Fanaa Season 1 By Sawera Ahmad New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday, 4 August 2024

Fanaa Season 1 By Sawera Ahmad New Complete Romantic Novel

Fanaa Season 1 By Sawera Ahmad New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Fanaa Season 1 By Sawera Ahmad Complete Romantic Novel 

Novel Name: Fanaa Season 1

Writer Name:Sawera Ahmad

Category: Complete Novel


گاڑی پارک کرنے کے بعد اس نے جیسے ہی پارکنگ لاٹ سے قدم باہر نکالا کڑی دوپہر کی چلچلاتی دھوپ نے اس کا استقبال کیا۔

"اوففف۔۔۔ایک تو اس شہر کی گرمی"۔ کوفت زدہ ہوکر سیاہ بالوں پہ ٹکے سن گلاسس کو اس نے اتار کر آنکھوں پر رکھ لیا۔

پھر منہ کے زاویے بگاڑتے ہوئے ہاتھ میں پکڑی فائل چہرے کے سامنے کر کے وہ چلتی ہوئی ایک وسیع گیٹ کے سامنے آ رکی جو مضبوط دھات کا بنا تھا۔


گردن اونچی کر کے ایک نظر اس نے گیٹ کے اوپر لکھی عبارت پڑھی۔

"سینٹرل جیل"۔


پھر سر جھٹک کر اس نے زور سے گیٹ بجایا۔

دستک پر گیٹ کے اندر موجود پہرے دار نے ایک چوکور شیپ کا چھوٹا سا روزن کھول کر باہر جھانکا۔


"کون ہے؟"۔ کرخت لہجے میں پوچھا۔


"جیلر صاحب کو بلائیے۔ ان سے کہیے آج-ٹی-وی سے ایک رپورٹر آئی ہے"۔ ماتھے پر بل ڈال کر اس نے روکھے لہجے میں جواب دیا۔

تو بند گیٹ کے پیچھے سے وہ سر ہلا کر اندر غائب ہو گیا۔


پھر پانچ منٹ کے مختصر عرصے کے بعد جیلر اس کے سامنے تھا۔


"میں آج-ٹی-وی چینل کی سینیئر کرائم رپورٹر ہوں آئینہ ابراہیم۔ ہمارے پروڈیوسر صاحب کی بات ہو گئی ہے کمشنر صاحب سے۔ ایک قیدی کے انٹرویو کے سلسلے میں آئی ہوں"۔ اس نے تفصیلات بتائی۔ اور ساتھ ہی فائل میں سے تحریری اجازت نامہ نکال کر ان کو دکھایا جس پر کمشنر آف پولیس کے دستخط بطور اجازت موجود تھے۔


جیلر نے ایک نظر تحریر کو دیکھا پھر سرہلا کر اسے اندر جانے کا راستہ دیا تو وہ بلا جھجھک اندر داخل ہو گئی۔


"کہیے میں آپ کی کیا رہنمائی کر سکتا ہوں؟"۔ اس کے ساتھ چلتے ہوئے جیلر نے جان چھڑانے والے انداز میں پوچھا۔


تو وہ رک گئی۔

پھر ان کی جانب دیکھتے ہوئےسن گلاسس سر پہ ٹکا دیے۔

کیونکہ وہ چلتے ہوئے اب چھاؤں میں آ گئے تھے۔


"مجھے ایک قیدی کا انٹرویو لینا ہے جو قریب ایک سال سے آپ کا مہمان ہے"۔ پروفیشنل انداز میں اس نے مدعا بیان کیا۔

تو جیلر کے چہرے پر سوچ کی پرچھائی واضح نظر آنے لگی۔


"وہ ڈرگ مافیا گینگ کا سرغنہ؟" جیلر نے تصدیق چاہی۔


"جی ہاں، جس کو پچھلے ہفتے ہی سزائے موت سنائی گئی ہے۔ اور دو دن بعد اسے پھانسی دی جانی ہے"۔ اپنے تئیں جو معلومات آئینہ کو تھی اس نے بیان کی۔


"دیکھیئے مادام، وہ بہت خطرناک قیدی ہے۔ اسے ہم نے الگ سیل میں رکھا ہے۔ دو دن بعد تو ویسے بھی اسکی گردن لمبی کردی جائے گی۔ لہٰذا آپ اگر میری مانیں تو اپنی جان جوکھم میں نا ڈالیں"۔ جیلر نے اپنے تئیں اسے خبردار کیا۔


"آپ بے فکر رہیے۔ میں یہ پہلی بار نہیں کر رہی ہوں ایسے خطروں سے روز ہوتا ہے ہمارا سامنا۔ مجھے بس اسکے سیل تک لے جائیں آپ"۔ اٹل اور مضبوط لہجے میں پرسکون جواب دیا۔


"ٹھیک ہے جیسی آپ کی مرضی۔ میں نے تو آپ کو خبردار کر دیا"۔ شانے اچکا کر اس نے کانسٹیبل کو آواز دی۔


"علیم، خاتون کو قیدی نمبر پانچ سو پانچ کے سیل تک لے کر جاؤ"۔ حکمیہ کہا۔


جس پر کانسٹیبل نے سر تسلیم خم کیا اور اسے ساتھ چلنے کا اشارہ دیا۔

اس کا اشارہ پا کر آئینہ اس کے پیچھے پیچھے ہو لی۔


مختلف سیلز کے سامنے سے گزرتے ہوئے وہ اب اوپری منزل چڑھ رہے تھے۔

کچھ ہی دیر بعد وہ ایک قدرے الگ تھلگ سیل کے سامنے آ ٹھہرے۔


کانسٹیبل زنجیروں میں جکڑے تالے کو کھولنے لگا۔

اور وہ اندر کا جائزہ لینے لگی۔


اندر سیمنٹ اور اینٹوں سے بنے ایک تخت پر وہ وجود چت لیٹا تھا۔

سیاہ چادر کو اس ہولناک گرمی میں بھی سر تک تان رکھا تھا۔


آئینہ نے اسے دیکھ کر دور سے ہی جھرجھری لی۔


تب تک دھات سے بنا پنجرے کا دروازہ بھی کھل چکا تھا۔


"میں یہی باہر موجود ہوں۔ آپ اندر جائیں"۔ کانسٹیبل باہر ہی رک گیا۔


آگے کا راستہ اسکا اپنا تھا۔

جی کڑا کر کے وہ اندر داخل ہو گئی۔


اس قدر آہٹ بلکہ دروازے اور جوتوں کی ملی جلی آوازیں بھی اس کی نیند میں مخل نہ ہوئی تھی۔

کچھ سوچ کر وہ کھنکھاری۔


جس پر قیدی کے وجود میں جنبش ہوئی۔

اور ساتھ ہی اٹھ کر بیٹھتے ہوئے اس نے اپنے اوپر سے چادر ہٹا کر ایک طرف پھینک دی۔


قیدیوں والا لباس پسینے سے بھیگا اس کے وجود سے چپک گیا تھا۔

بنا کچھ کہے یا کہیں بھی دیکھے وہ کونے میں پڑے مٹکے کی جانب گیا اور اس کے اوپر رکھی گلاس کو اندر ڈبو کر پانی سے بھرا گلاس اپنے چہرے پر انڈیل دیا۔


آئینہ خاموشی سے اسکی کاروائی دیکھتی رہی۔


جبکہ اب وہ چلتا ہوا اس کے مقابل آ ٹھہرا تھا۔

اور بغور اس لڑکی کا جائزہ لینے لگا جو نیلی جینز سفید شرٹ پر سیاہ اسکارف گلے میں لٹکائے ہوئے تھی۔

رنگ و نقوش عام سے تھے۔ چہرے سے لگ بھگ چھبیس ستائس سالہ لگتی تھی۔

کندھے پر اسکے ایک بھورے رنگ کا لیدر بیگ جھول رہا تھا۔


اس کی جانب دیکھتے ہوئے قیدی نے اپنے بال ماتھے سے پیچھے کی جانب کو دھکیل دیئے۔

تب اسکی پیشانی پر پڑا وہ کٹ کا نشان واضح ہوا۔ زخم لگتا تو تھا شاید کئی سالوں پرانا پر نشان اس کا اب بھی واضح تھا۔


اس کی سیاہ داڑھی سے پانی کی بوندیں اب بھی ٹپک رہی تھیں۔

گہری سرمئی آنکھوں میں سرخ ڈورے پڑے تھے۔

بھویں ناگواری سے اکھٹی کر رکھی تھی۔

سفید پڑتے ہونٹ سختی سے باہم پیوست تھے۔


"میں آئینہ ابراہیم ہوں، کرائم رپورٹر۔ تمہارا انٹرویو لینے آئی ہوں"۔ پراعتماد لہجے میں اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اطلاع دی۔


"مجھے کوئی انٹرویو نہیں دینا، نکل جاؤ یہاں سے"۔ اس کی جانب سے رخ موڑ کر اس نے قطعیت سے کہا۔


اس کا جواب سن کر کانسٹیبل طنزیہ ہسنے لگا۔

"بڑی آئی تھی انٹرویو لینے"۔ دل ہی دل میں اس کا تمسخر اڑایا۔


"نام کیا ہے تمہارا؟"۔ اس نے ایک بار پھر سوال کیا۔ وہی لہجہ۔


اب کی بار اس کا پارہ ہائی ہوا۔

لال انگارہ ہوتی آنکھیں اس لڑکی پر گاڑے، بنا کسی پس و پیش کے ہاتھ بڑھا کر بے دردی سے اسے اپنی جانب کھینچا تو وہ ہلکا پھلکا وجود ایک جھٹکے سے اس کی گرفت میں آ قید ہوا۔


آئینہ پتھریلی نظروں سے اپنے قریب کھڑے اس شخص کو دیکھ رہی تھی۔ جو پہاڑ کی طرح اسکی راہ میں حائل ہوا تھا۔

قیدی نے اس لڑکی کا ہاتھ اسکی کمر پر موڑ رکھا تھا۔

اور نظریں اس کے چہرے پر گڑی تھیں۔


جھپٹ کر اس نے لڑکی کے ہاتھ میں موجود چھوٹی سی پسٹل اس سے چھین کر اپنی مٹھی میں کر لی۔


"میں اپنے نام سے نہیں، کام سے جانا جاتا ہوں"۔


پھر بلا تامل کال کوٹھڑی کے باہر موجود کانسٹیبل (جس کی ان دونوں کی جانب پشت تھی) پر تان کر ٹریگر دبا دیا۔

"اور میرا کام ہے یہ"۔

سائلنسر لگی پستول نے ہلکی سی آواز کے ساتھ ہی اپنا کام دکھا دیا۔

اور کچھ ہی لمحوں بعد کانسٹیبل وہی ڈھیر ہو گیا۔

قیصر نے ایک نظر اس کی لاش کو دیکھا۔

پھر طنزیہ نگاہیں اس لڑکی پر ڈالی۔

مگر چونک سا گیا۔


اس کے چوکنے کا باعث وہ ہنسی کی کھلکھلاہٹ تھی جو اس کے بے حد قریب موجود اس لڑکی کی تھی۔


"میں تو سمجھی تھی کے اس ایک سال میں شاید تم گولی چلانا بھی بھول گئے ہوگے" وہ ہنوز ہنس رہی تھی۔

قیصر نے ناگواری سے اسے دیکھ کر سختی سے لب بھینچ لیئے۔


"تو بتائیے سرکار، یہ ایک سال جیل میں کیسا گزرا آپ کا؟ اگر جو میں نہ آتی تو؟ جانتے ہو دو دن بعد تمہیں جہنم واصل کر دیا جاتا قیصر"۔ طنز کے تیر برسانے کے ساتھ ہی بازو اس کے گلے میں حمائل کر دیئے۔


قیصر نے ایک جھٹکے سے اسے پرے دھکیل دیا۔


"بہت جلدی خیال آیا ہے تم لوگوں کو میرا؟ خیر، اور یہ بابو اور اعظم کہاں ہیں؟"۔ طنز کرنے کے ساتھ ہی دھیان ان دونوں کی طرف گیا تو انداز سوالیہ ہوگیا۔


"وہ دونوں جیل کے باورچی خانے میں ہیں۔ تمہاری رہائی کا سامان تیار کر رہے ہیں"۔ تخت پر بیٹھتے ہوئے اس نے کندھے پر ٹنگا بیگ بھی وہی اتار پھینکا۔


"ہوں" اس نے ہنکار بھرا۔

پھر کچھ یاد آنے پر اس کی جانب رخ موڑ دیا۔


"لیکن تم یہاں تک پہنچی کیسے؟" دونوں کمر پر ہاتھ رکھے وہ اس کی جانب دیکھتے ہوئے سوال کر رہا تھا۔


"بھول گئے؟ یہی تو ہمارا پیشہ ہے۔ پھر میرے لئے روپ بدلنا کونسی بڑی بات ہے"۔ بالوں کو جوڑے میں باندھتے ہوئے وہ اس سے نگاہیں دانستہ چرا گئی۔


"وہ سب میں بھی جانتا ہوں۔ لیکن اس جیل کی اور اس کے آس پاس کی سیکیورٹی بہت تگڑی ہے۔ پھر میں سوچ رہا ہوں کے بابو اور اعظم کیسے داخل ہو گئے اندر؟" وہ مشکوک نگاہوں سے اسے دیکھتا اونچی آواز میں بڑبڑایا۔


"ڈی-آئی-جی مختار کی مدد سے"۔ اس نے شانے اچکا کر عام سے لہجے میں بتایا۔

اور قیصر خیام کو بھلا توقع ہی کب تھی اتنی آسانی سے تارہ کی زبانی کچھ اگلوا لینے کی۔

لیکن جیسے ہی یہ نام اس کی سماعتوں سے ٹکرایا تو وہ ایک مرتبہ پھر بپھر کر اسکے سامنے آیا اور اسکا بازو دبوچ کر اپنے مقابل کھینچا۔


"کیا بکتی ہو؟ ہوش و حواس میں تو ہو تم؟ وہ قانون کا وفادار کتا تمہاری مدد کرے گا؟ سچ سچ بتاؤ میرے خلاف کس کے ساتھ جا ملی ہو تم؟ جیل سے نکلوا کر مجھے مار ڈالنے کا پلان ہے نا تم لوگوں کا؟ ہوں؟" سرمئی آنکھوں سے شرارے پھوٹ رہے تھے۔

اور وہ متواتر سوال کر رہا تھا۔

تارہ بے یقینی سے اسکی بے اعتباری دیکھ رہی تھی۔


"ہم تمہارے ساتھی ہیں قیصر خیام؟ ہوش میں تو تم نہیں لگ رہے۔ ہم پر شک کرنے کا تم سوچ بھی کیسے سکتے ہو؟"۔ اب کے وہ بھی چپ نہ رہ سکی۔

تو قیصر نے جھٹکے سے اسکا بازو چھوڑا۔

اور پوری قوت سے ایک زوردار مکا اس نے کال کوٹھڑی کی مضبوط اور پتھریلی دیوار پر رسید کیا۔

جس سے وہاں خم سا پڑ گیا۔

تارہ ساکت رہ گئی۔


"نہیں ہے مجھے کسی پر اعتبار۔ مجھے یہاں تک پہنچانے والا دشمن کسی اپنے کے بھیس میں ہے تارہ بی بی۔ جس نے بھی مجھ سے دغا کیا ہے میں اس کی رگوں سے خون کھینچ کر اس میں بارود بھر دوں گا۔ اور پھر اسے تڑپتا دیکھوں گا۔ لیکن موت اس پر حرام ہوگی تارہ۔۔۔حرام ہوگی موت"۔ وہ اپنے سنگین ارادے اسے بتا رہا تھا۔

اور جیل کی دیواریں بھی یہ سن کر کانپ اٹھی تھیں۔


"بے شک ایسا ہی ہوگا۔ بس ایک بار تمہیں یہاں سے نکلوا لیں ہم، پھر اس غدار کو بھی جلد ہی ڈھونڈ لیں گے"۔ اس کے مضبوط شانے پر ہاتھ رکھ کر تارہ نے اسے تسلی دی۔


"مجھے ساری تفصیل بتاؤ، مختار نے یہ کیوں کیا؟ جبکہ مجھے یہاں تک پہچانے والا وہی تھا"۔ اس شخص کا نام لیتے ہی اس کے اندر آگ بھڑک اٹھتی تھی۔

پچھلا ایک سال قیصر خیام پر قیامت بن کر گزرا تھا۔

اور وہ یاد کرتے ہی اسکی رگوں میں خون کی جگہ زہر دوڑنے لگتا تھا۔


"اس پر ڈیفنس منسٹر علی مرزا نے دباؤ ڈالا تو اسے ماننا پڑا"۔ نگاہیں جھکا کر اس نے ایک اور انکشاف کیا۔

جس پر قیصر خیام نے ایک بار پھر بے یقینی سے اسے دیکھا۔


"کیا کہا تم نے؟ زرا پھر سے کہنا تو؟" اسے لگا اسکی سماعتوں نے سننے میں غلطی کی ہے۔


"ڈیفنس منسٹر علی مرزا کی وجہ سے ہی تمہیں آزادی کا پروانہ مل رہا ہے"۔ تارہ نے ایک مرتبہ پھر اپنی بات الفاظ کے رد د بدل کے ساتھ دہرائی۔ مگر اس کا لہجہ کمزور تھا۔


"کیوں؟؟؟ تم نے ایسا کیوں کیا تارہ؟ کس سے پوچھ کر تم نے علی مرزا سے ہاتھ ملایا؟ ہاں؟ بتاؤ تمہیں یہ حق کس نے دیا کے تم قیصر خیام کی زندگی کا سودہ سیاسی بساط کے اس ماہر شطرنج کے کھلاڑی کے سامنے کرو؟"۔ وہ پھٹ پڑا تھا۔

تارہ گڑبڑا سی گئ۔


"ہم اور کیا کرتے قیصر تم ہی بتاؤ؟"۔ وہ بے بس سی لگ رہی تھی اس وقت۔


"کچھ بھی کرتے۔ لیکن کم از کم مجھے اس کے ہاتھ کا مہرا نہ بناتے"۔ وہ ماننے کو تیار نہ تھا۔

تارہ نے تھکی تھکی سی سانس کھینچی۔


"مجبوری تھی ہماری۔ جانتے ہو جب سے عدالت نے تمہیں سزائے موت سنائی ہے تب سے ہم لوگوں پر کیا بیت رہی ہے؟ کیا کیا کوششیں نہیں کی ہم نے پچھلے ایک ہفتے میں تمہیں جیل سےنکلوانے کی۔۔۔مگر سب بے کار رہا۔ اسلیے مجبوری میں ہمارے پاس یہی ایک راستہ تھا کے علی مرزا کی آفر۔۔۔قبول کر لیتے۔۔۔اور وہ بدلے میں تمہیں آزاد کروا دے گا"۔ نگاہیں چراتے ہوئے توجیح پیش کی۔


"اتنا سب کرنے سے پہلے ایک بار۔۔۔۔صرف ایک بار تو مجھ سے پوچھ لیتے تم لوگ"۔ وہ سر تھام کر پھر سے تخت پر گر گیا۔


"دیکھو تم ابھی یہ سب مت سوچو۔ بس ایک بار تم یہاں سے آزاد ہو جاؤ تو ہم کسی اور جگہ چلے جائیں گے۔ ایسی جگہ جہاں علی مرزا یا مختار انصاری تو کیا ان کے فرشتے بھی نہیں پہنچ پائیں گے وہاں تک"۔ وہ گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھی پر یقین لہجے میں کہہ رہی تھی۔


"یہ حل نہیں ہے اس مسئلے کا۔ اور ہم اگر یہاں سے نکل بھی گئے تب بھی زیادہ دن چھپ نہیں سکتے۔ کچھ اور کرنا ہوگا ہمیں"۔ سرمئی آنکھیں چھوٹی کئے وہ پرسوچ انداز میں کہہ رہا تھا۔


"وہ سب ہم بعد میں دیکھیں گے۔ پہلے ہمیں یہاں سے نکلنا ہوگا"۔ تارہ فورا سے پیشتر اٹھ کھڑی ہوئی۔


مگر وہ ویسے ہی غیر مرئی نقطے پہ نظریں جمائے بیٹھا کسی گہری سوچ میں گم تھا۔

☆☆☆☆☆


وہ چہار اطراف حسین اور بلند و بالا پہاڑی سلسلوں سے گھری۔۔۔

ایک بے پنہاں خوبصورت وادی تھی۔

سبز گھاس کی نم چادر دور تلک بچھی تھی۔

تا حد نگاہ دھندلکے کا راج تھا۔

وہ جیسے جنت کا ایک گوشوارہ تھا زمین پر۔

کوئل کی چہکار جیسی ہنسی کی کھلکھلاہٹ۔

گھاس پر ننگے پاؤں دوڑتے مرمریں قدم۔۔۔

وہ جیسے بادلوں پر تیر رہی تھی۔

سفید روئی کے گالوں جیسا اسکا لباس۔۔۔

جس کو دونوں اطراف سے اس نے تھام رکھا تھا۔

اور جب ہرنی کی طرح وہ قلانچیں بھرتی گھاس پر بھاگتی۔۔

تو کمر پر گرتے شہد آگیں بال بکھر کر اسے آغوش میں لے لیتے۔

کھلکھلا کر ہنستی وہ ہرنی جانے کس اوور بھاگ رہی ہوتی ہے۔

نہ منزل کا پتہ ہے۔ نہ کارواں ہے اس کے ساتھ۔

وہ جانے کس سے دور بھاگ رہی ہے۔۔۔

یا پھر کسی کے قریب جا رہی ہے۔۔۔

اچانک ہی گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز اسے پیچھے سے آتی ہے۔

یک دم ہی اس کے دوڑتے قدم تھم جاتے ہیں۔

جھٹکے سے پیچھے مڑ کر دیکھنے پر آبشار کی طرح اس کے بال ارد گرد بکھرتے ہیں۔

اور وقت جیسے تھم سا جاتا ہے قدرت کا وہ شاہکار دیکھ کر۔

آسمان کی سرخی سمیٹ لائے تھے اس کے رخسار۔

شبنمی قطرے بے قرار سے ہو کر ان لبوں پر ٹھہر گئے تھے۔

دن کے تمام اجالے ان بھوری بادامی آنکھوں میں سمٹ آئے تھے۔

روشن آنکھوں کی گھنیری پلکیں ارد گرد کا جائزہ لیتی اس آواز کا سراغ لگانے میں ناکام تھیں۔

تب دھند کو چیرتا ہوا وہ گھڑ سوار اچانک ہی نمودار ہوتا ہے۔

سیاہ گھوڑا دوڑاتا ہوا پلک جھپکتے ہی اس پری پیکر تک پہنچ جاتا ہے۔

اور اسے غائب ہونے کا موقع فراہم کیے بغیر ایک ہی جست میں اسے دوڑتے گھوڑے پر اپنے قریب کھینچ لیتا ہے۔

اور وہ اس کے ساتھ گویا ہوا کے دوش پر سفر کر رہی ہوتی ہے۔

شہد رنگ بال اس کے چہرے کے ارد گرد بکھر بکھر جاتے ہیں۔

خوف و گھبراہٹ کا ملا جلا تاثر اس کی سپید رنگت میں سرخی بن کر گھل جاتا ہے۔

جبکہ رات کی تاریکی اوڑھا وہ نقاب پوش اس کے سامنے ہو کر بھی نظروں سے اوجھل لگتا ہے اسے۔

بس اگر کچھ واضح ہوتا ہے تو وہ دو سرمئی آنکھیں۔

بے حد گہری۔۔۔کچھ کہتی ہوئی!

مگر پھر بھی بہت کچھ چھپاتی ہوئی!

وہ گہری آنکھیں اس پری وش پر مرکوز ہوتی ہیں۔

اسے لگتا ہے جیسے وہ نگاہیں اسے اندر تک پڑھ رہی ہیں۔

مگر وہ سیاہ نقاب تھا کے راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑا تھا۔

پری پیکر نے ہاتھ بڑھایا۔۔۔

اس کا ہاتھ بس نقاب اتارنے کے ہی درپے تھا کہ۔۔۔۔۔۔


"الوینا، الوینا جلدی اٹھو مس کائنات آ گئی ہیں"۔ غزل نے جب دیکھا کے وہ اٹھنے کا نام نہیں لے رہی تو اسے جھنجھوڑ ڈالا۔


"اوففف او!! کیا آفت آ گئی ہے"۔ کوفت زدہ ہو کر اس نے بینچ سے سر اٹھایا۔

بھوری آنکھوں میں نیند کا خمار اب بھی تھا۔

اور یہ دیکھ کر غزل نے باقاعدہ سر پیٹ لیا۔


"شہزادی الوینا خدا کیلئے اپنے خوابوں سے باہر آ جائیں اور آس پاس کے لوگوں پر ترس کھائیں"۔ آہستہ آواز میں اس نے گھرکا۔


"کتنی بورنگ ہو یار تم، اور کہاں ہیں مس کائنات؟ خواہ مخواہ میرا خواب توڑ دیا تم نے پتہ بھی ہے میں اس کا چہرہ دیکھنے کے اتنے قریب تھی"۔ غزل کے دونوں گال کھینچ کر اس کا چہرہ اپنے نزدیک کرکے بتایا۔


"پھر شروع ہو گیا تمہارا خواب نامہ۔ پچھلے دو سال سے تم کھلی اور بند آنکھوں سے یہی خواب دیکھتی آ رہی ہو۔ بور نہیں ہو جاتی ایک ہی خواب دیکھ دیکھ کر؟"۔ غزل نے اپنے گال سہلاتے ہوئے بیزاری سے کہا۔


اور اس بات کا دوسری طرف الٹا ہی اثر ہوا۔


"نہیں بالکل بھی نہیں۔ اور یار خواب ہم اپنی مرضی سے تھوڑا ہی دیکھتے ہیں۔ وہ تو قدرتی ہوتے ہیں نا"۔ معصومیت کے سابقہ تمام رکارڈ توڑ کر الوینا تحسین نے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے کہا۔


"ہاں ویسے تو عام اور نارمل انسانوں کے خواب قدرتی ہی ہوتے ہیں لیکن یہاں بات الوینا کی ہو رہی ہے نا اور اس کے تخلیقی دماغ کی بھی"۔ غزل نے صاف مذاق اڑایا۔


"ہاں خیر تخلیقی صلاحیت تو میری ماشاءاللہ بہت ہی عمدہ ہے"۔ اس نے بھی ناک سے مکھی اڑائی۔


"اب خدا کیلئے تھوڑا دماغ لیکچر میں بھی دو وہ دیکھو مس کائنات آ گئی ہیں"۔ غزل نے اپنا زاویہ درست کرتے ہوئے اسے بھی ٹہوکا دیا۔

جس پر وہ بھی سوئی کی طرح سیدھی ہوگئی۔


"گڈ مارننگ کلاس"۔ خلاف معمول آج وہ مسکرا رہی تھیں۔

اور یہاں اسٹوڈنٹس کے چھکے چھوٹ گئے۔

کیونکہ وہ بہت روکھے مزاج کی تھیں۔

اور انہیں بہت کم مسکراتے دیکھا گیا تھا۔


"کیا بات ہے۔ ہٹلر کے تو مزاج ہی نہیں مل رہے آج"۔ زبان میں کھجلی ہوئی تو وہ برابر بیٹھی غزل کے کان میں منمنائے بغیر نہ رہ سکی۔


"واقعی یار، لگتا ہے راستے میں آتے ہوئے تیس مار خان سے ٹکر ہوئی ہے"۔ غزل نے بھی ٹکڑا لگایا۔


مس کائنات دراصل سینتیس سالہ ایک غیر شادی شدہ خاتون تھیں۔ وہ پچھلے تین سالوں سے اس یونیورسٹی میں ہسٹری کی لیکچرار تھیں۔

اور پوری نہیں تو کم از کم آدھی یونیورسٹی یہ بات جانتی تھی کے وہ اور کیمسٹری کے سر سعود عرف تیس مار خان ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔

یہ عرفیت سر سعود کو اسٹوڈنٹس کا تحفہ تھی۔ کیونکہ بقول ان کے مس کائنات کو مریض عشق کرنا اپنے میں ہی ایک بڑا معرکہ تھا۔ جو انہوں نے سر کیا تھا۔


"دراصل آج کوئی لیکچر نہیں ہے آپ کا بلکہ مجھے کچھ باتیں کہنی ہیں"۔

ایک اور جھٹکا۔


"یار ان کو کیا ہوا۔ آج کچھ زیادہ ہی نرمی دکھا رہی ہیں"۔ الوینا پھر چپ نہ رہ سکی۔


"ارے صبر کرو۔ خود انہی کی زبانی سن لو"۔ غزل نے اسے خاموش کروایا۔


"تو بات یہ ہے کے کچھ ہفتوں کیلئے میں ارجنٹ بیرون ملک جا رہی ہوں کسی کام کے سلسلے میں۔ اس لیے مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کے میں کلاس کنٹینیو نہیں رکھ سکوں گی"۔ ایک پل کو انہوں نے ٹھہر کر کلاس پر نظریں دوڑائی۔

سب بہت توجہ سے انہیں سن رہے تھے۔


"پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے آپ سب کی پڑھائی کا حرج ہرگز بھی نہیں ہوگا۔ کیونکہ دو دن بعد آپ کو نئے لیکچرار مل جائیں گے۔ جو میری جگہ پڑھائیں گے"۔ انہوں نے اپنے تئیں تسلی دی۔


"مجھے کچھ ہفتے یا شاید مہینے بھی لگ سکتے ہیں۔ تو لہٰذا آپ سب سے گزارش ہے کے نئے پروفیسر کے ساتھ کوآپریٹو رہیں اور اِدھر اُدھر کی چیزوں کو چھوڑ کر پڑھائی میں من لگائیں۔ امید ہے مجھے مایوس نہیں کریں گے آپ لوگ"۔ آخر تک آتے آتے وہ اپنے ازلی روپ میں آ چکی تھیں۔


"یس میم، ہم بالکل ایسا ہی کریں گے۔ آپ بے فکر ہو کر خیریت سے جائیں"۔ یہ الوینا تھی مسکرا کر انہیں تسلی سے نوازتی ہوئی۔

اور غزل نے اس کا یہ انداز دیکھ کر بمشکل اپنی مسکراہٹ دبائی۔


"ویری گڈ الوینا تحسین۔ اور مجھے باقی سب سے بھی یہی امید ہے"۔ الوینا کو سراہنے کے ساتھ ہی انہوں نے باقی سب کو بھی تنبیہہ کی۔


"یس میم" سب نے یک آواز ہو کر کہا۔


"گڈ اب مجھے اجازت دیجیے"۔ الوداعی کلمات کہنے کے ساتھ ہی چند ایک مزید ہدایات جاری کرنے کے بعد وہ رخصت ہوگئیں۔


اور ان کے جاتے ہی کلاس میں جیسے زندگی کی لہر دوڑ گئی۔


"او میرے خدا! اس کا مطلب نو مور ہٹلر۔ اونلی فریڈم اینڈ مستی یس یس یس"۔ الوینا اپنی جگہ سے کھڑی ہو کر بھرپور نعرے لگا رہی تھی۔


"چلو غزل کیفیٹیریا چل کر پہلے پیٹ پوجا کر لیتے ہیں"۔ کہنے کے ساتھ ہی اس نے غزل کو کھینچ لیا۔


"ارے ارے آرام سے ہمیشہ ہوا کے گھوڑے پہ سوار رہتی ہو"۔غزل نے اس کے ساتھ کھینچتے ہوئے ٹوکا۔


دونوں اب سیڑھیاں اترتی ہوئی کیفیٹیریا کی طرف جا رہی تھیں۔


"کیا کروں بات ہی اتنی دلچسپ ہے کے تمہیں بتائے بغیر صبر کرنا مشکل ہے"۔ اپنے ساتھ اسے کھینچتی ہوئی وہ بچوں کی سی خوشی سے بولی۔


"ہاں اور وہ دلچسپ بات یقینی طور پر آپ کے خوابوں کے شہزادے سے جڑی ہوگی۔ کیوں صحیح لگا نا میرا تکا؟"۔ غزل نے فرضی کالر کڑاتے ہوئے پوچھا۔


"بکو مت، پہلے سکون سے چل کر بیٹھو پھر بتاتی ہوں"۔ وہ دونوں کیفیٹیریا پہنچ گئی تھیں۔


"اچھا اب بتاؤ کیا کھاؤ گی تم؟"۔ کرسی سنبھالتے ہی اس نے غزل سے پوچھا۔


"میرے لیے چائے اور سموسے لے آؤ"۔ غزل نے خوش ہو کر آرڈر نوٹ کروایا۔


"ہوں ٹھیک ہے میرا بھی سیم"۔


"تمہیں کیا ضرورت ہے کھانے کی، تم تو ویسے بھی میرا دماغ کھاتی ہو"۔ غزل نے کھنچائی کی۔


"سوری میم، میں بھوسا نہیں کھاتی"۔ دوبدو جواب دیتی وہ اسکے ہاتھ میں آنے سے قبل ہی بھاگ نکلی۔


اور غزل اس کی حرکت پر ہنستی رہ گئی۔

☆☆☆☆☆


تھک ہار کر وہ کچھ ہی دیر قبل آفس سے لوٹے تھے۔

اور گہری نیند میں تھے جب اچانک فون کی گھنٹی مخل ہوئی۔


"ہیلو"۔ نیند سے بوجھل آواز میں وہ گویا ہوئے۔


"ڈی-آئی-جی مختار۔ وزیر قانون اسامہ غوری بول رہا ہوں۔ فوری میرے آفس آ کر مجھ سے ملیئے"۔ سلام دعا کے بغیر ڈائریکٹ مدعے کی بات کی گئی۔

جس پر مختار انصاری چونک گئے۔


"جی سر، خیریت تو ہے سب؟" انہیں تشویش ہوئی۔


"ٹی-وی آن کر کے نیوز دیکھ لیں سب پتہ چل جائے گا"۔ کہہ کر کھٹاک سے فون بند کر دیا۔


جبکہ مختار انصاری نے جانے کس دل سے ٹی-وی آن کیا۔


"خبر رساں سے ہمیں ابھی ابھی خبر ملی ہے کے سینٹرل جیل کے باورچی خانے میں اچانک آگ بھڑک اٹھی۔ اور عدم توجہ کی وجہ سے آگ مزید بڑھتی چلی گئی جس کے نتیجے میں کئی پولیس اہلکاروں کے ساتھ سینکڑوں قیدی بھی جھلس گئے۔ اور قریبا دو سو سے زائد قیدی موقع سے فائدہ اٹھا کر جیل سے فرار ہو گئے۔ آگ بجھانے کا عمل پچھلے دو گھنٹوں سے جاری ہے"۔ خاتون نیوز کاسٹر خبر نشر کر رہی تھی۔

اور مختار صاحب نے تھکے تھکے انداز میں سر ہاتھوں میں گرا لیا۔


اسی وقت ان کا موبائل بج اٹھا۔

نمبر دیکھ کر ان کا دماغ بھڑ بھڑ جلنے لگا۔


"اب کیا رہ گیا ہے؟ جو تم چاہتے تھے وہ تو ہو ہی گیا نا؟"۔ غصے سے ان کے جبڑے بھینچ گئے۔


"جو میں چاہتا ہوں وہ اتنی جلدی کہاں پورا ہو سکتا ہے مختار انصاری۔ اس میں تو ابھی بہت وقت ہے"۔ دوسری جانب سے جلتی پر تیل چھڑکا گیا۔


"دیکھو علی جتنا تم نے مجھ سے کرنے کو کہا تھا میں نے وہ کر دیا ہے۔ اب تم وہ کرو جو ہمارے بیچ طے ہوا تھا۔"۔ مختار صاحب نے شکست خوردہ لہجے میں کہا۔


"چچ چچ چچ بیچارے ڈی-آئی-جی صاحب۔ میرے مذاق میں کہی گئی بات کو اتنی سنجیدگی سے لے لیا آپ نے؟ تف ہے آپ پر"۔


"علی"۔ وہ غرائے تھے۔


"اپنی حد میں رہو۔ اور تمہاری اتنی بساط نہیں کے علی مرزا تم سے سودے بازی کرے"۔ اپنی بات کہہ کر اس نے رابطہ قطع کر دیا۔


مختار صاحب نے غصے میں آ کر موبائل دیوار پر دے مارا۔


"میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا"۔

☆☆☆☆☆


"کیا بکواس کر رہے ہو؟ کیسے نکل گیا وہ تمہارے ہاتھوں سے؟ کیا کر رہی تھی تمہاری فورس؟"۔ موبائل کان سے لگائے وہ چیخ رہا تھا۔


"سر ہم نے ان پر برابر نظر رکھی ہوئی تھی مگر کب قیصر خیام ہمارے ہاتھوں سے پھسل گیا پتہ ہی نہیں چلا"۔ دوسری جانب سے جیلر صفائیاں پیش کر رہا تھا۔


"میں کچھ نہیں جانتا۔ مجھے وہ آدمی کسی بھی قیمت پر چاہیے۔ ورنہ میں تم سب کو ایک لائن میں کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دوں گا"۔ منسٹر علی مرزا اس وقت سخت برے موڈ میں تھا۔


"ہم پوری کوشش کر رہے ہیں سر، جلد ہی اسے آپ کے سامنے پیش کریں گے"۔


"مجھے کوشش نہیں رزلٹ چاہیے۔ اگر جان پیاری ہے تو اس کی ہر چھوٹی یا بڑی خبر ملتے ہی مجھ سے رابطہ کرو"۔


"یس سر"۔


"قیصر خیام کہاں جا سکتے ہو تم؟"۔ راکنگ چیئر پر جھولتے ہوئے اس کے دماغ میں یہی سوال گردش کر رہا تھا اس وقت"۔

وہ ایک قدرے بھیڑ بھاڑ والا مصروف سا علاقہ تھا۔

جس کی آبادی گنجائش سے دو گنا زیادہ تھی۔

علاقے کی چھوٹی چھوٹی تنگ گلیوں میں قطار کی صورت خستہ حال مکان بنے تھے۔

شام کا وقت تھا لہٰذا بچے ان گلیوں میں کھیل کود رہے تھے۔

کئی ایک چھوٹی موٹی دکانیں کھلی تھیں۔


تنگ گلیوں کے ان ٹوٹے پھوٹے مکانوں میں سے ایک میں وہ چاروں نفوس موجود تھے۔

اور ہر کوئی اپنی اپنی جگہ سوچوں میں غلطاں تھا۔


"کیا لگتا ہے؟ وہ لوگ ہمیں کتنے دن میں ڈھونڈ سکتے ہیں؟"۔ اعظم نے ہی اس گمبھیر خاموشی کو توڑا۔

تو باقی سب بھی اس کی جانب متوجہ ہوگئے۔


"ہمارے غائب ہونے کے بعد آدھا گھنٹہ وہ جیلر ہمیں ڈھونڈتا رہا ہوگا۔ پھر ہماری غیر موجودگی کو یقینی بنا کر وہ اپنے مالک کو فون کرکے بتا چکا ہوگا۔ مگر چونکہ مالک بے حد غصے میں ہوگا تو اسے اچھی خاصی جھاڑ پلا دے گا۔ جس کا اثر یہ ہوگا کے جیلر ہمیں ڈھونڈنے کیلئے اپنی فورس اور کوشش بڑھا دے گا۔ اور چونکہ علی مرزا اسٹیٹ کا دفاعی وزیر ہے لہٰذا وہ اپنے خفیہ ذرائع استعمال ضرور کرے گا"۔

چارپائی پر اوندھے منہ لیٹا وہ اپنا تجزیہ پیش کر رہا تھا۔


"مختصر کر کے بتاؤ نا"۔ تارہ جو اس کی برہنہ پیٹھ کے پرانے زخموں پر مرہم لگا رہی تھی۔ اس قدر لمبی بات پر تپ گئی۔


"چھتیس گھنٹے ہیں ہمارے پاس"۔ اٹھ کر بیٹھتے ہوئے اس نے پرسکون لہجے میں بتایا اور باقی سب کی ٹینشن مزید بڑھا دی۔


"صرف چھتیس گھنٹے؟ اتنی جلدی تو ہم ملک بھی نہیں چھوڑ سکتے یار"۔ بابو جو تب سے پریشانی کے عالم میں اِدھر سے اُدھر ٹہل رہا تھا جب اس نے یہ سنا تو دھپ سے کرسی پر گر گیا۔


"اس کا مطلب وہ ہمیں ڈھونڈنے کے بہت قریب ہیں۔ پھر ہم یہاں اتنے سکون سے کیسے بیٹھ سکتے ہیں؟ جب تک ہو سکے ہمیں جگہ بدلتے رہنا ہے"۔ اعظم کے چہرے پر موت کا خوف واضح تھا۔


"پھر اب ہم کیا کریں؟"۔ تارہ نے اس سے یہ سوال کیا جو تب سے خاموش بیٹھا تھا۔


"میں یہ سوچ رہا ہوں کے ہم علی مرزا سے بھاگ کیوں رہے ہیں؟"۔ اس نے ان سب کی جانب دیکھتے ہوئے اپنا سوال رکھا۔


اور اسکی یہ بات سن کر اعظم اور بابو ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔


"ارے میرے باپ ہم مجرم ہیں۔ تم قانون کے قیدی ہو اور وہ ہمارے پیچھے ہیں ہمیں مارنے کیلئے۔ تو اب ہم بھاگنے کے بجائے کیا ان کے پاس جا کر ہاتھ جوڑ دیں"۔ بابو اب باقاعدہ اسے سمجھانے لگا۔


"وہ ہمارے نہیں قیصر کے پیچھے ہیں"۔ تارہ نے اسکی بات کو درست کیا۔

اور جب اس کی یہ بات قیصر نے سنی تو ایک پل کو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔


"ایک منٹ ایک منٹ تارہ تم نے بالکل صحیح کہا جب وہ میرے پیچھے ہیں تو ہم سب کیوں بھاگ رہے ہیں؟"۔


"کیونکہ ہم تمہارے ساتھی ہیں اور ہم اگر ان کے ہتھے چڑ گئے تو وہ تمہارا پتہ پوچھنے کیلئے ہمیں جان سے مار دیں گے"۔ اعظم نے ہی جواب دیا۔


"اور اگر میں ہی ان کے ہاتھ آ جاؤں تو؟"۔ شرٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے وہ اب اٹھ کھڑا ہوا۔


"یہ کیا بکواس ہے قیصر۔ تم کیا کرنے جا رہے ہو؟"۔ تارہ اس کے ساتھ ہی کھڑی ہو گئی اور پریشانی کے عالم میں پوچھا۔


"میں وہ کرنے جا رہا ہوں جو مجھے بہت پہلے کرنا چاہیے تھا"۔ وہ اب جوگرز پہننے لگا۔


"کیا؟ کیا کرنے جا رہے ہو تم؟"۔ اعظم بھی پریشان ہو گیا۔


"وہ مجھے ڈھونڈ رہے ہیں۔ ان کو قیصر خیام چاہیے ہے نا تو میں ان کے پاس جا رہا ہوں"۔ چھوٹا سا خنجر وہ اب اپنے جوتے میں چھپا رہا تھا۔


"کیا کہا تم نے؟ تم ایسا کیسے کر سکتے ہو قیصر؟ پولیس تمہارے پیچھے ہے، مختار تمہیں ڈھونڈ رہا ہوگا اور علی مرزا؟ وہ تو تمہاری موت کا سامان تیار کر رہا ہوگا۔ نہیں تم کہیں نہیں جاؤ گے اس طرح۔ اور اگر گئے تو ہم سب بھی جائیں گے تمہارے ساتھ"۔ تارہ اس کی راہ میں حائل ہو گئی۔


قیصر نے گہری سانس کھینچی۔


"ہاں یار، تم ایسے اکیلے نہیں جا سکتے۔ اور پتہ نہیں کون دشمن کب تم پر وار کر دے۔ نہیں ہم تمہیں یہ نہیں کرنے دیں گے"۔ بابو نے آگے بڑھ کر دروازہ بند کر دیا۔


"اس بار میں بھی ان دونوں کے گروپ میں ہوں"۔ اعظم بول اٹھا۔


"مجھے تم لوگوں کی دوستی پر کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ تم لوگوں نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا ہے۔ ماں، باپ، بہن، بھائی یہ سب رشتے کیا ہوتے ہیں یہ ہم چاروں ہی نہیں جانتے۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے ساتھ ہیں ہم"۔ قیصر خیام کا وہ روپ الگ ہی تھا اس پل۔ جو صرف ان تینوں کیلئے ہی ہوتا تھا۔


"اور تم یہ ساتھ چھوڑ کر جانا چاہتے ہو؟ ہم ہمیشہ سکھ دکھ میں ساتھ رہے ہیں تو پھر آج کیوں نہیں؟"۔ اعظم نے شکوہ کیا۔


"بات کو سمجھنے کی کوشش کرو اعظم وہ مجھے ڈھونڈ رہے ہیں۔ جس وجہ سے تم سب کی جان بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ اگر میں سامنے سے چلا جاؤں گا ان کے پاس تو وہ تم لوگوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے"۔ قیصر نے اس کا شانہ تھپک کر تسلی دی۔


"اور اگر علی مرزا نے تمہیں مارنے کا پلان کیا ہوگا تو؟" تارہ اب بھی راضی نہ تھی۔


"وہ ایسا کبھی نہیں کرے گا"۔ طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اس نے یقین سے کہا۔


"یہ تم کیسے جانتے ہو؟"۔ تارہ ٹھٹھکی۔


"کیونکہ اسے اگر مجھے مارنا ہوتا تو وہ جیل میں ہی یہ کام کر دیتا۔ لیکن اس نے ایسا نہیں کیا، بلکہ مختار پر دباؤ ڈال کر مجھے جیل سے نکلوانا چاہا تو اس کا مطلب صاف ہے کے مجھ میں اس کا کوئی کام اٹک گیا ہے۔ جو جب تک پورا نہ ہو جائے تب تک وہ مجھے مار نہیں سکتا"۔ بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے وہ پرسکون تھا۔


"تو کیا اب تم نے اس کی غلامی قبول کر لی؟"۔ تارہ کا انداز طنزیہ ہوگیا۔


"ہرگز نہیں"۔ قیصر نے فورا تردید کی۔

جس پر وہ سب خاموش ہوگئے۔

جبکہ وہ اب تیار تھا۔


"میں جا رہا ہوں اس کے پاس اس کے کام سے نہیں۔ اپنا کام کرنے"۔ آستینیں فولڈ کرتے ہوئے اس نے کہا۔

پھر ایک ایک کر کے ان سے مل کر وہ اپنی منزل کی طرف چل پڑا۔

☆☆☆☆☆


آنکھ کھلی تو اس نے اپنے ارد گرد رشتوں کی صورت صرف اپنی ماں کو ہی دیکھا تھا۔

سات سالہ الوینا اسکول میں جب اپنی سہیلیوں کو ان کے ماں باپ کے ساتھ ہنستے بولتے دیکھتی تو اس کے چھوٹے سے ذہن میں یہ سوال اٹھتا تھا کے اس کا باپ ان کے ساتھ کیوں نہیں تھا؟ اور اگر وہ تھا بھی تو کہاں؟


"امی بابا کہاں ہیں؟ وہ ہمارے ساتھ کیوں نہیں رہتے؟" ہمت کر کے ایک بار اس نے ماں سے یہ سوال کیا تھا۔

اور اس کی ماں جواب میں خاموش رہی تھی۔

ہاں اس کی آنکھیں ضرور بھر آئی تھیں آنسوؤں سے۔

جنہیں وہ چھپانے کی غرض سے نگاہیں چرا گئی تھی۔


پر الوینا سے وہ آنسو چھپے نہیں رہ سکے تھے۔

اور وہ اپنی ماں کو روتے نہیں دیکھ سکتی تھی۔

وہ ماں جس نے اسے ماں، باپ دونوں کا پیار دیا۔

اس لیے اس نے عہد کیا وہ کبھی اپنے بابا کا ذکر ماں سے نہیں کرے گی۔

اور نہ اب کوئی سوال ان سے متعلق پوچھے گی۔


مگر قدرت کو بھی اس معصوم پر رحم نہ آیا۔

وہ گیارہ برس کی ہوئی تب اس کی ماں بھی اس سے چھن گئی۔


اس دن وہ بے تحاشا روئی تھی۔

اور تین دن تک مسلسل وہ ہوش و بے ہوشی کے درمیان رہی۔


اور جب اس کی آنکھ کھلی تھی تب اتنے برسوں میں پہلی بار اس نے کسی اپنے رشتے کو دیکھا تھا۔


"ڈرو مت میرے بچے۔ تم اکیلی نہیں ہو، میں تمہیں اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔ تم میری بیٹی عائشہ کا عکس ہو"۔ تحسین صاحب نے اس کے سر پر دست شفقت رکھا تو وہ جو آنسوؤں پہ بند باندھے ہوئے تھی ان کے سینے سے لگ کر دھاڑے مار مار کر اتنا روئی کے ان کو بھی رلا گئی۔


وقت سب سے بڑا مرہم ہوتا ہے۔

تحسین صاحب اسے اپنے ساتھ لے آئے تھے اور اتنے سالوں میں اسے یہ آج پتہ چلا تھا کے اس کی ماں کا ایک بھائی بھی تھا۔

ماما نے تو اس کے آنے پر کوئی رد عمل نہیں دیا تھا مگر ممانی نے گھر سر پہ اٹھا لیا۔


"نکال باہر کرو اس گند کو میرے گھر سے۔ جانے کس کا گندا خون ہے یہ جس کو اپنا سمجھ کر یہاں اٹھا لایا تمہارا باپ"۔ وہ ان کے کمرے کے پاس سے گزر رہی تھی تب اس نے اپنی ممانی کو زور زور سے بولتے سنا۔

اس کے قدم وہی تھم گئے۔


"آہستہ بولو ابا سن لیں گے تو کیا سوچیں گے"۔ شوہر نے کمزور سے لہجے میں انہیں ٹوکنا چاہا۔

تب وہ اور ہتھے سے ہی اکھڑ گئیں۔


"ارے تو سن لینے دو ان کو بھی۔ جب ان کو ہماری کوئی پرواہ نہیں تو میں کیوں سوچوں کسی کا۔ اس کل کی آئی لڑکی کو تم لوگوں نے سر پہ بٹھا رکھا ہے۔ میں اسے میرے بچوں کے حق پر ڈاکہ نہیں ڈالنے دوں گی یاد رکھنا تم"۔ وہ سخت غضبناک ہو رہی تھیں۔


"ایسا کچھ نہیں ہوگا عاصمہ، تم خواہ مخواہ اتنا کیوں سوچ رہی ہو"۔ شوہر نے انہیں سمجھانا چاہا۔


"خبردار جو تم نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی تو میں کل ہی اپنے پاپا کے گھر چلی جاؤں گی۔ پھر بنا لینا اس گھر کو یتیم خانہ، تم اور تمہارا باپ مل کر"۔ بد لحاظی سے کہتے ہوئے وہ کمرے سے باہر نکل گئی تھیں۔


ان کے پیچھے پیچھے شوہر بھی کمرے سے باہر نکل رہے تھے جب ان کی نظر دروازے پر کھڑی الوینا سے ملی۔

جس کی بھوری آنکھیں نمکین پانی سے بھری تھیں۔

ایک لمحے کو انہیں بے حد افسوس ہوا اس بچی کو دیکھ کر۔

مگر وہ کر بھی کیا سکتے تھے۔

ان کی بیوی اپر کلاس کی، قدرے مغرور، بد لحاظ اور زبان دراز عورت تھی۔ جس کے سامنے ان کی دال نہیں گلتی تھی۔

لہٰذا اس سے نگاہیں چرا کر وہ نکل گئے۔


پھر تو یہ سب روز کا معمول بن گیا۔

وہ بہانے بہانے سے الوینا کو ڈانٹتی، باتیں سناتی، اس کے کام میں نقص نکالتی مگر الوینا سب خاموشی سے سہہ جاتی تو صرف اپنے بیمار نانا کی وجہ سے۔

کیونکہ ایک واحد وہی تھے جو اس سے بہت محبت کرتے تھے۔

اور اس کیلئے وہی کافی تھا۔


اس دن صبح سے تحسین صاحب کی طبیعت بہت خراب تھی۔

ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد دوا تجویز کی۔

مگر ان کی طبیعت سنبھلنے میں نہ آتی تھی۔


دونوں میاں بیوی تو کسی دوست کی پارٹی میں شرکت کرنے گئے تھے۔

اور اب پیچھے وہ سترہ سالہ لڑکی کرتی بھی تو کیا۔


"نانا جان میں ڈاکٹر کو فون کروں اگر آپ کی طبیعت زیادہ خراب ہے تو؟"۔ الوینا ان کے پاس بیٹھی ان کا سر دبا رہی تھی۔

مگر انہوں نے سر نفی میں ہلا کر منع کر دیا۔

باتیں بھی ان کی بہت کم ہو گئی تھیں۔

مگر پھر بھی ان کا اسرار تھا کے الوینا ان کے ساتھ بیٹھی باتیں کرتی رہے۔


وہ ان کے پاس بیٹھی رہی۔

قرآن پاک کھولے سورہ پڑھ پڑھ کر ان پر دم کرتی رہی۔

اور دوا کھلائی۔

جس کے زیر اثر آ کر بہت دیر بعد وہ سو گئے۔

اور الوینا بھی وہی ان کے پاس بیٹھی رہی۔

پھر جانے کب اس کی آنکھ لگی اسے بھی پتہ نہیں چلا۔


آنکھ کھلی تو عاصمہ کی اس بے ہنگم چیخ کی وجہ سے۔


"تم یہاں پڑی سو رہی ہو اور دیکھو ابا جی کو کیا ہوا ہے۔ ان کی نبز نہیں چل رہی"۔ وہ آٹھ آنسو روتی ہوئی اب شوہر کو آوازیں دے رہی تھیں۔


"نانا جان کیا ہوا نانا جان کو؟ ابھی کچھ دیر قبل ہی تو میری آنکھ لگی تب تو یہ بالکل ٹھیک تھے۔ نہیں ایسا کیسے؟ نانا جان اٹھیں دیکھیں میں الوینا"۔ آنسو ٹپ ٹپ کرتے اس کی آنکھوں سے گر کر ان کے کمبل میں جزب ہو رہے تھے مگر اسے کیا پتہ تھا کے وہ آنکھیں اب کبھی محبت سے اسے نہیں دیکھ سکتی تھیں۔

وہ پر شفقت ہاتھ اب بے جان ہو چکے تھے۔

☆☆☆☆☆


آج ان کا سوئم تھا اور وہ جانے اب تک کتنے ہی آنسو بہا چکی تھی۔

بہت مختصر ساتھ تھا ان کا مگر اس مختصر عرصے میں بھی جتنی محبت و شفقت الوینا کو ان سے ملی تھی وہ اس کیلئے کیا کچھ نہ تھا۔


دوسری بار اس نے کسی اپنے کو کھونے کا دکھ اٹھایا تھا۔

اور اب اسے چپ لگ گئی تھی۔


ممانی نے جیسے تیسے چالیسواں پورا ہونے کا انتظار کیا وہ بھی لوگوں کی لعن طعن کا ڈر تھا اور سوسائٹی میں نام خراب نہ ہو اس لیئے۔


مگر چالیسواں جیسے ہی پورا ہوا۔

الوینا کا وجود کانٹے کی طرح انہیں چبھنے لگا۔

اور پھر بالآخر اسے اپنے گھر سے نکالنے میں وہ کامیاب ہو ہی گئیں۔

الوینا کو انہوں نے ہاسٹل بھجوا دیا تھا۔

اور وہ بھی بنا کسی احتجاج کے اس گھر سے چلی گئی۔

کیونکہ اسے پتہ تھا کے اب یہاں اس کیلئے کچھ نہیں رکھا۔


عاصمہ نے شوہر کو بھی چپ کروا دیا کے اسے ہاسٹل پڑھنے بھیج دیا ہے لہٰذا ہمارا فرض پورا ہو گیا۔

ان کو بھی اسکی اتنی پرواہ نہ تھی۔

کیونکہ عائشہ نے گھر والوں کے خلاف جا کر اپنی پسند کی شادی کی تھی۔

جس کی وجہ سے وہ ہرگز بھی انہیں معاف نہیں کر سکتے تھے کجا کے اسکی اولاد کی پرواہ کرتے۔

☆☆☆☆☆


شروع شروع میں تو ہر ماہ اس کے ہاسٹل کیلئے فیس بجھواتی رہیں وہ مگر پھر وہ بھی بند ہو گیا۔

الوینا کیلئے یہ غنیمت تھا کے اس دو سال کے عرصے میں کم از کم اتنا ضرور ہوا تھا کے وہ اپنے لیے خود کچھ کر سکتی تھی۔


ہاں اپنے ساتھ وہ نانا جان کا نام لے کر آئی تھی۔

باپ کو تو اس نے دیکھا نہیں تھا۔ اور نہ اب کوئی خواہش باقی رہی تھی ان سے ملنے کی۔

لہٰذا وہ تحسین صاحب کا نام ہی لگایا کرتی تھی اپنے نام کے ساتھ۔

اس کے بی-ایس جرنلزم کا یونیورسٹی میں پہلا سال تھا۔

پڑھائی کے ساتھ ساتھ اب وہ ایک کال سینٹر میں جاب بھی کر رہی تھی۔


تب اس کی زندگی میں غزل جیسی ساتھی آئی۔

وہ دونوں ایک ہی ہاسٹل میں رہتی تھیں۔

ایک ہی یونیورسٹی اور ایک ہی کلاس میں ہونے کی وجہ سے ان دونوں میں بے حد گہری دوستی ہو گئی۔


غزل مزاجا چنچل اور شوخ لڑکی تھی۔

وہ کھاتے پیتے گھرانے سے تھی اور ہاسٹل میں شوقیا رہتی تھی۔

یہ اسکی صحبت کا ہی اثر تھا کے الوینا جو سہمی سہمی سی اور خاموش رہتی تھی وہ بھی اب اس کے رنگ میں رنگ گئی تھی۔


"زندگی گزارنا نہیں بلکہ جینا چاہیے اور کھل کر جینا چاہیے"۔ یہ غزل کا فارمولا تھا اور اب وہ بھی اس پر عمل کرتی تھی۔

☆☆☆☆☆


وہ سوتی جاگتی کیفیت میں تھے۔

شاید کسی خواب کے زیر اثر تھے۔

مگر جیسے ہی دائیں جانب کروٹ لی تو گویا آنکھوں کے سامنے زمین و آسمان گھوم گئے۔


سائیڈ میز کا لیمپ وہ ہمیشہ جلا کر ہی سوتے تھے۔

اور اس کی زرد روشنی میں اب جو چہرہ ان کے سامنے تھا اسے دیکھ کر تو وہ چکرا کر رہ گئے۔


"امید ہے مجھ سے ملنے کا تمہارا شوق پورا ہو گیا ہوگا وزیر دفاع صاحب"۔ بیڈ سے زرا فاصلے پر پڑی راکنگ چیئر پر وہ جھول رہا تھا۔


زرد روشنی میں سرمئی آنکھیں سیاہ معلوم ہوتی تھیں۔

ان کے جاگنے پر بھی مقابل کے انداز میں رتی بھر فرق نہ آیا۔

وہ ہنوز پرسکون تھا اپنی جگہ۔


"تم یہاں اس طرح؟ اس وقت کیوں آئے ہو تم یہاں؟"۔ علی مرزا اٹھ بیٹھے۔

اور پیشانی پر بل ڈالے اب وہ سوال کر رہے تھے اس سے۔


جواب دینے کے بجائے وہ اٹھ کھڑا ہوا۔

اور چلتا ہوا کھڑکی کے پاس جا پہنچا۔

جو اس وقت کھلی ہوئی تھی۔

وہ کھڑکی چوڑائی اور لمبائی میں کافی بڑی تھی۔

لہٰذا قیصر خیام با آسانی اس کے بیچ و بیچ اس کے اوپر کھڑا ہو گیا۔


چہرہ اس کا ان کی طرف تھا۔

مضبوط بازو کھڑکی کے دونوں اطراف میں رکھے تھے۔

اس کا چہرہ نیم اندھیرے میں تھا۔

علی مرزا بستر سے اٹھ کھڑے ہوئے۔

اور اب چلتے ہوئے وہ کھڑکی سے زرا فاصلے پر آ رکے۔

پھر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔


"چور ہوں میں۔ اندھیروں میں چھپنا ہی تو آتا ہے مجھے۔ دیکھنا چاہو گے کیسے؟"۔ کہتے ساتھ ہی اس نے دونوں اطراف سے بازو ہٹا دیئے۔

اور ایک قدم اس نے پیچھے لے لیا۔


"نہیں یہ تم کیا۔۔۔"

اس سے قبل کے وہ اسے پکڑتے۔۔۔

قیصر خیام کھلی کھڑکی میں سے کود چکا تھا۔


مرزا علی شاکڈ رہ گئے۔

علی مرزا کے شاکڈ ہونے کی وجہ تین منزلہ عمارت سے قیصر خیام کا کودنا ہرگز نہیں تھا۔

بلکہ وہ چونکے اس لیئے تھے کے وہ فضاء میں معلق ہو گیا تھا۔

اس کے بازو سے سیاہ رسی بندھی تھی۔

جس نے اسے گرنے نہیں دیا تھا۔

اور جس کی مدد سے کچھ ہی لمحوں بعد وہ اوپر آ گیا اور اب ایک مرتبہ پھر ان کے سامنے تھا۔


"یہ کیا مذاق ہے؟ رات کے دو بجے تم یہاں مجھے یہ کرتب دکھانے آئے ہو؟"۔ علی مرزا کا بس نہیں چل رہا تھا کے وہ کیا کر گزریں۔


جبکہ قیصر ان کی بات کا اثر لیے بنا مسکرا رہا تھا۔


"دراصل اس کے پیچھے بھی ایک سوچ پنہاں ہے"۔ وہ اب کھڑکی کے کنارے میں اٹکے اس ہک کو نکالنے لگا جس سے وہ سیاہ رسی بندھی تھی۔


اور یہ دیکھ کر منسٹر صاحب کا پارہ اور ہائی ہو گیا کے وہ ہک ان کے پیروں کے بالکل پاس ہی تھی مگر ان کی اس پر نظر تک نہ پڑی۔


جبکہ قیصر اس ہک کو اب خنجر میں تبدیل کر کے اپنی جیب میں رکھ چکا تھا۔


"ارے آپ کھڑے کیوں ہیں۔ چچ چچ یہ آپ کا ہی گھر ہے وزیر دفاع صاحب آئیے بیٹھ کر بات کرتے ہیں"۔ دل جلا دینے والی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے بیڈ کی جانب اشارہ کیا۔

اور خود وہ راکنگ چیئر سنبھال چکا تھا۔


مگر انہوں نے کوئی پیش قدمی نہیں کی۔

بس غصے سے اسے گھورتے رہے۔


"تم میرے گھر، میرے بیڈ روم میں داخل ہوئے کیسے؟" وہ دھاڑے۔


"آرام سے جناب۔ بڑھاپے میں اتنا غصہ صحت کیلئے نقصان دہ ہوتا ہے تشریف رکھیے پہلے"۔ کان کھجاتے ہوئے اس نے ایک مرتبہ پھر آفر دی۔

چاروناچار وہ آہستگی سے چلتے ہوئے آئے اور بیڈ پر اس کے سامنے ٹک گئے۔

نگاہیں ہنوز غصے سے بھری اس پر ہی جمی تھیں۔


"گڈ، یہ ہوئی نا بات۔ ہاں تو اب مدعے پہ آتے ہیں"۔ وہ کرسی پر سیدھا ہو بیٹھا۔


"آپ تو جانتے ہی ہیں کے پولیس میرے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی ہے۔ خاص طور پر وہ ڈی-آئی-جی۔ اور اب آپ نے میرے پیچھے پوری پولیس فورس لگا دی۔ اب آخر میں اکیلا بندہ کہاں کہاں اور کس کس سے بھاگتا پھروں؟ بس اس لیئے میں نے فیصلہ کیا کے یہ سب جس کے انڈر ہیں مجھے اس کے سامنے سرینڈر کرنا چاہیے۔ شاید تب میرے مسائل کا حل ہو سکے"۔ گال تلے انگلی رکھے مصنوعی سنجیدگی کے ساتھ وہ اپنا مسئلہ انہیں بتا رہا تھا۔


جبکہ علی مرزا کے چہرے پر غصے کی جگہ شکوک نے لے لی۔


"اگر تم واقعی میں سرینڈر کرنا چاہتے تھے تو میرے گھر میں اس طرح آنے کی کیا ضرورت تھی؟"۔ ان کا سوال ہنوز تھا۔


"اب آپ تو ٹھہرے اسٹیٹ کے وزیر دفاع تو بھلا میرے جیسے معمولی غنڈے کو آپ سے ملنے تھوڑی نہ دیا جاتا۔ اور پھر پولیس میرے پیچھے لگا رکھی ہے آپ نے تو اب ایسے میں کوئی چور راستہ ہی اختیار کیا جا سکتا تھا سو میں نے کیا"۔ وہ ہنوز پرسکون تھا۔ اور یہ بات علی مرزا کو چین نہیں لینے دے رہی تھی۔


"تمہیں خوف نہیں آیا؟ میرے گارڈز تھے باہر، کیمرے لگے تھے، اعلٰی نسل کے شکاری کتے پہرا دے رہے تھے۔ کیا تمہیں اپنی جان پیاری نہیں تھی؟"۔ وہ اسے ڈرا رہے تھے یا اس کی بہادری کو سراہ رہے تھے یہ خود انہیں بھی سمجھ نہ آیا۔


قیصر کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔


"آپ کے گارڈز کو میں نے ایک بہت اچھی اور اسپیشل چائے پلائی۔ اس کے بعد پھر کیمرا اتنا بڑا ہدف نہیں تھا۔ اور رہی بات کتوں کی تو وہ چاہے جس بھی نسل کے ہوں رہیں گے وہ کتے ہی۔ مار دیا سالوں کو"۔ اس کے سکون میں رتی بھر فرق نہ آیا۔

جبکہ دوسری جانب وہ بے سکون ہو رہے تھے۔


"ان سب سے تو بچ گئے لیکن اب مجھ سے کیسے بچوگے؟"۔ اچانک انہوں نے پستول نکال کر اس پر تان لی۔


قیصر خیام کچھ نہیں بولا۔

وہ بس ان کی جانب دیکھتا رہا اور پھر۔۔۔

دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ایک زوردار قہقہہ لگایا۔

اور ہنستا چلا گیا۔


علی مرزا بھونچکے رہ گئے تھے۔

انہیں لگا شاید اس کا دماغ چل گیا ہے۔


تا دیر ہسنے کے بعد وہ گویا ہوا۔

"مجھے پتہ ہے آپ یہ غلطی نہیں کریں گے"۔ وہ پریقین تھا۔


"تمہیں اتنا یقین کیوں ہے؟"۔ انہیں حیرت ہوئی۔


"کیونکہ اگر آپ مجھے واقعی میں مارنا چاہتے تو تین،تین موقعے ہرگز بھی نہیں گنواتے"۔ شہادت کی انگلی میں انگوٹھی گھماتے ہوئے وہ اب سنجیدہ تھا۔


"تین موقعے؟"۔ ان کا انداز سوالیہ ہو گیا۔

جبکہ پستول کا رخ ہنوز تھا۔


"ہاں۔ ایک موقع جب میں جیل میں تھا"۔ وہ کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا اب ڈریسنگ میز کے سامنے جا ٹھہرا۔

لگتا تھا جیسے وہ ایک جگہ بہت دیر تک ٹک کر بیٹھنے کا عادی ہی نہیں تھا۔

علی کی نظریں اس کے پیچھے تھیں۔

اور ان کی بندوق کا رخ بھی اس کی پشت پر تھا۔


"موقع نمبر دو جب میں کھڑکی سے گرا۔ آپ چاہتے تو وہ رسی کاٹ سکتے تھے جس کو میں نے آپ کے پیروں کے عین پاس اسی لیئے رکھ چھوڑا تھا۔ رسی کٹتی اور قیصر خیام زمین پہ ہوتا۔ ہاں وہ الگ بات ہے کے تین منزل سے گرنے کے بعد بھی شاید میں زندہ ہی رہتا"۔ آئینے میں ان کا عکس اس کے پیچھے ہی تھا۔

جبکہ وہ اب آئینے میں اپنے بال سنوار رہا تھا۔


"اور تیسرا موقع"۔ وہ اب مڑ کر ان کے سامنے اور نزدیک آ کھڑا ہوا۔

ایسے کے اب پستول اس سے دو انچ دور ہی تھی۔


"تب جب آپ نے یہ گن نکال کر مجھ پر تان لی مگر ٹریگر نہیں دبایا"۔ اس کی آنکھوں میں موت کا خوف رتی بھر بھی نہ تھا۔


"مطلب صاف ہے کے آپ کا ارادہ مجھے مارنے کا ہرگز بھی نہیں تھا اور نہ اب ہے۔ لہٰذا یہ گن نیچے کر لیں آپ کا ہاتھ تھک گیا ہوگا"۔ وہ انہیں پچکار رہا تھا۔

مگر اب کی بار وہ اس کی بات سن کر غصہ کرنے کے بجائے مسکرا دیئے۔ پراسرار مسکراہٹ۔


"ماننا پڑے گا تم واقعی کام کے بندے ہو"۔ انہوں نے واقعی پستول نیچے کر لی۔


"دو شرطیں ہے میری"۔ اس نے انگلی کی وی بنائی۔


"کیسی شرط؟" وہ الجھ گئے۔


"پہلی یہ میرے کام میں کوئی دوسرا دخل نہیں دے گا۔ اور نہ آپ مجھ پر نظر رکھوانے کیلئے کسی کو میرے پیچھے لگائیں گے"۔

اس کی پہلی شرط سن کر وہ سوچ میں پڑ گئے۔


"اور دوسری؟"۔


"میرے دوستوں کی حفاظت آپ کے ذمے ہوگی۔ انہیں ایک خروش بھی نہیں لگنی چاہیے"۔ انگلی اٹھا کر وارننگ دی۔


تو کچھ دیر سوچتے رہنے کے بعد وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔


"منظور ہے مجھے"۔ رضامندی دیتے ہوئے انہوں نے ہاتھ آگے بڑھایا۔

ایک نظر اس نے اپنی طرف بڑھے اس ہاتھ کو دیکھا۔


"کیا کرنا ہوگا مجھے"۔ اس نے وہ بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیا تھا۔


اور اس پل ان دو اشخاص کے اس ایک مصافحے نے نا جانے کتنی زندگیوں کا فیصلہ کیا تھا۔

☆☆☆☆☆


وہ دونوں ابھی ابھی کلاس لے کر نکلی تھیں۔

مس کائنات کی کلاس فری تھی لہٰذا وہ دونوں باتیں کرتی ہوئی کیفیٹیریا کی طرف جا رہی تھیں۔

جب اچانک الوینا نے اسے ٹوکا۔


"ایک منٹ غزل رکو زرا"۔


"کیا ہوا؟ پرنس چارم مل گیا کیا؟"۔ غزل نے مسکراہٹ دبا کر معصومیت سے پوچھا۔

جس پر الوینا نے اسے گھوری سے نوازا۔


"آخری بار تم سنجیدہ کب ہوئی تھی؟"۔ وہ کاٹ کھانے کو دوڑی۔

جبکہ غزل اب پیشانی پر انگلی سے دستک دیتی ہوئی یاد کرنے لگی۔


"جب مجھے الوینا پہلی بار ملی تھی تب ہاں یاد آیا دو سال پہلے"۔ وہ مصنوعی سنجیدگی سے بولی۔

جبکہ آنکھیں شرارت سے چمک رہی تھیں۔


اثبات پر الوینا نے ایک زوردار دھموکا اسے جڑ دیا۔

جس پر وہ بلبلا اٹھی۔


"اووففف۔۔۔کتنی زور سے مارا ہے الوینا کی بچی۔۔۔دہشتگردنی کہیں کی"۔ کمر سہلاتے ہوئے اس نے اردو کا ایک نیا لفظ ایجاد کیا۔


"کوئی نہیں ہاسٹل جا کر مرہم لگا دیں گے۔ فلحال وہ دیکھو اس بیچارے لڑکے کو گینگسٹرز گروپ تنگ کر رہا ہے چلو دیکھتے ہیں"۔ کچھ ہی فاصلے پر وہ چھ لڑکوں کا گروپ ایک موٹے چشمے والے لڑکے کو گھیرے کھڑا تھا۔

الوینا کے ساتھ ساتھ باقی چند اسٹوڈنٹس بھی دور سے ہی تماشا دیکھنے میں محو تھے۔

کوئی بھی اس کی مدد کرنے کی کوشش نہیں کر رہا تھا۔

کیونکہ کوئی بھی گینگسٹرز گروپ کے لڑکوں سے پنگا نہیں لینا چاہتا تھا۔


اس گروپ کا ایک لڑکا وقاص یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا بیٹا تھا۔

اور باپ کے عہدے کا وہ جائز ناجائز فائدہ یونہی اٹھایا کرتا تھا۔


"چلو اس کی مدد کرتے ہیں"۔ الوینا کو اس لڑکے پر ترس آیا جو رو دینے کو تھا۔


"رکو تم پاگل تو نہیں ہو گئی۔ ان لڑکوں سے پنگا مت لو چلو کیفیٹیریا چلتے ہیں"۔ غزل نے اس کا بازو پکڑ کر پیش قدمی سے روک دیا۔

الوینا نے افسوس سے اسے دیکھا۔


"یہ تم کہہ رہی ہو غزل؟ تم؟ جس نے خود میری اتنی مدد کی؟"۔


ایک پل کو اسکی بات سن کر وہ شرمندہ ہوگئی۔


"لیکن الوینا وہ لڑکے بہت خطرناک ہیں ہم سے بھلا وہ کیوں ڈریں گے؟"۔ غزل نیم رضامند ہو گئی تھی اس کا ساتھ دینے کو۔


"ہم سے نہیں سر سعود سے تو ڈریں گے نا۔ چلو انہیں بتاتے ہیں"۔ غزل کا ہاتھ پکڑے وہ تیزی سے مڑ گئی۔

ان کا رخ کیمسٹری ڈپارٹمنٹ کی جانب تھا۔


کچھ ہی دیر بعد سر سعود وہاں آن پہنچے اور ان لڑکوں کو اچھی خاصی جھاڑ پلائی۔

جس پر کافی دیگر اسٹوڈنٹس بھی ارد گرد جمع ہو گئے۔

مگر پھر آہستہ آہستہ بھیڑ منتشر ہو گئی تو وہ دونوں اب اس لڑکے کے پاس آگئیں۔


"تم ٹھیک ہو نا؟"۔ الوینا نے فکرمندی سے اسے دیکھ کر پوچھا۔

جو اب اپنا چشمہ درست کر کے بیگ اٹھا رہا تھا۔


"جج۔۔جی جی۔۔۔آئم اوکے"۔ وہ کافی بوکھلایا ہوا سا لگ رہا تھا۔


"خوش قسمت ہو جو الوینا اور میں نے عین وقت پہ سر سعود کو بلا لیا۔ نہیں تو تمہاری ٹائیں ٹائیں فش ہو جاتی"۔ غزل نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔

جس پر اس لڑکے نے تشکر سے ان دونوں کو دیکھا۔

(ان کے پیچھے موجود لڑکے نے جب یہ سنا تو فورا چلا گیا وقاص کو خبر دینے)


"شکریہ آپ دونوں کا۔ میری ہیلپ کرنے کیلئے"۔ معصومیت سے مسکراتے ہوئے اس نے کہا۔

جس پر غزل الوینا کے کان میں منمنائی۔


"لگتا ہے بےچارہ بہت سیدھا سادہ اور بے وقوف سا ہے"۔


"تجھے کیسے پتہ؟"۔ الوینا نے الٹا سوال کیا۔


"ارے دیکھو نا اس کا انداز بیچارہ کتنا معصوم اور سادہ ہے جبھی تو ان لڑکوں کے نرغے میں پھنس گیا چچ چچ"۔ غزل نے اپنی دانست میں آہستگی سے اظہار خیال کیا۔

جو اتنی بلند تھی کے مقابل بھی سن چکا تھا۔

جس سے خفت زدہ ہو کر اس کا چہرہ سرخ پڑ گیا۔


"آہممم آہمم"۔ وہ کھنکھارا۔ جس پر وہ دونوں سوئی کی طرح سیدھی ہو گئیں اور شرمندگی چھپانے کو خواہ مخواہ ہنسنے لگیں۔


"کیا نام ہے تمہارا؟"۔ غزل نے موضوع بدلنے کو پوچھا۔


"احمد بیگ"۔ شرماتے ہوئے اس نے بتایا۔


"چلو آج سے تم ہمارے گروپ میں آ جاؤ"۔ الوینا نے خوشدلی سے کہا۔

جس پر احمد کا چہرہ کھل اٹھا۔

مگر پھر اس نے غزل کو دیکھا جیسے اس کی رائے بھی جاننا چاہ رہا ہو۔


"آہاں، گریٹ آئیڈیا۔ موسٹ ویلکم احمد ویسے تو ہمارے گروپ میں ہم دو ہی تھے اب تین ہو گئے ہیں"۔ غزل پر جوش ہو گئی۔


"ارے ہاں ویسے تم کون سے ڈپارٹمنٹ کے ہو؟"۔ الوینا نے پوچھا۔


"بی-ایس پولیٹیکل سائنس کا پہلا سال ہے"۔


"اوہ فریشر ہو۔ پھر تو آج ٹریٹ ہماری طرف سے۔ چلو کیفیٹیریا چلتے ہیں"۔ غزل نے کہا۔

جس پر ان دونوں نے بھی اس کی تائید میں کیفیٹیریا کی جانب قدم بڑھا دیئے۔

☆☆☆☆☆


آہستگی سے دروازہ کھول کر انہوں نے کمرے میں جھانکا۔

پھر قدم اندر دھرنے کے بعد اپنے پیچھے دروازہ بند کر دیا۔

ہاتھ میں پکڑا کوٹ بیڈ پر رکھ دیا اور خود بھی تھکے تھکے سے انداز میں وہی بیٹھ گئے۔


سلیقے سے سجے شاندار کمرے کے ایک کونے میں جائے نماز بچھائے فائزہ نماز پڑھ رہی تھیں۔

مختار صاحب خاموشی سے انہیں دیکھ رہے تھے۔


کچھ دیر بعد انہوں نے سلام پھیر کر دعا کیلئے ہاتھ بلند کیئے تو آنکھوں سے آنسو امڈ امڈ کر ان کے رخسار بھگونے لگے۔


دنیا کی ہر آسائش تھی اس گھر میں۔

دونوں میاں بیوی کا معاشرے میں نام، عزت، مقام کیا کچھ نہ تھا۔

فائزہ مختار ایک نامور وکیل تھیں۔

دولت، گاڑی، بنگلہ سب تھا ان کے پاس۔

اگر کچھ نہ تھا تو دنیا کی عظیم نعمت۔

اولاد جس سے وہ دونوں میاں بیوی شادی کے تیس سال بعد بھی محروم تھے۔

دعائیں، منت و مرادیں کچھ بھی بر نہیں آیا تھا۔

مختار صاحب نے چاہا کے دونوں میاں بیوی بچہ گود لے لیں مگر فائزہ اس کیلئے رضامند نہ تھیں۔


"آپ کب آئے؟"۔ جائے نماز طے کرتے ہوئے ان کی نظر مختار صاحب پر پڑی۔

جبکہ فائزہ بیگم کے مخاطب کرنے پر وہ خیالات سے چونکے۔


"ہوں۔ بس ابھی ابھی"۔ وہ کھوئے کھوئے سے تھے۔


فائزہ نے دوپٹہ شانوں پر پھیلایا اور ان کے پاس آ بیٹھیں۔


دونوں ہی اپنی اپنی جگہ سوچوں میں گم تھے۔


"آپ نے بات کی ان سے؟"۔ بہت دیر کی خاموشی کے بعد فائزہ نے پوچھا۔

مختار صاحب نے گہری سانس لی۔

ان کی جانب دیکھنے سے گریز برتا۔


"کوئی فائدہ نہیں ہے فائزہ وہ کبھی راضی نہیں ہوگا"۔ انہوں نے مایوسی کا اظہار کیا۔


"میں ملوں گی ان سے بات کروں گی وہ ایسا کیسے کر سکتے ہیں"۔ فائزہ کو دھچکا لگا۔

ان کی آخری امید بھی ٹوٹنے لگی۔


"وہ بے حس آدمی تمہارا دکھ کبھی نہیں سمجھے گا فائزہ۔ لہٰذا تم کوئی جھوٹی امید نہ رکھو"۔ مختار صاحب نے جانے کس دل سے یہ بات کہی۔

فائزہ نے زور سے آنکھیں میچ لیں۔

آنسو ٹپ ٹپ کرتے بند آنکھوں سے گر رہے تھے۔


"صبر رکھو فائزہ۔ اللہ بہتر کرے گا سب"۔ مختار صاحب نے ان کا شانہ تھپک کر تسلی دی۔

ان کے پاس تو خود الفاظ ختم ہوگئے تھے۔ تو وہ کس منہ سے فائزہ کو تسلی دیتے۔

☆☆☆☆☆


"تمہیں پتہ ہے آج ہسٹری کے نئے پروفیسر آنے والے ہیں"۔ الوینا نے ساتھ بینچ پر بیٹھی غزل کو نئی اطلاع دی۔

احمد کی کلاس تھی لہٰذا وہ ان کے ساتھ نہیں تھا۔


"کچھ پتہ چلا کون ہیں؟"۔


"پتہ کرنے کی کوشش تو کی میں نے پر کوئی سراغ نہیں ملا۔ بس اتنا ہی پتہ چلا کے آج آنے والے ہیں"۔ الوینا نے بور ہوکر جواب دیا۔


"ہوں چلو آج آئیں گے تو دیکھ ہی لیں گے ان کو بھی"۔ غزل نے آنکھ دبا کر کہا۔

جبکہ الوینا اس کے انداز پر مسکرا دی۔


"مسکرانا بند کرو اور چلو کلاس کیلئے صرف دس منٹ ہی رہ گئے ہیں"۔ غزل اسے ٹوکنے کے بعد خود بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔


"اوہو تو مس غزل اپنا پہلا امپریشن خراب نہیں دینا چاہ رہیں۔۔ ہوں؟"۔ الوینا نے اس کے پھولے گال پر چٹکی لیتے ہوئے چھیڑا۔

وہ دونوں اب کلاس کی جانب جا رہی تھیں۔


"آف کورس یار، کیا پتہ کوئی ہینڈسم پرنس چارم ہوا تو؟ امپریشن تو اچھا پڑنا چاہیے نا"۔


"اور اگر وہ کوئی چاچا پیر بخش خیر بخش ٹائپ ہوا تو؟" الوینا نے مسکراہٹ دبائی۔


"تو۔۔۔تو آج کے بعد میں تمہاری پریوں کی کہانی پر کوئی اعتراض نہیں کروں گی اور انہیں چپ چاپ برداشت کروں گی"۔ غزل نے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے کہا۔


"ارے واہ یہ ہوئی نا بات"۔ الوینا ایک دم خوش ہو گئی۔


"اور اگر وہ واقعی کوئی پرنس چارم ہوا تو؟"۔ غزل شرط لگانے کے موڈ میں تھی۔


"تو؟ تو تم بتاؤ؟"۔ الوینا نے شانے اچکا دیئے۔


"تو تمہیں اس کے سامنے اس کیلئے ایک گانا گانا ہوگا۔ بولو منظور ہے؟"۔ غزل نے گویا چیلنج کیا۔

الوینا ایک پل کو بوکھلا گئی۔


"یہ کیسی شرط ہوئی بھلا؟ نہیں یہ نہیں کچھ اور بتاؤ"۔ وہ وہی رک کر اب باقاعدہ بحث کرنے لگے۔


"نہیں شرط تو یہی رہے گی۔ منظور ہے تو بولو ورنہ بس بھول جاؤ"۔


"اچھا ٹھیک منظور ہے"۔ الوینا نے بنا سوچے سمجھے کہا۔


"ڈسکشن کرنا ہو گیا ہو آپ لوگوں کا تو راستہ کلیئر کریں گے؟"۔ اچانک ایک بھاری مردانہ آواز ان کے پیچھے سے گونجی تو وہ دونوں گڑبڑا کر پیچھے مڑیں۔


خاکی جینز پر سفید شرٹ اور بھورے رنگ کا کوٹ پہنے، نظر کا چشمہ لگائے بھورے بالوں والا وہ شخص ان سے زرا فاصلے پر کھڑا ان کو گھور رہا تھا۔


غزل جو اس کا جائزہ لے رہی تھی اثبات پہ گڑبڑا کر سائیڈ پہ دیوار کے ساتھ ہو گئی۔

لیکن چونکہ الوینا بیچ و بیچ کھڑی تھی تو نووارد کا راستہ ہنوز بند تھا۔


"ینگ لیڈی"۔ اس نے الوینا کو مخاطب کیا۔ جبکہ غصہ پل پل بڑھ رہا تھا اس کا۔

مگر وہ سن ہی کہاں رہی تھی۔

اس کی نظریں تو شیشے کی دیوار کے پار موجود ان آنکھوں سے ہٹنا بھول گئیں تھی۔


گہری۔۔۔بولتی۔۔اور مقابل کو اندر تک پڑھتی ہوئی آنکھیں۔

جو الوینا کو غور سے دیکھ رہی تھیں۔

سب کچھ ویسا ہی تو تھا۔

بس وہ آنکھیں سیاہ تھیں۔

بس رنگ ہی تو فرق تھا۔۔


الوینا کو اطراف کی آوازیں آنا بند ہو چکی تھیں۔

کچھ یاد رہا تھا تو بس۔۔۔وہ دو آنکھیں۔۔۔

الوینا کی خود پر اٹھتی نظریں اس کا غصہ پل پل بڑھا رہی تھی۔

مگر دوسری جانب وہ تھی جیسے سب کچھ فراموش کر چکی تھی۔

ارد گرد کون ہے کون نہیں الوینا تحسین سب کچھ بھلا چکی تھی۔ اگر کچھ نظر آ رہا تھا تو بس سامنے کھڑا وہ شخص۔

اگر کچھ یاد رہا تھا تو بس وہ دو گہری آنکھیں۔


ماحول میں تناؤ محسوس کرکے غزل نے گھبرا کر الوینا کو سائیڈ میں کھینچ لیا۔

مگر وہ تھی کے بے چین نظریں اس وجود پر ہی ٹکا رکھی تھیں۔ جیسے پتنگے کی طرح جل جانے کو بے قرار ہو۔


راستہ کلیئر ہوتے ہی نووارد نے انہیں ایک گھوری سے نوازا اور پھر آگے بڑھ گیا۔


"الوینا۔۔۔الوینا کیا ہو گیا لڑکی تمہیں؟" غزل نے فکرمندی سے اس کا گال تھپتھپایا۔ مگر الوینا ہنوز گم سم سی اسی راہداری کو دیکھ رہی تھی جہاں سے وہ کب کا جا چکا تھا۔


"وہ۔۔۔غزل وہ کہاں گیا؟"۔ وہ جیسے ٹرانس میں تھی۔


غزل نے حیرت سے اسے دیکھا۔


"الوینا کون؟ کس کی بات کر رہی ہو؟"۔ غزل کو اچنبھا ہوا۔


"وہ جو ابھی یہاں تھا"۔ الوینا اب بھی گاہے بگاہے نظر ڈال لیتی تھی راہداری میں جہاں اب اکا دکا اسٹوڈنٹس آ جا رہے تھے۔

کیونکہ کلاس شروع ہو چکی تھی۔


"وہ ابھی تمہارے سامنے سے ہی تو گیا ہے الوینا کیا ہو گیا ہے تمہیں یار؟"۔ غزل کو اب صحیح معنوں میں اس کی فکر لگ گئی۔

الوینا نے راہداری سے نگاہیں ہٹا کر غزل کو دیکھا۔ تو اس کے چہرے پر پریشانی واضح تھی۔

وہ شرمندہ ہو گئی۔

"نہیں کچھ نہیں ہوا میں ٹھیک ہوں"۔ اس نے تسلی آمیز لہجے میں کہا۔


"چلو نیچے چل کر گارڈن میں بیٹھتے ہیں کچھ دیر کیلئے۔ آ جاؤ تمہارا موڈ فریش ہو جائے گا"۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑے لے جانے لگی تھی۔


"ابھی؟ نہیں میں ٹھیک ہوں"۔ اس نے روک دیا۔


"آر یو شیور؟"۔ وہ نرمی سے پوچھ رہی تھی۔


"ہاں۔ چلو کلاس چلتے ہیں"۔ وہ اس کا بازو تھامے اب کلاس کی جانب چل پڑی تھی۔

غزل نے دیکھا کے وہ اب ٹھیک ہے تب اسے تسلی ہو گئی۔


صد شکر کے پروفیسر اب تک کلاس میں نہیں پہنچے تھے ان سے پہلے۔


وہ دونوں تیسری را میں جا کر ایک ساتھ بیٹھ گئیں۔


"کیا ہوا؟ کوئی پرابلم ہے کیا؟"۔ غزل نے سرگوشی میں پوچھا۔


"کچھ نہیں بعد میں بتاؤں گی"۔ بالوں کی لٹ کان کے پیچھے اڑستے ہوئے اس نے جواب دیا۔

تو غزل خاموش ہوگئی۔

کیونکہ یہ وہ بھی جانتی تھی کے الوینا اسے کچھ بتائے بنا رہ ہی نہیں سکتی تھی۔

اور یہ بھی کے وہ خود ہی بتا دے گی بعد میں جو بھی بات ہوئی۔


"گڈ مارننگ ایوری ون"۔ عجلت میں وہ کلاس میں داخل ہوا تھا اور سب پہ نگاہیں دوڑا کر اس نے سنجیدگی سے کہا۔

اسٹوڈنٹس نے بھی جواب دیا۔ اور ساتھ ہی طرح طرح کی سرگوشیاں ہونے لگیں۔

"واہ یار یہ ڈیشنگ بندہ کون ہے"۔ الوینا اور غزل کے آگے بیٹھی لڑکیوں میں سے ایک نے بغور اس کا جائزہ لیتے دوسری سے کہا۔

"ارے لگتا ہے یہی ہے اپنے ہسٹری کا نیا پروفیسر۔ کافی ینگ ہے نا"۔ دوسری نے جواب دیا۔

"یہ؟ یہ ہے نیا پروفیسر؟ ستیاناس الوینا پہلے ہی دن تم نے ان سے پنگا لے لیا"۔ غزل نے سر پیٹ لیا۔

جبکہ الوینا کی نظریں اسے ایک بار پھر اپنے سامنے دیکھ کر پلٹنا بھول گئی تھیں۔


"اسٹوڈنٹس میں آپ سب کا نیا پروفیسر ہوں۔ اور لوگ مجھے تبریز شاہ کے نام سے جانتے ہیں "۔ سب پہ نگاہیں دوڑاتا وہ کہہ رہا تھا۔


اور جب نظر تھرڈ رو کی شیشے کے پاس والی سیٹ پر بیٹھے اس وجود سے ملی تو ایک پل کو وہ چونک گیا۔

وہ بغور اسے ہی دیکھ رہی تھی۔

اور جانے کیوں اس کے اندر ابال سا اٹھا۔

نگاہوں کا زاویہ بدل لیا۔


"آج سے لے کر اگلے چند ماہ تک میں آپ لوگوں کو ہسٹری پڑھانے والا ہوں"۔


"یار اس کے ساتھ مل کر تو میں ہسٹری بناؤں گی۔ کیا کیمسٹری ہوگی ہماری اففف"۔ جیا جو قدرے ماڈرن اور بے باک سی تھی، اس نے ساتھ بیٹھی لڑکی سے کہا۔


"چونکہ یہاں میرا پہلا دن ہے لہٰذا آج کے دن سب اپنا انٹروڈکشن دیں گے"۔ وہ جب سے آیا تھا ہنوز سنجیدہ ہی تھا۔


"کم آن ہری اپ شروعات ہم کریں گے آپ سے"۔ اس نے سیکنڈ را میں سے جیا کو مخاطب کیا۔

جس پر وہ مسکراتے ہوئے اپنی جگہ پر اٹھ کھڑی ہوئی اور تعارف دیا۔


پھر اسی طرح ایک کے بعد ایک سب اپنا تعارف دیتے گئے حتاکہ اس کی نظریں الوینا پر آ ٹھہریں۔


"اور آپ؟"۔ ایک ابرو اٹھا کر اس نے روکھے لہجے میں پوچھا۔

مگر وہ مسلسل اسے ہی دیکھ رہی تھی۔

جس پر غزل نے اسے ٹہوکا دیا تو وہ چونک گئی۔


"الوینا تحسین"۔ کانپتے لبوں نے بس اتنا کہا تھا اور وہ جلدی سے واپس اپنی جگہ پر بیٹھ گئی۔


"کیا میں نے آپ کو بیٹھنے کیلئے کہا؟"۔ لاکھ کنٹرول کے بعد بھی اس کا لہجہ ترش ہو گیا۔

جانے کیوں وہ اس لڑکی سے اس قدر خار کھا رہا تھا۔


الوینا گھبرا کر ایک مرتبہ پھر اٹھ کھڑی ہوئی۔


"سوری سر"۔ بمشکل وہ اتنا ہی بول پائی۔ حلق میں جیسے کچھ اٹک گیا تھا۔ مگر نگاہیں تھیں کے اب بھی اس کے چہرے کا ہی طواف کر رہی تھیں۔

تبریز نے ناگواری سے اسے دیکھا۔


"ہوں بیٹھو۔ آئندہ یہ نہیں ہونا چاہیے"۔ اس نے جیسے وارننگ دی۔

الوینا نے اثبات میں سر ہلا دیا اور پھر سے اپنی جگہ پر بیٹھ گئی۔


"کتنا ہینڈسم ہے یار"۔ غزل نے گال تلے ہتھیلی رکھے بغور اسے دیکھا جو اب باقی سب کا انٹرو لے رہا تھا۔


"مجھے تو لگتا ہے یہ بہت بد دماغ اور کھڑوس پروفیسر ثابت ہوگا"۔ الوینا نے پہلی بار اس کے متعلق لب کشائی کی۔

جس پر غزل نے حیرت سے اسے دیکھا۔


"یہ تم کہہ رہی ہو محترمہ الوینا؟ جو تھوڑی دیر قبل جب اس سے سیڑھیوں پہ ٹکرائی تو ایسے کھو گئی اس میں جیسے دنیا میں اور کچھ دیکھنے کو اب بچا ہی نہیں"۔ اس کو ایک چپت رسید کرتے ہوئے تھوڑی دیر پہلے کا واقعہ یاد دلایا۔


"ارے وہ تو مجھے لگا کے شاید میں نے اسے پہلے کہیں دیکھا ہے اس لیئے بس"۔ شانے اچکا کر عام سے لہجے میں کہا۔


"ہوں تو بتاؤ کہاں دیکھا ہے اسے؟"۔ غزل بھی جانے کیا ٹھانے بیٹھی تھی۔


"وہی تو یاد نہیں آ رہا تھا نا"۔ معصومیت سے جواب دیا۔


"لیکن مجھے یاد ہے"۔ غزل کو شرارت سوجھی۔


"کیا یاد ہے؟"۔ الوینا چونکی۔


"یہی کے تھوڑی دیر پہلے ہم نے شرط لگائی تھی کے اگر پروفیسر کوئی پرنس چارم جیسا بندہ ہوا تو تم اس کیلئے گانا گاؤ گی"۔ اس نے یاد دلایا۔


الوینا نے گھور کر اسے دیکھا۔

"دیکھو اس کھڑوس کو زرا"۔ اس نے غزل کی چھوٹی سی ناک پکڑ کر اس کا منہ سامنے کی طرف کیا جہاں وہ اب سنجیدگی سے کتاب پہ جھکا تھا۔


"اس کیلئے میں نے اگر گانا گایا تو وہ میری بینڈ بجا دے گا"۔ الوینا نے متوقع بننے والی اپنی درگت سے اسے ابھی سے آگاہ کیا۔


مگر غزل کے انداز میں رتی بھر فرق نہ آیا۔


"یہی تو سب سے بڑا چیلنج ہے شہزادی الوینا جی اور وہ چیلنج ہی کیا جو مشکل نہ ہو؟"۔


"مطلب تم طے کر چکی ہو کے مجھے پہلے ہی دن بکرا بنانا ہے؟"۔ الوینا کو صدمہ ہوا۔


"ارے نہیں بالکل بھی نہیں میں تمہیں بکرا بنانے کا سوچ بھی کیسے سکتی ہوں؟"۔ غزل نے محبت سے کہا۔


"گڈ مجھے پتہ تھا تم میری بہت اچھی دوست ہو"۔ الوینا نے خوب مکھن لگایا۔


"کیونکہ الوینا بی بی تم تو خوبصورت سی بکری بن سکتی۔ بکرا تھوڑی"۔ غزل نے جملہ مکمل کیا۔

اور اِدھر الوینا کے تیور جارحانہ ہو گئے۔

اور اس سے قبل کے وہ اس پر دھاوا بول دیتی ایک بھاری آواز نے اسے چونکا دیا۔


"مس الوینا اگر آپ کی باتیں ختم ہو چکی ہیں تو اب زرا دھیان اِدھر کر لیں آپ دونوں"۔ وہ سخت برے موڈ میں تھا۔

تب سے ان دونوں کو بحث کرتے دیکھ رہا تھا وہ۔


الوینا اور غزل گڑبڑا کر سیدھی ہو بیٹھیں۔


"مجھے ڈسپلن چاہیے اپنی کلاس میں۔ اپنا دوستانہ آپ کلاس کے باہر ہی چھوڑ کر آئیں گے تو بہتر ہوگا آپ لوگوں کیلئے"۔ سخت لہجے میں کہتے ہوئے چبھتی نگاہیں الوینا پر تھیں۔

شرمندگی سے اس نے سر جھکا لیا۔


"کل سے آپ لوگوں کی باقاعدہ کلاس ہوگی۔ اور ایک منٹ کی لیٹ بھی میں برداشت نہیں کروں گا"۔ تنبیہہ کرتے ہوئے وہ اب کلاس سے جا چکا تھا۔

اور اس کے نکلنے تک الوینا کی نظریں اس کے پیچھے ہی تھیں۔

☆☆☆☆☆


وہ اس وقت اپنے گھر میں بنے آفس میں بیٹھے ایک کیس فائل اسٹڈی کر رہے تھے جب ہلکی سی دستک کے بعد دروازہ وا ہوا اور نووارد اندر داخل ہو گیا۔

مختار صاحب نے چونک کر نگاہیں اوپر اٹھائیں۔


"کہیے سر کس لیئے یاد کیا مجھے؟"۔ سلیوٹ کے بعد نووارد نے تجسس بھرے لہجے میں پوچھا۔

وہ پولیس کی وردی میں تھا اور کندھے پر موجود ستارے گواہی دیتے تھے کے وہ ایک ڈی-ایس-پی کے عہدے پر براجمان ہے۔


مختار انصاری نے فائل بند کر کے ٹیبل پر رکھ دی۔


"قیصر خیام کی کوئی خبر؟"۔


"اب تک تو نہیں ہے سر مگر۔۔۔"۔ وہ جیسے الفاظ تلاش کر رہا تھا۔


"کیا بات ہے آفیسر رک کیوں گئے؟ بتاؤ؟"۔ وہ چونکے۔


"دراصل بات یہ ہے سر آخری بار قیصر خیام کو علی مرزا کے گھر کے باہر دیکھا گیا ہے"۔ آفیسر نے انکشاف کیا۔


"ہوں۔ تو میرا شک درست ثابت ہوا وہ اب مکمل طور پر علی کی پناہ میں ہے"۔ وہ طنزیہ مسکرائے۔


"تو سر اب ہمیں کیا کرنا چاہیے آگے؟ کیونکہ وہ تو اب منسٹر کی سرپرستی میں ہے"۔ آفیسر خاصا پریشان ہو گیا۔


"اب بس انتظار کرو صحیح وقت کا۔ اونٹ خود بخود پہاڑ تلے آ ہی جائے گا"۔ وہ کافی پرجوش ہوئے۔


"تمہارا کام ٹھیک چل رہا ہے نا؟"۔ وہ فکرمند ہوئے۔


"اللہ کا کرم ہے سر اب تک تو ٹھیک ہے سب اور آگے بھی انشاءاللہ سب بہتر ہی رہے گا آپ بے فکر رہیے"۔ آفیسر نے مسکرا کر تسلی دی۔


"اور تمہیں یہاں آتے کسی نے دیکھا تو نہیں؟"۔ انہیں تشویش ہوئی۔


"نہیں سر کسی نے نہیں دیکھا سوائے میم کے"۔ اس نے ہلکے پھلکے انداز میں فائزہ مختار کے بارے میں بتایا۔

جس پر مختار صاحب بھی مسکرا دیئے۔


"ارے بھئی گھر کی ہوم منسٹر سے بھی کچھ چھپ سکتا ہے کیا"۔ انہوں نے بھی خوشگوار انداز میں کہا۔

جس پر وہ بھی ہنس دیا۔


"لیکن اب اس منسٹر کا کیا کریں جو ملک دشمن عناصر کی پشت پناہی کر رہا ہے؟"۔ وہ فکرمندی سے پوچھ رہا تھا۔

مختار صاحب نے ٹھنڈی آہ بھری۔


"ہاں اس کا بھی کچھ انتظام کرنا پڑے گا۔ لیکن فلحال قیصر خیام ہمارا ہدف ہے"۔ وہ گہری سوچ میں تھے۔


"معذرت کے ساتھ سر لیکن وہ ایک معمولی مجرم ہے آخر کار قانون کی گرفت میں آ ہی جائے گا۔ آپ کو نہیں لگتا آپ زیادہ سوچ رہے ہیں اس سے متعلق؟"۔ ڈھکے چپھے الفاظ میں وہ کہنا چاہتا تھا کے ہم آخر اس سے اتنا ڈرتے کیوں ہیں۔


"تم جانتے ہو عالم ایک سال پہلے میں جب ایس-پی تھا تب ایک خبری کی مخبری پر اس کے اڈے پر پولیس ریڈ کے نتیجے میں اس کو میں نے پکڑا تھا۔ وہ ریڈ اس قدر کامیاب رہی کے اس کے نتیجے میں میرا پروموشن کر دیا گیا اور آج یہاں میں ڈی-آئی-جی کی کرسی پر بیٹھا ہوں۔ تو اب تم اندازہ کرسکتے ہو کے وہ آدمی کتنا خطرناک رہا ہوگا"۔ مختار انصاری نے ماضی کا حوالہ دیا۔


"وہ معمولی نہیں ہے عالم۔ وہ معمولی ہرگز نہیں ہے۔ اسے علی مرزا نے پناہ دی ہے اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کے قیصر خیام میں کوئی تو بات ضرور ہوگی"۔ وہ گہری سوچ میں گم کہہ رہے تھے۔


"مجرم تو اکثر خطرناک ہی ہوتے ہیں سر، لیکن قانون جب ان پر گرفت کستا ہے تو ان کا سب طنطنہ جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے"۔ وہ خاصا پرجوش تھا اس کیس کو لے کر۔


مختار صاحب نے ایک پل کو اسے دیکھا پھر یک دم مسکرا دیئے۔


"جانتے ہو جب میں بھی تمہاری عمر کا تھا تو ایسا ہی جوشیلا اور قانون کی باتیں کرنے والا ہوا کرتا تھا۔ لیکن اب عمر کی اس حد تک آنے کے بعد میں نے ایک بات سیکھی ہے کے کچھ معاملات میں ہمیں دودھ کے ٹھنڈا ہونے تک کا صبر کرنا ہوتا ہے پھر اسے پینے کا سوچنا چاہیے"۔ انہوں نے مثال دے کر اسے سمجھایا۔


"میں سمجھ سکتا ہوں سر آپ بے فکر رہیے۔ میں صحیح وقت آنے تک انتظار کروں گا۔ اب اجازت دیجیے"۔ ادب سے کہا۔


"ہوں۔ شاباش مجھے تم سے یہی امید ہے۔ تم جا سکتے ہو"۔ انہوں نے اس کی حوصلہ افزائی کی۔

جس پر وہ سلیوٹ کرنے کے بعد الوداعی کلمات کہہ کر چلا گیا۔


پیچھے اب مختار انصاری نے وہی فائل دوبارہ اٹھا کر مطالعہ شروع کیا۔

☆☆☆☆☆


"میں کچھ نہیں جانتی تم نے شرط لگائی ہے تو اب پورا کرنا ہی پڑے گا"۔ غزل ہنوز اپنی ضد پہ اڑی ہوئی تھی۔

اور الوینا اس کے سامنے بے بسی کی مورت بنی کھڑی تھی۔


"غزل تم پاگل تو نہیں ہو گئی۔ تم نے دیکھا ہے نا وہ مس کائنات سے بھی بڑا ہٹلر ہے اور تم مجھے شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالنے کو کہہ رہی ہو؟ کیسی دوست ہو تم"۔ وہ اب اسے ایموشنل کرنے لگی۔


"مائی ڈیئر پرنسس، مجھے ایموشنل فول بنانے کا تو سوچنا بھی مت تم۔ اب مجھ سے تبھی بات کرنا جب تم گانا گانے پر راضی ہو جاؤ۔ یہی تمہاری سزا ہے شرط پوری نہ کرنے کی"۔ غزل نے منہ پھلا کر کہا اور رخ ہی پھیر لیا۔


"کیا ہوا فرینڈز آپ دونوں ٹینسڈ لگ رہی ہیں"۔ احمد نے ان دونوں کو ایک دوسرے سے رخ پھیرے اپنی اپنی جگہ پریشان اور ناراض دیکھا تو چونک گیا۔


"یار دیکھو نا یہ غزل ایک فضول سی شرط کے پیچھے ہماری دوستی کو بھی فراموش کر رہی ہے۔ اب تم ہی اس کو کچھ سمجھاؤ۔ محترمہ کی اپنی عقل تو چہل قدمی کرنے گئی ہے لگتا ہے"۔ الوینا نے سخت سست کہہ کر پھر سے رخ موڑ لیا۔


احمد نے گڑبڑا کر غزل کو دیکھا جو دونوں ہاتھ کمر پہ رکھے اسے ہی گھور رہی تھی۔


"مم۔۔۔میں نے کیا کیا ہے؟"۔ اپنا چشمہ درست کرتے وہ بیچارہ اس کے تیور دیکھ کر گھبرا گیا۔


"خبردار جو تم نے اس کی طرفداری کی ہو احمد اور میرے بجائے تم اس کو سمجھاؤ ایک انجوائمنٹ والی بات پر منہ پھلا کے بیٹھ گئی ہے"۔ غزل نے اسے کندھے پہ تھپڑ رسید کیا۔

اس اچانک حملے پر وہ گرتے گرتے بچی۔


"یہ۔۔یہ دیکھا تم نے احمد اس جنگلی بلی کو"۔ الوینا غرائی۔


احمد بیچارگی سے دونوں کو دیکھ رہا تھا۔


"صاف کہو نا کے تم ڈرتی ہو سر تبریز سے۔ ہونہہ"۔ غزل نے مذاق اڑایا۔


"ہاہ، کیا کہا تم نے؟ میں کسی سے نہیں ڈرتی اچھا"۔ لڑاکا عورتوں کی طرح آستینیں چڑھا کر الوینا بی بی میدان میں آ گئیں۔


"تم ڈرتی ہو ڈرتی ہو ڈرتی ہو۔۔۔الوینا ڈرپوک"۔ غزل نے مزید تپایا۔

اور وہ تپ ہی تو گئی۔


"میں تم سے آخری بار کہہ رہی ہوں کے میں کسی سے نہیں ڈرتی"۔


"ہاں ویسے مجھے بھی یہی لگتا ہے الوینا۔ ورنہ آپ شرط لگا کر پیچھے کبھی نہیں ہٹتیں اس طرح"۔ احمد نے بھی غزل کا بھرپور ساتھ دیا۔

جس پر الوینا کو سخت صدمہ پہنچا۔


"شاباش احمد بالکل صحیح کہا تم نے"۔ غزل نے اس کا شانہ تھپکا۔ جس پر وہ سر جھکائے معصومیت سے مسکرانے لگا۔


"تم کیا سیونتھ اسٹینڈرڈ کے بچے کی طرح خوش ہو رہے ہو اس کی بات پر۔ تمہیں تو میں بعد میں دیکھوں گی"۔ الوینا احمد پر چڑھ دوڑی۔


"تو جاؤ اور اپنی شرط پوری کرو پھر"۔ غزل نے دل ہی دل میں خود کو شاباش دی۔


"ٹھیک ہے۔ اب تم دیکھو"۔ الوینا کو شدید تاؤ آیا۔

جس کے نتیجے میں بالآخر وہ شرط پورا کرنے کیلئے مان گئی۔


"ہاں ہاں دیکھ لیتے ہیں کتنا دم ہے تم میں"۔ غزل نے مزید چنگاری سلگائی۔


"جسٹ ویٹ اینڈ واچ"۔ الوینا نے انگلی کی وی بنا کر اسکی آنکھوں کے سامنے دکھائی پھر تن فن کرتی ہوئی اسٹاف روم چلی گئی جہاں اس وقت تبریز شاہ موجود تھا۔


اس کے پیچھے ہنس ہنس کر غزل کی حالت غیر ہونے لگی۔


"واہ احمد کیا ایکٹنگ کی تم نے۔ اور تھینکس میرا ساتھ دینے کیلئے"۔ غزل نے اسے پہلے ہی اپنی ٹیم میں لے لیا تھا۔


"کوئی بات نہیں۔ پر ویسے شرط تھی کیا؟"۔ احمد نے یہ سوال اب پوچھا تھا۔


"سر تبریز کیلئے گانا گانے کی شرط"۔ اسے بتا کر ایک مرتبہ پھر ہنسی کا دورہ پڑا۔


"مائی گاڈ۔ اب تو پکا الوینا کی خیر نہیں"۔ احمد کو صحیح معنوں میں اس کی فکر لگ گئی۔


"چپ کرو۔ چلو چل کر دیکھتے ہیں"۔ الوینا کے پیچھے پیچھے وہ بھی چل پڑی۔

اور اس کے پیچھے احمد۔

☆☆☆☆☆


کشمکش میں وہ اس وقت اسٹاف روم کے بند دروازے کے باہر ہی کھڑی تھی۔

دھڑلے سے کہہ تو دیا تھا کے شرط پورا کرے گی مگر اب سوچ رہی تھی کے کیسے کرے۔


انہیں سوچوں میں گھری ابھی وہ دروازے پر دستک دینے کو ہاتھ بڑھا ہی رہی تھی کے عین اسی وقت دروازہ کھل گیا۔

اور دروازہ کھلنے پر جو صورت الوینا کو نظر آئی اس نے اس کے اوسان خطا کر دیئے۔

ہاتھ ہنوز فضاء میں معلق تھا۔

چہرے پر گھبراہٹ واضح نظر آ رہی تھی۔


اس نے ایک نظر اپنے چہرے کے عین سامنے موجود اس مرمریں ہاتھ پر ڈالی پھر قہربار نظریں اس کے چہرے بار گڑا دیں۔


"یس۔۔۔مس الوینا"۔ چبا چبا کر بس اتنا ہی کہا۔


"یہ تو کافی غصے میں لگ رہے ہیں غزل"۔ احمد کی گھبرائی ہوئی آواز غزل کے کانوں میں گونجی۔


"ششش چپ کرو۔ تھوڑی دیر کیلئے تو اپنا ریڈیو بند کرو۔ بس دیکھتے جاؤ"۔ غزل نے اسے گھرکا۔

مگر آواز دھیمی ہی رکھی مبادا اس کی اپنی شامت نہ آ جائے۔

وہ دونوں سیڑھیوں پر کچھ اس طرح کھڑے تھے کے یہاں سے الوینا کی پشت اور تبریز کا نیم رخ ہی نظر آ رہا تھا۔


"وہ میں۔۔۔وہ۔۔۔مجھے آپ سے ایک کام تھا"۔الوینا کو فوری سمجھ نہ آیا کے کیا بہانہ بنائے۔


"کیا کام تھا جلدی بولو"۔ قدرے خشک لہجے میں دریافت کیا۔


الوینا نے ایک نظر اپنے آس پاس دیکھا۔

صد شکر کے ڈپارٹمنٹ خالی پڑا تھا اس وقت۔

پھر زرا ایڑھیاں اونچی کر کے تبریز کے کندھے کے اوپر سے اسٹاف روم میں جھانکا۔

وہ بھی خالی تھا۔

پھر واپس فاصلے پر ہوئی اور آنکھیں بند کیں۔


تبریز چونک کر اس کے حرکات دیکھ رہا تھا۔


اب اس نے پلکیں وا کیں۔

اب ان آنکھوں میں نہ تو خوف تھا۔۔۔نہ کسی طرح کی جھجھک۔

اس نے ایک قدم آگے بڑھایا اور اس کے زرا نزدیک آ گئی۔

تبریز کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کے وہ کیا کرنا چاہ رہی ہے۔

الوینا کی نظریں اس کے چہرے پر ہی گڑی تھیں۔

اس نے اس کے مضبوط ہاتھوں میں اپنے ہاتھ دیئے اور اپنی انگلیاں اس کی انگلیوں میں لاک کر دیں۔


تبریز شاہ کو دھچکا لگا تھا اس کی حرکت دیکھ کر۔

اور اتنا شدید کے وہ چند لمحوں کیلئے کچھ بول ہی نہ سکا اور نہ ہی فوری رد عمل دے سکا۔

بس آنکھوں میں حیرت سموئے وہ اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔


"واہ رے میری شیرنی"۔ غزل ایک دم پرجوش ہو گئی۔

جبکہ احمد شاکڈ رہ گیا۔ اور خوفزدہ نظروں سے کبھی غزل کو دیکھ رہا تھا تو کبھی الوینا کو۔


"میرے ہاتھ میں۔۔۔تیرا ہاتھ ہو،،،

ساری جنتیں۔۔۔میرے ساتھ ہوں!

تو جو پاس ہو پھر کیا یہ جہاں،

تیرے پیار میں۔۔۔ہو جاؤں فنا!!!


اس کی آنکھوں میں دیکھ کر وہ گنگنا رہی تھی۔

لگتا تھا اس پل وہ کسی اور ہی جہاں پہنچی تھی۔


ادھر تبریز جو پہلے جھٹکے سے ہی نہیں سنبھلا تھا اسے ایک اور شاک لگا۔


"یس یس یس اس نے کر دکھایا"۔ غزل خوشی سے جھومنے اچھلنے کودنے لگی تھی۔


لمحے کے ہزارویں حصے میں تبریز ہوش کی دنیا میں آیا تھا۔

اور اس کی اس حرکت پر وہ آتش فشاں بن کر پھٹ پڑا تھا۔


"چٹاخ"۔ اس کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ کھینچ کر اس نے ایک زوردار تھپڑ الوینا کے رخسار پر جڑ دیا۔

جس کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ زمین پر منہ کے بل جا گری۔


غزل اور احمد نے منہ پر ہاتھ رکھ لیے۔

اور پھٹی پھٹی آنکھیں فرش پر گری الوینا کو دیکھ رہی تھیں۔

وہ آگے بڑھا اور فرش پہ گری الوینا کو بازو سے پکڑ کر اپنے مقابل کھینچا۔

شہد رنگ آنکھوں میں شاک کی کیفیت تھی۔

بائیں رخسار پر تبریز کی بھاری انگلیاں چھپ چکی تھیں۔

شدت توہین سے الوینا کا چہرہ سرخ پڑ گیا تھا۔


جبکہ دوسری جانب وہ ہنوز آتش فشاں بنا ہوا تھا۔

"ہمت کیسے ہوئی تمہاری یہ سب کرنے کی؟ ہاں؟ اپنے اور میرے درمیان کا فرق کیسے بھول گئی تم؟"۔ وہ غرایا۔

الوینا کے بازو پر اس کی گرفت سخت تر تھی۔

ضبط کی انتہا پر تھی وہ۔

زبان سے ایک لفظ بھی نہ نکل رہا تھا اپنی صفائی میں۔


دوسری جانب غزل اور احمد اب تک شاکڈ تھے۔


"کچھ پوچھ رہا ہوں میں تم سے؟ جواب دو میری بات کا۔ اور کیا کہا تم نے؟ فنا ہو جانا چاہتی ہو؟ فنا ہونے کا مطلب بھی سمجھتی ہو تم؟"۔ اس نے بری طرح اسے جھنجھوڑ ڈالا۔

وہ اپنے حواسوں میں ہوتی تو ہی کچھ جواب دیتی نا۔


"میری وجہ سے وہ اس مصیبت میں پھنس گئی ہے۔ مجھے کچھ کرنا ہوگا"۔ صدمے سے نکل کر اب غزل کو الوینا کی فکر لگ گئی تھی۔

اور اس سے قبل کے احمد کچھ سمجھتا یا اس سے کچھ پوچھتا وہ ایک دم ہی کونے سے نکل کر آگے بڑھی تھی۔


"اس کی غلطی نہیں ہے سر۔۔۔ساری غلطی۔۔۔میری ہے۔ آپ پلیز اسے کچھ مت کہیے"۔ اچانک وہ نکل کر سامنے آ کھڑی ہوئی اور سر جھکا کر جھجھکتے ہوئے اپنی غلطی تسلیم کی۔


تبریز الوینا پر سے نگاہیں ہٹا کر اب غزل کو گھورنے لگا۔


"اوہ تو تم بھی اس سب میں حصہ دار ہو۔ مجھے سمجھ جانا چاہیے تھا کے یہ تم دونوں کی ہی ملی جلی حرکت ہو سکتی ہے"۔ ایک جھٹکے سے الوینا کا بازو چھوڑ کر اب وہ اس پہ دھاڑا۔

غزل نے گھبرا کر پہلے سے جھکا سر مزید جھکا دیا۔

جبکہ الوینا ہنوز شاک میں تھی۔


"تم لوگوں نے خود کو سمجھ کیا رکھا ہے۔ ایکچولی نہیں تم لوگوں نے مجھے کیا سمجھ رکھا ہے؟ کیا سوچ کر یہ حرکت کی تم دونوں نے؟ چلو ابھی کے ابھی پرنسپل کے آفس چلو"۔ غصے سے لال پیلا ہوتے اس نے مٹھیاں بھینچ لیں۔

جبکہ پرنسپل کا سن کر تو غزل کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔

اس نے ایک جھٹکے سے سر اٹھایا۔


"نہیں سر پلیز ہمیں معاف کر دیجئے ہم وعدہ کرتے ہیں کے آئندہ ایسی غلطی کرنے کا خواب میں بھی نہیں سوچیں گے۔ پلیز پلیز سوری سر آپ پرنسپل کے پاس نہ جائیں پلیز سر"۔ غزل روتے ہوئے منت سماجت پہ اتر آئی۔


"آج اگر تمہاری غلطی نظرانداز کی تو اس سے تمہیں اور بڑھاوا ملے گا۔ پرنسپل کے پاس نہیں لے جا رہا پہلی غلطی ہے اس لیئے۔ لیکن سزا تو بہرحال تم دونوں کو ضرور ملے گی"۔ اس کا غصہ شانت نہیں ہوا تھا مگر وہ کچھ ڈھیلا پڑ گیا تھا اب۔


جبکہ سزا کا سن کر غزل ایک بار پھر خوفزدہ نظر آنے لگی۔


"اگلے پانچ دن تک تم دونوں میری کلاس میں نہیں آؤ گی۔ اور اگر غلطی سے بھی میری کلاس میں تم دونوں نظر آ گئیں تو بہت برا ہوگا یہ یاد رکھنا"۔ انگلی اٹھا کر وارننگ دیتے ہوئے ایک چبھتی نظر لٹھے کی مانند سفید پڑتے الوینا تحسین کے چہرے پر ڈالی جو اب بھی خاموش کھڑی تھی۔

پھر مزید ایک لفظ کہے بغیر وہ وہاں سے نکلتا چلا گیا۔


اس کے جاتے ہی غزل الوینا کی جانب متوجہ ہوئی جس کی حالت غیر ہو رہی تھی۔


"الوینا آئم رئیلی ویری سوری یارا میری وجہ سے یہ سب ہوا۔ آئم سوری"۔ اس کے دونوں ہاتھ تھامے وہ معذرت کر رہی تھی۔

الوینا خالی خالی نظروں سے بس اسے دیکھتی رہی۔


"کچھ تو بولو تم یار ڈانٹو مجھے لڑو مجھ سے پر اس طرح خاموش تو نہ رہو"۔ غزل کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کے کیا کرے۔


تب دیکھتے ہی دیکھتے ایک دم سے وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔

غزل ہونقوں کی طرح اسکی شکل دیکھنے لگی۔

مگر وہ تھی کے ہنستی ہی جا رہی تھی۔

خاموش ڈپارٹمنٹ میں اس کی ہنسی سکوں کی طرح کھنک رہی تھی۔


"تمہاری۔۔۔شکل سچ میں دیکھنے لائق ہے غزل"۔ وہ ہنسی کے درمیان بمشکل اتنا بولی اور ایک بار پھر ہنستی چلی گئی۔

غزل بھی اس کی دیکھا دیکھی اب زور زور سے ہسنے لگی تھی۔


"ڈرا دیا تھا یار تم نے پر شکر ہے کے پرنسپل سے بچ گئے"۔


"ویسے کمال کی ایکٹنگ کی تم نے اس کھڑوس کے سامنے ورنہ تو آج اصلی والی شامت پکی تھی"۔ الوینا نے اسے سراہا۔


"لیکن یار تھپڑ تو تمہیں اصلی پڑی ہے نا"۔ اسے اب واقعی افسوس ہونے لگا۔


"ایسا ویسا۔ اتنی زور سے مارا اس جلاد نے کے میرے دماغ کی چولیں حل گئیں۔ ابھی تک دکھ رہے ہیں جبڑے"۔ نرمی سے رخسار سہلاتے ہوئے وہ کہہ رہی تھی۔


"تم بھی نا افلاطون ہو۔ کہاں تو گانا بھی نہیں گانے والے تھی ان کے سامنے اور اب سیدھا ہاتھ ہی پکڑ لیئے۔ غصہ تو آئے گا ہی نا پروفیسر کو۔ عقل سے پیدل لڑکی"۔ غزل نے اسے سر پہ ایک چپت رسید کی۔

جس پر وہ مسکرا دی۔


"مجھے بھی نہیں پتہ کے میں نے ایسا کیوں کیا۔ بہت ہی اجیب سی تاثیر ہے ان آنکھوں میں غزل۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ مجھے جانتی ہیں، پہچانتی ہیں۔ بہت اپنائیت محسوس ہوتی ہے ان سے جیسے میں نے بہت بار ان آنکھوں کو دیکھا ہے۔ جب بھی میں ان آنکھوں میں دیکھتی ہوں نا تو میرے آس پاس کی سب آوازیں دم توڑ جاتی ہیں۔ سارے مناظر دھندلے پڑ جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟"۔ وہ کھوئی کھوئی سی بس کہے جا رہی تھی۔


"کیونکہ الوینا بی بی آپ کا ذہن تخلیقی سوچ کا حامل ہے۔ آپ کو پریوں، شہزادیوں، دیو اور جادوگروں والی کہانیاں بہت بھاتی ہیں۔ الوینا تم کب اپنی خوابوں کی دنیا سے باہر آ کر حقائق کا سامنا کرنا سیکھو گی؟"۔ ہمیشہ کے دہرائے گئے الفاظ وہ ایک بار پھر کہنے لگی۔

اور اس سے قبل کے وہ مزید کوئی لیکچر دیتی الوینا نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔


"اچھا اچھا بہت لیٹ ہو گیا ہے چلو ہاسٹل چلتے ہیں پھر مجھے آفس بھی تو جانا ہے نا۔ یہ سب ہم بعد میں ڈسکس کریں گے آرام سے"۔

غزل کو بولنے کا موقع دیئے بنا وہ اسے اپنے ساتھ کھینچتے ہوئے لے گئی۔

☆☆☆☆☆


سارا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔

صرف بیڈروم میں ہلکی سی روشنی تھی۔

سگریٹ کی ناقابل برداشت بو سارے کمرے میں پھیلی تھی۔


وہ کھلی کھڑکی کے پاس رکھی راکنگ چیئر پر مضطرب سا بیٹھا ایک کے بعد ایک سگریٹ پھونک رہا تھا مگر طبیعت ویسی ہی مقدر تھی۔


نیم اندھیرے میں اس نے اپنے ہاتھوں کی جانب دیکھنا چاہا۔

نرم ہاتھوں کا لمس اب بھی اسے اپنے ہاتھوں پر محسوس ہو رہا تھا۔


آنکھیں موند کر اس نے کرسی کی بیک سے سر ٹکا دیا۔

کانپتے لب۔۔۔سرخ رخسار۔۔۔خوفزدہ آنکھیں۔۔۔

اس کے دماغ میں اس وقت وہ چہرہ نقش ہو چکا تھا۔

جس کے تصور میں آتے ہی آپ ہی آپ اس کے لب تلخی سے مسکرا دیئے۔


اسی وقت اس کا موبائل بج اٹھا۔

نمبر دیکھ کر اس نے فورا ریسیو کیا۔


"ابھی تم سے ہی بات کرنے کا سوچ رہا تھا"۔ سگریٹ کے گہرے کش لیتے ہوئے اس نے کہا۔


"تو پھر دیکھ لو تمہاری سوچیں کیسے پڑھ لیتی ہوں میں"۔ دوسری جانب وہ سرشار ہوئی۔


"سوئی نہیں تم؟"۔ بات ٹالنے کو سوال پوچھا۔


"نہیں بس تمہاری یاد آئی تو اس لیئے بات کرنے کا سوچا۔ ورنہ کچھ لوگ تو بس سوچتے ہی ہیں عمل نہیں کرتے"۔ اس کا لہجہ طنزیہ ہوگیا۔


"تمہارا طنز اس وقت ضروری تھا؟"۔ وہ چڑ گیا۔


"کیوں؟ پریشان ہو؟"۔ اس نے اندازہ لگایا۔

"یار یہ شریفوں والے ڈرامے اپنے سے نہیں ہوتے۔ اس مرزا نے مجھے پتہ نہیں کس کام پہ لگا دیا ہے"۔ تارہ سے وہ اپنی پریشانیاں اکثر بیان کر دیا کرتا تھا۔

وہ بھی جو وہ بابو اور اعظم کو نہیں بتاتا تھا۔

"ایسا بھی کون ہے جس نے قیصر خیام کو بھی پریشان کر دیا ہے؟"۔ وہ ہنس دی۔

"یہ کم سن۔۔۔نادان لڑکیاں۔ انہیں لگتا ہے ہر خوبصورت چہرہ ان کے خوابوں کا شہزادہ ہے۔ بنا اس حسین چہرے کے پیچھے چھپی بھیانک حقیقت کو جانے اپنا دل نچھاور کر دینا۔ کس قدر بے وقوف ہوتی ہیں یہ جو پہلی بار ملنے والے شخص کو اپنا مان لیتی ہیں۔ ہونہہ"۔ اس کا موڈ سخت خراب تھا۔


"تم ہو ہی ایسے کے کوئی بھی دیکھ کر دل ہار سکتا ہے تم پہ۔ تو اس میں ان کا بھی اتنا قصور نہیں ہے"۔ اس نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔


"تم میرے اصل سے واقف ہو تارہ۔ لیکن ان کا کیا کیا جائے جو صرف چہرے پر مر مٹتے ہیں؟ اور اس کے پیچھے چھپے میرے سیاہ شخصیت سے واقف نہیں ہیں؟"۔ بھاری آواز میں وہ کہہ رہا تھا اور دوسری جانب وہ سوچ میں پڑ گئی۔


"بہت خوبصورت ہے کیا وہ؟"۔ اس کا لہجہ شرارت لیئے ہوئے تھا۔ محض اس کا دھیان بٹانے کو۔


"ہاں خوبصورت ہے اور اس سے بھی زیادہ بے وقوف اور بچکانہ"۔ بڑی سہولت سے مزاق اڑایا۔


دوسری جانب اس کی بات سن کر تارہ کو ہنسی کا دورہ پڑا۔


"ایسی بات ہے تو پھر اپنے کوکین اور ڈرگز کے ساتھ اسے بھی اسمگل کر دیتے ہے باہر ملک۔ کسی کام تو آئے گی"۔


اس کی بات سن کر وہ پہلی بار ہنسا۔


"ہاں۔ اس بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔ غریب ملک کی آبادی کچھ تو گھٹے گی"۔


"اچھا ویسے مجھے یہ پوچھنا تھا کے تمہیں کسی نے پہچانا تو نہیں نا؟"۔ اسے نئی فکر لگ گئی۔


"پہچان لینے دو۔ اس کی زندگی کے دن کم ہو جائیں گے۔ ہمیں تھوڑی کچھ فرق پڑے گا"۔ قیصر نے لاپرواہی سے کہا۔


"اپنا دماغ ٹھنڈا رکھو قیصر۔ ایسا نا ہو ہمیں لینے کے دینے پڑ جائیں"۔


"تم بے فکر رہو ایسا کچھ نہیں ہوگا"۔ اس نے تسلی دی جس پر وہ کسی حد تک مطمئن ہو گئی۔


"اور اگر تمہیں اس لڑکی سے محبت ہو گئی تو؟"۔ تارہ ایک بار پھر اسے چڑانے لگی۔


"محبت؟ تمہیں لگتا ہے میں محبت کر سکتا ہوں؟"۔ قیصر کو شدید حیرت ہوئی۔


"اگر کر لیا تو؟"۔ وہ جانے کیا اگلوانا چاہ رہی تھی۔


"ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ مجھے زندگی لینی آتی ہے۔ دینی نہیں"۔ وہ انکاری تھا۔


"مان لو قیصر اگر اس نے تمہیں مجبور کر دیا خود سے محبت کرنے پر تو؟"۔ وہ بھی اپنی بات پر اڑی ہوئی تھی۔


"تو میں خود کو گولی مار دوں گا یا پھر اس کو"۔ اٹل انداز میں کہا۔


"تم اس کو ہی مارنا۔ خود کو کیوں ضائع کروگے اس کیلئے؟"۔ وہ تپ گئی۔


"اول تو ایسا کچھ ہوگا نہیں تارہ۔ اس لیئے تمہیں یہ سب سوچنا چاہیے بھی نہیں"۔ وہ صحیح معنوں میں برا مان بیٹھا۔


"میں جانتی ہوں ایسا ہو نہیں سکتا"۔ وہ پریقین تھی۔


"میں قیصر خیام ہوں تارہ بی بی۔ میری لغت میں لفظ محبت وجود ہی نہیں رکھتی ہے۔

محبت کو روشنی سے تشبیہہ دی گئی ہے۔

اور قیصر خیام ایک اندھیرا ہے۔۔۔ایک گھپ اندھیرا۔

جس کے مضبوط شکنجے میں آ کر (اس نے مٹھی بنائی) محبت کے اجالے دم توڑ جاتے ہیں"۔ غرور و تکبر سے کہتے ہوئے اس کے لہجے میں چٹانوں کی سی سختی تھی۔۔۔اور آواز میں قطعیت!

پھر اس نے مزید اس کی سنے بغیر رابطہ منقطع کر دیا۔


اس نے ایک اور سگریٹ سلگائی۔


"ایک اور غلطی تمہاری۔۔۔اور تم اپنی جان سے جاؤ گی الوینا تحسین"۔ غصے کی انتہاؤں کو چھو کر اس نے جلتا سگریٹ اپنی ہی ہتھیلی پر مسل دیا۔ گویا اس کے لمس کو جلا دیا۔

وہ کسی طور اسے رعایت دینے پر تیار نہ تھا۔

وہ راکنگ چیئر پر ہی آنکھیں بند کیئے سو رہا تھا۔

جب مسلسل بجتا موبائل اس کی نیند میں مخل ہوا۔

ٹیبل پر ایشٹرے کے ساتھ ہی وہ پڑا تھا۔

ہاتھ بڑھا کر اس نے نمبر دیکھا اور کال ریسیو کر لیا۔


"کہیے صبح صبح کس لیئے یاد کیا؟ "۔ آنکھیں مسلتے بنا سلام دعا کے ڈائریکٹ یہی سوال پوچھا۔


"تمہیں میں لاکھوں روپے سونے کیلئے نہیں دیتا جو تم آرام فرما رہے ہو اس وقت۔ جاگو اور کام پہ دھیان دو"۔ دوسری جانب وہ گرجے تھے۔


"مجھے میرے کام کے پیسے ملتے ہیں منسٹر۔ تمہاری غلامی کرنے کے نہیں"۔ اس طرح کے تیور بھلا اسے کب برداشت تھے۔


"اچھا یہ سب چھوڑو۔ تمہارے لیئے ایک کام اور ہے"۔ اسے اکھڑتا دیکھ کر وہ قدرے ڈھیلے پڑے اور سیدھا مدعے پہ آئے


"جو بھی کام ہو لیکن اتنا ضرور جان لو اس کے پیسے الگ سے لگیں گے"۔ داڑھی کھجاتے ہوئے اس نے اپنی شرط بتائی۔


"ہاں مل جائے گا۔ لیکن یہ کام اگلے دو گھنٹوں میں ہو جانا چاہیئے۔ پیسے تمہیں کچھ ہی دیر میں مل جائیں گے"۔ علی مرزا نے ٹھہر کر جواب دیا۔


"کام کیا ہے؟"۔ موبائل کان سے لگائے وہ اب ساتھ ساتھ تیاری بھی کر رہا تھا۔


"موت کی نیند سلانا ہے کسی کو"۔ سرد آواز اسپیکر پر سنائی دی۔

قیصر لمحہ بھر کو رکا۔

مگر پھر اس کے ہاتھ تیزی سے حرکت میں آ گئے۔

"نام، پتہ، حلیہ بتاؤ"۔ خنجر جوتے میں چھپا کر سائلنسر لگی چھوٹی سی پستول بھی ساتھ رکھ لی۔


"کچھ ہی دیر میں تمہارے نام کا ایک کوریئر آ جائے گا۔ تمہاری مطلوبہ چیزوں کے ساتھ"۔ اتنا کہہ کر انہوں نے کال کاٹ دی۔


اور واقعی کچھ ہی دیر گزری تھی جب دروازے پر دستک ہوئی۔

اور اسے مطلوبہ کوریئر موصول ہو گئی۔


چھوٹا سا باکس کھولا تو اس میں ایک تصویر کے پیچھے ہی اس جگہ کا مکمل اڈریس تھا جہاں اسے آنا تھا اور دیگر معلومات مقتول کے بارے میں درج تھیں۔ اس کے علاوہ ایک پھولا ہوا سفید لفافہ بھی تھا جس میں اس کے کام کی قیمت تھی۔


وہ باکس اس نے الماری کے پیچھے دیوار میں بنائے گئے سیف میں رکھ دیا۔

ہاتھوں پہ سیاہ گلوز چڑھائے۔

پھر سیاہ شرٹ کے اوپر سیاہ جیکٹ پہن لی۔

سرمئی رنگ کے رومال کو اس نے چہرے پر باندھ لیا۔

اور سیاہ ہڈی سر پر گرا لی۔

اس وقت وہ مکمل طور پر اپنے اصل روپ میں تھا۔

نقاب کے پیچھے سے اس کی سرمئی آنکھیں جھلک رہی تھیں۔ اس کو بھی بہت حد تک ہڈی نے چھپا دیا تھا۔

ہاں اب وہ تیار تھا۔

☆☆☆☆☆


سرسبز۔۔۔گھنا جنگل۔۔۔

چہار جانب درخت ہی درخت تھے۔

لمبے۔۔۔گھنے اور تناور۔۔

دیکھنے میں سارے ہی ایک جیسے۔

گویا ایک ہی درخت ہو اور چہار جانب آئینے میں ان کا عکس بن رہا ہو۔

دن کی روشنی بھی اس جنگل کیلئے کم پڑ رہی تھی۔

ہرے بھرے درختوں کی اوٹ سے تھوڑی بہت روشنی چھن کر آتی ماحول کو اور بھی وحشتناک بنا رہی تھی۔

ہوا چلتی تو درختوں کے پتوں کی سرسراہٹ مزید ڈرا دیتی۔


ایسے میں ایک لڑکی ان گھنے درختوں کے درمیان بھاگتی پھر رہی تھی۔

اس کا لباس پرانے طرز کا تھا۔

سر پر کپڑا باندھ رکھا تھا۔

آنکھوں میں ڈھیروں آنسو لیئے وہ شاید کھو گئی تھی۔

اور جنگل سے باہر نکلنے کا راستہ کھوج رہی تھی۔

بے بسی بھری نمی کے ساتھ اس نے سر اوپر اٹھایا۔

جیسے آسمان سے کوئی غیبی مدد کی منتظر ہو۔

مگر اسے درختوں کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔

اونچے قدآور درخت اسے اپنا تمسخر اڑاتے محسوس ہو رہے تھے۔


"کوئی تو میری مدد کرو"۔ تھک کر وہ گھٹنوں کے بل گر گئی اور سر جھکائے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔


"یہاں کیا کر رہی ہو تم؟"۔ اچانک ایک بھاری اور غصے سے بھری آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔

وہ چونک گئی۔

آنسو آنکھوں کے کنارے پر ہی ٹھٹک گئے۔


کون تھا اتنا بااختیار کے جس کی پکار پر اس کے آنسو بھی حکم بجا لائے تھے۔

جھٹکے سے سر اٹھا کر دیکھا تو آنسوؤں نے منظر دھندلا دیا۔

آستینوں کے ساتھ اس نے آنسو رگڑ ڈالے۔

وہ سیاہ گھوڑا اس کے نزدیک ہی روکے کھڑا تھا۔

سر جھکائے اس سے مخاطب تھا۔

چہرہ اب بھی سیاہ نقاب میں قید تھا۔

بس سرمئی آنکھیں تھیں جو نقاب سے جھلک رہی تھیں۔

ان میں غصے بھرا تاثر تھا۔۔۔جانے کیوں وہ اس پہ غصہ تھا۔


"میں یہاں کھو گئی ہوں"۔ اس لڑکی کے لب ہلے۔ آنکھیں ایک بار پھر سے برسنے کو بے تاب تھیں۔


اس کی بات سن کر گھڑ سوار کی آنکھوں میں موجود غصے کا تاثر یک دم زائل ہو گیا۔

اور وہ اب بغور زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھی اس لڑکی کو دیکھنے لگا۔

جس کی شہد رنگ آنکھیں دنیا جہاں کا درد سمیٹے ہوئے تھیں۔


پھر دیکھتے ہی دیکھتے گھڑ سوار نے اچانک ہاتھ بڑھا کر ہتھیلی اس کے سامنے پھیلائی۔

لڑکی نے چونک کر اس کے چہرے سے نگاہیں ہٹائیں اور اپنے سامنے پھیلی اس ہتھیلی کو تکنے لگی۔

مضبوط اور شفاف ہتھیلی پر انگوٹھے کے مقام سے زرا نیچے گول دائرہ سا بنا تھا۔

معلوم ہوتا تھا جیسے وہ حصہ جل گیا ہو۔


"مجھے یہاں کے راستے ازبر ہیں۔ چلو میرے ساتھ"۔ وہ نرم لہجے میں اس کی جانب دیکھتے ہوئے مخاطب تھا۔

اس کی بات سنتے ہی لڑکی کے چہرے پر اچانک روشنیاں بکھر گئیں۔

اس نے وہ انجانا ہاتھ تھام لیا۔

گھڑ سوار نے اسے گھوڑے پر کھینچ لیا۔


وہ اب اس کے بے حد قریب تھی۔

اتنی کے اس نے ہاتھ بڑھا کر با آسانی اس کا نقاب کھینچ لیا۔


جھٹکے سے آنکھیں کھلنے کے ساتھ ہی وہ اٹھ بیٹھی۔

دل کی دھڑکنیں سوا نیزے پہ تھیں۔

سانسیں دھونکنی کی مانند چل رہی تھیں۔

بے اختیار اس کا ہاتھ اپنے دل پر گیا۔


"یہ کیا تھا؟"۔ اس نے بال مٹھی میں بھینچ لیئے۔

اضطراب تھا کے بڑھتا ہی جا رہا تھا۔


پھر زرا اِدھر اُدھر نظریں گھمائی تو اس کے برابر ہی زرا فاصلے پر ایک دوسرا سنگل بیڈ تھا جس پر محترمہ غزل میٹھی نیند سو رہی تھی۔

الوینا نے سینے پر ہاتھ رکھے بے اختیار پرسکون سانس لی۔

صد شکر کے وہ سوئی ہوئی تھی۔

چند گہری سانسیں لے کر اس نے خود کو نارمل کیا۔


پھر اٹھ کر چھوٹے سے ڈریسنگ مرر کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔

جانے کون سا احساس اس کی رنگت میں سرخی بن کر گھل گیا تھا۔

بکھرے ہوئے بال سمیٹ کر اس نے کیچر میں مقید کر لیئے۔

پھر وقت دیکھا تو ابھی چھ ہی بجے تھے۔

اور کلاس تو دس بجے شروع ہونی تھی۔


اس نے کھڑکی سے باہر جھانکا۔

صبح کی سفیدی ہر سو پھیلی تھی۔

ٹھنڈے ہوا کے جھونکے نے اس کا موڈ یک دم بحال کر دیا۔

بہت دنوں بعد اس کا ارادہ مارننگ واک کا ہوا۔


فریش ہو کر اس نے ٹریک سوٹ پہنا۔

سادہ سے چہرے کے ساتھ وہ آئینے کے سامنے کھڑی پونی ٹیل بنا رہی تھی۔

پھر ایک چھوٹا سا نوٹ لکھ کر اس نے سائیڈ میز پر غزل کے موبائل کے ساتھ چھوڑ دیا۔


ہاسٹل سے قریب ہی ایک چھوٹا سا پارک تھا جہاں کبھی کبھار وہ جایا کرتی تھی۔

اسے صبح کا یہ وقت بہت اچھا لگتا تھا۔


دو تین راؤنڈ کے بعد قریب آدھے گھنٹے میں وہ واپس لوٹنے کو تھی۔

پارک کے گیٹ سے نکل کر وہ سڑک کنارے چلنے لگی۔


سڑک کنارے قطار کی صورت درخت لگے تھے۔

وہ گہری سانس لے کر صبح کی تازگی کو اپنے اندر اتارنے لگی۔

صبح کا یہ وقت کتنا پرسکون تھا۔

پارک کے اطراف میں بنی وہ سڑک بہت کم ہی گاڑی وغیرہ کیلئے استعمال ہوتی تھی۔

اور صبح کے اس وقت تو گاڑیوں کی آمدورفت نا ہونے کے برابر تھی۔


وہ درختوں کے سائے تلے رکھے بینچ پر آ بیٹھی اور اپنے شو لیسز باندھنے لگی۔

کچھ ہی لمحوں بعد اپنے کام سے فارغ ہو کر وہ جیسے ہی واپس سڑک کنارے آئی تو جو بھیانک منظر اس کی آنکھوں نے دیکھا اس کے پیروں تلے سے جیسے کسی نے زمین کھینچ لی تھی۔

اور جسم سے روح۔۔۔


الوینا کچھ ہی فاصلے پر موجود تھی۔

سڑک کے دوسرے کنارے ٹریک سوٹ میں ملبوس وہ نوجوان جاگنگ کر رہا تھا۔

جب رولر اسکیٹس پر موجود ہڈی والا شخص عین اس کے سامنے سے آیا۔

لمحوں کا کھیل تھا۔۔۔اور اگلے ہی پل گلوز والے ہاتھ سے ہڈی والے شخص نے چمچماتے ہوئے خنجر سے اس نوجوان پر پے در پے تین کاری وار اس طرح کیئے کے اسے چیخنے چلانے کا بھی موقع نہ ملا۔ وار کے نتیجے میں وہ نوجوان ادھ مرا ہو کر سڑک پر گر پڑا اور تڑپنے لگا۔

پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کا جسم ساکت ہو گیا۔

یہ سب کچھ چند سیکنڈز کے اندر اندر ہوا تھا۔


یہ بھیانک منظر دیکھ کر الوینا کے لبوں سے گھٹی گھٹی سی چیخ نکل گئی۔

جو بہت بلند نہیں پر اتنی ضرور تھی کے اس قاتل کو متوجہ کر گئی تھی۔

اور وہ لمحوں میں اس کے سر پر آن پہنچا۔


الوینا لٹھے کی مانند سفید پڑ گئی تھی۔

وہ سانس لینا بھی بھول گئی تھی۔

قاتل اس کے بے حد قریب مگر نقاب میں تھا۔

دیکھتے ہی دیکھتے اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔

اور ایک بار پھر اس کا خنجر والا ہاتھ خون پینے کو بلند ہوا۔

دوسرے ہاتھ سے اس نے سختی سے الوینا کا منہ دبایا۔


اب کی بار الوینا تحسین کو چیخنے کا موقع بھی نہ ملا تھا اور وہ زمین پر موتیوں کی مانند بکھرتی چلی گئی۔

☆☆☆☆☆

"تیمور عباسی۔۔۔اٹھائیس سالہ ایک نام ور اینکر پرسن۔

جو اپنے پروگرام میں بہت سی سیاسی شخصیات، بزنس مین اور بڑے بڑے بیوروکریٹس کی منی لانڈرنگ کا پردہ فاش کیا کرتا تھا۔

جس کی وجہ سے اسے دھمکی بھرے کالز بھی اکثر موصول ہوتے رہتے تھے۔ مگر وہ ان سفید کالر کرمنلز کو اپنے پروگرام میں کھلے عام چیلنج کر کے یہ کہا کرتا تھا کے مجھے موت کا خوف نہیں ہے۔ تم لوگوں کو جو کرنا ہے وہ کرو"۔ میٹنگ روم میں اس وقت ڈی-ایس-پی عالم "تیمور مڈر کیس" کو لے کر بریفنگ دے رہا تھا۔ جو جو معلومات اس نے حاصل کی تھیں وہ بتا رہا تھا۔


"لیکن بائیس جولائی سوموار کا دن اس کیلئے کچھ اور ہی پیغام لے کر طلوع ہوا۔ جب ہر روز کی طرح آج کے دن بھی وہ عالی شان پارک کے سامنے والی سڑک پر جاگنگ کر رہا تھا۔

چونکہ اس سڑک پر بہت کم ٹریفک کی آمدورفت ہوتی ہے۔ اور سونے پہ سہاگہ یہ کے صبح کے اس وقت تو وہ سڑک بالکل خالی رہتی ہے۔ اسی لیئے قاتل نے تیمور عباسی کو مارنے کیلئے دن کا ایسا وقت اور ایسی جگہ چنی جہاں کوئی بھی گواہ کے طور پر اسے تیمور کا قتل کرتے نہ دیکھ سکے"۔ ایک پل کو وہ ٹھہر کر اپنے سینئرز پر نگاہیں دوڑانے لگا۔


"اور یہی اس کی سب سے بڑی غلط فہمی تھی۔ تیمور اور اس قاتل کے علاوہ ایک اور وجود بھی تھا وہاں، جس نے یہ خون ہوتے دیکھا"۔ ڈی-ایس-پی کا اتنا کہنا تھا کے سب میں ہلچل مچ گئی۔


"آپ اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں آفیسر کے وہاں کوئی عینی شاہد تھا؟"۔ ایس-پی جہانگیر نے تیوری چڑھا کر پوچھا۔


"سر، اتنا تو ہم سب ہی جانتے ہیں کے تیمور کو کس نے اور کیوں مارا۔ لیکن ہماری پولیس کی یہی تو کم نصیبی ہے کے مجرم کا پتہ ہوتے ہوئے بھی پولیس اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکتی جب تک کوئی ٹھوس ثبوت نہ مل جائے۔ اور اگر کوئی ایسا کر بھی گزرے تو اس کو خاموش کروا دیا جاتا ہے۔ جیسا کے تیمور کے ساتھ ہوا"۔ اس کی بات سن کر ایک پل کو وہ گڑبڑا گئے۔


"آفیسر وہاں تیسرے وجود کے ہونے کا کوئی ثبوت ہے پولیس کے پاس؟"۔ ڈی-آئی-جی مختار سربراہی کرسی پر براجمان پہلی بار بولے۔


"جی سر ثبوت بالکل ہے ہمارے پاس"۔ اس نے پورے اعتماد سے جہاں یہ بات کہی۔ وہی دو تین افسران کا ماتھا ٹھنکا۔


"تو پھر بتائیے کیا ہے وہ ثبوت؟"۔ مختار صاحب نے ہی پوچھا۔


"سر بطور ثبوت ہمارے پاس گواہ کا یہ پینڈنٹ ہے۔ جو ہمیں جائے وقوعہ پر ملا"۔ اس نے ایویڈنس کور میں موجود وہ پینڈنٹ ان کو دکھایا۔

مختار صاحب نے بغور اس پینڈنٹ کو دیکھا۔


"لیکن یہ قاتل یا پھر خود تیمور کا بھی تو ہو سکتا ہے۔ آپ اس کے بل بوتے پر کیسے کہہ سکتے ہیں کے وہاں کوئی گواہ تھا"۔ ایس-پی نے بے چینی سے پہلو بدلا۔


"سر۔ یہ پینڈنٹ ہمیں تیمور کی لاش سڑک کے جس جانب ملی، اس کے اپوزٹ سائیڈ سے ملا ہے۔ تیمور سڑک کے دوسری طرف تھا تو اسے مارنے والا بھی وہی موجود ہونا چاہیے نہ کے اپوزٹ ڈائریکشن میں۔ لہٰذا نہ تو یہ قاتل کا ہے اور نہ ہی تیمور کوئی پینڈنٹ پہنتا تھا۔ کیونکہ اس کی گردن پر پینڈنٹ پہننے کا کوئی نشان نہیں ملا ہمیں"۔ عالم نے پورے وثوق سے کہا۔


"وہاں اکثر مقامی لوگ جاگنگ کیلئے جاتے رہتے ہیں۔ کیا پتہ بہت دن پہلے یہ گرا ہو وہاں کسی کا"۔ سینئر انسپکٹر نے نقطہ اٹھایا۔

اعلٰی افسران نے اس کی جانب دیکھا۔


"ویری گڈ آفیسر۔ آپ کی بات میں پوائنٹ ہے"۔ مختار صاحب نے اسے سراہا۔ جس پر تشکر سے مسکراتے ہوئے اس نے سر کو خم دیا۔


"نہیں حیدر، یہ پینڈنٹ گواہ کا ہی ہے اور یہ بات میں ثابت کر سکتا ہوں اگر آپ لوگوں کی اجازت ہو تو؟"۔ اس کے انداز میں رتی بھر فرق نہ آیا۔


"تو کیجئے ثابت"۔ ایس-پی نے بلا تاخیر کہا۔


"تھینک یو سر۔ تو ہوا یہ ہوگا کے عینی شاہد صبح کے اس وقت جاگنگ کر کے پارک سے باہر آیا ہوگا اور سڑک کنارے چلتے ہوئے جیسے کے عمومی طور پر کئی بار ہوتا ہے اس کے جوتے کے لیسز کھل گئے۔

وہ وہی سڑک کنارے درختوں کے نیچے موجود بینچ پر بیٹھ کر جوتے کے لیسز باندھ رہا ہوگا۔

اور کونے میں ہونے کی وجہ سے قاتل کی نظر اس پر نہیں پڑی ہوگی اور وہ اسی خوش فہمی میں مبتلا رہا ہوگا کے آس پاس کوئی نہیں ہے دیکھنے والا اپنا کام با آسانی انجام دے سکتا ہوں۔

یہی اس کی غلطی تھی۔ تیمور سامنے سے جاگنگ کرتا ہوا آ رہا تھا اور قاتل نے بھی عین اس کے سامنے سے آ کر اس پر خنجر سے وار کیئے ہوں گے۔ وار شدید تھے جس کی تاب نہ لا کر تیمور آن دا سپاٹ گر کر مر گیا۔

اور تب چونکہ قاتل اپنے کام میں مصروف ہوگا تو فطری بات ہے کے اپوزٹ ڈائریکشن میں ہونے کی وجہ سے اس قاتل کی پشت عینی شاہد کی جانب ہوگی اور یہی وجہ ہے کے قاتل نے اس گواہ کو نہیں دیکھا ہوگا"۔ عالم نے قتل کا خاکہ کھینچا۔

سب بہت غور سے اسے سن رہے تھے۔


"یہ تو آپ کی سوچ اور آپ کے مطابق والی کہانی ہے آفیسر۔ اس سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کے وہاں کوئی تھا؟"۔ ایس-پی نے جارحانہ انداز میں پوچھا۔

عالم ان کی بات پر پرسکون انداز میں مسکرا دیا۔


"تھا نہیں سر عینی شاہد "تھی" وہاں"۔ اس نے انہیں درست کیا۔


"ہوں۔ تم کہنا چاہتے ہو کے گواہ کوئی لڑکی ہے؟"۔ مختار صاحب نے تصدیق چاہی۔


"یس سر۔ اس پینڈنٹ کو دیکھئے۔ یہ خود گواہی دے رہا ہے کے اس کی اونر کوئی لڑکی ہے۔ قتل کا ایسا بھیانک منظر دیکھ کر کوئی لڑکی ہی بے ہوش ہو سکتی ہے۔ قاتل ایک آدمی تھا جسے روک نہ پانا یا مقابلہ نہ کر سکنا ہمیں یہ بتاتا ہے کے گواہ ایک لڑکی ہی ہے"۔ اس نے اپنی بات پر زور دیا۔


پھر اس نے ایک فائل ڈی-آئی-جی مختار کی جانب بڑھائی اور اس کی ایک کاپی ایس-پی صاحب کو دی۔

جسے اب وہ دونوں کھول کر پڑھنے لگے۔


"یہ فارنزک رپورٹ ہے۔ جس کے مطابق پینڈنٹ جہاں گرا اس کے آس پاس کے ایئریا میں لڑکی صدمے سے گر کر بے ہوش ہو گئی تھی، پکی سڑک پر گرنے کی وجہ سے اس کا بازو چھل گیا ہوگا اور اس طرح سے اس کی کھال کا ٹکڑا ہمیں مل گیا جس کو ٹیسٹ کرنے کے بعد ہمیں پتہ چلا کے یہ اسکن کا ٹکڑا بالکل فریش ہے۔ یعنی کے آج صبح ہی یہ اس سڑک پہ آیا ہے۔

تو فارنزک رپورٹ یہ ثابت کرتی ہے کے گواہ وہاں تھی۔ اور اب اس کی جان کو خطرہ ہے"۔ ڈی-ایس-پی عالم نے آج کے دن میں کی جانے والی تحقیقاتی رپورٹ منہ زبانی ان کو پڑھ کر سنائی تھی۔


"لیکن وہ لڑکی گئی تو گئی کہاں؟ اس کا ملنا بےحد ضروری ہے اس کیس کیلئے"۔ مختار صاحب نے اضطرابی انداز میں کہا۔


"وہ چیخی ہوگی تو قاتل ضرور متوجہ ہوا ہوگا۔ کہیں اسے بھی تو نہیں مار دیا؟"۔ انہوں نے نقطہ اٹھایا۔


"میرا تجربہ کہتا ہے سر کے قاتل نے لڑکی کو نہیں مارا۔ کیونکہ اسے مار دیتا تو اس کی لاش بھی ہمیں وہی کہیں آس پاس مل جاتی یا خون تو ضرور مل جاتا۔ مگر نہیں ملا اور قاتل اس لڑکی کی لاش کو ساتھ لے جانے کا خطرہ بھی مول نہیں لے گا۔ اس کا مطلب یہی ہے لڑکی اب بھی زندہ ہے۔ لیکن خطرے میں ہے"۔ عالم نے پرسوچ انداز میں جواب دیا۔


"بہت اچھے عالم۔۔۔اگر اسی اسپیڈ سے کیس سلجھاتے رہے تو انشاءاللہ بہت جلد ایسا وقت بھی آئے گا کے اس شہر سے جرم کا نام و نشان مٹ جائے گا"۔ مختار انصاری نے مسکراتے ہوئے اسے شاباش دی۔


"شکریہ سر، آپ سے ہی سیکھا ہے"۔ اس نے ادب سے کہا۔

ساتھ ہی میٹنگ برخاست کر دی گئی۔


"جلد سے جلد اس لڑکی کو ڈھونڈو عالم۔ میں نہیں چاہتا اس سب کی وجہ سے خواہ مخواہ ایک اور ہنستا بستا گھر اجڑے"۔ نکلتے وقت انہوں نے بہت آہستگی سے اس سے یہ بات کہی۔

اور ایک شاگرد ہونے کے ناطے عالم ان کی بات کا مطلب سمجھ سکتا تھا۔

☆☆☆☆☆


ہاسٹل انتظامیہ کے ساتھ مل کر غزل نے ہر اس جگہ الوینا کا پتہ لگانے کی کوشش کی جہاں اس کے ہونے کے امکانات موجود تھے۔

کئی گھنٹے گزر گئے تھے مگر اس کا کچھ اتہ پتہ نہیں تھا۔


غزل اس کیلئے بے حد پریشان تھی۔

صبح وہ نوٹ میں بس اتنا ہی بتا کر گئی تھی کے مارننگ واک کیلئے وہ قریب ہی واقع پارک جا رہی ہے اور ایک آدھ گھنٹے میں واپس آ جائے گی۔


پھر جب تین گھنٹے ہو گئے تو غزل کو پریشانی ہوئی۔

وہ اپنا موبائل بھی ساتھ لے کر نہیں گئی تھی کے وہ اس کو کال ہی کر لیتی۔

لہٰذا اس نے خود پارک جا کر اسے ڈھونڈنے کا طے کیا۔

لیکن پارک کے باہر پولیس کا کرفیو نافذ دیکھ کر اس کی پریشانی دو چند ہو گئی۔


فوری طور پر اس نے ہاسٹل انتظامیہ کو اطلاع دی۔

مگر وہ بھی اس کا پتہ لگانے میں ناکام رہے۔


"ہر جگہ ڈھونڈ لیا اسے لیکن اس لڑکی کا کچھ پتہ نہیں چل رہا۔ اب کہاں ڈھونڈیں اسے میڈم ماریہ"۔ وہ روہانسی ہو گئی۔

ادھیڑ عمر میڈم ماریہ جو ہاسٹل کی وارڈن تھیں۔

انہوں نے ترحم سے اسے دیکھا۔


"پریشان مت ہو تم غزل بیٹا۔ ہو سکتا ہے کہیں گئی ہوگی۔ آ جائے گی"۔ انہوں نے تسلی دی۔


"ایسے تو وہ کہیں نہیں جاتی میرے بغیر۔ اس کا کوئی رشتہ دار یا اتنے دوست بھی نہیں ہیں کے میں سمجھوں وہ وہاں گئی ہوگی۔ اور اگر جاتی تو مجھے ضرور بتا دیتی یا اپنا فون ہی لے جاتی ساتھ"۔ غزل کو خدشات نے گھیر لیا۔


"نہیں بیٹا اتنی جلدی مایوس مت ہو۔ اور وہ ہماری ذمہ داری تھی اسے ایسے ہی تھوڑی نہ کھو جانے دیں گے۔ تم وہم نہ کرو بیٹا وہ آ جائے گی"۔ وہ اسے سمجھانے لگیں۔

کیونکہ الوینا بہت ذمہ دار لڑکی تھی انہیں نہیں یاد کے پہلے کبھی وہ اس طرح بنا بتائے کہیں غائب ہوئی ہو۔


"کہیں وہ کسی مشکل میں نہ ہو"۔ اس کے دماغ میں یہی بات بار بار آ رہی تھی۔


"اللہ خیر کرے گا۔ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ اور دیکھتے ہیں اگر وہ شام تک نہیں آتی تو ہم پولیس کی مدد لیں گے اسے ڈھونڈنے کیلئے۔ تم پریشان مت ہو"۔ انہیں آخری راستہ یہی سوجھا۔


غزل نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

دل ہی دل میں اسکی خیریت کیلئے وہ دعا گو تھی۔

☆☆☆☆☆


سوئمنگ پول کے پاس رکھی چھوٹی سی لکڑی کی ٹیبل پر ٹاول، جوس کا گلاس، چھوٹا سا چیس بورڈ اور اس کا موبائل رکھا تھا۔

جو ہر پانچ منٹ بعد بجنے لگ جاتا۔


پول کے اندر خود کو ڈبائے رہنے کے بہت دیر بعد وہ سطح پر آیا اور کچھ ہی فاصلے پر رکھی ٹیبل تک پہنچ کر اس نے موبائل اسکرین دیکھی جہاں علی مرزا کی کال وقفے وقفے سے آ رہی تھی۔

آٹھویں بار کال آنے پر اس نے ریسیو کیا۔


"ایسی بھی کیا بے چینی ہے؟"۔ اس کا لہجہ کاٹ دار ہو گیا۔


"میں اتنی دیر سے تمہیں کال کر رہا ہوں۔ یہاں پریشان ہوں اور تمہیں کال ریسیو کرنے کی فرصت نہیں مل رہی؟ کہاں تھے تم؟"۔ وہ سخت غضبناک ہوئے۔


پول کی سیڑھیوں پر وہ بیٹھا تلخی سے مسکرا دیا۔


"تم ہمیشہ اتنے ٹینشن میں کیوں رہتے ہو منسٹر؟ اتنا تو میں قتل کر کے ٹینشن میں نہیں ہوں جتنے تم لگ رہے ہو اس وقت"۔ وہ طنز سے باز نہ رہا۔


دوسری جانب اس کی پرسکونی نے آگ لگا دی۔


"ہاتھ تمہارے تھے لیکن ارادہ اور ذہن میرا تھا اس لیے پریشان ہونا فطری بات ہے میرے لیئے"۔ ناچاہتے ہوئے بھی انہوں نے ایکسپلین کیا۔


"تب بھی تمہیں نہیں ڈرنا چاہئے۔ کیونکہ اول تو پولیس مجھ تک پہنچ نہیں سکتی۔ اور مان لو اگر پہنچ بھی جاتی ہے تب بھی میرے منہ سے کچھ اگلوا نہیں سکتی اتنا جان لو تم بس"۔ اس کا لہجہ پریقین تھا۔


"تمہارا یہ اوور کانفیڈنس مجھے لے ڈوبے گا۔ اور اس لڑکی کا کیا کیا تم نے؟"۔ آج کا سب سے اہم سوال انہوں نے پوچھا۔


"کہہ تو رہا ہوں کے ایک گولی مار کر اس کا کام تمام کر دیتا ہوں۔ لیکن تمہیں شاید جیل جانے کا من ہو رہا ہے بہت جو اس چشم دید گواہ کو زندہ رکھنا چاہتے ہو"۔ دبے دبے الفاظ میں اس نے ملامت کیا۔


اس کی اثبات پر وہ پھر بھڑک اٹھے۔


"صبح سے بیس مرتبہ تمہیں کہہ چکا ہوں کے لڑکی کو مارنا نہیں ہے لیکن تم پھر وہی بات کر رہے ہو؟ لڑکی کو مارا تو یاد رکھنا تمہیں میرے قہر سے کوئی نہیں بچا سکتا پھر۔

کچھ اور انتظام کرو اس کا۔ پولیس کے پاس اس لڑکی کے گواہ ہونے کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔ اس سے پہلے کے اس کے گھر والے اس کی گمشدگی کی رپورٹ تھانے میں درج کروائیں اور پولیس اسے ڈھونڈتے ہوئے تم تک پھر مجھ تک پہنچے تم اس لڑکی کو چھوڑ دو لیکن اس کے ذہن سے سب مٹانے کے بعد۔ سمجھ رہے ہو میری بات کو؟"۔ انہوں نے تصدیق چاہی۔


"ٹھیک ہے۔ میں اسے ڈرگز کا انجیکشن دے دیتا ہوں ابھی۔ پھر ہوش آنے کے بعد جب یہ آج کا دن بھول جائے گی تب ہی اسے آزاد کروں گا۔ ورنہ اگر بے ہوشی میں اسے چھوڑا تو ہسپتال جانے کی صورت میں ڈاکٹرز اس کے خون سے ڈرگزر نکال لیں گے۔ اور ممکن ہے پولیس بھی وہاں پہنچ جائے اس کا بیان لینے کو"۔ قیصر نے پرسوچ انداز میں کہا۔


"ہوں ٹھیک ہے۔ لیکن ڈوز ہلکا رکھنا لڑکی کو خطرہ نہیں ہونا چاہیئے"۔ آخری بار انہوں نے پھر تاکید کی اور ساتھ ہی رابطہ منقطع کر دیا۔


کال بند ہوتے ہی وہ یک دم قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔

فاتحانہ ہنسی۔

وہ مڑا اور اپنے پیچھے رکھے چیس بورڈ تک آیا۔


"تو بالآخر علی مرزا کی کمزور نس میرے ہاتھ لگ ہی گئی۔ بس اب معلوم یہ کرنا ہے کے یہ تعلق ہے کس نوعیت کا۔ جائز یا نا جائز"۔

شطرنج کی ملکہ کو مٹھی میں قید کر کے اس نے خود کلامی کی۔


بالآخر اسے اپنی اگلی چال مل ہی گئی تھی۔

آہستگی سے اس نے پلکیں اٹھائیں۔

لیکن وہ اس قدر بھاری ہو رہی تھیں جیسے کسی نے ان پر منوں بوجھ لاد دیا ہو۔

بمشکل اس نے آنکھیں کھولی۔

مگر اسے فوری طور پر سمجھ نہیں آیا کے وہ کہاں ہے۔

سر درد سے پھٹ رہا تھا اور جسم سن پڑا ہوا تھا۔

چت لیٹی وہ کورے کاغذ کی طرح دھندلی بصارت سے منظر سمجھنے کی سعی کر رہی تھی۔

ارد گرد کا جائزہ لیتیں اس کی آنکھیں ایک مقام پر آ کر ٹھہر گئیں۔


گرے ٹی شرٹ اور سیاہ پینٹ میں ملبوس بازو سینے پر باندھے وہ دروازے کے ساتھ ہی استادہ اسے دیکھ رہا تھا۔

اپنی ساری طاقت مجتمع کر کے الوینا بستر سے اٹھ بیٹھی اور اب بیڈ سے اترنے کی کوشش کرنے لگی۔

مگر یہ کوشش اسے بے حد بھاری پڑی۔

اس کے سر میں شدید ٹیسیں اٹھنے لگیں۔

اور اگلے ہی پل وہ لہرا کر زمین بوس ہونے کو تھی جب برق رفتاری سے آگے بڑھ کر قیصر خیام نے اسے تھام لیا۔


بڑی سہولت سے اس نے مضبوط بازو کا حصار اس کے نازک وجود کے گرد کھینچ دیا۔

وہ اس وقت اپنے اصل کے ساتھ اس کے سامنے موجود تھا۔

اس وقت نہ تو اس کی آنکھوں پر تبریز شاہ کے گلاسس تھے اور نہ ہی سیاہ لینسز۔

وہ سرمئی آنکھوں سے بغور الوینا کو دیکھ رہا تھا۔

اسے پرواہ نہ تھی۔ کیونکہ الوینا اپنے حواسوں میں ہوتی تو ہی اس کی آنکھیں پہچانتی۔


جب جب تبریز شاہ بن کر وہ اس کے سامنے گیا تھا ہمیشہ اکھڑا اکھڑا ہی رہا اس سے۔ لیکن آج جب وہ قیصر خیام بن کر اس کے سامنے آیا تو اجیب سی بے چینی ہونے لگی۔


ایک مرتبہ پھر ہوش و حواس سے بیگانہ۔۔وہ اس کے رحم و کرم پر تھی۔


"اگر جو تم اپنے ہوش میں ہوتی اس وقت تو قیصر خیام سے روبرو ہونے کے بعد کیا رد عمل ہوتا تمہارا؟ چیختی چلاتی؟ یا ڈر کر بھاگ جاتی؟ یا پھر نفرت کرنے لگتی مجھ سے؟ ہوں؟"۔ اس کے چہرے پر سے لٹیں ہٹاتے ہوئے وہ اس سے مخاطب تھا جو شاید اسے سن بھی نہیں رہی تھی۔

اس کے معصوم چہرے کو دیکھ کر وہ تلخی سے مسکرا دیا۔


"میں تم سے جتنی دور بھاگتا ہوں حالات تمہیں اتنا ہی میرے سامنے لا کھڑا کرتے ہیں الوینا۔ میں نے تم سے کہا تھا کے دوسری غلطی اب نہیں ہونی چاہیئے"۔ اس کے زرد پڑتے چہرے پر نگاہیں جمائے وہ کہہ رہا تھا۔


"لیکن غلطیوں کو شاید تم سے عشق ہے الوینا جو وہ مقناطیس کی طرح تم سے آ کر چپک جاتی ہیں۔ جانتی ہو تم میں خاص بات کیا ہے؟"۔ اس کے چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے وہ کہے جا رہا تھا۔


"مختار انصاری کو الوینا چاہیے۔۔کیونکہ وہ اس کیلئے گواہ بن سکتی ہے۔ مرزا کو الوینا زندہ چاہیے کیونکہ تمہارا وجود اس کیلئے بہرحال کوئی تو حیثیت رکھتا ہے۔ جس کا پتہ میں جلد لگا لوں گا۔

اور رہی بات میری۔۔۔تو ہاں۔۔۔مجھے الوینا چاہیے۔۔۔کیونکہ الوینا میرے لیئے تم وہ کر سکتی ہو جو میں خود بھی نہیں کر سکتا۔ تم ایک ہی محور ہو الوینا جس کے گرد یہ تینوں نام گھومتے ہیں۔ تم واقعی بہت اہم ہو اس وقت ہم سب کیلئے"۔ اس کے کان کے قریب وہ سرگوشی میں کہہ رہا تھا۔


پھر اگلے ہی پل آہستگی کے ساتھ اس کے وجود کو بانہوں میں بھر کر واپس اسی جگہ بیڈ پر ڈال دیا جہاں وہ کچھ دیر قبل تھی۔


"بس کچھ دیر اور الوینا۔۔۔پھر انجیکشن کا اثر زائل ہوتے ہی تمہیں مکمل ہوش آ جائے گا۔ اور آزادی بھی مل جائے گی"۔ سنجیدگی سے کہہ کر چند لمحے یونہی وہ بغور اس کی بند آنکھوں کو دیکھتا رہا۔۔۔پھر سر جھٹک کر کمرے سے باہر نکل گیا۔


کتنے ہی راز وہ ان چند لمحوں میں اس پر افشاں کر گیا تھا۔۔

اور وہ تھی کے ہوش و حواس سے بیگانہ، بے خبری کی چادر اوڑھے سو رہی تھی۔

☆☆☆☆☆


شام کے پانچ بج رہے تھے۔

جب الوینا مکمل طور پر ہوش میں آ گئی۔

آنکھیں کھولے وہ اس اجنبی ماحول کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔

حواس بحال ہوئے تو وہ لیٹے سے اٹھ بیٹھی۔


"کون سی جگہ ہے یہ؟ وہ یہاں کیوں آئی اور کب آئی؟ اسے یہاں کون لایا؟"۔ دماغ پر اس طرح کے کئی سوال ہتھوڑے برسا رہے تھے۔


اس نے سوچنا چاہا کے وہ یہاں کیسے آئی۔

لیکن جیسے ہی یاد کرنے کیلئے دماغ پر زور ڈالا شدید درد کی ایک لہر نے اسے کچھ سوچنے ہی نہ دیا۔


"آہ"۔ درد سے وہ کراہ اٹھی اور سر ہاتھوں میں گرا لیا۔

کچھ دیر تک وہ یونہی سن سی بیٹھی رہی۔

مگر پھر ایک بھاری مردانہ آواز پر وہ چونک چونک گئی۔


"تو بالآخر ہوش آ گیا تمہیں"۔ جانے کب وہ کمرے میں داخل ہوا تھا اور کب اس کے پاس آ کھڑا ہوا الوینا کو کچھ پتہ ہی نہ چل سکا۔


سر اٹھا کر اس نے آواز کے تعاقب میں دیکھا۔

آنکھوں کے سامنے سے اندھیرا جیسے ہی چھٹا تو الوینا کے چودہ طبق روشن ہو گئے۔

کم از کم اس وقت تو وہ اس شخص کو قطعی ایکسپیکٹ نہیں کر رہی تھی۔

چیک شرٹ اور گرے جینز میں ملبوس، جینز کی جیبوں میں ہاتھ دیئے وہ اس کے سامنے کھڑا تھا۔


اچھل کر وہ بیڈ سے نیچے اتری اور جلدی سے فاصلے پہ جا کھڑی ہوئی۔

"س۔۔۔سر آپ؟۔۔۔مم۔۔۔میں۔۔۔یہاں کیسے؟"۔

آنکھوں میں حیرت سموئے ٹوٹے پھوٹے لہجے میں اپنا سوال اس کے سامنے رکھا۔

جبکہ قیصر اس کے ایک ایک انداز کو باریکی سے نوٹ کر رہا تھا۔

اور وہ سراپا سوال بنی اس کے سامنے کھڑی تھی۔


ایک گہری سانس اس نے ہوا کے سپرد کی اور گویا ہوا۔


"ہر روز کی طرح آج کے دن بھی جب میں جاگنگ کیلئے گیا تو تم وہی مجھے سڑک کنارے بے ہوش پڑی ملی۔ تمہارے گھر کا اڈریس یا کوئی فون نمبر نہیں تھا میرے پاس اور تمہیں اس طرح سڑک پہ چھوڑ نہیں سکتا تھا اس لیئے یہی لے آیا۔ صبح سے تم بے ہوش تھی اور اب جا کر ہوش میں آئی ہو"۔ سچ اور جھوٹ کو ملا کر اس نے مختصر کہانی سنائی۔


"میں۔۔۔بے ہوش؟"۔ الوینا یہ سن کر قدرے چونک گئی۔


"کیا ہوا تھا الوینا؟ تم بے ہوش کیسے ہو گئی تھی؟"۔ سیاہ آنکھیں اس کے چہرے پر جمائے بغور اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ نوٹ کرتے ہوئے قیصر نے اس کی یادداشت کا امتحان لیا۔


اس سوال پر ایک بار پھر اس نے یاد کرنا چاہا مگر پھر وہی درد اٹھا۔

تکلیف کی شدت الوینا کے چہرے پر واضح نظر آ رہی تھی۔


"پپ۔۔۔پتہ نہیں سر۔۔۔یاد نہیں"۔ کنپٹی مسلتے ہوئے اس نے بے بسی بھرے لہجے میں جواب دیا۔


"ہوں تو انجیکشن نے اپنا اثر دکھا دیا"۔ من ہی من مسکراتے ہوئے وہ خود سے مخاطب تھا۔


مگر بظاہر فکرمندی سے بولا۔

"اٹس اوکے الوینا۔ ریلیکس تم زیادہ بوجھ مت ڈالو دماغ پہ"۔


الوینا نے نگاہیں اٹھا کر ایک پل کو اسے دیکھا۔

"آپ کا بہت شکریہ۔۔۔میری مدد کرنے کیلئے"۔ وہ اس کی مشکور نظر آ رہی تھی۔


قیصر کے لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔


"اٹس اوکے۔۔۔چلو میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ آتا ہوں"۔ ایک اور مہربانی۔


"تھینک یو سر۔۔۔اور میں ہاسٹل میں رہتی ہوں"۔ دھیمے لہجے میں کہتے ہوئے اس نے قیصر کا جملہ درست کیا۔


"ہوں۔۔۔تو چلو ہاسٹل چھوڑ دیتا ہوں"۔ اس نے پھر اسی انداز میں جواب دیا۔


الوینا چاہتے ہوئے بھی انکار نہیں کر سکی۔

کیونکہ اسے پتہ نہیں تھا کے وہ اس وقت کون سے علاقے میں ہے اور نہ ہی اس کی حالت ایسی تھی کے وہ کہتی میں خود چلی جاؤں گی۔


لہٰذا جب قیصر نکلنے لگا تو وہ بھی چپ چاپ اس کے پیچھے پیچھے چل پڑی۔


شش و پنج میں مبتلا وہ اس کی گاڑی کے پاس ہی کھڑی رہی۔

جب ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھولتے ہوئے اس نے چونک کر اسے دیکھا جو اسی پوزیشن میں کھڑی بے بسی سے انگلیاں چٹخا رہی تھی۔


"کیا ہوا۔۔۔واپس نہیں جانا کیا؟"۔ مسکراہٹ دبائے وہ بظاہر سنجیدگی سے پوچھنے لگا۔


الوینا نے جھٹکے سے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔

"نہیں تو"۔ جلدی سے بولی۔


"نہیں؟"۔ ایک ابرو اٹھا کر برجستہ پوچھا۔


"میرا مطلب تھا کے۔۔۔جی جانا ہے"۔ مکمل جواب دیا۔ مبادا وہ پھر کچھ اور نہ سمجھ لے۔

دل ہی دل میں خود کو ملامت کرنے لگی۔


"گاڑی میں بیٹھو جلدی سے"۔ حکمیہ لہجے میں کہتے ہوئے وہ ڈرائیونگ سیٹ سنبھال چکا تھا۔


"جی"۔ یک لفظی جواب دے کر وہ پیچھے کا دروازہ کھولنے لگی۔


"الوینا تحسین آپ کو میں کس اینگل سے ڈرائیور لگتا ہوں؟"۔ اس نے بے اختیار ٹوکا۔


"جی؟ نہیں سر۔۔۔میں نے ایسا تو نہیں کہا"۔ گھبرا کر جلدی سے وضاحت دی۔


"تو پھر آئیے۔ یہاں تشریف رکھیے"۔ اپنے برابر والی نشست کی جانب اشارہ کیا۔


مرتی کیا نہ کرتی کے مصداق وہ فرنٹ سیٹ پر آ بیٹھی۔

ایک تو اس کی مہربانیاں اسے پہلے ہی بوکھلا رہی تھیں۔

اوپر سے اس کے تیور۔۔۔اللہ معافی!


سفر شروع ہو چکا تھا۔

وہ راستہ الوینا کیلئے اجنبی تھا۔

اور اس کا ہم سفر اجیب۔۔کسی حد تک انجان۔


وہ اس کی طرف سے رخ موڑ کر بیٹھی تھی۔

دانستہ اس کی طرف دیکھنے سے گریز برت رہی تھی کے کہیں پھر اس کے عتاب کا نشانہ نہ بن جائے۔


گاڑی چلاتے ہوئے وہ آنکھ کے کنارے سے اس کا جائزہ بھی لے رہا تھا۔

اس کا پلان فل پروف تھا۔ مگر جانے کیوں اسے یہ دھڑکا سا لگا تھا کے کہیں الوینا کو کچھ یاد نہ آ گیا ہو۔

حالانکہ اگر یاد آ بھی جاتا تب بھی اس کے سامنے تو وہ تبریز تھا۔ قیصر خیام نہیں۔

پھر اس پر شک کرنے کا تو سوال ہی نہیں اٹھتا تھا۔


"اس دن کی بات کو لے کر کیا تم ابھی بھی اپ سیٹ ہو؟"۔ اس کی خاموشی قیصر خیام کو بے کل کر رہی تھی۔

اور محض اسے بولنے پر اکسانے کو اس نے وہ سوال پوچھا جس سے اسے فرق ہی نہیں پڑتا تھا۔


نا چاہتے ہوئے بھی الوینا نے اس بار اس کی جانب دیکھا۔


"نہیں سر۔۔۔میں بلکہ شرمندہ ہوں۔ مجھے واقعی آپ کے اور میرے درمیان کا فرق نہیں بھولنا چاہیے تھا"۔ نگاہیں جھکا کر اس نے سادگی سے کہا۔

قیصر خیام لب بھینچ کر اسے دیکھنے پر مجبور ہو گیا۔


"آئم سوری۔ مجھے ایسا نہیں کرناچاہیے تھا"۔ زندگی میں پہلی بار قیصر اس لفظ سے روبرو ہوا تھا۔

اتنا مشکل اسے پہلی بار بندوق چلانا بھی نہیں لگا تھا۔

جتنا کے اس پل چھوٹا سا چار حرفی لفظ 'سوری' کہنے میں وہ جھجھکا تھا۔


"نہیں سر۔ آپ کا عہدہ سوری کا محتاج نہیں ہے۔ جتنا میرے لیے آپ نے آج کیا اس کیلئے میں مشکور ہوں آپ کی"۔ الوینا نے اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔


قیصر نے ایک پل کو ان آنکھوں میں دیکھا۔

کتنی شفافیت، کتنی معصومیت تھی ان آنکھوں میں۔

کتنی مطمئن تھی وہ لڑکی۔۔۔شاید خوش قسمت ترین بھی۔

جو وہ اتنی پرسکون تھی۔


ان نگاہوں کی تاب نہ لاتے ہوئے اس نے نظریں چرا کر سامنے سڑک پر مرکوز کر دیں۔


کتنی عزت۔۔۔کتنا احترام تھا اس لڑکی کے لہجے اور آنکھوں میں اس کیلئے۔

وہ اگر اس کی اصلیت جان لیتی تو کیا اتنی ہی عزت سے پیش آتی؟ نہیں۔ وہ تو اسے پولیس کے حوالے کر دیتی۔ کجا کہ عزت دیتی۔


دور کہیں۔۔۔بہت سالوں بعد آج اس احساس نے ایک بار پھر سر اٹھانے کی کوشش کی تھی۔ جسے وہ ہمیشہ سلاتا آیا تھا۔

سر جھٹک کر اس نے ان تمام خیالوں کو بھی ذہن سے جھٹک دیا۔

اسے فلحال اپنے مقصد پر فوکس کرنا تھا۔

☆☆☆☆☆


شام چھ بج رہے تھے جب وہ اسے ہاسٹل پہنچا کر گیا۔

غزل اور میڈم ماریہ تھانے میں گمشدگی کی رپورٹ درج کروانے کو بس نکل ہی رہی تھیں جب وہ آ گئی۔


صبح کے ٹریک سوٹ میں ملبوس، سوجی آنکھیں، بکھرے بال اور زرد سرسوں جیسا اس کا رنگ۔

ان چند گھنٹوں میں وہ بے حد کمزور لگ رہی تھی۔

غزل بے یقینی سے اس کی حالت دیکھتی رہی اور بار بار یہی سوال کرتی کے آخر ایسا کیا ہوا کے ایک دن میں اس کی یہ حالت ہو گئی۔


مگر الوینا نے ہر بار یہی جواب دیا کے کچھ بھی یاد کرنے سے اس کے سر میں درد ہونے لگتا ہے۔

غزل نے اسے ہسپتال لے جانے پر بہت اصرار کیا مگر الوینا نے اس کیلئے منع کر دیا۔


اور جب اس نے یہ سنا کے تبریز شاہ نے اس کی مدد کی تو وہ ہکا بکا رہ گئی۔


"وہاٹ؟ الوینا تم سچ کہہ رہی ہو؟ کیا واقعی انہوں نے تمہاری مدد کی۔۔۔مجھے شروع سے لے کر آخر تک سب بتاؤ"۔ بیس بار وہ اس سے یہ کہانی سن چکی تھی۔

اور الوینا اس کے سوال پر ہنستی۔۔۔ایک بار پھر آج کی روداد سنانے لگتی۔

☆☆☆☆☆


وہ اپنے آفس میں بیٹھے اس وقت سخت برے موڈ میں تھے۔

کچھ ہی دیر قبل ان کو فون آیا تھا۔

اوپر سے آرڈرز آ رہے تھے تیمور مڈر کیس کو بند کرنے کیلئے۔

ڈی-آئی-جی مختار انصاری پر دباؤ بڑھایا جا رہا تھا۔

مگر وہ کسی طور اس فیصلے کے حق میں نہیں تھے۔


ان کے سامنے ہی ٹیبل پر اس کیس سے جڑے ثبوت، پولیس کی بنائی گئی رپورٹ اور فارنزک رپورٹ بکھرے پڑے تھے۔

گواہ کا اب تک کوئی سراغ نہیں مل پایا تھا۔

شہر کے ہر تھانے سے وہ رابطہ کر چکے تھے۔ تاکہ بائیس جولائی کے دن جتنی بھی لڑکیوں کی گمشدگی کیلئے شکایت درج کی گئی تھی ان کا پتہ لگایا جا سکے۔

شاید ان میں سے کوئی ایک گواہ ہو۔


اس دن الگ الگ تھانوں میں سات الگ الگ لڑکیوں کی گمشدگی کیلئے شکایت درج کروائی گئی تھی۔

جن کی عمریں انیس سے پچیس سال کے درمیان تھی۔


ان میں سے تین کا اغواء تاوان پیسوں کیلئے ہوا۔ اور تاوان وصول ہونے کے بعد پولیس کی مدد سے بازیاب کروا لیا گیا اور ساتھ ہی ان اغوا کاروں کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔


دو لڑکیوں کو اغوا کرنے کے بعد زیادتی کا نشانہ بنا کے قتل کر دیا گیا۔


جبکہ بقیہ دو لڑکیوں کو اغواء کر کے بیرون ملک اسمگل کر دیا گیا تھا۔

مخبروں کی مدد سے پولیس نے اغوا کار گینگ کو دھر لیا تھا۔


نہیں ملی تو ایک وہی لڑکی۔۔۔جو اس کیس کیلئے اہم سراغ تھی۔


"مجھے پورا یقین ہے کے تیمور کا قتل علی نے کروایا ہے۔ ایک بار بس وہ لڑکی ہاتھ لگ جاتی تو اس کی گواہی سے ان ہاتھوں تک پہنچ جاتا جن سے علی نے قتل کروایا ہے۔ پھر اس کے بعد علی کی گردن بھی دور نہیں تھی۔۔۔لیکن اب تو آرڈرز آ چکے ہیں اس کیس کو بند کرنے کیلئے۔ کیا کروں میں؟

اور کتنے خون سے اپنے ہاتھ رنگو گے علی مرزا تم"۔ میز پر جھکے وہ بے بسی بھری نظروں سے ان ثبوتوں کو دیکھتے ہوئے سوچ رہے تھے۔

جو ہرگز بھی علی کو گرفتار کرنے کیلئے کافی نہیں تھے۔


اچانک ان کی نظر پینڈنٹ پہ آ کر ٹھہر گئی۔

"کیا پتہ اس سے گواہ کا کوئی سراغ لگے"۔ سلور کلر کے پینڈنٹ کو انہوں نے ایویڈنس کور سے نکالا۔

اور اب ہاتھوں میں لے کر بغور اس کا جائزہ لینے لگے۔

وہ چاندی کا ایک بے حد خوبصورت سا پینڈنٹ تھا۔

جس کی چین میں سیپ کے ڈیزائن کا نیلا نگ لگا ہوا تھا۔


انہوں نے چھوٹی سی پیچ کس اس نگ کو کھولنے کیلئے اٹھائی۔

تبھی یک دم پینڈنٹ ان کے ہاتھ سے پھسل گیا۔

اور یہ دیکھ کر وہ چونک گئے کے وہ نیلے رنگ کا نگ اپنی جگہ سے سرک گیا تھا۔


مختار صاحب نے اسے اٹھایا تو تکلیف کی ایک لہر ان کے وجود میں پھیل گئی۔


سیپ کے اندر موجود اس چھوٹی سی تصویر نے ان کی دنیا تہہ و بالا کردی تھی۔


"عائشہ"۔ نام آہ کی طرح ان کے لبوں سے نکلا تھا۔

اور پینڈنٹ ان کے ہاتھ سے پھسلتا چلا گیا۔

بے یقینی سی بے یقینی تھی۔


"یعنی وہ لڑکی۔۔۔کوئی اور نہیں۔۔۔بلکہ۔۔۔میری۔۔۔بیٹی ہے"۔ انہیں اپنی آواز کسی کنوئیں سے آتی محسوس ہوئی۔


جسے وہ ڈھونڈ رہے تھے وہ ان ہی کے شہر میں تھی۔

ان کے بے حد قریب۔

اور انہیں پتہ تک نہ چل سکا۔

☆☆☆☆☆

عائشہ تحسین مختار انصاری کے دل پر دستک دینے والی پہلی لڑکی تھی۔

وہ دونوں ایک ہی کالج میں پڑھتے تھے۔

عائشہ ایک بے حد حسین لڑکی تھی۔

جسے دیکھ کر کوئی بھی اپنا دل ہار سکتا تھا۔

وہ لڑکا، لڑکی سب میں یکساں نمایاں تھی۔

گریڈز یا اچھے دماغ کی وجہ سے نہیں۔

بلکہ اپنے فیشن سینس، ملنسار طبیعت اور کالج کے ہر ایونٹ میں پیش پیش رہنے کی وجہ سے۔


مگر اس کے گھر والے چونکہ کافی سخت تھے۔ خاص کر اس کا بھائی۔

جس کی وجہ سے کوئی بھی اس کی طرف دیکھنے سے پہلے سو بار سوچ لیتا تھا۔


اس کے برعکس مختار انصاری اپنے والدین کا اکلوتا چشم و چراغ تھا۔ اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے والدین کی اس سے کافی امیدیں وابستہ تھیں۔


کالج کے ہر دوسرے لڑکے کی طرح وہ بھی عائشہ تحسین کی محبت کا دم بھرتا تھا۔

مگر کم ہمت اور کم صورت ہونے کی وجہ سے وہ اس سے کچھ بھی کہنے سے گریز برتتا تھا۔ مبادا وہ اسے رد نہ کر دے۔


لیکن قسمت کا شاید وہ بہت دھنی تھا۔

جس کی وجہ سے عائشہ نے اس کی محبت اور اس سے بڑھ اس کی عقیدت اور احترام سے نگاہیں جھکا کر بات کرنے کی ادا سے متاثر ہو کر محبت کا جواب محبت سے دیا تھا۔


مگر جہاں دونوں دل ملے وہاں حاسدوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا۔

اور انہی حاسدوں میں سے کسی نے عائشہ کے گھر والوں کو اس کے اور مختار کے بارے میں سب کچھ بتایا۔

جس کے نتیجے میں اس کا کالج جانا بند کروا دیا گیا۔

اور جو پہلا رشتہ اس کیلئے آیا گھر والوں نے ہری جھنڈی دکھا کر حامی بھر دی۔


عائشہ ان کی اس قدر زیادتی پر کڑھ کر رہ گئی۔

پیار، محبت، غصہ، کھانا پینا بند کرنا اور پھر آخری راستے کے طور پر رو دھو کر اس نے غرض ہر طریقے اپنے گھر والوں کو سمجھانے کی کوشش کی کے وہ یہ شادی نہیں کر سکتی۔

مگر کوئی بھی اسے سمجھنے کو تیار نہ تھا۔


آخری حل کے طور پر اس نے مختار کو فون کر کے اسے سب کچھ بتایا اور کہا کے تین دن بعد اس کی شادی ہے۔ اگر وہ اسے یہاں سے نہ لے گیا تو وہ اپنی زندگی ختم کر دے گی۔

یہ سن کر وہ پریشان ہو گیا۔

اور بالآخر اس کی ضد پر حامی بھر لی۔


شادی والا گھر تھا اس لیے آئے دن بازاروں کے چکر لگتے تھے۔

دلہن کا جوڑا پسند کرنے کیلئے اس دن عائشہ کو بھی بازار جانا تھا۔

اس نے مختار کو فون کر کے ساری باتوں سے آگاہ کیا۔

اس طرح بازار میں گھر والوں سے نظر بچا کر وہ دھوئیں کی طرح غائب ہو گئی۔


اور جب عائشہ کی ماں کو احساس ہوا کے وہ ان کے ساتھ نہیں ہے۔ تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔


وہ جیسے تیسے گھر پہنچیں پھر شوہر اور بیٹے کو سارے واقعے سے آگاہ کیا۔

جس پر تحسین صاحب تو غصے و بے بسی کے مارے اِدھر اُدھر ٹہلتے رہے۔

اس کا بھائی بھوکے شیر کی طرح ہر جگہ اسے تلاش کرتا پھر رہا تھا۔


جبکہ ماں کو تو چپ سی لگ گئی تھی۔


بری باتیں اکثر جلدی پھیلتی ہیں۔

عائشہ بھاگ گئی ہے یہ بات ہر جگہ جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔

آس پڑوس کے لوگ ان پر تھو تھو کر رہے تھے۔

رشتہ دار فون کر کر کے طعنے کوسنے دے رہے تھے۔

دوست احباب ہمدردی کے بہانے گھر آ کر بظاہر میٹھے بول بول کر انہیں مزید زمین میں دھنسا دیتے تھے۔


چند ماہ تک یہی سلسلہ چلتا رہا۔

عائشہ کی کہیں سے کوئی خبر نہ مل سکی۔


گھر والوں نے لوگوں کی ذلیل کرتی نگاہوں سے بچنے کیلئے شہر تک بدل لیا۔

عائشہ تو چلی گئی تھی۔

لیکن اس کے پیچھے اس کا بھائی ماں کی پرورش پر سوال اٹھانے لگا تھا۔

لوگوں کے طعنے تو انہوں نے سہن کر لیئے تھے۔

لیکن اپنی اولاد کا کیا کرتیں کے اس کے زہر میں بجھے الفاظ انہیں کتنی اذیتوں سے دوچار کر دیتے تھے۔


تین ماہ گزر چکے تھے اس بات کو۔

لیکن بیٹے کا غصہ اور اس کی نفرت ہنوز ویسی ہی تھی۔


جو بالآخر ماں کی موت دیکھ کر ہی شانت ہوئی تھی۔


تحسین صاحب کو بیٹی کا صدمہ تو پہلے ہی تھا۔

اب بیوی کے غم نے انہیں توڑ کر رکھ دیا تھا۔


بیٹا تو پیسے کمانے کیلئے اکثر باہر ہی رہتا تھا۔

پیچھے وہ ہی اکیلے رہ جاتے تھے۔ تنہا گھر انہیں کاٹنے کو دوڑتا تھا۔


اس تنہائی سے بچنے کیلئے ہی انہوں نے ایک دن بیٹے سے کہا کے وہ اب گھر بسانے کا سوچے۔

بچوں کی قلقاری اور عورت کے وجود سے ہی اس گھر کی تنہائی اور سوگواریت شاید کم ہو جاتی۔


لیکن ان کی یہ خواہش بھی ان کیلئے سزا بن گئی۔

بہو تو گھر میں آ گئی۔ مگر بیٹا جو ان سے پہلے ہی کھنچا کھنچا رہتا تھا، اب تو اور بھی دور رہنے لگا تھا۔


تب اتنے سالوں بعد انہیں عائشہ کی کوئی خبر ملی تھی۔ اس نے خود اپنی اطلاع انہیں بھجوائی تھی۔

وہ بیمار تھی۔ بستر مرگ پر تھی۔

شاید یہ اس کی بیٹی کا ہی وجود تھا جس کا سوچ کر اس کی چند سانسیں اب بھی باقی تھی۔

وہ اپنے اس دنیا سے جانے سے پہلے الوینا کو محفوظ ہاتھوں میں سونپ کر جانا چاہتی تھی۔


تحسین صاحب کا دل پسیج گیا تھا یہ خبر سن کر۔

جہاں الوینا کے بارے میں جان کر انہیں خوشی ہوئی وہی اس کے تنہا رہ جانے اور عائشہ کے بچھڑنے کا دکھ بھی انہیں بے چین کر گیا۔


بیٹے کو کچھ بھی بتائے بغیر وہ عائشہ سے ملنے چلے گئے۔

اور اس کی سانسیں بھی شاید انہیں کی منتظر تھیں۔


باپ کی زبانی ماں کی موت، اور بھائی کی بے اعتنائی کا سن کر بستر مرگ پر وہ ہچکیوں سے روتی اور باپ سے معافیاں مانگتی رہی۔


عائشہ نے انہیں بتایا کے ان کو دکھ دینے کا خمیازہ وہ بھگت چکی تھی۔

مختار کو اس نے پا تو لیا تھا مگر وہ پھر بھی اس کے نصیب میں ہو کر بھی اس کا نہیں رہا تھا۔


شادی کے بعد جب وہ عائشہ کو اپنے گھر لایا تو اس کے والدین نے قطعی طور پر اسے اپنانے سے انکار کر دیا۔

جس پر مختار بھی ضد میں عائشہ کو لیئے گھر چھوڑ کر چلا گیا۔


چند ماہ بعد ہی باپ کا اسے فون آیا کے ماں مرنے کی کگار پر کھڑی ہے اور آخری بار اسے دیکھنا چاہتی ہے۔


تب عائشہ نے لاکھ کہا کے وہ اپنے والدین سے ملنے اکیلے ہی چلا جائے کیونکہ وہ تو اس کی صورت دیکھنے کے بعد بھی روادار نہ تھے۔


لیکن مختار نے اس کی ایک نہ سنی اور اسے ساتھ لے کر ایک بار پھر وہ اس گھر میں چلا گیا۔ جس کی دہلیز پھر کبھی پار نہ کرنے کا عہد کر کے گیا تھا۔


آخری خواہش کے طور پر ماں نے جو اس سے مانگا تو گویا صحیح معنوں میں اسے امتحان میں ڈال گئی تھیں۔

ان کی خواہش تھی کے وہ ان کی بھانجی فائزہ سے شادی کر لے۔

جس سے بچپن سے اس کی بات طے تھی۔


عائشہ نے جب یہ سنا تو اتنے ماہ میں پہلی بار ان میاں بیوی میں تکرار ہوئی۔

جو طلاق تک پہنچ گئی۔

لیکن مختار اس بات کیلئے قطعی راضی نہیں تھا۔

کیونکہ عائشہ اس وقت سات ماہ کی حاملہ تھی۔


جواب میں عائشہ نے اس کے سامنے دو آپشنز رکھ دیئے۔

جس کے نتیجے میں یا تو وہ اپنی ماں سے کیا عہد پورا کرتا یا پھر عائشہ اور اس کے بچے کو ساتھ رکھتا۔


مختار نے اسے بہت سمجھایا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔

اس کے بعد اس نے عائشہ کو اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ اسے یقین تھا کے وہ ٹھیک ہو جائے گی۔

لیکن یہ اسکی سب سے بڑی غلط فہمی تھی۔


کیونکہ عائشہ سب طے کیے بیٹھی تھی۔


پھر جس دن اس نے دوسری شادی کی۔

اسی رات عائشہ چپ چاپ بنا کسی کو کوئی اطلاع دیئے اس گھر سے اور مختار کی زندگی سے ہمیشہ کیلئے دور چلی گئی۔


دکھ تو اسے بہت ہوا تھا مختار سے دور جانے کا۔

اندیشے اور واہمے ہزار تھے کے آنے والے وجود کا مستقبل آخر کیا ہوگا۔


لیکن مختار کو کسی اور کے ساتھ دیکھنا ہی کڑا امتحان تھا۔

اور وہ خود میں اتنا صبر اور ظرف نہیں پاتی تھی۔


لہٰذا اس نے ان سب سے دور اپنی دنیا بسا لی۔

جہاں وہ تھی اور اس کی بیٹی الوینا تھی۔

جو اس کیلئے کل کائنات تھی۔


عائشہ کی زبانی یہ سب سننے کے بعد تحسین صاحب نے اس سے عہد کیا کے وہ الوینا کی ذمہ داری خود لیں گے۔

اور اس کا خیال رکھیں گے۔


اتنا ہی سننا تھا کے عائشہ پرسکون ہو گئی۔

اور ابدی نیند جا سوئی۔


جس کے بعد تحسین صاحب الوینا کو اپنے ساتھ لے گئے تھے۔

☆☆☆☆☆


الوینا احمد کے ساتھ گراؤنڈ میں بیٹھی تھی۔

غزل آج یونیورسٹی نہیں آئی تھی۔ کیونکہ اس کے ابو کی طبیعت خراب تھی جس وجہ سے وہ ایک ہفتے کی لیو پر گھر گئی تھی۔


غزل کی غیر موجودگی میں وہ بور سی ہو رہی تھی۔

اگر مسئلہ اتنا گمبھیر نہ ہوتا تو وہ کبھی اسے جانے نہ دیتی۔


احمد تب سے شرمندہ شرمندہ سا سر جھکائے خاموش بیٹھا تھا۔


ایک کو تو کلاس میں اینٹری سے منع کیا گیا تھا۔

جبکہ دوسرے کی کلاس آف تھی۔


"تم اتنے چپ چپ کیوں ہو احمد؟ لگ رہا ہے جیسے میں اکیلی ہی بیٹھی ہوں۔ تمہاری موجودگی کا فائدہ تو ہونے دو مجھے"۔ الوینا نے ہی خاموشی کو توڑا۔

جس پر احمد سٹپٹا کر اس کی جانب دیکھنے لگا۔


"وہ۔۔۔میں شرمندہ ہوں اس دن کیلئے الوینا۔ تم دونوں میرے بہت اچھے دوست ہو اور میں اس دن وہاں تم دونوں کو مصیبت میں چھوڑ کر ڈر کے مارے بھاگ گیا۔۔۔سوری کہنا چاہتا تھا"۔ اس نے چار دن پہلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا۔

جب غزل اور الوینا کی درگت بنی تھی۔ اور وہ تبریز کو اپنی جانب آتا دیکھ کر وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا تھا۔


"اوہو، بس اتنی سی بات؟ میں تو وہ سب بھول بھی گئی تھی۔ اس کے بعد تو پتہ نہیں کیا کیا ہوا۔ اور سب سے بڑی بات پروفیسر نے مجھے خود سامنے سے سوری کہا۔ تو میرا دل بھی ان کی طرف سے صاف ہو گیا"۔ شانے اچکا کر اس نے عام سے انداز میں کہا۔


جبکہ احمد اسکی اثبات پر حیران رہ گیا۔

"کیا واقعی؟ پروفیسر نے خود تمہیں سوری کہا؟"۔ اسے یقین نہ آیا۔

الوینا اس کے انداز پر ہنس دی۔


"ہاں ہاں، بالکل سچ"۔ اس نے اپنی بات پر زور دیا۔


"پھر تو مجھ سے زیادہ وہ اچھے ہیں۔ کیونکہ مجھ سے پہلے انہوں نے اپنی غلطی مان کر سوری کہہ دیا"۔ احمد کی شرمندگی مزید بڑھ گئی۔


الوینا نے اس بات پر سر پیٹ لیا۔

"ایک بار اور تم نے فارمیلیٹی دکھائی نہ تو میرا جوتا ہوگا اور تمہارا سر"۔ الوینا کا ہاتھ جوتے کی طرف گیا۔


"ارے نہیں نہیں۔ میں تو مذاق کر رہا تھا"۔دانت نکوس کر اس نے جلدی سے کہا۔ مبادا وہ جوتا اس کے سر ہی نہ ہو جائے۔


اب کی بار اس کے انداز پر وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔


"آپ یہاں کیا کر رہی ہیں مس الوینا؟"۔ وہ جانے کب وہاں آ کر کھڑا ہوا تھا۔ یہ ان دونوں کو ہی پتہ نہ چلا۔


الوینا کی ہنسی کو یک دم ہی بریک لگ گیا۔

جبکہ احمد بھی اس سخت گیر آواز پر گھبرا کر الرٹ ہو گیا۔


سیاہ شرٹ اور بھورے رنگ کی جینز میں ملبوس سینے پر ہاتھ باندھے وہ اس کے سامنے ہی کھڑا تھا۔

اور سنجیدگی سے اس کی جانب دیکھ رہا تھا۔


الوینا جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔


"وہ سر۔۔۔کلاس چل رہی تھی اور آپ نے۔۔۔۔۔"


"ہاں وہی پوچھ رہا ہوں تم کلاس میں کیوں نہیں ہو اس وقت؟"۔ الوینا کی بات درمیان میں ہی قطع کی۔


اثبات پر اس نے سر جھکا دیا۔


جبکہ احمد کو اپنا آپ یک دم ایکسٹرا لگنے لگا تھا۔

مگر وہ ہلنے کی سکت بھی خود میں نہیں پا رہا تھا۔


"تم جاؤ یہاں سے"۔ اس نے احمد کو حکم دیا۔

اور وہ جیسے اسی انتظار میں تھا۔ فوری طور پر وہاں سے کھسک گیا۔


جبکہ وہ ایک مرتبہ پھر اس کی جانب متوجہ ہوا۔


"تو اب بتانا پسند کرو گی کے کلاس ٹائم میں یہاں کیا کر رہی تھی؟"۔ اس کا لہجہ آنچ لیئے ہوئے تھا۔

الوینا نے جھٹکے سے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا۔


سیاہ آنکھوں میں تپش تھی۔

الوینا تاب نہ لا سکی اور نگاہیں جھکتی چلی گئیں۔


"سر آپ نے کہا تھا کے کلاس میں نہیں آؤ پانچ دن تک"۔ آخری بار کا کہا گیا اسی کا جملہ الوینا نے اسے یاد دلایا۔


اس کی بات سن کر وہ مسکرانے پر مجبور ہو گیا۔


"تم بے وقوف تو نہیں لگتی ہو۔ پھر کیوں چاہتی ہو کے میں تمہیں بے وقوف سمجھوں؟"۔ پہلی بار اس نے اس کی ذات سے متعلق کوئی رائے دی تھی۔


جسے سن کر الوینا کا چہرہ خفت سے گلابی پڑ گیا۔

اسے اس قدر صاف گوئی کی امید نہیں تھی۔


"سوری سر"۔ بمشکل اتنا ہی کہہ سکی۔

جانے کیوں اس کی بولتی بند ہو جاتی تھی جب وہ اس کے سامنے آتا تھا۔

شاید اس کے عہدے کا ہی رعب تھا۔

الوینا سوچے گئی۔


"آئیندہ دھیان رکھیے گا۔ خیر، یہ سب چھوڑو۔ اپنا کوئی ریسرچ ٹاپک چنو اور اس پر کام شروع کردو۔ اگلے ہفتے مجھے تم لوگوں کا اسائنمنٹ چاہیے"۔ وہ پھر سے اپنے خول میں قید ہو گیا تھا۔

کرخت لہجے میں ہدایات جاری کرتا وہ جن قدموں سے آیا تھا ان ہی سے واپس پلٹ گیا۔


اس کے جانے تک وہ اس کی پشت تکتی رہی۔

پھر خود بھی وہاں سے نکلنے لگی تھی جب رول کیا ہوا کاغذ اچانک اس کے پاؤں میں آ گیا۔


چونک کر اس نے نیچے دیکھا۔

پھر کاغذ ہاتھ میں لے کر اسے کھول کر سامنے کیا۔


"شام ساڑھے سات بجے سوشل سائنس ڈپارٹمنٹ کی لائبریری میں مجھ سے آ کر ملو۔ ضروری کام ہے"۔ تحریر پڑھ کر اس نے لب بھینچ لیئے۔


پھر نگاہیں اٹھا کر سامنے دیکھا جہاں سے ابھی وہ گیا تھا۔


"کیا یہ انہوں نے لکھا ہوگا؟ پر وہ تو یہی کھڑے تھے سامنے سے بھی تو کہہ سکتے تھے"۔ وہ کشمکش میں پڑ گئی۔


"چلو پتہ چل ہی جائے گا کے کس نے بھیجا ہے"۔ کاغذ طے کر کے اس نے بیگ میں رکھ دیا اور اب اس کا رخ یونی کی سینٹرل لائبریری کی جانب تھا۔

فلحال اسے اپنا ریسرچ ٹاپک فائنل کرنا تھا۔

☆☆☆☆☆


فکس ساڑھے سات بجے وہ لائبریری پہنچ گئی۔

ارد گرد نگاہیں دوڑائی۔

وہ مکمل طور پر خالی تھی۔


"لگتا ہے کسی نے میرے ساتھ مذاق کیا ہے"۔ اسے شدید غصہ آیا۔

پیر پٹخ کر وہ واپس جانے کو مڑی جب اچانک ہی دروازہ بند ہو گیا۔


"یہ دروازہ کس نے بند کیا ہے؟ کون ہے وہاں؟"۔ وہ دروازے کے پاس آ کھڑی ہوئی اور غصے سے آوازیں دینے لگی۔


تبھی اچانک لائٹس بھی بند ہو گئیں۔


اس اچانک افتاد پر الوینا کے جسم میں سنسنی دوڑ گئی۔

کچھ تو تھا جو غلط تھا۔


اور یہ اسے اگلے دو سیکنڈز میں ہی پتہ چل گیا۔

جب سیٹی پر کوئی شوخ دھن بجاتا ہوا اسے اپنے قریب آتا محسوس ہوا۔


الوینا کو گویا سانپ سونگھ گیا۔

اس نے سانسیں بھی روک لیں تھی۔


اپنے شانے پر لمس محسوس کرتے ہی وہ جھٹکے سے مڑی تھی اور اگلے ہی پل جیسے لائبریری کی چھت اس کے سر پر آ گری تھی۔


ہر طرف گھور اندھیرا۔۔۔

لائیٹر کی زرد روشنی میں جو چہرہ وہ دیکھ رہی تھی وہ کم از کم اس کیلئے مددگار تو ہرگز نہیں تھا۔


"پہچانا مجھے؟"۔ خباثت سے مسکراتا ہوا وہ اس کا زرد خوفزدہ چہرہ دیکھ کر لطف اندوز ہو رہا تھا۔


"وقاص۔۔۔تت۔۔۔تم؟"۔ ایک جھٹکے سے وہ مڑی اور اس سے قبل کے دروازہ کھٹکھٹا کر وہ کسی کو متوجہ کرتی۔

وقاص نے سرعت سے آگے بڑھ کر اس کا بازو دبوچ لیا۔


"چھوڑو مجھے"۔ وہ اپنا بازو اس سے چھڑوانے میں ہلکان ہو رہی تھی۔


"تمہاری وجہ سے اس دن سر سعود نے پوری یونی کے سامنے میری بے عزتی کی"۔ الٹے ہاتھ کا تماچہ اس نے الوینا کے رخسار پر جڑ دیا۔

اور اس کے گلے سے اسکارف نوچ پھینکا۔

جس سے اس کی گردن چھل گئی۔

اگلے ہی پر وہ لہرا کر زمین پر گر گئی۔


"اب تمہارا تماشا بنے گا اور صرف یونی نہیں بلکہ پوری دنیا دیکھے گی"۔ خباثت سے ہنستا ہوا وہ اس کی طرف بڑھا تھا۔

اس کے چہرے پر شیطانیت طاری تھی۔


شاک و صدمے سے الوینا کی نگاہیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں تھی۔

اس پل اسے شدت سے خدا یاد آیا تھا۔

اور گڑگڑا کر وہ اسے مدد کیلئے پکارنے لگی تھی۔

الوینا کی آنکھوں میں خوف واضح تیر رہا تھا۔

اس کے ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑ گئے تھے۔

خود میں اتنی طاقت بھی نہیں پا رہی تھی وہ اس وقت کے شور شرابہ کرتی یا پھر کوئی جوابی حملہ ہی کرتی۔


وہ تو بس خوفزدہ ہرنی کی مانند وقاص کو پل پل اپنی طرف بڑھتے دیکھ رہی تھی۔

اور فرش پر کہنی کے بل اس سے دور سرکتی جا رہی تھی۔


خاموش لائبریری میں الوینا کی سسکیاں گونجتی تو گویا طوفان برپا ہو جاتا۔


اگلے ہی پل وہ اس پر جھپٹنے کو آگے بڑھا۔

الوینا کی دل خراش چیخ نے در و دیوار تک ہلا دیئے۔


تبھی اچانک دروازے پر شور سا ہونے لگا۔


وقاص نے جھپٹ کر سختی سے الوینا کا منہ ہاتھ سے دبا کر اس کی چیخ کا گلا گھونٹا۔


بند دروازے کے سامنے سے کسی خاتون پروفیسر کی غصے بھری آواز سنائی دے رہی تھی۔

جو یقینا لائبریری کے باہر دروازے پر پہرا دیتے وقاص کے دوست کی ٹھیک ٹھاک کلاس لے رہی تھیں۔


"اس سے قبل کے میں پرنسپل صاحب کو یہاں بلواؤں، فوری طور پر ہٹو میرے سامنے سے اور کھولو یہ دروازہ"۔ انہوں نے تحکم بھرے لہجے میں کہا۔


وہ لڑکا دروازے کے سامنے سے فورا ہٹ گیا۔


پروفیسر آگے بڑھیں اور دروازے کی کنڈی کھولنے لگیں۔

جبکہ موقع غنیمت جان کر لڑکا وہاں سے بھاگ نکلا۔


اور جیسے ہی دروازہ کھلا ان کی آنکھیں نیم اندھیرے میں فرش پر گرے اس وجود پر جا ٹھہریں۔


اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر وقاص چپکے سے وہاں سے کھسک گیا۔


"کون ہے وہاں؟ اور یہ اتنا اندھیرا کیوں کر رکھا ہے؟"۔ کرخت لہجے میں کہتے ہوئے آگے بڑھ کر انہوں نے فورا لائٹس آن کر دیں۔


جوں ہی لائبریری روشن ہوئی، فرش پر اکڑوں بیٹھی الوینا کا ٹوٹا بکھرا حلیہ دیکھتے ہی انہوں نے دہل کر سینے پر ہاتھ رکھ لیا۔


"یا اللہ خیر۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے یہاں؟ الوینا بچے تم ٹھیک تو ہو نا گڑیا؟"۔ وہ دوڑ کر اس تک آئیں اور پنجوں کے بل زمین پر اس کے سامنے بیٹھیں وہ تفکر سے اس کا حلیہ ملاحظہ کر رہی تھیں۔


روئی روئی سی آنکھیں، رخسار اور منہ پر چھپی انگلیوں کے نشان، چھلی ہوئی گردن اور دوپٹہ ندارد۔


انہیں شدت سے کسی انہونی کا احساس ستانے لگا۔


"الوینا بتاؤ میری بچی یہ سب کس نے کیا تمہارے ساتھ؟ کچھ تو بولو بیٹا؟"۔ انہوں نے پریشانی کے عالم میں اسے جھنجھوڑا۔


تو الوینا اپنے حواسوں میں لوٹی اور ڈبڈبائی آنکھوں سے ان کی جانب دیکھا۔


"ہاں بتاؤ مجھے کیا ہوا ہے؟"۔ انہوں نے ہمت بندھائی۔


"وہ۔۔۔وقاص نے۔۔۔د۔۔۔دھوکے سے مجھے یہاں بلایا"۔ اور پھر جیسے جیسے وہ انہیں سب بتاتی گئی ان کا دل پوری جان سے لرز گیا۔


الوینا شدت سے رو دی۔


"صد شکر کے میں یہاں وقت رہتے آ گئی۔ ورنہ خدا جانے کیا ہو جاتا"۔ انہوں نے بے اختیار پرسکون سانس لی۔


پھر الوینا کو خود سے لگا لیا۔


"تم بالکل فکر مت کرو۔ چلو میرے ساتھ پرنسپل کے آفس، ہم انہیں ابھی اس سب سے آگاہ کرتے ہیں۔ وہ اس لڑکے کے خلاف اسٹینڈ ضرور لیں گے"۔ پروفیسر شبانہ پریقین تھیں۔


"چلو شاباش اب آنسو پونچھ لو۔ اور کھڑی ہو جاؤ چلو"۔ اسے پچکارتے ہوئے انہوں نے اسکارف لے کر اس کے وجود کے گرد پھیلا دیا اور ہمت بندھا کر اب اسے اپنے ساتھ لیئے پرنسپل صاحب کے آفس جانے لگیں۔


تھوڑی ہی دیر بعد وہ دونوں پرنسپل کے آفس میں موجود تھے۔

انہوں نے تمام واقعہ پروفیسر شبانہ کی زبانی سنا اور پھر انہیں اشارے سے باہر جانے کو کہا۔ جسے سمجھ کر وہ باہر جانے ہی لگیں تھی جب الوینا جو ابھی تک بہت خوفزدہ تھی اس نے انہیں روک دیا۔


انہوں نے اسے تسلی دی۔ جس پر وہ کچھ مطمئن نظر آنے لگی۔

اس کے سر پر دست شفقت پھیر کر وہ آفس سے باہر چلی گئیں۔


پیچھے اب ادھیڑ عمر پرنسپل کے ساتھ وہ تنہا رہ گئی۔


کچھ دیر کی گمبھیر خاموشی کے بعد ان کی بھاری آواز گونجی۔

"دیکھو بیٹا، مانتا ہوں آپ کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ ہرگز بھی درست نہیں تھا۔ لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کے آپ بہت بہادر ہیں، جلد ہی اس حادثے کے اثر سے باہر بھی نکل آئیں گی"۔ تسلی آمیز لہجے میں کہتے ہوئے وہ اسے سمجھا رہے تھے۔


الوینا سر جھکائے چپ چاپ انہیں سننے کا فریضہ انجام دے رہی تھی۔


"دیکھو میری بچی، یہ دنیا بہت ظالم ہے۔ ایسے معاملات میں لاکھ مرد قصوروار ہو لیکن گناہگار ایک عورت کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے۔ اور یہ بات ایک مرد ہونے کی حیثیت سے میں خود بھی مانتا ہوں اور اس کی مزمت کرتا ہوں۔ لیکن تم تو سمجھدار ہو نا بچے، اچھی طرح سمجھ سکتی ہو کے ایک عورت کی عزت کانچ کی طرح ہوتی ہے۔ ایک بار ٹوٹ جائے تو جڑنے کا امکان نہیں رہتا اور اگر جوڑ بھی دیا جائے تو باقی نشانات تو رہ ہی جاتے ہیں۔

وقاص کے خلاف ایک بار تم نے اسٹینڈ لیا تو اس نے تمہارے ساتھ یہ کیا۔ خدا نخواستہ کل کو کچھ اور دیکھنا پڑے تمہیں، تو تمہارا اس معاشرے میں جینا مشکل ہو جائے گا بیٹا"۔ وہ اچھی طرح سمجھ رہی تھی کے وہ اسے کیا سمجھانا چاہ رہے تھے۔


وہ وقاص کے گناہ کو چھپانے کی تلقین کر رہے تھے۔

الوینا کے اندر ابال سا اٹھا۔

پر اس کے حال کی جانے بغیر وہ مزید کہہ رہے تھے۔


"تمہارے تو آگے پیچھے بھی کوئی نہیں ہے بیٹا، جو تمہیں حفاظت فراہم کرے، تمہاری پشت پناہی کر سکے۔

میں یہ نہیں کہتا کے وقاص غلط نہیں ہے۔ مجھے علم ہے اس کی حرکتوں کا۔

اس کا باپ اس یونیورسٹی کا وائس چانسلر ہے۔ چاچا یہاں کے ٹرسٹیز میں سے ہے۔ اس کی بیک بہت مضبوط ہے بیٹا۔ میں چاہ کر بھی اس کے خلاف کچھ نہیں کر سکتا۔

لیکن ہاں اتنا یقین دلاتا ہوں کے تمہیں پھر کبھی اس کی طرف سے ایسے حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ میں سمجھاؤں گا اسے"۔ دوسرے لفظوں میں انہوں نے اس کے خلاف کوئی بھی ایکشن لینے سے معذوری ظاہر کر دی تھی۔


اتنے عرصے میں پہلی بار الوینا نے نگاہیں اٹھا کر براہ راست ان کی آنکھوں میں دیکھا۔

اس کی نگاہوں میں جانے کیا کچھ تھا جو پرنسپل صاحب کو اونچے عہدے اور بزرگ ہونے کے باوجود بھی نگاہیں جھکانے پر مجبور کر گیا۔


"آج تک میں نے آپ کا بہت احترام کیا سر۔ آپ کو عزت دی کیونکہ آپ اس کے مستحق تھے۔ اس یونیورسٹی میں پڑھنے والے اسٹوڈنٹس کو آپ نے ہمیشہ اپنے بچوں کی طرح سمجھا۔ اور ہم نے بھی آپ کو اپنے روحانی باپ کے درجے پر فائز کیا۔

لیکن سر، باپ کی نظر میں تو ساری اولادیں ایک برابر ہوتی ہیں نا؟"۔ اس کی آواز رندھ گئی۔


پرنسپل صاحب سر اٹھانے کے قابل بھی نہ رہے۔


"کون سا باپ اپنی اولادوں میں اتنا فرق رکھتا ہے پرنسپل سر؟۔

ایک کو کمتر اور دوسرے کو بہتر سمجھنے کی اجازت آپ کو اپنی یہ کرسی نہیں دیتی ہے"۔ اس کا لہجہ ہموار تھا۔

الفاظ بھی معمولی تھے۔

اس نے کوئی طنز نہیں کیا تھا۔ اس نے تمسخر نہیں اڑایا تھا ان کا۔ مگر وہ جو اس لہجے کی سادگی تھی نا اس نے اس بزرگ شخص کو اونچی کرسی پر بیٹھنے کے وجود پاتال میں اتار دیا تھا۔


"لیکن پھر بھی، آپ فکر مت کیجئے۔ میری وجہ سے آپ کا نام اور یونیورسٹی کی ساکھ ہرگز بھی مجروح نہیں ہوگی۔ اللہ نے جب میری پکار سن کر میری مدد فرمائی تو میرا یقین اس کی پاک ذات پر اور بھی کامل ہو گیا۔ اور اب میں اپنا یہ معاملہ بھی اسی کے سپرد کرتی ہوں۔

اس کے انصاف کے سامنے زمینی مخلوق کی ویسے بھی کیا حیثیت؟ میں اس کی انصاف کی منتظر رہوں گی۔ اور اس کی مخلوق سے اب کوئی توقع نہیں رکھوں گی۔ بقول آپ کے میرے آگے پیچھے تو کوئی نہیں ہے۔ تو جس کا کوئی نہیں ہوتا اس کا رب ہوتا ہے"۔


الوینا مضبوطی کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی۔

اب اس کے انداز میں نہ ڈر تھا۔ اور نہ اس کی آنکھوں میں کوئی خوف۔

بھلا ایسے کھوکھلے انسان کے سامنے وہ خود کو کیوں کمتر سمجھ کر خوفزدہ ہوتی جس کی کرسی کے پاؤں اس کے اپنے تھے ہی نہیں۔


"لیکن ایک گزارش ضرور کرنا چاہوں گی سر"۔ اس کے لہجے میں عاجزی تھی۔

پرنسپل نے پہلی بار سر اٹھایا۔


"آئیندہ یونیورسٹی کے ایڈمشن فارم میں آپ سب سے ٹاپ پر یہ ہدایت ضرور لکھوا دیجئے گا کے یہ یونیورسٹی صرف برتر لوگوں کیلئے ہے، جو بھی کمتر لوگ ہیں وہ اپنی ذمہ داری پر ہی یہاں ایڈمشن لیں"۔ الفاظ کی مار مارتی ہوئی ایک نگاہ غلط بھی مزید ان پر نہ ڈالی۔

اور تن فن کرتی وہاں سے نکل گئی۔


پیچھے وہ سر جھکائے اب بھی ان الفاظوں کی بازگشت کو سنتے رہے تھے۔


(وہ دروازے کے باہر ہی موجود تھا۔ اسے دروازے کی جانب آتے دیکھ کر فورا وہاں سے ہٹ گیا)۔

☆☆☆☆☆


"السلام و علیکم"۔ دروازے پر ہلکی سی دستک کے بعد اس نے کہا۔


آواز پر انہوں نے کتاب میں سے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا۔


"وعلیکم السلام، آ گئے تم۔ ارے بھئی اجازت کیوں لے رہے ہو اندر آ جاؤ"۔ مختار صاحب نے مسکرا کر کتاب بند کر کے ایک طرف رکھتے ہوئے کہا۔


جبکہ اپنے یونیفارم کے برعکس وہ آف وہائٹ شرٹ اور نیلی جینز میں تھا۔


ان کی اثبات پر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ہی مختار صاحب کی سامنے والی نشست پر بیٹھ گیا۔


"میں نے سوچا کیا پتہ شاید اس وقت آپ نے ایک ڈی-آئی-جی کی حیثیت سے مجھے طلب کیا ہو۔ بس اس لیئے اجازت لینا ضروری لگا"۔ وہ وضاحت دینے لگا۔


مختار صاحب نے دلچسپی سے اس کا انداز دیکھا۔

اسے دیکھ کر انہیں لگتا تھا جیسے وہ آئینہ دیکھ رہے ہوں۔


"برخوردار، ایک ڈی-آئی-جی کے علاوہ میں آپ کی اکلوتی خالہ کا شوہر یعنی آپ کا خالو بھی ہوں۔ بچپن سے اپنی گود میں کھلایا ہے تمہیں، فائزہ اور میں نے۔ اب تمہیں اپنے پاس بنا کسی آفیشل کام کے بلانے کا اتنا سا حق تو رکھتے ہیں ہم"۔ انہوں نے خوش دلی سے کہا۔


"تو پھر بتائیے کیا کام تھا آپ کو؟ ویسے آپ کے چہرے اور آنکھوں کی چمک بتا رہی ہے کے بات بہت خاص ہے۔ کہیں کوئی خزانہ ہاتھ آ گیا ہے کیا؟"۔ اس نے شرارتی لہجے میں پوچھا۔


وہ دونوں ہی آف ڈیوٹی میں بہترین ساتھی بن جایا کرتے تھے۔


بہت سالوں بعد آج ان کی آنکھوں میں چمک دیکھ رہا تھا وہ۔

چونکنا تو پھر فطری بات تھی۔


"خزانہ ہی سمجھو عالم۔ بلکہ بہت بڑا خزانہ جو کے شاید فائزہ اور میرے عزیزوں کی دعاؤں کا ثمر ہے۔ اب بس ضرورت ہے تو اس تک پہنچنے کی۔ جہاں اتنے سال اسے تلاش کیا، اتنا انتظار کیا۔ وہاں ایک پل اور انتظار صدیوں پر محیط لگ رہا ہے"۔ وہ جہاں خوش تھے وہی زرا سے دکھی بھی ہو گئے۔


"آپ کس کی بات کر رہے ہیں؟ مجھے بتائیے وہ کیا ہے یا کون ہے جس کی آپ کو تلاش ہے اور جس کا انتظار اتنے برسوں سے ہے آپ کو اور خالہ کو؟ کیا پتہ شاید میں کسی کام آ سکوں"۔ اس کی پریشانی بھی بڑھنے لگی تھی۔ ایسا بھی کیا تھا جو انہوں نے اس سے بھی چھپا رکھا تھا۔

وہ جس سے مختار صاحب اپنی اولاد کی طرح پیار کرتے تھے۔


"اسی لیئے تو تمہیں بلایا ہے عالم۔ تم ہی مدد کر سکتے ہو میری"۔ وہ بہت آس سے اس کی جانب دیکھ رہے تھے۔


"آپ بس حکم کریں۔ میں ہر ممکن کوشش کروں گا"۔ اس نے پورے یقین سے کہا۔

جس پر مختار صاحب نے پرسکون سانس فضاء کے سپرد کی۔

پھر ماضی کی کتاب پر سے گرد ہٹاتے گئے۔


جیسے جیسے وہ سنتا گیا۔ اس کی حیرانی بھی ساتھ ساتھ بڑھتی گئی۔

مختار صاحب جیسے ہی خاموش ہوئے وہ بول پڑا۔


"دیٹس آ گریٹ نیوز۔ اور میں آپ سے بہت ناراض ہوں آپ نے مجھے پہلے ہی بتا دیا ہوتا تو اب تک میں اسے کہیں سے بھی ڈھونڈ لاتا آپ کیلئے۔ اچھا ویسے آپ نے خالہ کو اس کے بارے میں بتایا؟"۔ وہ ایک دم پرجوش نظر آنے لگا۔


"نہیں۔ فائزہ کو ابھی کچھ نہیں بتایا ہے۔ پتہ نہیں وہ کہاں ہے، کیسی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ سوال کے عائشہ نے اسے میرے بارے میں کیا بتایا ہوگا؟ پتہ نہیں وہ دونوں کہاں ہوں گی۔ اور اس بار بھی مجھے ایکسیپٹ کریں گی یا نہیں۔ ایسے بہت سارے سوال ہیں۔

میں نہیں چاہتا کے فائزہ کو کوئی جھوٹی امید دوں ابھی۔ جو بر نہ آئی تو وہ ٹوٹ جائے۔ ان دونوں کے ملنے تک فائزہ سے کوئی ذکر مت کرنا اس سب کا"۔ انہوں نے اپنے خیالات بلکہ خدشات بیان کیئے۔


جنہیں سن کر وہ بھی سوچ میں پڑ گیا۔


"کیا نہیں بتانا ہے مجھے؟ کیا ڈسکشن چل رہی ہے دونوں میں؟"۔ عین اسی وقت فائزہ چائے کی ٹرے تھامے کمرے میں داخل ہوئیں۔


وہ دونوں ان کی آواز پر چونک گئے۔

مگر پھر فورا خود کو سنبھال لیا۔

صد شکر انہوں نے پوری بات نہیں سنی تھی۔


"کچھ نہیں بس وہ ایک کیس کے بارے میں ڈسکشن ہو رہی تھی۔ اس کے سلسلے میں ایک ہفتے کیلئے مجھے اور عالم کو آؤٹ آف سٹی جانا ہے۔ تمہیں پہلے ہی بتا کر پریشان نہیں کرنا چاہتے تھے۔ لیکن تم نے تو سن بھی لیا"۔ مختار صاحب نے چائے کا کپ ان سے تھامتے ہوئے بات گول مول کردی۔

فائزہ ان کی بات پر مسکرا دی۔


"مانا کے میں ایک عورت ہوں، نازک دل ہونے کی وجہ سے جلدی پریشان ہو جاتی ہوں۔ لیکن اس کے علاوہ میں ایک وکیل بھی تو ہوں۔ لہٰذا مجھے آپ کے کام کی نوعیت بھی پتہ ہے۔ اس لیے میں اپنے من کو سمجھا سکتی ہوں۔ آپ بے فکر رہیے میری طرف سے۔ اور خیریت سے جائیے"۔ انہوں نے مطمئن لہجے میں کہتے ہوئے ان کی پریشانی بھی زائل کر دی۔


"دیکھو عالم، کتنی سمجھدار ہیں آپ کی خالہ۔ میں تو دعا کرتا ہوں تمہیں بھی ایسی ہی سمجھدار جیون ساتھی ملے"۔ مختار صاحب نے اس کے بال بکھیرتے ہوئے کہا۔

فائزہ نے بھی ان کی بات پر مسکراتے ہوئے آمین کہا۔


"پھر تو مجھے بھی کوئی وکیل ڈھونڈنی پڑے گی خالہ جان کی طرح کی۔ اور اللہ تعالٰی نے تو ان کے جیسی ایک ہی پیس بنائی ہے نا۔ پھر تو ملنا تھوڑا مشکل ہے"۔ گال پر انگلی سے دستک دیتے ہوئے وہ مایوسی بھرے لہجے میں کہنے لگا۔

جبکہ آنکھیں ہنوز شرارت پر آمادہ تھیں۔


"کیا کہا تم نے۔ ہاں؟ شوخی وہ بھی میرے ساتھ۔ بدمعاش لڑکے"۔ اس کی بات سن کر فائزہ نے اس کے کان مروڑے۔


جس پر وہ بلبلا اٹھا۔

"ارے بچے کے کان تو چھوڑ دو خالہ۔ غلطی ہو گئی میری توبہ جو آپ سے پنگا لوں اب"۔ اس نے فورا ہار مان لی۔

جس پر فائزہ نے اس کے کانوں پر گرفت ڈھیلی کر دی۔


مختار صاحب ان کی حرکتیں دیکھ کر مسکرائے گئے۔


"کہاں ہوگی میری بچی۔ کاش وہ بھی یہاں ہوتی اس پل"۔ دل ہی دل میں وہ سوچ کر رہ گئے۔


جانے وہ انہیں ایکسیپٹ کرتی بھی یا نہیں؟

جانے اب اور کتنی آزمائشیں باقی تھیں ان کی۔

☆☆☆☆☆


نشے میں دھت وہ چاروں رات گئے نائٹ کلب سے نکلے۔

اور گرتے پڑتے گاڑی میں سوار ہوئے۔


"اے وقاص۔۔۔تو ڈرائیو مت کر یار۔ ورنہ ہم گھر کے بجائے قبرستان پہنچ جائیں گے"۔ اس کے دوست فیضان نے کہا۔

اس پر باقی تینوں کے برعکس نشے کا اثر اتنا نہیں تھا۔


جبکہ اس کی بات پر باقی سب بے ہنگم قہقہے لگانے لگے۔


"اچھا۔۔۔چل یہ لے۔۔۔تو گاڑی۔۔۔چلا"۔ ٹوٹے پھوٹے لہجے میں کہتے ہوئے اس نے چابی فیضان کی جانب بڑھائی۔


باقی سب بھی گاڑی میں سوار ہو گئے۔

وقاص فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا۔


گاڑی میں راک میوزک فل والیوم میں بج رہا تھا۔

سارے لڑکے نشے میں جھوم رہے تھے۔


"اے یار۔۔۔۔میں آج۔۔۔بہت بہت۔۔۔خوش ہوں"۔ وقاص نے قدرے اونچی آواز میں سب کو اطلاع دی۔


"ہاں۔۔۔اتنی چڑھنے کے بعد تو سب خوش ہی ہوتے ہیں"۔ فیضان نے کہا تو ایک بار پھر سب کے کورس میں قہقہے لگے۔


"نہیں۔۔۔تجھے پتہ ہے۔۔۔وہ لڑکی۔۔۔اس کو میں نے۔۔۔سبق سکھایا آج"۔ اتنا کہہ کر وہ اپنی بات پر خود ہی قہقہے لگانے لگا۔


"کون لڑکی۔۔۔کیا کیا اس نے؟"۔ فیضان الرٹ ہو گیا۔


"ارے یہ۔۔۔پھینکتا ہے خالی۔ کھایا پیا کچھ نہیں۔۔۔گلاس توڑا بارہ آنا"۔ اس کے ایک کلاس فیلو دوست نے تمسخر اڑایا۔


"ایسا کیا۔۔۔ارے یہ تو بچہ ہے۔ تو ہمیں ہی بلوا لیتا"۔ فیضان نے آنکھ دبائی۔


باقی سب کے برعکس وہ کافی میچور اور چالباز تھا۔ وہ ایک سڑک چھاپ اور آوارہ لڑکا تھا۔ جو اکثر چھوٹی موٹی چوری اور ڈاکے کے کیس میں جیل کی ہوا بھی کھا چکا تھا۔

مگر سدھرنے کے بجائے ہر بار بگڑ کر ہی باہر نکلا۔


"ابے۔۔۔وہ تو۔۔۔عین وقت پہ وہ۔۔۔ٹیچر آ گئی۔۔۔ورنہ اس لڑکی کا تو میں۔۔۔" اس کی بات مکمل بھی نہ ہونے پائی تھی۔


وجہ گاڑی کے ٹائر پکی سڑک پر زور سے چرچرائے تھے اور وہ ایک جھٹکے سے رکی تھی۔


"ارے۔۔۔کیا ہوا فیضی"۔ پچھلی نشست پہ بیٹھے لڑکے نے غصے سے پوچھا۔

سارا نشہ اڑنچھو ہو گیا تھا۔


"ابے (گالی) کون ہے سامنے۔ مرنا ہے کیا"۔ بکتے جھکتے وہ مسلسل ہارن دے رہا تھا۔

مگر وہ تھا سڑک کے بیچ و بیچ ہنوز کھڑا تھا۔


گاڑی کے سامنے ہی وہ سرمئی آنکھوں والا سیاہ نقاب پوش پورے قد سے کھڑا ان کی راہ میں رکاوٹ بن گیا تھا۔


آس پاس سڑک بھی ویران اور سنسان پڑی تھی۔


"گاڑی کیوں نہیں چلا رہا (گالی)"۔ وقاص بپھر گیا۔


"ارے کیسے چلاؤں۔ وہ سامنے دیکھ نا ہٹتا ہی نہیں ہے"۔ فیضان نے ہارن دیتے ہوئے اسٹیئرنگ پر مکا جڑ دیا۔


"ابے اے (گالی) تجھے مرنا ہے تو گھر جا کر پنکھے سے لٹک نا۔ میری گاڑی کے سامنے کیوں مرنے چلا آیا"۔ گاڑی کی کھڑکی سے باہر نکل کر وقاص چیخا۔


تب وہ رولر اسکیٹس پر موجود یک دم ہی فاصلہ پانٹ کر اس کے سر پر آن پہنچا۔


"موت کا فرشتہ جان لینے آتا ہے۔ دینے نہیں"۔ نفرت سے پھنکار کر کہتے ہوئےاگلے ہی پل اس نے وقاص کی گردن دبوچ لی۔

باقی سارے لڑکوں کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔


اس نے گاڑی کی کھڑکی میں سے ہی وقاص کو باہر کھینچ لیا۔

اس پر گرفت کسے اب وہ باقی تینوں کی طرف متوجہ ہوا۔


"اگر جینا چاہتے ہو تو فورا یہاں سے نکلو۔ ورنہ تمہارا حشر بھی بہت برا ہوگا"۔ اس کی آواز میں اتنی سختی اور قطعیت تھی کے فیضان نے اگلے ہی پل گاڑی اسٹارٹ کی اور زن سے بھگا لے گیا۔


اب وہ اس کی جانب متوجہ ہوا۔

"تمہارے دوست تو گئے۔ اب تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟"۔ تمسخرانہ انداز میں کہتے ہوئے اس کی بے بسی کا مذاق اڑایا۔


"میری۔۔۔غلطی تو۔۔۔بتا دو"۔ بڑی دقت سے اس نے جملہ مکمل کیا۔

کیونکہ مقابل کی گرفت پھندے کی طرح اس کے گلے کے گرد موجود اس کی جان لینے کے درپے تھی۔


"گناہوں کی فہرست کافی لمبی ہے تمہاری۔ آج کے دن کا حساب کیا جائے تو۔۔۔تمہاری پہلی غلطی کے تم نے اس پر بری نگاہ ڈالی، دوسری غلطی کے تم نے اسے دھوکے سے وہاں بلوایا، تمہاری تیسری غلطی کے تم نے اسے چھوا۔ اور چھوا تو چھوا، تم نے اس پر ہاتھ کیسے اٹھایا؟ ہوں؟"۔ سرد لہجے میں غراتے ہوئے اس کی سرمئی آنکھوں سے خون چھلکنے کو تھا۔


اس کے سرد لہجے کی وجہ سے وقاص کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑ گئی۔

وہ سمجھ چکا تھا کے وہ کس بارے میں بات کر رہا ہے۔

سارا نشہ تو اپنے گلے کے گرد اس کی سخت گرفت محسوس کرتے ہی اڑنچھو ہو گیا تھا۔


"نن۔۔۔نہیں پلیز۔۔۔مجھے۔۔۔چھوڑ دو۔۔۔میں۔۔۔معافی مانگتا ہوں"۔ اس نے ہاتھ جوڑتے ہوئے التجا کی۔


"معافی ملے گی۔ ضرور ملے گی، لیکن سزا ملنے کے بعد۔ آفٹرآل اپنے مقصد میں تم پوری طرح تھوڑی کامیاب ہوئے ہو۔ اس لیے معافی تو ملنی ہی چاہیے"۔ اس نے دوسرے گلوز والے ہاتھ میں چمچماتا ہوا خنجر سامنے کیا۔

جسے دیکھ کر وقاص کی آنکھیں باہر کو ابل آئیں۔

اسے لگا آج یہ اس کی آخری رات ہے۔


پل پل اپنی طرف بڑھتے موت کے قدموں کی آہٹ وہ سن رہا تھا۔

اور مرنے سے زیادہ، موت کا احساس جان لیوا تھا۔

☆☆☆☆☆

کیفیٹیریا میں وہ سب سے الگ تھلگ بیٹھی اپنی ہی سوچوں میں گم تھی۔

وہ چہرہ جو ہر دم ہنستا مسکراتا رہتا تھا۔ آج بالکل مرجھائے ہوئے پھول کی مانند لگ رہا تھا۔


آنکھوں میں وحشت اور خوف نے ہمہ وقت کیلئے ڈیرا ڈال لیا تھا۔


کل کے واقعے کا اسے بہت گہرا صدمہ پہنچا تھا۔

اور آج بہت دنوں بعد اسے اپنی ماں شدت سے یاد آ رہی تھی۔

جس نے اپنی آخری سانس تک اسے زندگی کی ہر آزمائش اور کڑی دھوپ سے بچا کر رکھا تھا۔


آج جب وہ اس کے ساتھ نہیں تھی، تو کیسے یہ بے رحم دنیا اسے ہر طرف سے نوچ کھانے کو تیار بیٹھی تھی۔


اگر اس کا بھی باپ ہوتا تو وہ ان کو نخرے دکھاتی، ان سے اپنی خواہشات منواتی۔

اگر اس کی ماں آج ہوتی تو وہ ہر سرد و گرم سے بچانے کیلئے اسے اپنے آنچل میں ڈھانپ لیتی۔

اگر اس کا کوئی بھائی ہوتا تو وہ اپنی بہن کی طرف اٹھنے والی بری نگاہوں کو نوچ پھینکتا۔


اگر یہ سکھ دکھ بانٹنے والے رشتے اسکے پاس ہوتے تو اس کی زندگی بھی سہل اور خوشیوں بھری ہوتی۔


لیکن اس کی زندگی تو بس اگر اور کاش بن کر ہی رہ گئی تھی۔


اس نے اپنے ارد گرد ان بے فکر چہروں کو خوشی سے جھومتے اور ہنستے کھیلتے دیکھا۔

ان سب میں کسی حد تک اب بھی الہڑ پن موجود تھا۔


مگر اپنی ذمہ داریاں اٹھاتے اور سب کچھ تنہا سہتے ہوئے الوینا تحسین کا تجربہ اپنی عمر سے زیادہ ہی ہو گیا تھا۔


ان سب بے فکر اور آزاد چہروں کے درمیان اسے اپنا آپ ایکسٹرا لگنے لگا تھا۔


اگر ایک وہی نہ ہوتی تو کون سا کسی کو فرق پڑ جانا تھا؟

دنیا تب بھی ویسے ہی چل رہی ہوتی۔

الوینا تحسین اگر کسی کی زندگی سے مائنس ہو جاتی تو کون تھا جسے اس کے نا ہونے کا قلق ہوتا؟

جو اس کے نا ہونے کا ماتم کرتا؟


"تم یہاں اکیلی کیوں بیٹھی ہو؟"۔ احمد نے اچانک اسے مخاطب کیا۔

جس پر الوینا بری طرح چونک گئی۔


"ہوں۔ کچھ نہیں بس زندگی کے تلخ حقائق کو قبول کرنے کی کوشش کر رہی ہوں"۔ دھیمے لہجے میں کہتے ہوئے وہ سوگواریت سے مسکرا دی۔


"وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن یہ تمہارے چہرے پر نشان کیسے؟"۔ احمد نے نوٹس کیا تو چونکا۔


"کک۔۔۔کچھ نہیں۔ بس وہ پاؤں سلپ ہو گیا تھا تو تھوڑا لگ گیا"۔ غیر محسوس طریقے سے اس نے بالوں کی چند لٹیں رخسار پر گرا دیں۔


احمد نے بغور اسے دیکھا۔


"غزل کی یاد آ رہی ہے کیا؟" اسے بتانے پر آمادہ نہ دیکھ کر احمد نے بھی فورس کرنا ٹھیک نہیں سمجھا۔

لہٰذا بات بدل دی۔


"اسے بھولوں گی تو یاد آئے گی نا۔ میرے لیئے اس جیسی دوست کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ ہاں وہ بس تھوڑی پاگل ہے۔ لیکن دل کی بہت اچھی اور صاف ہے"۔ الوینا نے تہہ دل سے کہا۔


"اوہووو۔۔۔سچ اگر وہ آج یہاں ہوتی نا تو تمہارے منہ سے اپنی تعریفوں کے قصیدے سن کر خوشی کے مارے خودکشی کر لیتی"۔ احمد بھی کم وقت میں ان دونوں کی دوستی سے واقف ہو گیا تھا۔

اسی لیئے ہلکے پھلکے انداز میں بولا۔


الوینا اثبات پر پہلی بار کھل کر ہنسی۔


"اسی لیئے تو اس کے سامنے بہت کم تعریف کرتی ہوں۔ ورنہ اگر کچھ ایسا ہو گیا تو یار میری ایک ہی دوست ہے"۔

تھوڑی دیر پہلے تک چھائی ہوئی اداسی فضاء میں سے یک دم زائل ہو گئی تھی۔


"وہ گئی تو کیا ہوا۔ میں ہوں نا دوسرا دوست"۔ احمد نے فراخ دلی سے کہا۔


"ہوں۔ اچھا بیٹا آنے دو زرا غزل کو سب کچھ ڈیٹیل میں بتاؤں گی کے احمد کی تمہارے بارے میں یہ رائے ہے۔ اس کے سامنے تو تم بھیگی بلی بن جاتے ہو۔ اب دیکھو زرا کیسے بیچاری کی برائی کر رہے"۔ الوینا نے اسے دھمکانے کے ساتھ شرم بھی دلائی۔


"ارےے میں نے تو بس ایسے ہی تمہارا موڈ بحال کرنے کو کہا تھا یار۔ غزل کو مت بتانا پلیز اچھی دوست ہو نا میری"۔ وہ گھبرا کر منت کرنے لگا۔


"کیوں نہ بتاؤں۔ میں تو اس سے کچھ نہیں چھپا سکتی بھئی"۔ الوینا نے دونوں ہاتھ اٹھا کر صاف انکار کیا۔


"ایسا مت کرو یار، وہ اگر سنے گی تو میرا قیمہ بنا دے گی۔ ویسے بھی وہ منہ سے کم ہاتھوں سے زیادہ بولتی ہے"۔ احمد نے ہاتھ ہوا میں ہلاتے ہوئے غزل کی نقل اتاری۔


اور ایک بار پھر الوینا کو ہنسی کا نا ختم ہونے والا دورہ پڑا۔


خونی رشتے اللہ کی طرف سے ملنے والے تحفے ہوتے ہیں انسان کو۔ جسے تقدیر کی کاغذ پر محبت کے قلم سے لکھا جاتا ہے۔

مگر دوستی واحد ایسا رشتہ ہے جو انسان خود اپنی مرضی اور چوائس سے بناتا ہے۔

اس رشتے کا اچھا یا برا دونوں ہی انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔


یہ دوست اگر برے ہوں تو برباد کر دیتے ہیں۔ جیسے فیضان نے کیا۔

اور اگر اچھے ہوں تو زندگی سنوار دیتے ہیں۔ جیسے غزل نے کیا۔

☆☆☆☆☆


وہ کلاس کی طرف جا رہی تھی۔

جب غیر متوقع طور پر بالکل اچانک ہی وہ اس کے سامنے آ گیا۔

اس اچانک افتاد پر الوینا نے بمشکل ایک قدم مزید آگے بڑھانے سے خود کو روک لیا۔

رکتے رکتے بھی اس کا سر اپنے سامنے کھڑے اس شخص کے سینے سے ٹکرا گیا تھا۔

مانوس خوشبو محسوس کرتے ہی الوینا نے خجل سی ہو کر آنکھیں میچ لیں۔

قربت معنی خیز تھی۔

مقابل کھنکھارا۔

الوینا نے گھبرا کر ایک قدم پیچھے لے کر فاصلہ بڑھایا۔


پلکیں جیسے ہی کچھ پل کیلئے اس شخصیت کو دیکھنے کیلئے اٹھائیں تو آپ ہی آپ جھکتی چلی گئیں۔

زرا سی نگاہیں کیا اس سے ملیں دھڑکنوں نے طلاطم برپا کر دیا۔


گھبراہٹ کے مارے الوینا کا گلا سوکھ کر کانٹا ہو گیا۔


"دھیان سے مس تحسین۔ آپ کی جان بہت قیمتی ہے آس پاس موجود لوگوں کیلئے"۔ گمبھیر آواز اور اس پہ مصداق ذومعنی بات۔


الوینا نے جھٹکے سے سر اٹھا کر بے یقینی سے اس کی جانب دیکھا۔


ستم یہ کے اس کی نگاہیں بھی زبان کا ساتھ دے رہی تھیں۔

اور گماں یہ کے اس کی مسکراہٹ اس کی کہی گئی بات پر مہر ثبت کرتی محسوس ہو رہی تھی۔


الوینا کان کی لوؤں تک سرخ پڑ گئی۔


اس کیلئے وہاں مزید ٹھہرنا اور ان نگاہوں کیلئے تختہ مشق بننا امتحان بن گیا۔


"آئم سوری"۔ اس نے غائب دماغی سے کہا۔


نگاہوں کی اس جنگ سے ہار مان لی۔

اور پیٹھ دکھا کر وہاں سے بھاگ کھڑی ہوئی۔


اسے لگا اگر وہ کچھ پل اور اس شخص کی نگاہوں کے سامنے

ٹھہرتی تو یقینا پگھل جاتی۔


اس کے یوں بھاگ جانے پر وہ آپ ہی آپ ہنس دیا۔


"لڑکیاں"۔ خود کلامی کے سے انداز میں کہتے ہوئے شانے اچکا کر وہ آگے بڑھ گیا۔

☆☆☆☆☆


اس کی کلاس ابھی ابھی آف ہوئی تھی۔

وہ یونیورسٹی سے ہاسٹل جانے کیلئے نکل ہی رہی تھی جب اچانک ہی اس کا موبائل چنگھاڑا۔

وہ رک گئی۔


چونک کر موبائل اسکرین دیکھی۔

نمبر اجنبی تھا۔

اس کا ارادہ نظر انداز کرنے کا تھا۔

مگر مقابل کو بھی شاید اس کے ارادے کی بھنک ہو گئی تھی۔


اس لیئے پیغام لکھ بھیجا۔


"اتنا اجنبی بھی نہیں ہوں"۔


الوینا وہ جملہ پڑھ کر ٹھٹھکی۔

اتنے میں کال پھر سے آنے لگی۔


ذہن کے پردے پر اس ایک شخص کا چہرہ گھوم گیا۔

نا چاہتے ہوئے بھی انگلیوں میں جنبش ہوئی اور اس نے کال ریسیو کر لیا۔


"کہاں ہو تم؟"۔ چھوٹتے ہی یہ سوال ہوا۔


الوینا حیران تھی کیونکہ اس کا نمبر بہت کم لوگوں کے پاس تھا۔

پھر بھلا اسے کہاں سے مل گیا۔


"اپنی سوچ کے گھوڑوں کو زرا لگام دو۔ تمہارا نمبر ایڈمنسٹریشن سے لیا ہے۔ اور اس کی وجہ تم یہاں پرنسپل کے آفس میں آکر دیکھ لو"۔ اس کی سوچ تک رسائی اسے بخوبی تھی۔


اور یہ بات الوینا کے دل کو دھڑکانے کیلئے کافی ثابت ہوئی۔

کیا تھا یہ شخص؟ کیسی واقفیت تھی یہ؟ کیوں تھا وہ اس سے اتنا باخبر؟


وہ اس سے پوچھنا چاہتی تھی کے ایڈمنسٹریشن کو تو میں نے صرف اپنا نمبر دیا تھا۔ اپنی سوچوں کی چابی نہیں۔

وہ آپ کو کہاں سے ملی؟


دھڑکنوں کے شور کو نظرانداز کر کے اس نے کہا بھی تو بس اتنا۔

"جی سر، میں آتی ہوں"۔ اور ساتھ ہی کال قطع کر دی۔


چند گہری سانسیں لے کر خود کو کمپوز کیا۔

پھر تمام خیالات کو ذہن سے جھٹک کر وہ مڑ گئی۔


اب اس کا رخ پرنسپل آفس کی طرف تھا۔

☆☆☆☆☆


"مے آئی کم ان سر؟"۔ ناک کرنے کے ساتھ ہی اس نے منہ زبانی اجازت مانگی۔


اس دروازے کے باہر کھڑے رہ کر اسے گزشتہ رات یاد آ گئی۔

کتنی مایوس اور دلبرداشتہ ہو کر گئی تھی وہ کل یہاں سے۔


"یس"۔ پرنسپل صاحب کی آواز نے اسے حال میں کھینچا۔


سر جھٹک کر وہ اندر داخل ہو گئی۔


آفس میں پرنسپل صاحب کے علاوہ خود وائس چانسلر، پروفیسر شبانہ، اور اس کو وہاں بلانے والی ہستی بھی موجود تھی۔

جو کچھ گھنٹے پہلے کے برعکس اس وقت قدرے سنجیدہ تھا۔


بلکہ وہاں موجود سبھی لوگ اتنے ہی سنجیدہ تھے۔

ماحول میں تناؤ کی سی کیفیت تھی۔


ان چاروں شخصیات پر سے ہوتی ہوئی الوینا کی نگاہیں ایک شخص پر آ کر ٹھہر سی گئیں۔


ویل چیئر پر بیٹھے اس شخص کا چہرہ نیل و نیل ہو رہا تھا۔ جبڑے قدرے سوجے ہوئے تھے۔

بائیں پاؤں پر پلاسٹر چڑھا تھا۔

اور دائیں ہاتھ پر بھی پلاسٹر لگا تھا۔

جسے گردن میں لٹکی اس پٹی نے سہارا دے رکھا تھا۔


الوینا کے ذہن نے جانے کتنے لمحوں کا سفر طے کیا تھا اسے پہچاننے کیلئے۔

اس کی یہ حالت دیکھ کر الوینا کو ٹھیک سے اس پر غصہ بھی نہیں آ پایا تھا۔ وہ تو بس حیرت زدہ سی اسے دیکھ رہی تھی۔


مس شبانہ اس کے پاس آ کھڑی ہوئیں اور نرمی سے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا۔


"الوینا، بیٹا تم سمجھ گئی ہوگی کے تمہیں یہاں بلوانے کی وجہ کیا ہے"۔ انہوں نے ہی بات کا آغاز کیا۔


باقی سب خاموش جبکہ وائس چانسلر قدرے غصے میں اس کی جانب دیکھ رہا تھا۔


"میں آپ سے معافی مانگنا چاہتا ہوں الوینا سسٹر"۔ وقاص شرمندہ نظروں سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے پست آواز میں بولا۔ جبڑے پر سوجن کی وجہ سے وہ ٹھیک طرح سے بول بھی نہیں پا رہا تھا۔


اس کے 'آپ' اور اس سے بڑھ کر 'سسٹر' کہنے پر الوینا ٹھٹھک گئی۔


کل تک جن نظروں میں ہوس تھی۔ آج ان میں سے احترام اور شرمندگی واضح جھلک رہی تھی۔

جن ہاتھوں نے کل اس کا آنچل کھینچا تھا وہ ہاتھ اب عاجزی سے اس کے سامنے جڑے تھے۔

اور جس چہرے پر کل تک حیوانیت تھی، آج وہ معافی کا طلبگار قابل رحم لگ رہا تھا۔


الوینا نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کے وہ اسے دوبارہ اس طرح دیکھے گی۔

آخر ایسا کیا ہوا تھا اس ایک دن میں اس کے ساتھ جو وہ اتنا بدل گیا تھا؟


یہ سوال وہاں موجود ہر شخص کے ذہن میں تھا۔

سوائے ایک کے۔

جو پرسکون ہو کر سینے پر ہاتھ باندھے ایک طرف تماشائی بنا کھڑا تھا۔


"یہ۔۔۔یہ سب کیا۔۔۔کیسے ہوا؟"۔ حیرت کی زیادتی سے اس سے کچھ بولا ہی نہیں جا رہا تھا۔


"تم نے ٹھیک کہا تھا الوینا۔ اللہ واقعی بہترین منصف ہے۔ آئم سوری بیٹا، ناانصافی تو ہم سے بھی ہوئی ہے کے ہم نے سب کچھ جانتے ہوئے بھی تمہارے لیئے اسٹینڈ نہیں لیا۔ ہو سکے تو مجھے بھی معاف کر دینا"۔ پرنسپل صاحب ازحد شرمندہ نظر آ رہے تھے۔


ان کے برعکس وی-سی صاحب چراغ پا ہو گئے۔


"دیکھو لڑکی، سچ سچ بتاؤ تمہارے کہنے پر کس نے میرے بیٹے کی یہ حالت کی ہے؟ نام بتاؤ مجھے اس کا۔ اچھی طرح جانتا ہوں میں تم جیسی لڑکیوں کو۔ وقاص نے لفٹ نہیں دی ہوگی اس لیے تم اس کے گلے پڑ گئی۔ اور اس پر الٹا الزام بھی تم نے میرے بیٹے کے متھے مڑ دیا۔ اور تو اور تم نے اپنے آشنا سے اس کی یہ حالت بھی کروائی؟"۔ وہ آتش فشاں بن کر الوینا کے سامنے آئے تھے۔

اور الزامات کی بوچھاڑ کر دی تھی اس پر۔


وہ ان کی باتیں سن کر شاکڈ رہ گئی۔


"ڈیڈ پلیز۔ میں نے آپ سے کہا تھا نا پرسکون رہیئے۔ اور اس میں غلطی کسی کی بھی نہیں ہے۔ الوینا سسٹر کو تو اس سب کا پتہ بھی نہیں"۔ وقاص نے ہی انہیں ٹوکا۔


"سر آپ الوینا پر اس طرح کے الزامات نہیں لگا سکتے۔ میں گواہ ہوں۔ میں نے دیکھا ہے سب اپنی آنکھوں سے۔ آپ ایک پاکباز لڑکی کے کردار پر یوں سوالیہ نشان کیسے لگا سکتے ہیں؟"۔ مس شبانہ بھی اچھی خاصی تپ گئیں ان کی بات سے۔


"تو آخر تم مجھے بتاتے کیوں نہیں ہو کے کون تھا وہ شخص؟ اور کیا دشمنی تھی اس کو تم سے جو تمہیں اس بری طرح سے پیٹا کے ہاتھ پیر کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں؟"۔ صدمے اور غصے سے ان کی آواز پھٹ رہی تھی۔


وقاص نے وہاں موجود سب کے چہرے پر نگاہیں دوڑائیں۔

پھر نظریں الوینا پر آ کر ٹھہر گئیں۔


(اس کی طرف پھر کبھی آنکھ اٹھانے سے پہلے قیصر خیام کو یاد کر لینا)

وقاص کے کانوں میں اب بھی اس ہڈی والے شخص کی سرد آواز گونج رہی تھی۔


گھبرا کر اس نے نگاہیں جھکا لیں۔


زرا فاصلے پر کھڑے قیصر خیام کی پراسرار مسکراہٹ سے کمرے میں موجود ہر نفوس انجان تھا۔


"وہ کوئی ڈاکو تھا۔ مجھ سے سیل فون اور نقد مانگی۔ میں نے انکار کیا تو طیش میں آ کر اس نے مجھ پر حملہ کر دیا"۔ وقاص نے دو لفظوں میں ہی کہانی گھڑ کر سنائی۔


"اوففف میرے خدا، تو بے وقوف لڑکے تم نے دے کیوں نہیں دیا انہیں جو وہ مانگ رہے تھے۔ یہ سب چیزیں تم سے زیادہ اہم تو نہیں تھیں نا میرے لیے میرے بچے"۔ انہوں نے اس کی پیشانی سہلاتے ہوئے غم سے نڈھال ہو کر کہا۔


"سن لیا سر آپ نے۔ اب تو آپ کو تسلی ہو گئی ہوگی کے الوینا بے قصور ہے۔ اور اس بات کی گواہی خود آپ کا بیٹا دے رہا ہے"۔ مس شبانہ نے ایک بار پھر مداخلت کی۔


ان کی بات پر وی-سی صاحب شرمندہ سے ہو گئے۔

پھر الوینا کی جانب متوجہ ہوئے۔


"مجھے معاف کردو بیٹا۔ میں نے غصے میں پتہ نہیں کیا کیا کہہ دیا تم سے"۔ پہلے کے برعکس اب ان کا لہجہ پست اور آواز دھیمی ہو گئی۔


"اٹس اوکے سر، معاف کرنے والی ذات تو اللہ کی ہے۔ میری اتنی حیثیت نہیں۔ لیکن پھر بھی میں سب بھول چکی ہوں۔ آپ بھی وقاص کو معاف کر دیجئے، اور وقاص کا خیال رکھیے گا"۔ وہ مطمئن سی۔۔۔مسکراتے ہوئے کہہ رہی تھی۔


قیصر خیام نے اس عرصے میں پہلی بار چونک کر اس کی جانب دیکھا۔

اور اس کے لبوں پر تلخ مسکراہٹ رینگ گئی۔


"پھر کیوں نا تمہارا ظرف اب میں آزماؤں؟ پھر دیکھتا ہوں کے یہ نرمی اور اچھائی ویسی ہی رہتی ہے یا ہوا ہو جاتی ہے"۔ وہ اپنے دل میں زرا سے فاصلے پر کھڑی لڑکی سے مخاطب تھا۔


جو نہیں جانتی تھی کے اس کے امتحانوں کی شروعات اس پل سے ہو چکی تھی۔


زندگی کے کڑے امتحان!

جو اکثر بن بلائے ہی آتے ہیں۔

☆☆☆☆☆


جوں ہی وہ شاور لے کر نکلا اس کی توجہ مسلسل بجتے موبائل نے اپنی جانب مبذول کرائی۔


ٹاول اسٹینڈ پر ٹاول رکھ کر اس نے سائیڈ میز پر رکھا موبائل اٹھایا اور کال ریسیو کر لیا۔


"کہو اس وقت کیسے یاد کیا"۔ ڈریسنگ مرر کے سامنے کھڑا وہ موبائل کان سے لگائے بال بنا رہا تھا۔


"تم نے اس لڑکے کو کیوں پیٹا؟ تم یونیورسٹی میں ہر وقت اس کے سامنے رہتے ہو۔ اسے شک ہو گیا تو تم خود تو سولی چڑھو گے ہی ساتھ میں مجھے بھی خواہ مخواہ گھسیٹ لیا جائے گا۔ الیکشن نزدیک ہے۔ تم اپنے ہاتھ پاؤں کو قابو میں رکھو اور صحیح وقت آنے پر جب میں کہوں تب ان کا استعمال کرو سمجھے"۔ وہ اس پر برس پڑے۔


قیصر نے برش ڈریسنگ میز پر پھینکا اور آئینے کی طرف سے رخ موڑ لیا۔


"پہلی بات مجھ سے اس ٹون میں بات نہ کرو تو تمہارے لیے سود مند رہے گا۔ اور دوسری بات تم نے میرے منع کرنے کے باوجود بھی میری نگرانی کروائی؟ میرے پیچھے اپنے بندے لگائے یہ بات ناقابل برداشت ہے میرے لیئے۔ قیصر خیام تمہارا زرخرید غلام نہیں ہے جس پر تم حکم چلا رہے ہو۔ فورا سے پیشتر اپنے آدمیوں کو میری نگرانی سے ہٹاؤ، ورنہ اچھا نہیں ہوگا"۔ اس نے بھی انہیں کے انداز میں انہیں جواب دیا۔

"دیکھو، میں کسی پر اندھا اعتبار نہیں کیا کرتا۔ اس لیئے تمہیں یہ سب تو برداشت کرنا ہی پڑے گا۔ اور یہ میری اپنی سیفٹی کیلئے ہے۔ تم اگر صحیح ہو تو اتنا ڈر کیوں رہے؟ پہرے داروں کو اپنا کام کرنے دو۔ تم اپنا کام کرو"۔ علی مرزا نے اسے ہتھے سے اکھڑتے دیکھ کر اپنی ٹون بدل لی۔

"اچھی طرح سمجھتا ہوں تمہارے سیاسی دماغ کو۔ اب تم بھی ایک بات جان لو کے میں بھی کچا کھلاڑی نہیں ہوں"۔ قیصر نے دو جملوں میں اسے بہت کچھ جتایا۔


"ہاں جانتا ہوں میں۔ اسی لیئے تو تم اب تک زندہ ہو"۔ علی مرزا نے طنزیہ کہا۔

"قیصر خیام کو مختار کے ایک سالہ ٹارچر نے نہیں مارا تو اب کوئی مائی کا لال کیا مارے گا مجھے"۔ صوفے پر بیٹھ کر اس نے دونوں پیر سامنے رکھے کانچ کی میز پر دراز کر دیئے۔

"اچھا، ایک اور اہم بات"۔ علی مرزا کو اچانک یاد آیا۔

"اس لڑکی، الوینا کو کچھ یاد تو نہیں آیا؟"۔ انہوں نے فکرمندی سے پوچھا۔

قیصر اس سوال پر ٹھہر سا گیا۔

"نہیں۔ اور آئے گا بھی نہیں۔ کیونکہ میں نقلی مال رکھتا ہی نہیں"۔ لاپرواہی سے جواب دیا۔

جس پر وہ مطمئن ہو گئے اور چند مزید باتوں کے بعد کال اینڈ کر دیا۔

☆☆☆☆☆

انہوں نے موبائل ایک طرف رکھ کے کرسی کی پشت سے سر ٹکا دیا۔

"الوینا بی بی کے بارے میں اس قیصر سے پوچھنے کی کیا ضرورت تھی؟ چھوٹا منہ بڑی بات، اس سے آپ نے الوینا بی بی کا ذکر ہی کیوں کیا؟"۔

ان کا پی-اے جو یہ گفتگو تب سے خاموشی سے سن رہا تھا۔

کال بند ہوتے ہی پوچھا۔

"پوچھ بھی لیا تو کیا؟ میں کیا ڈرتا ہوں اس سے؟"۔ وہ بپھر گئے۔

"ارے نہیں سرکار، میں تو اس لیئے کہہ رہا تھا کے کہیں اسے اگر شک پڑ گیا تو آپ کی دکھتی نس اس کے ہاتھ میں آ جائے گی نا"۔ وہ دور کی کوڑی لایا۔

جبکہ علی مرزا لاپرواہی سے اس کی بات پر ہنس دیا۔

"وہ میری پھینکی ہوئی ہڈی کھاتا ہے غفور۔ پلٹ کر اگر مجھے کاٹنے کی کوشش کرے گا تو میری بندوق کی گولی سے بھی وہ بچ نہیں پائے گا"۔

"لیکن سرکار، اسے شک تو نہیں ہو گیا؟"۔ غفور کو اب بھی دھڑکا سا لگا تھا۔

"نہیں ہوگا شک۔ تم کیوں پریشان ہوتے ہو"۔ انہوں نے بے فکری سے کہا۔

"آپ کا نمک کھایا ہے سرکار۔ پریشانی تو رہتی ہے آپ کیلئے۔ ویسے اس قیصر خیام کے فرشتے بھی نہیں جانتے ہوں گے کے الوینا بی بی آپ کی۔۔۔۔۔"

"ششش، خبردار جو کسی نے یہ بات سنی۔ زبان کھینچ لوں گا تمہاری"۔ اس کا جملہ مکمل ہونے سے قبل ہی علی نے سختی سے اسے ڈپٹ دیا۔

غفور نے گھبرا کر شہادت کی انگلی لبوں پر رکھ لی۔ کے کہیں واقعی اس کے منہ سے کچھ ایسا نہ پھسل جائے۔

سوشل سائنس ڈپارٹمنٹ کے اسٹوڈنٹس کی جانب سے ڈرامے کا عنقاد کیا جا رہا تھا۔

جس کے سلسلے میں آج کل اسٹوڈنٹس زیادہ تر ڈرامہ کلب میں ہی پائے جاتے تھے۔

اس سال پلے کا تھیم 'جہانگیر اور نور جہاں کی داستان محبت' کو چنا گیا تھا۔

لیڈ رولز کیلئے بہت سے اسٹوڈنٹس نے اپنا نام لکھوایا تھا۔

جس کیلئے سب باری باری پرفارمنس دے رہے تھے۔

ڈرامہ کلب کی ڈائریکٹر فلزہ سلیم جو فائنل ایئر کی اسٹوڈنٹ تھی۔

وہی سب کی پرفارمنس بھی جج کر رہی تھی۔

غزل جو آج صبح ہی اپنے آبائی شہر سے تشریف لائی تھی۔ 

آتے ساتھ ہی کلاس بنک کر کے وہ دونوں اب ڈرامہ کلب میں موجود تھیں۔

غزل تو انجوائے کر رہی تھی لیکن الوینا پک چکی تھی۔

"کیا یار، ایک بھی ڈھنگ کا ایکٹر نہیں ہے۔ سب بے کار پرفارم کر رہے ہیں"۔ الوینا نے یہ تبصرہ غزل کو سنانے کیلئے کیا۔

تاکہ وہ بھی بوریت محسوس کرکے وہاں سے اٹھنے پر راضی ہو سکے۔

"شش، بس دس منٹ، وہ دیکھو وہ کتنا اچھا پرفارم کر رہی ہے یار"۔ غزل نے سرگوشی میں الٹا ہی جواب دیا۔

الوینا سر پیٹ کر رہ گئی۔

بدقسمتی سے ان سے زرا فاصلے پر ہی فلزہ جو ڈائریکٹر کی کرسی سنبھالے موجود تھی، اس نے الوینا کا وہ تبصرہ سنا تو جل بھن گئی۔

"ایک منٹ ثانیہ، رکو زرا"۔ وہ اچانک کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور اسٹیج پر کھڑی لڑکی جو ڈائلاگ بول رہی تھی، کو خاموش کروا دیا۔

جس کے نیتجے میں باقی سب بھی خاموش ہو گئے۔

باقی اسٹوڈنٹس کی طرح وہ دونوں بھی چونک کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں۔

عین اسی وقت فلزہ جارحانہ تیور لیئے الوینا کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔

"کیا کہا تم نے؟ بے کار پرفارمنس؟ پچھلے دو دن کی ہماری محنت تمہیں بے کار لگ رہی ہے؟ اتنا ہی ناپسند ہے تو خود کرلو پرفارم۔ دوسروں کو ڈی-گریڈ کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ خود پر جب بات آتی ہے تب پتہ چلتا ہے"۔ غصے سے اس کی آواز قدرے بلند ہوئی۔

الوینا اور غزل ہکا بکا رہ گئیں۔

"بولو، جواب دو اب۔ کمنٹ پاس کرنے کے علاوہ تم اور کیا کر سکتی ہو؟ کیا اس پلے کی ہیروئین کا کردار تم بہتر کر سکتی ہو ان سے؟"۔ ایک ابرو اٹھا کر اس نے طنزیہ پوچھا۔

شرمندگی کے مارے الوینا کا برا حال تھا۔

اس کے برعکس غزل کی آنکھیں کسی خیال سے چمک اٹھیں۔

اور الوینا کے کچھ کہنے سے قبل وہ بول پڑی۔

"ہاں ہاں، یہ کرے گی، ضرور کرے گی لیڈ رول پلے۔ کیوں الوینا؟"۔ وہ ایک دم پرجوش سی ہو گئی۔

جبکہ اس کی بات پر وہ بھونچکی رہ گئی۔

"اوہ ریئلی؟ تو چلو، دوسروں کی پرفارمنس تو تمہیں پسند نہیں آئی۔ لہٰذا اب تم خود پرفارمر بن جاؤ۔ ہم بھی دیکھیں تمہیں کیا آتا ہے"۔ وہ تمسخر اڑا رہی تھی۔

اور الوینا اب کے مزید حیران رہ گئ۔

"جاؤ الوینا، کم آن یو کین ڈو اٹ"۔ غزل اس کی ہمت بڑھانے لگی۔

"کم آن الوینا، جلدی سے پرفارم کرو"۔ باقی سب بھی کورس میں کہہ اٹھے۔

"یہ لو لائنز، اور اسٹیج پر جاؤ"۔ فلزہ نے لائنز اس کے ہاتھ میں تھمائی۔ اتنا ہی نہیں، اسے ہاتھ سے کھینچ کر اسٹیج پر بھی ڈال آئی۔

سب کی نظریں خود پر جمے دیکھ کر وہ سخت نروس ہو رہی تھی۔

وہ فطرتا شرمیلی تھی۔ بیک گراؤنڈ میں رہ کر تو وہ پرفارم کر سکتی تھی۔

مگر اب اسٹیج پر وہ بھی ہیروئین کا رول؟ سوچتے ہی اس کے اعصاب پر دباؤ بڑھنے لگا۔

لائنز ہاتھ میں تھامے وہ گھبرائی گھبرائی سی تھی۔

کچھ من چلے اب طرح طرح کے فقرے اچھالنے لگے تھے، کچھ سیٹیاں مار رہے تھے۔

"کم آن الوینا، چھکے چھڑا دو سب کے"۔ غزل نے نعرہ لگایا۔

"جلدی کرو، پورا دن نہیں ہے ہمارے پاس"۔ فلزہ نے گھڑی دیکھ کر اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔

الوینا نے گھبرا کر زور سے آنکھیں میچ لیں۔

"یا اللہ، اب میں کیا کروں"۔ اس کا دل بند ہوا جا رہا تھا۔

"ارے جب آتا نہیں ہے خود کو کچھ تو دوسروں کو کیا سوچ کر جج کرتی ہو"۔ کسی کا سخت جملہ اس کی سماعتوں سے ٹکرایا۔

گھبرا کر اس نے پلکیں وا کیں۔

اور تبھی غیر متوقع طور پر اس کی نظر دور کونے میں کھڑے اس شخص سے جا ملیں۔

بلیک پینٹ اور مرون شرٹ کے ساتھ سیاہ ویسٹ کوٹ میں ملبوس، جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے، کرخت نگاہوں سے وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

الوینا کی سانس رک گئی۔

کیونکہ اسے متوجہ پا کر وہ فاصلہ پانٹتے ہوئے اس کی طرف ہی آ رہا تھا۔

"یا اللہ یہ پروفیسر یہاں بھی آ گیا۔ اب ضرور یہی کلاس شروع ہوگی۔ چھپ جاؤ غزل"۔ غزل کی جب اس پر نظر پڑی تو گھبرا کر جلدی سے اوٹ میں ہو گئی۔ 

جبکہ وہ اسٹیج سے زرا فاصلے پر آ رکا تھا۔

"تو تم یہاں ہو کلاس چھوڑ کر۔ ہوں؟"۔ اس کے لہجے میں سختی در آئی۔

الوینا کو لگا ابھی وہ آ کر اسے ایک تھپڑ جڑ دے گا۔ اور کلاس بنک کرنے پر کھری کھری سنائے گا۔

جبکہ فلزہ نے اسے مسلسل اس شخص کو دیکھتے ہوئے نوٹ کر لیا۔

تبھی اس کے دماغ میں کلک ہوا۔

"سنو، تم بھی اس کے ساتھ اسٹیج پر جا کر پرفارمنس دو"۔ اس نے اسے مخاطب کرتے ساتھ ہی لائنز والا پیج بھی اسے تھما دیا۔

وہ بھوئیں اکھٹی کیئے چونک کر فلزہ کو تکنے لگا۔

"دیکھو شاید تم مجھ سے واقف نہیں ہو میں۔۔۔۔"۔ وہ کچھ کہنے ہی لگا تھا جب فلزہ نے اسے ٹوک دیا۔

"کوئی بہانے بازی نہیں فورا اسٹیج پہ جاؤ"۔ 

"نہیں یہ کیسے۔۔۔دراصل یہ۔۔۔۔"۔ الوینا نے لب کشائی کی۔

"تم سے پوچھا میں نے؟"۔ اس کے کچھ کہنے سے قبل ہی اس نے جھڑک دیا۔

لب بھینچ کر اس نے ایک نظر اپنے ہاتھ میں موجود اس کاغذ کے ٹکڑے کو دیکھا۔ 

اور ایک مرتبہ پھر اس کی نظریں الوینا پر آ ٹھہریں۔

چند لمحے یونہی وہ پرتپش نظروں سے اس کی جانب دیکھتا رہا۔

پھر قدم خود بخود اسٹیج پر پڑتے چلے گئے۔

اس کی پیش قدمی دیکھ کر الوینا کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔

قیصر خیام کا ہر اٹھتا قدم الوینا کے دل پر دستک دے رہا تھا۔

کچھ گھبرائی ہوئی سی، کچھ مسحور سی ہو کر وہ اس کی جانب دیکھ رہی تھی۔

اب وہ اس کے بے حد قریب محض چند انچ کے فاصلے پر تھا۔

وہ بھول چکی تھی کے وہ اس وقت کہاں کھڑی ہے۔

کتنی نگاہیں؟

کتنے لوگ؟

کون کیا سوچ رہا ہے؟

اسے سب کا شمار بھول چکا تھا۔

اس شخص نے گویا طلسم پھونک کر ہر چیز کو پاز کر دیا تھا۔

وہ اس کے نزدیک ہوا۔

نگاہیں ہنوز اس کے چہرے پر جمائے، احتیاط سے اس کے دونوں ہاتھ تھام کر اپنے شانے پر رکھے۔

اور اس کے وجود کے گرد مضبوط بانہوں کا حصار کھینچ دیا۔

لائٹس بند ہو چکی تھیں۔

صرف ایک اسپاٹ لائٹ ان دونوں کو حصار میں لیے ہوئے تھی۔

وہ سانس روکے اسے دیکھ رہی تھی۔

اس کے وجود سے اٹھنے والی وہ مانوس سی خوشبو الوینا کے حواسوں پر طاری ہونے لگی تھی۔

وہ پلکیں جھپکائے بغیر پہلی بار اسے اتنے قریب سے دیکھ رہی تھی۔ محسوس کر رہی تھی۔

"محبت انسان سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں چھین لیتی ہے۔ اسے سب کچھ بھلا دیتی ہے۔ اسے بے بس کر دیتی ہے۔

 جب سے تمہیں دیکھا ہے اپنا آپ گنوا بیٹھے ہیں ہم۔ 

تم وہ خواب ہو جسے ہم روز دیکھ کر جیتے ہیں۔

اور تمہاری یہ آنکھیں۔۔۔کیوں دیکھتی ہو ہمیں ان حسیں آنکھوں سے اس طرح؟ کے بے بس سے ہو جاتے ہیں ہم۔ 

ہمارے شب و روز تمہیں سوچتے ہیں، ہماری تنہائی بھی تم سے باتیں کرتی ہے نور۔ 

دیکھو ہماری ان نگاہوں میں، ان میں تمہیں صرف اپنا ہی عکس نظر آئے گا۔ تمہیں دیکھنے کے بعد ہمیں اور کچھ دیکھنے کی چاہ نہیں رہی۔ تمہاری آنکھوں کی یہ چمک ستاروں کو مات دیتی ہے، اور یہ نگاہیں جب جب ہماری جانب اٹھتی ہیں، ہمیں اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہیں۔ ہم چاہتے ہیں تمہارے یہ دلکش لب صرف ایک ہی نام کا ورد کریں۔۔۔فقط ہمارے نام کا"۔ وہ سحر باندھ رہا تھا۔ وہ مسحور ہو رہی تھی۔

وہ اسم پھونک رہا تھا۔ وہ اسیر ہو گئی تھی۔

الوینا واقعی اپنی ذات کو فراموش کر چکی تھی۔ وہ سب کچھ بھول چکی تھی۔ ارد گرد کا ہر منظر غائب ہو چکا تھا۔

پرتپش نگاہیں لو دے رہی تھیں۔

وہ آگ سے کھیل رہی تھی۔ پتنگے کی طرح!

اور وہ پتنگے کی طرح ہی جل جانے کو بے تاب تھی۔

"دیکھو ہماری آنکھوں میں خود کو، سنو یہ دھڑکنیں تمہیں پکار رہی ہیں۔ ان سانسوں پر بھی تمہارا تسلط ہے۔

کچھ نہیں چاہتے ہم تم سے۔۔۔بس تمہیں!

کچھ نہیں مانگتے تم سے۔۔۔صرف اپنا حق تم پر!

ہم تمہیں ہر گھڑی اپنی نگاہوں کا مرکز بنانا چاہتے ہیں نور۔

تم پر اپنے نام کی مہر ثبت کرنا چاہتے ہیں۔

تمہیں کسی اور کے ساتھ دیکھنا ہمارے لیے کڑا امتحان ہے۔

تمہیں نور جہاں اس جہاں میں صرف ہمارے لیے اتارا گیا ہے۔

تم سے عشق کرنے کا حق صرف ہمیں ہے۔

پھر کیونکر مہر بہ لب ہو تم؟ اپنے دل کی آواز کو نظرانداز کیوں کرتی ہو؟ سنو تمہاری دھڑکنیں محبت کا پیام دیتی ہیں۔

تمہاری یہ زیر و بام ہوتی سانسیں احساس دلاتی ہیں کے ہاں کچھ تو ہے۔۔۔یہ محبت ہے۔۔۔ہاں تمہیں بھی ہم سے محبت ہے"۔ وہ جنوں خیزی کی انتہا تھی۔

اتنی وارفتگی!

دیوانگی وہ بھی اس قدر!

وہ اتنا زور آور تھا کے سیلاب بن کر اس کا وجود بہا لے جانے کے درپے تھا۔

اس کی گرم سانسیں اور پرتپش نظریں الوینا کا چہرہ جلا رہی تھی۔

وہ جل رہی تھی۔۔۔اس کی جان فنا ہو رہی تھی۔

اچانک ہی ہال تالیوں کے شور سے بھر گیا۔

اور ساتھ ہی لائٹس بھی آن ہو گئیں۔

اس نے جھٹکے سے الوینا کو اپنے حصار سے آزاد کیا۔

تو اس کے گرد بنا کوئی سحر ٹوٹا تھا۔

ہوش کی دنیا میں قدم رکھتے ہی پہلی فرصت میں وہ اسٹیج سے نیچے اتر آئی۔

اس کے گال اب بھی دہک رہے تھے۔

سانسیں بے ترتیب تھیں۔

دل کی دھڑکنیں سوا نیزے پہ تھیں۔

اور چہرہ سرخ اناری ہو گیا تھا۔

"وہاٹ آ پرفارمنس، اب تو ان دونوں کو ہی لیڈ میں لینا چاہیئے"۔ سب کی یہی رائے تھی۔ 

"فلزہ، لیڈ میں تو ان دونوں کو ہی ہونا چاہیئے۔ یار، دے لک سو نیچرل اینڈ ریئل"۔ الوینا کی سماعتوں نے کسی کا یہ جملہ سنا۔

تو اس نے سختی سے کان بند کر لیے۔

ارد گرد نگاہیں دوڑاتی وہ غزل کو تلاش کر رہی تھی۔

مگر اب یہاں مزید رکنا اسے محال لگ رہا تھا۔

وہ جلد از جلد یہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی۔

اور وہ جانے ہی لگی تھی جب فلزہ اس کے سامنے آ گئی۔

"گڈ، تمہارے ایکسپریشنز حیرت انگیز طور پر بہت اچھے تھے۔ تم تو امید سے بڑھ کر نکلی۔ ویلڈن۔ سب کا اسرار ہے کے تمہیں ہی نور جہاں کے رول میں ہونا چاہیے۔ لہٰذا تم کل سے ریہرسل کرنے آ جانا۔ میں نے تمہارا نام لیڈ میں لکھ دیا ہے۔ ہمارے پاس صرف تین دن ہیں اس پلے کی پریپریشن کیلئے"۔ اس کی پوزیشن سمجھے بغیر وہ اپنی ہی کہہ رہی تھی۔

"یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ ناممکن ہے"۔ غائب دماغی سے اس نے آدھی ادھوری بات کہی۔

"کیوں نہیں ہو سکتا؟ یہ ممکن ہے"۔ عقب میں وہی مانوس آواز گونجی۔

الوینا نے پھر بھی مڑ کر نہیں دیکھا۔ جیسے پتھر بن جانے کا ڈر ہو۔

مگر توقع کے عین برخلاف وہ گھوم کر اس کے سامنے آ گیا۔

"اب تم یہ مت کہنا کے تم یہ پلے نہیں کروگی۔ کیونکہ آج کی اتنی دوڑ دھوپ کے بعد مشکل سے اب جا کر تو جہانگیر اور نور جہاں کے کردار کیلئے نام فائنل ہوئے ہیں۔ لہٰذا مجھے کوئی گڑبڑ نہیں چاہیئے"۔ وہ کتنی سر پھری لڑکی تھی۔ اپنی ہی بات کہے جا رہی تھی۔ بنا اس کی سنے۔

اس سے قبل کے الوینا انکار کیلئے لب کھولتی وہ درمیان میں بول پڑا۔

"الوینا یہ رول پلے کرے گی۔ یو ڈونٹ وری"۔ اس نے تسلی دی۔

اس کی آنکھیں بے یقینی سے پھیل گئیں۔

کیا اسے اتنا یقین تھا کے اگر وہ کہے گا تو وہ انکار نہیں کرے گی؟

ہاں، ایسا ہی تھا۔ الوینا چاہ کر بھی انکار نہیں کر پائی تھی۔

جانے کیوں وہ شخص اتنا اثر رکھتا تھا اس پہ؟۔

"گڈ، آپ لوگ کل ٹائم پہ آ جایئے گا۔ ریہرسلز جلد شروع کرنی ہوگی"۔ فلزہ نے انہیں آگاہ کیا۔

الوینا نے بمشکل سر ہلایا اور بنا کہیں بھی دیکھے وہ باہر نکل گئی۔

وہ بھی اس کے پیچھے ہی باہر نکلا۔

"لیکن فلزہ جو لائنز اس نے کہی تھی وہ تو ہمارے پلے کی تھیں ہی نہیں"۔ اس کی اسسٹنٹ کم رائٹر حیران تھی۔ کیونکہ وہ لائنز اس نے لکھی ہی نہیں تھیں۔ تو اس نے کہاں سے یاد کر لیں؟

"تم آم کھاؤ، گٹھلیاں کیوں گن رہی ہو"۔ فلزہ نے بے تاثر لہجے میں کہا۔

تو وہ شانے اچکا کر رہ گئی۔

                                          ☆☆☆☆☆

وہ کیفیٹیریا میں بیٹھی اپنا غصہ پی رہی تھی۔

اس کا موڈ بے حد خراب ہو چکا تھا۔

پتہ نہیں اتنا غصہ آخر تھا کس پر؟

خود کی کمزوری پہ؟ یا اس شخص کی اجارہ داری پہ؟

وہ کیوں ہر بار اس کے سامنے اتنی کمزور پڑ جاتی تھی۔

ہر بار خود سے عہد کرتی تھی کے اب اپنی نظروں کو اس کی طرف بھٹکنے سے روک لے گی۔

اور ہر بار ہی وہ غلط ثابت ہو جاتی تھی۔

وہ شخص با آسانی اسے چاروں شانے چت کر دیتا تھا۔

"واہ رے میری شہزادی، اب تو تمہیں پرمننٹ رول بھی مل گیا شہزادی کا"۔ غزل جانے کب وہاں آئی اور اس سے لپٹ گئی۔

"پرے ہٹو، تم تو بات ہی مت کرو مجھ سے۔ یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے۔ کیا ضرورت تھی یہ کہنے کے الوینا نور جہاں بنے گی۔ اتنا ہی شوق تھا تو خود ہی کیوں جہاں کو نور نہیں بخشا آپ نے؟"۔ خفگی کا اظہار کرتے کرتے طنز بھی کر دیا۔

غزل نے اس کے پاس ہی کرسی سنبھال لی

"دیکھو الوینا، انسان ہمیشہ اپنے کمفرٹ زون میں رہ کر زندگی نہیں گزار سکتا۔ اسے کونے میں دبک کر بیٹھنا اچھا لگتا ہے تو یہ اس کی بھول ہے کے وہ ساری زندگی وہی بیٹھے بیٹھے گزار لے گا۔ ایک وقت ایسا آئے گا جب اسے وہ کرنا ہوگا جو اسے سب سے زیادہ زہر لگتا ہے۔ یعنی اپنے خول سے باہر نکل کر اسے دنیا کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔ آخر کبھی نہ کبھی کہیں سے تو شروعات کرنی ہی پڑتی ہے نا۔ پھر آہستہ آہستہ وہ ناپسندیدہ چیز معمول بن جانے کے بعد اتنا پریشان نہیں کرتی ہے۔ تمہیں توجہ کا مرکز بننا اچھا نہیں لگتا۔ یہ تمہارا کمفرٹ زون ہے، جس سے میں تمہیں باہر نکالنا چاہتی ہوں بس اسی لیئے تمہیں دھکیل کر سامنے کر دیا۔ 

کیونکہ جب تک تم کچھ کرنے کی کوشش نہیں کروگی تمہیں اپنی صلاحیتوں کا اندازہ کیسے ہوگا؟"۔ وہ دھیرے دھیرے اسے سمجھا رہی تھی۔

الوینا نگاہیں جھکائے خاموشی سے اس کی باتیں سن رہی تھی۔

"جیسے تمہاری ایک صلاحیت مجھے آج پتہ چلی ہے"۔ وہ سنجیدگی سے بولی۔

غزل اثبات پر چون گئی۔

"وہ کیا؟"۔ بے چینی سے پوچھا۔

"وہ یہ کے تم بہت اچھی موٹیویٹر بن سکتی اور مارکیٹر یا سیلز گرل بھی"۔ الوینا نے شرارتی لہجے میں کہا۔

"اچھا، میری بلی مجھ سے میاؤں؟ ٹھہرو تم زرا"۔ وہ مارنے کو آگے بڑھ ہی تھی کے الوینا نے فائل سامنے کرکے اپنا بچاؤ کیا۔

"خبردار جو چہرے پہ مارا تو"۔ الوینا نے وارن کیا۔

"کیوں؟ تمہارے چہرے میں کس کو دلچسپی ہے؟ کون دیکھنے والا؟"۔ سینڈوچ پر ہاتھ صاف کرتے پوچھا۔

"ارے آڈیئنس یار، ملکہ نور جہاں کا چہرہ اچھا لگے گا۔ لال، نیلا ہو کر؟"۔ الوینا نے فرضی کالر کڑائے۔

"کس گستاخ کی مجال ہے جو وہ ملکہ پر ہاتھ اٹھائے۔ یہ ناچیز۔۔۔برگر چیز دوست جو ہے اس کی"۔ سر کو خم دے کر اس نے ایک ادا سے کہا۔

الوینا اس کے انداز پر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔

                                           ☆☆☆☆☆

سول ڈریس میں ملبوس اس کے وجیہہ چہرے پر آج خوشی کا تاثر اور سیاہ آنکھوں میں اک انوکھی سی چمک واضح محسوس ہو رہی تھی۔

اہم کیسز سے جڑی اہم باتیں وہ اور مختار صاحب اکثر ان کے گھر پر بنے آفس میں ہی ڈسکس کرتے تھے۔

آج بھی بات بہت اہم تھی۔ جسے بتانے ہی وہ وہاں آیا تھا۔

ان کے آفس کے دروازے پر دستک دی۔ 

"آ جاؤ"۔ یک حرفی اجازت ملتے ہی وہ اندر داخل ہو گیا اور اپنے پیچھے دروازہ بند کر دیا۔

"سر"۔ معمول کے مطابق اس نے سلیوٹ کیا۔

"عالم تم؟ کیا بات ہے؟ اور تم میرے آفس میں بنا یونیفارم کیسے آئے آج؟"۔ انہوں نے سنجیدگی سے سر تا پیر اسے دیکھ کر پوچھا۔

"سوری سر، مگر یہ میری ضرورت تھی"۔ اس نے جواب دیا۔

"ہوں سمجھ گیا۔ بات بہت اہم لگتی ہے پھر تو۔ آؤ بیٹھو پھر ڈسکس کرتے"۔ انہوں نے سامنے کرسی کی جانب اشارہ کیا۔

حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اگلے ہی پل وہ ان کے مقابل کرسی سنبھال چکا تھا۔

"اگلے آدھے گھنٹے تک میرے آفس میں مجھے اطلاع دیئے بغیر نہ آنا اور نہ کسی کو آنے دینا"۔ انہوں نے انٹرکام پر نوکروں کے سربراہ کو ہدایات جاری کیے۔

پھر اس کی جانب متوجہ ہوئے۔

"ہاں تو اب بتاؤ کیا بات ہے؟"۔ 

"سر، مجھے اپنے ذرائع سے پکی خبر ملی ہے قیصر خیام کے بارے میں"۔ وہ فاتحانہ انداز میں انہیں بتا رہا تھا۔

جبکہ اس کی یہ بات سن کر مختار صاحب کرسی پر آگے کو ہو گئے۔

"کیسی خبر؟"۔ قیصر کا نام سنتے ہی وہ الرٹ ہو گئے۔

"خبر یہ ہے کے اس کی موجودہ لوکیشن کا میں نے پتہ لگا لیا ہے۔ معلوم ہو گیا ہے کے وہ اس وقت کہاں ہے"۔ آفیسر ٹھہر ٹھہر کر کہہ رہا تھا۔

"ویری گڈ جاب عالم، بتاؤ وہ کہاں ہے؟"۔ وہ ایک دم پرجوش نظر آنے لگے۔

"ایم-کے یونیورسٹی میں ہے وہ۔ پتہ نہیں کیا مقصد لے کر گیا ہے وہ وہاں"۔ انہیں مکمل معلومات دینے کے بعد وہ اب متفکر نظر آ رہا تھا۔

"وہاٹ؟ وہ اگر وہاں ہے تو اس کا مطلب پھر کوئی نئی سازش انجام دینے گیا ہے۔ ہمیں اسے روکنا ہوگا عالم۔ اس کا جو بھی پلان ہے ہمیں کامیاب نہیں ہونے دینا اسے"۔ مٹھیاں بھینچ کر وہ سخت لہجے میں کہہ رہے تھے۔

"وہ کیسے سر؟" وہ الجھا۔ کیونکہ مختار صاحب کا چہرہ بتا رہا تھا کے ان کے ذہن میں کچھ تو سمایا ہے۔

"کچھ خاص نہیں۔ تم بھی پہنچ جاؤ وہاں، جہاں وہ ہے"۔ مطمئن سی مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے تجویز دی۔

"سر میں کیسے؟"۔ وہ حیران ہوا۔

"ہاں تم ہی، کیونکہ میرے نزدیک ڈپارٹمنٹ میں تم سے زیادہ قابل اور بھروسے مند کوئی نہیں اس کام کیلئے"۔ ان کے لہجے میں اس کیلئے فخر تھا۔

"وہ سب ٹھیک ہے سر، لیکن آپ کی بیٹی یعنی میری کزن۔ ان محترمہ کو کون ڈھونڈے گا پھر؟"۔ اس نے ایک اور نقطۂ اعتراض اٹھایا۔

مختار صاحب نے ٹھنڈی آہ بھری۔

"نصیب میں ہوا تو وہ بھی مل جائے گی انشاءاللہ۔ فلحال یہ کام ضروری ہے"۔ وہ پھیکا سا مسکرائے۔

"تو بتائیے پھر، کیسے اور کب جانا ہوگا مجھے وہاں اسے پکڑنے؟" 

"اسے پکڑنا نہیں ہے ابھی۔ اس کی چال سمجھنی ہے اور اسے مات دینی ہے۔ اگر اسے پکڑ بھی لیا تو فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ اپنا جال تو آل ریڈی بچھا ہی چکا ہوگا وہ۔ لہٰذا تم وہاں جاؤ گے۔ ایک اسٹوڈنٹ کے طور پر اور اس پر نظر رکھو گے۔ ابھی کیلئے بس اتنا ہی"۔ انہوں نے بات ہی ختم کر دی۔

"میں؟ اور اسٹوڈنٹ؟"۔ آفس سے باہر نکلتے ہوئے بھی وہ یہی سوچ رہا تھا۔

آج شام سے ہی سارے شہر پر سیاہ بادلوں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔

جس کی وجہ سے سرشام ہی اندھیرا چھانے لگا تھا۔

لگ رہا تھا جیسے بادل زمین کو بھگونے کیلئے پر تول رہے ہوں

مگر حکم الہی کے تحت صبر کا دامن تھام کر رکے ہوئے تھے۔

"اوففف یہ موسم تو بہت ڈرا رہا ہے۔ اللہ تعالٰی پلیز بارش کو روک لیں جب تک میں ہاسٹل نہ پہنچ جاؤں۔ اس ڈرامہ کلاس کی وجہ سے اتنا لیٹ ہو گیا مجھے"۔ وہ ازحد پریشان تھی۔

کتنے مزے سے وہ ہاسٹل جانے کیلئے نکل رہی تھی جب ڈائریکٹر صاحبہ نے کالی بلی کی طرح اس کا راستہ کاٹ لیا۔

جس وجہ سے غزل تو کلاس کے بعد ہاسٹل چلی گئی مگر اسے مجبورا رکنا پڑا۔ کیونکہ فلزہ کے بقول اسے لائنز یاد نہیں تھیں۔ جس وجہ سے ہی اسے روکا گیا۔

اور پھر اس کا ایک گھنٹہ برباد ہوا ان گھسے پٹے لائنز کو رٹنے میں۔

تب کہیں جا کر اس کی جان چھوٹی۔

وہ یونی گیٹ سے نکل کر پوائنٹ تک چل کر آئی اور اب مسلسل کیب کا انتظار کرنے لگی۔

"یا اللہ یہ کیب بھی نہیں مل رہی اب تو۔ اور اوپر سے یہ موسم"۔ بادلوں سے اٹے آسمان کو دیکھ کر اس کی پریشانی دو چند ہو گئی۔

تبھی ایک گاڑی اس کے سامنے سے گزری۔ بات معمول کی تھی۔مگر تب تک جب تک کے وہ گاڑی اس سے کچھ ہی فاصلے پر نہ رک گئی تھی۔

وہ الرٹ ہو گئی۔

مگر پھر سرسری سا جائزہ لے کر بظاہر اِدھر اُدھر دیکھنے لگے۔

اچھی طرح جانتی تھی کے یہ گاڑی کس کی ہے۔

اسی لیئے دانستہ ہی اسے دیکھنے سے گریز برت رہی تھی۔

یک دم ہی اس کے بیگ میں پڑا موبائل وائبریٹ ہونے لگا۔ وہ چونکی۔

بیگ میں ہاتھ ڈال کر موبائل نکالا اور جو نام اس نے اسکرین پر جگمگاتے دیکھا وہ اس کے ہوش اڑانے کیلئے کافی تھا۔

لب بھینچ کر اس نے کپکپاتی انگلیوں سے کال اٹینڈ کیا اور کان سے لگایا۔

"اکیلی کھڑے کھڑے کیا کر رہی ہو تم؟"۔ سخت گیر آواز اسپیکر پر ابھری۔

"وہ میں۔۔۔کیب کا انتظار کر رہی"۔ اس نے اپنا لہجہ پراعتماد بنایا۔

وہ کچھ غلط تھوڑی کر رہی تھی۔ پھر کیوں خواہ مخواہ اس سے خوفزدہ ہوتی؟

"اتنے خراب موسم میں تم کیا وہی کھڑی کیب کا انتظار کرتی رہوگی؟"۔ آواز میں دبہ دبہ سا غصہ تھا۔

"تو میں اور کیا کروں؟"۔ بے خیالی میں کہہ گئی۔

جس پر اگلے ہی پل وہ پچھتائی۔

"چلو، میں تمہیں ہاسٹل چھوڑ دیتا ہوں۔ آ جاؤ"۔ اور اس کی اس مہربانی نے تو الوینا میڈم کے چھکے چھڑا دیئے۔

اگر دیکھا جاتا تو اس وقت اس شخص کی جگہ کوئی اور اس کا جاننے والا ہوتا تو وہ بھی یہی آفر کرتا۔

اور یہی تو مشکل تھی۔ وہ اس سے دور رہنے کے جتن کر رہی تھی۔ مگر قدرت تھی کے اس کی سب احتیاط۔۔۔ساری تدبیروں پر پانی پھر دیتی تھی۔

"نہیں سر شکریہ، میں پیدل چلی جاؤں گی۔ ہاسٹل یہاں سے قریب ہی ہے"۔ خود پر قابو رکھ کر اس نے بمشکل یہ جملہ ادا کیا۔

اس کی ایک پل کی قربت بھی الوینا کیلئے امتحان بن جاتی تھی۔ جس وجہ سے ہی وہ اس سے فاصلے بڑھانا چاہتی تھی۔

"اوکے ایز یو وش"۔ دوسری جانب سے اتنا کہہ کر کال کاٹ دی گئی۔

بس؟ اتنی سی بات تھی؟ کیا مشکل تھا اس میں؟

الوینا دل ہی دل میں خود کو شاباش دیتی مطمئن سی ہوگئی۔

لیکن اگلے ہی پل اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا جب وہ گاڑی سے اتر کر عین اس کے سر پر آن پہنچا۔

اسے یوں غیر متوقع طور پر اپنے سامنے دیکھ کر اس کا سارا خون سمٹ کر چہرے پہ آ گیا۔

"چلو میں بھی پیدل چلتا ہوں تمہارے ساتھ۔ ایسا ہے تو ایسا ہی سہی"۔ گاڑی لاک کرتے ہوئے اس کے چہرے پر دلکش سی مسکراہٹ تھی۔

جس نے الوینا کی دھڑکنیں مزید منتشر کر دیں۔

یعنی ایک اور امتحان؟

"اب کیا کھڑی کھڑی بارش ہونے کا انتظار کرتی رہوگی؟ چلو بھی"۔ اس کا کھویا کھویا سا انداز دیکھ کر پھر ٹوکا۔

ناچار، اس نے بھی اس کی معیت میں قدم آگے بڑھا دیئے۔

جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے، سست روی سے چلتے ہوئے بھی وہ دو قدم اس سے آگے ہی تھا۔

کوشش کے باوجود بھی وہ اس کے ہم قدم نہیں ہو پا رہی تھی۔

"تم اتنی ضدی ہوگی اس کا اندازہ مجھے نہیں تھا"۔ جانے وہ طنز کر رہا تھا یا مذاق اڑا رہا تھا۔

الوینا ناسجھی سے اس کی پشت تکنے لگی۔

وہ اس سے چند انچ ہی لمبا تھا۔

مگر الوینا کو پھر بھی وہ اونچا۔۔۔بہت اونچا لگتا تھا۔۔۔ناقابل رسائی۔

"ایسی تو کوئی بات نہیں"۔ وہ نروٹھے پن سے بولی۔

شاید وہ اس کے انداز پہ مسکرایا تھا۔

مگر وہ دیکھ نہ سکی۔

"کیا تم آج کی بات کو لے کر مجھ سے اپ سیٹ ہو؟"۔ وہ اس کے اندر کے موسم سے اس قدر بھی انجان نہیں تھا۔

الوینا پہلو بدل کر رہ گئی۔

"اپ سیٹ نہیں، پریشان ہوں۔ آپ نے مجھے انکار کیوں نہیں کرنے دیا؟ بلکہ الٹا آپ نے میری طرف سے مثبت جواب دیا ان کو۔ اور تو اور آپ نے اسے بتایا کیوں نہیں کے آپ ایک پروفیسر ہیں؟"۔ وہ جیسے بھری بیٹھی تھی۔

سوال در سوال کرتی ہوئی وہ اس سے ایسے پیش آ رہی تھی جیسے ان دونوں میں ہر چیز ایک معمول ہو۔

شاید اس کا سارا دھیان اس کے قدم سے قدم ملانے پر تھا۔ اسی لیئے وہ بے دھیانی میں بول گئی۔

"کیوں انکار کرنا چاہتی تھی تم؟"۔ وہ حیران ہوا۔

الوینا ایک پل کو ہچکچاہٹ کا شکار ہو گئی۔

"کیونکہ۔۔۔میں اسپاٹ لائٹ ہینڈل نہیں کر سکتی۔ نروس ہو جاتی ہوں"۔ اس نے صاف گوئی سے کہا۔

"کمال ہے۔ تم نے جس طریقے سے آج ایکٹ کیا اسٹیج پر پانچ منٹ میں کئی فین بنا لیئے۔ تب دیکھ کر لگا تو نہیں کے تم نروس ہو اسپاٹ لائٹس سے؟"۔ وہ بنا مڑے ہی گفتگو کر رہا تھا۔

اور الوینا کیلئے یہی غنیمت تھا۔

کیونکہ اس کی گہری نگاہیں اسے پزل کر دیتی تھیں۔

"داد تو آپ کو ملنی چاہیئے۔ ڈائلاگز آپ نے کہے تھے، میں تو صرف کھڑی تھی۔ میری جگہ کوئی اور ہوتی تو اس کے ساتھ بھی آپ ڈائلاگز ویسے ہی بولتے۔ سو اس میں میرا کوئی کمال نہیں تھا"۔ اس کے لہجے میں طنز کی آمیزش تھی۔

وہ شاید اس پہ غصہ تھی۔۔۔یا پھر خفا؟

اس کی بات سن کر اس کے قدم تھم گئے۔

الوینا بھی اس کے دیکھا دیکھی رک گئی۔۔۔درمیانی فاصلہ ایک قدم کا تھا۔

قیصر اب بھی اس کی جانب پشت کیئے کھڑا تھا۔

بادل زور سے گرجے اور بارش کی بوندیں تڑاتڑ برستی، زمین کو بھگونے لگیں۔

اس اچانک افتاد پر الوینا یک دم ہی گھبرا گئی۔

"اوہ خدایا، بارش شروع ہو گئی"۔ اسے سردی لگنے لگی تھی۔ بیگ سے سیاہ چادر نکال کر اس نے اپنے وجود کے گرد اچھی طرح پھیلا دیا۔

تبھی وہ مڑا۔ گہری نگاہیں اس کے چہرے کا طواف کرنے لگیں۔

 اور ایک قدم کا فاصلہ طے کر کے وہ اس  تک آیا۔ 

الوینا پلکیں سکیڑے اسے دیکھنے لگی۔

"تم مانو یا نا مانو لیکن اس میں کمال تمہارا ہی تھا الوینا۔ تمہیں دیکھ کر لب خود بخود اس رب کا شکر ادا کرنے لگتے ہیں۔ الفاظ کی اتنی حیثیت نہیں ہے کے وہ تمہیں بیان کر سکیں۔ تم ناقابل بیان ہو الوینا۔ تمہارا کوئی شمار نہیں ہے، کوئی نعم البدل نہیں ہے"۔ بارش کے قطرے بوچھاڑ کی صورت اس کا چہرہ بھگو رہے تھے۔

وہ لہجہ۔۔۔اور اس میں چھپے اسرار!

وہ مسحور سی اسے دیکھے گئی۔ 

شاید وہ شخص کوئی جادو جانتا تھا۔ اس کے لبوں سے نکلنے والے عام الفاظ بھی مسحور کر دیتے تھے۔

کتنی گہری تھیں اس کی آنکھیں!

جیسے کئی راز دفن ہو ان میں!

 "شاید آپ اب بھی اپنے کردار میں ہیں۔ یہاں کوئی اسٹیج نہیں لگا ہے۔ نہ تماشائی ہیں دیکھنے والے۔ پھر یہ اداکاری کیوں؟"۔ اس کا لہجہ آنچ لیے ہوئے تھا۔

شہد رنگ آنکھیں شکوہ کناں تھیں۔

منظر دھوئیں سے بھر گیا تھا۔

اس کی آنکھیں دھندلانے لگیں تھی۔

اس کے جواب کا انتظار کیئے بغیر وہ آگے بڑھ گئی۔

اور وہ وہی۔۔۔گم سم سا برستی بارش میں تنہا رہ گیا۔

اس کے چہرے پر تناؤ واضح نظر آ رہا تھا۔

اور اس بار یہ اداکاری نہیں تھی۔

گویا اس لڑکی کو الہام ہو رہا تھا کے اس کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے۔

                                          ☆☆☆☆☆

چینج کرنے کے بعد وہ آئینے کے سامنے کھڑی ڈرایئر سے اپنے بال خشک کر رہی تھی۔

"الوینا، میں جب یہاں نہیں تھی تو میرے پیچھے کچھ ہوا تھا کیا؟"۔ غزل جو کھڑکی میں کافی کا مگ تھامے کھڑی برستی بارش دیکھ رہی تھی۔

اچانک حملہ کیا۔

الوینا کے بالوں میں برش کرتے ہاتھ تھم سے گئے۔

"تمہیں ایسا کیوں لگا؟"۔ پچھلے دنوں جو کچھ بھی ہوا تھا اس نے غزل کو بتانے سے احتراز برتا۔

مگر اب شاید اسے کہیں اور سے پتہ چل گیا تھا۔

"شرم تو نہیں آتی، میری دوست کی پرابلمز، اس کی مشکلات مجھے کسی اور کی زبانی پتہ چل رہے ہیں اور وہ ہے کے اب بھی چھپانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ تف ہے ایسی دوستی پہ"۔ وہ بھڑک گئی۔

الوینا نے بال کیچر میں مقید کیے اور ٹھنڈی سانس بھری۔

"میں وہ سب بتا کر خواہ مخواہ تمہیں پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی غزل۔ تم ویسے ہی اتنی سینسیٹو ہو۔ یہ سب سن کر اور دکھی ہو جاتی۔ اور ویسے بھی وہ معاملہ کب کا سلجھ چکا ہے۔ وقاص نے مجھ سے معافی بھی مانگ لی تھی۔ بلکہ وی-سی سر نے بھی خود سوری کیا مجھ سے۔ پھر گڑھے مردے اکھاڑنے کا کوئی فائدہ بھی نہیں تھا"۔ نرمی سے اس کا ہاتھ تھامے وہ کہنے لگی۔

"اور تم نے اتنی آسانی سے اسے معاف بھی کر دیا؟ میں اس وقاص کے بچے کا منہ توڑ دوں گی۔ اس کی ہمت کیسے ہوئے میری دوست کے ساتھ ایسا کرنے کی"۔ وہ آگ بگولا ہو گئی۔

"بس یہی وجہ ہے تمہیں نا بتانے کی۔ کچھ عقل سے کام لو لڑکی۔ جب دیکھو ہاتھا پائی پہ اتر آتی ہو۔ اور زرا مجھے اپنے ذرائع کا نام تو بتائیے جہاں سے آپ کو یہ انفارمیشن ملی؟"۔ دونوں ہاتھ کمر پہ رکھے، ایک ابرو اٹھا کر پوچھا۔

"تمہیں کیا لگتا ہے کے میں چلی گئی دور تو مجھے کچھ پتہ نہیں چلے گا؟ جونیئر کلاس کی لڑکی نے بتایا مجھے۔ اس نے تم لوگوں کی باتیں سن لی تھیں"۔ منہ پھلا کر جواب دیا۔

"اللہ، تمہیں تو انٹیلیجنس آفیسر ہونا چاہیے تھا۔ جاسوس کہیں کی"۔ الوینا نے اسکے شانے پہ ایک چپت رسید کی۔

"تو اور کیا، غزل حیات کو کبھی ہلکے میں نہ لینا"۔ فخریہ انداز میں کہتے ہوئے فرضی کالر کڑائے۔

"وہ تو ویسے بھی نہیں لے سکتی۔ اتنی بھاری بھرکم جو ہو گئی ہو اپنے گھر جا کر۔ لگتا ہے آنٹی نے ایک سال کا کھانا تمہیں ایک دن میں کھلایا ہے"۔ اس نے اس کے گول مٹول چہرے کو نشانہ بنایا۔

"وہ سب چھوڑو۔ اور یہ بتاؤ کے یہ پروفیسر صاحب آج کل اپنی ایک اسٹوڈنٹ پر کچھ زیادہ ہی توجہ نہیں دے رہے؟"۔ غزل نے بظاہر سنجیدگی اختیار کی۔

اس کے ذکر پر الوینا کے ذہن میں آج کا دن پھر سے تازہ ہو گیا۔

"مجھے کیا پتہ"۔ وہ ٹالنے والے انداز میں بولی۔

"بنو مت۔ میں نے خود محسوس کیا ہے بارہا۔ اور ویسے بھی آجکل وہ کچھ زیادہ ہی التفات لٹا رہے ہیں تم پر۔ خیر تو ہے؟"۔ معنی خیزی سے مسکراتے ہوئے اس نے ٹہوکا دیا۔

"بکو مت، ایسا کچھ نہیں جو تم سوچ رہی ہو"۔ وہ رخ پھیر کر کھڑکی میں جا کھڑی ہوئی۔

"ہوں، آئی ہوپ ایسا ہی ہو۔ ورنہ دوسرے تھپڑ کیلئے تم تیار رہنا الوینا بی بی۔ اور مجھے یقین ہے کے اس بار والے کی کیپیسٹی پہلے والے سے زیادہ ہی ہوگی"۔ وہ شرارتی لہجے میں کہہ رہی تھی۔

جبکہ الوینا کو اپنے وجود پر اس کا دہکتا لمس اب بھی محسوس ہو رہا تھا۔ اپنے چہرے پر وہ تپش اب بھی محسوس ہو رہی تھی جو اس کی نظروں میں تھی۔

                                   ☆☆☆☆☆

"ایکسکیوز می"۔ شائستہ آواز پر الوینا اور غزل جو کلاس جا رہی تھیں دفعتا رک گئیں۔

اور ایک ساتھ پلٹ کر آواز کے تعاقب میں دیکھا۔

وہ لمبا سا مضبوط قد کاٹھ والا وجیہہ شخص دلکشی سے مسکراتے ہوئے باری باری ان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔

الوینا اور غزل نے ایک دوسرے کو دیکھا۔۔۔پھر اسے۔۔۔پھر ایک دوسرے کو۔

اور اب کی بار غزل نے اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں کوئی اشارہ دیا تھا۔

"فریشر؟" دونوں یک آواز ہو کر بولیں۔

"آ۔۔۔کہہ سکتے ہیں۔ لیکن میں ایکسچینج پروگرام کے تحت آیا ہوں"۔ سیاہ بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

"تو ہمیں روکنے کی وجہ؟"۔ الوینا نے منہ بگاڑ کر پوچھا۔

"اوہ ہاں، سوری۔ کیا آپ لوگ بتا سکتے ہیں کے پرنسپل کا آفس کہاں ہے؟"۔ شائستگی سے پوچھا۔

"اس طرف"۔ الوینا نے بے ساختہ دائیں جانب انگلی سے اشارہ کیا۔ جہاں پرنسپل کا آفس تھا۔

"اے"۔ غزل نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے گھرکا۔

اس نے سمجھ کر زبان دانتوں تلے دبائی۔

"اس طرف ہے"۔ غزل نے جلدی سے الوینا کا ہاتھ پکڑ کر نوے ڈگری کے اینگل میں گھمایا۔ جہاں گرلز لو تھا۔

"ہاں ہاں، اسی طرف ہے"۔ الوینا نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔

"اوہ اچھا، تھینکس سو مچ"۔ وہ مشکور نظر آنے لگا۔

اس کے جاتے ہی وہ دونوں ہاتھ پر ہاتھ مارتی ہنستی چلی گئیں۔

"ڈونٹ مائنڈ۔ اتنی معصوم سی ریگنگ تو چلتی ہی ہے فریشرز کے ساتھ"۔ غزل نے ہانک لگائی۔

لیکن وہ سننے کے مقام سے کب کا دور جا چکا تھا۔

"مے آئی کم ان سر؟"۔ پرنسپل صاحب کے آفس کے باہر دروازے پر دستک دینے کے ساتھ ہی اس نے اجازت طلب کی۔


"یس"۔ ان کی اجازت ملتے ہی وہ اندر داخل ہو گیا۔


پرنسپل صاحب نے عینک کے پیچھے سے نووارد کا جائزہ لیا۔

جو کے ان کی ٹیبل کے پار کھڑا تھا۔


"کوڈ اے-ایچ-بارہ-بیس؟"۔ انہوں نے تصدیق چاہی۔


"اکیس-زیرو-ٹو"۔ جواب میں اس نے دہرایا۔

جس پر پرنسپل صاحب پہلی بار مسکرا دیئے۔


"آپ کا ہی انتظار تھا۔ آیئے بیٹھیے"۔ انہوں نے کرسی کی جانب اشارہ کیا۔


"شکریہ سر"۔ اپنی مخصوص نرم مسکراہٹ کے ساتھ اس نے نشست سنبھالی۔


"ابھی آدھا گھنٹہ قبل ہی ڈی-آئی-جی صاحب کا فون آیا تھا مجھے۔ انہوں نے خاص ہدایت کی تھی آپ کے بارے میں"۔


"وہ سب ٹھیک ہے سر، لیکن آپ پلیز مجھے بار بار 'آپ' نہ کہیں اچھا نہیں لگتا۔ سینیئر ہیں آپ مجھ سے"۔ اس نے شائستگی سے انہیں ٹوکا۔


جس پر پرنسپل صاحب کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔


"بہت اعلٰی تربیت ہے تمہاری۔ اور کم عمری میں اس مقام تک آنا واقعی قابل فخر بات ہے۔ ہر کوئی اس مقام تک نہیں پہنچ پاتا آفیسر"۔ وہ اس سے کافی متاثر نظر آتے تھے۔


"میں یہاں بحیثیت ایک اسٹوڈنٹ آیا ہوں۔ بہت ضروری کام کرنے۔ مجھے چند ہفتے یا پھر ایک عاد مہینہ یہاں ایک اسٹوڈنٹ کے طور پر رہنا ہے۔ آپ بس اس کا بندوبست کر دیجئے میرے لیئے"۔ اس نے بہت کم اور ڈھکے چپھے لفظوں میں اپنی بات انہیں سمجھائی۔

تاکہ اگر کوئی سن بھی رہا ہو ان کی گفتگو تب بھی اسے کچھ سمجھ نہ آ سکے۔


"تمہیں کون سے کلاس میں ایڈمشن چاہیے؟"۔ انہوں نے پوچھا۔


"وہی کلاس جس میں ہسٹری تبریز شاہ نامی ایک شخص

پڑھاتا ہے"۔ فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ اس نے کہا۔

پرنسپل صاحب اب کے چونک گئے۔


چونکہ انہیں مکمل بات بتائی نہیں گئی تھی، لہٰذا وہ قیصر کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔


"وہ تو ایک نیا پروفیسر ہے۔ جسے ہم نے مس کائنات کی ریکمنڈیشن پر رکھا ہے چند ماہ کیلئے۔ کیونکہ وہ خود کسی کام کے سلسلے میں بیرون ملک گئی ہوئی ہیں"۔ پروفیسر صاحب نے انہیں اطلاع دی۔

ان کی چھٹی حس کہہ رہی تھی کے کچھ گڑبڑ ہے۔


"آپ فکر مت کیجئے، دراصل میں نے یہاں آنے سے قبل آپ کی یونیورسٹی کے بارے میں ہر چھوٹی بڑی انفارمیشن لی ہے۔ اور جس شخص کی ہمیں تلاش ہے وہ اسی کلاس میں ہوتا ہے۔ یہ تو میں نے بس حوالہ دینے کیلئے پروفیسر تبریز شاہ کا نام لیا"۔ عالم نے فوری طور پر بات بنائی۔


کیونکہ اگر پرنسپل صاحب کو پتہ لگتا تو وہ پینک ہو جاتے۔

اور قیصر خیام بھیڑیے کی طرح ان کا خوف دور سے ہی سونگھ لیتا۔ جس کے بعد ممکن تھا کے وہ ان کے ہاتھوں سے پھر نکل جاتا۔


"اوہ تو یہ بات ہے"۔ پرنسپل صاحب قدرے شانت ہو گئے۔


"ٹھیک ہے پھر میں تمہارا آئی-ڈی کارڈ وغیرہ بنوا دیتا ہوں۔ تم آج سے ہی کلاس جوائن کرو"۔ انہوں نے پرجوش انداز میں کہا۔


"شکریہ سر"۔ اس نے مصافحے کیلئے ہاتھ بڑھایا جسے پرنسپل صاحب نے گرمجوشی سے تھام لیا۔


"نام کیا ہے تمہارا؟"۔ وہ کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا تھا جانے کیلئے کے تبھی ان کو پوچھنا یاد آیا۔


"ہارون عالم"۔ ایک مسکراہٹ کے ساتھ اس نے کہا۔

پھر آفس سے باہر نکل گیا۔

☆☆☆☆☆


کلاس میں اس وقت اکا دکا اسٹوڈنٹس ہی تھے۔

وہ کلاس میں داخل ہوا۔

اور تیسری را کی ونڈو والی سائیڈ کی نشست سنبھال لی۔


کچھ ہی دیر میں کلاس بھرنے لگی۔

ایسے میں وہ دونوں بھی کلاس میں تشریف لا چکی تھیں۔


اپنی سیٹ کی جانب آتے ہوئے وہ یک بارگی ٹھٹھک گئی۔


"غزل وہ دیکھو، وہ وہی لڑکا ہے جو کچھ دیر قبل ہم سے پرنسپل کے آفس کا پوچھ رہا تھا۔ کمبخت پہلے ہی دن میری سیٹ پہ قبضہ جما کے بیٹھ گیا"۔ الوینا کا بس نہیں چل رہا تھا کے وہ کیا کر گزرے۔


"ہاں یار، ہمت دیکھو اس کی۔ چلو چل کر خبر لیتے ہیں"۔ غزل نے اسے ساتھ کھینچتے ہوئے اس کے پاس والی ایک کرسی چھوڑ کر بیٹھ گئی۔

اور اس کے ساتھ والی کرسی دوسری جانب الوینا نے سنبھال لی۔


"سنیں، آپ نے میری دوست کی سیٹ پر قبضہ جمایا ہوا ہے۔ بہتر ہوگا کے فورا اپنی تشریف کا ٹوکرا اٹھائیے اور اسے لے کر کہیں اور بیٹھ جائیے"۔ غزل نے آنکھیں پٹپٹا کر معصومیت سے کہا۔


ہارون نے نگاہیں اٹھا کر دیکھا۔ اور پھر سے نوٹ بک پر کچھ لکھنے لگا۔


"اپنی دوست سے کہیے کے اگر انہیں اپنی سیٹ اتنی ہی پیاری ہے تو اپنے حصے کی لڑائی وہ خود آ کر لڑیں۔ ایسی ڈرپوک دوست کیلئے آپ لڑ رہی ہیں۔ جو خود چھپ کر بیٹھی ہیں اور آپ کو سامنے کر دیا"۔ مصروف سے لہجے میں جہاں اس نے یہ بات کہی۔


وہی الوینا کے تلوؤں میں لگی اور سر پہ بجھی۔

وہ ایک جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھی، پھر غزل اور اس کے درمیان موجود خالی کرسی پر آ بیٹھی۔


"ارے واہ، کیا کہا تم نے میں اور ڈرتی ہوں؟ وہ بھی تم سے؟ ایک تو چوری اوپر سے سینا زوری۔ میری سیٹ پر قبضہ جمائے بیٹھے ہو اور مجھے ہی باتیں سنا رہے؟"۔ وہ سخت غضبناک ہوئی۔


ہارون کی نگاہیں ہنوز نوٹ بک پر تھیں۔ اور ہاتھ مسلسل چل رہا تھا۔ مگر چہرے سے لگتا تھا جیسے زبردستی مسکراہٹ ضبط کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔


"آپ کی سیٹ؟"۔ وہ حیرت سے اِدھر اُدھر نگاہیں دوڑاتا کرسی پر جیسے کچھ تلاش کر رہا تھا۔


الوینا اور غزل کی سمجھ سے اس کی حرکتیں بالاتر تھیں۔


"لیکن اس پر مس الوینا تحسین نام لکھا ہوا تو کہیں نظر نہیں آ رہا ہے"۔ مصنوعی سنجیدگی کے ساتھ کہتا ہوا وہ اس کی جان جلا گیا۔


مگر حیرت تو اس بات پر ہوئی کے اسے اس کا نام کیسے پتہ تھا۔


"ایک منٹ، تمہیں میرا نام کیسے پتہ؟" الوینا نے مشکوک نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔


"یہ تو ایک راز ہے"۔ مٹھی گال تلے رکھے اس نے اتنی سنجیدگی سے کہا کے ایک پل کو تو الوینا ٹھٹھک گئی۔


"دیکھو تم سچ سچ بتا دو ورنہ میں تمہاری کمپلین کر دوں گی پولیس میں"۔ کچھ نہ بن پڑا تو دھمکی پہ اتر آئی۔


اب کے اس کی یہ بات سن کر اسے اپنی ہنسی ضبط کرنا محال ہو گیا۔

ضبط کرتے کرتے اس کا چہرہ سرخ پڑنے لگا۔


"نہیں نہیں آپ پولیس میں مت جائیے۔ میں بتاؤں گا نا مگر ایک شرط پر"۔ وہ فورا بولا۔


"کیسی شرط؟"۔ وہ الجھی۔


غزل چپ چاپ بیٹھی ان کی اس تکرار سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔


"نہیں پہلے کہو کے میری شرط منظور ہے۔ پھر بتاؤں گا"۔ وہ ہٹ دھرمی سے بولا۔

جس پر الوینا تپ کر رہ گئی۔


"تم۔۔۔۔" بے بسی بھرے غصے کی وجہ سے الفاظ ہی نہیں مل رہے تھے اس سرپھرے کو سنانے کیلئے۔


"اچھا ٹھیک ہے۔۔۔اب بتاؤ"۔ وہ دانت پیس کر بولی۔

ہارون مسکرا دیا۔


"تو مس الوینا شرط کے مطابق اب سے یہ سیٹ میری ہوگی۔ آپ اپنا بندوبست کہیں اور کر سکتیں ہیں۔ اور رہی بات نام کی تو وہ آپ کے ہاتھ میں موجود فائل پر جلی حروف میں لکھا ہوا ہے"۔ شرارتی لہجے میں کہتے ہوئے اس نے فائل کی جانب اشارہ کیا۔


جس پر الوینا مزید جل بھن گئی۔

"اپنی یہ اوور اسمارٹنس سنبھال کر رکھو۔ تم نے مجھ سے پنگا لے کر اچھا نہیں کیا"۔ وہ دھماکنے لگی۔

ہارون کے لب 'اوہ' میں ڈھل گئے۔


"لیکن شروعات تو آپ لوگوں کی طرف سے ہوئی تھی نا۔ مجھے پرنسپل کے آفس کا پتہ بتانے کے بجائے گرلز لو کا راستہ بتا دیا۔ وہ تو اچھا ہوا کے میں سمجھدار تھا، بکرا بننے سے خود کو بچا لیا۔ کیونکہ مجھے سمجھ آ چکی تھی کے آپ دونوں خواتین میری کھنچائی کر رہی ہیں"۔ اس نے فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔


ایک پل کو تو الوینا شرمندہ سی ہو کر لب بھینچ گئی۔


وہ دلچسپی سے اس کے چہرے کا اتار چڑھاؤ نوٹ کرتے ہوئے جواب کا منتظر تھا۔


"اب تمہارا میرا حساب بے باک ہو گیا۔ لہٰذا میرے منہ مت لگنا دوبارہ۔ ورنہ تمہارا منہ توڑ دوں گی"۔ بپھر کر کہتے ہوئے اس نے 'ہونہہ' کرکے رخ موڑ دیا۔


ہارون بھی شانے اچکا کر پھر سے کچھ لکھنےچڑ میں مصروف ہو گیا۔


"اور تم کیا تب سے مزے لے کر مسکرائے جا رہی ہو"۔ اس کی توپوں کا رخ اب غزل کی طرف ہو گیا۔


"ارے میں نے کیا کیا؟ بحث ہار گئی تو اب رونے کا فائدہ کیا۔ قبول کرو نہ اپنی شکست۔ اب اس میں میری کیا غلطی"۔ مصنوعی سنجیدگی سے کہتے ہوئے منہ پھلایا۔


اور اس سے قبل کے وہ بدلا چکاتی وہ کلاس میں داخل ہو چکا تھا۔


باقی اسٹوڈنٹس کی طرح الوینا بھی یک دم الرٹ ہو گئی۔


ہارون کے اندر ابال سا اٹھا تھا اسے دیکھ کر۔

مگر اس کے اندر کا حال پھر بھی چہرے پر نہیں آیا۔


"اپنے اپنے اسائنمنٹس میرے ٹیبل پر جمع کر دیں۔ جو پچھلے ہفتے آپ لوگوں کو دیا تھا"۔ وہ سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔


دھڑا دھڑ سب کی اسئمنٹش اس کے ٹیبل پر جمع ہو رہی تھیں۔


"کیا زمانہ آ گیا ہے۔ اب مجرم پولیس کو سبق پڑھائیں گے"۔ وہ طنزیہ مسکرایا۔


"تم کون ہو؟"۔ عین اسی وقت اس نے الوینا کے دائیں جانب بیٹھے اسے مخاطب کیا۔


ناچار وہ اٹھ کھڑا ہوا۔

"ہارون عالم۔۔۔پہلا دن، پہلی کلاس"۔ پراعتماد لہجے میں وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وہ بولا۔


"ایڈمیشن سیزن تو کب کا ختم ہو چکا۔ پھر تمہیں کیسے ایڈمیشن دی گئی ہے؟"۔ کچھ تھا اس کے لہجے میں جو یہ بتا رہا تھا کے شاید اسے شک ہو چلا ہے اس پہ۔


اثبات پر سارے اسٹوڈنٹس اب مڑ مڑ کر اسے دیکھنے لگے۔


"میں ایکسچینج پروگرام کے تحت یہاں آیا ہوں"۔ اس کے انداز میں رتی بھر فرق نہ آیا۔

وہ بھی تو اپنے نام کا ایک تھا۔

آخر کو مختار صاحب نے اس میں کچھ تو دیکھ کر ہی بھیجا تھا اسے یہاں۔


"ہوں۔ ایکسچینج اسٹوڈنٹ۔ ٹھیک ہے"۔ پتہ نہیں وہ مطمئن ہوا بھی تھا کے نہیں مگر اس کے چہرے سے اندازہ لگانا مشکل تھا۔


ہارون واپس اپنی جگہ پر ٹک گیا۔


"خالو جان نے ٹھیک کہا تھا۔ قیصر خیام واقعی معمولی مجرم نہیں ہے"۔ دل ہی دل میں وہ خود سے مخاطب، اسے داد دے رہا تھا۔

☆☆☆☆☆


وہ اسٹاف روم جا رہا تھا جب اچانک فلزہ سلیم کا پیغام موصول ہوا۔


"میں گارڈن سائیڈ پہ آپ کا ویٹ کر رہی ہوں"۔ اس نے وہ پڑھا پھر جواب لکھنے لگا۔


"میں نہیں آ سکتا۔ اور تمہاری میری جو کمٹمنٹ تھی اس کی قیمت تمہیں مل چکی ہے۔ اور آخری بات، مجھے تمہارے پلے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ لہٰذا تم کسی اور کو ڈھونڈو"۔ برہمی سے ٹائپ کر کے سینڈ کرنے کے بعد موبائل جیب میں رکھ لیا۔


"یہ لڑکی تو پیچھے پڑ گئی ہے"۔ بڑبڑاتے ہوئے وہ آگے بڑھ گیا۔


اس سے زرا فاصلے پر ہی وہ بظاہر کھڑا نوٹس بورڈ پڑھ رہا تھا۔ لیکن دھیان مسلسل اس کی طرف ہی تھا۔


وہ جب سے آیا تھا ایک لمحہ بھی اس سے چوک نہیں رہا تھا۔

ہر سیکنڈ اس کی نظر قیصرخیام پر تھی۔

وہ جلد از جلد اسے اسکے ارادوں سمیت سلاخوں کے پیچھے بندھ کر دینا چاہتا تھا۔

پھر وہاں سے اسے پھانسی کے پھندے تک پہنچانا عام بات تھی۔

☆☆☆☆☆


وہ ابھی ابھی یونیورسٹی سے گھر پہنچا تھا۔

لائٹس آن کرتے ہی اندھیرے میں ڈوبا گھر روشنیوں میں نہا گیا۔


وہ ڈریسنگ میز کے شیشے کے سامنے آ کھڑا ہوا اور آنکھوں پر سے بھورے فریمز والے چشمے اتار کر اب سیاہ لینسز اتارنے لگا۔


کچھ ہی دیر میں فریش ہو کر وہ واپس اپنے اصل میں آ گیا تھا۔


اور اب کرسی پر بیٹھا سگریٹ سلگانے لگا تھا جب یک دم اپنی کنپٹی پر چمکتی ہوئی سیاہ ریوالور کو محسوس کر کے وہ ٹھٹھک کر رکا۔۔مگر صرف کچھ سیکنڈز کیلئے۔


اگلے ہی پل ریوالور کو اس ہاتھ سمیت کھینچ کر جھٹکا دیا۔

نتیجتا، وہ بندوق سمیت اس کی جھولی میں آن گری۔


قیصر نے سگریٹ کا گہرا کش لیا اور دھواں تارہ کے چہرے پر چھوڑ دیا۔

اس نے سانس روک کر آنکھیں بند کر لیں۔


دھواں جب چھٹا تب اس نے پلکیں وا کیں۔

"تمہیں کیسے پتہ چلا کے یہ میں ہوں؟"۔ اس کے گیلے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے اس نے دلچسپی سے پوچھا۔

اس کی آنکھیں اس کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔


قیصر کی نگاہیں بھی اس پر جمی تھیں۔


"تم نے بندوق تان لی اتنا ٹھیک تھا۔ لیکن جب دوسرا ہاتھ میرے شانے پر رکھا تو تم اچھی طرح جانتی ہو تارہ کے تمہارا لمس ہزاروں میں بھی پہنچان سکتا ہوں میں"۔ وہ دلچسپی سے بولا۔


"اتنی محبت کرتے ہو مجھ سے؟"۔ اس کے چہرے کے نقوش پر انگلی پھیرتے ہوئے اس نے بے تابی سے پوچھا۔

اثبات پر قیصر خیام کا جاندار قہقہہ پڑا تھا۔


آدھی سے زیادہ سگریٹ اس نے پھینک کر جوتوں تلے مثل دی۔

اور کرسی سے اٹھ کھڑے ہو کر اس نے تارہ کو بازوؤں میں بھر کر اپنی جگہ بٹھا دیا۔

پھر خود پنجوں کے بل اس کے مقابل بیٹھ گیا۔


"تم اچھی طرح جانتی ہو تارہ کے محبت لفظ میری خمیر میں ہی نہیں۔ بلکہ محبت سرے سے وجود ہی نہیں رکھتی اس دنیا میں۔ وہ جسے ہم محبت کہتے ہیں وہ اصل میں ہماری خواہش ہوتی ہے۔

کسی کو طاقت کی چاہ ہوتی۔ تو کیا وہ محبت ہو گئی؟

کسی کو دولت، شہرت چاہیے تو کیا ہم اسے محبت کہیں گے؟ نہیں تارہ، محبت کچھ بھی نہیں ہوتی۔ یہ لفظ ان لوگوں نے ایجاد کیا ہے جو بظاہر درویش صفت ہوتے ہیں، لوگ سمجھتے ہیں کے ایسے لوگوں کی کوئی نفسانی خواہشات نہیں ہوتیں۔ تو اب ایسے میں دنیا والوں کے سامنے اپنا بھرم قائم رکھنے کیلئے اپنی خواہشات کو کوئی ایسا نام تو دینا ہی تھا نا کے جس پر لوگ خوشی خوشی ایمان لے آئیں۔ لہٰذا انہوں نے اپنی چاہت یا کسی بھی ضرورت کا نام محبت رکھ دیا۔

لیکن حقیقت میں یہ صرف ایک لفظ ہے۔ جو بے معنی ہے۔ جس پل ہم یہ کہہ دیتے ہیں کے ہمیں یہ چیز، یا یہ شخص چاہئے، اسی پل وہ خواہش بن جاتی ہے۔ محبت لفظ پھر پیچھے رہ جاتا ہے۔

جس گھڑی ہم لفظ 'چاہیے' کسی چیز کے ساتھ جوڑ لیتے ہیں پھر وہ خواہش بن جاتی ہے"۔ وہ اسے سمجھا رہا تھا۔


اور تارہ مسحور سی اسے سن رہی تھی۔

یہی تو اس شخص کی خاصیت تھی۔ غلط ہوتے ہوئے بھی جو وہ کہتا تھا وہ صحیح محسوس ہوتا، اس کی بات پر ایمان لانے کو دل چاہتا۔


"تو تم کہنا چاہتے ہو کے محبت میں طلب نہیں ہونی چاہیئے۔ بس دینا چاہیے، بدلے میں کچھ ملنے کی کوئی امید نہیں رکھنی چاہیئے؟"۔ تارہ نے گہری نگاہوں سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے ایک اور سوال اٹھایا۔


جس پر قیصر نے ٹھنڈی سانس بھری اور اٹھ کھڑا ہوا۔


"وہ سب میں نہیں جانتا۔ اور تم یہ بتاؤ کے کب آئی ہو یہاں؟ اور کیسے؟ کسی نے پیچھا تو نہیں کیا؟"۔ وہ فکرمند ہو گیا۔


"نہیں، میں احتیاط سے آئی ہوں۔ اعظم سے سننے میں آ رہا ہے کے آج کل تم اس لڑکی۔۔۔کیا نام ہے۔۔۔ہاں، الوینا کے آس پاس زیادہ پائے جا رہے۔ تو میں بس دیکھنے چلی آئی کے قیصر خیام واقعی میں پگھل گیا ہے یا نہیں"۔ اس کے شانے پہ ہاتھ رکھے وہ کہہ رہی تھی۔


قیصر اس کی بات پر طنزیہ ہنسا۔


"اور تمہیں لگا کے تمہاری پوزیشن لال بتی کے گھیرے میں نہ آ جائے؟"۔ وہ اس تنگ کرنے کو بولا۔


"تم چاہے کسی کے ساتھ بھی رہو، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ کیونکہ میں جانتی ہوں کے تمہارے پتھر دل تک جب میں اتنے سالوں میں نہیں پہنچ سکی تو کوئی اور بھی نہیں ٹک سکے گی"۔ وہ پریقین تھی۔


قیصر نے نرمی سے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیئے۔


"تم غلط ہو، مجھے الوینا سے محبت ہو گئی ہے تارہ"۔ وہ سنجیدہ تھا۔


تارہ اثبات پر ہنسی۔۔۔اور ہنستی چلی گئی۔


"ہاں پتہ ہے، پتہ ہے"۔ وہ اس کے شانے پر ہاتھ مار کے لاپرواہی سے بولی۔


"میری طرف دیکھو تارہ، میں مذاق نہیں کر رہا"۔ اس نے تارہ کے شانے پر ہاتھ رکھے۔ اپنی بات پر زور دیا۔


تو اب کے وہ ٹھہر گئی۔

مسکراتے لب سمٹ گئے۔

وہ بے یقینی اور شاک سے اس کا چہرہ تک رہی تھی۔

زبان سے ایک لفظ بھی ادا نہ ہو پایا تھا۔

قیصر نے اس کی رونی صورت دیکھی تو اس کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔

"یار ابھی ابھی تمہیں سمجھایا ہے کے خواہش کا دوسرا نام محبت ہے۔ اور تم اچھی طرح جانتی ہو کے میری خواہش کیا ہے۔ اور میری خواہش کی محض ایک سیڑھی ہے وہ لڑکی"۔ اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھر کر وہ کہہ رہا تھا۔

اور تارہ نے بے اختیار پرسکون سانس لی۔

پھر اس کے سینے پہ ایک مکا جڑ دیا۔

"تم نے تو ایک لمحے کو ڈرا دیا مجھے۔ ایسا مزاق دوبارہ کیا تو سچ میں جان لے لوں گی تمہاری"۔ وہ منہ پھلا کے بولی۔

قیصر اس کی بات پر مسکرا دیا۔

"تم نہیں جانتی ہو تارہ کے وہ لڑکی کتنی اہم ہے میرے لیئے۔ وہ مختار کی بیٹی ہے تارہ۔ میرے سب سے بڑے دشمن کی"۔ اس نے پرسکون لہجے میں کوئی بم پھوڑاتھا۔

تارہ بے یقینی سے اس کی جانب دیکھنے لگی۔

الفاظ جیسے ختم ہو گئے تھے۔

"کیا یہ واقعی سچ ہے؟ اور اگر ہے تو تمہیں کہاں سے پتہ چلی یہ بات؟"۔ وہ حیران تھی

"میں نے اس لڑکی الوینا کا بائیو ڈیٹا یونیورسٹی کے ریکارڈز میں چیک کیا ہے۔ وہاں اس کے باپ کا نام مختار انصاری لکھا ہے۔ حیرت تو مجھے بھی ہوئی۔ ڈھونڈ تو میں علی مرزا کی کمزوری کو رہا تھا۔ لیکن مل گئی مختار انصاری کی۔ اور یہ انفارمیشن کسی خزانے سے کم نہیں تھی۔

جس رات وہ لڑکی لائبریری گئی تھی۔ اسی رات مجھ پر یہ انکشاف ہوا"۔

"یہ تو بالکل بریکنگ نیوز ہے قیصر۔ پھر تم نے سوچا ہے کے اس لڑکی کو کیسے اور کہاں استعمال کرنا ہے؟"۔ تارہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔

"ہاں سوچا ہے۔ لیکن یہ لڑکی میری توقع سے زیادہ مشکل ثابت ہو رہی ہے۔ وہ بس ایک بار میری مٹھی میں آ جائے تو مختار خود بخود کٹھ پتلی بن جائے گا میرے آگے"۔ اس نے تلخی سے کہا۔

"یہ تو بہت آسان ہے۔ اسے محبت سے رام کرنے کی کوشش کرو۔ پھر جو تم کہو گے وہ ویسا ہی کرے گی"۔ تارہ نے چٹکی بجا کر حل پیش کیا۔

"یہی تو مشکل ہے تارہ۔ اسے مخاطب کروں تو وہ گھبرا جاتی ہے۔ محبت سے دیکھوں تو ڈر جاتی ہے۔ اور اگر قریب جاؤں تو وہ خود میں سمٹتی ہے۔ وہ اتنی آسانی سے ہاتھ آنے والی نہیں ہے"۔

تارہ اس کی بات پر ہنس دی۔

"بس اتنی سی بات؟ تم اس سے نرمی سے پیش آؤ، اس کا بھروسہ جیتنے کی کوشش کرو، اور اس کی مشکلیں آسان کرو۔ پھر میں بھی دیکھتی ہوں کے وہ کیسے شیشے میں نہیں اترتی"۔ وہ مشورہ دینے لگی۔

"چاہے جو بھی ہو، جیسے بھی کرنا پڑے۔ لیکن میں الوینا سے یہ محبت کروا کر رہوں گا"۔ اس کا لہجہ اٹل تھا۔

وہ دونوں کیفیٹیریا میں موجود باتیں بگھارنے کے ساتھ ساتھ پیٹ پوجا بھی کر رہی تھیں۔


تبھی الوینا کے موبائل پر میسج کی مخصوص ٹون بجی۔

ٹشو سے ہاتھ صاف کر کے اس نے موبائل کا انباکس کھولا تو اس کے چہرے پر بیزاریت پھیلتی چلی گئی۔

جسے غزل نے نوٹ کر لیا۔


اس نے اپنا موبائل پٹخنے کے سے انداز میں واپس ٹیبل پر رکھ دیا۔


"کیا ہوا لڑکی؟ تبریز شاہ کا غصہ اس بیچارے بے جان موبائل پر کیوں اتار رہی ہو؟ "۔ غزل نے مسکراہٹ دبا کر سنجیدگی کا تاثر دیا۔


"بکو مت۔ ایک تو میں پہلے ہی اس اسٹوپڈ پلے کی وجہ سے پریشان ہوں، اور اوپر سے تمہاری یہ بےکار سوچیں۔ تم زرا اپنے ذہن کے گھوڑے کو لگام دو۔ پتہ نہیں کیا کیا سوچتی رہتی ہو"۔ الوینا کو اسکی بات پہ تپ چڑھی۔


"ارے میں نے بھلا کیا کہا ایسا؟ وہ تو جو تمہارے چہرے پر لکھا نظر آ رہا ہے وہی پڑھ کر سنایا میں نے تو بس"۔ وہ مسکین سی صورت بنا کر بولی۔


"اچھا؟ کیا لکھا ہے میرے چہرے پہ زرا مجھے بھی تو پتہ چلے؟"۔ دان پیس کر بولی۔


"تمہارے چہرے پر تو جلی حروف میں ایک ہی نام لکھا ہے۔ تبریز شاہ"۔ غزل نے چھیڑنے والے انداز میں کہا۔


اسکی اثبات پر الوینا کے دل نے ایک بیٹ مس کی۔


"اب تم پکا بری طرح پٹوگی مجھ سے"۔ وہ بے بسی سے دانت کچکچانے لگی۔


"اچھا اچھا، کول ڈاؤن۔ اور یہ بتاؤ کے اب کونسا مسئلہ درپیش ہے؟ کیوں پریشان ہو؟"۔ غزل اب کے سنجیدہ ہو گئی۔


"فلزہ کا میسج آیا تھا ڈرامہ کلب بلایا ہے"۔ وہ سخت کوفت زدہ لگ رہی تھی۔


"ہوں۔ اب کیا ایشو ہے اسے؟ ڈرامہ کلاسز تو شام کو ہیں نا؟"۔


"ہاں، لگتا ہے کوئی سیریس بات ہوگی۔ خیر، اب یہ تو وہاں جا کر ہی پتہ چلے گا کے مسئلہ کیا ہے"۔ الوینا نے پرسوچ انداز میں جواب دیا۔

☆☆☆☆☆


وہ ڈرامہ کلب پہنچی تو اسے ماحول کی گمبھیرتا واضح محسوس ہوئی۔

سب ہی کریو ممبرز سمیت فلزہ بھی بے حد سنجیدہ اور کافی حد تک پریشان لگتی تھی۔


"کیا ہوا؟ سب خیریت تو ہے؟"۔ الوینا نے جھجھکتے ہوئے سوال کیا۔

جس پر سبھی اسکی جانب متوجہ ہوئے۔


آواز پر فلزہ بھی متوجہ ہوئی۔

اور اسے سامنے پا کر فورا اس تک آئی۔


"کچھ ٹھیک نہیں ہے الوینا، ساری محنت پر پانی پھر گیا ہے۔ اس سال ہمارا پلے ہونے سے قبل ہی فلاپ ہو جائے گا۔ ہم ہار جائیں گے۔ پلے کو وقت بھی بہت کم رہ گیا ہے۔ سمجھ میں نہیں آ رہا اب کیا کریں؟"۔ وہ پریشان سی کہے جا رہی تھی۔


الوینا اس کی بات پر الجھن کا شکار ہو گئی۔

"ایسا کیوں کہہ رہی ہو تم؟ کیا مسئلہ ہو گیا ہے؟ اور اب تو مجھے اپنی لائنز بھی یاد ہیں۔ تھوڑا بہت ریہرسل کریں گے تو پلے تیار ہو جائے گا۔ پھر ٹینشن کس بات کی ہے؟"۔ اسے لگا شاید وہ اس کی وجہ سے پریشان ہوں گے۔

اس لیئے اپنی طرف سے مطمئن کرنے لگی۔


"ریہرسل تو تب ہوں گے نا جب ہمارے پاس بادشاہ جہانگیر ہوگا"۔ پیشانی مسلتے ہوئے اس نے پریشانی کے عالم میں کہا۔


"کیا مطلب؟"۔ الوینا کی الجھن مزید بڑھ گئی۔


"مطلب یہ ہے کے پروفیسر تبریز عین وقت پر مکر گئے ہیں۔ انہوں نے یہ رول کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ اب اتنے شارٹ نوٹس پر میں جہانگیر کا کردار کرواؤں تو کس سے؟"۔ وہ فرسٹریٹڈ ہو رہی تھی۔


لیکن الوینا کی سماعتوں نے تو صرف دو ہی الفاظ سنے تھے۔ 'پروفیسر تبریز'۔


"اس کا مطلب تم جانتی تھیں کے وہ ایک پروفیسر ہیں۔ اس کے باوجود بھی تم نے انہیں اس رول میں لے لیا؟"۔ اسے حیرت ہوئی۔۔۔اور کسی قدر غصہ بھی آنے لگا۔


فلزہ اس کی بات پر نگاہیں چرانے لگی۔

پھر اسے بازو سے پکڑ کر ایک طرف لے گئی اور قدرے سرگوشی میں بتانے لگی۔


"دیکھو الوینا، جو کچھ بھی ہوا اس سب میں میری کوئی غلطی نہیں ہے۔ پروفیسر تبریز نے خود سامنے سے کہا تھا مجھے کے وہ یہ رول پلے کرنا چاہتے ہیں، اور یہ بھی کے میں کسی طرح تمہیں ہی اس پلے میں ان کے مخالف یعنی ہیروئین کے طور پر کاسٹ کروں"۔ اس نے گویا بم پھوڑا تھا۔


الوینا اس انکشاف پر ششدر رہ گئی۔


"میں نے ان سے پوچھا بھی کے وہ ایسا کیوں چاہتے ہیں، لیکن انہوں نے بس اتنا ہی کہا کے میں زیادہ سوالات نہ کروں ان سے۔ اور کچھ ان کے عہدے کی وجہ سے بھی مرعوب ہو کر میں نے خاموش اختیار کر لی۔ لیکن اب دیکھو نہ وہ خود ہی اپنی بات سے مکر رہے ہیں عین ٹائم پر۔ اسی لیئے اب مجبورا مجھے یہ سب تمہیں بتانا پڑ رہا ہے"۔ وہ اس کام کیلئے اپنی منہ مانگی قیمت وصول کرنے والی بات سرے سے گول کر گئی۔


جبکہ دوسری جانب الوینا کو شدید غصہ آ رہا تھا۔

کیا سوچ کر انہوں نے یہ سب کیا تھا اس کے ساتھ؟ آخر کیوں؟ اور کس لیئے؟


"الوینا تم ایک بار ان سے بات کرکے دیکھو۔ شاید وہ راضی ہو جائیں پلے کیلئے"۔ فلزہ نے آس سے اس کی جانب دیکھ کر کہا۔


اس نے مزید ایک لفظ بھی فلزہ سے کہا نہ پوچھا۔

بس سر اثبات میں ہلا دیا۔


اور بات تو اسے ویسے بھی ان سے کرنی ہی تھی اب۔ وہ بھی دو ٹوک۔

کیونکہ اس کے ذہن میں اس وقت طرح طرح کے سوال گردش کر رہے تھے۔ جن کا جواب ایک ہی شخص کے پاس تھا۔


جس سے روبرو ہونے اب وہ جا رہی تھی۔

☆☆☆☆☆


وہ جو اسے ڈھونڈتے ہوئے راہداری سے گزر رہی تھی تب لائبریری سے آتی اس مانوس آواز پر اس کے قدم ٹھٹھک گئے۔


ناچاہتے ہوئے بھی وہ دروازے پر ایستادہ ہو کر اس کی باتیں سننے لگی۔

جس کی نوعیت کچھ ایسی تھی۔


"مجھے نہیں پتہ مجھ سے یہ سب کیسے ہوا اور کیوں ہوا۔ میں نے جب اس کی ایسی حالت دیکھی تو آؤٹ آف کنٹرول ہو گیا۔ اور جس کے نتیجے میں یہ سب ہوا"۔ وہ پریشان سا کہہ رہا تھا۔


الوینا کی الجھن مزید بڑھ گئی۔

وہ کیا کہہ رہا تھا؟ اور کس کے بارے میں کہہ رہا تھا؟


لیکن اگلے ہی پل جو بات اس نے سنی، اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔


"مجھے خود بہت افسوس ہوا اس کے ساتھ یہ سب کر کے۔ لیکن میں اور کیا کرتا، کوئی بھی اس کے ساتھ انصاف کرنے کو تیار نہ تھا۔ اسی لیئے میں نے وقاص کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔ تاکہ وہ آئندہ کسی لڑکی کے ساتھ ایسا کرنے سے پہلے سو بار سوچ لے"۔ اس کے آواز میں غصہ تھا۔


الوینا کی پکڑ دروازے کے ہینڈل پر سخت تر ہو گئی۔

اور اگلے ہی پل ادھ کھلا دروازہ مکمل وا کرکے وہ اندر داخل ہو گئی۔


وہ جو اس کی جانب پشت کیئے کھڑا تھا، آہٹ پر چونک کر مڑا۔ اور اسے سامنے پا کر حیران رہ گیا۔


"تم یہاں؟ اس طرح؟"۔ اس کی جانب متوجہ ہو کر اس نے رابطہ قطع کرکے موبائل جیب میں رکھ لیا۔

الوینا کے چہرے پر شاک اور صدمے کی کیفیت تھی۔


جبکہ وہ الجھن آمیز نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا، گویا اس کے بولنے کا منتظر تھا۔


"آئی تو تھی آپ سے چند سوالوں کے جواب لینے پر۔۔۔اب لگتا ہے کے یہاں آکر مزید سوالوں میں گھر گئی ہوں"۔ وہ کاٹ دار لہجے میں بولی۔


اس کی بات پر وہ چونکا۔

"یہ تم کس ٹون میں بات کر رہی ہو مجھ سے؟"۔ اس کے لہجے میں دبہ دبہ سا غصہ تھا۔


"میں تو صرف بات کر رہی ہوں لیکن آپ؟ آپ کو کس نے یہ حق دیا ہے کے لوگوں کے ہاتھ پیر توڑتے پھریں؟ کیوں کی آپ نے وقاص کی یہ حالت؟ بتانا پسند کریں گے؟"۔ اس کی آواز قدرے مضبوط اور لہجہ طنز بھرا تھا۔


قیصر نے کچھ کہنے کو لب وا کیئے۔

"دیکھو تم یہ سب غلط۔۔۔۔" اس کا جملہ مکمل ہونے سے قبل ہی الوینا نے ہاتھ اٹھا کر مزید کہنے سے روک دیا۔


"اب پلیز آپ یہ مت کہیے گا کے تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ بات ایسی نہیں ویسی ہے۔ لیکن آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کے بات ایسی ہی ہے اور میں بالکل صحیح سمجھ رہی ہوں۔ کیونکہ آپ نے ابھی ابھی خود قبول کیا ہے اپنی زبان سے"۔ اس کی ننھی سی ناک اور رخسار غصے کی تپش سے سرخ پڑنے لگے۔

قیصر خیام نے دلچسپی سے اسے دیکھا۔۔۔جیسے پہلی بار دیکھ رہا ہو۔


"آپ سن رہے ہیں میری بات؟ جواب دیں آپ نے ایسا کیوں کیا؟"۔

ایک تو اس کی گہری نگاہیں۔۔۔اوففف!! وہ خائف ہونے لگی۔


وہ دو قدم چل کر اس کے نزدیک ہوا۔

اب فاصلہ بے حد کم تھا دونوں کے درمیان۔


کھڑکی سے چھن کر آتی روشنی سے ان دونوں کے سائے دیوار پر پڑ رہے تھے۔

جہاں وہ بالکل مکمل لگتے تھے۔ بالکل ایک۔


"ہاں، سن رہا ہوں۔ ہمہ تن گوش ہو کر"۔ گمبھیر لہجے میں وہ گویا تھا۔


ان آنکھوں کی چمک ناقابل برداشت ہو رہی تھی الوینا کیلئے۔

اس کے وجود سے اٹھتی مسحور کن خوشبو اس کے حواس سلب کر رہی تھی۔

ان نگاہوں کی تپش اس کا چہرہ جھلسا رہی تھی۔

وہ بے بسی کی انتہا پر تھی۔

اس کی اتنی سی قربت نے دھڑکنوں میں حشر اٹھا دیا تھا۔


مگر الوینا کو اس پل ہارنا نہیں تھا۔

آج اسے ہر حال میں اپنے سوالوں کے جواب چاہیئے تھے۔

اس نے نگاہیں جھکا لیں۔

"آپ نے وقاص کے ساتھ یہ سب کیوں کیا؟ کیوں ڈرامہ کلب کی ڈائریکٹر کو مجبور کیا کے وہ آپ کو مرکزی کردار میں لے۔ اور تو اور مجھے مخالف میں ہونا چاہئے آپ کے؟"۔ اس کی گہری نگاہوں سے نظریں ہٹاتے ہی الوینا کا فطری اعتماد بحال ہو چکا تھا۔

"اوففف یہ لڑکی۔۔۔اتنی مشکل کیوں ہے؟"۔ وہ دل ہی دل میں کڑوا گھونٹ بھر کے رہ گیا۔

یعنی وہ پھر پگھلنے سے انکاری تھی۔

"میں تمہیں جواب دینے کا پابند نہیں سمجھتا خود کو"۔ اس کا لہجہ سرد ہو گیا۔


الوینا نے اثبات پر اتنی زور سے لب کاٹے کے ہونٹ کنارے سے خون کی سرخ بوند ابھر آئی۔

جس سے وہ انجان اب پھر سے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھنے لگی۔


"آپ کو جواب دینا چاہیئے سر، کیونکہ اگر اس سب کی وجہ میں ہوں تو ہاں آپ جواب دینے کے پابند ہیں"۔ وہ مستحکم لہجے میں بولی۔

وہ کسی طور اس کے سامنے کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی۔


قیصر کو اس کا یہ اعتماد اور مضبوطی حیران کر رہے تھے۔

وہ کچھ سخت کہنے لگا تھا جب اس کی نظر الوینا کے ہونٹ کنارے سے نکلتے خون پر ٹھہر گئی۔


بے ارادہ ہی وہ آگے بڑھا۔

اس کی پیش قدمی دیکھ کر الوینا گھبرا کے نامحسوس طریقے سے پیچھے ہونے لگی۔

جب اس نے نرمی سے اس کا بازو تھام کر روک دیا۔


الوینا کا دل سینے میں پھڑپھڑا کر رہ گیا۔


اس نے آہستگی سے اسے قریب کھینچا اور پھر جیب سے سفید رومال نکال لیا۔

الوینا نے سختی سے آنکھیں میچ لیں۔


جبکہ وہ مکمل توجہ سے اب اس کے ہونٹ کنارے سے خون صاف کر رہا تھا۔


"تمہیں دیکھ کر یہ بھی نہیں لگتا تھا کے تمہیں غصہ اتنا شدید آتا ہوگا۔ اور اس غصے میں تم اپنا ہی نقصان کرتی ہوگی"۔ وہ سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔


اثبات پر الوینا نے آہستگی سے پلکیں وا کر کے اپنے قریب موجود اس شخص کی جانب اٹھائیں۔

جس کا پورا دھیان اس پل اس کے ہونٹ کنارے سے نکلنے والے اس خون کے ایک قطرے کو صاف کرنے پر تھا۔

جیسے دنیا میں اس سے زیادہ اہم کام اسوقت کوئی اور تھا ہی نہیں۔


"وقاص کی وہ حالت میں نے اسے سبق سکھانے کیلئے کی۔ تم ہی نے کہا تھا نا الوینا کے تمہیں خدا کے انصاف پر کامل یقین ہے، تو بس پھر یوں سمجھ لو کے اسی خدا نے مجھے ذریعہ بنایا۔ تاکہ تمہیں انصاف مل سکے"۔ وہ نرمی سے کہہ رہا تھا۔


اور الوینا۔۔۔وہ تو بس اس کی خود پر جھکی نظروں کو ہی دیکھ رہی تھی۔


"رہی بات اس پلے میں رول لینے کی۔ تو میں اچھی طرح جانتا ہوں الوینا کے تم تماشائی اور ان سے ملنے والی توجہ سے خار کھاتی ہو۔ اور میں تمہاری یہی جھجھک ختم کرنا چاہتا تھا۔ جس کیلئے میں نے ڈرامہ کلب کی ڈائریکٹر سے بات کی کے وہ تمہیں بطور ہیروئین کاسٹ کرے۔ اس نے انحراف تو نہیں کیا میری بات سے لیکن ایک شرط رکھی میرے سامنے"۔ خون کے داغ والا رومال واپس جیب میں رکھتے ہوئے وہ اسے بتا رہا تھا۔

اور الوینا پوری توجہ سے سن رہی تھی۔


"اس کی شرط یہ تھی کے میں بطور ہیرو اگر پلے میں ایکٹ کروں تو ہی وہ تمہیں میرے مقابل لے گی۔ میں نے شرط مان لی اس کی۔ لیکن جیسے ہی تمہیں مرکزی کردار ادا کرنے کیلئے نامزد کیا گیا، میں نے اس پلے کو کرنے سے انکار کردیا"۔ اس نے شانے اچکا کر عام سے انداز میں کہا۔


الوینا کے چہرے پر شرمندگی سی چھانے لگی۔

وہ اسے آگے کرنے کو اتنا سپورٹ کر رہے تھے، اور وہ تھی کے ان سے ہی بدتمیزی سے پیش آنے لگی۔


"آئم سوری سر، میں نے آپ کو غلط سمجھا۔ جبکہ آپ نے میرا بھلا ہی چاہا تھا"۔ نگاہیں جھکائے وہ کہہ رہی تھی۔

جس پر وہ پہلی بار مسکرایا۔


"اٹس اوکے الوینا، تمہارا رد عمل اپنی جگہ ٹھیک تھا۔ شاید میں بھی ایسا ہی کرتا اگر تمہاری جگہ ہوتا"۔

اس کی بات پر الوینا نے جھکی نگاہیں اٹھائیں۔


"لیکن شاید میں آپ کی جگہ ہوتی تو یہ سب نہیں کر پاتی۔ سوری ونس آگین۔ اینڈ تھینک یو"۔ اس نے جھجھکتے ہوئے کہا۔


پھر رخ موڑ کر وہاں سے باہر نکل گئی۔


اس کے پیچھے وہ فاتحانہ انداز میں مسکرایا تھا۔

دیر آید درست آید۔

اس کا پلان کام کر رہا تھا۔


پھر سر جھٹک کر وہ بھی باہر نکل گیا۔


ہارون جو وہی دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔

اسے ان دونوں کو آگے پیچھے نکلتے دیکھ کر اچنبھا ہوا۔


"یہ الوینا قیصر کے ساتھ کیا کر رہی تھی؟ کہیں اس کے ساتھ یہ بھی اس سب میں شامل تو نہیں؟ ہوں، معلوم کرنا پڑے گا"۔ وہ دل ہی دل میں خود سے مخاطب، تانے بانے بن رہا تھا۔

☆☆☆☆☆


شام کے سائے پھیلنے لگے تھے۔

مون سون کا موسم تھا۔ لہٰذا بارشوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔

گھن گھور بادلوں کی وجہ سے شام کے وقت بھی رات کا گماں ہو رہا تھا۔


وہ سول ڈریس میں ملبوس مختار صاحب کے گھر آ پہنچا۔

جو شاید ابھی ابھی آفس سے گھر پہنچے تھے۔


اسے سامنے دیکھ کر تکان زدہ سے مسکرا دیئے۔


"ہاں عالم کہو کیا خبر ہے؟"۔ انہیں شاید اندازہ ہو گیا تھا۔


ہارون جوابا مسکرا دیا۔

پھر ان کا اشارہ پا کر ان کے مقابل نشست سنبھالی۔


"خبر تو ایسی کوئی نہیں پر آپ سے کچھ پوچھنا ضرور تھا"۔ اس نے پرسوچ انداز میں کہا۔


مختار صاحب چونکے۔


"کیا بات ہے؟ کوئی پریشانی ہے کیا؟"۔ انہوں نے یہی اندازہ لگایا۔


اس نے ٹھنڈی سانس بھری۔

پھر جیب سے موبائل نکال کر اس میں سے ایک تصویر ان کے سامنے کردی۔


"اس لڑکی کو دیکھیئے۔ کیا اس کا چہرہ ہمارے پاس کرمنل ریکارڈز میں ہے؟"۔

اس کے پوچھنے پر مختار صاحب موبائل ہاتھ میں لے کر اب بغور وہ تصویر دیکھنے لگے۔ جو ایچ-ڈی کوالٹی کے کیمرے سے لی گئی تھی۔


وہ الوینا تھی۔ جو نوٹ بک پر جھکی کچھ لکھ رہی تھی شاید تبھی یہ تصویر لی گئی۔


مختار انصاری نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا اور جیسے پہچان کرنا چاہی۔


"نہیں عالم، یہ چہرہ میری نظروں سے اس سے پہلے نہیں گزرا۔ لیکن تمہیں اس پہ شک کیونکر ہے؟"۔ انہوں نے موبائل واپس کرتے ہوئے پوچھا۔

"میں نے اسے قیصر کے ساتھ دیکھا ہے آج۔ وہ بھی وہاں جہاں ان دونوں کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا۔ باتیں تو سن نہیں پایا ان کی۔ لیکن قیصر کے چہرے سے لگ رہا تھا جیسے کچھ تو ہے دونوں میں"۔ وہ اندازے لگانے میں مصروف تھا۔

"قیصر اپنے فائدے کے علاوہ کسی کو عام طور پر مخاطب بھی نہیں کرتا۔ مجھے لگتا ہے اس کا کوئی کام اٹک گیا ہے اس لڑکی میں۔

اور تم اس بات کا مطلب سمجھتے ہو عالم؟"۔ ان کے چہرے پر فکرمندی کے بادل چھانے لگے۔

"یہی کے لڑکی کو خطرہ ہے۔ اور یہ بھی کے اگر قیصر کی اس میں دلچسپی ہے تو اس کا مطلب یہ ہمارے کام کی ہے"۔ باقی کا اندازہ عالم نے لگایا۔


"بالکل درست، تم ایسا کرو کے اس لڑکی کی پوری ہسٹری نکالو۔ کہیں نہ کہیں کچھ تعلق تو نکل ہی آئے گا قیصر کا اس سے۔ کیا نام بتایا لڑکی کا؟"۔ ہدایات جاری کرتے ہوئے وہ یک دم ٹھہر گئے۔


"الوینا تحسین"۔ ہارون جلدی سے بولا۔


"ہاں، الوینا۔ قیصر کے ساتھ ساتھ اب اس پر بھی نظر رکھو عالم۔ اور مجھے جلد پتہ کرکے دو کے یہ لڑکی قیصر خیام کی دلچسپی کا مرکز کیونکر ٹھہری ہے"۔ انہوں نے حکم جاری کیا۔


"یس سر"۔ ہارون نے تابعداری سے جواب دیا۔

پھر ان کی اجازت لے کر وہاں سے چلا گیا۔


جبکہ مختار انصاری ہنوز الجھے الجھے سے لگ رہے تھے۔

"ایسا کیوں لگا جیسے اس لڑکی کی صورت کہیں کسی سے ملتی ہے"۔ ان کے دل میں یہ سوال اٹھا تھا۔


مگر کوئی جواب نہ آیا۔

☆☆☆☆☆


"بابو، پتہ لگایا تم نے کے اس لڑکی کا علی مرزا سے کیا تعلق ہے؟"۔

اس نے بہت دنوں پہلے اپنے ایک ساتھی کو الوینا کے آبائی شہر جس کا ذکر اس کے بائیو میں تھا، وہاں بھیج رکھا تھا اس کی ہسٹری معلوم کرنے۔


جس کی خبر گیری وہ اب کر رہا تھا۔


"باس ایسی دھماکے دار خبر ملی ہے نا جسے سن کر تمہارا دل خوش ہو جائے گا۔ مگر اس سے بھی پہلے تمہیں جھٹکا لگے گا یہ خبر سن کر"۔ بابو نے سسپنس پھیلاتے ہوئے کہا۔

قیصر خیام جھٹکے سے کرسی پر آگے ہو بیٹھا۔

"ابے تو بتاؤ نا، انتظار کس کا کر رہے"۔ وہ پرجوش ہوا۔

"وہ جو لڑکی ہے نا الوینا تحسین؟ وہ اصل میں الوینا تحسین نہیں الوینا مختار ہے"۔ بابو نے اپنے طور پہ دھماکا کیا تھا۔

جبکہ اس کی بات سن کر قیصر ایک دم شانت پڑ گیا۔

"معلوم ہے وہ مجھے بھی۔ تم بس اتنا بتاؤ نا یار جو پوچھا ہے"۔ وہ کوفت زدہ ہوا۔

"کیااا؟ ارے جب خود ہی سب پتہ کیئے بیٹھے ہو تو مجھے کاہے کیلئے بھیجا اِدھر؟"۔ اسے لگا تھا وہ خوش ہو جائے گا یہ خبر سن کر۔ لیکن خوش تو دور الٹا اس نے بابو کی ہی خوشی ملیا میٹ کر دی۔

"ابے تم سے کہا تھا کے علی مرزا کا اس کے ساتھ رشتہ ڈھونڈو"۔

"وہ بھی پتہ کر لیا ہے میں نے۔ یہ خبر تو مجھے لگا شاید دوسری والی خبر کے آگے زیادہ بڑی ہوگی۔ اسی لیئے پہلے بتایا۔ لیکن تم تو خود ہی سب معلوم کیئے بیٹھے ہو"۔ بابو نے منہ پھلا کر کہا۔

"یار تو کام کی بات ہمیشہ آخر میں کیوں کرتا ہے۔ چل اب بتا دوسری بات کیا ہے؟"۔ وہ زرا نرم پڑا۔

"دوسری بات یہ ہے کے وہ مادام علی مرزا کی سگی بھانجی ہے"۔ اب کی بار اس نے واقعی دھماکہ کیا۔

قیصر خیام ایک لمحے کو ٹھہر سا گیا تھا۔

"کیا تو سچ کہہ رہا ہے؟" اس نے تصدیق چاہی۔

"ارے ہاں مائی باپ، سولہ آنے سچ بات ہے یہ۔ اور تم کو ثبوت بھی لا کے دکھا سکتا ہوں"۔ بابو کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔

کیونکہ قیصر خیام بہت کم حیران ہوا کرتا تھا۔

"نہیں مجھے بھروسہ ہے تمہاری بات کا۔ تم فورا وہاں سے نکل جاؤ اس سے قبل کے علی کے آدمی تمہیں وہاں دیکھیں"۔ اس نے ہدایات جاری کرتے ہوئے لائن ڈسکنیٹ کر دی۔

پھر کرسی کی پشت سے سر ٹکاتے ہوئے وہ فاتحانہ ہنسی ہنسنے لگا۔

اور بے تحاشا ہنستا چلا گیا۔

"قسمت تو دیکھو بیچاری لڑکی کی، دو دو اہم شخصیات سے قریب تر رشتہ ہونے کے باوجود بھی یتیموں کی زندگی گزار رہی ہے۔ چچ چچ چچ"۔ وہ خود کلامی کرنے لگا۔

"دو نام، دونوں میرے دشمن اور دونوں کی کمزوری اور محور ایک۔۔۔الوینا۔ اب تو تمہیں کسی بھی حال میں حاصل کرنا ہی پڑے گا"۔ اس نے آنکھیں موند کر چشم تصور میں اس کے حسین عکس کو مخاطب کیا۔

آج صبح سے ہی بادلوں کی گھن گرج جاری تھی۔

مگر چونکہ آج اتوار کا دن تھا۔ آفیشل چھٹی جس کی وجہ سے ان لوگوں کی بھی بچت ہو گئی تھی۔

ورنہ تو یونیورسٹی جانے کا وہ بھی اس قدر تیز بارش میں، سوچ کر رہی الوینا اور غزل کو ہول اٹھ رہے تھے۔

وہ دونوں بڑی سی کھڑکی کھولے، اس کے قریب ہی کین کی کرسیوں پر براجمان بارش کا مزہ لیتے ہوئے چائے اور پکوڑوں کے ساتھ ساتھ دیگر تلی ہوئی اشیاء سے بھی لطف اندوز ہو رہی تھیں۔

دوسرے لفظوں میں اپنی چھٹی کا بھرپور مزہ لے رہی تھیں۔

الوینا کے شہد رنگ بال ادھ کھلے کیچر میں مقید تھے۔

سیاہ ٹراوز کے ساتھ رف سی سفید ٹی-شرٹ میں ملبوس وہ سیاہ شال اوڑھے آسمان سے برستی اس ابر رحمت کو دیکھتے ہوئے گویا آنکھوں کے سہارے روح میں جزب کر رہی تھی۔

غزل بھی اس کے برابر ہی براجمان، چائے کا کپ تھامے بارش کی ان برستی بوندوں کو دیکھتے بہت ہی پرسکون تھی۔

"تم نے کبھی غور کیا ہے غزل کے انسان اور اللہ کی بنائی چیزوں میں سب سے بڑا اور واضح فرق کیا ہوتا ہے؟"۔ الوینا نے اچانک ذہن میں آئے سوال کو زبان دی۔

غزل نے چونک کر اسے دیکھا۔

"تمہارے ذہن میں یہ سوال کیوں آیا؟ اور کیسے؟"۔ غزل کو بھی دلچسپی ہوئی جاننے میں۔

اثبات پر الوینا نے اس کی جانب دیکھا۔ پھر نرمی سے مسکرائی۔

"سب سے بڑا فرق یہی ہے کے انسان نے جو چیزیں آج تک بنائی ہیں ہم انہیں شمار کر سکتے ہیں۔ اللہ نے زمین دی۔ اس کی گنتی نہیں کر سکتے ہم۔ لیکن انسان نے جو اس پر اناج اگایا اس کی گنتی پھر بھی ممکن ہے"۔ وہ کھوئے کھوئے سے لہجے میں کہہ رہی تھی۔

"کیا مطلب؟ میں سمجھی نہیں؟"۔ غزل نے سر کھجاتے ہوئے کہا۔

الوینا اس کے انداز پر ہنس دی۔

"دیکھو، جیسے یہ بارش کی بوندیں ہیں۔ کیا ہم اسے کبھی شمار کر سکتے ہیں؟ کیا کبھی ہم سمندر کے پانی کو شمار کر سکتے ہیں؟ کیا کبھی ہم ہوا یا آسمان پر موجود ان تاروں کو شمار کر سکتے ہیں؟"۔ وہ اب الٹا اس سے سوال کرنے لگی۔

اور اب کے غزل کو اسکی بات سمجھ آنے لگی۔

"نہیں۔ ناممکن، سائینسی طور پر بھی یہ ناممکن ہے"۔ اس نے فوری جواب دیا۔

"تو اس بات سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کے اللہ جب بھی کچھ بناتا ہے تو بےشمار بناتا ہے۔ وہ کم سے نوازنا نہیں جانتا۔ وہ صرف نوازنا جانتا ہے۔۔۔وہ بھی بےحد۔۔۔۔بے شمار۔ اور ہم انسانوں کی بنائی چیزیں کتنی آسانی سے شمار کی جا سکتی ہیں نا۔ تو ایسا کیوں ہوتا ہے کے لوگ اس بےشمار دینے والے کو چھوڑ کر اس فانی انسان کو اپنی چاہت اور امیدوں کا مرکز بنا لیتے ہیں جو ہمیشہ ہر چیز گن گن کر بناتا ہے؟ کیوں نہیں ہم اس سے امید لگاتے جو ہمیں بے شمار دیتا ہے۔ بے گنے دیتا ہے۔ ہم کتنے خود غرض ہیں غزل"۔ الوینا نے دکھ اور صدمے سے کہا۔


غزل نے نرمی سے اس کے شانے پہ ہاتھ رکھا۔

"اور ہماری اتنی ناشکری کے باوجود بھی اس پاک ذات نے ہمارے لیئے اپنی رحمتیں بھی بے شمار کر لیں۔ معافی اور توبہ بھی بے شمار کر لی اس نے۔ تم ٹھیک کہتی ہو الوینا، اس نظریے پہ تو میں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا"۔ وہ گردن جھکائے کہنے لگی۔


"ہاں بالکل۔ ایسا ہی ہے"۔ وہ متفق تھی۔


غزل نے سر اٹھا کر بغور اسے دیکھا۔

"مجھے تو آج تک لگتا تھا کے الوہی میڈم صرف خوابوں کی دنیا میں یا فینٹسی میں ہی رہتی ہے۔ مگر آج پتہ چلا کے وہ تو حقیقت سے بھی اتنی ہی قریب تر ہے جتنے باقی لوگ۔ یا شاید ان سے بھی زیادہ"۔ وہ مسکراتے ہوئے اسے توصیفی نظروں سے دیکھنے لگی۔


"کیا پتہ ملٹی-ٹیلنٹڈ ہوں شاید"۔ وہ شانے اچکا کر بولی۔


"اچھا پھر کیا سوچا ہے۔ اب کون بنے گا پلے میں نیا بادشاہ جہانگیر؟"۔ اس نے سنجیدگی سے پوچھا۔


"یہ سوچنا تو اب اس کا کام ہے جس کے ذمے یہ پلے ہے۔ بیچاری فلزہ"۔ اس نے افسوس سے کہا۔


غزل کی آنکھیں کسی شرارت کے خیال سے چمکیں۔

"تو تمہیں منانا چاہیئے تھا نا پروفیسر تبریز کو۔ میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کے وہ تمہاری بات کبھی نہیں ٹالتے"۔ غزل نے بظاہر سنجیدہ صورت بنا کر مشورہ دیا۔


"ہاں، میں گئی تو تھی ان سے پوچھنے آج لیکن وہاں اتنی عجیب بات ہوئی کے مجھے بھاگنا پڑا"۔ وہ سر جھکائے افسوس سے بولی۔


غزل نے حیرت سے اسے دیکھا۔


"ایسا بھی کیا ہوا تھا وہاں؟ پھر تھپڑ کھا لیا کیا ان سے؟"۔ غزل نے بمشکل ہنسی روک کر پوچھا۔

الوینا نے اسے ایک گھوری سے نوازا۔


"افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے غزل بی بی کے آپ کی یہ خواہش پوری نہیں ہو سکی"۔ وہ کاٹ کھانے کو دوڑ رہی تھی۔


"اوہوو ریلیکس یار، میں تو ایسے ہی مذاق کر رہی تھی۔ اچھا تو تمہاری ان سے کیا بات ہوئی پھر؟"۔وہ اب کے واقعی سنجیدہ ہو گئی۔


الوینا نے ٹھنڈی آہ بھری۔

اتنی ٹھنڈی ہوائیں چلنے کے باوجود بھی اس شخص کی پرتپش نظروں کو تصور کرتے ہی اس کا چہرہ سرخ پڑنے لگا۔

بے ارادہ ہی انگلیوں کی نرم پوروں سے ہونٹوں کے کنارے کو چھوا۔ جہاں اس نے مسیحائی کی تھی۔


پھر محسوس ہوا کے غزل منہ کھولے آنکھیں پھاڑے اسے گھور رہی تھی تو جلدی سے ہاتھ نیچے گرا لیا۔


"الوینا کیا تم نے۔۔۔"۔


"نہیں نہیں ایسا کچھ نہیں جو تم سوچ رہی ہو"۔ وہ جلدی سے اس کی بات قطع کرتے ہوئے بولی۔ مبادا وہ کچھ الٹا سیدھا نہ بول دے۔

غزل نے پرسکون سانس لی۔


"اوہ، تو پھر کیا ہوا؟"۔ غزل نے پوچھا۔


اس کے پوچھنے پر الوینا سب بتاتی گئی، سوائے اس بات کے، کے وقاص کو پیٹنے والا وہی تھا۔


"الوینا مجھے لگتا ہے کے وہ تم سے۔۔۔"۔ اس نے دانستہ جملہ ادھورا چھوڑا۔


الوینا نے بے یقینی سے غزل کو دیکھا۔

"تم ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہو غزل؟ جو بھی ہے جیسے بھی لیکن وہ ہمارے پروفیسر ہیں"۔ اس کے اندر عجیب سا خالی پن بھرنے لگا۔


"اس محبت کی یہی تو خرابی ہوتی ہے الوینا، کے یہ ذات پات، اونچ نیچ، اس سب کا فرق یا حساب نہیں رکھتی ہے۔ ایک وحی کی طرح یہ کبھی بھی کسی بھی دل پر نازل ہو جاتی ہے۔ اس پر ہمارا تمہارا بس نہیں چلتا۔ تم مجھے تو سمجھا کر چپ کروا سکتی ہو لیکن تم اسے نہیں سمجھا سکتی کے تبریز شاہ تمہارا پروفیسر ہے"۔ غزل کی دلیلیں مضبوط تھیں۔


"غزل پلیز، برین واش کرنا بند کرو تم۔ اور مجھے تو ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کے تم مجھے تبریز شاہ کے ساتھ جوڑ بھی کیسے سکتی ہو؟ جبکہ تم اچھی طرح جانتی ہو کے اول تو ایسا کچھ ہے نہیں میرے دل میں ان کیلئے، اور اگر ہوتا تو تب بھی یہ ناممکنات میں سے ہے کے میں ان کے ساتھ کے خواب دیکھوں۔ اس لیئے پلیز تم اب اس ٹاپک پہ کوئی بحث نہ کرو مجھ سے"۔ وہ چڑچڑی ہونے لگی۔


غزل دیکھ سکتی تھی کے یہ سب کہتے ہوئے وہ اس سے نگاہیں نہیں ملا رہی تھی۔


اور دوسری جانب وہ تھی۔۔۔غزل کو بتاتی بھی تو کیا؟ جبکہ تبریز شاہ کا ذکر تو وہ اپنے سائے سے بھی نہیں کرتی تھی۔


اسے خوف تھا کے کہیں اس کا باندھا گیا بند اگر زرا سی بھی کمزوری دکھانے سے ٹوٹ گیا تو وہ تبریز نامی اس منہ زور سیلاب میں اس طرح بہتی چلی جائے گی کے اس کا نام و نشان تک مٹ کر رہ جائے گا۔


بھلا اپنی ہی آنکھوں کے سامنے خود کو فنا ہوتے دیکھنا اتنا آسان کب تھا!

☆☆☆☆☆


صبح کا سورج جب طلوع ہوا۔

تو برسات کے باعث ہر چیز نکھری نکھری اور نئی معلوم ہونے لگی۔


غزل تو یونیورسٹی جا چکی تھی۔

البتہ اس نے آج جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا تھا۔


کل کے اوور ٹائم کی وجہ سے اسے واپس آتے آتے آدھی رات ہو گئی تھی۔ معمول سے زیادہ لیٹ ہو گیا۔

جس سے کے اس کی نیند ڈسٹرب ہو گئی۔


لہٰذا اس کا ارادہ آج آرام کرنے کا تھا۔


لیکن موبائل کی رنگ ٹون سے اس کی نیند کھل گئی۔


"کیا مصیبت ہے"۔ مسلسل بجتے موبائل پر اس نے نمبر یا نام

دیکھنے کی زحمت کیئے بغیر ہی کال کاٹ دی۔


اور پھر سے اوندھے منہ تکیہ سر پہ رکھ کے سو گئی۔

پانچ منٹ بعد موبائل پھر دھیمے سروں سے بجنے لگا۔


الوینا کی کوفت مزید بڑھ گئی۔

اس نے تکیہ چہرے سے ہٹایا اور مندی مندی آنکھوں سے نمبر دیکھے بنا کال اٹینڈ کر لی۔


"غزل کی بچی۔۔۔کیوں تنگ کر رہی ہو۔ اب کال کی نا تو تمہاری خیر نہیں"۔ نیند سے بوجھل آواز میں وہ اپنی ہی سنا کر لائن ڈسکنیکٹ کرنے ہی لگی تھی۔

جب دوسری جانب سے وہ بول پڑا۔


"غزل نہیں، میں بول رہا ہوں۔ اور یہ کونسا وقت ہے سونے کا؟"۔ آواز سے وہ سخت جھنجھلایا ہوا لگتا تھا۔


یہ آواز سن کر اب کی مرتبہ الوینا کی آنکھیں پوری کھل گئیں۔

اور وہ جھٹکے سے بستر پر اٹھ بیٹھی۔


"آآ۔۔۔آپ۔۔۔وہ۔۔۔سوری میں نے نمبر دیکھے بنا ہی کال اٹھائی تھی، اس لیے مجھے لگا شاید غزل ہوگی"۔ اس نے زور سے آنکھیں میچ کر زبان دانتوں تلے داب کی۔


"یہ تو بہت زیادتی ہے کے آپ نے ہمیں نہیں پہچانا۔ اتنے وقت میں کیا ہم زرا بھی آپ کی پہچان میں نہ آ سکے؟"۔ وہ گمبھیر لہجے میں بولتا ہوا اسکی دھڑکنیں بڑھا گیا۔

الوینا نے بے اختیار سینے پر ہاتھ رکھ کے گلا تر کیا۔


"جی؟ کیا مطلب؟"۔ اس نے ایسا تاثر دیا جیسے وہ اس کا مطلب سمجھی ہی نہیں۔ کیا پتہ شاید دوسری بار اپنی بات دہراتے ہوئے وہ بات بدل دے۔


اور واقعی ایسا ہوا۔


"مطلب کو چھوڑو، یہ بتاؤ تم آج آئی کیوں نہیں۔ خیریت؟"۔ وہ تفکر سے پوچھنے لگا۔


ایک پل کو تو الوینا سرشار سی ہونے لگی۔

لیکن اگلے پل اپنی ہی سوچ پر لعنت بھیج دی۔


"جی وہ۔۔۔کل مجھے نائٹ شفٹ کی وجہ سے کافی لیٹ ہو گیا ہاسٹل آتے آتے۔۔۔نیند ڈسٹرب تھی تو اس لیئے۔۔۔"۔ کہتے کہتے وہ خجل سی ہو کر پھر لب کاٹنے لگی۔


دل ہی دل میں اسے مخاطب کرتے کہنے لگی کے میرے نہ آنے کی وجہ آپ غزل سے بھی پوچھ سکتے تھے۔


"ہاں، پوچھ سکتا تھا غزل سے لیکن مجھے تمہاری آواز سننی تھی"۔ بغیر کوئی لگی لپٹی رکھے اس نے یہ جملہ کہا تھا۔


لمحے کے ہزارویں حصے میں وہ جملہ الوینا کے چودہ طبق روشن کر گیا۔

اور اس سے بھی بڑھ کر یہ احساس حیران کن اور پریشان کن تھا کے وہ اس کا ذہن پڑھ رہا ہے۔


"آپ۔۔۔کو کیسے پتہ چلا؟"۔ وہ بے ارادہ ہی پوچھ بیٹھی۔


دوسری جانب ایک پل کو خاموشی چھا گئی۔

پھر کچھ لمحوں بعد وہ گویا ہوا۔


"مکین کو اپنے گھر کی خبر ہوتی ہی ہے الوینا صاحبہ"۔ اس کی آواز میں تپش تھی۔

بڑا ہی استحقاق بھرا انداز تھا اسکا۔


الوینا اس کی بات پر دنگ رہ گئی۔

اسے ہرگز بھی اس قدر صاف گوئی کی امید نہ تھی۔


اب جب تمہاری نیند اڑ ہی گئی ہے تو ایکٹو ہو جاؤ چلو شاباش۔ فورا یونی پہنچو، کلاس شروع ہونے میں صرف آدھا گھنٹہ ہے"۔ اس کی جانب سے بولنے کا انتظار کیئے بغیر وہ حکمیہ لہجے میں بول کر اسے حیران کر گیا۔

اس کی نیند تو واقعی اڑ چکی تھی۔


"اور ہاں، یہ حکم ہی ہے"۔ اس نے خاموشی پا کر اب کی بار قدرے سختی سے کہا اور بنا اس کی سنے لائن ڈسکنیکٹ کردی۔


الوینا حیرت کے سمندر میں غوطہ زن موبائل اسکرین کو دیکھ بلکہ گھور رہی تھی۔


"سمجھتا کیا ہے یہ خود کو۔ ساری نیند کا ستیاناس کر دیا۔ جلاد نہ ہو تو۔ اووففف او اب میں کیا کروں؟"۔ بے بسی سے اس نے شہد رنگ بال مٹھی میں جکڑ لیئے۔


اسی وقت میسج کی ٹون بجی۔

الوینا یک بارگی چونکی۔


انباکس کھول کر دیکھا تو اسی کا میسج تھا۔


"مجھے گالیاں بعد میں دیتی رہنا۔ جو کہا ہے وہ کرو فلحال"۔ صبح صبح وہ اسے جھٹکے پہ جھٹکا دیئے جا رہا تھا۔


"یا اللہ، کیا کروں میں ان کا"۔

الوینا کا دل چاہا وہ سامنے ہو اور وہ اسے اتنی ہی شدت سے ایک تھپڑ رسید کرے جو پہلے دن خود اس نے کھایا تھا۔

مگر وہ اپنی خواہش پر دل مسوس کر رہ گئی۔


اور بھاگم بھاگ یونیورسٹی جانے کی تیاری پکڑ لی۔

☆☆☆☆☆


قد آور آیئنے کے سامنے کھڑے وہ ایک پریس کانفرنس میں جانے کیلئے تیار ہو رہے تھے جب ان کے ملازم نے کھلے دروازے پر دستک دی۔


انہوں نے مڑ کر دیکھا۔


"ہاں کہو فرید کیا بات ہے؟"۔ سفید کاٹن کے لباس کے ساتھ نیلے رنگ کا ویسٹ کاٹ پہنتے ہوئے ان کا انداز مصروف سا تھا۔


"سرکار وہ ایک وکیل خاتون آئی ہیں باہر دروازے پر۔ آپ سے ملنے کی خواہش مند ہیں"۔ وہ سر جھکائے مودب سا کہہ رہا تھا۔


علی مرزا چونکے۔

"خاتون وکیل؟ مجھ سے ملنے؟"۔ وہ بڑبڑائے۔


"ایک منٹ رکو زرا"۔ انہوں نے ایل-ای-ڈی آن کیا۔

سی-سی-ٹی-وی فوٹیج کی لائیو ٹیلی کاسٹ اس وقت اسکرین پر متحرک تھی۔

جس میں فائزہ مختار کا عکس واضح نظر آ رہا تھا۔


ناگواری سے بھوئیں اکھٹی کیئے انہوں نے اسکرین پر سے نگاہیں پھیر لیں۔


"فرید، جا کر ان سے کہہ دو کے میں نہیں ملنا چاہتا ان سے"۔ انہوں نے سختی سے کہا۔


ملازم اثبات میں سر ہلا کر وہاں سے ہٹ گیا۔


کچھ ہی لمحوں بعد ملازم بھی اب کیمرے کے سامنے موجود تھا۔ اسکرین پر وہ انہیں واپس جانے کو کہہ رہا تھا۔ مگر فائزہ مختار بضد تھیں۔


علی مرزا نے ناگواری سے اسکرین بجھائی اور ایکسٹینشن پر ہدایت جاری کی کے انہیں ڈرائینگ روم میں بٹھا دیا جائے۔

ملازموں نے ایسا ہی کیا۔


کچھ ہی دیر بعد وہ بھی ڈرائنگ روم میں موجود تھے۔


ٹانگ پر ٹانگ جمائے وہ نخوت سے مقابل براجمان فائزہ مختار کو دیکھتے ہوئے ان کے بولنے کے منتظر تھے۔


"کہیئے وکیل صاحبہ، ہمارے دروازے پر کیسے جلوہ افروز ہوئیں آپ آج؟"۔ ان کا انداز طنزیہ تھا۔


فائزہ نے اعتماد سے ان کی جانب دیکھا۔


"میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گی۔ مجھے بس اتنا بتا دیجئے کے عائشہ اور اس کا بچہ کہاں ہیں؟ کس حال میں ہیں؟ میں ان سے ملنا چاہتی ہوں"۔ ان کی آواز میں آس تھی۔


"آپ کے شوہر نے میری بہن اور اس کی اولاد کی زندگی برباد کرنے اور ہمارے رتبے پر کیچڑ اچھالنے میں کوئی کسر باقی چھوڑ دی ہے جو آپ پورا کرنا چاہ رہیں اب؟"۔ وہ ترشی سے بولے۔


فائزہ نے نگاہیں جھکا لیں۔


"آپ عائشہ کے بھائی ہیں۔ میں اس سے کبھی ملی تو نہیں مگر ایک عمر میں نے خود کو اس کا اور اسکے بچے کا گناہگار مان کر اپنے رب کے حضور معافی مانگتے ہوئے گزاری ہے۔ لیکن اب ایک۔۔۔صرف ایک بار روبرو مل کر اس سے معافی مانگنا چاہتی ہوں۔ میرے دل پر ایک بوجھ ہے۔ شاید کہیں نہ کہیں اس کی بربادی میں جانے ان جانے میں ہی سہی مگر کچھ ہاتھ میرا بھی ہے۔ جس کی سزا میں کاٹ رہی ہوں، اولاد جیسی نعمت سے محرومی کی صورت"۔ لحظہ بھر کو وہ رکیں۔

ان کی آواز بھیگنے لگی۔


علی مرزا انہیں سننے پہ مجبور تھے۔

"مختار کو نہ سہی، لیکن آپ کم از کم مجھے تو ان کا پتہ بتا دیں کے وہ کہاں ہیں"۔ وہ التجا کرنے لگیں۔

علی نے ٹھنڈی آہ بھری۔

"بہت دیر ہو چکی ہے مسز مختار۔ اب بہت زیادہ دیر ہو چکی ہے اس بات کو۔ عائشہ اپنے دل پر پہاڑ جتنا بوجھ لیئے موت کی نیند سو چکی ہے۔ اور اس کی ایک بیٹی ہے۔ جس نے اپنی عمر ماں باپ اور اپنوں کے پیار کو ترستے گزار دی اور گزار رہی ہے۔ وہ اتنی خود مختار ہو چکی ہے کے اب اسے آپ کے یا میرے سہارے کی ضرورت نہیں رہی ہے"۔ پہلی بار ان کا لہجہ کمزور پڑنے لگا تھا۔

چھوٹی الوینا کا معصوم چہرہ ان کی نگاہوں میں گھوم گیا۔

جبکہ فائزہ ان انکشافات پر ششدر رہ گئیں۔

ان کا چہرہ خطرناک حد تک سفید پڑنے لگا تھا۔

وہ اور مختار صاحب تو اب تک یہی سمجھ رہے تھے کے عائشہ زندہ ہے اور اسے ڈھونڈنے کے کتنے ہی جتن کر چکے تھے دونوں میاں بیوی۔

مگر وہ تو ایسے غائب ہوئیں تھی جیسے کبھی اس دنیا میں تھی ہی نہیں۔

اور اب جب پتہ چلا تھا کے وہ واقعی اس دنیا میں نہیں رہی تو فائزہ کے جسم سے جیسے کسی نے خون نچوڑ لیا تھا۔

اس نے تو سوچا تھا کے وہ ان سے روبرو ملیں گی تو اپنے گناہوں کی معافی مانگیں گی۔

اسے منا کر گھر لے آئیں گی۔ پھر تمام عمر جو عائشہ سے اس کا حق چھیننے کا دکھ ان کے دل کو غمگین کیے رکھتا تھا، اسے کم از کم قرار مل جاتا۔

اور وہ اپنی مامتا اس باپ سے محروم بچے پر لٹا دیتیں۔

مگر کیا سوچا تھا اور ہو کیا گیا تھا۔

"اگر اب آپ کے پچھتاوے کا یہ ڈھونگ ختم ہو گیا ہو تو میں مجھے اب اجازت دیجیے۔ لیٹ ہو گیا میں ویسے ہی"۔ وہ سختی سے کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔

فائزہ نے چونک کر ان کی جانب دیکھا۔

"بس ایک بات بتا دیجئے کے عائشہ کی بیٹی کہاں ہے؟ پلیز میں التجا کر رہی آپ سے؟"۔ وہ یک دم ہی اٹھ کھڑی ہوئیں اور ان کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے۔

علی نے رخ موڑ لیا ان کی جانب سے۔

"اب یہ جان کر کیا فائدہ؟ وہ جہاں ہے خوش ہے، پرسکون ہے۔ اسے وہی رہنے دیجئے۔ خواہ مخواہ اس کی پرسکون زندگی میں ارتعاش کا پتھر نہ ہی پھینکا جائے تو اچھا رہے گا"۔ درشتی سے کہتے ہوئے وہ مزید ایک لمحہ بھی وہاں نہ رکے اور نکلتے چلے گئے۔

"صرف ایک بار مجھے بتا دیں کے وہ کہاں ہے؟ خدارا میں اور بوجھ برداشت نہیں کر پاؤں گی اپنے ضمیر کا"۔ وہ انہیں روکنے کو آگے بڑھیں، مگر پیروں نے مزید بوجھ سہارنے سے انکار کر دیا۔

اور وہ روتے ہوئے زمین پر بیٹھتیں چلی گئیں۔

دس منٹ کے مختصر سے عرصے میں جیسے تیسے کرکے وہ یونیورسٹی جانے کیلئے تیار ہو گئی۔


"اوففف او، اب یہ نئی مصیبت۔ کیب کا ویٹ کرو اب"۔ وہ سخت جھنجھلائی ہوئی تھی۔


اچھی خاصی وہ سو رہی تھی اور اس شخص کو جانے کیا سوجھا کے خواہ مخواہ ہی اسکی نیند خراب کردی۔

ہاسٹل سے اسٹاپ تک آتے آتے وہ دل ہی دل میں اسے سو صلواتیں سنا چکی تھی۔


اللہ اللہ کرکے تو اسے کیب مل گئی اور بالآخر وہ یونیورسٹی پہنچ گئی۔


تیز قدموں سے چلتے ہوئے اس کا رخ کلاس کی جانب تھا۔

ایک تو اتنا لیٹ اور اس پر پہلی کلاس ہی اس بد دماغ شخص کی تھی۔

جس سے کچھ بعید نہیں تھا کے کب کیا کر گزرے۔


اسی بھاگا دوڑی میں وہ بری طرح کسی سے ٹکرا گئی۔

"آؤچ"۔ وہ سر پکڑ کر رہ گئی۔ جہاں اتنی زور سے لگا تھا کے آنکھوں کے سامنے تارے ناچنے لگے۔


"آئم سوری، ویری سوری۔ آپ ٹھیک ہیں؟ "۔ تفکر بھری مردانہ آواز گونجی۔


ہارون کے چہرے پر فکرمندی کے ساتھ ساتھ گھبراہٹ بھی واضح نظر آ رہی تھی۔


آواز پر حواس بحال کرتے ہوئے الوینا نے سر اٹھا کر مقابل کو دیکھا۔

سیاہ پینٹ پر گہرے سرخ رنگ کی ٹی-شرٹ پہنے، آدھے آستینوں کی وجہ سے اس کے پھولے ہوئے بائیسپس نظر آ رہے تھے۔

اسے لگا شاید کوئی اور ہوگی۔ لیکن جب الوینا نے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا تو وہ چونک گیا۔

اور خجل سا ہو کر عادتاً سیاہ بالوں میں ہاتھ پھیرا۔


الوینا کو جب تسلی ہو گٸی کے سامنے ہارون ہے تو غصے اور توہین کی ایک شدید ترین لہر اس کے اندر اٹھی تھی۔

"تم!!!۔۔۔۔"۔ وہ صدمے سے چند لمحے کیلئے کچھ بول ہی نہ سکی۔


"آئم سوری، میں جانتا ہوں میری غلطی تھی۔ میں زرا جلدی میں تھا اس لیے یہ سب۔۔۔۔لیکن میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا"۔ وہ جلدی جلدی وضاحت دینے لگا۔


جبکہ وہ اسے کھا جانے والی نظروں سے گھور رہی تھی۔

اگلا پچھلا تمام حساب یاد آیا تھا۔

"نہیں تم نے یہ جان بوجھ کر کیا ہے۔ کیونکہ تم عقل سے پیدل ہو۔ شرم نہیں آتی یوں راہ چلتی لڑکی کو پریشان کرتے ہوۓ اور وہ بھی تب جب وہ پہلے سے ہی بہت پریشان اور جلدی میں بھی ہو۔ تمہارے پاٶں ہیں کے پہیے جو آتے جاتے لوگوں کو روندتے ہوۓ چلے جاتے ہیں۔ اب کھڑے کیا ہو جواب دو میری بات کا"۔ اسے خاموش پا کر الوینا کو بھڑکنے کا سنہری موقع مل گیا۔

ہارون نے اثبات پر حیرت سے اسے دیکھا۔


"دیکھو میں مانتا ہوں میری غلطی تھی اور اسی لیے سوری بھی کر رہا ہوں۔ تو اس کے باوجود بھی تم اتنا بھڑک کیوں رہی ہو۔ جبکہ کافی حد تک غلطی تمہاری بھی تھی"۔ اس کا صبر بھی جواب دینے لگا۔


اور اس کی اتنی ہی بات نے جلتی پر پیٹرول چھڑک دیا۔


"ایک تو چوری اوپر سے سینا زوری۔۔۔غلطی تمہاری اور صرف تمہاری تھی۔ تم اندھوں کی طرح چل رہے تھے۔ تمہیں دکھائی کم دیتا ہے یا آنکھیں گھر پر بھول آئے ہو۔ لوفر آوارہ کہیں کا، میں اچھی طرح جانتی ہوں یہ سب ڈرامے تم لڑکے لڑکیوں کی توجہ پانے کیلۓ کرتے ہو۔ ہونہہ"۔ جلی کٹی سنا کر اس نے بھڑاس نکالی۔


وہ ٹھہر کر غصے بھری نظروں سے اسے گھورتے ہوئے اسکی سن رہا تھا۔ اور جب وہ خاموش ہو گئی۔ تو تیزی سے فاصلہ پانٹ کر وہ اس تک آیا اور سختی سے اس کے بازو پر گرفت کسی۔


"بول چکی تم؟ اب میری سنو، اپنے بارے میں کچھ زیادہ ہی خوش فہمیاں اور میرے بارے میں بہت زیادہ غلط فہمیاں ہیں تمہیں۔ نہ تو تم کہیں کی شہزادی ہو جس کے سامنے شہزادوں کی لائن لگی ہے۔ اور نہ ہی میں اتنا گرا پڑا ہوں کے تمہاری توجہ حاصل کرنے کیلئے ایسی اوچھی حرکت کروں۔ تو اگلی بار مجھ سے منہ سنبھال کر بات کرنا۔ کیونکہ مجھے برا بننے میں بھی وقت نہیں لگتا مس الوینا"۔ وہ اس پر جھکا دبے دبے لفظوں میں غرایا۔


اسکی سیاہ آنکھوں میں دیکھتی ایک پل کو تو وہ بھی خوفزدہ ہو گئی۔


"یہ کیا ہو رہا ہے یہاں؟"۔ بھاری آواز اور ترش لہجہ ان کے عقب میں گونجا۔ تو دونوں ہی گڑبڑا سے گئے۔

نگاہوں کے سامنے کھڑی ہستی کو دیکھ کر الوینا نے جلدی سے فاصلہ بڑھایا۔


سیاہ سوٹ میں ملبوس، پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ ان سے زرا فاصلے پر کھڑا کڑے تیوروں سے انہیں، خاص کر الوینا کو گھور رہا تھا۔


"کلاس شروع ہو چکی اور تم دونوں یہاں کھڑے کون سا مسئلہ ڈسکس کر رہے ہو؟"۔ لفظ 'مسئلہ' پر اس نے خاصا زور دیا۔

الوینا سے نگاہیں اٹھانا دو بھر ہو گیا۔

کیا سوچتا ہوگا وہ اس کے بارے میں؟۔ یہ خیال ہی اس کا دل دھڑکا رہا تھا۔

اس کے برعکس ہارون تیکھے چتونوں سے اسے گھور رہا تھا۔


ان دونوں کو مسلسل خاموش پا کر وہ پھر بول پڑا۔


"اب کھڑے کھڑے پورا دن یہی گزارنا ہے؟ جاؤ کلاس میں۔ پانچ منٹ میں آ رہا ہوں میں"۔ اس نے حکم دیا۔ خاص طور پر الوینا کی جانب دیکھ کر۔


الوینا تو پہلے ہی وہاں سے کھسک لینا چاہتی تھی۔

حکم سنتے ہی باقاعدہ بھاگ کر اس کے سائیڈ سے نکلتے ہوئے وہ کلاس کی جانب چلی گئی۔


الوینا کے جاتے ہی وہ چند قدم آگے آیا اور اب اس کے مقابل ٹھہر گیا۔

ہارون سپاٹ چہرے کے ساتھ اس کی جانب دیکھ رہا تھا۔

جبکہ وہ جھک کر اس کے کان سے قریب ہوا۔


"تم پر میری نظر ہے"۔ بس صرف یہ ایک جملہ اس نے سرگوشی کی صورت اس کے کانوں میں صور اسرافیل کی مانند پھونکی۔

پھر اس کی جانب دیکھ کر پراسرار مسکراہٹ اچھالی۔

چند لمحے وہ یونہی اس کی جانب دیکھتا رہا۔


ہارون کے چہرے کا ہاؤ بھاؤ اب بھی نہ بدلا۔

وہ خاموشی سے ہنوز اسے ویسے ہی دیکھتا رہا۔


قیصر مزید کچھ کہے بنا آگے بڑھ گیا۔


اور اس کے رخ پھیرتے ہی ہارون کے چہرے پر پریشانیوں کے جال پھیلتے چلے گئے۔

سینے میں اٹکی سانس بحال کرتے وہ تادیر وہی کھڑا اس جملے کا متن سمجھنے کی سعی کرتا رہا۔

☆☆☆☆☆


غزل تو اسے دیکھ کر حیران رہ گئی۔

الوینا غزل اس کے ساتھ والی کرسی پر آ بیٹھی۔


"تم تو نہیں آ رہی تھی آج؟ پھر ارادہ کب بدلا؟"۔ وہ پوچھے بنا نہ رہ سکی۔


اور وہ اسے بتانے ہی لگی تھی جب اس کے ذہن میں کوندھا سا لپکا۔

"اگر اسے بتایا کے میں کس کی بدولت آج آئی ہوں تو اس کا رکارڈ پھر سے بجنا شروع ہو جائے گا۔ نہیں نہیں الوینا یہ غلطی مت کر"۔ وہ غزل کے چہرے کو دیکھتے ہوئے دل ہی دل میں خود سے مخاطب تھی۔


"ہاں ارادہ تو چھٹی کا ہی تھا۔ لیکن پھر مجھے یاد آیا کے آج تو ڈرامہ کلاس میں ریہرسلز کا لاسٹ ڈے ہے۔ بس اسی لیئے آنا پڑا"۔ وہ منہ بگاڑ کر بولی۔

تو غزل نے بغور اسے دیکھا۔


"وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن تم اتنی تپی ہوئی کیوں ہو؟ کیا ہوا؟ کسی سے جھگڑ کر آئی ہو؟"۔ وہ مشکوک نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی۔

الوینا نے دل ہی دل میں اسکے صحیح اندازہ لگنے پر داد دی۔


اسی وقت ہارون بھی کلاس میں داخل ہو گیا۔

ایک کٹیلی نگاہ الوینا پر ڈال کر وہ اسی کے آگے والی نشست پر بیٹھ گیا۔


الوینا نے بھی 'ہونہہ' کرکے سر جھٹکا۔

غزل باری باری دونوں کو دیکھتی رہی۔


"اوہ گاڈ، ڈونٹ ٹیل می کے تم دونوں نے پھر جھگڑا کیا"۔ان کے چہرے دیکھ کر اس نے نتیجہ نکالا تھا۔


الوینا کا پھر میٹر گھوما۔


"میں نے کچھ نہیں کیا، یہ سب اس کی وجہ سے ہوا ہے"۔ اس نے اپنے سے آگے والی سیٹ پر بیٹھے ہارون کی جانب اشارہ کیا۔


اور اس کا یہ جملہ وہ بخوبی سن چکا تھا۔

جس کا جواب دینے کو وہ گھوم کر اس کی جانب متوجہ ہوا۔


"کیا کہا تم نے۔۔۔میری وجہ سے؟ تم خود تو جیسے بہت معصوم سی بچی ہو نا جو کچھ غلط کر رہی نہیں سکتی"۔ وہ بھی ٹھیک ٹھاک تپ چکا تھا۔


"دیکھو اب اسے دیکھو یہ اپنی جگہ سے مڑ مڑ کر بھی مجھ سے جھگڑنا چاہ رہا"۔ اس نے غزل سے کہا۔


"میں نے تم سے کہا نا میرے منہ نہ لگو تم ورنہ کسی دن تمہارا سر پھوٹ جائے گا میرے ہاتھوں میں بتا رہی ہوں"۔ وہ انگلی اٹھائے اب اسے وارننگ دینے لگی۔


"تم کیا توڑنے پھوڑنے والے خاندان سے تعلق رکھتی ہو جو ہمیشہ ایسی ہی دھمکیاں دیتی رہتی ہو"۔ جوابی حملہ کیا۔


"اب تم میرے ذاتیات پر نشانہ باندھ رہے ہو۔ اور یہ میں ہرگز برداشت نہیں کر سکتی"۔ غصے سے بولتے ہوئے اس نے اپنے انک پین کو زوردار جھٹکا دیا۔

نیلے رنگ کی سیاہی ہارون کے سرخ شرٹ کو داغدار کرتی چلی گئی۔


غزل الوینا کی اس حرکت پر شاکڈ رہ گئی۔


اور حیران پریشان تو ہارون بھی رہ گیا۔


"یہ؟ تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہ کرنے کی"۔ وہ دبے دبے لہجے میں چیخا۔

آس پاس بیٹھے لڑکے لڑکیاں اب ان کی جانب متوجہ ہو رہے تھے۔

ان میں سے کئی ہارون کی جانب دیکھ کر ہنستے ہوئے مذاق اڑانے لگے تھے۔


الوینا کو رتی بھر پرواہ نہ تھی۔


"بالکل ٹھیک ہوا تمہارے ساتھ۔ اسی قابل ہو تم"۔ وہ غصے سے بولی۔


اسی پل کلاس میں اچانک خاموشی چھا گئی۔

کیونکہ جناب تبریز شاہ آن وارد ہوئے تھے۔


اور وہ جو الوینا کو جواب دینے لگا تھا۔ بس گھور کر رہ گیا۔


"تمہیں تو میں بعد میں دیکھ لوں گا"۔ دھمکاتے ہوئے اس نے رخ آگے کی طرف موڑ لیا۔


اور پیچھے وہ اس کے انداز کی نقل اتارنے لگی۔

☆☆☆☆☆


وہ بیڈ سے زرا فاصلے پر رکھی کرسی پہ براجمان تھے۔

ان کا سر جھکا ہوا تھا۔

شانے ڈھلکے ہوئے تھے۔

اور ہاتھوں کی انگلیاں سختی سے باہم پیوست کر رکھی تھیں۔


ان کے سامنے ہی بیڈ پر فائزہ بیٹھی تھیں۔

جو بے ہوشی اور مسلسل رونے کی وجہ سے عمر رسیدہ سی لگ رہی تھیں۔


علی مرزا کے گھر سے کچھ گھنٹے قبل ہی وہ نڈھال سی واپس آئی تھیں۔

گئی تو تھی امید لے کر، مگر واپس آتے ہوئے ایک اور بوجھ ان کی روح پر آن پڑا تھا۔


انہوں نے ساری باتیں مختار صاحب کو بتائیں۔

ان کو شدید غصہ آیا کے ان کے منع کرنے کے باوجود وہ کیوں گئیں علی مرزا سے ملنے۔

مگر جب انہوں نے عائشہ کی موت کے بارے میں انہیں آگاہ کیا تو مختار صاحب کے جیسے سارے الفاظ کھو گئے۔

کہنے کو کچھ باقی نہ رہا۔


تب سے وہ ایک ہی پوزیشن میں سر جھکائے بیٹھے تھے۔

منہ سے اب تک ایک لفظ بھی ادا نہ ہوا تھا۔


اس خاموشی سے فائزہ تھک چکی تھیں شاید۔ اسی لیئے تھکے تھکے لہجے میں خود ہی بول پڑی


"کتنی بد نصیب ہے وہ بچی۔ پیدا ہونے سے قبل ہی باپ کا سایا اس کے سر سے اٹھ گیا۔ پھر ماں بھی چھوڑ کر چلی گئی۔ کیسے رہی ہوگی وہ اتنے سالوں اکیلی مختار؟ کیسے جھیلے ہوں گے اس نے زمانے کے سرد و گرم تنہا؟"۔ وہ دکھی دل سے کہہ رہی تھیں۔


مختار صاحب نے کرب سے آنکھیں میچ لیں۔

یہی تو وہ سوال تھے جو اکثر ان کی راتوں کی نیندیں اڑا کر رکھتے تھے۔ یہ سوچ انہیں جینے نہیں دیتا تھا کے ان کی اولاد کا مستقبل ان کے بغیر کیا ہوا ہوگا؟۔

عائشہ کس حال میں ہوگی؟

انہیں سنبھالنے والا کوئی ہوگا بھی یا نہیں؟


ایک ہی تو تسلی تھی دل کو، کے جو بھی ہو کم از کم عائشہ اور اسکی اولاد جہاں ہوں گے ایک دوسرے کے ساتھ تو ہوں گے۔

لیکن آج پتہ چلا تھا کے ان کی لخت جگر۔۔۔ان کی اکلوتی اولاد نے ہر چیز تن تنہا ہی سہی ہے۔ عائشہ تو کب کی ان کی بے وفائی اور کٹھور پن کا بوجھ دل پہ لیئے اس دنیا سے چلی گئی تھی۔


"میں اسے ڈھونڈ لوں گا۔ میں اپنی بچی کو ڈھونڈ لوں گا۔ یہ دنیا بہت بے رحم ہے فائزہ، کم از کم اب سب کچھ جان کر میں چپ نہیں بیٹھ سکتا"۔ وہ بڑبڑاتے ہوئے خود سے عہد باندھ رہے تھے۔

انہیں یقین تھا کے وہ انہیں مل جائے گی۔


"اتنے سالوں سے تو ڈھونڈ رہے ہیں ہم، لیکن اس کا کوئی سراغ نہیں مل پایا"۔ فائزہ کی آنکھ سے آنسو ٹوٹ کر گرا۔

ان کے لہجے میں دکھ تھا۔ رنج تھا۔


"میں ایک اچھا شوہر نہ بن سکا فائزہ۔۔۔اور نہ ہی ایک اچھا باپ"۔ ان کی آواز میں درد تھا۔ صدمہ تھا۔

فائزہ کا دل ان کی بات سے کٹ کر رہ گیا۔


اچانک ہی وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور شکست خوردہ چال چلتے ہوئے وہ کمرے سے باہر نکل گئے۔


فائزہ نے انہیں نہیں ٹوکا۔ کیونکہ وہ ان کے معمول سے واقف تھیں۔ وہ اسی کمرے میں جا رہے تھے جو انہوں نے عائشہ اور اپنے بچے کیلئے سجا رکھا تھا۔

وہ اکثر وہاں بیٹھے گھنٹوں ان خوابوں کو ذہن میں دہرایا کرتے تھے جو عائشہ اور خود انہوں نے اپنے بچے کے مستقبل کیلئے دیکھے تھے۔

اس طرح شاید ان کے تشنہ دل کو تسلی ملتی تھی۔


مگر آج کا دن سوگ کا دن تھا۔

وہ جی بھر کر عائشہ کو یاد کرنا چاہتے تھے۔

اسے کھل کے رو لینا چاہتے تھے۔

☆☆☆☆☆


"یہ۔۔۔یہ ہے نیا جہانگیر؟"۔ وہ سخت گیر نظروں سے سامنے کھڑے ہارون کو گھورتے ہوئے فلزہ سے تصدیق چاہ رہی تھی۔


"ارے ہاں یار، اور کتنی بار بتانا پڑے گا تمہیں"۔ وہ جھنجھلا گئی۔


"جن کے دماغ کا نٹ بولٹ ڈھیلا ہوتا ہے ان کو ہر چیز بار بار بتانی پڑتی ہے"۔ ہارون دھیمے لہجے میں بڑبڑایا۔


جسے الوینا نے بخوبی سن لیا۔

"یہ تم کیا بڑبڑا رہے ہو؟ ضرور تم زیرِ لب مجھے گالیاں دے رہے ہوگے"۔ اس نے پورے وثوق سے کہا۔


"تم اتنی اہم نہیں ہو کے تمہیں کچھ کہہ کر اپنے منہ کا ذائقہ خراب کروں"۔ اس نے دوبدو کہا۔


"فلزہ اس سے کہو کے یہ اپنی ٹون سدھارے۔ ورنہ میں یہ پلے چھوڑ کر چلی جاؤں گی"۔ الوینا نے دھمکی دی۔


فلزہ جو پراپ والوں کو ہدایات دے رہی تھی اثبات پر اس کے ہوش اڑ گئے۔

وہ جلدی سے ان تک آئی۔


"خدارا تم لوگ اپنے پرسنل جھگڑوں کو دور رکھو فلحال کیلئے۔ اتنی مشکل سے تو میرے کردار پورے ہوئے ہیں اور میں نے ہارون کو لائنز رٹوائی ہیں۔ بس کل کی ہی تو بات ہے الوینا، پھر تم جتنا چاہے اس سے لڑ لو۔ لیکن پلیز فلحال تم دونوں اپنی کیمسٹری پر فوکس رکھو اور ایک آخری بار ریہرسل کرو۔ اور خدا کیلئے میری عزت رکھ لو کل کے دن"۔ وہ بیچاری منت سماجت کرنے پر اتر آئی۔


اس کے سمجھانے پر وہ کچھ ڈھیلے پڑ گئے۔


"میری طرف سے کوئی شکایت نہیں ملے گی"۔ ہارون نے تسلی دی۔


"اور میری بھی"۔ الوینا جلدی سے بولی۔


جس پر فلزہ نے سکھ کا سانس لیا۔

☆☆☆☆☆


ریہرسلز ختم ہوتے ہوتے شام ہونے کو آئی تھی۔


راہداری میں اکا دکا اسٹوڈنٹس ہی آ جا رہے تھے۔

کیونکہ یونیورسٹی کی آف ہو چکی تھی آدھہ گھنٹہ قبل ہی۔

وہ ڈرامہ کلب سے نکل کر راہداری میں قدم رکھتے وہاں سے گزر رہی تھی۔


جب کمپیوٹر لیب کے پاس سے گزرتے ہوئے کسی نے ادھ کھلے دروازے سے اس کے ہاتھ پر گرفت کَسی اور اس سے قبل کے اس کی چیخ بلند ہوتی اس مضبوط گرفت نے اسے بے دردی سے اندر کھینچ لیا۔


لیب نیم تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔

وہ اس کے دونوں اطراف دیوار پر مضبوطی سے ہاتھ جمائے اس کی راہیں مسدود کیئے ہوئے تھا۔


گھبراہٹ سے الوینا کا دل بند ہوا جا رہا تھا۔

اس کا تنفس تیز چل رہا تھا۔

جبکہ مقابل کی گرم سانسیں اور پرتپش نگاہیں اسے جلا رہیں تھیں۔


"کیا کر رہی تھی اس کے ساتھ وہاں؟ ہوں؟ اتنی معتبر ہستی آخر کون ہے؟"۔ نہ تو لہجے میں غصہ تھا۔ نہ چہرے پر جلن کی کوئی رمق۔

بس الوینا کے بازو پہ اس کی گرفت تھی جو ہر لمحہ سخت سے سخت تر ہوتی جا رہی تھی۔


وہ سانس روکے دیوار کے ساتھ لگی اس کی جانب دیکھ رہی تھی۔

اس کا چہرہ زرد پڑنے لگا تھا۔

جانے کیوں اس پل اسے اس شخص سے خوف آ رہا تھا۔


"جواب دو گی میری بات کا؟"۔ اس کا لہجہ نرم تھا۔

اس کا چہرہ بے تاثر تھا۔

لیکن اس کی گرفت۔۔۔وہ آگ اگل رہی تھی۔


خوف سے الوینا کا خون خشک ہونے لگا۔


"آ۔۔۔آپ۔۔۔یہ۔۔۔کیا کہہ رہے ہیں؟"۔ اسے اپنی آواز کانپتی محسوس ہوئی۔


"اتنی معصومیت! لا علمی وہ بھی اس قدر؟؟ یہ اچھی بات تو نہیں"۔ وہ مسکرایا۔


الوینا کے ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ ہوئی۔


"مجھے درد ہو رہا ہے"۔ وہ بے بسی سے ضبط کے کڑے مراحل طے کرتے ہوئے بولی۔

"اوہ ویری سوری، ایسا کرو تم میری بات کا جواب دے دو۔ پھر یہ گرفت اپنے آپ کھل جائے گی"۔

کچھ تھا اس پل اس شخص میں۔۔۔جو باقی دنوں سے بہت اجیب تھا۔۔۔اور یکسر مختلف۔

الوینا کی آنکھوں میں نمی اترنے لگی۔

جسے چھپانے کو اس نے منہ پھیر لی۔

"ایسا۔۔۔کچھ نہیں۔۔۔آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔۔۔میں ایسی نہیں"۔ تمام تر ہمت مجتمع کرکے بالآخر اس نے جواب دیا۔

تب اچانک ہی مقابل کی گرفت اس کے بازو پر ڈھیلی پڑ گئی۔

الوینا نے سختی سے آنکھیں میچ لیں۔

اس کا بازو جل رہا تھا۔

"گریٹ۔ مان لی تمہاری بات"۔

وہ دو قدم پیچھے ہٹا۔۔۔فاصلہ بڑھاتے ہوئے اس نے دروازے کی جانب ہاتھ سے اشارہ دیا۔ کے تم جا سکی ہو۔

الوینا نے آؤ دیکھا نہ تاؤ باہر کی جانب دوڑ لگا دی۔

اس کے جاتے ہی وہ اس دیوار سے لگ کر کھڑا ہو گیا جہاں وہ ابھی موجود تھی۔

پھر یک دم ہی وہ ہنسا۔

اور دیوانہ وار ہنستا چلا گیا۔

اسی دوران اس کا ہاتھ رینگ کر جیب تک گیا اور اس کا مخصوص چھوٹا سا خنجر نکال لایا۔

پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس نے خنجر ہاتھ میں دبائی اور اپنے اسی ہاتھ کی ہتھیلی پر پھیر دیا جس سے اس نے الوینا پر گرفت کی تھی۔

خون قطرہ قطرہ کرکے زمین کو بھگوتے اپنی وقعت کھو رہا تھا۔

مگر اسے پرواہ کب تھی۔

"یہ لڑکی مجھے فنا کرنے کے درپے کیوں ہے"۔ قیصر خیام نے کہتے ہوئے آنکھیں موند لیں۔

اور ایک بار پھر ہنس دیا۔

وہ تیز قدموں سے بنا پیچھے مڑے بس وہاں سے دور چلتی چلی جا رہی تھی۔


یونیورسٹی سے نکل کر وہ پیدل ہی چلنے لگی تھی۔

اسٹاپ پر کھڑے رہ کر کیب کا انتظار کرنا بھی اسے دوبھر لگ رہا تھا۔


سیاہ بادلوں نے آسمان کو ڈھانپ رکھا تھا۔

لگ رہا تھا جیسے بارش کسی بھی لمحہ برسنے کو ہے۔


بائیں کندھے پر موجود بیگ کے اسٹریپس سختی سے تھامے اس کی شہد رنگ آنکھوں میں اجب وحشت سی طاری تھی۔

ادھ کھلے بال ہوا کے دوش پر پیچھے کی جانب کو اڑ رہے تھے۔


وہ ارد گرد سے بے نیاز چلتی چلی جا رہی تھی۔

مگر آج نجانے کیوں وہ راستہ اسے بہت طویل محسوس ہو رہا تھا۔

دل میں ایک انجانا سا خوف بار بار سر اٹھا رہا تھا۔


ذہن میں اس شخص کے جملے گردش کر رہے تھے۔

جن کا مطلب وہ سمجھ کر بھی سمجھنا نہیں چاہتی تھی۔


یونیورسٹی سے ہاسٹل تک کا راستہ اس نے غائب دماغی سے طے کیا۔

وہ اطراف میں کسی بھی جانب دیکھے بغیر باقاعدہ بھاگ کر اپنے روم میں بند ہو گئی۔


صد شکر کے غزل اس وقت وہاں نہیں تھی۔ ورنہ وہ کم از کم اس وقت تو اس کے سوالوں کے جواب دینا افورڈ نہیں کرتی تھی۔


اس نے بیگ اور اپنے وجود سے لپٹی سیاد چادر بیڈ پر پھینکے۔

گلے میں رسی کی طرح ڈالا اسکارف بھی نوچ پھینکا۔

اور گرنے کے سے انداز میں بستر پر بیٹھ گئی۔


گہری نگاہیں۔۔۔ان کی تپش اب بھی اسے جلا دینے کے درپے تھی۔

وہ ان دیکھی آگ میں خود کو جھلستا محسوس کر رہی تھی۔


بے چینی حد سے سوا ہوئی تو ایک جھٹکے سے وہ اٹھی اور چند قدم کے فاصلے پر موجود باتھ روم کا دروازہ کھول کر اندر بند ہو گئی۔


بدلتے موسم کو خاطر میں لائے بغیر اس نے شاور کھولا اور ٹھنڈا ٹھار پانی کا آبشار گرتے اسے بھگونے لگا۔


چہرہ اونچا کیئے، بند آنکھوں سے سانس روکے وہ یخ پانی سے نبرد آزما تھی۔


ذہن میں اب تک اس شخص کی گہری آنکھیں اور پراسرار مسکراہٹ گردش کر رہے تھے۔


کیا چاہتا تھا آخر وہ شخص؟

کیوں وہ اس پر اپنا استحقاق جتاتا تھا؟

وہ کیوں ہر بار اسے یوں امتحان میں ڈال دیتا تھا؟

اور کس حق کے تحت وہ اس سے باز پرس کر رہا تھا؟

کیا غزل ٹھیک کہتی تھی؟ کیا وہ شخص واقعی اس سے۔۔۔۔

لیکن الوینا نے تو کبھی اسے ایسا کوئی تاثر نہ دیا تھا۔

پھر کیوں وہ ہر بار اس کی طرف پیش قدمی کرتا تھا؟

اور آخر کیوں الوینا اس کے سامنے بے بس ہو جایا کرتی تھی؟

کیوں کیوں آخر کیوں؟ ایسے کتنے ہی کیوں تھے اس کے ذہن میں۔


"کیا کر رہی تھی اس کے ساتھ وہاں؟"۔ پرتپش لہجہ اس کی سماعتوں سے ٹکرایا۔


جھٹکے سے اس نے آنکھیں کھولیں اور دو قدم پیچھے ہٹ کر دیوار سے لگتے ہوئے گہری گہری سانسیں لینے لگی۔

وہ تب سے سانس روکے کھڑی تھی۔


"کیوں وہ ہر بار میرے آگے امتحان بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں؟ میں کتنی کوششیں کرتی ہوں کے ایسا کچھ نہ سوچوں۔ کیونکہ وہ میرے پروفیسر ہیں۔ لیکن وہ؟ آخر کیا ہے ان کے ذہن میں میرے لیئے؟"۔ اس کے دل و دماغ میں پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی تھی۔


کوئی تو اسرار تھا اس شخص میں۔۔

اسے یاد تھا وہ دن جب پہلی بار وہ اس سے روبرو ہوئی تھی۔

الوینا کا خود کو محویت سے دیکھنا اسے ناگوار گزرتا تھا۔

یہاں تک کے جب ایک پل کو اپنی حدود بھول کر وہ اس کے قریب گئی تھی تو اس کا ہاتھ تک بلند ہو گیا تھا الوینا پر۔

اور اب گزرے پندرہ دنوں میں اس کا رویہ کتنا بدل گیا تھا اس کے ساتھ۔


وہ کوئی چھوٹی بچی تو نہیں تھی جو اس شخص کا اپنی طرف جھکاؤ محسوس نہ کر پاتی۔

وہ بالغ اور باشعور تھی۔ جو کچھ بھی ہو رہا تھا اسے سمجھنا اتنا مشکل ہرگز بھی نہ تھا۔


لیکن اصل بات یہ تھی کے اس کا ذہن اس بات کو قبول کرنے کیلئے تیار ہی نہ تھا۔

وہ سب کچھ جان کر اور سمجھ کر بھی انجان بن جانا چاہتی تھی۔

وہ آنکھیں میچ لینا چاہتی تھی۔ کان بند کر لینا چاہتی تھی۔

کیونکہ حقیقت جان لینا اور سمجھ لینا تو بہت آسان تھا، لیکن اسے ہضم کرنا اتنا ہی مشکل۔


اور وہ اس وقت اسی مشکل میں گھری تھی۔


اس نے شاور بند کیا اور سست روی سے چلتے ہوئے وہ بیڈ کے پاس آ رکی۔

پانی ٹپ ٹپ کرتے گیلے شہد آگیں بالوں سے گر رہا تھا۔

زرد ستے ہوئے چہرے پر بوندیں موتیوں کی مانند ٹھہری ہوئیں تھیں۔


دائیں جانب کو کھلی کھڑکی سے سرد ہوا کا جھونکا اسے کپکپا کر رکھ گیا۔

جس کے ساتھ ہی مٹی کی سوندھی خوشبو پھیلنے لگی۔

دھواں دھار بارش کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔

مگر اسے کسی بات کا ہوش ہی کب تھا۔


وہ گم سم سی ہنوز ایک ہی پوزیشن میں کھڑی تھی۔ تبھی دروازے پر آہٹ ہوئی اور ساتھ ہی غزل کی صورت نظر آئی۔


وہ اپنے ہی دھن میں اندر آ رہی تھی جب اچانک اس پر نظر پڑی تو چونک گئی۔


"آ گئی تم۔ اور یہ کیا حال بنا رکھا ہے تم نے؟"۔ وہ تشویش زدہ سی اس کی جانب آئی۔


الوینا اسکی پکار پر چونک گئی۔


"ہوں۔ تم کب آئی؟"۔ وہ غائب دماغی سے پوچھنے لگی۔

غزل کو اس کا انداز کھویا کھویا سا لگا۔


"میں تو ابھی ابھی آئی ہوں لیکن تمہیں کیا ہوا ہے؟ بارش میں بھیگتی رہی ہو کیا؟ کم از کم چینج تو کر لیتی، سردی لگ جائے گی"۔ وہ فکرمندی سے کہنے لگی۔ اسے بھیگا دیکھ کر اس نے یہی اندازہ لگایا۔


الوینا اسکی بات پر جیسے ہوش کی دنیا میں واپس لوٹی۔۔۔

چونک کر نگاہیں اپنے حلیے پر دوڑائی۔


"ہاں، میں چینج کر لیتی ہوں"۔ آہستگی سے کہتے ہوۓ وہ دیوار گیر الماری کی جانب مڑ گٸ۔


غزل پرسوچ نگاہوں سے اس کی پشت تکتی رہی۔


کچھ ہی دیر بعد وہ کپڑے تبدیل کر چکی تھی۔ گلابی رنگ کے ٹراؤزر شرٹ میں ملبوس بال کیچر میں مقید کیئے اس کا چہرہ زرد اور بجھا بجھا سا تھا۔


"الوینا کیا کوئی بات ہے جو تمہیں پریشان کر رہی ہے؟ مجھے تو بتاؤ کم از کم؟"۔ وہ پوچھے بنا نہ رہ سکی۔


"نن۔۔نہیں تو۔۔۔ایسی کوئی بات نہیں۔ آئم فائن"۔ آہستگی سے کہتے ہوئے اس سے نگاہیں ملانے کے بجائے وہ بظاہر بیڈ کا پھیلاوا سمیٹنے لگی۔


غزل نے گہری سانس بھری پھر اس کا رخ اپنی جانب موڑا۔

"تمہاری شکل پہ صاف صاف لکھا ہے کے کوئی بات ضرور ہے۔ چلو شروع ہو جاؤ تم بتانا"۔ وہ قطعی ٹلنے والی نہیں تھی۔


الوینا لب بھینچ کر نگاہیں جھکا گئی۔

غزل بغور اس کے چہرے کا اتار چڑھاؤ نوٹ کرنے لگی۔


"کیا تبریز سر نے پھر کچھ کہا تم سے؟"۔ اس نے گویا اندھیرے میں تیر چلایا۔ اور جو بالکل نشانے پر بیٹھا تھا۔


اس اچانک سوال پر الوینا نے جھٹکے سے نگاہیں اٹھائیں۔

اور اس کی آنکھوں کا تاثر غزل کو بہت کچھ باور کروا گیا۔


"آؤ پہلے یہاں بیٹھو سکون سے"۔ اس نے الوینا کا بازو تھام کے اسے بیڈ پر بٹھا دیا۔


الوینا بےتابی سے ہونٹ کاٹنے لگی۔


"اب بتاؤ انہوں نے ایسا کیا کہا جس نے تمہیں اتنا پریشان کر دیا ہے الوینا؟"۔ اس کے شانے پہ ہاتھ رکھے وہ نرمی سے پوچھنے لگی۔


الوینا نے سرد آہ بھری۔


"مجھے خود نہیں پتہ غزل کے میرے ساتھ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ دوسرے کسی کے ساتھ بھی وہ ایسے نہیں ہوتے، پھر میرے ساتھ ان کا رویہ یکسر مختلف کیوں ہو جاتا ہے؟ آخر وہ چاہتے کیا ہیں مجھ سے؟"۔ وہ سخت الجھی ہوئی تھی۔


"تم انہیں چاہنے لگی ہو الوینا"۔ جس بات سے وہ چشم پوشی کر رہی تھی آج وہی بات بہت ہی عام لفظوں میں غزل نے اسے سمجھا دی تھی۔


جسے سنتے ہی اس کے دل و دماغ میں جھماکا سا ہوا۔

وہ حیرت زدہ سی اس کی جانب دیکھنے لگی۔

جیسے یہ بہت غیر متوقع تھا۔


"نہیں غزل، یہ ناممکن ہے۔ میں اور ان سے؟ تم ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہو یار"۔ وہ بے بس سی لگ رہی تھی۔


"الوینا محبت جب ہو جاتی ہے تو وہ یونہی بے بس کر دیا کرتی ہے۔ اور وہ انسان کو اپنی من مرضی کے مطابق چلانا جانتی ہے۔ تبریز شاہ تمہارے پروفیسر ہیں لیکن اس سے بھی پہلے وہ ایک انسان ہیں، جس سے تمہیں محبت ہو گئی ہے۔

ہو سکتا ہے ان کو بھی تم سے محبت ہو گئی ہو"۔ وہ رسان سے کہہ رہی تھی۔


جبکہ الوینا کا دل اس شخص کے ذکر پر معمول سے ہٹ کر تیز رفتاری سے دھڑک رہا تھا۔


"یہ تم کیا کہہ رہی ہو غزل۔ ہم ایسے کسی کے بارے میں اندازے کیسے لگا سکتے ہیں؟ ہو سکتا ہے جو تم نے ابھی کہا اس کا حقیقت سے دور دور تک کا کوئی واسطہ ہی نہ ہو۔ پھر خواہ مخواہ اپنے دل میں خوش فہمیاں پالنے کا مقصد ہی کیا ہے"۔ وہ سخت جھنجھلا گئی۔


پتہ نہیں کیوں پر وہ یہ بات قبول کرنے سے انکاری تھی۔

مان ہی نہیں سکتی تھی کے وہ اس سے محبت بھی کر سکتا ہے۔


دل اور دماغ کی یہ جنگ اسے بوکھلائے دے رہی تھی۔

خود کو بے بس محسوس کرکے وہ کچھ بھی کرنے سے قاصر تھی۔

جس کے نتیجہ یہ ہوا کے وہ چڑچڑی ہونے لگی۔


غزل نے جب دیکھا کے اس ذکر پر وہ اکھڑ رہی ہے تو بات سمیٹنے کی ٹھانی۔

"اچھا تم چھوڑو یہ سب باتیں، دماغ پر اتنا بوجھ مت ڈالو۔ آؤ چلو کھانا کھاتے ہیں۔ ڈنر ٹائم ہو گیا ہے"۔ اس کا دھیان بٹانے کی غرض سے کہا۔ ساتھ ہی ہاتھ سے پکڑ کے اسے اٹھا بھی دیا۔

الوینا بھی فلحال کیلئے سب کچھ بھول بھال کر اس کے ساتھ خاموشی سے اٹھ گئی۔

☆☆☆☆☆


گھر میں داخل ہوتے ہی اسے روشنیوں کا احساس ہوا۔

کچن سے کھٹ پٹ کی آوازیں آ رہی تھیں اور کھانے کی خوشبو۔

اسے سمجھنے میں زرا وقت نہ لگا کے تارہ وہاں موجود ہے۔


اس نے قدم اپنے روم کے بجائے کچن کی جانب بڑھا دیئے۔


سیاہ بالوں کا جوڑا بنائے۔ ایپرن پہنے وہ بہت انہماک سے کھانا بنانے میں مصروف تھی جب آہٹ پر نگاہیں اٹھائیں جو اگلے ہی پل اس پر پڑیں۔

جو دیوار سے ٹیک لگائے بغور اس کی جانب ہی دیکھ رہا تھا۔


"ویلکم جناب آپ کے اپنے ہی گھر میں"۔ وہ دلکشی سے مسکراتی ہوئی بولی۔

اثبات پر نا چاہتے ہوئے بھی قیصر کے لب مسکراہٹ میں ڈھل گئے۔


"تم کب آئی؟ اور یہ سب کیا لگا رکھا ہے؟"۔ ہاتھ میں پکڑا ہوا سیاہ کوٹ کاؤنٹر پر رکھتے ہوئے وہ پاس رکھی اسٹول کھینچ کر بیٹھ گیا۔


"میں تھوڑی دیر پہلے ہی آئی تھی۔ تمہارا انتظار کر رہی تھی مگر پھر سوچا بیٹھے رہنے سے اچھا ہے کچن میں اپنے ہاتھ کی صفائی دکھاؤں"۔ جواب دیتے ہوئے اس کے ہاتھ بھی مسلسل حرکت میں تھے۔


وہ اپنے ہی دھن میں تھی جب اچانک نظریں قیصر کے ہاتھ پہ بندھی سفید پٹی پر پڑیں۔ وہ ششدر سی گھوم کر اس کے سر پر آن وارد ہوئی۔

اور ہاتھ تھام کر معائنہ کرنے لگی۔


"یہ کیا ہوا ہے قیصر تمہیں؟ اتنا گہرا کٹ لگا ہے کے پٹی بندھی ہے۔ کیسے لگا یہ؟ کہیں کسی نے حملہ تو نہیں کیا"۔ اس کے چہرے پر تشویش تھی۔


قیصر نے گہری سانس بھری پھر اٹھ کھڑا ہوا اور اس کے مقابل آیا۔


"کچھ نہیں یہ تو بس معمولی سا زخم ہے۔ جو میں نے ہی لگایا ہے خود کو"۔ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے وہ رسان سے کہہ رہا تھا۔


تارہ بے یقینی سے اسے دیکھنے لگی۔

"یہ کیا بکواس ہے؟ تم؟ جو اپنی ذات سے اتنا پیار کرتا ہے اس نے خود کو خود ہی زخم لگایا؟ آخر کیوں قیصر؟"۔ وہ سوالیہ نگاہوں سے اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔


"سمجھ لو میرے کھیل۔۔۔اور مقصد کی طرف ہی اٹھا گیا یہ ایک قدم ہے"۔ اس نے اپنے ہاتھ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔


تارہ کی کھوجتی نگاہیں اس کے چہرے پر کچھ تلاش کر رہی تھیں۔

جب ایک دم ہی وہ کسی نتیجے پر پہنچے۔


"تو تم نے یہ اس لڑکی کی وجہ سے کیا ہے؟"۔ اس کی چھٹی حس بہت ہی اسٹرانگ سگنلز دے رہی تھی۔


اس کا اندازہ صحیح لگنے پر قیصر کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔

"ہاں بالکل ٹھیک کہا تم نے، یہ اسی لڑکی کا دیا ہوا ہے۔ یوں سمجھ لو کے ہرنی کے گرد جال بننے کیلئے ہی یہ کیا ہے"۔


تارہ بے یقینی سے اس کی جانب دیکھنے لگی۔

"قیصر تم نے اتنا گہرا زخم محض ایک لڑکی کیلئے دیا خود کو؟ لیکن کیوں؟"۔ اسے خدشے لاحق تھے۔


"یار تم اتنا سوال جواب کیوں کر رہی ہو؟ اور تمہارے تیور بھی خالص بیویوں والے ہی لگ رہے ہیں۔ نہ تو تم میری بیوی ہو اور نہ میں تمہارا ہونے والا یا ہو چکا شوہر"۔ وہ سخت بدمزہ ہوا۔


اس نے دکھ سے اس سنگدل انسان کو دیکھا۔

"کیا وہ کل کی آئی لڑکی اتنی اہم ہو گئی ہے قیصر تمہارے لیئے کے اس کی وجہ سے تم مجھے میری جگہ بتا رہے ہو؟"۔ اس کے لہجے میں رنج تھا۔


"اب اس لڑکی کا یہاں کیا ذکر؟ اور تم اچھی طرح جانتی ہو کے اس کی اہمیت میرے آگے ایک مہرے سے زیادہ کچھ نہیں"۔ وہ تلخ ہوا۔


لحظہ بھر کو تارہ نے اس کی آنکھوں میں۔۔۔چہرے پر کچھ تلاش کرنا چاہا مگر وہ بھی اس کی بات کی عکاسی کرتے محسوس ہوئے۔


تو وہ پرسکون ہو کر مسکرا دی اور اس کے شانے سے لگ گئی۔

"آئم سوری، مجھے لگا شاید تم اسے چاہنے لگے ہو اس لیئے تھوڑا ان سکیور ہو گئی۔ لمحہ بھر کو بھول ہی گئی تھی کے تم میں اور اس میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اور گھوڑا بھی بھلا کبھی اپنی خوراک سے دوستی کرتا ہے؟ مجھے یہ سب سوچنا ہی نہیں چاہیے"۔ پراسرار مسکراہٹ کے ساتھ وہ اس سے لگی گویا اسے اس کی اوقات بتا رہی تھی اور اس پر واضح کر رہی تھی کے الوینا جیسی لڑکی اس کی اصلیت جان کر کبھی اس کی نہیں بن سکے گی۔

لہٰذا اگر قیصر کے دل میں اس لڑکی کیلئے تھوڑی بہت بھی پسندیدگی ہوگی تو وہ یہ فرق جان کر ختم ہو جائے گی۔


قیصر جو خاموشی سے اس کی بات سن رہا تھا۔۔۔اس کے خاموش ہوتے ہی اس نے پہلی فرصت میں تارہ کو خود سے دور کیا اور کاؤنٹر پہ دھرا اپنا کوٹ سنبھال لیا۔


"تم کھانا لگاؤ، میں چینج کرکے آتا ہوں"۔ اس کا گال تھپک کر وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔


جبکہ تارہ اس کی پشت تکتی تلخی سے مسکرا دی۔


"تم مجھ سے محبت نہیں کر سکتے قیصر خیام، تو کسی اور سے بھی پھر کیوں؟ ہونہہ، جب جب تم اس لڑکی کی طرف قدم بڑھانا چاہو گے تب تب تمہیں اپنے اور اس کے بیچ کا فرق اس کے قریب ہونے سے روک دے گا"۔ سیاہ لٹ کو انگلی پر لپیٹتے ہوئے وہ فاتحانہ نگاہوں سے اس کے کمرے کے بند دروازے کو دیکھتے ہوئے دل ہی دل میں اس سے مخاطب تھی۔

☆☆☆☆☆


سوشل سائنس ڈپارٹمنٹ میں آج گہماگہمی کا سا ماحول تھا۔

کیونکہ آج ان کا پلے تھا۔ جس میں سب ہی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔


"ماہین یار تم جا کر ہارون کو بلا لاؤ نا۔ آدھے گھنٹے میں پلے شروع ہونے جا رہا ہے اور ہیرو کا ہی پتہ نہیں"۔ فلزہ نے پریشانی سے کہا۔


"یار یہ لائٹس چیک کرو دیکھو عین وقت پر کچھ گڑبڑ نہ ہو"۔ اس نے پراپ والوں سے کہا۔


"فلزہ یہ ڈریس چیک کرو نہ بہت چبھ رہا ہے"۔ الوینا غرارہ ہاتھ میں لیئے اس کے پاس آئی۔


"او گاڈ، الوینا تم ابھی تک تیار بھی نہیں ہوئی"۔ اس نے سیاہ جینز اور رائل بلیو شرٹ میں اسے ملبوس دیکھا تو سر پکڑ لیا۔


"ارے وہی تو کر رہی تھی پر یہ ڈریس بہت چبھتا ہے"۔ اس نے بے بسی سے کہا۔


"اچھا یہ تم مجھے دو اور جاؤ جا کر پہلے باقی کی تیاریاں کرلو۔ تب تک میں تمہارا ڈریس چیک کرتی ہوں"۔ اس نے اس کے ہاتھ سے کپڑے لے لیے۔

الوینا اثبات میں سر ہلاتی ہوئی سنگار میز کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔


کچھ ہی دیر بعد وہ ہلکے گلابی اور آف وائٹ رنگ کے غرارے میں، ہلکے پھلکے میک-اپ اور باریک سے کپڑوں کے ہم رنگ کندن جڑے جیولری کے ساتھ تیار کھڑی اپنا دوپٹہ سر پہ رکھ رہی تھی۔


"گریٹ، بہت اچھی لگ رہی ہو"۔ فلزہ نے جب اس کا جائزہ لیا تو کہے بنا نہ رہ سکی۔


اس کی بات پر الوینا جھینپ کر مسکرا دی۔


"یار یہ جہانگیر کہاں رہ گیا میرا۔ پلے شروع ہونے میں صرف پندرہ منٹ رہ گئے ہیں"۔ فلزہ کی پریشانی ہر گزرتے پل بڑھتی جا رہی تھی۔


"سوری سوری میں زرا لیٹ ہو گیا"۔ اسی وقت وہ بھاگتا ہوا ڈریسنگ روم پہنچا۔


فلزہ نے سینے پہ ہاتھ رکھے پرسکون سانس خارج کی۔

جبکہ الوینا سر جھٹک کر آیئنے میں اپنا جائزہ لینے لگی۔


"زرا نہیں بادشاہ سلامت آپ کافی لیٹ ہیں۔ خیر، جلدی کرو یہ رہے تمہارے کپڑے۔ فوراََ ریڈی ہو جاؤ"۔ اس نے کپڑے اسے تھما دیئے۔

جنہیں لے کر وہ چینجنگ روم بھاگا۔


جبکہ فلزہ اب الوینا کی جانب آئی۔


"پرسکون رہنا، بھیڑ دیکھ کر نروس مت ہو جانا بس جو یاد کیا اس پہ کنسنٹریٹ کرنا۔ اوکے؟"۔ اس نے اسے تسلی دی۔

الوینا نے اثبات میں سر ہلایا۔


دوسرے ڈپارٹمنٹ کے اسٹوڈنٹس، اساتذہ کے ساتھ ساتھ پرنسپل صاحب بھی آڈیئنس میں تشریف لا چکے تھے۔ جبکہ مہمان خصوصی وی-سی خاور ملک تھے۔


"آپ سب کی یہاں تشریف آوری پر سوشل سائنس ڈپارٹمنٹ کے اسٹوڈنٹس آپ سب کی اور خاص طور پر وی-سی سر، پرنسپل سر اور ہمارے سب قابل احترام اساتذہ کے بےحد مشکور ہیں۔ اور تہہ دل سے خوش آمدید کہتے ہیں"۔ اسٹیج پر موجود میزبانی کے فرائض انجام دینے والا وحید تشکر آمیز لہجے میں کہہ رہا تھا۔


جس پر سب دھڑادھڑ تالیاں پیٹنے لگے۔


پہلی را کی پانچویں نشست پہ وہ براجمان تھا۔

نگاہیں اسٹیج پر جمی تھیں جہاں سے اب پردہ اٹھ رہا تھا۔


اسٹیج کے بیک گراؤنڈ میں محل کی تصویر آویزاں تھی۔ جبکہ اسٹیج کے وسط میں شاہی تخت کے پاس ہارون عالم مغل بادشاہ نورالدین محمد سلیم شاہی عرفیت جہانگیر کے کسٹیوم میں ملبوس، ہاتھ میں سرخ گلاب لیئے شاہانہ انداز میں کھڑا تھا۔


پایل کی مدھر جھنکار کے ساتھ ہی وہ سر جھکائے، دوپٹے کا کونہ تھامے میانہ چال چلتی ہوئی جہانگیر سے کچھ ہی فاصلے پر آ رکی۔


سب دم سادھے اسٹیج کی جانب ہی دیکھ رہے تھے۔

کرسی کی کہنی پر ہاتھ رکھے، مٹھی گال تلے جمائے قیصر خیام کیلئے الوینا کا یہ روپ بہت انوکھا اور دلفریب تھا۔


"بادشاہ سلامت، ناچیز آپ کی خدمت میں حاضر ہے"۔ اس کی چولی کے گلے پر ہی چھوٹا سا مائیک لگا تھا۔ جس میں وہ دھیمے لہجے میں بولی۔


جہانگیر نے گلاب سونگھتے ہوئے بغور اس کے جھکے سر کو دیکھا اور دلکشی سے مسکرا دیا۔

پھر دو قدم چل کر اس کے قریب پہنچ گیا۔


"تم ہماری زندگی میں کیا ہو اس کا اندازہ تم کبھی نہیں کر سکتی۔ ہماری نگاہوں میں دیکھو خود کو نور تمہارا مقام ہماری پلکوں پر ہے، تمہارا قیام ہمارا دل ہے اور تمہاری حکومت ہمارا وجود"۔ وہ چاہت بھرے انداز میں حال دل کہہ رہا تھا۔


اسے خاموش پا کر اس نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھام لیا۔


(قیصر خیام گہری نگاہوں سے دیکھے گیا)۔


"مت چراؤ یوں ہم سے نگاہیں نور، ہم تمہیں اپنے حرم میں لینا چاہتے ہیں، تاکہ تم اپنے نور سے اسے منور کردو۔ ہر لمحہ اپنی نگاہوں کے سامنے تمہیں دیکھنا چاہتے ہیں، دیدارِ یار کرنا چاہتے ہیں"۔ وہ گہرے اور گمبھیر لہجے میں گویا تھا۔


سب دم سادھے انہیں دیکھ اور سن رہے تھے۔


تبھی نور جہاں نے گھبرا کر نرمی سے اپنے ہاتھ اس کے ہاتھوں سے کھینچے اور رخ موڑ لیا۔

"گستاخی معاف کیجئے گا بادشاہ سلامت، مگر میں ایک بیوہ اور ایک بچے کی ماں ہوں۔ آپ کا مجھے حرم میں رکھنے کا فیصلہ محل باسیوں کو پسند نہیں آئے گا۔ ایک بار پھر سے معافی چاہوں گی، میں اپنے شوہر کو بھول نہیں سکتی۔ پھر چاہے وہ اس دنیا میں ہو یا نہ ہو"۔ وہ پراعتماد لہجے میں بولی۔


جہانگیر کا چہرہ توہین سے سرخ ہوا۔

اس نے نورجہاں کا بازو تھام کر اس کا رخ اپنی جانب کیا۔


"تم سے ہم نے پوچھا نہیں ہے۔ یہ ہمارا فیصلہ ہے اور کس گستاخ میں اتنی جرت ہے جو ہمارے فیصلے سے سرتابی کی مجال کرے۔ اگر تم ہمارے حرم میں نہیں آ سکتی اس طرح تو ٹھیک ہے۔ ہم تم سے نکاح کر تمہیں اپنی ملکہ بنائیں گے اور تمہارے بچے کو اپنی سرپرستی میں لیں گے"۔ وہ فیصلہ کن لہجے میں بولا۔


قریب پینتالیس منٹ کا یہ پلے چلا جو دیکھنے والوں کو بے حد پسند آیا۔

ہر کسی نے داد دی۔ فلزہ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔


سب کھڑے ہو کر دھڑا دھڑ تالیاں پیٹ رہے تھے۔

الوینا کی نگاہیں پہلے را کی پانچویں نشست پر پڑی جو خالی تھی۔ پھر اس سے کچھ ہی فاصلے پر وہ اسے ایگزٹ وے سے باہر جاتا دکھائی دیا۔

تب تک اسٹیج پر پردہ گرایا جا چکا تھا۔


اسے نہ تو اپنے کپڑے بدلنے کا ہوش رہا اور نہ ہی ایوارڈ لینے کا۔

وہ بیک اسٹیج سے نکل کر راہداری میں قدم رکھتی ہوئی اسے تلاش کرنے لگی۔ جلد از جلد وہ اسے دیکھنا چاہتی تھی۔


تبھی وہ اسے سامنے سے آتا دکھائی دیا۔

نگاہیں الوینا پر اٹھیں تو یک بارگی وہ چونکا۔


مگر اگلے ہی پل وہ اسے نظرانداز کرتا اس کے سائیڈ سے نکل رہا تھا جب بے سوچے سمجھے ہی الوینا نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھام لیا۔

وہ رکا۔

وہ گھوم کر اس کے سامنے آئی۔


"آپ۔۔۔آپ وہاں سے چلے کیوں آئے؟"۔ جانے کس احساس کے تحت وہ یہ پوچھ رہی تھی۔


وہ خود بھی حیران تھی کے اس میں بھلا اتنی ہمت کہاں سے آئی۔


قیصر نے ایک نظر اس کے نازک سے ہاتھ میں موجود اپنے مضبوط ہاتھ کو دیکھا۔

پھر نگاہیں اٹھا کر براہ راست اس کی جانب دیکھا۔


"تو تم کیا چاہ رہی تھی کے میں تمہاری داستان محبت مکمل ہونے کے بعد ہی وہاں سے اٹھتا؟"۔ وہ زہرخند ہوا۔

جھٹکے سے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں سے کھینچ لیا۔


الوینا لب بھینچ کر نگاہیں جھکا گئی۔

تبھی نظر اس کے دائیں ہاتھ پر پڑی، جس پر سفید پٹی بندھی تھی۔


ایک بار پھر اس نے اس کا ہاتھ تھام کر اپنے سامنے کیا۔

اور معائنہ کرنے لگی۔

قیصر خاموشی سے اس کی ایک ایک حرکت نوٹ کر رہا تھا۔


"یہ۔۔۔یہ چوٹ کیسے لگی آپ کو؟ کل تک تو ایسا کچھ نہیں تھا؟ پھر کیسے؟ کب لگی؟"۔ وہ تفکر سے اس کا ہاتھ دیکھتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔


قیصر نے اس کا چہرہ جانچا۔

شہد رنگ آنکھوں کی ریشمی پلکیں فکرمندی سے اسے تک رہی تھیں۔

دلکش شنگرفی لب اس کا حال جاننے کو بے قرار تھے۔


اس نے نگاہیں چرا لیں۔ اور ایک مرتبہ پھر ہاتھ کھینچ لیا۔


"دیکھنا چاہ رہا تھا کے جب درد ہو تب کیسا محسوس ہوتا ہے"۔ معنی خیزی سے کہتے ہوئے وہ تلخی سے مسکرایا۔


الوینا نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔


"تو مطلب۔۔۔آپ نے خود اپنا ہاتھ۔۔۔؟"۔ اس کی پلکیں یک دم لرزنے لگیں۔

آنکھیں جواب طلب تھیں۔


"یہ تمہارا کنسرن نہیں ہے۔ تم جاؤ یہاں سے"۔ وہ ضدی لہجے میں کہہ کر آگے بڑھنے لگا۔

جب وہ تیزی سے ایک بار پھر اس کے سامنے آئی۔

"مجھے پھر بھی جاننا ہے"۔ وہ بھی بضد تھی۔

قیصر نے اپنے آس پاس نگاہیں دوڑائیں۔ جہاں اکا دکا اسٹوڈنٹس آتے جاتے انہیں نوٹ کر رہے تھے۔

پھر اس نے الوینا کا بازو تھاما اور کھینچتے ہوئے اسے خالی کلاس روم لے آیا۔

وہ سراسیمگی سے اسے دیکھے گئی۔

"جانتا ہوں سوال جواب کا بہت زیادہ ہی شوق ہے تمہیں۔ لیکن اس کیلئے تم اپنی اور میری ساکھ خراب مت کرو"۔ کہہ کر جھٹکے سے اس کا بازو چھوڑتے ہوئے رخ موڑ لیا۔

"تو پھر آپ بتا دیں کے آپ کو یہ زخم کیسے لگا"۔ اس کا سوال ہنوز تھا۔

یک دم وہ مڑا اور جھٹکے سے اس کا وجود اپنے مقابل کھینچا۔

الوینا کی اگلی سانس حلق میں ہی اٹک گئی۔

جبکہ آنکھیں بڑی ہوئیں۔

قیصر کی نگاہوں میں پہلی بار اس نے تپش دیکھی، غصہ دیکھا اور سب سے بڑھ کر۔۔۔رقابت!

"بہت شوق ہے نا تمہیں جاننے کا؟ تو سنو، یہ زخم تمہارا دیا گیا ہے۔ کیونکہ مجھے مسیحائی نہیں آتی، مجھے صرف درد دینا آتا ہے دکھ دینا آتا ہے جو کل میں نے تمہیں دیا۔ اور پھر اسی کی سزا میں نے خود کو دی۔ مجھے لگا میں کچھ زیادہ ہی سختی سے پیش آیا تم سے۔ مجھے وہ سب نہیں کہنا چاہیئے تھا۔ اسی لیئے خود پر غصہ آیا تھا، جس کا نتیجہ تمہارے سامنے ہے"۔ وہ آتش فشاں کے جیسے پھٹ پڑا تھا۔

الوینا کی نگاہوں میں حیرت اور بے یقینی تھی۔

اس کا وجود شل ہو رہا تھا۔

ذہن میں چل رہے سوال کہیں دور جا سوئے تھے۔

"تمہیں یہ سب بتا کر مجھے تم سے کوئی ایوارڈ نہیں جیتنا ہے الوینا۔ لیکن ایک بات تم اپنے ذہن میں اچھی طرح بٹھا لو آج اس پل"۔ اس نے انگشت شہادت سے اس کی پیشانی پر دستک دی۔

الوینا نے زور سے آنکھیں میچ کر کھولیں۔

"آئیندہ اگر تم اس شخص کے ساتھ نظر آئی تو وہ اس دنیا میں نظر نہیں آئے گا"۔ اپنے سنگین ارادے اسے بتا کر اس نے جھٹکے سے اسے خود سے پرے کیا اور کلاس سے باہر نکلتا چلا گیا۔

الوینا کا چہرہ سرخ پڑ گیا تھا۔

اس کی دھڑکنیں بکھر بکھر گئی تھیں۔

وہ اس شخص کا پل پل بدلتا روپ سمجھنے سے قاصر تھی۔

وہ گم سم سی سست روی سے چلتی ہوئی خالی کلاس روم سے باہر آ رہی تھی۔

جب غزل جو اسے ہی ڈھونڈ رہی تھی، یوں سامنے سے اسے آتے دیکھا تو بھاگ کر اس کے قریب پہنچی۔


"الوینا تم یہاں کھڑی کھڑی کیا کر رہی ہو؟ چلو سب تمہیں وہاں ڈھونڈ رہے ہیں"۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑے اپنے ساتھ بیک اسٹیج لے گئی۔

الوینا بے دلی سے اس کے ساتھ کھنچتی چلی گئی۔


کچھ ہی دیر بعد ان کے ڈرامے کی ڈائریکٹر یعنی فلزہ سلیم کو اس پلے کیلئے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ پوری ٹیم اور کریو ممبرز میں خوشی اور جوش کی ایک لہر دوڑ گئی۔


جبکہ الوینا کو 'پرفارمر آف دا ڈے' کا ایوارڈ دیا گیا۔

وہ حیران تھی اور کسی قدر خوش بھی۔

مگر دل نہ جانے کیوں خالی خالی سا لگ رہا تھا۔

شاید اس لیئے کے یہ ایوارڈ جس کی وجہ سے آج اسے مل رہا تھا وہ ہی اسے دیکھنے کیلئے وہاں موجود نہ تھا۔


"تھینک گاڈ فائنلی اتنی ساری رکاوٹوں کے باوجود بھی یہ پلے ہو پایا"۔ فلزہ اپنی اسسٹنٹ سے کہتے ہوئے قدرے پرسکون اور بے حد خوش لگ رہی تھی۔


تبھی اس کی نظر چینجنگ روم سے نکلتی الوینا پر پڑی تو مسکرا کر چند قدم کا فاصلے طے کرتے اس کے گلے لگ گئی۔

الوینا حیران رہ گئی۔


"تھینک یو۔۔۔تھینک یو سو مچ الوینا، تم نہ ہوتی تو یہ ممکن ہی نہ ہو پاتا۔ اینڈ آئم سوری کے میں نے تمہیں شروع میں کمزور سمجھ کر جج کیا۔ جبکہ تم میں تو کمال کا ٹیلنٹ ہے"۔ وہ خوشی اور جوش سے اس کا ہاتھ دباتے ہوئے بار بار اس سے گلے ملنے لگتی۔


اس عرصے میں الوینا پہلی بار مسکرائی۔

"تھینکس ٹو یو فلزہ، تم نے مجھ پہ یقین کرکے مجھے آگے آنے کا موقع دیا"۔ وہ تہہ دل سے اس کی مشکور تھی۔


"شکریہ کہنا ہی ہے تو سر تبریز سے کہو۔ کیونکہ آج انہی کی وجہ سے ہم سب کو اتنی خوشی ملی ہے۔ اور تم پہ یقین ان کا ہی تھا، جو تم نے بالکل صحیح ثابت کر دکھایا۔ مجھے خوشی ہے کے تم نے میرے ساتھ ساتھ انہیں بھی مایوس نہیں کیا"۔ فلزہ نے اس کے گال تھپک کر کہا۔


دوسری طرف اس شخص کے ذکر پر الوینا کا دل زور سے دھڑکا۔

اور کچھ دیر قبل کی اپنی اور اس کی ہونے والی گفتگو اس کے ذہن میں پھر سے تازہ ہو گئی۔


"اچھا سنو، مجھے زرا یہ چیزیں اور ڈریسز وغیرہ پراپ والوں کو واپس کرنی ہیں۔ تو میں چلتی ہوں"۔ فلزہ نے اس کے گال سے اپنا گال مس کیا پھر مسکرا کر اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔


جبکہ الوینا کی نگاہوں کے سامنے بار بار اس شخص کا زخمی ہاتھ اور غصے سے بھری آنکھیں آ رہیں تھیں۔

ناجانے کیوں اسے اس طرح دیکھ کر وہ بےچین سی ہو گئی تھی۔


"مجھے ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیئے۔ اور سوری بھی کہنا چاہیئے"۔ اس نے دل ہی دل میں خود کو مخاطب کرتے ہوئے طے کیا تھا۔

☆☆☆☆☆


وہ اسٹڈی روم میں تھے جب دروازے پر ہلکی سی دستک کے ساتھ ہی ملازم فرید نمودار ہوا۔

علی مرزا نے فائل سے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا۔


"دخل اندازی کیلئے معافی چاہتا ہوں سرکار، باہر مہمان آئے ہیں"۔ اس نے سر جھکائے اطلاع دی۔


"کون آیا ہے؟"۔ وہ چونکے۔


"مخالف پارٹی کے لوگ ہیں"۔ وہ ادھیڑ عمر ملازم برسوں سے ان کے گھر کی چاکری کرتا آیا تھا۔ علی مرزا کے سیاہ و سفید سے وہ بخوبی واقف تھا۔ لہٰذا بلا تامل جواب دیا۔


"ہوں۔ بٹھاؤ ان کو میں آتا ہوں"۔ انہوں نے فائل بند کرتے ہوئے کہا۔

ملازم اثبات میں سر ہلا کر پلٹ گیا۔


کچھ ہی دیر بعد وہ ان کی آمد کی وجہ سوچتے ہوئے ڈرائینگ روم میں چلے آئے۔


ان کو سامنے پاتے ہی وہ تینوں نفوس اٹھ کھڑے ہوئے۔ جبکہ علی مرزا نے باری باری تینوں سے مصافحہ کیا۔


"تشریف رکھیے"۔ سنگل صوفے پر بیٹھتے ہوئے انہوں نے ان تینوں کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔


"کہیئے حیدر صاحب اور پارٹی۔ آج اپوزیشن والوں کو ہماری یاد کیسے آئی؟"۔ وہ طنز کرتے ہوئے مسکرائے۔


حیدر یزدانی جو اپوزیشن پارٹی کے رہنما تھے علی مرزا کی بات پر جبری مسکراہٹ چہرے پر لے آئے۔


"آپ تو موجودہ حکومت کے خاصے چہیتے ہیں مرزا صاحب، اچھے عہدے پر براجمان ہیں۔ وزیراعظم کے منظورِ نظر بھی ہیں آپ۔ مختصر سے عرصے میں ہی سہی مگر سیاسی میدان میں اپنی جڑیں کافی مضبوط کر لی ہیں آپ نے۔ ماننا پڑے گا"۔ حیدر نے تمہید باندھی۔


علی مرزا ایک ابرو اٹھائے بغور انہیں دیکھنے لگے۔


"کام کی بات کرو۔ یہاں آنے کا مقصد کیا ہے؟"۔ ان کا چہرہ سنجیدہ ہو گیا۔


"ضرور ضرور مرزا صاحب، ہم جانتے ہیں کے آپ کا ایک ایک منٹ کتنا قیمتی ہے۔ اسی لیئے مشکور ہیں کے آپ نے ہم سے ملنے کی درخواست کو قبولیت بخشی"۔ عاجزانہ لہجہ اپنایا۔


"ہوں۔ تو بتاؤ کیسے آنا ہوا؟"۔ اِدھر اُدھر کی بات کیئے بنا وہ سیدھے مدعے پہ آئے۔


"آپ تو جانتے ہی ہیں کے پچھلی بار الیکشن میں آپ کی پارٹی بھاری اکثریت سے جیتی تھی اور اقتدار میں آ گئی۔ جس میں آپ کا کردار بھی کافی نمایاں رہا۔ اور پھر بطور انعام آپ کو وزارت کی کرسی ملی"۔ وہ لحظہ بھر کو رکے۔


علی مرزا کی سوالیہ نگاہیں ان پر ہی ٹکی رہیں۔

وہ پھر گویا ہوئے۔


"کہنے کا مقصد یہ ہے کے ہوائیں اب مخالف سمت چلنے لگی ہیں مرزا صاحب۔ آپ کی پارٹی کے کئی اراکین وزارت کی کرسی نہ ملنے پر پارٹی سے نالاں ہیں۔ یہاں تک کے بغاوت کا فیصلہ بھی کرچکے ہیں۔ جس کا سراسر فائدہ ہمیں ہے۔کیونکہ ہماری پارٹی کافی مقبول رہی ہے۔ لیکن پچھلے چند سالوں میں آپ کی وجہ سے ہماری مقبولیت کم ہونے لگی۔

لہٰذا ہر اچھے سیاستدان کی طرح ہم بھی ان کے پاس جا پہنچے اور اپنی پارٹی کا ٹکٹ پیش کر دیا۔ جس کا لُبِ لُباب یہ ہوا کے آپ کے کئی اراکین ہماری پارٹی میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں۔

اور آپ کا اس بار کے الیکشن جیتنا ایک دیوانے کا خواب ہی ثابت ہوگا"۔ وہ پرسکون لہجے میں کہتے ہوئے ان پر زہریلے نشتر برسا رہے تھے۔


جبکہ علی مرزا نے مٹھیاں بھینچ لیں۔


"تو یعنی آپ لوگ مجھے اپنے حق میں کرنا چاہتے ہیں؟"۔ انہوں نے اندازہ لگایا۔


حیدر کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔

"بالکل ٹھیک سمجھے آپ۔ ہم جانتے ہیں آپ ایک خاص مقام رکھتے ہیں اپنی موجودہ پارٹی میں۔ یقین جانئیے آپ کو اتنی ہی عزت ہم سے ملے گی۔ آپ ہمارے حق میں دستبردار ہو جائیں"۔ انہوں نے آفر دی۔


علی پرسوچ نگاہوں سے آنکھیں چھوٹی کیئے ان کی جانب دیکھنے لگے۔


چند لمحے خاموشی کی نظر ہو گئے۔

وہ ان کے جواب کے منتظر تھے۔

ان کو پوری امید تھی علی مرزا سے مثبت جواب کی۔

لہٰذا وہ کافی حد تک پرسکون نظر آرہے تھے۔


علی مرزا صوفے پر آگے کو ہو بیٹھے۔

ذہن میں تانے بانے بننے کے بعد پھر گویا ہوئے۔


"میرا جواب نہ ہے حیدر یزدانی"۔ انہوں نے دوٹوک جواب دیا۔


جس پر وہ سب حیران اور ششدر سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔

انہیں پوری امید تھی کے علی ڈوبتی کشتی میں کبھی سفر نہیں کرے گا۔ مگر علی مرزا کو جانے کیا سوجھی تھی۔

ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔


"علی مرزا اتنا بھی پست نہیں کے برا وقت آنے پر اپنی پارٹی کا ساتھ چھوڑ کر مخالفین سے جا ملے۔ آپ لوگ یہاں تک آئے، میرا بہتر سوچا بہت شکریہ"۔ دانت پر دانت جمائے کہتے ہوئے وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔


جس پر باقی تینوں کو بھی ان کی تقلید کرنی پڑی۔


"ایک بار پھر سوچ لیجیے مرزا صاحب"۔ حیدر نے آخری کوشش کی۔


علی مرزا کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔


"زیادہ سوچنے سے سوچیں گہری ہو جاتی ہیں حیدر، میں فیصلہ لینے سے پہلے سوچتا ہوں۔۔۔بعد میں نہیں"۔ ان کا لہجہ اٹل تھا۔


حیدر یزدانی نے مزید اسرار نہ کیا اور خاموشی سے باہر نکل گئے۔


"ہونہہ، مجھے اپنی طرف کرنے چلے تھے"۔ وہ غصے سے سر جھٹک کر رہ گئے۔

☆☆☆☆☆


وہ بہت دنوں سے صحیح وقت کا انتظار کر رہا تھا۔

اور آخر کار آج اسے یہ موقع میسر آ ہی گیا تھا۔


شام کا وقت تھا۔ لہٰذا اکا دکا ہی اسٹوڈنٹس لائبریری میں موجود تھے۔


ہارون کو پورا یقین تھا کے قیصر اس پہ نظر رکھے ہوئے ہوگا۔ اسی لیئے وہ بے حد احتیاط برتتے ہوئے تیز قدموں سے چلتا ہوا یونیورسٹی کی سینٹرل لائبریری آ گیا۔


"یہاں الوینا سے متعلق کوئی انفارمیشن ضرور مل جائے گی"۔ اس نے دل ہی دل میں یقین سے کہا۔


قدرے کونے والی ٹیبل پر پڑے کمپیوٹر تک وہ آیا اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔


کچھ ہی لمحوں میں کمپیوٹر کی چمکتی اسکرین اس کے سامنے تھی۔

جلدی جلدی اس نے چند کیز پریس کیں۔ اب اس کے سامنے وہ فولڈر کھل گیا جس میں اسٹوڈنٹس کے بائیو ڈیٹا ان کے نام کے پہلے حرف کے حساب سے ترتیب دیئے گئے تھے۔


انگریزی کے حرف 'اے' والی فہرست وہ چیک کرنے لگا۔

الوینا کا نام نظر آتے ہی اس کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ امڈ آئی۔

اس کے نام پر کلک کرتے ساتھ ہی الوینا کی تصویر سمیت اس کا پورا بائیو ڈیٹا اس کے سامنے کھل گیا۔

اس نے پڑھنا شروع کیا۔


جوں ہی اس کی نظر الوینا کے نام سے نیچے سرک کر والد کے نام تک آئی تو اس کی نگاہوں کے سامنے زمین و آسمان گھوم گئے۔

وہ بے یقینی سے بار بار اسکرین پر لکھے "مختار انصاری" کے نام کو پڑھ رہا تھا۔ اور اس کے چہرے پر ایک رنگ آ رہا تھا دوسرا جا رہا تھا۔


"یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ نہیں نہیں یہ کوئی اور مختار انصاری ہوں گے"۔ ذہن جھٹکے سے سنبھلا تو دماغ اس بات کو تسلیم کرنے سے انکاری ہوا۔


ایک اور جھٹکا اسے تب لگا تھا جب اس نے اس شہر کا نام دیکھا جہاں الوینا کی پیدائش ہوئی تھی۔

مختار انصاری نے بھی تو اسی شہر کا ذکر کیا تھا جب اسے عائشہ کے بارے میں بتایا۔


"کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ کیا الوینا واقعی خالو جان کی۔۔۔؟" بے یقینی سی بے یقینی تھی۔

کہاں تو وہ الوینا اور قیصر کی گتھی سلجھانے آیا تھا اور اب مزید الجھ کر رہ گیا۔


"کیسے پتہ لگاؤں کے یہ سچ ہے کے نہیں۔ اور بنا تصدیق کے تو میں یہ بات خالو جان کو بھی نہیں بتا سکتا"۔ وہ لب بھینچے بے چین سا تھا۔


پھر ایک دم اس کے ذہن میں ایک جھمکا ہوا۔

"اگر الوینا واقعی ڈی-آئی-جی مختار انصاری کی بیٹی ہے یعنی میری کزن، تو اس کا مطلب یہ بات قیصر جانتا ہے اور اسی لیئے وہ اس کے پیچھے ہے۔ اوہ گاڈ"۔ اس نے سر ہاتھوں میں گرا لیا۔

کچھ کچھ نہیں اب اسے بہت کچھ سمجھ میں آنے لگا تھا۔

اور جو سمجھ میں آیا تھا وہ سوچتے ہی اس کا خون کھول اٹھا۔


"قیصر خیام یہ تم نے اچھا نہیں کیا۔ اپنے مطلب کیلئے تم نے الوینا کو اپنا شکار منتخب کیا۔ اگر وہ واقعی خالو جان کی بیٹی ہے تو اسے ٹارگٹ کرنے کے تمہیں بہت بھیانک نتائج بھگتنے ہوں گے۔ اس بار تمہیں جیل نہیں سیدھا جہنم واصل کروں گا میں۔ یہ میرا خود سے عہد ہے"۔ اس نے زور سے مٹھیاں بھینچ لیں۔ ضبط کی شدت سے سیاہ آنکھوں میں سرخ ڈورے پڑنے لگے تھے۔


اس نے جلدی جلدی کمپیوٹر شٹ ڈاؤن کیا اور خود پر کافی حد تک قابو پانے کے بعد اس کا ذہن اگلا لائحہ عمل تیار کرنے لگا۔


اسے جلد از جلد مختار صاحب کو خبردار کرنا تھا۔

اس کی چھٹی حس گواہی دے رہی تھی کے الوینا بہت بڑی مصیبت میں پڑنے والی ہے۔

☆☆☆☆☆


سرسبز۔۔۔گھنا جنگل۔۔

اونچے لمبے درخت۔۔

اور سبھی ایک جیسے۔

آنسو بہاتے ہوئے اس کا اِدھر سے اُدھر بھاگنا۔

راستہ تلاش کرنا۔

تبھی کسی اجنبی کا اسے پکارنا۔۔

"یہاں کیا کر رہی ہو تم؟"۔ غصے بھرا جانا پہچانا سا لہجہ۔

اس اجنبی کا ہاتھ بڑھانا۔۔الوینا کا ہاتھ تھامنا۔

پھر الوینا کا اس سرمئی آنکھوں والے کا نقاب کھینچ لینا۔


منظر بدلا۔۔

ہڈی والا شخص ایک کے بعد ایک خنجر سے وار کرتا ہوا اس نوجوان کو مار رہا تھا۔

اور نوجوان خون میں ڈوبا سڑک کنارے گر پڑا۔

یہ بھیانک منظر دیکھ کر الوینا کی چیخ نکلی۔۔

جس پر وہ نقاب پوش اسکی جانب متوجہ ہوا۔

پھر اگلے ہی پل اسکی طرف آیا۔۔

وہی سرمئی آنکھیں۔۔۔

اس شخص نے جیسے ہی خون میں لت پت خنجر الوینا کو مارنے کیلئے بلند کیا اس نے ایک چیخ ماری اور گرنے سے قبل ہی اپنے قاتل کے بازوؤں میں جھول گئی۔

نیلا پینڈنٹ لڑھکتا ہوا اس کی گردن سے سڑک پر جا گرا۔


اپنی ہی چیخ پر الوینا چیختی ہوئی نیند سے بیدار ہوئی۔

اور اب مسلسل ہذیانی انداز میں چیختی جا رہی تھی۔


اس کے برابر والے بیڈ پر سوئی ہوئی غزل آواز پر ہڑبڑا کر اٹھی اور سائیڈ لیمپ روشن کیا۔


الوینا ہنوز کان بند کیئے چیخ رہی تھی۔

غزل بھاگ کر اس کے پاس آئی۔

اور اس کی طرف کا لیمپ روشن کر دیا۔


"الوینا کیا ہوا ہے تمہیں؟ الوینا ہوش میں آؤ"۔ وہ اسے جھنجھوڑ رہی تھی مگر وہ سن ہی کہاں رہی تھی۔


"اس نے مار دیا اسے۔۔۔وہ مجھے بھی مار دے گا۔۔۔ وہ مجھے مار دے گا۔۔۔بچاؤ مجھے۔۔۔بچاؤ وہ میری طرف آ رہا ہے۔ وہ مجھے مار دے گا"۔ پھوٹ پھوٹ کر روتے بے ربط جملے بولتی ہوئی وہ غزل کے بازوؤں میں بری طرح مچل رہی تھی۔

اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر، لمحوں میں زرد پڑ گیا تھا۔

ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑ گئے تھے۔

غزل کو اسے سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا۔


"الوینا کوئی نہیں ہے یہاں۔ تمہیں کوئی نہیں مارے گا۔ اِدھر دیکھو میری طرف"۔ اس بار اس نے بری طرح اسے جھنجھوڑ ڈالا۔

جس کا خاطر خواہ اثر ہوا۔


الوینا پھٹی پھٹی نگاہوں سے سکتے کی کیفیت میں غزل کو دیکھنے لگی۔

اس کا چیخنا بند ہو چکا تھا۔

مگر آنسو اب بھی گر رہے تھے۔


غزل نے پانی کا گلاس بھر کر اس کے لبوں سے لگایا۔

"لو یہ پانی پیو چلو شاباش"۔ اسے اس حال میں دیکھ کر اس کے اپنے ہاتھ پیر سن پڑ گئے تھے۔

الوینا نے چند گھونٹ پانی پی کر گلاس پرے کر دیا۔

گلاس ایک طرف رکھ کے غزل اس کے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔

"تم نے ایک برا خواب دیکھا الوینا بس۔۔۔اور کچھ نہیں۔ جسٹ ریلیکس"۔ اسے اس کیفیت سے نکالنے کو اس نے یقین دلایا۔

آنسو بھری نگاہوں سے اس کی جانب وہ تکتی رہی۔

پھر خیال آنے پر اپنی گردن پہ ہاتھ پھیرا۔۔۔ تو دنگ رہ گئی۔

اس کا نیلا پینڈنٹ وہاں نہیں تھا۔ جسے وہ ہمیشہ پہن کے رکھتی تھی۔

"غزل۔۔۔میرا پینڈنٹ۔۔۔وہ نہیں ہے"۔ وہ بے چین ہو اٹھی۔

غزل نے چونک کر اس کا خالی گلا دیکھا۔

"یہیں کہیں ہوگی تم پریشان مت ہو۔ میں ڈھونڈتی ہوں"۔ غزل نے ارد گرد دیکھتے ہوئے پورا کمرہ چھان مارا مگر پینڈنٹ کہیں نہ ملا۔

"الوینا یہاں تو کہیں نہیں گرا۔ ہو سکتا ہے تم نے اتار کر کہیں رکھ دی ہو"۔ وہ مایوس سی ہو کر اس کے پاس آ بیٹھی۔

مگر اگلے ہی پل الوینا کی زبان سے نکلنے والا جملہ سن کر اسے جھٹکا لگا۔

"مجھے پتہ ہے وہ پینڈنٹ کہاں گرا"۔ آنسو صاف کرتے ہوئے اس نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا۔

"کہاں گرا؟"۔ وہ پوچھنے لگی۔

"وہی جہاں اس قاتل نے بے رحمی سے اس نوجوان کو قتل کر دیا"۔ اس کے آنسو پھر رواں ہوئے۔

وہ خونی منظر بار بار اس کی آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی طرح چل رہا تھا۔

"قاتل؟ نوجوان کا قتل؟ الوینا کیا تم نے اس اینکر تیمور عباسی کا قتل ہوتے دیکھا تھا اس دن؟"۔ غزل نے بے یقینی سے اس کا چہرہ دیکھا۔

الوینا نے اثبات میں سر ہلایا۔

"اوہ خدایا، کون تھا وہ؟ کس نے مارا اسے؟"۔ وہ حیرت سے اچھل ہی تو پڑی تھی۔

"میں جانتی ہوں یہ کس کا کام ہے۔ کل صبح پہلی فرصت میں ہم پولیس اسٹیشن جائیں گے۔ میں گواہ ہوں اس قتل کی، اس بے رحم انسان نے ایک ہستی بستی زندگی ختم کی ہے۔ میں چپ نہیں بیٹھوں گی"۔ اس نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔

غزل اسے دیکھتی رہ گئی۔

صبح کا نور چہار سو پھیل چکا تھا۔

اوائل اگست چل رہے تھے۔ جس سے موسم میں خنکی محسوس کی جا سکتی تھی۔


گھڑی صبح کے آٹھ بجا رہی تھی۔

وہ رف سے حلیے کے ساتھ کھلی کھڑکی میں بازو اپنے گرد لپیٹے کھڑی تھی۔

دنیا جہاں کی اداسی اس کی شہد رنگ آنکھوں میں بسی تھی۔

خنک ہوائیں اس کی کھلے ریشمی بالوں سے اٹھکھیلیاں کر رہی تھیں۔

اس کی نگاہیں کھڑکی سے باہر نظر آتی گیلی سڑک پر تھی۔ مگر سوچ اور دھیان کا مرکز کہیں اور ہی تھا۔


بائیس جولائی کی وہ صبح جو اس کے ذہن سے پتہ نہیں کیسے محو ہو گئی تھی، اس نے سوچا بھی نہیں تھا کے یاد آنے کے بعد وہ اتنی بھیانک لگے لگی۔

اسے یاد تھا کے بے ہوش ہوتے وقت آخری بار وہ قاتل اس کے سامنے تھا۔

مگر ہوش آنے کے بعد اس نے تبریز شاہ کو سامنے پایا۔

کیا یہ محض ایک اتفاق تھا؟ یا حقیقت اس سب کے برعکس تھی۔


جو بھی تھا مگر الوینا چاہ کر بھی اس پر شک نہیں کر پا رہی تھی۔

دھچکا تو اسے تب لگا تھا جب خواب کے ان مناظر میں اس نے سرمئی آنکھیں دیکھی تھیں۔

اور جب اس کا نقاب ہٹایا تو سامنے موجود تبریز شاہ کے چہرے نے اس کے حواس سلب کر دیئے تھے۔


سالوں سے جو ایک انجان وجود اس کے خوابوں، خیالوں کا مرکز بنا بیٹھا تھا، آج جب بالآخر اس انجان وجود کو چہرہ مل گیا تو کیوں وہ اتنی بے چین اور بے یقین تھی۔


اس کے دل و دماغ خدشے اور واہموں کی آماجگاہ بنے ہوئے تھے۔


تبھی اپنے کندھے پر اسے لمس محسوس ہوا تو چونک کر مڑی۔

نگاہوں کے سامنے غزل کی فکرمند صورت آئی۔


"تم ٹھیک ہو نا؟"۔ وہ پریشانی سے پوچھنے لگی۔


الوینا نے ٹھنڈی آہ بھری۔

"ہاں، میں بالکل ٹھیک ہوں"۔ اس نے تسلی آمیز لہجے میں کہا۔


"کیا تم واقعی پولیس اسٹیشن جانا چاہتی ہو الوینا؟ پتہ نہیں کیوں پر مجھے یہ ٹھیک نہیں لگ رہا۔ اس واقعے کو بہت سارے دن بیت چکے ہیں۔ کیا اب تمہارا یعنی ایک گواہ کا سامنے آنا ٹھیک رہے گا؟ اور اگر خدا نخواستہ اس قاتل نے تمہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو؟"۔ غزل کے لہجے میں تشویش تھی۔ اندیشے تھے۔


الوینا نرمی سے مسکرا دی۔


"تم بہت اچھی اور مخلص ہو غزل، میں جانتی ہوں تمہیں میری فکر ہے اسی لیئے تم پریشان ہو۔ لیکن غزل، جو خون ریز منظر میری آنکھوں نے دیکھا ہے اسے میرا ذہن کسی طور بھولنے پر تیار نہیں ہوتا۔ وہ ایک جیتا جاگتا تندرست انسان تھا جسے اس بے دردی سے قتل کر دیا گیا اور میں کچھ کر بھی نہ سکی۔

لیکن تم ہی بتاؤ کیا کے اگر ہم ظلم دیکھ کر بھی آنکھیں میچ کے خاموشی سے گھر میں دبک کر بیٹھ جائیں گے تو ہمارا شمار بھی ظالموں میں ہی کیا جائے گا"۔ وہ اسے سمجھانے لگی۔


غزل خاموشی سے اسے سننے لگی۔


"میں خاموش نہیں بیٹھ سکتی۔ میری طاقت اتنی نہیں تھی کے تب میں اس شخص کی مدد کرکے اسے بچا لیتی۔ لیکن میں اس قاتل کے فعل کو برا کہنے کی ایک ادنٰی سی کوشش تو کر ہی سکتی ہوں نا۔ کیا بیتی ہوگی ان ماں باپ پر جنہوں نے اپنا جوان جہاں بیٹا کھو دیا۔

اگر ہم چپ بیٹھ گئے تو اس قاتل کو اور شہ ملے گی۔ وہ اور زندگیاں اجاڑے گا۔ اس سے قبل کے وہ معاشرے کا ناسور بن جائے، بہتر یہی ہوگا کے اسے سلاخوں کے پیچھے بند کر دیا جائے"۔ وہ مضبوط اور پراعتماد لہجے میں بولی۔


غزل مسکرا کر اس کے گلے لگ گئی۔


"تم بہت بہادر ہو الوینا، ورنہ حقیقت تو یہ ہے کے آج کل کوئی کسی کی مدد کیلئے کھڑا نہیں ہوتا۔ لوگ اپنی نگاہوں کے سامنے کسی بے بس کو اگر تڑپ تڑپ کر مرتا ہوا بھی دیکھ لیں تب بھی کوئی اسٹیپ نہیں لیتے"۔ اس سے الگ ہوتے ہوئے وہ اداسی سے بولی۔


"مجھے واقعی فخر ہو رہا ہے کے میں تمہاری دوست ہوں"۔ وہ مسکراتے ہوئے دل سے کہہ رہی تھی۔


کوئی تو تھا جو اس سے مخلص تھا۔ اور جس کی فکر و پریشانی اس کے ساتھ تھی۔


الوینا اس کی بات پر بھیگی آنکھوں سے مسکرا دی۔

☆☆☆☆☆


سیاہ اوپن جیپ پتھریلے راستوں کو روندھتی ہوئی پچھلے کئی گھنٹوں سے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔


سیاہ سوٹ میں ملبوس، سیاہ سن گلاسس لگائے سپاٹ سے تاثرات کے ساتھ وہ آدمی مسلسل ڈرائیونگ کر رہا تھا۔


اس کے برابر والی نشست پر ہی نیلی جینز سفید شرٹ پر سیاہ لیدر جیکٹ پہنے ہیٹ سر پہ رکھے قیصر خیام بیٹھا تھا۔


جیپ کے پچھلے حصے میں چار مسلح افراد سیاہ سوٹ میں ملبوس ہتھیار ہاتھوں میں تھامے براجمان تھے۔


"اور کتنی دیر لگے گی"۔ کئی گھنٹوں کی سفر سے اکتا کر قیصر نے بیسیوں بار کا پوچھا گیا سوال ایک مرتبہ پھر دہرایا۔


"بس آدھا گھنٹہ اور"۔ جیپ چلاتے آدمی نے مشینی انداز میں جواب دیا۔


قیصر خیام کی اکتاہٹ کوفت میں بدل گئی۔

اسے وہ پانچوں ایک ہی جیسے حلیے والے آدمی انسان کم اور روبوٹ زیادہ لگ رہے تھے۔

کیونکہ سفر کا آغاز ہونے سے لے کر اب تک ان لوگوں کی حرکات و سکنات اور گفتگو بہت کم دیکھنے سننے میں آئی تھی۔


اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ جیپ میں تن تنہا ہی بیٹھا ہو، اور باقی سب ہو کر بھی وہاں نہیں تھے۔


پہاڑی راستوں سے گزرتی ہوئی جیپ ٹھیک آدھا گھنٹہ بعد پہاڑ کے ڈھلوان میں رک گئی۔


قیصر نے ایک نظر اطراف میں دوڑائی۔ ہر طرف اونچے لمبے ہر طرح کے پہاڑ تھے۔


"ہمارے ساتھ آیئے"۔ جیپ کے پیچھے سے اتر کر ایک آدمی اس کے سامنے آ کے ادب سے بولا۔


قیصر نے ابرو اٹھا کر اسے دیکھا پھر جمپ مار کر جیپ سے اترتے ہوئے ان لوگوں کے نرغے میں آگے بڑھنے لگا۔


کچھ ہی دیر بعد وہ اسے لیئے ایک بنگلے کے اندر داخل ہو گئے۔


لیونگ روم میں سنہرے رنگ کے خوبصورت صوفے پر ادھیڑ عمر حاجی فیروز شاہی کاٹن کے سفید شلوار قمیض میں ملبوس ٹانگ پر ٹانگ جمائے پھیل کر بیٹھا سگار پی رہا تھا۔

صوفے کی پشت پر پھیلے ہاتھ سے اس نے اپنے آدمیوں کو باہر کا راستہ دکھایا۔


وہ حکم پاتے ہی سر ہلا کر باہر نکل گئے۔


"زہے نصیب، بالآخر صبح کا بھولا شام کو گھر آ ہی گیا"۔ مسکراتے ہوئے اس نے طنز کیا۔


مخملی قالین کو جوگرز تلے روندتے ہوئے قیصر خیام پراعتماد چال چلتا ہوا اس کے مقابل والی نشست پر اسی کے انداز میں ٹانگ پر ٹانگ جما کے بیٹھ گیا۔


حاجی کی پیشانی پر ناگواری سے بھرپور شکنیں نمودار ہوئیں۔


"کیا تم اپنی حیثیت اپنا مقام بھول چکے ہو برخوردار؟ اپنے باپ کے سامنے بیٹھے ہو تم"۔ دبے دبے لفظوں میں وہ غرائے۔


قیصر کے لبوں کو تلخ مسکراہٹ چھو گئی۔

وہ آگے کی طرف کو جھکا۔


"کون سا باپ؟ وہ جس نے سڑک سے مجھے اٹھا کر یہ روپ دیا یا وہ باپ جس نے میرے سگے باپ کو زندہ زمین میں گاڑ دیا؟"۔ اس کی آنکھوں سے شرارے پھوٹ رہے تھے۔

لہجہ آگ اگل رہا تھا۔


ایک پل کو حاجی بھی کانپ گیا۔

جبری مسکراہٹ وہ لبوں پر لے آیا۔


"مانا کے تم میرا خون نہیں۔ سگی اولاد نہیں۔ لیکن میں نے تمہیں اپنی اولاد ہی سمجھا ہے قیصر"۔ اس نے چالاکی سے پینترا بدلا۔


قیصر نے زخمی نظروں سے دیکھتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔


"نہیں حاجی، تم اگر ایسا سمجھتے ہوتے تو اس وقت اپنے سگے بیٹے کی جگہ مجھے جیل نہ بھیجتے"۔ اس کے لہجے میں ملال تھا۔


حاجی خاموش ہو گیا۔


"میں یہاں تمہارے بلاوے پر اپنے سوالوں کے جواب لینے آیا ہوں۔ مجھے بتاؤ تم نے میرے باپ کو کیوں مارا؟"۔ اس کا لہجہ سخت ہو گیا۔


حاجی نے گہری سانس بھری۔

"میں اس وقت قاسم سوری کے انڈر کام کرتا تھا۔ تب انڈر ورلڈ میں اس کی دھاک تھی، حکومت تھی۔ تب میں جوان تھا، پچیس برس کا۔ خون میں ابال اور جوش تھا۔ بالکل تمہاری طرح۔ تمہارا باپ ایک معمولی کانسٹیبل تھا۔ لیکن تمہاری ماں بہت حسین عورت تھی۔ میں اپنے دوستوں کے ساتھ بازار میں تاجروں سے بھتہ وصولی کر رہا تھا تبھی اسے دیکھا تو مجھے پسند آ گئی وہ"۔ وہ کھوئے کھوئے سے انداز میں کہے جا رہا تھا۔


جبکہ قیصر نے زور سے مٹھیاں بھینچ کر بمشکل خود پہ قابو پایا ہوا تھا۔

پیشانی کی رگیں تن گئیں تھی۔


"لیکن اس نے مجھے طمانچہ مارا۔ سب کے سامنے مارا اس نے"۔ اپنے گال پہ ہاتھ رکھے وہ دانت پیس کے بولا۔


قیصر نے غصہ ضبط کیا اور اس کے بولنے سے قبل ہی وہ اس کی بات مکمل کرنے لگا۔


"پھر اگلے دن تم اس کے گھر پہنچ گئے۔ اس کے تھپڑ کا جواب دینے کیلئے اس کی آبرو تار تار کر دی پھر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ لیکن عین اسی وقت اس کا شوہر گھر میں داخل ہوا جس نے تمہیں اپنی بیوی کو مارتے دیکھ لیا۔

تمہارے آدمیوں نے اسے مار مار کر ادھ مرا کیا اور اسی کے گھر کے صحن میں قبر کھود کر اسے اس کی بیوی سمیت دفنا دیا"۔ اس کی سرمئی آنکھیں ضبط کی شدت سے سرخ پڑنے لگی تھیں۔

کنپٹی کی رگیں تن رہی تھیں۔

فشار خون بڑھ رہا تھا۔

وہ ایسے بتا رہا تھا جیسے یہ اسکے نہیں کسی اور کے ماں باپ کا ذکر ہو رہا ہو۔


حاجی نے چونک کر اس کا جھکا چہرہ دیکھا۔

ہیٹ کی وجہ سے اس کی آنکھیں نظر نہیں آ رہیں تھی اور نہ ان میں امڈ آئی سرخی۔


"میں جب وہاں سے نکل رہا تھا تو تمہارے رونے کی آواز میرے پیروں کی بیڑیاں بن گئیں۔ اس وقت تم صرف تین سال کے تھے۔ بھاگتے ہوئے تم آ کر میرے پیروں سے لپٹ گئے۔ میرے ساتھیوں نے مشورہ دیا کے تمہیں مار دینا ہی اچھا ہے۔ لیکن میں نے صاف انکار کر دیا اور تمہیں اپنے ساتھ رکھنے کا فیصلہ لیا۔

آج تم بتیس برس کے ایک خوبرو مرد بن چکے ہو۔ اٹھائیس سال تک ان ہاتھوں نے تمہیں پالا ہے قیصر، تمہیں نام دیا ایک پہچان دی ہے"۔ اس نے اپنے ہاتھ دکھاتے ہوئے کہا۔


وہ اسے ایموشنل کر رہا تھا۔ کیونکہ وہ اچھی طرح جانتا تھا کے قیصر اس کے کام کا بندہ ہے۔ اگر وہ اسے چھوڑ دیتا تو گویا وہ اپنے بازوؤں سے محروم ہو جاتا۔


"تم نے مجھے پہچان دی نہیں ہے۔ تم نے مجھ سے میری پہچان چھین لی ہے۔ اگر تم ہوس میں اندھے ہو کر میرا گھر برباد نہ کرتے تو اس وقت میں بھی وہاں عام انسانوں کی طرح رہ رہا ہوتا۔

لیکن تم نے مجھے اندھیروں کا باسی بنایا ہے حاجی۔ تم نے مجھ سے میری شناخت چھین کر گلی کا آوارہ کتا بنا دیا ہے۔ جو ضرورت پڑنے پر تمہارے آگے دم ہلاتا ہے۔ وفاداری دکھاتا ہے۔ اسی دن کیلئے تم نے قیصر خیام کو چنا تھا نا"۔ سر اٹھا کر اس نے اب براہ راست دیکھا۔


اس کا سرخ چہرہ اور خون چھلکاتی آنکھیں حاجی کو ٹھٹھکا گئے تھے۔

کچھ تھا جو اس پل میں غلط تھا۔


جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے قیصر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور گھوم کر اس کے مقابل لکڑی کی خوبصورت ٹیبل پر بیٹھ گیا۔


چہرے پر ناقابل فہم تاثرات تھے۔


حاجی کا دل رک رک کر دھڑکنے لگا۔

اس کا ہاتھ پاس پڑے پستول کی جانب رینگ رہا تھا جب قیصر نے برق رفتاری سے ہاتھ میں تھاما خنجر اس کے ہاتھ پر گھونپ دیا۔ اور اس کے چیخنے سے قبل ہی اس کا منہ دبا دیا۔


ضبط سے حاجی کی آنکھیں باہر کو ابل آئی تھیں۔


قدرت نے تمہارے ہاتھوں مجھے پرورش اسی لیئے دلوائی تاکہ میں ان بے بس لوگوں کی موت کا بدلا تم سے لے سکوں"۔ غراتے ہوئے اس نے پستول نکال کر اس کی کنپٹی پر تان لی۔


بنگلے کے باہر موجود پہرے دار بھی حاجی کے کسی کام نہ آئے۔

کیونکہ ان کے نزدیک قیصر ان کے مالک کا وفادار آدمی تھا۔ جس پر حاجی کی طرح وہ بھی بھروسہ کرتے تھے۔


"زرا سی بھی آواز کی تو یہ گولی تمہاری کھوپڑی کے پار ہوگی"۔ اس کے منہ سے ہاتھ ہٹاتے ہوئے قیصر نے سنگین دھمکی دی۔

حاجی اسکی دھمکی سے ڈر کر خاموش رہا۔


ایک جھٹکے سے قیصر نے اس کے ہاتھ میں گھونپا خنجر نکالا۔

خون بھل بھل بہہ کر سنہرے صوفے کو رنگنے لگا۔


درد سے وہ بے حال ہو گیا۔

قیصر نے پستول ہنوز اس پر تان رکھی تھی۔

جاگر والا پیر اس نے اس کی چھاتی پر رکھا۔


"جانتے ہو قدرت نے مجھے تمہارے ہاتھوں کیوں زندہ رکھا؟"۔

خنجر کی نوک سے وہ اسکے چہرے پر خراشیں لگانے لگا۔


حاجی فیروز بے آب مچھلی کی مانند تڑپنے لگا۔


"کیونکہ مجھے ان بے بس لوگوں کے خون کا حساب لینا تھا۔ وہ جو مجھے اس دنیا میں لائے۔ میں ان کی اولاد نہیں ہوں۔ میں تیری اولاد ہوں، تیری طرح بے درد۔۔۔بے رحم"۔ مکروہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے وہ ایک کے بعد ایک لکیریں اس کے چہرے پر خنجر سے کھینچ رہا تھا۔


حاجی کے جسم سے جان نکلنے لگی تھی۔

اس کی مزحمت دم توڑ رہی تھی۔


"مجھے۔۔۔معاف۔۔۔کردو"۔ وہ نقاہت بھری آواز میں بولا۔


"ایک شرط پر"۔ وہ آمادہ ہوا۔

حاجی فیروز نے سر کو جنبش دے کر پوچھنا چاہا۔


اسی وقت قیصر نے ایک اگریمنٹ اس کی آنکھوں کے سامنے کیا۔

"اس پر اپنے پیارے دستخط اور انگوٹھا لگا دو۔ تمہاری زندگی بخش دوں گا"۔ حاجی کے دائیں ہاتھ میں اس نے پین پکڑایا۔


اور جیسے جیسے وہ تحریر پڑھ رہا تھا اس کی آنکھیں حیرت کی زیادتی سے پھٹنے لگیں تھی۔


"میں ایسا کبھی نہیں کروں گا"۔ تمام تر قوت مجتمع کرکے وہ غرایا۔


قیصر نے طیش میں پستول والے ہاتھ سے کئی ضربیں اس کے چہرے پر لگائیں۔

جس سے اس کا چہرہ خونم خون ہو گیا۔

ناک سے خون آنے لگا۔ ہونٹ پھٹ گیا۔


"تمہیں چوائس نہیں دی گئی ہے۔ یہ میرا حکم ہے"۔ وہ دھاڑا۔


حاجی نے خوفزدہ ہو کر کانپتے ہاتھوں سے بمشکل پین کاغذ پر گھسیٹتے اپنا سائن کیا۔

دستخط ہوتے ہی قیصر نے اس کے بائیں ہاتھ سے خون میں ڈوبا انگوٹھا لگوایا۔


"میں تمہارا کام آسان کیئے دیتا ہوں۔ اوپر جا کر ان دونوں میاں بیوی سے معافی مانگ لینا۔ اور کہنا کے ان کا بیٹا تین سال کی عمر میں ہی مر چکا تھا۔ اب جو ہے وہ صرف ایک درندہ ہے۔ جس کی روح فنا ہو چکی ہے اور بس مٹی کا جسم زندہ ہے"۔ اپنی بات مکمل کرتے ہی اس نے خنجر حاجی فیروز شاہی کی گردن پر پھیرتے اس کی شہ رگ کاٹ دی۔

خون کی کئی چھینٹیں اڑ کر اس کے چہرے پر آن پڑیں۔

سیکنڈز میں وہ موت کی نیند سو چکا تھا۔


اس کی بے یقینی سے آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں تھی۔


کچھ ہی دیر بعد وہ مین دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔


چہار جانب کھڑے باوردی پہرےدار ہتھیار تھامے اپنا کام انجام دے رہے تھے۔


"یہاں آؤ تم سب"۔ با آواز بلند اس نے مخاطب کیا۔

جس پر وہ اس کی جانب متوجہ ہوئے۔


جو نزدیک کھڑے تھے وہ سن کر اس کے سامنے آ گئے۔

جو دور تھے وہ باقیوں کے دیکھا دیکھی وہاں جمع ہونے لگے۔


پراعتماد چال چلتا ہوا وہ ان کے سامنے ایک اونچے مقام پر آ ٹھہرا۔


"تمہارا باس مر گیا ہے۔ اس نے خودکشی کرلی ہے"۔ اس نے اطلاع دی۔


اتنا سننا تھا کے طرح طرح کی چہ مگوئیاں ہونے لگیں۔


"اسی نے مارا ہوگا انہیں۔ اڑا دو اس کو"۔ ان میں سے ایک چیخا۔


اور اس سے قبل کے وہ بندوق کا رخ اس کی جانب کرتا قیصر نے ہاتھ میں موجود پستول بلند کی اور دو گولیوں میں اس کا قصہ پاک کیا۔


وادیوں میں گولی کی چنگھاڑ دور دور تک گونجتی چلی گئی۔


"یہ ہے اگریمنٹ، جس میں حاجی فیروز شاہی کا اقرار ہے کے ان کی روح پر ایک بوجھ پڑا ہے۔ جس کو اب مزید وہ اٹھا کر نہیں پھر سکتے، لہٰذا وہ آج ابھی اپنی جان دے رہے ہیں۔ اور ان کے جانے کے بعد اندر ورلڈ کا نیا باس ہوگا قیصر خیام"۔ اگریمنٹ دکھاتے ہوئے اس نے تحریر زبانی پڑھ کر سنائی۔


چند لمحوں کیلئے سب میں موت کا سا سناٹا چھا گیا۔


"انڈر ورلڈ کا نیا نام۔ قیصر خیام۔۔۔قیصر خیام"۔ ان ہی میں سے ایک نے یہ نعرہ بلند کیا۔

جس کے دیکھا دیکھا کچھ ہی دیر میں دور دور تک وادی میں یہ نعرہ گونجنے لگا۔


قیصر کے لبوں پر پراسرار مسکراہٹ در آئی۔


"انڈر ورلڈ کا نیا نام۔۔۔۔قیصر خیام"۔ زیر لب دہرا کر اس کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔

☆☆☆☆☆


غزل کے بےحد اسرار کے باوجود بھی الوینا نے اسے ساتھ چلنے سے منع کر دیا اور یونیورسٹی بھیج دیا۔


جبکہ اب وہ اکیلی ہی پولیس اسٹیشن روانہ ہو گئی تھی۔


اس کا انداز کسی قدر پریشان اور گھبرایا گھبرایا سا تھا۔

سڑک پر چلتے، کیب لیتے اور سوار ہوتے۔۔۔ہر لمحہ اسے یہ لگا تھا جیسے کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔


وہ اپنا ڈر دباتی خود کو مضبوط ظاہر کرنے کی کوشش میں تھی۔


پندرہ منٹ سفر کرنے کے بعد کیب نے اسے پولیس اسٹیشن کے باہر اتارا۔


وہ باہر ہی رکی کشمش میں پڑ گئی۔


"کم آن الوینا، ہمت کرو، یہاں تک آ کر تم پیٹھ نہیں دکھا سکتی۔ تمہیں یہ کرنا ہی ہوگا انسانیت کے ناتے تمہیں یہ کرنا ہی چاہیئے"۔ دل ہی دل میں وہ خود کو حوصلہ دینے لگی۔


پھر جی کڑا کرکے اس نے قدم پولیس اسٹیشن کے اندر بڑھا دیئے۔

یہ جانے بغیر کے ہاسٹل سے لے کر اب تک کوئی مسلسل اس کے پیچھے ہی تھا۔

☆☆☆☆☆

اس نے اپنا قیام کچھ دن کیلئے فیروز شاہی کے اس پہاڑی والے بنگلے میں ہی کرنے کا سوچ لیا تھا۔

اور ویسے بھی ہر وہ چیز جو پہلے حاجی کی تھی۔ اب اس کی ملکیت میں آ چکی تھی۔

سفید شلوار قمیض کے کف موڑتے ہوئے وہ آیئنے کے سامنے کھڑا تھا جب سنگار میز پر بجتے موبائل نے اس کی توجہ کھینچی۔

قیصر نے چونک کر اعظم کا نمبر دیکھا۔ پھر کچھ توقف کے بعد کال رییو کر لی۔

"بولو اعظم"۔ بھورے بال سنوارتے ہوئے اس نے مصروف سے لہجے میں کہا۔

"باس ایک بہت بڑی گڑبڑ ہو گئی ہے"۔ دوسری طرف سے اس کی پریشان سی آواز اسپیکر پر سنائی دی۔

قیصر کے بال سنوارتے ہاتھ تھم گئے۔

"کیا بات ہے؟ کونسی گڑبڑ ہوئی ہے؟"۔ وہ ایک دم الرٹ ہو گیا۔

"تم نے مجھے اس لڑکی الوینا کے پیچھے لگایا ہوا تھا نا، اسی کے پیچھے آیا ہوں۔ ابھی ابھی وہ پولیس اسٹیشن کے اندر گئی ہے"۔ اس نے اطلاع دی۔

"وہاٹ؟ وہ وہاں کیا کر رہی ہے؟ اس کا مطلب اسے سب یاد آگیا "۔ اس نے سر پکڑ لیا۔

"تم کہاں ہو اس وقت؟ اور وہ کیا کرنے گئی ہے؟"۔ اس نے تشویش سے پوچھا۔

"باس اندر سے ہمارے ایک مخبر نے خبر دی ہے کے وہ تیمور عباسی کے خون کی گواہی دینے آئی ہے۔ اس کا مطلب

سمجھتے ہو نا تم؟ کہو تو ابھی اس کا قصہ پاک کر دیتا ہوں"۔ وہ گویا حکم کا منتظر تھا۔

"نہیں ابھی ایسا کچھ مت کرنا۔ اس لڑکی کو کچھ نہیں ہونا چاہیئے۔ تم تارہ کو فون لگاؤ اس سے کہو وہ کچھ ہتھیار اور ٹیئر بم کا بندوبست کرے۔ جو انسپکٹر اس کا بیان لے رہا ہے صرف اسے اڑا دو۔ باقی کسی کو بھی نقصان نہیں پہنچانا۔ بس توڑ پھوڑ کرو اور دھواں"۔ وہ جلدی جلدی ہدایات دے رہا تھا۔

"اور اس لڑکی کا کیا کروں؟"۔ اعظم نے نقطہ اٹھایا۔

قیصر لب بھینچے سوچ میں پڑ گیا۔

پھر جیسے کسی نتیجے پر پہنچا۔

"اٹھا لو اسے۔۔۔زندہ"۔ سفاکی سے کہتے ہوئے اس نے رابطہ قطع کر دیا۔

پولیس اسٹیشن میں وہ موجود ابھی بیان دے ہی رہی تھی کے اچانک وہاں ہل چل سی مچ گئی۔


دیکھتے ہی دیکھتے دو تین نقاب پوش ہاتھوں میں بندوقیں تھامے اچانک وہاں گھس آئے۔

ہر طرف تھوڑ پھوڑ مچاتے دھواں دھار ہوائی فائرنگ کر رہے تھے۔

الوینا خوفزدہ سی چیخنے لگی تھی۔


"مادام، آپ فوراً یہاں اس میز کے نیچے پناہ لیں۔ تب تک ہم ان سے نپٹ لیتے ہیں۔ اور جب تک میں نہ کہوں آپ باہر مت آیئے گا"۔ آفیسر جلدی جلدی ہدایات دیتا ہوا بندوق تھام کر آگے بڑھا۔

الوینا نے ایسا ہی کیا۔ وہ جلدی سے میز کے نیچے گھسی اور وہیں دبک کر بیٹھ گئی۔


اس سے قبل کے پولیس کوئی جوابی کارروائی کرتی دھماکے کے ساتھ ہی ہر طرف دھواں پھیل گیا۔


الوینا خوف سے تھرتھر کانپتی اب منہ پر ہاتھ رکھے باقاعدہ رونے لگی تھی۔


ہر طرف کہرام مچ گیا تھا۔

دھوئیں کی وجہ سے پولیس اہلکاروں کو کاروائی انجام دینے میں سخت دشواری پیش آ رہی تھی۔

جبکہ وہ تینوں افراد سیفٹی گاگلز پہنے بآسانی اپنا کام انجام دے رہے تھے۔


ان میں سے ایک نے اسی آفیسر پر بندوق کا منہ کھول دیا جو الوینا کا بیان لے رہا تھا۔

اسے گولیوں سے چھلنی کرنے کے بعد ان میں سے ایک نے اطراف میں نگاہیں دوڑائیں مگر وہ کہیں نظر نہ آئی۔


"اب یہ کہاں گئی یار"۔ اعظم سخت جھنجھلا گیا۔


"لڑکی کو لو اور چلو جلدی"۔ نسوانی آواز گونجی۔


"ابے یار اسے ہی ڈھونڈ رہا ہوں"۔ اعظم نے کوفت سے کہتے ہوئے اسے میز کے اطراف میں دیکھنا شروع کیا۔

پھر جیسے ہی گردن جھکا کر میز کے نیچے جھانکا وہ اسے وہیں بیٹھی نظر آئی۔


"اوہو تو مادام یہاں موجود ہیں"۔ اس نے الوینا کا بازو پکڑ کر زبردستی اسے باہر کھینچا۔

اس اچانک افتاد پر الوینا کی فلک شگاف چیخ پولیس اسٹیشن ہلا گئی۔


"پلیز مجھے چھوڑ دو۔ میں نے کچھ نہیں کیا"۔ دھوئیں کی وجہ سے وہ آنکھیں بند کیئے روتے ہوئے اس کی منت کرنے لگی۔


"ارے آپ کو چھوڑ دیا تو ہمارا باس ہمیں نہیں چھوڑے گا۔ لہٰذا آپ ہمارے ساتھ کوآپریٹ کریں"۔ اعظم نے دہائی دی۔


"کھڑے کھڑے باتیں کیا بگھار رہا ہے۔ لڑکی کو لے اور نکل جلدی یہاں سے اس سے قبل کے باہر سے دوسری نفری آئے پولیس کی"۔ تارہ نے اسے جھڑکا۔


اس نے جلدی سے الوینا کو کلوروفام میں بھیگا رومال سونگھایا۔ اس نے مزاحمت کرنی چاہی مگر جیسے جیسے وہ سانس لے رہی تھی رومال سے اٹھتی مہک اس کے حواس سلب کرتی جا رہی تھی۔ پانچ منٹ تک مسلسل اعظم نے اس کے چہرے پر رومال رکھا ہوا تھا۔

الوینا کی مزاحمت کم ہوتے ہوتے بالآخر دم توڑ گئی۔

اور اس کا ذہن تاریکیوں میں ڈوب گیا۔


اعظم نے اسے کندھے پہ اٹھایا اور اگلے ہی پل اپنے ساتھیوں کے ہمراہ وہاں سے نو دو گیارہ ہو گیا۔


دھندلے منظر کی وجہ سے کسی کو خبر تک نہ ہو سکی کے دن دہاڑے پولیس اسٹیشن سے ایک وجود کو اغواء کر لیا گیا ہے۔

☆☆☆☆☆


پریشانیوں کی لاتعداد لکیریں چہرے پر سجائے باوردی ہارون عالم آج گھر کے بجائے ان سے آفس میں ہی ملنے چلا آیا تھا۔


دروازے کے باہر کھڑے رہ کر اس نے ہلکی سی دستک دی۔


"آ جاؤ"۔ ان کی مصروف سی آواز ابھری۔


ہارون نے گہری سانس خارج کی پھر اندر داخل ہو گیا۔


مختار صاحب نے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا۔

اس نے سلیوٹ کیا۔


"معذرت چاہتا ہوں مخل ہونے کیلئے سر۔ ایک بہت اہم بات کرنی ہے آپ سے"۔ ہارون نے اپنا لہجہ نارمل کرتے کہا۔


مختار صاحب کی تجربہ کار نگاہوں سے اس کے چہرے پر درج پریشانی مخفی نہ رہ سکی تھی۔


"کیا ہوا آفیسر؟ اس وقت تو آپ کو جو ڈیوٹی دی گئی تھی وہاں موجود رہنا چاہیئے تھا آپ کو پھر یہاں کیسے؟"۔ انہوں نے کسی قدر تشویش سے پوچھا۔


ہارون دو قدم چل کر ان کی ٹیبل کے پاس آ کھڑا ہوا۔


"سر دراصل بات یہ ہے کے۔۔۔"۔


تبھی اچانک اس کا موبائل بج اٹھا۔ بات شروع ہونے سے قبل ہی ادھوری رہ گئی۔


ان سے معذرت کرتے ہوئے ہارون نے کال ریسیو کیا۔


اور فون پر اس کے کولیگ دوست نے جو اطلاع دی اس نے ہارون کو حواس باختہ کر دیا۔


اس نے جلدی سے خدا حافظ کہہ کر رابطہ ختم کیا۔


"معذرت چاہتا ہوں سر مجھے پولیس اسٹیشن جانا ہوگا۔ ایک ایمرجنسی ہے"۔ وہ پریشان دکھائی دینے لگا۔


مڑ کر جانے کیلئے پر تول رہا تھا جب مختار صاحب نے پکارا۔

"کیا ہوا آفیسر؟"۔ وہ پوچھے بنا نہ رہ سکے۔


ہارون کو رکنا پڑا۔


"سر وہ میرے ہی علاقے کے ایک پولیس اسٹیشن پر کچھ لوگوں نے حملہ کر دیا ہے۔ کافی اہلکار اور لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ مجھے جانا ہوگا"۔ اس نے جلدی جلدی بات مکمل کی۔


"ٹھہرو میں بھی چلتا ہوں تمہارے ساتھ"۔ مختار صاحب اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور میز کے پیچھے سے نکل کر سامنے آئے۔


ہارون نے اثبات میں سر ہلایا اور دروازہ وا کیا۔ ان کے نکلتے ہی وہ بھی پیچھے پیچھے چل دیا۔


کچھ ہی دیر بعد وہ دونوں پولیس اسٹیشن پہنچ چکے تھے۔

باہر ایمبولینس کھڑی تھیں۔

میڈیا وینز بھی فاصلے پر کھڑے تھے۔


ان کو دیکھتے ہی وہ ان کی طرف بڑھے۔


"سر یہ کون لوگ ہیں جنہوں نے دن دہاڑے پولیس اسٹیشن کو اپنا نشانہ بنایا ہے"۔


"پولیس اہلکار اس حملے کو روکنے میں ناکام کیوں رہے سر؟"۔


"اس حملے کے بعد تو یہی کہا جا سکتا ہے کے پولیس والے خود محفوظ نہیں ہیں تو وہ عوام کو کیا تحفظ فراہم کریں گے"۔


میڈیا نمائندگان زہر میں بجھے نشتر برسا رہے تھے۔

سرکاری گاڑی سے اترنے سے لے کر پولیس اسٹیشن کے اندر قدم رکھنے تک وہ لوگ مختار صاحب اور ہارون کے پیچھے پیچھے ہی آئے تھے۔

پولیس اہلکاروں نے آگے بڑھ کر ان کا راستہ روک دیا۔


مختار صاحب کے چہرے پر سرخی واضح نظر آ رہی تھی۔

پولیس اسٹیشن سارا کا سارا تتر بتر کر دیا تھا۔

جگہ جگہ خون کے دھبے، ٹوٹے فرنیچر، بکھری فائلیں، الٹی پڑیں میزیں کچھ بھی اپنے اصل حال میں نہ تھا۔


کانسٹیبل اور دیگر اہلکاروں نے مختار صاحب کو سلیوٹ کیا۔

ان میں سے بیشتر کے چہروں پر نیلیں پڑی تھیں۔


"تین لوگ تھے وہ، اور تم بارہ اہلکار دو سینئر آفیسرز سمیت ان کو روک نہ سکے؟ ہاتھوں میں مہندی لگائے بیٹھے تھے یا چوڑیاں پہن لیں تھیں"۔ انہوں نے کڑے تیوروں سے ان کے جھکے سروں کو گھورتے ہوئے طنز کیا۔


کسی نے بھی ایک لفظ نہ کہا۔


"ہارون، دو اہلکاروں کے ساتھ جا کر زخمیوں کا بیان لو اور صورتحال معلوم کرو"۔ انہوں نے حکم دیا۔ ہارون سلیوٹ کرکے دو اہلکاروں سمیت الٹے قدموں واپس پولیس اسٹیشن سے نکل گیا۔


"پولیس اسٹیشن میں جتنے سی-سی-ٹی-وی کیمرے نصب ہیں ان سب کی فوٹیجز نکالو۔ مجھے اگلے آدھے گھنٹے میں میری میز پر وہ فوٹیجز چاہیئے بابر"۔ انہوں نے سینئر انسپکٹر سے کہا۔


"یس سر"۔ وہ سلیوٹ کرتا حکم بجا لایا۔


"کچھ سنا تم لوگوں نے وہ تینوں آپس میں کیا باتیں کر رہے تھے؟ سب کچھ شروع سے بتاؤ مجھے"۔ انہوں نے اپنے سامنے کھڑے پانچ اہلکاروں سے تفتیش شروع کی۔


"سر وہ تین نقاب پوش تھے۔ ان کے ہاتھ میں بندوقیں تھیں۔ اچانک انہوں نے آ کر توڑ پھوڑ مچا دی اور ہوائی فائرنگ کرنے لگے۔ ہم نے انہیں روکنے کی کوشش کی تو وہ لوگ ہم سے بھڑ گئے۔ ہم انہیں روکنے میں کامیاب ہو جاتے اگر وہ لوگ ٹیئر بم نہ پھوڑتے۔ دھوئیں کی وجہ سے کچھ سجھائی نہ دے رہا تھا۔ ان میں سے ایک کی نسوانی آواز گونجی۔ وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہی تھی کے جلدی لڑکی کو لو اور چلو یہاں سے"۔ کانسٹیبل انہیں تفصیل بتا رہا تھا۔


مختار صاحب جو تب سے آنکھیں چھوٹی کیئے بغور اس کی بات سن رہے تھے، اس کی آخری بات پر قدرے چونکے۔


"کیا کہا تم نے؟ اس نے کہا لڑکی کو لو؟ کون لڑکی تھی یہاں؟ کیا کوئی نام لیا ان لوگوں نے؟"۔ مختار صاحب نے جلدی سے پوچھا۔


"نہیں سر، کوئی نام نہیں لیا"۔ مایوسی بھرا جواب دیا۔


مختار صاحب پیشانی مسلنے لگے۔


"اچھا کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا؟"۔ انہوں نے ایک اور سوال کیا۔


"وہ، سینئر آفیسر ذیشان سر شہید ہو گئے"۔ کانسٹیبل نے اطلاع دی۔


مختار صاحب کے چہرے پر دکھ و رنج پھیل گیا۔


"توڑ پھوڑ کی، ہوائی فائرنگ کی، لوگوں کو مارا نہیں صرف زخمی کیا۔ کیا چاہ رہے تھے وہ لوگ؟ کہیں کسی لڑکی کو اٹھانے تو نہیں آئے تھے؟"۔ وہ گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے تبھی اچانک ان کی نظر ایک سیاہ لیڈیز بیگ پر پڑی۔


وہ چونکے۔

چند قدم چل کر وہ اس بیگ تک آئے۔ پھر ہاتھ میں لے کر اس کو ٹٹولنے لگے۔

اس کے زپ سے ایک کی-چین لٹک رہا تھا جس میں انگریزی کا حرف 'اے' لکھا تھا۔


مختار صاحب پرسوچ نگاہوں سے لب بھینچے اسے دیکھنے لگے۔

پھر زپ کھول کر چیک کرنے لگے۔

پین، نوٹ بک، فائل اور ایک دم وہ چونکے۔


وہ اسٹوڈنٹ آئی-ڈی کارڈ تھا جس پر الوینا کی تصویر کے ساتھ ساتھ اس کا نام پتہ رول نمبر وغیرہ درج تھا۔


"یہ لڑکی۔۔۔یہ لڑکی یہاں آئی تھی؟ کیوں؟"۔ ان کا ذہن الجھ کر رہ گیا تھا۔

ابھی وہ سوچ ہی رہے تھے کے آفیسر کی آواز نے انہیں متوجہ کیا۔


"سر، وہ سی-سی-ٹی-وی فوٹیج ریڈی ہے۔ آپ چیک کریں"۔ اس نے اطلاع دی۔

مختار صاحب نے سر ہلا دیا۔


پھر وہ بیگ اپنے ساتھ ہی لیئے وہاں سے نکل گئے۔

☆☆☆☆☆


کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد وہ بے ہوش الوینا کو ساتھ لیئے اس پہاڑی والے بنگلے پر پہنچا تھا۔


وہ مسلسل بے ہوش تھی۔


اعظم نے اسے لا کر ایک خالی کمرے میں بستر پر لٹا دیا۔

پھر دروازہ لاک کرکے وہ قیصر کے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔


وہ جو کسی سے فون پر بات کرنے میں مصروف تھا اسے سامنے پاتے ہی کال کاٹ دی اور موبائل ایک جانب کو اچھال کر وہ اس کی جانب بڑھا۔


"کیا ہوا؟ پلان کامیاب رہا؟ لڑکی کو لے آئے؟"۔ وہ تشویش زدہ سا پوچھ رہا تھا۔


تھکا ہارا اعظم آگے بڑھ کر اس سے بغلگیر ہوا۔


"ارے میرا یار کوئی کام سونپے اور یہ اعظم اسے پورا نہ کرے ایسا کبھی ہوا ہے کیا"۔ اس سے الگ ہوتے وہ پرجوش لہجے میں بولا۔


قیصر یہ سنتے ہی پرسکون ہو گیا۔


جبکہ اعظم اب صوفے پر پھیل کر دراز ہو گیا۔

پھر زرا نگاہیں موڑ کر اس کے حلیے کو دیکھا۔


گہرے نیلے رنگ کے شلوار قمیض پر سیاہ ویسٹ کوٹ، آستینوں کے کف موڑے وہ بارعب لگ رہا تھا۔ عام دنوں سے بے حد مختلف۔


"تم نے تو بالکل حاجی شاہی کا گیٹ-اپ کر لیا ہے باس۔ جچ رہے ہو"۔ اس نے مسکراتے ہوئے توصیفی نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا۔


اس عرصے میں راکنگ چیئر پہ بیٹھا قیصر خیام پہلی بار مسکرایا۔


"مسکرانے سے کام نہیں چلے گا میرے شیر، ایک تو اتنی محنت کرکے چار سو کلو میٹر کا سفر طے کر کے اس لڑکی کو یہاں تک لایا ہوں۔ اس حساب سے تو تجھے آج شام کو میری شان میں ایک دعوت کا انتظام کرنا چاہیئے۔ اور دعوت تو ویسے بھی تجھے دینا ہی چاہیئے کیونکہ نیا عہدہ ملا ہے نا"۔ اعظم نے نیا شوشہ چھوڑا۔


"ٹھیک ہے۔ آج شام کو دعوت دی تمہیں"۔ اس نے خوشدلی سے کہا۔


اعظم خوشی سے اچھل پڑا۔


"واہ اسے کہتے ہیں سچا یار۔ میں ابھی بابو اور تارہ کو بھی بلواتا ہوں۔ جشن ہوگا بہت بڑا جشن"۔ وہ جو تھوڑی دیر قبل تھکا ہوا تھا اب یک دم ہی پرجوش ہو گیا۔


قیصر نے پرسکون ہو کر کرسی کی پشت سے سر ٹکا دیا۔

بالآخر ایک بڑا خطرہ ٹل گیا تھا۔

☆☆☆☆☆


سی-سی-ٹی-وی فوٹیج کو وہ بار بار ریوائنڈ کرکے دیکھ رہے تھے کے کہیں کوئی اہم اور باریک منظر چوک نہ گیا ہو نگاہوں سے۔


دوپہر سے شام ہو گئی تھی۔ وہ اب تک پولیس اسٹیشن میں ہی موجود تھے۔ فائزہ کو انہوں نے کال کرکے آگاہ کر دیا تھا کے انہیں آتے آتے وقت لگے گا۔

ہارون بھی انہی کے ساتھ تگ و دو میں لگا تھا۔


دو گھنٹوں کی دوڑ دھوپ کرکے وہ اسپتال سے سیدھا انہی کے پاس آیا تھا۔

سلیوٹ کے بعد وہ جو انہیں رپورٹ پیش کرنے آیا تھا اس کی نگاہیں اس رکارڈنگ پر جم سی گئیں۔


وڈیو فوٹیج میں الوینا پولیس اسٹیشن کے اندر آتی دکھائی دے رہی تھی۔ پھر انسپکٹر ذیشان کے پاس اب وہ بیٹھی شاید رپورٹ درج کروا رہی تھی۔

تبھی اچانک پولیس اسٹیشن میں ہل چل مچی، مسلح افراد آئے انہوں نے تھوڑ پھوڑ مچائی، ہوائی فائرنگ، پھر یک دم دھوئیں کی وجہ سے منظر دھندلا گیا۔


"سر یہ تو الوینا ہے"۔ ہارون کی پریشان آواز پر مختار صاحب نے چونک کر نگاہیں اس کی جانب گھمائیں۔


"جانتا ہوں۔ اس کے اندر داخل ہونے کے ٹھیک دس منٹ بعد ہی وہ مسلح افراد پولیس اسٹیشن میں داخل ہوئے تھے۔ ہو سکتا ہے شاید وہ قیصر کی ساتھی ہو، اسی نے یہ کام اس کے کہنے پر کیا ہو۔ قیصر نے اپنی خود ساختہ دشمنی اور انا کی تسکین کیلئے اور مجھے نیچا دکھانے کیلئے ہی یہ سب کروایا ہوگا"۔ ان کا لہجہ قدرے سخت اور غصیلہ تھا۔


ہارون نے ٹھٹھک کر ان کی جانب دیکھا۔

پھر اس کی نظر ساتھ کھڑے دو اہلکاروں پر پڑی۔


"تم لوگ جاؤ، زخمیوں کے گھر والوں کو اطلاع دو کے وہ کس ہسپتال میں ہیں"۔ اس نے انہیں وہاں سے ہٹایا۔

وہ فوری حکم بجا لائے۔


ان کے جاتے ہی ہارون مختار صاحب کی جانب متوجہ ہوا۔

"سر یہ لڑکی قیصر کی ساتھی نہیں ہے۔ دراصل قیصر نے اسے ہی اغواء کرنے کو اپنے ساتھی بھیجے اور یہ سب ڈرامہ رچایا"۔ ہارون نے گویا بم پھوڑا تھا۔


مختار صاحب ٹھٹھک کر اس کی جانب دیکھنے لگے۔

ہارون کے تاثرات ناقابل بیان تھے۔


"قیصر نے اسے اغواء کروایا؟ تم اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہو آفیسر؟"۔ مختار صاحب کو دھڑکا سا لگا تھا۔


ہارون لب بھینچے چند لمحوں کیلئے کشمکش میں مبتلا رہا۔

پھر کچھ دیر بعد گویا ہوا۔


"اس لڑکی کی ایک سہیلی ہے۔۔غزل حیات۔ کچھ دیر قبل وہ اسے ڈھونڈتے ہوئے یہاں آئی تھی۔ اب بھی باہر موجود ہے۔ اس کا کہنا ہے کے اس کی دوست صبح سے غائب ہے۔ اور وہ پولیس اسٹیشن۔۔۔گواہی دینے آئی تھی۔ تیمور عباسی کے قتل کی"۔ سر جھکائے اس نے انکشاف کیا تھا۔


الفاظ تھے یا پگھلا ہوا سیسہ۔۔۔۔جو کسی نے مختار صاحب کی سماعتوں میں انڈیل دیئے تھے۔


ان پر سکتے کی سی کیفیت طاری ہو گئی تھی۔

کچھ کہنے کے وہ قابل ہی نہ رہے تھے۔

سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کے اس بات کا یقین کریں تو کریں کیسے۔


جب اسے ڈھونڈنا چاہا تھا تب تو وہ کہیں نہ مل سکی انہیں۔

مگر اب جب اسے ڈھونڈنے کا کام پس پشت ڈال کر وہ کسی اور کام میں لگے تھے تو یہ خبر۔۔


اسکرین پر جمی ان کی نگاہیں دھندلانے لگی تھیں۔

سامنے ہی الوینا کی تصویر تھی۔

ان کی لخت جگر۔۔۔ان کی اولاد۔


آج وہ ملی بھی تھی تو اس طرح؟

ابھی تو انہوں نے اس کے ملنے کی خوشی کو محسوس بھی نہ کیا تھا اور اب وہ ایک بار پھر کھو گئی تھی؟


"میری۔۔۔بیٹی"۔ انہوں نے اسکرین پر موجود اس کے عکس پر ہاتھ پھیرا۔

ہارون نے ان کے شانے پر ہاتھ رکھا۔


"جی خالو جان۔ آپ کی بیٹی۔۔۔الوینا مختار"۔ اس نے یقین دہانی کروائی۔


مختار صاحب نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔ یعنی وہ جانتا تھا۔


ہارون ان کا اشارہ سمجھ چکا تھا۔

"مجھے کل ہی پتہ چلا۔ اور آج صبح میں آپ کو یہی بتانے آیا تھا کے تبھی یہ سب ہو گیا"۔ اس نے وضاحت دی۔


مختار صاحب گم سم سے ہنوز اس کی تصویر کو دیکھ رہے تھے۔

"وہی آنکھیں۔۔۔وہی چہرہ۔ بالکل عائشہ کا پرتو ہے وہ"۔ انہوں نے چہرہ موڑ کر اپنی آنکھیں صاف کیں۔


ہارون جھک کر پنجوں کے بل ان کے سامنے بیٹھا۔


"آپ بے فکر رہیئے۔ میں اسے کہیں سے بھی ڈھونڈ کر لاؤں گا۔ یہ میرا وعدہ ہے آپ سے اسے کچھ نہیں ہوگا"۔ ان کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھے مضبوط لہجے میں عہد باندھا۔


مختار صاحب نے پرامید نگاہوں سے اسے دیکھا۔

☆☆☆☆☆


آنکھ کھولتے اس کی نظریں کمرے کی چھت سے لٹکتے قیمتی فانوس سے ٹکرائیں۔


وہ یک ٹک غائب دماغی سے کمرے کی چھت کو گھورتی رہی۔

اس کا ذہن کورے کاغذ کی طرح خالی ہو رہا تھا۔


ایسا لگ رہا تھا جیسے کمرے کی چھت کسی بھی پل اس پر آن گرے گی۔


رفتہ رفتہ اس کی دھندلی بصارت صاف ہوتی گئی۔

دور کہیں سے کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دے رہی تھی۔

بہت مانوس تھی وہ آواز۔۔۔۔

مگر الوینا کو فوری طور پر یاد نہ آیا۔


اس کے ہاتھ نے کسی نوکیلی شے پر گرفت کسی۔


تبھی دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز آئی۔

مگر اس کے وجود میں کوئی جنبش نہ ہوئی۔


بھاری جوتوں کی آواز اب بہت قریب آ گئی تھی۔

بے حد قریب۔۔۔اتنی کے۔۔۔جھٹکے سے الوینا نے گردن گھما کر بائیں جانب دیکھا۔


اور پوری قوت مجتمع کرکے اس نے نوکیلا ہتھیار نووارد ہر حملے کی غرض سے بلند کیا ہی تھا کے اگلے ہی پل ایک زناٹے دار تھپڑ نے اسے واپس بستر پر پٹخ دیا۔


اس شخص نے جھٹکے سے وہ ہتھیار اس کے ہاتھ سے چھین کر ایک طرف اچھال دیا۔

اور اس کا وہی ہاتھ کھینچ کر جھٹکا دیا۔

وہ بے دم سی ہو کر اس کے کشادہ سینے سے آ لگی۔

الوینا کا دل رک رک کر دھڑکنے لگا۔

نقاب پوش اس کے مقابل۔۔۔اس کے بے حد قریب تھا۔

اس کے پورے چہرے میں صرف سرمئی آنکھیں ہی واضح تھیں۔

جو غصے سے سرخ پڑ رہی تھیں۔

یہ خواب تھا یا حقیقت وہ طے نہیں کر پا رہی تھی۔

خالی خالی نظروں سے وہ اسے تک رہی تھی۔

مقابل نے اس کے دونوں ہاتھ سختی سے اسکی پیٹھ پر موڑ دیئے۔

درد کی ایک لہر الوینا کو اپنے پورے وجود میں پھیلتی محسوس ہوئی۔

اس کی آنکھیں لبا لب پانیوں سے بھر گئیں۔

"جنگلی لڑکی، ہاتھ بلند کرنے سے پہلے یہ دیکھ لینا چاہیے کے مقابل کھڑے شخص کے جتنی تمہاری قوت ہے بھی یا نہیں"۔ اس کے ہاتھ پر سختی بڑھاتے ہوئے کاٹ دار لہجے میں کہا۔

مانوس خوشبو اور آواز سے الوینا کے حواس جھنجھنا اٹھے۔

"میں قوت میں تمہارے برابر تو کیا، آدھی بھی نہیں۔۔۔لیکن تم۔۔۔تم اتنے کمزور ہو کے۔۔۔میرے سامنے آنے۔۔۔کیلئے نقاب۔۔۔کا سہارا لیا ہے"۔ درد کے باوجود وہ تمسخر اڑاتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی تھی۔

توہین سے قیصر کا چہرہ سرخ پڑ گیا۔

اگلے ہی پل اس نے ایک جھٹکے سے اپنا نقاب اتار پھینکا۔

اور اسے دیکھنے کے بعد الوینا کی حالت ایسی تھی جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔

"پروفیسر"۔ بے یقینی کی انتہا تھی وہ۔

اب کے تمسخر اڑانے کی باری اس کی تھی۔

"نہ سر۔۔۔نہ پروفیسر۔۔۔۔صرف قیصر۔۔۔قیصر عبید خیام"۔ سرگوشی میں کہتے ہوئے اس نے الوینا کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ انڈیل دیا تھا۔

الوینا کی مزاحمت دم توڑ گئی۔

وہ پتھر کی مورت بن گئی تھی۔

خواب حقیقت کا روپ دھار کر اس کے سامنے کھڑا تھا۔

وہ ہاتھ بڑھا کر اسے چھو سکتی تھی۔

اس کی موجودگی کو محسوس کر سکتی تھی۔


خواب کے برعکس اس کی سرمئی آنکھیں حقیقت میں کتنی پُرکشش۔۔۔کتنی گہری تھیں۔

مگر الوینا کیلئے وہ سب کچھ جیسے اپنے معنی کھو چکے تھے۔

ضبط کرتے کرتے بھی اس کی آنکھیں چھلک پڑی تھیں۔


ہاں وہ رو رہی تھی۔ وہ اب اس کے سامنے چہرہ جھکائے شدت سے رو پڑی تھی۔

سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کے کون سا دکھ اسے رُلا رہا تھا۔

کون سی تکلیف سب سے زیادہ تھی۔

اس کا اغواء ہو جانا یا اس شخص کی حقیقت۔

وہ سمجھنے سے قاصر تھی۔


وہ چونک کر اس کے جھکے سر کو دیکھ رہا تھا۔ اس کی گرفت میں موجود الوینا کا پورا وجود ہچکیوں کی زد میں تھا۔

اس کی گرفت آپ ہی آپ ڈھیلی پڑنے لگی۔


مگر الوینا کے ہاتھ ہنوز اس کے پشت پر موڑ رکھے تھے اس نے۔

جبکہ اس کی کیفیت سے بے نیاز وہ بے آواز آنسو بہا رہی تھی۔

گردن اس قدر جھک رہی تھی کے اس کا سر قیصر خیام کے مضبوط سینے سے ٹکرا رہا تھا۔

جس وجہ سے بے رنگ آنسو اس کے سینے پہ گرتے سیاہ قمیض میں جذب ہو رہے تھے۔

قیصر خیام کو لگ رہا تھا جیسے وہ گرم گرم سیال اس کے سینے پہ گرتے، اس کے پتھر دل کو پگھلانے کی طاقت رکھتے تھے۔


قیصر نے لب بھینچے اس کی نم پلکوں کو دیکھا۔

پھر جھٹکے سے اسے خود سے پرے کر دیا۔

الوینا لڑکھڑا کر بستر پر بیٹھنے کے سے انداز میں گر سی گئی۔

گیلی پلکیں اٹھائے سرخ چہرے کے ساتھ وہ اب براہ راست اس کی آنکھوں میں جھانک رہی تھی۔


"جو کچھ بھی ہوا ہے وہ تمہاری اپنی بیوقوفی کا نتیجہ ہے لڑکی۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ تم سے میری کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی اور نہ ہے۔ لیکن تم نے اپنا پیر خود کلہاڑی پہ مار دیا۔ تمہیں یہ بیٹھے بٹھائے گواہی دینے کا خیال کہاں سے آ گیا جس کیلئے تم پولیس اسٹیشن پہنچ گئی؟ تمہاری کم عقلی نے آج تمہیں یہ دن دکھائے ہیں"۔ وہ زہر خند ہوا۔

کچھ دیر پہلے دل میں امڈ آئی نرمی اب اس کے چہرے سے مفقود تھی۔


الوینا کی آنکھیں یک دم جلنے لگی تھیں۔ جیسے کسی نے مرچیں بھر دیں ہوں ان میں۔

اس جلن نے اس سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں چھین لیں اور طیش میں آ کر وہ ایک مرتبہ پھر بپھر کر اٹھتے ہوئے اس کے سامنے تن گئی۔


"اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہو تم ہاں؟ لوگوں کو مارتے کاٹتے پھرو گے اور بدلے میں کوئی تمہارے خلاف زبان بھی نہ کھولے یہی چاہتے ہو تم؟ تو اب میری بات دھیان سے سنو، جو تم چاہو ہمیشہ وہ ہو بھی جائے یہ ضروری نہیں۔ اپنے گناہوں کا ملبہ دوسرے کے سر مت تھوپو۔ جو خود کرتے ہو پھر اس کا نتیجہ بھگتنے کیلئے بھی تیار رہنا سیکھو"۔ آنسوؤں سے تر چہرہ اس نے بری طرح رگڑ ڈالا۔


قیصر تیکھے چتونوں سے اسے گھورتا رہا بولا کچھ نہیں۔

اس کی خاموشی نے جلتی پرتیل کا کام کیا۔


"اپنے کیئے کی سزا دوسروں کو دینے والے تم ہوتے کون ہو؟ کیا غلطی تھی میری بولو؟ یہی نا کے تمہاری اصلیت جانے بغیر ایک اچھا انسان سمجھ کر تمہیں عزت دیتی رہی جس کا پھل آج مجھے اس حال کو پہنچا کر تم نے دیا ہے۔ تم ایک انتہا درجے کے نیچ، انسانیت کے مرتبے سے گرے ہوۓ قدرے پست اور قابلِ نفرت شخص ہو"۔ وہ چیخ چیخ کر کہتی اس پر اس کی حیثیت واضح کر رہی تھی۔


جس زبان سے اس نے ہمیشہ "آپ" اور "جی" جیسے الفاظ سنے تھے آج جب وہی زبان زہر میں بجھے تیر اس کے وجود پر برسا رہی تھی تو وہ بھلا کیسے چپ چاپ سن لیتا۔


"چٹاخ"۔ درمیانی فاصلہ عبور کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر اس کا ہاتھ زور سے الوینا کے اسی گال پر پڑا تھا جہاں کچھ دیر قبل کے تھپڑ کا نشان ابھی واضح تھا۔


الٹے ہاتھ کا تھپڑ کھاتے ہی وہ اوندھے منہ بستر پر گر گئی۔ اب کی بار ہونٹ کنارے سے پھٹ گیا تھا اور وہاں سے خون کی ایک لکیر بہہ نکلی۔


مگر قیصر خیام نے اس پہ ہی اکتفا نہ کیا۔ وہ آگے بڑھا اور اس کے بکھرے بال مٹھی میں جکڑ کر ایک جھٹکے سے اپنے مقابل کھینچا۔


"بہت گھمنڈ ہے نا تجھے خود پر۔ چاہوں تو ابھی اسی پل تیرا غرور خاک میں ملا سکتا ہوں۔لیکن نہیں۔ تم نے بالکل ٹھیک پہچانا، قیصر خیام نیچ ہے، پست بھی ہے اور گرا ہوا بھی۔۔۔مگر بدکردار نہیں ہے۔ نہ تو عورتوں کو پامال کرتا ہے اور نہ ہی کرنے والے کو زندہ رہنے دیتا ہے"۔ اس کے شہد آگیں بال مٹھی میں جکڑے، اس کی گردن کو گرفت میں لیئے وہ غرایا۔


"ثابت کر دیا تم نے کے تم کتنے پست ہو اندر سے۔ انسانیت کے تقاضوں سے نابلد ایک جانور سے بھی بدتر ہو تم۔ جس شخص میں انسانیت نہیں۔۔۔اس کے منہ سے مضبوط کردار کے دعوے اچھے نہیں لگتے"۔ اپنی حالت کی پرواہ کیئے بغیر وہ بے خوفی سے بولی۔


قیصر نے طنزیہ نظروں سے اس کا زرد پڑتا زخمی چہرہ دیکھا۔

پھر سلگتے ہوئے لہجے میں گویا ہوا۔


"تم تو بہت مضبوط اور سخت جان لگتی ہو۔ بالکل اپنے باپ کی طرح۔۔۔ضدی! چلو تمہاری مضبوطی کا امتحان آج لیتے ہیں۔ اس عالیشان کمرے کے بجائے تمہیں سرد تہہ خانے میں بند کر دیتے ہیں۔ پھر میں بھی دیکھتا ہوں کے یہ جوش یہ گرمی اور سارا طنطنہ کہاں جاتا ہے"۔ فیصلہ کن لہجے میں کہتے ہوئے وہ اب اسے اپنے ساتھ کھینچتے ہوئے لے جانے لگا۔


راہداری عبور کرتے، پھر دوسری منزل کی سیڑھیاں اتارتے ہوئے وہ اسے بے دردی سے کھینچتا ہوا لے جارہا تھا۔

الوینا اس کے پیچھے پیچھے گھسٹتی اپنا بازو چھڑوانے کی سعی کر رہی تھی۔

قیصر سختی سے اس کا بازو دبوچے اب پہلی منزل کی سیڑھیاں اترتے ایک کونے میں موجود دروازے کے سامنے رک گیا۔ کنڈی کھول کر ایک بار پھر اسے گھسیٹتے ہوئے تہ خانے کی سیڑھیاں اترنے لگا۔


زیر زمین بنے اس تہ خانے کو کئی زرد بلب روشن کیئے ہوئے تھے۔

الوینا ننگے پاؤں تھی۔ جس سے فرش کی ٹھنڈک اس کے وجود میں سرایت کرتی اس کا دماغ سن کر رہی تھی۔


ایک قدرے خالی کمرے کا اس نے دروازہ کھولا اور اسے اندر دھکیل دیا۔


"ٹھنڈ ستائے تو اپنے لہجے کی گرمی اوڑھ لینا اور بھوک لگے تو اپنے غصے سے پیٹ بھر لینا۔ امید ہے میری مہمان نوازی میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آئے گی"۔ سرد لہجے میں چبا چبا کر کہتے ہوئے اس نے دروازہ بند کر دیا اور لاک کرنے لگا۔


الوینا جیسے یک دم ہوش میں آئی تھی۔

بھاگ کر دروازے تک آئی اور زور زور سے پیٹنے لگی۔


"میں یہاں قطعی نہیں رہوں گی سنا تم نے۔ تم اتنے گھٹیا ہوگے میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ نفرت کرتی ہوں میں تم سے، گھن آتی ہے مجھے تم سے تمہارے وجود سے تمہارے نام سے۔ مجھے اس طرح تم قید نہیں کر سکتے سنا تم نے؟۔ شدید نفرت ہے مجھے تم سے۔ دروازہ کھولو ذلیل انسان"۔ زور زور سے وہ لکڑی کے بھورے دروازے کو ٹھوکر مار رہی تھی۔

چلا چلا کر اس کی سانسیں چڑھنے لگی تھیں۔

گلے میں خراش پڑ گئی تھی۔


"نفرت ہے مجھے تم سے"۔ وہ چیخ چیخ کر رو رہی تھی اب۔

اس کی آواز خاموش تہ خانے کے کونوں سے ٹکراتی گونج بن رہی تھی۔


راہداری عبور کرتے، زینے طے کرتے دروازہ کھول کر قیصر جب تک باہر نہ نکل گیا۔ تب تک اس کی آواز کی بازگشت اس کا پیچھا کرتی رہی۔

☆☆☆☆☆


اسے ڈھونڈتے ہوئے دن بھر وہ پولیس اسٹیشن میں خوار ہوتی رہی تھی۔

اب بھی وہ وہی ایک طرف رکھی کرسی پر پریشان سی بیٹھی تھی۔

جب اپنی ہی دھن میں آتے ہارون کی نظر اس پر پڑی تو وہ ٹھٹھک گیا۔

گھڑی میں وقت دیکھا تو رات کے آٹھ بج رہے تھے۔

وہ اس کی جانب چلا آیا۔


"تم یہاں ابھی تک؟ کیا ہوا؟"۔ وہ تشویش سے پوچھنے لگا۔


آواز پر چونک کر غزل نے نگاہیں اٹھائیں تو اسے سامنے پاتے ہی سنبھل کر جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔


"الوینا کا کچھ پتہ چلا؟ کہاں ہے وہ؟"۔ اس کی بھوری آنکھیں ضبط سے سرخ پڑنے لگی تھیں۔


"ابھی تک تو نہیں۔ لیکن ہم پوری کوشش کر رہے ہیں اسے ٹریس کرنے کی۔ ان شاء اللہ وہ بہت جلد مل جائے گی"۔ اس کی پریشانی کے پیش نظر ہارون نے تسلی آمیز لہجے میں جواب دیا۔


غزل مایوس سی ہو گئی۔


"کتنی مرتبہ کہا تھا اس سے کے میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی۔ مگر اس نے منع کر دیا کے وہ تنہا ہی جائے گی۔ ساری میری غلطی ہے۔ کاش اس وقت میں نے روک لیا ہوتا اسے۔۔۔یا کم از کم اس کے ساتھ ہی آ جاتی تو شاید یہ سب۔۔۔"۔ گلے میں آنسوؤں کا گولہ سا اٹک گیا۔

نگاہیں جھکائے وہ آنسو ضبط کر رہی تھی۔


ہارون اس کی الوینا سے اس قدر محبت اور مخلصی دیکھ کر حیران تھا۔ اور کسی قدر مطمئن بھی۔


"چلو میں تمہیں ہاسٹل چھوڑ دیتا ہوں۔ صبح سے تم یہیں موجود ہو۔ اور اب تو کافی دیر ہو گئی ہے"۔ اس نے تفکر سے کہا۔


غزل نے ہچکچا کر اس کی جانب دیکھا۔

پولیس کی وردی میں ملبوس وہ کسی اینگل سے بھی یونیورسٹی کا لڑکا نہیں لگ رہا تھا اس پل۔

وہ حیران تو ہوئی تھی جب پولیس اسٹیشن آنے کے بعد اس نے اسے یونیفارم میں دیکھا۔

مگر الوینا کے غائب ہو جانے کی پریشانی اتنی تھی کے اسے کوئی بھی سوال کرنے کا خیال تک نہ آیا۔

اس کی آفر پر آہستگی سے سر ہلاتے وہ اس کے پیچھے پیچھے چل دی۔

کچھ ہی دیر بعد وہ سرکاری گاڑی میں اس کے ساتھ موجود تھی۔

اسکے برابر وہ خاموشی سے بیٹھی تھی۔ نظریں باہر دوڑتے بھاگتے مناظر پر تھیں مگر دھیان کا مرکز الوینا تھی۔ اسے رہ رہ کر وہ یاد آ رہی تھی۔

ہارون سنجیدگی سے سڑک پر نگاہیں جمائے ڈرائیو کر رہا رہا تھا۔

ایک عاد پر اس کی نگاہیں بھٹک کر اپنے برابر بیٹھے وجود پر اٹھتی تھیں جو اسے اداس سی لگی۔

"خاموشی تو نہ تمہاری سرشت میں ہے اور نہ تمہاری اس دوست کی۔ پھر آج خلاف عادت یہ خاموشی کیوں اوڑھ لی؟"۔ اس کا دھیان بٹانے کو وہ ولا۔

غزل نے چونک کر نگاہیں اس کی جانب اٹھائیں۔

"الوینا سے تو آپ کو خدا واسطے کا بیر ہے۔ اور یہ تو بتائیں زرا کے آپ ایک پولیس والے ہو کر بھی ایک اسٹوڈنٹ بن کر کیوں آئے یونیورسٹی میں؟"۔ دماغ میں چل رہے سوال کو اس نے بالآخر زبان دی۔

ہارون کے چہرے پر یکلخت مسکراہٹ آن ٹھہری۔

"ایسے کام اکثر کرنے پڑ جاتے ہیں مس غزل۔ اسے آپ ہماری ڈیوٹی کا حصہ سمجھ لیں"۔ اس نے دانستہ تفصیل بتانے سے گریز برتا۔

کیونکہ وہ اسے یہ نہیں بتا سکتا تھا کے اس کی یونیورسٹی کا وہ پروفیسر اصل میں قانون کا مجرم ہے۔ اور اب الوینا کا اغواء کار بھی۔

غزل اس کا جواب سن کر چند لمحوں کیلئے خاموش ہو گئی۔

"آپ تو پولیس میں ہیں نا، پھر تو آپ آسانی سے الوینا کے پاپا کے بارے میں پتہ لگا سکتے ہیں۔ وہ بھی پولیس میں ہیں"۔ غزل کے ذہن میں اچانک یہ خیال آ سمایا۔

ہارون اس کی بات سن کر لب بھینچ گیا۔

"آپ لگائیں گے ان کا پتہ؟"۔ وہ پرامید نگاہوں سے اس کی جانب دیکھ رہی تھی۔

"اس کی ضرورت نہیں پڑے گی مس حیات"۔ اس نے دھیمے لہجے میں کہا۔

وہ اس کی بات پر الجھ گئی۔

"مطلب؟"۔

" مطلب یہ کے ان کا پتہ مجھے آل ریڈی ہے"۔ اس نے اتنی آہستگی سے کہا کے بمشکل غزل تک آواز پہنچی۔


"یہ تو اور بھی اچھی بات ہے۔ بتائیے پھر کون ہیں وہ اور کہاں ہیں؟ مجھے ان کا پتہ دیجئے میں ان سے بات کروں گی۔ کیونکہ آج الوینا کو سب سے زیادہ ان کی ضرورت ہے"۔ وہ پرجوش ہو گئی تھی۔


"ڈی-آئی-جی مختار انصاری"۔ بالآخر اس نے کہہ دیا تھا۔


ایک پل کو گاڑی میں سناٹا چھا گیا۔


وہ بے یقینی سے اس کی جانب تکنے لگی۔


"کیا آپ سچ کہہ رہے ہیں؟"۔اس کی آنکھیں یک دم چمک اٹھی تھیں۔


"مجھے تم سے جھوٹ بولنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟"۔ وہ حیران ہوا۔

"آپ کو کیسے پتہ چلا؟"۔ اس نے اگلا سوال داغا۔

ہارون نے ٹھنڈی سانس خارج کی۔

"کیونکہ میں اس کا کزن ہوں۔ اس کی اسٹیپ مام میری خالہ ہیں"۔ اس نے اطلاع دی۔

غزل کو حیرت کا ایک اور جھٹکا لگا تھا۔

چند لمحوں کیلئے وہ سکتہ زدہ سی رہ گئی۔

"مجھے کل ہی پتہ چلی تھی یہ بات۔ یونیورسٹی ریکارڈز سے۔ مگر قسمت دیکھو، اس کی فیملی کو اس سے ملنے کا موقع ہی نہ ملا اور وہ ایک بار پھر کھو گئی"۔ اس کے لہجے میں اداسی گھل گئی۔

مختار صاحب اور فائرہ کا چہرہ اس کی نگاہوں کے سامنے آ رہا تھا۔

کتنا بکھر گئے تھے وہ، جب انہیں پتہ چلا کے اغواء ہونے والی ان کی ہی بیٹی ہے۔

"کتنی بد نصیب ہے وہ۔ اتنے سارے رشتے ہونے کے باوجود بھی اس نے اپنی زندگی تنہا گزاری۔ اب تو مجھے بھی لگتا ہے کے اپنے باپ سے نفرت کرنے کے فیصلے میں وہ حق بجانب ہی ہے"۔ غزل نے قدرے غصے سے کہا۔

ہارون نے حیرانی سے اس کی جانب یکھا۔

"یہ تم کس قسم کی باتیں کر رہی ہو؟ وہ باپ ہیں اس کے۔ حالات نے انہیں مجبور کر دیا تھا وہ فیصلہ لینے پر تو اس میں ان کی کیا غلطی؟ اور تم تو الوینا کی دوست ہو، تمہیں اسے سمجھانا چاہیئے نا کے بڑھاوا دینا چاہیئے۔

یہ نفرت نہیں وقتی غصہ ہے جو الوینا کو ان پر ہے۔ ایک بار دونوں کو آمنا سامنا ہو گیا تو یہ خود بخود ختم ہو جائے گی"۔ اس کے لہجے میں یقین بول رہا تھا۔

"الوینا کی بھی کیا غلطی تھی بھلا اس میں؟ اپنے جھگڑوں میں اس بیچاری کو کیوں فراموش کر گئے تمہارے خالو جان؟ اور اب انہیں اپنی اولاد یاد آ گئی ہے۔ واہ"۔ آپ سے تم تک آتے اس نے طنز کیا۔

ہارون کو اس کا طنز ناگوار گزرا۔

"ابھی پانچ منٹ پہلے تک تم چاہتی تھی کے الوینا کو اس وقت اپنے باپ کی ضرورت ہے۔ اور اب اچانک تمہارے خیالات بدل گئے ان کے متعلق۔ کیا میں نے مختار انصاری کا نام لیا اس لیے؟ یا کسی اور کا نام لے لیتا تو تب کوئی مسئلہ نہ ہوتا تمہیں"۔ اس نے بھی بھرپور طنز کیا۔

غزل اب کے خاموش رہی۔

"تم اس کی دوست ہو، اس سے اچھی طرح واقف ہوگی۔ لہٰذا اسے سمجھاؤ اور اسے اس کی فیملی تک پہنچانے کیلئے میری مدد کر سکتی ہو تو کرو ورنہ فضول ایک لفظ بھی میں نہیں سنوں گا خالو جان سے متعلق"۔ اس نے سمجھاتے ہوئے قطعیت سے جواب دیا۔

وہ بس اسے گھور کر رہ گئی۔

پھر باقی کے راستے وہ دونوں ہی خاموش رہے۔

اور اسی خاموشی سے وہ اسے ہاسٹل کے گیٹ پر اتار کر وہاں سے چلا گیا۔

آتش دان کے پاس رکھی راکنگ چیئر پر جھولتے اس کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھا سیاہ سلک نائٹ ویئر میں ملبوس وہ ایک کے بعد ایک سگریٹ پھونک رہا تھا۔

آتش دان کی سنہری روشنی اس کمرے کے اندھیروں کو مٹانے کیلئے ناکافی ثابت ہو رہی تھی۔

باہر برف گر رہی تھی۔

اس کے برعکس کمرے میں حرارت تھی۔

سرمئی آنکھیں زرد روشنی میں سبز کانچ جیسی شکل اختیار کر رہی تھیں۔

سیاہ رنگ اس کی شخصیت کا عکاس تھا۔ اسے مزید نمایاں کر رہا تھا۔


وہ ایسے دنیا کا باسی تھا جس کو لوگ اسی طرح نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ویسے ہی دھتکار دیتے ہیں جیسے الوینا نے کیا تھا۔

وہ تو اس سب کا بہت پہلے سے ہی عادی ہو چکا تھا۔

پھر کیوں پہلی بار کسی کی زبان سے اپنے لیے نفرت آمیز جملے سن کر وہ ناخوش تھا۔ مضطرب تھا۔

قیصر خیام کے ساتھ یہ کوئی پہلی بار تو نہیں تھا۔ اس نے تو ایک سال اندھیری اور یخ جیل کی کوٹھڑی کا بھی ٹارچر سہا تھا۔ مگر حاجی نے ناجانے اسے کس مٹی سے گوندھا تھا کے اتنا سب برداشت کرکے بھی زندہ رہا۔

ہر مرتبہ مختار انصاری اس سے ایک ہی سوال پوچھتے کے آخر کون کون ہے ان کی گینگ میں، اس کا باس کون ہے۔ مگر تب وہ حاجی کیلئے اپنی جان ہتھیلی پر لیئے گھومتا تھا۔ لہٰذا وہ سب کچھ اپنی جان پہ جھیل گیا اور زبان سے حاجی کے خلاف ایک لفظ بھی نہ اگلا۔

لیکن جب اسے پتہ چلا کے اس کی دنیا اس کی زندگی اجڑانے والا ہی حاجی تھا تو تب جو اسے تکلیف پہنچی تھی، اس کے سامنے جیل والی تکلیف ہیچ تھی۔

چند ہی تو لوگ تھے اس کی زندگی میں۔ جنہیں وہ اپنا سمجھتا آیا تھا اور انہوں نے ہی اس کا بھروسہ توڑ کر اسے محض استعمال کیا؟ یہ بات اس کی انا اس کی روح پر تازیانے کی طرح لگ رہی تھی۔

لفظ 'رحم' بچپن سے ہی حاجی نے اس کی گھٹی میں شامل نہیں ہونے دی تھی۔ اسے ہر طرح کی ٹریننگ اس نے دی ھی۔

تیرہ برس کا تھا وہ۔۔جب اس کے کانپتے ہاتھوں نے پہلی بار بندوق تھاما۔

سولہ سال کا تھا وہ۔۔۔جب بھتہ وصولی کے دوران اس کے ہاتھوں ایک سنار کا خون لگا تھا۔

حاجی تو خوش تھا کے وہ بالآخر ان کے جیسا بن گیا ہے۔

مگر وہ۔۔۔اسے اچھی طرح یاد تھی وہ کالی رات۔۔۔کتنی اذیتوں بھری لگی تھی اسے۔ اسے بار بار اپنے ہاتھوں میں خون نظر آتا تھا اور کانوں میں اس آدمی کی درد بھری پکار سنائی دیتی تھی۔

پہلی بار تب وہ کھڑا ہوا تھا ضمیر کی عدالت میں اور سزائے موت تو اسے اسی دن سنا دی گئی تھی۔

پھر رفتہ رفتہ یہ سب اس کا معمول بنتا چلا گیا۔ حتی کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب صحیح غلط کا تعین کرنے والی وہ آواز جسے ہم عرف عام میں 'ضمیر' کہتے ہیں، اس کے اندر بالکل مردہ ہو گئی۔

چوری چکاری، ڈاکہ زنی، ڈرگ ڈیلنگ، بھتہ وصولی اور قتل کے سنگین واقعات یہ سب روز کی بات ہو گئی اس کیلئے۔

صرف ایک چیز تھی جو اس کے ساتھی کرتے تھے مگر وہ نہیں۔۔۔وہ تھا کسی عورت کے وجود کی نفی، اس کی عزت کی پامالی۔

اس کے ساتھی اسرار کرتے تھے۔ مگر جب بھی وہ کسی عورت کی طرف اس ارادے سے بڑھتا تھا تو ایک انجانی سی نسوانی چیخ اس کے کانوں میں گونجتی تھی۔

مگر تب سمجھ میں نہیں آتا تھا کے ایسا کیوں ہوتا ہے اس کے ساتھ۔ اور وہ چیخ آخر کیوں اس کے قدموں کی زنجیر بن جایا کرتی تھی۔


مگر ان سوالوں کے جواب اسے ایک عمر کے بعد اب جا کر ملے تو اس کی روح تک چھلنی ہو گئی۔

وہ چیخ اس کی اپنی ماں کی تھی جو اس تین سالہ بچے کے ذہن و دل پر اس طرح نقش ہو کر رہ گئی تھی کے پھر کبھی مٹائے نہ مٹی۔

تبھی تو اس دن جب پرنسپل آفس میں داخل ہوتے ہوئے اس نے الوینا کی روتی ہوئی آواز سنی تو قدم ادھ کھلے دروازے پر ہی رک گئے۔ اور جو بات اس نے سنی اس کے اندر غصے کی ایک لہر نے سر اٹھایا تھا۔

جس کے تحت اگلے دن اس نے وقاص کو سزا دینے کی ٹھانی۔


ظالم تو وہ پہلے بھی تھا ہی جیل کی در و دیوار نے اسے مزید سفاک بنا دیا۔

مگر آج بھی وہ یہ حد پار نہ کر سکا تھا جو جانے انجانے میں اپنے لیئے اس نے خود ہی مقرر کی تھی۔


موبائل کی رنگ ٹون اس کے خیالات میں مخل ہوئی۔

اپنے اطراف میں رکھی چھوٹی سی بلوریں میز پر رکھے ایش ٹرے میں اس نے سگریٹ مسلا۔ پھر نمبر دیکھتے ہوئے کال اٹینڈ کرلی۔


"ہیلو"۔ گمبھیر لہجے میں گویا ہوا۔


"میں نے تم سے کہا تھا کے اس لڑکی کو کچھ مت کرنا پھر تم نے میری اطلاع کے بغیر اسے اغواء کیوں کروا لیا؟"۔ چھوٹتے ہی انہوں نے غضبناک لہجے میں پہلا سوال یہی کیا۔


"تمہیں ہر بات بتانے کیلئے میں خود کو پابند نہیں سمجھتا علی مرزا"۔ سرد لہجے میں جواب دیا۔


وہ کڑھ کر رہ گئے۔

"جب تک تم میرے لیے کام کر رہے ہو مجھے ہر بات بتانے کے پابند خود بخود ہو جاتے ہو تم۔ اب بتاؤ کیوں اغواء کیا ہے اس کو؟"۔ دوسری جانب یقیناً ان کے برداشت کی حد تھی۔


"پہلی بات، میں نے سینکڑوں بار تم سے کہا ہے کے میں تمہارے لیئے کام کرتا ہوں تمہاری غلامی یا نوکری نہیں کرتا۔ اور رہی بات اس لڑکی کی تو تمہیں اس کی اتنی کیوں فکر ہو رہی ہے؟ کیا لگتی ہے وہ تمہاری؟"۔ اب کی بار تلخی سے کہتے ہوئے اس نے ان کی دکھتی نس دبائی تھی۔


جس پر وہ بلبلا اٹھے۔

"یہ بتانا میں تمہیں ضروری نہیں سمجھتا۔ اس لڑکی کو فوری آزاد کرو یہ میرا حکم ہے"۔ انہوں نے قطعی لہجے میں کہا۔


اب کی بار اس کا چھت پھاڑ قہقہہ انہیں ٹھٹھکا گیا۔


"ٹھیک ہے میں تو اس لڑکی کو چھوڑ دوں گا منسٹر۔۔۔اور پولیس کے ہاتھ خود تو نہیں لگوں گا لیکن تمہاری وہ آواز جو میرے موبائل میں ریکارڈ ہے، وہی جب تم مجھے اچھی خاصی رقم کے عیوض اس عباسی کو مارنے کا حکم دے رہے ہو، وہ اور چند مزید ثبوت میں مختار کو بھجوا دیتا ہوں۔ ارے ہاں، وہ حکم نامہ بھی تو ہے نا تمہارا جس میں تم مجھے حاجی کو مارنے کا کہہ رہے ہو۔ تاکہ انڈر ورلڈ قیصر خیام کے ذریعے تمہاری چھوٹی انگلی کے گرد گھومے"۔ سفاکی سے کہتے ہوئے اس نے انہیں حواس باختہ کر دیا۔


"تم۔۔۔تم نے میری کالز ریکارڈ کیں؟ میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا"۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کے وہ کیا کر گزریں۔


"میری چھوڑو تم اپنی فکر کرو مرزا، کیونکہ دنیا کی نظروں میں قیصر خیام تو ویسے بھی بدنام ہے۔ لیکن تم جو سفید کالر کے پیچھے چھپ کر کالے کارنامے کرتے ہو وہ اگر میں منظرِ عام پر لے آیا تو سوچو کیا ہوگا؟ وزیراعظم تو دور کی بات تم ملازم بننے لائق بھی نہیں رہو گے"۔ وہ چبا چبا کر بولا۔


دوسری جانب اس کی بات سنتے ہی وہ گیلی لکڑی کی طرح سلگنے لگے۔


"تم مجھے دھمکی دے رہے ہو؟ یاد رکھنا اگر حاجی کی جگہ تمہیں میں اس کرسی پر بٹھا سکتا ہوں تو ضرورت پڑنے پر تمہیں اس کرسی سمیت پاتال میں بھی اتارنے کی طاقت رکھتا ہوں"۔ وہ غرائے۔


ان کی بات پر وہ اس طرح ہنسنے لگا جیسے کوئی لطیفہ سن لیا ہو۔


"ایسی زندگی جینے کیلئے کون کمبخت مرا جا رہا ہوگا۔ اچھا ہے میرے مرنے کے بعد کم از کم وہ بچ جائیں گے جن کا خون میرے ہاتھوں لکھا ہوا ہے۔

اتنا تو میں بھی جانتا ہوں کے جب تک وہ لڑکی میرے پاس ہے تم، مختار یا پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی مجھے چھو نہیں سکتی"۔ اس کے لہجے میں یقین تھا۔


پھر مزید ان کی کچھ بھی سنے بغیر اس نے کال ڈسکنیکٹ کرکے موبائل بستر پر اچھال دیا۔

اور ایک بار پھر کرسی کی پشت سے سر ٹکا دیا۔


دھیان کے تانے بانے اس وجود میں الجھے ہوئے تھے جسے وہ زمین کے کئی فٹ نیچے بنے اس کمرے میں چھوڑ آیا تھا۔

☆☆☆☆☆☆


رات قطرہ قطرہ کرتے بہت ہی سست روی سے بیت رہی تھی۔

ابھی تو صرف دو ہی بجے تھے۔

گھڑی کی سوئیاں بہت ہی دھیمی رفتار سے آگے بڑھ رہی تھیں۔


کشادہ کمرہ کسی بھی فرنیچر یا دیگر ضروریات کی چیزوں سے خالی پڑا تھا۔

قدرے بلند سفید چھت اور نیچے بچھی سیاہ ماربل کی زمین۔

واحد چھوٹا سا گول روزن تھا اس پورے کمرے میں اور لکڑی کا صرف ایک ہی دروازہ۔

جسے وہ سنگدل چار گھنٹے قبل باہر سے لاک کرکے گیا تھا۔

کتنی ہی دیر تک وہ اس بھورے دروازے کو پیٹتی رہی تھی مگر باہر کوئی ہوتا تو ہی اس کی پکار سنتا۔

تہ خانے میں موجود دو ہی کمرے تھے۔ دونوں کے ایک جیسے دروازے آمنے سامنے تھے۔

دونوں کمروں کے درمیان چھوٹی سی راہداری خاموش پڑی تھی۔

کئی گھنٹے مسلسل چیخنے رونے کے بعد وہ نڈھال سی ہو کر کمرے کے وسط میں گھٹنے سینے سے لگائے زمین پر لیٹی تھی۔

دوپٹے سے عاری وجود سردی کی شدت سے کپکپا رہا تھا۔

اسے لگ رہا تھا جیسے یہ سردی اس کی ہڈیوں میں گھس کر اس کے جسم سے گوشت نوچ رہی ہے۔ جس سے اس کا وجود سن پڑ گیا تھا۔

ایک واحد زرد بلب تھی جو اس وقت روشن تھی۔

صبح پولیس اسٹیشن جانے کی پریشانی اتنی تھی کے اس نے ناشتہ بھی نہیں کیا۔

غزل کے ساتھ ہی تیار ہو کر وہ اپنا بیگ لیئے ہاسٹل سے نکلی تھی۔

غزل تو یونیورسٹی چلی گئی البتہ اس کا ارادہ پہلے پولیس اسٹیشن جانے کا تھا پھر وہاں سے سیدھا یونی۔

مگر زندگی میں ہمیشہ وہ کب ہوتا ہے جو ہم سوچتے یا چاہتے ہیں۔

اس نے بھی نہیں سوچا تھا کے کچھ ہی گھنٹوں میں وہ اس حال کو پہنچ جائے گی۔

گول روزن سے یخ بستہ ہوا کے جھونکے برف کے سفید گالے بھی اڑا کے اندر لا رہے تھے۔

سیاہ ماربل کی ٹھنڈ الوینا کے وجود میں سرایت کر رہی تھی۔

الجھے الجھے سے شہد رنگ بال اس کے چہرے اور اطراف میں بکھر رہے تھے۔

اس کا رخ اس گول روزن کی طرف تھا۔

نگاہیں اندر کی طرف گرتے اس سفید برف پر جمی تھیں۔

وہ ایک تخلیقی ذہن کی مالک لڑکی تھی۔

جسے پریوں اور شہزادیوں کے قصے بےحد پسند تھے۔

بچپن میں اپنی ماں سے ضد کرکے وہ ایسی ہی کہانیاں سنا کرتی تھی۔

پھر جب ماں نہیں رہی تو نانا جان سے وہ فرمائش کرتی۔

وہ بھی خوشی خوشی اپنی راج دلاری کو کہانیاں سنایا کرتے۔

ممانی اس پر ظلم کرتیں تو وہ سترہ سالہ لڑکی یہ سوچ کر خود کو مطمئن کر لیتی کے ایک دن اس کا شہزادہ آئے گا اور اسے چڑیل ممانی جان سے نجات دلا دے گا۔ اور اپنے ساتھ لے جائے گا۔


مگر جب اسکے پیارے نانا جان بھی اسے چھوڑ کر چلے گئے تو لگا جیسے کسی نے اس سے سایہ چھین لیا ہو اور ننگے پیر ننگے سر دوپہر کی کڑی دھوپ میں کھڑا کر دیا ہو۔

تب اسے احساس ہوا تھا کے اصل زندگی میں تو کوئی شہزادہ نہیں آتا کسی کو مصیبت سے نجات دلانے۔۔۔بلکہ سب کچھ اپنی مدد آپ کے تحت کرنا پڑتا ہے۔

پھر اس نے ویسے ہی جینا سیکھ لیا۔


بنا کوئی آہٹ کیئے وہ ننگے پیر چلتا ہوا اس کی نگاہوں کے سامنے آ گیا۔

جس سے روزن کو دیکھتیں اس کی آنکھیں ٹھٹھکیں۔

کسی کا لمبا چوڑا وجود اس کی نگاہوں کے سامنے تھا۔

اسکے چہرے اور آنکھوں پر بکھرے بال اسے مقابل کا چہرہ نہیں دیکھنے دے رہے تھے۔

وہ خود میں اتنی سکت نہ پا رہی تھی کے بال ہٹا کر وہ نووارد کو دیکھتی۔


کیا وہ پھر سے کوئی خواب دیکھ رہی تھی؟

کیا اس کا دماغ اس کے ساتھ کھیل رہا تھا؟


الوینا کے اندر خوف نے کنڈلی ماری۔

اسے وہ رات یاد آ گئی جب وقاص نے لوٹنے کی غرض سے اسے دھوکے سے بلایا تھا۔


اس کا ذہن حرکت کر رہا تھا مگر جسم سن پڑا تھا۔

اس میں ایک انچ بھی ہلنے کی قوت نہ تھی۔


تبھی وہ گھٹنوں کے بل اس کے سامنے جھکا۔

اب اس کے ہاتھوں میں سیاہ چادر نظر آ رہی تھی۔


جھک کر اس نے اس کے چہرے پر بکھرے بال ہٹائے۔

الوینا پوری قوت صرف کرکے اس سے دور سرک گئی۔

اس کا ارادہ بھانپ کر مقابل نے اس کا یخ ہاتھ جلدی سے تھام لیا۔


"رسی جل گئی مگر بل نہیں گیا"۔ وہ زہرخند ہوا۔


دوسرا ہاتھ اس نے اس کے سر کے نیچے دے کر اسے اٹھایا تو الوینا کا نیم جان سا وجود اس کی پناہوں میں آ گیا۔


"دور۔۔۔رہو۔۔۔مم۔۔مجھ۔۔۔سے"۔ حقارت سے کہتی ہوئی وہ کمزور سا احتجاج کرنے لگی۔


قیصر کے چہرے پر سختی در آئی۔

"منہ بند رکھو۔ میں بھی تمہاری قربت کیلئے مر نہیں رہا۔ مگر فلحال میرے قریب رہنے میں ہی تمہاری بھلائی ہے"۔ تلخی سے کہتے ہوئے وہ اب سیاہ شال اس کے وجود کے گرد لپیٹنے لگا۔

الوینا اب کی بار کچھ نہ بولی۔


سیاہ ٹراؤزر شرٹ پر سیاہ لیدر جیکٹ پہنے وہ زمین پر اس کے ساتھ ہی بیٹھا تھا۔

آہستہ آہستہ اپنے حواس کھوتی الوینا کا کمزور وجود کئی حد تک قیصر کے مضبوط سینے پر تھا۔

زرد روشنی میں الوینا کا چہرہ اس کے سامنے تھا۔

قیصر بغور اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔

ہونٹ کنارے سے نکلنے والی خون کی دھار وہی جم چکی تھی۔

گال پر انگلیوں کے نشان ثبت تھے۔

ہونٹ جامنی پڑ رہے تھے۔

چہرے پر آنسوؤں کی خشک لکیریں تھیں۔

"اٹھنے کی کوشش کرو لڑکی"۔ اس نے اس کا گال تھپتھپایا۔

"ایسے۔۔۔کیوں ہو۔۔تم"۔ اس کی بند پلکوں پر آنسو چمک رہے تھے۔ ٹوٹے پھوٹے لہجے میں وہ بے ربط جملے بول رہی تھی۔

اس کے جیکٹ کا گریبان اس نے سختی سے پکڑ رکھا تھا۔

وہ یقیناً حواسوں میں نہ تھی۔

"اچھی مصیبت گلے پڑی ہے میرے۔ الوینا اٹھو۔۔۔آنکھیں کھولو"۔ وہ ایک بار پھر کوشش کرنے لگا۔

اس کی آنکھیں اب مکمل بند ہو چکی تھیں۔

اس نے اس کی نبض چیک کیں جو بالکل سست روی سے چل رہی تھی۔

وہ مایوس ہو کر اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔

پھر کسی نتیجے پر پہنچ کر جھٹکے سے اسے بازوؤں میں اٹھا لیا۔

"ہونہہ، نفرت کرنے والوں کی حالت دیکھے کوئی"۔ اس کی بند آنکھوں کو دیکھتے ہوئے طنزیہ کہا۔

اس ہلکے سے وجود کو اٹھائے وہ کھلے دروازے سے باہر نکل گیا۔

جلد از جلد اسے طبعی امداد دینا ضروری تھا۔

کیونکہ فلحال قیصر کیلئے اس لڑکی کی زندگی ہر چیز سے زیادہ اہم تھی۔

اپنے کمرے میں پہنچ کر اس نے الوینا کو بیڈ پر ڈال دیا۔

اور بلینکٹ اس پر پھیلانے لگا۔

لیمپ کی سفید روشنی میں اس کا نحیف سا چہرہ واضح ہو رہا تھا۔

سردی اس کے اندر سرایت کر چکی تھی۔ اس کے ہونٹ نیلے جبکہ چہرہ خطرناک حد تک زرد پڑ رہا تھا۔


بلیکنٹ اس پر پھیلانے کے بعد اس نے پاس پڑا موبائل اٹھایا اور جلدی جلدی نمبر پش کرنے لگا۔


پانچ منٹ مسلسل کوشش کرنے کے بعد دوسری جانب سے کال اٹھا لی گئی۔


"ہیلو۔۔ہاں اعظم میری بات دھیان سے سنو اشرف (گن مین) اپنے کوارٹر میں ہوگا اس کو جا کر بلاؤ اور اس سے کہو کے اپنی بیوی کو ساتھ لے کر آئے۔ جلدی، ایک ایمرجنسی ہے"۔ موبائل کان سے لگائے وہ جلدی جلدی ہدایات دے رہا تھا۔


"کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے؟ پولیس کی ریڈ پڑ گئی ہے کیا؟"۔ وہ شاید نیند میں تھا۔


قیصر کو جی بھر کر اس پہ غصہ آیا۔

"شکل اچھی نہ ہو تو کم از کم بات اور سوچ تو ڈھنگ کی رکھا کرو۔ الوینا بےہوش ہے۔ اسے فرسٹ ایڈ کی ضرورت ہے"۔ چبا چبا کر کہا۔

اعظم کا دماغ بھک سے اڑ گیا۔

"کیا؟ پر ہوا کیا ہے اسے؟ کل تک تو چنگی بھلی تھی؟ یوں اچانک؟"۔ وہ حیرانگی سے پوچھنے لگا۔

قیصر اس کے سوالات پر کلس کر رہ گیا۔

"میں بعد میں تمہیں فرصت سے انٹرویو دے دوں گا جگر ابھی جو کہا ہے وہ کرو جلدی سے۔ اشرف کو لے کر میرے روم میں پہنچو"۔ بڑی مشکل سے غصہ ضبط کرتے ہوئے وہ بولا۔

"ٹھیک ہے ابھی آتا ہوں باس۔ تم پریشان مت ہو"۔ اس نے جلدی سے جواب دے کر کال کاٹی۔

ایک مرتبہ پھر قیصر کی نگاہیں اس کے چہرے پر آ ٹھہریں۔

لب بھینچ کر وہ بغور چند لمحے اسے یونہی دیکھتا رہا۔

پھر موبائل ایک طرف رکھ کے اس کے پاس بیٹھتے اس نے الوینا کا یخ بستہ ہاتھ اپنے پرحدت ہاتھوں میں تھام لیا

اور متفکر نگاہیں اب بھی الوینا کے چہرے پر ہی جمائے رکھیں۔

"بالکل اپنے باپ پہ گئی ہے یہ۔ وہ بھی میرا دشمن تھا تو اس نے سوچا کے یہ کیوں قیصر خیام سے دشمنی میں پیچھے رہے؟"۔ دل ہی دل میں تلخی سے سوچا۔

وہ باری باری اس کے دونوں ہاتھوں کو یونہی حرارت پہنچانے کی کوشش کر رہا تھا۔

دس منٹ بعد ہی اعظم اشرف اور ایک عورت کو لیئے اس کے کمرے میں آن وارد ہوا۔

"باس کیسی کنڈیشن ہے اب اس کی؟"۔ اعظم اس کے سر پر پہنچ چکا تھا۔

قیصر نے اس کی طرف متوجہ ہوتے ہی آہستگی سے الوینا کا ہاتھ چھوڑ دیا پھر اس کے پاس سے اٹھ کھڑا ہوا۔

"تمہارے سامنے ہی ہے۔ ٹریٹمنٹ دو اسے جلدی"۔ اعظم سے کہتے ہوئے وہ اب اشرف کے برابر کھڑی اس کی بیوی سے مخاطب ہوا۔

جس پر وہ سر ہلا کر آگے بڑھی اور الوینا کے پاس آ بیٹھی۔

اور اب اس کا نبض تھامے چیک کرنے لگی۔

"اٹس آ کیس آف ہائپوتارمیا۔ ان کا باڈی ٹمپریچر معمول سے ہٹ کر خطرناک حد تک کم ہو گیا ہے۔ میڈیکل علاج تو فلحال یہاں ممکن نہیں اور اتنی ٹھنڈ میں انہیں میرے کلینک بھی نہیں لے جایا جا سکتا۔ اس لیئے مجھے جلدی سے گرم پانی ٹاول، گرم مشروبات اور ان کیلئے کچھ گرم کپڑے دے دیں یہ لباس تبدیل کرنا ہوگا۔ بلینکٹ ایک دو اور لے آئیں جلد سے جلد انہیں حرارت پہنچانا ضروری ہے ورنہ ان کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے"۔ وہ فکرمندی سے جلدی جلدی کہہ رہی تھی۔

پیشے سے وہ ایک ڈاکٹر تھی۔

اس کی بات سن کر قیصر کے چہرے پر پہلی بار تفکر کی لکیریں نمودار ہوئیں۔

اعظم بھی پریشان ہو گیا۔


"ہاں میں یہ چیزیں لے کر آتا ہوں"۔ جلدی سے جواب دے کر وہ حرکت میں آ گیا۔


"علاج تو ہو جائے گا نا؟"۔ اشرف نے خوفزدہ نگاہیں قیصر کی پشت پر گڑائے آہستگی سے اپنی بیوی کے کان میں کہا۔


کیونکہ قیصر کے چہرے پر اس قدر پریشانی کسی کیلئے وہ پہلی بار دیکھ رہا تھا۔

جسے دیکھ کر اشرف کو اندازہ ہو گیا تھا کے سامنے بے ہوش پڑی ہستی اس کے باس کیلئے کتنی اہم ہے۔


"کوشش کر رہی ہوں میں۔ اگر فرق نہ پڑا تو مجبوراً انہیں میرے کلینک لے جانا ہوگا"۔ اس کی بیوی نے بھی دھیمے اور متفکر لہجے میں جواب دیا۔


"لگتا ہے باس کیلئے بہت اہم ہیں یہ۔ کچھ بھی کرکے ان کا علاج کرو زیبا۔ ورنہ باس کے قہر سے ہم دونوں ہی نہیں بچ پائیں گے"۔ اسے فکر لگ گئی۔


وہ جو الماری سے کپڑے نکالتا ہوا مڑا تو ان دونوں میاں بیوی کو یوں سر جوڑے دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔


"کیا باتیں چل رہی ہیں؟"۔ وہ کسی قدر سختی سے پوچھنے لگا۔


دونوں میاں بیوی گڑبڑا کر اِدھر اُدھر ہو گئے۔


"کچھ نہیں باس، میں بس اس سے کہہ رہا تھا کے ان کا اچھے سے علاج کرے"۔ نگاہیں جھکا کر اشرف نے مرے مرے لہجے میں وضاحت دی۔


جس پر قیصر اسے ایک گھوری سے نوازتے ہوئے زیبا کی جانب متوجہ ہوا۔


"فلحال اسے یہی کپڑے پہنا دو"۔ کہتے ہوئے اس نے اپنے ہاتھ میں موجود کپڑے زیبا کی جانب بڑھائے۔


جسے اس نے لے لیا۔

پھر ہچکچا کر اشرف کو دیکھا۔ جو اتنا ہی گھبرایا ہوا سا اسے دیکھ رہا تھا۔


قیصر بخوبی ان کا اشارہ سمجھ گیا۔


"چلو باہر"۔ ایک نظر اس نے الوینا پر ڈالی پھر اشرف سے کہتے ہوئے لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمرے سے باہر نکل گیا۔

اشرف نے اسے تسلی دی۔

پھر باہر نکلتے ہوئے کمرے کا دروازہ بند کر دیا۔


زیبا نے سکھ کا سانس لیا۔

اب وہ مطمئن ہو کر اس کا علاج کر سکتی تھی۔

ورنہ قیصر کے سامنے تو اس کے ہاتھ ہی کانپ رہے تھے۔ مبادا کوئی غلطی ہونے پر وہ اسے گولی سے نہ اڑا دے۔


بند دروازے کے پاس وہ پریشانی سے اِدھر اُدھر چکر کاٹ رہا تھا۔

اشرف اس کی کیفیت پر حیران تھا۔

اتنے سالوں سے وہ اسے دیکھ رہا تھا۔ اس سے واقف تھا مگر کبھی اتنا پریشان اس نے اسے نہیں دیکھا تھا۔


"باس آپ پریشان مت ہوں۔ میم ٹھیک ہو جائیں گی"۔ ہاتھ باندھے سر جھکائے اس نے تسلی آمیز لہجے میں کہا۔


قیصر اس کی بات پر رک گیا۔ اور چونک کر اسے دیکھا۔


"ہاں، مجھے پتہ ہے۔ اور میں کہاں پریشان ہوں؟"۔ ماتھے پر بل ڈالے اس کی جانب دیکھتے ہوئے وہ صاف مکر گیا۔


اشرف اس کی بات پر تو غش کھاتے کھاتے رہ گیا۔


اسی وقت زیبا نے دروازہ وا کیا۔


دونوں نے چونک کر اسے دیکھا۔

پھر وہ جلدی سے کمرے میں داخل ہو گیا۔


"کیا ہوا؟ طبیعت سنبھلی اس کی؟"۔ وہ زیبا سے پوچھنے لگا۔ نگاہیں الوینا کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔

جو اب اپنی گلابی کرتی اور نیلی جینز کے برعکس اس کے سیاہ شرٹ اور خاکی جینز میں ملبوس تھی۔

اس کی آنکھیں اب بھی ویسے ہی بند تھیں۔


اسی وقت اعظم بھی ان کے درمیان آ گیا۔

اس کے ہاتھ میں ٹرے تھی۔

جس میں سوپ اور گرم نمک ملا پانی تھا۔


"یہ مجھے دے دیجئے"۔ زیبا نے ٹرے اعظم سے لے لیا اور اب بستر پر بیٹھ کے الوینا کو تھوڑا تھوڑا کرکے نمک ملا نیم گرم پانی چمچ کی مدد سے اسے پلانے لگی۔


قیصر کا ضبط جواب دے گیا۔

"آخر تم کچھ بولتی کیوں نہیں ہو؟ اور یہ کس قسم کی ڈاکٹر ہو تم؟ ہوش کیوں نہیں آیا اسے اب تک؟ جواب دو مجھے؟"۔ یک دم خاموش کمرے میں اس کی دھاڑ گونجی تھی۔


زیبا کا چمچ والا ہاتھ کانپ کر رہ گیا۔

اعظم اور اشرف گھبرا کر اس کا منہ تکنے لگے۔


گھبرا کر اس نے سر جھکا لیا۔


"میں اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہی ہوں سر، مگر ان کا باڈی ٹمپریچر ابھی بھی کم ہے۔ میڈیسن کو رسپانڈ نہیں کر رہیں یہ جس وجہ سے انہیں ہوش نہیں آ رہا"۔ وہ جلدی سے وضاحت دینے لگی۔

"تو پھر کوئی اور طریقہ کرو۔ کچھ نہیں ہو رہا تو اسے تمہارے کلینک لے چلتے ہیں وہاں علاج کرو۔ کچھ بھی کرکے ہوش میں لاؤ اسے"۔ غصہ دباتے اس نے کہا۔

زیبا پریشانی سے اپنے شوہر کو دیکھنے لگی۔

"آرام سے یار کیا ہو گیا ہے تمہیں۔ ٹھیک ہو جائے گی وہ، علاج کر تو رہی ہے بیچاری"۔ اعظم نے اس کے کان کے قریب کہتے ہوئے شانت کرنا چاہا۔

قیصر لب بھینچ گیا۔

جبکہ زیبا گرم پانی میں تولیہ بگھو کر اس سے الوینا کی پیشانی، ہاتھ کی نسوں اور دیگر جسم کے اعضاء کو حرارت پہنچانے کی کوشش کر رہی تھی۔

ہر کوئی اپنی جگہ متفکر تھا۔

کیونکہ وہ اس لڑکی کیلئے پریشان تھا۔

مسلسل دو گھنٹوں کی جدوجہد کے بعد کہیں جا کر الوینا کے چہرے اور ہتھیلوں کا گلابی پن لوٹنے لگا تھا۔

تب کہیں جا کر زیبا کی جان میں جان آئی۔

اور چہرا پہلی بار خوشی سے کھل اٹھا۔

"خون کا درجہ حرارت معمول پر آ رہا ہے۔ اب کسی بھی وقت انہیں ہوش آ سکتا ہے"۔ اس نے سب کو اطلاع دی۔

یہ سنتے ہی اس نے پرسکون سانس لی۔

"شکر خدا کا، اب فائنلی ہم سب کو سونے کی اجازت مل سکتی ہے"۔ اعظم کی زبان سے نکلا۔

جس پر اگلے ہی پل قیصر نے اسے گھورا۔

اس نے کان پکڑ لیئے۔۔۔اور اس کے انداز پر ناچاہتے ہوئے بھی قیصر مسکرا دیا۔

"تم سب جا سکتے ہو اب، شکریہ تمہارا"۔ قیصر نے حکم دیتے ساتھ ہی زیبا کی جانب دیکھ کر کہا۔

"اعظم"۔ اسے اشارے میں سمجھایا کے ان کے کام کی قیمت دے دینا۔

جس پر اعظم نے سمجھ کر سر ہلا دیا۔

پھر اس کے ساتھ ہی وہ تینوں آگے پیچھے کمرے سے باہر نکل گئے۔

سیاہ جیکٹ اس نے اتار کر اس نے صوفے پر پھینکا۔

اور اب چلتے ہوئے وہ بیڈ پر الوینا کے پاس آ بیٹھا۔

ارد گرد سے بے نیاز اس کی سیاہ پلکیں رخسار پر سایہ فگن تھیں۔

سرمئی آنکھیں اس کے چہرے کا طواف کرتیں شنگرفی لبوں پر ٹھہر گئیں۔

ابھی کچھ گھنٹے قبل وہ لب کیسے اس سے نفرت کا برملا اظہار کر رہے تھے۔ اور اب؟


اس کی نگاہیں الوینا کے شہد رنگ بالوں میں الجھ گئیں۔

جنہیں وہ ہمیشہ سنوار کر رکھتی تھی۔ آج کیسے وہ الجھے الجھے سے لگ رہے تھے۔ بالکل ان دونوں کے درمیان موجود اس نہ سمجھ میں آنے والے تعلق کی طرح۔


"کیا قصور ہے اس کا؟"۔ اس کے اندر اچانک کسی نے سوال اٹھایا۔

وہ آواز آج بہت سالوں بعد پھر اس کے اندر بلند ہو رہی تھی۔


"اس کے باپ کی وجہ سے میں نے ایک اذیت بھرا سال جیل میں کاٹا۔ مجھے اس کا حساب برابر کرنا ہے مختار سے"۔ ہمیشہ کی طرح اس نے ڈپٹ کر اس آواز کو خاموش کروا دیا۔


صبح کے پانچ بجنے کے قریب تھے۔

جب بالآخر اس کی آنکھ لگ گئی۔

☆☆☆☆☆☆


صبح کا اجالا ہر سو پھیلنے لگا۔

برفباری کا سلسلہ تھم چکا تھا مگر سورج کی بادلوں کے ساتھ آنکھ مچولی جاری تھی۔


آنکھ کھلنے پر اسے اپنا سر درد سے پھٹتا محسوس ہوا۔

بیڈ پر تکیے کے سہارے نیم دراز ہوتے ہوئے اس نے سر ہاتھوں میں تھام لیا۔


جیسے جیسے حواس بحال ہوتے گئے اس نے خود کو ایک عالیشان کمرے کے بستر پر پایا۔

غائب دماغی سے وہ کمرے کا جائزہ لینے لگی۔


پھر یک دم اسے کل کے دن کا ایک ایک منظر یاد آتا گیا۔

اور جیسے جیسے یاد آتا گیا اس کے وجود میں نفرت کا زہر پھیلتا چلا گیا۔

"میں یہاں؟"۔ اسے اپنی وہاں موجودگی حیران کر گئی۔

زرا نظر اپنے کپڑوں پر گئی تو اس کے چودہ طبق روشن ہو گئے۔


نگاہیں بائیں جانب موڑنے پر وہ ششدر رہ گئی۔


وہ ناجانے کب سے سے وہاں موجود تھا اور اسے خبر تک نہ ہو سکی۔


سنگار میز کے سامنے کھڑا بال برش کرتے ہوئے وہ اس کی ایک ایک حرکت نوٹ کر رہا تھا۔


"امید ہے اب محترمہ کی طبیعت ٹھیک ہوگئی ہوگی۔ اور مزاج بھی"۔ اس کے عکس کو دیکھتے ہوئے اس نے سنجیدگی سے کہا۔


غصے سے الوینا کا چہرہ تمتمانے لگا۔

ایک جھٹکے سے وہ بستر سے اتری اور تیزی سے اس کی پشت پر آ کھڑی ہوئی۔


"تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی مجھے یہاں لانے کی؟ تم نے مجھے چھوا کیسے؟ اور یہ۔۔۔"۔ بے یقینی سے کھلے ڈلے سیاہ شرٹ کی جانب اشارہ کیا جو اس نے پہن رکھا تھا۔


پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ مڑا۔

پھر فاصلہ پانٹ کر اس کے مقابل آ گیا۔


"لگتا ہے پھر سے ایکشن ری-پلے کرنا پڑے گا"۔ دل جلا دینے والی مسکراہٹ چہرے پر سجائے اس نے سرگوشی کی۔


اور اس سے قبل کے وہ کچھ سخت جواب دیتی یک دم اس نے اسکے گرد حصار تنگ کرکے اپنے قریب کھینچا۔

الوینا بے دم سی ہو کر اس کی پناہوں میں آ رہی۔


"اس طرح چھوا"۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس نے کہا۔

وہ ابھی ٹھیک سے سنبھلی بھی نہ تھی کے اس نے جھک کر اسے بازوؤں پہ اٹھا لیا۔

الوینا بھونچکی رہ گئی۔


"ہمت نہیں حماقت کہو۔ تمہیں یہاں لانے کی حماقت میں نے اس طرح کی"۔ شہد رنگ آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔

الوینا کیلئے ان آنکھوں کی چمک اور چہرے کی مسکراہٹ ناقابلِ برداشت تھی۔

اس نے زور سے آنکھیں میچ کر چہرہ جھکا دیا۔


وہ اسے اٹھائے بیڈ تک آیا اور اسے وہاں پھینک دیا۔

الوینا نے پٹ سے آنکھیں کھول لیں۔

اور کھا جانے والی نظروں سے اسے گھورنے لگی۔


"اور یہ کے یہ کپڑے میرے ضرور ہیں لیکن ان کا استعمال تم پر زیبا نے کیا ہے۔ اس بیچاری سمیت ہم سب کو کل تمہاری حماقتوں کی وجہ سے ساری رات جاگ کر گزارنی پڑی"۔ اب وہ اسے ڈپٹ رہا تھا۔


الوینا کو اس کی آخری بات صحیح معنوں میں طیش دلا گئی۔


"میری وجہ سے؟ میں نے تم سے کہا تھا کے مجھے اغواء کرکے یہاں لاؤ؟ اور تو اور سردی میں مرنے کیلئے تہ خانے میں جا کر بند ہونے کی ضد بھی میں نے کی تھی تم سے؟ جنگلی وحشی انسان کاش تم میری زندگی میں آئے ہی نہ ہوتے"۔ چبا چبا کر کہتے ہوئے آخر میں وہ روہانسی ہو گئی۔


"یہ سوال تو تمہیں اپنے باپ سے کرنا چاہیئے۔ اگر وہ میری دنیا میں دخل نہ دیتا تو آج نہ میں تمہاری زندگی میں ہوتا اور نہ ہی تم میری قید میں"۔ وہ سلگتے ہوئے لہجے بولا۔


"تمہیں بہت کچھ پتہ ہوگا میرے بارے میں۔ تو پھر یہ کیوں نہیں پتہ کے میرا باپ مر چکا ہے"۔ وہ نفرت سے پھنکاری۔

قیصر چونک گیا۔

"مجھے تو لگتا تھا کے تمہاری دنیا میں واحد میں ہی ہوں جس سے تمہیں نفرت ہے۔ مگر تم نے تو اس میں بھی کسی کو میرا شراکت دار بنا دیا"۔ طنزیہ مسکراتے ہوئے اس نے افسوس کیا۔

الوینا غصے سے بل کھا کر رہ گئی۔

بولی کچھ نہیں۔

"خیر، تمہارے اور تمہارے باپ کے درمیان جو بھی مسئلے ہیں ان میں میری دلچسپی صفر ہے۔ مجھے بس اس بات سے مطلب ہے کے تم مختار کی بیٹی ہو۔ اور جب تک میں اس سے اپنے کچھ مطالبات نہ منوا لوں تب تک تم یہاں سے جانے کا خیال بھی اپنے چھوٹے سے دماغ میں مت لانا"۔ بے حسی سے کہتے ہوئے شانے اچکا دیئے۔

"تمہاری غلط فہمی ہو گئی ہے۔ جب وہ مجھے بیٹی مانتے ہی نہیں تو میرے لیئے تمہارے مطالبات بھی کیوں مانیں گے وہ؟ مجھے یہاں رکھنا بے کار ہے"۔ وہ دانت پیس کر بولی۔

قیصر اسکی بات پر دلچسپی سے مسکرا دیا۔

"کون کتنے کام کا ہے اور کتنا بے کار ہے اس کا فیصلہ تم مجھ پر چھوڑ دو"۔ اس کے انداز میں رتی بھر فرق نہ آیا۔

وہ تپ کر رہ گئی۔

"تم آرام کرو اور اس بیڈ سے یا کمرے سے باہر مت نکلنا۔

ملازمہ تمہارے لیئے ناشتہ لائے گی چپ چاپ کر لینا۔ ایک اچھی بچی کی طرح"۔ اس کا گال تھپکتے ہوئے پچکار کر کہا۔

الوینا نے اس کے ہاتھ جھٹک دیئے۔

اس کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔

مزید کچھ کہے بغیر وہ مڑ کر جانے لگا تھا جب یک قدم رکا۔

وہ چونکی۔

وہ مڑا۔

"میری بات یاد رکھنا، اس کمرے سے باہر نہیں نکلنا ہے تمہیں۔ ورنہ مجھے غصہ آ جائے گا ہنی۔ اور غصے میں آ کر میں اپنی چیزیں واپس لینے میں دیر نہیں لگاتا"۔ انگلی اٹھا کر وارننگ دیتے ہوئے ذومعنی انداز میں کہا۔

اس کا اشارہ سمجھ کر الوینا کا دماغ بھک سے اڑ گیا۔

خفت سے چہرہ سرخ پڑ گیا۔

اس کا مطلب سمجھتے ہوئے وہ جلدی سے پاس پڑے بلینکٹ میں چھپ گئی۔

قیصر کے لبوں پر امڈ آئی مسکراہٹ بے ساختہ تھی۔

پھر اسے مزید زچ کرنے کا ارادہ ترک کرکے وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔

اس کے جاتے ہی الوینا نے پرسکون سانس فضا کے سپرد کی۔

"آوارہ کہیں کا"۔ وہ جل کر خاک ہو گئی۔

اپنے کمرے میں موجود وہ پچھلے ایک گھنٹے سے اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر اضطرابی کیفیت میں چکر کاٹتے درپیش مسئلے پر غور کر رہے تھے۔

مگر ذہن اتنا پریشان تھا کے کچھ سجھائی نہ دیتا تھا۔


تھک ہار کر وہ بیٹھ جاتے۔ اور بے چینی بڑھنے پر پھر سے اٹھ کر ٹہلنے لگتے۔


غفور کی آنکھیں ٹک ٹک کرتی گھڑی کی سوئیوں کی طرح ان کے ساتھ ساتھ چل رہی تھیں۔

آخرکار تنگ آ کر اس نے مداخلت کی۔


"سرکار، بیٹھ جائیے۔ بیٹھ کر مسئلے پر غور و فکر کیجئے۔ اس طرح تو آپ کے پاؤں شل ہو جائیں گے، اور آپ گھٹنوں کے مریض بن جائیں گے"۔ اس نے فکرمندی دکھائی۔

جس پر اگلے ہی پل وہ پچھتایا۔


علی مرزا نے ایک تیز نظر اس پر ڈالی جس پر گڑبڑا کر وہ سر جھکا گیا۔

"میں یہاں پریشانی سے دوچار ہوں اور تمہیں مذاق سوجھ رہا ہے کمبخت"۔ وہ دھاڑے۔


"معافی سرکار، لیکن ایک بات میں عرض کرنا چاہوں گا اگر حضور اجازت دیں تو؟"۔ اس نے عاجزی سے کہا۔


علی مرزا تھک کر کرسی پر ٹک گئے۔


"بولو"۔ انہوں نے خشک لہجے میں اجازت دی۔


جس پر وہ رازداری سے کہنے لگا۔

"یہ قیصر ضرورت سے زیادہ شاطر معلوم ہوتا ہے۔ میں نے تو آپ سے پہلے ہی کہا تھا کے اس سے الوینا بی بی کا ذکر مت کیجئے گا۔ اب پڑ گئے نا لینے کے دینے"۔ وہ اپنی ہی رو میں کہتا جا رہا تھا جب محسوس ہوا کے وہ کھا جانے والی نظروں سے اسے گھور رہے ہیں، جبھی وہ سنبھل کر کھنکھارا۔


"جی تو سرکار میں یہ عرض کر رہا تھا کے جو ہو گیا سو ہو گیا، اب اس میں آپ کر بھی کیا سکتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی آپ کی الوینا بی بی کیلئے فکر مجھے سمجھ میں نہیں آتی۔ اتنی فکر تو آپ لندن میں پڑھ رہے اپنے بیٹوں کی بھی نہیں کرتے ہیں جتنی ان کی۔ یہ بات میری طبیعت کو کچھ جمتی نہیں ہے"۔ سوچ سوچ کر کہتے ہوئے وہ گویا ان سے اگلوانا چاہ رہا تھا۔


علی نے گہری سانس بھری۔

"وہ میری اکلوتی لاڈلی بہن کی نشانی ہے غفور۔ جو مجھے بہت عزیز تھی"۔ وہ کھوئے کھوئے سے لہجے میں بولے۔


غفور جو آنکھیں چھوٹی کیئے بغور ان کے چہرے کے اتار چڑھاؤ نوٹ کر رہا تھا، ان کے خاموش ہونے پر جلدی سے پوچھا۔


"کیا صرف یہی وجہ ہے؟"۔ وہ ٹٹولنے لگا انہیں۔


علی چونک کر اس کی جانب دیکھنے لگے۔ پھر ایک پراسرار مسکراہٹ نے ان کے چہرے کا احاطہ کیا۔


"تم بہت اچھی طرح جانتے ہو مجھے غفور۔ تو تمہیں یہ بھی پتہ ہونا چاہیئے کے علی مرزا اپنے مطلب کے علاوہ کسی کو عزیز نہیں رکھتا۔ الوینا میری اپنی ضرور ہے۔ لیکن اس کے علاوہ وہ ایک ایسی چابی ہے جس سے مختار انصاری نام کا ایک بڑے کام کا کھلونا حرکت کرتا ہے"۔ بے حسی سے کہتے ہوئے ان کے چہرے پر اس وقت مخصوص مکروہ مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔


غفور کے ذہن میں جھماکا ہوا۔

"اوہ تو اب مجھے سمجھ میں آیا کے اس نے آپ کے کہنے پر قیصر کو جیل سے بھاگنے میں مدد کیوں کی۔ کیونکہ آپ نے۔۔۔۔"۔

وہ جوش سے بول رہا تھا جب علی مرزا نے اس کی بات بیچ میں ہی قطع کی۔


"کیونکہ میں نے اس سے کہا تھا کے الوینا اور عائشہ کا پتہ اسے دوں گا۔ اگر وہ میری یہ شرط پوری کرے گا۔ اور اس کے اندر کا بے وقوف باپ اس بات کیلئے مان بھی گیا۔ مگر میں اتنا بے وقوف تھوڑی تھا جو اسے پتہ دے دیتا"۔ وہ قدرے افسوس سے بولے۔

غفور بھی ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگا۔


"مان گئے سرکار آپ کے دماغ کو"۔ وہ داد دیئے بنا نہ رہ سکا۔


علی اثبات پر مسکرائے۔


"لیکن اب تو الوینا بی بی قیصر کے پاس ہے۔ اس وقت تو مختار اس کی مٹھی میں ہوگا"۔ غفور نے افسوس کیا۔


علی مرزا کی مسکراہٹ سمٹی۔


"یہی تو میں نہیں چاہتا۔ الوینا کو اپنی نگاہوں کے سامنے رکھتا ہی اس لیے تھا کے مختار سے جو چاہے کروا سکتا تھا اس طرح۔ مگر اس قیصر خیام نے سارا پلان الٹ دیا۔ لیکن وہ بھی کسی بھول میں نہ رہے۔

زخمی ناگ اور بھی خطرناک ہو جاتا ہے غفور۔ اور میں اسے ایسی جگہ سے ڈسوں گا جہاں سے اس نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ بس صحیح وقت کا انتظار کرنا ہے مجھے"۔ وہ کسی سوچ کے تحت کہہ رہے تھے۔

اور غفور سوچنے لگا کے اب ان کے شیطانی دماغ میں کیا سمایا ہوگا۔

☆☆☆☆☆☆

وہ کیفیٹیریا میں بیٹھی اداس سی تھی۔

اس کی ٹیبل خالی تھی۔ اس نے اب تک کچھ بھی نہ منگوایا تھا۔

الوینا کو غائب ہوئے دو دن ہو گئے تھے۔

مگر تاحال پولیس اس کا کچھ پتہ نہ چلا سکی تھی۔

کیفیٹیریا میں، کلاس میں، ہاسٹل کے اپنے اور اس کے مشترکہ کمرے میں اسے وہ ہر جگہ بے طرح یاد آتی تھی۔

ایسا نہ تھا کے الوینا کے علاوہ اس کے اور دوست نہ تھے۔ مگر غزل کو اس کی جگہ کوئی اور بھاتا ہی نہ تھا۔

وہ اپنی ہر چھوٹی بڑی باتیں اس سے بانٹتی تھی۔ مگر آج وہ نہ تھی تو وہ ہر چیز سے خفا الگ تھلگ ٹیبل پر سر جھکائے بیٹھی تھی۔

یک دم اسے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔

نگاہیں اٹھانے پر اس نے اپنے سامنے ہارون کو پایا۔

سفید ٹی-شرٹ پر نیلے رنگ کی جیکٹ اور نیلی جینز میں ملبوس وہ اپنے یونیفارم کے برعکس تھا۔

اسے دیکھ کر وہ ششدر سی رہ گئی۔

"آپ۔۔۔یہاں؟ کیا الوینا کی کوئی خبر ہے؟"۔ اس نے امید بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

ہارون نے بغور اسے دیکھا جس کی بھوری آنکھوں میں بھی وہی سوال تھا۔

کھلتی گندمی رنگت میں اداسی سرخی بن کر گھل رہی تھی۔

سیاہ بالوں کی پونی ٹیل اس کے بائیں کندھے پر بکھر رہی تھی۔ اور کئی لٹیں اس کے رخسار چھو رہی تھیں۔

اسے اس کی مخلصی اچھی لگی تھی۔

" فکر مت کرو اللہ نے چاہا تو وہ بہت جلد ہمارے پاس ہوگی"۔ اس نے پریقین لہجے میں کہتے ہوئے اسے تسلی دی۔

غزل مایوس سی ہو گئی۔

"یہ بات تو آپ روزِ اول سے کہہ رہے ہیں تو کیا اب تک اسے ڈھونڈنے کے مشن میں آپ کو یا آپ کی فورس کو اب تک کوئی پروگریس نہیں ملی ہے؟"۔ اس نے شکایتی انداز میں کہا۔


ہارون نے لب بھینچ کر سر جھکا دیا۔

اس کی انگلیاں میز کے نیچے موبائل اسکرین پر تیزی سے تھرکتی پیغام لکھ رہی تھیں۔

جسے مکمل لکھنے کے بعد اس نے دو منٹ بعد کیلئے شیڈول کر دیا۔


اب وہ اسے کیا بتاتا کے قیصر خیام الوینا کو لے کر انڈر گراؤنڈ ہو چکا تھا۔ اور انڈر ورلڈ کے باس کا خفیہ ٹھکانا ڈھونڈنا یا اسے بل سے باہر نکالنا بھلا اتنا آسان کب ہوتا تھا۔

اس کام میں تو مخبروں اور پولیس فورسز کے سالہا سال کی محنت لگتی تھی۔

جو وہ لوگ بھی کر ہی رہے تھے۔


"اچھا یہ سب چھوڑو۔ میں سوچ رہا ہوں آج اپنی طرف سے تمہیں ٹریٹ دوں۔ بولو کیا کھانا پسند کروگی؟"۔ ہلکے پھلکے انداز میں کہہ کر اس نے موضوع بدلا۔


غزل اس کی بات پر ہکا بکا رہ گئی۔

اس سے قبل کے وہ کوئی جواب دیتی پاس پڑے موبائل پر میسج ٹون بجی۔

وہ چونکی۔


"چلو ٹھیک ہے میں اپنی طرف سے کچھ بھی لے کر آ جاتا ہوں۔ جو تمہیں کھانا ہی پڑے گا"۔ اپنی بات پر زور دیتے ہوئے وہ کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔


جبکہ غزل کی نگاہیں موبائل اسکرین پر جھکیں اس کا پیغام پڑھ رہی تھیں۔

" اس قسم کی باتیں یہاں ڈسکس مت کرو لڑکی، اگر میں پکڑا گیا اور مشن فیل ہو گیا تو میرے سینیئرز مجھے پانچ سال کیلئے معطل کر دیں گے"۔ اس کا پیغام پڑھ کر بمشکل غزل نے اپنی مسکراہٹ دبائی۔

میسج ڈیلیٹ کرکے اس نے موبائل بیگ میں ڈال دیا۔


تب تک ہارون واپس میز پر آ چکا تھا۔

وہ سر جھکائے خاموش رہی۔


"امید ہے آپ مجھے سمجھیں گی"۔ اس کے سامنے ناشتے سے بھری پلیٹ رکھتے ہوئے اس نے سرسری انداز سے کہا۔


غزل کھنکھاری۔

پھر کچھ کہے بغیر ہی صرف اثبات میں سر ہلانے پر اکتفا کیا۔


"گڈ"۔ ہارون دلچسپی سے مسکرایا۔

☆☆☆☆☆☆


صبح سے دوپہر اور اب سہ پہر ہو گئی تھی۔

وہ ایک ہی کمرے میں جلے پیر کی بلی کی طرح چکر کاٹ کاٹ کے صرف تھک ہی نہیں بلکہ پک بھی چکی تھی۔


کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔

مگر پھر بھی خود میں اتنی ہمت نہ پاتی تھی وہ کے کمرے سے باہر قدم بھی نکالتی۔


غصے سے کمرے میں ٹہلتی ہوئی وہ سنگار میز کے سامنے آئی۔

اس کی شرٹ اتنی ڈھیلی ڈھالی تھی کے بار بار شانے سے ڈھلک جاتی۔

الوینا ٹھیک کر کر کے تھک چکی تھی۔

"سمجھتا کیا ہے وہ خود کو۔ میں کوئی اس کی ملازمہ یا باندی نہیں ہوں جو وہ مجھے حکم دیتا پھرے گا۔ میں جاؤں گی۔۔جاؤں گی۔۔۔ضرور جاؤں گی باہر"۔ آئینے میں اپنے عکس کو دیکھ کر جلے بھنے انداز میں کہتے وہ ایک بار پھر کمرے کے دروازے تک آئی اور جھانک کر ارد گرد کا جائزہ لینے لگی۔


آس پاس کوئی بھی نظر نہ آ رہا تھا۔

اس نے سکھ کا سانس لیا اور آہستگی سے قدم چوکھٹ سے باہر دھرے۔

اطراف میں دیکھتی وہ دبے قدموں چلتی ہوئی دوسری منزل کے گول زینے اترنے لگی۔

پھر پہلی منزل کے۔

اور اب گراؤنڈ فلور کے سیاہ ماربل پر ننگے پیر اِدھر اُدھر گھومتی ہوئی وہ باہر نکلنے کا راستہ تلاش کر رہی تھی۔

اور بالآخر مین دروازے تک آئی۔

ناب پر ہاتھ رکھ کے گھمایا تو شہد رنگ آنکھیں خوشی سی چمک اٹھیں۔


"ہونہہ، بہت شاطر سمجھتا ہے خود کو۔ ایک بھی سیکورٹی یا ملازم تو ہے نہیں آس پاس۔ اور سارے دروازے بھی کھلے چھوڑ کر گیا ہے"۔ قیصر کی عقل پر فاتحہ پڑھتی آہستگی سے مین دروازہ کھول کر ارد گرد جھانکا۔

کوئی بھی نہ تھا۔

ایک سرد ہوا کا جھونکا اسے کپکپا کر رکھ گیا۔

تاحد نگاہ پھیلے پہاڑیوں نے برف کی سفید چادر اوڑھ رکھی تھی۔

لمحہ بھر کو تو وہ منظر دیکھ کر الوینا سحرزدہ سی رہ گئی۔


پھر سر جھٹک کر اپنی منزل پر فوکس کرنے لگی۔

فاتحانہ انداز میں آگے بڑھتی ہوئی وہ روش پر چلنے لگی۔

سامنے ہی مضبوط دھات کا بنا سفید گیٹ تھا۔

الوینا ابھی آگے بڑھ ہی رہی تھی کے یک قدم سے اسے سفید گیٹ کھلتا نظر آیا۔

اس کی سانس رک گئی۔

اگلے ہی پل اس کی گاڑی گیٹ سے اندر داخل ہوتی نظر آ رہی تھی۔


اس شخص کا خوف اتنا تھا کے الوینا کو چھپنے یا بھاگنے کا بھی ہوش نہ رہا۔

روش پر گاڑی رکی۔

اور اس کا دروازہ کھول کر اگلے ہی پل قیصر خیام کا غیض و غضب سے سرخ پڑتا چہرہ سامنے تھا۔


اسے اپنی طرف آتے دیکھ کر الوینا نے تھوک نگلا۔

پلکیں جھپکے بغیر وہ اسے دیکھتی ایک ایک قدم پیچھے ہٹ رہی تھی۔

اس کے ہر چھوٹے قدم کے جواب میں لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہ اور تیزی سے چلتے ہوئے اس کے نزدیک پہنچ رہا تھا۔


الوینا کا دماغ کلک ہوا۔

"الوینا نہیں"۔ وہ اس کا ارادہ بھانپ چکا تھا۔


اب بس تین قدم کا فاصلہ تھا۔

ایک دم سے اس کے اطراف سے نکل کر اس نے گیٹ کی جانب سرپٹ دوڑ لگا دی۔

"الوینا رکو"۔ ایک لمحے کی بھی تاخیر کے بغیر وہ اس کے پیچھے لپکتے ہوئے چیخا۔

مگر وہ سنے بغیر دوڑتی ہوئی گیٹ کی طرف جا رہی تھی۔

بنگلے پر پہرا دیتے گارڈز کو لگا شاید کوئی خطرہ ہے۔

قیصر کو لڑکی کے پیچھے اس طرح بھاگتے دیکھ کر وہ چوکنا ہو گئے۔

"گیٹ کے باہر تعینات رہو۔ ابھی ایک لڑکی باہر آئے گی۔ گنز کا رخ گیٹ کی طرف رکھنا۔ اشارہ پاتے ہی فائر شروع کر دینا"۔ ایک سیکورٹی گارڈ نے اپنے کان میں فٹ آلے کے ذریعے باقی ساتھیوں کو خبردار کر دیا۔

سیکنڈز سے بھی کم وقفے میں دس افراد کی نفری نے گیٹ کو بلاک کرکے بندوق کا رخ گیٹ کی جانب کر دیا۔

دوسری جانب وہ بس کچھ ہی قدم دور تھی گیٹ سے۔

"الوینا میں نے کہا رک جاؤ"۔ قیصر کو شدت سے خطرے کا احساس ہوا۔

وہ ہنوز اس کے پیچھے دوڑ رہا تھا۔

الوینا نے سنے بغیر گیٹ وا کرنے کو ہاتھ بڑھایا اور اسے کھولنا ہی چاہتی تھی۔

"فائر"۔ سیکیورٹی اہلکار ایئر پیس میں چیخا۔

گیٹ وا ہوا قیصر نے باقی کا فاصلہ بھاگنے کے بجائے ایک ہی جست لگا کر پورا کیا اور گیٹ کے سامنے آنے سے قبل ہی الوینا کو حصار میں لیے وہ گیٹ سے اندر کی جانب ایک طرف کو گر گیا۔

سیکنڈز کا کھیل تھا۔

بندوقوں کا منہ کھول دیا گیا تھا۔ فائرنگ کی آواز کانوں کے پردے پھاڑ رہی تھی۔

قیصر الوینا کو حصار میں لیے زمین پر ایک طرف کو گرا ہوا تھا۔

خوف سے الوینا کا خون خشک ہو چکا تھا۔

ان آوازوں سے بچنے کیلئے وہ اس کے وجود میں پناہ

ڈھونڈتی اسکے کشادہ سینے میں منہ چھپائے شدت سے رو پڑی تھی۔

الوینا اس کے سینے میں منہ چھپائے رونے کا شغل جاری رکھے ہوئے تھی۔

اس کے آنسو قیصر کی شرٹ میں جذب ہوتے جا رہے تھے۔


جبکہ اس نے سختی سے مٹھیاں بھینچ رکھی تھیں۔

چہرہ غیض و غضب سے سرخ پڑ گیا تھا۔

سرمئی آنکھوں سے شعلے لپک رہے تھے۔


محافظوں کو جب صورتحال کا ادراک ہوا تو انہوں نے فائرنگ کا سلسلہ روک دیا۔

اور اب کسی قدر حیران پریشان نظر آ رہے تھے۔


یک دم وہ غصے سے دھاڑا۔

"اب رو کر کیا ثابت کرنا چاہتی ہو۔ اِدھر دیکھو میری جانب"۔ اپنے گریبان سے چمٹی الوینا کو اس نے جھٹکے سے اپنے سامنے کیا۔

اس کا آنسوؤں سے تر چہرہ قیصر کی نگاہوں کے سامنے آ گیا۔

قیصر کی گرفت اب بھی اسکے گرد موجود تھی۔

الوینا سکتہ زدہ سی اسے دیکھ رہی تھی۔


"میں نے تم سے کہا تھا بھاگنے کو؟ میں نے کہا تھا کے کمرے سے باہر نکلو؟ آگ سے کھیلنے کی کوشش کروگی تو اس کے شعلے لپک کر تمہارا دامن ضرور جلائیں گے۔ جب روک رہا تھا تو رکی کیوں نہیں؟"۔ سلگتے ہوئے لہجے میں وہ کہہ رہا تھا۔

اس کے یوں چلانے پر الوینا کے رونے میں مزید شدت آ گئی۔


کوفت سے قیصر کا برا حال ہو گیا۔

جب بے ارادہ ہی نظر اس کے ریشم سے وجود میں الجھ گئی۔

وہ چونکا۔


الوینا کے شانے سے گول گلے والی سیاہ شرٹ ایک مرتبہ پھر نیچے سرک چکی تھی۔ جبکہ خود سے انجان اس نے قیصر کے مضبوط بازوؤں کو تھام رکھا تھا۔

لب بھینچ کر بمشکل نگاہیں چراتے ہوئے اپنا سفید کوٹ اتار کر اس کے وجود کے گرد پھیلا دیا۔

جس میں وہ مکمل طور پر چھپ گئی۔


اور آنسو روک کر بے یقینی سے اسے دیکھنے لگی۔

جبکہ وہ اس کی جانب نہیں دیکھ رہا تھا۔


"اٹھو اب یہاں سے"۔ اب کی بار لہجے سے سختی مفقود تھی۔سہارا دے کر اسے زمین سے اٹھایا۔


فائرنگ کا شور سن کر سبھی ملازمین گھر سے باہر نکل آئے تھے۔

اور اب قیصر کو اس طرح دیکھ کر اعظم سمیت وہ سبھی اس کی جانب دوڑتے ہوئے آ گئے۔

گارڈز بھی مرے مرے قدموں سے اس کے قریب پہنچے۔


"یہ سب کیا ہے قیصر؟ تم ٹھیک تو ہو؟"۔ اعظم فکرمندی سے اس کی جانب بڑھا۔


اس نے سر کو جنبش دے کر اثبات کا جواب دیا۔

جس پر اعظم نے پرسکون سانس خارج کی۔


الوینا بری طرح ڈری ہوئی تھی۔

لاشعوری طور پر وہ اب بھی قیصر کے مضبوط سینے سے چمٹی ہوئی تھی۔

جیسے اسے یقین تھا کے وہ فولاد کا بنا وجود اسے پناہ دے گا۔


"لے کر جاؤ اسے اندر"۔ محافظوں پر ایک تیز نظر ڈال کر اس نے سر جھکائے کھڑی ملازمہ سے کہا۔


"جی سرکار"۔ حکم بجا لاتے ہوئے وہ فوراً آگے بڑھی۔

قیصر نے الوینا کو اس کے حوالے کر دیا۔

اس کی جانب دیکھتی ہوئی ملازمہ کے سہارے وہ آہستگی سے گھر کی جانب واپس بڑھ گئی۔


تب وہ پاس کھڑے ان دس محافظوں کی جانب متوجہ ہوا۔

اعظم کو اس کی آنکھوں میں خون اترتا واضح محسوس ہو رہا تھا۔

مگر اس کی اتنی ہمت نہ تھی کے وہ مداخلت کرتا۔


"کس نے کہا تھا گولیاں چلانے کو؟"۔ دبے دبے لفظوں میں وہ غراتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔


جبکہ ان سب کی گردنیں نیچے جھکی تھیں، نگاہیں زمین میں گڑی تھیں۔


"اف۔۔۔۔افتخار۔۔۔ب۔۔بھائی نے"۔ ان میں سے ایک نے لڑکھڑاتے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔

اور اگلے ہی پل قیصر کی خونخوار نظروں نے افتخار کے چہرے کا احاطہ کیا۔


اس کی نگاہوں سے افتخار خائف ہوا۔

جبکہ وہ آگے بڑھا اور اس کا گریبان پکڑ کر اپنے مقابل کھینچا۔


"کس کی اجازت لے کر تم نے گولیاں چلوائیں؟ جواب دو"۔ اس کے چہرے پر نگاہیں گڑائے وہ پوری قوت سے چیخا۔

جس پر افتخار کی ٹانگیں کانپ گئیں۔

وہ اس کی طرف دیکھنے سے گریز برت رہا تھا۔


"کچھ پوچھا ہے میں نے تم سے جواب دو مجھے جواب چاہیئے"۔ وہ بری طرح اسے جھنجھوڑنے لگا۔


"اسے یوں بھاگتے۔۔۔دیکھ کر مجھے خطرہ محسوس ہوا آپ کیلئے۔۔۔تو میں نے۔۔"۔ خوف کے مارے اس سے وضاحت بھی نہیں دی جا رہی تھی۔


"جانتے بھی ہو وہ کتنی اہم ہے؟ وہ کیا ہے قیصر خیام کیلئے اس کا ادراک بھی ہے کچھ تمہیں؟"۔ وہ دھاڑا۔


افتخار کی رنگت متغیر ہوئی۔

"مجھ سے۔۔۔غلطی ہو گئی باس۔۔۔مع۔۔۔معاف کر دیں"۔ اس نے ہاتھ جوڑ دیئے۔


قیصر کے چہرے پر تلخ مسکراہٹ پھیل گئی۔


"انڈر ورلڈ کی دنیا کا اصول ہے افتخار، اول تو غلطی کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ لیکن اگر غلطی سرزد ہو بھی گئی تو اس کی سزا ہوتی ہے۔۔۔معافی نہیں"۔ وہ سفاک ہوا۔


افتخار نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔

کیونکہ وہ جانتا تھا کے اس کی سزا اب کیا ہونی ہے۔

پھر بھی وہ قیصر کے پیروں میں گر گیا۔


"مجھے معاف کر دیجئے باس، غلطی کرنے کی میری حیثیت کہاں۔ میں تو بس آپ کا حکم پورا کر رہا تھا کے جو بھی انجان وجود بنگلے کے باہر یا اندر نظر آئے اسے اسی وقت گولی مار دو۔ میں نہیں جانتا تھا کے وہ کون ہیں اس لیئے یہ سب۔۔۔"۔ اس کے حلق میں اٹکے آنسوؤں کے گولے نے اسے بات مکمل کرنے نہ دی۔


قیصر نے ایک جھٹکے سے اپنے پیر اس سے آزاد کروائے۔

"تمہاری غلطی کی وجہ سے ایک بھی گولی اگر الوینا کو لگ جاتی تو قیصر خیام آج یہاں حشر اٹھا دیتا۔ مگر چونکہ وہ ٹھیک ہے درست ہے تو میں سوچ رہا ہوں کے تم سب کو معاف کر دوں"۔ اپنے پیروں میں گرے افتخار کو دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔


اس کی یہ بات سن کر افتخار کے ساتھ ساتھ باقی لوگوں کا چہرہ بھی خوشی سے کھل اٹھا۔


"تھینک یو باس، تھینک یو"۔ وہ خوشی اور جوش سے کہنے لگا۔


جبکہ قیصر اس کی بات میں سر ہلا کر ایک مسکراہٹ اس کی طرف اچھالنے کے بعد وہ مڑا۔


"اعظم"۔ سر کو جنبش دے کر اس نے ایک لفظ میں بہت کچھ سمجھا دیا۔


اعظم نے لب بھینچ کر اثبات میں سر ہلا دیا۔

مزید کچھ کہے بغیر گھر کے اندر کی جانب قدم بڑھانے لگا۔


وہ آگے بڑھا اور افتخار کے ہاتھ میں موجود ریپیٹر چھین کر اس کا منہ کھول دیا۔ اور چند سیکنڈز میں ان گیارہ لوگوں کو گولیوں سے بھونتے ہوئے موت کی نیند سلا دیا۔


پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے۔۔مڑے بغیر اس کے قدم بنگلے کی طرف بڑھتے رہے۔

☆☆☆☆☆☆


وہ اپنے کمرے میں داخل ہوا۔

ملازمہ جو الوینا کو خوف سے نکالنے کیلئے اسے کمپنی دے رہی تھی، قیصر کا اشارہ پا کر وہاں سے اٹھنے لگی۔


کے تبھی الوینا نے درمیانی عمر کی ملازمہ کو جانے سے روک لیا۔ اور اس شخص کے متوقع ردعمل سے بچنے کیلئے اس کے پیچھے چھپ گئی۔


قیصر نے ایک تیز نظر ملازمہ کے پیچھے چھپے اس وجود پر ڈالی۔


"تم جاؤ یہاں سے"۔ الوینا کے چہرے کو نگاہوں میں رکھتے ہوئے اس نے ملازمہ کو حکم دیا۔

وہ گھبرائی گھبرائی سی وہاں سے بھاگ نکلی۔


اس کے پیچھے پیچھے وہ بھی کمرے سے کھسکنے لگی تھی جب اس کا بازو مضبوط گرفت میں پھنس گیا۔

الوینا کے اوسان خطا ہو گئے۔


"تم سے کس نے کہا ہے باہر جانے کو"۔ خشک لہجے میں اس سے کہا۔


"بیٹھو یہاں، اور اب اگر ایک انچ بھی ہلی یہاں سے تو میں بہت برا پیش آؤں گا"۔ انگلی اٹھا کر سخت لہجے میں کہتے اسے بازو سے پکڑ کر بیڈ پر پٹخ دیا۔

الوینا کو صحیح معنوں میں اس سے خوف محسوس ہوا۔


جبکہ وہ اب بیڈ کے پاس رکھی راکنگ چیئر پر اس کے مقابل بیٹھ گیا۔

نگاہوں کا مرکز الوینا کا چہرہ ہی رہا۔


"میں نے تم سے کہا تھا نا کے یہاں سے ایک قدم بھی باہر مت نکالنا۔ پھر کس سے پوچھ کر تم نے اس کمرے کی چوکھٹ پھلانگی؟"۔ دونوں ہاتھوں کی انگلیاں باہم ملائے وہ کڑے تیوروں سے اسے دیکھتے ہوئے سوال کر رہا تھا۔


جس پر الوینا نے زخمی نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔


"ہاں نکالا میں نے قدم باہر۔۔۔۔پھلانگی میں نے چوکھٹ۔ زبردستی ایک جیتی جاگتی لڑکی کو اپنے گھر میں قید کر دو گے تو وہ کیا باہر نکلنے کی اپنی سی کوشش بھی نہیں کرے گی؟ ہاں، گئی میں باہر اور اگر موقع ملے تو پھر سے جاؤں گی۔ اور تب تک یہ سلسلہ جاری رکھوں گی جب تک مجھے اس زندان سے باہر نکلنے میں کامیابی نہیں مل جاتی۔ میں جاؤں گی"۔ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے وہ بے خوفی سے بولی۔

لمحہ بھر کو تو قیصر لاجواب ہو گیا۔


کچھ دیر قبل تو کہاں وہ خوفزدہ سی اس کے وجود میں پناہ ڈھونڈ رہی تھی اور اب اس خوف کا اسکے چہرے پر کوئی شائبہ تک نہ تھا۔


"چیلنج کر رہی ہو مجھے؟"۔ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔


"بتا رہی ہوں کے میں تم سے قطعاً نہیں ڈرتی ہوں"۔ دوبدو جواب دیا۔


لحظہ بھر کو یونہی وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا۔

پھر یک دم اس کا بازو کھینچ کر جھٹکا دیا۔

قیصر کا پہنایا گیا جیکٹ اس کے وجود سے پھسلتا ہوا وہی رہ گیا۔

اس اچانک افتاد پر وہ بوکھلا کر اپنے پورے وزن سمیت کرسی پر بیٹھے قیصر خیام کے سینے پر آ رہی۔


وہ ششدر سی رہ گئی۔

اس سے دور ہٹنے کو پر تول رہی تھی جب قیصر نے اس کے دونوں بازو پر سختی سے گرفت کسی۔

وہ ہلنے کے قابل بھی نہ رہی۔


"یہ۔۔۔۔یہ کک۔۔۔کیا۔۔۔بدتمیزی ہے۔ چھوڑو میرا ہاتھ"۔ اسے شدید گھٹن ہونے لگی تھی۔ گھبرا کر وہ اپنا آپ اس سے چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی۔


قیصر نے اس کے حواس باختہ چہرے کو دیکھ کر مسکراہٹ ضبط کی۔


"میں نے کہا چھوڑو میرا ہاتھ"۔ وہ بری طرح مچلتی اس کی گرفت سے خود کو چھڑوانے میں ہلکان ہو رہی تھی۔

مگر اس شخص پہ اثر ہی کیا تھا۔


"کیا تمہیں کسی نے سکھایا نہیں ہے کہ حالات کے الٹے رخ پر کبھی سفر نہیں کرنی چاہیئے۔ بلکہ سچویشن کے مطابق خود کو ڈھال لینا چاہیئے۔ یہی صحیح طریقہ ہوتا ہے حالات سے لڑنے کا الوینا مختار۔ جو تمہاری طاقت کا نہیں پھر اس کے سامنے اتنی بے خوفی کا مظاہرہ بھی کیوں؟"۔ اس کی آواز سرگوشی نما تھی۔

الوینا کا حلق تک سوکھ گیا۔

اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔

"میرا ہاتھ چھوڑو"۔ خود پر قابو رکھ کر اس نے آہستگی سے کہا۔

"ایسے نہیں، بولو میں آئندہ ایسا نہیں کروں گی قیصر، مجھے معاف کر دیں۔ پلیز میرا ہاتھ چھوڑ دیں"۔ وہ اسے زچ کرنے کی گویا قسم کھا چکا تھا۔

الوینا نے بمشکل آنسوؤں پر بند باندھا۔

"میں۔۔۔ایسا نہیں کروں گی آئندہ۔ ہاتھ چھوڑیں پلیز"۔ دانت پیس کر بولی۔

"ایسے نہیں یار، تھوڑا نرمی سے کہو۔ لگنا چاہیئے کے تم درخواست کر رہی ہو مجھ سے"۔ سرمئی آنکھیں اس کے چہرے پر گڑائے وہ اب اسے گرفت میں لیئے راکنگ چیئر پر جھولتے ہوئے کہہ رہا تھا۔

ان نظروں کی تپش الوینا کو جھلسا رہی تھی۔

نگاہیں جھکائے اس کی آنکھ سے دو آنسو موتیوں کی مانند ٹوٹ کر قیصر کے سینے پر گرے۔

"مجھے پلیز معاف کر دیں قیصر، آئندہ ایسا نہیں کروں گی"۔ بےبسی بھرے لہجے میں کہتے ہوئے اس سے نگاہیں بھی نہ اٹھائی گئیں۔

قیصر نے اس کے بازوؤں پر اپنی گرفت ڈھیلی کر دی۔

اور ایک لمحہ بھی ضائع کیئے بغیر الوینا نے جلدی سے فاصلہ بڑھایا تھا۔

"امید ہے اب تم دوبارہ ایسی غلطی نہیں کروگی"۔ سختی سے کہہ کر وہ ایک جھٹکے سے کرسی پر سے اٹھا اور پلٹ کر کمرے سے جانے لگا۔

"اور تم اس قابل ہی نہیں ہو کے دروازہ لاک کیے بغیر تمہیں چھوڑا جا سکے"۔ پھنکار کر کہتے ہوئے اس نے دھڑام سے دروازہ بند کیا اور باہر سے لاک کر دیا۔

اس کے جاتے ہی الوینا کی آنکھوں میں کب کے رکے آنسوؤں کو بہنے کا راستہ مل گیا۔

وہ غلط تھی جو اس نے سوچا تھا کے وہ اس سے نفرت کر لے گی۔ تمام تر برائیوں کے باوجود بھی وہ اس کے دل کو دھڑکانے کا اختیار اپنے پاس رکھتا تھا۔

اور یہ بات الوینا کیلئے ناقابل برداشت تھی۔

اسے جلد سے جلد یہاں سے نکلنا تھا۔ ورنہ وہ اب کم از کم اس شخص کے سامنے تو قطعی کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی۔ جس نے اس کا استعمال کیا تھا۔ محض اپنے فائدے کیلئے۔

وہ فرار چاہتی تھی۔

قیصر خیام سے نہیں۔۔۔اپنے دل میں موجود اس شخص کیلئے اپنے جذبوں سے!

ڈرائینگ روم میں اس وقت موجود وہ چند مہمانوں کو نپٹا رہا تھا۔


یہ وہ لوگ تھے جن کے ساتھ ان کی دشمنی سالہا سال سے چلی آ رہی تھی۔ مگر آج اسی دشمنی کے خاتمے کیلئے قیصر نے انہیں وہاں بلوایا تھا۔


سفید شرٹ پر سیاہ کوٹ پہنے، بال جیل سے سنوارے، ہلکی بڑھی شیو میں وہ نکھرا ستھرا سا ان کے درمیان بیٹھا تھا۔

درمیان میں رکھی میز پر کھانے پینے کی اشیاء کے ڈھیر لگے پڑے تھے۔


اعظم اور قیصر سمیت بارہ افراد تھے، جو اس وقت وہاں موجود تھے۔


ہر کوئی اپنی اپنی جگہ خاموش تھا۔

جب اس خاموش کو سفید شلوار قمیض میں ملبوس ٹانگ پر ٹانگ جمائے بیٹھے ایک تند و مند شخص کی بھاری آواز نے منتشر کیا۔


"مجھے سمجھ میں نہیں آیا کے حاجی جو تمہارا باپ تھا اس کی دشمنی کو تم نے کرسی سنبھالنے کے بعد آگے بڑھانے کے بجائے ختم کرنے کیلئے ہمیں یہاں بلوایا ہے۔ سچ کہوں قیصر تو مجھے اب بھی یقین نہیں ہوتا۔ لگ رہا ہے جیسے اس سب میں بھی تمہاری کوئی چال ضرور پوشیدہ ہے۔" مخالف گینگ کے لیڈر ولید عثمان نے مشکوک نگاہوں سے قیصر کی جانب دیکھتے ہوئے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔


اس کی بات پر قیصر کے قریب بیٹھے اعظم کا خون کھول اٹھا۔ اس سے قبل کے وہ کوئی حرکت کرتا قیصر نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کے دباؤ ڈالا۔ یہ اشارہ تھا کے "پرسکون رہو"۔

ناچار وہ بھی زہر کے گھونٹ بھر کر خاموش ہو گیا۔

قیصر کے دائیں جانب بندوق تھامے کھڑا اشرف بھی الرٹ نظر آتا تھا۔


"تم نے بالکل ٹھیک کہا ولید۔ وہ باپ سے کئی زیادہ تھا میرے لیئے۔ مجھے بےحد عزیز تھا، اس کیلئے تو میں کئی بار جیل گیا، پولیس سے بھڑ گیا۔ اور وہ بھی اپنی سگی اولاد سے بڑھ کر مجھے چاہتا تھا۔ تبھی تو آج اس کے حکم کے مطابق یہ کرسی مجھے ملی ہے"۔ وہ غمگین لہجہ بنا کر بولا۔


پاس بیٹھے اعظم نے دل ہی دل میں اس کی اداکاری کو داد دی۔


ولید بغور قیصر کے چہرے کا اتار چڑھاؤ نوٹ کر رہا تھا۔


"تو اب چونکہ مجھے باس بنا ہی دیا گیا ہے تو اس لحاظ سے ہر نیا آنے والا باس اپنے اصولوں میں کچھ رد و بدل کرتا ہے۔ جو میں بھی کر رہا ہوں۔ تم سے مذاکرات کرکے۔ حاجی سے تمہاری دشمنی تھی مگر چونکہ اب وہ ہی نہیں ہے تو میں چاہتا ہوں تم اور میں اس دشمنی کو بھی ختم کر دیں"۔ جانچتی نگاہوں سے اسکی جانب دیکھتے ہوئے قیصر نے مدعا اٹھایا۔


مگر ولید سے قبل بغل میں بیٹھے دوسرے آدمی نے سخت لہجے میں کہا۔

"اس کی بات مت سنو عثمان بھائی، اس کے باپ نے ہمارے بھائی کو مروایا، خان چچا کو مروایا، اور آپ ان سے ہاتھ ملانے جا رہے ہیں؟"۔ ولید کے چھوٹے بھائی داؤد نے مخالفت کی۔


اعظم نے جیب میں موجود بندوق پر گرفت مضبوط کی اور الرٹ ہو بیٹھا۔

اِدھر وہ لوگ قیصر پر حملہ کرنے کی کوشش کرتے اور اُدھر وہ ان کو گولیوں سے بھون کر رکھ دیتا۔


"ڈر گئے ہو کیا ہم سے قیصر خیام؟۔ ولید خباثت سے مسکراتے ہوئے طنز کر گیا۔


قیصر نے مٹھیاں بھینچ لیں۔ مگر چہرے پر ایک شکن تک نہ لایا۔ بلکہ ہنوز مسکراتا رہا۔


"ہاں عثمان بھائی، لگتا ہے انڈر ورلڈ کا نیا ڈان چوڑیاں پہنتا ہے"۔ ایک معمولی سے باڈی گارڈ یہ جملہ اچھالا۔

جس پر ان سب کے بےہنگم مشترکہ قہقہے لگے۔


ضبط کی انتہا تھی قیصر خیام کیلئے۔

مگر اب کی بار وار کرنے کی باری اسکی تھی۔

جس کے تحت وہ گویا ہوا۔


"میں نے تو سوچا تھا کے تم عقلمند ہوگے ولید، مگر آج پتہ چلا کے تمہیں اور تمہاری سوچ کو چلانے اور کنٹرول کرنے والا تمہارا یہ چھوٹا بھائی ہے۔ چچ چچ چچ۔۔۔کیا اس نے تمہیں بتایا ہے کے دو سال پہلے تمہارا جو کروڑوں کا ڈرگز پکڑا گیا وہ کیوں پکڑ گیا؟ اور اسے دگنے دام کس نے حاجی کو بیچا؟"

پہلا پتہ پھینکا۔

طنزیہ نگاہیں داؤد کے چہرے پر جمی تھیں۔ مگر مخاطب اسکا

بھائی ولید ہی رہا۔


اسکی بات پر ولید عثمان نے پہلی بار بے یقینی سے داؤد کی طرف دیکھا۔

جس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔

وہ اس اچانک اور غیر متوقع صورتحال کیلئے تیار نہ تھا۔


"کیا اس نے تمہیں بتایا کے تمہارے دائیں بازو مراد کو اسی نے مارا ہے؟ اور کیا اس نے تمہیں یہ بتایا کے دو ہفتے قبل تم پہ جو حملہ ہوا وہ اسی نے کروایا تھا؟ اور مجھے یقین ہے اس نے تمہیں یہ نہیں بتایا ہوگا کے یہ بہت پہلے ہی تمہارے خلاف حاجی سے ہاتھ ملا چکا تھا"۔ پرسکون لہجے میں، صوفے کی پشت پر بازو پھیلائے وہ انکشافات کر رہا تھا۔

اور جسے سن کر ولید کے چہرے پر زلزلے کے تاثرات نظر آ رہے تھے۔


داؤد کے گلے میں گلٹی سی ابھر کر معدوم ہوئی۔


"چھوٹے تو نے یہ سب۔۔۔؟"۔ صدمے کی وجہ سے چند لمحے ولید عثمان بولنے کے بھی قابل نہ رہا۔


داؤد کو اور کچھ نہ سوجھا تو ولید سے نظریں چرا کر وہ اپنی نشست سے اٹھ کھڑا ہوا۔

"یہ۔۔۔یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ الزام ہے سب سب بکواس۔ بھائی یہ دراصل ہم دونوں بھائیوں میں پھوٹ ڈالنا چاہتا ہے۔ کمینے میں تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا"۔ غصے سے اس کا دماغ کھول اٹھا۔

اپنا خوف چھپانے کو وہ قیصر پر الٹ پڑا۔

اور گن نکال کر اس پر تان لی۔


اسی وقت اعظم کا ضبط بھی جواب دے گیا۔ وہ بھی اپنی جگہ سے اٹھا۔

"اےےے، گن نیچے کر۔۔۔میں نے کہا گن نیچے کر"۔ وہ اس کا نشانہ لیتے ہوئے غرایا۔

اشرف بھی قیصر کی ڈھال بن کر سامنے آ گیا۔

اور ہاتھ میں موجود بندوق کا رخ اس نے داؤد کی جانب کر رکھا تھا۔


دوسری جانب ولید کے گن مین اور باڈی گارڈز نے بھی ان پر ہتھیار بلند کر دیئے۔

خنک موسم میں بھی ماحول سخت گرم محسوس ہو رہا تھا۔

جبکہ ولید ہنوز صدمے میں تھا۔


"ریلیکس اعظم، میں بات کر رہا ہوں نا۔ تم لوگ ہتھیار نیچے کردو"۔ قیصر کی پرسکون آواز گونجی۔


"نہیں باس، شرافت کی زبان یہ لوگ نہیں سمجھیں گے۔ اور پہل ان کی طرف سے ہوئی ہے۔ ہتھیار ان لوگوں نے پہلے بلند کیا ہے۔ اب بھاڑ میں گئی مذاکرات، ان سے صرف بندوق کی زبان میں ہی بات کریں گے۔ بس تم ایک بار اشارہ کرو"۔ اعظم کا بس نہیں چل رہا تھا کے ساری کی ساری گولیاں وہ داؤد کے سینے میں اتار دیتا۔

انتظار تھا تو بس اس کے حکم کا۔


"چل اے، تو کیا مارے گا۔ آج تو میں اس حرام زادے کا قصہ پاک کر دیتا ہوں۔ میرے بھائی کو میرے خلاف ورغلانے چلا تھا سالا"۔ داؤد با آواز بلند کہتے ہوئے چاپلوسی کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ ساتھ ہی آنکھ کے کنارے سے ولید کو بھی دیکھ رہا تھا۔


تبھی یک دم اس نے ولید کو اپنی جگہ سے اٹھتے دیکھا۔

اور فاتحانہ انداز میں مسکرایا۔

قیصر بھی اس کی تقلید میں اٹھ کھڑا ہوا۔


جبکہ ولید نے بھی بندوق نکال کر اب قیصر پر تان لی تھی۔

"میرے بھائی پر الزام لگانے کی ہمت کیسے کی تم نے"۔ وہ پوری قوت سے دھاڑا۔

آنکھیں سرخ پڑ رہی تھیں۔


سیاہ پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ اب بھی پرسکون ہی رہا۔

چہرے پر ایک شکن تک نہ آئی تھی۔


"مار دو اسے بھائی، قصہ ختم کردو اس کا۔ سالا بہت بولتا ہے یہ۔ مار دو اس کو"۔ داؤد چیخ کر کہتے ہوئے اپنے بھائی کو اکسا رہا تھا۔


"شوق سے برادر"۔ کہہ کر اس نے اب اپنی گن کا رخ قیصر کے بجائے اپنے ہی بھائی کی جانب کر دیا۔


داؤد کو نگاہوں کے سامنے زمین و آسمان گھومتے محسوس ہوئے۔


"یہ۔۔۔یہ آپ کیا کر رہے ہیں بھائی؟ آپ مجھے ماریں گے؟ اپنے بھائی کو؟"۔ وہ لرزتی ہوئی آواز میں کہتے ہوئے اسے جذباتی کرنے لگا۔


ولید طنزیہ مسکرایا۔

"دھوکے باز کا جو انجام ہوتا ہے داؤد، تمہارا بھی وہی ہونا چاہیئے۔ یہی اصول ہے"۔ اگلے ہی پل اس کے سائلنسر لگی گن سے نکلی گولی ہلکی سی 'ٹھاہ' کے ساتھ داؤد کے سینے میں پیوست ہو گئی۔

اس کی آنکھیں بے یقینی سے وا ہوئیں اور زمین پر ڈھیر ہوتے ہی لمحوں میں اس کا قصہ تمام ہوا تھا۔


ڈرائینگ روم کا خوبصورت بھورے رنگ کی لکڑی سے بنا فرش اب داؤد کے خون سے سرخ ہوتا جا رہا تھا۔


وہاں موجود سبھی کو گویا سانپ سونگھ گیا تھا۔


"یہ کیا کیا تم نے؟ تمہیں اسے مارنا نہیں چاہیئے تھا۔ جو بھی تھا مگر تھا تو تمہارا بھائی"۔ قیصر نے تاسف سے کہا۔


ولید کرب سے آنکھیں میچ کر تلخی سے مسکرا دیا۔


"دھندے میں کوئی کسی کا بھائی نہیں، کوئی کسی کا باپ نہیں۔ میں تم سے یہ نہیں پوچھوں گا کے تمہیں یہ سب باتیں کیسے پتہ لگیں۔ میں بس اتنا جانتا ہوں کے جس غدار کو میں پچھلے دو سالوں سے تلاش کر رہا تھا اسے تم نے دو منٹ میں میرے سامنے لا کھڑا کیا"۔ وہ توصیفی نگاہوں سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔


ساتھ ہی اپنے آدمیوں کو بندوقیں نیچے کرنے کا اشارہ دیا۔

ان کے دیکھا دیکھی اعظم اور اشرف نے بھی بندوقیں نیچے کر لیں۔


"تمہارے ساتھ کام کرنا میری خوش قسمتی ہوگی۔ اگر تمہیں منظور ہو تو؟"۔ ولید نے آگے بڑھ کر پستول جیب میں رکھتے مصافحے کیلئے ہاتھ بڑھایا۔


قیصر کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی۔

اور کچھ توقف کے بعد اس کا ہاتھ تھام لیا۔

جس پر ولید بھی مطمئن ہو گیا۔


"امید ہے ساتھ مل کر کام کرنے کا تجربہ بہترین ثابت ہوگا"۔ قیصر نے جواب دیا۔


"اس خوشی کے موقع پہ جشن تو ہونا ہی چاہیئے"۔ اعظم نے جوش سے کہا۔


جس کی باقی سب نے بھی بھرپور تائید کی۔


"بےشک، کل ہی ایک اعلٰی جشن کا انتظام یہاں میرے بنگلے پر کیا جائے گا۔ جس کے مہمان خصوصی تم ہوگے"۔ قیصر نے پرجوش لہجے میں اسے دعوت دی۔


جسے اس نے بخوشی قبول کر لیا۔

پھر کچھ دیر بعد وہ لوگ وہاں سے چلے گئے۔

داؤد کی لاش سمیت۔


"مان گئے باس، کیا دماغ پایا ہے۔ ولید کو یقین دلا دیا کے تم اس کے خیر خواہ ہو"۔ اعظم داد دیئے بنا نہ رہا۔


قیصر کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔

"شطرنج کی زبان میں اسے شہ مات کہتے ہیں اعظم"۔ بھورے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے جواب دیا۔


اعظم نے پرسکون سانس خارج کرتے، اسکی بات پر سر کو خم دیا۔

☆☆☆☆☆☆


وہ گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے، سر گھٹنوں پہ گرائے مضطرب سی تھی۔

تین دن ہو گئے تھے اسے غائب ہوئے۔

غزل کتنی پریشان ہوگی اس کیلئے۔ اس کے علاوہ اور تھا ہی کون جو اس کے بارے میں سوچتا یا جس کو اس کے غائب ہونے سے کوئی فرق پڑ جاتا۔

وہ مایوسی کی انتہاؤں پر تھی۔


تبھی دروازے پر ہلکا سا کھٹکا ہوا۔

چونک کر اس نے سر اٹھایا۔ شاید کوئی دروازہ کھول رہا تھا۔

پہلا خیال ہی اسے اس شخص کا آیا۔

جس کے تحت وہ خود میں سمٹنے لگی۔


اگلے ہی پل دروازہ وا ہوا تھا اور ملازمہ اس کیلئے کھانے کی ٹرے اٹھائے اندر داخل ہوئی۔

اندر داخل ہوتے ہی اپنے پیچھے اس نے دروازہ بند کر دیا تھا۔


صد شکر کے وہ نہیں تھا۔ الوینا نے پرسکون سانس خارج کی۔


"بی بی جی۔۔۔یہ آپ کا کھانا"۔ اس نے ادب سے ٹرے اس کے سامنے رکھی۔


قیصر خیام کیلئے وہ اہم تھی۔ لہٰذا ملازموں کیلئے اس کا احترام لازم تھا۔


منہ کے زاویے بگاڑتے ہوئے اس نے ٹرے ایک طرف کر دیا۔


ملازمہ جو اس کے سر پر کھڑی اسکے کھانے کا انتظار کر رہی تھی، ٹرے سرکاتے دیکھ کر وہ پریشان ہو گئی۔


"بی بی جی، سرکار کا حکم ہے کے آپ کو اپنی نگرانی میں کھانا کھلایا جائے۔ ورنہ آپ کی طبیعت بگڑ سکتی ہے نا جی"۔ وہ بیچارگی سے بولی۔

قیصر کی سختی سے کی گئی تاکید اس کے ذہن پر نقش ہو گئی تھی۔


"میں تمہارے سرکار کی باندی نہیں ہوں جو اس کا حکم مانوں۔ لے جاؤ اسے یہاں سے۔۔مجھے کچھ بھی نہیں کھانا"۔ وہ ہٹ دھرمی سے بولی۔


اس کی اس بات نے تو رضیہ کو چکرا کر رکھ دیا۔


"سرکار کو پتہ چلا تو وہ میری جان لے لیں گے جی۔ میرے بچے یتیم ہو جائیں گے"۔ وہ منت کرنے لگی۔


الوینا کا پارہ ہائی ہو گیا۔

"تمہارے سرکار کو لوگوں کی جان لینے کے علاوہ اور آتا ہی کیا ہے۔ جلاد کہیں کا۔ تم بھلے ہی اس سے خوفزدہ ہو مگر میں قطعی متاثر نہیں ہوتی اس سے۔ لے جاؤ یہ کھانا اور جا کر اس کے سر پر الٹ دو جس نے بجھوایا ہے"۔ غصے سے تیز تیز بولتے ہوئے اس کا چہرہ سرخ پڑ گیا۔


اپنا بےبسی بھرا غصہ وہ اس بیچاری پر نکال رہی تھی۔

کمرے کی جانب آتے قیصر کے قدم شور سن کر دروازے پر ہی تھم گئے۔

وہ زرا اوٹ میں ہو کر ان دونوں کی گفتگو سننے لگا۔


"ایسا مت کہیے بی بی جی، سرکار دل کے برے نہیں ہیں۔ وہ تو بس ان کا پیشہ ہی ایسا ہے کے لوگ ان سے ڈرتے ہیں جی۔ باقی وہ بہت اچھے ہیں"۔ سادہ لو رضیہ اس کی تعریف میں رطب السان تھی۔

جسے سن کر وہ مزید ہتھے سے اکھڑ گئی۔


"دل کا برا نہیں ہے؟ ہونہہ، اس کے پاس دل ہے بھی؟"۔ نخوت سے کہتے طنز کیا۔


قیصر نے مٹھیاں بھینچ لیں۔


"پیشہ؟ کون سا پیشہ یہ حق دیتا ہے کے معصوموں کی جانیں لو، لوگوں کو اغواء کرکے قفس میں بند کر دو۔ ایک بار نہیں ہزار بار کہوں گی کے وہ شخص نفرت کے قابل ہے۔ عادی مجرم۔ اور تم زرا مجھے یہ تو بتاؤ کے کتنے پیسے دیئے ہیں اس جنگلی، وحشی، جلاد نے تمہیں؟ میرے سامنے اپنی تعریفوں کے پلُ باندھنے کیلئے؟"۔ وہ کڑے تیوروں سے رضیہ کو گھورتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔


قیصر کی برداشت اتنی ہی تھی۔ جھٹکے سے ادھ کھلا دروازہ مکمل کھول کر وہ اندر داخل ہوا۔

آہٹ پر ان دونوں نے ایک ساتھ دروازے کو دیکھا اور دونوں ہی ٹھٹھک گئیں۔


"اس سے کیا پوچھتی ہو۔ اگر کچھ پوچھنا ہی ہے تو مجھ سے پوچھو نا۔ میں بتاؤں گا کے کتنے پیسے دیئے اس کام کیلئے اسے"۔ سرخ چہرے پر سنجیدہ تاثرات لیئے کاٹ دار لہجے میں کہا۔


ملازمہ گڑبڑا سی گئی۔ اور اگلے ہی پل اس کا اشارہ پاتے ہی کمرے سے باہر نکل گئی۔


اب وہ اس کی جانب متوجہ ہوا۔

گھبراہٹ نے الوینا کا گھیراؤ کیا تو جلدی سے اس نے سر جھکا دیا۔


جبکہ وہ اب چلتا ہوا اس کے سر پر پہنچ چکا تھا۔

الوینا نے جیسے ہی نگاہیں اٹھائیں تو اسے اپنے قریب موجود دیکھ کر سٹپٹا کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔


قیصر نے ہاتھ میں موجود کئی بیگز بستر پر پھینکے اور اس کا بازو تھام کر اپنے مقابل کھینچا۔


"بہت دعویٰ ہے تمہیں مجھے جاننے کا؟ ہوں؟ بہت پرکھ ہے تمہیں میری؟ میرے دل کی؟ عادی مجرم ہوں میں۔ جلاد ہوں وحشی ہوں، سفاک ہوں میں۔ تو مجھے بتاؤ وہ کون سے ظلم ڈھائے ہیں میں نے تم پر جس کا تم رونا روتی ہو؟ کون سے پہاڑ توڑے ہیں تم پر؟ برا ہوں یہ حق ہے۔ لیکن برا کیا کب ہے تمہارے ساتھ؟ "۔ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے وہ پوچھ رہا تھا۔

لہجہ زہر میں بجھا ہوا تھا۔


الوینا کی نگاہیں اس کی سرمئی آنکھوں پر جمی تھیں۔

ان میں وہ اپنا عکس صاف دیکھ سکتی تھی۔


"اس سے زیادہ اور کیا برا ہو سکتا ہے کے تم نے میری نگاہوں کے سامنے کسی معصوم کو بےدردی سے مارا۔ اور بعد ازاں اس کی پاداش میں تم نے مجھے اغواء کر لیا۔ اپنا قصور پوچھتے ہو مجھ سے؟ اپنا قصور ڈھونڈتے کیوں نہیں ہو تم؟"۔ ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے وہ چبا چبا کر بولی۔


"چلو یہ تو ہو گئی دوسروں کی بات۔ اب تم اپنی بات میری زبانی سنو۔ تم سے میری کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔ لیکن تمہاری طرف بڑھنے کی وجہ تمہارے دل میں اپنے لیے محبت جگانا تھا۔ تاکہ تم میرے لیے ایک چلتا پھرتا وہ تلوار بن جاؤ جو ہمیشہ مختار کے سر پہ لٹکتا رہے۔ مگر نہیں جی، تم میری سوچ سے بڑھ کر ضدی نکلی، میں جو یہ سوچے بیٹھا تھا کے تمہیں مبتلاِ عشق کرکے آسانی سے اپنا کام کر لوں گا، گواہی کا شوشہ چھوڑ کر اس خیال پر تم نے پانی پھیر دیا۔

یہ تمہارا قصور تھا۔ جس کی وجہ سے آج یہاں تم میری قید میں ہو"۔ کتنے آرام سے۔۔۔کتنے سکون سے وہ انکشافات کے توپ چلا کر اس کے وجود کے پرخچے اڑا گیا تھا، اسے احساس تک نہ ہو سکا۔


الوینا کی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھرنے لگیں۔

جنہیں گہری سانس لے کر اس نے اندر اتار لیا۔


"تم ظالم ہو، سفاک ہو اور درندے بھی ہو یہ میں جانتی تھی لیکن تم اپنی بازی جیتنے کیلئے شرط میں میرا دل لگاؤ گے اس قدر گھٹیا پن کی میں نے امید نہیں کی تھی"۔ آنسو بند توڑ کر رخسار بگھو رہے تھے۔

جو گرتے ہوئے اس کا ٹوٹا ہوا دل بھی بہائے لے جارہے تھے۔


قیصر نے لب بھینچ لیئے۔

ہاتھ بڑھا کر اسکے آنسو سمیٹنے چاہے تھے جب الوینا نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔


"نہیں، اب کوئی دکھاوا نہیں۔ میں اتنی ارزاں نہیں کے بار بار تمہارے جھوٹے پیار کے چھلاوے میں آ جاؤں۔ بہت بے وقوف بنا لیا تم نے، واقعی بہت اچھے ایکٹر ہو تم۔ لیکن اب تمہیں یہ جان کر بہت افسوس ہوگا کے اب مجھ پر تمہاری کسی بات کا اثر نہیں ہوگا"۔ ہاتھ کی پشت سے اس نے آنسو بے دردی سے رگڑ ڈالے۔

اس کا بازو اب بھی اسکی گرفت میں تھا۔


قیصر کے وجود کو اس کی روتی ہوئی آنکھوں کے سحر نے جکڑ لیا تھا۔

اس کی کیفیت سے انجان وہ زخمی لہجے میں گویا تھی۔


"سمجھ لو کے محبت نام کا وہ پودا جو تم نے میرے دل کی سرزمین پر لگایا تھا اسے نفرت کی آندھی درخت بننے سے قبل ہی اکھاڑ کر لے گئی ہے قیصر خیام، اور اب دل ایک بنجر زمین بن چکا ہے۔ جہاں تم دوبارہ کوئی پودا نہیں لگا سکتے۔

جتنی میرے دل کو تم سے محبت تھی اب اس سے کئی زیادہ میرا رواں رواں تم سے نفرت کرتا ہے اور مرتے دم تک میرا دل تم سے نفرت کرتا رہے گا"۔ ایک جھٹکے سے اپنا بازو اس کی گرفت سے چھڑا کر وہ ڈریسنگ روم میں بند ہو گئی۔


وہ گم سم سا وہی کھڑا رہ گیا۔

وجہ یہ نہیں تھی کے وہ اس سے نفرت کا اظہار کرکے گئی تھی۔

بلکہ وجہ یہ تھی کے اسکی زبان جو کہہ کر گئی تھی۔۔آنکھوں نے اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا۔

اور یہ بات ناجانے کیوں اسے بےچین کر گئی تھی۔


وہ نفرت کا اظہار کرتی تھی تو قیصر کو برا نہیں لگتا تھا۔

مگر اب جو اظہار اس کی آنکھیں کر گئیں تھی اس نے قیصر خیام کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

وہ جو خود کو موت کا فرشتہ کہتا تھا اب وہ ایک نازک اندام لڑکی کے جذبوں سے ڈر گیا تھا۔

وہ اس کی محبت سے خوفزدہ ہو گیا تھا۔

اور یہ بات قابل تشویش تھی اس کیلئے!

☆☆☆☆☆

"جس موقع کا ہمیں انتظار تھا وہ بالآخر ہمیں مل گیا ہے سر"۔ ہارون خوشی اور جوش کی ملی جلی کیفیت میں کہہ رہا تھا۔

وہ باوردی اس وقت مختار صاحب کے آفس میں موجود تھا۔

"کیسا موقع آفیسر؟"۔ ڈی-آئی-جی مختار نے تجسس آمیز لہجے میں پوچھا۔

"قیصر کے ٹھکانے تک پہنچنے کا ایک راستہ ملا ہے۔ جہاں کل ہم اپنا جاسوس بھیج رہے ہیں"۔ اس نے آگاہ کیا۔

مختار صاحب خوشگوار حیرت میں گھر گئے۔

مگر اگلے ہی پل ان کا چہرہ پھیکا پڑ گیا۔

"تم اچھی طرح جانتے ہو ہارون کے اس سے پہلے بھی حاجی کا ٹھکانہ ڈھونڈتے ہوئے ہمارے کئی مخبر مارے گئے۔ قیصر بہت شاطر ہے۔ اس خبر کو تم جتنا چھپا سکتے ہو چھپاؤ۔ اس تک یہ خبر نہیں جانی چاہیئے کے ہمارا کوئی آدمی اس کی گینگ میں گھسنے والا ہے"۔ وہ خاصے فکرمند تھے۔

"آپ فکرمند نہ ہوں سر۔ سنا ہے ولید عثمان اور قیصر کے بیچ دشمنی ختم ہو گئی ہے۔ جس کی خوشی میں کل اس نے جشن کا انتظام کیا ہے۔ ولید کی گینگ کے آدمیوں کے ساتھ ہم اپنا آدمی بھیجیں گے۔ اس طرح وہ ان میں مکس-اپ ہو کر قیصر کی نگاہوں سے چوک جائے گا۔ اور اس کا ٹھکانہ معلوم ہوتے ہی ہم وہاں ریڈ ڈالیں گے اور الوینا کو بھی بازیاب کروا کر لے آئیں گے"۔ وہ خاصا پرامید نظر آ رہا تھا۔

الوینا کے نام پر مختار صاحب کی پریشانی دوچند ہو گئی۔

"دھیان سے ہارون، ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا۔ ورنہ الوینا کیلئے خطرہ بڑھ جائے گا"۔

"آپ بے فکر رہیئے سر، میں ابھی الوینا کی تصویر بھجوا دیتا ہوں ہمارے مخبر کو۔ موقع کا فائدہ اٹھا کر پہلے وہ اسے وہاں سے بازیاب کروا لے گا۔ پھر اس کے بعد ہی ہم کاروائی کریں گے"۔ ہارون نے حل پیش کیا۔

جس سے مختار انصاری کافی حد تک متفق نظر آئے۔

قیصر کے بنگلے پر متوقع جشن کی تیاریاں عروج پر تھیں۔

شام کے سات بجے شروع ہونے والی تقریب رات گئے تک جاری رہنا تھی۔


صبح سے ہی ملازموں کی دوڑیں لگی تھیں۔

بنگلے کو سفید اور جامنی رنگ کے کنٹراسٹ والے ریشمی پردوں، جھالریوں اور برقی قمقموں سے سجایا جا رہا تھا۔

پہاڑی علاقے کے بیچ و بیچ واقع یہ سفید بنگلہ کسی پرستان کے محل سے کم نہ تھا۔

اطراف میں موجود اونچے اونچے سفید برف سے ڈھکے پہاڑ الگ ہی کشش رکھتے تھے۔

مزید چار چاند اس بنگلے کو آج کی خوبصورت سجاوٹ نے لگا دیئے تھے۔


سب ہی آج کے اس جشن کو کامیاب اور یادگار بنانے کیلئے دوڑ دھوپ میں لگے ہوئے تھے۔


اس سب سے دور اور بے پرواہ قیصر اپنے کمرے میں موجود کھلی کھڑکی میں کھڑا تھا۔

اس کے چہرے پر سوچ کے ہزار جال بکھرے پڑے تھے۔


الوینا کو اس نے پہلی منزل پر واقع گیسٹ روم شفٹ کروا دیا تھا۔ الوینا بھی بنا کسی چوں چراں کے چلی گئی تھی۔ وہ خود بھی جتنا ہو سکے اس شخص سے دور ہی رہنا چاہتی تھی۔


دوسری جانب وہ بھی نہیں چاہتا تھا کے الوینا اس کے آس پاس بھی رہے۔ کل کی تکرار کے بعد دونوں کا پھر سامنا نہیں ہوا تھا۔

دونوں کی ہی اپنی اپنی وجوہات تھیں ایک دوسرے سے دور رہنے کی۔ کنی قطرانے کی۔


وہ چونکا تو تب جب کسی نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا نگاہیں موڑ کر دیکھا۔۔تارہ اسے بغور دیکھ رہی تھی۔

قیصر نے نگاہیں واپس سامنے کی جانب نظر آتے حسین نظاروں پر ٹکا دیں۔


"کیا ہوا؟ کسی اور کو ایکسپیکٹ کر رہے تھے؟"۔ تارہ نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔


ٹھٹھک کر قیصر نے اس کی جانب دیکھا۔


"اب اس بکواس کا کیا مطلب ہے؟"۔ سرمئی آنکھیں ناگواری سے اسے دیکھنے لگیں۔


تارہ نے ٹھنڈی سانس بھری۔


"اعظم کے مطابق کل تم نے اس لڑکی کو بچانے کیلئے اپنی جان خطرے میں ڈال دی تھی۔ آخر ایسی بھی کیا بلا ہے وہ قیصر جو تم اس کیلئے اپنی جان بھی دینے کو تیار ہو گئے؟"۔ اس نے طنز کیا۔


"کیا تمہارے لیئے یہ وجہ کافی نہیں کے میں اس لڑکی کے ذریعے مختار سے ڈیل کرنا چاہتا ہوں؟"۔ وہ الٹا اس سے پوچھنے لگا۔


"ڈیل؟ محض ایک ڈیل کیلئے تم نے یونہی خود کو خطرے میں ڈال دیا؟ وہ ڈیل تم سے زیادہ اہم تو نہیں تھی قیصر۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہوتا مر جاتی نا وہ تو مر۔۔۔۔"


"تارہ"۔ اس کی بات مکمل ہونے سے قبل ہی وہ اتنی زور سے دھاڑا کے پاس کھڑی تارہ حواس باختہ ہو گئی۔


جبکہ قیصر کا چہرہ اس کے ضبط کی گواہی دے رہا تھا۔


وہ تلخی سے مسکرا دی۔


"اوہ، تو یہ بات ہے۔ صاف صاف کہہ کیوں نہیں دیتے کے تم اسے چاہنے لگے ہو؟ اسے مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے؟"۔ قیصر کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے وہ غرائی۔


جبکہ تارہ کی بات پر اس کی آنکھوں میں بے یقینی پھیل گئی۔

چند لمحوں کیلئے تو وہ کچھ بولنے کے بھی قابل نہ رہا۔

اسکی خاموشی سے تارہ کا دل ڈوبنے لگا۔


"جواب دو اب کیوں بولتی بند ہو گئی تمہاری؟ تمہاری اس خاموشی کو میں کیا سمجھوں؟"۔ اس کا دل شدت سے یہ چاہ رہا تھا کے قیصر اس کی بات کی تردید کردے۔ یا پھر کوئی وضاحت ہی دے دے کے ایسا کچھ نہیں ہے۔


بہت دیر کی خاموشی کے بعد وہ گویا ہوا۔


"اول تو میں تمہیں جواب دینے کا پابند نہیں سمجھتا خود کو۔ اور دوسرا یہ کے قیصر خیام کسی سے عشق کر سکتا ہے۔ یہ خیال پھر خیال ہی ہو سکتا ہے کسی کا۔ اور خیالوں کا حقیقت سے دور دور تک کا واسطہ نہیں ہوتا تارہ بی بی"۔ خشک لہجے میں کہہ کر اس نے بات ہی سمیٹ دی۔


تارہ کھوجتی نگاہوں سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی مگر سپاٹ چہرے نے اسے کچھ پڑھنے نہ دیا۔

تارہ نے مزید کچھ پوچھنے کا ارادہ ترک کر دیا۔

کیونکہ وہ جانتی تھی کے قیصر سے کچھ اگلوانا پتھر سے سر پھوڑنے جیسا ہی تھا۔


"میں جا رہا ہوں باہر انتظامات کا جائزہ لینے۔ تم لوگ خاص خاص لوگوں کو بلوا لو"۔ بادامی رنگ کے شلوار قمیض پر سیاہ بھاری شال اوڑھتا ہوا وہ بولا۔


تارہ نے اثبات میں سر ہلایا۔

وہ کمرے سے نکلنے لگا تھا جب اچانک کچھ یاد آنے پر رکا۔

وہ کھڑکی کے پٹ سے ٹیک لگائے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔


"جو مہمان آئیں گے ان کی ہر چھوٹی بڑی ڈیٹیلز نکلوا لو۔ ایک باڈی گارڈ سے لے کر خود ولید تک۔ مجھے سب کے بارے میں انفارمیشن ان کی تصویر سمیت شام سے پہلے چاہیئے۔ یہ تمہاری اور اعظم کی ذمہ داری ہے تارہ"۔ اسے کام سونپ کر سختی سے تاکید کرنے لگا۔


"تم بے فکر رہو، یہ کام اگلے چند گھنٹوں میں ہو جائے گا"۔ پریقین لہجے میں جواب دیا۔


قیصر نے رک ایک نظر اسے دیکھا پھر سرہلا کر کمرے سے باہر چلا گیا۔


پیچھے وہ اب بھی ان دونوں کے تعلق سے متعلق سوچتی رہی۔

☆☆☆☆☆☆


کانفرنس روم میں موجود آٹھ افسران سمیت ڈی-آئی-جی مختار سربراہی کرسی کے پاس کھڑے بریفنگ دے رہے تھے۔


ان آفیسرز میں سے ایک ہارون بھی تھا۔

پروجیکٹر نے اسکرین پر ایک تصویر روشن کر رکھی تھی۔

جو قیصر کی تھی۔


"قیصر عبید خیام۔ سینٹرل جیل کا قیدی نمبر پانچ سو پانچ۔

دو ماہ قبل جیل سے فرار ہوا ایک عادی مجرم۔ ڈپارٹمنٹ کے ایماندار آفیسر واصف ملک کے قتل کے جرم میں گرفتار ہوا یہ آدمی دنیا کے دس خطرناک مجرموں میں سے ایک ہے۔ انڈر ورلڈ ڈان حاجی فیروز شاہی کا دایاں بازو کہا جاتا ہے اسے۔ خبر یہ ہے کے حاجی کی موت کے بعد اسے انڈر ورلڈ کا نیا چہرہ بنایا گیا ہے۔ ایک سال یہ میری قید میں رہا۔ دن کے اٹھارہ گھنٹے اسے ٹارچر سیل میں رکھا جاتا تھا مگر پھر بھی اس نے اپنے ڈرگز کے اڈوں اور حاجی کے ٹھکانے سے متعلق زبان نہ کھولی۔

یہ پکڑا گیا۔ ایک سال جیل میں رہا۔ سزائے موت سنائی گئی اسے مگر اس سے دن دن پہلے یہ جیل سے فرار ہو گیا۔ اور آج پھر یہ جرم کا بازار سرگرم رکھے ہوئے ہے"۔ چند ثانیے کو وہ خاموش ہو گئے۔


ان کا ضمیر ان سے شرمسار تھا۔

کیونکہ وہی تو تھے جنہوں نے مجبوری میں ہی سہی مگر اسے فرار کروایا تھا۔


"قانون کے اس مجرم کو بلیک اسکارپیئن (سیاہ بچھو) بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ اسی کی طرح خطرناک ہے۔ اپنے وار سے شکار کو تڑپنے کا موقع دیئے بغیر لمحوں میں ڈھیر کر دیتا ہے۔ اور آج پھر ہمارا مقابلہ اسی شخص سے ہے۔ کیا آپ سب تیار ہیں آفیسرز؟"۔ انہوں نے سب پر نگاہیں دوڑاتے ہوئے پوچھا۔


"یس سر"۔ سب نے یک آواز ہو کر جواب دیا۔

جن میں ہارون کی ہموار آواز سب سے زیادہ نمایاں تھی۔

مختار صاحب مطمئن ہوئے۔


"تو پھر جلد سے جلد خود کو تیار کر لیں۔ ہمارے پاس کچھ ہی گھنٹے ہیں۔ اس کا ٹھکانہ معلوم ہوتے ہی وہاں ریڈ کرنی ہے"۔ گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔


وہ اب ان سب کو باقی کی حکمت عملی سمجھانے لگے۔

☆☆☆☆☆☆


فیروز شاہی کا بنگلہ بقائے نور بنا ہوا تھا۔

اس کی چمک دیکھنے والی نظروں کو خیراں کرتی تھی۔


شام سات بج رہے تھے۔ سیکیورٹی مراحل سے گزارنے کے بعد ہی سب کو اندر آنے دیا جا رہا تھا۔ جبکہ ہتھیار اندر لے جانے کی اجازت کسی کو نہ تھی۔


لاکڈ دروازے کے پیچھے اندھیرے کمرے میں وہ اوندھے منہ بستر پر پڑی اپنے نصیبوں کو رو رہی تھی۔

باہر مختلف قسم کی آوازیں اور چہل پہل سے اندازہ ہو رہا تھا کے شاید کوئی تقریب منعقد کی گئی ہے۔ مگر اس کی دلچسپی کہاں تھی یہ سب جاننے کی۔

اسے اس سب سے فرق ہی نہ پڑتا تھا۔ وہ تو بس اس گھٹن بھرے قید سے رہائی چاہتی تھی۔


دروازے پر آہٹ ہوئی۔

کسی نے سوئچ بورڈ پر ہاتھ مارا اور اگلے ہی پل کمرہ روشنیوں میں نہا گیا۔


اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو نگاہوں کے سامنے سرخ جالی دار منی اسکرٹ اور سیاہ فل سلیوز شرٹ میں خوبصورت بالوں کا جوڑا بنائے ڈارک میک-اپ کے ساتھ ایک لڑکی کھڑی کاٹ دار نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔


الوینا چونک کر بستر پر اٹھ بیٹھی۔

اس سے قبل تو اس لڑکی کو کبھی اس نے یہاں نہیں دیکھا تھا۔


اونچی ہیلز میں ٹک ٹک کرتی سہج سہج کر چلتی ہوئی وہ اس کے سر پر پہنچ گئی۔


"زرا دیکھیں تو ایسے کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں تم میں جو قیصر اتنا فکرمند رہتا ہے تمہارے لیئے"۔ ایک ہاتھ سے اس نے الوینا کا چہرہ ہاتھوں میں لے کر اوپر اٹھایا۔

اس کی انگلیاں اتنی سخت ہوتی جا رہی تھیں کے الوینا کے جبڑے دکھنے لگے۔


"یہ کیا بدتمیزی ہے"۔ زور سے تارہ کا ہاتھ جھٹک کر وہ اپنے رخسار سہلاتے وہ اس کے مقابل آ گئی۔


"بدتمیزی تو ابھی تم نے دیکھی نہیں ہے۔ قیصر سے دور رہو سمجھی ورنہ تمہارا وہ حشر کروں گی کے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے سے بھی خوف آئے گا"۔ اس کا ہاتھ کھینچ کر تارہ نے اس کی پشت پر موڑ دیا۔

درد کی شدت سے شہد رنگ آنکھوں میں پانی بھر آیا تھا۔

وہ اس لڑکی کی طاقت اور گرفت پر ششدر رہ گئی تھی۔

اسے احساس ہو رہا تھا کے وہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔


اس کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے تارہ نے زور سے اسے دھکا دیا۔

زمین پر گرتے ہوئے اس کا سر سائیڈ میز سے ٹکراتے ٹکراتے رہ گیا۔

البتہ گھٹنوں میں اسے اچھی خاصی تکلیف محسوس ہوئی تھی۔ فرش پر گرنے کی وجہ سے شاید وہاں چوٹ آئی تھی۔


وہ آگے بڑھی اور جھک کر اس نے الوینا کے بال مٹھی میں بھینچ کر جھٹکا دیا۔

الوینا کراہ کر رہ گئی۔

"یہ تکلیف تمہیں ہمیشہ ہماری پہلی ملاقات یاد دلاتی رہے گی۔ اور میری دی گئی وارننگ بھی۔ اگر اپنی زندگی تمہیں عزیز ہے تو قیصر خیام کا نام بھی اپنی زبان پر مت لانا۔ سمجھی بد ذات؟"۔ ایک جھٹکے سے اسکے بال چھوڑتے ہوئے وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور تن فن کرتی کمرے سے باہر نکل گئی۔


خاموش کمرے کی فضا میں الوینا کی سسکیاں گونجتی رہیں۔

☆☆☆☆☆☆


تقریب شروع ہو چکی تھی۔

ڈم لائٹس اور دھیمے سروں میں بجتی موسیقی ماحول کو خوابناک بنا رہی تھیں۔


ہر طرف چہل پہل تھی۔

مرد حضرات کے علاوہ اکا دکا خواتین بھی نظر آرہی تھیں۔


جام کا دور چل رہا تھا۔

سیاہ سوٹ میں ملبوس ہاتھ میں گلاس تھامے وہ ولید اور اس کے دوستوں کو کمپنی دے رہا تھا۔


"باس ایک منٹ زرا"۔ اسی وقت اعظم اس کے قریب پہنچا اور کان میں سرگوشی کی۔


"آپ لوگ انجوائے کریں۔ میں آتا ہوں"۔ معذرت کرتا ہوا وہ اعظم کے ساتھ ایک طرف قدرے کونے میں آ گیا۔


"کیا بات ہے اعظم؟ کچھ پریشان لگ رہے ہو؟"۔ اس نے پرکھتی نگاہوں سے اس کا چہری دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا۔


"ٹھیک سمجھے تم۔ یقین نہیں کروگے جب تمہیں بھی پتہ چلے گا"۔ ارد گرد دیکھتے ہوئے وہ سرگوشی میں کہہ رہا تھا۔


"پہلیاں مت بجھاؤ، صاف صاف بتاؤ جو بات ہے"۔ وہ سخت جھنجھلا گیا۔


"اوکے، تو سنو۔ خبر یہ ہے کے پولیس ایک جاسوس اس جشن میں گھس آیا ہے۔ اس کی خبر پر کسی بھی لمحے یہاں پولیس کی ریڈ پڑ سکتی ہے۔ مختار پوری تیاری کر چکا ہے۔ اب بس کسی بھی پل یہاں ٹپکتا ہوگا"۔ وہ اطلاع نہیں کوئی بم تھا جو اس نے پھوڑا۔


قیصر بے یقینی سے اس کا چہرہ تکنے لگا۔

تصدیق کرنے کو اعظم نے اثبات میں سر ہلایا۔

چند لمحے خاموشی کی نظر ہوئے۔

شاید وہ کچھ سوچ رہا تھا اور اگلے ہی پل جیسے کسی نتیجے پر پہنچا۔


ایک نظر اس نے اس کے فکرمند چہرے پر ڈالی پھر مضبوط قدم اٹھاتا ہوا وہ بار کے قریب پہنچا۔

گلاس کاؤنٹر پر رکھ کر اب موبائل پر میسج ٹائپ کرنے لگا۔


پانچ منٹ بعد تارہ کاؤنٹر پر اس کے سامنے تھی۔

"کیا ہوا اتنی ایمرجنسی میں کیوں بلوایا؟"۔ وہ حیرانگی سے بولی۔


"سوال جواب کو گولی مارو اور گیسٹ روم جا کر اس لڑکی کو تیار کرکے فوراً نیچے لاؤ"۔ نگاہیں ارد گرد دوڑاتے سنجیدگی سے کہا۔


وہ جو اس کے بلاوے پر دوڑی چلی آئی تھی اس کا یہ حکم سن کر سیخ پا ہو گئی۔


"کیوں؟ تمہیں اس کے بغیر پارٹی میں مزا نہیں آ رہا؟"۔ دھیمے لب و لہجے میں وہ طنز کر گئی۔


قیصر نے جھٹکے سے رخ اس کی جانب کرکے ایک تیز نظر اس کے چہرے پر ڈالی۔


"جتنا کہا ہے اتنا کرو۔ لے کر آؤ اسے۔ یہ میرا حکم ہے"۔ اس کے قریب سرک کر وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے وہ زہرخند ہوا۔


نا چاہتے ہوئے بھی حکم پر اس نے سر تسلیم خم کیا اور تیز قدموں سے لکڑی کی بنی گول سیڑھیاں چڑھ گئی۔


کچھ ہی دیر بعد وہ اس کے کمرے میں پھر سے آ موجود ہوئی۔

وہ ہنوز اسی پوزیشن میں فرش پر بیٹھی بیڈ کی پائینتی سے ٹیک لگائے آنسو بہا رہی تھی۔


ایک نظر نفرت سے اس نے اسکے وجود کو دیکھا پھر ہاتھ میں پکڑا شاپنگ بیگ بستر پر پٹخ کر گویا ہوئی۔

"اے لڑکی جلدی کرو اٹھو ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ یہ کپڑے بدلو اور تیار ہو کر نیچے چلو میرے ساتھ۔ باس کا حکم ہے"۔ وہ قدرے سخت لہجے میں بولی۔


مگر الوینا ٹس سے مس نہ ہوئی۔

تارہ کوفت زدہ ہو گئی۔

آگے بڑھی اور بازو سے پکڑ کر اسے اٹھا دیا۔


سرخ رویا رویا چہرہ اس کی نگاہوں میں کھب گیا۔


"تمہارے چونچلے برداشت کرنے کا وقت نہیں ہے میرے پاس۔ یہ کپڑے بدلو جلدی ورنہ پھر میں اعظم یا بابو کو بلاتی ہوں یہ کام کرنے کیلئے"۔ وہ اچھی طرح جانتی تھی یہ دھمکی کاریگر ثابت ہوگی۔


الوینا نے کرنٹ کھا کر سر اٹھایا اور جلدی سے کپڑے تھام کر ڈریسنگ روم چلی گئی۔


کچھ ہی دیر بعد گلابی لانگ اسکرٹ اور سفید پوری آستینوں والی شرٹ زیب تن کیئے کھلے شہد رنگ بالوں کی سائیڈ بریڈز بنائے اور ہلکا سا میک-اپ جو تارہ نے اپنی مار چھپانے کو اس کے چہرے پر لگایا تھا۔

وہ گڑیا جیسی لڑکی وہاں موجود ہر کسی کی نگاہیں کھینچ رہی تھی۔


قیصر خیام کے مہمان کوئی شریف النفس تو ہو نہیں سکتے تھے۔ لہٰذا الوینا کو اچھی طرح اندازہ ہو چلا تھا کے وہ سب ایک سے بڑھ کر ایک مجرم اور چھٹے ہوئے بدمعاش ہیں۔


وہ قدرے کونے میں ایک طرف کھڑی تھی۔


"کہاں ہے وہ؟"۔ قریب کھڑی تارہ سے سرگوشی میں پوچھا۔


"وہ یہی تھی۔۔۔ہاں وہ رہی"۔ ارد گرد دیکھتے ہوئے اچانک اس کی نظر موتیوں کی لڑی سے بنے پردے کے پار سر جھکائے کھڑی الوینا پر پڑی۔


قیصر نے اس کے بتائے گئے ڈائریکشن میں دیکھا۔

لمحہ بھر کو تو اس کی نگاہیں چکا چوند ہو گئیں۔

وہ گلابوں سی لڑکی سر جھکائے اس ماحول میں گھبرائی ہوئی سی لگ رہی تھی۔


اس سے نظریں ہٹیں تو اسے احساس ہوا کے آس پاس موجود کئی نگاہیں بڑی بےباکی سے اس وجود کا طواف کر رہی ہیں۔

قیصر خیام کے اندر ابال سا اٹھا۔

جھٹکے سے وہ تارہ کی جانب مڑا۔


"اسے اتنا تیار کرنے کی کیا تُک تھی؟"۔ اس کے لہجے میں آنچ تھی۔

وہ خود بھی اپنی کیفیت پر حیران ہوا۔


تارہ گڑبڑا سی گئی۔

"وہ۔۔۔تم نے ہی تو کہا تھا کے تیار کرکے لانا اسے"۔ سر جھکائے وہ کہنے لگی۔

اگر قیصر کو پتہ چل جاتا کے اس کے رویے کا تو ممکن تھا کے وہ اس کی خبر لیتا۔

"وہ سب چھوڑو۔ جاؤ اسے لے آؤ اور جو سمجھایا ہے وہ کرو"۔ سر جھٹک کر مائیک تھامے وہ ایک مرکز پر آ گیا۔

اعظم نے اسے مائیک تھمایا۔

میوزک بند ہو چکا تھا۔

جبکہ وہ سب کی توجہ حاصل کرچکا تھا۔

"گڈ ایوننگ دوستوں، امید ہے آپ سب پارٹی انجوائے کر رہے ہوں گے۔ لیکن یہ شام یادگار رہے اور خوشگوار بنانے کیلئے کیوں نہ ایک چھوٹا سا کھیل کھیلا جائے"۔

سب یک دم پرجوش ہو کر تالیاں پیٹنے لگے۔

"کیسا کھیل؟"۔ کسی نے پوچھا۔

"بتاتا ہوں اعظم"۔ اشارے سے اس نے کچھ کہا۔

جس پر وہ سر ہلا کر چلا گیا۔

"آپ سب کو ایک ایک گن دی جائے گی۔ کوئی بیس لوگ آگے آئیں"۔ اس کے کہنے کے بعد ایک ایک کرکے سب آگے آنے لگے۔

"آپ دونوں بھی"۔ آنکھیں چھوٹی کیئے اس نے ان دو نوجوانوں کو مخاطب کیا جن کا چہرہ اس نے تارہ کی دی گئی فائل میں موجود تصویروں میں نہیں دیکھا تھا۔

وہ دونوں پراعتماد چال چلتے ہوئے آگے آئے۔

کل بیس لوگ تھے جو قیصر کے لوگوں کے بنائے نرغے میں موجود تھے۔

ولید ایک طرف کو صوفے پر بیٹھا دلچسپی سے یہ کھیل ملاحظہ کر رہا ھا۔

"برا مت مانیے گا لیکن میرے آدمی آپ میں سے ہر ایک کی پشت پر تعینات رہے گا۔ تاکہ کوئی چیٹنگ نہ کرے"۔ اس کے کہنے پر سب دھیمے سروں میں ہنسنے لگ۔

قیصر کے اشارے پر اعظم نے سینٹر میں رکھے شیشے کے باکس سے پردہ گرایا۔

"تو کھیل کچھ یوں ہے کے سامنے موجود لڑکی پر باری باری آپ سب مہمانوں کو نشانہ باندھنا ہے۔ آپ سب کے ہاتھوں میں موجود گنز میں سے کسی ایک میں گولی ہے۔ جس نے وہ گولی چلائی صحیح نشانے پر اسے ایک بہت خاص انعام دیا جائے گا"۔ اسپاٹ لائٹ میں کھڑا وہ مائیک ہاتھ میں تھامے تقریب میں موجود سب مہمانوں پر نگاہیں دوڑا کر کھیل کے اصول سمجھا رہا تھا۔

سامنے ہی الوینا شیشے کے ساؤنڈ پروف باکس میں کھڑی تھی۔ اسکے ہاتھ بندھے تھے۔ آنکھوں پر سیاہ پٹی تھی۔

جس وجہ سے وہ انجان تھی کے اس کے ساتھ کیا ہونے جا رہا تھا۔

حاضرین نے چونک کر شیشے کے باکس میں قید اس پری وش کو دیکھا۔


"اتنے کم سن حسن کو اس بے دردی سے مارنا زیادتی نہیں ہوگی قیصر خیام؟"۔ بھیڑ میں سے کسی نے یہ سوال داغا۔


اثبات پر قیصر نے زور سے مٹھیاں بھینچ لیں اور ضبط سے مسکرایا۔


"تو چلیئے کھیل شروع کرتے ہیں"۔ سوال کو نظرانداز کرکے وہ گویا ہوا۔


ماحول میں یک دم سنسنی پھیل گئی۔


پہلا بندہ سامنے آیا۔


قیصر بغور اس کے ہاؤ بھاؤ دیکھنے لگا۔


لڑکی کا نشانہ لیتے ہوئے اس نے بنا کسی پس و پیش کے گولی چلائی مگر کچھ بھی نہ ہوا۔ اس نے دو تین بار کوشش کی اور مایوس ہو گیا۔


"افسوس، نیکسٹ"۔ تاسف سے کہہ کر اس نے اگلے کو بلوایا۔


وہ آیا۔۔۔اس نے بھی نشانہ لے کر اسی طرح کوشش کی مگر بے سود۔


اسی طرح ایک کے بعد ایک پندرہ لوگوں نے کوشش کی مگر کچھ بھی نہ ہوا۔


الوینا گھبرائی ہوئی سی ایک ہی پوزیشن میں کھڑی تھی۔ تارہ نے اسے ہلنے سے سختی سے منع کیا تھا۔

اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کے آخر چل کیا رہا ہے۔

آس پاس کوئی آواز بھی اسے سنائی نہیں دے رہی تھی۔


سولہویں بار ایک چینی نقوش والا پستہ قد کا آدمی آگے آیا۔

قیصر نے اس کے چہرے پر نگاہیں گڑائی ہوئی تھیں۔

ایک سیکنڈ بھی وہ اس سے چوک نہیں رہا تھا۔


اس آدمی نے بلا چوں چراں کے باقی پندرہ لوگوں کی طرح گولی چلائی۔ مگر وہ بھی خالی تھی۔


مہمان متاسف ہوئے۔


"نیکسٹ"۔ اب یہ گہرے سانولے رنگ اور درمیانے قد کاٹھ کا دوسرا شخص تھا جو قیصر کے شک کے گھیرے میں تھا۔


قیصر کی سرمئی آنکھیں اس کی ایک ایک چال نوٹ کر رہی تھیں۔ اس شخص کا انداز کسی قدر ہچکچایا ہوا سا تھا۔

بندوق تھامے سست روی سے چلتا ہوا وہ شیشے کے ڈبے کے سامنے آیا۔


وہ چہرہ اسے اچھی طرح حفظ تھا۔

یہ وہی لڑکی تھی جس کے بارے میں ہارون نے اسے تاکید کی تھی کے پہلے اسے ڈھونڈنا اور پھر باحفاظت وہاں سے فرار کروا کر اسے اس جگہ کے بارے میں آگاہ کر دینا۔

لیکن جس لڑکی کو اسے بچانے کا کہا گیا تھا اسے ہی اپنے نشانے پر دیکھ کر وہ صحیح معنوں میں پریشان ہو گیا تھا۔


اس نے بندوق والا ہاتھ بلند کرکے لڑکی کا نشانہ لینا چاہا۔


قیصر نے جنبش ابرو سے اعظم کو اسے گھیرنے کا حکم دیا۔

وہ سر ہلا کر اس کے قدرے نزدیک آکھڑا ہوا تھا۔


"کیا ہوا۔ گولی چلاؤ"۔ قیصر نے سرد لہجے میں کہا۔


اور تب یک دم ہی اس آدمی نے بندوق کا رخ قیصر کی جانب موڑا اور جلدی سے ٹریگر دبایا۔ ایک۔۔۔دو۔۔۔تین۔

خالی ٹریگر دبتا رہا مگر گولی تو چلی ہی نہیں۔


قیصر کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ پھیل گئی۔

سارے مہمانوں میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں۔


خوف سے اس کا چہرہ پھیکا پڑ گیا۔

جیب میں موجود موبائل پر ٹائپڈ میسج پر وہ سینڈ کا بٹن دبا کر ہارون کو سگنل دینے ہی والا تھا کے آندھی طوفان کی طرح وہ اس کے سر پر آیا۔

"ساری بندوقیں خالی تھیں میرے عزیز"۔ ہاتھ میں پکڑی خنجر اس کے گلے پر پھیر دی۔

بلیک اسکارپیئن نے شکار کو تڑپنے کا موقع دیئے بغیر لمحوں میں ڈھیر کر دیا تھا۔

اس کے گلے سے خون بھل بھل بہہ رہا تھا۔

وہ زمین پر ڈھیر ہوتے ہی دم توڑ چکا تھا۔

خون کی کئی چھینٹیں قیصر کے چہرے پر آئی تھیں۔


سب لوگ حیران پریشان رہ گئے کے یہ ہو کیا رہا ہے۔


"حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ سمجھ لیجیے کے ایک خطرہ تھا جو اب ٹل چکا ہے۔ آپ لوگ انجوائے کریں میں آتا ہوں"۔ مطمئن لہجے میں کہتے اس نے اپنے آدمیوں کو اشارہ دیا۔


حکم بجا لاتے ہوئے انہوں نے لاش اٹھائی اور بنگلے سے باہر لے گئے۔

فرش چمکا دی گئی۔

سب کچھ پہلے جیسا ہو گیا جیسے وہاں کچھ ہوا ہی نہ ہو۔


"تھری چیئرس فار قیصر خیام"۔ اعظم نے با آواز بلند کہا۔"

ہپ ہپ۔۔۔ہرےے۔۔۔۔ہپ ہپ۔۔۔ہرےے۔۔۔ہپ ہپ ہرےےے"۔

ہر کوئی اس کی ذہانت کی تعریف کر رہا تھا۔

اور وہ صرف ایک مسکراہٹ اچھال کر زینے طے کرتے اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔


موسیقی پھر بجنے لگی۔

مہمان پھر سے خوش گپیوں میں لگ گئے۔

یہ سب ان کیلئے ایک معمول تھا۔

☆☆☆☆☆☆


تارہ اسے پارٹی میں چھوڑ کر اِدھر اُدھر ہو گئی تھی۔

الوینا کو بھنک تک نہ لگی کے کچھ دیر قبل ایک طوفان آ کر گزر گیا تھا۔


ڈم لائٹس۔

فل والیوم موسیقی میں جھومتے لوگ۔

ارد گرد نگاہیں دوڑاتی وہ کسی قدر مطمئن سی تھی۔

ہر کوئی اپنی جگہ مست تھا۔

کھانے پینے کا دور چل رہا تھا۔


"اچھا موقع ہے یہاں سے نکلنے کا۔ کوئی متوجہ نہیں"۔ اس نے خود کی ہمت بندھائی اور اب مین دروازے کی طرف جانے لگی۔


جب کسی نے اس کا بازو تھام لیا۔

الوینا کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔

وہ گرفت مردانہ تھی یہ اندازہ ہاتھوں کی مضبوطی سے وہ بخوبی لگا سکتی تھی۔

یک بارگی اسے اس شخص کا خیال آیا مگر قیصر کی گرفت، اس کا لمس، اسکی خوشبو وہ اچھی طرح پہچانتی تھی۔ نہیں یہ وہ نہیں تھا۔


گھبرا کر وہ مڑی۔

وہ موٹا تگڑا نشے میں جھومتا ہوا بھدے نقوش والا شخص اس کا ہاتھ تھامے کھڑا تھا۔

اس کے پاس سے اٹھتی ام الخبائث کی بو نا قابل برداشت تھی۔


"کہاں جا رہی ہو شہزادی، زرا اپنا دیدار تو کرنے دو"۔ وہ اس کے چہرے کو گرفت میں لینا چاہتا تھا جب الوینا نے منہ پھیر لیا۔

"چھوڑو میرا ہاتھ"۔ وہ بری طرح مچلتی اپنا ہاتھ چھڑانے لگی۔


"آؤ نہ پیار بھری باتیں کریں گے۔ میں تمہاری خوبصورتی کو قریب سے دیکھنا چاہتا ہوں"۔ اسے اپنی گرفت میں لے کر وہ اس پر جھکتا چلا جا رہا تھا۔

الوینا کی آنکھیں لبا لب آنسوؤں سے بھر گئیں۔

اسکی گرفت میں وہ بے آب مچھلی کی مانند تڑپنے لگی۔

اتنے لاؤڈ میوزک میں کوئی بھی اس کی جانب متوجہ نہ ہوا تھا۔

یک دم اس آدمی کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی اور اگلے ہی سیکنڈ وہ لہرا کر زمین بوس ہو گیا۔

وجہ اسے پیچھے سے کسی نے بری طرح کھینچ کر الوینا سے دور کیا تھا اور پوری قوت سے اسے زمین پر پٹخ دیا۔

الوینا کے آنسو تھم گئے۔

مانوس چہرہ دیکھ کر وہ خوفزدہ سی ہرنی کسی کی بھی پرواہ کیئے بغیر اس کے مضبوط وجود میں چھپتے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

ضبط سے اس کی آنکھیں لہو رنگ ہو رہی تھیں۔

وہ فرش پر گرے اس آدمی کو بھوکے شیر کی مانند گھور رہا تھا۔

اس نے نرمی سے الوینا کو خود سے الگ کیا۔

اور اگلے ہی پل آگے بڑھا۔

اب اس شخص اور قیصر خیام کے درمیان کوئی تیسرا نہ تھا۔

"تیری یہ ہمت۔۔۔اسے چھوا کیسے تو نے"۔ اس کی زبان پر بس یہی ایک جملہ تھا۔

اور وہ دیوانہ وار اس شخص کو پیٹ رہا تھا۔

شور پر سب ہی متوجہ ہو گئے تھے۔

اور اب اس نئے تماشے پر ایک بار پھر حیران رہ گئے تھے۔

"یہ کیا کر رہے ہو یار۔۔۔رک جاؤ قیصر۔ ہوش میں آؤ"۔

اعظم اور اشرف سمیت پانچ چھ آدمیوں نے آگے بڑھ کر اسے روکنا چاہا۔

پوری قوت لگا کر اس نے ان سب کو دھکیل کر اپنا آپ چھڑوایا اور پھر سے اس ادھ مرے آدمی کو پیٹنے لگا۔

رونا بھول کر الوینا حیران پریشان سی اس کا یہ روپ دیکھ رہی تھی۔

اس پل اسے وہ وہی قیصر خیام لگا تھا جس نے اسے مارنے کو اس پر خنجر بلند کیا تھا۔

جنون کی حدوں کو چھوتے وہ اس وقت تک اسے پیٹتا رہا جب تک اس شخص نے دم نہ توڑ دیا۔

مسلسل پڑتے قیصر کے شدید وار اس کا وجود برداشت نہ کر پایا تھا۔

اس شخص کا چہرہ مار پڑنے سے خونم خون ہو گیا تھا۔


آنکھوں میں وحشت سموئے الوینا بنا پلکیں جھپکائے یہ خون ریز منظر دیکھ رہی تھی۔

اس نے کہانیوں میں، قصوں میں ایک درندے کو شہزادے میں تبدیل ہوتے دیکھا تھا مگر آج؟

بظاہر حسین چہرے والے اس شہزادے کو وہ ایک گھناؤنے جانور میں بدلتے دیکھ رہی تھی۔

اس کے اندر سناٹے پھیلتے چلے گئے۔

بے چینی حد سے سوا ہوئی۔

سانس لینا دوبھر ہو گیا۔


جب اسے یقین ہوگیا کے زمین پر پڑا وہ وجود بےجان ہو چکا ہے تو سانسیں درست کرتے ہوئے وہ اسے چھوڑ کر اس سے دور ہٹ گیا۔


ہر کوئی شاکڈ تھا۔

بھری محفل میں آج اس نے دوسرا قتل عام کیا تھا۔


"معذرت کے ساتھ مگر یہ پارٹی یہی ختم کی جاتی ہے"۔ سرخ آنکھوں سمیت خشک لہجے میں کہتے ہوئے وہ ولید سے ملا پھر الوینا کی جانب متوجہ ہوا اور اگلے ہی پل اس کا ہاتھ تھام کر اپنے ساتھ کھنچتے ہوئے بنا کسی جانب دیکھے اوپر کی جانب بڑھ گیا۔


"اسے تو مرضِ عشق ہو چلا ہے، خدا خیر کرے"۔ ولید کی تجربہ کار نگاہوں نے قیصر کے ہاؤ بھاؤ دیکھ کر دلچسپ مسکراہٹ کے ساتھ زیرِ لب کہا۔


آہستہ آہستہ کچھ ہی دیر میں سارے مہمان ایک ایک کرکے رخصت ہو گئے۔


وہ ڈری سہمی سی بیڈ پر بیٹھی ہر لمحہ خود میں سمٹتی جا رہی تھی۔

قیصر نے جس طرح اسے لا کر بٹھایا تھا وہ ویسے ہی بیٹھی رہی۔ ایک انچ بھی نہ ہلی۔


باتھ روم میں بند، اپنا دماغ ٹھنڈا کرنے کو وہ اس سرد موسم میں بھی ٹھنڈے پانی سے شاور لے رہا تھا۔


جبکہ وہ اپنی ہی سوچوں میں غلطاں تھی۔

کتنی بے وقوف تھی وہ جو ایسے خطرناک شخص سے مقابلے بازی کرنے چلی تھی۔

بات بات پہ وہ اس کے سامنے اکڑتی اپنا ہٹیلا پن دکھاتی تھی۔

حالانکہ اسے ڈرنا چاہیے تھا اس شخص سے۔ خوف کھانا چاہیئے تھا۔ کیونکہ اب تک تو انسانوں والی کوئی بھی صفت اس نے اس شخص میں نہیں دیکھی تھی۔

مگر پھر بھی، آج جو اس نے الوینا کیلئے کیا تھا اسے مدِنظر رکھتے ہوئے وہ چاہ کر بھی اس سے نفرت نہیں کر پا رہی تھی۔ اس سے گھن نہیں کھا رہی تھی۔


سیاہ ٹراؤزر پر سیاہ بنیان پہنے وہ بال تولیے سے خشک کرتا ہوا ڈریسنگ میز کے سامنے آیا۔

آئینے میں اس کی نظر الوینا کے شفاف عکس پر پڑی۔ ناجانے وہ کن سوچوں میں گم تھی جو آہٹ پر بھی نہ چونکی۔


ٹاول اسٹینڈ پر ڈال کر وہ اب بیڈ تک آیا اور سیاہ شرٹ اٹھا کر پہننے لگا۔

نگاہیں ہنوز الوینا کے پرسوچ چہرے پر ہی جمی رہیں۔

اسے متوجہ نہ پا کر بالآخر قیصر نے ٹوکنا ضروری سمجھا۔


"یہ کون سا ملک فتح کرنے کا سوچ رہی ہو جو اپنے ارد گرد کا بھی ہوش نہیں ہے تمہیں"۔ کمر پر دونوں ہاتھ رکھے وہ سخت لہجے میں طنز کر گیا۔


وہ گڑبڑا سی گئی۔

"کک۔۔۔کچھ نہیں"۔ بنا پلکیں اٹھائے جواب دیا۔


جبکہ وہ اس کی جانب متوجہ نہ تھا۔ موبائل پر اعظم کا نمبر ملا رہا تھا۔


"اعظم، اگلے ایک گھنٹے میں اس جگہ سے نکلنے کی تیاری پکڑو۔ باقی سب کو بھی انفارم کر دو جتنی جلدی ہو سکے یہ جگہ چھوڑنی ہوگی"۔ اپنے کپڑے بیگ میں رکھتے ہوئے وہ ہدایات دے رہا تھا۔


دوسری جانب یہ سن کر وہ حیران ہوا۔

"لیکن باس ایسی بھی کیا ایمرجنسی آ گئی ہے؟ خطرہ تو ٹل چکا ہے"۔ وہ فکرمندی سے بولا۔


الوینا ہمہ تن گوش ہو کر اس کی گفتگو سننے لگی۔


"وہ صرف ڈیمج کنٹرول تھا۔ اصل خطرہ تو اب بھی باقی ہے۔ خیر، اب باتوں میں وقت ضائع نہ کرو۔ جا کر انتظامات کرو یہاں سے نکلنے کے"۔ مصروف سے انداز میں کہہ کر اس نے رابطہ قطع کر دیا۔


پھر خیال آیا کے وہ وہی بیٹھی تھی۔


"اب تمہیں کیا دعوت نامہ دینا پڑے گا"۔ کاٹ دار لہجے میں بولا۔


وہ بیٹھے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔


"اب جاؤ یہ کپڑے بدلو اور کوئی ڈھنگ کا لباس پہنو۔ جس کے ساتھ دوپٹہ یا چادر لازمی ہونا چاہیئے"۔ سر تا پیر کڑے تیوروں سے جائزہ لے کر حکم دیا۔


وہ سٹپٹا کر جلدی سے کمرے سے باہر نکل گئی۔


پیچھے وہ سر جھٹک کر رہ گیا۔

☆☆☆☆☆☆


کئی گھنٹے گزر گئے تھے مگر مخبر سے رابطہ بحال نہ ہو سکا تھا۔


"سر مجھے لگتا ہے وہ پکڑا گیا ہوگا۔ اور ممکن ہے قیصر نے اس کا کام تمام کر دیا ہو"۔ ہارون تشویش زدہ سا کہہ رہا تھا۔

مختار صاحب کی پیشانی پر تفکر کی لکیریں نمودار ہوئیں۔


"ہوں، مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے عالم"۔ مایوسی بھرے لہجے میں کہا۔


وہ پچھلے کئی گھنٹوں سے گرین سگنل کا انتظار کررہے تھے۔

مگر اس کا صبر اب جواب دے گیا۔


"تو سر اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟"۔


"اس کا موبائل لوکیشن ٹریس کرو۔ کچھ نہیں بدلے گا۔ سب کچھ ویسے ہی ہوگا جیسا ہم نے طے کیا ہے"۔ انہوں نے اٹل لہجے میں کہا۔


"یس سر"۔ اس کی انگلیاں تیزی سے موبائل اسکرین پر تھرک رہی تھیں۔

وہ اب کنٹرول روم سے رابطہ کرنے لگا تھا۔

☆☆☆☆☆☆


گاڑی اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی۔

ڈرائیو وہ خود کر رہا تھا۔ اس کے برابر اعظم بیٹھا تھا۔ جبکہ پیچھے تارہ اور الوینا جو بے ہوش تھی۔


نکلنے سے قبل الوینا کو اس نے بے ہوش کر دیا تھا تاکہ وہ پھر کوئی بے وقوفی بھری حرکت یا بھاگنے کی کوشش نہ کرے۔


ملازموں کی اس نے پیسے دے کر چھٹی کردی تھی۔ کیونکہ وہ ان سب کو ساتھ لیئے نہیں پھر سکتا تھا۔

بس وہ تھا اور اس کے دوستوں کے علاوہ وہ لڑکی۔


"باس مجھے سمجھ نہیں آئی، جب بظاہر کوئی خطرہ تھا ہی نہیں تو ہم جگہ کیوں بدل رہے ہیں؟"۔ ذہن میں چل رہا سوال بالآخر اعظم کی زبان پر آ گیا۔


قیصر طنزیہ مسکرایا۔


"کیونکہ ان پولیس والوں کی ناک بہت لمبی ہوتی ہے اعظم۔ یہ کتے کی طرح سونگھتے ہوئے کسی طرح بھی وہاں پہنچ جاتے۔ لیکن ان کو بھی شاید اندازہ نہیں کے اگر وہ سیر ہیں تو میں سوا سیر"۔ پرسکون لہجے میں کہا۔


اعظم کے چہرے پر بھی اطمینان اتر آیا۔

"پھر تو اچھا ہی ہوا جو وہاں سے نکل آئے ہم۔ ورنہ پولیس کی ریڈ پڑ جاتی تو"۔ اس نے سوچ کر ہی جھرجھری لی۔


"بابو کو فون کر کے تاکید کردو کے بنگلے کو اچھی طرح سے چیک کرکے ہم تک پہنچنے کا ہر راستہ مٹا دے وہاں سے۔ میں بھی دیکھتا ہوں کے یہ پولیس کیسے پہنچتی ہے ہم تک"۔ اس کے لہجے میں خود کیلئے مان تھا۔


اعظم حکم پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے بابو کا نمبر ڈائل کرنے لگا۔


جبکہ قیصر خیام کی نگاہیں بھٹک بھٹک کر آئینے میں نظر آتے الوینا کے عکس پر ٹھہر جاتی تھیں جو ارد گرد سے بے خبر سیٹ کی پشت سے سر ٹکائے ہوش و حواس سے بیگانہ تھی۔


یہ جانے بغیر کے تارہ کی چبھتی نگاہیں یہ سب بخوبی نوٹ کر رہی تھیں۔

اس پل اس کے دل میں موجود الوینا کیلئے جلن نفرت میں بدل گئی تھی۔

اندھی نفرت میں!

☆☆☆☆☆☆


لیونگ روم میں صوفے پر براجمان چائے کا کپ ہاتھ میں تھامے وہ کوئی کتاب کھولے بیٹھے تھے جب مین دروازے پر اطلاعی گھنٹی بجی۔

وہ چونکے نہیں۔ کیونکہ انہیں اندازہ تھا کے کون ہوگا۔


ملازم نے دروازہ کھولا اور نووارد کو ساتھ لیئے انہی کے پاس چلا آیا۔


"سرکار یہ"۔ ملازم نے انہیں متوجہ کیا۔


انہوں نے کتاب بند کرکے ایک طرف رکھتے ہوئے ملازم کو وہاں سے جانے کا اشارہ دیا پھر نووارد کا جائزہ لینے لگے۔


سیاہ سوٹ میں ملبوس عام سی شکل و صورت والا وہ نوجوان چہرے سے لگ بھگ ستائیس اٹھائیس سالہ لگتا تھا۔


سلام دعا کے بعد علی مرزا نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

اس نے ان کے مقابل نشست سنبھال لی۔


"کہیے کس لیئے بلوایا ہے آپ نے مجھے منسٹر صاحب؟"۔ وہ الجھا ہوا سا تھا۔

علی مرزا بھلا اسے کیسے جانتے تھے۔ وہ تو انہیں پرسنلی جانتا تک نہ تھا۔ پھر آخر بلانے کا مقصد کیا تھا؟


"بتاتا ہوں۔ تو موسٰی فیروز شاہی۔۔۔یہی نام ہے نا تمہارا؟"۔ وہ یک دم کچھ کہنے لگے تھے پھر اسکی جانب دیکھ کر جیسے تصدیق چاہی۔


موسٰی قدرے حواس باختہ ہو گیا۔


"جی نہیں۔ میرا نام موسٰی صدیقی ہے۔ آپ کو شاید غلط فہمی ہوئی ہے"۔ اس نے سنبھل کر جواب دیا۔


علی اس کی بات پر مسکرائے۔


"سر نیم بدل لینے سے پہچان نہیں بدل جاتی موسٰی، انسان اپنے باپ کے نام سے پہچانا جاتا ہے"۔ وہ اب آہستہ آہستہ اسے موضوع پر لانے لگے۔


"میرے فادر کئی سال پہلے ایک حادثے میں مارے گئے۔ ان کا کیا ذکر؟"۔ نگاہیں چراتے ہوئے کہا۔

اسکے چہرے پر صاف لکھا تھا کے وہ اس موضوع سے بچنا چاہتا ہے۔


"لیکن میں نے تو سنا ہے کے اسے تمہارے سوتیلے یا یوں کہو منہ بولے بھائی نے چار دن پہلے ہی مارا ہے"۔ پرکھتی نگاہوں سے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے انہوں نے دکھتی نس دبائی۔


لمحہ بھر کو وہ کچھ بول ہی نہ سکا۔

سر جھکائے شاید خود پر قابو پا رہا تھا۔


"وہ تمہارا باپ تھا۔ تم اس بات کو تسلیم کرو یا نہ کرو مگر سچائی نہیں بدلے گی"۔ لوہا گرم دیکھ کر چوٹ کیا۔


"وہ میرا باپ نہیں تھا۔ اور کوئی اولاد بھی ایسے مجرم کو اپنا باپ کہنے سے ہچکچائے گی۔ میں نے بچپن میں ہی ان کے کاموں کی وجہ سے انہیں چھوڑ دیا تھا اور اپنی الگ دنیا بسائی۔ اب میرا ایک ہستا بستا گھر ہے۔ بیوی بچے ہیں۔ کاروبار ہے اور معاشرے میں ایک نام ہے، عزت اور مقام ہے جو میرے باپ کے پاس نہیں تھا۔ میں بہت دولتمند نہ سہی مگر میں خوش ہوں اپنی زندگی سے۔ مطمئن ہوں کے میں نے اس اندھی گلی کا راستہ نہیں چنا۔

میرا باپ اسی دن مر گیا تھا جس دن اس اندھیرے راستے کو چن کر اس نے اپنی روح بیچ دی۔ اسی دن میں نے اس کے مرنے کا سوگ منا لیا تھا۔ اب جو مرا ہے وہ میرا باپ نہیں صرف ایک مجرم ہے"۔ بے حد مضبوطی کے ساتھ ایک ایک لفظ پر زور دے کر یہ سب کہتے ہوئے اس نے علی مرزا کے ارادوں پر پانی پھیر دیا تھا۔


وہ تو سمجھتے تھے کے سیاسی داؤ چل کر موسٰی کو کرسی کیلئے قیصر کے خلاف کرکے اسے استعمال کریں گے مگر اسے دیکھ کر تو ان کے اندر مایوسی پھیلتی چلی گئی۔

وہ تو اپنے باپ کے برعکس تھا۔ شرافت کا پتلا۔

علی مرزا نے سر جھٹکا۔


"مجھے یہاں کس لیے طلب کیا گیا ہے؟ بتانا پسند کریں گے آپ؟"۔ وہ مدعے پہ آیا۔


علی اس کی بات پر اپنے خیالات سے چونکے۔

اور سنبھل کر بیٹھے۔


"ہاں، جیسے کے الیکشن نزدیک ہیں۔ تو بس اسی کی تیاریاں زور و شورو سے جاری ہیں۔ اسی سلسلے میں ایک ایڈ ایجنسی ہائر کرنا چاہتا تھا جو ہماری کارگردگی کو اچھے انداز میں بنا کر ایڈ کی صورت نشر کرے نیوز چینلز پر۔ کسی نے تمہاری کمپنی کا حوالہ دیا تو بس اسی سلسلے میں یاد کیا ہے تمہیں"۔ انہوں نے بات سنبھال لی۔

کچھ ہی دیر بعد جیسے تیسے انہوں نے اسے نپٹا کر چلتا کیا۔

"کیا قسمت پائی ہے قیصر خیام نے۔ کوئی بھی اس کے خلاف جانے کو تیار نہیں"۔ وہ زہرخند ہو کر سوچنے لگے۔

یہ شو تو فلاپ ہو گیا تھا۔ اب انہیں کچھ اور سوچنا تھا۔

☆☆☆☆☆☆

کئی گھنٹے کے سفر کے بعد وہ جی-پی-ایس کی مدد سے اس جگہ کا لوکیشن معلوم کر پائے تھے۔

رات کا آخری پہر، خراب راستے، خراب موسم کچھ بھی تو ان لوگوں کی راہ میں رکاوٹ نہ بن پایا تھا۔

بالآخر وہ فیروز شاہی کے سفید بنگلے تک پہنچ ہی گئے تھے۔

رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھا کر بے آواز چلتے وہ بنگلے کی جانب بڑھ رہے تھے۔

ایک ایک کرکے تمام آفیسرز بنگلے میں گھس کے اطراف میں پھیل گئے۔

سارے کمرے، اوپر نیچے کی منزلیں، دروازے کھڑکیاں، دیواریں اور فرش تک میں راستے کھنگال لیئے تھے۔ مگر کوئی ایک ذی روح بھی وہاں موجود نہ تھا۔ پورا بنگلہ سائیں سائیں کر رہا تھا۔

"سر بنگلہ پورا خالی پڑا ہے۔ لگتا ہے کچھ دیر قبل وہ یہی تھے مگر اب فرار ہو چکے ہیں"۔ ہارون نے کان میں لگے آلے کے ذریعے نیچے کے فلور پر موجود مختار صاحب کو آگاہ کیا۔

"ہاں لگتا تو یہی ہے عالم۔ چلو باہر چل کر آس پاس دیکھتے ہیں"۔ انہوں نے جواب دیا۔

بنگلے کے ارد گرد تلاش کرتے ہوئے ان کی نظریں ایک جگہ آ کر ٹھہر سی گئیں۔

اوندھے منہ پڑے اس بے جان سے وجود کو انہوں نے سیدھا کیا۔ نبض چیک کیں۔ اس کا پورا جسم ٹھنڈا پڑ رہا تھا۔ وہ اکڑنے لگا تھا۔ شاید موت کئی گھنٹے پہلے ہی ہو چکی تھی۔

انہوں نے اندازہ لگایا۔

اسی وقت ہارون اور باقی آفیسرز بھی بھاگتے ہوئے وہاں آ گئے۔

ہارون کی اس بے جان چہرے پر نظر پڑی تو ششدر رہ گیا۔

"اوہ گاڈ، سر آپ نے ٹھیک کہا تھا قیصر کو اس پر شک ہو گیا تھا۔ اسے مار کر وہ فرار ہو چکے ہیں۔ ہمیں دیر ہو گئی سر۔۔۔الوینا ایک بار پھر ہمارے ہاتھ سے نکل گئی"۔ فرسٹریٹڈ ہو کر اس نے سیاہ بال مٹھی میں جکڑے۔

جبکہ مختار صاحب کے اندر سناٹے اترتے چلے گئے۔

پہاڑی علاقے کے برعکس اب انہوں نے شہر کے نواحی علاقے

میں واقع ایک خوبصورت مکان کو اپنا ٹھکانہ بنایا تھا۔

قدرت کا حسن تو یہاں بھی میسر تھا۔ مگر ماحول میں ایک اجب سکون بھی تھا۔

ہر طرف آنکھوں کو ٹھنڈک بخشتے سبزا زار تھے۔ زرا فاصلے پر ہی گھنا جنگل تھا۔

اکا دکا مکان تھوڑے تھوڑے فاصلے پر موجود تھے۔ جہاں کے مالک شہر کی آلودہ فضا اور شور سے کچھ پل نجات حاصل کرنے اور طبیعت فریش کرنے کو وہاں آتے تھے۔


یہ مکان بھی دو منزلہ تھی۔

جس کے دو کمرے پہلی منزل پر اور دو زینے چڑھ کر اوپری منزل پر تھے۔ جن میں سے ایک میں اس نے الوینا کو رکھا تھا۔


سبز گھاس پر چلتے وہ ماحول کی تروتازگی کو اندر اتار رہا تھا۔

یہاں آتے ہی اس کا موڈ آپ ہی آپ اچھا ہو گیا۔


ذہن تمام تر الجھنوں اور خطروں سے لڑ کر فارغ ہوا تو طبیعت آپ ہی آپ اس لڑکی سے متعلق سوچنے پر مجبور ہو گئی۔


اسے بھی نہیں پتہ تھا کے آج کل یہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ مگر جانے کیوں اس کے بارے میں جب سوچتا تو سوچتا ہی چلا جاتا تھا۔

اس کے بارے میں سوچنا، اسے اپنے سامنے بٹھا کر دیکھتے رہنے کی خواہش جب اس کے دل میں سر اٹھاتی تو وہ خود بھی اپنی کیفیت پر حیران رہ جاتا۔

مگر پھر بھی اپنے خیالات کو وہ رد نہیں کرتا تھا۔ وہ اس کے عکس کو ذہن سے جھٹکتا نہیں تھا۔ کیونکہ اس سے متعلق سوچنا اسے اچھا لگ رہا تھا۔


خوفزدہ شہد رنگ آنکھیں، کانپتے لب، سرخ پڑتا چہرہ بار بار اس کی نگاہوں کے سامنے آن ٹھہرتا تھا۔

اسکے ہاتھ میں موجود سفید رومال پہ مٹا مٹا سا خون کا داغ اب بھی لگا تھا۔

جو الوینا کے لب سے اس رومال نے جذب کیا تھا۔

ایسا اس نے ارادتاً نہیں کیا تھا بلکہ یہ حرکت آپ ہی آپ اس سے سرزد ہو گئی تھی جانے کیسے۔

وہ منظر یاد کرتے ہی بےساختہ ایک خوبصورت مسکراہٹ قیصر کے لبوں کو چھو گئی۔


اعظم چونک کر اور قدرے دلچسپی سے اس کے حرکات نوٹ کرتا بغور اسے دیکھتے ہوئے قریب چلا آیا۔


"کسے سوچا جا رہا ہے اتنی فرصت سے؟"۔ اس کے سر پر پہنچ کر اچانک ہی یہ سوال پوچھا۔


آواز پر قیصر قدرے چونک گیا اور سراعت سے رومال واپس جیب میں رکھ لیا۔


"تم کیا میری جاسوسی کر رہے تھے جو یوں چپ چاپ آ کر میرے پیچھے کھڑے ہو گئے"۔ خفت چھپانے کو وہ اس پر چڑھ دوڑا۔


"تمہاری جاسوسی بھی کوئی کر سکتا ہے؟ تم تو جاسوسوں کے بھی باپ ہو"۔ اعظم نے اس کے شانے پر ہاتھ مارتے فخریہ کہا۔


"مسکا لگا رہے ہو؟"۔ ایک ابرو اٹھا کر پوچھا۔


اعظم مسکرایا۔

"نہیں یار دل سے کہہ رہا ہوں"۔ وہ اس سے بغلگیر ہو گیا۔

قیصر بھی اسے بھنچ کر مسکراتے ہوئے الگ ہوا۔


"ویسے سچ بتاؤ بھابھی کے بارے میں سوچ رہے تھے نا؟"۔ آنکھوں میں شرارت لیے اب وہ اس کی کھنچائی کرنے کے موڈ میں تھا۔


قیصر نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا۔

"بھابھی؟ کون بھابھی؟ کس کی بھابھی؟"۔ وہ انجان بنا پوچھ رہا تھا۔


اعظم نے سر پیٹ لیا۔

"ابے میری بھابھی اور تیری بیوی"۔


"کیا بکواس کر رہا ہے۔ کون سی بیوی؟ میری تو شادی بھی نہیں ہوئی۔ کامیاب بیچلر ہوں میں"۔ کالر درست کرتے ہوئے کہا۔


اس نے ہاتھ اب اسکے کندھے پہ رکھا۔

"میرے بھائی۔ تو اسکا یہ مطلب تھوڑی ہے کے تم ہمیشہ ایسے ہی رہو گے۔ میں تو کہتا ہوں بھابھی لانے کے بارے میں سوچنا شروع کردو۔ کتنا مزا آئے گا یار جب میں اپنے یار کی شادی میں بھنگڑے ڈالوں گا۔ بھابھی گھر آئے گی۔ پھر کچھ سالوں میں چھوٹے چھوٹے منے منی آئیں گے۔ مجھے چاچو چاچو کہہ کر جان کھائیں گے اور۔۔۔۔"


"اور جب آنکھ کھلے گی تو خواب پھر خواب ہی رہ جائیں گے"۔ وہ جو مستقبل قریب میں اس کے بچوں کو کندھے پہ سوار کرنے لگا تھا قیصر کے کندھا ہٹانے پہ گرتے گرتے بچا۔

جبکہ اس نے ایک چپت رسید کی۔


"ہمارے ایسے نصیب کہاں یار، ایسی زندگیاں تو یہ عام لوگ جیتے ہیں۔ سارا دن گدھوں کی طرح محنت کر کے گھر جا کر پرسکون نیند سو جاتے ہیں۔ بیوی بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی رہتے ہیں۔ نہ تو تمہاری میری طرح ان کے ضمیر پر کوئی بوجھ ہوتا ہے اور نہ ہی پکڑے جانے کا ڈر۔ ہر بوجھ سے ان کی زندگی آزاد ہوتی ہے۔ رات کو سوتے ہوئے انہیں اپنے ہاتھوں میں خون نظر نہیں آتا۔

ان کے خواب بھیانک نہیں ہوتے، جس میں خون کی ندیا بہتی ہیں۔ لیکن پھر بھی مجھے سمجھ میں نہیں آتا کے کس بات کے شکوے کرتے ہیں۔ ان کے پاس شکوے کرنے کیلئے اللہ ہوتا ہے۔

مگر ہمیں تو یہ حق بھی حاصل نہیں ہے"۔ سر جھٹک کر کہتے ہوئے وہ آج پہلی بار اپنی زندگی کو باقیوں سے کمپیئر کر رہا تھا۔

اعظم کے چہرے پر تاریکی سی چھا گئی۔


"ہم نے اپنے لیے یہ زندگی نہیں چنی قیصر، اس زندگی نے ہمیں چنا ہے۔ ہوش سنبھالتے ہی ہم نے اپنے ارد گرد بندوقوں کی آوازیں سنی تھیں، خون کی ندیاں بہاتے لوگوں کو دیکھا تھا اور پھر وہی کچھ ہمیں بھی سکھا دیا گیا جسے ہم آج تک کر رہے ہیں۔ پتہ نہیں کب کس کی گولی پر ہمارا نام لکھا ہوگا، کب کون کہاں مار دے گا یہ تک ہم نہیں جانتے۔

اور پھر مرنے کے بعد بھی قبر نصیب ہوگی یا نہیں اس کا بھی کوئی پتہ نہیں ہے۔ یار کبھی کبھی نا میں سوچتا ہوں ہماری زندگی اس آوارہ کتے سے بھی گئی گزری ہے۔ وہ کم از کم کھلے عام راستے پر چل پھر تو سکتا ہے۔ مگر ہم تو وہ بھی نہیں کر سکتے کے دشمن ہی اتنے بنا لیے ہیں"۔ اعظم کے لہجے میں دکھ کا عنصر شامل تھا۔


قیصر کی طرح اس کا بھی بچپن حاجی کے پاس گزرا۔ اسے اس کے گھر سے اغواء کیا گیا تھا۔ ہوش سنبھالنے کے بعد اس نے خود کو جس ماحول میں پایا پھر اس کا کچا ذہن بھی اسی میں ڈھلتا چلا گیا۔


پہلے ضمیر پکارتی تھی۔ روکتی تھی جھڑکتی تھی۔

مگر اب تو لگتا تھا وہ بھی اپنی موت آپ مر گئی تھی

اچھے برے کی تمیز سکھانے والا انہیں کوئی میسر ہی نہ تھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا تھا کے انہوں نے پوری طرح سے خود کو برباد کر لیا تھا۔

ان کی روح مسخ ہو چکی تھی۔

ضمیر مردہ ہو چکا تھا۔

صحیح غلط کا فرق انہیں بھول چکا تھا۔

اگر کچھ باقی تھا تو بس ان کا ظاہری وجود۔ جو کسی بوجھ کی طرح وہ لوگ ڈھو رہے تھے۔


"ٹھیک کہتے ہو اعظم، سالا نہ سدھرنے کی کوئی وجہ ہے اور نہ سدھارنے والا کوئی میسر ہے۔ جنہوں نے پالا انہوں نے یہی سکھایا کے زندگی جینی ہے تو دوسرے کو مار کر جیو"۔ تلخی سے مسکراتے ہوئے زخمی لہجے میں کہا۔


"لیکن اب تو تمہارے پاس وجہ ہے نا سدھرنے کی؟ پھر کیا خیال ہے؟"۔ نم آنکھوں سے مسکرا کر اعظم نے پوچھا۔


الجھن آمیز نظروں سے اس نے اعظم کو دیکھا۔

اس نے مسکرا کر قیصر کے شانے پہ دباؤ ڈالا۔

"میں الوینا کی بات کر رہا ہوں۔ وہ تو وجہ بن سکتی ہے نا؟"۔ اس نے جیسے تصدیق چاہی۔


قیصر نے ٹھنڈی آہ بھری۔

اور اس کا ہاتھ ہٹایا۔


"میں قاتل ضرور ہوں لیکن جابر نہیں کے اپنی قید میں موجود ایک کمزور سی لڑکی کو خود سے باندھ کر اسے اپنے ساتھ رہنے پر مجبور کر دوں۔ وہ روشنی ہے اور قیصر خیام ایک اندھیرا۔ اور یہ دونوں کبھی نہیں ملتے۔

جب ایک آتا ہے تو دوسرے کو جانا ہی پڑتا ہے۔ الوینا قیصر کی نہیں ہو سکتی اعظم، یہ ناممکنات میں سے ہے"۔ کہتے کہتے اس کی آواز سرگوشی نما ہو گئی۔


اعظم اب کی بار کچھ نہ بولا۔

قیصر کا ضبط اسے اسکے چہرے پر نظر آ رہا تھا۔

وہ کچھ کہہ کر اس کا ضبط توڑ کر اسے کمزور نہیں کرنا چاہتا تھا۔


"میں اسے اس کے باپ کو سونپنے جا رہا ہوں۔ اگر وہ مزید یہاں رہی تو میرا دماغ خراب کردے گی اور تم لوگوں کا بھی"۔ ضبط سے کہتے ہوئے اس نے قدم گھر کی جانب بڑھا دیئے۔


اعظم اس کی پشت تکتا رہ گیا۔

☆☆☆☆☆☆

آنکھ کھلی تو بھاری ہوتے سر کے ساتھ وہ لیٹے سے اٹھ بیٹھی۔ ارد گرد دیکھنے پر خود کو ایک کمرے میں پایا۔

کشادہ کمرہ آف وہائٹ کلر کے فرنیچر سے آراستہ تھا۔ اس کی نظریں لکڑی کے بھورے دروازے پر آ کر ٹھہر سی گئیں۔ موہوم سی امید کے ساتھ بجلی کی سی تیزی سے اٹھ کر وہ اس کی طرف لپکی، ناب گھمایا تو اندازہ ہوا کے دروازہ لاک تھا۔

مایوس سی ہو کر وہ وہی دروازے سے ٹیک لگا کر فرش پر اکڑوں بیٹھ گئی۔

جگہ بدل گئی تھی۔ کمرہ بدل گیا تھا مگر قید اب بھی وہی تھی۔

اسے نقاہت اور کمزوری محسوس ہو رہی تھی۔ پتہ نہیں کتنے گھنٹوں سے وہ بےہوش تھی۔

اسے یاد آیا، جب کپڑے تبدیل کرکے بیڈ پہ پڑا دوپٹہ اٹھانے کیلئے مڑی تھی تب اچانک سامنے اس شخص کو پایا۔ وہ ٹھیک سے حیران بھی نہ ہو پائی تھی جب ایک تیز بو والا کپڑا اس شخص نے اس کے چہرے پر رکھ دیا۔

جسے سونگھتے ہی وہ نیند کی وادیوں میں اتر گئی۔

خیالات سے چونک کر اس کی نظر سفید جالی دار پردوں سے چھن کر آتی سفید چاندنی پر پڑی۔

جسے دیکھ کر احساس ہوا کے رات کا وقت چل رہا ہے۔

اس کے ذہن میں کوندھا سا لپکا۔

"شاید وہاں کوئی کھڑکی ہوگی"۔ وہ جلدی سے اٹھ کر گئی۔

پردے ہٹائے تو اس کی آنکھیں حیرت اور خوشی سے کھل گئیں۔

چاند کی دودھیا روشنی میں وہ دیکھ سکتی تھی کے فاصلہ بے حد کم تھا۔

"اچھا موقع ہے"۔ نقاہت زدہ وجود میں یک دم پھرتی آ گئی تھی۔

شیشے اور لکڑی سے بنی کھڑکی کے پٹ کی کنڈی کھول کر دھکیلا تو وہ کھلتا چلا گیا۔

اتنے دنوں میں پہلی بار الوینا کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔

وہ جلدی سے کھڑکی پر چڑھی۔

"کم آن الوینا کم آن۔۔۔۔تم کر سکتی ہو۔ بس تھوڑی سی ہمت دکھاؤ"۔ اس نے خود کو تسلی دی اور چند لمبی سانسیں بھر کر اپنے اعصاب پرسکون کیئے۔

پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک منزلہ مکان کی کھڑکی سے باہر کود گئی۔

اسٹڈی روم میں موجود وہ گہری سوچوں میں الجھے ہوئے تھے۔

اتنے قریب پہنچ کر الوینا کا ان سے پھر دور ہو جانا مختار صاحب کیلئے دکھ اور تکلیف کا باعث تھا۔

ان کا دل کیسے تڑپ رہا تھا اپنی بچی کو دیکھنے، اس سے ملنے کیلئے یہ کوئی ان سے پوچھتا۔

مگر قسمت تھی کے بار بار ان کا امتحان لینے پر تلی ہوئی تھی۔


انہیں سب سے زیادہ یہی فکر کھائے جا رہی تھی کے وہ شخص ان کی بیٹی کے ساتھ کیا سلوک کر رہا ہوگا۔

سوچ سوچ کر ان کا دماغ شل ہو جاتا تھا۔

تھکے تھکے سے انداز میں انہوں نے کرسی کی پشت سے سر ٹکا دیا اور پیشانی مسلنے لگے۔

تبھی پاس پڑے موبائل کے چنگھاڑنے پر وہ چونکے۔

موبائل اسکرین دیکھی تو کوئی پرائیویٹ نمبر سے کال تھی۔

نا چاہتے ہوئے بھی انہوں نے کال ریسیو کر لی۔


"ہیلو، کون بول رہا ہے؟"۔ قدرے خشک لہجے اور بارعب آواز میں پوچھا۔


"امید نہیں تھی کے تم اپنے ایک سالہ مہمان کو اتنی جلدی بھول جاؤ گے مختار"۔ دوسری جانب سے سرد آواز ابھری۔

جسے سنتے ہی اگلے ہی پل مختار صاحب کی پیشانی پر بل پڑے۔


"قیصر خیام۔ تمہاری جرت بھی کیسے ہوئی مجھے کال کرنے کی؟ بھول رہے ہو کے سامنے کون ہے؟"۔ ان کا لہجہ تیز ہو گیا۔


ادھ کھلے دروازے سے اندر داخل ہوتیں فائزہ چائے کا کپ تھامے دروازے پر ٹھہر سی گئیں۔

مختار صاحب کو بھلا انہوں نے اتنے سالوں میں کب اس قدر غصے میں دیکھا یا سنا تھا۔

شوہر کے انداز نے انہیں ٹھٹھکا دیا تھا۔


"اچھی طرح جانتا ہوں کے کون ہے۔ سامنے اس لڑکی کا پولیس باپ ہے جو اس وقت ایک مجرم کی قید میں ہے۔ اگر چاہتے ہو کے وہ تمہارے پاس صحیح سلامت آ جائے تو میری کچھ شرطیں ہیں جو تمہیں ماننا ہوگی"۔ وہ اب مدعے پہ آ گیا تھا۔


جبکہ اسکی اثبات پر تو مختار صاحب کو آگ ہی لگ گئی۔

"ذلیل کمینے، تو میری بیٹی کا سودا کرنا چاہتا ہے۔ اتنا ہی مرد ہے تو مجھ سے بات کر، میری بیٹی کا سہارا کیوں لے رہا ہے کتے"۔ تیز تیز بولتے ہوئے وہ اپنا آپا کھو رہے تھے۔


دوسری جانب اس کا قہقہہ پڑا تھا۔


"کیا تم مجھے اتنا ہی بے وقوف، جلد باز اور جذباتی سمجھتے ہو؟ میرے سامنے تمہاری یہ چالاکی نہیں چلے گی مختار۔ الوینا کی رہائی اسی صورت ممکن ہے جب تم میری تین شرطیں مانو گے۔ ورنہ پھر اپنی باقی کی بچی کھچی زندگی اسے ڈھونڈنے میں گزار دینا۔ مگر تب بھی تمہیں نہیں ملے گی یہ میں گارنٹی دیتا ہوں"۔ پریقین لہجے میں جواب دیا۔


اس کی یہ بات سن کر مختار صاحب پر اوس پڑ گئی۔

"یہ تم کیا کر رہے ہو مختار۔ الوینا اب بھی اس بےغیرت کے قبضے میں ہے۔ جلدبازی میں اٹھایا گیا تمہارا ایک قدم اس کیلئے مشکلات بڑھا دے گا"۔ ان کے اندر ایک آواز ابھری تھی۔

جس کے اندیشے سن کر وہ قدرے ٹھنڈے پڑ گئے۔


"کون سی شرائط ہیں تمہاری؟"۔ دانت پیس کر اب کی بار انہوں نے ضبط سے کام لیا۔


"ہاں اب ہوئی نا سمجھداری والی بات۔ تو سنو، میں تمہیں ایک پلندہ بھیجوں گا ایک آدمی کے ہاتھ۔ جس میں میری شرائط درج ہوں گی۔ اگر تم چوبیس گھنٹوں میں وہ شرائط پوری کرکے اس پلندے پر دستخط کروگے تب تو ٹھیک ہے ورنہ اب میں مزید تمہاری بیٹی کا اضافی بوجھ نہیں ڈھو سکتا۔ سوچ لو پھر ایسے میں میرا اگلا قدم کیا ہوگا"۔ سرد لہجے میں کہتے ہوئے آخر میں اپنے سنگین ارادے بتائے۔


مختار انصاری کا ضبط جواب دے گیا۔

"اگر میری بیٹی کو کچھ بھی ہوا نا قیصر خیام تو میں تمہیں اتنی بے رحم موت دوں گا کے پھر کوئی مجرم جرم کرنے سے پہلے سو بار سوچے گا"۔ وہ سخت غضبناک ہوئے۔


"چوبیس گھنٹے۔ تین شرائط۔ پوری ہوئی تو ٹھیک ورنہ میرے وار کیلئے تیار رہنا"۔ اتنا کہنے کے ساتھ ہی کال کاٹ دی گئی۔


مختار صاحب نے زور سے موبائل میز پر پٹخا اور سر ہاتھوں میں گرا لیا۔


"کون تھا وہ؟"۔ خاموش کمرے میں اچانک فائزہ کی آواز گونجی۔

مختار نے چونک کر سر اٹھایا تو انہیں سامنے پا کر ٹھٹھک گئے۔


"فائزہ تم؟ تم کب آئی"۔ نگاہیں چراتے ہوئے انہوں نے کمزور سے لہجے میں کہا۔


"جب آپ اس شخص سے اپنی بیٹی کا ذکر کر رہے تھے"۔ شکوہ کناں نگاہوں سے ان کے جھکے سر کو دیکھتے ہوئے جواب دیا۔


وہ کچھ نہ بولے۔


"الوینا کے بارے میں سب کچھ جاننے کے باوجود بھی مجھے اندھیرے میں رکھا آپ نے؟ کیوں مختار؟ کیا میں اتنی غیر ہو گئی کے آپ نے ایک بار بھی مجھے اس کے متعلق بتانا ضروری نہیں سمجھا؟ جواب دیجئے"۔ بھرائے ہوئے لہجے میں کہتی ہوئیں وہ گھٹنوں کے بل ان کے سامنے بیٹھ گئیں۔

اور ڈبڈبائی آنکھوں سے ان کے چہرے پر پھیلے رنج کو دیکھنے

لگیں۔


"کیسے بتاتا فائزہ تمہیں کے میری بیٹی اس بار بھی ملنے سے پہلے ہی کھو گئی؟ یہ زبدگی کتنی ظالم ہے فائزہ جو مسلسل اس معصوم سی بچی کا اتنا کڑا امتحان لے رہی ہے۔ پیدا ہونے سے پہلے ہی باپ سے دور کردی گئی۔ پھر ماں بھی اسے چھوڑ گئی۔ تن تنہا جانے کتنی مشکلوں کا سامنا اس نے کیا ہوگا۔ اور اب جب اتنے سالوں بعد مل رہی تھی تو میں ہی وجہ بن گیا اس کے غائب ہونے گا"۔ دکھ سے کہتے ہوئے ان کا لہجہ پست تھا۔


فائزہ کو ان کا یوں کمزور پڑنا اچھا نہیں لگ رہا تھا۔


"آپ تو اسے ڈھونڈ سکتے ہیں نا۔ آپ کے ہاتھ میں پاور ہے اس کا استعمال کریں، پھر دیکھیے گا وہ جلد ہی مل جائے گی۔ ایسے مایوس نا ہوں مجھے یقین ہے وہ اب ہمیں جلد مل جائے گی"۔ آنسو صاف کرتے انہوں نے پرامید لہجے میں کہا۔


مختار صاحب نے نفی میں سرہلایا۔


"کوئی فائدہ نہیں میں ہر طرح سے کوشش کر چکا ہوں۔ وہ جیل سے بھاگے ایک مجرم قیصر خیام کی قید میں ہے۔ الوینا کو آزاد کرنے کیلئے اس نے شرطیں رکھی ہیں۔۔۔اور چوبیس گھنٹوں کا وقت دیا ہے"۔


ان کی زبانی یہ سب سن کر فائزہ کا دل دہل گیا۔


"نہیں نہیں، آپ کچھ بھی کریں لیکن الوینا ہمارے پاس آنی چاہیے۔ وہ بھی صحیح سلامت"۔ وہ قطعیت سے بولیں۔


"تم جانتی بھی ہو کے کیا کہہ رہی ہو تم۔ میں اپنی بیٹی کا سودا ہرگز نہیں کروں گا۔ ایک ڈی-آئی-جی ہو کر میں ایک مجرم کے آگے گھٹنے کبھی نہیں ٹیکنے والا۔ قیصر کو اپنے جرائم کی سزا میں دلوا کر رہوں گا"۔ یک دم وہ غصیلے لہجے میں کہتے کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔


فائزہ جلدی سے ان تک آئیں۔


"یہ وقت اپنی انا کو سربلند رکھنے کا نہیں ہے مختار۔ ہماری بیٹی ایک مجرم کے قبضے میں ہے۔ خدانخواستہ وہ کچھ کردے تو پھر یہ رتبہ آپ کی یہ انا کس کام آئیں گی؟"۔ وہ اب قدرے برہم ہوئیں۔


مختار صاحب نے پلٹ کر نرمی سے ان کے شانے تھامے۔

"بات کو سمجھو۔ اپنی غرض کیلئے میں اپنے فرض کو نظرانداز نہیں کر سکتا فائزہ۔ تمہیں قانون سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ تم خود ایک قابل وکیل ہو۔ وہ ایک سزا یافتہ مجرم ہے اور مجرموں سے سودے بازی نہیں کی جاتی۔ انہیں بس ان کے جرم کیلئے سزا دی جاتی ہے جو قیصر خیام کو بھی مل کر رہے گی"۔ انہوں نے سمجھانا چاہا۔


فائزہ نے غصے سے ان کا ہاتھ ہٹا دیا۔


"میں کچھ نہیں جانتی مجھے میری بیٹی زندہ سلامت چاہیے مختار۔ ہمارے ساتھ یہاں اس گھر میں۔ اور کوئی بھی قانون ایک بیٹی کو اپنے والدین سے الگ نہیں رکھ سکتا۔ چوبیس گھنٹے کا وقت دیا ہے نا آپ کو اس نے۔ تو میں بھی آپ کو چوبیس گھنٹے دیتی ہوں۔ یا تو آپ میری بیٹی کو صحیح سلامت لے آئیں یا پھر عائشہ کی طرح مجھے بھی اس گھر سے جاتے ہوئے دیکھیں"۔ اٹل لہجے میں کہتی ہوئیں وہ انہیں کچھ بھی کہنے کا موقع دیئے بغیر کمرے سے باہر نکل گئیں۔


مختار صاحب اب دہری اذیت اور انتشار کا شکار ہو گئے۔

کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کے ایسے میں وہ کیا کریں۔

☆☆☆☆☆☆


جوں ہی کھڑکی سے وہ کودی اس کا سارا وزن داہنے پیر پر آگیا جس سے وہ مڑا جس کے نتیجے میں ایک ہلکی سی چیخ اس کے لبوں سے نکل گئی۔ اور وہ گھاس پر اپنا داہنا پیر پکڑ کر بیٹھ گئی۔

ہمت کرکے اٹھنے کی کوشش کی مگر ایک انچ بھی ہلا نہ گیا۔ بےبس سی ہو کر پھر سے وہ گھاس پر گر گئی۔

پیر شدید درد کر رہا تھا۔ جسے ضبط کرتے الوینا کی آنکھیں لبالب آنسوؤں سے بھر گئیں۔


"کس نے کہا تھا سپر وومین بننے کو"۔ سرد سی آواز اس کے قریب گونجی۔

جسے سنتی ہی وہ باقاعدہ اچھل پڑتی اگر پیر ساتھ دیتا۔


زور سے آنکھیں میچ کر کھولیں۔

اور ڈرتے ڈرتے بالکل آہستگی کے ساتھ گردن موڑ کر دیکھا۔

سامنے کھڑی شخصیت کو دیکھ کر اسکی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی۔


دونوں ہاتھ اپنے کمر پہ رکھے وہ خشمگیں نظروں سے اسے گھور رہا تھا۔

الوینا کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔

اسے قطعاً امید نہیں تھی کے وہ اتنی جلدی پکڑی جائے گی۔


"حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ مانا کے یہاں پہرےدار نہیں ہیں ارد گرد مگر اس سے بھی تگڑی سیکیورٹی ہے۔ ملاحظہ کریں"۔ کھڑکی کے عین اوپر لگے سیکیورٹی کیمرہ کی جانب اس نے انگلی سے اشارہ کیا۔


الوینا نے زور سے آنکھیں میچ لیں۔

"اوفففف اتنی بڑی غلطی۔ میں نے اسے کیوں نہ دیکھا"۔ اب اسے شدید غصہ آنے لگا تھا خود پر۔


"وہ اس لیے کیونکہ تم میرے جتنی سمجھدار نہیں ہو"۔کالر کڑاتے ہوئے ہمیشہ کی طرح اس کے دل میں کہی گئی بات کا اس نے سامنے سے جواب دیا۔


الوینا بری طرح چونک گئی۔


"ایسے بہت سے کیمرے اس گھر کے آس پاس ایسی جگہوں پہ لگے ہیں جہاں کسی کی بھی نظر آسانی سے ان پر نہیں پڑ سکتی۔ مگر ان کی نظر پھر بھی ہر ایک پر ہوتی ہے۔ تمہارا یہ سرکس میں اپنے کمرے میں بیٹھا ٹی-وی پر لائیو دیکھ رہا تھا۔ ود پاپ کارن"۔ دل جلا دینے والی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے کہا۔


لب بھینچ کر اس نے سر جھکا لیا۔


"پوری رات یہی بیٹھ کر گزارنی ہے کیا؟ چلنے کی کرو اب"۔ اپنا لہجہ سخت بنا کر وہ بولا۔

پھر جانے کو مڑا۔


مگر وہ ویسے ہی بیٹھی رہی۔

قیصر نے رک کر اسے گھورا۔


"میں نے کہا اندر چلو"۔ تیز لہجے میں کہا۔


اب کی بار الوینا کو بھی طیش آیا۔

"جب کیمرے کے ذریعے کھڑکی سے کودتے دیکھ لیا تھا تو یہ نہیں دیکھا کے میرے پیر میں لگی ہے"۔


اس کی بات پر قیصر کے لب 'اوہ' میں سکڑے۔


"چلو میرے ساتھ"۔ فاصلہ مٹا کر وہ اس کے سر پر پہنچا اور ہاتھ بڑھا کر ہتھیلی اس کے سامنے پھیلائی۔


سر اٹھا کر بغور الوینا نے اس کی سرمئی آنکھوں میں دیکھا۔

کوئی بھولا بھٹکا منظر ذہن کے پردے پر پوری آب و تاب سے چمکا تھا۔


اس کی ہتھیلی پر الوینا نے اپنا ہاتھ دھرا۔ جسے قیصر نے مضبوطی سے اپنی گرفت میں قید کیا۔

پھر سہارا دے کر آہستگی سے اسے اپنے مقابل کھڑا کیا۔ زرا سا دباؤ پاؤں پر پڑتے ہی الوینا کی سسکی نکلی۔

اس کے بازو قیصر کے گلے کا ہار بنے ہوئے تھے۔


"زیادہ درد ہو رہا ہے؟"۔ اس کے لہجے میں تفکر تھا۔

الوینا نے بے یقینی سے اس کی جانب دیکھا۔


"جو درد تم نے دیا ہے اس کے مقابلے میں سب ہیچ ہے"۔ ناچاہتے ہوئے بھی وہ تلخ ہوئی۔


"کیا تم ایک پل کو یہ سب بھول نہیں سکتی الوینا؟"۔ جانے کس احساس کے تحت اس کی زبان سے پھسلا۔


"تم مجھے آزاد نہیں کر سکتے؟"۔ طنزیہ نگاہوں سے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر دوبدو بولی۔


اب کی بار وہ کچھ بولنے کے قابل نہ رہا۔

الوینا نے تلخی سے سر جھٹکا۔


مزید کچھ کہے بغیر جھک کر اسے بازوؤں پہ اٹھا لیا۔

وہ کچھ نہ بولی۔ کیونکہ وہ فل وقت مجبور تھی۔


بغیر کسی خوش گمانی کے وہ اسے اٹھائے اس کے کمرے تک آیا اور آہستگی سے اسے صوفے پر بٹھا دیا۔


وہ اس کے مقابل ٹیبل پر بیٹھ گیا اور پیر آہستگی سے اٹھا کر اپنے گھٹنے پہ رکھا۔


الوینا کی ہتھیلیاں پسینے سے بھیگنے لگیں۔

وہ نروس سی ہو رہی تھی۔


جبکہ وہ اسکی جانب متوجہ نہ تھا۔ پیر کا جائزہ لے رہا تھا۔


"موچ زیادہ نہیں ہے۔ ٹھیک ہو جائے گا ابھی"۔ اس نے تسلی آمیز لہجے میں کہا پھر اٹھ کر آہستگی سے اس کا پیر میز پر رکھا۔


تھوڑی دیر بعد وہ ٹھنڈے پانی سے بھرا ایک برتن اٹھائے اس تک آیا۔

اس کے متاثرہ پیر کو نرمی سے تھام کر یخ پانی میں ڈبو دیا۔

الوینا کو کرنٹ سا لگا تھا۔


"پانی بہت ٹھنڈا ہے"۔ اس نے پیر واپس نکالنا چاہا مگر قیصر نے روک لیا۔


"کچھ نہیں ہوتا آرام سے بیٹھو"۔ ٹوکتے ہوئے وہ اب گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔

پھر دونوں ہاتھ ٹھنڈے پانی میں ڈبوئے۔


"یہ۔۔۔یہ تم کیا۔۔۔"


"شش۔ کچھ دیر کیلئے خاموش رہو۔ ابھی درد غائب ہو جائے گا"۔ وہ بچوں کی طرح اسے بہلا رہا تھا۔


الوینا چاہ کر بھی کچھ بول نہ سکی۔


تارہ جو اسے ڈھونڈتی پھر رہی تھی۔ ادھ کھلے دروازے سے سامنے کا نظارہ دیکھ کر ٹھٹھکی۔

اور وہی جم سی گئی۔


"آنکھیں بند کرو"۔ اس نے حکم دیا۔


"لیکن کیوں؟"۔ وہ حیران ہوئی۔


"تم بنا سوال کیئے کچھ نہیں کرتی نا؟"۔ وہ ٹوک گیا۔


ناچار اس نے آنکھیں بند کر لیں۔


قیصر مطمئن ہو گیا۔

پھر اس نے الوینا کا پیر ہتھیلیوں میں تھاما اور جس سمت سے مڑا تھا اس کے الٹے رخ پر زور سے موڑا۔

الوینا کی درد بھری چیخ نکل گئی۔

"تم۔۔۔تم انسان ہو یا جانور"۔ وہ غصے سے کہتی ہوئی اس کے شانے پہ مکا رسید کرنے لگی تھی جب قیصر سراعت سے اٹھ کر فاصلے پر کھڑا ہوگیا۔

وہ طیش میں آ کر اٹھی اور فاصلہ مٹاتے ہوئے اس کی جانب لپکی۔

"تم نے یہ جان بوجھ کر کیا نا تاکہ مجھے تکلیف پہنچے۔ ذلیل شخص میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گی"۔ وہ خونخوار لہجے میں کہتی جارحانہ تیور لیئے اس کی جانب آئی۔

مسکراہٹ ضبط کرتے قیصر نے بروقت اپنی جانب بڑھتے اسکے ہاتھوں کو تھام لیا۔

"محترمہ تم چھ قدم چل کر آئی ہو میری وجہ سے۔ شکریہ کے بجائے اپنے محسن کو مارنے پر تل گئی"۔ وہ شکوہ کرنے لگا۔

ساتھ ہی نرمی سے اس کے ہاتھ چھوڑ دیئے۔

جبکہ اس کی بات پر الوینا کی حیران نظریں اپنے پیروں پر ٹھہر گئیں۔

وہ خوشگوار حیرت میں مبتلا ہو گئی۔

مگر اگلے ہی پل اسے ندامت نے آن لیا۔

سر اٹھا کر اپنے سامنے کھڑے اس اونچے سے شخص کو دیکھا۔ جو سینے پہ ہاتھ باندھے بغور اسے ہی مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔

"س۔۔۔سوری"۔ خفت سے سرخ پڑتے چہرے کے ساتھ بمشکل اتنا ہی وہ بول پائی۔

"کوئی بات نہیں، ایک پولیس والے کی بیٹی سے امید بھی یہی کی جا سکتی"۔ اسے زچ کرنے کو وہ طنزیہ بولا۔

الوینا نے گھور کر اسے دیکھا۔

"تم نا۔۔۔تم اس سوری کے بھی قابل نہیں ہو"۔ ناک سکوڑ کر کہتی وہ رخ موڑ گئی۔

"اب اگر کوئی بے وقوفی کی تو میں پھر ذمہ دار نہیں ہوں گا، اور نہ ہی کوئی مدد کروں گا۔ چپ چاپ یہاں بیٹھو کھانا لا رہا بنا کسی چوں چراں کے کھا لینا۔ جتنی تم مشکل بنو گی قیصر خیام اتنا ہی ناممکن نظر آئے گا تمہیں"۔ اس کی بات کو نظر انداز کرتے وہ اپنی کہہ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔

کمرے کے باہر دروازے کے ساتھ والی دیوار سے لگی تارہ بھڑبھڑ جلنے لگی تھی۔

"اب اس لڑکی کا کچھ کرنا ہی پڑے گا"۔ اس کا ذہن کچھ سوچ رہا تھا۔

اگلے ہی پل اس کے چہرے پر پراسرار مسکراہٹ در آئی۔

کاغذ کا وہ ٹکڑا اس وقت مختار صاحب کے ہاتھوں میں تھا۔

جیسے جیسے وہ اس میں لکھے شرائط پڑھ رہے تھے پیشانی کے بل گہرے ہوتے جا رہے تھے۔


تین شرائط تحریر تھے اس کاغذ پر اور وہ تینوں ہی ناقابلِ قبول تھے ان کیلئے۔

چوبیس گھنٹوں میں سے آٹھ گھنٹے گزر چکے تھے مگر وہ کسی طور بھی اس مجرم کے آگے جھکنے کو تیار نہ تھے۔

ایک بار انہوں نے اولاد کی محبت میں کمزور پڑ کر قیصر کو جیل سے نکلوانے کی غلطی کی تھی۔ مگر اب وہ کمزور نہیں پڑنا چاہتے تھے۔


پہلی شرط کے مطابق مختار صاحب کو قیصر پر لگے الزامات غلط ثابت کروا کے اسے عدالت سے کلین چٹ دلوانی تھی۔


دوسری شرط یہ تھی کے پولیس اسے اور اس کے تین دوستوں کو گرفتار نہیں کرے گی اس کی ذمہ داری مختار انصاری لیں۔


جبکہ تیسری شرط کے مطابق اس کے تمام کرمنل ریکارڈز مٹا دیئے جائیں گے، جو بھی پولیس کے پاس موجود ہوں وہ۔ یہ کام خود مختار انصاری کو کرنا ہوگا۔


الوینا کی آزادی انہی شرائط کو پورا کرنے کے بعد ممکن تھی۔


رہ رہ کر انہیں قیصر کی دی گئی دھمکی یاد آ رہی تھی۔

انہی سوچوں کے چلتے ساری رات ان کی آنکھوں میں کٹی تھی۔ اور صبح ہوتے ہی ایک خاکی لفافہ انہیں اپنے گھر کے دروازے پر ملا۔ جس میں سے وہ کاغذ برآمد ہوا۔


تب سے ان کی پریشانی دوچند ہو گئی تھی۔


فائزہ کورٹ جا چکی تھیں۔ جبکہ وہ ابھی تک آفس نہیں گئے تھے۔ رات میں ہوئی بات چیت کے بعد انہوں نے مختار صاحب سے پھر کوئی بات نہیں کی تھی۔

جو یہ ظاہر کرتا تھا کے وہ اپنی کہی گئی بات پر اب بھی قائم ہیں۔


ہارون سے بھی یہ معاملہ وہ ڈسکس نہیں کرنا چاہتے تھے۔ کیونکہ وہ اس کی جذباتیت سے اچھی طرح واقف تھے۔ اسی لیے نہیں چاہتے تھے کے وہ جذبات میں آ کر کوئی قدم اٹھائے اور دوسری جانب الوینا مزید خطرے میں پڑ جائے۔


"کیا کروں کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔ ایک طرف میرا ضمیر، میرا فرض ہے جو مجھے اس کاغذ پر دستخط کرنے سے روکتا ہے۔ اور دوسری طرف میری بیٹی کی جان کا سوال ہے۔ وہ جسے میں نے اتنے سالوں میں کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا۔

ان دونوں میں سے کسی ایک کو چننا میرے لیے بہت کٹھن ہے۔ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ اہم ہیں۔ پھر میں کروں تو کروں کیا؟"۔ وہ سخت الجھن کا شکار تھے۔


بھٹک بھٹک کر ان کی نگاہیں گھڑی کی سوئیوں سے الجھ جاتی تھیں۔

ان کے دل میں ڈھیروں اندیشے اور وسوسے تھے۔ جانے کیا ہونے جا رہا تھا ان چوبیس گھنٹوں میں۔

☆☆☆☆☆☆


کیفیٹیریا میں بیٹھی تب سے ہاتھ میں موجود موبائل کی بجھی ہوئی اسکرین کو وہ گھور رہی تھی۔

اس کا ارادہ ہارون کو کال کرکے الوینا سے متعلق دریافت کرنے کا تھا۔ مگر پتہ نہیں کیوں اتنی ہمت وہ خود میں نہیں پا رہی تھی۔

وہ جو پٹر پٹر بولتی تھی۔ بے وجہ ہی سامنے والے پر چڑ دوڑتی تھی۔ آج وجہ ہونے کے باوجود بھی اسے کال کرنے کیلئے سوچنا پڑ رہا تھا۔

جانے کیوں وہ نروس سی ہو رہی تھی۔


اس دن کے بعد سے وہ یونیورسٹی نہیں آیا تھا۔ اور نہ ہی پھر کوئی رابطہ کیا تھا۔

جس سے غزل کو یہی لگ رہا تھا کے وہ اس کو بھول ہی چکا ہوگا۔

یہی سوچ کر وہ کشمکش میں مبتلا تھی کے اسے کال کرے گی تو وہ کیا سمجھے گا۔


پولیس اسٹیشن سے بھی دو تین بار وہ ہو آئی تھی مگر ہر بار وہ لمبی لمبی مونچھوں والا سینیئر انسپکٹر کرخت لہجے میں اسے ٹکا سا جواب دے دیتا تھا کے "یہ کیس ڈی-ایس-پی ہارون خود دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں اس کے بارے میں کچھ معلومات نہیں۔ آپ ان سے ہی پوچھیں"۔

اس کا یہ جواب سن کر وہ مایوس سی ہو جاتی۔


"ایسی بھی کیا بات ہے یار، پولیس والا ہے وہ۔ عوام کی مدد کرنا اس کی ڈیوٹی ہے۔ ابھی پوچھتی ہوں اس سے"۔ خود کو تسلی سے نوازتی ہوئی، تمام تر ہمت مجتمع کرکے بالآخر اس نے ہارون کا نمبر ڈائل کر ہی لیا۔


دوسری بیل پر کال اٹھا لی گئی۔

"ہیلو۔ کون بول رہا ہے؟"۔ بھاری سنجیدہ سی آواز گونجی۔


غزل کا دل زور سے دھڑکا۔

جلدی سے کال کاٹ دی۔


"کیا کر رہی ہے غزل، سیدھا مدعے کی بات ہی تو کرنی ہے۔ اس میں اتنا سوچنا کیا"۔ اپنی حرکت پر خود کو ڈپٹتی ہوئی وہ نمبر پھر سے ملا گئی۔


"کون ہے جو بار بار کال کر رہا ہے؟ ایک پولیس آفیسر کو بار بار تنگ کرنے کے جرم میں حوالات میں ڈال دیا جائے گا تمہیں"۔ اب کی بار کرخت لہجے میں اس نے دھمکی دی۔


غزل گھبرا کر جلدی سے بولی۔

"میں غزل حیات بول رہی ہوں۔ الوینا کی دوست"۔


دوسری جانب لمحہ بھر کو خاموشی چھا گئی۔

پھر وہ گویا ہوا۔


"اوہ تو یہ تم تھی۔ سوری میں نے نمبر نہیں پہچانا۔ کہو کس لیئے یاد کیا؟"۔ اس کا لہجہ دھیما پڑا۔


جس پر غزل نے بے اختیار پرسکون سانس خارج کی۔


"دراصل مجھے الوینا کے بارے میں جاننا تھا۔ ایک ہفتہ ہو چکا ہے اسے غائب ہوئے مگر اب تک وہ واپس کیوں نہیں آئی؟"۔ اس کے لہجے میں فکرمندی تھی۔


لحظہ بھر کیلئے ہارون کو سمجھ نہیں آیا کے وہ اس سے کیا کہے۔


دوسری جانب وہ اس کے جواب کا انتظار کر رہی تھی۔


ہارون نے کسی نتیجے پر پہنچا پھر گویا ہوا۔


"مجھے لگتا ہے تم اس کی مخلص ہو۔ اچھی دوست ہو اس لیے تمہیں اس کے بارے میں پتہ ہونا چاہیئے۔ بات بہت گمبھیر ہے تمہیں مل کے ہی بتاؤں گا"۔ وہ بھرپور سنجیدگی سے بولا۔


غزل کی فکرمندی اب پریشانی میں ڈھل گئی۔


"آخر ایسی بھی کیا بات ہے۔ الوینا ٹھیک ہے نا؟"۔ کسی خدشے کے تحت اس نے کمزور سے لہجے میں دریافت کیا۔


"ہاں وہ ٹھیک ہے۔ باقی باتیں شام کو مل کر بتاؤں گا تمہیں۔ جگہ اور وقت میسج کر دوں گا۔ فلحال کیلئے مجھے اجازت دیجیے، میٹنگ میں پہنچنا۔ اللہ حافظ"۔ مصروف سے لہجے میں کہہ کر لائن ڈسکنیکٹ کر دی۔


دوسری جانب غزل اب سوچنے لگی کے آخر کیا بات ہو سکتی ہے۔

☆☆☆☆☆☆


کھلی کھڑکی میں کھڑی وہ اطراف کے خوبصورت نظاروں کو دیکھتی لمحہ بھر کیلئے خود کو بھی فراموش کر چکی تھی۔ بہت دنوں بعد وہ اپنے اندر ایسا سکون اترتا محسوس کر رہی تھی۔

صبح کا وقت تھا۔ نیلے آسمان تلے سانس لیتے ان ہرے بھرے درختوں اور سبز گھاس کو شبنمی قطرے بھگو رہے تھے۔

دور بہت دور ہونے کے باوجود بھی دیو قامت پہاڑوں کی سفید چوٹیاں دیکھی جا سکتی تھیں۔


اسے یقین نہیں آ رہا تھا کے وہ اتنی ساری خوبصورتی خواب میں نہیں بلکہ حقیقت میں دیکھ رہی تھی۔

لگتا تھا جیسے وہ کوئی جنت کا ٹکڑا ہو۔

ٹھنڈی میٹھی ہوائیں اس کے شانے پر بکھرے شہد رنگ ریشمی بالوں کو مزید بکھیر رہی تھیں۔


تارہ جانے کب اس کے سر پر آن وارد ہوئی تھی۔

قریب پہنچنے پر اس کی نظریں الوینا کے چہرے سے الجھ گئیں۔

وہ بغور اس کا جائزہ لینے لگی۔

سنہری رنگت، روشن آنکھیں، شنگرفی لب۔ اس کا چہرہ مطمئن سا تھا۔ ٹھہرے ہوئے جھیل کی مانند۔


تارہ کے گلے میں پھانس سی چبھی۔ نا چاہتے ہوئے بھی وہ اس لڑکی سے اپنا موازنہ کرنے لگی۔

اور اسے شدت سے احساس ہوا کے ظاہری خوبصورتی میں وہ اس کے جتنی تو کیا اس کے آدھی بھی نہیں تھی۔ اس کا اندر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔


"اوہ! تو یہ بات ہے قیصر خیام، ایک لڑکی کے حُسن نے اس کی ظاہری خوبصورتی نے تمہیں چاروں شانے چت کر دیا۔ ہونہہ"۔ زہرخند ہو کر وہ دل میں سوچنے لگی۔

پھر سر جھٹک کر جبری مسکراہٹ چہرے پر لے آئی۔


"کیا میں تم سے بات کر سکتی ہوں؟"۔ لہجے کو حتی الامکان نرم بنا کر وہ بولی۔


الوینا چونک کر اس آواز پر متوجہ ہوئی اور اگلے ہی پل تارہ کو اپنے سامنے پا کر اس کی پیشانی پر شکنیں نمودار ہوئیں۔


"کہو کیا کہنا ہے"۔ سرسری سے لہجے میں کہہ کر اس نے نگاہوں کا زاویہ بدل لیا۔


تارہ کے اندر ابال سا اٹھا تھا مگر پھر بھی مسکرانے کا ڈھونگ جاری رکھا۔

"میں جانتی ہوں کے تمہارے ساتھ بہت غلط طریقے سے برتاؤ کیا میں نے۔ جبکہ میں خود بھی ایک عورت ذات ہوں مجھے تمہارا دکھ سمجھنا چاہیئے تھا نا کہ تمہاری تکلیفوں میں اضافہ کرتی۔ مجھے۔۔۔معاف کر دو الوینا"۔ چہرے پر شرمندگی کے تاثرات سجا کر وہ بولی۔


اس کی بات پر چونک کر الوینا نے اس کا چہرہ دیکھا۔ جیسے اندازہ کرنا چاہ رہی ہو کے کیا وہ سچ کہہ رہی تھی۔


تارہ نے اپنا ڈرامہ جاری رکھا۔

"اس میں غلطی میری نہیں ہے الوینا، یہاں کا ماحول ہی ایسا ہے، کیا عورت یا کیا مرد سب کو پتھر کا بنا دیتا ہے۔ سب کے جذبات منجمد کر دیتا ہے۔ ہم ایسے ہی پیدا نہیں ہوئے تھے۔ تمہاری طرح ہی نارمل تھے مگر چند لوگوں نے مل کر ہمیں ایسا بنا دیا ہے۔

مگر اب مجھے احساس ہو رہا ہے کے تم کتنی اکیلی اور کمزور ہو ان درپیش حالات کے سامنے۔ لیکن جلد یا بدیر تو تم یہاں سے آزاد ہو ہی جاؤ گی۔ میں بس چاہتی ہوں کے جب تک تم یہاں ہوں تمہیں مزید کوئی تکلیف نہ پہنچے"۔ چالاکی سے کہتے ہوئے اس نے الوینا کے چہرے کا جائزہ لیا۔


اب کی بار وہ اس کی جانب دیکھ رہی تھی۔ مگر آنکھوں سے وہ ناگواری اور غصہ مفقود تھا۔

تارہ کو یقین آ گیا کے وہ اس کی باتوں پر ایمان لا رہی ہے۔


"اٹس اوکے۔ میں سمجھ سکتی ہوں"۔ چہرے پر خوشگوار سی مسکراہٹ کے ساتھ نرمی سے اس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کے وہ بولی۔


"تو اس کا مطلب تم نے مجھے معاف کر دیا ہے"۔ مسکراتے ہوئے اس نے تصدیق چاہی۔


بلا توقف الوینا نے جواباً مسکرا کر اثبات میں سر کو جنبش دی۔


"اوکے تو دوست بنو گی میری؟"۔ موقع دیکھ کر اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔


اس نے ایک نظر تارہ کے بڑھائے گئے ہاتھ کو دیکھا۔ بے اختیار اسے غزل کی یاد آ گئی، آنکھوں میں نمی اترنے لگی۔ غزل اور اسکی دوستی کی شروعات بھی تو اسی طرح سے ہوئی تھی۔


الوینا نے بھی بنا کسی پس و پیش کے فوراً ہاتھ تھمایا۔


"اچھا اگر تم چاہو تو کیا میرے ساتھ آ سکتی ہو۔ میں یہ نئی جگہ گھومنے جا رہی ہوں۔ تم کمپنی دو گی مجھے؟"۔ خوشگوار لہجے میں کہتے ہوئے اس کا دل یک بارگی قیصر کے خیال سے گھبرا گیا۔

صد شکر کے وہ اور باقی دوست اس وقت گھر پر نہ تھے۔ اسی لیے تو تارہ نے یہ وقت چنا تھا۔


"کیا۔۔۔میں واقعی چل سکتی ہوں تمہارے ساتھ؟"۔ کھڑکی سے نظر آتے خوبصورت نظارے کو دیکھ کر اس نے کھوئے کھوئے سے لہجے میں پوچھا۔


"ہاں ہاں کیوں نہیں۔ بلکہ قیصر خود مجھے کہہ کر گیا ہے کے تم گھر میں بند رہ رہ کر پک چکی ہوگی۔ اسی لیئے مجھے کہہ کر گیا ہے تمہیں کمپنی دوں"۔ دانستہ اس نے قیصر کا نام لیا۔ اب اسے یقین تھا کے الوینا کی اس کو لے کر گھبراہٹ شانت ہو گئی ہوگی۔ کیونکہ وہ خود اجازت دے کر گیا ہے۔

لہٰذا اب انکار کرنے کا الوینا کے پاس کوئی جواز نہ تھا۔


توقع کے عین مطابق باہر جانے کے خیال سے یکدم وہ خوش ہو گئی تھی۔

"ٹھیک ہے میں چلتی ہوں تمہارے ساتھ"۔ فوراً سے پیشتر جواب دیا۔


تارہ کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔

"چلو پھر چلتے ہیں"۔ پرجوش سی ہو کر اس کا ہاتھ تھامے وہ اسے کمرے سے باہر نکال لے گئی۔


گھر کے داخلی راستے پر لگے سی-سی-ٹی-وی کیمرے اس نے پہلے ہی بند کر دیئے تھے۔

اور وہ اچھی طرح جانتی تھی کے الوینا یہاں سے بھاگنا چاہتی ہے۔ جس کے تحت وہ اب خود اسے موقع فراہم کر رہی تھی۔


"پتہ ہے یہاں پاس میں ایک بہت خوبصورت جنگل ہے۔ جہاں کا سات رنگوں والا ایک بےحد خوبصورت ننھا سا پرندہ بے شمار تعداد میں پایا جاتا ہے۔ صبح کے اس وقت ان کا جھنڈ ایک جگہ جمع ہوتا ہے۔ وہ نظارہ تمہیں بہت پسند آئے گا"۔ اسے بہلاتی ہوئی وہ جنگل کی طرف لے جا رہی تھی۔

جبکہ الوینا اس کی زبانی یہ قصے سن کر سحرزدہ سی ہو کر چپ چاپ اس کے ساتھ چل نکلی تھی۔

☆☆☆☆☆☆


ہاسٹل سے قریب تر کے کافی شاپ میں وہ اس وقت ہارون کے مقابل نشست پر براجمان تھی۔

ان کے سامنے رکھے کافی کے مگ ابھی تک ان چھوئے تھے۔


ہارون قدرے سنجیدہ چہرہ لیئے تب سے خاموش بیٹھا الفاظ ترتیب دے رہا تھا۔


جبکہ غزل اس کی زبانی سب کچھ جاننے کو بےچین سی تھی۔


اسے ہنوز خاموش پا کر بالآخر غزل کو ہی بولنا پڑا۔


"آپ اب بتانا پسند کریں گے کے اصل بات کیا ہے؟ ایسا کیا ہے جو آپ چھپانا چاہتے ہیں۔ کیا مجھے اس بارے میں پتہ ہونا چاہیئے؟"۔ وہ پریشانی سے پوچھنے لگی۔


ہارون نے ٹھنڈی سانس بھری۔


"ہاں، مجھے لگتا ہے کے تم الوینا کی مخلص دوست ہو لہٰذا تمہیں پتہ ہونا چاہیئے کے وہ کہاں ہے"۔ اس نے تمہید باندھی۔


غزل کی بے چینی حد سے سوا تھی۔


"تو پھر بتایئے کے وہ کہاں ہے؟"۔ اس کے لہجے میں ہزاروں اندیشے تھے۔


"تو سنو، الوینا جس قاتل کے خلاف پولیس اسٹیشن میں گواہی دینے گئی تھی۔ اسی نے اسے اغواء کروا لیا ہے"۔ ہارون نے دھماکا کیا۔


"وہاٹ؟ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں"۔ غزل اسپرنگ کی طرح اپنی جگہ سے اچھل پڑی۔

اس انکشاف پر وہ بھونچکی رہ گئی۔


ہارون نے تشویش سے اسے دیکھا۔

"بیٹھ جاؤ غزل، پوری بات سنو"۔ اس نے ٹوکا۔


جبکہ وہ صدمے کے زیر اثر کرسی پر گرنے والے انداز میں بیٹھ گئی۔

"تو یعنی۔۔۔ایک ہفتے سے۔۔۔وہ اغواء ہے اور آپ کی پولیس نے اب تک اسے آزاد کروانے کیلئے کچھ بھی نہ کیا"۔ اس کی آنکھیں تیزی سے بھیگنے لگیں۔


"ریلیکس یار، ہم نے کوشش تو جاری ہی رکھی ہوئی ہے۔ مگر وہ مجرم بہت چالاک ہے اس کے ٹھکانے کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا۔ ہم مجبور ہیں"۔ شکستہ لہجے میں آہستگی سے کہا۔


غزل نے بے یقینی سے اس کی جانب دیکھا۔

"آپ پولیس والے ہو کر بھی کچھ نہیں کر سکتے؟ اور خود کو ایک مجرم کے مقابلے میں مجبور سمجھتے ہیں؟ پھر کیا فائدہ اپنی وردی پر یہ ستارے سجانے کا۔ کیا فائدہ ان تمغوں کا جب پچھلے ایک ہفتے میں آپ اس کا کوئی سراغ نہیں لگا پائے ہیں"۔ وہ اب بھرپور انداز میں شکوہ کر رہی تھی۔


وہ بپھر گیا۔


"اسی لیے میں تمہیں بتانے سے گریز برت رہا تھا۔ ایک پولیس والے کی جاب اتنی آسان نہیں ہوتی مادام جتنا کے آپ سمجھتی ہیں۔ جتنی اتھارٹی ایک مجرم کو ہوتی ہے نا اتنی ہمیں نہیں ہوتی۔ سرکار ایک ایک گولی کا بھی ہم سے حساب لیتی ہے۔ ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا پڑتا ہے۔ اسے تم ہماری مجبوری سمجھ لو یا بدقسمتی، لیکن ہم اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتے۔ جتنا ہمیں کرنے کی اجازت ہے ہم اتنا کر رہے ہیں"۔ وہ پھٹ پڑا تھا اس کی بات سن کر۔


جبکہ غزل کسی قدر شرمندہ سی ہو کر سر جھکا گئی۔

☆☆☆☆☆☆


وہ آرام سے صوفے پر بیٹھی، شیشے کی میز پر پیر لمبے کیئے ٹی-وی دیکھ رہی تھی۔

ہاتھ میں شیشے کا، چپس سے بھرا باؤل تھا۔ چہرہ قدرے مطمئن سا تھا۔


قیصر کو پریشانی سے ایک کمرے سے نکل کر دوسرے کمرے میں جاتے وہ آنکھ کے کنارے سے دیکھ سکتی تھی۔

اچھی طرح جانتی تھی کے وہ کسے ڈھونڈ رہا ہے۔


جب سارا گھر چھان مارا مگر وہ نہ ملی تو قیصر تن فن کرتا ہوا اس تک آیا اور ہاتھ مار کر شیشے کا باؤل زور سے پرے اچھال دیا۔

تارہ اس اچانک افتاد پر شاکڈ رہ گئی۔

جارحانہ تیور لیئے اس نے بے دردی سے تارہ کا بازو دبوچ کر اپنے مقابل کھینچا۔


"صرف ایک بار پوچھوں گا"۔ انگلی اٹھا کر اسکی آنکھوں میں دیکھ کر غراتے ہوئے کہا۔


"کہاں ہے وہ؟"۔ اس کا انداز کوئی رعایت دینے والا نہ تھا۔

لمحہ بھر کو تو وہ بھی خوفزدہ ہوئی۔


"مم۔۔۔مجھے کیا پتہ۔ یہی کہیں ہوگی الوینا"۔ حتی الامکان اپنا لہجہ نارمل بنا کر اپنی لڑکھڑاہٹ پر قابو پانے کی کوشش کی۔


قیصر کے چہرے پر تناؤ مزید پھیلا۔

"تمہیں کیسے پتہ کے میں کس کی بات کر رہا ہوں؟"۔ دھاڑ کر کہتے ہوئے اس نے تارہ کو بری طرح جھنجھوڑ ڈالا۔

تارہ نے زور سے آنکھیں میچ لیں۔

"وہ۔۔۔وہ مجھے۔۔۔لگا کے۔۔۔"

"کہاں ہے وہ لڑکی؟ کہاں ہے وہ؟ کیا کیا تم نے اس کے ساتھ بتاؤ؟"۔ وہ اتنی زور سے دھاڑا کے گھر کے در و دیوار تک ہلتے محسوس ہوئے۔ تارہ کی روح فنا ہونے لگی۔

اس کا چہرہ اس نے بری طرح دبوچ رکھا تھا۔ درد کی شدت

سے سیاہ آنکھیں پانیوں سے بھرنے لگیں تھی۔

"مم۔۔۔مجھے۔۔نہیں پ۔۔۔پتہ"۔ بمشکل جواب دیا۔ واقعی وہ سخت جان تھی۔

اس کے جواب پر قیصر نے اس کا بازو جھٹکے سے اس کی پشت پر موڑ دیا۔

قیصر خیام کی آنکھوں سے شرارے پھوٹ رہے تھے۔

"میں نے پوچھا کہاں ہے الوینا؟ بتاؤ ورنہ آج تمہیں میرے قہر سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ بتاؤ کہاں ہے وہ؟"۔ وہ زخمی شیر کی مانند لگ رہا تھا۔

"مجھے۔۔۔سچ میں نہیں پتہ"۔ سسک کر کہتی ہوئی وہ رو دی۔

قیصر نے غصے سے اسے واپس صوفے پر دھکیل دیا۔

اوندھے منہ گری وہ بری طرح ہانپ رہی تھی۔

"اگر اس کے غائب ہونے میں تمہارا ہاتھ ہوا نا تارہ۔۔۔اگر وہ آج کے آج مجھے نہ ملی نا تو میں تم سمیت ساری دنیا کو آگ لگا دوں گا"۔ چیخ چیخ کر کہتے ہوئے وہ بالکل بھی اپنے حواسوں میں نہیں لگ رہا تھا اس پل۔

بھاری قدموں تلے زمین روندتا وہ گھر سے باہر نکل گیا۔

☆☆☆☆☆☆

"کوئی ہے پلیز میری مدد کرو"۔ گھنے جنگلوں میں اونچے لمبے درختوں کے درمیان گھومتی وہ چھوٹی سی لڑکی مدد کیلئے پکار رہی تھی۔

اس کی آواز درختوں سے ٹکراتے پلٹ پلٹ کر واپس آ رہی تھی۔

کوئی ہوتا تو اس کی مدد کرتا۔

جیسے جیسے اندھیرا بڑھ رہا تھا۔ اس کا خوف بھی بڑھتا جا رہا تھا۔

وہ اب پچھتا رہی تھی اپنے وہاں آنے پر۔ تارہ سے الگ ہونے پر۔

سرسبز گھنا جنگل تھا۔

چہار اطراف اونچے اونچے درخت۔

جن کے درمیان وہ اِدھر سے اُدھر دوڑتی پھر رہی تھی۔

وہ کھو چکی تھی۔ وہ بھٹک چکی تھی۔


"کوئی ہے؟"۔ درختوں کے جھنڈ میں اس کی آواز گونج بن رہی تھی۔ مگر پلٹ کر کوئی جواب نہیں آ رہا تھا۔

ایسا لگتا تھا جیسے وہ کسی بھول بھلیاں میں پھنس گئی ہو۔


دن ڈھل چکا تھا۔ اندھیرا بڑھ رہا تھا۔

گھنے جنگل کے درختوں کو چیرتی چاند کی چاندنی کہیں کہیں سے زمین پر پڑ رہی تھی۔


دور کہیں سے بھیڑیوں کے رونے کی آوازیں آ رہی تھیں۔

جو رات کی تاریکی اور پھر اس جنگل کی وجہ سے کچھ اور بھی بھیانک لگ رہی تھی۔


"کوئی تو میری مدد کرو"۔ الوینا بالکل شل سی ہو کر گھٹنوں کے بل زمین پر گر گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔


اس کا دماغ بالکل ماؤف ہو رہا تھا۔

کئی گھنٹے ہو گئے تھے اسے یوں بھٹکتے، راستہ تلاشتے۔ مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔


ذہن وسوسوں کا شکار ہو رہا تھا۔

دل رک رک کر دھڑک رہا تھا۔

مایوسی رگ و پے میں سرایت کر رہی تھی۔

اسے لگ رہا تھا جیسے اونچے لمبے درخت اس کا تمسخر اڑا رہے ہوں۔

وہ اب کبھی یہاں سے نہیں نکل پائے گی۔

کوئی اس کی مدد کو نہیں آئے گا۔

کاش یہ واقعی ایک خواب ہوتا۔

کاش یہ خواب ہوتا!!

سر جھکائے وہ آنسو بہا رہی تھی۔


"الوینا"۔ مانوس سی پکار اسے سنائی دی۔


اس نے جھٹکے سے سر اٹھایا۔ اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے پر بھی کچھ سجھائی نہ دے رہا تھا۔

اسے لگا شاید یہ وہم ہے۔


"الوینا، کہاں ہو تم؟"۔ آواز میں تڑپ تھی۔ اس کیلئے پریشانی تھی۔ فکر تھی۔


نہیں یہ وہم نہیں تھا۔ وہ واقعی وہی کہیں تھا۔

آنسو پونچھتی وہ اسپرنگ کی طرح اچھل کر کھڑی ہو گئی۔


"مم۔۔۔میں یہاں ہوں۔ پلیز میری مدد کریں"۔ اپنی تمام تر قوت اکٹھا کرکے وہ جتنا اونچا بول سکتی تھی بولی۔


اس کی آواز پر قیصر خیام تھم سا گیا۔ اسے اپنی سماعتوں پر یقین نہ آیا۔

سفیدٹارچ کی لکیر چہار جانب دوڑائی مگر وہ کہیں نظر نہ آ رہی تھی۔


"الوینا ہلنا مت وہاں سے۔ میں آ رہا ہوں۔ ڈرو مت، میں بس آ رہا ہوں"۔ وہ بلند آواز میں کہتا اسے تسلی دے رہا تھا۔


تبھی الوینا نے اپنے دائیں جانب سی آتی ٹارچ کی سفید سی لکیر دیکھی تو وہ ٹھہر سی گئی۔

اس کی ہدایت کے مطابق ایک قدم بھی اس نے آگے نہیں بڑھایا۔ وہ وہی کھڑی رہی۔


اس کے قدموں کے نشان دیکھتا، اس سے باتیں کرتا بالآخر وہ آمنے سامنے آ گئے۔


قیصر کو اپنی بصارتوں پر یقین نہیں آیا کے سامنے وہ ہی کھڑی ہے۔

کتنے ہی گھنٹوں سے وہ دیوانوں کی طرح اسے ڈھونڈتا پھر رہا تھا اور آخر کار وہ اسے مل گئی تھی۔


الوینا کی سانس تک تھم گئی تھی۔

قیصر خیام کو روبرو دیکھ کر پہلی بار اسے لگ رہا تھا جیسے وہ زندگی سے مل رہی ہے۔


ایک لمحہ بھی ضائع کیئے بغیر بھاگ کر اس نے چند قدموں کا فاصلہ طے کیا اور قریب پہنچنے کے ساتھ ہی اس نازک سی لڑکی کو اپنے وجود کا حصہ بنا لیا۔


الوینا کے آنسوؤں میں مزید روانی آ گئی۔

وہ اسے خاموش نہیں کروا رہا تھا۔ وہ اسے رونے دے رہا تھا۔ وہ مسلسل روتی رہی۔ لمحے ٹھہر گئے۔ ایک پل کیلئے ان کے درمیان موجود سارے فاصلے مٹ گئے۔


پھر یک دم جیسے وہ اپنے حواسوں میں لوٹا تھا۔ ساتھ ہی اپنے پرانے جون میں بھی واپس لوٹا تھا۔

ایک جھٹکے سے اپنے مضبوط سینے سے لگی الوینا کو جھپٹ کر اپنے مقابلے کھینچا۔


"منع کیا تھا نا؟ کہا تھا نا کے پھر کوئی بے وقوفی مت کرنا؟ کیوں ہمیشہ میرے فیصلوں سے بغاوت کرتی ہو تم؟ کیوں ایک بار میں کہی گئی بات تمہیں سمجھ نہیں آتی؟ کیوں کرتی ہو ایسا ہاں؟ آخر تم سکون سے ایک جگہ ٹک کیوں نہیں جاتی ہو؟ بہت تم خود کو عقلِ کُل سمجھتی ہو نا؟ قیصر خیام تو تمہارے آگے پانی کم ہے"۔ تیز تیز بولتے ہوئے اسے احساس بھی نہ ہو رہا تھا کے الوینا کے بازوؤں پر اسکی گرفت کتنی سخت تھی۔

مگر وہ چپ چاپ آنسو بہاتی کچھ بول ہی نہ پا رہی تھی۔ زبان جیسے تالوں سے جا لگی تھی۔


"سزا دینی ہے نا مجھے"۔ وہ ترشی سے بولا۔


پھر اپنی جیب سے پستول نکال کر اس کے ہاتھ میں تھمایا اور اس کا رخ اپنے سینے پر کیا۔


"اب دو سزا۔ اپنے سارے اگلے پچھلے حساب برابر کر لو۔ چھ کی چھ گولیاں اتار دو اس شخص کے سینے میں جس نے تمہیں اتنا پریشان کیا، اتنا رُلایا ہے۔ جو سزا دینی ہے ایک ہی بار میں مار کر دے لو نا یار۔ تھک چکا ہوں میں یوں قسطوں کے حساب سے تمہاری سزائیں کاٹتے کاٹتے تھک گیا ہوں۔ اتنی تکلیف تو مجھے تمہارے باپ نے بھی ٹارچر سیل میں ایک سال رکھ کر نہیں دی جتنی کے اس ایک ہفتے میں بار بار خود کو موت سے قریب کرکے تم نے مجھے اذیت دی ہے"۔ اس کا انداز بکھرا بکھرا سا تھا۔

الوینا آنسو روکے سکتہ زدہ سی اسے سن رہی تھی۔

ٹارچ کی سفید روشنی الوینا کے روئے روئے سے سرخ چہرے پر پڑ رہی تھی۔

اسے قیصر کا چہرہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ بس ایک بلند قامت ہیولہ سا تھا اس کے سامنے۔ جسے وہ سن رہی تھی۔

جبکہ گن اب بھی قیصر نے اپنے سینے پر تان رکھی تھی۔

بہت دیر کی خاموشی کے بعد وہ پھر گویا ہوا۔

"تم یہی چاہتی ہو نا کے میں تمہیں واپس بھیج دوں؟"۔ اتنی آہستگی سے کیا گیا یہ سوال بمشکل الوینا کی سماعتوں نے سنا۔

مگر جانے کیوں یہ سوال اس کے دل میں سوئی کی طرح چبھا تھا۔

اس کے جواب کا انتظار کیئے بغیر وہ بولا۔

"ٹھیک ہے میں کل شام تمہیں واپس چھوڑ آؤں گا۔تم یہی چاہتی ہو نا تو یہی صحیح۔ اب تمہیں مزید برداشت نہیں کرنا پڑے گا مجھے آس پاس۔ مجھ سے نفرت ہے نا تمہیں تو۔۔۔"

"میں نہیں کرتی تم سے نفرت"۔ اس کی بات مکمل ہونے سے قبل ہی الوینا نے تڑپ کر کہا۔

اب شاکڈ ہونے کی باری قیصر کی تھی۔

اپنے ہاتھ میں موجود پستول کو اس نے دور پھینک دیا۔

اور اس کے مضبوط بازو پر اپنے ٹھنڈے پڑتے نرم نازک ہاتھ دھرے۔

"پتہ نہیں کیوں پر میں تم سے نفرت نہیں کر سکتی قیصر۔ اس مقام پر آ کر میں بےبس ہو جاتی ہوں۔ میں نے کوشش بہت کی لیکن یہ مجھ سے نہیں ہوتا"۔ بے بسی کی انتہاؤں کو چھو کر دو آنسو ٹوٹ کر اس کے رخسار پر بہہ نکلے۔

ورطہ حیرت میں مبتلا قیصر خیام اس کی آنکھوں میں لکھی وہ تحریر پڑھ رہا تھا جو ان دونوں کی ہی زبان نہیں کہہ پا رہی تھی۔

"میں کیا کروں؟ میری ہر مشکل تم حل کرتے آئے ہو۔ مجھے ہر مصیبت سے بچاتے آئے ہو تو آج میری یہ مشکل بھی آسان کردو۔ مجھے بتاؤ کے جب مرضِ عشق لاحق ہو جائے تو انسان کیا کرے؟"۔ وہ اس سے سوال کر رہی تھی۔

جس کا جواب تو خود قیصر خیام کے پاس بھی نہ تھا۔

وہ بس خاموشی سے یک ٹک اس کی جانب دیکھتا رہا۔ بولا کچھ نہیں۔

دوسری طرف وہ اس کے جواب کی منتظر تھی۔


"اس طرح خاموش مت رہو میری بات کا جواب دو"۔ وہ ضدی لہجے میں بولی۔


"جس بات کا جواب تم خود جاننے کے باوجود بھی ڈھونڈ رہی ہو اس کا جواب میں بھلا تمہیں کیسے دے سکتا ہوں؟"۔ وہ شکستہ لہجے میں بولا۔


لمحہ بھر کیلئے وہ لاجواب ہو گئی۔


رات گہری ہوتی جا رہی تھی اور جنگل کی وحشت بھی۔

خاموشی طویل ہو گئی تھی دونوں میں اور سردی بھی بڑھ رہی تھی۔


کہنے کو ان کے پاس بہت کچھ تھا مگر کچھ لمحوں کیلئے وہ جیسے ایک دوسرے کی خاموشی سننے لگے تھے۔

چند لمحے مزید سرک گئے تب وہ گویا ہوئی۔


"تم کیسے جان لیتے ہو میرے من کی باتیں؟ کیسے پڑھ لیتے ہو مجھے؟ کیا میرے اندر کا حال اتنا عیاں ہے میرے چہرے سے؟"۔ وہ پھر سوال کرنے لگی۔


قیصر نے بغور اس کی آنکھوں میں دیکھا۔

"میں تمہیں پڑھ لیتا ہوں اس میں کمال تمہارا ہے الوینا۔ کیونکہ تمہارا چہرہ، تمہاری آنکھیں اتنی شفاف ہیں کے یہ خود ہی تمہارے اندر کا حال بیان کر دیتی ہیں"۔ وہ صاف گوئی سے بولا۔


الوینا نے پلکیں میچ لیں۔

آنسو پھر گرنے لگے۔

"کیا تم یہ اندھیری دنیا چھوڑ نہیں سکتے؟ لوگوں کی جانیں لینا چھوڑ نہیں سکتے؟ تم ایک عام زندگی بھی تو گزار سکتے ہو نا؟"۔ وہ التجا کرنے لگی۔


وہ زخمی سا مسکرایا۔

"یہ سب میرا شوق نہیں ہے میرا پیشہ ہے۔ ایک مجرم سے تم اتنی امیدیں کیوں وابستہ کرتی ہو بے وقوف لڑکی۔ میرا اصل یہی ہے جو تم دیکھ چکی ہو جان چکی ہو۔ میرے جیسوں سے لوگ نفرت کرتے ہیں اور مجھے ان کی نفرت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تم بھی کرلو نفرت"۔ اس کے لہجے میں زخمی پن تھا۔


بھیگی پلکیں اٹھائے وہ حیرانگی سے اسے دیکھنے لگی۔


"میں نے کہا نا کے میں تم سے نفرت نہیں کرتی اور نہ کبھی کر سکتی ہوں۔ یہ میرے لیے بہت مشکل ہے۔ تم کیوں نہیں

سمجھتے ہو کے تمہیں یہ سب۔۔۔یہ خون خرابا کرتے دیکھ کر مجھے تکلیف ہوتی ہے قیصر۔۔۔دل دکھتا ہے میرا"۔ آنسو بہاتے وہ بےچارگی سے بولی۔


ہاتھ بڑھا کر قیصر نے آہستگی سے اس کی نمی چن لی۔

"کیوں الوینا؟ آخر کیوں؟"۔ اب کی بار سوال اس کی جانب سے ہوا۔


الوینا کے چہرے پر سایا سا لہرایا۔

"کیونکہ مجھے ڈر لگتا ہے۔۔۔ڈر لگتا ہے کے کہیں تمہارا انجام۔۔۔"۔


"ششش۔۔۔ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ یہ سب مت سوچو۔ یہ سوچیں خود اذیتی سے زیادہ کچھ نہیں ہیں"۔ اس کی بات قطع کرتے وہ گمبھیر لہجے میں بولا۔


ان کے بیچ پھر خاموشی حائل ہوئی۔ اور طویل ہونے لگی۔


"تم نے مجھے ڈھونڈا کیسے؟"۔ اس خاموشی سے گھبرا کر وہ پوچھنے لگی۔


کچھ توقف کے بعد وہ گویا ہوا۔


"میں جب گھر آیا تو تمہارے کمرے کا دروازہ کھلا دیکھ کر مجھے تشویش ہوئی تھی۔ سارا گھر چھان مارنے کے بعد بھی تمہارا کہیں کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ پھر میں تمہیں گھر سے باہر ڈھونڈنے نکلا۔ آس پاس تمہیں تلاش کر رہا تھا کے تبھی کچھ قدموں کے نشان مجھے جنگل کی طرف آتے دکھائی دیئے۔ جس سے مجھے اندازہ ہوا کے تم ایک اور بےوقوفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہاں آ چکی ہو۔ مجھے یہاں کے راستے پتہ ہیں، اور تب سے لے کر اب تک میں تمہیں اس جنگل میں یہاں وہاں ڈھونڈتا پھر رہا تھا۔ اب جا کر محترمہ سے سامنا ہوا ہے"۔ تفصیل بتاتے ہوئے آخر تک آتے آتے اس کا لہجہ برہم ہوا۔

جبکہ تارہ سے ہوئی اپنی گفتگو کا تذکرہ اس نے نہیں کیا۔ جیسی بھی سہی مگر بہرحال وہ اس کی دوست تھی۔ وہ نہیں چاہتا تھا کے الوینا اس سے نفرت کرے۔


جبکہ اسکی بات پر وہ شرمندگی سے سر جھکا گئی۔

اس کی وجہ سے وہ اتنا خوار ہوتا رہا تھا۔ اسے خود پر شدید غصہ آیا۔


قیصر نے دلچسپی سے اس کے چہرے پر ندامت کے رنگ دیکھے۔


"تم آخر اس جنگل میں کرنے کیا آئی تھی؟ جب تمہیں یہاں کے راستے نہیں پتہ تو کیوں بھٹکنے کیلئے چلی آئی؟ جانتی بھی ہو یہ جگہ کتنی خطرناک ہے؟ بے وقوف لڑکی، خونخوار بھیڑیوں کے گھر چلی آئی ان کا خوراک بننے"۔ وہ اسے ڈپٹنے لگا۔


بھیڑیوں کے ذکر پر خوفزدہ نگاہوں سے ارد گرد دیکھتی لاشعوری طور پر وہ اس کے مزید قریب آ گئی۔


"میں تو بس۔۔۔تھوڑی دیر کیلئے باہر آ کر کھلی ہوا میں سانس لینا چاہتی تھی۔ تارہ نے کہا کے تم کچھ نہیں کہوگے، تو میں یہاں اس کے ساتھ آگئی۔ اتنا حسین جنگل دیکھتے ہوئے مجھے احساس ہی نہ ہو سکا کب میں تارہ سے الگ ہو گئی اور یہاں بھٹک گئی۔ میں نے اسے بہت ڈھونڈا پر وہ مجھے ملی نہیں، شاید وہ بھی مجھے ڈھونڈتی رہی ہو"۔ بنا کوئی لگی لپٹی رکھے وہ ہر بات اسے بتاتی چلی گئی یہ جانے بغیر کے اس کی زبانی یہ سب سن کر قیصر خود پر کس طرح ضبط باندھ رہا تھا۔


وہ اسے کیا بتاتا کے تارہ جان بوجھ کر اسے وحشی جنگل کے حوالے کر گئی تھی۔ کیسے بتاتا کے وہ اسے ڈھونڈ نہیں رہی تھی بلکہ مزے سے گھر بیٹھی تھی۔

رہ رہ کر اسے تارہ پر غصہ آ رہا تھا۔


وہ الوینا سے جلتی ہے یہ احساس تو اسے روزِ اوّل سے ہو گیا تھا مگر الوینا کے چہرے پر پڑے نیل اور انگلیوں کے نشان دیکھ کر وہ غم و غصے سے پاگل ہونے کو تھا۔ کوئی آدمی تو یہ ہمت نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اسکے سبھی آدمی واقف تھے کے الوینا ان کے باس کیلئے کتنی اہم تھی۔ لہٰذا اس کا شک تارہ پر ہی گیا مگر مہمانوں کا خیال کرتے ہوئے وہ اس سے کچھ نہ بولا۔

جس کا نتیجہ یہ ہوا کے اس کے عتاب کا نشانہ وہ آدمی بن گیا جس نے الوینا سے بدتمیزی کی تھی۔

تبھی تو الوینا کے غائب ہوتے ہی اس نے تارہ کو جا لیا۔

قیصر اچھی طرح جانتا تھا کے وہ کس حد تک جا سکتی تھی۔


"کیا ہوا؟ تم ایسے خاموش مت رہو۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے"۔ الوینا کی خوفزدہ آواز نے اسے خیالوں سے باہر کھینچا۔

وہ چونکا۔


"ہمیں چلنا چاہیئے۔ یہ جگہ بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے"۔ وہ فکرمندی سے بولا۔


الوینا نے اثبات میں سر ہلایا۔

اس کا ہاتھ تھامے وہ اسے ساتھ لیے اب واپسی کیلئے مڑ گیا تھا۔

☆☆☆☆☆☆


جنگل سے واپسی کا راستہ اتنا مشکل نہ تھا۔

کیونکہ قیصر کو راستے ازبر تھے۔ پینتالیس منٹ بعد وہ گھر پہنچے۔

بالآخر ایک طویل ترین اور ٹینشن بھرا دن ختم ہوا تھا۔


الوینا کو اس نے کھانا کھلا کر نیند کی دوا دے کر سلا دیا۔ پھر اس کے کمرے کا دروازہ آہستگی سے بند کرتے ہوئے باہر نکل آیا۔

اب اس کا رخ نیچے کی منزل پر واقع تارہ کے کمرے کی جانب تھا۔

رات کے دو بج رہے تھے۔ مگر وہ کسی بات کی بھی پرواہ کیئے بغیر اندھا دھند اس کے کمرے کا دروازہ دھڑدھڑانے لگا۔


نیند سے بوجھل آنکھیں تارہ نے بمشکل وا کیں اور لیمپ روشن کیا۔ جمائی روکتی ہوئی کمرے کا دروازہ وا کرنے لگی۔

دروازہ کھلتے ہی سامنے قیصر کی غصے سے بھری صورت نظر آئی۔

جسے دیکھ کر اسکی رہی سہی نیند اڑنچھو ہو گئی۔


دروازہ کھلتے ہی وہ تیزی سے اندر داخل ہوا اور تارہ کی گردن دبوچ لی۔

"تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی اس کے ساتھ یہ سب کرنے کی؟ میری جانکاری کے بغیر تم اسے لے کر کیسے گئی گھر کے باہر۔ اور تو اور جنگل میں اسے چھوڑ آئی مرنے کیلئے؟"۔ اس کی گرفت پھندے کی طرح تارہ کے گلے کے گرد موجود تھی۔

اسے سانس لینا دشوار لگ رہا تھا۔ خود کو چھڑوانے کی سعی کر رہی تھی مگر قیصر کے آگے اس کی دال نہیں گل رہی تھی۔


"تم اس حد تک چلی جاؤ گی یہ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا تارہ"۔ ایک جھٹکے سے گرفت ہٹا کر وہ فاصلے پر ہو کر دھاڑا۔


اپنی گردن پر ہاتھ رکھے وہ بری طرح کھانس رہی تھی۔

کافی دیر بعد جب اس کی سانسیں اعتدال پر آئیں تو وہ بپھر کر آگے بڑھی اور اس کا گریبان پکڑ لیا۔


"رک کیوں گئے قیصر خیام مارو، مارو مجھے مار ڈالو مجھے"۔ وہ بلند آواز سے چلائی۔


قیصر خاموشی سے اسے گھور رہا تھا۔


"اتنی محبت ایسا عشق وہ بھی اس کل کی آئی لڑکی کیلئے۔ کیا جادو کر دیا ہے اس نے تم پر جو تم اپنے دوستوں تک کو مارنے پر تل گئے ہو۔ آخر ایسی کیا بات ہے اس میں جو تم اس کے سامنے گھٹنے ٹیک گئے"۔ دانت پیس کر وہ ایک ایک لفظ چبا کر بولی۔

کاٹ دار نگاہیں قیصر کی آنکھوں پر جمی تھیں۔


غصے سے اس کے جبڑے بھینچ گئے۔

جھٹکے سے اس نے اپنا گریبان اس کی گرفت سے چھڑوایا اور اسے خود سے پرے دھکیل دیا۔


"اگلی بار یہ گستاخانہ حرکت کی تو کہنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ کیونکہ تم اچھی طرح جانتی ہو کے مجھ سے برا کوئی اور ہے ہی نہیں"۔ انگلی اٹھا کر سختی سے کہتے باور کروایا۔


"اوہ تو اب میرا تمہارے نزدیک آنا گستاخی لگنے لگا ہے تمہیں۔ پہلے تو کبھی نہیں روکا تھا قریب آنے سے تو اب کیا ہوا؟ اب اتنا گریز کیوں؟"۔ چبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔


"میں نے ہمیشہ تمہیں ایک حد پہ رکھا ہے۔ اور کبھی اپنی حد نہ خود بھولا ہوں اور نہ کسی کو بھولنے دیتا ہوں۔ پھر چاہے وہ حد پار کرنے والا میرا کوئی دوست ہی کیوں نہ ہو"۔ بھرپور تلخی سے کہہ کر رخ موڑ لیا۔


اس کی بات پر تارہ کی تمسخرانہ ہنسی پورے کمرے میں گونجنے لگی۔

خود پر قابو رکھتے قیصر نے زور سے مٹھیاں بھینچ لیں۔


"یہ میرا دوست کہہ رہا ہے یا الوینا کا عاشق"۔ طنزیہ کہتی ہوئی وہ گھوم کر اس کے سامنے آ گئی۔


"کہاں گیا وہ قیصر جو کہتا تھا کے اسے صرف جان لینی آتی ہے۔ کہاں گیا میرا وہ دوست جسے محبت لفظ کے معنی تک نہیں پتہ تھے جسے یہ سب ڈھکوسلہ لگتا تھا۔ کہاں ہے وہ شخص جس نے کہا تھا کے اگر کبھی اسے الوینا سے محبت ہو بھی گئی تو یا تو وہ اسے گولی مار دے گا یا خود کو؟"۔ ماضی میں کہے گئے اسی کے الفاظ وہ اس کے منہ پر مارتی اسے آئینہ دکھا رہی تھی۔


"تم غلط ہو۔ میں اب بھی کسی سے محبت نہیں کرتا"۔ اسے خود بھی محسوس ہوا کے اس کا لہجہ کتنا کمزور ہے۔


اثبات پر ایک مرتبہ پھر تارہ کا قہقہہ پڑا تھا۔


"جا کر آئینے میں اپنی صورت دیکھو۔ تمہارے چہرے پر جلی حروف میں لکھا ہے کے 'مجھے الوینا سے عشق ہو گیا ہے'۔ ٹھیک کہا تم نے قیصر، تمہیں الوینا سے محبت نہیں۔۔۔تمہیں اس سے عشق ہو گیا ہے"۔ ہنستے ہنستے اس کی سیاہ آنکھوں میں پانی اتر آیا۔

کھوکھلی ہنسی!


مگر وہ پھر بھی مہر بہ لب رہا۔ کچھ نہ بولا۔


"ہاں میں نے اسے مرنے کیلئے وہاں جنگل میں چھوڑ دیا۔ کیونکہ میں محبت اور جلن میں اندھی ایک عورت ہوں جو اپنے محبوب کے حواسوں پر کسی اور کو چھاتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی۔ میں نے اسے وہاں چھوڑا کیونکہ تم سے محبت کرنے کا حق صرف مجھے ہے۔ اور ہو بھی کیوں نا؟ میں تمہیں تمہاری اصلیت سمیت چاہتی ہوں، تمہارے ہر روپ میں تمہیں قبول کر سکتی ہوں"۔ اپنے گال پہ پھسلتے آنسوؤں کو صاف کرتے وہ چیخ چیخ کر کہتی کوئی دیوانی ہی لگ رہی تھی۔


جبکہ اس نئے انکشاف پر تو وہ بھونچکا رہ گیا۔


"اس سے پوچھو جا کر کیا وہ تمہاری اصلیت سمیت تمہیں اپنا سکتی ہے؟ تمہاری حقیقت جاننے کے باوجود بھی وہ کر سکتی ہے اتنی محبت تم سے؟ ہے اس کی محبت میں اتنی طاقت جو وہ تمہارے کالے کارناموں سمیت تمہیں قبول کر لے؟"۔ ایک کے بعد ایک زہر میں بجھے تیر وہ اس پر برسا رہی تھی۔


اور قیصر خیام دھواں دھواں ہوتے چہرے کے ساتھ اسے سن رہا تھا۔

تارہ کا ہر لفظ اس کے وجود کو تیز دھار آلے کی مانند کاٹتا چلا گیا تھا۔

سچائی کی ننگی تلوار نے اس کا وجود زخم زخم کر دیا تھا۔


مذید کچھ کہے بنا بوجھل قدموں سے وہ سست روی کے ساتھ چلتا ہوا اس کے کمرے سے باہر نکل گیا۔

☆☆☆☆☆☆


اندر کا ٹوٹ پھوٹ اس کے چہرے سے واضح تھا۔


وہ جو مضبوط اعصاب کا مالک تھا، جسے درد کو بھی درد دینا آتا تھا۔

آج پہلی بار وہ درد سے روبرو ہوا اور اس کا پورا وجود ہی درد بن گیا۔


وہ الجھا بکھرا سا بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔

سائیڈ لیمپ کا سوئچ بٹن اس کی انگلیوں تلے تھا۔ جو بار بار جل بجھ رہا تھا۔

زرا سا اجالا ہوتا، جس میں سرمئی آنکھیں اور اس کی پیشانی پر بکھرے بھورے بال واضح ہوتے، اور پھر سے اندھیرا چھا جاتا۔


اس کی آنکھوں میں سرخ ڈورے پڑ رہے تھے۔ اس گھڑی اسے رشک آ رہا تھا الوینا پر کے وہ کتنی آسانی سے اپنی تکلیف آنسوؤں کے ذریعے بہا دیتی تھی۔


وہ بھی رونا چاہتا تھا۔ ہاں وہ رونا چاہتا تھا مگر یہ آنسو کیوں اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ وہ خشک آنکھوں سے رو رہا تھا۔ کیا خشک آنکھوں سے رونے والے کی اذیت کا اندازہ بھی لگا سکتا ہے کوئی؟


موبائل کے چنگھاڑنے پر وہ بری طرح چونک گیا۔

بنا نمبر دیکھے کال اٹینڈ کرکے موبائل کان سے لگایا۔


"تمہاری شرائط میں منظور کر چکا ہوں۔ تمہیں میرا دستخط شدہ پلندہ بھی مل چکا ہے۔ اب تم الوینا کو آزاد کردو"۔ چھوٹتے ہی مختار صاحب کی سخت گیر آواز گونجی۔


الوینا کا نام اس کے دل میں چبھا تھا۔

"اپنا وعدہ میں نہیں بھولتا۔ کل صبح ہوتے ہی وہ صحیح سلامت آپ کے پاس ہوگی ڈی-آئی-جی صاحب"۔ اس کا لہجہ قدرے پست تھا۔

مختار صاحب اس کے طرز تخاطب پر چونک چونک گئے۔

انہیں اس کا انداز بہت الگ سا لگا۔

"آج یہ الٹی گنگا کہاں سے بہہ نکلی؟"۔ وہ مشکوک ہوئے۔

"مطلب؟"۔ وہ غائب دماغی سے بولا۔

"تمہیں تو وہ باتیں بھی سنائی دیتی ہیں جو کوئی کہتا نہیں ہے۔ پھر آج تم مطلب میں کیونکر الجھ گئے؟"۔ وہ طنز کر گئے۔

قیصر سر جھٹک کے تلخی سے مسکرایا۔

"جب زندگی کے معنی جان لیئے تو ہر چیز کے مطلب کھو گئے ڈی-آئی-جی صاحب۔ کیا آپ کو لگتا ہے کے میرے جیسا مجرم سدھر سکتا ہے؟"۔ وہ بے ارادہ ہی یہ سوال کر بیٹھا۔

مختار صاحب ششدر رہ گئے اس سوال پر۔

"کیا تم سدھرنا چاہتے ہو قیصر؟"۔ کچھ لمحے بعد انہوں نے الٹا سوال کیا۔

وہ فوری جواب نہ دے سکا۔

"بولو۔ کیا تم سدھرنا چاہتے ہو؟"۔ وہ پھر پوچھنے لگے۔

قیصر نے ٹھنڈی آہ بھری۔

"پتہ نہیں"۔ وہ الجھا ہوا سا لگا۔

"اگر تم واقعی سدھرنا چاہتے ہو تو خود کو قانون کے حوالے کردو قیصر۔ اپنی شرطیں واپس لے لو۔ میں تمہاری سزا موت کے بجائے عمر قید کروانے کیلئے آخری حد تک جاؤں گا۔ کہو منظور ہے؟"۔

وہ اسکے جواب کا انتظار کرنے لگے۔

"آپ کو کیا لگتا ہے قیصر اتنا بےوقوف ہے جو ایک پولیس والے پر بھروسہ کرکے جذباتی فیصلہ لے گا۔ میرے مرنے کا وقت ابھی نہیں آیا ہے ڈی-آئی-جی۔ جس دن زندگی جینے کی میری آرزو تکمیل پائے گی میں اس دن خود چل کر آپ کے پاس آؤں گا۔ اور سرینڈر کر دوں گا"۔ اپنی بات مکمل کرکے اس نے موبائل بیڈ پر اچھال دیا۔

اور آنکھیں موند کر مٹھی سے پیشانی پر ہلکی ہلکی ضربیں لگانے لگا۔

بند آنکھوں کے پردے پر اس پری وش کا چہرہ ابھر ابھر کر مٹ رہا تھا۔

رات کے اندھیرے چھٹ گئے۔

صبح کے اجالوں نے اپنے پر پھیلا لیئے تھے۔


قدآور آئینے کے سامنے موجود وہ سیاہ رنگ کے آفیشل سوٹ میں ملبوس تھا۔

نک سک سے تیار وہ سیاہ اور سنہری رنگ کی گھڑی باندھ رہا تھا۔


گزری رات کی تباہ کاریوں کا اس کے چہرے پر شائبہ تک نہ تھا۔ البتہ انداز کسی قدر سنجیدہ تھا۔

وہ قیصر خیام تھا۔ جسے اپنے انداز، اپنا رکھ رکھاؤ، اپنی چال لمحوں میں بدل لینے میں مہارت حاصل تھی۔

اگر وہ خون خرابے کے پیشے سے نہ ہوتا تو یقیناً شوبیز کی دنیا کا ایک چمکتا ستارہ ہوتا۔ کچھ اتنا ہی اسے کمال حاصل تھا اداکاری میں۔

اب بھی سپریم کورٹ میں وہ اپنی اداکاری کے جوہر دکھانے جا رہا تھا۔ خود کو بے داغ ثابت کرنے جا رہا تھا۔


مختار اور اس کے بیچ طے پانے والے معاہدے کے مطابق اس کی سزائے موت کے خلاف عدالت میں اپیل دائر کی گئی تھی۔ جس کی آج پہلی پیشی تھی۔ اسے پورا یقین تھا کے وہ بَری ہو جائے گا۔


مکمل طور پر تیار موبائل اور والٹ وہ جیب میں رکھ رہا تھا کے تبھی بند دروازے پر دستک ہونے لگی۔


"کون ہے؟"۔ بیزایت سے پوچھا۔


"مجھے آپ سے بات کرنی ہے"۔ قدرے پست آواز میں جواب آیا۔


اس آواز اور سب سے بڑھ کر طرز تخاطب پر وہ چونکا۔

مشینی انداز میں چلتا ہوا وہ دروازے کے اِس پار آ کھڑا ہوا۔

جبکہ دروازے کے اُس پار وہ کھڑی تھی۔


"کیا بات کرنی ہے؟"۔ دروازہ کھولے بنا ہی کوفت سے پوچھا۔


"آپ دروازہ تو کھولیں پہلے۔ پھر بتاؤں گی"۔ الوینا کی آواز میں بے چینی تھی۔


قیصر کا انداز برہم ہوگیا۔

"اب کیا مسئلہ ہے تمہیں؟ گھر چھوڑنے تو جا ہی رہا ہے نا میرا آدمی؟ تو اب اِدھر کیا لینے آئی ہو؟"۔


چند لمحوں کیلئے خاموشی چھا گئی۔

پھر اس کی دھیمی آواز گونجی۔


"میں ایک بار آپ سے ملنا چاہتی ہوں۔ کیا جانے سے پہلے صرف ایک بار آپ سے مل بھی نہیں سکتی؟"۔ وہ روہانسی ہو گئی۔


لب بھینچ کے وہ خود پہ ضبط کے پہرے بٹھا کر گویا ہوا۔


"مجھے تم سے نہیں ملنا۔ چپ چاپ اپنے گھر جاؤ اور جان چھوڑو میری"۔ اکھڑ لہجے میں کہہ کر وہ ایک بار پھر اپنے خول میں سمٹ گیا تھا۔


اس قدر بے حسی پر الوینا کا دل خون کے آنسو رو دیا۔


"میں نہیں جاؤں گی۔ جب تک آپ مجھ سے ملیں گے نہیں میں گھر نہیں جاؤں گی سنا آپ نے"۔ وہ چھوٹی بچی کی سی ضدی لہجے میں بولی۔

مگر دوسری طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔


اب وہ دروازہ پیٹنے لگی۔

"دروازہ کھولیں۔ میں نے کہا دروازہ کھولیں"۔ اس کی بےبسی اب غصے میں بدلنے لگی تھی۔

بے بسی بھرے غصے میں!


دوسری جانب وہ بابو کو کال ملانے لگا۔

پہلی ہی بیل پر کال اٹھا لی گئی۔


"یار یہ بھابھی آ ہی نہیں رہیں میں کب سے گاڑی میں بیٹھا ہوں باہر مگر وہ اب تک گھر سے نہیں نکلیں۔ یہ خواتین تیار ہونے میں۔۔۔۔


"اپنی بکواس بند کرو، اور وہ تمہاری بھابھی نہیں ہے یہ بات کبھی مت بھولنا۔ میرے کمرے کے باہر دروازے پر کھڑی تماشہ کر رہی ہے وہ۔ آ کر اسے لے جاؤ اور گاڑی میں ڈال کر باپ کے پاس پہنچا آؤ ان محترمہ کو"۔ بابو کی بات کاٹتے ہوئے وہ غصے سے بولا۔


اس کے برعکس وہ اب بھی وقفے وقفے سے دروازہ پیٹ رہی تھی۔


"ہاں یہ صحیح ہے۔ اپنی ذمہ داری سے دامن بچا کر اسے میرے گلے باندھ دو اور خود اپنا دامن جھاڑ کر سکون سے بیٹھ جاؤ۔

"۔ بابو نے شرم دلائی۔


قیصر کو اس کی بات پر جی بھر کے غصہ آیا۔

"جتنا کہا ہے اتنا کرو پہلے۔ آ کر لے جاؤ اسے، دماغ خراب کر دیا ہے اس نے میرا"۔ وہ بگڑے ہوئے انداز میں بولا۔


"ٹھیک ہے ابھی آ کر اسے بےہوش کرکے لے جاتا ہوں"۔ اس کے بگڑے تیور دیکھ کر اس نے جلدی سے کہا۔


"نہیں اسے بےہوش مت کرنا۔ بار بار نشہ آور دوا کے کانٹیکٹ میں آنے سے لیور پر اثر ہو سکتا ہے۔ تم اسکے ہاتھ پیر باندھو، اسے گاڑی کی سیٹ سے باندھو کچھ بھی کرو لیکن اسے یہاں سے لے جاؤ"۔ خود پر کنٹرول رکھتے اسے نے کہا۔


"اوکے اوکے میں بس ابھی لے جاتا ہوں اسے۔ تم پریشان مت ہو"۔ تسلی آمیز لہجے میں کہتے ہوئے اس نے کال کاٹ دی۔


پانچ منٹ بعد ہی بابو کی آواز بھی دروازے کے پاس ابھری۔


"چلیئے مادام، آپ کو گھر چھوڑنے جانا ہے"۔ وہ شائستگی سے بولا۔


ارد گرد ٹہلتے قیصر کی سماعتیں دروازے کے باہر ہی لگی ہوئی تھیں۔


"اپنے دوست کہیئے کے وہ باہر آئیں میں ان سے بس ایک آخری بار مل کر جانا چاہتی ہوں"۔ اس نے پھر سے اپنا مطالبہ دہرایا۔


"وہ بنا اپنی مرضی کے کسی سے نہیں ملتا۔ آپ چلیئے ہمیں دیر ہو رہی ہے"۔ وہ اب تھوڑا سخت ہوا۔


"میں نے کہا نا جب تک میں مل نہیں لیتی یہاں سے ایک انچ بھی نہیں ہلوں گی"۔ وہ بھی اپنے نام کی ایک تھی۔ ہٹیلے پن سے بولی۔


"کتنی ضدی ہے یہ"۔ قیصر نے سلگ کر سوچا۔


"کیا فائدہ ہوگا ان سے ملنے کا؟ ہاں؟ جب سے آئی ہیں آپ تب سے گھر جانے کی، آزاد ہونے کی رٹ لگا رکھی تھی آپ نے اور اس کی پاداش میں جانے کتنی بار بھاگنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے ساتھ ساتھ اسے بھی مشکل میں ڈال دیا۔ اور اب جب آخرکار وہ آپ کو آزاد کر رہا ہے تو اب یہ نئی ضد؟ چلیئے آپ یہاں سے اور اکیلا چھوڑ دیجئے اسے"۔ اسے آمادہ نہ دیکھ کر وہ بولا۔


جبکہ بابو کی بات سن کر دروازے پر دستک دیتے اس کے ہاتھ ہوا میں ہی معلق ہو گئے۔

وہ گم سم سی ہو کر ایک ایک قدم دروازے سے پیچھے ہٹتی چلی گئی۔

منہ پر ہاتھ رکھے اپنی سسکیوں کا گلا گھونٹتی ہوئی وہ سراعت سے نیچے جاتے زینوں کی طرف بھاگی تھی۔


بابو نے افسوس سے پہلے اسے جاتے دیکھا پھر بند دروازے کو۔ اور آہستگی سے بولا۔


"وہ جا چکی ہے قیصر"۔ اطلاع دے کر وہ بھی مڑا اور زینے اتر گیا۔


اسی وقت دروازہ کھلا اور قیصر خیام کا سپاٹ چہرہ نظر آیا۔

چوکھٹ سے کہنی ٹکائے چند لمحے وہ وہی کھڑا ان کے جانے تک کا انتظار کرتا رہا۔


الوینا کی خوشبو اب بھی اسے محسوس ہو رہی تھی۔

"اسے تو جانا ہی تھا ایک دن۔۔۔۔جانا ہی تھا"۔ خودکلامی کے سے انداز میں کہتے ہوئے سیاہ شیڈز تیزی سے آنکھوں پر رکھتے وہ کمرے سے باہر نکلا۔

☆☆☆☆☆☆


ڈرائینگ روم میں وہ ارد گرد ایک طائرانہ نگاہ ڈالتی صوفے پر ٹک گئی۔


مقابل ہی علی مرزا انگلیوں میں سگار دبائے ٹانگ پہ ٹانگ جمائے بیٹھا پرسوچ نگاہوں سے اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔


"آج میری یاد کیسے آئی؟"۔ بیٹھتے ساتھ ہی وہ کاٹ دار لہجے میں بولی۔


اسکی بات پر علی دلچسپی سے ہنس دیئے۔


"تارہ۔۔۔تو بالآخر وہی ہوا تمہارے ساتھ بھی جو قیصر اپنے سے جڑے لوگوں کے ساتھ کرتا ہے"۔ وہ آگے کو جھکے۔


"دغا۔۔۔آخر تمہیں بھی دے ہی دی اس نے دغا۔ نئی لڑکی کے آتے ہی دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا تمہیں"۔ سیاہ آنکھوں میں جھانک کر وہ تمسخرانہ لہجے میں بولے۔


تارہ ضبط کے کڑے مراحل سے گزری اور زخمی نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا۔


"یہ تمہاری بھول ہے۔ قیصر نے کوئی دغا نہیں کیا۔ وہ ایسا کیوں کرے گا؟"۔ کچھ بھی ہو لیکن وہ قیصر سے متعلق غلط نہیں سن سکتی تھی۔


علی نے طنز بھری نگاہوں سے سر تا پیر اسے دیکھا۔

"سنا ہے تم سے کئی زیادہ حسین ہے وہ لڑکی جو قیصر کی قید میں ہے۔ اور اس پر التفات بھی کافی دکھاتا ہے وہ یہ بھی مجھے معلوم ہے۔ اسے زندہ چھوڑ کر اور آزاد کرکے قیصر نے ثابت کر دیا کے وہ حسن کا شیدائی ہے"۔ سگار کے کش لیتے ہوئے وہ دھواں چھوڑتے کہنے لگے۔


تارہ کو اچنبھا ہوا تھا اس کی بات پر۔

"تمہیں یہ کیسے پتہ کے قیصر نے اس لڑکی کو آزاد کر دیا ہے؟ جبکہ یہ بات تو ہم چاروں دوستوں کے درمیان کی تھی؟"۔ وہ بے یقینی سے بولی۔


"یہی تو آج کی بریکنگ نیوز ہے"۔ مکروہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے اس نے زور سے تالی بجائی۔

تارہ قدرے چونک گئی۔


مگر جوں ہی نظر ڈرائینگ روم کے دروازے سے اندر داخل ہوتی شخصیت پر پڑی تو وہ کرنٹ کھا کر صوفے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

"بابو"۔ اس کی لب ہلے تھے مگر آواز اندر ہی گھٹ کر رہ گئی۔

اس کی حیرتوں کا کوئی ثانی نہیں تھا۔


جینز شرٹ میں ملبوس درمیانے قد کاٹھ اور ہلکی سانولی رنگت والا بابو اب علی کے سے انداز میں ہی مسکرا کر اسے دیکھتا ہوا ان کے دائیں جانب کھڑا ہو گیا۔


"کیوں چونک گئی؟ یہ تمہارا پیارا دوست بابو نہیں بلکہ میرا آدمی سلطان ہے۔ جسے میں نے جان بوجھ کر حاجی کی گینگ میں بھیجا تھا۔ بہت سنا تھا قیصر کے بارے میں اس کی طاقت اور ذہانت کے بارے میں۔ مجھے اس کی طاقت چاہیئے تھی، مجھے قیصر خیام چاہیئے تھا"۔ وہ مٹھی بنا کر مضبوطی سے بولے۔


تارہ پتھر کی مورت بنی خاموش کھڑی اسے سنتی رہی۔


"تم، اعظم اور قیصر بہت سنا تھا تمہاری دوستی سے متعلق تو سوچا کیوں نہ تم تینوں کے بیچ کسی چوتھے کو لایا جائے؟ اپنی اس سوچ پر عمل کے تحت میں نے سلطان کو بابو بنا کر تمہاری گینگ میں شامل کر دیا۔ اور تمہیں کیا لگا تھا کے مجھے تم لوگوں کی کوئی خبر نہیں ہوگی؟ کب کہاں کیا کرتے پھر رہے ہو۔ اسی آدمی کے ذریعے میں نے حاجی کے اڈے پر پولیس ریڈ کروائی، اسی کے ذریعے میں نے قیصر کو جیل بھجوایا۔ ارادہ تو میرا تھا کے اسے جیل سے نکلوا کر اپنا وفادار بنا لوں گا۔ مگر اس ایماندار اور قانون کے رکھوالے مختار کی وجہ سے میرا ایک سال برباد ہو گیا۔ اور تو اور قیصر کو سزا بھی ہوگئی

مگر پھر میں نے نئے سرے سے کوشش کی۔ سلطان کے ذریعے

میں نے تمہارے کانوں میں یہ بات ڈلوائی کے اگر قیصر کو کوئی جیل سے نکلوا سکتا ہے تو وہ ہوں میں یعنی علی مرزا"۔ ہموار لہجے میں وہ شروع سے آخر تک اپنی چال بڑے آرام سے اسے بتاتا گیا۔


اور تارہ اسکے سامنے حیرت کدہ بنی کھڑی تھی۔ ایک کے بعد ایک جھٹکا اسے لگ رہا تھا۔

اتنا بڑا دھوکا؟ اتنا بڑا کھیل!


"وہی ہوا جیسا میں نے سوچا تھا۔ مختار پر دباؤ ڈال کر میں نے قیصر کو جیل سے فرار کروایا اور پھر ایسے حالات بنائے کے وہ خود چل کر میرے پاس آ جائے۔ اور وہ آیا بھی مگر اپنا پلان لے کر۔ اسے علی مرزا کی کمزوری چاہیئے تھی نا؟ میں نے اسے خود دینے کا فیصلہ کیا اپنی کمزوری۔ جان بوجھ کر اسے کام کے بہانے اسی یونیورسٹی میں بھیجا جہاں الوینا پڑھتی تھی۔ تاکہ وہ میری کمزوری ڈھونڈتا رہے اور میں اس سے اپنا کام لیتا رہوں۔ مگر اس نے ہمارے بیچ ہوا معاہدہ توڑ دیا۔ وہ میرے ہی منہ کو آنے لگا۔ اس لیے اب اسے لگام لگانا ضروری ہے"۔ علی مرزا کا چہرہ آج بہت دنوں بعد مطمئن سا تھا۔

وہ ببانگ دہل اپنی کارگردگی بتا رہے تھے۔


تارہ کا سکتہ جیسے ہی ٹوٹا اس نے آگے بڑھ کر علی مرزا کے برابر کھڑے سلطان کو گریبان سے پکڑ لیا۔


"ذلیل گھٹیا کمینے تو نے دوستی کا نقاب اوڑھ کر قیصر کو دھوکا دیا؟ ہماری آنکھوں میں دھول جھونکتے رہے اب تک؟ پچھلے تین سالوں سے تم ہمیں دغا دیتے رہے اور ہمیں خبر تک نہ ہو سکی؟"۔ وہ ہذیانی انداز میں چلا رہی تھی۔


جبکہ ان دونوں اشخاص کے اطمینان میں رتی بھر فرق نہ آیا۔


ایک جھٹکے سے وہ اس کا گریبان چھوڑتی علی کے سامنے آئی۔


"میں سب بتاؤں گی اسے۔ تم جانتے نہیں ہو قیصر کو۔ جب میں اسے اس دھوکے کا بتاؤں گی تو وہ تم لوگوں کو زندہ نہیں چھوڑے گا۔ ایسی موت دے گا وہ کے تمہاری روح کانپ اٹھے گی"۔ انگلی اٹھا کر کہتی ہوئی وہ انہیں سنگین دھمکی سے نواز رہی تھی۔


علی مرزا اٹھ کر اس کے مقابل آ گئے۔

"دیکھو تارہ، قیصر تو ویسے بھی تم میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا اس لیئے بہتر یہی ہوگا کے تم چپ چاپ میرے حق میں ہو جاؤ۔ تمہارے کام کی قیمت بھی دی جائے تمہیں، نہ تو پولیس سے پکڑے جانے کا خوف ہوگا اور نہ ہی کسی دشمن کا ڈر۔ قیصر کے ساتھ کام کرکے تمہارے ہاتھ نہ اب تک کچھ آیا ہے اور نہ آگے کبھی آئے گا"۔ وہ نرم گفتاری سے کام لینے لگے۔


اس کی بات پر تارہ ہنسی اور ہنستی ہی چلی گئی۔

علی تیوری چڑھائے اسے گھورنے لگے۔


"تمہیں کیا میں اتنی بےوقف لگتی ہوں؟ یا تم خود کو بہت زیادہ ہی توپ چیز سمجھتے ہو؟ جن سے محبت کی جاتی ہے وہ محبوب ہوتے ہیں۔ اور محب کبھی اپنے محبوب کے خلاف نہیں جاتا بلکہ محبوب کے خلاف جانے والے ہر شخص کا منہ نوچ لیا کرتا ہے"۔ جیب سے گن نکالتے ہی وہ اس پر تان کر ٹریگر دبانے لگی تھی جب پاس کھڑے سلطان نے اس کا ارادہ بھانپ کر اپنی پستول نکال لی۔

اس سے قبل کے تارہ علی پر گولی چلاتی اس نے تارہ پر نشانہ باندھ کر ایک کے بعد ایک تین گولیاں چلائیں۔

ایک اس کی گردن پہ لگی، دوسری پیٹ کے مقام پر اور تیسری سینے میں پیوست ہو گئی۔


تارہ کی آنکھیں حیرت سے ابل پڑی تھیں۔

خون کے فوارے پھوٹ پڑے تھے اس کے وجود سے اور وہ لہرا کر زمین پر گری۔

موت کی آخری ہچکی لیتے ہی وہ ہمیشہ کیلئے آنکھیں موند گئی۔


"بہت خوب سلطان، میں تمہارے کام سے بہت خوش ہوں"۔ انہوں نے اس کا شانہ تھپکا۔


گولی کی آواز پر الوینا بھاگتی ہوئی وہاں آئی تھی۔

اور جیسے ہی اس کی نظر خون میں لت پت زمین پر پڑی تارہ کی لاش پر گئی تو ایک دلروز چیخ اس کے لبوں سے نکلی اور وہ لہرا کر زمین بوس ہو گئی۔


علی مرزا تیزی سے اس تک آئے تھے۔


"اوففف اسے تو میں بھول ہی گیا تھا"۔ وہ کوفت زدہ سے اس کے بے ہوش وجود کو دیکھ کر بڑبڑائے۔


"لے کر جاؤ اسے اور واپس کمرے میں چھوڑ آؤ"۔ انہوں نے سلطان کو حکم دیا۔


جس پر سر تسلیم خم کرتا ہوا وہ آگے بڑھا اور جھک کر اسے اٹھانے کے بعد وہاں سے لے گیا۔


"اب اس لڑکی کے ذریعے میں کھیلوں گا ایک ایسا سیاسی داؤ کے جس کی لپیٹ میں آ کر مختار اور قیصر ہوں گے آمنے سامنے"۔ ان کے چہرے پر مکروہ مسکراہٹ پھیلتی ان کے ارادوں کا پتہ دے رہی تھی۔

☆☆☆☆☆☆

کورٹ روم سے وہ مطمئن سا نکل رہا تھا۔

اسے بری کر دیا گیا تھا۔ جھوٹے ثبوتوں کی بنیاد پر اور سب سے بڑی بات کے پولیس ریکارڈ میں قیصر کا کوئی جرم موجود نہیں تھا۔

جس پر اسے کلین چٹ دے دی گئی تھی۔ وہ اب قانونی طور پر آزاد ہو چکا تھا۔

جبکہ مختار صاحب کو ایک 'بےگناہ' کو ایک سال تک جیل میں رکھنے اور سزا دلوانے کے جرم میں ایک ماہ کیلئے عہدے سے برطرف کر دیا گیا تھا۔

عدالت میں قیصر خیام نے خود کو تبریز شاہ ثابت کروا کے بہت سوں کی گواہی اپنے حق میں کی تھی۔ جھوٹے ثبوتوں کے مطابق قیصر خیام ایک سال قبل پولیس مقابلے میں مارا جا چکا تھا۔ اور اب جو تھا وہ تبریز شاہ تھا۔ ایک بے گناہ پروفیسر!

پرسکون مسکراہٹ کے ساتھ گاڑی کی سمت بڑھتے ہوئے اس کے قدم ٹھہر سے گئے۔

وجہ مختار انصاری کا اس کے سامنے آ جانا تھا۔

"بہت خوش ہو اپنی جیت پر؟ اپنی اس نام نہاد بے گناہی پر؟"۔ وہ دانت پیس کر بولے۔

سن گلاسس کے پیچھے قیصر کی نگاہیں ان کے غصیلے چہرے پر جمی تھیں۔

وہ مسکرا دیا۔

"بالکل یہ خوشی کی ہی بات ہے۔ بہت بڑی کامیابی ہے یہ میرے لیئے"۔ شانے اچکا کر عام سے لہجے میں کہا۔

مختار صاحب کا پارہ کچھ اور بڑھا۔

"تو پھر تم نے اپنا وعدہ کیوں پورا نہیں کیا؟ الوینا کو آزاد کیوں نہیں کیا؟ صبح سے دوپہر ہو چکی ہے"۔ وہ برہمی سے کہنے لگے۔

"مجھ پر الزام لگانے سے پہلے اپنے گھر فون کیجئے۔ میرا آدمی صبح سے نکلا ہوا ہے اسے چھوڑنے کیلئے۔ اب تک تو وہ پہنچ چکی ہوگی"۔ رسانیت سے جواب دیا۔

"اگر وہ نہ پہنچی ہوگی تو تم یاد رکھنا۔ میں پولیس میں نہ رہ کر بھی اتنا ہی خطرناک ہوں جتنا ایک ڈی-آئی-جی کی حیثیت سے تھا"۔ وہ انگلی اٹھا کر سنجیدگی سے کہتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔

ان کے جاتے ہی اب قیصر کے چہرے پر تشویش نظر آنے لگی۔

"کہاں گئی ہوگی وہ؟"۔ لب بھینچے وہ سوچ میں پڑ گیا۔

شام کے سائے ہر سو پھیلنے لگے تھے۔

موسم کا عالم یہ تھا کے کبھی دھوپ تھی تو کبھی گھن گھور بادل۔


اب بھی آسمانوں پر چھائے سیاہ بادل کسی لمحہ بھی برسنے کو تھے۔

مگر ہارون عالم کا مزاج اسکے برعکس اپریل اور جون کی کڑی دھوپ جیسا ہو رہا تھا۔


اس کی گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی مختار صاحب کے بنگلے میں داخل ہوئی تھی۔

چوکیدار نے گیٹ وا کرتے اسے سلام کیا مگر مزاج برہم دیکھ کر اس کا دل دہل گیا۔


گاڑی وہیں روش پر کھڑی کی اور نیچے اترنے کے بعد ایک دھماکے سے گاڑی کا دروازہ بند کیا۔

پھر تن فن کرتا ہوا داخلی دروازے کے پاس آ رکا۔ دوسری چابی سے دروازہ کھول کر وہ سرخ چہرے کے ساتھ اب گھر میں داخل ہوا۔


"ڈی-آئی-جی صاحب کہاں ہیں آپ؟ سامنے آئیے؟"۔ مین ہال کے وسط میں کھڑا کمر پہ ہاتھ جمائے وہ بلند آواز میں انہیں پکارنے لگا۔


"جس کونے میں بھی ہیں آپ وہاں سے باہر نکل آیئے"۔ ارد گرد ٹہلتے وہ مزید اونچی آواز میں بولا۔


تبھی حیران پریشان سی فائزہ اپنے کمرے سے برآمد ہوئیں۔


"یہ کیا طریقہ ہے ہارون؟ اور یہ تم کس لہجے میں بات کر رہے ہو؟"۔ انہیں اس کا انداز ناگوار گزرا۔


"یہ سوال تو آپ اپنے شوہر سے پوچھیے خالہ جان کے آخر یہ کیا طریقہ ہے؟"۔ وہ تلخی سے بولا۔


تبھی اس کی نظر سست روی سے زینے اترتے مختار صاحب پر پڑی تو غصے سے اس کے جبڑے بھنچ گئے۔


وہ نگاہیں جھکائے ایک ایک قدم چلتے اس کے سامنے ایک مجرم کی طرح آ ٹھہرے۔


صورتحال سمجھنے کیلئے فائزہ بھی پریشان چہرہ لیئے ان کے درمیان آ موجود ہوئیں۔


مختار صاحب کی جھکی نظریں اور ہارون کی کاٹ دار نگاہوں کو دیکھتے ہوئے انہیں ہول اٹھنے لگے۔


"آخر تم کچھ بولتے کیوں نہیں ہو ہارون؟ کیا کیا ہے مختار نے؟"۔ اس کا شانہ ہلا کر وہ کسی قدر تشویش سے پوچھنے لگیں۔


"یہ تو اب یہ خود ہی بتائیں گے کے کیا کیا ہے انہوں نے۔ کیوں؟ ڈی-آئی-جی صاحب؟"۔ وہ سخت لہجے میں بولا۔


مختار صاحب نے پھر بھی کوئی جواب نہ دیا۔


"اوہ معذرت چاہوں گا۔ یہ تو ڈی-آئی-جی رہے ہی نہیں ہیں۔ تو پھر آپ ہی بتایئے کے میں آپ کو کس طرح مخاطب کروں؟ خالو جان کہہ کر؟ یا پھر ایک مجرم"۔


"بس ہارون"۔ ان کا ضبط جواب دے گیا۔ ہاتھ اٹھا کر انہوں نے مزید بولنے سے روک دیا۔


ہارون کے لب تلخی سے مسکرائے۔


"کیوں؟ برا لگ رہا ہے آپ کو؟ تب برا نہیں لگا تھا جب سینکڑوں افراد کے خون سے رنگے اس مجرم قیصر خیام کے ہاتھوں کو ہتھکڑیاں پہنانے کے بجائے اسی سے ہاتھ ملا لیا آپ نے؟ تب نہیں برا لگا آپ کو جب اس شخص کو سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کے بجائے آپ نے اسے بےگناہ ثابت کروا کر عدالت سے بری کروا دیا؟ اب آپ کی مہربانی کی وجہ سے وہ مجرم کھلے عام گھومے گا اور نہ جانے مزید کتنے لوگوں کی لاشیں گرائے گا"۔ اس کی آواز میں صدمہ تھا۔ بے یقینی تھی۔


"میں نے جو کچھ بھی کیا وہ الوینا کی بھلائی کیلئے کیا۔ اسے آزاد کروانے کیلئے کیا اور میں تمہیں صفائی دینا ضروری نہیں سمجھتا"۔ بےرخی سے کہہ کر وہ منہ پھیر گئے۔


"الوینا کی بھلائی کیلئے؟ آپ نے ایک مجرم سے اپنی بیٹی کا سودا کیا؟ تو بتایئے کہاں ہے الوینا؟ کیا اس نے الوینا کو رہا کر دیا؟"۔ وہ گھوم کر پھر سے ان کے مقابل آ گیا اور ایک بار پھر بھرپور طنز سے کہا۔


جبکہ فائزہ اس انکشاف پر حیرانگی سے شوہر کو دیکھنے لگیں ۔


"مختار آپ نے اس کی شرائط مان لی تھیں تو کہاں ہے الوینا؟ وہ اب تک ہمارے پاس پہنچی کیوں نہیں؟"۔ انہیں پریشانی لاحق ہوئی۔


"میں بھی وہی سوچ سوچ کر پریشان ہوں فائزہ کے آخر وہ اب تک آئی کیوں نہیں"۔ ان کا لہجہ قدرے پست مگر بیٹی کیلئے فکرمند تھا۔


ان دونوں کے متفکر چہرے دیکھ کر یک بارگی ہارون کو بھی تشویش ہوئی۔

"یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا ہے۔ اگر آپ اس قیصر پر بھروسہ کرکے اس کی شرطیں نہ مان لیتے تو آج میں اسے سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیتا۔ اتنا کمزور کیوں سمجھ لیا آپ نے خود کو، اپنے عہدے کو۔ ایک بار۔۔۔بس ایک بار تو مجھ پر بھروسہ کرنے کا سوچا ہوتا آپ نے۔ پھر اس شخص کی گردن ہاتھ میں آتے ہی وہ خود بخود الوینا کو ہمارے حوالے کر دیتا"۔ اس کا غم و غصہ کسی طور کم نہ ہو رہا تھا۔


"کہنا بہت آسان ہے برخوردار، اگر ایسی ہی بات تھی تو اب تک تم کہاں تھے؟ گرفتار کیوں نہیں کیا اسے؟"۔ وہ چبھتی نگاہوں سے اس کی جانب دیکھنے لگے۔


"میں اسے پکڑ لیتا۔ میں نے اپنی کوششیں جاری رکھی ہوئی تھیں مگر آپ نے سب چوپٹ کر دیا۔ معذرت کے ساتھ مگر آپ کو جذباتی کرکے قیصر نے آپ کا استعمال کیا ہے۔ اور اب بھول جائیے کے وہ الوینا کو واپس لوٹائے گا۔ کیونکہ اس کے ذریعے وہ آپ کو اپنے ہاتھ کی کٹھ پتلی بنائے رکھنے کا سنہری موقع کبھی نہیں گنوائے گا"۔ اس نے انہیں سچ کا آئینہ دکھایا۔

جسے دیکھتے ہی مختار صاحب کا دل کٹ کر رہ گیا۔

جواباً وہ کچھ بول ہی نہ سکے۔


"آپ نے بھلے ہی اسے بے گناہ ثابت کروا کر بری کروا لیا ہو عدالت سے مگر میری نظر میں وہ اب بھی ایک مجرم ہے اور رہے گا۔ وہ اپنا داؤ چل چکا اب میری باری۔ اس بار میں اسے گرفتار کرکے رہوں گا۔ زندہ یا مردہ"۔ سفاکی سے کہہ کر وہ جن قدموں سے آیا تھا انہی قدموں سے واپس پلٹ گیا۔


وہ گم سم سے اس کی پشت تکتے رہ گئے۔

☆☆☆☆☆☆


کمرے سے ملحقہ شیڈ تلے چھوٹی سی بالکونی میں کھڑا وہ بے چین سا تھا۔

بارش تڑاتڑ برس رہی تھی وہ ان بوندوں کو دیکھتا ہوا سگریٹ کے گہرے کش لے رہا تھا۔

بے ترتیب بھورے بال آسمانی رنگ شرٹ کے سامنے کے بٹنز کھلے ہوئے سرخ آنکھوں کے ساتھ اس کا چہرہ اور حلیہ اس کی پریشانی اور اضطراب کی چغلی کھاتے تھے۔


مختار سچ کہہ رہے تھے۔ وہ واقعی گھر نہیں پہنچی تھی اور نہ ہی ہاسٹل۔ پھر آخر کہاں گئی تھی وہ؟

یہ سوال رہ رہ کر قیصر کو پریشان کر رہا تھا۔ مگر وہ اسے ڈھونڈنے کی کوشش بھی نہیں کر رہا تھا کیونکہ اس کے ساتھی پہلے ہی الوینا کا نام اس سے جوڑنے لگے تھے۔ وہ ان کا شک یقین میں نہیں بدلنا چاہتا تھا۔

مگر اندر ہی اندر وہ اس کی فکر میں تھا۔


"بےوقوف لڑکی۔ اب کسی نئی مشکل سے دوچار نہ ہو جانا"۔ وہ دل ہی دل میں اسے تنبیہ کر رہا تھا۔


"قیصر جلدی یہاں آؤ یار۔۔۔دیکھو یار یہ تارہ کو کیا ہو گیا ہے"۔ اعظم کی پریشان آواز اسے یہاں تک سنائی دی تھی۔


اس نے سگریٹ پھینک کر جوتے سے مسلا اور بھاگ کر کمرے سے ہوتا ہوا تیز قدموں سے زینے اترنے لگا اور آخری سیڑھی پر پہنچ کر جو منظر اس نے دیکھا وہ سن رہ گیا۔


سامنے ہی فرش پر سیاہ چادر بچھی تھی۔ جس پر خون میں لت پت تارہ کا بے جان وجود پڑا تھا۔


اس کے پاس ہی اعظم سر پکڑے بیٹھا شدت سے رو رہا تھا۔

بابو بھی ایک طرف کو سینے پہ ہاتھ باندھے سر جھکائے کھڑا تھا۔

اس کا شرٹ خون سے تربتر تھا۔


قیصر پتھرائی ہوئی نگاہوں سے تارہ کے سفید چہرے کو دیکھ رہا تھا۔ جو بے جان سا لگ رہا تھا۔


سست روی سے چلتا ہوا وہ اس کی جانب آیا۔ انداز میں بے یقینی تھی۔ صدمہ تھا۔


آنکھ کے کنارے سے بابو اس کے چہرے کو جانچنے لگا۔ مگر یہ دیکھ کر وہ مطمئن ہو گیا کے قیصر کے چہرے پر صدمہ اور دکھ رقم تھا۔


"یہ۔۔۔اعظم یہ سب کیا۔۔۔"۔ اس سے کچھ بولا بھی نہ جا رہا تھا۔


"تارہ نہیں رہی قیصر۔۔۔وہ ہمیں چھوڑ کر چلی گئی"۔ زارو قطار بچوں کی طرح روتے اعظم نے کہا۔


"تم لوگوں کے رہتے یہ سب ہوا کیسے؟ کس نے کیا یہ سب؟"۔ غصے سے دہاڑتے ہوئے اس نے بابو کا گریبان پکڑ لیا۔

قیصرکی گرفت محسوس کرتے ہی اس کے پورے وجود میں سنسنی پھیل گئی، گلے میں گلٹی سی ابھر کر معدوم ہوئی۔


ایک جھٹکے سے قیصر نے اس کا گریبان چھوڑا اور پوری قوت سے چیخا


"کس نے کیا یہ سب؟ مجھے جواب چاہیئے۔ نام بتاؤ اس کا میں اس کی ہستی مٹا دوں گا۔ اسے فنا کر دوں گا"۔ تارہ کے قریب ہی گھٹنوں کے بل گر کر وہ سرخ آنکھوں سمیت کہہ رہا تھا۔


"حوصلہ رکھ یار۔ ہمارے دشمنوں کے علاوہ اور کون کر سکتا ہے یہ"۔ اعظم نے آنسو رگڑتے کہا۔


وہ اس کی پیشانی پر جھکا۔ آنسو ٹوٹ کر تارہ کے سیاہ بالوں میں جذب ہوئے۔ وہ آنسو ایک غمگسار دوست کو کھونے کیلئے تھے۔ وہ لمحہ قیصر کیلئے بہت بھاری تھا۔


"میں الوینا کو لے کر جا رہا تھا کے تبھی راستے میں پولیس والوں نے ہم پر حملہ کر دیا اور الوینا کو لے جانے کے بعد ہم پر اندھا دھند گولیاں چلائیں۔ جس کے نتیجے میں ایک گولی میرے بازو کو چھو کر نکل گئی مگر تارہ سامنے تھی تو اسے تین گولیاں لگیں اور وہ موقع پر ہی دم توڑ گئی"۔ بابو دھیمے لہجے میں من گھڑت تفصیل بتانے لگا۔


"مگر تارہ کیا کر رہی تھی تمہارے ساتھ؟ تم تو اکیلے گئے تھے اسے چھوڑنے؟"۔ قیصر کی بھاری آواز گونجی۔


بابو جو اس کی پشت پر ہی کھڑا تھا گویا ہوا۔

"میں جب یہاں سے جا رہا تھا تو تارہ مجھے آدھے راستے میں ہی مل گئی۔ اس نے کہا وہ بھی ساتھ آئے گی۔ کاش مجھے پتہ ہوتا اسکے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔۔۔میں اسے کبھی لے کر ہی نہ جاتا"۔ وہ دکھی لہجہ بنا کر بولا۔


"کون تھے وہ پولیس والے؟"۔ چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہموار لہجے میں پوچھا۔


"میں نے ان کو بات کرتے سنا تھا۔۔شاید مختار کے کہنے پر ان لوگوں نے ہم پہ اٹیک کیا"۔ وہ علی مرزا کی رٹوائی گئی اسکرپٹ بول رہا تھا۔


ضبط کی شدت سے سرمئی آنکھوں میں سرخ لکیریں پڑنے لگیں۔


"مختار۔۔۔یہ تم نے اچھا نہیں کیا۔ اس کی قیمت تمہیں چکانی پڑے گی"۔ وہ غراتے ہوئے ایک عظم سے کہہ رہا تھا۔


بابو کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ در آئی۔

"سرکار تک یہ خوش خبر پہنچانا بنتا ہی ہے"۔ وہ دل ہی دل میں خود سے مخاطب تھا۔

☆☆☆☆☆☆


فرش پر بیڈ سے کمر ٹکائے بیٹھی وہ کھوئی کھوئی سی تھی۔

رہ رہ کر اس کی نگاہوں کے سامنے تارہ کا مردہ خون میں نہایا ہوا وجود گھوم جاتا تھا۔


ہاسٹل کے بجائے جب اس نے گاڑی شاندار سے بنگلے کے سامنے رکی دیکھی تو وہ بری طرح چونک گئی۔

حیرت کی زیادتی تو تب ہوئی جب اتنے سالوں بعد اس نے اپنے ماما کو آنکھوں کے سامنے دیکھا۔ ان کا انداز بالکل بدلا ہوا سا لگا تھا اسے۔

کئی سال پہلے والی بے رخی کے برعکس وہ تو کتنے اچھے سے ملے تھے اس سے۔ پھر کیوں انہوں نے تارہ کو مار دیا تھا۔ آخر کیا دشمی تھی تارہ سے ان کی؟

اس پل اسے اپنے ماما اور قیصر خیام میں کوئی فرق نظر نہ آیا تھا۔


اس کا وجود بری طرح شل ہو چکا تھا یہ سب سوچ سوچ کر۔ صبح اس شخص کی بے رخی اور اب یہ سب۔

اس کا ناتواں وجود بوجھ اٹھا اٹھا کر تھک چکا تھا۔

آخر یہ سب کب ختم ہونا تھا۔

رو رو کر اب تو آنسو بھی خشک ہو چکے تھے۔


دروازے پر کھٹکا ہوا۔ وہ چونکی۔

آہستگی سے چلتے ہوئے علی مرزا اس کے نزدیک ٹھہر گئے۔


الوینا جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ نفرت بھری نگاہوں سے اس نے سامنے کھڑی شخصیت کو دیکھا۔


"آپ اتنے گرے ہوئے ہوں گے یہ میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔ بہن تو آپ کیلئے کب کی مر گئی تھی۔ بھانجی کا وجود بھی آپ کے نزدیک ایک بوجھ سے زیادہ نہ تھا۔ رشتوں کی اہمیت سے نابلد تو آپ تھے ہی مگر اب انسانیت کے مرتبے سے بھی گر گئے آپ۔ ایک بار بھی نانا جان کی پرورش آپ کے پاؤں کی بیڑیاں نہیں بنی غلط راہ اختیار کرتے ہوئے؟ زرا آپ نے ان کی نیک نامی کا نہ سوچا؟"۔ زخمی نگاہوں سے ان کی جانب دیکھتی وہ شکوہ کر رہی تھی۔


علی مرزا کا قہقہہ لگا تھا اس بات پہ۔ جیسے اس نے کوئی لطیفہ سنایا ہو۔

جبکہ ان کے اس انداز پر وہ ششدر رہ گئی تھی۔


"کون سا باپ؟ وہ جس نے ساری زندگی ایک ملازم کی زندگی گزاری اور کنوئیں کا مینڈک بنا رہا؟ ارے باپ وہ ہوتے ہیں جو اتنی اتنی جائیدادیں چھوڑ جاتے ہیں اولاد کیلئے کے ان کی آنے والی سات نسلیں بھی بیٹھ کر کھا سکتی ہیں۔ اور ایک ہمارے والد تھے جو ترکے میں ہمارے لیے جائداد تو دور کی بات ہے صرف ایک دڑبے جتنا گھر چھوڑ گئے"۔ وہ دانت پیس کر بولے۔

الوینا کو یقین نہ آیا کے وہ اپنے والد سے متعلق بات کر رہے ہیں۔

"وہ تو میری قسمت اچھی تھی جو عاصمہ جیسی اپر کلاس کی لڑکی میری شریک سفر بنی۔ اور اسکے مرنے کے بعد میں

اس کروڑوں کی جائیداد کا مالک بن گیا۔ آج سیاست میں میرا ایک نام ہے۔ شہرت ہے۔ مقام ہے یہ ہوتی ہے طاقت۔ اپنے بیٹوں کیلئے میں نے بہتر مستقبل بنایا ہے اپنے باپ کی طرح ان کیلئے کھوکھلی نصیحتیں اور اسباق نہیں چھوڑ کر جا رہا۔ اسد اور اظہر مرزا کو اپنے باپ پر فخر ہوگا کے وہ ترکے میں لمبی چوڑی جائیداد چھوڑ جائے گا ان کیلئے"۔ وہ ہاتھ جھلا کر فاتحانہ انداز میں کہہ رہے تھے۔

اور الوینا طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ انہیں سن رہی تھی۔

"ضرور۔ بہت فخر کریں گے آپ کے بچے آپ پر جب انہیں پتہ چلے گا کے ان کا باپ ایک قاتل ہے ایک سفاک انسان ہے۔ ایک بات یاد رکھیے گا مرزا صاحب کے یہ دنیا مکافات عمل ہے۔ اپنے باپ کیلئے آپ کے دل میں کوئی محبت کوئی احترام نہیں تو آپ بھی اپنی اولاد سے کوئی اچھی امید مت رکھیے گا۔ کیونکہ جب انہیں آپ کی اصلیت پتہ چلے گی تو وہ آپ پر فخر نہیں کریں گے بلکہ نفرت کریں گے آپ سے"۔ اس نے انہیں حقیقت کا آئینہ دکھایا۔

"اے لڑکی۔ میں اب تک تم سے نرمی صرف اس لیے برتتا آ رہا ہوں کیونکہ تم میری اکلوتی بہن عائشہ کی اولاد ہو اس کا خون ہو۔ میری نرمی کو کمزوری سمجھ کر اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش ہرگز بھی مت کرنا ورنہ تم دیکھ ہی چکی ہو کے میں کیا کر سکتا ہوں اور کس حد تک جا سکتا ہوں۔ چپ چاپ جتنے دن یہاں ہو رہو۔ میرے صبر کو آزمانے کی غلطی کبھی مت کرنا"۔ انگلی اٹھا کر سخت لہجے میں کہتے ہوئے وہ اسے وارن کرتے کمرے سے باہر نکل گئے۔

جبکہ الوینا نفرت سے سر جھٹک کر رہ گئی۔

☆☆☆☆☆☆

جھک کر اس نے چھوٹا سا تیز دھار خنجر اپنے جاگرز میں مخصوص جگہ پر چھپایا۔

سیاہ لیدر جیکٹ میں ملبوس وہ ہاتھوں پہ سیاہ گلوز چڑھا رہا تھا۔

پھر آئینے میں دیکھتے ہوئے چہرے پر سیاہ رومال باندھا۔

"تیار ہو جاؤ ڈی-آئی-جی مختار۔۔۔آ رہا ہوں میں"۔ سرمئی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔

کمرے کی لائٹس آف کرتے وہ بالکونی میں آیا اور سیاہ ہڈی چہرے پر گرا کر اگلے ہی پل وہاں سے کود گیا۔

صبح کا نور علی مرزا کے بنگلے پر پڑ رہا تھا۔

وہ اس وقت اپنے کمرے میں موجود تھے۔

جو خبر انہیں سلطان نے ابھی ابھی لا کر دی تھی اسے سن کر ان کی خوشی چہرے سے عیاں تھی۔


"کیا تم سچ کہہ رہے ہو سلطان؟ کیا واقعی ہمارا پلان کام کر گیا؟"۔ انہوں نے تصدیق چاہی۔


"میں آپ سے جھوٹ بولنے کی گستاخی کر سکتا ہوں؟ قیصر نے جب تارہ کی لاش آنکھوں کے سامنے دیکھی تو اس کے ہوش و حواس سلب ہو گئے۔ پھر جو میں نے کہا وہ بنا سوچے سمجھے اس پر ایمان لے آیا اور مختار کو اپنا دشمن مان کر اس سے بدلہ لینے کی ٹھانی۔

پھر آدھی رات کو میں نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا اس

مخصوص حلیے میں گھر سے نکلتے ہوئے، اب تک تو اس نے مختار کا کام تمام کر دیا ہوگا"۔ سلطان انہیں تفصیلات سے آگاہ کر رہا تھا۔


"یعنی طوطا مرچی کھا گیا۔ جذباتیت میں آ کر قیصر نے بالآخر ایک غلط قدم اٹھا ہی لیا"۔ وہ فاتحانہ انداز میں بولے۔


"جی ہاں سرکار، جس طرح ایک سال قبل وہ آپ کے جال میں پھنس کر خاور ملک کو مار کر پولیس ریڈ کے نتیجے میں جیل گیا تھا۔ اس بار بھی سب ویسا ہی ہو رہا ہے"۔ سلطان نے ماضی کا حوالہ دیا۔


کافی کا مگ ہاتھ میں تھامے علی مرزا بیڈ پر مطمئن سے بیٹھے تھے۔

جبکہ سلطان ان کے مقابل ادب سے کھڑا تھا۔


"قیصر گھوم پھر کر انہی حالات کے شکنجے میں پھنس چکا ہے جس میں وہ ایک سال قبل تھا۔ تب مختار کی جگہ خاور ملک تھا۔ جسے مار کر وہ جیل گیا اور اب بھی ایسا ہی ہوگا۔ جیل جانے کے بعد میں نے ہی اسے آزاد کروایا کے اب شاید وہ میری وفاداری قبول کرے مگر ایسا نہ ہوا۔

اس بار بھی سب کچھ پہلے جیسا ہی رہے گا۔ بس فرق صرف اتنا ہوگا کے اب کی بار قیصر جیل سے نہیں نکلے گا۔ اسے مجھ سے غداری کی سزا ملے گی۔ اس مرتبہ اسے میں بھی نہیں بچاؤں گا"۔ انہوں نے اپنے ارادے بتائے۔


جبکہ سلطان ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگا۔ وہ تو تھا ہی ان کے حکم کا غلام۔ اس کی بھلا کیا حیثیت تھی ان کے فیصلے سے انحراف کرنے کی۔


"سنا ہے مختار کا بھانجا کتے کی طرح ڈھونڈتا پھر رہا ہے قیصر کو؟"۔ اچانک خیال آنے پر پوچھا۔


"جی ہاں۔ وہ ڈی-ایس-پی ہارون سخت برہم ہے مختار اور قیصر میں ہونے والی سودے بازی کی وجہ سے۔ خبر ملی ہے کے وہ جلد قیصر کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کر رہا ہے"۔ سلطان نے رپورٹ دی۔


"بہت خوب۔ تو کیوں نہ ہم اس کی کچھ مدد کریں"۔ علی مرزا کے شیطانی دماغ میں خیال آیا۔


"کیسی مدد؟"۔ وہ سوالیہ انداز میں ان کی جانب دیکھنے لگا۔


"ڈی-ایس-پی کو قیصر کے خلاف ثبوت مہیا کرو، اسے اس کی لوکیشن بتاؤ باقی کا ہمارا کام ہم اس سے کروائیں گے۔ اور یہ بھی پتہ لگاؤ کے مختار کا کام تمام ہوا کے نہیں"۔ انہوں نے ہدایات جاری کیں۔


سلطان حکم بجا لاتا ہوا ان کی ہدایات پر عمل کرنے کیلئے وہاں سے چلا گیا۔

☆☆☆☆☆☆


وہ صبح سے ان کا فون ٹرائی کر رہیں تھی مگر مختار صاحب فون ہی نہیں اٹھا رہے تھے۔

سہ پہر ہو گئی تھی ان کا کوئی اتا پتا نہیں تھا۔ نہ تو وہ آفس گئے تھے اور نہ ہی گھر میں کہیں تھے پھر بنا بتائے آخر وہ گئے تو گئے کہاں؟

یہ سوال فائزہ کو پریشان کر رہا تھا۔


کتنے پریشان تھے وہ رات الوینا کیلئے۔ نیند نہ آنے پر وہ اسٹڈی روم چلے گئے تھے۔ فائزہ نے بھی ان کی پریشانی کے پیش نظر زیادہ سوال جواب نہیں کیا ان سے۔ وہ خود بھی اپنی جگہ بےحد فکرمند تھیں الوینا کیلئے۔

ہارون نے انہیں بتایا تھا کے الوینا ہاسٹل میں رہتی ہے۔ مگر وہ وہاں بھی نہ پہنچی تھی اب تک پھر آخر وہ گئی کہاں تھی؟

یہ پریشانی تو پہلے ہی تھی اور اب اس پر مختار صاحب کا بھی کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔

تھک کر انہوں نے ہارون کو کال کی اور اسے صورتحال سے آگاہ کیا۔


لونگ روم میں وہ سر تھام کے بیٹھیں تھی جب ہارون کے سلام پر انہوں نے سر اٹھا کر دیکھا اور تیزی سے اٹھ کر اس کے سامنے آئیں۔


"مختار کی کوئی خبر ملی تمہیں؟ کیا انہوں نے تمہیں کچھ بتایا تھا کے وہ کہاں جا رہے ہیں؟ دیکھو ہارون اگر یہ کوئی سیکرٹ مشن وغیرہ ہے تو تم مجھے مناسب الفاظ میں بتا دو، کم از کم میری تسلی تو ہو جائے گی کے وہ ٹھیک ہیں"۔ ہارون کو جھنجھوڑتے ہوئے وہ روہانسی ہو گئیں۔


"ریلیکس خالہ جان، آپ یہاں بیٹھیں سکون سے"۔ اس نے انہیں تھام کر واپس صوفے پر بٹھا دیا اور خود پنجوں کے بل ان کے سامنے بیٹھ گیا۔


"وہ بنا بتائے ایسے کہیں نہیں جاتے۔ تم پلیز پتہ کرو ہارون کے وہ کہاں ہیں؟ پتہ نہیں کیوں پر میرا دل بہت گھبرا رہا ہے خدانخواستہ ان کے ساتھ کہیں کچھ۔۔" الفاظ مکمل طور پر ادا بھی نہ ہو پائے تھے ان سے اور آنسو ٹوٹ کر بہہ نکلے۔


ہارون کا موبائل بجنے لگا تو وہ چونک کر متوجہ ہوا۔ پھر کال ریسیو کر لی۔


"ہیلو۔۔ہاں۔۔۔کیا؟"۔ دوسری طرف سے جانے کیا کہا گیا تھا کے وہ اچھل کر کھڑا ہو گیا۔


فائزہ جن کا دھیان اس کی جانب ہی تھا اسے یوں پریشان دیکھ ان کا دل دہل گیا۔


"میں۔۔۔میں بس ابھی وہاں پہنچتا ہوں۔ بس نکل رہا ہوں میں"۔ یک دم وہ حواس باختہ نظر آنے لگا۔


"کیا ہوا ہارون کس کا فون تھا؟ اور اتنے پریشان کیوں ہو گئے تم؟"۔ وہ رونا بھول کر تشویش سے پوچھنے لگیں۔ جبکہ دل سست روی سے دھڑک رہا تھا۔

ہارون لب بھینچ کے سر جھکا گیا۔


"یوں خاموش مت رہو؟ جو بھی بات ہے صاف صاف بتاؤ"۔ فائزہ نے نہایت مضبوطی سے پوچھا۔


ہارون نے سیاہ آنکھیں اٹھا کر غمگین نگاہوں سے ان کی جانب دیکھا۔

"پولیس اسٹیشن سے فون تھا۔ انہیں تھانے کے قریب ہی ایک مسخ شدہ لاش ملی ہے۔ جس کے جیب سے۔۔۔ڈی-آئی-جی مختار انصاری کے نام کا کارڈ اور چند دیگر چیزیں برآمد ہوئی ہیں۔ شناخت کرنے کیلئے بلوایا ہے"۔ پست لہجے میں کہتے ہوئے اس نے ان کی سماعتوں پر کوئی بم پھوڑا تھا۔


اس خبر پر فائزہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ان کا ہاتھ بے جان ہو کر پہلو میں آگر اور اگلے ہی پل وہ بے دم سی ہو کر صوفے پر گر گئیں۔


"خالہ جان۔۔۔فرید جلدی ایمبولینس بلواؤ"۔ فائزہ کے بےہوش وجود کو سنبھالتے اس نے ملازم کو آواز دی۔


"مختار کا کام تمام ہو چکا ہے"۔ قریب ہی جھاڑ پھونک کے بہانے ان کی باتیں سنتے ایک تیس پینتیس سالہ ملازم نے جھٹ یہ خبر اپنے اصل مالک تک پہنچائی تھی۔

☆☆☆☆☆☆


تارہ کو سپرد خاک کرکے وہ تینوں ابھی ابھی گھر پہنچے تھے۔

دکھ و صدمہ بہت گہرا تھا ان کیلئے۔ انہوں نے اپنی ایک ساتھی کو کھو دیا تھا۔ خونی رشتوں سے تو کبھی ان کا واسطہ ہی نہ پڑا تھا۔ مگر جو دوستی کا، احساس کا رشتہ تھا اسے کھونے کی اذیت کا بھی کوئی ثانی نہیں تھا۔


شام کے چار بج رہے تھے۔ وہ فریش ہو کر سفید شرٹ کی آستینیں موڑتا ہوا بیڈ پر ٹک گیا۔


ابھی وہ سکون سے بیٹھا ہی تھا کے اسے شدت سے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔

قیصر بے حس و حرکت ویسے ہی بیٹھا رہا۔ البتہ اس کا ہاتھ بہت ہی نامحسوس انداز میں تکیے تلے رکھے خنجر تک گیا اور اس پر گرفت کرنے کے بعد چپکے سے خنجر اپنے نزدیک کھسکایا۔


"ہلنا مت"۔ اس سے قبل کے وہ کوئی کاروائی کرتا ہارون جانے کس کونے سے برآمد ہوا اور پھرتی سے پستول اس کی کنپٹی پر تان لی۔


قیصر نے نگاہیں گھما کر اس کی جانب دیکھا۔


"اوہ تو یعنی میرا شک درست تھا۔ تم ایک آفیسر ہو۔ دلچسپ"۔ طنز بھری مسکراہٹ کے ساتھ وہ گویا ہوا۔


"ہاں، اور اب تم کوئی ہوشیاری دکھانے کی کوشش مت کرنا کیونکہ تمہارے گھر کو پولیس نے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ اس لیئے اب تم بچ نہیں سکتے۔ یوں سمجھ لو تمہاری زندگی کا آج آخری دن ہے"۔ پھنکار کر کہتے اس نے دوسرے ہاتھ میں موجود ہتھکڑی اسے پہنانی چاہی۔

زرا سا دھیان چوکا اور قیصر نے پھرتی سے اس کے پستول والے ہاتھ کو جھٹکا دیا۔۔۔نتیجہ پستول دور جا گرا اور موقع دیئے بنا ہی ایک لات پوری قوت سے اس نے اسکے گھٹنے پہ رسید کی جس سے وہ زمین پر گر گیا۔

گھوم کر وہ اس کے پیچھے آیا اور ہارون کے ہاتھ میں پکڑی ہتھکڑی اس سے چھین کر دونوں ہاتھ پشت پر موڑتے ہوئے اسی کی ہتھکڑی اسے پہنا دی۔


"اتنی بھی جلدی کیا ہے آفیسر ٹھیک سے جان پہچان تو ہو جانے دو پہلے"۔ فاتحانہ انداز میں کہتے اس نے نیچے گری پستول اٹھائی اور اس کے مقابل آتے پستول اس کی پیشانی پر تان لی۔


ہارون قہربار نظروں سے اس کی جانب دیکھنے لگا۔


"جان سکتا ہوں اس طرح میرے گھر میں گھسنے کا مقصد؟"۔ وہ سنجیدگی سے گویا ہوا۔


"تم نے ڈی-آئی-جی مختار انصاری کا قتل کیا ہے۔ سابقہ تمام رکارڈز بھلے ہی تم نے مٹا دیئے ہوں اپنے کارناموں کے۔ لیکن تمہاری فطرت ہی ایسی ہے کے تم خون بہائے بغیر سکون سے کبھی ٹک کر نہیں بیٹھ سکتے۔ تمہاری یہی فطرت تمہاری دشمن بن گئی ہے قیصر خیام۔ اب تم پھانسی چڑھنے کیلئے تیار ہو جاؤ"۔ اپنی حالت سے بے نیاز وہ کہہ رہا تھا۔


وہ بغور اس کی جانب دیکھنے لگا۔

"قیصر کے سامنے اچھے اچھوں کی دال نہیں گلی تم تو پھر بھی بچے ہو ابھی آفیسر"۔ وہ تمسخر اڑاتا ہوا بولا۔


"یہ تو تمہیں ابھی پتہ چل جائے گا"۔ اس نے پیچھے کی پاکٹ تک رسائی حاصل کرکے موبائل کے ذریعے اپنے ساتھی آفیسرز کو ایمرجنسی کا سگنل دیا۔


اور اس کے اگلے ہی پل پولیس والوں نے قیصر خیام کے بنگلے پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔


اس شور پر قیصر چونک گیا۔ ہارون موقع دیکھ کر جلدی سے اٹھا اور قیصر کے ہاتھ میں موجود پستول کو لات رسید کی۔ جس سے وہ ایک مرتبہ پھر دور جا گرا۔


اب وہ دونوں گتھم گتھا ہو گئے تھے۔

ہتھکڑی لگے ہاتھوں سمیت ہارون پوری قوت صرف کرتا اس سے لڑ رہا تھا۔

قیصر کو گرا کر وہ گھٹنے سے اس کے سینے پہ دباؤ ڈالے ہوئے تھا۔

پیر اٹھا کر اس نے پیچھے سے پوری قوت لگا کر لات اس کے کندھے پہ رسید کی ہارون کا توزان لڑکھڑایا قیصر نے ایک زوردار پنچ اسکے چہرے پر رسید کیا اور اگلے ہی پل وہ فرش پر تھا۔

ناک سے خون بہہ نکلا تھا۔

"مجھے نہتا بنا کر لڑ رہے ہو۔ ایک بار ہاتھ کھول کر دیکھو پھر اپنا حشر دیکھنا"۔ ہارون نے کھانستے ہوئے کہا۔


"یہ شوق بھی پورا کیئے دیتے ہیں"۔ جھک کر اس نے ہتھکڑی پر گرفت کرکے کھینچا۔ جس سے ہارون بھی ساتھ ہی کھنچتا ہوا کھڑا ہو گیا۔ اس کی پشت قیصر کی جانب تھی۔

گن اٹھا کر قیصر نے ہتھکڑی پر گولی چلائی جس سے وہ دو ٹکڑے ہو گئی۔ ہاتھ آزاد ہوتے ہی ہارون نے کہنی سے اس کے سینے پر وار کیا۔ توازن کھوتے ہوئے وہ دو قدم کھسک کر پیچھے ہوا۔


ہارون مڑا اور ایک زوردار پنچ اس کے چہرے پر رسید کیا۔ ہتھکڑی کا ٹکڑا اس کے گال کو چیر کر رکھ گیا۔ اور اب وہاں سے خون بہہ کر اس کی سفید شرٹ کو رنگنے لگا۔

وہ دوسرا پنچ رسید کرنے لگا تھا جب قیصر نے بروقت اپنے ہاتھ کا استعمال کرتے اس کا وار روک دیا اور اس کے دوسرے ہاتھ کا وار بھی اسی طرح روکا پھر ایک زوردار لات اس کے سینے پر ماری۔ خون کا فوارہ ہارون کے منہ سے ابل پڑا اور وہ کھسک کر بیڈ پر جا گرا۔

پھرتی سے قیصر نے ایک بار پھر بندوق اس کے سینے پر تانی۔

پولیس آفیسرز کے بھاگتے دوڑتے جوتوں کی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔


اگلے ہی پل دھماکے کے ساتھ دروازہ کھلا تھا اور ایک کے بعد ایک یونیفارم میں ملبوس سات آٹھ پولیس افسران کمرے میں داخل ہوئے۔ مگر ارد گرد انہیں کوئی نظر نہ آیا۔

کمرے کی حالت ابتر دیکھ کر وہ اندازہ لگا سکتے تھے کے وہاں کیا ہوا ہوگا۔


دبیز پردوں کے پیچھے چھپا وہ ایک جست لگا کر ان پر کودا۔ نتیجہ کئی افسران منہ کے بل زمین پر جاگرے۔

اور اب انہیں سنبھلنے کا موقع دیئے بغیر وہ تابڑ توڑ ان پر گھوسے اور لاتیں برسا رہا تھا۔


ایک آفیسر ہمت کرکے اٹھا اور قیصر کی گردن اپنی گرفت میں کی جس سے وہ ایک لمحہ کیلئے رکا۔ اگلے ہی پل دوسرے شخص کو اس پر حملے کا موقع ملا۔ اس نے قیصر کے زخم والے حصے پر ایک بار پھر گھوسا رسید کیا۔ خون مزید روانی سے بہنے لگا۔

قیصر نے ایک زوردار لات اسے رسید کی وہ دور جا گرا۔

اس نے کہنی زور سے اپنی پشت پر موجود شخص کے پیٹ پر رسید کیا۔ وہ لڑکھڑا کر گر پڑا۔

وہ اب اس موٹے شخص کے سینے پر بیٹھا اس کے چہرے پر پے در پے وار کرتا جا رہا تھا۔

مار کھا کھا وہ موٹا آفیسر بےحال ہو گیا۔


پھر جب اس نے فاصلے پر گرے آفیسر کو اٹھتے دیکھا تو ایک ماہر قلاباز کی طرح قلابازی کھاتے وہ اس تک پہنچا اور ہاتھوں کا استعمال کرتے اسے زوردار دھکا دیا اس کا سر پیچھے سے دیوار سے ٹکرایا اور وہ گر پڑا۔


تیسرے شخص کی ٹانگ پکڑے اس نے پوری قوت سے موڑا اور اگلے ہی پل اس کی ہڈی چٹخنے کی آواز آئی۔ وہ درد سے چلاتا بےہوش ہو گیا۔


اسی وقت اعظم بابو سمیت گن تھامے بھاگتا ہوا کمرے میں آیا۔

اور باقیوں کو ان دونوں نے سنبھال لیا۔

قیصر سانسیں درست کرتا ہوا سنبھلا۔

"چلو یہاں سے"۔ اس نے اعظم سے کہا۔

وہ نکل رہا تھا۔ اعظم اس کے پیچھے تھا۔ بابو اس کے بائیں جانب۔

جب اچانک ہی وہ مڑا اور ایک زوردار پنچ بابو کے چہرے پر رسید کیا۔

اس کی نکسیر پھٹ گئی اور خون رواں ہوا۔ وہ لڑکھڑا کر کئی قدم پیچھے ہوا۔ بے یقینی سے اس نے قیصر کی جانب دیکھا۔

مگر وہ تو جیسے ہر چیز سے بے نیاز ہو گیا تھا۔ وہ اس پر وار کرتا جا رہا تھا اور بابو۔۔۔اس کا اس کی طاقت کے آگے بس ہی نہیں چل رہا تھا۔

"دھوکے باز۔۔۔۔تجھے ہم نے دوست سمجھا تھا"۔ دہاڑ کر کہتے اس نے زوردار گھوسا اسے رسید کیا۔

اعظم سینے پہ ہاتھ باندھے ایک طرف کھڑا پرسکون ہو کر یہ سب دیکھ رہا تھا۔

زخمی ہارون بھی اس کمرے سے ملحقہ دوسرے کمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔ ان کے پیچھے ہی مختار صاحب سپاٹ چہرے کے ساتھ باہر نکل آئے۔

تینوں اپنی جگہ جمے خاموشی سے بس اسے دیکھ رہے تھے۔

قیصر نے نیچے گرے بابو کا گریبان پکڑ کر مقابل کھینچا۔ وہ لڑکھڑاتا ہوا اس کے سامنے آیا۔

"تم نے تارہ کو مار دیا۔۔۔تم نے مجھے دھوکا دیا"۔ وہ دہراتا جاتا اور اسے پیٹتا جاتا۔

"مجھے معاف کردو بھائی میرے سے غلطی ہو گئی۔ میں تو بس اپنے مالک کا کام کر رہا تھا میری تم سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے"۔ وہ اس کے پیروں میں گرا زندگی کی بھیک مانگتے ہوئے سسک رہا تھا۔

قیصر نے ایک زوردار ٹھوکر اسے ماری۔ وہ کمر کے بل دور جا گرا۔

چہرہ زخم زخم ہو گیا تھا۔

"کون ہے تیرا مالک بتا"۔ ایک بار پھر اسے سیدھا کرتے ہوئے وہ چیخا۔

"وہ۔۔۔وہ۔۔۔میں"۔

"بتا ورنہ آج تجھے مجھ سے کوئی نہیں بچا سکتا"۔ نفرت سے پھنکارتے ہوئے اس نے ایک اور گھوسا لگانے کیلئے ہاتھ بلند کیا تھا جب وہ چیخا۔

"نہیں۔۔۔میں بتاتا ہوں سب بتاتا ہوں۔۔۔یہ سب میں نے علی مرزا کے کہنے پر کیا"۔ روتے ہوئے اس نے بتایا۔

اور قیصر خیام سمیت مختار صاحب، ہارون، اعظم سب کو گویا سانپ سونگھ گیا۔

وہ شروع سے لے کر آخر تک سب کچھ انہیں بتاتا چلا گیا۔

اور جیسے جیسے وہ سب بتاتا گیا قیصر کا غصہ بھی بڑھتا گیا ۔

جوں ہی وہ خاموش ہوا قیصر نے ایک بار پھر گھوسا پوری قوت سے اس کے زخمی چہرے پر دے مارا کراہ کر وہ بمشکل

گرتے گرتے بچا۔


"تو اس کا مطلب صاف ہے جو کچھ بھی ہوا اس کے پیچھے علی مرزا کا دماغ کارفرما ہے۔ یقین نہیں آتا کے وہ اس حد تک گر جائے گا۔ میں تو غیر تھا مگر الوینا۔۔۔وہ تو اس کی بھانجی تھی اسے بھی نہیں بخشا اس سفاک شخص نے"۔ مختار صاحب شدید طیش کے عالم میں بولے۔


"ہمیں مزید کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے ایک پلان بنا کر اس کے تحت سب کرنا ہوگا"۔ قیصر نے سنجیدگی سے کہا۔


"آپ لوگوں کو کیسے پتہ چلا اس سب کا؟ اور آپ اس کے ساتھ یہاں تھے؟ خالہ جان آپ کیلئے اتنی پریشان تھیں وہاں۔ آپ کی موت کی خبر سن کر ان کا بی-پی شوٹ کر گیا کم از کم آپ مجھے تو اطلاع کر دیتے"۔ ہارون اب مختار صاحب سے شکوہ کر رہا تھا۔


"حقیقت میں تمہیں بتاتا ہوں آفیسر کے یہ یہاں کیسے آئے"۔ قیصر نے مداخلت کی۔


ہارون اس کی جانب متوجہ ہوا۔

"ضرور، احسان ہوگا تمہارا"۔ وہ چبا چبا کر بولا۔


"تو بات وہاں سے شروع ہوئی جب کل شام کو تارہ کی لاش یہاں آئی"۔ اس نے کہنا شروع کیا۔

سب دم سادھے اسے سننے لگے۔

☆☆☆☆☆☆


"کس نے کیا یہ سب؟ مجھے جواب چاہیئے۔ نام بتاؤ اس کا میں اس کی ہستی مٹا دوں گا۔ اسے فنا کر دوں گا"۔ تارہ کے قریب ہی گھٹنوں کے بل گر کر وہ سرخ آنکھوں سمیت کہہ رہا تھا۔


تبھی اس کی نظریں تارہ کی جینز کی جیب سے لٹکتے سنہری چین پر جم سی گئیں۔ اس نے آہستگی سے ہاتھ بڑھا وہ چین نکال لی۔ وہ ایک موٹی سی مردانہ چین تھی جس پر پڑا خون کا نشان سوکھ چکا تھا۔

اعظم بھی چونک پڑا تھا اس کے ہاتھ میں موجود اس چین کو دیکھ کر۔ دونوں کی نگاہیں ملیں اور قیصر کی آنکھوں میں خون اترتا دیکھ کر اعظم نے ہاتھ بڑھا کر اسے جلدبازی کرنے سے روکا۔


"حوصلہ رکھ یار۔ ہمارے دشمنوں کے علاوہ اور کون کر سکتا ہے یہ"۔ اعظم نے آنسو رگڑتے کہا۔

آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے پرسکون رہنے کے ہدایت کی۔

وہ دونوں ہی جانتے تھے کے وہ چین بابو کی تھی۔ جسے وہ ہمیشہ اپنی گردن کی زینت بنائے رکھتا تھا۔


مرتے مرتے بھی تارہ ان کیلئے ثبوت چھوڑ گئی تھی۔

(جب اس نے بابو کا گریبان پکڑا تھا تبھی وہ چین اس کے گلے سے جھپٹ لی اور پھر جیب سے گن نکالتے وقت اسے وہاں رکھ چھوڑا) شاید اسے یقین تھا کے اس کے ساتھی اس سے کچھ نہ کچھ ضرور سمجھ جائیں گے۔


وہ جاننا چاہتا تھا کے آخر بابو کا پلان کیا ہے۔ اور جب اس نے قیصر کا رخ مختار کی طرف موڑنا چاہا وہ تب ہی

سمجھ گیا کے وہ مختار کو اس کے ہاتھوں مروانا چاہتا ہے۔ سازش کی جڑ تک پہنچنے کیلئے قیصر اس سازش کا ہی حصہ بن گیا۔ اس نے بابو کو اس غلط فہمی میں مبتلا کر دیا کے وہ مختار کو دشمن سمجھ بیٹھا ہے، جس کے تحت اب اس سے بدلہ لینے کی ٹھان لی ہے۔

جب اس نے بابو کو خود پر نظر رکھتے محسوس کیا اسے تبھی شک گزرا کے وہ محض ایک پیادہ ہے۔ اصل ماسٹر مائنڈ تو کوئی اور ہی ہے۔ جس تک وہ اس کی خبریں پہنچانے کو اس پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

وہ یہ نہیں جانتا تھا کے کیوں مختار کو اس کے مقابل کھڑا کیا جا رہا تھا۔ مگر وہ اتنا ضرور جان گیا تھا کے مختار کو بھی اس سازش میں وہ لوگ استعمال کرنا چاہ رہے تھے۔


اب اسے جلد از جلد مختار انصاری کو اس سازش کا بتا کر انہیں اعتماد میں لینا تھا۔

بابو کو چکما دینے کیلئے اس نے وہ حلیہ اپنایا اور مختار کے گھر پہنچ گیا۔ اسے بھنک بھی نہ لگی کے قیصر وہاں اصل میں کس مقصد سے گیا ہے۔


چھت کے راستے وہ مختار کے گھر میں داخل ہو گیا۔ تبھی اسے وہ اسٹڈی روم کی طرف جاتے نظر آئے۔

وہ ان کے اندر جانے کے دو منٹ بعد وہاں داخل ہوا۔


"کون ہو تم؟"۔ نقاب پوش کو اپنے سامنے پا کر وہ قدرے سخت لہجے میں بولے۔ ساتھ ہی ڈراؤر سے گن نکال کر رخ اس کی جانب کیا۔

اس نے نقاب اتارنے کے ساتھ ہی ہڈی بھی اتار کر پشت پر گرا دی۔


قیصر کا چہرہ دیکھتے ہی لمحہ بھر کو تو مختار صاحب ششدر رہ گئے۔ مگر پھر ان کی حیرانگی طیش میں بدل گئی۔


"تم یہاں؟ تمہاری جرت بھی کیسے ہوئی میرے گھر میں گھسنے کی؟"۔ دہاڑ کر کہتے وہ گن تھامے اس کے سامنے آئے۔


"اس طرح آنا پڑا مجھے معذرت مگر بات بہت اہم ہے"۔ وہ سنجیدگی سے کہنے لگا۔


مختار صاحب کی پیشانی پر پڑے بل گہرے ہوئے۔

"مجھے تم پہ رتی بھر اعتبار نہیں قیصر خیام۔ مزید تمہاری کسی چال کا شکار میں نہیں بننے والا۔ میری معصوم بچی کی آڑھ لے کر تمہیں کیا لگتا ہے کے تم مجھ سے کچھ بھی منوا سکتے ہو؟ نکل جاؤ یہاں سے اس سے قبل کے میں پولیس بلاؤں۔ جسٹ گیٹ آؤٹ"۔ غصے سے اپنی بات مکمل کرتے ہی اسے باہر کا راستہ دکھایا۔


"آپ چاہے پولیس کی جتنی نفری بھی بلوا لیں مگر میں یہاں جو بات کرنے آیا ہوں وہ کہہ کر ہی جاؤں گا"۔ اس نے اپنی بات پر زور دیا۔


غصے سے مٹھیاں بھینچتے ان کی پیشانی کی رگیں تن گئیں۔


"کوئی ہے جو آپ کو میرے ہاتھوں قتل کروانا چاہتا ہے"۔ انہیں خاموش پا کر وہ سنجیدگی سے بولا۔


اس کی بات پر مختار صاحب کی آنکھوں میں حیرت ابھری۔

"تو اس کا مطلب تم یہاں مجھے مارنے آئے ہو"۔ کاٹ دار لہجے میں پوچھا۔


"نہیں میں یہاں آپ کے قتل کے ارادے سے ہرگز نہیں آیا۔ الوینا میرے پاس نہیں ہے۔ وہ کہاں ہے مجھے اس کا بھی علم نہیں۔ وعدے کے مطابق میں نے صبح ہی اسے آزاد کر دیا تھا۔ مگر آپ تک وہ نہیں پہنچی۔ کیوں نہیں پہنچی؟ کہاں گئی؟ اس سوال کا جواب جتنا آپ کو چاہیے اتنا ہی مجھے بھی۔ آپ سے گزارش کرنا چاہوں گا کے الوینا کیلئے، مجھ سے اپنے اختلافات پس پشت ڈال کر میرا ساتھ دیں تاکہ میں اس سازشی انسان کو بے نقاب کر سکوں"۔ وہ اب خاموش ہو کر منتظر نگاہوں سے انہیں دیکھنے لگا۔


ان کے چہرے پر سوچ کی پرچھائیاں واضح نظر آ رہی تھیں۔

چند لمحے وہ دونوں یونہی خاموش رہے پھر جیسے فیصلہ ہو گیا تھا۔


"ٹھیک ہے میں تمہارا ساتھ دوں گا۔ کیا کرنے والے ہو تم؟"۔ ان کا انداز سوالیہ ہو گیا۔


قیصر کا چہرہ پہلی بار مطمئن ہوا۔

پھر وہ انہیں پلان سمجھانے لگا۔

☆☆☆☆☆☆


"اور اس طرح میں نے ڈی-آئی-جی صاحب کے ساتھ مل کر ان کی موت کا جھوٹا کھیل رچا۔ وہ لاش مردہ گھر سے اٹھائی گئی تھی۔ تاکہ دشمن کو یہ لگے کے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا ہے"۔ تمام تر تفصیلات ان کے گوش گزار کرکے وہ خاموش ہوا۔


بابو زخمی چہرہ لیئے سر جھکائے کھڑا رہا۔


"پھر بھی آپ کو مجھے اعتماد میں لینا چاہئیے تھا۔ میں آپ کی ہر ممکن مدد کرتا"۔ ہارون اب بھی ناراضگی سے انہیں دیکھ کر بولے بنا نہ رہا۔


مختار صاحب نے اس کا شانہ تھپکا۔

"جس طرح تم کل جذباتی ہو کر گئے تھے اسے اور آج کے تمہارے اس اقدام کو مدنظر رکھتے ہوئے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کے تمہیں نہ بتا کر میں نے بالکل ٹھیک کیا۔ میری موت کے ڈرامے میں تم کیا کبھی ساتھ دیتے میرا؟"۔ وہ نرمی سے پوچھنے لگے۔

ہارون نے نفی میں سر ہلایا۔ اور ان سے بغلگیر ہو گیا۔

اس کی پشت تھپتھپاتے وہ مسکرا دیئے۔


"تو اب کیا سوچا ہے؟ آگے کیا کرنا ہے؟"۔ اعظم نے سوال کیا۔


"کچھ نہیں بس علی مرزا کو کچھ دیر اور اس غلط فہمی میں رکھنا ہے کے اس کا پلان کامیاب ہو چکا ہے۔ تب تک جب تک ہم اس کی گردن تک نہ پہنچ جائیں"۔ قیصر نے جواب دیا۔


"لیکن ایک بات یاد رکھنا میرے رہتے تمہیں قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت ہرگز نہیں ہے"۔ ہارون نے تنبیہ کی۔


"تم لوگ اپنا کام کرو اپنے طریقے سے۔ مجھے میرا کام مت سکھاؤ"۔ ناگواری سے جواب دے کر وہ ایک مرتبہ پھر بابو کی جانب متوجہ ہوا۔


"اگر اپنی زندگی چاہتے ہو تو اب تمہیں وہی کرنا ہوگا جو میں کہتا ہوں ورنہ۔۔۔اب تک تو تم اچھی طرح جان ہی چکے ہوگے مجھے"۔ انگلی اٹھا کر سخت لہجے میں کہتے ہوئے بہت کچھ جتایا۔


بابو نے بلا تاخیر اثبات میں سر ہلایا۔ جو بھی ہو اسے اپنی زندگی عزیز تھی۔

☆☆☆☆☆☆


نیا دن طلوع ہو چکا تھا۔

اس کا آغاز کہیں کامیابی کا پیغام لایا تھا تو کہیں ناکامی کی خبر۔

اس دن کے معنی ہر کسی کیلئے الگ تھے۔


علی مرزا کو اپنے پلان کی کامیابی کا یقین تھا۔ اور اس پر مہر ثبت کرنے والا اس کا آدمی سلطان تھا جس نے اسے آ کر یہ خبر دی تھی کے مختار کے بعد پولیس مقابلے میں قیصر کا بھی پتہ کٹ چکا ہے۔

یہ خبر ان کیلئے اتنی ہی خوش کن تھی جیسے کسی گمشدہ خزانے کا راز مل جانا۔

اسی خوشی میں انہوں نے اعلٰی پیمانے پر دعوت کا اہتمام کیا تھا۔ اس کا مشورہ بھی سلطان نے ہی انہیں دیا تھا۔

جس میں ان کے دوستوں اور خاص خاص شخصیات کو ہی مدعو کیا گیا تھا۔


اتنے شارٹ نوٹس پر بھی سب ہی شرکت کرنے آ گئے تھے۔ جن میں موجودہ حکومت اور ان کی پارٹی کے کئی ارکان شامل تھے۔

میڈیا نمائندگان بھی اس دعوت میں شریک تھے۔


الوینا پہلی منزل پر قدرے کونے میں واقع ایک کمرے میں بند تھی۔ مہمانوں کے ہنسنے بولنے کی آوازیں اسے یہاں تک سنائی دے رہی تھیں۔

اسے بے اختیار وہ دن یاد آیا جب وہ اسی طرح قیصر کی قید میں تھی۔ اور پھر کیا کیا تماشہ ہوا وہ سب کچھ کسی فلم کی طرح اس کے ذہن کے پردے پر چل رہا تھا۔

ساتھ ہی وہ شخص اسے شدت سے یاد آیا۔


جب اس شخص کے قریب تھی تب اس سے دور جانے کیلئے ناجانے کتنے جتن کیئے تھے اس نے۔

اور اب جب بالآخر وہ اس سے دور ہو گئی تھی تو پھر اتنی بےچینی کیوں تھی؟

لمحہ بھر کیلئے بھی وہ اسے بھول نہ پا رہی تھی۔ رہ رہ کر اس کا دل اس شخص کی جانب کھنچ رہا تھا۔

کھڑکی کے پٹ سے ٹیک لگائے، وہ سینے پہ ہاتھ باندھے کھڑی تھی۔ مانوس سی خوشبو اسے اپنے وجود کو جکڑتی محسوس ہوئی۔

"قیصر خیام میرے ذہن سے نکل کیوں نہیں جاتے"۔ اونچی آواز میں بڑبڑاتے ہوئے وہ جھلا اٹھی۔


"کیا کسی نے مجھے یاد کیا؟"۔ گمبھیر لہجے میں کوئی اس کے پیچھے ہی بولا تھا۔


الوینا کی حسیات بیدار ہوئیں۔ اس کی آنکھیں پوری وا ہوئی۔وہ آواز۔۔۔وہ لہجہ۔


جھٹکے سے مڑنے پر سر مضبوط سینے سے ٹکرایا۔ گھبرا کر سنبھلتے ہوئے اس نے جوں ہی نگاہیں اٹھائیں وہ سانس لینا بھول گئی۔

اپنی تمام تر جاہ و جلال سمیت وہ اس کے سامنے تھا۔

ہاں وہ وہی تھا جس نے اس کا سکون برباد کر دیا تھا۔ جس کی بےحسی نے ہر لمحہ اسے رلایا تھا۔

پرشوق نگاہوں سے وہ الوینا کے چہرے کو تکتا دلچسپی سے مسکرا رہا تھا۔


الوینا کو لگا یہ اس کا وہم ہے۔ ڈرتے ڈرتے اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کی سرمئی آنکھوں کو نرم پوروں سے چھوا اس کا دل ڈوب کر ابھرا۔ اور جب اسے یقین ہو گیا کے وہ خواب نہیں ہے تو اس کی آنکھیں اس حقیقت پر تیزی سے بھیگنے لگیں۔

مگر لب دلکشی سے مسکرا دیئے تھے۔


"تم آگئے"۔ اس کے لب آہستگی سے ہلے تھے۔


قیصر خیام نے پہلی بار اپنا دل یوں بےقابو ہو کر دھڑکتے محسوس کیا تھا۔ اور وہ اپنی کیفیت پر جتنا حیران ہوتا کم تھا۔


اچانک ہی الوینا کے چہرے پر غصہ در آیا۔ اس نے سختی سے اس کا گریبان جکڑ لیا۔

"اب کیوں آئے ہو تم ہاں؟ تم نے تو کہا تھا کے چلی جاؤں میں۔ تم میری صورت بھی نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ تو اب کیا لینے آئے ہو یہاں؟ کیا سمجھتے ہو تم اپنے آپ کو؟ میں کوئی مری جا رہی تھی تم سے ملنے کیلئے؟"۔ ایڑی اونچی کیے وہ جارہانہ انداز میں اس کا گریبان تھامے جھنجھوڑ رہی تھی۔

قیصر ہنوز خاموش مگر گہری نگاہوں سے اس کا چہرہ تکتا رہا۔

کہا کچھ نہیں۔

دکھ، غصہ، صدمہ، بےبسی بیک وقت یہ سب ہی جذبے اسے الوینا کی نگاہوں اور چہرے پر نظر آرہے تھے۔

وہ لڑکی بہت دلچسپ تھی۔ بیک وقت اس سے نفرت بھی کرتی تھی اور محبت بھی!

اس نے نرمی سے اپنا گریبان اس کی گرفت سے چھڑایا۔

"تمہارے ان بےکار سوالوں کا جواب دینے کیلئے یہ جگہ اور وقت ہرگز بھی مناسب نہیں۔ لہٰذا اب تم یہاں سے چلنے کی کرو"۔ خود پر قابو رکھتے اس نے زرا کرخت لہجے میں کہا۔

کیونکہ ہارون کی نگاہیں اس پر ہی تھیں۔

الوینا کی نگاہیں بھٹک کر اس کے حلیے پر گئیں تو چونکی۔

وہ ویٹر کے لباس میں تھا۔

"اپنی پارٹی تو خراب کرتے ہی ہو اب یہاں دوسروں کی پارٹی خراب کرنے چلے آئے"۔ اس کا لب و لہجہ طنزیہ ہو گیا۔

قیصر ناچاہتے ہوئے بھی مسکرا دیا۔

"بہت سمجھنے لگی ہو مجھے۔ ٹھیک سمجھی ہو تم میں یہاں تمہارے پیارے ماموں کی پارٹی خراب کرنے ہی آیا ہوں"۔ بنا لگی لپٹی رکھے اس نے صاف گوئی سے کام لیا۔

الوینا حیران رہ گئی۔

اس سے قبل کے وہ مزید کچھ کہتی وہ ٹوک گیا۔

"چلو اب یہاں سے باقی سوال جواب پھر کبھی کر لینا۔ اگر موقع ملا تو"۔ اس کی آنکھوں میں جھانکتے آخری الفاظ اس نے اپنے دل میں ہی کہے۔

وہ سر ہلاتی بنا مزید کوئی سوال کیئے اس کے ساتھ ہو لی۔

جیسا بھی تھا مگر اسے اب اس شخص پر اعتماد کرنا آ گیا تھا۔

کیونکہ جو شخص اس کے ساتھ غلط کرنے والوں کو نہیں بخشتا تھا تو وہ خود بھلا کیونکر اسکے ساتھ غلط کرتا۔ یہ الوینا کو یقین تھا۔

اور اس کا یقین کچھ اتنا غلط بھی نہ تھا۔

وہ الوینا کو لیئے سلطان کی معیت میں بنگلے کے ایمرجنسی ایگزٹ سے باہر نکل آیا جہاں کی سیکورٹی سلطان نے قیصر کے کہنے پر پہلے ہی کمزور کر دی تھی۔

بنگلے کے پچھلے حصے میں ہی ایک سیاہ گاڑی کھڑی تھی۔ جس کے شیشے بھی سیاہ تھے۔


"تم اس گاڑی میں بیٹھو اور اپنے گھر جاؤ کیونکہ یہاں رہنا تمہارے لیئے خطرے سے خالی نہیں"۔ فاصلے پہ موجود گاڑی کی جانب قدم اٹھاتے ہوئے ارد گرد دیکھتا وہ ساتھ چلتی الوینا سے مخاطب تھا۔

وہ آج بھی اس کے ہم قدم نہیں ہو پا رہی تھی۔


اس کی بات پر وہ چونک کر اسے دیکھنے لگی۔

"کیا تم جان گئے ہو کے ماموں نے تمہاری دوست کو مارا ہے؟"۔ اس کے اس غیر متوقع سوال پر قیصر کے تیزی سے اٹھتے قدم زنجیر ہوئے۔ رک کر وہ اس کی جانب دیکھنے لگا۔


"ضرورت سے زیادہ مجھے سمجھنے کی کوشش مت کرو الوینا، انجام اچھا نہیں ہوگا اس سب کا"۔ سنجیدگی سے کہہ کر وہ پھر سے چلنے لگا۔

اثبات پر الوینا کا دل رک کر دھڑکا تھا۔ قدم سستی سے آگے بڑھنے لگے۔


گاڑی کا دروازہ کھول کر اسے اندر بٹھا دیا۔

پھر گاڑی کی اگلی نشست کی طرف والے دروازے تک آ کر انگلی سے شیشہ بجایا۔

سیاہ شیشہ درمیان سے ہٹتے ہی مختار صاحب کی سنجیدہ صورت نظر آئی۔


الوینا تحیر سے اس کی ایک ایک حرکت نوٹ کر رہی تھی۔


"یہ رہی آپ کی امانت۔ اب میں آزاد ہوں اس ذمہ داری سے"۔ سنجیدگی سے کہا۔


"ہوں۔ ٹھیک ہے"۔ مختار صاحب نے ہنکارا بھرا۔


قیصر نے ایک نگاہ پچھلی نشست پر بیٹھی الوینا پر ڈالی۔ وہ اسے ہی کچھ حیران اور کچھ پریشانی سے دیکھ رہی تھی۔

کیا کچھ نہ تھا اس ایک نظر کے تبادلے میں۔


"اپنا خیال رکھنا"۔ بے ساختہ ہی اس کی زبان سے یہ نکلا تھا اور اگلے ہی پل وہ سختی سے لب بھینچ گیا۔


مختار صاحب نے چونک کر اس کی جانب دیکھا تھا۔ اس سے قبل کے وہ اس کا چہرہ پڑھنے کی سعی کرتے وہ جلدی سے رخ موڑ کر واپسی کیلئے قدم بڑھا چکا تھا۔


مگر مختار صاحب کی تجربہ کار نگاہیں اس کا وہ راز پا چکی تھیں جسے وہ خود سے بھی چھپائے پھر رہا تھا۔

اور نا جانے کیوں پر انہیں اس پر غصہ نہیں آیا تھا۔ اس پل انہیں قیصر خیام دنیا کا سب سے زیادہ قابلِ رحم شخص لگا تھا۔


"آپ، کون ہیں؟"۔ الوینا کی جھجکتی ہوئی آواز گاڑی میں گونجی۔

اس سیاہ اور سفید بالوں والے شخص کا چہرہ یہاں سے واضح نہ ہو رہا تھا۔


"تمہارا بد نصیب باپ"۔ مختار صاحب کی پست آواز گونجی تھی۔

اور الوینا کے پیروں تلے سے کسی نے زمین کھینچ لی تھی۔

☆☆☆☆☆☆


علی مرزا اپنے مہمانوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ جبکہ سلطان ان کے دائیں جانب ہاتھ باندھے مؤدب سا کھڑا تھا۔

آج کل وہ ان کا سب سے بھروسہ مند آدمی بنا ہوا تھا۔ کیونکہ اس کی وجہ سے علی مرزا اپنے مقصد میں کامیاب رہے۔ ایسا خود علی کا ماننا تھا۔


ویٹر کا حلیہ بنائے قیصر ہاتھ میں ٹرے لیئے بظاہر تو مہمانوں کو سرو کر رہا تھا مگر اس کی نگاہیں علی کے پاس کھڑے سلطان پر تھیں، تاکہ اسے کوئی ہوشیاری دکھانے کا موقع نہ ملے۔


داخلی دروازے پر ہارون سیکورٹی گارڈ کے بھیس میں تعینات، چوکنا نظر آ رہا تھا۔ اس کی نظریں علی مرزا کے ساتھ ساتھ قیصر پر بھی تھی۔ اسے قیصر کا بالکل بھروسہ نہیں تھا۔


اعظم وہاں فوٹوگرافر کا حلیہ بنائے، کیمرہ گلے میں لٹکائے ہوئے تھا۔ اس کی نظریں داخلی دروازے کے ساتھ ساتھ مہمانوں پر بھی تھی۔


تینوں کے کانوں میں چھوٹا سا آلہ لگا تھا۔ جس کے ذریعے وہ مختار انصاری سمیت ایک دوسرے سے بھی رابطے میں تھے۔ اور اپنی اپنی جگہ چوکنا بھی۔

اس پلان میں ان لوگوں نے کسی دوسرے وجود کو شامل نہیں کیا تھا۔ کیونکہ انہیں کسی کا اعتبار نہ تھا۔ علی مرزا کو اگر بھنک بھی پڑ جاتی تو وہ کبھی ان کے پلان کو کامیاب نہ ہونے دیتا۔


"ہم لوگ کس کا انتظار کر رہے ہیں؟ مہمان آ چکے ہیں سارے، اب کھیل شروع کر دینا چاہیے"۔ ہارون نے ہونٹ ہلائے بنا آہستگی سے کان میں لگے آلے کے ذریعے قیصر اور اعظم کو مخاطب کیا۔


"اتنی بھی کیا جلدبازی ہے تمہیں، صبر رکھو! جس کا انتظار ہے ابھی وہ نہیں آیا ہے"۔بار کاؤنٹر کی جانب منہ کیئے کھڑے، ٹرے میں بھرے گلاس رکھتے ہوئے قیصر نے اکھڑے انداز میں کہا۔


ہارون نے بمشکل غصہ دبایا۔

"اب اتنا برا وقت آ گیا ہے کے پولیس والے ایک مجرم کے حکم پر عمل کریں گے"۔ وہ بڑبڑایا۔


اعظم خاموشی سے ان دونوں کو سننے میں لگا تھا۔


"جب مجرم پولیس سے زیادہ چالاک ہوں، تو سمجھداری اسی میں ہے کے جب تک ہو سکے ان کے کہے مطابق چلو"۔ قیصر نے پل میں حساب برابر کیا۔


اثبات پر ہارون تلملا کر رہ گیا۔


"اچھا ویسے کوئی اندازہ ہے؟ کون ہو سکتا ہے وہ شخص جس کا ہم انتظار کر رہے ہیں؟"۔ اس سے قبل کے ماحول گرم ہوتا، اعظم نے مداخلت کی۔


"نہیں، بہرحال جو بھی ہے پتہ چل ہی جائے گا"۔ قیصر نے جواب دیا۔


"تم برابر نظر رکھو سب پر، خاص کر ان پر جو علی مرزا کے آس پاس ہوں۔ بھیس بدل کر بھی آ سکتا ہے وہ۔ بس یہ یاد رکھو، اس کی پہچان کے طور پر ہمیں یہ پتہ ہے کے اس کے بائیں ہاتھ کی پشت پر ایک جلا ہوا نشان ہے"۔ ہارون نے ان کی یاد دہانی کروانے کو وہ بات دہرائی جو سلطان نے انہیں بتائی تھی۔


"ہمیں سب یاد ہے۔ تم داخلی دروازے سے اندر آتے مہمانوں پر نظر رکھو، خاص کر ان کے ہاتھوں پر"۔ قیصر نے ہدایت جاری کی۔


ہارون صبر کے گھونٹ بھر کے رہ گیا۔

☆☆☆☆☆☆


ڈرائیور گاڑی اسٹارٹ کر کے سڑک پہ ڈال چکا تھا۔

علی مرزا کا بنگلہ تیزی سے پیچھے چھوٹ رہا تھا۔


تبھی صدمے اور حیرت کی زیادتی سے گنگ الوینا ہوش کی دنیا میں واپس آئی تھی۔


"گاڑی روکیئے، کہاں لے جا رہے ہیں آپ مجھے؟ کہیں نہیں جاؤں گی میں، سنا آپ نے؟ گاڑی روکو میں نے کہا"۔ وہ ہذیانی انداز میں ان پر چیختی ڈرائیور سے کہہ رہی تھی۔

مختار صاحب کی کرخت نگاہوں کا مفہوم سمجھ کر

ڈرائیور اندھا، بہرا بنا گاڑی چلاتا رہا۔


"تمہیں سنائی نہیں دے رہا میں کیا کہہ رہی ہوں؟ گاڑی روکو ورنہ میں اس چلتی گاڑی سے کود جاؤں گی"۔ وہ دھمکی آمیز لہجے میں بولی۔


مختار صاحب کا دل دہل گیا۔


"دیکھو بیٹا، ہم گھر چل کر سکون سے بات کریں گے۔ تمہاری امی بھی انتظار کر رہی ہوں گی۔ انہیں میں نے بتا دیا ہے کے تمہیں گھر لے کر آ رہا ہوں"۔ وہ نرمی سے کہتے اسے بچوں کی طرح پچکارنے لگے۔


"نہیں ہے میرا کوئی گھر، میری امی مر چکی ہیں! اب جو ہے وہ آپ کی بیوی ہے، اور آپ کے کسی بھی رشتے سے تعلق رکھنا میں اپنی مرحوم امی کی توہین سمجھتی ہوں"۔ چلا چلا کر وہ تلخی سے کہتی مختار صاحب کا دل چھلنی کر گئی تھی۔


وہ ناراض ہوگی یہ اندازہ تو انہیں تھا مگر اتنی نفرت کرے گی انہی کی اولاد ان سے، یہ ان کیلئے غیر متوقع اور اذیت ناک تھا۔


"اس وقت تم جذباتی ہو رہی ہو میری بچی، لیکن اس حقیقت کو تم بھی نہیں جھٹلا سکتی کے میں تمہارا باپ ہوں اور تم میری اولاد ہو، میرا خون ہو"۔ انہوں نے اپنے الفاظ پر زور دے کر کہا۔


وہ استہزاء ہنسی۔

"واہ، بہت جلدی خیال آیا ہے آپ کو اپنی اولاد کا، خون کی دہائی دے رہے ہیں مجھے آپ؟ میں اس حقیقت کو بدل نہیں سکتی لیکن اسے تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہوں۔ کچھ نہیں لگتے آپ میرے، اور خبردار جو مجھے اپنی بیٹی کہا تو! بن ماں باپ کے پلے بچے یتیم ہوتے ہیں، ان کا کوئی باپ نہیں ہوتا، کوئی ماں نہیں ہوتی۔ میرا بھی کوئی نہیں ہے"۔ زہر اگلتی وہ بے دردی سے رخسار پر پھسلتے آنسو بار بار رگڑتی تھی۔


مختار صاحب کا دل جیسے کسی نے مسل ڈالا ہو۔

☆☆☆☆☆☆


قیصر نے کلائی پہ بندھی گھڑی دیکھی جو رات کے نو بج

جانے کا اعلان کر رہی تھی۔

وہ سخت اکتایا ہوا سا تھا۔


مہمان قریباً سارے ہی آ چکے تھے، مگر وہ ایک شخص جو انہیں مطلوب تھا ابھی تک نہیں آیا تھا۔

کھانے پینے کا دور شروع ہو چکا تھا۔


"کہیں ایسا تو نہیں کے اسے شک ہو گیا ہو اور اسی لیئے وہ نہیں آیا؟"۔ اعظم نے تشویش سے کہا۔


اس کی بات پر قیصر اور ہارون کی پریشانی بڑھ گئی۔


"یہ سلطان بےوقوف تو نہیں بنا رہا نا ہمیں؟"۔ ہارون نے یقیناً یہ سوال اس سے کیا تھا جو سلطان پر نظر رکھے ہوئے تھا۔


"تمہیں لگتا ہے دوسروں کی انگلی پہ ناچنے والا یہ آدمی اتنا عقلمند ہوگا؟"۔ جواب دینے کے بجائے اس نے تلخی سے سوال کیا۔


"دوسروں کو کم ہانکنا بھی بےوقوفی کی نشانی ہوتی ہے، کیا پتہ وہ واقعی ہو اتنا عقلمند"۔ ہارون نے بھی اسی کے سے انداز میں کہا۔


"یار تم دونوں پھر شروع ہو گئے"۔ اعظم کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لے۔


"اب اگر تم دونوں میں سے ایک نے بھی لفاظی حملے کیئے نا تو میں ہی تم دونوں کی پول کھول دوں گا"۔ وہ دھمکی پہ اتر آیا۔

تب سے ان دونوں کی تو تو میں میں بند ہی نہ ہو رہی تھی۔ وہ تھک چکا تھا ان دونوں کو سنبھالتے سنبھالتے۔


اب کی بار وہ دونوں واقعی کچھ نہ بولے۔


"ابھی ایک شخص اپنے دو تین آدمیوں کے ساتھ یہاں داخل ہوا ہے، اور اس کے ہاتھ پر ٹھیک ویسا ہی نشان ہے۔ لگتا ہے یہی ہے وہ مطلوبہ شخص"۔ اچانک ہی ہارون کی پرجوش آواز گونجی۔

جسے سنتے ہی باقی دونوں کی حسیات ایک دم الرٹ ہو گئیں۔


"کہاں ہے وہ؟"۔ ارد گرد نگاہیں دوڑاتے قیصر نے پوچھا۔


"ٹھیک تمہارے پیچھے علی مرزا سے مصافحہ کر رہا ہے"۔ ہارون نے سرگوشیانہ جواب دیا۔


قیصر مڑنے کو ہی تھا کے اگلے ہی پل اعظم کی آواز سنائی دی۔


"پیچھے مت مڑنا، وہ ولید ہے، جس کی ہمیں تلاش ہے وہ ولید عثمان ہے قیصر، اور وہ ٹھیک تمہارے پیچھے ہے تم اگر مڑے تو ممکن ہے وہ تمہیں پہچان لے"۔ اس نے تنبیہ کی۔


"اچھی طرح جانتا ہوں کے وہ ولید ہی ہے۔ تمہیں کیا لگا تھا کے میں نے اس سے دوستی کا ہاتھ کیوں بڑھایا؟"۔ وہ جو قیصر کو حیران کرنا چاہ رہا تھا اثبات پر خود ہی جھٹکا کھا گیا۔


"مطلب تم سب کچھ جانتے تھے؟" اعظم بے یقینی سے بولا۔


وہ اب چلتا ہوا غیر محسوس انداز میں اس کے قریب ٹھہرا تھا۔

"بے کار باتیں چھوڑو اور جا کر اپنا کام شروع کرو"۔ پین ڈرائیو کو اعظم کی جیبز پاکٹ میں ڈالتے ہوئے اس نے سرگوشی کی۔


"پین ڈرائیو؟ اس کا میں کیا کروں؟"۔ اعظم حیرت سے اچھل پڑا تھا۔


ہارون نے سنا تو اس کی چھٹی حس بیدار ہوئی۔


"ایک منٹ رکو، یہ کون سی پین ڈرائیو کی بات ہو رہی؟ یہ ہمارا پلان نہیں تھا۔ ہم نے طے کیا تھا کے علی مرزا کو اس کے مجرم دوست سمیت گرفتار کریں گے، پھر یہ کیا تماشا ہے؟"۔ وہ دبے دبے لفظوں میں غرایا۔


"تم اپنا کام کرو، مجھے جو کرنا ہے میں تمہاری اجازت لے کر نہیں کروں گا"۔ وہ تلخی سے بولا۔


"جاؤ اور یہ پین ڈرائیو سلطان کو دو، اس کا کیا کرنا ہے یہ اسے پتہ ہے"۔ وہ سختی سے اعظم کو حکم دیتا بھیڑ میں گم ہو گیا۔


"رکو، اعظم کہاں ہو تم؟"۔ ہارون ارد گرد دیکھتا ہوا آہستگی سے بولا۔ کیونکہ وہ اسے نظر نہیں آ رہا تھا کہیں بھی۔


اعظم بنا کوئی جواب دیئے سب کی نظر بچاتا سلطان تک آیا اور اس سے قبل کے وہ اسے مخاطب کرتا۔ سلطان نے خود ہی چپکے سے ہاتھ بڑھا کر پین ڈرائیو اس سے لے لیا۔

قیصر واقعی اسے سب سمجھا چکا تھا۔


کچھ ہی دیر بعد سلطان چہرے پہ مسکراہٹ سجائے مہمانوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کر چکا تھا۔


"آج کے اس خوشی کے موقع پر میں نے مرزا سر کیلئے ایک خاص فلم تیار کی ہے جو ان کی زندگی پر بنی ہے۔ آپ سب سے گزارش ہے کے ملاحظہ کریں"۔ مائیک تھامے وہ کہہ رہا تھا اور علی مرزا کی جانے کیوں چھٹی حس الرٹ ہوئی تھی۔


وہ سلطان کو مخاطب کرنا چاہتا تھا مگر مہمان ان کا راستہ روکے کھڑے تھے۔


ہارون مختار صاحب کو متوقع خطرے کا بتانے لگا تھا مگر ان سے رابطہ ہی نہ ہو پا رہا تھا۔


سفید پردہ منگوایا جا چکا تھا۔

اور اب سلطان جھکا پراجیکٹر میں وہ پین ڈرائیو کنیکٹ کر رہا تھا۔

پردہ روشن ہو چکا تھا۔

مہمان خوشی اور جوش سے نعرے لگاتے تالیاں پیٹ رہے تھے۔


علی سلطان کو اشارے کر رہا تھا مگر وہ انہیں نظرانداز کیئے ہوئے تھا۔


فلم شروع ہو چکی تھی۔

پہلے ہی منظر میں علی مرزا حاجی کے ساتھ مصافحہ کرتا نظر آیا۔

وہ ایک وڈیو کلپ تھی جو چل رہی تھی۔


"کام زیادہ بڑا نہیں ہے۔ بس اتنا سا ہے کے موجودہ حکومت کو نااہل ثابت کرکے اسے گرانا ہے، تاکہ میری پارٹی حکومت میں آ سکے"۔ وہ مونچھوں کو تاؤ دیتے شان سے کہہ رہے تھے۔


اپوزیشن کے چند اراکین جو ان کے دوست کی حیثیت سے اس پارٹی میں شریک تھے۔ تندہی سے علی کی جانب دیکھ رہے تھے۔

مرزا اپنی جگہ چور سے بن گئے۔

سب ہی جانتے تھے کے حاجی پولیس کی موسٹ وانٹڈ لسٹ میں سے ایک نام تھا۔


"اس میں میری کیا مدد درکار ہے"۔ وہ پوچھنے لگا۔


"بس اتنا کے دنگا فساد برپا کرو، بم دھماکے کرواؤ، غنڈہ گردی مچا کر بھتہ وصولی کرو، خوف و ہراس کی فضا پیدا کرو ملک میں، حکومت کو عوام کے سامنے نااہل ثابت کرو"۔ وہ سفاکی سے کہہ رہے تھے۔


وہاں موجود سبھی افراد ششدر رہ گئے۔


"بند کرو یہ"۔ وہ ملازموں پر دھاڑے۔ مگر سب نے جیسے کان بند کر لیئے تھے۔


میڈیا نمائندگان اس تہلکہ خیز وڈیو کی اپنے موبائل پر کلپنگ کر رہے تھے۔

اچانک ہی غم و غصے کی فضا پیدا ہو گئی تھی۔


اس سفید پردے پر ان کے آج تک کے تمام کالے کارنامے دکھائے جا رہے تھے۔

گویا ان کے کپڑے اتارے جا رہے تھے۔


وہ تمام کال ریکارڈنگز بھی سنوائے جا رہے تھے جو قیصر اور ان کے درمیان بات چیت ہوئی تھی۔


علی مرزا پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسکرین دیکھ رہے تھے۔ جو اب بجھ کر پھر سے سفید ہو چکی تھی۔


"کہا تھا نا میں نے کے اپنی فکر کرو، کیونکہ قیصر خیام تو ویسے بھی ایک بدنام زمانہ مجرم ہے۔ اب لوگ آئیں گے تمہارا سفید کالر پھاڑنے"۔ کسی کی سرد آواز انہیں اپنے کانوں کے پاس سنائی دی تھی۔ جسے سن کر ان کے وجود میں سنسنی پھیل گئی۔

وہ جا چکا تھا۔

میڈیا نمائندگان نے انہیں گھیر لیا تھا۔ موبائل کیمرے کے چمکتے فلیشس مختلف زاویوں سے ان کی تصویریں اتار رہے تھے، وڈیو بنا رہے تھے۔

سوالات کا ایک طوفان تھا جو علی مرزا کے گرد بڑھتا جا رہا تھا۔

وہ کانوں پر سختی سے ہاتھ رکھے ان آواز سے بچنے کی کوشش کرتے پاگل ہونے کو تھے۔

"میں نے قانون بالکل بھی ہاتھ میں نہیں لیا آفیسر، اور اس بات کے گواہ ہو تم خود"۔ قیصر کی آواز پریشانی سے ارد گرد پھرتے ہارون کے کان میں پڑی۔

"کہاں ہو تم؟ میرے سامنے آؤ"۔ وہ غصہ دباتے ہوئے بولا۔

"میں جانتا ہوں کے اس کام کے اختتام کے بعد تمہاری دلی خواہش تھی قیصر خیام کو حوالات میں ڈالنے کی مگر ایک بات بتاؤں؟ میں ابھی اور جینے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ گڈ بائے آفیسر"۔ بات مکمل کرتے ہی اس نے وہ آلہ کان سے نکال کر پھینکنے کے بعد پیروں تلے کچل ڈالا۔

ویٹر کے لباس پر سیاہ جیکٹ پہننے کے بعد وہ اعظم سمیت پچھلے راستے سے نکل گیا۔

"باس کیا مجھے اپنے ساتھ رکھ سکتے ہو؟"۔ اچانک ہی سلطان ان کے پیچھے دوڑتا ہوا آیا اور قریب پہنچ کر کہا۔

وہ رکا اور مڑا۔

اس کے دیکھا دیکھی اعظم بھی رک گیا مگر ان دونوں کی جانب پشت کیئے کھڑا رہا۔

قیصر اس کی جانب دیکھ کر مسکرایا۔

"ضرور، کیوں نہیں"۔ وہ خوشدلی سے بولا۔

اس کی بات پر سلطان کی باچھیں کھل گئیں۔

مگر اگلے ہی پل قیصر کا خنجر والا ہاتھ بلند ہوا تھا اور اس کی گردن کی رگ کاٹتا سیکنڈز میں اسے موت کے گھاٹ اتار گیا۔

سلطان کو آخری سانس بھی نصیب نہ ہوئی تھی اور وہ زمین پر ڈھیر ہوتا چلا گیا۔

"اب چلو"۔ اس نے خنجر رومال سے صاف کرتے کہا۔

"تم کبھی نہیں سدھرو گے"۔ اعظم نے تاسف سے کہا۔

مگر وہ قدم آگے بڑھا چکا تھا۔

ناچار، وہ بھی چپ چاپ اس کے پیچھے چل دیا۔

غصے سے اس کا دماغ کھول رہا تھا۔

ہارون کو سب سے زیادہ غصہ اس بات کا آ رہا تھا کے یہ سب اس کی موجودگی میں وہ کرکے فرار ہو گیا تھا۔

پولیس کی بھاری نفری بلوائی جا چکی تھی۔ وارنٹ تو وہ پہلے ہی نکلوا چکا تھا علی مرزا کی گرفتاری کا اور اب پوری میڈیا کے سامنے پولیس نے انہیں ہتھکڑی پہنائی اور مجرموں کی طرح کھینچ کر اپنے ساتھ لے گئی۔ ساتھ ہی ولید عثمان جو ناجانے کب سے پولیس کو مطلوب تھا، وہ بھی گرفتار ہو چکا تھا۔


میڈیا والے براہ راست ان کی گرفتاری کی خبریں اپنے چینلوں پر نشر کر رہے تھے۔ جبکہ علی مرزا کو تو ایک گہری چپ لگ گئی تھی۔ وہ شاید صدمے میں تھے۔

قیصر خیام نے انہیں موت نہیں دی تھی بلکہ اس سے بھی بدتر زندگی وہ انہیں جینے کیلئے دے گیا تھا۔

انہیں گرفتار کرکے تھانے لے جایا جا چکا تھا۔

پولیس نے کرفیو نافذ کرکے مہمانوں اور میڈیا نمائندگان کو پوچھ گچھ کے بعد رخصت کر دیا تھا۔


خود ہارون پریشان سا اب بھی وہاں موجود تھا۔ گھڑی رات کے گیارہ بجا رہی تھی، وہ آس پاس ہرجگہ قیصر خیام کو تلاش کر چکا تھا مگر وہ ہوتا کہیں تو ملتا نا۔

البتہ سلطان کی لاش انہیں بنگلے کے پچھلے حصے سے ضرور ملی تھی۔


"سر جی، یہ چائے پی لیجیے جی، آپ تھک گئے ہوں گے"۔ کانسٹیبل نے چائے کا کپ اسے پیش کیا۔


"شکریہ یعقوب، مجھے اس کی واقعی ضرورت تھی"۔ کپ تھامتے ہوئے اس نے تشکر آمیز لہجے میں کہا۔


"کوئی بات نہیں سر جی"۔ کانسٹیبل کی باچھیں کھل گئیں۔


"زمان کو کال کرکے کہو پرچہ کاٹے علی مرزا اور اس مجرم ولید پر"۔ سینئر انسپکٹر کا حوالہ دیتے اس نے حکمیہ کہا۔


"جی"۔ کانسٹیبل یعقوب سر ہلاتا ہوا موبائل پر نمبر ملاتا ہوا ایک طرف کو چلا گیا۔


کچھ سوچ کر ہارون نے ایک بار پھر مختار صاحب کا نمبر ملایا مگر فون مسلسل بند جا رہا تھا۔


تھک کر اس نے کوشش ترک کر دی۔

"پتہ نہیں الوینا کا کیا ردعمل رہا ہوگا، جب اسے حقیقت معلوم ہوئی ہوگی"۔ وہ سوچ کر رہ گیا۔

☆☆☆☆☆☆


سارے راستے شور کرتے کرتے بالآخر وہ خاموش ہو گئی، اور تھک کر سیٹ کی بیک پہ سر ٹکا دیا۔


"کیسے معاف کردوں انہیں امی؟ جنہوں نے آپ کے ساتھ ناانصافی کی، میرے ساتھ ظلم کیا میں کیسے معاف کردوں انہیں؟ آپ کے وہ آنسو میں کیسے نظرانداز کردوں جو مجھ سے بھی چھپ کے بہاتی رہیں۔ کیسے بھول جاؤں وہ اذیت بھرے دن جو اپنے باپ کے ہوتے ہوئے بھی میں نے پرائے در پر گزار دیئے۔ تب نہیں تھے یہ جب مجھے ان کی سب سے زیادہ ضرورت تھی، اور اب اتنے سالوں بعد میری یاد آ گئی"۔

آنسو یکا یک پلکوں کی باڑ توڑ کر پھسلتے ہوئے اس کے بکھرے بالوں میں جذب ہو رہے تھے۔


مختار صاحب کی پھر ہمت نہیں ہوئی تھی اسے مخاطب کرنے کی۔ وہ بس فکرمندی سے گاہے بگاہے پیچھے مڑ کر اسے ایک نظر دیکھ لیتے تھے۔


"آخرکار میری بیٹی مجھے مل گئی، کاش تم وہ انتہائی قدم نہ اٹھاتی عائشہ! تو ہماری بیٹی یوں اتنے برس مجھ سے دور نہ رہتی، اور نہ ہی اتنی نفرت کرتی مجھ سے۔ لیکن میں تمہیں بھی قصوروار کیسے ٹھہراؤں کے تم تو خود ہی اس دنیا سے چلی گئی ہو،اب تم سے گلہ کروں بھی تو کیسے"۔ وہ اپنے خیالوں میں اس سے مخاطب تھے۔


پون گھنٹے سفر کے بعد گاڑی ان کے بنگلے کے وسیع گیٹ سے اندر داخل ہوئی اور روش پر رینگتی ہوئی پورچ میں آ رکی۔


دروازہ کھلنے کی آواز پر الوینا نے چونک کر سر اٹھایا اور مشینی انداز میں وہ گاڑی سے نیچے اتر آئی۔


مختار صاحب اس کی جانب آئے۔

"چلو میرا بیٹا، اندر چلو"۔ نرمی سے مسکراتے ہوئے انہوں نے شفقت سے بازو اس کے گرد پھیلایا۔

وہ چپ چاپ ان کے ساتھ گھر کے اندر چل دی۔


مختار صاحب کیلئے یہی غنیمت تھا۔

☆☆☆☆☆☆


اعظم سمیت وہ اسی گھر میں آ گیا تھا جہاں تبریز شاہ کی حیثیت سے وہ کچھ ہفتے رہا تھا۔

چھوٹا مگر خوبصورت سا بنگلہ پوش ایریا میں واقع تھا۔


قانونی طور پر باقی معزز لوگوں کی طرح وہ بھی اب کھل کر جی سکتا تھا۔ ہاں اب وہ آزاد تھا۔

نہ تو اب پولیس سے چھپنے کی ضرورت تھی اور نہ ہی ان کا ڈر۔ دنیا کی نظروں میں وہ تبریز شاہ تھا۔ ایک صاف دامن شخص جس کا کوئی پولیس رکارڈ نہیں ہے، جس پر کوئی الزام نہیں ہے۔


سیاہ جینز کے پائنچے گھٹنوں تک اوپر کیئے، پول میں پیر لٹکائے بیٹھا وہ اپنی جیت کا جشن منا رہا تھا۔ برابر میں ہی اعظم بھی پول میں پیر لٹکائے بیٹھا تھا۔

ان دونوں کے درمیان میں ایک ٹرے رکھی تھی، جس میں فرانس سے برآمد شدہ مہنگی ترین چار بوتلیں رکھیں تھیں۔ اس کے ساتھ ہی دو تین پلیٹیں نمکین اشیاء کی بھی موجود تھیں۔ وہ بار بار گلاس بھرتا اور اسے لبوں سے لگا کر ایک ہی بار میں اپنے اندر اتار لیتا۔


"بس کر یار، بہت چڑھا لی ہے تم نے اب اور نہیں پینے دینا میں نے تمہیں"۔ اعظم نے ٹرے اٹھا کر دوسری جانب رکھی۔


سرخ آنکھوں سمیت وہ اس کی جانب دیکھ کر مسکرایا۔

"ارے جشن کا موقع ہے یار، عدالت سے اپنی چھٹی ہو گئی اور آج اپنے سب سے بڑے دشمن کا بھی پتہ کٹ، پینے دے"۔ ٹوٹے پھوٹے لہجے میں کہتے ہوئے اس نے پھر سے گلاس بھرنے کو بوتل اٹھانا چاہی مگر وہ ہاتھ آئی ہی نہیں۔


"اے، چل بوتل اِدھر دے"۔ اعظم کے کندھے پر اس نے مکا جڑا۔ مگر اس نے تو جیسے سنا ہی نہیں۔

وہ بغور اس کا چہرہ تک رہا تھا۔


"اچھا چل یہ گلاس بھردے"۔ خالی گلاس اس کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا۔

اعظم نے گلاس لے کر ٹرے میں رکھ چھوڑا۔


"سچ بتاؤ قیصر تم اسے بھلانے کو اتنا پی رہے نا!"۔ وہ افسردگی سے بولا۔


وہ جو بوتل لینے کو خود ہی اٹھنے لگا تھا اس کے اس سوال کو سن کر ٹھہر گیا۔

گردن گھما کر ایک نظر اعظم کو دیکھا۔ پھر جانے کیوں رخ موڑ لیا۔


"تم کس کی بات کر رہے ہو؟"۔ وہ انجان بنا پوچھنے لگا۔


"وہی جو تیرے دل، ذہن حواسوں پر چھا گئی ہے"۔ اعظم نے مسکراتے ہوئے اس کے شانے پہ دباؤ ڈالا۔


قیصر نے اگلے ہی پل اس کا ہٹایا۔

"کسی میں اتنی ہمت کہاں کے وہ میرے دل تک پہنچ سکے"۔ وہ تلخی سے بولا۔


اعظم نے ٹھنڈی آہ بھری۔


"دنیا سے چھپا سکتے ہو، اس سے چھپا سکتے ہو، خود سے نہیں چھپا سکتے قیصر۔ تمہارا چہرہ، تمہاری آنکھیں، تمہارا ہر ہر انداز آنکھیں چیخ چیخ کر یہ کہہ رہا ہے کے تمہیں اس لڑکی سے عشق ہو گیا ہے میرے یارا"۔ کتنے ہی آسان لفظوں میں وہ اس کا راز افشاں کر گیا تھا۔


چند لمحوں کیلئے تو وہ کچھ بول ہی نہ سکا۔


"یہ تم نے کیا کر لیا ہے قیصر؟ یہ کون سا مرض لگا لیا ہے تم نے خود کو؟"۔ وہ تشویش سے کہہ رہا تھا۔


"میں نے کچھ نہیں کیا ہے اعظم، یہ سب اپنے آپ ہو گیا، کیسے ہوا؟ میں نہیں جانتا۔ کب ہوا؟ مجھے نہیں پتہ۔ اسے چھوڑ آیا ہوں مگر اپنی سوچیں کہاں چھوڑ آؤں جو بھٹک بھٹک کر اس کی طرف جاتی ہیں۔ اسے تو جانا ہی تھا نا؟ سو وہ چلی گئی۔ پھر کیوں میرا ایک حصہ وہ اپنے ساتھ لے گئی"۔ اس کی آواز میں لرزش تھی۔ ٹوٹے کانچ کی کرچیاں تھیں۔


"خود کو یوں اذیت مت دو دوست، اب جب تم اسے اپنی مرضی سے چھوڑ آئے ہو تو اسے بھول جاؤ زندگی میں آگے بڑھنے کی کوشش کرو"۔ وہ اسے تسلی دینے لگا۔


آدھے چاند کے چمکتے عکس کو وہ نیلے رنگ کی پانی میں دیکھنے لگا۔


"میں نہیں کرتی تم سے نفرت"۔ آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔


"مجھے بتاؤ کے جب جب مرضِ عشق لاحق ہو جائے تو انسان کیا کرے؟"۔ ماضی میں کیا گیا اس کا سوال گونجا تھا۔


اچانک ہی وہ پوری قوت لگا کر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا۔

اعظم نے چونک کر اسے دیکھا۔


"نہیں، اتنی آسانی سے نہیں۔ اس نے قیصر خیام کے دل میں اپنے لیے محبت جگائی ہے، اور وہ جانتی نہیں ہے کے یہ دل ایک قید ہے، میری مرضی کے برخلاف وہ یہاں آ تو گئی ہے مگر اپنی مرضی سے جا نہیں سکتی۔ میں وہ شخص نہیں ہوں جو قربانیوں کا پیکر بن کر اپنے جذبات، اپنا وجود، اپنی خواہشات قربان کر دیتا ہے۔ محبت تیاگ دیتا ہے اور پھر ساری زندگی ایک کونے میں بیٹھ کر اپنے ٹوٹے دل کو روتے ہوئے گزار دیتا ہے"۔ زہریلے لہجے میں بولتا ہوا وہ کچھ دیر قبل کی کمزور کیفیت سے نکل آیا تھا۔


اعظم اس کے ساتھ ہی کھڑا ہو گیا۔


"تم کیا کرنا چاہتے ہو اب؟"۔ اس کا ماتھا ٹھنکا۔


جبکہ قیصر کے لبوں پر پراسرار مسکراہٹ رینگ گئی۔

"میں تکمیل چاہتا ہوں۔ اپنے وجود کی، اپنی چاہت کی، اپنی محبت کی! میں الوینا کو چاہتا ہوں اور میں اتنی آسانی سے دستبردار نہیں ہوں گا اس سے"۔ وہ مضبوط لہجے میں بولا۔


اس کے ارادے اعظم کو حواس باختہ کر گئے۔

"دیکھو قیصر، تم ابھی ہوش میں نہیں ہو اپنے، چلو تم چل کر آرام کرو ہم کل بات کریں گے"۔ وہ اسے ٹالنے لگا۔


"میں بالکل ہوش میں ہوں اور اپنے حواسوں میں رہ کر یہ بات کہہ رہا ہوں"۔ اعظم کو دھکا دیتے اس نے سختی سے کہا۔


"بھائی تم پھر اس ڈی-آئی-جی سے پنگا لوگے؟ اتنی مشکل سے تو ہم اس سب سے آزاد ہوئے ہیں اب تم پھر سے نیا بکھیڑا کھڑا کرنا چاہتے؟ دیکھو قیصر، کوئی عزت دار باپ اپنی بیٹی کا ہاتھ کبھی تمہارے میرے جیسے لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں دے گا۔ اس لیئے بہتر ہوگا کے تم اس لڑکی کو بھول جاؤ اور حقیقت کو تسلیم کرو"۔ وہ اب اسے سمجھانے لگا۔


"ارے جاؤ، اب تو وہ ڈی-آئی-جی کیا پوری دنیا کی قوت بھی میرے خلاف اکھٹی ہو گئی تب بھی قیصر خیام اس لڑکی کو اپنا بنا کر رہے گا"۔ سرخ آنکھوں سمیت کہتا وہ اپنی بات پر اڑ گیا تھا۔


اعظم نے بے بسی سے اسے دیکھا۔


"تو یہ تمہارا آخری فیصلہ ہے؟"۔ اس نے پوچھا۔


"ہاں، یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔ اور اٹل بھی! پھر چاہے تم میرا ساتھ دو یا نہ دو"۔ اس کے انداز میں رتی بھر فرق نہ آیا۔


وہ اسے گھور کر رہ گیا۔

"ہمیشہ ساتھ دیا ہے تمہارا تو اب کیسے تنہا چھوڑ سکتا ہوں؟"۔ وہ کوفت سے بولا۔


قیصر مسکرا کر آگے بڑھا اور اس سے بغلگیر ہوا۔

"مجھے یقین تھا کے تم میرا ساتھ ضرور دو گے"۔ وہ پریقین لہجے میں بولا۔

"یہ دوستی میں کیا کیا کرنا پڑتا ہے"۔ آسمان کی وسعتوں کو دیکھ کر وہ بے چارگی سے بڑبڑایا۔

☆☆☆☆☆

رات گہری ہوتی جا رہی تھی مگر نیند ان میاں بیوی کی آنکھوں سے دور تھی۔

الوینا انہیں مل گئی تھی یہ بات جتنی خوش آئند تھی۔ اتنا ہی اس کا رویہ دل برداشتہ کرنے والا تھا۔

کتنی خوش تھیں فائزہ کے بالآخر انہیں الوینا کی صورت اولاد میسر آ گئی تھی۔ اپنی بیماری اور مختار صاحب سے ناراضگی بھی انہیں بھول گئی تھی۔

مگر اس کا روکھا انداز انہیں اذیت سے دوچار کر گیا تھا۔

اس نے کہا وہ آرام کرنا چاہتی ہے تو انہوں نے بھی کوئی بحث نہ کی۔ خاموشی سے اسے اس کا کمرہ دکھا دیا۔

"آپ کو کیا لگتا ہے مختار، کے وہ ہمیں ایکسپٹ کر لے گی؟"۔ بیڈ پر بیٹھتے ان کی جانب دیکھ کر فائزہ نے فکرمندی سے پوچھا۔

"وہ ناراض ہے فائزہ، مگر مجھے یقین ہے کے وہ جلد ٹھیک ہو جائے گی"۔ انہوں نے غیر مرئی نقطے پہ نگاہیں جمائے جواب دیا۔

"جب آپ کو اتنا یقین ہے تو پھر اتنے پریشان کیوں ہیں آپ؟"۔ انہوں نے بغور ان کا چہرہ دیکھ کر نقطہ اٹھایا۔

مختار صاحب نے تھکی تھکی سی سانس خارج کی۔

"میری پریشانی کی وجہ کچھ اور ہے فائزہ، تم نہیں سمجھو گی"۔ وہ مایوسی سے بولے۔

"میں نے نہیں سمجھوں گی؟ مختار شوہر بیوی سے پہلے ہم دونوں کزنز ہیں اور بہترین دوست بھی، آپ مجھے سمجھائیں میں کیوں نہیں سمجھوں گی"۔ وہ اب ایک وکیل کی طرح جرح کرنے لگیں۔

مختار صاحب ان کے انداز پر پھیکے سے مسکرا دیئے۔

"مجھے الوینا کی فکر ہے، پریشانی ہے کے کہیں کوئی بری نگاہ پھر اسے ہم سے چھین کر نہ لے جائے"۔ وہ کھوئے کھوئے سے تھے۔

"اللہ خیر کرے، آپ ایسا کیوں سوچ رہے ہیں۔ اتنے سالوں بعد جا کر تو وہ ملی ہے، اب کس کی ہمت ہے کے اسے ہم سے چھیننے کی کوشش بھی کرے"۔ انہوں نے جھرجھری لی۔

"تم نہیں جانتی فائزہ، ارد گرد پھرتےگھومتے لوگ کب کیا کر گزریں یہ کوئی نہیں جانتا"۔ ذہن کے پردے پر قیصر کی پرچھائی نمودار ہوئی۔

"آپ پریشان مت ہوں، ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ وہ اب ہمارے ساتھ ہے، محفوظ ہے"۔ وہ پریقین لہجے میں کہتی انہیں تسلی دینے لگی۔

"محفوظ ہی تو نہیں ہے وہ، جو شخص اتنی تگڑی سیکیورٹی کے باوجود بھی گھر میں گھس سکتا ہے، وہ کچھ بھی کر سکتا ہے"۔ دل ہی دل میں وہ خود سے مخاطب تھے۔

ان کی چھٹی حس کہتی تھی کے خطرہ اب بھی ان کے سر سے نہیں ٹلا۔

انہوں نے دروازے کی ناب پر ہاتھ رکھے آہستگی سے دروازہ کھولا اور ادھ کھلے دروازے سے اندر جھانکا۔

کمرے میں زیرو پاور کی مدھم روشنی پھیل رہی تھی۔ جس میں سامنے موجود بیڈ پہ الوینا کا سویا ہوا چہرہ کسی حد تک واضح ہو رہا تھا۔

یہ دیکھ کر کے وہ ٹھیک ہے، مختار صاحب کے اندر اطمینان اتر آیا پھر وہ آہستگی سے دروازہ بند کرتے الٹے قدموں واپس پلٹ گئے۔


اپنے کمرے میں آ کر وہ بنا کوئی آواز کیئے آہستگی سے اپنی جگہ پر لیٹ گئے۔ فائزہ کا چہرہ اتنے دنوں بعد انہیں پرسکون لگا تھا۔

انہیں یوں پرسکون دیکھ کر مختار صاحب کی بھی پریشانی کسی حد تک زائل ہو گئی۔ آج کے اس تھکا دینے والے دن کے بعد وہ جیسے ہی سونے کیلئے لیٹے تمام تر پریشانیوں کے باوجود بھی ان کی آنکھ لگ گئی۔


وہ سوتی جاگتی کیفیت میں تھی جب اچانک کسی ہیولے کو خود پر جھکتا پایا اور اس سے قبل کے وہ خوفزدہ ہو کر چیختی مقابل نے ہاتھ اس کے منہ پر رکھ کر اس کی چیخ کا گلا گھونٹ دیا۔

"چیخنا مت، ہاتھ ہٹا رہا ہوں"۔ آہستگی سے کہتے اس نے ہاتھ ہٹایا۔ زیرو پاور کی نیلگوں روشنی میں الوینا کرنٹ کھا کر لیٹے سے اٹھ بیٹھی۔

"تت۔۔۔تم یہاں کیسے؟ اور وہ بھی اس طرح؟"۔ وہ حیران پریشان سی سوال کر رہی تھی۔

"ہاں، میں تمہیں اپنے ساتھ لے جانے آیا ہوں"۔ وہ مضبوطی سے بولا۔

الوینا نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا۔ اس سے قبل کے وہ کوئی جواب دیتی دروازہ زور زور سے پیٹا جانے لگا۔

"دروازہ کھولو الوینا"۔ وہ مختار صاحب تھے جو غصے سے چیخ رہے تھے۔

"تم۔۔۔تم جاؤ یہاں سے"۔ الوینا کو شدت سے کسی انہونی کا احساس ستانے لگا۔

"میں کہیں نہیں جاؤں گا۔ آنے دو انہیں"۔ مٹھیاں بھینچتے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔

الوینا زچ ہوئی۔

"میں نے کہا نا جاؤ یہاں سے، پلیز!"۔ وہ التجا کرنے لگی۔ مگر وہ اپنی ہی ضد پہ اڑا تھا۔ عین اسی وقت ایک دھماکے سے دروازہ کھلا تھا اور مختار صاحب کی غصے سے بھری صورت نظر آئی۔ مگر سب سے زیادہ چوکانے والی بات ان کے ہاتھ میں گن تھی۔ وہ غصے سے آگے بڑھے۔

"تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی میری بیٹی کے کمرے میں داخل ہونے کی۔ میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا"۔ اپنا آپا کھوتے وہ چیخے۔

"ہاں، آ گیا ہوں تو کیا کر لیں گے آپ؟"۔ وہ بپھر کر آگے ہوا۔

الوینا دوڑ کر ان کے درمیان آئی۔

"جاؤ تم یہاں سے"۔ قیصر کو دیکھ کر کہتی وہ رو دینے کو تھی۔

"تم ہٹ جاؤ سامنے سے الوینا"۔ مختار صاحب گرجے۔

"اس سے کیا بات کرتے ہیں۔ مجھ سے بات کریں"۔ قیصر خیام الوینا کو پیچھے کرتا سامنے ہوا۔

"مرنے کیلئے یہاں تک چلے آئے تم، لیکن آج تمہیں پچھتاوا ہوگا"۔ طیش میں آ کر انہوں نے گن اس پر تانی اور ٹریگر پر دباؤ بڑھا دیا۔

"بابا نہیں"۔ الوینا چیختی ہوئی قیصر کے سامنے آئی تھی۔ اور اگلے ہی پل مختار صاحب کے ساتھ ساتھ قیصر کا رنگ بھی فق ہوا۔ گولی چل چکی تھی۔


آذان کی آواز پر وہ ہڑبڑا کر نیند سے بیدار ہوئے اور چونک کر ارد گرد دیکھا۔ نہ تو وہاں الوینا تھی، نہ قیصر اور نہ ان کے ہاتھ میں گن۔

بستر پر اٹھ کر بیٹھتے انہوں نے ایک نظر اپنے برابر دیکھا فائزہ نماز کیلئے بیدار ہو چکی تھیں۔

بے اختیار انہوں نے سر ہاتھوں میں گرا لیا۔ ان کا سارا وجود پسینے میں نہا گیا تھا۔


"میرے اللہ! کیسا بھیانک خواب تھا یہ"۔ پریشانی کے عالم میں وہ بڑبڑائے۔

پھر اچانک کوئی خیال آنے پر ان کے ذہن میں کوندھا سا لپکا۔

اگلے ہی پل وہ بستر سے اترے اور تیز قدموں سے چلتے ہوئے کمرے سے باہر نکل آئے۔ راہداری کے آخری سرے پر واقع الوینا کے کمرے تک آئے۔ دروازے کی ناب پر ہاتھ رکھے انہوں نے ایک گہری سانس بھری اور اندر جھانکا۔

الوینا چت لیٹی نیند کی وادیوں میں گم تھی۔


اسے ٹھیک دیکھ کر ان کے دل میں سکون اتر آیا۔

"فائزہ ٹھیک کہتی ہے میں شاید زیادہ سوچ رہا ہوں"۔ پیشانی مسلتے ہوئے وہ واپس مڑ گئے۔

☆☆☆☆☆☆


اس کی آنکھ مسلسل بجتے موبائل کی آواز پر کھلی۔

آج اتوار کا دن تھا سو اس کا ارادہ لمبی تان کے سو جانے کا تھا مگر اس فون کی رنگ ٹون نے اس کے ارادوں پر پانی پھیر دیا۔

طبیعت پر کسلمندی چھائی ہوئی تھی۔

لیکن فون کرنے والا بھی ڈھیٹ بنا ہوا تھا۔

اٹھ کر بیٹھتے اس نے فون کان سے لگایا۔


"ہیلو"۔ نیند سے بوجھل آواز میں کہا۔


"تم اب تک سو رہی ہو؟"۔ دوسری جانب سے مردانہ آواز گونجی۔


"نہیں کرکٹ کھیل رہی تھی"۔ غزل تپ کر گویا ہوئی۔


اس کی بات پر وہ گڑبڑا گیا۔


"اچھا وہ مجھے تم سے یہ کہنا تھا کے الوینا خالو جان کے گھر پر ہے اور خالہ نے مجھے اس کا سامان لانے کیلئے بھیجا ہے۔ میں یہاں وزٹنگ ایریا میں ہوں تم جلدی سے اس کا سامان باندھ کر مجھے لا دو"۔ ہارون نے مدعا بیان کیا۔


جبکہ وہ جو بیٹھے بیٹھے بھی سو رہی تھی الوینا کے نام پر اس کی آنکھیں پوری کھل گئیں۔


"کیا کہا تم نے؟ الوینا مل گئی ہے؟ اوہ گاڈ! تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں۔ کہاں ہے وہ؟ کیسی ہے کب آئی اور اس نے مجھے ایک فون کرنا تک گوارا نہیں کیا۔ ملنے دو زرا اس کو، ٹھیک ٹھاک خبر لیتی ہوں"۔ ایک ہی سانس میں بولتے ہوئے غصہ، فکرمندی، محبت سب ہی کچھ تھا اس کے لہجے میں الوینا کیلئے۔

ہارون کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی۔


"اچھا تم پہلے اس کا سامان تو لے آؤ، پھر چل کر اس کی خبر بھی لے لینا"۔ اس نے مطمئن سے لہجے میں کہا۔


"سامان لے آؤں مطلب؟ کیا وہ ہاسٹل نہیں آئے گی رہنے؟"۔ وہ پوچھنے لگی۔


"نہیں وہ گھر پر رہے گی اپنی فیملی کے ساتھ"۔ ہارون نے خوشدلی سے کہا۔

اس کی بات سن کر غزل کے اندر اداسی پھیل گئی کے اب وہ اس کے بغیر رہے گی۔ مگر ساتھ ہی ساتھ یہ خوشی زیادہ تھی کے بالآخر وہ اپنی فیملی سے مل گئی ہے۔


"ہیلو سو گئی کیا تم؟"۔ ہارون نے گھبرا کر پوچھا۔

غزل اس کی آواز پر اپنے خیال سے چونکی۔


"نہیں، میں سوچ رہی تھی کے میں بھی تمہارے ساتھ چل کر اس سے مل لوں اور پھر میڈم کے پیرنٹس سے بھی مل لوں گی"۔ وہ ایک دم پرجوش ہوئی۔ مگر انداز اجازت طلب تھا۔


"اچھا ٹھیک ہے لیکن جلدی کرو، میں آل ریڈی یہاں بیٹھے بیٹھے اپنا آدھا گھنٹہ برباد کر چکا ہوں اب اور انتظار نہیں کر سکتا"۔ ہارون نے کوفت سے کہا۔


"ہاں ہاں، میں بس پندرہ منٹ آ رہی ہوں"۔ جلدی سے کہہ کر اس نے کال کاٹی۔

پھر الماری کے اوپر رکھا خالی سوٹ کیس اتار کر اس میں پھرتی سے الوینا کی چیزیں بھرنے لگی۔


کپڑے تبدیل کرکے اپنا حلیہ درست کرتی وہ بیس منٹ بعد سوٹ کیس گھسیٹتی ہوئی سیکنڈ فلور سے اتر کر گراؤنڈ فلور پر آ گئی۔


"آ گئی میں، اب چلیں"۔ موبائل پر سر دھنے ہارون کو اس نے مخاطب کیا تو وہ چونک کر متوجہ ہوا۔


بھوری آنکھوں کی چمک اسے عام دنوں سے زیادہ لگی تھی۔ وہ بلاشبہ خوش تھی کے بالآخر اتنے دنوں بعد وہ اپنی دوست سے ملے گی۔


"ہاں چلو"۔ اس نے آگے بڑھ کر بیگ تھام لیا۔


وارڈن کو بتانے کے بعد غزل بھی اس کے پیچھے پیچھے چل دی۔

☆☆☆☆☆☆


فائزہ کے کئی بار بلانے پر بھی جب وہ ناشتے کی میز پر نہ آئی تو وہ خود ہی اس کے کمرے میں چلی آئیں۔


وہ بیڈ پر کشن گود میں رکھے ناجانے کن خیالوں میں گم تھی۔

کھلے دروازے پر دستک کی آواز نے اسے چونکایا۔


ناشتے کی ٹرے تھامے فائزہ مسکرا کر اس کے پاس آ بیٹھیں۔


"ناراضگی ہم سے ہے گڑیا کی، لہٰذا اسے کھانے پر بالکل نہیں اتارنا چاہیے"۔ اپنے اور اس کے درمیان ٹرے رکھتے وہ محبت سے گویا ہوئیں۔


ناچاہتے ہوئے بھی وہ اپنی جگہ شرمندہ سی ہوگئی۔

اس نے تو سوچا تھا کے وہ اس عورت کی طرف دیکھے گی تک نہیں جس نے اس کے باپ کی زندگی میں اس کی ماں کی جگہ لی۔ مگر جب سے وہ یہاں آئی تھی فائزہ کا خلوص اور ان کی محبت اس کے پتھر ہوتے دل کو پگھلائے دے رہے تھے۔ وہ چاہ کر بھی ان سے تلخی سے پیش نہیں آ پا رہی تھی۔

بلکہ وہ خود بھی اپنے آپ پر حیران تھی کے آخر اس نے اس گھر میں رہنا بھی کیسے قبول کر لیا۔


"میں جانتی ہوں یہ سب تمہارے لیئے آسان نہیں ہے بیٹا، اور نہ ہی کوئی تم پر جبر کر رہا ہے کے وہ تلخ یادیں اور باتیں تم چند دنوں میں بھلا دو۔ میں سمجھ سکتی ہوں تمہاری کیفیت، لیکن میں تمہیں ایک بتانا چاہوں گی"۔ وہ نرمی سے گویا تھیں۔


الوینا خاموشی سے بغور انہیں سننے لگی۔


"عورت ایک جذباتی مخلوق ہے یہ سچ ہے۔ مگر ایک عورت کو کبھی اپنے جذبات اور برداشت کو کمزور نہیں سمجھنا چاہیئے۔ اس کے جذبات اتنے مضبوط ہوتے ہیں کے وہ برے سے برے انسان کو بھی اس کی تمام تر برائیوں سمیت اپنا سکتی ہے، پتھر سے پتھر دل کو بھی جونک لگا سکتی ہے، پگھلا سکتی ہے۔ اس کی برداشت بھی سمندروں جتنی وسعت رکھتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا، اگر عورت کی برداشت اتنی ختم ہوتی تو اللہ کبھی مرد ذات کو چار شادیوں کی اجازت دے کر عورت کا صبر نہ آزماتا۔

مگر عائشہ نے اپنی برداشت پر، اپنے صبر پر بھروسہ نہیں کیا اور ایک جذباتی فیصلہ کرکے ایک جذباتی قدم اٹھا لیا"۔ وہ دکھ سے کہتیں جا رہی تھیں۔


اور الوینا ان کی بات کی گہرائی پر غور و فکر کرنے لگی۔


"محبت میں گھری عورت جذبات کے ہاتھوں مجبور ہو کر اکثر جلد بازی کر جاتی ہے۔ عائشہ غلط نہیں تھی، مگر جو فیصلے اس نے لیے وہ کمزور اور جذباتی تھے۔

کسی کی محبت میں پڑ کر وہ اپنوں کی محبتیں بھول گئی اور ان کی عزت کو پیروں تلے روند گئی یہ اس کا پہلا غلط فیصلہ تھا۔

پھر اس نے دوسرا غلط فیصلہ تب کیا جب ایک بچے کے اس دنیا میں آنے سے قبل، اسے اپنی کوکھ میں لے کر اس کے باپ سے دور لے گئی۔ شاید اسے پچھتاوا ہوا ہو بعد میں، شاید اسے اپنا فیصلہ غلط لگا ہو لیکن جو زندگی وہ تمہارے لیئے چھوڑ گئی، اسے عائشہ کے پچھتاوے بدل نہیں سکتے تھے"۔ ان کے چہرے پر ملال تھا، لہجے میں رنج تھا۔


وہ کچھ بول نہ سکی۔


"اس کے جانے کی اطلاع جب مختار کو ملی تو وہ اس ایک دن کی دلہن کو چھوڑ کر گھر سے اسے ڈھونڈنے نکل گئے تھے اور پھر کئی دن تک پلٹ کر گھر نہ آئے۔ مگر وہ انہیں پھر بھی نہ مل سکی۔ اور جب وہ مایوس ہو کر گھر لوٹے تھے تب اس دن وہ کتنے بکھر گئے تھے، کتنے تڑپے تھے اس سب کی گواہ میں ہوں۔ ان کی حالت دیوانوں جیسی ہو گئی تھی، یہ سب دیکھ کر اس دن اگر میں بھی جذبات میں آ کر انہیں اس حال میں تنہا چھوڑ جاتی تو کیا ہوتا؟ جن سے محبت کی جاتی ہے ان کا برا پہلو بھی اپنانا پڑتا ہے گڑیا، صرف اچھائیوں سے محبت نہیں کی جاتی، محبت کا تقاضہ ہے کے محبوب کے سفید و سیاہ سمیت اسے اپنایا جائے"۔ کھوئے کھوئے سے لہجے میں وہ روانی سے کہتیں جا رہی تھیں۔

ان کی آنکھوں کے گوشے اس وقت کو یاد کرتے بھیگنے لگے تھے۔


الوینا کے دل میں ان کی آخری بات چبھ سی گئی تھی۔


"کیا میں آپ لوگوں کو ڈسٹرب کر سکتی ہوں؟"۔ دروازے پر دستک کے ساتھ ہی ایک چہکتی ہوئی آواز گونجی تھی۔

الوینا اور فائزہ چونک کر متوجہ ہوئیں۔


مگر جو چہرہ الوینا نے دیکھا بے اختیار اس کی آنکھیں بھیگتی چلی گئیں۔

"غزل تم!"۔ وہ خوشگوار حیرت سے اسے سر تا پیر دیکھنے لگی۔


"کیا کریں ہم اپنے دوستوں کا پیچھا اتنی آسانی سے تھوڑی چھوڑ سکتے"۔ بھیگتی آواز میں کہتی وہ فاصلہ پانٹ کر اس سے آ لگی تھی۔


"میں نے تمہیں کتنا مس کیا!"۔ الوینا روہانسی ہو گئی۔


فائزہ مسکراتی ہوئیں ان دونوں کو دیکھنے لگیں۔


"اچھا ہوا تم آ گئی، اب تم ہی اپنی دوست کو ناشتہ کرواؤ۔ ورنہ ضد میں تو یہ بالکل مختار پر گئی ہے"۔ وہ مصنوعی خفگی سے کہنے لگیں۔


ان کی بات پر الوینا غزل سے الگ ہوتی اپنی آنکھیں رگڑتی مسکرا دی۔


"تم بیٹھو بیٹا،تمہارے لیے بھی ناشتہ بھجواتی ہوں"۔ انہوں نے شفقت سے غزل کا چہرہ چھوا۔


"تھینک یو آنٹی، سچ بہت بھوک لگی ہے۔ آپ کے وہ لاڈلے بھانجے نے پانچ منٹ بھی انتظار نہیں کیا کے میں ناشتہ ہی کر لیتی۔ کھڑوس کہیں کا۔ آپ ضرور اس کے کان کھینچنا"۔ حسب معمول اس کا رکارڈ بجنے لگا۔


الوینا کی گھوری کو خاطر میں لائے بغیر وہ بولتی چلی گئی۔


"ضرور، تم یہاں آرام سے بیٹھو، میں بھانجے کی خبر لیتی ہوں"۔ ہلکے پھلکے انداز میں کہتیں وہ کمرے سے نکل گئیں۔


"بھکڑ کہیں کی، جب دیکھو ٹھونسنا ہی ہوتا اس کو"۔ اس کے شانے پہ ایک چپت رسید کرتے وہ بولی۔


"ارے کوئی بات نہیں یار، کوئی غیر تھوڑی ہیں وہ، تمہاری مام ہیں۔ اور وہ بھی اتنی سوئیٹ!"۔ مجال ہے جو وہ خاطر میں لاتی اس کی بات کو۔


الوینا سر پیٹ کر رہ گئی۔

☆☆☆☆☆☆


ہارون اس وقت مختار صاحب کے ساتھ ان کے اسٹڈی روم میں موجود تھا۔

موضوع گفتگو گزشتہ رات تھی۔


"پتہ نہیں کیوں ہارون مگر من میں ایک ڈر سا ہے"۔ انہوں نے اپنا خدشہ اس سے بیان کرنے کا فیصلہ کیا۔


ان کی بات پر وہ سوالیہ نگاہوں سے انہیں دیکھنے لگا۔

"کیسا ڈر؟ اب تو سب کچھ ٹھیک ہو رہا ہے، الوینا بھی گھر آ چکی ہے۔ تو پھر کیا بات ہے؟"۔ وہ فکرمندی سے پوچھنے لگا۔


مختار صاحب نے پیشانی مسلی۔

"اس ڈر کا تعلق الوینا سے ہی ہے عالم، قیصر ایک بار اسے اغواء کروا چکا ہے۔ اس سے کچھ بعید نہیں ہے"۔ وہ پرسوچ انداز میں کہنے لگے۔


"وہ ایسا کچھ نہیں کرے گا اب، کیونکہ دنیا اور قانون کی نظروں میں وہ ایک پاک دامن شخص ثابت کر چکا ہے خود کو۔ لہٰذا اب کوئی ایسی حرکت کرکے وہ پھر سے پولیس کی نظروں میں نہیں آنا چاہے گا"۔ ہارون نے پریقین لہجے میں کہتے انہیں تسلی دی۔


انہوں نے بغور ہارون کی جانب دیکھا۔ پھر گہری سانس خارج کی۔


"میں چاہتا ہوں عالم کے اگلے دو دنوں میں الوینا سے تمہاری منگنی کر دی جائے۔ تمہارا کیا فیصلہ ہے؟"۔ کوئی بم پھوڑا تھا انہوں نے اس کی سماعتوں پر۔


لمحہ بھر کیلئے ہارون کو لگا شاید اسے سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہے، شاید انہوں نے کسی اور کا نام لیا ہو۔

اسے ہنوز خاموش پا کر وہ پھر بولے۔


"میں منتظر ہوں تمہارے فیصلے کا۔ کیا کہتے ہو تم؟"۔ وہ سنجیدگی سے پوچھنے لگے۔


سر جھکائے وہ چند لمحے سوچتا رہا، پھر جیسے فیصلہ ہو گیا۔


"میرے والدین نہیں ہیں۔ آپ نے اور خالہ نے مجھے بچپن سے والدین جیسا پیار دیا۔ لہٰذا میرے فیصلوں کا اختیار آپ کے پاس ہے۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں"۔ اس نے بھی اتنی ہی سنجیدگی سے جواب دیا۔


مختار صاحب کے چہرے پر اطمینان اتر آیا۔


"لیکن میں چاہوں گا کے آپ ایک بار الوینا سے پوچھ لیں۔ اس کی مرضی بھی جاننا ضروری ہے"۔ ایک اور نقطہ اٹھایا۔


"اس کی فکر تم نہ کرو، وہ انکار نہیں کرے گی۔ تم کسی کا بھی آئیڈیل ہو سکتے ہو برخوردار"۔ انہوں نے فخر سے کہتے اس کی پیٹھ تھپتھپائی۔


ہارون نرمی سے مسکرا دیا۔

ذہن میں ابھرتے عکس کو اس نے جھٹک دیا۔

☆☆☆☆☆☆


(تین دن بعد)


وہ سہج سہج قدم اٹھاتی اس پہاڑی کی اونچائی پر جا رہی تھی۔ جسے مقامی لوگ 'سوسائیڈ پوائنٹ' کہتے تھے۔

نیلی جینز پر سیاہ کرتی پہنے اس کے کھلے بال تیز ہواؤں کے دوش پر سفر کرتے بار بار اس کے چہرے پر بکھرتے تھے۔

جنہیں ہٹاتی وہ چلتی جا رہی تھی۔


سیاہ جینز اور سفید شرٹ پر بھورے رنگ کی جیکٹ پہنے وہ وہاں کھڑا جیسے کافی دیر سے اسی کا منتظر تھا۔

ہوا بھورے بالوں کو اس کی پیشانی پر بکھیر رہی تھی۔


"شہر سے دور، یہاں کیوں بلایا ہے مجھے؟"۔ اس کی جانب دیکھتی وہ سنجیدگی سے بولی۔


قیصر دو قدم اٹھاتا اس کے نزدیک ہوا۔


"مجھے یقین تھا تم آؤ گی"۔ اس کے چہرے پر آتے بال کو دو انگلیوں سے پیچھے کرتے وہ دلچسپی سے مسکرایا۔


الوینا ایک قدم پیچھے ہٹی۔

"تم دور رہ کر بھی بات کر سکتے مجھ سے"۔ وہ تلخ ہوئی۔


مقابل کے چہرے پر ناگواری پھیل گئی۔

فاصلہ پانٹ کر وہ پھر قریب ہوا اور سختی سے اس کے بازو پر گرفت کی۔

"تو اب میں اچھوت ہو گیا تمہارے لیئے، ہوں؟ کیوں کر رہی ہو تم یہ؟ کیا ثابت کرنا چاہتی ہو تم؟"۔ وہ چبا چبا کر بولا۔


"میں نہیں جانتی تم کس بارے میں بات کر رہے"۔ وہ انجان بن گئی۔


قیصر تلخی سے مسکرایا۔

"واہ، کسی کی جان گئی اور ان کی ادا ٹھہری!"۔


الوینا کچھ نہ بولی۔ بس اس کی جانب دیکھنے سے گریز برتا۔


"تم اچھی طرح جانتی ہو میں کس کے بارے میں بات کر رہا ہوں۔ اور مجھے بھی سب خبر ہے تمہاری۔ کیوں کر رہی ہو اس سے منگنی؟"۔ خود پر ضبط باندھتے وہ پوچھ بیٹھا۔


لب بھینچ کے اس نے ڈھیر سارے آنسو اپنے اندر اتارے۔

"وہ اچھا انسان ہے۔ کسی بھی لڑکی کا آئیڈل ہو سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر وہ میرا کزن ہے۔ اور کیا چاہیئے"۔ وہ بے حس بنی۔


"اور محبت؟ کیا تم اس سے محبت کر لو گی؟"۔ زخمی شیر کی مانند وہ غرایا۔


"یہ میری زندگی ہے۔ میری مرضی میں جس کے ساتھ بھی بتانا چاہوں۔ تم کوئی نہیں ہوتے یہ سوال کرنے والے"۔ اس نے زور لگا کر خود کو اس کی گرفت سے آزاد کروایا۔

اور مڑ کر جانے لگی۔


"میں کوئی نہیں ہوں تو تم یہاں میرے بلاوے پر آئی کیوں؟"۔ جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے اب کی بار وہ سنجیدگی سے بولا۔


الوینا ایک قدم مذید اپنی جگہ سے ہل نہ سکی۔

آنسو گرنے کو بے تاب تھے۔

اس سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔


"میں بتاؤں کیوں؟ کیونکہ یہ وہ محبت ہے جو تمہیں یہاں تک کھینچ لائی ہے الوینا"۔ اونچی آواز میں وہ پورے وثوق سے بولا۔


تب وہ جھٹکے سے مڑی۔

"غلط ہو تم، کوئی لڑکی بھی تم جیسے انسان سے محبت کبھی نہیں کر سکتی۔ تم انسان نہیں حیوان ہو، بے دردی سے لوگوں کی جانیں لینے والے ایک درندے ہو۔ میں کیوں کروں گی تم جیسے شخص سے محبت؟ دور کر لو اپنی غلط فہمی۔ میں نہیں کرتی تم سے محبت۔ بلکہ نفرت ہے مجھے تم سے"۔ چیخ چیخ کر کہتی وہ پتہ نہیں اس کو یقین دلا رہی تھی یا خود کو اسے سمجھ نہ آیا۔


قیصر نے سختی سے لب بھینچ لیئے۔


"جا رہی ہوں میں۔ اور ہو سکے تو آئندہ میرے سامنے بھی مت آنا"۔ کانپتی ہوئی آواز میں کہہ کر اس نے جلدی سے رخ موڑ لیا۔

مبادا وہ کمزور نہ پڑ جائے۔


"ٹھیک ہے نفرت کرتی ہو نا مجھ سے، تو اب اپنی نگاہیں اِدھر کرو اور یہ منظر بھی دیکھو"۔ کچھ تھا اس کے لہجے میں۔


الوینا ناچاہتے ہوئے بھی مڑی۔


وہ ایک ایک الٹے قدم اٹھاتا اس سے دور جا رہا تھا۔


اور وہ بے چارگی سے اسے دیکھنے لگی۔

"کہو الوینا! تمہیں مجھ سے محبت ہے؟ یا نہیں؟"۔ رک کر وہ بانہیں وا کرتے بلند آواز میں اس سے سوال کرنے لگا۔

"نہیں، میں نہیں کرتی تم سے محبت"۔ پھنکار کر کہتی، رخ موڑ کر زور سے آنکھیں میچ لیں۔

آنسو موتی کی لڑی کی صورت اس کی آنکھوں سے بہہ نکلے۔

اس نے ایک قدم مزید پیچھے لیا۔

"تمہیں مجھ سے محبت ہے یا نہیں؟"۔ وہ پھر پوچھنے لگا۔

وہ منہ پہ ہاتھ رکھ کے اپنی سسکی دبانے لگی۔

اس کی پشت کو دیکھتے قیصر مزید ایک قدم موت سے قریب ہوا۔

اب اس کے اور گہری کھائی کے درمیان بس دو قدم کا فاصلہ تھا۔

"الوینا، اِدھر میری طرف رخ کرو اور یہ فنا و بقا کا کھیل دیکھو۔ تمہیں مجھ سے محبت ہے یا نہیں؟"۔ وہ تیسری بار اپنا سوال دہرا رہا تھا۔

الوینا کی جان حلق تک آ گئی تھی۔

وہ ایک قدم اور پیچھے ہوا۔

"اب بس ایک قدم میرے اور موت کے درمیان، کہو کے تمہیں مجھ سے محبت ہے الوینا یا پھر اپنی آنکھوں سے مجھے فنا ہوتے دیکھو"۔ اس کا لہجہ پست ہو گیا۔

سرمئی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔

وہ آنسو بہاتی، سسکیاں بھرتی بنا ایک لفظ کہے مڑی اور اس کی جانب دوڑ لگا دی۔

اور قیصر خیام کو اس کا جواب مل گیا تھا۔

اس کے چہرے پر ایک دلکش مسکراہٹ بکھر گئی۔

مگر اس سے قبل کے وہ اس کی جانب بڑھتا، اس کے پیروں کا بیلنس بگڑا، اس کی مسکراہٹ غائب ہوئی۔

اور اگلے ہی پل وہ گرنے کو تھا۔

"نہیں"۔ الوینا چیخی۔ آگے بڑھ کر اس نے اس کا ہاتھ تھامنے کی کوشش کی مگر وہ نازک اندام لڑکی بھلا اس طاقتور شخص کو کہاں سنبھال پاتی، بلکہ وہ خود ہی لڑکھڑا کر کسی آبشار کی طرح اس کے سینے سے آ لگی۔

اور پوری وادی اس کی دردناک چیخوں سے گونج اٹھی تھی۔

(تین دن قبل)


غزل تا دیر اس کے ساتھ بیٹھی رہی تھی۔

اتنے دنوں بعد دونوں ملے تھے اور اتنی ساری باتیں جمع ہو گئی تھیں کے تین گھنٹے کہاں بیت گئے پتہ ہی نہ چلا۔ البتہ اس نے غزل سے پہلی بار کچھ پوشیدہ رکھا تھا اور وہ تھی قیصر خیام کی حقیقت۔ کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کے غزل اس سے متعلق کچھ بھی غلط سوچے۔ حالانکہ اس شخص نے آج تک کچھ صحیح کیا ہی کب تھا جو اس کے متعلق کوئی صحیح سوچتا بھی۔


اسے خود پہ حیرت ہوتی تھی اور غصہ بھی آتا تھا کے کیوں وہ ہر بار اس شخص کو اپنے دل سے کھیلنے دیتی تھی۔

اپنی ہی سوچیں سوچتی ہوئی وہ غائب دماغی سے راہداری میں چل رہی تھی جب اچانک سامنے سے آتے ہارون پر نگاہ پڑی تو وہ اپنی جگہ ٹھٹھکی۔


وہ بھی اسے سامنے پا کر اس کی جانب چلا آیا۔


"تم یہاں؟ تم کیا کر رہے ہو اِدھر؟"۔ منہ کے زاویے بگاڑتی وہ پوچھنے لگی۔


ہارون اس کے انداز پر مسکرا دیا۔

"وہ کیا ہے نا کے یہ میری خالہ کا گھر ہے اس لیے یہاں آنے سے قبل میں اجازت نہیں لیتا"۔ وہ تپانے والے انداز میں بولا۔


جبکہ اس کی اس بات پر الوینا کا چہرہ ایسا ہو گیا جیسے کسی نے کڑوا بادام منہ میں رکھ چھوڑا ہو اس کے۔


"ہاں، پتہ ہے مجھے کے یہ تمہاری خالہ کا گھر ہے"۔ پیر پٹختی ہوئی بولی۔


"پھر تو بد قسمتی سے ہم دونوں کزن ہوئے"۔ مایوسی چہرے پر سجائے کہا۔


"ٹھیک کہا، تمہارے جیسا کزن ہونا بھی کسی سزا سے کم نہیں"۔ وہ دانت پیس کر بولی۔


مختار صاحب کی ان پر نگاہ پڑی تو وہ لمحہ بھر کو اپنی جگہ ٹھہر سے گئے۔


جبکہ وہ دونوں زور و شورو سے کسی بحث میں الجھے ہوئے تھے۔


"تو مل لیا اپنے اس نالائق کزن سے ہماری بیٹی نے"۔ قریب پہنچنے پر انہوں نے مسکرا کر شفقت سے الوینا کے سر پر ہاتھ پھیرا۔


اس نے ایک نظر ان کی جانب دیکھا اور نگاہیں پھیر لیں۔

ہارون نے شدت سے اس کا روکھا رویہ نوٹ کیا تھا۔


"الوینا بیٹا، میرے ساتھ آؤ، تم سے کچھ باتیں کہنی ہیں"۔ اس کا رویہ نظرانداز کرتے وہ اسی محبت اور شفقت بھرے لہجے میں گویا تھے۔


"مجھے کوئی بات نہیں کرنی آپ سے"۔ بدتمیزی سے کہتی وہ آگے بڑھنے لگی تھی جب ہارون نے غصے سے اس کا راستہ روکا۔


"یہ کیا طریقہ ہے بات کرنے کا؟"۔وہ تندی سے اسے گھورتا ہوا بولا۔


"اوہ، تو اب مجھے تم سے سیکھنا پڑے گا کے اپنے بابا سے کیسے ڈیل کروں؟"۔ اس نے استہزاء سر جھٹکا۔


جبکہ مختار صاحب کا چہرہ پھر سے مسکرا اٹھا۔ جیسے بھی سہی مگر وہ انہیں کم از کم اپنا بابا تو مانتی تھی۔ یہ خیال ان کیلئے خوش آئند تھا۔


اس سے قبل کے ہارون مزید کچھ کہتا انہوں نے ٹوکا۔


"عالم، تم کچھ نہیں کہوگے میری بیٹی سے، میں خود اس سے بات کروں گا"۔ وہ زرا کرخت لہجے میں بولے۔

اپنی سائیڈ لیئے جانے پر الوینا کسی قدر ڈھیلی پڑ گئی۔


"چلیں، پھر میں چلتا ہوں۔ آل دا بیسٹ!"۔ مسکرا کر کہتا وہ اب کے سائیڈ سے ہو کر نکل گیا۔


"چلو میں اپنی گڑیا کو اس گھر کا سب سے خاص حصہ دکھاتا ہوں۔ جو میرا پسندیدہ ہے"۔ وہ محبت سے کہتے اسے اپنے ساتھ لیئے راہداری میں چلنے لگے۔


الوینا ایک لفظ بھی کہے بغیر سر جھکائے خاموشی سے ان کے ساتھ چل دی۔

☆☆☆☆☆☆


وہ اوندھے منہ بستر پر لیٹا محو خواب تھا۔

اس کا وجود جہازی سائیڈ بیڈ پر مکمل چھایا ہوا تھا۔ کھلی کھڑکی سے چھن کر آتی روشنی اس کے چہرے پر گر رہی تھی، وہ کسمسایا۔

پلکیں اٹھاتے ہی تیز روشنی نے سرمئی آنکھوں کو یک بارگی پھر سے بند ہو جانے پر مجبور کر دیا تھا۔

آنکھوں کے آگے ہاتھ کا چھجا بنا کر اس نے ایک بار پھر آنکھیں کھول لیں، اور اٹھ کر بیٹھتے ایک طویل انگڑائی لی۔ بہت دنوں بعد کل رات اس نے نشے کو ہاتھ لگایا تھا، جس کا خمار اب دردِ سر بن گیا تھا۔


"آ گیا ہوش"۔ ٹرے میں گلاس رکھے اعظم اس کے سر پر پہنچ کر گویا ہوا۔


قیصر نے سر جھٹک کر گویا وجود پر چھایا خمار کم کرنے

کی کوشش کی۔


"تمہاری غلطی ہے سب، اتنی پلا دی کل مجھے"۔ سارا الزام اس کے سر ڈال کر وہ منہ کے زاویے بگاڑتے ہوئے بولا۔


اعظم نے آنکھیں کھول کر حیرت سے اسے دیکھا۔


"واہ، الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ بلکہ تمہیں تو میرا شکریہ ادا کرنا چاہیئے کے میں نے تمہیں مزید چڑھانے سے روک لیا، ورنہ تم تو پورے دو کھمبے (بوتل) خالی کر چکے تھے"۔ گھور کر دیکھتے اس نے کہا۔


"اب لو یہ پی لو"۔ اس نے نمک اور سرکہ ملے پانی کا گلاس اس کی جانب بڑھایا۔

جسے خاموشی سے تھام کر اس نے زہرمار کرکے چار گھونٹ بنا کر اپنے اندر اتار لیا۔


"اس سے اچھا تھا تو مجھے زہر پلا دیتا"۔ گلاس سائیڈ میز پر پٹختے وہ برے برے منہ بنانے لگا۔

منہ کا ذائقہ خراب ہو چکا تھا۔


اس کی حالت پر وہ محظوظ ہوتے مسکرایا۔

"تیرا دشمن ہوتا تو یہ کام آسانی سے کر بھی لیتا"۔ کرسی پر گرتے اسکی جانب دیکھ کر وہ بولا۔


اثبات پر وہ مسکرا دیا۔


"ویسے کیا تمہیں یاد ہے قیصر کل رات تم نے کیا طے کیا تھا؟"۔ اس کا موڈ بحال ہوتے دیکھ کر اعظم نے شرارت سے کہا۔


"ایسا کیا کہا تھا میں نے؟"۔ وہ چونکا۔


اعظم جھٹکے سے سیدھا ہو بیٹھا۔

"واہ میرے یار، ایک تو تم نے اتنا بڑا فیصلہ لیا وہ بھی نشے کی حالت میں، اور تو اور اس پر تم نے میرا ساتھ بھی اپنے حق میں کر لیا اور اب یہ کہنا چاہتا ہے کے تجھے کچھ یاد نہیں؟ تمہارے اس چوبیس گھنٹے کام کرتے دماغ کو بھی کوئی بات بھول سکتی ہے یہ میری عقل شریف ہرگز بھی ماننے کو تیار نہیں"۔ وہ طنز کرنے لگا۔


"مجھے سب یاد ہے، اپنی ہر بات اور اپنا فیصلہ بھی"۔ وہ سنجیدگی سے بولا۔


"تو یعنی تم اب بھی اپنی بات پر قائم ہو؟"۔ اعظم نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا۔


قیصر نے اس کی بات پر سر کو خم دیا۔

"بالکل، میں نے اس بات کو اپنا فیصلہ بنا لیا ہے اور اب اس پر قائم رہ کر عمل کرنے کا وقت ہے"۔ فیصلہ کن لہجے میں کہا۔


"مگر تم یہ کروگے کیسے؟ کیا وہ مان جائے گی؟ کیا اس کا باپ مانے گا؟"۔ اس نے ایک ساتھ کئی سوال داغے۔


"مجھے سب کی پرواہ نہیں ہے اعظم، اور رہی بات اس کی، تو ہاں! مجھے یقین ہے کے میں اسے منا لوں گا"۔ وہ پریقین تھا۔


اعظم دل ہی دل میں اس کیلئے دعاگو ہوا۔

☆☆☆☆☆☆


وہ اسے اس کمرے میں لائے تھے جسے انہوں نے عائشہ اور اپنے بچے کی یاد میں بنایا سنوارا تھا۔

دیواروں پر جا بجا عائشہ کی چھوٹی بڑی تصویریں آویزاں تھیں۔ ہر تصویر کا رنگ الگ تھا۔ مگر ہر تصویر میں عائشہ کا حسین چہرہ چمکتا ہوا خوشی و مسرت کا امتزاج بنا تھا۔

ان میں سے بہت سی تصاویر میں وہ مختار صاحب کے ساتھ تھیں۔

لگتا تھا جیسے لمحوں میں ان دونوں نے زندگیاں جی لیں تھی ایک دوسرے کے سنگ۔


ہر ہر تصویر کے پاس جا کر وہ اسے چھو کر دیکھتی، اور اسے ایسا لگتا جیسے عائشہ اس کے سامنے زندہ سلامت کھڑی ہیں۔

ان تصاویر کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے اس کی بصارت دھندلانے لگی تھی۔

اور محسوس بھی نہ ہوا کے کب آنسو پلکوں کی باڑ پھلانگ کر رخسار پر پھسلنے لگے تھے۔


مختار صاحب دروازے کے پاس کھڑے پرملال چہرے کے ساتھ اس کے بھیگے چہرے کو دیکھ رہے تھے۔

آج انہیں عائشہ کی کمی بےحد کھل رہی تھی۔

سست روی سے چلتے وہ کمرے میں داخل ہوئے تھے۔


"مجھے معاف کردو بیٹا، ناجانے وہ کونسی بھول ہو گئی تھی مجھ سے کے جس کی قدرت نے مجھے اتنی بڑی سزا دی۔ اتنے سال تم سے اور عائشہ سے دور رکھ کر مجھے آزمائش میں مبتلا کیئے رکھا۔ آج جب تم اتنے سالوں بعد مجھے ملی بھی ہو تو تمہارے دل میں میرے لیئے شدید ناراضگی ہے"۔ وہ افسردگی سے گویا ہوئے۔


رخ موڑ کر الوینا نے ان کی جانب دیکھا۔


"آج تک میں بھی یہی سمجھتی تھی کے قصوروار آپ ہیں، غلطی آپ کی ہے، آپ نے اپنی اولاد کو بے سائباں کرکے زمانے کے سرد و گرم سہنے کیلئے تنہا چھوڑ دیا ہے۔ مگر اب لگتا ہے جیسے یہ سب میری جذباتیت میں سوچی گئی باتیں تھیں۔ میرا ذہن مزید الجھ گیا ہے، یہ سوچ سوچ کر دماغ شل ہو جاتا ہے کے آخر قصوروار کون تھا؟ آپ؟ امی؟ یا اس وقت کے حالات؟"۔ گلے میں آنسوؤں کا گولہ سا اٹک گیا تھا۔

جسے اس نے اندر دھکیل دیا۔


وہ جو خاموشی سے اس کی جانب دیکھتے، اسے سن رہے تھے۔ ٹھنڈی سانس بھرتے گویا ہوئے۔


"مجھے بتاؤ میں کیا کروں ایسا کے تمہاری ناراضگی دور ہو جائے میری بچی؟ تم نہیں جانتی کے تمہاری یہ غلط فہمی اور ناراضگی میرے لیئے کتنی تکلیف اور اذیت کا باعث ہے۔ ایک باپ پر کیا بیتتی ہے جب اس کی ہی اولاد اس سے نفرت کا اظہار کرے، یہ کوئی مجھ سے پوچھے"۔ وہ دکھی دل سے کہتے چلے گئے۔


الوینا سر جھکائے بے بسی سے لب بھینچ گئی۔

اسے خاموش پا کر انہیں تکلیف پہنچی۔


"کیا تم اپنے باپ کو معاف نہیں کر سکتی بیٹے؟ کیا میں اتنا برا ہوں کے مجھے معافی بھی نہ مل سکے؟"۔ ان کا لہجہ ملتجی ہوا۔


سر اٹھا کر اس نے ان کی جانب دیکھا۔


"اپنے آپ سے پوچھو بیٹا، ایک بار کھلے دل سے اور ٹھنڈے دماغ سے غور کرو اور مجھے بتاؤ کے میرا قصور کتنا اور کہاں تک تھا؟ تاکہ میں تم سے معافی تو مانگ سکوں"۔ وہ بے بسی سے بولے۔

ان کی آنکھیں پانی سے چمک اٹھیں۔ جنہیں چھپانے کی غرض سے وہ چہرہ پھیر گئے۔


ان کی بات پر اس کا دل پسیج گیا۔

اسے لگا تھا جیسے اتنے سالوں بعد آج اس کی آنکھوں سے دھول ہٹی تھی اور مطلع صاف ہوا تھا۔ ہر منظر شفاف ہوا تھا۔

اسے سامنے کھڑی وہ شخصیت جو اس کا باپ تھا، اس پل قابل رحم لگے تھے اسے۔ ایمانداری سے تجزیہ کیا جاتا تو بھلا قصور ان کا کہاں تھا؟


اگلے ہی پل وہ چھوٹی بچی کی مانند دوڑتی ہوئی ان تک آئی تھی اور ان کے سینے سے لگ کے بچوں کی طرح رو دی۔

مختار صاحب نے خوشگوار حیرت میں گھر کر اسے دیکھا۔ ان کے آنسو گرتے الوینا کے شہد رنگ بالوں میں جذب ہونے لگے۔


"آئم سوری بابا، میں نے بہت غلط رویہ رکھا آپ سے، مجھے معاف کردیں پلیز، اپنی جذباتیت میں آ کر میں نے آپ کا دل دکھایا"۔ ہچکیوں سے روتی وہ کہتی جا رہی تھی۔

مختار صاحب شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے اپنی آنکھیں رگڑنے لگے۔


"نہیں میرا بیٹا، قصوروار تو میں ہوں جس کے ہوتے ہوئے بھی تم تنہا دنیا سے لڑتی رہی۔ یہ میری کم نصیبی ہے کے تمہاری پرورش بھی میرے ہاتھوں نہ ہو سکی۔ جب جب تمہیں میری ضرورت پڑی میں وہاں نہ تھا"۔ وہ جنہوں نے ایک عمر مجرموں سے اعتراف جرم کرواتے گزار دی تھی۔ آج وہ خود مجرم بنے کٹہرے میں موجود اپنے جرم کا اعتراف کرتے الوینا کو بےگناہ ہی لگے تھے۔


دروازے سے اندر آتی فائزہ نے خوشگواریت سے یہ منظر دیکھا تھا اور بے اختیار الٹے قدموں پلٹتی اپنے رب کا شکر بجا لانے کیلئے نوافل پڑھنے چلی گئیں۔

الوینا کا رویہ دیکھ کر ان کا دل اندر ہی اندر سہم گیا تھا اور انہوں نے شدت سے اس کا دل ان سب کی طرف سے صاف ہو جانے کی فریاد اپنے رب کی بارگاہ میں کی۔ خلوص نیت اور پاک دل سے نکلی دعاؤں نے عرش الٰہی تک کا سفر بہت جلد طے کیا تھا۔

جس پر اس پاک پروردگار نے قبولیت کی مہر ثبت کردی تھی۔

☆☆☆☆☆☆


پچھلے کئی دنوں کے حادثات کے بعد اب جا کر زندگی اپنے معمول پر آنے لگی تھی۔ بلکہ معمول سے ہٹ کر خوشگوار لگنے لگی تھی۔

بہت دنوں بعد آج وہ یونیورسٹی گئی تھی اور اسے دیکھ کر غزل اور احمد کی خوشی کا کوئی ثانی نہ تھا۔ طویل غیر حاضری کی وجہ سے کام بھی اتنا ہی بڑھ گیا تھا۔ مگر غزل اس کیلئے پیش پیش تھی۔


دوسری جانب فائزہ اور مختار صاحب نے بھی اسے ہتھیلی کا چھالہ بنا لیا تھا۔

کبھی وہ کہیں اسے اپنے ساتھ گھومنے لے جا رہے ہوتے، تو کبھی فائزہ اسے شاپنگ لے جا رہی ہوتیں یا نت نئے ڈشز بنا بنا کر اس کے سامنے پیش کر رہی ہوتیں۔

بلاشبہ وہ گھرداری میں بھی اتنی ہی مہارت رکھتی تھیں جتنی کے وہ اپنے پیشے میں۔


کتنی شرمندہ ہوئی تھی وہ فائزہ کو یہ بتاتے ہوئے کے اسے کھانا بنانا تو درکنار ایک انڈہ ابالنا بھی نہ آتا تھا۔

اس کی بات سن کر وہ بے ساختہ مسکرا دی تھیں اور یہ کہہ کر اسے تسلی دی کے وہ اگر چاہے تو ان سے ٹریننگ لے سکتی۔ ان کی اس آفر کو الوینا نے خوشی خوشی قبول کر لیا تھا۔

اسے فائزہ کی خلوص اور محبت حیران کر دیتی تھیں۔

ورنہ قصے کہانیوں میں تو اس نے ہمیشہ یہی سنا اور پڑھا تھا کے سوتیلی ماں کسی چڑیل یا بدروح سے کم نہیں ہوتی۔


مختار صاحب کو معاف کردینے، اور فائزہ کو قبول کرلینے کا اپنا فیصلہ اسے ہرگز بھی غلط نہ لگ رہا تھا۔ وہ اب اپنے فیصلے پر سرشار تھی۔ جس نے وقاص جیسے شخص کو بڑا دل رکھ کر اس کی حرکت پر معاف کرکے درگزر کیا تھا، مختار صاحب تو پھر بھی اس کے باپ تھے۔ تو وہ بھلا کب تک اپنا دل ان کیلئے غبار آلود رکھ سکتی تھی۔


بیڈ پر بیٹھی، اپنے ارد گرد کتابیں پھیلائے وہ اپنا اسائمنٹ بنانے میں منہمک تھی جب دروازے پر دستک دے کر مختار صاحب اندر چلے آئے۔

الوینا نے نگاہیں اٹھا کر دیکھا تو انہیں سامنے پا کر مسکرا دی۔


"بابا آپ، کوئی کام تھا کیا؟ مجھے بلوا لیتے آپ"۔ وہ شرمندہ سی ہوئی۔


وہ مسکراتے ہوئے بیڈ پر جگہ بناتے ٹک گئے۔


"کیوں بھئی، ہم نہیں آ سکتے اپنے بچے کے پاس"۔ وہ نرمی سے بولے۔


"آف کورس بابا، کیوں نہیں"۔ وہ اٹھ کر لاڈ سے ان کے شانے سے لگ گئی۔

مختار صاحب کے دل میں ڈھیروں اطمینان اتر آیا۔

انہیں یقین نہ آتا تھا کے ان کی بیٹی آخر کار انہیں مل گئی ہے۔


"ایک سوال پوچھنے آیا تھا، ویسے تو میں نے فائزہ سے کہا تھا کے وہ تم سے پوچھے مگر اس نے کہا کے مجھے ہی بات کرنی چاہیے"۔ انہوں نے تمہید باندھی۔


ان سے الگ ہوتی الوینا نے سوالیہ نگاہوں سے انہیں دیکھا۔

"کس بارے میں؟"۔ وہ پوچھنے لگی۔


"ہارون تمہیں کیسا لگتا ہے؟"۔ وہ عام سے انداز میں پوچھ بیٹھے۔


"ایک نمبر کا بدتمیز، کھڑوس اور بد دماغ"۔ وہ تنک کر بولی۔


"وہ اتنا برا نہیں ہے بیٹا، بہت نیک اور ہونہار لڑکا ہے۔ اور مجھے لگتا ہے وہ تمہارے ساتھ اچھا لگے گا"۔ انہوں نے بالآخر کہہ دیا۔


پہلے تو وہ ان کی بات کا مطلب نہ سمجھ سکی اور جب سمجھی تو دل زور سے دھڑک کے ساکت ہوا۔

"مگر بابا۔۔۔میں نے تو اسے کبھی۔۔۔اس نظریے سے نہیں سوچا"۔ بمشکل اپنے لہجے کو نارمل کرتی وہ پھیکا سا مسکرائی۔


"تو اب سوچ لو بچے، وہ تمہارے لیئے ایک بہترین ساتھی ثابت ہوگا۔ اور اچھا ہی ہے نا کے وہ گھر کا بچہ ہے، تمہیں اگر کچھ کہا بھی تو میں اور فائزہ ہیں نا اس کے کان کھینچنے کیلئے"۔ وہ ہلکے پھلکے انداز میں بولے۔


وہ سر جھکائے بے چینی سے لب کاٹنے لگی۔

کئی لمحے خاموشی کی نظر ہوئے تب انہوں نے پھر اسے مخاطب کیا۔


"تو تمہارا کیا فیصلہ ہے؟"۔ انہوں نے اب براہ راست پوچھا۔


دوسری جانب اس کے ذہن و دل میں ایک ہی شخص کا عکس جھلملا رہا تھا۔ اجب بے بسی سی تھی۔

اگر ان کی جگہ فائزہ ہوتیں تو شاید وہ اپنے دل کی بات انہیں کہہ بھی دیتی۔ مگر اکیسویں صدی کی لڑکی ہونے کے باوجود بھی وہ خود میں اتنی ہمت نہ پا رہی تھی کے اپنے باپ سے براہ راست اپنی پسند، اپنے دل کا حال بیان کرتی۔


"بابا میں۔۔۔ابھی ان سب جھنجھٹوں میں نہیں پڑنا چاہتی۔ ابھی تو میری پڑھائی بھی نامکمل ہے"۔ اس نے جواز تراشا۔


"تو ہم ابھی سے تھوڑی نا اپنے بچے کو رخصت کر رہے۔ بس ایک چھوٹی سی تقریب میں منگنی کی رسم پوری کی جائے گی۔ پھر رخصتی وغیرہ تمہاری پڑھائی پوری ہونے کے بعد ہی کی جائے گی"۔ انہوں نے حل پیش کرتے ہوئے گویا ہر راستہ بند کر دیا۔


وہ خاموشی سے انگلیاں چٹخاتی رہی۔


"کیا ہو گیا ہے الوینا تمہیں؟ کیوں اس شخص کے پیچھے جا کر اپنی زندگی کو اندھیروں کے حوالے کر دینا چاہتی ہو؟ وہ اگر تمہاری پرواہ کرتا، اسے اگر تم سے محبت ہوتی تو وہ کبھی بھی تمہیں یوں چھوڑ کر نہ جاتا۔ اس نے تو کوئی محبت بھرے وعدے نہیں کیئے، کسی امید کی ڈور نہیں تھمائی پھر تم کیوں اس کا انتظار کرنا چاہتی ہو؟ یہ انتظار لاحاصل رہے گا تمہارے لیئے، اور تم سے جڑے اپنوں کیلئے بھی ایک سوائے دکھ اور اذیت کے کچھ نہیں لائے گا۔ اپنی ساری محبتوں کو کیوں تم اس ایک محبت کیلئے داؤ پر لگا دینا چاہتی ہو؟ وہ تم سے محبت نہیں کرتا ہے۔

یک طرفہ محبت کے پیچھے لگ کر تمہارا دل تو دکھی ہوگا ہی مگر جو تم سے جڑے رشتے ہیں ان کا بھی مان ٹوٹ جائے گا"۔ دماغ اسے دلائل دے رہا تھا۔

جبکہ دل خاموش تھا۔ دل ڈوب رہا تھا۔


بالآخر اس نے ایک فیصلہ کیا اور سر اٹھا کر اپنے جواب کے منتظر مختار صاحب کی جانب دیکھا۔

دل کو اپنے پاؤں تلے روند کر آنسو پیتی وہ جبری مسکراہٹ سجا کر بولی۔


"جی بابا، جو آپ بہتر سمجھیں"۔ غائب دماغی سے جواب دیا۔

دل ڈوب چکا تھا۔


پھر جانے وہ مزید کیا بولے، انہوں نے اس کے بالوں پر بوسہ ثبت کیا اور مزید ناجانے کیا کچھ کہتے رہے الوینا کو کچھ سنائی نہ دیا تھا۔

اس کا وجود سن ہو گیا تھا۔ وقتی طور پر جیسے سب کچھ رک گیا تھا۔

مختار صاحب کب کے اٹھ کر جا چکے تھے مگر اسے پتھر بنا گئے تھے۔

☆☆☆☆☆☆


کل کا دن منگنی کیلئے رکھا گیا تھا۔

اتنے شارٹ نوٹس پر چند قریبی دوستوں اور عزیزوں کو ہی دعوت دی گئی تھی۔

ہارون کا اسرار تھا کے سب کچھ سادگی سے ہو جائے۔

مختار صاحب نے بھی اس کی بات رکھ لی۔ ان کیلئے یہی بہت تھا کے وہ دونوں اس رشتے کیلئے رضامندی دے چکے تھے۔ قیصر خیام نامی اس بلا سے الوینا کا پیچھا چھوٹ جائے انہیں اور کیا چاہیئے تھا۔


گھر میں منگنی کی تیاریاں زور و شورو سے جاری تھی مگر اس سب سے بے نیاز وہ سارا دن اپنے کمرے میں بند رہی۔ فائزہ نے کئی بار بلانے کی کوشش کی مگر وہ انہیں ہر بار ٹال جاتی۔

تکیے میں منہ چھپائے وہ اپنے دل کا درد بہا رہی تھی جب موبائل کی رنگ ٹون مخل ہوئی۔

بے زاریت سے اس نے سر اٹھایا۔

شدت گریہ سے روشن آنکھوں میں سرخ ڈورے پڑ گئے تھے۔

چھوٹی سی ناک اور رخسار سرخی مائل ہو رہے تھے۔


لب بھینچے اس نے موبائل اسکرین پر وہ نام جگمگاتے دیکھا، دو آنسو ٹوٹ کر اس نام پر گرے تھے۔ دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس نے کال اٹھا لی۔


"یہ میں کیا سن رہا ہوں؟ تم منگنی کر ر ہی ہو؟ کس سے؟"۔ چھوٹتے ہی اس نے دو تین سوال ایک ہی سانس میں کیے۔


"تمہیں کس نے بتایا؟"۔ وہ چونکی۔


"تم جانتی ہو یہ میرے لیئے کوئی مشکل کام نہیں۔ میں تمہاری سب خبریں رکھتا ہوں"۔ وہ گمبھیر لہجے میں کہنے لگا۔


الوینا کچھ نہ بولی۔


"اب جواب دو کے تم کیوں کر رہی ہو اس شخص سے منگنی؟"۔ آواز میں غراہٹ نمایاں ہوئی۔


"یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے، کال کیوں کیا یہ بتاؤ؟"۔ سوں سوں کرتی اپنے گال رگڑتے اس نے روکھے لہجے میں کہا۔


دوسری جانب چند پل کیلئے خاموشی چھا گئی۔

پھر اچانک وہ گویا ہوا۔


"تم رو رہی تھی؟"۔ سوال نظرانداز کرتے اب کی بار اس کے لہجے میں تشویش ابھری۔


اس سوال پر اس کے آنسوؤں میں مزید روانی آ گئی۔


"نن۔۔۔نہیں تو، میں کیوں رونے لگی"۔ لہجے کو نارمل بنا کر اس نے جلدی سے جواب دیا۔


"میں تم سے ملنا چاہتا ہوں ابھی اور اسی وقت۔ تم فوراً پہاڑی کے پیچھے سوسائیڈ پوائنٹ پہ آ جاؤ۔ فوراً"۔ اس نے اپنی بات پر زور دیا۔


جبکہ سوسائیڈ پوائنٹ سنتے ہی اس کے وجود میں سنسنی پھیل گئی۔


"میں نہیں آ سکتی"۔ دوٹوک جواب دیا۔


"تمہیں آنا ہی ہے الوینا، تم ضرور آؤ گی۔ منتظر ہوں میں"۔ اپنی ہی بات کہہ کر اس نے رابطہ قطع کیا۔


الوینا نے بے بسی سے فون پرے پھینکتے بال مٹھی میں جکڑ لیئے۔

اضطراب ہی اضطراب تھا۔

☆☆☆☆☆☆

(تین دن بعد)

اس سے قبل کے الوینا اس کا ہاتھ تھامتی، وہ خود ہی اپنے پورے وجود سمیت اس کی طرف آ رہی۔

اس کی دردناک چیخیں وادی میں گونج بن رہیں تھیں۔

ساڑھے نو ہزار فٹ کی اونچائی سے وہ دونوں گرتے ہی چلے جا رہے تھے۔

ہوا اتنی تیز چل رہی تھی کے الوینا کیلئے پلکیں کھولنا بھی محال تھا۔

وہ قیصر کے گریبان سے مضبوطی کے ساتھ چمٹی ہوئی تھی۔

اور زور زور سے چیخ رہی تھی۔

وہ تیزی سے نیچے جا رہے تھے۔

قیصر نے ہاتھوں کو حرکت دے کر اپنا جیکٹ ہوا کے سپرد کیا اور پشت پر ٹنگے بیگ کے سائیڈ میں موجود نیلے رنگ کا بٹن دبا دیا۔

ایک جھٹکا لگا تھا اور پشت پر ٹنگا پیراشوٹ کھل کر انہیں اب نیچے کے بجائے اوپر اڑائے لے جا رہا تھا۔

سب کچھ سیکنڈز کا کھیل تھا۔

"اب چیخنا بند کرو مری نہیں ہو تم، حالانکہ مارنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی تم نے"۔ وہ اونچی آواز میں اس کے کان کے قریب بولا۔

الوینا ٹھٹھک گئی۔

مگر آنکھیں کھولنا دوبھر تھا۔

"تم۔۔۔دھوکے باز، ذلیل شخص تم نے موت کا جھوٹا کھیل کھیلا؟ تمہاری اس بےہودہ حرکت سے میری دھڑکن بھی رک سکتی تھی"۔ چیخ چلا کر کہتے اس نے ایک زوردار مکا اس کے مضبوط شانے پر جڑ دیا۔

قیصر کے لبوں پر مسکراہٹ بکھرگئی۔

"تمہاری دھڑکنیں مجھ سے جڑیں ہیں، اور مجھ سے جڑی چیزیں بند ہونے سے پہلے بھی مجھ سے اجازت طلب کرتی ہیں قلبِ قیصر"۔ اس کے گرد حفاظتی حصار کھینچتے وہ گویا ہوا۔

جبکہ الوینا کی سماعتیں بس دو ہی حرف دہرا رہی تھیں۔

"قلبِ قیصر"۔

رنگ برنگی غبارہ انہیں لیئے نارنجی پڑتے افق پر اڑ رہا تھا۔

پانچ گھنٹے ہو گئے تھے مگر الوینا کا کہیں کچھ پتہ نہیں تھا۔ اس کا موبائل بھی کمرے میں ہی پڑا تھا۔ فائزہ اسے ہر جگہ تلاش کر چکی تھیں مگر وہ یوں بتائے بغیر جانے کہاں چلی گئی تھی۔

بالآخر انہوں نے مختار صاحب کو بتانے کا فیصلہ کیا۔

وہ جو تھکے ہارے ابھی ابھی گھر لوٹے تھے اس اطلاع پر ان کی پریشانی قابلِ دید تھی۔

ہارون کو اطلاع کرتے انہوں نے فوراً اسے طلب کیا تھا۔ اطلاع ملتے ہی بیس منٹ کے مختصر سے عرصے میں وہ گویا اُڑ کر ان کے پاس پہنچا تھا۔


"ایسے بنا بتائے کہاں جا سکتی ہے وہ؟"۔ وہ تشویش سے بولا۔


"ہارون تم اس کی دوست غزل سے رابطہ کرو شاید اسے کچھ پتہ ہو"۔ فائزہ نے نیا نقطہ اٹھایا۔

لب بھینچ کر ہارون نے اثبات میں سر ہلایا اور موبائل اسکرین پر جھکتے اسے کال ملانے لگا۔


مختار صاحب پریشانی کے عالم میں اِدھر سے اُدھر ٹہل رہے تھے۔


"مجھے پورا یقین ہے کے یہ اس خیام کی کارستانی ہے"۔ وہ کرخت لہجے میں بولے۔ چہرے پر برہمی کے تاثرات تھے۔


"آخر کیوں یہ ہماری بچی کے پیچھے کالے سائے کی طرح پڑا ہے۔ آپ سب جانتے ہوئے بھی اسے گرفتار کیوں نہیں کرتے؟"۔ فائزہ نے آنکھیں صاف کرتے زچ ہو کر کہا۔


وہ صوفے پر گرنے کے سے انداز میں بیٹھ گئے۔


"مجبوری ہے بیگم، ہاتھ بندھے ہوئے ہیں میرے اور اب اگلے ایک ماہ تک میرا عہدہ بھی میرے پاس نہیں ہے جس کے بل بوتے پر میں اس کے خلاف کوئی کارروائی کر سکوں"۔ وہ سخت بے بس نظر آتے تھے۔ دگرگوں کی کیفیت تھی ان کی۔


فائزہ نے آہ بھری۔ بولیں کچھ نہیں۔


ہارون موبائل جینز پاکٹ میں ڈالتے ان تک آیا۔


"اس کی دوست کو بھی کچھ نہیں پتہ کے وہ کہاں ہے"۔ مایوسی بھرے لہجے میں دونوں نفوس کو اطلاع دی۔

جس پر ان کی فکر مزید بڑھی۔


"ہو نہ ہو یہ سب اس کا ہی کیا دھرا ہے۔ عالم تم قیصر کو ٹریس کرنے کی کوشش کرو الوینا اسی کے پاس ہوگی"۔ مختار انصاری نے پریقین لہجے میں کہا۔

ان کی بات سن کر ہارون نے سرخ پڑتے چہرے کے ساتھ سختی سے مٹھیاں بھینچ لیں۔


"اگر واقعی ایسا ہوا تو آج یہ اس کا آخری دن ہوگا"۔ وہ پھنکار کر کہتے لمبے لمبے ڈگ بھرتا گھر سے نکل گیا۔


جو بھی ہو الوینا اس گھر کی عزت تھی اور اس کی ہونے والی بیوی۔ اور قیصر خیام نے اس بار اس کی غیرت کو للکارا تھا، جس سے اس کی رگ رگ میں شرارے دوڑنے لگے تھے۔


مختار اور فائزہ اپنی اپنی جگہ پریشان رہے۔

☆☆☆☆☆☆


"افف اتنی مشکل سے تو ملی تھی اب پھر سے یہ لڑکی غائب ہو گئی"۔ غزل کو جیسے ہی اطلاع ملی تھی فکر کے ساتھ ساتھ اسے الوینا کی لاپرواہی پر شدید غصہ بھی آ رہا تھا۔


ہارون کی کال بند ہونے کے پانچ منٹ بعد ہی اس کے موبائل پر انجان نمبر سے کال آنے لگی۔

تجسس زدہ سی ہو کر اس نے کال پک کر لی۔


"غزل میں بول رہی ہوں، الوینا"۔ چھوٹتے ہی یہ جملہ اس کی سماعتوں سے ٹکرایا۔

اس کی آواز سنتے ہی وہ اپنی جگہ سے اچھل پڑی۔


"الوینا تم؟ کہاں ہو تم؟ ایسے بنا بتائے تم گھر سے غائب ہو گئی؟ پتہ بھی ہے تمہارے گھر والے کتنے پریشان ہیں تمہارے لیئے؟ ابھی ابھی تمہارے کزن کا فون آیا تھا وہ مجھ سے پوچھ رہا تھا تمہارے متعلق مجھے کچھ پتہ ہوتا تو ہی اسے بتاتی۔ آخر تم ہو کہاں؟ اور یہ نمبر کس کا ہے؟"۔ وہ بد حواس سی ایک ہی سانس میں بولتی چلی گئی۔


اس کے خاموش ہوتے ہی وہ بولی۔


"میں تمہیں سب فون پر نہیں بتا سکتی تم ابھی کوئی سوال نہ کرو اور بس مجھ سے ملنے آ جاؤ۔ کب کہاں؟ یہ سب میں تمہیں ٹیکسٹ کر دوں گی"۔ اس نے جواب دیا۔


"اچھا لیکن تم ٹھیک تو ہو نا؟"۔ غزل کی پریشانی کسی حد تک کم ہوئی۔ مگر پھر بھی تصدیق کرنے لگی۔


"ہاں میں بالکل ٹھیک ہوں۔ تم بس میرے گھر میں سے کسی کو بھی بتانا مت کے میں نے تمہیں کال کرکے ملنے بلایا ہے"۔ وہ رازداری سے بولی۔


"لیکن کیوں؟"۔ وہ الجھ گئی۔


"یہ سب میں تمہیں مل کر بتاؤں گی۔ اوکے اللہ حافظ"۔ اتنا کہہ کر اس نے رابطہ قطع کر دیا۔


اور دو منٹ بعد ہی اس کا میسج موصول ہوا۔ اسکرین کو گھورتی وہ سوچ میں پڑ گئی کے آخر کیا بات ہو سکتی ہے؟

☆☆☆☆☆☆


عدالت میں آج علی مرزا کی پہلی پیشی تھی۔ جس کے تحت انہیں پندرہ روزہ جسمانی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا تھا۔ اور سماعت اگلے بیس دنوں تک کیلئے ملتوی کردی گئی تھی۔


ولید کے خلاف پولیس کے پاس پکے شواہد موجود تھے جن کی پناہ پر اسے ایک دہشتگرد قرار دے کر سزائے موت سنا دی گئی تھی۔ اور اگلے ایک ہفتے کے اندر اندر اسے پھانسی دی جانی تھی۔


وقت بھی کیسے کیسے کھیل کھیلتا ہے۔

راجہ کو گدا اور فقیر کو بادشاہ بنا دیتا ہے۔


کل تک جو حرام کی کمائی سے بنے محل میں عیش و عشرت بھری زندگی جی رہے تھے۔ جن کے شاندار بنگلے میں جا بجا اے-سی اور فانوس لگے تھے۔ آج وہ ایک اندھیری کال کوٹھڑی کی نظر کر دیئے گئے تھے تو یہ ان کے اپنے ہی کاموں کا پھل ملا تھا انہیں۔


سیمنٹ کے فرش پر وہ پتھریلی دیوار کے ساتھ کمر ٹکائے اور سر جھکائے بیٹھے تھے۔

چھوٹا سا واحد روزن تھا جو بہت بلندی سے ہلکی ہلکی روشنی پھینک رہا تھا۔

سورج ڈھل چکا تھا۔ مگر اس کال کوٹھڑی میں بیٹھے بیٹھے وقت کا تعین کرنا بہت کٹھن تھا۔


عدالت سے ان کی ضمانت کیلئے کی گئی استدعا بھی مسترد کر دی گئی تھی۔ میڈیا کے ذریعے جو پورے ملک میں بدنامی ہوئی وہ الگ۔


قدموں کی آہٹ پر انہوں نے چونک کر سر اٹھایا۔


سیاہ جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے، آدھے سے زیادہ چہرے کو ہڈی میں چھپائے وہ پورے قد سے ان کی نگاہوں کے سامنے سلاخوں کے اس پار کھڑا تھا۔


ان کو متوجہ پا کر اس نے ہڈی پشت پر گرا دی۔ جس سے اب سپاٹ چہرہ واضح ہوا۔

اگلے ہی پل سامنے کھڑی شخصیت کو دیکھ کر ان کی رگوں میں شرارے دوڑنے لگے۔


"کیسے ہو، اس وقت یہ پوچھنا تمسخر اڑانے کے مترادف ہی ہوگا"۔ پراسرار مسکراہٹ کے ساتھ اس نے رازداری سے کہا۔

مگر مرزا تک اس کی آواز بخوبی پہنچ چکی تھی۔


وہ بپھر کر اس کے سامنے آئے۔


"اب کیا لینے آئے ہو تم یہاں؟ برباد تو کر دیا مجھے"۔ بے بسی بھرے غصے سے وہ چیخے۔


"ششش، آواز دھیمی رکھو اپنی ورنہ ایسا نہ ہو کے تمہیں پھانسی یا عمر قید ملنے سے قبل، کل کی شہ سرخیوں میں یہ خبر آ جائے کے علی مرزا نے قید سے دلبرداشتہ ہو کر خود کشی کر لی"۔ وہ سفاکی سے بولا۔


اس کے انداز پر علی مرزا کا دل یک بارگی کانپ گیا۔


"تم۔۔۔مجھے دھمکی دے رہے ہو؟"۔ اپنا خوف دبا کر وہ غرائے۔


قیصر کے لبوں کو طنزیہ مسکراہٹ چھو گئی۔


"ہرگز نہیں مرزا صاحب، آپ اچھی طرح جانتے ہیں کے میں وہ شخص نہیں ہوں جو محض کوری دھمکیاں دیتا ہے"۔ اس کی آواز دھیمی تھی۔ لہجہ سرد تھا۔


ان کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ ہوئی۔

مگر وہ کسی طرح اپنا خوف اس کے سامنے نہیں رکھنا چاہتے تھے۔


"پولیس اسٹیشن میں تم نے کوئی ایسی حرکت کی تو بچ نہیں سکو گے تم بھی۔ بہرحال تمہارا بھی آخری ٹھکانہ یہی قید ہوگا یہ بات یاد رکھنا"۔ ان کے لہجہ بہت کچھ جتاتا ہوا تھا۔


مگر مقابل بھی قیصر خیام تھا۔

تلخی سے ہنس دیا۔


"کون ہوں میں؟"۔ وہ اچانک پوچھنے لگا۔

علی نے ایک ابرو اٹھا کر ناگواری سے دیکھا۔


وہ ایک قدم سلاخوں کے قریب ہوا اور سرگوشی میں گویا ہوا۔


"میں ایک عام سا پروفیسر ہوں جس کا پولیس میں کوئی کرمنل ریکارڈ نہیں ہے۔ جس کے خلاف قانون کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ایک پاک دامن اور بے گناہ شخص جس کا نام تبریز شاہ ہے۔ اور اس شخص کی تصدیق ایم-کے یونیورسٹی کے پرنسپل اور اس کے شاگردوں نے کی ہے"۔ بے حد ٹھہرے ہوئے لہجے میں ایک ایک بات پر زور دیا۔


علی کی تیوری چڑھ گئی۔ انہوں نے سلاخوں پر گرفت مضبوط کی۔

"بہت اچھا کھیل کھیلا ہے تم نے، لیکن یاد رکھنا میں بھی اپنے نام کا ایک ہوں۔ تم وار کر چکے اور اب میری باری کا انتظار کرنا"۔ خباثت سے مسکراتے ہوئے ان کی آنکھوں میں اجیب سی شیطانی چمک تھی۔


مگر مقابل اس کی بات کو خاطر میں ہی نہ لایا۔


"تمہاری شہ سرخیاں انٹرنیشنل لیول پر چلائی جا رہی ہیں۔ لوگ تمہیں دہشتگرد قرار دے رہے ہیں۔ اور تو اور تمہارے ساتھی بھی ایک ایک کرکے تمہیں تنہا کر چکے ہیں، ہر طرف سے تم پر میں نے گھیرا تنگ کر دیا ہے مرزا اب بس انتظار کرو اس وقت کا جب تمہارے گلے میں پھندا ہوگا۔ فلحال تم اپنی سزا کا انتظار کرو اور حوالات میں بیٹھ کر سلاخیں گنو"۔ بات مکمل کرکے اس نے ہڈی واپس چہرے پر گرالی اور جانے کیلئے مڑ گیا۔


"میں اتنی آسانی سے تمہیں بخشنے والا نہیں ہوں۔ میری بربادی کا حساب میں تمہارے خون کے ایک ایک قطرے کو بہا کر تم سے لوں گا۔۔۔یاد رکھنا میری بات"۔ ہذیانی انداز میں چیختے ہوئے انہوں نے زور سے سلاخوں پر ہاتھ مارا۔


جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ ہڈی والا شخص ان کی باتوں کو نظرانداز کرتے مسلسل ان سے دور ہوتے بالآخر نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

☆☆☆☆☆☆


"تو تم اس ڈی-ایس-پی سے منگنی کررہی ہو؟"۔ غزل نے تصدیق چاہی۔

دل میں اجیب سی بے چینی ہوئی تھی، یہ خبر سن کر۔


وہ دونوں اس وقت ایک درمیانے درجے کے ریسٹورنٹ میں شیشے سے بنی دیوار کے پاس والی میز پر بیٹھے تھے۔

ان کو آئے ابھی پانچ منٹ کا عرصہ بھی نہ ہوا تھا کے الوینا نے یہ خبر دے کر اس کے سر پہ بم پھوڑا۔


"نہیں نا، اگر مجھے اس سے منگنی کرنی ہوتی تو میں تمہیں یہاں بلانے کے بجائے اپنے گھر چلی جاتی"۔ وہ کوفت زدہ ہو گئی۔


غزل اس کی بات پر حیران رہ گئی۔

"الوینا تم جانتی بھی ہو کے تم کیا کہہ رہی ہو؟ تم گھر چھوڑ آئی منگنی سے ایک دن پہلے؟ تمہارے پیرنٹس کی کتنی بدنامی ہوگی"۔ اس کا دل اس خبر پر راضی نہ تھا مگر وہ پھر بھی اس کے غلط قدم پر اسے ملامت کرنے لگی۔


"تو تم کیا چاہتی ہو کے میں یہ منگنی کر لوں جا کر؟"۔ وہ تپ گئی۔


ایک پل کیلئے وہ خاموش سی ہوگئی۔ پھر گویا ہوئی۔


"ہاں، تمہارے پیرنٹس نے کچھ سوچ کر ہی یہ فیصلہ لیا ہوگا۔ تمہیں ان کے فیصلے کا احترام کرنا چاہیے"۔ وہ ہموار لہجے میں کہتی اب باقاعدہ سمجھانے لگی۔


"نہیں میں یہ نہیں کر سکتی غزل، دل میں کسی اور کا عکس بسا کر زندگی میں کسی اور کا وجود شامل کرنا۔ یہ مجھ سے نہیں ہوگا"۔ وہ روہانسی ہو گئی۔


"میں جانتی ہوں تم اب بھی اس پروفیسر کی سوچوں سے نہیں نکل پا رہی۔ لیکن الوینا وہ جا چکا ہے۔ تمہارے غائب ہونے کے اگلے ہی دن سے وہ یونیورسٹی نہیں آیا اب نہ اس کا کوئی پتہ ٹھکانہ ہے نا کچھ پھر تم کیسے اس سے امید وابستہ کر سکتی ہو؟"۔ غزل نے اپنے طور پر اندازہ لگاتے اسے اندھے کنوئیں میں چھلانگ لگانے سے روکا۔


الوینا نے گہری سانس خارج کی۔ اب وقت آ گیا تھا کے اسے سب کچھ بتا دیا جاتا۔


"وہ پروفیسر نہیں ہیں۔ دراصل ہوا یوں کے۔۔۔"۔ اور پھر وہ اسے سب کچھ بتاتی چلی گئی۔ پولیس اسٹیشن سے اغواء ہو جانا، قیصر کا سامنے آنا، اس کی حقیقت سب کچھ۔


مکمل بات سننے تک غزل کا رنگ اڑ چکا تھا۔


"اوہ میرے خدا! اتنا بڑا کھیل؟"۔ وہ حد درجہ شاکڈ ہوئی۔


"الوینا تم ایسے شخص سے محبت کرتی ہو جو ایک قاتل ہے۔ ایک مجرم جس کے اگلے پل کا یا اگلے قدم کا کوئی بھروسہ نہیں۔ مجھے لگتا ہے وہ صرف تمہارا استعمال کر رہا ہے۔ ضرور انکل (مختار صاحب) تک پہنچنے کیلئے وہ تمہیں سیڑھی بنا رہا ہے۔ تم اتنی بے وقوف کیسے ہو سکتی ہو؟"۔ وہ اسے ڈپٹنے لگی۔


"بس کرو غزل، اب میں اس کے خلاف ایک لفظ اور نہ سنوں تمہارے منہ سے۔ نفرت جرم سے کی جاتی ہے، انسان سے نہیں۔ میں نے اس میں ایک اچھا انسان دیکھا ہے، وہ ایک خوبصورت دل رکھتا ہے۔ اور مجھے یقین ہے کے میں اسے بدل لوں گی، وہ ساری برائیاں چھوڑ دے گا"۔ اس کے لہجے میں یقین تھا۔ اپنی محبت کا مان تھا۔


"لیکن جو وہ کر چکا ہے اس کا کیا؟ تمہیں نہیں لگتا وہ سزا کا مستحق ہے؟"۔ وہ سراپا سوال ہوئی۔


الوینا نے اس سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور اپنی نشست پر اٹھ کھڑی ہوئی۔

"اب مجھے کوئی اور بحث نہیں کرنی تم سے، جو کہنا تھا میں کہہ چکی۔ اگر تم میرا ساتھ دے سکتی ہو تو مجھے اسی نمبر پہ کال کر لینا اور اگر نہیں دے سکتی تو بھاڑ میں جاؤ"۔ غصے سے کہتی ہوئی وہ بلوریں دروازے سے باہر نکلنے لگی۔


غزل تیزی سے اس کے پیچھے لپکی۔

"الوینا میری بات تو سنو"۔ وہ چیخی۔

وہ ان سنی کرتی آگے بڑھ رہی تھی جب کوئی اس کے سامنے چٹان بن گیا۔ اسے رکنا پڑا۔

نگاہیں اٹھا کر دیکھنے پر اس کے پیروں تلے سے زمین سرک گئی۔


آف وہائٹ پینٹ اور سیاہ شرٹ میں ملبوس سینے پہ مضبوطی سے ہاتھ باندھے وہ کاٹ دار نگاہوں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔


اسی اثنا میں غزل جو بھاگتی ہوئی آ رہی تھی سامنے موجود ہارون کو دیکھ کر ٹھٹھک گئی۔

الوینا نے مڑ کر شکایتی نظروں سے اسے دیکھا۔


"میں نے تم سے کہا تھا کے کسی کو مت بتانا مگر تم۔۔۔


"مجھے اس نے نہیں بتایا، تم کیا سمجھتی تھی کے ڈی-ایس-پی ہارون اتنا گیا گزرا ہے جو اپنے گھر کی عزت کو یوں رلنے دے گا"۔ الوینا کی بات قطع کرتے دانت پیس کر کہتے ہوئے اس نے اس کا بازو جکڑ لیا۔


"اور تم؟ تم کیسی دوست ہو اس کی جو الٹے سیدھے کاموں میں اس کا ساتھ دے رہی ہو؟"۔ توپوں کا رخ اب غزل کی جانب ہوا۔

اس کی بات پر وہ گڑبڑا سی گئی۔


"مم۔۔۔میں نے کیا کیا ہے؟ میں تو الٹا خود اسے سمجھا رہی تھی"۔ وہ منمنائی۔

"بس بہت ہو گئی من مانی، اب سیدھی طرح سے گھر چلو"۔ بھڑک کر کہتے وہ اب الوینا کو اپنے ساتھ کھینچنے لگا۔

اس نے زور لگا کر اپنا بازو چھڑوایا۔

"نہیں جاؤں گی میں تمہارے ساتھ سنا تم نے؟"۔ وہ چیخی۔

آس پاس سے گزرتے لوگ انہیں اجیب نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔

ہارون نے ارد گرد نظریں دوڑائی پھر سرگوشی میں گویا ہوا۔

"یہ تماشا کرنے سے اچھا ہے کے تم چپ چاپ میرے ساتھ چلو، زبردستی پہ مجبور مت کرو مجھے۔ ورنہ تمہاری آنکھوں کے سامنے اس شخص کو میں درد ناک موت دوں گا جس کی شہ پر تم یہ سب کر رہی ہو"۔ اس کا لہجہ سرد تھا۔

مگر وہ نہیں جانتا تھا کے سامنے کھڑی لڑکی وہ تھی جو دس دن بلیک اسکارپیئن کی قید میں گزار کر آئی تھی۔

"قیصر"۔ الوینا نے گھبرا کر کہا۔ اور جیسے ہی ہارون نے نگاہوں کا زاویہ بدلا موقع غنیمت جان کر الوینا نے ایک زوردار ضرب اس کی پسلیوں میں دے ماری۔

اس اچانک افتاد کیلئے وہ تیار نہ تھا۔ الوینا کے بازو پر اس کی گرفت ڈھیلی پڑی اور وہ سر پٹ دوڑنے لگی۔

"روکو۔۔۔اسے"۔ اپنی طاقت مجتمع کرتے اس نے پاس کھڑی غزل سے کہا جو اس کی حالت سے حظ اٹھا رہی تھی۔

"کچھ کہا آپ نے سر؟"۔ آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے معصومیت کے تمام ریکارڈ غزل حیات نے توڑ ڈالے۔

اس سے قبل کے وہ سنبھل کر الوینا کا پیچھا کرتا وہ سیاہ شیشوں والی سیاہ گاڑی میں بیٹھ کر جا چکی تھی۔

ہارون نے آگے بڑھ کر اب اپنے عتاب کا نشانہ اسے بنا لیا۔

"یہ کیا کیا تم نے؟ جانتی بھی ہو وہ شخص کتنا خطرناک ہے؟ ایک مجرم ہے وہ اور تم نے الوینا کا ساتھ دے کر اسے اندھے کنوئیں میں دھکیل دیا ہے۔ اس کا نتیجہ بہت برا ہوگا"۔ انگلی اٹھا کر وہ غضبناک لہجے میں گویا تھا۔

غزل نے مسکراہٹ چھپائی۔

"آپ کے سامنے سے گئی ہے وہ، اب جب آپ کے جیسا ٹرینڈ بندہ اسے نہ روک پایا تو بھلا میں کیسے روکتی"۔ وہ سادگی سے بولی۔

"تم!"۔ ہارون کا دل چاہا اپنا سر دیوار سے پھوڑ دے یا اس کا۔

"تمہیں تو میں بعد میں دیکھ لوں گا"۔ وارن کرتا ہوا اب وہ موبائل پر جلدی جلدی نمبر ملانے لگا۔

"ڈی-ایس-پی ہارون عالم اسپیکنگ"۔ کنٹرول روم سے رابطہ کرتے اس نے گاڑی کی ڈیٹیلز بتائیں اور علاقے کی سڑکوں کو فوری سیل کرنے کا حکم دیا۔

چارکول کی سڑک پر تیزی سے دوڑتی ہوئی گاڑی اچانک سڑک کنارے اتر کر جھٹکے سے رکی۔


"ہمیں یہ گاڑی چھوڑ کر پیدل اس جنگل کے راستے سے شارٹ کٹ لینا ہوگا۔ ممکن ہے آگے پولیس کی ناکہ بندی ہو"۔ ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان قیصر نے برابر میں بیٹھی الوینا سے کہا۔

گہری سانس خارج کرتے اس نے اپنا ہاتھ اس کے مضبوط ہاتھ پر دھرا۔

وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔


"جب تم ساتھ ہو تو راستے منزل سے زیادہ معنی رکھتے ہیں"۔ وہ نرمی سے مسکرائی۔


قیصر نے وہ نرم پوروں والی انگلیاں اپنے ہاتھ کی انگلیوں کے درمیان مضبوطی سے بند کر لیں۔


"کیوں ہے اتنا بھروسہ تمہیں مجھ پہ؟"۔ گمبھیر لہجے میں وہ پوچھ بیٹھا۔


"کیونکہ بھروسہ محبت کی پہلی منزل ہوتی ہے"۔ مضبوط لہجے میں جواب دیا۔


"کیا تم مجھ سے محبت کرتی ہو؟"۔ شہد رنگ آنکھوں میں دیکھتے اس نے یقین چاہی۔

وہ شخص جو اس لفظ کے معنی سے کئی برس تک ناآشنا رہا تھا، محروم رہا تھا۔

جب محبت لفظ سے اس کی آشنائی ہوئی تو اس نے ڈر کر محبوب کو ہی خود سے دور کر دیا۔

اور جب احساس ہوا کے اس محبوب کے بنا زندگی کتنی بے معنی اور کٹھن ہے تو اس نے اسے قریب لانے کیلئے اپنا طریقہ اختیار کیا۔

اب جب وہ اس کی ہونے جا رہی تھی تو دل پھر وسوسوں کا شکار ہو رہا تھا۔


یہ محبت بھی اجیب ہوتی ہے۔ جب نہیں ملتی تب اس کے بنا جینا ناممکن سا لگتا ہے، اور جب مل جاتی ہے تو اس کے کھو جانے کا دھڑکا سا لگا رہتا ہے۔


"میں صرف تم سے محبت کرتی ہوں"۔ پریقین لہجے میں کہتے سیاہ پلکیں گلابی ہوتے عارضوں پر جھکتی چلی گئیں۔

وہ حیرت و دلچسپی سے اس کے چہرے پر بکھرے قوس و قزاح کے بکھرے ان رنگوں کو دیکھتا رہا۔ یہ منظر اس کیلئے بہت انوکھا سا تھا۔

مگر اس کا جملہ سن کر قیصر کا دل پرسکون اور مطمئن سا ہو گیا۔


"ہمیں چلنا چاہیئے"۔ اس نے یاد دہانی کروائی۔

اثبات پر الوینا نے سر ہلایا۔


گاڑی وہی چھوڑ کر وہ دونوں پیدل چلتے ہوئے پاس کے جنگل میں اوجھل ہو گئے ۔

☆☆☆☆☆☆


"جس بات کا ڈر تھا بالآخر وہی ہوا"۔ مختار صاحب کا پارہ ساتویں آسمان پر تھا۔ قیصر خیام اگر اس وقت ان کے سامنے آ جاتا تو وہ اپنے پستول کی ساری گولیاں اس کے سینے میں اتار دیتے۔

ابھی پانچ منٹ قبل ہی تو ہارون نے انہیں اطلاع دی کے کیسے الوینا اس کے ہاتھ آتے آتے نکل گئی۔


"آپ نے ہارون سے پوچھا کے اس کی تلاش کہاں تک پہنچی؟"۔ فائزہ نے فکرمندی سے پوچھا۔


مختار انصاری جو بے چینی سے ٹہل رہے تھے، اس بات پر رک کر ان کی جانب دیکھا۔


"اس سے ہی بات ہوئی ہے ابھی میری، اس کا کہنا تھا کے الوینا اس کی نگاہوں کے سامنے سے نکل گئی"۔ سر جھٹکتے ہوئے ان کا لہجہ پست ہوا۔


"ایسے کیسے نکل گئی؟ کہاں چلی گئی؟ ہارون نے اسے روکا کیسے نہیں؟"۔ فائزہ نے پریشانی کے عالم میں پوچھا۔


"اس مجرم کیلئے وہ ہم سے بغاوت کر گئی فائزہ بیگم، اب تمہیں کن الفاظ میں سمجھاؤں کے صاحبزادی پر محبت کا بھوت سوار ہو گیا ہے"۔ مختار صاحب طیش میں آ گئے۔


ان کی بات سن کر فائزہ کو گویا سکتہ ہو گیا۔


"عالم اسے لے کر آ رہا تھا مگر وہ چکما دے کر بھاگ گئی"۔ دانت پیس کر وہ غصے سے بولے۔


"وہ بچی ہے مختار اسے ابھی اچھے برے کی اتنی سمجھ نہیں ہے۔ اس شخص نے ضرور اسے ورغلایا ہوگا۔ یا اللہ! اسے تو یہ بھی نہیں پتہ ہوگا کے وہ شخص قانون کا مجرم ہے"۔ فائزہ نے سر تھام لیا۔


ان کی بات پر وہ مزید بھڑک اٹھے۔


"سب کچھ جانتی ہے وہ۔ اپنی دوست کو ملنے بلایا تھا اس نے، عالم بھی اس کی دوست پر نظر رکھتے ہوئے الوینا تک پہنچ گیا۔ اس نے خود اپنے کانوں سے سنا کے وہ اس منگنی سے فرار چاہتی ہے، وہ بھی قیصر خیام کیلئے"۔ انہوں نے کوئی بم پھوڑا تھا۔

فائزہ نے بے یقینی سے ان کی جانب دیکھا۔


"وہ نہیں جانتی کے جذبات میں کس قدر غلط روش اختیار کر رہی ہے وہ جس سے اس کی آنے والی زندگی برباد ہو کر رہ جائے گی۔ ایک مجرم کا ماضی کبھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا فائزہ، اس شخص کا سیاہ ماضی میری بچی کو نگل جائے گا۔ کھا جائے گا"۔ کہتے کہتے ان کی آواز نم ہو گئی۔ وہ فائزہ کے قریب رکھے سنگل صوفے پر ڈھے سے گئے۔


"اللہ نہ کرے! آپ اچھا سوچیں، ایسا کچھ نہیں ہوگا اور ہارون گیا ہے نا وہ اسے ڈھونڈ کر گھر لے آئے گا"۔ گلوگیر آواز میں کہتیں جانے وہ خود کو تسلی دے رہی تھیں یا شوہر کو۔


"دعا کرو کے وہ جذباتیت میں آ کر کوئی غلط فیصلہ نہ لے بیٹھے۔ مجھے معاشرے یا اپنی ساکھ کی پرواہ نہیں ہے فائزہ، اگر وہ شخص میری بیٹی کیلئے اچھا ہوتا تو میں کبھی منع نہ کرتا۔ کاش وہ سمجھ سکتی"۔ وہ دل گرفتگی سے بولے۔


"دل کے معاملے میں وہ عائشہ پر گئی ہے مختار، کسی کی نہیں سنے گی وہ۔ جس طرح عائشہ نے آپ کیلئے اپنے ماں باپ کو چھوڑ دیا ان کا دل دکھایا۔ آج قدرت وہی وقت آپ کے اور میرے لیے دہرا رہی ہے۔ شاید اسی لیئے کہتے ہیں کے دنیا مکافات عمل ہے۔ جو کل دوسرے کی بیٹی نے آپ کی وجہ سے کیا، وہی آج کسی اور کی وجہ سے آپ کی بیٹی آپ کے ساتھ کر رہی ہے"۔ ان کے لہجے میں نہ طنز تھا اور نہ طعنہ۔ وہ بس مناسب الفاظ میں شوہر کی اس غلطی کی نشاندہی کر رہی تھیں جو انہوں نے بہت سال پہلے کیا تھا۔ اور جس کا نتیجہ وہ اب بھی بھگت رہے تھے۔


ان کی بات پر مختار صاحب نے چونک کر ان کی جانب دیکھا اور اگلے ہی پل نظریں جھکا دیں۔

وہ ان سے نظریں نہ ملا پائے تھے۔ کہیں نہ کہیں انہیں بھی اپنی غلطی کا احساس تھا۔


"میں آپ کو طعنہ نہیں دے رہی بس حقیقت سمجھا رہی ہوں۔ عورت کا دل ایک شفاف آئینے کی مانند ہوتا ہے، جس میں اگر ایک بار وہ محبوب کے طور پر کسی مرد کی پرچھائی قید کرلے تو اس آئینے کو ہی توڑ دیتی ہے۔ تاکہ پھر کسی دوسرے کی گنجائش ہی نہ رہے۔

پھر مرد تو شاید دوسری عورت کے وجود سے اس کا خالی پن بھر دے مگر وہ اتنی آسانی سے کبھی دوسرے وجود کو قبول نہیں کرتی ہے"۔ ان کے لہجے میں کرب تھا۔

مختار صاحب نے آنکھیں میچ لیں۔


"میں مانتا ہوں مجھ سے غلطی ہوئی ہے فائزہ، مگر میں نہیں چاہتا کے اس کی سزا قدرت الوینا کو دے۔ اس نے پہلے ہی بہت تکلیفیں اٹھائی ہیں۔ بہت سی محرومیاں دیکھی ہیں۔ اب مزید وہ کوئی دکھ اٹھائے اس بات کا میں متحمل نہیں ہوسکتا"۔ شکستہ لہجے میں کہا۔


"مجھے پتہ ہے کے آپ کو اس کی فکر ہے اور مجھے بھی اتنی ہی ہے۔ مگر میں صرف اتنا چاہتی ہوں کے آپ زبردستی اس پر اپنا فیصلہ مسلط نہ کریں۔ اگر وہ ہارون کو اپنے ہمسفر کے طور پر قبول نہیں کرتی ہے تو آپ اس پر جبر نہ کریں"۔ فائزہ نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔


"تو اور میں کیا کروں؟ اسے غلط فیصلہ کرنے دوں؟ ایک غلط شخص کے ہاتھ اس کو جانے دوں؟"۔ وہ زچ ہوئے۔


"ہرگز نہیں، بچہ آگ سے کھیلنا چاہے تو ماں باپ اسے کھیلنے دیں گے کیا؟ آپ بس اسے پیار سے سمجھانے کی کوشش کریں۔ مجھے یقین ہے کے وہ ضرور سمجھے گی۔ اسے یہ احساس دلانا ہوگا کے ہم اس کے دشمن نہیں ہیں، بس اس کی بہتری سوچ رہے ہیں"۔ انہوں نے حل پیش کیا۔


"اس کیلئے ضروری ہے کے وہ ہمیں مل جائے"۔ ان کی باتوں سے کسی حد تک متفق نظر آتے مختار انصاری نے متفکر لہجے میں کہا۔


"ان شاء اللہ! وہ جلد مل جائے گی"۔ فائزہ نے صدق دل سے کہا۔

انہوں نے اثبات پہ سر ہلا دیا۔ کسی حد تک اب وہ پرسکون ہوئے تھے۔


مستقبل سے بے خبر ہونا بھی اللہ کی ایک بڑی نعمت ہے۔ جیسے کے وہ دونوں انجان ہو کر خیر کی دعائیں مانگ رہے تھے۔

☆☆☆☆☆☆


وہ اس کا ہاتھ تھامے جنگل کا سینہ چیرتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا۔ چونکہ جنگل خاصہ گھنا نہیں تھا اس لیئے اسے چلنے یا راستہ ڈھونڈنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آ رہی تھی۔

آج وہ چلتی ہوئی اس کے ہم قدم تھی۔

الوینا کو بے اختیار وہ رات یاد آئی جب وہ جنگل میں کھو گئی تھی اور تب قیصر کی اپنے لیئے پریشانی اسے حیران کر گئی تھی۔


"تمہارے ساتھ یوں چلتے ہوئے مجھے وہ وقت یاد آ رہا ہے جب جنگل میں تم مجھے ڈھونڈتے ہوئے میرے پیچھے آئے تھے"۔ اس کا بازو جکڑے وہ مسکراتے ہوئے بولی۔

چاند کی مسکراتی چاندنی سمیت قیصر بھی مسکرا دیا۔


"تب میں اور اب میں بہت فرق ہے "۔ وہ گمبھیر لہجے میں گویا ہوا۔


"کیوں؟کیا فرق ہے؟"۔ الوینا نے سوالیہ نگاہوں سے سفید چاندنی میں نظر آتے اس کے پرکشش چہرے کو دیکھا۔


"کیونکہ تب محترمہ تم کھو گئی تھی۔ مگر اب میں تمہیں کھونے نہیں دوں گا"۔ پریقین لہجے میں کہتے ہوئے ساتھ چلتی الوینا کا ہاتھ مزید مضبوطی سے تھام لیا۔


"تو تم پریشان ہو گئے تھے میرے لیئے؟"۔ شوخی سے کہتی وہ جانے کیا سننا چاہ رہی تھی۔


قیصر نے زرا کی زرا نگاہیں موڑ کر اس کے پرنور چہرے کو دیکھا۔


"نہیں تو، بلکہ میں نے تو سوچا کے اچھا ہوا جو اس بلا سے میری جان چھوٹ گئی"۔ مسکراہٹ لبوں میں دبائے اس نے بھرپور سنجیدگی سے کہا۔

مگر آنکھوں میں شرارت مچل رہی تھی جسے وہ دیکھ نہ سکی۔


اور وہ جو شرماتے ہوئے نگاہیں جھکا کر چل رہی تھی اپنا من پسند جواب نہ پا کر بے یقینی سے ساتھ چلتے شخص کو دیکھا۔


"کیا! تم خوش تھے کے میں کھو گئی؟"۔ رک کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے وہ روہانسے لہجے میں پوچھنے لگی۔ ہاتھ ہنوز تھام رکھا تھا جس وجہ سے قیصر کو بھی رکنا پڑا۔


"ا۔۔۔اب ہاں تو، تم نے مجھے اتنا پریشان کر رکھا تھا تو میں نے بھی سوچا چلو اچھا ہی ہوا اب عقل ٹھکانے آ جائے گی اس کی"۔ کن انکھیوں سے اس کے چہرے کو دیکھتے وہ سنجیدگی کا تاثر دے رہا تھا۔


الوینا صدمے سے گنگ رہ گئی۔


"تو کیوں آئے تھے پھر میرے پیچھے مجھے ڈھونڈتے ہوئے؟ کھو جانے دیتے جنگل میں؟"۔ شکایتی نظروں سے اسے دیکھتی ہوئی وہ ملامتی انداز میں بولی۔


"وہ تو بس اس لیے کیونکہ تم میری ذمہ داری تھی"۔ ایک اور جملہ بھرپور سنجیدگی سے کہا گیا۔

اس کا سرخ پڑتا معصوم سا چہرہ اس کی شرارت کو سچ مان کر رو دینے کو تھا۔


"دفع ہو جاؤ تم، کہیں نہیں جانا مجھے تمہارے ساتھ۔ چھوڑ جاؤ یہاں مجھے، کھو جانے دو پھر سے"۔ اپنا ہاتھ کھینچ کر چھڑاتے ہوئے وہ فاصلے پر رخ موڑ کر جا کھڑی ہوئی۔


ایک لمحے کی بھی تاخیر کے بغیر وہ اس کے پیچھے لپکا۔


"اووفف اچھا آئم سوری، میں مذاق کر رہا تھا بس"۔ اس نے بلا تاخیر اپنا جرم تسلیم کیا۔


"کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اب مجھے تمہاری کوئی بات نہیں سننی۔ جاؤ یہاں سے"۔ نروٹھے پن سے کہتے ہوئے اس نے منہ پھلا لیا اور سینے پر ہاتھ باندھ لیئے۔ انداز قطعی ماننے والا نہ تھا۔


قیصر خیام کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ بھورے بالوں میں ہاتھ مارتے وہ سوچنے لگا اب کیسے منائے اسے۔ کیونکہ اس طرح کی سچویشن سے آج تک پالا جو نہ پڑا تھا۔ صنف نازک کے معاملے میں وہ یک دم کورے کاغذ کی مانند تھا۔

تارہ اس کی بہترین دوست تھی مگر اسے کبھی منانے کی ضرورت پڑی تھی نہ توفیق ہوئی تھی۔

جبکہ اب معاملہ دل کا تھا۔


"یار وہ سب مذاق تھا اب مان بھی جاؤ۔ ورنہ تمہارا وہ کزن ہمیں ڈھونڈتے ہوئے کسی بھی پل آتا ہی ہوگا"۔ اس کا رخ اپنی جانب موڑتے ہوئے وہ بے بسی سے بولا۔


اس کے چہرے پر مسکینیت دیکھ کر الوینا کی ہنسی چھوٹ گئی۔

اور وہ منہ پہ ہاتھ رکھے بے اختیار ہنستی چلی گئی۔


"مزا آیا؟ اپنی دوائی کا ذائقہ کیسا لگا پھر؟"۔ وہ ہنسی کے درمیان کہنے لگی۔


اس کی کھلکھلاہٹ مقابل کے دل کے تاروں کو چھیڑنے لگی۔

وہ بھی مسکرا دیا۔


ایک قدم آگے بڑھا کر اس نے اس نازک اندام وجود کو اپنے حصار میں جکڑ لیا۔

الوینا کی ہنسی کو یک دم بریک لگ گیا۔ اس کا ہاتھ قیصر کے سینے پر تھا۔ جس سے اس کا دل الوینا کو اپنی ہتھیلی میں دھڑکتا محسوس ہو رہا تھا۔


"اب ہنسو"۔ کھلے شہد رنگ بالوں کی لٹ کھینچتے وہ بولا۔

بے اختیار اس کی نگاہیں جھکتی چلی گئیں۔

دھڑکنوں نے طلاطم برپا کر دیا تھا۔

درختوں سے چھن کر آتی سفید چاندنی ان دو مجسموں پر گر رہی تھی۔ جن کے سائے قریب ہی زمین پر پڑتے ایک دوسرے میں مدغم نظر آتے تھے۔


آہستگی سے اس سے دور ہوتے اس نے پھر سے الوینا کا ہاتھ تھام لیا۔

بے ہنگم دل، بے ترتیب سانسوں اور سرخ چہرے کے ساتھ وہ سر جھکائے اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔

☆☆☆☆☆☆


مطلوبہ گاڑی کی اطلاع ملتے ہی ہارون وہاں بھاگا چلا آیا۔

چند پولیس افسران گاڑی کو گھیرے کھڑے تھے۔


وردی میں ملبوس وہ سرکاری گاڑی سے جیسے ہی اترا کانسٹیبل یعقوب جلدی سے اس کی جانب آیا۔


"سر گاڑی تو یہی ہے مگر بالکل خالی۔ لگتا ہے ان لوگوں کو اندازہ تھا کے آگے پولیس ملے گی اسی لیے گاڑی یہی چھوڑ کر نکل گئے"۔ ہارون کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اس نے معلومات دیں۔


وہ سڑک کنارے کھڑی گاڑی کے پاس آ رکا۔

اسٹریٹ پولز کی روشنی میں وہ شیشے سے اندر جھانکنے لگا، نمبر پلیٹ چیک کی۔

"ہے تو وہی کار"۔ وہ بڑبڑایا۔


کانسٹیبل بغور اس کی جانب دیکھ رہا تھا۔


وہ آس پاس جائزہ لینے لگا۔

"سڑکوں پر ناکہ بندی لگائی گئی تھی وہاں سے وہ نہیں گزرے۔ گاڑی یہی چھوڑ دی۔ ایک ہی راستہ ہے جہاں سے یہ پیدل گئے ہوں گے"۔ ذہن میں تانے بانے بنتے اس کی نظر بائیں جانب کو جاتے اس کچے پکے راستے پر تھی جو جنگل میں ختم ہوتا تھا۔


"مجھے پتہ ہے وہ لوگ کہاں گئے ہوں گے"۔ کنپٹی کی رگیں تن گئیں۔


"کانسٹیبل، ٹارچ اور اپنی بندوقیں سنبھال لو، وہ لوگ جنگل کی طرف گئے ہیں۔ کیسے بھی کرکے انہیں ڈھونڈنا ہے ہمیں۔ آج کے آج ہی"۔ اپنی بات پر زور دے کر کہتے ہوئے اس نے گاڑی سے ٹارچ برآمد کیا اور جنگل والے راستے پر نکل پڑا۔


"اب یہ نئی مشکل، جنگل میں ڈھونڈتے ڈھونڈتے تو ساری رات نکل جائے گی"۔ کانسٹیبل حمید نے یعقوب سے کہا۔


"چپ کرو تم، کہیں صاحب نے سن لیا تو لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔ اپنا پستول لو اور چلو اب"۔ یعقوب نے اسے ڈپٹ کر خاموش کروایا۔

حمید جذبذ ہوا۔

ناچار ٹارچ سنبھال کر اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔

☆☆☆☆☆☆


اور پھر وقت نے دیکھا کے جو دو اشخاص دو دریاؤں کے دو سمت کی مانند تھے۔ اپنے درمیان موجود ہر دیوار کو گرا کر، ہر طرح کی مخالفت مول لے کر آخر کار ایک دوجے کے ہوکر اپنا نام جوڑ بیٹھے تھے۔ نہ تو ان کے درمیان کوئی سیاہ ماضی آیا تھا اور نہ اندھیری مستقبل کا کوئی خوف!

بس اگر کچھ تھا تو وہ آج کا وقت۔ ماضی اور مستقبل کی سوچوں سے آزاد وہ دونوں بس آج میں جی رہے تھے۔

کل کیا ہوگا؟ ساتھ کب تک رہے گا؟ کتنا طویل ہوگا؟

یہ وہ دونوں ہی نہیں سوچنا چاہتے تھے۔


خالص سرخ رنگ کے عروسی لباس میں ملبوس وہ آئینے کے سامنے بیٹھی اپنی تیاری کا جائزہ لے رہی تھی۔

نہ کوئی ڈھول تاشے تھے، نہ باراتی۔

نہ تو مہندی تھی، نہ سکھیاں اور ساتھی۔


بھاری کامدار غرارہ اور اس کے ساتھ ہلکی پھلکی جیولری۔

میک کے نام پر شہد رنگ آنکھوں میں کاجل کی گہری تہ اور شنگرفی لبوں کو سرخ رنگ سے رنگ دیا گیا تھا۔

یہ سب چیزیں اس نے اعظم سے اسرار کرکے منگوائی تھی۔

ورنہ قیصر کے مطابق اسے بس لال دوپٹہ اوڑھ لینا چاہیئے۔

شادی چاہے جن حالات میں سہی مگر بہرحال لڑکی کے کچھ ارمان ہوتے ہیں۔ کبھی نہ کبھی کم از کم ایک بار تو ہر لڑکی نے ہی اپنے من میں یہ سوچا ہوتا ہے کے وہ دلہن کے لباس میں کیسی لگے گی؟ عروسی لباس پہن کر کیا جذبات ہوں گے اسی طرح کے سوال اس کے بھی من میں تھے۔

اور جب اس نے وہ سرخ جوڑا پہنا تو سب سے پہلے اسے عائشہ ہی یاد آئیں۔ اور انہی کی کمی کھلی۔

مختار صاحب، فائزہ اور غزل اسے بے طرح یاد آرہے تھے۔

روشن آنکھیں ان سب کے چہرے یاد آتے ہی تیزی سے بھیگنے لگیں۔

"بابا، ماما، غزل کاش آپ سب بھی میری خوشی کا حصہ ہو پاتے۔ کبھی سوچا نہ تھا کے اپنے اس بڑے دن پر آپ لوگوں سے دور رہ کر اتنی کمی محسوس ہوگی۔ کاش آپ سب میرے ساتھ ہوتے"۔ آئینے میں وہ خود کلامی کرتی سر جھکا گئی۔ آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر عارض بھگونے لگے۔ تبھی اسے اپنے شانے پر لمس محسوس ہوا۔

سر اٹھا کر دیکھا تو اپنے ساتھ موجود اس کا عکس دیکھ کر وہ بھیگی آنکھوں سمیت مسکرا دی۔

سفید شلوار قمیض میں ملبوس، آستینوں کے کف موڑے اس کی تیاری کچھ خاص نہ تھی۔ مگر چہرے اور سرمئی آنکھوں کی چمک عام دنوں سے کئی زیادہ بڑھ گئی تھی۔ جو اس کی شخصیت کو نکھار کر ایک اجیب سی کشش عطا کر رہی

تھی۔

مسکراتی نگاہوں سے وہ بغور آئینے میں اس حسین پیکر کو دیکھ رہا تھا۔

"آج تم واقعی نورجہاں کو بھی مات دے رہی ہو قلبِ قیصر"۔ اس کے مانگ ٹیکے کو انگلی کی پوروں سے چھوتے وہ بھاری لہجے میں اس کے عکس سے مخاطب تھا۔

الوینا جھینپ کر مسکرا دی۔

☆☆☆☆☆☆

"کیوں بلایا ہے مجھے یہاں؟"۔ سرد لہجے میں سوال کیا۔

یہاں سے اس کی پشت پر بکھرے شہد رنگ بال ہی نظر آتے تھے۔

اس آواز پر علی مرزا چلتا ہوا اس کے مقابل آ گیا۔

"قیصر خیام کو برباد کرنے کیلئے"۔ سلاخوں پر گرفت کستے انہوں نے چبا چبا کر کہا۔

ان کی بات پہ وہ استہزاء ہنسی۔

ستمبر کی یہ شب معمول سے ہٹ کر چند نفوس کو طویل محسوس ہو رہی تھی۔


ہارون کیلئے یہ طویل تھی کیونکہ اس کی تلاش میں یہ سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔


مختار اور فائزہ کیلئے یہ رات کٹھن اور سیاہ تھی کیونکہ انہیں الوینا کی فکر لاحق تھی۔


خود الوینا اور قیصر کیلئے یہ رات لمبی اور حسین تھی کیونکہ آج کی شب وہ مقدس رشتے میں بندھ کر ایک ہو گئے تھے۔


طویل اور صبر آزما تو علی مرزا کیلئے بھی تھی کیونکہ آج کی رات ان کے دشمنوں پر گراں گزرنی تھی۔


ایک گھنٹہ چلتے رہنے کے بعد بالآخر دیگر افسران کے ہمراہ ہارون جنگل پار کر آیا تھا اور اب سامنے پھر ایک سنسان سڑک تھی جو آبادی کی طرف جاتی تھی۔


"قیصر کا موبائل لوکیشن کیا بتا رہا ہے؟"۔ وہ کنٹرول روم سے پتہ کرنے لگا۔


"سر آپ سے قریب تین کلومیٹر کے فاصلے پر ہے شمال کی جانب"۔ اطلاع دی گئی۔


"اس کا مطلب ہم بہت قریب ہیں اس کے۔ چلو"۔ رابطہ قطع کرتے وہ اپنے پیچھے چلتے افسران سے مخاطب ہوا۔


جن کے چہروں پر تکان رقم تھی۔ یہ نیا حکم سنتے ہی ان کے پسینے چھوٹ گئے۔


"چلو جی، اب تین کلو میٹر اور پیدل چلو"۔ السیلا حمید منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔

جسے ساتھ چلتے غفور نے سن لیا تھا۔ لہٰذا کڑے تیوروں سے گھورنے لگا۔


"اا۔۔۔۔چلو چلو صاحب تو کب کے جا چکے"۔ اس سے قبل کے غفور پھر لیکچر دینے لگے اس نے جلدی سے اسپیڈ پکڑ لی۔

وہ بھی سر جھٹک کر چل دیا۔

☆☆☆☆☆☆


ایجاب و قبول کے مراحل طے کرتے آخرکار الوینا قیصر خیام کی شریک سفر کی حیثیت سے اس کی زندگی میں شامل ہو گئی تھی۔

وہ بہت خوش تھا اسے اپنے نام کرکے۔ بلکہ خوشی بہت چھوٹا لفظ تھا اس وقت۔ حقیقت تو یہ تھی کے قیصر عبید خیام کی کیفیت ناقابلِ بیان تھی۔ سرمئی آنکھوں میں فتح کی چمک تھی، پا لینے کا خمار تھا اور محبت کی پھوار تھی۔ وہ سراپا عشق بنا تھا۔ اور سامنے عروسی لباس میں موجود تھی اس کی زندگی۔ اس کی بیوی۔ اس کی ساتھی۔ اس کا قلب۔ الوینا قیصر خیام!


"مجھے نہیں یاد کے میں نے اپنی بتیس سالہ زندگی میں کبھی کوئی اچھا کام بھی کیا ہو جس کا صلہ آج مجھے تمہاری صورت ملا ہے قلبِ قیصر!"۔ اس کے لہجے میں خوشی کا خمار تھا۔ دلکش لبوں پر زمرد و یاقوت جڑے تھے۔


اس کی بات پہ الوینا کے چہرے پر دھنک کے رنگ بکھر گئے۔ اسے یہ کوئی حسین خواب ہی لگ رہا تھا، جس سے بیدار وہ ہونا نہیں چاہتی تھی۔

نگاہیں جھکائے وہ مبہم سی مسکرا دی۔


قریب بیٹھے قیصر نے دلچسپی سے اس کے دمکتے چہرے پر بکھرتے رنگوں کو دیکھا۔ پھر نرمی سے اس کا ہاتھ تھام کر لبوں سے لگا لیا۔

الوینا کی پلکیں سہم گئیں۔


اس نے جیب سے مرون رنگ کی ایک مخملی ڈبی نکالی اور گلابی ہتھیلی پر دھرے اس کے سامنے کیا۔

خوبصورت سی مسکراہٹ چہرے پر طاری کیئے وہ گویا ہوا۔


"بوجھو تو جانیں"۔ لہجہ شوخی سے بھرپور تھا۔


الوینا کی نگاہیں اٹھتی اس کے چہرے پہ آ ٹکی پھر وہاں سے ہو کر اس چوکور ڈبی پر۔


"کیا ہے یہ؟"۔ اسے تجسس نے آن گھیرا۔

ہاتھ بڑھا کر اس نے وہ ڈبیہ قیصر کی ہتھیلی سے اٹھانا چاہی جب اس ڈبی سمیت اس کا نازک ہاتھ بھی اس کی گرفت میں قید ہو گیا۔


"ایسے نہیں۔ پہلے بتاؤ کے اس میں کیا ہے؟"۔ سرمئی آنکھوں میں شرارت تھی۔ احمریں لبوں پر جھینپی ہوئی سی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔

آج کل وہ یونہی بات بے بات مسکرا رہا ہوتا تھا۔ جس کی وجہ شاید نہیں یقینی طور پر الوینا ہی تھی۔


"بالکل ٹیڑھے دماغ کے ہیں آپ۔ رونمائی کا تحفہ بھی مجھے پہلیاں بجھوا کر ہی دینی ہے"۔ منہ پھلائے وہ روٹھے انداز میں بولی۔

ہاتھ ہنوز اس کی گرفت میں قید تھا۔


اس کے انداز پر قیصر کی مسکراہٹ گہری ہوئی اور ساتھ ہی مٹھی کھول دی گئی۔

کن انکھیوں سے الوینا نے اس کی ہتھیلی اور اپنے ہاتھ کے درمیان موجود مرون ڈبی دیکھی پھر جلدی سے اچک لی۔

کھول کر دیکھا تو حسین مسکراہٹ کے ساتھ ساتھ شہد رنگ آنکھیں بھی جھلملا اٹھیں۔


وہ پینڈنٹ انگلیوں میں تھامے اب اسے کھول کر دیکھتی باقاعدہ آنسو بہانے لگی۔

نیلے رنگ کی سیپ والی وہ چاندی کی پینڈنٹ جس میں عائشہ کا مسکراتا ہوا حسین چہرہ قید تھا۔


"یہ۔۔۔تمہیں کہاں سے ملا؟"۔ مسکراہٹ اور آنسوؤں کے درمیان اس نے بمشکل پوچھا۔

نگاہیں اب بھی پینڈنٹ پر ہی جمی تھیں۔


قیصر نے گہری سانس بھری۔ ہاتھ بڑھا کر اس کی آنکھوں سے نمی سمیٹنے لگا۔


"یہ آخری بار ہے جو میں تمہاری آنکھوں میں آنسو دیکھ رہا ہوں"۔ سنجیدگی سے کہتے وہ تنبیہ کر رہا تھا۔


"دراصل جب میں تمہارے والد صاحب کے اسٹڈی روم میں ان سے ملنے گیا تب ہی میری نظر میز پر پڑے اس پینڈنٹ پر گئی جسے میں نے ایک عاد بار تمہاری گردن کی زینت بنے دیکھا تھا۔ بس تب سے لے کر اب تک یہ میرے ہی پاس ہے۔ میری طرح اسے بھی تمہارا انتظار تھا"۔ اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں تھامے وہ گمبھیر لہجے میں بولا۔

پر حدت لمس الوینا کی دھڑکنیں بڑھا گئے۔


"یہ تو میری ہی امانت تھی تمہارے پاس جس کو تم نے لوٹایا ہے۔ لیکن میری رونمائی کا تحفظ کہاں ہے؟"۔ کڑے تیوروں سے دیکھتی وہ پوچھنے لگی۔


اس کی بات قیصر کا چہرہ سوالیہ نشان بن گیا۔


"رونمائی کا تحفہ؟ یہ کیا بلا ہے؟"۔ وہ حیرت سے پوچھنے لگا۔

اور اس سوال پر الوینا اس سے بھی زیادہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔


"رونمائی یعنی منہ دکھائی کا تحفہ جو ایک دولہا اپنی دلہن کو دیتا ہے۔ تمہیں یہ نہیں پتہ؟"۔ جواب دینے کے ساتھ ہی وہ آنکھیں پھیلائے پوچھنے لگی۔


اثبات پر خجل سا ہو کر وہ اپنے بھورے بالوں پہ ہاتھ پھیرنے لگا۔


"مجھے ان سب کا نہیں پتہ"۔ کورا سا جواب دیا۔

جواباً وہ اسے خونخوار نظروں سے گھورنے لگی۔


"سوری"۔ ہونٹوں کو جنبش دیتے وہ بے آواز کہنے لگا۔ ساتھ ہی کان بھی پکڑ لیئے۔

اس کی اس حرکت پر وہ نا چاہتے ہوئے بھی مسکرا دی۔


"اچھا مجھے بتاؤ تمہیں کیا چاہیئے؟ آئی پرامس میں ابھی لے کر آ جاؤں گا۔ جو بھی تم کہو گی"۔ اس کے ہاتھ تھامے وہ لجاجت سے کہنے لگا۔


"دے پاؤ گے؟"۔ مسکراتے ہوئے وہ پوچھنے لگی۔


"مانگ کے تو دیکھو، قلب دے دیا جان بھی حاضر ہے"۔ مخمور لہجے میں فٹ سے جواب دیا۔

اس کی بات پر وہ گلنار ہوئی۔


"مجھے دو چیزیں چاہئیے وہ بھی ابھی اسی وقت۔ دو گے؟"۔ سرمئی آنکھوں میں دیکھتی وہ مان و چاہت سے لبریز آواز میں پوچھنے لگی۔


"حکم کرو قلبِ قیصر"۔ اس کا ہاتھ تھامے اجازت دی۔


"سب سے پہلے تو مجھے ایک وعدہ چاہیئے"۔


"کیسا وعدہ؟"۔ برجستہ پوچھا۔


"وعدہ اس بات کا کے تم یہ اندھیری دنیا چھوڑ دو گے اور ایک عام شخص کی طرح زندگی گزاروگے۔ کرو وعدہ؟"۔ نرمی سے اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکالتے شفاف ہتھیلی اس کے سامنے پھیلائی۔

قیصر نے ایک نظر اس کی گلابی و سپید ہتھیلی کو دیکھا پھر اس کے چہرے کو۔

اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کا ہاتھ ہاتھ تھام کر اپنے سینے پر دل کے مقام پہ رکھا۔


"وعدہ کرتا ہوں۔ تمہارے لیئے سب چھوڑ دوں گا۔ سارے برے اور الٹے سیدھے کام بند۔ صرف تمہارے لیئے!"۔ اس کا انداز سنجیدہ تھا۔ لہجے میں یقین تھا۔


"میرے ساتھ بھی اور میرے بعد بھی؟"۔ وہ مزید کہنے لگی۔


"الوینا!"۔ وہ تڑپ کر رہ گیا اس کی بات پر۔


"بولو وعدہ کرو میرے ساتھ بھی اور میرے بعد بھی تم ایسے ہی رہو گے۔ پیچھے جو کچھ بھی ہوا ہے اس کی معافی مانگو اللہ سے، توبہ کرو وہ رب معاف کرنے والا ہے"۔ اس کی آنکھیں قیصر کے چہرے پر تھیں اور لب جیسے بنا ہلے اپنی بات اس تک پہنچا رہے تھے۔


"میرے گناہ بہت زیادہ ہیں الوینا"۔ اس کے چہرے پر سایہ سا لہرایا۔ دل کی دھڑکن اس مایوسی بھرے جملے کو سن کر مدھم پڑنے لگی۔


"یہ صرف ہم انسانوں کا خیال ہوتا ہے۔ ورنہ خدا نے تو فرمایا ہے کے وہ ہر حال میں اپنے بندوں کو معاف کرنے والا ہے۔ پھر چاہے اس بندے کے گناہ آسمان کی بلندی تک بھی پہنچ جائیں۔ بس اگر ضرورت ہے تو صرف توبہ کرنے کی۔ اپنے گناہوں کا احساس کرکے رب کے حضور ان کی معافی مانگنے کی"۔

اس پل قیصر خیام کو لگ رہا تھا جیسے الوینا کی زبانی کوئی اور اس سے یہ سب کہہ رہا ہے۔

قیصر یک ٹک اس کے چہرے کو تکتا رہا۔


"توبہ دل سے کی جاتی ہے الوینا۔ کسی کے کہنے پر نہیں۔ دعا کرو کے اللہ مجھے توفیق دے۔ اپنے حضور حاضر ہو کر معافی مانگنے کی، توبہ کرنے کی"۔ وہ گم سم سا کہہ رہا تھا۔

پہلی بار اس کے دل میں احساس گناہ سر اٹھا رہا تھا۔ ہاں شاید اس کا ضمیر اب بھی زندہ تھا۔ شاید اس میں چند سانسیں اب بھی باقی تھی۔


"میں دعا کرتی ہوں کے اللہ تمہارے دل کو سکون عطا کرے"۔ وہ صدق دل سے کہنے لگی۔

باہر بجلی زور سے چمکی تھی۔


بہت دیر کی خاموشی دونوں کے درمیان حائل ہوئی۔

جسے قیصر کی آواز نے توڑا۔


"اچھا اور دوسری بات؟"۔ وہ پوچھنے لگا۔

لہجہ اب بھی سنجیدہ مگر نرم تھا۔


الوینا نے مسکرا کر بازو اس کے گلے میں حمائل کیئے۔


"اور دوسری بات یہ ہے کے میں اپنی زندگی کے اس نئے سفر کو اپنوں کی دعاؤں اور ان کی محبتوں کے بغیر شروع نہیں کرنا چاہتی۔ کیا تم مجھے ابھی میرے گھر لے چلو گے؟"۔ اس کی آنکھوں میں جھانکتی وہ ایک آس سے پوچھ رہی تھی۔

جانے کیوں قیصر کو اس کا انداز ڈرا رہا تھا۔


"ابھی اس وقت؟"۔ وہ حیران ہوا۔


"ہاں ابھی، کیونکہ مجھے پتہ ہے کے وہ سب بہت پریشان ہوں گے۔ میں بس ان سے ملنا چاہتی ہوں"۔ آنسو رخسار پر بہہ نکلے۔


"کہیں تم اپنے فیصلے پر۔۔۔پچھتا تو نہیں رہی نا؟"۔ جانے کس دل سے اس نے یہ سوال کیا تھا۔


"بالکل بھی نہیں۔ میں بلکہ بہت خوش ہوں۔ اپنے فیصلے سے اور تمہارا ساتھ ملنے پہ"۔ اس کی پیشانی سے سر ٹکاتے وہ محبت بھرے لہجے میں بولتی قیصر خیام کا ہر خدشہ اور ہر خوف زائل کر گئی۔


"چلو چلتے ہیں تمہارے پیرنٹس کے پاس"۔ وہ رضامند ہوا۔


"تم سچ کہہ رہے ہو؟ ہم ابھی چلیں گے؟"۔ الوینا کی آنکھیں جگمگا اٹھیں۔

اس کی بچوں کی سی خوشی دیکھ کر قیصر مسکرا دیا۔


"ہاں، ابھی اور اسی وقت"۔ سائیڈ میز پر دھری گھڑی کو دیکھ کر اس نے جواب دیا۔ جو رات کے بارہ بجا رہی تھی۔


"مجھے تم سے محبت نہیں عشق ہے"۔ فرط جذبات سے کہتی وہ بے ساختہ اس کے مضبوط سینے سے لگ گئی۔

قیصر نے بلاتامل اس کے گرد مضبوط حصار باندھ دیا۔

☆☆☆☆☆☆


سیاہ چست پینٹ اور سفید شرٹ کے اوپر سیاہ جیکٹ پہنے وہ پراعتماد چال چلتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی۔ خوبصورت کندنی رنگ کی کلائی میں کئی سیاہ بریسلٹ پہن رکھے تھے۔ اسٹریٹ پولز کی روشنی میں اس کی مخروطی انگلیوں نے ایک ناگن کی سی چمکتی پستول تھام رکھی تھی۔

اونچی سیاہ ہیلز سڑک پر چلتی دور تلک 'ٹک ٹک' کے سر بکھیر رہی تھی۔

چمکتے شہد رنگ کھلے بال اس کی پشت پر بکھر رہے تھے۔ ہوا جن سے اٹھکھیلیاں کر رہی تھی۔


"ہاں میں اسی سڑک پر موجود ہوں۔خبر پکی ہے نا؟"۔ موبائل کان سے لگائے وہ رازداری سے بول رہی تھی۔

چلتے ہوئے اب وہ ایک درخت تلے آ کھڑی ہوئی تھی۔ سنگل روڈ سے آتی جاتی اکا دکا گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس جب اس وجود پر پڑتیں تو گھنے درخت تلے، لٹکتی شاخوں کی وجہ سے اس کا چہرہ واضح نہ ہو پاتا۔


"جانتی ہوں کے یہ پہلی بار کر رہی ہوں میں۔ لیکن میری رگوں میں جو شرارے اس وقت دوڑ رہے ہیں، صرف اس شخص کی موت سے ہی ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے اسے"۔ ٹھہری ہوئی آواز۔ وہی سرد لہجہ۔

وہ اب بھی موبائل پر کسی سے مخاطب تھی۔

☆☆☆☆☆☆


اعظم سے کہہ کر اس نے گاڑی منگوائی اور اب ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان وہ ڈرائیو کرتا ہوا گاہے بگاہے برابر بیٹھی الوینا کو بھی دیکھ لیتا تھا۔

جس کا چہرہ بہت کھویا کھویا سا تھا۔


"کیا تمہیں لگتا ہے وہ معاف کریں گے اور ہمارے رشتے کو قبول کر لیں گے؟"۔ قیصر نے سنجیدگی سے سوال کیا۔


الوینا نے ٹھنڈی سانس بھری۔

"وہ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں۔ اسی لیئے مجھے یقین ہے کے وہ ضرور قبول کریں گے ہماری شادی کو"۔ بیک سیٹ سے ٹیک لگاتے اس نے تکان بھرے لہجے میں کہا۔

گاڑی ٹرن لے کر اب سنگل روڈ پر آ چکی تھی۔

(ٹک ٹک کرتی سیاہ ہیلز اب سڑک کنارے آ رکی تھی۔ وہ نیم رخ پر کھڑی تھی۔ چہرے کو سیاہ نقاب نے ڈھک رکھا تھا)۔

"تم پریشان مت ہو۔ اگر ضرورت پڑی تو میں خود ان س معافی مانگ کر ان سے درخواست کروں گا کے وہ ت۔۔۔۔"

"قیصر۔۔۔روکو"۔

سڑک پر نگاہیں جمائے ابھی وہ جملہ مکمل بھی نہ کر پایا تھا کے الوینا نے چیخ کر اسٹیئرنگ پر ہاتھ جماتے گاڑی گھمانا چاہی۔ کیونکہ وہ نازک سراپا اچانک گاڑی کے سامنے نمودار ہوا تھا۔

غور کرنے پر اس کے ہاتھ میں بندوق نظر آئی جو اس نے بلند کر رکھی تھی۔

قیصر خیام کی سانس اٹک گئی۔

ٹھاہ کی زوردار آواز کے ساتھ ہی بندوق سے ایک گولی نکلی اور قیصر کے بجائے اچانک اس کے سامنے آ جانے کی وجہ سے الوینا کے سینے میں پیوست ہو گئی۔

سڑک کنارے پتھر سے ٹکراتے گاڑی کا بیلنس بگڑا اور وہ ایک بلند آواز پیدا کرتی سڑک کنارے الٹ گئی۔

قیامت صغرا کے برپا ہونے کے بعد ہر سو موت کا سا سناٹہ پھیل گیا۔

ٹک ٹک کرتی ہیلز کچھ ہی لمحوں میں فاصلہ طے کرکے الٹی پڑی گاڑی کی جانب آ کر ٹھہر گئیں۔

اور وہ پنجوں کے بل جھک کر اندر کا جائزہ لینے لگی۔

خون میں لت پت چہرے میں صرف سرمئی آنکھیں ہی واضح ہو رہیں تھی۔ دھندلی بصارت سے وہ اسے دیکھنے لگا مگر کچھ واضح نہ ہو رہا تھا۔ آنکھوں کے سامنے بار بار اندھیرا سا آ جاتا۔

"ہیلو پیارے دشمن"۔ دھیمی، ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑانے والی آواز گونجی۔

"مجھ سے ملیے، میں ہوں زیست ذوالقرنین عباس عرفیت ذی عباسی۔ لیکن اس وقت میں تمہارے لیئے صرف موت لائی ہوں"۔ غرا کر کہتے اس نے قیصر کا گریبان تھاما اور اگلے ہی پل اسے ٹوٹے کانچ کے درمیان سے کھینچ کر باہر نکالا۔

جس میں سے کئی اس کے وجود میں کھب گئے۔

"ا۔۔۔ل۔۔۔وینا"۔ آنکھیں بند ہونے کے ساتھ ہی زبان پر یہ نام تھا اور ذہن کے پردے پر سبز چمکتی آنکھیں۔

سیاہ آسمان پر کڑکتی بجلی کسی طوفان کا پیش خیمہ تھی۔ رات بہت دھیمی رفتار سے سرک رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ کالی رات آج بہت سے لوگوں پر گراں گزرنے والی تھی۔


ہارون آدھے راستے بھی نہ پہنچا تھا جب اسے قیصر اور الوینا گاڑی میں بیٹھ کر جاتے نظر آئے۔


"الوینا۔۔۔رک جاؤ۔۔۔۔الوینا"۔ اس نے کئی بار آوازیں دیں۔

شاید اوٹ میں ہونے کی وجہ سے ان دونوں کی نگاہ نہ پڑی تھی اس پر۔ لہٰذا گاڑی رکے بغیر آگے بڑھ گئی۔

بلا تامل وہ آندھی طوفان کی مانند گاڑی کے پیچھے دوڑنے لگا۔

اس کے دیکھا دیکھا دیگر افراد بھی اس کے پیچھے لپکے۔


"کوئی گولی نہیں چلائے گا اس گاڑی میں الوینا بھی ہے"۔ بھاگتے ہوئے پھولی سانسوں کے درمیان اس نے حکم جاری کیا۔


مگر وہ بھلا کب تک گاڑی کی اسپیڈ کا مقابلہ کرتے۔ تھک کر رک گئے اور گاڑی سڑک پر بھاگتی ہوئی ان کی نظروں سے دور نکل گئی۔


"ڈیم اٹ"۔ اس نے فضا میں ان دیکھی چیز کو کک رسید کیا۔


"ڈی-ایس-پی ہارون عالم"۔ پیٹرولنگ پر معمور پولیس موبائلز کو اس نے اس گاڑی سے متعلق اطلاع دی۔

اور ساتھ ہی اپنے لیئے گاڑی بھی منگوائی۔


آدھے گھنٹے بعد ہی سرکاری گاڑی حاضر تھی۔


"غفور جلدی کرو، ہمیں جلد سے جلد ان تک پہنچنا ہوگا"۔ فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے اس نے کانسٹیبل سے کہا۔


"یس سر"۔ وہ بھاگ کر آیا اور ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔

دو کانسٹیبل پچھلی نشست پر آ گئے۔


"سر میں اور اصغر یہی رکتے ہیں۔ کیا پتہ وہ پھر سے یہاں پلٹ کر آئے اور یہاں کوئی بھی نہ ہوا تو؟"۔ حمید نے عام سے انداز میں کہا۔


"ٹھیک ہے"۔ سرد لہجے میں کہہ کر اس نے غفور کو گاڑی آگے بڑھانے کا اشارہ کیا۔


دس منٹ بعد ہی سرکاری گاڑی موڑ کاٹتے پھر سے اسی سڑک پر آ رہی تھی جب اچانک گولی چلنے کی آواز فضا میں بلند ہوئی۔


"یہ کیا تھا؟ جلدی چلو غفور"۔ ہارون کو تشویش نے آن گھیرا۔

اور ابھی وہ کچھ ہی دور آئے تھے کے انہیں سفید کرولا الٹی پڑی نظر آئی۔


"اوہ نو، گاڑی روکو"۔ وہ چیخا۔

غفور نے ایک جھٹکے سے گاڑی روکی مگر اس سے قبل ہی ہارون دروازہ کھول کر باہر نکل آیا تھا۔


"اے رکو،کون ہو تم؟"۔ سیاہ لباس میں موجود وہ کوئی صنف نازک تھی جو سفید شلوار قمیض میں ملبوس ایک توانا مگر نیم جان سے وجود کو بمشکل کھینچ کر لے جاتے پاس کھڑی گاڑی میں ڈال کر دروازہ بند کرتے ڈرائیونگ سیٹ پر آ گئی تھی۔


"میں نے کہا رک جاؤ"۔ پستول بلند کرتے اس نے وارن کیا۔ مگر وہ ان سنی کرتی زن سے گاڑی بھگا لے گئی۔

اور ہارون کا ایک ہی وار خالی گیا تھا۔


غصے سے اس نے سیاہ بال مٹھی میں بھینچ لیئے۔


"سر جلدی یہاں آئیے"۔ کانسٹیبل کی گھبرائی ہوئی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی تو وہ ہوش میں آیا۔


"کیا ہوا شاہد؟"۔ وہ بھاگتا ہوا گاڑی کے اس جانب آیا جہاں کانسٹیبل پنجوں کے بل بیٹھا جائزہ لے رہا تھا۔


"گاڑی میں کوئی وجود ہے"۔ کمزور سے لہجے میں کہتے اس نے عروسی لباس والی صنف نازک کی جانب اشارہ کیا۔ جس کی گردن ایک طرف کو ڈھلکی ہوئی تھی۔ سرخ لباس میں خون کا گہرا رنگ بھی شامل تھا۔ جو اس کے لباس کے رنگ میں گڈمڈ ہو رہا تھا۔

ہارون عالم کا دل ڈوبنے لگا۔


"باہر نکالو اسے جلدی"۔ وہ کانسٹیبل پر دھاڑا۔ ساتھ ہی اسے گاڑی سے باہر نکالنے کی خود بھی کوشش کرنے لگا۔


اور اس نے اس پل کو کوسا جب اس بے جان اور ہلکے پھلکے وجود کا چہرہ اس کی نگاہوں کے سامنے آیا تھا۔


"نہیں یہ نہیں ہو سکتا"۔ وہ بے یقینی سے بڑبڑایا۔

جلدی سے اس کی نبض چیک کیں۔


"الوینا تمہیں کچھ نہیں ہو سکتا۔ آنکھیں کھولو اور دیکھو میری طرف کیا جواب دوں گا میں خالو اور خالہ جان کو؟ تم ایسا نہیں کر سکتی۔ اٹھو الوینا، میں نے کہا آنکھیں کھولو"۔ چیخ چیخ کر کہتے وہ اس کا خون سے سنا چہرہ تھپتھپا رہا تھا۔

اس وقت اس کی حالت قابل رحم ہو رہی تھی۔


"شاہد جلدی ایمبولینس کو فون کرو، ہمیں اسے ہسپتال لے جانا ہوگا"۔ وہ ایک بار پھر کانسٹیبل پر دھاڑا۔

وہ شرمندہ سا گردن جھکا گیا۔


"لیکن سر، ان کی موت ہو چکی ہے"۔ پست لہجے میں کہتے اس نے ہارون کے وجود کے پرخچے اڑا دیئے تھے۔


"کیا بکتے ہو؟ تم جانتے بھی ہو کے یہ کون ہے؟ ڈی-آئی-جی مختار انصاری کی بیٹی ہے یہ۔ خبردار جو تم نے کچھ الٹا سیدھا کہا ہو تو"۔ غرا کر کہتے ہوئے اس کا گریبان پکڑ کر جھٹکا۔


"مگر سر۔۔۔آپ اس کی نس چیک کریں خود ہی۔ دھڑکن بھی رک چکی ہے۔ دل میں گولی لگی ہے ان کے"۔ آہستگی سے کہتے اس نے ہارون کو ہوش میں لانا چاہا۔


"اپنی بکواس بند کرو ورنہ ساری کی ساری گولیاں تمہارے سینے میں اتار دوں گا۔ جلدی ایمبولینس بلواؤ"۔ اس پر گن تانتے ہوئے وہ چبا چبا کر بولا۔


سیاہ آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔


"یی۔۔یس سر"۔ گھبرا کر وہ موبائل نکالتے ایک طرف چلا گیا۔


"سر وہ آدمی کہاں گیا؟ وہ بھی تو اس کے ساتھ تھا؟"۔ غفور نے ایک نیا نقطہ اٹھایا۔


"میری بلا سے مر جائے وہ، مجھے اس کی کوئی ضرورت بھی نہیں۔ ویسے بھی وہ ایک مجرم ہے۔ مگر الوینا۔۔۔"۔ اس نے بھرائی ہوئی آنکھوں سے اس کے زرد چہرے کو دیکھا۔ جو آنکھیں موندے پرسکون سی ابدی نیند سو چکی تھی۔


بہت نزدیک ہو کر بھی وہ اتنا دُور ہے مجھ سے

اِشارہ ہو نہیں سکتا، پُکا را جا نہیں سکتا!

☆☆☆☆☆☆


"باہر نکالو اسے گاڑی سے"۔ سنسان علاقے میں سڑک کنارے گاڑی اتار کر اس نے پچھلی نشست پر براجمان اپنے دو آدمیوں سے کہا۔


"مادام اس کا کرنا کیا ہے؟"۔ قیصر کے زخمی وجود کی جانب اشارہ کیا۔


ڈرائیونگ سیٹ پر موجود نقاب میں چھپے چہرے کی سبز آنکھیں آئینے کے ذریعے پیچھے کا منظر دیکھنے لگی۔ قیصر خیام کا خون سے بھرا چہرہ اس کی نگاہوں کے سامنے تھا۔


وہ مڑی اور ایک کے بعد ایک دو گولیاں اس نے قیصر کے وجود پر چلائیں۔ اس کا بے ہوش وجود دونوں بار اچھل کر ساکت ہوا۔ دو گولیوں میں سے ایک دائیں جانب اس کے شانے سے زرا نیچے لگی تھی جبکہ دوسری بازو پر۔ سرخ گاڑھا خون تیزی سے بہہ کر سفید قمیض کو اپنے رنگ میں رنگنے لگا۔ قریب سے چلنے کی وجہ سے گولی آر پار نکل کر گاڑی کی سیٹ میں گھس گئی تھی۔

دونوں اشخاص ایک دوسرے کا چہرہ تکنے لگے۔


"اب اسے گاڑی سے اتارو پھر بتاتی ہوں کے آگے کیا کرنا ہے"۔ ہموار لہجے میں کہتی وہ خود بھی گاڑی سے نیچے اتر آئی۔


کچھ ہی لمحوں بعد قیصر کا وجود زمین پر اس کی نگاہوں کے سامنے تھا۔


"اس کی لاش کو اٹھا کر کسی ریل کی پٹری پر ڈال آؤ یا پھر پہاڑی سے نیچے پھینک آؤ۔ دو گز زمین بھی اس شخص کو ملے یہ مجھے منظور نہیں"۔ سفاکی سے کہتے ہوئے اس نے نوٹوں کی دو،دو گڈیاں ایک ایک کرکے ان دونوں کی جانب اچھالی۔ جسے انہوں نے پکڑ لیا۔


"یہ پیشگی ہے۔ باقی کام ہونے کے بعد"۔ سخت لہجے میں کہا۔

اثبات پر ان دونوں نے محض سر ہلایا۔


"الوینا"۔ درد میں ڈوبی سرسراتی ہوئی آواز ابھری۔


وہ جو جانے کیلئے مڑ رہی تھی اس پکار کو سن کر اس کے قدم زنجیر ہوئے۔

پھر اگلے ہی پل وہ مڑی۔ چل کر اس زخمی وجود کے پاس آئی۔

جھک کر اس کے نبض چیک کیئے جو سست روی سے اب بھی حرکت میں تھے۔


"بہت ہی ڈھیٹ واقع ہوا ہے یہ۔ اتنی آسانی سے مرے گا نہیں"۔ تلخی سے کہتے اس نے قیصر کا خون میں ڈوبا گریبان پکڑ لیا۔ جس سے اس کے ہاتھ بھی خون میں رنگ گئے۔


جھٹکے سے اسے چھوڑتے ہوئے وہ اٹھ کر پورے قد سے کھڑی ہو گئی۔


"اسے لے جاؤ ہسپتال۔ ڈاکٹرز جیسے ہی گولی نکال کر اس کا علاج کر لیں اس کے فوری بعد اسے پاگل خانے چھوڑ آؤ۔ ان جیسوں کو باہر کھلا چھوڑنا خطرے سے خالی نہیں۔ بچ جاتا ہے تو اس کا نصیب، مر گیا تو اور بہتر"۔ اس نے ایک نیا حکم جاری کیا۔ سر ہلاتے وہ حکم بجا لائے۔ انہیں تو اپنے پیسوں سے مطلب تھا۔


پھر وہ جانے لگی تھی کے تبھی جیسے کچھ یاد آنے پر رکی اور پلٹی۔

"اور ہاں، اس کا موبائل، والٹ اور کوئی بھی چیز جو اس کی شناخت کرسکے وہ سب مٹا دو۔ اس کے وجود پر سوائے اس لباس کے اور کوئی بھی چیز نہیں رہنی چاہیئے۔ سب کچھ یہاں جمع کرو اور نظرِ آتش کردو۔ ابھی!"۔ انگلی اٹھا کر حکم دیا۔


"یس مادام"۔ انہوں نے تعمیل کرتے ہوئے ایسا ہی کیا۔


"اس گاڑی کو پہاڑی سے نیچے گرا دو۔ میں نہیں چاہتی کے پولیس کے ہاتھ کچھ بھی لگے۔ ان سب باتوں کی میں تصدیق کروں گی۔ کوئی بھی گڑبڑ کرنے کی کوشش کی تو گولی سے اڑا دوں گی"۔ ایک آخری ہدایت جاری کرتے اس نے ایک نگاہِ غلط بھی زمین پہ پڑے اس وجود پر نہ ڈالی اور پراعتماد چال چلتی ہوئی منظر سے نکل گئی۔


میں فنا ہوگیا وہ بدلا پھر بھی نہیں

میری چاہت سے بھی سچی تھی نفرت اس کی۔

☆☆☆☆☆☆


"آئم سوری سر، انہیں مرے ہوئے تو ایک گھنٹہ بیت چکا ہے۔ آپ لوگوں نے بہت دیر کر دی انہیں یہاں لانے میں۔ خیر، جو اللہ کی مرضی"۔ ابھی دس منٹ پہلے ہی تو ڈاکٹر نے اس کے پاس آتے خاصے پروفیشنل انداز میں بتایا تھا۔

تب سے لے کر اب تک ہارون عالم سن سے وجود کے ساتھ ہسپتال کی کرس پر بے حس و حرکت بیٹھا تھا۔

اس کے ارد گرد جھکڑ سے چل رہے تھے۔

سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کے اب کرے تو کیا کرے۔ آخر کس منہ سے مختار اور فائزہ کو یہ اطلاع دے۔


ہاں البتہ اس نے ایک ہی ہستی سے رابطہ کیا تھا جو اس وقت بے آواز چلتی ہوئی نڈھال قدموں کے ساتھ اس کے برابر آ بیٹھی تھی۔

ہارون کو نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھنے کی ہمت نہ ہوئی۔ دوسری جانب اس کی بھی قوت گویائی جیسے سلب کر لی گئی تھی۔


دونوں ہی اپنی اپنی جگہ خاموش مگر دکھ و صدمے میں تھے۔

وہ منہ پر ہاتھ رکھے بے تحاشا آنسو بہاتے ہوئے سسکیاں دبانے کی کوشش میں ہلکان ہو رہی تھی۔

تو دوسرا خود پر ضبط کے پہرے بٹھاتے بٹھاتے نڈھال سا ہو گیا تھا۔


"عالم کہاں ہے الوینا؟ کیسی ہے وہ؟"۔ پتہ نہیں کس نے مختار صاحب کو اطلاع دی تھی کے وہ ہانپتے کانپتے اس کے سامنے آن وارد ہوئے تھے۔

پیچھے پیچھے فائزہ کا زرد گھبرایا گھبرایا سا چہرہ بھی تھا۔


ہارون چونک کر نشست سے اٹھ کھڑا ہوا۔


"آپ لوگ؟ یہاں؟"۔ ان کے پریشان چہرے دیکھ کر اسے فوری سمجھ نہ آیا کے کیا کہے ان سے۔


"یہ سب چھوڑو، الوینا کہاں ہے؟ آخر اسے ہوا کیا ہے؟"۔ مختار صاحب نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے اسے جھنجھوڑا۔


"وہ۔۔۔الوینا"۔ سر جھکائے وہ ہمت مجتمع کرنے لگا۔


"الوینا کیا؟ آخر تم کچھ بولتے کیوں نہیں؟"۔ وہ غصے سے کانپ اٹھے۔ دل سوکھے پتے کی مانند کانپ رہا تھا۔


"الوینا نہیں رہی"۔ مختصر سے مختصر الفاظ میں کہتے ہوئے اس نے ان کے کانوں میں گویا صور پھونک دیا۔


فائزہ کا ہاتھ بے اختیار سینے پر پڑا تھا۔

جبکہ مختار کا چہرہ پتھرا گیا۔ ہر گزرتا لمحہ ان کے چہرے کا رنگ سفید پڑتا چلا گیا۔ قدم قدم پیچھے ہوتے ہوتے بے اختیار کانپتے ہاتھ سہارا تلاشتے دیوار پر جم گئے۔ اور اگلے ہی پل وہ سینے کو مسلتے ہوئے زمین پر بیٹھتے چلے گئے۔


"مختار" فائزہ کی گھٹی گھٹی سی چیخ نکل گئی۔


"نرس۔۔۔ڈاکٹر"۔ ہارون لپک کر ان کی جانب بڑھتے ہوئے بلند آواز سے چیخا تھا۔


ہم اس جہان سے ارمان لے کے جائیں گے،

خدا کے گھر یہی سامان لے کے جائیں گے


یہ ولولے تو میری جان لے کے جائیں گے

یہ ذوق شوق تو ایمان لے کے جائیں گے


وہ وقت نزع نہ آئیں عدو کے کہنے سے،

ہم اور غیر اک احسان لے کے جائیں گے


بیاں کریں گے ترے ظلم ہم قسم کھا کر

خدا کے سامنے قرآن لے کے جائیں گے

☆☆☆☆☆☆


آسمان پر زوردار گڑگڑاہٹ کے ساتھ ہی بارش کی بوندیں تیزی سے زمین کو بھگونے لگیں۔

لگ رہا تھا جیسے یہ اس درد بھری داستان اور اس کے انجام پر گرتے ماتم کناں تھے۔

مگر وہ کیسی مخلوق تھی جس کے دل میں رتی بھر رحم نہ آیا تھا۔ جو اتنی سفاک اور سنگ دل واقع ہو رہی تھی۔

جس کے ہاتھ ذرا بھی نہ کانپے تھے۔ آخر ایک صنف نازک اتنی ظالم کیسے ہو سکتی تھی۔


خاموش فضا میں برستی بوندوں کی تڑتڑاہٹ ایک محشر سا برپا کر رہی تھی۔ آسمان پورے گرج چمک کے ساتھ برس رہا تھا۔


گھر کا مین دروازہ کھلا اور سیاہ ہیلز اپنی مخصوص آواز کے ساتھ نڈھال سی گھر میں داخل ہوئی۔

سارا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔


آتش دان کی زرد روشنی ماحول کو اجیب خوابناک سا منظر دے رہی تھی۔

سست روی سے چلتی ہوئی وہ آتش دان کے قریب رکھے صوفے پر براجمان اس وجود تک آئی اور گھٹنوں کے بل اس کے پیروں میں بیٹھ گئی۔

زرد روشنی سے اس کا کندنی رنگ پگھلے ہوئے سونے کی مانند دمک رہا تھا۔

بلوریں آنکھوں میں آتش جل رہا تھا۔

مخروطی انگلیوں والے ہاتھ اس نے سامنے کیئے جن میں سرخ رنگ لگا تھا۔


"دیکھو ماں، یہ رنگ اس قاتل کے خون کا ہے جس نے تمہارے لال کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے تھے۔ جس نے ہمیں کانٹوں پہ گھسیٹا، تمہارے کلیجے کا ٹکڑا تم سے الگ کیا آج میں نے اسے ایسی جگہ سے مارا ہے کے وہ پانی بھی نہیں مانگے گا۔ ایسی شکست سے دوچار کیا ہے کے وہ ساری زندگی اس ان دیکھی آگ میں جلتا رہے گا جس میں اس نے ہم دونوں کو جلایا ہے"۔ بھرائی ہوئی آواز میں کہتی وہ کچھ دیر قبل والی زیست ہرگز بھی نہ لگ رہی تھی۔


سفید دوپٹے کے ہالے میں موجود وہ پر شفقت اور پرنور چہرہ جیسے پتھر کی مورت تھا۔ اس کی کسی بات پر بھی ان کے چہرے کے نقوش میں کوئی ہلچل نہ مچی۔ وہ بس ساکت سی ایک ہی پوزیشن میں بیٹھیں غیر مرئی نقطے کو تک رہی تھیں۔

البتہ ہاتھ میں موجود تسبیح کے دانے مسلسل گر رہے تھے۔


"میری طرف دیکھو ماں، مجھ سے بات کرو دیکھو آج تمہاری زیست کے ہاتھ پہ بھی اس بے رحم قاتل کا آلودہ خون لگ چکا ہے۔ میں نے اسے بالکل بھی معاف نہیں کیا اماں، وہ درندہ رحم کے قابل تھا ہی نہیں۔ اس نے ہم سے ہمارا سہارا چھین لیا تھا نا؟ اس نے آپ کے بڑھاپے کی لاٹھی توڑ دی تھی نا؟ تو آج میں بھی اس کے حصے میں خسارہ ڈال آئی ہوں اماں، اپنی لی ہوئی قسم پوری کرکے آئی ہوں۔ میری طرف دیکھو میں اپنے شہزادے بھائی کا بدلہ لے آئی ہوں"۔ خون سے سنے ہاتھ دکھاتے ہوئے ان کے گھٹنے سے سر ٹکائے وہ پھپھک پھپھک کر رو دی۔


اس کی بات پر اچانک ان کی پتھریلی آنکھوں میں حرکت ہوئی۔ چہرے پر کرب سمٹا اور اگلے ہی پل ان کے نحیف سے ہاتھ نے زیست کا چہرہ ٹھوڑی سے پکڑ کر اونچا کرتے ایک طماچہ اس کے رخسار پر جڑ دیا تھا جو بہت زوردار نہ تھا مگر اتنا ضرور ہوا کے وہ پیچھے کی جانب لڑھک گئی۔


"کیا کہا تو نے؟ قاتل بن گئی تو؟ یہی سکھایا ہے میں نے تجھے؟ کیا یہی تربیت کی تھی تیری کے تو جانوروں کی طرح لوگوں کے جسم سے گوشت نوچتی پھرے؟ ان کی نسوں سے خون کھینچ کر اس سے غسل کرے؟ بول میں تجھ سے کچھ پوچھ رہی ہوں زیست؟"۔ اس کا بازو تھام کر اپنے سامنے کھینچتے ہوئے وہ چیخیں۔


مگر وہ حیرت کدہ بنی اپنی ماں کو سر تا پیر دیکھنے لگی۔ اتنے ماہ سے جس وجود نے پلکیں بھی نہ جھپکائی تھی۔ بیٹے کی موت نے انہیں پتھر بنا دیا تھا۔ مگر آج ان کے اس پتھر وجود میں دراڑیں پڑ گئی تھی۔

زیست کے وجود میں پچھتاوے کا رہا سہا پھانس بھی ان کی درست ہوتی حالت دیکھ کر نکل گیا۔


جبکہ وہ اب سر تھامے بے تحاشا رونے لگیں تھی۔


"اماں آپ ٹھیک ہو گئیں؟ آپ بالکل ٹھیک ہو گئیں"۔ وہ بھیگے چہرے سمیت گھٹنوں کے بل سرک کر ان تک آئی اور بے تابی سے کہنے لگی۔ آتشی آنکھوں سے جھیل رواں تھا۔


"ہائے میرا بچہ۔۔۔میرا تیمور میرے کلیجے کا ٹکڑا۔ چلا گیا مجھے چھوڑ کر"۔ سینے پہ ہاتھ رکھے وہ گریہ و زاری کرنے لگیں۔ زیست کو آغوش میں بھرتے وہ بیٹے کو رو رہی تھیں۔ تیمور کی موت کے بعد وہ آج اپنے صدمے سے باہر نکلی تھیں۔ وہ بھی ان کے ساتھ لگی بچوں کی طرح رو رہی تھی۔


"مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا اماں، آج میرے بھائی کو انصاف مل گیا ہے۔ جو انصاف اسے عدالت، پولیس اور ان دنیا والوں نے نہیں دیا آج اس کی یہ بہن اس کا انصاف کر آئی ہے۔ میں اسے موت سے بدتر زندگی دے آئی ہوں اماں، وہ موت مانگے گا مگر مر نہیں سکے گا"۔ چیخ چیخ کر کہتی وہ آنسو بھی بہا رہی تھی۔

آج پھر سے ان کے زخموں کو ہوا مل گئی تھی۔


یہ میرا حوصلہ ہے تیرے بغیر

سانس لیتا ہوں ،بات کرتا ہوں

☆☆☆☆☆☆


نیلے سمندر کے بیچ و بیچ وہ حسین جزیرہ کسی جنت کا ٹکڑا ہی محسوس ہو رہا تھا۔

ارد گرد دھندلکے کا راج تھا۔

سفید شلوار قمیض میں ملبوس وہ ارد گرد نگاہیں دوڑاتے جیسے کسی کو تلاش کر رہا تھا۔

پھر ایک مقام پر آ کے اس کی نگاہیں ٹھہر سی گئیں۔

سفید لباس میں ملبوس کمر پر گرتے شہد رنگ بال، اس کی جانب پشت کیئے کھڑی ہاں وہ وہی تھی۔ اس کا قلب۔۔اسکی زندگی!

وہ بھاگتا ہوا اس تک پہنچا اور اس کی پشت پر کھڑا وہ ان حسین بالوں کو تکنے لگا۔


"میں تب سے تمہیں تلاش کر رہا ہوں"۔ سرمئی آنکھوں والے شخص نے بےقراری سے کہا۔


"میں تو ہمیشہ سے تمہاری نگاہوں کے سامنے تھی"۔ وہ مڑی۔ شنگرفی لب مسکرا رہے تھے۔

وہ بھی اسے مسکراتے دیکھ کر مسکرا دیا۔


"ایک پل کیلئے تو میں ڈر ہی گیا تھا۔ اب دور مت جانا مجھ سے"۔ جنوں خیزی سے کہتے ہاتھ بڑھا کر اس نے لڑکی کا چہرہ ہاتھوں میں تھامنا چاہا۔ مگر وہ الٹے قدم اٹھا کر اس سے دور ہوئی۔

وہ بھی بلا تاخیر اس کی طرف بڑھنے لگا۔


"مجھے جانا ہوگا"۔ دھند میں گھری وہ لڑکی نم آنکھوں سے کہنے لگی۔


"نہیں تم مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتی"۔ وہ تڑپ کر اس جانب بڑھا۔ مگر وہ پھر اس سے دور ہوگئی۔

جیسے ریگستان میں کسی پیاسے اور تھکے ہارے مسافر کو دریا کا گماں گزرتا ہے۔ اور وہ جب اس کی طرف قدم بڑھاتا جاتا ہے تو دریا اسے اور دور لگنے لگتا ہے۔


"میں تمہارا گماں ہوں۔ اپنی حقیقت ڈھونڈو۔ شناخت پہچانو"۔ دلکش مدھر آواز اس سے کہہ رہی تھی۔


"ایسا مت کہو، تم ہی تو میری حقیقت ہو۔ دور مت جاؤ مجھ سے میں جی نہیں پاؤں گا"۔ وہ گڑگڑایا۔


"تمہیں جینا ہوگا، تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا"۔ وہ اسے یاد دلاتے ہوئے تنبیہ کر رہی تھی۔ مگر ہر قدم اس سے دور بھی جا رہی تھی۔


"نہیں میں نہیں جی سکتا، بھلا کوئی اپنے قلب کے بغیر بھی جی سکتا ہے؟"۔ وہ رو دیا۔


"میں جا رہی ہوں۔ اور تم جیو گے۔ اپنے قلب میں موجود محبت کیلئے۔ زندگی کیلئے"۔ چمکتی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے اپنی بات مکمل کی۔


"نہیں تم نہیں جا سکتی"۔ وہ دھندلکے کو پار کرتا آگے بڑھ رہا تھا جب کسی نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھام لیا۔

جھٹکے سے مڑنے پر اسے دو سبز آنکھیں نظر آئیں۔


"نہیں تم نہیں جا سکتی تم مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔۔الوینا"۔ وہ درد سے چیختا ہوا سفید بستر پر اٹھ بیٹھا تھا۔ اور اب اس پر ایک جنون سا طاری ہو گیا تھا۔

اپنے ہاتھ سے ڈرپ کھینچ کر نکالی اور لڑکھڑاتے قدموں سے چلتا ہوا وہ سر تھامے آگے بڑھنے لگا۔


"ڈاکٹر جلدی آئیے پلیز"۔ نرس کی اس پر نظر پڑی تو گھبرا کر پکارتے ہوئے اسے روکنے کی کوشش کی مگر وہ اسے دھکیل کر آگے بڑھنے لگا۔

زخم کے ٹانکے ادھڑ گئے تھے۔ سفید لباس کندھے کے مقام سے سرخ ہونے لگا تھا۔ خون تیزی سے فرش پر گرتا ہسپتال کے سفید ٹائلز کو رنگ رہا تھا۔ مگر اسے پرواہ کب تھی۔


اتنے میں ڈاکٹرز اور چار پانچ میل نرس بھاگتے ہوئے وہاں آ گئے۔


"اوہ مائی گاڈ! یہ سب کیا ہے؟ آپ پلیز بستر پر لیٹ جائیے، آپریشن ابھی ابھی ہوا ہے زخم تازہ ہے"۔ ڈاکٹرز نے اسے پچکارتے ہوئے واپس بیڈ پر ڈالنا چاہا۔

اس کے ماتھے پر بھی سفید پٹی بندھی تھی۔ بازو پہ پلستر لگا تھا۔ وہ نیم جان سا ہو کر بھی ان آٹھ لوگوں کے ہاتھ نہیں آ رہا تھا۔


"ہٹ جاؤ، جانے دو مجھے۔ اسے روکنا ہے مجھے۔ وہ جا رہی ہے"۔ انہی جملوں کی تکرار کرتا وہ واقعی اپنے حواسوں میں نہیں لگ رہا تھا۔


ڈاکٹر نے اشارے سے نرس کو انجیکشن بھرنے کا کہا۔ وہ سر ہلاتی ہوئی پھرتی سے سرنج بھرنے لگی۔


"دیکھیے ابھی آپ کی حالت بالکل ٹھیک نہیں ہے۔ آپ جب مکمل ٹھیک ہو جائیں گے تب ہم آپ کو جانیں دیں گے"۔ اس کا راستہ روکے کھڑا ڈاکٹرز کا ہیڈ اسے دلاسہ دے رہا تھا۔ میل نرس بھی اسے گھیرے کھڑے تھے۔


نرس نے خاموشی سے آگے بڑھ کر سرنج اس کے بازو میں چبھو دی۔ سیکنڈز میں سرنج خالی ہو گئی۔


"انہیں لٹاؤ وہاں"۔ ڈاکٹر نے کہا۔


"مجھے جانے دو"۔ اس کی مزاحمت اب دم توڑنے لگی تھی۔ ان لوگوں نے واپس اسے بیڈ پر ڈال دیا۔


"نرس ان کے ساتھ کون ہے؟ اور وہ اس وقت کہاں ہیں؟"۔ ہیڈ نے پوچھا۔


"سر وہ کافی دیر سے باہر ہی تھے ابھی پندرہ منٹ پہلے ہی گئے ہیں"۔ نرس نے اطلاع دی۔


"ہاں تو کوئی نام پتہ یا نمبر چھوڑا ہوگا انہوں نے۔ کال کرکے ارجنٹ بلواؤ انہیں"۔ ڈاکٹر نے حکمیہ کہا۔


"بریگیڈیئر فیض بخاری۔ یس سر ابھی کال کرتی ہوں"۔ وہ کہتی ہوئی وی-آئی-پی وارڈ سے باہر نکل گئی۔


جبکہ ڈاکٹر نے اب بستر پر لیٹے اس شخص کو دیکھا۔ جو سکون آور دوا کے زیر اثر اب آنکھیں بند کیئے پرسکون پڑا تھا۔


ہم آغاز محبت میں ہی لُٹ گئے ہیں

لوگ کہتے ہیں کہ انجام بُراہوتاہے۔

☆☆☆☆☆☆


آج اس کا سوئم تھا۔

وہ یوں گئی تھی جیسے کبھی اس دنیا میں تھی ہی نہیں۔ جیسے کبھی کسی نے دیکھا ہی نہیں اسے۔

وہ جو خواب بنتی تھی۔ آج اسی خواب نگر میں کہیں کھو سی گئی تھی۔


مختار صاحب دل کے عارضے میں مبتلا ہو چکے تھے۔ جس وجہ سے وہ اب بھی اسپتال میں داخل تھے۔ ابھی ان کی حالت قدرے بہتر نہ ہوئی تھی۔ جس وجہ سے ڈاکٹرز نے اجازت نہیں دی تھی گھر جانے کی۔

ہارون گھر اور اسپتال کے درمیان میں گھن چکر بنا رہتا تھا۔

فائزہ کی بھی حالت کچھ ٹھیک نہ تھی۔ غزل اپنے طور پر انہیں بہلائے رکھنے کی سعی کرتی رہتی تھی۔ اپنی دوست، اپنی ساتھی کو کھونے کا دکھ اس کیلئے بھی کچھ کم نہ تھا۔ وہ جب کھو گئی تھی تب تو امید بھی تھی کے ایک نہ ایک دن مل جائے گی۔

مگر اب وہ ایسے کھوئی تھی کے اب کبھی نہیں ملنی تھی۔


ہر کوئی اپنی جگہ دکھی تھا۔ صدمے میں تھا۔ جوان جہاں موت نے سب کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔


ان سب میں ایک شخص ضرور مطمئن تھا۔ علی مرزا۔

جنہوں نے جیل میں رہ کر بھی ایک ہی وار سے اپنے تمام دشمنوں کو دھول چٹا دی تھی۔

سزا تو انہیں عمر قید ہو گئی تھی۔ مگر وہ اب بھی ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے کبھی نہ سدھرنے اور بدلنے کی قسم کھا رکھی ہوتی ہے۔

لہٰذا ان کی فطرت بھی کبھی نہ بدلنا تھی۔


ضمیر جا گ ہی جاتا ہے ،اگر زندہ ہو اقبالؔ

کبھی گناہ سے پہلے ،تو کبھی گناہ کے بعد۔

☆☆☆☆☆☆


(دو سال بعد)


"میرا والٹ کہاں رکھا ہے؟"۔ اس نے کمرے سے ہی ہانک لگائی۔


ناشتہ ٹرے میں سجائے وہ کمرے میں داخل ہوئی۔


"روز بتانا پڑتا ہے آپ کو کے جناب کی ساری چیزیں میں نے پہلے ہی سائیڈ میز پر رکھ چھوڑی ہیں۔ مگر مجال ہے جو آپ شور کیئے بنا گھر سے نکلیں"۔ ٹرے کانچ کی چھوٹی سی میز پر رکھتے کمر پہ ہاتھ جمائے وہ روز کا کہا گیا جملہ آج پھر کہہ رہی تھی۔


ہارون نے بغور اس کی جانب دیکھا۔

بھورے بال کیچر میں قید تھے۔ جن سے کئی چھوٹی لٹیں باہر نکل رہی تھیں۔ نکھرا ستھرا چہرہ اور شفاف حلیے والی وہ اس کی بیوی اس کی کل کائنات تھی۔


یونیفارم میں ملبوس ہاتھ پشت پر باندھے وہ دھیرے دھیرے چلتا ہوا اس کے مقابل آیا۔


"سات ماہ اور اٹھارہ دن ہو چکے ہیں ہماری شادی کو۔ مگر اس مختصر عرصے میں تمہارا اس قدر عادی ہو چکا ہوں کے اب اپنی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی مجھ سے تمہاری مدد کے بغیر ڈھونڈی نہیں جاتی جادوگرنی"۔ گمبھیر لہجے میں کہتے ہوئے اس نے اس مجسم کو خود سے قریب تر کیا۔ سیاہ آنکھیں لو دے رہی تھی۔

غزل نگاہیں جھکائے جھینپ کر مسکرا دی۔


"آہمم آہممم"۔ اسی وقت کھلے دروازے پر کوئی کھنکھارا۔

غزل گڑبڑا کر جلدی سے فاصلے پر ہو گئی۔


جبکہ ہارون سیاہ بالوں پہ ہاتھ پھیرتا خجل سا ہو گیا۔


"وہ دراصل آج الوینا کی برسی ہے تو گھر میں آج قرآن خوانی کروانی ہے۔ انہی تیاریوں کے سلسلے میں غزل سے مجھے بات کرنی تھی"۔ فائزہ نے سنجیدگی کا تاثر دیتے ہوئے کہا۔


"اا۔۔۔جی جی خالہ کیوں نہیں۔ میں تو بس آفس ہی جا رہا تھا"۔ پھرتی سے والٹ جیب میں رکھتے اپنا موبائل اور کیپ سنبھالتے ہوئے وہ انہیں سلام کرتا ہوا کھسک گیا وہاں سے۔


"ارے ناشتہ تو کرتے جائیں"۔ غزل پکاری۔


"وہ میں باہر کر لوں گا فلحال دیر ہو رہی ہے مجھے"۔ کمرے کے باہر سے ہی کہتا ہوا وہ نکل گیا۔


"گھوڑے پر سوار رہتا ہے یہ تمہارا میاں"۔ فائزہ مسکراتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئیں۔


"آئیں خالہ، بیٹھ کر بات کرتے ہیں"۔ ان کا ہاتھ تھامتے ہوئے اس نے انہیں بیڈ پر بٹھا دیا۔


انہوں نے شفقت سے اس کی پیشانی پر بوسہ ثبت کیا۔


"کبھی کبھی سوچتی ہوں غزل کے اگر تم دونوں نہ ہوتے تو پتہ نہیں میں اور مختار الوینا کے بعد کتنے دن اور جی پاتے"۔ آنکھوں میں امڈ آئی نمی انگلی کی پوروں سے صاف کرتے ان کے چہرے پر کرب واضح نظر آتا تھا۔


غزل کا دل دکھ سے بھر گیا۔


"اللہ آپ دونوں کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے۔ اور میں واقعی بہت خوش قسمت ہوں کے مجھے ساس کے روپ میں آپ ملیں اور سسر کے روپ میں مختار انکل۔ سچ پوچھیں تو ہارون سے شادی کرنے کے فیصلے میں میری اپنی غرض بھی شامل تھی۔ کیونکہ مجھے ان سے، آپ دونوں اور اس گھر میں سے الوینا کی خوشبو آتی ہے"۔ بہت دنوں بعد اسے یاد کرتے آج پھر آنکھیں اشکبار ہوئی تھیں۔ منظر دھندلا گیا تھا۔


"اچھا، اگلے ہفتے میں مختار کو لے کر لندن ہارٹ سرجری کروانے لے جاؤں گی۔ دل تو نہیں مان رہا تمہیں اس حال میں اکیلا چھوڑنے کو۔ مجبوری نہ ہوتی تو تمہیں یوں تنہا چھوڑنے کا نہیں سوچتی"۔ اسے دکھی ہوتے دیکھ کر انہوں نے بات بدل دی۔ وہ اس کیلئے حد درجہ پریشان رہتی تھیں۔

ان کی فکرمندی پر وہ نرمی سے مسکرا دی۔


"آپ بالکل پریشان مت ہوں، میں نے ممی سے کہہ دیا ہے وہ چکر لگا لیا کریں گی، یا پھر میں خود ان کے پاس چلی جایا کروں گی۔ چند دن تو یونہی نکل جائیں گے۔ اور پھر ہارون بھی تو ہیں نا میرا خیال رکھنے کیلئے"۔ وہ پرسکون لہجے میں کہتی انہیں مطمئن کر گئی۔


"بہت سمجھدار ہے میرا بچہ، اور ہارون کی طرف سے بھی میں بالکل بے فکر ہوں۔ کیونکہ وہ خود بہت ذمہ دار ہے"۔ ان کے لہجے میں اس کیلئے مان تھا۔

غزل نے اثبات میں سر ہلاتے بھرپور تائید کی۔


قطرہ شبنم کی طرح اڑ جائیں گے گل سے

اک یا د سی رہ جائے گی گلشن میں ہماری

☆☆☆☆☆☆


"چھوٹے مالک آپ کو کتنی دیر لگے گی؟"۔ بوڑھے ڈرائیور نے سیاہ پراڈو کی پچھلی نشست کا دروازہ کھولتے شخص سے پوچھا۔


"آپ جائیں بابا، مجھے دیر لگے گی۔ میں خود آ جاؤں گا"۔ سنجیدگی سے جواب دیا۔


"نہیں چھوٹے مالک، بخاری صاحب کا حکم ہے کے آپ کو کہیں بھی تنہا نہ چھوڑا جائے"۔ ڈرائیور نے اپنی مجبوری بتائی۔

ان کی بات پر وہ سوگواریت سے مسکرا دیا۔


"انہیں لگتا ہے کے کہیں پھر سے میں خودکشی نہ کرلوں"۔ وہ تلخ ہوا۔


"چھوٹے مالک، پچھلے دو سالوں میں آپ نے کئی بار یہ کوشش کی ہے۔ اس لیئے مالک کا ڈر اور فکر بجا ہے"۔ اس نے دل گرفتگی سے کہا۔


"اچھا چلیں، آپ یہی رکیں میں جا کر آتا ہوں"۔ دروازے کھول کر وہ باہر نکلا۔

سیاہ جینز پر وہائٹ شرٹ اور آف وہائٹ کوٹ پہنے وہ چلتا ہوا اس پرانے قبرستان میں داخل ہو گیا۔


درخت تلے ایک قبر کے سامنے رک کر وہ گھٹنوں کے بل جھکا۔ جس سے قبر پہ پڑا کتبہ واضح ہوا۔

"الوینا مختار"۔


آنکھوں پر پڑے سیاہ شیڈز اتارے۔ درد کی عبارت سرمئی آنکھیں واضح ہوئی۔


ہاتھ میں تھاما سرخ گلاب اس نے لبوں سے لگا کر قبر پہ رکھا۔

جہاں پہلے سے رکھے ہوئے کئی ایسے گلاب سوکھ چکے تھے۔ مگر ان کی خوشبو لازوال تھی۔

فاتحہ پڑھنے کے بعد ہمیشہ کی طرح آج بھی اس کے پاس الفاظ تھے۔ جو وہ اسے نظر کرنے لگا تھا۔


"دو سال بیت گئے الوینا۔۔۔دو سال"۔ نگاہیں جھکائے اس کے لہجے میں دنیا جہاں کا درد تھا۔


"میں جو یہ سمجھتا تھا کے تمہارے جانے کے بعد تمہارے بغیر دو پل نہیں جی سکوں گا۔ دو سال جی گیا میں الوینا۔ تمہارے وعدے کا پاس ہی ہے جو مجھے اب تک زندہ رکھے ہوئے ہے۔ میرا قلب تو تمہارے ساتھ ہی دفن ہو گیا ہے۔ میرے سارے جذبے، سارے احساسات تم سمیت منوں مٹی تلے دب گئے ہیں۔ مگر دیکھو، تمہاری خواہش کے مطابق میں جی رہا ہوں۔ میں اب بھی جی رہا ہوں"۔ ایک آنسو ٹوٹ کر سرمئی آنکھ سے گرا اور اپنا وجود کھو دیا۔


"بہت بار مجھے لگتا ہے کے اب میں تھک گیا ہوں۔ اس زندگی سے۔ جینے کی میری آرزو دم توڑتی محسوس ہوتی ہے۔ پھر ایسے میں میرے پاس اپنی اس طویل زندگی کو ختم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔ مگر موت بھی مجھے دھوکہ دے جاتی ہے الوینا، تمہاری طرح وہ بھی مجھے اپنانے سے انکار کر دیتی ہے۔ حیرت ہوتی ہے مجھے اپنے سخت جان ہونے پر۔ تمہارے بغیر جینے پر مجھے حیرت ہوتی ہے"۔ وہ اپنا ہی تمسخر اڑانے لگا۔

"تم نے تو کہا تھا کے تم نے مجھے اپنا لیا ہے۔ پھر کیوں مجھے اس طرح چھوڑ گئی تم؟ اور اگر جانا ہی تھا تو مجھے اپنے ساتھ کیوں نہیں لے گئی؟"۔ وہ شکوہ کرنے لگا۔

"ہر کسی کا ایک وقت مقرر ہے۔ کوئی کتنا بھی تڑپ لے، سسک لے مگر اپنا وقت پورا کیئے بغیر اپنے پیاروں کے پاس نہیں جا سکتا۔ یہ ایک تلخ حقیقیت ہے زندگی کی"۔ مدھم نسوانی، ٹھہری ہوئی آواز اس کی پشت پر گونجتی سماعتوں سے ٹکرائی۔

مگر اس کے اندر کا شور اس قدر تھا کے اس نے بس الفاظ سنے تھے۔ لہجے یا آواز پر غور نہیں کیا تھا۔

وہ ذہن میں امڈتے سوال کو زبان دینے کیلئے مڑا تھا۔ مگر اسے وہاں کوئی نظر نہ آیا۔ گردن موڑنے پر سیاہ عبایا میں لپٹا وجود اسے قبرستان کے پچھلے گیٹ کی سمت جاتا نظر آیا۔ میانہ چال چلتی ہوئی وہ اس کی نظروں سے ہر پل دور ہوتی جا رہی تھی۔

وہ سر جھٹک کر اٹھا ایک بار پھر فاتحہ پڑھی۔

"شاید وہ ٹھیک کہہ گئی"۔ آنکھیں رگڑتے ہوئے سیاہ گلاسس آنکھوں پر ٹکا دیئے پھر ایک نظر کتبے پر ڈال کر وہ اداسی سے مسکرایا۔ اور آہستگی سے چلتا ہوا قبرستان کے گیٹ سے باہر نکل گیا۔

بچھڑ گئے تو پھر بھی ملیں گے ہم دونوں ایک بار

یا اس بستی دنیا میں یا اس کی حدوں سے پار

لیکن غم ہے تو بس اتنا کے جب ہم وہاں ملیں گے

ایک دوسرے کو ہم کیسے تب پہچان سکیں گے

یہی سوچتے اپنی جگہ پر چپ چپ کھڑے رہیں گے

اس سے پہلے بھی ہم دونوں کہیں ضرور ملے تھے

یہ پہچان کے نئے شگوفے پہلے کہاں کھلے تھے

یا اس بستی دنیا میں یا اس کی حدوں سے پار

بچھڑ گئے ہیں دونوں مل کر پہلے بھی ایک بار

ختم شد☆ 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Fanaa Season 1 Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Fanaa Season 1 written by Sawera Ahmad. Fanaa Season 1 by Sawera Ahmad is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages