Teri Yahi Mohabbat Chaiye By Ayesha Asgher New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Tuesday, 20 August 2024

Teri Yahi Mohabbat Chaiye By Ayesha Asgher New Complete Romantic Novel

Teri Yahi Mohabbat Chaiye By Ayesha Asgher New Complete Romantic Novel

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Teri Yahi Mohabbat Chaiye By Ayesha Asgher Complete Romantic Novel 


Novel Name: Teri Yahi Mohabbat Chaiye  

Writer Name: Ayesha Asgher

Category: Complete Novel

طاقت ور بنے پھرتے ہیں

لیکن پھر بھی لیتے ہیں بدلہ 

ایک عورت ذات سے ہی کیوں

کب تک رہے گا یہ معاشرہ 

اس ازیت ناک ظلم کا شکار

کب تک ایسے ہی مظلوم لڑکیوں کو

ونی کے رسم کے بھینٹ چڑھایا جائے گا

آخر کب تک یہ لڑکیاں 

بےقصور ہی سزا جھیلتی جائیں گی

طاقت ور بنے پھرتے ہیں

لیکن پھر بھی لیتے ہیں بدلہ

ایک عورت ذات سے ہی کیوں

(ازقلم عائشہ اصغر) 

سورج اپنے پورے آب و تاب سے دنیا کو روشن کرکے 

ایک نئی صبح کا پیغام دے گیا...چرند پرند چہچہاتے ادھر اُدھر اڑتے نظر آرہے تھے،،،تمام لوگ بھی اپنے کام کرتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے،،،ایسے میں تین گھرانہ جرگے کے فیصلے کا انتظار کررہا تھا۔۔۔

ایک طرف انتقام کی آگ لگی تھی تو دوسری طرف دنیاوی طاقت کا استعمال کرتے مظلوم پہ ظلم ڈھایا جا رہا تھا،،،،اور تیسرا گھرانہ اپنے غربت کے مارے بےبسی سے آنسو بہارہا تھا

بوڑھا باپ اپنی لخت جگر کو ساتھ لگائے رورہا تھا،،قریب بیٹھا اسکا بھائی بھی آنسو بہا رہا تھا۔۔۔

انھیں یقین تھا جرگے میں سالوں سے ہوتا ایک ہی فیصلہ ہوگا،،،انکی اکلوتی شہزادی کو ونی کے فرسودہ رسم کے بھینٹ چڑھا دیا جائے گا،،،،وہ لڑکی جو ڈھیروں خواب سجائے بیٹھی تھی،،اپنے باپ کا سہارا بننے کا،،اپنے چھوٹے بھائی کو ایک اچھا مستقبل دینے کا،،،اپنے باپ کا خوف دور کرنے کا جو ہر وقت انھیں خوفزدہ رکھتا تھا،،،،لیکن سارے خواب اسے کانچ کی کرچیوں کے مانند ٹوٹتے ہوئے نظر آرہے تھے،،،،وہ بھی آج باقیوں کی طرح ونی کے بے ہودہ رسم کے بھینٹ چڑھنے والی تھی

کیا اسکی بھی قسمت میں باقیوں کی طرح مار کھانا،،،بات بے بات زلیل ہونا،،،ڈھیر سارے کام کرنا،،،سب کی نفرت سے بھر نظروں،،لہجوں کو برداشت کرنا،،،ہمیشہ کیلئے قید ہونا لکھ دیا گیا تھا یا پھر یہ ایک نئی تاریخ رقم ہونے جارہی تھی،،،،خیر یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکتا تھا

"با..بابا میں کیسے رہونگی آپکے بغیر،،،،کیسے؟؟"......وہ روئے چلی جارہی تھی شاید رونا اسکا مقدر بن گیا تھا

"میری گڑیا مجبور ہے تیرا باپ"،،،،،،وہ بھی اسے سینے سے لگائے آنسو بہارہے تھے

"با...بابا ہم شہر سے یہاں کیوں آگئے،،،ہم تو وہاں بچپن سے رہتے تھے،،،پھر کیوں آئے بابا"،،،،،وہ ہچکیاں لیتے بول رہی تھی،،،اس سوال پر احمد ابراہیم کے چہرے پہ ایک سایہ آکر گزرا 

"مجھے معاف کردو میری بیٹی میں کچھ نہیں کر پارہا اپنی گڑیا کیلئے"،،،،،انکی ضعیف چہرے پہ آنسو موتیوں کی صورت میں لڑھک لڑھک کے داڑھی میں جذب ہورہے تھے

"با...با ایسے تو نہ کہے"،،،،،،انکی بات پہ وہ تڑپ اٹھی

"نہ میں تمہاری ماں کو بچا سکا اور نہ اب تمہیں"،،،،،انکے چہرے پہ کرب کے آثار تھے،،،ماں کے ذکر پر آنسو اور تیزی سے نکلنے لگے

"بابا دعا کریں کچھ ایسا ہوجائے میں اس مشکل سے نکل جاؤں"،،،،وہ اب انکے آنسو صاف کرتے بولی

"انشاءاللہ"،،،،،وہ اسکے ماتھے پہ بوسا دیے

"بابا مجھے اب تو بتادیں ایسی کونسی بات ہے جو آپ کو ہر وقت خوفزدہ کرتی ہے"؟،،،،،وہ انکے ہر وقت خوفزدہ رہنے کے بابت کئی بار پوچھ چکی لیکن اسے کبھی اس بات کا جواب نہیں ملا

"میری بچی جو بات مجھے خوفزدہ کرتی تھی جسکا مجھے ڈر تھا وہ ہوگیا،،،اب نہیں رہونگا خوفزدہ"،،،،،،انکے چہرے  پہ صدیوں کی مسافت تھی

"کیا مطلب"؟......زمل انکی بات سمجھ نہ سکی

"جلد ہی تمہیں میرے خوفزدہ رہنے کے بابت پتہ چل جائے گا"،،،،انکی بات پر زمل سر ہلادی

کونے پہ بیٹھے سترہ سالہ سفیان کے روتے وجود پہ جیسے ہی زمل کی نظر پڑی وہ فوراً اٹھتے اسکے پاس گئی

"سفیان میری جان"،،،،،وہ اسکے آنسوؤں سے تر چہرے کو صاف کرتے بولی

"آپی...میں سچ کہ رہا ہوں،،،میں نے کسی کا قتل نہیں کیا،،،،آپی میں بلکل سچ کہ رہا ہوں"،،،،،وہ فوراً سے زمل سے لپٹتا ہوا بولا

"جانتی ہوں میری جان تم اپنے آپ کو قصوروار مت ٹھہراؤ،،،،،یہ ظالم لوگ ہوتے ہی ایسے ہیں"،،،،،،وہ اچھی طرح سمجھ رہی تھی کہ سفیان کے نام پہ زمل کو ونی کرنا سفیان کو اندر سے کھا رہا تھا،،،

"تم بابا کا خیال رکھنا،،،دل لگا کر پڑھنا اور جو خواب میں بابا کا پورا نہ کرسکی انھیں تم کرنا"،،،،،وہ آنسوؤں پہ بمشکل بندھ باندھتے اسے محبت سے سمجھانے لگی

•••••

ونی یا سوارہ ایک رسم کے دو نام ہیں۔پنجاب میں اسے ونی جبکہ سرحد میں اسے سوارہ کہا جاتا ہے۔سندھ اور بلوچستان میں بھی اس طرح کی رسمیں ہیں۔جن کے ذریعے دو خاندانوں میں صلح کی خاطر جرگہ یا پنچایت کے ذریعے بطور جرمانا ہرجانہ لڑکیاں دی جاتی ہیں۔۔

ونی ایک روایت ہے قدیم زمانہ میں قبیلوں اور خاندانوں میں دشمنیوں اور قتل و غارت کو روکنے کیلئے جرگے اور پنچایت کا نظام رائج تھا اور اسی کے ذریعے اس طرح کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔۔

مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے دور شہنشایت میں ہندؤوں کی رسم ستی  اور مسلمان کی رسم سوارہ یا ونی کے خاتمے کی کوششیں کی لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے۔۔

دنیا اکیسویں صدی میں سانس لے رہی ہے اور پاکستان میں اب بھی سخت ترین قوانین کی موجودگی کے باوجود ملک میں کئی فرسودہ رسومات آج بھی زندہ ہیں۔

وفاقی شرعی عدالت نے سوارہ یا ونی کی رسم کو غیر اسلامی قرار دے دیا تھا لیکن اسکے باوجود پاکستان کے مختلف گاؤں میں یہ گناہ آج بھی ہورہا ہے۔۔

•••••

"بابا سائیں میں نہیں کرونگا نکاح".....اسکی آنکھیں ضبط سے سرخ ہورہی تھیں،،،لہجہ بھی بلا کا سخت تھا،،،کونے میں کھڑی لڑکی باپ بھائی کے بحث پہ آنسو بہاررہی تھی

"زہران خان یہ ہمارا فیصلہ ہے اور تمہیں ماننا پڑیگا"،،،،انکا انداز دو ٹوک تھا

"آپ غلط فیصلہ کررہے ہیں بابا سائیں،،،کیوں اس گناہ میں مجھے بھی شراکت دار بنانا چاہتے ہیں"،،،،وہ بھی انکے دوبدو ہوتا جواب دیا

"ہمارا فیصلہ کبھی بھی غلط نہیں ہوتا،،یہ تو تم کہ رہے ہو اگر کوئی اور ہوتا تو گدی سے زبان کھینچ لیتا"،،،،سرخ آنکھیں لیے وہ تیز آواز میں بولتے در و دیوار کو ہلادیے

"تم اگر نہیں کرنا چاہتے تو نہ کرو،،لیکن یاد رکھنا اسکے بعد حویلی سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہوگا،،،نہ تم مشی سے ملو گے،،،عاق کے پیپر کچھ ہی دن میں مل جائیں گے".....انکا لہجہ ابکی بار پرسکون تھا،،،مشی باپ کی بات پہ اور تیزی سے روتے چچی جان کے گلے لگی

بہن کو روتا دیکھ کر زہران خان نے لب بھینچ لیے،،،اسکا باپ بھی پہنچا ہوا کھلاڑی تھا،،،دونوں اہم جگہوں سے وار کیا تھا،،ابھی اسکے امتحان ہونے تھے اور اسکے بعد ہی اسنے بزنس اسٹارٹ کرنا تھا اور دوسرا بہن سے نہ ملنا،،

"تیار ہوں میں"،،،،،،مٹھی کو سختی سے بھینچے شدت گریہ سے سرخ ہوتی آنکھیں وہ کہتے ہی لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے نکل گیا،،،،پیچھے محتشم خان کے لب مسکراہٹ میں ڈھلے

•••••

ایک طرف سردار محتشم خان،،،زہران خان،،فہد خان بیٹھے تھے،،،دوسری طرف احمد ابراہیم زمل سفیان اور انکے گاؤں کے سردار عالمگیر چوہدری اور شہزاد چوہدری تھے

احمد ابراہیم اپنی بیٹی کے لئیے کچھ بول ہی نہ سکے وہ یہ کہ نہ سکے کہ انکی بیٹی کو ونی کے بجائے انکی جان لے لی جائے،،،،کیونکہ اس فیصلے کا حق انکے سردار نے خود لے لیا تھا

سردار محتشم خان کا سفیان کی بہن کو ونی مانگنا سردار عالمگیر چوہدری نے بلا تردد قبول کرلیا

یہ فیصلہ تو پہلے سے ہی پتہ تھا سب کو بس رسم کے مطابق جرگہ بٹھا کر اس کا اعلان کروایا گیا تھا،،،

زہران خان اور زمل ابراہیم کا نکاح ہوگیا تھا،،محتشم خان نے ایک مسکراتی نگاہ احمد ابراہیم پہ ڈالی اور ان نظروں کا مفہوم احمد ابراہیم اچھی طرح جانتے تھے

زمل اپنی ہاتھوں کی لکیروں کو غائب دماغی سے تک رہی تھی تب ہی خیال آتے اپنے سامنے بیٹھے وجود کو دیکھا جس سے کچھ دیر قبل اسکا نکاح پڑھایا گیا تھا،،،سخت چٹانوں جیسے تاثرات چہرے پہ چھائی بیزاریت،،،مٹھی کو بھینچے جسکی وجہ سے نس ابھرے ہوئے تھا،،،،زمل کا ننھا سا دل ہلا گئی

گوری رنگت جو ضبط کے باعث سرخ ہورہی تھی،،ہلکی براؤن رنگ کی ذہین آنکھیں،،سلکی بالوں کو جیل سے سیٹ کئیے،،وائٹ کوٹن میں ملبوس،،براؤن چادر کو ایک کندھے سے لیے دوسرے پہ ڈالے بلاشبہ وہ خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھا

 سفیان نفرت بھری نگاہ شہزاد چوہدری پہ ڈالتے وہاں سے نکل پڑا

"چل ادھر سے"،،،،،وہ جو اپنی آگے والی زندگی کو سوچنے میں محو تھی اتنی بتمیزی سے مخاطب کرنے پہ سر اٹھایا.....دیکھنے سے وہ تیس پینتیس سال کے لگ بھگ عورت انکی ملازمہ معلوم ہورہی تھی،،،،،زمل فوراً سے اپنے اردگرد نظریں دوڑائیں تو سب جارہے تھے،،،،نگاہیں فوراً باہر کی جانب گئی جہاں اسکے باپ بھائی بےبسی سے آنسو بہاتے اسے دیکھتے ہوئے جارہے تھے یقیناً ان دونوں کو زمل سے ملنے نہیں دیا گیا تھا،،،زمل کی شہد رنگ بڑی بڑی آنکھوں میں آنسو بھر آئیں تھے

کیسی یہ بےبسی ہے

وجود خود کا ہوتے ہوئے

حکم کسی اور کا چلنا ہے

وہ شکستہ قدموں سے اسی ملازمہ کے ہمقدم ہوئی اور ایک گاڑی میں جا بیٹھی

"اتریں اس گاڑی سے"......وہ جو منہ ہاتھوں میں دئیے رورہی تھی اتنے سخت لہجے پہ ڈرتے ہوئے سر اٹھایا،،،خوفزدہ نظروں سے اس شخص کو دیکھا جس کے نکاح میں اسے دیا گیا تھا،،

"اس گاڑی سے اتریں"......اس کی خوفزدہ نظروں کو دیکھتے  اب اسکا لہجہ دھیمہ ہوا تھا لیکن نرمی کے آثار نہ تھے

"ریشمہ اسے دوسری گاڑی میں بٹھاؤ"،،،،،،اسکے ڈرے سہمے وجود کو دیکھتے وہ ملازمہ کو آواز دیا،،،،،زہران خان کے کہنے کی دیر تھی ریشمہ نے اسے نکال کر دوسری گاڑی میں بٹھا دیا اسکے اترتے ہی زہران خان اپنی گاڑی میں بیٹھا

"کہاں جا رہے ہو زہران"؟.....سردار محتشم نے جیسے ہی اسے ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھتا دیکھا فوراً اسکے پاس آئے

"آپ کے کہنے پر تو میں نے یہ سب کرلیا ہے لیکن اسکے آگے مجھ سے کوئی امید نہ رکھے"......وہ بے تاثر لہجے میں کہتا گاڑی زن سے بھگا گیا اسکی بات سن کر سردار محتشم لب بھینچ گئے

ان دونوں کی باتیں سنتی زمل کو اپنی ناقدری پہ رونا آیا

"کونسی ناقدری زمل تم ایک ونی میں آئی ہوئی لڑکی ہو".......لمحے میں ہی وہ تلخی سے اپنے آپ سے مخاطب ہوئی

کچھ دیر کے سفر کے بعد گاڑی اپنی منزل پر پہنچ چکی تھی

"باہر آؤ".......وہی ملازمہ سخت لہجے میں کہتے نیچے اتری

"تو اب مجھے ملازموں کی بھی نفرت سہنے پڑی گی".....سرخ آنکھیں،،بھینچے ہوئے لب،،آنسووں کے مٹے مٹے نشانات،،وہ قابل رحم معلوم ہورہی تھی،،،وہ خاموشی سے اتری

حویلی پہ نظر ڈالتے اسکے چہرے پہ استہزایہ مسکراہٹ بکھری،،،جتنی یہ حویلی خوبصورت دکھتی تھی اس میں رہنے والے لوگ شاید اتنے ہی بے رحم تھے

وہ ملازمہ کی تقلید میں حویلی کے اندرونی حصے پہ جا پہنچی

دو اڈھیر عمر عورت،،انکے ساتھ دو جوان لڑکی کھڑی تھی،،سب کی نفرت بھری نظریں وہ بخوبی محسوس کررہی تھی سوائے ایک لڑکی کے جس کے چہرے پہ ہمدردی تھی یا شاید اسکا وہم تھا یہ تو آگے جاکر ہی پتہ چلنا تھا

بڑے سے کالے رنگ کی چادر سے خود کو چھپائے،،نظریں اپنے پاؤں پہ جمائے،،انگلیاں چٹخا رہی تھی

تبھی ایک زور دار تھپڑ اسکے چہرے پہ نشان چھوڑ گیا،،،اس عمل کیلئیے وہ تیار نہ تھی لڑکھڑاتے ہوئے پیچھے ہوئی،،،گرم سیال ایک بار پھر سے چہرے کو بھگونے لگے

نظریں اٹھائی تو اس سے ہی دو تین سال بڑی لڑکی نفرت سے اسے دیکھ رہی تھی...آج تک اسکے بابا نے اس سے سخت لہجے میں بات تک نہ کی تھی اور اس سے کچھ سال بڑی لڑکی نے اسے تھپڑ لگا دیا تھا

اسکے  اس عمل پہ ان دو خواتین نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا،،جبکہ ہمدرد نگاہ سے دیکھنے والی لڑکی لب کاٹنے لگی

"کیا قصور تھا ہمارا کیوں دیا اتنا بڑا غم؟..ہاں بولو ایک ماہ بعد شادی تھی ہماری"،،،،،وہ جنونی انداز میں بولتے اسکے گردن کو اپنے ہاتھوں کے شکنجے پہ لیتے گرفت مضبوط کی،،،،زمل تڑپتے ہوئے اسکا ہاتھ ہٹانے لگی

"مفسرہ چھوڑو اسے"،،،،،سردار محتشم کی زوجہ فضیلہ بیگم نے آگے بڑھ کر اسے چھڑوایا

"کیا کررہی تھی تم"؟.....وہ تھوڑے سختی سے بولی،،،،،زمل بری طرح کھانسنے لگی تھی

"تائی جان ہم نے کہا تھا اس لڑکی کو نہ لائیں حویلی میں اسے دیکھ کے ہمارا غم اور بڑھے گا کم نہیں ہوگا،،،نہیں ہوگا کم،،،،ہم نے کہا تھا آپ لوگوں سے،،کہا تھا ہم نے جہاں مہران خان کا خون گرا ہے وہی پہ اسکے بھائی کا بھی گرنا چاہیے تبھی سکون آئے گا ہمیں"،،،،وہ روتے چیختے ہوئے بولتی وہاں سے اپنے کمرے کی جانب بھاگی،،،،،جبکہ زمل اپنے بھائی کے بارے میں سن کر تڑپ گئی

"مہرماہ دیکھوں اسے جاکر"،،،،وہ اپنے پیچھے کھڑی مفسرہ کی ماں کو بولی تو وہ سر ہلاتے بیٹی کے کمرے کی جانب گئی

"مشل اسے فلحال اسٹور روم میں لے کر جاؤ پھر میں کچھ کرتی ہوں"،،،،وہ بھی کہتے وہاں سے چلی گئی

اب ہال میں صرف ہمدرد نگاہ سے دیکھنے والی لڑکی اور زمل بچے تھے

"چلیے"......وہ نرم لہجے میں اسے پکاری

اسکے تمیز سے مخاطب کرنے اور نرم لہجے پہ وہ تلخی سے مسکرائی،،،وہ اسکے پیچھے چلنے لگی

بوسیدہ سا اسٹور روم جہاں کتنے ہی فالتو سامان پڑے تھے،،کتنے ہی گرد غبار تھے،،،روشنی کے نام پہ صرف زیرو پاور بلب روشن تھا،،،،حویلی کے اندرونی حصے میں ہونے کی وجہ سے یہاں سورج کی روشنی بھی نہیں آتی تھی،،،اتنے گرد غبار سے دونوں کو بے ساختہ کھانسی ہوئی

"کچھ چاہیے ہوگا تو بتادیے گا"،،،،،مشل اس پہ دکھ بھری نظر ڈالتے بولی

"کیا مجھے مانگنا چاہیے"؟.....اسکی بات پہ زمل تلخی سے بولی

"سوری".....مشل اپنی نرم طبیعت کی خاطر پوچھ بیٹھی تھی لیکن شاید اسکے الفاظ پہلے سے ہی دکھی لڑکی کو اور تکلیف پہنچا گئے

"سنو مجھے سوری مت کہو میں یہاں یہ الفاظ سننے نہیں آئی"،،،،اسکے نرم لہجے پہ اب زمل بھی نارمل انداز میں بولی

"کیوں آپ انسان نہیں ہے"؟.....وہ اپنی بھیگی آنکھوں سے دیکھتے پوچھی

"تم میں اور مجھ میں فرق ہے".....وہ لب کاٹتے بولی

"فرق؟.....کونسا فرق؟....مجھے تو کوئی نہیں دکھ رہا آپ بھی انسان ہیں اور میں بھی ہم دونوں کو ہی اللّٰہ نے پیدا کیا ہے،،،کسی کو کسی پہ کوئی فوقیت نہیں سوائے تقوی کے یہ ہمارے نبی نے کہا ہے تو مجھے تو کوئی فرق نہیں دکھتا….......آپ کو پتہ ہے یہ آنکھیں کیوں نم ہیں ایک مظلوم کو بلاوجہ ظلم سہتے دیکھ کر اپنے بابا سائیں اور مورے کے کندھے پہ ایک اور گناہ کا اضافہ ہوتے دیکھ کر"،،،،،،،،وہ تکلیف سے کہتے جانے کیلئے مڑی

"تم زہران خان کی بہن ہو"؟.......اس لڑکی کے نین نقش بلکل اپنے بھائی جیسے تھے،،،بلکل اپنے بھائی کی طرح خوبصورت،،،اس حویلی کے تو سارے ہی لوگ خوبصورت تھے شاید خان حویلی کو خوبصورت وراثت میں ملی تھی

  زمل بھی خوبصورتی میں کوئی کم نہ تھی اور یہ خوبصورتی اسے اپنی ماں سے ملی تھی

مشل بغیر مڑے ہی"ہاں"میں سر ہلاتے وہاں سے چلی گئی اور زمل وہی گندے فرش پہ بیٹھتے چلی گئی

ہاتھ بے ساختہ گالوں پہ گئے اب شاید ایسے تھپڑ اور کھانے تھے

"یااللہ مجھے اس مصیبت سے نکال دے"......گھٹنوں میں سر دئیے وہ سسکنے لگی،،،باپ اور بھائی کے آنسووں سے تر چہرے اسے اور رلا رہے تھے،،،،اسے حویلی کے لوگوں سے نفرت ہونے لگی تھی۔۔

*******

"ابے یار اتنے غصے میں کیوں ہے کچھ بتائے گا"؟......نعمان اسکے ساتھ صوفے پہ بیٹھا تھا وہ جب سے آیا تھا ٹہلے جارہا تھا اب کہیں جاکے بیٹھا تھا

"تجھے معلوم ہے مجھے اس بے ہودہ رسم سے کتنی نفرت ہے اور بابا سائیں کو لاکھ دفع منع کرنے کے باوجود وہ وہی کیے،،،عاق کرنے کی دھمکی دے دی تھی مجھے،،،خون کے بدلے خون کے بجائے وہ اسکی بہن کو ونی میں لے آئے ہیں"،،،،،اس لہجے میں دکھ تکلیف کیا کیا نہیں تھا

"تو یار ونی میں آئی ہوئی لڑکی ہے نہ تو وہی ماہم سے شادی کرنا"......نعمان اپنے تئیے سمجھتے ہوئے بولا

بات صرف شادی کی نہیں ہے اور یہ ماہم کا ذکر کہاں سے آگیا....خیر اگر میرا بزنس اسٹارٹ ہوگیا ہوتا نہ تو کبھی بابا کے اس گناہ میں کبھی حصے دار نہ بنتا،،،اور مجھے ملال اس بات کا ہے اب اس بےقصور لڑکی کے ساتھ یہ لوگ برا سلوک کرینگے"،،،،،وہ ماتھا مسلتا اضطراب سے بولا

"تو پریشان نہ ہو پیپر سے فارغ ہوجا پھر سوچنا کیا کرنا،،،اور کنسٹرکشن کا کام تو جاری ہے انشاءاللہ جلد ہی ہماری کمپنی تیار ہوجائیگی"،،،،،وہ یہ کہ کر خاموش ہوگیا،،،،وہ اسکا بیسٹ فرینڈ ہو کے بھی اسے سمجھ نہیں پاتا تھا اسے،،یہ کیا اسکا کوئی بھی گروپ میمبر نہیں سمجھ نہیں پاتا تھا،،،،کیونکہ اسکی سوچیں اسکی باتیں سب منفرد تھی۔۔

******

"ریشمہ.....ریشمہ"،،،،،فضیلہ بیگم کی چنگھاڑتی ہوئی آواز پر ریشمہ جن کی بوتل کی طرح حاضر ہوئی

"جی  خان بی بی"،،،،،فضیلہ بیگم کو سارے ملازم  خان بی بی کہتے تھے،،،،نظریں نیچے کیے ہی کہا اتنی ہمت ہی نہیں تھی کہ نظریں ملا سکے

"اس چھوکڑی کو لے کر آؤ سارے کیچن کا کام صفائی ہر ایک چیز اس سے کرواؤ گی ذرا سا بھی آرام مت دینا اسے"،،،،،وہ نفرت سے بھر ہو لہجے میں بولی

"جاؤ اب"،،،،انکے کہنے پر وہ تیزی سے گئی

"اے لڑکی بعد میں رونا دھونا کرنا ادھر سے اٹھ جلدی"،،،،ابھی جس ریشمہ کی نظریں اٹھانے کی ہمت نہیں تھی اب وہی رعب دکھا رہی تھی

زمل آنسو صاف کرنے لگی،،،اس ملازمہ کی بھی نفرت پہ اسے اپنی زات بے معنی سی لگی،،،بوجھل قدموں سے اسکے پیچھے پیچھے چلنے لگی

باورچی خانے میں پہنچ کر وہ اسے سارے کام بتانے لگی،،،،اتنے زیادہ کام سن کر وہ چکرا گئی،،لب سئیے خاموشی سے سنتی رہی،،کھانا بنانے کا کام بھی اسے ہی دیا گیا تھا،،،اسے چند ایک اہم چیزوں کے علاؤہ کچھ بنانا نہیں آتا تھا،،،بلاشبہ وہ تئیس سال کی تھی لیکن اسکے بابا نے اسے کچھ کرنے ہی نہیں دیا تھا یہ کہ کر"تم پڑھائی میں سخت محنت کرو اور باپ کا سہارا بنو"،،،وہ بابا کا حکم بجا لاتے دل لگا کے پڑھائی کرتی اور اپنے ڈیپارٹمنٹ کی ٹاپر رہتی۔۔۔۔

"یہ سب کام تو کل سے کریگی زرا سی بھی کوتاہی ہوئی تو  خان بی بی کے عتاب سے بچ نہیں سکے گی...سمجھ رہی ہے نہ؟"......وہ سخت لہجے میں استفار کی،،،،زمل آنسو پیتے اثبات میں سر ہلادی

زمل کا کھڑے کھڑے حال برا ہوگیا،،،یہ سوچ کر ہی وہ ہلکان ہورہی تھی کہ یہ سارے کام کل سے اسنے کرنے ہیں،،،،شام اب آہستہ آہستہ رات میں ڈھل رہی تھی،،،،زمل لمحے کیلے ماربل سے ٹیک لگا کر کھڑی ہوئی تھی کہ فضیلہ بیگم کی آواز پر تیزی سے سیدھی ہوئی

"سنو لڑکی"......انکا لہجہ اسپاٹ تھا،،،کسی بھی احساس سے عاری

"جج...جی"،،،،،زمل ڈرتے ہوئے پوچھی

"میرے ساتھ آؤ"،،،،،وہ اس پہ نفرت بھری نظر ڈالتے آگے بڑھی،،،،زمل آہستہ آہستہ انکے پیچھے چلنے لگی

وہ باورچی خانے سے نکلتے ہال کی طرف آئی تھی وہاں سے آگے ایک خوبصورت لمبی راہداری کراس کرتے وہ وہ ایک کمرے کے آگے جاکر رکی

حویلی بس صرف نام کی ہی حویلی تھی ورنہ اندر سے اسکی تعمیر جدید طرز سے کی گئی تھی

دروازے کا ناب گھماتے وہ اندر داخل ہوئی،،،پیچھے مڑ کے دیکھا تو زمل دروازے پر ہی استادہ تھی

"اندر آؤ وہاں کیوں کھڑی ہو"،،،،،وہ غصے سے گویا ہوئی،،،انکی تیز آواز پر بیڈ پر لیٹا بوڑھا وجود آنکھیں کھول کر انھیں دیکھنے لگا،،،،اس بوڑھے وجود کی آنکھوں میں جہاں انھیں دیکھ کر خوف ابھرا تھا وہی زمل کو دیکھ کر انکی آنکھیں الگ ہی انداز میں چمکی تھی

"انکا ہر کام آج سے تم کروگی،،،کھانے کھلانے سے مالش تک،،،دوائیاں بھی وقت پر دوگی اور ہاں مجھے ان سے کبھی بھی بات کرتے ہوئی نہ دکھو"،،،،،وہ اسکے بالوں کو ہاتھوں کے شکنجے میں جکڑی،،،،زمل سی کرکے رہ گئی،،،آنکھیں نمکین پانی سے بھرنے لگی۔۔

"ابھی انھیں دوائی دے کر اسٹور روم میں جاؤ اور حویلی میں بلامقصد اپنا منحوث وجود لیے مت گھومنا"،،،،،،وہ ایک جھٹکے سے اسکا بال چھوڑتے نفرت سے بولتی کمرے سے نکل گئی،،،،،زمل آنسو کو انگلیوں کے پوروں سے صاف کرتے چلتی ہوئی بیڈ پر اس بوڑھے وجود کے پاس بیٹھتے سائیڈ ٹیبل سے دوائیاں اٹھا کر دیکھنے لگی

"بیٹی"،،،،اس لہجے میں محبت ہی محبت تھی

"جی"،،،،،،زمل چونک کر انھیں دیکھنے لگی

"میری بچی"،،،،،، اپنے نحیف ہاتھوں سے اسکا چہرہ تھاما

'آپ کو مجھ سے نفرت نہیں ہورہی"؟........زمل انکے انداز پر بے یقینی سے پوچھی،،،کیا کوئی اس حویلی میں اسے محبت سے پکار سکتا تھا

"نہیں میری بچی،،،مہران بہت اچھا بچہ تھا لیکن اللہ کی چیز تھی اس نے لے لی".....انکی آنکھیں مہران خان کی یاد میں نم ہوئیں

"میرے بھائی نے مہران خان کو نہیں مارا اس معصوم کو تو کسی نے پھنسایا ہے"،،،،،،انکے شفقت بھرے انداز میں زمل کو کچھ حوصلہ ہوا

"میری بچی تجھے یہ حویلی والے اس لئیے نہیں لے کر آئے ہیں بلکہ تجھے لانے کے پیچھے کوئی اور مقصد.........."

"تو ابھی تک ادھر ہی خان بی بی نے تجھے جلدی کرکے جانے کو بولا تھا نہ"،،،،،،ریشمہ کی چنگھاڑتی ہوئی آواز پر دونوں اپنی جگہ کانپ کر رہ گئی،،،،زمل جلدی سے انھیں دوائی دے کر اٹھی،،،،اسکے اٹھنے پر بوڑھے وجود کے چہرے پہ اداسی چھائی جسے زمل نے بخوبی محسوس کیا،،،،زمل تو ویسے ہی انکی بات پر الجھ گئی تھی،،،،،آہستے سے محبت سے انکا ہاتھ تھپتھپاتے اٹھ کر کمرے سے نکل گئی

رات کا اندھیرا ہر سو چھا رہا تھا،،،وہ اسٹور روم میں آئی تو لیٹنے کیلئے جگہ تلاشنے لگی،،،،نظریں دوڑا کر ایک کارٹن کے اوپر سے بچھانے کے غرض سے مٹی سے اڈا چادر اٹھایا اور جھاڑنے لگی،،،،اتنی ذیادہ دھول سے اسے کھانسی ہونے لگی لیکن پانی لانے کی ہمت نہیں تھی،،،اسے تو کھانے کو بھی بچا کچا دیا گیا تھا،،دو تین نوالہ بمشکل نگلتے وہ وہی کچن میں پلیٹ رکھ دی تھی،،،اچھی طرح جھاڑنے کے بعد وہ ایک کونے پہ بچھا چکی تھی،،،قریب ہی ایک پرانا تکیہ پھینکا تھا،،،یقینا یہاں حویلی کی پرانی چیزیں رکھ دی جاتی ہونگی بلکہ پھینکنا کہنا مناسب ہوگا کیونکہ یہاں کوئی بھی شے رکھی ہوئی نہیں بلکہ پھینکی ہوئی تھی،،،صد شکر تھا وہ گاؤں کی لڑکیوں کی طرح صرف چادر نہیں لیتی تھی بلکہ ڈوپٹہ سر پہ رکھتی اور چادر ایک کندھے سے لے کر دوسرے کندھے پہ لاکر اوڑھتی تھی،،،،چادر اتار کر اپنے اوپر لیا اور ڈوپٹہ تکیہ پہ بچھا کر لیٹ گئی،،نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی،ساری رات آنکھوں میں ہی کٹنی تھی آنسو نکل نکل کر تکیے کو بھگو رہے تھے،،،باپ بھائی کی یاد شدت سے یاد آرہی تھی ایک انجان جگہ پر لیٹے اسے اپنا گھر بہت یاد آرہا تھا

اسکی اٹھارہ سالہ زندگی شہر میں گزری تھی تین سال پہلے ہی وہ لوگ پری وش(زمل اور سفیان کی ماں) کی کار ایکسیڈنٹ میں ہونے والی موت کے بعد وہ لوگ گاؤں آگئے تھے،،،،اور زمل کے کتنے بار ہی پوچھنے پر وہ لوگ گاؤں کیوں آئے ہیں احمد ابراہیم نے اسے کبھی جواب نہیں دیا تھا *******

"ایک بیٹا تو مجھ سے دور ہوگیا دوسرے کو آپ کیوں ہورہے ہیں"؟......فضیلہ بیگم بیڈ میں دوسری سائیڈ پہ بیٹھے فائل اسٹڈی کرتے محتشم خان سے بولی

"پریشان نہ ہو غصہ ٹھنڈا ہوگا تو آجائے گا".....وہ مصروف سے انداز میں گویا ہوئے

"آپ اس لڑکی کو کیوں لے کر آئے ہیں میرے بچے کا بدلہ اس کے بھائی سے لیتے نہ"......انکی آنکھیں مہران خان کی یاد میں نم ہورہی تھی

"تم اچھی طرح جانتی ہو اس لڑکی کو اس حویلی میں لانے کا مقصد صرف مہران خان کی موت کا بدلہ لینا نہیں ہے بلکہ کسی اور چیز کا بھی"......وہ پرسوچ انداز میں بولے

"تو کیا آپ میرے بیٹے کا بدلہ نہیں لینگے"؟......

"وقت آنے پر میں اس لڑکے کو مار کر اپنے بیٹے کا بھی بدلہ لے لونگا اور جتنا ہوسکے اس لڑکی کو تکلیف دیں اور اسکی وڈیو بناکر مجھے دے دیے گا"....... آخری بات کہتے انکی گھنی مونچھوں تلے لب پر مسکراہٹ رینگی

دوسرے پر رعب جمانے والی فضیلہ بیگم محتشم خان کے آگے کچھ کہ نہ سکتی تھی خاموشی سے دوسری کروٹ لیتے لیٹ گئی۔۔

                                  *******

اسکی آنکھ بمشکل اپنی آگے آنے والی زندگی کو سوچتے ایک گھنٹہ پہلے ہی لگی تھی کہ کسی کی تیز آواز پر جھٹ سے کھلی،،،مندی مندی آنکھیں کھول کر دیکھنے لگی تو سامنے ہی ریشمہ کا چہرا دکھا،،،،کل کا سار منظر فلم کی طرح اسکی آنکھوں میں گھوما،،،مطلب وہ اپنے بابا کے گھر نہیں تھی اسے تو ونی کے رسم کے نظر کردیا گیا تھا.....سرخ آنکھیں رات بھر جاگنے اور رونے کی چخلی کھا رہی تھی

"آدھے گھنٹے میں باورچی خانے میں پہنچو"…...اسکی آنکھیں دیکھ کر ایک لمحے کو ریشمہ کے دل کو کچھ ہوا لیکن اگلے لمحے ہی ہمدردی کا"ہ"بھی نکل گیا،،،حویلی کے لوگوں کی طرح شاید انکے دل بھی پتھر ہوگئے تھے

"سنئیے"،،،،وہ جانے لگی تھی کہ زمل پکار بیٹھی

"بولو"،،،،وہ نخوت سے بولی

"و...ہ....مجھے وضو بنانا ہے"،،،،،آہستگی سے کہا

"میرے کمرے میں آکر بنالو"،،،،خلاف توقع وہ آرام سے بولی،،،،زمل اسکی تقلید میں ملازموں کی رہنے والی جگہ پر چلی گئی جہاں چھوٹے کمرے ملازموں کے رہنے کیلئے بنائے گئے تھے،،،،زمل نماز ادا کرکے اپنے بھائی باپ کیلئے ڈھیروں دعائیں کرتے  اٹھ کر نم آنکھیں لیے کچن کی طرف چل دی

"سنو لڑکی تم بڑے خان کیلئے ساگ اور گڑ کا شربت بناؤ ان دو چیزوں کے بغیر وہ ناشتہ نہیں کرتے اور مفسرہ بی بی کیلے لسی"،،،،،،جیسے جیسے کرکے وہ ساگ تیار کر ہی دی

"وہ مجھے گڑ کا شربت بنانا نہیں آتا"،،،،،،تھوڑی دیر بعد وہ ہمت کرکے بولی

"گل مینا تم کو بتاتی جائے گی اور تم بناؤ"،،،،،وہ وہاں کھڑی ایک کم عمر ملازمہ کو دیکھتے بولی،،،،،زمل اسکے بتانے پر بناتی جارہی تھی،،،بناتے وقت اسکے ہاتھ کپکپا رہے تھے،،،،ایک خوف دل میں کنڈلی مارے بیٹھا تھا

*****

آج زہران خان کا پہلا پیپر تھا،،وہ ایم بی اے کے لاسٹ ائیر میں لاسٹ سیمیسٹر کا پیپر دے رہا تھا ان پیپروں کے بعد اسے ڈگری مل جانی تھی۔۔۔وہ حویلی میں ایک بار بھی کال نہیں کیا تھا،،،اسکا غصہ کسی طور پہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا اور وہ غصے میں بابا سائیں اور مورے سے بتمیزی کرنا نہیں چاہتا تھا،،،،ابھی پیپر شروع ہونے میں آدھا گھنٹہ باقی تھا وہ یونی کے لان میں خاموش سا بیٹھا تھا،،،،کہ یکایک ذہن میں گاڑی میں بیٹھی خوفزدہ سی لڑکی کا عکس ابھرا ابھی وہ اسے سوچ رہا تھا کہ نعمان اسکے پاس آکر بیٹھا

"یار تیری خوبصورتی کی تو کیا ہی بات ہے ہر لڑکی تیرے لیے مرنے کو تیار ہے اب بیچاریوں کو تیرا دیدار نصیب نہیں ہوگا"،،،،،،نعمان اسکی ڈیشنگ پرسنیلٹی سے مرعوب تھا،،،،اور وہ انتہا کا وجیہ انسان کبھی بھی اپنی خوبصورتی کو لے کر کسی کو ڈیگریڈ نہیں کرتا اور نہ ہی غرور کرتا۔۔

"اگر ایسی بات ہے نہ تو مجھے اپنی خوبصورتی سے نفرت ہے"......اسکے چہرہ کسی بھی تاثر سے پاک تھا

"تو تو بہت بڑا ناشکرا ہے"......نعمان کو اسکی بات کچھ خاص پسند نہیں آئی

"میں ناشکرا نہیں ہوں بلکہ اس رب کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے میں خائف اپنے آپ سے ہوں کہ میری خوبصورتی کی وجہ سے انکے دل میں غلط خیال آتے ہیں وہ غلط راہ پہ چلنے لگتی ہیں".....وہ ٹھر ٹھر کر بولا

"تو یار اس میں تیری کیا غلطی ہے تیری بات تو میرے سمجھ میں نہیں آتی".....وہ وہاں سے کھڑا ہوتا بولا

"میری بات تو کسی کے سمجھ میں نہیں آتی"....وہ ہلکے سے ہنستا ہوا بولا

وہ منفرد تھا وہ عام مردوں جیسا نہیں تھا،،،اگر لڑکیاں اسکی طرف اسکی خوبصورتی کی وجہ سے راغب ہوتی تھی تو وہ ہرگز یہ نہیں کہتا انکا کریکٹر اچھا نہیں ہے وہ اچھے گھر سے نہیں ہے بلکہ اسے بھی اپنی غلطی ٹھرا دیتا

****

وہ ساڑھے پانچ بجے سے لگی تھی اور ناشتہ بناتے بناتے پورے دو گھنٹے ہوگئے تھے،،ریشمہ نے اس سے اچھی خاصی چیزیں بنوائی تھی اور ساتھ بتا بھی دیا تھا یہی چیزیں روز بنی گی،،زمل کا تو برا حال ہوچکا تھا،،اسکی جان اسی میں نکل رہی تھی اور اب اسے دوپہر اور رات کا کھانا بھی تیار کرنا تھا ساتھ صفائی بھی۔۔۔

آٹھ بجے سب ہی ناشتے کی میز پر موجود تھے....

"یہ گڑ کا شربت کس نے بنایا ہے"؟...... سردار محتشم گھونٹ بھرتے ہی ڈھارے،،،ٹیبل پر سکوت سا چھا گیا

"ریشمہ بلا کر لاؤ اس منحوث لڑکی کو".....سردار محتشم کا غصہ دیکھتے فضیلہ بیگم ریشمہ کو آواز دی

مشل بےبسی سے آنے والا وقت سوچنے لگی

زمل ڈرتے ڈرتے آہستگی سے چلتے ہوئے آرہی تھی کہ تبھی سردار محتشم پوری قوت سے گلاس اسکے قریب پھینکے وہ سہم کر پیچھے ہوئی،،،آنکھوں کی پتلیاں خوف سے پھیل گئی،،،شہد رنگ آنکھیں نمکین پانی سے بھرنے لگی

"سنو لڑکی تمہارے بھائی نے میرے بیٹے کو تو مجھ سے چھین لیا لیکن اسکا خمیازہ تم بھگتو گی"......وہ نفرت سے اسے دیکھتے بولے

"فضیلہ بیگم اسے اسکی اوقات اچھی طرح یاد دلائیں اور ہر غلطی کی سزا دیں".......اس سے کہنے کے بعد وہ فضیلہ بیگم سے بولے اور لمبے ڈگ بھرتے باہر نکلے ارادہ زمینوں پر جانے کا تھا

"یہ صاف کرو پھر بعد میں تم سے نمٹتی ہوں"......سخت لہجے میں کہتے وہ دوبارہ ناشتہ کی طرف متوجہ ہوئی

"لڑکی تمہاری ماں نے کچھ بنانا سکھایا بھی ہے یا نہیں"........وہ جو کانچ کے ٹکڑے اٹھا رہی تھی فضیلہ کی غصے سے بھری آواز میں گھبراہٹ میں کانچ کے ٹکڑے اسکے ہاتھ کو اچھا خاصہ زخمی کرگئے

لفظ"ماں"اور تکلیف کی شدت سے شہد رنگ آنکھیں برس پڑی

"مورے اسکا خون نکل رہا ہے"......مشل  فوراً سے کرسی سے اٹھ کر اسکی طرف بڑھنے لگی

"مشل رک جاؤ وہی"......وہ تیز آواز میں وارن کی

"مورے لیکن اسکا خون بہ رہا ہے".....وہ اسکے بہتے خون کو دیکھ کر بےچین ہوئ

"مشل دوبارہ اپنی جگہ پر جاؤ اور دوبارہ مجھے کہنا نہ پڑے".....

اپنی ماں کی سفاکی کی انتہا دیکھ کر وہ وہاں سے اپنے کمرے کی جانب جانے لگی تھی کہ انکی کہی گئی بات پر وہی منجمد ہوئی

"مشل دوبارہ ٹیبل پر آؤ اور اب بتمیزی ہوئی تو انجام کی زمہدار آپ خود ہونگی".....مشل چارو نا چار ٹیبل پر آکر بیٹھ گئ

"جاؤ تم".....وہ زمل کو دیکھ کر نخوت سے بولی

"مشل بھابھی بلکل ٹھیک کہ رہی ہیں اور جلدی سے ناشتہ کرو یونیورسٹی بھی تو جانا ہے"...... مہرماہ بیگم جو ہر بات میں فضیلہ بیگم کے "ہاں" میں "ہاں" ملاتی تھی

زمل جانے کیلئے اٹھی تو غیر ارادی طور پر نگاہ مفسرہ کی طرف پڑھی جسکے لب مسکرا رہے تھے زمل سے نظریں ملنے پر اسکی مسکراہٹ اور گہری ہوئی،،،زمل الجھ گئی لیکن کہ کچھ تھوڑی نہ سکتی تھی۔۔زمل کچن میں آکر آنسو بہانے کے ساتھ پٹی کرنے لگی

دوپہر میں من پسند کھانا نہ ملنے پر مفسرہ اسے ایک اور تھپڑ لگا چکی تھی۔۔۔لیکن کسی نے اففف تک نہ کہا۔۔۔زمل یہی اندازہ لگا سکی کہ مفسرہ یا تو اس حویلی کی لاڈلی ہے یا پھر مہران خان کی موت کے بعد اسکی ہر بےجا ضدیں پوری ہونے لگی ہیں۔۔

                                        ****

"مفسرہ بچے میں جانتی ہوں یہ دکھ بہت بڑا ہے نہ صرف تمہارے لیے بلکہ ہمارے لئیے بھی،،،جوان بیٹا کھویا ہے میں نے"،،،،،وہ دکھ سے بولی

فضیلہ بیگم اسکے سامنے بیڈ پر بیٹھی تھی اور مفسرہ کی دوسری طرف مہرماہ بیگم تھی

"اس طرح کمرے میں بند رہ کر خود پر اور ہم پر یوں ظلم نہ کرو"......وہ اسکو خاموش دیکھ کر بولی

"بھابھی میں اتنا اسے سمجھا رہی ہوں لیکن اسے کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا اتنے مشکلوں سے تو کھانے کے ٹیبل پر لاتی ہوں"......مہرماہ بیگم دکھ سے اپنی بیٹی کو دیکھتے بولی

"آپ پریشان نہ ہو تائی میں کوشش کرونگی بلکہ ایسا کرتی ہوں آج ہی جھیل کے کنارے پر چلی جاتی ہوں ایک وہی جگہ تو مجھے سکون دیتی ہے"......وہ ہلکے سے مسکائی

"جہاں جانا ہے وہاں جاؤ،،،اچھا مجھے زرا ایک کام ہے میں چلتی ہوں".....وہ اسکے ماتھے پہ پیار کرتی بولی

"میں بھی چلتی ہوں بھابھی".....مہرماہ بیگم بھی انکے پیچھے نکل گئی

پیچھے مفسرہ فوراً سے اپنی نم آنکھوں کو صاف کی اور مسکراتے ہوئے واڈروب سے اپنے پہننے کیلئے کپڑے نکالنے لگی

*****

ایک لڑکی گھنے درخت کے پاس چادر سے چہرہ کور کیے کھڑی تھی تلاشتی نظریں دائیں بائیں دوڑا رہی تھی تبھی اسکے سامنے بلیک مرسیڈیز آکر رکی اور اس کے چہرے پہ اطمینان پھیل گیا

فرنٹ ڈور کھولے اس میں سے ایک وجیہ مرد نکلا براؤن کمیز شلوار گوگلز لگائے پشاوری چپل،،،،وہ شاہانہ چال چلتے اسکے قریب آیا اسکے آتے ہی وہ چہرے سے چادر ہٹادی

"کیسی ہو"؟....وہ مسکراتا ہوا پوچھا

"ٹھیک ہوں ویسے مجھے یقین نہیں تھا تم یہ کام اتنی آسانی سے کردوگے"؟.....

"تمہیں مجھ پہ یقین نہیں"؟..... اسکے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں لیتا وہ پوچھا

"ہاتھ تو چھوڑو".....وہ ہلکا سا احتجاج کی

"صرف ہاتھ ہی تو پکڑا تھا"......وہ ناراضگی سے کہتا اس کا ہاتھ چھوڑ دیا

"اچھا بابا پکڑ لو"......اس لڑکی کو کہاں اسکی ناراضگی برادشت تھی

"تم نے بتایا نہیں"...... وہ اس کے خوبصورت چہرے کو اپنی نظروں کی گرفت میں لیتا بولا

"کیا"؟.....وہ آئبرو اچکاتے پوچھی

"یہی کہ تمہیں مجھ پہ یقین نہیں"؟......وہ دوبارہ اپنی بات دہرایا

"یقین تو ہے لیکن یہ کام اتنا رسکی تھا مجھے لگا تم منع کردو گے"......

"تمہاری محبت میں تو کچھ بھی کرسکتا ہوں".......وہ مسکراتا ہوا بولا تو وہ بھی مسکرادی

"اچھا یہ بتاؤ کسی کو شک تو نہیں تم مجھ سے ملتی ہو"؟.....کچھ یاد آتے ہی وہ پوچھا

"نہیں"......وہ نفی میں سر ہلائی

کچھ دیر تک وہ دونوں یونہی باتیں کرتے رہے اور پھر دوسرے دن ملنے کا وعدہ لیتا اپنی اپنی راہ پہ چل دئیے۔۔۔۔ان دونوں کی ایسی ملاقاتیں تو کب سے ہوتی آرہی تھی

*****

سارے کام ختم کرکے زمل دادی کے کمرے میں آئی اب اسکے ساتھ ایک اور ملازمہ بھی آئی تھی،،،زمل دادی سے اس دن کہی جانے والی بات کے بابت پوچھ نہ سکی اور نہ ہی دادی اس سے کچھ کہ سکی،،،،بس وہ اسے محبت بھری نظروں سے دیکھتی رہی۔۔۔

مفسرہ کی پراسرار سی مسکراہٹ

اور دادی کی آنکھوں میں اپنے لئیے بے تحاشا محبت

اسے بری طرح الجھا رہی تھی،،،،لیکن ابھی اسے سلجھانا آسان نہیں تھا۔۔۔

وہ دادی کے تمام کام کرکے اسٹور میں گئی

وہ دوبارہ سے وہی تھی اسی انجان جگہ باپ بھائی سے دور ایک اور رات گزارنی تھی یا پھر پتہ نہیں کتنی راتیں

اس کا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا۔۔۔باپ بھائی کو یاد کرتے آنکھیں بھیگی،،،،اب شاید یادوں نے ہی ستانا تھا،،،باپ بھائی کو یاد کرتے غیر ارادی طور پر سوچوں کے دھاگے زہران خان کی طرف گئے

"یااللہ زہران خان کل سے نہیں آئے،،،کیا وہ بھی حویلی کے باقی لوگوں کے جیسے ہیں"....دل میں نئی کونپلوں کے کھلنے کا شاید شروعات ہورہا تھا

ان ہی سوچوں میں تھک ہار کر نیند کی وادیوں میں چلی گئی۔۔

****

پورے نو دن گز چکے تھے اسے حویلی آئے لیکن زہران خان اب تک حویلی نہیں آیا تھا۔۔۔مفسرہ بات بے بات اسے تھپڑ لگا دیتی۔۔فضیلہ بیگم اور محتشم خان کی نفرت سے بھری باتیں وہ ضبط سے سنتی اسکے علاؤہ کر بھی کیا سکتی تھی۔۔اس دن کے بعد سے اسے اب تک دادی سے بات کرنے کا موقع نہیں ملا تھا کیونکہ جب بھی وہ دادی کے کمرے میں جاتی تو ایک ملازمہ بھی اسکے ساتھ ہوتی۔۔۔مشل سے بھی اسکی مختصر ہی بات ہوتی تھی دوپہر کو وہ یونیورسٹی میں ہوتی اور شام کو فضیلہ بیگم اسے اپنے ساتھ الجھائے رکھتی تھی تاکہ وہ زمل سے مل نہ سکے۔۔۔۔ان نو دنوں میں باپ بھائی کے ساتھ ایک اور شخص بھی اسکے خیالوں میں ہوتا تھا۔۔

****

"ہیلو بیوٹی فل"....زمل کچن میں کھانا بنارہی تھی کہ اپنے پیچھے سے آتی مردانہ آواز پر خوف سے مڑی

فضیلہ بیگم اور مہرماہ بیگم سارے ملازموں کو لئیے حویلی کے پچھلے حصے میں کوئی کام کروارہی تھی،،،مشل یونیورسٹی گئی ہوئی تھی اور مفسرہ معمول کی طرح دوپہر کو جھیل کے کنارے گئی ہوئی تھی۔۔۔

"آپ یہاں کیا کررہے ہیں"؟.......اسکی آنکھیں فہد خان کے دیکھنے کے انداز سے خوف سے پھیلی

فہد خان کا اس سے زیادہ سامنا نہیں ہوتا تھا،،،کیونکہ سردار محتشم نے اسے زمینوں کی ذمہداری دی ہوئی تھی تو وہ صبح سے شام تک وہی ہوتا تھا

"اتنے دنوں بعد تو تمہیں دیکھنے کا موقع ملا ہے اس لئیے چلا آیا ویسے اگر تم اپنا حلیہ سنوار لو تو اور خوبصورت لگو گی".......وہ ایک آنکھ کو دباتے ہنستے ہوئے بولا

"کک...کیا کہ رہے ہیں"؟جائیں یہاں سے ورنہ میں زہران خان کو کہ دونگی"........وہ اپنے لہجے کی لڑکھڑاہٹ پہ قابو پاتے مضبوط لہجے میں بولی

"ہاہاہاہا.....زہران خان کو.....سچ میں آہ میں تو ڈر گیا....بولو گی بھی کس کو اُسے جو خود نو دنوں سے پتہ نہیں کہاں غائب ہے".......وہ بےہنگم قہقہ لگایا

"اچھا سنو اگر زہران خان سے چھٹکارا اور اس حویلی سے نکلنا ہے تو میرے پاس آنا پھر مل کر ایک ڈیل کرینگے اگر تمہیں منظور ہوئی تو پھر میں یہاں سے تمہیں نکال دونگا"......وہ اسکے چہرے پہ ہاتھ پھیرتا معنیٰ خیزی سے بولا،،،،زمل غصے سے اسکا ہاتھ جھٹکی

"لائک اٹ اینگری گرل"......وہ آنکھ دباتا کہتا اسے پیچھے خوفزدہ چھوڑ کر جاچکا تھا

اسکے جاتے ہی ضبط کیے آنسو نکلنے لگے

"یا اللّٰہ مجھے اسے بندے سے بچا!!یا اللّٰہ زہران خان کو بھیج دے"........اسکے دل نے اسوقت شدت سے زہران خان کو پکارا تھا،،،جو بھی تھا وہ اسکا محرم تھا اور اس حویلی میں شاید فہد خان سے صرف وہی بچا سکتا تھا

وہ آس پاس نظریں دوڑائیں تو کوئی نہیں تھا وہ جلدی سے آنسو صاف کرتے کام کرنے لگی تھے لیکن لمحوں میں وہ پیچھے مڑ کر دیکھ بھی رہی تھی فہد خان کا ڈر اسکے دل میں بیٹھ چکا تھا۔۔۔

"بابا میں ان سے اپنی بہن کا بدلہ لونگا اور ایسا کہ وہ ہمیشہ یاد رکھیں گے"۔۔۔۔۔سفیان احمد ابراہیم کے برابر میں لیٹا تھا....نفرت کی شروعات ہونے لگی تھی

"میرے بچے تم ایسا کچھ نہیں کروگے"......وہ نرمی سے اسے منع کیے

"لیکن بابا".....وہ اعتراض کیا

"تم اس ذات الٰہی پہ یقین رکھو جس نے ہمیں پیدا کیا،،وہ جو دن کو رات اور رات کو دن میں بدلتا ہے،،،وہ جو ہمارے اتنے گناہوں کے بعد بھی ہمیں اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہوگا کہ ظالم لوگ ہم پر ظلم کرے اور وہ انھیں چھوڑ دے گا ہرگز نہیں وہ بہت رحیم ہے وہ جو ستر ماؤں سے ذیادہ پیار کرنے والا ہے وہ لے گا ہمارا بدلہ بس تم صبر کرو اور ہر نماز میں اپنی بہن کیلے دعا کرو"........انھوں نے اپنے الفاظ سے سفیان کے اندر پیدا ہونے والی نفرت کو مضبوط بننے سے پہلے ہی ختم کردیا

"جی بابا آپ ٹھیک کہ رہے ہیں،،،لیکن آپ تو جانتے ہیں قتل میں نے نہیں کیا اور جس نے کیا ہے آپ اسے بھی جانتے ہیں تو پھر اسکا نام سب کو کیوں نہیں بتادیتے"؟.......وہ الجھتا ہوا پوچھا

"اگر ابھی ہم کسی سے کہیں گے بھی نہ تو کوئی ہماری بات پہ یقین نہیں کرے گا،،تم صبر کرو سچ خود ہی سامنے آجائے گا بظاہر تو لگتا ہے جھوٹ کی جیت ہوگئی ہے لیکن یہ صرف وقتی جیت ہوتی اصل جیت تو سچ کی ہوتی اور اس جیت کیلئے صبر کرنا ہوتا ہے".......وہ اسے سمجھانے لگے

"انشاءاللہ آپی جلد ہی ہم سے ملی گی"......وہ دل سے دعا کیا

اگر شروع میں پیدا ہونے والی نفرت کو مضبوط بننے سے پہلے ہی ختم کردیا جائے تو یہ ایک انسان کو وحشی بننے سے بچا لیتی ہے،،اگر ہم خود بھی نفرت جیسی برائی سے دور رہے اور اپنے بچوں میں بھی اسے پیدا نہ ہونے دیں تو کئی مثائل معاشرے میں جنم ہونے سے بچ جائے۔۔

****

زمل اسوقت دادی کے کمرے میں موجود دادی کے ٹانگوں کی مالش کررہی تھی۔۔۔وہ ظاہری طور پر دادی کے پاس تھی لیکن ذہنی طور پر زہران خان کے پاس۔۔۔۔نو دنوں پہلے جو زہران خان کو نکاح کے بعد اور گاڑی میں دیکھا تھا وہ اب تک اسکے ذہن میں محفوظ تھا

"یاللہ زہران خان بھی کیا ان حویلی کے مردوں کی طرح ہیں؟....کیا وہ مجھے قبول کرینگے؟....اتنے دنوں سے حویلی آئے کیوں نہیں"........وہ بس اسے ہی سوچے جارہی تھی

دل میں نئے احساسات جنم لے رہے تھے پتہ نہیں ان احساسات کا انجام کیا ہونا تھا؟..پتہ نہیں کیوں آج کل وہ اسے ہی سوچے جارہی تھی

وہ نہ آئے گا ہمیں معلوم تھا اس شام بھی

انتظار مگر اسکا کچھ سوچ کر کرتے رہے

(پروین شاکر)

*****

آج زہران خان کا آخری پیپر تھا۔۔لاسٹ ائیر کے اسٹوڈنٹس لان میں گروپز بنائے باتیں کرتے تصویریں بناتے یونیورسٹی میں آخری دن کو یادگار بنارہے تھے،،زہران بھی اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑا تھا،،،بسکٹی کلر کی شرٹ اس پہ کیمل کلر کی جیکٹ اور بلیک پینٹ وہ پرکشش معلوم ہورہا تھا

"زہران سنو"......تبھی اسی کے گروپ کی ایک لڑکی اسے آکر پکاری

"ہاں ماہم کہو".....وہ اسکی جانب متوجہ ہوا

"کچھ بات کرنی ہیں۔۔کیفے چلیں"؟.....وہ ہچکچاتے ہوئے پوچھی

"یا.....شیور"،،،،،،وہ اسکے ساتھ کیفے کی جانب چل دیا

کیفے پہنچ کر قدرے کونے ٹیبل پر وہ دونوں جا بیٹھے

"ہاں کہو".....زہران بیٹھتے ہی بولا

"زہران....وہ.....وہ مجھے تم سے محبت ہوگئی ہے"،،،،،،وہ ہونٹوں پہ زبان پھیرتے بولی وہ اچھی طرح اسکے مزاج سے واقف تھی،،،،اسکی بات پہ سامنے والے کے ماتھوں پر بل پڑے۔۔۔

"ماہم تم اچھی طرح جانتی ہو میں گرلز الرجیک ہوں لیکن اسکے باوجود پوری یونی میں تم وہ واحد لڑکی ہو جس سے میں بات کرتا ہوں اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میں تمہارے لئیے کوئی جذبات رکھتا ہوں بلکہ تم سے بات کرنے کی اہم وجہ تمہارا ہمارے گروپ میں ہونا تھا اور میری وجہ سے کسی کا دل دکھے مجھے یہ گوارا نہیں".......وہ سنجیدگی سے کہتا اسے ہر کچھ باور کروا رہا تھا

"زہران تو مجھ میں کیا برائی ہے تمہیں شادی تو کرنی ہی ہے نہ مجھ سے کرلو"......وہ منتوں پہ اتر آئی تھی

"میری شادی ہوچکی ہے...اور دوسری بات میں نے کبھی کوئی ایسا رئیکشن نہیں دیا کہ میں تم سے شادی کا خواہشمند ہوں اسلیئے بہتر یہی ہے تم سنبھل جاؤ".......سنجیدگی ہنوز قائم تھی

"مجھے پتہ چلا تمہاری شادی کے بارے میں لیکن وہ تو ونی میں آئی ہوئی لڑکی ہے نہ تم کرلو مجھ سے".......وہ اسکی دوسری بات سرے سے نظر انداز کردی

"میں صرف اتنا جانتا ہوں وہ میری بیوی ہے اور میں دوسری شادی کا خواہشمند نہیں اب تم جاسکتی ہو".......اسکی ایک ہی بات پر وہ مٹھی بھینچتے غصہ ضبط کرتے بولا

"زہران خان یاد رکھنا تم مجھے ریجک کرکے اچھا نہیں کررہے"......وہ نم آنکھوں سے وارن کرتے بھاگنے کے انداز میں کیفے سے نکل گئی

"ایک مصیبت کم تھی اور اب یہ"......وہ کندھے ڈھیلے چھوڑ گیا اور تھوڑی دیر بعد وہ بھی کیفے سے نکلتا بغیر کسی سے ملے یونیورسٹی سے نکل گیا۔۔۔۔ارادہ حویلی جانے کا تھا

*****

وہ پورے دس دنوں بعد حویلی پہنچا۔۔سامنے کا منظر اسکے توقع کے عین مطابق تھا

"یہ کیسی چائے بنائی ہے تم نے"....آج پھر زمل سردار محتشم کے ڈانٹ کو سر جھکائے لب کاٹتے سن رہی تھی

"کان کھول کر سن لو لڑکی یہاں پر کوئی غلطی معاف نہیں ہوگی،،،فضیلہ بیگم اسے ایسی سزا دیں کہ یہ آئندہ غلطی لفظ ہی بھول جائے"......وہ نفرت سے اسے دیکھتے بولے

فضیلہ بیگم کے اشارے پہ زمل کچن پہ جا چکی تھی۔۔۔

زہران گہری سانس فضا میں سپرد کرتے اندر آیا

"میرا بیٹا میری جان کب آئے تم"......فضیلہ بیگم کی جیسے اس پہ نظر پڑی تو فوراً اسکے پاس آتے اسکے ماتھے پہ پیار کیا۔۔۔وہ بنا کوئی تاثر کے کھڑا رہا۔۔

محتشم خان ایک سائیڈ میں کھڑے اسکے ملنے کا انتظار کررہے تھے

"بابا سائیں آپ کس طرح بات کررہے تھے اس سے".....اسکا لہجہ اسپاٹ تھا

"زہران کس طرح بات کررہے ہو اپنے بابا سائیں سے"......فضیلہ بیگم اسے ٹوکی

"میرا صحیح سے بات نہ کرنا آپ کو دکھ رہا ہے اور بابا کا"۔۔۔۔۔۔وہ ایک افسوس بھری نگاہ ماں پہ ڈالا

"وہ ونی میں آئی لڑکی ہے اس کے ساتھ ایسے ہی بات کی جائے گی اور بہتر ہے تم بھی ایسا ہی رویہ رکھو"......وہ ناگواری سے بولے

"کیوں ایک بے گناہ کو سزا دے رہیں ہیں آپ لوگ؟......وہ جیسے بےبس ہوا تھا

"لگتا ہے تمہیں اپنے بھائی سے محبت ہی نہیں جبھی اپنے بھائی کا بدلہ لینا نہیں چاہتے"......سردار محتشم غصے سے بولے

"میں اپنے بھائی سے محبت کرتا ہوں اور یہ بات مجھے آپ لوگوں پر ثابت کرنے کی ضرورت نہیں اور اگر میرے بھائی کا بدلہ لینا ہی ہے تو قانونی طریقے سے اسکے بھائی سے لیں نہ"......انکی بات پر زہران تو تڑپ اٹھا تھا اپنے کیفیت پہ قابو پاتے بولا

"زہران خان تم اس لڑکی کے ساتھ ایک ونی میں آئی لڑکی کے جیسا ہی سلوک کروگے"......وہ دوٹوک انداز میں کہتے وہاں سے نکل گئے

"زہران تمہارے بابا سائیں ٹھیک کہ رہے ہیں".....فضیلہ بیگم اسے دیکھتے بولی،،،وہ لب بھینچے کھڑا رہا

"اچھا بتاؤ چائے بنواؤں پیو گے؟"...... اسے چپ دیکھتے وہ دوبار بولی

"مورے فلحال مجھے کچھ نہیں چاہیے روم میں جارہا ہوں کوئی ڈسٹرب نہ کریں"......وہ وہاں سے سیدھا کمرے کی جانب گیا

"بھابھی کیا ہوا زہران کو"؟...اور کب آیا؟.....مہرماہ بیگم جو اسی جانب آرہی تھی زہران کو غصے میں جاتا دیکھ کر پوچھی

"دماغ خراب ہوگیا ہے اس لڑکے کا".....وہ سر جھٹکی

****

وہ شدید اضطراب کے عالم میں ٹہلتا رہا پھر بیڈ میں سر ہاتھوں میں گرائے بیٹھ گیا۔۔۔وہ تو اپنے بھائی بہن سے اپنی جان سے بھی زیادہ محبت کرتا تھا،،اسے ہر لمحے اپنے بھائی کی کمی محسوس ہوتی تھی لیکن وہ تکلیف اپنے تک ہی رکھتا تھا اسکے بابا کیسے کہ سکتے تھے وہ اپنے بھائی سے محبت نہیں کرتا،،،،یہ بات اسے تکلیف پہنچا رہی تھی

***

فلیش بیک۔۔

"بھائی یار آپ اتنا اچھا نشانہ کیسے لگا لیتے ہیں"......مہران اور زہران خان جنگل میں شکار کیلئے آئے ہوئے تھے،،مہران خان کا نشانہ تو بہت اچھا تھا اور زہران خان کا چک جارہا تھا

"میں نے اپنے شہزادے سے سیکھا ہے"......وہ مسکراتا ہوا بولا

"بنالے بنالے مذاق اپنا بھی وقت آئے گا".....وہ مصنوعی خفگی سے بولا

"سیکھ جاؤ گے تم بھی اتنا پریشان کیوں ہورہے ہو میں ہو نہ".....وہ محبت سے بال بکھیرا

"بلکل ہر موڑ پر مجھے آپکی ضرورت ہے"......زہران بھی بچوں کی طرح بولا

"اب ہر موڑ پہ میں تو نہیں ہونگا نہ اکیلے کی بھی تو عادت ڈالنی ہوگی نہ میری جان".....

"کوئی نہیں آپکی بیوی بھی آجائے تب بھی آپ میرے ذیادہ ہیں".......

"ہاہاہاہا".....مہران خان قہہقہ لگایا

****

"آہ بھائی کیوں  چھوڑ گئے آپ "...بھائی کی یاد میں اسکی آنکھیں نم ہوئی

داروزہ ناک ہونے پر اسکے ماتھے پہ بل پڑے،،،ابھی تو وہ نیچے سے منع کرکے آیا تھا کہ اسے کوئی ڈسٹرب نہ کرے

"آئیے"......وہ بغیر سر اٹھائے بولا

زمل اجازت ملنے پر چلتے ہوئے اسکی قریب آئی

"چائے".......وہ ہلکی آواز میں بولی

یہ لفظ سن کر زہران خان کا غصہ سوا نیزے میں پہنچا

"ابھی کیا میں نیچے مذاق کرکے آیا تھا"......وہ غصہ سے اٹھتا چائے کی پیالی گرا چکا تھا

زمل سہم کر پیچھے ہوئی،،آنکھیں خوف سے پھیل گئی

"کیا یہ بھی حویلی کے لوگوں کے جیسے ہیں"؟.....دل جو اسکے آنے پر تھوڑا مطمئن ہوا تھا اب اداس ہوچکا تھا

"منع کرکے آیا تھا نہ میں پھر".......وہ جو غصے سے کہ رہا تھا اسکے خوفزدہ چہرے کو دیکھ کر آواز خود بخود آہستہ ہوتی چلی گئی

"وہ۔۔۔۔وہ میں مجھے خان بی بی نے بھیجا تھا".......وہ کانپتے لہجے میں بولی

"مورے نے پہننے کو کپڑے نہیں دیے؟"......وہ اسکا تفصیلی جائزہ لیتا بولا

"ایک دیا تھا گل مینا کا"...... اسکے غیر متوقع سوال پر زمل سر اٹھا کر حیرانی سے اسے دیکھی پھر ایک  نظر اپنے وجود کو دیکھتے شرمندگی سے جواب دی

"میرا مقصد شرمندہ کرنا نہیں تھا،،،جاسکتی ہیں آپ".......اسکے چہرے پہ شرمندگی کے آثار دیکھتے وہ نرمی سے بولا

زمل بھی کچھ کہے بغیر جلدی سے اسکے کمرے سے نکل گئی

"آہ....تو مورے آپ مجھ سے اُسے اس طرح ڈانٹ سنوانا چاہتی ہیں".....وہ افسوس سے سوچتا مشل کے کمرے کی طرف بڑھا

****

وہ مشل کے کمرے میں ناک کرتا اندر آیا،،،وہ جو بیڈ پہ پھیلی اپنی کتابیں سمیٹ رہی تھی تیزی سے بھاگتے اس کے گلے لگی،،،،آج اپنے بھائی کی ہی وجہ سے تو وہ شہر کی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر رہی تھی

"بھائی آپ...آپ کب آئے؟"......وہ سر اٹھاتے بولی آنکھوں میں ناراضگی صاف جھلک رہی تھی

"بس ابھی ہی آیا تھا گڑیا"......وہ اسکے ماتھے پہ پیار کیا

"اتنے دنوں سے آپ حویلی نہیں آئے اور نہ کوئی کال کیے،،،آپکو پتہ ہے کتنا مس کررہی تھی میں".......وہ خفگی سے بولی

"بھائی کی جان کال نہ کرنے پہ سوری اور حویلی نہ آنا میری مجبوری تھی نہ"......وہ محبت بھرے لہجے میں بولا،،،مشل مسکراتے ہوئے سر ہلادی

"اچھا یہ بتاؤ وہ لڑکی...."،،،،،وہ اسکا نام یاد کرنے کو رکا

"زمل"......مشل سمجھتے ہوئے بولی

"ہاں وہی اسے کوئی ڈریس نہیں دیا"؟......

"بھائی اتنی مشکلوں سے تو مورے سے

کہا تو وہ گل مینا کا ایک ڈریس دیدی"......وہ افسردگی سے بولی

"ہمممم چلو کوئی بات نہیں،،،ابھی میں کام سے جارہا ہوں کل اپنی گڑیا کو آؤٹنگ  پہ لے کر جاؤنگا".......وہ اسے پیار کرتا کمرے سے نکل گیا

مشل اپنے بھائی کی محبت پہ مسکرادی

****

"زہران کہاں جارہے ہو،،کھانا بس تیار ہونے ہی والا ہے"......فضیلہ بیگم نے اسے باہر کی جانب جاتا دیکھ کر پکاری

"مورے آپ لوگ کھا لئیے گا میں دیر سے آؤنگا"......وہ کہتا ہوا وہاں سے نکل گیا

"صرف اپنی من مانی کرتا ہے یہ لڑکا"....وہ سر جھٹکی

****

رات گیارہ بجے اسکی واپسی ہوئی تھی،،،خاموشی نے اسکا استقبال کیا،،،وہ سیڑھیاں چڑھتے اپنے کمرے میں گیا اور بیڈ پہ سامان رکھ کر مشل کے کمرے میں گیا،،،زمل کے بابت پوچھا،،اسٹور روم کا سن کر وہ لب بھینچ گیا،،،اب وہ پھر سے سیڑھیاں اتر رہا تھا،،،وہ اسٹور روم کی جانب جاتی پتلی راہدری پہ چلنے لگا

دھیمی چال چلتا وہ بوسیدہ سا دروازہ کھٹکھٹایا

"کک....کون"؟...وہ ابھی ساڑھے گیارہ بجے ہی سارے کام ختم کرکے آکر لیٹی تھی،،،ڈرتے ہوئے پوچھا

"زہران خان"......اسکی بھاری گھمبیر آواز آئی

وہ ڈرتے ڈرتے اٹھ کر دروازے پہ لگی چٹکی نیچے کی

"جی"....نظریں جھکائے ہی دریافت کیا

"میرے ساتھ آئیے"...وہ اپنے مخصوص انداز میں بولا

"کک... کہاں؟".....آنکھوں میں خوف واضح تھی

"دیکھیں میرے ساتھ روم میں چلیں"....اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیسے اسے سمجھائے،،،اسکی آنکھوں میں موجود خوف دیکھتے اسے اپنے آپ سے شرمندگی محسوس ہورہی تھی

"ممہ...ممہ...میں کہی نہیں جاؤنگی"....وہ کپکپاتے لہجے میں کہتی ایک قدم اسٹور کے دروازے سے باہر نکالی...تبھی کسی کے قدموں کی آواز سنائی دی،،،زہران نے فوراً سے اسے اپنی طرف کھینچا اور دروازہ بند کیا...اس افتاد کیلئے وہ تیار نہ تھی اسکے کشادہ سینے سے آلگی...زمل کی دل کی دھڑکنیں منتشر ہوئی تو دوسری طرف بھی حال مختلف نہ تھا،،،زمل جلدی سے اس سے الگ ہوتے لب کاٹنے لگی

"کوئی آرہا تھا اور فلحال میں نہیں چاہتا تھا ہم دونوں کو ساتھ دیکھ کر اسوقت کوئی تماشہ ہو"....وہ اسکے کچھ شرمندگی کچھ حیا سے ہوتے سرخی مائل چہرے کو دیکھ کر بولا

"پپ...پلیز میں نہیں جاؤنگی"،،،اسکی آنکھیں خوف سے پھیلی ہوئی تھی،،،زہران کچھ نہ بولا...کچھ لمحے خاموشی کے نظر ہوئے،،،پھر تھوڑے دیر بعد زہران دروازے کھولتے دیکھنے لگا جب یقین ہوگیا کوئی نہیں ہے تو اسکا ہاتھ مضبوطی سے پکڑتا باہر کی طرف جانے لگا

"کہاں لے جارہے ہیں چھوڑیں مجھے...پہ...پلیز چھوڑ دیں"......وہ روتے ہوئے تیز آواز میں بولنے لگی

وہ تیزی سے ایک کونے میں آیا اور اسے دیوار سے لگایا

"کیوں اتنا شور کررہی ہیں،،اپنے ساتھ ساتھ کیا مجھے بھی اس حویلی سے نکلوانا ہے"....ایک ہاتھ دیوار پہ رکھتے دوسرے ہاتھ اسکے منہ پہ رکھتے وہ سنجیدگی سے پوچھا،،اس وقت وہ اسکے حصار میں تھی

"خاموشی سے میرے ساتھ چلیں..آواز بلکل بھی نہیں آئے"....وہ سمجھ گیا تھا کہ نرمی سے کبھی اسکی بات نہیں مانے گی جبھی سختی سے گویا ہوا

اسکے اتنے قریب آنے پہ زمل کی پلکیں لرزیں...وہ روتے ہوئے خاموشی سے سر ہلادی....لیکن زہران کو اس پہ اب بھی بھروسہ نہ تھا جبھی ایک ہاتھ اسکے منہ پہ رکھ کہ اپنے کمرے کی جانب بڑھا،،،

ایسا نہیں تھا کہ وہ اسے اپنے کمرے میں لیجانے سے اپنے ماں باپ سے ڈررہا تھا،،بلکہ بس اسوقت وہ بہت تھکا ہوا تھا اور اپنے ماں باپ سے کسی بحث کیلئے تیار نہ تھا

کمرے میں لاکر اسکے منہ سے ہاتھ ہٹایا اور دروازہ لاک کیا،،،،پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ گہری سانسیں لے رہی تھی منہ بھی لال ہوچکا تھا

"غلطی میری نہیں ہے اگر آپ خاموشی سے آجاتی تو مجھے ایسے لانا نہیں پڑتا"......وہ اسکے سرخ ہوتے چہرے کو دیکھ کر کندھے اچکایا

"آپ کیوں لائے ہیں مجھے یہاں؟".....اسکے دل میں فہد خان کا ڈر بیٹھ چکا تھا اور زہران خان کے بارے میں دل اس طرح کی بات ماننے سے انکاری تھا لیکن پھر بھی اسوقت کمرے پہ لانے پہ وہ خوفزدہ تھی

"ایک تو اُس عجیب سے اسٹور روم سے نکال کر اپنے خوبصورت سے کمرے میں لے آیا ہوں اور آپ شکریہ ادا کرنے کے بجائے سوال کررہی ہیں"......اسکو خوفزدہ دیکھ کر وہ طبعیت کے برخلاف جاتے سرسری سا اس پہ نظر ڈالتا ہلکے پھلکے لہجے میں بولا

"وہ بی بی خان غصہ کرینگی".......ادھر سے تھوڑا خوف کم ہوا تو نئی فکر لاحق ہوئی

"انھیں میں دیکھ لونگا".....وہ مصروف سے انداز میں بائیں کلائی سے گھڑی اتارتا ڈریسنگ ٹیبل پہ رکھتا بولا

"یہ آپکے لئیے کچھ چیزیں لایا ہوں دیکھ لیں"......وہ واڈروب سے ایزی سا ڈریس نکال کر مڑا تو اسے نظریں نیچے کئے انگلی چٹخاتا دیکھ کر بولا

"یہ چیزیں خود چل کر نہیں آئینگی آپ کو چل کر آنا ہوگا".....وہ اسکے انداز پہ زچ ہوتا بولا۔۔

ایک تو وہ ویسی ہی لڑکیوں سے کم ہی بات کرتا تھا اور ان کم میں بھی وہ صرف ماہم سے کرتا تھا،،،اب اس لڑکی سے تو بات کرنا ہی تو تھا آخر کو بیوی تھی۔۔

زمل اسکی بات پہ شرمندہ سی سر ہلاتے بیڈ کے پاس آئی اور زہران کپڑے لئیے باتھ روم میں بند ہوا،،،زمل بیگز کھول کر دیکھنے لگی تو اس میں ڈیزائنر سوٹ اور دیگر چیزیں دیکھ کر آنکھیں نم ہوئی،،،ان دس دنوں میں تو کسی نے نہ کچھ دیا اور نہ ہی پوچھا اور یہ شخص گھنٹے پہلے ہی آیا تھا اور اسکی ساری چیزیں بھی لے آیا۔۔

"وہ میں چینج کرلوں".......اسکے نکلنے پر وہ سوچوں سے باہر آئی،،،گیلے بال ماتھے پہ بکھرے تھے وہ ایزی سے کمیز شلوار میں بلا کا وجیہ لگ رہا تھا،،،زمل کے دل نے ایک بہت مس کی۔۔

"بلکل آپ اس کمرے کی ہر چیز بلااجازت استعمال کرسکتی ہیں".....سنجیدے لہجے میں بنا اسے دیکھے وہ ڈریسنگ کے آگے کھڑا ہوتا بولا

زمل جلدی سے پہلے بیگ سے جو سوٹ نکلا وہ لے کر واشروم میں گئی،،،تھوڑے دیر بعد نکلی تو زہران کو بیڈ پہ بیٹھا لیپ ٹاپ یوز کرتا پایا،،،،وہ تھوڑے دیر کھڑے رہنے کے بعد جھجھکتے ہوئے ڈریسنگ کے پاس آئی اور اپنے سر پہ رکھا گرین رنگ کا ڈوپٹہ کندھوں پہ کرتے اپنے گیلے ہلکے برآؤن بالوں میں برش کرنے لگی

زہران خان کی غیر ارادی نگاہ جب اٹھی تو ٹھر سی گئی،،اسکے منتخب کردہ گرین اور ریڈ کلر کے کنٹراسٹ کا سوٹ اس پہ جچ رہا تھا،،اور جو چیز اسے ٹھرنے پہ مجبور کی وہ تھی اسکے ہلکے رنگ کے براؤن بال تھے۔۔۔اس رنگ کے بال تو بہت کم ہوتے تھے اور اسے حویلی کی ایک شخصیت کے بالوں کا رنگ یاد آیا تھا جو ہوبہو اسی رنگ کے تھے،،،زمل نظروں کی تپش محسوس کرتے مڑی تو زہران ہوش میں آتا جلدی سے نگاہیں لیپ ٹاپ کی اسکرین پہ مرکوز کیا

"آپ یہاں بیڈ پر سوجائیں میں صوفے پر سوجاتا ہوں"......جیسے وہ ڈریسنگ سے ہٹی تو زہران بولا

"میں صوفے پر سوجاتی ہوں".....صوفہ اچھا خاصہ بڑا تھا جس میں زمل تو پوری طرح آسکتی تھے لیکن دراز قامت زہران اس میں مس فٹ ہوتا۔۔

"واڈروب کے نیچے پورشن میں ایک کمفرٹر ہے وہ لیں لے".....وہ اسکی بات پہ اعتراض کیے بنا بولا

زمل بلینکٹ لے کر صوفے پر آگئی اپنے اوپر اچھے سے کمفرٹر لیتے وہ لیٹ گئ،،،لیٹتے ہی اسے سکون سا ملا تھا اتنے دنوں سے زمین پہ سوکر اسکی پیٹھ اکڑ گئی تھی

زمل نے غور کیا تھا کہ زہران خان اس پہ صرف سرسری سا ہی نظر ڈالا تھا وہ اپنے ہر انداز سے حویلی کے مردوں سے مختلف ہونے کا ثبوت دے رہا تھا۔۔۔

"میں نے حویلی کے مردوں کے بارے میں سنا تھا وہ ظالم ہوتے ہیں اچھی ذہنیت کے نہیں ہوتے اور اس کا دو روپ فہد خان اور محتشم خان کی صورت میں دیکھ لیا لیکن آپ تو بلکل مختلف لگ رہے ہیں،،آپ ایک ساحر ہیں جو اپنی باتوں اپنے رویے سے سحر میں جکڑ رہے ہیں".....وہ نم آنکھوں سے شام سے اب تک کے رویے کے بارے میں سوچ رہی تھی اور ان سوچوں میں آج پچھلی راتوں کے مقابلے جلد ہی نیند کی وادیوں میں چلی گئی۔۔

صبح معمول کے مطابق فجر پہ اسکی آنکھ کھلی تو زہران خان کو نماز ادا کرتا پایا اسے نماز ادا کرتا دیکھ کر ایک خوبصورت احساس جاگا۔۔

"یہ شخص کتنا مختلف ہے".....اسکے دل نے بےاختیار سوچا

پھر اسی کی دی ہوئی اعتمادی تھی کہ وہ اب بنا جھجھکے اٹھ کر واشروم میں وضو بنانے کے غرض سے گئی،،،نکلی تو گرین کلر کے دوپٹے میں نماز کی اسٹائل میں لپیٹا ہوا تھا اور جائے نماز کی تلاش میں نظریں ارد گرد گھما رہی تھی،،،زہران خان جو تسبیحات پڑھ رہا تھا اسے دیکھتے ہوئے کہا

"سائیڈ ٹیبل کے سیکینڈ ڈرار میں ایک اور جائے نماز ہے".....اسکو بتاتے وہ دوبارہ سے تسبیحات پڑھنے لگا

زمل دعا مانگ کر زہران خان کی جانب دیکھی جو خوش الحان آواز میں سورۃ رحمٰن کی تلاوت کررہا تھا،،،،زمل ٹرانس کی کیفیت میں وہی جائے نماز پہ بیٹھی تلاوت سن رہی تھی اتنی پر کشش آواز پہ وہ تلاوت کر رہا تھا۔۔

زہران خان نظروں کی تپش محسوس کرچکا تھا لیکن پھر بھی اسکی پوری توجہ تلاوت میں تھی۔۔۔تلاوت کرکے وہ قرآن شریف کو غلاف میں ڈال کر رکھ کر پلٹا تو وہ تب بھی اسے ہی دیکھ رہی تھی

"کیا ہوا"؟.....وہ بیڈ پہ بیٹھتا پوچھا

"آپ بہت اچھی تلاوت کررہے تھے"....وہ ٹرانس کی کیفیت میں بولی زہران نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ تعریف قبول کی۔۔

"آپ روز تلاوت کرتے ہیں"؟.....وہ پوچھے بنا نہ رہ سکی

"ہممم میں ہر صبح سورہ رحمن کی تلاوت کرتا ہوں".....اگر لہجہ میں سختی نہ تھی تو کوئی نرم میٹھا لہجہ بھی نہ تھا وہ سنجیدہ شخصیت کا مالک سنجیدگی سے ہی بات کرتا تھا۔۔

"حویلی میں تو کوئی آپ جیسا نہیں"...اسے کیا ہوا کہ وہ یہ سوال پوچھ بیٹھی

زہران خان اسکی سوال کا جواب دیے بغیر ڈریسنگ کے آگے کھڑا ہوگیا،،،،زمل کو احساس ہوا وہ کچھ ذیادہ پوچھ گئی تھی ابھی آئے اسے دن ہی کتنے ہوئے تھے اور پھر گھڑی میں نظر جاتے ہی وہ ڈر گھبراہٹ سے فٹ سے اٹھی اور دروازے کی طرف بڑھی لیکن ہائے رے قسمت وہ بیڈ کے آگے بچھے رگ سے اسکا پاؤں پھنسا اس سے پہلے وہ نیچے گرتی اسکی بدحواسی ملاحظہ کرتے زہران نے اسے گرنے سے بچایا۔۔

"اتنی تیزی سے کہاں جارہی تھی"؟.....اسکو پکڑ کر سیدھا کرتے وہ سنجیدگی سے اسکی آنکھوں میں دیکھتا پوچھا

"و..وہ...مجھے ساڑھے پانچ بجے کچن پہنچنا ہوتا ہے اور اب چھ بج گئے ہیں".....اسکے چہرے پہ خوف دیکھتے وہ گہری سانس لیا

"ابھی تو آپ جائیں اور کچھ دن تک تو آپکو یہ کام کرنا ہوگا آہستہ آہستہ ہی سب کچھ ٹھیک کرسکونگا"....اسکی بات پہ وہ سر ہلاتے نیچے چلی گئی ابھی صرف اسے نیچے پہنچنے کی جلدی تھی

****

"وقت دیکھا ہے تو نے".....ریشمہ اسکو دیکھتے ہی غصے سے بولی

"اور یہ بتا تو تھی کہاں میں اسٹور روم میں جب گئی تو وہاں تو نہ تھی"......وہ اسکو جانچتی نظروں سے دیکھنے لگی

"وہ میں میں"......اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کیا جواب دے

"اور یہ کپڑا کہاں سے چرایا ہے....جلدی بتا یا بی بی خان کو بلاؤں"......وہ اسکو گرین ریڈ کلر کے کنٹراسٹ کے سوٹ میں ڈھیلی سی نفیس سی چوٹیا بنائے پچھلے دنوں کے مقابلے میں تیار دیکھ کر وہ غصے سے بولی

"اسے جہاں ہونا چاہیے تھا یہ وہی تھی اور دوسری بات یہ سوٹ میں نے لاکر دیا تمہیں کوئی اعتراض".…...وہ آنکھوں میں سختی لیے پوچھا

اپنے پیچھے سے آتی زہران کی آواز پہ اسے لگا وہ تپتی صحرا سے چھاؤں میں آگئی ہے۔۔

اسکی سنجیدہ طبعیت سے تو پہلے ہی ملازم اس سے دور رہتے تھے اب اسے بولتا دیکھا کر ریشمہ کا سر فوراً نفی میں ہلا

"اب زمل سے کسی کو بتمیزی نہ کرتا دیکھوں اور سنو سارے کام تم لوگ خود ہی کروگے یہ صرف ہیلپ کروائیں گی اور مورے تک یہ بات پہنچی تو اس دن اسکا آخری دن ہوگا اس حویلی میں"......کہتے ہی وہ وہاں سے چلا گیا

زمل نے نم آنکھوں سے اس مہربان شخص کی پشت کو دیکھا،،اس کئلیے وو کتنی آسانی کرتا چلا جارہا تھا۔۔

****

فضیلہ بیگم کو جب زمل کا زہران کے کمرے میں رہنے کے بارے میں پتہ چلا تو انھوں نے حویلی کو سر پہ اٹھا لیا،،مفسرہ بھی ناگواری سے زمل کو دیکھ رہی تھی،،مہرماہ بیگم وہ بس خاموش کھڑی تھی،،اور اس سب میں سب سے ذیادہ حیران کن بات محتشم خان کا خاموش ہونا تھا،،اور مشل وہ تو بہت خوش تھی اسکا بھائی ایک بہت اچھا انسان تھا اس حویلی کے لوگوں سے بلکل مختلف۔۔۔زہران نے بہت مشکلوں سے آخر کار اپنی بات منوا کر ہی دم لیا۔۔

****

زہران بغیر ناشتہ کیے ہی شہر چلے گیا تھا وہ اب اپنے آفس کو جلد بنانے میں لگا تھا،،،،نعمان اور اسنے پارٹنرشپ بزنس کا فورتھ ائیر اسٹارٹ ہوتے ہی سوچ لیا تھا اور اسکے بعد ان لوگوں نے کنسٹرکشن کا کام شروع کروایا تھا جو کہ اب مکمل ہونے کو تھا۔۔

اسکے جاتے ہی زمل کا دل بھر آیا تھا...دل خود بخود اداس ہوئے چلے جارہا تھا اپنی ہی کیفیت پہ جھنجھلائے وہ دوپہر کا کھانا بنا رہی تھی اور آج پھر کچھ دن پہلے کی طرح اسکے پاس مردانہ آواز گونجی

"ہیلو بیوٹیفل آج تو غضب ڈھا رہی ہو".......اور یہ آواز فہد خان کے علاؤہ کس کی ہوسکتی تھی

"آ....پ پھر آگئے"......زمل کا دل خوف و ڈر سے تیزی سے دھڑکنے لگا

"بھول رہی ہو شاید پچھلی ملاقات میں ڈیل کا کہ کر گیا تھا".....وہ مسکراہٹ سجائے بولا

"ڈیل کیا ہے"؟.......زمل کو زہران خان سے الگ تو نہیں ہونا تھا لیکن وہ فہد خان کی سوچ تک پہنچنا چاہتی تھی

"اہمم ہممم ڈیل وہ تو تب بتاؤنگا جب تم زہران خان سے الگ ہونا چاہو گی".....اسکی گہری بولتی آنکھیں زمل کو الجھن میں ڈال رہی تھی

ایک تو اس حویلی کے سب لوگ ہی خوبصورت تھے لیکن کچھ لوگ ہی  صرف اندر سے خوبصورت تھے

"مجھے اس حویلی سے جانا ہے ڈیل بتاؤ"......زمل اسوقت ونی کرنے سے پہلے والی زمل بن رہی تھی

"آہ ہاں ایمپریسڈ...ڈیل یہ ہے تمہیں مجھ سے نکاح کرنا ہوگا اگر راضی ہو تو زہران خان سے ڈائیورز اور اس حویلی سے چھٹکارا دلوانا میرا کام ہے"......وہ لب کو اور پھیلائے مسکرایا

زمل کا اسکی بات پہ دل چاہا منہ نوچ دے،،عجیب ہی کوئی بندہ تھا

"نہیں منظور تمہاری ڈیل جاؤ یہاں سے".....وہ سختی سے بولی،،،اسوقت ڈر خوف دکھانا اسکے سامنے اپنے آپ کو کمزور کرنا تھا

"ابھی تو آرام سے کہ رہا تھا نہ مانو ڈیل میں خود ہی........."،،،،،،ابھی وہ کہ رہا تھا کہ کسی کی قدموں کی آواز سے وہ پچھلے حصے سے وہاں سے تیزی سے نکلا

زمل جو اسکے سامنے خود کو مضبوط دکھا رہی تھی اب خوفزدہ تھی اسکی ادھوری چھوڑی گئی بات اسے پریشانی میں ڈال گئی تھی

"کیا مجھے زہران خان کو بتانا چاہیے۔۔۔نہیں وہ تو ابھی ہی آئے ہیں اور پتہ نہیں میری بات کا یقین کرے یا نہیں۔۔۔یااللہ میری مدد کر"،،،،،،وہ آنسوؤں کو صاف کرتے ہانڈی کی طرف متوجہ ہوئی

                                   ******

"آپ نے زہران کو کچھ کہا کیوں نہیں آپ تو اس لڑکی کو ونی میں لائے تھے تو کیا ونی میں آئی ہوئی لڑکی کو زہران کے کمرے میں رہے گی"......وہ دبے دبے غصے سے بولی

"ابھی تو فلحال اسکی بات ماننی پڑی گی ورنہ وہ جتنا ضدی اور اپنی بات پہ قائم رہنے والا ہے یہ نو ہو اس لڑکی کو لے کر شہر چلا جائے،،ابھی مجھے بس اپنے کام کرنا ہے اور کونسا وہ دن بھر حویلی میں ہوتا ہے شہر میں اپنے دوستوں کے ساتھ ہی ہوتا ہے دن کے وقت اس لڑکی کے ساتھ جو کرنا ہے کرے،،،پھر اس لڑکی کو کہی ٹھکانے لگاتا ہوں".........وہ ماضی میں کھوئے پرسوچ انداز میں بولے

ابھی ان لوگوں کو زہران کے آفس کنسٹرکشن کے بارے میں علم نہیں تھا وہ یہی سمجھتے تھے اسکی عادت نہیں حویلی میں رہنے کی اسلیئے وہ دوستوں کے پاس چلے جاتا ہے

"شہر لے جاکر کہاں رکھے گا کچھ ہے اسکے پاس"......فضیلہ بیگم بیڈ پہ نیم دراز ہوتے بولی

"یہ تو ہے لیکن اسکے دوست بھی کوئی کم نہیں ہے"....…وہ ہنکارا بھرے۔۔

دادی ٹانگوں میں درد ہوتا ہے"؟..…..زمل سمجھ گئی تھی ایک ملازمہ کو اسکے ساتھ اسکی اور دادی کی نگرانی کیلئے بھیجا جاتا ہے اس لئیے وہ ہلکی پھلکی باتیں بنا ڈر کے کرلیا کرتی کہ ملازمہ اگر جاکر بتائی گی بھی تو کیا بتائے گی۔۔

"نہیں پتر جب سے تو مالش کرتی ہے میرے ٹانگوں کو بہت آرام ہے اللّٰہ تجھے ڈھیروں خوشیاں دیں"....وہ محبت سے اسے دیکھتے بولی

"آمین".....وہ زیر لب بولی

"تو بہت پیاری ہے اور تیری آنکھوں کا رنگ.."،،،،،دادی کا زمل کو دیکھنے کا انداز ہی الگ ہوتا تھا

"میں بلکل اپنی امی کی طرح ہوں"......زمل انجانے میں دادی کی بات کاٹتے بولی،،،دادی شاید آگے کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن زمل ماں کے ذکر کے چکر میں غور نہیں کی

وہ دونوں ایسی ہی چھوٹی موٹی باتیں کررہے تھے،،،زمل کے آنے سے دادی بہت خوش تھی،،وہ تو ایک کمرے میں اکیلی پڑی رہتی تھی کھانا دیدیا اور بس اور محتشم صاحب تو انھیں پوچھتے ہی نہیں تھے ایک زہران تھا جب وہ شہر سے آتا تو دادی کے پاس بیٹھتا اب زمل آئی تھی تو انکی بوریت میں خاصی کمی آئی تھی

****

زمل زہران خان کے کمرے میں آگئی تھی۔۔دل میں ایک عجیب سا احساس پیدا ہوا تھا،،شہد رنگ آنکھوں میں چاہت لیے وہ اس کمرے کو دیکھ رہی تھی۔۔کل اچانک آنے پر وہ دیکھ نہ سکی تھی،،،سامنے دیوار پر خوبصورت سا وال کلاک تھا جسکے ہندسے ساڑھے دس بجا رہے تھے،،زہران خان اب تک آیا نہیں تھا

بیڈ کے پیچھے والا وال روئل بلو تھا اور باقی تین آف وائٹ۔۔کمرے کے بیچ میں سیٹ جہازی سائز بیڈ اور بیڈ کے دونوں طرف ڈیسنٹ سا سائیڈ ٹیبل تھا جس پہ لیمپ رکھے تھے اور زہران کی پکچر فریم پہ لگی سائیڈ ٹیبل پہ رکھی تھی،،زمل کی نظر تصویر پہ ٹھر سی گئی دل کی دھڑکن معمول سے تیز ہوئی تھی

وہ تھڑی پیس سوٹ میں ملبوس تھا،،وائٹ شرٹ بلیو کوٹ بلو ڈریس پینٹ،،براؤن شوز،،آنکھوں پہ گوگلز لگائے وہ کار کی بونٹ سے ٹیک لگائے کھڑا تھا

"ہممم ہممم ادھر اُدھر بھی غور کرلے"......زہران کی ہشاش بشاش آواز پہ وہ گڑگڑاتے ہوئے پیچھے مڑی

زہران خان جب اندر آیا تو اسے محویت سے اپنی تصویر کو تکتے پایا،،ایک خوشگوار سا احساس ہوا۔۔۔

"نہیں...وہ...وہ میں تو....ہاں میں وہ وال اور آپکے کوٹ کا کلر دیکھ رہی تھی دونوں سیم ہے نہ"......وہ گڑگڑاتے ہوئے جلدی سے بہانہ گڑھتے بولی،،،اپنی اتنی بےاختیاری پہ دل میں خود کو کوسا

وہ جو اسے گڑبڑاتا ہوا دیکھ رہا تھا اسکے بہانے پہ ذرا سا ذرا مسکراتے ہوئے ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھتا واچ وغیرہ اتارنے لگا

"کیسی ہیں"؟......وہ کوٹ اتارتا اسے خاموشی دیکھتا اسکی شرمندگی کے اثر کو زائل کرنے کیلئے ہلکے پھلکے لہجے میں دریافت کیا

"میں ٹھیک....آپ کھانا کھائیں گے"؟.....زمل کو خیال آیا تو وہ تیزی سے پوچھی

"نہیں کھا کر آیا ہوں میں".....وہ اس سے کہتا اپنے ایزی سا کپڑا لے کر واشروم میں چلے گیا

نکلا تو ماتھے پہ گیلے بال بکھرے تھے،،زمل کو اندازہ ہوا کہ وہ شاید روز ہی رات کو باہر سے آکر باتھ لیتا ہوگا،،،زمل تو بس کل رات اسلیئے لے لی کہ وہ اتنے دنوں سے گندے حلیے میں تھی اور اب اسے صاف ہونا تھا ورنہ وہ تو کبھی رات میں باتھ نہ لے۔۔

"آپ.…."،،،،،زمل الفاظ کا چناؤ کرنے کیلئے رکی

"ایزی ہو کر پچھے کیا پوچھنا ہے".....وہ لیپ ٹاپ سائیڈ ٹیبل کے دڑار سے لیتا بیڈ پہ بیٹھتا بولا

"وہ آپ اتنے لیٹ آئے".......اسکے الفاظ پہ کچھ ڈھارس بندھی

"میں ڈیلی صبح جاؤگا اور اسی ٹائم پر آؤنگا اگر آپ کو کچھ مسئلہ ہو تو آپ اس وقت پہ مجھ سے ڈسکس کرسکتی ہیں"...…..اسکی نظریں ہنوز لیپ ٹاپ پہ مرکوز تھی۔۔

زمل کو لفظ مسئلہ سے "فہد خان" یاد آیا ایک زہران خان تھا جو اسکا محرم ہوتے ہوئے بھی اس پہ صرف سرسری سا نظر ڈالتا تھا اور ایک فہد خان دل کیا اسکے بارے میں سامنے بیٹھے شخص کو بتادے لیکن پھر ارادہ ترک کردیا

"جی ٹھیک"،،،،،وہ بس اتنا ہی کہتے صوفے پہ جا لیٹی

اسکے بعد نہ زمل کچھ بولی اور نہ ہی زہران خان۔۔زمل کا دل کیا وہ اس شخص سے اور باتیں کریں لیکن خاموشی سے سونے کی کوشش کرنے لگی

*****

"تم پھر کب بھیج رہے ہو اپنے گھر والوں کو"؟..... ہر روز کی طرح وہ دونوں پھر دوپہر کو ایک گھنے درخت کے نیچے بیٹھے تھے

"ابھی کچھ وقت لگے گا"......اسکے پوچھنے پر وہ بے تاثر لہجے میں بولا

"اور کتنا وقت لگے گا کب سے تو میں انتظار کررہی ہوں"......وہ دبے دبے غصے میں بولی

"اگر ابھی میں کہونگا تو معاملہ خراب ہو جائے گا اس واقعہ کو کچھ وقت گزرنے دو پھر میں خود لے کر آؤنگا".....اب کی بار وہ اسکے ہاتھ کو نرمی سے دباتا بولا،،،،وہ ناراضگی سے رخ موڑ گئی

"یار سمجھو نہ میری بات اگر ابھی لے کر آتا ہوں تو ایک نئی پرابلم کرئیٹ ہوجائے گی"،،،،،وہ پیار سے اسے پچکارتا ہوا بولا

"اچھا صحیح لیکن جلدی".....وہ بادل ناخواستہ مان گئی

"تم پر یہ اورنج کلر بہت سوٹ کرتا ہے"......وہ اورنج کلر کی گٹھنوں تک آتی کرتی میں ملبوس تھی جس پہ بلیک کڑھائی کی تھی بلیک ٹروزار بلیک ڈوپٹہ اور چادر لیا ہوا تھا

"اب واڈروب اورنج کلر کے سوٹ سے بھرنا ہوگا".....وہ ہنستی ہوئی بولی تو وہ بھی ہنس دیا

****

دن گزر رہے تھے اور گزرتے جارہے تھے۔۔زہران خان وہی رات کو آتا اور اسکی خیریت معلوم کرتا اور چند ایک باتیں پوچھ کر وہی اپنے لیپ ٹاپ میں بزی ہوجاتا اور پھر سوجاتا۔۔زمل کو بخوبی اب اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ زہران خان ایک اچھی شخصیت کا مالک ہونے کے ساتھ ساتھ سنجیدہ طبعیت کا ہے..دن بھر چپ کا تالا لگا کر رہنے کے بعد رات کو اس شخص سے باتیں کرنے کا دل چاہتا تھا لیکن  اسکی ہمت نہیں ہوپاتی۔۔فہد خان کو زمل سے ملنے کا موقع نہیں مل رہا تھا لیکن کھانے کی ٹیبل پر ہوتا تو زمل اسکی گہری نظروں سے جھنجھلا جاتی۔۔

زمل حویلی کی چھت پہ کپڑے ڈالنے کیلئے آئی تو مشل بھی اسکے پیچھے دبے پاؤں چلتے ہوئے آگئی،،،وہ ایسی ہی اب موقع دیکھ کر اس سے بات کرنے آجاتی تھی۔۔

"کیسی ہیں آپ"؟.…..زمل اپنے پیچھے سے مشل کی آواز سن کر مسکراتے ہوئے مڑی

"میں ٹھیک تم کیسی ہو؟یونی نہیں گئ"

"نہیں آج کوئی امپورٹنٹ کلاس نہیں تھی".…..وہ ایک جانب رکھی چارپائی پہ بیٹھتے بولی

"بی بی خان نہیں ہیں کیا"......وہ اسکو سکون سے بیٹھتے دیکھ کر پوچھی

"نہیں وہ بابا سائیں کے ساتھ گاؤں والے سردار کی حویلی گئی ہیں"......زمل اسکی بات پر اثبات پہ سر ہلاتے واپس مڑ کر کپڑے ڈالنے لگی

"بھابھی آپ کو پتہ ہے بھائی حویلی کے لوگوں کی طرح نہیں ہیں..انکا مزاج حویلی کے مردوں کے بلکل برعکس ہے،،وہ بہت نرم دل احساس اور محبت کرنے والے شخص ہیں".......اسکے لہجے میں اپنے بھائی کیلے محبت اور احترام تھا

"ہمممم.....لیکن تم مجھے بھابھی مت کہو".....اسکی بات پہ وہ صرف ہممم ہی بولی زہران کی خوبیوں کی وہ دل سے مترادف تھی لیکن اسکے مختصر بات کرنے پہ وہ خود بخود دل ہی دل میں اس سے خفا تھی

"میں کہونگی ابھی تو اکیلے ہی میں سہی لیکن انشاء اللّٰہ جلد سب کے سامنے بھی".....وہ مسکراتے ہوئے بولی

"مجھے اس بات کا بہت دکھ ہے میں آپ کیلئے کچھ نہیں کرسکتی ،،لڑکیاں بہت بےبس ہوتی خاص طور پر حویلیوں کی،،اس حویلی سے نکلنا بھی ایک مشکل کام ہے،،کسی بھی چیز کیلئے باہر جانا ہو تو ایک لمبے پروسس سے گزرنا پڑتا ہے،،پتہ ہے میں اس رسم کو ختم کرنا چاہتی ہوں اس رسم کی اجازت تو ہمارا مذہب بھی نہیں دیتا اور یہ تو اللیگل ہے،،لیکن بابا سائیں فہد خان.....میں بھی نہ کتنی ڈرپوک ہوں".......وہ تلخی سے ہنسی

"ایسے نہ کہو تم تو میری پھر بھی کتنی مدد کرتی ہو اور تم دیکھنا ایک نہ ایک دن یہ رسم ضرور ختم ہوگا"......وہ محبت سے اسے اپنے ساتھ لگائی

"فہد خان کی بھی بات مانتی ہو"؟.....اسکی بات یاد آتے وہ سرسری سے لہجے میں پوچھی

"اسکی بات تو اب زندگی بھر ماننی ہوگی"......اسکی آنکھوں میں دکھ ہلکورے لے رہے تھے

"کیا مطلب"؟.....زمل ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی

"مفسرہ کو مہران لالا اور مجھے فہد خان سے بچپن میں ہی منسوخ کردیا گیا تھا اور زہران بھائی کے ساتھ کا کوئی نہ تھا تو وہ بچے ہوئے تھے اسی لئیے شاید کہ آپ نے انکے زندگی میں آنا تھا"......دکھ سے بولتے وہ آخری میں ہلکا سا ہنسی

"کیا اتنی پیاری لڑکی کا مستقبل فہد خان جیسے شخص کے ساتھ ہونا ہے نہیں بلکل بھی نہیں میں اسکے ساتھ کبھی ایسا نہیں ہونے دونگی".....وہ اسکے چہرے پہ نظریں جمائے دل ہی دل میں ارادہ کرلی،،اپنی چھوڑ کر اسے اس لڑکی کی فکر لاحق ہوگئی تھی جو صرف بیس برس کی تھی اور یونیورسٹی کے سیکینڈ ائیر میں تھی 

"اچھا تم مہران خان کو لالا اور زہران خان کو بھائی بولتی ہو کیوں؟.......وہ اسکا ذہن بٹانے کو پوچھی جو فہد خان کی وجہ سے اداس ہوگئی تھی

"وہ کہتے ہیں کہ مجھے لالا نہ کہا کرو بھائی بولو،،کہتے ہیں بھائی کی جان بولنے میں زیادہ اچھا لگتا ہے".....وہ ہنستے ہوئے بتانے لگی

*****

"سنو لڑکی".....فضیلہ بیگم لاؤنج میں آکر صوفے پہ بیٹھتے بولی

"جی".…..وہ جو بیج میں رگ کے اوپر رکھے سینٹرل ٹیبل کو صاف کرہی تھی،،انکے اس طرح مخاطب کرنے پہ حیران ہوئی

"تمہاری ماں کیسی ہے ٹھیک ہے".....انکے لہجے میں کچھ عجیب سا تاثر تھا

"میری ماما کی ڈیتھ ہوگئی ہے"....وہ نظریں جھکاتے آنسوں پینے کی کوشش کرنے لگی

"اور تمہارا باپ وہ ٹھیک ہے یا کوئی مسئلہ ہے"،،،،انکا لہجہ پراسرار ہوتا جارہا تھا۔

ٹھیک ہے،،،،انکے لہجے پہ وہ ٹھٹکی،،،آج وہ خلاف معمول اس سے خود بات کرنے آئی تھی وہ بھی ایک غیر متوقع ٹاپک

"ہمممم میں سمجھیں کیا پتہ پریشان رہتا ہو"،،،،،وہ معنی خیزی سی مسکراہٹ اس پہ اچھال کے چلی گئی

جبکہ زمل شج و پنج میں پڑگئی،،،انکی پراسرار طور پر کی گئی بات،،،باپ کا خوف،،،دادی کا محبت سے دیکھنا،،،کیا ان سب کے پیچھے حویلی سے تعلق ہے

"یااللہ کیا کوئی ایسی بات ہے جو میں نہیں جانتی".....وہ بری طرح الجھ گئی تھی

******

وہ آج دو دنوں بعد حویلی آیا تھا،،زمل ان دو دنوں میں بولائ بولائ پھر رہی تھی...وہ اس سے ہر رات کو تھوڑی بہت باتیں کرنے کی عادی ہوگئی تھی،،اس سے وہ اب بلاجھجھکے بات کرلیا کرتی تھی لیکن اسکی سنجیدہ طبعیت کو دیکھ کر کم ہی کرتی تھی

"بات سنیں"….وہ آہستگی سے اسے مخاطب کرتی نیچے ہی بیٹھ گئی وہ بیڈ کے ایک طرف بیٹھا تھا،،دو دن بعد وہ آیا تھا اور اب بھی اپنے کام میں مصروف تھا

ہمممم...بغیر اسکی طرف دیکھے وہ لیپٹاپ پہ نظریں مرکوز کیے مصروف سے انداز میں بولا

آپ اتنے ریزرو نیچر کے کیوں ہیں،،آپکو پتہ ہے یہاں میں پورا دن منہ بند کرکے رہتی ہوں کم از کم آپ ہی بات کرلیا کریں،،،میری دوستیں کہتی تھی زمل اتنا کیوں بولتی ہو اگر کسی دن تجھے بات کرنے والا کوئی نہ ملا تو،،،وہ منہ بسورتے نیچے بیٹھتے بولی،،وہ اسکی خاموش طبعیت سے جھنجھلا گئی تھی جبھی ہر سوچ کو بالائے طاق رکھتے اسکے سامنے کھل کر ناراضگی کا اظہار کرنے لگی

اسکی بات پہ زہران کے لبوں پہ مسکراہٹ آگئی،،لیکن اسکے دیکھنے سے پہلے ہی تھوڑی دیر پہلے والی سنجیدگی آگئی تھی

"گرلز الرجیک ہوں"....زہران کہ تو چکا تھا لیکن کس کے سامنے کہ گیا تھا یہ اب اسے احساس ہوا

"مجھ سے مطلب"،،،وہ آنکھوں میں ناسمجھی لیے اسے دیکھی

"زیادہ بات نہیں کرتا میں،،اور آپ ادھر بیٹھے یہاں ہیں آپکی جگہ"...وہ اسے نیچے سے اٹھتا بیڈ پہ اپنے سامنے بٹھایا

"بندہ تھوڑی دیر کیلئے اپنے کام سائیڈ میں رکھ کر ٹھیک سے بات ہی کرلے"،،،وہ دل میں کڑھ کر سوچی

"تو مجھ سے کرلیا کریں نہ،،آپکو تو پتہ ہے یہاں میں پورا دن خاموش رہتی ہوں"،،،وہ روہانسی سی بولی

"میری عادت نہیں نہ ذیادہ بات کرنے کی آپ کرلیا کریں میں آپکی باتوں کا جواب دیدیا کرونگا"......وہ نرمی سے مسکراتا ہوا بولا اور پہلی بار تھا جو اسکے لہجے میں سنجیدگی کے آثار نہیں تھے،،،،پنک اور وائٹ کلر کے کپڑے میں ملبوس وہ ناراض ناراض سی اسکے دل میں اتر رہی تھی

"آپ دو دنوں سے کہاں تھے"؟....اسکے دو دن بنا بتائے غائب ہونے پہ پوچھی

"میں اپنے فرینڈ کے ساتھ مل کے کمپنی کی کنسٹرکشن  کروارہا تھا اور ان دنوں میں کام کو فائنل کرنا تھا تو وہ شہر میں رکنا پڑا اچھا ایک اور بات حویلی میں کسی کو نہیں پتہ میں نے اپنی کمپنی کنسٹرکٹ کروائی یہ آپ پہلی ہیں جسے بتارہا ہوں امید کرتا ہوں آپ کسی کو نہیں بتائے گی"......وہ نرمی سے تفصیل سے بتانے لگی،،،اس لڑکی سے بات کرکے اب اسے بھی اچھا لگنا لگے تھے،،وہ جو لڑکیوں سے سو میل دور رہتا تھا،،،نکاح رشتہ ہوتا ہی اتنا خوبصورت ہے کہ ایک دوسرے کے دل میں جگہ بن جاتے ہیں

"تھینکیو تھینکیو سو مچ"...... وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھتے بولی،،،اسکی بات سے اسے اپنا آپ معتبر لگنے لگا تھا

"کس لئیے"؟....وہ آئبرو اچکائے مسکراتا ہوا پوچھا

"مجھ پر بھروسہ کرنے کیلئے"....وہ مسکراتے ہوئے بولی

دونوں کے دل محبت اپنا کام کرچکی تھی اب اظہار باقی تھا دونوں طرف سے۔۔کیا اظہار ہونا تھا یا اس سے پہلے ہی الگ ہوجانا تھا

زہران آج حویلی میں تھا،،محتشم خان مردان خانے میں کسی مسئلے پہ پنچایت بٹھائے ہوئے تھے زہران بھی یہی آگیا۔۔۔

"مسئلہ بتاؤ دونوں ایک ایک کرکے".......وہ سامنے بیٹھے دو آدمیوں سے بولے

"سردار یہ ہمارے زمین کے کچھ حصہ میں یہ زبردستی اپنی سبزیاں اگا رہا ہے جبکہ وہ حصہ ہمارا ہے".....ایک آدمی بےبسی سے بولا

"سردار جھوٹ کہ رہا ہے یہ وہ حصہ ہمارا ہے،،ہماری بڑی زمین ہے".......بادشاہ نامی شخص اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتا بولا

"سردار محتشم نے اور تھوڑی دیر تک دونوں فریقین کی بات سنی اور کچھ گواہان کی بھی۔۔

"دونوں فریقین کی بات سننے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے زمین بادشاہ کی ہے"......سردار محتشم اپنا فیصلہ سنا دیے اب اسے سب کو ماننا تھا

وہ بےبس سا آدمی اس فیصلے پہ اپنی آنکھوں میں آتے نمکین پانی کو جلدی سے صاف کیا۔۔

زہران خان باپ کے فیصلے پہ لب بھیچ گیا،،ایک غریب آدمی کے ساتھ نانصافی ہوئی تھی۔۔

بادشاہ ایک نہایت تیز آدمی تھا،،کئی جرائم میں بھی ملوث تھا،،ایسے ہی کچھ کام محتشم خان بادشاہ سے کرواتے تھے اور یہی آکر انصاف نہ ہوا تھا اور فیصلہ بادشاہ کے حق میں دے دیا گیا تھا۔۔

****

وہ اپنے نئے خوبصورت سے آفس میں فرنیچر سیٹ کروارہا تھا تبھی اسکا موبائل رنگ کیا ان نون نمبر تھا،،کال ریسیو کرتے ایک سائیڈ پہ آیا

"کیسے ہو"؟.....نسوانی آواز پہ وہ چونکا

"کون"؟...

"ارے اتنی جلدی ہی ہمیں بھول گئے"......وہ ہلکا سا قہقہ لگائی

"اوہ ماہم کہو کیوں فون کیا ہے"؟......وہ بے تاثر لہجے میں بولا

"اتنے دن سے بات نہیں ہوئی تم تو کروگے نہیں سوچا میں ہی کرلوں".....

"میں سب کچھ کلئیر کرچکا ہوں اب آئیندہ کال نہیں کرنا"۔۔۔۔۔اسکی بات پہ اسکی پیشانی پہ بل پڑے

"کلئیر تو سب کچھ تم نے کیا تھا میری طرف سے کچھ بھی نہیں ہوا ہے"۔۔۔۔اب کے اسکا انداز اسپاٹ تھا

"میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی ہے جو میں نے تم سے بات کی اور ایک بات اچھی طرح سن لو اب میرے راستے میں آئی تو اچھا نہیں ہوگا"......وہ غصے سے کہتا کال کاٹ دیا

****

 "ایک کام ڈھنگ سے نہیں ہوتا تم سے،،تمہارا باپ کا گھر نہیں جو ہر چیز ضائع کردوگی"......وہ اسکے بالوں کو مٹھی میں لیتے بولی

"ممہ...میرے بال".....انکی مضبوط گرفت پہ اسکے آنسو نکل آئے

"اتنے مہنگے برتن کا پورا سیٹ خراب کردیا ہے تم تو ونی کی بس نام میں آئی ہو ایسی کوئی سزا تو تمہیں مل ہی نہیں رہی"....... اتنی تکلیف دینے کے بعد کتنی سفاکی سے بول رہی تھی،،،،اسکے بال کو جھٹکا دیتے اور گرفت مضبوط کردی

"آہ آہ".......اسے لگا اب اسکے بال جڑ سے نکل آئیں گے

"کیا کررہی ہیں مورے"؟......وہ ماہم کی کال کے بعد ڈسٹرب سا حویلی آگیا تھا اندر کا منظر اسکی پریشانی میں اور اضافہ کرگیا

زہران آگے بڑھتے ایک جھٹکے سے اسکے بالوں کو فضیلہ بیگم کی گرفت سے آزادی دلوائی

"زہران کس طرح بات کررہے ہو اور ہٹو یہاں اس سب سے تمہارا کوئی تعلق نہیں".......اسکے غصے کو دیکھتے وہ بھی سختی سے بولی

جبکہ کچن کے کونر پر کھڑی مفسرہ اس سارے منظر کو مسکراہٹ کے ساتھ انجوائے کررہی تھی

"کیسے نہیں ہے میرا تعلق..بیوی ہے میری...نکاح میں ہے میرے اور کونسا تعلق بتاؤ آپکو؟"........وہ زمل کو اپنے ہالے میں لیتا تحفظ کا احساس دیا

وہ جو پہلے رو رہی تھی اس احساس سے اور بکھر گئی کہ اس حویلی میں اسکا بھی کوئی ہمدرد ہے

"زمل.....خاموش ہو جائیں"......اسکے بری طرح رونے پہ وہ نرمی سے بولا

فضیلہ بیگم تو بیٹے کے رویے کو دیکھ کر سیخ پا ہوگئی

"دماغ چل گیا ہے تمہارا زہران ونی میں آئی لڑکی کو بیوی کہ رہے ہو"؟......وہ غصے سے چلائی

"مورے یہ آپ لوگوں کیلئے ونی میں آئی لڑکی ہوگی لیکن میں اپنے پورے ہوش و حواس میں اپنے گھر والوں کے سامنے اسے اپنے نکاح میں لے کر آیا ہوں.....یہ فضول رسم آپکو ہی مبارک ہو"….….وہ ناگواری سے بولا

"چلیے زمل"......وہ اسکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیتا اوپر کی طرف بڑھا،،،،زمل کا دل پہلی بار اسکا لمس محسوس کرتے زور سے ڈھرکا

"کرتی ہوں بات تمہارے بابا سے ونی لے کر آئے تھے اور انکا سپوت بیوی کا درجہ دے رہا ہے"......وہ غصے سے بڑبڑائی

******

وہ کمرے میں آکر اپنے بکھرے بالوں کو کھولتے ٹھیک کرنے لگی تھی،،،زہران بھی بیڈ میں بیٹھ گیا

"سر میں درد تو نہیں ہورہا؟"......اسکے لہجے سے فکر جھلک رہی تھی

"نہیں".......ہلکا ہلکا سر درد کررہا تھا لیکن اسے بتا کر اور پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی

"سوری"......وہ نظریں نیچے کیے بولا،،،،وہ ایسا ہی تھا ہمدرد

"کس لئیے"؟.....وہ چونک کر اس خوبرو شخص کو دیکھی جو زمین پر نظریں جمائے نجانے کیا ڈھونڈ رہا تھا

"مورے کے رویے پہ"......وہ شرمندہ نظر آرہا تھا

"آپ کو شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے ونی میں آئی لڑکی کے ساتھ ایسا ہی ہوتا بلکہ اس سے بھی کئی ذیادہ برا یہ تو آپکی وجہ سے مجھے بہت رعایتیں ملی ہوئی ہیں"…....وہ ہلکے پھلکے لہجے میں مسکراتے ہوئے بولتی اسکی شرمندگی کو دور کرنا چاہا

اسکی بات پہ وہ ہلکا سا مسکرایا

*****

"آپ کو کہا تھا میں نے خون کا بدلہ خون لے آپ تو پچھلے حساب کتاب کی چکر میں اس لڑکی کو لے آئے اور اب میرا بیٹا اسکو بیوی کا درجہ دے بیٹھا ہے".......انکی آواز محتشم خان سے بات کرتے پہلی بار تیز تھی

"آواز نیچی رکھیں"......محتشم تنبیہہ انداز میں بولے

"میں کیا کروں اس لڑکی کو وہ اپنی بیوی مان لیا ہے اس پر کسی قسم کا سخت برتاؤ نہیں کرنے دے رہا اسی لئیے لائے تھے آپ کہ اسے یہاں آرام دیا جائے"......اب انکی آواز آہستہ تھی لیکن لہجے میں ناراضگی تھی

"ہمممم یہ تو ہے مجھے بھی لگ رہا زہران کا اس سے نکاح کروا کر غلطی کردی ہے مجھے اسے فہد خان کے نکاح میں دینا تھا خیر اب اسکا میں کچھ کرتا ہوں"......وہ گہری سانس لیتے بولے

"بی بی جان کیسی ہیں".......اتنے دنوں میں شاید اپنی ماں کا پوچھنے کا خیال آیا تھا

"ٹھیک ہے".....

"وہیل چیئر میں انھیں باہر لے آیا کرو کمرے میں رہ رہ کر تھک جاتی ہونگی".……

"کمرے میں ہی ٹھیک ہیں ورنہ طبعیت نہ بگڑ جائے انکی"......وہ بمشکل اپنے لہجے پہ قابو آتے بولی

"ہمممم"....وہ محض ہنکارہ بھر گئے

*****

شام چار بجے کا وقت تھا زمل ڈرائینگ روم کی صفائی کررہی تھی...آج اسکا کھانا بناتے ہاتھ بھی جل گیا تھا۔۔وہ صفائی کرکے نکل رہی تھی محتشم صاحب فضیلہ بیگم اور مہرماہ بیگم اندر داخل ہوئی،،،اپنے اوپر نفرت بھری نگاہ محسوس کرتے وہ خاموشی سے جانے لگی

"چائے بنا کے لے کر آؤ اور چائے ہی لانا".....فضیلہ بیگم کی حکم پہ وہ سر ہلائی

وہ کچھ دیر بعد چائے کی ٹرے ہاتھ میں تھامے ڈرائینگ روم کے پاس آئی تھی کہ اندر سے آتی باتوں کی آواز سن کر اسکی ہاتھوں میں تھاما ٹرے لرزا

"میں سوچ رہا ہوں زہران کی شادی کردینی چاہیے"......محتشم خان فضیلہ بیگم کو دیکھتے بولے

"ہممم میں بھی یہی سوچ رہی"....وہ انکی بات کی تائید کی

"کوئی لڑکے دیکھے آپ پھر اسی مہینے کے آخر میں کردیتے ہیں کیونکہ خاندان میں اسکی عمر کی کوئی ہے نہیں اور اگر ہوتی بھی تو یہ کبھی کرتا نہیں".......

انکے باتیں جاری تھی،،،،زمل کو سامنے کا منظر دھندلا نظر آرہا تھا،،،وہ دو تین بار آنکھیں جھپکی،،اب سامنے کا منظر صاف تھا،،،وہ اپنے اوپر قابو پاتے اندر اور چائے دیتی دوبارہ سے نکل گئی

پہلے ہی اسکا ہاتھ جلا ہوا تھا اب تو دل بھی جل رہا تھا،،،وہ بگڑے موڈ کے ساتھ باقی کے کام کرنے لگی،،لیکن اپنے اس موڈ کو اپنے ہی تک محدود رکھا کیونکہ دوسرے تک پہنچا کہ اسے اپنی شامت نہیں بلوانی تھی

اسوقت رات کے ساڑھے نو ہورہے تھے اور وہ دونوں کمرے میں تھے۔۔زہران آج جلدی آگیا تھا،،،اسکا کام اب اسٹارٹ ہوگیا تھا،،ایک کمپنی سے ڈیل چل رہی تھی،،اور زمل جو پہلے ساڑھے گیارہ سے پہلے کمرے میں نہیں جاسکتی تھی اب زہران خان کی بدولت باقیوں کی طرح نو بجے ہی کمرے میں آجاتی تھی

زہران کب سے اسکی غائب دماغی نوٹ کررہا تھا،،،آج وہ روز کی طرح نہ تو اس سے باتیں کی تھی بلکہ اس کے کچھ پوچھنے پر بھی ہوں ہاں میں جواب دے رہی تھی

"زمل".......اسکے نام لیتے اسوقت لہجے میں بہت سے جذبات تھے جو زمل اپنی ہی غائب دماغی میں نوٹ نہ کرسکی،،،وہ صوفے پہ بیٹھی تھی اسکے پکارنے پہ سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی

"ادھر آئیں".....وہ نرمی سے بولا

وہ خاموشی سے چلتے اسکے پاس بیڈ پر کچھ فاصلے پر بیٹھ گئی

"کوئی پریشانی ہے"؟......وہ لیپٹاپ سائیڈ میں کرتے پوری طرح سے اسکی طرف متوجہ ہوا

"آپکے بابا سائیں آپکی شادی کا سوچ رہے ہیں"........وہ اب اس سے ذیادہ اس بات کو اپنے دل میں نہیں رکھ سکتی تھی

اسکی بات پہ جہاں وہ پریشان ہوا تھا وہی اسکا اداس چہرہ دیکھتے وہ ذرا سا ذرا مسکرایا

"میں آپ کو یہاں سے نکالنے کی کوشش کررہا ہوں اورجلد یہ بھی ہو جائے گا اب یہ آپ پر ہوگا کہ آپ اس رشتے کو قائم رکھنا چاہی گی یا......"،،،،وہ بات ادھوری چھوڑ کر اسکی طرف دیکھنے لگا

"آپکا بھی تو کوئی فیصلہ ہوگا نہ".....وہ الجھتی ہوئے اسے دیکھنے لگی

"اگر آپ میرا ساتھ رہنا چاہے گی تو میں پوری خوشی کے ساتھ آگے کے سفر کو  آپ کے ساتھ طے کرونگا لیکن آپ کی اگر مرضی نہ ہوئی تو میں زبردستی نہیں کرونگا".......وہ بڑی سبھاؤ سے سب کچھ واضح کرتے بولا

"میں....بس میرے نام کے آگے سے اپنا نام نہیں ہٹایے گا"........وہ کئی لمحہ سوچتی رہی کیا جواب دے اور اسکے بعد نظریں دوسری طرف کرتے ایک ہی سانس میں کہ ڈالی

اسکے کہنے پر زہران خان کھل کے مسکرایا

"آپ یہ بات ایسے بھی کہ سکتی تھی کہ میں آپکے ساتھ رہنا چاہتی ہوں"......اسکی گھبراہٹ کو دیکھتے زہران خان کا دل اسے تھوڑا تنگ کرنے کو چاہا

"آپ مجھے بابا سے ملنے دینگے نہ"؟.....اس سنجیدہ شخصیت کے مالک سے ایسے سوال کی توقع نہ تھی جبھی وہ جلدی سے بات برعکس دی

"ویسے آپکو پہلے یہ سوال پوچھنا چاہیے تھا اور پھر ہاں کرنا چاہیے تھا...نہیں؟........وہ اسکو امتحان میں ڈال رہا تھا لیکن سامنے بھی زمل زہران خان تھی

"رشتے میں سب سے پہلے عزت اور بھروسہ ہونا چاہیے اور آپ پر بھروسہ تھا کہ آپ ملنے سے کبھی نہیں روکے گے".......اسکے لہجے پہ اپنے لئیے اتنا بھروسہ محسوس کرتے وہ پرسکون ہوا

"ابھی تو میرے ساتھ آپ کو صرف دو ماہ ہوئے ہیں اتنا بھروسہ"......وہ چیلنجنگ انداز میں پوچھا

"ان دو ماہ میں مجھے لگتا ہے آدھی سے زیادہ آپکی شخصیت کو جان گئی ہوں".....اسکے انداز اسکی بات پہ وہ ہلکا سا مسکرایا اور لیپ ٹاپ دوبارہ سے اٹھاتے کام کرنے لگا

"آپ بابا کی طرف سے پریشان نہیں ہوئیے گا اب میں انکی بات نہیں ماننے والا"......وہ اپنی باتوں سے پرسکون کرگیا

"سفیان سے بھی مل سکتی ہوں نہ"......وہ کسی خدشے کے تحت پوچھی

"زمل آپ مل سکتی ہیں لیکن میں قانونی طریقے سے یہ کیس دائر کرواؤنگا اور قانون کے مطابق اسے سزا ملے گی کیونکہ میں اپنا بھائی کا خون ایسے ہی معاف نہیں کرسکتا ورنہ اپنے بھائی کو کیا منہ دکھاؤں گا کہ میں اپنے بھائی کا خون کا حساب نہ لے سکا".…..اسکے لہجے میں کرب تھا

زمل اثبات میں سر ہلاتے اٹھ گئی کیونکہ وہ غلط بھی نہیں کہ رہا تھا۔۔

"یہ کیسے ہوا"......زمل اٹھنے لگی تو زہران کی نظر اسکے جلے ہوئے ہاتھ پر پڑیں

"جل گیا".......وہ سادے سے لہجے میں بولی

"کیسے"؟.....وہ پریشان سا گویا ہوا

"مجھے کھانا نہیں بنانا آتا تو اس لئیے اکثر ہاتھ جل جاتا ہے".....وہ ہنسی لیکن کھوکھلی ہنسی

"حیران نہ ہو بڑی ہوں میں لیکن بابا نے کبھی بنانے نے نہیں دیا"......اسکی حیران آنکھوں کو دیکھتے بولی

"آئنٹمںٹ لگایا تھا".......اسکے پوچھنے پر وہ اثبات میں سر ہلا گئی

****

"بھائی آج کل آپ مجھے بلکل بھی ٹائم نہیں دے رہے".....مشل ناراضگی سے بولی

مفسرہ کی ایٹیوڈ کی وجہ سے مشل اس سے بات نہیں کرتی تھی اور زمل سے ماں کی وجہ سے کبھی کبھی ہی بات کرپاتی۔۔آج اتوار تھا اور زہران خان حویلی میں ہی تھا

"بھائی کی جان ابھی میں ایک مشن پہ لگا ہوا ہوں پھر اپنی گڑیا کو ڈائمنڈ کا برسلیٹ بھی تو دلانا ہے".....وہ اسکے ماتھے کو چومتا بولا

"کونسا مشن؟".....وہ آنکھیں سکوڑے پوچھی

"جلد پتہ چل جائے گا اچھا یہ بتاؤ کچھ چاہیے میں باہر جارہا ہوں".......وہ اسکے بالوں کو بکھیرتا پوچھا

"آپ اپنی پسند سے لے آئیے گا"......وہ مسکراتے ہوئے بولی

زہران خان اسکے کمرے سے نکل کر نیچے آیا۔۔پہلے دادی کے کمرے میں گیا وہ روز دادی سے سلام دعا کرلیتا تھا آج چھٹی تھی تو تفصیل سے بیٹھنے کا سوچا

"اسلام و علیکم بی بی جان"......وہ انکا پاس بیٹھتا بولا

"کیسا ہے میرا پتر"؟......وہ محبت سے اپنے نحیف ہاتھوں سے اسکا چہرہ تھامتے بولی

"ٹھیک ہوں آپکی طبعیت کیسی ہے"؟......

"زمل بچی کی وجہ سے تو اب کافی بہتر ہوں بہت خیال کرتی ہے میرا".......انکے لہجے میں زمل کیلئے محبت زہران خان محسوس کرسکتا تھا

"ایک بات کہوں".....

"بی بی جان آپ کو اجازت لینے کی کیا ضرورت ہے".....وہ ناراضگی سے بولا

"زمل بچی کا بہت خیال رکھنا ہے وہ بیچاری تو سازش کا شکار ہوئی اسے کبھی اکیلا نہیں چھوڑنا اپنی بی بی جان کی خواہش سمجھ کر ہی خیال کرنا اسکا"......

"بی بی جان اگر آپکی خواہش نہیں بھی ہوتی تب بھی میں اسکا خیال کرتا"......وہ انکی فکر پہ مسکراتا بولا

"تم دونوں ابھی ایک بات سے انجان ہے اس لئیے کہ رہی ہوں".....انکے چہرے پہ صدیوں سی تھکان تھی

"کونسی بات"......زہران چونکا

"ہے ایک بڑی بات وقت آنے پر پتہ چل جائے گا".......وہ انکی باتوں سے ٹھٹکا،،،،کچھ دیر اور ان سے باتیں کرکے وہ باہر آگیا۔۔

وہ زمل کو ڈھونڈتے کچن میں آیا تو وہ برتن کو کیبنٹ میں سجا رہی تھی

"زمل".......اسکی پکار پہ وہ اسکی جانب متوجہ ہوئی

"جی".......وہ اسکی طرف آئی جو بلیک کمیز شلوار میں غضب ڈھا رہا تھا

"چادر لے کر آئیں کہی جانا ہے".…..

"کہاں".......وہ حیرانگی سے پوچھی

"میں باہر انتظار کررہا ہوں".......وہ اسکو کہتا باہر کی جانب چلا گیا

زمل آنکھیں گھما کر رہ گئی،،،دل میں فضیلہ بیگم کا ڈر بھی تھی،،،اور زہران کی بات سے انکار بھی نہیں کرسکتی تھی،،،فضیلہ بیگم اور محتشم خان حویلی میں موجود نہیں تھے اسلیئے وہ باآسانی نکل آئی

اوپر کمرے میں گئی اور ایک نظر اپنے سوٹ پہ ڈالا جو آج صبح ہی چینج کیا تھا،،،بلیو کلر کا ہلکے سا دھاگے سے کام کیا ہوا سوٹ تھا۔۔وہ کپڑے کو دیکھتے مطمئن ہوتے چادر لے کر باہر نکلی

جہاں زہران ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھا تھا اسکے آتے ہی سامنے والا پسینجر سیٹ کھول دیا وہ خاموشی سے بیٹھ گئی

اسے وہ دن یاد آیا جب وہ اس گاڑی سے اترنے بولا تھا اور وہ آج اسی گاڑی میں اسکے بولنے پر بیٹھ گئی

وہ انھی سوچوں میں تھی اور اتنے دنوں بعد باہر آنے پر باہر کے نظاروں میں کھوئی ہوئی تھی کہ گاڑی میں لگے گانے کے بول کی طرف متوجہ ہوئی جو ابھی زہران خان نے پلے کیا تھا

شاید کبھی نہ کہ سکوں میں تم کو

کہے بنا ہی سمجھ لو تم شاید

شاید میرے خیالوں میں تم ایک دن

ملو مجھے کہی پہ گم شاید

جو تم نہ ہو تو رہے گے ہم نہیں

نہ چاہیے کچھ تم سے ذیادہ

تم سے کم نہیں

جو تم نہ ہو رہے گے ہم نہیں 

جو تم نہ ہو تو ہم بھی ہم نہیں

گانے کے بول پہ اسکا دل زور سے ڈھرکا وہی زہران خان کا حال کچھ الگ نہ تھا۔۔گانے کے بول انکے جذبات کی ترجمانی کررہے تھے۔۔۔دونوں ہی کے دل میں محبت نے اپنا گھر کرلیا تھا لیکن اقرار دونوں طرف سے ہی نہیں ہوا تھا۔۔

گانا تبدیل ہوا تو وہ دونوں بھی اس فسوں خیز ماحول سے نکلے،،زمل باہر کی طرف نظریں دوڑانے لگی

"کہاں جا رہے ہیں ہم"؟.....وہ کچھ دیر بعد پوچھی

"مال جارہے ہیں آپ اپنے لئیے شاپنگ کرلئیے گا"......وہ نظریں سامنے مرکوز کیے ڈرائیونگ کررہا تھا

"مجھے کچھ نہیں چاہیے".....مال کا نام سنتے اسے کچھ یاد آیا

"تھوڑی بہت کرلئیے گا".......وہ اسکی بات مسترد کرتا اسے مال لے گیا

زمل شکر ادا کی کہ وہ اسے اوپر فلور پہ نہیں لے کر گیا،،،ابھی تو وہ بچ گئی تھی لیکن شاید آگے اسے اس کے ساتھ یہ سفر طے کرنا ہی تھا

****

"اے لڑکی جاکر مفسرہ کو کھانے کیلئے بلا کر لاؤ".....زمل انکی بات پہ سر ہلاتے مفسرہ کے کمرے کی جانب بڑھی

دراوزہ کھٹکھٹایا جواب نہ ملنے پر وہ ایسی ہی اندر آگئی

"ہاں نہ آجاؤ......."،،،،،،،،مفسرہ جو کال پہ لگی تھی اسکو دیکھتے ہی تن فن کرکے کال کاٹ کر اسکے پاس آئی

"تمیز نہیں ہے تمہیں پوچھ کر آتے ہیں کمرے میں کیا کیا سنا ہے جلدی بتاؤ".....وہ غصے سے آنکھیں دکھاتے بولی

"کچ...کچھ بھی نہیں سنا"......وہ ڈرتے ہوئے نفی میں سر ہلائی

"جھوٹ بولتی ہو جلدی سچ بولو"......وہ غصے سے اسے ایک کے بعد دوسرا تھپڑ لگائی،،،اندر سے وہ ڈر رہی تھی پتہ نہیں کیا سن لیا ہو اسنے۔۔

"سچ کہ رہی ہو کچھ نہیں سںنا ابھی آئی تھی کھانے کیلئے بلانے".......تضیحک سے وہ سرخ ہوئی آنکھوں سے پانی موتیوں کی صورت میں نکلنے لگے

"دفعہ ہوجاؤ فوراً"۔۔۔۔۔۔وہ باہر کی طرف اشارہ کی

زمل بھاگتے ہوئے نکلی۔۔

"کیا ہوا ہے بھابھی"؟.....مشل جو خود کھانے کی ٹیبل پہ جارہی تھی اسکو روتا دیکھ کر پوچھی لیکن زمل نظر انداز کرکے اوپر سیڑھیوں کی طرف بھاگی

"زمل کیا ہوا رو کیوں رہی ہیں"......زہران جو بلو کلر کی فائل تھامے نیچے اتر رہا تھا اسے وہی سیڑھیوں پہ روکتا کندھوں سے تھام کر پوچھا

"کس نے مارا ہے"؟......اسکے گال پہ نشان دیکھتے وہ ماتھے پہ بل ڈالے پوچھا

"نام بتائیں"؟......اسکے نفی پہ سر ہلانے پہ وہ سختی سے بولا

"مفسرہ"......وہ ہلکے اواز میں بولی

زہران اسکا ہاتھ تھامے تیزی سے سیڑھیاں اترنے لگا

ڈائینگ پر ہی اسی مفسرہ مل گئی

"کیوں ہاتھ اٹھایا ہے تم نے"؟.......وہ غصے سے پوچھا

"زہران کس طرح بات کررہے ہو"؟.......فضیلہ بیگم ٹوکی

"مورے آپ بیج میں نہ بولے یہ نہ ہو ایک بیٹا تو کھودیا ہے دوسرے کو بھی کھودے".....اسکے سخت لہجے پہ وہ خاموش ہوگئی

"یہ بنا اجازت کمرے میں آگئی تھی"......زہران خان کو دیکھتے مفسرہ کو سانس اٹکتا محسوس ہوا،،،زہران خان دوپہر میں گھر میں ہوتا نہیں تھا

"اتنی سی وجہ پر تم ہاٹھ اٹھاؤ گی".....وہ غرایا

"ایک تھپڑ ہی مارا ہے نہ اور ویسے بھی اسکی اوقات ہی یہی ہے"......زہران کو سوال پہ سوال کرتا دیکھ کر وہ بھی غصے سے بولی

"اوقات کی بات مت کرو ورنہ میں اچھے سے یاد دلاؤنگا،،زمل اسے ویسا ہی تھپڑ لوٹائے"۔۔۔پہلے مفسرہ کو تنبیہ انداز میں بولا اور زمل کی طرف متوجہ ہوا

زمل اسکی بات میں تیزی سے نفی میں سر ہلانے لگی

"یہ اسکی شرافت ہے جو نہیں مار رہی اور میں اس لئیے نہیں مار رہا کیونکہ عورت پہ ہاتھ اٹھانا ایک اچھے مرد کو زیب نہیں دیتا لیکن اگلی بار تم یہ حرکت کی تو میں سب کچھ بھول جاؤنگا"۔۔۔۔۔۔وہ غصے سے کہتا چلا گیا

                                   *****

 "بی بی خان باہر ایک لڑکی آئی ہے آپ سے ملنے چاہ رہی ہے".......ایک ملازمہ فضیلہ بیگم کے پاس آتے بولی

"کون لڑکی؟".......

"پتہ نہیں جی حویلی میں تو پہلی بار آئی ہے"........

"بلا لاؤ اندر".....وہ اجازت دیتے مہمان خانے کی طرف بڑھ گئی

"اسلام و علیکم".….فراک اسکے ساتھ سٹریٹ ٹراؤزر کندھے پہ ڈوپٹہ پھیلائے کھلے بال وہ لڑکی شہر کی معلوم ہورہی تھی

"وعلیکم السلام...کیسے آنا ہوا"؟........وہ بڑی شائستگی سے اس سے پوچھی وہ کون ہے

"میں زہران کی یونی فرینڈ ہوں"......وہ مسکراتے ہوئے اپنا تعارف کروائیں

"اوہ کیسی ہو"....وہ اس سے پوچھتے ملازمہ کو ناشتہ لانے کی ہدایت دی

"میں ٹھیک".....

"زہران تو حویلی میں نہیں ہے".......وہ اس لڑکی سے پہلی بار مل رہی تھی

"میں آپ لوگوں سے ملنے آئی تھی زہران بہت تعریفیں کرتا تھا سوچا مل لوں".......

"اچھا کیا تم نے"......وہ اس سے کہتے مہرماہ بیگم اور مشل کو بلوانے کا ملازمہ کو بولی

تھوڑی دیر میں وہ دونوں بھی آگئی اور اب اس سے بات کررہی تھی

"زہران اور میں بہت اچھے دوست ہیں بلکہ کلوز فرینڈ وہ یونی میں کسی لڑکی سے بات نہیں کرتا تھا سوائے میرے،،یونی میں ہم دونوں ساتھ ہوتے تھے....."،،،،،وہ اور بھی نجانے اپنی طرف سے کیا کیا بڑھا کر بول رہی تھی

ناشتہ لگاتی زمل اسکی بات سنتے تھمی لیکن پھر لب بھینچتے دوبارہ سے اپنا کام کرنے لگی

اسکے جانے کے بعد مشل اٹھ کر چلی گئی

"زہران کی شادی کیلئے یہ لڑکی ٹھیک رہی گی تھوڑی بہت ماڈرن ہے لیکن اس منحوث لڑکی سے تو جان چھوٹے گی نہ"....... فضیلہ بیگم مہرماہ بیگم کو اپنے خیالات بتانے لگی

"ہاں ٹھیک کہ رہی ہیں اور زہران کی اچھی سہیلی ہے تو جلدی مان جائے گا اسکے لئیے".......وہ بھی انکی بات کی تائید کی

زہران جب حویلی آیا تو اسے ماہم کے حویلی آنے کے بابت معلوم ہوا تو وہ غصہ ضبط کرتا اپنی مورے کو صاف کہ گیا وہ اسکی کلاس فیلو تھی اور ان میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔اور دل ہی دل میں ماہم سے نپٹنے کا سوچ لیا۔۔۔

اسکے انکار پہ سب ناامید سے ہوگئے۔۔اس موضوع کو فلوقت بند کردیا گیا تھا۔۔

فہد خان اور زہران خان ساتھ بیٹھے باتیں کررہے تھے

"زمینوں کا کام کیسے چل رہا ہے؟"......زہران پوچھا

"ہاں سب کچھ ٹھیک ہے بس ایک دو پنچایت ہے وہ تو ہوتے رہتے ہیں"......وہ بےفکری سے بولا

"مسئلہ حل نہیں ہوا؟....زمل چائے لادیں"......اس سے پوچھتا وہ زمل کو آواز لگایا

زہران کے منہ سے زمل کا نام سن کر جہاں ناگواری محسوس ہوئی وہی اسکو آتا دیکھ کر آنکھیں چمکی۔

زمل اسکی نظروں سے الجھتی جلدی سے چائے کی پیالی پکڑاتے نکل گئی

زمل کا گھبرانا اور فہد خان کی نظریں زہران خان کی نظروں سے چھپ نہ سکی لیکن وہ خاموشی اختیار کیا جب تک بات کی تہ تک نہ پہنچ جائے۔۔

" مسئلہ تو تایا سائیں دیکھیں گے".....….

"اچھا تو پھر تمہاری باقی مصروفیات کیا ہوتی ہے".......زہران خان چائے کی گھونٹ بھرتے پوچھا جبکہ وہ اچھی طرح جانتا تھا

"یہی زمینوں پہ ہی ہوتا ہوں"....وہ اسکے سوال پہ ناگواری چھپاتے ہلکے پھلکے لہجے میں بولا

زہران خان اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا

فہد خان کی ایکٹیوٹیز کچھ خاص اچھی نہ تھی جسے زہران خان اچھے سے جانتا تھا اور اپنی گڑیا کو اسکو دینے کا ارادہ زہران خان کا بلکل نہ تھا۔۔۔

                           ******

زہران خان شاور لے رہا تھا اور اسکا موبائل بار بار بج رہا تھا۔۔۔زمل کبھی رنگ ہوتے موبائل کو دیکھتی تو کبھی باتھ روم کے دروازے کو۔۔۔مستقل مزاج بندہ تھا جو ریسپانس نہ ہونے پر بھی کال کیے ہی چلا جارہا تھا،،،وہ کچھ سوچتے موبائل اٹھائی،،،اسکرین پہ ماہم کا نام جگمگاتا دیکھ کر اسکے چہرے پہ ناگواری چھائی،،،بنا سوچے سمجھے وہ کال ریسیو کرچکی تھی۔۔

"میں سوچی تم خود فون کروگے لیکن یہاں تو تم میرے کال کرنے کے باوجود بھی ریسو نہیں کررہے"......

"کیوں کال کیا ہے؟".....لہجہ پہ سرد پن تھا

"کون ہو تم"؟.....نسوانی آواز پہ ماہم چونکی

"مسز زہران خان".......زمل کو خود بھی نہیں پتہ تھا وہ کیا بولے جارہی ہے،،،یہ سب ایک فطری عمل تھا جو ماہم کا نام دیکھتے اسے غصہ آیا تھا

"اوہ تو تم وہی ونی میں آئی لڑکی ہو ویسے خوش فہمی اچھی ہے مسز زہران خان"......وہ آخر کے تین لفظ منہ بگاڑتے بولی اور ایک قہقہ لگایا

"آئندہ کال مت کرنا"......زمل چبا چبا کر بولتی کال کاٹ دی

"کس کو کہ رہی تھی".......پیچھے سے آتی زہران کی آواز پر وہ ہوش میں آئی،،،اب ڈر لگنے لگا تھا کہ ایک تو اس سے پوچھے بغیر کال ریسیو کیا اور اتنی دیدہ دلیری سے اس لڑکی کو سنایا بھی۔

"وہ.....میں...."،،،،،وہ گھبراتے ہوئے ادھر اُدھر دیکھنے لگی

"کس کی کال تھی".......وہ ٹاول بیڈ پہ پھینکتا اسکے پاس آیا

"میں نے جان بوجھ کر ریسو نہیں کی وہ مسلسل کال آرہی تھی"......وہ آنکھوں میں نمی لیے خوف سے بولی

"ارے میں آپ کو ڈانٹ تھوڑی رہا ہوں ہاں اگر کوئی غلطی ہوگی تو سمجھاؤںگا ڈانٹوں گا یا ماروں گا تھوڑی"۔۔۔۔۔۔۔۔وہ نرمی سے بولا

"ماہم کی کال تھی اور مجھے غصہ آگیا".......اسکا نرم انداز دیکھ کر اسکا ازلی غصہ واپس آگیا

"اچھا لیکن اگر کوئی آفس سے کال ہو تو چاہے کتنے بار بھی آئے اٹھائیے گا نہیں.….سمجھ رہی نہ؟".......اسکے بولنے پر وہ اثبات میں سر ہلادی

"ماہم میری صرف کلاس فیلو تھی".......وہ پتہ نہیں کیوں اسے وضاحت دیا اسے خود بھی نہیں معلوم تھا۔۔

"آپ اگر شادی کرنا چاہے تو کرلے بس میرے نام سے اپنا نام نہیں ہٹایے گا ونی تو بن چکی ہوں اپنی ذات پہ ایک اور دھبہ نہیں لگا سکتی".....زمل ہونٹ کاٹتے بولی کس دل سے وہ یہ کہ رہی تھی یہ صرف وہی جانتی تھی۔۔

اسکی بات سن کر زہران خان عجیب سے احساس میں گھرا،،،کیا یہ لڑکی صرف اپنے ذات پہ ایک اور داغ نہیں چاہتی تھی اس لئیے اسکے ساتھ رہنا چاہتی تھی مطلب اسکے پیچھے کوئی اور وجہ نہیں۔۔۔۔ایکدم ہی دل اُچاٹ ہوا تھا

"مجھے اپنے بابا سے ملنا ہے".…..اسے خاموش دیکھ کر وہ دوبارہ گویا ہوئی

"ابھی تو مشکل ہے کیونکہ ویسے ہی بہت سارے کام میں نے بابا سائیں کے مرضی کے خلاف کیے ہیں...پریشان نہ ہو آپکے بابا کی خیریت میں کسی سے معلوم کرواتا ہوں"......وہ اپنے سنجیدے انداز میں گویا ہوا،،آج کل جو زمل سے بات کرتے نرمی ہوتی تھی وہ اسوقت نہ تھی

"جی ٹھیک"......اتنے دن گزر گئے تھے اسے اپنے بابا اور بھائی کے بغیر رہتے ہوئے۔۔

                              *****

احمد ابراہیم کو شروع دن سے ایک بندہ موبائل پہ ویڈیو لاکر دکھاتا تھا،،،کبھی زمل فضیلہ بیگم سے ڈانٹ سن رہی ہوتی تو کبھی محتشم صاحب سے تو کبھی مفسرہ سے تھپڑ کھاتے ہوئے۔۔۔اپنی گڑیا کو اس حال میں دیکھ کر وہ بیمار رہنے لگے تھے۔۔

"بابا یہ دلیہ کھا لے نہ"......ابھی وہ اپنے بابا کو ہسپتال سے لے کر آیا تھا اور دلیہ کھلانے کے تگ و دود میں لگا تھا

"سفیان میری بیٹی میری گڑیا"......وہ نم آنکھوں سے بولے،،،وہ زمل کی یاد میں گھلتے جارہے تھے

"بابا آپ خود مایوس ہورہے ہیں آپ تو مجھے مایوس ہونے منع کررہے تھے نہ دیکھیے گا آپی جلد ہی ہم سے ملے گی"......وہ اور ان سے ضد کرتے تھوڑا دلیہ کھلا چکا تھا

دروازے پہ ہونے والی دستک پہ وہ دونوں چونکے

"سفیان اگر وہ بندہ ہوا تو اندر مت لانا مجھ میں اور ہمت نہیں اپنی بیٹی کو اس حال میں دیکھنے کی".......وہ کمزور سے لہجے میں بولے تو وہ سر ہلاتا داخلی دروازے کی طرف بڑھا

"آپ"؟.......زہران خان کو دیکھ کر وہ چونکا

"احمد ابراہیم ہیں"؟.....سفیان کے اثبات میں جواب دینے پر وہ اندر چلا آیا

چھوٹا سا آنگن سامنے بنے دو کمرے ایک طرف کچن میں مشتمل یہ مکان احمد ابراہیم کا تھا

"کیسے ہیں"؟......وہ سلام کرتا انکے پاس ہی بیٹھ گیا

"بیٹا تم؟میری بیٹی کیسی ہے"......انکے لہجے میں بیتابی واضح تھی

"ٹھیک ہیں وہ،،ملنے آیا تھا آپ سے"......لہجہ بےتاثر تھا

"میری بیٹی کو وہاں سے نکال دو،،میرے بیٹے نے کوئی قتل نہیں کیا اسے پھنسایا گیا ہے،،،میرے بچے بےگناہ ہیں"......وہ اسکے آگے ہاتھ جوڑتے روتے ہوئے بولے،،،بیٹی کی اتنی دنوں کی جدائی نے انھیں کمزور بنادیا تھا

"انکل یہ نہ کرے...اور زمل کو تو میں اپنی طرف سے ہر قسم کی سہولت دے رہا ہوں لیکن اگر آپکے بیٹے سے قتل ہوا ہے تو اسے قانونی طور پر سزا دلواؤنگا"......وہ انکے ہاتھ جوڑنے پر نرم لہجے میں بولتا انکا ہاتھ نیچے کیا

"میرے بیٹے نے کوئی قتل نہیں کیا".....وہ اپنی بات پہ زور دئیے،،پاس بیٹھے سفیان نے بھی انکی بات پہ سر ہلایا

"میں اس معاملے کی تحقیق کرواؤنگا اگر یہ نہ ہوا تو اسے کوئی سزا نہیں ملی گی".....احمد ابراہیم کو اپنی بات پہ قائم دیکھ کر وہ پرسوچ انداز میں بولا۔

زہران خان اپنی گاڑی پہ بیٹھے حویلی کی طرف جارہا تھا۔۔۔

ذہن ایک سوال میں الجھا ہوا تھا اگر قتل سفیان ابراہیم نے نہیں کیا تو کس نے کیا۔۔۔احمد ابراہیم کی آنکھوں سے سچائی جھلک رہی تھی۔

                             ******

حویلی آیا تو ملازمہ نے اسے محتشم صاحب کا پیغام دیا۔۔۔

"چھوٹے خان آپکو بڑے خان بلارہے ہیں"......

وہ گہری سانس لیتا محتشم خان کے کمرے کی طرف بڑھا

"بابا سائیں بلایا آپ نے"؟......وہ اجازت لیتا اندر آیا

"ہاں آؤ بیٹھو".......بیڈ پہ فضیلہ بیگم اور محتشم خان بیٹھے تھے،،،زہران سامنے رکھے ٹو سیٹر صوفے پہ جاکر بیٹھ گیا

"ماہم تمہاری ہی کلاس کی ہے تمہاری مورے کو سمجھ میں آئی ہے اسکے لئیے شادی کے لئیے تیار کرو اپنے آپ کو اور اب دوبارہ انکار مت کرنا،،،کیونکہ ایک ونی میں آئی لڑکی کو میں خان حویلی کی بہو نہیں بنا سکتا"......وہ حکمیہ انداز میں بولے

"جو بہتر لگے آپ کو،،لیکن ابھی فلحال رشتہ نہیں بھیجئیے  گا ایک مہینے بعد اسکے بابا آؤٹ آف کنٹری سے آئینگے تب چلے جائیے گا".....وہ سنجیدے سے لہجے میں رضامندی دے گیا

"یہ کی ہے نہ میرے بیٹے والی بات".......وہ پہلے حیران ہوئے اسکے ماننے پر پھر جلدی مسکراتے ہوئے بولے

"بابا سائیں آپ سے ایک بات کہنی تھی"......وہ ٹھر کر انکی طرف اجازت طلبی نظروں سے دیکھنے لگا

"ہاں کہو".....اسے تہمید باندھتے دیکھ کر انھیں ایک بار پھر حیرانی ہوئی،،،فضیلہ بیگم خاموشی سے باپ بیٹے کو دیکھ رہی تھی

"میرا خیال ہے اس لڑکی کو اسکے گھر والوں سے ملنے کی اجازت دے دینی چاہیے"......آج وہ اسکا نام لینے کے بجائے"اس لڑکی"بولا تھا۔۔۔

"کیا ہوگیا ہے زہران ونی میں آئی ہوئی لڑکی ہے ایسے کیسے ملنے دیں دے".…..وہ ناگواری سے گویا ہوئے

"آپ ذرا تحمل سے سوچیں میں کونسا اسے ہمیشہ کیلئے بھیجنے بول رہا ہوں بس کبھی کبھار ملنے دے دیا کریں اور جب اس حال میں اسکے بابا دیکھیں گے تو اور تکلیف ہوگی انھیں جس طرح بھائی کی موت پر ہمیں ہوئی تھی"......وہ اسوقت بلکل سنجیدہ دکھ رہا تھا اسکے علاؤہ کوئی اور تاثر ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہا تھا

"یہ تم ہی کہ رہے ہو نہ"......انھیں یقین نہیں آرہا تھا آج وہ حیران پہ حیران کیے جارہا تھا

"میں  ہی کہ رہا ہوں محتشم خان کا بیٹا جو ہوں".....ہلکی سی مسکراہٹ اسکے ہونٹوں پہ آتے لمحے میں ہی اوجھل ہوگئی۔۔۔

"ہاں چلو غور کرتا ہوں اس بات پہ".....وہ پرسوچ انداز میں بولے

"شب بخیر"......وہ کہتے باہر نکل آیا،،،اسکی ذہین آنکھیں چمک رہی تھی

دوسرے دن مشل کو جب زہران خان کی رضامندی کا پتہ چلا تو وہ پریشان ہوگئی،،اسکا بھائی ایسے کیسا کرسکتا تھا،،ابھی زہران خان حویلی میں تھا نہیں،،بھائی سے اس بارے میں بعد میں پوچھنے کا سوچتے  وہ زمل کے پاس آئی،،جو کمرے میں تھی۔۔

"بھابھی آجاؤں؟"......

"ہاں آؤ اور یہ کتنی دفعہ منع کیا ہے بھابھی بولنے سے".....وہ خفگی سے بولی

"اچھا ابھی یہ بتائیں آپ کو ماہم کیلئے بھائی کی رضامندی پتہ چل گئی"؟......زمل اپنے لئیے فکر دیکھ کر دل میں ہی مسکرائی

"زہران خان اب....... مشل حویلی کے سارے مرد ایک جیسے ہی ہوتے ہیں"......دروازے پہ کسی کی موجودگی کا احساس ہوتے وہ کچھ اور کہتے کچھ اور کہ ڈالی

"بھابھی لیکن میں بھائی سے پوچھوں گی وہ ایسا کیسے کرسکتے ہیں وہ ایسے تو نہیں ہیں".......وہ افسردگی سے بولی

"میں ایک ونی میں آئی ہوئی لڑکی ہوں انکی شادی تو کہی اور ہونی ہی تھی اب تم پلیز اس بارے میں کچھ پوچھ کر اپنا بھائی بہن کا خوبصورت رشتہ خراب مت کرنا"......وہ محبت سے اپنی ساتھ لگائی

"لیکن.."،،،،مشل اعتراض کرنا چاہی

"میری خاطر"........زمل کی محبت سے کہنے پر وہ خفگی سے سر ہلا ڈالی زمل کیلئے ابھی اتنا ہی کافی تھا وہ اس بارے میں اب کسی سے کچھ نہیں کہے گی

                               *******

تھڑی پیس سوٹ میں ملبوس وہ ریسٹورنٹ میں داخل ہوا۔۔کئی ستائشی نگاہیں اٹھی تھیں لیکن وہ بے نیاز سا ایک ٹیبل کی طرف بڑھا جہاں ماہم بیٹھی تھی

"کیسی ہو"؟.....وہ چئیر گھسیٹ کر بیٹھتا ہوا بولا

"بہت خوش ہوں آج تو تم نے مجھے بلوایا ہے"......اسکا دمکتا چہرہ اسکی بےپناہ خوشی کی گواہی دے رہا تھا

"اتنے دن ہوگئے ملے نہیں یونی میں تو ڈیلی ملتے تھے سوچا آج تم سے ملا جائے"......وہی سنجیدگی جو ہر وقت ہوتی تھی

"اوہ آئی ایم بلیسڈ زہران خان کو میری یاد آرہی تھی"......وہ مسکرائی

زہران ویٹر کو دو جوس لانے کا بولا

"ویسے اس لڑکی سے کیا بور ہوگئے ہو؟ مینز اچھی کمپنی نہیں دیتی ہوگی آخر کو گاؤں کی ہے نہ"......وہ بھرپور معصومانہ انداز میں پوچھی

زہران کے چہرے پہ ایک تاثر آکر گیا

"اب تمہاری بات تو الگ ہے نہ"......وہ اب تک کی گفتگو میں پہلی بار ہلکا سا مسکرایا

"نوازش"......وہ بالوں کو پیچھے کرتے تھوڑا سا جھکتے ہوئے بولی

"اچھا اپنے گھر والوں سے اپنے اس دوست کا تعارف کروادینا"......اسکی ذہین آنکھیں ایک الگ ہی لے میں چمکی

"سب جانتے ہیں تمہیں،،میری باتیں تم سے ہی شروع ہوتی ہیں"......وہ ہنسی اور انگلیوں سے ٹیبل میں لکیریں کھینچنے لگی

"اوہ گڈ....چلو مجھے ایک امپورٹنٹ کام ہے پھر ملتے ہیں"....وہ مسکرا کر کہتا وہاں سے چلا گیا

"واہ ماہم مطلب تمہارا حویلی جانا کارگر ثابت ہوا"...اس کے لبوں کو گہری مسکراہٹ نے چھوا

                              "*****

کیسی ہو پریٹی ڈول".......فہد خان زمل کے سامنے کھڑا ہوتا بولا

"تمہیں بات نہیں سمجھ آرہی میرے پاس نہیں آیا کرو"......وہ چبا چبا کر بولی

"یار ویسے ہی اچھی لگتی ہو یہ غصہ دکھاتی ہو تو واللّٰہ اور لگنے لگتی ہو"......

"میں یہ آخر بار کہ رہی ہوں اگر اب آئے تو زہران خان سے کہ دونگی"......وہ انگلی اٹھاتے وارن کی

"ہاہاہاہا اسے کہو گی وہ تو خود اپنی دوسری شادی کیلئے ہاں کردیا ہے اتنی اچھی آفر دے رہا ہوں میں کرلو مجھ سے شادی اس ماہم کے آنے کے بعد زہران خان تمہیں باہر نکال کے پھینک دیگا"......وہ آنکھ ونک کرتا ہنسا

"وہ میرے ساتھ جو بھی کرے یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے لیکن اگر تم انکی منکوحہ کے ساتھ بتمیزی کروگے تو یہ پورے کا پورے انکا مسئلہ ہوگا اور وہ اچھی طرح اسکا بدلہ لینگے تم تو مجھ سے بہتر جانتے ہوگے".......وہ اطمینان سے بولتی دل جلانے والی مسکراہٹ لبوں پہ سجائی

"بہت ذیادہ اس زہران پہ مر رہی ہو نہ تو یاد رکھو ونی کی لڑکی کو اس حویلی کی بہو بننے کا شرف نہیں حاصل ہوگا".......اسکا اطمینان اسے غصہ دلا گیا

"اس حویلی کی بہو نہیں تو کیا پتہ زہران خان کی پہلی اور آخری بیوی بن جاؤں"......اسکے اطمینان میں رتی برابر فرق نہ آیا

"تمہیں تو میں دیکھ لونگا"......وہ سختی سے کہتے چلا گیا

"زہران خان کو اب بتادینا چاہیے کیا"؟...زمل گہری سانس لی اور پھر کشمکش میں مبتلا سوچنے لگی

                              ******

دو ہفتے اسی طرح گزر رہے تھے۔۔۔زہران خان اکثر و بیشتر ماہم سے ملتا رہتا اور ماہم وہ تو ہواؤں میں تھی۔۔زہران خان ابھی اسکی فیملی میں ماہم کے دوست کے طور پر ہی انٹڑوڈیوس تھا۔۔وہ ماہم سے اسکے بابا کا نمبر بھی اس سے باتوں باتوں میں لے چکا تھا

"زہران خان اپنے آفس پہ ریولینگ چئیر کے پشت سے ٹیک لگائے پرسکون سی مسکراہٹ لیے ذہن میں آگے کے لئیے لائحہ عمل بنانے لگا

تھوڑا سا آگے ہوتے وہ ٹیبل سے اپنا سیل اٹھاتے ایک نمبر ڈائل کیا،،چار پانچ بیل کے بعد کال ریسیو کرلی گئی تھی

"اسلام علیکم انکل!! کیسے ہیں"؟......وہ شائستگی سے پوچھا

"وعلیکم السلام،،میں ٹھیک تم سناؤ ینگ مین"......وہ  خاصے سٹڑکٹ تھے،،،انکے منہ سے نکلی ہوئی ہر بات انکے گھر والوں کیلئے حرف آخر ہوتی تھی،،خاصہ رعب تھا انکا

"آپ سے ایک ضروری بات کرنی تھی".….وہ تہمید باندھنے لگا

"ہمم کہو".....زہران کی سنجیدہ طبعیت نے انھیں خاصہ مرعوب کیا تھا

"ایکچوئلی بات یہ ہے کہ ماہم اور ہمارا کلاس فیلو شاہ میر شادی کرنا چاہتے ہیں،،ماہم آپ سے کہنے سے جھجھک رہی تھی تو اسنے مجھے کہا کافی اچھا لڑکا ہے اور آپکے فرینڈ فراز کا بیٹا بھی ہے"......

"اوہ تو یہ بات ہے ویسے مجھے بھی وہ اچھا لگا"...... وہ تحمل سے اسکی پوری بات سنتے بولے

"آپ ماہم پہ ظاہر نہیں ہونے دیے گا آپ ایسا رئیکٹ کریے گا جیسے یہ آپکی مرضی ہے وہ چاہتی کہ اسکا مان آپ پہ قائم رہے".......انکی رضامندی پہ وہ گہری سانس لیا اور بڑے سبھاؤ سے آگے بات کرنے لگا

"تھینکیو بیٹا آپ واقعی ایک اچھے انسان ہو".....وہ مسکراتے ہوئے بولے

"ارے انکل شکریہ کی کیا بات ماہم میری فڑینڈ ہے دوست کیلئے اتنا تو کر ہی سکتا ہوں...میری میٹینگ ہے پھر بعد کرتا ہوں آپ سے"......وہ الوداعی کلمات کہتے کال کٹ کیا

"ایک معرکہ تو سر ہوا".....وہ گہری سانس لیتے دوبارہ سے چئیر کی پشت سے سر ٹکا لیا

"یا اللّٰہ میں نے بلکل بھی غلط طریقے سے بدلہ نہیں لیا پھر  بھی مجھے معاف کرنا".....وہ زیر لب بولا

ماہم کو وہ زور زبردستی یا بتمیزی سے اسکے عزائم سے پیچھے نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ یہ اسکی شخصیت کا خاصہ نہیں تھی،،،لیکن اپنی ذات سے وابستہ اسکے ارادوں کو بھی ختم کرنا تھا تو اسنے بڑا ہی سبھاؤ طریقہ اپنایا۔۔جس سے ماہم کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔۔وہ جانتا تھا ماہم کو اس سے محبت نہیں صرف وقتی کشش ہے اگر محبت ہوتی تو تب بھی وہ ایک سراب کے پیچھے بھاگتی تو اس راستے سے اس کو ہٹانا تھا جسکی کوئی منزل ہی نہیں۔۔

شاہ میر انکے ہی گروپ کا تھا،،بہت اچھی طبعیت کا انسان تھا اور وہ ماہم سے محبت بھی کرتا تھا اس لئیے زہران کو اس سے بہتر کوئی طریقہ نہ لگا اسے یقین تھا جب اسکی شادی ہوگی تو شاہ میر اسے بہت خوش رکھے گا اور وہ موو آن کر جائیگی۔۔۔اور ماہم صرف ایک شخص کی بات مانتی تھی اور وہ تھے اسکے بابا۔۔

                             ********

زمل ہفتے میں دو دن اپنے بابا سے ملنے گھر چلی جاتی تھی وہ بھی صرف آدھے گھنٹے کیلئے،،لیکن کبھی اسکے چہرے پہ فضیلہ بیگم کے تھپڑ کے نشانات ہوتے تو کبھی ہاتھ جلے ہوتے،،احمد ابراہیم جہاں تھوڑی ہی دیر کیلئے خوش ہوتے تھے اپنی بیٹی سے مل کے وہی انھیں اسکی حالت غمزدہ کردیتی تھی،،وہ بیٹی جسکو انھوں نے گھر میں عورت کی موجودگی نہ ہونے کے باوجود بھی کچن کے کام کرنے نہیں دئیے تھے اب وہی حویلی میں کئی قسم کے کھانے تیار کرتی تھی۔۔

زمل نے اپنے بابا سے دادی کی اتنی محبت اور فضیلہ بیگم کی اس روز اسکی امی اور بابا کا جس انداز میں پوچھا تھا وہ تذکرہ کیا اور پوچھا بھی کہ ایسی کونسی بات ہے جسے وہ نہیں جانتی لیکن احمد ابراہیم اسے ٹال گئے۔۔ابھی وہ اسے یہ بات بتانا نہیں چاہتے تھے کیونکہ وہ ابھی حویلی میں ہی رہ رہی تھی اور اگر یہ بات اسے معلوم ہوجاتی تو اسکی نفرت اور بڑھ جاتی حویلی کے لوگوں کیلئے۔۔

                         *******

وہ لاوئنج میں صفائی کررہی تھی ڈوپٹہ کو سر پہ لیے ایک سرا آگے تھا جبکہ دوسرے سرے کو پیچھے سا ایک کندھے سے لاکر دوسرے کندھے پہ ڈالا ہوا تھا۔۔وہ جھک کے کپڑے سے صوفے کی ہینڈل سے گرد صاف کررہی تھی تبھی کسی نے اسکی کلائی کو اپنی گرفت میں لیتے اپنی طرف کھینچا۔۔زمل ڈر کے چلانے لگی تھی کہ سامنے والے نے فوراً سے اپنا ہاتھ اسکے منہ پہ رکھ دیا۔۔فہد خان کو دیکھتے آنکھوں میں نفرت اتر ایا اور وہ پوری قوت سے اسکا ہاتھ منہ سے ہٹائی

"ہاتھ چھوڑو میرا"......وہ ہلکے سے غرائی

"ایسی ہی چھوڑدوں؟ عزت سے بولا تھا نکاح کرلو لیکن تمہیں عزت راس نہیں آئی اب یہاں سے تمہیں اٹھا کر ایسی جگہ لے جاؤنگا جہاں تم نہ اپنے باپ سے مل سکو اور نہ اس زہران سے"......وہ اس کے ہاتھ پہ جھٹکا دے کر قریب کرتے سخت لہجے میں بولا

"تم جیسوں کو تو عبرتناک موت ملنی چاہیے،،خود کی بہن ہوتے ہوئے بھی یہ حرکت کرتے ہو شرم سے ڈوب مرو،،آہ میں بھی کیا کہ رہی ہوں تمہیں شرم کہاں سے آئی گی،،،ویسے سوچو کوئی تمہاری بہن کے ساتھ بھی اس طرح کرے"......وہ غصے سے چبا چبا کر بولتی اپنے ہاتھ کو بہت کوششوں کے بعد آخر کار چھڑوالی

"تم....ہاؤ ڈئیر یو؟"،،،،زمل کے سوچنے سمجھنے سے پہلے ہی وہ اپنے مضبوط ہاتھ کا نشان اسکے گال پہ چھوڑ گیا،،،،زمل لڑکھڑا کر نیچے کارپٹ میں گری،،کونے پہ رکھے واز سے اسکا سر ٹکرایا ماتھے پہ گیلے پن کا احساس ہوا تھا تو ہاتھ لگایا تو خون نکل رہا تھا

"تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ پر ہاتھ اٹھانے کی،،مرد کے نام پر دھبہ ہو تم،،،ماں بہن ہوتے ہوئے بھی دوسری عورت  کی عزت کرنی نہیں آتی،،تم تھپڑ مار کے کیا سمجھے ڈر جاؤنگی میں ہاں تو یاد رکھنا اگر آئیندہ مجھ سے بتمیزی کی تو کچھ بھی کر گزروں گی".......وہ اس بھاری تھپڑ کے بعد ڈرنے کے بجائے غصے سے کھڑی ہوتی اسکے مقابل آئی اور ویسا ہی تھپڑ اسکا گال پہ جڑ دیا

عورت کمزور نہیں ہوتی یہ بات زمل نے ثابت کیا تھا،،،وہ جو فضیلہ بیگم کے تھپڑ سے سہم جاتی تھی آج اسکے تھپڑ پہ بھپڑ گئی تھی۔۔

"کیا ہورہا ہے یہاں؟فہد تم یہاں کیا کررہے ہو"؟.......فضیلہ بیگم اندر آتے حیرانگی سے پوچھی انکے پیچھے مہرماہ بیگم اور مفسرہ بھی آگئی تھی

"تائی یہ لڑکی میرا بازو پکڑ کر بول رہی تھی مجھے اس حویلی میں نکالنے میں مدد کرو اور پتہ نہیں کیا کیا دھکا دیا ہوں تو واز سے چوٹ لگ گئی".......وہ صفائی سے جھوٹ بول دیا

"جھوٹے انسان خدا کا خوف کرو پوری زندگی یہی نہیں رہنا مر کر اللہ کے پاس بھی جانا ہے"...

زمل اسکے جھوٹ پر نفرت سے دیکھنے لگی

"تو بغیرت لڑکی ذرا شرم نہیں آئی تجھے پوری اپنی ماں پہ گئی ہے بےشرم"......اسکے بال کو کھینچ کے پکڑتی ایک اور تھپڑ اسکے چہرے پہ لگائی

"چھوڑے مجھے اور اس گھٹیا شخص سے پوچھے نکاح کرنے بول رہا تھا انکار کرنے پہ اٹھا کے لے جانے کی دھمکی دی ہے".......وہ اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کرتی چلا کر بولی

وہ خاموش تھی اتنی دنوں سے لیکن یہاں بات اسکے کردار پہ ائی تھی اور یہاں خاموش رہنا سراسر ناانصافی تھی

"میرے بیٹے پہ الزام لگارہی ہو صحیح کہتی ہیں بھابھی سائیں بلکل اپنی ماں کی طرح ہو"......اپنے بیٹے کے بارے میں سن کر مہرماہ بیگم آگبگولہ ہوتے اسکو مارنے لگی

"یوں مار کے کیا سمجھ رہی ہیں کمزور ہوں،،اونہہ غلط فہمی ہے جسطرح آپکے اس گھٹیا بیٹے کو تھپڑ مارا ہے ویسے ہی آپ کو مار سکتی ہوں لیکن میرے باپ کی تربیت یہ اجازت نہیں دیتی اپنے سے بڑوں پہ ہاتھ اٹھاوں،،،اور اب اپنی زبان سے میری ماں کا نام نہیں لئیے گا میری ماں آپ جیسی نہیں تھی وہ ایک آئیڈیل عورت تھی"......وہ نفرت سے گویا ہوئئ

"زہران نے تجھے چھوٹ دیکر بہت ذیادہ سر چڑھا دیا ہے زبان کتنی لمبی ہے تیری".......وہ بے دریغ مارے جارہی تھی،،،زمل کے آنسو بہ رہے تھے لیکن وہ سسکیوں کا گلا گھونٹ دی تھی

"اگر زہران خان یہ مان مجھے نہ بھی دیتے تو تب بھی میں اپنے کردار پہ آپ لوگوں کی گھٹیہ باتیں برداشت نہیں کرتی"......اتنے تھپڑوں کے بعد اسکا جبڑا درد کررہا تھا،،،گال جیسے سنسنا اٹھا تھا

وہ دونوں مل کر اگلے پچھلے سارے کثر اسے مار کر لے رہی تھی،،،زمل بھی ہونٹ بھینچے مار کھارہی تھی پہلے وہ مزاحمت کررہی تھی لیکن پھر آخر میں تھک ہار کر خاموش ہوگئی

مفسرہ خاموشی سے اسے مار کھاتا دیکھتی رہی لیکن کچھ کیا نہیں اسکے دل کو تو ٹھنڈک مل رہی تھی جو زہران خان نے اس دن زمل کی وجہ سے اسکی تذلیل کی تھی،،،مشل یونی میں تھی ورنہ یقیناً وہ اسے بچانے کیلئے کچھ نہ کچھ کرتی۔۔

خوب مارنے کے بعد وہ اسے چھوڑدی،،،،وہ تھوڑی دیر وہی روتی سسکتی رہی اور پھر بہت مشکلوں سے اپنے وجود کو گھسیٹتے زہران کے کمرے میں چلی گئی،،،بیڈ پہ گرتے ہی وہ تھوڑی دیر میں ہوش و خروش سے بیگانہ ہوئی

زہران دو دنوں سے حویلی نہیں آیا تھا،،،ان دو دنوں میں وہ بزنس کے کاموں میں الجھا ہوا تھا اور دوسرا اسے ماہم والا بھی قصہ ختم کرنا تھا لیکن پھر بھی زمل اسکی سوچوں میں تھی۔۔۔سارے کام ختم کرتا وہ حویلی کیلئے نکلا۔۔رات گیارہ بجے وہ حویلی پہنچا۔۔گہری خاموشی نے اسکا استقبال کیا۔۔گردن کو دائیں بائیں ہلاتا وہ کوٹ اتارتا ہاتھ میں لیتے اوپر کی جانب بڑھا۔۔

دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو کمرے میں ملگجا سا اندھیرا تھا،،،اور بیڈ پہ زمل محو استراحت تھی،،،اسکے لبوں پہ تبسم بکھر گئی،،،لیکن اسے کیا معلوم تھا یہ مسکراہٹ لمحوں میں سمٹنے والی تھی۔۔۔اسکے وجود کو دیکھتے اسے سکون آیا۔۔یہ بات تو وہ بخوبی محسوس کرلیا تھا یہ لڑکی اس کے لئیے دن بہ دن لازم و ملزوم ہوتی جارہی تھی،،،لیکن محبت کا اقرار اب تک اس نے نہیں کیا تھا لیکن یہ ماننے میں اسے کوئی عار نہ تھی کہ یہ لڑکی اسکے رگ و جاں میں بس چکی تھی

چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا وہ اسکے پاس آیا،،بیڈ پہ بیٹھتے ہی اسکے چہرے پہ نظر پڑی۔۔لیمپ کی روشنی میں اسکا چہرہ واضح تھا۔۔اسکی آنکھیں پتھرائی۔۔ماتھے پہ لاتعداد بل پڑے۔۔زمل کے چہرے پہ نیل کا نشان واضح تھا اور ماتھے کے ایک سائیڈ خون جما ہوا تھا

"زمل".......وہ نرمی سے اسکے چہرے پہ ہاتھ رکھا لیکن فوراً سے ہٹایا،،وہ تیز بخار میں تپ رہی تھی،،،اسے اٹھانے لگا لیکن وہ ہوش و خروش سے بیگانہ تھی

وہ کمرے میں لائٹ آن کرتا فیملی ڈاکٹر کو کال ملایا اور انھیں آنے کا کہ کر زمل کے اوپر کمفرٹر ٹھیک کرنے لگا،،،،اسکی حالت دیکھتے اسے غصہ آنے لگا

"انھیں بری طرح مارا گیا ہے".....تھوڑی دیر میں ڈاکٹر آگئے اور تھے اسکا معائنہ کرتے بولے

"آپ میڈیسن دے دیں اور بخار کب تک اتر جائیگا"......انکی بات پہ وہ لب بھینچتا بات بدل گیا

"انجیکشن لگادیتا ہوں کچھ دیر میں بخار کم ہوگا تو غنودگی کے اثر سے باہر آجائیگی آپ پھر یہ میڈیسن کھلادئیے گا صبح تک بخار کم ہوگا اور یہ ٹیوب زخموں پر لگانا ہے"......وہ پروفیشنل انداز میں بولتے چلے گئے

زہران پریشان سا اسکے برابر میں بیٹھا گیا،،،غصہ تھا کہ نیچے جاکر پوچھے یہ کس نے کیا ہے اور اسکا حشر کردے لیکن وہ غصہ ضبط کرتا صبح کا انتظار کرنے لگا کیونکہ سچ بات تو زمل ہی بتا سکتی تھی

وہ چہرے پہ آئے اسکے بالوں کو پیچھے کرنے لگا۔۔آنکھوں سوجی ہوئی تھی،،،زہران کو اسکی حالت دیکھ کر تکلیف ہورہی تھی اور یہی تو محبت تھی

وہ پہلے بار اسکی پیشانی پہ اپنا لمس چھوڑتا بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے آنکھیں موند گیا

"پانی".....دو گھنٹے گزرے تھے کہ اسکی نقاہت زدہ آواز پر وہ فوراً سے آنکھ کھولا

"کیا ہوا زمل کچھ چاہیے؟".....وہ نرمی سے پوچھا

"پانی"......اسکے بولنے پر وہ سائیڈ ٹیبل سے گلاس اٹھاتا ساتھ ٹیبلیٹ بھی اسے کھلایا او دوبارہ لٹادیا وہ کمزوری کے باعث زہران خان کے بارے میں غور نہ کرسکی اور دوبارہ سوگئی زہران بھی ایک سائیڈ پہ لیٹتا سونے لگا

                                    *******

صبح جب آنکھ کھلی تو زہران خان کو اپنے برابر میں لیٹا پایا،،دل اسکو دو دن بعد دیکھ کر تیزی سے ڈھرکنے لگا،،،پھر کل کا منظر پوری جذائیت سے یاد آیا تو انکھیں بھیگ گئی،،،ماتھے پہ ہاتھ لگایا تو پٹی لگی تھی سائیڈ ٹیبل پہ رکھی دوائی اور ٹیوب دیکھتے وہ زہران خان کی طرف محبت سے دیکھنے لگی

"کیا تھا یہ شخص ہر بار اپنے رویے سے خود سے محبت کرنے پہ مجبور کردیتا تھا"...

"ٹھیک ہیں درد تو نہیں ہورہا،،،فیور تو نہیں ہے"؟.....اپنے اوپر نظروں کی تپش محسوس کرتے وہ جاگا زمل کو جاگا دیکھ کر وہ فوراً فکرمندی سے اسکی پیشانی پہ ہاتھ رکھتا پوچھا

"شکر فیور کم ہے".....وہ ہلکا سا مسکرایا

"کیا ہوا رو کیوں رہی ہیں؟".....اسکو روتا دیکھ کر وہ پریشان ہوا

"آپ کیوں اتنی فکر کرتے ہیں؟"......وہ بےبسی سے پوچھی

"آپ ذمیداری ہے میری،،منکوحہ ہیں آپکا خیال رکھنا میرا فرض ہے"......وہ اطمینان سے نرمی سے جواب دیا

"اچھا آپ فریش ہوجائیں میں ناشتہ لے کر آتا ہوں".....وہ پہلے واشروم گیا وہاں سے منہ دھوتا نیچے چلا گیا

 ابھی سات بج رہے تھا اور حویلی کے لوگ آٹھ بجے ہی کمرے سے نکلتے تھے۔۔ملازمہ کچن میں کام کررہی تھی

ایک سے کہ کر ڈبل روٹی دودھ ابلا ہوا انڈا ٹڑے میں رکھوایا اور اس سے لیکر کمرے کی جانب چل دیا

کمرے میں آیا تو وہ منہ ہاتھ دھو کر بیڈ کی پشت سے ٹیک لگائے آنکھ موندی ہوئی تھی

"جلدی سے ناشتہ کریں پھر میڈیسن بھی لینی ہے".....وہ اسکے آگے ٹرے رکھا...وہ بھی چپ چاپ کھانے لگی وہ شخص پہلے ہی اسکا اتنا خیال رکھ رہا تھا اب وہ بچوں کی طرح اسے تنگ نہیں کرنا چاہتی تھی

اسکے کھانے کے بعد وہ اسے میڈیسن دیا اور اپنے کپڑے واڈروب سے نکالتا باتھ لینے چلا گیا

"یہ کیوں نہیں پوچھ رہے کیسے ہوا یہ سب اگر بی بی خان نے انھیں بھی سب غلط بتادیا ہو".....وہ بھیگی آنکھوں سے سوچنے لگی

وہ باہر نکل کر ڈریسنگ کے آگے کھڑا بال بنانے لگا،،،،براؤن کمیز شلوار میں وہ وجیہ لگ رہا تھا،،تیار ہونے کے بعد وہ زمل کے سامنے اکر بیٹھا

"کیسے ہوا یہ سب؟".....اس سے پوچھتا وہ سائیڈ ٹیبل سے ٹیوب اٹھایا اور اسکے زخموں  پہ لگانا لگا

"میں خود لگالونگی".....وہ جھجھکی

"ششش آپکو جو بتانے بولا ہے وہ بتائیں"....وہی سنجیدہ لہجہ جس زمل اکثر و اوقات خائف رہتی تھی

"وہ فہد خان............."،،،،،،وہ الف سے ے تک سب سچ بتاتی چلی گئی

"اس گھٹیہ شخص پر مجھے پہلے ہی شک تھا ماہم کے معاملے میں الجھ گیا ورنہ پہلے اسے سبق سکھاتا"......غصے کی ذیادتی سے چہرہ سرخ پڑگیا،،،ہاتھ کے نس ابھر گئے

"میری کوئی غلطی نہیں ہے"......زمل جلدی سے صفائی دینے لگی

"میں جانتا ہوں اور یہ آئیندہ مجھے اس طرح صفائی مت دئیجیے گا یقین ہے آپ پر"......اسکے لہجہ ہر قسم کے تاثر سے پاک تھا لیکن پھر بھی زمل کا دل ڈھرگیا

"ماہم کا کیا ہوا"؟.....وہ جھجھکتے ہوئے پوچھی

"جو آپکو بتایا تھا ویسے ہی کیا اور کامیاب بھی ہوگیا".....وہ مسکراتا ہوا بولا

ماہم والے معملے کے بارے وہ پہلے ہی اسے بتادیا تھا۔۔۔وہ اسکی شریک حیات تھی تو اسکی ہر بات کی بھی تو رازداں ہونی چاہیے تھی نہ۔۔

"اچھا میں ذرا فہد خان سے نبٹ لوں اور میں کچھ دنوں میں ہی آپکو یہاں سے لیکر چلا جاونگا ابھی کسی کو بتایے گا نہیں مشل کو بھی نہیں"......وہ اسکے پاس سے اٹھا اور واشروم میں ہاتھ دھونے گیا جب نکلا تو زمل بولی

"آپ چھوڑ دئیجیے کچھ کریے گا نہیں اور پلیز ہم مشل کو بھی ساتھ لیکر جائینگے".....وہ التجائی لہجے میں بولی

"ایسے کیسے چھوڑ دوں میری عزت پہ ہاتھ اٹھا کہ اچھا نہیں کیا اسنے"......وہ اسکے کچھ بولنے سے ہی پہلے اسکے ماتھے میں لمس چھوڑتا کمرے سے چلا گیا

زمل اسکے اقدام میں حیران رہ گئی پہلی بار تھا جو یہ شخص اسے یہ مان بخشا تھا،،،غنودگی میں تو وہ محسوس نہیں کرسکی لیکن اب جب وہ پورے ہوش میں تھی اسے ایک طمنیات محسوس ہوا۔۔

وہ زخموں پر ہوتی تکلیف کو نظر انداز کرتے وضو بنانے گئی۔

                                  ********

"فہد خان کہاں ہے؟".......اسکا لہجہ خطرناک حد تک سنجیدہ تھا

مشل ڈرائیور کے ساتھ یونی جاچکی تھی،،مفسرہ کمرے میں تھی جبکہ محتشم صاحب فضیلہ بیگم اور مہرماہ بیگم لاؤنج میں تھے۔۔

"کیا ہوا ہے زہران"؟.....محتشم صاحب اسے غصے میں دیکھ کر پوچھے

"بابا سائیں جو پوچھا ہے وہ بتائیں"......

"ڈیرے میں ہے لیکن کچھ بتاؤ تو صحیح"......ابھی محتشم خان اس معمالے سے لاعلم تھے

وہ بنا کچھ کہے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا

"میری غیر موجودگی میں کچھ ہوا ہے"؟.....وہ فضیلہ بیگم کو دیکھتے پوچھے

جس پہ فضیلہ بیگم انھیں ساری بات بتادی

                                *********

زہران ڈیرے میں پہنچا تو وہ کسی ملازم سے بات کررہا تھا۔۔زہران اسکے پاس پہنچتا اسکا گریبان پکڑ کر اپنی طرف کھینچا

"کیا ہوا ہے زہران"؟.....اسکے تیور دیکھ کر فہد تھوگ نگلتے بولا

"اب بھی میں تجھے بتاؤں کیا ہوا ہے"؟.....وہ غصے سے بولتا ایک پنچ اسکے منہ میں مارا

"زہران کیا کررہے ہو چھوڑو مجھے"......منہ میں خون کا ذائقہ گھلتے محسوس ہوا تو وہ غصے سے چلایا

"میری عزت پہ ہاتھ اٹھانے کی ہمت کیسے ہوئی"؟.....وہ بھپڑے شیر کی مانند ایک اور پنچ مارا اور یہی پہ بس نہیں کیا بلکہ اسکے بعد کئی اور مکے مارے فہد خان بھی اپنے بچاؤ کیلئے اسے بھی مارا

ملازم کھڑے ان دونوں کو لڑتا دیکھ رہے تھے کسی کی ہمت نہ تھی اگے بڑھ کر چھڑائے

"زہران فہد کیا کررہے ہو اور تم لوگ چھڑا نہیں سکتے"......محتشم خان آتے ہی ڈھارے

"زہران چھوڑو اسے".....وہ آگے بڑھ کر اسے چھڑائے

"بابا سائیں اسے کہ دے یہ اب میری عزت کی طرف آنکھ اٹھا کہ بھی دیکھا تو اس کی آنکھیں نکال دونگا"......وہ غصہ سے کہتے اپنے ہونٹوں سے خون صاف کرتا جانے لگا

ملازم حیرت سے زہران خان کا یہ روپ دیکھ رہے تھے

"کیوں ہاتھ اٹھایا تم نے اس پہ؟".....وہ کرخت لہجے پہ پوچھے

"تایا سائیں وہ......."،،،،،فہد انھیں بھی وہی بات بتانے لگا جو فضیلہ بیگم کو بتایا تھا

"اچھی طرح جانتا ہوں جھوٹ بول رہے ہو تم اب اس لڑکی کے پاس بھی مت آنا ورنہ اب کی بار زہران سے میں نہیں بچاؤں گا".......وہ سختی سے کہتے وہاں سے چلے گئے

"اس زہران کو تو چھوڑونگا نہیں".......وہ منہ سے خون صاف کرتا سامنے دیوار پہ ایک مکا رسید کیا۔۔

کیسی ہو درد تو نہیں ہورہا کہیں؟".......زہران کمرے میں آتا بولا

اس وقت رات کے دس بج رہے تھے زہران ڈیرے سے سیدھا آفس چلے گیا تھا

"ٹھیک ہوں آپ کو کیا ہوا"؟......اسکے ہونٹ کے پاس خراشیں دیکھ کر وہ پریشانی سے پوچھی

"کچھ نہیں...دوائی لیا تھا"؟.......

"جی".......

تھوڑی دیر میں وہ فریش ہوکر آیا اور آکر دوائی چیک کرنے لگا

"کہاں لیا ہے"؟.....وہ ٹیبلیٹ کو دیکھتا بولا

"دوپہر کو لیا تھا".......وہ اسکی چیکنگ پہ آنکھیں گھما گئی

"ابھی کون لیگا؟کھانا کھایا ہے؟".......وہ آئبرو اچکائے سنجیدگی سے پوچھا،،،وہ اثبات میں سر ہلائی

جگ سے گلاس میں پانی ڈال کر گلاس اسکی طرف بڑھایا اور ساتھ دوائی بھی

"اب سوجائیں".......وہ کمفرٹر درست کرتا دوسری سائیڈ پہ آکے لیپ ٹاپ کھول کے بیٹھ گیا

"نیند نہیں آرہی مجھے،،اپنا موبائل دے دیں"......تھوڑی دیر بعد اسکی منہ بسورتی آواز آئی

"کیا کرینگی"؟......اسکی نظریں ہنوز لیپ ٹاپ کی اسکرین پہ تھی لیکن توجہ ساری اسکی ہی طرف تھی

"گیم کھیلونگی"....وہ منمنائی

"آپکو لگتا ہے میرے موبائل میں گیم ہونگے"؟.....

"پتہ ہے مجھے آپ جیسے خشک مزاج انسان کے موبائل میں گیم نہیں ہونگے لیکن ڈاؤنلوڈ کرکے تو دے سکتے ہیں نہ".......وہ ناک چڑھائے بولی لیکن جب اسکی گھورتی نظریں محسوس ہوئی تو دانتوں تلے لب دبا گئی

"کونسا کروں"؟...... موبائل کی اسکرین روشن کرتے پوچھا

"ببل شوٹر".....وہ معصومیت سے بولی

"بچوں والا گیم"......وہ بڑبڑاتا ہوا پلے اسٹوڑ پہ سرچ کرنے لگا

"نہیں تو آپ بتائیں بڑوں والا گیم"پب جی"کھیلوں کیا"؟......وہ لڑنے کے انداز میں بولی

"نہیں آپ یہی کھیل لیے یہ لیں اور ادھر اُدھر نہیں جائیے گا"،،،،،اسکے تیور دیکھتے وہ جلدی سے موبائل آگے کیا

"ہنہہ ادھر اُدھر نہیں جائیے گا،،کیا لڑکیوں سے بات کرتے ہیں"؟.......وہ اسکی نقل اتارتے آخر میں مشکوک ہوئی

"یہی سمجھ لیں"......اسکی بات پہ وہ مسکراہٹ دبایا

وہ بات کو ایسے ہی طول دیے جارہا تھا اس لڑکی سے بات کرکے اسے اچھا لگتا تھا،،ساری تھکن اتر جاتی تھی

"کیا کہا"؟......وہ اسے گھورتے ہوئے پوچھی

"کچھ بھی نہیں گیم کھیلیں آپ".....وہ مسکرا کر کہتا دوبارہ سے لیپٹاپ میں کوئی ای میل پڑھنے لگا

                                    ********

تین دن گزر گئے تھے زمل کے زخم بھی ٹھیک ہو چکے تھے اور ذیادہ ہاتھ زہران خان کا تھا،،وہ کبھی اس سے کہا نہیں تھا کہ وہ اس محبت کرتا ہے لیکن اپنے رویے اپنی باتوں سے اسے یہ احساس دلا چکا تھا

ایک ملازمہ کو وہ خاص تاکید کرکے جاتا تھا کہ اسکا خیال رکھے۔۔۔

ابھی وہ اپنے بینگلو کی بھی کنسڑکشن کروارہا تھا جسکا کام بھی ختم ہونے کو تھا تاکہ جلد از جلد وہ اسے لیکر شفٹ ہوجائے..

                                   *********

زہران ابھی باہر سے آیا تھا اسکا ارادہ اپنے مورے اور بابا سے مل کر کمرے میں جانے کا تھا۔۔کمرے سے باتوں کی آوازیں آرہی تھی جس میں مہرماہ بیگم کی بھی آواز شامل تھی۔۔ابھی وہ تھوڑا اور نزدیک آیا تھا کہ مورے کی بات سنتا رک گیا۔۔

"آپ زہران کا رویہ دیکھ رہے ہیں اس لڑکی کے ساتھ آپ تو اسے ونی میں لیکر آئے تھے اور آپکا فرزند اسی بیوی بنا بیٹھا ہے"......وہ نفرت سے بھرے لہجے میں محتشم خان کو کہنے لگی

"ہممم یہ تو ہے اب دیکھو اس لڑکی ماہم کے والد کب آتے ہیں زہران کی اس سے شادی کردے اور اس لڑکی کیلئے کچھ سوچ رکھا ہے میں نے"......وہ ہنکارا بھرے،،،زہران کے نام پہ زمل کو ونی بنا کر لانے پہ وہ پچھتا رہے تھے

"کیا چل رہا ہے آپکے دماغ میں"......فضیلہ بیگم کھوجتی نگاہوں سے پوچھی

انکے پوچھنے پر محتشم خان آگے کا لائحہ عمل بتانے لگے اور جیسے جیسے وہ بتارہے تھے زہران کا سننا محال ہورہا تھا،،مٹھی بھینچے اسکے ہاتھ کی نسیں ابھر گئی تھی،،،ماتھے پہ بل ڈلے باپ کی بات سنتا اسکا چہرہ غصے کی ذیادتی سے سرخ ہوگیا

"بابا سائیں میں یقین نہیں کرپارہا آپ یہاں تک بھی جاسکتے ہیں".......دل میں کہتا وہ کمرے کی جانب بڑھا

                                  ********

"کھانا لاؤں"؟....زہران کمرے میں آیا تو زمل سلام کرکے اس سے پوچھی

"نہیں صرف کافی لادیں"........وہ تھکا تھکا سا کوٹ اتارتے بولا

زمل سر ہلاتے نیچے چلی گئی،،،وہ پریشانی کے عالم میں پاؤں لٹکائے بیڈ میں گرنے کے انداز میں لیٹا،،،ایک آفس میں امپورٹنٹ ڈیل چل رہی تھی جسکا فائنل ہونا لازمی تھا کیونکہ ابھی نیو نیو آفس اسٹارٹ ہوا تھا لیکن نعمان کی والد کی مدد سے وہ لوگ اب تک دو پراجیکٹ سائین کرچکے اور یہ تیسرا بہت اہم تھا اور حویلی آکے جب مورے اور بابا سائیں کی بات سنا تو اور پریشانی میں گھر گیا۔۔۔

"یہ لیں"......زمل اسکے آگے کپ بڑھائی

کافی لیتا وہ اسٹڈی کی طرف بڑھ گیا بنا کچھ کہے،،زمل اچھنبے سے اسکی پشت دیکھی کیونکہ وہ ہمیشہ مسکرا کر تھینکیو ضرور بولتا تھا اور اسکی خیریت بھی لازماً معلوم کرتا تھا۔۔

"شاید تھکے ہوئے ہو".....وہ کندھے اچکائے بیڈ کے ایک کونے پہ آکر لیٹ گئی اور اپنے موبائل میں گیم کھیلنے لگی جو زہران لاکر دیا تھا

وہ اسٹڈی پہ آکے صوفے پہ بیٹھتا نعمان کا نمبر ڈائل کیا۔۔کچھ بیلوں کے بعد کال ریسیو کرلی گئی

"ہاں بول ابھی تو گیا تھا اتنی جلدی یاد آگئی آج بھابھی کیا لفٹ نہیں کروارہی"......فون ریسو ہوتے ہی نعمان کی شرارت سے بھر پور آواز آئی

"کچھ ڈسکس کرنا تھا"......وہ مدھم لہجے میں بولا

"ہاں بول"......وہ اب سنجیدگی سے پوچھا

زہران اسے اپنے مورے اور بابا سائیں کی بات بتانے لگا

                                   *******

"میں تو اس لڑکی کو جس مطلب کیلئے لایا تھا وہ تو خیر اچھا خاصہ پورا ہوچکا ہے بہت بیمار رہنے لگا ہے اسکا باپ تڑپ رہا ہے ویسے ہی جیسے بیس پہلے ہم تڑپے تھے اب میں اس لڑکی کو اپنے بیٹے کی زندگی سے نکال دونگا لیکن اسکے باپ کے پاس بھی نہیں بھیجونگا ایسی جگہ پھینکواؤ گا کوئی ڈھونڈ بھی نہیں سکے گا".......وہ سفاکی سے بولے

"زہران کو پتہ چلے گا تو وہ حویلی چھوڑ کے چلے جائے گا".....مہرماہ بیگم گفتگو میں حصہ ڈالی

"ہاہاہاہا تو میں کونسا اس لڑکی کو باہر پھینکواؤں گا یہ کام کچھ بندوں سے اغواء  کرکے کرواؤنگا"......وہ ہنستے ہوئے بولے

سفاکی سے بولتے انھیں ذرا سا بھی رحم نہیں آرہا تھا نہ ہی دل یہ گناہ کرتے ہوئے لرز رہا تھا۔۔۔

"تو تو اندر جاکر اپنے بابا سائیں کو کچھ بولا کیوں نہیں"......نعمان کو بھی اس بات پہ غصہ آیا کیسے وہ کسی لڑکی کو اغواء کرواسکتے تھے

"اُس وقت جوش سے نہیں ہوش سے کام لینے کا تھا اگر غصے میں اندر چلے جاتا تو بابا اپنے اس منصوبے سے پہچھے ہٹ جاتے اور کوئی دوسرا منصوبہ تیار کرتے،،ابھی تو میں یہ منصوبہ جان گیا تھا لیکن دوسرا کیسا جان پاتا".......وہ تفصیل سے بتایا

"ہاں یہ تو ہے"......وہ اسکی دور اندیشی پہ سراہا

"اچھا یہ بیس سال پرانی بات کیا ہے"؟......نعمان ناسمجھی سے پوچھا

"اس بات سے تو میں خود انجان ہوں لیکن بی بی جان نے ایک بار کچھ اسطرح ذکر کیا تھا اب یہ بات میں کل صبح ان سے پوچھوں گا،،پتہ نہیں اور کیا کیا دیکھنا ہے"؟......وہ تھکے ہوئے لہجے میں بولا

"پریشان نہ ہو سب بہتر ہوگا انشاءاللہ".........

"انشاءاللہ"......وہ فون کٹ کرتا روم میں آیا،،،ذہن پریشانی مین الجھا ہوا تھا

وہ لیپٹاپ اٹھاتے بیڈ کے ایک طرف بیٹھ گیا

"اپکو پتہ ہے مجھے کھیر بنانا نہیں آتا اپکی مورے آج اتنا ڈانٹی اور ہاتھ بھی مڑور دی".......اسکے آتے ہی وہ وہ روز کی طرح اپنی سرخ کلائی کو دیکھتے شروع پوچکی تھی

وہ روز رات کو جب لیپ ٹاپ پہ کام کرتا تھا تو وہ اسے دن بھر کی رودا سناتی وہ بھی خاموشی سے سنتا اور تسلی دیتا

"تمہیں ہر وقت رونے کے علاوہ کچھ نہیں آتا جب کچھ بنانا نہیں ائے گا تو سنو گی نہ ڈانٹ،،،ایک تو نیو بزنس اسٹارٹ کیا ہے اب تم میٹرک پاس تو میری کچھ مدد نہیں کرسکو گی کم از کم مجھے سکون تو دے سکتی ہو نہ سب کے خلاف جاکر تمہاری مدد کررہا ہوں یہ بھی نہیں دیکھ رہا تم میرے بھائی کی قاتل کی بہن ہو اور کیا کروں میں تمہارے لیے"........وہ لیپ ٹاپ کھولا تو ڈیل کینسل ہونے کی ای میل آئی ہوئی تھی وہ جو پہلے پریشان تھا مزید پریشان ہوگیا،،،سر درد سے پھٹنے لگا تھا اور پھر زمل کی باتیں وہ اپنا سارا غصہ اس پہ اتار گیا

اسکی ڈھار سن کر وہ آنکھوں میں بے یقینی لیے بیڈ سے بے ساختہ اٹھ کر دو تین قدم پیچھے لی۔۔۔آنکھوں سے پانی موتیوں کی صورت نکل کر گردن میں آرہے تھے

"میں میٹرک پاس".......وہ زیر لب بڑبڑائی

"زمل جائیں ابھی روم سے"......وہ بمشکل اپنا غصہ کنٹڑول کرکے جانے کا بولا مبادہ وہ اور کچھ غلط نہ بول جائے

وہ آنسوؤں سے لبالب انکھیں اٹھا کر ایک شکوہ کناں نظر اس پہ ڈالتی باہر کی جانب بھاگی

"وہ مینیجر کو کال کرکے ڈیل کی کینسلیشن کی وجہ پوچھ رہا تھا،،،اسکے بعد دوبارہ لیپ ٹاپ میں کام کرنے لگا لیکن ذہن بھٹک بھٹک کے اسکی شکوہ کناں آنکھوں پر اٹک جاتا

"یااللہ یہ کیا کردیا میں نے"......وہ بالوں میں ہاتھ پھنسائے گہری سانس لیتا بیڈ کی پشت سے ٹیک لگالیا

صبح اسکو منانے کا سوچا وہ ابھی ذہنی طور پر ڈسٹرب تھا وہ یہی سمجھا وہ مشل کے کمرے میں گئی ہوگی لیکن شاید اسکا صبح کا انتظار لاحاصل جانا تھا

                        ********

رات ساڑھے دس بجے دروازے میں دستک ہوئی تو دونوں باپ بیٹا ایک دوسرے کو چونک کر دیکھے۔۔پھر احمد ابراہیم دروازہ کھولنے کیلئے اٹھے تو سفیان بھی انکے پیچھے آیا۔۔

"زمل میری بچی تم".......وہ اسکو دیکھ کر حیران ہوئے

زمل کا زہران کی طرف سے دیا گیا اتنا مان عزت خیال تھا کہ وہ زہران خان کی ڈانٹ پہ دل برداشتہ ہوگئی،،،ایسے تو وہ فضیلہ بیگم کی ڈانٹ پر جبر کرلیتی تھی لیکن یہاں شاید دل کا معاملہ تھا اور دل کے معاملے میں انسان سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو بند کردیتا ہے۔۔وہ بنا یہ خیال کیے کہ اسکا حویلی سے رات کے پہر چھپ کے جانا ایک وبال کھڑا کرسکتا ہے وہ یہ بھی بھول گئی کہ وہ ایک ونی میں آئی ہوئی لڑکی ہے یاد تھا تو بس محبوب شخص کا ڈھارنا۔۔۔۔

احمد ابراہیم اسکو ساتھ لگائے اندر لائے جو آنسو بہا رہی تھی،،،کمرے میں آکر اسے بستر پہ بٹھایا

"بیٹی کیسے آئی تم"؟......وہ حیران تھے اسکے آنے پر

"چھپ کر آئی ہوں".....وہ روتے ہوئے بولی

"یہ کیا تم نے تمہارے آنے کا پتہ چلے گا تو جان سے ماردیں گے".......وہ پریشان ہوئے

"مار دیں لیکن مجھے کوئی پرواہ نہیں"......وہ اس وقت عجیب سی چڑچڑی ہورہی تھی

"یہ لوگ تو پہلے بھی تمہارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے اب ایسا کیا ہوا جو تم نے یہ قدم اٹھایا".......وہ پریشانی میں گھر گئے تھے اگر محتشم خان کو پتہ چلتا تو وہ ساری گولی اپنے بندوق سے خالی کرنے میں دیر نہ کرتے

"بابا میں صبح بات کرونگی سونا چاہتی ہوں"......وہ اٹھ کر کمرے میں چلی گئی

جبکہ پیچھے ان دونوں کر پریشان چھوڑ دی

آج کی رات زمل نہ خود سوئی اور نہ اسکی وجہ سے تین شخص سوئے ایک احمد ابراہیم سفیان ابراہیم اور زہران خان۔۔

پتہ نہیں صبح کیا ہونے والا تھا...

                       *********

صبح جب زہران خان فریش ہوکر باہر نکلا تو زمل کی غیر موجودگی پہ اچھنبا ہوا اسکا دماغ تیزی سے کام کرنے لگا وہ اپنے خاص بندے کو کال ملایا اور اس سے کچھ کہا تھوڑی دیر بعد اس شخص کی کال آئی اور اسکی بات کی تصدیق کردی زمل احمد ابراہیم کے گھر پہ تھی

"اففف بیوقوف لڑکی اپنے لئیے بھی مصیبت کھڑی کی اور میرے لئیے بھی".......وہ پیشانی مسلتا بی بی جان کے کمرے میں گیا،،،ابھی صبح کے سات بج رہے تھے بی بی جان تو اٹھ جاتی تھی اور باقی لوگ آٹھ بجے ہی نکلتے تھے اسلئیے وہ ابھی زمل کے اس اقدام سے بے خبر تھے

"اسلام و علیکم بی بی جان"......وہ انکے ماتھے پہ پیار کرتا بیٹھ گیا

"وعلیکم السلام کیسا ہے میرا پتر"......وہ محبت سے اسکو دیکھی

"پریشان ہوں"........ایک پورے حویلی میں دادی تو تھی جو زہران خان کو صحیح بات بتا سکتی تھی

"کیوں کیا ہوا"؟.....وہ بھی پریشان ہوئی

"بی بی جان اب مجھے بتا دے ماضی میں کیا ہوا ہے اور اسکا زمل سے کیا تعلق ہے"......وہ انھیں  محتشم صاحب کی کل والی پوری بات بتانے کے بعد پوچھا

"بیٹا جب تو تین سال کا تھا تو تیری پھوپھی پری وش یہی رہتی تھی وہ احمد ابراہیم سے شادی کرنا چاہتی تھی لیکن تیرا باپ اسکی بات پہ ہتھے سے اکھڑ گیا،،،وہ اسکا ایک عام سے کسان سے بیاہ نہیں کرنا چاہتا تھا اسکے لئیے وہ کوئی بڑا جاگیردار دیکھ رہا تھا لیکن تیری پھوپھی کو دولت سے کوئی غرض نہیں تھی اسے ایک محبت اور عزت کرنا والا آدمی چاہیے تھا اور یہ ساری خوبی احمد ابراہیم میں تھی،،،کیونکہ تیرا باپ بھی اور دادا بھی سردار تھے لیکن وہ اپنی عورت کو وہ عزت وہ مقام اور وہ محبت دے نہ سکے جسکی ایک عورت حقدار ہوتی ہے اسلئیے تیری پھوپھی ان جاگیرداروں سے نفرت کرتی تھی اور اسنے بھائی سے چھپ کر لیکن میری موجودگی میں نکاح کرلیا اور وہی پہ میں نے اسے رخصت کردیا،،احمد ابراہیم بارہ جماعتیں پڑھا ہوا تھا اسلئیے شہر میں معقول تنخواہ پر نوکری مل گئی اور وہ پری وش کو لے گیا اس دن سے اپنی بچی سے مل نہ سکی اور زمل میری نواسی میری بیٹی کی نشانی سے معلوم ہوا وہ مجھ سے ملے بغیر چلی گئی"......وہ روتے ہوئی رکی پھر آگے بولنےلگی

                        ********

"بی بی جان صحیح کررہی ہوں نہ میں"......پری وش سامان باندھے ماں کے کمرے میں تھی

"بیٹا تو بھاگ کر تھوڑی شادی کررہی ہے بلکہ تیری بی بی جان اپنی موجودگی میں کروائی گی اپنی بچی کا نکاح تو پریشان نہ ہو"......وہ مسکرائی

"لیکن بی بی جان گاؤں اور لالا تو یہی کہیں گے نہ،،میرے کردار میں انگلی اٹھائے گے"......وہ بھیگی آنکھوں سے بولی

"تو میری بچی تو ان کے لئیے اپنی زندگی تو نہ برباد کر،،احمد ابرہیم مجھے بھی اچھا لگا ہے اور میں بھی نہیں چاہتی میری طرح تو بھی قید کی زندگی گزارے"......

"بی بی جان آپ اکیلے کیسے رہی گی"؟.....

"میں رہ لونگی تو میری فکر نہ کر اب جلدی کر یہاں سے نکلنا ہے"......وہ پری وش کو ساتھ لئیے حویلی کے پچھلے حصے سے نکلی اور شہر جانے والے راستے پہ چل دی۔۔

وہ لوگ وہاں پہنچ کر احمد ابراہیم کے لئیے گئے چھوٹے سے گھر میں داخل ہوئی۔۔احمد ابراہیم سے مل کر ایک کمرے میں وہ دونوں چلی گئی۔۔۔ظہر پہ ان دونوں کا نکاح تھا

صبح ہوئی تو احمد ابراہیم نکاح خواہ وغیرہ کو بلانے کے غرض سے گئے اور بی بی جان پری وش کو تیار کرنے لگی

"بی بی جان ڈر لگ رہا ہے".....

"تو سارے وہموں کو نکال دے اور خوشی خوشی اس رشتے کا آغاز کر"......وہ پیار سے اسکا ماتھا چومی اور باہر نکل گئی

باہر آنگن میں ہی انھیں احمد ابراہیم مل گئے

"احمد بیٹا".....وہ پکاری

"جی بی بی جان".....وہ فوراً انکے پاس آئے

"بیٹا ہم نے بہت بڑا قدم اٹھایا،،لیکن صرف اس لئیے تاکہ میری بیٹی کو خوشیاں ملے،،،میری بیٹی کو ہمیشہ ہمیشہ خوش رکھنا اسکا ساتھ دینا اسے اکیلا مت چھوڑنا"......وہ نم آنکھوں سے بولی

"بی بی جان فکر نہ کریں آپکو شکایت کا موقع کبھی نہیں ملے گا اور میں پری وش کو اپنی عزت بنارہا ہوں اپنی عزت کو بیچ راہ میں اکیلا نہیں چھوڑتے"......وہ اپنے مضبوط لہجے سے بی بی جان کو مطمئن کرگئے

کچھ دیر میں دونوں نکاح کے خوبصورت رشتے میں بندھ گئے تھے

بی بی جان بہت ساری دعائیں دونوں کو دیکر حویلی چلی گئی تھی۔۔۔

                         ********* 

"تیرے بابا سائیں کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو وہ مجھے اس حویلی سے تو نہ نکال سکا،،حویلی جو میرے نام ہے،،لیکن اس کمرے میں قید کردیا".......وہ اذیتوں کی انتہا پر تھی

"بی بی جان"......وہ بے ساختہ انھیں اپنے ساتھ لگایا،،،یہ حقیقت جان لینے کے بعد اسے بھی دکھ ہوا کیسے ایک ماں کو اس کی بیٹی سے جدا کردیا۔۔۔

"اب آگے کی بات تجھے احمد ہی بتا سکتا ہے"......وہ اپنی آنسوؤں کو صاف کرتا بولی

"چلیے آپ آرام کریں مجھے کچھ ضروری کام نپٹانے ہیں".....وہ انکے سر پہ بوسا دیتا کمرے سے چلا گیا

دادی زمل کی حفاظت کیلئے دعا کرنے لگی

                        *********

ناشتے کی ٹیبل ہی سب بیٹھے تھے۔۔زہران بھی خاموشی سے ناشتہ کررہا تھا اور ذہن میں آگے کے لئیے لائحہ عمل تیار کر رہا تھا۔۔۔

"زہران اس لڑکی کے بابا نہیں آئے کیا".......محتشم خان اسکو دیکھتے پوچھے

"بابا سائیں کال کیا تھا میں نے اسکے بابا تو آگئے ہیں لیکن انھوں نے اسکا رشتہ اپنے دوست کے بیٹے سے طے کردیا اور اسکے بابا خاصے سٹڑکٹ ہیں تو وہ مجھ سے معذرت کرلی".......وہ بھر پور سنجیدگی کے ساتھ بولا

"یہ کیا بات ہوئی میں نے تم سے کہا تھا نہ بات کرنے کو"......وہ غصے سے بولے

"بابا سائیں میں کیا کرسکتا ہوں"......ان سے کہتا وہ اٹھ گیا

ماحول میں خاموشی چھا گئی۔۔

زمل کی حویلی سے غیر موجودگی کی خبر حویلی میں پھیل گئی لیکن حیران کن بات یہ تھی کسی نے کوئی واویلا نہیں کیا۔۔

"محتشم خان کچھ خبر ہے وہ لڑکی حویلی میں نہیں ہے".....فضیلہ بیگم کمرے میں آتے بولی

"پتہ چلا ہے مجھے رات کے اندھیرے میں باپ کے گھر گئی ہے اور یہ کام تو ہمارے لئیے اور اچھا کرگئی ہے اسکی واپسی پہ میرے کچھ بندے اسے اغواء کر لینگے،،،زہران نے مجھے ڈبل کراس کرکے اچھا نہیں کیا اب میں بھی بتاؤنگا میں اسی کا باپ ہوں".......وہ سمجھ گئے تھے ماہم والے معاملے کے بارے میں یقیناً انکے بیٹے ہی نے کچھ کیا ہے اور انھیں اچھے سے بیوقوف بنادیا ہے

"اور میرے بیٹے مہران خان کا بدلہ"......وہ دکھی لہجے میں بولی

"اسکو کہی بھیجتے ہی اسکے بھائی کو قتل کروادنگا"......وہ اتنے آرام سے بولے جیسے موسم کے حال پہ تبصرہ کررہے ہو

"تو یہ ہے خاموشی کی وجہ".......انکی بات سنتا وجود بڑبڑایا

                            ********

ایک دن گزر چکا تھا زمل اپنے بابا کے گھر میں تھی۔۔اسکے یوں حویلی سے آنے کی وجہ جب احمد ابراہیم کو پتہ چلی تو انھوں نے اسکو ڈانٹا اور زہران خان کے گھر آنے کا بتایا اور ساتھ یہ بھی بتایا یہ جو آدھے گھنٹے کیلئے ان سے ملنے آجاتی تھی وہ بھی اسی کے بدولت۔۔۔زمل کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو ملال نے آگھیرا پھر یہ بھی خیال آیا وہ پریشان تھا وہ اسکا ساتھ دینے کے بجائے یہاں آکر اسکے لئیے ایک اور مشکل کھڑی کرچکی ہے،،،،لیکن جیسے ہی لفظ میٹرک پاس آتا تو انا سر اٹھا لیتی۔۔

                         ********

زہران پریشان سا بیڈ کی پائنتی سے لگا نیچے بیٹھا تھا۔۔ایک ہی دن میں وہ اسکی کمی محسوس کررہا تھا اور دوسری یہ بھی پریشانی تھی اگر وہ حویلی آنے کیلئے نکلی تو کیا ہوگا۔۔۔وہ اپنے ورکر کو کال کرکے اپنے گھر میں دو کمرے اور کچن کو بلکل فائنل کرنے کا بول دیا تھا۔۔

"اففف یہ لڑکی سوچنا چاہیے تھا میں نے کبھی اسکے ساتھ غلط نہیں کیا اگر غصہ میں کہ دیا تو یقیناً پریشانی میں کہا ہوگا اب ناراض ہوکر بیٹھی ہے وہ بھی ان حالات میں،،،اففف زہران تم تو ایک ہی دن میں یاد کررہے ہو"......وہ جھنجھلایا۔۔

"مسیج کردے بھائی"......سر اٹھا کر سامنے بیٹھی بہن کو دیکھ کر خود کو کمپوز کیا

"کس کو"؟.....وہ انجان بنا

"وہی جسکو سوچ رہے ہیں"......وہ مسکراہٹ دبائی

"میں تو کسی کو نہیں سوچ رہا بس پریشان ہوں بابا اسے اغواء کرنے کا پلین بنائے ہوئے ہیں".....وہ آدھی بات سچ اور آدھی جھوٹ بولا

"کیا بابا ایسا بھی کرسکتے ہیں"......وہ منہ پہ ہاتھ رکھی

"بھائی میں اچھی طرح جانتی ہوں یہ صرف اس بات کی پریشانی نہیں ہے بلکہ یہ اس سے بھی  آگے کی بات ہے بہن ہوں آپکی بھلے سے چھوٹی ہوں لیکن جان گئی ہوں اب میری بھابھی کے بغیر گزارہ نہیں اقرار کردے جلدی دیر نہ کرے سامنے نہیں کر پارہے تو مسیج میں کردے".......وہ سنجیدگی سے اپنے باپ کی سنگدلی کو چھوڑ کر بھائی کے مسئلے کی جانب متوجہ ہوئی

زہران یک ٹک اپنے سے آٹھ سالہ چھوٹی بہن کو دیکھ رہا تھا جو اسکے دل کا راز جان گئی تھی جو وہ بات خود سے اقرار کرنے پہ جھجھک رہا تھا وہ اسکی چھوٹی بہن بڑے آرام سے کہ کر جاچکی تھی

"میری گڑیا اتنی سمجھدار ہوگئی ہے"......وہ محبت سے دروازے کی طرف دیکھنے لگا جہاں سے وہ گئی تھی

پھر کچھ سوچتے موبائل اٹھایا،،،زمل لڑائی کے وقت گیم کھیل رہی تھی اور وہ ہاتھ میں ہی لئیے چلی گئی تھی ایک یہ کام وہ اچھا کی تھی

"کیا لکھوں"......وہ ٹائپ کرتا پھر ریموو کردیتا

وہ بندہ جو بغیر پریپریشن(تیاری) کے ایک شاندار پریزنٹیشن دے دیتا تھا آج ایک مسیج نہیں لکھ پارہا تھا،،،وہ جو بہترین تقریریں لکھ لیا کرتا تھا آج ایک چھوٹا سا پیغام لکھ نہیں پارہا تھا

"اففف کیا لکھوں کیا بنادیا ہے اس لڑکی نے"......وہ زمل کے سراپے کو انکھوں میں بسائے بولا

اور بلاآخر وہ ایک پیغام ٹائپ کرچکا تھا اور سینڈ کردیا

"کیا آئیڈیا دیا ہے میری گڑیا نے".......وہ پرسکون سا ٹیک لگایا

وہ اسکو ایسے نہیں لانا چاہتا تھا بلکہ منا کہ اسکی رضامندی سے لانا چاہتا تھا اور پھر اپنے نئے گھر میں جاکر اپنی نئی زندگی شروع کرنا چاہتا تھا۔۔

زمل شاور لیکر نکلی اور تولیے سے بال سکھانے لگی۔۔تبھی اسکا موبائل رنگ کیا۔۔اسکے موبائل میں صرف دو لوگوں کے نمبر تھے ایک زہران خان اور دوسرا مشل کا۔۔۔

وہ تولیا کرسی پہ ڈالتے چارپائی سے اپنا موبائل اٹھائی۔۔

"یہ کیوں کررہے ہیں مسیج؟"......زہران خان کا مسیج دیکھ کر مسکراہٹ ہونٹوں میں در آئی،،،جلدی سے مسیج کھولا

اپنی شہد رنگ آنکھوں کا دیوانہ بنا کر

اب رکھا کیوں ہے دیدار سے محروم

اپنی سنہری زلفوں میں مجھ کو الجھا کر

اب دور کیوں گئی ہو جان جاں

میرے دل کو مجھ سے ہی لے کر

اب دور کیوں گئی ہو جان جاں

(از خود)

"افففف انھیں کیا ہوگیا ہے"......اتنے خشک مزاج بندے سے یہ توقع نہ تھی شعر پڑھ کر اسکے رخسار سرخ ہوئے

"یہ شعر لکھتے ہیں یا میرے لئیے لکھے ہیں"......وہ شہادت کی انگلی دانتوں میں دبائے شرمیلی سی مسکراہٹ لیے سوچی

تبھی مسیج کے رنگ ٹون نے اپنی جانب متوجہ کیا

"ایک ایک لفظ میرے اپنے ہیں کہی سے کاپی پیسٹ نہیں کیا،،،جواب کا منتظر ہوں".......

"کیا جواب چاہیے"؟...... فوراً سے ریپلائے کیا

"یہ جو میں نے ایک خوبصورت سا شعر بھیجا ہے اسکا جواب چاہیے شاعری تو کبھی کی نہیں یہ خاص آپکے لئیے ہے".......اسکا جواب پڑھتے زمل چارپائی پہ بیٹھی،،دل معمول کی رفتار سے ہٹ کر ڈھرکنے لگا،،،وہ موبائل رکھتے دونوں ہاتھوں سے چہرے چھپا گئی

دفتعہ موبائل دوبارہ رنگ کیا

"کال کرسکتا ہوں مسز زہران"؟......مسز زہران کو بولڈ کرکے لکھا گیا تھا

"جی"......اسکا خود کا دل بھی تو بات کرنے کے لئیے بے چین ہورہا تھا

"اسلام علیکم کیسی ہیں؟".....بھاری گھمیر آواز  اسکے دل کو سکون پہنچا گئی

"ٹھیک آپ کیسے ہیں"؟......وہ ہلکے سے بولی

"ٹھیک ہوں شاعری کیسی لگی"......وہ مسکرایا

"اچھی لکھی ہے آپ نے".....وہ ڈوپٹہ کے پلو سے کھیلتے ہوئے بولی

"اب تو ناراض نہیں ہے نہ،،،شام کو لینے آجاؤں پلیز منع نہیں کریے گا"......اسکی شرمندہ آواز زمل سے برداشت نہیں ہوئی

"نہئ نہیں میں نئی ناراض آپ آجائیں لینے".....وہ روتے ہوئے بولی

"زمل.....زمل رو کیوں رہی ہیں"......اسکی سسکیوں پہ وہ پریشان ہوا

"آپکی چھوٹی سی غلطی پہ میں ناراض ہوگئی اور یہ قدم اٹھایا جس سے آپ کو پریشانی بھی ہوئی ہوگی پلیز مجھے معاف کردے،،آپ مجھے ہمیشہ سپورٹ کیے اتنا خیال رکھا".....وہ سسکی لیتے بولی

"اچھا رونا بند کریں میں اپنے الفاظ کیلے واقعی شرمندہ ہوں اور میں اسوقت بہت پریشان تھا.............."،،،،،،،وہ ڈیل کینسلیشن اور اغواء والی بات زمل کو بتانے لگا

"سوری مجھے آپکا ساتھ دینا چاہیے تھا اور میں نے الٹا پریشان کردیا،،،آپ بہت اچھے ہیں"......وہ آنسو صاف کرتے بولی

"وہ تو میں ہوں لیکن مجھے شعر کا جواب نہیں ملا"۔۔۔۔۔وہ شرارت سے پوچھا

"مجھے شعر وعر نہیں آتا"......وہ ناک چڑھائی

"اچھا آپ اکیلے باہر نہیں آئیے گا میں خود آؤنگا لینے"......وہ خیال رکھنے کی تاکید کرتا فون کٹ کیا۔۔

زمل کے احساس تشکر سے کئی آنسسو نکلے کتنا اچھا شخص اللّٰہ نے اسکے نصیب میں لکھا تھا۔۔

                        ********

اسلام و علیکم پھوپھا!!کیسے ہیں؟.......زہران خان اندر کمرے میں آکر بیٹھا جبکہ زمل دوسرے کمرے میں تھی

"وعلیکم السلام".....لفظ پھوپھا پہ وہ حیرانگی سے دیکھنے لگے

"بی بی جان نے سب بتادیا ہے اور پھوپھی سائیں کی وفات کیسے ہوئی؟"........وہ انکی حیران آنکھوں کو دیکھتے افسردگی سے بولا

"قتل ہوا تھا"........وہ آہستے آواز میں بولے تاکہ دوسرے کمرے میں موجود زمل اور سفیان نہ سن لیں

"قتل"؟........وہ شاک کی کیفیت میں بولا

"بظاہر تو وہ ایک کار ایکسیڈنٹ تھا لیکن اس میں موجود ڈرائیور محتشم خان کا بندہ تھا جسکی نیت پری وش کو مارنا ہی تھی اور وہ کامیاب ہوا"........وہ تکلیف سے بولے

"میں کیسے معافی مانگوں آپ سے".......وہ نم آنکھوں سے دیکھتے بولا

"تمہیں معافی مانگنے کی ضرورت نہیں بلکہ تمہارا تو مجھے شکریہ ادا کرنا چاہیے جہاں میری بیٹی ونی بن کے گئی لیکن تم نے اسے بچا لیا".......وہ محبت سے دیکھے

"زمل کا خیال رکھنا انکی ضروریات پورا کرنا میرا فرض ہے آپ شکریہ ادا نہ کرے،،،اور جب آپ قاتل کو جانتے ہیں تو مقدمہ کیوں نہیں چلائے".......وہ آخر میں حیرانگی سے پوچھا

"بیٹا اگر میں انکے خلاف پولیس کے پاس جاتا بھی نہ تو کوئی میری بات نہیں سنتا،،یہاں پیسہ اور طاقت ور کی چلتی ہے غریب کی کون سنتا ہے اور پھر مجھے پتہ تھا محتشم خان جیسے لوگ یہی پہ بس نہیں کرینگے بلکہ اپنی انا پہ آئی بات پہ آگے میری بیٹی کو بھی نقصان پہنچائیں گے پری وش کی وفات کے بعد شہر چھوڑ کر ہم دوبارہ گاؤں آگئے اور اب حال یہ ہے".......وہ تھکے تھکے لہجے میں بولے

"میں آپکی مدد کروں پھوپھو کے قتل کے مقدمے میں"؟......وہ سوالیہ نظروں سے پوچھا،،وہ اسوقت یہ بھول گیا تھا بس جانتا تھا تو یہ کہ وہ ایک قاتل ہیں

"نہیں بیٹا اگر کیس دائر بھی ہوگیا تو وہ جلد ہی چھوٹ کر آجائینگے اور پھر سے ہمارے لیے مسائل کھڑے ہونگے میں نے اپنا معاملہ اللّٰہ کے سپرد کردیا ہے بس تم میری بیٹی کا خیال رکھنا"........

محتشم خان اس پری وش کے حویلی سے جانے کے بعد پاگلوں کی طرح انھوں ڈھونڈ رہے تھے لیکن وہ ملی نہیں،،لیکن پھر بھی وہ ہمت نہ ہارے اور اپنے بندے کو کام پہ لگادیا جب بھی ملے انھیں کار ایکسکیڈنٹ سے مروانا ہے۔۔۔لیکن پری وش کی زندگی تھی جبھی اتنے سال وہ محتشم خان اور انکے بندوں کی نظروں سے محفوظ رہی لیکن ایک دن وہ ان لوگوں سے بچ نہ سکی

"جی جیسا آپ ٹھیک سمجھیں،،زمل کو بلا دیں".......

وہ زمل کو لئیے کار میں بیٹھا اور اپنے گاؤں کی طرف گاڑی ڈال دی

ابھی انکا سفر جاری تھا کہ تین نقاب پوش نے انکا راستہ روکا وہ سمجھ گیا کہ یہ لوگ کون ہیں،،،زہران ڈیش بورڈ سے گن نکالا

"زہران یہ..."،،،،،زمل خوف سے بولی

"کچھ نہیں ہوگا آپ پرسکون ہوکر بیٹھے بس باہر نہیں آئیے گا"،،،،،،،

"نکل باہر جلدی".......ان میں سے ایک نقاب پوش شیشے پہ گن رکھتا بولا

زہران اتر کر اپنی سائیڈ کا دروازہ تیزی سے بند کیا

"کیوں روکا ہے؟"......زہران خان کرخت لہجے میں پوچھا

"اوئے ذیادہ ہیرو نہ بن ہٹ ادھر سے اور لڑکی کو نیچا اتار ورنہ ساری گولی تیرے سینے پہ اتار دونگا،،،،،وہی نقاب پوش غرایا

"تمیز سے بولو اور میری بیوی کی طرف دیکھا بھی تو آنکھیں نکال دونگا یہاں سے غائب ہوجاؤ فوراً اس سے پہلے کچھ کروں"........زہران اس سے بھی تیز آواز میں غرایا

"ابے چپ اور تم دونوں جلدی گاڑی کا دروازہ کھول کر لڑکی نکالو"......

وہ دونوں آگے بڑھے تو زہران خان نے اس حکم چلانے والے کی ٹانگوں پہ بہت مہارت سے دو گولیاں ماری

"آہ...آہ.....وہ لڑکھڑا کر نیچے گڑا

گولی کی آواز پہ وہ دونوں پیچھے مڑ کر زہران پہ گن تانے

"نیچے کرو یہ نہ ہو جس نے بھیجا ہے وہی مجھے مارنے پہ تم دونوں کو اس دنیا سے ختم کردے"......وہ غصے سے ڈھارا

"کان کھول کر سنو جاکر اپنے سردار محتشم خان کو بتادینا میں بھی زہران خان ہوں اپنے عزت کی حفاظت کرنا جانتا ہوں اور جو نقصان پہنچانے کا سوچے اسے اچھی طرح سبق سکھانا بھی جانتا ہوں اور آئیندہ میرے راستے میں آئے تو جو گولی ٹانگوں پہ ماری ہے وہی تمہارے سینے میں اتاردونگا"،،،،،وہ نیچے بیٹھتا اسکا کالر پکڑ کر سخت لہجے میں کہتا ایک جھٹکے سے چھوڑ کر اٹھا

"دفع ہو جاؤ تینوں اس سے پہلے کچھ کروں"......اسکے بولنے پہ وہ دونوں تیزی سے اپنے ساتھی کو اٹھا گاڑی میں ڈالتے وہاں سے بھاگے۔۔

زہران دوبارہ گاڑی میں بیٹھا اور کار اسٹارٹ کیا

"کچھ نہیں ریلکس یار"،،،،،وہ خوفزدہ سی زمل کا ہاتھ تھپتھپاتے بولا

                         ********

"آپ کمرے میں رہی گی مشل کو بھی بھیج رہا ہوں آپکے پاس اور اتنا تو یقین ہے حویلی میں وہ آپکا کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے میں کل آؤنگا آج گھر کو ایک دفعہ فائنل چیک کرلوں اور آفس کی امپورٹنٹ میٹینگ ہے وہ اٹینڈ کرنا ہے،،آپ پیکنگ کرلیے گا کل ہی ہم مشل کو لیکر یہاں سے چلے جائیں گے".......وہ نرمی سے اسے سمجھاتا آخر میں اسکے ماتھے پہ عقیدت بھرا لمس چھوڑا۔۔

زمل پورے استحاق سے اس لمس کو محسوس کی اور نم آنکھوں سے سر ہلادی

زہران یہاں سے مشل کے کمرے میں آیا۔۔

"مشل میری گڑیا"......وہ اسکے کمرے میں آتا اسے پیار سے پکارا

"جی بھائی"،،،،وہ جو نوٹس بنارہی تھی اسکے آنے پر کھڑی ہوئی

"گڑیا تم زمل کے پاس رہنا،،کوئی مسئلہ ہو تو فوراً مجھے کال کرنا،،اور اپنی پیکنگ کرلینا میں کل صبح آپ دونوں کو یہاں سے لے جاؤنگا".......

"لیکن بھائی بابا سائیں"........

"گڑیا اگر تم یہاں رہو گی تو بابا سائیں تمہیں فہد کو سونپ دینگے اور میں اپنی گڑیا کو ایسے شخص کے ہاتھوں میں نہیں دینا چاہتا".......وہ محبت سے اسے سمجھایا

"میں چلو گی آپکے ساتھ".......وہ بھیگی آنکھوں سے سر ہلائی

"تمہارا بھائی اپنی گڑیا کو کبھی مایوس نہیں کریگا"......وہ اسکے سر پہ بوسہ دیتا چلا گیا اور ساتھ تاکید بھی کی یہ بات وہ کل خود سب کو بتائے گا

                           ********

"سردار زہران خان نے چانڈیو بخش کو ٹانگوں میں گولی ماردی اور ہم اس لڑکی کو بھی پکڑ نہ سکے".......وہ کال ملاتے ڈرتے ڈرتے بتانے لگا

"بیوقوفوں کس نے کہا تھا اسکی موجودگی پہ پکڑنے کو جب وہ اکیلے دکھے تب بولا تھا نہ"......وہ غصے سے ڈھارے

"وہ صاحب ہم دونوں گاؤں کے بیچ میں روکے تھے تاکہ لگے ہم ایسی ہی اغوا کار ہیں لیکن وہ سمجھ گئے آپ نے بھیجا ہے"......وہ کپکپاتے لہجے میں بتایا

"کیا کہا اسے کیسے پتہ چلا"؟..... 

رحیم یار نے زہران خان کی بات محتشم خان کو بتادی 

"یہ لڑکا"......محتشم خان فون بند کرتے لب بھینچ گئے

"سر آپ سے ایک آدمی تین چار دن سے ملنے آرہے ہیں ریزن نہیں بتا رہے".......ریسپشین میں بیٹھی لڑکی اسکو کال ملائی

"بھیجیں میرے آفس میں"........

کچھ دیر میں ایک پینتیس سال کے لگ بھگ آدمی اندر آیا،،،سادہ سا کپڑا سر پہ ایک کپڑے سے پگڑی کی طرح باندھا ہوا تھا

"بیٹھے"...... زہران سامنے کرسی کی جانب اشارہ کیا

"زہران خان جی....وہ....میں عالمگیر چوہدری کے گاؤں میں رہتا ہوں"......وہ ڈرتے ہوئے بولے

"کیسے آنا ہوا؟"....... زہران چونکا،،گاؤں کے لوگ تو بہت مشکل سے ہی شہر آتے تھے اور یہ شخص اس سے ملنے آرہا تھا وہ بھی دو تین بار۔۔

"مجھے...کچھ بتانا تھا وہ..."،،،،انکے انداز سے ڈر و خوف نمایاں تھا

"آپ بلا جھجک کہے"......اسکے نرم انداز پہ انھیں تسلی ملی

"وہ جب مہران خان کو گولی لگی تو میں بھی وہی تھا سردار کے بیٹے شہزاد چوہدری سفیان کو شکار کرنا سکھا رہے تھے میرے علاوہ میرا بیٹا اور دو بندے بھی وہی تھے اور مہران خان بھی اسی طرف شکار کیلئے آئے تھے انکے آتے ہی شہزاد خان نے انکا نشانہ لیا تھا دل پہ لگنے کی وجہ سے وہ موقع پر ہی دم توڑ گئے".........وہ کپکپاتے لہجے میں بولتے لمحے کو رکے پھر دوبارہ بولنا شروع کیا زہران دم سادھے انھیں سن رہا تھا

                          ********

فلیش بیک....

"سفیان ادھر آؤ میں تمہیں آج شکار سکھاتا ہوں".....شہزاد چوہدری پاس کھڑے سفیان کو بلایا

اس کرم نوازی پہ وہاں کھڑے دو تین اور لوگ حیران ہوئے۔۔

"میں کیسے"؟.....سفیان ہچکچایا،،وہ شخص جو کبھی منہ نہیں لگاتا تھا آج اتنی دریادلی دکھا رہا تھا

"ارے سفیان جا آج تو لگ رہا موڈ اچھا ہے"......کرم دین کا بیٹا تنویر بولا جو سفیان کا دوست تھا

"کرم دین ایک بندوق اسے دو"......شہزاد چوہدری کے حکم پہ کرم دین فوراً دیا

"یہ دیکھو یہاں پہ ہاتھ رکھو اور ہاں جب گولی چلتی ہے تو بندوق جھٹکے سے پیچھے آتی ہے دھیان سے".......وہ اس سے بول رہا تھا جبکہ سارا دھیان ایک جانب سے آتے مہران خان پہ تھا

"چلاؤ"......اسکو بولتے شہزاد چوہدری بھی اپنا نشانہ مہران خان پہ لیا

"ٹھاہ".....گولی کی آواز گونجی اور سامنے مہران خان دل پہ ہاتھ رکھتے گرا۔۔

"یہ کیا کردیے بیوقف انسان مہران خان پہ گولی چلادی"....وہ اس پہ چیختے ہوئے مہران کے پاس بھاگا

جبکہ سفیان پریشان سا کھڑا تھا،،اس سے تو ٹریگر دبا ہی نہیں تھا۔۔

"زہران...مشل....مورے"....وہ تڑپ رہا تھا تکلیف کی شدت سے آنسو نکل رہے تھے

اور کچھ ہی دیر میں مہران خان کا وجود ٹھنڈا ہوگیا،،،وہاں موجود پانچ لوگ حق دق سے رہ گئے،،یہ لمحوں میں کیا ہوگیا تھا

"یہ کیا تم نے مہران خان کو ماردیا"......شہزاد چوہدری مہران خان کے پاس سے اٹھا اور خوفزدہ سے کھڑے سفیان کے پاس آیا

"مجھ سے نہیں چلی".....وہ ڈرتا ہوا بولا

"سردار سفیان سے گولی نہیں چلی ہے یہ دیکھیں اسکے بندوق میں ساری گولیاں ہیں".....کرم دین بندوق دکھاتا بولا

اپنا پلین فیل ہوتے دیکھ کر شہزاد خان ایک غصیلی نگاہ کرم دین پہ ڈالا

"تم پانچوں کان کھول کر سن لو سب کو یہی پتہ چلنا چاہیے سفیان سے لگی ہے گولی اگر اسکے علاوہ کوئی بات زبان سے نکالی تو یہ ساری گولی تمہارے جسم میں پیوست کردونگا اور تو کان کھول کے سن اگر میرا نام لیا تو تیرے باپ اور تجھے مار ڈالوں گا اور تیری وہ بہن اسے جینے لائق نہیں چھوڑونگا".....وہ غرایا

"گھٹیہ انسان"......سفیان چلایا

"اسکو گاڑی میں بٹھاؤ اور یہ لاش بھی اٹھاؤ اور میرے خلاف کوئی کام کیے تو ابھی کے ابھی موت کے گھاٹ اتاردونگا".......وہ ان سب کو اچھی طرح ڈراتے اپنی گاڑی کی طرف بڑھا

                           ******** 

"شہزاد چوہدری نے ہم سب کو بہت ڈرایا یہ بات کسی کو نہ بتائیں ورنہ ہمیں ماردینگے اور سارا الزام سفیان بچے پہ ڈال دیا اور آپ تو اچھی طرح جانتے ہیں طاقتور جھوٹ بھی بولے تو سچ مانا جاتا ہے،،،میں اسی روز سے یہ بات بتانا چاہتا تھا جس دن سے سفیان کی بہن ونی ہوئی تھی لیکن میری کم ہمتی دیکھیں اس واقعہ کو جب پانچ ماہ بیت گئے تو آرہا ہوں،،،میں یہ بوجھ اپنے دل پہ مزید نہیں رکھ سکتا تھا اس لئیے چلا آیا،،میرا ضمیر بار بار مجھے کچوکے لگا رہا تھا"......وہ سر جھکا گئے

"یا میرے اللّٰہ".....زہران آنکھیں میچ گیا،،،اصل مظلم سکون سے ہے اور مظلوم سزا کاٹ رہا

"آپکے پاس کوئی ثبوت؟"......... زہران سنبھلتا ہوا بولا

"ہاں....میرا بیٹا بہت ضد کرکے ایک سستا سا موبائل لیا تھا جس میں ویڈیو بنتا ہے سفیان اسکا دوست ہے تو وہ اسکے شکار کی ویڈیو بنا رہا تھا تو یہ بھی ہے لیکن صاحب کسی کو پتہ نہیں ہے"........

"یہ میرا نمبر ہے بولیے گا اس پہ بھیج دے"..... وہ پرچی پہ نمبر لکھ کر دیا

"صاحب لیکن میرا نام..."،،،،،وہ ہچکچائے

"بے فکر رہے آپ،،،آپکا نام نہیں آئے گا بہت شکریہ آپکا"......وہ انھیں مطمئن کیا تو وہ بھی سلام کرتے چلے گئے....

                        **********

جب سے وہ آدمی شہزاد چوہدری کے بارے میں بتا کہ گیا تھا وہ اپنے دماغ کے گھوڑے دوڑا رہا تھا۔۔۔

"شہزاد ایک پکے کھلاڑی کی گولی کسی کو غلطی سے لگ جائے ناممکن سی بات  اور اتنا مغرور شخص ایک معمولی سے کسان کے بیٹے کو شکار سکھائے اور اپنا اتنا مہنگا گن دے،،امپوسیبل،،،یہ سب پہلے کیوں نہیں سوچا میں"۔۔۔۔

وہ دونوں ہاتھوں کو باہم پھنسائے تھوڑی اس پہ رکھے راز سے پردہ ہٹانے کیلئے لائحہ عمل تیار کرنے لگا،،،اور پھر کچھ دیر میں مسکراتے ہوئے وہ فون اٹھایا اور اپنے خاص بندے کو کال ملائی۔۔آج اسے حویلی جانا نہیں تھا کل صبح پہنچنا تھا لیکن اب اسنے ارادہ ملتوی کرکے کل شام میں جانے کا ارادہ کیا

                         *********

دوسرے دن صبح وہ اپنے نئے گھر میں پہنچا،،،گھر مکمل تیار تھا ڈیکوریشن کا کام رہتا تھا جو ایک ہفتے میں ہونے تھے،،،ابھی وہ فرنیچر سیٹ کروارہا تھا۔۔۔

تبھی موبائل رنگ کیا"زمل"کا نام دیکھتے مسکراتے ہوئے سائیڈ میں آیا

"اسلام علیکم!"۔۔۔۔وہ خوشگوار لہجے میں بولا

"آپ آئے نہیں ابھی تک"....اسکی پریشان کن آواز پہ وہ پریشان ہوا اور سرسری سی نظر کلائی میں پہنی گھڑی پہ ڈالی جہاں دوپہر کے بارہ بج رہے تھے

"کیا ہوا سب ٹھیک ہے نہ"؟......

"جی ٹھیک ہے آپ صبح آنے کا بولے تھے"......

"ہاں لیکن ایک ضروری کام ہے تو شام تک آؤنگا"......وہ پرسکون ہوتا بولا

"یاد کرہی تھی کیا مجھے"؟......وہ مسکراہٹ دبایا

"بلکل بھی نہیں".....اسکی شرارت سمجھ کر وہ ناک چڑھائ

"تو پھر ٹھیک ہے میں شام کے بجائے کل رات کو آؤنگا"........

"کوئی نہیں شرافت سے شام کو آئیے گا"......وہ فوراً سے بولی

"تو کہ دیں نہ یاد آرہی ہے".....وہ دوبارہ سے اسی بات پہ آیا

"جب آ نہیں رہی تو جھوٹ کیوں بولوں".......

"آہ ظالم لڑکی،،ویسے ابھی بھی کونسا آپ سچ بول رہی ہیں"........وہ دہائی دیا،،،اسکا سنجیدہ انداز اس سے بات کرتے ہوئے غائب ہوجاتا تھا

"آپکو بہت پتہ ہے سچ کہ رہی ہوں یا نہیں"......وہ مسکرائی

"بلکل سب پتہ ہے...اچھا میں فرنیچر سیٹ کروارہا ہوں شام کو ملتے ہیں خیال رکھئیے گا".......وہ محبت سے کہتا کال کٹ کیا

زمل کی آنکھوں میں کئی جگنو چمکنے لگے،،یہ شخص اپنی باتوں اپنی عادتوں سے ہی بتادیتا تھا کہ یہ کتنی اہم ہے۔۔۔

                         ********

شام تک شہزاد چوہدری اسکے فارم ہاؤس میں موجود تھا۔۔

"کون ہو تم لوگ؟...کیوں لائے ہو جانتے نہیں ہو مجھے".....اسکے چیخنے چلانے کی آوازیں زہران خان کے لبوں پہ مسکراہٹ بکھر رہی تھی۔۔

"میں کڈنیپ کروایا ہوں تمہیں".....زہران خان پروقار چال چلتا اسکے قریب آیا جو کرسی پہ رسیوں سے بندھا ہوا تھا

"زہران خان تم....تم نے مجھے کیوں کڈنیپ کروایا ہے"......اسکے چہرے کا رنگ متغیر ہوا جو زہران خان نے بخوبی محسوس کیا۔۔

"سب پتہ چل جائے گا یہ بتاؤ کافی پیو گے یا چائے....کافی ٹھیک رہے گا اللّٰہ بخش کافی لے آؤ".....اسکے سامنے ایک چئیر رکھتے اس پہ بیٹھتا وہ پراسرار سی مسکراہٹ لیے پوچھا

"زہران خان بتاؤ مجھے بعد میں یہ ڈرامے کرنا"......ابکی بار اسکا لہجہ تیز تھا

"آواز نیچے....اسوقت تم زہران خان کی تحویل میں ہو انجام کے ذمہ دار تم خود ہوگے"......

کچھ دیر میں اللّٰہ بخش چھوٹی سی ٹرے میں ایک کافی کپ رکھے زہران کے پاس آیا،،،شہزاد چوہدری ایک کپ دیکھ کر حیرت سے دیکھنے لگا

"میں پیوں گا صرف ہاں لیکن تمہیں بھی انجوائے کرواسکتا ہوں اگر جو پوچھوں اسکا سچ سچ جواب نہ دیے تو"........وہ آخر میں سخت چٹانوں جیسے تاثرات لیے بولا

یہ کیا کہ رہے ہو تم"....وہ اپنی آواز میں لغزش کو قابو کرتے بولا

"مہران خان کو کس نے شوٹ کیا ہے"؟.....اسکی آواز انتہا درجہ کی سرد تھی

"یہ کیسا سوال ہے تمہیں نہیں پتہ سفیان سے ہوا ہے"......وہ گھبراہٹ کو چھپانے کی ناکام کوشش کیا،،جب سچ کھلنے لگے تو اچھو اچھو کے پسینے نکل آتے ہیں اور پھر زہران خان کے تاثرات بتا رہے تھے وہ سب جانتا ہے۔۔۔

"سچ سننا ہے صرف سچ"....... زہران خان اسکے جھوٹ پہ ڈھارا

"زہران خان اب تم حد سے گزر رہے ہو بابا کو پتہ چلا تمہیں چھوڑینگے نہیں اکلوتا وارث ہوں چوہدری خاندان کا"......وہ بھی اس پر چیخا

"اسامہ".......سامنے کھڑے بندے کو اشارہ کیا اس اشارے پہ وہ شہزاد کو مارنے لگا تھا۔۔مارنے کے انداز سے لگ رہا تھا بندہ مکمل ٹرینڈ ہے اور اس کام میں انوالو ہے

زہران خان کافی کے گھونٹ بھرتے شعلہ بار نگاہوں سے اسکے نڈھال ہوتے وجود کو دیکھ رہا تھا۔۔پندرہ منٹ بعد زہران کی آواز گونجی ورنہ تو صرف شہزاد کی آہ و سسکاری ہی سننے کو مل رہی تھی،،وہ بندہ صرف پندرہ منٹ میں اسکی حالت خراب کرچکا تھا

"سچ بولنا اب صرف"......۔

"تم نے مجھ پر ایک ملازم سے ہاتھ اٹھوا کر اچھا نہیں کیا".....وہ منہ میں بھرے خون کو ایک طرف پھینکتے بولا

"اگر اتنا ہی سچ جاننے کا شوق ہے تو جاکر اپنی کزن صاحبہ مفسرہ سے پوچھو وہ تمہیں اچھے سے بتادیگی"......ایک ملازم سے مار کھلوا کر وہ اسکی انا کو للکار گیا

"مفسرہ کا نام کیسے لیا تو نے"؟..... زہران اپنی حویلی کی عورت کا نام سن کر ڈھارا

"تو تجھے ہی سچ سننا تھا نہ اسی کے کہنے پر گولی چلائی تھی،،،مہران خان کی منگیتر تھی نہ نفرت کرتی تھی وہ مہران خان سے اور مجھ سے محبت اسی لیے مروایا ہے اُسے"......

"کیا بکواس کررہا ہے ہاں"......وہ اسکا کالر پکڑے غرایا

"ثبوت بھی ہے سارے کال ریکارڈ جاکر سن لے تیرے ملازم کے پاس ہے موبائل"......وہ استہزایہ ہنسا،،اب جو حالت زہران خان کی تھی وہ اسے مزہ دے رہی تھی

وہ جیسے جیسے کال ریکارڈ سنتا گیا اسکے غصے کا گراف مزید بڑھتا چلا گیا۔۔ایک وائس ریکارڈ پہ تو وہ ساکت رہ گیا

"شہزاد یہ مہران خان سے تو میں تنگ آگئی ہوں عجیب ہی کوئی خشک مزاج کھڑوس اور مغرور بندہ ہے ایک تو پتہ نہیں کونسی روایات ہے کہ بچپن میں ہی منگنی کردیا ایسے تو ہماری شادی نہیں ہو پائے گی،،تم اسے شوٹ کردو ایسے ہی راستہ صاف ہوگا".....

زہران خان کے اندر ایک عجیب طوفان مچا ہوا تھا۔۔اصل مجرم تو آرام سے انکے حویلی میں تھا

"انسپکٹر اسامہ لے جائیں اسے اور کڑی نگرانی میں لوکپ میں رکھیے گا"......وہ کہتا ہوا طیش میں لمبے ڈگ بھرتا نکلا پیچھے سے شہزاد چوہدری کا قہہقہ اسکے غصے کو اور ہوا دے گیا۔۔

فل اسپیڈ میں ڈھول اڑاتی اسکی گاڑی حویلی کی جانب گامزن تھی۔۔

                        *********

"جاکر مفسرہ کو بلا کر لاؤ".....وہ حویلی پہنچتے ہی غصے سے ایک ملازمہ کو بولا

"مورے بابا سائیں".......وہ تیز آواز میں چلایا

اسکی اتنی تیز آواز پر ایک ایک کرکے سب بڑے سے ہال میں جمع ہوگئے

"کیا ہوگیا ہے زہران"؟..محتشم خان حیرت سے پوچھے

"کیوں لائے ہیں آپ اسے"؟....وہ زمل کی طرف اشارہ کیا

"ظاہر سی بات ہے اسکے بھائی سے تمہارے بھائی کا قتل ہوا ہے اسی لئیے لائے ہیں"......

"قتل اسکے بھائی سے نہیں بلکہ اس نے کروایا ہے"......وہ آتی ہوئی مفسرہ پہ غصے سے ہاتھ اٹھانا چاہا لیکن وہ مضبوط اعصاب کا مالک خود پر جبر کرگیا وہ عورت پہ ہاتھ اٹھانے کا قائل نہیں تھا۔۔اسکی بات پہ سب اپنی جگہ تھم سے گئے

"مفسرہ کیا سچ کہ رہا ہے یہ"؟......مہرماہ بیگم بے یقینی سے بولی

"نن...نہیں مورے".......وہ گھبرائی

"شہزاد چوہدری کو جانتی ہو نہ جس سے فون کال پہ باتیں کرتی تھی وہ اسوقت لوکپ میں بند ہے"........ زہران اسکو جھوٹ بولتا دیکھ کر چلایا

"شہ....شہزاد"،،،،وہ ٹوٹے بکھرے لفظوں سے اسکا نام زیر لب لی

"کیوں کیا ہے بند ؟ ہاں؟ اگر اسے کوئی نقصان پہنچا نہ تو زہران خان میں تم لوگوں کو برباد کردونگی"........وہ ساری ڈر گھبراہٹ بھلائے غرائی یاد تھا تو صرف ایک شخص جو اسوقت لوکپ میں تھا

"زہران نے نظر اٹھا کر مہرماہ بیگم کو دیکھا جیسا کہ رہا ہو دیکھ لے کون جھوٹ بول رہا اور کون سچ"....

"مفسرہ"......وہ حیران ثاثر لیے اسے دیکھی

"مورے کیوں آپ لوگ بچپن ہی میں منسوخ کردیتے ہیں اور اگر کر بھی دیتے ہیں تو نکاح تو نہیں ہوتا نہ تو بچوں کی مرضی نہ ہونے پہ توڑ کیوں نہیں دیتے،،نہیں کرنا چاہتی تھی میں مہران خان سے شادی،،جھیل کے کنارے جاتی تھی نہ تو سنیں شہزاد چوہدری سے ملنے جاتی تھی میں نے ہی اسے کہا تھا قتل کرنے کو"........وہ غم و غصے سے پاگل ہوئی،،،اسوقت صرف شہزاد چوہدری سے ملنے کے لئیے وہ پاگل ہورہی تھی

"مجھے دینی ہی نہیں چاہیے تھی تمہیں اتنی چھوٹ گاؤں کی لڑکیوں کی طرح کس کے رکھنا چاہیے تھا،،،میں تو بھابھی سائیں سے منتیں کی تھی کوئی اسکے ساتھ سخت رویے نہ رکھے تمہارے بابا کے جانے کے بعد مجھے لگا کہیں تم اس بات کو سر پہ سوار نہ کرلو اس لئیے تمہیں ساری چیزیں مہیا کی لیکن تم نے کیا صلہ دیا ہاں تم نے ایک شخص کو حاصل کرنے کے چکر میں ایک شخص کی جان لے لی"........وہ ایک زور دار تھپڑ اسے ماری

"مو....رے"،،،،وہ ڈبڈبائی نظروں سے دیکھی

"مت کہوں مجھے مورے نہیں ہوں میں تمہاری کچھ".......وہ روتے ہوئے بولی

"میں نے تمہیں خان حویلی کی بہو بنانا چاہا اتنی محبت دی اور تم نے مجھ سے میرے بیٹے کو چھین لیا"........فضیلہ بیگم بھی اسے ایک تھپڑ لگا چکی تھی

بات بے بات زمل کو تھپڑ مارنے والی آج خود تھپڑیں کھارہی تھی۔۔

"تم پھر اس مظلوم لڑکی کو کیوں مارتی رہی جب قتل تم نے کروایا تھا"......مشل صدمے سے گویا ہوئی

"تاکہ لگے تم لوگوں کو مجھے مہران خان کی موت کا غم ہے"......وہ روتے ہوئے استہزایہ ہنسی

"مشل زمل سامان لے کر آئیں ہم ابھی اسی وقت یہاں سے جارہے ہیں"......زہران کے کہنے پر وہ دونوں سر ہلاتے اوپر جانے کیلئے مڑی

"مشل کہی نہیں جائے گی".....محتشم خان سخت لہجے میں بولے

"اسی بھی یہاں چھوڑ دوں تاکہ آپ میرہ گڑیا کو فہد جیسے شخص کے ساتھ بیاہ دے لیکن میں ایسا نہیں ہونے دونگا.....جلدی سے لے کر آئیں".......وہ پہلے باپ سے بولا پھر ان دونوں کو بولا جو رک گئی تھی

"اگر تم اسے لے کر گئے تو عاق کردونگا تمہیں"..... آج پھر وہ مہینوں پہلے والا جملہ دہرائے لیکن آج حالات مختلف تھے

"شوق سے کریں اور رہے اس بڑی حویلی میں جہاں کوئی اپنا نہ ہو"......اسکی بات پہ محتشم خان لب بھینچ گئے

"اب ذرا آخری کام بھی کرکے جاؤں".......وہ دونوں جیسے ہی سامان لے کر آئی زہران خان نے اپنے باپ کو دیکھتے بولا

"کیا"؟.....فضیلہ بیگم حیران ہوئی

"شہزاد خان نے سفیان کو ہی کیوں پھنسایا جبکہ وہاں اور بھی لوگ تھے"....... زہران سوالیہ نظروں سے مفسرہ کو دیکھا

"پھوپھو سائیں کی بیٹی ہے یہ جسکا بدلہ لینے کا خون تایا سائیں پہ سوار تھا اور اس سے ذیادہ مجھے کوئی اور آپشن بہتر نہیں لگا،،ایک دن میں تایا سائیں کی بات سن کی تھی جب وہ احمد البراہین کا ذکر کررہے تھے"......وہ خاموش کھڑی رہی لیکن زہران کی گھوری پہ جلدی سے بولی

"کیا بکواس کررہی ہو لڑکی اب تک میں ضبط سے برداشت کررہا تھا کہ میرے پاس میرے مرحوم بھائی کی امانت ہو لیکن اب تم حد سے بڑھ رہی ہو"......

"بابا سائیں اب یہ حد سے نہیں بڑھ رہی بلکہ یہی وجہ ہے اس سب کے پیچھے آپ کو کار ایکسیڈنٹ میں پھوپھو سائیں کو قتل کروانے کے بعد بھی سکون نہیں ملا اور پھر اپنی اس بےعزتی کو نہیں بھولے جب پھوپھو بنا بتائے اس حویلی سے اپنی ماں کے ساتھ جاکر احمد ابراہیم سے نکاح کرلیا تھا اور جہاں وہ منسوخ تھی ان سے آپکو باتیں سننی پڑی اور اسی کا بدلہ آپ انکے خاندان کو برباد کرکے لینا چاہتے تھے پھوپھو تو چلی گئی لیکن میں زمل زہران خان پہ ایک آنچ نہیں آنے دونگا"........

زمل ان حقیقتوں کو سن کر بہتی آنسو کے ساتھ نیچے بیٹھتے چلی گئی مشل بھی اسکے ساتھ بیٹھ کر اسے چپ کروانے لگی

"بابا سائیں یہ جو بچپن میں ہی منسوخ کرنے کی روایت آپ لوگوں نے قائم کرلی ہے نہ اس سے اس حویلی کی دو بیٹی کی زندگی برباد ہوئی ہے ایک ماضی جس میں وہ کامیاب تو ہوگئی لیکن آپ نے انھیں یہ خوشیاں ذیادہ محسوس نہیں کرنے دی اور دوسری یہ،،،یہ تو شروع میں ہی برباد ہوگئی اور پولیس آرہی ہے اسے اریسٹ کرنے اس حوالے سے میں کچھ نہیں کرسکتا،،،،،مشل زمل کو لے کر آئیں".......وہ کہتا ہوا باہر چلے گیا

وہ تین تو اس حویلی سے چلے گئے اور پیچھے یہ حویلی تاریک ہوئی تھی دکھوں،،غموں اور ظلم سے۔۔۔

فہد خان کو جیسے خبر ہوئی وہ ڈیرے سے آیا

"مفسرہ کیا سن رہا ہوں میں".......وہ جو کونے پہ کھڑی رورہی تھی فہد اسکے پاس آکے ڈھارا

ایک کونے پہ مہرماہ بیگم رورہی تھی اور دوسرے پہ فضیلہ بیگم اور محتشم خان صدمے اور پریشانی سے کھڑے تھے اس کم وقت میں کیا سے کیا ہوگیا تھا

"صحیح سن رہے ہو"......وہ آنسو صاف کرتے ایک زخمی نظر اپنے بھائی پہ ڈالی

"تمہیں ذرا شرم آئی ہماری عزت کی دھجیہ اڑاتے ہوئے"......اسکے اقرار پہ وہ سیخ پا ہوا

"پھر تو مجھ سے ذیادہ شرم تمہیں آنی چاہیے کیونکہ مجھے سے ذیادہ گناہ تم کرتے ہو اچھے سے جانتی ہوں کن کاموں میں ملوث ہو،،،اور ہاں مجھے یہ قدم کبھی نہ اٹھانا پڑتا اگر تم بھی میرے لیے ویسے ہی بھائی بنتے جیسے زہران خان مشل کا ہے ہر موقع پہ اسکے ساتھ کھڑے ہونے والا اسے سپورٹ کرنے والا،،تم لوگوں نے تو مجھے پرائیوٹ پڑھایا لیکن دیکھو زہران خان کو وہ ڈٹ کے کھڑا ہوگیا اور اپنی بہن کو شہر کے یونیورسٹی میں پڑھا رہا ہے....میں چاہوں نہ تو تمہارے کرتوت پولیس کو بتادوں لیکن مورے کی ایک اولاد تو جیل جا ہی رہی ہے دوسری کو بھیج کر میں انہیں اور غم نہیں دینا چاہتی"........وہ دکھ درد تکلیف سے کہتے وہی بیٹھ گئی۔۔۔

فہد خان خاموش ہوگیا اسلئیے نہیں کہ وہ اچھا بھائی نہ بن سکا بلکہ اسلئیے کہی اسکے اور ڈانٹنے پر وہ اسکے پول نہ کھول دے۔۔

"سردار وہ پولیس آئی ہے"......ابھی ملازم آکر بتارہا تھا کہ اسکے پیچھے ہی پولیس خود آگئی

"سردار محتشم مفسرہ خان کو اریسٹ کرنے آئے ہیں"....آفسیر آگے آتا ہوا بولا

"انسپکٹر صاحب میں اپنی حویلی کی لڑکی کو ایسے لیجانے نہیں دے سکتا،،،آپ آئیے اندر بیٹھ کر بات کرتے ہیں".....سردار محتشم نرم لہجے میں گویا ہوئے

"فضیلہ بیگم مفسرہ کو لے کر اندر جائیں".....انسکپٹر سے کہنے کے بعد وہ انھیں بولے،،انکے بولتے ہی وہ تینوں جلدی سے اندر چلی گئی

"سردار محتشم انکے خلاف ثبوت ہے کال ریکارڈ جس میں انھوں نے مارنے کا حکم دیا تھا"......

"آپ اسکے بدلے ہرجانہ لے لیں اور پھر اپنی مدد کا بھی ہمیں موقع دیں،،اور میں حویلی کی لڑکی کو جیل نہیں لے جانے دونگا،،سمجھ رہے ہیں نہ"......وہ دبے دبے لہجے میں کہتے سب باور کروارہے تھے

"چلیں پھر ٹھیک ہے لیکن آپ نے کل اسٹیشن آنا ہوگا".....تھوڑی دیر اور بات چیت کے بعد انسکپٹر راضی ہوگیا

سردار محتشم کو نہ اپنے بیٹے سے محبت تھی اور نہ مفسرہ سے بلکہ انھیں اپنی انا،،عزت سے محبت تھی،،حویلی کی لڑکی کا یوں جیل جانا انکی عزت خراب کرسکتا تھا اس لئیے وہ اسے جیل جانے سے بچا لئیے۔۔

مفسرہ ایک ایسے راستے پہ نکل چکی تھی جسکی کوئی منزل ہی نہ تھی،،اور ایسے رستے پہ چلنے والے ہمیشہ تکلیف اٹھاتے ہیں

جس راستے کی کوئی منزل نہ ہو اس پہ چلنے والے ہمیشہ تکلیف ہی اٹھاتے ہیں۔۔

محبت ہم کرتے نہیں بلکہ وہ خود ہی اپنی جگہ ہمارے دل میں بنالیتی ہے،،لیکن اب یہ ہم پر ہیں کہ ہم پاگل ہو جائے اور صحیح غلط کی پہچان بھول کر اسے پانے کے چکر میں کوئی گناہ کردے یا پھر سیدھے راہ میں چل کر اللّٰہ کے حضور دعائیں مانگے اور دعا بھی یہ کہ "یااللہ اگر وہ شخص میرے حق میں بہتر ہے تو مجھے اسکے ساتھ جائز رشتے میں باندھ دے اور اگر نہیں ہے تو اسکی محبت میرے دل سے نکال دے"کیونکہ اچھی لڑکیاں نامحرم کی محبت کو دل میں نہیں رکھتی اور جب یہ جائز رشتے میں بندھ نہ سکے تو اسکا دل سے نکل جانا ہی بہتر ہوتا ہے

مفسرہ بھی شاید اندھی ہوگئی تھی اور وہ غلط راستے پہ چل دی..

ہمیں بچوں کو انکی مرضی معلوم کرکے ہی کسی سے منسوب کرنا چاہیے ہاں لیکن اگر بچے غلط شخص کا انتخاب کرے تو انھیں سمجھانا چاہیے اور بچوں کو بھی چاہیے بڑوں کی بات مان لی جائے کیونکہ وہ ہمارے بھلے کیلئے کہتے ہیں وہ ہم سے ذیادہ تجربہ کار ہوتے ہیں اور انھیں زندگی کی اونچ نیچ کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے 

                              *********

زہران ان دونوں کو ساتھ لئیے گھر پہنچ گیا تھا۔۔وہ دونوں پچھلے سیٹ سے اتری اور بنا اس حسین گھر کا جائزہ لیے وہ زہران کے بتائے گئے کمرے میں چلی گئی۔۔کیونکہ اس وقت دونوں کا ذہن منتشر تھا ایک یہ جان کر کہ اسکا باپ قاتل ہے تو دوسرا یہ کہ اسکی ماں کا قتل ہوا اور کرنے والا بھی کوئی اور نہیں اسکا ماموں تھا...

زہران کمرے میں آیا تو وہ بیڈ پہ بیٹھی غیر معنی نقطے کو تکتی آنسو بہا رہی تھی

"زمل"......وہ اسکے پاس بیٹھتا دھیمے لہجے میں پکارا

"جی"...... وہ آنسو صاف کرنے لگی

"زمل میں بابا کو سزا دلوانے کا بولا تھا لیکن پھوپھا نے منع کردیا اور پتہ ہے زمل انھوں نے کیا کہا وہ اپنا معاملہ اللّٰہ پر چھوڑ دئیے ہیں اور دنیا کی سزا تو پھر بھی جھیل لی جاتی ہیں اور آخرت کی.......وہ ٹھر گیا اپنے باپ کے گناہوں کا سن کر اسے تکلیف ہورہی تھی لیکن وہ کیا کرسکتا تھا

"آپ کو شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے"......وہ نرمی سے بولی

"میں جانتا ہوں آپکے لئیے یہ دکھ بڑا ہے لیکن میں یقین دلاتا ہوں آنے والی زندگی میں جو ممکن ہوسکا میں آپ کو خوش رکھنے کیلے کروں گا وعدہ نہیں کرسکتا کیونکہ زندگی میں خوشی غمی ساتھ ساتھ ہوتے ہیں ہاں لیکن یہ وعدہ کرسکتا ہوں چاہے غم ہو خوشی ہو ہر لمحہ مجھے اپنے ساتھ پائیں گی".......وہ آہستگی سے اسے اپنے ساتھ لگالیا

"آپ ایک بہت اچھی شخصیت کے مالک ہیں"......وہ نم آنکھوں سے بولی

                                **********

مفسرہ جیل تو نہ جاسکی لیکن مورے اور تائی سے بہت مار کھائی۔۔لیکن اسے اس سب کی کوئی پرواہ نہیں تھی اب تو صرف ایک جنون سوار تھا شہزاد چوہدری سے ملنے کا۔۔۔

رات کا پہر تھا،،اپنے وجود کو چادر سے چھپائے وہ چھوٹے چھوٹے قدم لیتی آگے پیچھے دیکھتے حویلی سے نکل گئی اور اس کا رخ چوہدری ولا کی طرف تھا۔۔

"مجھے اندر جانے دیں مجھے شہزاد سے ملنا ہے".....وہ حویلی میں کھڑے گارڈز سے کہ رہی تھی

"ارے بی بی جاؤ ادھر سے"......گارڈز کب سے اسکو بھیج رہے تھے لیکن وہ ایک ہی رٹ لگائی ہوئی تھی

"کون ہے"؟......عالمگیر چوہدری جو ویسے ہی بیٹے کی وجہ سے جاگ رہے تھے اس طرف آتے ہوئے پوچھے

"سردار یہ لڑکی ہے کب سے اندر آنے کی ضد لگائی ہوئی ہے".....وہ ادب سے بولا

"آنے دو".....وہ سگریٹ سلگائے

"کون ہو لڑکی تم اور اس وقت کیا کررہی ہو"؟...وہ سخت لہجے میں استفار کیے

"شہزاد کو بلادے مجھے ملنا ہے اس سے".....وہ روتے ہوئے بولی

عالمگیر چوہدری کو سمجھنے میں لمحہ نہیں لگا کہ یہی لڑکی انکی بربادی کی ذمہ دار ہے

انکی عزت کو پورے گاؤں میں خراب کرنے اور بیٹے کو جیل پہنچانے کی ذمہ دار۔۔

"اچھا تو ہے وہ لڑکی ہاں،،میرے بیٹے کو ورغلا کر اسے جیل پہنچایا"......وہ اسکو گھسیٹتے ہوئے اندر لیکر جانے لگے

"چھوڑے مجھے وہ مجھ سے محبت کرتا ہے شادی کرنا چاہتے ہیں ہم دونوں".....وہ چلائی

"خاموش...کوئی محبت نہیں کرتا وہ تجھ سے،،اب دیکھ تیرے ساتھ کیا کرتا ہوں پورے گاؤں میں ہماری عزت کو دو کوڑی کرکے رکھ دیا،،اپنے بیٹے کو تو چھڑوالوں گا لیکن تجھے نہیں چھوڑوں گا"......وہ کہتے ہی اس پر ہاتھ اٹھا دیے

"آہ".....مفسرہ چیختے ہوئے پیچھے ہوئی

اب اسے یہاں آنا سراسر بیوقوفی لگ رہی تھی،،،وہ محبت میں دیوانی ہوتی یہاں آ تو گئی تھی یہ جانے بغیر ہمیشہ کیلئے قید ہوجائے گی۔۔

"اس کو تہ خانے میں ڈال دو بھوکا رکھنا دو دن تک اسکو،،ایسی حالت کردو اسکی باہر کی دنیا کو بھول جائے اور اگر یہ اس حویلی سے نکلی یا پھر کسی کو پتہ چلا یہ یہاں ہے تو تم لوگوں کو کتے کے آگے ڈال دونگا"....وہ سفاکی کی انتہا سے ملازمہ کو کہتے وہاں سے چلے گئے

"نہیں....نہیں....چھوڑ دو مجھے.... شہزاد چھوڑے گا نہیں تم لوگوں کو....اسکی محبت ہوں میں...چھوڑو مجھے".......اسکی دلدوز چیخیں گونج رہی تھی

                              **********

دن گزر رہے تھے اور گزرتے چلے جارہے تھے۔۔

شہزاد چوہدری کو تو عمر قید کی سزا ہوئی تھی لیکن عالمگیر چوہدری اپنے اکلوتے بیٹے کو جلد چھڑوانے کے چکر میں تگ و دود میں لگے تھے اور یقیناً اس نے چھوٹ بھی جانا تھا کیونکہ اگر مجرم کسی بڑے شخصیت کا رشتدار ہو تو وہ جیل میں ذیادہ رہتا کہاں ہے چند سالوں بعد وہ چھوٹ جاتا ہے اور وجہ صرف پیسہ ہوتا ہے۔۔

محتشم خان تو لوگوں سے یہی سن رہے تھے خان حویلی کی لڑکی نے اپنے ہی منگ کو ماردیا...وہ تو حویلی کے ہوکر رہ گئے تھے اور دوسرا مفسرہ کی گمشدگی نے اور انھیں مشکل میں ڈال دیا تھا اپنے بندوں سے تلاش بھی کروایا لیکن کہی نہیں ملی،،،فہد کو بھی اپنا اپ خطرے میں لگ رہا تھا اگر کہیں زہران اسکے بارے میں کچھ بول دے تو وہ بھی پھنس جائیگا اسی لئیے وہ ماں کو لے کر بیرون ملک چلا گیا وجہ تایا سائیں کو بتایا مورے بہت بیمار رہنے لگی ہیں میں انھیں اس ماحول سے دور لے جانا چاہتا ہوں....

فضیلہ بیگم ایک بیٹے کی یاد میں تو گھل رہی تھی اب دوسرا بھی انھیں چھوڑ کر چلا گیا،،مہران میں تو پھر بھی یہ سوچ کر صبر آگیا تھا کہ اللّٰہ کی چیز تھی اس نے لے لی لیکن زہران وہ تو زندہ تھا لیکن انھیں چھوڑ کر اپنے نئے گھر میں چلا گیا تھا

بی بی خان وہی اپنے کمرے میں رہتی تھی ملازمہ انکی خدمت کرتی اور روز بی بی خان کی زمل مشل زہران سے کال میں بات ہوجاتی انھوں نے بی بی خان کو بھی ساتھ چلنے کو کہا تھا لیکن انھوں نے انکار کردیا۔۔

احمد ابراہیم اور سفیان بھی شہر آگئے تھے زہران نے انھیں بھی اپنے ساتھ رہنے کا کہا تھا لیکن وہ بڑی سبھاؤ سے انکار کرگئے

                              ***********

مشل گڑیا مال جاؤگی میں اور زمل جارہے ہیں،،،زہران نک سک سا تیار اسکے کمرے میں آکر پوچھا

"نہیں بھائی آپ اپنی مرضی سے کچھ لے آنا مجھے اسائمنٹ اور پریزنٹیشن بنانی ہے".......وہ اپنے ارد گرد پھیلے کتابوں اور سامنے رکھے لیپ ٹاپ کو دیکھتے بولی

"اکیلے رہ لو گی؟"......زہران فکرمندی سے پوچھا اسکی فکر پہ وہ مسکرائی

"اکیلے کہاں بھائی کچن میں ہی تو فہمیدہ آپا ہیں"......وہ ملازمہ کا نام لی

"چلو ٹھیک خیال رکھنا اپنا"......وہ محبت سے اسکے سر کو چومتا نکل آیا

زمل تو آج پھر مال کا نام سن کر منع کررہی تھی میں نہیں جاؤنگی لیکن وہ اسے زبردستی لے آیا۔۔۔نیچے سے سامان لینے کے بعد اب اوپر فلور جانا تھا جسکے لئیے ایسکلیٹر پہ چڑھنا تھا

وہ اپنی زندگی میں صرف ایک بار اس پہ چڑھی تھی جب اسکی یونی فرینڈ اسے زبردستی مال لے آئی تھی اور اوپر والی فلور پہ بھی لے گئی..وہ خوف سے منع کرتی رہی"میں نہیں چڑھونگی اس پہ" لیکن وہ اسکی ایک نہ سنی...نتیجہ زمل سلیپ کی تھی،،اسکی فرینڈ کا مضبوطی سے ہاتھ تھامنا اسے گرنے سے بچا گیا..اسکے بعد زمل توبہ کرلی تھی اب وہ اس پہ نہیں چڑھی گی...لیکن آج پھر سے وہ وہی کھڑی تھی وہ بھی ایک الگ شخص کے ساتھ..

"چلو"...وہ اسے ایک ہی جگہ منجمد دیکھ کر بولا 

"و..وہ..میں"،،،وہ تذبذب کا شکار تھی،،چہرے سے پریشانی جھلک رہی تھی

اسکی نظروں کا زاویہ اور پریشان شکل دیکھ کر وہ فوراً معاملہ سمجھ گیا

یار...آپ ایسکلیٹر پہ چڑھنے سے ڈر رہی ہیں؟....وہ قہقہ لگاگیا

آپ مذاق بنا رہے ہیں؟....وہ روہانسی شکل بناتے بولی

میں اپنی بیوی کا مذاق بنا سکتا ہوں.... فوراً سے پینترا بدلہ،،

وہ ویسا ہی سنجیدہ طبعیت تھا اب بھی لیکن زمل کے لئیے وہ بلکل بدل گیا تھا،،زمل کے سامنے وہ ایک لگ زہران خان کے روپ میں ہوتا تھا

"اتنی بٹر لاتے کہاں سے ہیں آپ"...وہ ناک چڑھائے بولی

"گھر جاکر بتاؤنگا"....وہ اسکے پاس جھکتا اسکے کان میں میں زومعنی سی سرگوشی کیا....زمل کے رخسار سرخ ہوئے

"ہٹیں پیچھے".... اسے دھکا دیتے وہ ادھر اُدھر دیکھنے لگی،،اسکی حالت پہ وہ محفوظ ہوا

"میرے ساتھ چلیں کچھ نہیں ہوگا"...اسکے ہاتھ تھامتے وہ محبت سے بولا

"لیکن"....وہ ہچکچائی

"آپ کو لگتا ہے اپنے ہوتے ہوئے آپ کو کچھ ہونے دے سکتا ہوں"؟....اسکی آنکھوں میں دیکھتا مان سے پوچھا.....وہ نفی میں سر ہلائی

"بھروسہ ہے نہ مجھ پہ تو پھر چلیں".....وہ اثبات میں سر ہلاتے اسکے ساتھ آگے بڑھی

"یہ والی جو اسٹیپ آئے گی ہم دونوں ایک ساتھ اس پہ چڑھے گے".....وہ نرم لہجے میں اسے سمجھایا،،،،جیسے ہی اسٹیپ آئی وہ تیز ہوتی سانسوں کے ساتھ اسکے ساتھ قدم رکھی

وہ اسکی تیز ہوتی سانسوں اور پریشان چہرے کو دیکھتے نفی میں سر ہلایا

"اب فلور میں پاؤں رکھنا ہے.........کچھ ہوا"،،،،وہ دونوں اب فلور میں آچکے تھے۔۔۔۔۔۔سانسوں کو معمول میں لاتے وہ نفی میں سر ہلائی

شاپنگ کرنے کے بعد دونوں پارکنگ ایریا میں پہنچے،،،پیچھے سیٹ میں سامان رکھتے سامنے والی سیٹ زمل کیلے کھولا پھر دوسری طرف سے آکر ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی

"مجھے لگتا ہے آپ کو یہاں روز اپنے ساتھ لاکر ایسکلیٹر پہ چڑھانا ہوگا تاکہ آپکا ڈر ختم ہو".....وہ مسکراہٹ دباتا بولا

"آپ میرا مذاق بنارہے پھر سے"......وہ خفگی سے گھوری

"میری اتنی مجال".....اسکے ہاتھ کو تھامتے اسکے پشت کو اپنی خوشبو سے مہکایا 

"کیا...کررہے ہیں جگہ تو دیکھ لے".......وہ پزل سی ہوئی

"میں نے تو کچھ نہیں کیا"..... معصومیت کے سارے ریکارڈ توڑتے بولا،،،،،زمل اپنا ہاتھ چھڑانے کی تگ و دود میں لگی تھی لیکن مقابل کی گرفت مضبوط تھی

"میری جان بلاوجہ خود کو ہلکان کررہی ہیں"،،،،،مسکراہٹ لیے شرارت سے بولا

"آپ ایک ہاتھ سے ڈرائیونگ کیسے کر رہے ہیں دونوں سے کریں نہ".....زمل نے آخری کوشش کی

"میں ایزلی کرسکتا ہوں نو پرابلم"......شرارتی سی مسکراہٹ غائب ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی،،،،،وہ ایک خفگی بھری نگاہ اس پہ ڈالتے رخ موڑے باہر کی جانب دیکھنے لگی

"خود ہی ناراض ہورہی ہیں جب مناؤنگا تو آپ کو پسند نہیں آئے گا".........وہ مسلسل اسے زچ کررہا تھا

"نہیں ہوں ناراض اب کیا باہر بھی نہیں دیکھ سکتی،،،،وہ چبا چبا کے بولی"....اب وہ اسکا ہاتھ چھوڑ چکا تھا

"بلکل نہیں صرف میری طرف دیکھیں".....

"میں مار دونگی".....وہ بری طرح جھنجھلائی...اسکی بات پہ زہران حیرت سے اسے دیکھنے لگا

"آپ کو نہیں خود کو".....اسکے دیکھنے پہ وہ جلدی سے دھیرے سے بولی.....اور زہران کا قہقہ گاڑی میں گونجا

وہ پوری طرح زچ ہوتے دونوں ہاتھوں کو بالوں میں پھنسائے سر جھکا گئی،،،زہران اسے مزید تنگ کرنے کا ارداہ ترک کرتے ایک ہاتھ اسکے کندھے پہ رکھتے اسکا سر اپنے کندھے پہ رکھا اور ساتھ ہی اسکے بالوں پہ لب رکھا

"پھر"؟.......وہ سر اٹھاتے آنکھیں دکھائی

"اوکے اب کچھ نہیں کرتا" وہ دوبارہ سے اسکا سر اپنے کندھے پہ رکھتا سلو والیوم میں گانا لگاتے ڈرائیو کرنے لگا۔۔

دہلیز پہ میرے دل کی 

جو رکھے ہے تو نے قدم 

تیرے نام پہ میری زندگی

لکھ دی میرے ہمدم

ہاں سکھا میں نے جینا جینا کیسا جینا

ہاں سکھا میں نے جینا میرے ہمدم

رات کو معمول کے مطابق وہ ایک کافی کپ لئیے زہران کے پاس آئی اور اسے پکڑایا...

"زہران"......وہ اسکے پاس بیٹھتے ہی پکاری

"ہوں"......وہ روز رات کی طرح لیپ ٹاپ میں مصروف تھا

"آپ نے اس دن کیوں کہاں تھا مجھے میٹرک پاس".......اسکے پوچھنے پر زہران خان شرمندہ ہوا

"زمل میں نے پہلے بھی معافی مانگی تھی اور آج بھی مانگتا ہوں آئی ایم رئیلی سوری"......وہ شرمندہ سا اسکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیا

"اوں ہوں میں شرمندہ نہیں کرنا چاہتی بس وجہ جاننا چاہتی ہوں"......

"میں اسوقت بہت پریشان تھا اور پھر مجھے غصہ آگیا،،غصے کو اسی لئیے حرام قرار دیا ہے کہ انسان اس میں آپے سے باہر ہوجاتا ہے اور وہ بنا سوچے سمجھے کچھ بھی کہ دیتا ہے مجھے خود بھی کوئی اندازہ نہیں تھا کہ میں کیا کہ رہا ہوں".......

"آپکو پتہ ہے میں ونی ہونے سے پہلے بی بی اے کے تھڑد ائیر کے ایگزام دی تھی اسکے بعد چھٹیاں تھی اور پھر دوبارہ یونی جانے کا موقع نہیں ملا".....وہ مسکراتے ہوئے بتاتے آخر میں اداس ہوئی

"رئیلی آپ بی بی اے کی اسٹوڈنٹ ہیں"؟......

"بلکل"......وہ کھل کے مسکرائی

"مسقبل میں آپ میرے لئیے کار آمد ثابت ہونے والی ہیں،،میں آپکا ابھی یونی کنٹنیو کرواتا ہوں".....وہ محبت بھری نظروں سے اسے دیکھتا بولا

"اچھا ویسے آپ کہ رہی تھی اس دن آپکو کھانا بنانا نہیں آتا"......وہ اس دن کی بات یاد کرتا پوچھا اور ساتھ لیپ ٹاپ بند کرکے سائیڈ ٹیبل پہ رکھا ارادہ سکون سے اس سے بات کرنے کا تھا

"یہ تو ہے اور سب سے حیران کن بات یہ جب گھر میں میرے علاوہ کوئی اور عورت نہیں تھی پھر بھی پڑاٹھا انڈہ چائے کے علاؤہ کچھ بنانا نہیں آتا اور وجہ پتہ ہے کیا؟.....بابا....وہ چاہتے تھے میں پڑھوں لکھوں اپنا مستقبل سنواروں اور اپنے بھائی کا،،،میں کہتی تھی آپ نہ کیا کریں تو کہتے تم پڑھائی میں محنت کیا کرو کیا باپ کا بازو نہیں بنو گی اور جب میں کہتی دونوں کرلیا کرونگی تو کہتے اپنے بابا کی خواہش پوری نہیں کروگی اور یہاں آکر میں بےبس ہوجاتی اور دل و جان سے پڑھتی بس بابا ہمارے لئیے ہماری ماں بھی بن گئے"......

"ہاں پھوپھا بہت اچھی شخصیت کے مالک ہیں".......وہ بھی اسکی بات کی تائید کیا

"آپ حویلی کے لوگوں سے اتنے مختلف کیسے ہیں،،اتنے نرم دل احساس کرنے والے"......

"بی بی جان کی وجہ سے انھوں نے مجھے ہمیشہ عورت کی عزت کرنا سکھایا ہے،،اب مجھے لگتا ہے وہ نہیں چاہتی ہونگی میں بھی بابا سائیں جیسا بنوں".......بی بی جان کیلئے اسکے لہجے میں محبت تھی

"یہ بات آپکو بھی معلوم ہے جس کے ونی میں دی جاتی ہے اس لڑکی کو وہ شخص اپنی ملکیت سمجھ کر اپنی درندگی کا نشانہ بناتا ہے مارتا پیٹتا ہے اس پہ زندگی کے گھیرے تنگ کردیتا ہے تو آپ نے ایسا کیوں نہیں کیا؟".....وہ سوالیہ نظروں سے دیکھی

"الحمدللہ میں قرآن پڑھا ہوا ہوں ترجمہ بھی پڑھتا ہوں،،اسکول سے لے کر آگے تعلیمی سلسلے میں اسلامیات کی کتاب پڑھی،،جہاں ان سب باتوں کی ممانعت کی گئی ہے،،عورت کی عزت کرنا سکھایا گیا ہے نہ کہ اسے پیر کی جوتی بنانا،،،تو میں یہ ساری باتیں جان لینے کے بعد آپ کے ساتھ غلط رویہ اختیار کرتا تو میرے تعلیم حاصل کرنے کا فائدہ پھر بات تو وہی ہوگئی ڈگری لینے اور جاب کرنے کے لئیے پڑھا لیکن سیکھا کچھ نہیں"....

"آپ کتنا اچھا سوچتے ہیں اور میں بہت خوش نصیب ہوں ورنہ تو پتہ نہیں کیا کیا ونی میں آئی ہوئی لڑکی کے ساتھ ہوتا ہے لیکن آپکی وجہ سے میرے ساتھ وہ سب نہیں ہوا میں ضرور اس رسم کے نام پہ دی گئی تھی لیکن اسکے ظلم کا شکار ہونے سے آپ نے بچالیا"......زمل کو اس شخص کی بیوی ہونے پہ فخر ہوا

"بلکل میں بہت اچھا سوچتا ہوں"........اس جملے کے پیچھے  چھپے مفہوم سمجھ کر وہ جھینپ کر مسکرادی

"آپ نے بس اچھے شخص ہونے کے ناطے اس رشتے کو نبھا رہے ہے یا پھر"؟.......وہ بات ادھوری چھوڑ دی

"بلکل بھی نہیں یہاں کے حالات ہی بدل گئے ہیں"......وہ اپنے دل میں ہاتھ رکھا

اسکے انداز پہ زمل کھلکھلادی

"زمل میں روز یہ نہیں کہونگا میں آپ سے محبت کرتا ہوں یا اظہار کرونگا بلکے آپ میری باتوں میری عادتوں سے ہی سمجھ لئیجیے گا آپ میری زندگی کا اہم حصہ ہیں،،میں یہ نہیں کہونگا زمل آئی لو یو بلکہ آپ میرے خیال رکھنے کے انداز سے ہی یہ سمجھ لئیجیے گا،،،آپ کے پاس میرا یہ مسیج کبھی نہیں آئے گا کہ آئی مس یو وہ جو آفس میں بیٹھے منٹوں منٹوں میں یہ مسیجز کررہے ہوتے ہیں یہ صرف ڈرامہ اور ناول تک ہی ہوتا ہے حقیقت میں اس کا کوئی لینا دینا نہیں بلکہ اسکے جگہ میں آفس سے آیا کرونگا تو ذیادہ وقت آپ کو دونگا،،میرے ہر عمل سے ہی آپ جان جائینگی کہ یہ بندہ آپ سے کتنی محبت کرتا ہے مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہوگی،،آپ کے اس بندے کی زندگی صرف تین عورتوں کے گرد گھومتی ہے ایک اس شخص کی ماں بہن اور بیوی اسکے علاوہ مجھے کسی سے سروکار نہیں بدگمانی کو کبھی جگہ نہیں دئیجیے گا یہ شخص آپ کا ہے اور رہے گا".........وہ محبت سے اسے ساتھ لگایا

 "میرے پاس تو الفاظ نہیں بس یہی کہونگی ساری زندگی آپکی یہی محبت چاہیے"......وہ اپنی شہد رنگ آنکھیں اٹھا کر دیکھی

وہ جھک کر اسکی پیشانی کو چوما

"آپ کو پتہ ہے پیشانی پہ پیار کرنے کا مطلب کیا ہوتا "؟......وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے پوچھا

"اسکا مطلب آپ کو محبت سے پہلے وہ شخص عزت دینا چاہتا ہے"......اسکے نفی پہ سر ہلانے پہ وہ مسکراتے ہوئے اسے بتایا

"تو یونہی رہنا میرے سنگ

تو یونہی دینا محبت مجھے

میرے دل کو کچھ اور نہ چاہیے

بس تیری یہی محبت چاہیے"

(ازخود)

زمل شرمیلی سی مسکان سجائے اسکی آنکھوں میں دیکھتے  شعر پڑھی

"مجھے تو کسی نے کہا تھا اسے شعر وعر نہیں آتا".....وہ شرارت سے بولا

"بس اس دن کے بعد سے اپنے شوہر کی محبت میں آگیا ہے"....وہ ہنستے ہوئے اسکے کندھے پہ سر ٹکا گئی

                              *******

"صاحب جی برابر والے گھر سے کوئی عورت آئی ہیں آپ سے ملنا چاہتی ہیں".......وہ تینوں کچن میں موجود تھے،،تبھی ملازمہ آکر زہران خان کو بولی..

زمل اور مشل مل کر میکرونی اور سینڈ وچ تیار کررہے تھے اور زہران ان دونوں کو کمپنی دے رہا تھا

"ڈرائینگ روم میں بیٹھائے آتا ہوں میں"......ملازمہ سر ہلاتے وہاں سے چلی گئی

"آپ دونوں چائے کے ساتھ کچھ لے کر آجائیں".......ان دونوں سے کہتا وہ ڈرائینگ روم کی جانب بڑھا

"اسلام و علیکم"......وہ صوفے پہ بیٹھتا ہوا بولا

"وعلیکم السلام...میں یہی برابر والے گھر میں رہتی ہوں دونوں بچیاں بھی پچھلے ہفتے میلاد میں آئی تھی"......وہ اپنا تعارف کرانے لگی

تبھی مشل اور زمل بھی آگئی اور تھڑی سیٹر صوفے میں بیٹھ گئی

"بھابھی یہ تو وہی ہے میلاد میں گئے تھے نہ"......مشل زمل کے کان میں سرگوشی کرنے لگی

"ہے تو وہی دیکھتے ہیں کس لئیے آئی ہیں".......

"بیٹا ماشاء اللّٰہ سے دونوں بچیاں ہی بڑی پیاری ہیں...میں اسی سلسلے میں میں آئی ہوں".......وہ ڈھکے چھپے لفظوں میں کہنے لگی

زہران انکی باتوں کو اچھے سے سمجھ گیا لیکن یہ دونوں کیوں کہ رہی ہیں۔۔

"مشی یہ آنٹی نہ رشتہ لے کے آئی ہیں"......زمل مسکراہٹ دباتے بولی

"ہیں؟؟آپ کا لے کر آئی ہیں"؟.....وہ حیران ہوئی

"رکو دیکھتے ہیں"......

"کس کے لئیے آئی ہیں"؟..... زہران سنجیدگی سے پوچھا

"یہ جو تمہاری بہن مشل ہے میں اسکے لئیے اپنے بیٹے کا رشتہ لائی ہوں اور یہ تمہاری دوسری بہن زمل یہ میری بہن کو میرے بھانجے کیلئے پسند آئی ہے"......وہ اب کھل کر آنے کا مقصد بتائی

زہران جہاں انکی پہلی بات پہ پرسکون ہوا وہی دوسری بات پہ کھانسنے لگا(زمل اور میری بہن اور رشتہ) مر کے بھی نہیں.....

"یہ لیں"......زمل مسکراتے ہوئے پانی کا گلاس پکڑائی

اسکو مسکراتا دیکھ کر زہران گھورا

"بھابھی یہ کیا کہ رہی ہیں آنٹی"؟.....مشل پریشان سی سرگوشی کی

"ہی ہی ہی رشتہ لائی ہیں".....زمل کو تو بڑا مزہ آرہا تھا،،اور مشل بیچاری پریشان تھی اگر زہران کو لڑکا سمجھ آجانا تھا اس نے اسکی شادی کردینی تھی

"آنٹی مشل کے لئیے تو میں آپ کو سوچ کر جواب دونگا اور زمل کیلئے انکار ہے"......وہ سنبھلتا ہوا بولا

"لیکن کیوں میری بہن کو تو یہ بہت اچھی لگی ہے".......وہ تو ویسے ہی اسکے اچانک کھانسنے پر پریشان ہوگئی تھی

"کیونکہ یہ میری بہن نہیں بیوی ہے".....وہ انکو جواب دیتا زمل کو آنکھ دکھایا جسکی مسکراہٹ نہیں سمٹ رہی تھی

"اوہ بیٹا بہت معذرت یہ لگ ہی نہیں رہی کہی سے میڑیڈ"......وہ شرمندہ سی بولی

"کوئی بات نہیں"..... وہ انکی شرمندگی کو زائل کرنے بولا

"اچھا اور مشل"؟......اب انکا انداز ہچکچاتا ہوا تھا

"اسکے لئیے میں آپکو سوچ کر جواب دونگا"......

"اچھا اب مجھے اجازت دو"....وہ اٹھ کر ان دونوں سے ملی اور باہر کی طرف گئی زہران بھی انکے پیچھے گیا۔۔جبکہ وہ دونوں جلدی سے اپنے کمرے میں گئی

زہران واپس آیا تو دونوں کو نہ پاکر اپنے کمرے میں آیا جہاں زمل موبائل لیے ںیڈ میں بیٹھی تھی

"تمہیں بہت ہنسی آرہی تھی"؟......وہ اسکے ہاتھ سے موبائل لیتا آنکھیں دکھایا

"ہاں تو آرہی تھی اب ایک آنٹی میری ہی شوہر سے میرا رشتہ مانگے اور ہنسی نہ آئے ایسا تو ہو نہیں سکتا نہ"......وہ دوبارہ سے ہنسنے لگی،،،جبکہ اسے ہنسی سے بحال ہوتے دیکھ کر زہران خان کے لبوں پر بھی مسکراہٹ آگئی۔۔

"اب تم کہی بھی میرے بغیر نہیں جاؤگی"......

"کیوں؟اب اگر کہی دوپہر میں جانا ہو تو آپ اپنا آفس چھوڑ کر آنے سے رہے"........

"ہاں تو جہاں بھی جاؤ میڑیڈ کا ٹیگ لگا کر جانا".......

"ہاہاہاہا آپ جیلس ہورہے ہیں".......اسکو زہران خان کے تاثرات دیکھ کر مزا آرہا تھا

"اب کوئی میری ہی بیوی کا مجھ سے رشتہ مانگے تو یہاں پوسیسو ہونا بنتا ہے".....وہ اب مسکراتا ہوا بولا

"اچھا میرا پلین سنیں"......اسکی آنکھیں چمکی

"کیا"؟......اسے معلوم تھا جب اسکی آنکھیں ایسے چمکتی تھی تو یقیناً کوئی اوٹ پٹانگ بات ہی کرنی تھی،،وہ حویلی سے نکلنے کے بعد پہلی والی زمل بن رہی تھی

"میں نہ دونوں کلائیوں میں بھر بھر کے چوری،،ہیوی میک اپ،،نوز پن،،اور ائیرنگ پہن کر جاؤنگی تاکہ شادی شدہ لگوں".......وہ ہنستے ہوئے بولی

"اففف زمل حد کرتی ہیں آپ،،ویسے آپ نوز پن کیوں نہیں پہنتی"....... زہران اسکے بالوں کو کبھی چٹیا کرتا کبھی کھول دیتا اور ابھی بھی وہ اسکے بالوں پہ ہی لگا تھا

"وہ جو میرے ایک عدد شوہر ہے وہ کبھی لاکر ہی نہیں دئیے"....وہ آنکھیں پٹپٹائی

"اور وہ جو ایک عدد شوہر ہیں وہ اپنی ایک عدد بیوی کو کئی بار شاپنگ پہ لے کے گئے ہیں لیکن کبھی انھوں نے لیا ہی نہیں".......وہ بھی اسی کے انداز میں بولا

"آپ مجھے کاپی کرنے لگے ہیں".....

"آپکی ہی صحبت کا اثر ہے جناب"......وہ مسکراتا ہوا اسکی پیشانی کو چوما

                         ********

"مشل بچے میں نے اچھی طرح ازلان کے بارے میں معلومات کروایا ہے اچھا شخص ہے وہ اور مجھے آپکے لئیے مناسب لگا،،میڈیکل کے آخری سال میں ہے"......وہ تین دن بعد مشل کے پاس بات کرنے آیا تھا،،،،ان تین دنوں میں وہ اچھی طرح سے ازلان کے بارے میں معلومات کروایا آخر کو اسکی گڑیا کا سوال تھا

"بھائی جیسا آپکو بہتر لگے"......وہ اپنے اتنے اچھے بھائی کو کیسے انکار کرسکتی تھی،،اسکے  یونیورسٹی میں داخلے کیلئے بابا کے سامنے ڈٹ گیا،،اسے ہر موقعے پہ سپورٹ کیا

"میری گڑیا یہی امید تھی مجھے".....وہ محبت سے بولا

"بھائی لیکن میری پڑھائی".......

"گڑیا پریشان نہ ہو تمہارے بھائی نے اپنی گڑیا کو ڈاکٹر بنانا ہے اور جب آپکی اسٹڈی کمپلیٹ ہوگی تب رخصتی کرواؤنگا اور ابھی اینگجمنٹ کردینگے"......وہ اسکی ساری پریشانی اپنی باتوں سے ختم کرگیا

"تھینکیو بھائی اینڈ لو یو سو مچ"......وہ بھیگی آنکھوں سے اسکے ساتھ لگی

"لو یو ٹو بھائی کی جان".......

اب ازلان کے گھر والوں سے کافی بےتکلفی ہوگئی تھی،،لیکن مشل ازلان کیلئے نو لفٹ کا بورڈ لگائی ہوئی تھی،،،سب نے یہی سمجھا حویلی کی لڑکی ہے شرمیلی ہے اسلئیے،،لیکن ازلان کو پتہ تھا وہ جب اس بات کرتا وہ ٹیرھے جواب دیتی،،اور ازلان مسکرادیتا..

                                      ********

دو سال بعد۔۔۔

 مشل کا ایم بی بی ایس مکمل ہوگیا تھا اور آج کنوکیشن تھا جس میں اسکے ساتھ زہران خان گیا تھا۔۔۔وہ انتہا  درجہ کا خوش تھا،،،اسکے ہر انداز سے خوشی جھلک رہی تھی آج اسنے اپنی بہن کو ایک مقام پہ پہنچا دیا تھا،،بہت سے اختلاف کے باوجود وہ اپنی بہن کا داخلہ کروایا تھا اور آج وہ کامیاب ٹھرا،،اب اسکی بہن مشل خان سے ڈاکٹر مشل خان بن گئی تھی،،،اپنے بھائی کا فخر۔۔

مشل گریجویشن گاؤن اور کیپ پہنے ہوئی تھی۔۔سامنے اسٹیج میں یونیورسٹی کے اونر ڈین وغیرہ کھڑے تھے۔۔اور اسٹوڈنٹس کیلئے سامنے چئیر لگائے گئے تھے۔۔مشل بھی زہران کے ساتھ بیٹھی تھی

وہاں پہ ایک لیڈی اسٹوڈنٹس نیم اناؤس کررہی تھی اور اسٹوڈنٹس اپنے نام آنے پر اسٹیج پہ جاتے اور میڈل پہن کر تصویر لیتے دوسری طرف سے نیچے اتر جارہے تھے۔۔اور یہ سارے گولڈ میڈلسٹ تھے الگ الگ ائیر کے۔۔

"مشل خان گولڈ میڈلسٹ 2022 ایم بی بی ایس ڈیپارٹمنٹ"......اناؤسمنٹ سے پہلے ہی وہ اسٹیج کے پاس کھڑی جانے کیلئے تیار تھی جیسی ہی اناؤسمنٹ ہوئی وہ اسٹیج پہ گئی میڈل پہنتے وہ تصویر لینے لگی۔۔زہران نم آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہا تھا،،،آج وہ اپنی بہن کو ایک اعلیٰ مقام تک پہنچا دیا تھا

"بھائی تھینکیو سو مچ".....مشل وہاں سے سیدھا زہران کے پاس آکر گلے لگی تھی

"میرا بچہ بہت بہت مبارک ہو"......وہ محبت سے اسکی پیشانی چوما

زہران زمل کا بھی بی بی اے مکمل کروادیا تھا۔۔اب وہ گھر میں ہی رہ کر زہران کے آفس کے بہت سے فائل کمپلیٹ کردیا کرتی تھی

                                     ********

آج چوہدری ولا میں خوشیوں کا سماں تھا انکا اکلوتا وارث پورے دو سال بعد آخر کو عالمگیر چوہدری کی کوششوں کے ذریعے جیل سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔۔

شہزاد چوہدری کی ماں کئی قسم کے پکوان تیار کروا رہی تھی

"جلدی ہاتھ چلا،،ہر وقت رو دھو کے منحوثیت پھیلاتی ہے"......وہ جو کچن میں کھانے دیکھنے آئی تھی روتی ہوئی مفسرہ کو دیکھ کر سیخ پا ہوئی

"جج...جی".....وہ جلدی سے آنسو صاف کرنے لگی

وہ پچھلے دو سال والی مفسرہ نہیں تھی بلکہ ایک کمزور لاغر سی بن گئی تھی،،،اتنی تشدد اور ظلم کے بعد،،اسکی خوبصورتی مانند پڑ گئی تھی،،،سفید رنگت سے اسکا چہرہ زردی مائل ہوگیا تھا

عالمگیر چوہدری نے پورے ایک ہفتے اسے تہ خانے میں رکھا تھا،،اور اس پہ کافی تشدد بھی کروایا اور اسکے بعد حویلی کی ملازمہ بھی بنادیا جس میں ذیادہ تر کام اسے ہی کرنے پڑتے تھے

خان حویلی میں کیسی کو معلوم نہ ہوسکا کہ مفسرہ چوہدری ولا میں قید ہے۔۔

"اور سن میرے بیٹے کے پاس بھی مت آنا اب میں تیرا منحوث سایہ اس پر پڑنے نہیں دونگی"......وہ اسکے چہرے کو سختی سے پکڑی

"لیکن شہز...."،،،،،پورے دو سال بعد اسے امید کی کرن نظر آرہی تھی کہ شہزاد آئے گا اس سے شادی کرلے گا اور اپنے ماں باپ سے بھی بدلہ لے گا مفسرہ کے ساتھ ایسا سلوک اختیار کرنے پہ۔۔۔

"خبردار جو میرے بیٹے کا نام لیا"......وہ غصے میں ایک تھپڑ لگائی اور دھکا دیتی وہاں سے چلی گئی

"مورے"......وہ ہچکیوں سے رونے لگی،،،اور جب چوٹ لگتی تھی چاہے روح پہ یا جسم پہ لبوں پہ صرف ایک لفظ آتا تھا"مورے"....

ان دو سالوں میں اسے ایک بات کا احساس ہوا تھا اور وہ زمل کا تھا،،جو تھپڑ اسنے اسے مارے تھے آج وہ خود کھا رہی تھی،،جو کام حویلی میں اس سے کروائے جاتے تھا آج وہ کررہی تھی،،،لیکن پھر بھی زمل ذیادہ ظلم کا شکار ہونے سے بچ گئی تھی زہران خان کی وجہ سے جو اسکے آگے ڈھال بن جاتا تھا اور مفسرہ اسکے پاس تو کوئی نہ تھا۔۔۔

                                *********

"بھابھی دیکھیں گولڈ میڈل"......وہ گھر آتے ہی چیختے ہوئے زمل سے گلے لگی تھی

"ماشاء اللّٰہ مشل بہت خوش ہوں یار،،مشل دی گولڈ میڈلیسٹ"......زمل بھی نم آنکھوں سے گلے لگی

انکی خوشی کا کوئی ٹکھانہ نہیں تھا

گولڈ میڈل لینا کوئی معمولی بات تھوڑی تھی۔۔۔

"یہ سب بھائی کی وجہ سے ہے آج میں اس مقام پر ہوں تو بھائی کی وجہ سے،،یہ گولڈ میڈل میرے ہاتھ میں ہے تو بھائی کی وجہ سے".......وہ روتے ہوئے زہران کے گلے لگی،،،زہران کی بھی آنکھیں نم تھی

"کتنا بہترین شخص تھا یہ بہترین بیٹا،،بہترین بھائی،،بہترین شوہر،،اور اب بہترین باپ بھی،،،کتنا اعتدال رکھا تھا اس شخص نے اپنے ہر رشتوں میں"......زمل کی آنکھیں بھی چھلک پڑی تھی

"یہ گولڈ میڈل میری گڑیا کے محنت کا ثمر ہے،،بھائی کی جان تم نے بھائی کا سر فخر سے اونچا کردیا،،میں جو اتنے اختلافات کے بعد تمہیں یونیورسٹی جانے دیا تم پر بھروسہ کیا اور تم نے بھائی کا بھرم قائم رکھا،،ان لوگوں کے سامنے جھکنے نہیں دیا جو کہتے تھے لڑکی ذات کو کو-یونیورسٹی میں بھیج رہے ہو بلکہ تم نے ان لوگوں کے سامنے میرا سر فخر سے اونچا کردیا"........وہ بھی اس وقت جذباتی سا ہورہا تھا،،اپنے ساتھ لگائے اسے محبت سے کہنے لگا

"بھائی آپ کا مان میں ہمیشہ قائم رکھوں گی".....وہ روتے ہوئے بولی

"آئی ایم سو پراؤڈ آف یو بیٹا،،آئی لو یو بھائی کی جان".....وہ اسکی پیشانی چوما

"آئی لو یو ٹو".....وہ بھی محبت سے بولی

"بھائی بہن کے جذباتی مظاہرے ختم ہوگئے ہو تو مجھ غریب کی طرف بھی متوجہ ہوجائے".....زمل نے ماحول میں سے ان دونوں کے رونے دھونے والے منظر کو ختم کرنے کیلئے شرارتأ کہا۔۔

"مشل بیٹا دیکھو دریا تو یہاں بھی بہ رہا ہے".....زہران اسکی بھیگی آنکھوں کو محبت سے دیکھا

"ہاں تو صرف بھائی سے ہی محبت دکھائے جارہی ہے میں بھی تو ہوں".....وہ مصنوعی ناراضگی کا اظہار کی

"ارے بھابھی آپ تو ورلڈ بیسٹ ہے"....مشل وہاں سے اٹھ کر اسکے گلے لگی

"اور تم بھی،،ہمیشہ خوش رہو".....زمل بھی محبت سے بولی

"میری شہزادی کہاں ہے"؟....زہران زمل سے پوچھا

"سورہی ہے آپکی شہزادی،،تگنی کا ناچ نچا کر سوتی ہے،،،سونا ہے سوجائے نہیں پہلے رو رو کر میرے کان پھاڑے گی پھر سوئے گی"......زمل تو ہمیشہ ہی ایسی ہوجاتی تھی جب بھی امل کا ذکر ہوتا تھا

"زمل میری شہزادی کو کچھ نہ کہے وہ آپ سے ذیادہ تنگ نہیں کرتی".....وہ مسکراہٹ دباکر کہتا جلدی سے اپنے کمرے کی جانب گیا جہاں ان دونوں کی ایک سال کی جان امل سورہی تھی۔۔

"ہیں؟؟میں کہاں تنگ کرتی ہوں".....زمل صدمے سے بولی جبکہ مشل کا قہقہ گونجا

"تم ذیادہ ہنسو نہیں ٹریٹ لونگی آج رات تیار رہنا کسی اچھے سے ریسٹورنٹ چلیں گے"......زمل اسے گھوری

"ہاں تو مجھے کونسا مسئلہ ہے آپکے میاں کے ہی پیسے خرچ ہونگے"......وہ دانت دکھائی

"چالاک".......اور پھر ان دونوں کے قہقے  گونجے

                                  *********

فضیلہ بیگم تو زہران کو فون کرکے بہت روتی تھی اور صرف ایک ہی بات کہتی "بیٹا آجاؤ حویلی،،یہ حویلی مجھے کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے"،،،ان دو سالوں میں بی بی جان بھی خالق حقیقی سے جا ملی تھی۔۔اب صرف حویلی میں فضیلہ بیگم اور محتشم خان تھے۔۔

فضیلہ بیگم تو اس سے رو رو کر کئی بار معافی بھی مانگی تھی۔۔زمل سے بھی مانگنا چاہتی تھی لیکن زمل بات کرنے کیلئے رضامند نہیں تھی اور زہران نے بھی اسے فورس نہیں کیا۔۔زہران تو پورے ایک سال ان سے نہیں ملا تھا البتہ فون کال پہ بات کرلیا کرتا تھا،،،لیکن پھر ماں کی حالت نے اسے بھی رولایا اور اب وہ ہر ہفتے فضیلہ بیگم کو اپنے گھر لے آتا تھا جہاں مشل اور امل سے مل لیتی تھی البتہ زمل صرف سلام کرکے اپنے کمرے میں چلی جاتی تھی،،،اور نہ کبھی زہران نے اس بات پر کبھی غصہ دکھایا کیونکہ یہ اسکی اپنی مرضی تھی وہ معاف کرے یہ نہ۔۔۔

محتشم خان کا بھی اپنے بچوں اور اپنی پوتی سے ملنے کو دل تڑپتا تھا لیکن ان سب آگے انا آجاتی تھی۔۔

                                **********

"میرا بیٹا...ماں صدقے میری جان".....شہزاد چوہدری جیسے آیا اسکی ماں اسے گلے لگاتے رونے لگی

"مورے"......وہ انہیں چپ کرانے لگا

"میرا بچہ کتنا کمزور ہوگیا ہے"......وہ آنسو صاف کرتے اسکی پیشانی چومی۔۔جبکہ شہزاد چوہدری کو ہر قسم کی رعایت دی گئی تھی،،عالمگیر چوہدری جو سیاست سے بھی وابستہ تھے اسلئیے وہ دو سال میں اپنے بیٹے کو چھڑانے میں کامیاب ہوگئے اور ان دو سالوں میں اس پہ کوئی تشدد نہیں ہوا

"بیٹھنے تو دو اسے".....عالمگیر چوہدری بولے

"ہاں ہاں آجا"....وہ اسکو اندر آنے کیلئے جگہ دی

دیوار میں موجود چھوٹے سے سوراخ سے جھانکتی مفسرہ شہزاد خان کو دیکھ کر رودی وہ اس لئیے بھی یہ تشدد برداشت کرلیتی کہ جب شہزاد آئے گا تو اسکے ساتھ شادی کرلے گا

"کھانا لگاؤں"؟...وہ دو سالوں سے اپنے بیٹے کے دیدار کیلئے ترس رہی تھی اب سامنے دیکھا تو اپنے جذبات کو قابو نہیں کر پا رہی تھی

"ہاں مورے لگائیے پھر میں آرام کرونگا".....

تہمینہ چوہدری کھانے کا بولنے چلی گئی اور وہ دونوں باپ بیٹا باتوں میں مشغول ہوگئے

کھانے کے بعد شہزاد چوہدری آرام کی غرض سے کمرے میں چلا گیا اور وہ دونوں بھی اپنے کمرے کو چلے گئے

مفسرہ کب سے انکے کمرے میں جانے کا انتظار کررہی تھی دبے پاؤں شہزاد چوہدری کے کمرے کی طرف بڑھی۔۔

وہ دروازہ کھٹکھٹائی،،،اسکی آنکھوں میں دو سال پہلے والے دیپ جل رہے تھے

اجازت ملنے پہ وہ اندر گئی تو شہزاد بیڈ پہ بیٹھا تھا

"شہزاد دیکھو تمہاری مفسرہ کس حال میں ہے".....وہ اسکے قریب ہی بیٹھتے روتے ہوئے بولی

"تم"؟.......شہزاد اسکو دیکھ کر چونکا،،آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے،،بکھرے بال،،ملگجہ سا حلیہ،،کمزور سی،،،،وہ پہلے والی مفسرہ تو کہی سے نہیں لگ رہی تھی

"ہاں میں دیکھو تمہاری محبت کا کیا حال کردیا تمہارے مورے اور بابا نے مجھے قید کرلیا ہے دیکھو مار مار کر کیا حال کردیا شہزاد اپنی محبت کو بچا لو"......وہ روتی ہوئی بکھر سی گئی تھی

"دور ہٹو اور تمہیں بابا نے یہاں رکھا کیوں ہے تم تو اس لائق نہیں ہو یہاں رہو"......وہ تیز آواز میں بولا

"شہزاد کیا ہوگیا تم تو مجھ سے محبت کرتے ہو نہ"......وہ آنکھوں میں بے یقینی لیے پوچھی

"محبت؟....وہ بھی تم سے...بلکل بھی نہیں وقت گزاری کی ہے تمہارے ساتھ لیکن اس وقت گزاری کے چکر میں میرے بابا سائیں کی عزت پہ حرف آیا ہے اور میں تمہیں یہاں اور برداشت نہیں کرسکتا نکلو ادھر سے".......وہ مذاق اڑانے والے انداز میں ہنسا،،،

اسوقت وہ وقتی کشش کا شکار ہوا تھا اور عالمگیر چوہدری کی ملی جانے والی شے کی وجہ سے کافی بگڑا ہوا تھا جبھی مہران خان کو قتل کردیا کہ کونسا اسنے پھنسنا ہے،،لیکن جب اپنے بابا کی عزت پر آنچ آئی تو مفسرہ سے اسے نفرت ہونے لگی

"شہزاد لیکن میں نے تو تم سے سچی محبت کی ہے"......اسکے الفاظ اسکی روح کو چھلنی کرگئے

"تم نے کی ہوگی لیکن میں نے نہیں کی،،،تم جیسی لڑکی سے شادی کروں گا کبھی نہیں جو اپنے منگیتر کو مرواسکتی ہے وہ کل کو کسی اور پہ دل ہارنے کے بعد اپنے شوہر کو بھی مرواسکتی ہے".......یہ کہی سے وہ شہزاد تو نہیں لگ رہا تھا جو اتنی نرمی اور محبت سے بات کرتا تھا

"بس اب تم میری محبت کی توہین کررہے ہو پرخلوص تھے میرے جذبات،،،سچے دل سے تم سے محبت کی تھی میں نے".......وہ روتے ہوئے چلائی،،اپنی محبت کی یوں توہین پر وہ ٹوٹنے لگی

"نکلو یہاں سے"......وہ اسے کھینچتے ہوئے نیچے آیا

"کیا ہوا شہزاد"؟......عالمگیر چوہدری شور کی آواز سن کر ہال میں آئے

"کیوں رکھا ہے یہاں اسے نکالے حویلی سے"......شہزاد ایک جھٹکے سے اسے چھوڑا اور نتیجتاً وہ نیچے گری

"غصہ نہ کرو نکلواتا ہوں اسے،،گل بہار،، گل بہار"......وہ اسے کہتے ملازم کو آواز لگانے لگے

"جی سردار".......

"اسکو حویلی سے باہر پھینکواؤ"......وہ حکم دیتے شہزاد کو لئیے اندر چلے گئے

                                    **********

چادر سر پہ بس ٹکا ہوا تھا،،وہ نڈھال سی آنسو بہاتی سڑک کے کنارے چلی جارہی تھی

محبت میں بےوفائی ملی تھی،،،جسے اپنے سے بھی ذیادہ چاہا تھا اسنے ہی اسکی ذات کی دھجیہ اڑادی۔۔اسکے

 خالص جذبات کو سوال بنادیا گیا تھا،،،اسکی پرخلوص محبت کی توہین کی گئی تھی،،،وہ محبت میں ناکام ٹھری تھی۔۔۔

اور ناکام ہی  تو ہونا تھا،،وہ اتنی اندھی ہوگئی تھی کہ اپنے ہی چچا ذات کا قتل کرواتے ذرا سا بھی نہیں سوچی،،ایک مظلوم لڑکی پہ ظلم کرواتے ذرا رحم نہ آیا،،،اپنے بڑوں سے ایک نامحرم سے چھپ کر ملتی رہی جو کہ گناہ تھا،،ایک نامحرم کیلئے اپنے ماں کو تکلیف پہنچائی،،،تو کیا اسے کامیاب ٹھرنا تھا بلکل نہیں،،،وہ اس رات بھی اپنی محبت کیلئے رات کو حویلی سے بھاگی اور جسے محل سمجھ کر گئی تھی وہی قید ہوگئی،،،،یہ اسی ہی حالت کی ذمہ دار تھی۔۔یہ بلکل بھی رحم کے قابل نہ تھی بلکہ سزا کی مستحق تھی جو جھیل رہی تھی وہ۔۔۔

محبت میں کامیاب کون ٹھرتے ہیں؟....کیونکہ محبت تو کسی کو بھی ہوجاتی ہے...لیکن وہی کامیاب ٹھرتے ہیں جو اس جذبات کے پیچھے پاگل نہیں ہوتے،،جو محبوب کو حاصل کرنے کیلئے غلط راہیں استمعال نہیں کرتے،،،بلکہ انکو  سب سے پہلے یہی خیال آتا ہے وہ ایک نامحرم کی محبت میں مبتلا ہوگئے ہیں اور یہ چیز انہیں تکلیف سے دوچار کردیتی ہے۔۔وہ اللّٰہ کے حضور رو رو کر دعائیں کرتے ہیں

"یا اللّٰہ اگر وہ میرے حق میں بہتر ہے تو مجھے اسکے ساتھ شرعی رشتے میں باندھ دے اور اگر نہیں تو اسکی محبت میرے دل سے نکال دے کیونکہ میں ایسی چیز اپنے دل میں رکھنا نہیں چاہتی جو تجھے نا پسند ہو"....

اچھی لڑکیاں یہی دعائیں مانگتی ہیں بجائے اسکے وہ چھپ چھپ کر ملے یا فون کال میں رابطے رکھے۔۔

یہ عمل رب کو اتنا پسند آتا ہے کہ وہ اسے نواز دیتا ہے ہاں لیکن کبھی کبھی ہم اس عمل کے باوجود بھی محبت میں  کامیاب نہیں ٹھرتے لیکن اس میں خود کو ڈیپریسڈ کرنے کے بجائے اس بات کو قبول کرلینا چاہیے کہ ہر کام میں اللّٰہ کی مصلحت ہوتی ہے....

وہ چلتے چلتے تھک چکی تھی،،اسکے پاس کوئی رقم نہ تھی جو کوئی رکشہ کرواتی،،،وہ کبھی سستانے کیلئے کسی کونے پہ بیٹھ جاتی،،اور پھر چلنے لگتی،،،وہ گاؤں کے حدود سے باہر نکل کر شہر میں پہنچ چکی تھی۔۔

دل جیسے ویران ہوچکا تھا،،،مورے کی یاد بھی ستا رہی تھی۔۔پورے دو سال تین ماہ سے وہ ان سے ملی نہیں تھی۔۔کھانے پینے پہنے سب کا کتنا خیال کرتی تھی وہ،،لیکن وہ بد نصیب انکی محبت کی قدر نہ کرسکی اور جسکی قدر کی وہی اسے رسواء کردیا

اب اسکا رخ دارالامان کی طرف تھا جہاں وہ ٹھر سکتی،،،کیونکہ خان حویلی جانے کی ہمت اس میں نہ تھی۔۔

جب محبت میں ناکام ہوئی تو ساری چیزیں سمجھ آنے لگی اپنی غلطی کا احساس ہونے لگا۔۔

                                    **********

زمل زہران خان کی امامت میں فجر کی نماز ادا کررہی تھی،،،کتنا خوبصورت احساس تھا۔۔۔

سلام پھیر کے دعا مانگ کر وہ اسکے قریب آکر بیٹھ گئی تھی جو اب معمول کی طرح سورہ رحمٰن کی تلاوت کررہا تھا

اَلرَّحْمٰنُۙ(۱)عَلَّمَ الْقُرْاٰنَؕ(۲)

ترجمہ: کنزالایمان

رحمٰن نےاپنے محبوب کو قرآن سکھایا

خَلَقَ الْاِنْسَانَۙ(۳)عَلَّمَهُ الْبَیَانَ(۴)

ترجمہ: کنزالایمان

انسانیت کی جان محمد کو پیدا کیاما کان وما یکون کا بیان اُنہیں سکھایا

وہ ایک آیت پڑھتا پھر ترجمہ پڑھتا۔۔زمل بھی پورے توجہ سے تلاوت سن رہی تھی

وہ تلاوت مکمل کرتا کچھ آیت پڑھ کر زمل کے اوپر دم کیا۔۔زمل مسکرادی،،،وہ جتنا شکر ادا کرتی کم تھا اسے بہترین سے نوازا گیا تھا

زہران سائیڈ ٹیبل پہ قرآن رکھا اور زمل اپنے جگے پر بیٹھی رہی زہران واپس آکر اسکی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا اور اسکے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں تھاما

"آپ بہت اچھی تلاوت کرتے ہیں"......روزانہ کہی جانے والی بات وہ آج بھی دہرائی

"اور مجھے بہت اچھا لگتا ہے جب میری بیوی میرے برابر میں بیٹھ کر جب تلاوت سنتی ہے"......وہ محبت سے کہتا اسکے ہاتھ کی پشت پہ لب رکھا

"میری خواہش ہے کہ میں آپ کے اور اپنی بیٹی کے ہمراہ مکہ مدینہ کی زیارت کروں"........وہ محبت سے اسکے بالوں میں انگلیاں چلاتے بولنے لگی۔۔

"میری بھی،،میں اس رب کا شکر اسکے گھر میں بھی ادا کرنا چاہتا ہوں جس نے مجھے انمول ہیرے سے نوازا،،مشل کی شادی کے بعد ہم چلیں گے"......اسکی بات پہ زمل مسکراتے ہوئے سر ہلائی۔۔

کتنا خوبصورت احساس ہوتا ہے نہ محبوب شخص کی امامت میں نماز ادا کرنا،،فجر میں ساتھ جاگنا،،ساتھ تلاوت کرنا،،ایک دوسرے کیلئے دعائیں مانگنا،،میری ہر روز کی شروعات بہت خوبصورت ہوتی ہے زہران"......وہ میٹھے سے لہجے میں بولی

"بلکل یہ ہماری زندگی کے خوبصورت ترین لمحات ہیں اور میں آپکا ساتھ صرف یہاں نہیں چاہتا بلکہ جنت میں بھی چاہتا ہوں".......

                                  **********

"زہران تمہارے بابا بہت بیمار ہیں بات کرنا چاہتے ہیں تم سے"......فضیلہ بیگم اسے کال کرکے روتے ہوئے بولی

"کروائیں بات".....ان دو سال تین ماہ میں پہلی بار تھا جو محتشم خان نے خود بات کرنا چاہی تھی

"اسلام علیکم"!!!!! زہران سلامتی بھیجا

"وعلیکم السلام...زہران میرے بیٹے معاف کردو اپنے باپ کو جانتا ہوں گناہ بہت بڑا ہے میرا لیکن میرے بچے مجھے تمہاری اور اپنی بیٹی کی ضرورت ہے،،،جو ذمہ داری ایک باپ کی حیثیت سے اپنی بیٹی کیلئے میں پورا نہ کرسکا لیکن تم نے کیا،،اپنی کو بہن کو اعلیٰ مقام پہ پہنچا دیا،،تم نے مجھے بتایا ایک بھائی اپنی بہن کیلئے کیسا ہوتا ہے،،میں تو بھائی کہلائے جانے کے بھی قابل نہیں،،،میرے بچے واپس آجاؤ اس ویران حویلی کو پھر سے آباد کردو معاف کردو اپنے باپ کو،،مجھے میری پوتی سے ملوادو کیسا بد نصیب دادا ہوں جو ایک سال بعد اپنی پوتی کو دیکوں گا".......وہ روتے ہوئے بولے،،،انک ضمیر تو انہیں روز کچوکے لگاتا تھا،،،لیکن انا جو بیج میں آجاتی تھی،،،آج نیوز پہ اپنی بیٹی کو دیکھا جو گولڈ میڈل پہنے انٹرویو دے رہی تھی اور پھر ان سے رہا نہ گیا اور انا کی دیوار کو گراتے معافی کے طلبگار ہوئے

"بابا سائیں میرے ساتھ تو خیر آپ نے کچھ ذیادہ غلط نہیں کیا تو میں معاف کرتا ہوں آپکو اور رہی بات حویلی آنے کی تو وہ زمل پہ ہوگا اگر وہ آنا چاہی گی تو میں آجاؤں گا لیکن اگر وہ نہیں آنا چاہی تو میں نہیں آؤنگا البتہ آپ سے ملنے آجایا کرو نگا".......وہ سنجیدے سے لہجے میں اپنی بات مکمل کیا

"بیٹا میں اس سے بھی معافی مانگوں گا بس تم آجاؤ"....انکے لہجے میں گزارش تھی،،اولاد سے دور ہونا کیا ہوتا ہے یہ دو سال میں انہیں اچھی طرح معلوم ہوگیا تھا۔۔

"میں بات کرکے بتاؤنگا اللّٰہ حافظ خیال رکھیے گا"......

                                  ***********

"آپ؟یہاں بھی آگئے میرا پیچھا کرتے کرتے".....مشل ہاؤس جاب کے لئیے ہاسپٹل جوائنٹ کی تھی

وہ ابھی کینٹن میں بیٹھے چائے کی چسکیاں لے رہی تھی کہ اپنے سامنے چئیر گھسیٹ کر بیٹھتے ازلان کو دیکھ کر غصے سے بولی

"ملنے آیا تھا آپ سے"......وہ مسکرایا

"کتنے عجیب شخص ہے آپ ہاں؟میں گھر پہ بات نہیں کرتی تو یہاں پیچھا کرتے کرتے آگئے ہیں".....وہ غصہ ہوئی،،اور اسے خود بھی نہیں معلوم تھا وہ اسکے ساتھ کیوں روڈ ہوجاتی تھی،،جبکہ وہ کڑوی کسیلی باتوں کا جواب بھی مسکرا کر دیتا تھا

"محترمہ آپکی اطلاع کیلئے میں آپکے پیچھے نہیں بلکہ آپ میرے پیچھے آئی ہیں".....گندمی رنگت ہلکی بئیرڈ،،معمولی سے نین نقش لیکن اسکے چہرے پہ موجود کشش ہر کسی کو اپنی جانب کھینچتی تھی

"کیا مطلب"؟......وہ الجھی

"مطلب یہ کہ میں یہاں پچھلے ایک سال سے ہوں جبکہ آپ یہاں چار گھنٹے سے ہیں تو کون کس کے پیچھے آیا"؟......وہ شرارت سے مسکرایا

"اففف ایک تو بھائی بھابھی جب بھی انکے بارے میں بات کرتے تھے میں ٹاپک بند کروادیتی تھی اگر آج نہ کرواتی تو معلوم ہوتا یہ کونسے ہاسپٹل میں جاب کرتے ہیں".......وہ دل میں خود کو کوسی

"اوہ"......وہ شرمندہ سی ہوئی

"میری وجہ سے آپ شرمندہ ہو یہ مجھے اچھا نہیں لگے گا اسلئیے ریلکس"......محبت بھرا لہجہ تھا

"کس نے کہا میں شرمندہ ہوں،،خوش فہمی میں مبتلا ہیں آپ"......وہ چڑی

"یار ویسے تو آپ اتنی سوئیٹ ہیں مجھ سے بات کرتے ہوئے نیم کیوں چبا لیتی ہیں".......

"میری ڈیوٹی ہے".......اس بات کا جواب تو اسکے پاس خود بھی نہیں تھا اسلئیے وہاں سے چلی گئی

                                 **********

"زمل بابا سائیں چاہتے ہیں ہم واپس حویلی آجائے انکی طبیعت بھی ٹھیک نہیں معافی مانگنا چاہتے ہیں تم سے"......وہ دونوں کمرے میں تھے

دیوار پہ لگی وال کلاک گیارہ بجا رہی تھی،،زمل لیٹی ہوئی تھی اور زہران خان ایک طرف بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا جبکہ بیج میں انکی شہزادی امل سورہی تھی.... زہران کی بات سنتے وہ اٹھ کر بیٹھ گئی

"ہاں لیکن آپ جانا نہیں چاہتی تو کوئی زبردستی نہیں"۔۔۔اسے خاموش پاکر وہ دوبارہ بولا

"چلونگی میں"......کچھ لمحے کی توقف کے بعد وہ بولی

"واقعی"؟.......زہران حیران ہوا

"جی....لیکن میں ان دونوں کو کبھی معاف نہیں کرسکونگی،،،اور میں وہاں اسلئیے جاؤنگی تاکہ آپ وہاں کے سردار بنے اور ونی کے رسم کو ہمیشہ کیلئے ختم کرے اور بچپن سے رشتہ منسوب کرنے والی روایات کو بھی ختم کردے،،میں گاؤں کی لڑکیوں کے لئیے جاؤنگی،،میں نہیں چاہتی کوئی دوسری زمل بنے اگر کوئی دوسری زمل بنتی ہے تو اسے کوئی زہران خان نہیں ملے گا جو اسے بچا لے گا اسے تحفظ دے گا"......وہ مضبوط لہجے میں بولی

حالانکہ اس جگہ جانا مشکل تھا جہاں اس پہ ظلم ہوئے،،جن لوگوں نے اسکی ماں کا قتل کیا،،لیکن وہ پھر بھی جارہی تھی ان رسموں کو ختم کرنے کی خاطر.....

"آپکا ہر فیصلہ میرے لئیے قابل احترام ہے اور مجھے فخر ہے آپ پہ جس نے اپنی دکھ تکلیف پہ دوسری لڑکیوں کی تکلیف کو فوقیت دی"......اسکی آنکھوں سے محبت احترام واضح تھی

"لیکن ایک وعدہ چاہیے".....زمل زہران کا ہاتھ پکڑتے بولی

"کیسا وعدہ،،میرے بس میں ہوا تو انشاء اللّٰہ ضرور پورا کرونگا".......

"ہم ہر ویکینڈ اس گھر میں گزاریں گے جہاں سے میں نے اپنی زندگی کے خوبصورت پل کا آغاز کیا،،،بہت یادیں جڑی ہے اس گھر کے ساتھ"......وہ محبت سے بولی

"بلکل آئینگے"...….وہ ہر خواہش اسکی پوری کردیتا تھا جو اسکے بس میں ہوتی تھی

"چلیں اب سوجائیں"......وہ روز رات کی طرح اسکی پیشانی کو اپنی خوشبو سے مہکایا

وہ بھی مسکراتے ہوئے لیٹی

"میری شہزادی"......وہ اب اسکے پیشانی پہ لب رکھا

"آپکی شہزادی بہت تنگ کرتی ہے".......وہ جب اسے شہزادی کہتا زمل ایسے ہی شکایات کیا کرتی تھی

"میری شہزادی اپنے بابا کے بدلے تنگ کرتی ہے اب بابا دوپہر کو آفس ہوتے ہیں تو بابا کیسے تنگ کرینگے ماما کو اس لئیے کردیتی ہے"......وہ شرارت سے مسکرایا

"زہران".....وہ خفگی سے بولی

"جان زہران".......وہ ہنستا ہوا دونوں کو اپنے ہالے میں لیتا سونے لگا

یہ دونوں اسکی کل کائنات تھی اسکے جینے کی وجہ...

                                  ************

"اسلام علیکم بابا"!!......زمل آج احمد ابراہیم کے پاس آئی ہوئی تھی

احمد ابراہیم شہر میں چھوٹے سے مگر خوبصورت گھر میں اپنے بیٹے کے ساتھ پرسکون زندگی گزار رہے تھے۔۔زہران نے ایک ملازمہ کا بھی بندوبست کروادیا تھا جو صفائی اور کھانے وغیرہ کیلئے تھی

"وعلیکم السلام کیسی ہے میری گڑیا"......وہ زمل کی گود سے امل کو لیتے پیار کرنے لگے

"ٹھیک ہوں میں سفیان نظر نہیں آرہا".....

"یونیورسٹی گیا ہے آتا ہی ہوگا تم سناؤ آج بابا کی یاد کیسے آئی".......

"ہر ویکینڈ تو آتی ہوں میں اور آپ بھی آجاتے پھر یہ شکایت کیسی"........

"ارے میری بیٹی مذاق کررہا ہوں،،اب روز تمہاری یاد آتی ہے".....وہ ہنستے ہوئے بولے

"جبھی تو کہا تھا ہمارے ساتھ رہے"......

"نہیں میں یہاں ٹھیک ہوں اور مطمئن ہوں تمہیں اپنی زندگی میں خوش دیکھ کر".........وہ مطمئن تھے زمل کی طرف سے زہران خان اسکے لئیے ایک بہت اچھا ہمسفر ثابت ہوا

"بابا ہم دوبارہ حویلی جارہے ہیں".......وہ دھیرے سے بولی

"حویلی؟کیوں؟........وہ پریشان ہوئے

زمل انھیں پوری بات بتانے لگی

"تمہارے خیالات جاننے کے بعد میں واقعی خوش ہوں میری گڑیا اللّٰہ تمہیں خوش اور آباد رکھے"........وہ اسکے سر پہ ہاتھ رکھے

"آپی آپ کب آئی"؟......سفیان جو ابھی یونیورسٹی سے آیا تھا اسے دیکھ کر خوشگوار حیرت سے آگے بڑھا

"کچھ دیر پہلے ہی آئی ہوں،،تم سناؤ پڑھائی کیسی جارہی ہے".......وہ محبت سے اسکے بال بکھیری

"بس ابھی پہلا سال ہے تو تھوڑے مسئلے ہورہے ہیں لیکن آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہوجائے گا"......

"کچھ سمجھ نہ آئے تو پوچھ لینا تمہاری بہن بھی بی بی اے کی ہوئی ہے"........وہ مسکراتے ہوئے بولی

"میرے بہنوئی ایم بی اے کیے ہوئے ہیں تو میں ان سے پوچھ لونگا"......وہ شرارتأ بولا

"ان سے ذیادہ اچھا مجھے آتا ہے".......وہ آنکھیں گھمائی

احمد ابراہیم اپنے بچوں کو ہنستا مسکراتا دیکھ کر مسکراتے ہوئے امل کی جانب متوجہ ہوئے جو اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے انکی داڑھی پکڑ رہی تھی

سفیان اور زہران میں اب کافی اچھی بات چیت ہوگئی تھی،،زہران اسے چھوٹے بھائی کی طرح ٹریٹ کرتا تھا۔۔سفیان بی بی اے کے فرسٹ ائیر میں تھا۔۔

                               ***********

وہ سب پندرہ دن بعد حویلی پہنچ چکے تھے۔۔مشل اب ازلان کے اتنے نرم اور محبت سے بھرے رویے کی عادی ہونے لگی تھی اب پہلے کی مناسبت ہر بات کا آرام سے جواب دیتی...ان پندرہ دنوں میں ازلان اسکے روڈ رویے کے باوجود نرمی سے ڈیل کرتا اور یہی بات ڈاکٹر مشل خان کو گھائل کرگئی تھی۔۔مشل اور ازلان کا نکاح بھی زہران نے حویلی آنے سے ایک دن پہلے کروادیا تھا جس میں فضیلہ بیگم اور محتشم خان بھی شامل تھے۔۔اپنی بیٹی کیلئے اتنے اچھے شخص کا انتخاب دیکھ کر وہ اپنے بیٹے کے مشکور ہوگئے تھے،،،انکا بیٹا اپنی بہن کو اچھے مقام میں پہنچانے کے ساتھ ایک اچھے شخص کے ہاتھ میں بھی دیدیا تھا۔۔مشل کی رخصتی چھ ماہ بعد رکھی گئی تھی

حویلی پہنچے تو زمل نے صرف سلام کرنے پہ اکتفا کیا اور امل کو زہران کو دیکر کمرے سے جانے لگی

"زمل بچے".....جس نے کبھی اسے نفرت سے پکارا تھا آج وہ بے بسی سے پکار رہا تھا

زمل بنا کچھ کہے رک گئی

"بیٹا مجھے معاف کردو میں نے بہت غلط کیا ہے مجھے معاف کردو"......انکے لہجے میں التجاء تھی،،،انھیں دل کا عارضہ ہوگیا تھا،،،وہ اب رعب دبدبہ والے محتشم خان نہیں رہے تھے

"میں ایک عام انسان ہوں اور میرا اتنا ظرف نہیں کہ اپنی ماں کے قاتل کو معاف کردوں"......وہ سرد لہجے میں کہتی وہاں سے چلی گئی

جبکہ زہران اس معاملے میں خاموش تھا اسکی یہی عادت اچھی تھی وہ یہ نہیں دیکھتا اسکی بیوی ہے یا اسکا باپ بلکہ وہ حق بات کا ساتھ دیتا تھا۔۔اسلئیے اسنے زمل سے کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ معاف کردے

"بابا سائیں میں سردار بننا چاہتا ہوں"......زہران تھوڑی دیر بعد بولا

جبکہ وہ اسے حیرانگی سے دیکھنے لگے جو کبھی ان چیزوں سے بھاگتا تھا آج وہی کہ رہا تھا

"ہاں بیٹا ضرور اب تمہیں ہی تو سنبھالنا ہے".....وہ نم آنکھوں سے بولے

                                    **********

"سردار عالمگیر صوفے پہ بیٹھے چائے کی چسکیاں لے رہے تھے ساتھ تہمینہ چوہدری بھی بیٹھی تھی..تبھی انکا موبائل رنگ کیا۔۔انکے وفادار ملازم کی کال تھی۔۔کال ریسو کی

"ہا ں بولو رفیق".......وہ چائے کی پیالی میز پہ رکھے

"سردار....وہ...وہ"......اسکا لہجہ کانپتا ہوا تھا

"کیا ہوا ہے جلدی بولو"....وہ کھڑے ہوتے دھاڑے

"سردار وہ دین محمد کے گروہ سے جھڑپ ہوگئی تھی..شہزاد چوہدری کو چھ گولیاں لگی ہیں...."،،،،،وہ ڈرتے ڈرتے بولا

"کیا کہ رہے ہو دماغ چل گیا ہے تمہارا،،،کہاں ہے شہزاد"؟........یہ خبر تو ان سے قبول ہی نہیں ہورہی تھی

"وہ...وہ اب نہیں رہے اس دنیا میں"........

"کیا میرا بیٹا".......انکی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے فون ہاتھ سے نیچے چھوٹ کر گرچکا تھا

"کیا ہوا میرے شہزاد کو کیا ہوا"......عالمگیر چوہدری کی یہ حالت دیکھتے تہمینہ چوہدری کے بھی آنسو نکل آئے

"ہمارا بیٹا نہیں رہا اب"،،،وہ رو دیے

"کیا کہ رہے ہیں ابھی صبح تو ہی وہ ٹھیک نکلا تھا".....تہمینہ بیگم چیخی

عالمگیر چوہدری کچھ لمحے بعد دوبارہ رفیق کو کال کیے تو وہ بتایا وہ شہزاد چوہدری کے مردہ وجود کو لے کر حویلی آرہے ہیں اور پھر تھوڑی تفصیل بھی بتائی جس میں شہزاد کی ہی غلطی تھی۔۔۔

"قصور میرا ہی ہے میں نے اسکی تربیت ٹھیک طرح نہیں کی".......وہ تھکے ہوئے لہجے میں بولے

جیل سے تو انھوں نے بچا لیا تھا لیکن موت؟موت سے کیسے بچا پاتے،،یہ اللّٰہ کی مرضی تھی اور وہ جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے۔۔اور آج شہزاد چوہدری اپنے انجام کو پہنچ گیا تھا

                                  ***********

"کیسی ہیں"؟......ازلان اور مشل ریسوڑنٹ آئے تھے،،ازلان نے پرائیویٹ ٹیبل ریسرو کروایا تھا

"میں ٹھیک آپ کیسے ہیں".......وہ اب ٹھیک طرح بات کرتی تھی

"میں تو بس چھ ماہ مکمل ہونے کا انتظار کررہا ہوں".....وہ آنکھوں میں کئی جذبات لئیے اسے دیکھتے بولا

"مجھے سوری کرنی تھی"......مشل نظریں نیچے کی

"کس لئیے"؟.....

"میں آپکے اتنے اچھے رویے کے بعد بھی روڈ بی ہیو کی"......

"ارے مجھے آپکے اس رویے کی وجہ معلوم ہے آپ کو شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں".....…وہ مسکراتا ہوا اسکے ہاتھ کو تھاما

"کونسی وجہ معلوم ہے"؟......وہ چونکی

"فہد خان کے رویے کی وجہ سے آپ مجھ پہ اتنی جلدی بھروسہ نہیں کرنا چاہتی تھی"......

"آپکو کیسے پتہ"؟.....بلکل ٹھیک بتانے پر وہ حیران ہوئی

"زہران بھائی نے بتایا ہے"......

"بھائی نے؟".....وہ حیران پہ حیران ہوئے جارہی تھی جو کیفیت اسے خود سمجھ نہیں آرہی تھی وہ اسکے بھائی کو کیسے معلوم ہوئی

"آپ ہی تو کہتی ہے آپکے بھائی آپ سے بہت پیار کرتے ہیں تو یہ کیسے ہوسکتا ہے آپ پریشان ہو اور انھیں معلوم نہ ہو".......اسکے کہنے پہ وہ سر ہلا کر مسکرادی

"آپ تو میرے دل میں ملکہ بن کر حکومت کررہی ہیں اور میں آپکے دل میں کررہا ہوں یا نہیں"؟......

"آپ ملکہ بنیں گے"؟.....مشل ہنسی

"ارے یار مطلب آپکے دل کا شہزادہ"......وہ بالوں پہ ہاتھ پھیرا

"آپ میرے دل پہ سلطنت کرنے لگے ہیں".......وہ نظریں نیچے کیسے شرمیلی سی مسکراہٹ لیے بولی

"میری خوش قسمتی"......وہ محبت سے ہنستا ہوا اپنی چوڑی ہتھیلی اسکے سامنے کیا مشل اپنا سیدھا ہاتھ اسکے ہتھیلی پہ رکھ دی

"الٹا رکھیں"......

"الٹا کیوں"؟.......وہ حیران ہوئی

"اسکے لیے"......وہ دوسرے ہاتھ میں لی ہوئی ڈائمنڈ رنگ اسکے سامنے کیا،،مشل دھیمی سی مسکان سجائے اسکے ہاتھ پر اب الٹا ہاتھ رکھی،،

"کیسی لگ رہی ہے".......وہ مسکراتا ہوا پوچھتا اسکو ہاتھ پر اپنا لمس چھوڑا

"بیوٹیفل".......وہ نظریں جھکائی

                                  ************

"بات سنے مجھے ایک کال کرنی ہے"......مفسرہ دارلاامان میں رہ رہی تھی اور ان سب میں وہ پانچوں وقت کی نماز کی پابند ہوگئی تھی اور ان سب میں بڑا ہاتھ اسکی روم میٹ کا تھا

اور اللّٰہ تو رحیم ہے...سچے دل سے معافی مانگو تو وہ معاف کردیتا ہے...مفسرہ نے اپنی سزا چوہدری ولا میں جھیل لی تھی۔۔اب اسے ماں کی یاد ستاتی رہتی تھی

جب ماں زبردستی کہتی مفسرہ کھانا کھا لو،،،لاؤ میں تمہارے سر میں مالش کردوں،،،،مورے کی باتیں یاد کرتے وہ روتی رہتی ہے اور آج ہمت کرکے کال کرنے کا ارادہ کرلیا

"وہاں ٹیلفون ہے آپ کرلے کال".......

مفسرہ اسکی بات پہ ٹیلیفون کے پاس آئی،،،مورے کا نمبر زبانی یاد تھا،،،اسکا دل دھک دھک کررہا تھا وہ بس یہی دعا کررہی تھی مورے کال اٹھالیں!!

ہیلو کون؟......وہ بلاشبہ اسکی مورے کی آواز تھی

"مورے مورے میں مفسرہ".......وہ رودی تھی

"میرا بچہ میرے جگر کا ٹکڑا"......اتنے وقت بعد بیٹی کی آواز سن کر وہ بھی بکھر گئی

"مورے کیسی ہیں".......

"ٹھیک ہوں میری جان کہاں چلی گئی تھی تم کہاں ہو"؟......

اور پھر مفسرہ انھیں سب بتانے لگی چوہدری ولا سے دارلامان تک۔۔

"میرا بچہ اب بس بہت ہوا اب تم میرے پاس آجاؤ".....بیٹی پہ بیتنے والی اذیتوں پہ انکا کلیجہ پھٹ رہا تھا

ماں تو ہوتی ہی ایسی ہے اپنے بچوں کی تکلیفوں پہ تڑپ اٹھنے والی

"کہاں ہیں آپ"؟......وہ بھی اب انکے پاس جانا چاہتی تھی

"میں لندن میں ہوں فہد کے ساتھ تمہاری ٹکٹ کرواتی ہوں تم بھی یہی آجاؤ،،،تمہارے بابا سائیں کا جو فلیٹ ہے یہاں وہی ہیں ہم"........

"جی مورے"......وہ اب انکی بات سے انکار نہیں کرنا چاہتی تھی

اتنی ٹھوکروں کے بعد اسے یہ بعد سمجھ اگئی تھی ماں جو کہتی ہے ٹھیک کہتی ہے ہمارے بھلے کیلئے کہتی ہے....

                             ***********

زہران کو سردار بنادیا گیا تھا،،،گاؤں کے بہت سے لوگ خوش تھے اب انصاف ہوگا۔۔

"میری یہی کوششش ہوگی آپکی ہر ضروریات پوری ہو کسی کی حق تلفی نہ ہو....اور دوسری بات اب ہمارے گاؤں میں کسی بہن بیٹی کو ونی نہیں کیا جائے گا اور جو ایسا کریگا وہ  مجرم قرار دیا جائے گا اور پھر وہ سزا کا حقدار ہوگا۔۔۔ہم نے یہ ونی کا رسم اپنے گاؤں سے مکمل طور پہ ختم کردینا ہے،،،یہ ایک غیر اسلامی رسم ہے اور ہم وہ کام نہیں کرینگے جو اسلام کے خلاف ہو اور کسی بھی بچے کو کسی سے بھی منسوب نہیں کیا جائے گا بلکہ انکے بچپن میں انکے رشتے کی فکر چھوڑ کر انکی بہترین تعلیم و تربیت پہ توجہ دئیجیے اور انکے بڑے ہونے پر انکی رضامندی سے انکے رشتے طے کریں...امید ہے آپ میری باتوں پہ عمل کرینگے".........نیوی بلو کمیز شلوار پہنے اس پہ اسکن رنگ کی چادر لیے وہ سنجیدگی سے کہتا پرکشش لگ رہا تھا

مردان خانے کی طرف لگی جالی سے جھانکتی زمل کی آنکھیں اپنے مزاجی خدا کو دیکھ کر محبت عزت سے نم ہوئیں،،،بلاشبہ وہ بہترین ایک شخص تھا

                                   ***********

"امل بیٹا بابا پاس چلیں"؟.......وہ اورنج کلر کا سوٹ پہنی ہوئی تھی اور سوٹ کا ڈوپٹہ سر پہ رکھے چادر لی ہوئی تھی

بیڈ کے بیج میں بیٹھی پنک کلر کا فراک پہنے اپنی پیاری سے بیٹی کے گالوں کو چومتے پوچھا

"بابا"......وہ ماں کے منہ سے بابا سنتے خود بھی بابا کہ کر کھکھلائی

امل نین نقش میں پوری زمل کی طرح تھی لیکن اسکے بال زہران کی طرح تھے،،کالے رنگ کے۔۔

"چلو آج ماما بیٹی بابا کو سرپرائز دینگے"......وہ امل کو گود میں اٹھائی اور مسکراتے ہوئے کمرے سے بیٹی سے باتیں کرتے ہوئے نکلی

باہر بیٹھی فضیلہ بیگم کی آنکھیں اتنے خوبصورت منظر کو دیکھ کر نم ہوئیں۔۔کتنی پیاری تھی یہ لڑکی لیکن انھوں نے قدر نہ کی اور جب قدر کرنے لگی تو وہ وقت نہیں تھا

                                 **********

زمل ڈرائیور کے ساتھ زہران کے آفس پہنچ گئی۔۔آج وہ پہلی بار زہران خان کے آفس آئی تھی۔۔۔زہران سرداری کا کام بھی نبھاتا اور آفس بھی آتا،،،وہ اتنے اچھے سے گاؤں کے معاملات دیکھ رہا تھا کہ بہت کم ہی مسئلے اسکے پاس آتے تھے۔۔

زمل شیشے کا ڈور دھکیلتے اندر ریسیپشن کے پاس آئی کیونکہ زہران کے آفس کا اسے علم نہیں تھا کہ کہاں ہے۔۔۔

"ایکسکیوزمی"......زمل ریسپیشن میں بیٹھی لڑکی کو بولی جو کوٹ پینٹ میں ملبوس تھی،،،بالوں کی پونی ٹیل بنائے وہ لڑکی خاصی ماڈرن تھی

"جی کہیں".....انداز پروفیشنل تھا لیکن آنکھیں عجیب انداز میں زمل کا معائنہ کررہی تھی

"زہران خان کا آفس بتادے کہاں ہے"؟.....وہ امل کے ہاتھوں سے اپنے ڈوپٹہ چھڑائی جو وہ بار بار پکڑ کر کھینچ رہی تھی

"کوئی اپائنٹمنٹ"؟....اسکا انداز تمسخرانہ تھا

"مجھے اسکی ضرورت نہیں".....زمل بھی آرام سے بولی

"ہاہاہا آپ جیسی بہت لڑکیاں آتی ہیں اب زہران خان ایوی ہی تو فارغ نہیں جو تم لوگوں سے ملتے رہے گے"......اسکا اشارہ چادر اور سر پہ رکھے اسکے ڈوپٹے کی طرف تھا

"آپ بتمیزی کررہی ہیں"......زمل اسکی بات پہ سرخ ہوئی

"اپنی خوبصورتی سے اگر انھیں متوجہ کرنا چاہتی ہو تو بھول ہے منہ تک نہیں لگائیں گے اور گود میں لی بچی کا ہی خیال کرلو".......وہ ایسی ہی تھی مغرور بد دماغ جبھی بنا سوچے سمجھے بولے چلے جارہی تھی

زہران نیچے کسی کام سے آیا تھا ریسپیشن میں کھڑی زمل کو دیکھ کر وہ سرپرائیز ہوا اور اسکے پاس آرہا تھا کہ ریسپیشن میں بیٹھی صوفیہ کا جملہ سن کر اسکا پارہ ہائی ہوا

"زمل میری جان واٹ آ پلیزنٹ سرپرائز".....وہ اسے اپنے ساتھ لگایا اور امل کو گود میں لیکر اسکا گالوں کو چوما

"بابا"......امل کھلکھلائی

"بابا کی شہزادی"......وہ اسکے ماتھے کو چوما

زمل مسکراتے ہوئے ریسپیشن میں بیٹھی لڑکی کو دیکھ رہی تھی جسکے چہرے کا رنگ متغیر ہورہا تھا

"مس صوفیہ میٹ مائی وائیف مسز زہران خان اینڈ مائی ڈاٹر امل زہران خان".....وہ سنجیدگی سے گھورتے اسے تعارف کروایا

"نائس ٹو میٹ یو"......وہ تھوگ نگلتے زمل کو دیکھ کر بولی

"بلکل نہیں آپ کو خوشی کہاں سے ہوئی ہوگی اور یہ کچھ دیر پہلے آپ کس طرح بات کررہی تھی میری وائف سے".......

"سر سوری مجھے نہیں پتہ تھا یہ آپکی وائف ہیں"......وہ جلدی سے بولی

"اگر میری وائف نہیں ہوتی تب بھی آپکو اجازت نہیں کسی سے اس طرح بات کرنے کی.."......وہ خود کو سخت الفاظ کہنے سے باز رکھا

"سوری سر"......وہ منمنائی

"یہ لاسٹ وارننگ ہے آئیندہ آپ کسی کے ساتھ مس بی ہیو کرینگی تو پھر اس آفس میں آپکے لئیے کوئی جگہ نہیں ہوگی".....وہ سختی سے کہتا زمل کو لیکر باہر ایا

"زمل یار اتنا اچھا سرپرائز"......وہ محبت پاش نظروں سے دیکھا

"اب جب اتنا اچھا شوہر ہو تو ایسے سرپرائز دیتے رہنے چاہیے".....وہ کھلکھلائی

"میری زندگی کا بہترین تحفہ ہے آپ اللّٰہ کی طرف سے"......وہ دونوں کار میں بیٹھ چکے تھے،،زہران محبت سے اسکی پیشانی کو چھوا

"بابا"......امل اپنے ماتھے پہ انگلی رکھی

"ہاہاہاہا بابا کی شہزادی".......وہ اسکی جیلسی پہ ہنستا ہوا اسکے پیشانی کو بھی چوما

"بابا کی شہزادی کو تو برادشت ہی نہیں بابا ماما کو پیار کریں"......زمل امل کو گھوری

ہاہاہا ایک میری شہزادی ہے تو ایک میری جان ہے".....وہ محبت سے زمل کو دیکھا

اب انکا رخ ریسٹورنٹ کی جانب تھا اور ان دونوں کی خوبصورت باتوں کے ساتھ آگے کا سفر طے ہونا تھا

                                   **********

زہران خان جیسا شخص ملنا مشکل ہے لیکن بننا نہیں۔۔۔اگر زہران خان جیسی سوچ اپنا لی جائے تو کوئی بھی عورت ظلم کا شکار ہونے سے بچ سکتی ہے۔۔۔اگر ہم تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی عورت کے ساتھ اچھا سلوک نہ کریں تو ہم جو اتنے سال تعلیم سے وابستہ رہے تو ہم نے تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ صرف ڈگری لی ہے۔۔۔

ایک اچھا مرد وہی ہوتا ہے جو عورت کی عزت کرتا ہے۔۔

مفسرہ جیسی حرکتیں آخر میں پچھتاوے کا ہی باعث بنتی ہے۔۔

کچھ لوگوں کو انکے کئیے کی سزا دنیا میں مل جاتی ہے اور کچھ کو مرنے کے بعد۔۔محتشم خان کو بھی دنیا میں سزا نہیں ملی تھی تو یقیناً وہاں ملنی تھی

اور زمل جیسی لڑکی ہونی چاہیے جو اپنی تکلیف کو چھوڑ کر معاشرے سے برائی ختم کرنا چاہے،،اسکا واپس جانا اور زہران خان کی کوششوں کے بدولت اس گاؤں سے ونی جیسے رسم کو کافی حد تک ختم کرنے میں کامیاب ہوا تھا

ہر ونی میں آئی لڑکی کے ساتھ زمل جیسا سلوک نہیں ہوتا ہوگا،،انھیں زہران جیسا شخص نہیں ملتا ہوگا،،لیکن جہاں اب بھی یہ رسم ہے تو اللّٰہ سے ڈرے کسی بے گناہ پہ ظلم نہ کرے،،اپنی سوچ کو بدلے اور عورت کو اپنی آنکھوں پہ رکھے نہ کہ پاؤں کی جوتی بنائے۔۔

عورت بہت خوبصورت ہوتی ہے ماں کے روپ میں،،بیٹی کے روپ میں،،بہن کے روپ میں،،بیوی کے روپ میں۔۔

اور کچھ عورت جو خود عورت ہوتے ہوئے دوسرے پہ ظلم کرے تو مجھے لگتا ہے انکے لئیے میرے پاس الفاظ نہیں۔۔

ہم اگر اپنے معاشرے میں نظر دوڑائے تو بہت سے لوگ کئی بڑے جرم کررہے ہوتے ہیں لیکن نہ تو وہ پکڑے جاتے ہیں اور نہ ہی انھیں سزا ہوتی ہے فہد خان بھی ایسا ہی شخص تھا۔۔۔

میری بہن علیشاہ انعم کا بہت شکریہ جنہوں نے میرے اس خوبصورت سفر میں ساتھ دیا،،اپنے قیمتی وقت سے میرے لئیے وقت نکال کر کچھ سینز بتائے اور میں لفظوں میں ڈھال کے آپکے سامنے پیش کی۔۔خوش رہے!!

                              ***********

                                         ختم شد۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


 Teri Yahi Mohabbat Chaiye Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Teri Yahi Mohabbat Chaiye  written by Ayesha Asgher. Teri Yahi Mohabbat Chaiye by Ayesha Asgher  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages