Ishq Mubarak By Rose Merry New Complete Romantic Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
Ishq Mubarak By Rose Merry Complete Romantic Novel |
Novel Name: Ishq Mubarak
Writer Name: Rose Merry
Category: Complete Novel
"ارے اندھے ہو کیا۔۔۔۔ تم دیکھ کر کار نہیں چلا سکتے؟؟"۔ پاس سے گزرتی کار کی تیز رفتاری کی وجہ سے اس پر کیچڑ کے چھینٹے آ گرے جس سے وہ پھٹ پڑی تھی۔
اسکی چیخ و پکار سنتے کار میں ٹھہراو پیدا ہوا۔۔۔ دروازہ کھلا ایک جوشیلا نوجوان ٹھاٹ سے چلتا اسکے قریب آن پہنچا۔
"اگر میں اندھا ہوں دیکھ نہیں سکتا تو دیکھ آپ بھی نہیں سکتیں ۔۔۔ آپ کو نظر نہیں آ رہا یہ روڈ ہے اور آپکو کسی نے بتایا نہیں کہ روڈ پہ کیٹ واک نہیں کرتے۔۔۔ اگر کیٹ واک کرنی ہی ہے نا تو فٹ پاتھ پر کریں خواہ مخواہ دوسروں کی پریشانی کا سبب نا بنیں"۔ چہرے پہ سنجیدگی لیئے وہ گویا ہوا۔
"ہاں تو؟؟؟ تمھارے باپ کی روڈ ہے جو اپنی من مانی سے چلا رہے ہو"۔ اس نے مزید تپ کر کہا۔
“Behave yourself"۔ انگلی کے اشارے سے وارن کرتے وہ گویا ہوا۔
"کونسی سیلف؟؟؟۔۔۔۔۔ تمھیں کیا لگتا ہے مجھے anglishنہیں آتی؟
Anglish very faster comes to me... Me in myself you are out of yourself”
اسکی عظیم انگریزی سنتے ہی بے اختیار اسکے چہرے پہ ہنسی پھیلی تھی جسے اس نے مشکل سے کنٹرول کیا تھا جبکہ سڑک کے دوسرے کنارے پہ چند لمحے پہلے ایک آڈی آ کے رکی تھی یہ واقعہ دیکھتے ہی فرنٹ مرر نیچے کو ہوا۔
"دیکھیں باجی"۔ بغیر کچھ سوچے اس نے بے ساختہ کہا۔
"کیا؟؟؟؟؟۔۔۔۔۔ باجی کس کو بولا؟۔۔۔۔ تو باجی۔۔۔ تیری بیگم باجی۔۔ تیری بہن باجی۔۔۔ تیرا باپ باجی۔۔۔ تیری ساس باجی۔۔۔ تیرا پورا خاندان باجی" اس نے اس پر چڑھائی کرتے کہا۔
“Disgusting" مزید بحث کیئے بغیر اس نے وقت بچانے میں عقلمندی گردانی اور کار کی جانب بڑھنے لگا۔
“You half anglish reading male... Come Idhr....Oye... Oye". اسنے پیچھے سے آوازیں لگائیں جبکہ وہ کار میں بیٹھ کر اپنی منزل پہ گامزن ہو گیا۔
“O my gosh! My naya jora..... How become clear from itni sari matti. اپنے کپڑوں پہ نظر دوڑاتے وہ افسردگی سے بولی۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"نائلہ بیگم دانیال کہاں ہے؟؟"۔ ہال میں صوفے پہ براجمان ہوتے انہوں نے ادھر ادھر نظر دوڑاتے پوچھا۔
"دانیال تو آفس کا کہہ کر نکلا تھا۔۔ وہ آفس نہیں آیا کیا؟؟"۔ اسنے جواب دیا۔
"اچھا۔۔۔ لیکن۔۔ میں تو ابھی ابھی آفس سے ہی آ رہا ہوں دانیال آفس میں نہیں تھا"۔ سوچ بچار کرتے وہ گویا ہوئے۔
تو آپ دانیال کو کال کر کے پوچھ لیں ہو سکتا ہے کسی کام سے گیا ہو"۔ اسنے اندازہ لگایا۔
"کیا ہوا؟؟ کس کو کال کرنے کی بات ہو رہی ہے؟؟"۔ گھر داخل ہوتے اسنے با آواز بلند کہا۔
"آئیے برخوردار آپ ہی کا ذکر ہو رہا تھا"۔ اسحاق نے کہا۔
"آہاں۔۔۔ کیوں خیریت؟؟"۔ اسحاق کے سامنے صوفے پہ بیٹھتے اسنے کہا۔
"ہاں خیریت ہے کہاں گئے تھے؟ نا آفس نا گھر۔۔۔ کسی کو بتایا بھی نہیں تھا"۔ اسنے مزید کہا۔
"جی ڈیڈ ۔۔۔ میں آفس میں نہیں تھا"۔ سوچ میں ڈوبتے وہ مسکرا دیا۔
"اگر تم آفس نہیں تھے تو پھر کہاں تھے؟؟"۔ اسنے وضاحت طلب کی۔
"پاپا ایکچوئلی میں آفس ہی جا رہا تھا مگر۔۔۔ راستے میں ایک مزیدار انسان مل گیا تو میں وہیں رک گیا"۔ اسنے تفصیل دی۔
"مزیدار انسان۔۔۔ مطلب ٹیسٹی ۔۔۔ لذیز۔۔۔ یہ تو تبھی پتہ چلتا ہے جب ہم کسی چیز کو چکھتے ہیں ۔ ۔۔۔ تم نے اس کو چکھا تھا؟؟؟۔ آواز کانوں میں گونجتے اسنے ترچھی نگاہ سیڑھیوں کے پاس کھڑے انسان پر ڈالی اور چونک کر اٹھ کھڑا ہوا۔
"کیسا لگا میرا سرپرائز؟؟"۔ پاکٹس میں ہاتھ ڈالے اس نے اپنی بھنووں کو جنبش دی۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"کیا ہوا زینی باجی؟؟ کسی سے لڑ کر آرہی ہیں کیا؟؟"۔ گھر داخل ہوتے اسکے خستہ حلیے پہ اسے شبہ ہوا۔
"ہاں ہاں کیوں نہیں ۔۔ اس پوری کل کائنات میں اک میں ہی تو لڑاکا طیارہ ہوں باقی سب تو دودھ کے دھلے اور شریف ہیں"۔ اسکے سوال پہ وہ بھڑک اٹھی۔
"اوہو۔۔ کیا ہو گیا ہے زینی باجی؟؟ میں نے تو صرف پوچھا ہے آپ تو شروع ہی ہو گئیں"۔ اسنے تاسف سے کہا۔
"دماغ خراب ہو گیا ہے میرا"۔ ماتھے کو تھپکاتے وہ چڑ کر بولی۔
"اس میں کونسی نئی بات ہے؟"۔ وہ منمنائی۔
"کچھ کہا تم نے؟؟"۔ سینڈلز اتارتے اسنے کنفرم کیا۔
"نہیں کچھ نہیں۔۔۔ اچھا بتائیں تو صحیح کہ بھڑ کے چھتے میرا مطلب ہے ۔۔۔ آپکو کس نے کچھ کہا"۔ اسکے گھورنے پہ اسنے بات پلٹ دی۔
"پتہ نہیں کون تھا؟؟ ایک تو میرے کپڑے خراب کر دیئے اوپر سے anglish بول کر میرا دماغ خراب کر دیا"۔ اسنے وضاحت دی۔
"کمال ہے جو چیز ہے نہیں وہ خراب کیسے ہو گئی"۔ اپنی لٹوں کو سنوارتے وہ دوبارہ سے منمنائی۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"ویسے ماننا پڑے گا تجھے یار بندہ ایک فون کال ہی کر لیتا ہے ۔۔۔ میں لینے آ جاتا تجھے"۔ اسنے گلہ کرتے کہا۔
"اگر بتا دیتا تو جو تمھارے چہرے پہ دلچسپ تاثرات ہیں وہ دیکھنے کو کیسے ملتے"۔ اسکے چہرے کے گرد انگلی گھماتے وہ مخاطب ہوا۔
"سچ میں یار تمھیں دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے تمھیں گئے ہوئے بھی تو بہت عرصہ ہو گیا ہے"۔ اسنے کہا۔
"ہاں ۔۔۔۔ اور مجھے بھی تمھاری بہت یاد آ رہی تھی"۔
"اچھا بتاو انکل آنٹی سے مل کےآ رہے ہو یا سیدھا یہیں نازل ہوئے ہو؟؟"۔ شریر لہجہ اپناتے وہ بولا۔
"نہیں نہیں موم ڈیڈ سے مل کر ہی آ رہا ہوں ۔۔۔۔۔ اب میں اتنا بھی اتاولا نہیں تھا کہ ایمریٹس کو یہیں لینڈ کروا دیتا۔۔۔ گھر سے ہونے کے بعد آفس گیا تھا وہاں تم تھے نہیں سوچا گھر ہو گے گھر آیا تو موصوف یہاں بھی نہیں تھے"۔ اسنے وضاحت دی۔
"سو سوری یار تجھے ویٹ کرنا پڑا ۔۔۔ مجھے سچ میں وقت کا اندازہ ہی نہیں رہا"۔ اسنے معذرت کرتے کہا۔
"کوئی بات نہیں یار ۔۔۔۔ اچھا بتا کدھر تھا جو وقت کا اندازہ ہی نہیں رہا جناب کو"۔ بھنووں کو جنبش دیتے وہ گویا ہوا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
امی آج کھانے میں کیا بنانا ہے؟؟"۔ بینش نے نسرین کو مخاطب کرتے پوچھا جو اپنے روم میں قرآن مجید کی تلاوت کرنے میں محو تھی۔
بیٹا دیکھ لو۔۔۔۔ نہیں تو زینی سے پوچھ لو اسکا جو دل کرے بنا لو"۔ قرآن پاک کو سائیڈ پہ رکھتے اسنے کہا۔
"امی زینی آپی سے پوچھا نا تو بولے گیں یہ بنا لو وہ بنا لو ۔۔۔ پورے ہوٹل کی فہرسٹ تھما دیں گیں ۔۔۔۔ نیل کے ساحل سے تابخاک کاشغر"۔ اس نے اکتا کے جواب دیا۔
بینش ایسا نہیں بولتے بڑی بہن ہے وہ تمھاری"۔ اسنے ڈانٹتے کہا۔
"امی میں کب کچھ بول رہی ہوں ۔۔۔۔ ویسے بھی زینی باجی کے سامنے تو کسی کی چلتی ہی نہیں ہے۔۔۔ ایک بار انکی کار اسٹارٹ ہو جائے تو رکنے کا نام کہاں لیتی ہیں"۔ اسنے کہا۔
"بینش"۔ نسرین نے آنکھیں نکالیں۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"دانیال بیٹا وہاب چلا گیا ہے کیا؟؟"۔ اسحاق نے کمرے میں داخل ہوتے دانیال کو اکیلا پاتے کہا۔
"جی پاپا ۔۔۔ بول رہا تھا کہ پھر آوں گا ابھی ناہید آنٹی اسکا ویٹ کر رہی ہیں"۔ لیپ ٹاپ پہ کام کرتے اسنے کہا۔
"اچھا ۔۔۔۔ تم کیا کر رہے ہو؟؟؟"۔ بیڈ پہ اسکے قریب بیٹھتے وہ گویا ہوئے۔
"جی پاپا وہ بس آفس کا تھوڑا بہت کام رہتا تھا سوچا مکمل کر لو"۔ ہنوز ٹائپنگ کرتے اسنے کہا۔
"گڈ ۔۔۔ کام مکمل کر لو پھر جلدی سو جانا"۔ اسکو تنبیہ کرتے وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔
"جی پاپا آپ فکر نا کریں جیسے ہی کام مکمل ہو جائے گا میں سو جاوں گا"۔ لیپ ٹاپ پہ نظر جمائے وہ بولا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"زینی باجی اگر ناشتہ کر لیتی ہیں نا تو برائے مہربانی ۔۔۔ میری زندگی پہ احسان کر کے ان برتنوں کو کچن میں رکھ آیا کریں"۔ اسکے سامنے میز سے برتن اٹھاتے وہ تپ کر بولی۔
"ہاں تو تمھیں اٹھاتے کیا ہو جاتا ہے تمھارے ہاتھ دکھتے ہیں یا خراب ہو جاتے ہیں اگر تم کچن میں رکھ آئی تو قیامت نہیں آ جانی"۔ ہاتھ میں ریموٹ لیئے وہ ٹی وی پہ نظر ٹکائے بیٹھی تھی۔
"توبہ ہی ہے جو آپ سے صحیح بات بھی کر لو۔۔۔ عمر میں بڑی ہیں مگر محال ہے جو بڑوں والا ایک بھی فرض ادا کیا ہو"۔ برتن سمیٹتے اسنے کچن کی راہ لی۔
"بڑی ہوں تو کیا کروں میں ۔۔۔ میں اپنی مرضی سے بڑی نہیں ہوئی تھی۔۔۔۔ تمھیں اتنا غم ہے نا تو تم بڑی بن جاو"۔ اسنے آواز لگاتے کہا۔
"اور اسکے ساتھ ہی آپکو بتاتے چلیں کہ ڈی-کے گروپ آف انڈسٹریز کے اونر اسحاق خان نے رمضان کی آمد کی خوشی میں ایک ارب غربا میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اسکے ساتھ ساتھ وہ ہر شام افطار کے لیئے دسترخوان بھی لگوائیں گے تاکہ کوئی بھی غریب بھوکا نا سوئے"۔ نیوز چینل پہ نمائندے نے آگاہ کرتے کہا۔
"کتنا سخی اور نیک دل انسان ہے یہ ۔۔۔ اسحاق خان"۔ بینش نے خبر سنتے کہا۔
"اتنا بھی سخی اور نیک دل نہیں ہونا ۔۔۔ بس دکھاوا کر رہا ہے۔۔۔ یہ امیر لوگ نا ایسے ہی ہوتے ہیں"۔ زینی نے نفی کرتے کہا۔
"پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں زینی باجی۔۔۔ میں نے سنا ہے کہ ڈی-کے ہینڈسم اور گڈ لکنگ ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے اخلاق اور اعلی کردار کا بھی مالک ہے"۔ اسنے مزید کہا۔
"اچھا ۔۔۔ تم تو ایسے اسکی وکالت کر رہی ہو جیسے تم اسکے ساتھ پلی بڑھی ہو یا تم نے اسے دیکھا ہے"۔ اسنے سرد مہری سے کہا۔
"ملی تو نہیں ہوں مگر اتنا ضرور جانتی ہوں وہ جیسا بھی ہے نا۔۔۔۔ کم از کم آپ سے تو اچھا ہی ہے"۔ اسنے چڑ کر کہا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"ہاں ٹھیک ہے میں آ کر دیکھ لیتا ہوں"۔ فون کان کے ساتھ لگائے وہ سیڑھیاں اترنے لگا تھا۔
"دانیال بیٹا تم کہاں جا رہے ہو؟؟؟"۔ کار کا دروازہ کھولتے دانیال کو اسنے ٹوکا تھا۔
"ون منٹ۔۔۔۔ ماما میں ایک میٹنگ کے سلسلے میں آفس جا رہا ہوں ۔۔۔ کیوں خیریت آپکو کوئی کام تھا؟؟؟"۔ لمحہ بھر کو فون کان سے ہٹاتے وہ گویا ہوا۔
"نہیں ایسا تو کوئی کام نہیں ہے وہ ذرا افضل بھائی کی طرف جانا تھا وہاب کی مبارک باد کے لیئے"۔ اسنے وضاحت کرتے کہا۔
"تو ماما شام میں چلیں جائیں گے یا پھر ایسا کریں آپ ڈرائیور کے ساتھ چلے جانا۔۔۔۔ اوکے میں واپسی پہ آپ سے بات کرتا ہوں ۔۔۔ ہاں تو تم کیا بول رہے تھے"۔ بات مکمل کرتے اسنے دوبارہ سے فون کان کے ساتھ لگایا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"بینش میری بات سنو"۔ روم میں داخل ہوتے وہ دائیں سائیڈ پہ صوفے پہ بیٹھی بینش کے پاس جا بیٹھی تھی۔
"بولیں کیا بات ہے؟؟"۔ کتاب میں سر دیئے وہ مخاطب ہوئی۔
"ادھر دیکھو میری طرف اور میری بات غور سے سنو"۔ اسکے کتاب کھینچتے وہ مزید اسکے قریب ہوئی۔
"جی فرمائیں"۔ چہرے پہ سنجیدہ تاثر لیئے وہ بولی۔
"دیکھو رمضان شروع ہونے والا ہے ممکن ہے آج چاند نظر آ جائے کیوں نا آج شام ہم پارک چلیں"۔ اسنے مسکراتے کہا۔
"کیا؟؟؟ آپکا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا؟۔۔۔ اماں کو پتہ چلا نا تو بہت ڈانٹ پڑے گی۔۔۔ میں کہیں نہیں جا رہی آپکو جانا ہے تو بے شک چلی جائیں"۔ کتاب کھینچتے وہ مخاطب ہوئی۔
"پلیز بینش چلو نا ۔۔۔ تم جانتی ہو میں اکیلے نہیں جا سکتی"۔ اسنے ریکویسٹ کرتے کہا۔
"اچھا ٹھیک ہے اگر آپ اتنا زیادہ کہہ رہی ہیں تو چلی چلوں گی۔۔۔ مگر ایک شرط پہ۔۔۔ پیسے آپ لگائیں گیں"۔ اسنے انگلی کے اشارے سے آگاہ کرتے کہا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"ہاں دانیال بیٹا ۔۔۔ آو نا"۔ دروازے پہ ناک ہوا تو اس نے ایک نظر دروازے پر ڈالی۔
"پاپا میں نے کام مکمل کر لیا ہے ۔۔۔ مزید کوئی کام ہے تو بتا دیں"۔ ہاتھ میں فائل لیئے وہ اسکے قریب جا کھڑا ہوا۔
"نہیں بیٹا کوئی کام نہیں ہے تم ایسا کروں اب گھر جاو میں ایک دو گھنٹے تک آ جاتا ہوں"۔ اسنے کہا۔
"اچھا پاپا میں جاتا ہوں مگر آپ یہ فائل ضرور دیکھ لیجیئے گا"۔ اسکی طرف فائل بڑھاتے وہ مخاطب ہوا۔
"ٹھیک ہے میں ابھی چیک کر لیتا ہوں"۔ فائل کو سائیڈ پہ رکھتے اسنے کہا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"ارے نائلہ آنٹی آپ؟ اسلام و علیکم"۔ دروازے پہ نائلہ کو دیکھتے وہ حیرت انگیز خوش ہوا تھا۔
"وعلیکم السلام شباب بیٹا کیسے ہو؟؟؟"۔ دہلیز کے اندر قدم رکھتی وہ خوش اسلوبی سے بولی۔
"میں ٹھیک ٹھاک ۔۔۔ فضل خدا وند کریم۔۔۔ آئیے نا"۔ اسنے اسکے ہمراہ اندر کو قدم اٹھانا شروع کیئے۔
"اسلام و علیکم نائلہ ۔۔۔۔ کیسی ہو؟؟؟"۔ مخالف سمت سے آتی خاتون نے کہا۔
"وعلیکم السلام نصرت میں ٹھیک ہوں تم سناو۔۔۔۔۔ تم کیسی ہو؟؟؟؟"۔ اسکے گلے لگتے وہ گویا ہوئی اور سب یکجا مہمان خانے کی جانب چل دیئے۔
"اور سناو ۔۔۔۔ دانیال کیسا ہے؟؟؟ اور اسحاق بھائی کیسے ہیں؟؟۔۔۔۔۔ انکی طبیعت اب ٹھیک رہتی ہے؟؟؟"۔ صوفے پہ براجمان ہوتے اسنے کہا۔
"دانیال ٹھیک ہے اور اسحاق بھی اب ٹھیک ہیں اللہ کا شکر ہے اب انکی طبیعت ٹھیک ہے۔۔۔۔ دانیال تو آنا چاہ رہا تھا مگر تمھیں تو پتہ ہے کہ ان باپ بیٹے کی لائف کتنی ٹف ہے۔۔۔۔ میں نے سوچا وہاب کی مبارکباد دے ہی آوں پھر رہتا رہ جاتا ہے"۔ اسنے وضاحت دی۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
پارک کی شان و شوکت اپنے عروج پر تھی۔ معمول سے زیادہ رش تھا رمضان کی آمد کے باعث لوایک دن پہلے سیر و تفریح کیلئے اپنے گھروں سے نکل آئے تھے۔
"زینی باجی آئیں نا آسمانی جھولے پہ بیٹھتے ہیں"۔ بینش نے جھولے کی طرف اشارہ کرتے کہا۔
"ارے نہیں مجھے نہیں بیٹھنا۔۔۔۔ مجھے ڈر لگتا ہے۔ اسنے گھبرا کر کہا۔
"کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔ آپ ایویں ہی ڈر رہی ہیں میں ساتھ ہوں نا آپکے ۔۔۔ آئیں میرے ساتھ"۔ اسکا ہاتھ پکڑتے وہ جھولے کی جانب بڑھی۔
"ارے یار اسد میں اچھا خاصہ گھر آرام کر رہا تھا تونے مجھے خواہ مخواہ یہاں بلوا لیا"۔ اسکے ہمراہ چلتے وہ ہنوز لفظوں کی قطار باندھ رہا تھا۔
"کیوں کیا تیرے بیوی بچے نہیں رہ سکتے تیرے بغیر"۔ عمر نے شیخی بگاڑی تو سب ہنس دیئے۔
"کیا ہو گیا ہے یار دانیال آج گھوم لے ویسے بھی کل سے آرام ہی کرنا ہے"۔ اسد نے کہا۔
"چلو بوائز آسمانی پہ بیٹھتے ہیں"۔ وہاب نے کہا۔
"ہاں چلو"۔ عمر نے تائید کی۔
وہ چاروں بینش اور زینب والے ڈبے کے پچھلے ڈبے میں سوار ہو گئے۔
"Stop stop ... Please stop.... I am come closer to mout"
چند لمحوں میں جھولے کے تیز ہونے پہ دوشیزہ کی آواز گونج اٹھی تھی۔
"O my gosh! There is big height between me and zameen
جھولے کے بلندی پہ جاتے ہی اسکی چیخ و پکار میں اضافہ ہو گیا تھا جبکہ مانوس آواز کانوں میں گونجتے وہ متوجہ ہوا تھا۔
"یار کیا لڑکی ہے ۔۔۔۔ لگتا ہے بچپن میں انگریزی سکول سے نکالی گئی تھی"۔ اسد نے لاف زنی کی تو سب کا قہقہہ گونجا۔
"ارے دانی تجھے کیا ہوا؟؟؟"۔ وہاب نے پوچھا۔
"کچھ نہیں یار
There is big height between dani and zameen
عمر نے شیخی بگاڑتے کہا۔
کچھ ہی منٹوں میں وہ دوشیزہ جھولے سے اتر گئی تھی۔
"گائز میں تم لوگوں کا نیچے ویٹ کر رہا ہوں ۔۔۔ تم لوگ آ جانا"۔ وہ بھی تیزی میں بات مکمل کرتا اسکے تعاقب میں اتر گیا تھا۔
"شکر ہے اللہ جی آپکا"۔ زمین پہ قدم رکھتے اسنے سکھ کا سانس لیا تھا۔
"بات سنیں"۔ وہ ہلکی سی دوڑ لگاتے دوشیزہ کے تعاقب میں آیا۔
"کون میں؟؟؟ اپنی طرف انگلی کرتے وہ گویا ہوئی۔
"جی ۔۔۔ آپ سے ہی۔۔۔ بات کرنی ہے"۔ اسکے قریب آتے اسنے پھولتی سانس سے بات مکمل کی۔
"یہ پانی پی لیں"۔ اسکی طرف بوتل کرتے وہ مخاطب ہوئی۔
"تھینکس۔ بوتل کا ڈھکن کھولتے اسنے گھونٹ بھرا تھا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"بہت وقت ہو گیا ہے میرا خیال ہے اب مجھے چلنا چاہیے"۔ اسنے نشست سے اٹھتے کہا۔
"ارے نائلہ تھوڑی دیر رک جاو کھانا کھا کے چلی جانا"۔ اسنے ٹوکتے کہا۔
"نہیں نصرت دیر ہو جائے گی پھر کبھی۔۔۔۔ اچھا وہاب آیا کیا؟؟"۔ دروازے کی طرف قدم اٹھاتے وہ گویا ہوئی۔
"نہیں میرا نہیں خیال ۔۔۔۔ میں اسے فون کر دیتی ہوں آ جائے گا"۔ اسنے کہا۔
"ارے نہیں نصرت وہاب دوستوں میں ہو گا ایسے اچھا نہیں لگتا ۔۔۔۔ پھر صحیح"۔ اسنے نفی کرتے کہا۔
"چلیں آنٹی میں آپکو چھوڑ دیتا ہوں"۔ شباب نے کہا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"کیا آپکو جھولے سے ڈر لگتا ہے؟؟؟ اسکے سوال پہ دوشیزہ کی آنکھیں باہر کو امڈ آئیں تھیں۔
“No no I am high bahadur.... No afraid of sky swing.... Kon tell You k I am derpoke??.
اسنے اٹک اٹک کر بات مکمل کی۔
"میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ مجھ سے اردو میں بات کریں مجھے یہ ہائی انگریزی سمجھ نہیں آتی۔ اسنے التجا کی۔
"شکر ہے کہ مجھے اسکو ampress کرنے کیلئے anglish نہیں بولنی پڑنی وہ منمنائی۔
"تو آپ کیا کہہ رہے تھے؟؟"۔ اسنے لاپرواہی سے کہا۔
"میں یہ کہہ رہا تھا کہ کیا آپکو جھولے سے ڈر لگتا ہے؟؟"۔ اسنے کہا۔
"ن۔ن۔نہیں تو ۔۔۔۔ وہ تو بس ایسے ہی میری طبیعت خراب تھی اس لیئے"۔ اسکے ہمراہ قدم اٹھاتے اسنے کہا۔
"اچھا اچھا۔۔۔۔ میں سمجھا کہ آپکو ڈر لگتا ہے ۔۔۔۔۔ خیر۔۔۔ میرا نام دانیال ہے" ہاتھ آگے بڑھاتے وہ گویا ہوا۔
"تو؟؟؟؟۔۔۔۔۔ پہلی بار پتہ چلا ہے کہ تمھارا نام دانیال ہے۔۔۔۔ یا ابھی کسی سے تصدیق نامہ ملا ہے۔۔۔۔ تمھارا نام دانیال ہے اس میں اتنی خوش ہونے والی کیا بات ہے؟؟؟۔ اسنے تپ کر کہا۔
"ارے آپ تو برا مان گئیں ۔۔۔۔ سور۔ ہاتھ نیچے کو کرتے اسنے تاسف سے کہا۔
"اچھا اب میں چلتا ہوں۔ اسنے کہا۔
"زینی"۔ اسکے مڑتے وہ بولی۔
جی؟؟؟"۔ اسنے پلٹتے کہا۔
"میرا نام زینی۔۔۔ میرا مطلب ہے زینب"۔ اسنے کہا۔
شکریہ"۔ اسنے مسکراتے کہا۔
“Your Weldon
اس نے جوابا کہا۔
"ارے زینی باجی کون تھا وہ؟؟؟"۔ وہ برق رفتاری سے اسکے قریب آئی تھی۔
"مجھے کیا پتہ کون تھا؟؟ اب میں نادرہ کا دفتر تو ہوں نہیں جو ہر کسی کا اندراج کروں گی"۔ اسنے چڑ کر کہا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"روہیت حلال کمیٹی نے تصدیق کر دی ہے کہ ماہ رمضان کا چاند نظر آ گیا ہے ۔۔۔۔ تمام مسلمانوں کو ماہ رمضان کی بہت بہت مبارک باد" نیوز چینلز پہ نمائندے اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔
"رمضان کی بہت مبارک ہو نائلہ"۔ اسحاق نے کہا۔
"آپکو بھی مبارک ہو"۔ اسنے جوابا کہا۔
"یہ دانیال کہاں ہے؟؟؟ باہر گیا ہے کیا؟؟"۔ خاموشی کو جانچتے وہ گویا ہوئے۔
"نہیں باہر تو نہیں گیا ۔۔۔۔ اپنے روم میں ہے شاید"۔ اسنے لا علمی میں کہا۔
"ایک طرف دوغلے ۔۔۔ دھوکے باز ۔۔۔ جھوٹے دنیاوی لوگ اور دوسری جانب سادگی اور معصومیت کا پرچار کرتی یہ لڑکی ۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیاوی اور فیک لوگوں کے لہجے کی زہریلی مٹھاس سے بہتر اسکا تلخ لہجہ ۔۔۔۔ سب سے بڑھ کر ہائی فائے انگلش"۔ وہ بیڈ پہ لیٹے خود سے ہم کلام ہوکر چہرے پہ مسکان سجائے ہوئے تھا کہ فون پہ میسجز کی بھرمار سے وہ سیدھا ہو بیٹھا تھا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
سحری کے بعد نماز پڑھنے کی غرض سے وہ سائیکل پہ مسجد روانہ ہو گیا تھا۔
"شمیم برتن سمیٹ لو"۔ اسنے کچن میں کام کرتی ملازمہ کو آواز دی۔
"اچھا شمیم ۔۔۔۔ جب کچن کے کام سے فری ہو جاو نا تو میرے روم میں آنا مجھے تم سے کام ہے"۔ کچن کی طرف بڑھتی شمیم کو اسنے ٹوک کر کہا۔
"جی بہتر بیگم صاحبہ"۔ اسنے جوابا کہا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"زینی باجی کیا آپ نے نماز پڑھ لی ہے؟؟؟"۔ جائے نماز سائیڈ پہ رکھتے وہ گویا ہوئی۔
"ہاں پڑھ لی ہے"۔ فون پہ نگاہ جمائے اسنے کہا۔
"اچھا ۔۔۔ تو اب آپ کیا کر رہی ہیں؟؟؟"۔ بیڈ کے دوسری جانب بیٹھتے وہ مخاطب ہوئی۔
"کچھ نہیں بس whatass app پہ دوست سے بات کر رہی ہوں" اسنے کہا۔
"آپ whatass app ہی چلا سکتی ہیں کیونکہ what's app تو آپکے بس کی بات ہی نہیں ہے"۔ دوپٹے کو بیڈ کے تاج پہ رکھتے وہ لیٹ گئی تھی جبکہ اسکی بات سے لاپرواہ وہ ہنوز فون پہ لگی تھی۔
"زینی بیٹا ابا کی طبیعت بہت خراب ہے۔۔۔ دوائی بھی ختم ہو گئی ہے تم جا کر لے آو۔ روم میں داخل ہوتے نسرین نے ہڑبڑاہٹ میں کہا۔
"کیا ہو گیا ہے اما؟؟؟۔۔۔۔ ابا کا تو روز کا معمول ہے جب بھی میں آرام کرنے لگوں ابا کی طبیعت بگڑ جاتی ہے۔۔۔۔۔ ایسی عجیب اور بد مزاج طبیعت ہے ابا کی"۔ اسنے لاپرواہی سے کہا۔
"زینی باجی خدا کو مانیں ۔۔۔ ابا کی طبیعت خراب ہے اور آپکو اپنے آرام کی پڑی ہے"۔ بینش اٹھ بیٹھی تھی۔
"ہاں تو اب تم بھی شروع ہو جاو۔۔۔۔ یک نا شد دو شد ۔۔۔۔ میری بھلائی اسی میں ہے کہ جا کر دوائی لے آوں ورنہ ابا کے ساتھ ساتھ اما اور تم نے مجھے آرام سے نہیں رہنے دینا۔۔۔۔ سبھی میرے آرام کے دشمن ہیں۔ فون سائیڈ پہ رکھتے اسنے بیڈ سے اٹھتے کہا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"جو میں نے کل تمھیں کپڑے دیئے تھے کیا وہ سارے دھل گئے ہیں؟؟"۔ اسنے کنفرم کیا۔
"جی بیگم صاحبہ وہ تو میں نے دھو کے استری بھی کر دیئے ہیں"۔ اسنے جوابا کہا۔
"اچھا تو ایک کام کرو میری وارڈ روب سیٹ کر دو بہت تباہی مچی ہوئی ہے"۔ اسنے کہا۔
"جی اچھا بیگم صاحبہ"۔
"دھیان سے صفائی کرنا کپڑے بہت قیمتی اور مہنگے ہیں کہیں خراب نا ہو جائیں"۔ اسنے سختی سے تنبیہ کرتے کہا۔
"آپ بے فکر رہیں کچھ خراب نہیں ہو گا میں احتیاط کروں گی"۔ اسنے کہا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
نماز سے واپسی پر وہ اپنی دھن میں مگن تیز رفتاری میں سائیکل چلاتے آ رہا تھا۔
“You close eyes male version brake my leg piece along with my foot...... Allah put gol button on your shakal
گلی کے مڑتے ہی ایک دوشیزہ اسکی سائیکل سے ٹکرا گئی تھی۔
"معافی چاہتا ہوں۔۔۔ میرا بالکل دھیان نہیں تھا اس لیئے دکھا نہیں"۔ سائیکل سے اترتے اسنے معذرت طلب کی۔
"تم؟؟؟ پاوں کو مسلتے اسنے اوپر کو دیکھا تھا۔
"آپ؟؟؟؟۔۔۔ اس وقت یہاں؟؟۔ اسنے حیرت سے پوچھا۔
"تو کیا کوئی وقت مقرر ہونا تھا تبھی میں یہاں پائی جاتی؟؟ "۔ اسنے غصے میں جواب دیا۔
"نہیں میں نے ایسا تو نہیں کہا۔۔۔۔۔ آپ کہاں جا رہی ہیں؟؟"۔ اسنے کہا۔
"میرے ابا کی طبیعت خراب ہے تو دوائی لینے جا رہی تھی"۔ اسنے تاسف سے کہا۔
"اوہ۔۔۔۔۔ تو آپ کیسے جائیں گیں؟؟"۔ اسنے پوچھا۔
"کیا مطلب کیسے جاوں گی جیسے گھر سے آئی ہوں ۔۔۔۔ گیارہ نمبر بس سے مگر تمھاری وجہ سے بس کا ٹائر پنکچر ہو گیا۔ اسنے افسردگی سے کہا۔
"جی؟؟؟" اسنے اس پر سوالیہ نظریں ٹھہرائیں۔
"جی کیا؟؟؟؟۔۔۔۔۔ دکھ نہیں رہا
My leg piece along with my foot contain so many pains in it
"سو سوری مجھے سچ میں اس بات کا علم نہیں تھا کہ آپ آ رہی ہیں ۔۔۔۔ ایک کام کریں آپ میرا یہیں ویٹ کریں میں آپکو دوائی لا دیتا ہوں"۔ معذرت کرتے اسنے کہا۔
"بات تو تمھاری ٹھیک ہے آخر تمھاری وجہ سے میری یہ حالت ہے ۔۔۔۔ تمھاری سزا ہے کہ تم ہی دوائی لے کر آو۔۔۔۔ اور سنو میں نے پیسے کوئی نہیں دینے تم ہی دو گے"۔ اسنے دوبارہ سے پاوں مسلتے کہا۔
"آپ بے فکر رہیں میں پیسے نہیں لوں گ اسنے مسکراتے کہا اور سائیکل پہ سوار ہو گیا۔
"وہاب تم نے میرے فون کا چارجر دیکھا ہے کیا؟؟"۔ اسکے روم میں داخل ہوتے ہی وہ گویا ہوا۔
"نہیں میں نے نہیں دیکھا ۔۔۔۔ میں نے تمھارا چارجر کیا کرنا تھا شباب؟۔ تم اپنی چیزوں کی خود کیئر کیا کرو"۔ فون پہ لگے وہ بیڈ کے تاج کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔
"اوہو ۔۔۔ کیئر کرتا ہوں مگر پھر بھی گم جاتی ہیں"۔ لاعلمی میں بولتے وہ اسکے قریب گیا۔
"جانا کہاں ہے یار اپنے روم میں چیک کرو وہیں ہو گا۔۔۔ تمھیں شاید روزہ لگا ہے اگر اس وقت تمھارے سامنے اونٹ بھی کھڑا ہو نا وہ بھی نظر نہیں آنا"۔ ہنوز فون پہ لگے اسنے کہا۔
"ہاہاہا ۔۔۔۔ ویری فنی۔۔۔ اچھا تم کیا کر رہے ہو؟؟؟"۔ بیڈ پہ اسکے قریب بیٹھتے وہ مخاطب ہوا۔
"ٹمپل رن کھیل رہا ہوں"۔ اسنے جواب دیا۔
“Good... Excellent...Keep it up
یہ ہیں وہاب صاحب دا مائننگ انجینیئر"۔ اسکے پیٹ پہ مکا مارتے وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
"ویسے نا بڑے ہی کوئی عجیب شے ہو تم"۔ پیٹ پہ ہاتھ رکھتے وہ تپ کر بولا تھا۔
"ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔ پتہ ہے مجھے"۔ بھاری آواز میں بولتے وہ روم سے نکل گیا تھا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"زینی باجی کیا آپ دوائیاں لے آئیں ہیں؟؟"۔ اسنے برآمدے میں اطمینان سے بیٹھی زینی کو مخاطب کرتے کہا۔
"ہاں لے آئی ہوں"۔ رسالے میں سر دیئے وہ سنجیدگی سے بولی۔
"اچھا۔۔۔۔ زینی باجی میری مدد ہی کروا دیں۔۔۔ آپ فارغ جو بیٹھی ہیں"۔ اسکے قریب جاتے ہی وہ بولی۔
"کیا مطلب ہے تمھارا کہ میں کوئی کام نہیں کرتی؟۔۔۔۔۔ ابھی ابا کی دوائیں کون لایا تھا؟۔۔۔ بولو ذرا۔۔۔۔ میں نے کوئی ایدھی سنٹر نہیں کھول رکھا کہ سب کی مدد کرتی پھروں"۔ رسالہ سائیڈ پہ کرتے وہ بھڑک کر بولی تھی۔
"خدا کا واسطہ ہے آپکو ۔۔۔۔ کبھی تو آرام سے بات کر لیا کریں"۔ اسکے سامنے ہاتھ جوڑتے اسنے اپیل کی۔
"ہاں تو آرام سے ہی کر رہی ہوں ۔۔۔۔ میں نے کیا تمھارے سر میں پتھر مار دیئے ہیں جو گلے شکوے کر رہی ہو"۔ اسکی آنکھوں میں گھوری ڈالتے وہ گویا ہوئی۔
"توبہ ہی ہے آپ سے تو"۔ وہ بے بس اپنے روم میں چلی گئی۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"دن بدن گرمی کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے ۔۔۔ ابھی تو رمضان کی آمد ہوئی نجانے آگے کیا حال ہو گا"۔ ہال میں صوفے پہ بیٹھی نائلہ نے اسحاق کو مخاطب کرتے کہا۔
"بس اللہ سے دعا ہی کر سکتے ہیں سورج کے ساتھ ہمارا مقابلہ ہے جو نہیں ۔۔۔۔ اب بس وہی ذات ہم پہ رحم کرے"۔ اسحاق نے اخبار ٹٹولتے کہا۔
"آمین۔۔۔۔ اچھا آپ ایسا کریں نہا کے فریش ہو جائیں پھر سو جائیے گا میں آپکو عصر کے وقت جگا دوں گی"۔ نائلہ نے کہا۔
"کہہ تو آپ ٹھیک رہی ہیں ایسا ہی کرتا ہوں ویسے بھی ابھی بہت ٹائم ہے"۔ اخبار سائیڈ پہ رکھتے وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔
"اچھا میں جاتا ہوں ۔۔۔۔ ایسا کرنے مجھے عصر سے پہلے جگا دینا"۔ اسکو مخاطب کرتے وہ روم کی جانب بڑھ گئے۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"زینی یہ افطار کے سامان کی لسٹ ہے تم جا کر بازار سے لے آو"۔ نسرین نے اسکی طرف لسٹ بڑھاتے کہا۔
اچھا اما ادھر دیں"۔ لسٹ پکڑتے وہ کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
روم میں جاتے زینی نے اپنا حلیہ درست کیا اور کلچ لے کر بازار کیلئے نکل کھڑی ہوئی۔
بلیک قمیض شلوار پہ ریڈ دوپٹہ جو کہ زینی نے گلے میں ڈال رکھا تھا۔۔ بالوں کی ڈھیلی چٹیا بنی تھی جو کہ اس نے آگے کو کر رکھی تھی۔۔۔ آنکھوں پہ گول شیشے والے سن گلاسز اور پاوں میں بلیک ناگرے۔۔۔ وہ اپنی دھن میں چلتے چلتے ایک یوٹیلٹی سٹور پہ جا پہنچی۔
"یس میم؟؟؟" سٹور میں داخل ہوتے اسے ریسیپشن پہ کھڑے انسان نے مخاطب کرتے کہا۔
“Jam e shereen Is???
گلے کو صاف کرتے اسنے گلاسز سر پہ ٹکاتے کہا۔
"یس میم"۔ بولتے ہی وہ جام شیریں والے سٹال کے طرف بڑھا۔
یہ لیں میم اسکے علاوہ؟؟"۔ کاونٹر پہ جام شیریں رکھتے اسنے دوبارہ پوچھا۔
“I want some curly long hair type yellow yellow thing in red packet.
"جی میم"۔ اسکی اس definition پہ کاونٹر پہ کھڑے انسان کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا تھا۔
“O My Gosh..... You non reading male".
وہ منمنائی۔
“Noodaals"۔ اسنے کہا۔
"او اچھا اچھا نوڈلز"۔ اسنے دہرا کر کہا۔
"یہ لیں میم ۔۔۔۔۔ نوڈلز"۔ اسنے کاونٹر پہ رکھتے کہا۔
"اسکے علاوہ؟؟؟"۔ اسنے دوبارہ پوچھا۔
“Some No"۔ اسنے کہا۔
"جی؟؟؟۔ اسنے سوالیہ نظریں ٹھہرائیں۔
"کچھ نہیں۔ اسنے جوابا کہا۔
“Catch me list of all mathematics"
اسنے دوبارہ سے گلاسز آنکھوں پر سجائیں۔
"جی؟؟؟"۔ اسنے دوبارہ سے سوالیہ نظریں ٹھہراتے پوچھا۔
“O Gosh....
مجھے حساب کی لسٹ پکڑا دو۔ اسنے تپ کر کہا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
سات بجتے ہی تمام مساجد میں ہوٹرز کی ساتھ ساتھ مغرب کی اذانیں بھی گونج اٹھیں تھیں ۔۔۔۔ سارا دن بھوکا پیاسا رہنے کے بعد تمام مسلمان اللہ کی نعمتوں سے فیض یاب ہوکر اسکا شکر بجا لائے تھے۔
"شمیم تم نے افطاری کر لی؟؟؟"۔ پاس آتی ملازمہ کر اسنے مخاطب کیا۔
"جی بیگم صاحبہ میں نے افطاری کر لی ہے۔۔۔ آپکو کچھ چاہیئے؟؟ کہیں تو کھانا بھی لگا دوں؟؟"۔ اسنے مزید کہا۔
"نہیں شمیم ابھی میرا نہیں خیال کہ کسی کا کھانے کا موڈ ہو گا ۔۔۔۔ کھانا بعد میں لگا دینا میں بتا دوں گی"۔ اسنے کہا۔
"شمیم آنٹی ایک کام کریں میرے روم میں ایک جگ پانی کا لے آئیں"۔ کرسی کو پیچھے کو گھسیٹتے وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
"اچھا بیٹا"۔ جواب دیتے وہ کچن کی جانب بڑھی تھی۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"واہ فروٹ چاٹ۔۔۔۔ اما مجھے بھی ڈال دو"۔ میز پہ پڑی پلیٹ کو دیکھتے اسکا چہرہ کھل اٹھا تھا۔
"نہیں زینی یہ چاٹ تمھارے ابا کیلئے ہے ۔۔۔۔۔ فروٹ اتنا نہیں تھا کہ سب کیلئے بن سکتی"۔ نسرین نے نفی کرتے کہا۔
"یہ کیا بات ہوئی کہ صرف ابا کیلئے بنائی ہے۔۔۔۔ ابا نے کونسا روزہ رکھا تھا سارا دن تو کھاتے رہے ہیں۔۔۔۔ آپ یہ چاٹ مجھے دیں ابا کو کل بنا دینا"۔ اسنے ناک چڑاتے ہاتھ آگے بڑھایا۔
"نہیں زینی تمھیں کل بنا دوں گی ابھی ابا کو کھانے دو تم جانتی ہو انکی طبیعت ٹھیک نہیں یہ انکے لیئے صحیح ہے"۔ اسنے دوبارہ نے نفی کی۔
"مگر مجھے آج ہی کھانی ہے"۔ وہ بھی کہاں سننے والی تھی۔
"زینی باجی جب امی بول رہی ہیں کہ آپکو کل بنا دیں گیں تو آپ کیوں ضد کر رہی ہیں۔۔۔ یہ ابا کی ہے انہیں ہی کھانے دیں"۔ بینش نے کہا۔
"کیوں ابا کا نام لکھا ہے کیا اس پہ ۔۔۔۔ چاٹ تو میں ہی کھاوں گی"۔ نسرین کے ہاتھ سے پلیٹ لیئے وہ روم کی جانب بڑھی تھی۔
"زینی تجھے اللہ پوچھے بوڑھے اما ابا کو بھی پریشان کر کے رکھا ہے"۔ نسرین نے سر پکڑتے کہا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
مسجد سے واپسی پہ وہ سیدھا اپنے روم میں آیا تھا۔ فون پہ بیل بجی تو وہ بیڈ کے سائیڈ ٹیبل کی جانب بڑھا۔۔ سکرین پہ وہاب کا نمبر چمک رہا تھا۔
"ہاں وہاب بول"۔ کال اٹینڈ کرتے اسنے کہا۔
"نا سلام نا دعا نا حال نا چال۔۔۔۔ ہاں وہاب بول"۔ دوسری طرف مصنوعی ناراضگی ظاہر کرتے وہ گویا ہوا۔
"سوری مائی لارڈ۔۔۔۔ اسلام و علیکم۔۔۔ کیسے ہیں آپ؟؟کیا حال چال ہیں آپ کے؟؟؟آپ کے بال بچے کیسے ہیں؟؟"۔ بغیر کسی ٹھہراو کے اسنے کہا۔
"بس بس۔۔۔ سانس تو لے لو۔۔۔ وعلیکم السلام ۔۔۔ اللہ کا فضل ہے۔۔۔ بال تو ٹھیک ہیں بچے ابھی آئے نہیں"۔ اسنے لاف زنی کی۔
"ہاہاہا ۔۔۔۔ بڑی جلدی نہیں ہے"۔ دانیال کا جاندار قہقہہ گونجا تھا۔
"نہیں نہیں مجھے کوئی جلدی نہیں ہے وہ تو تمھارے سوالوں کے پیش نظر جواب دے رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ اچھا سناو کیا کر رہے ہو؟؟"۔ دوسری جانب مصنوعی سنجیدگی کا اظہار ہوا۔
"کچھ نہیں یار بس سحری کی ہے پھر مسجد چلا گیا تھا۔۔۔۔ جب تمھاری کال آئی ہے اس سے ایک سیکنڈ پہلے روم میں قدم رکھا تھا"۔ اسنے وضاحت دی۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"لائیاں لائیاں میں تیرے نال ڈھولنا وے
لائیاں لائیاں میں تیرے نال ڈھولنا وے
اکو دل سی ریا میرے کول نا وے
میں تا لٹی گئی آں ڈھولنا
کانوں میں ہینڈزفری لگائے اسنے پورے گھر کو سر پہ اٹھائے برآمدے میں ڈیڑہ ڈالا تھا۔
“Listen sung e marmar ki this pillars
Some no Is Infront of you
Today this heart on raj tumhara”.
اب باقاعدہ اسنے گانوں کا بیڑہ غرق کرنا شروع کیا تھا۔
"کیا ہو گیا ہے آپکو زینی باجی خدا کا خوف کریں ابھی ابھی نماز پڑھ کر آئی ہیں اور تو اور آپ نے روزہ بھی رکھا ہے"۔ اسکے قریب جاتے اس نے اسکے کانوں سے ہینڈزفری نکالتے کہا۔
"ہاں تو روزہ یہ تو نہیں بولتا کہ منہ بند کر لو"۔ اسنے بھڑک کر کہا۔
"بیشک روزہ یہ نہیں کہتا کہ منہ بند کر لو۔۔۔ مگر یہ بھی نہیں بولتا کہ ایسا کرو۔۔۔ کیونکہ بھوک پیاس کے ساتھ ساتھ ہماری آنکھوں، ہاتھوں یہاں تک کہ جسم کے ہر ایک حصے کا روزہ ہوتا ہے" اسنے تفصیلا کہا۔
"میری ماں مجھے معافی دو۔۔۔ خود تو جیسے حج کر کے آئی ہو۔۔۔ اگر رمضان میں گناہ ملتا ہے نا تو عام دنوں میں بھی اتنا ہی ملتا ہے۔۔۔ عام دنوں میں اللہ تعالی نے کوئی فری پیکج یا سستی آفر نہیں رکھی"۔ بھڑاس نکالتے اسنے دوبارہ سے ہینڈزفری لگائے اور لیٹ گئی۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"ایکس کیوز می سر"۔ ایک دوشیزہ اسکے تعاقب میں آواز لگاتے آئی تھی۔
"یس؟"۔ اسنے مڑتے ہی کہا۔
"سر مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے"۔ اسنے جھجکتے کہا۔
"جی کہیں؟"۔ اسنے سوالیہ نظریں ٹھہرائیں۔
"سر وہ۔۔۔ مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے اگر۔۔۔ آپ دیں تو؟؟؟"۔ اسنے جھکے نظروں سے کہا۔
"کیوں خیریت مس شزہ؟؟ آپکو سیلڑی مل تو گئی ہے"۔ اسنے حیرت سے پوچھا۔
"جی سر سیلڑی مل گئی ہے مگر؟"۔ اسنے جوابا کہا۔
"پھر؟؟؟"۔ اسنے مزید پوچھا۔
"سر ایکچوئلی میری امی کی طبیعت خراب ہے انکا آپریشن کروانا ہے۔۔۔ رشتہ داروں سے کہا مگر کوئی دینے کو تیار نہیں ہے۔۔۔ آپ تا جانتے ہیں میرے بابا کا انتقال ہو گیا تھا ایک ماہ پہلے۔۔۔ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی میں ہی ہوں۔۔۔۔ پلیز سر آپ سے گزارش ہے کہ ابھی مجھے پیسے دے دیں۔۔۔ آئندہ ماہ سیلڑی مت دیجیئے گا"۔ نم آنکھیں لیئے وہ افسردگی سے گویا ہوئی۔
"نہیں مس شزہ آپ ایسا مت کہیں ۔۔۔۔ سیلڑی آپکا حق ہے۔۔۔۔ وہ آپکو ضرور ملے گی۔۔۔۔ آپ فکر نا کریں آپکو جتنی رقم چاھیے آپ میرے پی-اے کو بتا دیں وہ آپکو دے دے گا"۔ اسنے خوش اسلوبی سے کہا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"بھائی مجھے ایک کلو پیاس دین"۔ بازار میں سبزی والے ٹھیلے کے پاس رکتے اسنے کہا۔
"جی اچھا"۔ اسنے کہا۔
"یہ لیں بہن"۔ اسنے پیاز تول کر اسکی طرف بڑھائے۔
"یہ نہیں"۔ اسنے نفی کرتے کہا۔
"تو پھر؟؟؟"۔ اسنے پوچھا۔
“P E A S
پیاس" اس نے ہر لفظ پہ زور دیتے کہا۔
"او ہو بھائی ۔۔۔ یہ پیاس اسنے اسکی سوالیہ نظروں پہ مٹروں کی طرف اشارہ کرتے کہا۔
"او اچھا اچھا ۔۔۔ ایک منٹ"۔ اسنے کہا۔
"اوئے تیری ماں کا بازو ہے جو ٹچ کر رہا ہ"۔ رش کے باوجود ایک نوجوان کے ٹکرانے سے وہ بھڑک اٹھی۔
"سوری غلطی سے ہاتھ لگ گیا"۔ اسنے معذرت کرتے کہا۔
"ایسے کیسے غلطی سے لگ گیا ۔۔۔ میں جانتی ہوں تم جیسوں کو۔۔۔ پہلے جان کے ٹچ کرتے ہیں پھر کہتے ہیں غلطی سے لگ گیا اسنے مزید تپ کر کہا۔
"ارے میں کہہ تو رہا ہوں رش تھا اس لیئے غلطی سے لگ گیا"۔ اسنے دوبارہ کہا۔
"تم ایسے نہیں مانو گے ایک منٹ"۔ اسنے ادھر ادھر دیکھنا شروع کیا تب جا کر اسکی نظر ایک پتھر پہ ٹکی۔۔۔ اسنے پتھر اٹھایا اور سامنے کھڑے انسان کی طرف اچھالا۔۔۔ بچاوکے باوجود وہ پتھر اسکے ماتھے پہ جا لگا تھا۔۔۔ پتھر لگنے سے خون کی پھٹکی نکل آئی تھی۔
"سوری ہاتھوں سے غلطی سے چھوٹ گیا"۔ اسنے طنزیہ کہا اور الٹے پاوں دوڑ لگا دی کیونکہ اسنے یہ واردات دوسری بار کی تھی آئندہ احتیاط کیلئے لوگوں نے اسے پکڑنے کی ٹھانی تھی۔۔۔ وہ اپنے بچاو کیلئے اپنے پیچھے آتے ہجوم سے دور بھاگ رہی تھی۔
"ہائے ایک نوجوان اسکے ہمراہ دوڑنے لگا تھا۔
"تم۔۔۔ تم یہاں کیا کر رہے ہو؟؟۔ اسنے اسے دیکھتے ہی تپ کر کہا۔
"کیوں کوئی وقت مقرر ہونا تھا کیا۔۔۔۔ اچھا بتائیں آپکا روزہ نہیں ہے کیا؟؟ ابھی تو افطاری بھی نہیں ہوئی اور آپ جاگنگ کرنے نکل آئیں"۔ اسنے لاف زنی کرتے کہا۔
"میرا روزہ ہے ۔۔۔۔ اور مجھے کوئی شوق نہیں تھا اتنی دھوپ میں ایسے جاگنگ کرنے کا"۔ اسکے ہمراہ ہنوز دوڑتے اسنے کہا۔
"تو پھر؟؟؟۔ اسنے اسکو دیکھتے کہا۔
"یہ میرے پیچھے آوازیں سن رہے ہو نا ۔۔۔ یہ سب مجھے پکڑنا چاہتے ہیں کیونکہ میں نے ایک انسان کا سر پھاڑ دیا ہے"۔ اسنے اطمینان سے جواب دیا۔
"کیا؟؟؟۔ اسکی اس بات پہ اسکے قدم رک گئے تھے۔
"اب چلو ورنہ یہ تمھیں بھی ماریں گے۔ اسنے آواز لگاتے کہا۔
"اسے کہتے ہیں آ بیل مجھے مار"۔ بڑبڑاتے اسنے پھر سے دوڑنا شروع کیا تھا۔
"اسلام و علیکم آنٹی"۔ خان ہاوس داخل ہوتے ہی اسنے ہال میں بیٹھی نائلہ کو مخاطب کرتے کہا۔
"وعلیکم السلام وہاب ۔۔۔ بیٹا کیسے ہو؟؟"۔ اسکی پیٹھ پہ ہاتھ پھیرتے وہ خوش اسلوبی سے بولی تھی۔
"میں ٹھیک ہوں آنٹی ۔۔۔۔۔ یہ دانیال کہاں ہے؟؟"۔ صوفے پہ بیٹھتے اسنے ادھر ادھر نظر دوڑاتے پوچھا۔
"بیٹا دانیال آفس گیا تھا وہیں ہو گا"۔ اسنے لاعلمی میں کہا۔
"نہیں آنٹی دانیال آفس نہیں ہے۔۔۔ میں وہاں گیا تھا تو پتہ چلا کہ وہ چار پانچ گھنٹوں سے غائب ہے اسکا کوئی ایسا فرینڈ بھی نہیں ہے کہ جسکے پاس وہ جا سکے ۔۔۔ میں نے سوچا وہ گھر ہو گا مگر آپ بتا رہی ہیں کہ وہ گھر بھی نہیں آیا"۔ اسنے وضاحت کرتے کہا۔
"اچھا بیٹا مگر دانیال نا ہی گھر آیا ہے اور نا ہی کال کر کے انفام کیا ہے"۔ نائلہ نے کہا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
وہ دونوں بھاگتے بھاگتے ایک شاندار چمکتی بلیک آڈی کے پاس جا رکے تھے ۔
"جلدی سے اس میں بیٹھو"۔ اسنے کار کی دوسری جانب کھڑی دوشیزہ کو با آواز بلند کہا۔
"یہ کار تمھاری ہے؟؟"۔ کار کا اندرونی جائزہ لیتے اسنے پوچھا۔
"ہاں میری ہے"۔ کار سٹارٹ کرتے اسنے کار کی سپیڈ بڑھائی تھی۔
"سچ میں یہ کار تمھاری ہے؟؟؟"۔ اس پہ نظر دوڑاتے بغیر چہرے کے تاثرات بدلے اسنے دوبارہ پوچھا۔
"ہاں میری ہے ۔۔۔ تمھیں یقین کیوں نہیں آ ر"۔ ہنوز ڈرائیونگ کرتے اسنے کہا۔
"نہیں کچھ نہیں ۔۔۔۔ بہت پیاری ہے اور بہت بڑی بھی"۔ اسنے کہا۔
"مگر تم سے کم"۔ وہ منمنایا۔
"تم نے کچھ کہااسنے پوچھا۔
"ہاں ۔۔۔۔ شکریہ"۔ اس پہ نگاہ ڈالتے وہ مسکرا دیا۔
"اس میں پنکھا بھی لگا ہے"۔ کچھ لمحے سائیڈ مرر سے باہر دیکھنے کے بعد اسنے برق رفتاری سے کہا۔
"کیا؟"۔ اسکے سوال پہ اسکا منہ کھل گیا تھا۔
"ہاں ۔۔۔ اس میں پنکھا بھی لگا ہے دیکھو شیشے بند ہیں پھر بھی کیسی ٹھنڈی ہوا آ رہی ہے۔ اس نے اسکی طرف دیکھتے پر جوش ہوتے کہا۔
"ہ۔ہ۔ہاں اس میں پنکھا بھی ہے۔ بمشکل ہنسی کنٹرول کرتے وہ دوبارہ سے سامنے دیکھنے لگا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"میں نے دانیال کو کال کر دی ہے ۔۔۔ وہ بس پہنچنے والا ہے"۔ اسحاق نے ہال میں آتے کہا۔
"ٹھیک ہے انکل جب دانیال آئے تو اسے میرا بتا دیجیئے گا اور بولیئے گا کہ مجھ سے ضرور مل لے" اسنے نشست سے اٹھتے کہا۔
"ارے بیٹا بیٹھو دانیال آنے والا ہوگا اسکے ساتھ چلے جانا"۔ نائلہ نے کہا۔
"نہیں آنٹی مجھے دیر ہو رہی ہے آپ پلیز اسے بتا دیجیئے گا۔۔۔۔ ٹھیک ہے میں چلتا ہوں"۔ اجازت طلب کرتے وہ گھر سے نکل گیا تھا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"کیا سوچ رہی ہیں زینی باجی؟؟"۔ شیشے کے سامنے بیٹھی زینی کر اسنے مخاطب کرتے کہا۔
"زینی باجی"۔ جواب نا ملنے پہ اسنے اسے جھنجوڑا تھا۔
"ہاں"۔ پلکیں جھپکاتے اسنے کہا۔
"کیا سوچ رہی ہیں ایسا جس سے آپ کو اردگرد کا ہوش ہی نہیں ہے"۔ اسکے سامنے جاتے اسنے پوچھا۔
"بینش اللہ لوگوں میں تضاد کیوں رکھتا ہے؟؟"۔ بینش پہ نگاہ ڈالتے چہرے پہ سنجیدگی لیئے اسنے کہا۔
"کیا مطلب؟کیسا تضاد؟؟"۔ اسکے سوال پہ وہ حیران ہوئی۔
"یہی کہ سب مسلمان ایک اسی کی عبادت کرتے ہیں ۔۔۔۔ مگر کچھ کو وہ نوازتا ہے اور کچھ کو محتاج رکھتا ہے"۔ اسنے وضاحت کرتے کہا۔
"ایسی بات نہیں ہے زینی باجی۔۔۔۔ اللہ کی ذات نے کسی کو مکمل نہیں بنایا کسی کو دولت سے مالامال کیا ہے تو کسی کو قدرتی حسن سے۔۔۔۔ جو کہ آپ کے پاس ہے"۔ اسکا چہرہ ہاتھوں میں سموئے اسنے کہا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"دانیال بیٹا تم کب آئے؟؟؟"۔ اسکو روم میں دیکھتے ہی اسے تعجب ہوا۔
"جی ڈیڈ بس ابھی ابھی"۔ اسکی طرف قدم اٹھاتے وہ گویا ہوا۔
"خیریت تو ہے نا؟؟ آپ کچھ پریشان سے لگ رہے ہیں"۔ اسکے سامنے براجمان ہوتے اسنے پوچھا۔
"ہاں بیٹا وہ وہاب آیا تھا"۔ اس نے بات کا آغاز کیا تھا۔
"کیا؟ وہاب آیا تھا مجھ سے ملے بنا ہی چلا گیا"۔ اسنے ٹوک کر سوال کیا۔
"بیٹا وہ تمھارا ہی منتظر تھا مگر تمھیں تھوڑا وقت لگنا تھا اس لیئے وہ چلا گیا۔۔۔ تم اسے جا کر مل لو"۔ اسنے کہا۔
"مگر کیوں ڈیڈ؟ کیا ہوا ہے؟ سب خیریت تو ہے نا؟؟"۔ اسنے عجلت میں پوچھا۔
"دانی بیٹا خیریت ہے بھی اور نہیں بھی۔۔۔ بات دراصل یہ ہے کہ آج شباب افطار کا سامان لینے بازار گیا تھا تو ایک لڑکی سے مڈبھیڑ ہو گئی۔۔۔ اس لڑکی نے اسکو پتھر مار کر اسکا سر پھاڑ دیا ہے"۔ اسنے تفصیلا کہا۔
جبکہ اسکی بات پہ دانیال کے ہوش اڑ گئے تھے۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
افطار کے بعد کام سے فارغ ہو کر زینب اور بینش اپنے روم میں بیٹھی تھیں۔
"زینی کل میرے ساتھ بازار چلنا ایک جوڑا لانا ہے"۔ نسرین نے روم میں داخل ہوتے کہا۔
"کیوں اما خیریت تو ہے یہ بیٹھے بٹھائے تمھیں کیا نئے جوڑے کی پڑ گئی ہے"۔ فون سے نظر ہٹائے اسنے پوچھا۔
"ہاں وہ بلقیس کی کال آئی تھی کہ عروج کے دن باندھنے ہیں ۔۔۔ مجھے وہاں جانا ہے پوری برادری ہو گی اس طرح اچھا نہیں لگتا ۔۔۔۔ سوچا نیا جوڑا لے آوں"۔ نسرین نے تفصیلا کہا۔
"واہ اما اتنے سارے تو جوڑے ہیں تمھارے پاس کوئی سا بھی ایک پہن جاو۔۔۔۔ ویسے بھی نیا جوڑا پہن لینے سے کونسا تمھارا بڑھاپا ڈھل جانا ہے"۔ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اسنے دو ٹوک کہا۔
"زینی باجی آپ امی سے کس لہجے میں بات کر رہی ہیں؟"۔ بینش نے تپ کر کہا۔
"کیا مطلب کس لہجے میں بات کر رہی ہوں ۔۔۔۔ اسی میں بات کر رہی ہوں جس میں اما مجھ سے کرتی ہے۔۔۔ مجھے منع کرتی ہیں کہ بازار نہیں جانا میں خرچا بہت کرتی ہوں اور خود۔۔۔ اپنا تو نظر نہیں آتا"۔ زینی نے بھڑک کر کہا۔
"تو امی کونسا روز روز بازار جاتی ہیں آپکی طرح"۔ بینش نے بال سنوارتے کہا۔
"یہ تم مجھ سے کس انداز میں بات کر رہی ہو؟۔ بڑی بہن ہوں میں تمھاری"۔ فون سائیڈ پہ پٹختے زینی نے بھڑک کر کہا۔
"اسی لہجے میں جس میں سامنے والا مخاطب ہے"۔ بینش نے پرسکون جواب دیا۔
"اچھا زینی باجی بحث کیوں کر رہی ہیں امی نے جوڑے کا بولا ہے کل آپ لا دینا"۔ بینش نے بات گول کرتے کہا۔
"اچھا اما کل بینش کے ساتھ جا کر لے آوں گی تمھارے لیئے ایک نیا جوڑا"۔ زینی نے منہ بسورتے کہا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"وہاب یار جو ہونا تھا ہو گیا ویسے بھی اتنی گہری چوٹ نہیں آئی شباب کو انشا اللہ جلد ٹھیک ہو جائے گی"۔ دانیال نے وہاب کو تسلی دیتے کہا۔
"نہیں دانی وہ بات نہیں ہے نا ہی میں پریشان ہوں ۔۔۔۔ مجھے امید ہے کہ شباب کی چوٹ جلد ہی ٹھیک ہو جائے گی مگر۔۔۔۔" وہاب نے کہا۔
"دانیال بھائی قسم سے اگر وہ لڑکی مجھے دوبارہ سے ملی نا تو میں اسے چھوڑوں گا نہیں"۔ شباب نے ٹوکتے کہا۔
"ارے یار شباب ۔۔۔۔۔۔ ہر چھوٹی چھوٹی بات پہ پریشان نہیں ہو جایا کرتے۔۔۔۔ ویسے بھی تمھیں چوٹ آئی ہے تمھارے لیئے ٹینشن لینا اچھا نہیں ہے۔ دانیال نے اسکے کندھے کے گرد بازو حائل کرتے اسکا دھیان بھٹکانے کی کوشش کی تھی۔
"دانیال بھائی آپ نہیں جانتے وہ کتنی بد لحاظ اور منہ پھٹ لڑکی تھی۔۔۔۔ غلطی بھی اسی کی تھی اور پتھر بھی اسی نے مارا۔۔۔ خواہ مخواہ مصیبت گلے پڑ گئی۔ شباب ہنوز آگ برسانے میں لگا تھا۔
"شباب لڑکیاں ہوتی ہی ایسی ہیں تو فکر مند کیوں ہو رہا ہے۔۔۔۔ چھوڑو بھی وہ اپنے حال میں مست ہو گی تو بھی عیاشی کر چل مار۔۔۔۔ چھڈ دے یار"۔ دانیال نے اسکا پیٹ گدگداتے کہا۔
"کیا یار دانی تو بھی نا کبھی کبھی بچہ بن جاتا ہے"۔ وہاب نے قہقہہ لگاتے کہا۔
"ہاں میں بھی نا۔۔۔۔۔۔ یہ محبت ہے ہی ایسی کم بخت چیز اچھے بھلے انسان کو کیا سے کیا بنا دیتی ہے"۔ وہاب کی بات کا جواب دیتے دانیال سر کھجاتے من ہی من میں بڑبڑایا تھا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"یہ لو بھئی پچاس روپے"۔ رکشے سے اترتے اسنے پیسے رکشے والے کی طرف بڑھاتے کہا۔
"ارے باجی یہ تو بہت کم ہیں"۔ اسنے پیسے پکڑتے کہا۔
"کیا؟؟؟۔۔۔۔ باجی کس کو بولا؟؟۔۔۔۔۔ پہلی بات میں تمھاری باجی نہیں ہوں ۔۔۔ دوسری بات تم کوئی مجھے پیرس سے اٹھا کر نہیں لائے جو پچاس روپے بھی تمھیں کم لگ رہے ہیں۔۔۔۔ تیسری بات اپنی ان آنکھوں کا علاج کرواو جن سے صحیح سے کچھ دکھائی نہیں دیتا بغیر کسی ٹھہراو کے زینی نے بھڑک کر اپنی بات مکمل کی تھی۔
"یہ تو ناانصافی ہوئی ۔۔۔۔ ایک تو آپ مجھے اتنا دور لے کر آئیں ہیں اوپر سے کرایہ بھی کم دے رہی ہیں"۔ اسنے گلہ کرتے کہا۔
"کیسی ناانصافی؟؟۔۔۔ تم اپنی مرضی سے ہمارے ساتھ یہاں تک آئے ہو میں تمھیں گن پوائنٹ پہ نہیں لائی۔۔۔۔۔ سمجھے تم.۔۔۔۔۔ اب رکھنے ہیں تو رکھو ورنہ یہ بھی واپس کر دو"۔ اسنے ہاتھ آگے بڑھاتے کہا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"ایسا دیکھا نہیں خوبصورت کوئی
جسم جیسے ہے جنتا کی مورت کوئی"
دانیال اپنی دھن میں گنگناتا ہوا سیڑھیاں اتر رہا تھا۔
"دانیال بیٹا تم کہیں جا رہے ہو؟؟؟"۔ نائلہ نے اسے ٹوکتے پوچھا۔
"جی ماما ۔۔۔ بس یہ کمرشیل تک جا رہا ہوں"۔ نائلہ کی طرف قدم اٹھاتے وہ گویا ہوا۔
"کیوں بیٹا کوئی کام ہے؟؟"۔ نائلہ نے کہا۔
"نہیں ماما کچھ خاص تو نہیں ۔۔۔۔ بس مجھے ایک شرٹ لینی تھی سوچا لے آتا ہوں ۔۔۔۔ آپکو کچھ منگوانا ہے؟؟؟"۔ دانیال نے مزید پوچھا۔
"نہیں بیٹا تم جاو"۔ نائلہ نے کہا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"زینی باجی یہ دیکھیں کتنا پیارا جوڑا ہے امی پہ یہ بہت اچھا لگے گا"۔ سٹینڈ پہ لگے فیروزی رنگ کے جوڑے کو دیکھ کر بینش نے زینب کو مخاطب کیا۔
"بھائی یہ کتنے کا ہے؟؟؟"۔ زینی نے کاونٹر پہ کھڑے شخص کو مخاطب کرتے کہا۔
"دوہزار"۔ سامنے کھڑے شخص نے با آواز بلند کہا۔
"دوہزار۔۔۔۔۔۔ شکل سے لگتا تو نہیں ہے۔ اسکے جواب پہ زینی کو جھٹکا لگا تھا۔
بالآخر اللہ اللہ کر کے زینی کو ایک مناسب اور اچھا جوڑا پسند آ ہی گیا تھا۔
"زینی باجی آپ پیک کروا لیں میں آپکا باہر ویٹ کر رہی ہوں آپ آ جانا"۔ زینی کو مخاطب کرتے وہ مال سے نکل گئی تھی۔
"اس انسان کو میں نے پہلے بھی کہیں دیکھا ہے ۔۔۔۔ یا شاید میرا وہم ہے"۔ سامنے کار سے اترتے شخص پہ نگاہ پڑتے وہ اپنے آپ سے مخاطب ہوئی۔
"ارے یاد آیا یہ تو ڈی-کے ہے"۔ ذہن پہ زور ڈالتے وہ اچانک سے بول اٹھی تھی۔
"ہیلو۔۔۔ ایکس کیوز می"۔ پاس سے گزرتے اس شخص کو اسنے صدا بلند کرتے مخاطب کیا۔
"یس"۔ اس نے مڑتے ہی کہا۔
"آپ ڈی-کے۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے دانیال خان ہیں نا؟؟؟"۔ اسنے چھوٹتے ہی سوال کیا۔
"جی ۔۔۔۔ میں دانیال ہی ہوں"۔ سنجیدہ جواب دیتے اسنے مال کے اندرونی جانب قدم اٹھانا شروع کیئے تھے۔
"بینش چلو"۔ اسکے قریب آتے اسنے کہا۔
"بینش"۔ جواب نا ملنے پر اسنے اسے جھنجوڑا تھا۔
"زینی باجی ۔۔۔۔ آپکو پتہ ہے ابھی میرے پاس سے کون گیا ہے؟۔۔۔۔۔۔ ڈی-کے"۔ چہرے پہ حیرت انگیز خوشی لیئے اسنے کہا۔
"تو میں کیا کروں؟؟۔۔۔ اسکا شاہانہ استقبال کرتی یا اسکی آرتی اتارتی ۔۔۔۔ چلو اب دیر ہو رہی ہے"۔ تلخ جواب دیتے اسنے سیڑھیاں اترنا شروع کیا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
صبح کے دس بج رہے تھے دانیال معمول کے مطابق اپنے آفس پہنچ چکا تھا۔
"کم ان"۔ دروازے پہ ناک ہوا تو دانیال سیدھا ہو بیٹھا تھا۔
"گڈ مارننگ سر"۔ ایک خوبرو،جوشیلا نوجوان اسکے سامنے آن کھڑا ہوا۔
"گڈ مارننگ ۔۔۔۔۔ ہاں اسد کہو؟"۔ اسکی طرف متوجہ ہوتے اس نے پوچھا۔
"سر آپ نے جو مجھے کام کہا تھا وہ ہو گیا ہے۔۔۔۔۔ یہ رہا نمبر"۔ اسکی طرف کارڈ بڑھاتے وہ گویا ہوا۔
"گڈ ۔۔۔اچھا اسد اگر مجھے کوئی کام ہوا تو تمھیں انفام کر دوں گا۔۔۔۔ تم جا سکتے ہو"۔ کارڈ پکڑتے وہ مخاطب ہوا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"میرا خیال ہے کہ ٹیکسی آ گئی ہے۔۔۔۔ اچھا زینی گھر کا دھیان رکھنا۔۔۔ جیسا بھی ہے بینش ابھی چھوٹی ہے، نا سمجھ ہے تم بڑی ہو سمجھ دار ہو۔۔۔۔ اپنا ،گھر کا، بہن اور ابو سب کا خیال رکھنا میں انشا اللہ جلد واپس آ جاوں گی"۔ راہداری سے گزرتے وقت نسرین زینب کو تنبیہ کر رہی تھی۔
"ٹھیک ہے اما تم پریشان مت ہو میں خیال رکھوں گی"۔ زینی نے نسرین کے گلے لگتے اسے مطمئن کرتے کہا۔
"شاباش میری بچی"۔ نسرین نے اسکی پیشانی پہ پیار کرتے کہا۔
"بینش تم بھی خیال سے رہنا۔۔۔۔ دونوں بہنیں آپس میں جھگڑتی مت رہنا"۔ بینش کر گلے لگاتے اسنے اسے پیار کرتے تاکید کی۔
"امی آپ بالکل فکر مند نا ہوں میں اور زینی باجی گھر کا اور ابو کا دھیان رکھیں گے"۔ بینش نے کہا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"شباب تم تیار ہو جاو ڈاکٹر کے پاس چلنا ہے"۔ اسکے روم میں داخل ہوتے اسنے اسے مخاطب کرتے کہا۔
"ڈاکٹر کے پاس۔۔۔ مگر کیوں بیٹا؟؟"۔ شباب کے ہمراہ بیڈ پہ بیٹھی نصرت نے حیران ہوتے پوچھا۔
"ماما پریشانی والی کوئی بھی بات نہیں ہے وہ دراصل میرے نئے نویلے زخموں کے کپڑے بدلوانے ہیں نا آج ۔۔۔۔ ڈاکٹر نے سختی سے تاکید کی تھی کہ وقت پہ کروا لینا ورنہ زخم بگڑ جائے گا"۔ شباب نے لاف زنی کرتے کہا۔
"اچھا بیٹا یہ تو اچھی بات ہے ۔۔۔۔ اللہ کرے میرے بچے کا زخم جلد از جلد ٹھیک ہو جائے۔۔۔۔ پتہ نہیں کس کی بری نظر لگ گئی ہے میرے بچے کو"۔ نصرت نے اسکو پیار کرتے کہا۔
"او ماما آپ تو سنٹی ہی ہو گئی ہیں ۔۔۔ کسی کی نظر نہیں لگی اسے یہ تو ہے ہی ایسا ۔۔۔۔۔ ہر کسی کے ساتھ چھیڑ خانی کرتا ہے اب سمجھ آئی ہے کہ ہر کسی کے ساتھ پنگے اچھے نہیں ہوتے"۔ وہاب نے مصنوعی سنجیدگی چہرے پہ سجاتے کہا۔
"ماما دیکھ رہی ہیں اسے۔۔۔۔ اگر یہ میرا بڑا بھائی نا ہوتا نا تو۔۔۔۔۔۔۔"۔ شباب نے چڑ کر کہا۔
"ورنہ کیا ؟۔۔۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔۔ ورنہ کیا؟؟؟؟"۔ وہاب انگلی کے اشارے سے اسکی طرف بڑھا تھا۔
"وہاب بیٹا بھائی کو کیوں پریشان کر رہے ہو؟"۔ نصرت نے شباب کی سائیڈ لیتے کہا۔
"اچھا ماما نہیں کرتا تنگ ۔۔۔۔۔۔۔ چلیں اب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مس رونی شکل۔ شباب کو دیکھتے ہی وہاب کا جاندار قہقہہ گونجا تھا جبکہ شباب کامنہ اتر آیا تھا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"آرہی ہوں صبر تو کر جاو"۔ فون پہ گھنٹی بجی تو زینی نے روم کی راہ لی۔
"یہ کس کا نمبر ہے؟"۔ سکرین پہ انجان نمبر چمک رہا تھا جس نے زینی کو حیرت میں ڈالا تھا۔
"ہیلو کون؟؟"۔ کال ریسیو کرتے اسنے کہا۔
"اللہ کا بندہ"۔ دوسری جانب مختصرا جواب موصول ہوا۔
"تو میں کونسا کسی اور کی بندی ہوں ۔۔۔۔۔ زیادہ فری مت ہو ۔۔۔۔ ہو کون تم؟؟؟"۔ غیر سنجیدہ جواب ملتے ہی زینی تپ کر بولی تھی۔
"بتایا تو ہے آپکو"۔ دوسری جانب ہنوز غیر سنجیدگی تھی۔
"او بھئی میرے پاس زیادہ فالتو ٹائم نہیں ہے ۔۔۔۔۔ میرا دماغ نا خراب کرو۔۔۔۔ بتانا ہے تو بتاو ورنہ فون رکھو"۔ اب کی بار زینی بھڑکی تھی۔
"نہیں نہیں آپ فون نا رکھنا میں بتاتا ہوں۔۔۔۔ سوری آپ سے مذاق کر رہا تھا"۔ دوسری جانب گھبراہٹ بھری آواز مد مقابل ہوئی۔
"پھر بتاو"۔ زینی نے سنجیدگی سے کہا۔
"زینی میرا مطلب ہے کہ زینب میں دانیال بول رہا ہوں"۔ اسنے بات کا آغاز کرتے کہا۔
"دانیال؟؟۔۔۔۔۔ کون دانیال؟؟؟"۔ زینی نے سوچتے کہا۔
"دانیال۔۔۔۔۔ دانی جو اس دن آپکو پارک میں ملا تھااور اس دن آپ میرے ساتھ کار میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"۔ اسنے یاد دہانی کروانے کی کوشش کی۔
"او ہاں یاد آیا ۔۔۔۔۔۔ بولو کیا کام ہے مجھ سے؟؟؟"۔ ذہن میں تصور آتے ہی زینی نے جوش میں کہا۔
"م۔م۔ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں آج"۔ اسنے لڑکھڑاتی زبان سے کہا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"شمیم اسحاق ساری گراسری لے آئے ہیں تم ایسا کرو ان سب کو اپنی اپنی جگہ پہ رکھ دو"۔ نائلہ نے کچن میں کام کرتی شمیم کو مخاطب کرتے ہدایت کی۔
"جی اچھا بیگم صاحبہ"۔ شمیم نے سامان اٹھاتے کہا۔
"اچھا بیگم صاحبہ کھانے میں کیا بنانا ہے ؟؟؟؟ آپ مجھے بتا دیں تاکہ میں بنا لوں"۔ شمیم نے رکتے ہی پلٹ کر سوال کیا۔
"میرا خیال ہے کہ تم کوئی ہلکا پھلکا سا کچھ بنا لو ۔۔۔۔۔ کیونکہ افطار کے بعد سب کا جی بھرا ہوتا ہے تو۔۔۔۔ اس حساب سے تم دیکھ لو"۔ نائلہ نے اندازہ لگایا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
پانچ بجے وہ پارک میں پہنچ گیا تھا۔
کدھر ہو گی؟۔۔۔۔ کدھر ہو گی؟"۔ وہ زینی کی تلاش میں ادھر ادھر نظریں گھما رہا تھا کہ دائیں جانب اپنی طرف پیٹھ کر کے کھڑی دوشیزہ کو دیکھتے اسکی متلاشی نظروں کو سکون آیا تھا۔
تلاش کا یہ سفر ختم کرتے تیزی میں قدم اٹھاتا اسکے پاس جا کھڑا ہوا۔
"میں اسی کشمکش میں تھا کہ پتہ نہیں آپ آئیں گی بھی یا نہیں ۔۔۔۔۔۔ آپکو یہاں دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے میں بتا نہیں سکتا آپکو۔۔۔۔ آپ آئیں اسکے لیئے میں آپکا بہت شکر گزار ہوں ۔۔۔۔۔ زینی بات دراصل یہ ہے کہ جب سے میں نے آپکو دیکھا ہے تب سے کسی اور کا تصور مٹ گیا ہے ۔۔۔۔۔ آپ مجھے بہت اچھی لگتی ہیں میں آپ کے ساتھ اپنی باقی کی زندگی گزارنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ آپ کو کسی بھی قسم کی کوئی بھی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ مجھے کسی چیز کی کمی نہیں ہے ۔۔۔۔۔ بس کمی ہے تو صرف اور صرف آپ کی۔۔۔۔۔۔۔ زینی ۔۔۔۔ کیا آپ ۔۔۔ مجھ سے شادی کریں گی؟؟؟؟؟"۔ بغیر کسی ٹھہراو کے اسنے اپنی بات مکمل کر کے چین کا سانس لیا۔
بات مکمل ہونے کے چند لمحے بعد ہی زینی اسکی طرف پلٹی تھی اسکے کانوں میں ہینڈز فری اور ہاتھ میں فون دیکھ اس کی بتی گل ہو گئی تھی۔۔۔۔۔ وہ اپنی حماقت پہ ماتم کرنے لگا تھا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"چلو یہ تو اچھا ہوا ۔۔۔۔ اب تم بہت جلد صحت یاب ہو کر پہلے کی طرح ہو جاو گے"۔ گھر داخل ہوتے وہاب نے شباب کو مخاطب کرتے کہا۔
"ہاں اوراس چوٹ کے ساتھ مجھے یہ پتہ چل گیا ہے کہ تم مجھ سے کتنا پیار کرتے ہو"۔ ہال میں اسکے ہمراہ صوفے پہ بیٹھتے ہی اسنے صوفے کی بیک پہ سر ٹکا لیا۔
"ہیں؟؟؟؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔ تمھیں کس نے کہا کہ میں تم سے پیار کرتا ہوں؟؟؟"۔ وہاب نے سنجیدہ لہجہ اپناتے کہا۔
"بتاو یا نا بتاو تم جو میری اتنی کیئر کرتے ہو ۔۔۔۔ اور تو اور میری چوٹ کی بھی تمھیں کتنی فکر ہے ۔۔۔۔ پتہ تو چل ہی جاتا ہے نا"۔ شباب نے سیدھا ہوتے اسکی طرف منہ کرتے کہا۔
"جی نہیں جناب۔۔۔۔ اب ایسا بھی نہیں ہے تمھیں شرم نہیں آتی بڑا بھائی اکیلے کام کرتا ہے اور خود مزے سے بیڈ پہ سارا دن لم لیٹ رہتے ہو۔۔۔ جلدی سے ٹھیک ہو جاو پھر میں آرام کروں گا اور تم کام"۔ وہاب نے لاف زنی کرتے کہا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"تم کب آئے؟؟؟"۔ اسنے پلٹتے ہی پوچھا تھا۔
"دانیال"۔ جواب نا ملنے پر اسنے اسے جھنجوڑا تھا۔
"ج۔ج۔جی"۔ اسنے ہکلاتے کہا۔
"کہاں گم ہو؟؟؟ میں تم سے بات کر رہی ہوں اور تم ہو کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھا چھوڑو یہ بتاو تم نے مجھے یہاں کیوں بلایا ہے؟"۔ زینی نے اسکی توجہ مرکوز کرتے کہا۔
"کہیں نہیں ۔۔۔۔ یہیں ہے دھیان میرا۔۔۔۔۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی آیا ہوں ۔۔۔۔۔ آپ سنائیں آپ کب آئیں؟؟؟"۔ دانیال نے بمشکل کہا۔
"پندرہ منٹ ہو گئے ہوں گے یا شاید اس سے بھی زیادہ ۔۔۔ مجھے اندازہ نہیں ہے ۔۔۔ اچھا بتاو تم نے مجھے یہاں کیوں بلایا ہے اسنے کہا۔
"و۔و۔۔۔وہ آپ سے اک بات کرنی تھی مجھے۔ اسنے ہمت کرتے دوبارہ سے کہا۔
"ہاں بولو نا سن رہی ہوں"۔ اسنے ہاتھ باندھتے کہا۔
"ز۔ز۔زینی وہ۔۔۔۔۔ ب۔ب۔بات درا۔۔۔۔ اسنے ہنوز ہکلاتے کہا۔
"یہ آج تمھیں کیا ہو گیا ہے اتنا ٹائم کیوں لگا رہے ہو؟؟؟؟ جلدی کہو مجھے بازار بھی جانا ہے"۔ دوبارہ سے ہاتھوں کو پہلو میں کرتے اسنے سنجیدگی میں کہا۔
"ز۔ز۔زینی وہ بات یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔"۔ اسنے دوبارہ سے بات کا آغاز کرتے کہا۔
"ایک منٹ۔۔۔ میں کال سن لو۔ فون پہ رنگ ہوئی تو زینی نے کال اٹینڈ کرتے کہا۔
"اچھا دانیال میں تم سے پھر بات کروں گی ابھی مجھے جلدی جانا ہے"۔ کال کاٹتے اسنے کہا۔
"جی ٹھیک ہے"۔ دل کے ارمان کو سمیٹے اس نے تاسف سے کہا۔
"جی بہن بولیں؟ سبزی والے نے اسے مخاطب کرتے پوچھا۔
"بھیا! ایسا کرو مجھے ایک کلو Potato Fever دے دو لٹوں کو کانوں کے پیچھے اڑستے اسنے کہا۔
Potato Fever”یہ کیا ہوتا ہے؟؟ اسنے سر کھجاتے کہا۔
O Gosh You Half Reading Male”
Potatoمطلب آلو اور feverمطلب بخارا۔۔۔۔۔۔۔ Potato Fever مطلب آلو بخارا۔۔۔ مجھے ایک کلو دے دو اسنے منہ بسورتے کہا۔
"جی اچھا"۔
"پتہ نہیں اس ملک کا کیا بنے گا جہاں کی عوام اتنی جاہل ہے۔ وہ منمنائی۔
"یہ لیں بہن آلو بخارا۔۔۔۔ اور کیا چائیے آپکو اسنے تھیلی اسکی طرف بڑھاتے کہا۔
"بہن ذرا اردو میں بتانا ۔۔۔ مجھے اردو نہیں آتیاسنے افسردگی سے کہا۔
"اچھا ایسا کرو مجھے ایک کلو پاوں دے دو اسنے کہا۔
"ایک کلو پاوں۔ اسنے سر کھجاتے کہا۔
"اینگریزی کے ساتھ ساتھ کیا اردو بھی نہیں آتی۔۔۔۔۔ یا میرے مولا یہ کیسے انسان سے پالا پڑگیا ہ اسنے تپ کر کہا۔
P E A R “پیر۔۔۔۔۔ مطلب پاوں ۔۔۔۔ مجھے یہ دے دو"۔ اسنے ٹوکری کی طرف اشارہ کرتے کہا۔
"اچھا اچھا ناشپاتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی دیتا ہوں اسنے گرم جوشی سے کہا۔
"یہ لیں بہن آپ کے ایک کلو تازے پاو اسنے دوبارہ سے تھیلی اسکی طرف بڑھاتے کہا۔
"اور کیا چاھیے آپکو؟؟؟ اسنے دوبارہ پوچھا۔
"ہاں بھیا لگے ہاتھوں ایک کلو جانے والا آدمی بھی دے دو
"جانے والا آدمی"۔ حیرت نے دوبارہ سے اسکو اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔
O Gosh”
Man-Go مطلب جانے والا آدمی ۔۔۔۔۔ او ہو بھیا مجھے یہ ایک کلو دے د۔ اسنے دوبارہ سے ٹوکری کی طرف اشارہ کرتے کہا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"دانیال بیٹا آپ کہاں گئے تھے؟؟؟"۔ راہداری پار کرتے دانیال کو اسنے ٹوک کر پوچھا تھا۔
"کہیں نہیں ڈیڈ ۔۔۔۔ بس پارک تک گیا تھا"۔ اسکی طرف قدم اٹھاتے اسنے جواب دیا۔
"اچھا مگر بیٹا ۔۔۔۔ یہ کونسا وقت ہے پارک جانے کا؟؟؟"۔ اسنے حیرت سے پوچھا۔
"بس ایسے ہی ڈیڈ ۔۔۔۔ کچھ خاص نہیں"۔ اسکے سامنے صوفے پہ بیٹھتے اسنے کہا۔
"تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟؟؟"۔ اخبار سائیڈ پہ کرتے اسنے پوچھا۔
"ج۔ جی ڈیڈ ۔۔۔۔۔ آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟؟؟"۔ اسنے نے بے اختیار ہی کہا۔
"مجھے ایسے لگا جیسے تم پریشان ہو اور تمھاری طبیعت بھی ٹھیک نہیں لگ رہی"۔ اسنے خدشہ ظاہر کیا۔
"نہیں نہیں ڈیڈ میں بالکل ٹھیک ہوں بس تھوڑی تھکان ہے تو شاید اس لیئے"۔ اسنے تسلی بخش جواب دیا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
کچن کا کام مکمل کرتے اسنے روم کی صفائی کی غرض سے روم کا رخ کیا تھا۔
"پتہ بھی نہیں چلا اور دو عشرے مکمل بھی ہو گئے"۔ چیزوں کو سمیٹے اسنے زینی کو مخاطب کرتے کہا۔
"جو روزے رکھتے ہیں نا ان سے پوچھو۔۔۔۔ پتہ بھی نہیں چلا اور دو عشرے مکمل بھی ہو گئے"۔ اسنے منہ کا زاویہ بگاڑتے کہا۔
"زینی باجی صرف پہلے روزے میں ہی تھوڑی مشکل پیش آتی ہے بس پھر تو عادت ہو جاتی ہے"۔ اسنے تردید کی۔
"تم نے تو ہر بات میں میری مخالفت ضرور ہی کرنی ہوتی ہے"۔ اسنے سرد مہری میں کہا۔
"نہیں نہیں زینی باجی ایسی بات تو بالکل بھی نہیں ہے ۔۔۔۔۔ اچھا بتائیں آپ کیا کر رہی ہیں؟؟؟"۔ اسکی بات کی نفی کرتے وہ اسکے ہمراہ بیڈ پہ جا بیٹھی تھی۔
"ناول پڑھ رہی ہوں ۔۔۔۔ ویسے کوئی بہت ہی خوبصورت ناول ہے"۔ وہ جوش میں سیدھی ہو بیٹھی تھی۔
"اچھا کونسا ناول ہے؟؟؟"۔ اسنے پوچھا۔
"یہ چاہتیں یہ شدتیں"۔ اسنے جوابا کہا۔
"ناولز کی دنیا بہت ہی پیاری ہے مگر حقیقت بہت تلخ۔۔۔۔ ایسا اصل میں کہاں ہوتا ہو گا"۔ آنکھوں میں حسرت لیئے اسنے لفظوں کے لڑی پروئی تھی۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
وہ پریشان حال کرسی پہ بیٹھا ۔۔۔۔ اسکی پشت پہ سر ٹکائے سوچ کی وادیوں میں گم تھا۔
"کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟؟"۔ دروازے پہ ناک کے ساتھ ساتھ آواز بلند ہوئی۔
"ارے وہاب تم؟۔ ۔۔۔۔ وہاں کیوں کھڑے ہو آو نا"۔ دروازے پہ نگاہ پڑتے ہی وہ سیدھا ہو بیٹھا تھا۔
"کیا حال ہے جناب کہاں بزی ہو؟؟؟"۔ اسکے قریب آتے اسنے کہا۔
"ارے نہیں نہیں نفی کہاں ہوں فری ہی تو ہوں۔۔۔۔۔۔ تم سناو آج بڑا ٹائم نکالا ہے اس غریب کیلئے"۔ دانیال نے شیخی بگاڑی۔
"کیا کہا؟؟؟؟ غریب ۔۔۔۔۔۔ خدا کا خوف کرو تم جیسے دو چار غریب اگر اور پیدا ہو گئے نا پاکستان میں ۔۔۔۔۔۔۔۔تو پاکستان کا مستقبل سمجھو سنور گیا"۔ وہ بھی کہاں پیچھے رہنے والا تھا۔
"ہاہاہا ۔۔۔۔ یار بات تو تیری سولہ آنے درست ہے"۔ دانیال کا قہقہہ گونجا۔
"دانی یار تجھے کوئی پریشانی ہے کیا؟؟؟"۔ کچھ لمحے بعد اسکو سوچ میں غرق پاتے اسنے کہا۔
"نہیں یار وہاب پریشانی کیسی؟؟"۔ ٹیبل پہ پڑے پیپر ویٹ کو گھماتے اسنے جھکی نظروں سے کہا۔
"دیکھ ۔۔۔ میں تیرا بچپن کا دوست ہوں تو باقی سب کو بیوقوف بنا سکتا ہے مگر مجھے نہیں ۔۔۔۔۔ بتا کیا پریشانی ہے؟؟؟؟"۔ اسکے ہاتھ سے پیپر ویٹ پکڑتے وہ گویا ہوا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"زینی باجی آپ کہیں جا رہی ہیں؟؟ سنگھار میز کے سامنے بناو سنگھار کرتی زینی کو اسنے مخاطب کیا۔
"نہیں میں نے کہاں جانا ہے ۔۔۔۔۔ تم ایسے کیوں پوچھ رہی ہو؟؟؟؟"۔ لپ سٹک کو سائیڈ پہ کرتے اسنے پوچھا۔
"آپ اتنا تیار جو ہو رہی ہیں تبھی پوچھا کہ آیا آپ کہیں جا رہی ہیں اسکا مکمل جائزہ لیتے اسنے تفصیلا کہا۔
"کہیں نہیں جا رہی وہ دراصل Tok Tok پہ وڈیو بنانی ہے نا تو اس لیے ذرا تیار ہو رہی ہوں"۔ اسکی طرف دیکھتے وہ مسکرا دی۔
Tok Tok “یہ کیا ہوتا ہے؟؟؟"۔ ذہن پہ زور ڈالتے وہ بولی۔
"وہ جو آجکل بہت مشہور ہے اس پہ"۔ زینی نے اسکی مشکل دور کی۔
"اچھا اچھا Tik Tok۔۔۔۔۔۔۔ اس پہ ہی وڈیو بناتے ہیں نا سب"۔ اسنے تردید کی۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"یار تو کتنا بڑا پاگل ہے"۔ وہاب نے اسے کوسا۔
"کیا مطلب پاگل ہوں"۔ اسنے دہرا کر پوچھا۔
"دانی یار میری بات سن۔۔۔۔۔ تو ایک لڑکی سے پیار کرتا ہے اسکا فون نمبر نکلواتا ہے اسکو ملنے بلواتا ہے۔۔۔ یہاں تک کہ وہ تجھ سے ملنے بھی آئی ۔۔۔۔۔ تو اس سے یہ نہیں بول سکا کہ تو اس سے پیار کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ کمال ہے ویسے"۔ اسنے تپ کر بغیر کسی ٹھہراو کے اپنی بات مکمل کر دی۔
"یار کیا کرتا مشکل سے ہمت بڑھا کر اپنی بات مکمل کر دی تھی مگر پھر۔۔۔۔ ہمت ہی نا ہوئی"۔ چہرے پہ افسردگی کے نشانات نمایاں تھے۔
"یار دانی کچھ بھی نا ہوتا وہ ہے تو انسان ہی نا زیادہ سے زیادہ کیا کرتی نا بول دیتی تجھے کھا تھوڑی نا جاتی"۔ اسنے سمجھانے کے سے انداز میں کہا۔
"یار چھوڑ نا جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا ۔۔۔۔ اب بتاو میں کیا کروں؟؟؟؟"۔ اسنے اپیل کی۔
"ایک کام کر اسکے گھر لیٹر کے ساتھ ساتھ ایک کیک بھجوا دو"۔ بہت سوچ بچار کے بعد اسنے کہا۔
"کیا تمھیں لگتا ہے کہ یہ صحیح ہو گا؟؟؟؟"۔ اسنے کنفرم کیا۔
"ہاں کیوں نہیں ۔۔۔۔۔ دیکھ اسکے پاس تیرا نمبر بھی ہے اگر کوئی اعتراض ہوا تو بھی پتہ چل ہی جائے گا"۔ اسنے یقین دہانی کرائی۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
شام کے سات بج رہے تھے۔۔۔۔۔ تمام روزے دار اپنے رب کے اور قریب ہو گئے تھے۔۔۔۔ خدا کی رحمت نے انہیں اپنے حصار میں لے لیا تھا۔
"یہ اس وقت کون آ گیا ہے؟؟؟"۔ ڈور بیل بجی تو بینش نے چونک کر زینی کو دیکھا۔
"مجھے کیا پتہ میری طرف تو ایسے دیکھ رہی ہو نا جیسے مجھ سے پوچھ کے آیا ہے"۔ زینی نے چڑ کر کہا۔
"اف آپ تو وقت کی نزاکت کو بھی نہیں سمجھتیں بس شروع ہو گیا"۔ بینش نے دروازے کی راہ لی۔
"اسلام و علیکم"۔ دروازہ کھلتے ہی انجان شکل نے سلامتی بھیجی۔
"وعلیکم السلام ۔۔۔ جی آپ کون؟؟؟"۔ اسکو تعجب ہوا۔
"جی میں کورئیر مین ہوں ۔۔۔۔ کیا زینب سفیر یہاں رہتی ہیں؟؟؟"۔ اسنے کنفرم کیا۔
"جی یہیں رہتی ہیں"۔ اسنے جواب دیا۔
"یہ انکا کورئیر آیا ہے"۔ اسنے ایک وسیع چکور ڈبہ اسکی طرف بڑھایا جو کہ ایک شاندار اور خوبصورت پیکنگ سے لپیٹا گیا تھا۔
"یہ بھیجا کس نے ہے؟؟؟"۔ اس کو دیکھتے بینش کی آنکھیں دنگ رہ گئیں۔
"میم مجھے نہیں پتہ آپ خود چیک کر لیجیئے گا۔۔۔۔۔ آپ یہاں سائن کر دیں"۔ نفی کرتے اسنے ایک فائل اسکی طرف بڑھائی۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"پتہ نہیں زینی کو ابھی تک کورئیر ملا بھی ہے یا نہیں ۔۔۔۔۔ کیا اسنے وہ خط پڑھ لیا؟؟۔۔۔۔۔۔ پتہ نہیں خط پڑھنے کے بعد اسکا کیا reaction ہو گا؟؟؟"۔ افطار کے بعد دانیال اپنے روم کے باہر بالکونی میں ٹہل رہا تھا، طرح طرح کے خیالات اسکے ذہن میں امڈ رہے تھے۔
"فون کر کے پوچھ لیتا ہوں"۔ ٹیبل پہ پڑے فون کو دیکھتے اسنے سوچا۔
"نہیں نہیں ابھی نہیں کرتا ایسا نا ہو کہ سب بگڑ جائے"۔ ذہن میں آنے والے ہر خیال کو جھٹکتے وہ کرسی گھسیٹ کر اس پہ براجمان ہو گیا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"ارے اس میں تو کیک ہے ڈبے کو کھولتے اس پر حیرانگی کی لہر دوڑ گئی۔
"واو کیک"۔ کیک کا نام سنتے زینی کے منہ میں پانی بھر آیا تھا۔
"پتہ نہیں کس نے بھیجا ہے ؟؟؟ کوئی نام بھی نہیں ہے۔ بینش سوچ میں گم تھی۔
"چھوڑو نا جس نے بھی بھیجا ہے ۔۔۔۔ ادھر مجھے دو کیک کو برق رفتاری سے اٹھاتے اسنے کچن کی راہ لی۔
"ارے زینی باجی پتہ نہیں کس نے بھیجا ہے اور اک آپ ہیں کہ۔۔۔۔۔ وہ بھی اس کے پیچھے لپکی۔
"جس نے بھی بھیجا ہے ۔۔۔۔ بھیجا تو کھانے کیلئے ہی ہے ۔۔۔۔۔۔ دیکھنے کیلئے یا واپس کرنے کیلئے تو نہیں بھیجا"۔ کیک کو میز پہ رکھتے اسنے کیک کا سینہ چاک کیا۔
"وا کتنے مزے کا ہے ۔۔۔۔ بینش تم بھی ٹرائی کرو اس سے لطف اندوز ہوتے اسنے بینش کو مخاطب کیا۔
"نہیں مجھے نہیں کھانا ۔۔۔۔ آپ ہی کھائیں"۔ نفی کرتے ہی اسنے کمرے کا رخ کیا۔
"یہ کیا ہے؟؟؟؟۔ کمرے میں داخل ہوتے اسکی نظر خط نما کاغذ پر پڑی۔
جوں جوں اسنے اس میں لکھے ہر حرف کو گوش گزار کرنا شروع کیا اسکے حواس اسکا ساتھ چھوڑنے لگے تھے۔
"زینی باجی ۔۔۔۔۔ زینی باجی اسکو آوازیں لگاتے وہ دوبارہ سے کچن کی طرف لپکی۔
"جی شمیم آنٹی بولیں"۔ دروازے پہ ناک ہوا تو وہ دروازے کی جانب بڑھا۔
"دانیال بیٹا کھانا لگ گیا ہے آپکو بیگم صاحبہ بلا رہی ہیں"۔ اسنے آگاہی دی۔
"ٹھیک ہے آپ جائیں میں تھوڑی دیر تک آتا ہوں"۔ اسکو رخصت کرتے اسنے سنگھار میز کی طرف قدم اٹھائے تھے۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"اب سمجھ آئی کہ اسنے اس دن پارک میں مجھے کیوں بلایا تھا۔۔۔۔۔ مگر جب اسنے مجھے بلوا ہی لیا تھا تو یہ بات کی کیوں نہیں ایسے گھر کیوں بھجوایا"۔ بیڈ کے تاج کے ساتھ ٹیک لگائے وہ بینش سے ہم کلام تھی۔
"زینی باجی ہو سکتا ہے کہ وہ آپ سے ڈر گیا ہو ۔۔۔۔ آپ آرام سے بات سنتی ہی کہاں ہیں۔ اسے مخاطب کرتے اسنے لہجے کو دھیما کرتے کہا۔
"کیوں۔۔۔۔۔ میں نے کونسا اسے منہ میں ڈال جانا تھا"۔ زینی نے چڑ کر کہا۔
"اگر ممکن ہوتا تو آپ یہ بھی کر گزرتیں"۔ وہ منمنائی۔
"تم نے کچھ کہا؟؟؟"۔ اسنے کنفرم کیا۔
"نہیں میں تو بس یہ بول رہی ہوں کہ اب آپ کیا کریں گی۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہی کہ آپ کے پاس اسکا فون نمبر ہے؟؟؟🙄🙄"۔ اسنے متجسانہ پوچھا۔
"بینش تم نہیں جانتی کیا آجکل کی محبت کو ۔۔۔۔ صرف اور صرف وقت گزاری ہے اور رہی بات میری تو مجھ میں ایسا کیا ہے کہ وہ مجھ پہ یوں دل ہار بیٹھا ہے تم ہی بتاو۔۔۔۔ نا ہی میرا باپ کوئی رئیس ہے نا ہی میں کوئی امیر زادی۔۔۔۔۔ ممکن ہے اسنے مذاق کیا ہو😒😒"۔ بے یقینی اورتلخ حقیقت نے اسکو اپنے شکنجے میں لے رکھا تھا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"اسلام و علیکم آنٹی"۔ گھر داخل ہوتے اسنے ہال کی وسط میں رکھے صوفے پہ براجمان نائلہ پر سلامتی بھیجی۔
"وعلیکم اسلام ۔۔۔۔ شباب بیٹا کیسے ہو؟؟؟"۔ اسنے جواب کہا۔
"میں تو بالکل ٹھیک ہوں بس آپ کی دعا اور رب کا احسان ۔۔۔۔ باقی آپ کے سامنے"۔ اسکے سامنے صوفے پہ بیٹھتے اسنے کہا۔
"یہ تو اچھی بات ہے بیٹا ۔۔۔۔۔ اب آپکی چوٹ کیسی ہے؟؟؟"۔ اسنے دوبارہ پوچھا۔
"آنٹی اب پہلے سے بہتر ہے"۔ اسنے جوابا کہا۔
"یہ تو اللہ کی مہربانی ہے کہ آپ کو کوئی اندرونی چوٹ نہیں آئی"۔ نائلہ نے شکر گزاری کے سے انداز میں کہا۔
"جی یہ تو ہے ۔۔۔۔ اچھا آنٹی دانیال بھائی کہیں نظر نہیں آ رہے کہیں گئے ہیں کیا"۔ ادھر ادھر نظر دوڑاتے اسنے پوچھا۔
"بیٹا دانیال شاید بازار گیا ہے بتا کر نہیں گیا۔۔۔۔۔ ہو سکتا ہے تھوڑی دیر تک آ جائے"۔ اسنے لاعلمی میں کہا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"اچھا بینش تم دروازہ بند کو لو میں ذرا بازار جا رہی ہوں ۔۔۔۔ جلد ہی واپس آ جاوں گی"۔ دروازے کی طرف بڑھتے اسنے واشگاف آواز دی۔
آنکھوں کے سحر کو اور بھی مضبوط بنانے کیلئے اسنے ان میں کاجل لگایا تھا۔۔۔۔۔۔۔ سفید گورے بدن پہ کالے بادلوں کا پہرہ۔۔۔۔۔ کانوں میں چھوٹے جھمکے۔۔۔۔۔ بالوں نے اسکی کمر کو گھیر رکھا تھا اور پاوں میں نظر بٹو بلیک ناگرے۔۔۔۔۔۔ وہ اپنی دھن میں چلتی جا رہی تھی تبھی کہیں دور جا کر ایک سٹور اسکی توجہ کا مرکز بنا۔
“Excuse Meez☺☺”
سٹور میں داخل ہوتے اسنے دائیں جانب کھڑے خاص لباس میں ملبوس ایک شخص کو مخاطب کیا۔
“Yes Mam How Can I Help You??☺☺”
اس شخص نے احتراما کہا۔
"مجھے ایک سوپ دے دیں۔ اسنے کہا۔
"کونسا سوپ میم؟؟؟؟ چکن سوپ یا vegetable سوپ؟؟"۔ اسنے مزید پوچھا۔
"نہیں نہیں بھائی وہ سوپ نہیں ۔۔۔۔۔ دراصل میں لگانے والے سوپ کے بارے میں بول رہی تھی"۔ اسنے تفصیلا کہا۔
"ہیں لگانے والا سوپ"۔ اسنے سوچتے کہا۔
"ہاں بھائی
S O A P
سوپ ۔۔۔۔۔ مجھے ایک دے دیں"۔ اسنے رک رک کر کہا۔
"بہن اسے سوپ نہیں soapکہتے ہیں
"۔ اسنے تردید کی۔
"یہ لیں اور کچھ؟؟؟"۔ اسکے سامنے رکھتے اسنے مزید پوچھا۔
"ایک Lemon Waxدے دیں"۔
"یہ لیں بہن ۔۔۔۔ اور؟؟؟"۔ دوبارہ اسکے سامنے رکھتے اسنے پوچھا۔
"نہیں نہیں بھائی یہ نہیں ۔۔۔۔۔۔ دراصل میں برتنوں والا بول رہی تھی Lemon Wax”
اسنے نفی کی۔
"او ہو بہن اسے Lemon Waxنہیں Lemon Max کہتے ہیں"۔ سر پکڑتے اسنے دوبارہ سے تردید کی۔
"یہ لیں ۔۔۔۔ اور؟؟؟
"اور بھائی ایسا کریں مجھے ایک یا دو نٹ دے دیں سوچ بچار کرتے اسنے مزید کہا۔
"ہمارے پاس Peanut,Wallnutاور Almond ہیں ۔۔۔۔ آپکو کیا چاھیے؟؟؟۔ اسنے کنفرم کیا۔
"نہیں نہیں بھائی ایک یا دو نٹ مطلب۔۔۔۔ وہنے سامنے شیشے کی طرف اشارہ کرتے کہا۔
"اوہو اسکو ایک یا دو نٹ نہیں صرف دو نٹ بولتے ہیں ۔۔۔۔۔ پتہ نہیں کہاں سے آ جاتے ہیں جب english آتی نہیں ہے تو بولنے کی زحمت کیوں کرتی ہیں جائیں یہاں سے میرا ٹائم ویسٹ نا کریں ۔۔۔۔۔ ایک تو روزہ ہے اوپر سے۔۔۔۔۔۔۔۔"۔ اسکی آگ برساتی زبان نے زینی کی دل آزاری کی تھی۔۔۔۔ زینی نم آنکھیں اور بھیگی پلکیں لیئے مڑی ہی تھی کہ سامنے کھڑے انسان پر نظر پڑتے ساکت سی کھڑی رہ گئی۔
"آ رہی ہوں ایک منٹ"۔ ڈور بیل بجی تو اسنے دروازے کی راہ لی۔
"ارے امی آپ"۔ دروازہ کھلتے ہی اس پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
"بینش میری بچی کیسی ہو؟؟"۔ اسکے ہمراہ اندرونی جانب قدم اٹھاتے اسنے اسے پیار کیا۔
"میں ٹھیک ہوں امی ۔۔۔۔ آپ سنائیں۔۔۔ آپ کیسی ہیں؟؟۔۔۔۔ اور شادی کیسی رہی؟؟؟"۔ اسنے ایک ساتھ سوالات کی بھرمار کر دی تھی۔
"میں ٹھیک ہوں بس سفری تھکان ہے۔۔۔۔ کوئی شور شرابہ تو کرنا نہیں تھا سادگی سے ہی کرنا تھا۔۔۔۔اللہ کا شکر ہے سب اچھے سے ہو گیا اور سویرا بخیر و عافیت اپنے گھر کی ہو گئی"۔ اسنے تفصیلا کہا۔
"بینش بیٹا زینی کدھر ہے؟؟؟"۔ گھر کے سناٹے کو بھانپتے اسنے پوچھا۔
"امی زینی باجی بازار گئی ہیں"۔ اسنے جواب دیا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"کوئی بھی کاروبار شروع کرنے سے پہلے خواہ وہ چھوٹے سے چھوٹا ہو یا بڑے سے بڑا ۔۔۔ ہمیں اس کے اصول کا پتہ ہوتا ہے۔ اسلامی تعلیمات،روایات یہاں تک کہ اخلاق کے مد نظر ہمیں کسی بھی انسان کی اس طرح سے Insultکرنے کا حق نہیں ہے۔۔۔ روزہ ہمیں صبر اور استحکامت سکھاتا ہے جو کہ تم نے اپنے لیئے رکھا ہے نا کہ کسی پہ احسان کر کے جو یوں سر عام اسکا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہو۔۔۔ تمھیں تو بات تک کرنے کی تمیز نہیں ہے یہاں تمھیں رکھا کس نے ہے۔۔۔۔۔ جس سٹور میں کھڑے ہو کر تم اس پہ رعب جھاڑ رہے ہو جانتے بھی ہو کہ یہ ہے کس کا؟؟؟؟"۔ سن گلاسز اتارتے متوازن چال چلتا وہ اسکے قریب آیا تھا۔
“Where is the manager???? Call him right now"
اسکا دماغ ٹھکانے لگاتے اسنے کاونٹر کی طرف دیکھتے آواز بلند کی۔
"س۔س۔سوری سر"۔ سامنے کھڑے شخص نے نظریں جھکائے ہکلاتے ہوئے کہا۔
"کیا کہا میں نے سنا نہیں"۔ ہاتھ پیچھے کو مڑے شخصیت میں تا ہنوز رعب تھا۔
"س۔سوری سر"۔ شرمندہ سر اس نے دوبارہ کہا۔
اسکے مزاج کی سردی نے زینی کو ابھی تک کشمکش میں ڈال رکھا تھا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"ارے شباب تم کب آئے؟؟؟؟"۔ کمرے کی راہ لیتے اچانک اسکی نظر ہال میں بیٹھے شباب پر پڑی۔
"اسلام و علیکم انکل"۔ صوفے سے اٹھتے اسنے کہا۔
"وعلیکم السلام برخوردار کیسے ہو؟؟"۔ اسکی طرف بڑھتے اسنے کہا۔
"ٹھیک ہوں انکل آپ سنائیں ۔۔۔۔۔ آپ یقینا آفس گئے تھے؟"۔ اسنے بے یقینی سے کہا۔
"ہاں بیٹا آفس ہی گیا تھا میٹنگ جلدی ختم ہو گئی اور کوئی کام بھی نہیں تھا تو سوچا گھر ہی چلا جاتا ہوں یہاں رہ کر بھی کیا کرنا ہے"۔ اسکے ہمراہ بیٹھتے اسنے تفصیل دی۔
"اچھا اچھا ۔۔۔۔۔ ہاں جی یہ تو آپ نے بالکل ٹھیک کیا ۔۔۔۔۔۔ جب کام مکمل کر لیا ہے تو آفس رہ کر بھی کیا کرنا تھا"۔ نظر واچ پہ ٹکائے اسنے لا علمی میں کہا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"زینی میری بات سنو"۔ آوازیں لگاتا وہ مال سے نکلتا اسکے پیچھے دوڑا تھا۔
"تھینک گاڈ تم رکی تو"۔ تھوڑا دور جاتے اسکے قدم اچانک سے منجمد ہو گئے۔
"تم کون ہو؟؟؟"۔ لہجے میں سنجیدگی اور ذہن میں ہزار سوال لیئے وہ بطور مجسمہ اسکے سامنے تھی۔
"زینی میں تمھیں سب بتاتا ہوں ۔۔۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم کہیں بیٹھ کر بات کریں۔۔۔ پلیز"۔ اسنے التجا کی۔
"نہیں مجھے تمھارے ساتھ کہیں بھی نہیں جانا مجھے یہیں جواب چائیے"۔ وہ بضد تھی۔
"اوکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا نام تو تمھیں پتہ ہے ۔۔۔ دانیال خان۔۔۔۔ وہی دانیال خان جو اس شہر کے رئیس انسان اسحاق خان کا بیٹا ہے۔۔۔۔۔ یعنی ڈی-کے ۔۔۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ تم کیا سوچ رہی ہو۔۔۔۔ میں نے اس دن پارک میں تمھیں سب بتایا تھا کہ میرے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ہے بس ہے تو صرف تمھاری۔۔۔۔۔ مگر بدقسمتی سے تم نے اس دن کچھ نہیں سنا، پھر میری ہمت نہیں ہوئی ۔۔۔۔۔۔ تمھیں ایسا لگتا ہے کہ میں تمھارے ساتھ ٹائم پاس کر رہا ہوں یا ایسا کچھ بھی۔۔۔ تو میرا یقین مانو میں سچ میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں تمھیں اپنی عزت بنانا چاہتا ہوں۔۔ اس کے لیے تمھاری رائے اور مرضی میرے نزدیک بہت اہمیت کی حامل ہے۔۔۔ تمھاری ہاں یا نا جو بھی ہے۔۔۔۔مجھے قبول ہے"۔ اس سے منہ پھیرتے اسنے بات مکمل کر دی۔
گھر داخل ہوتے اسنے اردگرد نظر دوڑائی ۔۔۔ سناٹا اور خاموشی بھانپتے اسحاق اور نائلہ کے روم کی جانب مڑا۔۔ کمرے کے باہر کھڑے ہوتے اسنے دستک دی۔
"کون ہے؟؟ آ جاو"۔ بغیر دروازے کی جانب دیکھے اسنے کہا۔
"اسلام و علیکم ماما"۔ بظاہر اسکا وجود نائلہ کے سامنے جھول رہا تھا درحقیقت وہ سوچ کی کشتی میں سوار کہیں دور نکل گیا تھا۔
"وعلیکم السلام دانیال بیٹا آو یہاں میرے پاس بیٹھو"۔ بیڈ کے تاج کا سہارا چھوڑتے اپنے وجود پہ بوجھ ڈالتے اسنے اپنے سامنے بیڈ پہ اشارہ کیا۔
"ماما مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے"۔ اسکے سامنے بیٹھتے ہی اسنے نائلہ کے چہرے پہ نگاہ ڈالی۔
"جی میری جان کہو کیا بات ہے؟؟"۔ ہتھیلی اسکے بائیں رخسار سے لگاتے اسنے کہا۔
“Mama I want to marry”
اسکی آنکھوں میں جھانکتے جیسے اس نے فیصلہ سنایا تھا۔
"شادی ۔۔۔ وہ بھی یوں اچانک ۔۔۔ کیوں کیا ہوا ہے سب خیریت تو ہے نا دانیال؟؟"۔ اسکے اس فیصلے پہ وہ ایک جھٹکے کے بعد بحال ہوئی۔
"جی ماما شادی۔۔۔۔ مجھے ایک لڑکی پسند ہے آپ اسکے گھر جا کے میرا رشتہ مانگ لیں ۔۔۔ امید ہے سب بہتر رہے گا۔۔۔ ابھی میں تھکا ہوا ہوں بعد میں تفصیل سے بات کروں گا"۔ بیڈ سے اٹھتے وہ لمحہ بھر کو رکا، ہلکی سی گردن کو جنبش دی،بات مکمل کی اور اپنے روم کی جانب بڑھ گیا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"ارے اما تم کب آئی؟؟؟"۔ اسے کچن میں کام کرتا دیکھ اسکی آنکھوں میں چمک اتر آئی تھی۔
"ایک گھنٹہ ہو گیا ہے ۔۔۔ تم بازار گئی تھی"۔ دوپٹے سے ہاتھ صاف کرتے اسنے اسے گلے لگایا۔
"ہاں مجھے کچھ چیزیں لانی تھیں مگر لا نہیں سکی😊😊"۔ سٹور میں ہوئے واقعے پہ اسکا منہ اتر آیا۔
"کیوں ایسا کیا ہوا؟؟؟۔۔۔۔۔ آج سے پہلے تو ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ کوئی چیز لینے گئی ہوں اور وہ چیز لائی نا ہوں بلکہ آپ تو دس گناہ زیادہ خریداری کر کے آتی ہیں🤔🤔"۔ متعجب لہجہ، وہ اسکے عقب میں آ کھڑی ہوئی۔
"تمھیں ہر بات پہ میری جاسوسی کرنا ضروری ہے؟"۔ ناگواری سے زینی اسکی طرف پلٹی۔
"جاسوسی کہاں کر رہی ہوں زینی باجی۔۔۔۔ میں تو بس چیک کر رہی ہوں کہ کہیں آپکو بخار وخار تو نہیں ہے جو آج خالی ہاتھ لوٹ آئی ہیں ہنسی دبائے، سینے پہ ہاتھ باندھے وہ اسکے سامنے جا کھڑی ہوئی۔
"کوئی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔ اپنے کام سے کام رکھو سمجھی"۔ اسکی طرف جھکتے اسنے اسے وارن کیا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"شکر ہے تم بھی ٹھیک ہو گئے ہو ۔۔۔ آرام سے گھر تو ٹکنے نہیں ہوتا تم سے۔۔۔۔ گھوڑا دوڑاتے ہو اور اپنے بےتکے سے مشن پہ نکل جاتے ہو"۔ قدموں کی آہٹ پہ اسنے رخ موڑا۔
"ہاں تو کیا کروں ہر وقت ماما کی طرح گھر میں بیٹھا رہوں ۔۔۔۔ آپ اگر ایسا چاہتے ہیں مجھے بندی بنا کر رکھنا چاہتے ہیں تو سن لیں ۔۔۔۔ میں ایسا ہر گز نہیں کروں گا کیونکہ میں پاکستان کا معزز اور آزاد خیال شہری ہوں"۔ پیچھے کی جانب سے اسکے کندھوں پہ ہاتھ رکھتے اسنے مصنوعی احتجاج کیا پھر سیڑھیاں چڑھتا اپنے روم میں چلا گیا۔
" وہاب بیٹا کیوں تنگ کرتے ہو اسے ۔۔۔ پتہ بھی ہے کہ وہ کسی کی نہیں سنتا"۔ چھوٹے ہونے کے باعث وہ گھر میں مخصوص جگہ کا حامل تھا اور نصرت نے اسے لاڈ سے پالا تھا۔
"ماما تنگ کہاں کر رہا ہوں ۔۔۔۔ اب بہن بھائیوں او سوری۔۔۔۔۔۔ بھائیوں میں چھوٹی موٹی نوک جھونک تو ہوتی رہتی ہے ورنہ پتہ کیسے چلے کہ بہن بھائی ہیں"۔ تو صیحح کرتے وہ ہنس دیا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
گھر کی دائیں جانب مستعطیل شکل لان میں کھلے آسمان کے نیچے بچھی چار کرسیوں میں سے وہ ایک پر بیٹھی تھی۔
کار کے ہارن کی آواز پہ واچ مین نے دروازہ کھولا۔۔۔ کار گھر کے بنے خوبصورت اور وسیع کار پورچ میں کھڑی ہوئی۔۔۔۔ ڈرائیور نے اگلی سیٹ سے اتر کر پچھلا دروازہ کھولا۔۔۔ نائلہ کو لان میں موجود پاتے اسنے اسکی طرف قدم اٹھائے۔
"اسلام و علیکم" درمیانے قدم اٹھاتے وہ اسکے قریب گیا۔
"وعلیکم السلام"۔ دانیال کے اچانک فیصلے پہ وہ ابھی تک حیران تھی۔۔ پریشانی اسکے چہرے سے چھلک رہی تھی۔
"نائلہ بیگم خیریت تو ہے؟؟ آج آپ بہت پریشان لگ رہی ہیں"۔ اسکے چہرے کی فکر مندی بھانپتے اسنے چیئر کا رخ نائلہ کی طرف کیا اور بیٹھ گیا۔
" آپکو پتہ ہے دانیال نے آج خود اپنے رشتے کی بات کی ہے مجھ سے"۔ اسحاق کو آگاہ کرتے جیسے وہ پرسکون ہوئی۔
"نائلہ بیگم تو اس میں پریشانی والی کونسی بات ہے ۔۔۔۔ شادی دانیال کا حق ہے اور ایک نا ایک دن تو دانیال کی شادی ہونی ہی ہے پھر اس سے اچھی بات کیا ہوگی کہ دانیال نے آپ سے خود شادی کی بات کی ہے۔۔۔ ممکن ہے کہ اسنے کوئی لڑکی بھی پسند کی ہو"۔ نائلہ کی بات پہ اسکے چہرے پہ مسکراہٹ آ گئی۔
"لیکن اسحاق پتہ نہیں وہ ہے کون؟۔ اسکی فیملی کونسی ہے۔۔۔ کہاں کی رہنے والی ہے"۔
"نائلہ بیگم مجھے اپنے بیٹے کی پسند پہ بھروسہ ہے ۔۔۔ آپ بھی اطمینان رکھیں انشااللہ سب بہتر ہو گا"۔ ٹانگ پہ ٹانگ رکھتے اسحاق نے تسلی بخش جواب دیا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
ماتھے پہ بازو رکھے، بیڈ پہ لیٹے وہ چھت پہ نگاہ گاڑے ہوئے تھی۔۔۔۔ اسکی خاموش طبیعت اور گمصم لہجے کو بھانپتے بینش اسکے قریب آئی۔
"زینی باجی آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟؟"۔ ہاتھ کی پشت کو زینی کی پیشانی پہ رکھتے وہ فکر مند سی ہوئی۔
"کچھ نہیں ہوا میں ٹھیک ہوں"۔ منہ لگائے وہ سیدھی ہو بیٹھی۔
"میں صبح سے نوٹ کر رہی ہوں آپ کچھ بجھی بجھی سی لگ رہی ہیں جب سے بازار سے آئی ہیں تب سے کوئی پریشان سی ہیں ۔۔۔۔۔۔ مجھے بتائیں کیا پریشانی ہے؟؟"۔ ناراضگی ظاہر کرتے بینش اس کے سامنے بیڈ پہ جا بیٹھی۔
"بینش دانیال آج مجھے سٹور میں ملا تھا وہ مجھ سے شادی کا خواہش مند ہے"۔ اس کا ہاتھ ہاتھوں میں لیتے وہ بولی۔
"تو آپی یہ تو اچھی بات ہے نا ۔۔۔۔ اس سے کہیں کہ رشتہ بھیجے ۔۔۔۔ اس سے اچھی بات کیا ہو گی کہ آپ کی شادی ہو گی اور مجھے ڈھیر ساری شاپنگ کا موقع ملے گا"۔ بیڈ سے اٹھتے وہ بولے سے جھومنے لگی تھی۔
"بینش تمھیں ایک بات نہیں پتہ۔۔۔ دانیال اور کوئی نہیں بلکہ رئیس اسحاق خان کا اکلوتا بیٹا ڈی-کے ہے"۔ زینی کی بات پہ بینش کی ہنسی چھو منتر ہوئی اور وہ ٹھک سے اسکے پاس آ بیٹھی۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
گرچہ سورج کی چمک اپنے عروج پر تھی۔۔۔مگر روزے داروں کے بلند حوصلوں کو پست کرنے میں ناکام تھا۔
دانیال اپنے آفس کیلئے تیار تھا اور بیگ لے کر روم سے نکل گیا تھا۔
"دانیال بیٹا آج آپ تھوڑا جلدی آ جانا آپکا رشتہ لینے جانا ہے"۔ منہ کا رخ ادھر کو موڑے اسنے سیڑھیاں عبور کرتے دانیال کو با آواز بلند پکارا۔
"ج۔جی ڈیڈ ۔۔۔۔ مگر کب تک؟؟؟"۔ اسکی بات پہ اسکے پاوں رک سے گئے تھے۔
"بیٹا کوشش کرنا کہ بارہ بجے تک آ جاو۔۔۔ میرا خیال ہے کہ یہ وقت صحیح ہے کیوں نائلہ بیگم؟؟؟"۔ جواب دیتے اسنے کچن سے باہر آتی نائلہ کو مخاطب کیا۔
"جی ٹھیک ہے ۔۔۔۔ جیسے آپکو مناسب لگے"۔ اسحاق پہ بات چھوڑتے وہ مطمئن سی صوفے پہ بیٹھ گئی۔
"تو ٹھیک ہے موم ڈیڈ میں بارہ بجے تک آ جاوں گا۔۔۔ اللہ حافظ"۔ اسحاق کی بات سے سہمت ہوتے اسنے انہیں خیر باد کیا۔
"صاحب یہاں سے آگے کار نہیں جا سکتی ۔۔۔۔ آگے گلی بہت تنگ ہے"۔ بلیک چمچماتی مرسیڈیز گلی کے نکڑ پہ آ رکی تھی۔
"ٹھیک ہے رضوان تم ایسا کرو کار سائیڈ پہ پارک کر کے ہمارا انتظار کرو۔۔۔ میں تمھیں کال کر کے انفام کر دوں گا"۔ ڈرائیور کو چوکنا کرتے وہ دانیال اور نائلہ کے ہمراہ کار سے اتر گیا۔
درمیانے قدم اٹھاتے وہ گلی کی دائیں جانب موجود چوتھے نمبر والے مکان کے پاس جا رکے تھے۔ اسحاق اور نائلہ آگے تھے جبکہ دانیال ہڑبڑاتے ذرا چھوٹے قدم اٹھا رہا تھا۔ اسحاق نے ڈور بیل پہ ہاتھ رکھا چند سیکنڈ بعد دروازہ کھل گیا۔
"اسلام و علیکم"۔ کم عمر لڑکی نے دروازہ کھولا تو اسحاق نے کہا۔
"وعلیکم السلام جی آپ کون؟؟؟"۔ متعجب سی وہ انہیں دیکھ رہی تھی۔
"محترمہ اگر آپکی Investigation ختم ہو گئی ہو تو کیا ہم اندر آ سکتے ہیں ؟؟"۔ دانیال انکے عقب میں آ کھڑا ہوا جسے دیکھتے اس پہ حیرت انگیز خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
"ج۔جی آئیے نا۔۔۔۔۔ امی ابو زینی باجی دیکھیں تو کون آیا ہے؟"۔ سائیڈ پہ ہوتے وہ اندر کی جانب دوڑی۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"وا بھئی اب تو دانیال کا بھی بینڈ بجنے والا ہے"۔ گھر کے وسط ہال میں رکھے گئے چار صوفوں میں سے ایک پہ وہ بیٹھ گیا تھا۔
"ہیں کیوں؟؟ ایسا کیا ہونے والا ہے؟؟"۔ وہ جو مزے سے سامنے والے صوفے پہ لیٹ کر گیم کھیلنے میں مگن تھا اب سیدھا ہو بیٹھا تھا۔
"نائلہ آنٹی اور اسحاق انکل کے ساتھ آج لڑکی دیکھنے گیا ہے۔ رشتہ ہو گیا تو شادی۔۔۔ ٹن ٹنا ٹن"۔ فون پہ نگاہ جمائے وہ نمبر ٹٹول رہا تھا۔
"دانی بھائی کو لڑکی پسند ہے ۔۔ کیا یہ بات تمھیں معلوم تھی؟ وہاب"۔ اسنے متجسانہ اسے دیکھا۔
"نہیں میری اور دانیال کی اس ٹاپک پہ کبھی کوئی بات نہیں ہوئی"۔ پل بھر کو فون سے نگاہ اٹھائے اسنے جواب دیا۔
"دانی بھائی کی پسند ہے امید ہے اچھی ہوگی"۔ وہ دوبارہ سے صوفے پہ لیٹ گیا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"بہن آپکو کسی بھی قسم کی پریشانی اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے بس کمی ہے تو ایک بیٹی کی"۔ گھر کے چھوٹے سے مہمان خانے میں نائلہ اور اسحاق نسرین کے ساتھ گفت و شنید میں مصروف تھے جبکہ دانیال کی ساکت متلاشی نظریں دروازے پہ ٹکیں تھیں۔
"دانیال بیٹا آپ کہاں گم ہیں؟؟"۔ گفتگو میں وقفہ لاتے اسحاق نے دانیال پہ نگاہ ڈالی۔
"بھائی صاحب اگر زینی کو یہ رشتہ منظور ہے تو مجھے بھی اس رشتے سے کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔۔ میں زینی کو ابھی بلا کر لاتی ہوں"۔ hنسرین صوفے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
"رہنے دیں اما میں خود آ گئی ہوں"۔ اسکے روم سے نکلنے سے پہلے ہی زینی دروازے پہ موجود تھی۔
"اپنا فیصلہ سنانے سے پہلے دانیال سے اکیلے میں کچھ بات کرنا چاہتی ہوں"۔ گلابی اور سفید امتزاج کے کپڑے، بالوں کی ڈھیلی سی چٹیا،پاوں میں باریک موتیوں سے بنے نفیس جوتے اور دونوں ہاتھوں میں کھنکناتی چوڑیاں۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"کیا ہوا زینی؟ تمھیں یہ رشتہ قبول نہیں ہے کیا؟؟؟"۔ اپنی طرف پیٹھ کر کے کھڑی زینی کو مخاطب کرتے بالآخر اسنے چپ کا روزہ توڑا۔
"جو جو میں تم سے پوچھوں گی مجھے انکا جواب دے دو ۔۔ میں اپنا فیصلہ اسکے برعکس سنا دوں گی"۔ ہنوز اسکی طرف پیٹھ کرتے اسنے کہا۔
"پوچھو جو پوچھنا ہے میں جواب دینے کو تیار ہوں"۔ وہ مطمئن سا پینٹ کی پاکٹس میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا۔
"کیا تم واقعی تم سے پیار کرتے ہو؟؟"۔ منہ کا رخ اسکی طرف موڑے وہ سنجیدگی میں بولی۔
"ہاں"۔
"پروف دو"۔
"زینی کیا یہ بات کسی پروف سے کم ہے کہ میں مابدولت خود اپنے پیڑنٹس کے ساتھ تمھارے گھر تمھارا رشتہ لینے آیا ہوں"۔ پاکٹس سے ہاتھ نکالے وہ خفگی سے بولا۔
"تم میرے لیئے کیا کر سکتے ہو؟؟؟"۔ اس کی بات پہ غور کرتے کچھ لمحے بعد اسنے دوبارہ پوچھا۔
"کچھ بھی کر سکتا ہوں جو تم چاہو"۔ اسکا لہجہ انتہائی پرسکون تھا۔
"اپنی کلائی کاٹ سکتے ہو؟؟"۔ اسنے بے اختیار کہا۔
"وٹ؟؟؟۔۔۔۔ یہ تم کس قسم کے سوال کر رہی ہو زینی ۔۔۔ کیا تمھارے نزدیک جان دینا پیار کا دوسرا مطلب ہے؟"۔ اس کے سوال پہ وہ چونک اٹھا تھا۔
"جو انسان آپ کے لیئے اپنی جان نہیں دے سکتا وہ آپ سے پیار نہیں کر سکتا"۔ اسکی آنکھوں میں جھانکتے اسنے وہ سنجیدہ ہوئی۔
"یہ تم سے کس نے کہا کہ پیار میں جان دینا ضروری ہے"۔ اسنے بے زارگی سے کہا۔
"کس نے کہنا ہے میں نے فلموں میں دیکھا ہے کہ ہیرو اپنی ہیروئن کیلئے جان بھی دے دیتا ہے کیونکہ وہ اس سے پیار کرتا ہے"۔ اسنے بچگانہ انداز اپنایا تو دانیال کی ہنسی نکل گئی۔
"یار زینی وہ فلم ہے اور یہ حقیقی دنیا۔۔۔ اصل زندگی میں ہیرو اپنی جان نہیں۔۔۔۔ صرف اور صرف اپنی جان کو ڈھیر سارا پیار ہی کر سکتا ہے"۔ چہرے پہ مسکراہٹ لیئے وہ اسکے قریب ہوا تو زینی جھٹکے سے پیچھے کو ہٹی۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
"یہ تو اچھی بات ہے یار دانی۔۔ بہت بہت مبارک ہو تمھیں ۔۔۔ ٹھیک ہے تو پھر شام میں ملتے ہیں ۔۔۔ بائے"۔ چہرے پہ خوشی سجائے اسنے کال کاٹی اور جلدی میں گھر کی جانب بڑھا۔
"خیر تو ہے وہاب؟۔۔ بڑے خوش نظر آ رہے ہو"۔ سامنے سے آتے شباب کو شبہ ہوا۔
"بات ہی خوشی کی ہے ۔۔۔ ماما کدھر ہیں؟؟؟"۔ نصرت کو وہ متلاشی نظروں سے دیکھتا اسکے روم کی جانب بڑھا۔
" یار اب بتا بھی دو اتنا سسپنس کیوں کرئیٹ کر رہے ہو؟؟؟"۔ اسکے عقب میں چلتا وہ خفگی سے بولا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
خان ولا پھولوں اور رنگین لائٹوں سے آراستہ کیا گیا تھا کیونکہ آج دانیال کی منگنی کی تقریب تھی۔
کار پورچ کے ستونوں سمیت سیڑھیوں کے سہاروں پر تازہ اور مہکتے پھولوں کی سجاوٹ تھی۔۔۔۔۔ سب مہمان آ چکے تھے، راہداری کی بائیں جانب تاج نما سجاوٹ کے نیچے مصنوعی سٹیج بنا تھا جس پہ ایک میز اور صوفہ سیٹ رکھے گئے تھے۔
سوہانی شام اور رات کی پھیلتی سیاہی سے سجاوٹ کو چار چاند لگ گئے تھے۔۔۔۔ زینی کو نائلہ اور جان پہچان کی خواتین نے گھیر رکھا تھا جبکہ دانیال دوستوں کے بیچ اور چور نظریں زینی پر ٹکی تھیں۔
"میں ابھی آئی"۔ زینی نے گولڈن اور پیچ امتزاج کا بھاری کام والا لہنگا جسکی کرتی کا گلا اور دامن ہلکے اور خوبصورت موتیوں کی زد میں تھے؛زیب تن کیا تھا۔۔۔۔ گلے میں گلبند، بالوں کا عمدہ اور خوبصورت سائیڈ جوڑا بنا تھا، پاوں میں گولڈن ہائی ہیل،کلائیوں میں گجروں کے ساتھ چوڑیاں۔۔۔ بمشکل لہنگے کو سنبھالتی وہ سیڑھیاں چڑھنے لگی۔
"تم؟؟؟ تم یہاں کیا کر رہی ہو؟؟؟" سیڑھیوں کے دہانے پہ کھڑا وہ فون استعمال کر رہا تھا کہ اسکی نظر اوپر اٹھی۔
"کیا مطلب کہ تم یہاں کیا کر رہی ہو۔۔۔ میری منگنی ہے میں یہاں نہیں ہوں گی تو پھر کون ہو گا۔۔۔ یہ سوال تو مجھے تم سے کرنا چاھیے کہ تم یہاں کیا کر رہے ہو؟؟؟"۔ سیڑھیاں عبور کرتے وہ اسکے سامنے جا کھڑی ہوئی۔
"تمھاری منگنی۔۔۔ مطلب؟؟"۔ اسکو اپنے کانوں پہ یقین نا آیا۔
"مطلب میری اور دانیال کی منگنی"۔ اسنے وضاحت کرتے اسکو مزید جھٹکا دیا۔
"کیا ہوا ہے شباب؟ کوئی مسئلہ ہے؟"۔ زینی کو شباب کے مد مقابل پاتے وہ سیڑھیاں چڑھتا اس کے قریب گیا۔
"وہاب تم جانتے ہو ایک بات اس دن بازار میں مجھ پہ پتھر پھینکنے والی یہ تھی"۔ سامنے کھڑی زینی کی طرف اشارہ کرتے وہ بھڑک کر بولا۔
"وٹ؟؟۔۔۔۔ شباب ادھر آو میرے ساتھ"۔ اسکے بڑھتے غصے کو بھانپتے اسنے اسے سائیڈ پہ لے جانے میں عقل مندی گردانی۔
"یار وہاب دانی بھائی کو اس سستی Dictionary کے علاوہ کوئی نظر نہیں آیا ۔۔۔۔۔ اس کا اور انکا کوئی Standard ہی نہیں ہے نا ہی کوئی میچ۔۔۔ اپنی زندگی برباد کر رہے ہیں ۔۔۔ یہ تو پورے خاندان کو مار ڈالے ۔۔۔ پتہ نہیں کیا چیز ہے ۔۔۔ بے لگام گھوڑی"۔ بغیر کسی ٹھہراو اور سوچ کے اسنے اونچی آواز میں بات مکمل کر دی۔
"بکواس نا کرو۔۔۔آرام سے بولو شباب ۔۔۔ کوئی سن لے گا"۔ اسکا بازو پکڑتے اسنے ارد گرد ماحول کا جائزہ لیا۔
"سنتا ہے تو بے شک سن لے میری بلا سے۔۔۔ بلکہ میں خود جا کر بولتا ہوں"۔ بازو چھڑاتے وہ مزید تپ کر بولا۔
اسی اثنا میں زینی کے کانوں تک شباب کی زبان سے پھوٹتے انگاڑے جا پہنچے تھے۔۔۔۔ اسکے الفاظ پہ غور کرتے،آنسو پونجھتے وہ تیزی میں سیڑھیاں اترتی مرکزی دروازے کی جانب بڑھی جبی دانیال کی نظر اس پر پڑی وہ بھی اسکے تعاقب میں گھر سے نکل گیا۔
"زینی ۔۔۔۔ زینی ۔۔۔۔۔ میری بات سنو"۔ وہ تقریبا پانچ منٹ سے اسکے تعاقب میں آوازیں لگا رہا تھا۔
"زینی ۔۔۔۔م۔میں ۔۔۔ کب سے۔۔۔ تم۔ھیں آوازیں ۔۔۔دے رہا ہوں تم سن کیوں نہیں رہی؟"۔ بالآخر وہ اسکے قریب پہنچ گیا تھا اور جھٹکے سے اسکا منہ اپنی طرف کیا۔
"تم رو رہی ہو"۔ اسکے چہرے کی نمی دیکھتے اسے تعجب ہوا۔
"نہیں"۔ آنسو پونچتے اسنے نفی کی۔
"تو پھر یہ کیا ہے؟؟"۔ اسکے تر گال پہ ہاتھ رکھتے اسنے کہا۔
کچھ نہیں"۔
"کیا ہوا ہے مجھے بتاو۔۔۔۔ تم جانتی ہو ابھی منگنی کی رسم باقی ہے اور تم وہاں سے چلی آئی"۔ اسنے ناراضگی ظاہر کی۔
"دانیال ۔۔۔ میں تمھارے قابل نہیں ہوں تم کسی اور سے شادی کر لو"۔ اسنے نظریں چرا لیں۔
"زینی یہاں کوئی مذاق نہیں ہو رہا میرا خیال ہے کہ آج میری اور تمھاری منگنی کی تقریب ہے"۔ اسنے آواز کو بلند کیا۔
"سب جانتی ہوں میں دانیال۔۔۔۔۔۔ میں سب جانتی ہوں کہ۔۔ میں ایک مڈل کلاس معمولی سی بد تمیز لڑکی ہوں اور تم۔۔۔۔ امیر باپ کی اولاد جسکا دل بہت اچھا ہے"۔ اسنے اسی کے لہجے میں جواب دیا۔
"زینی پلیز میں یہ سب باتیں سننے کے موڈ میں نہیں ہوں ۔۔۔۔ اور ایسا تم سے جس نے بھی کہا ہے اس کی باتوں کو اتنی اہمیت نا دو یار۔۔۔۔ کوئی بھی اتنا برا نہیں ہوتا ۔۔۔ خدا کی پیدا کیا گیا ہر انسان برابر ہے۔۔۔فرق ہے تو صرف اور صرف ہماری ذہنیت کا۔۔۔ جب مجھے فرق نہیں پڑتا تو تم کیوں ایسا سوچ رہی ہو یار"۔ اسکے قریب آتے اسنے دھیمے سے اسکے کندھوں پہ ہاتھ رکھے۔
"تمھیں مجھ پہ یقین نہیں ہے یا کوئی اور پسند ہے؟؟"۔ اسنے مطمئن لہجہ اپنایا۔
"نہیں دانیال ایسی بات نہیں ہے نا ہی تم سے کوئی مسئلہ ہے نا ہی کوئی اور پسند"۔ آنسو صاف کرتے اسنے کہا۔
"بس تو پھر چلو میرے ساتھ ۔۔۔ میری زندگی میں آ کے اسے مکمل کر دو۔۔۔ اس نادان کی گزارش ہے تم سے۔۔۔۔ میرے ساتھ چلو گی نا؟؟؟؟"۔ اسکے سامنے ہاتھ کرتے وہ پروپوز کرنے کے سے انداز میں زمین پہ بیٹھ گیا۔
"ہمممم"۔ کچھ لمحے سوچنے کے بعد اسنے اسکے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیا تھا۔
دانیال نے اسے اپنی بانہوں میں بھرا اور خان ولا کی طرف چل دیا۔
(ختم شد)
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Ishq Mubarak Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Ishq Mubarak written by Rose Merry .Ishq Mubarak by Rose Merry is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment