Teri Meri Love Story By Jiya Abbasi New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday, 18 August 2024

Teri Meri Love Story By Jiya Abbasi New Complete Romantic Novel

 Teri Meri Love Story By Jiya Abbasi New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Teri Meri Love Story By Jiya Abbasi Complete Romantic Novel 

Novel Name: Teri Meri Love Story

Writer Name: Jiya Abbasi

Category: Complete Novel

دوپہر کا وقت تھا، جہاں گوٹھ کی اس چوڑی اور پر رونق گلی میں موجود اُس چھوٹے سے مکان میں اس وقت صرف علی صاحب کی آواز سنائی دے رہی تھی وہیں "وہ" کمرے کے دروازے کے باہر کھڑی، چہرے پر افسردگی لیے اما ابا کی باتیں سن رہی تھی۔ جو آج دیہاڑی نہ لگنے پر خالی جیب لیے گھر لوٹ آئے تھے۔ ہاتھ میں ٹوٹی چپل بھی موجود تھی۔ جو تین سال سے گھس گھس کر اب مزید اس قابل نہیں رہی تھی کہ اسے پاؤں کی زینت بنایا جائے۔

" پھینک دو اب ان چپلوں کو نئی لے لینا۔"

نگہت بیگم ان کا پیر دیکھتے ہوئے پریشانی سے بولیں جو پتھر لگنے کے باعث زخمی ہو گیا تھا۔

" نئی لینے کیلئے پیسہ بھی تو ہونا چاہیئے اور ہم فضول خرچی نہیں کر سکتے آخر کل کو اپنی 'زینب' کی شادی کرنی ہے۔" علی صاحب سمجھاتے ہوئے بولے جبکہ باہر کھڑی زینب افسرده سی دوپٹے کو انگلی پر لپٹتے ہوئے مڑ کر گھر سے باہر نکل گئی۔ تاکہ اپنی دوست شفا کے ساتھ کچھ دیر باتیں کر کے اپنا دل ہلکا کر سکے۔

" ہائے اللّٰه جی بس جلدی سے میری شادی کرا دیں تاکہ اما ابا کی پریشانی کم ہو جائے۔ بیچارے ابا کل کیا پہن کر کام پر جائیں گے۔"

بالوں میں لگا پراندہ گھماتے ہوئے وہ بڑبڑائی کہ تبھی اس کا دھیان راستے سے بھٹک کر اپنے سے کچھ قدم کے فاصلے پر چلتے آدمی پر گیا جو آستینوں کو سیدھا کرتا نماز کیلئے مسجد جا رہا تھا۔ بےاختیار زینب کی نظر اس کی چپل کی جانب گئی تھی۔ سرخ و سفید پیروں میں چمکتی چمڑے کی سیاہ چپل۔۔۔ شفا کی گلی میں مڑنے کے بجائے، چپلوں پر نظریں جمائے زینب اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔

مسجد کے باہر رک کر اس آدمی نے سیڑھیوں پر چپل اُتاری اور نماز ادا کرنے اندر کی جانب بڑھ گیا جبکہ زینب شش و پنج میں مبتلا وہیں کھڑی ارد گرد دیکھنے لگی۔

دوپہر کا وقت تھا گوٹھ کی اس کڑکتی دھوپ میں گلیوں میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ وہ ہمت کرتی آگے بڑھی اور کسی کی بھی نظروں میں آئے بغیر چپل اُٹھاتی تیزی سے وہاں سے بھاگتی چلی گئی۔

" زینی !! "

راستے میں پڑتی ٹائر پنچر کی دکان پر بیٹھا مکھیاں اُڑاتا 'احمد قریشی' اسے دیکھتے ہی اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔ جو نیلے رنگ کے شلوار قمیض میں ملبوس، لال رنگ کا دوپٹہ سینے پر پھیلائے سامنے سے بھاگتی آ رہی تھی۔

" احمد تم۔۔۔"

شتر مرغ کی رفتار سے بھاگتی زینب اب مورنی کی چال چلتی اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔

" کہاں سے آ رہی ہے؟ اور یہ چپل کس کی ہے؟ "

ماچس کی تیلی دانتوں میں دباتے ہوئے اس نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا جو شرماتے ہوئے چہرے پر آئی آوارہ لٹوں کو کان کے پیچھے کر رہی تھی۔

" وہ میں نا شفا کے گھر سے آ رہی تھی لیکن راستے میں مجھے چپل بیچنے والا دکھا تو اس کے ٹھیلے سے ابا کیلئے خرید لیں۔ " نظریں جھکائے سفید جھوٹ کہا۔

" تو اس راستے سے کیوں جا رہی ہے؟ یہ تو لمبا پڑتا ہے نا۔"

" تمہیں کیا کسی بھی راستے سے جاؤں اور زیادہ سوال نہیں کرو۔" احمد کے نہ ختم ہونے والے سوالوں پر وہ اب جھنجھلا اُٹھی۔

" اچھا اچھا ناراض کیوں ہوتی ہے۔ یہ لے یہ رکھ سموسے کھا لیو شام میں۔" دس دس کے تین نوٹ جیب سے نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھتا وہ اس کی ناراضگی دور کرنے لگا۔

" اے احمد کس سے کھڑا باتیں بنا رہا ہے؟ وہ ٹائر اُٹھا کر دیے۔"

اندر سے آتی شکور کاکا کی آواز پر وہ ہڑبڑا کر ٹائر اُٹھاتا اندر کی جانب بھاگا جبکہ ایک ہاتھ میں پیسے اور دوسرے میں چپل پکڑے وہ اب خوشی سے پھولتی گھر کی طرف جا رہی تھی۔


۔*********۔


" یہ چپل کہاں سے آئیں؟ "

نگہت بیگم نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا جو دونوں چپل ہاتھ میں لیے ان کے سامنے کھڑی تھی۔

" وہ شفا کے گھر سے آتے وقت راستے میں ٹھیلے والا دکھا تو سو روپے میں اُس سے پرانی چپل خرید لیں۔" اس نے کہتے ہوئے آنکھیں پٹ پٹائیں۔

" تیرے پاس سو روپے کہاں سے آئے؟ "

" کیا اماں جمع کیے تھے میں نے۔" سوال جواب سے چڑتے ہوئے اس نے منہ بنا کر کہا۔

" چل اچھا کیا تیرے ابا کی چپل ٹوٹ گئی تھیں ویسے بھی۔ اب جا جا کر رات کے کھانے کی تیاری کرا چھوٹی بہن کے ساتھ۔"

اس کے جواب پر مطمئن ہوتے ساتھ ہی رات کے کھانے کا حکم دیا جس پر زینب منہ بسور کر کچن کی طرف چل دی جہاں بارہ سالہ فاطمہ ٹماٹر کاٹ رہی تھی۔

" ارے بجو !! اچھا ہوا تم آ گئیں۔ لو یہ باقی کے ٹماٹر تم کاٹو میں ٹی وی دیکھنے جا رہی ہوں۔"

سدا کی کام چور فاطمہ اسے دیکھتے ہی سارا سامان وہیں فرش پر چھوڑ کر کچن سے بھاگتی چلی گئی۔ اس پر دو حرف بھیج کر زینب نیچے فرش پر بیٹھتی باقی کے بچے ٹماٹر کاٹنے لگی۔ دماغ ابھی تک اپنی حرکت میں الجھا ہوا تھا۔

" اللّٰه جی بس گناہ نہ دینا۔ میں نے تو آپ کے گھر سے اُٹھائی ہیں چپل اور ابا کیلئے کری چوری کوئی چوری تھوڑی نا ہوتی ہے۔ ہاں نی تو۔"

چھت کی طرف دیکھتے ہوئے وہ بڑبڑائی ساتھ ہی خود کو مطمئن کرتی، اب پوری طرح سے کام کی طرف متوجہ ہوچکی تھی۔


۔*********۔


وہ گلی میں داخل ہو تو سیدھا نظر اس گھر کی جانب اُٹھی تھی جہاں وہ دشمنِ جاں اکثر اپنی چھت پر کھڑی ہو کر اسے دیکھا کرتی تھی پر آج وہ نہیں تھی۔ وہ سر جھٹکتا اپنے گھر کی جانب بڑھ گیا۔ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو سامنے ہی تخت پر بیٹھی اسے اپنی اماں نظر آئیں جو سامنے کھڑی اس کی سولہ سال بہن کو کسی بات پر ڈانٹ رہی تھیں۔

" نگوڑی ایک کام ٹھیک سے نہیں کرتی۔ اے خدا تجھ سے رحمت مانگی تھی زحمت کو گلے باندھ دیا۔" ساتھ ہی ساتھ اللّٰه سے شکوے بھی جاری تھے۔

" اے اماں! کیوں خون جلا رہی ہے اور چھوٹی پانی لے کر آ بھائی کیلئے۔" خدیجہ بیگم سے پوچھ کر اس نے رابعہ کو حکم دیا جو 'جی اچھا' کہتی فوراً بھاگتی چلی گئی۔

" کیا ہوا تھک گیا؟ "

احمد کے چہرے پر تھکن محسوس کر کے انہوں نے فکرمندی سے پوچھا۔

" ہاں بس کام زیادہ تھا آج۔ تو بتا دن کیسا گزرا؟ " رابعہ کے ہاتھ سے گلاس لیتے ہوئے اس نے خدیجہ بیگم سے پوچھا۔

" کیسا گزرنا ہے میری تو ہڈیاں ٹوٹ جاتی ہیں اس گھر کے کام کر کر کے اور ایک یہ منحوس ہے جو کسی کام میں ہاتھ نہیں بٹاتی۔"

کہتے ہوئے انہوں نے غصّے سے رابعہ کو گھورا جو معصوم سی شکل بنا کر بھائی کو دیکھنے لگی۔ وہ جانتا تھا بیچاری پورے گھر کی صاف صفائی کرتی تھی روٹیاں بھی وہی پکاتی تھی۔ پر پھر بھی ان کی ماں کو بیٹی کا کیا کام کہیں نظر ہی نہیں آتا تھا۔

" اچھا چل غصّہ نہیں کر لے یہ پانی پی۔" احمد نے ماں کو ٹھنڈا کرنا چاہا جس پر وہ اور بھڑک اُٹھیں۔

" کیا غصّہ نہیں کر میں نے سوچ لیا، میں کل ہی نگہت سے بات کرتی ہوں تیرے اور زینب کے رشتے کی۔ بہو آ جائے گی تو میری ذمہ داریاں بھی کچھ کم ہوں گی۔"

اب کے وہ احمد کو گھورتے ہوئے بولیں۔ جس پر اس نے ہاتھ میں پکڑا گلاس فوراً لبو سے لگا لیا تاکہ اپنی مسکراہٹ چھپا سکے البتہ دل میں میٹھی میٹھی سی گدگدی ہونے لگی تھی۔

" اچھا جیسی تیری مرضی اور مجھے کھانا تو دے دے تھکا ہارا آیا ہوں۔" اس کے کہنے کی دیر تھی کہ ایک بار پھر رابعہ کی شامت آگئی۔

" اے کمبخت! تجھے دکھ نہیں رہا بھائی آیا ہے جا جاکر کھانا گرم کر کے لا۔"

" وہی لینے جا رہی ہوں۔"

احمد سے گلاس لے کر رابعہ بھی غصّے سے پیر پٹختی کچن کی جانب بڑھ گئی۔ ان دونوں ماں بیٹی کا جھگڑا یونہی چلتے رہنا تھا۔ احمد نفی میں سر ہلاتا خود بھی ہاتھ منہ دھونے غسل خانے میں جا گھسا۔


۔*********۔


" اماں میں زرا شفا کے گھر جا رہی ہوں تھوڑی دیر میں آجاؤں گی۔" جلدی جلدی تیار ہوتی وہ نگہت بیگم سے بولی جو صحن میں چارپائی بچھائے بیٹھی آلو چھیل رہی تھی۔

" صبح صبح تجھے اس سے کیا کام پڑ گیا؟ "

ہاتھ روک کر نگہت بیگم نے اسے مشکوک نظروں سے گھورا۔

" آ وہ میں نے اسے اپنا دوپٹہ دیا تھا وہی لینے جا رہی ہوں مجھے پہننا ہے نا۔"

ہڑبڑا کر جواب دیتی وہ فوراً دروازے کی جانب بڑھی، کہیں اماں اسے روک ہی نہ لیں۔

" گھوڑی کی گھوڑی ہوگئی ہے مگر عقل اب بھی نہ آئی۔" زینب کو جاتا دیکھ وہ بڑبڑائیں اور واپس کام کی طرف متوجہ ہو گئیں۔

شفا کے ساتھ وقت گزار کر اب اس کا رخ شکور کاکا کی دکان کی طرف تھا جہاں حسبِ معمول احمد بیٹھا خواری کاٹ رہا تھا۔ وہ دھیرے دھیرے ہرنی کی چال چلتی اس کے سر پر جا کھڑی ہوئی۔

" احمد! "

" تو یہاں کیا کر رہی ہے؟ " احمد سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوا۔

" وہ میں تم سے ملنے آئی تھی اور نا مجھے گول گپے بھی کھانے ہیں۔"

وہ ایسے شرما رہی تھی جیسے بہت بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہو اور اب اپنی تعریف سن کر لال ہو رہی ہو۔

" دیکھ ابھی میں تجھے گول گپے کھلانے نہیں لے جا سکتا شکور کاکا اپنے گھر گئے ہیں میں دکان کو ایسے چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔" وہ سمجھانے والے انداز میں بولا۔

" کونسا سونے کے زیورات کی دکان ہے۔ جو چوری ہو جائے گی۔ چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔" زینب نے غصّے سے کہتے ہوئے آخر میں منہ بنا کر اس کی نکل اُتاری۔

" دیکھ زینی میں بعد میں۔۔۔"

" بھاڑ میں جاؤ تم۔ نہیں کھانے مجھے گول گپے، بلکہ خود خرید کے کھا لوں گی میں ہاں نی تو۔" اس کی بات کاٹ کر کہتی وہ غصّے سے تن فن کرتی وہاں سے نکل گئی۔ احمد نے بےبسی سے اسے جاتے دیکھا اور اپنے سر پر ہاتھ پھیر کر دکان کے اندر چلا گیا۔


۔**********۔


" خدیجہ آپا آپ آئیں نا۔"

فاطمہ کے پیچھے آتی خدیجہ بیگم کو دیکھ کر نگہت بیگم فوراً اپنی جگہ سے کھڑی ہوئیں۔

" اے فاطمہ! جا جاکر آپا کیلئے چائے پانی لے کر آ۔"

خدیجہ بیگم سے مل کر انہوں نے فاطمہ کو حکم دیا جو اثبات میں سر ہلاتی فوراً کچن میں دوڑ گئی۔

" بیٹھو نا آپا۔ بتاؤ کیسے آنا ہوا؟ "

صحن میں بچھی چارپائی پر اپنے ساتھ بٹھائے اب وہ سوالیہ نظروں سے خود سے بڑی بیوہ بہن کو دیکھ رہی تھیں۔

" دیکھ نگہت میں ضروری بات کرنے آئی ہوں۔" انہوں نے تمہید باندھی۔

" ہاں ہاں بلا جھجھک کہیں۔"

" دیکھ اب مجھ بوڑھی عورت میں اتنی جان نہیں کے گھر سنبھال سکوں اور رابعہ ابھی چھوٹی ہے۔ اس لیے میں چاہتی ہوں تو اب جلد از جلد زینب کی شادی احمد سے کر دے تاکہ وہ آکر اپنا گھر سنبھالے۔" خدیجہ بیگم نے سنجیدگی سے اپنی بات نگہت بیگم کے سامنے رکھی۔

" آپ کی بات ٹھیک ہے آپا پر ابھی مجھے زینب کے ابا سے بات کرنی پڑے گی۔ ابھی تو ہم نے زینب کے جہیز کیلئے بھی کچھ ٹھیک سے تیاری نہیں کی۔" نگہت بیگم نے پریشانی سے کہا۔

" جہیز کی فکر تو مت کر ہمارے گھر میں جو کچھ ہے سب زینب کا ہی تو ہے۔ بس تو اسے رخصت کرنے کی تیاری کر۔" وہ فراغ دلی سے بولیں۔

" ٹھیک ہے آپا۔ زینب کے ابا آجائیں تو آج بات کرتی ہوں۔" نیم رضا مندی سے کہتی اب وہ آس پڑوس کی باتوں میں مصروف ہو چکی تھیں۔


۔*********۔


گول گپے کھا کر ساتھ ساتھ احمد کو کوسنے کے بعد اس کا رخ اب گھر کی جانب تھا۔ جہاں یقیناً اماں غصّے سے بھری اس کی شان میں قصیدے فاطمہ کو سنا رہی ہوں گی۔

وہ انہیں سوچوں میں گم ابھی سڑک پار کر رہی تھی جب اس کی نظر سامنے کھڑی بلیک مرسیڈیز پر پڑی۔ جس میں سے تقریباً چالیس سال کی عمر کے لگ بھگ ایک پرکشش و سمارٹ شخصیت کا مالک وہ شخص کوٹ پینٹ پہنے باہر نکل رہا تھا۔ وہ حیرت سے اسے دیکھے گئی۔

خود پر کسی کی نظروں کو محسوس کر کے اس شخص نے بھی سن گلاسز اُتار کر نظریں اطراف میں گھمائی تھیں۔ دونوں کی نظریں ملیں اور اس شخص کے چہرے پر تبسم بکھیر گئیں۔

زینب گڑبڑا کر فوراً وہاں سے نکلتی چلی گئی۔


۔*********۔


" سر آپ بے فکر رہیں۔ ہسپتال کا تعمیری کام بہترین طریقے سے میری نگرانی میں ہو رہا ہے۔"

اپنے ہسپتال کی تعمیر کا جائزہ لینے کیلئے آج 'ہاشم امتیاز' خود یہاں موجود تھا۔ ساتھ کھڑا ملازم اسے ساری ہدایت دے رہا تھا۔ مگر اس کا ذہن تو اُس لڑکی میں اٹکا ہوا تھا جو کچھ دیر پہلے آنکھوں میں اشتیاق لیے اسے گھورے جا رہی تھی۔ اس عمر میں بھی اپنی شخصیت کے سحر سے وہ باخوبی واقف تھا۔ دو جوان بچوں کا باپ ہونے کے باوجود بھی اس کے سرکل کی کئی لڑکیاں آگے پیچھے گھومتی نظر آتی تھیں اور یہی بات اسے مغرور بنانے کیلئے کافی تھی۔ زینب کے خیال کو دماغ سے جھٹکتے ہوئے وہ ملازم کی طرف متوجہ ہوا۔

" کریم اس علاقے میں کوئی بڑا ہسپتال نہیں ہے۔ لوگ دوسرے شہر علاج کیلئے جاتے ہیں۔ لیکن اس ہسپتال کی تعمیری کے بعد انہیں کہیں اور نہ جانا پڑے اس لیے میں چاہتا ہوں کہ سارا کام اچھے سے ہو۔"

" بالکل سر! یہاں کے لوگ بھی اس ہسپتال کو لے کر بہت خوش ہیں۔ جلد ہی اس کی تعمیری کا کام مکمل ہو جائے گا۔" کریم اب اسے ہسپتال کو لے کر لوگوں کے خیالات بتا رہا تھا۔ جسے سنتے ہوئے وہ اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔ اس جیسے آدمی کو ابھی اور بھی اہم کام نمٹانے تھے۔


۔*********۔


گھر آ کر اماں کی ڈانٹ اور گھر کے کام نمٹانے کے بعد اب وہ کمرے میں چارپائی پر لیٹی مسلسل فاطمہ کا دماغ کھا رہی تھی۔

" پتا ہے فاطمہ اتنی بڑی گاڑی تھی۔" دونوں ہاتھ کھول کر زینب نے 'بڑی گاڑی' کی تشریح کی۔

" اور وہ آدمی کیا بتاؤ میں تجھے، اتنا وہ تھا۔ وہ کیا کہتے ہیں ہنڈسمممم! ہاں وہ ہنڈسم تھا۔" اس نے دماغ پر زور دیتے ہوئے انگریزی زبان کا قتلِ عام کیا تھا۔

" اف آپی بس کر دو۔ آدھے گھنٹے سے تمہاری سوئی وہیں اٹکی ہے۔"

فاطمہ نے چڑتے ہوئے کہا اور اپنی توجہ واپس اسکول کی کتابوں میں کی۔ کل اس کا ٹیسٹ تھا جس کی وہ تیاری کر رہی تھی۔ پر زینب کی باتیں اس کا دھیان بٹا رہی تھیں۔

" تم تو بس ان کتابوں سے چمٹی رہو۔ لیکن حاصل کچھ نہیں ہوگا۔ ہم جیسے جھوپڑی میں رہنے والے آسمان کی پرواز کبھی نہیں کر سکتے۔"

اور اپنے اس جملے کو وہ کتنی جلدی فراموش کرنے والی تھی۔ یہ تو ابھی خود بھی نہیں جانتی تھی۔

اگلے دن وہ جلدی جلدی کام ختم کرتی پھر وہاں جانے کی تیاری کر رہی تھی۔ ایک بار پھر اسے اُس بڑی گاڑی کو دیکھنا تھا جس کے بارے میں کل سے اب تک بتاتے بتاتے وہ فاطمہ کے ساتھ اماں ابا کا بھی سر کھا چکی تھی۔

" اماں میں جا رہی ہوں۔ تھوڑی دیر میں آ جاؤں گی۔ تجھے کچھ دکان سے چاہیئے تو بتا آتے ہوئے لیتی آؤں گی۔"

گلابی شلوار قمیض کے ساتھ نارنجی رنگ کا دوپٹہ پہنے، وہ نگہت بیگم کے سامنے کھڑی بالوں میں لگا پراندہ گھما رہی تھی۔ انہوں نے ناگواری سے اسے دیکھا۔

" نگوڑی کب عقل آئے گی تجھے۔ سارے محلے میں دندناتی پھرتی ہے۔ جلد تیری شادی کرا کر اس گھر سے چلتا کرتی ہوں۔"

" پیسے دے رہی ہو تو دے دو، ورنہ میں جا رہی ہوں۔" اماں کی باتوں سے جھنجھلاتی، وہ چڑتے ہوئے بولی۔

" جا دفع ہو جا۔ تیرا باپ آتے ہوئے لیتا آئے گا سامان۔" نگہت بیگم نے ہاتھ جھلاتے ہوئے اسے چلتا کیا۔ وہ بھی منہ بسورتی فوراً وہاں سے نکل گئی۔

تیز تیز چلتی وہ پھر اس زیرِ تعمیر ہسپتال کے سامنے جا کھڑی ہوئی تھی۔ جہاں مزدور اپنے کام میں مصروف تھے۔

" لگتا ہے آج وہ بڑی گاڑی والا شاید آیا نہیں۔" اسے مایوسی ہوئی تھی۔

ابھی وہ واپس جانے ہی لگی تھی۔ جب تیزی سے آتی مرسیڈیز اس کے برابر سے گزری۔ وہ رک کر اسے دیکھنے لگی۔ جو چند قدموں کے فاصلے پر اپنی گاڑی سے باہر نکل رہا تھا۔

" ہائے اللّٰه جی! کننا سونا ہے۔" آنکھوں میں اشتیاق لیے زینب اسے دیکھے گئی۔

تبھی ہاشم امتیاز بھی اپنے سن گلاسز اُتار کر ماحول کا جائزہ لینے لگا جب ایک بار پھر اسے وہی لڑکی کھڑی نظر آئی۔ جو آنکھوں میں اشتیاق لیے کبھی اسے تو کبھی گاڑی کو دیکھ رہی تھی۔ وہ دھیرے سے مسکرایا اور اپنے قدم اس کی جانب بڑھا دیئے۔

" ہیلو مس! آپ یہاں کیا کر رہی ہیں؟ " وہ بڑی بے تکلفی سے بولا۔

زینب ہونقوں کی طرح اسے دیکھ رہی تھی۔ بھلا اس نے کب سوچا تھا وہ یوں اس کے سامنے آ کھڑا ہوگا۔

" وہ۔۔۔ وہ میں۔۔" اسے سمجھ نہ آیا کیا جواب دے۔

" اچھا لگا آپ کو دیکھ کر امید ہے پھر ملاقات ہوگی۔"

ہاتھ میں پہنی گھڑی میں وقت دیکھتا وہ آگے بڑھ گیا۔ بھلا اس جیسے انسان کے پاس کہاں اتنا فضول وقت تھا کہ وہ اسے برباد کرتا۔

زینب وہیں حیرت میں گھیری کھڑی تھی۔ اسے تو اب بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ اتنے بڑے آدمی نے خود آ کر اس سے بات کی۔ اپنی حیرت پر قابو پاتی اب وہ خوشی سے چہکتی واپس گھر کی طرف چل دی تاکہ کل پھر یہاں آ سکے۔


۔*********۔


اُس دن کے بعد سے ان کی ملاقاتوں کا سلسلہ تیزی سے چل پڑا تھا۔ وہ دونوں تیزی سے ایک دوسرے کے قریب آ رہے تھے۔ اب اکثر ہاشم امتیاز اسے اپنی کار میں کہیں نا کہیں گھمانے پھرانے بھی لے جاتا تھا۔ دوسری طرف خدیجہ بیگم کے اصرار پر علی صاحب نے شادی کیلئے حامی بھر دی تھی۔ جس کے باعث دونوں خاندانوں میں زور و شور سے شادی کی تیاریاں شروع ہو چکی تھیں۔ جتنا بھی جہیز کا سامان جمع کیا تھا اس کے ساتھ ہی اب وہ زینب کو جلد از جلد رخصت کر دینا چاہتے تھے تاکہ ایک بیٹی کے فرض سے سبکدوش ہو کر دوسری بیٹی کی فکر کر سکیں۔

اس سب سے بے پرواہ زینب اپنی ہی دنیا میں مگن تھی۔ جہاں ہاشم امتیاز اس کے کہتے ہی اس کی ہر خواہش پوری کر دیتا تھا۔ وہ اپنی قسمت پر جتنا حیران ہوتی کم تھا۔


۔*********۔


" یہ لے، یہ میں تیرے لیے لایا ہوں۔"

دروازے پر کھڑی زینب کو گول گپے تھماتے ہوئے احمد نے کہا۔ جو اب اکثر اس سے کسی نہ کسی بات پر روٹھ جاتی تھی۔

" اب تو منہ ٹھیک کر لے۔ ویسے بھی جلد شادی ہونے والی ہے ہماری پھر روز تجھے گول گپے کھلایا کروں گا۔" وہ معنی خیز لہجے میں بولا۔ جبکہ زینب کے چہرے پر یکدم سنجیدگی چاہی تھی۔

" کیا ہوا کس سوچ میں گم ہے؟ " احمد نے اس کے سامنے چٹکی بجائی۔

" کہیں نہیں اماں نے کچھ کام کہا تھا زرا وہ کر لوں، اب تم بھی جاؤ اپنے گھر۔" وہ اسی سنجیدگی سے بولی۔

" چل ٹھیک ہے اب تجھ سے جمعہ کو ملاقات ہوگی۔ جب تو میری بیوی بن کر میرے سامنے ہوگی۔"

مسکرا کر کہتا وہ اپنے گھر کی جانب بڑھ گیا۔ جبکہ زینب دروازہ بند کرتی کچن میں چلی آئی، اس کا ذہن ہاشم امتیاز اور احمد قریشی میں بُری طرح الجھ چکا تھا۔

" نہیں میں ساری زندگی غربت میں نہیں گزار سکتی۔" وہ نفی میں سر ہلاتی اماں ابا سے بات کرنے کے بارے میں سوچ چکی تھی۔


۔*********۔


رات کے کھانے سے فارغ ہو کر وہ سب کیلئے چائی بناتی صحن میں لیے آئی۔ جہاں اماں ابا اور فاطمہ بیٹھے تھے۔

" اماں ابا مجھے آپ دونوں سے کچھ کہنا ہے۔" ٹرے کو چارپائی پر ان کے سامنے رکھتے ہوئے وہ سنجیدگی سے گویا ہوئی۔

" کیا بات کرنی ہے میرے بچہ کو۔" علی صاحب محبت سے اپنی بیٹی کو دیکھتے ہوئے بولے۔ جو اب کچھ ہی دنوں میں رخصت ہونے والی تھی۔

" ابا وہ۔۔۔"

"وہ کیا؟ "

"وہ۔۔۔ وہ ابا مجھے احمد سے شادی نہیں کرنی۔" ہمت جمع کرتی وہ آخر بول اُٹھی۔

صحن میں خاموشی چھا چکی تھی۔ اماں ابا حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے کہ تبھی اماں کا جلال جوش میں آیا۔

" ناہنجار! شرم نہیں آئی ایسی بات کرتے ہوئے؟ " ابا کے سامنے اس کی دیدہ دلیری اماں کو ایک آنکھ نہ بہائی۔

" میں احمد سے شادی کر کے ساری زندگی غربت میں نہیں گزار سکتی۔"

اماں کے جلال سے وہ ڈری نہیں تھی اور ڈھٹائی سے بولی۔ فاطمہ بھی حیرت سے اپنی بہن کا یہ روپ دیکھ رہی تھی۔

" کیا بکواس کیے جا رہی ہے۔ تیرے لیے کونسا کسی شہزادے کا رشتہ آنے لگا جو تجھے یہ شادی نہیں کرنی۔" کہتے ہوئے ان کا ہاتھ اپنی چپل کی طرف گیا تھا۔ اماں کو چپل اُٹھاتے دیکھ وہ تھوڑا پیچھے کو ہٹی۔

" میں کہہ رہی ہوں۔ اپنی جان دے دوں گی لیکن احمد سے شادی نہیں کروں گی۔" چپل پڑنے کے ڈر سے وہ رکی نہیں تھی۔ آنسوؤں کے ساتھ کہتی وہ فوراً کمرے میں بھاگ گئی۔

نگہت بیگم نے پریشانی سے احمد صاحب کو دیکھا جو خاموش بیٹھے ناجانے کیا سوچ رہے تھے۔

" پتا نہیں کیا ہو گیا ہے اس لڑکی کو۔"

" اماں مجھے لگتا ہے بجو اسی آدمی کی وجہ سے کہہ رہی ہے۔ وہ بڑی گاڑی والا۔۔۔"

اور فاطمہ کی بات پر نگہت بیگم اور علی صاحب نے چونک کر ایک دوسرے کو دیکھا تھا۔

زینب کے انکار کی خبر گھر کی چار دیواری سے نکل کر خدیجہ بیگم کے گھر تک پہنچ چکی تھی۔ جنہوں نے سب جاننے کے بعد گھر آکر خوب واویلا کیا تھا۔ ساتھ ہی سب تعلق ختم کر کے وہ واپس چلی گئی تھیں۔ احمد نے بھی کئی دفعہ زینب سے بات کرنے کی کوشش کی مگر وہ کچھ سننے کیلئے تیار ہی نہیں تھی۔ وہ ہر بار اس کی طرف سے نا امید ہو کر لوٹ جایا کرتا تھا۔ لیکن ہر بار کی طرح وہ آج بھی نگہت بیگم سے اجازت لیتا اس کے کمرے میں موجود تھا۔ ایک آخری کوشش کیلئے۔۔۔

کیونکہ جن سے محبت کا دعوٰی ہوتا ہے نا، اُنہیں اتنی آسانی سے دنیا میں گم ہونے کے لیے نہیں چھوڑ دیا جاتا۔ اُنہیں پاس رکھنے کے لیے آخری حد تک کوشش کی جاتی ہے۔

وہ بھی ایک آخری کوشش کر لینا چاہتا تھا۔ جو زینب اور اسے دونوں کو بچا لے، دنیا کی بھیڑ میں کہیں گم ہونے سے۔۔۔

" زینی ! "

کمرے کے دروازے پر کھڑے ہو کر احمد نے دھیرے سے پکارا۔ کتنی محبت پناہ تھی اس پکار میں۔ زینب جو اماں کے طعنوں سے دلبرداشتہ کمرے میں، گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھی آنسو بہا رہی تھی ایک جھٹکے سے سر اُٹھا کر اسے دیکھا۔

" کیا ہے؟ اب کیوں آئے ہو؟ کہہ دیا نا نہیں کرنی شادی تم سے۔" وہ غصّے سے چلائی۔ آخر کو اسی کی وجہ سے تو اماں نے ڈانٹا تھا۔

احمد دھیرے دھیرے قدم اُٹھاتا اس کے قریب پہنچا اور بڑی نرمی اور توجہ سے اس کے گالوں پر بہتے آنسوؤں کو اپنے پوروں پر چننے لگا۔

" یہ کیا حال بنا لیا؟ "

زینب نے غصّے سے اس کے ہاتھ جھٹکے۔

" ڈرامہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔"

" تو اب تمہیں میری محبت ڈرامہ لگ رہی ہے۔" احمد نے تلخی سے کہتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔

" پیسہ نہیں ہے میرے پاس اس لیے؟ " فاطمہ اسے بھی بڑی گاڑی کا قصّہ سنا چکی تھی۔

" ہاں پیسہ نہیں ہے تمہارے پاس اور میں اپنی پوری زندگی غربت میں نہیں گزار سکتی۔ بچپن سے چھوٹی چھوٹی چیزوں کیلئے ترسے ہیں۔ اب کیا چاہتے ہو آگے بھی میں ایک ایک چیز کیلئے ترستی رہوں۔" وہ کہتے ہوئے اس کے مقابل کھڑی ہوئی۔

" زینب قسمت میں پیسہ ہوتا ہے۔ پیسے سے قسمت نہیں۔" احمد نے اسے سمجھانا چاہا۔

" آج کے دور میں پیسہ ہی سب کچھ ہے سمجھے اور اب بس روز روز یہاں کے چکر لگانا بند کرو۔ تنگ آ چکی ہوں ایک ہی بات دہراتے دہراتے۔"

بے حسی کی حد تھی کہ اسے سامنے کھڑے شخص کی آنکھوں میں اپنے لیے موجود محبت بھی نظر آنا بند ہو گئی تھی۔ احمد نے نفی میں سر ہلاتے اسے دیکھا۔

دل چاہا کہہ دے پچھتاؤ گی۔ میرا دل دکھا کر خوش تم بھی نہیں رہو گی۔ مجھے رلا کر مسکراہٹیں کیسے بکھیروں گی۔ لیکن وہ محبت ہی کیا جس میں محبوب کو بد دعا دی جائے۔

" میری دعا ہے تم ہمیشہ خوش رہو۔ تمہیں وہ سب کچھ ملے جس کی تمنا کرو۔"

دل پر پتھر رکھ کر وہ اسے دعا دیتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔ اس بات سے بے خبر کہ یہی وہ لمحہ تھا۔ جہاں اس کی مانگی ہر دعا کو بارگاہِ الٰہی تک پہنچنا تھا۔


۔*********۔


" پچھلے دنوں کہاں غائب تھیں؟ "

اپنی گاڑی میں بیٹھے ہاشم امتیاز نے چہرہ موڑ کر ایک نظر اسے دیکھا جو سرخ رنگ کے قمیض شلوار پر پیلا دوپٹہ لیے اداس سی شیشے کے پار دیکھ رہی تھی۔

ایک دو دن گھر میں سکون سے بیٹھنے کے بعد وہ آج پھر ہاشم امتیاز کے سامنے موجود تھی۔ جو اب اکثر ہسپتال کے بہانے صرف اس سے ملاقات کیلئے آتا تھا۔

" گھر پر ہی تھی۔"

زینب نے بھی اپنا رخ ہاشم امتیاز کی جانب کیا۔ جو پینٹ کوٹ میں آنکھوں میں سن گلاسز لگائے اس کی طرف ہی متوجہ تھا۔

" ہم کہاں جا رہے ہیں؟ "

" ابھی پتا چل جائے گا تھوڑا صبر کرو۔" کہتے ہوئے ہاشم امتیاز کے چہرے پر مسکراہٹ اُبھری۔

تھوڑی دیر میں ہی گاڑی ایک ہوٹل کے سامنے جا رکی تھی۔

" آجاؤ۔"

گاڑی سے باہر نکلتے ہوئے ہاشم امتیاز نے اسے بھی اُترنے کا اشارہ کیا۔ زینب حیرت سے اس شاندار ہوٹل کو دیکھ رہی تھی۔ بھلا اس سے پہلے وہ کب ایسی جگہوں پر آئی تھی۔ ہاشم امتیاز اسے ساتھ لیے اندر کی جانب بڑھا۔ ریسیپشن سے چابی لے کر وہ دونوں لفٹ کے زریعے تیسری منزل پر پہنچے تھے۔ کوریڈور سے گزر کر ہاشم امتیاز ایک کمرے کے سامنے جا رکا۔ چابی لگا کر اس نے دروازہ کولا اور زینب کو لیے اندر داخل ہو گیا۔

زینب آنکھوں میں اشتیاق لیے اس خوبصورت کمرے کو دیکھ رہی تھی اور ہاشم امتیاز اسے۔ وہ گلا کھنکار کر آگے بڑھا اور پیچھے سے زینب کو کندھوں سے تھاما۔

" تو پھر کیا خیال ہے؟ "

گھمبیر لہجے میں کہتا وہ اس کی گردن پر جھکا۔ زینب جو کمرے کی سجاوٹ میں کھوئی ہوئی تھی کرنٹ کھا کر پیچھے ہٹی۔

" یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟ "

کمرے میں چلتے اے سی کے باوجود اسے اچانک پسینہ آنے لگا۔ اس کی چھٹی حس نے یکدم کچھ غلط ہونے کا الارم بجایا تھا۔ زینب نے اب کے گھبرا کر کمرے میں نظر دوڑائی۔ جہاں وہ اس غیر مرد کے ساتھ تنہا تھی۔

" اوہ کم آن ڈارلنگ! اچھے سے جانتی ہو کیا کر رہا ہوں۔" مسکرا کر کہتے ہوئے ہاشم امتیاز ایک بار پھر اس کی جانب بڑھا۔

" دیکھیں شادی سے پہلے یہ سب ٹھیک نہیں۔" نظریں جھکائے وہ اپنا دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے بولی۔

" واٹ شادی؟ آر یو سیریس؟ " وہ ہنسا اور اتنا ہنسا کہ زینب کو وحشت ہونے لگی۔

" شادی اور وہ بھی تم سے؟ تم جیسی پیسوں کے پیچھے بھاگنے والی لڑکیاں بس دل بہلانے کا سامان ہوتی ہیں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔"

ہاشم امتیاز کی یہ بات ایک تمانچے کی طرح زینب کو لگی تھی۔ اسے بے اختیار احمد یاد آیا۔

" یہ۔۔۔ یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟ "

" میں کیا کہہ رہا ہوں؟ تم اچھے سے جانتی ہو لڑکی۔"

" دیکھیں مجھ۔۔۔ مجھے جانے دیں۔ میں ایسی لڑکی نہیں ہوں۔"

" اوہ کم آن! ایسی لڑکی نہیں ہوں۔ اتنا پیسہ خرچ کیا ہے تم پر وہ تو وصول کرنا پڑے گا نا۔"

ہاشم امتیاز جتاتے ہوئے اس کے قریب ہوا جب زینب نے پوری قوت لگا کر اسے پیچھے کو دھکا دیا۔ وہ لڑکھڑا کر پیچھے صوفے پر جا گرا۔

" یو بلڈی بچ! "

وہ اُٹھنے لگا مگر اس سے پہلے ہی زینب موقعے کا فائدہ اُٹھاتی تیزی سے دروازے کا لاک کھول کر کمرے سے باہر نکل گئی۔ پیچھے وہ صوفے پر گرا شکار ہاتھ سے جانے پر اسے گالیوں سے نواز رہا تھا۔ اسے حیرت بھی ہو رہی تھی۔ کیونکہ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ کوئی لڑکی ہاشم امتیاز کو یوں انکار کر کے چلی گئی ہو۔ ورنہ اس کے ایک اشارے پر لڑکیاں اپنی عزت کو پامال کرنے میں دیر نہیں لگاتی تھیں۔


۔*********۔


ہوٹل سے باہر نکل کر اس نے اپنے پھولتے تنفس کو قابو کرنا چاہا۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ کتنی آسانی سے وہ اپنی عزت کو بچاتی اُس کمرے سے باہر نکل آئی تھی۔ اس نے بے اختیار آسمان کی طرف دیکھا، یقیناً وہ رب اس پر مہربان ہوا تھا کہ یہاں تک پہنچ کر بھی اس کی عزت صحیح سلامت تھی۔

آنسوں آنکھوں سے نکل کر گالوں پر بہنے لگے۔ پیسے کی خواہش اسے کہاں تک لے آئی تھی۔

لیکن کیا واقعی یہ پیسے کی خواہش تھی کہ وہ آج اس حال کو تھی؟ یقیناً نہیں۔۔۔

یہ تو اللّٰه کے بندوں کا دل دکھانے کی سزا تھی اور اُس بندے کی دعا بھی۔۔۔ کہ آج وہ یہاں پہنچ کر بھی محفوظ تھی۔

" احمد! "

وہ سسک اُٹھی۔ کیا کر آئی تھی وہ۔۔۔

ماں باپ کو اس نے ناراض کیا تھا۔ اپنے لیے واپسی کے دروازے اس نے خود بند کیے تھے۔ چاہنے والے شخص کو دولت کے پیچھے خود ٹھکرایا تھا۔

گوکہ خواہشات پالنا غلط نہیں مگر کسی کا دل دکھا کر اپنی خواہشوں کے پیچھے بھاگنا، کبھی آپ کیلئے فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکتا۔

وہ بھی اب خالی ہاتھ کھڑی تھی۔ نہ دولت تھی نہ ہی محبت۔۔۔


۔*********۔


آج موسم کافی ابر آلود ہو رہا تھا۔ اس لیے دکان سے جلدی واپس آ کر کھانا وغیرہ کھانے کے بعد وہ کچھ دیر کیلئے اپنے دروازے کے باہر بیٹھ گیا تھا۔ محبت کے بچھڑ جانے کا غم تھا کہ اب وہ زیادہ تر وقت گھر سے باہر گزارتا تھا۔ تاکہ اسے دیکھ کر اس کی اماں بہن پریشان نہ ہوں۔ وہ یونہی بیٹھا کسی غیر مرئی نقطے کو گھور رہا تھا جب اسے گلی میں رکشہ رکنے کی آواز سنائی دی۔ اس نے چہرہ موڑ کر بائیں جانب دیکھا۔ جہاں وہ دشمنِ جان رکشہ سے اُتر کر اب رکشہ والے کو رکنے کا بول رہی تھی۔ تاکہ گھر کے اندر جاکر رکشہ کا کرایا لا سکے۔

احمد بے اختیار اُٹھ کر اس رکشہ والے کے پاس پہنچا اور جیب سے پیسے نکال کر اس کے ہاتھ میں تھما دیئے۔ پیسے ملتے ہی وہ اپنا رکشہ لیے گلی سے نکلتا چلا گیا۔ جبکہ زینب حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔ جو اتنا سب ہونے کے بعد بھی اس کی پرواہ کر رہا تھا۔

" احمد! "

وہ مڑ کر جانے لگا تھا۔ جب زینب بے اختیار اسے پکار بیٹھی۔ احمد نے مڑ کر بےتاثر نظروں سے اسے دیکھا۔ جس پر اس نے شرمندہ ہوتے ہوئے اپنا سر جھکا دیا۔

" مجھ۔۔۔ مجھے معاف کر دو احمد۔"

احمد جو اس کے روئے روئے چہرے کو پریشان اور کچھ جانچتی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ زینب کے ہاتھ جوڑ کر کہنے پر دنگ رہ گیا۔

" پاگل ہے، کیا کر رہی ہے۔"

زینب کے جڑے ہاتھوں کو نرمی سے تھام کر نیچے کیا۔ دونوں کے درمیان خاموشی حائل ہوئی تھی۔ لمحے آہستہ آہستہ سرکنے لگے تھے۔ جب زینب نے سر جھکائے اپنے قدم گھر کی جانب اُٹھائے۔ مگر اگلے ہی لمحے احمد کے منہ سے ادا ہوتے لفظوں پر اس کے قدم تھمے تھے۔ وہ مڑ کر بے یقینی سے اسے دیکھنے لگی۔

" میں اب بھی منتظر ہوں۔ اب اگر لوٹ آئی ہے تو میں تیری طرف سے ہاں سمجھوں؟ "

" احمد! "

وہ یکدم رونے لگی۔ دنیاوی دولت کے پیچھے وہ اس محبت کو ٹھکرا رہی تھی۔ جس نے پلٹ کر اس سے کوئی سوال نہ کیا تھا۔

" اب خدیجہ خالہ نہیں مانیں گی۔" اس کا خدشہ بجا تھا۔

" میں منا لوں گا۔ بس تو اپنی بتا۔" وہ سکون سے بولا کہ احمد کی محبت کا سمندر بہت وسیع تھا۔

" کبھی طعنہ تو نہیں دوگے؟ "

" مرکے بھی نہیں۔"

مہر لگی تھی۔ محبت کا کوئی پیمانہ نہیں تھا۔

" اسی جمعہ کو نکاح کرو گے؟ "

" بالکل! تو میں ہاں سمجھوں؟ "

" سوچ کے بتاؤں گی۔"

وہ ایک ادا سے بولی، جب محبت ایسی ہو تو وہ کیوں نا خود پہ نازاں ہو۔

" اب بھی سوچ کے؟ "

احمد نے مصنوعی ناراضی سے اسے گھورا۔ جس پر وہ نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلا گئی۔

" ویسے اب میں بھی اپنے بچوں کو سنا سکوں گا۔ "

لہجے میں شرارت واضح تھی۔ زینب نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔

" کیا؟ "

" تیری میری لو اسٹوری! "

احمد نے اسکی چھوٹی سی ناک دباتے ہوئے اسکے ماتھے سے اپنا ماتھا ٹکرایا۔ زینب کے چہرے پر قوس و قزاح کے کئی رنگ بکھرے تھے۔ جب اچانک آسمان پر موجود بادل برس کر ان کو محبت کی منزل پہ بخیر و عافیت پہنچنے پر مبارک باد پیش کرنے لگے۔

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


 Teri Meri Love Story Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Teri Meri Love Story written by Jiya Abbasi.Teri Meri Love Story  by Jiya Abbasi is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages