اوپن کیے ملحقہ گولف گراونڈ پہنچی، یہاں وہ لوگ اکثر گڑ سواری بھی کیا کرتے تھے۔

کچھ فاصلے پر ہی اسے سراج علی دو گارڈز کے ساتھ بات کرتا دیکھائی دیا جس نے دور سے ہی بپھری موج بن کر فاریہ کو آتا دیکھ کر جبڑے بھینچے اپنے گارڈ کو فارغ کیا اور سینہ تانے اس طوفان کے سامنے تنا جس نے آو دیکھا نہ تاو تماچہ مارنے کی نیت سے ہاتھ تو اٹھایا مگر سراج علی اسکی مرمریں کلائی ناصرف پکڑ چکا تھا بلکے اگلے ہی لمحے دبوچ کر اسے لہرا کر قابو کرتا فاریہ کے ہلنے تک کی سکت باقی نہ چھوڑے قہر آلود گھورا۔

"تمہیں کتنی بار کہا ہے اپنی حد سے نکلنے کی کوشش نہ کیا کرو"

وارننگ دیتا جتاتا لہجہ لیے وہ تلملا اٹھا مگر وہ اسے پوری قوت سے دھکا دیتی پھنکار کر گرفت سے نکلی۔

"میں تمہاری جان لے لوں گی سراج، تم کتنے ڈھیٹ اور لیچڑ ہو۔۔۔۔ نفرت ہے مجھے تم سے، تنگ آچکی ہوں تمہارے ان منحوس رویوں سے۔۔۔۔۔ تم کس طرح مجھ پر حکم چلا سکتے ہو۔۔۔ اس پیلس کی پرنسیز پر۔۔۔۔۔۔۔"

حلق کے بل ہی وہ دھاڑتی ہی بولتی تھی، اس لڑکی میں تمیز اور تہذیب جیسا کچھ ہونا ایک دیوانے کا خواب تھا اور وہ یہ جواب اچھے سے جانتی تھی تب بھی سفاکیت سے دہرانا نہ بھولتی۔

"میری نظر سے دیکھو تو نہ تم اس جگہ کے قابل ہو نہ میرے دل کے، کاش مجھے بھی تم سے نفرت ہو جائے۔ اتنی نفرت کہ تمہیں دیکھ کر نظر، سوچ کر دماغ اور یاد کر کے دل جل جائے۔۔ لیکن جب تک نہیں ہوتی تب تک تم پر حکم بھی چلاوں گا اور تمہارا دماغ بھی درست کروں گا۔۔۔۔ اب گم کرو اپنی یہ شکل اور دوبارہ اس اس جگہ نظر نہ آنا جہاں میں نے تمہارا جانا ممنوع کر رکھا ہے۔۔۔۔۔ جاو یہاں سے اور یہ واہیات کپڑے پہلی فرصت میں بدلو، دوبارہ تمہیں جس انداز میں سمجھاوں گا وہ تم پر اور تمہاری ماں دونوں پر گراں گزرے گا۔۔۔۔ سوچ لینا اب تو تمہارا وہ منصوبہ ساز لفنگا بھائی بھی سر پر نہیں"

ایک ایک لفظ خونخوار تیور سے باور کرواتا وہ فاریہ کے ڈیپ گلے والی اپر اور ٹہنوں سے قدرے اونچی شارٹ جینز جو گھٹنوں سے پھٹی تھی اسے دیکھ کر حلق تک جلا، ناپسندیدگی سے منہ موڑ لیا جسکا مطلب تھا وہ فاریہ کی شکل تک دیکھنا نہیں چاہتا۔

دس بیس لعنتیں اور کئی زیرِ لب حرافات بکتی وہ اسے حقارت سے تکتی وہاں سے چلی گئیں البتہ سراج علی کا دل یہی کیا اپنے دل کو سینے سے گھسیڑ کر نکال کر کسی گہری کھائی میں جھونک آئے جو ایسی لڑکی کے لیے مر گیا تھا۔

اپنی بے بسی پر وہ آج تک ماتم ہی کرتا آیا تھا اور اسکی اس بے بسی کا گواہ عباد حشمت کیانی بھی تھا.

"ان شاء اللہ تمہیں نوکری ضرور ملے گی، بس احد کی فکر مت کرنا پیچھے، میں اسے سنبھال لوں گا"

کنزا باجی کی بھجوائی بریانی خود اور دادا دونوں کو پروسے وہ ساتھ ساتھ گود میں مزے سے نیند میں گم ہوتے احد پر بھی مسکرا کر نظر ڈالتی جا رہی تھی جو ابھی دودھ پی کر نیند میں اترا تھا۔

"ان شاء اللہ دادوو، بس آپ احد کو ڈسپینسری لے جانا، اسکا خفاظتی ٹیکوں کا سسٹم بھی تو شروع کروانا ہوگا ساتھ ساتھ میں چاہ رہی اسے باجی نوشین سے مکمل چیک کروا لوں میری ان سے واپسی پر بات ہو گئی تھی۔۔۔۔ پوچھ رہی تھیں کہ احد کون ہے تو مجھے اسے اپنی بہن کا بیٹا بتانا پڑا جو اپنی پسند سے شادی کر کے چلی گئی تھیں تبھی انکو اطمئینان ملا۔ آپ اسے یاد سے لے جانا"

منہا کی تاکید اور یاددہانی پر وہ شفقت سے مسکرائے، منہا کا اسے بہن کا بیٹا بتانا بلکل صحیح لگا کیونکہ جس معاشرے میں وہ رہتے تھے وہاں ایسی باتیں رسوائی اور ذلت بنتے دیر نہ لگتیں تھیں۔

کل تک بھلے وہ بے خوف تھی پر اب اسے اپنے ساتھ ساتھ احد اور دادا کا بھی سوچنا تھا۔

وہ ہرگز نہیں چاہتی تھی کہ لوگ احد کو مشکوک نگاہوں سے دیکھیں، اور احد سلطان میں منہا کی جان بس چکی تھی۔

"بہت اچھا کیا، میں بھی محلے میں یہی بتاوں گا۔۔۔۔ میں اسے لے جاوں گا پُتری بے فکر رہ۔ اللہ تجھے کامیاب کرے گا"

ڈھیر سی دعائیں سونپے وہ اسے ہر فکر سے آزاد تو کر گئے مگر بھوک ختم ہوتے ہی وہ احد کو اٹھائے اٹھی اور نثار ہوئے اس چھوٹے سے گڈے کو دیکھا جو سانس آسانی سے لے رہا تھا۔

اسے اٹھائے ہی وہ اندر کمرے میں بڑھی، آہستگی سے اسے چھوٹے سے پلنگ پر لٹایا اور پاس ہی بیٹھی، جھک کر اسکی پیشانی چومی ، اسکے بال معظم صاحب نے آج خود ہی اتار دیے تھے اور اب تو وہ بلکل ہی چمکتا چاند لگ رہا تھا۔

"میں تم سے بہت پیار کرتی ہوں احد، کبھی منہا کو مت چھوڑنا۔۔۔۔ تم میری زندگی ہو مما کی جان۔۔۔۔ اُف کب بڑے ہو گے تم اور مجھے مما کہہ کر بلاو گے۔۔۔۔ سچی تمہارے ان چھوٹے چھوٹے ہونٹوں سے یہ سننے کی بہت خواہش ہے۔۔۔۔۔ اب تم مزے سے آرام کرو میں زرا کل کے لیے کوئی ڈھنگ کا جوڑا دیکھوں۔۔۔۔"

بہت پیار سے وہ احد کی ننھی ننھی انگلیاں چومتی مسکرا کر تکتی الماری کے ساتھ پڑے صندوق تک پہنچی اور اسے آہستگی سے کھولا۔

اس صندوق میں منہا کی ساری دنیا قید تھی۔

مگر اس وقت بس وہ اپنا ایک واحد اچھا سنبھال کر رکھا جوڑا نکال کر اسے رشک سے چھوئے مسکرائی۔

پچھلی سالگرہ پر دادا جان نے اپنی چاندی کی انگوٹھی بیچ کر منہا کو یہ جوڑا دلایا تھا، وہ انگوٹھی جو انکی بہت پسندیدہ تھی۔

تبھی یہ جوڑا منہا کو جان سے پیارا تھا۔

وہ سرخ کرتی جس پر ست رنگی لیس لگی تھی اور پیلی پٹیالہ شلوار جس کے گھیرے میں اس جیسی دو آرام سے آجاتیں۔

پھر وہ ململ کا ویسی ہی لیس والا دوپٹہ۔

جب منہا بہت خوش ہوتی یا جس روز بنا روئے دن گزارتی تبھی یہ سندر جوڑا پہنا کرتی مگر ناجانے کیوں دادا کہتے وہ اس کو نہ پہنا کرے کیونکہ اس میں منہا سلطان کسی سلطنت کی ملکہ لگتی تھی۔ جب وہ اپنی بڑی بڑی آنکھیں کاجل سے مزید سیاہ کرتی اور ہونٹ لالی سے رنگ لیتی تو دادا جان ڈرتے کہیں اُنکی منہا کو کوئی زمانے کی نجس نظر نہ دیکھ لے۔

لیکن کل وہ بہت من سے یہ جوڑا پہننا چاہتی تھی، تاکہ اگر نوکری نہ بھی ملے تو منہا کے چہرے کی مایوسی وہ لال اور پیلا رنگ جذب کر لے۔

اپنے واحد پیارے جوڑے کو بہت دیر لگا کر استری کیے کرسی پر نفاست سے دھرا اور وضو کرنے باہر نکلی، دادا جان کو سوتا دیکھ کر انکا ماتھا چومے ان پر کھیس اچھے سے کرواتی وضو کیے واپس کمرے میں گئی۔

نماز ادا کی اور کل کے دن کی عافیت کی دعا مانگتی وہ پلنگ پر احد کے پاس ہی آکر لیٹی۔

کب اس ننھے چاند کو دیکھتی وہ سوئی اسے خبر نہ ہو سکی۔

دوسری سمت بہت بڑے بنگلے میں رات کے وقت ہوتی پارٹی اور وہاں میکسی ڈریس میں لپٹی ناجیہ کسی آدمی کے روبرو کھڑی ڈرنک پینے میں مگن تھی۔

اس آدمی نے ڈنر سوٹ زیب تن کر رکھا تھا اور وہ ناجیہ کو ڈانس کرنے کی دعوت دے رہا تھا۔

اردگرد بھی فسوں خیز دہکتے، دمکتے سراپے موجود تھے، مدھر رومانوی موسیقی پر کپلز رقص کر رہے تھے، برہنہ بازووں اور پنڈلیوں والے ملبوسات میں وہ اَپر کلاس عورتیں فخر سے لہرا رہی تھیں۔

اُس آدمی نے ادا اور نزاکت سے ناجیہ سے وائین گلاس لے کر پاس سے گزرتے ویٹر کی ٹرے میں رکھا اور بے تکلفی سے ناجیہ کی پتلی کمر کے گرد بازو لپیٹ کر ایک ہی جھٹکے سے اسکے کان کے ساتھ اپنا منہ جوڑا۔

"اُسے مجھ پر شک ہے ڈارلنگ، دھمکی جو دی تھی"

سرگوشی پر ناجیہ پریشانی سے روبرو ہوئے مسلسل اس کے سنگ کپل ڈانس کر رہی تھی مگر سرور حسین کا چہرہ منظر عام پر آتے ہی وہ بھی اڑے حواس میں لگی۔

"نو وے۔۔۔۔ اسکا شک دور کریں سرور صاحب۔۔۔۔۔ اس وقت ہم عباد کی دشمنی فیس نہیں کر سکتے۔ کچھ بھی کریں پلیز تاکہ وہ آپ پر اعتبار بحال کرے۔۔۔۔ بائے دا وے آپکو اپنا غصہ ہینڈل کرنا آنا چاہیے، ہماری بنی بنائی گیم چوپت کر دیں گے آپ۔۔۔۔ ویسے بھی اگر آپکو میری زندگی کا حصہ بننا ہے تو پہلے مجھے اس پیلس کے اس ناگ سے اپنا حق لینا ہے۔۔۔۔اپنے بچوں کا حق۔۔۔۔۔ آپ سمجھ رہے ہیں ناں کہ میں کیا کہہ رہی"

موسیقی، رقص، اور نشاط انگیز ماحول سے بے نیاز وہ بس سرور حسین کی بے خود آنکھوں میں تکتی فیصلہ سنا رہی تھی جو اس وقت پھر سے اس ماحول کی طرح مست ہوئے اسکی کمر شدت سے جکڑے اسے اپنے چہرے کے روبرو لائے سانس بھر گیا۔

"Leave it at that, I want to feel you deeply. As far as dispelling Ibad's doubts is concerned, I have already thought about what to do."

(سب باتیں چھوڑ دو ، میں تمہیں گہرائی سے محسوس کرنا چاہتا ہوں۔ جہاں تک بات رہی عباد کا شک دور کرنے کی تو میں سوچ چکا ہوں کہ مجھے کیا کرنا ہے۔)

بے خودی اور سرور حاوی ہوتے ہی وہ ناجیہ کی خباثت زدہ مسکراہٹ ملتے ہی اپنی اوقات پر اتر آیا تھا، یہ ان بے راہ رو نجس اور گھٹیا اپر کلاس کے نام پر دھبہ نما لوگوں کے لیے فخر تھا کسی اور کی بیوی کو باہوں میں سمو لینا اور کسی اور کے شوہر کو بہکا دینا۔

تیسری طرف عباد آتے ہی کچھ دیر ادا جان کے پاس بیٹھا تھا انھیں کل اس لڑکی کے آنے کا بتانے۔

"میری بات غور سے سُنیں ادا جان، وہ اگر کل سراج کو مناسب لگتی ہے تو آپکی کئیر کرنے پر معمور ہوگی مگر اس پیلس میں کیا ہو رہا ہے کیا معاملات ہیں ایسی کوئی تفصیل آپ بھول کر بھی اُسے نہیں دیں گی۔۔۔۔۔ اس وقت ہم جس سٹیج پر ہیں ہمیں اپنے سائے سے بھی محتاط رہنا ہے۔۔۔۔آپ سمجھ رہی ہیں ناں"

پیار اور شفقت سے وہ ادا جان کا ہاتھ چومے انھیں ابھی وہیل چئیر پر لان میں واک کروا کر لائے خود اٹھا کر بستر میں لٹاتا کمبل اوڑھائے قریب ہی بیٹھا جو اسکی بات پر ہامی بھرے سر ہلا چکی تھیں۔

"میں سمجھ گئی میرے سوہنے، یہ بتا تُو ٹھیک ہے ناں پُتر"

بھلے وہ ساری دنیا کی آنکھوں میں سوگ کے باوجود دھول جھونک آیا پر اس فساد اور عذاب سی زندگی کو اپنے اہم حصوں کے بنا گھسیٹنے کا دکھ عباد حشمت کیانی کی شہد رنگ چمکتی آنکھوں کے کنارے سلگا گیا۔

وہ خوبصورت، پرکشش اور پروقار سا انکا پوتا جھلس کر رہ گیا تھا، اسکی ذات ماتم سی تھی، آواز میں ہوک سی تھی۔

"میرا بچہ، وہ مل جائے تو جی اٹھوں گا، میں تو شرم سے اب گُل کی قبر پر بھی نہ جا سکوں گا نہ اسکی موت پر آنسو بہانے کی ہمت ہوگی۔۔۔۔ اسکی امانت اتنی آسانی سے کھو دی ، وہ کتنی تکلیف میں ہوگی ادا جان۔۔۔۔ بس آپ میرے لیے دعا کریں۔۔۔۔۔ ایک ہفتہ دیا ہے ہسپتال والوں کو، اسکے بعد زمین آسمان ایک نہ کر دیا تو میرا نام عباد حشمت کیانی نہیں۔۔۔۔خیر آپ آرام کریں "

خفیف سی تکلیف میں لپٹا وہ انھیں بھی ملال میں مبتلا کرتا وہاں سے باہر نکلا تو دروازے پر ہی سراج علی موجود ملا۔

"حارث غائب ہے، پتا چلا ہے کسی لفڑے کے چکر میں نکلا ہے۔۔۔کسی کو ٹھکانے لگانے کی بات کر رہا تھا۔۔۔۔ دوسرا ناجیہ اور سرور کی ملاقات کی خبر ملی ہے وھاج نساء کی پارٹی پر۔۔۔۔۔ یہ ناجیہ صاحبہ اور سرور بڑی ملاقاتیں کر رہے ہیں کہیں ان دو کا شادی کا پلین تو نہیں"

کمرے سے نکلتے عباد کے ساتھ ہی چلتا وہ اسے جو خبریں دے رہا تھا اس پر عباد کی سرد مہری سے آنکھیں تپش سے بھریں۔

"دو سپولے مل گئے تو مزید بڑا ڈھنگ ہی ماریں گے سراج علی اور یہ فاریہ والے ہنگامے کے بارے کیا سن رہا ہوں میں گارڈز سے۔۔۔۔تمہیں کتنی بار کہا ہے ایسی سفاک لڑکی پر صاف لعنت بھیجو۔۔۔۔ پر پتا نہیں تمہیں کب ہوش آئے گی۔۔۔۔ جب اسے ہی نالی میں گرنے کا شوق ہے تو تم کتنا بچاو گے اُسے گندگی سے۔۔۔۔۔۔ ہاں ہاں جانتا ہوں تمہارے جذبات لیکن میں اسے اب اس کھیل میں استعمال کرنے والا ہوں لہذا اس پر ترس کھانا بند کر دو"

چلتے چلتے وہ رک کر جیسے سراج علی کو تنبیہہ کرتا غرایا اور سراج کی تکلیف چہرے پر اترتے ہی عباد کو بھی لہجہ نرم کرنا پڑا مگر عباد کی آخری بات نے سراج کا دل دہلا دیا۔

"میں اپنا دل سینے سے نکال کر پھینکنے پر قدرت کیسے رکھ سکتا ہوں بھائی، یہ میرے بس سے باہر ہے"

مضبوط لہجہ شکستگی سے ہمکنار ہوا تو عباد بھی افسوس سے اسکا یہ ویک پوائیٹ دیکھتے بدمزہ ہوتا جبڑے بھینچے اپنے کمرے کی سمت لپک گیا البتہ سراج علی کے چہرے پر صدیوں کی تھکن ضرور اتر آئی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

اگلی دلفریب صبح کا قہر آلود دھندلکا شربت، زمین زادوں پر سایہ فگن ہو چکا تھا، گزری رات ہوتی پھر سے جل تھل کرتی بارش نے منظر تروتازہ کر دیے تھے۔

وہ ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے جانے کے لیے تیار ہو چکی تھی، وہی دلفریب سرخ اور پیلا رنگ جس نے منہا سلطان کا روپ اُجال کر اسے اس خستہ حال بستی کا سب سے نمایاں اور نکھرا سراپا بنا چھوڑا تھا۔

وہ بڑی بڑی پلکوں والی غزالی آنکھیں جن میں کاجل کی بھرمار نے اسکے حسن کی ہلکی سی دہک اُجاگر کی۔

ہونٹوں پر اسے کچھ لگانے کی ضرورت ہی نہ پڑتی وہ قدرتی گلاب رنگ کے تھے، وہ دُھلی اُجلی سی احد سلطان کو بھی کپڑے بدلوائے اچھا سا تیار کرتی اٹھائے باہر لائی جہاں معظم صاحب ڈسپینسری جانے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔

سفید خستہ سے کرتے تلے سفید اور سیاہ لائنگ والی دھوتی پہنے، سر پر حجاب کی پگ باندھے وہ منہا کے پیارے روپ پر دل میں کئی خفظ زبانی یاد سورتیں پڑھ کر منہا اور احد پر پھونکتے اس سے احد لیتے شفقت سے منہا کا سر چومے مسکائے، جو اپنے آپ کو چادر میں کوور کرتی اجازت لیتی باہر نکلی۔

کچی سڑک پر رات بارش کا پانی جمع تھا جس سے بچ بچاتی وہ تیز رفتاری سے جلد سڑک تک پہنچی۔

اپنے چھوٹے سے بیگ سے ایڈریس والا کاغذ نکالا اور کسی رکشے کے لیے انتظار کرنے لگی۔

دو منٹ تک رکشہ آچکا تھا، منہا نے اسے پتا تھمایا اور خود بھی پیچھے سوار ہوئی۔

چادر کا چہرے پر نقاب سا اوڑھ کر وہ خود کو زیادہ محفوظ جانتی تھی۔

باہر گزرتے مناظر، معمولِ زندگی کے رنگ اور نظارے دیکھتی وہ گہری سوچوں میں غرق تھی۔

آج اسے امید تھی، اپنے حالات بدلنے کا یہ موقع اسے ہر صورت حاصل کرنا تھا۔

ایک گھنٹے کی مسافت پر رکشے والے نے پہلے تو رکشہ روکے سامنے تاحد نگاہ ڈیفینس اپر کلاس ایریا میں رکشہ روکے حیرت سے دیکھا، ایک کچی بستی کی لڑکی ان رئیسوں کے گھر ، خیر اپنا کام مکمل کرتا وہ منہا کو گھر آجانے کے بارے مطلع کر گیا۔

منہا نے بھرپور توجہ اور خاضر دماغی کے سنگ اتر کر رکشے والے کو اپنی جمع پونجھی میں سے آٹھ سو کرایہ دیا جو وہ رکشے والا ایک روپیہ کم نہ کرتا ضد سے پورے لے کر گیا۔

منہا نے رکشے والے کو منہ بگھاڑ کر دیکھا اور آٹھ سو دیتی سڑک کے پار گئی۔

وہ ایک بہت بڑا ذاتی کئی کنال پر پھیلا خوبصورت ایریا تھا جس کے دروازے کے تاحد نگاہ تو سرسبز صحن تھا اور کہیں دور ہلکی ہلکی دھند میں دھندلایا ہوا وہ سفید رنگ کا پیلس جسے سفید پھولوں اور سبز بیلوں نے جکڑ رکھا تھا۔

دوپٹہ سر پر نفاست سے جمائے وہ چادر شانوں کے گرد مضبوط کرتی اندر بڑھی، مین گیڈ پر ہی چوکیدار نے مشکوک نظروں سے دیکھتے روکا۔

"کون ہو بی بی؟"

تندہی سے پوچھا گیا۔

"میں فضل بھائی کی سمت سے آئی ہوں، مجھے سراج صاحب سے ملنا ہے۔۔۔۔ یہاں جو پیروں سے معذور ہیں ناں انکی دیکھ بھال کے لیے نوکری کے لیے آئی ہوں"

منہا کچھ دیر تو سوچتی رہی اور پھر اپنی سمجھ کے مطابق بولی جس پر وہ ڈرائیور فوری لوہے کی سلاخوں والا گیڈ کھول کر اسے اندر آنے کا کہتا خود جاتے جاتے کسی آدمی کو اشارہ کرتے رکا۔

"یہ لڑکی نوکری کے لیے آئی ہے، اسے سراج بھائی تک پہنچا دو"

اس چوکیدار نے کسی اور آدمی کو تاکید کی اور منہا کو اسکے ساتھ جانے کا اشارہ کیا۔

منہا کی آنکھیں تو اتنے بڑے محل کو دیکھ کر نہ حیران تھیں نہ وہاں کی چمک دیکھ کر چندھائیں بلکہ وہ منہا سلطان تھی جسے عیش و عشرت سے لے کر زیبائش تک کی ہر چیز صرف پھندا لگتی۔

کوئی کہہ نہ سکتا تھا کہ وہ جھگیوں ، جھونپٹری اور خستہ حال بستی کی ایک تھکی ماندھی لڑکی ہے جسے ایسا سب دیکھنے کی حسرت ہو، بلکہ وہ ان اونچی دیواروں اور سونے چاندی کی طرح چمکتے محل سے بے چین ہوئی، اسے کراہت محسوس ہوئی۔

ناجانے کتنی دیر تک وہ اس آدمی کے ساتھ اس محل میں آگے بڑھتی گئی، اسے لگا اگر اتنا راستہ وہ ہوٹل سے پیدل چلے تو آرام سے گھر پہنچ سکتی ہے مگر ان امیر رئیسوں کے تو گھر ہی پورے شہر جتنے تھے۔

آخر کار ایک آفس جیسے کمرے کے باہر اس آدمی کے رکنے پر منہا نے بھی سکھ کا سانس بھرا، اسکے پیر واقعی تھک چکے تھے۔

"سراج بھائی، یہ لڑکی آگئی ہے۔۔۔۔۔۔"

دروازہ وا کیے وہ اندر داخل ہوئے مودب ہو کر باہر کھڑی منہا کے آنے کی اطلاع دے رہا تھا جسے منہا تجسس سے دیکھتی اس طرف متوجہ تھی جہاں سے وہ کسی کے آنے کی توقع کر رہی تھی مگر سراج علی نے اشارے سے انکو اندر بلا لیا تھا جو میز پر دھری اپنی دو عدد گنز میں گولیاں بھر رہا تھا۔

اندر داخل ہوتے ہی منہا کی نظر جب ان گنز اور گولیوں پر پڑی تو پورا چہرہ خوف اور ڈر سے سرخ پڑا، ناجانے کیا ہوا کہ وہ وہیں سے کانوں پر ہاتھ رکھتی حلق کے بل چیختی باہر دوڑی اور خود سراج علی اپنا سر پیٹتا اس سے پہلے فکر سے اٹھ کر کمرے سے نکلتا، منہا صاحبہ کسی پہاڑ سے ٹکرا کر یقینا ریزہ ریزہ ہو جاتیں اگر عباد حشمت کیانی بروقت اور غیر ارادی طور پر اسکی کمر جکڑے اسے سنگ مرمر کے ظالم فرش پر گرنے سے نہ بچاتا۔

اب منظر یہ تھا کہ کمرے کے دروازے میں کھڑے سراج کی شکل پر سفیدی کھنڈی تھی، وہ آدمی جو منہا کو لایا تھا وہ بھی حیرت اور صدمے سے منہ کھولے کھڑا تھا البتہ عباد حشمت کیانی جبڑے بھینچے اس نازک سی سمہی ، نڈھال اور گرنے کے ڈر کے باعث عباد کی کمر سے قمیص جکڑ کر آنکھیں سختی سے میچ کر پتھر بن کر ہوا میں معلق ہوتی منہا کو بڑی گہرائی سے دیکھ رہا تھا۔

"ب۔۔بھائی یہ گنز دیکھ کر ڈری اور پاگلوں کی طرح باہر بھاگ آئی۔۔۔۔۔"

معاملہ سنگین اور پتھر ہوتا بھانپ کر خود ہی سراج نے وضاحت کی گستاخی کی اور منہا جو حواس کھو بیٹھی تھی فوری اپنی پوزیشن کا احساس ہوتے ہی بوکھلا کر عباد کی جکڑی قمیص چھوڑے اپنی کم عقلی کو کوسے دو قدم دور ہٹی۔

دل یہی کیا زمین پھٹے اور وہ دُھنس جائے مگر وہ نظریں جو ہر ایک پر زہر خندی سے مرکوز ہوتیں تھیں وہ منہا سلطان پر بادلوں کی نرمی جیسا روپ دھار گئیں۔

عباد، جو اس وقت اپنے کسی کام سے باہر جا رہا تھا، منہا کے ٹکرانے نے اسکے نفیس بوسکی کے سوٹ پر سلوٹیں اور شاید سینے کے پار کوئی کھینچاو پہنچایا تبھی عباد واپس سختی نگاہوں میں برقرار کرتا سراج کی جانب متوجہ ہوا۔

"اسے لے کر آفس آو، اسکا انٹرویو میں خود لیتا ہوں"

کمال اتراہٹ کے سنگ کہتا وہ واپس اندرونی سمت اپنے دونوں گارڈز کے ساتھ بڑھا جبکہ منہا کی اس باولی حرکت پر سراج علی دھیما سا مسکرائے منہا کو مزید زمین میں دبا سا گیا۔

"یہ گنز تمہیں مارنے کے لیے نہیں تھیں بلکہ حفاظت کے لیے تھیں، چلو بھائی منتظر ہیں تمہارے"

ہونق بن کر ابھی کچھ دیر پہلے اس ٹکراتے شخص کی پُرکشش صورت اور پیاری سی رعب دار آواز سوچتی وہ سراج علی کی بات پر بل کھا کر مڑی جو کافی دیر سے آگے نکل چکا تھا، اپنی غائب دماغی کو کوسے وہ فورا پیر گھسیٹتی سراج علی کے پیچھے لپکی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"کہاں تھیں آپ سارا دن اور رات۔۔۔۔۔۔۔ وہ منحوس میرے ہاتھوں مرتا مرتا رہ گیا۔۔۔۔ آپ کو بتا رہی ہوں میرا ضبط جواب دے گیا ہے۔ آپ عباد کو اپنے طریقے سے سمجھا دیں کہ اس سستے عاشق کی لگامیں کَس دے ورنہ مجھے قاتلہ بنتے دیر نہ لگے گی"

اپنی سنہری شامیں اور پھر راتیں بھی سرور حسین اور اپنے اپر کلاس سرکل کے بیچ گزارے وہ گھر سدھار تو آئی مگر فاریہ کو بپھری موج بن کر کمرے میں آتا اور ڈریسنگ پر دھری ہر چیز فرش بوش کیے غراتا دیکھتی وہ چہرے پر دنیا جہاں کی شفقت اوڑھے اس جن زادی کو قابو کرنے قریب آئی مگر فاریہ کا غصے اور حقارت سے سرخ پڑتا چہرہ دیکھ کر اسکی گال سہلائے ماتھے پر ڈھلکے بال محبت سے سمیٹے۔

"شش۔۔۔۔کام ڈاون ڈارلنگ۔۔۔۔ تمہارا کیا جا رہا ہے۔۔۔۔۔ زلیل کرتی رہا کرو اسے۔۔۔۔ مجھے خود کہاں اسکا تمہارے گرد منڈلانا پسند ہے مگر اسے کچھ کہنا سیدھا سیدھا عباد کو ناراض کرنے کے مترادف ہے۔۔۔۔ ایک بار تم دو کی شادی ہو لے پھر وہ عاشق خود اپنے جذبات پر ماتم کر کے شانت ہو جائے گا"

فاریہ کے ناقابلِ برداشت تیور اور اسکا مار ڈالنے والا جنون بھانپ کر ناجیہ نے اسے رسان سے توجیہہ پیش کیے سمجھایا مگر وہ اس سب کو مزید برداشت نہیں کر پا رہی تھی۔

"ہنہ۔۔۔ وہ کیسے مجھ پر حاکم بن سکتا ہے مما، اسکو یہ چھوٹ عباد نے دے رکھی۔۔۔۔ کبھی کبھی تو میرا دل چاہتا ان دونوں کو جان سے مار دوں۔۔۔۔اور آپکو بھی اپنی انجوائمنٹ سے فرصت نہیں۔۔۔

لالہ نے دوبارہ کال تک نہیں کی۔۔۔۔۔ "

ماں کی دوغلی سی فکر سے بیزار ہوئے وہ بیڈ تک جا بیٹھے اک نئے خدشے کو بیان کر رہی تھی جس پر اب ناجیہ کو بھی تشویش ہوئی۔

"وہ کہہ کر گیا تھا چالیسویں تک آجائے گا، تم تو جانتی ہو کہاں اپنی عیاشیوں کے بیچ اسے ماں بہن کا خیال آئے گا۔۔۔۔۔ میری پیاری سی پری مجھے اپنے سرکل میں اِن رہنا پڑتا ہے، میری مجبوری ہے۔۔۔ این جیو کے حوالے سے سو کام دیکھنے پڑتے، سو پارٹیز اٹینڈ کرنی پڑتیں۔۔۔۔

تم فکر مت کرو میں کرتی عباد سے بات۔۔۔۔۔اور سراج کو بھی خود دیکھتی ہوں۔۔۔۔جاو میرا بچہ فریش ہو جاو میں ناشتہ لگواتی ہوں"

مصنوعی فکر اور پیار لٹائے بھی وہ فاریہ کی مسکراہٹ نہ پا سکی جو ماں کی باہیں جھٹکتی سرد مہری سے وہاں سے چلی گئی البتہ اسکے جاتے ہی مخصوص یونیفارم میں لپٹی عائشہ نامی پیارے سے نقوش رکھنے والی میڈ مودب سی ناجیہ کے روم میں داخل ہوئی۔

اس کے لیے اونج جوس کے ساتھ ساتھ اس پیلس کی اک نئی اڑتی خبر لے کر جس کو سننے کے بعد ناجیہ کیانی کے چہرے پر نفرت اور سوچ کی گہری پرچھائیاں اتر چکی تھیں۔

وہ جو سراج علی تک بھاگ کر پہنچی تھی اسکے ہم قدم چلتی ایک بہت ہی بڑے فرنیشڈ اور خوبصورت سے آفس میٹنگ روم میں داخل تو ہوئی مگر منہا سلطان کی وہ آنکھیں جو اتنے بڑے محل کو دیکھ کر نہ چندھائیں وہ اس نفیس اور پیارے آفس روم کو دیکھ کر کُھلی کی کُھلی رہ گئیں۔

اسے دیکھ کر یہ لگتا وہ کسی پرائم منسٹر کا ذاتی آفس روم ہے، سب سے پہلے تو اُونچی اُونچی ہاف وائیٹ اور کالے وال کرافٹ سے سجی دیواریں جن پر کئی کئی جگہوں پر بڑے بڑے رہنماوں کی تصویریں آویزاں تھیں، قائداعظم کی بڑی سی تصویر اس رولنگ باس چئیر کی پچھلی دیوار کے اوپر نسب تھی۔

دونوں اطراف بہت سے رومز تھے جو مزید کئی پراسرار راستوں کی سمت کھلتے، کمرے کی مناسب سے کالے اور بھورے رنگ کے پردے گلاس والز پر گرائے گئے تھے، عین درمیان میں ایرانی بڑا سا قالین پھیلایا گیا تھا جس کے اوپر چھت سے لٹکتا وہ ہیرے موتیوں سے بنا فانوس جسکی روشنی منہا کی آنکھیں بھی چمکا گئی۔

باس رولنگ چئیر کے سامنے بڑا سا ٹیبل جس پر لاتعداد فائلز اور کھلا لیپ ٹاپ دھرا تھا اور پھر قلم دان جن میں رکھے گئے قلم منہا نے گویا اپنی ساری زندگی نہ دیکھے تھے۔

میز پر بھی خوبصورت سا کور شان کو بڑھا رہا تھا۔آفس کی تیسری طرف خوبصورت سا سٹنگ ایریا تھا جہاں دو تین طرح کا عمدہ اور نیا نکور فرنیچر لشک رہا تھا، وہاں دھرے واسیز میں موجود سفید اور جامنی پھولوں کی مہک دور سے ہی منہا کے حواس پر چھا رہی تھی اور کمرہ اس ٹھنڈ کے باوجود ہلکی پھلکی حدت میں ڈوبا جسم و جان کو سکون دے رہا تھا۔

"یا اللہ ۔۔۔۔۔۔یہ آدمی کہیں ملک کا صدر تو نہیں"

پھٹی آنکھوں کے سنگ وہ معصومانہ طرز سے بڑبڑائی تبھی ساتھ ہی آکر کھڑا سراج اسکی اس ہونق صورت پر ناچاہتے ہوئے بھی مسکرا دیا۔

"ایم این اے عباد حشمت کیانی کے آفس میں کھڑی ہو تم، کیا واقعی تم نہیں پہچان سکی۔۔۔۔ اتنی پاپلر ہستی ہیں وہ۔۔۔ ینگ پولیٹیشن اور خاص کر ہر دوسری لڑکی کا کرش۔۔۔۔"

اپنی طرح کی ایک ہم نسب سی معصوم لڑکی کے لیے وہ اسی کی طرح نرم پڑے اسکی اس حیرت کے بدلے اسے آگاہ کرتا بولا مگر وہ آگے سے سراج کو یوں دیکھنے لگی جیسے اس نے کچھ غلط سنا ہو۔

"پھر میں ان پہلی لڑکیوں میں سے ایک ہوں گی جنکا ایسا امیر رئیس کبھی کرش نہیں ہو سکتا، میں نے کبھی نہیں دیکھا انکو نہ آج تک سیاست وغیرہ کے قریب بھی بھٹکی ہوں۔۔۔۔۔ میں آپکو سچی بات بتاوں میں نے تو آج تک ووٹ تک نہیں دیا"

کمال ادائے بے نیازی سے وہ جب اپنے نیک خیالات اور ارادے مسکراتے ہوئے سراج کو بتا رہی تھی تو اسی لمحے وہ چینج کیے اندر داخل ہوا مگر وہیں مبہوت ہوئے رک سا گیا۔

"اوہ بھائی آگئے۔۔۔جاو تم "

سراج کی ہی نظر پڑی تو وہ اپنے چہرے پر منصوعی سی سپاٹ سنجیدگی اختیار کرتا سٹنگ ایریا کی جانب لپکا تو سراج نے منہا کو بھی جانے کی تاکید کی اور خود باہر نکلا۔

منہا نے اس بندے کے بھرم چیک کیے جو اک ادا سے صوفے پر براجمان ہوئے اپنی ٹانگ پر ٹانگ جمائے ایک بازو صوفے پر کھول کر نواب ابن نواب بنا بیٹھا اپنے پاوں کو مسلسل جنبیش دیتا اسے نخوت سے تکتا وہاں آنے کا اشارہ دے رہا تھا۔

پہلے تو کسی کے اتنے اوور بھرم اسے ہرگز ہضم نہ ہوتے مگر معاملہ جاب کا تھا تبھی وہ چادر اور بیگ وہیں پاس کھڑے بُت نما ہینگر سے لٹکائے دوپٹہ ٹھیک سے کرتی سٹنگ ایریا کی جانب بڑھی اور دل ہی دل میں اس بندے کو مغرور، امیر زادہ اور نواب جیسے کئی القابات سونپے عین سامنے آرکی۔

وہ بندہ تو دیکھ کر ہی پوسٹ مارٹم کر رہا تھا، خوامخواہ ہی منہا کی پیشانی پر نمی سی ابھری۔

"کیا نام ہے تمہارا بھولی سی لڑکی؟"

سر تا پا اک بھرپور نگاہ ڈالے ستفسار آیا، منہا تو اک لمحے بل کھا گئی۔

یہ بھولی سی لڑکی پر وہ خوش ہو یا خفا ، سمجھ نہ پائی۔

"منہا سلطان"

سنجیدگی سے جواب آیا تھا، مقابل نے اس نام کے سنگ بخوبی سجتی اس انوکھی سی پراعتماد لڑکی کو دیکھا جو کچھ دیر قبل سراج کے ساتھ مسکراتی اسے بھولی سی دیہاتن ہی تو لگی تھی۔

"نام تو بڑا رئیسوں والا ہے؟"

مقابل کے طنزیہ سے سوال پر منہا نے اسے آنکھیں مکمل کھولے خفگی سے دیکھا۔

"آپکو میرے نام سے کیا لینا دینا، میں تیمارداری کے لیے جاب پر آئی ہوں تو آپ مہربانی فرما کر اسی کے بارے گفتگو کریں"

صاف گریز برتتا سپاٹ لہجہ لیے وہ ایم این اے کے سامنے اس دلیری سے بات کر رہی تھی کہ عباد تو یہیں متاثر ہو گیا۔

"اعتماد قابل تعریف ہے تمہارا، کہاں رہتی ہو۔۔۔ گھر میں کون کون ہے۔۔۔۔ یہاں سے تمہارا گھر کتنی مسافت پر ہے منہا سلطان صاحبہ؟"

یہ سارے سوالات بھی منہا کو اسے سر اٹھا کر دیکھنے پر مجبور کر گئے کیونکہ سراسر بے جا تھے اور جس طرح وہ صاحبہ کہہ کر اسے زچ کر رہا تھا منہا نے بڑے تحمل سے غصہ دبائے چہرے پر نارمل تاثر لایا۔

"یہیں اسی دنیا میں رہتی ہوں، گھر ایک گھنٹے کی دوری پر ہے رکشے سے ۔۔۔ اور میں اپنے دادا اور بیٹے کے ساتھ رہتی ہوں"

وہی پراعتماد جواب مگر یہ بیٹے پر عباد کو گویا حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔

اتنی سی چھوئی موئی لڑکی شادی شدہ تھی۔

پہلی سوچ یہی دماغ میں آئی۔

"شادی شدہ لگتی تو نہیں ہو۔۔۔۔۔"

کریدتے ہوئے پھر اچٹتی آنکھوں سے گھور کر سوال آیا۔

"تو کیا ماتھے پر لگا کر لکھ لیا جائے تبھی اگلے کو یقین ہوگا۔۔۔ وہ میری بہن کا بیٹا ہے( اب خوش، آگیا چین یا کوئی اور بھی جاسوسی باقی ہے)"

پہلی باتیں تو وہ سلگ کر بول گئی مگر آخر پر منہ ہی منہ میں بڑبڑائی جو عباد نے بھی زیر لب مسکان دبا کر انجوائے کیا۔

لڑکی دلچسپ تھی اور حسِ مزاح بھی رکھتی تھی، ادا جان کا سہی دل بہلانے کے لیے کارآمد لگی۔

"آج تک عباد حشمت کیانی سے کسی نے اس طرز سے اکتا کر بیزارئیت سے بات نہیں کی، مجھے اچھا لگا تمہارا آٹے میں نمک ہونا۔۔۔۔۔بائے دا وے پہلے کبھی کسی کی تیمارداری کی ہے یا میری ادا جان پر ہی تجربہ کرنے آن نکلی ہو"

ایک تو اس بندے کا غرور اور ناک کا فخر پھر سوالوں کی بھرمار پر منہا نے چہرے پر شگفتگی لاکھ لانے کی کوشش کی مگر بے سود۔

"جی کی ہے، بے فکر رہیں۔۔۔۔ کیا میری جاب مل گئی مجھے؟"

منہا نے اسکی سمت دیکھتے ہوئے مطمئین کے ساتھ ساتھ خفیف سی بے چینی کے سنگ پوچھا۔

"کہیں اور اس بیچ جاب کی پرمیشن نہیں ہوگی، میں تمہاری سیلری ہفتے کے حساب سے بڑھاتا رہوں گا مگر دن کے چھ سے آٹھ گھنٹے تمہیں ادا جان کے ہر وقت ساتھ رہنا ہوگا۔۔۔ چھ تو لازمی کیونکہ اتنے گھنٹے میں گھر نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ اس گھر کے کسی مکین سے زیادہ بات چیت کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔۔ تم صرف اپنے کام سے کام رکھو گی اور اگر کوئی کام یا کچھ پوچھنا ہوا تو سراج علی یہاں میری غیر موجودگی میں موجود رہتا ہے"

تمام تر معاملات طے کرتا وہ منہا کی بے چینی بھانپے اٹھ کر دو قدم قریب آیا اور ناجانے کیا تھا اس شخص کی ذات میں کے وہ خوامخواہ اسکے پروقار سراپے کے زیر سی لگی، وہ کچھ الگ سا تھا، پلوں میں منہا کی رائے اسکے لیے بدل سی گئی۔

"میں ایک اور جگہ بھی جاب کرتی تھی تو کیا وہ چھوڑ دوں؟ یہ نہ ہو آپکو میری تیمارداری سے رتی برابر شکائیت ہو اور آپ مجھے نوابوں کا جو جلالی غصہ ہوتا اس میں آکر نوکری سے نکال دیں۔۔۔۔۔۔ گارنٹی دیں پہلے"

وہ جو شدید سنجیدہ اور سوبر سا لگ رہا تھا، منہا کے سادگی سے یقین چاہنے پر اپنے نین نقش مسکراہٹ میں ڈھلنے سے روک نہ سکا۔

منہا تو اسے مسکراتا دیکھ کر گھبرا سی گئی۔

"گارنٹی تو کسی چیز کی نہیں ہوتی منہا سلطان لیکن چلو تمہیں دی، اور وہ نوکری پہلی فرصت میں چھوڑ دو۔۔۔۔۔۔ آو تمہیں ادا جان سے ملواتا ہوں، تمہارے پاس فون ہے؟"

رسان اور نرمی سے اُسے کہتا وہ چلتا ہوا یکدم مڑا تو اسکے سوال پر منہا نے نفی میں سر گمایا۔

"ٹھیک ہے سراج علی تمہیں فون دلا دے گا، تمہیں کب کب جاب پر آنا ہوگا وہ اطلاع دے دیا کرے گا۔۔۔۔ روٹین ایک جیسی نہیں ہوگی۔۔۔۔ آئی ہوپ تم مینج کر لو گی"

اپنی ہی دھن میں وہ اس پر اپنی وجاہت اور نرمی کی چھاپ بیٹھاتا اس آفس روم سے نکلا تو منہا نے بھی اسکے قدموں کی سمت سفر شروع کیا۔

کچھ دیر میں وہ ایک اور بڑا سا کمرہ تھا جہاں وہ عباد کے ساتھ داخل ہوئی۔

بیڈ پر نیم دراز سی ادا جان کسی کتاب کی ورق گردانی کر رہی تھیں جب عباد کے ساتھ اس پیاری سی لڑکی کو آتا دیکھ کر شفیق سا مسکرائیں۔

"صبح بخیر ادا جان۔۔۔۔۔ آو منہا"

محبت سے آگے بڑھ کر ادا جان کا ہاتھ چومے وہ ساتھ اس سمٹی سی لڑکی کو مخاطب کر رہا تھا جو سن سی کیفیت میں اس بندے کے ساحرانہ حصار سے نکلتی قدموں کی مٹی چھوڑے قریب آئی تو ادا جان نے اسے بھی پیار سے نگاہوں میں مرکوز کیا۔

"یہ منہا سلطان ہے، میری غیر موجودگی میں یہ آپکے ساتھ رہے گی۔ امید ہے آپ کی تنہائی قدرے کم ہو سکے گی۔۔۔۔ اور منہا یہ ادا مہناز کیانی ہیں ، اس پیلس کی ادا جان اور میری دادوو، تم انکا پورے دل سے دھیان رکھنا جیسے اپنے دادا اور بہن کے بیٹے کا رکھتی ہو۔۔۔۔۔ہوپ سو آپ دونوں ساتھ اچھا وقت گزاریں گے"

مضبوط اور پُریقین لہجے میں وہ دونوں کا تعارف کرواتا ایک آخری نظر منہا سلطان پر ڈالتا اسی طرح وہاں سے اوجھل ہوا جیسے وہ تھا ہی نہیں، منہا کے حواس بوجھل سے ہوئے۔

اتنے بڑے رئیس کا اتنا مہربان انداز وہ سوچ کر خوش ہونے کے بجائے الجھ گئی، ادا جان نے اسے پیار سے تکتے پاس ہی بیٹھایا جس پر وہ بہت جبر سے چہرے پر مسکراہٹ لا سکی مگر دھیان تو وہ جادوگر اپنے ساتھ لے گیا تھا۔

پہلی بار ہی سہی پر منہا سلطان نے کسی مرد کے اخلاق سے اس درجہ متاثر ہو کر اسے جلد دوبارہ دیکھنے کی دعا مانگی تھی۔

ایسی دعا جو قبولیت تک بار بار جانے والی تھی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"عباد۔۔۔۔رکو"

کانفرنس کے تیاریاں دیکھنے جانے کے لیے اسے دیر ہو رہی تھی تبھی وہ اپنے گارڈز کے ساتھ تیاری کیے اجلت میں پیلس کی راہداری پار کرتا گاڑی تک پہنچا ہی تھا کہ ناجیہ کا کالی بلی کی طرح رستہ کاٹ کر عباد کے راہ میں حائل ہونے پر وہ کرنٹ کھائے ماتھے پر شکنیں لیے پلٹا جیسے اس روکنے پر شدید بیزار ہوا ہو۔

گرے سوٹ پر بلیک ویس کوٹ پہنے وہ نکھرا اور جامد کر دیتے حسن کا مالک، نخوت سے ناجیہ کی سمت متوجہ تھا۔

"یہ کون لڑکی لائے ہو پیلس ۔۔۔۔۔ کیا تمہیں ہم پر اعتبار نہیں رہا، اٹس سو انسلٹنگ۔۔۔۔ اور دوسرا تم سراج کو لگام کیوں نہیں ڈالتے کہ وہ فاریہ پر یوں پابندیاں لگانا بند کرے۔۔۔۔۔ کل کو فاریہ تمہاری بیوی بنے گی تو کیا تم ہر ایرے غیرے کو یہ اجازت دو گے "

آنکھوں میں شدید برہمی لیے وہ عباد کو ہر درجہ لہجہ نرم رکھے شکائیت کر رہی تھی جس پر پہلے تو عباد نے کان سے مکھی اڑائی اور پھر اپنی گلاسس آنکھوں پر چڑھائے اس عورت کو اسی کے لائق نظر اندازی سونپی جس پر وہ سر تا پا تلملا اٹھی۔

"پہلی بات ناجیہ صاحبہ میں اپنے کیے اور کہے ہر معاملے کا خود ذمہ دار ہوں، اس پیلس میں کون آئے گا اور کس پر کس طرز کی پابندیاں لگیں گی یہ فیصلہ بھی میرا ہے۔۔۔۔ اس وقت میں ایک اہم کام سے جا رہا ہوں جو آپ کی ان باتوں سے بہت زیادہ اہم ہے۔۔۔۔ آپ سے ایک تفصیلی ملاقات ضرور کروں گا لیکن وقت پر۔۔۔۔ معذرت چاہتا ہوں"

ناجیہ کو بُری طرح نظر انداز کرتا وہ پلوں میں اسکو اور اسکی ذات کو دو کوڑی کا کرتا اپنے ازلی ڈھنگ میں نظروں سے اوجھل ہو گیا اور وہ وہیں کھڑی حلق تک جل گئی۔

جتنی نفرت اسے عباد سے تھی شاید وہ بیان کرنے کے زمرے میں پروئی نہ جا سکتی تھی۔

دوسری سمت ہوسپٹل کے تمام کیمراز کئی کئی بار چیک کرنے کے بعد ایک مدھم سی ڈیجیٹل کمیرے کی فوٹیج پولیس کو مل چکی تھی اور کانفرنس سے پہلے عباد کو تھانے ہی بلوایا گیا تھا۔

تیسری طرف حارث کیانی کومے سے ابھی تک نکل نہ سکا تھا، اسکے فون کی جانچ جاری تھی تاکہ جلد از جلد اسکے کسی گھر والے کا پتا لگوا کر انفارم کیا جا سکے۔

جب تک عباد تھانے پہنچا وہاں اس کیس میں آتی اس پیش رفت کی خبر پہلے ہی میڈیا والوں تک پہنچ چکی تھی۔

تھانے کے باہر میڈیا کارکنوں کا ہجوم تھا جو شدت سے عباد حشمت کیانی کے بیان کے منتظر تھے مگر پریس کانفرنس تک اسے کسی میڈیا والے کو بیان دینے سے پارٹی کے لوگوں نے منع کر رکھا تھا۔

وہاں سے اپنے گارڈز کے حصار میں وہ بچ بچاتا اندر داخل ہوا تو اسے ہیڈ آفس روم میں لے جایا گیا۔

تھانے کا وہ پروقار دبنگ انچارج اسے وہ فوٹیج بڑی سکرین پر دیکھا رہا تھا۔

وہ ایک سیاہ ہڈی میں لپٹا آدمی تھا جس نے کسی بچے کو اٹھا رکھا تھا، افسوس کے اندھیرا ہونے اور ہوسپٹل کے باہر مین راہداری کی سمت سے آتی روشنی کے باوجود اس آدمی کا چہرہ صاف نہ تھا۔

"مجھے اس آدمی کا چہرہ صاف چاہیے انسپیکٹر، کتنا وقت لگے گا اس پر؟"

سرد مہری سے وہ انسپیکٹر کی سمت استفہامیہ نگاہیں گاڑے بولا، مقابل بھی سنجیدگی میں اضافہ ہوا۔

"چار پانچ دن دیں ہمیں عباد صاحب، میں نے اپنی پرفیشنل ٹیم ہائیر کی ہے ۔۔۔ وہ کچھ دن لگا کر اس فوٹیج کو کلئیر کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔۔۔۔۔ دوسرا آپ کی گاڑی پر جس جگہ حملہ ہوا وہاں دو فٹ کے فاصلے پر ہمیں گولیوں کے خالی شیلز ملے ہیں اور کچھ انگلیوں کے نشان بھی ان پر بھی ہم کام شروع کر چکے ہیں"

اس سمت سے آتی اتنی پیش رفت ہی عباد کو تھوڑا چین دے چکی تھی مگر اسکے بچے کو لے جانے والا یہ مشکوک آدمی عباد حشمت کے ہاتھوں ہی زمین دوز ہونے والا تھا اس میں کوئی شک نہ تھا۔

"جلدی کرو انسپیٹکر، میں زیادہ انتظار نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔۔۔ مجھے جلد از جلد اپنے بچے کو تلاش کرنا ہے۔۔۔۔۔"

وہ ان موہوم سے ثبوتوں پر ابھی بھی پریشان ہی تھا اور سختی سے ان سبکو کام تیز کرنے کا حکم بھی ملا۔

وہاں سے سیدھا وہ آپنے آفس ہی پہنچا جہاں سراج پہلے ہی آچکا تھا۔

پریس کانفرنس کی مکمل تیاری ہو چکی تھی جسکا مقصد عباد کا اپنی عوام کو اپنے ہونے کی تسلی دینا تھا۔

وہ لوگ عباد حشمت کیانی کے دل سے جیالے تھے اور اس مشکل وقت میں پارلیمنٹ کے بھی کئی اہم رکن عباد کی دل جوئی کے لیے میسر تھے۔

اسکے اثر و رسوخ سے وہ جلد یا بدیر دشمنوں تک پہنچ جانے والا تھا اسکا یقین جتنا اسکے ماننے والوں کو تھا اتنا اسے بھی تھا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

ادا صاحبہ کے ساتھ وہ شام تک رکی تھی، عباد کے گھر واپس آنے کی خبر ملتے ہی سراج اسے چھٹی کرنے کا کہتا باہر تک لایا اور اپنے ہاتھ میں پکڑا ٹچ فون منہا کی سمت بڑھایا جو اسے دیکھ کر منہ بسور گئی، بھلا اسے کہاں آتا تھا اس فون کا استعمال اور اسکے چہرے کے زاویے بھانپتا سراج سمجھ گیا کہ لڑکی کو فون دیکھ کر ہارٹ اٹیک آگیا ہے۔

اپنے روم کی بالکونی میں کھڑا عباد گھریلو نارمل سے ٹراوز شرٹ کے خلیے میں نظر منہا پر ہی جمائے کافی انجوائے کر رہا تھا دوسری طرف لان میں ٹہلتی فاریہ سراج کا اس لڑکی کے اس قدر قریب کھڑے ہو کر سمجھانے پر چہرے پر ناجانے کیوں ناپسندیدگی اتار لائی۔

"فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں، میں تمہیں سیکھا دوں گا لیکن فی الحال یہ دیکھو۔۔۔۔ جب میں کال کروں تو تمہیں یہاں ٹچ اور سوائپ کیے کال پک کرنی ہوگی۔۔۔۔"

بہت توجہ سے وہ منہا کو فون پکڑائے اپنے فون سے کال ملا کر اسے پک کرنے کا طریقہ سمجھاتا بہت پیارا لگا یہاں تک کہ خود منہا کو اس کے نرم رویے میں عباد حشمت ہی کی جھلک ملی۔

وہ مسکرائی یہ جانے بنا کہ عباد حشمت کیانی اسکی انمول سی مسکراہٹ پر گہری نظریں رکھے ہوئے تھا۔

"بہت شکریہ آپکا۔۔۔ آپ بہت اچھے ہیں سراج بھائی۔۔۔ "

فون دھیان سے گر جانے کے خدشے سے مضبوطی سے جکڑے وہ ممنون نظر سراج پر ڈالے بولی جو آگے سے اسی طرز میں مسکرا دیا۔

اپنا فون اپنے بیگ میں آرام سے رکھتی وہ اپنی چادر کھول کر گرد لپیٹے ان سے اجازت لیتی باہر نکلی جہاں سراج نے چوکیدار کو پہلے ہی اسے کالونی اور ایریا سے باہر تک منگوائی ٹیکسی تک چھوڑ کر آنے کا کہہ دیا تھا۔

یہ سب وہ عباد کے کہنے کے مطابق کرتا جب پلٹا تو سامنے پھنکارتی ہوئی فاریہ کو دیکھ کر بیزارئیت سے منہ موڑنے ہی لگا تھا جب اس نے سراج کی توانا بازو پکڑے بچارے کو لہرا ڈالا۔

بالکونی پر کھڑا عباد کھسیانی ہنسی لیے اب ان دو پر گہرائی سے اپنی عقابی نظر جما چکا تھا۔

"کون لگتی ہے وہ تمہاری، گود میں ہی اٹھا لیتے۔۔۔۔۔ انتہائی چیپ ہو، لڑکیوں کے گرد منڈلا کر بہت مزہ آتا ہے تمہیں"

کل تک جو سراج علی کے رعب اور حق جتانے کو بُری طرح دھتکار چکی تھی آج اس سمت سے ہلکی پھلکی ناقابل یقین جیلسی پر وہ چاہتا تو بہت کچھ تھا مگر چہرے پر منصوعی برہمی سجائے اس سے چہرہ موڑ گیا۔

عباد نے مسرور ہوئے اپنے ایٹیٹیوڈ مین کے بھرم چیک کیے مسکراہٹ دبائی۔

جبکہ فاریہ کے تن بدن میں تو سراج کے منہ موڑنے پر آگ لگ گئی۔ گویا وہ تلملا اٹھی۔

"میں جس مرضی کے آگے پیچھے منڈلاوں، تمہیں کس لیے تکلیف ہوئی۔۔۔۔ تمہیں تو میرا سایہ تک ناقابل قبول ہے تو کسی اور کا بھلا ہو جائے کیا مضائقہ"

کندھے اچکاتا بے نیازی کے سنگ وہ فاریہ کی جلن پر مزید تیل چھڑکتا چنگاری لگا کر سلگا گیا تھا اور وہ سمجھ نہ پائی اس لمحے اپنی جان لے یا سراج کی۔

"مر جاو تم زلیل انسان۔۔۔۔۔۔"

جب اپنی بے بسی جان لینے پر آئی تو وہ پھر سے کوستی ہوئی اسے باقاعدہ دھکا دیتی پیر پٹخ کر اندر گئی البتہ اسکے چُنے سے دھکے پر سراج علی کے لب مسکراہٹ میں ڈھلے وہیں بالکونی کی سمت غیر ارادی طور پر نظر پڑتے ہی بھائی کی سراہتی نظر نے سراج کے چہرے پر واقعی پہلی بار خوشی کے مکمل رنگ اتار ڈالے۔

اسے کسی لڑکی کے ساتھ مل کر فاریہ کو جیلس کرنے کا خیال پہلے کیسے نہ آیا، جناب کے چہرے کی شرارت بھری پراسرار مسکراہٹ نے گویا اک نیا عہد کیا تھا۔

دوسری سمت خوشی اور کہیں ناں کہیں بہت سکھ میں لپٹی وہ گھنٹے تک گھر پہنچی۔

جاب کی خوشی اور وہاں کے سارے معاملات آتے ہی دادوو کو بتائے مگر انکی سمت سے احد کے بارے ملتی پریشان کن خبر نے منہا کی خوشی مانند کر دی۔

معظم صاحب جب دنکو احد کو ڈسپئنسری لے کر گئے تو وہاں باہر گرد کے باعث وہ بہت زیادہ رونے لگا۔

ڈاکٹر نوشین نے جب اسکا مکمل چیک آپ کیا تو یہ انکشاف ہوا کہ اس کچھ دن کے بچے کو ڈسٹ الرجی کا سنگین مسئلہ ہے جو ڈاکٹر نوشین کے بقول جینٹک ہے۔

انکا کہنا تھا اسکے باپ کو بھی یہ بیماری لاحق ہو گی تبھی وہ احد میں منتقل ہوئی۔

جب سے دادا نے منہا کو یہ بتایا وہ اسے سینے سے لگائے نازک گڈے کو ناجانے کتنے پیار دے بیٹھی۔

"ان شاء اللہ پہلی تنخواہ ملتے ہی ہم اپنا مٹی دھول والا صحن پکا کروا لیں گے دادوو، میں کسی دھول مٹی کو کبھی احد کے آس پاس بھی بھٹکنے نہیں دوں گی۔۔۔۔ اسکے لیے اب سردی کے کپڑے بھی لاوں گی۔۔۔۔ میرا احد اس مسئلے سے کبھی تکلیف کا شکار نہ ہوگا۔۔۔۔۔۔ اتنی ننھی سی جان اور ایسا مسئلہ۔۔۔ میرا تو دل کانپ اٹھا کہ اگر ہمیں بروقت نہ پتا چلتا تو یہ تکلیف میں ہی مبتلا رہتا۔۔۔۔ کتنی دھول ہے ہمارے گھر۔۔۔۔۔۔ لیکن میں احد کے لیے یہ ہوا تک خوشبو سے بھر دوں گی، دیکھیے گا دادو۔۔۔۔"

اپنے پیارے، جان سے عزیز احد کو اپنے سینے پر ہی سلائے وہ جس محبت سے اسکے لیے فکر میں آدھی ہوئی جا رہی تھی اس پر دادا جان مسکرا دیے۔

اپنے ان دو پیارے بچوں پر نظر سے بچنے کی ہر دعا پھونکی۔

منہا کی محبت کے وہ معترف تھے، وہ تو چرند پرند تک پر مہربان تھی ، یہ تو اسکی اولاد جیسا تھا۔

مگر آج منہا کی سوچوں میں اک چیز کا مزید اضافہ ہوا، بڑے سے محل کے جلال نواب کے بہروپ میں وہ آج ایک سچے اور پیارے دل والے انسان کو مل کر آئی تھی۔

وہ محور بن گیا ایک ہی دن میں منہا سلطان کی سوچوں کا جو خود اپنے تاریک سے ویران پڑتے کمرے میں کسی ان چھوئی خوشبو کو محسوس کر رہا تھا۔

کچھ لوگ خوشبو ہی تو ہوتے ہیں، دیکھتے ہی دیکھتے پاس سے گزر کر ہمیں مہکا کر رکھ دیتے۔

وہ بھی اپنے پھٹے دل میں اترتی اک موہوم سی ڈھارس پر کچھ بہتر ہوا۔

گُل مینے تو اسکی زندگی کا اہم حصہ تی مگر اسے پتا تھا بنا وجہ کسی کے لیے دل موم ہرگز نہیں ہوا کرتے۔

آج شروع ہو گئی تھی منہا اور عباد کی اک ایسی کہانی جو نہ کبھی پہلے سنی گئی نہ دیکھی گئی۔

ایک سطحی سخت خول میں لپٹے نرم دل باپ کی امین بننے کی داستان، اک مسیحا کی انوکھی سی کہانی۔

"ضروری نہیں سراج علی جو تمہیں نظر آیا وہی سچ ہو، کبھی کبھار انسان بہت سی ایسی عادات کا شکار ہو جاتا ہے جو اسکے مزاج کا حصہ بن جاتی ہیں۔ میں نے ایک مدت سے اپنوں کے بیچ رہ کر خود کو اپنوں کے زہر سے بچانے کی کوشش کی مگر آجا کر انہوں نے اپنی اوقات دیکھا دی۔ یہ دنیا ہے سراج علی، یہاں اپنا تو سایہ بھی نہیں۔ فاریہ کیانی ایک ایسی لڑکی ہے جسکے کئی چہرے ہیں لہذا میں تمہیں اختیاط کا ہی مشورہ دوں گا"

چند کاروباری فائیلز پر سائن کرتا وہ حقیقت میں شام سراج علی کی خوشی پر تشویش زدہ بھی تھا، تبھی اپنے بھائی سے بڑھ کر عزیز وفادار کو سمجھانا فرض جان رہا تھا۔

کانفرنس اچھے سے ہو گئی تھی، عباد جیسا پارٹی لیڈر اتنے بڑے سانحے کے بعد ویسے ہی ولولے اور جوش کے سنگ عوام اور میڈیا کے سامنے آیا تھا جسکے باعث اسکے چاہنے والوں میں اس اقدام کے بعد قدرے اضافہ ہوا تھا۔

ترچھی نگاہ اٹھائے عباد نے سراج کی سمت دیکھا جو سنجیدہ کھڑا تھا۔

"آپکی بات درست ہے بھائی میں احتیاط کروں گا مگر کہیں پڑھا تھا کہ محبت جب ہوتی ہے تو بے وجہ نہیں ہوتی، ہمارے ذمے کوئی اہم فریضہ لگتا ہے۔ کوئی قرض، کوئی قربانی یا پھر کوئی مسیحائی"

بے لچک لہجہ لیے وہ عباد کے خدشات پر خود بھی اسے یہ کہہ کر لاجواب کر گیا تھا۔

"محبت کے بارے تمہارا فلسفہ مجھ سے کہیں بڑھ کر مضبوط ہے سراج علی، لیکن کبھی بھی اس محبت کو خود پر حاوی مت ہونے دینا۔ یہ یاد رکھنا کہ تم عباد حشمت کیانی کا ایک مضبوط حصہ ہو"

اظہار کرنا عباد حشمت کیانی نے سیکھا نہ تھا مگر کبھی کبھی جب سامنے والے کی اہمیت بتانی ضروری ہو تو وہ شاہانہ الفاظ چنتا تھا، سراج کے چہرے پر سوچ کی پرچھائیاں اس شرف پر ہٹ کر مسکراہٹ بنیں اور وہ فائلز لیتا عباد کے آفس سے باہر نکل گیا۔

"اس جنون کو میں نے بھی خود پر حاوی ہونے نہ دیا تھا، لیکن عباد حشمت لگتا ہے یہ تو پھر بھی حاوی ہو جاتی ہے۔ آہ سراج علی آہ، دل آئے گدی پر تو پری کیا چیز ہے"

زیرِ لب سی خود کلامی کرتا وہ سرد سانس بھر کر رہ گیا، کئی دل پر دھرے بوجھ شام اترتے ہی اس پر چھا جاتے تھے۔

گل مینے کی محبت کے بدلے اسے کبھی خالص محبت نہ دے سکنے کی سزا کیا اتنی سنگین تھی کہ اسے اسکی اولاد سے جدا کر دیا جاتا، یہ آسمانی نہیں محبت کے سچے چناو کی کوئی گہری آزمائش تھی جس پر عباد کا یقین پکا ہو رہا تھا۔

وہ تھک چکا تھا، انتظار سے، انتظار بھی وہ جو سہنا بڑا مشکل ہوا کرتا ہے۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

اگلا پورا ہفتہ اک روانی سے گزر گیا تھا، منہا نے ہوٹل کے مالک سے جاب چھوڑنے کی درخواست کی جسے وہ مان چکے تھے، یہ پورا ہفتہ وہ کیانی پیلس میں اپنی جاب مکمل ایمانداری سے کرتی رہی تھی، اس پورا ہفتہ اسے دوبارہ عباد دیکھائی نہ دیا تھا کیونکہ الیکشن سر پر تھے اور وہ کئی کئی گھنٹے گھر سے غیر حاضر رہتا تھا۔

ادا جان کو منہا سے اک الفت سی ہونی فطری تھی کیونکہ وہ انکا بہت دل سے اور من سے خیال رکھ رہی تھی، انکے کھانے پینے سے لے کر انکے آرام کا مکمل دھیان رکھتی، ادا جان کی فرمائش پر اسے شاعری کی کتابیں پڑھ کر سناتی وہ کتنی ہی دیر منہا کے ان کہانیوں میں کھو جانے پر من ہی من میں مسکاتی رہتیں۔

گھر آکر اسکی ساری توجہ صرف احد سلطان ہوتا، وہ زیادہ تر سویا رہتا مگر منہا کی گود میں وہ چند دنوں کا بچہ ماں کی خوشبو محسوس کرتا اپنی شہد رنگ آنکھیں کھولے تکتا رہتا۔

معظم صاحب اپنے مَندے کاروبار کے باوجود محلے کے اِکا دُکا قدردانوں کا علاج پوری دل جمعی سے کرتے، رزق حلال ہو بھلے کم ہو انکی یہی خواہش تھی اور یہی چیز انہوں نے منہا سلطان کے اندر بھی پروان چڑھائی تھی۔

دوسری سمت عباد اپنے تئیں سرور حسین پر گہری نظریں رکھے ہوئے تھا، وہ بھی عباد کے شک کے باعث آجکل اپنی غلیظ سرگرمیوں کو چھوڑ کر ایک اچھا قدردان بننے کی کوششوں میں تھا، مگر اسکے یہ ڈرامے بھی کسی کام کے نہ تھے۔

سراج اور منہا کے بیچ ایک دوستانہ فضا قائم ہو چکی تھی، وہ منہا کا بھرپور خیال رکھتا نظر آتا تھا، اسکے لیے کام کے بیچ اکثر چائے بھجوانا ، ادا جان کے آرام کرنے کے وقت اس کے ساتھ لان میں ہلکی پھلکی دوستانہ گفتگو کرتے ہوئے چہل قدمی کرنا، فاریہ کیانی نے یہ ہفتہ جبر کے سنگ گزارا تھا، یکدم سراج کے بدلتے مزاج اس لڑکی کے اندر آتش بھڑکا گئے تھے۔

یا یوں کہنا زیادہ بہتر تھا کہ وہ پہلی بار سراج علی کے ساتھ کسی نسوانی وجود کو دیکھ کر ایسی سلگی تھی کہ دل کی راکھ تلے خود رو سا اک جذبہ اپنی پہچان مانگنے اسکی ذات پر قہر ناک دستکیں دینے لگا تھا، وہی جذبہ جسے سمجھنے کے لیے دل کی آنکھ کا بصیر ہونا لازم ہوا کرتا ہے، وہی جذبہ جس کے آگے انسان کو اپنی 'میں' اور انا دفن کرنی پڑتی ہے۔

وہ کُڑتی، سلگتی اور جلتی جا رہی تھی، اپنی یونی دوستوں کے ساتھ ہوتی تو اسکے چہرے پر صرف بیزارئیت دیکھائی دیتی، گھر ہوتی تو کمرے میں پڑی سوئی رہتی۔

ماں کو فرصت کہاں تھی کہ وہ فاریہ سے کبھی بھی اسکے دل کی حقیقی خوشی جاننے کی کوشش کرتی، بس بچپن سے فاریہ کے دماغ میں عباد پر حکمرانی کرنے کا خناس بھرتی رہی تھی، یہی حال حارث کا تھا جسکی تربیت عباد نے ہر ممکنہ خود کرنے کی کوشش کی مگر وہ اپنی ماں کو ہی سگا اور عباد اور دادی کو سوتیلا سمجھتا آیا تھا۔

ناجیہ نے اپنے دونوں بچوں کے دماغ میں صرف نفرت اور حکمرانی ہی بھری تھی، مگر وہ یہ بھول گئی تھی کہ جب ربِ کائنات دلوں میں اچھائی کا بیچ لگا دے تو اس سے پھوٹتے پودے کو تناور درخت بننے سے کوئی روک نہیں پاتا۔

تیسری طرف ہوسپٹل کے سٹاف کو کل ہی حارث کے کومہ کی کنڈیشن میں بہتری محسوس ہوئی تھی مگر وہ ابھی تک ہوش میں نہ آسکا تھا۔

پولیس بھی اپنی ہفتہ بھر کی محنت سے اس فوٹیج کو کلئیر کرنے میں کامیاب ہو چکی تھی جسکی خبر جلد وہ عباد کیانی تک پہنچا دینے والے تھے۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"آپ بتائیں ادا صاحبہ اگر آپکا من جوس پینے کا ہے تو میں بنا لاتی ہوں"

ادا جان کو وہ ابھی وہیل چیئر پر لان میں گما کر لائی تھی، جس کے بعد منہا نے انھیں سہارا دے کر کھڑا کروائے بستر پر بیٹھایا اور انکی کمر کے پیچھے تکیہ رکھتی نرمی سے پوچھتے بولی۔

وہ آگے سے مسکراتی ہوئیں منہا کا ہاتھ پکڑے پاس بیٹھا گئیں جس پر وہ بھی خوشگوار سی حیرت میں لپٹی آرام دہ انداز میں بیٹھی۔

"میرا من تم سے باتیں کرنے کا ہے منہا، ہفتہ ہو گیا میں دیکھ رہی تمہاری سعادت مندی، تم پوری لگن سے میری خدمت کر رہی ہو۔ آج تک عباد نے میرے لیے کئی کئیر ٹیکرز لائی ہیں لیکن تم واحد ہو جس سے ایک بیٹی جیسے احساسات محسوس ہوئے۔ چلو آج مجھے خود کے بارے بتاو، کیسی فیملی ہے تمہاری "

وہ بنا تمہید باندھے منہا کے پرسکون چہرے کو تکتیں بڑے مان سے پوچھ رہی تھیں جس پر منہا بھی اچھے سے مسکرائی۔

"یہ میرا فرض ہے ادا صاحبہ، میری نوکری ہے۔ رہی بات میری لگن اور محبت کی تو میرے دادا کہتے ہیں جو کام کرو دل سے کرنا چاہیے۔ آپ خود بہت شفیق خاتون ہیں تبھی تو میرا کام اور میری خدمت آپکو پسند آئی"

پہلے تو منہا کو یہ سب وافع کرنا ضروری لگا، توقف لیے وہ مقابل کی آسودہ نظروں کو تکتی مزید بولی۔

"میرے بس دادا ہی سب تھے، اور اب میرا احد سلطان بھی میری زندگی ہے۔ میرا بیٹا، بہن کا بیٹا بھی تو میرا ہوا ناں"

اپنی مختصر سی دنیا کا ذکر وہ محبت سے کرتی ادا جان کو بہت بھائی۔

لیکن بچے کے ذکر پر ادا جان کی آنکھوں میں اترتی اداسی منہا نے بھی محسوس کی۔

"اگر تمہیں بُرا نہ لگے تو کبھی احد کو لانا ناں، میرا دل چاہ رہا کہ اسے دیکھوں جو تمہاری اتنی عزیز جان کا گوشہ ہے"

یہ کہتے ادا جان اک حسرت سی میں اتریں مگر منہا کچھ سوچتی ہوئی تھوڑی اداس سی ہوئی۔

"میں اسے ضرور لاتی لیکن ابھی کچھ دن پہلے ہی مجھے اسکی ڈسٹ الرجی کے ایشو کا علم ہوا، لہذا بہت احتیاط کرتی ہوں۔ لیکن جیسے ہی وہ تھوڑا بہتر ہو جائے تو میں اسے آپ سے ملوانے ضرور لاوں گی"

صاف گوئی سے منہا توجیہہ پیش کرتی بولی جس پر ادا جان مشکور سا مسکرائیں، منہا کی گال سہلائی۔

"اللہ اسے تم سے کبھی جدا نہ کریں، جاو اب جوس لے آو"

دعا دیے وہ اداس سی کہہ کر تکیے سے کمر جوڑے آنکھیں بند کر گئیں جس پر منہا بھی رسان سے سر ہلاتی کمرے سے باہر تو آئی مگر بد تہذیبی کے سنگ کسی نے اسکی بازو بُری طرح جکڑ کر ایک ہی جھٹکے سے دیوار سے پٹخا۔

"آہہہ۔"

کمر بُری طرح دیوار سے پٹخنے پر منہا کراہ اٹھی مگر مقابل خونخوار تیور لیے اسے گھورتی فاریہ منہا کے ہوش اڑا گئی۔

"بہت دن سے دیکھ رہی ہوں تمہیں، سوچا تھا خود شرم اور غیرت کر لو گی مگر تم جیسی مڈل کلاس چیپ لڑکیوں کو اپنے گرد منڈلاتے مرد کب بُرے لگ سکتے ہیں۔ سراج کے آگے پیچھے اگر تم دوبارہ نظر آئی تو میں تمہیں وہاں غائب کرواوں گی کہ سی آئی ڈی بھی تمہیں ڈھونڈ ناں سکے گی۔ اور یہی دھمکی عباد کے لیے بھی، اول تو وہ تم جیسی کو منہ لگائے گا نہیں۔ مختصر یہ کہ اس گھر کے مردوں سے دور رہنا۔ دادی کے لیے آئی ہو ناں تو انہی کی سیوا کرتی نظر آیا کرو"

قہر آلود نگاہوں اور ایک ایک لفظ حقارت سے چبا کر وہ منہا سلطان کی تضخیک کرتی اس بُری طرح ناک کے نتھنے پھیلائے پھنکاری کہ منہا خود حراساں سی لگی۔

بھلا وہ کب کسی مرد کے پیچھے منڈلائی تھی۔

"ہہ ہٹیں، ہٹیں پیچھے ۔ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا خوامخواہ مجھ پر ایسا گندہ الزام لگانے کی کوشش بھی کیسے کی۔ اس پیلس کی مکیں ہیں تو کیا آپ کے پاس کسی کو بھی بے عزت کرنے کا سرٹیفیکیٹ مل گیا ہے۔ دوبارہ مجھ پر ایسی واہیات الزام تراشی سے پہلے سو بار سوچیے گا فاریہ میم، میں یہاں جاب ضرور کرتی ہوں لیکن آپکی غلام ہرگز نہیں"

فاریہ کا ہاتھ ایک ہی جھٹکے سے ہٹاتی وہ اس سے بھی زیادہ برہم و ناراض ہوئے کھڑے کھڑے فاریہ کیانی کو سلگا کر رکھ گئی، فاریہ کا بس نہ چلا اس زبان درازی پر منہا کا منہ نوچ لیتی مگر اس سے پہلے فاریہ یہ سب سہن نہ کرتی منہا کے منہ پر تماچہ مارتی، کسی مردانہ گرفت نے فاریہ کی نازک کلائی ناصرف عتاب سے جکڑی بلکہ اگلے لمحے خفیف سی مروڑ ڈالی، منہا تو سہم کر کبھی فاریہ کو کبھی قہر ناک آنکھوں سے فاریہ کو تکتے سراج کو دیکھ رہی تھی جو اس وقت انتہائی غضبناک تھا۔

وہ فاریہ کی ساری بکواس پہلے ہی سن چکا تھا۔

"منہا جاو تم جہاں جا رہی تھی"

فاریہ پر سے نظر ہٹائے وہ نرمی سے منہا کو کہتا بولا جس پر وہ فوری سر ہلاتی کچن کی طرف بڑھی جبکہ فاریہ کے چہرے پر اس وقت نفرت کی گہری پرچھائیاں درج تھیں۔

"تمہیں اس بات سے کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے کہ میں کس کے پیچھے ہوں اور کون میرے پیچھے، اوقات کا طعنہ دیتی تھی تم مجھے ، اب اپنی ہم نسب لڑکی ڈھونڈ لی ہے تو کیوں اسکا جینا حرام کرنے آئی ہو۔ تمہیں کیا تکلیف ہے فاریہ کیانی"

عباد کے ہفتے پہلے سمجھانے پر وہ خود بھی فاریہ سے کترایا رویہ رکھے ہوئے تھا مگر اندر ہی اندر فاریہ کے جھلس جانے کی بھی مکمل خبر رکھے ہوئے تھا۔

وہ سرخ بھبھول چہرہ جو ناجانے غصے سے تھا یا تکلیف سے مگر سراج نے اسکی کلائی کو آزاد کرتے اسکے سر جھٹک کر جانے سے پہلے ہی دیوار پر بازو رکھے فاریہ کا راستہ روکا۔

"جواب؟"

درشتی سے یاددہانی کرائی گئی تھی ، فاریہ نے اپنی مٹھیاں بے بسی سے بھینچ لیں، ناجانے کتنا جبر کیا کہ چہرے کی رگیں تک تن آئیں۔

"بھاڑ میں جاو تم، تمہیں جواب دیتی ہے میری جوتی؟"

مکمل قوتِ بازو لگائے وہ سراج کی جاندار گرفت ہٹاتی غرائی مگر گرفت مضبوط ہوئی وہیں وہ تلخی سے چہرہ موڑے سراج پر آنکھیں گاڑ گئی جسکا خون پینا چاہتی تھی۔

"تو تمہیں بھی جواب دینے کا پابند نہیں ہے کوئی ، سمجھ لو اچھی طرح سے"

خفیف سی سختی سے وہ اسے مطلع کرتا پیچھے ہٹا مگر فاریہ نے جس زخمی اور کاٹ کھانے والے انداز میں سراج کو دیکھا یہ اس شخص کو بہت کچھ بتا اور سمجھا گیا۔

"تم انتہائی گھٹیا، کمینے اور منحوس ہو"

انگلی اٹھا کر وہ سر تا پیر سلگ کر غرائی۔

سراج علی ان القابات کا اتنا عادی تھا کہ اب تو فاریہ یہ نہ کہے تو اسے حیرت گھیر لیتی۔

"لیکن تم صرف اور صرف بیوقوف ہو فاریہ کیانی"

مزید دو قدم ہٹتا وہ جتاتا بولا۔

"کل میرے دوست آئیں گے گھر، دو فٹ دور رہنا ورنہ تمہاری قبر کھود دوں گی "

یہ سب وہ کسی مخفی احساس کے تحت اسے بتا رہی تھی، سراج علی کہیں دل سے اس لڑکی کے ٹوٹتے بکھرتے وجود کا معترف ہوا۔

"اگر ان میں سے کسی ایک نے بھی پیلس میں قدم رکھا تو قبریں انکی کھود دوں گا"

بنا کسی وحشت اور حقارت کے وہ بس سرسری سے خفیف بگھڑتے تیوروں سے فاریہ کو کہتا وہاں سے چلا گیا مگر وہ پیچھے کھڑی ناجانے کیوں نہ مسکرا سکی نہ رو پائی، چہرے پر جسم کا سارہ لہو ضرور چھلک چکا تھا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

عباد اپنے کئی گارڈز کے سنگ تھانے آچکا تھا، اسے صبح ہی انسپیکٹر زین نے خبر پہنچا دی تھی۔

آہل کار عباد کو سیدھا انویسٹیگیشن روم میں لائے جہاں پہلے ہی بڑی سکیرین پر وہ فوٹیج پاز کی گئی تھی۔

آسمانی کرکتے سوٹ پر ویس کوٹ پہنے، سرخ لہو چھلکاتے پیروں میں ملتانی مردانہ چپل، بالوں کا مہذب انداز اور چہرے کی تازگی چھپاتی بڑھی بیرڈ، صاف شفاف نقوش جن پر اس وقت سرد مہری چھائی ہوئی تھی۔

"ہم نے اس آدمی کا پتا لگوا لیا ہے عباد صاحب، آپ اسکی پہچان کر لیں۔ باقی کی کاروائی ہم اسکے بعد شروع کریں گے"

انسپیکٹر زین نے تمہیدی انداز میں عباد کو باعلم کیا اور ساتھ ہی کمپیوٹر پر بیٹھے آدمی کو وڈیو چلانے کا اشارہ کیا۔

وہ وڈیو بہت زیادہ تو نہیں مگر قدرے صاف ہو چکی تھی، عباد کی کڑی نظر اس وقت سکرین پر تھی جہاں سے وہ آدمی بچہ اٹھائے باہر نکل رہا تھا، اور پھر عباد حشمت کیانی کے اشارے پر وہ وڈیو روک کر زوم کی گئی۔

اس چہرے کو وہ لاکھوں میں بھی پہچان سکتا تھا، پورے جسم کا لہو اس وقت عباد حشمت کیانی کی آنکھوں میں سمٹ چکا تھا۔

جبڑے بھینچے وہ غراتا ہوا کرسی سے اٹھا اور پاس پڑی میز پر پوری قوت سے اپنا ہاتھ مکے کی طرح لہرا کر مارا۔

"حارث، حارث۔ پیٹھ پیچھے مجھ پر اتنا سنگین وار کرنے والا تُو تھا حرام زادے، تجھے تو اس جگہ گاڑوں گا جہاں تیرا نام و نشان بھی نہ ملے گا"

اس بار وہ اپنے ہاتھ کا مکا دیوار پر مار چکا تھا جس سے اگلے ہی پل خون کی لیکر پھوٹی، خود انسپیٹکر زین تھوڑا فکر مند سا عباد کی پشت پر کھڑا اس کے عتاب کو جانچ رہا تھا۔

"عباد صاحب، اگر آپ اجازت دیں تو ہم اسکی تلاش شروع کریں؟"

نرم سا استفسار ہوا جس پر عباد بھی اپنے ہاتھ سے نکلتے خون پر اک زخمی نگاہ ڈالتا مڑا۔

"حارث کیانی، مجھے یہ دو دن کے اندر اندر چاہیے تھانیدار، دو دن صرف۔ زمین میں بھی اگر یہ جا کر چھپا ہے تو ڈھونڈ کر لاو"

لہو چھلکاتے چہرے سے وہ حکم صادر کرتا ساتھ ہی بپھری موج بنا تھانے سے نکل گیا۔

دوسری سمت ادا جان کو جوس دینے کے بعد وہ وہیں سیڑھیوں پر اداس سی جا بیٹھی، کیسے وہ امیر زادی اس پر ایسا گھٹیا الزام لگا سکتی تھی۔

رہ رہ کر اپنی بے بسی پر غصہ آرہا تھا، تبھی مانوس سی آہٹ پر وہ مڑی جہاں سراج ہاتھ میں خاکی پیکٹ لیے اسکے ساتھ ہی برادرانہ مسکان سجاتا بیٹھا۔

منہا نے فوری چہرے کی اداسی دبائی۔

"یہ تمہاری ویک کی سیلری، صبح بھائی کہہ کر گئے تھے تمہیں یاد سے دے دوں۔ بہت ایمانداری اور خلوص سے تم نے ادا جان کی دیکھ بھال کی"

وہ اس وقت اتنی اداس تھی کہ بنا کچھ پوچھے وہ پیکٹ بے دلی سے پکڑ لیا مگر دل میں عجیب سی بے چینی تھی۔

"مہینے بعد بھی دیتے اکھٹی تب بھی قبول تھا مجھے، خیر آپ واقعی بہت اچھے ہیں۔ وہ فاریہ میم کیا آپ کے لیے کوئی جذبات رکھتیں سراج بھائی، می میرا مطلب وہ ایسا لگا مجھے"

اس وقت منہا کا تجسس پیک پر تھا، اور اسکی سمت سے یہ غیر متوقع سوال سراج کو بھی سنجیدہ کر چکا تھا۔

"یہ تو مجھے بھی نہیں پتا لیکن تمہیں اس سے دبنے یا اسکے رویے سے اداس ہونے کی ضرورت نہیں، بلکہ تمہارے آجانے سے ہی مجھے سہولت ملی۔ تم جیسا چل رہا چلنے دو، دیکھتے ہیں پٹاری سے کیا نکلتا ہے"

ساری اداسی سراج بھائی کے معصوم سے پوز سے ہی ختم ہوئی اور منہا جس طرح شرارتی چہرہ کیے اسکی سمت دیکھ رہی تھی یہ سراج کو بھی مسکراہٹ دے گیا۔

"مطلب آپ میرے ساتھ مل کر انھیں جیلس کرنا چاہ رہے، ہاہا بھائی مجھے ہنسی آرہی"

منہا کی سادہ سی بات پر وہ بھی اسی سادگی سے کندھے اچکاتا واقعی اس وقت منہا کی طرح کا ہی ہم عمر الڑ لڑکا معلوم ہوا۔

ہارن کی آتی آواز پر سراج فوری اٹھ کر چلا گیا کیونکہ شاید عباد گھر آچکا تھا، منہا نے سراج کو جاتے دیکھا اور پھر یونہی بے دلی سے وہ خاکی پیکٹ کھولا۔

مگر اس کے اندر موجود رقم دیکھ کر منہا کے چہرے پر غصہ اتر چکا تھا۔

ہفتے بعد اسے پورے پچیس ہزار دیے گئے تھے، سارا سکون ان ڈستے ہوئے روپوں نے اجاڑ ڈالا۔

ابھی تو وہ فون کے پیسے بھی تنخواہ سے آہستہ آہستہ دینے کا سوچ کر بیٹھی تھی جس پر ہوتی اک نئی مہربانی منہا کو سلگا گئی۔

"منہا سلطان کو سمجھ کیا لیا ہے تم نے نواب زادے، میں یہاں تمہاری دولت کی ہوس میں آئی ہوں کیا جو تم مجھے اتنے پیسے دے کر متاثر کرنا چاہتے۔ بات کرنی ہوگی مجھے آخر یہ کس نوازش کے تحت دیے مجھے"

بنا عقل سے سوچتی وہ اس وقت ناجانے کیا اوٹ پٹانگ سوچتی بھڑک چکی تھی، عباد حشمت کیانی کے آفس کا رخ کرتی وہ اپنے ہاتھ میں وہ بے کار لفافہ جکڑے قدموں کی رفتار بڑھا چکی تھی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"ڈاکٹر وہ ہوش میں آرہا ہے"

کسی نسوانی آواز پر وہ سفید کوٹ میں لپٹا کسی مریض سے محو کلام ڈاکٹر پلٹا، فائنلی انھیں اسی خبر کا انتظار تھا۔

وہ نرس کے ساتھ ہی اس کمرے کی جانب لپکا جہاں حارث کیانی آخر کار ہفتے بعد کومے سے نکل آیا تھا مگر ڈاکٹر اور نرس کے فکر مند تاثرات کے سنگ اندر بڑھنے پر وہ انھیں ناشناسائی کے سنگ تکتا اٹھنے کو سسکا مگر نرس نے فوری لپک کر اسے سہارہ دینے کو کمر کے پیچھے تکیہ ٹیکا۔

"تھینک گارڈ تم ہوش میں آئے جوان، کیسے ہو۔ کون ہو تم اور اب کیسا محسوس کر رہے ہو"

وہ ڈاکٹر اپنے پیشہ ورانہ انداز میں حارث کی پیلی پڑتی رنگت کو تکتے سوال کر رہے تھے جو اپنے سر پر بنے زخم اور اس سے اٹھتی ٹیسوں پر بلبلا اٹھا۔

"مم میں ، میں کون ہوں۔ وہ لڑکی اور بچہ یاد ہیں ۔ مم میرا نام۔۔۔ میرا نام نہ۔۔نہیں جانتا۔۔۔۔می۔۔میرا سر"

بولنے اور دماغ پر زور ڈالنے کی کوشش میں وہ مزید بے جان ہوا تبھی اسکی یاداشت کی کمزوری پر ڈاکٹر نے حیرت سے نرس کی جانب دیکھا۔

"دیکھو جوان تم اپنے ذہن پر زور ڈالو، رات تک تمہارے ٹوٹے فون کی ڈیٹیلز بھی آجائیں گی لیکن تب تک تم یاد کرنے کی کوشش کرو۔ تم سڑک پر شدید زخمی حالت میں ملے تھے، کسی ٹرک نے تمہیں ٹکر ماری تھی"

ہر ممکنہ کوشش کیے وہ ڈاکٹر ، حارث سے اسکی اس لاتعلقی پر مزید کریدتے بولا مگر حارث کو کچھ یاد نہ تھا سوائے ذہن میں اک بچے اور لڑکی کا ہیولا گھوم رہا تھا۔

کچھ ہی لمحوں میں سر کے درد پر وہ اپنا سر جکڑے بال نوچتے حلق کے بل دھاڑا تبھی نرس نے فوری ڈاکٹر کے کہنے پر اسے انجیکشن دیا جس سے پلوں میں حارث کیانی کی تڑپتی ذات پرسکون ہوئے بے سدھ ہو گئی۔

ڈاکٹر نے تشویش سے کن پٹی سہلائی اور اک نظر اس نیم جان وجود پر ڈالی۔

"جیسے ہی اسکے فون کی ڈیٹیلز آئیں مجھے خبر کرو"

نرس کو سرسری سی تاکید کرتا ڈاکٹر باہر نکلا وہیں نرس بھی اس کمرے سے باہر نکل گئی۔

حارث کیانی کے گناہوں کی عبرت شروع ہو چکی تھی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"اُو بڈھے، کیا ہمارے منہ پر بیوقوف لکھا نظر آرہا ہے۔ کتنے سال سے تو تم دادا پوتی ادھر رہ رہے۔ یہ اچانک بہن اور پھر اسکا بچہ کہاں سے نکل آیا۔ سچ بتا کون ہے یہ، کہیں تیری پوتی کا کوئی کارنامہ۔۔۔۔۔"

منہا اور معظم نے محلے میں بھی احد کی سچائی منہا کی بہن کی بیٹی کے طور پر ہی بتائی تھی مگر آج سب محلے کے لوگ جمع ہوئے انکے گھر آئے تھے اور انکا مقصد صرف ٹوہ لینا تھا۔

احد کو وہ سلا کر خود صحن میں کب سے بیٹھے ان چار پانچ بستی کے نام نہاد عزت دار آدمیوں کی بکواس سن رہے تھے مگر اب جب اس ایک چھچھورے اور فضول آدمی نے منہا کی ذات پر کیچڑ اچھالنا چاہا تو معظم صاحب سے یہ دیکھا نہ گیا، اٹھ کر پوری قوت سے وہ اس آدمی کے منہ پر اپنے ہاتھ کا کرارہ تماچہ دیتے ساتھ ہی اسکا گریبان دبوچ چکے تھے۔

"اپنی یہ گندی زبان یہیں روک لے شہباز، ورنہ گُدی سے کھینچ لوں گا۔ خبردار جو تو نے میری منہا پر ایسا نیچ الزام لگانے کی جرت بھی کی۔ احد جو بھی ہے تم سب لوگ اپنے کام سے کام رکھو۔ نکلو یہاں سے ورنہ کلہاڑی سے سر چیڑ دوں گا تم سب کے"

معظم صاحب کی بھلے سانس پھول گئی مگر انکا عتاب پوری بستی جانتی تھی تبھی وہ سب ہی دب گئے مگر وہ آدمی جس کو زیادہ مرچیں لگی تھیں اپنی یہ تضخیک بھول نہیں سکتا تھا۔

"سچ سن کر ایسے ہی کڑوا لگتا ہے حکیم صاحب، پتا کروا لوں گا میں۔ اور اگر آپکی بتائی بات غلط نکلی تو دھکے دے کر تم تینوں کو یہاں سے نکلواوں گا"

جاتے جاتے وہ حقارت سے معظم صاحب کو دھمکی دیتا تڑخ کر غرایا مگر وہ اسے دونوں ہاتھوں سے دفع دور کے اشارے کرتے لعنت بھیج رہے تھے۔سب کو گھر کے دروازے سے باہر نکالے جب تک وہ واپس صحن تک آئے انکا سانس ناقابل حد تک پھول چکا تھا۔

آنکھیں بھی اس خوف سے بھرے نم ہوئیں جو انھیں پہلے ہی دن سے خدشے سا لاحق تھا۔

"میرے مولا، ان زلیل بے نسلے لوگوں سے میری منہا کی حفاظت کر۔ احد کو ان کے شر کے بچا۔ ہمیں رسوا مت کرنا میرے رب، میری منہا کی زندگی پہلے ہی بڑی مشکل ہے سوہنے سائیاں، مجھ ناکارہ بوڑھے اور اس معصوم بے گناہ وجود کو میری منہا پر بوجھ نہ بننے دینا"

لمبے لمبے تنفس بہتر کرنے کو سانس بھرے وہ تھکے اور رندھے چہرے کو اٹھائے رب سے دعا گو تھے، ناجانے ابھی منہا کو کیا کیا سہنا اور دیکھنا باقی تھا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"مجھے بات کرنی ہے ان سے سراج بھائی، انکی ہمت کیسے ہوئی مجھے اتنے پیسے دینے کی"

عباد اس وقت کسی کا سامنا نہیں چاہتا تھا تبھی اس نے سراج کو کچھ اہم کام سونپے کمرے سے باہر بھیجا تو وہیں غصے سے بھری منہا کو آتا دیکھ کر سراج نے پریشانی کے سنگ منہا کا عتاب دیکھا۔

"منہا، یہ تمہاری خدمت کا معاوضہ ہے۔ بھائی اس وقت اچھے موڈ میں نہیں ہیں تم کل بات کر لینا"

اپنی طرف سے سراج نے اسے تنبیہہ کر دی مگر منہا ہر صورت ملنے پر بضد تھی تبھی اسکا اصرار مانند نہ پڑتے دیکھ کر وہ دوبارہ اندر گیا جہاں عباد گلاس ونڈو کے ساتھ لگ کر کھڑا سپاٹ چہرہ لیے باہر تاحد نگاہ سر سبز اراضی کے اس پار ڈھلتے سورج پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔

آہٹ کے باوجود نہ پلٹا۔

"بھائی منہا آپ سے بات کرنا چاہتی ہے، میں نے روکا لیکن"

سراج کے وضاحت دینے پر وہ اسکی بات کاٹ گیا۔

"بھیجو اسے"

وہی پتھرایا انداز۔

سراج سر ہلاتا باہر لپکا اور منہا کو اندر جانے کا اشارہ کیے خود وہاں سے اوجھل ہو گیا۔

منہا نے اندر داخل ہوتے ہی وہاں موجود سناٹے اور وحشت کے علاوہ اضافی حبس بھی محسوس کی، نظر ایش ٹرے کی جانب گئی جہاں تازہ ادھ پیا سیگریٹ دھواں چھوڑ رہا تھا۔

تو محترم عیشوہ سازوں کی طرح اس چیز کے شوقین بھی تھے، مگر وہ یہ صرف غصے اور عتاب کو کم کرنے کو پیتا تھا۔

"کہو منہا"

سختی سے استفسار آیا تھا جس پر منہا اپنی سوچوں سے نکلی اور بیچ کا فاصلہ طے کرتی وہ لفافہ اسکی چوڑی میز پر باآواز بلند پٹخا۔

وہ جو پلٹ کر کمر پر ہاتھ باندھے کھڑا تھا، اس خاموشی پر پلٹا تو منہا اک لمحہ اسکے چہرے پر چھائے غصے والے تاثرات پر ٹھنڈی پڑ گئی۔

سارے لفظ زبان پر اٹکے۔

"آپ۔۔۔آپ نے مجھے ہفتے کی سیلری پچیس ہزار کیوں دی، وہ تو چھ ہزار تک بنتی ہے ناں، پھر اس ایکسٹرا مہربانی کی وجہ پوچھ سکتی ہوں "

ساری زندگی کی ہمت جمع کیے وہ ان ساحر سی برہم آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بے خوفی سے بولی، مقابل نے تحمل سے منہا کا بھرپور جائزہ لیا۔

سیاہ کھلے گھیرے والی شلوار پر سفید قمیص جن میں سیاہ دائرے تھے، شفاف سے چہرے اور گردن کی پھر ہاتھوں کی ابھرتی رگیں، وہیں سر پر لیا منہا کا آنچل جیسے وہ بہت دھیان سے سنبھالنا بھی جانتی تھی۔

ستواں سی ناک، چہرے کی جاذبیت بڑھاتے ہونٹ، وہ سیاہ آنکھیں جو بڑی بڑی پلکوں کی گرفت میں حسین و جاذب لگتیں۔

بنا کسی منصوعی حسن کے وہ بلاشبہ پُرکشش تھی۔

خود کے اس بری طرح کھٹکتے پوسٹ مارٹم پر وہ تھوڑا گھبرائی۔

"کیونکہ تمہارے گھر ایک چھوٹا بچہ اور ایک بزرگ ہیں، سو ضروریات ہوتی ہیں بچوں اور بزرگوں کی۔ یہ پچیس ہزار تمہاری ایمانداری اور خلوص سے ذمہ داری نبھانے کی جائز رقم ہے"

بہت مطمئین اور ساکت کرتا انداز لیے وہ منہا کے سارے جوابات دے چکا تھا مگر وہ آگے سے مزید بھڑک چکی تھی۔

"وہ بچہ اور بزرگ منہا کی ذمہ داری ہیں ، آپکی نہیں۔ میں اپنی جائز کمائی سے بھی انکا بھرپور خیال رکھ سکتی ہوں۔ لہذا آپ مجھے صرف میرا جائز حق دیں اور ہاں ایک ہزار ہر ہفتے آپ کاٹ لیجئے گا کیونکہ جو موبائیل آپ نے مجھے دیا اسکی قیمت بھی مجھے واپس کرنی ہے"

خوداری اور پراعتمادی کے سنگ وہ ایک ہی لمحے میں عباد حشمت کیانی کو لاجواب کر گئی، وہ تو جیسے اس درجہ گستاخی پر سامنے والے کو کھڑے کھڑے سزا سنا دیتا تھا مگر یہ لڑکی اسے غصے کے باوجود کسی سزا کو نہ سنانے پر اکساتی معلوم ہوئی۔

مگر منہا ضرور عباد کے چہرے کی عتاب سے ابھرتی رگوں کو بھانپے نظر جھکا گئی، حق بات سے پیچھے ہٹنا اس نے کبھی نہ سیکھا تھا۔

"چپ چاپ یہ پیسے اٹھاو اور نکل جاو یہاں سے، ورنہ میرے غصے کی خوامخواہ بھینٹ چڑھ جاو گی۔ اپنی یہ خوداری دوبارہ میرے سامنے دیکھانے کی جرت مت کرنا"

خفیف سا بگھڑ کر وہ آئبرو اچکاتا خود بھی دھمکی پر اترا، منہا نے ہفتے پہلے تک جو اس بندے کے بارے اچھا تاثر بنایا ایک لمحے میں پاش پاش ہوا۔

"مجھے آپکا احسان نہیں چاہیے، میں صرف اپنی حق دار رقم ہی لوں گی ورنہ آپ نے ابھی منہا کی خوداری دیکھی نہیں۔ ان پیسوں کو دے کر حقیقت میں آپ کیا چاہ رہے مجھ سے، کھل کر بتائیں تاکہ آپکی سوچ مجھ پر کھل سکے"

منہا اب واقعی زیادتی پر اتر آئی، جس طرح عباد نے اسکے یہ سلگتے لفظ برداشت کیے یہ وہی جانتا تھا۔

"تمہیں پتا ہے تم کہاں کھڑی ہو اور کس سے مخاطب ہو گستاخ لڑکی، عباد حشمت کیانی ہوں میں تمہاری کچی بستی میں پھرتا کوئی آوارہ نہیں۔ اگر ادا جان کی مجبوری نہ ہوتی تو تم یہاں اس بکواس کے بعد دیکھائی نہ دیتی۔ رہی بات حق کی تو اگر یہ پیسے نہ لیے تم نے تو یہاں تو دور پورے ملک میں تمہیں کہیں نوکری نہیں ملنے دوں گا۔ اپنے بچے اور دادا پر رحم کرو، تمہاری یہ باتیں میں پہلی اور آخری بار برداشت کر رہا ہوں دوبارہ چانس نہیں دوں گا"

پوری زندگی میں منہا سلطان پر کسی نے اتنا غصہ نہ کیا جتنا یہ بپھرا ریچھ اتار گیا، وہ خود سمجھ نہ پایا کہ وہ کیوں بلاوجہ منہا پر برس پڑا ہے۔

عباد کی نظروں کی تپش وہ نہ سہتی ہوئی آنکھوں میں نمی بھر سی گئی، کیا سوچا تھا اور یہ شخص کیا نکلا۔

"اٹھاو اسے"

دھاڑ کر حکم کرتا وہ منہا کو بھی ڈرا گیا جو قہر ناک آنکھیں عباد پر ڈالتی مجبورا وہ پیکٹ اٹھاتی اپنے آنسو دبائے مڑی مگر پھر سے کسی آواز نے اسکا دل، آنسو اور قدم سب روک دیے۔

"منہا سلطان"

ناجانے کیوں مگر وہ جب اسکا پورا نام لے کر پکارا تو منہا کا دل تک تڑپا۔

وہ بھی اس بار نہ پلٹی، بس آنسو روکنے کی کوشش کرتی رہی۔

"پلٹو"

حکم سماعت میں اترا تو وہ سرد مہری چہرے پر سجائے نڑوٹھے پن سے مڑی۔

"مجھے تمہاری خوداری پر کوئی شک نہیں ہے بیوقوف لڑکی، معاف کرنا میں زیادہ بکواس کر گیا لیکن یہ دنیا صرف خوداری سے نہیں بلکے سمجھداری سے چلتی ہے۔ تم جس طبقے سے آئی ہو وہاں پیسہ نہیں رشتے اور احساس اہم ہیں مگر جس طبقے میں تم ابھی کھڑی ہو یہاں پیسہ اہم ہے۔ ادا جان مجھے میری جان سے بھی عزیز ہیں اور انکی ایک دن کی بے لوث خدمت پر عباد لاکھوں لٹا سکتا ہے، تمہیں تو پھر میں نے تمہاری خوداری اور عظمت کے لحاظ سے یہ رقم دی ہے۔ اب منہ سیدھا کرو"

وہ تو سن سی عباد کے کہے الفاظ میں ہی کھو چکی تھی، یہ انسان کیا تھا ، اس بار تو منہا کے دل تک سرائیت کر گیا، وہ بوجھل پلکوں والی لڑکی عباد کی سمت ناشناسائی کے سنگ تکتی رہی اور وہ یہ بھانپتا رہا کہ وہ ملول زیادہ جچتی ہے مگر اسکا یہ مطلب نہ تھا کہ وہ اسے آگے بھی رلاتا۔

دھیرے سے اپنی جگہ چھوڑتا وہ عین روبرو آکر کھڑا منہا کی سرخ ہوتی آنکھیں دیکھتا مسکرایا۔

"میں تمہیں ایک اور اچھی آفر اور جاب دینے کا سوچ رہا ہوں، لیکن بے فکر رہو اسکی سیلرری نہیں دوں گا۔ تمہارا خوداری کا صدمہ بڑھانا نہیں چاہتا۔ تم اپنے دادا اور بیٹے کے ساتھ پیلس کے سرونٹ کوارٹر میں آکر رہ سکتی ہو، وہ بہت اچھی اور معیاری جگہ ہے۔ چلو تم ایسا کرنا اسکا رینٹ دے دینا۔۔۔۔۔ ایکچولی مجھے جو تم سے کام ہے اسکے لیے تم ہر وقت میسر چاہیے ہو"

وہ منہا کی بھرائی سی دھوپ چھاوں سے سجی آنکھیں بڑے اشتیاق سے تکتا اسے یہ سب کہہ کر واقعی سن کر گیا، منہا تو چکرا کر رہ گئی تھی۔

مگر عباد اسکے بوکھلائے تاثرات پر دل سے مسرور ہوا۔

"ایسا کونسا کام ہے آپکو ؟"

ڈرتے ڈرتے مگر مضبوط لہجے میں وہ عباد کی ذومعنی مسکراہٹ تکتی منمنائی۔

"وہ بعد میں، لیکن قابلِ اعتبار انسان ہوں بھروسہ کرنا سیکھو۔ میں اپنے انڈر کام کرتے ہر انسان کی مکمل حفاظت کا ذمہ خود لیتا ہوں منہا، شرط بس یہ ہے کہ وہ مجھ سے وفادار رہے۔ تم اپنے دادا سے بات کرو آج جا کر، اگر وہ مان جاتے ہیں تو زبردست ۔ نہیں تو میں سراج علی کو بھیجوں گا وہ قائل کرنا جانتا ہے۔ اپنے بیٹے کو تم یقینا اچھی اور صاف ستھری زندگی دینا چاہتی ہو، یہاں اگر وہ قریب سکون سے رہیں گے تو تم بھی روز آنے جانے کی مشکل سے نکل آو گی"

بہت نرمی اور رسان سے وہ منہا کو اس سب پر قائل کر رہا تھا جو صرف اس وقت احد کے بارے سوچ رہی تھی۔

منہا کو کسی گہری سوچ میں ڈوبا دیکھ کر وہ بھی متجسس ہوا۔

"م۔۔میں بات کروں گی دادا سے جا کر، لیکن رینٹ والی بات پر آپ قائم رہیں گے۔ اور فون کے پیسے بھی لیں گے، میں بس یہی سیلری لوں گی مہینے کی"

پھر سے منہا کی خوداری پر وہ دانت کچکچاتا سر جھٹکے منہ بسور گیا، مگر جو بھی تھا یہ لڑکی تبھی کچھ خاص اور خالص سی روح لگی تھی۔

"مہینے کا پچاس ہزار، نہ تمہاری نہ میری۔۔۔۔۔"

حتمی فیصلہ کرتا وہ چٹان کی طرح جمی اس لڑکی کو کہتا پراسرار ہوا۔

منہا نے دل ہی دل میں اس بندے کو جی بھرے کوسا مگر چارو نا چار وہ سر ہلا گئی۔

"ڈیٹس لائک گڈ گرل، تم ہیرا ہو اور اچھی روح ہو منہا سلطان۔ خوش ہو جاو تمہیں عباد حشمت کیانی سا جوہری اور قدردان میسر آگیا"

تفاخر سے سر اکڑائے وہ گہرا مسکراتے دو قدم پیچھے ہٹا اور اک مزید بھرپور نگاہ منہا کے اترے چہرے پر ڈالی جو عباد کی مشکوک حرکتوں پر لرزی۔

"آپ بہت عجیب انسان ہیں"

جنجھلا کر وہ اس بندے کو کہہ اٹھی، عباد نے متبسم ہوئے سر ہلائے داد وصول کی، یہ اسکے نزدیک اچھا کمپلیمنٹ تھا۔

"اب جاو، شیرنی بننا کم کر دو میرے سامنے۔ میں جان گیا ہوں تم کو بھولی لڑکی"

جان بوجھ کر شاید منہا کو زچ کرنے کو اسے بھولی لڑکی کہتا باوقار چال چلتا وہاں سے ملحقہ سٹڈی کی سمت لپک گیا جبکہ منہا کا گلاب چہرہ ایک بار پھر بری طرح مرجھا کر رہ گیا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"یہ کیا ہے سرور صاحب؟ کس چیز کے ڈاکومنٹس ہیں"

میز پر دھری فائیل پر تنقیدی نگاہ گاڑے درشتی سے سوال آیا تھا جس پر مقابل گہری مسکراہٹ اتر چکی تھی۔

"اس پلاٹ کے جو مجھے ہر صورت درکار ہے، تمہیں یہ فاریہ سے اپنے نام لگوا کر مجھے دینا ہوگا۔ بہت اچھا پرافٹ مل رہا ہے، ہم سیل کر کے وہ ساری رقم انویسٹ کریں گے کاروبار میں"

رولنگ چئیر پر بڑے آرام سے براجمان وہ یہ جھٹکا دیتے ناجیہ کی آنکھوں میں اترتی سرد مہری بھانپ چکا تھا۔

"لیکن یہ میں اس سے کیسے لے سکتی ہوں، یہ فاریہ کا ہے اور اسی کا رہے گا"

ناجیہ نے ہر ممکنہ لہجے کو نرم رکھے منع کرنا چاہا مگر سرور اپنی جگہ چھوڑ کر اٹھتا ہوا گھوم کر اس مغربی لباس میں لپٹی حسینہ تک پہنچا اور ہاتھ بڑھایا جسے ناجیہ نے چارو ناچار تھام تو لیا مگر وہ مکمل خفا معلوم ہوئی۔

مقابل کی بے خود نظریں ناجیہ کے ہوش ربا پختہ حسن کا بھرپور جائزہ لیتی یکدم سنجیدہ ہوئیں۔

"اور کیا میں فاریہ کے لیے غیر ہوں، کل کو وہ میری بھی تو بیٹی ہوگی ۔ اور یہ سب میں تمہارے لیے ہی تو کر رہا ہوں ڈارلنگ، تم سب کے اچھے فیوچر کے لیے۔ ویسے بھی میں اپنا سب کچھ پہلے ہی بزنس میں انویسٹ کر چکا ہوں، کچھ رقم کی کمی ہے تو بتاو تم سے نہیں کہوں گا تو کس سے کہوں گا۔ رہی بات فاریہ کی وہ تو ویسے ہی عباد کے ساتھ شادی ہوتے ہی پیلس اور عباد حشمت کیانی کے اثاثوں کی مالک بن جائے گی۔ پھر اس چند کڑور کے پلاٹ کی کیا اہمیت رہے گی"

بہت ہی چالاکی سے سرور حسین جیسے عیاش اور موقع پرست نے اپنا داو کھیل دیا تھا، یہاں اگر ناجیہ انکار کرتی تو وہ سوچ چکا تھا کہ عباد کو اسکی حقیقت بتا دے کہ گل مینے پر فائرنگ ناجیہ کیانی نے کروائی تھی اور اسی وقت کے لیے اس شاطر نے ناجیہ کی ریکارڈنگ تک کر رکھی تھی۔

سرور حسین ایک نہایت کمینہ اور کرپٹ پولیٹیشن تھا اور اسکے اب تک کئی سکینڈل بھی آچکے تھے، وہ عیاش کے ساتھ ساتھ ایک گندی اور کھلی ذہینت کا بدکردار شخص تھا مگر ناجیہ کیانی کو اس نے بڑی مہارت سے شیشے میں اتار لیا تھا۔

اسکی وجہ شاید ناجیہ سے اسکی پراپرٹی ہتھیانا تھا، ناجیہ کے شوہر کی زندگی میں بھی اسکے سرور سے تعلقات رہتے تھے اور جب انکو ناجیہ کے یہ کرتوت پتا چلے تو انہوں نے خاندان کی عزت اور وقار کو اہم جانتے ہوئے ناجیہ کو طلاق دے دی مگر یہ طلاق بند کمرے میں اک راز بن کر رہ گئی اور یوں اسی رات ناجیہ نے اپنے شوہر کا ایکسیڈنٹ کروا دیا۔

شاید یہ اسکی نفرت تھی جو اس نے کسی بے گناہ انسان کی جان لے کر نکال لی۔

یہ راز بھی صرف سرور حسین جانتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ ناجیہ اس وقت اس مطلبی شخص کے سامنے اپنے کیے کے باعث بے بس و مجبور تھی۔

"اتنا سوچو گی تو مجھے لگے گا تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں، یار ایک پلاٹ ہی تو ہے۔ آج جتنا پیسہ لگائیں گے کل اس سے کئی گنا زیادہ وصول بھی کر لیں گے"

مقابل کے شش و پنج میں مبتلا چہرے کو تکتا وہ مزید لقمہ دیتا مسکین ہوئے بولا جس پر ناجیہ نے اپنے اور اس کے بیچ فاصلہ بنائے میز پر رکھی فائیل اور اپنا بیگ اٹھایا۔

رات ہو چکی تھی اور اسے اب نکلنا تھا۔

"میں بات کروں گی فاریہ سے ، اب چلتی ہوں"

بے دلی اور روکھے پن سے کہتی وہ آفس روم سے نکلی وہیں سرور حسین کھسیانی خبیث مسکراہٹ چہرے پر سجائے دونوں ہاتھ پتلون کی جیبوں میں گھسائے ہنسا۔

"آہ آرش کیانی، تیری سب سے بڑی سزا یہ عورت تھی۔ تجھے زندہ درگور بھی کیا اور حقیقت میں مروایا بھی، ناجیہ بیگم تم جتنی مرضی شاطر اور عقل مند سمجھ لو خود کو، سرور حسین کی عقل پر حاوی نہیں ہو سکتی۔ جان جان کہہ کر تمہاری جان لینی خوب آتی ہے مجھے"

اپنی مونچھ کو تاو دیتا وہ کسی غیر مرئی نقطے پر نظر جمائے اپنی چال سرعام کر چکا تھا، یہ دنیا ایسی ہی مطلبی اور خودغرض ہوتی ہے، یہاں ہر دوسرا انسان آپکو کچلنے کے در پر ہے۔

سرور حسین ایک عقابی نظر اور لومڑی سی ذہینت کا مالک تھا، اپنے دیوالیہ ہوتے بزنس اور گرتی ریپوٹیشن کو وہ اب پیسے سے اجالنے کا تمنائی تھا۔

الیکشن کے لیے ووٹرز خریدنے کے ساتھ ساتھ وہ اس بار عباد حشمت کیانی کے مدمقابل آنے کو تھا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"تو پھر کیا سوچا آپ نے دادوو، مجھے تو بہت مناسب لگا۔ ہم انھیں کرایہ دیں گے میں نے بات کر لی، ویسے بھی جو آج محلے والوں نے واہیات کام کیا اسکے بعد میں تو مر کر بھی آپ دو کو یہاں ان وحشیوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑوں"

گود میں احد کو لیے وہ اسکی بڑی بڑی کھلی آنکھیں جھک کر چومتی ساتھ ہی تخت پر تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھے معظم صاحب سے مخاطب ہوئی جنکے چہرے پر سوچ کی گہری پرچھائیاں درج تھیں۔

انھیں بھی اللہ پاک کے اس بروقت وسیلے کی سمجھ آئی تھی، انکی دعا قبول ہو گئی تھی۔

"بہت نیک دل انسان لگتے ہیں وہ، لیکن اس سے بڑا رحم دل وہ پیارا اور سوہنا رب ہے جو بہتر وسیلے بناتا ہے۔ یہ جگہ جہاں معظم سلطان نے عزت اور رشک سے سفید پوشی کے کئی برس کاٹے، کبھی نہ سوچا تھا پلوں میں لوگ ہماری عزت کی دھجیاں بکھیر دیں گے۔ غریب کے پاس عزت ہی تو واحد خزانہ ہوتی ہے پُتری، لیکن مجھے دکھ ہوتا ہے کہ یہ واحد شے بھی ہم جیسوں سے چھنتے دیر نہیں لگتی"

فطری تھا کہ وہ ان لوگوں کی بے رحمی یاد کرتے آبدیدہ ہوئے، منہا خود بھی کرسی سے اٹھ کر دادا تک آئی اور ایک ہاتھ سے انکی آنکھوں سے بہتی نمی جذب کی اور آزردہ ہوئی، وہ چند دنوں کا احد سلطان بھی جیسے انھیں تکتا اداس ہوا۔

"جب تک اللہ نہ چاہے کوئی عزت نہیں چھین سکتا دادو، آپ ان بے فیض لوگوں کے لیے دل بُرا مت کریں۔ کل مالک مکان کو اسکا کرایہ ادا کر دیجئے گا میں سراج بھائی کو کہوں گی وہ آپکو اور احد کو لینے آجائیں۔ بلکل بھی اداس نہ ہوں، میں کبھی آپکا سر جھکنے نہیں دوں گی، بھلے ہم وہاں جا رہے لیکن سر اٹھا کر، کسی کا احسان نہیں لے رہے۔ جب میرے پاس اتنے پیسے جمع ہو جائیں گے ناں کہ ہم چھوٹا سا اپنا گھر لے سکیں تو ہم پیلس بھی چھوڑ دیں گے۔ کسی ایسی جگہ چلے جائیں گے جہاں کے لوگ دوسروں کے معاملوں میں ٹانگ نہ اڑاتے ہوں"

وہ جو دکھی تھے منہا کی ہمت اور ڈھارس بندھاتی امید اور زندہ دلی پر دل سے مسکرائے، دونوں پر نثار ہوتی آنکھیں باری باری ڈالیں۔

"ان شاء اللہ پُتری، بس میری دعا ہے تُو اور احد کبھی اس بُرے زمانے کے رحم و کرم پر نہ ہو۔ میں خود یہی چاہتا ہوں کہ تو ایک دن اپنی اس خواہش کو ضرور تکمیل دے، میں تجھے وہ سب نہ دے سکا منہا مگر مجھے پتا ہے وہ رب سوہنا تجھے ہر وہ شے ضرور دے گا جسکی تو مستحق ہے"

دادا جان کی بہتر ہوتی تسلی آمیز ذات اور رشک منہا کی آنکھوں میں رتن سی چمک بھر چکا تھا، دونوں ہی احد سلطان کی سمت تکتے جی جان سے مسکرائے جو اب اپنے ہاتھ پیر چلانے کی پوری کوشش کرنے لگا تھا۔

"منہا کی جان "

ماتھا چومتی وہ اسے کسی متاعِ جان سا خود میں سمو گئی، نظر دادا جان سے ملی تو اک احساس تھا حفاظت کا جو منہا کے دل تک اترا۔

دادا ہمت تھے اسکی مگر احد یقین تھا اسکا، کامل یقین۔

دوسری سمت ناجیہ نے وہ فائیل فاریہ کے سامنے رکھی تو بنا کوئی اعتراض کیے وہ سائن کر گئی جس پر خود ناجیہ کو ہارٹ اٹیک آتا آتا رہا۔

فاریہ بکھرے سے خلیے میں بنا کچھ بولے واپس کمرے میں چلی گئی، ہر شے سے دل اچاٹ ہو چکا تھا۔

شاندار وفع والا لگژری روم مگر اندر باہر لگی آتش اسے جہنم کی طرح سلگا رہی تھی۔

بار بار سراج علی کے طنزیہ جملے اور گریز یاد کرتی وہ گہرے گہرے سانس بھرتی وہیں بستر پر اوندھی جا لیٹی، چہرہ ہر احساس سے عاری تھا۔

وہ خود نہیں جانتی تھی کہ اسے کیا ہو گیا ہے تبھی کل وہ خود کو پہچاننے کی ایک بڑی کوشش کا پلین بنا چکی تھی، حارث کے برعکس فاریہ کو کبھی جائیداد ، پیسہ، زیورات کا کوئی لالچ نہ تھا وہ ہمیشہ سے ماں کی لاڈلی رہنے کے باعث غلط راستے کی سمت چلتی آئی تھی۔

کبھی کبھی ماں باپ کے کیے کا پھل انکی بے گناہ اولاد بھگتتی ہے اور ایسا ہی فاریہ اور حارث کے معاملے میں تھا۔

حارث تو پھر بھی بدمعاش اور عیار طبعیت کا مالک تھا اور اسکے کرتوت ہی اسے اسکی پہچان سے بے دخل کر چکے تھے مگر فاریہ صرف اور صرف ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہی تھی۔

تیسری طرف حارث کے ٹوٹے فون کی مرمت ہوتے ہی اسکے فون پر صرف دو نمبرز ہی مل سکے تھے جن میں ایک فاریہ کا تھا اور دوسرا سرور کا۔

اور اتفاق سے ڈاکٹر نے پہلی کال سرور حسین کو ہی ملائی اور اس خبر کو سن کر اس شاطر نے ڈاکٹرز کو اسے جلد لے جانے کا بھرپور یقین دلاتے ہوئے کال کاٹی اور کتنی ہی دیر ہنستا رہا۔

مگر یہ صرف اسکی خام خیالی تھی کہ وہ ایک اور مہرا پا چکا ہے کیونکہ پولیس کے باہمی رابطے کے باعث انھیں ہوسپٹل میں موجود اس یاداشت کھو چکے انسان کی خبر مل چکی تھی اور فجر کے وقت پولیس کے لوگ اس ہوسپٹل، حارث کی پہچان کرنے جانے والے تھے۔

اگلی صبح فجر کا وقت تھا جب پولیس کے کچھ اہل کار اس مشکوک آدمی سے ملنے ہوسپٹل داخل ہوئے وہیں بیرونی راہداری پر کھڑا سرور کا آدمی بھی پولیس کے آنے کی اطلاع سرور تک پہنچا چکا تھا۔

ڈاکٹر کی ٹیم پولیس کو لیے اس مین کمرے کی سمت بڑھی، جہاں مدھم سی روشنی کا راج تھا۔

انسپیکٹر نے اندر داخل ہوتے ہی حارث کو پہنچان لیا تھا جو اس وقت خاص دواوں کے زیر اثر غنودگی میں تھا۔

"یہ اپنی یاداشت کھو بیٹھا ہے سر، ہم نے اسکے جاننے والے کو اطلاع دی تھی مگر ابھی تک کوئی نہیں آیا"

پولیس کے لوگوں کو حارث کیانی پر نظریں جماتے دیکھ کر ڈاکٹر نے اپنے پیشہ ورانہ انداز میں وضاحت دی جس پر دبنگ اور پروقار سے انسپیکٹر زین کے ماتھے پر شکنوں کا جال بن گیا۔

"یہ ہمارے ساتھ جائے گا، اسکی مکمل میڈیکل فائیل تیار کریں اور اس میں وجہ بھی درج ہونی چاہیے کہ اسکے ساتھ کیا ہوا۔ آدھے گھنٹے کے اندر اندر یہ کام نمٹائیں"

زین نے اپنے رعب میں لپٹ کر حکم دیا جس پر وہ لوگ ضروری کاروائی مکمل کرنے باہر نکلے وہیں وہ زین نامی تھانیدار اپنی جیب سے اپنا فون نکال کر کوئی نمبر ملاتا دوسرا ہاتھ جیب میں گھسائے کچھ دور جا کھڑا ہوا۔

آفس میٹنگ روم میں وہ کچھ ڈاکومنٹس سٹڈی کر رہا تھا جب گلاس ٹیبل پر وائبریٹ کرتے فون نے عباد کی توجہ کھینچی۔

"حارث مل گیا ہے عباد صاحب لیکن ایک بُری خبر ہے"

تھانیدار نے صاف گوئی سے معاملہ کہتے ہوئے مصالحتاً چپ اوڑھی جس پر عباد تلملا کر اٹھ کھڑا ہوا۔

چہرے پر لہو چھلک چکا تھا۔

"کیا بری خبر ہے؟"

عباد نے سختی سے استفسار کیا۔

"ایک حادثے میں اسکی یاداشت چلی گئی ہے، وہ کل ہی کومہ سے نکلا ہے شاید۔ کسی ٹرک نے اسے ٹکر ماری تھی، میں اسے یہاں سے اپنی کسٹڈی میں لے جا رہا ہوں، ہم اسکی کنڈیشن کے حساب سے تفتیش شروع کریں گے، آپ دن کو کسی وقت بھی تشریف لے آئیے گا، ہوسکتا آپکو دیکھ کر اسکے دماغ کے بند راستے کھل جائیں"

گویا اس خبر نے عباد کا دل سلگا دیا تھا، پھر سے اپنے لخت جگر سے اتنی دوری پر جا بسا تھا جہاں سے چلا تھا۔

آنکھیں تھیں کہ انہونی کے خوف نے انگارہ کیں۔

"ہوں، ٹھیک ہے میں چکر لگاتا ہوں"

سرسری سا کہہ کر فون بند کیے وہ بے دلی سے اسے کرسی پر پٹختا خود چلتا ہوا گلاس ونڈو تک آیا، کھلی سرسبر آراضی کے پار مدھم مدھم اجالا پھیل رہا تھا مگر عباد حشمت کیانی کی ذات اندھیرے میں اتر رہی تھی۔

"کہاں ہو تم بابا کی جان، یا اللہ مجھے میری اولاد سے ملا دیں۔ یہ تکلیف تو میرا اندر کھا دے گی، مجھے اسکی کوئی تو خبر دے دیں"

یاسیت اور قنوطیت کی انتہا لیے وہ روشنی زمین پر پہنچانے والے رب سے ہمکلام تھا، راتیں تو اسکی نیند سے اور سکون سے عاری تھیں ہی اب لگتا تھا زندگی بھی ہونے والی تھی۔

سرد سی سانس بھرتا وہ اپنے اندر کے غبار کو دبانے کی ادنی کوشش کرتا رہ گیا مگر ذہن و دل پر اترا بانجھ پن سکون کی کاٹ کرتا جا رہا تھا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

بابا کو خاص تاکیدیں کرتی وہ انھیں ٹھیک چار بجے تک سراج بھائی کے آنے کا کہتی گھر سے چادر اوڑھے نکلی تو محلے کی غلیظ نظریں آج اس نے عتاب سے بھری محسوس کی تھیں، ایسے جیسے وہ لوگ اسے نوچ کھانے کو تیار ہوں۔

دادا جان اور احد کی سلامتی کے لیے ان تک غائبانہ دعائیں سونپتی وہ پیلس تو پہنچ گئی مگر اسکا دھیان آج صرف احد اور دادا کی سمت تھا، اس وائیٹ کیانی پیلس میں پھیلی سوگوار سی چپ سے اسے مزید وحشت ہوئی۔

ادا جان کا آج ریگولر چیک اپ تھا تبھی ڈاکٹر آج انکے پاس موجود تھا اور خود منہا انکے لیے تازہ اونج جوس بنانے کچن میں آئی تو یونیفارم میں ملبوس ملازمہ پہلے ہی کسی کا بریک فاسٹ بنا رہی تھی۔

منہا نے اپنا کام خود کیے کچھ تازہ اور فریش مالٹوں کا جوس نکالا اور گلاس میں ڈالا ، ایک گلاس مزید بھی بن گیا تھا کیونکہ مالٹے رس سے خاصے بھرے تھے۔

"عباد سر بھی آج اورنج جوس پیئیں گے، تھینک یو منہا تم نے میری ہیلپ کر دی"

وہ عائشہ نامی ملازمہ بڑی خوش دلی سے عباد کے ناشتے کی ٹرے سجائے گلاس میں جوس ڈالتی ممنون ہوئی تو منہا نے بھی رسان سے مسکراہٹ کا تبادلا کیا اور ادا جان کا جوس لیے واپس انکے کمرے کی سمت ہی جا رہی تھی جب وہ راستے میں ناجانے کہاں سے آکر حائل ہوئے اسکی ٹرے سے اونج جوس اٹھا کر گلاس، ہونٹوں سے لگا چکا تھا۔

منہا نے اس بد تہذیبی پر عباد کو شکائیت بھرے انداز سے دیکھا جو آگے سے محظوظ ہوتا اسے ایک ہی سانس میں پی کر گلاس واپس منہا کے ہاتھ میں پکڑی ٹرے میں رکھتا محترمہ کے تیوروں کو بڑی تفصیل سے جانچنے لگا۔

"جس دن انکا ڈاکٹر مینا کے ساتھ فیزیکل ایکسرسائز سیشن ہوتا ہے وہ جوس نہیں پیتیں، دودھ ود ہنی پیئیں گی کیونکہ ایکسرسائز کے بعد وہ کافی کمزور اور تھکا فیل کرتیں خود کو۔ ایسے میں جوس انکے گرم ہوتے جوائٹس کے لیے مناسب نہیں ہوتا۔ یہ ٹپس تم یاد رکھنا "

سارا موڈ پلوں میں خوشگوار ہوا تھا کیونکہ وہ اسے بہت پیار سے وضاحت دیتا واپس مڑا ہی تھا جب منہا غیر ارادی طور پر ہی اسے بلا بیٹھی۔

"سنیں"

مسکراہٹ دبائے وہ اسی طرح پلٹا اور منہا کے اڑے اڑے رنگ دیکھے۔

"ہاں کہو"

منہا کے پرکشش مگر اداس چہرے کو فوکس کرتا وہ بولا۔

"آج دادوو اور احد آجائیں گے"

ناجانے کیوں مگر وہ یہ کہتے ہوئے کافی بوجھل تھی، عباد مکمل طور پر منہا کے بے جان ہوتے انداز تکتا اسکی جانب مڑا۔

"ٹھیک ہے آج رات ہی تمہیں تمہاری فل ٹائم ڈیوٹی کا بھی علم ہو جائے گا، اور ہاں اپنے دادا کو میری طرف سے شکریہ کہہ دینا میں جلد ان سے ملاقات کروں گا اور تمہارے بیٹے سے بھی"

منہا کے چہرے کو مرکوز کیے وہ اسکی ان کہی بے چینی بھانپتا اسے اطلاع دیے پھر مڑا مگر منہا کا دل چاہا وہ ابھی نہ جائے تبھی پھر پاگلوں کی طرح پکار بیٹھی۔

"بات سنیں"

اس بار عباد حشمت کیانی نے اپنی مسکراہٹ دبانے کی کوشش نہ کیے مکمل مڑ کر سینے پر فرصت سے ہاتھ باندھے منہا سلطان کو دیکھا جو یوں عباد کی توجہ پر بوکھلا سی گئی۔

"آر یو اوکے منہا سلطان؟ کوئی پریشانی یا الجھن ہے تو تم سراج علی سے ڈسکس کر سکتی ہو"

بڑے تحمل سے وہ منہا کو مشورہ تھمائے سنجیدہ ہوا مگر وہ تھوڑی بوجھل ہوئے نظر جھکا گئی۔

"یعنی آپ سے نہیں کہہ سکتی "

لبوں کو کچلتے وہ ہچکچاتی ہوئی منمنائی تھی، عباد نے بڑی تفصیلی نگاہ ڈالے منہا کی سمت دیکھا جو واقعی پریشان سی تھی۔

"اس کے لیے ہمارے بیچ دوستی کا رشتہ ہونا ضروری ہے، میں دوست بناتا تو نہیں لیکن اپنے ٹکر اور معیار کے مخلص لوگ مجھے متاثر کرتے ہیں۔ اگر تمہیں عباد حشمت کیانی کی دوستی قبول ہے تو رات تمہاری اگلی ڈیوٹی کے ساتھ ہم تمہاری یہ فی الحال والی پریشانی بھی ضرور ڈسکس کریں گے۔ ابھی مجھے ضروری کام سے نکلنا ہے، سی یو"

پراعتماد انداز میں وہ منہا کو ساکت سا چھوڑے وہاں سے پلوں میں اوجھل ہوا اور کتنی ہی دیر منہا اسکے گم ہو جاتے سراپے کی سمت ہی تکتی رہی۔

ناجانے کیوں مگر وہ انسان اپنے گرد اک جادوئی حصار لیے آتا تھا، منہا کا دل پہلی بار اتنا بے قرار ہوا تھا۔

اتنے بڑے انسان کے بارے ایسا سوچنا منہا کو جھرجھری میں قید کر گیا، سر جھٹکا پر اف اس دل کا کیا کرتے جو لاکھ جھٹکنے سے بھی ویسا ہی دھڑکتا رہا۔

فوری اپنی منتشر سوچیں سمیٹتی وہ واپس کچن کی سمت بڑھ گئی۔

دوسری طرف آئینے کے سامنے ہوش ربا حسن کی ملکہ کسی پارٹی کے لیے تیار ہو رہی تھی، فاریہ کیانی بلاشبہ ایک حسین اور پیاری لڑکی تھی اس پر جب وہ تھوڑا سج جاتی تو دیکھنے والوں کے لیے دل سنبھالنے مشکل ہو جاتے تھے۔

آج اس نے خود سے عہد لیا تھا کہ وہ سراج علی سے جڑے اپنے خیالات کی وجہ جان کر رہے گی، کیوں اسے سراج علی کے رویے دکھ دے رہے تھے وہ آج آر یا پار کی اس اذیت سے نکلنا چاہتی تھی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"تم لوگ کلب پہنچو میں آرہی ہوں، دراصل اس پیلس میں تم لوگوں کی جان کو ایک درندے سے خطرہ ہے"

فون کان سے لگاتی وہ ٹانگوں سے اٹھی نازیبہ منی ڈریس کے اوپر جیکٹ پہنے جان بوجھ کر گارڈ سے بات کرتے سراج علی کے عین پیچھے آکر کھڑی بولی مگر دھیان اس نے مکمل فون پر دیا، سراج علی پہلے تو اسکے لباس کے اس قدرے نجس ہونے پر اپنا غصہ دباتا ان دو گارڈز کو واپس بھیجے خود ناصرف مڑا بلکے روح فنا کرتی نظر اپنی گاڑی کا ڈور اوپن کرتی فاریہ پر ڈالی اور اسے ایک ہی جھٹکے سے گاڑی سے لگاتا خونخوار آنکھوں سے گھورا۔

مگر فاریہ کے دل کو اخیر ٹھنڈک پہنچی تھی۔

"تمہیں پہننے اوڑھنے کی تمیز بھول گئی ہے، دفع ہو جاو اور ڈھنگ کے کپڑے پہن کر آو۔ میرے ضبط کا امتحان مت لو فاریہ کیانی ایسا نہ ہو آج تم پر میرا ہاتھ اٹھ جائے"

سرخ آنکھوں سے ہی وہ اسے تنبیہہ کرتا اپنی بات باور کروا چکا تھا مگر اثر کرنے کے بجائے وہ آگے سے ڈھیٹ بنی ہنسی تھی جو سراج کے غصے کو مزید بھڑکا گیا۔

اپنے چہرے تک سراج علی کی جھلساتی نظراور غصے سے ہانپی سانس تک سے وہ نہ سمجھ پائی کہ اسکا جواب اسے وہ کئی بار بے بسی سے دے بیٹھا ہے۔

آج وہ دونوں ایک دوسرے کو دو الگ زارویوں سے دیکھ رہے تھے۔

"تمہاری ہمت نہیں یہ کرنے کی، میں جو بھی پہنوں جیسا برا ڈریس پہن کر پارٹی میں جاوں تمہیں اس سے کوئی کنسرن نہیں ہونا چاہیے۔ تم رہو اپنی اس بہن جی ٹائپ منہا کے اردگرد منڈلاتے۔ میں تمہاری غلام نہیں ہوں نہ مجھے فرق پڑتا ہے تمہارے کسی لفظ سے۔ میں تو چاہتی ہوں تم مر جاو تاکہ میری زندگی تو آسان ہو۔ میرا باپ مر چکا ہے، دوسرا باپ بننے کی کوشش مت کرنا آئیندہ "

سراج علی کی سیاہ شرٹ کا گریبان دبوچے وہ نفرت سے اسکی سیاہ آنکھوں میں جھانک کر ایک ایک ستم بڑی فراغ دلی سے ڈھا رہی تھی اور وہ اپنی جگہ پتھر کا وہ بت بنا تھا جسکے مسمار ہونے کو بس فاریہ کی اک مزید ٹھوکر درکار تھی۔

آج اسے واقعی لگا جیسے یہ لڑکی واقعی صرف نفرت کے ہی لائق ہے۔

وہ اپنا گریبان فاریہ کے ہاتھوں سے چھڑواتا اس پر اک سوہان روح نگاہ ڈالے دو قدم دور ہوا۔

فاریہ کیانی کا دل کانپا تھا، یقینا کانپا تھا۔

جواب مل رہے تھے اور کچھ ملنے باقی تھے۔

"کلب جا رہی ہوں اپنے سب دوستوں کے ساتھ، رات لیٹ ہو جاوں گی مما کو بتا دینا"

بنا سراج علی کی مزید آنکھیں تکتی وہ گاڑی میں جا بیٹھی، سراج علی نے اپنی آنکھیں اس منظر سے ہٹا کر بند کیں، وہ جا چکی تھی مگر سراج علی کی آنکھوں میں تکلیف کا جہاں اترا تھا وہ بھی اسے دبانا پڑا کیونکہ عباد پوری تیاری کے سنگ بیرونی فیصل عبور کرتا پورچ ہی کی سمت آرہا تھا۔

اس وقت سراج علی کمزور پڑنا افورڈ نہیں کر سکتا تھا تبھی بھائی کے قریب پہنچتے ہی ساتھ جانے کو لپکا مگر عباد نے اسکا کندھا جکڑے اپنی سمت موڑا۔

"تم یہیں رکو، منہا کے دادا اور اسکے بیٹے کو انکے گھر سے لاو گے یہاں۔ دوسرا کام تمہارا فاریہ پر نظر رکھنا ہے، جس طرح وہ نمائش کی دکان بنے نکلی ہے اس پیلس کی عزت ساتھ گئی ہے اسکے۔۔۔۔۔ میں تھانے کے معاملات خود دیکھتا ہوں"

عباد نے اس وقت پہلے سے کمزور ہوتے سراج کو کچھ پوچھ کر مزید نڈھال نہ کیے کچھ اہم کام سونپے اور اپنے گارڈز کے سنگ باوقار سراپے اور چال کے ساتھ اپنی گاڑی کی سمت لپک گیا۔

جبکہ سراج علی اس وقت صرف سرد سانس ہی کھینچ سکا جو دل پر زخم اور آتش ایک ساتھ پہنچا رہی تھی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

ہاتھوں میں بیڑیاں اور جھکے سر کے ساتھ وہ انویسٹیگیشن روم میں شیشے کی دیوار کے اس پار سر ڈھلکائے بیٹھا تھا، سامنے ہی اپنا طیش ضبط کرتا عباد جسکا بس نہ چلا وہ حارث کیانی کے اس وجود کے چیتھڑے اڑا دے، زین خود کڑی نظر گاڑے حارث کی صورت حال پر نظر جمائے تھا۔

اندر دو کانسٹیبل حارث سے سرسری تفتیش کر رہے تھے۔

"وہ بچہ یاد ہے مجھے، یہ نہیں جانتا وہ کون تھا۔ وہ لڑکی بھی یاد ہے جو اسے لے گئی تھی، مم میں کون ہوں خدا کے لیے مجھے بتاو، تم لوگ کون ہو اور مجھے کیوں باندھ رکھا ہے۔ م۔۔میرے سر میں بہت بھیانک درد ہیں مجھے چھوڑ دو"

سخت تکلیف اور اذیت سے وہ یہ بیان دے رہا تھا جس پر عباد کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور وہ بپھری موج بنا انویسٹیگیشن روم میں داخل ہوتے ہی حارث کو گریبان سے گھسیٹے اسے زمین پر اس ظالمانہ انداز سے پٹخ چکا تھا کہ اس اچانک حملے پر حارث کے حلق سے دلخراش چینخ ابھری۔

غیض و غضب کے سنگ اسکے پہلے سے زخمی وجود کو در پے در لاتیں اور ٹھوکریں ماریں، یہ تو انسپیکٹر زین بروقت پہنچ کر اس بپھرے جن کو قابو کر گیا ورنہ آج عباد اسکی جان لے کر ہی دم لیتا۔

"حرام زادے اس دن کے لیے تجھے ہر عیش کرنے کی اجازت دی تھی میں نے کہ تو مجھے ہی ڈنگ مارے، خدا کی قسم اگر مجھے ایک خون معاف ہوتا تو تیری چمڑی ادھیڑ کر تیرا یہ ظالم سینہ سل کر رکھ دیتا۔ میرا معصوم بچہ، کیا بگاڑا تھا اس نے تیرا وحشی ماں کے وحشی درندے، میں تیرے حلق سے، تیری دماغ کی رگوں سے بھی سچ نکال کر دم لوں گا"

عباد کا جان لیوا جلال اس وقت تھانے کے ہر آدمی کو سنسنی میں مبتلا کر گیا مگر حارث سسکتا اور بلکتا بس زمین پر تڑپ رہا تھا، اسے یہ تک سمجھ نہ آئی کہ اس پر یہ وحشیانہ حملہ کیوں ہوا ہے۔

"کام ڈاون عباد صاحب، جوش سے نہیں پلیز ہوش سے کام لیں۔ آئیں میرے ساتھ"

کسی بھی طرح عباد کو قائل کرتا وہ باہر لایا جو دم دینے کی اذیت میں تھا، اپنوں کے گھاو سہتے سہتے اسکا سینہ پھٹنے کے دہانے پر تھا مگر یہ لوگ تھے کہ اسکی نازک طبعیت پر ستم ڈھاتے جا رہے تھے۔

اگر اس وقت کوئی عباد کو دیکھ لیتا تو یقینا اسکے عتاب سے خوف کھا جاتا۔

"وہ میری معصوم اولاد جسے میں نے دیکھا تک نہیں انسپیکٹر، کیسے ہوش کروں آخر۔ جلد از جلد اس مردود کی یاداشت واپس لاو ۔ اسکو بجلی کے جھٹکے لگاو یا جو بھی۔ میرا بچہ ناجانے کہاں ہوگا، اس سے پہلے کہ میں اس کی جان لے لوں تم بس اس سے سچ اگلواو، زیادہ وقت نہیں دوں گا ۔ گل مینے کے چالیسویں سے پہلے پہلے مجھے اسکے قاتل ڈھونڈنے ہیں، اسکی امانت تلاش کرنی ہے۔۔۔۔ تم سن رہے ہو انسپیکٹر"

اپنے تحکمانہ لہجے کو ہر صورت مضبوط کرتا وہ غصے اور حقارت سے مڑ کر غرایا تھا، جس پر انسپیکٹر فوری سر ہلا چکا تھا۔

"مجھے لگتا ہے اسکی یاداشت سے ہی وہ معاملہ بھی جڑا ہے، مانیں نہ مانیں یہ بھی آپکے کسی قریبی ہی کا وار ہے۔ ہم اپنی ہر ممکنہ کوشش کر رہے ہیں ان شاء اللہ آپکو جلد رزلٹ دیں گے"

زرا محتاط لہجہ اپنائے زین نے اپنے خدشات کے ساتھ ساتھ یقین دہانی بھی دی جس پر عباد جبڑے بھینچتا تلملاتا ہوا تھانے سے نکل گیا، دل و دماغ ہر شے کو آگ لگا کر بھسم کر دینا چاہتے تھے۔

آفس پہنچ کر ساری میٹنگز کیسنل کرتا وہ بس تکلیف میں خود سے ہی جنگ لڑتا رہا۔

دوسری طرف سراج ٹھیک شام چار بجے منہا کے دیے پتے پر پہنچ گیا تھا، اسکو منہا نے سمجھا کر بھیجا تھا کہ اگر محلے کا کوئی اس سے پوچھے تو وہ کہے کہ وہ اسکی بہن کا شوہر ہے۔

تبھی اسی شہباز نامی دیہاتی آدمی سے سراج کا ٹاکرا ہوا جس کو آجکل معظم صاحب کے گھر کی ٹوہ لینے کا شوق لاحق تھا۔

"کون ہے ابے تو، کیا لگتا ہے ان تینوں کا"

جاہلانہ طرز سے وہ معظم صاحب کا گھر کے باہر انتظار کر رہا تھا تبھی اس آواز اور ہتک آمیز لہجے پر چونک کر مڑا۔

"والی وارث ہوں، کوئی اعتراض"

سراج ایسے لوگوں سے ڈیل کرنا خوب جانتا تھا اور اسکی بات نے اس آدمی کو سہی کرارہ اور ٹکا جواب دے دیا تھا۔

"واہ بھئی، ایک دم سے ان سفید پوشوں کے والی وارث بھی نکل آئے۔ پہلے یہ بچہ آیا اور اب بچے کا کچھ لگتا بھی۔ لے جا ان نحوستوں کو ویسے بھی یہ عزت دار بستی ہے، خس کم جہاں پاک"

وہ آدمی اپنی نفرت تو انڈیل گیا تھا پر سراج کو تشویش میں مبتلا کر گیا، خاص کر وہ اس آدمی کی ٹون اور الزام تراشی جیسی باتوں پر کسی سوچ میں اتر چکا تھا مگر معظم صاحب کے احد کو اٹھا کر باہر آنے پر وہ اپنے خیالات سے نکلا، نظر اس کیوٹ سے کمبل میں پیک احد پر گئی تو وہ ناچاہتے ہوئے بھی جھک کر اسکی پیشانی چومتا مودب ہوئے معظم صاحب سے سر پر دست پھراتا انھیں احتیاط سے لیے محلے سے نکلا، سارا رستہ لوگ انھیں کھا جانے والی آنکھوں سے دیکھتے رہے۔

لیکن سراج اپنے تمام شکوک وشبہات منہا سے خود فرصت سے ڈسکس کرنے کا ارادہ کر چکا تھا۔

پیلس تک کا سفر سراج ان سے ہلکی پھلکی باتیں کرتا رہا اور وہ لوگ پیلس کے دوسرے دروازے سے اندر داخل ہوئے جو خود ایک شاہانہ چھوٹا سا گھر تھا، آغاز میں ہی باغیچہ تھا اور پھر گھر جسکی منہا نے صفائی مزید کروا دی تھی، ویسے تو پہلے ہی یہاں گرد کا نام و نشان نہ تھا۔

دادوو اور احد کو پیار کرتی وہ سراج کے ساتھ ہی لان تک آئی جو اسے ممنون نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

"تھینک یو سو مچ سراج بھائی ، آپ کا کون کون سا احسان سنبھالوں"

اسے منہا کا مشکور ہونا پسند نہ تھا بلکہ آج تو منہا نے محسوس کیا تھا جیسے وہ تھوڑا پریشان ہے۔

"بھائی احسان نہیں کیا کرتے بلکے یہ فرض ہوتا انکا، تمہارا محلہ واقعی اس قابل نہیں تھا کہ تم سب مزید وہاں رہتے منہا۔ تھینگ گارڈ کہ تم سب ایک اچھی اور قابل جگہ پہنچ آئے۔ یہاں ساری سہولتیں ہیں، کسی بھی چیز کی کمی ہو تو تم مجھے بتانا۔ تمہارے دادا آج سے میرے بھی بزرگ ہیں لہذا کبھی کبھی انکا دل بہلانے آتا رہوں گا۔ باقی تمہارا احد تو ہے ہی پیارا"

رسانیت سے وہ منہا کو اپنا مزید گرویدہ کرتا واقعی آج بھائی سے بڑھ کر لگا، محلے والی بات پر تو منہا کا ویسے ہی کلیجہ کٹا۔

"آپ سلامت رہیں بھائی"

منہا سے کچھ بولا نہ جا رہا تھا اور وہ نم آنکھوں سے بس یہی کہہ سکی جس پر وہ اسکے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھتا وہاں سے چلا گیا۔

اسے فاریہ کی نگرانی کرنی تھی جسکے لیے وہ اب کلب نکل رہا تھا۔

خود منہا نے سات بجے واپس پیلس جانا تھا مگر تب تک وہ اپنے گڈے کے ساتھ یہ پیارا وقت گزارنے اندر بڑھی۔

وہ چھوٹا سا دو کمروں والا فرنیشد اور بلکل پیلس ہی کی طرح پیارا اور روشن گھر تھا، ایک طرف اوپن کچن اور دوسری طرف باتھ۔

چھوٹا سا لاونچ اور سٹڈی کے ساتھ ہی سٹور تھا، ٹی وی بھی تھا، فرشوں پر بہترین قالین تھے، چھتیں فانوس سے بھری تھیں۔

منہا کو کہیں سے بھی وہ سرونٹ کوارٹر نہ لگا ، ایسا لگا وہ چھوٹا سا بنگلہ ہی ہے۔

یہ واقعی سرونٹ کوارٹر نہیں تھا بلکہ عباد حشمت کیانی کی من پسند چھوٹی سی دنیا تھی۔

سونے کے اتنے بڑے پنجرے میں اسکا جب دم گھٹتا تو وہ یہاں آجاتا تھا، بھلے یہ دو لوگوں کی رہائش کا ایک پیارا اور ڈریم ہاوس تھا مگر عباد یہاں آکر سمٹی دیواروں اور کم فاصلے والے کمروں سے انسیت محسوس کرتا۔

اور عباد حشمت کیانی نے بنا سوچے اپنی یہ چھوٹی سی کیانی پیلس کے مخالف سمت بنی سیکور سی جگہ منہا سلطان کو سونپ دی جسکے پیچھے کوئی تو وجہ ضرور تھی۔

جس وجہ کا کھلنا ابھی باقی تھا۔

سات تک وہ دادوو کو پرہیزی کھانا بنا کر دیتی، احد کو فیڈر دیے اسکا ڈائپر اور کپڑے بدل کر دادا کو سونپتی واپس وہیں سے منی دروازے سے پیلس داخل ہوئی جو کچن میں کھلتا تھا، جسکا سراج اسے بتا کر گیا تھا۔

منہا کو آج عباد کا شدت سے انتظار تھا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

لپکتے ، لہکتے، ناچتے کئی لڑکیاں اور لڑکے اس وقت کلب میں جگمگاتی تیز ست رنگی روشیوں میں مست تھے، بیک گراونڈ میں کوئی چیپ سا گانا انتہائی اونچی آواز میں چل رہا تھا۔

ہر ایک کے ہاتھ میں ڈرنکس تھے، کچھ سوفٹ اور کچھ وسکی، فاریہ بھی اپنے دوستوں کے جھرمٹ میں بے دھڑک ہوئے ہنستی ہوئی ناچ رہی تھی۔

اس نے جیکٹ اتار دی تھی جس سے اسکا نازیبہ لباس مزید اسکے وجود کی ساخت واضع کر رہا تھا، یہی نہیں اسکے باقی دوست بھی اس سے برے کپڑے پہنے مست ہو کر ڈانس کر رہے تھے۔

"تم نے کبھی پی ہے ؟"

اسی کا ہم عمر نشے میں دھت دوست ڈرنک کا گلاس لہرائے فاریہ سے پوچھ رہا تھا جس پر وہ اسکے ہاتھ میں پکڑے گلاس کو دیکھتی بنا سوچے اس سے جھپٹ گئی۔

کیونکہ کچھ فاصلے پر وہ سراج علی کو کلب میں داخل ہوتا دیکھ چکی تھی۔

"تم کہتے ہو تو یہ لو۔۔۔۔۔۔پی لی"

اس اوباش اور موالی خلیے والے لڑکے کے سینے پر ہاتھ رکھتی وہ مدہوش ہوئے وہ گلاس لبوں سے لگا چکی تھی جس پر وہ لڑکا متاثر کن ہنسے فاریہ کی کمر اس سے پہلے ٹچ بھی کرتا، کچھ ٹوٹنے کی آواز آئی اور اس لڑکے کی ہیبت ناک دھاڑ گونجی، سراج علی اسکی وہ بازو توڑ کر اسے زمین پر دھکا دے چکا تھا۔

فاریہ اس سے پہلے ہی وہ گندی سمیل والا مشروب پیے منہ کے برے زاویے بناتی سراج کو دھکا دیتے پیچھے ہٹی، کلب میں ناچتے لوگ تھم چکے تھے، زمین پر تڑپتے اس لڑکے کو کلب کے لوگ اٹھا کر لے جا چکے تھے کیونکہ سراج علی ہر ایک کو جہنم واصل کر دینے کے تیور لیے تھا۔

"ت۔۔۔۔تم آگئے، م۔۔۔مجھے پتا تھا"

وہ مزید ویٹر سے وائن کا گلاس لیتی پینے کی کوشش میں لہکتی ہوئی بولی مگر سراج اسے اپنے حصار میں لیے اس سے گلاس لے کر واپس اسی ٹرے میں رکھ چکا تھا۔

پیچھے چلتا میوزک مزید تیز ہو چکا تھا اور وہ جو سراج کے سینے سے سر ٹیکے مشکل مشکل سانس بھر رہی تھی یوں لگا گرنے کو تھی، سراج نے اسکا جھکا سر اٹھائے خود کی سمت کیا جسکی آنکھیں سرخ ہونا شروع ہو چکی تھیں، فاریہ کی ایسی حالت سراج علی کی روح نکال رہی تھی۔

"چلو یہاں سے فاریہ"

اسے ساتھ ہی لگائے ُ وہ اس جھرمٹ سے نکال کر جب تک باہر گاڑی تک لایا وہ مکمل طور پر حواس سے نکل چکی تھی، اپنی جیکٹ اتارے وہ ایک بازو اسکے گرد ہی باندھے اسکی برہنہ بازو اور جسم چھپانے کو اسکے گرد ڈالتا اسکے سینے سے لگ کر تیز تیز سانس لینے کو محسوس کرتا گاڑی کھولنے کو جھکا تو فاریہ نے اسکے سینے سے سر اٹھائے اسکی متورم اور تکلیف میں ڈوبی آنکھیں دیکھیں۔

"ا۔۔۔۔اس نے م۔۔مجھے ٹچ کرنا چاہا، تم نے ا۔۔۔اسے مارا۔ کیوں، کیوں آئے تم"

وائن کا اثر تھا کہ وہ اپنے ہوش میں نہ تھی ورنہ سراج علی کے اتنے قریب وہ خود کیسے آسکتی تھی، وہ تو پتھر کا مجسمہ تھا۔

بنا کچھ بولے وہ اسے زبردستی گاڑی میں بیٹھائے بند کرتا گہرا سانس بھرے دوسری طرف سے آکر بیٹھا تو وہ سر سیٹ سے ٹیکے اسکی ہی طرف مدہوش آنکھوں سے دیکھ رہی تھی، سراج اپنے دل کو کٹنے سے روک نہ سکا۔

گاڑی کا دروازہ بند کیے فاریہ کی سمت جھک کر اسکا سیٹ بیلڈ باندھنا چاہا مگر وہ اسے ٹیک چھوڑے گریبان سے پکڑے خود پر جھکا گئی، وہ بھی اگر سیٹ کا سہارا نہ لیتا تو شاید دونوں کے چہرے ٹکرا جاتے۔

"بولتے کیوں نہیں، ک۔۔۔کیوں جان نہیں چ۔۔چھوڑتے میری۔۔۔۔۔۔"

وہ اس وقت جس حالت میں تھی سراج خود پر بہت مشکل سے جبر کیے تھا، آج دل خوامخواہ ساری حدیں پار کر لینے پر بے خود ہوا۔

وہ سر تا پا اسکی محبت ہو کر اسکے لیے جیسے دل ہی دل میں تڑپ رہی تھی یہ سراج علی کے حوصلے پر کاری وار تھا۔

"کیوں ہاتھ لگایا تم نے اس حرام چیز کو، نفرت ہو رہی ہے مجھے تم سے۔ تمہارا دل پہلے کم ناپاک تھا فاریہ جو یہ زہر بھی خود میں انڈیل آئی ہو، کاش میرے پاس حق ہوتا تمہیں اس کی کڑی سزا دینے کا۔ چھوڑو"

سرخ گوشوں والی آنکھیں لیے وہ فاریہ کو نفرت سے جتاتا اسکے ڈھیلے پڑتے ہاتھوں سے گریبان چھڑوائے واپس اپنی نشست پر ٹکا مگر فاریہ کی آنکھیں پلوں میں بھیگیں۔

"تم جب کسی اور کے آس پاس جاتے ہو تو دل جل۔۔۔جلتا ہے ناں میرا، م۔۔۔مجھ سے نفرت نہ کرو ۔ مم۔۔میں مر جاوں گی۔ در۔۔۔درد ہوتا دل میں"

سٹیرینگ پر سراج کا رکھا ہاتھ تھامے وہ اسکی گود میں ہی دہری ہوئے جا لیٹی، کوٹ تو وہ پہلے ہی اتر گیا، سراج علی نے اسکی یہ باتیں تو سہن کر لیں مگر جس طرح وہ اسکا ہاتھ جکڑے ہوئے آنسو بہا رہی تھی یہ دل کے ہر احساس کو کاٹ گیا۔

اسے لگا جیسے یہ سب اس غلیظ چیز کا اثر ہے، اب وہ فاریہ کے کسی انداز سے دھوکہ نہ کھانے کا فیصلہ لے چکا تھا۔

"یہ سب اس گند کو اندر انڈیلنے کا اثر ہے فاریہ بی بی، اب تو تم مرو یا جیو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اٹھو یہاں سے اور انسانوں کی طرح بیٹھو"

اپنا ہاتھ اسکے سرد برف کی طرح یخ ہاتھوں سے کھینچتا وہ اسے اٹھ جانے کا سختی سے حکم دیتا آج واقعی کٹھور لگا تبھی وہ بھی اپنی آنکھیں رگڑتی اٹھ کر واپس بیٹھی اور سر سیٹ سے ٹکا دیا۔

سراج اسکی سمت دیکھے بنا گاڑی چلا چکا تھا مگر آنکھیں تھیں کہ دھندلاتی جا رہی تھیں۔

"سراج۔۔۔۔۔"

دلخراش آواز لیے وہ جب بولی تو آواز گھٹ سی گئی، سراج کے ہاتھوں کو بریک لگی، گاڑی جھٹکے سے رکی۔

مگر وہ رخ موڑ لینے کی ہمت کہاں سے لائے یہ مشکل تھی۔

"مم۔۔میں ٹوٹ رہی ہوں اندر ہی اندر، ت۔۔تم میرے سوا تو کسی کو دیکھتے ن۔۔۔نہیں تھے ناں۔ اب ۔۔۔۔اب بھی نہ دیکھو مجھے تکلیف ہوتی ہے، سراج علی سنو ناں مجھے"

اسکی اور لپکتی وہ اسکے موڑے چہرے کو ہزار ہا اپنی سمت موڑتے دلسوزی سے سسکتی رہی پر وہ پتھر بنا اپنے گریز پر قائم رہا۔

"انف از انف، اپنی یہ بکواس بند کرو فاریہ ۔۔۔ نہیں یقین مجھے اب تم پر، بہت سہہ لیا اپنی تذلیل کو۔ اب تمہیں تڑپاوں گا، تم ٹوٹ جاو یا بکھر جاو میری بلا سے۔۔۔۔۔۔ سراج علی تمہیں نہیں سنے گا۔ آئی ہیٹ یو فاریہ کیانی، شدید نفرت۔۔۔۔۔۔ ایسا ل۔۔لگتا ہے اگر دل تمہارے لیے ایک بار بھی اور دھڑکا تو اس پر تاعمر کی جنہم واجب ہو جائے گی"

اپنی سمت سے وہ شاید پہلی بار پھٹ پڑا تھا پر آج اسے فاریہ کے یہ آنسو اس بدحواس حالت میں جھوٹے لگے تھے۔

وہ اسکے کندھے سے ہی لگی اپنے نرم ہاتھ کو اسکی گال سے جوڑے رہی، اس حسرت اور آس میں کہ وہ اسکی سمت دیکھ کر اپنے کہے لفظ واپس لے لے گا مگر پیلس آنے تک وہ فاریہ سے بھاگتا رہا۔

خود پر مسلط ہوتی فاریہ سے دامن بچاتا باہر نکلا اور دوسری طرف سے اسکا بازو پکڑے باہر لایا تو وہ کھڑے ہونے کی کوشش میں ڈگمگائی، ہاتھوں میں سراج کی شرٹ خود ساختہ جکڑی اور وہ آنکھیں آن ملیں۔

"میری تکلیف محسوس نہیں ہوئی تمہیں، میں خود انجان تھی کہ کون ہو تم میرے۔ م۔۔۔مجھ سے نفرت نہ کرو ناں، تم مجھے خود سے ک۔۔۔کیسے اتار کر پھینک رہے، مت چھوڑو س۔۔سراج علی"

اس وقت سراج کی ساری ہمت ختم تھی، اس لڑکی نے اسے کسی قابل نہ چھوڑا تھا، وہ گارڈ کو اندر سے ناجیہ کو بلوانےکا اشارہ کرتاخود پیچھے ہٹا مگر ہاتھ بڑھائے اسکے شانے کو تھامے رکھا کہ کہیں وہ گر نہ جائے۔

سراج کی پھیری نظر فاریہ کی جان لے رہی تھی۔

"جو تم نے آج کیا اسکے بعد تم ممنوع ہو گئی میرے لیے، کیا یہی طریقہ رہ گیا تھا مجھے انتہائی اذیت دینے کا۔ جتنے زخم تم نے مجھے لگا دیے ہیں وہ کب بھریں کچھ خبر نہیں۔ جانتا ہوں صبح ہوتے ہی تم پھر سے وہی سفاک روپ دھار لو گی جو تم ہو۔۔۔۔ ایسی دوغلی تکلیف کو میں اہمیت نہیں دیتا، ایسا اظہار جو ایک حرام چیز پینے کے بعد کیا جائے حرام ترین ہوتا ہے"

وہ صاف صاف لفظوں میں دامن کھینچ گیا تھا پر اسکی آنکھیں فاریہ کو سب سچ کہہ رہیں تھیں، اندر سے آتی ملازمہ ناجیہ کے کہنے پر پہنچی جسکے ہاتھ میں سراج اسکا ہاتھ تھما تو گیا مگر فاریہ نے روتے ہوئے جبراً ہی سراج کا ہاتھ اس شدت سے جکڑا کہ رگیں ابھر آئیں۔

"آئی لوو یو آئی سوئیر، تم۔۔تم کہو ناں اسے میں اس سے دور نہیں جانا چاہتی۔ "

فاریہ کی یہ بات ملازمہ کو بھی جھٹکا دے گئی وہیں سراج کی آنکھیں فاریہ کے اس ستم پر مزید شعلہ ہوئیں۔

"چلیں میم، آپکی طبعیت ٹھیک نہیں"

عائشہ نے ہی سراج کے کہنے پر معاملہ سنبھالے اسکا ہاتھ سراج کے ہاتھ سے چھڑوایا اور لیے اندر تو بڑھی مگر وہ بے سدھ سی ہوئے وہیں عائشہ کی بازو میں ہی لہرائی جب اسکی چینخ پر سراج غیر ارادی طور پر دوڑ کر اس زمین پر گر کر بے جان ہوتی فاریہ تک پہنچا، اسکی آنکھوں میں تیرتی نمی فاریہ کے ہونٹ پر جا گری۔

فوری اسے بازووں میں بھرتا وہ پیلس میں داخل ہوا، فاریہ کے روم تک پہنچے اسے آہستگی سے بیڈ پر لٹایا اور ملازمہ کی سمت مڑا۔

"اس نے جو باہر کہا وہ تم کسی کو نہیں کہو گی عائشہ، ورنہ تمہاری جان لے لوں گا۔ اب رکو اسکے پاس میں ڈاکٹر کو لاتا ہوں۔ ہلنا مت یہاں سے"

ایک ہی غراتی دھمکی سے وہ عائشہ کو وارننگ دیتا باہر نکلا تو وہ بھی حراساں سی ہوئے پاس ہی ٹکی، لحاف کھول کر فاریہ کے لباس کو چھپانے کو اس پر کروایا۔

ناجیہ خود بیقراری سے کمرے میں داخل ہوئی تو عائشہ نے اسے صرف اسکے ڈرنک کا ہی بتایا جس پر ناجیہ اپنا سر تھام گئی۔

"اس لڑکی کا کیا کروں میں، اچھا تم رات اسکے پاس ہی رہنا۔ سراج علی ڈاکٹر لاتا ہے، میڈیسن سے بہتر ہو جائے گی۔ میری صبح این جیو کی خواتین سے میٹنگ ہے تو مجھے جلدی سونا ہے"

اس سفاک عورت کو اپنی اولاد کی زرا جو قدر اور فکر تھی، وہ منصوعی پیار دیکھاتی چلی گئی تھی، کچھ ہی دیر میں سراج ڈاکٹر کے ساتھ آچکا تھا۔

فاریہ کا معائنہ کیے وہ اسے کوئی انجیکشن دیتا خود پریشان کھڑے سراج تک پہنچا۔

"الکوحل کے سائیڈ ایفیکٹ ہیں ، شاید پہلی بار لی ہے۔ اسکے علاوہ دماغی طور پر ڈسٹرب لگ رہی ہے۔ انجکشن دے دیا ہے صبح تک بہتر ہو جائے گی۔ بخار ہو گیا تو ٹھنڈی پٹیاں کر دیجئے گا"

اپنی کائنات کے تھم جانے کے بعد یہ ایک اور اعصاب پر بھاری خبر سراج کو توڑ پھوڑ گئی تھی۔

ڈاکٹر کو عائشہ کے ساتھ رخصت کرتا وہ خود بیڈ کے قریب آیا اور اک آزردہ نگاہ فاریہ پر ڈالی۔

آج جیسے وہ اسکے لیے تڑپ رہی تھی یہ اسے بھی تکلیف کی انتہا سے ملوا گیا۔

"آہ فاریہ آہ، تم کیوں م۔۔میری جان لینے پر تُلی ہو"

بھاری مضبوط آواز کرچیوں میں بٹ گئی تھی، وہ مزید یہاں نہ رک سکتا تھا تبھی باہر نکل گیا، عائشہ کو اسکی رات بھر دیکھ بھال کی تاکید کرتا وہ خود شاید آج اپنی تکلیف بانٹنے کوئی کندھا ڈھونڈنا چاہتا تھا کیونکہ اسکے دل پر بھی آج کئی آنسو درج ہو چکے تھے جنکو بہانا بہت اہم ہو گیا تھا تبھی اس نے بنا سوچے منہا کے دادا کے پاس جانے کا فیصلہ لیا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"تمہیں عباد سر بلا رہے ہیں"

وہ جو ابھی ہی ادا جان کی رات کی میڈیسن کے لیے دودھ بوائیل کر رہی تھی، عائشہ کے آکر اطلاع دینے پر سر ہلاتی دودھ کا گلاس پکڑے کچن سے نکلتی ہوئی ادا جان کے کمرے تک پہنچی جو حسبِ توقع کسی کتاب کو پڑھنے میں محو تھیں۔

منہا پر نظر پڑتے ہی انکی آنکھوں میں نرمی اتر آئی۔

"میں نے سنا ہے تمہارا بیٹا اور دادا آگئے ہیں، اب تو رات ہو گئی مگر کل تم اسے میرے پاس لاو گی ناں"

کتاب بے دلی سے ایک طرف رکھے وہ حسرت کے سنگ منہا کے پاس آکر میڈیسن دینے اور گلاس تھمانے پر مسکرائی۔

"ضرور لاوں گی ادا صاحبہ، آپ میڈیسن لے لیں"

رسان سے ہامی بھرتی وہ محسوس کر رہی تھی جیسے وہ بزرگ عورت جی سی اٹھی ہوں۔

منہا انکو سونے کے لیے تکیہ نکال کر آرام سے ٹیک لگواتی مڑی ہی جب ادا جان نے اسکا نازک ہاتھ جکڑے روکا۔

"کچھ چاہیے آپکو؟"

ادا جان کے بیقرار چہرے کو تکتی وہ نرمی سے ان سے استفسار کرتی بولی مگر ناجانے کیا تھا کہ وہ ٹال گئیں، ہاتھ بڑھا کر منہا کی گال سہلائی اور اسے آرام کرنے بھیجا۔

مین لائیٹ آف کیے وہ اس پیارے سے کمرے سے نکلتی دروازہ بند کیے عباد کے آفس کی سمت بڑھی مگر یکدم ہی اسکے قدم تھم گئے۔

ناجانے کیوں مگر دل پہلی بار یوں ہچکچاہٹ میں تھا، مگر کہیں دل کے نہاں خانے میں کوئی احساسِ فرحت بھی تھا۔

گرے شارٹ قمیص اور وائیٹ پاجامے پر نفاست سے اوڑھا دوپٹہ درست کرتی وہ آخر عباد کے آفس روم تک پہنچی، ہلکا سا دبایا تو وہ کھل گیا۔

سامنے ہی وہ ٹیبل پر لیپ ٹاپ رکھے رولنگ چئیر پر بیٹھا کسی کام میں منہمک تھا جب منہا کے آنے کی آہٹ پر مکمل متوجہ ہوا۔

"آو منہا، تمہارا ہی ویٹ کر رہا تھا"

لیپ ٹاپ بند کرتا وہ کرسی سے اٹھ کر منہا تک پہنچا جو متذبذب سی معلوم ہوئی، یکدم ہی اس شخص کی ساری توجہ دے دینا اسے آج کچھ زیادہ ہی پیارا لگا۔

"جی کہیں"

نظر جما کر وہ منتظر بولی۔

پر عباد حشمت کیانی اس جواب کے بعد اسکا سر تا پا اک بھرپور جائزہ لیتا دو قدم پیچھے ہٹا اور اسکے یوں دیکھنے پر وہ تھوڑی سٹپٹائی۔

"سب سے پہلے کل تم عائشہ کے ساتھ مال جاو اور جیسی ڈریسنگ وہ کرتی ویسے چند جوڑے لو۔ تھوڑا گروم کرو خود کو یہ میری ذاتی رائے ہے کہ جیسا دیس ہو ویسا بھیس بدلنے میں کوئی قباحت نہیں"

اپنے مشرقی خلیے پر عباد کا اعتراض وہ خفگی سے مسترد کر چکی تھی اور عباد کی چھٹی حس اسے بتا چکی تھی کہ محترمہ میں دوڑا پڑنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔

"کیا خرابی ہے میرے خلیے میں، مجھے آپکی یہ بات بہت بُری لگی"

بے خوفی سے وہ عباد کو انکار کرتی سرد مہری سے بولی مگر مقابل کے انداز ہنوز ویسے ہی رہے۔

"خرابی نہیں ہے منہا سلطان مگر خود کو وقت اور حالات کے مطابق ڈھالنا ہی بہترین ہوتا، عائشہ تمہیں سیلون بھی لے جائے گی، تھوڑی بدلو تاکہ مزید کانفیڈنس آئے تم میں"

وہ اسکا اس قدر گہرا جائزہ اور یہ تجویز کیوں دے رہا تھا، ایک پل وہ سر تا پیر گھومی۔

مقابل نے منہا کی ناپسندیدگی بغور محسوس کی تبھی مزید بولنے کو تیار ہوا ہی تھا کہ منہا کے کہے لفظوں نے عباد کو نہ صرف خاموش کیا بلکے سنجیدہ بھی کیا۔

"آپ مجھے کائنڈلی بتائیں گے کہ کیا جاب ہے میری، آپکو کوئی حق نہیں کہ آپ میری ذاتیات میں داخل ہوں۔ میں جیسی ہوں ویسی ہی ٹھیک ہوں"

منہا کے بھڑک اٹھنے پر عباد کے چہرے پر بھی تناو آیا، بھلے وہ مخلص اور وفادار لڑکی تھی مگر جذباتی بھی تھی۔

"پہلے تم اس جاب کے لیے گروم ہو جاو دین بتاوں گا، آو بیٹھو اور صبح جو سوال چھوڑ کر گیا تھا اسکا جواب دو"

شاید منہا سلطان وہ واحد تھی جسے عباد رعایت دیتا تھا، تبھی ہر معاملے کو چھوڑے وہ سٹنگ ایریا کی سمت بڑھا اور صوفے پر بیٹھتے ہی منہا کو بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا جس پر وہ چارو نا چار آکر بیٹھی، نظر جھکائے رکھی مگر اسکے نظر جھکانے نے عباد کو بے چین کیا تھا۔

سر تا پیر وہ نازک سی لڑکی کہیں اندر ہی اندر الجھی تھی اور یہ بات عباد دیکھ کر ہی جان گیا۔

"منہا سلطان میری طرف دیکھو"

مسلسل منہا کے نظر جھکانے پر وہ تپ کر غرایا تو منہا بھی فوری سر اٹھاتی روہانسی ہوئی۔

"ریلکس، میں تمہیں ڈانٹ نہیں رہا۔ بتاو کیا پریشانی ہے۔ مے بی کچھ ہلپ کر سکوں"

پرسکون ہو کر بیٹھا وہ اس بار نرم لہجے میں پوچھ رہا تھا جس پر منہا نے غائب دماغی سے اسے دیکھا جو اتنی توجہ اور دھیان سمیٹے دیکھ رہا تھا کہ وہ دل تک کچھ بیقرار ہوئی۔

"وہ فاریہ میم، انھیں لگتا ہے میں یہاں کے مردوں پر ڈورے ڈالتی۔ کل انہوں نے مجھے اتنی باتیں سنا دیں، اگر وہ میرے دادا کو یہ سب کہہ کر ہرٹ کر گئیں تو میں برداشت نہیں کروں گی۔ آپ کی کزن ہیں وہ تو آپ انھیں سمجھا دیں میں یہاں صرف جاب کرتی"

منہا نے یہ تو کہنا نہیں تھا مگر وہ سمجھ نہ پائی کہ وہ کیوں ہر بات بھول گئی ہے، عباد نے سنجیدگی سے اسکی بات سنی اور کچھ دیر خاموش ہوئے اسکے دیکھتا رہا جو بہت زیادہ عجیب محسوس ہو رہی تھی۔

"سراج علی دیکھ لے گا اسے، وہ تمہارے دادا تک یہ واہیات سوچیں اگلنے کی جرت نہیں کرے گی۔ لہذا تم ریلکس رہو"

پلوں میں وہ اسے لاجواب کرتا منہا کو ساکت کر گیا تھا، وہ سمجھ نہ پائی اب کیا کہے۔

"اور کوئی پریشانی؟"

منہا کو کھویا ہوا دیکھ کر وہ پھر سے اسے متوجہ کرتا بولا۔

"نہیں"

یک لفظی جواب دیتی وہ اسکی نظروں سے فرار کیے اٹھ کھڑی ہوئی، عباد ہنوز آرام دہ انداز سے بیٹھا اسے ہی جانچتا رہا۔

"بیٹھو واپس"

نرم سا حکم اس بار سخت ہوا تو منہا واپس بیٹھی عباد کی طرف دیکھنے لگی جو اس وقت شدید سنجیدہ تھا۔

"میں دوست ہوں آج سے تمہارا، سراج یہاں مددگار اور ہمدرد ہے تمہارا۔ لہذا کوئی بات بھی ہو تم آکر ڈسکس کر سکتی ہو۔ کلئیر"

عباد کے اسکی آنکھوں میں تک کر سمجھانے پر وہ مبہم سا مسکرا دی کہ اسے خود بھی پتا نہ چلا کہ وہ کتنی پیاری لگی اس لمحہ۔

"مجھے گہرا نیلا رنگ پسند ہے"

کچھ دیر منہا کی مسکراتی خاموشی بھانپتا وہ یہ بات کرتے منہا کو بھی چونکا گیا۔

"مطلب"

ہونق بنے سوال آیا۔

مقابل لبوں پر گہرا تبسم پھیلا۔

"مطلب کے کل تم گہرے نیلے ڈریس زیادہ خریدو گی، اور میں مزید کوئی بہانہ نہ سنوں۔ یہ مشرقی لباس تم پر بہت جچتا ہے مگر عائشہ کی طرح تم جینز ، کرتی پر حجاب بھی لے کر اپنا ارمان پورا کر سکتی"

جیب سے سگریٹ نکال کر سلگائے وہ اپنی ہی رو میں حکم سناتا پل بھر میں دھوئیں کا غبار خارج کرتا منہا کے پتھرائے چہرے کی جانب دیکھنے لگا جو پھر سے تپ کرغراتی کھڑی ہوئی۔

"آپ نے مجھے سمجھ کیا لیا ہے، اور کیوں پہنوں میں آپکی پسند کا رنگ۔ وجہ بتانا پسند کریں گے"

سخت تیور لیے وہ استفہامیہ آنکھیں عباد کے مطمئین چہرے پر ڈالے غرائی۔

"ٹھیک ہے تم اپنی پسند کے رنگ لے لینا نو ایشو"

فوری بیان بدلتا وہ اٹھ کر عین منہا کے روبرو آیا جو اسکے منہ سے نکلتے دھوئیں سے ویسے ہی منہ بسورتی گھوری۔

"آپ سگریٹ کیوں پیتے ہیں؟"

یہ سوال وہ ہرگز کرنا نہ چاہتی تھی مگر پوچھ بیٹھی۔

عباد نے فوری مڑ کر اس سلگائے سگریٹ کو ایش ٹرے میں مسل ڈالا، اور چہرے پر مسکراہٹ لیے دوبارہ روبرو ہوا۔

"جب لگتا ہے عباد حشمت کیانی کسی الجھن میں پھنس گیا تبھی بس ایک آدھ کش، زیادہ سے سانس متاثر ہونے لگتی میری، تم ٹرائے کرو گی"

اس طرح کی نمونہ آفر کرتا وہ سراسر مذاق میں تھا اور منہا واقعی منہ کھولے پھٹی آنکھوں سے حیرت کا پوز دیے کیوٹ لگی۔

مطلب اس شخص کو سانس کا کوئی مسئلہ تھا اور تب بھی ڈھیٹ بنا سگریٹ پھونک گیا تھا، جھرجھری لیے وہ اس عجیب شخص پر حیران تھی۔

"استغفر اللّٰه آپکو میں چرسی، بھنگی یا سگریٹ نوش لگتی"

ہول اٹھتی وہ منہ بگھاڑے عباد کے دیکھنے پر نظر جھکاتی گڑبڑائی مگر وہ اس سے محظوظ ہوا۔

" اگر تم عباد حشمت کیانی کی دوست بن گئی ہو تو سمجھو کچھ بھی بن سکتی ہو"

یہ جملہ دراصل کئی مفہوم رکھے ہوئے تھا مگر منہا کی ناقص عقل میں نشئی اور بھنگی ہی گھوم رہا تھا تبھی وہ منہ پھلائے کھڑی اسے گھورتی جا رہی تھی۔

"تمہارا بیٹا کیسا ہے"

کچھ دیر بعد وہ یونہی سرسری سا سوال کیے بولا تو منہا کے چہرے پر فوری کھوئی مسکان واپس آئی۔

"ٹھیک ہے، دادوو کے پاس ہی ہے وہی میری غیر موجودگی میں اسے سنبھالتے ہیں"

منہا کا جواب سن کر وہ یونہی رخ موڑے رنجیدہ سا میز کی جانب مڑا جہاں کسی فوٹو فریم پر عباد کی نظریں ٹک کر آزردہ ہوئیں۔

منہا نے بھی عباد کا غمزدہ ہونا نوٹ کیا۔

"بہن مر گئی ہے کیا تمہاری؟"

عباد کے سوال پر منہا نے آنکھیں چرائے حلق خشک ہوتا محسوس کیا۔

"جی"

گھٹی آواز سے ہی وہ بولی۔

"بہن کا شوہر؟"

اگلا سوال آیا۔

"وہ بھی"

منہا سے جھوٹ بولنا مشکل تھا پر وہ بول گئی۔

نظر پھر سے عباد پر تھی جو کسی تصویر کو تاسف سے دیکھ رہا تھا۔

"کتنی عجیب بات ہے کہ لاوارث کو کبھی کبھی وارث نصیب ہو جاتے آسانی سے اور کبھی کبھی وارث دنیا جہاں میں لاوارث بن کر رہ جاتا۔ سب نصیب کی بات ہوتی ہے منہا سلطان"

پھر سے وہ کرب ذدہ سا اسکا نام پکارے منہا کو بھی اک انجانی اور مانوس سی تکلیف میں لپیٹ گیا۔

"آپ کیوں اداس ہو گئے"

منہا کا فکر سے پوچھنا عباد کو اداسی سے نکال لایا تبھی وہ اس دوسری سمت دھری فوٹو پر سے توجہ ہٹائے منہا تک پہنچا اور بنا کچھ بولے اسے دیکھنے لگا۔

اسکے یوں منہ سی کر منہا کو دیکھنے پر وہ بھی گھبرائی۔

"پہلے کل تم میری بات پر عمل کرو تو اپنی اداسی کل بتاوں گا۔ ایک کپ کافی بنا دو اپنے ہاتھ کی"

فرمائشی پروگرام کھول کر منہا کو حکم کرتا وہ واپس نوابی انداز سے کرسی پر جا بیٹھا اور لیپ ٹاپ کھول لیا۔

منہا نے سرد سا سانس کھینچے عباد پر نظر ڈالی اور بنا کچھ کہے آفس سے باہر نکل گئی۔

عباد بھی اسکے جاتے ہی اپنی توجہ واپس کام پر کر چکا تھا۔

"مجھے ہمیشہ سے ارمان تھا میرے بھی دادا یا دادی ہوتے، لیکن وہ میرے پیدا ہونے سے پہلے ہی اس دنیا سے چلے گئے۔ ہر ایک کی زندگی میں کوئی نہ کوئی کمی ہوتی ہے، لیکن منہا کے پاس آپ اور احد ہیں تو وہ یقینا خوش قسمت ہے"

معظم صاحب کے ہاتھ کی بنی عُمدہ چائے سے مستفید ہوتا وہ ساتھ ساتھ کچھ فاصلے پر صوفے کے گرد تکیے کے حصار میں لپٹے سوئے احد پر نگاہ ڈالے مسکایا ، اسکے لہجے میں اک دکھ بولا تھا جو محسوس کن تھا۔

"بتایا ہے مجھے منہا نے کہ کیسے تم نے اسکی مدد کی پُتر، مجھے بھی اپنا دادا ہی سمجھ لو۔ ویسے بھی نیک دل اور پاکیزہ ذہن کے مالک لگتے ہو تم مجھے"

کبھی کبھی آنسو بہانے سے زیادہ آسان انھیں چھپانا ہوا کرتا ہے، وہ بھی یہاں آیا تو کسی کندھے کی تلاش میں تھا مگر اب دل میں اک عجب سی تسلی اس جگہ آتے ہی محسوس ہوئی کہ وہ سارا کرب فراموش کر گیا۔

اسے زرا اندازہ نہ تھا کہ معظم صاحب اسکی فطرت تک جھانک لینے کی خاصیت رکھتے ہیں۔

"دل و دماغ کی ہم گارنٹی نہیں لے سکتے ، کب بغاوت ہو جائے کچھ خبر نہیں"

اس چائے میں سراج علی کو اک شفقت سی محسوس ہوئی، اسکا ایک ایک گھونٹ تشفی تھا۔

وہ گہرے افکار کا مالک تھا معظم صاحب اسکی گہرائی تک پہنچ چکے تھے۔

"بلکل، دل کی تو رتی برابر گارنٹی نہیں ہوتی برخوردار"

اک آہ سی تھی جو انکے لہجے میں اُتری تبھی تو سراج علی انکے کسی خواب میں ڈھل جاتے چہرے کی سمت متوجہ ہوا۔

"کبھی محبت کی ہے آپ نے؟"

چائے کا زائقہ یکدم ہی اذیت نے نچوڑا تو وہ کپ بے دلی سے میز پر رکھتا اک آس سے سوالیہ ہوا۔

اور اسکے سوال پر معظم صاحب کے جھریوں والے چہرے کے خدوخال متبسم ہوئے۔

"کی تھی، ہماری بستی میں وہ چوڑیاں بیچنے آتی تھی، ذات کی مسلن۔ لیکن اسکی نیلی آنکھیں۔۔۔۔۔ لیکن ہم ازل کے غریب و مسکین لوگ جنھیں اور کئی آسانیوں کے ساتھ ساتھ محبت کے اظہار کا حق بھی نہ ملا۔ اور کئی محبتیں مجبوریوں کی دلدل میں دُھنس جاتی ہیں۔

محبت بچھڑ گئی زندہ رہا، کوئی اور زندگی بنی تب بھی زندہ رہا۔ زندگی گزرتی رہی تب بھی زندہ رہا۔

اپنی بیوی، بیٹے اور بہو کو زندہ آگ میں جلتے دیکھا تب بھی زندہ رہا صرف منہا کے لیے۔ اور اب منہا اور احد ہی محبت ہیں میری"

آہوں سسکیوں میں لپٹی داستان مکمل کرتے وہ جب سراج کی سمت بے ساختہ مڑے تو اسکی آنکھوں میں درد کی اخیر اور ضبط کی آخری حد تھی۔

"وہ بہت زندہ دل اور بہادر لڑکی ہے، لیکن زندہ دلی اور بہادری بڑے امتحان لیتی ہے۔ احد کون ہے تو ؟"

سراج کے دماغ میں ایک بار پھر الجھن تھی اور اسکے سوال پر معظم صاحب مصالحت سے چپ تو اوڑھ گئے مگر دل میں وہ یہی سوچ رہے تھے کہ بنا منہا کو بتائے وہ احد کی سچائی نہیں کھول سکتے۔

"منہا کی چچا زاد بہن کا بیٹا ہے، یتیم اور بے سہارا ہو گیا تو وہ بن گئی اسکی ماں"

اُجلت میں ہی بات بناتے وہ فوری سراج کی تشویش ختم کرتے بولے اور سراج کا دھیان بٹ بھی گیا۔

"اللہ سلامت رکھے دونوں کو، میں عباد بھائی کے آبائی گاوں کا رہائشی ہوں۔ والدہ گاوں میں رہتی ہیں، وہاں چھوٹا سا فارم ہاوس ہے بھینسوں اور بکریوں کا کاروبار۔ ایک پندرہ سالا چھوٹا بھائی ہے معراج علی۔ بابا کی وفات ہو چکی ہے۔ بابا بھی عباد بھائی کے والد فارس کیانی کے اہم ساتھی تھے اور ایک حادثے میں دونوں کی وفات ہوگئی۔ تب سے میں عباد بھائی کی حفاظت پر معمور ہوں۔ والدہ وہاں معراج کے سپرد کیے مطمئین ہو کر بھائی کے ساتھ رہتا ہوں"

کوئی اپنا سا ملا تو سراج نے بھی اپنی کہانی بیان کی، شاید کسی طرح وہ دل ہلکا کرنا چاہتا تھا۔

"اللہ تم سب کو اپنی امان میں رکھے، اچھا ہے فرض کے ساتھ ساتھ ماں بھائی جیسے غائبانہ سکھ دل کو قرار دیتے ہوں گے"

دادا جان کی خام خیالی تھی کہ سراج علی کو قرار میسر تھا تبھی تو وہ دل جلا سا مسکرایا۔

"جسے بے اختیار و ناہنجار محبت ڈس لے اسے کہاں قرار، کیا منہا کی طرح آپ میرے لیے بھی دعا کریں گے؟"

ماں کی دعائیں، بھائی کی محبت کے ساتھ ساتھ شاید وہ کوئی ایسی اجنبی دعا بھی چاہتا تھا جو اسکے دل کو چین پہنچائے۔

معظم صاحب نے اسکا سرد پڑتا ہاتھ مضبوطی سے جکڑے کندھا تھپکایا۔

"ضرور کروں گا فرزند، تم سے دل ہلکا کر کے کچھ تمہاری سن کر دلی راحت ملی"

شفقت سے لبریز ہوئے وہ سراج علی کو بھی ہلکی سی مسکراہٹ دے گئے۔

دوسری طرف منہا نے کافی بنوا کر ملازم ہی کے ہاتھ بھجوائی اور خود بھی واپس آگئی، سراج کی اس سے راستے میں ہی ملاقات ہوئی۔

وہ اسے شب بخیر کہتا خود بھی فاریہ کے روم کی سمت لپکا جسکے سرہانے بیٹھی عائشہ ٹھنڈی پٹیاں کر رہی تھی۔

سراج کے اندر آنے پر وہ مودب ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔

"کب سے صرف آپکا ہی نام لے رہی ہیں یہ سراج بھائی، اگر انکو آپ سے محبت ہے تو کیوں پڑی ہیں عباد سر کے پیچھے"

ناچاہتے ہوئے بھی عائشہ کی زبان پر کُھجلی تو ہوئی مگر سراج نے اسے خونخوار نگاہوں سے ایک ہی گھوری نوازی جس پر وہ گرم ہو جاتا پانی بدلنے فوری کمرے سے نکل گئی۔

وہ چلتا ہوا اس بے سدھ وجود تک پہنچا جسکے جسم کو شدت سے حدت نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔

ساری ناراضگی اور نفرت کہیں دور جا کر مفقود ہوئی اور وہ اسکا بے جان ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے اس ظالم کے چہرے کی چھپائی تکلیف دیکھ کر خود بھی اذیت میں مبتلا ہوا۔

دل کو شدید کرب نے گھیرا۔

"جو آج ہوا کاش تمہیں صبح ہوش میں آنے پر یاد نہ رہے فاریہ، خود کے لیے تمہیں ٹرپتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔ تم نے میرے دل کو خون کر دیا، میں تمہیں کبھی معاف نہیں کرنا چاہتا۔ افسوس کہ تمہاری جگہ کسی پتھر کو کیوں نہ چاہ لیا مجھ سے بیوقوف نے"

ان بند آنکھوں کے پیچھے جانے وہ کتنی اذیت لیے تھی کہ اسکی تپش سراج کو اپنے آپ تک اترتی محسوس ہوئی، بے اختیاری اور لاتعلقی میں بھی وہ اسے نہ پکارے یہ چاہتا تھا وہ۔

وہ اس سے بھاگنے کو اٹھا ہی تھا جب گرم ہاتھ نے سراج علی کی دو انگلیوں کو خواب ناک کیفیت میں جکڑ لیا۔

سراج کا دل بھی درد میں ڈوبا۔

آنکھوں میں سرخ سی گھٹا چھائی۔

وہ لڑکی نیند اور بے گانگی کے غلبے کے باوجود تڑپ رہی تھی، اسکے نیم وا لب کھلے تھے اور کچھ بولنے کو پھڑپھڑا رہے تھے۔

آہستہ آہستہ سانس لینے کی آواز نے سراج علی کو مزید وہاں رکنے میں دشواری پیش کی تبھی وہ سنگدلی سے ہاتھ چھڑوائے نا صرف اٹھا بلکہ بنا پیچھے تکتا باہر نکل گیا۔

کسی ایک کونے میں جہاں سہل تھا اپنے آپ کے دامن سے لپٹے خسارے کا ماتم کرنا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"یاد کرنے کی کوشش کر خبیث، کیوں ہوسپٹل سے بچے کو لے کر گیا تھا۔ بول ورنہ تیری چمڑی ادھیڑ دوں گا"

کل سے اب تک زین کے لوگ اپنی ہر ممکنہ کوشش کیے حارث کو نرمی اور سختی دونوں سے ڈیل کر رہے تھے مگر اسکا ایک ہی جواب تھا کہ اسے نہ تو وہ بچہ یاد ہے نہ یہ کہ وہ بچہ کون ہے۔

"مم۔مجھے نہیں پتا پلیز رحم کرو مجھ پر۔۔۔۔۔"

زین کے مشتعل روپ کے سنگ گردن دبوچنے پر وہ حلق کے بل دھاڑا تھا۔

"اس لڑکی کو دیکھا تھا، سکیچ بنوا سکتے ہو۔ اب اگر تم نے انکار کیا تو تمہارے منہ میں ڈالوں گا گرم تیل۔ پھوٹ جلدی "

ایک آخری کوشش کرتا زین اسکے ماتھے پر ڈھلکے بال نوچتا اسکی سوجھی آنکھوں میں آنکھیں گاڑے دبنگ ہوئے استفسار کرتا بولا جس پر وہ کراہٹیں اور جسم کے مختلف حصوں سے اٹھتے درد پر اذیت دباتا ہاں میں سر ہلاتا سسکسارا جس پر زین اسکی جان بخشی کیے دو قدم دور ہٹا۔

"گڈ۔۔۔۔۔ رضی فوری سکیچ ماسٹر کو بلواو یہاں۔ اور حارث کیانی کے جتنے کالے دھندے ہیں سب کی تفصیل کی ایک فائیل بھی تیار کرو"

اپنے ساتھی کانسٹیبل کو اطلاع کرتا وہ حارث کے سر ایک طرف لڑھکا کر اکھڑے سانس لینے کو ناگواری سے تکتا باہر نکل گیا۔

دوسری طرف ہلکی پھلکی صبح پورے پیلس پر اتری سفید آشیانے کو دلکش بنا رہی تھی، آسمان سے نئے نویلے اترتے سورج کی ٹھنڈی کرنیں روشنی کرتی جا رہی تھیں۔

اپنے جہازی سائز بیڈ پر مطمئین اور آرام سے سوئی ناجیہ کا فون چڑچڑاتی ٹون کے سنگ بجا تو وہ منہ کا زاویہ بگھاڑے اس وقت فون کے بجنے پر آنکھیں مسلے تکیہ ٹھیک کرتی سائیڈ ٹیبل پر رکھے فون تک ہاتھ بڑھائے اس پر سرور کی آتی کال دیکھ کر چہرے پر سرد مہری سمیٹ لائی۔

یقینا وہ فاریہ والے معاملے ہی کو جاننے کا طلب گار تھا۔

"کہیں سرور، اتنی صبح کال کی خیریت"

غنودگی سی آواز میں ملائے مقابل کو بیزار سا جواب ملا جس پر وہ اپنے آفس روم میں وائین کا گلاس لبوں سے لگاتا چکر کاٹتے ہوئے گلاس وال تک پہنچا۔

"تمہارا بیٹا حارث، جیل کی سلاخوں میں ہے اور تم مزے سے سو رہی۔ عباد کو مل گیا ہے وہ اور میرے آدمیوں سے خبر ملی کہ کسی حادثے میں اسکی یاداشت چلی گئی۔ کتنی لکی ہو ناں تم، تمہاری اولاد سانپ اور ناگ ہونے کے باوجود تمہارے بچاو کا سبب بن ہی جاتی ہے۔ وہ لوگ اسے عباد کے بیٹے کو لے جانے کے جرم میں پکڑ کر لائے تھے"

اس دل دہلاتے طنزیہ انکشاف پر ناجیہ کی نیند بھک سے اڑی اور چہرہ لٹھے کی مانند سفید پڑا۔

آنکھوں میں تکلیف الگ امڈی۔

"کیا بکواس کر رہے ہیں، حارث تو یہاں تھا ہی نہیں"

مشتعل سے زیادہ وہ اذیت میں چلائی اور مقابل اسکی تکلیف کو انجوائے کیا گیا۔

"سچ ہے ڈارلنگ، اب تم فورا سے فائیل لے کر پہنچو تاکہ میں اسکی ضمانت کا کچھ کروں۔ کیونکہ یو نو ویل کے تم اسے عباد کے چنگل سے اکیلے نہیں نکال سکتی"

یہ شخص جسے اس وقت بھی اپنی ہی پڑی تھی ناجیہ کا دل چاہا اس شخص کو بھی ایسی ہی مار مارے جیسی اس وقت یہ منحوس ڈیزرور کر رہا تھا مگر وہ ایک شاطر عورت تھی اس لیے ہوش سے کام لینا چاہتی تھی۔

"سائن کر دیے تھے فاریہ نے، پہنچتی ہوں۔ لیکن پلیز آپ میرے بچے کو ان وحشیوں سے بچا لیں۔ ناجانے کس اذیت میں ہوگا وہ"

ناجیہ کا تڑپ کر گزارش کرنے پر سرور نجس سا مسکایا مگر اگلے ہی لمحے چہرے پر شرافت انڈیل لایا۔

"ڈونٹ وری۔ تم پہنچو"

خوشامدی سا حوصلہ دیے وہ کال کاٹ چکا تھا، ہڑبڑا کر اٹھے وہ تیزی سے چینج کرنے بڑھی۔

کچھ ہی دیر میں گہری جامنی لئیر ڈریس پہنے وہ ہلکا پھلکا تیار ہوئے کلچ ہاتھ میں تھامے وہ فائیل پہلے ہی ملازمہ کے ہاتھ گاڑی میں رکھوا چکی تھی۔

دبے پیروں سے نکلتے ہی کسی دبنگ قدموں کو جکڑ لیتی آواز نے ناجیہ کے جہاں قدم روکے وہیں سانس بھی حلق میں اٹکایا۔

وہ ابھی سراج کے ساتھ بہت دن بعد جاگنگ کر کے آیا تھا اور عائشہ اسے جوس کا گلاس تھما کر واپس چلی گئی تھی۔ ناجیہ کو اتنی صبح سجا سنورا دیکھ کر عباد کا حلق جلا مگر وہ محظوظ تاثرات کے سنگ ناجیہ کے مڑ کر اعتماد انداز کو دیکھتا دو قدم قریب ہوا۔

"کیسی ماں ہیں آپ ناجیہ صاحبہ، لُچے لفنگے بیٹے کی کوئی خبر نہیں اور بیٹی شراب کے نشے میں دھت واہیات کپڑے پہنے نمائش کا بازار بنے کلبوں سے ملتی ہے۔ کچھ ہوش ہے کہ کیانی خاندان کی عزت آپکی یہ نایاب اولاد دو کوڑی کی کر چکی ہے۔ کہیں آپ بھول تو نہیں بیٹھیں کہ آخرت میں آپکو ہر چیز کا حساب دینا ہے"

اچٹتی نگاہیں مرکوز کیے وہ تندہی اور سرد مہری سے ناجیہ کو اسکے اصل سے ملوانا کبھی نہ بھولا تھا اور جب سے اسے سراج نے رات کا معاملہ بتایا تب سے عباد کو آتش نے گھیر رکھا تھا۔

ناجیہ کے ماتھے پر نمی کے قطرے بتا رہے تھے کہ وہ اب اپنے بھیانک انجام سے سے زیادہ عباد سے خوفزدہ ہے۔

"بچے ہیں دونوں، سمجھ جائیں گے۔ لیکن اتنا یاد رکھو کہ وہ کبھی کچھ غلط نہیں کر سکتے۔ فاریہ کو تم سمجھاو آخر کو وہ تمہاری ہونے والی بیوی ہے"

اتنا سب جان کر بھی وہ عباد کے سامنے اپنی ناکارہ اولاد کو ڈیفینڈ کر رہی تھی اور عباد کا بس نہ چلا اس عورت کو اسی واقعی اصل اوقات یاد دلاتا۔

دادی کی پرورش اسے اس عورت کی اس کھوکھلی عزت کو پاش پاش کرنے سے روک لیتی، جبڑے بھینچتا وہ دو قدم مزید قریب ہوا جیسے دیکھ کر ہی روح فنا کر دے گا۔

"بیوی۔۔۔۔۔۔۔ اسکو بیوی بناوں گا میں؟ اسے سمجھانے کی نہیں، کسی اونچی جگہ سے نیچے دھکا دینے کی ضرورت ہے۔ میں نے فاریہ کے لیے ایک فیصلہ لیا ہے اور جلد یا بدیر اس پر عمل کر دوں گا۔ بس ایک ذاتی مسئلہ حل ہو لے، اور کسی نے بھی اگر عباد حشمت کیانی کے اس فیصلے میں یا کسی دوسرے معاملے میں ٹانگ اڑائی وہ میرے غضب کا شکار ہوگا۔ اب آپ تشریف لے جا سکتی ہیں"

عباد کے بھیانک تیور اور یہ فیصلہ ناجیہ کو خوفزدہ اور حراساں کر چکا تھا اور جس طرح وہ اسکے آخری طنزیہ جملے پر وہاں سے واک آوٹ کیے گاڑی تک پہنچی، پورا جسم برف کی طرح ٹھنڈا ہو چکا تھا۔

ناجیہ جانتی تھی کہ عباد کا رات فاریہ کی ناقابل برداشت حرکت کے بعد سراج علی سے باندھنے کا ہی فیصلہ تھا جو وہ جیتے جی کبھی نہیں ہونے دے سکتی تھی۔

اس ضمن میں بھی اسے اب سرور جیسے کی مدد درکار تھی، فاریہ کو وہ صرف عباد کی بیوی بنوانا چاہتی تھی اور عباد اسکے پلین پر پانی پھیر چکا تھا۔

عباد کی کینہ توز نظریں تب تک ناجیہ پر تھیں جب تک وہ پیلس سے باہر نہ نکل گئی۔

پاس آکر خاموشی سے کھڑے ہوتے سراج علی کی موجودگی محسوس کیے وہ مڑا۔

"فاطمہ خالہ سے بذات خود یہ بات کرنے گاوں جاوں گا، مجھے یقین ہے وہ اس بد سلیقہ اور ہٹ دھرم فاریہ کو سدھار دیں گی۔ بہت جلد میں ایک ٹرپ پلین کرنے کا سوچ رہا ہوں۔ میں، تم، منہا، ادا جان اور فاریہ۔۔۔۔۔ گاوں میں سالانہ میلا ہے تم جانتے ہو دوسرا اس بار میری وجہ سے انہوں نے میلے کے بجائے میلاد کا اور گُل مینے کے لیے قرآن خوانی کا اہتمام کیا ہے۔ یہ سفر ممکن ہے ہم چاروں کی زندگی بدل دے گا سراج علی"

اپنے ارادے سے کسی غیر مرئی نقطے پر نظر جما کر آگاہ کرتا وہ سراج علی کی آنکھوں کی دُھندلی روشنی کیسے نظر انداز کرتا۔

مڑ کر روبرو ہوئے اس شیر جوان کے شانے تھامے۔

"آپکو وہاں جا کر ہمیشہ ڈسٹ الرجی کی سنگین شکائیت ہو جاتی ہے بھائی"

اس بار اک نرم سی گزارش آئی تبھی تو وہ سراج علی کی اتنی فکر پر حسین مسکرا اٹھا۔

"لیکن اس بار اہم ہے جانا، میں خود بھی منہا کے ساتھ کچھ وقت چاہتا ہوں"

یہ پہلی بار تھا کہ عباد نے اپنے دل کی خواہش سرعام کی، سراج مبہم سا مسکرایا۔

"آپکو بھا گئی ہے کیا وہ؟"

دوستانہ سوال تھا۔

"وہ اچھی دوست بن سکتی ہے میری، پتا نہیں کیوں لیکن اسے جب بھی دیکھتا ہوں ایسا لگتا ہے یہ کچھ خاص ہے۔ محبت اور عشق کی تو عمر چلی گئی سراج علی، مگر اس دنیا میں کچھ روحیں ایسی اُتاری جاتی ہیں جو بکھرے وجود اور پھٹے دلوں کی ہمدرد ہوتی ہیں"

یہ بتاتے ہوئے وہ کسی گہرے خیال میں اترا، سراج علی نے اسکے کندھے پر برادرانہ تسلی کے سنگ ہتھیلی جوڑی۔

"مجھے خوشی ہے آپ نے گل مینے کے بعد خود تک آتے راستے بند نہ کیے کسی عورت پر، ویسے بھی جب آپکا وارث ان شاء اللہ آپکو مل جائے گا تو اسے بھی ایک ماں کی ضرورت ہوگی۔ وہ ماں منہا ہو تو کیا مضائقہ جو پہلے ہی ایک بچے کی مسیحا بنی ہوئی ہے"

سراج علی کی تجویز عباد کو اچھی لگی اس سے بڑھ کر وہ اپنے بچے کے مل جانے کی ہاں اور ناں والی اذیت سے ملول ہوئے رخ موڑ گیا۔

دل درد سے بھر گیا تھا۔

"تم سے بہت امید ہے مجھے سراج علی کہ تم فاریہ کیانی کو راہ راست پر لاو گے، گاوں میں ہی تم دو کا نکاح کروا دوں گا۔ میں آخر وقت تک کوشش کروں گا کسی مظلوم کو ناکردہ گناہ کی سزا نہ ملے۔ میں چچا جان، بابا، تمہارے بابا اور گل مینے کی موت کا انہی سے انتقام لوں گا جو حقیقت میں قصور وار ہیں۔ حارث بھی اصل مجرم نہیں ہے جانتا ہوں۔ یہ عورت جو آستین کا سانپ بن کر ہماری جڑوں میں گھسی ہے یہ ہے اصل مجرم۔ اور میں اسکی رسی مکمل دراز کروں گا، اتنی ڈھیل دوں گا کہ کائنات کا نظام بدل جائے گا۔ پھر لوں گا ایک ایک اذیت اور آنسو کا حساب"

ہمیشہ سے وہ سراج علی ہی کے سامنے اپنے پھٹے دل کو وا کرتا تھا، گل مینے سے اسے واقعی میں محبت جیسا کوئی جذبہ لاحق نہ ہوا تھا بلک اک والہانہ کشش سی سوار ہوئی تھی۔

ایک فیشن ویک کے آخر میں ایم این اے عباد حشمت کیانی کو ایز آ شو سٹاپر مدعو کیا گیا تھا، وہ خوبصورت لکس کی وجہ سے سوسائیٹی میں ہینڈسم اور ہاٹ پولیٹیشن کے طور پر جانا جاتا تھا اور گل مینے وقت کی نور نظر، کچھ سال پہلے تک فیشن کوئین سمجھی جانے والے سپر ماڈل۔

وہیں سے دو خوبصورت لوگوں نے ایک دوسرے کو کشش ثقل کی طرح متوجہ کیا تھا اور عباد جسے اپنی سیاست اور پارٹی کے کاموں سے فرصت نہ تھی، اس حسن کی دیوی کا وقتی سہی مگر اسیر ہوا، اس میں بھی ساری کوشش اس لڑکی کی تھی جس نے اپنی خوبصورتی اور دلربا اداوں کے ساتھ ساتھ اپنی سمجھ داری اور معاملہ فہمی کے سنگ عباد کو اپنے بارے سوچنے کے لیے مجبور کیا، ایسے بڑے بڑے پولیٹیشن بعض اوقات سیاست میں نمایاں ہونے کے لیے بھی ایسی شادیاں کیا کرتے ہیں، جن میں محبت نہیں البتہ سمجھ داری اور ضرورت کو اول پر ترجیح دی جاتی ہے۔

شاید وہ ایسی باہمی کشش تھی جس میں گلیمر زیادہ تھا، کسی آسمان کے ستارے کو دسترس بنا لینے کا جنون۔

تب عباد اک اور انسان ہوا کرتا تھا، بے فکر، جنونی، نئی نئی جوانی اور پاور کے نشے میں جاگزیں سا مضبوط اور خودمختار مرد۔

جانتا تھا اسکا یہ فیصلہ اسکے چھپے آستین کے سانپ جگا دے گا تب بھی اس نے گل مینے سے شادی کی۔

وہ شادی ملک کی سب سے حسین اور مدتوں یاد رکھنے والی شادی تھی۔

اور شاید شادی کے اس ایک سال کے اندر اندر عباد نے اپنا ہر شوخ جذبہ گل پر لٹایا، لیکن اسے گل مینے کی ذات سے محسوس ہوتی کشش جلد ہی ماند محسوس ہونے لگ گئی تھی، گویا وہ اسکا ایک عام سا انتحاب ہی ثابت ہوئی۔

بیوی کی موت کا دکھ اور بیٹے کی ناجانے کب تک کی جدائی۔ بہرحال یہ دونوں دکھ تب بھی انتہائی سفاک تھے۔

ماضی کے چند ہی جھروکے اسکی آنکھیں سرخی میں لپیٹ گئے، اسے صبر کرنا تھا اور صبر کے لیے کسی ہمدرد کی ضرورت تھی۔

سراج علی لاجواب تھا، خود سے بھی اسے جنگ لڑنی تھی۔

سوہان روح سی جنگ۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"آج میرا احد تو ہیرو لگ رہا، دادوو میں اسکے واپسی پر مزید پیارے پیارے کپڑے لاوں گی۔ آپکے لیے بھی اچھے اور پیارے سوٹ لانے ہیں۔ بس پہلے احد کو ادا جان سے ملوا لاوں پھر میں عائشہ کے ساتھ جاوں گی"

بیڈ پر احد کو مکمل دھیان اور احتیاط سے لٹا کر اسکو شرٹ اور گرم ٹراوزر پہنائے وہ اسکے ننھے اور نازک ہاتھوں پر موئسچرائزر لگا رہی تھی اور معظم صاحب کافی وقت سے کسی گہری سوچ میں تھے تبھی وہ منہا کی بات بھی سن نہ سکے تھے۔

"میرا احد تو ہینڈسم ہیرو ہے، آااا آج تو ادا جان پر بجلیاں گرائیں گے سوہنے موہنے احد سلطان صاحب۔۔۔۔"

وہ چند دن کا احد منہا کے گال پر پیار دینے سے دھیما سا مسکایا تو اسکی شہد رنگ آنکھیں بھی چمکیں مگر منہا کا دھیان دادا جان کے کھوئے تاثرات نے منتشر کیا تبھی وہ تھوڑی سنجیدہ اور فکر مند ہوئی۔

"دادوو کیا بات ہے، آپ ابھی تک میرے بتائے خدشوں کو سوچ رہے؟"

رات منہا نے دادا کو عباد کے کچھ الجھے رویے کا بتایا تھا اور یہ بھی کہ وہ اسے اپنی وفع بدلنے اور گروم ہونے کا کہہ رہا تھا تبھی منہا کو لگا وہ ابھی تک اسی میں الجھے ہیں۔

منہا کے مخاطب کرنے پر وہ اپنے خیالات سے نکلے اور ایک نثار نگاہ احد پر ڈالی جو واقعی نظر لگ جانے کی حد تک پیارا لگ رہا تھا۔

"نہیں پُتری اس بارے نہیں سوچ رہا ، بس مجھے احد کے بارے فکر ہے۔ مجھے سراج علی بہت بھایا ہے، ہے بھی ہمارے ہی جیسا ۔ اگر تمہاری شادی اس سے ہو جائے تو احد کی سچائی بھی ہم اسے بتا سکتے۔ پتا نہیں کیوں لیکن مجھے ایسا لگتا ہے جیسے ہم اسکی سچائی چھپا کر کچھ غلط کر رہے ہیں"

دادا اپنی سوچ کے مطابق اور رات سراج علی سے ملاقات کے بعد ایک بہترین سوچ لیے ہوئے تھے مگر منہا کو یہ بات سن کر حقیقی صدمہ ہوا تبھی وہ کرنٹ کھائے اٹھ کر چلتی ہوئی دادا تک آئی اور انکے پاس ہی بیٹھے انکا جھریوں والا ہاتھ تھاما۔

"دادوو وہ میرے لیے بھائی جیسے ہیں، ویسے بھی مجھے یقین ہے وہ فاریہ میم کو پسند کرتے تو آپ پلیز ایسا ویسا نہ سوچیں نہ ایسا ذکر کبھی ان سے کیجئے گا۔ اور رہی بات احد کی تو ہم نے کوئی گناہ تھوڑی کیا، میں کسی کو یہ حق نہیں دوں گی کہ کوئی میرے احد کو کبھی غلط نگاہ سے دیکھے یا اسکی ذات کو کریدنے کی جرت کرے۔ آپ نہ کریں خود کو ہلکان۔ کہا ہے ناں ہم جلد ان سب سے بھی دور چلے جائیں گے"

نرم ہتھیلی دادا کے چہرے سے جوڑے وہ تاسف سے انھیں وضاحت و توجیہہ ایک ساتھ پیش کرتی آخر تک روہانسی ہوئی۔

معظم صاحب کا خود دل کچھ بوجھل سا تھا۔

"ٹھیک ہے میں دوبارہ ایسا نہیں سوچتا، بس فکر ہے تم دو کی کہ مجھ بیمار بندے کی زندگی کا کیا بھروسہ"

وہ بھی کیا کرتے، صدمات سہتا دل آہٹوں تک پر سہم سہم جاتا تھا اور منہا انکے سینے سے جا لگتے شاید خود بھی کہیں دل سے اداس تھی۔

"آپ ایسا نہ کہا کریں ناں دادوو، آپ یہ چاہتے ہیں کہ اتنے دن سے جو منہا روئی نہیں رو رو کر یہ گھر سر پر اٹھا لے۔ آپ جان ہیں میری، میرا حوصلہ۔ میری ماں، بابا سب آپکی صورت میرے پاس ہیں۔ کبھی ایسا خواب میں بھی نہیں سوچ سکتی کہ آپکے بنا رہنا ممکن ہے۔ اچھے دادوو ہیں ناں تو ایسا نہیں کہنا"

وہ بڑی بڑی غزالی آنکھیں جب نم ہوتیں تو معظم سلطان کا دل ڈوب جاتا، سارے خدشے پسِ پشت ڈالے وہ اپنی انمول سی پوتی کے سارے آنسو ہاتھ کی پشت سے جذب کیے اسکی پیشانی چومے مسکرائے۔

"نہیں کہتا، اچھا جا ملوا لا احد کو۔ پھر اسے مجھے دے جا میں اسے سنبھال لوں گا۔ اچھے سے جیسا عباد صاحب نے کہا ہے ویسا ہی کر۔ برا انسان نہیں ہے وہ، ویسے بھی تجھے تو خود کتنا شوق ہے سجنے سنورنے کا، اچھے کپڑے پہننے کا۔ میں بھی اسی بہانے اپنی گڑیا کو سجا سنورا دیکھ لوں گا۔۔۔۔جا میری دھی رانی"

دادا کی سمت سے ملتی ہمت سمیٹے وہ تھوڑی پراعتماد ہو گئی تھی، تبھی تو خوشی خوشی احد کی سمت لپک کر ہاتھ پیر چلا کر منہا کے اٹھاتے ہی مسکرا اٹھتے احد کی پیشانی چومتی وہ کمرے سے نکل گئی۔

ادا جان سے اس نے وعدہ کیا تھا جو پورا ہونے والا تھا۔

دوسری طرف سکیچ ماسٹر نے اس مجرم کے بتائے چند ٹوٹے پھوٹے اشاروں سے سکیچ پر خدوخال بنا کر چہرہ ترتیب دیا تھا۔

جس وقت منہا نے اس لکڑیوں کے کچرے کے ڈھیر سے اس بچے کو اٹھایا تھا تب حارث نے بہت غور سے اس لڑکی کا چہرہ دیکھا تھا، چونکہ اس کے تھوڑے وقت بعد ہی اسکا ٹرک کے ساتھ حادثہ پیش آگیا تھا مگر اس قریبی وقت اور اس چہرے کو حارث کے لاشعور نے کسی طرح ازبر کیے پچھلا سب فراموش کر دیا تھا۔

اسے یہ تو یاد تھا کہ وہ ایک بچہ اور ایک لڑکی تھے مگر یہ یاد نہ تھا کہ اس نے اس بچے کو اس جگہ رکھا تھا اور جانے کو روانہ بھی ہونے کو تھا مگر اس لڑکی کے اس بچے کی جانب متوجہ ہو جانے نے حارث کو وہاں رک جانے پر مجبور کیا تھا۔

انویسٹیگیشن روم میں اس وقت زین ہاتھ سینے پر باندھے سیکچ ماسٹر کے اس سکیچ کو آخری ٹچ دینے کو توجہ سے دیکھ رہا تھا جبکہ حارث کیانی کی بے بس حالت واقعی ایسی تھی کہ زین نے اپنے لوگوں کو اس پر مزید ٹارچر کرنے سے روک دیا تھا۔

کیونکہ اس نے طبی مشورہ بھی لے لیا تھا جس کے مطابق یہ ٹارچر حارث کیانی کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔

"لے جاو اسے"

حارث کا کام مکمل ہوتے ہی زین نے کانسٹیبل کو حارث کو لے جانے کا اشارہ کیا اور خود وہ واپس پلٹا جہاں وہ آرٹسٹ اب وہ سکیچ پیپر زین کی سمت بڑھا رہا تھا۔

زین نے وہ پیر تھاما اور گہرائی سے اس نسوانی خدوحال والے چہرے کو دیکھا۔

"مجھے نہیں لگتا کہ یہ واقعی وہی لڑکی ہوگی، جب اسے باقی کچھ یاد نہیں تو یہ لڑکی یاد کیسے رہ گئی۔ اور اس سب میں اس لڑکی کا کیا رول ہے۔ کیا اس نے یہ بچہ اس لڑکی کو بیچا ہوگا؟ یا پھر کوئی خاندانی دشمنی کہ وارث کو ٹھکانے لگانے کی نیت۔۔۔۔۔"

اپنے آفس تک کا فاصلہ طے کرتا وہ سخت جھنجھلاہٹ میں مبتلا تھا، ابھی کئی گُھتیاں کھلنی باقی تھیں۔

سکیچ ہنوز تھامے وہ اپنا فون میز پر سے اٹھائے عباد کا نمبر ڈائیل کر چکا تھا مگر اسکا فون اسکے آفس میں بج رہا تھا لیکن خود عباد کہیں بھی آس پاس نہ تھا۔

دو تین بار ٹرائے کے باوجود فون نہ اٹھائے جانے پر زین نے کال آف کیے اپنے کانسٹیبل کو آفس میں بلایا۔

"یہ سکیچ تم عباد صاحب کو خود بخاظت انکے گھر تک پہنچا کر آو گے، اور انھیں کہنا مجھے کال کر لیں۔ اگر یہ لڑکی انکے اردگرد ملازمین یا دور پار کے کسی بھی حوالے میں ہوئی تو وہ پہچان لیں گے۔ لیکن اگر تب بھی وہ اسے نہ جانتے ہوئے تو پھر ہم اسکی اپنی طرح تلاش کریں گے"

وہ سکیچ احتیاط سے وائیٹ انویلپ میں ڈالتا ہوا زین اسے تاکید کرتا تھمائے بولا جس پر مقابل نے فوری لیتے ہی سر ہلائے اجازت چاہی۔

کچھ دیر بعد میز پر دھرے لینڈ لائن کی بجتی ٹون پر زین پلٹ کر فون تک پہنچا اور ریسور اٹھا کر کان سے لگایا۔

ناجانے اس طرف سے کیا خبر ملی تھی کے اسکے ماتھے پر شکنوں کا جال بُن گیا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"ہو جائے گی کل تک تمہارے لاڈلے کی ضمانت، اس کی یاداشت جانا پلس پوائیٹ تھا۔ یقینا اس انسپیکٹر کو خبر مل گئی ہوگی اس سرپرائز کی۔ ڈونٹ وری ڈارلنگ جب تک میں ہوں تمہارے ساتھ تمہیں بلکل ٹینس ہونے کی ضرورت نہیں"

بہت ہی عالیشان سا یہ بنگلہ جہاں کی ہر چیز قابل ستائش اور رئیسانہ تو تھی ہی ساتھ ساتھ زیبائش اور یہاں کے خوبصورت پرسکون ماحول میں سرور حسین کی جانب سے یہ خبر ناجیہ کیانی کا کچھ وقت پہلے کا تباہ کن موڈ بحال کر گئی۔

فائیل دیکھ کر تو سرور کے منہ میں پانی آچکا تھا، کئی کڑور مالیت کا یہ پلاٹ تو سرور کی لاٹری تھا۔

پھر جیسے وہ اسے کمر کے گرد بازو پھیلا کر اپنے قریب کھڑا کیے اس کو محبت سے چور لہجے میں بولا یہ ناجیہ کا سرور پر لڑکھڑاتا اعتماد پھر بحال کر گیا۔

"تھینک یو سو مچ ہنی، آپ نے واقعی مجھے آدھی ٹینشن سے نکال دیا"

سینے پر نگاہ ٹکائے وہ آدھا ٹھیک ہونے کا اعتراف کرتی سرور کو بد مزہ کر گئی جو آج کچھ اور ہی موڈ میں تھا مگر اب ناجیہ کے گریز کرنے اور لپک کر صوفے پر جا بیٹھنے پر وہ بھی چلتا ہوا وائن کا گلاس میز پر رکھے متوجہ و سنجیدہ ہوئے ناجیہ کی طرف دیکھنے لگا جو کسی سخت قسم کے انتشار میں مبتلا تھی۔

"اور کیا ٹنشن ہے تمہیں، سب ٹھیک ہے؟"

سرور کا کریدتا انداز نارمل اور سرسری تھا تب بھی ناجیہ بتانے کو بیقرار ہوئی۔

"سراج علی۔۔۔۔، میرے منصوبوں کی راہ میں آئے گا جانتی ہوں۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ اسکا کام تمام ہو جائے۔ ویسے بھی بہت وفاداری نبھا لی اس نے اور اسکے باپ نے۔۔۔۔ میں نہیں چاہتی کہ ہمارے ہاتھوں اس منحوس کی وجہ سے اتنا سب کچھ چلا جائے۔ خود فاریہ اس سے تنگ۔۔۔۔ آپ پلیز اس کی یا تو ٹھکائی کروا کے دھمکا دیں یا اگر ٹھیک لگے تو مروا دیں۔ کچھ دن عباد اسکی موت پر بھی رو دھو کے چپ ہو جائے گا"

یہ سفاک اور وحشی عورت اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے ناجانے کن کن کا قتل کرنے والی تھی ، سرور کو اسکی قاتلانہ ذہینت کا تو پہلے ہی علم تھا مگر وہ کسی کو کسی وقت بھی راہ سے ہٹا دے گی یہ معلوم نہ تھا۔

"تم پاگل ہو گئی ہو، پہلے ہی وہ گل مینے کی موت کی تفتیش کرواتا پھر رہا۔ مجھ پر صرف اسکو شک تھا ، کوئی ثبوت نہیں تبھی خاموش ہے لیکن جس دن اسے میرے خلاف ثبوت ملا وہ مجھے اگلی سانس لینے کی مہلت نہ دے گا۔ اور اس کریٹیکل سچویشن میں تم چاہتی کہ اسکے ایک اور اہم حصے پر وار کروں۔ اٹس ناٹ پاسیبل ناجیہ یہ خطرناک ہوگا"

خالص انکاری لہجے میں وہ ناجیہ کی عقل پر تلملاتا اسے یہ حقائق بیان کرتا ہتھے سے اکھڑ سا گیا تھا مگر ناجیہ چپ چاپ تماشا دیکھنے والوں میں سے ہرگز نہ تھی۔

"آپ کے خلاف کوئی ثبوت اسے کبھی مل بھی نہیں سکے گا، مجھے پتا ہے کتنا پکا کام کرتے آپ۔ سو پلیز سراج علی کو ایک ہلکی پھلکی ڈوز دلوا دیں۔ ورنہ عباد اسے فاریہ سے جوڑ دے گا۔ بیٹھے بیٹھائے ہم ساری پراپرٹی سے تو ہاتھ دھوئیں گے ہی ساتھ ساتھ فاریہ کے نام لگی جائیداد بھی مفت میں اس سراج کے قبضے میں ہوگی۔ سمجھنے کی کوشش کریں سرور "

یہ عورت اس وقت نہ تو ایک ماں تھی نہ انسان، بلکے پیسے کی ہوس کا شکار ہوئی ایک سوداگر تھی۔

اور جب دو سوداگر بیٹھے ہوں تو ان کے درمیان صرف لین دین اور تجارت ہی کے معاملات طے ہوا کرتے ہیں۔

سرور کے چہرے پر پلوں میں پھیلتی ذومعنی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ وہ شیطان صفت شخص کوئی منصوبہ گھڑ چکا ہے۔

"اگر ایسی بات ہے تو ٹھیک ہے، ملنا پڑے گا سراج علی سے۔۔۔۔ہاہا بہت ہی شاطر دماغ ہے ڈارلنگ تمہارا، آئی تھنک شیطان اپنے دماغ کی چارجنگ تمہی سے کروانے آتا ہوگا"

پلوں میں سرور حسین کے بہکتے تیور اس حسن کی ملکہ کے حسن سے ٹکراتے مدہوش سے ہوئے اور اسکی اس بات نے ناجیہ کو بھی غلیط مسکان سونپی۔

دونوں کے چہروں پر اتنے نجس فعل کے بعد بھی فاتحانہ مسکراہٹ تھی جو بتا رہی تھی کہ رسی ڈھیلی ہونا شروع ہو چکی ہے۔

دوسری طرف فاریہ نے جس طرح کل سے اب تک اذیت میں لمحے کاٹے اسکا وجود، ذہن اور جسم چشم دید گواہ تھا۔

عائشہ اسکے لیے اسی کے کہنے پر لیمن جوس لیے جب تک کمرے میں آئی وہ شاور لے کر نارمل سی وائیٹ شرٹ اور بلیک گھٹنوں سے پھٹی جینز میں لپٹی بال ڈرائے کرنے کے بعد عائشہ کے ٹرے رکھتے ہی خود بھی بیٹھی۔

آنکھوں کی سوزش اور سرخائی کل رات کی اذیت کی گواہ تھی وہیں فاریہ کو محسوس ہوا وہ ابھی بھی ہلکے بخار کی زد میں ہے۔

ابھی پہلا سیپ ہی بھرا تھا کہ فاریہ کے ذہن میں رات کے منظر ہیولیوں کی صورت اترتے گئے، آنکھیں پلوں میں سرخی میں نہا گئیں۔

پورے جسم پر کپکپی طاری سی ہوئی۔

"ر۔۔۔رات کیا ہوا تھا بولو؟"

عائشہ جو اسکے زردیوں میں ڈھلتے چہرے کو دیکھ کر پہلے ہی خوفزدہ تھی، فاریہ کی ہیبت ناک دھاڑ پر دو فٹ اچھل کر کانپی۔

"و۔۔۔وہ۔۔۔۔۔"

فاریہ کی سرخ آنکھیں دیکھ کر عائشہ کے لفظ اسکے حلق میں دبے مگر اس سے پہلے کہ وہ عائشہ کا گلا دبا کر جواب مانگتی، عائشہ کانپتی ٹانگوں سے کمرے سے باہر بھاگ گئی اور اسے واقعی یہی محسوس ہوا کہ فاریہ اسکا قتل کر دے گی، تبھی ہونق ہو کر بھاگتی وہ کسی اہم کام کو نمٹا کر واپس آتے سراج سے اس بری طرح ٹکرائی کہ اس پہاڑ کو تو کچھ نہ ہوا البتہ وہ ٹکڑا کر سیدھی فرش پر جا گری۔

اتنی سنجیدہ صورت حال میں سراج مسکراتا ہوا عائشہ کی سمت جھکے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے واپس کھڑا کیے سنجیدہ ہوا جو خوف اور شرمندگی سے اب نڈھال تھی۔

"کیا کوئی بھوت دیکھ لیا ہے عائشہ، کیا ہوا؟"

سراج کا سوال سرسری تھا مگر عائشہ سے تو صدمے سے کچھ بولا نہ گیا البتہ وہ جس سمت انگلی سے اشارہ کر رہی تھی، سراج علی کی آنکھیں جل اٹھیں۔

"کیا وہ ٹھیک ہے؟"

فکر لیے وہ اسکی انگلی کے تعاقب میں دیکھتا نرمی سے استفسار کر رہا تھا مگر عائشہ کی اڑی ہوائیاں دیکھ کر خود ہی بیزار منہ بنائے فاریہ کے کمرے کی سمت لپکا۔

"یا اللہ سراج بھائی کی حفاظت کریے گا اس ڈائن سے"

منہ ہی منہ میں بڑبڑاتی وہ کچن کی سمت دوڑ گئی البتہ جب تک سراج پہنچا، کمرے کو اجاڑ کر وہ فرش پر بیٹھی بال نوچے سر جھکائے رو رہی تھی۔

ناشتے کی ٹرے یقینا اس نے فرش پر دے ماری تھی تبھی پتھر کے برتنوں کی کرچیاں اور گلاس کے کانچ سے فرش بھرا تھا اور ڈریسنگ پر رکھی ہر چیز فرش پر جابجا بکھری تھی۔

بیڈ پر نہ چادر تھی نہ تکیے۔

یہ حالت زار اور بیڈ کے ساتھ لگ کر زمین پر بیٹھی فاریہ کی تکلیف اس پہاڑ جیسے سراج علی کو شکستہ کر گئی۔

یہ اجڑا حال دیکھ کر سراج سمجھ چکا تھا کہ مضبوط قوت ارادی کی مالک فاریہ کیانی رات کا کوئی لمحہ فراموش نہ کر سکی ہے۔

پھر عباد لالہ کا لیا فیصلہ کہ وہ لاکھ دامن چھڑوا کر بھاگنے کا سوچتا مگر یہ اب ناممکن تھا۔

مکمل سیاہ میں وہ آج بھی جاذب اور پروقار دیکھائی دے رہا تھا، ہاں مگر آنکھوں کی حالت فاریہ سے مختلف نہ تھی۔

"اٹھو یہاں سے"

قریب پہنچتے ہی کانچ سے بچ بچاتا وہ اس ماتمی لڑکی تک پہنچا اور بازوں سے پکڑ کر کھڑا کیا مگر جس طرح وہ کھڑی ہوئے لہو لہان آنکھوں اور تیر زاویے سے سراج کی سمت دیکھ رہی تھی یہ سوہان روح تھا۔

"ڈونٹ ٹچ می۔۔۔۔نکلو یہاں سے۔۔۔۔"

ہوش میں آتے ہی وہ سراج کو جھٹک کر اس سے پہلے پیچھے ہٹتی ، پیر میں کانچ کے ٹکرے کے پیوست ہونے پر تکلیف سے سسکتی وہیں گر ہی پڑتی اگر وہ جھٹکا گیا ہمدرد دوبارہ اسکی اور لپک کر اسے نہ سنبھالتا۔

فاریہ کی تکلیف اور مزاحمت کی پرواہ کیے بنا وہ اسے بازووں میں اٹھائے روم سے ملحقہ سٹنگ ایریا تک لایا جو پیر سے نکلتے خون سے زیادہ اس شخص کے سہارے پر اذیت میں تھی۔

"ہلنا مت، آتا ہوں"

صوفے پر بیٹھائے اسکا پاوں آہستگی سے میز پر رکھے سختی سے تنبیہہ کیے وہ باہر لپکا اور فاریہ کو پیر سے نکلتے خون اور دھنسے کانچ کی تکلیف ہی محسوس نہ ہوئی۔

درد تو کہیں اور تھا، وہ روم میں آیا تو ملازمہ ساتھ تھی جسے وہ روم کلئیر کرنے کی تاکید کرتا خود سٹنگ ایریا میں آیا، وہ نظر جھکائے ہر ممکن کوشش کیے رونا روک رہی تھی پر سانس متاثر ہونے پر پورا نازک جسم لرز رہا تھا۔

پورے دھیان سے وہ پیر سے وہ کانچ کا ٹکڑا نکالنے سے پہلے اپنا ہاتھ فاریہ کی سمت بڑھا چکا تھا مگر وہ کسی صورت نظر تک ملانے کے قابل نہ تھی تو ہاتھ کیسے ملاتی۔

وہ روئی زرد آنکھیں پھیر گئی مگر سراج کو اسکی اذیت پسندی پر زرا حیرت نہ تھی۔

کانچ کا ٹکڑا جھٹکے سے نکال لیا مگر فاریہ صرف آنکھیں سختی سے میچ گئی۔

وہ اسکے پیر سے نکلتے خون کو صاف کرتا اسکو مرہم لگاتا رہا اور وہ چہرہ پھیر کر ماتم جاری کیے رہی۔

سفید پٹی باندھتے ہی وہ زمین سے اٹھ کر فاریہ کے ساتھ بیٹھا جو پیر زمین پر واپس رکھے اٹھ کر جانے کو تھی جب سراج نے اسکی بازو پکڑ کر روکا مگر ہنوز وہ آنسو ضبط کیے رخ موڑے رہی۔

"رات جو ہوا اسے بھول جاو، جانتا ہوں وہ سب تم نے سچ نہیں کہا۔ وہ صرف اس ناپاک چیز کا گندا اثر تھا۔ لہذا تمہیں مجھ سے شرمندہ ہونے یا منہ چھپانے کی ضرورت نہیں۔ یہ بات میری روح تک اتری ہوئی ہے کہ تم مجھ سے کتنی نفرت کرتی ہو۔ اس لیے اس خود ساختہ اذیت سے نکل آو"

ساری سچائی پر ایمان لانے کے باوجود وہ سنگدل بنا فاریہ کی ظاہری تکلیف ہٹانے کی کوشش میں یہ بھی بھول گیا کہ اس نے فاریہ کو بھی آج ایسا گہرا زخم دیا جو کبھی بھر نہیں سکتا تھا۔

چند آنسو ان آنکھوں سے نکل کر عارض پر اترے۔

"ہاں۔ آئی ہیٹ یو"

خود کو مضبوط کرتی وہ ہتھیلی سے آنکھیں رگڑے رخ واپس سراج کی جانب موڑے ڈھٹائی سے بولی تھی اور سراج علی کے دل کو دھکا لگا۔

"آئی نو"

فاریہ سے نظر ہٹائے وہ تھکے لہجے میں بولا اور وہ لڑکی اندر تک ٹوٹ پھوٹ سا گئی۔

"دیکھو! ڈھونڈو!

اس روئے زمین پر۔۔ کوئی ایسی آنکھ ہے؟

جو میری آنکھ کی طرح تمھارے لیے بین کرتی ہو"

فاریہ کیانی کے دل تک تکلیف اتر رہی تھی اور وہ یہ تکلیف اس پاس بیٹھے لاتعلق بنے ظالم سے کہہ بھی نہ سکتی تھی۔

"میں نے اپنے دل سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا، نہیں جانتا اب اس دل کو جو تمہارے لیے دھڑکتا ہے۔ ان آنکھوں سے ناطہ ختم میرا جو تمہارے خواب لیے پھرتی تھیں اب زخمی ہیں۔۔۔۔ تم مجھ سے ٹھیک سے نفرت کرو فاریہ"

بنا نظر ملائے وہ ایک اور ظلم ڈھائے کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا اور فاریہ نے جبرا پھر سے چہرہ موڑا۔

"شدید نفرت ہے مجھے تم سے، کل جو ہوا سب جھوٹ اور غلطی تھی۔۔۔ تم صرف نفرت ہی کے لائق ہو۔ تم سے نفرت کرنا میرے لیے خوشی اور سکون کا باعث ہے سن رہے ہو ناں، تم مرو یا جیو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سب جھوٹ تھا فریب تھا سن لو۔۔۔۔"

یہ سب وہ شاید کہہ کو خود کو بہلا رہی تھی مگر سراج علی پتھر کا وہ بُت تھا جسے آخری ٹھوکر بھی لگ چکی تھی۔

گزری رات کہیں دفن بھی ہو جاتی تب بھی سراج علی اس کی تباہ کاری فراموش نہ کر سکتا تھا جو اسکے اندر اور باہر سب جھسلا گئی۔

"سن لیا"

دو لفظ کہتا وہ جانے کو مڑا ہی تھا کہ وہ زخمی پیر کے باوجود اٹھ کھڑی ہوئی۔

"تمہیں میرے آنسو لگیں گے سراج علی"

روح کھینچ لیتی وہ یہ سفاک جملہ ادا کرتی بولی جس پر سراج دل جلی مسکراہٹ چہرے پر سجائے اس سر تا پا اسکی ہو جاتی لڑکی کو دیکھنے لگا۔

"جیسے تمہیں میرے لگ گئے"

دگنا سفاک جملہ اچھالتا وہ پلوں میں فاریہ کے ہر منظر سے اوجھل ہوا اور وہ جو ناجانے کتنے آنسو روکے بیٹھی تھی، صوفے پر گرنے کے انداز میں بیٹھتے ہی بہانے لگی۔

اپنے آپ سے اتنی وحشت اور نفرت کبھی پہلے تو محسوس نہ ہوئی تھی، آج تو رگ رگ سے کٹے جانے کی تکلیف اٹھ رہی تھی اور فاریہ کا بس نہ چل رہا تھا وہ خود کو کہیں زندہ دفن کر آتی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"تھک رہا ہوں ادا جان، اتنے سے دنوں میں ہی، ایسے لگتا ہے جیسے جان سولی پر لٹکی ہے۔ نہ نجات ہے نہ سزا کی یقین دہانی"

سر ادا جان کی گود میں رکھے وہ جب بھی تھک جاتا تو اپنے دل کے کھرے سچ انہی کو بتاتا، وہ بھی اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کی شفیق پوروں سے عباد کے سر کا درد دور کرنے کی کوشش کرنے لگتیں۔

انکا بس ہی کہاں چلتا تھا کہ وہ اپنے اس عزیز پوتے کو کوئی مکمل خوشی سونپ سکتیں، خود بھی تو وہ اس پر اپنا آپ بوجھ ہی جانتی تھیں۔

"سب ٹھیک ہو جائے گا میری جان، میرا بہادر عباد کبھی ہمت نہیں ہارے گا"

شاید وہ اپنا ٹوٹا حوصلہ نظر انداز کیے بس عباد کی تسلی کو اسکے پاس آسودہ و مطمئین رہتیں تاکہ وہ کبھی بھی پریشان نہ رہے۔

"ہار بھی گیا تو کونسا کسی کو خبر ہوگی"

اس بار عباد نے اپنی آنکھیں بند کئے سرد سانس کھینچے یہ اذیت ناک جملہ زیر لب دہرایا مگر ادا جان کی آنکھیں تو دروازے سے اندر داخل ہوتی منہا کو دیکھ کر مسکائیں جو اپنے دھیان میں متبسم سے احد کو اٹھائے اندر تو آگئی مگر ادا جان کی گود میں سر رکھ کر کسی چھوٹے بچے کی طرح اداس ہو کر انکا ہاتھ سینے سے لگا کر لیٹے عباد کو دیکھ کر وہیں پتھر ہوئی۔

"منہا، آجاو بچے"

وہ جو واپس جانے کا سوچ رہی تھی ادا جان کے پیار سے پکارنے پر ہچکچاتی ہوئی آگے آئی تو عباد نے بھی آنکھیں کھولے غیر ارادی طور پر منہا کو دیکھا تو جس طرح وہ احد کو لیے کھڑی تھی، اسے اس لڑکی پر سے نظر ہٹانا دشوار اور دقت طلب فعل لگا۔

فوری اٹھ کر بیٹھتا وہ بیقرار سا ہوا، منہا تو کنفوز تھی مگر پھر بھی احد کو آہستگی سے ادا جان کی پھیلائی بازووں میں پکڑائے خود بھی تب مسکرائی جب ادا جان نے احد کو دیکھتے ہی اسکی پیشانی چومی مگر عباد اس پیارے سے بچے کو دیکھ کر ساکت ہوا۔

یہ اتفاق تو ہرگز نہ تھا کہ وہ خوبخو عباد جیسی آنکھیں لیے اسے دیکھ رہا تھا، دل میں کھینچاو ہوا تو وہ ہڑبڑا کر مخمور مسکراہٹ اوڑھ کر کھڑی منہا کو دیکھنے لگا جو عباد کے دیکھنے پر نظر اس سے ملتے ہی تھوڑی گھبرائی۔

ادا جان تو احد کو پیار کرنے میں مصروف تھیں تبھی عباد اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا، اسکے یوں فرار ہونے کو منہا نے بری طرح محسوس کیا۔

یہاں عباد اپنے دل کے بے تاب و بیقرار ہونے کو سنبھالتا باہر کھلی فضا میں نکلا وہیں چوکیدار کے اپنی سمت آنے اور ساتھ پولیس کے اہل کار کو دیکھ کر عباد فوری انکی سمت لپکا۔

"یہ سکیچ حارث نے بنوایا ہے، اسکے بقول یہ بچہ اس لڑکی کے پاس ہے۔۔۔۔ آپ یاد سے زین سر سے بات کر لیجئے گا انکے پاس کچھ ہے بتانے کو"

پولیس کا وہ آدمی وہ انولیپ دیے اور زین کا پیغام دیتا واپس نکل گیا مگر اس سے پہلے عباد وہ سکیچ اوپن کرتا، پہلے وہ اپنے آفس کی سمت بڑھا۔

سکیچ میز پر رکھے وہ فوری میز پر دھرے فون تک پہنچا اور زین کا نمبر ملایا۔

دوسری ہی بیل پر فون اٹھا لیا گیا۔

"ہاں بولو زین"

سنجیدگی سے استفسار آیا تھا۔

"حارث سے مزید تفتیش بیکار ہے عباد صاحب، اور اسکی ضمانت بھی کل تک ہو جائے گی۔ جب تک اسکی یاداشت نہیں آتی ہم نہیں جان سکتے سچائی۔ ضمانت بھی اس لیے آسانی سے ہو جائے گی کیونکہ حارث کی دماغی پستی کی خبر اس انسان کو ہے جو ضمانت کروا رہا۔ یہ سکیچ بھیجا ہے جو حارث نے بنوایا ہے۔ یہ لڑکی کون ہے اور وہ بچہ اس نے اس لڑکی کو کیوں دیا سمجھ سے باہر ہے۔۔۔ وہ یہ بھی نہیں کہہ رہا کہ اس نے دیا۔۔۔۔ بس اسکا کہنا ہے کہ وہ اس بچے کو لے گئی"

زین نے تو عباد کو مزید سن کر دیا تھا، بے دلی اور مایوسی کے سنگ وہ فون بند کرتا اس سکیچ تک لپکا۔

اس انویلپ کو کھولنا ہی چاہا کہ بج اٹھتے فون نے پھر سے عباد کی توجہ نوچ لی۔

فون ضروری تھا تبھی دوبارہ زین کی سمت سے ملتی کسی خبر کو سنتے ہی وہ سکیچ وہیں فائیل میں رکھتا وہ تیزی سے روم کی سمت چلا گیا۔

گل مینے کے قتل کیس کے حوالے سے کچھ اہم معلومات ملی تھیں تبھی وہ ہوسپٹل گیا تھا۔

شاید اس گن کے بارے میں جس سے گل مینے پر حملہ ہوا تھا اور کچھ اور بھی تھا جو وہ خود عباد کو بتانا چاہتے تھے۔

دوسری طرف ادا جان کو اک عجیب سی انسیت اور پیار سا احد سے محسوس ہوا اور وہ زیادہ دیر اسکو اٹھائے رہیں، خود احد انکے پاس بلکل ویسے پرسکون تھا جیسے منہا کے پاس تھا۔

مگر احد کے سو جانے پر منہا اسے لیے واپس دادو کے پاس لے آئی، اسے عائشہ کے ساتھ جانا تھا تبھی وہ سراج بھائی کو ادا جان کو دیکھنے کا کہتی خود عائشہ کے ساتھ باہر نکل آئی۔

مال میں پہنچ کر منہا نے وہاں کی رنگینی اور شوخی دیکھ کر کوئی خاص خوشی محسوس نہ کی، اسکے بقول امیر لوگوں کے لیے یہ بڑے بڑے مال سجے تھے۔

بھلا وہ اور عائشہ یہاں کے مہنگے کپڑے کیسے افورڈ کر سکتی تھیں تبھی وہ اسے خود گھسیٹ کر اپنے معیار کی جگہ ایک پیاری سی بوتیک لائی۔

"تمہیں پتا ہے منہا، فاریہ میم بہت خطرناک بلا ہیں۔۔۔ تم بھی ان سے بچ کر رہنا"

مختلف کپڑے دیکھتی عائشہ ابھی تک صدمے میں تھی تبھی کہہ بیٹھی اور منہا نے کندھے اچکائے بے نیاز تاثر دیے ہاں میں سر ہلایا اور آگے بڑھ گئی۔

"یہاں تو نیلا رنگ ہی نہیں"

کچھ دیر کی تلاش کے بعد منہا نے جھنجھلا کر سر تو جھٹکا مگر وہ کیوں نیلے کی تلاش میں ہے یہ احساس ہوتے ہی چہرہ پر تپش ہوا۔

خود عائشہ مسکرا کر ایک بہت پیاری نیلی شارٹ فراک لہراتی منہا کے سامنے آئی۔

"یہ دیکھو، یہاں کا سب سے پیارا فراک ہے۔ زیادہ مہنگا بھی نہیں۔ تین ہزار کا دے رہے وہ بھی ود اسٹالر"

عائشہ نے جس مزے سے قیمت بتائی اس پر منہا کا منہ واقعی کھل گیا۔

کہاں وہ ایک ایک ہزار کے لیے اینٹیں اٹھاتی تھی اور کہاں یہ صرف ایک فراک تین ہزار کی۔

کانوں سے دھواں نکالتی وہ فوری اس کو پرے کرتی باہر لپکنے لگی تبھی عباد کی کہی بات پھر سے منہا کو یاد آئی۔

چارو نا چار وہ خوبصورت سا ڈریس لے بیٹھی۔

ساتھ میں جینز عائشہ نے زور زبردستی دلوائی اور مزید دو اور مختلف رنگ کے جوڑے لیے وہ کچھ جوتے بھی خرید چکی تھی۔

بلکے بیس ہزار جو وہ کئی چیزوں کے لیے لائی تھی، سب اسی کی شاپنگ پر لگ گئے اور کچھ پیسے سیلون میں بہہ گئے، پھر احد اور دادا کے لیے عائشہ سے پیسے لیے اور کہا کہ وہ گھر جا کر دے دے گی۔

منہا کو کہاں اندازہ تھا کہ یہاں چیزیں اسقدر مہنگی ہوں گی اور زرا سا منہ سنوارنے پر یہاں ہزاروں لے لیے جاتے ہوں گے۔

واپسی میں انھیں کئی گھنٹے لگے۔

عائشہ سے لیے پیسے واپس کرنے کے بعد وہ احد اور دادووو کی شاپنگ انکو دیکھانے لگی، اور دادا کی فرمائش پر وہ نیلا فراک بھی پہنا اور جب وہ پہن کر ہچکچاتی ہوئی باہر آئی تو خود معظم صاحب کتنی ہی دیر منہا کی نظر اتارتے رہ گئے۔

حجاب گلے میں رول کیے، بالوں کی ٹیل پونی بنائے، پیروں میں آج ہی لائی نازک چپل پہنے وہ بلکل بدل گئی تھی۔

پھر سیلون میں جا کر اسکے روپ میں اک الگ ہی نکھار اتر چکا تھا، بے ڈھنگی اور اسکی خود شیپ دی گئی پلکیں اب حسین طرز سے شکل اوڑھے تھیں، پھر چہرے پر سکربنگ اور کلنزنگ سے رونق آگئی تھی۔

ابھی بھی ہر منصوعی حسن سے عاری ہو کر بھی وہ کئی حسیناوں کو مات دے رہی تھی۔

"مجھے پتا ہے میری منہا کسی محل کی شہزادی جیسی ہی ہے، آج تو واقعی تجھے دادا کی نظر نہ لگ جائے۔۔۔۔۔ "

قریب آکر منہا کی پیشانی چومے وہ کہیں دل سے ڈرے سے بھی لگے، اور منہا خود یوں کمفرٹیبل نہ تھی۔ تبھی بے قرار سی لگی۔

حالانکہ فراک نے اسکے بانکے وجود کو مکمل چھپا سا لیا تھا، پھر اسکے لمبے بال بندھے ہو کر بھی کمر پر پھیلے ہوئے تھے۔

"بس ابھی تھوڑی عادت نہیں تو عجیب لگ رہا ہے، لیکن وہاں سب ایسے ہی ڈریسنگ کرتے تو عباد سر مجھے مائی سمجھتے تبھی یہ مشورہ دیا۔ یہ بڑے لوگ اور انکے نخرے بھی بڑے۔ خیر میں بدل لیتی اسے کل یہی پہن کر جاوں گی"

اپنی بوکھلاہٹ چھپاتی وہ فوری کہہ کر بھاگ گئی اور دادا جان مسکراتے ہوئے احد صاحب تک پہنچے جو ہاتھ پیر چلاتا اپنی ہی دنیا میں مگن مسکرا رہا تھا۔

منہا کمرے میں پہنچی تو بڑے سے دیوار میں نسب آئینے میں اپنا جائزہ لیتے گھبرائی۔

ٹیل پونی فوری کھولی تو سیاہ بال کندھوں پر ڈھلک آئے ، اپنا آپ دیکھ کر وہ خود بھی کہاں پہچان رہی تھی۔

ناں ناں کرتے بھی دو نیلے ڈریس کیوں لے بیٹھی تھی، اب یہ سوچیں اسے پریشان کر رہی تھیں۔

وجود سرد پڑ رہا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے آئینے میں اپنا عکس دھندلا کر عباد کا عکس بن گیا۔

یہ منظر دیکھتی وہ کانپ ہی تو اٹھی، ڈر کر آنکھیں مسلیں تو نہ عباد تھا وہاں نہ اسکا عکس۔

"یا میرے اللہ یہ کیا تھا، ک۔۔۔کیوں اس انسان کی کہی ہر بات مجھے متاثر کر رہی ہے۔۔۔۔ میرے دل کو بہکنے سے بچائیے۔ میں ایسے کسی جذبے کا شکار نہیں ہو سکتی۔۔۔ مجھے صرف احد اور دادوو کے لیے جینا ہے۔۔۔ کوئی تیسرا میری توجہ کا حق دار نہیں ہو سکتا"

اپنے کانپتے دل کی سلامتی مانگتی وہ پریشان و فکر مند تھی، امر بیل کی طرح کوئی احساس پاوں سمیت ذات کے گرد چڑھے لپٹ رہا تھا۔

فوری اٹھ کر اس نیلے رنگ کو خود سے الگ کرنے وہ واش روم کی سمت لپک گئی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"جس جگہ آپکی گاڑی پر حملہ ہوا تھا وہاں قریب ہی ہمیں گن ملی ہے عباد صاحب، اور گل مینے کو لگنے والی گولی اسی گن سے چلی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ جس کے نام پر یہ گن رجسٹر ہے اسکا کرمینل ریکارڈ بھی نکلوا لیا گیا ہے۔ یہ فاضل گوجا نامی ایک کرائے کے قاتل کے نام رجسٹر ہے۔ آجکل وہ مفرور ہے، ابھی دو ماہ پہلے ہی تین سال کی قید کاٹ کر نکلا تھا"

اس وقت وہ سب ہوسپٹل کے ایک روم میں موجود تھے جہاں زین کے علاوہ کچھ مزید سیکورٹی ٹیم کے لوگ موجود تھے۔

عباد کی آنکھوں میں گویا خون اُتر چکا تھا۔

"تو کب تک پکڑ میں آئے گا وہ آخر، مجھے ہر صورت وہ چاہیے"

غصہ جبراً دبائے وہ ان سب ہی کو قہر آلود آنکھوں سے تکتا استفہامیہ ہوا۔

"ہمیں بھی اسی کی تلاش ہے اب، یہ کیس ہم نے اپنی طرف سے سلجھا کر زین صاحب کے سپرد کر دیا ہے۔ امید ہے اب آپ ہمارا ہوسپٹل ان سیل کر دیں۔ پلیز عباد صاحب ہمیں پہلے ہی بہت نقصان ہو چکا ہے"

پہلے اس سی سی ٹی وی فوٹیج اور اب اتنے بڑے ثبوت کے بعد عباد نے بھی اپنی سختی کم کیے ہوسپٹل اَن سیل کا حکم دے دیا تھا اور ہوسپٹل کا عملہ اسکے مشکور و ممنون تھے۔

وہ زین کے ساتھ ہی سپاٹ چہرے کے سنگ بیرونی سمت آیا اور اضطرابی انداز سے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔

"آپ نے سکیچ دیکھا؟"

زین کا سوال سرسری تھا۔

"نہیں دیکھ سکا، جاتے ہی دیکھتا ہوں۔ مجھے جلد از جلد اس قاتل کے ملنے کی خبر چاہیے۔ تاکہ پتا چلے کس نے اسے ہائیر کیا تھا۔ اگر اس کے پیچھے سرور نکلا تو میں خود اسکے ٹکڑے کروں گا۔۔۔۔۔ مجھے مایوس مت کرنا اور یہ پراگرس جلدی چاہیے"

ماتھے پر لاتعداد بل ڈالے وہ زین کو حکمانہ لہجے میں ایک ایک لفظ باور کرواتا گارڈز کے ہمراہ اپنی گاڑی کی سمت لپک گیا۔

دوسری طرف ملازم عباد کے آفس کی ہلکی پھلکی صفائی کر رہا تھا، فائلز اٹھا کر ترتیب سے رکھنے پر بے دھیانی میں وہ سکیچ گر کر ٹیبل کے کہیں دور نیچے جا گرا، چونکہ ٹیبل کی نِچلی سطح زمین سے تقریبا جڑی تھی تبھی اس کے نیچے چلی جاتی چیز ہاتھ سے بھی اٹھانا ناممکن تھی اور ملازم کو تو ویسے بھی اس کاغذ کے گر کر میز کے نیچے جانے کا پتا ہی نہ چلا۔

اور یوں ایک بار پھر عباد اس منہا کے بنے سکیچ سے کچھ وقت دور ہو گیا۔

تیسری طرف ناجیہ جب تک پیلس لوٹی، فاریہ کا خیال آتے ہی وہ اسکے کمرے ہی کی سمت لپکی۔

عائشہ نے ساتھ چلتے ہوئے فاریہ کے صبح والے کارنامے کی نہ صرف تفصیل دی بلکے فاریہ کے سارا دن سے اب رات تک کمرے میں ہی بند رہنے کا بتا کر تشویش زدہ کیا۔

عائشہ کو اسکے لیے کھانا لانے کا کہتی خود ناجیہ فاریہ کے روم کی سمت بڑھی۔

دروازہ نیم وا کیا تو وہ بیڈ پر اُوندھی لیٹی لیمپ جلانے اور بجھانے میں مگن آنکھیں سامنے گلاس وال کی سمت پتھرائے ہوئے تھی۔

اپنی اولاد کے اس ماتم کی خود ناجیہ کو سمجھ نہ آئی۔

"فاریہ واٹ ہیپن ڈارلنگ؟ ہو کیا گیا ہے تمہیں۔۔۔۔۔ نہ تو تم خود پر توجہ دے رہی ہو اور نہ عباد پر۔ ایسے کیسے چلے گا مائی لوو، اٹھو بات کرو مجھ سے"

اس وقت بھی ناجیہ کو اپنا مطلب ہی عزیز تھا تبھی پیار کے ساتھ اسکے بال سہلائے اسے مخاطب کیے بولی مگر اس لڑکی نے تو جُنبیش تک نہ کی۔

"تمہیں پتا ہے اس عباد نے حارث کو پکڑ لیا تھا، بہت مشکل سے کل ضمانت ہو پائے گی۔۔۔ وہ جان گیا تھا کہ اس بچے کو حارث نے ہی اٹھایا تھا۔۔۔۔۔تم سن رہی ہو"

اس انکشاف پر اس بُت بنے وجود میں حرکت ہوئی تبھی وہ کروٹ بدل کر فوری اٹھ بیٹھی۔

"مطلب وہ اب مجھ سے شادی نہیں کرے گا، کیونکہ حارث بھائی کو یہ کرنے کے لیے میں نے کہا تھا اور یہ بات بھی عباد جان گیا ہوگا"

غائب دماغی سے وہ یہ کہتی ناجیہ کو ایک خبطی اور بدحواس ہی تو لگی، ایک دن میں ہی اسکی پھول سے فاریہ مرجھا کر ہوش و حواس سے بیگانی کیوں ہو گئی تھی یہ اب اسے حقیقی صدمہ دے چکا تھا۔

"ایسا کچھ نہیں ہوا کیونکہ حارث کی یاداشت چلی گئی ہے، اور تم ایسا فضول کیوں بول رہی۔ عباد کی شادی صرف تم سے ہوگی اور تم اسے ضد سے غصے سے اور پیار جیسے بھی ہے مناو گی۔۔۔اب اٹھو فریش ہو، خلیہ درست کرو اور عباد آتا ہے تو اسکے ساتھ کچھ وقت گزارو۔۔۔۔ایسے تو وہ تم سے مزید بیزار ہو جائے گا۔۔۔۔۔ہری اپ"

اپنے منصوبے کی تکمیل کی راہ ہموار کیے وہ فاریہ کو پمپ کرتی خود بھی اٹھ کھڑی ہوئی، عائشہ کے کھانا لانے پر وہ فاریہ کو سختی سے ڈنر کرنے کا کہہ کر گئی تھی مگر فاریہ کیانی کی بھوک اور پیاس کے ساتھ ساتھ ہر احساس بھی مر گیا تھا مگر پھر بھی وہ اپنے آپ کو سراج کے سامنے مزید بے وقعت نہ کرنے کا سوچتی ماں کی بات پر عمل درآمد کرنے فریش ہونے بڑھی۔

نو تک عباد واپس آیا تو تب تک ادا جان تو سو چکی تھیں البتہ وہ بھی بنا ڈنر کیے ہی سیدھا اپنے آفس روم تک پہنچا۔

اسے اچھے سے یاد تھا کہ وہ سکیچ اس نے بنا دیکھے فائیل میں رکھ دیا تھا، ساری فائلز الٹ پلٹ کر دیکھیں مگر کہیں بھی اس سکیچ کا نشان نہ ملا۔

ڈراز تک گنگنال ڈالیں اور اس ایک موہوم سے ثبوت سے دستبرداری عباد کو گویا پاگل کر گئی۔

اور پھر اسی لمحے جب وہ اشتعال میں لپٹا آفس کی صفائی کرنے والے ملازمین سے پوچھ گُچھ کر رہا تھا تو فاریہ کی آمد اسے مزید سُلگا گئی۔

سب کو باہر جانے کا اشارہ کرتا وہ خود بھی لہو چھلکاتی آنکھیں نارمل کرتا فاریہ کی سمت مڑا جو ہر احساس سے عاری پیر کی تکلیف کے باوجود نارمل چال کے سنگ اسکے قریب چلی آئی۔

"کافی دن سے تم نے مجھے اپنا ایک لمحہ بھی نہیں دیا، وجہ پوچھ سکتی ہوں؟"

سرسری اور عجیب سی ٹون میں وہ بوجھل سا سوال کر رہی تھی۔

"جب وجہ جانتی ہو فاریہ تو اسے تسلیم بھی کر لو۔۔۔اچھا ہوا تم خود آگئی۔۔ آو بیٹھو کچھ اہم بات ہے"

موڈ ہر ممکنہ بہتر کرتا وہ واپس رولنگ چئیر تک پہنچے بیٹھا اور فاریہ بھی اسکے کہنے پر سامنے براجمان ہوئے اسی کو دیکھ رہی تھی جو صاف صاف فاریہ کے اندر بدلاو بھانپ چکا تھا۔

"میں جانتا ہوں تمہارے دماغ میں میرے نام کا فتور تمہاری ماں کا کِیا کرایا ہے، اور زندگی فتور کے بل بوتے پر نہیں گزرا کرتی۔ دل کی شادابی اہم ہے۔ تم اگر مجھ سے شادی کرتی ہو تو میرے پاس تمہیں دینے کو ایک لمحہ بھی نہ ہوگا۔۔۔ لہذا اپنے دل کی اصل مراد کو پہچانو تاکہ میں تمہارے حق میں کچھ بہتر کر سکوں"

آج شاید بہت مدت بعد وہ فاریہ سے انسانی طریقے اور دوستانہ لہجے میں مخاطب تھا اور وہ یہی سوچ رہی تھی کہ اگر واقعی اس شخص کو یہ پتا چلے کہ اسی کے کہنے پر حارث نے اسکے بچے کو کچرے پر پھنکوایا تو وہ یقینا کھڑے کھڑے اسکی جان لے لیتا۔

"تم مجھ سے کب کر رہے شادی؟"

ڈھیٹ بنی وہ اپنے موقف پر پہاڑ کی طرح ڈٹی تھی اور عباد نے ناگواری سے اسے دیکھا۔

"سراج علی کی شادی کرنے کا سوچ رہا ہوں۔۔۔۔ اپنی کا ابھی کوئی ارادہ نہیں"

دانستہ یہ ذکر چھیڑے وہ صرف فاریہ کے تاثرات دیکھنے کا متمنی تھا اور اسکا وار واقعی ٹھیک نشانے پر لگا تھا۔

فاریہ کے چہرے کا رنگ بھک سے اڑا اور آنکھوں کی پُتلیاں ساکت ہوئیں۔

دل کے نہاں خانے میں درد سا اٹھا۔

"ٹھیک ہے پھر جب ارادہ ہوا تو بتا دینا مجھے"

آنکھیں چُرا کر کہتی وہ اُٹھ گئی، شاید دل اتنا نازک ہو گیا تھا کہ یہ سب سہنا ممکن نہ رہا۔

"ایک ہفتے تک گاوں جا رہے ہیں ہم، سراج کی وہیں شادی ہے۔ تم بھی چلو گی میرے ساتھ ایز آ یو نو فیوچر وائف۔۔۔۔۔ جبکہ منہا تو جائے گی ہی ادا جان بھی جا رہیں۔۔۔۔ "

جان بوجھ کر فاریہ کا امتحان لیتا وہ اسکے صبر کا پیمانہ لبریز کر رہا تھا۔

بمشکل آنکھوں میں اتر آتی نمی دبائے وہ عباد کی سمت متوجہ ہوئی جو گہرائی سے اسے جانچنے میں محو تھا۔

"شیور، ضرور جاوں گی تمہارے ساتھ۔ گڈ نائیٹ"

اپنے صبر سے خود بھی کھیلتی وہ کرچیاں سی آنکھوں میں سمیٹے مڑ گئی۔

عباد حشمت کیانی کے چہرے پر کچھ پل پہلے کی خفگی ہٹ گئی۔

مگر آفس روم سے باہر نکلتی وہ گہرے سانس بھرتی دیوار کا بمشکل سہارہ لے سکی تھی۔

دل ایسے کٹ رہا تھا کہ سانس لینا دوبھر ہوا۔

اسی سمت آفس کی طرف آتے سراج نے اپنے قدموں کو روک لیا اور شاید دل کو بھی۔

"تم کیسے کر سکتے ہو میرے ساتھ یہ"

خود کلامی کرتی وہ آنکھیں رگڑتی وہاں سے پلٹ گئی اور جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہ ہوئی سراج کی دھڑکن سینے میں جامد رہی۔

پھر جب وہ اندر پہنچا تو عباد سے اصل معاملہ جاننے کے بعد حقیقت میں صدمے میں اتر گیا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"کیا مطلب سکیچ کھو دیا؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے عباد صاحب "

عباد کی بات سن کر زین کو حقیقی حیرت کا جھٹکا لگا اور وہ بھی ابھی پھر سب ملازمین سے پوچھ گُچھ کیے باہر لان میں نکل آیا اور پہلی کال ہی زین کو کی۔

"نہیں پتا کہاں گیا، خیر تمہارے پاس اسکی کوئی کاپی تو ہوگی؟"

عباد نے ماتھا مسلتے سوال کیا مگر بد قسمتی سے وہ ایک ہی اورجنل پیج تھا، مقابل کے نفی میں ملتے جواب پر عباد نے گہرا سانس کھینچا۔

"کل اسکی ضمانت ہو جائے گی، بہت مشکل سے اس سے یہ ایک ثبوت ملا تھا اور مجھے نہیں لگتا کہ دوبارہ وہ بن سکے گا۔ خیر آپ فکر مت کریں وہ جگہ جہاں حارث کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا میں خود جاوں گا۔ اردگرد پوچھ گُچھ کرتا ہوں۔ آپ بھی اپنے تئیں حارث سے پوچھتے رہیے گا"

زین نے موہوم سی تسلی تو دے کر کال بند کر دی مگر عباد ضرور اس سب سے ذہنی انتشار میں مبتلا تھا، اپنی سمت آتے سراج کو دیکھ کر وہ چہرے پر سنجیدگی لائے اسکے عین قریب آکر رکنے پر دھیما سا مسکرا کر سینہ تھپک کر اسے ہمت سونپ چکا تھا۔

"اسے آپ نے نہ بتا کر مزید کوئی بڑا وبال اپنے سر لے لیا ہے بھائی، وہ اس وقت تکلیف میں ہے اور ایسا نہ ہو وقت پڑنے پر مجھ سے شادی والا جھٹکا اسکی جان لے جائے"

سراج کے زرا ہچکچا کر پیش کیے گئے خدشات پر عباد مسکرا اٹھا، سراج علی کے جذبات پر آج پہلی بار پیار آیا۔

"مر بھی گئی تو خس کم جہاں پاک، سچ تو یہی ہے سراج علی کہ اس لڑکی کے لیے میرے دل میں رتی برابر نہ احساس ہے نہ نرمی۔ اور میرے بچے کو لے جانے میں صرف حارث ملوث ہے اب ایسا بھی نہیں۔ سارا سچ سامنے ہے، وہ میرے لیے واجب قتل حد تک ناقابل برداشت ہے لیکن یہ سب میں صرف تمہارے لیے کر رہا ہوں، صرف تمہاری محبت کہ بھروسے۔۔۔ اور آج جس فاریہ سے میں ملا ہوں وہ پہلے والی نہیں تھی۔ اب تم مجھے مایوس مت کرنا۔ کم از کم تمہاری اور فاریہ کی طرف سے مجھے کچھ چین کی گھڑیاں نصیب ہوں تاکہ ذہنی انتشار کم ہو"

بہت سے دکھ اور تکالیف مخفی تھے جب عباد اسے یہ سوہان روح حقائق بیان کر رہا تھا۔

اگلے ماہ الیکشن تھے تبھی عباد چاہتا تھا اس سے پہلے وہ لوگ گاوں کا ایک ذہنی سکون پہچاتا وزٹ کر لیں اور کل وہ خود اس سے منہا کو بھی آگاہ کرنے کا سوچ چکا تھا۔

سراج کی آنکھیں بھلے اس پر جل سی اٹھیں پر کہیں اندر دل سے پورے حق کے ساتھ اس بکھری لڑکی کو سمیٹنے کی خواہش ہر احساس پر بھاری تھی۔

وہ سر جھکائے لاجواب سا کھڑا تھا۔

"سچ کہوں تو جتنی تذلیل وہ میری کر چکی ہے، میرا دل تو مر چکا ہے۔ لیکن محبت کرنے والے بھی بلکل جہاد کرنے والے جنگجو ہوتے، کمر کر کے فرار کا سوچیں تو بزدل و منافق کہلائے جاتے۔ میں اپنی پوری کوشش کروں گا کہ اپنے ٹوٹے دل کی کرچیاں اسکے زخمی دل کو چبھنے نہ دوں"

اک آس اور جذب کے سنگ وہ عباد کی آنکھوں میں جھانک کر عہد لے رہا تھا اور عباد کی مسکراتی آنکھیں خوش اور دل ، اس شیر جواں کے لیے دعا گو ہوا تھا۔

"مکمل جہاں اور کامل سکھ آج تک بادشاہوں کو نہ ملے، حاکموں کو نہ ملے، سرداروں کو نہ ملے تو ہم ادنی سے انسان کیسے پا سکتے ہیں ، اک کمی دلِ داغ دار کو تاعمر سلگاتی رہتی ہے"

عباد کی گہری بات میں کھو جاتا وہ خود بھی اداس تھا مگر عباد اسکا کندھا برادرانہ محبت سے تھپکتا اندرونی سمت لپک گیا اور سراج علی نے اس خنکی اوڑھتی رات میں آسمان تلے کھڑے اپنی ہر حس مفلوج محسوس کی۔

سچ تھا کہ کبھی کبھی انسان اس مالا کی طرح بکھر جاتا ہے، جس کے موتیوں کو سمیٹ کر پھر سے دھاگے میں پرویا جائے تو …دانے پورے نہیں ہوتے،… ایک آدھ موتی کسی نہ کسی کونے میں کھو ہی جاتا ہے اور پھر ساری زندگی ان موتیوں کو ڈھونڈنے میں ہی گزر جاتی ہے۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

اگلا روشن دن طلوع ہو چکا تھا، دن بدن بڑھتی موسم کی خنکی مزاج میں بھی اک شائستہ سکون اتار رہی تھی۔

حارث کی ضمانت کی خبر عباد کو مل چکی تھی اور آج وہ اپنے ہر کام کو پسِ پشت ڈالے صرف گھر آرام ہی کرنا چاہتا تھا تبھی آفس کی چند میٹنگز بھی اس نے سراج کے سپرد کیں۔

خود وہ منہا کا منتظر تھا مگر وہ ابھی آئی نہ تھی البتہ سزوکی میزان کے پیلس کی راہداری عبور کر کے پورچ تک رکنے پر عباد کی آنکھوں میں سرد مہری اتری۔

حارث کا ہاتھ پکڑ کر باہر لاتی ناجیہ جسکے خود عین راستے میں حائل ہوتے عباد کو دیکھ کر رنگ اڑ گئے اور خود حارث کی نظر جب خونخوار ہوتے عباد پر پڑی تو وہ سہم کر ماں کے پیچھے چھپنے لگا۔

اور حارث کی اس حالت پر عباد کو ترس آیا۔

اور چلتی پھرتی ناجیہ کیانی کی عبرت بھی وہ صاف صاف دیکھ رہا تھا۔

"تو فائنلی ہو گیا یہ منحوس آزاد، لیکن یاد رکھیے گا ابھی سب ختم نہیں ہوا۔ میں بہت جلد اسکے حلق سے سچ گھسیڑ کر نکالوں گا ناجیہ صاحبہ۔ ابھی آپ کچھ دن اسے اپنے پلو میں چھپا کر رکھیں، ویسے بھی عباد حشمت کیانی اپنے جیسے مرد سے ہی مقابلہ کرنا اپنی شان سمجھتا ہے۔ گری پڑی عورتوں اور اس وحشی خبیث جیسے ملعون سے ماتھا ٹیکنا مجھے زیب نہیں دیتا۔۔۔۔لے جائیں اپنے اس معصوم سپوت کو کہیں میرا ہاتھ اٹھ گیا تو اسی معصومیت یہیں نہ بکھر جائے"

دفعتاً نفرت سے دیکھتے ہی عباد کی آنکھیں لہو لہان ہوئیں ساتھ پورے جسم کا لہو چہرے پر چھلکا۔

ناجیہ کے پاس اس وقت کچھ کہنے کو نہ تھا مگر اس ہتک کے احساس سے اسکا چہرہ ضرور دہکا۔

"اپنی زبان کو سنبھالو عباد، تم اپنی لمٹ کراس کر رہے ہو"

سچ نے ناجیہ بیگم کو تلملا دیا تھا اور عباد اسکی سمت سے بیزاری سے منہ موڑ کر ٹکا سا جواب دیے گردن اکڑا کر جبڑے بھینچ گیا تبھی ناجیہ بھی پیر پٹخے حارث کو لیے اندر بڑھ گئی۔

فاریہ بھی کچھ دیر پہلے ہی تازہ ہوا کے لیے پیلس سے باہر نکل آئی تھی، یہاں قریب لگ بھگ کافی کُھلی آراضی بھی کیانی فیملی ہی کی ملکیت تھی۔

عام سی وائیٹ شرٹ اور نیلی جینز پہنے گرد باریک اونی شال اوڑھے کھلے بالوں اور بکھرے خلیے میں وہ مٹی کی ڈھلوان پر آکر بیٹھی تھی، دو گارڈز ہمہ وقت کچھ فاصلے پر اسکی نگرانی میں لگے تھے۔

کل رات سے اب تک وہ شدید تکلیف سے گزری تھی ، ایک طرف عباد اسے ایز آ فیوچر وائف کہہ کر لے جا رہا تھا جو انکے پلین کے عین مطابق تھا۔

مگر ایک طرف سراج علی کو کھونے کا درد فاریہ کے دل کو نوچ کھا رہا تھا۔

وہ بہت بوجھل رہنے لگی تھی، ابھی بھی ہر منصوعی حسن سے عاری چہرہ لیے، رت جگے میں سرخائی بنی آنکھیں، خاموشی سے زیادہ اسکے وجود سے اذیت چھلک رہی تھی۔

"کیا واقعی میں نے تمہیں کھو دیا سراج علی"

پلکیں جھپکتی وہ رندھی آواز سے خود سے سوال کرتی تاحدِ نگاہ اوس میں ڈوبی گھاس پر نظر گاڑے ہوئے تھی، کہ دیکھتے ہی دیکھتے ویسے ہی نمی اسکی آنکھوں سے نکل کر رخساروں پر اتر آئی۔

جسے اس نے فورا سے بیشتر بے دردی سے رگڑ دیا۔

دوسری طرف سراج علی ، عباد کے کہنے پر کچھ پارٹی کے لوگوں سے ملنے پہنچا تھا۔

کچھ ضروری کام نمٹا کر وہ آفس جانے والا تھا وہیں سرور نے اپنے آدمیوں کو سراج علی کے پیچھے لگا رکھا تھا۔

اسے یہی تاکید کی تھی کہ سراج علی کو صرف دھمکانا اور ڈرانا ہے اور تب سے ایک مشکوک آدمی مسلسل سراج کا پیچھا کر رہا تھا۔

وہیں ڈھلوان پر بیٹھی اجڑی سی فاریہ نے یکدم ہی دل پر گھبراہٹ محسوس ہونے پر ہاتھ جکڑا، یوں لگا سانس کے لیے آتی ہوا رک سی گئی ہو۔

دل شدت سے سراج علی کی ایک جھلک دیکھنے کو مچلا تبھی وہ اٹھ کر واپس گارڈز تک پہنچی۔

"مجھے عباد کے آفس جانا ہے لے چلو"

فاریہ کے حکم پر گارڈ نے فوری سر ہلائے اسکے جاتے ہی پیچھے لپک کر فرمابرداری سے راہ لی۔

سراج علی اس سارے وقت مختلف پارٹی کے لوگوں سے الیکشن کے معاملات پر بات کرتا رہا۔

ووٹرز کی کمی عباد کو اپنے حلقے میں کبھی نہ تھی مگر پھر بھی سراج اور اسکے علاوہ باقی لوگ عباد کی یقینی جیت کے لیے ہر ممکنہ کوشش کرنے میں لگے تھے۔

وہ ایک اچھا اور بہترین ایم این اے ثابت ہوا تھا اور اسکے سامنے فریق میں سرور ہے یہ بات بھی آج کھل چکی تھی۔

سراج علی کو یہ معاملہ کچھ ناگوار ضرور گزرا مگر اس نے اسے بھی عباد کے لیے ایک مزے دار چیلنج کے طور پر لیا۔

فاریہ سارا رستہ عجیب سی بے چینی میں مبتلا تھی اور ایک گھنٹے کی مسافت طے کیے جب وہ آفس پہنچی تو جیسے اپنے یوں بے سمت چل پڑنے پر دل تک سُلگ گئی۔

دل سراج تک جانے کی طلب کر رہا تھا اور انا روک کر راستے بند کر رہی تھی۔

وہیں دوسری طرف سراج تمام امور نمٹائے آفس میں آیا اور اپنے دھیان میں کچھ پیپر ورک کرنے لگا۔

وہ مشکوک آدمی سرور کا ایک ٹرینڈ غنڈا تھا تبھی بنا گن کے ہی سراج علی کو دھمکانے آیا تھا، اردگرد دیکھتے ہی وہ اندر داخل ہوا جہاں سراج علی نے اس کے بغیر اجازت آنے پر سر اٹھائے ناگواری سے دیکھا۔

یہاں فاریہ بھی انا کو جھٹک کر اندر لپکی، قدموں میں گویا دل کی دھڑکن سما گئی ہو۔

"کون ہو تم؟"

سراج علی کو اس آدمی کے بھیانک تیور دیکھ کر کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا تبھی وہ فائیل میز پر رکھتا تنقیدی نگاہ اس آدمی پر ڈالے بولا مگر مقابل کا آنکھ دبا کر نجس قہقہہ اور ساتھ ہی لپک کر سراج علی کو پوری قوت سے منہ پر مکا رسید کرنے پر سراج دو قدم دور جا گرا، وہ آدمی بے رحمی کے سنگ اس سے پہلے سراج علی پر مکوں اور لاتوں کی برسات کرتا کسی زور دار چیز کے وار نے سراج علی پر جھکے آدمی کی دنیا اندھیر کی۔

وہ موٹا سانڈ آدمی بن پانی کی مچھلی سا تڑپ کر فرش پر جا گرا اور سراج نے سامنے ہاتھ میں پتھر کا واس پکڑ کر اسکی اور دیکھتی فاریہ کو دیکھا جو خود ساکت ہو چکی تھی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"آرام سے، میری جان"

حارث کو آرام سے بیڈ پر بیٹھائے وہ اسکی زخم زخم حالت پر افسردہ تھی، ساتھ ہی گھوم کر عائشہ کے ہاتھ میں لی ٹرے پر رکھے ہلدی دودھ کا گلاس پکڑے وہ حارث کے پاس بیٹھی جو پورے جسم میں اٹھتی تکالیف سے کراہ سا گیا۔

"تم ٹھیک ہو جاو گے، خود کو تکلیف مت دو۔ کیا حال کر دیا ہے میرے شیر جوان بچے کا۔ ہاتھ ٹوٹیں ان سبکے"

ناجیہ کو رہ رہ کر اپنی ذلت اور پھر حارث کی یہ عبرت دیکھ کر تکلیف سی ہو رہی تھی جو دودھ نہ پینے کا اشارہ کرتا بے سدھ ہوئے آنکھیں موند گیا تھا۔

عائشہ بھی افسردہ سی حارث کی اس حالت پر پتھرائی ہوئی تھی، ان لوگوں کی عبرت نے اسے ہلکان کر رکھا تھا۔

پہلے فاریہ کی وہ کربناک حالت اور اب یہ عیاش اور جوئے باز شرابی کی ایسی حالت اسے کپکپی میں مبتلا کر گئی تھی۔

ناجیہ نے حارث کی ہر ضرورت کا دھیان رکھنے کی ذمہ داری عائشہ کو دی تھی اور یہ اگر پہلے والا حارث ہوتا تو عائشہ خوفزدہ ضرور ہوتی مگر اس بے جان بندے سے اب ڈر کم ہمدردی زیادہ تھی تبھی وہ ہاں میں سر ہلاتی ناجیہ کے جانے پر تھوڑا قریب ہوئے غور سے حارث کی بند آنکھیں اور حرکت کرتے ہونٹ دیکھنے لگی کیونکہ وہ غنودگی میں کچھ بول رہا تھا۔

عائشہ نے کافی کوشش کی مگر اس وقت وہ بہت مدھم آواز تھی تبھی اسے کچھ سمجھ نہ آسکا۔

دوسری طرف عباد کافی دیر ادا جان کے پاس رہا، انکو حارث کی کارستانی اور واپسی کا بھی بتایا جس پر وہ خود ناراض اور رنجیدہ تھیں۔

منہا آج کچھ دیر سے جاگی تھی، خود معظم صاحب نے اپنی گڈی کو سونے دیا تھا کیونکہ رات منہا بہت دیر سے سوئی تھی۔

بارہ بج گئے تھے اور لیٹ بلکے ایکسٹرا لیٹ ہونے پر وہ ہر کام ہڑبڑا کر کرتی کبھی کچھ الٹ رہی تھی کبھی کچھ، آج تو احد کو بھی دادوو نے ہی فریش کروائے چینج کے ساتھ فیڈر بھی بنا دیا تھا۔

اور خود اپنے لیے اور منہا کے لیے بھی ناشتہ بنایا۔

"پُتری آرام سے، دیکھ احد بھی اپنی اماں کی باولی پُھرتی پر ہنس رہا"

منہا کو اپنے بال نفاست سے کندھوں پر پھیلا کر گلے میں بوکھلاہٹ کے سنگ حجاب سیٹ کرتا دیکھ کر وہ جان بوجھ کر شرارت سے بولے تو واقعی منہا نے جب مڑ کر دیکھا احد مسکرا رہا تھا۔

ساری گھبراہٹ بھلائے وہ احد تک پہنچی اور اسے ڈھیر سے پیار دیے۔

"دادوو آج تو دو گھنٹے لیٹ ہو گئی، خیر نہیں میری۔۔۔۔ اچھا میں جا رہی آپ اپنا اور اسکا خیال رکھیے گا"

اپنی اجلت کی وجہ بتاتی وہ دادوو سے ڈھیر سی دعائیں لیتی تقریبا دوڑ کر باہر نکلی۔

کچن تک پہنچتی سانس پھلائے وہ جب اندر گئی تو سامنے ہی عائشہ کا اُترا منہ دیکھ کر منہا مسکراتی اس تک پہنچی جو پہلے تو اس سامنے سے آتی یکسر بدل جاتی منہا کو دیکھ کر اپنی جگہ جمی ، وہ تو منہا نے اسکا کندھا ہلایا تبھی جنابہ واپس آئیں اور آتے ہی ہنستی ہوئی منہا کو کچن میں ہی گما ڈالا۔

اب دونوں ایک جیسی پیاری اور اوگنائز ورکز لگ رہی تھیں مگر منہا اس پر ہر طرح بھاری تھی۔

"چشم بدووور، یار تم تو مکمل بدل گئی منہا۔ سچ میں ماشا اللہ بہت پیاری لگ رہی ہو"

عائشہ کا سراہنا جیسے منہا کے اندر سے کہیں اعتماد نکالے اسکے چہرے پر لے آیا اور وہ بلش کرتی واقعی چھوئی موئی مومی گڑیا لگی۔

"شکریہ عائشہ، یار میں لیٹ ہو گئی آج۔۔۔۔۔ ادا جان کے پاس جاتی"

ممنون ہوئے وہ عائشہ کو تکتی فورا کچن سے نکلے سیدھی ادا صاحبہ کے روم کی جانب ہی جا رہی تھی جب بے دھیانی میں انکے کمرے سے باہر نکلتے عباد سے جا ٹکرائی۔

ایک لمحے تو منہا کا سر گھوما، اور ایک بار پھر اس حسین ٹکراو پر عباد حشمت کیانی کے حسین خدوخال مسکرا اٹھے۔

فوری عباد کی بازووں سے نکل کر سنبھل کر کھڑی ہوتی وہ تھوڑی سرخ رو ہوئے حیا اوڑھتی اس وقت عباد کے دل پر نقش ہوئی پھر اسکے نازک وجود پر یہ نیلا رنگ، اسکے کھلے بال جنکی خوشبو کچھ دیر پہلے عباد نے بہت قریب سے محسوس کی تھی۔

وہ چہرہ کِھلا اور ملائم سا جس پر ایک شکن نہ تھی مگر ہاں گھبراہٹ، بوکھلاہٹ اور جھجک کے رنگ ضرور تھے۔

"وہ سو رہی ہیں، آو میرے ساتھ"

منہا کی سمٹ جاتی ذات بھانپتا وہ خود ہی گلالوں میں ڈھلتی اس نازک اپسرا کو کہتا خود بھی آفس کی سمت لپکا تو منہا بھی جھکی نظر اٹھائے دم سادھ لیتی پیچھے ہی لپکی۔

عباد کے قدموں کا پیچھا کرتی وہ اسکے آفس تک پہنچی، اندر داخل ہوتے اک عجیب سا ڈر محسوس ہوا مگر پھر ہمت کیے قدم بڑھائے جو خود بھی رک کر مڑ چکا تھا۔

بھرپور نگاہ ڈالنے سے گریز کرتا وہ دھیما سا مسکرایا۔

"کل آپ احد سے بنا ملے کیوں بھاگ گئے تھے؟"

وہ دھیمی دوستانہ مسکراہٹ ملی تو منہا نے فوری آس سے سوال کیا تھا، ناجانے کیوں منہا کے ذہن میں وہ لمحہ نقش تھا۔

عباد کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ غائب ہوئی۔

"بہت جاذب لگ رہی ہو منہا سلطان"

سنجیدگی سے منہا کا سوال رد کیے وہ جس ٹون میں بولا، منہا بل کھا کر رہ گئی۔

مقابل کی آنکھیں صاف صاف درد میں لپٹی معلوم ہوئیں۔

"میرا سوال نامراد کر دیا"

منہا کو ہتک کا احساس گھیر گیا، اور خود بخود ان اداس آنکھوں والی کے لبوں پر شکوہ مچلا۔

"بہت پیارا ہے تمہارا احد "

پھر سے بچ نکلنے کو وہ رخ پھیر گیا، ناجانے کیوں منہا کا دل بیقرار ہوا۔

قریب چلی آتی وہ عباد کے کچھ فاصلے پر کھڑی اسکی سمت دیکھ رہی تھی۔

"آپ نے کہا تھا آپ مجھے اداسی کی وجہ بتائیں گے، مجھے نہیں پتا میں نے کیوں یہ رنگ لیا کل لیکن آپکی اداسی کی وجہ جاننے کی خواہش سی تھی۔۔۔ اور جس طرح آپ احد کو دیکھ کر بھاگے مجھے اچھا نہیں لگا۔ اگر وہ پیارا تھا تو ایک بار اسے نظر بھر کر دیکھتے تو۔۔۔۔ خیر میں بہت فضول بول رہی، یہ سب آپکی مرضی ہے بھلا میں کیا کہہ سکتی"

تاسف کی بھرمار کے سنگ اک یاسیت اور قنوطیت تھی جس کے سنگ وہ عباد سے سوال کر رہی تھی ، وہ رخ موڑے آزردگی سے منہا کو دیکھنے روبرو ہوا۔

ایک پل تو منہا دم سادھ گئی، اتنی جلدی عباد کی آنکھوں کے کنارے گلابی پڑ گئے تھے۔

"ہر انسان کی زندگی کے کچھ ایسے باب ہوتے ہیں منہا سلطان جو وہ بند ہی رکھنا چاہتا ہے، اگر وہ کھل جائیں تو کئی زخم ادھڑ جاتے ہیں"

منہا اسکی اس بات پر مزید بجھ سی گئی تھی، یعنی وہ اپنی زندگی کا کوئی باب کھولنے پر راضی نہ تھا۔

اور ہوتا بھی کیوں، وہ جانتی تھی وہ بس ایک اجنبی سی ہی تو ہے۔

لیکن آج اپنے دل کے نرم ہوتے خیالات کے باعث وہ پوچھ بیٹھی تھی اور اسکے سوال کا کوئی جواب وہ چاہ کر بھی نہ دے سکا تھا۔

جبراً مسکراتی وہ دو قدم دور ہٹتے سر ہلا گئی۔

"ٹھیک کہا آپ نے، میں سمجھ سکتی۔ لیکن احد کے ساتھ کوئی یوں کرے تو مجھے ہمیشہ اس سے زیادہ دکھ ہوگا"

ناجانے کیوں وہ یہ کہتی اداس تھی اور اسے اداس وہ دیکھ ہی نہ پایا۔

"دوبارہ نہیں کروں گا۔ ان فیکٹ میں آج تمہارے گھر آوں گا۔ احد سے بھی ملوں گا اور تمہارے دادا جان سے بھی کچھ اجازت درکار ہے"

یکدم ہی منہا حیرت سے عباد کی سمت دیکھنے لگی جو جان لیوا مسکرا رہا تھا، خاص کر گھر والی اپنائیت پر وہ ٹھیک سے مسکرا بھی نہ سکی۔

"ک۔۔کیسی اجازت "

منہا کا گلا صدمے سے خشک ہوا، اور اسکی یہ حالت عباد کو مسرور کر گئی۔

"اٹس آ بگ سیکرٹ، تم جاننا چاہتی ہو عباد حشمت کیانی کو؟ بولو"

وہ دو قدم مزید قریب ہوا تو منہا کا دل رکا، ڈر کے مارے وہ سہمی سی میز سے جا لگی۔

"ج۔۔جی مگر"

منہا نے صدمے کی کیفیت میں بولا، اتنے قریب عباد کو دیکھ کر پورے جسم میں ڈر کی لہر سرائیت کر رہی تھی مگر وہ ایک مناسب فاصلے پر رک چکا تھا۔

اسکے کلون کی مہک منہا کے حواس شل کر رہی تھی، اور وہ تھا بھی ساحر، حاوی ہو جانے والا۔

"تو تمہیں مکمل حق کے ساتھ اپنے آپ تک رسائی دینے کا خواہش مند ہوں"

بے جان تو وہ پہلے ہی تھی یہ چند لفظ تو اسے واقعی پتھرا گئے، پہلے تو منہا کی عقل میں یہ بات نہ سمائی مگر تھوڑا بہت مفہوم سمجھ آنے پر وہ عباد کی سمت روہانسی ہوئے دیکھنے لگی۔

پلوں میں آنکھیں دھندلائیں۔

"آپ مزاق کر رہے، ایسا مزاق آپ کیسے کر سکتے"

ہوش ملتے ہی وہ تلملائی، چہرہ تپش زدہ ہوا۔

"اب تم جاو میں رات کو ڈنر تمہارے احد اور تمہارے دادا کے ساتھ کروں گا۔ ہیو آ گڈ ڈے"

منہا کو صدمے میں ہی غرق کرتا وہ اپنی ادھوری بات ادھوری ہی رکھتا شرارت سی لیے مڑا اور وہیں سے اپنے روم کی سمت لپکا۔

منہا نے بمشکل ہی میز کا سہارا لیا، پورا وجود برف کی مانند ہو رہا تھا۔

یہ سب کیا ہوا تھا منہا کو ابھی سمجھ آنا ناممکن تھا اور وہ غائب دماغی سے ہی باہر نکل گئی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

سراج کے اوپروی ہونٹ کا کنارہ اس منحوس کے وار سے پھٹ گیا تھا، فوری اس زخمی آدمی کو اپنے گارڈز کے ساتھ روانہ کروائے وہ خود فاریہ کے بے حد قریب بیٹھ کر اسکے کاٹن کے سنگ زخم صاف کرنے پر تھوڑا بے چین تھا جو اسکے ماتھے پر بھی گرنے کی وجہ سے آتے گہرے زخم پر بینڈج کر چکی تھی۔

ہر احساس سے عاری وہ اپنے ہاتھ کی نازک مسیحائی جاری رکھے تھی اور سراج اسے دیکھنے سے خود کو روک نہ پا رہا تھا۔

اسکے نرم ہاتھ کی پور کا سراج علی کے ہونٹ کو احتیاط سے مس کرنا، زخم کو اتنی فرصت اور پیار سے مرہم دینا پھر بھی کوئی جذبہ حاوی نہ ہوا۔

تیرے چھونے سے بھی جنبش میں نہیں آئیں گے

سخت پتھرائے ہوئے سنگ نما ہونٹ مرے۔۔۔۔۔۔♡

دل تو ناراض تھا، اور ناراضگی سراج علی کے دل کا اولین حق تھی۔

دونوں کی نظریں ملیں تو دل تک تہلکہ مچا گئیں۔

"تم نے میری جان بچائی اس منحوس سے، شکریہ"

بہت مشکل تھا فاریہ کو یہ کہنا مگر وہ کہہ گیا اور فاریہ کیانی جو بمشکل آنکھوں میں اترتی نمی دبائے تھی آنکھیں چرا سی گئی۔

"تم کیا جانو کے آج مجھے تم پر آئی آنچ کی خبر خودبخود ہوئی، تم کیسے سمجھو گے کہ فاریہ کیانی تمہارے لیے مر رہی ہے" اپنے ہاتھ میں سراج علی کے خون سے رنگا کاٹن بھرائی آنکھوں سے تکتی وہ دل میں کرب زدہ تھی۔

سراج علی اسکی چپ پر رنجیدہ تھا۔

دل تو چاہا اسے بتا دے سب مگر ناجانے کیوں کہتے کہتے رک گیا۔

"یہ کون تھا؟ کیوں مارنا چاہتا تھا تمہیں"

فاریہ نے خود کو ہر ممکنہ مضبوط کیے پھر سے سراج کو دیکھتے پوچھا جو جبڑے بھینچتا اپنے سر کے زخم کو چھونے لگا۔

"جو بھی تھا سامنے آ جائے گا، دشمنوں کی کمی تھوڑی ہے۔۔۔ مجھے تو تم بھی مرنے کی بددعائیں دیتی رہتی ہو"

شروع میں وہ غائبابہ حقارت میں لپٹا آخر تک فاریہ کو دیکھ کر وہ کہہ بیٹھا جو غیر ارادی طور پر سرزد ہوا۔

کتنی ہی دیر وہ آنکھیں نہ ملا سکی۔

"سہی کہا، میری بددعا لگنی ہوتی تو کئی سال پہلے ہی لگ چکی ہوتی۔ ویسے بھی تم سے ڈھیٹ اتنی آسانی سے کہاں مرتے"

دگنا آگ لگاتا وار کرتی وہ سراج علی کی مسکراتی آنکھوں سے خائف ہوئی جو وہ ضبط نہ کر سکا، بس فاریہ کے اندر پہلے جیسی جھلک دیکھ کر تھوڑا مطمئین ہوا۔

اسکی نظر پڑتے ہی وہ فوری مسکراہٹ کا نشان تک غائب کر گیا۔

"اب تم جاو گھر، مجھے کچھ کام ہیں۔ تمہارا یہ احسان چکا دوں گا"

یوں فاریہ کے قریب بیٹھنا تک اسے مشکل سے دوچار کر رہا تھا تبھی اٹھ کر اسے جانے کو کہا مگر وہ اسکی بات سمجھنا چاہتی تھی تبھی اٹھ کر عین اس ظالم کے روبرو ہوئی۔

"جان بچانے کا یا مرہم کا"

سوال کرتی وہ جان لے رہی تھی، اسکی بات سے زیادہ کرب تو اسکی ویران آنکھوں میں تھا۔

"مرہم کا تو تم نے چکایا ہے، میں جان بچانے کا چکاوں گا"

کسی ان کہے احساس نے دونوں کو اک حصار جان پرور میں باندھ سا دیا۔

وہ اسکے پلکیں جھپکے بنا دیکھنا چاہتی تھی مگر وہ نہیں چاہتا تھا بے وقت کوئی خطا کر دے، وہ گلابی مائیل کرتی آنکھیں سراج علی کا امتحان ہی تو تھیں۔

"میں اس سے پہلے ہی مر گئی تو؟"

فاریہ کی آنکھوں میں نمی اتری تھی، وہ یہ سوال چاہتے ہوئے بھی نہ کر سکی اور کرچیاں آنکھوں میں لیے رخ موڑ گئی۔

"اگر خدا

مجھے تم پر اختیار دے

تو میں

تمہارے ذہن سے

اپنے لئے ساری لاپرواہی نکال کے

تمہاری رگ رگ میں

اپنے لئے محبت دوڑا دوں۔۔۔

لیکن ایسا ممکن نہیں۔۔۔۔۔

اور اس حسرت نے ہی میری جان لے لینی"

دل میں حشر برپا تھا وہ چاہتی تھی وہ اسے روک کر وہ کہے جس کو سننے کے لیے وہ تڑپ رہی تھی مگر سراج علی بے وقت کچھ بھی کہہ کر اپنا ضبط آزمانے کے حق میں نہ تھا۔

وہ بنا مڑے تیزی سے آفس روم سے باہر نکلی اور وہ اسے جاتا دیکھ کر وہیں صوفے پر بے جان ہوئے بیٹھا۔

"تم مجھے پڑھ سکتی ہو …..

کسی بھی وقت اور کہیں سے بھی ,

میں تمہارے دل کے والوں سے

تمہارے دماغ کی باریکیوں تک

ٹھنڈک کا احساس بن کر گزروں گا ……

تم مجھے ایک ہی سانس میں ….

گٹکنے کی کوشش مت کرنا

میں گھونٹ گھونٹ بن کر تقسیم ہوں

لا تعداد سطروں میں"

آسودگی سے سر ٹیکے وہ آنکھیں موند گیا تھا، تصورِ یار کے لیے عُشاق یونہی آنکھیں موند ہی تو لیا کرتے ہیں۔

جب سے عباد نے ڈنر ساتھ کرنے کا کہا تھا وہ تو بہت گھبرا رہی تھی، اسکے شایانِ شان کیا کیا بنائے یہ دقت طلب تھا۔ اور پھر معظم صاحب خود مارکٹ سے بریانی اور رس ملائی کا سامان لائے تھے اسکے علاوہ کباب بھی فریز تھے جنکو تلنے کی وہ منہا کو تاکید کر چکے تھے۔

منہا نے سارا کچھ تین گھنٹوں میں بنایا تھا اور بریانی کے لیے ساتھ سلاد بھی، اتنا سب اس نے کبھی ایک ساتھ نہیں بنایا تھا بلکہ کئی کئی دن تو وہ دال چاول یا دال روٹی پر گزارا کیا کرتے تھے۔

میز سجاتے ہوئے منہا کی آنکھیں خوامخواہ نم ہوئیں، اپنی پچھلی زندگی کے کرب یاد آکر آنکھیں دھندلا گئے مگر وہ تب بھی صبر بجا لاتی تھی اور اب بھی اسکے دل میں شکر گزاری کے جذبات کا سمندر تھا۔

دوسری طرف حارث کی دیکھ بھال شروع ہو چکی تھی، وہ اپنے آپ سے تنگ لگتا تھا ، ڈاکٹرز اس کا تفصیلی جائزہ لے کر گیا تھا اور امید دلائی تھی کہ وہ جلد واپس زندگی کی سمت لوٹ آئے گا۔

سراج علی کے زخم آج پہلی بار مسیحائی پا گئے تھے، بھلے جسمانی سہی پر اس ظالم نے مرہم تو دیا اور پھر آنے والے وقت میں جب کہیں دل کا مرہم عطا ہونے کی خوش بخت گھڑی کا سوچا تو دل نہال ہو گیا تھا۔

منہا نے گھر میں ہنوز اپنا پرانا ہی جوڑا پہنے دوپٹہ نفاست سے شانوں پر پھیلا رکھا تھا، سارے بالوں کو ہیر بینڈ نے بھلے مقید کیا ہو مگر اک جبین سے اٹکیلیاں کرتی لٹ نے چہرے کے مقابل جھول کر الگ ہی کشش بیدار کی تھی۔

وہ ابھی تک عباد کے کہے لفظوں میں الجھی تھی، یہ شخص بلا شبہ کوئی جادوگر تھا۔

کھانا لگانے کے بعد وہ احد اور دادوو کے پاس آئی ہی کہ باہر ہوتی دستک پر منہا کا دل بھی دھڑکا۔

خود کے چہرے پر بوکھلاہٹ ہر ممکنہ دباتی وہ دروازے تک پہنچی اور کھولتے ہی سامنے وجیہہ پروقار سراپے میں لپٹا وہ ہاتھ میں ڈھیر سے گفٹس بیگ تھامے کھڑا تھا، وہی روح تک جھانک لیتی نظر، وہی لُوٹ لیتے انداز اور وہی بنا کہے منہا سلطان کے دل کے تاروں سے چھیڑ خانی۔

سفئد کلف لگے سوٹ میں وہ اس وقت اجلا اور جاذب معلوم ہو رہا تھا، اور وہ تو بھول ہی بیٹھی کے مہمان کی میزبانی کرنی ہے۔

مقابل کے چہرے کے سارے خدوخال کا مسکان میں ڈھلنا منہا کو واپس ہوش میں لایا اور وہ فوری ایک طرف ہوئے جھجک کر نظر جھکا گئی۔

"خوش آمدید "

اسکا ویلکم عباد کو مسرور کر گیا تبھی شاہانہ مسکراہٹ کے سنگ وہ بیچ کا فاصلہ طے کرتا وہ شاپنگ بیگز ابتدائی دیوار کے ساتھ ہی نسب سجاوٹی میز پر رکھے بھرپور نگاہ منہا کے شفاف مگر کہیں دل سے بے تاب حالت زار افشاں کرتے چہرے پر ڈالے روبرو ہوا۔

"اس گھر کے سکون و آرام میں مجھے کبھی شبہ نہیں رہا لیکن آئی فیل یہ اب سہی معنوں میں جنت کا روپ دھار گیا ہے"

عباد کے سادگی سے کہے اس پُربہار جملے پر منہا نے پلکیں اٹھائے خوشگوار سی حیرت سے عباد کو دیکھا جو اتنی گہرائی سے اسے دیکھنے میں محو تھا کہ منہا کو لگا دل، کان میں آکر دھڑکنے لگا ہے۔

"آپکی باتیں سمجھنے میں ناکام ہوں، آئیے دادا ویٹ کر رہے تھے آپکا"

ان نازک جان لیوا قربت کے لمحوں کی بے خودی سے ڈرتی وہ خود ہی معاملہ نمٹائے مڑی مگر یہ پہلی بار تھا کہ عباد حشمت کیانی نے اسکی کلائی کو آہنی گرفت میں لیتے ہی منہا کو جھٹکے سے قریب کیے مزید مشکل سے دوچار کیا۔

اور ان گھنیری خوف کے باعث تھرتھراتی پلکوں کو دیکھ کر مقابل کے ہونٹوں پر دلنشین مسکراہٹ در آئی۔

ارے حواس لیے وہ منتظر تھی کہ وہ اسکی کلائی آزاد کرے، مزاحمت بھی کی گئی اور اسکے بدلتے روپ عباد حشمت کے دل کی دنیا تہہ و بالا کر گئے۔

یہ جذبہ تو آج تک عباد سے کوسوں دور تھا، یہ تو کوئی انوکھی اور جدید کشش تھی کہ اسکے زخموں کو منہا سلطان کی موجودگی بھرتی چلی جا رہی تھی۔

"آئی ایم سوری "

اپنی کلائی کے گرد جکڑے ہاتھ کو ڈھیلا چھوڑے وہ منہا کی بھرا اُٹھتی آنکھوں سے خوف کھا بیٹھا تھا، اور جیسے وہ نظر بچا کر اندر گیا منہا نے دروازہ فوری بند کیے وہیں رک کر اپنے اتھل پتھل ہوتے سانس کو بحال کیا۔

ہمت جمع کرنا مشکل تھا مگر وہ حوصلہ کرتی روم کے بجائے کچن سے رہی سہی چیزیں لینے چلی گئی۔

عباد جس طرح شفقت اور ادب کے سنگ معظم صاحب سے ملا یہ تو خود ان بزرگ کی طبعیت نہال کر گیا۔

اتنا بڑا آدمی ہو کر وہ اس قدر عاجز تھا کہ انھیں چند منٹس کی بات چیت میں ہی عباد اپنا اپنا سا لگا اور آج منہا کے احد کو بلکل نظر انداز نہ کیا گیا۔

وہ نادانستہ اپنی ہی اولاد تک آ پہنچا، جس وقت اس ننھے چند دنوں کے عباد کو اس نے گود میں اٹھایا، وہی کیفیت جو کل طاری ہوئی آج تو اتنی سنگین ہوئی کہ عباد کا دل تکلیف سے بھر گیا۔

یہ احساس کے اسکی اپنی اولاد اسکے لمس سے محروم ہے، اسکے دل کو کچل گیا۔

خود معظم صاحب مسکراتے مسکراتے تب تھم گئے جب انکی نظر عباد کی آنکھ سے بہتی نمی پر جا ٹھہری، وہ کیا رو رہا ہے؟ یہ صدمے سے کم نہ تھا۔

منہا نے کھانے کے لیے بلا لیا ورنہ وہ عباد سے اس تکلیف کی وجہ جاننا چاہتے تھے۔

منہا نے خود احد کو اٹھایا اور دادوو اور عباد کو کھانا سرو کرتی خود بھی تھوڑی ہچکچائی سی ساتھ بیٹھی۔

مگر سارا وقت وہ احد سے ہی بات کرتی رہی۔

کھانا بلاشبہ لذیذ تھا اور شاید بہت دن بعد وہ رغبت سے کھا رہا تھا۔

جو تکالیف اسکی روح پر ثبت تھیں ان سب نے عباد سے بھوک پیاس اور نیند چھین لی تھی مگر یہ واحد جگہ تھی جہاں داخل ہوتے وہ اپنے ہر بوجھ کو اتار کر آتا تھا۔

گاہے بگاہے وہ منہا سلطان کی جانب دیکھ کر نگاہوں کو آسودہ کرتا اور پھر اپنی اس شوخ سی حرکت پر دبا دبا مسکرائے معظم صاحب سے انکی طبعیت اور یہاں کے آرام کا دریافت کرنے لگتا۔

کھانے کے بعد منہا احد کو سلا کر خود دادوو اور عباد کے لیے چائے بنانے گئی اور عباد بھی معظم صاحب کے ساتھ ٹہلتا ہوا صحن میں لگی کرسیوں تک آیا اور انکے بیٹھتے ہی خود بھی سامنے بیٹھا۔

اگلا پورا ہفتہ وہ گاوں جانے سے پہلے بہت مصروف رہنے والا تھا تبھی منہا کے لیے اجازت چاہتا تھا۔

خود معظم صاحب اسکے چہرے پر اضطرابی رنگ بھانپ کر اتنا تو جان گئے تھے کہ وہ کچھ کہنے کو بے قرار ہے۔

"اگلے ہفتے آبائی گاوں جانے کا پلین ہے تو ادا جان بھی جائیں گی اور میں چاہتا ہوں آپ سب بھی چلیں"

بنا تمہید باندھے ہی وہ اپنی خواہش بیان کر رہا تھا اور معظم صاحب کے چہرے پر پھیلی حیرت اور پریشانی واضح تھی۔

"بچے ہم ، میرا مطلب ہے ہم کیسے جا سکتے ہیں۔ آپ کا گاوں ہے ہم بھلا کیا کریں گے وہاں"

معظم صاحب کا سوال حق بجانب تھا تبھی عباد سارے جواب پہلے ہی سوچ کر آیا تھا۔

"وہاں ادا جان کی دیکھ بھال کے لیے منہا کو لے جانا چاہتا ہوں، آپ اور احد بھی ساتھ چلیں گے تو مسرت ہوگی مجھے"

اپنا مطالبہ کچھ واضح کرتا وہ معظم صاحب کی فطری جھجک تسلیم کر رہا تھا جو اب واقعی تھوڑے متذبذب تھے۔

"میں سنبھال لوں گا احد کو، منہا کو لے جائیں اگر ادا صاحبہ بھی جا رہیں۔ ظاہر ہے اسکا کام انکی دیکھ بھال ہے توجہاں وہ ہوں گی منہا بھی وہیں ہوگی"

اپنی سمجھ کے مطابق وہ عباد کو تسلی بخش جواب دے چکے تھے مگر عباد کے چہرے پر ابھی بھی الجھن تھی۔

جسکو بھانپ کر معظم صاحب بھی فکر مند ہوئے۔

"میں آپ سے گما پھرا کر بات نہیں کروں گا معظم صاحب، سیدھی بات یہ ہے کہ میں منہا سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ اور ہمارا گاوں جانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ سراج اور فاریہ کے نکاح کے ساتھ میں بھی یہ فیصلہ لے لوں۔۔۔"

عباد کے اس انکشاف پر معظم صاحب کا چہرہ سفید پڑا ساتھ ہی وہ اس مطالبے پر آزردہ سا ہوئے عباد کو دیکھنے لگے جو انکی آنکھوں میں اتری اخیر بے چینی بھانپ کر سامنے سے اٹھا اور انکے ساتھ والی کرسی پر بیٹھا۔

وہ تو گویا صدمے میں تھے۔

"ب۔۔بچے یہ کیا کہہ رہے ہیں، آپ کہاں اور میری پوتی کہاں۔۔۔۔ میں کبھی بھی منہا کو کسی ایسے انسان کے ساتھ نہیں جوڑ سکتا جو چند دن میں یہ اتنا بڑا جذباتی فیصلہ لے رہا ہے اور میری منہا کیسے۔۔۔۔مم"

ہلکان اور رنجیدہ سے معظم صاحب کے سارے خدشات سن کر وہ آخر تک انکا جھریوں والا ہاتھ تھام گیا جس پر وہ نم آنکھیں لیے اسے دیکھتے خاموش ہو گئے۔

"نہ تو میرا فیصلہ جذباتی ہے نہ حسب نسب کا فرق میرے آگے اہمیت کا حامل ہے، اسے یہ بات آپ نہیں بتائیں گے۔ میں خود اسے پوری عزت اور پورے مان کے ساتھ اس خواہش سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ محبت کی گارنٹی نہیں لیتا میں نہ دعوے کرتا ہوں لیکن یہ فیصلہ جذباتی نہیں ہے بلکے میرے دل کا سکون ہے۔ مجھے آپ سے اجازت درکار ہے"

اتنی محبت اور چاہ سے وہ معظم سلطان کا دل آسودہ کر گیا کہ انھیں سمجھ نہ آئی وہ اس خوش بخت گھڑی روئیں یا مسکرائیں۔

شادیِ مرگ کی سی کیفیت میں لپٹے وہ بھیگی آنکھوں سے سر ہلا گئے مگر دل بہت سہم سا گیا تھا۔

"اس کے ساتھ احد کو قبول کرنا ہوگا آپکو، اور احد سے جڑے ہر معاملے کو بھی"

یہ کہتے معظم صاحب کا دل لرزا مگر وہ کہہ بیٹھے، اس وقت معاملہ یہ تھا کہ دونوں ہی بیقراری سے اپنی اپنی زندگی کی سچائیاں بتانا چاہتے تھے مگر ابھی وقت مناسب نہ تھا۔

"مجھے کوئی اعتراض نہیں، بلکے آپ بھی ہمارے بڑے اور سر کے شفیق سائے کی طرح قبول ہیں۔ اسے بلکل مت بتائیے گا میں اسے یہ گاوں جا کر ہی بتانا چاہتا ہوں۔ شاید وہ واحد جگہ ہے جہاں میں فتنوں سے آزاد کھل کر سانس لے سکتا ہوں۔ آپ اور احد چل رہے ہیں ناں ہمارے ساتھ"

اک ان کہی سی یاسیت تھی جو عباد کے لہجے سے ٹپکی مگر اسکے آخری سوال پر معظم صاحب اسکی بچگانہ سی بیقراری پر مسکائے۔

"ٹھیک ہے بچے، چلیں گے"

یہ کہہ کر تو گویا وہ عباد کی تھمی سانس اسکو لوٹا گئے تھے۔

اس روز یہ راز عباد اور معظم صاحب کے بیچ رہا۔

اگلا پورا ہفتہ ایک طرح بہت معمولی واقعات کے سنگ گزرا۔

سراج پر حملہ آور ہوتے آدمی کی عباد نے خود سزا تجویز کی تھی اور وہ سرور کا نام کسی صورت نہ لے رہا تھا تبھی اسے جیل کی سلاخوں میں واپسی تک پٹخ دیا تھا اور خود سراج کو اپنی سکیورٹی اہم رکھنے کی بھی تجویز کی تھی۔

منہا کو صرف گاوں جانے کے معاملے کا علم تھا دوسری بات ہنوز راز رہنے والی تھی۔

عباد یہ پورا ہفتہ تھانے کے چکروں، الکیشن کے کاموں اور اپنے دھندوں میں گم رہا اور اس پورا ہفتہ اس کی گھر بہت کم واپسی رہی اور اسی وجہ سے منہا سے بھی اسکی کوئی ملاقات نہ ہوئی۔

منہا ضرور اسکی جھلک نہ دیکھنے پر بیقرار رہتی تھی، ادھر دادا بھی مخمور سی خوشی اور رشک میں لپٹے اپنی منہا پر ہوتے اس کرم پر خوش تھے مگر کہیں احد کے لیے فکر برقرار رہی تھی۔

سراج بھی یہ ہفتہ مصروف رہا تھا، اسکے زخم ٹھیک ہو گئے تھے مگر فاریہ نے یہ سارے دن کمرے میں سیاہ نشینی کے سنگ کاٹے۔

اسکے اندر لگی آگ سب راکھ کر رہی تھی۔

ایک دن پہلے ہی عباد نے اپنے اس سفر سے ناجیہ کو مطلع کیا اور وہ بھی اسی پر خوش تھی کہ وہ فاریہ کو ساتھ لے جا رہا ہے۔

گاوں کے گنوار لوگوں سے تو اسے ویسے ہی چڑ تھی دوسرا وہ خود کچھ دن عباد کی اس حاکمیت سے چھٹکارہ پانے پر خوش صرف یہ دن حارث کو دینا چاہتی تھی۔

حارث کی طبعیت میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہ ہوئی تھی بلکہ وہ الگ ہی ڈپریشن میں مبتلا ہوتا جا رہا تھا۔

عائشہ کو اسکی نگرانی پر لگائے ناجیہ خود بھی ان تنگ ہوتے حالات سے کہیں دل و جان سے الجھی تھی۔

سرور پلاٹ اپنے نام لگوائے اس کی فروخت کیے ایک اچھی رقم وصول کرتا الیکشن کی تیاریاں کرنے میں محو تھا وہیں زین اس مفرور آدمی کی تلاش میں کئی ریٹ کر چکا تھا مگر فی الحال اس آدمی کا پتا نہ مل سکا تھا۔

عباد نے اپنی پہلی شادی کی سچائی اور بیٹے کی گمشدگی کی سچائی بھی منہا کو نکاح کے بعد بتانے کا فیصلہ لیا کیونکہ وہ کسی صورت بھی منہا کا انکار نہیں چاہتا تھا۔

اور اب منہا اور عباد کی زندگی کے ساتھ ساتھ سراج اور فاریہ کی زندگیاں بھی پلٹنے والی تھیں کیونکہ وہ لوگ شام سے پہلے ہی گاوں کے لیے روانہ ہو چکے تھے۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

مسلسل فاضل گوجا کی سمت سے ملتی پیغام رسانیاں سرور کو بُھنا چکی تھیں، آخر وہ کیوں اس سے ملنے کو بیقرار تھا۔

اپنی خفیہ اور پرانی سم آن کیے وہ اپنے آدمی تک پہنچتے فاضل کے پیغام پر اسکو کال ملاتا خود رات ڈھلنے کے بعد آسمان پر چھا جاتی سیاہی کے نیچے آن کھڑا سگار کا کش بھرے تنفر سے مقابل کی کال اٹھانے کا منتظر تھا۔

پہلے ہی سراج پر حملہ آور ہونے والے غنڈے کی جیل جانے والی خبر اسے سلگا چکی تھی۔

"تجھے کہا تھا ناں مجھ سے رابطہ کرنے کی کوشش مت کرنا، کیا موت پڑی ہے تجھے۔ اس وقت پولیس کا وہ تیز سونگھ والا کتا میری ہر حرکت پر نظر رکھے ہے اور ایسے میں تو مجھے مروائے گا منحوس"

ہتک آمیز رویہ لیے وہ مقابل کسی جنگل کے عین وسط چھوٹے سے جھونپڑے میں اپنے اکا دکا آدمیوں کے سنگ آگ جلا کر بیٹھے خونخوار اور دبنگ سے نقوش والے اس فاضل گوجا کی صورت منظر عام پر آئی جہاں تپش تھی۔

"باس دراصل اس قتل کے دوران میری گن میری جیب سے چھوٹ کر وہیں گر گئی تھی، اور وہ پولیس کو مل گئی ہے۔ وہ زین نامی تھانیدار مجھے ہر جگہ ڈھونڈتا پھر رہا ہے۔ جلد یا بدیر وہ مجھ تک پہنچ جائے گا میری مدد کریں"

مقابل کے ملتجی انداز میں کیے انکشاف پر آگ تھی کہ سرور حسین کے تلووں لگی سر پر بجھی۔

شکاری کتے کی طرح نتھنے پھلائے وہ پھنکارا، جی یہی کیا فون کے بیچ ہی گھس کر اس کو بھون دے۔

پورے چہرے کا لہو گویا اسکی آنکھوں میں اترا۔

"موت آئے تجھے حرام زادے، اتنی بڑی غلطی۔۔۔۔ اتنی سنگین خطا آخر کیسے کر سکتا ہے تو۔۔۔۔۔۔یا میرے مالک اب کیا ہوگا"

سرور دل پر ہول اٹھنے کی طرح ہتھیلی پیٹتا وہیں کرسی پر لڑھکا، جو صلواتیں اور گالیاں اسے آتی تھیں سب سے فاضل کو نوازنے کے بعد وہ گہرے گہرے سانس کھینچنے لگا۔

"اگر میں پکڑا گیا پھر تو بتا رہا ہوں آپ بھی نہیں بچیں گے، لہذا میرے آدمی کے ہاتھ دس لاکھ کی رقم بجھوا دیں۔۔۔۔۔۔خدا حافظ"

اپنے غرور اور نخوت میں لپٹا وہ سرور کو تنتنا کر حکم کرتا کال کاٹ چکا تھا اور سرور نے عتاب اور غصے کے سنگ سامنے پڑے میز کو پوری قوت سے لات ماری کے اس پر دھرا گلاس اور شراب کی بوتل زمین بوس ہوئی۔

اٹھ کر لمبے لمبے سانس بھرے۔

"تجھے تو اب قبر میں ہی گاڑنا پڑے گا، میرا کتا اور مجھی پر بھونکنے کی جرت۔۔۔۔ نہ فاضل گوجا ناں۔۔۔ دس لاکھ تو کیا تجھے دس روپے نہ دوں "

اپنی بھیانک منصوبہ بندی کرتا وہ زہریلا ناگ ناجانے اب کسکی موت بننے کو تھا مگر وہ بھول چکا تھا کہ فاضل گوجا کوئی عام غنڈا موالی نہیں بلکے سیریل کلر ہے اور اب لگتا تھا سرور کی رسی اسی فاضل کے ہاتھوں کھینچنے جانے والی تھی۔

دوسری طرف زین کو پھر سے کچھ مشکوک ذرائع سے خبریں مل چکی تھیں اور وہ کل ہی ان مخبروں کی دی معلومات پر پھر سے ریٹ کرنے کا سوچ چکا تھا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

آبائی گاوں کی سرحد میں داخل ہوتے ہی ادا صاحبہ کی آنکھیں مسکرا اٹھیں، یہ زمین، یہ خوشبودار مٹی انھیں ہمیشہ سکون دیتی۔

سراج علی تو ان میلوں تک محیط سرسبز دنیا اور اس ٹھنڈے سکون سے آسودہ و مطمئین تھا۔

اور عباد جسکے دل کو یہ مٹی یہ گرد بھلے متاثر کرتی مگر اس کی خوشبو ڈھارس دیتی تھی۔

پورے گاوں میں رات کے اس پل سرحد پر ہی گاوں کے بڑے بڑے محترمین کا ہجوم تھا۔

وہ سب ہی عباد کی آمد پر اسکے خوش آمدید کے لیے موجود تھے اور جس طرح وہ لوگ خوشی اور غمی کی ملی جلی کیفیت کے سنگ عباد ، ادا صاحبہ اور سراج سے مل رہے تھے یہ سب منہا کو حیرت میں مبتلا کر رہا تھا۔

وہ سب ڈھکے چھپے لفظوں میں افسوس اور تعزیت کرتے رہے، لیکن تب بھی منہا سمجھ نہ سکی۔

دو دن بعد گاوں کی مسجد میں قرآن خوانی کا انتظام تھا لیکن اس سے پہلے ہی عباد یہ دو نکاح انجام دینا چاہتا تھا۔

فاطمہ صاحبہ تو اپنے گھر اتنے سارے مہمانوں کی آمد پر جی اٹھیں، کچھ چہرے تو شناسا مگر کچھ انجان سے تھے۔

اور پھر معراج علی خوبخو سراج جیسا مگر ایک دم شوخ اور مست سا نوعمر۔

عباد نے خود ہی نئے چہروں کا تعارف دیا ، رات کے لذیز کھانے کو ایک شاہی ضیافت کہنا زیادہ بہتر تھا۔

سب کے کمرے درست پہلے ہی کیے گئے تھے، عمدہ خاندانی بستر اور خوبصورت علاقائی سجے کمرے اور انکے بیڈ، ویسے تو جب بھی وہ سب گاوں آتے تو حویلی ہی رکتے تھے مگر اس بار عباد نے فاطمہ خالا کو مہمان نوازی کا شرف بخشا جس پر وہ نہال تھیں۔

ویسے بھی یہ گھر انکے شایان شان تھا، خود عباد چاہتا تھا کہ دونوں نکاح یہیں ہوں اور وہ واپسی پر کچھ دن کے لیے فاریہ کو یہیں سراج کے ساتھ چھوڑ کر واپس جائے۔

لیکن یہ ارادہ ابھی اس نے سراج تک کو نہ بتایا تھا۔

گاوں کے دلفریب خنک زدہ موسم میں سچے اور خالص رشتوں کی مہک سرسوں کے ساگ اور لسی کی مہک جیسے سوہنے ہوا کرتے ہیں۔

ضیافت میں کڑی، دال مکھنی، شاہی ٹکڑے، فاطمہ صاحبہ کی خاص چھ گھنٹوں کے بعد تیار ہوتی اپنی پالی بھینسوں کے دودھ کی کھیر، دال پنیر، بھنا ہوا بکرے کا گوشت، ساگ، قیمہ اور لسئ کے بجائے بادام والا گرم زعفران والا دودھ جو سردی کی تندہی کو کم کرتا۔

احد کو سارا وقت منہا نے خود ہی اٹھائے رکھا، وہ راستے میں تو سویا رہا مگر وہ اسے کمرے میں لے جا کر فیڈر دیے سلا آئی تاکہ وہ آرام و سکون سے سو جائے اور پھر معراج علی نے سب کو پھرتیوں کے سنگ ہر چیز مسکرا مسکرا کر سرو کی۔

فاریہ کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں تھی مگر معراج کے چٹکلے اور اسکی شوخ طبعیت تو ادا صاحبہ اور معظم صاحب تک کو ہنسا رہی تھی تو مجبورا فاریہ بھی ساتھ دے رہی تھی۔

"اتنا سارا اہتمام کر دیا آپ نے خالا جان، اور یقین کریں آپکے ہاتھ کے ذائقے نے بچپن یاد دلا دیا"

وہ سب زمین پر بچھائے قالین جیسے دسترخوان پر ایک جیسے ہی لگ رہے تھے، نہ کوئی ممتاز نہ کوئی کم۔

عباد کی مسکراہٹ کے بدلے وہ تو قربان نظر آئیں، سب مہمانوں پر نثار نگاہ ثبت کی مگر اپنے شہزادے کی نظر بھی اتاری جو کافی ماہ بعد نظر آیا تھا پھر اسکے ساتھ بیٹھی فاریہ جو انکے سراج کی محبت تھی۔

سراج نے یہاں آنے سے پہلے ہی ماں کو سارا کچھ بیان کر دیا تھا اور اس پورا ہفتہ انہوں نے دونوں دلہنوں کے نکاح کے جوڑے بھی خود اپنے ہاتھوں سے تیار کروائے تھے اور عباد اور سراج کے لیے بھی گاوں کے قابل ترین درزی سے دو خوبصورت کھدر کے سوٹ سلوا لیے تھے۔

ایک ہفتے میں اس ماں سے جتنا ہوا تھا سب کر لیا تھا اور وہ کھانے کے بعد ادا صاحبہ کو خود دیکھانے بھی والی تھیں۔

ادا جان آرام دہ انداز سے اپنی وئیل چئیر پر ہی براجمان تھیں جنھیں کھانا خود منہا نے سرو کیا تھا۔

"واقعی کیا رونق ہوا کرتی تھی، تم سب بچے ہمیشہ رات کا کھانا یہیں کھاتے تھے۔ یاد ہے ادا جان آپکو کہ آپ شکائیت کرنے آتی تھیں کہ فاطمہ تم کھانے میں ایسا کیا ڈالتی ہو کہ میرے بچے گھر نہیں ٹکتے"

وہ پرانی حسین یادیں ایک بار پھر ہر فرد کی مسکان بنیں اور خود ادا صاحبہ جی جان سے کھل اٹھیں۔

عباد کی نظر تو مسکراتی منہا پر تھی جو بڑے تجسس سے فاطمہ آنٹی کی بات سن کر رشک سے مسکاتی اپنے ہی دھیان میں خود بھی عباد کی سمت دیکھتے تھمی۔

سب کے بیچ بھی وہ اسے ایسے دیکھ رہا تھا جیسے وہ یہاں صرف اکیلے ہوں۔

اس بندے کی نظریں نڈھال کر رہی تھیں تبھی وہ بوجھل سی سر جھکا گئی۔

وہیں سراج اپنے ساتھ بیٹھ کر آہستہ آہستہ کھانا کھاتی فاریہ کی سمت متوجہ تھا جو شاید یہاں ہو کر بھی نہ تھی۔

"بلکل یاد ہے میرے بچے، تم خلوص ڈالتی تھی۔ وہ خلوص جو آجکل کہیں نہیں رہا۔ لیکن جب بھی اس گاوں میں آتی ہوں مجھے لگتا ہے میرے صاحب، میرے بچے سب میرے ساتھ ہیں"

وہ یادیں تھوڑی تکلیف والی بھی تھیں تبھی تو ادا جان کی آنکھوں کے کنارے بھیگے مگر عباد انکا وہیں سے ہاتھ جکڑے حوصلہ دیتا کسی اور کی نظر میں آیا ہو یا نہیں مگر منہا نے ضرور دیکھا تھا۔

معظم صاحب بھی تھوڑے افسردہ ہوئے، یادیں بھلے اپنی اپنی تھیں مگر سوہان روح تھیں۔

"ان شاء اللہ ہم سب ساتھ اچھا وقت گزاریں گے، اور منہا احد اور معظم بھائی کے آجانے سے تو میں مزید خوش ہوں۔ اللہ نے آپ سبکی صورت میرے گھر رحمتیں اتاری ہیں"

وہ زندہ دل خاتون تھیں اور انکی محبت انکے میٹھے لہجے سے عیاں تھی۔

چونکہ رات بہت ہو گئی تھی تبھی آج سبکو آرام کرنے جانا پڑا اور خود منہا نے برتن سمیٹنے میں فاطمہ آنٹی کے لاکھ منع کرنے کے باوجود بھی مدد کی اور یہی نہیں سب کے لیے چائے بھی بنائی۔

ادا جان تو فاطمہ کے ساتھ کمرے میں کل کے لیے کی تیاری دیکھنے گئی تھیں جبکہ فاریہ نے سونا ہی بہتر جانا البتہ عباد اردگرد کی خبر گیری کرنے چھت پر چلا گیا، اسکے علاوہ اسے زرا طبعیت بھی بگھڑی محسوس ہو رہی تھی۔

گاوں آتے ہی وہ ڈسٹ الرجی کی شکائیت محسوس کرنے لگتا تھا، لیکن پھر بھی وہ یہاں آکر خود کو قدرے پرسکون بھی محسوس کرتا۔

منہا پہلے باہر ہی تحت پر لیٹ کر معراج کے ساتھ گپیں لگاتے سراج تک پہنچی تو مسکراتی ہوئی وہیں بیٹھی۔

"میں نے سنا ہے آپ ویرو کی بہن ہو منہا آپی، چلو آج سے میری بھی"

معراج اپنی چائے پیالے میں پیتا تھا تبھی شریر سی خواہش کے سنگ ٹرے سے چائے کا پیالا اٹھائے اٹھ بیٹھا تو منہا اور سراج دونوں ایک سا مسکرا دیے۔

"ضرور، مجھے تو لگا ہی نہیں میں کسی غیر کے گھر آئی۔ سچی سراج بھیا آپکا گھر اور یہ مکیں بہت اچھے ہیں۔ یہ رہی آپکی چائے"

اپنی خوشی اور ساتھ ان دونوں کی سمت ٹرے بڑھاتی وہ سراج کو خود کپ تھمائے اپنی خوشی کا اظہار کرنا نہ بھولی تھی۔

"اب تم غیر رہی بھی نہیں ہو، جیسے میں نے تمہارے دادا لے لیے ہیں آدھے تم میری ماں بھی لے سکتی ہو۔ بھائی چھت پر ہیں انکو لازمی یہ گڑ والی چائے دو جا کر۔۔۔۔میں بھی زرا اپنے اس کھوتے کی خبر گیری لوں کے میرے پیچھے اس نے کوئی گرل فرینڈ تو نہیں پٹا لی"

یہ بیان شاید سراج نے اپنے فون کو دیکھ کر بدلا جہاں عباد کا ایک میسج پڑھ کر وہ دل ہی دل میں مسکرا دیا۔

تبھی بات کرتے کرتے منہا کو جانے کی یاد دہانی بھی کروائی۔

خود منہا فوری ہنس کر معراج کے بال بکھیرتی پہلے دادا کو چائے دے کر آئی اور پھر ایک گرما گرم بھاپ اڑاتا کپ لیے وہ تاریک سی سیڑھیاں چڑھے سامنے ہی دیوار کی اوٹ میں جلتے بلب کی روشنی سے راستہ دیکھتی اوپر آئی۔

چھت گھر کی طرح بہت بڑا تھا، ایک طرف بہت سارے گملے تھے جن کو چھوٹی چھوٹی لائٹنگ نے جگمگایا تھا، چاروں طرف دیوار تھی جن میں چار چار سوراخ خوبصورتی میں اضافہ کرنے کو بنائے گئے تھے۔

تیسری طرف ایک محرابی چھت تھی جس کے اطراف پلر تھے اور درمیان میں آرام دہ جھولا تھا۔

چوتھی طرف تھوڑی بڑی دیوار تھے جس پر دونوں بازو ٹیک کر کھڑا وہ سامنے تاحد نگاہ پھیلی زمینیں اور دور پار جلتی روشیاں دیکھنے میں اس قدر محو تھا کہ منہا کے قریب آکر رکنے نے نہیں بلکے اسکی منفرد خوشبو نے عباد کے حواس جنجھوڑے۔

وہ چونک کر پلٹا اور وہیں تھم گیا، وہ گم سم سی کپ تھامے خود بھی ان روشنیوں کو دیکھ کر حیران تھی جو لگتا تھا حرکت کر رہی ہیں۔

"آپکی چائے"

اپنے چہرے کی جانب کسی نظر کا لمس محسوس کیے وہ متوجہ ہوئی اور تھوڑی جھینپ کر کپ عباد کو تھمایا جو اسکے چہرے سے نظر ہٹا نہ پا رہا تھا۔

"تم نے بنائی ہے؟"

پہلا گرم ہی سیپ لیتا وہ باقاعدہ منہ جلا ہی بیٹھا تھا تبھی اسکے بیچارگی سے پوچھنے پر وہ جواب دینے کے بجائے ہنس دی۔

اور اسکے یوں یکدم ہنس جانے پر عباد بھی مسمرائز سا ہوا۔

ہر لمحہ تھم سا گیا جہاں جس پل وہ مسکرائی۔

"اتنی بھی اچھی نہیں کہ آپ منہ جلا بیٹھے، اب کتنے دن زبان کا زائقہ خراب رہے گا"

خود بھی قریب آتی وہ مٹی اور گاڑے سے بنی ریلنگ پر بازو جماتی نکھرے لہجے میں جتاتے سامنے سے آتی چہرے کو چھوتی ہوا میں سانس لیتی بولی۔

اسکا یوں کرنا عباد کا امتحان تھا۔

"اگر میں کہوں کے خراب زائقے کا حل ڈھونڈ لوں گا کل ہی تو؟"

خود بھی بازو دیوار پر ٹکائے وہ بھی مسکراہٹ دباتا سامنے دیکھتے بولا۔

منہا کی بازو سے اسکی بازو مس ہوئی تو محترمہ کترا کر زرا پرے کھسکیں اور وہ عباد کے سوال پر جنجھلائی اور چہرہ موڑے اسکے متبسم خدوخال پر نظر دوڑائی۔

"ایسا ممکن نہیں ہے، آپ بڑے آدمی ہیں ہو سکتا آپکے لیے ممکن ہو"

اپنی عقل کے مطابق وہ جس طرح معصومیت سے بولی عباد کا دل تو گویا ہاتھ سے پھسلا۔

اور وہ دل ہی دل میں بہت کچھ محسوس بھی کر گیا، اپنی ان شوخ خواہشوں کو دبانے پر بھی کہاں راضی تھا۔

"چائے بہت اچھی بنائی ہے"

ایک ہی بار حلق میں اتارتا وہ شاید اپنے آپ کو ایک الگ طرز کی شٹ آپ کال دے گیا تھا مگر منہا ہونق بنی اس بندے کی اس حرکت پر منہ کھولے کھڑی تھی۔

ایک تو اس موسم میں چائے پھونکیں مار کے بھی ٹھنڈی نہ ہوتی اوپر سے عباد ایک ہی بار کپ گٹک گیا۔

"توبہ استغفار، آپ انسان ہی ہیں ناں یا ایلین"

منہ بسورے وہ اسکے کپ دیوار پر رکھنے اور مطمئین ہو کر اسکی سمت دیکھنے پر بڑبڑائی۔

اور وہ چاہتا تھا ساری رات اس سے بے مقصد باتیں کرتا رہے مگر وہ بات رہنے دے جو کرنی ہے۔

"انسان ہی ہوں، اور تم کو علم ہوگا انسان کی کچھ خواہشات اور ضروریات بھی ہوتی ہیں"

یکدم ہی وہ منہا کے چہرے کو تکتا سنجیدہ ہوا اور وہ بھی اسکے سوال پر دم سادھ گئی۔

"جی سبکی ہوتی ہیں ظاہر ہے"

منہا نے زرا پچکچا کر آنکھ چراتے تیور کے سنگ جواب گڑھا مگر یہ سچ تھا وہ تادیر اس ساحر کو دیکھ بھی نہ پاتی تھی اور اس وقت تو وہ تھا بھی قریب کہ اسکے سانس لینے کی حدت اس تک پہنچنے کی کوششوں میں تھی۔

"میں نے سراج اور فاریہ کے نکاح کا فیصلہ لیا ہے، تمہیں کیا لگتا ہے ٹھیک کیا؟"

پھر سے وہ اپنی بات بدلتا نئی بات کہتا منہا کو دیکھنے لگا جو اس پر تھوڑی خوش بھی تھی اور شاکڈ بھی۔

"مجھے اچھا لگا، سراج بھائی کے لیے۔ وہ فاریہ میم کو پسند کرتے یقینا۔ لیکن وہ تو بہت گرم مزاج کی ہیں۔ مطلب سراج بھائی پانی تو وہ آگ۔۔۔۔۔"

چہرے کے نقوش حرکت میں لاتی وہ پہلے مسکرائی اور آخر تک فکر میں لپٹی تھوڑی اداس لگی۔

اسکے ہر ہر بدلتے انداز پر عباد کی نظریں ثبت تھیں۔

"آگ کو بجھایا جا سکتا پانی سے، یہاں بھی ممکن ہے یہی ہو"

اس بار عباد کا لہجہ بہت ملائم اور امید بھرا تھا اور منہا نے بھی پرسکون ہوئے سر ہلایا جیسے سراج کے لیے انتہائی خوش ہو۔

عباد اسکے سامنے دیکھتے چہرے کی جانب دیکھتے دھیما سا مسکرایا۔

"تمہیں کیسا لڑکا چاہیے؟"

عباد کے غیر متوقع سوال پر وہ سٹپٹائی، رخ موڑے یوں پھیلی آنکھیں لیے دیکھا جیسے عباد نے دل جکڑ ڈالا ہو۔

پورے جسم میں عجیب سی بے چینی اتری جیسے وہ ابھی اسکا ہاتھ کسی بھی ہاتھ میں تمھا ڈالے گا۔

"مم۔ مجھے کچھ نہیں چاہیے نہ میں نے ایسا سوچا۔ میرے لیے میرا احد اور دادوو سب کچھ ہیں"

خود کو مضبوط کرتی وہ پھر سے سامنے دیکھتی بولی، آواز میں اک لرزش تھی۔

"لیکن صرف احد اور دادا تو کافی نہیں ہیں ناں، آئی مین کوئی ایسا بھی تو ہو جو تمہارا خیال رکھے، تم سے پیار کرے"

وہ صرف اور صرف منہا کی جان لے رہا تھا اور وہ سرد پڑتی خفگی سے رخ موڑے عباد کے چہرے کو دیکھتی جنھجلائی۔

"دادوو میرا خیال رکھتے اور پیار بھی کرتے۔۔۔۔"

چبا چپا کر منہا نے جملہ مکمل کیا۔

"میرا مطلب ہے سپیشل والا خیال اور پیار بھی بلکل الگ، کوئی ایسا جو آپکو سپیشل فیل کروائے، آپ سے آپ کے دل سے زیادہ آپکے قریب ہو۔ جسکا عکس آپکی روح پر ہو، نام دل پر اور اسکی خوشبو وجود پر بکھری رہے"

عباد کی یہ باتیں منہا کا دل روک چکی تھیں، وہ اپنے آپ کو اس وقت یہیں دفن محسوس کر رہی تھی۔

اتنی بے بس کے ہلنے کی بھی ہمت نہ رہی، گہرے سانس لیتی وہ اس سے پہلے جاتی اس بار کلائی پر جمائی عباد کی گرفت نرم تھی مگر جان لیوا بھی جس طرح وہ اسے روبرو کیے اسکا سہم جاتا چہرہ دیکھ رہا تھا۔

منہا کے جسم سے جان نکل سی چکی تھی، بس اس کیفیت میں رونا باقی تھا۔

اس اچانک قربت پر اسکے احساسات تیزی سے بیدار ہوئے، وہ جو گہری نگاہوں سے اسکا جائزہ لے رہا تھا، یہ منہا کے حواس شل اور دل مضطرب کر گیا، مقابل کی نظروں کی تپش اور توجہ اسکے لیے ہمیشہ سے جان لیوا تھی اور پھر یہ خوشبو۔۔۔۔۔ جس کے انگ انگ میں اترنے کے بعد وہ اس سحر سے لاکھ نکلنا چاہے مگر ناممکن تھا۔

"آپ م۔۔مجھ سے ایسی باتیں کیوں کر رہے، آپ مم۔میرا ہاتھ نہیں پکڑ سکتے پلیز جانے دیں مجھے "

جب لگا کہ وہ ہار گئی ہے تو آنکھیں بھرے وہ گھٹی آواز سے رو سی دی، اور اسکے عارض پر اتری نمی نے عباد کو بھی اداس کیا۔

"آئی ایم سوری "

پچھلے ہفتے بھی وہ سوری کرتے معاملہ دبا گیا تھا مگر آج منہا اسکا سوری نہیں لینا چاہتی تھی۔

بے دردی سے اپنا ہاتھ چھڑواتی وہ ناراض سی اسے دیکھنے لگی۔

"سوری سے ہر بار سب ٹھیک نہیں ہوتا، آپ مجھے کیوں ان بدلی نظروں سے دیکھ رہے ہیں ۔ اگر ایسا دوبارہ ہوا تو میں یہ جاب چھوڑ دوں گی"

زمانے بھر سے نمٹ کر وہ یہاں پہنچی تھی، جانتی تھی نظروں کے مفہوم مگر عباد کو زرا اندازہ نہ تھا کہ وہ اس قدر بُری طرح ہرٹ ہو جائے گی۔

"میں نہیں جانتا کیوں تمہیں اپنے پسندیدہ رنگ میں دیکھنے کا طلب گار تھا، لیکن بہت سے ایسے مزید سوالات جن میں ایک تمہارا یہ سوال بھی شامل ہوا ، مجھے تھکا چکے ہیں۔ منہا سلطان کیا تم مجھ سے نکاح کرو گی"

اپنی جگہ سے ہٹ کر وہ سمٹ کر دیوار سے لگ جاتی منہا تک آیا اور ایک فاصلے پر رک کر اس لڑکی کے حواس پر بجلی گرائی۔

کتنے ہی لمحے وہ سن سی کیفیت میں مبتلا عباد کو بھرائی آنکھوں سے دیکھتی رہی، آنسو ناجانے کس لیے اسکی پلکوں سے موتیوں کی مانند گرے۔

"ک۔۔کیا کہہ رہے ہیں آپ؟"

صدمے کی کیفیت میں وہ اپنے آنسو رگڑے مدہم سا چلائی، عباد نے صرف ایک قدم مزید منہا کی جانب بڑھایا اور وہ کانپ اٹھی۔

"تمہارے دادا سے تو اجازت لے چکا ہوں، لیکن تمہاری اجازت سب سے اہم ہے۔ یہ باتیں جو میں نے کچھ دیر پہلے تم سے کیں وہ اسی سبب تھیں۔ میں تمہیں اپنی زندگی کا ایک اہم حصہ بنانا چاہتا ہوں، تمہیں تمہارے احد اور دادا کو بھی ۔۔۔۔۔"

اپنی خواہش وافع کرتا وہ ایک قدم مزید بڑھا مگر اب مزید جگہ نہ تھی، نہ حق تھا کہ اس سے زیادہ دوری مٹائی جاتی۔

وہ ابھی تک تکلیف میں تھی، جس انسان کو سوچنے لگی تھی وہ اتنی آسانی سے نصیب کیسے بن گیا۔

وہ دعاوں پر یقین رکھتی تھی پر دعاوں کی قبولیت تو وقت لیتی تھی پھر اس دعا نے اتنی جلدی قبول کیوں ہونا پایا تھا۔

"م۔میں کیسے؟"

بہت جبر سے وہ آنسو روکے منمائی تھی۔

اور اسکے اس معصوم سے سوال نے عباد کے چہرے پر سکون سا اتار دیا۔

"کیا بہت برا ہوں، شکل اچھی نہیں ہے یا کردار بہکا ہوا ہے۔۔۔۔ جلاد ہوں یا شکی مزاج، بے حس ہوں یا پھر بری عادات والا؟"

نہایت مزے سے وہ گن گنواتا بولتا گیا اور منہا کا دل گواہی دے رہا تھا کہ وہ ایسی کسی برائی سے دور دور تک وابستہ نہیں مگر وہ چاند تھا اور وہ تو ستارہ بھی نہ تھی، زمین پر پڑی ریت میں چمکتی شاید کوئی بے کار چیز۔

"میرا ی۔۔یہ مطلب تو نہیں تھا"

آنکھیں دکھ سے بھرے وہ روہانسی ہوئی۔

"پھر کر دو اقرار"

عباد کے اس ایک جملے نے منہا کو نڈھال کیا، اور جس طرح وہ کسی بھی لمحے حاوی ہو جانے کے ارادے لیے تھا منہا کا ڈر سے ماتھا بھیگ گیا۔

ہتھیلوں میں نمی پھوٹی جس پر وہ انھیں بھینچ گئی۔

"م۔۔میں تو ایک ورکر ہوں آپکی، ہم تو بہت عام سے لوگ ہیں۔۔۔ آپ اتنے بڑے آدمی ہیں، لوگ کیا کہیں گے آپکو۔۔۔۔۔ میں اپنے دادا کی یا احد کی اس یا کسی بھی اور وجہ سے انسلٹ نہیں سہہ سکتی۔پلیز ہم پر رحم کریں، میں میرے دادا اور احد۔۔۔۔۔ ہم کافی ہیں ایک دوسرے کے لیے۔۔۔"

نظر جھکائے وہ پلکیں جھپک جھپک کر آنسو دباتی بولی مگر عباد نے اسکی جھکی صورت جذب سے دیکھتے اسکی ٹھوڑی ہاتھ بڑھا کر پکڑی جس پر وہ سہم کر چہرہ اٹھائے نم آنکھوں سے عباد کے دل میں اتر گئی۔

"لیکن میں کافی نہیں ہوں خود کے لیے، مجھے منہا چاہیے"

شاید یہ جملہ عباد کے لیے کہنا مشکل تھا مگر وہ کہہ بیٹھا، منہا نے اس شخص کی آنکھوں میں دیکھ کر سانس کھینچی۔

"آپ مجھے کیوں پریشان کر رہے"

پھر سے روتی ہوئی وہ یہاں سے جانے کو تڑپی مگر اس بار وہ دیوار سے ہاتھ ٹیکے اسکا راستہ بند کر چکا تھا ، منہا کو چارو و ناچار اسے دیکھنا پڑا۔

"میری نیت تمہیں پریشان کرنا نہیں ہے، تم مجھے بنا کسی حق کے نہیں جان سکتی منہا۔ بے شک دوست ہو لیکن پھر بھی نہیں۔ لیکن میں چاہتا ہوں تم مجھ سے ملو۔۔۔ اصل عباد سے، اور اسکے لیے تمہیں میرے قریب آنا ہوگا اور بنا کسی رشتے کے میں خود تمہیں کبھی پاس نہیں آنے دوں گا۔ لیکن میں چاہتا ہوں تم قریب آو"

شاید سانس چلتے چلتے رک جانے کا مفہوم منہا کو آج سمجھ آیا جب اس نے بے بسی کے سنگ عباد کو پیچھے کرنے کو اسکے سینے پر جا ہاتھ دھرا مگر یہ غلطی سنگین ثابت ہوئی، اس شخص کے دل کی دھڑکن تو وہاں منجمد تھی۔

اپنا صدمہ بھولے وہ خوفزدہ ہوتی اپنی ہتھیلی پھر سے دبائے دوبارہ عباد کو دیکھنے لگی اور وہ اسکی اس حرکت پر دبا دبا مسکرایا۔

"عباد آپک۔۔۔آپکا دل۔۔۔۔۔ک۔۔۔یہ تو دھڑک ہی ن۔۔نہیں رہا"

اس کا سینہ اتنا خاموش دیکھ کر وہ سر تا پیر کانپ اٹھی مگر اگلے ہی پل وہ اسکا ہاتھ دل کے مخالف سمت رکھتے مسکرایا۔

وہان دھڑکن تھی۔ منہا کو سکون پہنچا۔

"میرا دل عام انسانوں کی طرح نہیں ہے، یہ الٹی طرف نسب ہے۔ فیل ہوئی اب دھڑکن"

منہا کا ہاتھ اپنے سینے سے دبا کر اسے آگاہ کرتا وہ شرارت پر اترا تبھی منہا فوری اسکے سینے سے ہاتھ ہٹاتی نظر جھکا گئی۔

"ڈر گئی تھی تم"

اس جھکی زرا زرا حیا سے سرخ ہوتی لڑکی سے سوال کرتا وہ شوخ لگا۔

منہا نے سر اٹھائے صاف گوئی سے سر ہلایا۔

"جواب دو منہا سلطان "

اسے پھر سے گم سم دیکھ کر وہ اپنا جواب چاہنے کو اسے یاد دلاتا بولا، نظر اب بھٹکنے لگی تھی اور خود عباد کی ناساز سانس اٹکنے لگی تھی تبھی وہ چاہتا تھا وہ جواب دے اور یہاں سے چلی جائے۔

"ب۔۔بہت مشکل ہے"

پلکیں لرزائے وہ بمشکل حلق تر کرتی منمنائی۔

"کیا مشکل ہے"

دلچسپی سے اسکے خدوخال کا گھبرا جانا تکتا سوال کرتے پراسرار ہوا۔

"سب کچھ "

بہت مشکل سے ہمت کیے وہ بول سکی تھی۔

"ابھی صرف مجھے اجازت چاہیے تمہاری نکاح کے لیے، وہ دے دو اگر تو یہ ملاقات ختم کرنا چاہوں گا"

وہ جیسے ہزار ہا مضبوط اعصاب کا مالک اس نوخیز کلی کے حسن کی تپش سے جل سا گیا۔

منہا نے بھی اسکا فاصلہ بنا کر پیچھے ہٹنے کو دیکھاتو سانس بحال کرتی دو قدم دیوار سے آگے آئی۔

"دادا جیسا کہیں گے "

کہہ کر وہ خود وہاں سے جانے کو پلٹی مگر وہ آواز اسکے قدم تو کئا دل روک گئے۔

یکدم ہی عباد کی طبعیت بھی کچھ بدل سی رہی تھی تبھی وہ ملاقات ختم کرنا چاہتا تھا، ڈسٹ الرجی کے اثرات شروع ہونے لگے تھے۔

"منہا سلطان"

یہ نام لیتا وہ آج بھی دل مٹھی میں لے چکا تھا۔

"جی"

ارے حواس والا چہرہ موڑے بنا ہی وہ مری آواز سے بولئ، دھڑکن حد سے سوا تیز ہوئی جا رہی تھی۔

"تمہارا اقرار ایسا ہی خوبصورت چاہتا تھا، شب بخیر "

شاہانہ مسکراہٹ کے سنگ وہ کہتا منہا کا دل بھی دھڑکا گیا تبھی وہ بھی حواس باختہ سی تیز تیز قدموں سے سیڑھیاں اتر گئی۔

عباد حشمت کیانی نے گہرا سانس کھینچے آسمان کی جانب دیکھا۔

"گل، کیا تم سے محبت تھی مجھے؟ شاید نہیں۔ محبت ایک بار ہوتی ہے۔ یہ کیسی الجھن ہے، تم مجھ سے ناراض ہوگی کہ تمہارا چالیسواں بھی نہ گزرا اور میں نے دوسرا نکاح کر لیا لیکن مجھے یہ کرنا پڑا، کیوں یہ مجھے نہیں پتا۔۔۔۔۔ "

اس وقت شاید کئی طرح کے احساس جرم اسے گھیر چکے تھے، لیکن وہ دل اور سر دونوں جھٹک چکا تھا۔

شاید ابھی خود کو وہ مزید تھکانا نہیں چاہتا تھا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

فاطمہ صاحبہ نے پورے پلنگ پر شادی کے لیے بنائے گئے دلہنوں اور دلہوں کے جوڑے پھیلائے خود مسکا کر پاس ہی بیٹھیں تو ادا صاحبہ نے محبت سے ان جوڑوں پر نظر ڈالتے ہی فاطمہ کا ہاتھ تھاما۔

شفقت انکے انگ انگ میں گھل سی گئی۔

"پہلے تمہارے شوہر نے میرے سائیں اور بچوں کی حفاظت کی فاطمہ اور پھر وہ اس فرض کے بیچ فارس کے ساتھ ہی یہ دنیا چھوڑ گیا۔ یہی نہیں سراج نے بھی میرے عباد کو تنہا نہ چھوڑا۔ تمہارے کس کس احسان کا بدلا چکاوں۔ اور یہ سب انتظامات بھی کیے، تم نے مجھے کبھی مایوس نہیں کیا۔ جیتی رہو۔ اللہ تمہیں سراج اور معراج کی خوشیاں اور انکے بچے دیکھنا نصیب کرے"

ممتا جیسی پر نور شفیق لہجے کی چاشنی نے فاطمہ صاحبہ تک کو رنجیدہ کر دیا، ان سبکے دکھ سانجھے تھے تبھی آنکھوں میں نمی بھی ایک سی تھی۔

"احسان کہہ کر شرمندہ مت کریں اداجان، ہم مل کر اپنے بچوں کی خوشیاں دیکھیں گے۔ گل مینے سے جس طرح زمانے سے لڑ کر عباد نے رشتہ بنایا تھا وہ تو اول دن سے دشمنوں کے زیر اثر تھی۔ لیکن عباد کا سینہ ناجانے کس کس جرم تلے دبا ہوگا سمجھ سکتی ہوں۔ ایسے میں منہا جیسی پر بہار لڑکی اسکے سکون کا سبب بنے گی، آپ دیکھئے گا وہ اپنا بچہ بھی ڈھونڈ لے گا۔ مشکلات تو آنے والی آسانیوں کا در کھولتی ہیں، امید اچھی رکھیں تو سب اچھا ہوگا"

ایسے نا مناسب حالات میں یوں انکا ڈھارس دینا ادا جان کو زندگی دے گیا اور وہ زندگی سے بھرا مسکرا کر دلہنوں کا خالص گوٹا پٹی والا لباس چھو کر دھیما سا مسکرائیں۔

عباد کی پہلئ شادی جتنی شاندار تھی اسکا انجام اتنا دردناک تھا مگر ادا کیانی چاہتی تھیں یہ خوبصورت آغاز اب انکے عباد کی کامل خوشی بنے۔

ساری چیزیں سمیٹ کر وہ انھیں خود باہر لائیں تو آگے عباد ادا جان کو لینے ہی آرہا تھا۔

وہ آج ناجانے کیوں دادوو کے پاس ہی رہنا چاہتا تھا۔

انکے لیے نرم بستر فاطمہ پہلے ہی لگوا چکی تھیں اور آتش دان میں ہلکی سی آگ جلائے بجھا دی تاکہ کشادہ کمرہ گرم رہے مگر یہاں آتے ہوئے عباد نے بھلے سارا وقت ماسک لگا رکھا تھا مگر گرد و غبار سے اب اسکی حالت تھوڑی الجھ رہی تھی جسکا اندازہ ادا صاحبہ کو تب ہوا جب وہ انکی گود میں سر رکھے لیٹا اپنی آنکھیں دبائے بار بار گہرے سانس بھر رہا تھا۔

"تم ٹھیک ہو ناں؟"

نرمی سے اسکے بال سہلاتیں وہ فکر سے بولیں۔

جب بھی اسے اس مسئلے کی شکائیت ہوتی تو اسکی بھوری آنکھیں سرخ ہو جاتیں اور ان میں نمی آجاتی۔ چہرے کے مسلز کھینچ جاتے دباو اور درد ہونے لگتا اور سانس لینے میں مشکل ہوتی مگر وہ ہمہ وقت اپنی میڈیسن پاس رکھتا تھا ورنہ اسکا یہ مسئلہ اس قدر سنگین ہو جاتا کہ ڈاکٹر کی سپیشل کئیر کے بنا اسے سکون نہ آتا۔

"لگتا ہے یہ جگہ بھی اب مجھے قبول نہیں کرتی پہلے کی طرح، لیکن آج اس تکلیف کے باوجود سکون سا ہے۔ منہا نے اقرار دے دیا۔ لیکن ادا جان مجھے ایسا بھی محسوس ہو رہا ہے جیسے میں کوئی منافقت کر رہا ہوں۔ گل مینے مر گئی، میرا بچہ غائب ہے اور میں اتنا خودغرض ہوں کے صرف اپنے سکون کا سوچ رہا"

بہت خوشی کے بعد بھی وہ دادو کے سامنے اپنی تکلیف چھپا نہ پایا، اسکی سرخ آنکھیں جن سے ناجانے پانی بہہ رہا تھا یا آنسو ، پیار سے چھوئے وہ جھک کر اسکے بال ہٹاتیں بوسہ دیے تھکا سا مسکرائیں۔

"گل کی اتنی ہی زندگی تھی میری جان، اور تم اپنی اولاد کو ڈھونڈ لو گے مجھے یقین ہے۔ خود کو تکلیف نہیں دیتے بچے، پہلے ہی طبعیت بگھڑی لگ رہی۔ یوں کرو گے تو تمہاری دادو جو تمہیں دیکھ کر سانس لیتی ہیں بے حال ہو جائیں گی"

وہ لاکھ سمجھا لیتیں وہ اس گلٹ میں مکمل ڈوبا اذیت میں مبتلا تھا، گاہے بگائے گلا جلنے پر وہ گھانسنے لگتا اور اسے لگ رہا تھا فلو بھی ہونے والا ہے۔

"محبت تو ایک بار ہوتی ہے، پھر دادو مجھے کیوں ہوئی دوبارہ۔۔۔۔ آپ مجھے اس تکلیف سے نکال دیں ناں"

وہ بلکل کسی چھوٹے بچے کی طرح تڑپ اٹھا۔

"محبت کے بعد اگر محبت ہو جائے تو سمجھو اصل محبت اب ہوئی، پہلی تو محبت کا وہم تھا۔ گل مینے اور تمہاری عادات بلکل الٹ تھیں وہ بس اک حسن کا جھونکا تھی، اک خمار تھی، اک جنون تھی، وہ تمہیں اپنا اسیر بناتی آئی ہے۔ شاید جب نیا نیا خمار چڑھے تو انسان کو یہی لگتا اسے محبت ہوئی، لیکن محبت تو وہ ہوتی ہے عباد جو سحری میں پیے گئے آخری پانی کے گھونٹ جیسی ہو۔ نہ اسکے بعد کوئی طلب باقی رہے نہ کوئی پیاس"

نرماہٹ کے سنگ وہ عباد کی پیشانی پر اپنا ہاتھ سہلاتیں اسکے بیقرار سلگتے دل پر اک بوند ابر برسا گئیں تھیں، وہ جیسے یکدم شانت سا ہوا۔

"اور اگر منہا یہ سچائی جاننے کے بعد مجھ سے دور چلی گئی"

وہ اس بار پھر سے خدشوں میں اتر گیا۔

اسی لمحے دوسری طرف وہ بھی دادا کی گود میں سر رکھے اپنے سینے سے لگا کر سلائے احد کو دیکھتی اداس سی تھی۔

"اگر وہ احد کی سچائی کے بعد اِسے دُھتکار گئے تو میں احد کو اور آپکو لے کر ان سے بہت دور چلی جاوں گی۔۔ احد تو سانس ہے منہا کی اور جو احد کا نہیں وہ منہا کا بھی نہیں"

اپنی جان سے عزیز احد کی معصوم آنکھیں باری باری چومتی وہ بھی دادا کو اپنا فیصلہ سنا رہی تھی جو خود کسی فکر و اضطراب میں تھے۔

"کیسے جائے گی، جب یہ جانے گی کہ تمہاری اصل خوشی ہے تو یہ ظلم نہیں کرے گی۔ وہ بہت معصوم اور رحم دل ہے"

عباد کے ڈر ہٹاتیں ادا اسکے منتظر چہرے کو تکتیں مان سے بولیں جو بلکل بھی ٹھیک نہ تھا۔

ڈسٹ الرجی اسکے پروقار و توانا وجود کو یونہی جنجھوڑ ڈالتی تھی۔

"دادو یہیں سو جاوں۔۔۔ آپکے پاس کم از کم مجھے کوئی تکلیف تو تنگ نہیں کرے گی"

انکے آرام سے نرم تکیے سے ٹیک لگا کر نیم دراز ہونے پر وہ معصوم سی خواہش کرتے بولا جس پر وہ دل و جان سے مسکائیں۔

"سو جاو، میں بھی کہاں سو سکتی ہوں جب میرا بچہ اتنی تکلیف میں ہو۔ میڈیسن لے لی ہے ناں تم نے۔۔۔ اگر کہو تو منہا کو کہوں دودھ گرم کر دے۔ اس سے تقویت ملے گی"

ادا جان اسکے سرخ ہوتے چہرے کو تکتیں اس بار فکر سے استفسار کرتی اسکی گال سہلائے بولیں مگر وہ اس وقت کچھ بھی نہیں چاہتا تھا۔

جانتا تھا رات مشکل ہے، دوا صبح تک اثر کرے گی اور پھر سے ایک دو رات تو اسکی یہ حالت رہنی ہی تھی۔

تیسری طرف بہت دنوں بعد اپنے سراج کی موہنی صورت دیکھتیں فاطمہ کب سے اسکے پاس بیٹھیں اسکے چہرے کو ہی رشک سے تکتی جا رہی تھیں۔

معراج تو اس سے باتیں کرتا کرتا سو گیا تھا مگر اپنے سکھ ماں سے کہنے کو وہ بیقرار تھا۔

"سنبھال لے گا ناں اُسے"

فاطمہ نے آس سے اسکے ہاتھ کو جکڑے پوچھا تھا، سراج کی جھکی نظر ، تھکن سے اٹ کر ماں پر جمی۔

"شاید، آپ جانتی ہیں کتنے آنسو دیے ہیں اس نے مجھے لیکن جب بازی میرے ہاتھ آئی تو میں اسے ایک آنسو بھی نہیں دے پایا ماں، کاش آپ نے مجھے تھوڑی بے رحمی بھی سیکھائی ہوتی۔ کم از کم اپنا دفاع کچھ وقت اور کر لیتا۔۔۔ مگر نہیں کر سکتا، آپ جانتی ہیں اس لڑکی کے سامنے میں مضبوط ترین اور ہمت والا شخص بھی اپنا دفاع نہیں کر سکتا"

بے بسی کی شاید آخری حد تھی کہ وہ ماں سے اپنی تکلیف کہتا کہتا اپنی آنکھیں سرخ کر بیٹھا۔

فاطمہ خود آزردہ ہوئیں۔

"اب تو صلے کا وقت ہے ماں کی پیاری جان، اب یہ بکھراو سمیٹ لے اپنا۔ مجھے یقین ہے وہ تجھ سے محبت کیے بنا رہ ہی نہ پائے گی۔ وہ بہت بدلی لگی، اسکی آنکھوں میں جھانکا ہے تُو نے، وہاں کتنی اذیت دفن ہے۔ محبت کی بہت قِسمیں ہوتی ہیں سراج، ان میں ایک سفید پوش بھی ہوتی۔ اگر وہ بکھر ہی گئی ہے تو اسکے ٹکڑے مزید بکھیرنا تجھے زیب نہیں دے گا۔ اسے ساری غلطیوں پر معاف کر دینا۔ باقی میری دعائیں میرے سارے بچوں کے لیے ہی ہیں"

اور سراج نے حیرت سے ماں کی یہ باتیں سن کر گہری سانس کھینچی، کیا اسکے علاوہ دنیا ساری نے فاریہ کی تکلیف دیکھ لی تھی۔

یہ کیسے برداشت کرتا وہ کہ فاریہ کی تکلیف یوں سر عام ہو۔

ماں کے گلے لگ کر وہ ان سے دعائیں لیتا تیزی سے باہر نکلا، گہری رات اور ہر طرف چھائی خاموشی اسے کاٹنے لگی۔

سب سو چکے تھے اور شاید فاریہ بھی، وہ غیر ارادی طور پر اسکے کمرے کی سمت دیکھنے لگا۔

دل پر ہاتھ رکھے ناجانے کونسی تکلیف دبائی۔

"نہیں فاریہ، میں تمہیں مزید تکلیف نہیں دے سکتا۔ مجھے حقیقت بتانی ہوگی"

کچھ سوچ کر وہ اپنی سیاہ قمیص کی جیب سے اپنا فون نکالے فاریہ کا نمبر کھولے اس پر میسج ٹائپ کرنے وہیں باہر دھری آرام دہ بانس کی کرسی پر بیٹھا۔

وہ جو اندر بستر پر لیٹی ایک ہاتھ بیڈ سے نیچے لٹکائے قالین کے دھاگے نوچنے میں محو تھی، میسج ٹون پر کسمسا کر سیدھی ہوئی۔

ہاتھ بڑھا کر فون اٹھایا تو سراج کا نام دیکھتے ہی اٹھ بیٹھی۔

"نیند نہیں آرہی تو باہر آجاو، بات کرنی ہے تم سے"

سراج کا میسج پڑھے وہ بنا کچھ سوچتی اٹھ کر جوتے پہنے دروازے تک تو آئی مگر پھر ناجانے کیا ہوا کہ وہ وہیں رکی، چہرے پر صدیوں کی تڑپ آن ٹھہری۔

"نہیں آنا مجھے تمہارے پاس، تم مجھے خود سے پہلے سے زیادہ دور پٹخو گے۔ مت آزماو مجھے کہ میں اپنی جان لے بیٹھوں"

وہیں برسات کی مانند اُسکی چھلکتی آنکھیں بھیگ گئیں اور وہ وہیں دروازے کے ساتھ لگی فرش پر جا بیٹھی۔

ٹھنڈا فرش اسکے پیر منٹوں میں یخ کر گیا مگر اندر تک آگ لگی تھی جو اسے ہر حس سے محروم کر گئی۔

"فاریہ"

پھر سے ہاتھ میں پکڑا فون گونجا، فاریہ نے اسے اوپن کیا جہاں وہ اسے پکار رہا تھا۔

"میں تمہارا سکون چاہتا ہوں، تم کیوں بے سکون کر رہی ہو مجھے"

اپنے میسج سین دیکھ کر سراج نے کرب سے سوچا وہ پتھر بنی بس اپنے نام کو گھورتی جا رہی تھی۔

"تمھارے ہاتھ میں ڈوری تھما دی ہے

کہ جب چاہو مجھے ہنستا رکھو

جب اس ہنسی سے تنگ آ جاو

رلاؤ

اور روتا چھوڑ کر تنہا کئے جاؤ

اذیت دان دو مجھ کو

تڑپتا چھوڑ جاؤ جب بھی تم چاہو

مری دکھتی رگوں میں تیر بھی پیوست کر دو

رائیگانی کے

مری آنکھوں سے سارے خواب نوچو تم

مرے ہر زخم کو تم بے رخی کی دھار سے کرچو

کریدو، خون رسنے دو

یہ جیون چھین کر بے جان کر دینا یوں زندہ جان کو مردہ بنا دینا (مگر سانسیں بھی چلتی ہوں، تمھاری ہی کرامت ہے)

سو جب چاہو مجھے میری ہنسی سے بے دخل کردو

یا جب چاہو یہ سارا مسئلہ چٹکی میں حل کردو

تمھاری دسترس میں ہوں تمھارا حکم چلتا ہے

کہ کٹھ پتلی بنی ہوں بس جب چاہو سراہنا اور جب چاہو

نظر انداز کردو"

سراج علی نے آزردگی سے اسکے بھیجے میسج کو زیر لب دہرایا، کیا وہ اس کی وجہ سے اتنے ذہنی دباو میں ہے۔

"فاریہ لسن ٹو می"

اگلا میسج سین نہیں کیا گیا تھا، وہ روتی ہوئی اٹھ کر واپس چلی گئی اور فون بھی آف کر دیا۔

اور سراج علی اذیت میں مبتلا یہ رات کاٹتا رہ گیا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

نئی صبح پھیل چکی تھی۔

وہ ابھی ہی ناشتے سے پہلے حارث کے لیے ناجیہ کے حکم پر بنانا شیک لائی تھی، اور توقع کے برعکس وہ نہ صرف اٹھ چکا تھا بلکہ گلاس وال کے پردے ہٹائے مدھم مدھم صبح دردناکی سے دیکھ رہا تھا۔

عائشہ نے بنا آہٹ کیے شیک کا گلاس میز پر رکھا اور محتاط سے چند قدم فاصلے پر آکر رکی۔

"حارث سر آپکا شیک، ناجیہ میم نے تاکید کی ہے اسکے بعد ہی آپکو ناشتہ کرنا ہے"

عائشہ کی نرم آواز پر وہ لڑکھڑا کر مڑا، پولیس کے تشدد کا اثر بھلے کم ہو چکا تھا پر اسکے بظاہر خوبصورت چہرے پر نیل اور نشانات درج تھے، جسم میں بھی درد تھے جسے وہ بیان کرنے سے قاصر تھا۔

"مجھے کچھ نہیں چاہیے، مجھے اکیلا چھوڑ دو"

بنا عائشہ کو دیکھتا وہ صوفے پر آکر بیٹھا اور آزردگی سے اسے جانے کا کہتا خود سر صوفے سے ٹیک گیا۔

ناجانے کیوں مگر عائشہ کو اسکی حالت پر رحم آیا۔

وہ بہت سالوں سے یہاں کام کر رہی تھی، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ناجیہ ہی اسے لائی تھی۔

وہ یتیم اور بے سہارہ تھی جسے کام کی ضرورت تھی اور شاید ناجیہ نے یہ واحد نیکی کی ہوگی کہ اسے پیلس میں نوکری دی۔

لیکن وہ شروع سے حارث کیانی سے ڈر کر رہتی تھی، وہ اکثر اسے بہکی ہوئی نگاہوں سے دیکھ کر حراساں کر چکا تھا دوسرا آئے دن اسکے سکینڈلز، لڑکیوں کے ساتھ گزاری شاموں کی داستانیں، اسکا جوئے کا اڈا رن کرنا، آئے دن اسکا عباد سے انہی برائیوں پر لیچکر لینا لیکن اس حارث کی یہ عبرت اسے خوف سے نکال گئی تھی۔

اسے یقین تھا کہ انسان اگر سدھرنے پر آئے تو اپنے گندے ماضی کے سارے داغ دھونے پر قادر ہے۔

وہ اسے شروع سے اچھا تو لگتا تھا مگر حارث کیانی کے اندر موجود لاتعداد برائیاں ، عائشہ کو اسکی سمت سے دل صاف کرنے سے منع کرتی تھیں، وہ شاید اتنا برا نہیں تھا جتنا اسے اسکی ماں کی تربیت نے بنا دیا تھا۔

"آپکو سروائیو کرنے کے لیے کھانا پینا ہوگا، نہیں تو آپ اس اذیت سے نہیں نکلیں گے۔ بھلے آپ نے بہت گناہ کیے مگر آپ جب تک انکا اعتراف نہیں کرتے یہ اذیت برقرار رہے گی، اور اعتراف کے لیے آپکی یاداشت کا آنا ضروری ہے"

اپنی طرف سے وہ اس بکھرے شخص کو ایک صحیح راہ دیکھا رہی تھی مگر پلوں میں حارث کیانی کے چہرے پر خفگی اتری اور وہ بپھری موج سا اٹھ کر عائشہ تک پہنچا اور ایک ہی جھٹکے سے اسکی بازو پکڑ کر جھٹکا دیا۔

وہ بچاری تو نیکی کرتے پچھتائی اور پھر حارث کی سیاہ آنکھیں اسکے پورے جسم کو لرزا گئیں۔

"دیکھو میں اس وقت ایک پاگل ہوں، اپنا یہ بھاشن سنبھال لو ورنہ جان سے جاو گی۔ تم مجھے یہ سب کہہ کر مارنے آئی ہو ناں، تم چاہتی ہو میں مر جاوں۔ وہ عورت جو خود کو میری ماں کہہ رہی تھی وہ بھی چاہتی ہے میں مر جاوں۔وہ آدمی جس نے مجھے جانور کی طرح پیٹا وہ دیکھا تھا میں نے مجھے نفرت سے دیکھ رہا تھا جیسے میری جان لینا چاہتا ہو۔۔۔۔۔۔تم لوگ کیوں نہیں سمجھ رہے مجھے نہ تم سب کی فکر چاہیے نہ محبت نا دیکھ بھال۔۔۔۔۔۔۔ مجھے ۔۔۔۔۔۔م۔۔۔"

خونخوار ہوتا وہ بڑبڑاتے بڑبڑاتے یکدم ہی اپنا ٹیسوں سے پھٹتا سر تھامے اس سے پہلے گرتا، عائشہ نے اپنا کمزور سہارہ اسے بنا سوچے دیا اور وہ بھی جیسے اسکے کندھے کے گرد بازو حائل کیے بمشکل اسکے ساتھ لا کر بیڈ پر بیٹھانے تک ہوش میں رہا اور بیٹھتے ہی وہ وہیں بیڈ پر سر گرائے لیٹ گیا ۔

عائشہ کے ہاتھ پیر پھول گئے تھے۔

فوری وہ ناجیہ تک پہنچی تھی، حارث کی اپنی کی گئی خطائیں اسکی جان لے رہی تھیں اور یہ دیکھنا اس وقت کئی لوگوں کے لیے کٹھن تھا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

دوسری طرف صبح کا ناشتہ بھی دیسی گھی کی چُوری اور تازہ مکھن اور مزے دار لوازنات سے کیا گیا، رات میڈیسن لے لینے کے باعث بظاہر تو عباد کی طبعیت سنبھل گئی مگر اسکے پورے فیس میں دباو اور درد تھا، سینے میں بھی گھٹن تھی مگر وہ سب کے سامنے نارمل تھا، اور دیسی چیزوں سے اس نے مکمل پرہیز کیے کجھور کے شیک کے ساتھ بریک فاسٹ کیا تھا۔

اسکے علاوہ اسکے لیے ناشتے میں تازہ پھل تھے اور سب اسکے پرہیز پر فکر مند بھی تھے مگر اس نے ٹھیک ہونے کا اطمئینان دلا کر سبکو بے فکر کر دیا تھا۔

فاریہ کو نکاح کے بارے بتانے کا فیصلہ بھی عباد نے اس وقت لیا جب ناصرف پورا گھر دھیما سا سجا دیا گیا بلکہ نکاح خواں بھی آگئے۔

وہ کمرے میں بیڈ پر ایک طرف رکھے نکاح کے اس جوڑے کو دیکھتی صدمے میں تھی جب عباد اسکے پاس ہی بیٹھا اسکی پتھرائی آنکھوں کو دیکھنے لگا۔

فاطمہ اور ادا صاحبہ دوسرے کمرے میں منہا کو تیار کرنے کے بعد اب اس طوفان کے تھم جانے کے لیے دعا گو تھیں۔

"تم نے دھوکہ کیا میرے ساتھ عباد"

وہ قہر آلود آنکھیں اٹھا کر عباد کو دیکھتی باقاعدہ چینخی جو سفید کلف لگے سوٹ پر سیاہ چادر اوڑھے نہایت جاذب اور حسین لگ رہا تھا، طبعیت کی ناسازی نے اسکی آنکھوں کے گوشے گلابی کر دیے تھے۔

"دھوکہ تم نے کیا، دل میں سراج علی کو رکھ کر میرے سر پر خود کو تھوپنے چلی تھی۔ کیا تم واقعی نہیں جان سکی فاریہ کہ تم کیا چاہتی تھی۔ منہا نہ آتی، سراج کی توجہ نہ ہٹتی تو تم کبھی اس اذیت ناک گیم کو نہ روک پاتی۔۔۔۔۔ تم ہار گئی اس فساد کو مچانے میں جو تمہاری ماں چاہتی تھی۔ اب جلدی سے یہ پہن لو، نکاح خواں آتے ہوں گے"

تندہی اور ناراضگی سے جتاتا وہ اٹھا تو وہ بھیگی آنکھیں ہزار ہا برسنے سے روکنا چاہتی تھی پر نہ روک سکی، مگر اس نے عباد کی ہتھیلی ضرور جکڑی۔

"تم نے اپنے جرائم کا اقرار کرنا ہوا تو اجازت ہے، میں تمہیں چاہ کر بھی سزا نہیں دوں گا کیونکہ تم سراج کے نام لگ چکی ہوگی۔۔۔۔ لیکن ایک بات ضرور کہوں گا کہ اگر تم نے سراج کو کوئی تکلیف دی یا دینے کی کوشش کی فاریہ تو یاد رکھنا تم سے اگلے پچھلے سارے حساب لوں گا"

آنکھوں میں دکھ بھرے وہ اپنا ہاتھ اس ناپسند لڑکی کے ہاتھ سے چھڑوائے باہر نکلا، اور وہ سسکیاں دباتی رہ گئی۔

آنکھیں بھیگ کر متورم ہوئیں وہیں کچھ ہی دیر میں گاوں کی چند لڑکیاں اور عورتیں آئیں، اب یہ منظر تھا کہ منہا اور فاریہ ہلکے گلابی سلک اور جالی کے بہت خوبصورت گوٹا پٹی کے جوڑوں میں کسی سلطلنت کی ملکائیں لگ رہی تھیں، پھر ادا جان، فاطمہ صاحبہ اور معظم صاحب جنہوں نے پیارے سے احد کو اٹھا رکھا۔

منہا بھی خوش نہیں تھی، بہت سے وسوسے اور دکھ اسے بھی لاحق تھے۔

مگر وہ لمحہ جب ان سے انکے محرم کو قبول کرنے کا پوچھا گیا دونوں پر الگ نوعیت سے اترا۔

فاریہ کا دل تکلیف سے پھٹ گیا، کتنی بڑی اذیت تھی کہ جیسے اب تک صرف دھتکارہ اسے اس رب کے سامنے قبول کرنا پڑ رہا تھا، ناں کی تو گنجائش کہاں تھی، اسے لگ رہا تھا ناں کی تو جان چلی جائے گی۔

اور منہا سلطان جس کو خود سے بہت بہتر اور چاند کی طرح آسمان پر چمکتے انسان کا ساتھ ملا، وہ اتنی خودغرض نہ تھی کہ اس لمحے بھی اپنے جذبات کا سوچتی بلکے اس نے کہیں دل سے احد کا سوچا تھا۔

سراج علی کو بس فاریہ کی فکر تھی، مگر عباد آج ہر فکر سے حقیقت میں آزاد ہوا تھا۔

وہ لڑکی جو بہار کی طرح اسکی بوسیدہ ذات پر اتری اب اسکی زوجیت میں تھی، وہ منہا سلطان سے منہا عباد کیانی بن کر کسی غرور میں نہ تھی بلکہ شاید وہ اسے زندگی کا اک نیا امتحان تصور کر رہی تھی۔

اور پھر فاریہ، پلوں میں اس شخص کی ہو گئی جو اسکی واحد چاہ تھا مگر ایسے تھوڑا چاہتی تھی وہ اسے کہ اسکی ذات پچھتاوے اور پشیمانی کے آنسووں میں بھیگی تھی اور اس پل اسے فاریہ کیانی سے فاریہ سراج علی بننے کا شرف سونپ دیا گیا تھا۔

یہ نکاح بہت محدود لوگوں کے علم میں تھا، اور انکی سادگی نے گاوں کے معززین کو باتیں کرنے کا موقع ہی نہ دیا۔

کسی نے یہ نہ کہا کہ عباد حشمت کیانی نے کیوں بیوی کا کفن میلا ہونے سے پہلے دوسرا نکاح کر لیا کیونکہ یہاں اسے ہر کوئی جانتا تھا، ہر کوئی عباد کی خوشی کا طلب گار تھا۔

اور اس گاوں کے لیے منہا تو روشنی کی امید تھی جس نے عباد کے اجڑے دل کو اتنی جلدی بسا دیا تھا۔

کسی نے بھی یہ نہ کہا کہ وہ خودغرض شخص ہے، بھلا مرنے والوں کے ساتھ کون مرا ہے آج تک۔

اور یہاں کی مٹی بھلے عباد کو راس نہ تھی مگر یہاں کے لوگوں کا خلوص اور انکی عباد سے محبت والہانہ تھی۔

عباد ، ادا جان ، منہا، احد اور معظم صاحب اب آبائی حویلی جانے والے تھے کیونکہ وہاں ہی اب انکاویلکم ہونا تھا جبکہ فاریہ کو سراج علی کے سپرد کیے وہ اب کچھ دن خود بھی اپنی زندگی کے معاملات دیکھنا چاہتا تھا۔

اس نے فیصلہ لیا تھا کہ وہ آج ہی منہا کو سب سچ بتا دے گا مگر کہیں دل سے وہ آج کی رات یہ سب منہا کو کہنے کا حوصلہ اپنے اندر کم ہوتا بھی محسوس کر رہا تھا، شاید اسکی طبعیت کے باعث جو جب جب بگھڑتی وہ تھوڑا کمزور پڑ جایا کرتا تھا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"وہ میرے کئی راز جانتا ہے۔ اسے یہ پیسے فورا پہنچاو اور کہنا کے اب دفع ہو جائے اور اگر وہ پولیس کے ہتھے چڑھا تو پولیس سے پہلے میں اسکی جان لوں گا"

اپنے ایک وفادار آدمی شاکر کے ہاتھ وہ پیسے دیے اسے ساتھ ساتھ کہتا خود کنپٹی مسلے واپس رولنگ چئیر پر بیٹھا جو اسکے بیٹھتے ہی حرکت کرنے لگی۔

"جی سائیں اگر آپ حکم کریں تو اسے ایک آدھ ڈوز دے دوں، آج آپ اسکا منہ بند کریں گے تو کل وہ زیادہ کی مانگ کرے گا۔ اور اسے زندہ رکھنا آپکے لیے آپکے مستقبل کے لیے خطرہ ہے"

شاکر نے تھوڑا دھیما ہو کر اپنی بھی تجویز دی مگر اس وقت سرور کا شیطانی دماغ سُن تھا۔

" اس زلیل کو میں خود ماروں گا اپنے ہاتھ سے۔۔۔۔۔ وہ اس سے پہلے بھی میرے کہے پر کئی لوگ مار چکا ہے۔ جانتا ہوں وہ ایک خطرناک کلر ہے لہذا یہ الیکشن ہو لیں پھر اسکا کام خود تمام کروں گا۔ فی الحال میں کوئی وبال سر نہیں لے سکتا۔ تم جاو اسے یہ پیسے دو اور کہو دوبارہ شکل مت دیکھائے"

سرور اپنے تئیں ایک بڑی گیم کھیل رہا تھا اور شاکر بھی حکم ملتے فوری روانہ ہوا۔

مگر شاکر اپنی طرف سے فاضل کو انجام پہنچانے کا منصوبہ کر کے نکلا تھا۔

گھنے جنگل کے عین وسط میں وہ نقاب پوش شاکر اس منتخب کردہ درخت کے پاس پہنچ کر رک چکا تھا، شاکر آیا تو دس لاکھ لے کر فاضل کو مارنے آیا تھا مگر جیسے ہی اس نے پیسے کا بیگ بڑھا کر اپنی گن نکالنی چاہی، اس تاریک ہوتی شام میں اک دلخراش دھاڑ گونجی۔

فاضل گوجا نے اس آدمی سے بیگ بھی لیا اور ساتھ اسے ایک ہی گھونسا رسید کیے زمین پر دھکا دیے عین اس سسکتے شاکر کے اوپر جھکے اسکا جبڑا دبوچے تلملایا۔

اسکا بھیانک چہرہ خونی بھیریے جیسا تھا۔

"غلطی سے بھی فاضل گوجا کو نقصان دینے کی کوشش کی تو تیرا وہ سرور پھانسی کے پھندے جا چڑھے گا۔ اسے بھی بتا دینا کہ فاضل سینے پر وار کرنے والے بہادر دشمن کی تو تعظم کر سکتا مگر پیٹھ پیچھے اپنے ہی مالک کے وار کو معاف نہ کرے گا"

روح فنا کرتے انداز میں وہ سلگ کر اس کو ایک اور مکا رسید کیے اسکا جبڑا زخمی کیے اٹھ کر فوری جنگلی جھاڑیوں کی سمت بھاگ گیا۔

کیسے بھی کر کے سرور کا وہ آدمی شاکر واپس پہنچ کر فاضل کا پیغام سرور کو دے چکا تھا جس سے اس میں خوف و سنسنی کی لہر دوڑ گئی تھی اور فی الحال اس کے مطالبے الیکشن تک چپ چاپ ماننے کا فیصلہ لیا۔

پھر دوسری طرف اسی روز شام سات بجے زین اپنی آٹھ رکنی ٹیم کے سنگ اسی مخبری والی جگہ تو پہنچ گیا مگر ایک بار پھر دیر ہو چکی تھی۔

وہاں ٹوٹی پھوٹی چند لکڑیاں اور کھانے پینے کے لوازمات کے ٹکڑے ملے تھے اور آگ جلانے کے لیے ایک طرف آدھ جلی لکڑیاں بھی تھیں۔

"وہ پھر ہمارے ہاتھ سے نکل گیا، ناجانے کیا چاہتا ہے یہ معاملہ۔۔۔کیوں۔۔۔کیوں آخر ہر بار ناکام ہو رہے ہیں ہم"

بے بسی تھی یا شاید تکلیف کہ وہ پوری قوت سے مکا درخت کے تنے پر مارے دھاڑا، ناکامی پر ناکامی اسے عتاب زدہ کر چکی تھی مگر وہ فیصلہ کر چکا تھا کہ عباد کی واپسی تک وہ ہر صورت اس شخص کو پکڑ لے گا۔

اذیت کا مقام تو تھا ہی یعنی وہ جب جب کسی انجام کے قریب پہنچ رہا تھا، سارا معاملہ خراب ہو جاتا۔

پہلے عباد کی گاڑی پر فائرنگ، پھر اسکی بیوی کی موت، بچے کا اغوا، عین وقت پر ہوسپٹل کے سارے کیمروں کا بند ہونا، ہوسپٹل سے حارث کا ملنا مگر ذہنی یاداشت کھو جانا، پھر سکیچ کا کھو جانا اور اب کئی دن سے فاضل گوجا کی تلاش میں ناکامی مگر کہیں دل سے وہ یہ بھی جانتا تھا کہ یہ تلاش عنقریب کامیاب ہوگی۔

تیسری طرف حارث کی ابتر حالت پر ناجیہ گہری فکر مند تھی اور عائشہ کو بھی صبح حارث کی باتیں ابھی تک الجھائے ہوئے تھیں۔

چوتھی طرف سراج علی کا گھر آج فاریہ کی موجودگی سے مہکا ضرور تھا مگر وہ ہنوز ڈھیٹ بنی تھی، فاطمہ نے خود جا کر اسے کھانا کھلانا چاہا مگر وہ اپنے دوپٹے کو نوچ کر اپنے نکاح کے جوڑے کو بے دردی سے اتار کر اپنے ازلی ٹراوز شرٹ میں لپٹی مسلسل منہ سیے بیٹھی کھانے کو انکار کرتی رہی۔

خود سراج کو جب فاطمہ نے آکر اسکے اس رویے کا بتایا تو وہ انھیں مطمئین کرتا خود کھانا لیے کمرے کی جانب لپکا۔

منہا کا حویلی میں ویلکم اسکی شان کے مطابق ہوا تھا، وہ سب شام تک آئے تھے۔

حویلی کے ملازمین نے پہلے ہی حویلی کے کچھ رقبے کو سجوا دیا تھا، باقی احد اور معظم صاحب کے کمرے کے علاوہ منہا اور عباد کے کمرے کی خاص طور پر سجاوٹ عمل میں لائی گئی۔

اسکے علاوہ ادا جان تو اس دل سے جڑی چار دیواری میں آتے ہی شاد ہو گئیں، یہاں انکی زندگی کے بہترین دن گزرے تھے جب وہ اپنے سائیں کے ساتھ یہاں بیاہ کر آئیں، یہیں فارس اور آرش کی پیدائش ہوئی، یہیں انکے بچوں کا بچپن گزرا اور پھر دس پندرہ سال تک تو عباد بھی یہاں رہا، تب فاریہ اور حارث بہت چھوٹے تھے مگر اسے اچھے سے یاد تھا کہ اس حویلی میں وہ بادشاہ کی زندگی گزار کر بڑا ہوا ہے۔

منہا کو یہ سجا سنورا ماحول خوف میں مبتلا کر رہا تھا، اور پھر مخص نکاح کے بعد ہی اسے یوں عباد کے پاس سونپ دیا جانا اسکی روح فنا کر رہا تھا۔

اس نے تو صرف نکاح سمجھ کر تھوڑی ہمت دیکھا دی مگر جب ملازمہ اسکو اس سجے خوبصورت شاہی کمرے میں لائیں تو منہا ایک لمحے جی جان سے کانپ اٹھی۔

خواب گاہ پر ڈھلکے پردے، نرم تکیے، کنارے پر رکھے گلاب کی پتیوں کے بکھراو، کہیں کہیں دیپک راگ چھیرتیں دھواں اُگلتی موم بتیاں، اک طرف کھلی کھڑکی جو باہر گرتی رات کی سیاہی دیکھانے کا موجب تھی۔

اتنا سارا انتظام تو یقینا عباد کے علم میں بھی نہ تھا نہ وہ منہا کے ساتھ اپنا رشتہ اس اجلت میں شروع کرنے کے حق میں تھا، ہاں اسکے ساتھ کچھ لمحے وہ ضرور چاہتا تھا۔

شام ڈھلتے ہی اسکی پھر سے بگھڑتی طبعیت بھی زور پکڑ چکی تھی مگر اسے کسی علاج کی ضرورت نہ تھی۔

کچھ وقت منہا سے بات کرنے کی خواہش لیے وہ اپنے درد دبا گیا تھا۔

دادا نے اسے ڈھیر سی دعائیں دیے احد کو سنبھالنے کا اطمئینان تو دے دیا تھا مگر وہ اس فسوں خیز کمرے میں اک سہمی تتلی کی مانند اپنے آپ کو بہتر کرنے میں لگی مضطرب تھی۔

ملازمہ اسکے لیے عام سونے کا لباس جو گہری جامنی کرتی جس کے دامن پر چھوٹی چھوٹی لیس نسب تھی اور سفید کھلے گھیرے والی شلوار کے ساتھ کریب کا دوپٹہ دے گئیں تھیں، اسکے نکاح کا جوڑا ہرگز بھاری نہ تھا مگر وہ خود کو اس سجے روپ میں خود دیکھ کر ہلکان تھی تبھی فوری بدلنے کے لیے ملحقہ واش روم میں گھس گئی۔

"نکاح کے جوڑے کی اتنی پائمالی۔۔۔"

دروازہ وا کیے ابھی وہ کمرے میں داخل ہی ہوا کہ پاوں میں فاریہ کے دوپٹے کو آتا دیکھ کر وہ دروازہ واپس بند کیے جتاتے ہوئے بولا، کھانے کی ٹرے میز پر رکھے جھک کر وہ دوپٹہ اٹھایا اور نظر فاریہ پر ڈالی جو گال تکیے سے لگائے کروٹ پر لیٹی گہرے گہرے سانس کھینچ رہی تھی۔

وہ اسکے آنے پر دل و جان سے دم سادھ گئی مگر ہلی نہیں اور اسکے یوں بے رحم رویے پر وہ اپنے اور اس بکھری لڑکی کے بیچ کا فاصلہ طے کرتا عین بیڈ تک پہنچا ، وہ اپنا سفید جوڑا بدل کر ہمیشہ کی طرح سیاہ میں لپٹ آیا تھا، ناجانے کیوں مگر سیاہ اس پر جچتا تھا۔

"مجھے پتا ہے تم ہر کسی سے نفرت کرتی ہو لیکن کم از کم کھانے سے انکار کر کے اللہ کے رزق سے منہ مت موڑو۔ اٹھو اور کچھ کھا لو"

پاس ہی اس بے جان وجود کے بیٹھتا وہ اسکے شانے پر ہاتھ رکھتا اس سے ہمکلام تھا جو اپنی انا پر پہاڑ سی جمی تھی، کیوں یہ شخص اس طرح اسکو ملا اب ماتم اس بات کا تھا۔

"فاریہ اٹھو تمہیں سمجھ نہیں آرہی"

اس بار وہ تھوڑا سختی سے اسکی بازو پکڑے ایک ہی جھٹکے سے اسے اٹھا کر بیٹھا چکا تھا جو اٹھتے ہی غرا کر اسکے ہاتھ سے اپنی بازو چھڑوائے بھیگی آنکھوں سے سراج کے دل کو زخم لگا رہی تھی۔

"مجھے تنگ مت کرو، مجھے کچھ ن۔۔نہیں کھانا"

پلکیں فوری بوجھ سے جھکائے وہ اس قدر مشکل سے بولی کے آواز گلے میں گھٹ سی گئی۔

"تو پھر رو کیوں رہی ہو"

ہر بات فراموش کیے وہ اسکے چہرے کی جانب تکتا پوچھ رہا تھا جو وہ اسے سے چھپانے کو جھکا رہی تھی، مگر وہ اسکی ٹھوڑی پر ہاتھ کی پکڑ جمائے اسے اس سے روک چکا تھا۔

"تمہیں نہیں پتا؟"

آس سے سوال کیا گیا، سراج تو اسکی آنکھوں میں ہلکورے لیتے درد سے چٹخ کر رہ گیا۔

"پتا ہوتا تو رونا روک چکا ہوتا ابھی تک"

وہ فاریہ سے دُگنی تکلیف میں تھا، جیسے دونوں کے پاس بہت سے شکوے ہوں مگر ایک دوسرے کی موجودگی جان لے رہی تھی۔

"جس سے نفرت کرنی چاہیے اس کو کون اتنے اہم رشتے میں لیتا ہے سراج علی؟"

ناجانے وہ اپنا کہہ رہی تھی یا سراج کا مگر اسکے ہاتھ کی گرم ہتھیلی، سراج کے دل کے مقام پر جا جمی، اور آنکھیں سوال کرتے بہت تھکن سے بھری تھیں۔

"میں نے بس احسان چکایا ہے، سمجھوتہ کیا ہے تمہارے سکون کے لیے۔ اب نہیں معلوم یہ سب مجھے کتنا بے سکون کرنے والا ہے۔۔۔۔ کسی خوش فہمی میں مت رہنا کہ ناراض نہیں ہوں۔ ہاں نفرت نہیں کر سکتا کیونکہ جس دل میں محبت ہو وہاں نفرت نہیں رہ سکتی۔۔۔۔۔"

وہ جانتا تھا اس سے فاریہ کو زخم لگے گا پر اسے اب اس لڑکی کو اپنے رنگ میں رنگنا تھا، کم از کم وہ اسکے سامنے تو یہ اظہار دے پائے کہ وہ اسے محبت کرتی ہے۔ ہاتھ کی پشت فاریہ کی نازک گال سے سہلائے دونوں طرف آنکھوں سے بہتی نمی ہٹائے وہ سچائی سے بولا، اتنی سچائی جو فاریہ کا دم گھوٹ گئی۔

کیا وہ اس سے ناراض تھا؟ وہ مانتی تھی ناراض ہونا سراج کا حق ہے پھر بھی سانسیں اٹکنے لگیں۔

"تم نے بہت بار مجھے ظالم کہا، لیکن تم خود بہت بڑے سفاک اور سنگدل ہو"

اتنی گہرائی سے وہ پور پور اذیت کا لمحہ بنی صرف سراج کی قربت کو ترستی ہوئی تڑپ بنی تھی اور وہ کس آسانی سے اسکی حالت زار سے دامن بچا نکلا۔

یہ شکوہ اس لڑکی کے ہونٹوں پر جس طرح مچلا ویسے ہی لگا اسکے ہونٹ کٹ گئے ہوں، وہ لب کاٹتی یہ کہہ کر منہ موڑ گئی۔

اور وہ اسکے رخ موڑ لینے پر تلخ سا مسکرایا۔

جھک کر اپنا چہرہ اسکے موڑے چہرے تک لایا اور نرمی سے اپنے لبوں سے فاریہ کی نم ہوتی گال چھوٸی، یہ اتنا غیر ارادی تھا کہ وہ تڑپ کر رخ واپس موڑے شکوہ کناں سی آنکھیں سراج کی آنکھوں میں ڈالے اسکے ہونٹوں سے سرزد ہوئی اس جسارت کی وجہ جاننے کو بیقرار تھی۔

"ضروری نہیں ہوتا کہ جو بُرے ہیں وہ بُرے بھی لگیں، ہاں ناراض ہوں تم سے کہ تم نے مجھے بہت سی تکلیفوں سے گزارا لیکن تمہارے لیے خود کے دل کی جڑوں تک اتری چاہت کھرچ کر بھی نکالنا چاہوں تو مشکل ہے۔۔۔۔۔"

سراج اپنے دونوں ہاتھوں سے اسکا چہرہ سہلائے اسکی پتھرائی آنکھوں میں جھانکے جذب سے بولا، یہ شاید وقتی اثر تھا کہ وہ اپنی انا کے خول سے نکل جانا چاہتی تھی۔

اس شخص کی حواسوں سے جا لپٹی خوشبو، بڑھی شیو کی کچھ دیر پہلے کی گال پر ہوتی چبھن اور اب وہ جو مزید قریب آتے ہی اسکے چہرے کے ہر خدوخال پر سائے کی طرح اترنے کو تھا، مگر کچھ تھا کہ وہ مزید آگے نہ بڑھ سکا۔

یہ نرم روح کو جنجھوڑتی اس شخص کی موجودگی اسکے ہر زخم کا علاج تھی پر وہ کہہ نہ سکتی تھی۔

"جھوٹ بول رہے ہو تم۔۔۔۔۔ بہلا رہے ہو مجھے"

وہ اسکے دونوں ہاتھ جھٹک کر چینخی تھی، اسکے انداز وحشیانہ ہوئے۔

اور خود سراج اسکی اس سفاکیت پر بل کھا کر رہ گیا۔

"میں کوئی صفائی دینے نہیں آیا، نہ دوں گا۔۔۔ اگر تم یہ خود اذیتی کا کھیل جاری رکھنا چاہتی تو کیا کہہ سکتا ہوں۔۔۔۔ "

وہ اسکی بے جا انا اور سفاکی پر خفا سا اس سے پہلے اسکے پاس سے اٹھ جاتا، وہ اسکا گریبان پکڑے جھٹکا تو دے بیٹھی مگر توازن برقرار نہ رکھنے پر وہ واپس بستر پر جا گری اور اسکے ہاتھوں کی پکڑ سراج علی کے گریبان پر ہونے کے باعث وہ بھی بیٹھا بیٹھا اس پر جھک آیا، اور دل خوامخواہ ٹکرا جانے کا سبب بنتی اپنی اس حرکت پر وہ فوری گھبرا کر اسکے کالر کو چھوڑ گئی مگر سراج علی نے دھیما سا مسکرا کر فاریہ کے تن من میں آگ لگائی۔

"اگر نفرت میں تم مجھے خود کے اتنے قریب لے آئی تو کل کو اگر تمہیں مجھ سے محبت ہو گئی فاریہ تب تو تم میری جان لے لو گی"

اپنے دونوں ہاتھ فاریہ کے تکیے پر اسکے سر کے اردگرد ٹکا کر اس پر سے تھوڑا اٹھ کر فاصلہ بنائے وہ اسکی رونے سے سرخ پڑتی ناک ، ناک سے سہلائے معنی خیزی سے چمکا جس پر فاریہ نے حلق تر کیے جھرجھری لی۔

"میں تم سے محبت کیوں کروں گی، جس دل میں تمہارے لیے نفرت ہے وہاں بھلا محبت کیسے آسکتی۔ تم ان خوش فہمیوں میں ہی مر جانا"

دم سادھے گھبرائی آواز مگر اعتماد کے سنگ وہ سراج کو تھوڑا سکون دے گئی، جب تک وہ اس سے نفرت کا اظہار نہ کرے سراج کو سکون کہاں آتا تھا۔

"مطلب میری جان جا کر رہنی ہر صورت، بھلا تمہارے قریب آنے پر جائے یا محبت ہونے کی خوش فہمی پر"

ناجانے کیوں مگر وہ اس بار زخمی سا ہوا، غیر ارادی طور پر اپنا چہرہ فاریہ کی گردن میں چھپائے سانس لی جسکی تپش فاریہ کے تن من میں اتری۔

اس سے پہلے وہ کچھ مزید کہتی اسکے بوجھ سے دب جاتی کراہ ہی اٹھی، جو اپنی بیٹھے ہونے کی پوزیشن پوری مہارت اور چالاکی سے لیٹ جانے میں بدلتا اسکے ساتھ ہی تکیے پر سر رکھے لیٹا جو اسکے کندھے پر پوری قوت سے مکا برساتی اس سے پہلے اٹھ کر اپنی ہڈیوں کا معائینہ کرنے بیٹھتی وہ اسکی بازو کھینچ کر واپس جھکا چکا تھا۔

"اپنا وزن دیکھا ہے کے ٹو کے پہاڑ۔۔۔۔ اور تم یہاں نہیں سو سکتے میرے ساتھ، جاو یہاں سے یا مجھے جانے دو"

مسلسل پھدک کر اسکی سینے پر اسے بیڈ سے جوڑ کر رکھنے کے لیے دھری بازو پرے کرتی وہ پست آواز میں کی سرگوشی پر بھڑکی مگر وہ مسکراتا ہوا بازو ہٹا کر سر کے نیچے باندھے کروٹ فاریہ کی سمت بدلے اب دوسری بازو اس پر دھر چکا تھا اور دوسری بازو فاریہ کے سر کے گرد تکیے پر تھی اور ہاتھ اسکے کان سے اٹکیلیاں کرتا جا رہا تھا۔

"ماونٹ ایورسٹ کہتی تو بھی چل جاتا، آج سے تم یہیں میرے ساتھ ہی سو گی۔ ہمارے ہاں عورتیں شوہروں سے الگ بستر لگا کر سوئیں تو برا سمجھا جاتا۔ ویسے بھی تمہیں تو بڑا شوق ہے مجھ سے لڑنے کا، قریب سے لڑ لو تاکہ میں بھی لڑائی مزے سے انجوائے کر سکوں"

شرارت کے ساتھ ساتھ حاکمانہ لہجہ اپنائے وہ مزے سے اسے آگاہ کرتا خود بھی اپنی آنکھیں بند کر گیا تھا اور فاریہ کتنے ہی لمحے اسکے لفظوں کی نرمی میں ہی کھوئی رہی، وہ اسکےپاس تھا، اتنا قریب کے نہ تو دور جانے کا خوف تھا نہ اسے یہ لگا کہ یہ شخص کبھی بھی اسے اس حق کو پا لینے کے بعد دور کرے گا۔

"میں نہیں سو سکتی یہاں"

اپنے کندھے کو سراج کے کندھے سے دانستہ الگ کرتی وہ مشکل سے دوچار پھر سے اٹھ بیٹھی، اور اوپر سے اس کمرے کی موہوم سہی پر سجاوٹ اسے بے چین کر رہی تھی۔

سراج نے بند آنکھیں کھولے اسکے رخ موڑ کر دیکھنے پر خفگی سے دیکھا جو واقعی سچ ہی کہہ رہی تھی، اسکی مرجھائی صورت پر صاف صاف اضطراب رقم تھا تبھی وہ خود بھی اٹھ بیٹھا۔

وہ دونوں بھلے ساتھ بیٹھے تھے پر ایک دوسرے کو دیکھنے کی کوئی کوشش نہ کر رہے تھے، شاید یہ کوئی حاوی ہوتا جذبہ تھا کہ ان کے بیچ اک ذومعنی خاموشی کا راج تھا۔

"ٹھیک ہے میں چلا جاتا ہوں، تم آرام سے سو جاو"

بہت سوچنے کے بعد اسے یہی حل نظر آیا، مگر وہ اسکے جانے پر بلکل رضا مند نہ تھی تبھی اسکا ہاتھ پکڑے روک گئی اور دونوں کی نظریں پھر سے آن ملیں۔

اک سرسراہٹ سی دونوں کے وجود تک اتری، وہ نظریں جنکی تاب سہنا دونوں کے لیے کٹھن تھا۔

"جانے کا نہیں کہا، یہیں رہو"

بھاری آواز ناجانے جذبات کے باعث ہوئی تھی یا دکھ سے مگر وہ اسکے وجود میں چھپ سی گئی، خود سراج بھی اسکے نازک وجود کو گرفت میں لیتا واپس تکیے پر سر رکھے لیٹا تو فاریہ بھی ویسی ہی اسکے سینے پر سر رکھے آنکھیں موند گئی۔

شاید یہی چاہتی تھی کہ وہ اسے اتنا حق دے کہ لگے وہ مرنے سے واقعی بچ گئی ہے۔

اس لڑکی کے پلوں میں بدلتے تیور ، سراج علی کے ہونٹوں پر غضب کی مسکراہٹ لے آئے، وہ اسکے سینے سے چہرہ جوڑے مدھم مدھم سانس لے رہی تھی اور اسکی سانس کی حدت سراج کے دل تک منتقل ہو رہی تھی۔

اپنے آپ کو پہلی بار اتنا پرسکون محسوس کرتی وہ اپنی ہتھیلی بے دھیانی میں سراج علی کے چہرے سے جوڑے متذبذب سی سر اٹھائے اسکو دیکھنے لگی جو گہری سوچوں سے نکل تو آیا مگر فاریہ کی نظر میں مرکوز ہو کر سنجیدہ ترین ہوا۔

"میں یہاں تمہارے ساتھ نہیں رہوں گی، واپس جانا ہے مجھے۔۔۔ ویسے بھی مجھے گاوں میں رہنا پسند نہیں"

سراج کی سنجیدگی بھانپ کر وہ فوری اپنے مدعے پر آئی اور اسکی یہ بات سراج بنا کہے بھی جانتا تھا۔

"جہاں میں رہوں گا وہیں تم رہو گی، اس پر مزید کوئی بعث نہیں"

حتمی طور پر اپنا فیصلہ سنائے وہ فاریہ کو مزید رنجیدہ کر چکا تھا، کیا وہ پھر سے اس پر حاکم بن رہا تھا۔ فاریہ اسکی نرمی اور عجیب سی چپ پر پہلے ہی بدمزہ ہوئی۔

"تم مجھے حکم نہیں دے سکتے خودغرض انسان"

شانے پر ہتھیلی ٹکا کر سہارہ لے کر وہ زرا اٹھ کر اس پر جھکی غرائی مگر اس بار وہ اسے دونوں بازووں میں بھینچ چکا تھا، اور اس کاروائی کے پیش نظر وہ اسکے حصار میں مکمل طور پر سمٹ گئی، اور مزید بعث یا کسی بات کے بجائے سراج نے ایک ہاتھ بڑھا کر مدھم جلتی لیمپ کی روشنی بھی گل کر دی۔

"اب مزید کوئی بات نہیں کرنا چاہتا تم سے ، سو جاو فاریہ۔ ایسا نہ ہو آج ہی تمہیں اپنی اصل خود غرضی دیکھا دوں۔ کچھ دن رہو یہاں چین سے، سب ساتھ ہی واپس جائیں گے"

کانوں میں سلگتی سی سرگوشی پر وہ مدھم سا مسکرائی، اسکی گردن میں منہ چھپائے اسکے چہرے کا مسکراہٹ میں ڈھلنا سراج نے گہرائی سے محسوس کیا، اور وہ جانتا تھا وہ اس کے اتنے قریب ہی ٹھیک رہ سکتی ہے۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

منہا چینج کیے نفاست سے دوپٹہ شانوں پر پھیلائے کُھلے بالوں کو ملائمٹ کے سنگ کمر پر ڈالے باہر آئی تو ابھی تک عباد کا کوئی نام و نشان نہ تھا، ہزار ہا اپنے دل کو سنبھالا مگر جگہ جگہ دھرے رنگ برنگے موسمی پھولوں کے سراپے اسے متذبذب کر رہے تھے، تبھی نظر چرائے وہ پلٹی تو دروازے سے اندر انٹر ہوتے عباد کو دیکھ کر وہیں تھم گئی۔

وہ بھی چینج کیے مکمل بلیک میں نکھرا تو لگ رہا تھا مگر منہا نے تمام تر گھبراہٹ دبائے اسکی سرخ ہوتی آنکھوں کو دیکھ کر فکر مندی سے بیچ کا فاصلہ طے کیا اور جب وہ خود عباد کی سمت آئی تو یہ اس شخص کا دل ہزار ہا درد کے باوجود سرشار کر گیا۔

"آپ ٹھیک ہیں ناں؟ وہ آپ کو میڈیسن لیتے دیکھا تھا۔۔۔۔ طبعیت اچھی نہیں لگ رہی کیا ہوا ہے"

عین قریب آکر رکتی وہ عباد سے مخاطب تھی جو مدھم سا مسکرا کر اس فکر میں سر تا پا غرق حسینہ کے چہرے پر نگاہیں جمائے جواب فراموش کر گیا۔

"عباد میں آپ سے پوچھ رہی"

مسلسل اپنی سمت اس ساحر کی نظریں جمی پائے وہ خود بوکھلا کر بولی۔

وہ بھی جیسے واپس ہوش کی دنیا میں لوٹے مسکرا دیا۔

"ٹھیک نہیں ہوں ، لیکن اب ہو جاوں گا"

بیچ کا رہا سہا فاصلہ کاٹے وہ عین روبرو اسکے چہرے کے پُربہار خدوخال تکتا پراسرار ہوا، منہا کو ایک لمحے لگا وہ برف کے قلعے میں مبحوس کر دی گئی ہے۔

وہ ناجانے کونسا اسم پھونکتا تھا کہ ہوش اڑنے میں لمحہ لگتا۔

"تم نے چینج بھی کر لیا"

منہا کی متذبذب بوکھلائی صورت تکتا وہ اسکو سر تا پیر بھرپور نگاہ سے دیکھے تھوڑی مایوسی سے بولا اور منہا کی زبان تو گویا رہن ہوئی۔

کبھی یوں کسی کی نظریں روح تک پہلے نہ اتری تھیں اور یہ شخص تو ویسے بھی اس پر اپنا گہرا اثر رکھتا تھا۔

"جی کر لیا، آپ بتا نہیں رہے آپکو ہوا کیا ہے"

محترمہ کی سوئی تو وہیں اٹکی تھی، اور یکدم ہی وہ سینے پر ہاتھ رکھتا درد دیتے تاثرات کے سنگ کھانستا ہوا چلتا ہوا بیڈ تک آیا اور منہا نے بھی فوری لپک کر تکیہ اٹھا کر اسکی کمر کے پیچھے رکھا اور اس دوران دونوں کی نظریں بہت خطرناک ہو کر آن ملیں۔

جھکنے کے باعث اسکا شانوں پر پھیلا دوپٹہ اتر کر عباد پر آن پھیلا اور جس طرح وہ لرز کر دوپٹہ سنبھالے نظر چرا گئی اس پر عباد کی مسکراہٹ اسے سخت نڈھال کر گئی۔

اپنی پوزیشن کا احساس کرتے ہی وہ فوری سنبھلی مگر وہ آرام دہ انداز سے ٹانگیں لمبی کرتے نیم دراز بیٹھتے ہی منہا کی کلائی پکڑے اسے بھی پاس بیٹھا گیا، اس اچانک افتاد پر وہ سہم کر پہلو نشین ہوئے عباد کو دیکھنے لگی، وہ اسکی جان لینے کے ارادے رکھتا تھا۔

جسم و جان تک سرد لہریں صرف اسکے دیکھنے سے ہی اترنے لگیں۔

وہ چاہتا تھا آج ہی منہا کو ساری سچائی بتائے مگر آج نجانے کیوں کچھ کہنے کی ہمت نہ تھی۔

"دراصل مٹی اور گرد سے الرجی ہے مجھے، اور جب بھی یہاں آتا ہوں دو تین دن مشکل ہوتے۔ فکر مند مت ہو، یہ معمولی چیزیں ہیں"

عباد اسکی شکوہ کناں آنکھیں تکتا اپنی طبعیت کے بارے آگاہ کرتا غیر ارادی طور پر اپنا ہاتھ اسکی گال تک لایا، جس پر وہ آنکھیں جھکاتی اداس لگی۔

وہ یہی سوچ رہی تھی کہ یہ اتفاق آج ہی اسکے سامنے کیوں آیا، دل بری طرح کانپا تھا۔

"آپکو پتا ہے احد کو بھی سیم ایشو ہے، لیکن اللہ کا شکر ہے ابھی اسے یہ سب زیادہ ایفیکٹ نہیں کیا تھا کہ مجھے اور دادو کو اسکی اس الرجی کا علم ہو گیا۔ کیا بہت تکلیف ہوتی ہے؟"

آنکھوں میں ڈھیر سی اداسی بھرے وہ اس وقت احد کے ساتھ ساتھ عباد کے لیے بھی پریشان تھی جو یہ سن کر خود تھوڑا شاکڈ ہوا۔

لیکن منہا کے آخری آس سےپوچھے سوال پر وہ اسکی آنکھ سے بہتے آنسو کو اپنی انگلی کی پور سے جذب کرتا تسلی بخش انداز میں دیکھنے لگا۔

"بہت چھوٹا ہے وہ، اللہ اسے شفاء دے گا۔ تکلیف تو ہوتی ہے لیکن آرام بھی جلد آجاتا ہے۔ کیا تم احد کے لیے پریشان ہو؟"

اسکے سرد ہاتھ تھامے وہ شروع میں اسے تسلی دیتا آخر تک اسکی چرائی جا چکی نظروں کو مرکوز کیے بولا۔

منہا کو لگا اسکے پاس جواب ہے مگر وہ بول نہیں پائے گی، وہ کسی کی تکلیف نہیں سہہ پاتی تھی اور یہ شخص تو کہیں دل میں پورا دھڑکتا تھا۔

"نہیں اسکے لیے پریشان نہیں، وہ بلکل ٹھیک ہے یہاں گاوں آ کر بھی۔ میں آپکے لیے پریشان ہوں، آپ اوپر سے بھلے مسکرا رہے ہیں لیکن آپ تکلیف میں ہیں۔ کیا آپ کو کچھ چاہیے، مجھے بتائیں میں آپکے لیے بنا لاتی جس سے آپکی تکلیف کم ہو سکے"

اس وقت اسکا بس نہ چل رہا تھا کہ کسی بھی طرح عباد کی تکلیف مٹا دیتی اور وہ صدمے ہی کی کیفیت میں منہا کے یہ فکر سے چور انداز دیکھتا چلا گیا۔

کیا یہ سب بس نکاح کی کشش تھی کہ وہ لڑکی اسکے لیے بیقرار ہو گئی، یہی سوچ سوچتا وہ اسکے جکڑے ہاتھ کو اپنے ہونٹوں تک لایا اور نرمی سے چوما۔

منہا اسکے اس عمل سے بوکھلائی، گال تک اس محبت بھرے لمس سے تپ گئے۔

"مجھے کچھ نہیں چاہیے، تم کافی ہو"

محبت بھری نگاہوں میں منہا کو لیے وہ پھر سے اسے مشکل سے دوچار کر رہا تھا، جسکے لیے عباد کے پاس بیٹھنا اس لیے محال تھا کیونکہ وہ ڈر رہی تھی کہیں وہ اسکی دھڑکن کا بے خود شور نہ سن لے۔

"آپ کو نیند لے لینی چاہیے، مجھے دیکھ کر کیا ملے گا"

اپنے عباد کی مضبوط ہاتھ کی گرفت میں دبے ہاتھ کی سمت دیکھتی وہ نظر اٹھا کر عباد کو بہت ہمت سے کہہ پائی، وہ اسے بیقرار لگ رہا تھا۔

اسکی آنکھوں میں اک تشنگی تھی جو منہا کے دل تک کا سارا جہاں منجمد کر رہی تھی۔

"تمہیں بنا کسی رکاوٹ کے دیکھنے کے لیے ہی تو نکاح کیا ہے، بھرپور نظر ڈال سکتا ہوں حق ہے میرا۔ بہت کچھ بتانا چاہتا ہوں لیکن کل ہمت کروں گا۔ کیا تم اس نکاح سے خوش نہیں ہو منہا؟"

اک ادھورا پن سا تھا کہ وہ تھکن ذدہ ہوا ، اسکے سوال پر منہا نے فوری نفی میں سر ہلایا مگر خاموش بھی نہ رہ پائی۔

"ایسا نہیں ہے، میں خوش ہوں۔ آپ جو بھی بتانا چاہتے ہیں ضرور سنوں گی۔ آپکی اداسی جاننے کے لیے ہی تو یکسر انجان سا یہ ناطہ بنا بیٹھی ہوں۔ جسکے بارے میں نے کبھی نہیں سوچا تھا۔ احد کے بعد سے تو میں نے یہ تک سوچ لیا تھا کہ اب میری زندگی بس انہی دو کی ہے۔۔۔"

فوری عباد کی اداسی ہٹاتی وہ ہمت کیے سب کہہ بیٹھی، وہ بھی جو کہنے کے لیے اسے لاکھ بار سوچنا پڑتا مگر ناجانے کیوں عباد کا دل چاہا یہ لڑکی پوری اسکی ہی ہو، اسکی توجہ کسی دوسری سمت نہ ہو۔

"وہ دو تمہارے لیے اہم ہیں جانتا ہوں، مجھے تو تم ٹھیک سے جانتی بھی نہیں تو یقینا اہم بھی نہیں ہوں تمہارے لیے"

ناجانے کیوں مگر منہا کو محسوس ہوا وہ تھوڑا جیلس ہوا ہے اور تبھی نروٹھے پن کی جھلک اسکے شکوے میں تھی۔

منہا نے اپنی جادوئی مسکراہٹ ہزار ہا روکی پر وہ عباد کے اتنے بڑے ہونے کے باوجود بچگانہ شکوے پر چہرے پر پھیلی تھی۔

اور اسکی مسکراہٹ واقعی تا دیر اسکے نرم ہونٹوں کو دیکھنے پر اکسانے والی ظالم تھی، جیسے پھول کی نازک پتیاں ، جیسے تشنگی مٹانے کے اسباب۔

اور عباد کی آنکھوں کا بے باک زوایہ بھانپ کر وہ فوری مسکراہٹ جذب کرتی ہونٹ دباتی نظر جھکا گئی۔

اور یہ ایک لمحہ ہی عباد کی دنیا ہلا دینے کو کافی تھا۔

"منہا۔۔۔۔"

اسکے جھکے چہرے کو دیکھتا وہ پکارا، سماعت تو دور دل تک اس پکار پر دھڑک اٹھا اور وہ جو چاہ رہا تھا اس پر منہا کان کی لو تک سرخ ہوئی، آنکھوں میں خوف سے نمی اتر آئی جو مقابل کو ارادہ ترک کر دینے پر اُکسا گئی۔

"آپ اہم ہیں، تبھی تو آج یہاں آپکے پاس بیٹھی ہوں۔ لیکن جانتی ہوں آپ مجھے کسی مشکل سے بے وقت دوچار نہیں کریں گے۔ کیا ایسا ممکن ہے پہلے میں آپکو مکمل جان لوں۔۔۔۔ اسکے بعد آپکے حق کے بیچ نہیں آوں گی۔ کم از کم مجھے اتنا تو یقین ہو ناں کہ میں آپکے لیے مخص ٹائم پاس نہیں ہوں بلکے میرے وجود کے ساتھ ساتھ میرا دل بھی آپکو اتنا ہی عزیز ہے، دل کے جذبات بھی"

وہ بری طرح عباد کی خواہش رد کرتی خود بھی چپ نہ رہ سکی، اسے عباد کے سامنے کچھ بھی کہنے کے لیے سوچنا نہ پڑا، اور یہ اتنی نازک بات تک وہ آسانی سے کہہ گئی۔

"کیا تمہیں نہیں پتا کہ ایک مرد نکاح کی پیش کش کیوں کرتا ہے، کیا میں نے تمہیں حاصل کرنے کے لیے کوئی جنونی راہ اپنائی یا کوئی غلط راستہ چنا۔۔۔۔ تمہاری رضا کے بعد ہی اپنی زوجیت میں لیا، تمہارے دادا سے تمہیں مانگا۔ کیا تب بھی تمہیں یہ کہنے کی ضرورت تھی کہ یہ سب ٹائم پاس ہے، ٹائم پاس کو عزت نہیں بنایا جاتا۔ میں نے تمہیں اپنی عزت بنایا ہے، نکاح سے پہلے تمہیں دیکھنے تک میں صبر انڈیل لیتا تھا کیا تمہیں محسوس نہیں ہوا میرا خود پر جبر کرنا"

بنا رکے وہ منہا کی آنکھوں میں جھانک کر کئی سچ کہہ بیٹھا جو اس وقت اس لڑکی کے حواس اڑا گئے، وہ یہ سب اسے ہرٹ کہنے کو نہیں بولی تھی مگر وہ ہو گیا تھا، ایک تو وہ پہلے ہی ٹھیک نہیں تھا اوپر سے منہا نے اسے مزید اداس کر دیا اور اپنی اس غلطی پر وہ پشیمان تھی۔

"عباد آپ مجھے پھر سے پریشان کر رہے ہیں، ایک تو پہلے ہی آپکی طبعیت نے میری جان آدھی کی۔۔۔۔۔۔۔"

اسکے تکلیف کے سنگ دیکھنے پر وہ بوکھلا گئی، اور جب احساس ہوا کہ وہ کیا کہہ بیٹھی ہے، سہم کر اپنی زبان کو روکا مگر عباد اسکی بے خود بات پر مسکراہٹ میں ڈھل گیا۔

"اور تمہاری یہ دور دور سے فکر میری جان لے رہی ہے"

شرارت پر اترے وہ اسکے فرار پر چوٹ کرنا نہ بھولا، منہا کا دل اس قدر تیزی سے دھڑکا کہ لگا سینہ توڑ کر باہر آن گرے گا۔

اور پھر دور دور والے دو لفظوں پر عباد کا دیا دباو منہا کو کپکپاہٹ دے گیا، قریب جانے کا سوچ کر ہی وہ سرد پڑ گئی۔

ان پلکوں کا گھبراہٹ میں رقص ، اور پھر یکدم ہی منہا کو اپنی کمر پر عباد کی سلگتی حدت ذدہ انگلیوں کا سرکتا لمس محسوس ہوا تو وہ تاسف کے سنگ پلکیں اٹھائے عباد کو یوں دیکھنے لگی جیسے رحم کی طالب ہو۔

"اک ذرا ہاتھ بڑھا دیں تو پکڑ لیں دامن

ان کے سینے میں سما جائے ہماری دھڑکن

اتنی قربت ہے تو پھر فاصلہ اتنا کیوں ہے"

ان لبوں کی جنبیش پر شاعرانہ طرز سے ادا ہوئی سرگوشی اور عباد کا اسے آہستہ آہستہ قریب کر لینے کی سازش کا ادراک پائے اسے لگا وہ بس سانس لیتی لیتی کسی بھی لمحے سانس چھوڑ دے گی۔

"محبت میں انسان اس ایک پیارے اور اہم کو دنیا بھر کی نگاہوں سے چھپا لینا چاہتا ہے منہا، تمہیں پتا ہے آج سے پہلے کسی انسان تو دور کسی چیز کے لیے بھی مجھے ایسا محسوس نہیں ہوا تھا کہ اسے دنیا کی نظر سے چھپا لوں"

وہ اسکی کمر پر دباو بڑھاتا منہا کو خود پر جھکا چکا تھا، جو بس آنکھوں میں صدمے سے نمی بھرے انکو چھلکنے سے روکتی سانس کھینچ کر رہ گئی۔

"ع۔۔۔عباد پلیز "

مقابل کے ارادے بھانپ کر وہ بری طرح تڑپ اٹھی، سینے میں دل کی جگہ گویا برق آن بھری ہو۔

"ایک وعدہ کرو پھر، کچھ بھی ہو جائے تم مجھ سے دور نہیں جاو گی"

عین چہرے مس ہوجانے اور دھڑکنوں کے تصادم کے دل دہلاتے سحر سے اک لمحہ پہلے وہ رکا، منہا نے دم سادھے میچی آنکھیں وا کیے اس ظالم کو دیکھا جو جان لینے کے در پر تھا۔

"اور اگر آپ خود چلے گئے، خود دور کر دیا تو"

وہ جانتی تھی مستقبل میں ایسا وقت بھی آ سکتا ہے، یہ شخص جو اسکے سائے تک کو برداشت نہیں کر رہا کیسے احد کی سچائی کے بعد اسے قبول کرے گا۔

منہا کی آنکھیں نم ہوئیں تھیں اور اسکی آنکھوں سے بہتی نمی عباد نے اپنے ہونٹوں کی نرم شدت سے جذب کی تھی۔

وہ اسے مکمل اپنے بس میں کر چکا تھا۔

"میں نہیں جا پاوں گا دور، ممکن ہی نہیں"

اپنی طرف سے وہ ہار مانتا بولا تھا، منہا پھر بھی مسکرا نہ سکی، اسکے چہرے سے نگاہ چراتی وہ اسکے وجود میں جا سمٹی۔

اسکی تیز تیز سانسیں عباد کے دل تک اتر رہی تھیں، مگر وہ مزید کچھ بھی کہنے یا سننے کی تاب نہ رکھتی تھی۔

"سچ ب۔۔بتاوں تو م۔۔مجھے محبت لفظ سے خوف آتا ہے، اس دنیا میں کچھ بھی قابلِ یقین نہیں ، محبت بھی نہیں۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں، سب سے بے یقین شے ہی یہ جذبے ہیں۔۔۔۔ "

وہ محبت سے ابھی سے خفا تھی تو وہ اس بات پر رنجیدہ تھا کہ کل جب وہ اسے اپنی شادی اور بچے کی حقیقت بتائے گا تو وہ رہی سہی بھی دور ہو جائے گی۔ لیکن یہ سچائیاں وہ اسے ہر صورت بنانے پر مجبور تھا۔

"سو جائیں تاکہ طبعیت سنبھل سکے، میں یہیں ہوں آپکے پاس"

زرا اٹھ کر وہ عباد کی سنجیدہ صورت سرسری سا تکتی اسکے چہرے سے ہتھیلی لگائے کہتی خود بھی کہیں دل سے اداس سی ہوئی۔

اسکے بعد تو بیچ میں اک افسردہ و بوجھل چپ حائل تھی، لفظ ختم تھے، وہ بھی کچھ نہ بولا، شاید منہا ناسمجھی میں ہی سہی پر اسے لاجواب کر گئی تھی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

ساری رات وہ اس لڑکی کے وجود کی، سانسوں کی اور قربت کے فسوں کی سختی نہیں سہہ سکتا تھا تبھی بے مروتی سے فاریہ کے نیند میں اترتے ہی ناصرف لیمپ جلا دیا بلکے اسکے سر سے اپنی بازو بھی ہٹا لی۔

وہ گہری نیند میں تھی پھر بھی سراج علی کے گریبان پر ہاتھ جکڑ گئی جیسے خواب میں بھی اسے معلوم تھا کہ وہ جان گئی ہے کہ وہ اسے چھوڑ رہا ہے۔

یہ جانتے بوجھتے کہ وہ صرف اسکی وجہ سے ایک پرسکون نیند میں ہے پھر بھی وہ اس سے دور جانا چاہتا تھا۔

"کیوں ہوئی مجھے تم سے محبت فاریہ، میں تمہیں کیسے سمیٹ سکتا ہوں میں تو خود بکھر رہا ہوں۔ تم دور تھی تو بہت سے صبر اور تحمل کے رنگ میرے دامن پر ثبت تھے مگر پاس ہو تو میرا دل رہ رہ کر کٹ رہا ہے۔ اتنی جلدی کیسے دے سکتا ہوں تمہیں اپنا آپ، محبت کا سچا اظہار کیوں نہیں کیا تم نے۔۔۔۔۔؟"

وہ اسکی بند آنکھوں کو کرب سے دیکھتا جھک کر اسکی پرسکون آنکھیں لبوں سے چومتا اپنی آنکھ میں جمع ہوتی سرخی چھپا نہ سکا، وہ سرخی کب آنسو بنی کہ سراج کو ہاتھ سے آنکھ رگڑنی پڑی۔

وہ تو گہری نیند میں تھی، اور وہ گہرے درد میں تھا۔

اس بے خبر بے رحم وجود پر ظلم ڈھانے کی سوچ آتے ہی سراج نے گھبرا کر چہرہ موڑا اور ساتھ ہی فاریہ کے ہاتھ سے اپنی قیمص کا کچھ حصہ چھڑوایا اور ہانپ اٹھتا کروٹ بدلے اٹھ بیٹھا اور پاوں زمین پر اتارے۔

وہ ہر لمحہ جب وہ اسکے قریب تھی اسے لہو لہان کر رہا تھا، یہاں اس لڑکی کے قریب رہنا مشکل تھا تبھی وہ بنا آہٹ کیے اٹھا اور خاموشی سے چھت پر چلا گیا۔

ساری رات چھت پر اندھیرے کے بیچ گزاری، سوچتے سوچتے صبح ہو گئی۔

فجر کی اذان پر وہیں چھت پر بنے پانی کے نل سے وضو کیا اور وہیں دیوار پر دھرے جائے نماز کو اٹھا کر بچھایا۔

نماز ادا کی جس سے اسکے بیقرار بے اختیار دل کو تقویت ملی۔

عباد کے لیے وہ فکر مند تھا تبھی اسکا ارادہ پہلے بھائی کی خیریت پوچھنے کا تھا۔

دوسری طرف وہ رات کب سویا تھا اسے خبر نہ ہوئی مگر دور آذان ہی کی آواز کانوں میں پڑنے پر وہ مندی مندی آنکھیں کھولے اردگرد دیکھنے لگا تو نظر چادر میں مقید ہو کر نماز ادا کرنے کے بعد تلاوت کرتی منہا پر گئی تو وہ کچی نیند سے جاگ جانے کے باعث گلابی ہوتی آنکھوں سے ہی مسکرا دیا۔

منہا رات سو نہ پائی تھی، عباد کے سوتے ہی وہ اسکے سینے سے سر اٹھائے اس پر اچھے سے لحاف کرواتی اٹھ کر اسکی صحت یابی کے لیے دعا کرنے میں لگ گئی تھی۔

دادا تو نماز اور تہجد کے پابند تھے اور انہی سے منہا کو بھی یہ خوبصورت عادات ملی تھیں۔

کئی سورتیں پڑھ کر وہ سوئے عباد پر پھونک چکی تھی مگر اس وقت وہ تلاوت مکمل کرتی پانی کے گلاس میں پھونک مارتی احتیاط سے قرآن پاک سمیٹ کر واپس اسکی جگہ ریک پر رکھتی مڑی تو عباد کے جاگ جانے پر تھوڑی چونکی مگر پھر اپنا آپ واپس پراعتماد کیے وہ گلاس لیے اس تک پہنچی۔

"صبح بخیر، یہ پی لیں۔۔۔۔ ان شاء اللہ سکون ملے گا"

اس وقت وہ دیکھ کر بھی عباد کو شفاء ہی دے رہی تھی مگر اتنی محبت سے بڑھائے پانی کے گلاس کو وہ فوری تھامے نہار منہ ہی وہ دم ہوا پانی پینے لگا۔

منہا کو ناجانے کیوں شدید دلی راحت ملی۔

"جزاک اللہ "

گلاس واپس دیے وہ ممنون ہوا، منہا نے اسکی آنکھیں دیکھیں جو تھکی ہوئی تھیں۔

رات وہ اسکے سینے سے پہلی بار لگی تھی اور وہ لمحہ اسکے دل کی شادابی تھا، وہ بلاشبہ اسکے لیے خاص تھا تبھی تو اسکی تکلیف کی دوا لینے رب سے ہمکلام تھی۔

"تم سوئی نہیں رات بھر"

ہاتھ پکڑ کر وہ بھرپور نگاہ ڈالے منہا کی تھوڑی بوجھل آنکھیں دیکھ کر پوچھ رہا تھا جس پر وہ تھوڑی حواس باختہ سی ہوئی۔

"جی وہ آپکے ساتھ ایک بیڈ شئیر کرنے میں مشکل تھی، اور صوفے پر سو کر کمفرٹیبل نہیں ہو رہی تھی مطلب ایسا سمجھ لیں اتنے نرم بستر کی عادت نہیں الٹا نیند خراب ہو جاتی"

اتنی سچائی سے وہ متذبذب ہوئے یہ سب کہہ رہی تھی کہ عباد ناچاہتے ہوئے بھی ہنس دیا، اسکی ہنسی منہا کو اتنی پیاری لگی کہ وہ ساکت رہ گئی۔

تبھی وہ مسکراہٹ روکتا اسکے چہرے کو چھوئے سنجیدہ ہوا۔

"اگر تم کہو تو تمہارے ساتھ یہ بندہ اگلی بار فرش پر بھی سو جائے گا، لیکن کم از کم تم اپنی نیند خراب مت کرنا"

شاید اس سے زیادہ پیاری وضاحت ممکن نہ تھی، خود منہا اسکی سنجیدگی کے باوجود مسکرا دی۔

"اب اتنے بھی بُرے حالات نہیں عباد، میں مینج کر لوں گی اور نیند خراب نہیں ہوئی۔ آپ جانتے ہوں گے جگہ بدلے تو انسان ٹھیک سے سو نہیں سکتا۔ میرا تو رتبہ بھی بدلا تھا، میرا شوہر تکلیف میں تھا تو ایک بیوی کا فرض ہے اپنی ساری دعائیں اسکے نام کر دے"

اتنی ہمت ناجانے اس کے اندر کہاں سے آئی مگر جس طرح منہا نے اسکا نام پکارا ، عباد کے دل نے ایک بیٹ مس کی۔

اور اسکی فکر ہی محبت تھی جو عباد پر نچاور ہو چکی تھی۔

"کیا تمہیں یقین ہے میں تمہاری اس انمول فکر کے لائق ہوں منہا"

کل کی رات کٹ گئی تھی اور اب آج کی رات کا بوجھ عباد پر طاری تھا کیونکہ آج وہ اسے اپنی حقیقت بتانے کا فیصلہ لے چکا تھا۔

وہ سوال کرتا بہت ملال میں تھا، منہا نے لحظہ بھر نظر جھکائی مگر فوری اٹھائے عباد کی بے قرار آنکھوں کو دیکھا جہاں اک تشنگی سی تھی۔

"عجیب سا مشکل سوال ہے"

معصومیت سے وہ اس مشکل سے نکلنے کو مچلی اور عباد کی یہ صبح پرنور ہو گئی۔

اسے یقین ہو گیا کہ اسکی محبت گل نہیں منہا ہے۔

گل نے تو کبھی اسکی تکلیف پر اٹھ کر دعائیں نہ مانگی تھیں، کبھی اسکی سانس کی بندشوں کو اہم نہ جانا تھا۔

وہ تو بس عباد حشمت کیانی سے ہر وقت محبت کی برسات کی طلب گار رہتی تھی، بھلے عباد چاہے نہ چاہے۔

مگر منہا کے پاس ہی وہ مکمل وجود میں ڈھل جاتا تھا، اسکی حسیں جاگ جاتی تھیں۔

اب وہ ہر لمحہ منہا کا گل سے موازنہ کر رہا تھا۔

اور منہا کا پلڑا بھاری تھا۔

"عجیب سی مشکل ہو تم بھی"

بس اسے اس وقت منہا یونہی پاس بیٹھی درکار تھی، اسکے چہرے کا ہر خدوخال دیکھ کر وہ آنکھوں کو تسکین دے رہا تھا، وہ عباد کے میٹھے سے اس شکوے پر دھیما سا مسکرا رہی تھی۔

اور وہ اسکے مسکرانے پر اسکے چہرے کے بدلتے رنگ دیکھ کر مسرور ہو رہا تھا۔

"طبعیت کیسی ہے اب، جیسے میں احد کی بار ڈری تھی ناں ویسے آپکے لیے بھی پریشان تھی۔ جانتی ہوں تکلیف میں تھے آپ ساری رات، ایک ایک لمحہ آپکی تکلیف آپکے چہرے پر آتی رہی تھی"

اپنے آپ کو وہ سچ کہنے سے روک نہ پائی اور عباد کیا بتاتا کہ یہ لڑکی اس پر مکمل حاوی ہو رہی ہے۔

اتنا اہم تو وہ کبھی خود کے لیے نہ تھا۔

"ان معاملات میں انسان بے بس ہوتا ہے منہا، یہ پرابلم ہمارا جینٹک ہے۔ دادا جان کو بھی یہ مسئلہ تھا، اور پھر چاچو کو نہیں تھا مگر بابا کو تھا اور پھر بابا سے مجھ میں آگیا۔۔۔۔۔"

یہ سب وہ ایک ٹرانس میں بتاتا جا رہا تھا اور منہا کے ذہن میں یکدم وہ انسان آیا جو احد کا باپ ہے۔

منہا کی نظر میں تو احد کو کوڑے پر پھینکنے والے اسکے ماں باپ دونوں قابل نفرت تھے مگر اسکے باپ کو بھی یہی مسئلہ تھا تبھی وہ احد میں آیا اور یہ بات منہا کو ناچاہتے ہوئے بھی تکلیف دے گئی۔

منہا تو یہ سب سوچ کر غمزدہ تھی مگر عباد کو لگا وہ اسکی بات سے افسردہ ہے تبھی اسکا چہرہ ہتھیلی سے چھوئے اچھے سے مسکرایا۔

"میں اب بہتر ہوں"

تسلی دیتا وہ اسکی جبراً مسکراہٹ پر ہی بہل گیا۔

"آپ لگ بھی بہتر رہے ہیں"

اپنے رخسار کو سہلاتے عباد کے ہاتھ کو اپنے سرد سے ہاتھ میں لیتی وہ بھی اچھے سے مسکرائی تھی۔

وہ اسے دیکھ کر دل لرزا رہا تھا اور منہا کے پاس اٹھ کر جانے کا کوئی بہانہ بھی نہ تھا۔

"منہ دیکھائی میں کیا چاہیے؟"

وہ بھی بس اس سے باتیں کرنے کی خواہش میں یہ سوال پوچھ بیٹھا اور منہا نے فوری نفی میں گردن گما دی۔

"کچھ نہیں، آپکا حق ہے میرا چہرہ دیکھنا بھلا اس میں لین دین کا کیا کام"

اس پر وہ خالص سمجھدار شوہر کی فکر میں ڈوبی عورت ہی لگی، عباد پھر سے اسکی ان الگ خصوصیات پر فدا ہوا۔

ایک نئی نویلی دلہن کی تو فرمائشیں ہی ختم نہیں ہوتیں، اسے یاد تھا گُل مینے نے فرمائش کر کے اپنا پسند کیا بہت ہی مہنگا ڈائمنڈ کا سیٹ لیا تھا اور یہی نہیں وہ بہت شاہ خرچ تھی اور ہر روز وہ عباد سے ایک ایسا ہی قیمتی تحفہ لے کر دم لیتی تھی۔

اور ایک یہ لڑکی جسکی کوئی خواہش ہی نہ تھی۔

وہ پھر سے منہا اور گل کا موازنہ کر گیا۔

"تمہیں سونے اور ہیرے کے زیوارت نہیں پسند؟"

بہت تجسس سے وہ منہا کو دیکھ کر بولا۔

منہا نے ناک پھیلائے منہ بھی بسور دیا۔

"ہرگز نہیں اور نہ ہی کبھی پسند ہوں گے، مجھے کانچ کی چوڑیاں پسند ہیں، چاندی کی پائیل اچھی لگتی ہے۔ اور چھوٹے چھوٹے وہ جھمکے جو ہمارے علاقے کے اتوار بازار سے ملتے تھے"

اپنی ہی دھن میں وہ ناچاہتے ہوئے اپنے گھر اپنے محلے کو یاد کرتی رنجیدہ سی ہوئی اور عباد کا دل چاہا یہ پوری دنیا بھی اگر وہ منہا کے قدموں میں ڈال دے تو کم ہیں۔

وہ منفرد نہیں، منفرد ترین تھی۔

"یہاں مائی کشف ہوتی ہیں، چوڑی والی۔۔۔۔ کل بلواتا ہوں کہ میری منہا کے ہاتھ چوڑیوں سے بھر دے۔۔۔ باقی سب بھی ادھار رہا"

بے خود سا ہوئے وہ منہا کی کمر جکڑے اسکی روشن جبین چومتا مسکرا کر کہتا اٹھا اور فریش ہونے بڑھ گیا، کتنے ہی لمحے وہ من ہی من میں مسکراتی رہ گئی۔

اور اس مسکراہٹ کی وجہ 'میری منہا' کے پُربہار دو لفظ تھے۔

منہا کو لگا اسکے پورے وجود کو عباد کی خوشبو نے گھیر لیا ہو۔

اور پھر ہاتھ بڑھا کر جبین چھوئی، اسکے ہونٹوں کی حدت اب تک باقی تھی۔

آنکھیں موند کر وہ جابجا اس کمرے میں اسکے کلون کی خوشبو سانسوں کے اندر اتارتی جھک کر اسکے تکیے پر ہاتھ رکھے مسکرائی جہاں اسے رات بھر لیٹے رہنے سے سلوٹیں اتر چکی تھیں۔

وہ اس بار پھر سے شدید حسین مسکرا اٹھی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"کہاں تھی تم ڈارلنگ، بیٹا کیا آیا تم نے تو مجھے اگنور ہی کر دیا "

بہت مشکل سے وہ اگلی صبح عائشہ کو حارث کا مکمل دھیان رکھنے کی تاکید کرتی خود سرور ہی کے گھر آئی تھی، آج این جی او کے حوالے سے کچھ پارٹیز تھیں مگر وہ سرور کے پاس اسکے پہلو میں بیٹھ کر بھی کسی کرب میں تھی، سرور کے استفسار پر وہ کچھ نہ بولی بس اپنا سر اسکے مضبوط کندھے پر ٹکایا۔

"بس وہ بہت تکلیف میں ہے، آپ خود سوچیں سرور کہ اسے میں تک یاد نہیں تو یہ میرے لیے کتنا مشکل ہے۔ اور رہی بات آپکو اگنور کرنے کی تو ایسا ممکن نہیں، ایسے لگتا ہے سب رک سا گیا ہے"

شاید آج پہلی بار ناجیہ کیانی کو اپنے دل کے ساتھ ساتھ مقدر کی سیاہی دیکھائی دی تھی، مگر ایسوں کو ہداہت نہیں ملا کرتی جن کے دلوں پر بد ہدایتی کی مہر لگا دی جاتی ہے۔

"تم کہو تو آج کا دن اور رات ساتھ گزار لیتے ہیں، لگتا ہے تمہاری یہ اداسی اب مجھے سنجیدگی سے دور کرنی ہوگی۔۔۔۔ ارے یار چل کرو، حارث تمہارے پاس ہے سلامت ہے اور کیا چاہیے، اچھا ہے اسے کچھ یاد نہیں ورنہ ابھی تک عباد کے ہاتھوں مارا جا چکا ہوتا۔۔۔۔۔ میرا موڈ پہلے ہی گرم ہے ناجیہ پلیز اپنا یہ ماتم ختم کرو"

وہ جو صبح صبح کسی اور ہی نازیبا موڈ میں تھا، اس بار تلملا اٹھا، خود ناجیہ اسکے نروٹھے انداز پر صوفے سے اٹھ کر رخ موڑ کر کھڑے سرور تک پہنچی جیسے اسکی الجھن جاننا چاہتی ہو۔

"کیا کچھ ہوا ہے؟"

سرور کے روبرو آتی وہ خوفزدہ سی ہوئی۔

اور وہ اسکے حسن پر جھرجھری لے بیٹھا، آج بھی وہ اول دن کی طرح شاداب تھی، اور آج بھی اسکے حسن میں اک نشہ تھا جسکا سرور دیوانہ تھا۔

فاضل گوجا والا قصہ وہ اس وقت سنا کر اپنی صبح کو برباد نہیں کرنا چاہتا تھا تبھی ناجیہ کو باہوں کے گھیرے میں لیے ذومعنی سا مسکرایا اور سرور کی مسکراہٹ پر وہ بھی فکر سے نکلی۔

"نتھنگ سپیشل، بس تمہاری کمی نے موڈ بگھاڑ رکھا ہے۔۔۔۔۔۔ آئی تھنک اس وقت ہمیں باقی سب بھول جانا چاہیے، بریک فاسٹ ایک اچھی سی رومیٹنک مووی کے ساتھ کرتے ہیں۔ آج تم میرے ساتھ ہی رہو، پارٹیز آج رہنے دو۔۔۔۔۔۔ ڈنر کسی اچھی سی جگہ کریں گے کیا خیال ہے"

بھرپور خمار بھرے لہجے میں بھرے وہ ناجیہ کی گال سے انگلی مس کرتا نرماہٹ محسوس کیے سرگوشی میں بولا جس پر وہ انکار نہیں کر سکی تھی، اپنے ہاتھ کو سرور کے ہاتھ میں تھمائے وہ روم کی سمت بڑھ چکی تھی۔

دوسری طرف عائشہ نے اپنا اور حارث کا ناشتہ بنا لیا تھا، ساری رات اٹھ اٹھ کر جاگ کر حارث کو دیکھنے سے اسکی نیند بھی حرام ہوئی تھی۔

ناشتہ خود مکمل کرتی وہ اسکے لیے ناشتہ ٹرے میں رکھے کمرے کی جانب بڑھی۔

وہ تکیے پر اوندھا منہ کیے بستر میں لیٹا تھا، عائشہ نے ٹرے گلاس ٹیبل پر رکھی اور اورنج جوس کا گلاس پکڑ کر جہازی ساٸزبیڈ تک پہنچی اور وہ پہلے ہی جاگ رہا تھا تبھی عائشہ کے قریب پہنچنے پر کروٹ بدل کر اٹھ بیٹھا۔

ایک لمحے کو تو وہ خود چونک گئی۔

"آپ نے تو مجھے ڈرا دیا حارث سر"

اپنا سانس بحال کرتی وہ منہ بسورے گلاس اسکی جانب بڑھا رہی تھی جو ہر احساس سے عاری سا گلاس تھام کر ایک ہی سیپ بھرے گلاس سائیڈ میز پر رکھے اپنی آنکھیں مسلنے لگا۔

یوں جیسے اسکو سر درد یا آنکھوں کی جلن ہو رہی تھی۔

"کیا ہوا سر درد ہے؟"

عائشہ نے اسکے تکلیف دہ اثرات سے اندازہ لگایا مگر وہ کچھ نہ بولا۔

"عائشہ تم بتاو مجھے میں کون ہوں؟ پلیز مجھے میرے بارے میں بتاو تاکہ میں اس کرب سے نکل سکوں"

یکدم ہی وہ عائشہ کا ہاتھ بے تکلفی سے پکڑ کر اسے جھٹکے سے ساتھ ہی بیٹھاتا مضطرب سا پوچھنے لگا جو پہلے تو اس شخص کے ان تیوروں سے ہلکان تھی دوسرا وہ اسے جس طرح امید بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا عائشہ کا دل سہم سا گیا۔

وہ اسکا مرمریں ہاتھ اپنی مضبوط گرفت میں لیے اسکے جواب کا منتظر تھا۔

"آپ ہاتھ چھوڑیں پلیز"

عائشہ کا بوکھلاہٹ سے ماتھا تر ہوا مگر وہ اسکے اس حکم پر مزید وحشی ہوتا اسکی بازو تک جکڑے اپنے روبرو کرتے تلملا گیا، اس قدر سفاک گرفت پر وہ باقاعدہ تکلیف سے اس کو جھٹک کر اٹھ کر دور جا کھڑی ہوئی۔

"آپ ایک نمبر کے گھٹیا اور عیاش شخص ہیں، سنا آپ نے۔ دوبارہ اگر آپ نے مجھے چھونے کی بھی کوشش کی تو سر توڑ دوں گی۔ یہاں کام ضرور کرتی ہوں پر اپنی عزت نفس بھی ہے پاس۔۔۔۔۔ سہی کہتے ہیں انسان کی فطرت کبھی نہیں بدلتی۔ سانپ ہمیشہ ڈستا ہی ہے، ناشتہ کرنا ہوا تو کر لیجئے گا ورنہ بھاڑ میں جائیں"

وہ ایک لمحہ عائشہ کی جان نکال گیا تھا تبھی وہ پھٹ پڑتی جو منہ میں آیا بڑبڑاتی ہوئی اپنی نم آنکھیں رگڑتی کمرے سے باہر بھاگی اور اسکے یہ چند الفاظ ہی حارث کے دماغ کی رگیں نوچ گئے۔

دیکھنا یہ تھا کہ عائشہ کے کہے لفظ اس پر کتنا اثر کرتے ہیں جو سُن ہوا بیٹھا وہیں نظریں پتھر کر چکا تھا جہاں عائشہ بھاگی تھی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

فاطمہ صاحبہ نے بہت چاو اور پیار سے شادی کے بعد کی صبح اپنے خاندانی کنگن منہ دیکھائی میں فاریہ کو پہنائے تھے، تب وہ اسی وقت جاگی تھی۔

رات فاریہ کے نیند میں اترتے ہی وہ نہ صرف اس سے دور ہو گیا بلکہ کمرے سے بھی چلا گیا تھا اور جب وہ جاگی تو سراج کہیں نہ تھا۔

صبح سویرے ہی وہ فارم ہاوس نکل گیا تھا، وہاں سب سے ملاقات کے بعد وہ حویلی گیا تھا۔

رات بھائی کی طبعیت کی وجہ سے اسے بیقراری لاحق تھی تبھی عباد کی حیریت دریافت کیے وہ دس تک لوٹا تو اسی وقت فاطمہ مسکراتی ہوئی کمرے سے نکل رہی تھیں۔

سراج علی کی گال سہلائے وہ گہرا مسکرائیں۔

"تم دونوں کے لیے آج ناشتہ لیٹ بنایا ہے، اسے لے کر آجاو سب مل کر کرتے ہیں"

پیار سے وہ اسے کہتیں خود وہاں سے چلی گئیں جس پر سراج گہری سانس کھینچے سیاہ سوٹ پر گہری بھوری چادر جمائے کمرے میں داخل ہوا تو وہ سنگار میز کے سامنے کھڑی ان کنگن کو دیکھنے میں محو تھی جو فاریہ کے لیے اولڈ فیشنڈ تھے مگر انکے تراشے نگ اور چمک فاریہ کو بھا سی گئی۔

وہ ان سب چیزوں سے یکسر دور بسنے والی ایک ماڈرن لڑکی تھی تبھی سوچ میں تھی کہ اسے پہنوں یا نہیں۔

آہٹ پر وہ چونک کر مڑی تو سراج اس تک آنے کے بجائے جا کر کرسی پر بیٹھا اور مکمل فاریہ کو نظر انداز کیے فون آن کیے کچھ دیکھنے لگا۔

فاریہ اس وقت ایک کندھے سے ڈھلکی ڈھیلی سی شرٹ اور جینز میں تھی، بالوں کو اس نے سر کے کنارے گول کیے چپکا رکھا تھا۔

اس شخص کی بے اعتتنائی محسوس کرتی وہ اس تک پہنچی جو ہنوز یوں موبائیل پر توجہ دیے رئیسانہ انداز سے بیٹھا تھا جیسے اس وقت اسکے لیے موبائیل دیکھنا ہی اہم ہو۔

"تم مجھے اگنور کر رہے ہو"

سینے پر دونوں ہاتھ لپیٹے وہ اس سے تُندہی سے پوچھ رہی تھی جو اسی انتظار میں تھا تبھی فون ایک طرف رکھتا کھڑا ہوا اور قہر ناک نظر فاریہ کے برہنہ کندھے پر ڈالی۔

"تم یہ بے ہودہ کپڑے پہن کر میرے سامنے دوبارہ آئی تو اچھا نہیں ہوگا، فی الحال یہاں ہو تو ڈھنگ کا کچھ پہن لو۔ ماں سے شرم نہیں آئی تمہیں، کیا سوچ رہی ہوں گی کہ تمہیں پہننے کا کوئی سلیقہ نہیں"

تپش لٹاتے لفظ لیے وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتا تڑخ کر بولا اور فاریہ نے خجل ہوئے اپنے لٹکے کندھے کو پکڑ کر واپس جمایا اور اسکی یہ حرکت سراج کو اچھی تو نہ لگی مگر وہ آگے سے خاموش تھی یہ باعث فرحت تھا۔

"میرے پاس ایسے ہی کپڑے ہیں، ویسے بھی اب تو تم مجھے کسی بھی خلیے میں دیکھ سکتے ہو"

ہنوز غلطی تسلیم کرنے کے بجائے وہ سراج کو خفا کرتی منمنائی۔

"نکاح کیا ہے، غیرت کا قتل نہیں کیا جو یوں نمائش کراتی پھرو گی"

بازو پکڑ کر وہ اسکی غلط فہمی ایک ہی جھٹکے سے دور کر گیا تھا، ہتک کے احساس نے فاریہ کے خوبصورت چہرے کو دہکا دیا۔

"مر جاو تم"

غصے سے اپنی بازو اسکی چٹانی گرفت سے چھڑواتی وہ چلائی تھی، اور وہ بازو تو چھوڑ گیا مگر اس فرار کرتی لڑکی کو شانوں سے تھامے ایک ہی جھٹکے سے روبرو کیا جو سرخ ہوتی آنکھوں سے اسے گھور رہی تھی۔

"تم خود کیوں نہیں مار دیتی تاکہ بار بار بددعائیں دینے کی زحمت نہ اٹھانی پڑے"

رات کی قربت کے باوجود وہ ویسی ہی سنگدل تھی، اور سراج علی کی مضبوط آواز میں اس دلخراش سوال کو کرتے دراڑ آئی، اپنی کیفیت سے انجان سی وہ جواب دینے سے محروم تھی۔

"چھوڑو مجھے"

اس سوال سے جان جا رہی تھی تبھی وہ اسکی گرفت سے نکلنے کو پھڑپھڑائی مگر وہ کوئی عام پکڑ نہ تھی۔

"کیا تمہیں لگتا ہے میں زندہ ہوں؟ "

اس نئے سوال پر فاریہ نے دم سادھ کر سراج کی آنکھیں دیکھیں، وہاں اک درد تھا۔

"تم ساری زندگی مجھے اس بات کی سزا دو گے کہ میں نے تمہیں مار دیا"

بے رحم تو وہ بھی کم نہ تھی، اس سے زیادہ سفاک سوال کرتی وہ مرجھا سی گئی۔

"سزا ہی تو نہیں دے سکتا، لیکن دینا چاہتا ہوں"

اس بار وہ بھی مرجھایا تھا، اور فاریہ اسکی یہ انوکھی ظالم خواہش سن کر تلخی سے ہنس دی۔

"دے لو، ویسے بھی سب نے میرے ساتھ دھوکہ کر دیا تمہارے اختیار میں دے دی گئی ہوں تم حق بجانب ہو ، گن گن کر بدلے لینے میں۔ مجھے فرق نہیں پڑتا ، میرے لیے کچھ بھی اہم نہیں"

لہجہ ہر ممکنہ مضبوط رکھے وہ سفاکیت سے جھوٹ بولتی بولتی آخر تک اجڑے ویران کھنڈر کا روپ دھار گئی، کسی بت میں جذبے سرائیت کرنا آسان تھا مگر فاریہ کو سیدھے راستے کی سمت رخ کروانا جان جوکھم کا کام۔

اور جب سراج علی کے بدلے کی نوعیت سوچی تو وہ خود ہی سہم کر اسکی کمر سے ہاتھ لے جا کر پشت پر باندھے اسکے سینے جا لگی، یہ اتنا غیر ارادی طور پر تھا کہ وہ خود وجود کی پناہ میں شدت سے گم ہوتے اس نازک سراپے پر بوکھلا سا گیا۔

کسی کے فعل و قول میں اتنا تضاد نہیں دیکھا گیا تھا جتنا وہ فاریہ کے رویوں میں دیکھ رہا تھا۔

وہ اسکی کمر سہلائے اسکے کندھے کی جانب جھکے ہونٹوں کی مہر لگاتا فاریہ کے وجود سے جان کھینچ گیا تھا، اور اس کی گرفت میں اس کے بعد شدت شامل ہوئی تھی۔

"تم تو مجھ سے محبت کرتے تھے سراج علی"

گھٹی سی آواز سماعت میں اتری جیسے وہ غم سے آدھی ہو رہی تھی، اپنی محبت پر وہ خود ہنس دیا تھا۔

"تم سے محبت کر کے ہی تو تہی داماں ہو گیا فاریہ، ایک بار جب قبر بن جائے تو لاکھ پھول چڑھائے جائیں اس قبر سے زندگی نمودار نہیں ہوتی، بہت دیر بعد ملی ہو تم مجھے کہ میری زبان پر تمہارے قرب کی خواہشات کو زنگ لگ گیا۔ مجھے محسوس ہی نہیں ہو رہا کہ میرے محبوب نے مجھے گلے لگایا ہے"

اپنے وجود کی تہہ تک بسائے وہ گھنمبیر بوجھل لہجے سے شکوہ کرتا اپنی پشت پر فاریہ کے بندھے ہاتھ کھولتا دو قدم دور ہوا، وہ پتھر بنی رہی۔

"میں ایک پھول بھی نہیں چڑھاوں گی"

پلکیں جھپک کر وہ بہت دیر بعد بولنے کے قابل ہو پائی تھی۔

"کیوں"

وہ جواب کے لیے موہوم سا بیقرار ہوا۔

"تم نے مجھے اپنی محبت سے بے دخل کر دیا، غلط وقت پر۔۔۔۔۔ اچھا ہے یہ بوجھ ہی تھی میرے لیے، لیکن دیر تم نے بھی کر دی۔ کل بتاتے یہ سب تو ڈنکے کی چوٹ پر تمہیں دھتکارتی فاریہ، ہمیشہ کی طرح"

بے دردی سے وہ یکےبعد دیگرے اسکے سینے پر مکے برساتی آخر تک اسکا گریبان جکڑے اسکی آنکھوں میں وحشت سے آنکھیں گاڑے ہنسی۔

"میں چاہتا ہوں تم ہی میرے مردہ دل کو زندگی واپس تھماو"

اسکی دونوں کلائیاں جکڑے وہ فاریہ کی سوجھی آنکھیں کرب سے تکتا آزردہ ہوا اور وہ شاید اسی لمحے اپنا سب ہار گئی تھی۔

اسکی ذات کی ٹوٹی کرچیاں وہ کیسے مزید بکھیر سکتا تھا تبھی اپنے جگر کے زخموں کی تپش کم کرنے کا موقع دے کر فاریہ کو لاجواب کر گیا۔

"نہیں کروں گی اب ایسا کچھ سن لو تم"

دونوں کلائیاں سفاکی سے وہ سراج کے ہاتھوں سے جھٹک کر چھڑواتی وہاں سے تو فرار کر گئی مگر ناشتے پر ملال میں لپٹ کر بیٹھا سراج تو تب تھم گیا جب ہلکے نیلے جوڑے میں دوپٹہ شانوں پر پھیلائے وہ بال ڈھیلے سے باندھ کر باہر آئی۔

اس روپ میں سراج اسے جی بھر کر دیکھنے کا تمنائی تھا، آج لگا وہ واقعی اسکی نئی نویلی دلہن ہے۔

فاطمہ صاحبہ نے تو جی جان سے اس نازک پری کو اپنے سیے لباس میں دیکھ کر صدقہ اتارا، وہ آسمانی رنگ اسکے کھلے تروتازہ رنگ پر سنور گیا تھا پھر سرخ چمکتا جالی دار آنچل جسکے کناروں پر بھاری گوٹا لگا کر اسے بھاری کیا گیا تھا۔

ناشتے کے دوران اس نے ایک بار بھی نظر اٹھائے سراج کو نہ دیکھا، البتہ وہ معراج سے باتیں کرتی رہی۔

سراج علی کو اسی بات کی خوشی تھی کہ اس نے اسکی کم از کم ایک بات تو مان لی ہے۔

رات کا ڈنر سب کا حویلی ہی تھا جسکی سراج نے وہاں سے آکر ہی ماں کو اطلاع دے دی تھی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

ناشتے کے بعد وہ احد کو کمرے میں لے آئی تھی، باہر سب ہی حویلی کے سٹنگ ایریا میں باتیں کر رہے تھے۔

ادا جان اپنے بچپن کے قصے عباد اور معظم صاحب کو سنا رہی تھیں۔

رات کی بنسبت اب عباد کی طبعیت کافی حد تک سنبھل چکی تھی، اور پھر بھی وہ آج کچھ الجھا تھا۔

اس نے مائی کشف کو آج ہی بلوانے بھیجا تھا جو شام تک آنے کا کہہ چکی تھی۔

وہ منہا کو آج رات اپنی سچائی بتانے والا تھا اور زندگی میں پہلی بارعباد حشمت کیانی کا دل سوکھے پتے کی مانند لرز رہا تھا۔

دوسری طرف وہ جاگ کر مسکرا مسکرا کر منہا کو دیکھتے احد کی مسکراہٹ تکتی اسے تکیے پر لٹائے خود اس پر جھکی ہوئی ہنس رہی تھی، وہ یوں اپنے ننھے ہاتھ سے منہا کی گال کو مس کر رہا تھا جیسے اتنے سے دنوں میں منہا کو اپنی ماں سے بھی بڑھ کر چاہنے لگا ہو۔

"مما کی جان کیسا ہے، میرے احد کو کوئی درد تو نہیں ہے ناں۔۔۔ میرا احد تو مسکا رہا ہے، یعنی مما سمجھ لیں کہ احد بلکل فٹ ہے"

اسکے دونوں ہاتھوں میں اپنی انگلی پکڑائے وہ لاڈ کرتی کبھی اسکی گال پر گدگدی کرتے ہونٹوں سے چھوئے ہنستی تو کبھی اسکی چھوٹی سی ناک سے ناک ملائے احد کی دل تک اترتی ننھی جان پر جی اٹھتی۔

وہ جو باہر بیٹھا یونہی ناشتے کے بعد آگین میڈیسن لینے کمرے میں آیا، منہا کو احد پر جھک کر لاڈیاں کرتا دیکھ کر وہیں تھم گیا۔

چہرے پر سنجیدگی تھی مگر پھر وہ ان دو کے اس دنیا کے سب سے پیارے رشتے پر مسکرائے بنا نہ رہ سکا۔

غیر ارادی طور پر اپنا فون نکالا اور اس قیمتی منظر کو وڈیو کی صورت قید کرنے لگا۔

"مما اپنی جان سے بہت پیار کرتی ہیں، احد بھی کرتا ہے ناں۔۔۔۔آااا میرا پیارا احد تو اس دنیا کا سب سے ہینڈسم ہیرو ہوگا۔۔۔۔ہے ناں"

اسکی روئی جیسی گالوں سے اپنی گال لگاتی وہ اس سے یہ سب کہتی بلکل گڑیا لگی اور یہی نہیں اس تھوڑے سے دنوں کے احد کی کھلھلاتی مسکراہٹ اس بات کا ثبوت تھی کہ وہ منہا کی محبت پر خوش ہے۔

"یہ مت سمجھنا کہ اس نکاح کے بعد میں تمہیں بھول جاوں گی، ہرگز نہیں۔ کوئی ناراض ہوتا ہے تو ہوتا رہے۔ منہا کی پہلی محبت تو میرا احد ہے۔ مما تم سے کبھی دور نہیں ہوں گی، تم تو میری سانس ہو۔ تم ملے تو منہا کی زندگی کا وہ سفر شروع ہوا جو مجھے عباد تک لے آیا"

اپنی ہی دھن میں وہ احد سے باتیں کرتی کرتی رشک سے مسکرائی اور اب تو عباد کا دل تک مسکرا اٹھا، اک الگ ہی سرشار خوشی اسکی طبعیت نہال کر گئی۔

کیا وہ اس تک پہنچ کر واقعی خوش تھی؟ کیا وہ منہا کے لیے اہم ترین ہے؟ ان سوالات کے جوابات بھلے عباد کو مل گئے ہوں مگر سچائی سے پہلے وہ منہا سے سننے کا طلب گار تھا۔

وہ وڈیو ختم کرتا فون واپس ٹراوز کی جیب میں رکھتا دروازے پر دستک دیے متوجہ کر چکا تھا جس پر منہا فوری چونک کر احد پر سے اٹھی اور عباد کو اندر آتا دیکھ کر تھوڑی بوکھلا سی گئی۔

وہ بھی بنا کوئی امتحان لیتا بیڈ کی دوسری طرف آکر بیٹھا اور احد پر اک محبت سے بھری نگاہ ڈالی۔

اپنی انگلی احد کے ہاتھ میں دی جسے اس نے فورا جکڑا، اور یہ لمحہ عباد کا دل لرزا۔

ناجانے کیا ہوا کہ اسکا دل چاہا وہ احد کا ماتھا چومے بلکل ویسے اور وہاں وہاں پیار بھری مہر عطا کرے جہاں منہا نے دی۔

خود منہا مسکرا سی دی جب واقعی عباد نے جھک کر احد کا ماتھا چوما، اور ایسا محسوس ہوا جیسے جلتے بلکتے اور تڑپتے دل کو قرار ملا ہو۔

کیسے نہ اسکا دل تڑپتا، وہ اسکا خون تھا۔

اسکا وارث، اسکی اولاد تو پھر کیسے قدرت اس باپ کے دل تک تڑپ نہ پہنچاتی۔

"یہ بہت عزیز لگتا ہے ، بہت سکون ملا اسکی یہ روشن جبین چوم کر"

اپنے جذبات بتاتا وہ منہا کی طرف دیکھ رہا تھا جو سر ہلائے بہت مطمئین مسکائی۔

"بچے تو ہوتے ہی دل کا قرار ہیں، لیکن یہ میرے لیے میری جان سے بھی اہم ہے۔ ساری رات اسے دیکھا نہیں تھا تو گھبرا گئی تھی تبھی اسے لے آئی۔ دادا بھی تھک گئے ہوں گے مسلسل اسے سنبھال کر۔ ویسے تو یہ بلکل تنگ نہیں کرتا مگر جب بھوک لگے تو روتا ہے اور اسکا رونا میری اور دادو دونوں کی جان لے لیتا۔ تبھی اسے رونے نہیں دیتے"

کہیں منہا کو ایسا لگا کہ کہیں وہ احد کے بیڈ روم میں آنے پر اعتراض نہ کرے تبھی ساتھ ساتھ بڑی مہارت سے یہ وجہ بھی سونپ کر پھر سے احد پر جھک گئی جو اپنے ننھے ہاتھ پیر چلانے کی پوری کوشش میں تھا، عباد بھی ان دو ہی جانب مسکرا کر متوجہ تھا۔

"اچھا زرا مجھے وہ سائیڈ ڈرا سے میڈیسن دے دو، مجھے کوئی اعتراض نہیں تم جتنا چاہے احد کو وقت دے سکتی"

واپس اٹھ کر ٹیک لگائے وہ منہا کو دیکھتا بولا جس پر وہ فوری فکر کے سنگ اٹھی، احد کے ساتھ لٹا کر تکیہ رکھا اور خود سائیڈ ڈرا سے اسکی ٹیبلٹ نکالی اور پانی کا گلاس جو کورڈ تھا اٹھا کر گھومتی ہوئی عباد تک آئی جو اس وقت سنجیدہ تھا۔

"تھینک یو"

ٹیبلٹ نکال کر عباد کو دیتی ساتھ پانی کا گلاس پکڑائے وہ پاس ہی بیٹھے مسکرائی جس پر عباد نے خوشگوار حیرت سے منہا کو دیکھا۔

"کیوں؟"

میڈیسن لے کر پانی پیے وہ گلاس ایک طرف رکھتا منہا کے دونوں گرم ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں لیے استفسار کیے متبسم ہوا اور اسکے یوں دل و جان سے توجہ دینے پر وہ حیا سے نظر جھکا گئی۔

"میرے احد کو ساری زندگی ایسے ہی قبول کریں گے ناں آپ؟ یہ تھینک یو آج اس لیے کیونکہ آپ نے اسے دل سے پیار کیا"

وہ ننھا سا دل جو احد کے لیے دھڑکتا تھا اسکی فکر میں سینے میں پھڑپھڑایا اور عباد کیا بتاتا کہ اس بچے سے تو آج اسے بھی محبت ہو گئی ہے جو منہا کے لیے زندگی جیسا ہے۔

"اگر تم قبول رکھو گی تو میں سب قبول کرتا رہوں گا، اپنی زبان سے پھرتا نہیں ہوں۔ احد اور تمہارے دادا اب میری ذمہ داری ہیں لیکن عباد حشمت کیانی تمہاری ذمہ داری ہے"

رات تو وہ اپنی ناساز طبعیت کے باعث تڑپ اٹھا تھا اور صبح بس منہا کو دیکھ کر ہی سرشار ہو گیا مگر اس وقت اسے منہا کو اتنے پاس سے دیکھنا ہی اس قدر سکون دے رہا تھا کہ مزید کی طلب رہی ہی ناں، لیکن جس طرح وہ منہا کی آنکھوں میں جھانک کر جذب سے بولا یہ اس لڑکی کے دل کی دھڑکن متاثر کر گیا۔

"مجھے قبول ہے یہ ذمہ داری "

اپنا ایک ہاتھ ڈھیلا محسوس کرتی وہ اسکے چہرے تک لے جائے بیرڈ والی گال سے جوڑے صدق دل سے مسکرا کر بولی۔

لیکن نجانے کیوں وہ مسکرا نہ سکا، رات تو کسی قیامت سی نظر آرہی تھی۔

اک پل صراط تھا جس سے گزرنا تھا اسے۔

احد تو مسلسل ہاتھ پیر چلائے اپنی ہی دنیا میں مگن تھا اور وہ دونوں اپنی۔

ایک دوسرے کی سمت دیکھ دیکھ کر وہ تھک رہے تھے، وہ سمجھ نہ پائی کہ وہ کیوں اتنا ویران ہے۔

"آج رات تمہیں اپنی زندگی کی سچائیوں سے ملواوں گا، اپنے سارے دکھ بتاوں گا تمہیں۔ میں تو بیقرار ہوں کہ تم مجھے سن کر سمجھ جاو گی"

وہ اس وقت ایک دوسرے کے بے حد قریب ایک دوسرے میں کھوئے معلوم ہوئے مگر عباد کا اسکے چہرے کے لطیف خدوخال کو سرشار نظر سے دیکھ کر اسے یہ کہنا منہا کو ہوش کی دنیا میں لایا۔

وہ پھر سے اسکے الٹی رخ پر نسب دل پر اپنا ہاتھ رکھے خوفزدہ ہوئی۔

"آپ ڈرا رہے ہیں"

اپنے ہونٹوں کو سختی سے میچ لیتی وہ بوکھلا کر عباد کے ارادوں پر بوکھلائی مگر وہ اس لہراتے وجود کو پلوں میں اپنی بازو گرد پھیلا کر محصور چکا تھا۔

اس زرا زرا کانپتی لڑکی کی جبین پر اس بار شدت پسند مہر لگائے یہ بتایا کہ اسکا نرم لمس بھی اسکی اتنی سی جان پر وبال ہے۔

ساری اداسی کہیں دور جا کر مفقود ہوئی، مقابل کی براون آنکھوں کا مرکز وہ تھرتھراتی پلکیں، سرخ رو رخسار اور بھینچے ہونٹ تھے، خمار خود بخود اترا مگر منہا کی ہمت ہوا ہوتی بھانپتا وہ استحقاق آمیزی کا مظاہرہ کیے منہا کی حالت غیر کرتا ہی اسکے بے حال سانسیں لیتے لرزش ذدہ وجود اور نکھر آتے چہرے کے رنگ بھرپور نگاہوں سے دیکھنے روبرو ہوا۔

اسکی اڑی رنگت دیکھ کر وہ یوں مسکرایا کہ اسکے چہرے سب رنگ کھل گئے۔

وہ جو اس روح سہلاتی گرفت میں جا سمٹی تیز تیز سانس لینے لگی اور اسکی ابتر دھڑکن کو اپنے وجود تک اترتا محسوس کرنا عباد کے لیے روح افزاء تھا۔

یہ لمحات، یہ نرم گرم آغوش، یہ فسوں خیز شرارت کا دل دہلاتا اثر منہا پر بھاری پڑ رہا تھا اور وہ مسکرا کر زرا گردن ترچھی کیے احد کو دیکھ کر ہنسا جو جناب یہاں دیکھنے کو اپنی گردن گما چکے تھے۔

عباد نے منہا کو خود سے الگ کیے اشارے سے توجہ دلوائی تو منہا خود بھی احد کو دیکھتی شرمگیں سا مسکرا دی۔

دونوں نے احد کی اس چالاکی پر ایک دوسرے کو دیکھ کر آنکھ چرائی اور یہ لمحہ اتنا حسین تھا کہ لگا سب انتہائی مکمل ہے۔

"خطرناک بچہ ہے، ہمارے سپیشل مومنٹس دیکھ رہا تھا"

عباد آنکھ مار کر کہتے ہی دوبارہ احد کی سمت جھکا اور اسکے سر کو آہستگی سے سیدھا کیے منہا کی سرخ رو صورت دیکھی جو بھینا بھینا مسکراتی دل فریب لگی۔

"آپ نے بے وقت خود کو بے اختیار کیا ہے، میرا احد بہت حیا والا ہے سن لیں۔ ہے ناں احد"

فوری محبوبہ سے ماں بنتی وہ احد کی پیاری آنکھیں تکتی اسے اپنے مزید قریب لائے پیار دیتی عباد کو بھی ڈپٹ گئی اور محترم اپنے جرم کے اعتراف میں قہقہہ لگا گئے۔

"اچھا تو تُو چاہتا ہے میں تیری چمڑی اُدھیڑ ڈالوں، سراج پر حملہ کرنے کا تجھے سرور نے کہا تھا ناں؟ میں پہلے ہی بہت غصے میں ہوں ایسا نہ ہو بے موت مارا جائے تو"

انویسٹیگیشن روم میں عین اس آدمی کے سامنے کرسی گھسیٹ کر بیٹھا زین، روح فنا کرتی آنکھیں گاڑے جبڑے بھینچے اس مریل آدمی کا جبڑا دبوچے غرایا۔

اس نے پہلے ہی اپنے آدمیوں کو اس کی ٹھکائی پر معمور کر رکھا تھا اور اس وقت وہ دم دینے کی کیفیت سے گزر رہا تھا۔

اسکا چہرہ جگہ جگہ نیل زدہ تھا۔

"ہ۔۔۔ہاں۔۔۔خدا کے لیے رحم کرو"

گھٹی آواز سے وہ سانس کی عدم دستیابی پر سسکا مگر زین ہاتھ آئے اس ثبوت سے ہر وہ معلومات نکلوانا چاہتا تھا جو اسکے ادھورے معاملات میں کہیں تو کوئی پیش رفت لائے۔

"جو بھی سرور کے متعلق جانتا ہے سب بتا مجھے، اگر ایک لفظ بھی تُو نے جھوٹ بولا تو تیرے جسم کی ایک ایک بوٹی کاٹ ڈالوں گا"

زین کی دھمکی کا اثر تھا یا اس آدمی میں مار کھانے کی ہمت ختم تھی کہ وہ اسکے بھیانک چہرے کو اثبات میں ہلتے سنجیدہ ہوا۔

کمرے میں اس وقت ایک ادھ مرا سا بلب مدھم روشنی کرنے میں کامیاب تھا جبکہ دیوار کے ساتھ دو آدمی کھڑے کیمرے سے ان دو پر نظریں جمائے تھے۔

"م۔۔مجھے بس اتنا پتا ہے کہ سرور حسین نے مجھے سراج علی کو دھمکانے کا کہا تھا کہ وہ پیلس کے نجی معاملات سے نکل جائے"

زین کا ماتھا اس پر ٹھنکا، یعنی اسکا شک ٹھیک تھا، ساری فساد کی جڑ اس پیلس میں موجود تھی۔

زین نے ایک بار پھر اسکا گلا دبائے غرا کر اسکی ہستی فنا کی۔

"کس معاملے میں دھمکانے کا کہا تھا بول، کونسے نجی معاملات۔۔۔۔۔۔۔"

زین کے تندہی سے کیے استفسار پر اور گردن میں گرفت ڈھیلی پڑنے پر وہ بمشکل سانس لیتا کھانسا۔

"کہ وہ فاریہ بی بی سے شادی نہ کرے"

اس بات پر زین نے ایک ہی مکا اس خبیث کے منہ پر جڑا اور اٹھ کر روم سے باہر اپنے آفس تک پہنچا۔

"اسکو چھوڑ دو اور مسلسل اس پر نظر رکھنا"

زین نے اپنے کانسٹیبل کو حکم دیتے ہوئے خود فون نکالے عباد کا نمبر ملایا جو اس وقت ادا جان کے پاس بیٹھا تھا، جو اسے یہاں آکر اپنی خوشی بتاتے مسکا رہی تھیں۔

زین کی کال دیکھتے ہی وہ فکر مندی سے پک کرتا اٹھ کر فون کان سے لگا چکا تھا۔

"سراج پر جس نے حملہ آور ہونے کی کوشش کی تھی وہ سرور کا آدمی تھا، اسکا کہنا ہے اس کو سرور نے سراج کو دھمکانے کے لیے بھیجا تھا تاکہ وہ فاریہ سے شادی نہ کرے۔۔۔۔آپ کو پتا چل گیا ہوگا کہ آپکے پیلس میں ہی آپکا مجرم موجود ہے عباد صاحب"

زین کی سمت سے ملتی یہ خبر عباد کے ماتھے پر شکنوں کا جال بنا چکی تھی، اسے پہلے ہی ناجیہ پر ہی شک تھا اور شاید اب اسکے صبر کا پیمانہ یہ عورت لبریز کر چکی تھی۔

"اسکے بیان کی وڈیو سنبھال لینا کام آئے گی، اور فاضل کا کچھ پتا چلا؟"

عباد نے اسے تاکید کرتے ہی سوال کیا۔

"میرے کئی لوگ مسلسل اسکے پیچھے ہیں، آپ مجھے دو دن دیں آپکے مجرم کو آپکے سامنے پٹخ دوں گا۔ اگر فاضل گوجا ہمیں مل جاتا ہے تو آج تک کے سارے کیس سلجھ جائیں گے۔ وہ ایک شاطر سیریل کلر ہے عباد صاحب اور ایسے لوگ اپنا ہر کام بہت مہارت اور چالاکی سے کرتے ہیں۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں آج ہی سرور کے خلاف اریسٹ وارنٹ نکلوانے کی اپیل کر دیتا ہوں"

زین کے سنجیدگی کے سنگ دیے جوابات اور پھر اسکی اجازت طلب کرنے پر عباد لمحہ بھر خاموش سا ہوا، دبی راکھ کو کریدنے کا وقت آن پہنچا تھا۔

اور اسے یقین تھا اگر سرور پکڑا گیا تو بنا کسی ثبوت کے وہ جلد ضمانت پر رہا ہو جائے گا اور اگر پہلے ثبوت اور گواہ اگر اکھٹے کرتے ہیں تو وہ عین وقت پر منظر سے ہٹ سکتا تھا۔

"تمہیں یقین ہے تم دو دن میں فاضل کو اریسٹ کر لو گے؟"

زین کے سوال پر وہ مزید سوال دھرے بولا۔

"میں اپنی پوری جان لگا دوں گا"

زین کے ارادے پُرتپاک اور ہمت اتنی ساری ناکامیوں کے بعد بھی کم نہ ہوئی تھی۔

عباد نے اک سرد سانس کھینچی، ادا صاحبہ بھی فکر و اضطراب میں لپٹی اسکی باتیں سن رہی تھیں۔

"ٹھیک ہے پھر تم جو مناسب سمجھو کرو، میں کوشش کروں گا کل ہی واپس آجاوں۔ امید ہے مایوس نہیں کرو گے تم"

عباد نے حتمی فیصلہ سنائے فون بند کر دیا اور وہ جب پلٹا تو اسکے چہرے پر تلخی درج تھی۔

"مجھے جانا ہوگا کل واپس، آپ سب یہیں رہیں گے۔۔۔۔ میں چاہتا ہوں سراج بھی کچھ دن فاریہ کو اپنے ساتھ رکھے تاکہ وہ سطحی خود غرض لڑکی اسکی اہمیت اور اسکے گھر کے سکون کی معترف ہو جائے"

ادا جان کا پریشان چہرہ تکتا ہوا وہ چلتا ہوا انکے پاس ہی بیٹھا جو عباد کے اس سب سے بڑے امتحان کے لیے بہت بے چین تھیں۔

"لیکن سراج تمہارے ساتھ نہیں ہوگا تو مجھے بے چینی رہے گی میری جان، تم وہاں اکیلے اس ڈائن اور اسکے سپولے سے کیسے لڑو گے"

ادا جان کی تشویش برحق تھی مگر عباد چاہتا تھا اب اسکے کسی پیارے پر کوئی آنچ نہ آئے۔

تبھی آسودہ مسکراہٹ کے سنگ وہ انکا ماتھا چومے ہاتھ جکڑ گیا۔

"میری فکر مت کریں، میں اپنی حفاظت کرنا جانتا ہوں ادا جان۔ آپ یہاں منہا کے ساتھ، احد کے ساتھ رہیے گا مجھے اطمئینان ملے گا۔ وہاں زین ہے اور پیلس بھرا ہے محافظوں سے۔ اس وقت مجھے اکیلے ہی جانا ہے کیونکہ اب کسی کو کھونے کی ہمت نہیں مجھ میں۔ آپ نے دیکھا ناں سراج تک پر آنچ آگئی تھی، اگر اسے کچھ ہو جاتا تو میں فاطمہ خالا کو کیا جواب دیتا۔ ساری زندگی اس نے میری حفاظت ہی تو کی ہے اب اسکی زندگی شروع ہوئی ہے تو کیسے یہ رسک لے لوں۔ آج میں کوشش کروں گا کہ منہا کو بھی گل اور اپنی اولاد کے بارے سب سچ بتا دوں گا۔ اور کل قرآن خوانی کے بعد میں دن تک واپس نکل جاوں گا"

اپنے ظالم ارادے سے باخبر کرتا وہ ادا جان کو خوفزدہ کر چکا تھا، جو پل پل ڈر سی رہی تھیں۔

زندگی تو انکے عباد کی بھی ابھی ہی شروع ہوئی تھی۔

لیکن وہ کوئی مایوس بات کہہ کر عباد کا دل اداس نہ کر سکی تھیں۔

شام تک فاریہ، سراج، معراج اور فاطمہ صاحبہ بھی حویلی پہنچ آئے تھے۔

سب باہر ہی لاونچ میں خوبصورت سہانی شام کے اس موقعے پر مل بیٹھے تھے، خاص چوڑیاں چڑھانے والی بھی آئی۔

عباد نے سارے وقت منہا کو ہی دیکھا جو چوڑیاں چڑھانے والی سے من پسند رنگوں کے ساتھ ساتھ نیلا رنگ زیادہ ڈلوا رہی تھی۔

فاریہ کو اپنے پاس گم سم بیٹھا دیکھ کر ادا صاحبہ نے اسکی سونی کلائی نرمی سے پکڑی تو وہ منہا اور چوڑی والی عورت کو دیکھتی چونک کر دادو کی سمت مڑی۔

وہ دادو جس سے وہ بچپن سے ہی کتراتی رہی تھی، ناجیہ نے آج تک اپنے دونوں بچوں کو دادی سے دور ہی رکھا تھا تبھی تو وہ آج تک کبھی بھی ادا صاحبہ کے پاس تک نہ بیٹھی تھی مگر آج اسے احساس ہوا کہ اس نے کتنی بڑی حماقت کی ہے۔

وہ کیا بتاتیں کے وہ فاریہ اور حارث کے لیے بھی بے شمار محبت دل میں رکھتی ہیں، اور جس طرح ادا جان نے فاریہ کا ہاتھ چومے اسے دیکھا وہ ہزار ہا آنسو روکنا چاہتی تھی پر اب یوں تھا کہ آہٹ تک ہی اسے رلا دیتی۔

"کشف پتری، میری فاریہ کی سونی کلائیاں بھی بھر دو۔۔۔۔۔ اتنے رنگ بھرنا کہ کوئی کمی نہ رہے"

دادو کی محبت کے آگے وہ تڑپ کر نظر جھکا گئی، کچھ فاصلے پر عباد کے ساتھ کھڑا سراج بھی فاریہ کی تکلیف سے انجان نہ تھا۔

وہ اسے واقعی کنول کا وہ پھول لگی جسے اسکی گدلی زمین سے اکھاڑ کر کسی نے کھارے پانی میں لگا دیا ہو۔

اب وہ پانی قطرہ قطرہ اسکی آنکھیں دھندلانے لگا تھا۔

وہ انکار نہ کر سکی تھی اور مائی کشف نے اسکی سونی کلائیاں رنگ برنگی چوڑیوں سے بھر دیں۔

"میں آپکو اکیلا جانے نہیں دوں گا بھائی"

عباد نے اپنے ارادے سے سراج کو آگاہ کیا تو وہ بھی ادا جان سے زیادہ تڑپ اٹھا۔

مگر عباد اسکے شانے پر بردرانہ دست شفقت رکھے دھیما درویشانہ مسکرایا۔

"پہلے ہی شرمندہ ہوں کہ میری وجہ سے تم پر آنچ آئی سراج علی، تم میرے لیے میرے بھائی سے بڑھ کر ہو۔ تم معراج اور فاطمہ خالا کی کل دولت ہو اور اب تو تمہیں عباد حشمت کیانی کی خفاظت سے بڑی ذمہ داری سونپ دی ہے میں نے۔ فاریہ کے ساتھ رہو، کچھ دن گاوں میں سکون کے دن کاٹو۔ میں اپنا اور تمہارا بدلا بہت جلد لے لوں گا"

عباد کسی صورت بھی اپنی ضد سے ہٹنے کو تیار نہ تھا اور سراج علی کی تکلیف دیکھنے کے باوجود وہ اپنے فیصلے پر اٹل تھا۔

"میرے لیے میری جان سے بھی عزیز ہیں آپ، میں یہاں ہاتھ پر ہاتھ دھرے کیسے بیٹھ جاوں"

سراج کی مضبوط آواز گویا لرز سی گئی تھی۔

"اچھا ٹھیک ہے لیکن جب میں کہوں گا تم تب آو گے ابھی نہیں، اور مزید کوئی بات نہیں سنوں گا"

عباد کو اس کی وفاداری اور خلوص پر بھروسہ تھا مگر وہ جس طرح تکلیف میں تھا یہ دیکھنا عباد کے لیے مشکل تھا۔

سراج علی سر ہلائے مسکرایا تھا اور اسکی مسکراہٹ پر عباد نے اسکا سینہ تھپک کر متبسم نظر ڈالی۔

بھلا سراج علی کے ہوتے عباد کو کوئی تپش بھی کیسے چھو سکتی تھی۔

رات کا ڈنر عالی شان تھا، عباد کی بہتر ہوتی طبعیت پر وہ بھی آج اس شاندار کھانے میں کوئی رعایت نہیں کرنا چاہتا تھا۔

ویسے بھی یہاں کی دیسی چیزیں اور انکا لطف ہی دوبالا تھا، خالص دہی، خالص دیسی مرغی کا خاص فاطمہ صاحبہ کے ہاتھ کا بنایا شوربہ پھر منہا نے بھی مکس اچاری سبزی کی تیکھی سی ڈش بنا کر گویا سبکی زبان کا ذائقہ ہی بدل دیا۔

بکرے کی ران مصالحے والی کے علاوہ بیف پلاو خاص عباد ہی کی پسند پر بنا تھا، میٹھے میں خاص گاوں کی سوغات یعنی پیٹھے کا کھوئے والا حلوہ تھا جس کو چاندی کے ورق اور ڈرائے فروٹس کی بھرمار نے سجا رکھا تھا۔

فاریہ کے علاوہ سب ہی رغبت سے کھا رہے تھے مگر وہ بہت چپ اور خاموش تھی، سب کو دیکھ کر وہ مزید خود سے ناراض ہوتی جا رہی تھی۔

کیا اسکی ماں واقعی اسکی سگی ماں تھی؟ آج پہلی بار یہاں سب کے مسکراتے چہرے دیکھ کر وہ خود سے پوچھ رہی تھی۔

کیا کوئی ماں اپنی اولاد کی دشمن ہو سکتی ہے؟ ایک سوال سر نیچا کرتا تو دوسرا سوال سر اٹھائے فاریہ کا دل کاٹنے لگتا۔

آج تک اس نے جتنی زندگی جی تھی آج ان خلوص اور محبت کے پیکروں کے سامنے بیکار محسوس ہوئی۔

سب سے پہلے فاطمہ جو ایک ماں دیکھائی دی تھی، یہ جانتے بوجھتے کہ اس نے انکے بیٹے کو کئی سال اذیت دی تب بھی وہ اسکے لیے چاو سے لباس سیتی رہیں، اپنی شاید سب سے قیمتی دولت سراج علی اسے خوشی خوشی دے دی۔

جب فاطمہ کا مقابلہ اپنی ماں سے کیا تو دل خون کے آنسو رویا۔

پھر عباد حشمت کیانی، جس پر حاکمیت اسکا اور اسکی ماں کا سب سے بڑا خواب تھا۔

اس نے اسکے بچے کو اس سے دور کروایا لیکن اس نے بدلے میں فاریہ نامی سفید پوش کا پردہ رکھ لیا۔

پھر وہ دادو جس کو اسے یاد نہیں تھا کبھی نظر بھر کا دیکھا ہو، یا کبھی اس معذور بوڑھی عورت کی دل جوئی کی ہو، یا کبھی گود میں سر رکھے اس عورت کے دکھ محسوس کیے ہوں جس نے اپنے شوہر کے بعد اپنے دونوں بیٹے کھوئے تھے۔

بھوک اور پیاس مر سی گئی ، پورے جسم میں چیونٹیاں رینگنے لگیں، نظر منہا پر گئی تو وہ فاریہ ہی کو دیکھ کر دھیما سا مسکرائی، اسکے احد کو دیکھا تو فاریہ کو اپنا جرم یاد آئے کچوکے لگانے لگا۔

وہ یہاں بیٹھے اپنا دم گھٹتا محسوس کرتی سب سے معذرت کرتی اٹھ گئی اور اسکے جانے نے سبھی کی توجہ کھینچی۔

جب اپنے کیے گناہ سامنے سونامی کی صورت آجائیں تو پھر بچنے کی واحد سبیل اس عذاب کے ٹلنے کی دعا ہوتی ہے۔

ایسا نہیں تھا کہ صرف فاریہ تکلیف میں تھی بلکے اپنے سیاہ نشین کمرے میں اوندھا لیٹا حارث بھی اپنے دماغ میں اتر آتے سارے فراموش لمحوں پر نیم جان تھا۔

اسے سب یاد آرہا تھا، اس روز اس بچے کو کچرے کے ڈھیر پر پھینکنا، یہ منظر یاد کرتے وہ کانپ اٹھا۔

اسکے پورے وجود پر کپکپی طاری ہوئی۔

پھر اس روتی ہوئی لڑکی کا چہرہ جس نے اس بچے کو بچایا۔۔۔۔۔

مارنے والے سے زیادہ بچانے والا بڑا تھا۔

اس شب حارث نے فاریہ سے ایک جھوٹ بولا تھا کہ وہ اس بچے کو ٹھکانے لگا چکا ہے حالانکہ تب وہ لڑکی اس بچے کو لے جا چکی تھی۔

کیا وہ پہلا لمحہ تھا حارث کیانی کی فلاح کا؟

شاید مگر نجس ذات کے اندھیرے کو سویرے میں بدلنے کا ایک سلسلہ درکار تھا۔

ایک بھٹی درکار تھی جس میں جل کر وہ ان ناکردہ گناہوں کو سمجھ سکتا جو اس نے نہیں کیے پر سزا پائی۔

اسے اپنے آپ سے گِھن آرہی تھی۔

اپنے مرد ہونے پر ، اور اپنے زندہ ہونے پر۔

ناجیہ ڈنٹر کیے بنا ہی واپس آ گئی اور کئی بار شام سے رات تک اس کے پاس آئی مگر وہ ہر بار ہر آہٹ پر آنکھیں بند کر لیتا رہا۔

ناجیہ کیانی کے کیے گناہوں کا سایہ اسکے دونوں بچوں سے ہٹ رہا تھا اور اب اصل گناہ گار کو سزا ملنے کی باری تھی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

اپنے شانوں کے گرد سراج کی اوڑھائی چادر پر جو صبح سے وہ گریز برتتی چپ اور سوگوار تھی، رخ موڑے اسے دیکھنے لگی جو اسکے پیچھے کھانا چھوڑ کر آیا تھا۔

حویلی کے اس دلکش خوبصورت موسمی پھولوں سے بھرے لان میں خوشبو اسکے دامن سے لپٹنے کو بیقرار تھی مگر وہ اپنے وجود کے گرد حصاری اس گرم چادر سے اٹھتی خوشبو پر زیادہ آسودہ تھی۔

"صبح جو بھی میں نے کہا واپس لیتا ہوں سب"

وہ آس اور تکلیف سے فاریہ کو دیکھتا بولا مگر وہ بدلے میں یوں مسکرائی کہ دل چیڑ گئی۔

"غلط تھوڑی کہا تھا تم نے سراج علی، یہی تو کرتے ہیں پائی جا چکی محبت کے ساتھ۔ جو تم نے کیا۔ مجھے کوئی تکلیف تھوڑی ہے، میں خوش ہوں۔ بس تھوڑی اداس ہوں کہ میں یہاں تم سب کے بیچ اضافی ہوں"

وہ جان بوجھ کر سراج کو زخم لگانے پر اتری اسکی بہت کچھ کہتی آنکھوں میں جھانک کر مسکرائی تھی۔

"تم جانتی ہو محبت ہو میری پھر بھی میرے کہے کو مان گئی، تھوڑا غصہ اتارنے کا دل تھا تم پر لیکن اب پیار کا من ہے"

اسکے ریشمی کھلے بالوں میں انگلیاں چلاتا پلوں میں فاریہ کے چہرے کے قریں چہرہ لے جاتے سانس بھرتے وہ کتنی جلدی مُکر رہا تھا، فاریہ نے اسکے سینے پر ہاتھ سے دباو ڈالے خود سے بے رحمی کے سنگ دور کیا۔

"ایسا کوئی حق نہیں ہے اب تمہارے پاس، واپس جانا ہے مجھے"

اپنی کرچیوں میں بٹتی آنکھیں چراتی وہ تیز تیز بیرونی راہداری کی سمت بھاگی اور سراج کو بھی چارو نا چار اسکے پیچھے جانا پڑا۔

وہ گارڈ کو اندر انفارم کرنے کا کہے خود فاریہ کے گاڑی میں بیٹھتے ہی ساتھ بیٹھا جو باہر دیکھتی قہر ناک خاموشی لیے تھی۔

سارا رستہ وہ کربناک چپ رہی اور گھر آتے ہی گاڑی کا دروازہ بری طرح پٹخ کر اندر چلی گئی۔

سراج علی نے ٹھنڈی سانس بھری اور گاڑی روک کر خود بھی اندر بڑھا جہاں وہ چادر اور خوبصورت دوپٹے کو باہر ہی صحن میں نوچ کر پھینک گئی تھی، چوڑیاں اتار کر کشادہ صحن میں اس بے رحمی سے بکھیر گئی کہ کچھ ٹوٹ گئیں کچھ سلامت رہ گئیں، وہ اسکی ان حرکتوں پر اسکے قدموں کا پیچھا کرتا بے تابی کے سنگ اندر گیا تو وہ بیڈ کے ساتھ لگے قالین پر بیٹھی چپ چاپ سی کئی تکالیف دبائے تھی، سراج علی چادر ہینگ کیے اسکا دوپٹہ آہستگی سے بیڈ پر اچھالتا خود بھی زمین پر ہی اسکے ساتھ بیٹھا جو ناجانے کتنے درد دل میں دبا کر سانس کھینچ رہی تھی۔

"اس روز تم نے کہا تھا تم مجھ سے محبت کرتی ہو ، میں نے نہیں مانا تھا۔ کیسے مان لیتا کہ محبت کرتی ہے وہ لڑکی جو میری موت کی بھی اسی شدت سے طلب گار ہے۔ تم اپنے ستم دیکھو اور میرے، بتاو کس کے زیادہ ہیں"

کھینچ کر اسکا سرد ہاتھ اپنے سینے سے لگائے وہ اسکی جانب پلٹ کر بہت افسوس اور پُر ملال لہجے میں استفسار کر رہا تھا، فاریہ نے اسے دیکھنے کی غلطی نہ کی بس پتھر کا بُت بنی ہاتھ آزاد کروانے کو مچلی۔

مگر آج گرفت سوچ سے زیادہ مضبوط تھی۔

"میں نے بھی کہا تھا تمہیں کہ وہ سب جھوٹ تھا، تم سے محبت نہیں کرتی ہوں۔ لیکن یہاں آکر میں بکھر سی گئی ہوں۔ ناجانے کون کون سے پچھتاوے اور احساسِ جرم مجھے کاٹ رہے ہیں۔ اور اس پر تم نے اپنی محبت سے بے دخل بھی کر دیا۔ تو ٹھیک ہے میں رووں ، چلاوں، تڑپوں یا مر جاوں تمہیں کیا سراج علی"

اپنی سمت دیکھتے سراج کی تکلیف میں ڈوبی آنکھیں دیکھتی وہ خود پر اور اس پر ایک ساتھ ستم ڈھائے بولی، آواز آنسووں نے نگل سی لی۔

"تمہیں پتا ہے فاریہ تم قیامت ہو"

بے جان انداز لیے وہ اسکی پیشانی چومتا گرد بازو حصار کر خود میں حلول کر گیا اور وہ بھی بنا کسی مزاحمت کے اسکے سینے سے لگی آنسو بہانے لگی۔

"تم نے م۔۔مجھے بہت تکلیف دی"

اپنے دانت اسکے کندھے پر اپنی طرف سے شدت سے گاڑے وہ چینخی پر سراج علی کے ہونٹوں پر آفت خیز تبسم مچلا۔

"آگے بھی دیتا رہوں گا"

ٹھوڑی پکڑ کر اسکا چہرہ اٹھائے انگوٹھے سے اسکی گال سہلا کر آنسو کی لکیر مٹاتا وہ شرارت پر اترا مگر فاریہ بس اسے رو کر دیکھتی رہی۔

"ت۔۔۔تم نے محبت سے واقعی بے دخل کر دیا م۔۔مجھے"

رونا ہزار ہا روکنے کی کوشش کی تھی مگر سراج کی باہوں کے گھیرے میں وہ بلکل ٹوٹ کر موتیوں سی بکھری تڑپ کر اس سے سوال کر بیٹھی۔

"تم محبت نہیں کرتی تو تمہیں کیا فرق بے دخل ہونے سے"

وہ شاید اس بار کسی دل کی تڑپ کو دبانے میں ناکام سا ہوا، کیا وہ یہ سب صرف فاریہ کے اظہار کے لیے کر رہا ہے۔ سوچ کر وہ دل تک لرزی۔

سب سے زیادہ محبت رلاتی ہے، اور اس سے زیادہ ستم گر محبوب۔

اپنے دل سے زبان تک آتی کراہٹ گھونٹے وہ سر ہلا تو گئی مگر سراج علی اسکے سینے میں دھڑکتے دل کے بے جان ہونے کو محسوس کرتا آزردہ ہوا تھا۔

اسکے بکھرے وجود کو بہت محبت سے سمیٹ لینے کی خواہش کر رہا تھا، مگر ڈر بھی تھا کہ وہ اسکے اقدام قبول کرے گی اور اسکی تشنہ شدت سہہ پائے گی۔

"تم تاجر ہو۔ محبت کے بدلے محبت کی امید لگا کر بیٹھے ہوئے تاجر، میں تو سمجھی تھی تم فاریہ کے اخیر دیوانے ہو۔ بس اسے پانے کی دیر ہے اس پر اپنی مہر لگا دو گے "

یہ کہنے میں اسے اپنی ساری ہمت لگانی پڑی اور سراج علی کے لیے یہ لمحہ مسرور تھا کہ وہ روٹھ کر بھی سب کہہ بیٹھی تھی۔

اسکی خواہش اسکی ناراضگی میں بھی عیاں تھی۔

"اور یہ مہر کیسے لگتی ہے؟"

متجسس ہوتا وہ فاریہ کی گھبراہٹ پر چوٹ کرتا پراسرار ہوا جو اسکے سینے پر زور دار مکا مارتی اسکی گرفت سے ہڑبڑا کر نکلی اور آنکھیں بھی چرا لیں۔

"تم جانتے ہو تم میری نبض کا دامن گھونٹ چکے ہو سراج علی، وہ فقط الفاظ نہیں تھے وہ محبت کے منہ پہ تماچا تھے، وہ زہر ہے جو تم میری رگوں میں گھول دینا چاہتے ہو"

بہت تکلیف سے وہ یہ کہہ پائی تھی، اسکی کمر سراج علی کے سینے سے جڑی اور وہ آہستگی سے اسے اپنے حصار میں بھرتا اسکے سرد ہاتھ کو پھر سے جکڑ چکا تھا، مگر وہ بس آنسو بہاتی رہی۔

اپنے آپ سے سراج کی ذات کے امر بیل کی طرح لپٹنے کو محسوس کرتی رہی۔

"میرا دل تمہارے بنا قبرستان بن رہا تھا، ہر قبر کے کتبے پر میرا اپنا نام آویزاں تھا۔ کیا تم نے کبھی ایک لمحے کو میرا نہ سوچا کہ کس اذیت میں مبتلا ہوں؟ میری تم سے وابستہ کچی عمر کی یہ محبت کیا گُل کھلاتی اگر تم اپنی ضد پر مجھے قربان کر دیتی۔ ہجوم ذات میں تمہیں کھوجتے کھوجتے میں اندرون ذات کتنے سکھوں کے چہرے بھول گیا ہوں، اور دیکھو تمہیں دیکھ کر بھی دیکھ نہیں پارہا۔ تمہیں چھو کر بھی چھو نہیں کر پا رہا، تمہیں محسوس کر کے بھی محسوس نہیں کر پا رہا۔۔۔۔میں تو کہیں اندر سے تم سے بچھڑا ہوا ہوں ابھی تک، بچھڑے ہووں کو مزید ستایا جائے گا تو وہ تکلیف میں کچھ بھی بڑبڑائیں گے"

اپنے کندھے پر حدت پہنچاتی پیشانی کے لمس پر وہ اپنی بھیگی آنکھیں سختی سے میچ گئی، وہ ساری مجبوری کہہ چکا تھا اور فاریہ کے پاس مزید کچھ کہنے کی سکت نہ رہی۔

"مما کا حکم تھا کہ میں عباد سے شادی کروں"

بہت دیر بعد وہ کچھ بولنے کے قابل ہو سکی تھی، سراج نے محسوس کیا وہ بے جان سی ہو گئی ہے۔

"اور دل کا حکم؟"

گھمبیر سی سرگوشی پر وہ کانپ اٹھی کیونکہ وہ اسکی کان کی اور جھکا بھاری سرد آواز سے خفگی کے سنگ بولا تھا۔

"اصل زندگی ہے یہ، دل کے حکم جوتی کی نوک پر رکھنے پڑتے ہیں"

وہ اسکے پاس سے اٹھ جانا چاہتی تھی تبھی اس امربیل کو خود سے اتار کر پھینکتی وہ اٹھ کر بیڈ پر کروٹ لیے جا لیٹی۔

سراج وہیں بیٹھا رہا، اسے دیکھتا رہا جو اپنی آنکھیں بند کر چکی تھی۔

"سو جاو جا کر، کل بھی بے مروت بھاگ گئے تھے تم۔۔۔۔ جا کر وہیں سونا آج بھی جہاں تمہیں دور دور تک میں نہ دیکھائی دے سکوں"

روہانسی ہوتی وہ کہہ کر فوری کروٹ بدل گئی، اسکا پورا وجود سردی سے کانپ رہا تھا تبھی سراج نے دل جلی مسکراہٹ دیے اٹھ کر اس پر لحاف اوڑھائے قریب ہی بیٹھے سر کے بال سہلائے اور جھک کر سر چوما۔

گال پر کروٹ کے باعث ڈھلک آتے بال ہٹائے اسکی گال دھیرے سے سہلائی، مگر وہ ہنوز پتھر بنی رہی۔

"فاریہ جیسی بے صبری لڑکی سے ایسی امید نہیں تھی سراج علی کو کہ وہ اپنی من پسند چیز کے لیے اتنی صابر ہو سکتی ہے۔ تم سے دور اچھی نیند آئے گی یقینا۔ شب بخیر "

جھک کر اسکی کن پٹی چومتا وہ جتا کر کہتا اٹھا اور اک نظر فاریہ پر ڈالے کمرے سے نکل گیا۔

اسکے جاتے ہی فاریہ نے سانس کھینچ کر آنکھیں کھولے جابجا پھیلی خوشبو محسوس کی اور تھکا سا مسکرا دی۔

"جانتے ہو ناں من پسند ہو، بھلا یوں کون ستاتا ہے۔ تم جتنا مرضی دوری بنا لو، میرے بنا بے سکون رہو گے۔ تم فاریہ کے لیے سانس جتنے اہم ہو۔ تمہاری اس فضا میں پھیلی سانس اور ہوا میں حائل وجود کی خوشبو میرا رزق ہے سراج علی"

تھک ہار کر خود سے اعتراف کرتی وہ گہرے گہرے سانس بھرے آنکھیں بند کر گئی اور وہ واقعی بے سکونی سے تب تک ٹہلتا رہا جب تک معراج اور والدہ واپس نہ آئے۔

معراج تو آتے ہی سو گیا البتہ فاطمہ فکر مند تھیں مگر سراج نے انکو بھی اپنی سمت سے تسلی دے دی۔

آج کی اسکی رات بھی کل جیسی گزرنی تھی اسکا سراج کو یقین تھا۔

اپنی یاداشت میں ابھرتے ہیولے سچ کرنے وہ گھر سے تو نکل آیا تھا مگر اسکی آنکھوں میں اتری وحشت تب بڑھی جب وہ عین اسی جگہ پہنچا جہاں اس نے وہ بچہ رکھا تھا، وقت بدل گیا تھا، اس بھیانک رات میں اور آجکی سرد رات میں بہت فرق تھا۔

حارث کے سارے زخم بھلے درد سے نجات پا گئے ہوں مگر وہ آج اس جگہ آن کھڑا تھا جس جگہ اس نے وہ گناہ کیا جس نے اسکی ہستی جنجھوڑ دی۔

وہ ذہن پر زور ڈالے اس گھر کی سمت لپکا، قدموں میں گویا ہمت نہ تھی مگر اسے اس لڑکی کو ڈھونڈنا تھا۔

"کون ہے بھئی، کیا مصیبت آگئی"

حارث کے بے قرار ہو کر اس لکڑی کے دروازے پر دستک دینے پر اندر سے کوئی گرم مزاج لیے باہر نکلا، دروازہ کھول کر اجنبیت اور ناگواری سے دیکھتی وہ عورت حارث کیانی کا سر تا پا جائزہ لیتی گھوری

"ہاں جی۔۔۔کیا ہے ؟"

وہ عورت مقابل سے تندہی سے سوال کرتے بولی۔

حارث نے اپنے چہرے کے تاثرات ٹھیک کیے۔

"یہاں جو لڑکی رہتی ہے وہ کہاں ہے؟"

حارث کے پوچھنے پر اس عورت کے ماتھے پر ناگواری سے شکنیں اتریں۔

"اوہ۔۔۔تو اسکا عاشق تُو تھا۔۔۔۔۔ دیکھ لونڈے یہ شریفوں کی بستی ہے، لہذا یہاں اس جیسی مشکوک لڑکی کیسے رہ سکتی تھی۔ چلی گئی ہے وہ اپنے دادے اور اس ناجانے کس کے بچے کو لے کر"

اس عورت کا تضخیک میں لپٹا انداز مزید حارث کو نشتر کی طرح چبھا، دل میں لرزش اتری۔

وہ کیسے اس لڑکی کو ڈھونڈے گا، دل گویا پھٹ گیا تھا۔

"ہمم۔ "

حارث نے سرد مہری سے اس عورت کو دیکھا اور فوری وہاں سے واپس پلٹا، پھر سے آنکھوں میں اندھیرا چھانے لگا تھا۔

گاڑی تک پہنچتے ہوئے وہ تھک ہار کر ٹیک لگاتا اپنے بال جکڑے اکھڑی سانس کھینچ گیا۔

یہ تکلیف اسے کچوکے لگا رہی تھی۔

"یعنی میرے ایک گناہ نے کس کس کو اذیت سے گزار دیا، وہ لڑکی اس بچے کو بچانے کے بدلے اپنے گھر اپنی بستی سے محروم ہوگئی۔۔۔لعنت ہو تجھ پر حارث۔۔۔۔ یہ کیا کر دیا تُو نے۔۔۔۔ میں کہاں پے ڈھونڈوں گا اسے اور اس بچے کو۔۔۔۔۔یا اللہ مجھے کوئی راہ دیکھائیں۔۔۔۔۔۔ آج تک جتنے گناہ کیے میں نے مجھے اس کے لیے بھلے دردناک موت دے دیں مگر اس لڑکی تک پہنچا دیں"

یہ خود ساختہ اس سفاک پر اتر آتی درد کی لہریں درحقیقت اسکے اندر کو پاک کر رہی تھیں۔

گناہ گار تب تک گناہ گار ہوتا ہے جب تک اسے اپنے گناہ کا ادراک نہ ہو مگر حارث کیانی کی ساری زندگی اس ایک جھٹکے نے موت کے دہانے پر لائی تھی۔

وہ اپنی جنگ اکیلے لڑنے نکلا تھا، دیکھنا یہ تھا کہ کب قافلے تک پہنچتا ہے۔

وہ نامراد سا پیلس تو لوٹ آیا مگر اسکی تکلیف جوں کی توں برقرار سینہ جلاتی رہی۔

ناجیہ جو اسکی غیر متوقع غیر موجودگی پر حیرت میں تھی اسکے آنے کی اطلاع ملتے ہی لان میں آئی جہاں وہ بے قراری سے ٹہل رہا تھا۔

"تم کہاں چلے گئے تھے؟"

ناجیہ نے اسکی بازو پکڑ کر روبرو کیے فکر سے پوچھا مگر حارث بس اس ماں کو آزردگی سے دیکھتا خاموش ہی رہا۔

اور اسکی خاموشی نے ناجیہ کے رونگٹے کھڑے کیے تھے۔

"دم گھٹ رہا تھا میرا، عائشہ کہاں ہے۔۔۔۔ آپ کیوں آگئیں مجھ پر فکر لٹانے"

حارث کا جواب عجیب اور تلخ سا تھا تبھی ناجیہ اسکے چہرے پر درج سپاٹ تاثرات پر ساکت تھی۔

"عائشہ کی طبعیت ٹھیک نہیں تھی تو اسے جلدی بھیج دیا ریسٹ کے لیے، اور میں ماں ہوں تمہاری فکر تو ہوگی مجھے"

ناجیہ چاہتی تھی وہ اسے اپنی ممتا یاد دلائے مگر اس ممتا کا ڈسا وہ سب جان بوجھ کر سہہ گیا، دل تو یہی کیا ناجیہ پر ہنسے کہ کتنی مہان ماں ہے وہ۔

عائشہ کے ساتھ اپنے رویے پر وہ نادم تھا، اور جس طرح وہ کسی بےقراری میں مبتلا تھا ناجیہ نے فوری چہرے پر دھیمی سی مسکان سجائے حارث کا چہرہ ہتھیلی سے جوڑا۔

"کیا عائشہ چاہیے تمہیں، کہو تو تمہارے لیے بجھوا دوں اسے۔۔۔۔ ویسے بھی وہ میرے حکم کی پابند ہے۔ میں کہتی ہوں اسے کہ میرے پیارے سے بچے کی ساری اداسی دور کر دے"

ناجیہ نے جس خمار سے یہ مشورہ حارث کے سامنے دھرا اگر وہ پہلے والا حارث ہوتا تو مان بھی لیتا مگر اس وقت اسے ناجیہ واقعی ایک جذبوں کی سوداگر معلوم ہوئی۔

ایک ماں کیسے اپنی اولاد کو غلط طرف دھکیل سکتی ہے۔

حارث کیانی کی رہی سہی آنکھیں اس تماچے پر کھل چکی تھیں۔

"کیسے کرے گی وہ اداسی دور میری؟ مجھے تو روگ لگا ہے۔۔۔۔۔ خود کو فراموش کر بیٹھا ہوں یہ تو ماتم کا مقام ہے"

وہ چاہتا تھا اگر اس عورت کا مقام گِرنا ہی ہے تو ایک بار گرے، مضبوط لہجہ لیے وہ ناجیہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بھاری آواز لیے بولا۔

"ایک من پسند عورت کے پاس اتنی طاقت ہوتی ہے کہ مرد کو ہر درد فراموش کرنے پر مجبور کرے، لیکن دھیان رکھنا اسے سر پر چڑھانا نہیں بس دل بہلانے کے لیے ہی نظر میں لینا۔ تو کیا بجھواوں اسے"

ناجیہ کی ذومعنی تاکید پر حارث نے سختی سے مٹھیاں بھینچ لیں مگر وہ کچھ کہہ نہ پایا، کہہ بھی کیا سکتا تھا۔

"مجھے ضرورت نہیں ، سونا چاہوں گا"

یہاں کھڑا رہنا محال ہوا تو وہ بہت ضبط سے یہ جملے ادا کرتا منہ موڑے وہاں سے چلا گیا مگر ناجیہ کی شاطر عقابی نگاہوں میں ہلکورے لیتے لطف کی مثال ناممکن تھی۔

وہ چاہتا تھا عائشہ تک پہنچ کر اپنے رویے کی معافی مانگے، اس کے پھٹ پڑنے پر ہی تو حارث کے دماغی آبلے چاک ہوئے اور منظر وافع ہو گئے۔

مگر وہ اپنے قدم روک چکا تھا، معافی کے لیے رات کا سہارا اور تنہائی کی ضرورت نہیں تھی اب اسے، وہ اس سے معافی دن کے سویرے میں مانگنے کا ارادہ کرتا وہ اپنے تاریک کمرے کی سمت لپک گیا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"کہاں رہ گئی تھی تم؟"

احد کو سلا کر دادوو کو دینے کے بعد ادا صاحبہ کو رات کی میڈیسن دینے اور ملازمہ کو رات بھر انکا دھیان رکھنے کا کہتی وہ جب تک کمرے میں پہنچی کوئی بیقرار سا اسکے انتظار کو کاٹ کر تھکا ماندھا اس تک پہنچا اور عباد کے یوں بے قراری سے پوچھنے پر وہ لاکھ مسکراہٹ روکنے کی کوشش کیے بھی مسکرا دی۔

"آپ جانتے ہیں کہ احد ، دادوو اور ادا جان کی بھی ذمہ داری ہے مجھ پر، وہی پوری کر رہی تھی"

عباد کا چہرہ مرکوز کیے وہ وضاحت دیتی بولی جس پر وہ اسکے پُربہار چہرے کو دیکھتا سر ہلا گیا۔

"اور اب؟"

شاید اسکے پاس یہی اک اکلوتا سوال تھا۔

"اب صرف آپ "

منہا کی انس بھری مسکراہٹ گہری ہوئی۔

"سمجھ نہیں آرہا کہ مجھے کیوں عزیز ہو رہی ہو اسقدر"

بھاری لہجہ خفیف سی جذب کی آنچ لیے تھا اور جس طرح وہ منہا کو حصار کر اسکے چہرے پر نظریں جمائے تھا یہ منہا کے لیے ایک دقت طلب عمل تھا کہ عباد کے کسی بھی اظہار کے لیے خود کو تیار کر پاتی۔

"آپ پھر سے مجھے ڈرا رہے ہیں"

وہ جذبات کا شور سنتی مچلی، مگر وہ اسکے ملائم بال سہلاتا بس منہا کو ہی دیکھ رہا تھا۔

اسے کیسے بتائے کہ وہ محبت کر بیٹھا ہے اس سے، وہ دل میں اسی مشکل فیصلے کے گرد حائل تھا۔

پھر اگلا سوال کے کیا منہا اسکے بٹے وجود کے سنگ محبت کے اظہار کو تسلیم کرے گی؟ ایک خدشہ بیٹھتا تو دوسرا سر اٹھا لیتا۔

"نہیں میں تو خود ڈر رہا ہوں"

اسکے سہمے خدوخال سے نظر چراتا وہ منہا کو چپ چاپ اس شدت سے اپنی باہوں کے دائرے میں پرو گیا کہ وہ پتنگ کا روپ دھارے اس شخص کی ذات کے آسمان میں پرواز بھر گئی۔

بنا کسی رکاوٹ کے وہ ایک دوسرے کی دھڑکنیں محسوس کر رہے تھے۔

کیا الفاظ کبھی بھی دھڑکنوں کی زبان پر حاوی ہو سکتے تھے، ہرگز نہیں۔

وہ خوفزدہ تھا، منہا کی چھاوں سے محروم نہ ہو جائے۔

وہ اسکی محبت پر اس سچائی کے بات کیسے یقین کر سکے گی، عباد حشمت کیانی کے پاس تو اپنا گواہ صرف اللہ تھا۔

اس بات کا گواہ کہ اسے صحیح محبت صیحح وقت پر منہا سے ہوئی تھی۔

اور اس کربناک سوچ کا اثر تھا یا جذبات کا طوفان کے وہ منہا کے نازک وجود کی نرماہٹ تک بھلا بیٹھا اور یہ تو منہا کے رحم طلب انداز اور اسکی گرفت میں ملتی تڑپ تھی کہ وہ ہوش میں آیا۔

مگر ہنوز اسے خود میں بسائے رہا، وہ بھی اس روح سہلاتی نرم پڑتی گرفت میں گہرے گہرے سانس لینے لگی۔

"ع۔۔۔عباد "

وہ اس سے پہلے اس دم ہارتی قربت سے نڈھال منہا کو دیکھنے اور اسکی ذات پر کسی جل تھل کر دیتے ابر کی مانند برسنے کو اسکے دہکتے حسن سے نظریں ملائے بے تاب سا ہوا جو پلکیں جھکائے روہانسی ہوئے اسے دیکھنے کی ہمت جمع کرنے کو عباد کی شرٹ مٹھیوں میں بھینچ گئی۔

"منہا "

وہ ان ماہی بے آب کی مانند پھڑپھڑاتی پلکوں کو اس سرور سے تکتا اسے پکارا جسکے پورے وجود میں سرد سی ٹیسیں اٹھنے لگیں۔

اسے لگا یہ شخص ، اسکا جادو، اسکی قربت، اور اسکی آنکھیں سب جان لینے کو اتر آئی ہیں۔

پھر بھی وہ زندگی کی تمام ہمت جمع کیے سر اٹھائے شکوہ کناں سی عباد کی جانب دیکھنے لگی۔

"کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے بس اتنا سوچ لینا منہا کہ عباد حشمت کیانی کی سانسوں کی ڈور تمہارے ہاتھ ہے"

وہ محبت سے بھری نظریں اور لفظ یکدم تمہیدی ہوئے تو وہ گھبرا سی گئی، وہ منہا کے ملائم بالوں کی چند لٹیں ہاتھ میں بھر کر انکی خوشبو اپنی سانسوں میں اتارے سرد سی سانس کھینچے سنجیدہ ہوا۔

"آپ کی۔۔۔کیوں کہہ رہے ہیں ایسا"

حلق سے گھٹی گھٹی آواز نکالے وہ عباد کے چہرے سے ہتھیلی جوڑے منمنا سی اٹھی اور وہ سچ بتانے کے فیصلے پر عمل کرنے کی تیاری کر بیٹھا۔

محبت کے عملی اظہار کی خواہش تو وسوسوں اور خوف کی زد میں آکر ادھوری رہ گئی، وہ ایک قطرے کا سکون، دریا نہ بنا سکا۔

"جب ہم یہاں آئے تھے تو سب لوگ ہم سے تعزیت کر رہے تھے، اور پھر کل قرآن خوانی ہی میں شرکت بھی گاوں آنے کا مقصد تھا۔ باقی سب سوال تو تم فوری پوچھ لیتی ہو مگر اس بار کیوں نہیں بولی"

بہت آہستگی سے وہ اسے حصارے ، اسکی فکر مند صورت جو اسکے رویے پر متذبذب ہو گئی، گہرائی سے دیکھتا بول رہا تھا۔

خود منہا کے دماغ میں یہ بات تھی مگر ناجانے کیوں اس نے پوچھی نہیں تھی۔

"یہ میرے ذہن میں تھا مگر نکل گیا، مجھے بھی جاننا تھا کہ وہ سب اداس کیوں تھے۔ کیا آپکے بابا یا دادا کی برسی ہے یا پھر۔۔۔۔۔"

منہا بھی سچائی سے اسکی افسردہ آنکھوں میں تکتی بولی، اور عباد کے لیے بہت مشکل تھا اس سچائی کو کھولنا۔

"میری بیوی گل مینے کے لیے تعزیت کر رہے تھے وہ سب"

عباد اسکی آنکھوں میں دیکھتا تکلیف کے سنگ یہ سچ تو کہہ بیٹھا مگر منہا کو لگا اس کمرے کی چھت اس کے سر پر آن گری ہو، آنکھوں میں نمی لیے وہ ایک ہی جھٹکے سے عباد کو پرے دھکیلتی جن نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی یہ عباد کے دل پر خنجر کھونپ گئیں۔

وہ لپک کر اس فاصلہ بنا لیتی لڑکی تک آنے کو بڑھا مگر منہا نے گریز کا اشارہ کیے اسے رک جانے کا حکم دیا۔

"ب۔۔۔بیوی۔۔۔۔ آپکی بیوی بھی تھی اور م۔۔۔مر گئی وہ۔۔۔۔۔۔اتنی بڑی سچائیاں کیسے چھپا سکتے ہیں آپ مجھ سے، بولیں عباد"

تکلیف سے بھری آنکھیں عباد کے شکستہ وجود پر ڈالتی وہ پست سا چینخی تھی اور عباد نے اس کو پکڑ کر اس جنونی کیفیت سے نکالنے کو جھٹکا دیا تو وہ تھم سی گئی مگر اسکی ان آنکھوں سے چند آنسو بہہ نکلے جنکی نمی تک عباد کو گوارا نہ تھی۔

"یہی نہیں وہ میرے بچے کو جنم دے کر مری، لیکن میں نے۔۔۔۔۔۔۔"

عباد اسکا صبر آزمانے کو مکمل سچائی بتانے ہی والا تھا کہ منہا کے درشتی سے بات کاٹ کر پرے دھکیلنے پر وہ چپ ہوا۔

"بس ناں عباد، نہیں سن سکتی مزید"

وہ کانوں پر ہاتھ رکھے سسکتی وہیں فرش پر گھٹنوں کے بل بیٹھی تھی، اور وہ بھی اسکے ساتھ ہی روبرو مجرم کی طرح بیٹھا اسکے دونوں سرد پڑتے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر باری باری ہونٹوں سے جوڑے، اپنا شکستہ حوصلہ بحال کرنے لگا۔

منہا مسلسل کرب زدہ رہی، کیوں اتنی تکلیف تھی یہ سمجھ نہ پائی۔

"میں نے اپنی اولاد کو دیکھا بھی نہیں تھا اور وہ کھو گیا۔۔۔۔ تم میری تکلیف محسوس کر سکتی ہو، میں اپنے بچے کو ابھی تک ڈھونڈ نہ سکا"

وہ خود بکھرا ہوا تھا مگر منہا کو لگا اسکا دل دو ٹکڑے ہو گیا ہے، اس وقت اسے صرف اس شخص کا یہ سب چھپانا کاٹ کھا رہا تھا اور وہ اپنے سامنے آتے وافع معاملے تک پہنچ ہی نہ پائی۔

کہیں دماغ میں احد کے ماں باپ کے لیے نفرت اتنی حاوی تھی کہ وہ سوچ ہی نہ پائی کہ معاملہ اس سے مختلف بھی تو ہو سکتا ہے۔

مگر ابھی عباد کا لگایا زخم اسے ہوش سے بیگانہ کر رہا تھا۔

"ک۔۔کیسے کھویا وہ؟"

منہا بے دردی سے آنکھیں رگڑے تھوڑی ہوش میں آتی سنبھل کر بولی مگر عباد کو خود محسوس ہوا وہ لڑکی ٹھیک نہیں ہے۔

"ہوسپٹل سے اسے کوئی لے گیا، یہ تو پتا ہے کون لے کر گیا مگر اس سے آگے کچھ پتا نہیں چل رہا۔ وہ ایک طوفانی رات تھی جب مجھ پر قیامت ٹوٹی"

عباد کے اس انکشاف پر منہا کو لگا وہ دوسرا سانس نہیں لے سکے گی، وہ طوفانی رات منہا کیسے بھول سکتی تھی۔

آنکھوں میں نمی نے دھندلاہٹ بھر دی۔

"ت۔۔۔تاریخ کیا تھی؟"

منہا اس ٹوٹے بکھرے شخص کی آنکھوں سے بہتی نمی ہتھیلی میں جذب کرتی کرب سے بولی۔

"بیس اکتوبر "

منہا کو لگا اسکے دماغ پر ہتھوڑا برسا ہوا، یعنی لگ بھگ ایک ماہ پہلے کی وہ رات جب اسے احد ملا تھا۔

پورے وجود میں تکلیف کی ایک لہر اتری اور وہ بتا بھی نہ سکی کہ اسے خوشی ہوئی یا تکلیف بس وہ عباد کے سینے لگی پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

یہ حقیقت بنا تحقیق کے وہ عباد کو ہرگز نہیں بتا سکتی تھی تبھی بس رونے پر ہی اکتفاء کیا۔

پہلے احد کی شہد رنگ عباد سی آنکھیں، پھر اس روز احد کو دیکھ کر عباد کا بے قراری سے بھاگ جانا۔

پھر ڈسٹ الرجی والا جینٹک مسئلہ اور اب یہ ایک تاریخ کا بھیانک اتفاق۔

وہ ناچاہتے ہوئے ٹوٹ بکھر سی گئی، کیا واقعی احد ہی عباد کا بیٹا تھا۔

اس خوشی پر ہنسے یا احد کے دور ہونے پر تڑپے۔

اور وہ کیوں اتنا روئی یہ عباد بھی سمجھ نہ سکا۔

وہ تو جب رو رو کر وہ نڈھال ہوئی تو وہ اسے اٹھ کر خود بھی اٹھائے بیڈ تک لایا جسکی آنکھیں رو رو کر سوجھ گئیں تھیں۔

"تم یہ سچ چھپانے پر مجھے معاف کر دو، لیکن یہ سچ ہے منہا جو محبت مجھے تم سے ہوئی وہ گل سے ہرگز نہیں تھی۔ اس سچ کو چھپانے کی تم جو مرضی سزا دو مگر وعدہ مت توڑنا"

وہ منہا کی حالت پر شکستہ سا اسے سنبھالنے کی چاہ میں اسکی بھیگی آنکھیں تکتا گزارش کر رہا تھا اور وہ غائب دماغی سے عباد کو دیکھ رہی تھی کہ وہ کونسے وعدے کا ذکر کر رہا ہے۔

"ک۔۔۔کونسا وعدہ"

سوال کرتے منہا کے ہونٹ کانپے، عارض پر نمی بکھری۔

"مجھے کبھی مت چھوڑنا، میں جلد اسے ڈھونڈ لوں گا۔۔۔۔ ہم ساتھ رہیں گے مل کر"

عباد اس سے تڑپ کر پھر سے وعدہ لے رہا تھا اور وہ کبھی بھی احد کے بنا رہنے کا سوچ بھی نہ سکتی تھی مگر اب اسے اپنا آپ بہت بے وقعت لگا۔

دل چاہا احد اسکے حوالے کر کے دادا کو لے جائے اور اپنی دنیا میں واپس چلی جائے۔

اسے دکھ تھا وہ زندگی میں پہلی بار کسی کے لیے اہم ہوئی بھی تو ایسے کہ اس شخص کا ایک خوبصورت ماضی تھا۔

وہ سمجھ نہ پائی کہ کیسے برداشت کرے جس عباد کو اس نے چاہا وہ کسی اور کا سب رہ چکا ہے، اپنے آپ پر وہ سارے آنسو بہا رہی تھی۔

"میں نہیں مانتی دوسری محبت کے وجود کو، کاش آپ مجھے پہلے یہ سچائیاں بتا دیتے تو اتنا قریب نہ آنے دیتی آپکو۔۔۔۔۔ کتنا آسان ہے آپکے لیے کہنا کہ آپکو ان سے محبت نہیں تھی۔۔۔۔۔چھوڑیں عباد آپ نے م۔۔۔جھے بہت تکلیف دی ہے"

سارے زخم سہہ لینے کے باوجود وہ اس شخص کی گرفت جھٹک گئی، وہ رو رہی تھی اور عباد کا ڈر اسکے سامنے آئے اسکی جان لے رہا تھا۔

"منہا میں سچ کہہ رہا ہوں"

وہ اسکا موڑا چہرہ اپنی سمت کیے دکھ سے یقین دلا رہا تھا اور وہ اس وقت کہیں دور چلی جانا چاہتی تھی۔

نہ وہ اپنی اذیت بتا سکتی تھی نہ اس شخص کو مزید قریب آنے دے سکتی تھی۔

"ج۔۔جھوٹ۔۔۔۔ بیوی کا مطلب بہت اچھے سے جانتی ہوں۔ اور بیوی بھی وہ جس نے آپکو اولاد دی۔ پھر بھی آپ یہ کہہ رہے محبت نہیں۔۔۔۔ بہلا رہے ہیں مجھے، کہا تھا ناں محبت پر یقین نہیں۔ آج آپ نے اس بے یقینی کو کاملیت دے دی"

وہ مسلسل اسے جھٹک کر رندھی آواز سے چلا رہی تھی، اسکی آواز اسکے آنسو نگل رہے تھے اور وہ ہچکیاں بھرتی اپنی تکلیف سے بے جان ہو رہی تھی۔

"کیوں کہہ رہی ہو ایسا۔۔۔۔ اس سے محبت نہیں تھی یہ تم سے محبت ہونے کے بعد ہی تو پتا چلا۔ مخص اس وجہ سے تم مجھے تکلیف کیسے دے سکتی۔ میں مانتا ہوں یہ سب تمہارے لیے سہنا مشکل ہے۔ جیسے میں تمہارے ساتھ کسی کو برداشت نہیں کر سکتا تم بھلا کیسے میرے ماضی کو مجھ سے جڑا دیکھ کر نارمل رہ سکتی تھی"

وہ لاکھ منتیں وضاحتیں دیتا وہ آج بہل نہ پا رہی تھی، رہ رہ کر اپنی بے وقعتی رلا رہی تھی۔

"آپ نے مجھ سے شادی اپنے غم کو ہلکا کرنے کو کی عباد، مت نام دیں اسے محبت کا۔۔۔۔۔ میں نہیں مانوں گی سن لیں۔ تکلیف دی ہے آپ نے مجھے، یہ سہنا مشکل نہیں ناممکن ہے۔ م۔۔۔مجھے تو کل تک غرور تھا کہ آپ صرف میرے ہیں، ل۔۔لیکن نہیں آپ میرے نہیں ہیں"

نم نم آنکھیں جھپکتی دل پر جانے کیسے کیسے بوجھ لیے وہ عباد کے گریبان کو جکڑ کر تڑپی، اسکا ایک ایک لفظ عباد کا کلیجہ نوچتا رہا۔

اسکے ہاتھوں کی رگیں ابھر آئیں، وہ پورا چہرہ اذیت اور بے وقعتی کے احساس سے سرخ تھا۔

اور یہ سب عباد کے لیے سہنا جان لیوا تھا۔

"تم جو بھی سزا دو گی قبول ہے، لیکن بدگمان ہو کر جان مت نکالو۔۔۔۔ خدا گواہ ہے میں نے بس اتنا چاہا تھا تم سے اپنے دکھ بانٹوں گا، تم نہیں مان رہی ناں کہ محبت کرتا ہوں۔۔۔۔ آزما کر دیکھ سکتی ہو۔ آج سے پہلے کسی کے لیے میری روح بیقرار نہیں ہوئی منہا، تم ناجانے کس لمحے میری بیقرار روح کی راحت بن گئی۔ میں نے اپنا آپ تمہیں سونپ دیا ہے جتنا ممکن تھا، اب میری زندگی تمہارے ہاتھ میں ہے"

کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ یوں منہا سے اپنے جذبات کا اظہار کرے گا جب وہ بھی تکلیف کی زیادتی سے ہلکان تھی اور خود عباد حشمت کیانی کسی لازوال خسارے کا روپ دھارے ہوئے تھا۔

"جھوٹ۔۔۔۔سب جھوٹ۔۔۔۔ "

اپنا آپ بے رحمی سے چھڑواتی وہ بھاگ کر خود کو واش روم میں لاک کر گئی اور وہ تکلیف دباتا اسے روکتا رہ گیا۔

سارے آنسو بہا کر بھی وہ دل کا بوجھ کم نہ کر سکی۔

"کیا میرے ذمے بس احد کو اسکے باپ تک پہنچانے کا ہی فرض تھا، ک۔۔۔کیا میرا مزید کوئی کردار نہیں بچا۔۔۔۔۔ ہاں میں احد کو عباد کے حوالے کیے چلی جاوں گی۔۔۔۔۔ ہم رہ لیں گے جیسے پہلے رہتے تھے۔ لیکن کسی کے دل بہلانے کا سامان بننے سے بہتر مر جاوں۔۔۔۔ ک ۔۔کیسے کر سکتے ہیں آپ میرے ساتھ، اتنا سب چھپا کر اچ۔۔چھا نہیں کیا۔۔۔۔۔ "

ہچکیاں بھرتی وہ اس وقت ایک پاگل تھی، اسے ٹھنڈے فرش کی سختی تک اثر نہ کر رہی تھی۔

اسے رہ رہ کر اک آگ جلا رہی تھی۔

وہ بھی سر جھکائے باہر بیٹھا ایک بار پھر منہا کے جذباتی پن پر سراپا درد بنا ہوا تھا۔

ناجانے کتنا وقت وہ یونہی بیٹھی رہی، مگر جب ٹھنڈ سے پورا وجود لرزنے لگا تب ہمت کیے اٹھی۔

آئینے میں اپنا رو رو کر ویران چہرہ دیکھا تو نل کھولے چند پانی کے چھپکے منہ پر مارے۔

گہرے گہرے سانس کھینچے اور باہر نکلی۔

تب تک وہ صوفے پر نیم دراز سر ٹکائے آنکھیں موندھے لیٹا ہوا تھا۔

منہا نے کرب سے اسکی سمت سے چہرہ موڑا اور بیڈ تک پہنچ کر لیٹی، کروٹ مخالف موڑ لی۔

خود عباد چونک کر اٹھا تو بنا لحاف سے لیٹی منہا کو دیکھتے ہی اٹھ کر اس تک پہنچا۔

دھیرے سے بیٹھتا وہ اسکے اوپر لحاف کروائے خود بھی جھکا جو پھر سے آنکھیں سختی سے دبائے رو سی دی۔

"تم کیوں تکلیف دے رہی ہو خود کو؟"

یہ سوال کرتا وہ منہا کو سفاک لگا تھا پھر جیسے وہ اسے پکڑ کر سیدھا کرتا اس پر جھکے منتظر تھا، منہا کے حلق میں کانٹے سے چبھے۔

"خود کو دے رہی ہوں ناں، آپکو کیا ہے۔۔۔۔ دور رہیں مجھ سے"

اول دن والی بددماغ منہا آج پھر نمودار تھی مگر وہ بدلے میں اسکی دہکتی سانسیں فراموش کیے زخمی سا مسکرا دیا۔

"بتاو ناں منہا، مجھے تکلیف ہو رہی ہے"

تاسف سے وہ مکمل جھک کر منہا کی تپش میں لپٹی جبین چومتا پھر سے آزردہ ہوا اور وہ اپنی ضدی سی تکلیف پر پہاڑ سی جمی آنکھیں میچے یہ یک دم بیگانے لگتے لمس برداشت کرتی رہی۔

"آپ کبھی نہیں سمجھ پائیں گے میری تکلیف، جو آپ نے مجھ سے چھپایا ہے وہ معمولی ہے کیا؟ آپ میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے بتائیں"

وہ اسے خود میں بسانے کا طلب گار اسکے حسن کو تسخیر کرنے کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کو بڑھا ہی کہ منہا کے سوال نے عباد کی آنکھیں بھی جلن سے بھر سی دیں۔

"مجھے تو محبت ہے ناں، میں تو اس پر جان ہار دیتا"

وہ بہت جبر سے یہ جواب تراش سکا تھا۔

منہا کی آنکھوں سے بہتی نمی اس شخص کی سفاکی پر اب تکیے میں جذب ہوتی گئی۔

کیا وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ اسکی محبت یکطرفہ ہے۔

منہا کو لگا قیامت تو اب آئی ہے۔

اچھا ہی تھا وہ منہا کی محبت سے لاعلم تھا، وہ خود کو سنبھال کر آنسو رگڑ گئی۔

"کل میں بھی آپکے ساتھ جانا چاہتی، دادو اور احد یہیں ادا جان کے پاس رکیں گے۔ مجھے وہاں کچھ کام ہے ، آپ اپنے کام کرنا میں اپنا کر کے جلد واپس یہاں آجاوں گی"

منہا نے تحمل اور صبر کے سنگ کل ساتھ جانے کی جو خواہش کہی اس پر عباد فوری سر ہلا گیا۔

وہ چاہتی تھی احد اور عباد کا ڈی این اے ٹیسٹ کروائے اور اس معاملے کو جلد نمٹا کر وہ عباد سے دور چلی جائے۔

"ویسے کیا کام ہے تمہیں؟"

ناجانے کیوں مگر عباد کو تھوڑی تشویش تھی۔

"کچھ پرسنل کام ہے، بتا نہیں سکتی"

وہ سمجھ نہ پایا آخر وہ اس سے ایسے اکھڑ کر بات کیوں کر رہی ہے تبھی وہ اس پر سے جھکا واپس پلٹا اور اپنے تکیے پر سر رکھے فانوس کے جھومر سے نکلتی روشنی دیکھنے لگا۔

اپنے ہاتھ کی انگلیوں کا عباد کے ہاتھ میں جکڑنا محسوس کرتی وہ کرب سے آنکھیں بھینچ گئی۔

"عزت نفس کے علاوہ محبت بھی ایک ایسا جذبہ ہے۔جس کے مجروح کر دیے جانے پر انسان خود کو حقیر جاننے لگتا ہے۔ اور میں خود کو حقیر کے ساتھ فقیر بھی مان بیٹھی ۔ جب چلی جاوں گی آپ سے بہت دور پھر پتا چلے گا آپکو عباد کے مجھے بھی آپ سے محبت تھی اور تبھی میں جان اور ہمت دونوں ہار گئی"

گہرے گہرے سانس بھرتی وہ تکلیف سے فیصلہ لیتی سوچ رہی تھی اور اسکے ساتھ لیٹا عباد سوچ بھی نہ سکتا تھا وہ اسے مارنے کی منصوبہ بندی بنا رہی ہے۔

"کیسے یقین کرو گی کہ محبت کرتا ہوں؟"

وہ پھر سے اسکا جکڑا ہاتھ سینے سے لگاتا اسکی سمت کروٹ بدلے بولا مگر وہ چپ چاپ سوگوار سی تھی۔

"نہیں جانتی"

بنا رخ موڑے وہ سپاٹ ہوئے بولی۔

اور وہ اس جواب پر اپنی آنکھیں بند کر گیا، منہا نے اسکی خاموشی اور مدھم دھڑکن محسوس کیے کچھ دیر بعد چہرہ گمایا تو وہ اسکی سمت کروٹ بدلے نیند میں اتر چکا تھا۔

شدت سے دل چاہا وہ اس شخص کی یہ سانسیں چھین لے، اسکا گریبان پکڑ کر جنجھوڑے کہ وہ صرف اسکا کیوں نہیں۔

لمبا سا سانس بھرے وہ خود بھی کروٹ اسکی سمت بدل کر آنکھیں بند کر گئی، اس سے دور رہنا مشکل تھا پر اب وہ بہت زیادہ دور جانے کا فیصلہ لے چکی تھی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"م۔۔۔یں نے کیا یہ سب۔۔۔۔۔ اس معصوم بچے کو پھینک دیا تھا۔۔۔۔۔ وہ لڑکی تو اسے بچا کر لے گئی تھی۔ م۔۔میں یہ سب "

اپنے بال وحشیانہ انداز سے جکڑے وہ سب کچھ پھر سے سوچنے پر خود سے گِھن محسوس کر رہا تھا، اب اسے سمجھ آیا تھا کہ اس کو جو یہ عذاب سہنا پڑا وہ اس معصوم بچے پر ڈھائے گئے ظلم کی بدولت تھا۔

اپنے کیے سارے گناہ اسکی آنکھوں کی پُتیلوں کے آگے ناچ رہے تھے۔

حارث کیانی کو خود سے گِھن آنے لگی تھی۔

وہ تیزی سے ہانپتے ہوئے کمرے سے باہر نکلا، مختلف ملازمین اپنے اپنے کاموں میں گم تھے، ناجیہ کچھ دیر پہلے ہی اسے ناشتہ کروا کے گئی تھی تبھی اپنے کمرے میں تھی۔

حارث سیدھا کچن میں آیا مگر وہاں عائشہ بھی نہ تھی، وہ اسی کیفیت سے باہر نکلا تو گزرتے ملازم کا کندھا جکڑے روکا۔

"ع۔۔۔عباد لالہ کہاں ہیں؟"

حارث کے استفسار پر وہ مودب ہوئے رکا۔

"وہ آج شام تک آجائیں گے واپس، گاوں گئے ہیں۔ گل مینے بی بی کے لیے وہاں قرآن خوانی تھی"

ملازم اسے آگاہ کرتا مڑ چکا تھا مگر حارث کو یوں محسوس ہو رہا تھا شام تک وہ زندہ نہیں رہے گا۔

اسے عائشہ کی تلاش تھی تبھی وہ باولوں کی طرح باہر نکلا۔

دوسری طرف عباد کے آفس کی تفصیلی صفائی کے دوران ملازم کو ٹیبل کے نیچے سے ایک سفید پیپر مل چکا تھا، اسے یاد آیا کہ اسی کے لیے اس دن عباد پوچھ گچھ کر رہا تھا مگر اس پر منہا کی شکل دیکھ کر وہ حیران و پریشان تھا۔

مگر فوری وہ سکیچ بھرپور توجہ سے فائیل میں رکھے وہ دوبارہ صفائی کرنے لگا۔

حارث کو باہر آتا دیکھ کر گارڈز بھی مودب تھے مگر وہ مالی بابا کے پاس کھڑی ان سے بات میں مگن عائشہ کی سمت آکر رکا مگر وہ جان بوجھ کر نہ مڑی بلکے حارث کی موجودگی کو یکسر نظر انداز کیا۔

"عائشہ۔۔۔۔"

حارث کی آواز پر وہ بے نیاز بنی نہ صرف مڑی بلکے وہیں سے اندر چلی گئی۔

"عائشہ سٹاپ"

اسکے پیچھے ہی لپک کر وہ باقاعدہ اسکی بازو پکڑے روکتا تاسف سے چلایا جس پر وہ خفگی سے اپنی بازو چھڑواتی مڑی اور آنکھوں میں ناراضگی بھرے دیکھنے لگی۔

"آج تک میں نے جو بھی کیا، تمہیں جتنا پریشان کیا اسکے لیے معاف کر دو مجھے"

یہ دو جملے تکلیف سے ادا کرتا وہ عائشہ کو ساکت چھوڑے لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا اور وہ کتنی ہی دیر اسکے اوجھل ہو جانے کو تکتی رہی۔

یہ بلکل غیر یقین سا تھا، حارث کیانی اپنے کیے کی معافی مانگنے والوں میں سے نہیں تھا مگر وہ اداس ہو گئی تھی۔

وہ واقعی افسردہ لگ رہا تھا۔

دوسری طرف منہا نے رات ہی عباد کے نیند میں اترتے ہی اسکے بالوں کی ایک باریک سی لٹ کاٹ لی تھی، بھلے اسے ان سب باتوں کا علم نہیں تھا مگر اسے اتنا ضرور پتا تھا کہ ڈی این اے کے لیے بال کام آتے اور رہی سہی کسر اس نے فون پر اپنی سمجھ کے مطابق سراج کے سکھائے طریقے سے گوگل پر سرچ کیے بھی جان لیا تھا۔

اور دوسری طرف اس نے احد کا ایکسٹرا فیڈر اسے فیڈ کروائے احتیاط سے اسکا کیپ لگا کر اپنے بیگ میں رکھ لیا کیونکہ احد کے بہت روئے جیسے بال وہ چاہ کر بھی اتار نہ پائی۔

وہ جانتی تھی اسے کیا کرنا ہے۔

مسجد میں قرآن خوانی کے بعد خود عباد، سراج کو سبکی حفاظت میں دیتا منہا کے ساتھ واپسی کے لیے نکل گیا۔

رات کی تکلیف دونوں کی متورم آنکھوں سے آویزاں تھی مگر وہ منہا کے حد درجہ اذیت ناک رویے اور چپ پر چٹخ سا گیا تھا۔

سارا راستہ بھی وہ ایک لفظ نہ بولی، اور وہ اسکے ستم سزا کے طور پر سہتا رہا۔

"مجھے یہیں اتار دیں، میں اپنی دوست سے ملنے جانا ہے۔ میں ٹیکسی لے لوں گی"

کئی گھنٹے کی مسافت کے بعد وہ چپ توڑے سپاٹ لہجے اور سپید چہرے کے سنگ بنا اسے دیکھے بولی تھی۔

"میں چھوڑ دیتا ہوں ناں"

اسکا ہاتھ پکڑ کر وہ اسے اپنی سمت متوجہ کرتا اپنی آواز میں اتر آتی افسردگی چھپا نہ سکا۔

منہا نے اپنا ہاتھ عباد کی گرفت سے فوری آزاد کروایا اور عباد کو لگا ہاتھ نہیں وہ اپنا دامن چھڑوا گئی ہو۔

وہ گاڑی تو روک چکا تھا مگر ابھی گاڑی لاکڈ تھی تبھی منہا نے کھولنے کی کوشش میں زور آزمائی کی مگر ناکامی پر مجبوراً عباد کی سمت دیکھنے لگی جسکی آنکھوں میں دنیا جہاں کا درد اترا تھا۔

"تم میرے ساتھ یہ ظلم کیوں کر رہی ہو منہا"

رات سے اب تک منہا کے گریز نے عباد کی جان ہلکان کر دی تھی اور وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنی سمت قریب کیے پہلی بار اتنے غصے میں بولا کہ اسکی سرخ قہر ناک آنکھیں منہا کے دل میں سنسنی اتار گئیں۔

"پلیز عباد، چھوڑیں اور جانے دیں مجھے۔ رات کو بات کریں گے"

اپنا آپ چھڑوانے کی کوشش میں وہ عباد کے ضبط سے برا کھیل گئی تھی، اور وہ بھی اسے چھوڑے رخ موڑ کر چپ چاپ گاڑی کا لاک اوپن کر چکا تھا۔

بنا اسے دیکھے وہ آنسو دباتی اپنا بیگ لیے اچھے سے چادر اوڑھتی باہر نکل گئی۔

عباد نے آزردگی سے سانس کھینچی اور گاڑی سٹارٹ کر دی۔

اسکی نظروں سے اوجھل ہوتے ہی وہ اپنی چادر درست کرتی ٹیکسی کو روک کر اس میں بیٹھی اور قریبی کسی ہسپتال لے جانے کا کہا۔

اتفاق سے آدھے گھنٹے کی مسافت پر ہی بہت بڑا ہوسپٹل آچکا تھا۔

منہا نے پہلے تو وہاں جا کر ڈی این اے کے بارے میں معلومات لیں جس کے لیے اسے پہلے ایک پرمیشن فارم فل کرنا پڑا مگر اسکا کام ہو گیا تھا۔

"دو دن بعد آپکو رپورٹ مل جائے گی منہا میم، آپ یہیں سے آکر یہ فارم سبمنٹ کروا کے لے جائیے گا"

لیب کے انچارج نے منہا کو چھتیس سے چالیس گھنٹوں کی سوہان روح انتظار کی سولی پر ٹانگ دیا تھا مگر اور کوئی چارہ نہ تھا تبھی وہ ہوسپٹل سے باہر نکل آئی۔

کتنی ہی دیر وہ وہیں ہوسپٹل کی راہداری میں لگے بینچ پر بیٹھی خلاوں کو گھورتی رہی۔

دوسری طرف عباد کچھ دیر اپنے آفس سے ہو کر تھانے جانے کے بجائے پہلے سیدھا پیلس ہی آیا تھا، زین کے ساتھ اسکا مسلسل رابطہ تھا، وہ اریسٹ وارنٹ نکلوانے میں کامیاب ہو چکا تھا جبکہ فاضل کا ٹھکانہ بھی اسکے علم میں آچکا تھا مگر آج رات پہلے سرور کی گرفتاری عمل میں لائی جانی تھی۔

اپنے آفس تک پہنچتا ہوا وہ ابھی کچھ ڈاکومنٹس ہی دیکھ رہا تھا جب اسکی نظر میز پر دھری فائیل میں کنارے سے نکلے اس سفید پیپر پر گئی۔

عباد نے سرعت سے وہ کاغذ اس فائیل سے نکالا مگر اس سکیچ پر نظر پڑتے ہی عباد کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔

یہ وہی سکیچ تھا جو اس دن غائب ہوا تھا، وہ بے یقینی سے اس عکس کو دیکھ کر صدمے میں تھا۔

اک آنسو بے دھیانی میں اسکی شہد رنگ متورم آنکھ کی فصیل پار کر گیا۔

"منہا"

یوں لگا کسی قبر سے کوئی ہوک اٹھی تھی۔

منہا کی بتائی احد کے بارے ساری باتیں عباد کے دماغ میں گھوم کر آتش سی بھڑکا گئیں۔

وہ اس سے سب جھوٹ بولتی رہی۔

بہن کا بیٹا۔۔۔

یتیم ۔۔۔بے سہارہ۔۔۔

بمشکل کرسی کا سہارہ لیے وہ بیٹھ پایا تھا، آنکھوں میں کرچیوں نے دھندلاہٹ بھر دی تھی۔

دوسری طرف وہ بھی ٹیکسی سے کہیں اور جانے کے بجائے اسی گھر آئی جو اسے عباد نے دیا تھا۔

وحشت ناک آنکھوں سے وہ اس کا چپہ چپہ تکتی روتی رہی۔

اور خود عباد بھی بپھری موج بنا آفس روم سے نکل کر سیدھا اسی طرف آیا جہاں منہا کے ہونے کے اثرات ہو سکتے تھے۔

اسے منہا سے جواب چاہیے تھے، اور شاید اپنی اس تکلیف کا مداوا بھی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"مجھے معاف کر دیں "

منہا اور عباد تو چلے گئے تھے اور اب شام میں سب کے چلے جانے کے بعد وہ بھی جانے ہی والی تھی مگر ادا جان کے پاس بیٹھتے وہ ان سے نظر ملانے کی مشکل کوشش کرتی بولی تھی، سراج تو فارم ہاوس کام کی وجہ سے پہلے چلا گیا تھا جبکہ فاریہ بھی معراج اور فاطمہ آنٹی کے ساتھ جانے کا ارادہ رکھتی تھی۔

یہ جملہ بہت بے یقین تھا ، خاص کر فاریہ کے منہ سے لیکن ان شفیق بوڑھی عورت کی سماعت اس کو ترس رہی تھی۔

وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر قریب کر کے بٹھاتیں بنا کچھ کہے اسے اپنے سینے میں سمو گئیں۔

"بہت دکھی ہوں، لیکن یہ بھی جانتی ہوں کہ تم معصوموں کا کوئی قصور نہیں ۔ خمیر میں ہی اذیت کا رنگ دفن تھا۔ میرے لیے تو جیسا میرا عباد ہے ویسے ہی تُو اور حارث بھی ہے۔ میں تو دادی ہوں ناں بھلا اپنے جگر کے ٹکڑوں اور اپنی اولاد کے خون سے کیسے ناراض ہو سکتی"

اس کے آنسو ہتھیلی سے جذب کرتیں وہ اسے احساس جرم سے نکال لائیں مگر فاریہ کے اندر اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ کچھ کہہ پاتی۔

"میں بہت بُری ہوں دادو، بہت۔۔۔۔۔۔آئی ایم سوری"

اپنے ستم یاد آئے تو وہ دلبرداشتہ سی اٹھ کر اس وقت آتو گئی مگر سارے راستے وہ اندر ہی اندر گھٹتی رہی۔

جب تک وہ واپس آئے گہری شام ڈھلنے والی تھی، معراج تو آتے ہی اپنے ہم عمر یار گھر بلا کر کرکٹ کھیلنے میں لگ گیا البتہ وہ بھی یونہی فاطمہ کے پاس چلی گئی۔

اپنی تھکن سی بتائی تو وہ اسکے بالوں میں تیل لگانے کا کہے اسے اس تھکن سے نکالنے کی کوشش کرنے لگیں۔

"بہت چھوٹی سی تھی تم جب یہاں سے گئے تھے، اسکے بعد میرا خیال ہے تین یا چار بار آئی ہوگی۔ کیا تمہیں یاد ہے؟"

حویلی سے وہ واپس تو آگئی تھی مگر ناجانے اک تھکن سی تھی جو فاریہ کو اپنے اندر باہر محسوس ہو رہی تھی تبھی فاطمہ اسکے سر کی تھکن ہٹانے کو اسکے بھورے شیڈ دیتے ڈائے بالوں میں تیل لگاتے اس سے باتیں بھی کر رہیں تھیں مگر وہ سامنے کمرے سے باہر صحن میں کچھ اپنے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ کرکٹ کھلیتے معراج کو دیکھ رہی تھی۔

ان سب نے ایک طرح ادھم مچا رکھا تھا۔

"اس گاوں سے ، یہاں کے لوگوں سے کبھی محبت محسوس نہیں ہوئی تھی۔ ہوتی تو یقینا یہاں کی بہت سی یادیں پاس ہوتیں"

اک خفیف سے خسارے کی کاٹ تھی جو فاریہ کو دل میں سلگتی محسوس ہوئی، فاطمہ صاحبہ دھیما سا مسکرائے اسکے بالوں کی جڑوں تک تیل لگائے مساج کر رہی تھیں اور اسے بہت سکون مل رہا تھا۔

"مما نے تو کبھی اتنی محبت سے میرے بالوں میں تیل نہیں لگایا"

ازیت تھی یا کسی خلش کا دکھ کہ وہ یہ اس اداسی سے بولی کہ خود فاطمہ افسردہ ہوئیں۔

"تو کیا ہوا، میں بھی تو ماں کی ہی جگہ ہوں تمہاری۔ میرے لیے جیسا سراج ویسی تم"

ان گاوں کے لوگوں کے دل کتنے کشادہ اور لفظ کتنے میٹھے تھے، وہ یکدم سر گمائے حیرت اور دکھ کی ملی جلی کیفیت کے سنگ مڑی۔

فاطمہ نے اسکا بوجھل چہرہ نثار ہوئے دیکھا اور پیار سے اسکی گال سہلائی۔

"آپکو مجھ سے نفرت نہیں ہوئی فاطمہ آنٹی، میں نے تو کبھی یاد نہیں پڑتا کہ ڈھنگ سے آپ سے بات بھی کی ہو۔ اور آپکے بیٹے کو جتنی تکلیف میں نے دیں آپ ایک ماں ہو کر کیسے بھول گئیں"

اتنے سے وقت میں ہی وہ اس گھر سے سائے کی طرح لپٹی محبتوں سے جھنجھلا گئی، وہ ہر ایک کی جگہ اب خود کو رکھ رہی تھی اور اسے اپنا دامن بہت خالی اور قد نہایت بونا لگا۔

مگر مقابل تو اک پرسکون مسکراہٹ تھی جس نے فاریہ کی ساری پشیمانی جذب کر لی۔

"کیونکہ یہ تم دو کا انتہائی ذاتی معاملہ تھا، محبت میں کوئی تیسرا داخل ہو تو بھونچال آتا ہے۔ تم اس بات کی شاہد ہوگی۔ اگر سراج تم سے منصوعی دور نہ جاتا تو تم کبھی نہ سمجھ پاتی کہ کیا چاہتی ہو۔ یہ بات میرے اور تمہارے بیچ رہے گی پُتر لیکن تمہاری آنکھیں اس ماں کو بتا رہی ہیں کہ تم سراج علی سے کوئی عام محبت نہیں کرتی۔ سچ پوچھو تو میں بہت پریشان تھی سراج علی کے لیے مگر تمہاری آنکھوں کی سچائی نے مجھے سکون دیا۔ میں یہ نہیں کہوں گی کہ اسے اپنے جذبات بتاو لیکن اتنا ضرور کہوں گی کہ چھپانا بھی نہیں خود کو"

نرمی اور پیار سے وہ فاریہ کا ہونق چہرہ تکتیں اسکے چہرے سے ہتھیلی جوڑے جذب سے اسے شفیق سے حصار میں باندھ سی گئیں اور وہ اپنی آنکھوں میں اتر آتے درد کے جہاں کو چھپانے کے لیے سر جھکا گئی۔

"مجھے معاف کر دیں "

کچھ دیر وہ متذبذب سی آنکھیں اٹھائے انکا جھریوں والا ہاتھ پکڑ کر روہانسی ہوئی اور فاطمہ صاحبہ کا دل بھی گویا تڑپ سا گیا۔

"ناں میرا بچہ، معافی نہیں۔۔۔۔۔ تم میرے سراج کے دل کا نور ہو پُتر، اور جسے میرا سراج علی چاہتا ہو وہ اس ماں کے لیے بھی قابل چاہ ہے"

لفظوں میں امرت بھرے وہ اس بکھرے دل والی کا ماتھا چومتی دلکش مسکرائیں مگر وہ تو مسکرا بھی نہ سکی۔

پھر سے سر گما کر وہ فاطمہ آنٹی کے مساج سے پرسکون ہوتی بھیگا سا مسکائے باہر دیکھنے لگی جہاں معراج صاحب شاہد آفریدی بن کر اپنے یاروں کو پچھاڑ رہے تھے۔

"اوئے معراج۔۔۔۔پُتر رولا کٹ پاو (شور کم ڈالو)"

ساتھ ہی فاطمہ صاحبہ کی دبنگ آواز پر وہ ہانپتا ہوا دروازے تک آیا۔

"اماں کدی کدی تو کھیلتے، فاریہ باجی آپ بھی آئیں ناں۔۔۔۔ہم مل کے کھیلتے۔ آپ میری ساتھی بننا ہم پکا جیتیں گے"

معصوم سی مسکین شکل بناتا پہلے وہ اماں کو دیکھ کر بولا اور پھر زبردستی ہی مسکراتی فاریہ کو لیتا باہر نکلا۔

خود بھی فاطمہ ہنستیں ہوئیں دونوں کو جاتا دیکھتی رہیں۔

فاریہ نے بھی ساری اداسی ایک طرف رکھے دوپٹہ کمر کی ایک طرف باندھے بیٹ تو پکڑ لیا پر اسکے پکڑنے پر ہی سارے معراج کے ہم عمر لڑکے مسکرانے لگے۔

خود فاریہ کو لگا کچھ گربڑ ہے۔

بچاڑی بیٹ پہلی بار پکڑ رہی تھی۔

"باجو تھوڑا ایسے کریں یار، ادھر سے مضبوطی سے ہاتھ جمائیں اور جب گیند ادھر تک آئے تو گما دیجئے گا"

فاریہ کے اناڑیوں کی طرح بیٹ پکڑنے پر خود ہی معراج دانتوں کی نمائش کرتا باقاعدہ اس کے پاس اسکو بیٹ پر پکڑ سیکھاتا پوری طرح سمجھا بھی گیا اور یہ اب فاریہ کو واقعی مزے کا لگا جب پہلی ہی بال پر محترمہ نے گما کر سیدھا فور سکور کیا۔

پورے کچے صحن میں ادھم مچ چکا تھا، اور فاریہ جو کچھ دیر پہلے سوگوار سی تھی یوں سب بچوں کے ساتھ بچی بن کر دل سے مسکرائی۔

اسے محسوس ہوا یہ تھی اصل زندگی جس سے وہ ابھی تک محروم تھی۔

یہی نہیں میچ بھی فاریہ اور معراج کی ٹیم نے جیتا۔

رات کھانے کے لیے فاطمہ صاحبہ نے سرسوں کا تیکھی دھڑ مرچوں کے تڑکے والا ساگ اور ساتھ لسی بنائی تھی اور انہوں نے فاریہ کو بھی اس کو بنانے کا طریقہ بتایا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

کب سے وہ چھوٹے سے رنگین خوشبودار احاطے میں بیٹھی آسمان پر چھائی زرد پڑتی تاریکی پر نظریں جمائے ہوئے تھی جب گھر کا دروازہ کھلنے کی آہٹ پر وہ چونکی۔

سامنے سے اندر آکر دروازہ بند کرتے عباد کو دیکھ کر وہ بوکھلا کر ان دو تین راہداری میں بنی سیڑھیوں پر سے اٹھ کر کھڑی ہوئی مگر عباد حشمت کیانی کے بپھرے جلالی روپ نے تو دور سے ہی منہا کو جلا ڈالا۔

وہ عین قریب رکتا افسوس اور دکھ سے منہا کی خشک اور ہر احساس سے عاری آنکھیں دیکھنے لگا۔

"تم نے مجھے سچائی چھپانے پر اتنی بڑی سزا دی منہا کہ خود سے دور کر دیا، اب تمہارے پکڑے جھوٹ اور فریب پر میں تمہاری کیا سزا متعین کروں؟"

سلگتے خفا اور تڑختے الفاظ کے سنگ وہ منہا کو کائنات ہلا ہی تو چکا تھا، ایسی سرد مہری کہ وہ سر تا پیر برف بن گئی۔

بے یقینی لیے وہ بس عباد کے کل کیے محبت کے دعوے سوچ کر کرب ذدہ تھی۔

"بولو ناں، اب منہ کیوں سی لیا۔۔۔۔۔ وہ بچہ تمہاری بہن کا تھا ناں، اسکی ماں مر گئی لیکن تم نے تو اسکا باپ بھی مار دیا۔۔۔۔ یہ کھڑا ہے اسکا باپ۔۔۔۔"

آنکھوں کی پُتلیاں پتھرا سی گئیں اور اس شخص کے لہجے نے منہا کی روح نوچ دی۔

کیا وہ اسے جھوٹا اور فریبی سمجھ کر سزا دینے آیا تھا، کیا وہ محبت کا دعوی یہیں تک تھا۔

دیکھتے ہی دیکھتے منہا کی آنکھیں دھندلا سی گئیں۔

لیکن اسے ہمت نہیں ہارنی تھی۔

"مجھے کچھ نہیں کہنا"

حلق میں بھلے کانٹے اُگ آئے مگر وہ بے حس بنی اسکی عتاب ذدہ آنکھوں میں جھانک کر غرائی۔

"تمہیں کہنا ہوگا، تمہیں اس سب کی وضاحت دینی ہوگی منہا سلطان"

اس وقت وہ جس کرب میں تھا اسکےحواس بے جان تھے اور اپنے پرانے نام کو سن کر وہ دل جلا سا مسکرائی کہ اسکی مسکراہٹ عباد کا جلتا سینہ راکھ کر گئی۔

اور اسکی یہ مسکراہٹ موت کا نعم البدل بھی تو تھی۔

"واہ، محبت کا دعوی کرنے والے عباد حشمت کیانی نے آزمائش پڑتے ہی منہا سے اپنا نام بھی چھین لیا"

وہ کرب اور اذیت سے ہنسی تھی مگر وہ دھاڑ کر سرخ عتاب ذدہ آنکھیں گاڑے ایک ہی لمحے میں اسکی بازو جکڑے جنجھوڑ چکا تھا۔

منہا کی آنکھ سے اس سفاکی اور بے رحمی پر اک آنسو بہہ نکلا۔

"تم مجھ سے میری جان لے گئی تو میں اتنا ظلم بھی نہ کروں، مجھے بتاو منہا میرا بچہ تمہارے پاس کیسے آیا۔۔۔۔۔ حارث کو کیسے جانتی ہو تم"

وہ اس لڑکی کے آگے اس بار بکھر سا گیا، منہا نے ناگواری سے یہ نام سنے اپنی بازو جھٹکی۔

"اسی حارث سے کیوں نہیں پوچھ لیتے کہ کیا رشتہ ہے اسکا منہا سلطان کے ساتھ، میں آپکو کوئی جواب نہیں دوں گی۔ اور احد آپکا بیٹا ہے یا نہیں اسکا دو دن تک فیصلہ ہو جائے گا۔ اسکے بعد وہ آپکو مل جائے گا۔۔۔۔ اب آپ جا سکتے ہیں، نہیں تو میں چلی جاتی ہوں اللہ کی بہت بڑی زمین ہے"

اپنی بازو بے دردی سے جھٹکتی وہ عباد کو پرے کرتی وہاں سے چلی گئی اور وہ بال جکڑے گہرے سانس بھرتا وہیں درخت کا سہارہ لے پایا۔

وہ وہیں صحن میں لگی کرسی پر سر جکڑے بیٹھا تیز تیز سانس لینے لگا، کب منہا اس سے نظر بچائے داخلی دروازے سے اس گہری شام کے وقت نکل گئی اسے خبر نہ ہوئی۔

کوئی آدھا گھنٹہ ہی گزرا تھا کہ عباد کو لگا کوئی اسکا شانہ بری طرح ہلا رہا ہو۔

وہ غائب دماغی سے سر اٹھائے دیکھنے لگا۔

سامنے اذیت شکل پر سجائے حارث کھڑا تھا۔

"م۔۔۔مجھے معاف کر دیں لالہ۔۔۔۔۔م۔۔میں آپکے پیر پڑتا۔۔۔۔ م۔۔مجھ سے بہت بڑا گناہ ہو گیا۔۔۔۔"

وہ سسکتا ہوا عباد کے قدموں میں ڈھے گیا مگر عباد کو لگا آوازیں سُن سی ہو گئی ہوں۔

اسکے دل کو لگا کوئی کاٹ رہا تھا۔

"اس دن میں نے آپکے بیٹے کو ہوسپٹل سے چرایا اور لے جا کر ک۔۔۔۔کچرے پر پھینک دیا۔۔۔۔۔۔م۔۔۔میں نے پھینکا تھا ان ہاتھوں سے اسے مگ۔۔۔مگر وہ لے گئی۔۔۔۔ وہ روتی ہوئی چھوٹی سی غریب لڑکی اسے کسی خزانے۔۔۔۔۔خزانے کی طرح لے گئی۔

م۔۔۔مجھے پکا پتا ہے وہ مر ۔۔۔۔مر گیا ہوگا۔۔۔۔وہ ٹھیک نہیں تھا اسکی سانس اکھڑی ہوئی تھی۔۔۔۔۔م۔۔میں نے پھر بھی اسے پھینک دیا۔ لیکن وہ لے گئی جسکا سیکچ بنوایا۔۔۔۔۔۔لالہ آپ بھلے میری جان لے لیں لیکن مجھے عذاب سے نکال دیں۔ ۔۔ مم۔۔میں قاتل ہوں آپکے بیٹے کا۔۔۔۔۔۔اپنی ماں کے کہنے پر میں جانور بن گیا۔۔۔۔۔۔ اس لڑکی سے پو۔۔۔پوچھیں جو اسے لے گئی اپنی کسی قیمتی چیز کی طرح۔۔ یہ بھی نہ سوچا کہ اسے وہ بستی والے نکال دیں گے۔۔لوگ اسکے ک۔۔کردار پر انگلیاں اٹھائیں گ۔۔۔گے"

حارث بولتا گیا اور عباد حشمت کیانی دیکھتے ہی دیکھتے زمین میں دفن ہوتا گیا، اسکی آنکھوں سے بہتی نمی اسکی بیرڈ میں جذب ہوتی گئی اور اسے لگا آوازیں آنا بند ہو گئی ہیں۔

ہڑبڑا کر اٹھتا وہ حارث کو دھکیل کر پیچھے دھکا دیتا اندر کی جانب بڑھا مگر در درودیوار سنسان پڑے منہا کے چلے جانے کی خبر دیتے عباد پر مزید قیامت ڈھا گئے۔

لوئینگ ائیریا میں دھرے ٹیبل پر کتاب تلے دھری چٹ کانپتے ہاتھوں سے نکال کر وہ اپنی کرب ذدہ سانس کھینچ گیا۔

"جلد آوں گی احد کے آپکی اولاد ہونے کی یقین دہانی کے ساتھ اور اپنے دادا کو لینے، ہمارا ساتھ یہیں تک تھا عباد حشمت کیانی"

وہ تحریر عباد کے جسم سے روح نکال گئی، وہ وہیں تڑپتا سسکتا صوفے پر لڑھک گیا۔

آج اتنا درد تھا کہ اسکا نامراد سینہ پھٹنے کے دہانے پر آگیا تھا۔

اسے لگا منہا نہیں گئی، بلکہ قیامت آگئی ہے۔

وہ گھر سے نکل تو آئی تھی مگر اس اندھیاری شام کے رات میں بدلنے میں سسکتی روتی وہ سڑک کے کنارے چلتی بس اپنی محبت پر رو رہی تھی۔

اردگرد کا اندھیرا اس اندھیرے سے دب گیا جو اس آزمائش نے اسکی پُربہار ذات کے اندر جمع کر دیا۔

وہ آنسو دباتی خود کے گرد چادر مضبوطی سے جکڑے چلتی جا رہی تھی، بنا کسی منزل کا تعئین کیے۔

کیونکہ منہا جان چکی تھی وہ اس بار ایسی ٹوٹی ہے کہ اسکے ٹکڑے کرچی کرچی زمین پر بکھر گئے ہیں۔

"اس سے بہتر تو وہ اندھیرا تھا جس میں کم از کم میں خود کو تو دیکھ لیا کرتی تھی، میرے ساتھ یہی ہونا چاہیے تھا۔ کیونکہ میں نے محبت کی اور محبت کرنے والوں کو ایسے ہی روند دیا جانا چاہیے"

وہ چیخ رہی تھی مگر صرف خود تک، اسکی آواز گلے میں گھٹ گئی تھی۔

اسے اس وقت حور ہی یاد تھی اور خود حور رات کے اس وقت منہا کو یوں اچانک دروازے پر دیکھ کر خوش تو ہوئی مگر اسے پریشان حال دیکھ کر فکر مند بھی ہوئی۔

مگر منہا نے یہاں صرف دو دن رہنے کی درخواست کی اور دادا کے بارے یہی بتایا کہ وہ کسی پرانے رشتہ دار کے پاس ہیں اور وہ یہاں کسی کام سے آئی ہے۔

حور اور اسکی والدہ نے بھی دل و جان سے اسے دو دن تو کیا اسکی مرضی کے مطابق جب تک مرضی رہنے کا کہا تھا۔

حور خود اسے کمرے میں بھی لائی، اور اپنے ہاتھ کی بنی بریانی بھی کھلائی۔

بھوک تو منہا کی مر گئی تھی مگر رپورٹس آنے تک اسے ہمت سے اور صبر سے یہاں رہنا تھا۔

فون اپنا وہ گھر ہی چھوڑ چکی تھی تاکہ عباد اسے ڈھونڈ نہ سکے۔

دوسری طرف عباد نے اپنے لوگوں سمیت زین تک کو ہر کام چھوڑے منہا کی تلاش پر لگا دیا تھا۔

وہ اسے یوں کانٹوں پر رینگتا چھوڑ کر کیسے جا سکتی ہے یہ دکھ اسے کاٹ رہا تھا۔

سرور کے بھی اریسٹ وارنٹ آچکے تھے تبھی زین آدھی ٹیم کے ساتھ اس طرف بھی روانہ ہو چکا تھا جبکہ حارث کی سزا کا فیصلہ عباد نے بعد پر رکھے فی حال اسے اپنی نظروں سے کوسوں دور رہنے کی دھمکی دی تھی۔

اس وقت اس کے لیے دنیا جہان میں سب سے اہم منہا تھی جو اسے جلتا چھوڑ کر خود چھپ چکی تھی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"میں نے سوچا آیا ہوں تو سارے معاملات خود دیکھوں، ایک دو بھینسیں بیمار ہیں بس انہی کے علاج پر اتنا وقت لگ گیا، ڈاکٹر دیکھ کر گیا ہے۔ یہ کھوتا تو بچاری بھینسوں کو مروانے پر اترا ہے، معراج پتر فارم ہاوس کی ذمہ داری تجھ پر تھی۔۔۔۔۔۔ آج تو بخش رہا ہوں مگر آئیندہ ایسی دھلائی کروں گا کہ سواد آجائے گا۔۔۔۔۔"

وہ ابھی ہی آیا تھا، نہا دھو کر پھر سے سیاہ میں لپٹا فاطمہ صاحبہ سے مخاطب تھا ساتھ میں معراج کے بھی کان دبوچے جس پر وہ آگے سے مسکین بنا بتیسی کی نمائش کر رہا تھا خود فاطمہ دونوں کے جانگلیوں والے لاڈ پر مسکرا دیں۔

"ویرو قسمے کل تک تو ٹھیک تھیں، پا منظور بہت خیال رکھتا۔۔۔۔ انہوں نے سوچا ہوگا سراج ویرو آرہے تو زرا ہم بیمار پڑ کر نخرے اٹھوا لیتیں"

پورا آفت کا گولا آگے سے منہ بگھاڑ بگھاڑ کر شرارت سے جو بولا خود سراج مسکراہٹ روک نہ سکا تبھی اگلے ہی پل بچہ ویرو کی پتھر جیسی بازووں میں دبوچا جا چکا تھا۔

"دیکھ رہی ہیں ماں یہ کھوچل ہو گیا ہے، مشکریاں کر رہا بڑے بھائی سے"

سراج بھی پیور پینڈ والا لہجہ لیتا شکائیتی بنا اور فاطمہ صاحبہ تو اپنے بچوں پر واری جا رہی تھیں۔

فاریہ کچھ دیر پہلے ہی سونے کا کہے کمرے میں گئی تھی اور سراج اسکے بعد آیا تھا اور اب وہ خود تھکا تھا۔

عباد کو کافی کالز ملائی تھیں مگر رابطہ نہ ہو سکا تھا۔

"ویرو آپکو پتا آج فاریہ باجو نے میرے ساتھ کرکٹ بھی کھیلا اور ہم جیت بھی گئے ۔ میری تو دو دو بہنیں ہو گئیں ایک منہا باجی اور دوسری فاریہ باجو۔۔۔۔"

معراج کی معصومیت اورخوشی پر خود سراج نے متاثر کن ہوئے مسکرا کر ماں کی طرف دیکھا جو خود جی جان سے نثار سا مسکرائیں۔

معراج کے بال بکھیرتا وہ ساتھ ہی والدہ کا سر چومتا انھیں آرام کا کہتا خود بھی کمرے میں آیا۔

دروازہ نیم وا کیا ہی تو حدت سی روح کو سکون دے گئی، کمرے میں آتش دان میں رکھے کوئلوں کے جلنے سے کافی گرمائش ہو چکی تھی اور وہ تب مسکرایا جب نظر صوفے پر ہی بیٹھے بیٹھے سو جاتی فاریہ پر پڑی۔

دن بھر تو وہ مشرقی لباس پہن کر رہی مگر اس وقت وہ اپنے ٹراوز شرٹ میں پہلے جیسی بانکی اور نازک سی لگ رہی تھی اور اسکی یہ غلفت تو سراج علی کی ویسے ہی جان لے گئی۔

آہستگی سے بنا آہٹ کرتا وہ فاریہ تک پہنچا اور بہت احتیاط سے اسکے سر کے نیچے ہاتھ رکھے اگلے ہی لمحے بازووں میں بھرے مڑ کر بیڈ تک آیا اور اسکی کسمساتی بیداری پر مسکرائے اسکا سر تکیے پر رکھے لٹائے وہیں جھکا ہی مسکرایا کیونکہ وہ آنکھیں کھولے یہ سمجھنے کی کوشش میں تھی کہ یہ خواب ہے یا حقیقت۔

"تمہیں جگانے کی نیت نہیں تھی، وہاں تم بے آرام تھی"

فاریہ کے بوکھلائے چہرے سے نظر ہٹاتا وہ وضاحت دیتا خود بھی اٹھ کر بیٹھ جاتی فاریہ کے پاس ہی بیٹھا جو دم سادھے بس اپنی کچھ دیر قبل اہمیت کو سوچ رہی تھی۔

"اٹس اوکے، میری نیند ایسی ہی ہے"

زرا پرے کسک کر وہ سراج کے ٹھیک سے بیٹھنے کے لیے اسکے سائز کی جگہ بناتی بنا نظر اٹھائے ہی بولی اور وہ فاریہ کے سمٹے سمٹے انداز دیکھ کر مسرور ہوا۔

"سنا ہے خوب انجوائے کیا ہے معراج کے ساتھ، لیکن میں تو تھک گیا ہوں آج"

فاریہ کا مرمریں ہاتھ اپنے ہاتھ میں جکڑے وہ اسکی اور جھک کر بولا اور فاریہ نے چار و ناچار رخ موڑے سراج کو دیکھا، وہ واقعی تھکا لگ رہا تھا۔

"میں کونسا تمہارے اوپر پہاڑ لاد رہی جو تھکن کے رونے رو رہے ہو"

دبک کر غراتی وہ ناچاہتے ہوئے خود بھی تب مسکرا دی جب سراج کی ہنستی آنکھیں دیکھیں۔

"ہنسی کیوں"

اسکے نظر چرانے سے پہلے ہی وہ اسکا چہرہ اپنی سمت موڑے بے حد قرین ہوئے مسکرایا، فاریہ نے بھینی بھینی مسکراہٹ فوری دبائی۔

"تم جوکر ہو اور میں تمہیں دیکھ کر ہنسی"

فوری چہرہ چراتی وہ شرارت سے بولی مگر اب اتنے اچھے موڈ کا وہ کیسے کباڑا کر دیتا۔

کسی ابر کی مانند وہ فاریہ کی اور جھکا اور وہ خود بھی سراج کے اس اچانک دل دہلانے پر بیڈ کی پشت سے جا لگی۔

اسے لگا وہ اب تک جو جیتی آئی ہے سراج علی کی مستعار سانسیں تھیں جو آج وہ اتنے قریب آکر واپس لینے پر آمادہ ہو۔

"مانتا ہوں محبت ہو میری لیکن سوری ٹو سے جوکر وکر نہیں ہوں ، نہ چاہتا ہوں تم مجھے دیکھ کر ہنسو۔۔۔۔۔ میں چاہتا ہوں تم میری محبت میں مسکراو، آج بہت پیاری لگ رہی تھی فاریہ سراج علی۔۔۔۔۔ میرے سارے درد اور تلخیاں تمہارے اس فدائی روپ نے جذب کر لیں"

جذبات کی آنچ سے سلگتے لفظ ادا کرتا وہ اس بے جان ہو جاتی فاریہ کے بہکاتے خدوخال کی جانب بڑھا، نرماہٹ اور تشنگی کے جذبات محسوس کرتی وہ آنکھیں بند کیے بس قبول کرتی رہی، پورے وجود میں اتر آتی لرزش اس ہم سخن نے جذب کی، اتنی گہرائی تک وہ اسے چھو آیا کہ جب آنکھیں کھلیں تو فاریہ کی پلکیں صدمے سے گری اور آنکھیں بھرپور جذبات کی فراوانی سے بھینچی تھیں۔

نیم کھلے پھول کی پتیوں سے ملائم ہونٹ جنھیں وہ گہرے گہرے سانس بھرتی دانتوں تلے دبائے اس جادوگرد کی ہوش ڈگمگاتی نگاہوں سے بچ نکلنے کو چھپا لیتی پہلو بدل گئی۔

مگر وہ اسے پھر سے اپنے حصار میں بھرے پرسکون ہو گیا تھا، مگر وہ دھڑکن کے شور سے بے حال تھی۔

"تم مار ڈالو گے مجھے"

گہرا سانس بھرتی وہ اپنے گرد بندھے سراج کے بازو پر اپنا ہاتھ نرمی سے رکھتی منمنائی اور جناب کے ہونٹوں پر نرم سی مسکراہٹ تہلکہ مچا گئی۔

"میں تمہیں ہر وقت اسی گہرائی سے قریب تر محسوس کرنا چاہتا ہوں تاکہ میرے چہرہ گنوا بیٹھے احساسات زندگی پا جائیں۔ میرے اندر خواہشیں جاگ جائیں، تم سوچ بھی نہیں سکتی فاریہ کہ اگر میں تم پر اپنی بے پناہ شدتوں کا اک قطرہ بھی لٹاوں تو تم سہہ نہ سکو گی۔۔۔۔۔"

اپنی پشت سے لگے سراج کے دل کی دھڑکن ہو یا کانوں کی اور رس گھولتی اس جنونی سرگوشی کی بازگشت، فاریہ کو محسوس ہوا اسکے اندر اک الگ ہی سکون اتر گیا ہو۔

جو بس سراج علی کے ہونے سے ممکن تھا مگر وہ جتنی بے باک ہو جاتی، سراج علی سے اس معاملے میں مقابلہ کرنے میں بہت ناکام تھی۔

"مت کرو ناں، تمہارے لفظ بھی جان لے رہے سراج علی۔۔۔۔۔تمہارا یہ سحر مجھ پر بہت بھاری ہے"

سرد پڑتی وہ اس شخص کے ہونے تک سے بوکھلائی تھی اور بھلے موہوم سہی پر وہ اظہار دے کر شدتوں کا رخ اپنی سمت کر بیٹھی۔

"اب میرا دل دھڑک رہا ہے فاریہ، سو تمہیں بھی دھڑکنا ہوگا۔۔۔"

اس مومی گڑیا کو ایک ہی جھٹکے سے اپنی سمت رخ کرواتا وہ خمار میں لپٹا فاریہ کے حواس اڑا چکا تھا، وہ واقعی زرد پڑ گئی۔

"س۔۔سراج "

وہ اسکی شدت پسندی سے بنا ملے ہی خوف کھا بیٹھی مگر سراج علی نے اسکے سارے اعتراضات رد کیے اسکی خوشبو اپنی نس نس میں رواں کرنے کو دھڑکنیں روک دیں، ہر تھکن کہیں دو جا کر مفقود ہوئی۔

سردیوں کی یہ رات، اس حدت بھرے کمرے میں اب ان دو کی سانسوں کے تار بجنے لگے تھے، وہ چاہتا تھا اسے تھوڑی سی حق دار شدت سے ملوائے اور شاید آج خود سراج علی کا دل بے ایمان ہوئے بہکا تھا، اس وجود اور دل کے ہر انگ پر وہ حاکم تھا مگر آج معاملہ بس دھڑکنیں بڑھانے تک ہی رہا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

رات کی اس بھیانک تاریکی میں جب وہ درندہ صفت خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا، عین اسی وقت وہ کسی خوف اور صدمے سے اس ٹھنڈے یخ موسم میں بھی اٹھ بیٹھا، اسکا پورا وجود پسینے سے شرابور تھا۔

یکلخت کسی انہونی کا احساس اسکے حواس جنجھوڑ چکا تھا، اسی لمحے اسکے دو باڈی گارڈز تیزی سے لپک کر اندر آئے تھے۔

سرور حسین کی اگلی سانس حلق میں ہی دبی اور وہ بمشکل سانس لیتا اٹھا۔

"سائیں پولیس نے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے، وہ کہہ رہے ان کے پاس اریسٹ وارنٹ ہے آپکا"

ڈرتے ہوئے وہ گارڈ اطلاع دیتا منمنایا، خوف سے وہ زرد ہوتے تیزی سے باہر لپکا، اپنے تمام آدمیوں کو مزاحمت پر لگائے خود گھر کے خفیہ اور پچھلے دروازے کی سمت دوڑا۔

دو آدمی سرور کے ساتھ موجود تھے۔

"تو میرا شک سہی تھا، وہ جو چپ تھا اس کےپیچھے قیامت خیز شر مخفی تھا۔ تم سب لوگ یہاں سنبھال لینا مجھے نکلنا ہوگا"

اپنے گرد بھوری چادر اوڑھے گن لوڈ کر کے اپنی پتلون میں دیے وہ اس خفیہ تہہ خانے سے باہر نکلا، پولیس کے لوگ مسلسل فائرنگ کر رہے تھے۔

"سائیں دھیان سے"

شاکر نے اس اندھیارے تہہ خانے میں سرور کے جاتے ہی احتیاط کرنے کی تاکید کی اور وہ راستہ سرور حسین کے گھر سے کافی دور پچھلی طرف کچی زمین کی سمت کھلتا تھا جہاں جھاڑیاں تھیں۔

جب تک شاکر اپنے لوگ لیے باہر نکلا، پولیس کے اہل کار مزاحمت تباہ کرتے اندر گھس چکے تھے اور زین نے انکو شرافت سے اپنی اپنی گنز نیچے پھینک دینے کی وارننگ دی تھی۔

"کہاں ہے تمہارا وہ خبیث باس سرور حسین"

گن شاکر پر تانے زین نے حقارت سے استفسار کیا جس پر شاکر انجان بنا منہ پر منصوعی خوف لے آیا۔

"وہ تو یہاں نہیں ہیں سرکار"

شاکر کی منمنا کر بتائی اس بات پر زین نے لپک کر اسے گریبان سے دبوچا اور چار اہل کاروں کو حویلی کی تلاشی کا اشارہ کیا۔

"وہ اگر زمین میں بھی جا کر دفن ہو گیا تب بھی اب قانون کی گرفت سے نہیں بچے گا، بھگوڑا کہیں کا ۔۔۔۔۔۔ ان سب کا اسلحہ اپنی گرفت میں لو اور لے چلو ان منحوسوں کو تھانے۔۔۔۔تم سب کا گن گن کر اختساب ہوگا اور تمہارے اس سرور کا بھی"

گریبان سے دبوچے زین اسکی منصوعی مسکین شکل ناگواری سے تکتا اسے باقاعدہ دھکا دیتے غرایا۔

وہاں لگ بھگ دس کے قریب لوگ پولیس نے اپنی حراست میں لیے مگر کافی دیر کی تلاش کے بعد خالی ہاتھ آتے اندر سے وہ دو اہل کار دیکھ کر زین نے جبڑے بھینچ ڈالے۔

آنکھوں میں لہو اترا۔

"وہاں ایک تہہ خانہ تھا، وہ مردود وہاں سے فرار ہو گیا۔ وہ دو گئے ہیں پیچھے مگر لگتا ہے ہم ایک بار پھر ناکام ہو گئے سر"

زین کی سلگتی صورت اور انداز دیکھ کر اسکا ساتھی ایک بار پھر اسے ناکامی کی اطلاع دے رہا تھا مگر زین اس بار ہار نہیں سکتا تھا تبھی وہ لوگ فوری وہاں سے نکل گئے۔

زین کی دوسری ٹیم عین اس جگہ پہنچ چکی تھی جہاں فاضل گوجا کو دیکھا گیا تھا مگر وہ لوگ تب تک حملہ آور نہیں ہو سکتے تھے جب تک زین انھیں آرڈر نہ کرتا۔

اپنے کچھ لوگوں کو تھانے بھجوائے خود وہ جنگل نکل چکا تھا، وہاں موجود زین کے لوگ پہلے ہی اس خفیہ جگہ دوربین سے گھات لگا کر بیٹھے تھے۔

غیر محسوس طور پر فاضل گوجا کے تین چار سانڈ نما غنڈے اس جگہ کے اردگرد منڈلا رہے تھے، جنکی جسامت دیکھ کر خوف آنا فطری تھا۔

"پکی خبر ہے ناں کہ وہاں وہ موجود ہے"

ائیر فون سے ابھرتی زین کی آواز اس دوربین پکڑ کر کچھ فاصلے آگ کی روشنی میں نظر آتے اڈے کو دیکھتے شیراز نامی آدمی کو سنائی دی۔

"جی سر دو دن سے ہمارے کئی مخبر کھوجی کھروں کے پیچھے مسلسل اس کی تلاش میں تھے، اس کا ایک طریقہ کار ہے کہ یہ ایک دن ہی ایک جگہ قیام کرتا ہے ۔ جسکی وجہ سے فاضل گوجا کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہوتا"

زین کو مقابل سے ملتی خبر سلگا گئی تھی، اپنی اتنے دن سے ہوتی ناکامی اب وہ کامیابی میں بدلنے والا تھا دوسری طرف وہ منہا کے پیچھے اردگرد ڈھونڈنے نکلنے والے آدمیوں سے بھی رابطے میں تھا مگر اردگرد آس پاس کہیں بھی منہا کا نام و نشان ناں تھا، یہاں تک کہ زین نے قریبی ہوسپٹل تک چھاننے کا حکم دیا تھا۔

عباد کی اذیت کم نہیں ہو رہی تھی، کانٹوں پر وہ یہ ایک ایک لمحہ گزار کر ہلکان تھا۔

دوسری طرف زین نے پہنچتے ہی اپنے آنے کی اطلاع دے دی تھی، وہ لوگ تعداد میں بہت زیادہ تھے تبھی زین نے اپنی دونوں ٹیمز کے ساتھ ہی فاضل گوجا کو پکڑنے کا فیصلہ لیا تھا۔

یکدم ہی ہوتی اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں فاضل گوجا کے لوگ بھی اچانک گھیرے میں آجانے پر بوکھلا کر فائرنگ کرنے لگے، خود فاضل گوجا کے حواس بپھرے، ایک بار پھر پولیس کا یہ اسکے بقول ایفیشنٹ آفیسر اس تک پہنچنے میں کامیاب تھا۔

وہ جانتا تھا اسکا کھیل ختم ہے پھر بھی آخر دم تک وہ لوگ فائرنگ کرتے رہے اور جب فاضل گوجا کے تمام لوگ مارے گئے تو چاروں طرف سے گھیرے میں لیتے پولیس کے لوگوں کو دیکھ کر وہ سن ہو گیا۔

خود زین بھی اپنی بھڑاس نکالنے کے بعد ہی اس منحوس کو تھانے لے جانے والا تھا۔

سب سے پہلے تو اس سے گن پھنکوائی اور عین اسکی بے خوف آنکھوں میں دیکھتا وہ اسکے سامنے آیا۔

"بہت بھاگ لیا تُو نے اور بہت خوار ہو لیا میں بھی، تیری تو"

پوری قوت سے زین نے اس وحشی خبیث کے منہ پر مکا جڑا، شدت اتنی تھی کہ وہ بھاری بھرکم غنڈا اور سیریل کلر دو قدم دور لہراتا زمین پر گرا۔

زین نے یہیں بس نہ کی بلکہ اس پر جھک کر اپنا سارا غصہ پہلے اتارا اور اسکو لہو لہان کیے اپنے لوگوں کے ساتھ گاڑی تک بجھوایا خود وہ اس جگہ کی دو لوگوں کے ساتھ تلاشی لینے لگا۔

پیسوں کا بھرا بیگ برآمد ہو چکا تھا اور یہاں کا کام مکمل کرتے ہی وہ عباد کو کال ملا چکا تھا جو اذیت میں لان میں راہداری پر ہی بال جکڑے بیٹھا ماتم میں تھا۔

فون بجنے پر وہ ہڑبڑا کر کال ریسو کیے اٹھ کھڑا ہوا۔

"آپکی بیوی گل مینے کا قاتل پکڑا گیا ہے لیکن افسوس کہ سرور فرار ہو گیا، مگر زیادہ دن وہ چھپ نہیں سکے گا"

عباد کی سماعت اس سب کو سن کر جل گئی، وہ تو صرف منہا کی خبر کے لیے تڑپ رہا تھا۔

"اور منہا"

عباد کے سوال میں اسکی کیفیت کا درد سمٹ گیا۔

"اسکا کچھ پتا نہیں چلا عباد صاحب، وہ یقینا اگر پیغام چھوڑ کر گئی ہیں تو کسی محفوظ جگہ ہی ہوں گی۔ آپ کو دو دن انتظار ہی کرنا ہوگا۔ باقی میرے لوگ پھر بھی اپنے تئیں تلاش کر رہے ہیں"

اپنی سمت سے وہ بات ختم کرتا کال بند کر چکا تھا مگر عباد سے سانس لینا محال تھا۔

اسکے پورے وجود میں ٹیسیں اٹھ رہی تھیں، دل چاہ رہا تھا وہ اپنا درد کرتا سر کچل دے۔

منہا خود نہیں جانتی تھی کہ اس نے عباد حشمت کیانی جیسے مضبوط انسان کو پچھاڑ کر رکھ دیا ہے۔

کھڑکی سے لگ کر سامنے آنکھوں میں اترے اندھیرے سے انھیں روشن کرتی وہ تکلیف میں تھی، اک ایسی تکلیف جو اسکے اندر ہلچل مچا رہی تھی۔

یہاں وہ آتو گئی تھی مگر اسکا دل عباد کی تکلیف محسوس کرتا بے حال تھا۔

"وہ تڑپ رہے ہوں گے منہا، لیکن۔۔۔۔"

گہری سانس بھرے وہ خود کو کوس رہی تھی مگر پھر یکدم عباد پر موجود غصہ شدت پکڑ گیا۔

"ایک تو مجھ سے اپنی پہلی شادی اور بچے کی حقیقت چھپائی اور پھر مجھے جھوٹا اور فریبی کہا، معاف نہیں کروں گی"

زرا دل پگھلا تو وہ پھر بے رحم بن گئی۔

دوسری طرف افضل گوجا کو سیدھا انویسٹیگیشن روم میں لایا گیا تھا، اس کی سفاک شکل پر نفرت اور زبان پر قفل تھا جسے توڑنے کی زین ہر تدبیر جانتا تھا۔

اگلا دن چڑھ آیا، یہاں تک شام سے رات چھا گئی مگر عباد کسی کی کال نہیں لے رہا تھا، بلکہ خود سراج اب اسکی اس خاموشی پر پریشان تھا۔

"کچھ گڑبڑ ضرور ہے، مجھے جانا ہوگا فاریہ۔ تم بھلے یہاں رہو یا حویلی چلی جانا۔ بھائی کال کاٹ رہے ہیں یقینا وہ کسی بڑی مشکل میں ہیں"

اگلی رات ہی سراج کا یہ فیصلہ جہاں فاطمہ صاحبہ کو پریشان کر گیا وہیں فاریہ بھی اسکے جانے پر بے قرار تھی۔

"م۔۔مجھے بھی لے جاو پلیز، میں یہاں نہیں رہ سکتی"

فاریہ کے تاسف سے درخواست کرنے پر وہ اپنا فون، گن اور گاڑی کی چابی لیتا اسکی جانب پلٹا جو اسے جانے نہیں دینا چاہتی تھی۔

"کچھ دن یہاں رہو تم، اپنی دادی کے ساتھ وقت گزارو۔ وہاں اگر تم میرے ساتھ وقت گزارنے کی نیت سے جانا چاہتی ہو تو میرے پاس وقت نہیں ہوگا۔ جیسے ہی وہاں کے معاملات تسلی بخش ہوں گے تم آجانا"

فاریہ کی بیقرار صورت تکتا اسکی گال سہلائے وہ اسے نرمی سے قائل تو کر گیا مگر ناجانے کیوں وہ سراج علی کو جانے نہیں دینا چاہتی تھی، جیسے وہ اس کے دور ہو جانے پر تڑپ سی گئی ہو۔

"پلیز سراج علی"

اس بار وہ اسکے سینے میں چھپ کر منمنائی، خود وہ اسے یہاں چھوڑ کر جانے پر مطمئین نہ تھا تبھی کمر سہلاتا اسکے روبرو ہوتے ہی سر ہلائے مسکرایا۔

"تھینک یو۔۔۔ میں ابھی چینج کر کے آتی۔۔۔تم رکو"

خوشی کے سنگ وہ اسے دیکھتی پلٹ گئی، دس منٹ تک ریڈی ہوئے وہ باہر نکلی۔

فاطمہ اور معراج دونوں ہی انکے جانے پر اداس تھے پر وہ والدہ کو تسلی دیتا جلد آنے کا کہہ کر نکلا تھا۔

لمبا سفر تھا اور اس سفر کے اختتام تک سحر ہو گئی تھی۔

وائیٹ پیلس پہنچتے فاریہ تو سیدھی اندر کمرے کی جانب لپکی البتہ سراج سیدھا گارڈ کو گاڑی کی چابی دیتا عباد کا پوچھتے اسکے روم کی جانب بڑھا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"تم کہاں تھی فاریہ"

فاریہ ابھی اپنے کمرے کے باہر پہنچی تھی کہ حارث کی آواز پر بیقراری سے پلٹی، بھائی کی یاداشت آنے کی خوشی پر وہ لپک کر اسکے گلے لگی۔

"آپ ٹھیک ہو گئے۔۔۔۔۔ لالہ آپ"

وہ خود پلکیں بھگو بیٹھی مگر حارث اسکا ہاتھ پکڑے اپنے کمرے کی سمت بڑھا۔

وہ بھی اسکے ساتھ چلتی ہوئی مضطرب ہوئے عین کمرے میں جا کر رکی اور روبرو ہوئی جو بہت تھکا اور اذیت میں ڈوبا لگ رہا تھا۔

"فاریہ میں نے سب بتا دیا عباد کو، اس روز میں نے تم سے جھوٹ کہا تھا کہ میں نے اس بچے کو ٹھکانے لگا دیا"

حارث کی یہ غیر یقین بات سن کر فاریہ کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید ہوا۔

"م۔۔مطلب"

فاریہ کے ہونٹ کپکپائے، آنکھوں میں خوف اترا۔

"میں نے اسے مرنے کے لیے پھینک تو دیا تھا پر اسے وہ غریب لڑکی لے گئی۔ میں یاداشت واپس آتے ہی اس جگہ گیا، لیکن وہاں سے پتا چلا کہ اس لڑکی کو اسکے دادا اور اس بچے سمیت بستی سے نکال دیا گیا تھا۔ میرے پاس اور کوئی چارہ نہ تھا، میں نے یہ سب عباد کو بتایا تو اس نے مجھے بس نظروں سے دور ہونے کی سزا دی۔۔۔۔ عباد بہت تکلیف میں تھا، وہ اس وقت سے اب تک تکلیف میں ہے"

حارث کے ڈر اور خوف کے باوجود پریشانی میں لپٹے لفظ فاریہ کا دل دہلا گئے، بمشکل بیڈ کا سہارہ لیے وہ آنکھوں میں اتر آتی نمی دبائے بیٹھی۔

"مطلب عباد کا بیٹا زندہ ہے، دادا۔عباد کی تکلیف۔۔۔۔ ک ۔۔کہیں وہ لڑکی منہا تو نہیں"

پہلا انکشاف جہاں فاریہ کی ہستی ہلا گیا وہیں وہ ان ملتے جلتے معاملات پر حیرت سے آنکھیں پھاڑے اٹھ کھڑی ہوئی۔

خود حارث اس تک پہنچا جیسے جاننے کو بیقرار ہو۔

"کون منہا؟"

حارث نے فوری استفسار کیا تبھی فاریہ نے اپنا فون آن کیے اس میں سے معراج کی بنائی تصویریں کھول کر منہا کی تصویر تلاشنی چاہی، اور ایک مل بھی گئی۔

فون کی سکرین حارث کے سامنے کرتی وہ دم سادھ گئی۔

"یہ تھی کیا وہ لڑکی؟"

فاریہ سانس روکے بولی، حارث نے اسکا فون لے کر غور سے اس لڑکی کو دیکھا، وہ بہت بدل گئی تھی مگر حارث اسے ہزاروں میں پہچان سکتا تھا۔

"ہاں۔۔۔ہاں فاریہ یہی تھی۔۔۔ کہاں ہے یہ اسکے پاس ہی عباد کا بیٹا ہے"

حارث کا جواب سن کر فاریہ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور شاید اتنی خوشی تو آج اسے پہلی بار محسوس ہوئی۔

"لالہ یہ عباد کی دوسری بیوی منہا ہے، یہاں پیلس میں کچھ وقت پہلے ہی کام کے لیے آئی تھی۔ اسکے پاس اسکا احد ہے اور وہی احد اس گھر کا وارث ہے۔۔۔۔ لالہ ہم اس گناہ سے بچ گئے، عباد کا بیٹا اسی کے پاس ہے لالہ"

خوشی کی زیادتی سے فاریہ کی آنکھیں نم اور آواز کانپ رہی تھی اور حارث پتھر کا مجسمہ بنا یہ سب سن کر ساکت تھا۔

"تم س۔۔سچ کہہ رہی ہو۔۔۔ تو پھر عباد کی تکلیف کی کیا وجہ تھی؟"

حارث کو اس نئے سوال نے بیقرار کیا۔

"وہ میں پتا لگوا لوں گی۔۔۔ فی الحال آپ ریسٹ کریں۔ اور ایک بات، مما کو یہ سب پتا نہ چلے۔۔۔ ایک اور سچ بھی سن لیں، میرا بھی سراج سے نکاح کروا دیا عباد اور دادو نے۔۔۔۔۔ اور مجھے سراج علی ہی سے محبت تھی، مما نے مجھے غلط راہ دیکھائی تھی۔۔۔ لہذا جب تک سب ٹھیک نہیں ہوتا یہ سب انکو پتا نہیں چلنا چاہیے"

وہ جو پہلے ہی صدمے میں تھا، فارئہ اسے یہ سب کہہ کر مزید ہلکان کر چکی تھی۔

"مجھے بس عباد کی فکر ہو رہی، تم بے فکر رہو کسی سے کچھ نہیں کہوں گا۔۔۔۔ لمبے سفر سے آئی ہو جا کر تم بھی ریسٹ کرو"

مطمئین کرتا وہ اسے نرمی سے بھیج کر خود بھی گہری سانس کھینچتا بیڈ پر بیٹھا، دل پر دھری سل ہٹ گئی تھی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"ناقابل یقین۔۔۔۔۔"

عباد پر ٹوٹتی قیامت کا ادراک پائے وہ خود پتھرا گیا، یہ کیسا امتحان تھا کہ وہ پہلی بار عباد حشمت کیانی کو یوں بکھرا ہوا دیکھ کر بھی سمیٹنے پر قادر نہ رہا۔

اس وقت اسے عباد گھن کھایا زینہ ہی معلوم ہو رہا تھا جو بس کسی زرا سی ٹھوکر پر مسمار ہو سکتا تھا۔

"اگر آپ کہیں تو میں فضل سے پوچھوں، وہی منہا کو لایا تھا ناں۔ تو ہو سکتا اسے پتا ہو منہا کی دوست کا گھر کہاں ہے۔ اتنے بڑے شہر میں وہ یقینا کسی دوست کے پاس ہی گئی ہوگی"

یکدم ہی سراج کو کچھ یاد آیا جس پر عباد نے اپنے ہاتھوں میں جکڑا سر اٹھائے غائب دماغی سے سراج کو دیکھا۔

"ہاں جاو تم، فورا جاو"

عباد اسے کہتا خود بھی مضطرب ہوئے اٹھا، فضل تک سراج پہنچ کر اس سے کچھ پوچھنے کے بعد واپس لان میں ٹہلتے عباد تک پہنچا، صبح کی روشنی پھیل رہی تھی اور اندھیرا بھی مکمل ختم ہو رہا تھا۔

"بھائی وہ کہہ رہا ہے اسے نہیں پتا، اسکی بیوی ہی نے منہا اور حور سے یہ معاملہ طے کیا تھا۔ حور اسکی دوست ہے جو اسکے ساتھ ہوٹل میں کام کرتی تھی۔ میں نے حور کے گھر کا ایڈریس لے لیا ہے۔ آپ پلیز خود کو پریشان مت کریں میں ابھی جاتا ہوں"

اپنی طرف سے عباد کا حوصلہ بڑھائے وہ فورا ہی اس پتے پر نکلا تھا، عباد کے مضطرب ہو کر سراج کو جاتا دیکھنے پر وہ کب چپ چاپ اسکے پاس آکر کھڑی ہوئی کہ آہٹ بھی نہ ہوئی۔

مڑ کر فاریہ کی آزردگی سے اٹی صورت دیکھتا وہ اس سے پہلے جبڑے بھینچتا وہاں سے جاتا، وہ اسکی راہ میں حائل ہو آئی۔

اس وقت عباد کسی سے بات کرنے کی حالت میں نہ تھا مگر یہ لڑکی آنکھوں میں تڑپ لیے اسے رک جانے پر مجبور کر گئی۔

"حارث لالہ کو میں نے وہ ظ۔ظلم ڈھانے کا کہا تھا، میں جانتی ہوں تم مجھے معاف نہیں کرو گے لیکن بھائی کو کوئی سزا مت دینا۔ تم جانتے ہو ناں وہ بھی اس سب سے بدل گئے میری طرح۔ میں تم سے اس گناہ کے لیے معافی مانگنے آئی ہوں عباد"

آنکھوں میں سچی پشیمانی لیے وہ اس وقت اک زخمی شیر کے سامنے التجاء کر رہی تھی جو سراسر بیکار تھا، دل تو عباد کا یہی چاہا کہ ان دونوں سفاک بہن بھائیوں کی جان نکال دے مگر وہ کیا جان نکالتا جسکے پاس خود سانس ہموار کرنے کا اختیار نہ رہا تھا۔

"نہیں فاریہ، اگر منہا نے مجھے چھوڑ دیا تو کسی کو معاف نہیں کروں گا۔ دی جا چکی معافی واپس چھین لوں گا۔ تمہارے اس لوفر بھائی کی سزا اسے ضرور ملے گی اور تم سے بھی کاش سراج علی واپس چھین سکتا۔۔۔۔۔ تم سبکی دشمنی مجھ سے تھی ، میں کٹھکتا تھا آنکھوں میں تو میری جان لیتے۔ میری اولاد پر کیوں ستم ڈھایا۔۔۔۔ یہ تو منہا نہ ہوتی تو تم دو قاتل بن چکے ہوتے میری اولاد کے۔۔۔ میری نظر میں نہ تم دونوں کی کوئی معافی ہے نہ تمہاری اس ڈائن ماں کی عبرتناک موت میں کسی نرمی کی توقع رکھنا۔۔۔۔ "

مشتعل انداز لیے وہ صاف صاف فاریہ کو دیکھ کر دھاڑا، یہاں تک کہ اسکی سرخ وحشت ناک آنکھوں سے فاریہ کو خوف محسوس ہوا۔

"عباد پلیز "

اسکا بہت سے کرب دبا کر دہکتا چہرہ تکتی وہ تاسف سے سسکی مگر وہ اس پر حقارت آمیز نگاہ ڈالتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا۔

فاریہ کو اس وقت اپنا آپ نہایت بے وقعت لگا۔

تو گویا عباد کی یہ حالت منہا کی دوری کے باعث تھی، اسے عباد کی محبت پر بھی دکھ نے آگھیرا۔

دوسری طرف ناجیہ اپنے فون پر بجتی ٹون پر کسمسا کر اٹھی تو ان نون نمبر پر چہرے پر فکر اتری۔

فورا کال پک کی تو دوسری طرف کسی تاریک سٹور جیسے کمرے میں رولنگ چئیر پر بیٹھا سرور تلملاتا ہوا پھنکارا۔

"سب تباہ ہو گیا، فاضل گوجا پکڑا گیا اور یہی نہیں پولیس میری بھی تلاش کر رہی۔ اگر میں پکڑا گیا تو یاد رکھنا ناجیہ تمہارے سارے پول بھی کھولوں گا"

ساری نیند ناجیہ کی آنکھوں سے نوچتا وہ غرایا ، خود ناجیہ کے چہرے کے رنگ بھک سے اڑے۔

"کیا مطلب، آپ مجھے دھمکا رہے ہیں۔ کونسے پول ہاں۔۔۔۔ کتنے سالوں سے تو لوٹ رہے ہیں آپ مجھے اور اپنے کرتوتوں کے باعث پکڑے گئے تو مجھے دھمکا رہے ہیں۔ کیسے ہاں؟ کیسے پکڑا گیا آپکا وہ نکما سیریل کلرر، ناقص کام کر کے پورے دام لے چکے ہیں آپ مجھ سے سرور حسین۔۔۔۔ اگر مجھ پر الزام لگانے کی کوشش بھی کی تو اپنے ہاتھوں جان لے لوں گی"

بھلے وہ ڈری تھی مگر ناجیہ کیانی کو وہ آدمی ہلکا لے رہا تھا اور وہ اب مزید اپنی حد میں نہ رہ سکی اور اس سے زیادہ تضخیک کرتی چینخی۔

مقابل وہ کرسی سے اس تیزی سے اٹھ کھڑا ہوا کہ کتنی دیر کرسی ہچکولے کھاتی رہی، چہرے پر جسم کا سارا لہو سمٹ آیا۔

"واہ ناجیہ صاحبہ، بھول گئی ہو کہ اس روز جب عباد اپنی بیوی کو ہوسپٹل لے جا رہا تھا تو اس پر ہونے والا حملہ تم نے کروایا تھا۔ تم تو ماں اور بچے دونوں کا خاتمہ چاہتی تھی مگر وہ تو جنم دے کر مری۔ وہی بچہ تمہارے بیٹے نے ٹھکانے لگایا اپنی پیاری بہن کے کہنے پر۔ سو دوبارہ اکڑنے سے پہلے یہ سوچ لینا کہ اگر تم نے میری ضمانت نہ کروائی تو تم، تمہاری اولاد بھی جیل کی ہوا کھائے گی۔۔۔۔ میں زیادہ دن چھپ کر اپنا امیج خراب نہیں کر سکتا۔ جلد سامنے آجاوں گا لیکن تم میری ضمانت کرواو گی"

دھمکی دیتا وہ اپنی اوقات پر اتر چکا تھا، ناجیہ نے دانت نکوسے اس دھمکانہ بات کو برداشت کیا۔

"اور اگر فاضل گوجا نے تمہارے خلاف سچ اگل دیا، پھر کیسے ہوگی ضمانت"

ناجیہ نے اپنا لہجہ ہر درجہ نرم رکھے استفسار کیا تو مقابل بے ڈھنگا قہقہہ اسے سلگا گیا۔

"وہ پروفیشنل ہے، بے فکر رہو۔ جب تک وہ سچ اگلنے تک آئے گا میں بری ہو چکا ہوں گا اور پھر اسے مروا دوں گا۔ میرا ارادہ تو اسے مروانے کا تھا مگر اس سے پہلے ہی وہ پولیس کے ہتھے چڑھ گیا۔ اور فاضل کے سوا پولیس کے پاس کوئی گواہ نہیں۔ جب وہ ہی نہیں رہے گا تو کسی کا کوئی راز نہیں کھلے گا۔ لہذا جو میں نے کہا ہے اس پر شرافت سے عمل کرنا"

سرسری وضاحت دیے دانت پیس کر وہ اپنی بات مکمل کرتا فون کاٹ گیا، ناجیہ نے ناگواری سے اس خفیہ نمبر سے آئی کال کو فوری ڈیلیٹ کیا اور چہرے پر نفرت کی پرچھائیاں سجائے آنکھوں میں خون لے آئی۔

"فاضل گوجا کو تم مارنا اور تم جیسے نجس کا کام اب ناجیہ کیانی خود تمام کرے گی۔ گھٹیا انسان تجھے کیڑے پڑیں"

مٹھیوں میں چادر بھینچے وہ بھی انتقامی ہوئے خود کلامی کر رہی تھی ، برائی کا انجام برا ہی ہوتا ہے اور یہی ہو رہا تھا۔

تیسری طرف معظم صاحب کو جب سراج اور فاریہ کے بھی چلے جانے کا علم ہوا تو وہ ناشتے کی میز پر بیٹھے تھوڑے پریشان تھے۔

ادا صاحبہ کی دیکھ بھال اب حویلی کی ہی ملازمہ نوشاد کر رہی تھی۔

"آپ پریشان نہ ہوں معظم بھائی، بچے جلد آجائیں گے۔ دراصل سراج کو جانا تھا تو فاریہ بھی چلی گئی۔ سب ٹھیک ہے"

معظم صاحب کو کسی سوچ میں ڈوبا دیکھ کر وہ مزید نرم لہجے میں بولیں مگر ناجانے کیوں معظم صاحب مطمئین نہ ہو سکے۔

انھیں منہا کی طرف سے کچھ اچھے احساسات نہیں محسوس ہو رہے تھے، وہ انکی لاڈلی تھی اور جب بھی وہ پریشان اور تکلیف میں ہوتی تو دادا کی بھی بے چینی بڑھ جاتی۔

بھلے وہ مدھم سا مسکرا کر ادا صاحبہ کی سمت مطمئین ہوئے نگاہ ڈال گئے مگر اندر ہی اندر اپنی پتری کے لیے دعاگو بھی شدت سے ہوئے۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"تجھے پتا ہے تیرے جیسے حرامی بہت آئے یہاں، اور ناک کے بل سچائی اگل کر جہنم واصل ہوئے۔ تو پھر تو کس کھیت کی مولی ہے"

ایک دن اور رات سے اب دوسری رات تک زین نے فاضل کو اپنے ہٹے کٹے اہل کاروں کے سپرد کیا تھا اور صبح آتے ہی وہ کسی پیش رفت نہ ملنے پر سیدھا اسی کی سمت لپک کر اسکے زخمی مگر نجس مسکراہٹ میں لپٹے چہرے پر کراہت کے سنگ اپنی غصیل آنکھیں گاڑے بڑے تحمل سے بولا۔

"مار دے بھلے مگر سچ نہیں بتاوں گا، تو نے مجھے ایرا غیرا سمجھ لیا ہے تھانیدار۔ میں فاضل گوجا ہوں، میں جو کرتا ہوں اپنی مرضی سے کرتا ہوں"

بھلے منہ اور جبڑا تشدد کے باعث ہلنے سے قاصر تھا مگر وہ پھر بھی زین کی آنکھوں میں دیکھ کر استہزایہ ہوا، بہت جبر کیا مگر زین نے اسکے پہلے سے لہو لہان جبڑے پر پوری قوت سے گھونسا رسید کیے ساتھ ہی اسکی گردن دبوچی جس پر وہ تکلیف دباتا بھی منہ سے خون کی لہر جاری ہونے پر بھی ہنسا۔

"اگر تجھے اذیت ناک موت سے چھٹکارہ چاہیے تو بول دے فاضل سچ کیا ہے ورنہ جیتے جی تیری کھال اکھاڑ دوں گا۔ تیرا وہ باس سرور ہے ناں، غلیظ نجس آدمی بھاگ گیا۔ تم لوگوں کے ضمیر اور روحیں تو مردار ہیں لیکن کم از کم اپنے جرائم کا اعتراف کر کے قبر کی تھوڑی سختی تو کم کر لینی چاہیے۔۔۔۔"

زین بھی بچارا کن مخلوقات سے اس درس کو چھیڑ بیٹھا، الٹا وہ بے دم ہونے کی حد تک قہقہہ لگائے زین کو مزید مشتعل کر گیا۔

بہت مشکل سے وہ اپنا ہاتھ فاضل پر اٹھنے سے روک پایا۔

"اپنے یہ بھاشن کہیں اور جھاڑ جا کر تھانیدار، اس ملک کی کوئی جیل نہیں جو مجھے تادیر یہاں برداشت کرے گی۔ کھال اکھاڑ یا جو بھی، اپنے دھندے سے بے وفائی ہی کرنی ہوتی تو اب تک اپنے اس فولادی جسم پر آٹھ گولیاں اور زندگی کے بارہ سال جیل میں نہ گزارے ہوتے۔ میں جب بھی کسی کے حکم پر کوئی قتل کرتا ہوں تو اسکا نام میرے دل میں دفن ہو جاتا ہے اور قتل کرنے والے کا پورا حسب نسب دیکھ کر ہی وار کرتا ہوں، جس عورت کو میں نے مارا وہ موت ہی کی مستحق تھی۔ اب تو جو مرضی کر لے، تیری سوچ ہے کہ میں تجھے کچھ بھی بتاوں گا۔ رہی بات تشدد کی تو تم جیسے جنگلی تھانیدار کے بس میں یہی تو ہے، کر لے شوق پورا ۔ کیا یاد کرے گا کہ کسی مرد سے پالا پڑا تھا"

مزید زین میں اس وحشی کی باتیں سننے کا سٹیمنا نہ تھا، وہ اتنے تشدد کے بعد بھی اپنی ہٹ دھرمی پر پتھر سا جما تھا، ناصرف اسکا اعتماد زین کو حیرت میں جھونک گیا بلکہ اسکی بات پر زین بل کھائے مڑا، جیسے ذہن پر کوئی بم گرا ہو۔

"کیا مطلب ہے تیری اس بکواس کا؟ عباد صاحب کی بیوی گل مینے کیسے اس قابل تھی۔۔۔ دیکھ میرا میٹر پہلے ہی گھوما ہے فاضل، یہ نئی کہانی ڈال کر تو مجھے الجھا مت"

زین کا سوال مشتعل ہو کر آیا تھا اور فاضل گوجا کے چہرے پر حسین مسکراہٹ سراسر استہزایہ ہوئے زین کو سلگا گئی۔

"یہ تو نہیں بتاوں گا لیکن اتنا سن لے، جو بھی کرتا ہوں بلاوجہ نہیں کرتا۔ گل مینے کو ماری گئی میری گولی معاف ہے، اب کیسے معاف ہے یہ تجھ سے اتھرے گھوڑے کے گرم دماغ میں آنا ناممکن ہے"

فاضل گوجا کی مزید یہ سنسنی خیز بات اور اسکا مستیلا انداز زین کی ہستی ہلا گیا تھا۔

فاضل گوجا آخر کہنا کیا چاہتا تھا، زین اس کی شکل پر اک برہم جنجھلائی نگاہ ڈالے اپنے اہل کاروں کو کام جاری رکھنے کا کہتا خود باہر آیا تو کسی لگ بھگ بائیس سالا لڑکی کو روتا ہوا دیکھ کر وہ تھوڑا متجسس سا آفس آیا جہاں اسکا ساتھی شیراز اس کرسی پر بیٹھ کر اداس سی اس مردوں جیسے خلیے میں لپٹی لڑکی کو پانی کا گلاس دے رہا تھا۔

"کون ہے یہ شیزار؟"

تندہی سے وہ اندر آتے رعب سے بولا جس پر ناصرف شیراز اٹھ کر مودب ہوئے کھڑا ہوا بلکہ وہ لڑکی بھی تھوڑی پریشانی لیے اٹھ کھڑی ہوئی،

اسکا خلیہ اسکی نازکی کے بلکل برعکس تھا، سفید کرتی اور کھلے گھیرے کی شلوار پر وہ کندھے پر چادر اوڑھے تھی اور سر کے بالوں کو بے ڈھنگے جوڑے کی شکل دے کر یکجا کر رکھا تھا۔

"سر یہ لڑکی فاضل گوجا کی بہن ہے، کہہ رہی ہے کہ بابا بستر مرگ پر ہیں۔ اور وہ صرف فاضل کو پکار رہے ہیں تو اسکی ملاقات کروا دیں"

شیراز کی فوری پیش کی وضاحت پر زین نے اس لڑکی کو بھی عتاب کے سنگ دیکھا جو بنا سہمے اس سخت اور گھور کر جان نکالتے افسر کے سامنے تشویشناک تاثرات لیے کھڑی تھی۔

"اسکو تھوڑی دیر کے لیے جانے دے افسر، بابا مر جائے گا اسے جانے دے۔۔۔۔۔"

وہ ہمت کیے اپنی عرضی اس شعلے لپکاتی آنکھوں سے پوسٹ مارٹم کرتے زین کے سامنے بھی رکھے جس بے باک اور حاکمانہ لہجے میں بولی جس پر وہ سلگ سا اٹھا۔

" جا کر اس بستر مرگ پر پڑے بزرگ کو کہہ دو کہ اپنی اس نجس اولاد پر فاتخہ پڑھ لیں، اور تم ایک بات میری کان کھول کر سنو لڑکی۔ یہ تھانہ ہے، تمہاری منت سماجت اور اس درخواست سے نہ تو وہ خبیث درندہ آزاد ہوگا نہ تمہارے یہاں فضول پھیروں سے اس بستر مرگ پر پڑے بوڑھے کی سانس بحال ہوگی۔

وہ قاتل ہے اور میں اسے اس بار سزائے موت دلوا کر رہوں گا۔۔۔۔۔

باہر کا رستہ دیکھاو اسے شیراز اور دوبارہ اگر کوئی فاضل گوجا سے ملنے یا اسکے لیے گڑگڑانے آیا تو اندر مت آنے دینا"

نہایت بدتہذیبی کے سنگ وہ نوراں پر برس پڑا جو پہلے ہی تکلیف سے آدھی تھی، اس سفاک تھانیدار کے جھاڑنے پر مزید اپنی نیلی آنکھوں کو عتاب سے سرخ کرتی تلملا اٹھی مگر وہ منہ موڑ کر اپنی کن پٹی مسل چکا تھا،

"خدا کے سوا کسی کے سامنے نہیں گڑگڑاتی نوراں، تجھ میں انسانیت نہیں ہے کیا؟"

وہ زخمی شیرنی کی طرح بولی، زین نے ناگواری سے یہ جملے سن کر گردن موڑی اور روح فنا کرتی نظر نوراں پر ڈالی۔

تم سیکھاو گی اب مجھے انسانیت؟"

زین کا انداز مشتعلانہ ہوا جس پر نوراں کا دل چاہا اس انسان کو دیکھے بھی مت۔

"تم جیسے گھمنڈی کو نہیں سیکھا سکتا کوئی، تمہاری شکل پر ہی لکھا ہے کہ تم ایک سنگدل ہے۔ میرے بابا تو مجرم نہیں نہ نوراں ہے، وہ باپ بنا بیٹے کی چاند سی صورت دیکھے مر جائے گا"

وہ عجیب تیکھے اور رعب جماتے لہجے میں بول رہی تھی اور اسکا انداز بہت الگ اور مضبوط تھا۔

اتنے سارے القابات پر زین نے اپنا عتاب مشکل دبایا اس لیے کہ وہ ایک عورت تھی، لحاظ میں وہ عین اس لڑکی کو اچٹتی نگاہوں میں لیتا روبرو آئے مٹھیاں بھینچ گیا جو بے خوفی سے اسے دیکھ رہی تھی۔

"ہہہ۔۔۔ چاند۔۔۔۔۔ اس درندے کو چاند کہا، جاو بی بی اپنی آنکھوں کا علاج کرواو۔ نکلو شاباش، اپنے مرتے بابا کے کفن دفن کا خرچہ لے لینا شیراز سے، اب اتنی انسانیت تو ہے زین لاشاری میں"

نخوت کے سنگ وہ اس پر ہنستا وہاں سے تو چلا گیا البتہ نوراں کی پراعتماد آنکھیں اسکے اوجھل ہوتے ہی بھیگ گئیں، اس شخص پر اور اس پورے آفس پر لعنت بھیجتی وہ باہر نکلی۔

شیزار نے ہی نوراں کو باہر تک لائے دروازے کا راستہ تھمایا مگر اسکا دل کیا کہیں جانے سے بہتر یہیں رو رو کر جان دے جائے۔

"بابا تو مر رہا ہے ابھی پر اس گھٹیا انسان کی سوچ دیکھ کر مجھے یقین ہے اسکا ضمیر مر چکا ہے۔۔۔۔ "

تھانے سے نکلتے ہی وہ باہر بنی ڈھلوان پر ٹک کر کراہٹ گھوٹے دردناکی سے چینخی، صبح پھیل چکی تھی اور وہ جانتی تھی اسکی زندگی میں اب دوبارہ کوئی صبح نہ آئے گی، پیدل راستہ ناپتی وہ کافی سنسان گلیاں عبور کرتی ایک خستہ مکان کے اندر داخل ہوئی جہاں سامنے ہی چارپائی پر رضائی میں لپٹے وہ اکھڑی اکھڑی سانسیں لیتے بزرگ تھے، نوراں لپک کر ان تک پہنچی جو اپنی آنکھوں سے ابلتی نمی کے سنگ اپنی آہستہ آہستہ جان دے رہے تھے۔

"و۔۔وہ بے رحم کہتا ہے بھا قاتل ہیں، نہیں چھوڑا بابا اس نے ۔۔۔اس سے لاکھ درجے اچھے تو ہم برے لوگ ہیں، کسی کو مارنے کے لیے لفظوں کے خنجر تو نہیں کھونپتے۔۔۔۔ "

آنسو اس پری پیکر کی گال پر اترتے ہی اس بزرگ کے جھڑیوں والے ہاتھ پر جا گرے، مگر اس بزرگ کی انتظار میں پتلیاں پتھرا گئیں۔

"وقت آخر آپکی بنا بھا کے دیدار کے پتھرا جاتی آنکھوں سے وعدہ ہے، نہ بھا کو تنہا چھوڑوں گی نہ اس تھانیدار کو بخشوں گی۔۔۔۔۔ مجھے معاف کر دے بابا، تیری آخری خواہش تیری یہ نوراں پوری نہ کر سکی۔۔۔۔۔ اس سنگ دل منحوس کا خون بھا پر آپ نے ہی تو معاف کیا تھا پھر یہ دنیا کیسے فاضل گوجا کو سزا دے سکتی ہے"

اس بزرگ کا ماتھا چومتے نوراں کے آنسو جاری تھے،اک دھیمی سی سانس کے ساتھ اس بزرگ کے وجود سے روح اڑی، ویسے ہی سر پر موجود یہ سہارا نوراں کی بھی روح لے گیا۔

اسکی ہچکیوں، سسکیوں اور آہوں پر محلہ جمع ہو گیا، اس بزرگ کی موت ہو گئی تھی، اور نوراں اس نقصان پر اپنا ہوش بھی نہ گنوا سکی کیونکہ وہ جانتی تھی اسے سنبھالنے والا کوئی نہ تھا۔

محلے ہی کی چند عورتیں اسکے گرد جمع افسوس اور دکھ سے کرلاتی رہیں مگر نوراں بس اندر ہی اندر گھٹتی رہی ،مرد مل کر محلے داری کے ناطے بزرگ کے کفن دفن کے انتظام میں لگ گئے۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"آرہی ہوں "

دروازے کی دوسری طرف سے کسی عمر رسیدہ خاتون کی آواز پر سراج دروازے کی اوٹ سے ہٹ کر دو قدم پیچھے ہٹا، یہ تنگ سی گلی میں موجود وہی گھر تھا جسکا پتا فضل بھائی نے دیا تھا۔

"جی بچے کون ہیں آپ؟"

وہ حور کی والدہ تھیں جو دروازہ کھول کر سراج سے نرمی سے مخاطب ہوئیں۔

"میں سراج علی ہوں خالا، کیا آپ حور کی والدہ ہیں۔۔۔دراصل مجھے حور سے منہا کے بارے کچھ پوچھنا تھا، اس سے میرا رابطہ نہیں ہو رہا تھا تو فضل بھائی سے منہا کی دوست حور کا پتا چلا تو میں آگیا"

سراج کے بھی بدلے میں ویسے ہی نرم استفسار پر وہ تھوڑی فکر مند ہوئیں، پہلے ہی کل منہا کے یوں اچانک آنے پر وہ تھوڑی الجھی تھیں۔

"آپ کیا لگتے ہیں منہا بیٹی کے؟"

سراج اس سوال کی امید نہیں رکھ رہا تھا مگر وہ جانتا تھا وہ اس سوال کو کرنے میں حق بجانب ہیں۔

"بھائی ، سگی بہن سے زیادہ عزیز ہے وہ مجھے "

سراج کی جگہ کوئی اور ہوتا تو ضرور پریشان ہوتیں مگر انھیں سراج کی بات پر یقین سا آگیا۔

"آپ آجائیں بچے، بیٹھک میں انتظار کریں میں منہا کو بھیجتی۔ پرسوں رات وہ یہیں آئی تھی"

حور کی والدہ نے تو گویا سراج کی مشکل حل کی، وہ بھی فرمابرداری سے اندر داخل ہوتے ہی بائیں ہاتھ پر بنے کمرے میں داخل ہوا جبکہ وہ اب آگے بڑھتی ہوئیں باورچی خانے تک پہنچیں جہاں منہا دن کا کھانا بنانے میں لگی تھی، حور تو کام پر جا چکی تھی۔

انکے آنے پر منہا فوری پلٹ کر دھیما سا مسکرائی۔

"کوئی سراج علی آئے ہیں منہا پتر، اگر تم ملنا چاہو تو مل لو نہیں تو کسی کی ہمت نہیں وہ تم سے بات بھی کر سکے۔ حور نے تمہیں میرے پاس امانت رکھا ہے، اس لیے مجھے فکر ہے۔ وہ آدمی تمہیں بہن کہہ رہا تھا، کیا ایسا ہی ہے"

وہ بہت شفقت کے سنگ منہا کو یہ دھچکا دے گئیں، سراج علی کے آنے کی منہا کو بلکل توقع نہ تھی ، اسکی خاموش اور مضطرب صورت دیکھ کر حور کی والدہ بھی مزید تشویشناک ہوئیں مگر اس سے پہلے ہی منہا انکا ہاتھ جکڑے سر ہلا گئی۔

"وہ بھائی سے بڑھ کر ہیں خالا، میں مل کر آتی"

رسان سے وہ انھیں مطمئین کرتی ہاتھ دوپٹے سے خشک کیے گہرا سانس کھینچے بیٹھک تک پہنچی تو وہ منہا کو اندر آتا دیکھ کر پریشانی سے اٹھ کر اسکی سمت لپکا۔

دونوں کی آنکھیں رنجیدہ تھیں۔

"بھائی کو کرب میں جھونک کر کیسے آگئی تم یہاں، تمہارے جاتے ہی حارث نے انھیں ساری سچائی بتا دی تھی منہا۔ وہ بہت تکلیف میں ہیں چلو میرے ساتھ"

سراج کا ٹوٹا لہجہ اور تاسف منہا کو کوئی بھی فرق نہ دے سکا بلکہ الٹا وہ قاتلانہ سا مسکرا دی کہ اسکی مسکراہٹ سراج کا دل کاٹ گئی۔

"نہیں میں کل مکمل ثبوت کے ساتھ ایک بار ہی جاوں گی۔ میرا اس انسان کی تکلیف یا خوشی سے کیا واسطہ سراج بھائی جس نے مجھے ایک لمحے میں آسمان سے زمین پر پٹخ دیا"

وہ اتنی بکھری تھی کہ اسکی ذات کے نوکیلے کانٹے سامنے والے کو چبھ گئے۔

سراج اس سے ایسے ستم کی توقع کہاں رکھتا تھا۔

"وہ انسان شوہر ہے تمہارا، لباس۔۔۔ یوں بے آبرو تو مت کرو۔ وہ تکلیف میں تھے تبھی سخت لہجہ اپنا گئے، منہا تم ظالم نہیں ہو سکتی۔ بھائی تمہاری دوری سے ختم ہو جائیں گے"

سراج شاید یہاں عباد کی پوزیشن کلئیر کر رہا تھا اور منہا کا دماغ اور دل دونوں اپنی جگہ سے ہل چکے تھے۔

"آپ میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے، اگر فاریہ میم کا بھی کوئی ماضی ہوتا۔۔۔۔ وہ کسی اور کا سب رہ چکی ہوتی؟ اسکی اولاد ہوتی۔۔۔۔ "

منہا یہ سب جس تکلیف سے پوچھ رہی تھی سراج تو صدمے میں لپٹا رہ گیا۔

اک آنسو منہا کی آنکھ سے ٹپک کر ضبط کی توھین کر گیا۔

"سچ پتا کیا ہے، میں تو یہیں ختم ہوگی تھی بھائی۔۔۔۔ پھر جب انہوں نے مجھے جھوٹا اور فریبی کہا تو ہر بات بھی ختم ہو گئی۔۔۔۔ آپکے وہ بھائی خود مجھ سے اپنا نام واپس لے چکے ہیں۔ اور میں منہا سلطان ہوں جو پوری شان سے اپنی احد نامی امانت لوٹا کر اپنے دادا کو لیے واپس اپنی دنیا میں لوٹ جاوں گی۔ یہ تجربہ ضروری تھا، ایک بار محبت کر کے دیکھ لی تاکہ دوبارہ یاد رہے کہ کیوں نہیں کرنی چاہیے"

وہ اپنی تکلیف میں یہ بھی بھول گئی کہ وہ اپنی محبت کا اظہار کر بیٹھی ہے، سراج بھی اتنی ہی تکلیف میں اسکی جانب بڑھا جو اس سرزد گناہ پر کرب سے پلکیں جھکا گئی۔

"تم بھائی سے محبت کرنے لگی ہو؟"

ٹھوڑی سے پکڑ کر وہ آنسو آنسو ہوتی منہا کا چہرہ اٹھائے پیار سے نرم استفسار کر رہا تھا۔

"پلیز دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں، یہ انھیں میرے جانے کے بعد بھی پتا نہ چلے۔۔۔ درخواست کرتی ہوں"

وہ بھائی سمجھ کر التجاء کر گئی اور سراج کو لگا وہ واقعی پل صراط پر کھڑا ہے۔

"انھیں مت چھوڑنا منہا، التجاء کرتا ہوں"

سراج کے پاس بھی یہی اک جملہ بچ گیا۔

اور وہ کرب ناک سا مسکرا دی۔

"آپ بس انکو کہہ دیجئے گا کہ منہا جہاں ہے ٹھیک ہے، وعدہ کریں کل تک آپ انکو میرے یہاں ہونے کی اطلاع نہیں دیں گے۔ میں کل صبح خود آجاوں گی رپورٹس لے کر۔ تاکہ مجھے بھی اطمئینان ملے کہ احد ہی عباد کا بیٹا ہے"

وہ سراج علی کو مایوس کرتی یہ تاکید تھمائے بوجھل کر گئی جو اسکے سر پر ہاتھ رکھے سر ہلاتا نظر ملائے باہر نکل گیا۔

منہا نے بھی سرد سی سانس کھینچے اپنے قدم باہر بڑھا دیے۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"آپ نے کافی منگوائی تھی"

بنا آواز کیے وہ ناراضگی ختم کرتی کپ دھرے اس سے پہلے پلٹ جاتی، حارث کی آواز پر رکی۔

عائشہ نے گردن موڑے فکر مندی سے اسکی جانب دیکھا جو اسے اپنے ساتھ آکر بیٹھنے کا اشارہ کر رہا تھا۔

وہ اک نظر حارث پر ڈالے چلتی ہوئی ساتھ تو نہ بیٹھی مگر سامنے صوفے پر ضرور آن ٹکی۔

حارث نے آزردہ نگاہ عائشہ کے چہرے پر ڈالی۔

"میں نے تم سے معافی تو مانگی مگر تم نے معاف بھی کیا یا نہیں، میں جانتا ہوں ایک غلیظ شخص ہوں۔ میرے گناہ اتنے ہیں کہ ساری عمر سر نہیں اٹھا سکتا۔ کئی بار تمہیں بھی حراساں کیا، لیکن وہ سب ناجانے کس چیز کا غرور تھا"

کبھی کسی سفاک شخص کا ایسا بدلا روپ عائشہ نے نہ دیکھا تھا، وہ جانتی تھی یہ سراسر اک عبرت ہے۔

"جب لگے کہ موت صرف دوسروں کو ہی آنی ہے تب زندگی تکبر بن جاتی ہے حارث سر، ضروری نہیں ہوتا کہ اللہ تاعمر غفلت میں ڈالے رکھے۔ جو سچے دل سے پلٹ آنا چاہیں انکے لیے کوئی دروازہ بند نہیں ہوتا"

آج وہ بھی ایک دوست کی طرح حارث کیانی کو سمجھا رہی تھی اور حارث اسکے نرم اور شیریں لفظ سن کر مزید رنجیدہ تھا۔

"میں ایک برا اور نجس انسان ہوں، لیکن اب رہ رہ کر وہ سارے گناہ یاد آرہے۔ کم از کم تم تو کہہ دو کہ تم نے مجھے معاف کیا"

وہ یوں مضطرب تھا جیسے عائشہ کی معافی اسے ناجانے کتنا سکون دے گی۔

"میرے کہنے سے اگر قطرہ بوجھ کم ہوتا ہے تو کہہ دیتی، معاف کر دیا۔ اگر میں یہاں ہوں تو صرف عباد سر کے شفیق سائے کی وجہ سے جنہوں نے مجھے آپکی ہر ہوس سے ہمیشہ بچایا۔ اور سراج بھائی جو ایک اچھے مددگار ہیں۔ آپ اللہ سے معافی مانگیں وہ ضرور کرم کرے گا"

اس وقت رات کے پہر وہ یہاں بیٹھ کر مطمئین نہ تھی تبھی فوری بات ختم کیے اٹھ کر باہر نکلنے لگی جب وہ اٹھ کھڑا ہوتا پھر سے اسے پکار بیٹھا۔

"سنو"

عائشہ نے سنجیدگی سے پلٹ کر دیکھا۔

"تم بہت اچھی ہو، میری بہت دیکھ بھال کی"

ناجانے کیوں اپنے گناہ اسے اپنے جذبات دفن کرنے پر اکسا گئے، اس تعریف پر وہ پھیکا سا مسکرائی۔

"یہاں کام کرتی ہوں، یہ میرا فرض تھا۔ میرا کوئی ذاتی سکھ نہیں شامل"

جتاتے لفظ ادا کیے وہ کمرے سے نکل گئی اور وہ سانس کھینچے وہیں بستر پر جا بیٹھا۔

کئی پچھتاوے اسکی ذات کو کاٹ رہے تھے۔

دوسری طرف سراج جب تک واپس آیا عباد کی طبعیت شدید ڈپریشن اور ٹینشن سے اسقدر بگھڑی کے اسے مائگرئن ہو گیا۔

ڈاکٹر اسے سکون کا انجیکشن اور دوا تو دے گیا مگر عباد کو یوں لگ رہا تھا جیسے وہ زندہ قبر میں دفن ہو۔

"یہ مت کہنا سراج علی کے وہ نہیں ملی"

زرا ہوش میں آئے وہ بیڈ کراون سے ٹیک لگاتا اکتاہٹ اور سرد مہری سے بولا۔

آج پہلی بار سراج علی کو نظر چرانی پڑی۔

"ملی تو ہے لیکن آپ تک کل پہنچے گی"

عباد کا چہرہ تکتا وہ بھی افسردگی میں ڈھلا جو اس وقت صرف منہا کے لیے تڑپ رہا تھا۔

"وہ مجھے چھوڑ دے گی، کاش میرے بس میں ہوتا تو میں اپنی زندگی کے سارے پل کاٹ ڈالتا اور بس اتنی زندگی رکھ لیتا جو منہا کے ساتھ پر محیط تھی۔ تم تو مجھے جانتے ہو سراج علی میں کبھی اسقدر تکلیف میں مبتلا نہیں ہوا جتنا مجھے یہ احساس ندامت جہنم کی طرح دہکا گیا ہے"

اس مضبوط اعصاب والے کی آواز لرزی اور سراج کا بس نہ چلا اپنی چلتی سانسیں لٹا کر بھی اس بھائی کے درد کا درماں ڈھونڈ لائے۔

"بھائی وہ نہیں چھوڑے گی، سمجھ جائے گی۔ آپ خود کو تکلیف مت دیں۔ کل تک انتظار کریں۔ یہ تو شکر ہے ادا صاحبہ یہاں نہیں ورنہ آپکو اس حال میں دیکھ کر نڈھال ہو جاتیں"

سراج کے ڈھارس دیتے لفظ تک اس زندگی سے اکتائے وجود کے لیے کوئی مرہم ڈھونڈ نہ سکے، اسے تو اپنے بچے تک کی کوئی پرواہ نہ تھی بس منہا چاہیے تھی جو دسترس سے خشک ریت کی مانند نکل رہی تھی۔

"میں اپنی زندگی کے اخیر دردناک لمحے کاٹ رہا ہوں سراج علی، جب تک وہ خود نہیں کہتی کہ معاف کیا تب تک تو خود سے بھی ناراض رہوں گا ۔۔۔۔تم جاو آرام کرو جا کر، مجھے اس آگ میں اکیلے ہی جلنا ہے"

شاید دوا کا اثر تھا یا تکلیف کی زیادتی کہ عباد کی متورم آنکھیں بند ہو رہی تھیں، بھائی کی یہ تکلیف وہ کیسے سہے یہ ممکن نہ تھا مگر پھر بھی وہ گہرے سانس کھینچتا سینے پر جمع ہوتے غبار کو ہٹانے کی کوشش میں باہر نکل آیا۔

"یا میرے اللہ، کیسے دیکھوں اپنی جان سے عزیز بھائی کو اس تکلیف میں۔ آہ منہا آہ، تم نے کیا کر دیا عباد حشمت کیانی کے ساتھ۔ وہ انسان جو بڑے سے بڑے خسارے پر نہ چٹخا، تمہاری زرا سی دوری مار گئی اسے"

باہر کھلی فضا میں سانس بکھیرے وہ دلخراش ہوا مگر اپنے ہاتھ کو مخملی گرفت میں جکڑتا محسوس کیے وہ مڑا جہاں فاریہ اسکی کے بے قرار چہرے پر نظر ڈالے اداس تھی۔

"تم ٹھیک ہو ناں؟"

اپنا ہاتھ بڑھائے وہ سراج علی کی آنکھ سے بہتی نمی پوروں سے جذب کرتی دکھ سے پوچھ رہی تھی جو اس وقت بہت ذہنی دباو میں تھا۔

"آج کی رات مشکل ہے بھائی پر، دعا کرو جلدی کٹے"

وہ اسے یوں افسردہ نہ دیکھ سکی تبھی بنا وقت ضائع کیے سراج علی کے سینے میں دبکے اسکی پشت پر ہاتھ لے جا کر باندھے۔

"سو جاو تم جا کر، خوامخواہ بے آرام نہ کرو خود کو"

ایک بازو فاریہ کی کمر کے گرد باندھے وہ اسکا سینے پر ٹیکا سر چومے نرمی سے بولا۔

"تمہارے پاس مجھے صرف سکون ملتا ہے"

وہ آج کچھ بھی چھپا نہ سکی، آواز تھی کہ آنسووں میں ڈوبی۔

سراج اس بے وقت اظہار پر خوش نہ تھا۔

"محبت کرنے والے کبھی نہ بچھڑیں، تم جانتی ہو فاریہ یہ جدائی روح فرسا ہوتی ہے۔ میں مجبور تھا کہ ایک طرف بھائی تھے اور دوسری طرف بہن۔۔۔۔ اسے لگتا ہے وہ جدائی دے کر خود کو سکون دے گی لیکن یقین واثق ہے کہ وہ دونوں ایک سی تکلیف میں ہیں"

بوجھل دکھی آواز کانوں میں پڑی تو وہ روبرو ہوئے سراج علی کی بھاری آنکھیں اداسی سے دیکھنے لگی، وہ عباد کے ساتھ سانس لیتا تھا تو کیسے بھائی کی تکلیف پر متاثر نہ ہوتا۔

"لیکن دعا کے سوا کیا کر سکتے، یہاں بہت ٹھنڈ ہے۔ آج میں تمہارے کمرے میں تمہارے ساتھ سو سکتی ہوں"

وہ ابھی بھی تھوڑی خودغرض تھی کیونکہ اسے سراج چاہیے تھا۔

"وہ تو عام سا کمرہ ہے"

سراج نے اسکی گال سہلائے جواز دھرا۔

"میں جاوں گی تو خاص نہیں ہو جائے گا"

وہ تھوڑا مسکرائی تاکہ سراج کو سنبھال سکے، وہ ایک ساتھ اس الگ تھلگ ائیریا کی جانب لپکے جہاں گلاس ڈور کے اندر داخل ہوتے ہی فاریہ نے اسے بند کیا اور پردے گرائے، سامنے ہی سراج کا کمرہ تھا اور فاریہ اسکا ہاتھ پکڑے ہنوز چلتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔

"تمہیں پتا ہے میں کئی بار چھپ چھپ کر تمہارے کمرے میں آئی ہوں، تمہیں کبھی یہاں میری خوشبو نہیں آئی"

اپنی اک جھلی سی ہار بتاتی وہ عین سراج کے روبرو کھڑی متجسس ہوئے مسکرائی جو شاید اپنی تکلیف کم کرنا چاہتا ہی نہ تھا ورنہ اس وقت قربت میں شدید رضا اور سکون شامل تھا۔

"تمہیں کیوں لگتا ہے سراج علی اتنا انجان ہے تم سے"

اسکے گلاب ہونٹ کو انگوٹھے سے سہلاتا وہ جذب سے فاریہ کی بہت کچھ کہتی آنکھوں میں جھانکا۔

"کیا تم جان لیتے تھے سراج علی؟ کیا بلکل ویسے جیسے مجھے تمہاری خوشبو کہیں سے بھی آجاتی ہے"

وہ دم سادھ کر پوچھ رہی تھی اور وہ بس سر ہلائے پھیکا سا مسکرا ہی سکا۔

"آج یہ باتیں مت کرو، میں بھائی کے لیے پریشان ہوں"

وہ اسکے پربہار چہرے کی کشش سے آنکھ چراتے بیڈ پر بیٹھا مگر فاریہ ناچاہتے ہوئے بھی مسکراہٹ دبا گئی، وہ کہنا چاہتی تھی اسے سراج علی کی من پسند شدت درکار ہے پر آج وہ خود کو بھول گئی۔

"ٹھیک ہے آج میں۔۔۔۔۔۔"

ناجانے کیوں وہ بے باکی سے بات شروع کرتی آخر تک حیا سے نظر جھکا گئی مگر سراج علی مسکرا کر سیدھا تکیے پر سر رکھے لیٹا اور اپنی ہتھیلی بڑھائے فاریہ کو پاس بیٹھائے خود پر جھکایا اور اپنی درد کرتی آنکھیں موند لیں۔

وہ انتہائی خوبصورت تھا آج فاریہ نے اسے بہت غور سے دیکھا، اسکے چہرے کے ایک ایک نقش سے لے کر ایک ایک زاویے تک۔

اسے لگا اتنی تو وہ بھی دلکش نہیں جتنا یہ شخض، جسکی آنکھیں کھلی ہوں یا بند بس جہاں سارا ہیں، جسکے ہونٹوں کی نرمی اسکے دل کو مات دیتی تھی، جسکے چہرے سے گردن تک کی ہر رگ تک سے فاریہ کو عشق ہو گیا تھا۔

اپنے چہرے کے خدوخال سے نرم گلاب کی پتیوں کو محسوس کیے وہ بند آنکھوں سے ہی مسکرایا، کیونکہ جانتا تھا اگر آنکھیں کھول دیں تو اک سفید پوش جوگن کا سانس تھم جائے گا۔

"رات اِک گماں سی ہے

چاند ، ستارے حیرت زدہ ہیں

ہوا پتوں کے ساتھ مل کر

نئی قسم کی دُھن بنا رہی ہے

نیند کی خواہش میں

خواب بستر پر پڑے تھک رہے ہیں

اور میں تجھ میں اُلجھا ہوا ہوں"

وہ بند آنکھوں سے ہی بولنے کی اجازت ملتے ہی سرگوشیوں میں ڈھلا، فاریہ کے لبوں کی نرم شدت اسے اپنی پیشانی پر محسوس ہوئی اور شاید وہ اتنی ہی باہمت تھی، خود بھی اسکے سینے سے لگی وہ اپنی آنکھیں موند گئی۔

سراج نے اسکے نیند میں اترتے ہی گہرا سانس بھرے خود کو ہر قید سے آہستگی سے آزاد کیے قدموں کو حرکت دی، بیقراری سے پھر سے عباد کے کمرے کی سمت آیا، بنا دستک دیے ہی دروازہ کھولے جھانک کر خاموش خبر گیری کی، وقتی خوشمنا لمحوں کا کچھ دیر قبل کا سارا اثر مٹ گیا، وہ اس وقت صرف عباد کے لیے فکر مند تھا، اسکا دل عباد کی تکلیف میں اس کے دل سے زیادہ رنجیدہ تھا مگر اسکے بس میں اس وقت صرف دعا ہی تھی۔

رات نے بہرحال کٹنا تھا۔

اور دوسری طرف منہا پھر سے چاند تکتی اس کے ہالے میں عباد کو تلاش رہی تھی۔

"کیا میں نے زیادتی کر دی؟"

اسے اپنی کی بے رحمی ابھی سے چبھ رہی تھی۔

وہ شخص اسے اپنی سانسوں کی ڈور تھما چکا تھا اور یہی وہ واحد کشش تھی جو منہا کو بے قرار کر رہی تھی۔

"آپ نے بھی تو کی عباد، کیسے نوچ ڈالا خود سے۔۔۔۔۔ "

اک طرف دل طرفدار تھا عباد کا تو وہیں دماغ اسکی مخالفت پر اتر رہا تھا اور آجکی یہ رات اسی کرب و اذیت کی نظر ہو گئی۔

"اپنی صفائی میں اسے کیا کہوں گا ادا جان؟ اس بات کی سزا دی میں نے اسے کہ وہ میرے بچے کی محسن ہے یا اس چیز کی سزا دی کہ اسکا اعتبار توڑ دیا۔۔۔۔ کتنا برا انسان ہوں جس نے دعوے تو کیے پر ایک پر بھی پورا نہ اترا"

کچھ دیر بعد وہ کسی مسیحا کے خود تک پہنچنے پر رات بوجھل سا ادا جان کو احد کی سچائی بتا کر جہاں شادی مرگ کی کیفیت سے دوچار کر گیا وہیں تھک کر صوفے سے ٹیک لگائے اپنے جرم کا اعتراف بھی کر گیا۔

بھلا محبت تھی تو محبت نظر بھی تو آتی، یہ کیا جو آندھی کے ایک ہی جھونکے سے تنکا تنکا بکھر گئی۔

"مجھے تو احد سے پہلے ہی اک انسیت محسوس ہوتی تھی، جب اسے پہلی بار گود میں لیا تو دل تک اک میٹھا سا کھینچاو محسوس ہوا تھا۔ رہی بات تمہارے احساس جرم کی پُتر تو اس بار غلطی ہوئی ہے۔ اب کل اسے کیسے منانا ہے یہ تجھ پر ہے میری جان"

ادا جان کے شفیق لہجے میں میٹھے لفظ ڈھارس تھے، مگر عباد کیا سکون پاتا جسکا قرار صرف منہا تھی۔

"آپ احد کی سچائی معظم صاحب کو بھی بتا دیجئے گا ، ہو سکتا ہے مجھے انکی کچھ سفارش ہی مل جائے"

آنکھوں میں شدید ملال اور دکھ لیے وہ جو کہہ رہا تھا، ادا صاحبہ کے چہرے پر اداسی اتری۔

"خود کو ہلکان نہیں کرتے دادو کی جان، وہ نہیں چھوڑے گی۔ دیکھنا میں خود منہا کو کہوں گی میرے عباد کو یہ دکھ نہ دے۔ پریشان مت ہو،نماز ادا کرو اور دعا مانگ کر سو جاو۔ اس امید پر کہ وہ تمہاری ہے اور اس یقین پر کہ تاعمر تمہاری رہے گی"

فون کے پار سے بھی وہ عباد کو تسلی بہم پہنچائے نرم تاکید کر گئیں اور وہ بھی فون بند کر کے مشکل سے سانس کھینچتا اٹھ کر اپنے دل کی تشفی کا سامان کرنے چلا گیا۔

اسکی بہتر ہوتی حالت نے سراج علی کو بھی کچھ سکون بخشا۔

اگلی پرنور صبح دیکھتے ہی دیکھتے پیلس پر اتر چکی تھی، اک نیا دن۔

فیصلے کا دن۔

منہا نے حور اور اسکی امی کے ساتھ ناشتہ کیا اور دونوں کو ممنون و مشکور ہوئے شکریہ کہتی وہاں سے سیدھی رکشہ پکڑے ہوسپٹل گئی۔

لیب تک پہنچ کر وہ اپنا نام بتائے وہ فارم سبمنٹ کرواتی مقابل سے ایک سفید لفافہ وصول کرتی بھرے دل اور رتے جگے میں لپٹی آنکھوں سے اس پر نظریں جماتی باہر نکل آئی۔

بہت ساری ہمت جمع کیے اس نے وہ رپورٹ کھولی، کچھ دیر اس سفید کاغذ پر نظریں جمانے کے بعد اسکے ہونٹوں پر زخمی مسکراہٹ اور آنکھوں میں نمی نے دھندلاہٹ بھری۔

"میرا احد۔۔۔۔ تو تم بے آسرہ نہیں رہے اب، عباد ہی تمہارے بابا ہیں میری جان۔ اس پر خوشی ہونی چاہیے یا دکھ۔۔۔۔ کیا وہ مجھ سے دور ہو جائے گا، کیا م۔۔۔میں اسکے بغیر سانس بھی ل۔۔لے پاوں گی۔ ن۔۔نہیں احد، مما کی جان میں تو تمہارے بنا مر جاوں گی۔۔۔۔بھلے تمہیں جنم نہ دیا ہو لیکن تم میرے دل سے اور روح سے جڑے ہو"

آنکھوں میں جمع ہوتے سیل رواں کو لاکھ بے دردی سے رگڑا مگر رکشے تک پہنچنے تک وہ بہت سارے کرب محسوس کر آئی تھی۔

لاکھ جھٹلا دیتی مگر احد کے بنا رہنے کا سوچ کر اسکا دل پھٹا جا رہا تھا، اسکی منزل اب سر سبز بیلوں میں ڈوبا وہ وائیٹ کیانی پیلس تھا اور رکشہ اسکے بتائے پتے پر رواں دواں ہو گیا۔

وہیں صبح ناشتے پر ادا جان کی سمت سے کیا انکشاف معظم صاحب کو پتھرا سا گیا، وہ ساری حقیقتیں جنکو سہہ کر منہا کا کرب غائبانہ ان تک پہنچا اب انھیں احساس ہوا۔

"کیوں ادا بہن، اتنا سب کیسے چھپا سکتا ہے عباد بیٹا۔ نجانے میری منہا احد کی یہ سچائی جان کر کس حال میں ہوگی۔ اس بات پر خوش ہوں یا دکھی "

معظم صاحب کا لہجہ بھیگا اور پریشان تھا، ادا صاحبہ خود سنجیدہ اور پشیمان تھیں۔

"یقینا خوشی کا مقام ہے بھائی صاحب، منہا ہمارے وارث کی مسیحا ہے۔ اسکے بعد تو وہ عباد کے لیے نہایت معتبر اور اہم ہو گئی ہے۔ آپکی منہا ہم سبکی بھی جان بن چکی ہے، وہ اپنی ہر غلطی کی تلافی کرے گا مجھے یقین ہے"

نوشاد جو انھیں ابھی احد کو گود میں دے کر گئی تھی، ادا صاحبہ اس ننھے راج دلارے کا ماتھا چومے خوشی اور رشک سے مسکرائیں، معظم صاحب نے بھی اک نم سی مسکان کے سنگ احد پر نثار ہوتی نگاہ ڈالی۔

"ان شاء اللہ ادا صاحبہ، اللہ ان تینوں کو ایک دوسرے سے کبھی جدا ہونے نہ دے"

دل بھلے منہا کے لیے پرئشان تھا مگر وہ پرامید اور یقین کے سنگ دعا گو ہوئے۔

دونوں ہی کی محبت سے بھری انس سے لیس نگاہیں اب احد پر تھیں، جو ادا جان کی گود میں نہایت پرسکون تھا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"تیری ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہمارا بابا تشنہ ہی مر گیا، جلاد افسر، ہم تیرے کو مار ڈالے گا"

خونی انداز اپناتی وہ بپھری موج بنے تھانے داخل ہوئی تھی، اسکا انداز اور اسکی آواز کی گونج آفس روم میں کچھ فائلز کی ورک گردانی کرتے زین تک پہنچی جس پر وہ اس باہر ہوتے شور شرابے کو سنتا اچنبھے کے سنگ باہر لپکا۔

"یہ کیا شور ہے؟ تم پھر آگئی"

زین تلملا کر باہر پہنچا ہی تو لہو چھلکاتی آنکھوں سے گھورتی نوراں کو دیکھ کر وہ ناگواری سے چلایا، شیزاز اور کچھ اور اہل کار اس جن زادی کو روکنے راستے میں حائل تھے مگر وہ یہاں صرف اس انسپیکٹر کی جان لینے آئی تھی۔

"تیرے کو مارنے آئی ہے نوراں، کیا تھا اگر اس بستر مرگ پر پڑے بوڑھے کو اجازت دے دیتا بھا سے ملنے کی۔ خدا نے تجھے اتنا بڑا افسر بنا دیا پر افسوس تیرے سینے میں دل کی جگہ پتھر فٹ ہے۔ کیا کسی قاتل کے بارے یہ کسی کتاب میں درج ہے کہ اسکے گھر والوں کو بھی سزائے موت دی جائے"

اپنے آپ کو ان اہل کاروں کے پیچھے سمیٹنے سے روکتی وہ دبنگ زہر خند لہجے میں عین زین کے روبرو آئے چینخی، اتنی کہ اسکے مضبوط مزاج سے برعکس نرم و نازک چہرے کی رنگیں ابھر آئیں۔

سب ہی اہل کار دم سادھے اس لڑکی کی جرت پر حیرت کا مجسمہ بنے تھے مگر زین بڑی دلچسپی سے اس لڑکی کا سر تا پا جائزہ لے رہا تھا جو عورت ہو کر بھی مردانہ خلیے میں تھی، جیسے حالات نے اسے گھر کا دوسرا فاضل گوجا بنا دیا تھا۔

"اب بول، گھور کاہے رہا ہے۔۔۔ میرے بابا کا قاتل تُو ہے افسر، کاش تجھ جیسے سنگدلوں کو بھی کوئی سزا دینے والا ہوتا۔ میں اور میرا بھائی جو کرتے ہیں ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں، تجھ میں یا تیرے اس محکمے میں اتنی ہمت نہیں کہ بھا کو تسخیر کر سکے۔ وہ تو نکل آئے گا جلد لیکن اسکے بعد اک کہانی شروع ہوگی، تیرے ظلم کے بدلے کی کہانی۔۔۔۔۔ "

بھاری آواز سے ناگوار لہجہ لیے وہ زین کو پس لب متاثر کن استہزایہ تبسم کے سنگ دیکھتا بھانپ کر غرائی مگر اس سے پہلے اس آفیسر پر دو حرف بھیج کر وہاں سے جاتی، کسی آواز پر نوراں کے بجلی کے سنگ حرکت کرتے قدم تھمے اور اسکی شفاف پیشانی پر بل اتر آئے۔

"پھر ایک نہیں دو پھانسیاں ہوں گی، اک تمہارے اس لوفر سیریل کلر بھائی کی دوسرا تمہاری"

زین کے سراسر سلگاتے جملے نوراں کو مڑنے پر مجبور کر گئے، وہ سلگتی تلملاتی اس سمت یوں دیکھ رہی تھی جیسے اسکا پرکشش چہرہ نوچ لینے کی طلب گار ہو۔

"ہہہ۔۔۔ تو دے گا نوراں کو پھانسی۔ تیرے جیسے بہت آئے ، اور راستہ ناپتے دوسری طرف سے نکل کر غرق ہو گئے۔۔۔ لوگوں کی ہڈیاں ضرور توڑتے ہیں پر تیری طرح دل نہیں، اور تجھ جیسا شہری بابو کیا جانے انسانیت کیا ہے، کسی مرتے ہوئے آخری ہچکیاں لیتے انسان کو قبر تک لے جا کر زندہ گاڑ دینا مہربانی نہیں ظلم ہوتا ہے۔ اور ہمارے مسلک میں ہر جرم معاف ہے مگر دل دکھانا نہیں"

بھلے وہ ایک ایک لفظ خفگی اور تکلیف سے کہہ رہی تھی پر زین نے اک لمحے کو نوراں کی سرخائی سے اٹی آنکھیں دیکھ کر اسکے کہے جملے اپنے پتھر سینے کے آر پار ہوتے محسوس کیے۔

لگا واقعی اس کے سارے آج تک کئے نیک فعل پل بھر میں مٹی ہو گئے، جب انسانیت ہی چھوٹ جائے تو ہاتھوں میں کیا رہ جاتا ہے۔

وہ کہہ کر زین لاشاری کی بصارت سے پلوں میں اوجھل ہو گئی مگر وہ اپنی ذات کے اس گھڑے میں مدفون ہوا جہاں سے شاید اب اٹھنا ناممکن تھا۔

"مجھے فورا سے پہلے فاضل گوجا کے بارے مکمل تفصیل چاہیے، وہ کون ہے، ماں باپ کون تھے، بہن بھائی۔۔۔۔سب"

بہت سے سوال اور الجھنیں جہاں کھڑے کھڑے زین کو چلانے پر مجبور کر گئے وہیں وہ آنکھوں میں اک ان کہی سی تکلیف بھرتا بپھری موج سا سارے اہل کاروں کو ساکت چھوڑے اندر پکا۔

دو ملاقاتوں میں ہی وہ زین لاشاری کا پتھر دل چور اور دماغ منتشر کرگئی تھی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

پیلس میں قدم رکھتے ہی منہا کو اپنے اعصاب پر بوجھ محسوس ہوا، اک دل چاہا یہ ہاتھ میں پکڑے ثبوت اسی دہلیز پر چھوڑ کر پلٹ جائے، پلٹ کر کبھی مڑ کر نہ دیکھے۔

چہرے پر متذبذب تاثرات ہر ممکن طور پر جذب کیے وہ رکے قدم بحال کرتی آگے بڑھی، لان میں ہی مالی بابا سے کسی بات میں محو گفتگو سراج غیر دانستہ نگاہ پڑنے پر بیقراری سے لپک کر منہا تک چلا آیا جو یہ لمبی فصیل پار کیے اندرونی سمت داخل ہوتے راستے میں آن رکی آہٹ پر مڑی۔

سراج اور منہا کی نظر ملی، وہ بہت تھکی اور رنجیدہ لگ رہی تھی، اسکی آنکھیں کسی ان کہے ملال کا عنوان تھیں۔

"وہ ٹھیک نہیں ہیں، تمہاری جدائی کاٹ کر رکھ گئی"

لہجہ حد درجہ شفاف رکھے بھی اس میں اتر آتی حسرت اور نمکینی چھپ نہ سکی۔

منہا نے حلق تر کیے دقت سے سراج کی جانب نظر اٹھائی، جیسے پہلے ہی جانتی ہو کہ وہ اسکے بنا ایسا ہی ہو سکتا تھا۔

"مجھے محبت نے بغاوت کی اجازت ہی نہیں دی بھائی، ورنہ انکے رویے کا دکھ میرے اندر تک کہرام مچا گیا ہے۔ میں مل لوں؟"

کچھ ٹوٹا سا احساس تھا جو منہا کے انداز میں چھنکا تھا، وہ شفقت سے منہا کو جانے کا اشارہ سونپے خود کتنی ہی دیر وہیں کھڑا رہا، تب تک جب تک سراج علی کے چہرے پر مسکراہٹ نہ اتر آئی۔

وہ بازو پر نرم ہتھیلی کے لمس پر مڑا تو فاریہ کو دیکھ کر مسکراہٹ گہری ہوئی۔

"رات بہت خودغرضی دیکھا دی لیکن کچھ ہے جو تمہیں بتانا چاہتی ہوں"

تمہیدی سا اعتراف کرتی وہ سراج کا مضبوط ہاتھ اپنے ہاتھ میں مقید کرتی اسے ہونٹوں تک لائی اور چوما، سراج نے ہاتھ بڑھا کر اسکی گال سہلائی اور محبت سے چور ہوئے آنکھوں کا مرکز بنایا مگر وہ مضطرب تھی۔

سراج کا ہاتھ پکڑے ہی چلتی ہوئی لان میں آئی، اسے اپنے روبرو کھڑا کیے ناجانے تعظیم سے آنکھیں جھکائیں یا پشیمانی سے یہ اندازہ لگانا کٹھن تھا۔

"کہو کیا ہوا"

وہ اسے کہنے کی ہمت دیے بہت نرماہٹ سے بولا۔

فاریہ نے اک سرد سی سانس ہوا کے سپرد کی۔

"میں مجرم ہوں، احد کو میں نے ہی لالہ کے ذریعے ٹھکانے لگوانے کا حکم دیا تھا۔ میں نے اس معصوم بچے پر ظلم توڑنے کی نیت رکھی تھی سراج، ی۔۔یہ بھی نہ سوچا کہ کل کو اپنے اس بدنما فعل پر کیا جواب دوں گی"

یہ انکشاف گویا سراج علی کی چلتی کائنات روک چکا تھا، کیا جسے وہ چاہتا تھا وہ ایسی بے رحم تھی، اجنبیت سے بھری نظر وہ فاریہ پر ڈالے اسکے ہاتھ کو جھٹک گیا۔

اور اسکا یہ گریز فاریہ کی جان لے گیا، تو گویا فاریہ بھی اس کھیل کا حصہ تھی۔

کچھ اندر ٹوٹا تھا، جسکی کرچیاں قلب کو چبھ کر سراج علی کی آنکھوں میں سرد مہری اور ناگواری لے آئیں۔

"تم اتنی سنگدل کیسے ہو سکتی ہو فاریہ، تمہارا وہ لوفر بھائی تو تھا ہی ایسا لیکن تم سے ایسی امید نہیں تھی، تم نے ایک بار بھی نہیں سوچا کہ کتنا بڑا گناہ کرنے جا رہی ہو۔ بھائی کی تکلیف کا گواہ ہوں میں، انکی ایک ایک لمحے کی تڑپ جسکا تم اندازہ بھی نہیں لگا سکتی۔ میں اپنے ساتھ ہوتی زیادتی تو معاف کر سکتا ہوں لیکن یہ مجھ سے برداشت نہیں"

وہ محبت، شدت اور چاہت لٹانے والا کیسے درشتی اور خفگی سے اس پر برہم ہوئے پھٹا تھا، فاریہ کے دل تک تکلیف سرایت کر گئی۔

"میں نے یہ سب اسی لیے کیا تھا تاکہ عباد کو حاصل کر سکوں، مما نے مجھے کہا تھا کہ اسکی بیوی اگر ماں بن گئی تو میں کبھی بھی عباد کو حاصل نہیں کر سکوں گی۔ وہ تو مر گئی مگر وہ بچہ رکاوٹ تھا ناں۔۔۔م۔۔مجھ سے یوں آنکھیں مت پھیرو"

اپنی بے بسی اور اخیر اسیری کی داستان سمیٹے وہ ٹوٹتے جڑتے لفظ ادا کیے روہانسی ہوئی، خاص جب سراج نے ناگواری سے چہرہ پھیرا، یہ فاریہ کے لیے جان لیوا تھا۔

"نہایت ہی بے رحم اور سفاک دل ہے تمہارا فاریہ، میں تو سمجھا تھا یہ ظلم صرف مجھی پر توڑتی ہو۔ بہت دکھ ہوا مجھے تم پر فاریہ۔۔۔۔بہت دکھ"

لاکھ فاریہ اسکا دامن پکڑتی رہی مگر وہ اسکی بازو بے دردی سے جھٹک کر وہاں سے چلا گیا اور فاریہ نے کرسی کا سہارا لیے کراہٹ گھونٹے سسکیاں بھرتے بھرتے آنکھیں لال انگارہ کر دیں۔

جب غلطیاں کی جائیں تو انکی سزا بھی بھگتنی پڑتی ہے، لیکن جب گناہ ہو جائیں تو انکی اذیت صرف اور صرف معافی کی محتاج ہوتی ہے۔

وہ آنسو دبانے کی کوشش کرتی رہ گئی۔

دوسری طرف عباد کے کمرے کی جانب وہ پہلی بار بڑھی تھی، آفس کا ایریا عبور کیے عین اسکے بیڈ روم تک پہنچ کر ہاتھ بڑھا کر پھر یکدم ملامتی انداز سے پیچھے کھینچا۔

کون جانے وہ تو دیوانہ اجڑے حال کو آیا اسکی آہٹ کا منتظر تھا۔

"یا اللہ مجھے اس انسان کے سامنے کمزور مت پڑنے دیجئے گا"

رب کے حضور دعا کرتی وہ ہمت جمع کیے ناب گما کر اندر داخل ہوئی تو سامنے کا منظر توقع کے برعکس پائے وہ تھم سی گئی، وہ جو گلاس ونڈو کی جانب رخ کیے اسکی آمد سے پہلے ہی باخبر تھا، دروازہ کھول کر اندر داخل ہوتی منہا کی جانب مڑے اس انداز سے دیکھنے لگا کہ منہا کو آج دل پر آرے چلنے کا مفہوم سمجھ آیا۔

دونوں کی آشنا سی آنکھیں حسرت کا جہاں لیے آن ملیں، اور وہ آنکھیں جب جب ملتیں، دل کے دھڑکنے کا سبب بنتیں۔

سانس کھینچ کر وہ بہت کرب سے بیچ کا جان لیوا فاصلہ کاٹتا عین منہا کے روبرو کسی مجرم کی طرح آن جما، وہ پلکیں ماہی بے آب کی مانند لرزائے اپنے کانپتے ہاتھ میں پکڑا وہ سفید پروانہ عباد کی جانب بڑھا رہی تھی۔

لیکن اس شخص کو دلائیل اور ثبوت پہلے ہی میسر تھے، اب تو بس معافی درکار تھی۔

"احد ہی آپکا بیٹا ہے، مجھے وہ بے یارو مددگار ملا اور میں اسے گھر لے گئی۔ زمانے کے خوف اور دھتکار کے خدشے مجھے اور دادا کو ڈرا گئے تبھی اسے اپنی بہن۔۔۔۔۔۔"

رکے اور پھر ٹھہر ٹھہر کر رواں ہوئے وہ آج جوابات لیے آئی تھی مگر عباد نے اسکے ہلتے لبوں پر اپنی ہتھیلی یوں آن جوڑی کہ وہ چپ تو ہو گئی مگر یوں آنکھیں اٹھائے دیکھا جیسے دل و جان سے ناراض ہو۔

زمانے کی سختی سے بھرپور آنکھیں عباد پر مرکوز کیے وہ ناراضی کے سنگ اسکی ہتھیلی رسان سے ہٹا گئی، شاکی نگاہیں عباد کا دل زخمی کر گئیں۔

"مجھے بس یہ بتاو کہ مجھے رد تو نہیں کر دیا، مجھے اپنی چھاوں سے بے دخل تو نہیں کیا ، مجھے اپنی محبت سے دستبردار تو نہیں کر ڈالا۔۔۔۔ مجھے اپنے آپ سے نجات تو نہیں دے دی"

وہ آنکھیں، وہ بھوری آنکھیں جن میں ہلکورے لیتا درد منہا کو نڈھال کر گیا، وہ اتنے سارے سوال ایک ساتھ کیے جواب کا منتظر تھا اور وہ چاہتی تھی کاش وقت کا کوئی تیز لمحہ آئے اور اسے اس جان لیوا وجود کو چھوتی آنکھوں کے سائے سے نجات دے، اس خوشبو سے رہائی دے جو منہا کی جان پر بنی تھی۔

"کچھ تکلیفیں نوحے سے گھٹ جاتی ہیں، کچھ آہ و بکا سے ، لیکن میں اس تکلیف سے گزری جو بیان نہیں ہو سکتی، نوحے و آہ و بکا سے گھٹ نہیں سکتی۔ میں کون ہوتی ہوں آپکے ان معتبر سوالوں کے جواب دینے والی۔ میں کون ہوں بھلا آپ کی جسے یہ سارے حق ہیں۔ بے دخل تو میں ہوئی، اس محبت میں چند احساسات، تھوڑی ڈھارس، تھوڑا سکون ہی پایا تھا کہ سب لے لیا آپ نے۔۔۔۔"

وہ الٹا سوال لے آئی تھی، اس کے انداز پر عباد نے سانس بھر کر اسے دیکھا، جی چاہا بنا معافی کے ہی اس تھوڑے کو سرشار کر دے، بھر دے وہ سارے کشکول جو خالی تھے۔

"تم میرا سب کچھ ہو منہا"

لپک کر اسکے چہرے کو گرم ہتھیلوں میں بھرے وہ تڑپ سا اٹھا، منہا کے چہرے پر استہزا بکھرا۔

"جھوٹ"

ہاتھ ہٹائے وہ بھی مقابل کے سارے جذبے منجمد کر گئی۔

"جھوٹا نہیں ہوں"

وہ اسکی بازو پکڑ کر اسکے سرکنے کو روکتا زخمی لہجے اور بکھرے انداز میں بولا۔

"میں بھی فریبی نہیں تھی، نہ ایسی کم وقعت کہ آپ دل بہلانے کا سامان سمجھ لیتے"

اس بار وہ اسے بری طرح زچ کر گئی، عباد اس آخری جملے کو ہرگز سہن نہ کرتا اس بار اسکے دونوں بازو شدت سے جکڑے نرمی سے دیوار سے لگائے اس پر ابرو آچکا کر نظر ثبت کی۔

منہا کو لگا دل حلق میں آ گیا ہے۔

"غصہ کریں گے، چلائیں گے، ہاتھ اٹھائیں گے"

آنکھوں میں نمی لے کر پوچھتی وہ سراسر قہر ڈھا رہی تھی۔

"میں ایسا کیوں کروں گا"

تھکن سے اٹی آواز ڈوب سی گئی۔

"مجھے میرے دادا دے دیں، مجھے جانا ہے"

منہا کا تقاضا وقت کی نزاکت کے برعکس خاصا سنگین تھا، عباد نے اس پھڑپھڑاتی منہا کی کمر میں ہاتھ ڈالے اسے دیوار سے ہٹا کر قرین کیا ، اتنا کہ وہ اپنے ہاتھ عباد کے سینے پر رکھ کر اک مناسب فاصلہ بنا پائی۔

"ٹھیک ہے پھر میری جان لے کر جاو جہاں جانا ہے، مار دو مجھے۔۔۔ اب نہ تو مجھے احد یاد ہے نہ ادا جان، میں صرف تمہیں جانتا ہوں منہا، مجھے معاف کر دو۔ لفظ واپس لیتا ہوں، جتنی اذیت دی تم اتنی دے کر میری ہو جانا۔۔۔۔ "

کسی معصوم بچے کی مانند دامن پکڑ لیتا وہ صفائیاں پیش کرتا آخر تک جس مجبوری و بے کسی سے التجاء کر رہا تھا، منہا کا دل بغاوت پر اترا۔

"آپکا ایک ایک لفظ کمان سے نکلا تیر ہے، یہاں میرے دل پر جا کر پیوست ہو گیا"

لہجے کھارا کیے وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھتی سسکی، اتنی کرب ذدہ کہ شکستہ آواز آنسووں نے نگلی۔

"اپنے دل سے جڑنے دو میرے دل کو، سارے تیر نکل بھی جائیں گے اور زخم بھر بھی جائیں گے"

اک آس لیے وہ اسے خود میں جذب کرنے کا طلب گار تھا مگر وہ ڈر رہی تھی، اس ظالم کا دل جب عین دل سے جا ملتا تھا تو وہ بے بس ہو جائے گی۔

"مارنا چاہتے ہیں مجھے؟"

وہ اسکی اس سازش میں مزاحمت لاتی آنسو چھپا نہ پائی اور عباد نے اسکے چہرے کی اور جھک کر رخسار پر وہاں وہاں ہونٹوں سے چھوا جدھر جدھر آنسو کی لکیر نشان چھوڑتی جذب ہوئی، یہاں تک کہ عباد کی زبان پر آنسووں کی نمکینی گھل آئی، وہ ہنوز پتھر بنی اسے دیکھتی رہی۔

"آنسو نمکین ہوتے ہیں کیونکہ دکھ بڑا کھارا ہوتا ہے، میں نے تمہیں دکھ دیا منہا لیکن تم دھڑکتی ہو اب مجھ میں میرے دل کی طرح۔ تم وصل سے پہلے ہزار پار جدائی دے لینا، مجھے آخری حد تک تڑپا لینا لیکن میری رہ کر۔۔۔۔۔ بولو منہا، معاف کر دو گی ناں"

وہ سب ستم سہنے پر آمادہ تھا، بس منہا کے قریب رہنے اور معافی پانے کی خواہش یاد تھی۔

"جب تک معاف نہ کروں دل سے دل ملانے کی کوشش مت کرہے گا"

اک موہوم سی تسلی سونپتی وہ سب سے سنگین ظلم ڈھا رہی تھی، عباد نے رحم طلب ہوئے دیکھا۔

"میرا بس چلے تو دل سے دل کیا، دھڑکن سے دھڑکن، سانس سے سانس، وجود سے وجود اور آنکھوں سے آنکھیں کبھی جدا نہ کروں۔۔۔۔"

وہ کسی بے خودی میں مبتلا نہ تھا مگر اسکے کھلے الفاظ منہا کے اوسان خطا کر گئے، وہ بہت تھک گئی تھی۔

اسکی آنکھوں میں ریت چبھ رہی تھی تبھی وہ اسے پرے دھکیل گئی، خود کو کچھ فاصلے پر موجود اٹیچ باتھ میں قید کیا اور وہ سانسیں کھینچتا رہ گیا، دل کو بیتاب کیے، ریگ ذات تھامے، تشنہ، بے قرار و مضطرب۔۔۔

کئی دن سے عباد کی سرگرمیوں کے منقطع ہونا میڈیا سے لے کر پارلیمنٹ ارکان تک کے لوگوں میں کھلبلی مچا چکا تھا، میڈیا والے کسی جانی دشمن کی طرح گھات لگائے ایم این اے عباد حشمت کیانی کی جانب سے مسلسل آتی خاموشی پر نظریں گاڑے تھا، بھلے سراج تمام معاملات خود اپنے تئیں دیکھ رہا تھا مگر لوگ عباد کی غیر حاضری پر سوال اٹھانے لگے تھے تبھی سراج کے دیے مشورے پر اس نے میڈیا کے سوالوں کے جواب دینے کا فیصلہ لیے شام پریس کانفرنس کی آمادگی دے دی تھی جس میں اپنے بچے کے مل جانے کی خبر دینا بھی شامل تھا۔

پریس کانفرنس کی تیاری سراج ہی کے سپرد تھی جو فی الحال ہر چیز بھلائے کام میں منہمک تھا۔

الکشن سر پر تھے اور اس وقت عباد کو اپنا مزید خاموش رہنا بھی مناسب نہ لگا۔

دوسری طرف زین کا سکون غارت ہو چکا تھا، صبح سے دوپہر ہو گئی اور اسے محسوس ہوا اسکا سینہ آگ کی طرح سلگ رہا ہے، اسکی آنکھیں جہنم کی طرح تپ رہی تھیں۔

ناجیہ سے وعدہ لیے حسب توقع سرور منظر عام پر آچکا تھا اور زین نے بیزارئیت سے خود جانے کے بجائے اس کے ویلکم کے لیے ٹیم روانہ کر دی تھی مگر اب اسے سرور میں نہیں بلکہ فاضل گوجا میں دلچسپی تھی۔

کئی سوال اسکے ذہن میں منڈلا رہے تھے۔

اپنے آفس کیبن میں بیٹھا وہ ناجانے کون کون سے سال کے ریکارڈ نکال کر گھنگال رہا تھا، اب تک فاضل گوجا نے جتنے بھی قتل کیے تھے وہ سبکی تفصیل جاننے کی کوشش میں تھا۔

اور اسی تجسس میں اسکے ہاتھ کچھ ایسی معلومات لگی جو زین لاشاری کے حواس شل کر گئی۔

اسکے چہرے پر پھیلی تھکن اور لاچاری بلکل اسکی ذات سے مخالف تھی۔

انفارمیشن کے مطابق فاضل گوجا نے آج تک سترہ قتل کیے تھے، اور ہر بار وہ تھوڑی سی سزا پائے چھوٹ جاتا تھا جسکی وجہ یہ تھی کہ اس نے جتنے لوگ قتل کیے تھے وہ سارے کرپٹ اور مجرم تھے، کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جسکو فاضل نے بے گناہ پھڑکایہ ہو، اسکے علاوہ کئی بار وہ مار کٹائی، اور دھنگے فساد کے کیسیز میں بھی جیل جا چکا تھا۔

یہ سب پڑھ کر تو زین کے پورے وجود میں کرنٹ اتر رہے تھے، فاضل گوجا واقعی کوئی عام سیریل کلر نہ تھا، پھر رہ رہ کر اس لڑکی کی کہی باتیں زین کا سینہ سلگا رہی تھیں۔

اپنی آٹھ سالا پولیس سروس کے بیچ آج تک اسکے ہاتھ سے کوئی مجرم بچ کر نہ نکلا تھا مگر فاضل گوجا ایک ایسا پراسرار انسان تھا جس نے زین کا سکون غارت کر دیا۔

باہر ہوتی ہلچل پر وہ اپنے سامنے بکھری فائیلز سمیٹتا اٹھ کر باہر آیا جہاں پولیس سرور کو پورے دبنگ انداز سے حراست میں لے چکی تھی مگر زین کو دیکھتے ہی سرور حسین نے نجس مسکراہٹ ارسال کی جیسے زین کو مشتعل کر دینے کی نیت رکھتا ہو۔

"غلط بات ہے ناں تھانیدار، اس دن تو ایسے آیا تھا جیسے کتے لگے ہوں پیچھے اور آج اتنی بے مروتی کہ خود آنے کے بجائے اپنے ہوتے سوتے روانہ کر دیے۔۔۔بھئی یہ تھانہ میرے لیے ایک ٹیسٹ چینجر ہی ہے، رہا تو ہو ہی جانا میں نے، پر سوچا تمہیں جو اتنی آخر آئی ہے، چل کر مہمان نوازی کا شرف دیا جائے"

طنزا اور ملامتی تمسخرانہ لہجہ اپنائے وہ عین پرسکون انداز سے پینٹ کی پاکٹوں میں ہاتھ دے کر کھڑے زین کی سمت دیکھتے چمکارا مگر وہاں تو یہ حال تھا کہ جوں تک نہ رینگی۔

"کل شام سے پہلے ضمانت ہو جائے گی میری، چلو بھئی دیکھاو مجھے اپنی جیل"

مخظوظ ہوتا وہ پہلی بات زین کے سپاٹ چہرے پر اپنی سلگتی آنکھیں گاڑے ادا کرتا اہل کاروں کے ساتھ اندر لپکا تو شیراز رک کر خود بھی زین کے پرسکون تاثرات پر پریشان ہوا۔

عباد نے پہلے ہی سراج کو سارا معاملہ زین کو بتانے کا کہہ دیا تھا اور اس معاملے کے لیے زین بری الذمہ کر دیا گیا تھا مگر گل مینے کے قاتلوں کی سزا متعین تھی۔

"سر آپ کیا اس لڑکی کی باتوں کی وجہ سے ٹینس ہیں؟"

شیراز نے مودب ہوئے پوچھا، زین نفی میں سر ہلائے کسی گہری سوچ میں تھا۔

رات تک اس آدمی نے آجانا تھا جسکو فاضل کے بارے معلومات اکھٹی کرنے بھیجا گیا تھا۔

"مجھے وہ لڑکی چاہیے، اور یہ معاملہ ہم دو کے بیچ رہے گا۔۔۔ اسے تم کہیں سے بھی ڈھونڈ کر میرے گھر آنی تک پہنچاو گے۔ اور یہ کام آج رات ہو جانا چاہیے"

بنا تمہید باندھے زین اسے ہدایت کرتا اس سے رازداری کی یقین دہانی لیتا بولا جس پر ایک لمحے کو شیراز بھی اس صنف نازک سے بیزار اپنے آفیسر کی اس بات پر مستعجابی ہوا۔

"لیکن سر وہ جیسی ہے میرا تو سر پھاڑ دے گی"

ہچکچا کر اپنا دفاع غرض تھی مگر زین کی رعب دار تیکھی گھوری شیراز کو سخت تنبیہہ سونپ چکی تھی۔

"جی اوکے سر، میں ابھی نکلتا ہوں"

ہڑبڑا کر زین کے عتاب سے پناہ مانگے وہ فوری دو لوگ لیے روانہ ہوا جبکہ خود زین کچھ دیر وہیں کھڑا کسی غیر مرئی نقطے پر نظریں گاڑ گیا۔

حالت زار کہہ رہی تھی کہ انسپیکٹر زین لاشاری کے دل میں کوئی سنگین واردات ہو گئی تھی، آنکھیں سرخ رنگ نجانے کسی خسارے کے باعث تھیں یا پھر۔۔۔۔۔۔

کسی احساس جرم کی شدت سے۔

دوسری طرف ناجیہ نے اپنے وکیل کو کال ملائی اور چلتی ہوئی خود بالکونی میں آئی۔

"کل اسکی ضمانت کروا دینا، پیسے بھیج دیے ہیں"

ناجیہ کا لہجہ سرد تھا وہیں کال رکھتی وہ باہر ہوتی ہلچل پر متجسس ہوتی باہر نکلی۔

سامنے ہی عائشہ جوس کا گلاس لیے کچن سے نکلے اسی کو دینے آرہی تھی۔

"شکریہ عائشہ۔۔۔یہ باہر ہلچل کیسی ہے؟"

عائشہ سے گلاس لے کر وہ خاصے کریدتے انداز سے بولی۔

عائشہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا مگر اس سے پہلے وہ کوئی جواب دیتی، سراج علی کے عین قریب آکر رکنے پر وہ چپ ہوئی وہیں ناجیہ کا بھی چہرہ ناگواری سے تمتما اٹھا۔

"عباد بھائی آپ سے ملنا چاہتے ہیں ابھی"

عباد کا پیغام وہ ناجیہ کو دیتا اس پر اک سرد نگاہ ڈالے ویسے ہی واپس لپکا جبکہ خود وہ بقول اس منحوس کی عدالت میں پیشی دینے آفس روم کی سمت لپک گئی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

پیلس کے پچھلے احاطے میں تاحد نگاہ پھیلے سبزہ زاروں میں بنے گالف گراونڈ میں اس وقت حارث گھریلو سے خلیے میں گیم پر توجہ دیے تھا جب اپنی سمت آتی فاریہ کو دیکھ کر وہ کھیل سے توجہ ہٹائے مکمل طور پر فاریہ کی سمت مڑا جسکی آنکھیں سوجھی تھیں۔

"ہے۔۔۔واٹ ہیپن فاری"

لپک کر فاریہ کی آنسووں کے شدید تشدد سے گلابی مائل ہوتی گال چھوئے وہ شفقت اور برادرانہ محبت سے بولا مگر وہ کچھ کہے بنا ہی حارث کے سینے جا لگی۔

خود وہ فاریہ کے اس رویے پر پریشان ہوا۔

نرمی سے اسکے بال سہلائے اور کچھ دیر رونے دیا تاکہ وہ اپنے کرب کو زائل کر دے۔

جب رو کر دل ہلکا ہوا تو وہ اسے پکڑ کر روبرو کیے بغور دیکھنے لگا جو سراج علی کے منہ موڑ لینے پر صبح سے اب تک نڈھال ہو چکی تھی۔

"لالہ۔۔۔م۔۔میں سراج کی ناراضگی کیسے سہوں۔ اسے بتا دیا میں نے۔۔۔۔ وہ بہت غصہ ہے مجھ پر۔ اور مجھے تو اسکی صرف محبت دیکھنے کی عادت ہے ناں"

بکھرے لفظ سمیٹ سمیٹ کر ادا کرتی وہ اس غذر کو بتائے حارث کو واقعی ہنسا گئی جو یقینا کئی دنوں بعد پہلے جیسا کھل کر ہنسا تھا، فاریہ منہ بگھاڑے آنکھیں بھرا کر حارث کو شاکی نظر سے دیکھنے لگی تو بھائی نے بھی قہقہے سے ہنسی اور ہنسی سے مسکراہٹ بنتے جذبات دبائے اور محبت سے دیکھا۔

"جتنا تم نے اس غریب کی مٹی پلید کی ہے ناں، اسکے بعد بھی وہ تمہیں قبول کر گیا۔۔۔ تو پھر وہ تمہیں کبھی رد نہیں کر سکتا پگلی۔ خوامخواہ انرجی ویسٹ کر دی رو کر، اب تم ایسا کرنا رات اسے کوئی سپیشل سا گفٹ دے کر سوری کر لینا۔ جہاں تک مجھے یقین ہے کہ وہ مان جائے گا"

حارث کا خالص چھیرتا انداز اور اسکی لاپرواہ ٹون واپس آنے پر فاریہ اپنا صدمہ بھول کر حارث کا ہاتھ دونوں ہاتھوں میں لیے گہرا بھیگا مسکرا دی، وہ خود خوشگوار حیرت میں ڈھلا۔

"مما نے ہم دونوں کے ساتھ یہ ظلم کیوں کیا لالہ، کیا ماں ایسے سنگدل بھی ہوتی ہے۔ اگر بابا زندہ ہوتے تو نہ آپ وہ گندی زندگی جیتے نہ میں وحشی بنتی۔ جو چیز ہماری نہیں ہوتی ، اسے چھیننے کے بیچ ہم کتنے بڑے جانور بن جاتے ہیں خبر ہی نہیں ہوتی"

سطحی، ماڈرن سی لاپرواہ بہن آج اتنی گہری بات کر گئی کہ یہ حارث کیانی کو ہلا سا گیا، سہی کہتے ہیں کہ گہرے زخم سہو تبھی گہرے سبق یاد ہوتے ہیں۔

"میں تو ابھی بھی نجس ہی ہوں فاریہ، تم میرے لیے دعا کرنا۔۔۔۔ اور اس عورت کا ذکر بھی نہیں چاہتا۔ انھیں انکے اس ستم پر اپنے دونوں بچوں سے دستبردار ہونا پڑے گا اور یہی انکی سزا ہے۔ میں اپنے تمام ناجائز اور برے کام ختم کرنے کا فیصلہ لے چکا ہوں۔ خود کو پولیس کے حوالے کر دوں گا، ممکن ہے سزا پا کر میرے سلگتے دل کو قرار مل جائے۔ جوا خانہ اور سمگلنگ کے سارے غلط دھندے قبول کروں گا۔ اور اس میں مجھے اپنی بہن کا ساتھ اور دعائیں چاہیں"

حارث کی مضبوط آواز میں دراڑ تھی ویسے ہی فاریہ بھرائی آنکھیں لیے تکلیف سے حارث کے اس ستم پر آبدیدہ ہوئی۔

"میں آپکے ساتھ ہوں لالہ، لیکن عباد کے آگے اگر سو بار بھی آپکی نجات کی درخواست کرنی پڑی تو ضرور کروں گی۔ آپ وہی کریں جس پر آپکا ضمیر مطمئین اور دل راضی ہو۔ مجھے پتا ہے آپکا دل دھل کر پاک ہو چکا ہے، دل تب تک پاک نہیں ہوتا لالہ جب تک محبت کے پانی سے غسل نہ دیا جائے"

بھائی کے اس فیصلے پر وہ بھلے تکلیف میں تھی مگر یہ وقت کا تقاضا تھا، اور فاریہ کے آخری جملے نے حارث کیانی کی بے رنگ سی آنکھوں میں رنگ بھرے۔

"تم فلاسفر بھی بن گئی؟"

گال کھینچ کر وہ اس سنجیدہ ٹرانس سے نکلے ہنسا تو خود فاریہ بھی پھیکا سا مسکرا دی۔

"میں تو بس جوگن بنی ہوں لالہ، سراج علی کی"

آنکھوں میں اخیر محبت بسائے وہ مہکی۔

"محبت کیا واقعی پرسکون جذبہ ہوتا ہے فاریہ؟"

وہ اس سے چار سال بڑا ہو کر بھی اس سے بچوں کی طرح دریافت کرتا نہایت معصوم لگا، فاریہ کی ساری افسردگی پلوں میں شرارت بنی۔

"بہت بہت بہت، کبھی آپکو ہوئی۔۔۔۔ اوپس یہ سوال میں کس فلرٹی سے کر بیٹھی"

مزے اور رشک سے سوال کرتی وہ آخر تک خود ہی ہنسی، اس بار پھیکا سا دلخراش مسکرانے کا فریضہ حارث نے نبھایا۔

"فلرٹی کو بھی ہو سکتی یار۔۔۔اب ایسا بھی ممنوع نہیں ہم سوں پر یہ"

کان کجھاتا وہ بچ نکلنے کو رخ موڑے پھر سے گالف کی جانب متوجہ ہوا مگر فاریہ شرارت سے اب روبرو دونوں بازو سینے پر باندھے مشکوک سا گھوری۔

"بدلے بدلے سے میرے سرکار نظر آتے ہیں"

ہنوز جاسوس بنی وہ گھنا سا ہنسی مگر حارث اسکے سر پر چپت مارتا اپنے کھیل میں لگ چکا تھا، فاریہ بھی ساری اداسی بھولے مسکرا کر بات ٹال جاتے لالہ کے لیے دل سے دعائیں مانگنے لگی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

گہرے نیلے شارٹ فراک اور ہاف وائیٹ پلازو میں کندھے پر دوپٹہ ٹکائے وہ بے دلی سے آئینے کے سامنے تیار ہو رہی تھی، عباد نے پیغام بھیجوایا تھا کہ وہ بھی آج اسکے ساتھ شام پریس کانفرنس میں بیٹھے گی اور عباد پورے میڈیا کے سامنے اسے اپنی بیوی ڈیکلیئر کرنے کے ساتھ ساتھ بیٹے کے مل جانے کی خبر دینے والا تھا۔

وہ تو صبح سے خود غائب تھا، منہا نے کچھ دیر سو کر اپنی تھکن تو اتار لی تھی مگر اس وقت وہ بوجھل تھی۔

دل، دادا اور احد سے ملنے کو چاہ رہا تھا ، مدھم سا میک آوور اسے عائشہ کر گئی تھی اور اب اس عباد کے ہی ملازمہ کے ہاتھ بجھوائے ڈریس میں وہ سہی معنوں میں اس پیلس کی ملکہ لگ رہی تھی۔

مگر ملکہ کے چہرے پر اداسی سراسر اضافی تھی، یہ کمرہ اس پیلس کے باقی کمروں سے کہیں زیادہ پیارا، روشن اور کشادہ تھا۔

دو اطراف میں گلاس ونڈوز تھیں ، جیسے یہاں کے رہائشی کو ہوا اور فضا سے انس اور واقفت رکھنے کا ذوق ہو، جہازی بیڈ جس پر فرل لگی بیڈ شیٹ اور ویسا ہی نرم لحاف نفاست بہم پھیلا رہا تھا، ڈریسنگ پر رنگا رنگ سنگار کا سامان، لوشنز، کریمز، برینڈ پرفیومز، اور ناجانے کیا کیا دھرا تھا۔

قالین نرم و ملائم کے ننگے پیر لیے کھڑی بھی وہ پاوں کو پرسکون محسوس کر رہی تھی، بیڈ کے پاس ہی اسکا سٹریپڈ سینڈل پڑا تھا جسے پہننے کا فی الحال منہا نے ارادہ نہ باندھا، نظر چھت پر لگے فانوس کے جھومر پر گئی، وہ روشنی منہا کو اندھیرا سا لگی۔

بے ساختہ اپنے دل پر ہاتھ رکھا جو سراسر مضطرب تھا۔

وہ کمرے میں آنے کا ارادہ رکھتا تھا مگر پہلے ناجیہ کی عقل پر پتھر اور حواسوں پر بجلی گرانی مقصود تھی۔

دروازے پر ہوتی آہٹ پر عباد کچھ متوجہ ہوا مگر ہنوز اتنی توجہ ہی دی جتنی کی وہ عورت مستحق تھی۔

گہرے میرون ڈریس میں لپٹی وہ شوخ سی حسینہ جسکے چہرے پر بلاوے کے باعث اضطراب درج تھا۔

عباد جو اس وقت بلیک پینٹ پر سفید ٹی شرٹ اور سیاہ جیکٹ میں معمول سے مختلف اور سمارٹ لگ رہا تھا، چہرے پر پھیلی ازل کی سنجیدگی اور کھینچاو دیکھ کر ناجیہ کے لاشعور میں کھٹکا ہوا۔

اٹھ کر مطمئین سی نگاہ ثبت کرتا وہ جیکٹ میں ہاتھ گھسائے عین ناجیہ کے روبرو آ کر تنا۔

"اطلاع دی تھی اپنے کچھ فیصلوں کے بارے میں، سوچا آگاہ کر دوں۔ سراج اور فاریہ کا نکاح کروا دیا ہے اور دونوں ایک ساتھ بہت خوش ہیں اس لیے غلطی سے بھی ان دو کی زندگی میں فساد برپا کرنے کی کوشش بھی مت کیجئے گا ناجیہ صاحبہ"

عباد کے سلگتے مگر آگ لگا دیتے جملے سنتی ناجیہ پتھرا ہی تو گئی، گویا یہ اطلاع تلووں لگی اور سر پر بجھی تھی۔

مشتعل نگاہیں عباد پر گاڑے وہ ناجانے کتنے ضبط میں تھی کہ آنکھیں لہو کی مانند رنگلی ہوئیں۔

"تم نے یہ کر کے اچھا نہیں کیا عباد، مجھے نیچا دیکھا ہی دیا۔ تمہاری نیت اور تمہارے گھٹیا ارادے بہت اچھے سے جانتی ہوں۔ تم ہوتے کون ہو میری اولاد کے لیے فیصلہ لینے والے"

ہتک کے احساس نے ناجیہ کا پرکشش چہرہ آتش کر ڈالا اور جس طرح وہ زہر خندی سے عباد پر چلائی، وہ اس کی توقع تو نہ رکھتا تھا مگر جبڑے بھینچ کر سہہ گیا۔

لیکن جب اپنی وحشت ناک آنکھیں ناجیہ پر گاڑیں تو وہ خوف سے جھرجھری لیے دم سادھ گئی۔

"میں اس گھر کا سربراہ ہوں ، یہ بات اپنے کھوپڑی سے مت نکالا کریں۔ ایک اور سرپرائز بھی سن ہی لیئجے تاکہ جو غش آپ پر پڑنے وہ ایک ساتھ پڑ سکیں"

مقابل کی تکلیف اور بے بسی پر وہ چوٹ کرتا توقف کو رکا، ناجیہ کینہ توز نظریں لیے پھنکاری۔

"منہا سے نکاح کر چکا ہوں اور اللہ کے فضل کرم سے دشمنوں کی غلیظ چال ناکام ہوئی اور مجھے میرا بچہ مل گیا۔ امید ہے آپ ان اطلاعات پر سلگ سلگ کر اپنی یہ ناکارہ جان نہیں دیں گی کیونکہ بس ثبوت کا انتظار ہے پھر یہ جو عباد حشمت کیانی آپکا رہا سہا ادب اور لحاظ کر رہا سب ختم۔۔۔۔۔ میری بات ختم ہو چکی ہے وہ رہا راستہ۔ امید کروں گا کہ کسی مزید سازش کا اہتمام نہیں کریں گی"

ایک ایک لفظ سے وہ ناجیہ کی ہستی فنا کرتا آخر تک تضخیک کے سنگ باہر کا راستہ بتاتے آنکھوں میں غصہ اور عتاب لیے غرایا اور وہ دل ہی دل میں لعن طعن کرتی پیر پٹخ کر وہاں سے نکلی اور بجلی کی مانند ملازمین کو دھکیلتی فاریہ کا پوچھے خود بھی بیرونی اطراف نکلتی پچھلی طرف لپکی۔

اسکا بس نہ چل رہا تھا فاریہ کو کھڑے کھڑے زمین میں دھونس کر رکھ دے۔

حارث تو کھیل میں مگن تھا مگر فاریہ واپس آتی ہوئی تب ناگواری سے رکی جب ناجیہ کو اپنی طرف آتا دیکھ کر لہرا کر فاریہ کی کلائی جکڑی اور ایک زور دار تماچہ فاریہ کے منہ پر دے مارا۔

"بد بخت لڑکی۔۔۔۔ تم نے اتنا بڑا قدم کیسے اٹھایا وہ بھی میری اجازت کے بنا۔۔۔۔ دل تو چاہ رہا ہے تمہاری جان لے لوں"

ناجیہ نے پہلی بار فاریہ پر ہاتھ اٹھایا تھا، اپنی گال سے ہتھیلی جوڑے وہ کتنی ہی دیر آنسو روکتی رہی۔

کڑواہٹ انگ انگ میں گھل گئی۔

"میں سراج علی سے محبت کرتی ہوں"

بے خوف ہوئے وہ اکڑی اور اس سے پہلے ناجیہ ایک بار پھر فاریہ کو مارتی، کسی چٹانی گرفت میں جکڑا اس سفاک عورت کا ہاتھ ہوا میں معلق رہ گیا۔

سراج علی خونخوار آنکھیں ناجیہ پر گاڑے ناگواری سے اسکی کلائی بری طرح جھٹک کر اس طرح گھورا کہ ناجیہ کو اب اس کی جان لینے کی حسرت جاگی۔

"آج تو آپ نے میری بیوی پر ہاتھ اٹھایا ناجیہ کیانی لیکن اگر دوبارہ اسے ایک آنچ بھی آئی تو بھول جاوں گا کہ بدقسمتی سے آپ سے کیا رشتہ جڑھ چکا ہے"

لہو چھلکاتے چہرے کے سنگ وہ عتاب کے سنگ تنبیہہ کیے ناجیہ کیانی کو راکھ کر چکا تھا۔

فاریہ تو تھم سی گئی تھی، سراج علی کی اس ہمت پر اسے پیار اور دکھ ایک ساتھ ہوا۔

"دوٹکے کے نوکر، تمہاری اتنی ہمت۔۔۔۔۔۔ ہمارے ٹکڑوں پر پلتے کتے ہمیں پر بھونکیں گے"

ناجیہ کا غرور اور اسکے سلگ کر کہے یہ جملے سراج نے نجانے کس ضبط سے سہے، وہ عورت تو عورت نام پر دھبہ تھی۔

"اپنی زبان سنبھال کر بات کریں، ورنہ بے زبان سراج علی بھی نہیں۔ اگر آپکی بحیثیت عورت عزت کر رہا ہوں تو اس کو اپنی زلت کے بیچ کا پردہ سمجیے۔ دوبارہ اگر آپ نے فاریہ پر کوئی بھی حکم صادر کرنے کی کوشش کی تو بہت برا ہوگا"

بہت ضبط سے وہ ایک ایک لفظ وافع کرتا ناجیہ کیانی کو وہیں جلتا چھوڑے روتی ہوئی فاریہ کا ہاتھ پکڑے وہاں سے چلا گیا اور وہ نتھنے پھیلا کر مٹھیاں بھینچ کر رہ گئی۔

عین اسی اپنے کمرے تک فاریہ کو لائے وہ اسکے بہتے آنسو اور گال پر تھپڑ کے ظالمانہ تشدد کی سرخائی دیکھتا زخمی ہوا، پکڑ کر اس زرا زرا کانپتی لڑکی کو اپنے وجود کی سہلاتی گرفت میں لیا جو اسکی شرٹ مٹھیوں میں بھینچے بس روتی جا رہی تھی۔

"ششش۔۔رونا بند کرو ورنہ جان لے لوں گا"

لہجہ سخت رکھے وہ تسلی کے ساتھ یہ بھی باور کروا گیا کہ وہ سخت برہم بھی ہے۔

کچھ دیر میں پریس کانفرنس تھی اور وہ لان میں اسی کام کو دیکھنے آیا تھا، مگر اب ناراضگی کے باوجود اسے فاریہ کو سنبھالنا پڑ رہا تھا۔

"ت۔۔تم نے دیکھا ناں وہ تو م م۔میری جان لینے کی خواہش رکھتیں ۔۔۔۔یہ و۔۔وہی ماں ہے جسکے لیے میں نے کیا۔۔۔ک۔کیا نہ کیا۔ خود سے نفرت ہ۔۔ہورہی کہ وہ م۔۔میری مما ہیں"

اٹک اٹک آنسو نگلی آواز بحال کرتی وہ پل بھر میں رو رو کر ہلکان سراج علی کی بازووں میں تڑپی، سسکی اور اسکی یہ سسکیاں وہ اسے خود میں گھوٹ کر دباتا رہا پر آج تو لگتا تھا وہ رو رو کر ہی جان دے دینے والی تھی۔

"اب تمہیں کم از کم اس بات کا احساس تو ہوگا کہ برائی کے انجام کتنا بھیانک ہوتا۔ تم نے غلط کا ساتھ دے کر خود کا نقصان کیا، مجھے بھی تکلیف دی۔۔۔۔ میرا اور تمہارا معاملہ جو بھی ہو لیکن کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دوں گا کہ وہ تمہیں چھو بھی سکے۔۔۔۔"

جب وہ رو کر تھک گئی تو وہ اسے روبرو لائے اسکی سرخ پڑتی گال پر انگلیاں سہلاتا آنکھوں میں غصہ بھر لایا۔

"ہمارا معاملہ جو بھی کیوں۔۔۔۔۔ص۔۔صرف محبت کا ہے ناں۔۔۔۔ تم مجھے س۔۔سزا دے لینا، لیکن ایسے لفظ کہہ کر میری جان مت نکالو۔۔۔۔"

گو وہ سراج کے خفیف سے مثال دینے پر بھی تڑپی، آنسو رخسار بھیگا گئے تو وہ چہرہ موڑے اسکی گال پر بوسہ دیتا اسکی پیشانی چومے سینے میں بھینچ گیا۔

"نہیں نکالوں گا۔۔۔۔۔ لیکن تم اس عورت سے اب دور رہنا۔۔۔۔ باقی سزا تو تمہیں بہت لمبی دوں گا، جیسا تمہاری خواہش ہوگی سراج ویسے قریب نہیں آئے گا تمہارے۔ اب مکرنا مت۔۔۔۔۔"

کچھ دیر پہلے کی کہی بات یاد دلائے وہ اسکی بھیگی ظالم آنکھیں چوم لینے کی خواہش بڑی ڈھٹائی سے دبا کر دور ہونے ہی لگا تو فاریہ نے اسکے گریبان پکڑے روکا۔

"آئی لوو یو سراج علی"

خود ہی ہار جاتی وہ سراج کی بیرڈ والی گال چومتی اک سحر طاری کیے دور ہوئی، یہ اظہار آج پورے ہوش میں تو تھا مگر فاریہ صدمے میں تھی۔

فی الحال وہ دل تھام لینے پر ہی رضا مند تھا، اپنے آپ کو لگ جاتی فاریہ نامی دعا اسے تاعمر آخری سانس تک عزیز تھی پر محبت تو اتنی سادہ گزر گاہ نہ تھی۔

"میں تم سے کبھی دور نہیں جانا چاہتی، میں تمہارے بنا کچھ بھی نہیں۔ اس لیے میرا خیال کرنا "

تاسف کے سنگ وہ خفا سے سراج کو کہتی خود ہی دور ہٹی، مقصد اسے جانے کا راستہ دینا تھا۔

یہ لڑکی اسکی محبت میں دھڑکتا ہوا گیت تھی، وہ دیوار کی اوٹ سے لگتی فاریہ تک پہنچا، بھرپور نظر اس چہرے پر پھیلتے کرب پر ڈالی اور اظہار کا صدقہ پیش کیا، استحقاق کی خوشبو فاریہ کے انگ انگ میں اتری۔

وہ اداس ہو کر بھی رہائی ملتے ہی اتنے شاہانہ خیال کیے جانے پر مسکرا دی مگر وہ یکدم ظالم بنا اسکے بال مٹھی میں لیے نرمی سے چہرہ اپنی سمت کیے سنجیدہ ہوا۔

"اب تیار رہنا ،جلد تمہارے چودہ طبق کرتا ہوں روشن۔۔۔۔۔"

سرسراہٹ بھرا جملہ ادا کیے وہ دانستہ نظر چراتا وہاں سے نکل گیا اور وہ کچھ دیر پہلے سراج کے حق جتاتے انداز پر تھرا سی اٹھی۔

ایسی سزا پر تو وہ کسی کا قتل بھی کر آتی، پورے وجود میں مہکی سی سنسنی اتری اور وہ جو صبح سے اب شام تک رو رو باولی تھی اب تو کھلا ہوا مسکراتی پگلی ہی لگی۔

وہ جو سینڈل سے باقاعدہ لڑ رہی تھی، عباد کے اندر آنے پر خوامخواہ سرخ رو ہوئے اٹھ کر اس سے پہلے ویسے ہی اوجھل ہوتی، عباد نے اسکی کلائی جکڑے زرا سا خم دیے اپنے قریب کرتے ہی منہا کے بالوں کی چند لٹیں پکڑے سونگیں، اک میٹھی سی خوشبو محسوس کرتا وہ اسکے بگھڑے روپ کے باوجود اسکی نازک کمر گھیر کر اسے لاک کر گیا جو خفت کے مارے جھنجھلا کر اسے دھکیلنے لگی۔

"منہا ، میری طرف دیکھو "

یہ شام اور اس خطرناک روپ میں سجی اسکی منہا عباد کے سارے سوئے جذبات جگا رہی تھی، اداسی بھری آنکھیں اٹھائے وہ مزاحمت ترک کرتی اسے دیکھنے پر مجبور ہوئی جو خوشبو سے زیادہ روح پرور اور نرمی سے زیادہ آسودہ تھا۔

"تم وہ لمحہ ہو کہ جس لمحے میں

پھول کو خوشبو عطا ہوتی ہے۔"

ان عارض کی شان بڑھا کر وہاں شدت بھرا لمس دھرے وہ اسکے ہونٹوں کی لرزرتی کیفیت پر مسرور ہوا مگر وہ ہنوز پتھر کا بت بنی رہی جسے ابھی یہ سب اثر انداز نہ تھا۔

"دادوو اور احد یاد آرہے مجھے"

مقابل کے بے رحم ہوتے جذبات سے حائف وہ بمشکل بولی، عباد نے اس چہرے کو رغبت سے دیکھا جو صرف اسکی بینائی کا رزق تھا۔

"جلد بلوا لیتا ہوں سبکو۔۔۔۔۔ لیکن اچھا نہیں تھا کہ ہمیں کچھ دن پرائیویسی ملتی۔ کم از کم روٹھنے منانے کے بیچ کوئی مداخلت نہ ہو سکے"

بھاری جذبات سے لیس آواز میں وہ یہ کہہ کر منہا کی جان ہوا کر گیا جو اس طرح قریب رہ کر ہرگز پرسکون نہ تھی۔

"مجھے آپکے ساتھ پرائیویسی نہیں چاہیے"

جھٹک کر عباد کی بازو کمر سے کھولتی وہ پھر سے آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوئی، عباد کا دل مچلا، قدم منہا کی جانب بڑھائے اور اس بار اس پھڑپھڑاتی ہوئی صنف نازک کو دونوں بازووں میں محصور کیے خود چہرہ اسکی گردن اور اسکے بالوں میں چھپایا۔

وہ اس جان لیوا گرفت میں سانس سادھے آئینے سے رحم طلب ہوتی عباد کو دیکھنے لگی جو اسکی کی جانب دیکھ کر شانت سا ہوا۔

"مجھے چاہیے، کم از کم ہر لمحہ صرف میرے پاس منہا ہو"

اس بار تو منہا اسکی خود غرضی پر برہم ہوئی۔

"احد ہوگا ہمارے ساتھ ہر لمحہ اور میں صرف احد کے لیے رکی ہوں ورنہ۔۔۔۔۔"

آخر کار وہ ستم ڈھاتی تب چپ ہوئی جب وہ اسے بے رحمی کے سنگ پلٹ کر روبرو کیے آزردہ ہوئے دیکھنے لگا۔

"ورنہ۔۔۔۔ جان نکال لیتی میری"

تھکن سے بھاری آواز میں وہ ہارے لہجے میں اسکی آنکھیں کھوجتا بولا، منہا نے گہرا سانس اندر کھینچا اور خفگی سے دیکھنے لگی جیسے واقعی جان لینا چاہتی ہو۔

"جائیں پلیز، باہر آپکا انتظار ہو رہا"

کسی صورت بھی جب کوئی بہتر جواب تراش نہ پائی تو بے گانگی بھرا سراپا لیے خفگی سے کہے عباد کی گرفت سے چھٹکارہ پائے اپنے جوتوں کی جانب لپکی۔

بیڈ پر بیٹھے اس سے پہلے جھکتی، عباد حفیف سی برہم نگاہ ثبت کیے خود گھٹنے کے بل بیٹھا اور منہا کا نازک پاوں اپنے گھٹنے پر دھرا، کسی احساس کے تحت منہا نے پاوں کھینچنا چاہا مگر عباد کی سرد مہر نگاہ اسے اندر تک منجمد کر گئی۔

مزاحمت ترک کرتی وہ عباد کی یہ کاروائی چپ چاپ جبر کیے دیکھتی رہی، دونوں پیروں کو جوتوں میں مقید کیے وہ ناصرف خود اٹھا بلکہ چوڑی ہتھیلی ناراض و سرد جذبات میں لپٹی منہا کی جانب بڑھائی۔

"آج یہ دنیا جان لے گی کہ منہا میرے لیے کیا ہے"

جذب سے اٹا آنچ دیتا لہجہ لیے وہ منہا کے ہاتھ بڑھانے پر خفیف سا مسکایا، وہ خفا بھی تھی مگر چلو زمانے کے سامنے کسی گریز کو نہ کرنے کا عقل مندانہ فیصلہ لے کر اب اپنا ہاتھ اس روح کے مکین کے ہاتھ میں مقید دیکھا جسکی آنکھوں میں جذبات کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر موجزن تھا۔

وہ آج عباد حشمت کیانی کے ساتھ پورے پرتپاک پروٹوکول کے سنگ میڈیا کے سامنے آئی۔

پیلس کے مخصوص آفس ائیر لاونچ میں راونڈ میز کے گرد دھری کرسیوں پر ملک کے ٹاپ جرنلسٹ اور ٹی وی چینلز کے سئنئیر صحافی براجمان تھے۔

عباد کی آمد اور داخل ہونے پر سبھی کمیروں نے ان دو کے ہاتھ پر فوکسڈ کیا۔

کھٹا کھٹ تصویریں اتریں اور اب تو میڈیا والوں میں اک بے چینی لہرائی۔

رسمی علیک سلیک کے بعد میڈیا کے ان لوگوں کے سوالات جاری تھے۔

"سر آپ کافی دن سے منظر سے غائب ہیں، آپ تو ہمارے نیوز پیر کا اہم حصہ ہیں۔ آپ ہمیں بتائیں ان پیاری سے لڑکی کے بارے میں کہ یہ کون ہیں"

میڈیا کا شوخ سا رکن پہلے سوال کو لبوں پر بکھری مسکراہٹ سے پوچھ رہا تھا۔

کچھ فاصلے پر کھڑا سراج ان دو کی نظر اتارتا مبہم مسکرایا جیسے ان دو کے اس ساتھ سے اسے دلی تقویت ملی ہو۔

"میرا منظر سے غائب ہونا دراصل میرے گمشدہ بیٹے کی تلاش اور گل مینے کے قاتل کا سراغ لگانا تھا، رہی بات ان کی تو یہ مسز عباد حشمت کیانی ہیں۔ میری شریک روح، شریک سفر اور شریک زیست"

عباد کے مضبوط اور رشک سے آٹے تعارف پر میڈیا کے تمام کارکنوں میں حیرت کی لہر دوڑی، وہ لوگ چہ مگوئیوں میں ڈوبے، یہ انکشاف تو انکے لیے کسی بریکنگ نیوز سے کم نہ تھا۔

"رہی بات میرے بیٹے کی تو الحمد اللہ وہ مجھے مل چکا ہے جو صرف میری وائف منہا عباد کیانی کے باعث ممکن ہوا، پولیس گل مینے کے قاتلوں سے تفتیش کر رہی ہے، جلد تنائج سے آپکو آگاہ کر دیا جائے گا"

میڈیا والوں کی بے چینی بھانپتا اور خود پر منہا کی زخمی مگر کہیں دل کی کیفیت بتاتی آنکھیں نثار ہو کر سرسری دیکھتا وہ توقف کے بعد مزید بولا۔

میڈیا والوں کے چہروں پر خوشی دوڑی جیسے اس وقت وہ عباد کے ان سکھوں پر ہم جھولی جیسا روپ دھارے ہوں۔

ان سبکی نظریں منہا پر تھیں جو پہلی بار خود کو اتنا معتبر محسوس کر رہی تھی کہ دل بھیگ سا گیا، جتنا دکھ اسے عباد کے وقتی اشتعال میں کہے سرزد لفظوں کا ہوا سب زائل ہوتا گیا۔

"آپ دونوں کے اس نئے سفر پر ہم مبارک دیتے ہیں لیکن آپکی اور گل مینے میم کی شادی تو آج بھی پورے میڈیا اور ملک کے لیے ایک ڈریم ریلشن تھا، کیا آپ کو منہا میم سے دوسری محبت ہوئی۔ ہمیں کچھ بتائیے ناں عباد سر، لوگ آپ دو کے اس میجیکل ساتھ کے بارے جاننا چاہتے ہوں گے"

ایک اور نجی چینل کا رپورٹر کریدنے انداز سے یکدم ہی نرم ٹون کے سنگ پوچھنے لگا، منہا کو لگا دل کو دھکا لگا ہو۔

تو گویا منہا اس رقابت کے طوق سے کبھی نکل نہ سکے گی، وہ اداس تھی، اسکا میک آپ کے ہلکے پھلکے ٹچ سے لیس چہرہ بھی اداسی چھپا نہ سکا۔

عباد حشمت کیانی نے سب کے سامنے منہا کا مرمریں ہاتھ پکڑا اور جھک کر اسکی پشت چومی، یہ مومنٹ میڈیا والوں کے جوابات کی تسکین اور دل دھڑکانے کا سبب بنا۔

ہلکی سی ہوٹنگ پر خود منہا سٹپٹائی۔

"منہا میرا عشق ہے، میری روح کی راحت۔۔۔ ہم کیسے ملے یہ ہم دو کی زندگی کا ایک بہت ذاتی معاملہ ہے۔ جہاں تک گل مینے کا تعلق ہے وہ میری زندگی کا ایک چمکدار حصہ تھی اور اہم رہے گی کیونکہ وہ میرے وارث کی ماں تھی۔ اللہ اسکے درجات بلند کرے۔

آپ سب کی مبارک کا شکریہ۔ میں چاہوں گا آپ سب ہمیں اپنی دعاوں میں یاد رکھیں۔ ان شاء اللہ اب آپکو میں منظر عام پر نظر آتا رہوں گا"

عباد کا مخصوص انداز سے پر سحر لہجہ اور یہ وضاحت میڈیا والوں کے مزید کریدتے سوالات کا گلا گھوٹ چکی تھی، منہا نے رخ موڑے عباد کو دیکھا جسکی آنکھوں میں دنیا بھر کی محبت رقصاں تھی۔

وہیں یہ خبر جب براہ راست حور اور اسکی والدہ نے ٹی وی پر دیکھی تو ایک لمحے کو ورطہ حیرت میں غرق ہوئیں۔

لیکن حور کے چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ ڈھلی۔

"وہ اسی کی مستحق تھی، منہا نے بہت کرب جھیلے امی۔ اور دیکھیں اللہ نے اسے رنگ لگا دیے"

حور کا رشک اور پیار دیکھتیں اسکی والدہ بھی مسکرا دیں۔

واقعی اللہ نے اسے رنگ لگائے تھے، یہی براہ راست کوریج حویلی میں ادا صاحبہ اور معظم صاحب کی بصارت میں آئے ہر دکھ کی کاٹ کر گئی۔

وہ دونوں ایک دوسرے کی سمت دیکھ کر مسکائے۔

"دیکھا آپ نے معظم بھائی، عباد کے لیے منہا اسکی سانسیں بن گئی ۔ اب آپ ساری فکریں چھوڑ دیں"

اپنی منہا کو ہمیشہ ہی وہ اسی اعلی مقام پر دیکھنے کے خواہش مند تھے، آج تو انکی آسودہ مسکراہٹ تھمنے پر نہ آرہی تھی۔

آنکھیں خوشی کی تمازت سے بھرے جاتیں تو وہ مسکرا کر انھیں رگڑ دیتے۔

منہا عباد کیانی ایسے ہی عروج کی حق دار تھی اور دادا کا واحد کلیجہ تھی وہ، انکی کل دولت۔

اب تو بس خوشی ہی خوشی تھی۔

پریس کانفرنس کے بعد منہا تو عائشہ کے پاس چلی گئی البتہ خود عباد بھی زین کے تھانے بلانے پر گارڈز کے ساتھ بہت اجلت میں نکل گیا۔

ناجیہ کیانی اس وقت سے بپھری بلا کا روپ دھارے اپنے بال نوچے کمرے میں متوحش حالت میں اپنے اشتعال کو سلگاتی رہی تھی۔

کل سرور کی ضمانت کے بعد وہ کچھ بڑا سوچ چکی تھی، اب اسے اپنے رہے سہے تمام دشمنوں کا خاتمہ کرنا تھا جن میں سر فہرست سرور، سراج شامل تھے۔

اسکی وحشی حالت بتا رہی تھی کہ قیامت نزدیک ہے۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

کتنے لمحے آ کر گزر چکے تھے مگر وہ مخدوش حالت میں سر جکڑے پتھرایا بیٹھا تھا، میز پر دھری فائیل پر لکھی تفصیلات زین کا منہ چڑا رہی تھیں۔

شیراز کچھ فاصلے پر مودب مگر تشویش زدہ سا کھڑا تھا کیونکہ جب سے یہ سارا معاملہ زین تک آیا تھا وہ ہوش گنوائے بس ان کاغذات کو گھورے جا رہا تھا۔

کچھ دیر پہلے ہی نوراں کو عین اسکے گھر کے باہر سے منہ پر کپڑا رکھ کر بیہوش کیے وہ زین لاشاری کی اکلوتی خالا فرحین کے سپرد پوری امانت سے کر آیا تھا جو ایک نفیس اور اصول پرست خاتون تو تھیں مگر زین کی اس حرکت پر وہ بھی اس پیاری مگر بیہوشی میں بھی بے جان سی لڑکی کو دیکھ کر رنجیدہ تھیں۔

"مجھے زین سے ایسی توقع ہرگز نہ تھی"

ملازمہ جو نوراں کے لیے بہت سے کپڑے اور ضرویات کی اشیا آکر وارڈراب میں سیٹ کر رہی تھی ، فری صاحبہ کی بات پر چونک کر مڑی۔

وہ آزردگی سے اس پری پیکر پر نگاہیں جمائے افسردہ تھیں۔

فرحین صاحبہ ڈاکٹر تھیں اور زین لاشاری کا کل سرمایہ بھی، جہاں فرحین کے شوہر کی وفات ہو چکی تھیں وہیں انکی کوئی اولاد نہ تھی، اور زین بھی اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا انکی حادثاتی ایک ساتھ موت کے بعد سے فرحین کی ذمہ داری تھا۔

وہ صرف سات سال کا تھا جب اس نے اپنے ماں باپ کی موت دیکھی، بہن بھائی کا تو جنجھٹ نہ تھا، پھر وہ آدم بیزار سا ددھیال اور ننھیال سے بھی کٹ کر بس اکلوتی خالا کا بیٹا بن گیا۔

فرحین خودمختار عورت تھیں انہوں نے اکیلے زین کی پرورش کی اور اسے ایک قابل انسان بنایا مگر چاہ کر بھی زین کی ذات کی خشکی اور تنہائی کا ازالہ نہ کر سکیں، وہ لوگوں اور رویوں سے کٹا سا ایک حقیقت پسند آدمی بن گیا، عورت ذات سے کوسوں دور، بلکے گریز برتتنے والا بس گھر میں فری کے ساتھ اور گھر سے باہر مجرموں کی شامت اور قانون کے محافظ ہونے کی ذمہ داری نبھاتا مگر زندگی کے اس اکتیسویں سال اسکی سمت سے کسی لڑکی کو لانا فری کے لیے کسی حیرت اور فکر کے جھٹکے سے کم نہ تھا۔

وہ شام سے اب تک اس لڑکی کے بابت سوال کو کئی بار زین کو کال ملا چکی تھیں مگر وہ صرف ایک میسج بھیج کر شام بات ختم کر چکا تھا۔

"وہ اب سے یہیں رہے گی آنی، اسکا معاملہ گھر آکر تفصیل سے بتاوں گا۔ فی الحال وہ آپکے پاس میری امانت ہے"

زین کا میسج کئی بار پڑھ کر بھی وہ مضطرب تھیں۔

لیکن زین سے بار بار سوال دہی انکو خود پسند نہ تھی تبھی اسکا انتظار ہی بہتر لگا۔

کب وہ مندی مندی آنکھیں کھولے ٹیس سے درد کرتے سر کو جکڑے سسکی کہ خود فری جو کسی گہری فکر میں غرق تھیں، گھبرا کر اٹھے اس کے پاس بیٹھیں اور شفقت سے نوراں کا ہاتھ تھامنا چاہا مگر وہ حسیں بیدار ہوتے ہی خوفزدہ سی ہوتی انکا ہاتھ جھٹکتی فوری اٹھ بیٹھی۔

یہ جگہ، یہ لوگ سب پرایا تھا، اپنے آپ پر جھپٹتے اس آدمی کا خیال آتے ہی نوراں کی آنکھیں بھریں اور اس سے پہلے تو روتی، فری نے اسکے آنسو بہت پیار سے ہتھیلی پر چنے۔

وہ لڑکی بھلے خوبصورت تھی پر اسکی سوجھی آنکھیں کسی بڑے ملال کی خبر دے رہی تھیں۔

"گھبراو مت چندا، تم محفوظ ہو۔۔۔۔ اسے اپنا گھر ہی سمجھو"

فرحین کی دی وقت کی مناسبت سے تسلی نوراں کو مزید دردناک کر گئی، آخر وہ کیسے اس جگہ آئی، دماغ سوچ سوچ معاوف تھا۔

"کیوں سمجھے ہم اسے اپنا گھر، کون ہیں آپ۔۔۔ کون لایا میرے کو ادھر "

اسکا لہجہ عجیب سا ساونڈ کیا تبھی فری کے ماتھے پر مزید فکر سے شکنیں اتریں، ملازمہ بھی صدمے میں کھڑی متوجہ تھی۔

"ہمارے فرزند کی امانت ہیں آپ، باقی وہ خود آکر تمہارے ساتھ ساتھ مجھے بھی تمہاری آمد کی وجہ بتائے گا"

فری کا پریشان سا لہجہ نوراں کو کسی سائرن سا کھٹکا، وہ اٹھ کر بستر جھٹک کر اٹھی، سر درد سے بھلے پھٹا جا رہا تھا مگر نوراں کو جانا تھا، فری بیقراری سے اٹھ کر اس بپھری بلا کی راہ میں آئی۔

"پلیز چندا آپ نہیں جا سکتیں"

فری کا انداز ملتیجانہ تھا، نوراں نے سرد مہری سے گھورا۔

"کاہے نہیں جا سکتی، آپکے اس فرزند کی قبر تو بعد میں کھودے گی نوراں پہلے یہاں سے نکلوں"

وہ بلکل فری کو ہونق چھوڑتی اس سے پہلے وہاں سے جاتی، کسی چوڑے سینے سے ٹکراتی کراہٹ دباتی لہرائی مگر سنبھلتے ہی سامنے موجود اس شخص کو دیکھتے ہی نوراں کی آنکھوں میں سرخی چھلکی، وہ عباد کا آفس میں بیٹھے منتظر تھا مگر اسے بار بار فری کی کال کر کے دیکھائی دیتی بے چینی مجبور کر گئی تبھی وہ شیراز کو وہ فائلز تھمائے خود آدھے گھنٹے کے لیے گھر آیا تھا۔

ملازمہ وہاں سے اس خونخوار تصادم کو دیکھتے ہی غائب ہو چکی تھی البتہ فرحین کی جانچتی نظریں ان دو پر تھیں۔

"تُو۔۔۔۔تیری ہمت کیسے ہوئی مجھے اغوا کرنے کی۔ منحوس پتھر دل افسر"

تضخیک کے سنگ وہ زین کا چہرہ دیکھتے ہی جس دلیری سے اسکا گریبان پکڑے چینخی یہ ناصرف زین کے لیے ایک دھچکا تھا بلکہ فرحین بھی اس لڑکی کی جرت پر دہل گئیں۔

"کیونکہ کل تم پوری شان سے زین لاشاری کے عقد میں آو گی، بنا چوں چاں کیے"

زین اپنی شعلہ باز نظریں اور اس سرسراتی آگ لگاتی فتخ مندی میں لپٹا آہستگی سے نوراں کے کان میں صور پھونکتا بولا، جہاں فری پتھر بنیں وہیں نوراں کا دل چاہا اس شخص کا کلیجہ نوچ ڈالے۔

"تیرے عقد میں آتی ہے میری جوتی۔۔۔چھوڑ دے مجھے ورنہ تیری زندگی حرام کر دوں گی۔ قاتل، درندے، اغوا کار منحوس۔۔۔ تیری قبر کھود دے گی نوراں"

حلق کے بل چلاتی وہ چینخی کہ اسکا نازک چہرہ لہو سے تنتنا اٹھا۔

اس سارے ڈرامے پر فری کا ضبط جواب دیا۔

"سٹاپ۔۔۔کوئی مجھے بھی بتائے گا یہ کیا تماشا ہے"

فرحین کے سخت جملے پر وہ دونوں ہی ایک دوسرے کو سلگانے سے چوک کر تھمے۔

"فری۔۔۔ کل آپ شام تک اسے تیار کروا دیجئے گا۔ میں اسکے لوفر بھائی سے بنا اجازت اس بے لگام گھوڑی کو نکاح میں نہیں لانا چاہتا۔ اگر یہ بھاگنے کی کوشش کرے تو بے فکر رہیں، بیرونی دروازے پر کھڑے گارڈز اسکو دیکھ لیں گے۔ باقی تم اگر گھر کی کسی دیوار کو پھلانگنے کا سوچ رہی تو وہاں کرنٹ چھوڑا گیا ہے، لہذا چوائز تمہاری ہے کہ کرنٹ سے مرنا ہے یا میرے ہاتھوں"

وہ بات بھلے فری سے کر رہا تھا مگر دیکھ سرخیوں میں گھلتے نوراں کے چہرے کو رہا تھا جو اس کے بعد اپنا ضبط برقرار نہ رکھے زین کے سینے پر اپنی ننھی منی قوت سے کئی مکے مارتی جب تھک گئی تو بیڈ کے کنارے اجڑا سا چہرہ لیے جا بیٹھی۔

اک بھرپور نگاہ زمین کو گھورتی بھرائی آنکھوں والی نوراں پر ڈالتا خود وہ خفا اور برہم سی فرحین کو بازو سے لگاتا کمرے سے نکلا اور بند کرتے ہی ملازمہ کو نگرانی پر براجمان کیے خود لاونچ ایریا تک آیا اور اپنی برہم فری کو بیٹھائے خود بھی بیٹھا اور چند منٹوں میں ناجانے کونسی داستان سنائی کہ فری تو بوکھلا کر رہ گئیں، آنکھوں میں حیرت سے پھٹا تاثر تھا۔

"یہ کیا کر رہے ہو زین، تم نے تو مجھے پریشان کر دیا"

فری کا صدمات میں لپٹا جملہ زین کو دل جلی سی مسکان دے گیا۔

"وہ فی الحال اکیلی ہے، اسکے بابا مر گئے ، واحد سہارہ بھائی ہے جو جیل میں ہے۔ تو ایسے میں زین لاشاری اپنے دل کی دنیا ہلا دیتی اس آفت کو اس نوچ کھاتے زمانے کے رحم و کرم پر کیسے چھوڑ دیتا۔ وہ اپنی حفاظت کر سکتی ہے لیکن شاید مجھے یہ کر کے اک الگ ہی خوشی ملے گی"

آج وہ زین کو ایک یکسر الگ روپ میں دیکھ کر صدمے میں تھیں، اسکے فیصلے کی شدت اور اجلت سمجھ آتے ہی فرحین نے مسکرا کر زین کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے چوما۔

"کیا پہلی ہی نظر میں محبت ہو گئی؟"

فری کا پوچھنے کا انداز اچھوتا اور ملائم تھا۔

"نہیں، لیکن جلد اس بات کا فیصلہ کر لوں گا کہ کیوں اہم ہوئی۔ خیر آپ کل تک اسے سنبھال لیں۔ مجھے اب نکلنا ہوگا"

وہ ہوا کے گھوڑے پر ہی ہمیشہ سوار رہتا تھا، فری نے اسے اسکی مکمل حفاظت کی یقین دہانی سونپے رخصت کر دیا۔

جب تک وہ واپس تھانے پہنچا، عباد حشمت کیانی کی آمد ہو چکی تھی۔

شیراز اسے سارے معاملے سے آگاہ کر چکا تھا تبھی اسکے آفس روم میں آکر بیٹھنے پر عباد نے اک سرد سی نگاہ زین پر ڈالی۔

"یہ سب میرے لیے کسی دھچکے سے کم نہیں "

عباد کی بھاری آواز زین کو درد سے اٹی بھی لگی مگر زین کو خوشی تھی کہ وہ شاید بہت بڑی الجھن سے باآسانی نکل آیا۔

"میرے لیے بھی تھا، کیا آپ واقعی گل مینے صاحبہ کے ماضی سے انجان تھے؟ میرا مطلب ہے وہ ایک سال آپکی زوجیت میں رہیں، کبھی بھی آپ نے ان سے انکی فیملی کے بارے نہیں پوچھا"

زین کا لہجہ بے لچک تھا، عباد نے وہ فائیلز میز پر بے زاری سے رکھے کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے سگریٹ نکال کر سلگائی اور جیسے کسی تکلیف کو دبانے کے لیے لگتار دو تین کش بھرے۔

زین اسکی حرکات و سکنات غور سے ملاخظہ کر رہا تھا۔

"اس نے کہا تھا وہ یتیم اور بے سہارا ہے، یتم خانے میں پلی ہے۔ ایک امیر فیملی نے اڈاپٹ کیے پڑھایا لکھایا پھر وہ جب ماڈلینگ اور فلم انڈسٹری میں آئی تو اسکے دوسرے ماں باپ جو کہ خاصا ادبی گھرانا تھا، ناطہ توڑ گئے"

عباد یہ سب سپاٹ انداز سے کہتا گیا، کش لیتے لیتے اسکی سانس پھولنے لگی تو خفت سے اسے زین کی میز پر دھرے ایش ٹرے پر ویسے ہی مسل گیا جیسے اس وقت اسکا دماغ تھا۔

"اب آپ بتائیں کہ سرور حسین کی کیا سزا ہونی چاہیے، کیا آپ اب بھی گل مینے کے قاتلوں کی سزا چاہتے۔ جہاں تک مجھے علم ہے اگر کوئی ثبوت اور گواہ نہ ہوا تو وہ کل پہلی پیشی پر ہی ضمانت پر رہا ہو جائے گا۔ فاضل گوجا کا معاملہ بھی آپکے سامنے ہے، اسکا ریکارڈ اور اس قتل کے پیچھے کی کہانی اسے مجرم ثابت نہیں کر رہی۔ زیادہ سے زیادہ اسے تھوڑا سا جرمانہ اور ایک دو سال کی سزا ہی ہو گی۔۔۔"

زین کے مزید پیش کیے گئے معاملات پر عباد بے قرار سا سینہ مسلے اٹھ کھڑا ہوا، یوں لگا سانس کو چلتی ہوا تھم گئی ہو۔

"سرور حسین اس کے علاوہ بھی کئی نجس کاموں میں ملوث ہے، ثبوت پہنچ جائیں گے کل تم تک۔ لیکن فی الحال اسکی ضمانت ہو لینے دو۔ میں چاہتا ہوں اسے اور ناجیہ کیانی کو رنگے ہاتھوں پکڑوں۔ رہی بات فاضل گوجا کی تو اسکا معاملہ تم پر ہے۔ اس سے جو بھی بات پتا چلے تم مجھے بتاتے رہنا"

کچھ دیر سوچنے کے بعد عباد نے سنجیدگی کے سنگ سپید چہرے کے ساتھ زین کو ہدایات دیں اور خود بھی زین اس پر اٹھ کھڑا ہوئے چلتا ہوا عین عباد کے روبرو آیا۔

"بیٹے کے ملنے کی مبارک آپکو، لیکن حارث کی کیا سزا متعین کی پھر آپ نے؟"

زین کا لہجہ نرم اور آنکھیں عباد پر جمی تھیں۔

"خیر مبارک، اسکی سزا وہ خود اپنے آپ کو دے گا۔ اگر وہ یہاں آتا ہے اپنے جرائم قبول کیے تو بند کر دینا خبیث کو۔۔۔لیکن دھیان رہے کوئی پرچہ مت کاٹنا۔ کچھ دن رکھ کر چھوڑ دینا۔ باقی اسکی سزا اسے مل چکی ہے"

اتنا بڑا نقصان کرنے کے باوجود عباد کا یہ نرم سا فیصلہ زین کو بھی مسکانے پر اکسا گیا۔

"جیسا آپ کو ٹھیک لگے، سرور پر نظر رکھوں گا اس بار میں خود بھلے ضمانت ہو جائے۔ دوسرا آپکی الیکشن میں کامیابی کی پوری توقع ہے"

زین کا انداز دوستانہ ہوا تو عباد بھی پھیکی سہی پر مسکراہٹ عطا کرتا اسکا کندھا تھپکائے آفس سے نکل گیا، جبکہ زین کا ارادہ اب اپنے ہونے والے سالے سے ملاقات کا تھا۔

"ناہنجار اولاد"

ناجیہ کا کوسنا حارث کے سینے پر ہتھورے سا برسا تھا مگر پرواہ کسے تھی، وہ مزے سے وسیع و عریض لاونچ میں ٹانگیں پسار کر بیٹھا ڈنر کے بعد سے میچ دیکھ رہا تھا جبکہ اسکی ساری کارستانی سن کر ناجیہ کو وہ آگ لگی کہ شعلے بنا دیکھائی دیے بھی محسوس ہوئے۔

"آپ ایک کام کریں کہ اپنی اولاد پر فاتحہ پڑھ لیں اور سمجیں ہم بھی اپنے بابا کے ساتھ مر گئے تھے، نہ تو فاریہ کو آپکی ضرورت ہے نہ مجھے۔ فیصلہ لے چکا ہوں کہ خود کے گناہ کیسے دھونے ہیں۔ آج آخری دن ہے، کل سے خود کی سزا تعین کر دوں گا"

مسلسل ٹی وی پر نظر جمائے وہ لاپرواہی میں بہت سی سرد مہری بھرے ناجیہ کی کائنات ہلا رہا تھا مگر وہ اپنا سر پھٹتا محسوس کر رہی تھی۔

"تم جیسی اولاد سے بہتر واقعی یہی تھا یا بے اولاد ہوتی یا پیدا ہوتے دونوں کو زندہ دفن کر دیتی"

وہ چکر کاٹتی سخت دلبرداشتہ ہوئے دھاڑی اور حارث نے میچ سے نظر ہٹائے استہزایہ نظر اس سفاک عورت پر ڈالی۔

"اور کیسے زندہ دفن کیا جاتا ہے ماں حضور، خدا نے یہ سزا شاید ہی ہم بہن بھائیوں کے لیے ہمارے بدبخت کرموں پر بھی طے کی کہ آپ جیسی ظالم کے قدموں میں ہماری جنت رکھ دی۔ خدا گواہ ہے کہ ایسی جنت تمام تر خواہش کے مسترد ہو جانی ہم سے، اپنے آپ سے پوچھیے گا کہ زندہ دفن ہی کر دیا آپ نے ہمیں"

اک تکلیف اور دکھ تھا جس کے زیر اثر حارث کی آنکھیں سرخ ہوئیں اور ناجیہ نے کدورت بھرے انداز سے حارث کو دیکھا جیسے اسکی جان لے لینا چاہتی ہو۔

"اپنی بکواس بند کرو حارث، میں نے جو کیا تمہارے اور فاریہ کے اچھے مستقبل کے لیے کیا"

اس بار وہ لہجہ نرم کیے جان بوجھ کر اسکے قرین ٹک کر اس نیت سے مدھم پڑی کہ کاش یہ بیٹا تو اسکی طرف ہو جائے مگر وہ اس پر ہنسا، تلخ اور زخمی ہنسی۔

"دیکھائی دے رہا ہے مستقبل، بیٹی کو ایک معصوم کا قاتل اور بیٹے کو دنیا جہاں کا بدبخت انسان بنا کر۔ لیکن شاید اس میں میری اور فاریہ کی برابر غلطی تھی کیونکہ ہم نے بھی بد ہدائیتوں کی طرح آنکھیں میچ کر دل پر فقل لگوا لیے۔ جائیں یار میرا دل شدید زخمی ہے کہیں دکھ میں آپکی بے ادبی نہ کر جاوں۔ اور کوشش کریے گا اپنی این جیو اور دولت لوٹتی سازشوں میں ہی دھیان رکھیں۔ مجھ پر اور فاریہ پر اپنا سوچ کر وقت برباد مت کریے گا۔ اپنے لیے میں کافی ہوں اور اپنی بہن کے لیے بھی"

صاف صاف کٹا پٹا لہجہ لیے وہ جس تکلیف سے یہ سب ناجیہ کو بولا، لاونچ کی سمت حارث کی کافی لاتی عائشہ جان بوجھ کر رکی اور اوٹ میں چھپ سی گئی۔

"سب کو دیکھ لوں گی"

شعلہ لپکاتی آنکھوں سے وہ باقاعدہ وارن کیے گئی اور اسکے جاتے ہی عائشہ کافی کا مگ لیے چہرے پر اتری افسردگی دبائے چلتی ہوئی قریب آئی اور حارث کے سامنے ہی میز پر کافی کا مگ رکھے اس سے پہلی مڑتی، حارث کے پکارنے پر رکی اور پلٹی۔

"میرے پاس بیٹھ سکتی ہو؟ بس تھوڑی دیر"

وہ جس طرح اس سے خواہش کر رہا تھا، عائشہ کے دل کو دھکا سا لگا، تمام تر ڈر اور دکھ کے بھی وہ حارث کے سیدھا ہو کر بیٹھتے ہی بیچ میں ایک فرد کی جگہ کا فاصلہ بنائے بیٹھی۔

انداز بہت سمٹا سا تھا۔

"میں اگر یہاں سے ہمیشہ کے لیے چلا جاوں تو تمہیں خوشی ہوگی کیا؟"

کچھ دیر عائشہ کا جھکا چہرہ تکتا وہ سوال سے اسے چونکنے پر اکسا گیا، رخ مہتاب اٹھائے وہ شاکی نگاہیں ضبط نہ کر پائی۔

"مجھے خوشی کیوں ہوگی سر، آپکا یہ گھر ہے۔ میں یہاں ایک ورکر ہوں۔ میرا مطلب یہ سوال آپ کیوں کر رہے؟"

عائشہ کا متذبذب ہونا بھانپ کر وہ اک گہری مسکراہٹ اسے دیتا ناجانے کیا سوجھی کہ بنا پلکیں جھپکائے وہ اسے دیکھتا رہا۔ اتنی گہرائی سے کہ عائشہ سٹپٹا سی گئی۔

"ابھی نہیں حارث کیانی، پہلے اپنی ذات پر لگے نجس داغ دھونے ہوں گے"

دل تو چاہا وہ اس بھولی مگر بہت ہی عزیز لڑکی سے اپنے گہرے جذبات بیان کر دے مگر ابھی اسے اپنا آپ عائشہ کے لائق نہ لگا۔

"تم بہت اہم ہو میرے لیے"

خفیف سی محبت آنکھوں میں رقصاں کیے وہ عائشہ کے کھوئے تاثرات کو جانچتا جو یہ افضل سا جملہ ادا کر گیا اس نے عائشہ کو میسمرائز کیا تھا۔

وہ کتنی دیر کچھ نہ بول پائی۔

"جب میں نے پہلی بار ایک لڑکی کے ساتھ رات گزارنے کا فیصلہ کیا تھا، تب شاید وہ پہلا لمحہ تھا کہ میرے اندر سے کسی نے کرلا کر ملامت کی تھی۔ لیکن یہ سب ہم سی اپر کلاس میں معمول کے شوق تھے۔ وہ لڑکی مکمل راضی تھی، اسے نہ اپنی عزت کا خیال تھا نہ میرے آگے بے آبرو ہونے پر کوئی شرم۔ جیسے اسکے لیے یہ بہت فخر کی بات ہو"

کچھ سینے میں سلگا تو حارث کی یکدم سوگوار ہوتی حالت اور اس انکشاف پر عائشہ کا دل سکڑ سا گیا، اس شخص سے گھن سی آئی مگر ابھی حارث کی بات مکمل نہ ہوئی۔

"لیکن تمہیں پتا ہے میں ایک محدود حصار اور حد سے نکل ہی نہ سکا، اس لڑکی نے میرے بیچ راہ دھتکار کر فرار کرنے پر میرے اوپر سمگلنگ کا کیس کروا دیا، حالانکہ وہ سچ تھا مگر اس لڑکی نے ثبوت فراہم کیے۔ جو مما نے وکیل کو پیسے دے کر مٹوائے اور مجھے ضمانت پر بری کروایا"

آخر وہ کیوں عائشہ کو اپنی زندگی کے سچ بتا رہا تھا، یہ پہلی بار تھا کہ عائشہ کو محسوس ہوا اسکے دل کو کسی نے تھپکی دی ہو۔

"مطلب آپ نے اس لڑکی کے ساتھ کچھ غلط نہیں کیا تھا؟"

عائشہ کا سوال بے باک تھا مگر وہ یہ پوچھ کر ہرگز شرمندہ نہ تھی۔

"نہیں، ایک آدھ ک۔۔۔۔۔۔"

کچھ کہتے ہی وہ عائشہ کے سرخ ہوتے چہرے کو بھانپے اس لفظ کو کہتے کہتے خاموش ہوا، عائشہ نے ناجانے کس طرح غصہ دبایا۔

وہ اسکے تاثرات دیکھ رہی تھی جو غصہ دباتی گھٹی سی حارث کو مزید گرویدہ کر گئی۔

ناجانے کس خوف کے پیش نظر عائشہ نے اپنے ہونٹوں کو بھینچ لیا۔

"پھر یہ ہر بار ہوا، ہلکے پھلکا لڑکیوں سے منہ لگنا تو میرا معمول تھا، تم پر بھی ٹرائے کیا کئی بار لیکن تم ہاتھ ہی نہ لگی۔"

پہلا جملہ بے باکی اور کھلے الفاظ میں ادا کرتا وہ آخر تک عائشہ کی رنگت زرد کر گیا، اسے وہ سب منظر ذہن کی سکرین پر چلتے محسوس ہوئے جب جب حارث نے اسے اکیلے میں دبوچنے اور اس کو بے خود نظر میں محصور کرنے کی کوششیں کی تھیں، عائشہ کے چہرے پر عتاب اترا۔

"تم ان سب جیسی نہیں تھی تبھی کوشش ناکام ہونے پر خوشی ہوتی تھی مجھے"

حارث کا اگلا جملہ مانو عائشہ کا سارا عتاب بہا لے گیا۔

کیا وہ اسے معتبر کر گیا تھا، نمی سی عائشہ کی آنکھوں میں ابھری۔

"بارہا ایسا ہوا ، میں برا ضرور تھا پر زانی نہ بن سکا۔ ہر بار کوئی کشش مجھے روک لیتی، مار کٹائی، سمگلنگ میں میرا ثانی کوئی نہ تھا، شراب خوری اور جوا میرا من پسند تھا مگر سکون نہ ملا اس سب عیش میں۔ سکون جانتی ہو کہاں ہے؟"

یہ انکشاف عائشہ کو سکون دے گیا وہیں حارث کے آخری سوال پر عائشہ نے غائب دماغی سے اسکو دیکھا جیسے بہت الجھی ہو۔

وہ مسکرایا، گلابی لبوں پر تہلکہ مچاتی مسکراہٹ پر عائشہ متذبذب ہوئی۔

"کہاں؟"

عائشہ کا پوچھنا حارث کو نعمت خدا وندی لگا۔

"تمہارے آس پاس، تمہارے اتنے قریب سے ہی، تمہاری صورت دیکھنے سے، تمہاری آنکھیں کھوجنے پر"

ناجانے کیوں وہ یہ کہتے ہوئے عائشہ کا ہاتھ بے اختیاری سے تھام بیٹھا، اس سرد سی لہر عائشہ کے پورے وجود میں سرائیت کرتی چلی گئی۔

"جی۔۔۔۔"

عائشہ کا ہونق ہو کر یہ کہنا حارث کو ہنسا گیا۔

"جی ہاں"

اسی کے انداز میں وہ اس بار شوخ ہوئے بولا۔

عائشہ کی آنکھیں پلوں میں تر ہوئیں۔

"آپ کیا کہہ رہے مجھے سمجھ نہیں آرہا، چھوڑیں ہاتھ"

بوکھلا کر سرخ حیا سے اٹا چہرہ موڑے وہ اسکے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑوائے اٹھی اور اس سے پہلے وہاں سے فرار کرتی،اک قدم زنجیر کرتی صدا اسے روک گئی۔

"مجھ برے سے شادی کرو گی مفرور کہیں کی؟"

شوخ سا جملہ اچھالتا وہ آفت خیز مسکرایا اور وہ نم نم پلکیں جھپکاتی حیرت کا جھٹکا کھائے مڑی۔

"نہیں۔۔۔ پہلے وہ سب نشانات منہدم کر کے آئیں"

رندھی آواز سے وہ بھیگی پلکیں میچ کر تکلیف سے کہتی باہر دوڑی اور حارث نے دل جلی مسکراہٹ کے سنگ واپس ٹانگیں پسار کر سامنے دیکھتے گویا اپنے دل پر ہاتھ رکھے سہلائا۔

ہونٹ کاٹے جیسے کوئی ستم ڈھانے کا آغاز ہو۔

"کیسے مٹیں گے میری عیاشیوں کے ضدی نشان میری ذات کی سفید چادر سے۔۔۔ کیا کوئی ایسا طریقہ نہیں کہ میں پاک ہو جاوں۔۔۔۔ محبت تو صرف پاک کو قبول کرتی، نجس کو کون قبول کرتا۔ اگر میں واقعی کامل نجس ٹھہرا دیا گیا تو دعا ہے عمر قید کی سزا ملے۔ موقع ہی نہ ملے کسی حسرت پالنے کا"

اس بار وہ سراسر تکلیف سے بولا، اپنی ذات کو خود کچوکے لگائے، یہ بھول گیا کہ ایک در ہے جہاں ہر نجس گنہگار کی سنوائی ممکن تھی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

سراج کو جب عباد نے سارے معاملے سے آگاہ کیا تو وہ بھی بھونچکا رہ گیا، یہ سب تو سوچ بھی تسلیم کرنے سے انکاری تھی۔

"بہت ہی عجیب ہے یہ سب"

سراج اور وہ لان میں ہی کھڑے تھے، ڈنر کرنے کے بعد عائشہ انھیں بھی کچھ دیر پہلے ہی کافی دے کر گئی تھی۔ سردی کی بڑھتی شدت حواس پر اتر رہی تھی۔

"ہمم۔۔۔۔ بہت سارے مان ٹوٹ کر کرچی ہو گئے، جس عورت کو سر کا تاج بنا کر عزت دی اس نے میرے ساتھ اتنا بڑا دھوکہ اور فراڈ کیا۔۔۔۔ اللہ سب سے بہترین کارساز ہے، تبھی مجھے اس عورت سے محبت ہونے سے بچا لیا گیا"

عباد کا لہجہ ٹھنڈا ٹھار آخر تک تھوڑا مسکرایا اور یہی خوشی سراج کا سکھ بنی۔

"اللہ کے ہر کام میں مصلحت ہوتی بھائی، فاریہ نے مجھے بھی صبح سب بتایا تو مجھے سخت غصہ آیا اس بے رحم پر ۔ تکلیف میں تھی اور پھر ناجیہ صاحبہ نے سب جاننے کے بعد اس پر ہاتھ اٹھایا تو مجھے فاریہ پر سے غصہ ہٹانا پڑا"

اک خفیف سی پشیمانی لیے وہ جو عباد کو کہنا چاہ رہا تھا وہ سمجھا جا چکا تھا تبھی اس نے مسکرا کر سراج کی گال تھپتپائی۔

"فاریہ پر تم غصہ نہیں کر سکتے سراج علی، کم از کم اسکے پاس اسکا یہ ہیرو تو راضی و رضا میسر رہے۔ میں فاریہ سے ناراض رہوں یا اس پر چلاوں یہ میرا حق ہے لیکن تم کسی بھی وجہ سے اس سے خود کو دور نہیں کرو گے اور یہ میرا حکم ہے"

پلوں میں عباد اسکی کشمکش دور کرتا آخر تک زرا رعب جمائے بولا تو سراج کے دل پر دھرے بوجھ کے ہٹ جانے پر وہ یونہی دل کی چاہ پر عباد کے گلے جا لگا۔

دونوں بھائیوں نے گھوٹ کر ایک دوسرے کی اہمیت بتائی اور دونوں کے چہرے پر سکون تھا۔

"اس سے دور رہ ہی نہیں پاتا، آج تو حلال اظہار دے بیٹھی ہے بھائی"

زرا ہچکچا کر وہ اپنی زیست کی اس کامرانی کو عباد سے شئیر کرتا بہت پیارا لگا۔

"تو اسے امید ہے سراج علی ناامید نہ کرے گا، جاو انتظار کر رہی ہوگی۔ شاباش"

بردارانہ محبت اور شفقت کے سنگ وہ اسے بھیجتا خود بھی ٹراوزر کی جیبوں میں ہاتھ گھسائے کتنی دیر آسمان کی وسعتوں پر نظر جمائے ستارے دیکھتا رہا تو نظر اپنے روم کی بالکونی میں سیاہ میں لپٹی راحت روح پر پڑی جو گہرے گہرے سانس ہوا کے سپرد کرتی رات سے ہمکلام تھی۔

وہ بھی بے دھیانی میں ہی نیچے دیکھنے لگی تو نظر عباد سے ملی، تشنہ سی آنکھیں۔

مگر نظر بوکھلا کر ہٹاتی وہ فوری کمرے کی سمت بڑھ گئی اور اسکا یہ فرار عباد کو دل جلی مسکراہٹ بخش گیا۔

دوسری طرف کافی دیر سے زین چپ چاپ فاضل گوجا کے سامنے اسے بہت نفاست سے کھانا کھاتا دیکھ کر دونوں ہاتھ سینے پر جمائے کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔

جب سے فاضل کو جیل لایا گیا تھا اسے پانی تک نہ دیا گیا مگر آج زین نے اسکے لیے خاص کھانے کا انتظام کیا اور آگے بھی شیراز کی یہ ذمہ داری لگائی۔

"خیر ہے ناں۔ بڑا مہربان ہوا ہے"

آخری بڑا سا لقمہ زین پر مشکوک نگاہ گاڑ کر مکمل چبانے کے بعد وہ مستے سے لہجے میں بولا۔

"تمہارے بابا اس دنیا میں نہیں رہے فاضل۔۔۔"

زین کا یہ جملہ اس قدر دردناک تھا کہ وہ جو پانی پی رہا تھا، گلے میں لگتے پھندے پر سینہ پیٹتا کراہنے لگا۔

زین کو اپنا احساس جرم خنجر کی طرح سینے کے پار جاتا محسوس ہوا۔

فاضل کو پتا تھا بابا بستر مرگ پر ہے مگر اسے جو چیز رلا رہی تھی وہ بہن کا اکیلا ہونا تھا۔

کافی دیر زین اس بھاری بھرکم سانڈ نما آدمی کو سسکتا، کراہٹیں گھونٹتا دیکھتا رہا پھر کچھ کہنے کو تیار ہوا۔

"نوراں۔۔۔۔۔۔۔۔"

زین کے اس نام کو لینے پر فاضل نے کراہنا بھولے زہر خندی سے زین کو لتاڑا۔

"میں تمہاری بہن نوراں سے نکاح کا خواہش مند ہوں، وہ ابھی میرے گھر میری آنی کے پاس ہے اور بلکل ٹھیک ہے"

زین کا سیدھا سبھاو یہ کہنا فاضل کو پتھرا کر رکھ گیا۔

"کیا بکواس کر رہا ہے، تیرا بھیجا کام کرنا چھوڑ گیا کیا۔۔۔۔۔۔ کیا تماشا ہے یہ انسپیکٹر"

فاضل مشتعل ہوئے بھڑک اٹھا، اسکی کن پٹی کی رگ غصے اور اذیت سے ابھر آئی۔

"اجازت۔۔۔۔۔؟"

زین نے گویا یوں دہرایا جیسے فاضل کی بات سنی ہی نہ ہو۔

"میں وہ سچ جان چکا ہوں جو دل میں دفن کیے بیٹھا ہے تُو فاضل، فی الحال اسی میں عافیت ہے کہ تو مجھے اجازت دے۔ میرے دل میں اتر گئی ہے وہ ۔۔۔ اور فی الحال اسے بھی ایک مضبوط سہارہ چاہیے کیونکہ اب اسکے پاس بابا نہیں جو وہ تیرے یہاں ہونے پر محفوظ ہوگی"

زین نے بنا تمہید باندھے یہ کہہ کر فاضل گوجا کی ہستی فنا کی۔ وہ جبڑے بھیجتا غرا اٹھا۔

"حرام زادے۔۔۔ میری بہن پر کب سے نظر تھی تیری۔ میں جان نوچ لوں گا تیرے سینے سے دل نکال کر"

فاضل کا انداز کاٹ کھانے سا تھا، زین کے اطمئینان میں قدرے اضافہ اسے اور سلگا گیا۔

"یہ لمبی کہانی ہے، فی الحال اجازت چاہیے۔ ولی کی اجازت کے بنا نکاح جائز نہیں ہوتا۔ اور میں اسے جائز طریقے سے اپنا بنانا چاہتا ہوں۔ باقی تیرا معاملہ میں اس عقد کے بعد بہت فرصت سے دیکھوں گا"

زین کا مزید مشتعل کرتا انداز فاضل کے ہاتھ پیر جکڑ گیا، اسے زین پر سخت نفرت ابل رہی تھی مگر مرتا کیا نہ کرتا کہ مصادق اور اپنی نوراں کی فکر اسے اس اجازت کو دینے پر مجبور کر گئی۔

زین کے لبوں پر دلکش فاتحانہ تبسم مچلا۔

"وہ میرے پاس ، تجھ سے زیادہ محفوظ ہے یہ میرا وعدہ ہے۔ تیرے بابا کی موت کا بہت افسوس ہے مجھے ، کچھ چاہیے ہوا تو شیراز کو کہہ دینا۔ آرام کر"

ناجانے کیوں کل تک پیٹتا یہ آفیسر اک ذرا سے سچ پر موم سا نرم اور شفیق رحم دل ہو گیا تھا، زین کے لاکر روم سے اوجھل ہونے تک فاضل اسے اک حسرت سے تکتا رہا۔

کچھ بھی تھا مگر فاضل کو زین لاشاری ایک اچھا انسان معلوم ہوا تھا اور نوراں کی فکر بھی قدرے کم ہوئی تھی پر بابا کی موت پر وہ پھر سے پست آواز میں کوکنے لگا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

وہ کمرے میں داخل ہوا تو منہا صوفے پر دبک کر بیٹھی فون پر احد کی تصویر دیکھ کر مسکرا رہی تھی جب عباد کے اندر آنے اور دروازہ بند کرنے پر دانستہ سمٹ جاتی فون آف کیے وہیں رکھتی اٹھ کر سونے کے لیے بستر کی جانب مڑی مگر عباد نے اسکی گلابی کلائی جکڑے ایک ہی جھٹکے سے اپنے روبرو دھڑکانے کے لیے لا کھڑا کیا۔

وہ عام حجم سے بڑھ جاتی رت جگے کی غماض آنکھیں عباد کو سلگا سا گئیں۔

دل تو چاہا انھیں اتنا دیکھے کہ وہ ان لمسات کے شافی ہونے پر ہر درد سے نکل آئیں، گل مینے کی سچائی کے بعد تو اسے منہا سے اور والہانہ عشق ہو گیا لیکن وہ بہت اداس اور ملال میں ڈوبی لگ رہی تھی۔

"تم میرا سکون ہو منہا، سکون قریب ہی جچتا ہے"

دونوں بازووں میں اس ہر احساس سے عاری مومی گڑیا کو بھرتا وہ اک جذب سے بولتا خواہش پر رکا۔

"اور آپ جان کا وبال ہیں سو دور ہی اچھے ہیں"

بنا مقابل کے جذبات کی شدت کا لحاظ کیے وہ بنا سوچے بولئ مگر اگلے ہی لمحے اپنی اس فضول گوئی پر پشیمان سی عباد کیانی کے چہرے کو اپنے ملائی جیسے ہاتھوں میں بھر گئی۔

"سوری "

اپنی بے لگامی پر وہ فورا اس حسین انداز سے معذرت کر گئی کہ عباد کے ہونٹوں پر نرم مسکراہٹ اتری، منہا نے مقابل کے بدلتے موڈ اور پر سرور آنکھیں بھانپ کر فوری ہتھیلیاں ہٹائے نظر جھکا لی۔

"بھلے جان کا وبال سہی لیکن آخری سانس تک تمہارا ہی ہوں، مجھے میرے کیے کی زیادہ لمبی سزا مت دینا۔ تمہارے ساتھ بہت سے لمحے امر کرنے کی خواہش رکھتا ہوں۔ اگلے دو تین ہفتے مصروفیت کے باعث تمہیں تنگ بھی نہیں کروں گا، تم اور فاریہ واپس گاوں چلے جانا ۔ کیونکہ یہاں بہت سے کام ہیں۔ میں احد سے اب ایک ہی بار ملوں گا جب یہ الکیشن وغیرہ کا جنجھال تھم چکا ہوگا"

شروع میں وہ جس طرح منہا کے گال سے اپنے لبوں کو مودب سا مس کیے بولا تو ساتھ ہی اپنی اتنی دن کی جدائی دے کر منہا کا دل آزردہ کر گیا۔

کیا وہ اسکے بنا رہ پائے گی؟ منہا کا دل سراسر انکاری تھا۔

"اور اگر میرا دل نہ لگا وہاں، احد کے ہوتے، دادا کے ہوتے بھی"

یہ شاید شام کا اثر تھا، اتنی رعایت تو وہ دے سکتی تھی کیونکہ ساری دنیا کے سامنے اس شخص نے اسے قبول و منظور کر کے معتبر کیا تھا۔

منہا کے حسرت سے پوچھے سوال پر عباد دھیما سا مسکایا۔

منہا کی ٹھوڑی پر عاجزی سے لب رکھے، وہ اسکی اس خاموش بات ٹال جانے کی ادا پر کلس کر رہ گئی۔

"عباد۔۔۔"

وہ سراسر خفا تھی، ناراضگی آواز میں رچ گئی۔

"تو میں خوش فہمی پال لوں گا کہ کمبخت محبت کی آگ تم تک بھی پہنچ گئی، اتنا قیمتی کرو گی تو جدائی کاٹتے کاٹتے ختم ہو جائے گا یہ مجرم"

شروع میں وہ جس اذیت سے بتا گیا آخر تک وہی اذیت کسی ان کہے کرب کا روپ دھار گئی۔

منہا سے بلکل بھی یہ جذباتی طور پر سرزد ہوا کہ وہ اسکی گال پر پیار دے بیٹھی، وہ اسے اپنے لیے ترپتا ہرگز نہ بھایا۔

عباد نے آنکھیں زرا دیر کو بلکل ویسے موندیں جیسے وہ اس لمس کو گال سے زبان پر گھلتے اور چکھتے محسوس کر رہا ہو۔

اور وہ اسے کئی لمحے دیکھتی ہی رہ گئی۔

"اسے کیا سمجھوں میں؟"

آنکھیں وا کیے وہ منہا کے اداس سے چہرے کو تکتا اسکی ویران آنکھوں میں جھانک کر سوال پیش کیے بولا۔

"اک شرارہ۔۔۔۔"

منہا اسکے الٹی نسب دھڑکتے دل سے ہتھیلی جوڑے کمال ادا سے بولی، البتہ مسکرانے سے گریز کیا۔

"اس شرارے سے جل گیا میں تو؟"

وہ بھی کسی عاشق مجاور کی مانند حسرت سے ہی پوچھ بیٹھا۔

وہ اپنی ایڑیوں پر اٹھ کر عباد کی کشادہ پیشانی پر اپنے نرم ہونٹ رکھ کر چومتی پھر سے عباد کے اس جادوگرنی کے قابو کرتے انداز پر آنکھیں موند لینے پر خفیف سا مسکرا کر روبرو ہوئی۔

"تو ایسے منجمد کرنے میں دیر نہیں لگاوں گی"

وہ مسکرائی تھی ، یونہی سہی، دل کے کہنے پر ہی سہی پر عباد تو تھم کر رہ گیا۔

"منہا مجھے ان نعمتوں سے محروم مت کرنا، یہ بکھرا ہوا شخص تم نے ہی سمیٹا تھا اور تاعمر سیمٹنا ہے۔ مجھے سزا دو لیکن اپنے آپ سے محروم مت کرنا۔ میں سچ کہہ رہا ہوں تمہارے گریز میری جان لے جائیں گے"

تھکن لیے وہ منہا کی خود پر ہر بوجھ سے آزاد آنکھیں جمی پائے اک روانی سے کہتا گیا اور منہا نے اسکے دل کی دھڑکن سے اپنا دل بنا کسی مزاحمت کے ملایا اور اپنی بازووں کو عباد کی پشت پر اک تسلی سے سہلانے لگی۔

دونوں کی دھڑکن ایک دوسرے میں صاف صاف منتقل ہوئی، بیچ میں بس وجود کی زرا سی بندش ہی تو تھی، دل تو آن ملے تھے۔

عباد نے اس سے پہلے اپنے دل کو اتنے سکون میں کبھی محسوس نہ کیا۔

"جب بھی دل ملانا ہوا منہا خود ملائے گی، ورنہ تڑپائے گی۔۔۔۔ "

اپنے کانوں کی اور منہا کے نرم پنکھریوں سے ادا ہوتی سرگوشیاں پر عباد نے اسے بازووں میں بھرا تو لگا دلوں نے بھی ایک دوسرے کو تھام لیا۔

پورے وجود میں سنسناتی عباد کے دل کی دھڑکن منہا کی جان لینے کو کافی تھی۔

"تم جب جب دل ملاو گی تو میں انکو جدا ہونے ہی نہ دوں گا۔۔۔۔۔تم ایسی پیاری ہو مجھے راحت روح"

اس بار منہا کو اپنی رہی سہی جان واقعی جسم کو چھوڑتی محسوس ہوئی جب اپنی گردن پر کوئی حاوی ہوتا اپنی بے تابیاں ثبت کرتا گیا۔

"عباد۔۔جان لیں گے کیا"

یوں محسوس ہو رہا تھا وہ یہیں دم توڑ دے گی تبھی گھبرائی سی درخواست کیے منمنائی۔

"لینے دو ناں"

وہ بہکا ہوا مزاج اوڑھے خطرناک ہوا۔

"ع۔۔۔۔ب۔۔۔ا۔۔۔د"

اپنے نام کو گلاب کی پتیوں سا بکھیرتا یہ ستم اسے بھی منہا پر رحم کرنے اکسا گیا، وہ رہائی ملتے ہی کتنی دیر عباد کی نرم مگر حق دار سی من مانیوں پر رونے والی ہوگئی، تب بخشا جب منہا کے آنسو ٹپکنے کے قریب آئے۔

ساتھ لے جائے وہ خود نیم دراز ہوئے لیٹ جاتا خود بھی اپنے پہلو سے اس نازک پری کو اس طرح بسا گیا جیسے وہ اسکی زیست کا کل اثاثہ ہو۔

وہ بہت جلد نیند میں اترا مگر منہا اسے دل کی چاہ کے سبب نیند آنے تک دیکھتی رہنا چاہتی تھی۔

وہ بنا آہٹ ہی آیا تھا، وہ اسکے بیڈ پر لحاف میں دبک کر سوئی بلکل ہی اک گڑیا لگی، اس پر اس آسودہ نگاہ ڈالے وہ فریش ہونے بڑھا، تقریبا بیس منٹ تک نم نم نکھرے خلیے اور سیاہ قمیص شلوار میں لپٹا باہر آیا۔

نظر رہ رہ کر فاریہ تک بھٹکی مگر رخ موڑ کر وہ اپنے جذبات دبائے جائے نماز بچھا کر عشاء کی نماز ادا کرنے لگا۔

اک سکون تھا سراج علی کے چہرے پر، نماز ختم کیے دعا میں فاریہ کی رہی سہی فلاح اور اپنے اور اسکے مشترکہ سکھ مانگے تھے۔

وہ خوشبووں میں بسا جب جائے نماز رکھے سوئی ہوئی فاریہ تک پہنچا تو ناجانے کس احساس نے اسکی گہری نیند بری طرح توڑی، وہ کسی خوفناک خواب سے ڈر کر ناصرف ہلکی سی چینخی بلکہ سراج کے پاس ہی ٹک کر بیٹھتے ہی اسے کسی ڈری سہمی بچی کی طرح لپٹ گئی۔

سراج نے بازووں میں بھرے اسکے کھلے بال سہلائے سر چوما تو وہ یکدم شانت ہوئی مگر پھر شام سراج کی آخری جملے کی بازگشت شعور میں ابھرنے پر وہ پر حیا چہرہ اٹھا کر سراج کو دیکھنے لگی جسکے بال ابھی بھی نم سے تھے اور داڑھی بھی ٹھنڈی ٹھنڈی تھی جسکا احساس فاریہ کو اسکا چہرہ چھونے پر ہوا۔

پھر وہ جس طرح پاکیزہ پاکیزہ نکھرا ہوا تھا، فاریہ کو اسکے اس روپ کے آگے اپنا آپ سنبھالنا کٹھن لگا۔

سراج تو اسکی گال پر واضع انگلیوں کے گہرے نشان پر جبڑے بھینچ کر رہ گیا، اس ستم پر اسکی آنکھیں برہم تھیں۔

"تو شام کو کیا کہہ رہی تھی تم؟"

اسکی گال پر نرمی سے انگلیاں پھیرتا وہ پراسراری سے دریافت کیے بولا، فاریہ کے دل نے اک بیٹ مس کی۔

"تمہارے سینے سے لگ کر , تمہاری بانہوں کے تنگ گھیرے کو اپنی کمر کے گرد محسوس کرنا ,

تمہارے سینے میں چہرہ چھپائے آنکھیں بند کئے

اپنی پوری دنیا تمہاری آغوش تک محدود کر لینے کی

اور ایک لمبی سانس اندر کھینچ کر

تمہاری خوشبو کو اپنی روح ,

اپنے جسم کے ہر ایک خلیے میں بھر لینے کی خواہش تاعمر ایسی ہی شدت سے برقرار رہے گی"

بہت مشکل تھا اسکے لیے لفظ تراشنا مگر وہ کر گئی، وہ اسکے پہلو میں اک نڈھال پری کی طرح بکھری پڑی یہ اظہار سونپ رہی تھی اور وہ ان میٹھے الفاظ کی شیرنی اپنی زبان پر پھیلتی محسوس کرتے سرشار سا مسکرایا۔

"سچ میں؟"

روح چھو لیتی پر مہکار مسکراہٹ دیتا وہ مسرور ہوا جب فاریہ نے جی جان سے سر کو اثبات میں ہلاتے ہی اٹھ کر سراج کی گردن میں بازو لپیٹ لیے، وہ بانکی سجیلی سی اب اسکی دیوانی کا روپ دھار چکی تھی۔

اس کے گھٹا سے بال سراج علی کے سینے پر بکھرے تھے، سمیٹ کر زرا اس پر جھکی جو ان شر انگیزیوں پر اب دب سا گیا تھا۔

"تم جب جب اس کمرے میں آئی حفظ ہے وہ دن، تمہاری خوشبو تمہارے راز افشاں کرتی تھی تبھی تو سراج علی تمہارے سر پر سوار رہتا تھا۔ زبردستی رعب کے سنگ"

وہ فاریہ کے نرم ہونٹوں کو چھوئے آنکھ ونگ کرتا مسکرایا جس پر فاریہ نے اپنی مخروطی انگلیوں کے لمس اسکے عارضوں پر انگلیوں کے کنارے سہلائے، بہم پہنچائے، وہ پرشوق آنکھیں سراج علی کے چہرے کی ہر جنبیش، ہر لکیر اور ہر خوبصورتی جانچتی دلفریب لگیں۔

وہ کسی بھی لمحے کچھ بھی کر سکتی تھی یہ تو سراج جان ہی چکا تھا مگر یوں فاریہ کے سخن ور بے اختیار اقدام خود سراج کو سٹپٹانے پر اکسا گئے۔

اسکا بلش کرتا حسین چہرہ فاریہ کے لیے جان لیوا تھا۔

"تم نفرت کی طرح محبت میں بھی شدت پسند ہو، گویا یہ کہنا درست ہوگا مسیز سراج کہ تم اناڑی ہو"

فوری غیر ارادی سے حسین تاثرات چھپاتا وہ چمکارا، مگر فاریہ دبا دبا مسکرائی۔

"میری چھوڑو، تم اپنی محبت اور چاہ کی شدت بڑھاو"

فارئہ کے ذومعنی جملے پر سراج واقعی حیران ہی تو رہ گیا۔

"تمہاری طرح، تمہاری جان بھی بے انتہا قیمتی ہے"

وہ اپنے جذبات کا بے انتہا وسیع دائرہ پھیلائے، خوشبو جیسے اظہار سے اس لڑکی کو نوخیر کلی کی طرح مہکا گیا تھا۔

"تم جان بھی لے سکتے ہو، فاریہ خوشی خوشی تم پر مر جائے گی۔ لیکن میرے ساتھ تمہیں بھی مرنا ہوگا کیونکہ کسی اور کے لیے اس دنیا میں تو تمہارا سایہ بھی نہ چھوڑوں۔ تم صرف میرے ہو، پورے میرے۔ سارے کے سارے میرے"

اس قدر جذب سے کیا جوابی اظہار، اس مرہ جاہ کی طبعیت نہال کر گیا تھا۔ دونوں کے ہونٹوں کو ایک سی دلکش مسکان نے چھو لیا۔

"چلو پھر سے کہو وہ جو شام کو کہا تھا"

گال لبوں سے چھوئے وہ اب مخموریت سے بولا، فاریہ نے مسکرا کر اسکی گال سے ہتھیلی جوڑے، بہت کچھ کہتی ظالم آنکھوں میں جھانکی اور وہیں ٹک کر لمبی سی سانس کھینچی۔

"پہلے بتاو مجھے معاف کر دیا یا نہیں"

اس بار وہ قدرے اداس تھی۔

"کر دیا ہے فاریہ"

جذب سے اٹا اقرار سنتے ہی وہ پھر سے سر اٹھائے مسکائی۔

"میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں سراج علی"

سراج کی آنکھوں میں جھانک کر وہ اسکو کہتی اک جذبات کا ہلچل مچاتا شور سراج کے اندر طاری کر گئی۔

"اور میں تمہیں، تمہاری اس انوکھی محبت کا خراج پیش کرتا ہوں۔۔۔۔۔ پہلے عاشق بننا پڑتا ہے، پھر کہیں جا کر محبوب کی مسند ملتی ہے۔۔۔آج یہ روایت پوری ہوئی"

بے پناہ چاہت کے سنگ وہ فاریہ کے چہرے کے دل پسند خدوخال کو گہرائی سے محسوس کیے اپنی شدت پسند محبتوں کے سارے بند باب کھولنے لگا، اور وہ ابھی سے سراج علی کی بےخود نظروں کے خمار کا مرکز بنے، خود میں سمٹنے لگی۔

اور جس طرح سراج نے اس کے اظہار کا جواب دیا وہ لڑکی اک جگہ تھم ہی تو گئی تھی، گویا جسم میں خون جامد ہوا۔

وہ اگر کھڑی ہوتی تو لہرا کر گر جاتی مگر ابھی وہ جس پناہ میں تھی یہ پناہ اسے سنبھال گئی۔

وہ گھبرا کر اسکی دسترس سے نکلنے کو مچلی تھی اور اس کا ارادہ بھانپ کر فرار کرنے کو تھی جب اس نے کلائی تھام کر اسے خود میں سمویا۔

وہ آنکھیں سختی سے موند لیتی، سانس روک لیتی، دھڑکتے دل کے شور کو لاکھ دباتی ہوئی، اپنے اسیر کر لیتے حسن کی حدت کے سنگ اس پہاڑ جیسے حوصلہ مند کا امتحان لے رہی تھی۔

پورا وجود اک نئے سے احساس نشاط سے لرزا مگر کمرے میں یکدم موجود روشنی کا گلا کاٹ دینے پر ماحول میں اک نشہ طاری ہوا۔

وہ نشہ جو اب نس نس میں گھل جانے کو مچل رہا تھا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

ساری رات ہی زین کچھ اہم فائلز کی ورق گردانی کرتا رہا تھا، چھوٹے سے چھوٹے ثبوت کی اس وقت اسے ضرورت تھی۔

عباد کی بتائی باتیں اسکے شعور میں منڈلا رہی تھیں، رات وہ بمشکل ایک یا دو گھنٹے ہی سو پایا تھا۔

اگلی سرد سی صبح ہر سو پھیل چکی تھی، اندھیرے کو سویرے نے نگل لیا تھا۔

عباد ناشتے کی میز پر سب کو حاضر ہونے کا پیغام پہلے ہی بھیج چکا تھا تبھی سب ہی سنجیدہ چہروں اور الجھے تاثرات کے سنگ ناشتے کی میز پر موجود تھے، ناجیہ نے آنے سے انکار کر دیا تھا اور اپنا ناشتہ بھی کمرے میں منگوایا تھا۔

عباد نے ایک خشمگیں نظر حارث پر ڈالی جو شاید عباد سے نظریں بھی نہ ملا پا رہا تھا۔

پھر باری باری سراج، فاریہ اور اپنے ساتھ ہی بیٹھی منہا کو دیکھا اور گہرا سانس بھرے ان سب کو متوجہ کر گیا۔

"فاریہ اور منہا، تم دونوں گاوں جا رہی ہو۔ وہاں رہنا اور امید ہے تم دونوں کا یہ سفر اچھا رہے گا۔ ویسے بھی ادا جان اور معظم صاحب بھی اداس ہوں گے اور معراج اور فاطمہ خالا بھی اچانک تم سب کے آنے پر افسردہ ہوں گے"

عباد نے اپنی بات سیدھا سبھاو کہہ تو دی مگر وہ خود گواہ تھا کہ نہ منہا کے چہرے پر خوشی تھی نہ فاریہ کے، مگر ایک طرح انکا یہاں سے دور ہونا بہتر تھا تبھی وہ لاکھ اعتراض کے کچھ نہ بولی۔

"جیسا تم کہو"

فاریہ نے فوری جواب دیے سر ہلایا مگر دیکھ وہ سراج کو رہی تھی جو اس ضبط تھام کر مان جاتی حسینہ کے تیوروں پر مخظوظ ہو رہا تھا۔

البتہ منہا کا انداز کچھ خاص ایسا ظاہر نہ کر رہا تھا کہ وہ کیا محسوس کر رہی ہے۔

"م۔۔مجھے معاف کر دیں لالہ۔۔۔کم از کم میری طرف سے یوں منہ مت موڑیں"

وہ جو سب سے مخاطب ہونے کی نیت رکھتا تھا، اسکی بے اعتتنائی پر حارث تاسف کے سنگ کہہ بیٹھا، انداز اخیر زخمی تھا۔

عباد نے ناگواری کے سنگ اس پر نظر ڈالی جو اسے بہت کچھ باور کروا گئی۔

"منہ تو تب بھی نہیں موڑا تھا جب تم جوئے اور شراب کے دلدادہ تھے، ہمیشہ تمہیں سمجھاتا آیا تھا۔ لیکن تم نے سوچا کہ یہ سمجھا رہا ہے ضرور میرا دشمن ہوگا۔ لیکن ایک بات اپنی اس بند عقل میں سمو لو اچھے سے کہ نصیحت وہی کرتا ہے جو دردمندی رکھتا ہو۔ تم سے تو بات کرنا بھی فضول سمجھتا ہوں۔ تمہارے کسی معاملے سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ میرا بچہ ٹھیک ہے لہذا تم جیسے بد بخت سے میں کوئی حساب لینا نہیں چاہتا۔ تمہیں تمہاری سزا وقت خود دے گا"

صاف صاف برہم اور ناراض انداز میں وہ حارث سے مخاطب تو تھا مگر حارث کی نم سی آنکھیں جیسے مسکرائیں، اسے عباد کی مہربان ذات کا ادراک تھا اور وہ ہمیشہ کی طرح اپنے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو معاف کرنے والا عباد حشمت کیانی اس بار بھی ویسا ہی کر رہا تھا مگر اب حارث کیانی پر آزمائش تھی۔

فاریہ ، سراج اور منہا بھی افسردہ ہوئے ، حارث پر جتنا بھی رحم کر لیا جاتا اسکا گناہ کوئی عام نہ تھا۔

"میں خود کو ثابت کروں گا، آپ کو ایک دن مجھ پر مان ہوگا"

کرسی سے اٹھ کھڑا ہوتا وہ مضبوط مگر شکستہ سے انداز میں کہتا سب پر اک نظر ڈالتا وہاں سے چلا گیا۔

کچھ دیر تک منہا اور فاریہ کی روانگی تھی تبھی سراج اور فاریہ کے جاتے ہی منہا بھی خفا سی اٹھ کر جانے لگی تو عباد نے اسکی کلائی جکڑ کر واپس بیٹھایا۔

وہ نروٹھی حسینہ سر تا پا دمکتا شعلہ بنی گھورنے لگی۔

"ناراض ہے کوئی؟"

عباد اسکی گال سے بہکتے مسرور انداز میں ہتھیلی کی پشت سہلائے بولا تو وہ فوری اسکا ہاتھ جھٹک گئی۔

"اب میں کوئی ہو گئی"

یہ لڑکی بھی ناں، عباد کا دل لمحوں میں سکڑا۔

"واللہ تم کتنی ظالم ہو"

عباد کا معصومانہ الزام لگاتا انداز جس پر واقعی منہا کرسی سے اٹھی اور بیٹھے ہوئے عباد تک پہنچے اسکی گردن میں بازو حمائل کیے ساری خفگی بھلائے اداسی میں ڈھل گئی۔

"دور خود بھیج رہے ہیں اور ظالم بھی میں ہوں، پاس رہ کر سزا دینا چاہتی ہوں"

شاید یہ رات کی قربت کا جادو تھا کہ عباد کی سماعت میں یہ عطر اترا، بنا کسی کے آجانے کا لحاظ کیے وہ منہا کو کمر سے کھینچ کر اس نازک سراپے کو دبوچتا خود بھی اٹھ کھڑا ہوا۔

"عباد۔۔کیا کر رہے ہیں۔۔۔۔عائشہ کافی بنانے گئی ہے۔۔۔دیکھ لے گی"

ڈر کے مارے وہ سہمی چڑیا بنی منمنائی، مگر عباد نے اپنا حق پوری قوت سے وصول کیے ہی جان بخشی۔

"مجھے ڈر ہے قریب رہی تو قریب تر کرنے میں دیر نہیں کروں گا، سزا کو پائمال کر ڈالوں گا۔ میں ایسا نہیں چاہتا۔ مجھے کاٹنے دو اپنی جدائی کو۔۔۔۔۔ پھر حساب برابری کا ہوگا"

بھاری جذب سے اٹی پر تپش آواز لیے وہ منہا کے دل کی دھڑکن تیز گام کیے اسے آزادی بخشے دو قدم دور ہوا اور وہ اس شخص کے دوری کے فیصلے پر بہت تڑپنے والی تھی۔

اور ستم کہ سزا کو ختم کر کے اپنی شان میں کمی کرنا بھی ممکن نہ تھا۔

"ہمم۔۔جیسا آپ کہیں"

بے دلی سے ہی سہی مگر وہ کہتے ہی وہاں سے چلی گئی، عباد واپس براجمان ہوئے نیوز پیپر کے ساتھ ساتھ عائشہ کی لائی کافی پکڑ کر دھیما سا مسکرائے جائزے میں لگ گیا تھا البتہ عائشہ کا دھیان بھی آج کہیں اور ہی تھا۔

وہ کافی دیے باہر آئی تو حارث کو سیاہ جینز شرٹ اور بھوری جیکٹ پہن کر اجلت کے سنگ باہر کی سمت جاتا دیکھ کر نادانستہ اسکی سمت لپکی مگر وہ اتنی جلدی میں تھا کہ جب تک عائشہ اتنے بڑے پیلس کی راہداری عبور کیے باہر آئی، وہ گاڑی میں بیٹھے پیلس سے نکل چکا تھا۔

عائشہ کا دل مانو سوکھے پتے سا لرز اٹھا۔

"انکی حفاظت کریے پلیز اللہ جی"

شدت جذبات سے وہ حارث کے لیے دعا کرتی آفسردہ سی واپس اندر بڑھ گئی۔

جبکہ فاریہ منہ پھلائے اپنے روم میں پہنچ کر وارڈراب کھولے اور پھر پٹخ کر مڑی تو سراج کے چوڑے سینے سے بری طرح ٹکرائی، مگر جناب نے ٹکر سے ہی فائدہ اٹھائے دونوں بازووں میں فاریہ کو سمویا تو وہ اسکے سینے میں چہرہ چھپا گئی۔

"تم سے دور نہیں رہ سکتی ناں۔۔۔۔"

سارا غصہ ، صدمے کی شکل اختیار کر گیا۔

بے ساختہ سراج علی شرارت سے مسکرا دیا۔

"کیا شادی کا یہ مطلب ہوتا بندہ باقی سب کو چھوڑ دے، وہاں دادو ہیں تمہاری جنکی صحبت کی تمہیں اشد ضرورت۔۔۔ ماں ہیں جن سے تم سگھڑ بہو کے سلیقے سیکھ سکتی۔ اور معراج نے تو کال کر کر کے سر کھایا ہوا کہ اسکی باجو کب آئے گی۔۔۔۔اب تو احد بھی ہے، اس کے ساتھ وقت گزارنا، اسے اٹھانا تاکہ اپنے بچوں کو سنبھالنے کی ٹرینگ ہو"

تھوڑا سنجیدہ مگر لاڈ میں وہ فاریہ کے ملائم بال سہلائے بولتا بولتا آخری بات پر زور سے اس میں سمٹ جاتی فاریہ کے اس دھڑکاتے عمل پر گہرا مسکرایا۔

"تم کو کیسے بتاوں میرے لیے میری ساری دنیا تم ہو سراج علی، کل کے بعد سے تو مجھے چین نہیں آئے گا تم سے دور۔۔۔۔۔ا۔۔۔اتنے سارے دن تم نہیں ملو گے تو پاگل ہو جاوں گی"

اپنی بے بسی وہ اب بھی بے باکی سے اس ظالم کو دیکھ کر نہ کہہ سکتی تھی مگر اسکی پناہیں فاریہ کو یہ کہنے کی ہمت دے گئیں۔

"میں آوں گا وہاں چپکے سے تمہارے پاس پرامسس"

سراج نے اسکا بوکھلایا انداز اور وجود کی لرزش پر اسے باہوں میں بھینچ کر قابو پائے کانوں کی اور جھک کر سرگوشی میں کہا۔

"روز۔۔۔؟"

فاریہ سینے پر سے سر اٹھائے حیرت سے چونکی تو سراج نے اس پاگل حسینہ کا نقش نقش اپنی یاداشت پے رواں کر ڈالا۔

"ہر پل، ہ۔۔۔خوابوں میں کہا ہے یار"

سراج کے مزاق پر فاریہ نے منہ بگھاڑ کر سینے پر مکا جڑا خود بھی رونے والی ہوئی۔

"تم جانتی ہو الیکشن کے بیچ مجھے خود کو دیکھنے کا وقت بھی نہ ملے گا، دوسرا مجھے بھائی کے ہمہ وقت ساتھ رہنا ہے۔ تم میری جان سے بھی قیمتی ہو فاریہ لیکن میں ایسا نہیں چاہوں گا کہ تم زندگی کے دوسرے رنگ دیکھنے سے انکاری ہو جاو۔۔۔۔ نارمل ہونا ہے جانم، باقی یہ جدائی مزید گہرے ملن پر ختم ہو یہ خواہش رکھتا ہوں۔ آئی مس یو سو مچ، فون پر رابطے میں رہوں گا"

نرم چاہ اور انس سے بھرے لفظوں میں وہ فاریہ کے اعتراضات اور اسکی اداسی مٹائے پھر سے گلے لگاتا خود بھی سکون میں اترا اور وہ تو جیسے سراج کے لفظوں سے ہی سرشار ہو گئی۔

"ٹھیک ہے میں سمجھ گئی، تم خیال رکھنا اپنا بھی۔ زرا سی بھی فرصت ملی تو تم یا آجانا یا مجھے بلا لینا۔۔۔۔نارمل نہیں ہو سکتی تمہارے لیے فاریہ، آخری سانس تک تمہارے لیے ایسی ہی پاگل رہوں گی"

جذبات کی شوخ مہکار کے سنگ وہ اس بار خود آگے بڑھی، وہ سارے خوشبو سے بھرے پل چرائے جو اسکا حق تھے، وہ سارے دلکش لمحے ادھار لے لیے جن پر جی کر اسے سراج علی کی جدائی کاٹنی تھی۔

منہا نے بھی سرسری سا سامان پیک کروائے عائشہ کے ہاتھ باہر گاڑی تک بھیجوائے خود رک کر آئینے کے سامنے کھڑی وہ شال اوڑھ رہی تھی جب کمرے میں داخل ہوتے عباد کو دیکھتے ہی وہ اسکی جانب رخ موڑ گئی۔

وہ چلتا ہوا اس نیلے دل پسند رنگ میں کسی نوخیز کلی کی مانند مہکتے سراپے تک پہنچا جو سراسر اسکی جدائی سے ملول تھا۔

"اپنا خیال رکھیے گا، سراج بھائی کو پھر سے نہ بھیج دیجئے گا ہمارے پیچھے۔ وہ آپکے ساتھ ہوں تو تسلی رہتی ہے"

فی الحال وہ اداسی کی کوئی بات نہ دہرانے کا عہد لیتی اپنی نرماہٹ میں لپٹی ہتھیلی عباد کے چہرے سے لگائے پیار اور فکر سے چور ہوئی۔

عباد کب جانے دینا چاہتا تھا، وہ اسکی سانسوں کی وجہ تھی۔

کمر میں بازو حمائل کیے وہ آنکھیں موند کر منہا کی خوشبو سونگھتا واقعی اتنا دیوانہ لگا کہ وہ بھی پھیکا سا مسکرا دی۔

"احد کو پیار دینا میرا، اور کہنا بابا جلد اس سے ملیں گے۔ سراج ساتھ ہے میرے تم فکر مت کرو"

جذب اور محبت سے وہ منہا کی فکریں تو ہٹا گیا مگر اصل مشکل تو منہا کی دوری تھی جو ضروری تھی۔

"کہہ دوں گی اور پیار بھی دے دوں گی"

بدلے میں وہ بھی اس شخص کی حواس جنجھوڑتی مہک محسوس کیے اسکی آنکھوں میں تکتی بولی۔

"اور میرے حصے کا پیار"

اپنے پرکشش سرور آگیں چہرے کے نقوش کی سمت نظر جمائے عباد کو تکتی وہ اس بار کھلے دل سے مسکرا کر خواہش کہتی پری ہی لگی، جسکی جگہ صرف عباد کا دل تھا۔

"تمہارے حصے میں یہ پورا جوان ہے، پیار کیا چیز ہے"

جاتے جاتے ظالم کو اٹکیلیاں سوجھیں، منہا تو لاجواب سی ہوئی۔

"ہمم۔۔۔مس کروں گی آپکو"

گال پر پیار دیتی وہ اسکے دامن سے خوشبو باندھ گئی، عباد نے آنکھیں جھپک کر یہ شرف قبول کیا اور منہا کی جبین اپنے نرم ہونٹوں کی مہر سے گرمائی، منہا کا دل پرسکون ہوا۔

"میں تو کروں گا ہی۔۔۔اب جاو۔۔۔ ڈرائیور منتظر ہے"

نرمی سے گال سہلائے جبین پر الودائی بوسہ سونپتا وہ اسے جانے کا کہتا مسکرایا تو منہا بھی اک تھکی سی مسکراہٹ کا تبادلہ کرتی عباد پر اک نظر ڈالے باہر نکل گئی۔

وہ لوگ جلد ہی گاوں کے لیے روانہ ہوئے البتہ زین جو سرور کو اپنی ٹیم کے ساتھ کورٹ پیشی کے لیے لے جانے والا تھا، حارث کی آمد پر اس منحوس کو شیراز اور ٹیم کے سپرد کیے خود حارث کو لیے واپس آفس کی سمت بڑھ گیا۔

"تو یہ تھی میری زندگی کی سیاہ کہانی"

وہ دونوں آمنے سامنے براجمان ، ملگجی سی روشنی میں ڈوبے اس آفس میں سپاٹ مگر کہیں اخیر درد دیتے تاثرات میں لپٹے تھے۔

زین نے اک بھرپور نگاہ حارث کیانی کے چہرے پر ڈالی، جہاں درد و الم کے افسانے درج تھے۔

"زیر دست کو اک دن زبردست ہونا ہوتا ہے ، اسی طرح سیاہ کو بھی سفیدی متاثر کرتی ہے۔ تم نے وہ کیا جو ہر کوئی نہیں کر سکتا۔۔۔۔اعتراف۔۔۔۔اپنی غلطیوں کا"

حارث کے تاثرات جانچتا وہ نرم مگر سنجیدہ لہجے میں مخاطب تھا، مگر وہ بس جرم کی سزا چاہتا تھا۔

"میں نے جو کیا اسکی سزا مجھے ملنی چاہیے سر، اس لیے آپ مجھے اریسٹ کر لیں"

زندگی سے بیزار مگر کڑک حتمی انداز میں وہ تھوڑا سخت سا بولا، زین کے ماتھے پر شکنیں نمودار ہوئیں۔

"ٹھیک ہے۔۔۔۔ لیکن رہائی کی قیمت دے کر تم جا بھی سکتے ہو"

اس بار وہ حیرت سے زین کی بات پر چونکا جہاں بلا کا اطمئینان تھا۔

"وہ رہائی کسی کام کی نہیں ہوتی جسکی قیمت ادا کرنی پڑے، میں اپنے ضمیر کے آگے داغ دار ہوں۔ بنا سزا کاٹے اس سے آنکھ نہیں ملا سکتا"

حارث کشمکش میں تھا، زین جانتا تھا اسے اس تھوڑے پاگل سے حارث کیانی کو کیسے سیدھا کرنا ہے۔

شیراز کو بلوائے وہ چپ چاپ حارث کیانی کو اریسٹ کرنے کا آرڈر دیتا جاتے جاتے اس کے پلٹ جانے پر مڑا۔

"کیا عمر قید کی سزا ہو جائے گی مجھے؟"

یہ سوال کرتے سمے حارث کی آنکھوں میں تاسف تھا۔

"جتنی بھی ہوگی، تمہارے ضمیر والا معاملہ حل ہو جائے گا"

زین اسے مطمئین کیے بھیج تو گیا مگر خود کے ضمیر کے سامنے وہ شاید کبھی بے گناہ نہیں ہو سکتا تھا۔

دیکھتے ہی دیکھتے آنکھوں میں ویرانی اتری۔

وہ گھر کے لیے نکل گیا تھا کیونکہ آج اس نے اپنی زندگی کا ایک مشکل فیصلہ لینا تھا۔

دوسری طرف سرور کے جیل سے چھوٹنے کی خبر ناجیہ کو مل چکی تھی اور وہ جو تہس نہس سی اپنے کمرے میں صوفے پر بیٹھی کسی نئے فساد کی تیاری میں تھی، بجتے فون اور اس پر سرور کے نام کو دیکھ کر لہو آنکھوں میں چھلکائے زیر لب کئی خرفات بکنے لگی۔

"ہے ڈارلنگ، تم نے میری عزت بچا کر ایک بار پھر ثابت کیا کہ کتنا پیار کرتی ہو"

مقابل وہ بھی شام اپنے رنگین فارم ہاوس میں الکیشن کے لیے پرجوش جیلالوں کے بیچ رقص و سرور کی مخفل کے ساتھ ساتھ حرام مشروب پیے مسرور سا اٹھ کر ایک طرف آیا تاکہ شور کم ہو مگر ناجیہ کیانی کے چہرے پر اترتی وحشت اور اسکی رگوں کا ابھرنا بتا رہا تھا کہ وہ بہت مشکل سے جبر کیے ہے۔

"لعنت بھیجتی ہوں تم پر، اب مجھ سے دور رہنا۔ تمہارے اور میرے راستے جدا"

بہت کوشش کی کہ نفرت دبائے مگر ناجیہ جس حال میں تھی، اپنی کدورت چھپا نہ سکی مگر مقابل کھنکتے نجس قہقہے نے گویا ناجیہ کیانی کی روح فنا کی۔

"تم سے دور رہوں۔۔۔واہ واہ۔۔۔۔ زرا اپنی ای میل چیک کرنا۔۔۔۔وہاں ہم دو کی محبتوں کے بہت سے ثبوت ارسال کیے ہیں میں نے۔ اگر تم نے مجھ سے اس لہجے میں دوبارہ بات کی ناجیہ تو یہ سارے عیاشیوں کے ثبوت تمہاری موت بن جائیں گے"

تلملا کر ناجیہ کی سماعت میں صور پھونکے وہ غرا کر فون تو رکھ گیا مگر ناجیہ نے کانپتے ہاتھوں سے میز پر کھلے لیپ ٹاپ پر انگلیاں چلائے کچھ آن کیا تھا مگر وہ جو کچھ بھی تھا، ناجیہ کیانی کی شاید واقعی موت تھا۔

تکلیف اور نفرت کی انتہا لیے وہ پشت سا چینخی، دل چاہا اپنا آپ ختم کر ڈالے مگر پھر کچھ دیر بعد وہ سنبھل گئی، لیکن آنکھوں سے ویسے ہی وحشت ٹپکتی گئی۔

"نہیں سرور۔۔۔اب تمہیں مزید بلیک میل نہیں کرنے دوں گی۔ بہت ڈرا دھمکا کر لوٹ چکے تم۔۔۔اب اپنی موت کے لیے تیار رہنا"

انتقامی ہوئے، نفرت کی آگ میں جھلس کر وہ عہد لے رہی تھی جو یقینا اور سراسر تباہی کا آغاز ہی تھا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"نہیں پہننا میرے کو یہ کفن"

ہاتھوں میں بیڈ کی شیٹ سختی سے دبوچے وہ فرحین کے لائے فارمل مگر بہت پیارے سے وائیٹ اینڈ پنک جوڑے کو حقارت بھری نظروں سے گھورتے چلائی، ملازمہ خود اسکی دھاڑ پر افسردہ سی فری کو دیکھنے لگی جو مسلسل رات سے اب اگلی شام تک تکلیف کے سنگ خود سے لڑتی نوراں کے قریب آئے بیٹھی۔

"پرنسیز، تم نے کل سے کچھ نہیں کھایا۔ کچھ کھا لو تاکہ مجھے تسلی ہو"

جوڑا واپس ملازمہ کو لے جانے کا اشارہ کرتی فری واقعی اب فکر مند تھی کیونکہ نوراں کے چہرے پر بیٹھی تکلیف اور اسکے وجود پر گریہ و زاری سے ہوتی حدت اسکے نازک وجود کو ہلکان کر چکی تھی۔

"میرے کو کچھ نہیں کھانا، تمہارے اس منحوس فرزند کو زندہ نہیں چھوڑوں گی۔ اس نے م۔۔میرے کو ، میرے بابا کو اور یہاں تک میرے بھا کو تکلیف دی، تم نے ایک جانور پال رکھا ہے خالا"

بھلے نوراں کا لہجہ غم ذدہ اور آواز ڈوبی تھی مگر فری اسکے خالا کہنے پر ناچاہتے ہوئے مسکرا دی، ہاں مسکراہٹ میں اک تھکن سی تھی۔

"وہ ایسا نہیں ہے پرنسیز، تم پلیز خود پر یہ ظلم مت توڑو۔ ابھی نکاح خواں آتے ہوں گے۔ یہ جو ہو رہا یہی تمہارا مقدر ہے۔ زین سے تمہاری جو بھی دشمنی اور تنازعات ہیں وہ ان شاء اللہ حل ہو جائیں گے۔ کیا میں تمہیں تھوڑا سا تیار کر دوں"

فری لاکھ اسے سمجھا لیتی مگر اس وقت نوراں کا بس نہ چل رہا تھا کہ اپنی کوئی نس کاٹ لے، بابا اور بھائی کی جان اور شان جیسی نوراں قسمت کے بے رحم وار کے تھپیڑے سے اس نہج پر آن پہنچی تھی، وہ بیزارئیت سے نفی میں سر ہلاتی منہ موڑ گئی۔

فری نے اسکے نازک سے چہرے اور وجود کو دیکھا، وہ کم سن تو تھی مگر اسکے سرخ و سفید لہو چھلکاتے روپ اور رنگ سے لگتا تھا وہ ایک پختون فیملی سے ہے، حالانکہ عام طور پر رنگ اتنا شفاف ہونا ناممکن تھا۔

زین لاشاری گھر پہنچا تو غیر محسوس طریقے سے بھی اک سوگواری بھانپ گیا، اسکے ساتھ شیراز اور چند اور دوست تھے اور نکاح خواں۔

فری بھی ملازمہ کی اطلاع پر باہر آئے سب سے سرسری سا ملی اور پھر نکاح خواں انکے ساتھ ہی اندر کی جانب بڑھے۔

شیراز اور اسکی بیوی بھی اندر کمرے میں فرحین کے ساتھ ہی گئے۔

نکاح کی قبولیت کرتی نوراں ہر حس سے عاری اپنی عمر بھر کی تکلیف کے اس پرچے پر سر ہلا کر دستخط تو کر گئی مگر اسی لمحے یہ قسم بھی اٹھائی کہ جس شخص کو اسکا حاکم بنایا گیا ہے اسی کی جان لے گی۔

چند آنسو اسکی بے بسی پر ٹوٹ کر عارض پر گرے، فری نے اسے پیار کے سنگ حصار کر ماتھا چوما جو صرف نکاح کے جوڑے کا دوپٹہ اوڑھے اجڑی اور سوگوار سی دیکھائی دی۔

زین لاشاری نے عمر کے اس اکتیسویں سال آخر کار اپنی زندگی کی شریک سفر کو قبول تو کر لیا مگر وہ اچھے سے جانتا تھا یہ سفر جو اس نے چنا ہے، نہ تو مخمل ہے نہ پھولوں کی سیج، بلکے یہ کانٹوں سے بھری خاردار مسافت ہے۔

مہمان کے ساتھ ساتھ نکاح خواں بھی شیراز کے ساتھ ہی رخصت ہوئے اور خود فری نے ملازمہ کو کھانا لے کر کمرے میں بھیجا مگر وہ ایک بار پھر مایوس سی ٹرے اٹھائے باہر آئی تو زین گھر کے عام سے خلیے ٹراوز شرٹ میں لپٹا آکر خود بھی لاونچ میں صوفے پر براجمان فرحین تک پہنچا اور بیٹھا۔

وہ پریشان تھیں۔

"اس نے کل سے کچھ نہیں کھایا زین، ایسے تو بیمار ہو جائے گی۔ کیوں تم نے یہ تلخ فیصلہ لے لیا، جانتے ہو اسکے نتائج کتنے بھیانک ہوں گے "

فری کا دل نہایت بے قرار تھا اور تبھی وہ زین کے پرسکون چہرے کو دیکھ کر خفگی چھپا نہ سکیں۔

زین نے ملازمہ کو ٹرے وہیں میز پر رکھنے کا اشارہ کیا اور خود فری کا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں لیے جکڑا جیسے انکی ساری فکر ہٹا لینا مقصد ہو۔

"میں اسے کھانا کھلائے بنا نہیں جاوں گا فری، اور آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں کہ یہ ایک تلخ فیصلہ تھا مگر اپنے کئی خسارے بھرنے بھی مقصود تھے۔ اپنی ذات پر دھرے اک بوجھ سے نجات بھی چاہتا تھا، وہ نفرت کرے گی مجھ سے اور میں اسکی نفرت قبول کروں گا۔ اب وہ فاضل گوجا کی امانت ہے میرے پاس۔ چند ہفتوں تک فاضل گوجا کا فیصلہ ہو جائے گا، نوراں کا معاملہ میں تحمل اور توجہ سے حل کر لوں گا مجھے یقین ہے۔ لیکن مجھے آپکا ساتھ درکار ہے"

تمام خدشات رد کیے وہ اصل اور اہم معاملے پر پہنچا، فری کی فکر ہنوز برقرار تھی۔

"وہ تم سے نفرت کیوں کرتی ہے زین؟"

انکا زین کسی کے لیے قابل نفرت کیسے ہوا، یہ سوچ سوچ کر فری کا دل کٹ رہا تھا تبھی وہ آس سے پوچھ بیٹھیں۔

"اسکے بابا آخری وقت فاضل گوجا سے ملنے کے تمنائی تھے اور میں نے ستم ڈھائے ایک مرتے ہوئے باپ کو اسکے بچے، بلکے بے قصور بچے سے ملنے نہ دیا"

اپنا گناہ وہ پوری ایمانداری سے بتا کر فری کے چہرے پر مزید پریشانی پھیلا گیا، خود بھی سینے میں اک ٹیس سی اٹھی تھی۔

"میں نے تمہیں ایسا سنگدل تو نہیں بنایا تھا زین"

فرحین کی آواز کانپی۔

"لیکن میں بن گیا فری، اسے کھانا کھلا کر مجھے جانا ہے واپس۔۔ممکن ہے دو تین ہفتے گھر نہ آسکوں۔ وہ آپکے حوالے"

پہلی بات ان کہے کرب سے کہتا وہ سرسری سی اپنی مصروفیت کی تفصیل بتائے کھانے کا کورڈ ٹرے اٹھائے کمرے کی سمت لپکا اور فرحین کتنی ہی دیر آزردگی سے زین کو جاتا دیکھتی رہیں۔

وہ جو سوگ اور روگ میں غرق بیڈ کے ساتھ قالین پر بیٹھی سسکیوں کو گھوٹ گھوٹ کر رو رہی تھی، آہٹ پر اپنا سانس تک روک گئی۔

وہ کمرے کا دروازہ کھول کر اک نظر اس ماتمی لڑکی پر ڈالے ٹرے لوئنگ ایریا میں دھرے میز پر رکھے اس سے پہلے بیڈ کی جانب آتا، وہ لہو چھلکاتی آنکھیں لیے دھاڑتی ہوئی اٹھی۔

"تجھے کبھی معاف نہیں کرے گی نوراں۔۔۔۔ بے حس اغوا کار ، میرے بھا کو مجبور کیا ہوگا تبھی وہ تجھ جیسے بیوپاری اور سفاک درندے کو نوراں دینے پر راضی ہوئے۔۔۔۔میں تجھے مار دے گی، جس طرح تو نے میرے بابا کو ترستا اس دنیا سے ج۔۔جانے پر مجبور کیا، میں بھی تجھے ایسے ہی خالی ہاتھ دنیا سے چلتا کرے گی۔۔۔۔۔سن لے کان کھول کر"

آنکھوں میں اسکے ہلکورے لیتا درد، نفرت تلے دب کر بھی آویزاں تھا، وہ پھٹ پڑی تھی، اسکے اندر لگی آگ سے زین لاشاری جھلس سا گیا تھا۔

سب سے بڑی بدقسمتی یہی تو تھی کہ اسے بہت غلط وقت پر محبت ہو گئی تھی، نہیں محبت تو بہت عام سا لفظ تھا۔

اسے تو نوراں سے عشق ہو گیا تھا۔

وہ روتی سسکتی تڑپتی آہیں گھوٹتی لڑکی اس کی جان بھی لے لیتی تو یہ اسکا حق تھا۔

"رو مت نوراں "

اپنی پراعتماد ہستی جیسے اس لڑکی کے آنسووں کے آگے دھنداہٹ میں اتری، وہ اسے یہ کہتے زرا نہ کانپا کہ اسے یہ آنسو خود ہی تو سونپے تھے۔

"اور کیا کروں، کاش تم جیسے بدبخت کی جان لے سکتی میں۔۔۔۔ چلا جا یہاں سے اور اپنی شکل بھی مت دیکھانا مجھے۔ یہ جو ہمارے بیچ رشتہ جڑا ہے، اس پر بھی دو حرف بھیجتی ہے اور تجھ جیسے سفاک پر بھی"

وہ بھیانک حد تک تڑپا سی گئی تھی تبھی وہ بیچ کا فاصلہ طے کرتا نوراں تک پہنچا جو سہم کر دو قدم یوں پیچھے ہٹی کہ یہ اک لمحہ کافی تھا زین لاشاری کی سانس بند کرنے کو۔

"میں نے جو کیا وہ غیر انسانی تھا، لیکن اس وقت میرا وہ عتاب صرف ایک مجرم کے لیے تھا۔ میں یہ بھی جانتا ہوں میری معذرت تمہاری نفرت اور تکلیف کم نہیں کر سکتی لیکن پھر بھی بہت شرمندہ ہوں، اپنے سفاک اور غیر انسانی سلوک پر۔ خود مجھے سچائی جاننے کے بعد سے لگ رہا ہے کہ میرا اللہ مجھ سے ناراض ہے۔ بہت زیادہ ناراض، اس رب کی ناراضگی اتنی شدید ہے کہ مجھے سزا بھی مل گئی۔ اس لڑکی سے محبت ہو گئی جس کا گناہ گار ہوں"

وہ بھاری مگر شکستہ سے لہجے میں اپنی ہار یوں یکدم تسلیم کرے گا یہ تو نوراں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا، وہ سفاک اور بے رحم شخص شکستہ سا واقعی ایک ایسے سہمے بچے سا تھا جسکی ماں روٹھ کر ہاتھ چھوڑ گئی ہو اور وہ اندھیری رات میں تڑپ تڑپ کر اسے پکار رہا ہو۔

وہ کچھ کہہ نہ سکی، کہنے کو شاید کچھ رہا نہ تھا۔

"تو میرے سے محبت کرے گا؟ تجھ جیسا حیوان کرے گا محبت۔۔۔۔۔ لعنت بھیجتی ہوں تیری محبت پر۔ تیرا رب تجھ سے کبھی راضی نہ ہو یہی چاہتی ہے نوراں۔ اور بھا جب رہا ہو کر باہر آئیں گے تو تیرے ساتھ جڑے اس رشتے کو نوچ کر تیرے منہ پر مار کر جاوں گی اور تب مجھے سکون ملے گا"

زیر خندی اور تضخیک کے سنگ وہ زین پر قیامت ڈھا رہی تھی، پہلے ہی دن وہ اسکے ہاتھ اپنی تڑپ کی ڈور تھما چکا تھا، اور شاید یہی زین لاشاری کی چاہ بھی تھی۔

وہ پھیکا سا مسکرایا تھا، اسکی مسکراہٹ اتنی مکمل اور دلربا تھی کہ نوراں نے چند لمحے توجہ سے دیکھی، پھر نفرت سے دیکھی۔

"اب تم آخری سانس تک زین لاشاری کی ہو ، تمہارا سکون اس طرز کا وحشی نہ ہوگا۔ تمہارا سکون اور خوشی میں بنوں گا اور یہ میرا چینلج ہے تمہیں"

صاف جتاتے انداز میں وہ نوراں کی نیلی آنکھوں میں سرخ ہلکورےلیتے درد کو تسلی سے جانچتے مزید قریب آیا اور اب یوں تھا کہ وہ ایک دوسرے کے بے حد قریب سلگتی نگاہیں گاڑے کھڑے تھے۔

"کھانا کھا لو "

بنا کچھ بے وقت کرتے وہ نوراں کا سرد ہاتھ کھینچے اسکی لاکھ مزاحمت کے صوفے تک لایا اور وہ جو خونخوار سی اس شخص کے یوں ہاتھ پکڑنے پر سلگی تھی، جھپٹ کر اپنے ناخن زین کی گردن میں گھسائے، زیادہ لمبے نہ ہونے کے باوجود زین کو اپنی گردن پر ہوتی جلن اور لہو ٹپکنے سے نمی کا احساس ہو چکا تھا۔

وہ یہ کارنامہ سرانجام دیے صوفے پر بیٹھی سر اٹھائے زین کو ہی کھا جانے والی نظروں سے گھوری جو سائیڈ سے ٹشو باکس سے ٹشو کھینچے گردن پر رکھ کر خون کی بوندیں اس میں جذب کرتا سلگاتے تبسم کے ساتھ ہی اسکے قریب بیٹھا۔

"بہت ظالم ہو تم نوراں، اپنے شوہر کو زخمی کر ڈالا ۔۔۔۔"

ٹشو گردن سے الگ کیا تو وہ خون سے تر تھا اور اسکے اس جملے پر نوراں نے بھی تکلیف کے سنگ زین کی گردن دیکھی جہاں اسکی حیوانیت نے پورا ایریا سرخ کر دیا تھا۔

"کھانا شروع کرو"

نظر جھکا کر اپنے زرا زرا ناخن دیکھتی وہ انھیں منہ میں دیے خفگی سے کاٹنے لگی، کچھ دیر تو زین نے یہ سب دیکھا مگر جب برداشت ختم ہوئی تو اسکا ہاتھ جکڑ کر سختی سے حکم دیا۔

"میں یہ سب نہیں کھاتی"

مٹن کڑاہی کا رس مسا سا سالن اور دو روغنی نان دیکھ کر وہ منہ بسور گئی، زین نے حیرت سے اسکی متذبذب صورت دیکھی۔

"کیا کھاو گی؟"

سوال نہایت آسان تھا مگر نوراں ہونق بنی زین کو دیکھتی رہی، یہ سچ تھا کہ نوراں کے پیٹ میں بھوک اور پیاس سے شدید درد ہو رہا تھا۔

"کچھ نہیں"

منہ موڑ لیتی وہ قطعیت سے بولی۔

"میں کھلا دوں"

آفر نہایت ناقابل یقین تھی تبھی تو نوراں نے کرنٹ کھائے اس کی جانب دیکھا اور نفرت ابل آئی۔

"تمہارے ہاتھ سے تو یہ زہر ہی لگے گا سب، اس میں بہت مرچ لگ رہی مجھے۔ میں مرچ نہیں کھاتی"

اپنی بے بسی پر بھی رعب رکھے وہ پردہ ڈالتی اس سے پہلے اٹھتی، زین نے اسکی بازو جکڑ کر واپس بیٹھایا۔

اسکی پلیٹ میں سالن ڈالا اور ساتھ دہی کی دو چمچ اس سالن میں شامل کیں، نان ہاف توڑ کر نوراں کے ہاتھ میں دیا اور خود اٹھ کر ٹھیک سے صوفے پر آرام دہ انداز سے بیٹھا۔

نوراں نے ناگواری سے اک نظر دیکھا اور پھر اپنے ہاتھ میں، رزق کی بے حرمتی نہ ہوتی تو نان اسی کے منہ پر مار دیتی مگر وہ ایسا سوچ بھی نہ سکی۔

چپ چاپ نوالا توڑے سالن سے زرا سا چھوا اور منہ میں ڈالا، زین اسکے یہ انداز تفصیلی جانچ رہا تھا۔

مرچ تو واقعی اسکے لیے نہایت تیز تھی تبھی فوری پانی کی طلب میں گلاس تک پہنچی ہی تھی کہ زین نے خود گلاس اٹھا کر اسکی سمت بڑھایا۔

دونوں کی نظریں ملیں، اک طرف محبت تھی تو دوسری طرف نفرت۔

تقریبا آدھے گھنٹے میں نوراں نے آدھا نان ختم کیا اور پوری پانی کی بوتل ختم کر گئی، زین دل ہی دل میں مسکراتا ہوا یہی سوچ رہا تھا کہ اس لڑکی کے پاس پیٹ نہیں بلکہ پانی کی ٹینکی ہے۔

کھانا مکمل کرتے ہی وہ اس شخص کی نظروں کے حصار سے نکلتی پھر سے اٹھی مگر اس بار زین اسکی بازو پکڑ کر روکتا خود بھی اٹھا۔

"بار بار مجھے چھونے کی کوشش نہ کرو"

حقارت سے بازو جھٹک کر غرایا گیا۔

"بیوی ہو تم میری وہ بھی شرعی"

زین نے مکمل اطمئینان سے اطلاع دی جس پر وہ جل کر خاک ہوئی۔

"چھوڑو مجھے، نہ بیوی ہوں نہ تمہارا کوئی حق ہے میرے پر۔۔۔اب نکلو یہاں سے۔۔۔۔ اگر تم چاہتے ہو کہ بھا کی واپسی تک میں زندہ رہوں تو میرے سے دس فٹ دور رہنا۔ ورنہ میری موت کی وجہ صرف تم ہوگے، جس دن تم نے میرے کو مجبور اور بے بس کرنے کی کوشش کی اسی دن مار دوں گی خود کو۔۔۔۔۔ "

انگلی ہوا میں لہرا کر وہ اسے اسکی اوقات بتاتی جھٹک کر دور ہوئی، زین نے سرد سی سانس کھینچے کچھ دیر نوراں کو دیکھا اور باہر نکل گیا۔

اسکے جاتے ہی نوراں نے تیزی سے دروازے تک پہنچے اسے لاک کیا اور خود رنجیدہ سی اپنے ناخنوں کی سمت تکتی روہانسی ہو گئی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

منہا اور فاریہ کی گاوں پھر سے آمد، اک نئی خوشی اور اطمئینان کا باعث تھی۔

اس بار منہا کی وہاں آمد پہلے سے کہیں درجے خاص ہوئی تھی، وہ سچ میں احد کی ماں، ادا صاحبہ کی جان اور اپنے دادا کا کلیجہ بن کر آئی تھی۔

حویلی میں اسکا اور فاریہ کا استقبال انکے شایان شان ہوا تھا۔

احد کو تو دیکھتے ہی منہا نے اسے دادا سے لے کر اپنے سینے سے لگا لیا، چند آنسو اس ننھے وجود کی جدائی پر بہہ گئے، جنکی صداقت کا گواہ ہر فرد تھا۔

معظم صاحب کی آنکھیں اپنی منہا کے اس قدر پیارے مقدر پر آسودہ تھیں، وہ جی اٹھے تھے۔

ادا صاحبہ مکمل دیکھ بھال اور خیال کے باعث اب وئیل چئیر کے علاوہ بیساکھیوں پر چلنے کی کوشش کرنے لگیں تھیں۔

فاریہ نے یہ سارے دن یہاں کی پاکیزہ مٹی کی خوشبو سے ملن اور پرخلوص اپنوں کے پیار کو محسوس کرتے گزارنے تھے۔

اگلے تین ہفتے ایک طرح سے سے پرسکون گزرے تھے، منہا گاوں آکر احد، دادا اور ادا صاحبہ کے ساتھ بھلے بہت خوش اور مسکراتی رہی تھی مگر دن میں ایک دو عباد کے میسیجز پڑھ کر وہ اسے شدت سے یاد بھی کرتی رہی تھی، دادا اسے خوش سمجھتے اور ماننے لگے تھے کیونکہ وہ سب کے ساتھ مسکراتی رہی تھی مگر دل اسکا آج بھی رقابت کی تہہ میں لپٹا عباد کے لیے تڑپ رہا تھا، ادا صاحبہ کو خاص یہاں کے ایک نئے حکیم کی دوائیں اور منہا کی پراپر کروائی ایکسرسائز سے وہ کافی بہتر ہو گئیں تھیں، انکے اندر اب اپنے پیروں پر چلنے کی خواہش مزید دم پکڑ چکی تھی۔

احد سے منہا پہلے سے زیادہ اٹیچ ہو چکی تھی، یہ لگ بھگ بیس دن اس نے احد کے ساتھ، اسے پل پل اپنی جان بنتے محسوس کیا تھا، اسے یہی لگتا کہ وہ احد کی سگی ماں ہے، بھلا ماں تو ماں ہوتی ہے۔

وہ کیا چاہتا ہے، کب اسے بھوک لگتی تھی، کب اسے منہا کی ضرورت ہوتی وہ سب سمجھتی تھی۔

خود وہ ننھا بچہ پیدا ہوتے ہی جس لمس کا سب سے زیادہ عادی تھا وہ منہا تھی، وہ منہا کی جان تھا۔

ان سارے دنوں عباد الیکشن میں مصروف رہا تھا تبھی اس نے منہا کو کوئی کال بھی نہ کی، اور وہ اسے کال کر کے تنگ کرنا بھی نہ چاہتا تھا۔

فاریہ یہ دن ادا جان کے ساتھ ساتھ رہنے کے علاوہ معراج کے ساتھ گاوں گھوم کر گزارتی رہی تھی، معراج نے اپنی باجو اور دیدو دونوں کو گاوں کا چپہ چپہ حفظ کروا دیا، فارم ہاوس کی ہر بھینس تک کا نام رٹوا دیا۔

اور پھر ایک دن وہ ادا جان کے پاس رکتی تو دوسرے دن اسکی نیند فاطمہ مما کی گود میں سر رکھ کر اسی طرز کے سکون سے میسر آتی جو اسے سراج کے آس پاس ملتا تھا۔

فاریہ نے بھی سراج کو کالز کر کے تنگ نہ کیا البتہ وہ اسے روز اپنا خیال رکھنے اور اپنی تصویر بھیجنے کی فرمائش ضرور کیا کرتی ، اسے اداسی لاحق تھی، لالہ کے جیل جانے کی خبر اسے یہاں آتے ہی مل گئی تھی۔

مگر وہ جانتی تھی حارث نے ایک اچھا فیصلہ لیا ہے۔

زین دوبارہ گھر نہ گیا، نوراں اتنے سارے دنوں تک زین کے نہ آنے پر ایک ہفتہ تو فری کے ساتھ پرسکون طریقے سے رہتی رہی مگر اس شخص کے نہ آنے کا یہ سلسلہ طول پکڑتا گیا تو نوراں کے دل میں بھی نفرت کی دھول بیٹھ کر فکر کا چراغ روشن ہونے لگا۔

وہ سارا سارا دن فری کے لاکھ منع کرنے کے باوجود کچن گھسی رہتی، ہر وقت کشادہ کمرے اور لان سنوارتی رہتی، کیونکہ وہ اس پنجرے میں بے مقصد رہ کر وہسے ہی مر جاتی۔

فری اسکے لیے ضرورت کی ہر چیز اسے فراہم کر دیتیں، مگر وہ سادگی پسند نوراں بس دو جوڑے ہی پہنتی رہی، فری کے پوچھنے پر وہ یہی کہتی کہ اسے رنگوں سے اور بہت زیادہ آسائشوں سے الجھن ہے۔

وہ نازک اور بھولی دیہاتن اتنے سے دنوں میں فری کے لیے زین سے زیادہ پیاری ہو گئی تھی، خود فری کلینک سے آ کر سارا وقت نوراں کے ساتھ گزارتی، صبح کا ناشتہ اور پھر شام کی چائے وہ دونوں لان میں ٹھٹھرتی شام کے ہالے اترتا دیکھ کر پیتیں، ان سارے دنوں نہ ہی فری نے اس سے زین کا تذکرہ کیا نہ نوراں نے کوئی ذکر چھیڑا۔

بلکہ وہ مطمئین بھی تھی کہ اس شخص کو نہ دیکھنا ہی اسکے حق میں بہتر تھا۔

سرور رہا تو ہو چکا تھا مگر کیس ابھی چل رہا تھا جسکے باوجود اس نے الیکشن میں سفارشی طور پر حصہ تو لے لیا مگر وہ بہت کم ووٹ لیے بری طرح ناکام ہوا تھا، ایک بار پھر ایم این اے کی پوسٹ پر عباد حشمت کیانی نمایاں برتری کے ساتھ براجمان ہو چکا تھا۔

ایک تو سرور کو اپنی پہلے ہی الیکشن میں ہار جانے کی تکلیف تھی اوپر سے عباد کی کامیابی پر وہ جو اتنے دن خاموش تھا، اپنی خاموشی توڑنے کا فیصلہ لے چکا تھا۔

ناجیہ ان سارے دنوں مصالحت آمیز چپ میں رہی، اپنی این جیو اور سوشل سرکل میں مصروف رہی۔ اسے حارث کے فیصلے نے تکلیف دی تھی، دونوں بچے دسترس سے نکل گئے تھے، اپنے کیے گناہ تھے یا شاید لگتار ہار کا صدمہ کہ وہ فی الحال طوفان سے پہلے والی خاموشی اوڑھے تھی۔

زین لاشاری کے یہ دن بہت مصروف رہے تھے، فاضل گوجا کے کیس کی پہلی سماعت میں ہی زین کے فراہم کیے ثبوت فاضل گوجا کے فیصلے کو طول دیتے رہے، ہر بار عدالت کسی فیصلے سے پہلے رک جاتی۔

کمرہ عدالت سے ہر پیشی کے بعد مزید مہلت پا کر نکلتے وہ رک کر زین لاشاری کی سمت جن مشکور نظروں سے دیکھ کر پلٹا کرتا تھا وہ شاید زین کا آدھا بوجھ اتار گئیں تھیں۔

آخری ممکنہ فیصلہ ہو جانے والی پیشی سے پہلے اس نے اپنی بہن سے ایک بار ملنے کی درخواست کی تھی اس نے اور زین نے ایک اور وعدہ لے لیا تھا جسکے لیے وہ جلد اسکی بہن نوراں کو اس سے ملوانے کا فیصلہ بھی لے چکا تھا، ابھی اسکے فرض جاری تھے کیونکہ اب اسکی تمام تر توجہ سرور اور ناجیہ پر تھی دوسرا آج وہ حارث کو بھی ایک ٹاسک سونپنے والا تھا۔

حارث نے یہ سارے دن جیل کی سلاخوں کے پیچھے صرف اپنے رب سے توبہ کر کے کاٹے تھے، اور عائشہ جسکی بے تابی اور بے سکونی کا سلسلہ جاری ہو چکا تھا، وہ ہر روز حارث کے لیے فضل بھائی کے ہاتھ کھانا بجھواتی تھی، یہ کہہ کر کے اس قید خانے میں بھی وہ تنہا نہیں ہے۔

اور شاید حارث کیانی پر اتنے سے دنوں میں ہی حیات کے کئی راز کھل چکے تھے، کئی گہرے راز۔

"زین کی کال آئی تھی، میرا بچہ اتنے دن بعد آرہا۔ اسکے لیے اچھا سا ڈنر ریڈی کرو۔ ناجانے کب اسے اپنی ہوش اور فکر آئے گی، اور ہاں پہلے وہ ڈریس لے کر آو نوراں کے کمرے میں"

فرحین جو مالی بابا کے ساتھ کھڑیں انکے لان کو سنوارنے کو دیکھ رہی تھیں، ملازمہ کے چائے پکڑانے پر اسے مخاطب کیے بولیں، نوراں جو ابھی کچھ دیر سو کر اٹھی بالکونی میں آئی تھی، یہ خبر سنتے ہی ناگواری سے پلٹ گئی۔

کمرے میں پہنچ کر نوراں نے گہرا سانس کھینچا اور بیڈ کے کنارے پر ٹکی، دنیا جہاں کی تھکن اسکے شفاف نقوش پر اتری، آخر وہ کیوں آرہا تھا۔

اگر قیدی رکھنا ہی چاہتا ہے تو کم از کم اپنی شکل دیکھا کر اس لڑکی پر مزید ستم تو نہ ڈھائے، وہ پر کٹی چڑیا پھڑپھڑا تو سکتی تھی مگر اڑ نہیں سکتی تھی۔

ابھی اسے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی ان سب سوچوں میں منہمک ہوئے کہ فری دروازے پر ہلکی سی دستک کے سنگ مسکراتی ہوئیں اندر آئیں اور اپنے ہاتھ میں پکڑا کورڈ فراک لہرا کر اسکی جانب بڑھایا۔

"نہ تو اس میں رنگ ہیں نہ قیمتی زیبائش ہے، یہ بہت سادہ سی تمہاری پسند کی ڈریس بنوائی ہے۔ کم از کم اتنے دن بعد اسے اپنی نوراں ، بیوی لگنی چاہیے۔ انکار نہیں سنوں گی جان۔ اب تم تسلیم کرو کیونکہ زین ہی تمہارا سب کچھ ہے اور یہ گھر تمہاری ملکیت"

فرحین کی نرم سی خواہش اور محبت کے آگے نوراں ہرگز انکار نہ کر سکی، وہ نازک سا بہت پیارا فراک کھولا، جسکے بوٹ شیپ گلے پر سفید موتیوں کی لڑی کچھ ایسے نسب تھی کہ وہ چمک رہے تھے، ویسے ہی تنگ لمبی بازووں اور فراک کے بہت گھیرے دار دامن پر بھی ویسے ہی سفید موتی جڑھے تھے، چوڑی دار پاجامہ اور ململ کا سلور باریک گوٹے والا دوپٹہ جسکی نزاکت بلکل نوراں کی نازکی کو دیکھ کر ہی ترتیب دی گئی تھی۔

پیچھے ملازمہ پانی جیسے رنگ کا گھسہ اور نوراں کے لیے نیلے ہی اسکی آنکھوں سے میل کھاتے چھوٹے چھوٹے سفید اور نیلے نگوں سے مزین ائیر رنگز لائے فری کی جانب لپکی جو اسے وہ بھی نوراں کو دینے کا اشارہ کر گئیں۔

ملازمہ نے جوتے بیڈ کے ساتھ رکھے جبکہ ائیر رنگز سنگار میز پر دھیان سے دھرے اور خود واپس چلی گئی۔

نوراں متذبذب سی تھی، بھلا جس سے نفرت ہو اسکے لیے کون سجا کرتا ہے۔

"آپ سب جانتے ہوئے بھی مجھے اس سنگدل کے لیے تیار ہونے کا کہہ رہی ہیں"

ان سارے دنوں میں نوراں کا لہجہ بھی قدرے بدل گیا تھا، اور یہ بھی فری کا کمال تھا۔

نوراں اس بے حسی پر شکوہ کیے بنا نہ رہ سکی مگر فری مسکرا کر اپنی ہتھیلی اسکی گال سے جوڑ گئیں۔

"اسکے لیے نہیں لیکن کم از کم اپنے لیے تو تم سجا کرو، سہاگن ہو۔ خدانخواستہ تم دو کے بیچ کی خلش تاعمر تھوڑی رہے گی میری جان۔ تم یہ بات سمجھ لو اچھے سے کہ وہ جیسا بھی ہے تمہارا شوہر ہے، اسکا تم پر بہت حق ہے جسکو نبھانے کا حکم خداوندی ہے۔ اس نے جو ستم کیا تھا تم پر اور تمہارے بابا پر، وہ اسکی تلافی ضرور کرے گا"

نرم، مدلل اور پیارے جواز کے سنگ فرحین اسے سمجھا کر نثار نگاہ سر تا پا اس بوجھل پری پر ڈالے کمرے سے نکل گئیں مگر وہ وہیں بے دلی سے وہ پیارا جوڑا رکھے بیٹھ گئی۔

یہ سارے بے رحم جھگڑے وہ خود ہی حل کرنے کے حق میں نہ تھی کیونکہ جو ظلم نوراں کے ساتھ ہوا تھا وہ اسے اپنے آپ سے بہت پہلے ہی بیزار کر چکا تھا، اور وہ اپنی سچائی ناچاہتے ہوئے بھی زین لاشاری کے سامنے کھولنے نہ کھولنے کی متذبذب کیفیت میں تھی۔

"میں تم سے ہمیشہ نفرت کروں گی سنگدل انسان، بابا کی پتھرائی آنکھوں سے وعدہ کیا تھا۔ کیسے توڑ دوں۔ ہرگز نہیں۔ تمہیں مجھ سے محبت ہے جانتی ہوں تبھی تم مڑ کر نہیں آئے لیکن یہ محبت ہی تمہاری سزا ہے۔ نوراں صرف اپنے بھا کی بہن ہے اور کسی کی کچھ نہیں لگتی نہ ہی میں اس رشتے کو اپنے زخمی وجود کے لیے مناسب سمجھتی ہوں"

کڑواہٹ بھرے دل کے سنگ وہ ابھی بھی پتھر کی طرح تھی، پہاڑ کی مانند اپنے فیصلے پر جمی تھی۔

مگر ایسا ممکن نہ تھا، کیونکہ وہ خود بھی کہیں دل سے زین لاشاری کے آنے کی منتظر ہو چکی تھی، آخر ایسا کیا تھا نوراں کا راز جو اسے درد میں جھونک رہا تھا؟

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"مما کی جان، ہش رہا"

ناشتے کے بعد وہ احد کو سلانے آئی تو خود بھی سو گئی، اور جب آنکھ کھلی تو اپنے پہلو میں لیٹے اکیلے کھیل کر مسکراتے احد کو دیکھتی وہ مندی مندی آنکھوں سے ہی مسکرا کر احد پر جھکے اسکی گال چومے لاڈ سے بولی اور احد صاحب تو اب ٹانگیں بھی اٹھا اٹھا کر اٹھنے کی کوشش میں حسین مسکائے۔

"بابا کتنے گندے ہیں احد کے، اتنے سارے دن ہو گئے نہ کال کی نہ آئے۔ مما اور احد بلکل نہیں بولیں گے"

پیار یکدم اداسی بنا تھا، اب تو الیکشن بھی ختم ہو گئے تھے مگر تب بھی اس نے نہ کال کی نہ خبر لی جس پر منہا اداس تھی، یہ جانے بنا کہ وہ تو ایک گھنٹے سے حویلی پہنچا ہے اور ادا جان کے ساتھ ہی ہے۔

سراج کو اس نے وہیں پیلس رکنے کا ہی کہا تھا اور خود وہ سب کو لینے پہنچ آیا تھا، ادا جان سے اسے اطلاع ملی تھی کہ دونوں سو رہے تبھی وہ ادا جان اور معظم صاحب ہی کے پاس تھا۔

احد کی قلقاریاں اتنی آسودہ تھیں کہ منہا ساری اداسی بھولے اسکا پیارا موہنا چہرہ چومتی اسکے ماتھے پر جھکے پیار دیتی رہی اور وہ منہا کے ایک ایک پیار پر پہلے سے زیادہ کھل کر مسکراتا۔

"میں دیکھتا ہوں دونوں کو، دونوں سے ملنے کو بے تاب ہوں۔ امید ہے دونوں کو میرا سرپرائز اچھا لگے"

گاوں والے لوگ عباد کی آمد کا سنتے ہی مبارک باد دینے آئے تھے اور ان سے فارغ ہوتے ہوئے وہ جس بیقراری سے کہتا اٹھا یہ معظم صاحب اور ادا صاحبہ دونوں کے لیے باعث سکون تھا۔

منہا ،احد کو اردگرد تکیے رکھ کر سیو کرتی خود اٹھ کر شاید فریش ہونے گئی تھی جب عباد بنا آہٹ کیے کمرے کے دروازے کا ناب گما کر اندر آیا۔

گرے شرٹ پر بلیک جرسی اور بلیک جینز پہنے وہ پیارا اور جاذب لگ رہا تھا مگر نظریں تو تب مہکیں جب احد اپنی ہی دھن میں اپنے ہاتھوں پیروں سے کھیلتا بصارت کا رزق بنا۔

وہ مضبوط اعصاب کا مالک بھی آنکھوں میں نمی بھر لایا، چلتے ہوئے اس تک پہنچا اور ایک طرف کا تکیہ ہٹائے احتیاط سے احد کو اٹھا کر اپنے سینے سے لگا گیا۔

"بابا کی جان۔۔۔۔ میرا احد۔۔۔۔۔"

جلتے بلکتے سینے کو آج کامل ٹھنڈک ملی تھی، کئی پیار بھرے لمس احد کو سونپے وہ اسے اپنے وجود کی گرمائش میں لیے کتنی ہی دیر اس ننھے وجود کو محسوس کرتا رہا۔

وہ جو اپنے دھیان میں ہی بنا دوپٹے کے ہی سادہ سے کھلے کرتے اور شلوار میں راعنائیاں بکھیرتی بال رول کیے باہر نکلی تو اس شخص کو دیکھ کر وہیں تھم گئی جو اب احد کو واپس بیڈ پر لٹائے اسکے ننھے ہاتھ کی گرفت میں اپنی انگلی دیے مسکا رہا تھا۔

"آپ کہاں سے آگئے۔۔۔"

اپنی حیرت ظاہر کرتی وہ متعجب ہوئے بولی تو عباد نے نگاہ اٹھا کر اس پر بہار سراپے کو سر تا پیر آنکھوں کا مرکز بنایا، اپنے دوپٹے کی غیر موجودگی محسوس کرتے وہ متلاشی نظروں سے ادھر ادھر دیکھتی شاید گھبراہٹ چھپانے میں ناکام تھی تبھی عباد اپنی جگہ سے اٹھ کر ایک ہی لمحے میں منہا تک پہنچا، اسکی کمر میں بازو حائل کیے بنا مہلت دیے اس مرمریں سراپے کو اپنی سمت کھینچا کہ وہ اس اچانک افتاد پر بوکھلا کر اسکے سینے پر ہاتھ رکھے موہوم فاصلہ بنائے رہ گئی، وہ اپنے آپ کو لاکھ روکتی مگر اسکی آنکھیں عباد حشمت کیانی کو دیکھنے کی طلب گار جھکنے سے منکر ہوئیں۔

"احد اور تم سے فراغت ملتے ہی ملنے چلا آیا، ہر لمحہ تمہیں یاد کیا منہا۔۔۔"

وہ جیسے اپنی کیفیت بتاتے ہوئے تھکن زدہ ہوا مگر منہا کیسے مان لیتی کہ یاد کیا تبھی نروٹھی رہی، منہ موڑ لیتی تو کبھی نظر جھکا لیتی۔

"ہر روز کا ایک میسج بس، جس میں بس سب کی خیریت مطلوب تھی عباد حشمت کیانی کو۔ کال کیوں نہیں کی؟"

منہا لاکھ خفگی چھپا لیتی مگر ایسا ممکن نہ تھا ، گریبان جکڑ کر وہ درشتی سے استفہامیہ ہوئی۔

"کیونکہ تم سے دور رہ کر صرف تمہاری آواز پر صبر کرنا میرے لیے بہت مشکل تھا، سب خبر تھی مجھے تمہاری۔ تم نے جس طرح احد کے بعد ادا جان کو زندگی کے رنگ لوٹائے، مقروض کر دیا مجھے۔ منہا تم لمحہ بہ لمحہ میرے لیے مقدس اور انمول ہو رہی ہو"

جدائی کی تلافی کرتا اک بے قرار حق دار لمس پیشانی پر پوری شدت سے سونپے، مقابل کی پوری جذباتیت گہرائی سے محسوس کیے وہ اسے اپنی بازووں میں سموئے مشکور ہوئے بولا۔

منہا کو خود محسوس ہوا جیسے یہ شخص سینے لگا کر سارے شکوے دھو گیا ہو، اس انسان کے وجود کی خوشبو، یہ شدت، یہ والہانہ جذب منہا کا رشک ہی تو تھا مگر یہ ساری شدت ایک پل میں منہا کے لیے ثانوی ہونے لگی تو وہ اسے خود سے پرے کیے روبرو ہوئی، اسکے اتنے کم پر گریز برت لینے نے عباد کو فکر سے نوازا تھا۔

وہ جاننا چاہتا تھا کہ معافی ابھی بھی قبول نہیں ہوئی تھی شاید۔

"لیکن احد کی حقیقی ماں اور آپکی گل مینے ایک سچ ہے، ان پر بھی تو ایسے ہی شدت اور محبت لٹائی ہوگی۔ بلکے اس سے بڑھ کر۔ ابھی میرے لیے آپکے بٹے وجود کو ماننا کٹھن ہے، ابھی بھی مجھ سے زیادہ کی توقع مت رکھیے گا"

وہ جانتی تھی وہ اگر لوٹا ہے تو امیدیں باندھ کر لوٹا ہے اور وہ کتنی سنگدل تھی کہ بنا ہچکچائے عباد کی امید توڑ گئی تھی۔

"احد کی ماں تم ہو منہا، میرے نزدیک اب سے اسکی حقیقی ماں بھی منہا ہے۔۔۔ تمہارا لمس، تمہاری حفاظت اور تمہاری خوشبو احد کی زندگی بنی، اس ننھے وجود سے مجھے گل مینے کی نہیں ، تمہاری مہک آتی ہے۔ میں زیادہ کی توقع کر بھی نہیں رہا لیکن کم از کم مجھے تھوڑا حق تو دو خود پر"

وہ اس رخ مہتاب کے ہر خدوخال پر اپنے ہونٹوں کے لمس بکھیرنے کی خواہش میں اسکی پیشانی سے ماتھا جوڑے آنکھیں موند گیا، دونوں نے ایک سی سرد سانس کھینچی اور مقصد بھی دل کا غبار کم کرنا تھا۔

"تھوڑے حق میں کیا کیا شامل ہوگا؟"

منہا اسکے حصار لینے پر زرا فاصلہ بنائے زرا سہم کر بولی، عباد نے اسکے ماتھے پر لبوں کی نرم مہر ثبت کی اور مبہم مسکرایا۔

"تمہیں ہر وقت دیکھنا، چاہنا اور محسوس کرنا۔۔۔ تم خود بھی میری سمت آو، اپنی رضا اور خوشی سے۔ جدائی ٹھہراو لے تو آئی ہے میرے شدید جذبات کے سمندر میں لیکن تم ہو ہی ایسی کہ مجھ جیسے مضبوط کو بھی گھائل کر دیتی ہو، مائل کر لیتی ہو"

یہ مضبوط حصار تنگ ہوا تو منہا کو لگا جان لبوں پر آ گئی ہو، اور کسی نے چپکے سے جان اچک لی اور وہ دم سادھے رحم طلب ہوتی روہانسی ہونے لگی۔

پل پل وہ اپنے جنون کی جھلک دیکھاتا دیکھاتا ہوش میں آئے تھما تو منہا کی آنکھوں میں اتنی دیوانگی پر جمع ہوتی نمی پر ملال میں اترا۔

اسکا چہرہ ہاتھوں میں بھرے دونوں آنکھیں چومیں، آنسو چن لیے۔

"مجھے تم سے دور سکون نہیں ملا، پل پل تڑپ کر کاٹے جدائی کے یہ دن۔۔۔۔ میرے ساتھ چلو واپس، بس اور ہمت نہیں ہے"

وہ اتنا بڑا آدمی، منہا کی محبت میں کسی بے صبرے بچے کی طرح اڑا تھا، تھکن اور ملال نے اسے پہروں بے قرار کیا تھا، منہا اسکے جذبات سے بخوبی واقف تھی مگر یہ جگہ درست نہ تھی کہ وہ عباد حشمت کیانی کی جنوں خیزیاں سہہ پاتی۔

"آپ کی جیت مبارک ہو آپکو، بنا کسی دھنگے فساد کے یہ خونخوار الیکشن تو تھم گئے مگر فکر ہے مجھے آپکی، اور یہ جو آپ سراج بھائی کے بنا کہیں بھی چلے جاتے، کسی دن جان پر آنچ آئی تو منہا اور احد کا کیا ہوگا"

بہت پیار سے وہ عباد کے اپنے چہرے سے جڑے ہاتھ ہٹا کر اسکے سینے پر سر رکھے مدھم سا سانس لیتی بولی اور عباد نے دھیما سا مسکرا کر منہا کے بات ٹالنے پر اسکی اور جھک کر دیکھا اور پھر بیڈ کی جانب کھیلتے احد کو۔

"کیوں وہ نہیں کہتی جو میری تسکین ہے، میری حسرت ہے"

نرم حصار بناتا وہ اسکی سماعت میں جان لیوا سرگوشیاں کرتا پھر سے زخمی ہوا۔

"آپ پہاڑ ہیں، یوں ریزہ ریزہ مت ہوں میرے لیے"

سر اٹھا کر تجویز دی گئی، دونوں کی آنکھیں مضطرب سی ملیں، وہ عباد کو مضبوط پہاڑ جیسا تو کہہ رہی تھی جو درست بھی تھا مگر وہ منہا کے لیے کب پہاڑ تھا، وہ تو ریت کا ٹیلا تھا۔

"پہاڑ بھی وہ جو بے بس ہے، اپنی مرضی سے گر بھی نہیں سکتا، ہل بھی نہیں سکتا۔ جما ہوا ہے حوصلے سے بس اس لیے کہ پہاڑ جو ہے، کبھی اس بے جان کے قریں بہتے دریا کا روپ نہیں دھارو گی، کیا میں بے بس یونہی پیاسا رہوں گا"

ہاتھ بڑھا کر منہا کی بے داغ گال پر پھیرتا وہ واقعی اسکے لیے بہت بیقرار تھا۔

منہا کیا کرتی، کوئی پردہ حائل تھا جو اسے ہر بار روک رہا تھا۔

"آپ کو میری حسرت زیب نہیں دیتی عباد، میں تو بہت حقیر سی ہوں"

بہت من تھا وہ آج جدائی کی تلافی میں اس شخص کو اظہار سونپے پر وہ یہ نہیں کر سکتی تھی، وہی جل تھل تھا تو برسنا اسی پر جچتا تھا۔

"میسج میں آپ لکھتے تھے آپ ٹھیک ہیں، جھوٹ بولتے رہے"

پھر سے عباد کو ٹالتی وہ اسکا ہاتھ پکڑے اسے روبرو کیے اسکی بھاری ہوتی آنکھوں کے بارے دل جلا استفسار کر رہی تھی اور وہ اس سے زیادہ دل جلا مسکرایا۔

"سوچا تھا طبیب کو روبرو حال دل کہوں گا اور وہ مرہم دے گی"

اپنی ڈھیلی سی شرٹ کی پشت سے جڑے عباد کے ہاتھ کی سہلاتی جنبیش اور وہیں دل سے کچھ ہی فاصلے پر دھڑکتے دل کی صدا دونوں منہا کے لیے بہت کٹھن تھا، سہنا اور ہمت برقرار رکھنا۔

"احد کیا کہے گا، بابا نے اگنور کر دیا نئی ماں ملتے ہی"

اس بار وہ تھکا سا مسکرا کر ایڑیوں کے بل اٹھتی عباد کی گرم پیشانی چومے خفا سا مسکائی اور عباد نے بدلا چکاتے منہا کی جبین چومی۔

دونوں طرف ایک سا سکون تھا۔

"نئی پرانی کا ذکر آج کیا ہے، دوبارہ نہیں۔۔۔۔ اسکی ماں صرف تم ہو"

محبت سے بھرے شافی لمس جب جان لیوا ہوئے تو منہا کے بے کل ہوتی دھڑکن پر رحم کھائے وہ اسے خود میں شدت سے سمو گیا، جیسے وہ نہ ملتی تو دیوانہ جان دے بیٹھتا۔

"کیا کروں میں آپکا عباد"

وہ کراہ اٹھی، جب نجات ملی تو ان نازک بھیگی گلاب پنکھریوں پر شکوہ مچلا۔

آنکھیں بھی ستم پر نم تھیں۔

"مجھے دل میں رکھ لو راحت روح، ورنہ کچھ ہو جا۔۔۔۔۔"

وہ درد میں لپٹا یہ ستم ڈھا ہی نہ سکا، منہا کی ہتھیلی عباد کے ہونٹوں پر آکر اسے خاموش کروا چکی تھی۔

"فضول بولے تو جان نکال دوں گی آپکی"

دھمکاتی ہوئی وہ اور جان لیوا تھی مگر اس وقت بے وقت کچھ سرزد ہونے کے خدشے کے باعث وہ جبرا بس مسکرانے پر اکتفا کر گیا۔

دونوں مبہم سا مسکراتے احد کی جانب لپکے اور اب دونوں کی تمام تر توجہ احد عباد کیانی کی جانب تھی جو کبھی گردن موڑ کر منہا کے پیارے بوسے محسوس کیے کھکھلا رہا تھا تو کبھی عباد کی مونچھوں سے ہوتی گدگدی اور چبھن پر منہ بنا رہا تھا۔مگر سب بہت مکمل تھا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"باجو نہ جائیں ناں، میرا دل لگے گا نہیں۔ اب تو فارم ہاوس کی بھینیسں بھی آپکو مس کریں گی۔ میرے ساتھ کرکٹ کون کھیلے گا"

جب سے فاریہ کی واپسی کا سنا تھا تب سے معراج نے اسکے دوپٹے کا پلو پکڑے پیٹنا ڈال رکھا تھا اور پاس ہی دوپٹہ منہ پر رکھ کر ہنسی دباتیں فاطمہ اس ڈرامے کے پوز دیکھ دیکھ مخظوظ ہو رہیں تھیں البتہ فاریہ کو تو واقعی معراج کی رونی صورت پر ترس آرہا تھا۔

"میرے چاند جیسے بھائی، باجو تو اب آتی رہے گی۔ تمہارے بھیا سے مزید کچھ دن نہ ملی تو مجھے شکل بھول جانی اس کھڑوس کمانڈر کی، ویسے ہے ایک نمبر کا بے فیض۔۔۔۔۔ سوری فاطمہ امی لیکن کوئی اپنی نئی نویلی دلہن کو اکیلے ہنی مون پر بھیجتا ہے کیا"

خود فاریہ اتنے دن یہاں رہ کر اپنے مخصوص خول سے باہر نکل چکی تھی، معراج صاحب اب کھسیانی مسکراہٹ دبائے اماں اور باجو کے آنکھوں کے اشارے دیکھ کر مشکوک منہ بنا رہا تھا۔

"اکیلی کدھر تھیں آپ، میں تھا، اماں تھیں۔ بڑی اماں تھیں، احد تھا، معظم دادا تھے۔۔۔بھینسیں تھیں، گاوں کی بکریاں بکرے اور یاد ہے مینڈک بھی جو سارا دن کھیت میں پھدکتے تھے۔ پھر چھپکلیاں اور بلیاں بھی تو ہیں"

اپنی انگلیوں پر موصوف گنواتے نہ صرف خود ہنسے بلکہ اب فاطمہ اور فاریہ بھی کتنی ہی دیر ہنستے رہے، فاریہ نے اسکے بال بکھیرے سر پر لاڈ سے چپت لگائی۔

"تم اتنے سارے دنوں میں میرے لیے بھائی سے بڑھ کر ہو گئے ہو جونئیر، یہاں آتے وقت مجھے لگتا تھا سراج علی کے بنا میرا تو ایک لمحہ نہ کٹے گا۔ مگر زندگی کے اتنے سارے رنگ دیکھ کر اب سمجھ آئی کہ سراج نے مجھے یہاں کیوں اکیلے بھیجا"

شفقت اور نثار نظروں سے وہ معراج کو کہتی یکدم فاطمہ امی کی طرف دیکھنے لگی جو اتنے سارے دن سراج علی کی خوشبو ، فاریہ سے آتی محسوس کیے اک الگ ہی سرشاری میں تھیں۔

"لالہ بہت چالاک اور ہوشیار ہیں، مگرو لایا ہے انہوں نے آپ جیسی چڑئیل کو"

معصومیت لیے منہ بناتا وہ کہہ کر اس سے پہلے فاریہ کے ہاتھ سے پٹتا، دم دبا کر ہنستا ہوا مینڈک ہی کی طرح پھدک کر باہر بھاگا اور فاریہ اٹھ کر اب بیڈ پر چڑھے سیدھئ فاطمہ صاحبہ کے سینے لگی ساتھ جا لپٹی۔

"تم دونوں آتے رہنا، اب میرا اور معراج کا تم دو کے بنا دل نہیں لگتا"

پیار سے فاریہ کے بال سہلائے وہ مان سے بولیں تو فاریہ انکا وہی سر کے بال سہلاتا ہاتھ تھامے اٹھ بیٹھی۔

"آپ کو سچ بتاوں فاطمہ مما، یہ اتنے سارے دن کبھی گزارنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی سراج علی سے دور مگر آپکی محبت، آپکی خوشبو، اپکی ممتا اور اس گھر میں پھیلی سراج علی کے عکس کی چھاپ نے مجھے اس ستم گر کی کمی محسوس ہی نہیں ہونے دی، ہم آتے رہیں گے۔ آپ سراج سے زیادہ میری مما ہیں"

وہ بدل گئی تھی، اب وہ بول بھی سراج کے لہجے اور دیکھائی بھی سراج کے رنگ میں رہی تھی۔

فاطمہ نے یکلخت اسکی پیشانی آسودگی سے چومی۔

"مصروف تھا وہ، الیکشن کے سو جھمیلے تھے۔ پولنگ سٹیشن کے قیام سے لے کر آخری ووٹ کے اندراج تک، پھر وہ ہمہ وقت خود عباد کے ساتھ رہا ہوگا، جب وہ عباد کا سوچتا ہے تو اس لمحے کوئی اور اسکی سوچ کے حصار میں نہیں آپاتا۔ تم جانتی ہو فاریہ، اس دوستی اور فرض کو نبھانے کے لیے وہ مجھ سے اور معراج سے بھی دور رہتا ہے، اس لیے تاکہ اپنی حفاظت پر آنچ نہ آنے دے، کبھی اگر وہ تمہیں ایسی جدائی دے جائے تو سمجھنا اسے کہ یہ سراج علی کی زندگی کا رچا بسا حصہ ہے"

نجانے کیوں مگر فاطمہ صاحبہ یہ بتاتے اداس تھیں، فاریہ نے بھی مسکرا کر انکی فکر جانچی اور پھر سے انکی بازووں کے حصار میں دبک گئی۔

"آپکا لاڈلہ جانتا ہے فاریہ کے شکوے کیسے دور کرنے، آپ بے فکر رہیں۔ اس وجہ سے کبھی شکائیت نہیں کروں گی کیونکہ بچپن سے اسے عباد کے لیے دھڑکتا دیکھتی آئی ہوں۔ وہ عباد کے ساتھ سانس لیتا ہے، لیکن اسکا دل فاریہ کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ اور یہی میرے لیے شرف ہے"

یہ تو جوگن ہی بن گئی تھی، پور پور چاہت کا روپ دھار لیتی جوگن، جسے عشق کا جوگ لگا تھا۔

وہ اک ٹرانس میں کہتی گئی اور فاطمہ نے چپکے سے اپنے سراج علی کی اس دھڑکن کا صدقہ اتارا۔

وہ ابھی اور لاڈ لیتی مگر اسکے ساتھ والے کمرے میں بجتے فون نے توجہ منتشر کی۔

"لیں، یاد آگئی آپکے لاڈلے کو میری"

آفت خیز خندہ پیشانی سے چہک کر وہ بیڈ سے اترتی باہر لپکی تو فاطمہ بھی مسکرا کر اٹھیں اور باورچی خانے کی جانب بڑھیں جبکہ فاریہ نے کال پر سراج علی کا نام دیکھتے ہی بیتابی سے کال پک کی۔

وہ اس وقت میٹنگ روم میں کچھ پارٹی لیڈرز کے ساتھ میٹنگ ختم کیے اب مین آفس کی جانب آرہا تھا، کال لگتے ہی محترمہ نے ان سانسوں کی صدا رغبت سے سنی۔

"عباد بھائی آئے ہیں وہاں، انکے ساتھ واپس آجانا۔ جدائی ختم ہو ہی گئی فائنلی"

بارعب اور پروقار سراپا آفس روم انٹر ہوتے ہی صوفے پر براجمان ہوئے پرسکون ہو کر اطلاع کر رہا تھا مگر وہ بیڈ پر اوندھی لیٹی ستم گر کو ستانے کے موڈ میں تھی۔

"اور اگر میں کہوں کے مجھے یہاں تم سے دور رہنے کی عادت ہو گئی ہے پھر؟"

شرارت اور متبسم چہرہ سراسر آفت تھا مگر اسکے سوال پر سراج سنجیدہ ہوا۔

دل دھڑک سا گیا۔

"تو جان لے لوں گا تمہاری"

دانت پیس کر کلستا جواب فاریہ کو سرشار کر گیا۔

"میں نے بہت انجوائے کیا، یہاں وہ سب تھا جو میری چاہ تھی"

فاریہ مزید ستم ڈھانے پر اتری مگر سراج علی اس بار برہم تھا۔

"لیکن میں تو کہیں نہیں تھا"

سپاٹ سا جملہ اچھالے وہ سراسر جل بھن کر بولا، اور سراج علی یوں نہایت پیارا لگا۔

"تم تھے ناں، ہر جگہ۔ اس فضا میں جس کو سانس کے ذریعے اندر اتارتی تھی،تمہارے کمرے کے نرم بستر کی تہہ میں اتری خوشبو تمہاری ہی تو تھی جس پر لیٹتے ہی سکون کی نیند آنے لگتی، پھر اس گھر کے درودیوار سراج علی کا ورد کرتے ہیں، اس پورے گاوں میں تمہارا عکس جابجا بکھرا ہے۔ تم کہیں نہیں تھے مگر مجھے تمہارے پھر بھی ہر طرف ہونے سے محبت ہو گئی ہے"

سیدھی کروٹ پر لیٹے وہ بنا رکے کہتی گئی، سراج علی کی آنکھیں بھاری سی ہو کر جھک گئیں۔

دل میں اک کھنچاو آیا، کیا یہی نہیں تھی اسکی چاہت۔

کہ اسکی فاریہ اسکے ہونے نہ ہونے پر فدا ہو جائے، اسکے لیے اسکی محبت کے روپ میں ڈھل جائے۔

آج پہلی بار سراج علی کو محسوس ہوا اسکی محبت کے آگے یہ لڑکی سبقت لے گئی، وہ کچھ بول نہ پایا۔

خدشہ تھا کہ اگر بولا تو آواز بھرا جائے گی۔

"سراج علی، آئی مس یو سو مچ"

مقابل کی چپ پر وہ خود روہانسی ہوئی، وہ پھر بھی کچھ نہ کہہ سکا۔

"کیا ہوا ہے، بول نہیں رہے"

اس بار وہ تڑپ کر اٹھ بیٹھی۔

سراج نے گہری سانس بھرے جذبات دبائے۔

"آجاو میرے پاس"

وہ بس یہی کہہ سکا، کال بند ہو چکی تھی۔

فاریہ نے منہ پھلائے فون کی جانب دیکھا تو کٹی کال پر منہ بسور گئی مگر دوسری سمت وہ سراج علی بہت تکلیف میں تھا، اسکی آنکھوں میں پھیلی نمی کسی قیامت کا سائرن تھی۔

دوسری طرف گھر جانے سے پہلے زین ایک ملاقات کرنے حارث کے پاس خود آیا تھا، تین ہفتوں کی قید نے حارث کے چہرے پر پھیلی شیو بے ڈھنگی اور بڑھا چھوڑئ ، اسکے بال بھی بے ترتیب ہو چکے تھے مگر وہ صورت سے اور آنکھوں سے بہت تروتازہ لگ رہا تھا۔

"کیسے ہو ؟"

زین کا سرسری سا سوال سن کر حارث بھی چلتا ہوا سلاخیں جکڑے قریب آیا۔

"خوش ہوں، جرم اور گناہ کیے جائیں تو سزا پر راضی ہونا چاہیے، راضی ہوں لہذا سزا عام سی ہے"

وہ اتنے دن کی تنہائی سے گہری باتیں بھی سیکھ گیا تھا۔

"تمہارے لیے ایک ٹاسک ہے"

پاکٹوں کی جیب میں ہاتھ گھسائے زین نے اگلا جملہ اچھالا، حارث کے چہرے پر استعجاب اترا۔

"میرے لیے؟"

حارث کو جھٹکا لگا، وہ اسے حیرت سے تک رہا تھا جب زین کے اشارے پر شیراز نے جیل کا لاک کھولا اور وہ خود اندر داخل ہوا۔

"اگر تم اس ٹاسک میں کامیاب ہو گئے تو باقی کی زندگی آزاد رہ سکو گے لیکن اگر کامیاب نہ ہوئے تو تمہاری سزا یہی جیل ہوگی۔ پرندے کو زندگی نہ سہی زندگی گا گماں بھی محسوس ہو تو وہ پھڑپھڑاتا ہے، میں تمہیں اڑنے کے لیے پورا آسمان دوں گا"

زین کا مضبوط ہاتھ حارث کے کندھے پر تھا اور پھر ان دو کے بیچ ناجانے کیا بات ہوئی کہ کچھ دیر بعد حارث کیانی کے چہرے پر تکلیف کے آثار اترے۔

"آپ نے جو کہا اسکا ثبوت ہے آپکے پاس؟"

یوں لگا حارث کی آواز قبر سے نکلی ہو۔

زین نے بھی اس بار رنجیدہ ہوئے حارث کا شانہ تھپکا۔

"ثبوت ہیں لیکن میں دیکھاوں گا نہیں بلکہ اس ٹاسک میں تم پر خود سب آشکار ہوگا۔ کیا تم تیار ہو"

زین کی پراعتماد تسلی اور ہمت بندھاتی کوشش رنگ تو لائی مگر بہت کم۔

"یہ بہت بڑا الزام ہے سر، ایسا نہیں ہو سکتا"

حارث کی آواز کانپی اور آنکھیں لہو لہان ہوئیں۔

"یہ ٹاسک تمہارے بس کا نہیں یعنی، رہنے دو"

زین مایوس کرتا پلٹا ہی تھا کہ حارث کی آواز پر وہ کھسیانی ہنسی دبائے سنجیدہ ہوئے مڑا، تھا تو آخر دنیا اور زمانے کے ساتھ چلتا چالاک تھانیدار۔

"میں تیار ہوں"

حارث نے بمشکل اپنی آواز بھاری کی، زین اس بار دل سے مسکرایا۔

"سوچ لو دو تین دن، بعد میں پچھتانا مت"

ذومعنی سا جملہ اچھالے وہ جیل سے باہر نکل گیا جبکہ حارث کے چہرے پر تکلیف سے رگیں ابھر آئیں۔

زین کو آخری پیشی سے پہلے اب فاضل گوجا کا معاملہ بھی حل کرنا تھا تبھی یہ اہم فریضہ اس نے حارث کیانی کو سونپ دیا تھا اور خود فاضل گوجا کی خواہش لیے گھر روانہ ہو گیا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"تم مجھے بار بار یہاں بلوا کر ثابت کیا کرنا چاہتے ہو"

آخر ناجیہ جیسی بے لگام گھوڑی کو قابو کرنا سرور حسین خوب جانتا تھا، انہی تصویروں سے بلیک میل کیے وہ اسے تین ہفتوں کی خاموشی کے بعد اپنے فارم ہاوس تو آنے پر مجبور کر گیا تھا مگر ناجیہ آج بیگ میں گن ساتھ لائی تھی۔

بپھری بلا بنی وہ لوئنگ ائیریا آتے ہی دھاڑی مگر جب نظر سامنے بیٹھے چند لوگوں اور نکاح خواں پر پڑی، اسکا رنگ گویا لٹھے کی مانند سفید پڑا۔

ناجیہ کی گنگ زبان دیکھ کر سرور جو اس وقت کلف لگے کڑکتے سفید سوٹ میں تھا، کھسیانی ہنسی ہنستا اکڑ کر روبرو ہوا۔

"یہ سب کیا ہے؟"

ناجیہ کا تو خون کھول چکا تھا۔

"ڈالنگ کب تک تم مجھے زرا زرا پر ترساو گی، اب ہمیں دنیا داری کو یہ نکاح نامہ سائن کر لینا چاہیے، اور انکار نہ سنوں۔ ورنہ عاشق سے بیلک میلر بنتے دیر کہاں لگے گی مجھے"

قریب آکر رکتی ملازمہ کے ہاتھ میں پکڑے تھال سے سرخ چنری اٹھا کر پتھرائی ناجیہ پر کروائے وہ اگلے ہی پل اسکا ہاتھ لیتا ان سب کی جانب بڑھا۔

نکاح ہونے تک ناجیہ کی ہر حس مفلوج رہی، دل ہی دل میں وہ اس سرور کی موت کی منصوبہ بندی کر رہی تھی۔

"منا لے خوشی، بیوہ ہونے میں حقیقی راحت ملے گی مجھے"

وہ نکاح کے بعد اپنے جیسے دو نمبر یاروں سے گلے ملتا تب ٹھٹکا جب خود پر ناجیہ کیانی کی روح فنا کرتی نظر پڑی، سب کو رخصت کرتے جب وہ واپس آیا تو وہ سر پر لی چنڑی پیروں تلے روند کر اپنا بیگ اٹھاتی اس سے پہلے جاتی، سرور کی چٹانی گرفت نے ناجیہ کی نازک کمر پکڑی اور اس شدت سے کہ وہ تکلیف سے کراہ اٹھی۔

اک خمار اور فتخ مندی لیے وہ ناجیہ کیانی کے چہرے پر نظریں جمائے تھا اور وہ بمشکل خود پر جبر کیے مزاحمت کر رہی تھی۔

"اب تو حق دار والا عاشق ہوں جانم اب کیسا فرار، بہت پھدک رہی تھیں آپ ناجیہ صاحبہ، لیکن بھول گئی تھی کہ تمہاری ہر دکتی رگ میرے قبضے میں ہے"

ناجیہ کا سپاٹ حقارت سے اٹا چہرہ نہارتا وہ اک سرور سے استہزایہ ہوئے چمکارا مگر ناجیہ کا بس نہ چل رہا تھا خود کو چھوتے اس شخص کے ہاتھ کاٹ دیتی۔

"کیا چاہتے ہو تم مجھ سے اب؟"

زرا دب کر وہ اک کرب سے پوچھ رہی تھی، اور سرور کے چہرے پر جیت کا خمار پل پل بڑھ رہا تھا۔

"اپنا سب کچھ میرے حوالے کرو گی تم، تاکہ الیکشن ہار جانے سے جتنا لگایا پیسہ ڈوبا ہے سب واپس ملے مجھے، بزنس الگ خسارے میں ہے۔ اور سب سے اہم کام یہ ہے کہ تمہیں حارث کے ذریعے فاضل کو مروانا ہوگا۔ ابھی تک یقینا وہ کچھ نہیں بولا مگر دو دن بعد کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ حارث کو تمہیں قائل کرنا ہوگا ورنہ میرے ساتھ ساتھ تم بھی برباد ہو جاو گی"

سرور کی یہ مانگ سن کر ناجیہ کو صدمہ لگ چکا تھا، پوری قوت سے وہ اپنی بازو اس شخص کی گرفت سے جھٹک کر دھکا دیے پھنکاری۔

"حارث کئی جرائم کا مرتکب ضرور ہوا ہے مگر قاتل نہیں ہے جو تم نے یہ بکواس مانگ کرنے کی ہمت بھی کی، اس سب کھیل میں اگر تم نے میری اولاد کو شامل کرنے کا سوچا بھی تو جان لے لوں گی"

زندگی میں پہلی بار وہ عورت تڑپ اٹھی تھی۔

مگر سرور ایک عیاش موقع پرست مطلبی صرف اپنا کام نکلوانے کے چکر میں تھا۔

"لیکن اگر اسے یہ پتا چلا کہ اسکی ماں بن بیاہی ایک بار پھر ماں بن گئی تو نجانے وہ کتنے اور قتل کر دے، تمہارے پاس تو نکاح کا کوئی ثبوت بھی نہیں ہوگا ناں۔۔۔۔ اور آج ہماری سہاگ رات کا کوئی نا کوئی نتیجہ تو نکلے گا"

اپنی کمینگی پر اترتا وہ یہ سب کہے ناجیہ کی جان نکال چکا تھا ، وہ عورت اپنے ہی کیے میں بری طرح دھنس کر اب بے یارو مدگار تھی۔

"خبئث کمینے، لعنت ہو تجھ پر۔۔۔۔۔ "

ناجیہ نے میز پر دھرا گلاس دیکورئشن پیس اچھال کر مارا مگر وہ صرف سرور کے ماتھے کو ہلکا سا زخمی کر پایا اور گر کر فرش پر ٹکڑے ہوا اور اگلے ہی لمحے وہ اسکو لپک کر جکڑتا صوفے پر دھکا دیتے کتے کی طرح نتھنے پھلائے پھنکارتا اس سہمی ناجیہ تک پہنچا اس پر جھکا اور اسکا جبڑا اپنی چٹانی مٹھی میں جکڑا۔

"وہ تو نکاح پر بھی قتل کر سکتا ہے، لہذا اسے جیسے بھی مجبور کر یہ تیرا سر درد ہے۔ مجھے فاضل گوجا کی موت چاہیے، بھلے اسکے لیے تو خود قاتل بن یا اپنی اولاد کو بنا۔ میں کسی کو اپنا مستقبل، اپنی آن بان تباہ کرنے نہیں دوں گا۔ "

اپنا حتمی فیصلہ دھاڑ کر سنائے وہ ناجیہ کیانی کے خوبصورت لباس کی آستین جانور کی طرح چاک کرتا اگلا حملہ اس چیختی چلاتی ناجیہ کے گریبان پر کیے ساتھ ہی اسکا گلا دبوچ چکا تھا، ناجیہ کو لگا جیسے اسکے حلق میں سانس اٹکی ہو۔

"اب سہاگ رات نہ سہی، سہاگ دن ہی سہی۔۔۔۔۔ چل میری بلبل اب ٹریلر کے لیے تیار ہو جا"

بے رحمی کے سنگ وہ ناجیہ کیانی پر حاوی ہوتا اس عورت کو حقیقت میں اسکی اصل اوقات پر لے آیا تھا، مگر شاید سرور نے یہ سب نکاح کے ریپر میں لپیٹ کر اپنی ساکھ کا بھرم رکھا تھا۔

جو عورتیں اپنے ہاتھ سے اپنا سہاگ تباہ کیے اسے اجاڑ دیں، اپنی اولاد کو رنج پہنچائیں، زمانے کے ساتھ چلنے کی کوشش کیے درندوں کی ہم قدم بن جائیں انکے ساتھ سرور جیسے درندے ہی سوٹ کرتے ہیں، جو چیڑ پھاڑ کر نکاح جیسے مقدس رشتے کی دھجیاں اڑا کر اپنی مردانگی دیکھاتے ہیں۔

وہ روئی بھی ، تڑپی بھی مگر اب جو زہر اس میں پھیل چکا تھا اسکا انجام صرف موت تھی مگر وہ موت ایک مقررہ وقت رکھتی تھی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

لگ بھگ بیس دن کی لمبی سزا طے کیے وہ شاید اب بھی نا آتا، مگر فاضل گوجا کی خواہش ٹال نہ سکتا تھا۔

پہلے لاشعور میں اپنی سنگدلی کرلا رہی تھی، وہ جب تک پہنچا شام ہو چکی تھی، فرحین کو تو زین کے یوں مہینوں گھر سے دور رہنے کی عادت تھی مگر اس بار تو وہ امانت چھوڑ کر بھی بروقت نہ لوٹا تھا۔

فل بلیک میں وہ بانکا اور سجیلا سا جوان خوبصورت اور پرکشش لگ رہا تھا، اسکے چہرے پر ہمہ وقت بیٹھی سنجیدگی اور وقار اسکے خدوخال میں اک کھنچاو لیے رکھتی۔

وہ حقیقت پسند سا آدمی ہو کر بھی اک بچگانہ سے جذبے میں آن جکڑا تھا، فری ہمیشہ کی طرح اسکے چہرے سے اسکے دل کا حال جان چکیں تھیں۔

وہ تو کمرے سے گاڑی کے ہارن کو سن کر بھی نہ نکلی تھی، بھلا نفرت بھی وقتی ہوئی ہے کبھی۔

"کیوں تھکاتے ہو خود کو میری جان، اس نے جانے کو کہا اور تم واقعی چلے گئے تھے"

نرماہٹ کے سنگ زین کے بال سہلاتیں وہ تاسف سے بولیں مگر قنوطیت کی حد تو وہ تھی جس بے بسی سے اس شخص نے سانس کھینچی تھی۔

"ابھی بھی نہ آتا مگر اہم تھا، فاضل نے اعترافات کرنے کے لیے اس سے ملنے کی خواہش کی تھی، ابھی تو وہ میری بے حسی سے لاعلم ہے فری ورنہ خود مجھ جیسے سفاک سے نوراں چھین لے گا"

اک دکھ کی لہر تھی جو زین کے لہجے میں اتری، فرحین نے بھی آزردگی سے زین کو دیکھا، یہ جانتے بوجھتے کہ فاضل کی رہائی کے بعد نوراں اس سے چھن جائے گی، وہ تب بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا تھا۔

"ٹھیک ہے تم جا کے فریش ہو جاو، ڈنر پے ملتے ہیں"

زین کی آنکھیں بھاری ہو رہی تھیں تبھی فری محبت سے اسے کہے اسے بجھواتی خود کچن لپکیں البتہ زین لاشاری ایک بار پھر دھتکار لینے کمرے کی سمت چل پڑا۔

سارا راستہ وہ شش و پنج میں مبتلا رہا مگر پھر ہمت کیے ڈور ناب اوپن کیے اندر داخل ہوا تو سامنے ہی اسکے خوابوں کی شہزادی کا روپ دھارے وہ اس حسین لباس میں ملبوس کھڑی زین کو خونخوار آنکھوں میں مرکوز کر گئی۔

دل کش سراپا مگر وہ آنکھیں تو کسی بے درد کی تھیں، سمندر سی وسیع مگر ان میں ہلکورے لیتی تکلیف نے زین لاشاری کے ہر احساس کو اکھاڑ دیا۔

"تم کیوں آئے ہو آخر، تمہیں اتنا نہیں پتا کہ جن سے محبت ہو انکے سکون کا خیال رکھتے ہیں۔ تم مجھے بے سکون کرو گے یہاں آ کر، یا تو مجھے کسی دارلاامان میں پہنچا دو یا اپنی اس شکل کو دیکھنے سے محروم کر دو تاکہ میں اس قید کو مکمل کر سکوں"

بے رحم، سنگدل اور ویری بنی وہ سپاٹ لہجے میں زہر سے بھی کڑوا بولی ، زین کو ایسے ہی ویلکم کی امید تھی، بلکے اس سے بھی گرے درجے کی کوئی عملی سنگدلی امید کر رہا تھا۔

"اہم کام تھا، تمہارا بھائی تم سے ملنا چاہتا ہے۔ اسی لیے آیا ہوں"

وہ صرف دو گنے قدم نوراں کی سمت بڑھائے اپنی حد بھانپ کر رکتا وہ پتھر لہجے میں کہتا اپنی درد میں گم ہوتی آنکھوں سے بہت کچھ باور کروا گیا تھا، نوراں کے دل کو دھکا سا لگا۔

وہ نیلی آنکھیں جو کچھ دیر قبل نفرت سے پُر تھیں، اب خسارے سے بھری لگیں جیسے کسی بھی بل چھلک جائیں گی۔

"ہمم، تم سے اس نرمی کی توقع نہیں تھی لیکن اچھا ہے۔ بھا کو تمہاری اصلیت بتاوں گی تاکہ وہ خود مجھے تمہاری قید سے نجات دیں"

پل میں پھر سے وہ زہر اگلتی تلملائی مگر اب زین لاشاری کی ہمت ختم تھی تبھی بیچ کا رہا سہا فاصلہ طے کیے وہ اسکی سمت چلا آیا، دم سادھ لیتی وہ ابر کی مانند حاوی ہوتے زین کے اس اقدام پر ڈرئسنگ کے ساتھ جا لگی۔

"تم ایسا نہیں کرو گی نوراں"

بازو میں اپنے ہاتھ کی گرفت جماتا وہ سختی سے حکم دے رہا تھا، نوراں اسکے حکم پر الٹا استہزایہ ہوئی۔

"میں ایسا ہی کروں گی، بھا بے قصور ہیں۔ اور جب وہ بری ہو جائیں گے تو میں بتاوں گی کیسے تم نے آخری وقت بابا کو تڑپتا چھوڑا۔ وہ سارے آنسو جو میں نے اکیلے بابا کی موت پر بہائے ان سب کا حساب چکاو گے تم، نفرت ہے مجھے تم سے اور تمہاری محبت میرے لیے خاک جیسی ہے، وہ خاک جو پیروں سے لگی ہو۔۔۔سمجھے ہو تم"

اپنی بازو غرا کر چھڑوائے وہ اس بار زین کا گریبان جکڑ کر پھٹ پڑی تھی، غصہ، حقارت اور تکلیف کے ملے جلے اثر نے نوراں کے چہرے پر لہو انڈیل دیا تھا، مگر نوراں کے ہاتھ کی گرفت یکدم ہی ڈھیلی پڑی جب نظر زین کی گردن پر ابھی تک اسکے ستم کے نشان پر پڑی، یوں لگا اس لڑکی کا خون جامد ہو گیا تھا۔

"میں آخری حد تک تمہیں روکنے کی کوشش کروں گا، پھر بھی تم چلی گئی تو مان لوں گا کہ زین لاشاری تمہارے قدموں کی خاک تھا"

شکستہ انداز اور زخمی سی شکوہ کناں آنکھیں لیے وہ بس یہی کہتا دور ہٹا مگر ناجانے کیا ہوا کہ نوراں کا دل پہلی بار اپنی مرضی کے باوجود تڑپ اٹھا۔

وہ دور جانے والوں میں سے تو نہ تھا، نوراں کے دل نے چینخ کر یاد دلایا تھا۔

وہ تو کب سے اوجھل ہوئے خود کو اٹیچ باتھ میں مقفل کر چکا تھا، شاور سے گرتے پانی کی آواز پر نوراں مشکل مشکل سانس بھرتی ہوش میں آتے وہیں لڑکھڑا کر بیڈ پے ٹکی۔

دل، دماغ اور جان سب مشکل میں تھے، کتنے ہی لمحے بیت گئے، وہ بہت دیر بعد اپنی جلن اور تکلیف پر سرد پانی بہا کر گھر کے سادہ ٹراوز شرٹ کے خلیے میں نکلا تو ٹاول سے بال رگڑتے ٹھٹکا، نظر کہیں اور ہی کھوئی نوراں پر گئی۔

وہ اس وقت بہت پیاری لگ رہی تھی، اور زین کے پاس حق ہی کہاں تھا کہ وہ نوراں کی زیبائش پر کچھ کہتا۔

"نور۔۔۔۔۔"

یہ پکار سن کر نوراں نے چونک کر دیکھا تو وہ اسکے سر پر ہی کھڑا فکر سے اسے دیکھ رہا تھا۔

"نور نہیں ہوں ، نوراں ہوں"

درشتی سے تصحیح کرتی وہ برہم تھی۔

"نور کہنے کی اجازت نہیں ہے کیا؟"

وہ ساری ناراضی بھولے اسکے ساتھ ہی مزے سے ٹک کر دریافت کرنے لگا۔

نوراں کی آنکھیں خوامخواہ بھیگنے لگیں۔

شاید اس لفظ سے اسکی تلخ یادیں جڑی تھیں۔

"نہیں"

آنسو ضبط کیے وہ قطعیت سے منمنائی۔

"مجھے ویسے بھی نوراں ہی پسند ہے"

فوری دھیما تبسم لیے وہ بیان بدلتا اتنا پیارا لگا کہ نوراں نے اسکی مسکراہٹ دیکھنے کو باقاعدہ گردن موڑی۔

وہ نم نم بھیگے خلیے میں فریش تو لگ رہا تھا مگر اسکی آنکھیں وہ لڑکی فراموش نہ کر پائی۔

"نور صرف گل کہتی تھی، تبھی اس نام سے نفرت ہے بلکل ویسے جیسے گل سے ہے"

وہ پھر سے رخ موڑ کر آنسو پیتی رندھائے لہجے سے جو کہہ بیٹھی اس پر زین کے دماغ کی گھنٹی بجی۔

"گل سے کیوں نفرت ہے"

اپنی گال پر اتر آتا آنسو زین کے پونجھ لینے پر وہ بوکھلا کر اسکے سوال پر دیکھنے لگی جو اس کی طرح سنجیدہ تھا۔

"یہ میرا ذاتی معاملہ ہے، دور رہو"

اتنے پاس اس شخص کا سحر سہنا نوراں کے لیے مشکل تھا تبھی وہ گڑبڑا کر کہے اٹھنے لگی تو زین نے کلائی جکڑ کر ناصرف اسے واپس بیٹھایا بلکہ ایک ہی جھٹکے سے اسے واپس بیٹھائے خود نوراں کی جان لینے اس پر نظریں جمائے قریب آیا۔

"دور رہوں۔۔۔۔ کس سے؟ تم سے یا تمہارے اس ذاتی معاملے سے"

اپنے دل کے جذبات کے آگے بے بس ہوئے وہ نوراں کی خوشبو اپنے آپ میں اتارنے کا خواہش مند سوال کے بدلے سوال کرتا نوراں کو الجھا گیا۔

اسے چند سوالوں میں الجھا کر وہ اسے جی بھر کر دیکھنے کی خواہش رکھتا تھا۔

"دون۔۔۔نوں سے"

اپنی ہتھیلی زین کے سینے سے ٹکا کر اسے پرے کرتی وہ رخ موڑ کر بہت مدھم بولی مگر وہ مزید جھک کر اپنا نم چہرہ نوراں کے کھلے بالوں میں چھپا گیا، اک گہری سانس کھینچی جسکی تپش نوراں کو اپنی گردن کی رگیں جھلساتی محسوس ہوئیں۔

"دونوں سے دور رہنے کی کوشش کروں گا، لیکن تم میرا پردہ رکھو گی۔ کم از کم میری محبت کی لاج ہی سہی، قبول تو کبھی نہیں کرو گی لیکن مجھ سے کوشش کا حق اتنی جلدی مت چھینو۔ اگر میں ناکام ہو گیا تو چلی جانا۔ وہیں جہاں سے آئی ہو، وہیں جہاں تمہارا سکون ہے"

چہرہ اس مہک دار بالوں کی آپشار سے نکالے وہ اس جان ہار بیٹھی لڑکی کی روشن جبین نرمی سے لبوں سے مس کرتا بس التجاء کر رہا تھا، نوراں کا دل گویا سکڑ کر سمٹا۔

"تم اگر دوبارہ میرے اتنے قریب آئے تو اپنے ہاتھ کی نس کاٹ دوں گی یاد رکھنا"

آنکھوں میں تکلیف بھرے وہ لیٹے لیٹے ہی بھرائی آواز سے کہتی زین کو پھر سے بہت دور پٹخ گئی، مگر وہ ڈر سی گئی تھی، ابھی کچھ دیر پہلے وہ شخص بے دھیانی میں اسکی روح چھو گیا تھا اور اپنے مجرم کو وہ اپنی روح کیسے چھونے دیتی۔

"اور میں اس قسم کے خیال پر ہی تمہارا گلا دبا دوں گا، میری محبت قربت کی طلب سے بہت پرے کی شے ہے۔ اگر تم پر حاوی ہونا ہی میری چاہ ہوتی تو نہ تو اتنے دن گھر بدر رہتا نہ ابھی صرف تمہیں اتنے سے پے بخش دیتا۔ حالانکہ تم مجھے بہت ستا چکی ہو جسکا رتی برابر احساس نہیں تمہیں"

سلگاتے الفاظ کے سنگ وہ خفگی اور برہمی سے کہتا نہ صرف اٹھا بلکہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمرے کا دروازہ پٹخ کر باہر نکل گیا ،نوراں نے اپنی آنکھیں سختی سے میچ لیں، اک ان کہا سا درد اس کملی کے چہرے پر براجمان ہوتا چلا گیا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

آنکھیں سرخ اور چہرے پر آنسووں کے مٹے مٹے نشان لیے وہ کب سے اپنا چہرہ رگڑتی ہچکیوں سے رو رہی تھی، کراہتے ہوئے گردن سے شرٹ سرکائی تو اسکی گردن پر بنے زخم اور رستے خون نے اسکی آنکھوں میں دھندلاہٹ بھری۔

وہ گھر تو آگئی تھی مگر تب سے کمرے میں بند تھی، سب کی واپسی کے باوجود، عائشہ کے بارہا بلانے کے باوجود وہ اپنے ماتم میں غرق رہی۔

"می۔۔میں قسم کھاتی ہوں، تجھے ایسی موت دوں گی کہ دنیا کانپ اٹھے گی۔ م۔۔مجھے اب اپنی پرواہ بھی نہیں"

اپنی تکلیف پر وہ جتنا رو سکتی تھی رو چکی تھی، ڈریس بدلے فریش ہو کر باہر آئے وہ چہرے کی سرخیاں چھپانے کو شام کے اس پل میک آپ سے چھپانے میں مگن تھی، اپنی کرچیاں ان منصوعی سہاروں میں دفن کرتی وہ بیگ لیتی کمرے سے باہر نکلی۔

مین لاونچ ایریا میں ادا جان ، معظم صاحب اور عباد کے بولنے کی آواز کو یکسر نظر انداز کرتی وہ باہر نکلی، مگر راستے میں فاریہ سے ہوتا ٹکراو ناجیہ کو رکنے پر مجبور کر گیا۔

پورا پیلس چھان مارا تھا مگر سراج کا کوئی اتا پتا نہ تھا تبھی فاریہ اب اسکے روم ہی کی طرف جا رہی تھی جب ناجیہ سے سامنا ہوا۔

"آگئی تم ، ماں کی زندگی، سکون اور تربیت سب حرام کر کے۔۔۔۔"

ناجیہ کا طنز اس وقت پریشان فاریہ کے سینے میں ثبت ہوا تھا تبھی وہ روہانسی ہوئی اس سفاک ماں کو دیکھنے لگی جہاں صرف نفرت تھی۔

"میں فی الحال بات نہیں کر سکتی۔۔۔۔۔"

فاریہ کترا کر اس سے پہلے نکلتی، ناجیہ نے اسکی بازو پکڑ کر قوت سے دھکیلے روبرو کیا، اس بار فاریہ سہم سی گئی۔

"کتنا مان تھا مجھے تم پر فاریہ، کیا کیا نہیں کیا میں نے تمہارے لیے اور تم نے سب کے سامنے اپنی ماں کو دو کوڑی کا کر دیا۔ یہ مت بھولنا کہ میں کسی کو بخشوں گی، سب کا حساب ہوگا۔ تمہارے اس سراج علی کا بھی، بہت غرور ہے ناں تمہیں سراج علی پر، اس کے بل بوتے پر تم نے اپنی ماں کو نیچا دیکھایا، تم تو خون ہو سو بخش دیا لیکن وہ سہے گا، ہر چیز سہے گا"

ناجیہ کی بھیانک باتیں فاریہ کو رلا گئیں، وہ تو پہلے ہی سراج کے کہیں نہ ملنے پر تڑپ اٹھی تھی۔

"ن۔۔نہیں مما، اسے ک۔۔کچھ نہیں کہنا۔ م۔۔مر جاوں گی۔۔۔۔۔۔بولیں ناں اسے ک۔۔کچھ کیا تو نہیں"

روتی تڑپتی وہ ناجیہ سے رحم طلب کرتی سسکی مگر ناجیہ نے ایک ہی جھٹکے سے فاریہ کو دھکا دیا اور خود باہر نکل گئی۔

گرنے کے باعث فاریہ کے ماتھے پر بری طرح فرش لگا تھا اور کوئی نوکیلی چیز بھی جس سے خون بہنے لگا مگر وہ تکلیف کے باوجود لڑکھڑا کر اٹھی اور اندر بھاگی۔

اسے یوں آتا دیکھ کر معظم صاحب، عباد اور ادا جان بھی گھبرا گئے، البتہ منہا جو احد کو سلا کر آئی تھی، لپک کر فاریہ تک پہنچی جسکا ماتھا لہو لہان تھا۔

"س۔۔سراج علی۔۔۔۔وہ کہیں نہیں ہے۔۔۔۔مما نے کچھ کیا ہے اسکے ساتھ ۔۔۔۔عباد م۔۔میرے سراج کو لا دو م۔۔میں مر جاوں گی"

عباد کا لہو تو یہ سن کر ہی کھول چکا تھا، فوری اٹھ کر فاریہ تک آئے وہ اسکو پکڑے آرام سے صوفے پر بیٹھائے خود بھی بیٹھا، ادا صاحبہ اور معظم صاحب دونوں کی جان ایک سی سولی پر اٹکی تھی۔

"شش کام ڈاون، کچھ نہیں ہوگا اسے۔ منہا تم اسکے پاس رہو، اسکا زخم دیکھو۔۔۔۔میں دیکھتا ہوں کہاں ہے سراج"

عباد کہہ کر فوری باہر نکلا، تمام گارڈز اور آدمیوں کو اکھٹا کیے سراج کی تلاش پر لگوایا اور خود بھی ڈرائیور کے ساتھ مسلسل سراج کا نمبر ملاتا آفس روانہ ہوا۔

دوسری سمت ایک میلے کچیلے سیمنٹ بلاک نما سیاہ تاریک کمرے میں کوئی وجود منہ کے بل بے سدھ پڑا تھا، کمرہ ایک زیر تعمیر عمارت کا تھا جسکے اطراف کچھ گن مینز غنڈے مسلسل مٹر گشت کر رہے تھے۔

ناجیہ گاڑی میں بیٹھی اس وقت تھانے روانہ تھی ساتھ ساتھ فون نکالے پہلے ہوٹل کی ریزرویشن بک کروائی ساتھ ہی اپنے آدمی کو کال ملائی۔

اس وقت ناجیہ کے پاس اپنا دوسرا خفیہ نمبر آن تھا۔

اسی بلڈنگ کے اطراف مٹر گشت کرتے غنڈے نے کال پک کی تھی۔

"ہو گیا ہے کام میم، ہم نے اسے آفس سے آتے سنسان راستے پر اغوا کر کیا تھا۔ گاڑی کھائی میں پھینکوا دی تھی، آپکے کہنے کے مطابق اسکا نام و نشان مٹا دیں گے"

بھاری آواز میں وہ سانڈ غرایا تھا۔

"مارنا نہیں ابھی اسے، اس پر اتنا تشدد کرو کے مزہ آجائے۔ اسے اسکے سارے گناہوں کی تفصیلی سزا ملنی چاہیے، اسے پتا چلنا چاہیے کہ ناجیہ کیانی کی راہ میں آنے والے کا کیا حال کرتی ہے وہ"

زہر خندی سے وہ کہہ کر کال کاٹ چکی تھی جبکہ وہ سانڈ نما آدمی اب اپنے دو ساتھیوں کو اشارہ کیے اس زیر تعمیر کمرے کی جانب لپکا، یخ پانی کی بالٹی سراج علی پر اس شدت سے ڈالی گئی کہ وہ جو سر پر کچھ بھاری لگنے سے کچھ پل ہوش گنوا بیٹھا تھا، اس ٹارچر پر کروٹ بدلے مندی مندی دھندائی بصارت سے یہ سمجھنے کی کوشش کرنے لگا کہ آیا وہ ہے کہاں۔

سامنے سر پر کھڑے موت کے سوداگروں کے چہروں پر اترتی وہشت دیکھ کر اسکے سارے احساسات بیدار ہوئے مگر اس سانڈ نما آدمی نے ہاتھ میں پکڑی لوہے کی سلاخ اس شدت سے سراج کے کندھے پر برسائی کہ ایک لمحے کو وہ یہ وار سہہ نہ سکا۔

"ک۔۔کون ہو تم بدبختو۔۔۔!"

اپنا کندھا جکڑتا وہ چینخا تھا، اسکی دھاڑ اس پوری بلڈنگ میں گونجی تھی، وہ سب اگلے ہی پل اس پر ٹوٹ پڑے۔

سراج علی کو ایسا محسوس ہوا جیسے آج اسکی زندگی کا آخری دن ہے اور یہ لوگ اسے زندہ قبر میں گاڑ دیں گے۔

ایک وحشی سانڈ سراج کی بازو پر کیل سے خراش لگاتا غلیظ قہقے لگا رہا تھا، سراج نے کچھ دیر تو اس بے رحم تشدد کو برداشت کیا مگر اسے ان کتوں اور درندوں کی گرفت سے نکلنا تھا۔

اپنی پوری قوت لگائے وہ اس آدمی کو بہت مہارت سے اپنی ٹانگوں میں دیے گلا مڑور گیا، ہڈی ٹوٹنے کی آواز پر باقی دو سانڈ بھی سراج پر ٹوٹ پڑے مگر وہ دونوں ہی سراج کی نسبت بہت بھاری بھرکم اور ہتھاروں سے لیس تھے۔

دوسرے کو بھی سراج نے کھردری زمین سے نوکیلا پتھر اٹھا کر گردن سے رگڑے بے جان کیا مگر تیسرا آدمی لوہے کی سلاخ سے سراج علی کے اس بار پیٹ پر وار کر گیا، ایک لمحے کو سراج کو یہی لگا اب ختم مگر اپنی زندگی کی پوری ہمت جمع کیے وہ لڑکھڑا کر اٹھتا وہی سلاخ اس آدمی کے سر پر پوری قوت سے مارے اسے بھی ڈھیر تو کر گیا مگر جتنا کچھ سراج کے ساتھ ہوا تھا، ان سب کا کام تمام کیے وہ بھی آنکھوں میں اندھیرا پھیلنے پر وہیں زمین بوس ہوا۔

آنکھیں بند ہونے سے پہلے سراج علی کی آنکھوں میں صرف ایک عکس تھا، فاریہ کا۔

اپنی پینٹ کی جیب سے اپنا بند فون نکال کر وہ بس آن ہی کر سکا مگر آن کرتے ہی سراج علی کا ہاتھ بے جان اور آنکھیں بند ہو گئیں۔

اسکے ماتھے سے نکلتی خون کی لکیر نے سراج علی کا چہرہ لہو سے تر کر دیا۔

عباد کے لوگوں نے بروقت سراج کے فون کو ٹریس تو کر لیا مگر جب تک عباد اس بلڈنگ تک پہنچا، قیامت خیزی کہرام مچا چکی تھی۔

زخموں اور خون سے لت پت وہ کوئی اور نہیں اسکا سراج علی تھا، وہ دوڑ کر اس تک پہنچا، سراج علی کی دھڑکن رک چکی تھی۔

اک آنسو اس کہرام میں عباد کی آنکھوں سے بہہ کر سراج علی کی بند آنکھ تک گرا تھا، اسکے بعد تو قیامت تھم گئی تھی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"اگر تم نے یہ نہ کیا تو فاریہ کی لاش پر ماتم کے لیے تیار رہنا"

اس رات ناجیہ جیل آئی اور دس منٹ کے لیے حارث کیانی سے ملاقات کی اور ناجانے کہاں گئی، وہ اپنا سر جکڑ کر سلاخوں سے لگا سسک رہا تھا۔

حارث کیانی کی آنکھیں لہو سے تر تھیں، پہلے ہی دن سب آشکار ہو چکا تھا۔

زین کو سارے معاملے کا شیراز نے بتا دیا تھا تبھی وہ کال کیے حارث سے بات کا متمنی تھا۔

"تم بات مانو گے"

زین کے حکم پر حارث فون کو پتھرائی آنکھوں سے دیکھنے لگا۔

" سب ویسا ہی ہوگا جیسا وہ عورت تمہیں کہہ کر گئی ہے۔ یہی تمہارا ٹاسک ہے، فجر ہوتے ہی میں آتا ہوں، خود کو ہلکان مت کرنا"

زین کا دوستانہ انداز بھی حارث کیانی کی تہس نہس ذات کو شانت نہ کر سکا، شیراز نے خود فون پکڑا اور کان سے لگائے باہر آیا۔

"سارا معاملہ تم ہینڈل کرو گے، فاضل گوجا کے پراسرار مڈر کی خبر تم سرور تک پہنچاو گے تاکہ وہ بلکل پرسکون ہو جائے، ہم اس میں میڈیا کو انوالو کریں گے، حارث کا دھیان رکھنا صبح تک شیراز"

زین اس وقت لان میں کھڑا ٹھٹھرتی دھند ذدہ رات میں شیراز کو یہ بریفینگ دیتے مڑا تو سامنے اپنے گرد شال لپیٹ کر اسے گھورتی نوراں کو دیکھے ٹھٹکا۔

کال بند کی اور نوراں کی اور اسکی سلگتی نگاہ کی وجہ جاننے بڑھا مگر وہ اسے دھکیل کر دو قدم پیچھے ہٹی۔

"تم بھا کے مڈر کی منصوبہ بندی کر رہے ہو قاتل درندے، میں تو سمجھی تھی تم میں تھوڑی سی انسانیت ہے۔ کیا بگھاڑا ہے ہم نے تمہارا ہاں "

گھٹی بھرائی تکلیف میں ڈوبی آواز میں وہ زین کا گریبان پکڑے چینخی، چہرے کی رگیں ابھر آئیں۔

"نوراں تم نے جو سنا وہ۔۔۔۔۔۔"

زین اسکو شانوں سے جکڑے اس سے پہلے کچھ کہتا وہ اسکی بات بری طرح کاٹے پھر سے چینخی۔

"تم مجھے ابھی کے ابھی طلاق دو اور آزاد کرو اس جہنم سے، میں خود بچا لوں گی اپنے بھا کو۔۔۔۔۔۔"

وہ قہر ناک چینختی ہوئی زین لاشاری پر آسمان گرا چکی تھی، وہ تو جیسے صدمے میں مبتلا اس لڑکی کے ستم پر ریزہ ریزہ ہوا۔

"ہوش میں آو نوراں۔۔۔۔انف از انف"

اس مسلسل تڑپتی زین کے حصار کو جھٹکتی پاگل کو جھٹکا دیے اس بار وہ اس سے زیادہ بارعب غرایا کہ ان نیلی آنکھوں سے آنسو صورت برسات اترے۔

"وہ سب ایک پلان ہے ہمارا، نفرت کی پٹی آنکھوں سے اتار کر دیکھو تو سہی مجھے۔ میں دن رات فاضل گوجا کو بچانے کی کوشش کیوں کر رہا ہوں آخر؟ تم نفرت کرو لیکن ایسے ممنوع تقاضے کو میرے سامنے منہ پر لانے سے پہلے ہزار بار سوچنا"

ناجانے کیوں وہ بے رحم سا شخص اس لڑکی کے ستم سے ٹوٹ سا گیا، اور نوراں کو تو کچھ سمجھ نہ آیا، وہ اسے ہرجائی اور فریبی لگتا تھا، مگر آج وہ تکلیف میں تھا۔

"آو میرے ساتھ"

اس بے جان پڑتی لڑکی کا لرزتا وجود حصار کر وہ اسے لیے اندر بڑھا، سردی کی لہر ویسے ہی سب جامد کر رہی تھی۔

بیڈ روم میں لائے وہ اسے بیڈ تک لا کر بیٹھاتا خود بھی ساتھ ہی باریک بلینکٹ نوراں کے نازک وجود کے گرد حصارے اسکی تکلیف دیکھنے لگا۔

وہ بہت کرب میں تھی کہ اس سے رویا بھی نہ گیا۔

"بہت خوشی اور بہت سے س۔۔سکھ دیکھے ہیں، بھا نہ ہوتے تو میں مر چکی ہوتی۔ بابا نے دو شادیاں کی تھیں، پہلی بیوی ہماری اماں، میں بھا، اور اماں بابا بہت خوش رہتے تھے۔ ماں کے مر جانے کے بعد بابا کو ہم دو سنبھال نہ پائے، وہ طوائف کے پاس جانے لگے۔ وہیں سے وہ کلموہی فائزہ نامی عورت اپنی بیٹی گل مینے کے ساتھ میرے بابا کے گلے پڑ گئی۔ وہ بابا کے نکاح میں آئی جب تب میں بہت چھوٹی تھی، بھا کی طرح نہ سمجھدار نہ زمانے سی تیز۔۔۔۔ مجھے تو گل نامی آپا مل گئی، وہ آپا جس میں نور کی جان تھی۔ مگر۔۔۔۔۔"

سر زین کے کندھے سے ٹکائے وہ بنا کچھ سوچے بولتی گئی، زین نے اسکی تکلیف شدت سے محسوس کی، وہ بکھری ہوئی تھی اور فی الحال وہ سمیٹ نہیں سکتا تھا۔

"فائزہ نامی وہ عورت کچھ سال میں ہی ہڈیوں کے کینسر سے مر گئی، گل مینے ہماری زندگی کا حصہ بن گئی۔ وہ بھی میری طرح بھا اور بابا کی لاڈلی تھی مگر وہ آستین کا وہ سانپ تھی جسکی خبر ہمیں ہو ہی نہ سکی۔ اس نے اپنے اسی کوٹھے کے مالک کے ساتھ مل کر چالیس لاکھ میں میرا سودا کر دیا، وہ ایک لالچی اور بری لڑکی تھی جسے صرف پیسہ عزیز تھا۔ جن سے اس نے میرا سودا کیا وہ لوگ مجھے لے گئے، اس دن صرف بابا تھے گھر۔ وہ لوگ مجھے جس گندی جگہ لے کر گئے وہاں میرے جیسی جتنی لڑکیاں تھیں وہ مردہ تھیں، وہیں مجھے اس آدمی کے کسی سے بات کرنے سے پتا چلا کہ مجھے گل مینے نے وہاں بیچا ہے اور پیسہ لے کر فرار ہو گئی ہے"

نوراں کی تکلیف بڑھتی گئی، وہ خود نہیں جانتی تھی کہ وہ کیوں زین کو اپنے دل کے دکھ بتا رہی ہے۔

زین کے ماتھے پر حقارت سے شکنیں اتریں۔

"بھا کا اس کوٹھے میں ایک طوائف سے سلام دعا کا ناطہ تھا، انھیں اس عورت نے میرے لانے کی خبر سے گل مینے کا سارا کارنامہ بتا دیا۔ بھا اس روز اپنے کئی لوگوں کے ساتھ وہاں آئے اور جس جس نے انکی نوراں کے اس سودے کو طے کیا اسے زندہ گاڑ آئے، وہ بروقت نہ پہنچ سکے تھے کیونکہ میں درندگی کی بھینٹ چڑھ چکی تھی اور انکی ایک ہی خواہش تھی کہ وہ گل مینے کی جان لیں جس کی وجہ سے بھا کی نور اس اذیت سے گزری۔

ایک تو ہم نے اس لڑکی کو اپنایا، میں نے اسے زندگی مانا اور اس نے ہمیں ہی ڈس لیا۔ وہ چلی گئی وہاں سے، کچھ دن بعد بھا کو پتا چلا کہ وہ بہت بڑے آدمی کی بیوی بن گئی ہے۔ بھا پورا ایک سال گل کو مارنے کی کوشش کرتے رہے مگر وہ جب بھی پیلس سے نکلتی تھی سیکورٹی ساتھ ہوتی"

وہ کچھ دیر کو رکی، زین نے ہاتھ بڑھا کر اسکی آنکھوں سے بہتی نمی جذب کی مگر وہ مزید درد میں اتر گئی۔

"پھر وہ دن آیا جب بھا کو گل مینے ہی کے قتل کی سپاری ملی، بابا نے کہا نوراں پر اذیت کے پہاڑ توڑنے والی کا خون معاف ہے بھا پر، میرے بھا نے کبھی کسی مظلوم پر ظلم نہیں توڑا۔ گل مینے نہ صرف ہم سبکی مجرم تھی بلکہ اس نے کئی سال اپنے اسی کوٹھے کے ساتھی کے ساتھ مل کر ڈرگز سپلائی کا کام کیا۔ دنیا کے لیے وہ ٹاپ ماڈل اور مشہور ہستی تھی مگر حقیقت میں وہ پیسے کی دلدادہ اور جذبات کی سوداگر تھی۔ اس بڑے آدمی کو بھی ناجانے گل نے کتنا لوٹا ہوگا، اسے کیسے پتا چلتا وہ کوئی عام انسان تھوڑا تھا کہ سمندر سے خزانے میں قطرہ کمی پر نوٹس لیتا"

نوراں کی اذیت سے رنگت زرد تھی، اور وہ سر اٹھا کر زین لاشاری کی سرخ آنکھیں دیکھ کر سہم سی گئی۔

"وہ گل تھی نور کے لیے، وہ پہلی تھی جس نے نوراں کا اعتبار اتنے پاس آکر توڑا۔ لیکن بابا اور بھا نے مجھے ٹوٹنے نہ دیا، بابا مجھے جوڑتے رہے اور خود مجھ پر ٹوٹے ظلم سے آہستہ آہستہ ہمت چھوڑ گئے۔ میں تو اپنے بھا کی طرح مضبوط اور قائم ہو گئی لیکن میرے بابا ن۔۔نہیں سہہ پائے۔ پھر دوسرا ظلم تم نے توڑا، میرے بابا ک۔۔کی آخری وقت کی تکلیف نہیں معاف کروں گی۔۔۔۔۔ "

وہ آخر تک پھر سے رو دی، پلکیں بھیگ گئیں، زین کو لگا وہ واقعی زمین میں دفن ہو گیا ہے۔

اپنے آپ سے نفرت محسوس ہو رہی تھی۔

"مجھے معاف کر دو، تم کہو تو آخری سانس تک اپنے اس جرم کی معافی مانگتا رہوں گا۔ میری اس ظلم کی نیت نہ تھی نوراں، رہی بات فاضل کی تو اسے سزا ہونے نہیں دوں گا یہ میرا وعدہ ہے"

زرا قریب ہوتا وہ اسکا اذیت سے اٹا چہرہ ہاتھوں میں بھرے آزادگی سے التجاء کر رہا تھا، پھر آخری وعدے پر نوراں نے اسکے ہاتھ بے دردی سے ہٹائے اپنی متورم سی آنکھیں رگڑے منہ موڑ لیا۔

"تم اپنا وعدہ پورا کرنا، میں تمہارے ساتھ رہ بھی نہیں سکتی۔ اس انسان کے ساتھ رہنا مشکل ہوتا ہے جو آپکو آپ سے زیادہ جان جائے۔ اس مختصر سفر کو تم ایک ڈروانا خواب سمجھ لینا۔ میں بھا کے ساتھ چلی جاوں گی، کیونکہ انکے علاوہ نوراں کا کوئی نہیں ہے"

وہ رخ موڑ کر زین لاشاری پر قیامت ڈھا رہی تھی، اور وہ کیسے جانے دیتا جس کے بنا اب اسکی سانس آنی محال تھی۔

"میں تمہیں نہیں چھوڑ سکتا، یہاں دیکھو میری طرف"

وہ تاسف اور تکلیف سے اسکا موڑا چہرہ اپنی سمت کیے حکم سنا رہا تھا، مگر نوراں دل جلا سا مسکرائی۔

"تم نے سنا نہیں، میرے ساتھ کیا ہوا تھا گل مینے کی وجہ سے۔ میری معصومیت چھین لی گئی تھی ، میری عصمت منہدم ہو گئی تھی۔ میں گھر بسانے والی لڑکی نہیں بلکے صرف بھا کی مددگار سپاہی ہوں ، ہڈیاں توڑ سکتی ہوں، گن چلا سکتی ہوں، درندوں کو کاٹ سکتی ہوں بس"

انتہائی اذیت پسندی کے سنگ وہ اپنے ستم گنواتی گئی، زین نے سرد مہری سے اسکی یہ فضول گوئی برداشت تو کی مگر دل زخمی ہوا تھا۔

"یہ سب تم میرے ساتھ بھی رہ کر کر سکتی ہو، جانے تو نہیں دوں گا تمہیں"

زین کا لہجہ جتاتا ہوا نوراں کو کانٹے سا چبھا تھا۔

"بیوی ٹائپ چیز نہیں ہوں افسر، نہ مجھے اپنی کم وقتی قبول ہے۔ اور ویسے بھی تم پر پیار کبھی آیا بھی تو کر نہیں پاوں گی کیونکہ تم ایک ستم گر ہو۔ اس لیے اپنا وعدہ پورا کرو اور جانے دو مجھے۔ ہمارا تلخ سا ساتھ بس اتنا ہی تھا۔ اور ہاں تمہاری جو گردن نوچی اس کے لیے معذرت"

اتنی آسانی سے وہ نارمل ہو کر قہر ڈھا رہی تھی، زین سن سا یہ اذیت ناک حکم سن کر دل مسوس کر رہ گیا۔

"میں نے کبھی کسی کو آنکھ بھر کر نہیں دیکھا اپنی تیس سالا زندگی میں، تم پہلی تھی جو یہاں اس سینے میں سرائیت کر گئی۔ گناہ بڑا ہے میرا لیکن رب کی رحمت اس سے کئی گنا بڑی ہے، مجھے یقین ہے اگر تم مجھے معاف کر دو تو رب بھی کر دے گا۔ کیونکہ وہ تو نیتوں سے واقف ہے۔ تم جیسی بھی ہو میرے لیے افضل ہو نور، تمہارے یہ آنسو تک افضل ہیں۔ تم اگر کہو گی تو تم سے دور آباد ہونے پر بھی راضی ہوں، لیکن جانے کی بات مت کرنا۔ مجھے فرق نہیں پڑتا ماضی کیا تھا، مجھے فرق بس تب پڑے گا جب تم دسترس سے نکل جاو گی"

اسکا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ میں لے کر دباو ڈالتا وہ دوسرے ہاتھ کی پشت سے نوراں کے چہرے پر پھیلی سیلن زدہ نمی ہٹائے جذب سے گویا ہوا، جب وہ نور کہہ کر بلا رہا تھا تو آنسو خود نوراں کی بینائی دھندلا رہے تھے۔

"معاف نہیں کر سکتی اس لیے کہ کرنا نہیں چاہتی، تم میرے سے سر نہ گھپاو افسر، کوئی اور ڈھونڈ لینا۔ تمہیں فرق نہیں پڑتا لیکن مجھے پڑتا ہے، نوراں جتنا جیے گی سر اٹھا کر جیے گی،خود کی ذات اگر تمہارے آگے کسی کمزور لمحے بے آبرو کر ہی دی ہے تو اسکا یہ مطلب نہیں تم مجھ پر ترس کھاو۔ سوچنا بھی مت، آجکل کے زمانے میں آنکھوں دیکھی مکھی کوئی کہاں نگلتا ہے۔ اگلنی تو پڑ جاتی ہے، اور ایسا وقت نوراں کی موت بنے گا۔ سو مجھے میری رہی سہی زندگی جینے دو اور جان چھوڑ دو میری۔ بس"

اپنا ہاتھ جھٹک کر چھڑواتی وہ انتہائی بے رحم بنی زین کے دل کو تڑپا ہی تو گئی تھی، اور وہ التجاء کیسے کرے یہ اسے تھکا رہا تھا۔

"تمہیں سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کہہ رہا ہوں میں"

بازو سے جکڑے وہ اس فرار کرتی لڑکی کو جھنجھوڑ کر غرایا تھا، وہ اسکے حواس سلب کر رہی تھی۔

"اور تمہیں کونسا آرہی ہے جو میں کہہ رہی"

وہ بھی اکڑ کر غرائی تھی۔

"شروع کرنا ہی پڑے گا"

گہرا سانس لیتا وہ حتمی فیصلہ کیے نوراں کی توجہ کھینچ گیا، وہ کرنٹ کھائے زین لاشاری کی سمت ہراساں ہوئے دیکھنے لگی۔

"ک۔۔کیا؟"

دل مانو جیسے لرزا، زبان بھی کانپی۔

"ہمارے بیچ کے رشتے کا سفر۔۔۔۔"

آنکھوں میں خمار سا بھرے وہ دونوں بازووں میں نوراں کو جکڑ کر اسکی یہ کہے جان نکال چکا تھا۔

"ت۔۔تم۔۔۔تم ایسا نہیں کر سکتے"

مزاحمت کرتی وہ پھر سے رونے لگی۔

"کر سکتا ہوں ، تمہیں میری سیدھی زبان سمجھ نہیں آئے گی اور میں ایک حقیقت پسند سا آدمی اپنی بات سمجھا بھی نہیں سکتا۔ کم از کم تم اسکے بعد مجھ سے دور جانے کے لیے ہزار بار سوچو گی تو سہی"

اپنے آپ کو زین کی گرفت میں جکڑا پائے وہ سانس لینا تک بھول رہی تھی، اسکی بے ہنگم دھڑکن اور وجود پر اتری کپکپی زین کی نگاہوں سے مخفی نہیں تھی۔

"م۔۔۔مم۔۔میں مار دوں گی تم۔تمہں چھ۔و"

وہ اسکے حصار سے نکلنے کو سسکتی ہوئی تڑپی، آنسو لکیریں بناتے چہرے پر اترتے گئے۔

"نور۔۔۔۔۔ شوہر ہوں میں تمہارا، مجھے حق ہے تم پر۔ اس بات کا بھی حق ہے کہ اپنی محبت کا ہر طرز سے اظہار کروں، یقین دلاتا ہوں کہ بے سکون نہیں کروں گا تمہیں۔ یہ ہمارے بیچ کا جھگڑا ہم دونوں کو مار دے گا، مجھے صرف تم عزیز ہو۔ مجھے صرف تمہیں جاننا ہے، تمہیں چاہنا ہے"

بہت صاف لفظوں میں وہ یہ ابر جیسے جملے نوراں کی بے قرار ذات کو شانت کرنے کو برسا گیا، اور وہ زین لاشاری کی آنکھوں میں رقصاں اپنے عکس کو دیکھ کر دہل چکی تھی۔

وہ کتنی شان سے آنکھوں دیکھی مکھی نگل لینا چاہ رہا تھا۔

"ن۔۔نہیں چ۔۔چھوڑ دو مجھے۔۔۔۔مت کرو۔ ن۔۔۔نہیں"

وہ اسکی شرٹ مٹھیوں میں جکڑتے اونچا اونچا سسکنے لگی، اور زین اسکے اس رویے پر رنجیدہ ہوا۔

خود اٹھا اور اس بے حال روتی نوراں کو پکڑ کر تکیہ درست کیے لٹایا اور اسکے گرد لپٹا بلینکٹ نکال کر ایک طرف رکھے لحاف اوڑھے خود بھی سامنے ہی اسکے قریب ٹکے بیٹھا جو بے ساختہ گھبرا کر اسکا ہاتھ جکڑ کر رحم طلب نظروں سے دیکھنے لگی۔

"نہیں کر رہا کچھ لیکن تم نہیں جاو گی، پرامس ود می۔ ادر وائز آج ہی یہ لڑائی ختم کر دیتا ہوں"

سہمی سی نوراں کی ناک دبائے وہ بظاہر نرم مگر سنجیدہ دھمکی دے رہا تھا اور وہ سمجھ نہ پائی کہ اب روئے یا مسکرائے۔

"م۔۔مم میں بیوی بننے کے لائق نہیں تم سمجھتے کیوں نہیں"

اپنی بے بسی پر وہ پھر سے پھوٹ پھوٹ کر روئی اور زین لاشاری کے لیے یہ ڈوب مرنے کا مقام تھا کہ اسکے ہوتے اسکی محبت یوں تڑپ اور سسک رہی ہے۔

جھک کر ان بھیگی آنکھوں کے افق پر بہار سے لمس لمحوں میں بکھیر کر وہ نوراں کی جان لے چکا تھا، شاید یہ خاموش دھمکی تھی جو انسپیکٹر صاحب نے اپنے سٹائیل میں دی تھی، اور وہ ہوش سلب ہونے پر تو کچھ نہ کہہ سکی مگر جب اپنے ساتھ ہوتی استحقاق آمیز واردات کا احساس ہوا تو اسکے پیٹ میں مکا جڑ گئی۔

"ترسے عاشق۔۔۔۔۔۔جان لے لوں گی تمہارئ دوبارہ ایسا کیا"

اپنی پوزیشن کا خیال کیے بنا وہ چلائی تھی، حیا سے سرخ چہرہ زین کو بھی مسکرانے پر اکسا گیا۔

"بہت ترسا ہوا ہوں یقین کرو، اس لیے بچ کر رہنا"

شرارت سے آنکھ ونگ کرنا وہ نوراں کو بے حال ہی تو کر گیا، دل تو یہی کیا کہ اٹھ کر اس شوخے کی اب ناک نوچ ڈالے مگر اس سے پہلے وہ اٹھ کر سنبھلتی زین کے روبرو بیٹھ پاتی وہ پھر سے نوراں پر جھکے اسے واپس تکیے سے جا لگنے پر مجبور کر گیا۔

"تھوڑے گہرے مشاہدے کی ضرورت ہے۔ ویسے بھی زین لاشاری ہوں، جو کرتا ہوں بہت تفصیلی اور لگن سے کرتا ہوں"

اس بار نوراں کے پاس تھانیدار نے مزاحمت کی نہ ہمت چھوڑی نہ اعتراض کی گنجائش، اور وہ بے باک ارادے پر عمل درآمدہونے پر اپنی دھڑکنیں جسم و جان کو چھوڑتا محسوس کیے شاید کسی ٹرانس میں اتر چکی تھی۔

جہاں سے واپسی ہونا اب بہت مشکل تھا، زین نے اس بے حال آپسراہ کا اپنی قربت سے ہوتا برا حال بھانپ کر مسکراہٹ کا تبادلہ آنکھ ونگ کے ساتھ کرتے اٹھا اور ہنوز مسکراتا دو قدم دور ہوا اور شاید انکے رشتے کی قدرے کرواہٹ آج ہی شریں لمحے جذب کر چکے تھے۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

سراج علی کی نازک کنڈیشن کے باعث اسے آئی سی یو لے جایا گیا تھا، اور جس طرح اسکی سانس بند تھی ویسے سسکتی تڑپتی ہوش گنواتی فاریہ کا دم گھٹ رہا تھا، عباد الگ شیراز سے تازہ ترین بریفنگ لینے ہوسپٹل سے باہر تھا جبکہ منہا بہت مشکل سے اپنے آنسو روکے اس وقت بے جان فاریہ کو سنبھالے تھی جس سے رو رو کر اب سانس لینا بھی مشکل تھا۔

"مت روئیں فاریہ، بھیا بلکل ٹھیک ہو جائیں گے۔ آپ نے دیکھا ناں کیسے انہوں نے نجس غنڈوں کو بچھاڑ دیا۔ اور ویسے بھی ان کے ساتھ ہم تینوں کا دل د۔۔دھڑکتا ہے، مت روئیں میری جان"

اپنے نرم ہاتھوں کی پوروں سے وہ فاریہ کے جتنے آنسو جذب کر رہی تھی وہ اور شدت سے بہہ رہے تھے، وہ تو پل پل سراج علی کی سانسیں دیکھ کر جیتی تھی تو کیسے اس وقت صبر کرتی۔

"م۔۔مر جاوں گی منہا، اس۔۔۔اسے کچھ ب۔۔بھی ہوا۔ میری وجہ سے ہ۔۔ہوا، نہ میں اسکی محبت بنتی۔۔۔ن۔۔نہ اسے میری ماں ا۔۔۔اس درندگی سے دوچار کرواتی۔۔۔۔ س۔۔سب سب میری و۔۔وجہ سے ہوا۔ وہ میری وجہ سے صرف ت۔۔تکلیف ہی سہتا آیا ہے"

اپنی آنکھوں سے بہتے چناب کو تھمانا آج فاریہ کے بس میں کہاں تھا، وہ روتی تڑپتی اپنے بے بسی کہہ کر ملول تھی۔

خود منہا کی آنکھیں نم تھیں۔

"ایسا مت کہیں، جان ہیں آپ سراج بھائی کی۔۔۔۔ ابھی ہوش میں آتے ہی وہ آپکو ہی تو بلائیں گے۔ کچھ نہیں ہوگا، جو بھی قصور وار ہے وہ سزا سہے گا پریشان مت ہوں"

منہا اس وقت اسے تسلی دینے اور سمیٹنے میں لگی تھی۔

باہر کوریڈور کی سمت کھڑا عباد اس وقت انتہائی غضبناک تھا، شیراز کو زین نے خود عباد کے ساتھ رہنے اور اس معاملے کو صبح تک دیکھنے کی تلقین کی تھی۔

"ناجیہ کیانی کا کچھ پتا نہیں، انکا فون آف ہے۔ تھانے سے نکل کر وہ کہاں غائب ہوئیں کچھ خبر نہیں۔ لیکن میرے لوگ مسلسل انکی تلاش میں ہیں"

شیزار کی اطلاع عباد کو پرسکون نہ کر سکی، مٹھیاں بھینچے وہ تلملا اٹھا۔

چہرے پر گویا جسم کا سارا لہو اترا۔

"جو بھی سراج علی کی اس حالت کے پیچھے ہے مجھے فورا سراغ چاہیے اسکا، جس نے بھی میرے بھائی کو یہ اذیت دی ہے اسکی موت میں خود بنوں گا۔ ناجیہ کا فرار اس بات کا ثبوت ہے کہ اس معاملے کے پیچھے وہی سوداگرنی ہے۔۔۔۔شیراز مجھے اس معاملے میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں ہوگی، کیونکہ یہ میرے جگر پر وار تھا۔ فورا جاو اور اس منحوس عورت کو ڈھونڈ کر لاو"

عتاب کے سنگ وہ حکم دیتا سختی سے حکم صادر کیے شیراز کی جانب سے فرمابرداری کا اشارہ ملتے ہی واپس اندر آیا، نظر منہا سے ملی تو دونوں نے ہی ہچکیاں بھر کر روتی فاریہ کو دیکھا۔

وہ خود بھی فاریہ کے پاس دوسری طرف آئے بیٹھا، وہ رو رو کر آدھی ہو چکی تھی۔

"وہ سراج علی ہے، میرا شیر۔۔۔۔ اسے پتا ہے اس سے کتنے دل اور جانیں جڑی ہیں۔ رو کر انرجی ویسٹ مت کرو، تسلی رکھو"

اتنے ستم کے باوجود بھی وہ یہاں بیٹھا شفقت سے فاریہ کو تسلی دیتا اس لڑکی کا احساس جرم مزید بڑھا گیا۔

منہا خود بہت اداس تھی، سراج علی اسکے لیے بھائی سے افضل تھا۔

"م۔۔مجھے معاف کر دو عباد، یہ ساری تکلیفیں میرے کیے گناہوں کا سبب ہیں۔ مم۔میری وجہ سے سراج پر آنچ آئی، اسے کہو وہ سانس لے، اسے کہو فاریہ کی دھڑکن بھی ر۔۔۔رکی ہوئی ہے۔۔۔ اسے کہو ایسے ج۔۔جدا ہونا ممنوع ہوتا ہے۔۔۔۔تم کہو۔۔۔تم۔۔تمہاری بات مانے گا"

وہ پور پور تڑپتی سسکیاں گھونٹتی لڑکی سر تا پا سراج علی کے لیے دعا بنی دھڑک رہی تھی، عباد نے تھکی سی مسکراہٹ دیے اسکی آنکھ سے بہتی نمی جذب کی۔

"معاف نہ کیا ہوتا تو سراج علی جیسی قیمتی دولت تمہیں کیوں سونپتا، تمہارے ہر گناہ کے باوجود تمہارا مقام بلند ہے فاریہ کیونکہ تم سراج علی کا دل ہو، اسکی جان ہو۔ گھبراو مت۔۔۔وہ ٹھیک ہو جائے گا"

نرم سی تشفی بھری آس بندھاتا وہ بے ساختہ منہا کی جانب متوجہ ہوا جو اسے محبت سے دیکھ کر دھیما سا مسکرائی۔

ڈاکٹر کے باہر آجانے نے گویا ان تینوں کی دھڑکن روکی۔

"کیسا ہے وہ؟"

لپک کر عباد نے سوال کیا۔

"بہت گہرے وار کیے گئے ہیں اسکی باڈی پر، کندھے کی ہڈی معمولی سی کریک ہو گئی تھی۔ لیکن خطرے کی بات نہیں ہے۔ گرنے کی وجہ سے سر میں شدید چوٹ آئی ہے اور خون بہہ جانا ایک طرح اسکی دماغی حالت کے لیے سود مند رہا، بہت باہمت انسان ہے۔ اتنے تشدد کے باوجود وہ آخری ہمت کے قطرے تک مقابلہ کرتا رہا۔ یقینا وہ اللہ کو بھی بہت پیارا ہے عباد صاحب کیونکہ وہ بے ہوشی میں بھی مسلسل کسی زبانی یاد سورت کا ورد کر رہا تھا، ایسا بندہ پہلی بار دیکھا۔ اور وہ تھوڑے ہوش میں آتے ہی فاریہ کو بلا رہا تھا، ہم انھیں سپیشل روم میں دو دن رکھیں گے، ابھی شفٹ کرتے ہیں۔ لیکن صرف فاریہ کو ہی ملنے کی اجازت ہوگی"

ڈاکٹر کی یہ ساری باتیں عباد کی آنکھوں میں نمی بھر لائیں، اسے یاد تھا کہ بچپن سے وہ پانچ وقتی نمازی صرف سراج کی بدولت بنا تھا، وہ اسے کھینچ کر باقاعدہ مسجد لے جاتا تھا۔

عباد کی جب جب طبعیت بگھڑتی وہ اس پر ساری ساری رات سورتیں پڑھ کر پھونکتا تھا ، عباد کی نمازیں قضا ہوتیں تو انکی معافی کے لیے وہ خود عباد کے لیے دعائیں مانگتا۔

خود منہا اور فاریہ کی آنکھوں میں نمی تھی۔

"وہ میری جان سے زیادہ افضل ہے، اسکے ہوتے ہوئے مجھے دعاوں کی کمی نہیں ہوتی۔ آپکا بہت شکریہ، اسکے علاج میں کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے"

عباد نے مشکور ہوئے ڈاکٹر کی سمت دیکھا جو مسکرا کر نرس کے ساتھ وہاں سے چلے گئے اور فاریہ خوشی اور تکلیف کے سنگ روتی کرسی پر بیٹھی۔

خود منہا فورا عباد کے ساتھ جا لگی، جناب نے حصار کر سر چومے اسے بھی تسلی دی۔

ایک گھنٹے تک نرس فاریہ کو بلانے آئی، فاریہ کی بے تابی تو عیاں تھی۔

"تم جاو اسکے پاس، ہم یہیں ہیں"

فاریہ کو کہے بھیجتا وہ خود واپس منہا کا ہاتھ جکڑے بیٹھا جو خود بھی بہت بوجھل تھی، بیٹھتے ہی سر عباد کے سینے سے لگائے ساتھ جا لگی۔

"تھک گئی ہو"

نرمی سے منہا کے بال سہلائے وہ بھی جیسے کچھ بہتر تھا، سراج کی بہتر ہوتی طبعیت اسے بھی سنوار گئی تھی۔

منہا سے سر زرا اٹھائے عباد کو دیکھا جسکی آنکھیں سرخ تھیں، چہرہ تھکن سے اٹا تھا۔

"تھکن تو ہوتی ہے جب قیمتی اثاثے کھونے کا ڈر لاحق ہو، جتنا وہ آپکے اور فاریہ کے لیے اہم ہیں اس سے زیادہ میرے لیے ہیں۔ دادا کے بعد وہ دوسرا شفیق ہاتھ سراج بھائی کا ہے جو منہا کے سر پر چھاوں کا باعث بنا۔۔۔۔ ناجیہ کیانی کیوں ہیں اتنی بے رحم، کوئی اپنی اولاد کے سہاگ کے ساتھ ایسا کرتا ہے بھلا۔۔۔۔۔ یہ ب۔۔بہت تکلیف دہ ہے۔ میرے لیے اتنا ہے تو فاریہ کے لیے کتنا ہوگا عباد۔۔۔۔۔ وہ جیسی بھی ہیں ، وہ سراج بھائی کی زندگی ہیں تبھی انکی تکلیف دل سے محسوس کی ہے"

اتنے وقت ان سب کے ساتھ رہ کر منہا سب کو سمجھ گئی تھی مگر اس ماں کی سفاکی اسے رلا گئی جو حد درجہ ظالم تھی، عباد کے چہرے پر خود اک اذیت و رنج درج تھا۔

"اس عورت کے گناہ کا گھڈا بھر چکا ہے، اب صرف حساب ہوگا۔ یہی نہیں اگلے پچھلے سارے ستم کھلیں گے۔ یو ڈونٹ وری، اتنا سینٹی ہونے کی ضرورت نہیں۔ کسی اور کے لیے تمہیں اس قدر اٹیچ نہیں دیکھ سکتا بھلے وہ فاریہ اور سراج ہی کیوں نہ ہوں۔ تم اداس ہوتی ہو تو عباد کا دل بھی رنجیدہ ہو جاتا ہے"

کمال بے مروتی سے وہ اس وقت بھی اپنی میں بیچ میں گھسیٹ کر منہا کو خفا کر چکا تھا، بھلا یہ بھی کوئی بات تھی۔

"وہ بہن ہے میری اور سراج بھائی، جیلس ہونے کی بھی کوئی سولڈ وجہ ہونی ضروری ہوتی عباد"

منہ پھلا کر گویا اپنی برہمی جتائی گئی جو عباد کے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجا گئی۔

"میں تو پاگل ہوں، ممکن ہے احد سے بھی آگے چل کر ہو جاوں اور ہمارے دس بارہ بچوں سے بھی"

اتنئ خطرناک سچویشن میں وہ یہ کاری وار کرنا منہا کے ہوش اڑا چکا تھا۔

"دس بارہ۔۔۔۔۔ اور کونسے بچے، کس خوش فہمی میں ہیں۔ ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ ہمارا بے بی صرف احد ہے وہی رہے گا"

آنکھ چرا کر وہ متذبذب سے منمنائی مگر عباد اسکی ٹھوڑی پر گرفت جمائے اسے دھڑکانے وہ روبرو کیے آفت آمیز مسکایا۔

"اپنے جیسی ایک گڑیا بھی نہیں دو گی؟"

پل میں وہ بہار کو مات دیتا نرماہٹ آمیز لہجہ لیے منہا کی حیا اوڑھتی آنکھوں میں جھانکے بولا۔

اور وہ تو تھم سئ گئی۔

"جسکی آنکھیں تم جیسی ہوں، جو تمہاری خوشبو میں لپٹی ہو، جسکا دل میری طرح الٹا ہو، جسے میری طرح منہا سے والہانہ انس ہو، جو تمہاری طرح میرا سکون ہو، جو تمہاری طرح میرا حوصلہ بنے۔ دو گی ناں؟"

یہ بندہ، اسکی پھر سے حصار لیتی آنکھیں، کلون کی خوشبو، قربت ، سب منہا سے ہوش و حواس لے گئے، وہ جانتی تھی انکار کرنا ناممکن ہے۔

مگر اقرار جان لیوا تھا۔

"یہ کوئی وقت ہے ایسی بات کا، کم از کم موقع محل تو دیکھ لیا کریں"

منہ سینے میں چھپا لیتی وہ عباد کے الٹی طرف نسب دل سے ہتھیلی جوڑے شکوہ کناں ہوئی تو وہ پھر سے مسکرایا۔

"آئی وانٹ آ کیوٹ باربی ڈال فرام یو"

جبین چومے وہ اس مدھم سانس لیتی منہا کو مزید مشکل سے دوچار کر رہا تھا اور وہ آنکھیں سختی سے موندھے سماعت میں اترتی اس مہکار سے کھکھلا سی گئی۔

"عباد پلیز، مت کریں پریشان"

اس بار وہ واقعی سٹپٹائی۔

"اگر احد کا ساتھی آجائے تب بھی اوکے، باربی ڈال کی ٹرائے اس سے نیکسٹ"

مزید منہا کی جان نکالے وہ چمکارا مگر واقعی منہا اب رو دینے والی تھی، اپنی بازووں میں حصار کر وہ شدید پیارا ہنسا۔

"منہا"

کچھ دیر خاموشی سے وہ منہا کی گرم سانسیں اپنے سینے میں منتقل ہوتی محسوس کیے نرمی سے پکارا۔

"عباد میں اب رونے لگوں گی بتا رہی ہوں"

کچھ سننے سے پہلے ہی وہ سیدھی اٹھ بیٹھے غرائی۔

عباد نے مسکراہٹ دبائے لڑکی کے بھرم ملاخطہ کیے۔

"ہم مر گئے ہیں کیا جو رونے دیں گے"

وہ یہ جملہ بس یونہی بے دھیانی میں کہہ بیٹھا مگر منہا کی نم میں گھلتی آنکھوں کو دیکھ کر اپنی بے رحمی کا شدت سے احساس ہوا تبھی وہ خود پشیمان ہوا۔

"معاف کر دو، بہت ہی بے تکی ہانک دیتا ہوں"

انگلی کی پور آنسو بناتی لکیر سے مس کیے وہ قدرے افسوس سے معذرت کر رہا تھا۔

"یہ بے تکی نہیں، سنگدلی کی حد ہے۔ موت سے ڈر نہیں لگتا مجھے، اپنے بہت سے پیارے ایک ساتھ کھوئے تھے، لیکن آپکے لیے یہ لفظ جڑے تو تکلیف ہوتی ہے"

فرار کی بھی ایک معیاد تھی، وہ خود نہ سمجھ پائی کہ کیا کہہ بیٹھی ہے۔

"کیوں ہوتی ہے"

وہ بھی جیسے اس سے سچ سننے کو بے قرار تھا۔

"کیونکہ آپ۔۔۔۔۔"

وہ عباد کا ہاتھ پکڑ کر اسکی ہتھیلی بلاجھجک اپنے دل سے لگا بیٹھی۔

عباد کو محسوس ہوا ہتھیلی میں دھڑکن ثبت ہوئی ہو۔

"میں۔۔۔۔؟"

عباد کا لہجہ سوالیہ تھا۔

"آپ نے دل دکھایا ہے میرا، لیکن یہاں ممکن ہے آپ ہی ہوں"

وہ پہلیوں میں کہتی اپنے دل سے عباد کا ہاتھ ہٹائے پھر سے اسکے کندھے سے جا لگی۔

"محبت کرتی ہو مجھ سے؟"

عباد یہ سوال کرتے منہا کو واقعی ہنسا گیا، اس بدھو سیاست دان کو دو لگانے کا من بہت کیا مگر وہ جبر کر گئی۔

"محبت آپ کو ہی مبارک، میں تو آپکی دشمن جان ہوں۔ وہی ٹھیک ہے"

اسی کے انداز میں لاپرواہی سے کہتی وہ آنکھیں بند کر گئی۔

"نہیں۔۔۔تم راحت روح ہو میری منہا، جسم و جان سے پرے کی راحت، میرے اندر کا سکون۔ میری ذات کا سکھ، میرے ہونے کی ضمانت۔۔۔۔"

وہ سادہ لوح سا اظہار بھی منہا کی رگ جان تک اترا، کون محبوب بننا نہیں چاہتا، اور عاشق بھی عباد حشمت کیانی سا، منہا ہنوز مسکراتی ہوئی آنکھیں موندے رہی۔

"فلمی ڈائلاگز۔۔۔۔۔۔"

منہا مزاق اڑاتی منمنائی اور وہ درویشانہ مسکرایا۔

"وہ بھی فلاپ فلم کے، بچارے عباد حشمت کیانی کی اکلوتی فلاپ فلم کے"

اور وہ شدید پیارا دل جلا دیوانہ اپنی سرد آہ سے منہا کو ہنسا گیا۔

وہ سر اٹھا کر کتنی ہی دیر مبہم مسکراتی عباد کو دیکھتی رہی، وہ بھی دیکھتا رہا کیونکہ ساری رات یہی تو ممکن تھا اس وقت۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

سپئشل کئیر روم میں وہ آتو گئی تھی مگر سراج علی کے بے جان وجود اور بند آنکھوں کو دیکھ کر اپنے آنسو نہ روک سکی، بیتاب سی وہ اس جان سے افضل شخص کے پاس چلی آئی۔

اسکا مضبوط ہاتھ ڈرپ کی گرفت میں تھا، اور چہرے پر تھکن حاوی تھی۔

نرس اسی وقت سراج کو دیکھ کر ہی نکلی تھی ، وہ یوں خاموش، دنیا و جہاں سے بے پرواہ سا فاریہ کے لیے ظالم تھا، وہ لڑکی جو اتنے دن کی جدائی کے بعد سراج علی کی بے انتہا شدت اور محبت چاہتی تھی، جب کچھ نہ ملا تو وہ بکھر سی گئی۔

ہاتھ بڑھا کر سراج علی کا کشادہ ماتھا چھوا، آنکھوں کی نمی اور ہاتھوں کی لرزش بتا رہی تھی کہ سراج علی کو یوں دیکھنا جان لیوا تھا۔

"تم م۔۔مجھے معاف کر دو ، کیا کیا ستم ڈھا دیے میں نے تم پر"

آزردگی سے وہ اسکا نقش نقش اپنی نرم انگلیوں کی پوروں سے چھوئے سرگوشیاں کر رہی تھی اور وہ کسمساتا ہوا گویا بہتری کی جانب متوجہ تھا، اسے پتا چل گیا تھا اسکی دوا تو اسکے پاس پہنچ چکی ہے۔

"اتنے س۔۔سارے دن کی جدائی بھلا کوئی ایسے ختم کرتا ہے، تم کچھ بھی مت کہو مگر دیکھ تو لو مجھے۔ میں نے تمہیں بہت یاد کیا، آنکھیں کھولو ناں"

جھک کر وہ سراج علی کی جبین پر نرم ہونٹوں کا لمس بکھیرتی اسکی تھکی سانسوں کا تسلسل تکتی وہیں اسکے سینے سے سر ٹکائے دوسرے ہاتھ سے سراج علی کے چہرے سے لگاتی اسکی آنکھیں چھونے لگی، وہ بھی جیسے نیند اور تکلیف کو خیر باد کہے اپنی دوسری بازو بمشکل اٹھا کر فاریہ کی کمر سے لگائے گہرا سانس کھینچے اپنی بھاری متورم آنکھیں کھولے مدھم سا مسکرایا۔

"تم مجھے بلا رہے تھے، تمہاری پکار پر فاریہ کی جان قربان۔ جتنا کرب تمہیں دیا گیا، سب کا حساب لیا جائے گا۔ تم مسکرائے ہو تو م۔۔میری جان میں جان آگئی۔ تمہیں کچھ ہو جاتا تو میری بھی سانس رک جاتی"

زرا سا چہرہ اٹھائے وہ سراج علی کی بمشکل کھولی جاتی آنکھیں دیکھتی خوشی اور درد کی زیادتی سے آواز کو بھرنے سے روک نہ سکی۔

"میری ہر سانس صرف تمہیں ہی پکارتی ہے فاریہ، پکارتی رہے گی۔ میں بہتر ہوں، دیکھو تم نے اس بے جان مریض کو اچھا کر دیا"

ملائمنٹ اور پیار سے وہ اسکے آنسو جذب کرتا ، بال سہلائے بہت مدھم سہی پر بول رہا تھا، فاریہ اسکے چہرے سے ہاتھ جوڑے سراج علی کو محبت سے تکتی مسکرائی تھی، وہ اسکے لیے دھڑکن سے بھی زیادہ ضروری تھا۔

"درد تو نہیں ہے ناں، تمہارا کندھا جلدی ٹھیک ہو جائے گا۔ تمہاری بازو۔۔۔۔۔ یہ بھی ٹھیک ہو جائے گی، میں خود خیال رکھوں گی تمہارا، اپنی توجہ اور پیار سے تمہارے زخم مندمل کر دوں گی"

زیادہ دیر وہ اپنا زرا سا بوجھ تک سراج پر نہ ڈال پائی اور اٹھ کر مزید قریب بیٹھے لاڈ اور پیار سے سراج کے ماتھے پر ڈھلکے بال ہٹاتی اسے تسلی دے رہی تھی، سراج علی نے محسوس کیا وہ واقعی بدل کر آئی تھی۔

"درد نہیں ہے، ایسا ویلکم نہیں چاہتا تھا تمہارا۔ پریشان کر دیا تمہیں "

فاریہ کی گال سے ہتھیلی لگاتا وہ تھوڑا افسردہ تھا، مگر وہ کیسے اسے افسردہ رہنے دیتی، وہی سراج علی کا ہاتھ چومے مسکرائی۔

جھک کر پھر سے وہ گہری دل آویز آنکھیں لبوں سے چوم کرگال چھوتی بھینا سا مسکائی، اور اس لڑکی کے بیمار پر ایسے ستم سراسر زیادتی تھے۔

"یہ سب چھوڑو، کیسے گزرے میرے بنا اتنے سارے دن، کتنا مس کیا مجھے"

سراج کے بہتر ہونے کی خوشی تھی یا اس سکون کی طلب کہ وہ اس وقت صرف سراج سے باتیں چاہتی تھی، اسکا ہاتھ اپنے نازک ہاتھوں کی گرفت میں لیتی وہ اس سے پوچھ رہی تھی جو آنکھوں کے راستے اس لڑکی کا چہرہ دل تک اتار رہا تھا۔

"یہاں قریب آو گی تو بتاوں گا"

اپنی بازو کھولے وہ جہاں آنے کا کہہ رہا تھا، فاریہ اپنی مسکراہٹ دباتی اس کی خواہش کے عین مطابق سراج علی کے چہرے کے روبرو جھک آئی، جانتی تھی اس بندے کو آرام کیسے ملے گا۔

کمر جکڑتا سراج کا ہاتھ فاریہ کے لبوں پر شرمگیں مسکان لے آیا۔

"مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے میری روح، میری جان اور میرا دل تمہارے پاس ہے۔ میرے پاس تو کچھ نہیں تھا، اب تمہیں خود سے الگ کرنے کا یہ ستم دوبارہ نہیں کر پاوں گا"

گھمنبیر سی جذبات سے اٹی سرگوشی نے گویا فاریہ کی روح چھو لی، وہ زرا سا الگ ہوتی خود ہی صیاد کی گرفت میں جا الجھی، اور یہ الجھن نہایت من پسند تھی، جس نے حالت غیر اور حواس بے خود کر دیے۔

وہ جلد ہی رحم پر اترے ان لب، عارض و رخسار کی خوشبووں سے نکل آیا، وہ نظر جھکائے روبرو بیٹھی دھڑک ہی تو رہی تھی۔

دونوں کی آنکھیں آن ملیں، دل تک اک احساس تشفی سرایت کر گیا۔

"تم جان ہو میری سراج علی، تم میرا سب کچھ ہو۔ ڈر گئی تھی م۔۔میں۔ کہیں میری زندگی کا یہ سرمایہ لٹ نہ جائے، یہ پونجی گنوا نہ دوں۔ تم فاطمہ مما کی نایاب دولت، معراج کے سر کا شفیق سایہ۔ عباد کے محافظ۔۔۔تم کہیں نہیں جا سکتے کبھی بھی، تمہیں میرے ساتھ رہنا ہے۔ڈر گ۔۔گئی تھی کہ کہیں۔۔۔۔۔۔"

وہ آنسو جھپکتی، درد میں لپٹی اس پر جھکی اسے چہرے کو چھوئے کہتے کہتے آنسووں میں ڈھلی تو خاموش سی ہو گئی، اور سراج علی درد کم ہوتے اور جسم و جان میں سکون اترتا محسوس کر رہا تھا۔

"میرے لیے اتنا روئی ہے میری شیرنی، تمہارے آنسو میرے جیتے جی بے مول نہیں ہوں گے۔ بس کر دو، مسکراو کہ سراج علی کی زندگی جی اٹھے۔ اپنی سانسوں کی ٹھنڈک میرے وجود میں اتارتی رہو کہ سکون ملتا رہے، میں دھڑکتا رہوں گا تم میں، تم سانس لیتی رہو مجھ میں"

وہ کیسے دیکھتا وہ آنکھیں اس قدر کرب میں جنکی پاکیزگی مسکرانے میں دیکھائی دیتی، آج تو فاریہ جان وار دینے کے جذبات رکھے سراج علی پر فدا تھی۔

وہ جیسا تھا ویسا فاریہ کے لیے دنیا جہاں میں کوئی نہ تھا۔

وہ حکم سمجھ کر دل مہکانے لگی، پور پور اپنے نرم ہونٹوں کی مسیحائی کرتی گئی۔

"کھا جاوں گی تمہیں شوخے"

جب خود بے حال ہوئے اس شخص کے سحر سے لرزی تو اپنی بوکھلاہٹ دبائے آنسو رگڑ کر غرا دی اور سراج اتنے درد کے باوجود مسکرا اٹھا۔

"آدم زاد کہیں کی"

اپنے ہونٹوں کی پہنچ میں آتے فاریہ کے رخسار کو لبوں سے چھوتا وہ بھی شرارت پر اترا۔

"مار دوں گی تمہیں اگر اب اتنی سی بھی خراش آئی، مر جاوں گی اگر دوبارہ ایسا امتحان لیا۔ تم میری زندگی ہو، میری سانس ہو سراج علی، مم۔مجھے مت آزمانا ۔ نہیں آزماو گے ناں"

پھر سے وہ رو دی، ہچکیوں سے، اس پر سے اٹھے اسکی زخمی بازو پکڑے وہ زخموں پر اپنی ہتھیلی سہلائے پھوٹ پھوٹ کر روئی، اور سراج علی اس بار خفا ہوا تھا۔

"کوئی اس پاگل چڑئیل کو لے جائے یہاں سے، رو رو کر میرا رہا سہا خون جلا رہی ہے۔۔۔۔اگر تم چپ نہ ہوئی تو اچھا نہیں ہوگا، یہاں آو ۔ میرے پاس آجاو اور خبردار جو روئی"

شروع میں وہ فاریہ کے آنسو دیکھ کر جان بوجھ کر خفا ہوا مگر پھر وہ زرا بیڈ کے ایک طرف سرک کر اپنی سلامت بازو اور کندھا پھیلائے اسے بیڈ پر آنے کا کہہ رہا تھا جس پر وہ بنا اعتراض گھوم کر جوتے اتارتی بیٹھتے ہی سراج علی کی بازو پر سر رکھے لیٹی اور ہاتھ اسکے پیٹ پر رکھا جہاں سراج علی کے زخم کے بجائے وار سے نیل جیسا نشان تھا۔

وہ اس کے شرٹ لیس وجود پر لحاف درست کرواتی پھر سے رو دی۔

"بس فاریہ، پاس ہوں ناں۔ اب کیوں رو رہی ہے میری بیوی"

بازو حصار کر سینے میں چھپا لیتا وہ شکوہ کیے بولا مگر وہ ہنوز بہت پریشان تھی۔

"دیکھو کتنا نیلا نشان ہے، بہت درد ہ۔۔ہوگا ناں۔۔۔۔"

وہ پھر سے ہاتھ لحاف سے اسکے پیٹ پر رکھتی روتو ہوئی جس پر سراج نے مسکرا کر اسکی ناک سے ناک مس کی۔

"تم ہاتھ ہٹا لو، گدگدی ہو رہی۔۔۔ نرس جب ناک کرے گی آنے کے لیے تو پلیز اٹھ جانا، اس سچویشن میں اس نے دیکھ لیا تو صدمے سے ہی گر پڑے گی۔ اور ویسے بھی تمہاری قربت جان لیوا ہے اس بیمار کے لیے"

پلوں میں وہ فاریہ کو مسکرانے پر مجبور کرتا اس مسکراتی پری کو دیکھ کر جی ہی تو اٹھا جو آگے سے فرمابرداری سے شرمگیں سا مسکائی۔

"چھچھورے انسان۔ میرے ہاتھ لگانے سے گدگدی ہو رہی۔ اتنے تم چھمک چھلو۔۔۔۔"

منہ بسوڑ کر وہ باقاعدہ سراج کو ہنسنے پر اکسا چکی تھی، کتنی ہی دیر وہ بھی ہنستی چلی گئی۔

"وہ تو تم ہو، میری۔۔۔۔"

ہنسی تھمی تو سرسراہتی نظر لیے وہ چمکارا۔

"نو۔۔۔ میں صرف تمہاری جان ہوں۔ بولو میں تمہاری جان ہوں"

اترا کر حکم صادر کرتی وہ مسکائی۔

"کیوں بولوں"

سراج کو بھی اٹکیلیاں سوجھ رہی تھیں۔

"بولو نہیں تو پیار کم کر دوں گی"

خطرناک دھمکی دیتی وہ سراسر کیوٹ لگی۔

"جان تو معمولی شے ہے ، تم تو روح ہو فاریہ۔ وہ روح جو ہمیشہ مہکتی، جیتی اور مسکراتی رہے"

جبین چومتا وہ اعتراف کرتا بہت پیارا لگا اور فاریہ روہانسی ہوئے پھر سے اسکے سینے میں چہرہ چھپا گئی۔

شاید اس بار پگلی کو رونا بھی تھا اور آنسو سراج علی سے چھپانے بھی تھے۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

سحر کی روشنی عالم جہاں پر پھیل چکی تھی، وہ اجلت میں ریڈی ہوئے اپنا فون اور گاڑی کی چابی لیتا نکلنے ہی لگا تھا جب نوراں کی پکار پر وہ رکا، وہ بیڈ پر لیٹی فکر سے اٹھ بیٹھی۔

ابھی تو آذان کو بھی وقت تھا، زین مسکراہٹ لیے چلتا ہوا اس تک آیا جو مہکتے ہوئے لمحات اور تفصیلی غور و فکر کے بعد ناچاہتے ہوئے بھی زین کے یوں توجہ سے دیکھنے پر نظر جھکا گئی۔

"مجھے اہم کام سے جانا پڑ گیا ہے، لیکن میں آجاوں گا۔ اب روز آوں گا، ہرگز تمہیں خود سے دور نہیں رہنے دوں گا۔ دن کے کسی بھی وقت میں کسی کو لینے بھیج دوں گا تاکہ تم فاضل سے مل سکو۔ لیکن۔۔۔۔۔"

اپنا ہاتھ بڑھا کر اسکی گال سہلائے وہ کہتے کہتے رکا تو وہ بھی چہرہ زین لاشاری کی جانب کیے افسردہ سی ہوئی۔

"لیکن۔۔۔۔"

وہ آج بے قرار ہوئی تھی۔

"لیکن تم میرے ستم کا راز فاش مت کرنا، درخواست کرتا ہوں۔ میں اپنی آخری سانس تک اپنے اس ستم کی تلافی کروں گا نور، مجھے خود سے دور مت کرنا، اب تو بالکل نہیں۔ نہیں جی پاوں گا تم سے دور، میں وہ سب کروں گا جس سے مجھے تمہاری معافی اور قبولیت ملے گی"

وہ زرا سی نزدیکی پائے ہی بیقرار و مضطرب ہو گیا تھا، وہ لمحے جو ان دو کے لیے سکون تھے، بھلانے یا فراموش کرنے مشکل تھے۔

"تم زبردستی قریب آئے میرے، تکلیف دی۔ دے رہے ہو، مجھے مت باندھو خود کے ساتھ"

وہ درد میں تھی، بھلا سکون اسے کیسے آتا جو بے سکونی سے جینے کی عادی تھی، یہ چند جسم و جان پر گرتی پھواریں اسے کیا پرسکون کرتیں۔

"نور پلیز، تکلیف نہیں دی۔ تمہیں تمہاری تھوڑی اہمیت بتائی ہے۔ اور بندھ تو گئی ہو تم میرے ساتھ، بھلے اس نکاح کی کشش سے ہی سہی۔ ناسمجھ نہیں ہوں، سب محسوس کر چکا ہوں۔ تم جھٹلا نہیں سکتی۔ جاتا ہوں"

ان بھیگی پلکوں پر مسکرا کر عنایت کرتا وہ انھیں چومتا ہوا نوراں کا مرمریں ہاتھ پکڑے اپنے سینے سے لگا گیا۔

اور وہ آنکھیں بھرے بس دیکھتی ہی رہی۔

"زین۔۔۔۔"

وہ اٹھا تو نوراں کے اسکے نام پکارنے پر وہ قربان ہی تو ہوا مڑا، جی چاہا اس نام پکارنے والی کو اس عنایت پر خود میں بسا ڈالے۔

"کہو"

وہ مسکرا کر بولا۔

"میں بھا کو نہیں بتاوں گی، رکھ لوں گی تمہارا پردہ۔۔۔۔ نہیں چاہتی کہ وہ اس پر تمہاری جان لے لیں"

یہ کہنا اسکو رلا چکا تھا مگر وہ ہمت جمع کیے کہہ گئی۔

"وقت آنے پر میں خود اس ستم کا اسکے سامنے اعتراف کروں گا، اور التجاء کروں گا کہ نور کو واپس لینے کے سوا جو بھی سزا دینی ہے دے لے۔۔۔۔ آئی لوو یو نور، خیال رکھنا اپنا"

جھک کر اسکی پیشانی چومتا وہ یہ لفظ تھکی سی مسکراہٹ سے ادا کرتا کمرے میں اور نوراں کے چار سو اپنی مہک سی بکھیرتا چلا گیا۔

اور وہ بھیگی آنکھوں والی مسکرائی۔

"آپ نے اس کے دل میں یکدم مجھے کیسے ڈال دیا اللہ، یہ تو ا۔۔۔اپنی محبت کی شدت سے ہی جان ل۔۔لے جائے گا نوراں کی۔۔۔۔۔۔"

اپنی ہتھیلی سے آنکھیں رگڑتی وہ واپس سر تکیے پر رکھتی رو دی تھی، مگر فرق اب یہ تھا کہ یہ آنسو خوشی کی زیادتی کے تھے۔

دوسری طرف زین جب تک تھانے پہنچا، شیراز کی طرف سے ناجیہ کیانی کے بارے میں اطلاع موصول ہو چکی تھی۔

لیکن فی الحال وہ یہ معاملہ روک چکا تھا۔

وہ ساری رات ہوٹل کے کمرے میں سلگتی رہی تھی، اور پھر اگلی صبح فاضل گوجا کے منصوعی رات و رات قتل کی جھوٹی خبر شیراز نے پوری پلاننگ سے میڈیا انوالو کیے پھیلائی۔

صبح ناشتے پر سرور اس خبر کو سن کر مسرور ہوا تھا، فوری کال لگائے ناجیہ کا نمبر ملایا جو اس وقت وحشی بنی سر کے بال جکڑے صوفے پر نیم دراز تھی۔

ہوٹل کے اردگرد زین نے اپنے لوگ پھیلا دیے تھے جو اسکے اشارے کے منتظر تھے۔

"اب کیا ہے لعنتی شخص"

فون لگتے ہی وہ حلق کے بل دھاڑی تھی مگر سرور جوس کا گلاس ہونٹوں کے لگائے مزے سے مسکرایا۔

"توبہ توبہ اپنے مجازی خدا کو گالی دے رہی ہو، میری جان اب تم سے کیسی ناراضگی۔ تمہارے اس بے کار بیٹے نے تو واقعی کام کر دیکھایا۔ مار ہی دیا فاضل گوجا کو۔ نیوز میں بتا رہے کہ سیریل کلر فاضل گوجا کا کسی نے جیل میں گلا دبا دیا"

لہکتا، مستیلا لہجہ اور شرارتی انداز اپنائے وہ ناجیہ پر قیامت ہی تو ڈھا چکا تھا۔

وہ بیقراری سے ریموٹ آن کرتی نیوز لگائے پتھرائی۔

آنکھوں سے نمی پھوٹ گئی۔

"اب ہم دونوں محفوظ ہیں، آجاو میری جان میرے پاس۔ کل کے لیے یقینا تم اپنے آوارہ عاشق مزاج شوہر کو معاف کر دو گی۔ پر کیا کروں، تمہارے بہکاتے حسن کے آگے بے بس ہو گیا تھا۔ سمجھ نہ آئی کہ پیار کر رہا ہوں یا نوچ رہا ہوں۔۔۔۔۔۔ویٹ کروں گا میری بلبل۔ آج تو جشن بھی منائیں گے مل کر۔۔۔۔"

بے خود بہکتے خباثت سے بھرے لہجے میں وہ کہہ کر سرشار سا کال تو بند کر گیا مگر ناجیہ کے چہرے پر اس وقت سارا درد تکلیف کا روپ دھار گیا۔

"تم نے میرے بیٹے کو قاتل بنوا دیا سرور، بہت ہو گیا۔ آج جشن تو مناوں گی پر تمہاری موت کا۔ تم نے جو میرے ساتھ کیا ہے اسکے لیے تمہیں دردناک موت دوں گی۔ تمہاری غلیظ آنکھیں کل کا سورج نہیں دیکھ سکیں گی۔ تم تباہ ہو جاو گے"

آنکھوں میں نفرت کی آگ بھرتی وہ اٹھ کر اپنے بیگ تک پہنچی، اس میں سے گن نکالے چھ کی چھ گولیاں میگزین میں بھریں اور وہ اس وقت کوئی خونی آتما کا روپ دھارے تھی۔

زین دوسری طرف اپنے آدمیوں کو صرف نگرانی کا حکم دے چکا تھا کیونکہ اسے یقین تھا کہ آج یہ کہانی بھی ختم ہو ہی جائے گی۔

وہ عباد سے مسلسل رابطے میں تھا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

صبح تک سراج کی طبعیت قدرے بہتر تھی مگر فاریہ دو دن مسلسل اسکے ساتھ رہنے پر بضد تھی، تبھی عباد دونوں کو ہی ایک دوسرے کو سونپے خود منہا کے ساتھ پیلس واپس آگیا تھا، ہوسپٹل بھی زین کے چند لوگ نگرانی پر تھے۔

عباد تو آتے ہی فریش ہونے چلا گیا تھا جبکہ منہا بھی ادا جان اور دادوو کو بھرپور تسلی سونپے احد کو دیکھنے کمرے میں آئی جسے دادا نے ابھی سلا کر بھیجا تھا۔

یکدم دروازے کی دستک پر منہا چونکی، بیقرار سی عائشہ کو اندر آتا دیکھ کر منہا بھی اسکی جانب مڑی اور اسکے پاس پہنچی ہی تھی کہ عائشہ سیدھی منہا سے جا لگتی پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

خود منہا اسکے یوں کرنے پر بوکھلا گئی۔

"عائشہ۔۔۔کیا ہو گیا تمہیں۔ ایسے کیوں رو رہی ہو"

عائشہ کا دردناک رونا کسی صورت عام نہ تھا تبھی تو منہا کے بھی ہاتھ پیر پھول گئے۔

"وہ۔۔۔۔وہ نیوز میں بتا رہے کہ اس سیریل کلر کا مڈر ہوا۔۔۔۔ میں نے فضل بھائی کو کہتے سنا کہ انسپیکٹر کہہ رہے تھے اس کلر کو ح۔۔۔حارث نے مارا۔۔۔ "

وہ سخت رو رو کر کانپتی یہ انکشاف کرتی فریش ہو کر سادہ سے خلیے میں باہر آتے عباد کی توجہ میں بھی آئی جو عائشہ کی ناصرف بات سن چکا تھا بلکے اسکے رونے پر تشویش میں تھا۔

منہا نے عباد کو دیکھ لیا تھا مگر وہ اسے خاموشی سے عائشہ سے بات جاری رکھنے کا اشارہ کر رہا تھا۔

"تو تم کیوں رو رہی ہو، حارث کے بارے تو سب جانتے کہ وہ کیسے ہیں۔ تم کیوں ہلکان ہو رہی"

منہا نے اس بار اسکے فضول میں بہتے آنسو پونجھ کر قدرے کریدتے انداز سے پوچھا تو وہ بے بس سی نظر اٹھائے منہا کو دیکھنے لگی۔

"وہ۔۔وہ ویسے نہیں ہیں منہا۔ وہ ویسے نہیں ہیں۔ تم ن۔۔نہیں سمجھو گی۔۔۔وہ انسان ایسا کبھی نہیں کر سکتا، وہ کسی مجرم تک کو ن۔۔نہیں مار سکتا۔ "

وہ آنسو رگڑتی کہہ کر پلٹی ہی تھی کہ عباد کو دیکھ کر وہیں جم گئی۔

"عائشہ۔۔۔۔ یہ کیا سن رہا ہوں میں بچے"

خفیف سی برہمی سے وہ استفسار کیے بولا تو وہ جو آنسو پی گئی تھی، ناچاہتے ہوئے بھی اسکی آنکھوں سے بہنے لگے۔

"ب۔۔بھائی۔۔۔۔۔ وہ بے قصور ہیں، بچا لیں پ۔۔پلیز"

سخت تکلیف میں وہ سسک اٹھی۔

عباد اور منہا کے ایک دوسرے کی سمت افسردگی سے دیکھا اور پھر اس کملی کو جو جان ہارے بیٹھی لگی۔

اور پھر روتے سسکتے وہ عباد کے پوچھنے پر سب بتا گئی اور یہ انکشاف سن کر عباد کے چہرے پر رنج تھا وہیں منہا حیرت و بے یقینی میں غرق ہو گئی۔

"عائشہ۔۔۔رو مت، وہ خبر فیک ہے۔ لیکن چلو اسی بہانے یہ راز تو کھلے۔ پریشان مت ہو۔ جلد واپس آجائے گا وہ۔ اور معاف بھی کر دوں گا کیونکہ تم جزا بن گئی اسکی۔ جاو شاباش، کچھ کھاو پیو اور تسلی رکھو"

شفقت سے وہ عائشہ کے سر پر ہاتھ رکھے اس بے جان لڑکی کو جان تھمائے جب مسکرایا تو وہ بھی خوشی اور دکھ کی کیفیت سے بے حال سی ہوئی۔

عائشہ کے جاتے ہی منہا بنا کچھ سوچے عباد کے سینے میں سمٹ گئی، محبت ایک اور شکل اسے ہلکان کر گئی۔

"عائشہ ، حارث سے محبت کرتی ہے۔۔۔۔۔ دیکھو منہا، محبت تو عیب نہیں دیکھتی۔ میرے عیب بھی درگزر کر دو۔ مجھے محبت کیوں نہیں بنا لیتی ہو راحت روح ۔۔۔۔۔۔بنا لو"

اپنی آنکھوں سے محبتوں کی تکمیل دیکھتی وہ خود بھی اسکی پناہوں میں گرفتار آنسو بہا رہی تھی۔

ناجانے کیوں وہ رونا چاہتی تھی۔

یہ جان لیوا تقاضا آنسو آنسو کر رہا تھا۔

"وہ انسان اتنا سارا بدل گیا، مم۔مجھے یقین نہیں آرہا عباد۔۔۔۔۔ محبت اتنی طاقت والی ہوتی ہے کیا۔ وہ کیسے رو رہی تھی حارث کے لیے، اسکی نجات کے لیے۔۔۔۔۔ وہ مجرم ہو کر بھی محبت کے امتحان میں بازی لے گیا۔۔۔۔۔ اللہ نے اسکو اسکی غلطیوں کی سزا بھی دی اور پھر یہ اسکا انعام۔۔۔۔۔۔"

وہ عباد کے تقاضے کو نظر انداز کرتی گہرے گہرے سانس لیتی بولی کہ آواز ڈوبنے لگی۔

"یہی تو ، محبت میں بھی عبادت جیسی وابستگی ہونی شرط ہے۔ بھرپور توجہ، لگن اور شدت کے ساتھ ساتھ نیت۔۔۔۔۔ حارث کے حوالے سے دل مطمئین سا ہوا ہے، اس نے جو کچھ کل سے اب تک سہا وہ اسکی سزا کے لیے کافی ہے۔ اپنی ماں کا اصل روپ ، اپنی جنت کا روپ اس بکھرے ہوئے احساس جرم میں گرفتار کے لیے بہت تکلیف دہ ہے"

وہ حارث کیانی کی تکلیف سے انجان نہ تھا تبھی تو منہا حیرت سے اس سے الگ ہوتی دیکھنے لگی، وہ کیوں اتنا حساس تھا۔

"عباد ، آپ بہت اچھے ہیں"

یہ پیار بھرا جملہ سننے کے لیے وہ بے تاب تھا، تبھی تو اسے دونوں بازووں میں حصار کر مسکرایا۔

"کچھ اور کہو"

من مانی کے سنگ وہ فرمائش کرتا اتنا پیارا لگا کے منہا نے اسکی گال پر پیار دیے گردن میں بازو سمیٹ کر باندھے۔

"آپ بہت پیارے ہیں"

بہت قریب سے وہ اعتراف کرتی عباد حشمت کیانی کا دل دھڑکا گئی۔

"اور"

ناک سے ناک رگڑے وہ بہک سا گیا۔

"اور دل چاہتا ہے آپکے بٹے وجود کو قبول کر لوں"

یہ کہتے ہوئے وہ اداس تھی، عباد بھی اسے دیکھتا یکدم سنجیدہ ہوا۔

"گل مینے نے مجھے دھوکہ دیا تھا، اس نے مجھ سے شادی صرف مجھے لوٹنے کے لیے کی۔ اس نے اپنے بارے میں سب جھوٹ کہا۔ احد کی ماں بننے کے لائق ہی نہ تھی وہ تبھی یہ بچہ قدرت نے تم تک پہنچایا۔ وہ عورت اب میری کچھ نہیں لگتی، وہ میرے لیے کچھ بھی نہیں رہی۔ بھلے وہ احد کی ماں ہے لیکن اسکی سچائی جاننے کے بعد وہ مجھے اس حوالے سے بھی قبول نہیں رہی۔ میرا عشق، میری محبت ، میرا جنون سب منہا ہے، تم ہو سب۔ نہ تم سے پہلے کوئی نہ تم سے بعد۔۔۔۔۔ میں صرف تمہارا ہوں اب۔۔۔۔مکمل تمہارا"

یہ سب کہنا مشکل تھا، اور وہ کہہ گیا، اپنی اذیت سے بھری کہانی کا اختتام منہا سے محبت کے جان نثار اعتراف پر کیا تو وہ ناچاہتے ہوئے روہانسی ہوئی۔

پلکیں بھیگ گئیں اور آنکھیں چھلکنے کو بے تاب۔

"مم۔۔میں معاف کر دوں گی کیونکہ آپ میرے دل میں دھڑکتے پہلے اور آخری مرد ہیں۔ بیوقوف سیاست دان آپ کو ابھی بھی شک ہے کہ محبت نہیں آپ سے، آپ کا تو پیار روح بن گیا ہے۔ محبت نہ ہوتی تو قریب بھی آنے نہ دیتی، محبت نہ ہوتی تو آپکے بٹے وجود پر اتنا کیوں روتی زرا سوچیں، نکاح سے پہلے ہی دل کے مکیں تھے آپ۔۔۔ منہا کو تکلیف دی مگر مرہم بھی آپ بنے۔ جہاں آپ وہاں منہا کا سکون، جہاں احد وہاں ہم دونوں"

فرار آج ناممکن تھا، وہ سب کہتی گئی اور وہ سماعت میں اترتے عطر ساز اعتراف پر شاخ جان کو ہرا ہوتا محسوس کرتا رہا۔

اسکی آنکھوں میں پھیلتی سرخی اور آنسو منہا کی جان لے گئے، محبت مل جانا کسی انہونی سے کم نہیں۔

وہ رویا تھا، منہا کے سامنے، کیونکہ وہ اسیر تھا اسکا۔

"ت۔۔تم نے میری ڈوبتی سانس بحال کی ہے یار، شرف ہے میرے لیے اپنے محبوب کا پسندیدہ ہوں۔ آئی لوو یو سو مچ میری جان، میری راحت روح"

خوشی اور شادی مرگ کی سی کیفیت سے دوچار وہ واقعی جذباتی تھا اور منہا اسکے وجود میں گم حلول سی مسکرا دی۔

"آئی لوو یو ٹو عباد، سانس بن گئے ہیں آپ میری۔ اب دوبارہ آپکو خود کی حسرت میں نہیں دیکھنا چاہتی۔ آپ جیسے بھی ہیں قبول ہیں۔ معاف کیا ہر لہجہ، ہر لفظ۔۔۔ میرے لیے اب سب سے قیمتی آپ ہیں۔ احد اور دادو سے بھی زیادہ پیارے ہیں آپ مجھے۔ پاگل اور جھلے سے"

وہ روح شناس سی سارے ستم ختم کرتی اس شخص کی خوشبو میں بسی تھی، وہ اسے خود میں بسائے جینے کا لطف لیتا ہوا اک باورا لگا۔

احد صاحب کے جاگ جانے اور ماں کو تلاشنے پر روتی آواز نے دونوں کو ایک دوسرے میں جذب ہونے سے روک لیا۔

مسکرا کر جہاں وہ احد تک پہنچی لاڈ سے اسے خود میں بسا گئی وہیں عباد بھی دونوں پر محبت سے لبریز نگاہ ڈالتے ہی کمرے سے نکل گیا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

زین کا رابطہ مسلسل شیراز سے تھا جو اس وقت بھی ناجیہ کیانی پر کڑی نظر رکھے تھا۔

جب تک زین پہنچا تھا صبح ہو چکی تھی، اور آتے ہی وہ شیراز کو کال ملاتا آفس میں داخل ہوا۔

"کیا خبر ہے شیراز"

زین نے کال لگتے ہی کرسی گھسیٹ کر بیٹھتے ہی پوچھا۔

"میں یہیں ہوں سر، ناجیہ اندر ہے۔ اگر وہ باہر نکلے تو کیا گرفتار کر لوں؟"

شیراز بھی اطلاع دیتا اگلا لائحہ عمل پوچھ رہا تھا جس پر زین نے ماتھا مسلا۔

"نہیں، تم اسے ایسے گرفتار نہیں کرو گے۔ بلکہ وہ جہاں بھی جائے اسکا پیچھا کرنا۔ ممکن ہے وہ سرور سے ملنے جائے اور ہمارے پاس یہ آخری موقع ہوگا ان درندوں کو رنگ ہاتھ پکڑنے کا۔ مجھے خبر کرتے رہنا"

زین نے کچھ ضروری احکامات جاری کیے وہ فون بند کرتا اس سے پہلے حارث سے ملنے جاتا، ایک کانسٹیبل کسی لڑکی کو ساتھ لیے اندر آیا تو زین بھی متوجہ ہوئے پلٹا۔

وہ عائشہ تھی۔

"جی محترمہ"

اس بار زین کا لہجہ کسی عورت کے لیے چاہ کر بھی سخت نہ ہوا۔

وہ چہرے سے اداس سی تھی۔

"مم۔۔میں حارث سر کے لیے ناشتہ لائی تھی، کیا وہ ٹھیک ہیں؟"

بمشکل لفظ تراشے وہ بول سکی، زین نے مشکوک سی نگاہ ڈالے اسکے ہاتھ سے ٹفن لیا اور سنجیدہ ہوا۔

"پہنچ جائے گا ناشتہ، ٹھیک ہے وہ"

زین نے حد درجہ لہجہ نرم رکھے اس لڑکی کو مطمئین کرنا چاہا تھا اور وہ آنکھوں میں کرچیاں سمیٹ کر اس سے پہلے پلٹ جاتی، زین کے پکارنے پر بیقراری سے مڑی، اس سے پہلے کندھے پر لٹکائی بوتل بھی حوالے کرتی، زین نے ارادہ بدلا۔۔

"جاو خود دے آو، لے جاو انھیں حارث کے پاس"

زین کا یہ مہربان روپ تو واقعی قابل ستائش تھا، عائشہ کے چہرے پر اداس سی مسکراہٹ اور آنکھوں میں مشکور رنگ زین کو بھی خوشی دے گیا۔

وہ زین کا بڑھایا ٹفن پکڑے اہل کار کے ساتھ جیل کی سمت بڑھ گئی۔

حارث دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھا ایک ٹانگ پھیلائے اور ایک کھڑی کیے اس پر بازو ٹکائے سر دیوار سے ٹیکے آنکھیں موندھے ہوئے تھا جب جیل کے دروازہ کھلنے پر وہ آنکھیں کھولے وہاں عائشہ کو آتا دیکھ کر حیران ہی تو رہ گیا۔

اسے لگا یہ کوئی خواب ہے یا پھر وہ مر گیا ہے اور یہ لڑکی اسکی موت کا انعام ہے۔

وہ کب چلتی ہوئی اسکے پاس ہی زمین پر آبیٹھی کہ حارث کے حواس تسلیم ہی نہ کر سکے کہ اس دنیا میں اسے جس لڑکی سے پہلی اور آخری محبت ہوئی وہ اسکے پاس اس طرح موجود تھی جیسے مسیحائی کرنے آئی ہو، تسلی دینے آئی ہو۔

"بہت زیادہ تکلیف ہے کیا؟"

وہ اسکی ہونق صورت پر بیٹھا کرب جانچ چکی تھی تبھی سوال کر رہی تھی۔

"اتنی تھی کہ گماں ہو رہا تھا مر گیا ہوں ۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔ تم نے اس مجرم کو اپنی صورت دیکھا کر بچا لیا، تم کیوں آئی ہو یہاں۔ یہ جگہ تو ہم جیسوں کے لیے ہے ناں، تم تو حور ہو۔۔۔۔۔ اور ی۔۔یہاں نیچے کیوں بیٹھ گئی، دیکھو کتنی دھول ہے۔۔۔۔۔فرش بھی ٹھنڈا ہے "

شروع میں وہ جیسے کرب ذدہ تھا تو عائشہ بھی ہوئی اور آخر تک وہ جیسے تڑپ کر بے قرار ہوئے اٹھنے لگا، عائشہ نے اسکا ہاتھ تھامے واپس بیٹھایا۔

دونوں کی آنکھوں میں تشنگی اور تکلیف تھی۔

"نہیں ہے کچھ بھی"

وہ اسکے تڑپنے پر دلبرداشتہ ہوئی۔

مگر وہ لاکھ روکنے کے اٹھا اور کونے دھری اپنی جیکٹ اس ٹھنڈے فرش پر بچھائی اور عائشہ کا ہاتھ پکڑے اٹھایا۔

کتنے ہی آنسو عائشہ کی آنکھوں سے اس تعظیم پر بہے۔

"اب بیٹھو، آرام سے "

بہت پیار سے اسے بیٹھائے وہ خود مقابل عاجزی سے روبرو بیٹھا تھکا سا مسکرایا۔

"ناشتہ کریں گے ناں؟"

ٹفن کھولتی وہ اپنی نم آنکھیں رگڑے مان سے پوچھ رہی تھی اور وہ تو ترس گیا تھا عائشہ کو دیکھنے کے لیے تبھی بنا سوچے ہی سر ہلا گیا کیونکہ بھوک تو اسکی مری ہوئی تھی۔

"تم نے ہر روز مجھے کھانا بجھوایا، بھوک نہ ہونے کے باوجود کھا لیتا تھا۔ صرف تمہارے لیے، تم نے مس کیا مجھے؟"

عائشہ کو ٹفن کھول کر الگ الگ رکھتے دیکھ کر وہ سرگوشیوں میں کہتا خود عائشہ کو دھیما سا مسکرانے پر مجبور کر گیا، کیا بتاتی کہ وہ تو اس کے لیے روتی رہی ہے۔

"ہمم۔۔ آپ کی کمی تھی ہر طرف۔۔۔۔ آپکے لیے آپکا فیورٹ چیز آملیٹ بھی بنایا ہے، اور ساتھ آپکی کافی بھی ہے"

اپنے کندھے سے کورڈ بوتل اتار کر وہ مسکراتی کافی کیپ کپ میں ڈالے اپنی اور جان لیوا نظر سے دیکھتے حارث کو بڑھاتی خود بھی تھمی۔

"یہ سب کیوں کر رہی ہو میرے لیے؟"

مگ پکڑ کر زمین پر رکھتا وہ صرف عائشہ کو دیکھنا چاہتا تھا جو کسی سوال کا جواب تو رکھتی ہی نہ تھی۔

"دل چاہ رہا تھا، پی لیں ناں۔ ٹھنڈی نہ ہو جائے۔ یہاں اس سرد جیل میں کیسے رہے آپ حارث۔ میں نے جو گرم کپڑے بجھوائے تھے وہ بھی آپ نے واپس کروا دیے تھے۔ ایسا کیوں؟"

وہ پریشان تھی، فکر مند تھی اور حارث کافی کا سیپ بھرے دل جلا سا مسکرائے اک نظر اس زندان پر ڈال گیا۔

"سہولتیں ہی لینی ہوتیں تو سزا دلواتا ہی کیوں خود کو ، مجھے خود کو یہ محسوس کروانا تھا کہ سزا ہے یہ میری۔ مجھے یہ شدتیں کیا اثر کرتیں جسکے دل میں آگ بھڑکی ہوئی تھی۔ چھوڑو یہ سب باتیں، کیا اپنے ہاتھ سے کھلا سکتی ہو۔ جانتا ہوں ایسا کوئی حق نہیں رکھتا لیکن اگر سانس بند ہو گئی تو کم از کم یہ حسرت تو باقی نہ رہے گی"

وہ بہت اذیت پسند سا ہوئے خود کو کم وقعت کرتا گیا، مگر اسکی حسرت اور بس اتنی سی حسرت پر عائشہ کی آنکھوں کے کنارے نم ہوئے۔

"میں ک۔۔کیسے۔۔۔؟"

وہ جیسے اس ستم سے منکر ہوئے گڑبڑائی مگر حارث نے اسے مجبور نہ کرتے خود ہی ناشتہ کرنا شروع کیا۔

وہ جیسے دکھی ہوئی، وہ بہت بدل گیا تھا۔

کسی درویش، کسی فقیر کا روپ دھار چکا تھا۔

"آپ کب آئیں گے واپس؟"

حارث کا ہاتھ کھاتے ہوئے جیسے تھما، سلائس واپس ٹفن میں رکھے وہ کافی کا بڑا سا سیپ بھرے جیسے کھانے سے مزید منہ موڑ گیا۔

"نہیں پتا"

وہ جیسے نظریں چرا سا گیا، عائشہ کے دل کو دھکا سا لگا۔

"آجائیں پ۔۔۔پلیز"

وہ یہ التجاء کرتے آنسو نہ روک پائی۔

حارث نے آزردگی سے اس لڑکی کی جانب دیکھا۔

"کہاں۔۔۔۔"

وہ غائب دماغی سے پوچھ رہا تھا۔

"پورے حق سے میرے قریب، م۔۔میں آ۔۔آپکی ہونا چ۔۔چاہتی ہوں"

شاید ہی کسی لڑکی نے ایسی ہمت اور جرت کی ہوگی جیسی وہ کر بیٹھی، حارث کیانی اپنی جگہ جما ہوا یہ لفظ، یہ انکشاف سن کر ہر حس سے عاری تھا۔

"ک۔۔کیا کہا؟ کیا کہا تم نے۔۔۔۔۔تم میری ہونا چاہتی ہو عائشہ؟ میری۔۔۔۔مجھ برے کی۔۔۔مجھ وحشی کی۔۔ مجھ ناکارہ کی۔۔۔۔مجھ سے مجرم کی۔۔۔۔۔تم نے واقعی یہی کہا ہے ناں۔۔۔۔۔تم نے واقعی یہی کہا ہے کیا"

وہ تو جیسے سرخ انگارہ آنکھیں لیے بے یقینی سے عائشہ کا ہاتھ پکڑے تڑپ سا اٹھا۔مقابل کی آنکھیں اسکے پاگل پن پر مزید چھلکیں۔

"اب تو آئیں گ۔۔گے ناں۔۔۔۔۔؟"

سر اثبات میں ہلاتی وہ بھی جیسے سسک اٹھی۔

"ہمم۔۔۔۔۔ آوں گا۔۔۔۔ صرف تمہارے لیے۔ تم مجھ پر ترس تو نہیں کھا رہی ناں، محبت چاہتا ہوں تمہاری۔ محبت ہی دینا"

عائشہ کا ہاتھ آنکھوں سے لگائے وہ جیسے التجائے دل بیان کر گیا۔

"مجھے جانا ہوگا، اپنا خیال رکھیے گا"

یوں بنا کسی حق کے وہ حارث کو مزید تڑپانا نہیں چاہتی تھی تبھی فوری اٹھ کر آنکھیں رگڑے مڑ گئی۔

اٹھتے ہی حارث کی جیکٹ اٹھا کر واپس حارث کے روبرو ہوئی اور اسے پہنائی، وہ بھی چپ چاپ اسکے حکم پر سر خم کر گیا۔

"اسے نہیں اتارنا، ٹھنڈ بہت ہے۔۔۔۔ اور کافی پی لیجئے گا۔ اللہ حافظ"

مان سے تاکید سونپتی وہ دھیما سا مسکرا کر اس مجرم کو زندگی تھمائے جیل سے ناصرف نکلی بلکے اک نظر مڑ کر حارث کے مسکراتے نقوش پر ڈالتی اوجھل ہو گئی۔

اور وہ درویشانہ مسکراہٹ دیتا جیکٹ پر ہتھیلی سہلائے واپس بیٹھ گیا، اب فرق تھا۔ اب بہت فرق تھا۔

اب حارث کیانی کے چہرے پر بہار اتر چکی تھی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"سوئی نہیں تم؟"

جاگتے ہی فاریہ کا چہرہ نہارتے جناب کا مندی مندی آنکھیں کھولے سوال اسے مسکراہٹ دے گیا جو اسکے سر پر کھڑی بلیک شرٹ لیے ساتھ ہی جھک کر سراج کی کمر کے پیچھے تکیہ ٹیکے خود بھی بیٹھی اور اسے بھی بیٹھایا۔

"نیند نہیں آئی البتہ سکون بہت تھا، نرس سے پوچھا ہے میں نے۔ وہ کہہ رہی شرٹ پہنا دوں۔ ویسے بھی میں نہیں چاہتی کوئی بھی لڑکی تمہارے یہ بازو اور باڈی دیکھ کر فلیٹ ہو"

خالص ٹچی بیوی کی طرح حکم سناتی وہ ساتھ ساتھ سراج علئ کی نظروں کے وار بھی سہہ گئی جو بازو لیپٹ کر فاریہ صاحبہ کی جان نکال کر شرعی حق استعمال کر گئے کہ کئی لمحے فاریہ کی دھڑکن راستے سے ہٹی رہی۔

"چلو پہناو"

مقابل کی تھم جاتی سانسیں پر لطف ہوئے دیکھتا وہ فاریہ کی حیا سے جھکی پلکیں دیکھ کر متبسم ہوا۔

اور وہ جانتی تھی اس شخص سے ہر بار قربت پر نیا احساس اور نئی نشاط انگیزی فطری ہے۔

وہ ہر بار نیا لمس عطا کرتا تھا، پہلے سے بڑھی شدت کے سنگ۔

زرا سا اٹھ کر وہ شرٹ سراج کی کمر سے لے جائے زخمی بازو پہلے اختیاط سے پہنائے اپنے دھیان میں سراج علی کو دیکھ بیٹھئ تو شرمگیں مسکراہٹ لیے آنکھ چرا گئی۔

اور وہ تو بازو پہنائے جاتے ہی واپس تکیے سے ٹیک لگائے اب جن نظروں سے فاریہ کو دیکھ رہا تھا اس لڑکی سے توجہ بٹنز بند کرنے پر رکھنا محال تھا۔

"فاریہ۔۔۔۔۔"

شرٹ کے بٹنز بند کرتی اس پری کا اس پکار پر دم رکا، نظر اٹھائے وہ سمٹا سا مسکائی۔

"اچھی لگ رہی ہو میری اتنی اپنی سی، جیسے واقعی میرا لباس ہو"

اس ساحر کے عطا کیے شرف ہی تو تھے، وہ اسکے تمام بٹنز بند کرتی گرئبان والے دو کھلے ہی چھوڑے زرا پاس ہوئے بیٹھی اور اسکے سینے سے اپنی ہتھیلی جوڑے دیکھنے لگی۔

"تو وہ تو ہوں ناں، ہمیشہ رہوں گی۔ جیسے تم بنے، ڈھانپ لیا مجھے۔ ویسے ہی تم تک، تمہارے وجود تک، تمہاری سانسوں تک، تمہارے سائے تک صرف فاریہ ہی آسکتی ہے۔ صرف تم ہی ہو جو مجھے خود میں اتار سکتے ہو، مجھ پر سارے حق ہی صرف تمہارے ہیں۔ تم میرے لیے مختصر میری کل دنیا ہو۔ ہر بار تمہارے قریب آنے پر اک نیا سکون، اک نئی خوشی دریافت کرتی ہوں"

اب تو وہ ہر سانس کے ساتھ اظہار کرنا چاہتی تھی، اپنی ہتھیلی کی نرماہٹ سراج کے چہرے تک پہنچائے وہ اسکے خدوخال پر کسی ابر کی مانند چھائی اعترافات میں گم دیوانی لگی۔

وہ مبہم مسکراتا بھی جان لے رہا تھا۔

"اور اگر تمہارے ان لفظی اظہارات سے بندہ بور ہو گیا تو۔۔۔۔۔؟"

اس پھڑکتی شعلہ نما دوشیرہ کی کمر کستے وہ نیا سوال ڈھونڈ لایا۔

"تو ڈیٹ پر چلیں گے"

فاریہ کھکھلاتی مشورہ دے گئی۔

"ڈیٹ کس نوعیت کی ہوگی وہ؟"

سراج کو جیسے تجسس ہوا۔

وہ اسکی مہکتی سانسیں اپنے چہرے تک پہنچ کر سکون پہنچاتی محسوس کر رہا تھا۔

"بہت ڈیپ اور پھڑکتی ہوئی آتش جیسی"

شرارت لیے وہ قریب ہوئے سراج کے کان کی اور جھک کر سرگوشی میں بولی تو جناب کے ہونٹوں پر آفت خیز تبسم مچلا۔

"آئی لائک اٹ"

گال چوم لیتا وہ اسکے بالوں کی آپشار میں چہرہ چھپائے سانس بھر گیا۔

فاریہ نے بیچ کا فاصلہ بنائے سراج کو تکیے سے واپس لگائے آنکھ ونگ کی۔

"پہلے اپنے ہلے جلے پاسے تو مرمت کروا لو، رومینس بعد میں میری جان"

کھلی تروتازہ سی وہ بال جھٹک کر ہنسی اور سراج بھی کتنی ہی دیر اسکا ہاتھ پکڑ کر سینے سے لگائے مسکراتا رہا۔

دوسری طرف دن کے ایک بجے تک شیراز ، زین کے کہنے پر نوراں کو لے آیا تھا۔

وہ سیدھا زین کے آفس ہی آئی تھی۔

اداس سی ، ملول اور بھا کے لیے پریشان جب زین اپنی جگہ سے اٹھ کر اندر آتی نوراں تک پہنچا اور پکڑ کر اپنے سینے میں سمو گیا۔

"اسے کچھ نہیں ہونے دوں گا یہ وعدہ ہے میرا، تم ایسے اداس نہیں ملو گی اسے۔ مسکراو ناں جان تاکہ تمہارا بھائی تمہیں مجھ کو دینے پر پرسکون ہو نہ کہ پچھتائے"

زین کے مہربان رنگ اور محبت سے لاڈ جتاتے رویے پر وہ بھی اپنی اداسی دبا کر پھیکا ہی سہی پر مسکرائی تھی۔

نارمل سے سوٹ پر گرد اوڑھی شال اور بال ہمیشہ جیسے پونی میں مقید کیے وہ پیاری لگ رہی تھی۔

"مجھے یقین ہے تم پر، تم اپنا وعدہ پورا کرو گے"

آنکھوں میں آس لیے وہ زین لاشاری کے دامن سے بہت ذمہ داری باندھ رہی تھی، اور وہ ابھی تک تو پر عزم تھا مگر اب ذمہ داری کے ساتھ ساتھ نوراں کا حکم بھی آ گیا تھا جو اسکے لیے افضل تھا۔

"کروں گا، کروں گا میری جان۔ آو "

دونوں ہتھیلوں میں اسکا چہرہ بھرے پیشانی لبوں سے چھوئے وہ اسکا ہاتھ پکڑے آفس سے نکلا۔

فاضل گوجا جیل کی سلاخوں کے پیچھے منجمد سا دیوار سے لگ کر بیٹھا تھا مگر نوراں کو دیکھتے ہی وہ نم آنکھیں کیے بیقراری سے اٹھا تو نوراں بھی اپنے آنسو دباتی زین کے دروازہ کھولتے ہی لپک کر اندر بڑھی اور بھائی کے سینے جا لگی۔

کئی آنسو تھے جو ان دونوں نے ناجانے کس کس کرب پر بہائے۔

وہ اس سے عمر میں دگنا بڑا بھائی اسکی پیشانی چومتا بار بار اسے خود میں سمو رہا تھا، زین بھی اندر داخل ہوتا سلاخوں سے کمر ٹیکے یہ ملن دکھ اور رنج سے دیکھ رہا تھا۔

"بھا کی سانسیں قربان اپنی نوراں پر، تو ٹھیک ہے ناں بچہ"

تڑپ کر وہ نوراں کے آنسو اپنی ہتھیلوں میں چن کر پوچھ رہا تھا اور وہ اسکے سینے لگی بس رونے لگتی۔

"مم۔میں ٹھیک ہوں، آپکو کچھ نہیں ہوگا بھا۔۔۔۔آپ سب بتا کر اس سب سے نکل آئیں ناں۔ آپ بےقصور ہیں، میں کیسے رہ سکتی ہوں آپ کے بنا۔۔۔۔ "

نوراں کے بدلے لہجے اور اسکی ذات کا سنورنا دیکھ کر وہ اسے خود میں سموئے اب زخمی آنکھیں زین پر گاڑ چکا تھا، اسکی نوراں کو سمیٹ کر رکھنے والا یہ تھانیدار اس وقت فاضل گوجا کو بھایا تھا۔

"اس آدمی نے تجھے کوئی تکلیف تو نہیں دی ناں پتر، بتا مجھے۔ یہیں اسکا خون پی جاوں گا۔۔۔ بتا پتر، ڈرنا مت اس سے"

ابھی بھی جیسے اس وحشی کو صرف نوراں ہی یقین دلا سکتی تھی۔

اور بھا کے پوچھنے پر وہ آنسو رگڑے روبرو ہوئی۔

مڑ کر اک نظر زین پر ڈالی۔

"نہیں دی تکلیف، اس نے کوئی تکلیف نہیں دی بھا۔۔۔۔ بہت سی خوشیاں اور بہت سے سکھ دیے ہیں مجھے۔ مم۔۔میں خوش ہوں۔ میں اس کے ساتھ خوش ہوں بس آپ سچ بتا کر اپنی جان چھڑوائیں"

نوراں کا یقین دلاتا ہوا پرخلوص انداز جہاں فاضل کے چہرے پر طمانیت لایا وہیں زین نے بھی اس لڑکی کے پردہ رکھنے پر دل پر ہاتھ رکھے سانس بھری۔

"ہمم۔۔ ٹھیک ہے بچہ۔۔۔ سدا آباد اور سہاگن رہے میرا پتر ۔۔۔۔ بھا کی جان"

وہ بھی جیسے قربان ہوا وہیں مشکور نظر زین پر ڈالی۔

کچھ دیر وہ بھا کے سینے سے لگی رہی مگر پھر خود زین نے قریب آئے اسے آفس میں جانے کا کہا تو وہ ایک اور بار بھا کے گلے لگتی جیل سے نکلی، زین کے قدم تو فاضل کی پکار نے روکے۔

"اسکے ساتھ ایک حادثہ ہوا تھا انسپیکٹر، اسکی۔۔۔۔، میرا بچہ میرے لیے ویسا ہی پاک اور پیارا ہے، کیونکہ وہ میرے دل کا ٹکڑا جو ہے۔۔۔۔۔پر تو۔۔۔۔"

فاضل گوجا کی تڑپ کے آگے خود زین نے مڑ کر اس مجبور بھائی کے کندھے پر اپنی تھپک سے خاموش کروایا۔

"وہ میرے لیے بھی پاک اور پیاری ہی ہے فاضل، ساری سچائی جان چکا ہوں۔ اس گل مینے کی سچائی بھی۔ نوراں میری بیوی ہے اب، وہ صرف زین لاشاری کی ہے، اسکا ماضی، اسکی تکلیف سب کے ساتھ میں نے اسے قبول کیا ہے لہذا اسکی فکر کرنے کے بجائے تو اعتراف کرنے کے بارے میں سوچ۔ امید کروں گا اگلی پیشی آخری اور مبارک ثابت ہوگی"

دوستانہ انداز لیے وہ فاضل گوجا کو بہت کچھ باور کرواتا وہاں سے چلا گیا البتہ وہ کسی گہری سوچ میں اتر گیا۔

جب تک زین واپس آیا تو وہ گرد چادر لپیٹ کر جانے کی تیاری میں تھی۔

زین کو دیکھتے ہی وہ خود اسکے پاس چلی آئی۔

"بھا سے مل کر بہت پرسکون ہو گئی ہوں، تمہارا شکریہ۔ بہت سے ایسے آنسو دل پر جمع تھے جو صرف انہی کے سینے لگ کر بہائے جا سکتے تھے"

خطرناک حد تک پیاری تھی وہ، پھر اسکے انداز، بھلا اپنے عکس سے بھی کوئی یوں شکریہ جیسے لفظ برتتا ہے۔

"سمجھ سکتا ہوں، روتی ہوئی جان لے جاتی ہو بس"

ہاتھ بڑھا کر اسکے چادر کے باوجود بکھرے سے بالوں کو سمیٹ کر چادر ٹھیک سے گرد لپیٹتا وہ اسکی جبین چومتا گھمبیر لہجے میں بولا تو وہ بس دیکھ کر ہی رہ گئی۔

"آج مت آنا گھر"

تھوڑی پرے ہوتی وہ کہہ کر سر جھکا سا گئی۔

زین نے بھی مسکراہٹ کے سنگ یہ حکم سنا۔

"لیکن وجہ اس ظلم کی؟"

ٹھوڑی پر ہتھیلی کی گرفت جماتا وہ ظلم کی وجہ جاننے کو بے تاب تھا۔

"ڈر لگ رہا ہے تم سے، تم ک۔۔۔کچھ بھی کبھی بھی کر سکتے۔۔۔۔۔بس آج مت آنا۔۔۔۔ جا رہی ہوں"

یہ کہتے سمے نوراں کی پلکیں جھک کر زین کو مزید دیوانہ کر گئیں، اس کے فرار پر وہ اسکی کلائی جکڑتا روبرو لائے مسکاتے ہوئے نوراں کو دیکھ رہا تھا جو شدید متذبذب تھئ۔

"پرسوں پھر میری حکمرانی ہوگی ، سوچ لو"

آنکھ ونگ کرتا وہ اسے جان بوجھ کر بے بس و مضطرب کر رہا تھا۔

"ہمم۔۔۔ اوکے۔۔۔۔لیکن آج آئے تو جان لے لوں گی۔۔۔۔اللہ حافظ"

جھٹک کر اپنی کلائی چھڑواتی وہ تیزی سی باہر بھاگی، اور وہ کتنی ہی دیر محترمہ کے لجاتے روپ کو ہی خواب کی مانند اردگرد حاوی محسوس کرتا رہ گیا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

گاڑی سرور حسین کے گھر کے باہر ہی پارک کرتی وہ چہرے پر اتر آتی وحشت دبائے ہر ممکنہ خود کو کمپوز کیے باہر نکلی، آج اسکی گن میں موجود چھ کی چھ گولیاں سرور حسین کی مستحق تھیں۔

دن ڈھلتے ہی شام کی راعنائیاں بکھرتا ملگجی اندھیرا تک آج کسی گناہ گار کا پردہ رکھنے کے حق میں نہ تھا۔

شیراز اور اسکی ٹیم دو عدد گاڑیوں میں کچھ فاصلے پر ہی رک کر باہر نکل کر سرور حسین کی حویلی کو چاروں طرف سے گھیر چکے تھے۔

"کچھ بھی ہو جائے، مجھے سرور حسین رنگے ہاتھوں زندہ چاہیے شیراز، اسے اتنی آسانی موت نہیں ملنی چاہیے۔ اسے اس کے کیے پر سزائے موت دلوانی ہے مجھے"

ائیر فون کی جانب سے موصول ہوتی رہنمائی پر شیراز اپنی گن لوڈ کرتا اپنے ساتھ لگ بھگ نو لوگوں کو الرٹ رہنے کا اشارہ کر چکا تھا۔

بیرونی راہدای عبور کرتے ہی ناجیہ پورچ تک رک چکی تھی جہاں سرور کے گارڈز اس سے پہلے کہ اسکے پرس کی تلاشی لیتے، خود سرور اکڑ کر چلتا مغرورانہ انداز میں باہر آیا جہاں اسکے دو عدد گارڈز نے ناجیہ کیانی کو روک رکھا تھا۔

"بھئی یہ ہماری زوجہ صاحبہ ہیں، اب سے اسے اس گھر میں آنے کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہیں۔ آنے دو"

خمار آلود نظریں ناجیہ کے ہوش ربا چہرے کی جانب اچھالتا وہ اپنے آدمیوں کو حکم دیتا اپنا ہاتھ بڑھا چکا تھا جسے ناجیہ نے فی الحال جبڑے بھینچ کر تھاما اور اسکے ساتھ اندر روانہ ہوئی۔

شیراز نے بہت صفائی سے چوکیدار کے دروازہ بند کرنے کے بیچ ہی اندر گھس کر ناصرف اس چوکیدار کو گردن کی مخصوص رگ دبائے بیہوش کیا بلکہ سامنے کھڑے دونوں گارڈز کو پیچھے آنے والے اہل کار ایک ہی بار سائلنسر لگی گن سے ڈھیر کر گئے۔

شیراز نے سبکو پھیل جانے کا اشارہ کیے خود بھی اندرونی جانب قدم بڑھائے۔

دوسری طرف زین بھی تھانے سے اپنے تین لوگوں کے ساتھ روانہ ہونے سے پہلے فاضل گوجا کے پاس آیا جس نے کچھ دیر پہلے ہی اپنا بیان دے کر اس قتل کے اعتراف کے ساتھ ساتھ سرور حسین کے نام کو بے نقاب کیا تھا اور زین نے اس بار سرور حسین کا اریسٹ وارنٹ اسکی موت کے پیمانے کی مانند نکلوایا تھا۔

فاضل گوجا کی آنکھوں میں ایک غرور تھا ، اور زین لاشاری کو اس سارے معاملے کو حل کرنے کی ایک بہترین سمت مل چکی تھی۔

"ہماری کوشش یہی ہے کہ سرور حسین کو زندہ پکڑیں تاکہ تمہارے گواہی سے وہ پھانسی چڑھے، رہی بات ناجیہ کی تو مجھے یقین ہے وہ اپنے کیے کی سزا آج بھگت کر رہے گی۔ بس ہمیں اسکے اعترافات کی ضرورت ہے تاکہ یہ کیس مناسب طور سے حل کر کے تمہیں باعزت طریقے سے بری کروایا جا سکے"

رسان اور مہربان انداز میں زین اسے کہہ کر پلٹا تھا، فاضل گوجا نے سرسری سا سر ہلایا۔

زین آدھے گھنٹے کی مسافت طے کیے شیراز کی لوکیشن تک پہنچ چکا تھا۔

سرور حسین کا یہ گھر چونکہ کسی میڈیا والے یا دوست احباب کی نظر میں نہ تھا تبھی یہاں اسکے گارڈز کی بھی کمی تھی۔

چوکیدار اور مین راہداری والے دو گارڈز کا تو پہلے ہی کام تمام ہو چکا تھا مگر اندر لگ بھگ سامنے نظر آنے والے گارڈز کی تعداد دو تھی جو گنز لیے ہمہ وقت سرور حسین کے ساتھ سائے کی طرح جڑے تھے۔

"مجھے پتا تھا تم ضرور آو گی، تمہارے اس حارث کی ضمانت کروا لوں گا بے فکر رہو۔ ویسے بھی اس نے جو کارنامہ سرانجام دیا ہے اس پر مجھے بھی اسکا سوچنا چاہیے"

اپنے سامنے ہی مٹھیاں بھینچ کر کھڑی ناجیہ کی پشت گھورتا وہ وائن کا گلاس لبوں سے لگائے لہراتا ہوا ناجیہ کی سمت لپکے بولا، شیراز کی ٹیم کا آدمی ریکارڈنگ آن کیے کیمرہ فوکس کر چکا تھا جبکہ دو اہل کار مناسب مخفی جگہ پر کھڑے سرور حسین کے دونوں گارڈز پر نشانہ لگائے کھڑے تھے۔

"ہاتھ مت لگانا مجھے"

اپنی کمر کو چھوتے سرور کے ہاتھ کو بری طرح جھٹک کر وہ حلق کے بل چلائی۔

سرور نے ناگواری سے اپنے دونوں گارڈز کو جانے کا اشارہ کیا تو شیراز نے فاتحانہ تبسم کے سنگ سب کو پیچھے ہٹ جانے کا اشارہ کیا۔

جیسے ہی وہ دو لاونچ ایریا سے باہر نکلے، گردن مڑور جانے کے باعث اپنی جان سے چلے گئے۔

سامنے اب سارا ایریا کلئیر تھا اور باقی کا کام پورے گھر میں پھیلی پولیس پہلے ہی کر چکی تھی۔

شیراز نے ریکارڈنگ کرتے آدمی کو کام ٹھیک سے کرنے کا اشارہ کیے خود ائیر فون سے زین کو میسج بھیجا۔

"سر سارے سرور کے گارڈز مارے جا چکے ہیں، ناجیہ اور سرور ہمارے سامنے ہیں۔ حکم کریں کیا آرڈر ہے اب"

دانستہ سرگوشی کی مانند وہ زین کو یہ اطلاع دیے اگلے حکم کا منتظر تھا۔

"ابھی رک جاو، ہمیں اعترافات چاہیں ان دو کے منہ سے۔۔۔۔۔ کھیل تو ان دونوں کا آج ختم ہو ہی چکا ہے، ایک کھیل ہم بھی کھیل لیتے ہیں۔ ریکارڈ کرو انکی ہر بات"

گاڑی میں بیٹھے زین نے اسے استہزایہ ہوئے بریفنگ دی جس پر اب خود شیراز کی توجہ بھی دروازے کی اوٹ میں چھپ کر سامنے جا چکی تھی۔

"لگتا ہے کل کی حرکت معاف نہیں کی میری بلبل نے"

خباثت سے آنکھ ونگ کیے وہ ناجیہ کی گال کو چھونے کی کوشش میں تھا جب اس نے پوری قوت سے اسے پرے جھٹک کر لمحے کے ہزارویں سیکنڈ اپنے بیگ سے گن نکالی۔

سرور حسین بوکھلا کر دو قدم پیچھے ہٹا، چہرے پر درج حیرت یکدم ہی خوف کا روپ دھار گئی کیوں کہ ناجیہ کیانی کی آنکھوں میں اتری وہشت اسے لرزا دینے کو کافی تھی۔

"معافی۔۔۔۔۔معافی کا نام تجھ جیسا کمینہ کیسے لے سکتا ہے۔ آج تجھے کوئی معافی نہیں ملے گی سرور حیسن۔ آج تجھے تیرے ہر گناہ اور زیادتی کا حساب دینا ہوگا"

وہ بپھری جن زادی کی مانند غرائی، سرور حسین کی شکل پر بیٹھا ڈر اور یہ سارا تماشا ریکارڈ ہو رہا تھا۔

اور آواز گھر سے باہر گاڑی میں بیٹھے زین لاشاری تک بھی پہنچ رہی تھی۔

"ک۔۔کیا ہو گیا ہے ڈارلنگ، تت۔۔تم پاگل واگل ہو گئی ہو۔۔۔ہٹاو۔۔۔ہٹاو اسے چل جائے گی۔۔۔۔اب تو سب ٹھیک ہو گیا ناں۔۔۔میں مانتا ہوں بہت غلط کیا پ۔۔پر پر مجبور تھا ناں۔۔۔۔۔۔اب تو سب ختم ہو گیا، وہ کلر مر گیا ہے ناں، اب ہم دو کا راز بھی اسکی موت کے ساتھ دفن ہو گیا۔۔۔۔۔حارث کی ضمانت کرواوں گا یقین دلاتا ہوں"

موت کو سامنے دیکھ کر سرور حسین کے رونگٹے کھڑے تھے، ہاتھ پیر خود پر تنی گن سے کانپے۔

ناجیہ کی آنکھوں میں آج خون اتر آیا تھا، جیسے کوئی طاقت یا کوئی قوت اسکی سانس دبوچ رہی تھی۔

وہ اس سہمے، بے یارو مددگار شخص کے قابل رحم سراپے پر استہزایہ ہوئی۔

"تم نے غلط نہیں بلکہ ایسے گناہ کیے جنکی سزا موت سے کم کی نہیں، میں ناجیہ جس نے اپنی اولاد کے لیے تاعمر جنگ لڑلی، اس بیچ آتے اپنے شوہر اور جیٹھ تک کو مروایا، شوہر بھی موت کی بھینٹ چڑھا کیونکہ وہ مجھے طلاق دے کر اس عیش و عشرت سے بے دخل کرنا چاہتا تھا۔ میں نے جب انھیں نہ بخشا تو تو کس کھیت کی مولی ہے منحوس، میں ناجیہ جس نے اپنی حاکمیت اور حکومت کے لیے اپنی بیٹی کے سہاگ تک کو مروانے کی کوشش کی، اپنی اولاد کو قاتل بنتے دیکھنا پڑا تیری وجہ سے۔۔۔۔تو نے مجھ سے نکاح کیا۔ اوقات ہے تیری کہ تو ناجیہ جیسی حسین عورت کو پائے۔ تجھے مار کر میں اپنی زندگی کا آخری ناسور ختم کر دوں گی۔ جہاں تک حارث کی بات ہے اسکی ضمانت کرانے کے لیے اسکی ماں موجود ہے۔ تیرا اس کہانی سے جانے کا وقت آچکا ہے"

ہیجانے پن میں وہ کھڑی کھڑی وہ سب کہہ رہی تھی جس پر سننے والی ہر سماعت ساکت و بے جان تھی۔

سرور حسین کے ماتھے پر خوف سے نمی تھی۔

"م۔۔۔میں تجھے وارن کر رہا ہوں ناجیہ، یہ بیوقوفی مت کر۔۔۔۔۔ مت کر"

ہاتھوں کے اشاروں سے وہ ڈرتے اور للکارتےانداز میں منمنایا مگر ناجیہ اس پر کسی صورت رحم نہ کر سکتی تھی۔

ناجیہ اس سے پہلے کوئی بھی حرکت کرتی، گن چلنے کی آواز پر وہ دونوں ہی پتھر ہوئے، سامنے سے انٹر ہوتی پولیس کو دیکھتے ہی دونوں کے چہرے لٹھے کی مانند سفید پڑے، یہاں ناجیہ کی توجہ ہٹی وہیں سرور نے لپک کر اس کے ہاتھ سے گن جھپٹتے ہی سیدھی گولی ناجیہ کیانی پر چلائی۔

اس اچانک افتاد پر نہ تو ناجیہ کیانی کو سنبھلنے کا موقع ملا نہ ہی شیراز بروقت پہنچے ناجیہ کیانی کو اس قدر کم سزا سے ہی جان ہارنے سے بچا سکا۔

پولیس کے لوگوں نے سرور کے ہاتھ سے جھپٹ کر گن لیے حراست میں تو لیا مگر انکی آزردہ نظر زمین بوس ہو کر آخری ہچکیاں لیتی ناجیہ پر تھی۔

ایک عہد تمام ہو گیا تھا۔

ادا جان کے دونوں بیٹوں کی قاتل اپنے انجام کو پہنچ چکی تھی۔

جیل کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھے حارث کیانی نے بے ساختہ اپنا سینہ ہتھیلی سے جکڑ ڈالا، اسے لگا ناجانے کیا ہوا کہ اک لمحہ وہ موت کی اذیت سے گزرا ہو۔

آنکھ سے بھٹکی ہوئی نمی اسکے چہرے سے اترتی بڑھی بیرڈ میں جا دفن ہوئی۔

ہوسپٹل کے کیفے میں اکیلی بیٹھی فاریہ ناجانے کیوں اس ایک لمحے خود بھی چونکی جب اپنے چہرے پر کوئی نم پہنچاتا آنسو محسوس ہوا۔

ہاتھ بڑھا کر چھوا تو وہ ایک آنسو کئی اور آنسووں کا بند کھول گیا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"یہ وہ سب فائلز ہیں جو ہمیں ناجیہ کیانی کے روم سے ملیں اور یہ انکے اکاونٹ کی معلومات"

آفس ائیریا میں اپنی کرسی پر بیٹھا عباد اپنے سامنے دھرے جانے والے ان کاغذات کی جانب متوجہ تھا۔

یہ سارا کام اس نے ناجیہ کی گمشدگی ہوتے ہی اپنے لوگوں کو سونپا تھا۔

وقت آچکا تھا کہ عباد حشمت کیانی اپنی کبوتر سی بند آنکھیں کھول لیتا۔

ایک بار تو اسکے ہاتھ کانپے مگر اس نے وہ سارے کاغذات ایک ایک کر کے دیکھنے شروع کیے۔

سب سے پہلی فائیل کھول کر وہ توجہ سے پڑھ رہا تھا مگر تلخ حقائق نے عباد کی آنکھیں جلد لہو لہان کیں۔

وہ اسکے بابا کی وصیت تھی، جسکی نقل عباد تک بابا کی حادثاتی موت کے بعد پہنچ تو گئی تھی مگر آج یہ اصل دیکھ کر وہ ناچاہتے ہوئے تکلیف میں اترا۔

وہ اپنا سارا سرمایہ عائش اور عباد کے نام کر کے گئے تھے مگر عباد کے چچا عائش نے اپنی زندگی میں ہی اپنے حصے کی تمام پراپرٹی بھی عباد کے نام کر دی تھی کیونکہ انھیں حارث اور فاریہ کے اچھے مستقبل کے لیے ناجیہ سے زیادہ عباد پر بھروسہ تھا۔

بابا کی وفات حادثاتی نہ تھی اور اسکے ساتھ ساتھ اسی ایکسیڈنٹ میں سراج علی کے بابا بھی جان سے چلے گئے۔

یہ سب ناجیہ کی کارستانی تھی۔

وہ ساری تکالیف عباد کو از سر نو رنج میں مبتلا کر گئیں۔

دوسری فائیل میں دھرا طلاق نامہ دیکھ کر عباد کو حقیقی دھچکا لگا۔

وہ طلاق نامہ عائش نے اپنی موت سے پہلے بنوایا تھا، چونکہ اپنی زندگی میں ہی اسے ناجیہ اور سرور کے افئیر کا علم ہو گیا تھا اور اس نے تبھی ناجیہ جیسی عورت کو طلاق دینے کا فیصلہ لیا تھا مگر چونکہ زبانی طلاق کے بعد ہی ناجیہ نے اسے مروا دیا تبھی اسے سائن کرنے کی مہلت نہ ملی تھی۔

عباد کتنی ہی دیر عائش کیانی کی سمت سے بنوائے گئے اس طلاق نامے کو پکڑے دکھی رہا۔

"یعنی آپ ناجیہ کی حقیقت سے واقف تھے، آہ۔۔۔۔ میں آپکو اس ڈائن سے بچا نہ سکا چاچو، بابا کے بعد آپ میرا سب تھے۔ اللہ آپکی مغفرت فرمائے"

دعا کرتا وہ رنجیدہ سا وہ فائیل سمیٹے اب کچھ پیپرز کی جانب متوجہ تھا جو کسی ہوسپٹل کی خاص میڈیسن کی رسیدیں تھیں، ان میڈیسن میں کئی طرح کے انجکشن تھے، عباد کی حیرت لمحہ بہ لمحہ بڑھی۔

مگر جوں جوں وہ ساری رسیدیں دیکھتا گیا اور ان خاص غلط انجکشنز کے نام پڑھ کر لیپ ٹاپ پر سرچ کرتا گیا، اسکی آنکھیں پھٹ کر رہ گئیں۔

کچھ سال پہلے عباد کو ادا جان کی ڈاکٹر نے کچھ ایسے معاملے سے باخبر کیا تھا جس پر تب عباد بہت الجھ گیا تھا۔

ادا جان یکدم ہی بہتری سے پستی کی سمت گامزن ہونے لگیں تھیں، انکی ڈاکٹر کے بقول کوئی دوا اور تھراپی ان پر اثر نہیں کر رہی تھی اور یوں ادا جان ان ایک ماہ میں ہی اپنی ٹانگوں سے معزور ہو گئیں۔

یہ سارے انجکشن وہ تھے جو اس وقت ادا جان کو ناجیہ خود لگاتی تھی اور اسکے ان غلط انجکشنز سے ہی ادا جان معذور ہوئیں تھیں۔

عباد کو سارا معاملہ سمجھ آچکا تھا تبھی اسکی آنکھوں میں نفرت اور تکلیف ایک ساتھ اتری۔

"یعنی تم یہ سارے انجیکشن ادا جان کو لگواتی رہی تاکہ وہ اپنی ٹانگوں سے محروم ہو جائیں، کتنی گھٹیا نکلی تم ناجیہ۔۔۔۔ تم نہ اس خاندان کے لائق تھی نہ ہی ماں بننے کے، اللہ کا شکر ہے جس نے حارث اور فاریہ کو تم جیسے نجس سائے سے بچا لیا"

کدورت اور کینہ توز نظریں کسی غیر مرئی نقطے پر گاڑے وہ ہاتھ میں پکڑی ان رسیدوں کو بھینچ گیا، چہرے پر جیسے لہو چھلکا۔

اگلی فائیل ناجیہ کے تین عدد بنک اکاونٹس کی تمام انفارمیشن کی تھی جس میں صاف صاف اسکے اکاونٹ میں موجود رقم سے لے کر کب کب کتنی رقم نکلوائی گئی اور کس کے نام ٹرانسور کی گئی سب درج تھا۔

لمحہ بہ لمحہ آگاہی عباد کو اس عورت کے لیے خونخوار بنا رہی تھی مگر دوسری طرف زین لاشاری کے اندر پہنچنے تک سرور تو آہ و بکا اور مزاحمت کے باوجود زندہ پکڑا جا چکا تھا مگر زمین پر بے جان پڑی ناجیہ کی لاش اسے بھی جیسے ہلا گئی۔

عباد کا فون بجا تو زین کی کال پر وہ ان کاغذات سے توجہ ہٹائے کال پک کیے متوجہ ہوا۔

"ناجیہ کیانی مر گئی ہے عباد صاحب، سرور نے اسے مار دیا۔ لیکن وہ سارے اعتراف کر کے مری ہے۔ میری ٹیم نے سب ریکارڈ کر لیا ہے۔ رہی بات سرور کی تو کل پیشی پر اسکی سزائے موت طے ہو جائے گی"

سماعت میں اترتی زین لاشاری کی آواز پر عباد نے جیسے گہرا طمانیت بخش سانس بھرا اور کال کاٹی۔

زین اپنی ٹیم کو سرور کو لے جانے اور ناجیہ کو وائیٹ پیلس بھجوانے کا آرڈر دے چکا تھا۔

عباد تمام فائلز سمیٹتا ہوا آفس سے باہر نکل گیا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"کیا ہوا طبعیت تو ٹھیک ہے ناں، کیفے تو تم بڑی خوش گئی تھی مگر اب منہ لٹکا ہوا ہے۔۔۔یہاں آو"

سراج اب تو پہلے سے قدرے بہتر تھا، کل شام تک تو اسے ڈسچارج بھی کر دیا جانا تھا۔

فارئہ غائب دماغی سے واپس آئی تو اسکے چہرے پر اداسی بھی تھی جسے سراج نے محسوس کی اور اپنا ہاتھ بڑھا کر اسے پاس بیٹھایا۔

"ایسا لگا جیسے ک۔۔کچھ بہت برا ہوا ہے سراج علی، بہت برا"

وہ پاس بیٹھے بہت خوف سے یہ بتا کر سراج کو بھی پریشان کر گئی مگر سراج علی کے بجتے فون نے جیسے یہ بیچ کا ٹرانس توڑا۔

کال عباد کی تھی۔

فاریہ اس کال کو دیکھ کر مزید سراج علی کا ہاتھ پکڑے ڈری جو اسکی گال سہلائے ریلکس کا اشارہ کیے خود کال پک کیے فون کان سے لگا گیا۔

دوسری طرف ناجیہ کیانی کی ڈیڈ باڈی پیلس آچکی تھی، اور عباد نے کسی بھی غیر انسانی سلوک کو روا نہ رکھتے ہوئے اس مردے کی حرمت مجروع نہ کرتے جنازہ اور تدفین بھی اپنے ذمے لی۔

وہ عورت جو اس محل نما آنگن میں عائش کیانی کے ساتھ ملکہ کی طرح آئی، آج ایک مجرم کی لاش میں بدلے واپس لوٹی۔

اور سب سے بڑی بدقسمتی اس کی یہی تھی کہ اس کی موت پر رونے والی آنکھیں تو تھیں پر دل کوئی نہ تھا۔

"سراج علی کیسے ہو میرے شیر، اور فاریہ کیسی ہے"

عباد نے اس زخمی نظر سفید کفن میں لپٹی ملازمین کے بیچ اور چند عورتوں کے بیچ اس سفاک عورت کی لاش کو دیکھ کر پوچھا مگر سراج بنا جانے بھی عباد کی آواز میں اتری افسردگی بھانپ گیا۔

ادا صاحبہ، معظم صاحب اور منہا بھی ایک طرف بیٹھے خاموش سے اس عورت ہی کو دیکھ کر ملول تھے جسکی موت پر خوشی یا ماتم کے بیچ فیصلہ لینا نہایت کٹھن تھا۔

"بھائی ٹھیک ہیں ہم۔۔۔وہاں سب ٹھیک ہے ناں، کیا ہوا ہے؟"

سراج کی تشویش پر عباد وہاں سے نکل کر باہر آیا، اسکے گارڈز تیار تھے کیونکہ وہ تھانے جا کر یہ خبر حارث کو بھی خود دینا چاہتا تھا۔

کم از کم وہ جیسی بھی تھی، فاریہ اور حارث کی ماں تھی۔

"ناجیہ کو سرور نے مار دیا، کل شام جنازہ رکھا ہے۔ فاریہ کو اپنے طریقے سے بتا کر سنبھال لینا میرے شیر۔ باقی سب مل کر بتاتا ہوں۔ اس سے اسکی سفاک ماں کی موت پر آنسو بہانے کا حق نہیں چھینوں گا"

بھاری افسردہ سی آواز میں وہ یہ دردناک سی ذمہ داری سراج علی کو سونپتا اس سے پہلے گارڈز کے ہمراہ تھانے کے لیے نکلتا، منہا کے پکارنے پر رکا۔

دونوں آزردہ سے اک دوسرے تک پہنچے۔

جو ہوا تھا وہ منہا کو ہلا کر رکھ گیا تھا۔ وہ جانتی تھی ماں کو کھونا اور ایسے حالات میں کھونا حارث اور فاریہ کے لیے بہت کٹھن ہوگا۔

"حارث بھائی کو سنبھال لیں گے آپ مجھے یقین ہے، آپ نے ناجیہ صاحبہ کی ڈیڈ باڈی کی بے حرمتی نہ کر کے بہت اچھا کیا، مجھے آپ پر فخر ہے۔ وہ اپنے کیے کی سزا پا چکی ہیں، اب انسانیت کے ناطے ہمارا فرض ہے کہ انکی آخری رسومات ادا کریں۔ اس لیے نہیں کہ انھیں معافئ مل گئی بلکہ اس لیے کہ وہ فاریہ اور حارث کی ماں تھیں"

قریب آئے وہ عباد کے ہاتھ مضبوطی سے پکڑے افسردگی سے گویا ہوئی، جانتی تھی اس سب سے عباد بھی دکھی ہے۔

"ایسا ہی کروں گا ، صرف فاریہ اور حارث کی وجہ سے ہی اس سفاک عورت کو عزت سے قبر نصیب ہو رہی ہے۔ تم ادا جان کے پاس رہنا، وہ حارث اور فاریہ کے لیے رنجیدہ ہیں۔ میں حارث کو لے کر آتا ہوں اور زین سے بھی کچھ بات کرنی ہے"

رسان اور نرمی سے وہ منہا کا اداس سا چہرہ تکتا اسکی گال سہلائے وہاں سے چلا گیا اور وہ بھی تھکا سا سانس خارج کرتی واپس اندر بڑھ گئی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"کیا کہا ہے عباد نے ، بولو۔۔۔۔ایسے دیکھ کر مزید دل مت دہلاو میرا"

بے تابی سے حراساں ہوئے وہ سراج علی سے یکدم پریشانی کی وجہ جاننا چاہتی تھی مگر وہ اسے یہ سچ کیسے بتائے جو سراج علی تک کے لیے ایک دل دہلاتا جھٹکا تھا۔

"ناجیہ صاحبہ۔۔۔۔۔۔"

سراج نے اسکی آنکھوں میں جمع ہوتی نمی کو دیکھ کر دانستہ جملہ ادھورا چھوڑا، اور وہ بے یقین نظر سراج علی پر گاڑے دم سادھ گئی۔

سراج نے اسکے ماتھے کے زخم کو آزردگی سے سہلایا اور پکڑ کر اسے اپنے سینے میں سمویا جو خود بھی اپنا آپ سراج علی کے سہارے چھوڑے گہرے گہرے سانس بھر رہی تھی۔

"نہیں رہیں وہ اس دنیا میں، کل رات جنازہ ہے انکا۔۔۔۔ "

کانوں کی اور سراج کی غمزدہ سرگوشی پر فاریہ کی آنکھوں سے نمی بہنے لگی، وہ آنکھیں میچے اس غم پر ناجانے کتنی دیر آنسو بہاتی رہی اور سراج علی نے اسے چپ چاپ سوگواری سے بس رونے اور صبر کر لینے پر خود بھی فاریہ کی تکلیف محسوس کی۔

"وہ م۔۔۔میری بیسٹ مما تھیں، میری چھوٹی سی تکلیف پر مجھے پیار سے سمیٹ لینے والی۔ لیکن پھر وہ عجیب ہو گئیں، دادو کو غلط انجکشن تک دیے میں گواہ تھی مگر کچھ نہ بولی کیونکہ تب ادا جان مجھے بھی زہر لگتی تھیں۔ مم۔میں سب جانتی تھی ، پھر بھی انکا ساتھ دیا۔ لیکن وہ بدل گئیں، وہ میری زندگی سے قیمتی سراج علی کو مار دینے والی تھیں۔۔۔۔۔ انکے جانے سے ب۔۔بہت درد ہو رہا سراج علی لیکن انہوں نے م۔۔جھے بہت تکلیف دی۔۔۔۔مم۔میں معاف نہیں کروں گی انکو"

سراج کے سینے لگی وہ رندھی آواز سے یہ سارے انکشاف کیے سراج کو بھی غمزدہ کر گئی، وہ اسے بال نرمی سے سہلاتا اپنی شرٹ کو بھیگوتے فاریہ کے آنسووں سے اس لڑکی کے اندر کی اذیت جان چکا تھا۔

"جو چلا جاتا ہے اسکا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں فاریہ، تمہارا سراج علی تمہارے پاس ہے۔ اس لیے میری جان خود کو اس تلخ فیصلے سے دوچار مت کرو۔ معاف کر دو انھیں، کم از کم وہ اپنی اولاد کی طرف سے معافی کی شدید طلب گار ہوں گی"

خود سے الگ کیے وہ فاریہ کا چہرہ ہاتھوں میں بھرے ، آنسووں کی نمی جذب کرتا جو کہہ رہا تھا فاریہ کو اس پر مزید تکلیف ہوئی تھی۔

"وہ بری ماں تھیں۔۔۔۔۔مم۔میں کونسا پاک صاف تھی، ان سے زیادہ ہی نجس تھی۔ لیکن تم کہو گے تو معاف کر بھی دوں گی۔ تمہاری کوئی بات نہیں ٹالوں گی"

بھیگی آنکھیں لیے وہ اس درجہ تکلیف سے بولی کہ آواز گھٹ سی گئی۔

"انکے کیے گئے گناہوں کا حساب اب اللہ لے گا، جانتا ہوں یہ تکلیف بہت بڑی ہے ، سہنا کٹھن ہے لیکن یہی حقیقت ہے۔ مجھے یقین ہے تم خود کو سنبھال لو گی۔ حارث ، عباد، منہا، اور یہاں تک کہ میں ہوں تمہارے ساتھ"

وہ تو سمجھ رہا تھا وہ اس دکھ پر روئے گی مگر فاریہ کو اتنی جلدی سنبھلتا دیکھ کر وہ مطمئین بھی تھا اور اداس بھی۔

"بس تم ہی کافی ہو، میرا بس سراج علی ہی سب ہے"

پھر سے اسکے سینے پر سر رکھے وہ اپنے سارے سکھ بس سراج علی سے جوڑ چکی تھی مگر اس وقت وہ بلاشبہ دکھ میں تھی۔

دوسری طرف حارث پر یہ حقیقت کھولنے کی ذمہ داری بھی عباد پر آئی تھی اور وہ اس وقت اپنی آنکھوں میں جمع ہوتی نمی بہنے سے روک نہ سکا تھا۔

وہ ، زین اور عباد تینوں ہی مین آفس میں تھے۔

"مر تو وہ اسی وقت گئیں تھیں جب مجھے قاتل بننے کا حکم سنایا تھا، م۔۔میرے بابا کو مارا۔۔۔ایسی ماں کیوں ملی مجھے لالہ۔۔۔۔یہ اذیت تو انکی موت کے کرب سے ب۔۔بھی دگنی ہے"

اپنا سب کچھ ہارے بیٹھا وہ اتنا بڑا مرد ہو کر بھی سسک اٹھا، اسکی آواز کا کرب عباد اور زین دونوں کو کاٹ سا گیا۔

"حوصلہ کرنا ہے حارث، ہمت نہیں ہارنی۔ میرے بابا اور سراج کے والد صاحب کی حادثاتی موت کے پیچھے بھی وہی تھیں اور اسکا ادراک مجھے کئی سال پہلے ہی ہو چکا تھا لیکن میں عباد حشمت کیانی اپنے عزیز چاچو کے وعدے اور قسم کا پابند تھا۔ جو مجھ پر تمہاری اور فاریہ کی ذمہ داری ڈال کر گئے تھے۔ میں نے ہمیشہ تمہیں اور فاریہ کو بڑے بھائی کی طرح پروٹیکٹ کیا، چاچو کے بعد ہر ممکنہ کوشش کیے تم دونوں بہن بھائیوں کو سیدھے راستے پر لانے کی کوشش کی مگر ہدایت تب تک نہیں ملتی جب تک اسے چاہا نہ جائے"

عباد حشمت کیانی نے بھی اس نازک وقت اپنے دل کو کھول کر حارث کیانی پر سکتہ اتارا تھا، وہ جو کچھ دیر پہلے ماں کی موت میں آبدیدہ تھا اب عباد حشمت کے صبر، حوصلے اور وعدے کی پاسداری پر سراپا درد میں مبتلا ہوا۔

"م۔۔مجھے معاف کر دیں لالہ، نہایت گھٹیا ہوں"

اس بار وہ اذیت کی انتہا پر گڑگڑایا مگر عباد نہ صرف اٹھا بلکہ اس تڑپتے سسکتے بھائی کو اپنے سینے سے لگائے آج اپنی مہربان چھاوں بھی بخش دی۔

"مجھے رشک ہے تم پر حارث کیانی، کہ تم کو اللہ نے چنا ہدایت کے لیے۔ میں تمہیں معاف کرتا ہوں، اللہ بھی تمہیں معاف کر دے گا۔ کل اس خاندان کی خوشیاں اجاڑنے والے سرور کے فیصلے اور ناجیہ کیانی کو زیر زمین دفن کرنے کے بعد سب بدل جائے گا، سب زخم بھر جائیں گے۔ میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں اور تم مجھے بابا اور بھائی دونوں سمجھ لینا۔ آج سے تمہاری ہر سزا ختم کرتا ہوں۔ امید کروں گا رہے سہے ہر درد سے بھی اللہ تمہیں جلد نکال دے"

اس وقت حارث کیانی کو بس اسی کی تو ضرورت تھی، کوئی سمیٹ لیتا، کوئی جوڑ دیتا۔

وہ مشکور تھا کہ جس عباد کو اسے ٹھڈے اور لاتیں مارنی چاہیں تھیں وہ اسے گلے لگا کر اپنا سایہ دے رہا تھا۔

یہ منظر تو زین لاشاری تک کو اداس کر گیا۔

عباد نے مڑ کر اس بار اس قابل انسپیکٹر کو دیکھا جو عباد کی جیت کے ساتھ برابر کا شریک تھا۔

"اور تم زین لاشاری، تمہارئ صورت مجھے ایک اچھا مددگار اور ساتھی نصیب ہوا۔ بہت شکریہ، میری زندگی کے اس الجھاو کو سلجھانے کا۔ امید ہے کل تم اچھی خبر سناو گے"

عباد کا انداز جاندار وہیں زین کی دھیمی مگر تھکی سی مسکراہٹ عہد لینے سی تھی۔

عباد بھی رسان سے حارث کیانی کو لیے نکل گیا۔

اور زین لاشاری کے پاس اب کل تک بہت سے کام تھے جنھیں نمٹا کر کل کے فیصلے کو اپنے حق میں کرنا تھا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

حارث کے لیے یہ وقت مشکل سہی پر کاٹنا ناممکن نہ تھا، وہ عباد کے ساتھ پیلس واپس آیا۔

ساری رات ناجیہ کیانی کے کیے بد فعل اسے رلانے کو کافی تھے، عباد جانتا تھا مشکل وقت ہے مگر وہ ہمیشہ اسکے اور فاریہ کے ساتھ تھا۔

عائشہ بھی بہت دکھی تھی، خاص کر ساری رات حارث کے کرب سے خود بھی ملال میں لپٹی رہی۔

ایک سیاہ تاریک رات تو کٹ گئی مگر سب کے چہروں پر تھکن، اور آنکھوں میں رت جگے کی غماض سرخی ہلکورے لیتی نظر آئی۔

اگلے دن تک فاریہ اور سراج بھی واپس لوٹ آئے، سراج کی طبعیت ابھی اسقدر بہتر نہ تھی مگر وہ ہمہ وقت فاریہ کے ساتھ رہا۔

دوسری سمت عدالت میں آخری پیشی کا وقت آن پہنچا تھا۔

فاضل گوجا نے اپنی تمام تر سچائی جج صاحبان کو گوش گزار کر دی تھی اور سرور کے خلاف بھی کئی ثبوت اور گواہ پولیس کے پاس موجود تھے۔

نوراں بھی عدالت آئی تھی، اسے یقین تھا آج زین لاشاری اس سے کیا ایک اور عہد پورا کرے گا۔

تمام ثبوتوں اور گواہوں کو پیش کیا جا چکا تھا، ہتھکڑی میں لپٹا سرور بھی آج اپنے سارے غرور کو خود اپنی آنکھوں سے مٹی میں مل ملتا دیکھ کر عبرتناک تھا۔

"تمام ثبوتوں اور گواہوں کے پیش نظر عدالت مجرم سرور حسین کو اسکے تمام جرائم اور ناجائز دھندوں ، اور ناجیہ کیانی کے علاوہ گل مینے، اور کئی قتل کے جرم میں سزائے موت کا حکم سناتی ہے۔

اور چونکہ گل مینے کئی غیر قانونی دھندوں میں ملوث تھی اور ایک سنگین گناہ کی مرتکب ہوئی تھی جسکے باعث اسکے قتل کو واجب قرار دیتے ہوئے ملزم فاضل گوجا کو گل مینے کے قتل سے باعزت بری کیا جاتا ہے۔ اور تاکید کی جاتی ہے کہ دوبارہ قانون کو ہاتھ میں نہ لیا جائے۔ عدالت برخاست ہوتی ہے"

یہ فیصلہ صرف آج زین لاشاری کی جیت نہ تھا بلکہ اس نے اپنی محبت بھی امر کی تھی، نوراں کی تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا، وہ اپنے بھا کے آزاد ہونے پر خوشی سے باولی ہو چکی تھی۔

خود فاضل گوجا کی آنکھیں آج زین لاشاری کو دیکھ کر پہلی بار طمانیت بخش تبسم میں ڈھل گئیں۔

سرور حسین کو پھانسی کا حکم دے دیا گیا تھا جسکی شکل پر اپنی حکومت کے مسمار ہونے کا خسارہ درج تھا۔

"میری نور اب تیرے حوالے ہے، اسکا دھیان رکھنا۔ رہی بات میری تو یہاں میرا سفر پھر سے اسی لگن اور ارادے سے شروع ہو جائے گا۔ ہاں لیکن ایک وعدہ ضرور کروں گا تجھ سے کہ آگے بھی فاضل گوجا کسی بے گناہ کو موت کے گھاٹ نہ اتارے گا۔ میں نے جو راستہ چنا ہے وہ مجھے کسی اور سمت جانے کبھی نہیں دے گا۔ لیکن اب میں بہت خوش ہوں کہ میری بہن تم جیسے جی دار مرد کے حصار میں ہے۔ اب تک کے ساتھ کے لیے بہت شکریہ"

عدالت سے باہر کھڑے وہ تینوں اس وقت اداس تھے، نوراں کی آنکھوں میں تو پھر سے نمی سی تھی مگر فاضل گوجا کا سفر ایسا ہی تھا۔

"مجھے تم اپنا مددگار پاو گے فاضل گوجا، لیکن یہ پاگل تمہیں یاد کر کر کے ندیاں بہائے گی اسکا کیا"

پہلی بات وہ پورے یقین اور دوستانہ انداز سے کہہ کر آخر میں نوراں کو بھا کے سینے لگ کر آنسو بہاتا دیکھ کر دانستہ شرارت اوڑھے بولا مگر فاضل گوجا کے چہرے پر اک مطمئین سی سرشار مسکراہٹ تھی۔

"میں ملنے آتا رہوں گا بچہ، اب تم زین کے ساتھ زندگی کے سکھ جیو تاکہ تیرے بھا کا کلیجہ ٹھنڈا رہے"

فاضل گوجا کی تسلی کے باوجود وہ بہت اداس رہی مگر پھر زین لاشاری کے شعور میں اسکا احساس ندامت سلگا۔

"مجھے کچھ کہنا تھا، ان فیکٹ کچھ قبول بھی کرنا ہے۔ مجھ سے ایک ایسی خطا ہوئی تھی جو تمہاری معافی چاہتی ہے فاضل "

یکدم ہی زین کا تمہیدی انداز جہاں نوراں کو زنج دے گیا وہیں فاضل گوجا نے حیرت سے زین کی جانب نظر ڈالئ جہاں اک ندامت تھی۔

"ایسا کیا ہے؟"

فاضل کو خدشہ سا گزرا جیسے کچھ غلط ہوا ہے اور پھر جب زین لاشاری نے ایک اور عہد نبھاتے ہوئے فاضل گوجا کے سامنے اپنی سنگین غلطی کا اعتراف کیا تو کئی لمحے وہ زخمی چہرہ اور سرخ آنکھیں لیے زین لاشاری کی جانب دیکھتا رہا۔

"میں اپنی اس خطا پر بہت شرمندہ ہوں، کیا تم مجھے معاف کر دو گے فاضل "

زین کا استفسار دردناک تھا، فاضل نے ناگوار سی نظر اسکے چہرے پر ڈالی اور پھر نوراں کی رحم طلب نظریں اسے پل میں پگھلا گئیں۔

"کرنا تو نہیں چاہتا پر کر رہا ہوں کیونکہ تو نے میرے جگر کے اس ٹکڑے کو بہت پیار سونپا۔ تیری جگہ کوئی اور تھانیدار بھی ہوتا وہ یہی کرتا کیونکہ بے حسی تم جیسے لوگوں کے لیے ایسے سسٹم کے ساتھ جینے کی شرط اول ہوتی۔ میرے بابا کو جو دکھ کھا گیا وہ نور کے ساتھ پیش آتا حادثہ تھا، اب جب وہ اسے تیرے ساتھ آباد دیکھ رہے ہوں گے تو مجھے یقین ہے تیرا گناہ معاف ہو گیا ہوگا۔ میں نے بھی کیا معاف زین لاشاری پر میرے بچے کی انکھ میں کبھی آنسو نہ آنے دینا، میں جہاں رہوں گا تم دو میری دعاوں میں رہو گے"

وہ اپنا دل بڑا کیے زین کو ہر بوجھ سے آزاد کیے نہ صرف گلے ملا بلکے بہت سی دعائیں سونپتا اک نئے سفر پر رخصت ہو گیا۔

وہ بھرائی آنکھیں لیے زین کے ساتھ لگی کتنی ہی دیر روتی رہی، خود کو سمیٹ لینا فی الحال مشکل تھا۔

"میں ہوں ناں "

نرماہٹ کے سنگ اس روتی ہوئی رگ جان کو تسلی دیتا وہ پیارا لگا، جو اپنا سب کچھ زین لاشاری کو مان چکی تھی۔

نظر اٹھائے اس شخص کو دیکھا جو اپنے ہر وعدے کو نبھاتا تھا۔

"تم ہو یہی تو حوصلہ ہے اب تمہاری نور کا"

یہاں کھلے آسمان تلے وہ بھلے تکلیف میں تھی پر زین لاشاری سے اپنے جڑنے کا اعتراف کر رہی تھی۔

وہ پگلا، محافظ، پتھر سے موم بن جاتا عشق کا مجاور جسے اس وقت ہر شے رقص کرتی نظر آئی۔

محبت میں ہر چیز رقصاں ہو جاتی ہے، وہ مسکرائی اور زین لاشاری کو محسوس ہوا کہ روح زمین پر اس سے زیادہ مکمل اور پیارا تبسم شاید ہی کبھی کسی نے دریافت کیا۔

مجرم کا فیصلہ ہو گیا اور دن سے شام ڈھل گئی۔

ناجیہ کیانی کو قبر نشین خود حارث نے کیا، اپنے ہاتھوں سے اس ماں کو قبر میں اتارا جس سے وہ شدت سے ناراض تھا۔

دل میں آہیں، سسکیاں اور بے پناہ درد موجزن تھا مگر وہ سب لوٹ گئے۔

اور وہ عورت تنہا اس ویران قبرستان کا مکیں بن گئی، اب اس کے ساتھ کیا ہونا ہے یہ رب اور بندے کے بیچ کی ذاتی کہانی تھی۔

یہ فانی دنیا ہے مگر افسوس کہ لوگ اس اکلوتی ملی حیات کو بہت بے دھیانی سے تباہ کر کے اپنے لیے تاحیات اک عذاب کو چن لیتے ہیں۔

اور ایسے عذاب کبھی نہ ٹل سکتے ہیں۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"بہت بوجھ ہے دل پر"

عباد کے بہت بار کہنے پر وہ قبرستان سے پیلس تو لوٹ آیا تھا مگر قدرے رنجیدہ حال تھا۔

سراج کو تو کافی بے آرامی کے باعث وہ فاریہ کو لے جانے کا کہے کمرے میں بجھوا چکا تھا مگر خود لان میں بیٹھے شکستہ حال حارث تک آیا اور پاس ہی بیٹھا۔

وہ نہ بھی بتاتا تو عباد جانتا تھا بہت بوجھ اور تکلیف سے دوچار ہے۔

"ان شاء اللہ ہر خسارے پر صبر آجائے گا، تم بہت باہمت ہو۔ مجھے یقین ہے خود کو سنبھال لو گے"

پریقین انداز میں عباد اسے حوصلہ تھما رہا تھا، سیاہ اندھیاری عذاب ناک رات ڈھل رہی تھی اور اب سے راستے میں صرف روشنی تھی مگر اتنی جلدی دلوں کے زخم کب بھرا کرتے ہیں۔

"تھینک یو لالہ، ہر چیز کے لیے۔ مجھ ناکارہ کو اس کڑے وقت میں سنبھالنے کے لیے۔ آپ نہ ہوتے تو یقینا اس صدمے کو سہنا میرے لیے بہت مشکل ہوتا"

وہ بھلے افسردہ تھا مگر عباد حشمت کیانی کے پاس ہونے کا اعتراف احسن طریقے سے کر گیا تھا۔

اسکی تھکن کے غلبے سے بھاری ہوتی آنکھیں اور چہرے پر درج رنج نے عباد کو بھی اداس کیا تھا۔

"میرے علاوہ اب اور بھی کئی پیارے میسر ہیں تمہارے پاس، جیسے ادا جان۔ فاریہ، میں اور اب تو عائشہ بھی ہے"

اپنی خوش بختیوں کی فہرست کا ذکر عباد سے سنتا وہ آخر تک تھوڑا مضطرب ہوا اور اسکا یوں جھجک جانا عباد کو بھایا تھا۔

"قل کے بعد میں تمہارا اور عائشہ کا نکاح کروانا چاہتا ہوں، امید ہے تمہیں اعتراض نہیں ہوگا"

رسان سے وہ یہ کہتے ہوئے حارث کے پرسکون خدوخال پر نظر رکھتا آسودہ تھا جہاں رضا درج تھی، جہاں اعتراف تھا۔

"اس کے لیے ایک بار پھر مشکور ہوں لالہ"

وہ اپنی آواز میں نمی چھپا نہ سکا اور عباد بھی اٹھ کر اسے شانوں سے جکڑ کر کھڑا کرتے اسکے چہرے کو تھپک کر تھکا سا مسکرایا۔

"مجھے یقین ہے تمہارے سدھار میں خاصا حصہ محبت کا ہے، محبت تو ہوتی ہی تن، من پاک کر دینے والی۔ عائشہ سے محبت کرتے ہو جان چکا ہوں، یہ بھی کہ تم نے آج تک بدکاری نہیں کی۔ رہی بات باقی جرائم کی تو تمہاری سچی توبہ کافی تھی انکی تلافی کے لیے۔ اب جاو اور آرام کرو، خود کو تھکانے کی ضرورت نہیں"

اس وقت جب وہ بہت تھکن اور ملال میں تھا، عباد نے اسے زندگی تھما دی تھی، وہ مشکور و ممنون نگاہوں سے عباد کی مہربان ذات کا معترف ہوئے وہاں سے اوجھل ہوا تو آہٹ پر عباد مڑا۔

سامنے زندگی کھڑی تھی، وہ احد کو اٹھائے سلانے کی سعی میں اسے مکمل پیک کیے باہر لے آئی تھی۔

عباد نے اک نثار نظر دونوں پر ڈالی اور منہا سے احد کو لیے اٹھایا، اسکی پیشانی چومی جو ہلکی پھلکی نیند میں تھا۔

"وہ ٹھیک تھے ناں؟ آپ نے تسلی دی ہے انکو"

منہا کو حارث اور فاریہ کی بہت فکر تھی، فاریہ کو سمیٹنے کے لیے تو سراج تھا مگر حارث اس وقت زیادہ دکھ میں تھا۔

"ہاں شکر ہے وہ ٹھیک ہے، ان شاء اللہ جب عائشہ کو پائے گا اور بزنس کی طرف لگن اور دل سے مصروف ہو جائے گا تو سارے دکھ بھول جائے گا۔ رہی بات فاریہ کی تو اسے میرا چیتا سنبھال لے گا"

عباد کا یہ بتانا منہا کو بھی پرسکون کر گیا، فائنلی ساری الجھنیں ختم ہو گئی تھیں اور خود وہ عباد کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی۔

"اور آپ ؟ آپ ٹھیک ہیں"

اس بار منہا کے چہرے پر مسکراہٹ اور فکر تھی۔

"میرے ٹھیک ہونے کے لیے تم جو ہو، راحت روح"

احد کے ساتھ ہی وہ اسے بھی حصار گیا جو ویسے ہی ٹھنڈ سی حاوی ہوتی محسوس کر رہی تھی یکدم ہی گرمائش دیتے حصار میں لپٹی مہبوت ہوئے عباد کو دیکھنے لگی جو اسکا کل جہاں تھا۔

"امید ہے سب خوبصورت ہو جائے گا"

منہا آنے والے لمحات کے سحر کا ٹل جانا محسوس کیے اداس سی بھی تھی مگر شاید یہ وقت انکے لیے اپنا رشتہ شروع کرنے کے لیے مناسب نہ تھا۔

"یقینا۔۔۔۔چلو اندر ٹھنڈ بڑھ رہی ہے"

منہا کی جبین چومتا وہ کہتے ہی اندر کی جانب لپکا۔

حارث جو اپنے کمرے میں جانے کے بجائے ادا جان کے روم کی سمت بڑھ گیا تھا، وہ تو بھولے بھٹکے اس کلیجے کے ٹکڑے کو آتا دیکھ کر جی اٹھیں۔

آج وہ بھی بنا کچھ کہے آکر انکی گود میں سمٹ گیا۔

وہ خود درد میں تھیں مگر انگلیوں کی نرم شفیق پوروں سے اپنے بچے کا درد زائل کرنے لگیں۔

"مجھے معاف کر دیں گی ناں دادو؟"

وہ بنا انکو دیکھے، اسکا وہیں جھڑیوں والا ہاتھ لبوں سے چوم کر التجاء کر رہا تھا جس پر وہ خود دلبرداشتہ سی ہوئیں۔

جھک کر حارث کی تپتی پیشانی چومی۔

"کیوں نہیں کروں گی، جان قربان ہو دادی کی تم پر۔ جب اللہ نے معاف کر دیا تو یہ دادی بھی صدقے واری۔ خود کو تنہا کبھی نہ سمجھنا میری جان، میں ہوں اب تیری ماں بھی اور دادی بھی"

اور وہ تو جیسے پہلے ہی اس کے لمس کو ترستی ہوئیں اسے خود میں بنا اعتراض سمیٹ گئیں۔

کتنی ہی دیر وہ انکے پاس لیٹا پرسکون رہا مگر پھر خود ہی اٹھا اور انکے دونوں ہاتھ باری باری چومے اور جبین پر بھی بوسہ دیا۔

"کل سے میں خود آپکو ایکسرسائز کرواوں گا، آپکا خیال بھی رکھوں گا۔ ویسے تو منہا نے آپکی ساری تکالیف دور کر ہی دیں ہیں لیکن دیکھیے گا آپ اب اپنے پیروں پر ٹھیک سے چلنے کے بجائے دوڑیں گی۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ آپکا سایہ ہم سب پر سلامت رکھیں"

نہایت فکر سے وہ یہ کہتا خود ادا جان کو بھی مسکرانے پر مجبور کر گیا۔

"میرے دل کا ٹکڑا، میری جان"

ادا صاحبہ تو واری چلی گئیں، خوشی کی اخیر زیادتی سے آنکھوں کے کنارے نم سے ہوئے تھے مگر وہ اسے دیکھ دیکھ کر اپنے دل کو سکون بہم پہنچتا محسوس کر رہی تھیں۔

انھیں آرام کا کہتا وہ اپنے کمرے ہی کی طرف بڑھا تو پیاس کا احساس ہوئے کچن کی سمت لپکا تو عائشہ کو وہیں ڈائنگ پر بیٹھ کر سر میز پر رکھے سویا دیکھ کر ناچاہتے ہوئے بھی اسکی افسردہ سی صورت پر ہلکا سا تبسم جاگا۔

فورا سے بیشتر اپنی چادر اتار کر عائشہ کے گرد پھیلائی مگر وہ شاید ابھی سوئی تھی تبھی جانی پہنچانی کلون کی مہک اور دل پسند لمس پر جاگ گئی۔

سر اٹھا کر اپنے قریب حارث کو دیکھتے اس سے پہلے اٹھ کر روبرو آتی وہ اس کے نازک وجود کے گرد اپنی چادر مکمل لپیٹ کر اسکی اداس آنکھوں میں جھانکا۔

"آپ ٹھیک ہیں ناں؟"

اپنے وجود کے گرد حارث کا سحر بمشکل نظر انداز کرتی وہ اسکی سرخ کناروں والی آنکھیں دیکھ کر فکر سے گویا تھی اور وہ اپنا ہاتھ بڑھا کر یونہی بے دھیانی میں عائشہ کی گال سے جوڑے اسکے بالوں کی لٹ کو کان کے پیچھے اڑیسے اثبات میں سر ہلا گیا۔

"لالہ نے کہا ہے قل کے بعد ہمارا نکاح ہوگا، کیا تم واقعی مجھے قبول کرو گی عائشہ؟"

اس وقت وہ بہت جبر سے خود کو عائشہ سے دور رہنے پر آمادہ کیے سادگی سے یہ سوال کر رہا تھا۔

"کروں گی، دل و جان سے کروں گی۔۔۔۔ یہ چادر تب تک میرے پاس رہنے دیں۔ "

اپنی گال سے جڑا حارث کا ہاتھ اپنی سرد ہتھیلئ میں جکڑ کر وہ جذب سے کہتے اسکے حصارے لمس کو اپنے پاس رکھنے کی تمنا میں مسکرائی تھی۔

"آئی لوو یو سو مچ عائشہ، یہاں مت سو۔ جا کر کمرے میں آرام کرو۔"

پیار کا بہت مشکل دوری پر منحصر اظہار سونپے وہ چلا گیا اور وہ کتنی ہی دیر حارث کے اظہار پر شاخ جان ہری ہوتی محسوس کرتی رہ گئی۔

پھر کمرے میں گرمائش خاصی بڑھائے بھی وہ کانپ رہی تھی، سراج اسے اپنے سینے میں سموئے خود میں حلول کیے نیم دراز لیٹا تھا مگر وہ بہت گم سم اور چپ تھی۔

"کچھ بولو میری جان"

نرمی سے اسکی جبین پر لبوں کی مہر لگاتا وہ اسکی خاموشی سے خوفزدہ تھا۔

"اندر باہر سب خاموش سا ہے سراج علی، چپ چپ ہے۔ سوگوار ہے"

ناجیہ کیانی دیکھتے ہی دیکھتے قبر نشین ہو گئی تھی اور یہ صدمہ فاریہ پر بہت گہرا اثر چھوڑ کر گیا تھا۔

"سب اچھا ہو جائے گا، میں ہوں ناں تمہارے پاس"

بازو لپیٹ لیتا وہ اسے اتنا قریب کر گیا کہ وہ اسکے قرین آن لگے نظریں سراج کے چہرے پر ڈالے اسے دیکھنے لگی، اسے سمیٹنے والا سراج علی تھا تبھی وہ بکھر کر بھی بکھری نہ لگ رہی تھی۔

"تم ہو میرے پاس، تبھی تو زندہ ہوں"

وہ اپنی نرم ہتھیلئ سراج کے چہرے سے لگاتی افسردہ سا اظہار کرتی بھی پیاری تھی اسے، جسکی سانسیں فاریہ کے دل اور وجود سے آن جڑی تھیں۔

"جہاں زاد!

دنیا میں میرا دِل توڑنے والے لاکھوں سہی

یوں سرِ رہگزر چھوڑنے والے لاکھوں سہی

مگر پھر بھی دل کو ایمان ہے

کہ دنیا میں کوئی نہ کوئی مہربان ہے

جو سادہ محبت سے اِس زندگی کو حسِیں موڑ دے گا

جو دِل جوڑ دے گا۔

وہ تم ہو"

خود ہی سراج علی کی جانب بڑھتی وہ اسے حق دار قربت دیتی اپنی دونوں بازوں اسکی گردن میں سمیٹے اس پر حاوی سی ہوئی، اور سراج نے مسکرا کر اسکی کمر کے گرد بازو باندھے ہاتھ سے کمر سہلائی جو اب پرسکون تھی۔

"اگر تمہیں درد نہیں تو میں یہیں سو جاوں سراج علی، بس اب یہیں سکون ہے"

بہت پیار اور مان سے وہ اس سے یہ حق مانگتی زرا چہرہ اٹھائے روبرو ہوئی تو وہ اسکی گال چومے شاہانہ اترایا۔

"تم جب میرے اتنے قریب ہوتی ہو تو درد بہت دور چلا جاتا ہے میری راحت، میرے سکون، میری جان"

ان بھیگی پلکوں کو چوم لیتا وہ فاریہ کو یہ حق پوری شان سے دے چکا تھا، وہ جانتی تھی جسکے پاس سراج علی ہو وہ قسمت کا دھنی اور سکندر ہوتا ہے۔

تبھی تو تمام تکلیف کے وہ سراج علی کی آغوش میں سب فراموش کر گئی۔

وہ بس اسکی شانت دھڑکن کو محسوس کرتا ہی پرسکون تھا، محبت میں محبوب کے سکون ہی کی تو ساری بات ہوتی ہے۔

اور انکی محبت تو ویسے بھی اب آسودگی کا سرچشمہ بن چکی تھی۔

"اللہ کا شکر ہے میرے بچے کی مشکل ختم ہوئی، تم دونوں کے چہرے پر پھیلی یہ مسکراہٹ اور خوشی مجھے بہت عزیز ہے۔ اللہ تم دو کو دنیا و جہاں کی ہر آسودگی نصیب کریں"

ڈنر کے بعد فری نے جیسے دل کی ساری دعائیں ہی نوراں اور زین کے دامن سے باندھ دیں، خود زین بھی اس مشکل اور تھکا دیتے کیس کے بعد کافی پرسکون تھا، جبکہ نوراں کو اب اپنی شامت کی بھی فکر تھی۔

کل تو وہ زین لاشاری کے جذبات سے بچ گئی تھی مگر آج تو وہ گاہے بگاہے دیکھ بھی اس سروع آگیں انداز سے رہا تھا کہ نوراں کو اسکی نظر کی روح سہلاتی تپش سے اپنی ابتر دھڑکن سنبھالنی مشکل لگ رہی تھی۔

"آمین فری، سچ پوچھیں تو آج خود بہت پرسکون سا ہوں۔ جیسے کندھے سے بہت بڑی ذمہ داری ہٹ گئی ہو"

زین نے بھی اس سکھ کا اعتراف فراغ دلی سے کیا۔

فرحین تو دونوں کو دل ہی دل میں لاتعداد دعائیں سونپے آرام کرنے کا کہتی کمرے سے چلی گئی البتہ وہ جو زین لاشاری کی نگاہوں سے گلاب ہو رہی تھی، اس سے پہلے فرار کرتی ، زین نے اسکی کلائی کو معمولی سا جھٹکا دیے اسے پھر سے پہلو نشین کیا۔

وہ بے خود ہوئے نوراں کے رخسار کو لبوں سے چھوئے جی سا اٹھا جو اب رخ موڑ کر زین کے کمر حصار کر قریب تر کرنے پر گلال سی حیا اور شرمگیں مسکراہٹ میں ڈھلی اسکی نظروں کے تقاضے بھانپ کر دم سادھ گئی۔

"آج تو زین لاشاری کی حکمرانی ہے ، کیا تم تیار ہو دل دہلاتی آزمائش کے لیے"

گال سے گال مس کیے وہ اسکو تکتا گہرا سانس بھرے جان لیوا سرگوشی کیے بولا تو نوراں نے سہم کر آنکھیں میچیں۔

"سنو! آنکھیں تو کھولو"

زرا سا فاصلہ بنائے وہ اسکے چہرے کی جانب تکتا اس بار اسے واقعی مشکل سے دوچار کر رہا تھا جو مشکل سے سانس کھینچتی حیا میں لپٹی تھی، گال تپنے لگے تھے۔

"تمہیں پتا ہے نور، گل مینے کا بیٹا بھی ہے۔ یعنی تم خالہ ہوئی اسکی۔۔۔۔بے فکر رہو، اس بچے کو گل مینے نے بس جنم دیا ہے ، اس کو ملتا ہوا پہلا اور ممتا کا لمس منہا کا ہے جو عباد کیانی کی دوسری بیوی ہے۔ کیا تم چاہتی ہو احد سے ملنا"

دھیمی سی سرگوشی میں وہ یہ بتاتا خود نوراں کو افسردہ کر گیا، اسے سمجھ نہ آئی وہ اس پر خوش ہو یا روئے۔

جب کچھ سمجھ نہ آیا تو زین کے سینے پر سر ٹکائے وہ ساتھ جا لپٹی۔

"ابھی نہیں، کچھ دن بعد۔۔۔۔"

وہ مدھم سی آواز میں جواب دیتی بے جان سی ہوئی تھی تبھی تو وہ اسکے بالوں کو ہاتھ سے پکڑ کر پرے کرتا اسکی گال پر لبوں کی مہر رکھے نوراں کی جان لبوں تک لے آیا۔

"ک۔۔۔کیا کر رہے ہیں، جان لینا چاہتے ہیں میری"

اس ظالم کی گہری نگاہوں اور بڑھتے شدت پسند لمس جب سہنے محال ہوئے تو وہ رحم طلب نظروں سے تکتی روہانسی ہوئی۔

"نہیں، جان ڈالنا چاہتا ہوں تمہارے دل میں"

ہتھیلی کھینچ کر سینے سے لگاتا وہ بے خودی میں بہکا تھا، ایسا بہکا کہ ہر پس و پیش کو نظر انداز کر دیا۔

"مم۔۔میں زندہ ہوں پہلے ہی۔ "

اپنے آپ کو اس ظالم کی گرفت سے چھڑوائے وہ بھونڈا سا جواز پیش کر رہی تھئ اور اس پر زین لاشاری کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آکر تہلکہ مچا گئی۔

"فری کو پیارا سا گفٹ دینے کی بات کر رہا ہوں، وہ بھی تو بور ہو گئیں اس سو پونڈ کے کاکے کو پال پوس کر۔ میرا مطلب کہ انھیں اب پھر سے ایک چھوٹا سا زین چاہیے ہوگا۔۔۔۔۔نور بھی چلے گی"

مقابل کی تھرتھراتی پلکوں کو تکتا وہ اس زرا زرا قربت سے نڈھال ہو کر کانپتی لڑکی کو پلوں میں بے جان ہی تو کر گیا، وہ ساکت ہوتی گم سم سی زین کی جانب شکوہ کناں ہوئے دیکھنے لگی۔

دیکھتے ہی دیکھتے اسکی آنکھیں دھندلائیں۔

"شش۔۔۔خبردار جو تم اب روئی"

نرماہٹ کے سنگ وہ اسکی آنکھ سے بہتا آنسو فوری انگوٹھے کی پور سے جذب کرتا خاموش دھمکی دے گیا اور نوراں ہچکی لیتی خود کو کمپوز کرنے کے باوجود تکلیف میں اتر چکی تھی۔

"مجھے تکلیف ہوئی ، لیکن میری نیت آپکو تکلیف دینے کی نہیں ہے۔ لیکن یہ میری ذات کے وہ اندھیرے ہیں جنکو روشنی میں بدلنے میں مدت لگے گی"

مقابل کے افسردہ تاثر پر وہ فوری اپنی نرم گرم ہتھیلوں کو اسکے چہرے سے جوڑے اپنی بے بسی کہہ رہی تھی مگر آج اسکا یہ دیوانہ کسی بے بسی اور مجبوری کو تسلیم کرنے کے حق میں نہ تھا۔

"غلط۔۔۔۔ میں بدل دوں گا سب کو روشنی میں، تمہیں قبول کروں گا، کبھی رد نہیں کی جاو گی تم زین لاشاری کی نظر میں۔ کتنا شدید چاہنے لگا ہوں تمہیں کہ اپنا آپ نظر ہی نہیں آتا اب۔ صرف تمہیں دیکھ کر جینے کی خواہش جاگتی ہے لیکن میں صرف دیکھنے پر صبر کیسے کروں۔ تم میری ہو، تو کیوں دور رہوں اک پل بھی۔ ویسے بھی آج بہت پرسکون ہوں، مزید سکھ میرا تم ہو۔ آج سرشاری اپنے انگ انگ میں اترتی محسوس کرنا چاہتا ہوں۔ جب یہ نور دسترس میں ہے تو کیوں اس نور سے خود کو محروم رکھوں"

اس بے جان ، سانس لیتے لیتے چھوڑ دیتی پری کی دھڑکن میں اپنی خوشبو حائل کرتا، اسکو خود میں بسائے اک حکایت دل سناتا، وہ اسکو خود میں بسا کر جذب کر لینے کی شدت رکھے جذب سے بولا۔

اور نوراں اسکے ادا کیے لفظوں سے مہکنے لگی، پور پور پر اتری تھکاوٹ ٹوٹنے لگی، شاخ جان پر ہری ہری کونپلیں پھوٹنے لگیں۔

"آپ سے محبت ہو گئی ہے مجھے بھی، بنا سوچے کر بیٹھی۔ اگر آپ مجھے چھوڑ بھی دیتے تو میں آخری سانس تک آپکی محبت اوڑھے رکھتی"

اب جب وہ اتنا سب کہہ کر اسے معتبر کر گیا تھا تو وہ کیوں چپ رہتی، وہ اسکا تھا تو اپنا کہنے لگی، وہ اسکے ہر احساس کو خوشبو کی طرح سلامت رکھے اسے چاہتا آیا تھا تو وہ بھی چاہنے لگی، ناجانے کس پل اسکے دل میں زین لاشاری کو ثبت کر دیا گیا۔

وہ بھی اس اظہار پر مسکرا کر اسے خود میں سموئے کئی طرح کے احساس سکون خود میں اتارنے لگا، جتنا اسے قریب کرتا اتنی تشنگی اور طلب بڑھتی۔

وہ مدہوش سا اس پر چھایا جابجا اپنے خوشبو کے جھونکے جیسے لمس اسکی بنجر ذات میں اتارتا اسے ہرا کر گیا، وہ کسی نوخیر کلی کی طرح کھلنے لگی۔

زین لاشاری کی بازووں میں بے تاب و بے قرار سمٹنے لگی۔

"اب تم حق دار ہو، میری تمام تر محبتوں ، شدتوں اور چاہتوں کی۔ بے انتہا عزیز نور، اب تم مجھ سے رہی سہی بھی دور نہیں ہوگی۔ تمہاری مسکراہٹ، تمہارے سکون اور تمہاری خوشی پر زین لاشاری قربان"

دونوں بازووں میں بھینچ لیتا وہ اسے اپنے آپ سے ملوانے کا فیصلہ لیتا خوش تھا، نہال تھا۔

اسکی دونوں آنکھیں عقیدت سے چوم لیں، پھر ہر خدوخال پر ابر کی مانند ٹھنڈک اتاری۔

وہ ایک دوسرے کے مکمل ہونے کے لیے ایک دوسرے میں ڈھل گئے، محبت کی انوکھی سی تکمیل ہو گئی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

اگلے پانچ چھ دن یوں تو افسردگی اور خاموشی کی نذر ہوئے تھے مگر پیلس پر اترتا یہ ساتواں دن نئی خوشیوں اور امنگوں کو لے کر اترا تھا۔

زین اور نوراں کی زندگی ایک حسین سفر پر گامزن ہو چکی تھی، بہت بار محبت میں چاہنے سے زیادہ قبولیت اہم درجہ رکھتی ہے۔

کسی بھی حال میں محبت کرنے والے میدان چھوڑ کر نہیں جایا کرتے، جو اس سفر کا اک بار مسافر بن جائے پھر یہی مسافت اسکی زندگی کا سفر بن جاتی ہے۔

حارث اور عائشہ کے نکاح کی آج رات تقریب رکھی گئی تھی، کل ہی سرور حسین کو اسکے تمام جرائم کی پاداش پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کیے اسے اسکے کیے کا پھل دے دیا گیا تھا۔

فاطمہ اور معراج بھی پیلس پہنچ آئے تھے۔

سراج کی ایک بار پھر سنبھل جاتی طبعیت جہاں سبکی آسودگی بنی تھی وہیں فاطمہ صاحبہ اتنا سب چھپانے پر دکھی بھی تھیں۔

جو بھی تھا، انکے لیے سراج علی دل کی دھڑکن سے زیادہ افضل تھا۔

ادا صاحبہ کی میڈیکل رپورٹ کے مطابق وہ اب اپنی ٹانگوں پر جلد چل پھر سکنے والی تھیں اور اسکی خوشی آج پیلس میں موجود ہر فرد کے چہرے پر تھی۔

زین اور نوراں بھی آج مدعو تھے۔

منہا اسکے آتے ہی اسے روم میں لائی تھی جہاں بے بی کارٹ میں لیٹا ہاتھوں پیروں سے کھیلتے احد کی قلقاریاں مانو دور سے ہی نوراں کو مسکرانے پر مجبور کر گئیں۔

فاطمہ صاحبہ، ادا جان اور فاریہ تو رات نکاح کے لیے تیاریوں میں مگن تھے، سراج کی ذمہ داری فی الحال بھی آرام کرنے اور معظم صاحب اور زین کی کمپنی انجوائے کرنی تھی جبکہ عباد کہیں غائب تھا۔

کافی دیر سے وہ کسی کو بھی نظر نہیں آیا تھا۔

بے بی کارٹ سے احد کو اٹھائے نوراں کی گود میں دیتی منہا خود مسکرائی جب احد کو بھی اس آغوش میں جا کر پرسکون دیکھا۔

"یہ تو بہت پیارا ہے "

بے ساختہ ہی وہ احد کو دیکھتے مسکرا دی۔

"بلکل، خوش بھی ہے۔ ایک اور پیاری سی خالہ جو مل گئی اسے۔ آپکو پتا ہے یہ میری اندھیر زندگی کا وہ روشن پہلو ہے جو میری آخری سانس تک میرے لیے افضل رہے گا۔ مختصر کہ اگر احد میری اور دادوو کی زندگی میں نہ آتا تو شاید میں اب تک مٹ چکی ہوتی"

اسکی گداز گال چھو کر وہ پہلی بات تو رشک سے مگر آخری کہتی کہتی کسی رنجیدہ کر دیتی یاد میں اتر گئی۔

وہ دن اسے آج بھی یاد تھا جب اسکے دکھوں کا مداوا کرنے احد اسکی آغوش میں آیا تھا۔

نوراں خود رشک میں تھی۔

"اسے دیکھ کر مجھے گل یاد نہیں آئی آج اور یہی میری خوشی ہے، یہ آپ جیسا ہے، عباد بھائی جیسا ہے۔ اللہ کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے۔ وہ بہتر جانتا ہے کہ کس کے نصیب میں کیسی راحت لکھنی ہے"

نوراں کا پراعتماد انداز اور اسکی ساری کہانی پہلے ہی جاننے کی وجہ سے منہا کو بہت تسلی ملی تھی۔

"اللہ آپکو بھی جلدی سے ننھا سا مہمان دیں تاکہ رہے سہے ہر دکھ کو بھول جائیں، مجھے بہت خوشی ہوئی کہ آپ نے زین بھائی کو موقع دیا، انھیں معاف کر کے اپنے در پر دستک دیتی خوشیوں کو آگے بڑھ کر خوش آمدید کہا"

منہا کی دوستانہ خواہش اور محبت پر نوراں بھی آسودہ مسکرائی، اب تو اسے ویسے بھی کسی تکلیف کا احساس باقی نہ تھا۔

پھر وہ بھی تو منہا اور عباد کی کہانی جان کر بہت متاثر تھی، محبت کے نئے نئے اور منفرد رنگ دیکھائی، سنائی اور سوجھائی دیتے دیتے دل کو پرسکون کر رہے تھے۔

دوسری طرف عباد پورچ کی جانب کھڑا فضل سے کوئی رازدرانہ بات کرتا پایا گیا تھا۔

"لیکن آپ اس کچی بستی کیوں جانا چاہتے ہیں سر؟"

فضل کو عباد کے اس مطالبے نے اس وقت خاصا حیران کیا تھا۔

"مجھے ان سب لوگوں سے ملاقات کرنی ہے جو منہا اور معظم صاحب کے ہمسائے تھے، تم کل میری وہاں ملاقات طے کرواو"

عباد کا بنا تمہد باندھے دیا حکم اس وقت فضل فوری فرمابرداری سے مان چکا تھا۔

وہ واپس جب تک اندر آیا،زین، سراج اور معظم صاحب مسکرا کر حارث کو چھیڑ رہے تھے تبھی وہ خود بھی معظم صاحب کے ساتھ ہی آکر بیٹھا۔

"لالہ دیکھیں یہ مجھے تنگ کر رہے ہیں، عائشہ کا نام لے لے کر"

حارث کی معصوم سی شکائیت پر عباد بھی میدان میں اترا، اب کوئی اسے چھیڑنے والا نہ تھا تو وہ خود تو اس چھٹکے پیس کے لیے موجود تھا۔

"حالانکہ اس وقت یہ حالت عائشہ کی ہونی چاہیے تھی، لگتا ہے سیٹنگ الٹی ہو گئی"

عباد کے بھی متبسم چہرے کے سنگ بات کہنے پر حارث بھی ہنسا جبکہ معظم صاحب کی توجہ تو عباد ہی پر تھی۔

"کیا لالہ، آپ بھی۔۔۔۔سچ پوچھیں تو میری سچویشن اس وقت کسی دلہن سے کم نہیں، وہ لڑکی میرے لیے کیا ہے شاید آپ چاروں نہ سمجھ سکیں"

محبت اور چاہت کی انتہا آنکھوں میں بسائے وہ یہاں ان چاروں کے سامنے اعتراف کرتا حسین لگا تھا، اس سفید آشیانے ، اس پیلس میں اتنی ساری رونقیں اور خوشیاں پہلی بار جمع تھیں۔

"سمجھ سکتے ہیں ہم، تمہارے سامنے چار عدد عاشق اور دیوانہ مزاج نفوس براجمان ہیں۔۔۔۔ سب کی محبت تکمیل پر پہنچی سوائے ہمارے پیارے معظم صاحب کے۔ ویسے کیا خیال ہے آپ کے لیے بھی کوئی حسینہ ڈھونڈیں"

حارث کی بات کے جواب میں اس بار سراج میدان میں اترا تھا اور اسکی شوخ بات پر اب سب چھوڑے خوشگوار حیرت کے سنگ بوکھلا جاتے دادا جان پر نظر جما کر پراسرار تھے جس پر وہ خود اتنی توجہ پر خفیف سا مسکرا دیے۔

"بھئی اب مجھ بڈھے کو بس تم سب کے بچوں کو گود میں لے کر کھلانا ہے، اب کہاں رہی عمر عشق و عاشقی کی۔ ہر چیز اپنے وقت پر ہی جچتی ہے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ ہر انسان کے دل میں اک نہ اک بار شدید عشق ضرور پھوٹتا ہے مگر وہ سنا ہوگا تم سب نے کہ

یہ عشق نہیں آسان، بس اتنا سمجھ لیجئے

اک آگ کا دریا ہے، اور ڈوب کے جانا ہے۔

تم سب یہ سمجھ لو کے میں ڈوب کر پار نہ جاسکا"

ھائے اس ادائے خود شناسی پر تو عباد، زین ، سراج اور حارث تک فدا ہوئے، وہ ان چاروں کے بھی اب پیارے دادا تھے، منہا نے سراج کے بعد اپنے دادا کو باقی سب کے ساتھ بانٹ لیا تھا۔

مختصر یہ کہ پیلس میں ادا جان اور معظم صاحب کے ہونے سے ہی اب شفقت ، محبت اور آسودگی کا وجود قائم تھا۔

"آپ پریشان کیوں ہو گئے؟"

حارث ، زین اور سراج کو باتوں میں مگن دیکھتا عباد، اس وقت معظم صاحب کی جانب پوری توجہ سے دیکھ کر بولا جو زرا سرسری سی حیرت میں چونک سے گئے۔

یہ سچ تھا وہ تھوڑے پریشان تھے۔

"بس ایسے ہی، منہا کے ایسے روشن نصیب پر شکر گزار ہوں اللہ کا ۔ ورنہ جو زندگی جی تھی اس میں تو بس منہا کے ایسے مقدر کا خواب ہی دیکھتا تھا۔ برسوں اس محلے میں عزت سے رہے تھے مگر جاتے جاتے ان لوگوں نے ایسے زخم دیے تھے جو آج بھی تکلیف دیتے ہیں۔ وہ لوگ اب بھی منہا کو غلط سمجھتے ہوں گے، بس یہی چیز اداس کرتی ہے"

عباد کی سوچ اور اسکی سوچ کی تکمیل اس وقت فتح یاب ہوئی تھی کیونکہ وہ خدشہ اور اداسی جو عباد کا اک خیال تھی، سچ نکلی تھی۔

محبت تھی وہ اسکی اور وہ جانتا تھا کل اس نے منہا کو ایک اور مرتبہ سونپنا ہے۔

وہ بستی کے لوگ بھلے زمانے کئ فہرست میں آتے ہوں مگر عباد حشمت کیانی کیسے برداشت کرتا کہ اس دنیا میں کوئی ایک بھی فرد ایسا ہو جو اسکی منہا کے کردار کے بارے میں مشکوک ہو۔

وہ رسان سے انکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں جکڑے انھیں خاموش سی تسلی دے رہا تھا، اور خدا گواہ تھا کہ معظم سلطان کے دل کو ڈھارس ملی تھی۔

"کیا واقعی آپ نے محبت کی تھی، پھر اسے پایا کیوں نہیں؟"

کچھ دیر خاموش مسکراہٹ کے بعد عباد نے دلچسپی سے یہ سوال کیے انھیں بھی حسین سے تبسم میں مبتلا کیا۔

"ہاں کی تھی لیکن مجبوری، بزدلی اور حالات کی بے رحمی کی نظر ہو گئی۔ میرے خیال میں بزدلی سب سے اہم نقطہ ہے محبت کھو بیٹھنے کا"

وہ اپنا تجربہ بیان کرتے دل شکن مسکرائے۔

عباد کو بھی جیسے افسردگی نے گھیرا۔

"آپ نے محبت نہ پائی ہو بھلے مگر منہا جیسی پوتی آپکی خوش قسمتی تھی، آپ نے اسے جس طرح مجھے سونپا وہ میرے لیے شرف تھا۔ آپکی رہی سہی فکر ہٹا دوں گا وعدہ ہے۔ آپکی تربیت اور آپکی خوداری نے ہی منہا کو اتنا انمول پروان چڑھایا کہ عباد حشمت کیانی کے لیے قابل عشق بنی۔آپکے اس احسان کا بدلہ تو یہ بندہ تاعمر تک نہ چکا پائے گا"

وہ مہربان، عاجز اور دیوانہ تو انکی منہا کی فلاح تھا، وہ اور کیا مانگتے کہ اب تو دامن خوشیوں سے بھر سا چکا تھا۔

"جیتے رہو"

محبت اور شفقت سے وہ عباد کے ہاتھوں پر دباو ڈالے مسکرائے تو وہ بھی مبہم سا مسکرا دیا۔

اسکا بس چلتا تو ہر لمحہ منہا کی ذات کو معتبر کرتا رہتا۔

دوسری سمت عائشہ کو سجانے اور سنوارنے میں اب ساری لڑکیاں روم میں جمع تھیں۔

احد صاحب بھی معراج کی گود میں چڑھ کر مزے سے یہ اردگرد کے رنگ دیکھتا اس چھٹکے پٹاکے کی لاڈیوں پر کھکھلا رہا تھا۔

معراج صاحب کی تو گویا احد کی دوسری اماں بن کر سنبھالنے کی ذمہ داری لگی تھی۔

"ماشاء اللہ میری عائشہ تو چاند کا ٹکڑا لگ رہی ہے"

نکاح کے سرخ رتن سی چمک والے جوڑے میں لپٹی وہ سب سے پہلے منہا ہی کے لاڈ سے مسکائی، حیا میں لپٹا اسکا چہرہ آج اک من پسند ساتھ کے باعث گلنار تھا۔

"ماشاء اللہ، واقعی۔ اللہ تم سے راضی ہو پتر، میرے بکھرے اور ٹوٹے ہوئے حارث کو تم نے سمیٹنے کا جو یہ عہد لیا وہ قابل محبت ہے۔ جیسا کہ تم سبکو پتا ہے کہ وہ کتنے بڑے امتحان سے گزر کر یہاں آیا ہے لہذا اب اپنے کسی بھی بچے کی تکلیف سہنے کی ہمت نہیں رکھتی۔ تم سب آباد رہو، یہ پیلس ، گھر اور خوشیوں کے گہوارے کا روپ دھار لے"

اپنے بے انتہا سکھ کہتیں ادا جان نے بھی اس پور پور سجی عائشہ کی پیشانی چومے اسے بہت سی دعائیں دیں۔

فاریہ، منہا ، نوراں اور فاطمہ صاحبہ بھی رشک و محبت میں لپٹیں نظر آئیں۔

"آمین۔۔۔ میرے لالہ تمہارے ساتھ بہت خوش رہیں گے جانتی ہوں۔ اس لیے اب تم بھی میرے لیے اتنی ہی عزیز ہو عائشہ۔ ہمیشہ آباد رہو"

فاریہ نے بھی دامن بھر کر دعائیں دیں اور وہ تو ابھی سے سمٹ کر گلابی ہو رہی تھی۔

جس بے باک طور سے وہ حارث سے اظہار کیے بیٹھی تھی اب تو دل و جان سے خوفزدہ بھی تھی۔

مہکتے، مسکراتے اور زندگی سے بھرے یہ سب اپنے تھے مگر عائشہ کے لیے تو اب اس دنیا میں صرف ایک ہی شخص کل حیات تھا۔

حارث کیانی۔

‏خوشی کی ایک شکل وہ گرم جوش ہاتھ بھی ہیں جو آپ کو کبھی جانے نا دیں اور نا چھوڑیں خواہ دنیا پوری سر کے بل الٹی ہو جائے…

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

نکاح کا مبارک اور مقدس فریضہ انجام دیا جا چکا تھا، حارث کیانی پورے حق کے ساتھ عائشہ کی قسمت میں درج ہو گیا تھا۔

ہر کوئی خوش تھا، پرسکون اور آسودہ تھا۔

کھانے کے بعد زین اور نوراں نے بھی اس مبارک نکاح کے لیے دونوں کو ڈھیر سی دعائیں سونپ کر جانے کی اجازت طلب کی۔

خود منہا اور فاریہ، سجی اور پیاری سی دلہن کو پورے حق سے حارث کیانی کے کمرے میں لائیں۔

کمرہ زیادہ تو نہیں مگر حسین انداز سے سجا تھا۔

جہازی بیڈ پر نرم فرل لگی بیڈ شیٹ اور اس پر جابجا بکھری گلاب کی پتیاں ، اسکے علاوہ چاروں جانب دھرے گئے پھولوں کے خوشبو بکھیرتے گلدستے ماحول کو الگ ہی دلکشی اور راعنائی بخش رہے تھے۔

عنابی ہونٹوں پر مسکراہٹ اور گہری سیاہ آنکھوں میں اپنی حسین خواہش کی تکمیل پر دل افروز رنگ تھے۔

خود منہا اور فاریہ دونوں ہی بہت پیاری اور اچھوتئ لگ رہی تھیں۔

منہا نے تو بنفشی اور نیلے رنگ کی میکسی پہن رکھی تھی جبکہ فاریہ کا ڈریس بلکل عائشہ جیسا تھا۔

پھر وہ حسینائیں ویسے بھی غضب کی آپسرائیں تھیں۔

"وہ دل کا بہت اچھا ہے، اب اسے رہا سہا سنبھال لینا عائشہ۔ میں دعا کرتی ہوں کہ لالہ اور تم بہت سی خوشیاں دیکھو۔ تھینک یو سو مچ انکی زندگی میں اتنا من پسند ہونے کے لیے۔ کبھی یہ مت سمجھنا کہ تم اکیلی ہو۔ اس گھر کا ہر فرد اب تمہارا اپنا ہے ۔ تم اب یہاں ورکر نہیں بلکہ کیانی خاندان کی چھوٹی بہو ہو۔ بڑی تو میری پیاری منہا ہے"

عائشہ کو مضطرب و بوکھلایا دیکھ کر وہ خود اسکے قریب بیٹھی اور اسکی ٹھوڑی پر پکڑ جمائے رسان اور نرماہٹ سے کہتی آخر تک رشک سے منہا کو دیکھنے لگی جو خود فاریہ کے ایسے نرم مزاج پر بہت خوش تھی۔

بقول اسکے، سراج کے رنگ میں رنگی اسکی جوگن تو اس جیسی میٹھی، شئریں اور دلکش ہو گئی تھی۔

"جی ، میں اپنی پوری کوشش کروں گی فاریہ آپی"

گھبراہٹ کے باوجود وہ پرعزم تھی۔

فاریہ دونوں پر نثار سئ نگاہ ڈالے کمرے سے نکلی تو اس سے پہلے منہا بھی جاتی، عائشہ اسکا ہاتھ جکڑے بےقراری سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

مسکراہٹ لیے منہا نے اسکے سرد تاثرات اور چھینپے روپ پر اک آسودہ نگاہ ڈالے ہتھیلوں میں چہرہ سمویا۔

"عباد لالہ کو تھینک یو کہہ دینا منہا، یہ سب انکی وجہ سے ہوا کہ حارث ملے مجھے"

اپنے سکھ کو الفاظ کا پیرہن پہنائے وہ ممنون تھی، گویا زندگی تھمانے والے کی مشکور بھی۔

"تم محبت ہو اسکی عائشہ، اور اسی محبت کی وجہ سے وہ تمہیں ملا۔ کوئی انسان فرشتہ نہیں ہوتا، ہم سب بہت گناہ گار ہوتے ہیں۔ لیکن توبہ کرنے والے تو خود اللہ کو پیارے ہیں، اور اللہ اپنے پیاروں کا بہت امتحان لیتا ہے۔ جیسے حارث بھائی کا لیا۔ اب تو وہ لگتے ہی نہیں پہلے جیسے، اب تو وہ عباد جیسے ہو گئے ہیں۔ تھینک یو تو تمہارا کہ کسی بہانے ہی سہی اس شخص نے زندگی سے محبت تو کی"

ساری کی ساری ہی وہ عباد کے روپ میں ڈھلی عائشہ کو اس شکریہ کی زحمت سے نکالے پکڑ کر خود میں سمو گئی۔

عائشہ پر تو آج حسن کی راعنائیوں کی حدیں ختم تھیں، بھلے وہ کوئی توپ حسینہ نہ تھی مگر وہ بہت معصوم سی اور پیاری لڑکی تھی، سادہ، خودار، سمجھدار اور زمانے کی سختیوں سے واقف سی۔

یوں منہا کا اسے گلے لگانا بہت بڑی ڈھارس تھی۔

"کافی ڈر لگ رہا ہے منہا، مطلب وہ انسان۔۔۔۔۔"

منہا سے الگ ہوتی اس بار وہ سخت متذبذب سی اپنی کیفیت نہ چھپا پاتی منمنائی جس پر منہا بھی آفت خیز مسکائی۔

"بھئی یہ تو اب تم دو کا ذاتی معاملہ ہے۔ وہ کیا ہے کہ اس معاملے میں تم کو تسلی اور دلاسہ نہیں دے پاوں گی۔ لیکن اتنا ضرور کہوں گی کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ سب بہت خوبصورت ہوگا"

نرماہٹ کے سنگ وہ عائشہ کو شریر سا چھیڑے باہر نکلی تو وہ بھی دم سادھے اپنا لہراتا شرارہ سنبھالے گھبرائی سی واپس بیٹھی۔

باہر سب نے ابھی تک دلہے کے گرد محصور ہوئے اسے چھیڑنے کا کام پکڑ رکھا تھا۔

معراج نے تو یہاں آکر سب سے زیادہ انجوائے کیا تھا۔

ادا صاحبہ کو کچھ دیر پہلے ہی منہا انکے روم میں چھوڑ کر آئی تھی۔

"اب جانے دو بھئی ہمارے بچے کو، تم سب بھی آرام کرو جا کر"

حارث کی بلش ہوتی صورت دیکھ کر معظم صاحب میدان میں اترے تھے جس پر سب ہی اب حارث کی کھسیانی مسکان پر مسکائے۔

جناب خندہ پیشانی سے سبکی مشکوک اور شریر نظروں سے اجازت ملتے ہی روانہ ہوئے۔

فاریہ بھی اپنے جناب کا ہاتھ تھامے روانہ کرتی فاطمہ مما اور معراج کو انکا کمرہ دیکھانے بڑھ گئی جبکہ احد تو مزے سے بہت سی مستی کے بعد عباد کی گود میں سو گیا تھا۔

"لائیں دادو میں اسے لے جاوں، آپ بھی آرام کریں"

منہا نے اس ننھی جان کو سویا دیکھ کر اٹھانا چاہا تو عباد نے گھور کر منہا کو دیکھا جو آگے سے بمشکل ہنسی روک پائی مگر یہ منظر دادا جان بہت چالاکی اور مہارت سے دیکھ چکے تھے۔

ویسے بھی چھ سات دن سے احد صاحب اماں بابا کے بیچ کافی حد تک ولن بن چکے تھے۔

"ارے روز تو لے جاتی ہو اسے، آج میرے پاس چھوڑ دو اسے۔ بھئی مجھے بھی تو اس سے لاڈ کرنے ہوتے۔ جاو آرام کرو تم دونوں، میں آج احد صاحب کو اپنے پاس ہی سلاوں گا"

فورا سے منہا کو منع کرتے وہ اسے اسئ طرح گود میں اٹھائے اٹھ کھڑے ہوئے، عباد نے فتخ مندانہ ہوئے منہا کی بوکھلائی شکل دیکھے یوں نظر گمائی کہ وہ ناچاہتے ہوئے آنکھ چراتے مسکرا دی۔

معظم صاحب دونوں کو شفیق سی نگاہ میں لیتے شب بخیر کیے چلے گئے مگر منہا تو تب لہرا کر رہ گئی جب عباد نے اسکی کلائی کھینچے جھٹکا دیے خود پر گرایا۔

اس اچانک افتاد پر وہ گلاب ہوئی۔

نظریں خوبخود مقابل کے ارادوں پر حیا کے بوجھ سے جھک گئیں۔

"بڑا شوق ہے ولن احد صاحب کو ساتھ چمٹا کر رکھنے کا، ناٹ فئیر جانم۔ ایسے تو تم مجھے گڑیا کے لیے ترستاتی رہو گی"

خمار بھرے لہجے میں وہ منہا کی کمر ہاتھ سے جکڑتا اسکی دبی بھینی مسکراہٹ بھانپتا شوخ ہوا جو یہاں لاونچ میں ہی اس بندے کے فیلٹ ہو جانے کے خدشے سے ہانپ کر دور ہٹی۔

ہاں مگر اس جان لیوا گرفت سے نکلنا ابھی بھی ناممکن تھا۔

"بری بات ہے، وہ ولن نہیں۔ جان ہے میری۔ ویسے بھی جب تک وہ میری خوشبو محسوس نہیں کرتا، آرام سے نہیں سوتا۔ رہی بات گڑیا کی تو۔۔۔۔۔۔"

اپنے مخصوص سمجھاتے انداز میں کہتی کہتی وہ تب تھمی جب عباد اسکے ہونٹوں کی جنبیش بڑی دلچسپی سے دیکھتا اسکے چپ ہو جانے پر متبسم ہوئے آنکھوں سے آن ملا۔

اس ساحر کی قربت کی شدت سے منہا کے حواس مختل ہونے لگے تھے۔

"تو؟"

جان بوجھ کر وہ منہا کو مشکل سے دوچار کرتا اسکی دھڑکن بے ہنگم کیے قریب آنے کا ارادہ کیے مسکرایا تو وہ یہاں کچھ نامناسب ہونے کے خدشے سے دونوں بازو اسکے گرد لپیٹ کر کان کی اور جھکی۔

"تو یہ کہ میں تو کب سے راضی ہوں"

یہ عطر ساز اعتراف سنتے ہی وہ اسے ہنس کر مزید ٹائٹ لاک کر چکا تھا اور خود منہا نے اپنی مسکراہٹ روکے عباد کے اٹھتے ہی ساتھ کھڑا کروانے پر بازو سمیٹ کر الگ کیے اور شرمگیں سا مسکرائی۔

"مطلب آج احد کی غیر موجودگی کو سیلبریٹ کرنا پڑے گا، اہمم اہمم عباد حشمت کیانی آج تو تم گئے جوان"

اس منسب، اس زندگی جیسے شرف کو حاصل کرنے کا زوق ہی اس دیوانے کو کملا گیا، وہ کسی دل دہلا دیتی ہوش ربا حسینہ کی طرح عباد کی گرفت سے نکل کر بھاگ گئی۔

اور وہ کتنی ہی دیر کھڑا من ہی من میں زندگی کے اس نئے رنگ کو جیتا چلا گیا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"میں آجاوں؟"

ادا صاحبہ جو آرام دہ انداز میں کسی کتاب کی جانب متوجہ تھیں، حارث کے دروازہ کھول کر مخاطب کرنے پر مسکراتی ہوئیں سر ہلاتے ہی اپنی باہیں کھولے جی اٹھیں جو سیدھا آکر نہ صرف ان سے لپٹا بلکہ قریب ہی بیٹھے اپنئ اور شفقت سے تکتیں دادو کا ہاتھ جکڑ گیا۔

آج وہ حارث کے چہرے پر انتہائی خوشی کے رنگ دیکھ رہی تھیں، وہ عائش جیسا تھا، خوبخو، اب تو مزاج بھی ویسا ہو گیا تھا۔

"دعا لینے آیا تھا سپیشل والی، دیں گی ناں"

بے قراری سے وہ اپنی خواہش کہتا انھیں بھی جی جان سے نیارا لگا۔

"او میری جان کے ٹکڑے، میری ڈھیر سی دعائیں تیرے لیے۔ مجھے یقین ہے بہت خوش رہے گا میرا بچہ، عائشہ بہت اچھی بچی ہے۔ بھلے اسے ناجیہ لائی ہو یہاں لیکن چلو اس عورت نے کوئی ایک کام تو ڈھنگ کا کیا"

ماضی تلخ تھا تبھی تو چھلکتا تھا، کبھی زبان سے کبھی آنکھوں سے، وہ خود بھی ایک لمحے کو افسردہ ہوا۔

"آپکو پتا ہے دادو، وہ عائشہ کو یہاں لائی ہی میرے دل بہلانے کو تھیں۔ شروع سے وہ جانتی تھیں کہ میں اسکی سمت کچھ الگ طرح سے راغب ہوتا تھا۔ اور یہی سچ تھا، مجھے بے سکونی لاحق تھی تب تک جب تک وہ نامحرم تھی۔ لیکن آپ یقین کریں زندگی بھر کا سکون مل گیا ہے۔ میں اس لیے بھی خوش ہوں کہ میں نے اپنی محبت کو بروقت پہچان لیا، ورنہ اسے بھی اپنی دردندگی کی بھینٹ چڑھا کر اپنے تاعمر کے سکھ اجاڑ بیٹھتا۔ میرا دل چاہا کہ میں یہ آپ سے شئیر کروں، کیونکہ آپ میری بیسٹی بھی ہیں اب"

آج اس لمحے وہ جیسے اپنی بے اختیاریوں اور کوتاہیوں کے قصے سمیٹ رہا تھا، ادا صاحبہ تو اسکے اس روپ پر حیران تھیں۔

آخر تک دونوں ہی کھلکھلا سے دیے۔

"بلکل، پکی والی بیسٹی۔۔اچھا اب جا۔ انتظار کر رہی ہوگی۔ اللہ تم دونوں کو ایک دوسرے کا سکھ اور سکون بنائے"

وہ خود بھی تو جیسے دوشیزہ بنیں سہیلی ہی کا روپ دھار چکی تھیں، اور وہ بھی آنکھوں میں بے انتہا جذباتیت بھرتا اٹھ کر انکی جبین چومتا شب بخیر کہے باہر نکل گیا۔

کتنی ہی دیر وہ من ہی من میں مسکراتی رہ گئیں۔

وہاں سے وہ سیدھا اپنے کمرے کی ہی طرف گیا۔

وہ بیڈ پر اک طرف سرک کر بیٹھی ٹیک لگائے ہوئے گم سم تھی جب ڈور ناب کی حرکت پر چونکی ۔

اگلے ہی لمحے اسکی خوشی اور سکھ اسکے سامنے تھا، وہ تو بس حارث کی نظروں سے ہی مہکنے لگی۔

دروازہ بند کرتا وہ اس پربہار سراپے پر اپنی پرشوق نگاہیں ڈالتا قریب آیا تو عائشہ بھی ٹیک چھوڑے پہلے بیٹھی اور پھر حواس باختہ سی اٹھ کر کھڑی ہوئی۔

دونوں کی نظریں ملیں۔

محبت اور وابستگئ کے کئی فسانے کھلے۔

وہ آج سر تا پا اسکے لیے سجی تھی، اور وہ آج پورے حق سے اپنئ محبت لینے آیا تھا۔

اپنے دونوں مضبوط ہاتھ پھیلائے وہ تو عائشہ کے حسن سے جھرجھری لے بیٹھا، دھڑکنیں اپنی ڈگر بھلا رہی تھیں۔

عائشہ نے اپنے دونوں مرمریں ہاتھ حارث کے ہاتھ میں آج اترا کر دیے، ان آنکھوں میں محبت تھی۔

دسترس کا سکھ تھا۔

"میں آگیا عائشہ، ایک صحیح اور مقدس راستے سے چلتا ہوا تم تک۔ بنا کسی شارٹ کٹ کے ، لمبی مسافت پر صبر کیے۔ گو تم جیسی دل آفروز کے لیے صبر ممکن نہیں تھا، لیکن دیکھو کر لیا مجھ سے بے صبرے نے بھی"

وہ اسکے ہاتھوں کو گرفت میں لیے ایک ہی جھٹکے سے قریں کیے عائشہ کو سانس روک کر دیکھنے پر مجبور کر گیا، وہ لڑکی تو سر تا پا اب اسکی محبت کا کوئی آٹھواں رنگ بنے دھڑکی۔

یہ قربت ، یہ حواس منجمد کرتی اس ساحر کی آنکھیں سبھی عائشہ کے لیے بھاری تھی۔

"تمہیں پتا ہے شروع میں تم صرف حارث کیانی کو بھائی تھی، پھر تمہیں چھونے کی طلب جاگی تھی مجھ میں بہت شدید۔۔۔ اسکے بعد کا مرحلہ تھوڑا عجیب تھا، تم آس پاس بھی ہوتی تو سکون رہتا تھا، پھر اگلئ منزل اس سے بھی عجیب۔ میرا دل پہلی بار تمہارے سامنے کھل جانے کو مچلا۔ بے خوفی اور بے باکی سے۔ یہاں تک مجھے تم سے محبت وحبت سا کچھ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

وہ دیوانہ، کہتا گیا اور وہ اسکے ہونٹوں کی جنبیش سے ادا ہوتئ اس کہانی کو سنتے سنتے آخر تک افسردہ ہوئی۔

تھا کا لفظ عائشہ کو رنج دے گیا۔

وہ عائشہ کی آنکھوں میں امڈتی نمی پر مسکرایا۔

"ہے گرل۔۔۔۔رونے کی کوشش بھی مت کرنا۔ میری بات ابھی ختم تھوڑی ہوئی ہے"

اس سے پہلے عائشہ کی آنکھوں سے نمی مچل کر رخسار تک آتی وہ اسے ہاتھ چھوڑے اسکا چہرہ ہاتھوں میں بھرے انگوٹھے کی نرم پور سے آنسو جذب کرتا اسے نرم تنبیہہ کر گیا۔

"تو پھر تھا کیوں کہا؟"

گلے میں ہی گھٹ کر آنسووں میں ڈھلتی آواز کے سنگ کیے شکوے نے حارث کے لبوں پر گہری دل آویز مسکراہٹ رقصاں کی۔

"سنو تو۔۔۔۔۔ تب تک مجھے محبت کا گماں تھا ، لیکن جیل میں گزارے وہ قید تنہائی کے دن گزار کر مجھے محسوس ہوا کہ میں تو تمہارے عشق میں ڈوب گیا ہوں۔ سر تا پیر، آخری کنارے تک۔ وہ عشق جس میں تمہاری صورت کو آنکھوں میں بسا کر چپ چاپ سیاہ دن اور راتیں روشن کیں۔ وہ سزا میرے لیے میرا انعام سا بن گئی، جب تم میرے پاس آئی تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اگر تمہیں نہ دیکھتا تو میری روح میرے تھک چکے جسم سے نکل جاتی۔

پھر تم نے کہا وہ سب، وہ سب کہہ کر تم نے میری رخصت ہو چکی خوشی، سکوں، راحت اور زندگی مجھ میں واپس پھونک دی"

اس بار بھی ان خوشبو سے اٹے لفظوں نے عائشہ کی آنکھیں دھندلا دیں، وہ ایسے اظہار کے لیے کہاں تیار تھی۔

"حارث۔۔۔"

وہ اسکے جذبات سے بھی دلبرداشتہ ہوئے پکار بیٹھی مگر حارث نے خفئف سی برہمی سے ایک ہاتھ کی انگلی جہاں اسکے نرم ہونٹوں پر رکھی وہیں کمر کے گرد بازو حصار کر اسے خود کے مزید قریب بسایا۔

"شش۔۔۔لڑکی رکو۔ ابھی تو بہت کچھ کہنا ہے مجھے"

ایک تو وہ باولا ہو رہا تھا دوسرا عائشہ کو اب اپنا آپ سنبھالنا مشکل لگ رہا تھا، کہنے کی اس میں تاب نہ تھی اور سننے کے لیے بھی تو ہمت چاہیے تھی۔

"تم نے مجھے قبول کیا عائشہ، میں اپنے اس سکھ کو بیاں کرنے سے قاصر ہوں۔ آج تک میں نے جو جو گناہ کیا، اسکی معافی اور توبہ کا معاملہ بھلے میرے اور میرے رب کے بیچ ہو مگر تمہاری امانت میں جتنی خیانت ہوئی تم مجھے اسکے لیے معاف کر دو۔ تم ، تمہارا دل، وجود اور خوشبو ہی اب میرا سکون بنے گا، میری عافیت، میری راحت سب تم سے ہوگی"

نرم مگر پشیمان سا لہجہ لیے وہ حکایت دل سناتا اس لڑکی پر نجانے کونسا اسم پھونک گیا کہ وہ اپنی جگہ منجمد ہو گئی، خون رکنے لگا، رگوں میں اس شخص کی محبت دوڑنے لگی۔

"میں معاف کر چکی ہوں آپکو، معافی مت مانگیں"

اتنے قریب سے کچھ کہنا مشکل تھا مگر وہ ہمت جمع کیے اس روح سہلاتے حصار میں مقید پورے اعتماد سے مقابل کی آنکھوں میں جھانک کر بولی۔

"تھینک یو، بہت پیاری لگ رہی ہو۔ صرف میری ہو کر"

محبت کا اظہار وہ الگ طرح کرتا اب زرا ہوش میں آئے حسن کی فتنہ پروری سے ہمکلام تھا، ان نظروں کا مرکز اب شوخ سجے خدوخال تھے۔

اپنے آپ کو حارث کی نظروں میں اس قدر شدت سے مرکوز پائے وہ بوکھلائی، دل کی دھک دھک سماعت میں آکر سنائی دینے لگی۔

"آپ بھی"

دھیمی سی شرمگیں مسکان لیے وہ بھی تعریف کر گئی۔

اور تب چونکی جب کتنی ہی دیر وہ محبت پاش نظروں سے بس قناعت پسندی سے اسکے نقش نقش کو دیکھتا ہی رہ گیا۔

اور وہ کیا بتاتا کہ دھڑکتے دل کے شور سے بدحواس ہو رہا ہے، بے خود ہونے کو مچل رہا ہے۔

ہاتھ بڑھا کر ان حیران دلکش آنکھوں کو دیکھتے اسکے لبوں کو چھوا تو وہ کانپ کر سانس روک گئی، چھوئی موئی کا لرزنا حارث کو مزید اپیل کر رہا تھا۔

اب کی بار وہ دونوں بازووں میں عائشہ کو حصار کر مکمل متوجہ ہوا تھا۔

"تم سے ایسی ملاقات تو حسرت تھی میری عائشہ۔

ملاقات دید تو نہیں نہ ہی کلام

ملاقات کوئی لمس بھی نہیں

ملاقات تو بس ایک لمحہ ہے

بند آنکھوں اور بند سماعت کے ساتھ

موجودگی محسوس کرنے کا ایک لمحہ

باقی سب اضافی ہے

دنیا داری ہے

طلب ہے

تقاضا ہے"

عقیدت سی الفاظ میں پروئے وہ عائشہ کی روشن جبین پر لبوں کی مہر لگاتا اک جذب سے بولا۔

وہ آنکھیں موند کر اس احساس سکون کو اپنے اندر اتارتی گئی۔

"مجھے محبت لینی ہے تم سے مگر تھوڑی تھوڑی کر کے، یہ جانتے ہوئے کہ یہ سمندر اب میرا ہے پھر بھی تشنگی عشق کا اک دہکتا سا رنگ ہے ، مجھے محبت کی انتہا چاہیے تم سے مگر اسی شدت سے جیسی شدت میرے دل، وجود اور روح کو درکار ہے"

اس بار ان تشنہ لبوں کی ٹھنڈی مہر عائشہ کو اپنے رخسار پر محسوس ہوئی تو وہ بند آنکھوں سے ہی مسکرا دی، اس شخص کی قربت بھی لمحوں میں راحت کا روپ دھار چکی تھی۔

"آپ کا ہر حکم، ہر خواہش، ہر تقاضا سر آنکھوں پر۔ اب تو پورے حق سے ملی ہوں ناں، اب آپ کے سکون میں کمی کیسے ہونے دے سکتی۔ مجھے سچ میں آپ سے پتا ن۔۔نہیں کب کس وقت محبت ہو گئی۔ جب آپ نے وہ سب سچائی بتائی تو مجھے ان کہی سی خوشی اور اطمئیان ملا تھا۔ اب تو اک غرور سا ہے آپکو پا کر، سچ میں بہت غرور ہے"

مقابل کی نرم مگر بہت کچھ کہتی آنکھوں میں جھانک کر وہ بھی اپنا ہر اختیار چھوڑے خود کو اظہار محبت کیے قید کروا بیٹھی۔

اس بار ان ہونٹوں کے نرم لمس اسے جان لیوا ہوتے بہت قریں تک محسوس ہوئے، وہ آنکھیں بند کیے بس اجازت دیے خود کی دسترس کا ہر دھاگہ حارث کیانی کے سپرد کر چکی تھی۔

"میں اب جیسے بھی چاہوں، جتنا بھی چاہوں، جہاں بھی چاہوں قریب آسکتا ہوں "

وہ جو حواسوں پر قربت کے حصار سے مدہوش سی تھی، کانوں کی اور سلگتے تقاضے پر جھینپ کر حارث کیانی کے وجود کی پناہ میں حلول سی ہوئی۔

"جی"

دھڑکتے دل کے ساتھ وہ اسے خود سپردگی کا پروانہ سونپ چکی تھی، حارث کیانی مسرور ہوا۔

سرشاری سی رگ و پے میں سرائیت کرتی گئی۔

"دیکھ لو یہی سچ ہے۔ حیات کے سانچے میں پھونکی گئی میری سانسیں رائیگاں نہیں گئیں۔ اس سے پہلے ابہام و شبہات تھے، مجھے تمہاری شکل میں تحفہ عطا ہوا، دمِ آخر تلک، زندگی کی تشکیل میں، اور سانسوں کی تکمیل تک، عکسِ من ! تم ! مجھے خود کے گرد محبت میں مبتلا پاؤ گی۔۔!!"

وہ ایک دوسرے کے عکس کی طرح جسم و جان پر ثبت تھے اب، نہ الگ نہ دور نہ مزید تنہا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟"

سینے پر اپنی مخروطی انگلیوں سے لکیریں بناتی بناتی وہ خود کی جانب جمی سراج کی نظر پر اترا کر بولی۔

"دیکھ رہا ہوں کہ کتنی ساری میری ہے فاریہ اب، سب کہہ رہے تھے تم میرے لہجے اور انداز میں ڈھل گئی ہو، کیا ایسا ممکن تھا کہ ہم اتنی شدید نسبت کے بعد جدا ہوتے، ہر گز نہیں"

وہ اعتراف تھا، رشک تھا۔

دیوانے کی اخیر دیوانگی، جیسے اپنے سکھ کو من پسند زبان دی گئی ہو، محبت کرنے کی اجازت مانگنا اور دینا تو اک رسم ہے، یہ جذبے کب کسی مزاحمت اور اجازت کے طلب گار تھے۔

یہ تو وہ پانی تھا جو اپنا رستہ خود بناتا تھا۔

"ہاں۔ مجھے تم میں ڈھل کر سکون ملا ہے، نس نس میں تمہاری موجودگی باعث تسکین ہے۔ محبت میں جدائی تو ممکن ہی نہیں سراج علی، کوئی جا کر بھی جا نہیں پاتا۔ کوئی بچھڑ کر بھی بچھڑ نہیں پاتا۔ مجھے اب کوئی دکھ نہیں، مجھے اب صرف سکون ہے"

سینے پر سر رکھتی وہ اب اس سفر میں آگے جا چکی تھی، محبت کے گیت اسے راس آچکے تھے۔

وہ بھی اس آسودہ پیکر کے ہر دکھ کے خاتمے پر سکھی تھا، اسے فاریہ کے جوگن بن جانے پر یقین تھا۔

محبت میں جوگن کا روپ دھارنے پر ہی تو جوگ سچا ثابت ہوتا ہے، عشق میں ڈھل کر اپنے سارے بوسیدہ رنگ اتار کر محبوب کے رنگ اوڑھنا ہی تو محبت کی معراج تھی۔

"اب ہم گاوں رہیں گے سراج، وہاں رہنا چاہتی ہوں۔ دیہاتن بن کر۔ روز صبح جب تم گھر سے نکلو تو میں سگھڑ بیویوں کی طرح تمہیں دعاوں اور محبت کے حصار میں روانہ کروں۔ پھر سارا دن تمہارا انتظار مجھے مہکائے رکھے، تمہارے آنے پر سجوں، سنوروں اور تمہارے لیے سکون بن جاوں۔ چلیں گے ناں ہم سراج"

اس کملائی سی دیوانی کی باتیں وہ دلچسپی سے سنتا مسکرا ہی تو رہا تھا، اور وہ سر اٹھائے یقین دہانی کو بیقرار سراپا منتظر تھی۔

"ان شاء اللہ چلیں گے، جیسا تم کہو گی"

گال سہلا کر وہ اسے یہ خواہش کی تکمیل بھی سونپ گیا۔

"میں چاہتی ہوں اب حارث لالہ بھی اپنی ذمہ داری نبھائیں، عباد کی حفاظت کر کے انھیں خود بھی راحت ملے گی۔ رہی بات تمہاری تو اب تم صرف میرے ہو، میں ، تم ، معراج اور فاطمہ مما۔ ہیپی فیملی"

اسکی محبت اور حسرت کے بیچ سراج کو جو سب سے زیادہ بھایا وہ فاریہ کا ایک مکمل فیملی چاہنا تھا۔

"ڈن ہو گیا، اور کچھ"

نرمی سے جبین پر محبت کی مہر لگاتا وہ اس بار لاڈ سے بولا، فاریہ نے مسکرا کر اسکے بالوں میں انگلیاں چلائے ماتھے سے سہلائے جھک کر بوسہ دیا اور وہیں اسکی گال سے گال جوڑے سمٹ گئی۔

"اور یہ کہ تم بہت بہت بہت پیارے ہو"

زرا سی حیا میں لپٹ کر وہ آج یہ ریکارڈ بھی توڑ گئی، وہ اس کمپلیمنٹ پر بلش کیے فاریہ کی دبی شریر سی مسکراہٹ دیکھنے لگا۔

"محبوب جو بن گیا ہوں، پیارا کیسے نہ ہوتا۔۔۔۔۔ "

جناب کی اتراہٹ تو بنتی تھی، بھلا کمی کیونکر کرتا۔

"تمہیں پتا ہے میرے یونی کے دوست اور وہ ٹھرکی لڑکیاں تم پر مرتی تھیں، جب تم مجھ پر حق جما کر غصہ کرتے تو وہ ٹھنڈی آہیں بھرتی تھیں"

اس بار فاریہ آفت خیز ہنسی لیے یہ راز فاش کر رہی تھی اور سراج کا سمٹا سا قہقہہ واقعی اس وقت کمرے میں گونجا۔

"اور وہ جسے ڈوز دی تھی، ابھی تک اسکی بازو پر چڑھا پلستر نہیں ہٹا۔۔۔۔۔اور اور میرا تو اب ان سب سے رابطہ بھی نہیں۔ میں نے سب دوستوں کو چھوڑ دیا تھا تب ہی، انھیں گھر بھی جان کر بلاتی تھی تاکہ تم مجھ پر حق جماو۔ تمہیں پتا ہے جب تم مجھ پر حق جماتے تھے، جلاد بن کر چلاتے تھے تو مجھے بڑی خوشی ملتی تھی۔ اف تم سوچ بھی نہیں سکتے کتنا انجوائے کرتی تھی۔ لیکن پھر اپنی بے بسی، مجبوری بہت رلاتی بھی تھی۔۔۔۔۔"

آج وہ بس سراج علی سے ڈھیر سی باتیں کرنا چاہتی تھی، اب تو وہ اسکے بہت قریب تھا تبھی اپنا سایہ بنا چکئ تھی۔

"سب جانتا ہوں ڈھیٹ قسم کی دیوانی صاحبہ"

ناک دباتا وہ اس بار بھی ہنسا تھا اور وہ پہلے سے یہ سب پتا ہونے پر منہ بگھاڑ گئی۔

"جب تم مجھے ڈریگن کی طرح ڈانٹتے تھے تو میری اماں ہی لگتے تھے"

منہ بسورے وہ اس بار اسکی گردن دبائے غرائی تھی مگر سراج اس پر ہنس پڑا۔

"ہاہا پاگل کہیں کی"

خود میں سمیٹ کر لاڈ کرتا وہ اسکی پاگلیوں پر تادیر مسکرایا۔

"اچھا اب زیادہ فری مت ہو، پھر مجھ میں جن آجائے گا ٹھرکی"

سراج کے بہکتے تیور پر وہ دامن چھڑواتی منمنائی۔

"آنے دو اسے، دیکھ لیں گے۔ ڈرتا تھوڑی ہوں"

آنکھ ونگ کیے وہ اسے ساتھ ہی پہلو نشین کیے جتا گیا تھا۔

"تم نہیں ڈرتے، سوچ لو۔ جان بھی لے سکتا ہے وہ جن"

چینلج کرتی وہ اس پر جھک کر خاصے نخوت سے آگاہ کر رہی تھی اور وہ تو مسلسل مسکرا ہی رہا تھا۔

"اپنی ننھی منی جان پر نظر ثانی کر کے چینلج کیا کرو لڑکی، ضائع نہ ہو جانا"

مسکراہٹ لبوں میں ہی دبا لیتا وہ ہنسا تھا اور میڈم نے ناک ٹیڑھا کیے آنکھیں گمائیں۔

"نان رومینٹک سراج علی"

رنجیدہ منہ بناتی وہ اسکی گردن میں چہرہ چھپائے جناب کی سوئی حسیں بیدار کر چکی تھی۔

"آہاں، آج پھر ہو جائے مقابلہ۔۔۔۔۔۔ لٹس سٹارٹ"

پلوں میں جان لبوں پر لاتا وہ فاریہ کو سہم جانے پر مجبور کر گیا، اور وہ اگلے لمحے کی بے اختیاری میں قید یہ بھول ہی گئی کہ کچھ دیر پہلے کونسا چیلنج کیا گیا۔

رگ جان بنا لیتا وہ اسکے احساسات سے ہمکلام تھا اور اب باتوں سے کہیں افضل ایک دوسرے کو محسوس کیے خاموشی کی زبان میں محبت کے نغمگے گنگنانا تھا۔

اپنے دھیان میں ہی وہ ڈریسنگ کے سامنے کھڑی من ہی من میں آنے والے حسین لمحوں کو سوچتی ائیر رنگز اتار رہی تھی جب اسکی سوچوں میں محو ہونے کا فائدہ اٹھائے عباد نے اسکو کمر سے حصارا، وہ ناصرف چینج کر چکی تھی بلکہ مہکتی حسینہ کی تیاری سے عباد حشمت کیانی کے رہے سہے ہوش بھی اڑ چکے تھے۔

"ڈرا دیا آپ نے"

رخ موڑ کر پیار سے اسکی گال چھوئے وہ ساتھ ہی اسکے حصار میں ہی پلٹی، آج وہ عباد کے سکون کے آگے کوئی مزاحمت نہیں کرنا چاہتی تھی۔

"عام کہانی نہیں تھی ہماری، مشکل اور آسانی ہمقدم تھی عباد۔ لیکن اظہار کے بعد ہی میں نے اپنے آپکو آپکے حوالے سونپ دیا تھا۔ محبت تو آپکی دیکھ لی میں نے جو کسی بھی طرح شرف سے کم نہیں ہے لیکن اب اس رشتے کا سکھ آپکا حق ہے۔ میرے لیے تو میرا احد ہی کافی تھا مگر آپکی خواہش اب میری بھی رضا ہے۔ کہیں میرے دل کے نہاں خانے میں آپکا ہونے کی خوشی بھی بیدار ہے، منہا تو آپکا سکون ہے لیکن آپکی ہر طرح کی محبت پانا میرا سکون ہے اب"

اپنی باہیں عباد کی پشت پے لے جا کر باندھتی وہ پھر سے پنجوں کے بل اٹھے اس مبہوت ہوتے دیوانے کی کشادہ پیشانئ پر اپنے لبوں کی مہر لگائے اعتراف کرتی اس بندہ بشر کے دل کی دنیا تہہ و بالا ہی تو کر گئی۔

عباد کے استحقاق میں گندھے شدت پسند جواب پر وہ کتنی ہی دیر اسکے نازک وجود میں وافع لرزش اور سانسوں کی روانی میں حلل محسوس کرتا رہا۔

جو اسے سرور اور بے خودی کو مدہوشی میں بدل گیا۔

لیکن وہ جیسا بھی اظہار کیے قریب آتا آج وہ راضی تھی۔

خود بھی تو عباد کے لیے اب ویسی ہی دیوانی تھی۔

"انسان جان لینے سے پہلے وارننگ تو دے دیتا، کیا سارے ہسبنڈ آپ جیسے ہوتے"

زرا دھڑکن رواں ہوئی تو محترمہ بڑے سنجیدہ ہوئے بولیں، گلال تو چہرے پر درج تھا جو آج کم ہونا ناممکن تھا۔

"سب کا تو نہیں پتا، عباد حشمت کیانی بھی بس تمہارے سامنے ہی ایسا بے خود ہوتا ہے۔ تم کیا ہو منہا، جب سے ملی ہو میری ہر تکلیف جذب کر گئی۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ جب کبھی آئیندہ میری سانسیں رکنے لگیں تو تم اتنی ہی قریب آکر انھیں بھی بحال کر دو گی۔ کیا کیا ہو تم منہا میرے لیے، اتنی عزئز۔ اتنی میٹھی، اتنی راس۔۔۔"

آج تو وہ بھی حدیں پار کر رہا تھا، ایک تو اسکی خوبصورتی اور پروقار سراپے کے رعب کا جاندار اثر تھا کہ اسے دیکھ کر کچھ کہنا منہا کو آج بھی کٹھن لگتا، پھر اس کا سحر جو منہا پر حاوی ہو جاتا ، پھر اس شخص کے حصار میں موجود تسکین اور راحت، اک انوکھی سئ لذت، منہا کی روح، دل اور وجود کی روشنی بنتی۔

حواسوں پر دھند کی طرح اثر کرتی اسکی خوشبو جو جان پر وبال ہونے لگتی۔

"ضرور بحال کروں گی، ٹارزن کی فسٹ کزن سمجھ رکھا ناں"

منہ بسور کر مقابل کی اس سے اتنی بے باکی امید کرنے پر وہ شکوہ کناں ہوئے منمائی، عباد نے شرارت سے اپنے کہے پر موقع ملتے ہی عمل کیا، اور تب رہائی دی جب مقابل کی دھڑکن اپنے دل میں دہائی دیے اترتی محسوس نہ ہوئی۔

"عباد۔۔۔۔۔ اتنی بھی بہادر نہیں ہوں۔ ننھی سئ جان ہوں یار، اور بندہ اگر اتنا ڈیشنگ ہو تو کم از کم رومینس تو کم کرے۔ ایسے تو مزید جان لیوا ہو جاتا"

اس قدر عاشقانہ تشدد پر وہ منہ پھلائے روہانسی ہو کر بولی مگر عباد تو آج صرف اسے ہی چاہتا تھا، دل کے قریب، زبان پر، جسم و جان کی ہر گہرائی تک۔۔

"آہاں کیا میں ڈیشنگ ہوں"

کمر حصارے وہ اس بار ڈرامائی ہوئے چہکا۔

منہا نے گھوری سے نوازے خاموش وارننگ دی۔

"آپکو نہیں پتا، آدھا دل منہا کا تو آپ کی اس معصوم شکل نے پگھلا دیا۔ ورنہ میں خود کم تھی کیا آپ سے۔ " اف یہ اتراہٹ جس پر عباد نے خوشگوار حیرت سے منہا کے بھرم ملاخظہ کیے۔

"تم مجھ سے زیادہ خوبصورت ہو۔

تمہارا دل میرے دل کی محبت میں مبتلا ہے۔

ہم دونوں کی طرح ہمارے دل بھی ایک دوسرے سے محبت کا اظہار کرتے ہیں، جب انکو کوئی پرابلم نہیں رومینس سے تو ہم کیوں پیچھے ہٹیں"

اپنے مطلب کی بات کرتا وہ اس بار منہا کو واقعی شرما جانے پر اکسا گیا، وہ ہنستی ہنستی عباد کے گلے جا لگی۔

"عباد یہاں اس جگہ آپ سے بہت قریب آجاتی ہوں، کمبخت ان دلوں نے ہی تو کہیں کا نہ چھوڑا، وہ ساری باتیں اور اظہار جو آپ نہیں کر پاتے، آپکا دل کہہ دیتا ہے۔ تبھی تو میرا دل آپکے دل کی محبت میں گرفتار ہوا، میں آپکے گلے لگ کر ساری عمر گزار سکتی ہوں۔ بنا اعتراض، بنا مزاحمت، اور بنا زحمت"

وہ اسکی پناہوں میں قید اسکی گردن کی اور چہرہ کرتی بولتی گئی، اور وہ اسے حصار میں مزید جذب کرتا اپنے لمس بکھیرتا گیا۔

"میں بھی راحت روح، تم نے مجھ میں محبت سے بھری سرشار روح پھونکی جب جب میرے قریب آئی۔ میں بھی تاعمر نہ تو ان دلوں کو جدا ہونے دوں گا نہ خود کو تم سے"

وہ اسے خود میں مقید کیے منہا کی ہر دھڑکن پر اپنا نام لکھ دینے کا متمنی تھا، وہ اسکے حصار سے بے دم ہوئے نکلی مگر ہنوز وہ باہیں اسکے گرد محصور رہیں۔

"پرامس؟"

راحت روح نے اترا کر وعدہ چاہا تھا۔

"پکا پرامس، میری سانس، میری روح، میرا سکون، میری زندگی، میرا عشق، میری خوشی منہا ہے، آج سے تم عباد حشمت کیانی کی روح ہو، راحت روح"

ایک بار پھر اس جبین کی طاق پر نرم ہونٹوں کی شدت مچلی، منہا نے سانس سادھے اس ظالم کے خود میں بسانے کے تیور بھانپے تھے۔

تمام مزاحمت دم توڑ گئی تھی۔

اور منہا، بندھی پتنگ کی طرح اس دیوانے کے آسمان میں اک آزاد پروان بھر گئی۔

تارِ رگِ گلاب سے پوششِ عشق سی گئی

وصل کے پھول کاڑھ کر نجم گری بھی کی گئی

عشق ہے اور عشق میں ہوش و خرد کو چھوڑیے

ذہن جدھر گیا ، گیا ، آنکھ جدھر گئی ، گئی

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

"تمہارے لیے ایک سرپرائز ہے"

وہ جو فریش ہو کر اپنے لمبے سیاہ بالوں میں برش پھیرے آئینے میں نظر آتے چہرے کی جانب مسکرا کر دیکھ رہی تھی، زین کے چپکے سے حصار لینے پر خوشگوار حیرت سے مسکرائی۔

"تو بتائیں پھر"

نوراں کو تجسس تھا مگر اتنی جلدی اتنا پیارا سرپرائز کیسے ملتا۔

باہوں کا گھیرا بڑھا تو وہ دم بخود ہی اسکے حصار میں ہی پلٹ کر سرخیوں میں ڈھلتے چہرے کو روبرو لائے زین لاشاری کو دیکھنے لگی۔

ابھی کل ہی وہ فاضل کو بہت یاد کر رہی تھی اور آج وہ ان دونوں سے ملنے گھر بھی پہنچ آیا تھا۔

وہ فری کو اسکی خاطر تواضع کا کہتا خود اسے یہ نیوز سنانے اندر آیا تھا۔

"اتنی آسانی سے تھوڑی بتاوں گا، پہلے یہ بتاو خوش ہو میرے ساتھ"

اتنی حسین قربت، اتنی شدید محبت اور چاہت کا پورا جہاں پائے بھی بھلا وہ ناخوش کیونکر ہوتی، اپنی نرم ہتھیلوں کا لمس اسکے چہرے کے اردگرد پھیلائے وہ سنجیدہ ضرور ہوئی مگر دل جیسے اپنی خوشی کے اعتراف کو شدت سے مچلا۔

"بہت بہت بہت خوش، سب سے زیادہ خوش"

بچگانہ انداز میں آنکھیں میچ لیتی وہ نہ صرف خود مسکرائی بلکہ زین لاشاری کو بھی مسکرانے کا دلکش لمحہ سونپا۔

ان گلابی لبوں پر سجی مسکراہٹ اور حیا سے جھکی گھنیری پلکوں نے اس بندہ بشر کے دل کی دنیا کو تہہ و بالا کیا تھا، اور جناب نے بھی تائیدی انداز میں سر کو شاہانہ جنبیش دی جیسے اس شرف کی داد وصولی کی گئی ہو۔

"بس مجھے یہی سننا ہے، ہر وقت، ہر لمحہ۔۔۔چلو آو تم سے کوئی ملنے آیا ہے"

نرمی سے اسکی پیشانی چومتا وہ اگلے ہی لمحے اسکا ہاتھ مضبوطی سے جکڑ کر کمرے سے نکلا۔

فرحین کے لیے تو جیسی نوراں اور زین تھے اب ویسا ہی فاضل تھا۔

فرحین اور فاضل نے بیک وقت دونوں کو ایک مکمل جوڑے کی صورت آتا دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کیں اور نوراں تو بھا کو دیکھتے ہی دوڑ کر اسکے سینے جا سمٹی۔

یہ منظر فرحین اور زین کے لیے بھی باعث سکھ تھا۔

"بھا۔۔آپ آگئے، میں نے بہت یاد کیا تھا آپکو"

اتنے دن کی جدائی کے بعد ہی وہ آدھی سی ہو گئی تھی، فاضل گوجا نے بھی وحشی بہروپ بدلے ایک سلجھے روپ کو اوڑھ لیا تھا۔

نوراں کو اس گھر کی ملکہ وہ خود اپنی آنکھوں سے بنی دیکھ کر نہال ہو گیا تھا۔

"میں نے بھی کیا، کل زین نے بتایا کہ میرا بچہ مجھے بہت یاد کر رہا ہے تو چلا آیا۔ اور اتنا یاد کرنے کی بھلا کیا ضرورت ہے۔ میں آتا رہوں گا ان شاء اللہ "

نرمی سے اس پیاری بہن کا چہرہ ہاتھوں میں بھرے پیشانی چومے وہ نوراں کو بھی مسکراہٹ دے چکا تھا۔

فرحین بھئ خوش تھیں، فاضل کو سب نے ہی دن کے کھانے تک روک لیا تھا جبکہ آج نوراں بھی کچن میں فری اور ملازمہ کی مدد کروانے میں لگی تھی۔

لاونچ میں اب صرف فاضل اور زین ہی تھے۔

"ایک آفر ہے تمہارے لیے"

زین کی بات پر فاضل تھوڑا حیران تھا، اتنا تو وہ بھی جانتا تھا کہ ان پولیس والوں کی نہ دوستی اچھی ہے نہ دشمنی پر اب کیا ہوسکتا تھا، جناب نے تو سیدھا بہن دے کر رشتہ داری جوڑ لی تھی۔

"کیا بات ہے، یہ دن بھی آنا تھا کہ اس علاقے کا اتھرا انسپیکٹر مجھے یعنی فاضل گوجا کو آفر دے گا"

جناب بلکل بھی سنجیدہ نہ تھے مگر زین اسکے انداز پر مسکرا دیا۔

"ہاں کیونکہ اس اتھرے تھانیدار کا اکلوتا سالہ جو بن گئے ہو تم، تم میرے ساتھ پروفیشنل مخبر بن کر کام کرو۔ اس سے ایک فائدہ ہوگا کہ یہ جو کئی گولیاں کھا چکے ہو اور کئی بار حوالات کی سیر کر چکے ہو اس سے نجات مل جائے گی۔ میں خود کروں گا تمہاری خفاظت"

زین کی آفر فاضل گوجا جیسے جنگلی کے لیے بھلے ہضم کرنی مشکل تھی مگر وہ زین لاشاری کی ہمت پر متاثر تھا۔

"ایک خطرناک سیریل کلر کی خفاظت۔۔۔۔سوچ لو جوان"

فاضل کی دل جلی تنبیہہ پر زین نے اسکا کندھا بردارانہ انداز سے تھپکا۔

"میں نہیں جانتا فاضل کہ تم اس خطرناک رستے پر کیسے آئے لیکن اب حقیقت جاننے کے بعد اور نوراں کی خوشی کے لیے مجھے تمہاری زندگی بھی بہت عزیز ہے، اگر تم میرے ساتھ کام کرو تو یہ اور اچھا ہوگا۔ تمہارا مقصد بھی پورا ہوتا رہے گا اور مجھے بھی تمہاری طرف سے تسلی رہے گی"

اس بار نہ تو زین لاشاری نے کوئی تمہید باندھی اور نہ کچھ بھی مخفی رکھا، فاضل گوجا کے چہرے کے خدوخال اک الگ ہی سرشاری سے مسکرا دیے تھے۔

"ٹھیک ہے منظور ہے، تمہارا خلوص اور یہ وابستگی مجھے اچھی لگی۔ اپنے کام اور جذبے کے ساتھ ایمانداری ہی اصول ہے میرا اور تمہارا ساتھ دے کر میرا نہیں خیال کے کوئی خیانت ہوگی"

اپنے مختصر مگر جامع اعتراف سے وہ زین لاشاری پر سے رہا سہا بوجھ بھی اتار چکا تھا۔

زین کو یہ کر کے خود بھی دلی راحت ملی تھی، اب اپنا گناہ قدرے ہلکا ہو چکا تھا اور شاید ان قانون کے محافظوں کی زندگی ایسی ہی الجھی اور خوشیاں ایسے ہی چھوٹی چھوٹی ہوا کرتی ہیں۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

رات عباد کی زندگی میں سب سے پیاری اور دلفریب جگہ پائے وہ سرخ گلاب کا روپ دھارے آئینے کے سامنے کھڑی خود ہی سے لاج کھا رہی تھی، جناب اسے تسخیر کیے خود ناجانے کہاں تھے مگر وہ اسے ریڈی ہونے کا کہہ کر گیا تھا۔

خود سے محبت ہونے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے، محبوب کا محبوب بننے تک۔

اسے عباد کی محبت پر کامل یقین تھا، وہ جیسا کہتا تھا ویسا ہی اسکے لیے بے تاب و بیقرار تھا۔

اپنی روح کی گہرائیوں میں بسائے سرشار ہوا تھا۔

کمرے کا دروازہ کھلتے ہی وہ ہڑبڑا کر پلٹی تو ڈیشنگ سے سوٹڈ بوٹڈ عباد کو آتا دیکھ کر شرمگیں سا مسکاتی نظر جھکا گئی۔

وہ اسی کے دلائے وائیٹ اینڈ بلو سوٹ میں لپٹی صبح کا نور بنی عباد کے دل کو گدگدا گئی۔

پلوں میں بیچ کا فاصلہ طے کرتا وہ اس چاندنی شب کے واحد چمکتے چاند تک پہنچا اور اپنے کوٹ کی جیب سے چمکتی ہوئی چین نکالی، منہا تو خوشی سے کھل اٹھی۔

اس پینڈٹ پر آئی اور ایم سے جڑا اور انکے ہالے میں مقید ڈائمنڈ تھا جو جناب نے بنا دیری ناصرف منہا کی شفاف گردن کی زینت بنائا بلکہ اس پر اپنے لبوں کی مہر لگائے بیتابی سے گلے لگایا۔

اک احساس سکون سا دونوں نے محسوس کیا۔

"منہا، میری راحت روح تم نے مجھے بھر دیا ہے۔ میرے خالی ہاتھ اب سکون سے لپٹی لکیروں سے بھر گئے، تم نے مجھے معتبر کیا۔ جان سے بھی پیاری ہو تم اور آج تم دیکھو گی کہ تمہارا میری نظر میں کیا رتبہ ہے"

جذب سے لبریز روح سہلاتے اعتراف کے ساتھ ہی وہ بے پناہ محبت ان عارضوں ، آنکھوں اور اس ان چھوئی مسکراہٹ پر لٹائے اسکا ہاتھ پکڑے کمرے سے نکلا۔

منہا کو شدید تجسس تھا۔

"ہم کہاں جا رہے ہیں عباد، بتائیں تو"

صبح صبح ہی وہ اسے اجلت میں ریڈی کروائے ہوا کے گھوڑے پر سوار کیے کہیں لے جارہا تھا، پہلے تو ٹھیک مگر اب سسپینس کے بڑھنے پر وہ مزید چپ نہ رہ سکی۔

"تمہارا مقام ایک اور جگہ بھی وافع کرنا باقی ہے، دنیا، دل اور روح کے علاوہ بھی"

عباد کو گاڑی اپنے جانے پہچانے ،لاشعور میں ثبت راستے کی جانب لے جاتے بھانپ کر وہ بھرائئ آنکھوں سے اسے مڑ کر دیکھنے لگی۔

وہاں صبح کا سارا نور تشفی کا روپ دھارے ہوئے تھا۔

باقی کا سارا راستہ خاموشی سے کٹا تھا۔

منہا اور معظم صاحب کے اس کچے گھر وہ پہلے ہی خرید چکا تھا اور اس بستی میں ایک بار پھر منہا کے قدم اسکی آنکھوں سے آنسو بہانے کا سبب بنے۔

وہ سب لوگ دیکھتے ہی دیکھتے جمع ہو گئے جنکی نظروں میں منہا مشکوک تھی۔

عباد نے اسکا ہاتھ مضبوطی سے پکڑے ان سب لوگوں کے بیچ جا کر اپنے قدم روکے۔

ہر کوئی شش و پنج میں مبتلا سا منہا سلطان کا یہ روپ اور یہ مرتبہ دیکھ کر دنگ تھا۔

"میرا نام عباد حشمت کیانی ہے، میں اس پورے علاقے کا ایم این اے ہوں۔ یہ منہا ہے جسے آپ سب جانتے ہیں۔ کچھ وقت پہلے ایک شیر خوار اجنبی بچے کی وجہ سے آپ سب نے اسکے اور اسکے دادا کی مدتوں کی نیک نامی بھلا کر رسوا کیے یہاں سے نکالا تھا"

وہ سارے ساکت کھڑے اس شخص کے سحر اور دبدے کے حاوی ہوتے اثر تلے اپنی اپنی شکلوں پر مختلف حیرت و بے یقینی کے رنگ لیے کھڑے تھے۔

منہا کو تو بس عباد کے ہاتھ پکڑنے کی تسلی تھی ورنہ وہ کب پھوٹ پھوٹ کر رو دیتی کچھ کہنا مشکل تھا۔

"ہاں کیونکہ اسکے دادا نے جھوٹ کہا تھا، وہ بچہ اسکی بہن کا نہ تھا۔ بلکہ اسکا کوئی کار۔۔۔۔۔"

مجمعے میں کھڑے ایک جوشیلے ہمسائے نے جب حمایت میں آواز بلند کیے زہر اگلنا چاہا تو عباد کی خونخوار نظر نے اسکا سانس تک سوکھایا۔

"وہ بچہ میرا تھا، ہوسپٹل سے اسے کوئی لے کر یہاں قریب پھینک گیا تھا۔ منہا نے اس بچے کو وہاں سے اٹھایا اور اپنے گھر لے گئی۔ اس نے اسکے دادا نے میرے بچے کی جان بجائئ تھی۔ بہت افسوس کی بات ہے کہ آپ سب نے ایک لمحے میں ان دو کی ذات پر کیچڑ اچھال دیا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس دنیا میں ہر انسان ایک علیحدہ جنگ لڑ رہا ہے"

وہ اپنی پروقار شخصیت اور پراثر آواز میں بیان کرتے اس انکشاف سے وہاں موجود ہر فرد کو پتھرا کر رکھ چکا تھا، وہ لوگ گویا آپس میں چہہ مگیوں سے اپنے تعجب کا اظہار کرنے لگے۔

"ہمیں اس کا علم نہیں تھا جناب، اب الہام تھوڑی ہونا تھا کہ یہ معاملہ ہے"

یہ وہی شخص تھا جس نے معظم صاحب کو زلیل کیے بہتان لگائے رنج دیا تھا۔

عباد نے ناگوارئیت سے اسکی ٹون برداشت کی، اک نظر منہا پر بھی ڈالی جو شدید کرب زدہ تھی۔

"منہا سلطان نے میرے بچے کو بچایا، یہی نہیں وہ اب میری زوجیت میں ہے۔ نہ صرف پاکیزہ کردار کی مالک ہے بلکہ مجھے اسکو اپنی بیوی بنا کر حقیقی خوشی ملی۔ میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی اسکے کردار کے بارے میں شک و شبہ میں مبتلا ہو ۔ میرے بچے کو بچانے سے پہلے اس نے آپ سبکی تنگ نظری اور زمانے کے الزامات کی پرواہ نہ کی۔ کیونکہ یہی انسانیت کا تقاضا ہے میرے بھائیو۔ کوئی خاموش ہے، مجبور ہے یا بے بس ہے تو اسکی اس چپ کا مزاق بنانا ایک غیر انسانی فعل ہے"

وہ سارے لوگ شرمندہ کھڑے عباد کے آگے اپنے کیے پر نادم تھے اور اب کی بار انکی نظروں میں منہا کو دیکھنے پر اک احترام اتر چکا تھا۔

"ہمیں معاف کر دو منہا پتر، وہ سب حالات ہی ایسے تھے کہ ہم نے تم پر اور تمہارے دادا پر یہ گندے الزامات تھوپے۔ ہمیں معاف کر دو پتری"

سامنے سے ایک محلے دار کی کرب آمیز معذرت آئی اور باقی سب بھی اسی کی طرح شرمندہ تھے۔

منہا کی آنکھوں میں پھر سے نمی بڑھنے لگی۔

"بلکل۔ ہم تب نہ سمجھ سکے کہ ہمارے بیچ فرشتہ صفت منہا رہ رہی ہے۔ تم نے اس بچے کو بنا کسی زمانے کی تہمت کے ڈر کے بچایا، اپنے پاس رکھا۔ ہمیں تم پر رشک ہے"

اس بار نم آنکھیں رگڑتی عورت سامنے آئی تھی جس نے منہا کا ہاتھ پکڑ کر عقیدت سے چوما۔

"آپ سب معافی مت مانگیں، بس میرے دادوو آج تک اس وجہ سے افسردہ تھے۔ میں نے کبھی کچھ ایسا نہیں کیا جو میرے دادا کی عزت پر حرف لاتا یا اس بستی کی آبرو خراب کرتا"

ان سب کی شرمندگی دیکھ کر خود ہی منہا بولنے کی ہمت کر گئی، سب کے چہرے مسکرائے تھے۔

اور وہ عباد حشمت کیانی کی جانب دیکھ کر اسے آنکھوں آنکھوں سے ہی جان سے افضل سا پکار رہی تھی۔

بستی والوں نے انکو مہمان بنایا، گھر میں موجود ہر نعمت انکے سامنے لا دھرئ، محبت اور خلوص سے مہمان نوازی کی۔

وہ وہاں سے رخصت ہوئے جب واپس پہنچے تو کتنی ہی دیر منہا اسکے سینے لگی روتی رہی، اس شخص نے اسے مقدس کہا نہیں مقدس بنا بھی دیا تھا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

ایک سال بعد۔۔۔

سب اپنے اپنے مدار میں محو رقص ہو گیا تھا، ایک سال کیسے گزرا پتا بھی نہ چلا۔

عباد حشمت کیانی کی زندگی اب تک حسین سفر پر گامزن تھی، آج پیلس میں بہت خاص دن تھا۔

کیونکہ آج احد کیانی کی پہلی سالگرہ منائی جانی تھی۔

ویسے تو محترم پچھلے ماہ ہی سال کے ہو گئے تھے مگر سب کا پلین اسکی برتھ ڈے اسکی چھٹکی گڑیا بہن کے آنے پر منانے کا تھا۔

سیاہ آنکھوں والی وہ دس دن کی پری عبیر کیانی حسب وعدہ عباد حشمت کیانی کی گڑیا بن کر دنیا میں آچکی تھی۔

وہ سیاہ آنکھوں والی ننھی سی پری، جو منہا نے عباد کو تخفہ دی تھی۔

خوبخو منہا جیسی پیاری تو تھی ہی مگر اتفاق کہہ لیں یا عباد صاحب کی لمحہ قبولت میں کہی گئی خواہش کہ جنابہ بھی الٹی طرف دل نسب کروائے دنیا میں نمودار ہوئی تھیں۔

اور آج اسکے دس دن کا ہو جانے کی خوشی اور احد کیانی کی برٹھ ڈے کا ایک ساتھ کمپائن جشن پیلس میں منعقد ہونا تھا۔

اس گزرے وقت نے سب کو ہی بدل دیا تھا۔

زین لاشاری اور فاضل گوجا اپنے مقررہ سفر پر گامزن اب ایک ساتھ کام کرتے تھے، فری اور نوراں نے مل کر فاضل گوجا کے لیے کافی عرصے تک رشتہ تلاش کیا مگر آخر کار منہا کی سہیلی حور کو اس منسب کے لیے چنا گیا۔

حور کی والدہ کی اچانک وفات کے بعد اس نے منہا سے ہی رابطہ کیا تھا جس پر عباد نے حور کو پیلس میں رہنے کی پیش کش بھی کی مگر حور وہاں ان سب پر بوجھ بننے کے بجائے کام کرنے پر مانی تھی۔

لیکن جلد ہی فاضل کے لیے رشتے کی بات نوراں نے ہی منہا سے اتفاقا ڈسکس کی اور یہیں سے سب کی باہمی مشاورت اور رضا کے علاوہ حور کی اجازت کے بعد اسکا فاضل گوجا سے عقد کروا دیا گیا۔

منہا تو سب سے زیادہ خوش ہی حور کے لیے تھی۔

فاضل گوجا نہ صرف ایک اچھا انسان بن چکا تھا بلکہ اپنے فرض کو لے کر وہ آج بھی زین لاشاری کا مددگار تھا۔

زین اور نوراں کی زندگی میں فیھا نامی پری بھی ایک ماہ پہلے ہی آئی تھی، وہ خوبخو نوراں جیسی نیلی آنکھیں اور زین جیسی پیاری شباہت رکھتی تھی۔

عائشہ اور حارث کا پرنس عبداللہ بھی خیر سے عبیر کے ساتھ ہی دنیا میں آیا تھا۔

سب ہی بچوں والے ہو چکے تھے سوائے وکھرے، اتھرے اور دل جانی جوڑے سراج اور فاریہ کے۔

فاریہ امید سے تھی اور آخری ہی دن تھے ننھے مہمان کی آمد کے۔

سراج نے تب ہی فاریہ کی خوشی کو گاوں ہجرت کر لی تھی اور خود عباد نے اسے اس پر قائل کیا تھا۔

کیونکہ اب سراج کی جگہ حارث کیانی نے نہ صرف سنبھال لی تھی بلکہ وہ اپنی جان سے بڑھ کر عباد کی حفاظت کرتا تھا۔

سراج علی نے اپنا فارم ہاوس از سر نو سنبھال لیا تھا اور ڈیری فارم میں اسکی مدد خود فاریہ کرتی تھی۔

فاطمہ صاحبہ اور معراج بھی خوش تھے کیونکہ سراج اور فاریہ کے بنا رہنا ان دو کے لیے اب ناممکن تھا۔

جبکہ سب سے زیادہ آسودہ تو اپنے پیروں پر چلتیں ادا جان تھیں جنکا یہ پیلس اب خوشیوں کا گہوارہ بن چکا تھا اور انکے سارے بچے آسودہ اور نہال تھے۔

آج بھی عباد حشمت کیانی کے کئی دشمن تھے مگر اب اسکے محافظ اس سے بڑھ کر تھے۔

سراج بھلے گاوں سیٹل ہو گیا تھا مگر انکا ویک اینڈ پیلس ہی ہوتا اور ان دو دونوں عباد کے سارے کام سراج علی کی ذمہ داری ہوتے۔

خوشیاں ہر جانب رقصاں تھیں۔ دکھ ختم ہو گئے تھے اور وہ سب ایک دوسرے کے لیے اصل معنوں میں راحت روح بن گئے تھے۔

"تھک گئی میں تو، سفر منع تھا پھر بھی اپنے دل کے ٹکڑے کی برتھ ڈے کے لیے آگئی۔ دیکھ لو احد، کتنی پیاری پھپھو ہیں ناں تمہاری"

فاطمہ صاحبہ اور معراج تو دو ہفتے پہلے ہی آگئے تھے جبکہ فاریہ میڈم کو آج شوہر صاحب بہت ضد کے لائے تھے، اب تو وہ بہت پیاری اور گول مٹول ہو گئی تھی۔

چہرہ الگ سرخیوں میں گھلا لگنے لگا تھا۔

سب ہی اپنے کاکے کاکیوں کے ہمراہ آئے تھے، معراج صاحب تو کنفوز تھے کہ عبداللہ کو اٹھایا جائے یا عبیر کو، یا پھر فیھا کو سو اس نے دس دس دن والے بچوں کو چھوڑ کر مہینے بھر کر مٹکو سی فیھا کو گود میں بھرے لاڈیاں کرنی شروع کر دی تھیں۔

احد تو فاریہ کی گود میں شریف بن کر اسکے گلے میں ڈالے پینڈٹ کو جکڑے دھیما دھیما مسکا رہا تھا، سراج بھی اسی کی احد سے لاڈ اور پیار دیکھ کر آنے والے وقت کی خیر مانگ رہا تھا۔

منہا ، نور، عائشہ اور نوراں بھی کھلی ہوئی بھری بھری ہو چکی تھیں، سب کے چہروں پر خوشی تھی اور پھر سب کے ڈیشنگ سے دلہے بھی کسی سے کم تھوڑی تھے۔

آج تو فرحین بھی آئی تھیں، اور انھیں تو ادا جان اور معظم صاحب کی صورت اپنے ہم نوا پارٹنرز مل گئے تھے۔

"اللہ سلامت رکھے پھپھو کو لیکن آرام کرنا ہے تمہیں، ویسے بھی برتھ ڈے شام میں ہے لہذا منہا اسے لے جاو تاکہ تھوڑا آرام کر لے"

ادا جان کو تو فاریہ کی شدید فکر تھی تبھی وہ احتیاط برتتنے کا کہہ گئیں۔

مرد خضرات نے الگ ہی اپنی محفل سجا رکھی تھی۔

فاریہ کے ہاتھ منہ بگاڑنے کے باوجود منہا مسکراتی ہوئی عبیر کو ادا جان کے سپرد کرتی خود فاریہ کو لیے کمرے میں چلی گئی۔

اسکا اور سراج کا کمرہ صبح ہی منہا نے سجوا دیا تھا کیونکہ آج کل میں اسے ڈاکٹرز نے ڈیٹ دے رکھی تھی اور تبھی یہ سجاوٹ ایڈوانس اسکے بے بی کے لیے تھی۔

کمرے کو اتنا سجا دیکھ کر فاریہ تو نہال ہو گئی۔

"ہائے میرے کاکے کے لیے ایڈوانس ویلکم کروا رکھا ہے تم سب نے، سو سوئیٹ۔ یہ دیکھ کر تو لگتا ہے یہ آفت صاحب بھی ایکسائٹڈ ہوئے ہیں"

نرمی سے منہا کے گلے لگتی وہ نہ صرف اس سجاوٹ پر فدا ہوئی بلکہ آخر تک اپنے وجود میں محسوس ہوتی حرکت پر منہا کو دیکھتے ہنسی جو خود پرجوشی کے سنگ مسکائی۔

یہ کہنا غلط نہ تھا کہ ان سب کو ہی سب سے زیادہ انتظار ہی فاریہ اور سراج کے بے بی کا تھا اور وہ وی آئی پی صاحب اتنا ہی ستا رہے تھے۔

"ہاہا ہونے دیں اسے ایکسائٹڈ، بنتا ہے اسکا بھی۔ مجھے تو یہی لگتا تھا کہ عبیر اور عبداللہ کے ساتھ ہی یہ بھی آجائے گا مگر ہماری پری اور شہزادے کو تھوڑی جلدی تھی اسکی آپی اور اسکے بھیا بننے کی۔ ویسے کتنا پیارا لگ رہا ناں، سب کے بچے ہو گئے۔ کتنی ساری خوشیاں ہیں اب، بس نظر نہ لگے"

خود منہا ابھی دس دن پہلے ہی تو عبیر کو دنیا میں لانے کا فریضہ سرانجام دیے فارغ ہوئی تھی پھر بھی اسے فاریہ کے بے بی کا ویٹ تھا اور جس طرح وہ خوش ہو رہی تھی فاریہ بھی اسکے سہارے پر بیڈ پر بیٹھتی دل میں شدت سے آمین کہہ گئی۔

"آمین ثم آمین، ان شاء اللہ خیر کا وقت آئے۔ یہ خوشیاں اور یہ سکون بہت سے دکھوں کے بعد ملا ہے۔ اللہ اسے دوام دے"

فاریہ کی دعائیہ بات سن کر منہا بھی مسکرائی مگر سراج علی کی انٹری پر اب کی بار منہا کے چہرے پر شرارت تھی۔

"اہمم اہمم بیوی نظر نہ آئی دو پل تو پیچھے ہی آگئے سراج بھیا، ارے فکر مت کریں۔ آپکی فاریہ کو اغوا تھوڑی کیا۔ چلیں اب آپ آگئے تو کمپنی دیں دونوں کو۔ تب تک میں لنچ لگواتی سب کے لیے"

وہ جو خود فاریہ ہی کو دیکھنے آیا تھا، منہا کے چھیرنے پر مسکراتا ہوا اسکی گال کھینچے جاتے ہی اپنی اور مہکتی سرشار نگاہوں سے تکتی بھالو بنی فاریہ تک آیا اور بیٹھتے ہی اسکے دونوں ہاتھ اپنی مضبوط گرفت میں لیے۔

اب ٹائم ہی ایسا تھا کہ وہ ہر وقت فاریہ کے پاس ہی رہتا تھا اور یہی عادت اسے اس وقت یہاں کھینچ لائی تھی۔

"دیکھو کمرہ پہلے ہی سجوا دیا ان سب نے، اب ہماری ویلیو کم اس کی زیادہ ہے"

شرارت سے وہ کمرے کی زیبائش تکتی مسکرائی تو خود سراج بھی اسکے ہاتھ کو چومتا سر ہلا گیا۔

"ظاہر ہے بھئی ہم ہو گئے ہیں پرانے، نئے مہمان کا پروٹوکول تو بنتا تھا۔ ویسے مجھے اچھی اچھی فیلنگز آرہی ہیں۔ لگتا ہے یہ بھالو بھی اب کوئی کارنامہ کرنے والا"

اول تو وہ مزے سے بولا مگر آخر تک فاریہ کے بھرے بھرے وجود کی جانب اک نظر ڈالتا آنکھ ونگ کیے بولا تو وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس بھالو کہنے پر ہنسی۔

پچھلے چار ماہ سے وہ اسے فاریہ کے بجائے بھالو ہی پکار رہا تھا کیونکہ وہ واقعئ بھالو بن چکی تھی۔

"کوئی نہیں جی، پھر سے سمارٹ ہو جاوں گی۔ اب کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا تو پڑتا ہے۔ ویسے بھی آئی نو فاریہ اگر ڈھول بھی بن جائے تب بھی تمہیں اتنی ہی پیاری رہے گی سو مجھے کوئی ٹنشن نہیں۔ آخر کو تمہیں بابا بنانے والی ہوں، اب تھوڑی قربانی تو تم بھی دو مجھے ایسا دیکھنے کی"

اف یہ لڑکی تو اس وقت بھی سراج علی کے جذبات جگانے میں پیش پیش تھی، اب تو واقعی کیوٹ پٹاکہ تھی۔

ہنستا ہوا وہ اسے اپنی مضبوط گرفت میں لیے سر خم تسلیم کرتا مزید پیارا لگا۔

دوسری طرف منہا جو کمرے سے نکل کر کچن میں ہی کھانے کے انتظامات دیکھنے جا رہی تھی، نرم سے حصار نے گویا اسے راستے سے ہی اچک کر اپنے قریں کیا۔

چہرے پر منصوعی خفگی لیے گھورتی وہ عباد کے مسکرانے پر سٹپٹائی۔

پچھلے دس دن سے تو اسے منہا دیکھنے تک کو کم ملی تھی، پہلے تو اسکی انتہائی ابتر کنڈیشن میں ڈیلوری ہونا پھر وہ خود کافی ویک ہو گئی تھی تو پچھلے دس دن سے محترمہ سب سے بستر پر لیٹے اپنے ناز نخرے ہی اٹھوا رہی تھیں۔

یہاں تک کہ پیلس میں آتے دونوں ننھے مہمانوں کی پراپر دیکھ بھال کے لیے دو ہفتے سے فاطمہ صاحبہ یہیں تھیں۔

عبداللہ اور عبیر اتفاق سے ایک ہی دن پیلس میں اترے تھے تبھی دونوں بہو رانیوں کو دس دن کا مکمل آرام سے ریسٹ کروایا گیا تھا۔

آج گھر میں ہوتے فنکشن پر ہی وہ بھی تھوڑی خلیہ بہتر کیے سجی سنوری تھی اور یہاں موقع ملا، جناب نے اسے قبضے میں لیا۔

"عباد۔۔۔ آپ کہاں سے آگئے"

اپنی حیرت لاکھ چھپانے کے باوجود وہ بولی۔

"آسمان سے گرا ہوں۔۔۔بتانے آیا تھا کہ کوئی بہت حسین لگ رہا ہے۔ ویسے بائے دا وے لڑکیاں تو بچوں کے بعد موٹی ہو جاتیں۔ تم تو ویسی ہی ہو۔ کیا راز ہے"

جان بوجھ کر متبسم چہرہ لیے وہ اسکی دونوں گالوں کو چومتا بڑے غور و فکر سے سوال کر رہا تھا۔

منہا نے بمشکل اپنی ہنسی دبائی۔

"دراصل میں ربڑ کی ہوں، اب خوش"

زیر لب مسکراہٹ دباتی وہ اسے بھی ہنسا گئی۔

"چڑئیل"

نرمی سے اسکی روشن پیشانی چومتا وہ اب تو جان ہی لے رہا تھا مگر منہا کو بھی اب خوب ستانا آچکا تھا۔

"جن۔۔۔۔ اپنے گڈے اور گڑیا کو سنبھالیں۔ مجھ سے فلرٹ کی کوشش بھی نہیں مسٹر ہسبنڈ"

شوخ انداز سے اسکی دونوں گال زور سے کھینچتی وہ فوری ہنستی ہوئی آنکھ ونگ کرتی وہاں سے گئی اور جناب کتنی ہی دیر اپنی اس آسودگی پر مسکاتے چلے گئے۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

احد کی سالگرہ پوری شان سے منائی گئی، عباد اور منہا نے تو اسکا ہاتھ پکڑ کر باقاعدہ کیک بھی کٹ کروایا۔

سب کو ہنستا مسکراتا دیکھ کر وہ یہی سوچ رہا تھا کہ یہ سب مجھے کیوں لفٹ نہیں کروا رہے۔

فنکشن کے اینڈ ہوتے ہی اچانک فاریہ کی طبعیت بگھڑ گئی جسکے باعث سب ہی تھوڑے فکر مند اور پریشان ہوئے۔

فاریہ کی یکدم بگھڑتی طبعیت اس حد تک متاثر ہوگئی کہ ایک بار تو ڈاکٹرز نے اسکی جان خطرے میں ہے کہہ کر سب ہی کے پیروں تلے زمین کھینچ لی تھی۔

اور وہ لمحہ سراج علی کے لیے زندگی کے ہاتھوں سے جانے جیسا تھا۔

اپنی آنکھوں سے بہتے ہر آنسو اور سینے میں ہلچل مچاتی ہر دھڑکن کے ساتھ اس نے فاریہ کی زندگی مانگی تھی۔

ہوسپٹل سراج ، فاطمہ صاحبہ اور عباد گئے تھے باقی سب ہی گھر ہی رکے تھے۔

مسلسل درد و پریشانی میں ڈوبے نفوس کو آخر کار خوشی کی خبر سے حوصلہ دیا گیا تھا۔

فاریہ نے بہت پیارے سے بیٹے کو جنم دیا تھا اور وہ اور اسکا بے بی دونوں ہی اب ٹھیک تھے۔

تو گویا جس کا تھا انتظار وہ شہکار بھی دنیا میں آچکا تھا۔

رات پوری دونوں ماں اور بچے کو سپیشل کئیر میں رکھنے کا کہا گیا تھا اور بس سراج علی ہی کو ملنے کی اجازت تھی تبھی رات میں سب گھر چلے گئے۔

فاریہ کی طبعیت سٹیبل ہوتے ہی رات سراج کو اس سے ملنے کی اجازت مل گئی تھی، گھر ہر کوئی بارگاہ ربی میں ہاتھ بلند کیے اس مشکل وقت میں خیر کے لیے شکر گزار تھے۔

اپنے آپ کو بہت سی تکلیف سے گزروا کر وہ سراج علی کو باپ بننے کا شرف دیے اب خود بھی خطرے سے تو باہر تھی مگر سراج علی کی پری بلکل مرجھا گئی تھی۔

بھلے یہ موقع خوشی کا تھا مگر اسکی آنکھوں میں جمع ہوتی نمی بھی تو شکر گزاری کی تھی، جان سے افضل اس لڑکی کو زرا سی تکلیف بھی کہاں برداشت تھی اسے۔

آپریشن کے باعث وہ اس وقت غنودگی اور ڈرپ کی گرفت میں تھی جب سراج علی کی موجودگی اور احساس اس نڈھال کو آنکھیں کھول کر مسکراہٹ دے گیا۔

سرخ آنکھیں اور تکلیف کا اثر فاریہ کے چہرے سے وہ پڑھ چکا تھا، تبھی جھک کر فاریہ کی پیشانی چومی ، نمی اس مرد جاہ کی آنکھوں سے پھسل کر فاریہ کے چہرے پر گئی تو وہ ڈرپ والا ہاتھ ہی بڑھا کر زرا فاصلہ بناتے ہی سراج علی کے اس فضول میں بہتے آنسو کو جذب کر گئی۔

"مرد روتے نہیں پاگل، وہ بھی کسی لڑکی کے لیے"

دانستہ اس پیارے پیا کو ہنسانے کو وہ منہ پھلا گئی مگر سراج کا تو اس وقت عجیب خوشی اور تکلیف کی ملی جلی کیفیت سے برا سا حال تھا۔

فاریہ کو کھونے کی سوچ تک اسے اندر تک ہلا چکی تھی اور وہ بہت ڈر گیا تھا۔

"لڑکی نہیں ہو تم صرف، سراج علی کی سانسیں ہو"

فورا سے حق جماتا وہ بگھڑا تھا اور اس دھونس پر وہ پگلی واری ہی تو چلی گئی۔

"اف اف رومینس وہ بھی بستر مرگ پر پڑی بیوی سے"

یہ لڑکی بھی اسکی جان لینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی تھی، سراج نے آزردگی سے فاریہ کا ہاتھ چومے جس تکلیف سے اسے دیکھا یہ خود فاریہ کا دل دہلا گیا۔

"سوری میری جان، تمہیں یوں سینٹی دیوداس کی طرح دیکھ کر مزاق کیا بس۔ یہاں آو میری جان کے ٹکڑے، تم تو میرے آج پیدا ہونے والے کاکے سے بھی زیادہ والے نازک کاکے ہو"

اپنی بازو پیار اور لاڈ سے پھیلاتی وہ ناچاہتے ہوئے بھی سراج کو اس ٹرانس سے نکال گئی، اب وہ اتنا بھی ظالم تھوڑی تھا کہ اس جوڑ جوڑ ہلی ڈرامہ کوئین کی یہ بے جا قریب آنے کی فرمائش مانتا تبھی اٹھ کر خود ہی قریب ہوئے بیٹھا، بیڈ کروان کے اٹھے ہونے کے باعث وہ کافی آرام دہ انداز میں لیٹی تھی، ویسے بھی ابھی تکلیف کا اتنا احساس نہ تھا۔

سراج علی پاس تھا۔

اسکے ہر ایک بوجھ میں دبے خدوخال پر اپنے ہونٹوں کی نرماہٹ دھرے وہ کتنی ہی دیر فاریہ کا چہرہ دیکھتا رہا۔

"سچ کہوں تو جب ڈاکٹرز نے کہا تھا ناں کہ تمہاری جان خطرے میں ہے تو سانس آنی بند ہو گئی تھی۔ تب تو نہ اپنا خیال تھا نہ ہمارے بچے کا۔ تمہارے نہ ہونے کا احساس ہی مجھے بھری دنیا میں اکیلا کر دینے جیسا تھا فاریہ۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے جس نے مجھے فاریہ لوٹا دی، میری جان سے پیاری بیوی تم نے مجھے دہلا دیا تھا"

روانی لفظوں میں لیے بھی وہ بھاری آواز میں پڑتے لرزاں خیز اثر کو ضبط نہ کر پایا، اسکے بکھرے بال بھی فاریہ نے لاڈ سے سمیٹے، وہ سراج کی سرخ متورم آنکھوں سے اندازہ لگا چکی تھی کہ وہ کس قدر تڑپا ہوگا۔

"آااا میری نازک جان۔ کہیں نہیں جاتی یہ جونک تمہیں چھوڑ کر ، اب بس یہ جذباتی کنگ مت بنو۔ رحم نہیں کھایا اپنی کلر آنکھوں پر۔ سوجھا رکھیں" بیوی سے بوا بنتے دیر ہی کب لگتی تھی اسے، سراج بھی اسکی پیشانی لبوں سے چھوئے مسکرا ہی رہا تھا۔

اسے اسکی کیفیت کو سننا چاہتا تھا۔

"تمہیں پتا ہے یہ احساس کتنا پیارا ہے ۔ اف ہم دونوں مما بابا بن گئے۔ ایک تیز ہوا کا جھونکا تھا بس۔۔۔۔ ہمارا بچہ اس دنیا میں آگیا سراج، کتنی خوش ہوں یار بتا نہیں سکتی۔ جب اسے پہلی بار گود میں لیا تو مما کو یاد کیے روئی بھی۔ بہت روئی"

اپنی ہی دھن میں کہتی کہتی وہ تکلیف میں اتر گئی، خود سراج اسکی حالت اور درد کو گہرائی سے محسوس کر رہا تھا۔

"بس ۔۔۔خوشی کے موقعے پر روتے نہیں ہیں۔ "

اسکے رونے پر گھبرا اٹھتا وہ دونوں ہاتھوں کی نرم پوروں سے اسکے آنسو جذب کر گیا۔

وہ بھی جبرا مسکرائی۔

"وہ بھی تو مجھے جنم دے کر میری طرح ہی خوش ہوئی ہوں گی سراج، پھر کیسے وہ مجھے غلط راہ پر چلانے پر مطمئین کر سکی ہوں گی اپنے ضمیر کو۔ میں انکی جیسی ماں نہیں بنوں گی عباد، میں منہا جیسی بنوں گی جو سگی نہ ہو کر بھی احد کے لیے ماں سے بڑھ کر رہی ہے"

اپنے خسارے گنواتی گنواتی وہ یکدم مسکرا اٹھی۔

سراج نے بھی محسوس کیا کہ فاریہ میں زندگی حرکت کرنے لگی ہو۔

"سب بھول جاو، میری جان۔ تم تو آئیڈیل ماں بنو گی جسکا یقین ہے مجھے"

اسے زندگی کی نئی کرن دیکھائے اپنے قریب کیے وہ پرامید اور پریقین تھا اور یہی فاریہ کی اب خوشیوں کا سرچشمہ تھا۔

صبح تک سب ہی ماں اور بیٹے کو ملنے پہنچے۔

وہ ننھا سا وجود آکر سراج اور فاریہ کی زندگی بھی مکمل کر چکا تھا۔

"نام کیا رکھا ہے آپ نے باجو، یہ تو بلکل میرے پر ہے"

سب سے زیادہ تو معراج صاحب پرجوش تھے اور اسکے اس طرح اس روئی کے گولے کو چھو کر پوچھنے پر مسکرا دیے۔

"شاہ زیب علی ،سراج علی کے بابا کے نام پر۔ میں چاہتی ہوں انکا نام کبھی بھی فراموش نہ ہو۔ اور ان شاء اللہ جب ہمارا ایک اور بیٹا ہوگا تو اسکا نام عائش رکھیں گے"

یہ خواہش فاریہ کی تھی جس کو سن کر ادا جان، سراج علی، حارث اور عباد، فاطمہ صاحبہ، پانچوں کے چہروں پر خوشی کی اک الگ ہی چاشنی درج تھی۔

"جیتا رہے میرا بچہ"

فاطمہ صاحبہ نے پیار سے اسکی پیشانی چومے لاڈ کیا تو وہ خود اپنے وجود کے اس حصے کو دیکھ کر نہال ہوئی۔

نظر سراج علی پر گئی تو وہ اسے ہی محبت سے بھری نگاہوں میں مرکوز کیے معتبر کر رہا تھا۔

محبت کی تکمیل ایسے خوبصورت انجام کے سنگ ہوئی کہ ہر کوئی حقیقی معنوں میں جی اٹھا تھا۔

سب خوبصورت ہو گیا تھا، مکمل اور دل کش۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

کچھ ہفتوں بعد۔۔۔۔

"تو پھر ہنی مون کا کیا پلین ہے؟"

کندھے سے کندھا ملائے وہ اس وقت صرف منہا کو اپنے آس پاس محسوس کرنے میں انٹرسٹڈ تھا۔

اور وہ بھی دور فلک پر بکھرے ٹمٹماتے ستاروں کو تکتی تکتی اس حیرت انگیز آفر پر گردن موڑے اچنبھے سے دیکھتی کیوٹ لگی تھی۔

عبیر خیر سے دو ماہ کی ہو چکی تھی اور اب تو ادا جان اسے خود سے ایک لمحے الگ نہ کرتیں۔

اور ان دو آزاد پنچیوں کو بھی فرصت سے سیر سپاٹوں کی چھوٹ ملی تھی۔

وہ دونوں آج سب سے چھپ کر یہاں شہر سے دور ڈھابے پر خاص نہاری کے ساتھ مزیدار سا ڈنر کرنے آئے تھے اور اب وہیں کچھ فاصلے پر ہی گاڑی روکے دونوں ساتھ لگ کر کھڑی ڈھلوان سے نیچے کچی آبادی کی جانب متوجہ تھے جہاں رات ہوتے ہی چمنیوں سے اگلتا دھواں بتا رہا تھا کہ وہاں رات کے کھانے کی تیاریاں کی جا رہی تھیں۔

"شادی کے اتنے وقت بعد آپکو خیال آیا کہ ایک ہنی مون بھی ہوتا ہے" شکوہ کناں سے وہ جتانا نہ بھولی۔

عباد نے اپنی بازو گرد حصار کر اپنے اور راحت روح کے بیچ فاصلہ کم کیا۔

"مجھے لگا تم عام لڑکی نہیں ہو تو تمہاری خواہشیں بھی عام نہیں ہوں گی، سیاست، گھر بار، بچے، ذمہ داریاں ان سب سے دامن چھڑوا کر صرف تمہارا پہلو نشین ہونے کا جی چاہتا ہے اب۔ اینڈ آئی تھنک تم بھی ایسا ہی ڈیپ ہنی مون ڈیزرو کرتی ہو"

جذبات کی رو میں بہتا ہوا وہ اپنی خواہش کس چالاکی سے منہا پر ڈالے آنکھ دبائے مسکایا کہ کتنے ہی لمحے وہ اس چالاک سیاست دان کی چالاکی پر محو حیرت رہی۔

"کتنے چپکو ہیں آپ عباد، جب سے شادی ہوئی ہے، ایک دن بھی دوری نہیں آئی۔ میرا تو میکہ بھی سسرال میں تھا کہ مجھ بچاری کے پاس میکے جا کر سکھ کا سانس لینے کا آپش بھی نہیں۔ پھر بھی دل ہے کہ آپکا بھرتا ہی نہیں۔ اللہ کا شکر ہے اس نے آپکو مصروف انسان بنایا، ورنہ آپ تو مجھے اب تک غائب کر چکے ہوتے"

ھائے یہ لڑکی بھی ناں، کتنی ناشکری تھی۔

عباد نے منصوعی خفگی سے ابرو اچکائے اس دلکش لاپرواہ حسینہ کو گھوری سے نوازا جسکے دانت اس پر نکل چکے تھے۔

"مطلب لڑکیاں میکے سکھ کا سانس لینے جاتی ہیں ، او آئی سی۔ شوہر سے ڈر کر میکے جاتی ہیں۔ اوپس میرا کوئی میکا نہیں ناں تبھی پتا نہیں تھا۔ شکر ہے تم آئی میری زندگی میں مجھے یہ نایاب انفارمیشن سونپی"

چنا کاکا بنے وہ غائب دماغی سے سر کھجاتا یوں پگلا پگلا اتنا کیوٹ لگا کے منہا کتنی ہی دیر ہنستی رہی پھر اسکی گال پر پیار دیے مسکراتئ کندھے سے جا لگی۔

"ہاہا عباد آپکا میکا ہوتا بھی کیسے۔ آپ لڑکی تھوڑا ہیں ۔ ہاں آپکا سسرال ضرور ہے، دادوو کا کمرہ"

ہنستی ہوئی تو وہ عباد حشمت کیانی کے لیے روح افزائی تھی ، وہ تو آخری سانس تک اسکی مسکراہٹ کے وسیلے بنانے کا خواہش مند تھا۔

منہا کے آگاہ کرنے پر وہ بھی منہ بگھاڑ چکا تھا۔

لڑکی سیدھا سیدھا سسرال کی دھمکی دے کر دبانا چاہ رہی تھی۔

"او ہیلو، تم سے زیادہ وہ میرے دادا ہیں۔ چلو بھاگو آئی بڑی دادا کی لاڈلئ"

بس یہ معاملہ تو تھا ہی ایسا، منہا اب ادا جان کی لاڈلی تھی اور تبھی عباد نے جیلس ہو کر اسکے دادا سنبھال لیے تھے۔

وہ اتنا بڑا ہو کر یوں بچوں کی طرح لڑتا بہت کیوٹ لگا تبھی تو وہ بھینا بھینا مسکراتی گئی۔

"اف آپ اتنے کیوٹ نہ بنا کریں، زہریلے لگتے ہیں"

گدگدی دیتا شرارتی تبسم لیے وہ اس بار عباد کو خاصا چھیڑ چکی تھی اور دل تو اسکا یہی چاہا منہا کو اچھی خاصی گدگدی کرے مگر پھر یکدم ہی دیوانے نے دیوانگی اوڑھ لی۔

ہلکا ہلکا دور پار جلی روشنی کا ملگجا سا سویرا انکے اردگرد حصار بنائے ہوئے تھا، وہ یہاں دنیا جہاں سے کٹ کر عباد کے ساتھ واقعی بہت خوش تھی۔

"منہا۔۔۔ جب سے عبیر آئی ہے، مجھے تم سے مزید عشق ہو گیا۔ کتنی مکمل ہے ناں اب زندگی۔ کمی بس ان خساروں کی ہے جو ذات میں ثبت رہ کر تلخ یادوں کے جنم کا باعث بنتے۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ مجھے پہلے ہی تم کیوں نہ ملی۔ گل مینے کیوں ملی، کیوں اسکا آنا میری زندگئ میں شامل کیا گیا"

اسے اسکی اہمیت بتاتا ہوا وہ ماضی کی تلخ پرچھائی پر دل جلا بنا۔

"کیونکہ مکمل جہاں کسی کو نہیں ملتا ، ہر انسان کے دامن میں اک 'کاش' اور اک 'شاید' بندھا رہ ہی جاتا ہے، یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ مکمل آسودہ بھی ہو جائے تو اپنے خسارے اور زندگی کے تلخ واقعات یاد رکھتا ہے"

وہ سمجھدار اور سیانی تھی، اسکی ہر بات پر عباد کا دل سر ہلاتا تھا۔

وہ اک ٹرانس میں لپٹی یہ سب کہتے کہتے آخر تک مبہم سی مسکان کے سنگ عباد کو دیکھنے لگی جو آنکھوں سے اسکا خوبصورت پیکر دل میں اتار رہا تھا۔

"ایسا ہی ہے راحت روح، لیکن میں صرف تم سے ملنا یاد رکھوں گا اب۔ تم ملی مجھے تو بدل گیا۔ کتنی مبارک ہو ناں تم، میری اولاد کی ماں۔ اور میری شریک حیات مگر تاعمر اب تم عباد حشمت کیانی کی محبوبہ رہو گی۔ ہم اپنی زندگی احد اور عبیر کے سنگ مکمل کر چکے ہیں۔ اب تم صرف میرے لیے ہو، میرے دل کے لیے، میری سانسوں کے لیے اور میرے سکون کے لیے"

زرا سا رخ بدل کر منہا کے دونوں ہاتھ عقیدت سے تھامے وہ انکو چومتا یہ عاشقانہ عہد لیتا ہوا منہا کے دل کی دھڑکنیں ہی تو بڑھا گیا تھا۔

"یہ تو زبردست ہے جناب، ویسے بھی ہماری فیملی تو مکمل ہو گئی ناں۔ اب بندی آپکے لیے ہے بس، احد اور عبیر کی ماں بعد میں ہوں پہلے آپکی منہا ہوں ، راحت، وہ بھی روح کی۔ تھینک یو فار ایوری تھنگ"

اتنا حسین اعتراف کیے وہ اس کے سینے میں سمٹ کر آسودہ سانس بھر گئی۔

جناب کے ہونٹوں پر بھی دل آویز مسکراہٹ اتری۔

"تم جانتی ہو کہ

جب میں

کارِ جہاں سے تھک جاوں

اور میری روح

تھکن سے چُور چُور ہو

تو میری ہجرت

تمہاری انہی بانہوں کے حصار تک ہوتی ہے،

اور اگر تم چاہو تو

میرے دل میں ڈبکی لگا کر دیکھ سکتی ہو

وہاں تمہیں اپنے نام کے سوا

اور کچھ نہیں ملے گا"

مخمور لہجے میں وہ منہا کے کان میں روح تک اترتی سرگوشی کیے اپنے سکون کا بھی اعتراف کر رہا تھا۔

دونوں کے چہروں پر کبھی نہ بجھنے والی روشنی تھی، ایسی روشنی جس نے ان دو کے مقدر چمکا دیے تھے۔

یہاں راحت روح کا سفر اپنی حسین ترین منازلوں کو طے کرنے اڑان بڑھ چکا تھا۔

آسمان کے وسیع و عریض چمکتے ستارے، کہکشائیں ، سرد ہوائیں، راعنائیاں، دلکشی، دلفریبی اور سکھ سب ان دو کے خوبصورت سراپوں پر خوشی سے کھکھلا اٹھے۔

"تمہیں جب دیکھتی ہوں

تو مری آنکھوں پہ رنگوں کی پھواریں پڑنے لگتی ہیں …

تمہیں سنتی ہوں

تو مجھ کو قدیمی مندروں سے گھنٹیوں

اور مسجدوں سے ورد کی آواز آتی ہے

تمہارا نام لیتی ہوں

تو صدیوں قبل کے لاکھوں صحیفوں کے

مقدس لفظ میرا ساتھ دیتے ہیں

تمہیں چھو لوں

تو دنیا بھر کے ریشم کا ملائم پن

مری پوروں کو آ کر گدگداتا ہے

تمہیں گر چوم لوں

تو میرے ہونٹوں پر الوہی آسمانی ناچشیدہ

ذائقے یوں پھیل جاتے ہیں

کہ اس کے بعد مجھ کو شہد بھی پھیکا سا لگتا ہے

تمہیں جب یاد کرتی ہوں

تو ہر ہر یاد کے صدقے میں اشکوں کے

پرندے چوم کر آزاد کرتی ہوں

تمہیں ہنستا ہوا سن لوں

تو ساتوں سر سماعت میں سما کر رقص کرتے ہیں

کبھی تم روٹھتے ہو

تو مری سانسیں اٹکنے اور دھڑکن تھمنے لگتی ہے

تمہارے اور اپنے عشق کی ہر

کیفیت سے آشنا ہوں میں "

عباد کے ہاتھ راحت لگ گئی تھی، تاعمر کی راحت۔ انکی یہ کہانی تک راحت روح کا روپ دھار گئی۔

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Rahat E Rooh Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Rahat E Rooh written by S Merwa Mirza  Rahat E Rooh by S Merwa Mirza  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages