Meri Jaan Hai Tu By Emaan Fatima New Complete Romantic Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
Meri Jaan Hai Tu By Emaan Fatima Complete Romantic Novel |
Novel Name: Meri Jaan Hai Tu
Writer Name: Emaan Fatima
Category: Complete Novel
بهت بدتمز هے آپ
شرم آنى چاهئے آپ کو اس طرح کى بات کرتے۔
وه تپ کر بولى،
اچھا کیا غلط کہا تم پىسے کے لئے لڑکیاں کچھ بھى کر سکتى هو۔اذان شاه نے طنزیہ انداز میں کہا۔مس مشال آپ کو پیسو ں کى ضرورت هے اور میں وه دے سکتا ھوں۔
مجھے آپ کى بکواس نهى سننى مزید ،،مشال نے غصے میں جواب دىا
ایک بار سوچ لینا کل تک کا ٹائم هے گھر جاؤ اور رات بھر سوچو،ماں کا علاج ضرورى هے یا اپنى انا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وه روٹیاں پکاتے پرىشان اذان شاه کى آفر کے بارے ميں سوچتى هے۔
آپو کیا سوچ رهى آپ کوئى پرىشانى کیا منال پاس آ کے پوچهتى هے۔
آں،، نهى تو ،،وه گبهرا کر کهتى هے۔۔۔
اچها تو آپ اپنى منو سے کچھ چھپا رهى هے۔منال اسکے گلے میں بازو ڈال کر لاڈ سے کهتى هے۔۔
نهى شونا کچھ نهى چهپا رهى مشال اسکے گال کو تهپتهپا کر جواب دىتى۔۔
اچها امى کهه رهى جلدى سے کهانا لے آئے۔
اچها۔۔۔تم جاؤ انکے پاس مىں آتى هوں۔مشال منال کو کهتى۔
۔۔۔۔۔۔۔۔,۔۔۔۔
تو تم نے کیا سوچا شادى کے بارے میں اذان بیٹے۔
بى بى جى اذان شاه سے پوچهتى هے۔۔
میں شادى کے لئے تیار هوں آپ کى مشال صاحبہ سے۔۔
اذان مزے سے بولتا هے۔۔
میں صدقے جاؤ ،،،نازو جا جلدى سے میرا پرس لا میں ابهى صدقه دوں۔بى بى جى پرجوش انداز مىں کهتى هے۔
بهائى وه کیسے مانى ،وه تو سخت نفرت کرتى آپ سے کیسے منایا ۔سنى اس کے کان مىں بڑبڑاتا هے۔۔
بى بى جى کسى چىز کو پسند کرے اور اذان شاه پورا نه کرے هو نهى سکتا۔اذان شاه مغرورانه انداز ميں جواب دیتا هے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔,۔۔۔۔۔۔
آپو یار میرا پنک ڈریس کدهر هے،کالج سے لیٹ هو رهى۔منال پاگلوں کى طرح پورى المارى الٹ پلٹ کے رکھ دىتى۔اور ساتھ مشال کو بهى چیخ کر پکارتى هے۔
منو کیا شور مچا رهى هو۔ارے وه بچارى ایک تو گهر کے کام بهى کرے اور آفس بهى جاتى اوپر سے تمهارےکام بهى کرے اپنے کام خود کر لیا کر۔آمنه خاتون منال کو ناراضگى سے بولتى۔۔۔
امى کوئى بات نهى بچى هے ابهى۔مشال جلدى سے منوکو آمنه خاتون کے غصے سے بچاتى هے۔
مشى بچے مت چڑھاؤ اپنے سر پر اتنا اگلے گهر جانا۔
لو جى اگلا گهر نهى دوزخ هو گیا ۔ميں تو شادى کسى امیر سے کرو گى اور عیش کروں گى۔منال چڑ کر جواب دیتى هے۔
اس لڑکى کى زبان اتنى لمبى هے ڈر لگتا مجهے اس کے مستقبل کا سوچ کر۔آمنه خاتون اپنے سینے کو مسلتے هوئے بولى۔
امى آپ پرىشان نه هو،آپ کى طبیعت خراب هو جائے گى مشال گبهرا کر آمنه خاتون کا دھیان بٹانے کى کوشش کرتی هے۔
کیسے پریشان نه هوں،،اگر مجهے کچھ هو گیا تو کیا هوگا تم دونوں کا یه سوچ کر میرى جان جاتى۔آمنه خاتون رونے لگ جاتى۔۔مشال انکو چپ کرواتى اور اذان شاه کى آفر قبول کرنے کا سوچتى۔۔
۔۔۔۔۔۔
یار بهائى کیسے منایا مشال جى کو آپ نے،سنى اس سے دوبارہ پوچهتا،
کس نے کہا وه مان گئى۔اذان اطمینان سے جواب دىتا،
تو پهر؟؟؟ سنى حیران هو کر پوچهتا۔۔
مگر آج وه مان جائے گى۔اذان کهتا هے۔
لیکن کیسے بهائى؟؟.کهى کچھ غلط تو نهى کر رهے ۔سنى پریشان هو کر سوال کرتا هے۔
ایسا کچھ نهى۔تم کو کالج نهى جانا جو یهاں آ کر سر کها رهے ميرا اذان اسکو ڈانٹ کر کهتا هے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
مس مشال فائل لیکر ميرے روم ميں آئے۔اذان مشال کو کهتا هے۔۔
مشال فائل لیکر آتى هے تو اذان اس سے دوبارہ پوچھتا هے اپنى آفر کے بارے ميں ۔تو مشال اپنى انگلیوں کو چٹخاتے هوئے کهتى مجهے منظور هے۔
اذان شاه اٹھ کر پاس آ کر بولتا۔بهت اچها فيصله لیا اور تم فکرمت کروں همارا رشتہ صرف کاغذى هو گا کچھ امیدیں نهى رکھے گے هم اک دوسرے سے۔
مشال سر جهکا کر اپنے آنسوؤں کو چهپانے کى کوشش کرتى هے۔
............
منو دروازه کهولو جا کر کب سے کوئى دروازه پر هے،
منال هُمجهنجهلا کر اٹهتى هے ،
اور دروازه کهولتى سامنے سنى کو سر سے پاؤں تک دیکهتى اور پوچهتى جى آپ کى تعریف۔
سنى شرارت بهرے انداز میں بولتا تعریف اس خدا کى جس نے آپ کو بنایا اور پهر مجھ سے ملایا ،
شٹ اپ۔منال غصے میں بولتى، پىچهے سے بى بى جى سنى کو کهتى سنى مجھے نکالو گاڑى سے،اوه سورى بى بى جى،سنى جلدى سے گاڑى سے بى بى جى کو نکالتا اور بى بى جى منال کو دیکھ کر پوچهتى کیا مشال بىٹى هے؟
جى آپو اندر هے مگر آپ هے کون ؟ منال آگے سے پوچهتى هے۔هم مشال کے باس اذان شاه کے گهر سے آئے بى بى جان جواب دیتى۔
اوووووه اچها۔منال انکو اندر آنے کا کهتى اور بیٹهک ميں بیٹها کر مشال اور آمنه خاتون کو بلانے جاتى۔
،۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام علیکم ،،آمنه خاتون اندر آ کر بى بى جى کو سلام کرتى۔اور حال احوال پوچھتى۔
جى ميں اذان شاه کى دادى هوں آپ کى بیٹى سے ایک دو بار ملاقات هوئى مجهے اپنے پوتے کیلئے ایسى هى لژکى چاهئے تهى،آج آپ سے آپکى بیٹى کا هاتھ مانگنے آئى هوں بى بى جى آمنه خاتون سے مشال اور اذان کے رشتے کى بات کرتى هے۔
جى آپ کے آنے کا مقصد جان کر خوشى هوئى میں مشى سے پوچھ کر آپ کو جواب دوں گى،
اسلام علیکم ،مشال چائے لیکر اندر آتى اور سلام کرتى۔
ادهر آؤ بچے میرے پاس۔بى بى جى مشال کو کهتى۔
مشال پاس آ کر بیٹهتى تو بى بى جى اس کے سامنے اپنى بات رکهتى تو مشال کهتى امى جو چاهے،
تو آمنه خاتون کا چهره کهل اٹهتا اور وه کهتى میرى طرف سے هاں هے مگر مجهے اپنے دیور اور نند سے بات کرنى هو گى پهر بتاؤ گى آپ کو
ان سے بات کرنے کى کیا ضرورت هم ان سے لیکر نهى کهاتے منال تڑخ کر بولتى هے۔
منو جاؤ یهاں سے۔آمنه خاتون ناراضگى بهرے انداز میں کهتى۔
منال پاؤں پٹخ کر وهاں سے نکل جاتى،
معاف کیجئے گا میں منال کیطرف سے معزرت چاهتى بس لاڈ پیار میں بدتمیز کو گئى۔آمنه خاتون شرمندگی سے وضاحت کرتى۔
ارے نهى اس کى ضرورت نهى بس رشتے داروں کےرو یوں سے بچے تلخ هو جاتے،، بى بى جى آگے سے کهتى ۔
اجازت دے اب اور هم فون کرے گے کل پهر ۔بى بى جى آمنه خاتون کو کهتى ۔
جى۔اچها،، آمنه خاتون نے آگے سے جواب دیا ۔۔
هائے،اذان شاه کیا میں اندر آ سکتى هوں؟.
تم اندر آچکى هو ماهى۔۔اذان ماهى کو کہتا هے۔
خیر بیٹهو۔
کیسے آنا هوا۔اذان ماهى سے پوچهتا هے۔
بس تمهارى شادى هو رهى پتا چلا سوچا مبارک دے آؤ۔ما هى ناگواری سے کهتى۔
همممممممم،،۔۔۔۔تو پهر دو مبارک۔اذان مسکرا کر کهتا۔
ایک بات بتاؤ تم نے مجهے تو یه که کر انکار کر دیا تها تم اس شادى جیسے رشتے پر یقین نهى رکهتے۔۔ماهى تلخ لہجے میں بولتى هے۔
وه تو مجهے اب بهى نهى،اذان شاه اطمینان سے کہتا
تو پهر شادى کیوں کر رهے هو ۔ماهى حیرت سے بولتى هے؟؟.
بس ایسى شادى کر رها هوں که جب چاهوں گا اس رشتے کا خاتمہ کر سکتا هوں۔اذان بتاتا هے۔
رئیلى،،،ووووواؤووو ماهى خوش کو کر بولتى۔
اذان مسکرا کر یس بولتا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم مجهے کب سے ایسے کیوں دیکھ رهے هو۔اذان سنى سے پوچھتا هے۔
بهائى آج آپ کى اور ماهى کى باتیں سن لى اور مجهے اتنا دکھ هوا ایسا کیسے کر سکتے آپ،سنى پریشانی سے سوال کرتا هے۔
ارے،،پاگل وه تو ماهى سے جان چهڑوا رها تها۔تم پریشان هو گے۔ڈونٹ ورى ایسا کچھ نهى هے۔اذان شاه سنى کو کہتا هے۔
اوووووه،،شکر هے ورنه میرا تو سوچ سوچ کے دماغ خراب هو گیا تها۔سنى خوش ہو کر بولتا هے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماما وه بى بى جى کا فون آیا مشال آمنه خاتون کو موبائل پکڑاتى هے۔۔
جى السلام علیکم۔آمنه خاتون موبائل کان سے لگا کر کهتى هے۔
جى وعلیکم السلام کیسى آپ ؟بى بى جى پوچهتى هے۔اور حال احوال بى بى جى کهتى ،جى آمنه کیا سوچا آپ نے ۔
جى همارى طرف سے هاں هے جب چاهے آپ شگن ڈال جائیں ۔آمنه خاتون محبت بهرے انداز میں کهتى هے۔
ارےے چلے هم تو کل هى آ رهے منگنى کرنے بى بى جى پرجوش انداز میں کهتى ۔
ارےے اتنى جلدى تیار ى کیسے هو گى آمنه خاتون پریشان هو کر کهتى هے۔
ارےے کوئى تیار ى نهى کرنى بس هم دو تین لوگ آئے گے اور آپ کچھ نهى کرے گى تکلف۔بى بى جى پیار بهرے انداز میں کهتى هے۔
لیکن پهر بهی کچھ تو کرنا هو گا۔آمنه خاتون پریشان هو کر کهتى ۔
یه ایک ماں کا حکم هے بس۔بى بى جى آگے سے کهتى هے۔
چلے جیسے آپ چاهے۔آمنه بىگم کهتى اور خدا حافظ بول کر فون کاٹ کر منال اور مشال کو پکارتى۔
_____
مشى تم بیٹا بیٹھ جاؤ۔اب منال کام کر لے گى۔
هاں آپو آپ بیٹھ جاؤ میں کرتى هوں منال لاڈ بهرے انداز میں کهتى۔
۔۔۔۔
لو مہمان آ گئے ہیں چاچى اونچى آواز میں کهتى۔
آمنه خاتون جلدى سے آگے آ کر ان سے ملتى۔اور اذان اور سنى کے سر پر پیار دیتى۔
اور ان کو صوفے په بیٹها کر منال کو آواز دیتى۔
منال جلدى سے باهر آ کر ملتى۔ بلیک کلر کا فروک میں بال کهولے چهوڑے وه سنى کے دل کے تار چهیڑ دیتى۔
وه پاس آ کر کولڈڈرنک سرو کرتى تو سنى اس کے پاس آنے پر ماشاءاللہ کهنے پر غصے سے اسکو دیکھ کر پاؤں پٹخ کر چلى جاتى۔
۔۔۔۔
شگن میں آئےسکن اور گرین ڈریس میں لائٹ سے میک اپ میں روئى روئى آنکهوں کے ساتھ وه غضب کى لگ رهى تهى۔
اسکو اذان کے برابر لا کے بیٹها دیتے دونوں ساتھ بیٹهے بهت اچهے لگ رهے تهے۔
۔۔۔۔۔۔
تم خوبصورت هو یا میرى وجه سے لگ رهى خوبصورت۔اذان اس کے کان میں بولتا هے۔
اهههههممممممم اههههههمممم۔بهائى بها بهى کیا کهسر پهسر هو رهى۔سنى مسکرا کر چهیڑتا هے۔
آپ کو کیا پرابلم هے بل آ رها آپ کو۔منال تڑ خ کر بولتى هے۔
ارےےےے پرابلم تو آپ بن گئی اس دن پهلى بار دیکها اتنا بےچین هوں۔اور آج تو لگتا نیند نهى آنى۔وه لوفرانه انداز میں منال کے کان میں بولتا
شٹ اپ۔منال غصے سے بولتى هے۔۔۔
مشال اور اذان آپ جاؤ باهر باتیں کرو جا کر۔
وه دونوں باهر آ جاتے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
مس مشال اندر آئے پلیز ۔اذان اسکو که کر اپنے آفس میں چلا جاتا ۔
اور مشال اسکے پىچهے جاتى اور نظریں جهکا کر کرسى پر بیٹھ جاتى۔
لو یه کچھ پیپر سائن کر دو۔اذان اسکو کچھ پیپر دیتے هوئے کہتا ۔۔
کیسے پیپر؟؟؟مشال آگے سے پوچهتى ۔۔
اس میں یه هے که همارى شادى صرف کاغذى هو گى اور میں جب چاهو گا تم میرى زندگى سے جاؤ۔
تو تمهىں جانا هو گا ۔اذان شاه اطمینان سے جواب دیتا۔۔
اور اگر مىں جانا چاهو تو آپ نے جانے نه دیا اوراگر آپ کو مجھ سے پیار هو گیا ۔وه آگے سے تلخ لہجے میں بولتى ۔
هاهاهاهاهاهاهاهاها،،،اووو گاڈ تم سے پیار اوففففف بهت مزا حیه هو تم۔وه طنز بهرے لہجے میں کہتا ۔
وه آنسو چهپا کر سائن کر کے اٹھ کے چلے جاتى۔
بى بى جى کا فون آیا تھا ،دن رکهنے آنا آج۔منال مشال کو بتاتى هے۔
اتنى جلدى،، مشال پریشان هو کر کهتى هے
ارے کوئى جلدى نهى میرى زندگى پتا نهى کب ختم هو جائے اچها هے ایک کے فرض سے سبکدوش هو جاؤ گى۔آمنه خاتون کهتى هے۔
اللہ نه کرے امى جان آپ کو کچھ هو،مشال رونے لگ جاتى۔اسکا دل پہلے هى بهرا تها تو وه آمنه خاتون کے گلے لگ کر پهوٹ پهوٹ کر رو دیتى۔۔۔
ارے ارے رو مت آئنده نهى بولو گى ایسا آمنه خاتون مشال کا ماتها چوم کر کهتى۔
ویسے آپو یار اگر ایسے رو گے بات بات په ،،بچارے اذان بهائى تو ٹشو پیپرز کى فیکٹرى لگوائے گے پھر۔منال شرارت بهرے انداز ميں کهتى هے۔
شٹ اپ منو،۔۔۔مشال ڈانٹ کر کهتى هے۔۔
اوکے اوکے،،اب جلدى سے بتاؤ شام کو ڈریس کون سا پہننا ۔منال مشال سے پوچهتى هے ۔
کوئى بهى پہن لوں گى۔مشال آگے سے جواب دیتى۔۔
لو ایسے کیسے کوئى بهى پہن لو گى۔۔منال تڑخ کر کهتى اور سسرال والو کے سامنے ناک کٹوانا کیا ۔
اچها جو تم کہو گى پہن لوں گى۔۔مشال هاتھ جوڑ کر کهتى۔
............
جى تو پھر آج سے 15 دن بعد هم بارات لیکر آئے گے اور اپنی بیٹى کو لیکر جائے گے اور سادگى سے نکاح هو گا اور مهندى کا فنکشن همارى طرف هو گا ولیمه دهوم دهام سے هو گا اور نکاح کا سوٹ ھمارى طرف سے آئے گا۔۔بى بى جان تفصیل سے بتاتى۔
نهى بى بى جى بارات پر جتنے مرضى لیکر آئے هم اپنى طرف سے بهت اچها انتظام کریں گے۔۔آمنه خاتون آگے سے کهتى هے۔
نهى آمنه بات کهانے کى نهى هے۔بس آپ کى طبیعت کے مدنظر کہا ۔اور آئنده پرایا مت سمجھنا ۔اپنے هى اپنوں کے کام آتے۔بى بى جى محبت بهرے لهجے میں کهتى۔
بڑى خوش نصیب هے میرى بچى اللہ نظر بد سے
بچائے۔آمنه خاتون آنسو پونچھتے هوئے گویا هوتى۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
تو دن رکھ آئے۔اذان شاه کاؤچ پر بىٹهتے هوئے بولتا۔
جى رکھ آئے بهت مبارک هو بیٹا جى۔بى بى جى پیار دیتے هوئے کهتى۔
هممممممممم۔اذان شاه موبائل پر میسج ٹائپ کرنے لگ جاتا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
مشال کے موبائل پرمیسج کى ٹون بجتى وه دیکهتى اذان شاه کا میسج هے وه جلدى سے کهولتى هے، لکها تها۔اگر کبهى میرے دل کو تمهارى قربت کى تمنا هوئى تو ایکسٹرا چارج تو نهى لگے گے۔۔
شٹ اپ بهت گهٹیا اور گرے هوئے انسان هے۔آپ کى ماں هوتى تو آپ جیسے کو پیدا کرنے پر پچهتاتى۔
یور شٹ اپ،،، تمهارى همت کیسے هوئى۔
تم بهت پچهتاؤ گى۔تمهارا حشر ایسا کروں گا تم آئنده سے بولنا بهول جاؤ گى۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وه پورے کمرے کا حشر نشر کر کے رکھ دیتا۔۔
کیا هوا بهائى آپکو؟سنى گهبرا کر کهتا۔
جاؤ میرے کمرے سے دفعه هو جاؤ۔۔اذان شاه چلا کر بولتا هے،،،،
اووووووفففففف۔۔اس نے میرے زخموں په لگے کهرنڈ کو چهیلا هے میں اسکو ایسے زخم دوں گا جو همیشه تازے رهے گے۔وه غضبناک انداز میں سوچتا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئى مهندى کى یه رات
لائى سپنوں کى بارات
سونگ پورے هال میں گونج رها تها۔
اور منال اپنے تا یا اور پهوپهو کى بچوں کے ساتھ مهندى کا تهال اٹهائے اندر هال میں داخل هوتى هے
وه شاکنگ پنک اور اورنج کلر کے لهنگے میں ملٹى کلر کے ڈوپٹے میں بهت خوبصورت لگ رهى هوتى۔
وه آکر بى بى جى کے گلے لگتى۔اور سٹیج پر جا کر کاؤچ پر بیٹھ جاتى۔
هائے منو جى۔وه ناک سکوڑ کر رخ موڑ لیتى سنى کے هائے بولنے پر۔وه آههههه بڑھ کر ره جاتا۔
وه کسى بات پر کهلکهلا کر هستى تو سنى اسکى تصویر کلک کر لیتا۔
وه غصے میں دیکھتى سنى کو۔
وه مسکرا کر کان پکڑ کر سورى بولتا ۔
اور پورے فنکشن میں اسکى پکچرز کلک کرتا۔
منال بس غصے کے گهونٹ پى کر ره جاتى۔
آپ غصے میں غضب لگتى هو۔سنى اسکے کان میں آ کر بولتا ۔وه تلملا کر ره جاتى۔
فنکشن ختم هونے کے بعد سنى انکو گهر چهوڑنے آتا وه فرنٹ سیٹ پر بیٹھى باهر دیکھ رهى هوتى۔
سنى اس پر گاهے بگاهے نظر ڈالتا۔
گهر کے پاس آ کر وه سب گاڑى سے اترتے تو جب منال اترنے لگتى سنى هاتھ تهام لیتا۔
اور محبت بهرے انداز ميں کهتا آج تم بهت خوبصورت لگ رهى تهى۔وه جهٹکے سے هاتھ چهڑوا کر بولتى۔آئنده مجھ سے ایسى بکواس کى تو سب کو آپ کى بےهودگى بتا دوں گى۔
سنى گم صم سا هو کر اسکو جاتے دیکھتا هے۔۔
۔۔۔۔۔۔
بارات کا فنکشن ۔
منو جلدى کرو،پارلر لے جاؤ مشال کو اور اسکا لہنگا بهى لے جانا۔آمنه خاتون منال سے بولتى۔
نهى امى مجهے نهى جانا پارلر۔مشال بیزار ى سے کهتى هے۔
بس کرو مشى رو رو کے دیکھ کیسى شکل نکل آئى۔آمنه خاتون مشال کو ڈانٹ کر کهتى۔۔
منال مشال کو لیکر پارلر جاتى۔
بارات کے آنے سے پهلے وه لیکر گهر آتى اور بارات آ جاتى۔مشال سرخ اور گولڈن لہنگے ميں کسى حور سے کم نهى لگ رهى تهى ۔
اور منال گرین فروک میں غضب ڈها رهى تهى۔
اور نکاح مولوى صاحب پڑھا کر فارغ هوتے تو منال بمشکل اپنے آنسو روک کر وهاں سے نکل آتى۔
سنى اسکو ایک نظر دیکھ کر سر جهکا لیتا۔
پهر رخصتى کا کهتے تو منال مشال کے اوپر چادر دیتے هوئے اپنى آنکهوں کو جھپک کر آنسو کنٹرول کرتى۔مشال لڑکهڑا کر گرنے لگتى تو اذان شاه اس کا هاتھ تهام لیتا۔اور هاتھ تهام کر گاڑى ميں بیٹهاتا۔
اور ایک سائىڈ پر بى بى جى بیٹھ جاتى اور دوسرى طرف اذان شاه۔اور درمیان میں مشال۔
شاه ولا میں جاکر گاڑى روکتى تو بى بى جى اذان شاه کو کهتى مشال کو اندر لیکر جاؤ
وه باهر نکلتى تو اذان شاه اپنا هاتھ آگے کرتا وه اس سے پہلے هاتھ تهامتى اسکا سر گهوم جاتا اور وه اذان شاه کے بازوؤں ميں جهول جاتى ۔
اور اسکى چادر اتر جاتى اور چاند کى روشنى میں اسکا چہره جگمگا رها تها اذان شاه مبہوت سا اسکو دیکھتا ره جاتا۔۔
هائے کیا هو گیا میرى بچى کو۔بى بى جى پریشانی سے بولتى۔جلدى کرو اذان لیکر جاؤ اندر۔
آآآآں،،جى بى بى جى،اذان شاه چونک کر که کر مشال کو اپنے بازوؤں میں اٹها کر اندر کاؤچ په جا کر لیٹا دیتا۔
بى بى جى ہانپتے هوئے اندر آتى
ارے یہاں کیوں لىٹا دىا بچى کو اوپر روم میں لیکر جاؤ آرام سے لیٹى رهے گى۔بى بى جان اذان سے کهتى اور ساتھ سنى کو آواز دیتے هوئے بچے جلدى کر ڈاکٹر صاحب کو فون کرو
ڈاکٹر آ کر چیک کر کے کہتا هے۔بخار بهت زیاده هے اور بى پى بهى لو هوا هے۔آپ انکو کچھ کهلائے پلائے میں پهر انجیکشن لگاؤ گا۔اذان اسکے منه پر پانى مار کر اسکو هوش میں لاتا۔اور نازو جلدى سے جوس لاتى۔بى بى جى زبردستی جوس پلاتى۔اور ڈاکٹر انجیکشن میڈیسن لکھ کر دیتا ۔
اور بى بى جى سنى کو میڈیسن لا نے کو کهتى ۔
سنى لا کر دیتا تو بى بى جى مشال کو کھلا کر نازو کو اسکا سر دبانے کو کهتى ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماشاء اللّٰہ محترمہ مهارانى کى طرح آتے خدمت کروا رهى ۔کوئى نهى یه لاسٹ نائٹ تمهارى سکون کى۔کل سے جہنم بنا دو گا تمهارى زندگى مسز اذان شاه۔وه غصے سے پورے کمرے میں ادهر ادهر چکر کاٹ رها تها۔
پهر تهوڑى دیر بعد جب مشال کروٹ لیتى تو وه جا کر لیٹتا ۔اور آنکهوں کو موند کر مشال کو ستانے کا طرىقه سوچتا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
مشال کى صبح آنکھ کهلتى تو پهلے تو چهت کو دیکهتى۔پهر سائیڈ پر دیکهتى که وه اذان شاه کے بازو پر سر رکھ کر لیٹى تو هڑبڑا کر جهٹکے سے اٹھتى۔تو اذان شاه آنکھیں کهول کر بولتا صبح صبح شروع هو گیا ڈرامه ۔محترمه پورى رات میرا بازو توڑتى رهى۔اب ایسے بدکى جیسے کو بهوت دیکھ لیا هو۔
بهوت سے بهى خطرناک هو۔وه بڑبڑاتى منه مىں۔مگر اذان شاه کے کانوں تک اسکى کهى بات پهنچ جاتى۔
وه اٹھ کے غصے سے اسکو گهورتا۔اور کہتا آئنده زبان مت چلانا میرے آگے۔ورنه بهت برا هوگا۔
آگے بهت اچها هو رها میرے ساتھ۔وه آئینے کے آگے بال کهولتے هوئے بولتى۔
اذان شاه غصے سے اٹھ کر پاس اسکو بازو سے پکڑ کر وارڈروب کے ساتھ لگا کر اسکے جبڑے بهینچ کر کہتا تمهارى زبان کاٹ دوں گا اگر آئنده مجھ سے یوں بات کى۔اور جهٹکے سے اس کو آگے کو دھکا دیتا۔اور وارڈروب کهول کر کپڑے نکالنے لگ جاتا۔
۔۔۔۔۔۔
مشال اپنا ڈریس نکال کے بیٹھ کر اذان شاه کے واش روم سے نکلنے کا انتظار کرتى هے۔وه باهر نکلتا برش کرتا هوا۔وه جانے لگتى تو آگے کهڑا هو جاتا
کیا پروبلم هے مجھے نهانا هے۔وه تڑخ کر بولتى
میں نے بهى نہانا هے۔وه آگے سے تپ کر جواب دیتا ۔
واٹ،،،،اندر ایک گهنٹے سے کیا کر رهے تهے۔اذان شاه اطمینان سے جواب دیتا ۔۔
اخبار۔اوووووه گاڈ اخبار باهر نهى پڑھ سکتے۔۔وه تپ کر پوچهتى هے۔۔
میرا روم،، میرا واش روم۔جو مرضى کروں تم میرے معاملے میں ٹانگ مت اڑایا کرو وه وارننگ دیتے هوئے بولتا۔اور واش روم میں گھس جاتا۔
وه غصے سے تلملا کر ره جاتى۔اور ٹیرس پر جا کر کھڑى هو کر باهر دیکھتے اس کى نظر اچانک سائیڈ پے لگے پانى کے پائپ کے ساتھ لگے وال پر پڑتى۔وه وال کو بند کر کے مسکرا کر ره جاتى۔
پانچ منٹ کے بعد اذان شاه غصے سے باهر آتا۔اور کپڑے پہن کر ساتھ بڑبڑاتے هوئے بولتا۔ان سب کو پتا نهى کس چیز کى تنخواہ دیتا هوں ایک پانى کى ٹینکى نهى بهر سکتے۔آج نهى چهوڑو گا انکو۔
وه باهر نکل کے جاتا تو وه کهلکهلا کر هنس پڑتى اور وال کهول کر نهانے گهس جاتى۔۔
،،،،،۔۔۔۔۔
پوچهے ان سب سے کس چیز کى تنخواه دیتا هوں انکو۔حرام کے پیسے کماتا هوں کیا ۔وه غصے میں سب پر چلا رها هوتا هے۔
کیا هو گیا اذان بیٹے ۔۔بى بى جى آ کر پوچهتى۔
نها رها تها پانى ختم هو گیا ۔اذان شاه تپ کر بولتا هے۔
کیا لیکن پانى تو آ رها تها ۔بى بى جى حیران هو کر کهتى۔
تو پهر میرے واش روم ميں کیوں نهى آ رها۔ابهى پلمبر کو بلوا کر چیک کرواؤ۔وه که کر باهر نکل جاتا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساجد جى اوپر روم ميں اذان بابا کے کمرے میں پلمبر کو لے جاؤ،نازو ساجد سے کهتى۔
پلمبر کیوں ؟؟مشال حیرت سے پوچهتى۔۔
وه بهابهى بهائى کے واش روم میں پانى نهى آ رها۔
کیا ۔ارے اسکى ضرورت نهى۔وه وال بند کیا تها ميں نے۔مشال انگلیاں چٹخاتے هوئے کهتى۔
کیا ۔آپ نے ایسا کیوں کیا ؟بى بى جى پوچهتى مشال سے۔
وه بى بى جى اتنى دیر لگاتے واش روم میں ۔مجهے غصه آ گیا نکل نهى رهے تهے۔آپ بتائے اخبار پڑهنے کا کیا تک بنتا واش روم ميں ۔
هاهاهاهاهاهاهاها۔بهابهى کمال کر دیا۔سنى هستے هوئے بولتا۔
بى بى جى بهى مسکرا دیتے ۔وه بهى هستے هوئے پیچهے مڑتى تو اذان شاه اس کو کها جانے والى نظروں سے دیکھ رها هوتا ۔وه جلدى سے بى بى جى کے ساتھ بیٹھ جاتى۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
هائے آپو کیسى هو آپ۔منال پوچهتى مشال سے۔۔
منال اور آمنه خاتون شام کو ملنے آتى۔
اچهى هوں ۔تم بتاؤ ۔مشال اس سے پوچهتى۔
مجهے رات نىند نهى آئى۔بهت مس کیا آپ کو۔منال اٹهلا کر بولتى۔
میں نے بهى بهت مس کیا ۔مشال اسکو گلے لگا کر کهتى۔
اچها تو اب ولیمه کب رکهے۔بى بى جى اذان سے پوچهتى۔
بى بى جان ابهى نهى۔مشال کى مدر کے تندرست هونے کے بعد۔اذان شاه جواب دىتا هے۔
آمنه خاتون محبت سے دعا دیتى۔اور کهتى بیٹے آپ کر لو میرى صحت مت دیکھو۔
نهى آنٹى دهوم دهام سے هو گا فنکشن ۔اور آپ کے تندروست هونے کے بعد هوگا۔
چلے جىسے آپ چاهے۔۔
کتنے اچهے اذان بهائى منال مشال کو کهتى۔
هاں بهت اچهے سے جانتى اس شاه کے بچے کو صرف ولیمه نه هو اس کے لئے ٹال رها سب کو
مشال دل میں سوچتى۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم بیڈ پر نهى صوفے پر سو جاؤ۔
جا کر اذان شاه اس کو بیڈ پر بیٹهتے دیکھ کر بولتا ۔وه صوفے پر لیٹ جاتى ۔اچانک کاکروچ کو دیکھ کر اٹھ کر بیٹھ جاتى۔اور بولتى اووووههه گاڈ کاکروچ کدهر سے آ گیا ۔
اذان شاه بدک کر اٹھتا۔اور هکلا کر پوچهتا۔ککککک کدهر کاکروچ۔
یه رها وه اطمینان سے جواب دیتى۔
اووووه،،گاڈ اسکو نکالو فوراً ۔وه جلدى سے بولتا۔
آپ کو کاکروچ سے ڈر لگتا کیا ۔مشال اس سے پوچهتى۔
گندى چیزوں سے سب کو هى ڈر لگتا ۔وه آگے سے کہتا ۔۔
لیکن مجھے تو نهى لگتا۔مشال مزے سے کہتى۔
هاں تم خود گندگى میں پلى هو،وه تڑخ کر بولتا ۔
اچهههها۔تو یه لو۔وه کاکروچ کو بیڈ پر اچهال دیتى۔
وه گھبرا کر پىچهے هٹتا ۔
دیکهو اچها نهى کر رهى تم۔وه غصے سے بولتا۔
اور اسکا بازو موڑ کر کہتا اگر تم نے اسکوباهر نه نکالا تو سب کو همارى شادى کى حقیقت بتا دوں گا۔
اور پهر کسى کو کچھ هوا تم ذمہ دار هو گى۔
آپ حد سے زیاده خودغرض هو۔وه آنسو چهپا کر تلخ لہجے میں کهتى۔اور کاکروچ اٹها کر باهر پهینک دیتى۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کو مسز رحمان کے هاں پارٹى هے تو مشال کو ساتھ لے جانا ۔بى بى جى اذان کو کهتى
جى مىں کیسے ساتھ جا سکتى۔مشال جلدى سے بولتى۔
ارے کیوں نهى جا سکتى۔انجوائے کرو زندگى کو۔
پارلر والى آئے گى آپ کو تیار کر دے گى۔۔۔
جى اچها۔مشال هولے سے کهتى۔
۔۔۔۔۔۔۔
شام کو وه بلیک کلر کى ساڑى میں بالوں کا جوڑا بنائے بهت خوبصورت لگ رهى تهى۔اور اپنے کندھوں پر شال ڈال کے وه گاڑى میں آ کر بیٹھ جاتى۔
بهت جلدى آ گئى آپ محترمہ۔وه تنک کر بولتا۔
هاں تو میرا کیا قصور هے آپ کى پارلر والى پتا نهى کیا کیا میرے فیس پر لگاتى رهى۔وه بهى آگے سے تپ کر کهتى۔
تم مجھ سے اسطرح بات نه کیا کرو۔ورنه بهت برا هوگا۔وه ناگوارى سے کہتا ۔۔
تو آپ کے منه سے پهول جڑتےہىں ۔وه چڑ کر بولتى هے۔
ایک جهٹکے سے وه گاڑى روکتا۔اور چلا کر بولتا گٹ آؤٹ۔۔
میں نهى نکلوں گى اتنى رات میں آپ مجهے ایسے نهى چهوڑ سکتے۔وه گهبرا کر کہتى
میں اذان شاه هوں،مجهے نهى کوئى بتاتا که میں کیا کر سکتا هوں کیا نهى ،لوگ میرے مطابق چلتے۔وه پهنکار کر بولتا۔
میں نهى نکلوں گى۔وه آگے سے جم کر بولتى۔
وه گاڑى سے باهر نکل کر اسکى طرف کا دروازه کهول کر اسکو بازو سے پکڑ کر باهر نکالتا۔اور گاڑى زن سے لیکر چلا جاتا
وه گھبرا کر اردگرد دیکهتى۔سنسان سڑک اور سناٹا اس کى گبهراهٹ میں اضافہ کر رها تها۔۔۔
وه تهوڑا آگے جا کر ٹیکسى لیکر اس میں بیٹھ کر شاه ولا کا پتا بتاتى اور آنسوؤں سے اسکا پورا چهره بهیگا تها۔اور ٹیکسى شاه ولا کے آگے آ کر رکتى وه باهر نکل کر پیسے پکڑا کر اندر دبے پاؤں جاتى۔سب اپنے اپنے کاموں میں لگے تهے۔وه بنا کسى کو پتا چلے اپنے کمرے تک پہنچ جاتى اور زمین پر بیٹھ کر پهوٹ پهوٹ کر رو دیتى۔
۔۔۔۔۔۔۔
اذان شاه تهوڑا آگے جا کر واپس موڑ لیتا گاڑى
مگر وه ادهر کہى بهى نهى تهى۔وه گبهرا جاتا۔
پاگلوں کیطرح هر ایک سے پوچهتا۔
پهر راستے میں ایک ٹیکسى والے سے پوچهتا۔
تو وه کهتا،هاں صاحب چهوڑ کر آیا شاه ولا میں ۔
وه اطمینان کا سانس لیتا ۔
پهر اسکو غصه آ جاتا۔
کیا تها تهوڑى دیر رک جاتى۔چهوڑو گا نهى اسکو۔
وه غضبناک هو کر سوچتا ۔اور شاه ولا کیطرف گاڑى موڑ لىتا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
گهر پہنچ کر وه روم ميں تیزى سے داخل هوتا
اس سے پہلے وه کچھ کہتا ۔مشال تیر کى طرح لپکتى اور اس کا گریبان پکڑ لیتى۔اور غصے میں بولتى۔کس کدهر نفرت آپ کو مجھ سے که آپکو ذرا احساس نهى هوا مجھے بیچ سڑک پر چهوڑ دیا ۔اگر کچھ هو جاتا مجهے۔کوئى نوچ کهاتا یا مار دیتا۔
کیا جاتا آپ کا ،نفرت هے آپکو مانتى هوں۔مگر انسانیت کے ناتے سوچوں کیا کیا هے آپ نے۔
وه بات کرتے کرتے هانپ جاتى اور اذان شاه گم صم سا اسکو یک ٹک دیکهے جاتا ۔جوڑے سے کچھ لٹے اس کے چہرے کو چوم رهى تهى۔سرخ لپ اسٹک سے اس کے کانپتے هونٹ۔اور رو رو کر گلابى هوئى آنکهوں میں اذان شاه کو اپنا دل ڈوبتا محسوس هوتا۔۔۔
وہ ایک جھٹکےسے اذان شاہ سےدور ہوکر بیٹھ جاتی صوفے پر اور گھٹنوں میں سر دے کرزاروقطار رو پڑتی ہے
۔
اذان شاہ لب کاٹتے اسکو دیکھتا ہے۔
٠٠٠٠٠٠٠
صبح اذان شاہ کی أنکھ کھلتی ہے وہ اٹھ کر دیکھتا ہے تو وہ صوفے پر اک طرف بیٹھے بٹھے سوٸی تھی۔
وہ اٹھ کر نہانے چلے جاتا جب نکلتا تووہ اسی پوزیشن میں سوٸی ھوتی وہ پاس آ کر آواز بھی دیتا مگر وہ کوٸی ری ایکٹ ہی نہی کرتی وہ اس کے ماتھے کو چھوتا تووہ بخار سےتپ رہا تھا۔
وہ جلدی سے اس کو اٹھا کر بیڈ پر لٹا دیتا٠اور ڈاکٹر کو فون ملانے لگ جاتا۔
اور نیچے ڈاکٹر آتا تو اذان اسکو لیکر اوپر جانے لگتا
بی بی جی پریشان ہو کرڈاکٹر کے آنے کی وجہ پوچھتی٠تو اذان انہیں مشال کی طبیعت کا بتاتا
وہ پریشان ہو کر چھڑی کے سہارے سے اوپر روم میں جاتی۔۔۔
ھاٸے کیا ہو گیا میری بچی کو٠لگتا نظر لگ گٸی ہے۔نازو جا ساجد کو بول کر ابھی یتیم خانے دیگ بھیج۔بی بی جی کہتی۔۔۔۔
٠٠٠٠٠٠٠٠٠
شام کو منال کو ڈراٸیور کو بھیج کر بلوا لیتی بی بی جی تاکہ مشال کا دل کسی اور طرف لگے۔
وہ مشال کے روم میں جاتی٠مشال اسکے گلے لگ کر رو پڑتی۔منال پریشان ھوکرپوچھتی کہ کیاہوا۔
بس تمھاری اور امی کی بہت یاد آ رہی تھی٠مشال آنسو صاف کر کے بولتی٠ویسے امی کےپاس کون ہے مشال منال سے پوچھتی ہے۔
وہ بوا فاطمہ اورانکی بیٹی آٸی٠ان کے مالک مکان نے بدتمیزی کی بوا کی بیٹی کے ساتھ٠وہ یہاں آٸی بہت رو رہی تھی٠تو امی نے کہا اب یہی رہے کہی نہی جانے دے گی۔منال تفصیل سے بتاتا۔
بہت اچھا کیا امی نے٠مشال کہتی ہے٠
اچھاآپ آرام کرو میں بی بی جی کے پاس سے ہو کرآتی ہوں۔
٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠
یار بی بی جی کچھ تو رحم کرو٠کیوں مجھ معصوم کے لٸے لڑکی ڈھونڈ رہی ابھی سے٠انجواۓ کرنےدو مجھے٠سنی بی بی جی کی گود میں سر رکھ کر لاڈسے کہتاہے٠
ارےے بس جلدی شادی کر دینی تمھاری ٠میری زندگی کا کیا پتا کب مر کھپ جاٶ٠
جاٶ یار میں نہی بولتا آپ سے٠سنی روٹھے ہوۓ انداز میں کہتا٠
میں اندر آ جاٶ بی بی جی ٰٰٰ منال پوچھتی ہے اور سنی اسکو دیکھ کر اٹھ کے کھڑا ہو جاتااور کہتا بی بی جی چلتا ہوں مجھے اک دوست سے نوٹس لینے٠
منال ساٸیڈ پر ہو جاتی وہ وہاں سےگزر کر باہر نکل جاتا٠
منال بی بی جی کے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگ جاتی مگر اس کا ذہن بار بار سنی کیطرف جاتا٠
مہندی کی رات جو بدتمیزی کی تھی اسکے بعد سنی اس سے بات تو دور اسکو دیکھ کر راستہ بدل لیتا٠
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیسی طبیعت اب تمہاری؟ اذان شاہ مشال سے پوچھتا ہے۔
وہ بنا کوٸی جواب دٸیے مووی کیطرف توجہ کر لیتی٠
اذان شاہ تلملا کر رہ جاتا٠وہ اس ریموٹ پکڑ کر چینل تبدیل کر دیتا٠
آپ کا مسلہ کیا ہے لگاۓ مووی٠وہ چڑکر بولتی
وہ اگنور کر کے چینل پہ چینل بدلتا جاتا٠وہ غصے میں آگے ہو کر ریموٹ پکڑنے لگتی وہ ہاتھ پیچھے کر لیتا٠مشال اپنا توازن برقرار نہی رکھ پاتی اذان شاہ کے اوپر گرجاتی اور بال سارے بکھر جاتے٠اذان شاہ اسکے بالوں کو پیچھے کرتا٠وہ ایک جھٹکے سے اس سےدور ہو جاتی٠
وہ اٹھ کر ٹیرس پر جا کر گہرے سانس لیتا٠
یہ کیا ہو رہا مجھے جب وہ میرے قریب آتی میرا دل چاہتا دور نہ جاۓ ُ کیسا احساس ہےاذان شاہ یہ کیا ھو رہا تیرے ساتھ۔اذان شاہ پریشان ہو کر سوچتا٠
٠٠٠٠٠٠٠٠٠
منال کچن میں چاۓ بنا رہی ہوتی ہے
نازو یار چاۓ بنا دو٠یہ کہ کر اذان ڈاٸنگ ٹیبل کی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ جاتا اور اپنی سر کو انگلیوں سے مسلتا ہے۔
منال بنا کچھ کہے چاۓ بنا کر دیتی اور پھر اسکو پین کلر دیتی وہ چونک کر دیکھتا اور جلدی سے کھڑا ہو جاتا٠اوووہ ایم سوری مجھے لگا کہ نازو ہے۔
کوٸی بات نہی ہوتا ھے٠آپ بیٹھ کر چاۓ پی لے منال ؒآرام سےکہتی ھے٠
نہی ضرورت نہی میں نازو کے ہاتھ کی چاۓ ہی پیتا
ھوں سنی کہ کر جانے لگتا تو منال آگے بڑھ کر اسکا بازو پکڑ کر روکتی٠
اگریہ میں نے کیا ہوتا توآپ میرے کردار پر انگلی اٹھاتی مس منال”سنی طنزیہ انداز میں کہتا٠
ایم سوری میں اس دن کے لٸیے بہت شرمندہ ہوں
وہ شرمندہ ہو کر بولتی ہے٠
اچھا“ واٶ“مس منال پہلےکسی کو زہر اگل کر زہریلہ کردوپھر بعد میں سوری بول کر خودکوبری کرلو
سنی تلخ انداز میں بولتا اورتیزی سے باہرچلا جاتا ہے۔
منال گم صم کھڑی رہ جاتی٠
٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠
اگلے دن بی بی جی اذان شاہ کو کہتی منال“مشال اورسنی کے ساتھ جا کر باہر گھوم کے آٶ شاپنگ کرو ڈنر کرکےگھر آنا،اذان شاہ جھنجھلا کر رہ جاتا٠
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ چاروں شاپنگ مال میں داخل ہوتے۔ایک لڑکی آ کرسنی کے گلےلگ کر اذان کے بھی گلے لگ کےملتی
اور سنی کا بازوپکڑ کر کہتی چلو نہ سنی ڈارلنگ میری ہیلپ کرو٠
اورسنی مسکرا کر اسکو کہتا” شیور”
اور وہ دونوں دوسری ساٸیڈ پر چلے جاتے اور منال بےچین ہو کر مشال سے کہتی آپو یار کسطرح کے ہوتے امیر لوگ بےباکی سے کہی بھی گلے لگ جاتے۔
ھھھھھھھھوں “ایسےہی ہوتے نام کے امیر اورتربیت میں غریب،خاص طور پر یہ لڑکے٠
شاپنگ کے بعد وہ سب ڈنر کرنے کیلٸے ریسٹورنٹ میں جانے لگتے تو سنی کی دوست بھی کہتی میں بھی چلوں کیا“؟آف کورس یار کیوں نہی، سنی کہتا ہے
منال کا حلق کڑوا ھو جاتا یہ سن کر٠۔
سنی اپنی دوست کی کار میں بیٹھ جاتا تومنال کا دل بےچین ہو جاتا ہے۔
کھانا کھاتے وہ مسلسل ایک دوسرے سے بات کرتے رہے اور منال سے ٹھیک سے کھایا بھی نہی گیاتھا“
اور اس سب میں مشال اور اذان چپ چاپ بیٹھے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشال روم میں جا کر بیٹھ جاتی اور اذان اسکے شاپنگ بیگ اٹھا کر پھینکتا اورغصے سے بولتا تمھارا پرابلم کیا “نوکر ہوں کیاجو تمھارے شاپنگ بیگ
بھی اٹھا کر لاٶ۔
کیوں گھس گے ہو کہی سے وہ تنک کر بولتی ہے
مر نہی جاتے تم امیر زادے اگر بیوی کی خدمت کر لو گے وہ مزید بولتی۔
رات سے مسلسل تمھارے ڈرامے دیکھ رہا ہوں اگر تم نے بکواس بند نہ کی تو کمرے سے نکال دوں گا وہ تلملا کر کہتا
اوکے ٹھیک ہے نکالو روم سے اور میں بی بی جی کو پرسوں کی سب تفصیل بتاٶ گی کہ کیسےآپ نے مجھے بیچ راستے چھوڑا مشال اطمینان سےکہتی۔
تم”تم مجھے دھمکی دے رہی ہو وہ تلملا کرکہتا ہے۔
ھاں دھمکی دے رہی ھوں اور آپ سے ہی سیکھا یہ سب۔وہ اسکا دل جلا کر بولتی ہے۔
وہ غصےسے ٹیرس پر چلے جاتا اور سوچتا یہ سب کیا ہو رہا میں نےسوچا تھا کہ اسکا جینا حرام کردوں گا مگریہ تومجھے ناکوں چنے چبوا رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پلیز سنی رک جاۓ منال اسکو پیچھے سے پکارتی ہے
وہ مڑ کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتا۔
پلیز مجھے ایک بار معاف کر دے میں آٸندہ کبھی آپ سے ایسے بات نہی کروں گی۔
اچھھھا“وہ ہاتھ باندھ کر استہزاٸیہ انداز میں کہتا ہے۔جاٶ معاف کیا اور پلیز ریکویسٹ ہے اآٸندہ دور رہےمجھ سے،یہ کہ کر وہ سیڑھیاں پھلانگتا اوپر چلا جاتا۔
آپو ٹھیک کہتی یہ دل کے امیر اور تربیت کے غریب ہے ایک لڑکی ھوں میں اور اس دن جو بولا وہ ایک اجنبی کو بولا اور معافی بھی مانگی۔بس اب اور نہی خود کو گراٶں گی منال اپنی آنکھوں کو مسل کر کہتی اور وہاں سے کمرے میں آ کر گھر جانےکی تیاری کرتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منو“یار ایک ہفتے کے لٸے آٸی تھی دو دن بعد جا رہی ہو۔مشال اداس لہجے میں بولتی۔
آپو امی بہت یاد آرہی اور پتا نہی میڈیسن ٹھیک سے کھاتی ھوں گی کہ نہی وہ مسکرا کر جواب دیتی۔
ھھممممممم”یہ بھی ھے۔مشال کہتی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا بات ہے بڑے چپ ہیں سب”سنی“آکر پوچھتا ہے۔
ھاں بس بور ہو رہے بیٹے٠منال چلی گٸ ایسا لگ رہا جیسے رونق چلی گٸ۔
کیا ؟وہ کیوں چلی گٸ اسکو تو ابھی رہنا تھا
وہ مضطرب ہو کر پوچھتا۔
بس اداس ہوگٸ تھٕی وہ۔مشال جواب دیتی۔
سنی اٹھ کر روم میں آ جاتا اور بےچینی محسوس کرتا۔کیا ہو گیا مجھے جاتی تو جاۓ وہ سوچتا مگراسکا اضطراب ختم نہی ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشال روم میں آتی تو اذان کوٸی انگلش مووی لگا کر بیٹھا دیکھ رہا ہوتا٠مووی میں بولڈ سا سین چل رہا تھا۔
یہ کیا بیہودگی دیکھ رہے ہوں وہ تپ کر بولتی۔
اذان شاہ اٹھ کر اس کے پاس آتا ”
”واااٶٶ “تم تو بہت خوبصورت لگ رہی ہو میری جان وہ ہولے سے اسکے کان میں کہتا٠
مشال کی آنکھیں پھیل جاتی“وہ اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر دور کرنے کی کوشش کرتی وہ اسکا ہاتھ تھام کر اپنے لبوں پر لگا لیتا۔وہ تڑپ کر پیچھے ہٹتی اور بولتی بہت بدتمیز ہیں آپ۔
وہ قہقہ لگا کر کہتا کیوں کیا ہوا بیگم ؟آپ نے یہ سب سچ تو نہی سمجھا نہ۔تم دنیا کی آخری لڑکی بھی ہوٸی تب بھی تم سے پیار نہی کروں گا اور نہ جان بولو گا۔
وہ ہاتھ باندھ کر اسکی طرف دیکھ کر کہتی اور میں زندگی میں اگر کسی چیز پر ایوارڈ دوں گی کسی کو گھٹیا انسان اور قابل نفرت ہونے کا تو آپ کو دوں گی مسٹر اذان شاہ۔
اذان شاہ ناگواری سے اسکو دیکھ کر ہنکارا بھر کر جا کر بیڈ پر بیٹھ کر مووی دیکھنے لگ جاتا۔
بھاٸی یار کدھر ہو۔سنی پرجوش انداز میں اذان شاہ کوپکارتا ہے
کیا ہوا سنی سب ٹھیک تو ہے اذان اسکے پاس آکر پوچھتا۔اوراتنے پرجوش کیوں دکھ رہے ہو۔
بھاٸی یار ہمارا ٹرپ جا رہا ہے مری اور کاغان اور اس بار پورے ١٠ دن کیلیۓ وہ اپنے خوش ہونے کی وجہ بتاتا۔اذان شاہ کا چہرہ متغیر ہو جاتا۔
تم نہی جاٶ گے وہ سخت لہجے میؒں سنی کو کہتاہے۔
لیکن کیوں بھیا ہر بار آپ وہاں جانے سے منع کیوں کرتے ہیں وہ جھنجھلا کر بولتا ہے۔کیا میری کوٸی مرضی نہی ہے۔
نہی کوٸی مرضی نہی تمھاری اور ہاں اس گھر میں صرف میری مرضی چلے گی۔وہ غصے میں کہ کر چلا جاتا۔اور سنی پریشان سا کھڑا رہ جاتا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح ناشتے میں اذان شاہ آ کر ناشتہ کرنے لگتا تو سنی کی کرسی خالی دیکھ کر نازو کو آواز دیتا کہ سنی کو بلا کر لاٸۓ۔
اذان بابا“سنی بابا صبح ہی نکل گے تھے کپڑوں کا بیگ لیکر اور کہ رہے تھے بتا دینا آپ کو کہ وہ ٹرپ پر جا رہے ہیں۔نازو اذان کو بتاتی ہے۔
واٹ“اذان شاہ کے ہاتھ سے کانٹا نیچے گر جاتا وہ
وہ شاک سا جہان تہان بیٹھا رہ جاتا۔
کیا ہو گیا اذان بیٹے وہ کیا آپ کو بتا کر نہی گیا بی بی جی پریشان کن لہجے میں پوچھتی۔
بتایا تھااس نے میں نے منع کر دیا تھا وہ پھر بھی چلا گیا۔اذان شاہ لب کاٹ کر جواب دیتا۔
کیوں منع کیا تھا بیٹے۔بی بی جی حیرت سے استفسار کرتی۔
کیونکہ بی بی جی وہ مری جا رہا ٹرپ کے ساتھ۔
کیا؟؟بی بی کے ہاتھ سے پلیٹ چھوٹ جاتی۔
انکا جسم کانپنے لگ جاتا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے بچے کو لے آٶ اذان بیٹے۔بی بی جی کا رو رو کے برا حال ھو جاتا۔
بی بی جی آپ فکر مت کرو میں لےکرآٶ گا واپس صحیح سلامت۔اذان انکا ہاتھ تھام کر کہتا ہے۔
آپ سب کیوں پریشان ہو رہے وہ اکیلاتھوڑی ہے مشال کہتی ہے۔
تم کچھ نہی جانتی تو بولو مت ۔اذان شاہ تلخ لہجے میں بولتا ہے۔وہ حیران پریشان ان کے رویوں کے متعلق سوچ کر الجھ جاتی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشال کھڑکی کے پاس الجھی سوچتی صبح کے واقعہ کے بارے میں۔
اذان شاہ بھی صبح ١٠ بجے کا نکلا تھا اور ابھی تک کوٸی اطلاع نہی دی تھی۔وہ پریشان بار بار موباٸل کیطرف دیکھتی۔۔۔
۔۔۔۔
اذان شاہ نے کالج کے پرنسپل سے ان کا ٹرپ جدھر رکا تھا ادھر کا اڈریس لے لیا تھا وہ سیدھا اس ھوٹل میں پہنچتا ھے تو سنی اسکو دیکھ کر شاکڈ ھو جاتا۔
ھاٸے۔گاٸز کیسے آپ۔اذان شاہ وہاں موجوداسکے کلاس فیلوز سے پوچھتا۔سب سے علیک سلیک کے بعد وہ سنی کو ساٸیڈ پہ لے جاتا ہے۔
ھم صبح پہلے ٹاٸم نکل رہے واپسی کیلٸے اذان شاہ سرد انداز میں کہتا ہے۔
میں نہی جاٶں گا وہ ہٹ دھرمی سے جواب دیتا ہے۔
میں نے تم سے پوچھا نہی بتایا ہے تم کو۔
ورنہ تمھاری وجہ سے سب کا ٹرپ خراب ہوگا اور تم مجھےجانتے ہو میرے لٸے یہ مشکل نہی۔وہ اور بھی سرد انداز میں کہتا۔
جانتا ھوں آپ کو مگر آپ مجھے نہی جانتے میں کیا کروں گا۔اگر آپ زبردستی کرے گے تو میری لاش آپ کے ساتھ جاۓ گی۔سنی دھمکی بھرے انداز میں کہتا۔اسکا یہ سرد لہجا اس کو کسی کی یاد دلا دیتا۔
وہ ساکت کھڑا رہ جاتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بی بی جی ایسی کیا وجہ ہے جو آپ اتنے پریشان ھو گے۔مشال بی بی جی سے سوال کرتی ہیں۔
بی بی جی ایک فوٹو فریم اس کی طرف بڑھاتی ہیں۔وہ دیکھتی اس میں دو مردوں کی تصویر ہیں
یہ کون ہیں بی بی جی وہ پوچھتی ہیں۔
یہ میرے بیٹے ہیں ایک اذان کے بابا اور دوسرے سنی کے بابا ہیں بی بی جی آنکھیں صاف کرتے ھوۓ کہتی۔
تو انکا مری سے کیا تعلق۔وہ ایک اور سوال کرتی ہیں۔تو بی بی جی اسکو سب بتانے لگتی ہیں۔
میرے بڑے بیٹے ارسلان یعنی اذان کے بابا نے ایک عورت سے شادی کی تھی وہ عورت بہت شاطر تھی
اسکو صرف پیسے سے محبت تھی مگر ارسلان کی تنخواہ میں گزارہ نہی ھوتا تھا اسکا وہ ھر وقت بات بے بات لڑتی تھی۔پھر اسکا باھر آنا جانا بہت ھو گیاوہ زیادہ تر باہر رہتی تھی۔مختلف مردوں کے ساتھ اسکے تعلق تھے ۔
اذان ١٠ سال کا تھا جب اس کے چاچا فیضان کی بیرون ملک سے واپسی ہوٸی اس کے ابروڈ میں دو ریسٹورنٹ تھے۔اور یہاں آ جاتا سمیٹ کر اور یہی آ کر وہ اپنی ھوٹل کی چین بناتا مختلف شہروں میں۔
اور اسکی ارسلان کی بیوی کے ساتھ بہت دوستی ہو گٸی تھی۔اور ھم سب انجان اسکے ارادوں سے اس بات پر خوش تھے کہ چلو اب گھر میں تو ٹکتی ہے۔اور فیضان اس سے بہت متاثر تھا۔
ایک دن باہر کوٸی آدمی آ کر اپنے اور اذان کی ماں کے افٸیر کا بتاتا ارسلان کا دماغ گھوم جاتا۔وہ اسکو
بالوں سے پکڑ کر اس کے منہ پر تھپڑ مارتا ہے۔
فیضان آ کر اسکو پیچھے ہٹاتا ہے وہ فیضان کے سینے پر سر رکھ کر رونے لگ جاتی ارسلان اسکو غصے سے اپنی طرف کھینچتا ہے۔اور بولتا ہے اب میرے بھاٸی کے ساتھ عشق لڑانے کا ارادہ ہیں۔
بھاٸی دماغ خراب آپ کا۔اس قدر چھوٹی سوچ آپ کی فیضان چلا کر بولتا ہے۔
ارے گری ہوٸی اور چھوٹی سوچ کی یہ ہیں اب میں اسکے ساتھ نہی رہ سکتا طلاق دیتا ہوں اسے۔۔طلاق دیتا ہوں۔طلاق دیتا ہوں ۔
فیضان ساکت کھڑا رہ جاتا۔پھر ایک نظر شہرین کو دیکھتااور اسکو کندھے سے اٹھا کر کھڑا کرتا اور کہتا جس گھر میں میرے بھاٸی نے اپنی ھی بیوی کا مجھے عاشق بنا دیا اس گھر میں نہی رہ سکتا۔
اور شہرین کی عدت کے بعد میں شادی کروں گا ان سے وہ یہ کہ کے چلا جاتا۔
بتاتے بتاتے بی بی جی رونے لگ جاتی۔مشال انکو لیٹنے کا کہتی اور انکی ٹانگیں دبانے لگ جاتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
کیسے ہوں اذان شاہ ۔۔۔۔
اذان شاہ سنی کو لیکر باہر نکلنے لگتا تو پیچھے سے آٸی آواز پر وہ ساکت ہو جاتا۔
سنی گاڑی میں بیٹھو۔اذان سنی کو کہتا۔اور خود پیچھے مڑ کر آتا اس عورت کے پاس۔
کیا تکلیف آپ کو مسز سلیم۔وہ تلخ لہجے میں کہتا ہے۔ارے کمال کرتے ہو بیٹا ماں ہوں تمھاری۔
اور سنی کی بھی۔
کاش کے میرے اندر میری بی بی جی کی دٸیے ہوۓ مینرز نہ ہوتے تو آپ کے منہ پر تھوکتا۔وہ نفرت بھرے انداز میں کہتا۔پتا ہے آپ کے ساتھ میرا کوٸی نام جوڑے میں اس سے بہت نفرت کرتا ہوں تو آپ سے کتنی کرتا ہوں گا اسکا اندازہ بھی نہی آپ کو۔
اور تم شاید بھول گے تمھارے باپ اور سنی کے باپ کا کیا حال کیا تھا۔اور تمہیں تو کچھ نہی کر سکتی کیونکہ تم میرے بیٹے ہو مگر سنی کو ابھی جان سے مارنے کا صرف اشارہ کروں گی۔شہرین طنزیہ انداز میں کہتی ہیں۔
میرے سنی کو کھروچ بھی آٸی تو جینا حرام کر دوں گا۔وہ ناگواری سے کہتا۔
بھیا اب چلے سنی اس کے پاس آ کر کہتا۔
شہرین اسکو مسکرا کر دیکھتی ہے اور اچانک ہاتھ سے اشارہ کرتی ہے۔اور اذان شاہ ایک جھٹکے سے اسکو دھکا دیتا ہے۔اور اسکے ساتھ اذان شاہ کی چیخ نکلتی ہے سنی اچانک مڑ کر دیکھتا تو اذان شاہ کی قمیض خون سے سرخ ہوٸی ہوتی
بھاٸی۔سنی چلا کر پکارتا ھوا سکی طرف لپکتا۔
اذان خود کو سنبھالتا ھوا سنی کا ہاتھ پکڑ کر گاڑی کیطرف بھاگتا۔اور اسکو اندر دکھیل کر گاڑی چلانے کا کہتا۔
سنی روتے ہوٸے زن سے گاڑی دوڑاتا وہاں سے دور نکل آتا۔۔اور شہرین دانت پیس کر کہتی تم نے پہلے بھی اسکو بچایا اور آج پھر۔بالکل ٹھیک نہی کیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنی وہاں ہاسپیٹل آتا جلدی سےگاڑی سے نکال کر سہارا دے کر اندر لاتا اور اسٹیچر پر لٹادیتا۔
اذان شاہ کی آنکھیں بند ہوجاتی اسکو لگتا کہ یہ بس آخری پل ہے۔اسکے ساتھ ھی اسکے سب احساسات سو جاتے۔
بھاٸی آنکھیں کھولیں سنی چلا کر بولتا۔۔۔
بھاٸی پلیز آنکھیں کھولیں۔سنی روتے ہوٸے کہتاہے۔جلدی سے آپ انکوائری آپڑیشن تھیٹر میں لیکر جاٸے۔ڈاکٹرجلدی سے وارڈبواۓ کو کہتا ہے
پلیز “ڈاکٹر میرے بھاٸی کو بچالیں سنی ڈاکٹرکاہاتھ تھام کر کہتا ہے۔
ڈونٹ وری”“ہم اپنی طرف سے پوری کوشش کریں گے باقی جو اللہ کو منظور ہوا۔ڈاکٹر اذان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کرکہتاہیں۔اور آپڑیشن تھیٹر کی طرف بھرجاتا ہے۔
سنی جلدی سے موباٸل نکال کے مشال نمبر ملاتا ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ھیلو۔۔۔۔۔۔مشال سنی کا نمبر دیکھ کر جلدی سے فون اٹھاتی ہے۔ادھر سے سنی کی بات سن کر پریشان ھو جاتی ہے۔آپ رو مت میں ابھی پہنچتی ہوں۔مشال سنی سے کہتی ہے۔
مشال جلدی سے بی بی جی کے کمرے کیطرف بڑھتی ہےاور انکو کہتی ہے کہ اسکی امی کی طبیعت ٹھیک نہی وہ ادھر جا رہی ہے۔
ٹھیک ہے بچے جاٶ۔بی بی جی محبت سے کہتی ہے۔
وہ جلدی سے ڈراٸیور کو پتا بتاتی اور فورن چلنے کا کہتی ہے۔پورا راستہ وہ قرآن کی جتنی آیات یاد تھی پڑھی جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر باہر نکلتا ہے۔سنی جلدی سے لپک کر ڈاکٹر کی طرف بڑھتا ہے۔اور اذان کی حالت کے بارے میں پوچھتا ہے۔
ھم نے آپریٹ کر کے گولی نکال دی ہے مگر خون بہت
بہہ چکا ہے بس اب دعا کیجٸے اور کچھ نہی کر سکتے ھم۔ڈاکٹر سنی کے کندھے پر ھاتھ رکھ کر کہتا ہے۔سنی ادھر زمین پر ہی بیٹھ جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
مشال جلدی سے ھاسپیٹل میں داخل ہوکر ریسپشن پر جا کر کہتی ہے۔مسٹر اذان شاہ کس وارڈ میں ہے۔
سامنے سے داٸیں طرف چلے جاۓ وہ وہاں ایمرجنسی وارڈ میں ہے۔ریسپشن پر موجود آدمی مشال کو بتاتا ہے۔مشال بھاگتے ہوۓ ایمرجنسی وارڈ کیطرف بھاگتی ہے سنی وہاں چپ چاپ سر نیچے کٸیے بیٹھا ہوتاہے۔مشال اسکے پاس بیٹھ کر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس سے اذان کےبارے میں پوچھتی ہے۔سنی زمین پر بیٹھ کراسکی گود میں سر رکھ کر رونے لگ جاتا۔
سب میری غلطی ہے مجھے بھاٸی نے منع بھی کیا تھا مگر میں پھر بھی آیا۔پتا نہی اس عورت کی مجھ سے کیا دشمنی تھی وہ مجھے مارنا چاہتی تھی۔۔
کون عورت؟مشال چونک کے پوچھتی ہے۔
جس ھوٹل میں ھم رہ رہے تھے اسکی اونر تھی مسز شہرین سلیم۔وہ آنسو پونچھتے ھوۓ جواب دیتا ہے۔
مشال شہرین کا نام سن کر شاکڈ ہو جاتی۔اور پھر اٹھ کر وارڈ کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو جاتی ہے۔اور دھیرے سے اس کے پاس آکر کھڑی ہو جاتی ہے۔اسکا بے اختیار رونا نکل جاتاہے۔وہ ہولے سے اس کے زرد چہرے کو چھوتی ہے۔
اور پھر باہر آکر سنی کے پاس آ کر بیٹھ جاتی اور اسکو کہتی اندر جا کر تھوڑی دیر آرام کر لے۔
وہ نفی میں سر ہلاتا ہے۔
دیکھو سنی تمھاری طبیعت بھی خراب ہوجاۓ گی تو اذان کاخیال کون رکھے گا وہ پیارسے اسکو سمجھاتی ہے۔وہ اٹھ کر ساتھ والے روم میں آرام کرنے چلے جاتا ہے۔مشال اٹھ کر اپنی نمازیں قضا کرتی اور تھوڑی دیر بعد عشإ کی اذان ہو جاتی وہ نماز پڑھ کر اٹھ کر اذان شاہ کے پاس چلی جاتی ہے۔
اور اس پر پڑھ پڑھ کر پھونکے ماری جاتی۔تھوڑی تھوڑی دیر بعد آ کر نرس آ کر چیک کر کے جاتی۔
پھرنرس رات کو ٢بجے آتی تو مشال کو دیکھتی وہ اذان شاہ کے بیڈ پر سر ٹکا کر سوٸی ہوتی۔نرس مسکرا کر دروازہ بند کر کے چلی جاتی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے 4 بجے مشال کی آنکھ اذان کے کراہنے سے نکلتی وہ جلدی سے اس کا ہاتھ تھام لیتی۔
اذان شاہ بمشکل آنکھیں کھول کر اسکور دیکھتا۔
اورکہتا“تمممم“ٰیہاں کیا کر رہی ھو۔وہ اسکی بات کو اگنور کرکےاس سے پوچھتی ہے۔کیسا محسوس کر رہے آپ۔
سنی کدھر ہے وہ پریشان کن لہجے میں پوچھتا ہے
وہ ساتھ والے روم میں ہے۔
وہ اطمینان کا سانس لیتا۔اور کہتا پلیز مجھے پانی پلادو۔مشال اسکودو گھونٹ پلاتی ہے۔
پھر باہر جا کر نرس کو کہتی کہ ڈاکٹرکوبلوا دے اذان شاہ کو ھوش آف گیا ہے۔
میں ڈاکٹر صاحب کو بتاتی ہوں نرس کہتی ہے۔
تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر ٰآ کر چیک کرتا اور کچھ میڈیسن لانے کو کہتا ہے۔مشال ھاسپیٹل کے میڈیکل سٹور سے میڈیسن لینے چلی جاتی۔۔
آپ بہت خوش نصیب ہے آپ کی بیوی آپ سے بہت محبت کرتی ہے۔نرس مسکرا کراذان شاہ سے کہتی ہے۔
اچھا““آپ نے ایسا کیا دیکھ لیا جس سے آپ کو میری بیوی کی محبت نظر آٸی۔اذان شاہ حیرت سے پوچھتا ہے۔وہ پوری رات پتا نہی کیا پڑھ پڑھ کر پھونک مارتی رہی۔اوووووہ”“اذان شاہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔مشال میڈیسن لاکر دیتی ڈاکٹر کو،انجیکشن لگا کر ڈاکٹر کہتا۔مسز اذان شاہ یہ میڈیسن انکو کچھ ہلکا پھلکا کھلا کر دے دیں۔
جی ٹھیک ہے ڈاکٹر۔مشال جواب دیتی ہے۔
ڈاکٹر صاحب مجھے ابھی اسی وقت گھر جانا اذان شاہ اٹھٹے ہوۓ کہتاہے۔
ارےے“یہ کیا کر رہے آپ لیٹے رہے ابھی تین چاردن تک چھٹی نہی ملے گی آپ کو۔ڈاکٹر کہتا ہے۔
یہ میری لاٸف ہے میں جو چاہوں کروں۔اور میری مرضی میں رہوں یا یہاں سے جانا چاہوں۔
وہ آہستہ سے اٹھ کے کھڑا ہو جاتا ہے۔مشال جلدی سے آکر اسکو سہارا دیتی۔پلیز بیٹھ جاٶ دن نکلنے دے پھر چلے گے۔اورہ سنی بھی اٹھ جاۓ گا۔
وہ سر ہلا کر بیٹھ جاتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشال ڈاکٹرکےپاس آتی۔اور ڈیوز کلٸیر کرتی۔
مسز اذان اسطرح لے تو جا رہی مگر اگر کچھ ہو گیا تو ھم ذمہ دار نہی ہوں گے۔ڈاکٹر مشال کو کہتا ہے۔
میں اس میں خود بے بس ھوں مشال پھیکے لہجے میں کہہ کہ وہاں سے سنی کو اٹھانے چلی جاتی۔
سنی اٹھو”مشال سنی کو ہلا کر کہتی ہے ۔
سنی ھڑبڑا کر اٹھتا ہے۔کیا ہہوا بھابھی،بھاٸی ٹھیک ہے نا۔وہ تیز تیز بولتا جاتا۔ھاں ھاں ““بالکل ٹھیک ہے اذان٠ھم گھر جا رہے۔وہ اسکو بتاتی ہے۔
کیا ابھی واپسی؟بھاٸی تو ابھی ٹھیک نہی پوری طرح سے۔وہ پریشان ہو کر کہتا ہے۔
ھاں تمہارے بھاٸی ضد پر اڑ گے ہیں وہ جواب دیتی ہے۔
سنی جلدی سے اذان کے روم میں جاتا ہے ۔
اورھولے سے اذان کےپاس بیٹھ کر اسکےھاتھ تھام کر رو پڑتا ہے۔پلیز بھاٸی ایم سوری۔وہ روتے ھوۓ کہتا ہے۔
ارےے“پاگل بالکل ناراض نہی تم سے۔
چلو گھر چلتے ہیں۔سنی اسکو سہارا دے کر گاڑی میں بیٹھاتا۔اور پیچھے مشال اسکے ساتھ بیٹھ جاتی۔اورسنی ڈراٸیونگ سیٹ پر بیٹھ کر ڈراٸیور کو دوسری گاڑی ساتھ لانے کو کہتے۔اورہولے ہولے گاڑی کو چلاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم۔منال بی بی جی کو اندر آ کر سلام کرتی ہے۔ارے“منال بیٹی آپ۔کیسی طبیعت آپ کی امی کی۔مشال کہہ رہی تھی ھاسپیٹل میں ہے وہ۔
اور کل کی ادھر ھی ہے مشال۔
کیا؟مگر امی تو ھاسپیٹل نہی ہے اور آپو ھماری طرف نہی آٸی۔منال ہریشان ہو کر کہتی ہے۔
کیا کہہ رہی بیٹا آپ۔بی بی جی پریشان ہو کر کہتی
فون ملاٶ مشال کو٠بی بی جی منال سے کہتی ہیں۔
جی اچھا“منال جلدی سے فون ملاتی ہے۔
ادھر سے مشال فون اٹھاتی ہے۔تومنال نان سٹاپ بولنا شروع ہو جاتی۔کدھر ہو آپ۔آپ ٹھیک تو ہو
اورآپ کون سے ہاسپیٹل گٸ ہو۔اور کون ہے وہاں۔
منو منو“سانس لے لو میں بس پہنچ رہی ہوں شاہ ولا۔مشال کہتی ہے۔
آپ کو کیسے پتا میں شاہ ولا آٸی ہوں منال حیرت سے پوچھتٕی٠تیری باتوں سے۔مشال آگے سے جواب دیکر فون رکھ دیتی۔
بی بی جی وہ پہنچ رہی۔منال بی بی جی کو بتاتی ہے۔اچھا“ بی بی جی اچھا کہہ کر تسبیح کرنے لگ جاتی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنی گاڑی شاہ ولا کے پاس روک کر گاڑی کا ہارن مارتا۔گارڈ دروازہ کھولتا وہ گاڑی اندر لیکر جا کر لگاتا۔مشال گاڑی سے نکلتی۔پھر اذان ہولے سے اترتا۔مشال اور سنی اسکو سہارا دیکراندر لاتے۔
ارےے کیا ھوا۔بی بی جی جلدی سے آگےہو کر پوچھتی ہے۔
بی بی جی آپ بیٹھے بتاتی ہوں مشال بی بی جی کہہ کر پھر اذان کوکہتی ہے ۔آپ نیچے روم میں ھی آرام کر لیں۔
نہی میں اپنے روم میں جا کر ہی آرام کروں گافراط اذان اسکو جواب دیتا ہے۔ہر معاملے میں ضد کرنا ضروری سمجھ رکھا آپ نے گولی لگی تھی کوٸی مزاق نہی تھا۔وہ جھنجھلا کر بولتی۔تم ھوتی کون ہو مجھے آرڈر دینے والی۔وہ تڑخ کر بولتا ہے۔
بیوی ہوں آپ کی حق ھے میرا آپ پر،آرڈر دے سکتی ہوں۔وہ بھی تنک کر بولتی ھے۔وہ غصے سے اسکو دیکھ کر رہ جاتا ہے۔
تم آپس میں لڑنا چھوڑو یہ بتاٶ گولی کیسے لگے بی بی جی چلا کر بولتی ہیں۔بی بی آپ غصہ مت کریں مشال محبت سے ہاتھ تھام کر کہتی ہے۔میں بتاتی ہوں کیا ہوا تھا۔مشال تفصیل سے سب بتا دیتی ہے۔
وہ ذلیل عورت میرے دونوں بیٹوں کو مار چکی اب میرے پوتوں کے پیچھے پڑی ہے۔بی بی جی غصے میں بولتی ہے۔آپ فکر مت کریں بی بی جی میں اسکے سب ارادوں کو خاک میں ملا دوں گا۔اذان شاہ نفرت بھرے لہجے میں بولتا ہے۔
اچھا چلو چھوڑو“جاکہ میرے کمرے میں آرام کرو بی بی جی اذان سے کہتی ہے۔سنی اسکو لیکر بی بی جی کے کمرے میں چلا جاتا ہے۔اور مشال فیملی ڈاکٹر کو فون کر کے بلاتی ہے تا کہ وہ اذان شاہ کو چیک کر لے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپو“یہ سب کیا ہورہا تھا اور وہ عورت اذان بھاٸی کو کیوں مارنا چاہتی تھی۔منال مشال سے پوچھتی ھے۔وہ اذان کو نہی سنی کو مارنا چاہتی تھی۔پر مجھے سمجھ نہی آیا کیوں؟مشال الجھے ھوۓ انداز میں کہتی ہے۔
کیونکہ سنان عرف سنی اس عورت کا بیٹا نہی ہے۔
بی بی جی کی پیچھے سے کہتی ہیں۔
کیا؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔
کیا کہہ رہی ھیں آپ بی بی جی کہ سنی اس عورت کا بیٹا نہی۔مگر آپ نے ہی تو کہا تھا کہ فیضان انکل نے اس سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا تھا اوروہ انہیں اپنے ساتھ لیکر گےتھے۔مشال حیرت سے سوال کرتی ہے۔
ھاں لیکر گیا تھا۔فیضان نے مری میں بھی اپنا ھوٹل سٹارٹ کیا تھا اور وہ شہرین کو وہی لیکر گیا اوراسکےنام وہ ھوٹل کر دیا۔اور اسی کو سنبھالنے کو کہا اور خود کراچی میں رہتا تھا اور عدت کے بعد شادی کا فیصلہ کیا تھا۔مگر کراچی میں شہرین کی بہن سے ملاقات ہوتی۔فیضان اس کو پہچان لیتا اس کا حال چال پوچھتا۔وہ پھیکے سےانداز میں مسکرا دیتی ہے۔وہ اس سے پوچھتا شادی وادی ہوٸی کیا۔اسکی آنکھوں میں نمی آ جاتی ہے۔
آب ٹھیک تو ہو نازنین۔فیضان ھمدردی سے پوچھتا ہے۔جنکی بہن شہرین جیسی ھو وہ خوش کیسے رہ سکتی ہے۔میرا نکاح ہوا تھا مگر میری رخصتی نہی ھوٸی تھی کیونکہ میرے شوہر کو شہرین باجی پسند آ گٸی تھی۔اس شخص نے مجھے طلاق دے دی۔فیضان یہ سب سن کر شاکڈ ہو جاتا۔
تو اگلے دن بنا شہرین کو بتاۓ مری پہنچتا تو اسکو وہاں کے غنڈے سلیم کے ساتھ ھسی ٹھٹھولا کرتے دیکھ کر اسکا دماغ گھوم جاتا ہے۔وہ اسکی کافی انسلٹ کر کے وہاں سےنکل جاتا۔اور کچھ عرصے کے بعد وہ نازنین سے شادی کر لیتا ہے۔پھر ایک دن نازنین کے پریگنسی کے دوران ہی۔فیضان اسکواور اذان کو لیکرمری کی سیر کو جاتا۔تو وہاں نازنین کی طبیعت بگڑ جاتی اور فورا آپریٹ کا کہتے ڈاکٹر۔
نازنین سنان کو جنم دیکر دنیا سے چل بستی ہے۔
اور فیضان کا وہاں سے ارسلان کو فون آتا ہے روتے ہوۓ وہ اسکو سب بتاتا ہے۔تو ارسلان وہاں پہنچتا۔
اور ٹوٹے بکھرے فیضان شاہ کو اور روتے اذان اور معصوم سے سنان کو نازنین کی میت کے ساتھ لیکر آ رہا تھا۔فیضان ایمبولینس میں تھا۔اور ارسلان بچوں کو لیکر گاڑی میں آرہا تھا۔کہ راستے میں شہرین اور سلیم راستہ روک لیتے ہیں۔ارسلان گاڑی سے نکل کر جلدی سے باہر آتا اور آ کر اس پر بھڑک جاتا۔فیضان بھی باہر آتا۔تو شہرین بولتی۔تم تینوں میرے دشمن ہو دھوکا دیا تھا تم سب نے۔تمھاری نازنین تو مر گٸ اب تم دونوں اور اور فیضان کا بیٹا بھی مرے گا۔اور وہ دونوں اس سے پہلے کچھ سمجھتے وہ ان دونوں پر گولیاں چلا دیتی ہے۔اور اذان خوف سے سن ھو جاتا ہے۔مگر سنان کے رونے کی آواز سے چونکتا ہے۔اور فیضان نے شغل شغل میں اسکو کار چلانی سکھاٸی۔وہ بمشکل اسکو چلاتا ہے۔مگر اس قدر تیزی سے چلاتا ہے کہ ان لوگوں سے دور نکل آتا۔اور ایک پولیس والا اس کے پیچھے لگ جاتا۔اور گاڑی روکنے کا کہتا ہے کیونکہ آگے کھاٸی تھی۔مگر اذان روتے ہوۓ بتاتا ھے کہ اسکو گاڑی روکنی نہی آتی۔اور کہتے ہیں اللہ جسکو رکھے بس اللہ نے رکھا دونوں بچوں کو گاڑی ایک جھٹکے سے خود رک گٸ۔اور اذان نے پولیس والے کو سب بتایا انہوں نے وہاں سے لاشیں اٹھاٸی۔
وہ سین بڑا دل دھلانے والا تھا میرے گھر تین لاشیں آٸی۔اور ان لاشوں کے ساتھ میرا اذان چھوٹے سے معصوم سے سنان کو لیکر ایمبولینس سے اترا تو وہاں موجود ہر بندے کا کلیجہ پھٹ گیا۔
میرا اذان اس دن سے آج تک کبھی سکون سے نہی سویا۔دن کو وہ سنان کا ماں اور باپ بن کر خیال رکھتا رات کو اسکو ساتھ لیکر سلاتا مگر خود راتوں کو ڈر ڈر کر اٹھتا۔اٹھارہ سال کا جب ہوا تو اس نے فیضان کا بزنس سنبھال لیا۔فیضان کا پارٹنر ایمان دار تھا ورنہ شاید ہم بھوکے مرتے۔مگر میرا اذان دل کے نہاں خانوں میں دکھ چھپاۓ بیٹھا ہے۔پتا نہی کتنے آنسو اسکے دل پر گرتے ہیں۔نیند کی گولیاں لیکر تھوڑی دیر سوتا ہے۔بی بی جی یہ سب بتا کر رو پڑتی ہے۔مشال اور منال کی آنکھوں میں آنسوں آ جاتے ہیں۔دروازے کے پاس کھڑے سنی کو یہ سن کر لگتا ہے اسکا دل پھٹ جانا ہے۔
وہ دوڑ کر آ کر بی بی جی کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑتا ہے۔بی بی جی بہت برا ہوں میں۔
میں نے بھاٸی کے ساتھ بہت بدتمیزی کی ان کا دل دکھایا ان پر چلایا۔وہ آج تک مجھے ہر مصیبت سے بچاتے آٸیں اور میں احسان فراموش ہوں۔وہ روۓ جاتا۔اور باقی سب بھی اس کے ساتھ رو پڑتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشال بی بی جی کے روم میں جاتی ہے اذان کو دیکھنے۔وہ جاگ رہا ہوتا ہے۔
آپ کچھ کھاۓ گے۔مشال نرمی سے پوچھتی ہے۔
نہی۔اور تم یہ اچھی بیوی ہونے کے ڈرامے مت کرو میرے ساتھ۔وہ چڑ کر بولتا ہے۔
بیوی تو میں ہوں اور آپ کی خدمت میرا فرض ہے۔
وہ مسکرا کر جواب دیتی ہے۔”شٹ اپ“یہ ڈرامے میرے ساتھ مت کرو تم عورتوں کو صرف پیسوں سے مطلب ہوتا ہے۔اور تمہیں بھی تو پیسہ چاہٸے وہ تلخ انداز میں بولتا ہے۔مشال کے اندر جیسے چھن سے کچھ ٹوٹ جاتا اسکی اتنی نفرت دیکھ کر۔
مگر وہ دل سے اٹھتی ٹیسوں کو دبا کر کہتی۔چلے جو آپ نے پیسے دینے اس کے عوض مجھے آپ کی خدمت کرنے دیں تا کہ میرے دل میں ملال نہ رہے کہ فری میں پیسہ لیا۔
اوووووہ“ٹھیک ہے۔بیٹھ کر ٹانگیں دباٶ۔اور جب تک بس کو نہ کہوں تب تک دباتی رہنا۔وہ اطمینان سے کہتا۔
مشال بیٹھ کر ٹانگیں دبانے لگ جاتی ہے۔وہ مزے سے بیٹھا کتاب پڑھ رہا ہوتا ہے۔بی بی جی دوسرے کمرے میں سو جاتی ہے۔
وہ ٹانگیں دبا رہی ھوتی ہے تو اذان شاہ کو سکون سا ہوتا ہے اور اسکی آنکھ لگ جاتی ہے۔
رات کو اسکی آنکھ کھلتی تو دیکھتا وہ اسکی ٹانگیں دبا رہی تھی اور آنکھیں نیند سے بھری تھے۔
تم ابھی تک سوٸی نہی وہ تیز لہجے میں کہتا ہے۔
وہ آپ نے ہی تو کہا تھا ٹانگیں دباتی رہنا۔وہ معصومیت سے جواب دیتی ہے۔
واٹ؟تم چار گھنٹوں سے ٹانگییں دبا رہی ہو۔پاگل ہو کیا۔اور کیا ثابت کرنا چاہتی ہوں۔وہ چلا کر بولتا ہے
کچھ نہی چاہتی۔وہ نفی میں سر ہلاتی ہے۔
تم بہت اچھی بیوی ھو ۔اور جاٶ جا کر سو جاٶ۔وہ ھاتھ جوڑ کر کہتا ہے۔سچ میں۔۔۔وہ مسکرا کر کہہ کر اسکے ساتھ بیڈ پر سو جاتی ہے۔اور اذان ”ارے ارے“
کہتا رہ جاتا ہے۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارے پاگل حسینہ اٹھ جاۓ۔میرا میڈیسن کا ٹاٸم ھو گیا ہے۔اذان اسکو کندھے سے ہلا کر کہتا ہے۔
کیا ٹاٸم ھوا ہے وہ غنودگی میں پوچھتی ہے۔
٩بج گے۔ اذان جواب دیتا ہے۔۔۔۔کیا؟؟؟وہ ھڑبڑا کر اٹھتی۔مجھے اٹھا نہی سکتے تھے میری نماز رہ گٸ۔
وہ جھنجھلا کر کہتی ہے۔تمھارا نوکر ہوں کیا؟وہ چڑ کر جواب دیتا ہے۔ ۔۔۔ارے غصہ کیوں کر رہے۔صبح صبح انگارے چباۓ کیا۔وہ آنکھیں پٹپٹا کر پوچھتی ہے۔۔۔۔۔مجھے بھوک لگی اور اگر پانچ منٹ میں تم نہ اٹھی تو تمہیں چبا جاٶں گا۔وہ تپ کر کہتا ہے۔
اچھا لاتی ہوں۔وہ مسکرا کر کہہ کر باہر نکل جاتی ہے۔یہ پاگل تو نہی ھو گٸ۔میری باتوں کا غصہ نہی کرتی۔بلکہ مسکراتی ہے۔وہ اسکے رویے کے بارے میں سوچ کر الجھ جاتا۔۔۔۔
۔۔لیجٸیے آپ کا ناشتہ۔جلدی سے کر لیں میں فجر کی نماز قضا پڑھ لوں۔وہ اذان شاہ کے آگے ناشتہ رکھتےہوۓ کہتی ہے۔اس کے وقت کون سی نماز کا وقت ہے جو تم قضا کرنے لگی ہو۔وہ حیرت سے کہتا ہے۔صرف مکروہ ٹاٸم کے علاوہ نماز قضا پڑھ لینی چاہیے۔مشال کہتی ہے۔میری امی کہتی ہے اپنی جو نماز رہ گٸ ہو اسکی قضا ادا کر لوں اس سے پہلے تمہیں قضا نہ آ جاۓ۔۔موت کا کیا پتا کب آ جاۓ۔وہ اسکو بتاتی ہے۔۔۔
ہمممممممم“وہ ہولے سے ہنکارا بھرتا ہے۔اور ناشتہ کرنے لگ جاتا ہے۔۔
مشال نماز پڑھ کے آ کر اذان شاہ پر پھونک مارتٕی۔
یہ کیا پاگل پن ہے۔وہ چڑ کر بولتا ہے۔
ارے“آپ کی حفاظت کے لٸے پھونک ماری وہ وضاحت کرتی۔۔۔۔
وہ غصے سے اسکو گھورنے لگ جاتا ہے۔وہ مسکرا کر اسکو میڈیسن دیتی اور باہر نکل آتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیسے ھو بھاٸی ؟سنی اندر آ کر اذان سے پوچھتا ہے۔ٹھیک ہوں میں اور بہت جلدی یاد آ گٸ میرے پاس آنے کی۔وہ طنزیہ انداز میں بولتا ہے۔وہ بس تھوڑا بزی تھا۔سنی جواب دیتا ہے۔کیا بات ہے اتنے بجھے بجھے کیوں لگ رہے ہو سنی؟کوٸی یریشانی کیا۔۔اذان اس سے پوچھتا ہے۔۔۔سنی کی آنکھیں چھلک پڑتی۔وہ اذان کے گلے لگ کر رو پڑتا ہے ۔ارے کیا ہو گیا۔اذان گھبرا کر پوچھتا۔
ایم سوری”بھاٸی میری وجہ سے آپ اتنے درد میں ہیں وہ روتے ہوٸے کہتا ہے۔
کوٸی درد میں نہی ہوں۔اور خبردار جو تم ایسے پریشان رہے تو۔تم میرے جگر ہوں تمھارے اور بی بی جی کی مسکراہٹ میں میری زندگی ہے۔
چل اٹھ اوپر روم میں چلتے ہیں اور کوٸی مووی دیکھتے ہیں۔سنی اسکو سہارا دیکر اوپرلیکر جاتا ہے۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنی اور اذان مووی دیکھ رہے ہوتے ہیں۔مشال اندر داخل ہوتی۔آپ اوپرکیوں آۓ۔وہ چڑ کر بولتی ہے۔
میری مرضی۔وہ بھی آگے سے تڑخ کر جواب دیتا۔
آپ ایسے کرودونوں لڑاٸی جاری رکھو میں چلتا ہوں
سنی وہاں سے کھسک جاتا ہے۔
اچھا تو آپ کی مرضی۔اب دیکھنا کیا ہوتا۔وہ تپ کر کہتی ہے۔
کیا کروں گی تم۔ھاں بولو۔تم اپنی حد پار کرتی جا رہی ہو۔میری سچ مچ کی بیوی مت بنوں۔وہ تلخ لہجے میں کہتا ہے۔
بیوی تو فی الحال ھوں۔وہ مسکرا کر کہتی ہے۔
وہ سر جھٹک کر بولتا جاٶ یار سر نہ کھاٶ۔
اوکے چلے جاتی۔بس یہ بتا دیں کیا کھاۓ گے۔وہ پوچھتی ہے۔کچھ بھی بنا لو اذان اکتاہٹ سے کہتا ہے۔
وہ کھانا بنانے چلی جاتی۔اذان الجھا سا وہاں بیٹھا مووی دیکھ رہا ہوتا ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کو کھانا اور میڈیسن دیکر وہ بیڈ پر آ کر لیٹنے لگتی۔
یہاں کیوں لیٹ رہی محترمہ جا کر اپنی جگہ یعنی کاٶچ پر لیٹوں وہ سرد انداز میں کہتا ہے۔
ارے“کسی چیز کی ضرورت پر سکتی آپ کو۔وہ آرام سے کہتی ہے۔مجھے جس چیز کی ضرورت ہو گی میں خود ہی لے لوں گا۔وہ چڑ کر بولتا ہے۔
بہت برے ھو آپ وہ منہ بسور کر کہہ کر کاٶچ پر آ کر بیٹھ جاتی۔
وہ گزرتے دنوں میں اسکی اذان شاہ کی اتنی خدمت کرتی ہے۔وہ ھر بار اسکو ذلیل کرتا مگر وہ پھر اس کے کام کرنے سے باز نہی آتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پورے ایک مہینے بعد وہ اپنے آفس جاتا ہے۔اور گھر بیٹھے اپنے اثرو رسوخ سے سلیم اور شہرین کو جیل بجھوا دیا تھا۔اب اسکا شام کو جیل میں ان دونوں سے ملاقات کا ارادہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوۓ بی بی تجھ سے ملنے کوٸی آیا ہے۔پولیس والا شہرین کو کہتا ہے۔کون آیا۔مجھے کوٸی یہاں سے نکالنے آیا ہے۔شہرین جلدی سے پوچھتی ہے۔
اب یہاں سے آپ مسز سلیم مر کر ہی نکلے گی۔
اذان شاہ اس کے سامنے آ کر نفرت بھرے انداز میں کہتا ہے۔
میں ماں ہوں تمھاری۔میرے ساتھ ایسا مت کرو۔ماٶں کی بددعا لگ جایا کرتی ہے۔شہرین جلدی سے بولتی ہے۔
ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا۔تمھاری بددعا لگے گی مجھے۔
تمھارے گناہوں کا گھڑا بھر چکا تھا۔اور یہ تمھارا انجام ہے۔اذان شاہ قہقہ لگا کر کہتا ہے۔
پتا ہے میں 12 سال کی عمر میں ہی ارادہ کر چکا تھا کہ تم دونوں کو سزا دوں گا۔
نٸ زندگی مبارک ہو۔وہ وہاں سے نکلتا جاتا۔
پیچھے سے شہرین چیخ چیخ کر اس سے معافی مانگتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اارے”“ آ گے آپ۔مشال جلدی سے آگے آ کر اسکا بیگ پکڑ کر پوچھتی۔۔ھووووووں۔وہ کھوۓ کھوۓ لہجے میں کہہ کر بی بی جی کے روم میں چلا جاتا ہے۔
وہ بی بی جی کے پاس بیٹھ کر انکی گود میں سر رکھ دیتا ہے۔آپکو پتا ہے نہ بی بی جی میں نے مسز سلیم سے بہت محبت کی تھی۔اور پھر اتنی ہی نفرت۔آج نفرت کا آخری چیپٹر ہو گیا۔میں نے انہیں جیل میں بھیج دیا۔اور آج چاچو اور بابا بہت خوش ہوں گے۔اتنا کہہ کر وہ بی بی جی کے گلے لگ کر رو پڑتا ہے۔بی بی جی خود بھی روتی ہے۔مشال دروازے کھڑی اس شخص کے آنسو اپنے دل پر محسوس کر رہی ہوتی ہے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ ٹھیک ہے نہ اذان۔مشال اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھتی ہے۔تمہیں مسلہ کیا ہےوہ ایک جھٹکے سے اٹھ کر اسکی گردن کے بال کھینچ کر اسکے جبڑوں کو بھینچ کر غرا کر کہتا ہے۔درد سے مشال کی آنکھوں میں نمی آ جاتی ہے۔اذان ایک جھٹکے سےاسکو دھکا دیکر پیچھے ہٹاتا۔
اذان شاہ کے اتنے سخت ردعمل سے وہ سن ہو جاتی ہے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ غصے سے باہر ٹیرس پر آکر کھڑا ہو جاتا ہے۔
کیا سمجھتی ہے خود کو یہ مشال میرے درد کا مزا آتا۔پتا نہی کیوں میرے ہر معاملے میں دخل دیتی ہے۔وہ ناگواری سے سوچتا ہے۔
کچھ دیر بعد جب اسکا غصہ ٹھنڈا ھوتا وہ اندر آتا ہے۔مشال کمرے سے جا چکی تھی۔
وہ ٹی وی آن کر کے نیوز دیکھنے بیٹھ جاتا ہے۔
تھوڑی دیر بعد نازو اسکو ڈنر کا کہہ کر جاتی ہے۔ آتا ہوں وہ اسکو جواب دیتا ہے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب ڈاٸنگ ٹیبل کے گرد بیٹھے کھانا کھا رہے ہوتے ہیں۔۔۔
مشال بیٹا آپ ٹھیک سے کھانا کیوں نہی کھا رہی ہیں طبیعت ٹھیک ہیں۔۔بی بی جی بےدلی سے پلیٹ میں چمچ چلاتی مشال کو کہتی ہیں۔۔
آآآں“جی بی بی جی دل نہی کر رہا۔وہ چونک کر جواب دیتی ہے۔تو میڈیسن لینی تھی کوٸی بی بی جی پیار سے ڈانٹتے ہوۓ بولتی ہیں۔۔
جی بی بی جی لیتی ہوں۔وہ کھانے سے ہاتھ کھینچ کر اٹھ جاتی ٹیبل سے۔
ارے“بیٹا کھانا تو ختم کرو بی بی جی مشال سے کہتی ہیں۔بی بی جی میں ذرا ٹھہر کے کے کھا لوں گی وہ جواب دیتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اذان بار بار اسکو دیکھ رہا تھا۔
تم کھانا کھا لو اب۔وہ مشال کو مخاطب کر کے کہتا ہے۔نہی مجھے بھوک نہی ہے وہ کہہ کر جا کر صوفے پر لیٹ جاتی ہے۔
مرضی ہے تمھاری۔وہ خشک لہجے میں بولتا ہے۔
اور لیٹ جاتا ہے۔
مشال بےاختیار رو پڑتی ہے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح وہ بوجھل سر کے ساتھ اٹھ کر بیٹھتی ہے۔
فجر کی اذان ہو رہی ہوتی ہے۔
وہ اٹھ کر وضو کر کے نماز پڑھ کے سسک سسک کے روپڑتی۔اذان شاہ کی آنکھ اسکی سسکیوں سے کھلتی ہے۔تمہیں اگر رونا ہے تو پلیز باہر جا کر رو۔
وہ ناگواری سے بولتا ہے۔وہ ہاتھ سے اپنا منہ دبا لیتی اور خود کو کمپوز کر کے اٹھتی ہے۔
ایک تو مجھے نیند اتنی مشکل سے آتی ہے اور اوپر سے تم نے مجھے اٹھا دیا ہے۔وہ اٹھ کر بیٹھتا ہوا بولتا ہے۔وہ شکوہ بھری نظروں سے دیکھ کر باہر چلی جاتی ہے۔
اذان شاہ کا دل ڈوب سا جاتا اسکی بھیگی آنکھیں دیکھ کر۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح ناشتے پر وہ چپ چاپ ناشتہ کر کے اٹھ کر برتن سمیٹنے لگ جاتی ہے۔وہ اس سے کسی نہ کسی بات سے الجھتی رہتی تھی۔۔وہ جان بوجھ کر اس کو تنگ کرنے کے لٸے اپنا پاٶں آگے کر دیتا ہے۔وہ لڑکھڑا کر گرنے لگتی ہے تو خود کو بچانے کے لٸے وہ
ٹیبل کا سہارا لیتی ہے۔اوراسکا ہاتھ گرم کیتلی کو لگتا ہے۔اورگرم قہوہ اسکے بازو ،ہاتھ اور پاٶں کو جلا دیتا ہے۔بےاختیار اسکی چیخ نکل جاتی۔
اذان شاہ ساکت ہو جاتا ہے۔
نازو جا جلدی سے برف اور برنال لا۔نازو لا کر پہلے برف ملتی ہے پھر برنال لگاتی ہے۔
بچے گر کیسے گٸ تھی۔بی بی جی اس سے پوچھتی ہے۔وہ بی بی جی مجھے چکر آ گیا تھا وہ بہانا بناتی ہے۔اذان شاہ پر گھڑوں پانی گر جاتا اسکی بات سن کر۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اذان شاہ آفس آ کر بھی بہت ڈسٹرب تھا۔۔
یار کیا ہو گیا مجھے۔اسکا درد مجھے کیوں اتنا درد دیتا ہے۔وہ اپنا سر کرسی پر ٹکا کر سوچتا ہے۔
شام کو وہ آفس سے واپس آتا ہے تو بی بی جی کے کمرے سے ہو کر اوپرروم میں جاتا ہے تو اسکی متلاشی نظریں اسکو تلاش کرتی ہیں۔وہ کچن میں جاتا ہے تو وہ کھانا بنا رہی ہوتی ہے۔
یہ کیا کر رہی ہو تم وہ اسکے پاس جا کر بولتا ہے۔وہ گھبرا کر مڑتی ہے۔ناگواری سے اس کے ماتھے پر بل پر جاتے ہیں۔کھانا بنا رہی ہوں وہ تلخ لہجے میں بولتی ہے۔وہ مجھے بھی نظر آ رہا ہے اذان کہتا ہے۔
مگر تمھارا ہاتھ جلا ہے وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر کہتا ہے۔
ظاہری زخموں سے زیادہ دل پر لگے زخم زیادہ درد دیتے ہیں۔اور لوگوں کو اس بات کا احساس بھی نہی ہوتا۔وہ آنکھیں مسلتے ہوۓ جواب دیتا ہے۔
وہ شرمندہ ھو جاتا ہے۔وہ رخ موڑ کر اپنا کام کرنے لگ جاتی ہے۔اذان شاہ بوجھل دل کے ساتھ اٹھ کر لاٶنج میں آکر بیٹھ جاتا۔اور نگاہیں بار بار کچن کیطرف جا رہی تھی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھانا کھا کر اذان اٹھ کر کمرے میں آ جاتا۔
اور کب سے مشال کا انتظار کر کے وہ ہار کر نیچے آتا ہے۔۔۔۔
نازو“ مشال کدھر ہے۔وہ جھنجھلا کر پوچھتا ہے۔۔
اذان بابا۔بی بی جی کے کمر ے میں ہیں مشال آپی۔نازو جواب دیتی ہے۔وہ بی بی جی کے کمرے کیطرف آتا ہے۔۔اندر آ کر دیکھتا ہے وہ بی بی جی کے
پاٶں دبا رہی ہوتی ہے۔ارےے“اذان بیٹے سوۓ نہی ابھی تک۔بی بی جی اذان کو کہتی ہیں۔جی بی بی جی سونے لگا۔
جاٶ مشال کو بھی لیکر جاٶ۔میں نے کہا اتنی بار جا ہی نہی رہی ہو آپ بچے۔بی بی جی مشال کو کہتی ہے۔مشال اٹھ کر اذان کے ساتھ روم کیطرف چلی جاتی ہے۔۔
اذان برنال لا کر اسکا ہاتھ تھام کر برنال لگاتا۔
آٸی ایم سوری۔وہ دھیرے سے بولتا ہے۔
مشال حیرت سے اسکو دیکھتی ہے۔
ھم دوستی تو کر سکتے ہیں جب تک ہم ساتھ ہیں۔
وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ کر کہتا ہے
اوکے۔معافی مل سکتی آپ مجھے روڈ ساٸیڈ پہ جو ٹھیلے ہیں وہاں سے کچھ کھلاۓ گے۔وہ مزے سے کہتی ہے۔۔۔
کیا۔ٹھیلے پہ کیوں ریسٹورنٹ جاتے کہیں۔اذان شاہ اسکو کہتا ہے۔ریسٹورنٹ سے تو کھاتے رہتے آج پلیز ٹھیلے والوں کا بھی کھا کے دیکھیں۔وہ پرجوش انداز میں کہتی۔۔۔
اوکے اوکے۔مگر کل جاۓ گے۔اذان کہتا ہے۔
ٹھیک ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اذان شاہ اگلے دن آفس سے آتا ہے اور آ کر چاۓ پی کر بی بی جی سے کہتا۔بی بی جی میں اور مشال آج باہر ڈنر کے لٸے جا رہے ہیں
ارے بیٹا ماشاءاللہ۔بچے ضرور جاٶ۔بی بی جی کہتی ہے۔
مشال پنک کلر کے ڈریس میں بہت پیاری لگ رہی
تھی۔اذان شاہ مبہوت ہو کر دیکھتا رہ جاتا ہے۔۔
چلے۔۔۔وہ پاس آ کر بولتی ہے۔
ھاں“چلو۔وہ چونک کر کہتا ہے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اذان شاہ گاڑی گول گپوں والے کے پاس روکتا ہے۔
وہ اتر کر ایک پلیٹ گول گپے کی کہتی۔اور ٹھیلے والا بھاٸی لا کر دیتا ہے۔مشال منہ میں ڈال کر زور سے آنکھیں میچتی ہے۔۔
آپ بھی لو نا وہ اذان کیطرف بڑھاتی۔۔۔
نہی۔وہ نفی میں سر ہلاتا ہے۔صرف ایک یار پلیز۔۔
وہ منہ کھولتا ہے۔وہ اسکے منہ میں ڈالتی ہے اوفففف۔بہت سپاٸسی ہے۔وہ سوں سوں کرتا بولتا۔
مشال کھلکھلا کر ہنس پڑتی ہے۔وہ بمشکل اس سے نظریں ہٹاتا ہے۔۔۔گول گپے کھا کر وہ اگلے ٹھیلے پر جاتے وہاں دال چاول تھے۔ایک پلیٹ دال چاول کا آرڈر دیکر وہ وہاں بیٹھ جاتے۔۔۔
واٶٶ۔۔آج بارش آۓ گی۔مشال آسمان کیطرف دیکھ کر کہتی ہے۔۔۔
ھمممممممم۔شاید۔اذان بولتا ہے۔۔
ایک لڑکا چاول کی پلیٹ لا کر رکھتا ہے۔اور دال اسکے اوپرڈالی ہوتی۔۔۔
مشال یہ مت کھاٶ۔۔اذان برا سا منہ بنا کر کہتا ہے۔۔
کیوں۔وہ حیرانگی سے پوچھتی ہے۔۔
دیکھو نہ یار عجیب لگ رہا دیکھنے سے ہی۔وہ ناک چڑھا کر بولتا ہے۔۔۔۔
ارے بہت مزے کے ہوتے ہیں۔پتا ہاتھ کے ساتھ کھانے کا مزا الگ ہے۔وہ مزے سے بولتی ہے۔
پھر اسکو ایک لقمہ زبردستی کھلاتی ہے۔واٶٶ۔۔
سچ میں مزے کا ہے۔اذان بھی مزے لیکر کھاتا مشال کے ساتھ۔
اذان اس آدمی کے پاس آتا ہے۔اور بولتا ہے۔یار تم بہت اچھے شیف ہو۔کل میرے ھوٹل آ جانا تمہیں نوکری ملے گی۔اور چار گنا زیادہ پے دوں گا۔وہ ٹھیلے والا حیران کھڑا دیکھتا رہ جاتا۔۔۔۔
واٶٶٶ،آٸی ایم ایمپرس۔آپ نے کھڑے کھڑے جاب دے دی۔مشال مسکرا کر بولتی ہے۔
اذان بھی مسکرا دیتا ہے۔۔۔۔۔اور پوچھتا اور کیا کھانا ہے۔بس میٹھا رہ گیا مشال جلدی سے کہتی ہے۔
تو اب آٸسکریم اپنی فیورٹ جگہ سے کھلا سکتا ہوں۔۔کیوں نہی۔مشال مسکرا کر کہتا۔۔
اذان شاہ اپنے ریسٹورنٹ کے سامنے گاڑی روکتا ہے۔
اوووہ“ تو یہ آپ کی فیورٹ جگہ ہے۔مشال اس کو کہتی ہے۔یسسسسس”“چلے اندر اذان کہتا ہے۔اندر پہنچ کر اذان کو دیکھ کر سب بیرے اس کے گرد آف جاتے۔ارےےے یار آٸسکریم لاٶں۔اور جا کر کام کروں۔آٸسکریم کھا کر باہر کیطرف نکلتے ساتھ ہی طوفانی بارش شروع ہو جاتی۔اووووہ گاڈ۔اب کیسے جاۓ گے۔وہ پریشان ہو کر بولتا۔مشال باہر سڑک پر بانہیں پھیلا کر بارش میں گھومنے لگ جاتی ہے۔۔۔
مشال اندر آٶ۔سردی لگ جاۓ گی۔اذان اونچی آواز میں مشال سے کہتا ہے۔وہ اندر آ جاتی ہے تو اذان گاڑی نکال کر گھر کی طرف موڑ لیتا۔گھر پہنچتے پہنچتے مشال کا چھینکوں سے برا حال ہو جاتا ہے۔۔۔
وہ گاڑی پارک کر کے اندر آتے۔۔۔
جاٶ تم جا کر کپڑے بدلو۔میں بی بی جی سے مل کر آتا ھوں۔وہ مشال سے کہہ کر بی بی جی کے کمرے کیطرف بڑھ جاتا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جب کمرے میں آتا وہ سکڑ کر صوفے پر لیٹی کانپ رہی ہوتی ہے۔۔اٹھو جا کر بیڈ پہ لیٹ جاٶ اذان اسکو کہتا ہے۔وہ بیڈ پر جا کر لیٹ جاتی ہے۔
اذان بھی کپڑے چینج کر کے آ کر دوسری طرف کروٹ لیکر لیٹ جاتا ہے۔۔۔
مشال مسلسل کانپتی جاتی ہے اذان شاہ اسکے گرد اسکا کمبل بھی دے دیتا ہے۔اچانک اتنی زور سے بادل گرجتے۔وہ چیخ مار کر اس کے قریب آ جاتی ہے۔اذان شاہ اپنے حواس کھونے لگ جاتا۔رات دھیرے دھیرے بھیگتی جا رہے تھی۔اور دونوں ایک دوسرے میں مدہوش تھے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح نہا کر مشال بال جھٹک رہی ہوتی ہے۔
اذان شاہ اٹھ کر اس سے نظریں چرا کر واش روم میں نہانے چلا جاتا۔مگر مشال اسکی محبت کے حصار میں کھوٸی تھی۔۔
اذان شاہ دو تین دن سے اس سے بھاگ رہا تھا۔
اس دن وہ اس کے آگے کھڑی ہو جاتی۔
کیا ہو گیا آپ کو۔وہ تڑپ کر کہتی ہے۔
میں اس رات پر بہت شرمندہ ہوں وہ لب کاٹتے کہتا۔۔وہ پیچھے کمر سے بازو ڈال کر کہتی۔۔
پلیز میرے لٸے وہ رات بہت اھم ہیں۔بہت محبت کرتی ہوں آپ سے۔وہ مدہوش ہو کر کہتی ہے۔
اذان شاہ ایک جھٹکے سے اسکو کھینچ کر سامنے کرتا ہے۔دماغ خراب تمہارا کیا سمجھ رکھا تم نے۔اور تم سے نفرت کرتا ہوں۔تم شاید وہ کانٹریکٹ پیپر بھول گٸی ہو۔ایک دوسرے سے کوٸی امید نہی رکھنی۔اذان شاہ چلا کر بولی جاتا
پیچھے کھڑی آمنہ خاتون کو اپنا سینہ درد سے پھٹتا محسوس ہوتا۔وہ دھڑام سے نیچے گرجاتی ہیں۔۔۔۔۔
۔۔۔امی۔۔مشال بھاگتی ہوٸی آمنہ خاتون کی طرف بڑھتی ہے۔اذان جلدی سے انکو اٹھا کرگاڑی میں ڈالتا ہے۔۔اور مشال انکاسر گود میں رکھے روٸی جاتی ہے۔۔
ہاسپیٹل پہچ کر اذان جلدی سے آمنہ خاتون کو اٹھا کراندر کی طرف بڑھتا ہے۔۔ایک وارڈبواۓ جلدی سے اسٹیچر آگے کرتا ہے۔اذان شاہ انکواس پر لٹا دیتا۔ڈاکٹر۔۔پلیز کچھ نہی ہونا چاھیے انکو اذان شاہ ڈاکٹر کو کہتا ھے۔ھم اپنی طرف سے پوری کوشیش کرے گے ڈاکٹر کہہ کر ایمرجنسی وارڈ کیطرف بڑھ جاتا۔مشال ایمرجنسی وارڈ کے باہر فرش پر بیٹھ کر رو رہی تھی۔اذان شاہ لب بھینچ کر اسکو دیکھ رہا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر باہر نکلتا مشال اسکی طرف بڑھتی ہے۔کیسی ہیں میری امی۔۔۔۔
ایم سوری۔۔وہ شاید انہوں کوٸی صدمہ لیا ہارٹ اٹیک بہت شدید ہوا تھا وہ جانبر نہی ہو پاٸی۔
ھم نے اپنی طرف سے پوری کوشیش کی تھی ۔۔
مشال کے آنسوں ٹھٹھر جاتے ہیں۔۔اذان شاہ کو ایسا لگتا پیروں تلے سے زمین نکل گٸ ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا۔اووووہ گاڈ“سنی پریشانی سے فون سنتے ہوۓ بولتا۔وہ فون رکھ کر مڑتا تو بی بی جی بےقراری سے پوچھتی ہے۔کیا ہوا سنی بیٹے۔۔بی بی جی آمنہ آنٹی کا انتقال ھو گیا ہے۔
اناللہ وانا الیہ راجعون۔بی بی جی بولتی ہے۔
سنی بیٹا جلدی سے لے چلو مجھے آمنہ کے گھر لے چلو۔۔بی بی جی کہتی ہے۔
سنی انکا ہاتھ تھام کر گاڑی میں بیٹھاتا ہے۔۔
جب وہ وہاں پہنچتے ہیں تو اذان مشال آمنہ خاتون کی میت لیکر پہنچ جاتے ہیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنی اندر آکر صحن میں چارپاٸی بچھاتا ہے۔
آپ یہاں؟ منال باہر نکل کے پوچھتی ہے۔
اور ایمبولینس والے آمنہ خاتون کی میت کو لا کر چارپاٸی پر لٹا دیتے ہے
امی۔۔۔منال تڑپ کر چاپاٸی کے پاس آکر آمنہ خاتون کے بےجان ہاتھ کو پکڑتی۔
آپو“امی کو کیا ہوا ہے۔وہ تو ٹھیک تھی وہ تو آپ سے ملنے گٸ تھی۔وہ روتے ہوۓ مشال کو پوچھتی ہے۔مشال ساکت آمنہ خاتون کو دیکھے جاتی۔
تڑپ تڑپ کر روتی منال کے سر پر اذان شاہ ھاتھ رکھتا۔اذان بھیا۔پلیز میری امی کو کہے وہ اٹھ جاۓ وہ آپ کی بہت بات مانتی ہے۔اذان شاہ کی آنکھیں چھلک اٹھتی ہے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
آمنہ خاتون کے میکے والے بھی آ جاتے وہ بڑے غرور سے ایک طرف ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔سارے محلے والے ان کے رویے پر باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔
آمنہ کی ممانیاں اذان اور سنی کو دیکھ کے محلے کی عورتوں سے پوچھتی یہ کون ھیں لڑکے۔
یہ مشال کا شوہر اور دیور ہے۔اوووہ”یہ دیور اسکا کنوارہ کیا۔چھوٹی ممانی پوچھتی ہے۔۔۔یہ نہی پتا ھمیں۔۔وہ عورت جواب دیتی ہے۔۔۔
اذان بیٹے۔۔بی بی جی اذان کو آواز دیتی ہے۔
جی بی بی جی وہ پاس آ کر پوچھتی ہے۔
بیٹا مشال کی ٹینشن ہو رہی ہے۔دیکھو تب سے ساکت بیٹھی نہ کچھ بول رہی نہ رو رہی۔۔۔
کچھ کر کے اسکو رولاٶ۔۔
بی بی جی میں کیا کروں۔مجھے خود سمجھ نہی آ رہی ۔وہ پریشان کن لہجے میں کہتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔
آمنہ خاتون کی میت کو نہلا کر رکھتے ہیں۔۔
منال کلمہ پڑھتے ہوۓ ساتھ روٸی جاتی۔۔
مشال چپ چاپ کھڑی یک ٹک آمنہ خاتون کے چہرےکو دیکھے جا رہی تھی۔اذان پاس آتا ہے مشال کے۔۔۔
مشال۔دیکھو ادھر لیکر جا رہے ہیں ھم امی کو۔پلیز ایک بار کچھ تو بولو اپنی امی کو ۔وہ بےبسی سے کہتا ہے۔مشی بولو نہ آخری بار اپنی امی کو کچھ تو بولو۔۔۔وہ اسکو جھنجھوڑ کر کہتا ہے۔۔۔
اسکے وجود کو جھٹکا لگتا۔نہی میں اپنی امی کونہی جانے دوں گی۔۔امی اٹھے نہ۔وہ تڑپ تڑپ کر روپڑتی۔منال اسکے گلے لگ کے کہتی ہے۔آپو میں کیسے جیوں گی امی کے بغیر۔۔وہ روتے ہوۓ بولتی ہے۔
تھوڑی دیر بعد میت کو اٹھانے آتے سب۔منال اور مشال دونوں پاۓ پکڑ لیتی ہے۔اذان شاہ مشال کو زبردستی پیچھے ہٹا کر خود میں بھینچ لیتا ہے۔وہ اسکے سینے سے لگی روۓ جاتی۔منال کو فاطمہ بوا ساتھ لگاٸیں چپ کرا رہی ہوتی ہے۔۔۔
اذان مشال کو بی بی جی کے پاس بیٹھا کر خود باہر نکل جاتا ہے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تین دن ہو گے تھے آمنہ خاتون کو گزرے۔۔اذان اس دن آتا ہے تو مشال اسکا ہاتھ پکڑ کر دروازے تک لے جا کر کہتی۔۔
دفع ہو جاٸیں یہاں سے۔میرے ماں کو آپ نے مارا تھا۔اور جان چھڑوانا چاہتے تھے۔جاٸیں۔آزاد ہیں آپ ۔۔۔مشال غصے سے بولتی ہے۔
مشال میری بات سنو۔۔اذان اس سے کہتا ہے۔
مجھے آپ کی بکواس نہی سننی۔۔وہ تلخ لہجے میں کہتی ہے۔
ارے مشال کیا کررہی ہو ایسے شوہر سے بات کرتے ہیں۔۔مشال کی ممانی بولتی ہے۔
ارے۔۔بیٹے اندر آٶ۔۔ممانی میٹھے لہجے میں کہتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔واٶ ممانی جی کتنی تمیزدار ہو گٸ آپ۔
یہ اندر نہی آۓ گا۔اور یہ گھر میرا ہے آپ بھی یہاں سے جا سکتی ہیں اور ساتھ لے جاٸیں انکو بھی۔
خدمتیں کریں۔۔اور چاہیں تو اپنا داماد بنا لے۔۔وہ تڑخ کر بولتی ہے۔۔۔ہاۓ“ہاۓ کتنی بدتمیز ھے یہ لڑکی ممانی غصے سے بول کر اپنی بیٹی کو گھر جانے کا کہتی۔۔۔
یہ کیا پاگل پن ہے۔تم جانتی ہوں میں نے جان بوجھ کے نہی کیا یہ سب۔اور تم ہر ایک سے بات کرنے کی تمیز بول گٸ ہو۔۔ٹھیک ہے نہی آٶ گا تمہاری طرف آج سے۔وہ ناگواری سے کہہ کر چلا جاتا ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اذان۔مشال کو نہی لاۓ۔بی بی جی پوچھتی ہے۔
وہ نہی آنا چاہتی ہے۔اسکو لگتا ہے میری وجہ سے اسکی امی کی وفات ہوٸی ہے۔۔وہ تپ کر بولتا۔
وہ اپنی جگہ ٹھیک بھی ہے۔آپ کی باتیں سن کر اس دن میرا دل بھی کیا تھا مر جاٶں۔۔مگر مجھے شاید اور بربادیاں دیکھنی ہیں بی بی جی اپنی آنکھوں کی نمی کو ڈوپٹے سے پونچھتی ہوٸی اپنے روم میں چلی جاتی۔۔۔۔
اگلے دن وہ پھر آتا۔منال دروازہ کھولتٕی ہے۔ارے بھیا آپ اندر آٶ نا۔وہ خوش ہو کر کہتی ہے۔۔
مشال کچن میں ہنڈیا بنا رہی تھی۔وہ پاس آ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔وہ چونک کر مڑتی ہے۔آپ وہ چلا کر بولتی ہے۔ساتھ چلا کر منال کو آواز دیتی۔
کیا ہوا آپی۔۔منال گھبرا کر پوچھتی ہے۔تمہیں کتنی بار کہا کسی غیر کو اندر مت آنے دینا۔وہ ناگواری سے کہتی۔
لیکن میں نے تو کسی غیر کو آنے نہی دیااذان بھیا تھے۔وہ پریشان کن لہجے میں کہتی ہے۔
کوٸی بھاٸی نہی یہ تمہارا۔یہ صرف میری ماں کا قاتل ہے۔وہ تڑخ کر بولتی ہے۔یہ کیا بول رہی ہوں آپ۔وہ حیران ہو کر کہتی ہے۔میں تمہیں سب بتاٶں گی۔
تم پہلے انکوباہر کا راستہ دیکھاٶ۔وہ نفرت بھرے لہجے میں بول کر جانے لگتی اذان شاہ غصے سے اسکا بازو تھام کر بولتا۔میں یہاں صرف اور صرف بی بی جی کی وجہ سے آیا تھا۔مگر تم بات کرنےکے قابل نہی ھوں۔۔اور تمھاری ماں کی موت کا وقت لکھا تھا میں وجہ نہی ہوں۔سمجھی تم۔۔وہ ایک جھٹکے سے چھوڑ کر آگے بڑھ جاتا۔۔
تم نے ثابت کر دیا تربیت سے زیادہ خون زیادہ اثر رکھتا ہے۔اور شہرین صاحبہ جیسے خودغرض تو ہو گے۔وہ چٹخ کر بولتی ہے۔۔
اذان شاہ ساکت ہو جاتا ہے۔لب بھینچ کے وہ وہاں سے نکلتا جاتا ہے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آندھی طوفان کی طرح گاڑی اڑاتا گھر پہنچتا ہے۔
وہ اندر آتا ہے۔۔۔۔۔بی بی جی کے سامنے کھڑا ہو کر تلخ لہجے میں پوچھتا ہے۔۔۔۔مشال کو شہرین کے بارے میں آپ نے بتایا کیا۔وہ چبا چبا کر بولتا ہے
ہاں بتایا تھا مگر ہوا کیا بی بی جی پریشان ہو کر پوچھتی ہے۔۔۔۔۔۔
آج کے بعد اس لڑکی کا اس گھر میں ذکر نہی ہوگا۔۔
وہ غصے سے کہتا ہے۔۔کیوں نہی ہوگا ضرور ھوگا میں اسکی منت کرکے لیکرآٶں گی۔۔
اگر آپ اس کو لیکر آٸی یا آپ اس سے ملنے گٸ تو میرا مرا ہوا منہ دیکھے گی۔۔۔وہ دھمکی دیتا ہو لمبے لمبے ڈنگ بڑھتا اوپر روم کیطرف بڑھ جاتا ہے۔۔۔۔
بی بی جی جہاں یہاں گم صم کھڑی رہ جاتی ہیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپو۔۔آپ کو انکی یہ کانٹریکٹ کی شادی کی بات ماننی نہی چاہیے تھی۔۔منال۔مشال کی گود میں سر رکھے اداس لہجے میں بولتی ہے۔۔۔
منو۔کاش میں ویسے ہی رہتی۔نہ پیار کرتی یا پھر اظہار نہ کرتی تو وہ مجھے میری اوقات نہ یاد دلاتا
سب کے سامنے۔یا پھر کاش کے امی وہاں نہ آٸی ہوتی۔۔۔مشال دکھی لہجے میں کہتی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
بی بی جی میرا یہاں کا بزنس حمیر سنبھالے گا ہم یہاں سے جا رہے دبٸ۔۔میں نے وہاں بھی اپنا ھوٹل سٹارٹ کیا ہے۔۔تو وہاں زیادہ ٹاٸم دینے کی ضرورت ہے۔۔۔اذان بی بی جی کو کہتی ہے۔۔۔ٹھیک ہے جیسے تم کہو گے۔بی بی جی سپاٹ چہرے سے کہتی ہے۔۔
ایک ہفتے کے بعد وہ لوگ دبٸ کی فلاٸٹ کے لٸے روانہ ہو جاتے ہیں۔۔۔۔
کاش کے مشال میں تم سے ملا نہ ہوتا۔یا کاش شادی نہ ہوٸی ھوتی۔یا کاش وہ رات نہ آٸی ہوتی۔فلاٸٹ جیسے ہی پرواز کرتی۔اذان شاہ کی آنکھ سے اک آنسو ٹپکتا اور اسکی ہتیلی میں جذب ہو جاتا۔۔
اور اسکے ساتھ اسکو لگتا وہ کچھ بہت قیمتی چیز پیچھے چھوڑ آیا ہے۔اسکو اپنا دل خالی محسوس ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔پانچ سال بعد۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماما میلا ہوم ورک نہی کلوا رہی ماسی۔ایک پیاری سے چار سال کی بچی روٹھ کر کہتی ہے۔
میں ماسی کو زور سے ڈانٹوں گی۔۔اس بچی کی ماں مسکرا کر کہتی ہے۔۔۔
میں کوٸی فارغ تھوڑی ہوں جو ہوم ورک کرواٶں ایک لڑکی اندر آ کر کہتی ہے۔وہ بچی منہ پھولا کردیکھتی ہے۔آپ توتلے بولتی ہو تو میں تب تک نہی پڑھاٶں گی جب تک آپ سہی سے نہی بولتی وہ لڑکی اسکی ناک کھینچ کر کہتی۔۔وہ بچی اسکو گھور کر دیکھتی ہے۔۔اور وہاں سے بھاگ جاتی ہے۔۔
آپو۔۔ایسے کیوں بیٹھی ہو چلو کھانا کھاۓ وہ لڑکی کہتی ہے۔۔۔
وہ بچی کی ماں مشال تھی اور ماسی منال تھی
وہ سرخ آنکھوں سے دیکھتی ہے۔۔۔پتا ہے منو اذان شاہ کو گے ہوۓ پانچ سال بیت گے۔۔۔منو اسکے گلے لگ کر کہتی چھوڑو آپو جو یاد زخم دے اسکو ذہہن سے جھٹک دیں۔اور اٹھے دس منٹ تک کھانا ریڈی ہو جاۓ گا آپ آ جانا۔۔۔۔وہ سر ہلا کر کہتی ہے اچھا۔۔۔
مشال اٹھ کر کھڑکی کے پاس آ کر باہر کھیلتے بچوں کو دیکھتے ماضی میں کھو جاتی ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پانچ سال پہلے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشال ہنڈیا پکا رہی ہوتی ہے۔اسکو زور سے چکر آتا وہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ جاتی ہے۔۔۔
کیا ہوا آپو آپ کو۔منو جلدی سے آکر اسکو اٹھاتی ہے۔آپ کا کتنے دنوں سے یہ حال ہے۔چلے ڈاکٹر کے پاس چلے۔۔۔منال اسکو قریبی ہاسپیٹل لے جاتی ہے۔
وہاں ڈاکٹر اسکا چیک اپ کرتی ہے۔اور آ کر کہتی ہے مبارک ہو آپ پریگننٹ ہیں۔۔مشال حیرت سے ڈاکٹر کو دیکھتی ہے۔۔۔اور پورے راستے گم صم ہوتی ہے۔
۔۔رات کو منال اسکو کہتی آپو ایک بات کہوں؟۔
ھاں کہو نا۔مشال کہتی ہے۔۔۔
امی پتا ہے نا کہا کرتی تھی کہ شوہر کے بغیر بچے پالنا بہت کٹھن ہوتا ہے۔انہوں نے ہم دونوں کو پالتے کتنی صعوبتیں اٹھاٸی۔پلیز آپی اذان بھاٸی نے جو کیا جان بوجھ کر نہی کیا۔وہ تو امی کے علاج کے لیۓ کیا کیا کر رہے تھے۔پلیز ایک بار ان کے پاس لوٹ جاٸیں۔۔۔
میں لوٹ بھی جاٶں وہ مجھ سے پیار نہی کرتے۔مشال افسردہ لہجے میں کہتی ہے۔۔
پلیز آپو جاٶ تو سہی کیا پتا انہیں آپ سے پیار ہو جاۓ۔۔۔۔۔
میں صبح جاٶں گی۔وہ کہہ کر آنکھیں بند کر لیتی ہے۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ شاہ ولا کے سامنے جا کر کھڑی ہوتی۔گارڈ دوڑا دوڑا آتا۔۔ارےےے بی بی جی آپ گارڈ پاس آ کر کہتا ہے۔۔۔تمہارے صاحب لوگ گھر ہے کیا۔۔۔
مشال گارڈ سے پوچھتی ہے۔۔وہ تو ایک مہینہ ہو گیا یہاں سے باہر شفٹ ہو گے سب لوگ۔۔۔۔
کیا۔۔۔وہ شاکڈ ہو جاتی ہے۔اور روتے ہوۓ وہ ٹیکسی میں بیٹھ کر گھر پہنچتی ہے۔۔۔۔
وہ اندر داخل ہوتی۔۔آپو آپ گٸ تھی کیا منال پاس آ کر پوچھتی ہے۔۔وہ اسکے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑتی ہے۔۔منو کہا تھا نا انکو مجھ سے پیار نہی۔وہ تو مجھ سے پیچھا چھڑوانا چاہتے تھے اور شہر نہی ملک چھوڑ کر چلے گے۔۔۔منال اسکو بہت مشکل سے چپ کرواتی ہے۔۔اور مشال اسکے بعد خود کو سنبھال کر منال اور بچے کے لٸے جینا شروع کرتی۔ ایک ریسٹورنٹ میں شیف کی اسسٹنٹ کے طور پر کام کرتی۔اور پھر بچی اسکے لٸے بڑی بخت والی تھی وہ وہاں کی سینٸر شیف بن جاتی ہے۔۔۔
اورمشال کا ایم بی بی ایس مکمل ہو جاتا وہ شادی نہ کرنے کا ارادہ کرتی ہے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حال میں۔۔۔۔۔۔
مشال منال کی آواز پر ماضی سے حال میں واپس آتی۔اور باہر آ جاتی۔ٹیبل پر کھانا لگا چکی تھی منال وہ سب کھانا کھاتے۔۔پھر چھت پر جا کر واک کرتیں۔
تھوڑی دیر کے بعد پری کو سلانے کے لٸے منال لے جاتی۔وہ چاۓ کا مگ تھام کر بیٹھ کر سوچ میں ڈوب جاتی۔۔۔۔
اذان شاہ تم تو آگے بڑھ گے۔مگر ہم دونوں بہنیں برباد ہو گٸ۔کیا اتنی نفرت کرتا ہے کوٸی۔۔تم تو مجھ سے جان چھڑوا کر بھاگ گے۔مگر اس رات کا تحفہ بھی دے گے تمھاری شرمندگی کی رات تھی مگر وہ رات مجھے بہت اہم لگی تھی مگر وہ رات میرا سب برباد کر گٸ۔میرا سکون قرار سب لے گٸ۔میں کبھی تمہیں معاف نہی کروں گی۔۔۔۔۔وہ دل میں اذان شاہ کو مخاطب کر کے بولتی ہے۔۔۔
...........
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بی بی جی میڈیسن لے لیں۔اذان جھنجھلا کر کہتا ہے۔مجھے نہی کھاٶ۔وہ غصے سے بولتی ہیں۔۔
آپ کی طبیعت بگڑتی جا رہی۔۔وہ پریشانی سے بولتی ہے۔۔
آپ کو کیا بیٹے مروں یا جیٸوں وہ رونے لگ جاتی ہے۔تم نے نہی جانا نہ سہی مجھے بھیج دو۔۔پانچ سال ہو گے ہیں ہمیں یہاں۔میرے بیٹوں کی قبریں وہاں۔ارےےے اولاد کا کیا کرنا جو ماں باپ کی قبروں پر بھی جا کر فاتحہ نہ پڑھ سکے۔مجھے اپنے بیٹوں سے ملنا۔وہاں جا کر قرآن خانی کروانی ہے۔۔وہ
ضدی انداز میں کہتی ہیں۔۔۔۔
اوکے ٹھیک ہے۔مگر تھوڑے دنوں کے لٸے جاۓ گے۔اذان شاہ ہار مانتے ہوۓ بولتا ہے۔۔۔بی بی جی اس سے میڈیسن لیکر کھا کر لیٹ جاتی ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اٸیرپورٹ سے باہرسب نکلتے ہیں تو سامنے حمیر کھڑا ہوتا۔۔وہ جلدی سے آگے بڑھ کر پرجوش انداز میں ملتا سب سے۔۔۔اور گاڑی میں بیٹھ کر سب شاہ ولا کی طرف چل پڑھتے۔اورشاہ ولا میں حمیر کی بیوی اور بچے سب بہت محبت سے ملتے ہیں۔۔
کھانا کھا کر سب لاٶنج میں بیٹھ کر باتیں کرنے لگتے ہیں تو اذان شاہ اپنےروم میں آتا ہے۔پانچ سال کے بعد وہ اپنے کمرے میں قدم رکھتا ہے۔اسکے دل میں درد سا اٹھتا ہے۔۔۔وہ صوفے میں بیٹھ کر سر پیچھے ٹکا لیتا ہے۔۔۔۔۔کیسے ہو گیا مشال یہ سب کیوں تم سے محبت ہو گٸ۔۔۔محبت تو تم سے پہلی بار کی ملاقات میں ہی ھو گٸ تھی مگر احساس اس دن ھوا جب دبٸ کے لٸے روانہ ہو تب لگا میرا دل خالی ہو گیا۔۔وہ آنکھیں بند کٸے اس سے مخاطب تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یار میں اپنا ہوٹل کھولنا چاہتا ہوں اپنے گھر شفٹ ہونا چاہتا ہوں۔۔پلیز اپنا سنبھال آ کر یہ بزنس۔حمیر کہتا ہے۔۔۔
ارےے یار یہ تیرا ہی ہے اور چاہے سب تیرے نام کر دیتا ھوں۔اذان اسکو کہتا ہے۔۔ارےے نہی یار میرا یہ مطلب نہی تھا حمیر شرمندہ ہو کر بولتا۔۔۔مجھے اصل میں ہیون ریسٹورنٹ مجھے پسند آ گیا ہے۔۔
تو اسکو خریدنے کی استطاعت بھی ہے تو اعظم اسکو بیچ نہی رہا۔۔۔یار اسکی شیف کو خریدنے کی بھی کوشش کی مگر وہ بھی نہی مان رہی۔۔۔۔
ھمممممممم۔فکر مت کرو نہ صرف اس ریسٹورنٹ کی شیف پورا ھوٹل تمھارا ہوگا۔۔اذان شاہ پریقین انداز میں کہتا ہے۔۔۔۔۔ارےےے یار دوست ہو تیرے جیسا حمیر پرجوش انداز میں کہتا ہے۔۔۔اوکے شام کو چلے گے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں بی بی جی یہاں ایک دوست ہے اسکے ہاسپیٹل کے وزٹ کیلٸے جا رہا ہوں۔۔سنی کہتا ہے۔۔
اچھا ٹھیک ہے۔۔وہ کہتی ہے۔۔
سنی فاطمہ ھاسپیٹل کے سامنے گاڑی روکتا۔۔اسکادوست اسکو لیکر اندر آتا۔۔وہ وہاں نرس کو کہتا ہے جا کر سب ڈاکٹرز کو بلوا کر لاٶں۔۔
سب ڈاکٹرز اکھٹے ہوتے ہیں۔۔۔
گاٸز یہ میرے بہت اچھے دوست اور دبٸ کے بہت اچھے ڈاکٹر سنان ہیں۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر سنان ایک ڈاکٹر رہ گٸ ہے میری بہت محنتی ڈاکٹر ہے۔آٶ اس سے ملواٶں۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منال بڑے پیار سے بچوں کو ٹریٹ کر رہی ہوتی ہے۔
یہ تھیلیا سیمیا کی بیماری میں مبتلا بچے سے۔۔۔۔
ھاۓ۔فرحان بے بی کیسے ہوں۔۔۔وہ ایک بچے کے رخسار کو پیار سے چھو کر کہتی ہے۔
میں ٹھیک ہوں آنٹی۔۔پتا ہے پورے پندرہ دن جو مس کیا آپ کو بہت مشکل سے دن گزرٕے۔۔۔وہ بچہ بولتا ہے۔منال کھلکھلا کر ہستی ہے۔اور پھر اس کے بالوں کو چھیڑتی ہوٸی اٹھ کر پیچھے مڑتی۔تو پیچھے سنی کو دیکھ کر چونک جاتی۔۔ڈاکٹر عظیم اسکا اور سنی کا تعارف کرواتا۔وہ لب بھینچ کر اسکو دیکھتے ہوۓ اسکی ساٸیڈ سے نکل جاتی۔۔۔
تمہیں پتا ہے یہ نہ صرف ڈاکٹرز کی بلکہ مریضوں کی بھی فیورٹ ہے۔۔ڈاکٹر عظیم سنی کو بتاتا ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منال باہر نکل رہی ہوتی ھاسپیٹل سے سنی جلدی سے اسکے پیچھے بھاگتا۔وہ ٹیکسی میں بیٹھ جاتی ہے سنی گاڑی اسکے پیچھے لگا لیتا وہ ایک سکول کے سامنے رکتی ہے۔وہ ٹیکسی سے نکل کر اندر جاتی وہ ٹیکسی کے پاس آ کر کھڑا ہو جاتا۔تھوڑی دیر بعد وہ ایک بچی کو اٹھاۓ باہر آتی۔وہ بچی کو اندر بیٹھا کر سنی کیطرف مڑتی ہے۔۔کیا مسلہ ہے آپکو کیوں پیچھا کر رہے میرا۔۔۔وہ تنک کر کہتی ہے۔
شادی کب ہوئی۔۔وہ الٹا سوال کرتاہے۔۔۔
واٹ۔۔۔۔وہ حیرت سے مڑتی ہے۔۔۔۔۔
وہ تمہاری بیٹی ہے کیا۔۔۔۔وہ ایک اور سوال کرتا۔۔
جی ہاں میری بیٹی ہے۔۔کوٸی تکلیف ہے کیا۔۔وہ تڑخ کر بول کرٹیکسی میں بیٹھ کر ڈراٸیور کو چلنے کا کہتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنی بوجھل قدموں کے ساتھ اندر لاٶنج میں داخل ہوتا ہے۔۔اور بی بی جی کے قدموں میں بیٹھ کر گود میں سر رکھ دیتا ہے۔۔کیا ہوا میرے بچے کو۔وہ پیار سے اس کے بال سہلاتے ہوۓ پوچھتی۔۔۔۔
کچھ نہی بی بی جی تھکاوٹ ہو گٸ تھی۔۔۔۔
ارےےے۔۔تو چاۓ پٸیے اور تھکاوٹ اتارے۔۔
حمیر کی واٸف ماریہ مسکرا کر کہتی ہے۔۔اور ایک لڑکی آ کر ٹرے رکھ کر بیٹھ جاتی ہے۔پلیز میٹ ماٸی سسٹر روبی۔۔ہاۓ۔وہ لڑکی اسکی طرف ہاتھ بڑھا دیتی ہے۔وہ اسکا مسکرا کر ہاتھ تھام لیتا ہے۔۔۔
اور ہلکی پھلکی گفتگو کرتے سب چاۓ پیتے ہیں۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوکے سر میں چلتی ہوں۔۔منال اعظم سے اجازت چاہتی ہے اور وہاں سے نکل جاتی ہے۔۔۔۔
وہ وہاں سے نکل کر جاتی ہے ساتھ ہی اذان شاہ اورہ حمیرداخل ہوتے ہیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ھاۓ ۔۔۔مسٹر اعظم۔۔۔اذان شاہ اندر داخل ہو کر کہتا ہے۔۔اور چٸیر پر دونوں بیٹھ جاتے ہیں۔۔۔۔
تو میرے بارے میں تو جانتے ھوں گے۔۔اذان شاہ کہتا ہے۔۔۔آپ کو کون نہی جانتا۔اعظم مسکرا کر کہتا ہے۔۔
آپ کے اس ھوٹل کو خریدنا چاہتا ہوں۔اذان شاہ اسکو اپنا آنے کا مقصد بیان کرتا ہے۔۔۔
مگر میں بیچنا نہی چاہتا وہ تلخ لہجے میں جواب دیتا ہے۔۔۔۔۔
ہاہاہاہاہاہا۔میں نے آپ سے یہ نہی پوچھا کہ بیچنا ہے یا نہی۔۔میں نے کہا خریدنا چاہتا ہوں۔اذان شاہ طنزیہ انداز میں کہتا ہے۔۔اور کہی آپ کی نٸ شیف کے ساتھ تو کوٸی تعلق نہی ہے۔۔۔جو آپ منہ مانگی قیمت ٹھکرا رہے۔اذان شاہ تلخ انداز میں کہتا ہے۔۔
آپ انتہاٸی گھٹیا انسان ہیں۔۔کسی شریف لڑکی کو بدنام کر رہے آپ۔بہن جیسی ہے میری۔اعظم غصے سے تپ کر بولتا ہے۔۔۔۔
ہاہاہاہاہاہاہا۔۔بہن۔۔رٸیلی۔۔وہ طنزیہ انداز میں کہتا۔۔
وہ آپ کو چھوڑنا نہی چاہتی۔اور آپ اس کے لٸے اتنے غصے میں۔۔۔اور اتنے دودھ کے دھلے نہی آپ۔۔اس کے ساتھ آپکا تعلق نہی تھا۔مگر آپ نے بنانے کی کوشش کی تھی اور آپ کے ایک وٹل کے ہی آدمی نے مجھے بتایا تھا۔۔۔اور میں اس بات کو مرچ مسالہ لگا کر پیش کروں گا۔اور اس لڑکی کا کرٸیر تباہ ہو جاۓ گا اور تمہارا سب کچھ۔اذان شاہ مزے سے بولتا ہے۔
اعظم کا رنگ فق ہو جاتا ہے۔پلیز مجھے کچھ وقت دیں سوچنے کا۔۔۔وہ فق چہرے کے ساتھ کہتا ہے۔۔
اوکے کل ھم پیسے لیکر آٸیں گے۔وہ کہہ کر لمبے لمبے ڈنگ بڑھتا چلے جاتا ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بیرے کو لیکر آٶ جو اس وقت سب جانتا تھا۔۔
اذان شاہ حمیر کو کہہ کر گاڑی میں بیٹھ جاتا ہے۔۔
حمیر اس بیرے کے ھمرا آتا ہے۔دونوں گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔۔۔۔
ھاں اب سب بتاٶ۔۔اذان شاہ اسکی طرف پیسے بڑھاتے ہوۓ کہتا ہے۔۔۔
ارےےے صاحب۔۔بڑی آفت چیز ہے وہ شیف۔بڑی خوبصورت۔۔اور أعظم صاحب نے اسکو اپنے روم میں بلوایا تھا اور اس کے ساتھ بدتمیزی کرنے کی کوشش کی تھی۔وہ ان کے پیروں میں بیٹھ کر رونے لگ گٸ۔اور بتانے پلیز رحم کریں اس پر اسکا دنیا میں کوٸی نہی۔ہر طرف گدھ اسکو نوچنا چاہتے ہیں۔وہ ماں بننے والی ہے۔اسکے ساتھ ایسا مت کریں۔
اسکا اتنا تڑپ تڑپ کر رونے نے اعظم صاحب کو نرم کر دیا۔۔اور پھر کبھی انہوں نے اسکو کچھ نہ کہا۔۔
پر سر مجھے تو لگتا باہر نظر رکھے شاید ملتے نہ ہوں۔سر وہ لڑکی اتنی آفت ہے۔دل تو اس کو دیکھ کے مچلتا ہے۔وہ لوفرانہ انداز میں کہتا ہے۔
اذان شاہ کا حلق کڑوا ہو جاتا ہے اسکے اتنے لوفرانہ انداز پر۔۔بیرے کے باہر نکلنے کے بعد اذان حمیر کو کہتا ہے۔لڑکی بہت کمزور ہے اسکو آسانی سے دھمکا کر کام کروایا جاسکتا ہے۔۔۔اور تمہاری کب اس لڑکی سے ملاقات ہوٸی۔اذان اس سے پوچھتا ہے۔۔
یار فون پہ بات ہوٸی دو تین بار۔۔وہ آگے سے ٹوٹ کر پڑتی۔۔حمیر جواب دیتا ہے۔۔
ھمممممم۔اوکے کوٸی نہی کل ہو جاۓ گی ملاقات۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشال تھکی ہوٸی گھر پہنچتی ہے تو منال گم صم سے چلہے کے آگے کھڑی ہوتی۔۔۔
منو چاۓ ابل رہی ہے اور کس سوچ میں گم ھو۔۔
مشال منو کو کندھے سے ہلا کر کہتی ہے۔۔۔
وہ ھڑبڑا کر کہتی ہے۔۔کیا ہوا ہے کوٸی پریشانی ہے۔۔
وہ تشویش بھرے لہجے میں کہتی ہے۔۔
آپو۔۔بس ویسے ہی۔۔۔۔۔منال جواب دیتی۔۔
ماسی کو آج ایک انکل ملے تھے تب سے لوٸی جا رہی ہیں۔۔پری بولتی ہے۔۔۔
کوٸی نہی آپی۔بس وہ راستہ پوچھ رہا تھا۔وہ دانت پیس کر بولتی۔۔۔۔۔۔
تم جھوٹ کیوں بول رہی ہے مشال شک بھری نظروں سے کہتی ہے۔۔ایسا کچھ نہی ہے۔وہ جھنجھلا کر کہتی ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
منال ھاسپیٹل پہنچتی ہے تو سامنے ہی سنی کھڑاہوتا ہے۔وہ کنی کترا کر نکل جاتی ہے۔اور سیدھا ڈاکٹر عظیم کے آفس میں داخل ہوتی ہے۔۔اور ان سے
فرحان کی رپورٹ کے بارے میں ڈسکس کرتی ہے۔
اور سنی اندر داخل ہوتا ہے۔۔
یار ادھر آ یہ دیکھ کچھ رپورٹس ہے ایک بچے کی یار اسکا اکثر جب بلڈ لگتا۔فورا بلیڈنگ سٹارٹ ہو جاتی ہے تو بتا کیا کرنا چاہٸے۔۔۔
سنی رپورٹس دیکھ کر کچھ میڈیسن لکھ کر دیتا ہے۔۔اچانک نرس گھبرا کر آتی ہے۔
سر وہ فرحان بے بی کے ناک منہ سے بہت زیادہ خون نکل رہا ہے۔۔۔وہ سب گھبرا کر اٹھتے ہیں۔۔
۔منال بھاگتی ہوٸی وارڈ میں داخل ہوتی ہے۔۔۔
اور اپنا دوپٹہ اس بچے کے منہ کے آگے رکھتی۔۔۔
سنی جلدی سے آگے بڑھتا۔أسکو ایمرجنسی وارڈ میں جلدی سے منتقل کرتے ہیں۔۔
اس بچے کے پیرنٹس زارو قطار رو رہے ہوتے ہیں۔منال کو اپنا دل بیٹھتا محسوس ہو رہا ہوتا ہے۔
وہ اندر وارڈ میں نہی جاتی۔وہی سامنے ٹیک لگا کر کھڑی ہو جاتی۔۔۔
ڈاکٹر منال کدھر ہے۔۔۔سنی پوچھتا ہے۔۔
وہ نہی اندر آٸے گی۔۔اس بچے کے ساتھ بہت اٹیچمنٹ اسکی۔وہ اندر نہی آتی۔۔اور اس بار اس کی حالت زیادہ خراب ہے۔۔۔عظیم سنی کو بتاتا ہے۔
اچانک فرحان کے سانس اکھڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔
اور اسکے ساتھ ہی وہ اپنا آخری سانس لیتا ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔اعظم سر کیوں بیچ رہے یہ ھوٹل۔مشال جھنجھلا کر کہتی ہے۔۔میں بھی یہاں کام نہی کروں گی وہ حتمی انداز میں کہتی ہے۔۔
نہیں نہیں یہ مت کرنا۔۔وہ تمہیں میرے ساتھ بدنام کرنے کی کوشش کرے گا۔۔اعظم پریشان ہو کر کہتا ہے۔۔وہ جو میں نے تمہارے ساتھ کرنے کی کوشش کی تھی اسکو لیکر دھمکی دے رہا مجھے۔۔۔
وہ ماتھا مسلتے ہوۓ کہتا ہے۔مشال لب بھینچ کر اٹھ کر چلی جاتی ہے۔۔
۔۔۔اذان شاہ اندر داخل ہوتا حمیر کے ساتھ۔۔اور اسکے ٹیبل پر چیک رکھتے ہوۓ کہتا۔چلے پھر اٹھو چیک اٹھاٶ اور جاٶ۔۔۔۔
اور میں بھی یہاں سے جاٶں گی مسٹر اذان شاہ۔۔
مشال کی آواز پر اذان شاہ جلدی سے اٹھ کر کھڑا ہو کر اسکی طرف مڑتا۔۔مشال آنکھوں میں نفرت لٸے اسکو دیکھ رہی ہوتی ہے۔۔۔
مجھے بدنام کرو گے۔کرو نا بدنام۔برباد تو کر چکے ہو مجھے۔وہ چلا کر بولتی ہے۔۔اور آج تم سے نفرت دل کی گہراٸیوں سے محسوس کر رہی ہوں۔۔۔
تم گھٹیا تھے اب تو حد ہی ہو گٸ۔۔جب کوٸی نہ کرتا ہے نہ تو نہ ہی ہوتی ہے۔انکو ہوٹل نہی بیچنا۔
تو نہی بیچنا۔۔وہ چیک اٹھا کر پھاڑ کر اسکے چہرے پہ مارتی۔اور دفع ہو جاٸیں یہاں سے۔اگر بدنام کرنے کا بہت شوق ہے نہ تو کہو تو ننگی تصویریں بھیج دوں گی۔پورے شہر میں لگانا۔اور اگر کہتے ہو تو تمہارے ساتھ ایک گندی سے ویڈیو بنا لیتی ہوں اور اسکو ہر جگہ دیکھا کر واہ واہ کروانا۔۔اذان شاہ اسکی باتوں پر ایک زوردار تھپڑ مارتا ہے۔۔۔بند کرو اپنی بےہودہ بکواس۔۔اور لمبے لمبے ڈنگ بھرتا وہ وہاں سے نکلتا جاتا ہے۔۔
یہ تم نے کیا کیا مشال وہ گھٹیا آدمی ہے وہ تمہیں بدنام کر دے گا۔اعظم ہونٹ کاٹتے ہوۓ کہتا ہے۔۔۔
نہی کرے گا بدنام۔وہ آنکھوں کے آنسو صاف کرتے ہوۓ کہتی ہے اور وہاں سے نکل جاتی ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
سنی اور ڈاکٹر عظیم باہر آتے ہیں۔۔
منال جلدی سے آگے بڑھتی ہے۔کیسا ہے وہ منال جلدی سے پوچھتی۔۔۔
ہی از نو مور۔۔ڈاکٹر عظیم کہتا ہے۔۔منال ہونٹوں پر ہاتھ رکھے دیوار کے ساتھ لگ جاتی ہے۔۔۔
سنی جلدی سے آگے بڑھتا۔منال پلیز سنبھالو خود کو۔وہ روتے ہوۓ اسکے کندھے کے ساتھ لگ کر جاتی۔سنی اسکو چپ کروا رہا تھا۔۔۔مگر وہ سنبھل نہی پا رہی تھی۔۔اکچوٸلی میں چھوڑ کر آتا ہوں گھر۔۔وہ عظیم سے کہتا ہے۔۔اور اسکو گاڑی میں بیٹھاتا ہے۔۔
اور گاڑی سکول کے سامنے روک کر کہتا ہے۔تمہاری بیٹی کو لینا تھا کیا سکول سے۔۔وہ سر ہلا دیتی۔مگر ابھی چھٹی کا ٹاٸم نہی ہوا۔۔
وہ اسکو گھر کے سامنے اتارتا ہے۔تو مشال بھی دروازہ کھول رہی ہوتی ہے۔۔وہ جلدی سے آگے بڑھتی۔۔منو کیا ہوا۔وہ گھبرا کر پوچھتی ہے۔۔
سنی آگے بڑھ کر دروازہ کھولتا ہے۔۔تو مشال منال کو صحن میں بچھے تخت پر بٹھاتی ہے۔اور سنی سب کچھ بتاتا ہے۔۔منو یہ کیا ہے۔زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔اور ہر مریض کو دل پہ لو گی تو کیا ہوگا۔۔۔۔وہ ڈانٹتے ہوۓ کہتی ہے۔
چلو اٹھ کر منہ ہاتھ دھو پری آنے والی ہو گی وہ پریشان ہو جاۓ گی۔۔۔اور سنی آپ کیا کھاٶ پیو گے۔۔
مشال منال کو منہ ہاتھ دھونے کا کہہ کر سنی سے پوچھتی ہے۔۔نہی کچھ نہی بھابھی۔میں چلتا ہوں۔
مشال اسکو دروازے تک چھوڑنے آتی ہے۔۔تو بی بی جی کا پوچھتی ہے۔۔
بہت روتی آپ کو یاد کر کے۔۔۔۔وہ بتاتا ہے۔۔۔
اگر یاد کرتے ہوتے تو ملنے آتے۔دبٸ نہ چلے جاتے۔۔
وہ شکوہ کرتی ہے۔۔بھابھی ہم آنا چاہتے تھے۔مگر بھاٸی نے ھمیں دھمکی دی تھی۔وہ اپنی جان دے دیں گے۔۔۔سنی کہتا ہے۔۔تمہارا بھاٸی بہت خودغرض ہے۔۔۔وہ سر جھکا کر باہر نکل جاتا ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
اذان شاہ گھر آتا ہے وہ سیڑھیاں پھلانگتا ہے ہوا اوپرروم میں جاتا ہے۔زمین پر بیٹھ کر رو پڑتا ہے۔روتے روتے اسکے ذہن میں بیرے کی باتیں گھومتی ہے۔اسکا دماغ کھول اٹھتا ہے۔۔میں نہی چھوڑو گا اسے وہ میری مشال پر گندی نظر رکھتا ہے۔۔۔
میرا کوٸی بچہ ہے شاید وہ تڑپ کر اٹھ کر بھاگتا نیچے۔۔۔بی بی جی اٹھے ابھی مجھے مشال کیطرف جانا ہے۔وہ بی بی جی کے پاس جا کر بولتا ہے۔۔
کیا اب کیوں جانا چاہتا ہے۔۔بی بی جی حیرت سے پوچھتی ہے۔۔آپکو اپنے پوتے یا پوتی سے نہی ملنا کیا۔وہ بی بی جی سے کہتا ہے۔۔کیا کہہ رہے ہو بھاٸی۔میں ابھی آیا ہوں بھابھی سے ملکر۔کوٸی بچہ نہی انکار۔منال کی بیٹی ہے۔۔سنی جلدی سے کہتا ہے۔۔
نہی میری بیٹی ہو گی۔وہ جلدی سے کہتا ہے۔۔۔
اوووہ ۔۔یہ میں نے کیوں نہی سوچا۔۔۔سنی کہتا ہے۔۔
میں پری کے سکول کے بارے میں جانتا ہوں۔۔سنی بتاتا ہے اذان کو۔۔۔
چلو۔۔ابھی چلو مجھے لیکر۔اذان بےقراری سے کہتا ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اذان شاہ گاڑی کے رکتے ہی جلدی سے اندر داخل ہوتا۔۔اندر پرنسپل اسکو دیکھ کر کہتا ارےےے یار تو۔۔اوہ۔سرمد تم یہاں کے پرنسپل ہو۔۔وہ جلدی سےپوچھتا۔پری نام ہے۔۔۔
پریشے نام کی ایک بچی تو ہے میں بلواتا ہوں۔۔ایک بچی کی فنگر پکڑ کر ٹیچر اندر داخل ہوتی۔یہی ہے بچی سنی جلدی سے کہتا ہے۔۔۔وہ جلدی سے اٹھ کر اسکی طرف بڑھتا ہے اونچے بیٹھ کر اسکے ہاتھ تھام لیتا ہے۔۔اور اسکے ھاتھوں کو چوم لیتا ہے۔۔
آپ تون ہو۔۔پری حیرانگی سے پوچھتی ہے۔۔
میں آپکا بابا ہوں۔۔اذان کہتا ہے۔۔۔
سچ میں۔۔اور ماسی اور ماما بولتے تھے آپ میرے لٸے بڑا سا ڈول ھاٶس اور ڈول لاٶ گے۔۔وہ کدھر ہے۔وہ چمکتی آنکھوں سے پوچھتی ہے۔
ابھی بابا دلواۓ گے۔وہ اسکو گود میں اٹھا لیتا ہے۔۔
سرمد میں لیکر جا رہا ہوں اسے۔۔اذان شاہ کہتا ہے۔
لیکن یار اسکی ماما کو بتاۓ بغیر کیسے۔۔سرمد پریشان ہو کر کہتا ہے۔۔یار اسکی ماں کے ساتھ کچھ ایشو چل رہے۔مگر میں چھٹی سے پہلے چھوڑ دوں گا۔۔وہ کہہ کر اسکو لیکر چلا جاتا۔۔
ٹواٸز شاپ پر جا کر وہ پاگل ہو جاتے۔جس جس چیز پر انگلی رکھتی۔لیکر دیتا ہے۔۔
پھر اسکو لیکر بی بی جی سے ملوانٕے لاتا ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
کدھر ہے میری بیٹی۔مشال چلا کر بول رہی ہوتی ہے ۔۔دیکھٸے مس پلیز بیٹھ جاٸیں۔۔پری کے فادر اذان شاہ لیکر گے ہے۔۔واااہ قربان جاٶں۔۔
کوٸی بھی آکر میری بیٹی کا باپ بن کر اسکو لیکر جانا چاہے گا آپ بھیج دو گے۔۔میں کیس کروں گی آپ کے سکول پر۔۔۔۔۔وہ کہہ کر باہر نکل آتی ہے۔۔
اور ٹیکسی والے کو شاہ ولا کیطرف جانے کو کہتی ہے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
شاہ ولا کے سامنے ٹیکسی رکتی۔وہ گارڈ کو دھکا دیکر اندر بھاگتی چلی جاتی۔لاٶنج میں اذان شاہ سنی اور بی بی جی کے ساتھ پری کو کھیلتے دیکھ کر وہ سیدھی پری کیطرف بڑھتی۔۔۔اور اسکو گلے لگا کر رو پڑتی ہے۔۔۔
پھر وہ ایک اذان شاہ کے پاس آ کر ایک زوردار تھپڑ رسید کرتی ہے۔اور نفرت بھرے انداز میں بولتی ہے۔
تم انتہاٸی گھٹیا انسان ہو۔ہمت کیسے ہوٸی میرے بیٹی کو لیکر آنے کی۔۔۔میری بھی بیٹی ہے وہ چلا کر بولتا ہے۔یہ صرف میری بیٹی ہے۔۔۔وہ کہہ کر مڑتی ہے پری کا بیگ اور اسکا ہاتھ تھامتی ہے۔وہ ہاتھ چھڑوا کر اذان شاہ کی ٹانگوں کو چمٹ جاتی ہے۔۔
مشال اسکو زور سے کھینچ کر الگ کر کے لیکر جانے لگتی۔۔۔میں نہی جاٶں گی وہ ضدی انداز میں کہتی ہے۔مشال اسکے بھی ایک تھپڑ لگاتی۔اذان شاہ تڑپ کر آگے بڑھتا ہے۔۔اور غصے میں چلاتا ہے۔۔۔تم نے میری بیٹی کو چھپا کر رکھا۔اور اب مجھ سے الگ نہی کر سکتی سمجھی تم۔۔چھپے تم تھے بلکہ بھاگ گے تھے دبٸ۔میں بتانے آٸی تھی۔وہ تلخ انداز میں بولتی ہے۔۔اور کیا کیا بیتا مجھ پر۔ہر آدمی میرے جسم کا پیاسا تھا۔۔ایک کو مجھ پر اگر رحم آف گیا تھا۔تو تم آف گٸے میری جسم فروشی کرنے وہ غصے سے بولتی۔۔۔بکواس بند کرو اپنی۔۔وہ چلا کر بولتا ہے۔۔اور اسکی طرف بڑھتا ہے اسکو بازو سے کھینچتا ہوا باہر لیکر جا کر کھڑا کر دیتا ہے۔۔۔
اور گارڈ سے کہتا یہ اندر داخل نہ ہو وہ روتے ہوۓ سڑک پر بیٹھ جاتی۔اور آسمان بھی برس پڑتا یوں لگتا جیسے اسکے غم میں رو رہا ہو۔۔۔۔
۔۔۔وہ بارش میں سڑک پر بیٹھی زاروقطار رو رہی تھی۔۔
اذان شاہ اندرداخل ہوتا۔تو سنی ناگواری سے دیکھ رہاہوتا اسے۔یہ آپ نے ٹھیک نہی کیا۔سنی لب بھینچ کر بولتا ہے۔۔یہ مجھے مت بتاٶ مجھے کیا کرنا کیا نہی۔۔۔وہ غصے سے سنی پر چلاتا ہے۔۔۔
ایسا کر بچے اسکو مار ہی ڈال ہر بار پل پل مارتا ہے اسے ایک بار مار دے گا اسکے سارے غم ختم ہو جاٸیں گے۔بی بی جی تلخ لہجے میں کہتی ہے۔۔
وہ لب بھینچ کر رہ جاتا ہے۔
جا سنی اپنے روم میں آرام کر اور میں بھی جا کر آرام کرتی ہوں۔بی بی جی اٹھتے ہوۓ کہتی۔۔
مگر وہ باہر بھابھی۔۔۔سنی پریشان کن لہجے میں کہتا ہے۔۔نہ اسکو اندر مت لانا اس جنوری کی بارش میں وہ بھیگ رہی جلدی مر جاۓ گی اسکا کام تمام ہو گا یہ سیاپاختم ہوگا۔اسکو پتا چلنا چاہٸے اذان شاہ سے پنگا موت ہے۔۔مرنے دو۔۔بی بی جی کہتی ہوٸی وہاں سے چلی جاتی ہے۔۔۔اذان شاہ لب بھینچ کر اوپرروم میں چلا جاتا۔۔۔اورتھوڑی دیر بعد وہ ٹیرس سے باہر جھانکتا ہے۔تو وہ وہی پر دہری ہوٸی ہوتی ہے۔وہ تیزی سے نیچے بھاگتا ہے۔اور باھر آکر وہ اسکے بےجان ہوتے وجود کو اپنی بانہوں میں بڑھ کر
اندر کی طرف بڑھتا ہے۔۔۔اور اسکو بی بی جی کے کمرے لٹا دیتا ہے۔اسکے کپڑے چینج کروادیں۔۔اور ہیٹرآن کر دیتا ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنی منال کو لیکر آتاہے۔پری اسکی گود میں چڑھ کر بیٹھ جاتی ہے۔۔منال سنی سے پوچھتی ہے کیا ھوا تھا۔سنی اسکو بتاتا ہے وہ غصے سے باہر نکل جاتی ہے اور اذان شاہ فون سن رہا ھوتا ہے۔وہ اس سے فون کھینچ کر بولتی ہے۔کیوں آۓ آپ ھماری زندگی کو اجیرن بنانے۔۔۔خود تو انکو چھوڑ کر بھاگ گے تھے اور آج بیٹی کا معلوم ہواتو آگٸے ھماراسکون تباہ کرنے۔ھمارے پاس آگے ہے ہی کیا جو ہم سے ھماری واحد خوشی بھی چھننے آ گے ہیے آپ۔۔۔
شرم تو آپ کو آتی نہی۔۔وہ بولتے ہوۓ اسکے سامنے آکر اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتی ہے۔۔۔
میں آپ پر کیس کردوں گی آٸندہ پری کو دیکھنا بھی مت۔وہ وارن کرتی ہوٸی وہاں سے کمرے میں جاتی ہے۔۔۔۔
مسٹر سنی آپ نے ہی یہ سب کیا نہ انکوسکول کا بتایا۔وہ تلخ لہجے میں کہتی ہے۔۔یار میں تو بس یہ چاہتا تھا بھاٸی پری سے ملے اور بھابھی اور وہ شاید پھر سے ایک ہو جاٸیں۔۔وہ بےبسی سے کہتا تھا۔۔لیکن ایک بات بتاٶ۔۔جھوٹ کیوں بولا۔پری آپکی بیٹی ہے۔۔وہ اچانک بات بدل کے کہتا۔۔میں نے کب کہا۔آپ نے اندازہ لگایا میں نے بسس ہاں بولی۔۔۔
شادی کیوں نہی کی وہ مسکرا کر پوچھتا ہے۔۔۔
شادی نہ کرنے کی وجہ آپ تو نہی فی الحال وہ چڑ کر بولتی ہے۔۔۔۔مگر میری شادی نہ کرنے کی وجہ تو تم ہو۔بہت پیار کرتا ہوں آپ سے۔۔۔سنی کہتا ہے۔۔
منال حیرت سے دیکھتی ہے۔۔یار ایسے مت دیکھو۔
بس ھم مردوں کو جب پاس ہو اس چیز کی قدر نہی ہوتی ہے۔۔۔مگر اب تمہیں کھونا نہی چاہتا پلیز۔۔
وہ اسکا ہاتھ تھام کر کہتا ہے۔۔۔ایسا نہی ہو سکتا سنی جی۔۔میری آپی مان جاٸیں گی آپکے بھاٸی نہی مانے گے۔۔سنی لب کاٹتے ہوۓ سر جھکا لیتا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
مشال ۔۔سنی اور منال کی گفتگو سن چکی تھی۔منال کے اداس لہجے اسکے پیار کو ظاہر کر دیا تھا۔۔
اب اسکو کچھ کرنا تھا۔اور کیا کرنا تھا وہ جانتی ہے۔۔۔۔۔۔وہ منال کو آواز دیکر کہتی ہے کہ گھر چلیں۔۔
سنی انکو چھوڑنے آتا ہے۔۔۔وہ گاہے بگاہے مرر سے منال پر نظر ڈال رہا تھا۔مشال کا دل کر رہا تھا جلدی وہ ان دونوں کو ایک کر دیں۔۔۔
۔۔۔۔۔
اگلے دن مشال اذان شاہ کے آفس پہنچتی ہے۔۔۔
اور اذان شاہ اسکو دیکھ کے کہتا کیوں آٸی ہو۔۔
اور فکر مت کرو پری سے دوبارہ نہی ملوں گا۔۔
نہی آپ چاہے پری کو اپنے ساتھ لے جاٸیں۔۔
واٹ۔۔کل تک تم میرے پاس بھی برداشت نہی کر سکتی تھی اور آج مجھے لے جانے کو کہہ رہی ہو۔۔
ہاں۔۔کہہ رہی ہوں۔۔۔کیونکہ جو میری شرط ہے وہ ایسی ہے کہ مجھے اپنی بیٹی کی فکر نہی ہو گی۔۔
وہ انگلیاں چٹخاتے ہوۓ کہتی ہے۔کیا شرط ہے تمھاری۔۔وہ بےقرارٕی سے پوچھتا ہے۔۔
منال اور سنی کی شادی کروادیں۔۔مشال جلدی سے کہتی ہے۔۔۔۔
ہاہاہاہاہاہاہا۔تو تم مجھ تک پہنچنے کا راستہ اپنی بہن کے ذریعے بنانا چاہتی ہو۔وہ طنزیہ اندازمیں کہتا ہے۔۔۔
میں نے تو یہ نہی کہا۔اور اگر میں آپ کے ساتھ رہنا چاہوں تو میں اپنی بیٹی کو ذریعہ بنا سکتی ہوں۔۔
مگر میں سنی اور منال کو ایک کرنا چاہتی۔ھمارے اختلافات کیوجہ سے وہ دونوں پانچ سال سے سفر کر رہے ہیں۔۔۔وہ اسکی بات سن کر چونک جاتا ہے۔۔
مگر میں حمیر کی سسٹر ان لاءٕ سے رشتہ طے کرنے کا ارادہ کر چکا ہوں۔اسکو کیسے انکار کروں۔وہ تپ کر بولتا ہے۔۔پلیز ایک بار اور سوچ لیں۔انکی آنکھوں کی جوت کو بجھنے مت دیں۔۔اور پری بھی منال کے ساتھ بہت اٹیچ ہے وہ بھی آپ کو مل جاۓ گی۔۔وہ التجاٸیہ انداز میں کہتی ہے۔۔۔
ہووووووں ۔۔۔ٹھیک ہے وہ پرسوچ انداز میں کہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیار ہو جاٸیں۔ھم سنی کا رشتہ طے کرنے جا رہے ہیں۔۔اذان شاہ۔سنی اور بی بی جی کے سر پر بم پھوڑتا ہے۔۔میں شادی نہی کروں گا۔۔سنی تلملا کر کہتا ہے۔۔۔میں زبان دے چکا ہوں۔۔اذان شاہ مطمٸن انداز میں کہتا ہے۔۔اور تیار ہونے کا کہہ کر خود بھی تیار ہونے چلے جاتا ہے۔۔
۔۔۔۔
گاڑی جب منال کے گھر رکتی ہے۔۔وہ حیرت سے اذان شاہ کو دیکھتا۔۔اور اذان شاہ اسکی حالت دیکھ کر مسکرا دیتا ہے۔۔اب یہی رہنا کیا اندر نہی چلنا۔۔اذان شاہ کے کہنے کی دیر تھی سنی جلدی سے اتر کر بال وغیرہ ٹھیک کرتے ہوۓ دروازہ کھٹکھثاتا ہے۔
مشال دروازہ کھولتی ہے۔اور مسکرا کر انکا استقبال کرتی ہے۔۔اور اندر بیٹھک میں بیٹھا کر منال کو بلانے چلی جاتی ہے۔۔منال رف سے حلیے میں ٹرے پکڑ کر اندر آتی تو ان سب کو بیٹھے دیکھ کر اسکی آنکھیں حیرت سے پھٹ جاتی ہے۔۔۔اور جب ان کے آنے کا مدعا سنتی تو بےیقینی سے دیکھتی ہے۔۔
آپ کے بھاٸی کیسے مانے۔۔وہ حیرت سے پوچھتی ہے۔یہ تو مجھے بھی نہی پتا۔۔وہ حیرانگی سے پری کے ساتھ کھیلتے اذان شاہ کو دیکھ رہی ہوتی ہے۔۔
ویسے تم بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔سنی اسکے کان میں بولتا ہے۔۔میرا مزاق اڑا رہے ہو۔وہ تلملا کر کہتی ہے۔ارےےے توبہ توبہ ۔۔میں سچ بول رہا ہوں۔۔وہ گھبرا کر کہتا ہے۔وہ اسکو گھور کر رہ جاتی ہے۔
وہ مسکرا کر اسکو دیکھ رہا ہوتا ہے۔۔اور بی بی جی تو خوشی سے پھولے نہ سما رہی تھی۔۔۔
اور وہی بیٹھے بیٹھے اگلے ہفتے کو نکاح کا علان کرتا اذان شاہ۔تو سنی خوشی سے پاگل ہو جاتا ہے۔۔
۔۔۔۔اذان شاہ اٹھ کر کچن میں آتا ہے مشال کے پیچھے
۔۔تم پری کے ساتھ اچھے سے سات دن نکال لو۔۔پھر شاید ویڈیو کال پہ ہی بات ہوا کرے۔وہ آ کر کہتا ہے۔۔نہی اسکو اپنی عادت ڈال لیں۔تا کہ میں اسکو یاد نہ آٶں۔وہ آنکھوں میں نمی لٸے ٹوٹے ہوۓ لہجے میں کہتی ہے۔اذان شاہ کو اسکا ٹوٹا لہجہ تڑپا دیتا ہے۔وہ لب بھینچ کر پیچھے مڑ جاتا ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
منال کا رو رو کر بورا حال تھا مہندی کے جوڑے میں
وہ سوگوار حسن کے ساتھ اور بھی حسین لگ رہی تھی۔۔بس کر دو۔منو۔۔۔اور کتنا رونا تجھے۔مشال تپ کر کہتی ہے۔۔میں آپکے اور پری کے بغیر کیسے رہوں گی۔ویسے یہ پری کدھر ہے۔وہ جلدی سے ادھر ادھر دیکھ کر پوچھتی ہے۔۔وہ اپنےٕ بابا کے ساتھ گٸ ہے۔۔
کاش آپو آپ کے اور اذان بھاٸی کے درمیان سب ٹھیک ہو جاتا۔۔وہ اداسی سے کہتی ہے۔۔
یار کل ہی رخصتی کروا کر دبٸ۔یہ بالکل ٹھیک نہی ہے۔منال کو ایک اور رونا یاد آجاتا ہے۔۔۔
مشال سر پکڑ کر بیٹھ جاتی ہے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
نکاح کے بعد منال اور مشال گلے لگ کر اتنا روتی ہیں۔پھر مشال اسکا بیگ لینے چلی جاتی ہے۔۔اور پری کا ہاتھ پکڑ کر اسکو ساتھ لے جاتی۔۔اذان شاہ انکے پیچھے چلاآتا ہے۔۔ماما آپ نہی جاٶ گی۔۔پری اس سے پوچھتی ہے۔نہی میں بعد میں آٶں گی۔وہ مسکرا کر کہتی ہے۔۔اور پھر سب ساتھ رہے گے اور تب تک آپ کسی کو تنگ نہی کروگی۔اذان شاہ کو اپنے سینے میں ٹیسیں اٹھتی محسوس ہوتی ہے۔
وہ جلدی سے اندر داخل ہوتا ہے۔مشال پری کا ہاتھ اسکے ہاتھ میں دے دیتی ہے۔آپ ماسی پاس جاٶ میں آتا ہوں وہ پری کو کہتا ہے۔۔اور مشال کے پاس آ کر ایک بلینک چیک اسکو دیتے ہوۓ کہتا۔جتنی چاہو رقم بھر لو اور تمہاری زندگی آسانی سے گزر جاۓ گی۔۔وہ مسکرا کر کہتی ہے اپنی بیٹی کی قیمت دے رہے ہو کیا۔۔اذان شاہ میں شہرین نہی ہوں
میں محبت میں بک جاتی ہوں۔۔اور یہ چیک کا میں کیا کروں گی۔زندہ رہوں گی تو عیش سے جیٸوں گی۔۔وہ زخمی مسکراہٹ سے کہتی ہے۔۔اذان شاہ ایک جھٹکے سے مڑ جاتا ہے۔۔مشال بالکل چپ چاپ منال کے ساتھ آ کر بیٹھ جاتی ہے۔۔اٸیرپورٹ پہنچ کر وہ پری کا ہاتھ منال کے ہاتھ میں دیکر کہتی ہے۔مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہی کہ تم اسکا بہت خیال رکھنا اور پلیز آج مجھ سے کچھ مت پوچھنا ۔۔
میں بہت تھک گٸ۔برسوں سے سفر کر رہی ہوں۔آج میری ذمہ داریاں پوری ہوٸی اب میں آرام کرنا چاہتی ہوں۔۔اتنا کہہ کر وہ تیز تیز قدموں سے باہر نکل جاتی ہے۔منال ساکت ادھر بیٹھ جاتی ہے۔
فلاٸٹ ایک گھنٹہ لیٹ تھی۔اذان شاہ کے دل کو گھبراہٹ ہو رہی تھی۔۔وہ اتنے سرد موسم میں بھی پسینے سے شرابور تھا۔اچانک وہ باہر کو بھاگتا ہے۔سب پریشان ہو کر اسکے پیچھے بھاگتے ہے۔۔۔
بھاٸی کیا ہوا ہے۔سنی پاس آکر پوچھتا۔۔میرا دل بےچین ہو رہا مجھے مشال کو ابھی دیکھنا ہے۔۔
وہ سب حیرانگی سے دیکھتے اسے۔سب گاڑی میں بیٹھ کر اسکے ساتھ چل پڑتے۔۔وہ گاڑی روک کر بھاگتا ہوا دروازے کے پاس پہنچ کر زور زور سے دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔ساتھ والا ہمسایہ باہر نکلتا وہ جلدی سے پوچھتا۔مشال کیا آٸی تھی۔۔ارے ہاں ابھی آٸی تھی اندر گٸ ہے۔وہ پھر دروازہ کیوں نہی کھول رہی۔وہ چلا کر بولتا ہے۔پھر وہ پاگلوں کی طرح کندھوں کے ساتھ دروازے کو مارتا ہے۔۔۔۔
بھاٸی مشال آپو ساتھ والوں کے ہاں ایک چابی رکھواتی تھی ہمیشہ۔۔۔وہ ہمسایہ یہ سن کر جلدی سےاندر جاتا اور چابی لیکر باہر آتا ہے۔وہ جلدی سے دروازہ کھول کر اندر بھاگتا ہوا پہنچتا ہے۔وہ پورے گھر میں آوازیں دیتا ہے۔اور منال کی کچن سے چیخ کی آواز سن کر سب بھاگتے ہیں۔اذان شاہ دیکھتا اسکو اسکے ناک سے خون نکل رہا ہوتا ہے۔۔
اذان شاہ کو اپنی جان نکلتی محسوس ھوتی ہے۔۔وہ
لپک کر اسکو اٹھا کر باہر بھاگتا۔اور گاڑی دوڑاتا ہاسپیٹل کیطرف روانہ ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاسپیٹل کے کوریڈوڑ میں وہ ساکت فرش پر بیٹھا ہوتا ہے۔سنی پاس جاتا ہے۔تو اذان شاہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑتا ہے۔ہاسپیٹل کا عملہ حیران پریشان اس اونچے لمبے مرد کو یوں بچوں کی طرح روتے دیکھ رہا تھا اور اس لڑکی پر رشک کر ہے تھے۔۔
سنی یہ کہہ رہے ہیں ہم اسکو مشکل ہے بچا پاۓ گے۔۔پلیز میری مشال کو بچا لو تم۔۔ورنہ میں مر جاٶں گا وہ روتے ہوۓ کہتا ہے۔۔بہت برا ہوں منال میں اسکو درد کے علاوہ کچھ نہی دے پایا۔مگر ایک بار وہ ٹھیک ہو جاۓ۔میں کبھی اسکودرد نہی دوں گا بس لاسٹ چانس دے دیں۔۔۔وہ منال کے آگے ہاتھ جوڑتے ہو ۓ کہتا۔مجھ سے معافی مت مانگیں۔اللہ سے مانگیں ۔نیک بیوی اللہ کی نعمت ہوتی ہے آپ نے اللہ کی نعمت ناشکری کی ہے اور ناشکری کرنے والے اپنی نعمتیں کھو دیتے ہیں۔وہ تلخ انداز میں کہتی ہے۔نہی اللہ نہ کریں وہ تڑپ کر رہ جاتا ہے۔وہ جلدی سے ھاسپیٹل کے ساتھ بنی مسجد میں جاتا ہے۔پوری رات اسکو نوافل پڑھتے دیکھ کر مسجد کے امام اسکے پاس آکر بیٹھ جاتے۔۔۔کیا کھو گیا ہے تمہارا بیٹا۔۔امام صاحب پوچھتے ہیں۔۔میں بہت ناشکرا ہوں میرا اللہ بہت ناراض مجھ سے مولوی صاحب۔وہ مجھے کبھی معاف نہی کرے گا ۔۔نہی بیٹا اللہ ستر ماٶں سے زیادہ پیار کرتا ہے۔ندامت کا ایک آنسو گرتا نہی وہ معاف کر دیتا ہے۔۔مگر مولوی صاحب میری ماں جیسی محبت تو نہی اللہ کی تو مجھے بہت ڈر ہے۔میری مشال کی ماں جیسی محبت ہوگی نہ اللہ کی۔۔تو وہ مجھے معاف کر دے گا۔۔ان شإاللہ۔مولوی صاحب کہہ کر اٹھ جاتے۔تھوڑی دیر بعد سنی بھاگتا ہوا آتا۔بھاٸی بھابھی خطرے سے باہر ہے۔وہ سجدے میں گر کر رو پڑتا ہے۔۔اور سنی کو کہتا تم جاٶ اور میں شکرانے کے نوافل پڑھ کر آتا ہوں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشال ہولے سے اپنی آنکھیں کھولتٕی ہے تو سب کودیکھ کر وہ اٹھنے کی کوشش کرتی ہے۔
آپو لیٹے رہو۔۔۔منال بولتی ہے۔۔۔منو تمھاری فلاٸٹ تھی۔۔وہ پریشان ہو کر بولتی ہے۔۔
منو۔۔تمھاری فلاٸٹ تھی۔۔مشال پریشان کن لہجے میں بولتی ہے۔۔منال اسکو سب بتاتی جو اذان شاہ نے کیا۔۔پتا ہے آپو کل سے وہ مسجد میں بیٹھے آپ کے لٸے رو رہے۔۔منال اسکو مزید بتاتی ہے۔۔۔
مشال سپاٹ چہرے کے ساتھ بیٹھی رہتی ہے۔۔۔
کچھ کہو گی نہی۔منال اس سے استفسار کرتی ہے۔
منو۔۔۔وہ میرے لٸے نہی رو رہے۔ان کے اندر کاگلٹ ہے اور کچھ نہی۔مشال تلخ لہجے میں کہتی ہے۔۔
آپو گلٹ بھی ہے تو بھی یہ کم بات تو نہی۔اگر وہ آپ سے معافی مانگے گے تو کیا کریں گی آپ ۔۔منال اس سے پوچھتی ہے۔۔میں اسکو معاف نہی کر سکتی کیونکہ میں کچھ نہی بھول سکتی۔وہ کرب سے آنکھیں بند کر لیتی ہے۔۔منال بوجھل دل سے اٹھ جاتی ہے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اذان شاہ اندر داخل ہوتا ہے۔مشال اسکو سپاٹ چہرے سے دیکھ کر میگزین پر نظریں گاڑ دیتی ہے۔
وہ پاس آ کر بیٹھ جاتا ہے۔۔کیسی ہو۔۔۔وہ ہولے سے پوچھتا ہے۔۔آپ کو میری طبیعت سے کیا لینا دینا۔۔اور بہت شکریہ آپ نے بچا لیا۔ورنہ شاید میں وہاں مر جاتی اور لوگوں کو پتا بھی نہ چلتا۔۔اذان شاہ تڑپ کر رہ جاتا ہے۔۔۔پلیز ایسے مت کہو وہ کرب سے کہتا ہے۔۔وہ ناگواری سے اسکو دیکھتی ہے۔۔وہ آگے ہو کر اسکا ہاتھ تھام لیتا ہے۔پلیز ایم سوری۔وہ شرمندگی بھرے لہجے میں کہتا ہے۔۔۔۔
ایم سوری بولنے سے مجھے دٸیے گے درد خوشیوں میں بدل جاٸیں گے۔۔۔وہ تلخ لہجے میں کہتی ہے۔۔
وہ شرمندگی سے سر جھکا لیتا ہے۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشال کو ڈسچارج کروا کر شاہ ولا لیکر آتے ہیں۔۔
وہ گاڑی میں ہی ضد لگا کر بیٹھ جاتی ہے۔۔بس اسکواپنے گھر جانا ہے۔۔اچھا پلیز۔۔اندر چلیں بی بی جی سے مل کر پھر چلے جانا منال اسکو کہتی ہے۔
وہ اندر لاٶنج میں داخل ہوتے ہیں بی بی جی صدقہ اتارتی ہے۔۔وہ تھوڑی دیر بیٹھتی ہے۔۔پھر جانے کی ضد کرتی ہے۔تو منال اور سنی اسکو چھوڑنے جاتے ہیں تو اذان شاہ دروازہ کھولتا ہے۔۔وہ تینوں حیران رہ جاتے۔۔پورے صحن میں پھول بچھے تھے۔
وہ منال کا سہارا لٸے اندر آتی تو اندر ٹیبل پر کیک پڑا ہوتا ہے ۔۔وہ صوفے پہ بیٹھ جاتی ہے۔۔تو اذان شاہ کیک لیکر اسکے سامنے بیٹھ جاتا ہے۔وہ کیک اٹھا کر دور پھینکتی ہے۔وہ غصے سے اسکو گھورتی ہے۔اور پھر خود ہی ہولے سے چلتے ہوۓ کمرے میں چلی جاتی ہے۔۔۔۔۔ارےےے بھاٸی آپ ھس رہے ہو یار۔
سنی اسکو ہستا دیکھ کر پوچھتا ہے۔۔۔بات ھسسی والی ہے تو سنے گا ہسسی نہی روک پاۓ گا۔۔
ایسی کیا بات ہے ذرا ہمیں بھی بتاٸیں۔۔۔
یار میں سوچ رہا شکر ہے اس نے کیک زمین پر مارا اگر منہ پر مار دیتی تو پہلی بار اذان شاہ کا تھوبرا کیک میں لت پت کیسا لگتا۔وہ اسکے کندھے پر ھاتھ رکھ کر کہتا ہے۔سنی پہلے اسکے چہرے کو دیکھتا ہے۔پھر منال کی طرف دیکھتا ہے۔۔پھر اگلے پل سنی اور منال کھلکھلا کر ہسس پڑتے ہیں۔۔
پھر اذان شاہ انکو کہتا تم لوگ جاٶ اپنا ہنی مون مناٶ۔۔میں نے حمیر کو کہہ تم دونوں کے لٸے کمرا بک
کروا دیا ہے۔۔جاٶ بھاگو۔مجھے میری بیوی کو منانے کا کام شروع کرنا ہے۔۔اوکے بھاٸی آل دا بیسٹ۔۔سنی
اسکو کہتا ہے۔اور پھر دعاٸیہ انداز میں ہاتھ اٹھا کر کہتا ہے یااللہ میرے بھاٸی کی حفاظت کرنا۔اذان شاہ اسکو مکادیکھاتا ہے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اذان شاہ کھانا لیکر اندر داخل ہوتا تو منال رو رہی ہوتی ہے۔۔وہ جلدی سے کھانا میز پر رکھ کر اسکے پاس آتا ہے۔۔مشال کیا ہوا ہے۔کہی درد ہے کیا۔۔وہ بےقراری سے پوچھتاہے۔۔۔پلیز دفع ہو جاٶ یہاں سے درد یاد آتے مجھے اپنے۔آپ کو دیکھ کر۔۔وہ چلا کر بولتی ہے۔۔ایسے مت کہو یار میں اکیلا نہی چھوڑ سکتا تمہیں۔۔وہ بےبسی سے کہتا ہے۔۔۔
مجھے نہی ضرورت آپکی۔وہ تڑخ کر بولتی ہے۔۔
تم جو کہو گی کروں گا وہی کروں گا۔بس خود سے دور جانے کو مت کہو۔وہ التجاٸیہ انداز میں کہتا ہے۔۔
اچھا تو کل سے آپ کے امتحان شروع ھوں گے۔۔۔
دیکھنا چاہتی میں کیا کر سکتے ہیں۔۔۔وہ آنسو صاف کرتے ہوۓ بولتی ہے۔۔ہاں تم جو چاہو گی اذان شاہ خوش ہو کر کہتی ہے۔۔
صبح سے گھر کا سارا کام کرنا ہو گا آپ نے۔۔۔۔
ہاں بالکل۔۔میں نازو کو اپنی ہیلپ کے لٸے بھی بلوا لوں گا۔۔وہ ناگواری سے دیکھتی ہے۔میں اپنے گھر میں نوکر نہی رکھتی وہ تنک کر بولتی ہے۔۔
یہ کیا بات ہوٸی۔میں یہ کام نہی کر سکتا تمہیں پتا ہی ہے میں کس طرح کے ماحول میں رہتا ہوں۔میں تھکاوٹ سے بیمار ہو جاتا ہوں۔۔وہ اسکو کہتا ہے۔۔
تو پھر ٹھیک ہے یہاں سے دفع ہو جاٸیں ۔۔۔وہ تپ کر بولتی ہے۔۔۔ٹھیک ہے میں کروں گا کوٸی پرابلم نہی۔
چلیں کھانا کھاٸیں کچن سمیٹیں اور پھر جہاں مرضی سو جاٸیں۔۔صبح جلدی اٹھنا صفاٸی کرنا اور پھر اپنے کام پر جانا۔وہ اطمینان بھرے انداز میں کہتا ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اذان شاہ صبح اٹھ کر ناشتہ بناتا ہے۔۔اور مشال ٹرے میں دیکھتی ہے۔۔یہ کیا ہے وہ ناگواری سے کہتی ہے۔
یار مجھے ایسا ہی کھانا بنانا آتا ہے۔۔۔وہ کہتا ہے۔
مطلب مجھے ایسا ہی کھانا پڑے گا وہ تپ کر بولتی ہے۔۔مجبوری ہے وہ سر پر ہاتھ پھیر کر کہتا ہے۔۔
وہ منہ بنا بنا کر کھا رہی ہوتی ہے۔۔۔میں نے سارا کام کر دیا ہے۔۔اور دوپہر کو کیا کھاٶ گی۔۔وہ اس سے پوچھتا ہے۔۔میں خود ہی کھا لوں گی وہ جان چھڑواتے ہوۓ بولتی۔۔۔وہ آفس جا کر بھی بار بار فون کرتا ہے۔۔ہر بار فون پر بےعزتی کروا کر پھر وہی حرکت کرتا ہے۔۔شام کو جلدی آ کر وہ کھانا بنانے لگ جاتا ہے۔کھانا کھا کر وہ کافی کے مگ لیکر ایک مشال کیطرف بڑھا دیتا دوسرا خود لیکر ٹی وی چلا کر بیٹھ جاتا ہے مشال کوٸی بک پڑھ رہی ھوتی ہے اوروہی پڑھتے پڑھتےسو جاتی ہے۔۔اذان شاہ اسکے پاس آتا اسکو گود میں اٹھا کر اندر کمرے میں لیکر جانے لگتا۔مشال کی آنکھ کھل جاتی۔چھوڑے مجھے وہ تپ کر کہتی ہے۔۔مگر وہ اسکو بیڈ پر جا کر لٹا دیتا ہے۔۔وہ تلملا کر رہ جاتی ہے۔۔
پچھلے ایک مہینے سے یہی روٹین تھی ان دونوں کی
اذان شاہ تھک کر جلدی سو جاتا ہے اس دن۔۔وہ اس کے پاس آتی ہے کھانا نہی کھانا کیا۔۔بنا کر سو گے ہو۔۔وہ جھنجھلا کر بولتی ہے۔میرا دل نہی کر رہا وہ غنودگی میں کہتا ہے۔۔وہ جانے لگتی تو اسکو آواز دیکر کہتا پلیز میرا سر بہت دکھ رہا ہے تھوڑا سا دبادو۔۔میں نوکر نہی ہوں آپکی۔وہ تڑخ کر بول کر وہاں سے چلی ھے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
رات کو مشال کی آنکھ کھلتی وہ پانی لینے کچن میں جاتی ہے۔تو دیکھتی اذان شاہ کے حصے کا کھانا ویسے ہی پڑا ہوتا ہے۔۔وہ تشویش میں پڑ جاتی ہے۔۔
وہ کمرے میں جاتی تو دیکھتی وہ ویسے ہی لیٹا ہوتا ہے۔۔وہ جا کر اسکے ماتھے پر ہاتھ رکھتی۔وہ بخار سے تپ رہا تھا۔۔وہ پریشان ہو کر جلدی سے سنی کو فون کرتی ہے۔سنی آدھے گھنٹے تک پہنچتا ہے۔اور بہت مشکل سے جگا کر اسکو میڈیسن کھلاتا اور پھر تھوڑا بخار ٹوٹتا ہے تو وہ انجیکشن لگاتا اور
مشال کو میڈیسن کے بارے میں بتا کر باہر نکل آتا۔۔مشال اسکو دروازے تک چھوڑتی ہے۔۔۔۔
بھابھی وہ کبھی ہم لوگوں سے دور نہی رہے۔یہ انکے پیار کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔۔۔ہماراگھر برسوں سے بہت ادھورا ہے پلیز اسے کیمپلیٹ کردیں۔۔سنی مشال سے کہتا ہے۔۔۔
مشال بوجھل قدموں کے ساتھ کمرے میں آتی۔۔
۔۔میں یہ کیوں کررہی ہوں۔میرے اندر بدلہ لینے والی خصلت کب سےآگٸ۔۔میں اتنی گر گٸ ہوں۔۔میری یہ تربیت تو نہی کی تھی۔یہ اذان شاہ جو میری جان بن چکا تھا کوٸی اپنی جان کو ایسے تڑپاتا ہے کیا۔۔
جو شخص ایک اونچی آواز برداشت نہی کرتا تھا وہ میری ہر بےعزتی کو سہہ رہا۔جس شخص کے بوٹ سوٹ نکالنے کے لٸے الگ الگ نوکر ہیں۔۔وہ یہاں میرے گھر میں جھاڑو پوچا لگا رہا ایک مہینے سے۔۔
اور کتنا مشال اذان شاہ تم خود کو بےحس کرو گی
وہ ہاتھ بڑھا رہا ہے تم ہاتھ جھٹک رہی ہو تم ناشکری بن رہی ہو۔۔وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑتی ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح اذان شاہ اٹھتا تو ٹاٸم دیکھ کر ھڑبڑا کر باہر بھاگتا ہے۔۔جا کر دیکھتا سارا گھر صاف ستھرا تھا۔اور وہ جلدی سے کچن میں جاتا تو مشال چولہے کے آگے کھڑی ناشتہ تیار کر رہی تھی ۔۔سوری رات کو بھی سوتا رہا اور آنکھ صبح بھی نہی کھلی۔وہ گھبرا کر جلدی جلدی وضاحت کرتا۔آپ جلدی سے منہ ہاتھ دھو لیں میں ناشتہ لگاتی ہوں۔۔۔
وہ نہا دھو کر ٹیبل پر آتا تو اسکا سارا فیورٹ ناشتہ لگا تھا۔۔وہ بس کھانے پر ٹوٹ جاتا ہے۔۔اچانک اسکی نظر اپنی طرف دیکھتی مشال پر پڑتی وہ جلدی سے بولتا بہت سالوں کے بعد اتنا اچھا ناشتہ کیا تو بس اس لٸے ایسے کھا رہا ہوں۔۔وہ مسکرا کر بولتا۔۔
اچھا مطلب ناشتہ میں ہی اچھا بناتی تھی۔وہ مزے سے بولتی ہے۔۔ھاں بالکل۔۔اور پتا ہے میرا تو دل کرتا تھا تمھارے ہاتھ چوم لوں۔۔وہ جلدی سے بولتا ہے۔۔
آپ کچھ زیادہ نہی بولنے لگ گے۔مشال کہتی ہے۔۔
تمہیں برا لگ رہا میرا بولنا۔وہ ہولے سے پوچھتا۔۔
اس سے پہلے وہ جواب دیتی اذان شاہ کا موباٸل بجنے لگ جاتا ہے۔۔پلیز ذرا فون اٹھا لو سنی کا ہے۔
وہ کھاتے ہوۓ بولتا ہے۔۔
بھاٸی پلیز جلدی آٶ۔منال کو پتا نہی کیا ہو گیا ہے
وہ فون اٹھاتی تو سنی کی گھبراٸٕی ہوٸی آواز آتی۔۔
کیا ہوا میری منو کو۔وہ چیخ کر بولتی ہے۔۔
وہ بےہوش ہو گٸ ہے میں ہاسپیٹل لیکر جا رہا ہوں۔۔
اذان شاہ بھی تب تک پاس آجاتا ہے۔اور فون پکڑ کر اسکو تسلی دیتا ہے۔۔
وہ جلدی سے ہاسپیٹل پہنچتے ہیں تو سنی دوڑ کر گلے لگ جاتا ہے۔بھاٸی میں بابا بننے والا ہوں۔۔
کیا سچ میں مشال پرجوش انداز میں بولتی ہے اور پھر سب منال کے پاس جمع ہو جاتے۔۔۔
سنی تو تو ڈاکٹر چھولے دیکر پاس ہوا تھا پاگل انسان تجھے اسکی حالت دیکھ کے تو اندازہ نہ ہوا مگر نبض تو چیک کر لیتا۔۔اذان سنی سے کہتا ہے۔
ارےے بھاٸی یار میں گاٸناکالوجسٹ نہی ہوں۔۔اور نبض کیا چیک کرتا قسم خدا کی اسکو بےہوش ہوتے دیکھ کر تو مجھے بھول گیا کہ میں ڈاکٹر ہوں۔۔
وہ سر کھجا کر بولتا۔۔سب اسکو ایسے دیکھتے جیسے اسکے سر پر سینگھ اگ آۓ ہوں۔۔دوسرے پل کمرا انکے قہقہوں سے گونج اٹھتا ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کیا کر رہی ہو تم۔اذان شاہ مشال کو بیگ پیک کرتے دیکھ کر اس سے پوچھتا ہے۔۔ہم اپنے گھر جا رہے ہیں۔۔وہ جواب دیتی ہے۔۔اپنے گھر وہ حیرت سےپوچھتا ہے۔جی اپنے گھر۔۔شاہ ولا۔۔
کیا۔وہ حیرت سے چلاتا ہے۔مطلب تم نے مجھے معاف
کر دیا وہ اس سے پوچھتا ہے۔۔
ابھی سوچوں گی۔وہ مزے سے جواب دیتی ہے۔۔
ہییییں۔۔۔یہ کیا بات ہوٸی۔وہ جھنجھلا کر کہتا ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔
وہ شاہ ولا پہنچتے۔۔بی بی جی تو خوشی سے نہال تھی۔۔سب کھانا کھا کر بی بی جی کےروم میں جمع ہو جاتے ہیں۔۔تھوڑے دیر تک سب بیٹھتے اور ہولے ہولے سب اٹھ کر چلے جاتے وہ بی بی جی کے ساتھ ہی بیٹھی رہتی۔۔اذان شاہ بےچینی سے لاٶنج میں ادھر ادھر ٹہل رہا تھا۔یار ایسا کوٸی کرتا کیا۔۔۔
وہ جھنجھلا کر رہ جاتا ہے۔۔۔
اگلے تین چار دن وہ اسکو ایسے ہی ستاتی ہے تو چوتھے دن زبردستی اٹھا کر لے جاتا ہے اسکو کمرے میں۔۔پورا کمرا پھولوں سے سجا ہوتا ہے۔۔وہ کیک لاکر اسکے کان میں آ کر بولنا۔۔۔ھیپی انیورسری میری جان۔۔۔مشال کی آنکھوں میں نمی آجاتی ہے۔
ان آنکھوں میں آنسو نہی ہمیشہ خوشیاں جھلملاٸیں گی۔وہ اپنے ہونٹ اسکی آنکھوں پر رکھتے ہوۓ بولتا ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیک کٹ کر کے اذان شاہ اسکو ٹیرس پر لےکر آتا ہے
اور ہولے سے اس کے کان کہتا ہے پتا ہے بہت پہلے ایک غزل پڑھی تھی میں نے۔۔جب وہ پڑھی تھی تب بار بار تمہارا چہرا سامنے آ رہا تھا۔۔عرض کروں کیا۔وہ مسکرا کر کہتا ہے۔۔ارشاد ۔۔۔ارشاد۔۔وہ کہتی ہے۔
وہ پیچھے سے بانہیں ڈال کر گنگناتا ہے۔۔
میری جان ہے تو۔۔
تم میری ہو تم میری ہو
زندگی کی ایک حقیقت ہو
سکون ہو میری سوچو کا
ٹھنڈک ہو میری سانسون کی
جان ہو یا جان سے زیادہ ہو
سبھی کچھ ہو تم میری جان جاں ہو
ہاں میری روح کا قرار ہو تم۔
میری جان جگر جان وفا ہو تم
ہاں میری جان ہو تم۔۔۔۔۔۔
آٸی لو یو مشی جان۔۔
مشال اسکے اس قدر خوبصورت اقرار سے خود کو اسکی محبت کے مضبوط حصار میں محسوس کرتی ہے۔اور اسکے سینے کے ساتھ لگ کر ہولے سے بولتی ہے آٸی لو یو ٹو جان مشی۔۔۔۔
وہ خوشی سے سرشار ہوکراسکو خود میں بھینچ لیتا ہے۔۔اور چاند ان پر اپنی چاندنی نچھاور کر رہا ہوتا ہے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔ختم شد
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Meri Jaan Hai Tu Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Meri Jaan hai Tu written by Emaan Fatima .Meri Jaan Hai Tu by Emaan Fatima is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment