Divoonatam Hanooz By Jiya Abbasi New Complete Romantic Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
Divoonatam Hanooz By Jiya Abbasi Complete Romantic Novel |
Novel Name: Divoonatam Hanooz
Writer Name: Jiya Abbasi
Category: Complete Novel
وہ اپنے کمرے میں موجود بالکنی میں کھڑی دور تک سبزے سے ڈھکے پہاڑوں کو دیکھ کر آہستہ آہستہ گرم کافی کے گھونٹ حلق سے نیچے اتار رہی تھی۔ وہ اکثر غازان کے کورٹ جانے کے بعد صبح کے اس منظر کو وہیں کھڑے ہوکر اپنی کافی کے ساتھ انجوائے کرتی تھی۔ قدرت کے ان خوبصورت نظاروں کو اتنے قریب سے دیکھ کر اسے خود پر سرشاری سی طاری ہوتی محسوس ہوتی تھی۔ ابھی بھی ہاتھ میں کپ تھامے وہ اس حسین نظارے کو دیکھتی جا رہی تھی جب اسے اپنے پیچھے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔
وہ پلٹی اور پیچھے کھڑے شخص کو دیکھ کر دھیرے سے مسکرائی، جواباً وہ بھی مسکراتا ہوا اس کی طرف بڑھا۔
" کیسی ہو؟ "
" ٹھیک ہوں! آپ بتائیں اتنے دنوں سے کہاں غائب تھے؟ "
وہ سیاہ پینٹ شرٹ میں ملبوس اپنے باپ سے مشابہت رکھنے والے زوالقرنین ذوالفقار کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی۔
" یہ تو مجھے تم سے پوچھنا چاہیئے دادا ذوالفقار کہہ رہے تھے۔ تم آج کل گھر نہیں آتی۔ کیا ڈر لگنے لگا ہے ذوالفقار پیلس کے جنوں سے؟ " چڑانے والی مسکراہٹ چہرے پر سجائے وہ الٹا خاطره سے سوال کرنے لگا۔
جس نے شادی کے بعد بھی گردیزی ہاؤس میں رہنے کو ہی ترجی دی تھی۔ وہ لاکھ بہادر سہی مگر تھی تو لڑکی ہی، اتنے سارے جنات کے درمیان اس اکیلی انسانی جان کا گزارا انتہائی مشکل تھا۔ اس لیے خاطره کی خواہش پر غازان صاحب بھی اپنا بوریا بستر اُٹھا کر گردیزی ہاؤس چلے آئے تھے اور اب ایک سال سے ادھر ہی رہ رہے تھے۔
" ایک جن کی بیوی ہوں میں بھلا مجھے کیوں ڈر لگنے لگا۔" منہ بسور کر کہتی وہ زوالقرنین کے سائڈ سے گزر گئی تاکہ ہاتھ میں موجود خالی کپ نیچے کچن میں رکھ سکے۔ تیزی سے سیڑھیاں اُترتی وہ ابھی آخری اسٹیپ پر پہنچی ہی تھی جب زوالقرنین ایک دم اس کے سامنے آیا اور بس۔۔۔ خاطره کی چیخ اور زوالقرنین کے قہقہے سے گردیزی ہاؤس گونج اٹھا۔
" زوالقرنین۔۔۔"
خاطره نے دانت پیستے ہوئے زوالقرنین کو دیکھا جس کی ہنسی بند ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔
" ہٹیں سامنے سے۔" اسے پرے دھکیلتی وہ کچن میں چلی گئی۔
" یار مذاق کر رہا تھا۔" اس نے اپنی ہنسی کو روکتے ہوئے کہا۔
" آپ لوگوں کا یہ مذاق کسی دن میری جان لے لے گا۔"
" ارے مریں تمہارے دشمن۔"
" ایسے تو نہ بولیں۔ کہیں ایسا نہ ہو آپ آج ہی دنیا سے رخصت ہو جائیں۔ ابھی تو آپ کی شادی بھی کرانی ہے میں نے۔"
اب چڑانے کی باری خاطره کی تھی جس میں وہ خاصی کامیاب بھی ہوئی تھی۔ زوالقرنین نے گھور کر اسے دیکھا۔
" لڑکی بہت زبان نہیں چلنے لگی تمہاری۔"
" سچ ہی تو کہا ہے۔ خیر میکال سے ملے آج آپ؟ "
وہ اب کچن سے نکل کر لیونگ روم میں رکھے صوفے پر بیٹھ گئی۔ زوالقرنین اس کے سامنے ہی صوفے سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔
" نہیں وہ موصوف میرے آنے سے پہلے ہی اپنی منگیتر کے ساتھ سیر کیلئے نکل گئے۔" میکال کے ذکر پر زوالقرنین نے منہ کچھ یوں بنایا جیسے کڑوا بادام چبا لیا ہو۔
" کیوں جلتے رہتے ہو مجھ سے؟ "
میکال ایک دم وہاں نمودار ہوا ساتھ رانیہ (منگیتر) بھی تھی۔
" اور یہاں شیطان کا نام لیا اور۔۔۔ شیطان حاضر۔"
زوالقرنین نے کہتے ہوئے دونوں ہاتھ میکال کی طرف اُٹھائے تھے جس کے بعد گردیزی ہاؤس میں ایک بھونچال آگیا تھا۔
۔*********۔
'Abu's Jinns'
اسٹڈی ٹیبل پر بیٹھی وہ ہاتھ میں موجود اس کتاب کو بغور دیکھتے ہوئے بڑبڑائی۔ آج ہی اس نے اس کتاب کو مکمل کیا تھا جس میں وہ سارے واقعات موجود تھے جو 'ایکسورزم' کے دوران اس کے ابو کو پیش آتے تھے۔ اب وہ جب اس دنیا میں نہیں تھے تو اُن کی یاد میں اس نے وہ سارے واقعات لکھے تھے جو وہ اکثر گھر آ کر اسے سنایا کرتے تھے۔
" آئی مس یو ابو! "
اس نے کتاب کو اُٹھا کر سامنے پڑے بیگ میں رکھا اور اُٹھ کر الماری کی طرف بڑھی تاکہ بیگ الماری میں رکھ سکے۔
" روحینہ بیٹا! "
" جی دادو کوئی کام تھا؟ "
الماری کو لاک کر کے وہ پیچھے مڑی تھی جب فوزیہ درانی اسے پکارتی کمرے میں آئیں۔
" کام تو نہیں تھا۔ میں بس یہ بتانے آئی تھی کہ میں زرا اپنی فرینڈ کی طرف جا رہی ہوں۔ آنے میں دیر بھی ہو سکتی ہے۔" ماڈرن سی دادو اپنی ساڑی کا پلو سنبھالتے ہوئے ایک ادا سے بولیں۔ ماں باپ کی کار ایکسیڈنٹ میں ہوئی موت کے بعد اب وہی روحینہ کا واحد سہارا تھیں۔
" اوکے دادو آرام سے جائیں اور اپنا بہت سارا خیال رکھے گا۔" روحینہ نے آگے بڑھ کر انہیں گلے سے لگایا۔
" یہ میرے جانے سے تمہیں اتنی خوشی کیوں ہو رہی ہے؟ " فوزیہ درانی نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا۔
روحینہ جو یہ سوچ رہی تھی کہ دادو کے باہر جاتے ہی وہ بھی اپنے ابو کی طرح کسی 'جن' کی تلاش میں نکلے گی۔ فوراً گڑبڑا کر سیدھی ہوئی۔
"نہیں۔۔۔ نہیں تو دادو! آپ غلط سمجھ رہی ہیں۔"
" ٹھیک ہے۔ لیکن میرے جاتے ہی پیچھے سے تم بھی باہر مت نکل جانا۔ گھر پر ہی رہنا، انڈرسٹینڈ؟ "
"جی۔۔۔ جی! "
فوزیہ درانی نے کڑی نظروں سے اسے دیکھا اور کمرے سے باہر نکل گئیں۔ اُن کے جاتے ہی وہ خوشی سے اچھلتی واپس الماری کی طرف بڑھی اور ابو کا بیگ جو اس نے دادو سے چھپا کر یہاں الماری میں رکھ دیا تھا اسے لے کر خود بھی گھر سے باہر جانے کی تیاری کرنے لگی۔
۔*********۔
جنگل کے بیچ و بیچ اس بوسیدہ لکڑی کے بنے گھر میں ہر طرف دھواں پھیلا ہوا تھا۔ وہیں کمرے کے وسط میں موجود بڑی سی دیگچی کے اندر ابلتے مائع نے کمرے کی فضاء کو بدبودار کر دیا تھا۔ اس نے لمبی سانس کھینچ کر اس بدبو کو اپنے اندر اُتارا اور ہاتھ میں تھامے لکڑی کی بڑی سی ڈوئی کو اس دیگچی میں چلانے لگی۔
" اور کتنا وقت لگے گا؟ "
بلیک گاؤن پہنے وہ تینوں دیگچی کے ارد گرد جمع تھیں جب ان میں سے ایک نے پوچھا۔
" بس تھوڑی دیر میں یہ تیار ہو جائے گا مگر۔۔۔"
" مگر؟ " ان دونوں نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
" ہمیں ایک کنواری لڑکی چاہیئے ہوگی۔ تاکہ آج رات اس کی بلی چڑھا کر شیطان کو بلا سکیں۔"
ڈوئی کو اسی دیگچی میں چھوڑ کر وہ وہاں سے اس جادوئی بال کی طرف آئی جس میں جامنی رنگ کا دھواں اُٹھ رہا تھا۔ وہ منتر پڑھتی اس جادوئی بال پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ سامنے کھڑی اس کی دونوں ساتھی خاموشی سے اس بال پر نظریں جمائے ہوئے تھیں کہ دفعتاً اس بال میں ایک لڑکی کا عکس اُبھرنے لگا۔ جو جنگل میں تیزی سے چلتی کچھ تلاش کر رہی تھی۔ اس کے بھورے بالوں کی گھنگریالی لٹیں سرخ و سفید چہرے پر بار بار آ رہی تھیں۔ جنہیں وہ جھنجھلا کر کان کے پیچھے کر دیتی۔
وہ تینوں چمکتی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگیں۔
" یہ تو اس طرف ہی آ رہی ہے۔"
" بہت اچھا ہے شکار کو شکاری تک خود چل کر آنے دو۔"
بال پر نظریں جمائے وہ بولی جس پر تینوں کی پراسرار ہنسی اس لکڑی کے گھر میں گونج اُٹھی۔
۔*********۔
بیگ کندھے پر لٹکائے، ہاتھوں میں ڈیوائس پکڑے وہ جنگل میں آگے بڑھتی جا رہی تھی۔ اسے اسکرین پر کسی دوسری مخلوق کی لوکیشن قریب ہی نظر آ رہی تھی۔ اس نے ایک ہاتھ سے اپنی گھنگریالے بالوں کی لٹوں کو کان کے پیچھے کیا ساتھ ہی اپنے ارد گرد نظر دوڑائی۔
" کیا واپس چلی جاؤں؟ "
اندر موجود ڈر نے انگڑائی لی۔
" نہیں اتنی دور آ کر اب واپس جانا بزدلی ہے روحینہ! " اس نے خود کا حوصلہ بڑھایا۔
" مجھے آگے بڑھنا ہے ابو بھی تو کرتے تھے ہاں۔"
سر اُٹھاتے خوف کو تھپک تھپک کر سلاتی وہ آگے بڑھنے لگی۔ ابھی مزید چند قدم ہی چلی تھی جب سمتِ غیب سے ایک بڑی سی چیل اُڑتی ہوئی اس کی طرف تیزی سے آئی تھی۔ اس نے بےاختیار چیخ ماری۔
گردیزی ہاؤس سے نکل کر وہ یونہی ٹہلتا اس جنگل کی طرف نکل آیا تھا۔ آج ناجانے کیوں اسے رباب اور قائم ذوالفقار کا خیال بار بار آ رہا تھا۔
" کیا مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ماما رباب؟ آج آپ کا یہ اداس چہرہ کیوں میری نظروں کے سامنے آ رہا ہے۔"
اس نے تصور میں رباب کو مخاطب کیا۔ پھر یاد آیا اس نے بھلا کب اُنہیں ہنستے مسکراتے دیکھا تھا۔ اُن کے چہرے پر تو محبوب کی جدائی کی اذیت ہمیشہ رقم ہوا کرتی تھی۔
" میں نے اس ایک سال میں غازان اور خاطره کو اکیلا نہیں چھوڑا حالانکہ میں خود آج بھی تنہا ہوں بابا۔"
اس نے آسمان کی طرف دیکھا۔ ڈھلتے سورج کی کرنوں میں اسے رباب اور قائم ذوالفقار کا ایک ساتھ مسکراتا ہوا عکس نظر آنے لگا۔ وہ رک کر یونہی ان مسکراتے چہروں کو دیکھتے رہنا چاہتا تھا کہ دفعتاً اسے کسی کی نسوانی چیخ سنائی دی۔
" یہ کون ہے؟ "
زوالقرنین کے ماتھے پر بل پڑے۔ اس نے آنکھوں کو بند کر کے اس سمت کا اندازہ لگانا چاہا کہ ایک بار پھر اسے وہی چیخ سنائی دی۔ وہ بجلی کی تیزی سے اس طرف دوڑا جہاں انسانی جسم کی خوشبو محسوس ہو رہی تھی۔
" اوہ! تو یہ چڑیل آخر یہاں پہنچ گئی۔"
اس نے رک کر سامنے کے منظر کو بغور دیکھا۔ وہ چیل ہوا میں اُڑتی بار بار اُس لڑکی پر حملہ کر رہی تھی۔ زوالقرنین کو زرا دیر نہ لگی اسے پہچاننے میں آخر کو ایک زمانے میں ماما زوجیل کی ساتھی رہی تھیں۔
ادھر روحینہ بے حال ہوتی اب بےہوش ہونے کے قریب تھی جب چیل ایک بار پھر اُڑتی ہوئی اس کے قریب آنے لگی مگر اس سے پہلے وہ اس پر حملہ کرتی زوالقرنین تیزی سے ان کے درمیان آیا تھا۔
" یہاں سے دور بھاگ جاؤ۔"
اس نے چہرہ موڑ کر روحینہ سے کہا جو پھٹی آنکھوں سے اب اسے چیل سے لڑتے دیکھ رہی تھی۔
زوالقرنین کے وار سے وہ چیل زخمی ہوتی اب اپنے اصل روپ میں آرہی تھی۔ فضاء میں گونجتی اس کی خوفناک آواز پر روحینہ نے بے اختیار دونوں ہاتھ کانوں پر رکھ کر آنکھیں میچ لیں اور بس پلکوں کی جھالر گرنے کی دیر تھی زوالقرنین اُس جنی کا کام تمام کرتا منظر سے غائب کر چکا تھا۔
" زندہ ہو آنکھیں کھول لو۔"
اپنی فطرت سے مجبور زوالقرنین طنز کرنے سے باز نہ آیا۔ روحینہ نے آنکھیں کھول کر ارد گرد نظر دوڑائی۔ مگر وہاں اسکے اور زوالقرنین کے علاوہ اب کوئی نہیں تھا۔
" وہ چڑیل کہاں گئی؟ "
" جہنم رسید ہو گئی۔" وہی جلا کٹا انداز۔
روحینہ نے چہرہ موڑ کر اسے دیکھا جو اب جانے لگا تھا۔
" سنیں! رکیں تو سہی۔"
بلند آواز میں کہتی وہ تقریباً اس کے پیچھے بھاگنے لگی کہ اچانک راستے میں پڑے پتھر سے ٹکرا کر زمین بوس ہوگئی۔ زوالقرنین نے رک کر پیچھے دیکھا وہاں کوئی نہیں تھا۔ اس نے زمین پر نظر دوڑائی۔ جہاں وہ منہ کے بل گری شاید بےہوش ہو چکی تھی۔
" کیا مصیبت ہے۔"
وہ بیزار سا بڑبڑایا ساتھ ہی روحینہ کو اُٹھا کر گردیزی ہاؤس چل پڑا۔
۔*********۔
" کہاں سے ملی آپ کو یہ؟ "
بیڈ پر بےہوش لیٹی روحینہ کو دیکھتے ہوئے خاطره نے زوالقرنین سے پوچھا جو کرسی پر بیٹھا اپنا پسندیدہ مشروب پی رہا تھا۔ اس وقت اس کا موڈ سخت خراب تھا۔
" جنگل سے ملی ہیں محترمہ۔" وہ منہ بنا کر بولا۔
" جنگل؟ " خاطره نے حیرت سے اسے دیکھا۔
" یہ وہاں کیا کر رہی تھی؟ "
" اب یہ تو میڈم ہوش میں آنے کے بعد ہی بتائیں گی کہ وہاں کیا کر رہی تھیں۔" زوالقرنین نے کہتے ہوئے ایک بیزار سی نظر روحینہ پر ڈالی اور سر جھٹک کر گلاس ہونٹوں سے لگا لیا۔ ادھر غنودگی میں روحینہ نے بڑبڑانا شروع کر دیا تھا۔ خاطره فکر مند ہوتی اس کی طرف بڑھی ناجانے کون تھی بیچاری۔
" بچاؤ۔۔۔ مجھے بچاؤ۔۔۔" وہ بڑبڑائی۔
خاطره نے سائڈ ٹیبل پر رکھا پانی کا گلاس اُٹھایا اور اس کے چہرے پر پانی کی چھینٹے مارتی اسے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگی۔
" میں۔۔۔ میں کہاں ہوں؟ "
آنکھیں کھولتے ہی انجان چہرے کو اپنے سامنے دیکھ، اس نے پہلا سوال یہ کیا۔
" جہنم میں! "
جواب زوالقرنین کی طرف سے آیا جس پر خاطره اپنی مسکراہٹ دباتی روحینہ کی اُٹھ کر بیٹھنے میں مدد کرنے لگی۔
" وہ تو ٹھیک ہے لیکن آپ کہیں ان چار مردوں میں سے تو ایک نہیں جو میرے ساتھ جہنم میں ہوں گے۔"
طبیعت کی کمزوری اپنی جگہ پر روحینہ بھی کہاں پیچھے رہنے والی تھی۔ خاطره کا قہقہہ بے ساختہ ہوا۔ زوالقرنین نے گھور کر اسے دیکھا۔
" ویسے میرا نام خاطره ہے اور یہ میرے دیور زوالقرنین ذوالفقار۔" خاطرہ نے بات بدلتے ہوئے اپنا اور زوالقرنین کا تعارف کروایا۔
" میں روحینہ درانی۔" مسکرا کر کہتی وہ سمجھ گئی تھی، اب یہاں سے سوال جواب کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگا۔
" تو مس روحینہ دورانی بتانا پسند کریں گی کہ آپ جنگل میں کیا کر رہی تھیں؟ " پہلا طنز سے بھرپور سوال زوالقرنین کی طرف سے ہوا۔
" میں جن کی تلاش میں گئی تھی۔" اس نے سکون سے جواب دیا جبکہ خاطره اور زوالقرنین نے بے اختیار ایک دوسرے کو دیکھا۔
" جن کی تلاش میں کیوں؟ " اب سوال خاطره کی طرف سے تھا۔
" کیونکہ میں اپنے ابو کی طرح بننا چاہتی ہوں۔ میرے ابو 'ایکسورزم' کے زریعے انسانوں کی مدد کرتے تھے۔"
وہ فخر سے بتا رہی تھی کہ اچانک کچھ یاد آنے پر چونک کر زوالقرنین کو دیکھنے لگی۔
" آپ نے اس چڑیل کو کیسے قابو کیا؟ کیا آپ بھی ایکسورزم کرتے ہیں؟ "
اس کے کہنے کی دیر تھی خاطره کی پوری کی پوری آنکھیں کھل گئیں۔ زوالقرنین نے کسی کی مدد کی اور وہ بھی ایک لڑکی۔۔۔
" سب کا جینا حرام کرنے والا اب خدمتِ خلق بھی کرنے لگا ہے انٹرسٹنگ۔" سوچتے ہوئے اس نے معنی خیز مسکراہٹ زوالقرنین کی طرف اچھالی جبکہ وہ مطمئن ڈھیٹ بنا ایسے بیٹھا تھا جیسے وہاں ہو ہی نہیں۔
" مجھے لگتا ہے اب تمہیں اپنے گھر جانا چاہیئے کافی دیر ہوگئی۔" زوالقرنین نے بات بدلنے کے ساتھ اسے چلتا کرنا چاہا۔
" اوہ ہاں! دادو تو اب تک گھر بھی پہنچ گئی ہوں گی آج تو میری خیر نہیں۔"
وقت کا احساس ہوتے ہی وہ تیزی سے بیڈ پر سے اُٹھی اور خاطره کے لاکھ روکنے کے باوجود بھی وہ الوداع کہتی فوراً وہاں سے نکل گئی۔ اس بات سے بے خبر کے کوئی اس پر نظر رکھتا اسے گھر تک چھوڑنے گیا تھا۔
۔*********۔
رات کی سیاہی میں اس بوسیدہ حال لکڑی سے بنے گھر میں ہولناک سی خاموشی پھیلی ہوئی تھی۔ وہ دونوں جادوئی بال کے سامنے کھڑی اس منظر کو دیکھ رہی تھیں جس کی وجہ سے ان کی ایک ساتھی موت کی نیند سو گئی تھی۔
" یہ تو زوجیل کا بیٹا ہے نا زوالقرنین ذوالفقار؟ " وکٹوریا نے کیتھلین کی طرف دیکھا جس کی آنکھوں میں شعلے بھڑک رہے تھے۔
" ہاں! زوجیل کو بھی اس نے ہی مارا تھا اور اب 'مارشل' کو بھی۔"
" یعنی بہت خطرناک ہے۔" وکٹوریا نے سمجھتے ہوئے سر ہلایا۔
" صرف یہی نہیں اس کا پورا خاندان ایسا ہے۔ اس کے باپ اور بھائی نے بادشاہ تھامس کے دونوں بیٹوں کی جان لے لی تھی۔"
کیتھلین نے بال پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ اب اس بال میں غازان اور قائم ذوالفقار کا چہرہ نظر آنے لگا تھا۔
" تو یقیناً بادشاہ تھامس کسی موقع کی تلاش میں ہوں گے وہ اپنے دشمن کو یونہی تو جانے نہیں دے سکتے۔" وکٹوریا کچھ سوچتے ہوئے بولی۔
" مطلب؟ "
" مطلب یہ کہ ہم اکیلے ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ لیکن اگر ہم بادشاہ تھامس کے ساتھ مل جائیں تو ذوالفقار خاندان کو تباہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔" پراسرار مسکراہٹ چہرے پر سجائے وہ کیتھلین کو بھی مسکرانے پر مجبور کر گئی تھی۔
ان کی ساتھی کی جدائی نے ان کے اندر موجود انتقام کی آگ کو بھڑکا دیا تھا۔ جو عنقریب سب کو جلا کر راکھ کر دینے والا تھا۔
۔*********۔
غازان اب تک گھر نہیں آیا تھا اور وہ اس کے انتظار میں کمرے میں بیٹھی وقت گزاری کیلئے کوئی کتاب پڑھ رہی تھی۔ چہرہ اُٹھا کر وہ بار بار دیوار پر نصب گھڑی کی طرف دیکھتی اور پھر مایوس ہو کر چہرہ جھکا دیتی۔ اب اسے غازان پر غصّہ آنے لگا تھا۔ اس نے سوچ لیا تھا، وہ ایک ہفتے تک اس سے بات نہیں کرے گی۔ وہ منائے گا تب بھی نہیں۔۔۔ ابھی وہ ان ہی سوچوں میں تھی جب اچانک باہر سے شور اُٹھا۔ وہ کتاب سائڈ پر رکھ کر بالکنی کی طرف بڑھی کہ اس کے قدم دروازے پر ہی تھم گئے۔
" یہ۔۔۔ "
سیاہ سرد رات میں آسمان پر ہوتی آتش بازی نے بالکنی کو روشن کر دیا تھا۔ وہیں بالکنی کے ایک کونے میں ڈنر ٹیبل خوبصورتی سے سجی ہوئی تھی۔ فضاء میں پھیلی گلاب کے پھولوں کی خوشبو، وہ مبہوت سی ہو کر آگے بڑھی۔
" یہ سب۔۔۔غازان! " وہ بڑبڑائی۔ غازان ایک دم اس سامنے آیا اور۔۔۔ ٹھہر سا گیا۔
آسمان پر ہوتی آتش بازی کا عکس اس کی سیاہ آنکھوں میں جھلکنے لگا۔ کالی گھنری زلفوں کا رقص، لمحہ بے اختیار ہوا۔
" دیوونتم ھنوز! "
(Still I'm Crazy For You)
اور غازان اس کے چہرے پر جھکتا چلا گیا۔
" تم دونوں اب اپنی شکل مجھے دکھا رہے ہو کچھ خیال بھی ہے اپنے دادا کا یا نہیں؟ "
صبح ہوتے ہی غازان اور خاطره ذوالفقار پیلس چلے آئے تھے اور اب دادا ذوالفقار کے سامنے کھڑے ان کی جھڑکیں سن رہے تھے جن کا شکوہ تھا کہ وہ دونوں انہیں بالکل بھول گئے ہیں اتنا کہ ساتھ رہنا تو دور ملنے تک نہیں آتے۔ وہ دونوں بھی خاموشی سے سر جھکائے ان کے شکوے سن رہے تھے۔
" معافی چاہتا ہوں دادا ذوالفقار کیس کے سلسلے میں پھنسا ہوا تھا۔" غازان ہمت کرتا گویا ہوا۔
" غازی یہ انسانوں والے بہانے نہیں چلیں گے سمجھے؟ " دادا ذوالفقار نے کڑی نظروں سے اسے گھورا۔
" جی سمجھ گیا۔" وہ سر کھجاتا ہوا بولا۔
خاطره خاموشی سے کھڑی کبھی غازان کو تو کبھی دادا ذوالفقار کو دیکھ رہی تھی۔ جب دادا ذوالفقار نے اسے مخاطب کیا۔
" خاطره بیٹا یہ تو ہے ہی الو کا پٹھا لیکن آپ۔۔۔ آپ کو ہم سے اتنا ڈر لگتا ہے کہ غازان کے بغیر ہم سے ملنے بھی نہیں آ سکتیں۔"
" نہیں دادا ذوالفقار ایسی بات نہیں ہے۔" اسے سمجھ نہیں آیا کیا بولے۔
وہ دونوں جانتے تھے۔ قائم ذوالفقار کی جدائی، رباب کی موت اور پھر غازان کے ساتھ ہوا واقع انہیں ہمیشہ پریشان کیے رکھتا تھا۔ اس لیے وہ اب اکثر انہیں ڈانٹ دیتے تھے۔
" آپ پریشان نہ ہوں دادا ذوالفقار ہم کچھ دنوں میں ادھر شفٹ ہو جائیں گے۔"
خاطره ذوالفقار علی کو دیکھتے ہوئے مضبوط لہجے میں بولی۔ غازان نے حیرت سے اسے دیکھا۔ جبکہ دادا ذوالفقار کی خوشی کا تو ٹھکانہ نہیں رہا۔
" سچ! تم سچ کہہ رہی ہو بچے؟ "
" جی دادا ذوالفقار اب آپ بےفکر ہو جائیں۔"
" جیتے رہو بیٹی ہمیشہ خوش و آباد رہو۔"
ذوالفقار علی نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا، جبکہ غازان وہ تو اب بھی اس کایا پلٹ پر حیران ہوتا دادا کی بہو کو دیکھ رہا تھا۔
۔*********۔
وہ دونوں اس بڑے سے دروازے کے سامنے کھڑیں اندر سے اجازت ملنے کا انتظار کر رہی تھیں جب دو سپاہیوں نے مل کر دروازہ کھولا۔ یہ اشارہ تھا کہ انہیں بادشاہ تھامس سے ملنے کی اجازت ہے۔ وہ دھیرے دھیرے قدم اُٹھاتی اس بڑے سے کمرے میں داخل ہوئیں۔ سامنے ہی شاہی کرسی پر بادشاہ تھامس براجمان تھا۔ اُس نے ہاتھ کے اشارے سے اپنے سپاہیوں کو جانے کیلئے کہا۔ جس پر وہ جھک کر سلام کرتے کمرے سے باہر نکل گئے۔ دروازہ کے بند ہوتے ہی بادشاہ تھامس نے اپنی سبز اداس آنکھوں سے ان دونوں کو دیکھا جو سیاہ چوگے میں ملبوس اب جھک کر سلام پیش کر رہی تھیں۔
" بادشاہ تھامس! "
" کیتھلین، وکٹوریا کہو کیسے آنا ہوا؟ " ان کی گرجدار آواز اس کمرے میں گونجی۔
" ہمیں آپ کی مدد چاہیئے بادشاہ تھامس۔" کیتھلین نے انہیں سنجیدہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
" مدد! کیا 'مارشل' کی موت کا بدلہ لینا چاہتی ہو زوالقرنین ذوالفقار سے؟ "
وہ اب اتنے بھی بےخبر نہیں تھے۔ وکٹوریا نے بےاختیار کیتھلین کی طرف دیکھا جو خود بھی حیران سی بادشاہ تھامس کو دیکھ رہی تھی۔
" اتنا حیران ہونے کی ضرورت نہیں کوہ قاف میں رہ کر بھی ہمیں سب خبریں ملتی رہتی ہیں ذوالفقار خاندان کی۔" کہتے ہوئے پہلی بار ان کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی۔۔۔ پُراسرار سی مسکراہٹ!
" صرف زوالقرنین ذوالفقار سے نہیں بلکہ پورے ذوالفقار خاندان سے بدلہ لینا ہے۔" وکٹوریا نے مزید ان کے علم میں اضافہ کیا۔
" تو تم زوجیل کی موت کا بھی بدلہ لینا چاہتی ہو۔" وہ سمجھتے ہوئے بولے۔
" ہمم! ذوالفقار خاندان سے تو ویسے بھی ہماری پرانی دشمنی ہے۔ اسے تباہ کرنے کیلئے ہم بس صحیح وقت کا انتظار کر رہے تھے۔ پر اب ہمارا انتظار جلد ختم ہونے والا ہے۔ چودھویں کی رات کو جہاں ہمارے محل کو اس کی 'ملکہ' ملے گی وہیں ذوالفقار خاندان کا نام ونشان تک دنیا سے مٹ جائے گا۔"
خطرناک لہجے میں کہتے وہ پھر ان دونوں کو آگے کی چال سمجھانے لگے۔ جس پر ان دونوں کی آنکھوں کی چمک مزید بڑھتی جا رہی تھی۔
۔*********۔
" یہ اچانک تمہارا ارادہ ذوالفقار پیلس میں رہنے کا کیسے ہو گیا۔"
غازان نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا جو پنک شرٹ اور بلیک پینٹ پر ایپرن باندھے کچن میں کھڑی کیک تیار کرنے میں لگی تھی۔ وہ دونوں دادا ذوالفقار سے مل کر واپس گردیزی ہاؤس آ گئے تھے۔
" اچانک کچھ نہیں ہوتا سب پہلے سے پلان ہوتا ہے۔" وہ کیک کو اوون میں رکھتی معنی خیز لہجے میں بولی۔ غازان نے چونک کر اسے دیکھا اور خود بھی چلتا ہوا اس کے پیچھے جا کھڑا ہوا۔
" مطلب؟ کیا پلان ہے؟ "
خاطره اس کی جانب مڑی اور دونوں بازو غازان کی گردن کے گرد حمائل کیے۔
" زوالقرنین اور میکال کی شادی کرانے کا پھر ہم تینوں بہو، بہنوں کی طرح ساتھ رہیں گی۔" وہ خوش ہوتے ہوئے بولی۔
غازان نے بھنویں اُچکا کر اسے دیکھا اور اپنا ہاتھ اس کی کمر کے گرد پھیلا کر اسے خود سے مزید قریب کر لیا۔
" اول تو یہ کہ زوالقرنین شادی کرے گا نہیں اور اگر کبھی کی تو وہ لڑکی بھی میکال کی منگیتر کی طرح جنی ہی ہوگی انسان نہیں۔" غازان نے اپنی طرف سے خاطره کی غلط فہمی دور کرنی چاہی۔
" جناب! آپ کی غلط فہمی ہے۔ کیونکہ کل زوالقرنین نے جس لڑکی کی مدد کی وہ جن نہیں انسان تھی اور آپ نے ہی کہا تھا نا کہ زوالقرنین بغیر کسی غرض کے کسی کی مدد نہیں کرتا۔" اس نے پہلے کی کہی بات غازان کو پھر یاد دلائی۔
" تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے زوالقرنین اُسے پسند کرتا ہے۔ کوئی اور بات بھی ہو سکتی ہے۔" وہ اب بھی ماننے کو تیار نہیں تھا حالانکہ کل ہی خاطره نے اسے زوالقرنین اور روحینہ کے بارے میں بتا دیا تھا۔
" ہمم! کہہ تو ٹھیک رہے ہیں پر مجھے لگا۔۔۔"
" مس خطرہ ہر کوئی آپ کی طرح خطروں کا کھلاڑی تھوڑی ہوتا ہے جو جانتے بوجھتے کسی جن سے شادی کر لے۔"
نرمی سے اس کی بات کاٹ کر وہ محبت بھرے لہجے میں بولا۔ جس پر خاطره نے شرمانے کے بجائے خونخوار نظروں سے اسے گھورا۔
" کیا بولا آپ نے 'خطرہ' ابھی بتاتی ہوں۔"
اس نے بازو جو غازان کی گردن کے گرد حمائل کیے تھے، فوراً ہٹا کر اپنے دونوں ہاتھوں سے غازان کی گردن دبوچنی چاہی مگر اس سے پہلے ہی وہ 'بوتل کے جن' والے محاورے کو عملی جامہ پہناتا فوراً وہاں سے غائب ہوگیا۔ خاطره غصّے سے بڑبڑاتی مڑ کر اوون میں موجود کیک کو چیک کرنے لگی تھی۔
۔*********۔
لیونگ روم کے صوفے پر بیٹھی، سامنے لگی ایل ای ڈی پر نظریں جمائے روحینہ کہیں اور ہی گم تھی۔ اسے اب بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ کل واقعی اسنے کسی جنی کو دیکھا تھا اور وہ آدمی۔۔۔
" مجھے اُس سڑو کو تھینک یو تو کہنا چاہیئے تھا۔ آخر کو اُس نے میری جان بچائی تھی۔"
اس نے ایک ہاتھ ٹھوڑی کے نیچے رکھا۔ ماتھے پر سوچنے کے انداز میں بل پڑے ہوئے تھے۔
" ویسے عجیب بات ہے۔ وہ آدمی کیسے اُس چڑیل سے لڑ رہا تھا اور وہ لڑکی۔۔۔ کہیں یہ دونوں بھی ایکسورزم تو نہیں کرتے۔" کل سے ہی یہ بات اسے الجھن کا شکار کیے ہوئے تھی۔
" مجھے ان لوگوں سے ملتے رہنا چاہیئے کیا پتا یہ لوگ بھی کوئی مسٹری ہوں۔"
کچھ سوچتے ہوئے وہ صوفے سے اُٹھی اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ اس کا ارادہ ایک بار پھر گردیزی ہاؤس جانے کا ہو گیا تھا۔
" خاطره تم نے کیک بہت زبردست بنایا ہے۔" رانیہ کیک کو دیکھتے ہوئے بولی۔ پورے کچن میں اس وقت کیک کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔
" تم پلیٹس لے آؤ میں یہ کیک لے جاتی ہوں۔" خاطرہ کہتی ہوئی کیک اُٹھا کر لیونگ روم کی طرف بڑھی جہاں وہ تینوں صوفے پر بیٹھے باتوں میں مصروف تھے۔
" امید ہے جیسی خوشبو آ رہی ہے کیک بھی ویسا ہی بنا ہو۔ کہیں ہم کھا کر مر ہی نہ جائیں۔"
زوالقرنین کیک کو دیکھتا، اب بھی اسے چھیڑنے سے باز نہ آیا۔ خاطره اور غازان نے گھور کر اسے دیکھا، جبکہ سامنے بیٹھے میکال اور کچن سے آتی رانیہ نے بمشکل اپنی مسکراہٹ دبائی۔
" لو خاطرہ یہ پلیٹس۔۔۔"
اس سے پہلے وہ پلٹ کر زوالقرنین کو جواب دیتی رانیہ نے پلیٹس اس کے سامنے رکھ دیں۔
" چھری تو کچن میں رہ گئی میں لے کر آتی ہوں۔"
خاطره کہتی ہوئی اُٹھی کہ دفعتاً دروازے سے بیل بجنے کی آواز آئی۔ وہ رانیہ سے چھری لانے کا کہتی خود دروازے کی طرف بڑھ گئی۔
" السلام عليكم! "
دروازے کے کھلتے ہی سامنے کھڑی روحینہ مسکرا کر بولی۔ خاطره نے حیرت سے اسے دیکھا۔ اسے بالکل توقع نہیں تھی کہ وہ دوبارہ ان کے گھر آئے گی وہ بھی خود چل کے۔
" وعليكم السلام! اندر آؤ نا ۔" خاطرہ نے سائڈ پر ہو کر اسے راستہ دیا۔
روحینہ مسکراتی ہوئی گھر کے اندر داخل ہوگئی ساتھ ہی ہاتھ میں پکڑا بوکے اس نے خاطره کی طرف بڑھا دیا۔
" آپ نے اور آپ کے دیور نے کل میری بہت مدد کی تھی اور میں آپ کا شکریہ بھی ادا نہیں کر پائی تو سوچا آج آجاؤں۔" اس نے آنے کی وجہ بتائی۔
" بہت اچھا کیا۔ آؤ میں باقی سب سے بھی ملواتی ہوں۔"
وہ روحینہ کو لے کر آگے بڑھی۔ چاروں ان کی جانب ہی متوجہ تھے۔ سب سے تعارف اور سلام دعا کے بعد وہ بھی ان کے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔
" تو آپ میکال کی دوست پلس منگیتر ہیں۔"
" ہاں ایک سال ہونے والا ہے ہماری دوستی کو اور دو ماہ منگنی کو۔" رانیہ مسکراتے ہوئے بولی۔
" اور آپ۔۔۔آپ کی کوئی گرل فرینڈ ہے یا اب تک سنگل ہیں؟ "
خاطره اور رانیہ سے ان کی 'لو لائف' کی بابت جاننے کے بعد اس کا رخ زوالقرنین کی طرف ہوا جس پر اُن چاروں کے لبوں پر دبی دبی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ زوالقرنین نے بیزار سی نظر اس پر ڈالی۔ منہ میں موجود کیک یکدم ہی کڑوا لگنے لگا تھا۔
" ہاں بتاؤ نا زوالقرنین اپنی سیکریٹ گرل فرینڈ کے بارے میں۔ جس کے ساتھ تمہیں میکال نے رنگے ہاتھوں پکڑا تھا۔ کیوں میکال صحیح کہہ رہا ہوں نا۔" غازان نے بھی موقع دیکھتے ہی جلتی پر تیل ڈالا۔ ساتھ ہی ساتھ میکال کو بھی گھسیٹ لیا۔
" ہاں بالکل! بتاؤ زوالقی۔" میکال نے پورے دانتوں کی نمائش کی۔ جبکہ تینوں لڑکیاں منہ کھولے زوالقرنین کو دیکھ رہی تھیں۔
" واقعی؟ "
زوالقرنین نے دانت پیستے ہوئے دل ہی دل میں دونوں کو گالیوں سے نوازا اور پھر اُٹھ کر بنا کچھ کہے گھر سے باہر نکل گیا۔ اس کے جاتے ہی لیونگ روم ان سب کی ہنسی سے گونج اٹھا تھا۔
" چار جن اور دو انسان! "
باہر کھڑکی سے ان لوگوں کو دیکھتی وکٹوریا پراسرار لہجے میں بولی۔
" شکار دو مگر لاشیں چار! "
کیتھلین کی نظریں بھی اپنے شکار کو دیکھ کر چمک اُٹھی تھیں۔
۔*********۔
وہ واپس ذوالفقار پیلس چلا آیا تھا۔ اور اب اپنے کمرے میں بیٹھا رباب اور قائم ذوالفقار کی تصویر پر نظریں جمائے کسی غیر مرئی نقطے کو گھور رہا تھا۔ اسے ناجانے کیوں روحینہ کو دیکھ کر آس پاس خطرے کا احساس ہونے لگتا تھا۔
" یہ لڑکی یا تو مصیبت میں ہے، یا پھر خود مصیبت ہے۔" زوالقرنین کی نظروں میں اس کا معصوم چہرہ لہرایا۔ آج روحینہ کا یوں گردیزی ہاؤس آنا اسے ایک آنکھ نہیں بھایا تھا۔
" مجھے خاطره اور غازان کی حفاظت کیلئے اس لڑکی پر نظر رکھنی ہوگی۔ کہیں ایسا نہ ہو یہ لڑکی کوئی مصیبت کھڑی کر دے۔"
وہ سوچتا ہوا اُٹھا اور اپنے کمرے سے نکل کر اب ذوالفقار علی کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ وہ زیادہ تر وقت ان کے ساتھ ہی گزارتا تھا۔
۔*********۔
" تم دونوں کو اُس سے دور رہنا چاہیئے یوں تعلقات بڑھانا ٹھیک نہیں۔" خاطره اور رانیہ کو دیکھتے ہوئے غازان گویا ہوا۔ تھوڑی دیر پہلے ہی روحینہ یہاں سے گئی تھی اور اب بس وہ چاروں موجود تھے۔
" غازی بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے۔" میکال نے بھی اس کی تائید کی۔
" کیا ہو گیا ہے دونوں کو وہ ایک معمولی سی انسان ہے۔" رانیہ انسان لفظ پر زور دیتے ہوئے بولی۔ جبکہ خاطره نظروں میں الجھن لیے انہیں دیکھ رہی تھی۔
" معمولی انسان نہیں ہے۔ سنا نہیں تم نے اُس کے ابو ایکسورزم کرتے تھے۔ ہوسکتا ہے اسے بھی اس سب کا علم ہو۔ وہ ہماری اصلیت جان سکتی ہے۔" میکال نے سمجھانا چاہا۔
" میں بھی انسان ہوں اور آپ لوگوں کی اصلیت جانتی ہوں۔" اس کی بات کو ہوا میں اُڑاتی خاطره جھک کر ٹیبل پر رکھے برتن سمٹنے لگی۔
" یہ اعزاز آپ کو غازان کی وجہ سے ملا ہے جبکہ زوالقرنین کے کسی انداز سے یہ نہیں لگتا کہ وہ روحینہ کو پسند کرتا ہے۔ اس لیے اپنی دیورانی بنانے کا خیال دماغ سے نکال دیں۔" میکال نے کہتے ہوئے پورے دانتوں کی نمائش کی تھی اور اس طرح کرتا وہ خاطره کو انتہائی زہر لگا تھا۔
" میکال کی بات درست ہے۔ تم اُس سے بھلے دوستی رکھو مگر یاد رکھنا ہمارے راز باہر نہ جائیں۔"
" ٹھیک ہے۔"
غازان کی بات پر خاطره نے اثبات میں سر ہلایا اور برتن اُٹھا کر کچن میں چلی گئی۔
" اس کا خیال رکھنا رانیہ۔"
غازان وہیں بیٹھے خاطره پر نظریں جمائے مدھم لہجے میں بولا۔ اندر دبا بیٹھا 'کھو دینے' کا خوف ناجانے کیوں انگڑائی لینے لگا تھا۔
۔*********۔
بیگ کندھے پر ڈالے وہ کمرے سے باہر نکلی۔ اس وقت ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ وہ راہداری عبور کرتی، لیونگ روم سے گزر کر باہر دروازے تک پہنچی۔ ابھی ہینڈل پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ پیچھے سے آتی دادو کی آواز پر اس نے زور سے آنکھیں میچی۔
" کہاں جا رہی ہو اس وقت؟ "
" دادو خاطره سے ملنے جا رہی ہوں۔" ان کی طرف چہرہ موڑتے ہوئے جواب دیا۔
" وہی تمہاری نئی نویلی دوست؟ " تیکھی نظروں سے دیکھتے ہوئے پھر سوال ہوا۔
" جی وہی۔"
" یہ تمہاری اس سے کچھ زیادہ دوستی نہیں ہو گئی؟ "
" دادو پلیز انویسٹی گیشن بعد میں کر لے گا۔ مجھے دیر ہو رہی ہے وہ میرا انتظار کر رہی ہوگی۔" مزید سوالوں سے تنگ آ کر روحینہ منت بھرے لہجے میں بولی۔
" ٹھیک ہے جاؤ پر جلدی آنا۔"
" اوکے تھینک یو دادو! "
فوزیہ درانی کے گلے لگ کر وہ تیزی سے باہر نکل گئی جبکہ وہ اس کی حرکتوں پر تاسف سے سر ہلاتی اپنے کمرے کی طرف چل پڑیں۔
۔*********۔
وہ درخت پر بیٹھا اسے گھر سے باہر آتے دیکھ رہا تھا۔ ایک ہفتہ ہونے والا تھا اسے روحینہ پر نظر رکھتے ہوئے۔ لیکن ابھی تک اس کے ہاتھ کچھ ایسا نہیں لگا تھا جو اس لڑکی کو لے کر مشکوک ہو۔ اپنی آگ رنگ آنکھیں اس پر جمائے، وہ درختوں کو پھلانگتا خود بھی اس کے پیچھے ہو لیا۔
" اف! دادو سے تو جھوٹ بول دیا پر کہیں پھر اس چڑیل سے سامنا نہ ہو جائے۔"
جنگل کی طرف جاتے ہوئے وہ خود سے بڑبڑائی۔ ایک بار پھر اس پر جن کی تلاش کا بھوت سوار ہو گیا تھا۔
" ڈیوائس تو یہ ہی لوکیشن دے رہی ہے۔"
اس نے سامنے کی طرف دیکھا جہاں درختوں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ اس سے پہلے وہ اس سمت کی طرف بڑھتی۔ زوالقرنین درختوں سے اُتر کر تیزی سے اس کے سامنے آیا۔
" آاااہ! "
یوں اس کے اچانک سامنے آنے پر روحینہ نے بےاختیار چیخ ماری۔ زوالقرنین نے بغور اسے دیکھا جو آنکھیں میچے اب دھیرے دھیرے کانپ رہی تھی۔
" ڈرپوک لوگ یوں ڈھلتی شام کے وقت جن کی تلاش میں نکلا نہیں کرتے۔" ہمیشہ کی طرح طنزیہ انداز میں کہا گیا۔
روحینہ نے آنکھیں کھول کر حیرت سے اسے دیکھا۔
" آپ یہاں کیا کر رہے ہیں اور آپ کو کیسے معلوم کہ میں جن کی تلاش میں نکلی ہوں۔" وہ کمر پر ہاتھ رکھے لڑاکا عورتوں کی طرح پوچھ رہی تھی۔
" تم جیسی عقل کی پیدل سے اور کیا امید کی جاسکتی ہے۔"
" یو! "
آستین چڑھاتی وہ اس کی طرف بڑھی جب زوالقرنین نے پھرتی سے اسے پکڑ کر بائیں جانب دھکیلا۔ وہ لڑکھڑاتی ہوئی جھاڑیوں پر جا گری۔
" تمہاری اتنی ہمت۔۔۔"
چیختے ہوئے اس نے سر اُٹھا کر زوالقرنین کی طرف دیکھا مگر یہ کیا۔۔۔ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی۔ سامنے زوالقرنین کسی کتے نما سیاہ جانور کو قابو کرنے میں لگا تھا۔
" black shuck! "
روحینہ اس جانور کی لال انگارہ آنکھوں کو دیکھ کر خوف سے بڑبڑائی اور پھر بغیر سوچے سمجھے اُٹھ کر دوڑ لگا دی۔ وہ بغیر پیچھے دیکھے تیزی سے بھاگتے جا رہی تھی۔ جب اچانک زوالقرنین کا خیال آنے پر قدم تھم سے گئے۔
" زوالقرنین! کہیں اس بلیک شک نے اُسے مار نہ دیا ہو۔" وہ اُلٹے قدم واپس بھاگی۔ اس کا تنفس بُری طرح پھول رہا تھا پر وہ رکی نہیں۔
" زوالقرنین! "
سامنے خون میں لت پت کھڑا زوالقرنین اور نیچے زمین پر مردہ حالت میں گرا بلیک شک۔۔۔
وہ خوفزدہ نظروں سے اس منظر کو دیکھنے لگی تھی۔
" یہ ہماری سوچ سے بھی زیادہ طاقتور ہے۔"
جادوئی بال میں زوالقرنین کو دیکھتے ہوئے کیتھلین کا دل چاہا ابھی جا کر اسے ختم کر دے۔ ان کا بھیجا گیا بلیک شک بھی اُسے مارنے میں ناکام رہا تھا۔
" تمہیں اب یہ بات مان لینی چاہیئے کہ ہم اکیلے اس خاندان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔" وکٹوریا زہریلی جڑی بوٹی کو سرخ مائع میں ڈالتے ہوئے بولی۔ مائع سے اُٹھنے والا دھواں پورے کمرے میں پھیل گیا تھا۔
" آج جب تم جنگل میں گئی تھیں تب بادشاہ تھامس کے سپاہی آئے تھے۔" کیتھلین اس کی بات کو نظرانداز کرتے ہوئے بادشاہ تھامس کے سپاہی کی آمد کا بتانے لگی۔
" کیا پیغام لائے تھے؟ "
" وقت آ گیا ہے کہ ہم شکار کو شکاری تک پہنچا دیں۔" پراسرار لہجے میں کہتے، اس نے جادوئی بال کی طرف دیکھا جہاں اب روحینہ اور زوالقرنین دکھائی دینے لگے تھے۔
۔*********۔
"ک۔۔۔ کون ہو تم اور تم نے کیسے مارا اسے؟ "
وہ خوف زدہ نظروں سے زوالقرنین کو دیکھ رہی تھی۔ جس کی آنکھوں میں شعلے بھڑک رہے تھے۔
" بہت شوق ہے نا تمہیں جنوں کی تلاش میں نکلنے کا دیکھو مجھے دیکھو۔۔۔"
وہ کہتا ہوا روحینہ کی طرف بڑھا۔ جس کا چہرہ خوف کے باعث سفید پڑ گیا تھا۔ زوالقرنین کا یہ روپ۔۔۔ اسے لگا آج وہ واقعی مر جائے گی۔
" ت تو۔۔۔ تم بھی جن ہو۔"
وہ بمشکل بولی۔ یہ وہ شخص تو نہیں تھا جو اس کا مسیحا تھا۔ جسے وہ دل ہی دل میں پسند کرنے لگی تھی۔ جو اس سے بیزار رہتا تھا۔ یہ تو کوئی اور ہی تھا۔
" میری ایک بات کان کھول کر سن لو۔ آج کے بعد تم خاطره سے دور رہو گی اور اگر کسی کو ہمارے بارے میں بتانے کی کوشش کی تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہو گا۔"
زوالقرنین اسے مزید خوف زدہ کرتا اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ اپنے اتنے قریب اس خوفناک چہرے کو دیکھنا، وہ ہوش و حواس کھو کر سیدھا زمین پر جا گری۔
" امید ہے اب محبت کا بھوت اُتر جائے گا اور تم ہم سے دور رہو گی۔"
اب وہ اتنا بھی بےخبر نہیں تھا۔ اس نے جھک کر روحینہ کو اُٹھایا اور واپس اس کے گھر کی جانب بڑھ گیا۔
۔*********۔
کمرے میں کھڑی وہ اپنی تیاری کا جائزہ لے رہی تھی۔ بلیک فل سلیوز گاؤن میں ملبوس وہ اس وقت بے حد پیاری لگ رہی تھی۔ تھوڑی دیر پہلے ہی غازان نے اسے فون کر کے ڈنر باہر کرنے کا پلان بتایا تھا۔ جس پر وہ خوش ہوتی فوراً ہی تیار ہونے چل پڑی تھی۔
" غازان بس آنے والے ہی ہونگے۔"
اس نے گھڑی میں وقت دیکھا اور ایک نظر آئینے میں نظر آتے اپنے سراپے پر ڈال کر کمرے سے باہر نکل گئی۔
تیزی سے سیڑھیاں اُترتی نیچے آئی جب دفعتاً دروازے پر بیل ہوئی۔
" اس وقت کون آگیا۔"
خاطره جھنجھلاتی ہوئی دروازے کی طرف بڑھی۔ جانتی تھی کوئی آس پڑوس کا ہی ہوگا کیونکہ گھر کے فرد تو دیوار کے آر پار سے بھی گزر جاتے تھے۔ انہیں کہاں ضرورت تھی دروازے کی۔
" جی کون؟ "
سامنے چوگے میں کھڑی عورت کو اس نے حیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا جب اچانک اس عورت نے کچھ بھی کہے بغیر ہاتھ میں موجود مائع خاطره کے چہرے پر اچھال دیا۔ ایک درد ناک چیخ تھی جو مری کی اس سرد فضاء میں گونج اُٹھی تھی۔
۔*********۔
پلکوں کی جھالر اُٹھی تو اس نے خالی خالی نظروں سے اس جگہ کو دیکھا۔ چند لمحے لگے تھے یہ جاننے میں کہ وہ کہاں ہے۔
" مجھے یہاں کون لایا؟ "
خود کو اپنے کمرے، اپنے بیڈ پر دیکھ اسے حیرت ہوئی۔ وہ تو جنگل میں تھی اور زوالقرنین۔۔۔ اُس کا خیال آتے ہی اس کے اندر اداسی پھیل گئی۔
" کیا سمجھا تھا میں نے ان سب کو اور کیا نکلے۔ کتنا اچھا لگتا تھا وہ مجھے اور وہ۔۔۔"
وہ اُٹھ کر بیٹھ گئی جب کھڑکی سے آتی تیز ہوا، اس کے چہرے کو چھو کر اس کی توجہ اپنی طرف کروا گئی۔
" حیرت ہے دادو نے کھڑکی بند نہیں کی۔"
سوچتے ہوئے روحینہ بیڈ سے اُٹھی اور کھڑکی کی جانب بڑھی کہ اچانک کھڑکی سے ہو کر اس کے گرد تیزی سے گھومتا کالا سایہ اسے اپنے ساتھ ہی غائب کر گیا۔
۔*********۔
وہ بجلی کی تیزی سے کمرے میں داخل ہوا جہاں زوالقرنین اور میکال بیٹھے اپنے پسندیدہ مشروب سے انصاف کر رہے تھے مگر اس کی اچانک آمد پر چونک کر اسے دیکھتے ٹھہر سے گئے۔
" کیا ہوا غازان تمہارا چہرہ ایسے۔۔۔"
غازان کی شعلہ بنی آنکھیں اور چہرے پر موجود سیاہ دراڑیں، انہیں کسی انہونی کا احساس دلا رہی تھیں۔
" سب ٹھیک ہے غازی؟ " میکال نے پھر پوچھا۔
" غازان! "
اب کے زوالقرنین کی پکار اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔ غازان نے نظریں اُٹھا کر اسے دیکھا اور یہ دیکھنا بھی کیا دیکھنا تھا۔ زوالقرنین کو لگا اس کا دل کسی نے مٹھی میں لے لیا ہو۔
" وہ نہیں مل رہی زوالقرنین! میری خاطره وہ۔۔۔ وہ نہیں مل رہی۔"
غازان بمشکل بولا۔ دل تو کر رہا تھا سب تہس نہس کر دے اور وہ کر بھی دے گا اگر اس کی خاطره اس کی نظروں کے سامنے نہ آئی تو۔
" کیا مطلب نہیں مل رہی؟ "
ان دونوں نے الجھ کر اسے دیکھا بھلا ایسے کیسے ہو سکتا تھا کہ وہ مصیبت میں ہو اور انہیں خبر نہ ہو۔
" میں نے سب جگہ دیکھ لیا۔ میں تو اس کی خوشبو تک سے جان جاتا ہوں وہ کہاں ہے پر آج کچھ پتہ نہیں چل رہا۔"
اس نے قریب موجود دیوار پر ہاتھ مارا جس کے باعث دراڑیں فوراً دیوار پر نمودار ہوئی تھیں۔
" ریلیکس! میں دیکھتا ہوں یہی کہیں ہوگی اور میکال میرے آنے تک تم اسے سنبھالو۔"
زوالقرنین کہتا ہوا فوراً وہاں سے غائب ہوگیا۔ جبکہ کھڑکی سے پار انہیں دیکھتے سیاہ پرندے کی لال آنکھوں میں چمک مزید بڑھی تھی۔
ذوالفقار پیلس سے نکل کر وہ سیدھا گردیزی ہاؤس آیا تھا۔ تاکہ کوئی سرا تلاش کر سکے۔ کمرے اور باتھ روم کو اچھی طرح چیک کر کے وہ لیونگ روم میں آیا۔ جب ایک عجیب سے احساس نے اسے گھیرے میں لیا۔
" یہ تو کسی جڑی بوٹی کی خوشبو ہے۔"
ایک عرصہ وہ زوجیل کے ساتھ رہا تھا اس لیے فضاء میں پھیلی مدہم سی خوشبو کو بھی وہ محسوس کر گیا۔
" یہ ہو کیا رہا ہے؟ پہلے روحینہ پر حملہ اور اب خاطره۔۔۔"
زوالقرنین نے سوچتے ہوئے چاروں طرف نگاہ دوڑائی کہ اچانک کسی خیال کے تحت چونکا اور فوراً وہاں سے غائب ہوتا وہ روحینہ کے گھر چلا آیا۔
گھر میں خاموشی کا راج تھا وہ ایک ایک کمرہ چیک کرتا۔ روحینہ کے کمرے میں آیا مگر سوائے فوزیہ درانی کے اس گھر میں کوئی نہیں تھا۔
" یہ لڑکی کدھر گئی؟ "
وہ پورا گھر دیکھ چکا تھا پر یہاں اُس کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ اس نے اپنی طاقت کا استعمال کر کے پتا لگانا چاہا۔ مگر ناکام۔۔۔
" ڈیم! لگتا ہے انہی چڑیلوں کا کام ہے۔ یقیناً اپنی ساتھی کا بدلہ لینے کیلئے یہ سب کیا ہے پر خاطره کیوں؟ " ایک بہت بڑا سوالیہ نشان تھا۔ جو ناجانے ان کی زندگی کو کس موڑ پر لے جانے والا تھا۔
۔*********۔
" تم کہاں جا رہے ہو؟ " غازان کو ذوالفقار پیلس سے باہر جاتے دیکھ وہ فوراً اس کے سامنے آیا۔
" ہٹو سامنے سے میں یوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتا۔" وہ غصّے سے دھاڑا۔
" زوالقرنین گیا ہے نا وہ ڈھونڈ لے گا۔" میکال نے سمجھانا چاہا۔
" وہ میری محبت ہے۔ میری بیوی، اس کی حفاظت میری ذمہ داری ہے زوالقرنین کی نہیں۔"
وہ بھڑک کر کہتا اب کے رکا نہیں تھا اور نہ میکال اُسے روکنے کی ہمت رکھتا تھا۔
وہ بے بسی سے اُسے جاتے دیکھ رہا تھا جب دائیں جانب دیوار پر موجود آئینے میں سیاہ سایہ نمایاں ہوا ساتھ ایک ان دیکھی زنجیر نے میکال کو پیروں سے جکڑنا شروع کردیا۔
" یہ کیا ہو رہا ہے؟ "
میکال نے جھٹکا دے کر خود کو آزاد کروانے کی کوشش کی مگر پکڑ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی تھی۔ اُس کا پورا جسم اس زنجیر کی قید میں آ چکا تھا جب اُس سیاہ سائے نے پلک جھپکتے ہی اُسے آئینے کے اندر کھینچ لیا۔
۔*********۔
مری کی اس سیاہ رات میں اچانک ہی تیز ہوائیں چلنے لگی تھیں۔ وہیں جنگل میں موجود لکڑی کے اس بوسیدہ گھر میں وہ دونوں اس جادوئی بال کے سامنے کھڑی تھیں۔ جس میں زوالقرنین جنگل کی طرف آتا دکھائی دے رہا تھا۔ اسے دیکھتے ہی ان کی آنکھوں میں چمک اُتر آئی تھی۔
" تم نے صحیح کہا تھا۔ شکار خود چل کر آ رہا ہے۔" وکٹوریا اسے دیکھتی ہوئی بولی۔
" آنے دو اسے۔ ہماری حدود پار کرتے ہی اس کی ساری طاقتیں ناکارہ ہو جائیں گی اور تب شکار ہمارے جال میں ہوگا۔"
نفرت سے کہتے ہوئے، کیتھلین زمین پر دائرہ سا بنا کر بیٹھتی اب زیرِ لب منتر پڑھنے لگی تھی۔
دوسری طرف زوالقرنین تیزی سے جنگل میں آگے بڑھتا ان چڑیلوں کی تلاش میں اسی طرف آ رہا تھا۔ اسے پورا یقین تھا کہ خاطره اور روحینہ کو انہیں چڑیلوں نے قید کیا ہوگا۔ تیزی سے آگے بڑھتا وہ اس لکڑی کے بوسیدہ گھر کے سامنے پہنچا ہی تھا جب زور دار جھکٹے سے اچھل کر وہ دور جا گرا۔
" یہ کیا تھا؟ "
زوالقرنین نے حیرت سے اس گھر کی طرف دیکھا اور ایک بار پھر اُٹھ کر اس گھر کی جانب بڑھا کہ ایک اور جھٹکا اسے لگا تھا۔ اس بار ایسی شدت تھی کہ وہ نڈھال سا زمین پر گر گیا تبھی وہاں ایک بلیک ہال نمودار ہوا جو دیکھتے ہی دیکھتے اُسے اپنے اندر کھینچتا وہاں سے غائب ہوگیا۔
۔*********۔
ذوالفقار پیلس سے نکل کر وہ واپس گردیزی ہاؤس آیا تھا۔ پورا گھر بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ عجیب وحشت تھی جو اس کے ارد گرد پھیلی ہوئی تھی۔
" کہاں ہو خاطره؟ " وہ چیخا۔
" خدارا واپس آ جاؤ۔ میں اب تمہیں بالکل اکیلا نہیں چھوڑو گا۔"
" پلیز واپس آ جاؤ۔"
وہ کہتا جا رہا تھا۔ پورا گردیزی ہاؤس اس کی آواز سے گونجتا جا رہا تھا۔ اس کا دل چاہا سب تہس نہس کر دے۔۔۔
وہ بےبس سا وہیں گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھ گیا جب اچانک کچن سے برتنوں کے بجنے کی آواز آئی۔ اس نے تیزی سے سر اُٹھا کر اس طرف دیکھا۔
بلیک ٹراؤزر اور وائٹ ٹی شرٹ میں وہ پیٹھ اس کی طرف کیے کام میں مشغول تھی۔ غازان بےیقینی سے اسے دیکھتا اُٹھ کھڑا ہوا۔
" خاطره! "
اسنے پکارا۔ کچن میں کام کرتے اس کے ہاتھ رکے پر وہ مڑی نہیں۔
" خاطره تم ہونا۔"
وہ بےتابی سے کہتا اُس کے پیچھے جا کھڑا ہوا۔ ابھی ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا ہی تھا کہ وہ تیزی سے مڑی۔ پراسرار مسکراہٹ چہرے پر سجائے، اُس نے ہاتھ میں موجود سیاہ مائع غازان ذوالفقار کے اوپر اچھال دیا تھا۔ جس کے بعد اس کی وحشت زدہ چیخیں گردیزی ہاؤس میں گونج اُٹھی تھیں۔
کوہ قاف کے اس محل پر اُتری سیاہی میں چاروں طرف سانپ کے پھنکارنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ وہیں اس محل کے بڑے سے کمرے میں موجود وہ تینوں اس بے ہوش وجود کے سامنے کھڑے تھے۔ جو سیاہ لباس میں، اپنی سیاہ آنکھوں پر غلاف چڑھائے ان سب سے بیگانہ تھی۔
" منتر پڑھنا شروع کرو۔"
بادشاہ تھامس کی کرخت بھری آواز گونجی۔ جس پر عمل کرتے وکٹوریا اور کیتھلین نے منتر پڑھنا شروع کر دیا تھا۔
سکوت زدہ کمرے میں یکدم ارتعاش پیدا ہوا تھا۔ تیز ہوا کے جھونکے کھڑکی پر ڈالے پردوں کو بے قابو کر رہے تھے۔
وہ دونوں ہاتھ میں موجود سفید سفوف کو اس بے ہوش وجود کے اوپر ڈالتی، منتر پڑھتی جا رہی تھیں جب اچانک سامنے دیوار سے پھوٹتی تیز روشنی میں وہ سایہ نکل کر اس بے ہوش وجود میں سما گیا۔
" ایلا! "
محبت سموئے بادشاہ تھامس کی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی تھی۔ جس سے آنکھوں پہ چڑھا غلاف ہٹا تھا۔ اب وہاں سیاہ آنکھوں کی جگہ آگ رنگ آنکھوں نے لے لی تھی۔
۔*********۔
" دادا ذوالفقار لندن گئے ہیں اپنے بیٹے ظہیر ذوالفقار کے پاس۔"
گڈو (ملازم) اس کے سامنے سوپ کا پیالہ رکھتے ہوئے بولا۔ جو چہرے پر الجھن لیے ذوالفقار پیلس کے ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھی تھی۔
" اور باقی سب۔۔۔"
" بتایا تو ہے رانیہ بی بی کل رات تک گھر پر تھے اب پتا نہیں کہاں ہیں۔"
" لیکن کچھ تو پتا ہوگا۔ ایسے کیسے سب ایک ساتھ غائب ہو گئے۔" وہ جھنجھلا کر بولی۔ اسے میکال پر سخت غصّہ چڑھا تھا جو بغیر بتائے ناجانے کہاں چلا گیا تھا۔
" آپ خاطره بی بی سے پوچھ لیں شاید وہ جانتی ہوں۔" خاطره کا خیال آتے ہی گڈو نے چہک کر کہا۔
" ارے ہاں! خاطره اور غازان بھائی کو شاید معلوم ہو میں ان سے پوچھتی ہوں۔"
جلدی جلدی سوپ ختم کر کے وہ وہاں سے اُٹھ کر گردیزی ہاؤس پہنچی۔ دروازہ کھٹکھٹانے کا تکلف اس نے نہیں کیا تھا۔
" خاطره! "
لیونگ روم میں کھڑے ہو کر اس نے آواز دی مگر۔۔۔ خاموشی!
" خاطره اوپر ہو؟ "
رانیہ نے کمرے میں جھانکا وہاں بھی کوئی موجود نہیں تھا۔ اب اسے کسی گڑبڑ کا احساس ہونے لگا۔
" یہ بھی نہیں ہے۔ ذوالفقار پیلس میں بھی کوئی نہیں ہے۔ آخر یہ سب گئے کہاں؟ "
اس نے پریشانی سے سر پر ہاتھ پھیرا ساتھ ہی اپنی طاقت کا استعمال کر کے پتا لگانے کی کوشش کرنے لگی مگر ناکام۔۔۔
" اف! کچھ پتا نہیں چل رہا کیا کروں۔ دادا ذوالفقار بھی یہاں نہیں ہیں اور اس عمر میں انہیں پریشان کرنا بھی تو ٹھیک نہیں ہوگا۔"
اس نے سوچتے ہوئے چاروں طرف نظر دوڑائی کہ اچانک خیال آنے پر چونکی۔
" گلوریا! ہاں گلوریا میری مدد کر سکتی ہے۔" خود سے بڑبڑاتی وہ فوراً وہاں سے غائب ہو گئی۔
۔*********۔
اندھیرے تہہ خانے میں اس نے آنکھوں کو کھول کر اپنے ارد گرد دیکھنا چاہا۔ مگر جادو کا اثر اتنا تھا کہ وہ بمشکل ہی آنکھیں کھول پا رہا تھا۔ تہہ خانے میں عجیب سی بو پھیلی ہوئی تھی۔ اوپر سے مسلسل آتی مدھم آواز، اس نے دھیان لگا کر سننا چاہا۔ سانپ کے پھنکارنے کی آواز تھی۔ وہ ایک دم چوکنا ہوا۔ مگر یہ کیا۔۔۔ وہ زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔
" پھر سے۔۔۔"
غازان کے لب ہلے۔ اسے وہ دن یاد آیا جب قانتا اور زوجیل نے اسے ایسے ہی زنجیروں میں قید کر دیا تھا۔
" خاطره! "
اس نے ارد گرد نظر دوڑائی کہ شاید وہ بھی یہاں ہو مگر بجائے خاطره کے میکال اور زوالقرنین کو وہاں بندھے دیکھ وہ ایک پل کیلئے ساکت رہ گیا۔
" یہ یہاں میکال۔۔۔ زوالقرنین! "
غازان نے چیخ کر انہیں پکارا تاکہ وہ ہوش میں آجائیں مگر وہ ویسے ہی بے سود زنجیروں میں جکڑے کھڑے رہے۔ سر جھکے ہوئے تھے۔
" زوالقرنین۔۔۔ میکال ہوش میں آؤ۔"
اس نے ایک بار پھر آواز لگائی ساتھ ساتھ وہ خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا مگر ہر کوشش پر گرفت سخت سے سخت ہو جاتی۔
" اف خاطرہ! "
بےبس سا ہو کر وہ دھاڑا۔ جب وہ کالا سایہ دیوار کے آر پار ہوتا ایک بار پھر غازان کو ہوش و حواس سے بیگانہ کر گیا۔
۔*********۔
تیزی سے اُڑتی وہ کوئل اس لکڑی سے بنے گھر کے سامنے آ رکی تھی۔ جو پہاڑ کی چوٹی پہ موجود پر انسانوں کی نظر سے اوجھل تھا۔ اپنے انسانی روپ میں آ کر رانیہ نے دروازہ کھٹکھٹایا جب ایک گول مول سی لڑکی نے دروازہ کھولتے ہی مسکرا کر اسے دیکھا۔
" گلوریا مجھے تمہاری مدد چاہیئے۔" وہ بغیر کسی تمہید کے گویا ہوئی۔
" اندر آجاؤ لڑکی میں جانتی ہوں تمہیں کیا مدد چاہیئے۔" گلوریا مسکرا کر کہتی اسے گھر کے اندر لے آئی۔ وہ کافی ہنس مکھ اور خوش مزاج تھی اور سب سے بڑھ کر وہ اپنے جادو کا غلط استعمال نہیں کرتی تھی۔
" بیٹھو یہاں آرام سے۔"
اس نے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ جس کے سامنے ٹیبل پر ایک بڑا سا آئینہ موجود تھا۔ رانیہ نے الجھ کر اسے دیکھا۔ جو اس کے ساتھ ہی برابر والی کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔
" اب بتاؤ کیا مسئلہ ہے۔"
" تمہیں یاد ہے نا میکال میرا منگیتر؟ "
" بالکل یاد ہے آخر تم دونوں نے میری جان بچائی تھی۔ ورنہ وہ کیتھلین اور مارشل تو مجھے مار ہی دیتی اُس دن۔"
وہ پھر مسکرائی کیسے بھول سکتی تھی وہ دن پہلی ملاقات ہی ان کی اُس دن ہوئی تھی۔ جس کے بعد سے ملاقاتوں کا یہ سلسلہ جاری ہو گیا تھا۔
" گلوریا میکال کا کچھ پتا نہیں چل رہا بلکہ اس کے بھائی بھابھی بھی غائب ہیں۔"
" اس کا مطلب میرا شک صحیح تھا۔" رانیہ کی بات سن کر وہ دھیرے سے بڑبڑائی۔
" کیا؟ "
" کل شیطانی طاقتیں اپنے عروج پر تھیں جس کے باعث جنگل میں طوفان برپا تھا۔ تمہیں پتا نہیں چلا؟ " گلوریا نے بتاتے ہوئے آخر میں سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا جس پر رانیہ نے نفی میں سر ہلا دیا۔
" لیکن اس سب سے ذوالفقار خاندان کا کیا تعلق؟ " رانیہ الجھی۔
" بہت بڑا تعلق ہے۔ جب ان شیطانی طاقتوں کو بدلہ لینا ہوتا ہے تو وہ چودھویں کی رات سے پہلے اپنے شکار کو قید کر لیتے ہیں۔ تاکہ چودھویں کی رات ان کو موت کی نیند سلا کر شیطان کو خوش کر سکیں اور کل ہی بقول تمہارے ذوالفقار خاندان کے فرد لاپتہ ہوئے ہیں۔" رانیہ نے بے یقینی سے منہ پر ہاتھ رکھا۔
" اگر ایسا ہے تو آج چودھویں کی رات ہے۔"
" ہاں! وقت کم ہے۔ ہمیں پتا لگانا ہوگا وہ کہاں ہیں۔"
گلوریا نے زیرِ لب کچھ پڑھتے ہوئے آئینے کی طرف اشارہ کیا۔ جہاں اب بادشاہ تھامس کے محل کا سارہ منظر نظر آ رہا تھا۔ رانیہ منہ پر ہاتھ رکھے بے یقینی سے ان تینوں کو زنجیروں میں قید دیکھ رہی تھی۔
" اب میں کیا کروں؟ "
وہ رونے والی ہو رہی تھی بس نہیں چل رہا تھا ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر میکال کے پاس پہنچ جائے۔
" ایک طریقہ ہے۔"
گلوریا پر سوچ انداز میں کہتی اُٹھ کر دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ چند لمحوں بعد واپس آئی تو ہاتھ میں کانچ کی بوتل موجود تھی۔
دراز قامت آئینے کے سامنے کھڑی سیاہ شاہی لباس میں ملبوس وہ اپنی آگ رنگ آنکھوں میں چمک لیے خود کو دیکھ رہی تھی۔ یہ جسم کسی اور کا تھا پر آج کی رات ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس کا ہونے والا تھا۔ وہ جو موت کی نیند جا سوائی تھی۔ پھر سے ایک نئے جسم کے ساتھ نئی زندگی جینے والی تھی۔ اس نے شاہانہ انداز میں ہاتھ میں موجود تاج اپنے سر پر سجایا اور ایک ادا سے کنیزوں کو پیچھے آنے کا اشارہ کرتی کمرے سے باہر نکل گئی۔
بادشاہ تھامس کے حرم کے سامنے رک کر اس نے کنیزوں کو باہر کھڑے رہنے کا اشارہ کیا اور خود اندر کی جانب بڑھی جہاں بادشاہ تھامس شاہی کرسی پر براجمان اسی کی راہ دیکھ رہے تھے۔
" ملکہ! "
اسے دیکھتے ہی وہ اپنی جگہ سے اُٹھے۔ ایلا مسکراتی ہوئی سیڑھیاں چڑھ کر ان کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔
" بادشاہ تھامس! "
" ملکہ ہمیں یقین نہیں آ رہا آپ ہمارے سامنے ہیں۔"
ایک ہاتھ ایلا کی کمر میں ڈال کر خود سے قریب کرتے وہ اس کا چہرہ دیکھنے لگے۔ دس سال بعد ان کی ملکہ ایک نئے روپ میں ان کے سامنے موجود تھی۔
" آج رات آپ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس جسم کی مالک بن جائیں گی۔" بادشاہ تھامس محبت سے چور لہجے میں بولے۔ آگ رنگ آنکھوں میں چمک لیے وہ مسکرائی۔
" مگر اس سے پہلے ہم ان قیدیوں کا دیدار کرنا چاہتے ہیں۔"
" کیوں نہیں ضرور آپ کنیزوں کے ساتھ جا کر مل سکتی ہیں۔"
بادشاہ تھامس نے اجازت دی۔ آخر وہ بھی چاہتے تھے کہ اپنی بیوی خاطرہ کو اس روپ میں دیکھ کر مرنے سے پہلے غازان بھی ویسے ہی تڑپے جیسے وہ اپنے بیٹوں کی موت پر تڑپے تھے۔
ان کی طرف سے اجازت ملتے ہی ایلا حرم سے نکل کر تہہ خانے کی جانب بڑھی تھی۔ جہاں وہ تینوں قید آنے والے طوفان سے بےخبر تھے۔
۔*********۔
" یہ کونسی جگہ ہے؟ "
میکال نے چاروں طرف نظریں گھمائیں۔ اس اندھیرے تہہ خانے میں کسی عام انسانی آنکھ سے دیکھنا ناممکن تھا۔ مگر وہ جن تھا اس لیے کوئی دشواری نہیں ہو رہی تھی۔
" کوہ قاف! بادشاہ تھامس نے اپنے محل میں قید کر لیا ہے۔"
غازان گہری سانس لیتا ہوا بولا۔ پہلے بھی وہ یہاں لایا جا چکا تھا اس لیے اچھے سے اندازہ تھا اس سب کے پیچھے بادشاہ تھامس ہے۔ یقیناً اپنے بیٹوں کی موت کا بدلہ لینا چاہتا ہے۔
" صرف بادشاہ تھامس نہیں ماما زوجیل کی ساتھی بھی شامل ہیں۔"
" تمہیں کیسے پتا؟ "
میکال اور غازان نے چونک کر زوالقرنین کو دیکھا۔
" روحینہ کو میں نے انہیں کی ایک ساتھی سے بچایا تھا۔ تب اُس کی میرے ہاتھوں موت ہو گئی تھی۔"
زوالقرنین کے بتانے پر غازان نے ہونٹ بھینچ لیے۔ اسے خود سے زیادہ خاطره کی فکر تھی۔ وہ معصوم ان کی وجہ سے مشکل میں پھنسی ہوئی تھی۔
ابھی وہ تینوں اپنی اپنی سوچوں میں گم تھے کہ دفعتاً تہہ خانے کا دروازہ کھلا۔ ہاتھ میں مشعل پکڑے وہ دونوں کنیزوں کے ساتھ اندر داخل ہوئی۔
" خاطرہ! "
غازان نے بے تابی سے اسے پکارا۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا وہ صحیح سلامت اس کے سامنے ہے۔ ایلا نے ہاتھ کے اشارے سے کنیزوں کو باہر جانے کا کہا وہ ادب سے سر جھکاتی باہر نکل گئیں۔
" خاطره تم ٹھیک۔۔۔"
" خاطره نہیں 'ایلا تھامس' ہوں میں، بادشاہ تھامس کی بیوی۔" وہ غرائی۔
تینوں زنجیروں میں جکڑے ساکت کھڑے اس کی آگ رنگ آنکھوں کو دیکھ رہے تھے۔
" یہ کیا بکواس ہے۔ تم میری بیوی ہو مسز خاطره غازان! " غازان لفظوں پر زور دیتا ہوا بولا۔ بھلا کہاں برداشت تھا اپنی بیوی کے منہ سے کسی اور کا نام سننا۔
" غازان اس کی آنکھیں دیکھو۔" زوالقرنین دھیرے سے بولا۔
" یہ ہو کیا رہا ہے۔ کہیں میں پاگل نہ ہو جاؤں۔" ان لوگوں کی باتیں سنتا میکال سخت جھنجھلایا ہوا تھا۔
" یہ کیسے خود کو تھامس کی بیوی کہہ سکتی ہے۔۔۔ میں کچھ نہیں جانتا یہ ہپنوٹائز ہے تو بھی اسے ہوش میں آنا ہوگا۔" غازان نے کہتے ہوئے خود کو زنجیروں سے آزاد کرانے کی کوشش کی مگر بے سود۔۔۔ ایلا تمسخر اڑانے والے انداز میں مسکرائی۔
" آج رات انسانی جسم کی بلی چڑھا کر ہم ایک بار پھر کوہ قاف پر راج کریں گے اور اُس کے بعد تم لوگوں کو موت کی گھاٹ اُتار کر ہم اپنے بیٹوں کا تم سے بدلہ لینگے۔" وہ کہتے ہوئے زوالقرنین کی طرف بڑھی اور دلچسپی سے اسے دیکھنے لگی۔
" لیکن اگر تم چاہو تو تمہاری جان بخشی ہم کر سکتے ہیں۔" ایک ادا سے اس کے چہرے پر انگلی پھیرتے وہ غازان کو انگاروں پر لوٹا گئی تھی۔
" خاطره! "
وہ دھاڑا، سمندر جیسی نیلی آنکھوں میں شعلے بھڑک اُٹھے تھے پر دوسری جانب پرواہ کسے تھی۔
زوالقرنین نے متفکر نگاہوں سے غازان کی طرف دیکھا۔ تو کیا وہ پھر اس سے بدگمان ہو جائے گا جو بھائی کی محبت اس کے اندر جاگی تھی ایک بار پھر دم توڑ جائے گی۔
" غازی! "
میکال نے بےبسی سے اسے پکارا تاکہ وہ ہوش میں آئے۔ خاطره عرف ایلا کی حرکتیں اس کی سمجھ سے تو باہر تھیں۔
" اپنی آواز بند رکھو سمجھے۔"
ایلا غصّے سے اس کی طرف بڑھی اور اپنے تیز ناخن اس کے چہرے پر مارے جس سے ہلکے سے آگ کے شعلے نکلے تھے۔ تکلیف کے باوجود بھی بےیقینی سے غازان اسے دیکھے گیا۔ یہ اس کی خاطرہ کو آخر ہو کیا گیا تھا۔
میکال اور زوالقرنین بھی اسے بے یقینی سے دیکھ رہے تھے۔ جب وہ غصّے سے انہیں گھورتی تہہ خانے سے باہر نکل گئی۔
۔*********۔
پورے محل میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔ سب کو اپنی ملکہ کی آمد کی خبر ہو چکی تھی۔ اپنی ملکہ کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے پوری رعایا بڑے سے ہال میں جمع تھی۔ جہاں کچھ ہی دیر میں دیدار بھی نصیب ہونے والا تھا۔
وہیں اپنے حرم میں شاہی کرسی پر براجمان بادشاہ تھامس کے سامنے وہ دونوں ادب سے سر جھکائے کھڑی تھیں۔ بس آج کی رات تھی جب ان تینوں کا بدلہ پورا ہو جانا تھا۔
" آج رات اس لڑکی کی بلی چڑھانے کے بعد ان تینوں کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔"
بادشاہ تھامس کی گرج دار آواز ان کی سماعتوں سے ٹکرائی جس سے ان کے چہروں پر پراسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی۔
" بالکل اپنی بیوی کے ہاتھوں مرنا کسی اذیت سے کم تھوڑی ہوگا۔" وکٹوریا کی بات پر بادشاہ تھامس کے چہرے پر مزید سختی در آئی۔
" ہماری ملکہ ہیں وہ کسی غازان ذوالفقار کی بیوی نہیں۔"
" جی۔۔۔ جی بادشاہ تھامس۔"
کیتھلین نے معاملہ بگڑتا دیکھ فوراً کہا تھا۔ ساتھ ہی وکٹوریا کو گھورا جو بادشاہ تھامس کے تیور دیکھ کر گھبرا گئی تھی۔
دوسری طرف خاطره عرف ایلا سر پر تاج سجائے اپنے کمرے کی بالکنی میں کھڑی تھی۔ دونوں ہاتھ کمر پر باندھے، گردن اکڑائے، ایک غرور سے اپنی رعایا کو دیکھ رہی تھی۔ جو نیچے ہال میں کھڑی اپنی ملکہ کی واپسی پر خوشی سے نعرے لگا رہی تھی۔ وہ ایک ادا سے گردن مزید اونچی کیے مڑی اور کنیزوں کی ہمراہی میں بادشاہ تھامس کے حرم میں چلی گئی۔
وہ بےبسی سے سر جھکائے غازان کو دیکھ رہے تھے۔ جسے چپ سی لگ گئی تھی۔ وہ دونوں کتنی ہی آوازیں اسے دے چکے تھے مگر ایک بار بھی اس نے سر اُٹھا کر انہیں نہیں دیکھا تھا۔ زوالقرنین جانتا تھا وہ خاطره نہیں ایلا تھی۔ ورنہ اس کی بہن بہت باحیا تھی۔ وہ کبھی ایسی حرکت نہ کرتی کیونکہ جتنی محبت وہ غازان سے کرتی تھی، شاید ہی کسی اور سے کی ہو۔ مگر وہ غازان کو کیسے سمجھاتا، جو پتھر کا ہو گیا تھا۔
" ہم ایسے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ سکتے۔ کچھ تو کرنا پڑے گا اس سے پہلے وہ کسی معصوم انسان کی بلی چڑھا دیں۔ اگر ایسا ہو گیا تو ان کو روکنا ناممکن ہو جائے گا۔" زوالقرنین نے میکال کو دیکھتے ہوئے کہا۔
" مگر وہ بیچارا انسان ہے کون جو ان کے ہتھے چڑھ گیا۔"
میکال کے کہنے پر زوالقرنین کے دماغ میں اچانک سے کچھ کلک ہوا۔ اسے فوراً روحینہ کا خیال آیا۔ وہ بھی تو غائب تھی۔
" نہیں! ایسا نہیں ہو سکتا۔"
" کیا ہوا؟ " میکال نے اسے بڑبڑاتے دیکھ پوچھا۔
زوالقرنین نے نفی میں سر ہلایا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کرے۔ اچانک اس کی سماعتوں سے کسی پرندے کے اڑنے کی مدہم آواز ٹکرائی۔
" یہ کیسی آواز ہے۔"
تبھی وہ کوئل دیوار سے آر پار ہوتی ان کے سامنے آئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ انسانی شکل میں آ چکی تھی۔
" رانیہ! "
میکال نے حیرت سے اسے دیکھا۔ وہ بےتابی سے آگے بڑھ کر اس کے گلے سے جا لگی۔
" تم ٹھیک ہو؟ "
" میں ٹھیک ہوں تم یہاں کیسے؟ "
" میں گلوریا کی مدد سے یہاں پہنچی ہوں۔ بے فکر رہو اس کے جادوئی سفوف کی وجہ سے کسی کو میری موجودگی کا احساس نہیں ہوگا۔" رانیہ کے بتانے پر وہ تھوڑا پر سکون ہوا۔
" کیا تم ہمیں آزاد کروا سکتی ہو؟ " اب کے سوال زوالقرنین کی طرف سے تھا۔
رانیہ نے اثبات میں سر ہلایا اور جیب میں موجود کانچ کی شیشی نکالی۔ کھولتے گرم مائع نے زنجیر کو پگھلا کر رکھ دیا تھا۔ وہ ان دونوں کو آزاد کرتی غازان کی طرف بڑھی۔ وہ ویسے ہی سر جھکائے زنجیر میں قید کھڑا تھا۔
" غازان بھائی وہ خاطره نہیں ہے۔ وہ ایلا تھامس ہے۔ خاطره کی روح کو انہوں نے قید کیا ہوا ہے۔ روحینہ کی بلی چڑھا کر وہ ہمیشہ کیلئے خاطره کے جسم پر قابض ہو جائے گی۔ وقت بہت کم ہے۔ آپ ہمت ہار جائیں گے تو ہم سب کا کیا ہوگا۔" رانیہ بےبسی سے اسے دیکھتے ہوئے وہ سب بتانے لگی جو گلوریا کے جادوئی آئینے نے اسے دکھایا تھا۔
غازان نے آہستہ سے سر اُٹھا کر اسے پھر اُن دونوں کو دیکھا۔ ناجانے ان تینوں کے چہروں پر کیسی التجا تھی۔ غازان فوراً سیدھا ہوا۔
" کھولو یہ زنجیر۔"
اس کے کہتے ہی رانیہ فوراً آگے بڑھی۔ غازان کو فل فارم میں آتا دیکھ میکال اور زوالقرنین کی بھی ہمت بندھی تھی۔
" ہمارے پاس وقت کم ہے۔ ہمیں الگ الگ ہو کر خاطره اور روحینہ کو ڈھونڈنا ہوگا۔"
" تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ میکال اور رانیہ تم دونوں ایک ساتھ جاؤ گے۔" زوالقرنین کی بات کی تائید کرتا، غازان ان دونوں سے مخاطب ہوا۔ جس پر وہ اثبات میں سر ہلاتے فوراً وہاں سے نکل گئے۔
غازان نے زوالقرنین کی طرف تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی زوالقرنین کو شرمندگی نے آن گھیرا۔ آج پہلی بار وہ کسی کے سامنے شرمندہ ہوا تھا وہ بھی بغیر کسی غلطی کے۔
" غازان میں۔۔۔"
غازان خاموشی سے آگے بڑھا اور سیدھا اسے گلے سے لگا لیا۔
" اب کوئی بھی بات ہم دونوں کے بیچ دراڑ نہیں ڈال سکتی۔" اس کی بات پر زوالقرنین کی آنکھوں میں بے اختیار نمی اُتری۔ اس نے غازان کو خود میں بھینچ لیا۔
" چلو اب وقت کم ہے۔ وہ دونوں ہمارا انتظار کر رہی ہوں گی۔"
اور پھر وہ دونوں خود بھی تہہ خانے سے نکل کر اپنی اپنی محبت کی تلاش میں آگے بڑھ گئے تھے۔
۔*********۔
جہاں ایلا تھامس کے حرم میں موجود شیشہ ساعَت میں ریت تیزی سے گرتی وقت کے گزرنے کا پتا دے رہی تھی۔
وہیں وہ محل میں چاروں طرف پھیلے ان دونوں کو تلاش کر رہے تھے۔ وقت کم تھا جو تیزی سے گزرتا جا رہا تھا۔ راستے میں آنے والے کئی سپاہیوں کو وہ موت کی نیند سلا چکے تھے۔ تاکہ اپنوں کو موت کے منہ سے واپس لا سکیں۔
ایک طرف غازان تھا جس کی بیوی کے جسم اور روح کو موت سے پہلے ہی جدا کر دیا تھا۔
دوسری طرف زوالقرنین تھا جس کی نئی نئی محبت کو اپنی زندگی کیلئے بلی چڑھانے جارہے تھے۔
تو تیسری طرف میکال اور رانیہ تھے جن کے خاندان کی خوشیاں اور زندگی انتقام کی آگ میں جلنے والی تھیں۔ پھر وہ کیسے نہ تڑپتے۔۔۔
راستے میں آتے دونوں سپاہیوں کو موت کی گھاٹ اتارنے کے بعد غازان نے اردگرد دیکھا پوری راہداری میں خاموش چھائی تھی۔
" آخر کہاں ہو سکتی ہے میری خاطرہ؟ کہاں قید کیا ہوگا اس کی روح کو؟ " اس نے بےبسی سے سوچا۔
" غازی! ایلا تھامس بن کر سوچو، غازان ذوالفقار بن کر نہیں۔ اگر وقت سے پہلے خاطره کی روح کو نقصان پہنچا تو اس کا جسم بھی ایلا تھامس کیلئے کسی کام کا نہیں رہے گا۔ اس لیے ایلا تھامس کیلئے سب سے قیمتی چیز ابھی خاطره کی روح ہے۔"
اس کی سماعتوں سے زوالقرنین کی آواز ٹکرائی۔ جو یقیناً دور ہو کر بھی اس سے باخبر تھا۔
" قیمتی چیز! اگر ایلا تھامس کی جگہ میں ہوتا تو۔۔۔ تو میں خاطرہ کی روح کو اپنے پاس رکھتا، اپنی نظروں کے سامنے۔" غازان بڑبڑایا اور کچھ سوچ کر تیزی سے ایلا کے کمرے کی طرف بڑھا۔
کمرہ خالی تھا اس وقت وہاں کوئی موجود نہیں تھا۔ اس نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔
" خاطره میری جان کہاں ہو؟ "
آنکھوں کو سختی سے بند کیے وہ دل میں بولتا اُسے محسوس کرنے لگا جب مدھم سی آواز اس کے کانوں میں گونجی۔ وہ تڑپ اُٹھا۔
"غازان! "
اور پھر یہ پکار، یہ تڑپ اسے اپنی طرف کھینچنے لگی۔ غازان نے اپنی سمت آنے والی آوازوں کا تعاقب کیا۔ جو سامنے دیوار پر لگی ایلا تھامس کی تصویر سے سنائی دے رہی تھیں۔
۔*********۔
" کہاں رکھا ہوگا ان لوگوں نے اُسے؟ "
غازان کو تو اس نے راہ دیکھا دی تھی پر وہ خود اپنی راہ سے بےخبر تھا۔
کم وقت میں ہی محل کا آدھا حصّہ اس نے چھان مارا تھا پر اس کی کوئی خبر ہی نہیں تھی۔
شیشہ ساعَت میں پھسلتی ریت وقت ہاتھ سے نکلنے کا پتا دے رہی تھی۔ اس نے ایک لمحے رک کر روحینہ کے جسم کی خوشبو کو محسوس کرنا چاہا مگر ناکام۔۔۔
دوسری طرف میکال اور رانیہ بھی سپاہیوں کا صفایا کرتے ان دونوں کی تلاش میں آگے بڑھتے جا رہے۔ جو اس محل کی بھول بھلیاں میں ناجانے کہاں گم تھیں۔
غازان اس تصویر کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ جہاں سے اب آوازیں آنا بند ہو چکی تھیں۔
" آوازیں تو یہیں سے محسوس ہو رہی تھیں۔"
وہ اب تصویر کے فریم کو چیک کرنے لگا شاید اس کے پیچھے کوئی دروازہ ہو۔ اچھی طرح سے تلاش کرنے کے باوجود بھی اس کے ہاتھ کچھ نہیں لگا تھا۔ اس نے بےبسی سے تصویر کو دیکھا۔
" کوئی تو راستہ ہوگا یا پھر یہ آوازیں کہیں میرا وہم تو نہیں۔"
سوچتے ہوئے اس نے ایک آخری کوشش کیلئے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تھا۔ جب اچانک اس کا ہاتھ ایلا تھامس کی تصویر کے آر پار ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس تصویر نے غازان ذوالفقار کو اپنے اندر کھینچ لیا۔
" یہ کیا ہے؟ "
اس نے حیرت سے اس جگہ کو دیکھا جو تصویر کے اندر موجود تھی۔ اندھیرے میں ڈوبی یہ جگہ غازان نے چوکنا انداز میں اپنے قدم آگے بڑھائے۔ اندھیری طویل راہداری تھی۔ جس سے گزر کر اسے ہلکی ہلکی روشنی نظر آنے لگی تھی۔ وہ مزید آگے بڑھا۔ جب کمرے کے وسط میں اسے ایک پنجره نظر آیا۔ اندھیرے کمرے میں وہ مدہم سی سفید روشنی سیدھا اس پنجرے کے اوپر پڑھ رہی تھی۔
" غازان! "
ایک بار پھر خاطره کی آواز اس کے کانوں میں گونجی وہ تیزی سے اس پنجرے کی جانب بڑھا۔ چھوٹے سے پنجرے میں وہ سفید کبوتر اپنی سیاہ آنکھوں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
" خاطره! "
غازان کی آنکھوں میں یکدم نمی اُتری۔ اسے ایک لمحہ نہ لگا تھا اپنی محبت، اپنی بیوی کو پہچاننے میں۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر چھونا چاہا مگر۔۔۔
کمرے میں اچانک کئی سانپوں کے پھنکارنے کی آواز پھیلی تھی۔ غازان نے تیزی سے مڑ کر دیکھا۔ وہ چاروں طرف سے ان کے گھیرے میں آ چکا تھا۔
۔*********۔
محل کے اس خفیہ کمرے میں کھڑے وہ چاروں اس بے ہوش وجود کو دیکھ رہے تھے۔ جو سفید لباس میں، اپنی بھوری آنکھوں پر غلاف چڑھائے ان سب سے بیگانہ تھی۔
اس کے ارد گرد موم بتیاں جل رہی تھیں۔ چاند کی سفید روشنی میں اس کا وجود پراسراریت لیے ہوئے تھا۔ وقت آگیا تھا جب اس کی بلی چڑھا کر وہ شیطان کو خوش کرتی، ہمیشہ کیلئے خاطره کے جسم پر قابض ہو جاتی۔
" ہمیں اب دیر نہیں کرنی چاہیئے۔"
کیتھلین نے کہتے ہوئے ہاتھ میں پکڑا خنجر ایلا کی طرف بڑھایا۔ اس نے بادشاہ تھامس کی طرف دیکھا جن کی نظروں میں اسے تھامنے کی اجازت تھی۔ ایلا نے مسکراتے ہوئے اس خنجر کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
" مجھے یقین نہیں آ رہا۔ ایک بار پھر ہم اپنے اس محل پر راج کریں گے۔"
" بالکل ملکہ! ہم تو کب سے اس انتظار میں تھے کہ آپ آئیں اور اپنی جگہ سنبھالیں۔" بادشاہ تھامس کے لہجے میں اس کیلئے محبت ہی محبت تھی۔
وہ مسکراتی ہوئی خنجر تھامے آگے بڑھی۔ دونوں ہاتھ ہوا میں معلق کیے وہ اس کی گردن پر وار کرنے ہی لگی تھی۔ جب وہ تیزی سے قریب آتا اسے دور دھکیل چکا تھا۔
ایلا ایک جھٹکے سے زمین پر جا گری۔ کیتھلین اور وکٹوریا نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔ جبکہ بادشاہ تھامس غیض وغضب کے ساتھ اس کی طرف بڑھے تھے۔
" بہت بڑی غلطی ہوگئی ہم سے سب سے پہلے تم لوگوں کا خاتمہ کرنا چاہیئے تھا۔"
" واقعی بہت بڑی غلطی کر دی ہمیں زندہ رکھ کے۔ اب اپنی موت دیکھو۔"
جلانے والی مسکراہٹ چہرے پر سجائے زوالقرنین نے انکی بات کی تائید کی ساتھ ہی پیچھے ہٹتا وہ ان کے وار کو ناکام بنا چکا تھا۔
۔*********۔
سختی سے ہونٹ بھینچے غازان ان سانپوں کے درمیان پھنسا ایک ایک کر کے سب کو موت کے گھاٹ اتارتے جا رہا تھا۔ مرنے مار دینے کا ایک جنون سوار تھا۔ پھر اس کی طاقت کا مقابلہ تو زوالی تھامس نہیں کر سکاتا تو یہ عام سپاہی کیا چیز تھے۔ وہ سب کو ان کے انجام تک پہنچاتا خاطره کی طرف مڑا۔
" عشقم! "
اسے پنجرے سے باہر نکال کر نرمی سے اس کے سر کو اپنے ہونٹوں سے چھوا پھر اپنے دائیں کندھے پر اسے بٹھاتا وہ تیزی سے اس جگہ سے باہر نکل گیا۔
" ناجانے وہ لوگ کس طرف ہوں گے۔"
غازان کو اب ان تینوں کی تلاش تھی۔ راہداری سے گزرتے ہوئے وہ اوپر جاتی سیڑھیوں کی طرف بڑھنے لگا۔ جب بائیں جانب سے اسے رانیہ کی آواز سنائی دی۔ وہ فوراً ان کے پاس بھاگا۔
" رانیہ میکال تم ٹھیک ہو؟ "
نیچے گرے سپاہیوں پر ایک نظر ڈال کر غازان نے ان دونوں سے پوچھا۔ جو لڑ لڑ کے اب حال سے بے حال ہو رہے تھے۔
" ہم ٹھیک ہیں۔ "
کہتے ہوئے میکال کی نظر غازان کے کندھے پر پڑی جس پر سفید کبوتر بیٹھا تھا۔
" یہ خاطره۔۔۔"
اس نے دانستہ طور پر بات ادھوری چھوڑ دی۔ غازان نے اثبات میں سر ہلا دیا پر بولا کچھ نہیں۔
رانیہ اور میکال نے بے اختیار ایک دوسرے کو دیکھا۔ آنکھوں میں نمی سی اُتری تھی۔ غازان نے خود پر کیسے قابو پا رکھا تھا، اسے دیکھتے ہی میکال کو اچھے سے اندازہ ہوگیا۔
" زوالقرنین کہاں ہے؟ " غازان نے درمیان میں پھیلی خاموشی کو توڑا۔
" پتا نہیں! روحینہ کا پتا ہے نہ زوالقرنین کا۔"
" وقت بہت کم ہے۔ ہمیں انہیں ڈھونڈنا ہوگا۔ میرے ساتھ آؤ۔" کہتے ہی وہ واپس سیڑھیوں کی طرف بھاگا تھا۔ رانیہ اور میکال بھی اس کے ساتھ ہی تھے۔
زوالقرنین اکیلا ان چار بڑی طاقتوں کا مقابلہ کرتا اب کمزور پڑنے لگا تھا۔ اس کے باوجود اس نے ایک خراش بھی خود کو اور روحینہ کو پڑنے نہیں دی تھی۔ وہ اب بھی جادو کے اثر بے ہوش تھی۔ جبکہ ایلا بار بار اس پر حملہ کرنے کا موقع تلاش کر رہی تھی جسے زوالقرنین ہر بار ناکام بنا دیتا۔۔۔
ایلا ایک بار پھر زوالقرنین کو ان تینوں کے درمیان الجھا دیکھ روحینہ کی طرف بڑھنے لگی تھی۔ وقت گزرتا جا رہا تھا۔ رات کا آخری پہر ختم ہونے سے پہلے اسے روحینہ کی بلی چڑھانی تھی تاکہ وہ اس جسم پر ہمیشہ کیلئے قابض ہو سکے۔ اس نے نیچے گرا خنجر اُٹھایا۔
" اب تم سب کو ایسی عبرت ناک موت دینگے کے ہزاروں سالوں تک کوہ قاف کا بچہ بچہ تک یاد کرے گا۔"
نفرت سے کہتی وہ روحینہ کے گلے پر خنجر پھیرنے ہی لگی تھی جب غازان کا بھاری ہاتھ اس کے چہرے پر پڑا وہ بلبلا اُٹھی۔
" تمہاری اتنی ہمت۔۔۔" وہ اس پر جھپٹی۔
ادھر میکال اور رانیہ بھی زوالقرنین کو ان تینوں کے بیچ گھیرا دیکھ فوراً ان پر حملہ آور ہوئے تھے۔ زرا سی دیر میں ہی ان دونوں نے وکٹوریا اور کیتھلین کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
" تم مجھے مار نہیں سکتے غازان۔ اگر تم نے مجھے مار دیا تو تمہاری بیوی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ایک کبوتر بن کر رہ جائے گی۔" وہ معصومیت سے پلکیں جھپکاتی اس کے کندھے پر موجود کبوتر کو دیکھ کر بولی۔
" تم۔۔۔"
غازان نے دانت پیسے اور ایک بار پھر اپنا بھاری ہاتھ اس کے منہ پر مارا۔ اب کے وہ اچھل کر دور جا گری تھی۔
دوسری طرف زوالقرنین نے بادشاہ تھامس کو گردن سے دبوچ رکھا تھا۔ وہ لاکھ طاقتور سہی پر اکیلے ایک جوان جن کے آگے وہ کمزور پڑنے لگے تھے۔ تبھی زوالقرنین نے ایک جھٹکے سے ان کے سر کو تن سے الگ کر دیا۔
" برائی کا انجام برا ہی ہوتا ہے بادشاہ تھامس۔"
حقارت سے ایک نظر ان کے مردہ وجود پر ڈال کر وہ پلٹا۔ اب صرف ایلا تھامس تھی جو ان کیلئے سراپائے امتحان بنی ہوئی تھی۔ وہ سب ایک جھٹکے سے اس کا کام تمام کر سکتے تھے پر مسئلہ سارا خاطره کے جسم کا تھا۔ جسے وہ نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے۔
" مجھے مارنا اتنا آسان نہیں غازان ذوالفقار۔"
ایلا تیزی سے اس کی جانب بڑھی۔ اس سے پہلے غازان کچھ سمجھ پاتا اس نے گردن سے پکڑ کر اسے زوالقرنین کی طرف اچھال دیا۔ ایک فورس سے دیوار توڑتے وہ دوسرے کمرے میں جا گرے۔
" غازان! "
"زوالقرنین! "
رانیہ اور میکال بے اختیار چیخے۔
اُدھر ایلا تھامس کے حرم میں موجود شیشہ ساعَت میں ریت کے چند ذرے وقت کے گزرنے جانے کا پتا دے رہے تھے۔
وہ جنونی انداز میں ہاتھ میں خنجر لیے روحینہ کی طرف بڑھی اور اب کی بار اس کا وار خالی نہیں گیا تھا۔
میکال اور رانیہ جو اسے روکنے کیلئے آگے بڑھ رہے تھے اب اپنی جگہ ساکت کھڑے تھے۔ ساکت تو وہ خود بھی ہو گئی تھی۔ خون میں لت پت نیچے گرے کبوتر کو دیکھ کر۔ خاطره اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر ان کے درمیان آچکی تھی۔
" خاطره! "
غازان کی دھاڑ نے محل کے درو دیوار کو ہلا کر رکھ دیا۔ زوالقرنین نے آگے بڑھ کر فوراً اسے تھاما جو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل نہیں رہا تھا۔
" یہ نہیں ہو سکتا۔۔۔ "
ایلا نے بے یقینی سے کبوتر کو دیکھا اور پھر اپنے ہاتھوں کو جو کپکپا رہے تھے۔ چودھویں کی رات کا آخری پہر بھی ختم ہو چکا تھا۔ روحینہ زندہ تھی۔ اس کی ساری محنت ضائع گئی تھی۔
" نہیں! نہیں میں مر نہیں سکتی نہیں۔۔۔۔"
اور اس کی درد ناک چیخوں کے ساتھ وہ کالا سایہ اس کے اندر سے نکل کر ہوا میں تحلیل ہوگیا۔
اب وہاں زمین پر دو مردہ وجود رہ گئے تھے۔ جنہیں وہ ساکت نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ آگے بڑھ کر ہاتھ لگانے کی ہمت ان میں سے کسی میں نہیں تھی۔
کتنا ہی وقت گزر چکا تھا۔ پر اُس کے پاس جانے کو کوئی تیار ہی نہیں تھا۔ رانیہ گہرا سانس لے کر ہمت کرتی آگے بڑھنے لگی کہ اچانک ٹھٹھک کر رکی۔
کبوتر میں سے نکلتی سفید روشنی اسے خاطره کے جسم میں جاتی دکھائی دی تھی اور پھر۔۔۔ اُس نے ایک جھٹکے سے آنکھیں کھولیں۔ آگ رنگ واپس سیاہی میں تبدیل ہو چکا تھا۔
" غازان! "
وہ جو پتھر کا بت بن گیا تھا۔ اس پکار پر دل جیسے ایک بار پھر دھڑکنے لگا۔ سر اُٹھا کر سامنے دیکھا گویا آنکھوں میں جوت جل اُٹھی۔ جو آنکھیں بجھی ہوئی تھیں وہ ایک بار پھر چمکنے لگی تھیں۔ بے رنگ چہرے پہ سرخی آگئی تھی۔ یہ آواز۔۔۔ اس آواز میں اس کی جان تھی۔ یہ آواز اس کے لئے کسی آب حیات سے کم نہیں تھی۔ یہ آواز اس کی پوری دُنیا تھی اور وہ اس کا عشق۔۔۔ خاطره غازان ذوالفقار، وہ زندہ تھی۔
جس کی موت اسے بے موت مارنے لگی تھی وہ اب اس کے سامنے تھی۔ وہ دشمن جان بمشکل اُٹھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ مری نہیں تھی۔ اس کی خاطره مری نہیں تھی بلکہ صحیح سلامت اس کے سامنے تھی۔ اس کی آنکھیں کسی احساس کے تحت یکدم بھیگی۔ اللّٰه کس قدر اس پر مہربان تھا۔۔۔
وہ بے قراری سے اُٹھا اور دیوانہ وار بھاگتا سیدھا جا کر اس کے گلے سے لگ گیا۔
رانیہ منہ پر ہاتھ رکھے نم آنکھوں سے انہیں دیکھ رہی تھی۔ جب ساتھ کھڑے میکال نے اس کے شانے پر بازو پھیلاتے ہوئے خود سے لگا لیا۔
آنکھوں میں نمی تو زوالقرنین کے بھی تھی جسے وہ چہرہ جھکا کر صاف کرنے لگا کہ تبھی اس کی نظر روحینہ پر پڑی جو ہوش میں آ رہی تھی۔ وہ دھیرے دھیرے قدم اُٹھاتا اس کی طرف بڑھا اور جھک کر گردن کی نس دباتا ایک بار پھر اسے ہوش و حواس سے بیگانہ کر گیا۔
" یہ بے ہوش ہی ٹھیک ہے۔"
مڑ کر رانیہ اور میکال سے بولا جو اس کی اس حرکت پر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے۔
" اب ہمیں چلنا چاہی۔۔۔"
میکال کی بات ابھی پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ محل کے درو دیوار بری طرح ہلنے لگے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے زلزلہ آ گیا ہو۔ لمحے کی دیر تھی چھت بھی ٹوٹ کر گرنا شروع ہو چکی تھی۔
" یہ محل ٹوٹ رہا ہے۔ ہمیں جلدی یہاں سے نکلنا ہوگا۔"
روحینہ کے بے ہوش وجود کو بازوؤں میں اُٹھائے زوالقرنین بولتا ہوا تیزی سے بھاگا۔ وہ تینوں بھی اس کے پیچھے ہی تھے۔ خاطره کو بھی غازان نے بازوؤں میں اُٹھایا ہوا تھا۔ جو کمزوری کے باعث بھاگنا تو دور چل بھی نہیں پارہی تھی۔
وہ تیزی سے راہداری عبور کرتے دروازے کی طرف بڑھنے لگے جب اچانک ایک بلیک ہال ان کے راستے میں حائل ہوا تھا۔ جس نے ان سب کو اپنے اندر کھینچ لیا۔
پیچھے بادشاہ تھامس کا یہ ویران محل ٹوٹ کر ڈھے گیا تھا اور یہیں اُن کا قصّہ بھی ہمیشہ کیلئے تمام ہوگیا۔
" تمہارا بہت شکریہ گلوریا! اگر تم ہماری مدد نہ کرتیں تو ہم شاید کوہ قاف سے واپس ہی نہ آتے۔"
وہ سب اس وقت گلوریا کے گھر پر موجود تھے جس نے اپنے جادو کے زریعے بروقت انہیں محل کے تباہ ہونے سے پہلے وہاں سے نکال لیا تھا۔
" اس کی ضرورت نہیں ایک احسان تم نے مجھ پر کیا تھا آج وہ احسان میں نے اُتار دیا۔"
وہ ہنستے ہوئے رانیہ اور میکال سے بولی۔ جو ڈائننگ ٹیبل پر اس کے سامنے بیٹھے تھے۔ ان کے بائیں جانب غازان، خاطره کو سینے سے لگائے بیٹھا تھا۔ جو اب بھی خوف کے زیرِ اثر تھی۔ وہ بھیانک وقت جو ابھی گزرا تھا اسے فراموش کرنے میں ایک طویل وقت درکار تھا۔
" میں چلتا ہوں اس سے پہلے یہ محترمہ ہوش میں آجائیں انہیں ان کے گھر چھوڑ دوں۔"
غازان کے سامنے بیٹھے زوالقرنین نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ ساتھ ہی بے ہوش روحینہ کو بازوؤں میں اُٹھاتا وہ گلوریا کے گھر سے باہر نکل گیا۔ جہاں ایک نئی صبح کا آغاز ہو چکا تھا۔
مری کی یہ سرد فضاء اسے بہت بھلی لگ رہی تھی۔ زوالقرنین، روحینہ کو لیے سیدھا اس کے کمرے میں داخل ہوا۔ بیڈ پر اسے لٹا کر اب وہ بڑی فرصت سے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ غازان نہیں تھا جو کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کرتا۔ اس لیے اپنے دل میں موجود روحینہ کیلئے پسندیدگی کو اس نے کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیا تھا۔
" نہ تو تم خاطره کی طرح بہادر ہو نہ میں غازان کی طرح خوش قسمت۔۔۔ ہماری اس محبت کا انجام ہی جدائی ہے۔"
روحینہ کے ہاتھ کو ہولے سے چھوتا وہ اُٹھ کر واپس چلا گیا تھا۔ اس کے جاتے ہی روحینہ نے اپنی بند آنکھیں کھولیں۔ آنسو کا ایک قطرہ آنکھ سے نکل کر اس کے بالوں میں جذب ہو گیا تھا۔
۔*********۔
ایک ہفتے بعد۔۔۔
کپڑوں کو بیگ میں رکھ کر اس نے ایک آخر نظر سامان پر ڈالی۔ آج وہ ذوالفقار پیلس شفٹ ہو رہی تھی۔ لندن سے واپس آتے ہی دادا ذوالفقار نے اپنا حکم سنا دیا تھا۔ خاطره نے بھی ان کا مان نہیں توڑا۔ وہ تو پہلے ہی راضی تھی۔
کمرے سے نکل کر وہ سیڑھیاں اُترتی نیچے لیونگ روم میں آئی۔ بے وقت بھوک نے اچانک سر اُٹھایا تھا۔ وہ کچن کی طرف مڑی جب اچانک دروازے پر بیل ہوئی۔ اس نے خوف زدہ نظروں سے دروازے کو دیکھا۔ اُس واقع نے اس کے اندر ایک خوف بٹھا دیا تھا۔ اب وہ اکثر دروازے کی بجتی بیل پر ڈر جایا کرتی تھی۔
" بی بریو خاطرہ! کچھ نہیں ہے۔" گہرا سانس لیتے اس نے اپنے ڈر کو دبایا اور دروازے کی جانب بڑھ گئی۔
" کون؟ "
دروازہ کھولنے سے پہلے پوچھا۔
" روحینہ! "
آگے سے جواب ملتے ہی خاطرہ نے جھٹکے سے دروازہ کھولا۔ ایک ہفتے بعد وہ اسے اپنے سامنے دیکھ رہی تھی۔ زوالقرنین اسے بتا چکا تھا کہ روحینہ ان کی اصلیت سے واقف ہو چکی ہے اور اب یہاں کا رخ کبھی نہیں کرے گی۔ خاطره کو کافی مایوسی ہوئی تھی یہ سن کر پر آج اپنے سامنے روحینہ کو دیکھ، وہ خوشی سے کھل اُٹھی۔
" اندر آؤ نا۔"
خاطره نے سائڈ پر ہو کر اسے جگہ دی۔ وہ خاموشی سے سر جھکائے اندر داخل ہوگئی۔
" تم بیٹھو میں تمہارے لیے کافی لے کر آتی ہوں۔ آج ویسے بھی بہت سردی ہے۔" خاطره مسکرا کر بولی۔
" نہیں اس کی ضرورت نہیں۔ آپ بیٹھ جائیں مجھے بس آپ کا تھوڑا سا وقت چاہیئے۔"
روحینہ کے چہرے پر چھائی سنجیدگی کو دیکھ کر خاطره چاہ کر بھی اصرار نہیں کر پائی۔ وہ اثبات میں سر ہلاتی اس کے سامنے بیٹھ گئی۔
" کہو کیا بات ہے۔ ایک ہفتے سے تم نظر نہیں آئیں۔"
" وہ مجھے۔۔۔ مجھے معلوم ہے آپ لوگ۔۔۔"
روحینہ سر جھکائے کہہ رہی تھی۔ جب خاطره نے اس کی بات درمیان میں کاٹی۔
" میں انسان ہوں روحینہ! "
روحینہ نے بے یقینی سے سر اُٹھا کر اسے دیکھا۔
" ہاں میں انسان ہوں۔ جو ایک جن کی محبت میں گرفتار ہو کر سب کچھ فراموش کر گئی۔" خاطره اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بول رہی تھی۔
" تمہاری طرح میں بھی ان کی اصلیت جان کر خوفزدہ ہوئی تھی۔ پر غازان کی محبت، مجھے کبھی کمزور پڑنے نہیں دیتی۔ تم شاید زوالقرنین کو پسند کرنے لگی تھیں پر اُس کی اصلیت جان کر پیچھے ہٹ گئیں۔"
" میں پیچھے نہیں ہٹی۔" اس کی بات سنتے ہی روحینہ کے منہ سے بے اختیار یہ الفاظ ادا ہوئے۔
" تو پھر کنفیوژ ہو شاید؟ "
" ہاں مجھے سمجھ نہیں آ رہا کیا کروں۔ میں واقعی خوفزدہ ہوں پر اسے بھول بھی نہیں پا رہی۔" وہ بےبسی سے کہہ رہی تھی۔ خاطرہ نے تسلی دینے کے انداز میں اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا۔
" جو تمہارا دل کہے وہ کرو۔ کبھی کبھی دل کی بھی سن لینی چاہیئے۔" روحینہ نے اثبات میں سر ہلایا ساتھ ہی اُٹھ کھڑی ہوئی۔
" میں اب چلتی ہوں۔"
" تھوڑی دیر بیٹھ جاتیں۔"
" پھر کبھی، ابھی دادو انتظار کر رہی ہوں گی۔"
" چلو جیسی تمہاری مرضی۔" خاطره اُٹھی اور اس کے ساتھ دروازے کی جانب بڑھ گئی۔
روحینہ ہاتھ ہلا کر اسے بائے کہتی اب سڑک پر چل رہی تھی۔ سر جھکا ہوا تھا۔ جب اچانک اس کا سر کسی سخت چیز سے ٹکرایا۔
" اف اللّٰه! "
اس نے سر اُٹھا کر سامنے دیکھا۔ زوالقرنین بےتاثر چہرہ لیے اس کے سامنے کھڑا تھا۔
وہ اسے اگنور کر کے جانے لگا جب بے اختیار روحینہ نے ہاتھ پکڑ کر اسے روکا۔
" آزمانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔"
زوالقرنین اس کی طرف مڑا۔ چہرہ ہنوز بے تاثر تھا۔
" پچھتاؤ گی۔"
" میں پچھتانے کیلئے تیار ہوں۔۔۔ اگر تم ساتھ ہو۔"
سنجیدگی سے کہتی وہ اسے مسکرانے پر مجبور کر گئی تھی۔
اپنی کھڑکی سے انہیں دیکھتی خاطره کے چہرے پر بھی معنی خیز مسکراہٹ ابھری تھی۔
" باندھ لیں ہاتھ پہ سینے پہ سجالیں تم کو
جی میں آتا ہے کہ تعویز بنالیں تم کو
پھر تمھیں روز سنواریں تمھیں بڑھتا دیکھیں
کیوں نہ آنگن میں چنبیلی سا لگا لیں تم کو
اس قدر ٹوٹ کے تم پر ہمیں پیار آتا ہے
اپنی بانہوں میں بھریں مار ہی ڈالیں تم کو
کبھی خوابوں کی طرح آنکھ کے پردے میں رہو
کبھی خواہش کی طرح دل میں بُلا لیں تم کو
ہے تمھارے لیے کچھ ایسی عقیدت دل میں
اپنے ہاتھوں میں دعاؤں سا اٹھالیں تم کو
جان دینے کی اجازت بھی نہیں دیتے ہو
ورنہ مر جائیں ابھی مر کے منا لیں تم کو۔۔۔"
وہ خفگی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ جو صوفے پر پھیل کے بیٹھا سامنے موجود ایل ای ڈی میں کڑکٹ میچ دیکھ رہا تھا۔ وہ لندن اپنے ہنی مون کیلئے آئے تھے اور موصوف بیوی کو چھوڑ کر میچ میں لگ گئے تھے۔
" میکال انسان نہیں ہو تم۔" رانیہ نے دانت پیستے ہوئے گویا اس کے علم میں اضافہ کیا۔
" جانتا ہوں۔" سکون سے جواب آیا۔
" بند کرو اسے اور باہر چلو میرے ساتھ۔ ہم ہنی مون کیلئے آئے ہیں۔ ہوٹل میں بیٹھ کر میچ دیکھنے نہیں۔"
وہ اب میکال کے سر پر جا کھڑی ہوئی تھی۔ اپنی بات کا اس پر اثر نہ ہوتے دیکھ، رانیہ نے صوفے پر رکھا کشن اُٹھایا اور پوری قوت سے دیوار میں لگی ایل ای ڈی میں دے مارا۔
" یہ کیا کِیا؟ " میکال فوراً اس کے مقابل کھڑا ہوا۔
" وہی کیا ہے جو مجھے تمہارے ساتھ کرنا چاہیئے۔"
" کیا کرنا چاہیئے؟ بتانا زرا۔"
رانیہ کی کمر میں ہاتھ ڈالتا، میکال اسے اپنے قریب کر چکا تھا۔ وہ جو غصّے سے اسے سخت سست سنانے لگی تھی۔ اب نظریں چراتی اس کی بولتی نظروں سے بچنے کی کوشش کر رہی تھی۔
" تم میرے ساتھ باہر چل رہے ہو یا نہیں؟ "
" نہیں اب میرا کمرے میں ہی رہنے کا ارادہ بن رہا ہے۔"
خمار آلود لہجے میں کہتا وہ اس کی گردن پر جھکنے لگا۔ جب رانیہ اس کے ارادوں سے گھبرا کر چٹکی بجاتی فوراً وہاں سے غائب ہوئی تھی۔ پیچھے میکال کا زور دار قہقہہ پورے کمرے میں گونج اُٹھا تھا۔
۔*********۔
مالدیوز کے خوبصورت ترین ملیہ آئی لینڈ پر موجود اپنے پرائیویٹ ریزورٹ کی بالکنی میں کھڑی وہ نیلے شفاف پانی کو دیکھ رہی تھی۔ ساتھ ہی فون کان سے لگائے وہ فوزیہ درانی کی جھڑکیں بھی سن رہی تھی۔ کال ختم کر کے اس نے آسمان کی طرف دیکھا۔ صبح سویرے کا منظر سحر انگیز کر دینے والا تھا۔
" یہاں کیا کر رہی ہو ٹھنڈ سے مرنا ہے کیا۔"
اپنی عادت سے مجبور زوالقرنین طنزیہ لہجے میں کہتا اس کے برابر آ کھڑا ہوا۔ ہاتھ میں پکڑا شال اس نے روحینہ کے شانوں پر پھیلا دیا تھا۔
" یہ بات پیار سے بھی بول سکتے تھے۔" روحینہ جل کر بولی۔ ساتھ ہی شال کو اپنے گرد اچھے سے لیا۔ اس جن کا عمل جتنا پیارا ہوتا تھا، باتیں اُتنی ہی کڑوی کرتا تھا۔
" پیار کی بات تمہیں سمجھ کہاں آتی ہے۔ بھول گئیں کل رات۔۔۔"
اس آدھی ادھوری معنی خیز بات کا پورا مطلب سمجھتے ہوئے روحینہ کا چہرہ سرخ پڑا تھا۔ گھنگریالی لٹوں کو کان کے پیچھے کرتے ہوئے اس نے نظریں چرانے کی کوشش کی۔
" اب کیوں بولتی بند ہوگئی؟ "
زوالقرنین نے دلچسپی سے اس کے چہرے پر پھیلتے قوس و قزح کے رنگوں کو دیکھا۔
" کیونکہ مجھے آپ سے بات ہی نہیں کرنی۔" وہ منہ بسور کر کہتی کمرے میں جانے لگی تھی، جب زوالقرنین نے ایک جھٹکے سے اُسے اپنی طرف کھینچا۔
" آتشِ دلم! "
(The fire of my heart)
روحینہ کے چہرے پر جھکتا وہ سرگوشی نما انداز میں بولا تھا۔
۔*********۔
مری کی وادیوں میں آسمان سے گرتے روئی کے سفید گالوں کو اپنے ہاتھ پر محسوس کرتی، وہ آنکھیں بند کیے مسکرا رہی تھی۔ پیروں تک آتے سفید گاؤن میں ملبوس، اپنے سیاہ بالوں کو کمر پر پھیلائے وہ خود بھی اس ماحول کا حصّہ لگ رہی تھی۔ وہ یونہی ہاتھ اُٹھائے آسمان سے گرتی برف کو محسوس کر رہی تھی جب ایک اور ہاتھ اس کے ہاتھ کے نیچے آیا تھا۔ اپنی ٹھوڑی اس کے کندھے پر رکھتے ہوئے، غازان نے دوسرا ہاتھ اس کی کمر کے گرد پھیلایا۔
" دادا ذوالفقار کا کہنا ہے، اس حالت میں آرام کرنا چاہیئے۔"
" دادا ذوالفقار کا یا دادا ذوالفقار کے پوتے کا؟ "
" دونوں کا۔"
مسکرا کر کہتے ہوئے غازان نے اسے شانوں سے تھاما اور بالکنی سے نکل کر کمرے میں لے آیا۔ اب وہ اسے بیڈ پر بیٹھا رہا تھا۔
" دن بہ دن خوبصورت ہوتی جا رہی ہو۔"
خاطره کے بھرے بھرے وجود کو دیکھتے ہوئے غازان اس کے سامنے بیٹھا۔ جبکہ وہ اس کی بات کو نظر انداز کرتی سائڈ ٹیبل سے اپنا نیل پالش اُٹھانے لگی تھی۔
" ہاتھ پر تو میں نے لگا لیا تھا۔ اب آپ کی باری ہے۔"
بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے پھیل کر لیٹتی، وہ اپنی دونوں ٹانگیں اس کی گود میں رکھ چکی تھی۔
غازان نے آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھورا اور اگلے ہی لمحے بڑی توجہ سے اس کے پیروں پر نیل پالش لگانے لگا۔
خاطره مسکراتی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ جب کام ختم ہوتے ہی غازان نے نیل پالش واپس اس کی جگہ پر رکھی۔ چہرہ اُٹھا کر خاطره کو دیکھا جو مسکراہٹ دبانے کی کوشش کر رہی تھی۔
غازان نے دونوں ہاتھ بڑھا کر اس کا چہرہ تھام لیا۔ خاطره دھیرے سے مسکرائی۔ اس کے ماتھے سے ماتھا ٹکائے، وہ لہجے میں بے پناہ محبت سموئے دھیرے سے بولا۔
" دیوونتم ھنوز ! "
ختم شد۔
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Divoonatam Hanooz Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Divoonatam Hanooz written by Jiya Abbasi.Divoonatam Hanooz by Jiya Abbasi is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment