Teri Yaad Shakh E Gulab hai Novel By Kanwal Akram Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Wednesday 3 July 2024

Teri Yaad Shakh E Gulab hai Novel By Kanwal Akram Complete Romantic Novel

Teri Yaad Shakh E Gulab hai  Novel By Kanwal Akram Complete Romantic Novel

 Read ONLINE Free Famous Urdu Novel 

Madiha Shah Writer ; Urdu Novels Stories

Novel Genre : Romantic Urdu Novel Enjoy Reading

Teri Yaad Shakh E Gulab Hai By Kanwal Akram Complete Romantic Novel 


Novel Name: Teri Yaad Shakh E Gulab Hai 

Writer Name: Kanwal Akram 

Category: Complete Novel


صبح کے پانچ بج رہے تھے۔ وہ آج پِھر اُس گھر کے سامنے کھڑا تھا جہاں کے دروازے وہ خود اپنے ہاتھوں سے اپنے لیے بند کر کے گیا تھا۔ وجہ کُچھ خاص بڑی نہیں تھی مگر اُس نے اپنی انا اور ضِد میں اُس چھوٹی سی وجہ کو بڑا بنا لیا تھا جِس کی وجہ سے اُس نے نا صِرف اپنے گھر والوں کو خود سے دور کر دیا تھا بلکہ محبّت بھی اُس سے کنارہ کش ہو گئی تھی۔

دِسمبر کا آغاز تھا۔ ہر طرف دُھند کا پہرہ تھا۔ ٹھنڈ اُس کے جِسم میں گُھس رہی تھی۔ سرد ٹھٹھرا دینے والی ہوائیں اُس کے جِسم سے ٹکراتیں ہوا میں تحلیل ہو رہیں تھیں۔ مگر وہ اُن سب سے بے نیاز شرٹ پہ بلیک کلر کی ہُڈی پہنے جیبوں میں ہاتھ ڈالے اُس گھر کے دروازے پہ نظریں جمائے کھڑا تھا۔ اُس گھر میں اُس کے پیارے رہتے تھے جِن میں اُس کی جان بستی تھی جِن کے بغیر ایک پل رہنا بھی اُس کے لیے محال ہوتا تھا مگر یہ کیسی بے بسی تھی کہ وہ اپنے اپنوں سے مِل نہیں سکتا تھا۔ مگر یہ سب تو اُس کا کیا دھرا تھا پھر شِکوہ کِس بات کا تھا اپنی ہی سوچ پہ وہ تلخی سے مُسکرایا تھا۔

وہ ابھی کھڑا ہی تھا جب اوپر والے فلور پہ موجود کمرے کی لائٹ روشن ہوئی۔ یہ وہی کمرہ تھا جہاں کبھی وہ خود رہائش پزیر تھا۔ وہ خُوشگوار حیرت سے اُس کمرے کی جلتی لائٹ کو دیکھنے لگا۔ مطلب وہ وہاں تھی۔

وہ یک ٹِک نظریں جمائے سامنے دیکھ رہا تھا جب بالکونی کا دروازہ کُھلا اور کوئی بالکونی میں آ کھڑا ہوا۔ وہ بے چینی سے نظریں سامنے جمائے کھڑا تھا۔ سر پہ ہُڈی کو سرکا کے آگے کیا تھا تا کہ چہرہ نظر نا آئے۔ بالکونی میں جلتے بلب کی مدھم روشنی میں اُس ماہ جبیں کا چہرہ نظر آیا تھا جو اب اُسے کے جینے کی وجہ بن گئی تھی۔ وہ آج بھی ویسی ہی تھی مگر اب چہرے پہ سنجیدگی کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا۔ آسمان پہ نظریں جمائے وہ ماہ کامِل کی طرح روشن آنکھوں والی لڑکی آنکھیں بند کیے گہرے گہرے سانس لینے لگی تھی جیسے صُبح کی تازہ ٹھنڈی ہوا کو اپنے سانسوں کے ذریعے اندر کھینچنا چاہتی ہو۔ جلدی سے موبائل نِکال کر اُس کی کئی تصویریں اپنے پاس محفوظ کیں۔ 

وہ یک ٹِک اُس کے چہرے کو دیکھتا اپنی آنکھوں کی پیاس بُجھا رہا تھا۔ کِتنے عرصے بعد دیکھا تھا اُسے۔ دِل تھا کہ اُسے دیکھتے رہنے کی تمنّا کیے بیٹھا تھا۔ اُسے وہاں کھڑے دس مِنٹ ہی گُزرے ہوں گے کہ ایک دم سے نجانے کیا ہوا وہ جلدی سے بھاگتی اندر چلی گئی۔ اُس پہ چھایا سحر ایک جھٹکے سے ٹوٹا تھا۔ اُسے بے تحاشا غُصّہ آیا تھا کہ وہ کیوں چلی گئی اندر۔ اُس نے ایک نظر بھی نیچے کھڑے اپنے دیوانے کی طرف نہیں دیکھا تھا جو اُس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے پہروں وہاں کھڑا رہتا تھا مگر وہ نظر ہی نہیں آتی تھی اور آج جب دیدارِ یار ہوا تھا تو وہ بھی چند ساعتوں کا۔

وہ مزید آدھا گھنٹا وہاں کھڑا رہا مگر پِھر دروازے سے ایک بُزرگ آدمی کو نِکلتا دیکھ کر وہ لب بھینچتا تیزی سے پلٹا اور وہاں سے نِکلتا چلا گیا۔ وہ اُس گھر کے کِسی بھی فرد کی نظروں میں نہیں آنا چاہتا تھا۔ اُس میں اِتنی ہمّت نہیں تھی کہ اپنا کم ظرف دِل اور بے کار وجود لے کے اُن کے سامنے جاتا۔ اِسی لیے اُس نے وہاں سے نِکلنا ہی بہتر سمجھا تھا۔

*******************

رات کے سائے گہرے ہوتے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لیتے اُسے بھی سیاہی میں رنگ چلے تھے۔ ایک پُراسرار سی خاموشی تھی جو چار سُو چھائی ایک فسوں پیدا کر رہی تھی۔ رات کا اندھیرا جِسے اکثر بُرائی کرنے کے لیے اِستعمال کیا جاتا ہے، یُوں بڑھتا جا رہا تھا جیسے کوئی بھنور ہو جو اُجالے کو اپنی لپیٹ میں لے کر اُسے ہمیشہ کے لیے ختم کر دینا چاہتا ہو مگر اندھیرا جِتنا چاہے بڑھ جائے ایک نا ایک وقت آتا ہے جب وہ اندھیرا ختم ہوتا ہے اور ہر سو اُجالا چھا جاتا ہے۔ جو اِس بات کی غمازی کرتا ہے کہ کُچھ بھی پائیدار نہیں ہوتا۔ نا ہی روشنی، نا تاریکی،  نا ہی خوشی، نا غم۔ ہر چیز کو ایک دِن ایک خاص وقت پہ ختم ہونا ہے۔ 

اور اِس تاریکی بھرے کمرے میں بیٹھا وہ شخص بھی جانتا تھا کہ ایک دِن غم کے بادل چھٹ جائیں گے، یہ یاسیت بھری زِندگی خُوشگوار ہو جائے گی مگر ایک خاص وقت پہ، ایک خاص پل میں اور وہ وقت کب آنا تھا وہ نہیں جانتا تھا مگر یقین تھا کہ ہاں وہ وقت جلدی آئے گا۔ 

اُس کے ذہن پہ بس ایک ہی چہرہ محوِ رقص تھا۔ وہ چہرہ جِس نے اُس کی نیندیں چُرا لیں تھیں۔ جِس نے اُس کے دِل کو اپنے قبضے میں کر لیا تھا۔ وہ گُلاب چہرہ جِس کے چہرے کی مُسکراہٹ کو وہ بے رحمی سے نوچ کر اپنے قدموں تلے روند آیا تھا۔ جِس کو اُس نے چاہا تھا اب اُسی کی یادوں میں تڑپتا وہ وقت کو واپس موڑ دینے کی خواہش رکھتا تھا مگر یہ خُواہِش تو لاحاصِل تھی یہ وہ بھی جانتا تھا اِسی لیے تو بے بس تھا۔ 

اب بس یادیں ہی تو تھیں جو اُس کا حاصِل تھیں۔ اِنہیں یادوں کے سہارے تو وہ جی رہا تھا۔ وہ یادیں جو میٹھی تو ہرگِز نہیں  تھیں مگر اُن یادوں میں وہ گُلاب چہرہ تھا جِس کی۔خاطِر وہ اُن کڑوی یادوں کو بھی سینے سے لگائے ہوا تھا۔ 

"تُجھے بھول جانے کی کوششیں کبھی کامیاب نہ ہو سکِیں 

تیری یاد شاخِ گُلاب ہے جو ہوا چلی تو مہک گئی" 

*******************

وہ اِس وقت اپنے فلیٹ میں بیٹھا تھا۔ اُس نے اپنے دوست احراز کے ساتھ کمپنی میں پارٹنر شِپ کر لی تھی۔ ففٹی ففٹی پرسنٹ شئیرز اُن دونوں کے حِصے میں آئے تھے۔ وہ ایک کنسٹرکشن کمپنی کے مالِک تھے۔ ابھی بھی وہ ایک ہاتھ میں کافی کا مگ تھامے دوسرے ہاتھ سے لیپ ٹاپ کی سکرین ٹچ کر رہا تھا۔  آج سنڈے تھا تو سارا کام وہ گھر پر ہی کر رہا تھا۔ آنکھیں سامنے سکرین پر جمی تھیں جب کہ دِل و دِماغ میں ایک ہی چہرہ گھوم رہا تھا وہی چہرہ جو وہ دیکھ کر بے چین ہو اُٹھا تھا۔ جِسے چھو لینے کا خیال بڑی شِدّت سے اُس کے دِل میں جاگا تھا۔

آج اُسے دیکھ کر دِل میں ایک کسک سی اُٹھی تھی۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ کبھی اُس لڑکی کو اپنے قریب دیکھ بھی پائے گا یا نہیں مگر پِھر بھی وہ اُسے چاہے جا رہا تھا۔ یہ سب اُسی کا تو بویا ہوا تھا جو اب اُسی کو کاٹنا پڑ رہا تھا۔ کیا تھا جو وہ اُس کی ذات پہ تھوڑا سا مان، بھروسہ اور یقین دِکھا دیتا اپنی انا کو پیچھے کر کے اُسے قبول کر لیتا تو آج ہِجر کی بھیانک آگ میں نا جلنا پڑتا۔ مگر تب اُسے اُس سے محبّت نہیں تھی اور اب جب اُس سے محبّت ہو چُکی تھی تو وہ اُس سے نظریں مِلانے کے قابِل نہیں رہا تھا۔ 

وہ ابھی بیٹھا اُس دُشمنِ جان کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا جب اُس کا فون گُنگُنا اُٹھا۔

"السلامُ علیکُم!" وہ فون کان سے لگاتا گویا ہوا۔

"وعلیکُم السّلام! کیسا ہے؟" دوسری جانِب سے پوچھا گیا۔

"کیسا ہو سکتا ہوں؟" اُس نے جواباً سوال کیا۔

"گھر نہیں گیا؟" مقابل نے کہا۔

"کِس منہ سے جاوں احراز؟ خود کو منہ دِکھانے لائق چھوڑا ہے کیا میں نے؟" اُس نے یاسیت سے سوال کیا تو احراز لب بھینچ گیا۔

"اِسی لیے کہتے ہیں کہ جلدی کا کام شیطان کا کام ہوتا ہے۔ تُجھے سب کُچھ سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے تھا۔ جو تُو نے کیا اُس سے صِرف تیری ہی نہیں اُس لڑکی کی بھی زندگی برباد ہو گئی جِو تیرے نام پہ بیٹھی ہے۔" احراز نے کہا۔

"جانتا ہوں۔ پتہ نہیں عقل کہاں چلی گئی تھی میری جو وہ سب کر بیٹھا میں۔ تب ویسا کُچھ نا کرتا تو آج وہ کوہِ نور سی لڑکی میرے پاس میرے ساتھ موجود ہوتی۔ اپنی کم ظرفی کا ثبوت دیا تھا میں نے۔" وہ آنکھیں بند کیے بولا۔ لہجے میں پچھتاوا بھرا تھا۔

"اب بھی کُچھ نہیں بِگڑا۔ تُو واپس جا معافی مانگ لے وہ معاف کر دیں گی۔" ابراز نے اُس تسلّی دی۔

"وہ معاف کر دے گی کیونکہ بہت اچھی ہے وہ مگر باقی سب معاف نہیں کریں گے مُجھے۔ سوچتا ہوں ایسی سزا ہی نا سُنا دیں کہ میری جان نِکل جائے۔" اُس کے لہجے میں خدشے تھے کُچھ کھو دینے کے خدشے۔

"دیکھ باری! جو ہونا تھا وہ ہو چُکا باقی سب کبھی نہیں چاہیں گے کہ اُن کی بیٹی کی زندگی خراب ہو جائے تُو ایک بار جا تو سہی۔ اُن کے سامنے جا کے معافی مانگ لے۔" احراز نے سمجھایا۔

"ٹھیک ہے حوصلہ پڑا تو چلا جاؤں گا ورنہ روز کی طرح بغیر مِلے ہی واپس آ جاؤں گا۔" اُس نے افسردگی سے کہا تو احراز گہرا سانس بھر کر رہ گیا۔

"اچھا سُن۔ کل میں اور ماہم بچوں کو لے کر باہر جا رہے ہیں اور تُو بھی ساتھ چل رہا ہے میں نا ہرگِز نہیں سُنوں گا۔" احراز نے دو ٹوک کہا۔

"میں کیسے چل سکتا ہوں یار۔ وہ تیری فیملی ہیں۔" اُس نے اِنکار کرنا چاہا۔

"تُو بھی میری فیملی ہے باری! بھائی ہے تو میرا۔ کل دس بجے تیار رہنا میں تُجھے پِک کر لوں گا۔" احراز نے دو ٹوک کہا تو وہ بے بس سا ہو گیا۔

"ٹھیک ہے۔" اُس نے کہا۔ دو چار باتیں کرنے کے بعد اُس نے کال کاٹ دی۔ گیلری کھولی اور اُس دُشمنِ جان کی تصویریں دیکھنے لگا جو کبھی وہ ڈیلیٹ نہیں کر پایا تھا جانے کیوں۔

*****************

آج وہ اپنے دوست احراز کے گھر جانے والا تھا۔ دِن کے نو بج رہے تھے۔ ناشتہ وہ کر چُکا تھا۔ اُس نے کُل وقتی ایک مُلازم رکھ لیا تھا جو ہر وقت اُس کے گھر میں ہی موجود ہوتا تھا۔ اُس کا نام اللّٰہ بخش تھا جِسے وہ بخش ہی بُلاتا تھا۔ بخش پینتی چھتیس سال کا تھا۔ بیوی بچّے گاؤں میں رہتے تھے احراز نے ہی بخش کو اُس کے پاس کام کے لیے بھیجا تھا جِس پہ اُس نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔ 

بلیو جینز پہ وائٹ شرٹ اور اوپر بلیو ہی جیکٹ پہنے وہ احراز کے گھر کے لیے نِکلا تھا۔ سردیوں کا موسم تھا اور ہوا بھی کافی ٹھنڈی چل رہی تھی۔ اُس نے گلے میں وائٹ کلر کا مفلر لپیٹ رکھا تھا۔ تقریباً آدھے گھنٹے بعد وہ احراز کے گھر پہنچا تو وہ سب بھی تیار سے لاونج میں بیٹھے شاید اُسی کا اِنتظار کر رہے تھے۔

وہ احراز اور اُس کی بیوی ماہم سے مِل کر وہ صوفے پہ بیٹھے اذان اور فجر کی طرف متوجّہ ہوا۔ 

"کیسے ہو میرے چیمپ؟" اُس نے باری باری دونوں کو پیار کرتے پوچھا۔

"بِالکُل فِٹ چاچو! آپ اِتنی لیٹ کیوں آئے؟ آپ کو پتہ ہے ہم کب سے آپ کا ویٹ کر رہے ہیں؟ ہم لیٹ ہو رہے تھے نا۔" پانچ سالہ فجر نے کہا تو وہ بے ساختہ اُس کا گال چوم گیا۔ اُس کی بئیرڈ کی چُھبن محسوس کرتی وہ کِھلکھلا کر ہنسنے لگی۔

"سوری میرا بچّہ! چاچو بِزی تھے نا۔" اُس نے کہا تو وہ جھٹ سر ہلا گئی۔

"اب تو چاچو بھی آ گئے اب چلیں نا بابا۔ " پانچ سالہ اذان نے کہا تو احراز سر ہلاتا ماہم کو اِشارہ کرتا باہر کی جانِب بڑھا۔  وہ بھی ایک ہاتھ میں فجر اور ایک ہاتھ میں اذان کی اُنگلی تھامے باہر کار تک آیا۔ فجر اور اذان جُڑواں تھے اور دونوں کی عُمر پانچ سال تھی۔ وہ دونوں اپنی ماں کے ساتھ پِچھلی سیٹ پر بیٹھے تو بُرہان فرنٹ سیٹ پر احراز کے ساتھ براجمان ہوا۔ اپنی گاڑی وہ احراز کے گھر ہی چھوڑ کر جا رہا تھا۔

گاڑی احراز ڈرائیو کر رہا تھا۔ ڈرائیونگ کے دوران وہ لوگ ہلکی پُھلکی باتیں بھی کرتے رہے تھے۔ ماہم تو بچّوں میں ہی اُلجھی ہوئی تھی جو گاڑی میں بھی شرارتوں سے باز نہیں آ رہے تھے۔ باری کو بے ساختہ اُداسی نے گھیرا تھا اگر وہ تب ویسا سب نا کرتا تو آج اُس کا بھی ایک دو تین سال کا بیٹا یا بیٹی ہوتی۔ مگر اُس کے سوچنے سے کیا ہوتا ہے گُزرا وقت وہ واپس نہیں لا سکتا تھا جو قِسمت میں جیسے لِکھا گیا تھا ویسا ہو چُکا تھا۔ اپنے چہرے پہ اُمڈنے والی اُداسی کو وہ مصنوعی مُسکراہٹ سے چُھپا گیا تھا۔

کُچھ ہی دیر میں وہ لوگ پلے لینڈ پہنچ چُکے تھے۔ ماہم نے دونوں بچوں کو گاڑی سے باہر نِکالا تو وہ سب اندر کی جانب بڑھے۔ احراز اور  باری ٹِکٹس خرید لائے تو وہ باری باری اندر کی جانب گئے۔ ماہم تو بچّوں کو لے کے جھولوں کی طرف طرف بڑھ گئی جہاں جانے کی وہ ضِد کر رہے تھے جبکہ احراز اور باری ہنستے ہوئے کیفے میں آ گئے۔ گیارہ بج رہے تھے۔ احراز نے فریش جوس کا آرڈر دیا اور ریلیکس ہو کے بیٹھ گیا۔

"اور کُچھ کھائے گا؟" احراز نے پوچھا۔

"نہیں یار! ناشتہ تو میں کر کے آیا تھا اب لنچ ہی کریں گے۔" اُس نے کہا تو احراز سر کو اثبات میں ہلا گیا۔

"اچھا اور بتا کیا مصروفیت ہیں آج کل؟" احراز نے پوچھا تو وہ پھیکا سا ہنس دیا۔

"بس ایک اِنسان کو یاد کرنا اور مسلسل کرنا۔" اُس نے اذیت سے پُر لہجے میں کہا تو احراز گہرا سانس بھر کر رہ گیا۔

"کُچھ سوچا ہے کیا کرنا ہے؟" احراز نے دوبارہ پوچھا۔

"نہیں کُچھ نہیں سوچا۔ کُچھ سمجھ ہی نہیں آتا کہ کیا کروں؟ بس دِل کہتا ہے کہ وقت کو واپس موڑ دوں اور جو کر چُکا ہوں وہ وقت واپس پلٹا دوں۔" باری نے آنکھیں میچ کر دوبارہ کھولیں۔ ویٹ اُن کے ٹیبل پہ جوس سرو کرنے لگا تو وہ چُپ ہوا۔ 

"ایسے کب تک چلے گا باری؟ تُو ہمّت تو کر۔ اکیلا رہ رہ کے پاگل ہو جائے گا۔ کب تک پیچھا چُھڑائے گا؟ ایک نا ایک دِن تُجھے اُنہیں کے پاس لوٹنا ہے اُن کے بغیر تُمہارا گُزارا نہیں۔" ویٹر کے جانے کے بعد حراز نے اُسے سمجھانا چاہا۔

"اُن کے بغیر میرا گُزارا بھی نہیں مگر اُن کا سامنا کرنے کی ہمت بھی نہیں۔ گُناہ کرنا بہت آسان ہوتا ہے یار! مگر اپنی انا کو پسِ ُپشت ڈال کر کِسی کے آگے جُھک جانا بہت مُشکِل۔" باری کے لہجے میں پچھتاوے بول رہے تھے۔ 

"پہلے بھی تیری اِسی انا نے تُجھے خوار کروایا تھا اور اب بھی تُو اِسی انا کی قید میں جکڑ کر خود کے لیے ہی خسارے خرید رہا ہے۔" احراز نے کہا تو وہ نظریں چُراتا رہ گیا۔

"انا نہیں شرمندگی اور ندامت ہے اپنے کیے پر۔ چاہ کر بھی اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو ٹھیک نہیں کر سکتا میں اور ضروری نہیں کہ مُجھے معافی مِل بھی جائے۔" باری نے یاسیت بھرے لہجے میں کہا۔ 

"ہمّت کر کے سامنا کرنے سے ہی منزل آسان ہوتی ہے باری! جب تک تُو مُشکلات کو فیس ہی نہیں کرے گا تب تک نتیجہ صِفر ہی ہو گا۔ تُو ایک قدم تو بڑھا۔" احراز نے کہا تو باری چُپ سا رہ گیا۔

ابھی اِس سے پہلے کہ احراز کُچھ کہتا اُس کا فون بج اُٹھا۔ وہ فون اُٹھائے بات کرنے لگا۔ ماہم کا فون تھا شاید۔ کُچھ دیر بات کرنے کے بعد اُس نے فون کو جیب میں رکھا۔

"باری یار تُو یہاں بیٹھ میں ابھی آیا۔ ماہم کا فون تھا اذان نے کُچھ پنگا کر دیا ہے۔" وہ اپنی جگہ سے اُٹھتا ہوا بولا۔

"میں بھی چلوں کیا ساتھ؟" باری نے پریشانی سے پوچھا۔

"نہیں یار اِتنا کوئی سیریس مسلہ نہیں تُو یہاں بیٹھ میں بس اُن کو بھی ساتھ لے کے آتا ہوں۔" احراز کہہ کر باہر کی جانِب بڑھا۔ 

اُس کے جانے کے بعد وہ یُوں ہی کُچھ دیر فون کو کھنگالتا رہا۔ سیکریٹری کو چند ضروری میسجیز کرنے کے بعد وہ اِدھر اُدھر جھانکنے لگا تو سامنے ہی ایک تین یا ساڑھے تین سال کا بچّہ اُسے اِردگِرد متلاشی نظروں سے دیکھتا نظر آیا۔  وہ اکیلا کھڑا تھا شاید اُس کے ماں باپ کہیں اور تھے یا وہ خود ہی اِس جانب آ نِکلا تھا۔ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ بھاگتا کیفے میں ہی اِردگِرد چکّر لگا رہا تھا۔ مگر جب اُسے کِسی کونے میں بھی کوئی نظر نہیں آیا تو وہ نِچلا ہونٹ باہر نِکالے منہ بسورنے لگا۔ لیکن وہ رویا نہیں تھا۔ باری کو حیرانی ہوئی ماں باپ زرا سا دور ہو جائیں تو اِتنی سی عُمر کے بچّے تو رو رو کر آسمان سر ہر اُٹھا لیتے ہیں مگر وہ بچّہ بس منہ بنائے خفا خفا سا نظر آ رہا تھا۔ دور سے اُس کے نقش کُچھ واضح نہیں تھے لیکن اُس کی گوری رنگت چمک رہی تھی۔ وہ فون جیب میں رکھتا بے اختیار اُٹھتا اُس کی جانِب بڑھا۔ اُس کے قریب جا کر وہ گُھٹنوں کے بل اُس کے سامنے بیٹھا۔ تو وہ بچّہ کُچھ چونک کر اُسے دیکھنے لگا۔

******************

"بب بابا بابا۔" وہ اچانک ہی خوشی سے چیخا تو باری بوکھلا کر اپنے پیچھے دیکھنے لگا مگر اُس کے پیچھے تو کوئی نہیں تھا۔

"بابا میلے بابا۔" وہ بچّہ چہکتا اُس کے گلے میں بانہیں ڈالے اُس سے لِپٹ گیا تھا۔

"بیٹا آپ کا بابا نہیں ہوں میں۔" باری نے اُسے پیچھے ہٹانا چاہا مگر وہ اور زیادہ زور سے اُس کے گلے میں بانہیں ڈالے اُس سے چِپک گیا۔ باری کو ایک عجیب سی کشش محسوس ہوئی اُس نے بھی اُس بچّے کے گِرد اپنے بازو حائل کرتے اُسے خود میں بھینچ لیا۔ ایک جانی پہچانی سی خوشبو اُسے اُس بچّے کے وجود سے نِکل کر خود میں جذب ہوتی محسوس ہوئی۔ اُس کی آنکھیں بے ساختہ نم ہوئی تو وہ حیران رہ گیا۔

"میلے بابا ہیں میں دیکھا میلے بابا ہیں۔" اُس بچّے نے اُس کی گردن میں منہ چُھپایا تو باری کو یکا یک اپنی گردن پہ نمی محسوس ہوئی اُس نے بچّے کو خود سے الگ کر کے اپنے سامنے کیا تو اُس کے گالوں پہ آنسو بہہ رہے تھے۔ اُس نے بچّے کو اُٹھایا اور اُسی ٹیبل پہ لے آیا جہاں وہ خود بیٹھا ہوا تھا۔ اُسے اپنے سامنے والی کُرسی پہ بِٹھا کے اُس کے ہاتھ تھامے اور غور سے اُس کا چہرہ دیکھنے لگا۔ سُرخ و سپید رنگت، گہری بھوری بڑی بڑی خم دار پلکوں والی آنکھیں، جو بالکُل باری کی آنکھوں جیسی تھیں، ستواں کھڑی تیکھی ناک، جو باری کو کِسی کی یاد دِلا گئی تھے، بھرے بھرے پھولے ہوئے گال، ایک گال پہ پڑتا گہرا سا ڈِنپل، اور معصوم سے نین نقوش، وہ بچّہ اُسے کِسی بہت اپنے کی یاد دِلا گیا تھا۔ اُس نے بے ساختہ اُس بچّے کو اپنی گود میں بِٹھاتے چوم لیا۔

"کہاں دیکھا تھا؟" باری نے اُس کے گول مٹول سے ننھے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے پوچھا۔

"پِچل (پِکچر) میں۔ میں دیکھا میلے بابا ہیں نا؟ ماما کہتی وہ میلے بابا ہیں۔" اُس بچّے نے زور زور سے سر ہلاتے اُس کی بئیرڈ کو چھوا اور اپنے دونوں ہاتھ اُس کی تھوڑی پہ ٹِکا لیے۔

"اچھا مگر میں آپ کا بابا نہیں ہوں۔ آپ کے بابا آپ کو ڈھونڈ رہے ہوں گے نا۔ آپ بہت کیوٹ ہیں اور ایسے کِسی اجنبی کے پاس نہیں جاتے اوکے؟" باری نے اُسے سمجھاتے کہا۔

"ماما کہتی میلے بابا ہیں۔" اُس بچّے نے اُس کی بات نظر انداز کرتے اُچک کر اُس کی گال پہ بوسہ لیتے اُسے حیران کر دیا تھا۔

"اچھا ٹھیک ہے میں بابا ہوں۔ یہ بتاو آپ کا نام کیا ہے؟" باری نے اُسے کا دھیان بٹانا چاہا۔

" میلا نام شاہان ہے بابا۔ بٹ ماما مُجھے ہان کہتی ہیں۔" اُس نے پھر سے باری کے گال پہ بوسہ دیا۔ اُس بچّے کا نام سُن کے اُس کُچھ یاد آیا تھا۔

"مُجھ سے دوستی کرو گے آپ؟" باری نے اپنا ہاتھ اُس کے سامنے کیا تو شاہان نے جُھک کر اُس کی ہتھیلی کو چوما اور پھر اپنا ہاتھ اُس کے ہاتھ پہ رکھ دیا۔ باری کو حیرانی تھی اُس کی حرکتوں پر اور اُس کی زبان پر بھی۔ اِتنی سی عُمر کے بچّے بہت توتلے ہوتے ہیں مگر شاہان کو صِرف "ر" بولنے میں مُشکل آتی تھی باقی اُس کی زبان بہت صاف تھی اور ہر فِقرہ وہ بہت اچھے سے ادا کر رہا تھا۔

"ہم پکّے فلینڈ ہیں۔" وہ چہک کر بولا تو باری اُس کے معصوم چہرے پر نظریں دوڑاتا محبت سے مُسکرایا۔

"ہم پکّے فرینڈ ہیں۔ اب آپ بتائیں آپ کیا کھائیں گے؟" باری نے اُس واپس چیئر پہ بِٹھایا تا کہ وہ ڈائریکٹ اُس کے چہرے کو سامنے سے دیکھ سکے۔ جانے کیوں بس وہ خود کو اُس کی طرف کھِنچتا محسوس کر رہا تھا جانے کیا کشش تھی کہ دِل کر رہا تھا کہ شاہان بولتا جائے اور وہ اُس کی معصوم باتیں سُنتا جائے۔

"بل گل (برگر) کھاوں گا۔ پیزا بھی کھاوں گا۔ فلائیز (فرائز) بھی کھانے ہیں۔" وہ ایک ہاتھ پہ گِن گِن کر بتانے لگا تو وہ بے ساختہ مُسکرایا۔

"اوکے ابھی سب کُچھ آ جائے گا۔" اُس نے شاہان کا گال تھپتھپاتے ویٹر کو اِشارہ کیا۔ اپنے اور شاہان کے لیے وہ سب کُچھ منگوایا جو شاہان نے کھانا تھا۔ آرڈر کرنے کے بعد وہ واپس شاہان کی طرف متوجّہ ہوا جو اب اُس کے کف پکڑے بٹن کو اُنگلیوں سے چھیڑ رہا تھا۔

"اب تو ہم فرینڈ ہیں نا تو بتاو آپ کے بابا کا نام کیا ہے؟ اور آپ یہاں کیسے آئے؟" باری نے اُس سے پوچھا تھا۔

"بابا کا نام بابا ہے۔ اور میں ماما ساتھ آیا ہوں۔ ماما کہتی ہم کھیلیں گے۔ بہت سالا کھیلیں گے۔" وہ اپنے معصوم انداز میں گویا ہوا تو باری مُسکرا دیا۔

"مگر ابھی آپ کی ماما کہاں ہیں؟ وہ آپ کو نا پا کر پریشان ہو رہیں ہوں گی نا؟" باری نے اُسے جیسے آگاہ کرنا چاہا۔

"میں بابا ساتھ ہوں نا۔ بابا سُپل مین ہیں نا۔ ماما کہتی بابا میلے لیے کھلونے لینے گِئے ہیں۔ بابا میلے کھلونے کِدھل ہیں؟" شاہان نے اپنی جگہ سے اُچک کر اُس کی طرف اُچھلنے کی کوشش کی تو وہ اُس کے ہاتھ تھامتا اپنی گود میں بِٹھا گیا۔

"ابھی تو میرے پاس کھلونے نہیں ہیں۔ اگلی بار مِلوں گا تو ڈھیر سارے کھلونے دِلاوں گا۔" ویٹر نے ٹیبل پر برگر، کوک اور فرائز رکھنا شروع کیں تو شاہان جلدی پلیٹ میں سے فرائز پکڑ کر کھانے لگا۔

"بابا کھا لوں؟" ہاتھ میں فرائز پکڑے وہ اِجازت چاہ رہا تھا۔ باری کو بے اختیار اُس پہ پیار سا آیا جو اُسے اپنا باپ سمجھتا اُس سے اِجازت مانگ رہا تھا جانے کِس کا بچّہ تھا جِسے اِتنی تمیز سِکھائی گئی تھی کہ کُچھ لینے سے پہلے پوچھ لو۔

اُس کی اِجازت مِلتے ہی وہ دونوں ہاتھوں میں فرائز پکڑے کھانے لگا۔ جب کہ باری ہاتھ میں ٹِشو پکڑے بار بار اُس کا چہرہ صاف کر رہا تھا جہاں جگہ جگہ کیچپ لگی تھی۔ ابھی اُس نے تھوڑے سے فرائز ہی کھائے تھے جب اچانک وہاں ایک لڑکی آن وارد ہوئی۔

"ہنی؟ بیٹا آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ ماما پریشان ہو رہیں تھیں نا؟" وہ شاہان کو اُٹھانے کی کوشش کرتی بولی جو ایک ہاتھ سے باری کا کف پکڑ چُکا تھا۔

"بابا پاس ہوں نا۔ بابا میلے پاس ہیں۔ بابا پاس لہنا ہے۔ "شاہان نے ضِدی لہجے میں کہا۔

"ہاں بابا پاس چلیں گے مگر بابا گھر پہ ہیں نا۔ چلو شاباش۔ اِن انکل کو چھوڑو یہ آپ کے بابا نہیں ہیں۔" اُس لڑکی نے زبردستی شاہان کو اُٹھا لیا تھا۔ جبکہ شاہان اب گلا پھاڑ پھاڑ کر رونے لگا تھا۔ باری کا دِل تڑپ کر رہ گیا تھا۔

"آپ کا بہت شُکریہ۔ شاہان نے آپ کو تنگ کیا اِس کے لیے معذرت۔" وہ لڑکی سپاٹ چہرے سے بولتی اُسے کہیں سے بھی مشکور نہیں لگی تھی۔

"دھیان سے لے کے جائیے گا۔ بچّہ ہے سنبھل جائے گا۔" باری نے شاہان کو دیکھ کر کہا جو اُس لڑکی کے کندھے پہ سر رکھے اپنی موٹی موٹی آنکھوں میں آنسو لیے باری کی جانب ہی دیکھ رہا تھا۔

"جانتی ہوں کہ سنبھل جائے گا۔ اور مُجھے پتہ ہے کہ اپنے بچّے کو کیسے لے کے جانا ہے۔" وہ لڑکی اکھڑ لہجے میں کہتی وہاں سے جا چُکی تھی باری اُس کے لہجے میں اپنے لیے نفرت محسوس کر کے اُلجھ کر رہ گیا تھا۔

وہ ابھی اُس لڑکی کے رویے کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا جب احراز بچوں اور ماہم کے ساتھ وہاں آیا۔ احراز نے ٹیبل پر برگر، کولڈ ڈرِنک اور فرائز دیکھ کر حیرانی سے باری کی جانب دیکھا۔

"مُجھے بھوک لگی تو منگوا لیا تھا۔ بیٹھو۔" باری نے اُس کی سوالیہ نظروں کو سمجھتے جواب دیا تو وہ بھی نچوں کو چئیرز پر بِٹھاتا خود بھی بیٹھ گیا۔ ماہم نے بھی اپنی سیٹ سنبھالی۔ بچوں کے لیے آئس کریم اور لنچ کا آرڈر کرتے وہ ریلیکس سے بیٹھے تھے۔ ایک گھنٹے بعد وہ لنچ کر کے وہاں سے نِکلے تھے۔ احراز کو آفس سے کال آ گئی تھی جِس کی وجہ سے باری اور احراز کو واپس جانا پڑ رہا تھا۔ ماہم نے بچوں کو بہلا لیا تھا جِس پہ اُنہوں نے زیادہ شور نہیں مچایا تھا۔


*****************


وہ ابھی اپنے بیٹے کو باہِر سے لے کر آئی تھی جِس کی بس ایک ہی رٹ تھی کہ اُس نے بابا دیکھے۔ اُسے اُن کے پاس جانا ہے۔ وہ اُس کی حرکت سے بہت پریشان ہو گئی تھی۔ اُس کی دوست جو اُس کے ساتھ باہر گئی تھی اُس نے کہا تھا کہ یہ کِسی انجان آدمی کے پاس تھا اور اُسے ہی بابا کہہ رہا تھا۔

وہ جو پہلے ہی اُس کی گُمشُدگی پر پریشان تھی اپنی دوست نائلہ کی بات سُن کر وہ اور پریشان ہوئی تھی۔ حالات بھی تو ٹھیک نا تھے آئے دِن شہر سے بچّے اغواہ ہوتے رہتے تھے۔ وہ تھوڑا سا مصروف ہوئی تو وہ باہر نِکل گیا تھا جِسے وہ اور نائلہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک چُکے تھے۔ اور پِھر وہ نائلہ کو ہی مِلا تھا۔ نائلہ اُسے بتا چُکی تھی کہ وہ اُسے کہاں سے مِلا تھا۔ مگر یہ نہیں بتایا تھا کہ کِس کے پاس سے مِلا تھا۔ وہاں سے آنے کے بعد سے اُس کی ایک ہی رٹ سُن سُن کر وہ عاجِز آ چُکی تھی مگر کُچھ کر بھی نہیں سکتی تھی۔

اب بھی وہ بیڈ پر منہ پُھلائے بیٹھا تھا اور وہ بے بسی سے اُس کی جانِب دیکھ رہی تھی۔

"ماما بابا پاس جانا ہے۔" وہ پِھر بولا۔

"بابا آ جائیں گے جلدی میرا بچّہ! وہ آپ کے لیے ڈھیر ساری چاکلیٹس لینے گئے ہیں نا۔ "اُس نے بہلایا۔

" میں اُن سے مِلا بٹ اُن کے پاس تو کوئی چاکلیٹ نہیں تھی۔ اُنہوں نے مُجھے فلائز اور برگر کِھلایا۔" اُس نے منہ بسورتے آخر میں چہک کر کہا۔

"یہاں میرے پاس آئیں آپ۔" وہ اُس کی طر ف بانہیں پھیلا کر بولی تو وہ بیڈ سے اُتر کر اُس کے پاس صوفے پر آتا اُس کی گود میں سوار ہو گیا۔

"آپ نے میری بات دھیان سے سُننی ہے۔ پہلی بات یہ کہ ایسے سب کے پاس نہیں چلے جاتے اور۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ ابھی بول رہی تھی جب ایک دم ہی شاہان نے اُس کی بات کاٹی۔

"ہان سب کے پاس نہیں جاتا مگر وہ بابا ہیں نا۔ بابا پاس گیا تھا نا۔ بابا پاس تو سب جاتے نا۔" وہ اُس کے گالوں پر ہاتھ رکھتا اپنی بات کی تصدیق کروانے لگا۔

"وہ آپ کے بابا نہیں تھے نا۔ وہ یہاں نہیں ہیں وہ آپ سے بہت دور ہیں۔ میری جان!" وہ اُس کو خود میں بھینچے اپنی آواز کی نمی پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگی۔

"وہ یہاں ہیں ماما! آپ کو نہیں ڈھونڈے مگر مُجھے ڈھونڈ گئے۔ وہ وہاں تھے نا۔" وہ اپنی بات پہ زور دینے لگا۔

"حد ہوتی ہے ہان! بس کر دیں اب۔ نہیں تھے وہ آپ کے بابا۔ چُپ کر کے بیٹھیں اب۔ آپ کے منہ سے دوبارہ بابا نامہ نا سُنوں میں۔" وہ غُصّے سے کہتی وہاں سے اُٹھتی بیڈ پر جا بیٹھی تو وہ ہونٹ لٹکائے رونے کو تیار نظر آیا۔ سیاہ روشن آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو تیرنے لگے جبکہ گھبیری لمبی خدار پلکیں لرزنے لگیں۔ پِھر وہ آنسو اُس کی آنکھوں کا دامن چھوڑتے اُس کے پھولے پھولے سفید گالوں پر بہنے لگے اور حلق سے رونے کی آواز بُلند ہوئی۔

"ہان کٹّی ہے ماما سے۔ ہان ماما سے بات نہیں کلے گا۔ بابا پاس چلے جائے گا۔ بابا ہان سے بہت پیال کلتے ہیں۔ ہان ماما پاس نہیں لہے گا۔" زور زور سے روتے وہ اُسے دھمکیاں دیتا اب صوفے سے اُٹھ کر دروازے کی جانِب بڑھا۔ اُس کا دِل اُچھل کر حلق میں آیا۔ اُس کا بیٹا اُسے ہی چھوڑنے کی بات کر رہا تھا وہ بھی اپنے باپ کے لیے۔ وہ تیزی سے اُٹھ کر اُس کے پیچھے بھاگی مگر وہ سیڑھیاں اُترتا نیچے جا چُکا تھا۔

اُس کے رونے کی آواز مسلسل آ رہی تھی مگر پِھر وہ اپنے دِل پر قابو پاتی واپس کمرے میں آئی دروازہ بند کیا اور دروازے کے ساتھ بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اُس کی قِسمت میں شاید رونا ہی رہ گیا تھا۔ پہلے اُس کے بیٹے کے باپ نے اُسے خون کے آنسو رُلایا تھا اور اب بیٹا بھی وہی کر رہا تھا۔ آنکھیں بند کیں تو سامنے اُس شخص کا چہرہ لہرایا تھا جو اُس پہ اپنے نام کی مہر لگا کر اُس کی ذات کو سوالیہ نِشان بنا کر سب کی ترحم بھری نظروں کا شِکار بننے کے لیے چھوڑ گیا تھا۔


*****************

وہ ریسٹورانٹ سے واپس آنے کے بعد بھی اُسی بچّے کے بارے میں سوچتا رہا تھا۔ ایک عجیب سی کشش، ایک الگ سا احساس اُس بچّے کے لیے وہ محسوس کر رہا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ بچوں کو پسند نہیں کرتا تھا۔ وہ احراز اور ماہم کے بچّوں سے بھی پیار کرتا تھا اُن کے ساتھ کھیلتا بھی تھا مگر اُن کے لیے کبھی اُس کے دِل میں ایسی فیلنگز نہیں جاگیں تھیں جیسی وہ اُس بچّے شاہان کے لیے فیل کر رہا تھا۔

جانےِ کیوں مگر جب وہ اُسےبابا کہہ کر پُکار رہا تھا تب اُس کے دِل کی حسرت انجانے میں ہی پوری ہو رہی تھی۔ وہ بار بار اُس بچّے سے مِلنا چاہتا تھا اُس کے ساتھ کھیلنا چاہتا تھا۔ مگر اُس بچّے کی ماں اُسے وہاں سے لے گئی تھی۔ اُسے نہیں یاد پڑتا تھا کہ اُس نے کبھی اُس بچّے کی ماں کو دیکھا ہو۔ مگر وہ بچّہ بار بار اُس کے تصوّر میں آتا اُسے پریشان کر رہا تھا۔

"اُفف میں پاگل ہو جاؤں گا۔ کیوں کر رہا ہوں میں اُس بچّے کو یاد؟ دُنیا میں بہت سارے بچّے ہیں۔ میں پِھر اُسی کو کیوں سوچ رہا ہوں۔ شاید میری اپنی کوئی اولاد نہیں ہے اور میں چاہتا ہوں کہ میری بھی اولاد ہو اِس لیے؟ مگر پِھر تو فجر اور اذان کے ساتھ بھی میں کھیلتا ہوں اُن کے ساتھ بھی میں وقت گُزارتا ہوں پِھر اُن سے ایسا احساس کیوں نہیں ہوتا مُجھے؟" وہ جِتنا سوچتا جا رہا تھا اُتنا ہی اُلجھتا جا رہا تھا۔ سر کے بال جو بِکھرے ہوئے تھے، اب مُٹھی میں جکڑ لیے تھے مگر دِل کی بے چینی تھی کہ حد سے سِوا تھی۔


اُس نے اپنا موبائل تھاما اور گیلری کھولی۔ اُس کی تصویریں سامنے ہی نظر آ رہیں تھیں جو مُختلف مواقع پر لی گئیں تھیں۔ وہ ایک ایک تصویر کو سکرول کر کے دیکھنے لگا۔ کبھی زوم کر کے اُس کی آنکھیں دیکھتا کبھی اُس کے ہونٹ اور کبھی اُس کی تیکھی ناک۔ وہ آج بھی ویسی ہی تھی جیسے وقت اُسے چھو کر بھی نا گُزرا ہو۔ روزِ اوّل کی طرح چھوئی موئی سی اور خُوبصورت نہیں بلکہ وہ پہلے سے زیادہ خُوبصورت ہو گئی تھی۔


اُسے دیکھ کر اُس کے دِل میں خُواہش جاگی تھی کہ وہ اُسے مجسم دیکھے۔ اپنے سامنے اپنی آنکھوں کے پاس۔ دِل کی خُواہش پر لبیک کہتا وہ تیزی سے اُٹھا اور کپڑے بدلے۔ بلیک جینز پر بلیک ہی شرٹ ار اوپر براون گرم ہُڈی پہنے وہ کار کی چابی اُٹھاتا باہر کی جانِب بڑھا۔ فلیٹ کو لاک کر کے وہ لِفٹ کے ذریعے نیچے پہنچا۔ نیچے پارکنگ میں پہنچ کر اُس نے گاڑی کا لاک کھولا۔ اندر بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کی اور اپنی منزل کی جانِب گاڑی کو دوڑانے لگا۔

گاڑی کو گھر سے تھوڑا دور کھڑا کر کے وہ گھر کی جانِب بڑھنے لگا جب دائیں جانِب بنی پارک میں اُسے وہی بچّہ کھیلتا نظر آیا جو اُسے اُس دِن ریسٹورانٹ میں مِلا تھا۔ کب اُس کے قدم اُس گھر کی طرف جانے والے راستے سے ہٹ کر اُس بچّے کی جانِب بڑھے اُسے اندازہ بھی نا ہوا۔

"ہے بابا میلے بابا!" شاہان زوردار آواز میں کہتا اُس کی جانِب بھاگا تو وہ نیچے بیٹھتا دونوں بازو وا کر گیا۔ شاہان کی رفتار میں تیزی آئی اور وہ سیدھا اُس کی بانہوں میں سماتا اُس کے گلے کے گِرد بازو حائل کر گیا۔ وہ اُسے خود میں بھینچتا اُٹھ کھڑا ہوا۔ اُس کی آنکھیں نم ہو رہیں تھیں۔

"بابا! ہان نے بابا کو بہت مِس کیا۔" شاہان نے کہا تو وہ اُس خود سے الگ کرتا پاس پڑے بینچ کی طرف بڑھا۔ وہ ابھی بھی اُس کی گود میں ہی تھا۔

"بابا نے بھی ہان کو بہت مِس کیا۔ ہان سے بھی زیادہ۔" باری نے کہہ کر اُس کے ہاتھ چومے تو وہ کِھلکِھلایا۔ باری نے آنکھیں میچ کر اپنے آنسووں کو باہر آنے سے روکا۔

"بابا گُدی ہوتی ہے نا کلیں۔" وہ ہنستا ہوا کہنے لگا تو باری نے اُسے پیٹ میں گُدگُدانا شروع کر دیا۔ پارک میں شاہان کی کِھکِھلاہٹ گونجنے لگی۔ شاہان کی ہنسی کی آواز سُن کے باری کو اپنے دِل پہ ایک ٹھنڈی پھوار پڑتی محسوس وہ رہی تھی۔

"بابا! بس کلیں نا۔ ہان کو اول نہیں ہنسنا۔ گُدی ہوتی ہے ہان ہنستا ہے اول پِھل پیٹ میں دلد ہوتا ہے۔" شاہان نے بے چارگی سے کہا تو وہ اُسے گُدگُدانا بند کرتا اُس کے نقوش کھوجنے لگا۔

"بابا میلی چاکلیٹ کِدھل ہے؟" شاہان نے اُس کے گُھٹنوں کے درمیان بچی جگہ پہ کھڑے ہوتے اُس کی جیکٹ کی جیبوں کا تلاشنا شروع کیا۔ باری اُس کے حق جتاتے انداز پر کُھل کر مُسکرایا۔

"میں تو چاکلیٹ نہیں لایا۔" باری نے اُسے آگاہ کیا تو وہ منہ بسورتا اُس کی جانِب دیکھنے لگا۔

"ماما کہتیں آپ چاکلیٹ لانے گئے ہیں۔ کہاں ہیں میلی چاکلیٹ؟ آپ نہیں لائے ہان کٹّی ہے آپ سے۔" شاہان نے انگوٹھا منہ میں ڈال کر باہر نِکالتے اُس کی طرف اِشارہ کیا تو وہ اُس کی ادا پر نِثار ہوتا اُس کا وہی ننھا سا انگوٹھا چوم گیا۔

"بابا پرامِس کرتے ہیں۔ اگلی بار ڈھیڑ ساری چاکلیٹ بھی لائیں گے اور کینڈیز بھی۔ بلکہ ہان جو کہیں گے وہ سب کُچھ لائیں گے بس ہان بابا سے کٹّی نا ہوں۔" باری نے اِلتجا کرتے کہا۔

"ہان کٹّی نہیں ہوئے گا۔ پتہ؟ کل ہان ماما سے کٹّی ہو گیا ماما نے ہان کو بہت ڈانٹا کہا کہ آپ بابا نہیں ہیں۔ بٹ میں ماما سے کٹّی ہو گیا ماما بہت لوئی بھی تھیں۔" شاہان نے بڑے فخر سے اپنا کارنامہ بتایا تو وہ پریشان سا اُسے دیکھنے لگا۔

"ماما سے کٹّی نہیں ہوتے ہان! ماما ہیں نا وہ۔ ماما کو نہیں رُلاتے اور ماما ٹھیک ہی کہتی ہیں میں آپ کا بابا نہیں ہوں۔ میں تو کِسی کا بھی بابا نہیں ہوں۔" اپنی بات کے آخر میں اُس کے لہجے کیں یاسیت کے ساتھ اُداسی بھی اُمڈ آئی تھی۔

"بابا ہیں نا؟ میلے بابا ہیں۔ ہان کے بابا ہیں۔ ہان جھوٹ نہیں بولتا۔" اُس نے اپنی بات پر زور دیا تو وہ بے اختیار اُس کے گال چوم گیا۔

"ہاہاہا بابا ہان کو چُھبتی ہے۔" شاہان نے بے اختیار ہنستے کہا تو وہ اچھنبے سے اُسے دیکھنے لگا۔

"کیا چُھبتا ہے ہان کو؟ کُچھ ہے کیا؟ وہ فِکر مندی سے اُس کے کپڑے ٹٹولنے لگا۔ وہ اِس وقت ریڈ شرٹ اور بلیو جینز کے اوپر کوٹ پہنے ہوئے تھا۔ سر پہ کیپ پہن رکھی تھی جبکہ گلے میں بلیو ہی مفلر تھا۔ سردی کی وجہ سے اُس کی ناک تھوڑی ریڈ ہو رہی تھی۔

"یہ یہ چُھبتا ہے ہان کو۔ آپ کے چہلے پہ کِتنے بلے بلے بال ہیں۔ آپ کی ماما آپ کو ڈانٹتی نہیں اِتنے بلے بال چہلے پہ لکھنے سے؟" شاہان نے اُس کی بھری بھری بئیرڈ پہ ہاتھ رکھتے معصومیت سے پوچھا تو اُس کا قہقہہ بُلند ہوا۔ جانےِ کِتنے عرصے بعد وہ یُوں کُھل کر ہنسا تھا؟ اُسے تو یاد بھی نہیں تھا۔

"میری ماما مُجھے سے بہت دور رہتی ہیں اور وہ مُجھے بالکُل نہیں ڈانٹتی کیونکہ یہ تو مرد کی شان ہوتی ہے۔ اِسے نہیں کٹواتے۔" باری نے اُس کے عِلم میں اضافہ کیا تو وہ اپنے چہرے پہ ہاتھ پھیرنے لگا۔

"میں بھی ملد ہوں پِھر میلی شان کِدھل ہے؟" شاہان کے سوال پر وہ ایک بار اور قہقہہ لگا اُٹھا تھا۔ یہ بچّہ اُس شخص کے ہنسنے کی وجہ بن گیا تھا جِس کی ہنسی اُس سے روٹھ گئی تھی۔

"آپ کی شان تب آپ کے پاس آئے گی جب آپ میرے جِتنے بڑے ہو جاؤ گے۔" باری نے آسان لفظوں میں اُسے سمجھایا۔

"میں بلا کب ہوں گا؟" ایک اور سوال تیار تھا۔

"آ جب آپ ماما سے کٹّی نہیں کریں گے۔ ماما کو تنگ بھی نہیں کریں گے اور ماما کی ہر بات مانیں گے۔ "باری نے اُسے سمجھایا تو وہ جوش سے سر ہلا گیا۔

"اوکے۔" اُس نے ہائی فائیو کے لیے ہاتھ بڑھایا تو باری نے بھی اپنا ہاتھ آگے کیا جِس میں شاہان کا چھوٹا سا ہاتھ سما گیا۔

"آپ کے ہاتھ تو بہت ٹھنڈے ہو رہے ہیں ہان!" باری نے اُس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں سے سہلاتے کہا۔

"ماما کہتیں تھیں بابا کے ہاتھ بھی ٹھنڈے ہوتے تھے آپ کے ہاتھ بھی ٹھنڈے ہیں نا۔" شاہان نے کہا تو وہ یکدم اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگا۔ اُس کے ہاتھ بھی ٹھنڈے تھے۔

"آپ اکیلے آئے تھے؟" باری نے پوچھا۔

"ہان اکیلا کہیں نہیں جاتا۔ ماما ہان ساتھ جاتی ہیں۔ ماما کہتی اکیلے کہیں نہیں جاتے۔" اُس نے معصومیت سے بتایا۔

"تو ابھی آپ کی ماما کہاں ہیں؟" باری نے پوچھا۔

"وہ وہاں ہیں۔ وہ وہاں بیٹھی ہیں۔" اُس نے ایک طرف اِشارہ کیا تو وہ سر ہلاتا اُسے گود میں اُٹھا گیا۔

"ہم آپ کی ماما پاس جاتے ہیں۔ پِھر مُجھے واپس بھی جانا ہے۔" باری نے کہا تو شاہان نے اپنی کالی آنکھیں اُٹھا کر اُس کی جانِب دیکھا۔ بیک وقت باری نے بھی اُس کی جانِب دیکھا۔ دونوں کی سیاہ آنکھیں ایک دوسرے سے ٹکرائیں۔ باری نے بے ساختہ اُسے نیچے کرتے اُس کی آنکھیں چومیں۔ اِس سے پہلے کہ وہ اُسے اوپر کرتا شاہان نے بھی اُس کی نقل کرتے اُس کی آنکھیں چوم ڈالیں۔ باری اُس کی حرکت پر مُسکرایا اور پِھر اُسی جانِب چلنے لگا جہاں شاہان نے اِشارہ کیا تھا۔

وہ وہاں پہنچا تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ وہ اِردگِرد دیکھنے لگا مگر اُسے کوئی بھی نظر نا آیا۔ ابھی وہ سامنے کی جانِب ہی دیکھ رہا تھا جب اُسے اپنے پیچھے سے آواز سُنائی دی۔

"ہان۔" وہ آواز سُن کر ساکت ہوا تھا۔ بے اختیار شاہان کو نیچے اُتارا تو شاہان بھاگتا ہوا پیچھے بھاگا۔ جبکہ اُس کا دِل کیا بغیر پلٹے یہاں سے لوٹ جائے۔ اِس آواز کو وہ لاکھوں میں بھی پہچان سکتا تھا۔ ہمّت کرتے، خُشک لبوں پہ زبان پھیرتے وہ آہستہ سے پلٹا تو نظر سامنے پڑی جہاں وہ زمین پر بیٹھی شاہان کو خود میں بھینچے اُس کا چہرہ، ہاتھ، بازو، اور کندھا چوم رہی تھی۔ باری جہاں کھڑا تھا وہیں جم کر رہ گیا۔ کِتنی شِدّت سے اُس نے آرزو کی تھی اُسے مُجسّم اپنے سامنے دیکھنے کی اور اب وہ اُُس کے سامنے زمین پر بیٹھی اُس بچّے کو چوم رہی تھی۔ دفعتاً وہ چونکا تھا یہ بچّی جِسے وہ اِتنی اپنائیت اور شِدّت سے چوم رہی تھی کون تھا وہ بچّہ جِس سے وہ اِتنی والہانہ اور شِدت بھری مُحبّت کا مظاہرہ کر رہی تھی؟

"ہاہاہا ماما گُدّی ہوتی ہے۔" شاہان کی آواز پر اُسے اُس کے سارے سوالوں کے جواب مِل چُکے تھے۔ وہ بچّہ اُس کا بیٹا تھا اِسی لیے وہ اُس کی طرف کِھنچا جا رہا تھا۔ شاہان کِھلکِھلا رہا تھا جب کہ وہ اُسے اب بھی ویسے ہی آنکھیں بند کیے خود میں بھینچے زمین پر بیٹھی ہوئی تھی۔ آنکھوں سے آنسو مسلسل بہہ رہے تھے جو اُس کے عارضوں پہ گِر رہے تھے۔ تیکھی ناک سُرخ ہو چُکی تھی۔ گرم کھدّر کا سیاہ رنگ کا سوٹ پہنے، شال کندھوں کے گِرد پھیلائے، سر پر حِجاب کی مانِند دوپٹہ لپیٹے وہ لڑکی اور کوئی اُس کی مانو ہی تھی۔

"مم مانو!" اُس کی پُکار میں ایک تڑپ تھی۔ سامنے بیٹھی لڑکی نے سر اُٹھا کر مُخاطب کرنے والے کی جانِب دیکھا تو ایک پل میں ساکت ہوئی۔ سُرخ ہوتی آنکھیں جیسے باری کے وجود میں گڑھ کر رہ گئیں تھیں۔ اُس کی آنکھوں میں باری کو کیا کُچھ نہیں دِکھا تھوہ شاہان کو اُٹھائے اندر داخِل ہوئی جو اب تیز آواز میں رونا شروع ہو چُکا تھا۔ اِس سے پہلے کہ وہ اوپر والے پورشن کی جانِب بڑھتی اذہاد شاہان کے رونے کی آواز سُنتا اپنے کمرے سے باہر آیا تھا۔

"بڈی بڈی! بابا ہیں بابا ہیں۔ ماما جانے نہیں دیتیں۔ بابا پاس جانا ہے۔" شاہان نے روتے ہوئے اذہاد کو ماں کی شِکایت لگائی تھی جیسے وہ تو اُس کی ماں کا اُستاد لگا تھا۔

"کیا ہوا آپی؟ رو کیوں رہا ہے یہ؟ بڈی کی جان! کیا ہوا ہے ماما نے مارا ہے کیا؟" اذہاد نے روتے ہوئے شاہان کو پکڑتے ہوئے اِستفسار کیا۔

"کُچھ نہیں ہوا۔ آج باپ کی کُچھ زیادہ ہی یاد آ رہی ہے اِسے۔ اِسے گیمز لگا دو بہل جائے گا۔"چشمان نے کنپٹی مسلتے کہا تو اذہاد تاسف سے اپنی بڑی بہن کو دیکھنے لگا۔

"کب تک بہلائیں گے اِسے؟ بڑا ہو رہا ہے وہ۔" اذہاد نے دبے لفظوں میں جتایا تو چشمان نے گھور کر اُسے دیکھا۔ شاہان اب روتے ہوئے اذہاد کی گردن میں منہ چُھپا چُکا تھا جو اُس کی ناراضگی کا معصوم سا اِظہار تھا۔

"اپنی چونچ بند رکھو۔ نہیں سنبھال سکتے تو لاو دو مُجھے۔ پہلے ہی سر درد سے پھٹ رہا ہے اوپر سے تُم اپنا پینڈورا باکس کھول لو۔" چشمان نے شاہان کو لینے کو ہاتھ بڑھائے تو وہ شاہان کو پیچھے کر گیا۔

"آپ جا کر ریسٹ کریں۔ آنکھیں بھی سُرخ ہو رہیں ہیں۔ اِسے میں سنبھال لوں گا۔ اپنے ماموں کے پاس ماما سے زیادہ خوش رہتا ہے یہ۔" فِکر مندی سے کہتے وہ آخر میں شاہان کی طرف متوجہ ہوا جو اپنی آنکھیں مسل مسل کر اُن کا حشر خراب کر چُکا تھا۔

اذہاد اُسے لیے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا تو وہ اوپر کی جانِب بڑھی۔

"ارے یہ کیا کر رہی ہو رازی؟" وہ تیزی سے اُس کی جانِب بڑھی جو تھوڑا سا جُھک کر میز سے باول اُٹھانے کی کوشش کر رہی تھی۔

"ارے مانوآپی! کُچھ نہیں کر رہی میں۔ ٹھیک ہوں میں۔" وہ چشمان کے چہرے پر فکر کے تاثرات دیکھتی گویا ہوئی جو اب اُسے صوفے پر بِٹھا کر خود اُس کے برابر بیٹھ چُکی تھی۔

"جانتی ہوں میں کِتنی ٹھیک ہو۔ ریا کو آواز دے دیتی یا پِھر رہنے دیتی میں آ کر کر لیتی یہ۔" اُس نے سبزی والا باول اپنی طرف کِھسکاتے کہا تو وہ زرا سا مُسکرائی۔

" ریا تو یُونیورسٹی گئی ہے آپ بھول گئیں کیا؟ اور آپ ہانی کو باہِر لے گئیں تھیں اِس لیے میں نے سوچا آپ کے آنے تک میں ہی کر دیتی ہوں۔" اُس نے نرمی سے کہا تا کہ اُس کی پریشانی کم ہو۔

"تُمہاری حالت ایسی نہیں ہے کہ تُم یہ سب کرو۔ ابھی تُمہارے ریسٹ کرنے کے دِن ہیں تا کہ ہمارا بے بی اور بے بی کی ماں بالکُل صحت مت ہو۔" چشمان نے شرارت سے کہا تو وہ جھینپ سی گئی۔

"اِتنا تو خیال رکھتی ہیں آپ میرا۔ اِتنی سی ہیلپ تو کر سکتی ہوں میں آپ کی۔ سارا دِن ہانی کو اور گھر کو سنبھالتے سنبھالتے آپ بھی تھک جاتیں ہوں گی۔" فرازیہ نے کہا تو وہ زرا سا مُسکرائی۔ کُچھ دیر پہلے کی تلخی اور بُرہان سے مِلنے کے کوئ تاثرات اُس کے چہرے پر موجود نا تھے۔

"اکیلی کہاں ہوتی ہوں۔ تائی ماں ہوتیں نا میرے ساتھ۔ وہ نا ہوں تو شاید تھک ہی جاؤں میں۔" چشمان نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا تو اُ سکی کیفیت اور بات کا مطلب سمجھ کر وہ گہرا سانس بھر کر رہ گئی۔

"کیا ہو رہا ہے لیڈیز؟ کیا ہمیں یاد کیا جا رہا تھا؟" ایک دم بھاری مردازنہ آواز پر وہ دونوں چونک کر سیڑھیوں کی جانِب دیکھنے لگیں جہاں ریحان کھڑا چہرے پر مُسکراہٹ سجائے اُنہیں ہی دیکھ رہا تھا۔

"جی ہاں آپ کو ہی یاد کیا جا رہا تھا تشریف لائیں۔" چشمان نے شرارت سے کہا تو وہ ہنستا ہوا اُن کے قریب آیا اور فرازیہ کے قریب صوفے پر براجمان ہوا۔ ایک ہاتھ صوفے کی پُشت پر رکھا کہ ایسا لگتا فرازیہ اُس کے حِصار میں بیٹھی ہو۔ چشمان نے مُسکرا کر اُن دونوں کو دیکھا۔ جہاں ریحان کے چہرے پر شوخی تھی وہیں فرازیہ کے چہرے پر شرم و حیا کے تاثرات تھے۔

"اچھا تو کیا باتیں ہو رہیں تھیں میرے بارے میں؟" ریحان نے فرازیہ سے نظریں یٹا کر چشمان سے پوچھا۔

"میں فرازیہ سے فرمائش کر رہی تھی کہ ہونے والا بے بی بالکُل آپ جیسا ہو۔" چشمان نے مزے سے کہا تو ریحان کُھل کر ہنسا جبکہ فرازیہ جھینپتی سر جُھکا گئی۔

"ضرور آپ کا حُکم سر آنکھوں پر۔" ریحان نے سر تسلیمِ خم کیا۔ ساتھ ہی فرزایہ کے کندھے پر ہاتھ رکھتے اُسے خود سے قریب کیا۔ فرازیہ نے تنبیہی نظروں سے اُس کی طرف دیکھا مگر اُس کی نظروں کی شرارت پر وہ نظریں چُرا گئی۔

چشمان محبّت سے دونوں کی جانِب دیکھ رہی تھی۔ گرم کُھلا سا سوٹ پہنے خُود کو گرم شال میں چُھپائے وہ اپنے شوہر کے پہلو میں بیٹھی ہر غم سے بے نیاز تھی۔ چہرے پر الوہی سی خُوشی کے تاثرات تھے۔ فرازیہ اور ریحان کی شادی کو دو سال ہو چُکے تھے اور اب ماں باپ بننے والے تھے۔ فرازیہ کو نواں مہینہ چل رہا تھا۔ چشمان نے دِل ہی دِل میں دونوں کی نظر اُتاری تھی۔

"مانو! امی اور دادی کہاں ہیں؟" ریحان نے پوچھا تھا۔

"وہ نانو کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو ممانی جان اُنہی کے کمرے میں ہیں۔" جواب فرازیہ نے دیا تھا۔ ریحان سر ہلاتا اُٹھ کھڑا ہوا۔

"آپ اِسے کمرے میں لے جائیں تا کہ تھوڑا ریسٹ کر لے۔ میں تب تک دوپہر کا کھانا تیار کر لوں۔" چشمان نے کہا تو وہ سر ہلاتا فرازیہ کے کندھے پر ہاتھ رکھتا اُسے لیے اپنے کمرے کی جانِب بڑھ گیا۔ چشمان بھی بوجھل ہوتا دِل لیے سبزی والا باول اُٹھائے کِچن کی طرف چل دی۔


*****************


اپنے کمرے میں وہ اندھیرا کیے بیڈ کے ساتھ ٹیک لگائے کارپٹ پر بیٹھا ہوا تھا۔ ایک گُھٹنا کھڑا کیے ایک ٹانگ کو نیچے بِچھائے اِس وقت اپنے سُود و زیاں کا حِساب کر رہا تھا۔ ہاتھ میں جلتا ہوا سِگریٹ تھا جِس کے ساتھ وہ اپنا دِل بھی جلا رہا تھا۔ باہر رات گہری ہوتی جا رہی تھی۔ جِتنی گہری رات ہو رہی تھی اُتنا ہی اُس کا درد بڑھتا جا رہا تھا اور شاید اب یہ درد یُوں ہی بڑھتے رہنا تھا۔ جِس وجود سے اِس درد سے کمی آ سکتی تھی وہ وجود تو جانےِ کب کا اُس سے خود کو الگ کر چُکا تھا۔

وہ جو اِس آس میں تھا کہ وہ اُسی کی ہے۔ کبھی اُس سے الگ نہیں ہو گی وہ غلط تھا۔ وہ تو اُس سے اُسی وقت الگ ہو گئی تھی جب اُس نے اُس کی نسوانیت کی دھیجیاں اُڑائیں تھیں اُس کے نسوانی غرور کو ٹھیس پہنچائی تھی۔

وہ کِس کِس چیز پہ ماتم کرتا؟ بیوی کو کھو دینے کا؟ یا اُس بچّے کے اپنا بچّہ نا ہونے کا؟ جِس بچّے سے مِل کر اُس کے جلتے دِل پہ سکون کی بارش ہوئی تھی جو اُسے اپنا عکس لگا تھا وہ تو اُس کا تھا ہی نہیں۔ پِھر کیوں وہ اُس کی طرف کھینچا جا رہا تھا؟ کیوں وہ اُسے بابا کہہ رہا تھا؟ ریحان کی شکل بُرہان سے مِلتی تھی مگر اِتنی بھی نہیں کہ کوئی اُن کو جُڑواں ہی سمجھ جائے۔ شاہان ایک چھوٹا ناسمجھ بچّہ تھا شاید بُرہان اور ریحان میں فرق نا کر پایا ہو۔

وہ جِتنا سوچتا جا رہا تھا اُتنا ہی اُلجھتا جا رہا تھا۔ کیا کرے کیا نا کرے اُسے کُچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ چشمان اور شاہان سے مِل کر واپس آنے کے بعد وہ کمرے میں بند ہو گیا تھا۔ رات کا کھانا بھی نہیں کھایا تھا اور نا ہی اُس کا دِل کیا تھا کھانے کو۔ اُس کا حُلیہ جو پہلے ہی رف سا رہتا تھا آج پہلے سے بھی زیادہ بِکھرا ہوا تھا۔ سِگریٹ رکھتے اب وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تھا۔ کُچھ بھی تو اُس کے بس میں نہیں تھا۔ اُس کی محبّت جِس کا احساس اُسے دو سال پہلے ہی ہو گیا تھا اُس سے چھِن چُکی تھی اور چھیننے والا بھی کون تھا اُس کا اپنا بھائی۔ اُسے تو یقین نہیں آ رہا تھا۔ اپنی قِسمت کی سِتم ظریفی پر وہ اب تھک چُکا تھا۔ اُس کے کیے کی اُسے ایسی سزا بُھگتنی پڑے ایسا اُس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔

پاس پڑی ایش ٹرے سِگریٹ کی راکھ سے بھر چُکی تھی۔ تب سے اب تک جانِے کِتنے سِگریٹ وہ پھونک چُکا تھا۔ سِگریٹ کی لت اُسے پِچھلے دو سال سے لگی تھی جب اُسے پچھتاووں کے ناگ نے ڈسنا شروع کر دیا تھا اور اب یہ لت پہلے سے زیادہ گہری ہوتی جا رہی تھی۔ اُس کے ہونٹ جو پہلے عنابی رنگ کے ہوتے تھے بکثرت سِگریٹ نوشی کی وجہ سے اب ہلکے بھورے مائل ہو رہے تھے۔ وہ آہستہ سے اپنی جگہ سے کھڑا ہوا تو لڑکھڑا سا گیا۔ بیڈ کا سہارا لے کر وہ چلتا ہوا ڈرسینگ کے سامنے جا کھڑا ہوا۔

سیاہ آنکھیں سُرخ ہو رہیں تھیں، بال بِکھرے ہوئے تھے، بڑھی ہوئی داڑھی، ملگجہ سا حُلیہ وہ کہیں سے بھی بُرہان احمد نہیں لگ رہا تھا وہ بُرہان احمد جو ہمیشہ ٹِپ ٹاپ رہتا تھا۔

لب بھینچ کر وہ بِیڈ کی جانِب بڑھا۔ سائیڈ لیمپ آف کر کے وہ بیڈ پر دراز ہوا۔ چھت کو گھورتے گھورتے وہ کب سویا اُسے پتہ بھی نہیں چلا۔ بغیر بلینکٹ کے سردی کی شِدّت سے بے نیاز وہ خود میں سِمٹا کوئی ضِدی بچّہ لگ رہا تھا جِس سے اُس کا من پسند کِھلونا چھین لیا گیا ہو اور وہ روتے روتے سو گیا ہو۔ اُس کی نمازیں لمبی ہو گئیں تھیں۔ صدقے پہلے سے بڑھ چُکے تھے۔ خُدا کو راضی کرنے کے لیے وہ ہر نیک کام اور ہر فرض عِبادت ادا کرنے لگا تھا جو پہلے کبھی کبھار وہ اپنی غُفلت سے سبب چھوڑ دیتا تھا۔ مگر دِل کو چین نہیں پڑتا تھا۔ خُدا نے تو شاید معاف کر بھی دیا ہو مگر اُس کے بندوں نے نہیں کیا تھا۔ اور خُدا پاک بھی تب تک معاف نہیں کرتا جب تک اُس کے بندے معاف نا کر دیں۔ خُدا تو رحیم ہے، غفور ہے، وہ تو ستّر ماوں سے بڑھ کر محبّت کرنے والا ہے۔ وہ تو بندے کے ندامت کے ایک آنسو کے بدلے معافی دے دیتا ہے مگر اُس کے بندے اِتنی جلدی معاف نہیں کرتے۔ وہ گُناہوں کو درگزر نہیں کرتے کیونکہ اُن میں خُدا جِتنی رحیمی نہیں ہوتی۔ وہ تو اپنے بندے کے ایک آنسو پہ اُس کی توبہ قبول کر لیتا ہے مگر بندے آنسووں کے دریاوں پر بھی نہیں پِگھلتے۔

بُرہان احمد آج بھی وہیں کھڑا تھا جہاں تین سال پہلے تھا۔ اپنے مفروضوں کی بُنیاد پر اُس نے تین سال پہلے بھی اُس لڑکی پر ظُلم ڈھایا تھا اور تین سال بعد اب بھی اپنے مفروضوں کو سچ مانتے بغیر کِسی تصدیق کے وہ ایک بار پِھر خود پر اور اُس لڑکی پر ظُلم کر رہا تھا جِس سے وہ محبّت کا دعوے دار تھا۔

**********************

اِس وقت وہ سب سیکنڈ فلور پر لاونج میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آج اِتوار تھا تو سب دیر سے اُٹھے تھے۔ ریحان اور حماد صاحب بھی آج فیکٹری نہیں گئے تھے۔ چشمان کِچن میں پھیلاوا سمیٹ رہی تھی۔ رضیہ بیگم، بڑی امّاں، اور شائستہ بیگم ایک طرف بیٹھیں باتیں کر رہیں تھیں جبکہ حماد صاحب اور ریحان ایل ای ڈی کے آگے بیٹھے کوئی نیوز پروگرام دیکھ رہے تھے۔ اذہاد تھری سیٹر صوفے پر لیٹا ہوا تھا اور اُس کے سینے پر شاہان دراز تھا۔ اُس نے کُہنیاں اذہاد کے سینے ہر ٹِکا رکھیں تھیں جبکہ ہاتھ تھوڑی تلے قید تھے۔ اکیس سالہ اذہاد تین سالہ شاہان کو بڑے غور سے دیکھ رہا تھا جبکہ جواب میں شاہان بھی بڑے غور سے اُس کی جانِب دیکھ رہا تھا۔

"کیا دیکھ رہا ہے میرا بڈی؟" اذہاد نے پوچھا ساتھ ہی اُس کی کمر کو تھپتھپایا۔

"بڈی! بابا کے چہلے پہ بھی بلے بلے بال ہیں۔ آپ کے چہلے پہ بھی بلے بل بال ہیں۔ چاچو کے چہلے پل بھی بلے بلے بال ہیں۔ بابا کہتے کہ یہ بال ملد کی شان ہوتے ہیں پل میلی شان کِدھل ہے؟ بابا نہیں بتایا۔ مُجھے بھی شان چاہیے۔ میں بھی ملد ہوں۔ بابا کہتے کہ جب اُن کے جِتنا ہووں گا تب میلی شان آئے گی بٹ ہان کو ابھی شان چاہیے۔" شاہان نے تیزی سے بولتے آخر میں ننھی سی فرمائش کی۔ اذہاد پہلے اُس کی طرف حیرانی سے دیکھتا رہا پِھر ایک دم چھت پھاڑ قہقہہ لگا گیا۔

"آئے میلا چھوٹا سا پالا سا ملد۔ شان چاہیے میلے ملد کو؟ ابھی شان آ جائے گی میلے چھوٹے ننھے مُنھے ملد کے پاس۔" اذہاد نے اُس کے گال چٹا چٹ چومتے اُسے گُدگُدایا تو وہ بے اختیار ہنسنے لگا۔ اُس کی چہکار پورے گھر میں گونجے لگی جِسے سُن کر فرازیہ بھی دھیرے دھیرے چلتی کمرے سے باہِر آ گئی۔ اُس کے ساتھ ہی عریحہ بھی باہِر آئی تھی۔ وہ لاونج میں پہنچے تو عریحہ نے فرازیہ کو سہارا دے کر صوفے پر بِٹھایا۔ چشمان بھی فارِغ ہو کر اُنہیں کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔

"ماما! گُدی ہوتی ہے۔ ماموں گُدی کلتے ہیں۔ بابا بھی گُدی کلتے ہیں۔ دونوں کی شان مُجھے چُھبتی ہے پِھل بھی گُدی کلتے ہیں۔" شاہان اونچی آواز میں باپ اور ماموں کی شِکایت لگاتے چشمان کی جانِب دوڑا تو سب نے چونک کر اُن کی جانِب دیکھا۔ اذہاد کل ہی شاہان کی قینچی کی طرح چلتی زبان سے سب کُچھ اُگلوا چُکا تھا اور اُسے خوشی بھی تھی کہ بُرہان واپس آ گیا تھا اور اب اُس کی بہن کی زندگی بھی اپنے شریکِ سفر کے ساتھ گُزرے گی۔ پِچھلے تین سال میں چشمان کیسے ڈوب کر اُبھری تھی اِس کا گواہ تو اِس گھر کا ہر فرد تھا اُس کی تکلیف کا بھی اور اُس کی بُرہان احمد سے نفرت کا بھی۔

"ہانی بیٹا! یہاں دادو پاس آئیں۔" حماد صاحب نے اُسے اپنے پاس بُلایا تو وہ چشمان کی گود سے اُتر کر اُن کی جانِب بڑھا۔

"بابا کو کہاں دیکھا آپ نے؟" حماد صاحب نے پوچھا تو وہ اُنہیں کل کی داستان سُنانے لگا۔ اِس سے پہلے وہ اُنہیں ریسٹورانٹ والی داستان سُنانا نہہں بُھولا تھا۔ ایک ایک بات اُسے ازبر تھی کیونکہ وہ اپنے بابا سے مُتعلق کوئی بات نہیں بُھولتا تھا۔ اُس کی معصوم باتیں سُنتے وہاں موجود ہر شخص کی آنکھیں نم ہوئیں تھیں سِوائے حماد احمد اور چشمان بُرہان احمد کے۔

یاد تو وہ سب کو آتا تھا آخر وہ اِس گھر کا سب سے بڑا بیٹا تھا مگر افسوس تو یہ تھا کہ اِس گھر کی بڑی بیٹی کی ہی زِندگی برباد کر بیٹھا تھا وہ۔ اِن گُزرے تین سالوں میں وہ ہر پل ہر لمحہ سب کی یادوں میں موجود رہا تھا مگر سب خاموش تھے تو وجہ صِرف چشمان تھی کہ وہ اِس گھر کی لاڈلی بیٹی تھی جِس کی تکلیف اُن سب نے دیکھی تھی نا صِرف دیکھی تھی بلکہ اُس کی تکلیف کو خود پر محسوس بھی کیا تھا۔

شاہان کی باتیں سُن کر سب کی نظریں چشمان کی جانِب اپٹھیں تھیں جِن میں اُمید تھی کہ شاید اب وہ اُسے معاف کر دے مگر وہ نظریں چُراتی اُٹھ کھڑی ہوئی اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔ رضیہ بیگم نے اپنی نم آنکھیں صاف کیں جو اپنے بیٹے کی جُدائی سہتے سہتے پہلے سے زیادہ کمزور ہو گئیں تھیں۔ ریحان اُنہیں تسلّی دیتا کمرے کی جانِب بڑھنے لگا جب فرازیہ کے چہرے پہ نافہم سے تاثرات دیکھتا تیز کی تیزی سے اُس کی جانِب بڑھا۔

"رازی کیا ہوا تُم تھیک ہو نا؟" ریحان نے اُس کے ہاتھ اہنے ہاتھوں میں لیتے سہلاتے ہوئے پوچھا جب کہ اِتنی سردی میں بھی فرازیہ کے چہرے پر پسینے کے قطرے نمودار ہو چُکے تھے۔ عریحہ بھی اُس کے پاس بیٹھی آیتہ الکُرسی پڑھ کر اُسے پھونک رہی تھی جبکہ شاہان اپنی چچی کی ایسی حالت پر رونے لگا تھا۔

"ریحان! جلدی سے اِسے ہاسپِٹل لے کے جانا ہو گا جلدی کرو۔" شائستہ بیگم نے چیخ کر کہا تو وہ ہوش میں آتا فرازیہ کو بازووں میں اُٹھاتا نیچے کی جانِب بڑھا۔ اُس کا دِل سوکھے پتّے کی طرح لرز رہا تھا۔ اذہاد اُس سے بھی زیادہ تیزی سے بھاگتا نیچے پہنچا۔ گھر کے گیراج میں کھڑی کار باہِر نِکالی اور گاڑی سٹارٹ کی۔ شاہان کو حماد صاحب سنبھال رہے تھے جبکہ رضیہ بیگم بھی نیچے پہنچتی اب اذہاد کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ چُکیں تھیں۔ وہ لوگ ہاسپِٹل کی جانِب نِکلے۔

چشمان تیز آوازوں کو سُن کر نیچے آئی تو سب کے چہروں ہر پریشانی رقم تھی۔ اُنیس سالہ عریحہ رو رو کر اپنی جان ہلکان کر رہیں تھیں جبکہ شاہان حماد صاحب کے ہاتھوں میں مچل رہا تھا۔

"کیا ہوا ہے؟ اِتنے پریشان کیوں ہیں سب؟ اور رازی؟ ریحان بھائی لوگ کِدھر ہیں؟" چشمان نے پریشان ہوتے ہوئے شاہان کو اپنی گود میں لیا تو وہ اُس کی گردن میں منہ دیئے رونے لگا۔


*****************

ا، دُکھ، شِکوہ، خوف اور پِھر نفرت سب کُچھ تو اُس کی آنکھوں نے بیان کر دیا تھا۔ یکدم ہوش میں آتی وہ اُٹھی تھی۔ شاہان کو اُٹھا کر خود میں بھینچ لیا تھا۔

"پپ پاس مت آنا۔ میرے پاس مت آنا وو ورنہ چِلاّوں گی۔ دد دور رہو مُجھ سے پپ پاس مت آنا۔" کانپتے لہجے میں بولتی وہ اُسے حواسوں میں نہیں لگی تھی۔ اُس کا سُرخ چہرہ خوف سے زرد پڑ گیا تھا۔ باری کو خود پہ شرمِندگی محسوس ہوئی تھی۔ اُس کی بیوی اُسی سے خوف کھا رہی تھی اِس سے زیادہ شرم کی بات اُس کے لیے کیا ہوتی کہ اُس کی بیوی خود کو اپنے ہی شوہر سے محفوظ نہیں سمجھتی تھی۔

"میری بات سُنو مانو! ایک دفعہ تو مُجھے سُن لو۔" باری نے اِلتجا کی تھی مگر وہ ان سُنی کرتی شاہان کو خود سے لِپٹائے اپنے گھر کی طرف بڑھنے لگی تھی۔

"ایک دفعہ مُجھے معافی مانگنے کا موقع تو دو۔ اِتنی سنگدِل مت بنو مانو! ایک دفعہ اپنے ہان کی بات سُن لو۔" باری نے کہا تو وہ یکدم رُکی۔

"میں کِسی ہان کو نہیں جانتی۔ کِسی کو بھی نہیں۔ مُجھ سے دور رہو۔ کُچھ نہیں لگتے تُم میرے سمجھے تُم؟" سُرخ ہوتی تیکھی ناک لیے وہ اُس کی طرف اُنگلی اُٹھائے سنگین لہجے میں کہہ رہی تھی۔

"ماما ایسے بات نہیں کلتے۔ بُلی بات ہے۔ بابا بلے ہیں نا۔ دیکھا بابا ہیں میں کہا تھا نا بابا ہیں۔ آپ نہیں مانتے تھے ماما! بابا نے کہا چاکلیٹ لائیں گے۔ بابا آ گئے ہیں نا۔ میلے بابا ہیں۔" شاہان نے ایک دم ٹوکتے اُسے آگاہ کیا اور ساتھ ہی بازو وا کرتے باری کی جانِب بڑھائے۔ باری نے اپنے بازو اُسے اپنی گود میں لینے کے لیے اُس کی طرف بڑھائے مگر اُس نے جلدی سے اُسے پیچھے کو کھنیچا۔ شاہان نے منہ بسور کر اپنی ماں کے کندھے پر سر رکھا۔

"کوشش بھی مت کرنا میرے بیٹے کے نزدیک آنے کی۔ میرا بیٹا ہے یہ۔ تُمہاری پرچھائی بھی اِس پر نا پڑنے دوں میں۔ دور رہو مُجھ سے بھی اور میرے بیٹے سے بھی۔" اُس نے تلخ لہجے میں کہہ کر قدم آگے بڑھانے چاہے جب باری کی آواز پر وہ رُکی۔

"یہ میرا بھی بیٹا ہے۔ اِس کا باپ ہوں میں۔ اِس سے دور نہیں کر سکتی تُم مُجھے۔" باری نے کہا تو وہ پلٹی اُس کے چہرے پر تلخ سی مُسکراہٹ تھی۔ چہرے پر آنسووں کے نِشان ہنوز قائم تھے۔

"کِس نے کہا کہ یہ تُمہارا بیٹا ہے؟ کِسی غلط فہمی میں مت رہنا بُرہان حماد احمد! یہ میرا یعنی چشمان تنویر کا بیٹا ہے۔ اِس کا تُم سے کِسی قِسم کا کوئی تعلُق نہیں ہے۔" چشمان نے اُسے ناور کروایا تھا۔ آنکھیں سُرخ ہو رہیں تھیں جیسے ضبط کرنے کی کوشش کر رہی ہو۔

"تُمہارے کہنے سے حقیقت بدل نہیں جائے گی۔ یہ میرا ہی بیٹا رہے گا۔ تُم ایک بار اپنا دِل تو بڑا کرو۔ ایک بار معاف کر دو پلیز۔" سختی سے کہتا وہ آخر میں ملتجی ہوا۔

"بیٹا تب ہوتا جب میں تُمہاری بیوی ہوتی۔ میں عدالت سے خُلع لے چُکی ہوں تُم سے۔ اور تُمہیں کیوں یقین ہے کہ یہ تُمہارا ہی بیٹا ہے؟ میرے تو کئی یارانے تھے ہو سکتا ہے کہ کِسی کا گُناہ۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ اذیّت پسندی سے بول ہی رہی تھی جب وہ تڑپ کر اُس کے منہ پہ ہاتھ رکھ گیا۔ خُلع کی بات پر وہ ساکت رہ گیا تھا۔ ایسا کیسے ہو سکتا تھا؟ وہ کسیے ایسے کہہ سکتی تھی؟

"ایسے مت کہو میں گواہ ہوں تُمہارے کِردار کا۔ تُم کل بھی پاک تھی آج بھی پاک ہو اور یی یہ خخ خُلع کک کیسے ہو سکتا ہے نن نہیں ہو سکتا۔" بُرہان نے آنکھیں میچ کر کہا تو وہ تمسخرانہ ہنسی۔

"میرے کِردار کو سب کی نظروں میں مشکوک بنانے والا آج میرے کِردار کی پاکیزگی کا گواہ بنا بیٹھا ہے واہ تالیاں بجاوں یا ہنسوں؟" وہ طنزیہ پوچھنے لگی شاہان کسمسیایا تو وہ اپنے قدم گھر کی طرف بڑھانے لگی۔ وہی اُس کی سب سے محفوظ پناہ گاہ تھی جہاں یہ شخص کبھی نہیں آ سکتا تھا۔

"یہ خُلع والی بات جھوٹ ہے نا؟ کہہ دو یہ جھوٹ ہے اِتنی بڑی سزا نہیں دے سکتی تُم مُجھے۔ شاہان میرا بیٹا ہے اِس کے نقوش دیکھو بالکُل تُمہارے اور میرے جیسے ہیں۔ اِس کے نقوش مُجھ سے مِلتے ہیں۔ یہ میرا بیٹا ہے۔" وہ اِس کے ساتھ چلتا بے تابی سے کہتا جیسے اُس سے اِقرار سُننا چاہتا ہو۔

"اِس کے نقوش اپنے باپ سے مِلتے ہیں۔ اِس کا باپ ابھی گھر پر ہمارے ساتھ نہیں رہتا۔ یہ تُمہارا بیٹا نہیں ہے یاد رکھنا۔" سرد، سپاٹ لہجے میں بولتی وہ اپنے گھر میں داخِل ہو گئی۔ شاہان اب رونے لگا تھا چشمان کے کندھے سے جھانکتا وہ بُرہان کو آس بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ مگر بُرہان اُس گھر کے اندر نہیں جا سکتا تھا۔

"اِس کے نقوش اپنے باپ سے مِلتے ہیں۔" ایک ہی فِقرہ اُس کے دماغ میں گونج رہا تھا۔ ایک دم اُس کے ذہن میں جھماکا ہوا۔

"ریحان؟" بے یقینی سی بے یقینی تھی۔ ریحان کے نقوش بھی تو بُرہان سے مِلتے تھےاور اب شاہان کے نقوش ریحان سے۔ اِس کا مطلب چشمان ریحان سے شادی کر چُکی تھی؟ ایسا کیسے کر سکتے وہ اُس کے ساتھ؟ کیا وہ اِتنی جلدی اُسے بھول گئے تھے؟ کیا اُس کی غلطی معافی لائق نہیں تھی؟ غلطی نہیں بلکہ گُناہ کیا تھا اُس نے۔ ایک لڑکی کے کِردار پر تُہمت لگائی تھی اُس نے۔ لڑکی بھی وہ جو اُس کی بیوی تھی۔ گُناہوں کی سزا ہوتی ہے معافی نہیں۔ اور اُسے بھی سزا دی جا چُکی تھی۔ جِس لڑکی سے وہ محبّت کرتا تھا جو اُس کی محرم تھی اُسے ہی اُس سے دور کر دیا گیا تھا۔ وہ اِسی لائق تھا شاید۔

جُھکے کندھوں اور ٹوٹے دِل کے ساتھ وہ اُس گھر سے دور دور اور دور ہوتا چلا گیا۔


***************

"فرازیہ کی طبعیت خراب ہو گئی تھی ریحان اُسے ہاسپِٹل لے گیا ہے۔ ہمیں بھی چلنا چاہیے۔" شائستہ بیگم نے اُسے بتایا۔

"امّی! آپ دادی اور عریحہ کے پاس گھر رہیں ہم جاتے ہیں وہاں۔" چشمان نے شاہان کا سر سہلایا۔

"مگر آپو مجھے بھی جانا ہے۔" عریحہ نے کہا تو وہ بے بسی سے سرہلا گئی۔

"جاؤ بیٹا! چادر لے آو اپنی اور چشمان کی۔" بڑی امّاں نے کہا تو وہ تیزی سے کمرے کی جانِب بڑھی۔ حماد صاحب کے ہمراہ اگلی کُچھ دیر میں وہ ہاسپِٹل میں موجود تھے۔ ریحان پریشان سا ایک طرف کھڑا تھا جبکہ رضیہ بیگم مسلسل آیتہ الکُرسی کا وِرد کرتیں فرازیہ کی صحت یابی کے لیے دُعائیں مانگ رہیں تھیں۔

چشمان اور حماد صاحب اُن کے قریب پہنچے۔ حماد صاحب نے ریحان کو تسلّی دی تو وہ گُم صُم سا سر ہلا گیا۔ وہ سب خُدا کے حضور دُعا کرنے لگے۔ شاہان چشمان کے ہی پاس تھا اور پٹر پٹر اِردگِرد دیکھ رہا تھا۔

ہاسپِٹل کے ٹھنڈے کوریڈر میں کھڑے وہ لوگ اپنی جانِ عزیز کی زندگی کے لیے دُعا گو تھے۔ ماحول افسردہ تھا تو فِضا بھی بوجھل سی تھی۔ ایک عجیب سی اُداسی نے اِس جگہ کو اپنے حِصار میں لیا ہوا تھا جہاں پہ کئی لوگ نئی زِندگی پاتے تھے تو کئی لوگ اپنی جان کی بازی ہار جاتے تھے۔ یخ بستہ کوریڈور کی دیوار سے ٹیک لگائے ریحان احمد کے جذبات بھی سرد سے ہو رہے تھے۔ رگوں میں جیسے خون جم سا گیا تھا جِسے روانی شاید اُس کی بیوی کی نئی زِندگی کی نوید ہی بخشتی۔ اِس وقت وہ ایک ٹی شرٹ کے اوپر بلیک کلر کی جیکٹ پہنے ہوئے تھا۔ پیروں میں چپل تھی اور سردی کی وجہ سے اُس کے پیر بھی ٹھنڈے یخ ہو گئے تھے مگر وہ لاپرواہ سا کھڑا تھا۔

کُچھ دیر بعد ایک نرس باہِر آئی اور ریحان کو کُچھ ڈاکیومینٹس پر سائن کرنے کا کہا۔ ریحان نے دھڑکتے دِل سے سائن کر دئیے۔ نرس نے ڈاکیومینٹس چیک کیے اور ریحان کو ریسپشن پر فیس پے کرنے کا کہا۔ ریحان پریشان حال نیچے کی جانِب بڑھا تو چشمان بھی اُس کے پیچھے ہو لی۔ شاہان بھی اُس کے ساتھ ساتھ تھا۔ چشمان نے شاہان کے دائیں ہاتھ کی اُنگلی اپنے بائیں ہاتھ میں تھام رکھی تھی۔


***************


وہ آفس سے جلدی اُٹھ گیا تھا۔ ابھی وہ آفس سے نِکلتا کہ راستے میں اُسے احراز مِل گیا تھا۔ احراز کو ہاسپِٹل جانا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ بُرہان اُس کے ساتھ ہی جائے جِس پر وہ اِنکار نا کر سکا۔ ماہم کی طبیعت خراب تھی جِس پر ڈاکٹر نے اُنہیں چیک اپ کروانے کو کہا تھا۔ اُس کا چیک اپ ہو چُکا تھا بس آج رِپورٹس لینی تھی اور اِسی لیے احراز آج ہاسپِٹل جا رہا تھا۔

ہاسپِٹل پہنچ کر احراز تو اوپر والے فلور کی جانِب چل دیا جہاں سے اُسے ڈاکٹر سے مِل کر رپورٹ لینی تھی جبکہ بُرہان معذرت کرتا ریسپیشن کے پاس لگے ویٹنگ صوفے پر بیٹھ گیا۔ ابھی وہ اپنی ای میلز چیک کرتا مصروف سا تھا جب کِسی عجیب سے احساس کے تحت اُس کی نظریں سامنے اُٹھیں اور پِھر وہیں جم کر رہ گئیں۔ گرم چادر اوڑھے ایک ہاتھ میں اپنے بیٹے شاہان کا ہاتھ پکڑے وہ ریسیپشن کی طرف چلی آ رہی تھی وہ اپنے ساتھ چلتے وجود سے کُچھ کہہ رہی تھی۔ بُرہان نے دیکھا وہ ریحان تھا اُس کا اپنا بھائی۔ بُرہان کے نقوش یک دم تنے تھے۔

اُن دونوں کے چہرے کُچھ مُتفکّر سے تھے۔ ریسیپشن پر پہنچ کر اُنہوں نے کوئی فائل ریسیپشینِسٹ کو دی تھی۔ ریحان نے چشمان کو کُچھ کہا تو وہ سر ہلاتی واپس چلی گئی۔ شاہان بھی اُسی کے ساتھ جا چُکا تھا۔ ریحان باہِر کی جانِب بڑھا۔ اُس نے بُرہان کو نہیں دیکھا تھا کیونکہ وہ سر کو جُھکا کر خود کو فون پر مصروف ظاہِر کر رہا تھا۔ بُرہان نے سر اُٹھایا تو ریحان جا چُکا تھا۔ اُس نے ایک بوجھل سانس فِضا میں خارِج کی۔

اُس کے جانے کے بعد وہ ریسیپشِنسٹ کی جانِب بڑھا۔

"ایکسکیوزمی! ابھی یہ جو ریحان احمد گئے ہیں یہ کِس کے ساتھ آئے ہیں یہاں؟ کیا کوئی قریبی رِشتہ دار ہے اُن کا یہاں؟" اُس نے پریشانی سے پوچھا تھا۔

"جی اُن کی بیوی اُمید سے ہیں اور۔۔۔۔۔۔۔" ریسیپشینِسٹ نے آگے بولنا چاہا مگر اُس نے ہاتھ اُٹھا کر اُسے مزید بولنے سے روکا۔ اِس سے آگے اُس میں سُننے کا یارا نا تھا۔

"تھینکیو۔" ایک لفظ کہہ کر وہ واپس صوفے پر ڈھے گیا۔ آنکھوں میں سُرخی اُتر آئی تھی۔ اُس سُرخی کے ساتھ ساتھ اُس کی آنکھوں میں نمی سی بھی اُتری تھی۔ زندگی ایک بوجھ لگنے لگی تھی اُسے جِسے وہ گھسیٹے جا رہا تھا۔ کُچھ دیر میں اُسے احراز آتا دِکھائی دیا تو وہ خود کو پوزڈ کرتا اُس کی جانِب بڑھا۔

وہ رپورٹ لے آیا تھا۔ رپورٹ کے مُطابق وہ اور ماہم ایک بار پِھر ماں باپ بننے والے تھے۔ بُرہان نے اُسے مبارکباد دی تھی پِھر وہ باہر نِکلے تھے۔ ابھی وہ پارکِنگ کی طرف جا رہے تھے جب سامنے سے ریحان آتا دِکھائی دیا۔ بُرہان نے نظریں چُرا کر نِکل جانا چاہا مگر وہ بُرہان کو دیکھ چُکا تھا تیزی سے اُس کی جانِب بڑھتا وہ اُس کے گلے لگا۔ بُرہان نے غُصّے سے اُسے دور جھٹکا۔

"بھائی!" وہ حیرت سے اُسے پُکار اُٹھا جو آنکھوں میں نفرت لیے اُسے دیکھ رہا تھا۔

"احراز میں سیدھا گھر جاؤں گا۔ تُم گھر جاؤ میں خود واپس چلا جاوں گا۔" بُرہان نے ریحان کو نظر انداز کرتے احراز سے کہا تو وہ تاسف سے سر ہلاتے واپس چلا گیا۔ وہ ریحان کو اچھے سے جانتا تھا۔

"آپ کہاں تھے بھائی؟ پتہ ہے امیّ جان کِتنا یاد کرتیں ہیں آپ کو؟" ریحان نے ایک نظر اُس پہ ڈال کے کہا جو اِس وقت جیز شرٹ اور جیکٹ میں ملبوس تھا۔ گلے میں مفلر ڈال رکھا تھا۔

"کیوں؟ مُجھے کیوں یاد کرتے تھے؟ مِل تو گیا تھا اُنہیں بڑا بیٹا۔" تلخی سے کہہ کر وہ آگے بڑھنے لگا جب ریحان نے اُس بازو سے تھام کر روکا۔

"میں آپ کی جگہ کیسے لے سکتا یوں بھائی؟ آپ آپ ہیں آپ کا کوئی نعم البدل نہیں۔" ریحان نے سنجیدگی سے کہا۔

"تُمُ میری جگہ لے چُکے ہو ریحان! ویسے مُبارک ہو تُمہیں۔ باپ بننے والے ہو تُم۔" بُرہان نے تیکھے لہجے میں کہتے سُرخ نظریں اُس کے چہرے پر گاڑیں جہاں خوشی کے ساتھ یاسیت کے تاثرات تھے۔

"شُکریہ بھائی! میں باپ بننے والا ہوں تو آپ بھی تایا بننے والے ہیں۔ ویسے سب سے زیادہ خوش تو مانو ہے وہ بھی تو تا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" ریحان اپنی خوشی میں بولتا جا رہا تھا جب منہ ہر پڑنے ولاے مُکّے نے اُس کے چودہ طبق روشن کر دیئے تھے۔ وہ ناک پہ ہاتھ رکھتا پیچھے کو گِرا تھا۔ سر اُٹھا کر حیرت اور نا سمجھی سے اُس نے بُرہان کو دیکھا تھا جو غُصّے اور اِشتعال سے اُس کو گھور رہا تھا۔ ریحان آہستہ سے اُٹھ کر کھڑا ہوا۔

"شرم نہیں آئی تُمہیں؟ تُم تو شاید اِسی اِنتظار میں تھے کہ کب میں مانو کو چھوڑوں اور کب تُم اُس کا ہاتھ تھام لو۔ اُس دِن جب میں نے شاہان کو دیکھا تو مُجھے اُس میں اپنا اور چشمان کا عکس نظر آیا تھا۔ مُجھے لگا کہ وہ میرا اور چشمان کا بیٹا ہے مگر کل چشمان نے میری یہ آس بھی توڑ دی یہ کہہ کر وہ مُجھ سے خُلع لے چُکی ہے۔" بُرہان اُس کا کالر جھنجھوڑتے بے بسی سے بول رہا تھا جبکہ ریحان حیرت کا مُجسمہ بنا اُسے سُن رہا تھا۔

"بھائی آپ غلط۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" ریحان نے بولنا چاہا مگر ایک اور مُکّہ اُس کے منہ پر پڑا تھا۔ اُسے لگا تھا کہ آج اُس کا ناک سلامت نہیں بچّے گا۔

"بکواس بند کرو اپنی۔ کیوں کیا ایسا؟ ایک بار بھی یہ نہیں سوچا کہ وہ تُمہارے بھائی کی بیوی ہے؟ شادی کر لی اُس سے تُم نے۔ شاہان میرا نہیں تُمہارا بیٹا ہے۔ اور اب اب وہ پِھر اُمید سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔مم میں پاگل ہو جاؤں گا۔ تم نے مُجھ سے میرا سب کُچھ چھین لیا ریحان! اب کُچھ نہیں بچا میرے پاس۔ کُچھ بھی نہیں۔" وہ اونچا لمبا جوان کڑیل مرد زمین پر بیٹھا پھوٹ پھوٹ کر بچوں کی طرج رو رہا تھا۔ ریحان نے تاسف سے اپنے بڑے بھائی کو دیکھا جو آج بھی کہانی کے ایک پہلو کو دیکھ کر خود کو اذیّت پہنچا رہا تھا۔ پارکنگ میں اِس وقت زیادہ رش نا تھا اِکّا دُکّا لوگ ہی تھے جو آ جا رہے تھے۔

"آج میں باپ بن جاؤں گا۔ آج میری بیوی مُجھے زندگی کی سب سے بڑی خُوشی دینے والی ہے اور میری بیوی کا نام ہے فرازیہ ریحان احمد۔ چشمان بُرہان احمد میری بھابھی ہیں صِرف بھابھی ہی نہیں بلکہ میری چھوٹی بہن بھی۔ جِس کی زندگی میرے بڑے بھائی نے تباہ کر دی۔" ریحان نے اُس کے قریب زمین پر بیٹھتے سنجیدگی سے کہا تو اُس کی بات سمجھ آنے پر بُرہان نے جھٹکے سے سر اُٹھایا۔ سُرخ روئی روئی آنکھوں میں بے یقینی تھی۔

"فف فرازیہ؟ شش شاہان؟ کک کِس کا بب بیٹا ہے؟" لرزتی کانپتی آواز میں بُرہان نے پوچھا تو وہ اُسے بازو سے تھامتا اپنے برابر کھڑا کر گیا۔

"شاہان بُرہان احمد کا بیٹا ہے۔ میرا بھتیجا شاہان میرے بڑے بھائی کا بیٹا ہے۔" ریحان نے سنجیدگی سے کہا تو وہ بے اعتباری سے اُس کی جانِب دیکھنے لگا۔

"مم میرا بیٹا؟ کک کیسے مم میں بب بے خبر ر رہا؟" وہ بڑبڑایا تو ریحان کو اُس کی حالت پر ترس سا آیا۔

"شادی ہوئی تھی آپ کی۔ چشمان رُخصت ہو کر ہمارے گھر آئی تھی بیوی تھی وہ آپ کی۔ کیا آپ نے اُسے اپنی بیوی کی حیثیت سے قبول نہیں کیا تھا؟ یا پِھر آپ کو آج شاہان کے بارے میں جان کر بھی یہی لگتا ہے کہ وہ آپ کا نہیں کِسی اور کا بیٹا ہے؟ اور آپ کو کِس نے کہا کہ میں نے چشمان سے شادی کر لی ہے؟" ریحان نے تلخی سے پوچھا تو وہ اذیّت سے آنکھیں میچ گیا۔

"وو وہ میرا بیٹا ہے۔ پہ پلیز ایسے مت کہو۔ ہان میرا بیٹا ہے۔ مم مگر چچ چشمان نے کک کہا کہ وہ خخ خُلع لے چُکی ہے۔ مم مُجھ سے اُس کک کا کوئی رر رِشتہ نہیں ششش شاہان میرا بیٹا نہیں اا اور یی یہ کہ اُس کے نقش اپنے باپ سے مم مِلتے ہیں اور ہہہ ہم دونوں کے نن نقش مِلتے ہیں تو مم مُجھے لگا کہ تت تُم اور چچ چشمان۔۔۔۔۔" بُرہان نے اُس کے سینے سے لگتے اذیّت سے کہا۔

"وہ تو پاگل ہے اور ایک پاگل کی باتوں پر کون یقین کرتا ہے؟ شاہان آپ کا بیٹا ہے۔ چشمان آپ کی بیوی ہے کل بھی آج بھی اور ہمیشہ وہی رہے گی۔" ریحان نے اُس کی پُشت تھپتھپاتے اُسے تسلّی دی تو وہ کِسی بچّے کی طرح سر ہلا گیا۔

"اِس ٹینشن میں تو میں بُھول ہی گیا۔ فرازیہ اندر ہے۔ چلیں سب کے پاس چلتے ہیں۔ سب آپ کو دیکھ کر بہت خوش ہوں گے۔" ریحان نے خوشی سے کہا تو وہ نفی میں سر ہلا گیا۔

"اندر نن نہیں جاوں گا اگر سس سب نے مُجھے سزا دی تو؟" بُرہان کے لہجے میں خوف تھا مگر دِل میں سکون تھا۔ اُس کی چشمان اُسی کی تھی اور شاہان اُسی کا بیٹا تھا۔ ایک خوشی کی لہر اُس کے جِسم میں دوڑ رہی تھی جو اُس کے چہرے پر بھی عیاں تھی۔

"سزا ہے بُھگت لیجیے گا۔ اپنے ہیں آپ کے۔ آپ کو زیادہ تکلیف میں نہیں دیکھ سکیں گے۔" ریحان نے کہا تو وہ نفی میں سر ہلا گیا۔

"اگر ایسی سزا سُنا دی جِس میں چشمان سے الگ ہونا پڑے تو؟ نن نیں میں پِھر کبھی آ جاؤں گا۔ میں چلتا ہوں۔" وہ تیزی سے کہتا واپس مُڑنے لگا جیسے ریحان اُسے کھینچ کر ہی لے جائے گا۔

"اچھا اپنی بیوی کا نمبر تو لیتے جائیں۔ اُنہیں منانا نہیں ہے کیا؟" ریحان نے شرارت سے کہا تو وہ ٹھٹھک کر رُکا۔ پِھر تیر کی تیزی سے اُس کی جانِب مُڑتا اپنا فون اُس کے ہاتھ میں تھما گیا۔

"واہ بھئی! بیگم کے نام پر اِتنی تیزیاں؟" ریحان نے چھیڑا تو وہ خجل ہو گیا۔

"ویسے بہت زور سے مارا ہے آپ نے مُجھے۔" ریحان نے اُس کے فون میں اپنا اور چشمان کا نمبر سیو کرنے کے بعد بُرہان کا نمبر اپنے فون میں سیو کرتے شِکوہ کیا تو وہ شرمِندہ سا اُسے گلے لگا گیا۔

"سوری۔ غلط فہمی ہو گئی تھی۔" بُرہان نے کہا تو ریحان گہرا سانس بھر کر رہ گیا۔

"اِن غلط فہمیوں کو اپنی زِندگی سے ختم کر دیں بھائی! اِنہی کی وجہ سے ہر بار آپ چشمان کے کِردار پہ داغ لگا دیتے ہیں۔" ریحان کی بات پر وہ ایک پِھر ندامت کی گہرائیوں میں ڈوبا۔ ہاں وہ ایک بار پِھر وہی غلطی کر رہا تھا اگر آج ریحان سب کُچھ کلیئر نا کرتا تو۔

"کِسی کو بتانا مت کہ میں تُجھ سے مِلا۔" بُرہان نے اُس سے الگ ہو کر کہا تو وہ سر ہلا گیا۔

"چلتا ہوں۔ خیال رکھنا اور بہت بہت مُبارک ہو۔" بُرہان نے کہا تو وہ خوشی سے سر ہلاتا ہاتھ مِلا کر اندر کی جانِب بڑھا۔ بُرہان بھی وہاں سے اپنے فلیٹ کی طرف نِکل گیا۔ اُس کا روم روم خوشی سے چہک رہا تھا۔ اپنے گُناہوں کا ازالہ کرنے اور اپنی غلطیوں کو سُدھارنے کے لیے وہ کُچھ بھی کرنے کو تیار تھا مگر اب اور چشمان کی ناراضگی مول نہیں لے سکتا تھا اِس سے پہلے کہ اور دیر ہو جائے۔


*****************

وہ سب خوشی سے چہک رہے تھے اور سب سے زیادہ خوش تو شاہان تھا جو چشمان کے پاس بیٹھا اُس کی گود میں موجود بے بی گرل کو ٹُکر ٹُکر دیکھ رہا تھا جو گُلابی رنگ کے کمبل میں اچھی طرح لِپٹی ہوئی تھی۔ ریحان وہاں پہنچا تو حماد صاحب اور اذہاد نے اُسے گلے لگاتے مُبارکباد دی۔ وہ ایک ننھی سی بچّی کا باپ بن چُکا تھا۔ رضیہ بیگم نے اُس کا ماتھا چومتے سدا خوش رہنے کی دُعائیں دیں۔

وہ چشمان کے پاس آیا اور اِس سے بچّی کو اپنی گود میں لیا۔ ننھی سی معصوم لال گُلابی گالوں والی بچّی جِس نے فرازیہ اور ریحان دونوں کے نین نقش چُرائے تھے، اِس وقت گُلابی رنگ کے کمبل میں لِپٹی ہوئی تھی۔ ریحان نے اُس کی چھوٹی سی پیشانی پر محبّت بھرا بوسہ دیا۔

پِھر اُس کے ننّھے ننّھے گال چومے۔ پھر اُس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھ چومے۔ ریحان کا دِل خُدا کے شُکرانے ادا کر رہا تھا جِس نے اُُسے اپنی رحمت سے نوازا۔ فرطِ جذبات سے اُس کی آنکھیں نم ہوئیں تھیں۔ معاً اُسے فرازیہ کا خیال آیا تو وہ چشمان کی جانِب دیکھنے لگا۔

"رازی کیسی ہے؟ ڈاکٹر نے کیا کہا؟" ریحان نے بے چینی سے پوچھا۔

"رازی بھی ٹھیک ہے۔ روم میں شِفٹ کر رہے ہیں پِھر مِل سکیں گے۔" چشمان نے بتایا تو وہ سر ہلاتا اپنی بیٹی کی طرف متوجّہ ہو گیا۔

کُچھ دیر میں فرازیہ کو روم میں شِفٹ کر دیا گیا۔ وہ سب بھی اُس کے پاس پہنچ چُکے تھے۔ فرازیہ ہوش میں ہی تھی۔ چہرہ زرد پڑ رہا تھا مگر چہرے پہ ممتا کا نور تھا جو اُسے حسین بنا رہا تھا۔ سب اُس سے مِلنے اور مُبارکباد دینے کے بعد وہاں موجود صوفے پر بیٹھتے اب بے بی گرل کی طرف متوجّہ تھے۔ حماد صاحب اور اذہاد فرازیہ سے مِلنے کے بعد باہِر نِکل گئے تھے جبکہ ریحان فرازیہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔

"طبیعت کیسی ہے؟" ریحان نے نرمی سے پوچھا تو وہ مدھم سا مُسکرائی۔

"ٹھیک ہوں میں۔" آہستہ سے جواب دیا تو ریحان نے سر ہلا دیا۔ فرازیہ نے غور سے اُس کے خوشی سے دمکتے چہرے کو دیکھا۔

"آپ خوش ہیں؟" فرازیہ نے دھیرے سے پوچھا۔

"بہت۔" یک لفظی جواب میں بھی ایک سرشاری سی تھی جِسے محسوس کر کے فرازیہ نے سکون سے آنکھیں موندیں۔ اُسے نیند آ رہی تھی۔ ریحان نے بھی کوئی اور بات نا کی کہ اپنی بیوی کا سکون اُسے اپنی جان سے زیادہ عزیز تھا۔ وہ وہیں بیٹھا اُس کے ہاتھ سہلاتا رہا جبکہ کمرہ شاہان کی چہکاروں سے گونج رہا تھا۔


****************


رات کو وہاں ریحان اور چشمان ہی رُکے تھے۔ شاہان بھی ضِد کر کے وہیں رُکا تھا۔ ریحان نے بے بی گرل کے ساتھ ساتھ چشمان اور شاہان کی بھی کئی تصویریں بنا کر بُرہان کے نمبر پر سینڈ کر دیں تھیں۔ جِس کے جواب میں بُرہان نے ہارٹ ایموجیز سینڈ کیے تھے۔

دِن کے تقریباً ایک بجے فرازیہ کو ڈِسچارج کر دیا گیا تھا اور وہ اُسے لے کے گھر آ گئے تھے۔ گھر میں اُن کا بہت شاندار ویلکم ہوا تھا۔ فرسٹ فلور کے دروازے پر ویلکم لِکھا ہوا تھا۔ اندر داخِل ہونے پر اُن پر پھول برسائے گئے تھے۔ اِس کے بعد وہ فرازیہ کو اندر لے آئے تھے۔ بے بی کو چشمان نے تھام رکھا تھا جبکہ شاہان اُس کے گُھٹنے سے لگا کھڑا تھا۔

فرازیہ سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتی تھی جِس پر ریحان نے احتیاط سے اُسے اپنے بازووں میں اُٹھا لیا تھا جِس پر وہ سب کے سامنے ایسی حرکت پر سٹپٹا اُٹھی تھی مگر وہاں پروا کِسے تھی۔ اُسے اپنے کمرے میں لٹا کر وہ بھی اُس کے پاس ہی کُرسی پر ٹِک گیا تھا۔ سبھی اوپر اُن کے کمرے میں آن موجود ہوئے تھے۔

"اب بے بی کا نام بھی تو رکھیں نا۔" عریحہ نے کہا تو سب نے سر ہلایا۔

"ہاں بھئی ریحان کیا نام رکھو گے تُم میری پرپوتی کا؟" بڑی امّاں نے پوچھا۔

"آپ مُجھ سے بڑی ہیں بڑی امّاں! آپ ہی نام رکھیں اپنی پرپوتی کا۔" ریحان نے اُنہیں مان بخشا تو وہ مدھم سا مُسکرائیں۔

"بٙلی امّاں! ڈول کا پیالا سا نام لٙکھیں۔" شاہان نے لُقمہ دیا تو سب ہنسے۔

"مُجھے تو ہانیہ بہت پسند ہے۔" بڑی اماّں نے کہا تو سب خوشی سے مُسکرائے۔ سب کو نام پسند آیا تھا۔

"بہت اچھا ہے امّاں جی!" رضیہ بیگم نے کہا اور گود میں لی ہوئی ہانیہ کا ماتھا چوما۔

"چلیں بھئی اب سب لوگ فرازیہ کو آرام کرنے دیں۔ دوپہر کے کھانے کا وقت ہو رہا ہے۔ کھانا تو بن ہی چُکا ہے سب لوگ آجائیں کھانے پر۔" شائستہ بیگم نے کہا تو سب سر ہلاتے باہِر نِکل گئے۔ ہانیہ کو فرازیہ کے پہلو میں لٹا دیا تو وہ اُس کے ننھے ننھے ہاتھ تھامتے اُس سے چھوٹی چھوٹی باتیں کرنے لگی۔

"ریحان بھائی! آپ رازی کا ڈائٹ چارٹ بتا دیں تا کہ میں اُس کے لیے کُچھ ہلکا پُھلکا بنا سکوں۔" چشمان نے کہا تو ریحان نے ایک نظر اُس کی سُرخ ہوتی نظروں کو دیکھا۔

"تُم جا کے آرام کرو مانو! کل سے تُم وہاں تھی اور میں جانتا ہوں کہ شاہان نے تُمہیں زرا بھی آرام نہیں کرنے دیا۔ میں امّی سے کہتا ہوں وہ رازی کے لیے کُچھ بنا دیں گی۔ آ آ کُچھ مت کہنا چلو جا کے لنچ کرو اور اِس کے بعد ریسٹ کرو۔" ریحان نے اُسے بولنے کے لیے منہ کھولتے دیکھ کر کہا تو وہ منہ بناتی فرازیہ کو دیکھنے لگی جو اُنہیں دیکھ کر مُسکرا رہی تھی۔

"تُمہاری جب سے شادی ہوئی ہے نا؟ تُم اپنی آپی کو چھوڑ کر اپنے شوہر کے ساتھ مِل گئی ہو۔" خفگی سے کہتی وہ باہِر نِکل گئی تو فرازیہ مدھم سا ہنسی۔ ریحان نے اُس کی جانِب محبّت پاش نِگاہوں سے دیکھا تو وہ گُلال ہوتی ہانیہ کی جانِب متوجّہ ہو گئی جو غو غا کرتی اپنے ننھے ہاتھ پیر ہلا رہی تھی۔

"تُم آرام کرو تب تک میں تُمہارے لیے پرہیزی کھانا بنوا کر لاتا ہوں۔" فرازیہ پر بلینکٹ درست کرتے کہا اور پِھر اپنی ننھی سی جنّت کے گال پہ بوسہ دیتے وہ باہِر نِکل گیا فرازیہ نے آسودگی سے آنکھیں موندیں۔ بلاشُبہ اِس شخص کی ہمراہی میں اُس کی زندگی جنّت بن گئی تھی۔


******************


بُرہان نے ریحان کی بھیجی ہوئی ساری تصویریں جِن میں صِرف چشمان اور شاہان تھے، پرِنٹ کروا کر فریم میں لگوا لیں تھیں اور اب وہی تصویریں اُس کے کمرے کی دیواروں کی زینت بن چُکیں تھیں۔ اُسے ریحان اور فرازیہ کے بہت خوشی تھی۔ وہ خُدا کا شُکر ادا کر رہا تھا کہ وقت رہتے اُسے پتہ چل گیا ورنہ اپنی دانست میں وہ ایک بار پِھر اپنی بیوی اور بیٹے کو کھو ہی چُکا تھا۔ اُس نے چشمان کے نمبر پر ایک غزل سینڈ کی تھی۔

یہ اُس کا نیا نمبر تھا جو گھر سے جانے کے بعد اُس نے لیا تھا۔

اب اُس کا اِرادہ اپنی بیوی کو منانا تھا۔ ریحان کی باتوں پر اُسے تسلّی ہوئی تھی کہ گھر والے اُسے یاد کرتے ہیں۔ جِس کا مطلب تھا کہ وہ اُسے معاف کر دیں گے۔ اصل پریشانی اُسے چشمان کی تھی جو پہلے کی طرح اُس سے ڈرتی نہیں تھی بلکہ اب ضِدّی اور نڈر ہو گئی تھی اور اُس سے خفا بھی تھی۔ جانےِ وہ اُس شخص کو معاف کرتی بھی یا نہیں جِس نے اُس کے دِل کے سو ٹُکڑے کرتے اُسے بے شُمار زخم دئیے تھے۔ اب اُسے ہی اُس کے دِل کے زخموں پر مرہم رکھنا تھا۔ اپنی محبّت سے، توجّہ سے اور چشمان کی ساری باتیں مان کر۔

اِس وقت دِن کے دس بج رہے تھے اور وہ اپنے کمرے میں تیار ہو رہا تھا۔ اُس نے احراز سے کہا تھا کہ آج وہ آفس نہیں آئے گا اور احراز نے کوئی بھی اعتراض نہیں کیا تھا۔ اب وہ باہِر جانے کے لیے تیار ہو رہا تھا۔ آج صُبح اُس نے فون کر کے ریحان سے کہا تھا کہ وہ شاہان سے مِلنا چاہتا ہے جِس پر اُس نے کہا تھا کہ وہ لے آئے گا۔ آج کا سارا دِن وہ شاہان کے ساتھ گُزارنا چاہتا تھا اِسی لیے اُس نے آفِس سے چُھٹی لے لی تھی۔

خود پر پرفیوم کا چِھڑکاو کر کے ایک نظر خود کا جائزہ لیا۔ ایک مُسکراتی نظر خود پر ڈال کر وہ کمرے سے باہِر نِکلا۔ فلیٹ کو لاک لگایا۔ لِفٹ کے ذریعے وہ نیچے آیا اور باہِر پارکنگ کی طرف بڑھا۔ اپنی کار میں بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کی اور پلے لینڈ کی جانِب گاڑی دوڑانے لگا جہاں ریحان نے آنے کا وعدہ کیا تھا۔

وہاں پہنچ کر گاڑی پارکنگ میں پارک کی اور اندر جا کے کیفے میں بیٹھ گیا۔ تقریباً آدھا گھنٹہ اِنتظار کرنے کے بعد اُسے اذہاد اور شاہان آتے دِکھائی دئیے۔ وہ اُلجھا۔ آنا تو ریحان نے تھا پِھر اذہاد؟ جانِے وہ کیسے ری ایکٹ کرے؟

شاہان اُسے دیکھ چُکا تھا اِسی لیے چیخ مارتا اُس کی جانِب بھاگا تھا۔ وہ اپنی جگہ سے اُٹھتا اُن کی جانِب بڑھا اور جُھک کر شاہان کو اُٹھا لیا۔ اُس کے ماتھے پر بوسہ دیتے اُس کے چہرے پر الوہی چمک تھی۔ اذہاد اُس کے سامنے کھڑا تھا۔ شاہان کو نیچے اُتارا اور اذہاد کی جانِب نِگاہ کی اُسے سمجھ نا آیا کہ کیسے ری ایکٹ کرے۔ بولنے کے لیے اُسے الفاظ ہی نہیں مِل رہے تھے۔ اذہاد شاید اُس کا مسلہ سمجھ گیا تھا تبھی بغیر کُچھ کہے اُس کے سینے سے لگا تھا۔

"بہت دیر کر دی مہربان آتے آتے۔" اذہاد گُنگُنایا تو وہ نم ہوتی آنکھوں سے اُسے خود میں بھینچ گیا۔ خود سے جُڑے لوگوں کو وہ بہت تکلیف اور اذیّت دے چُکا تھا اِس بات کا اندازہ اُسے بڑی شِدّت سے ہوا تھا۔

"بڈی! بابا کو کیا ہوا ہے؟" شاہان نےبُرہان کو آنکھیں صاف کرتے دیکھ کر پوچھا۔

"آپ کے بابا کو آپ کی ماما بہت زور سے ڈانٹتی ہیں بس اِسی لیے اُن کی شِکایت لگا رہیں ہیں۔" اذہاد نے نیچے بیٹھ کر شرارت سے کہا۔

"دیکھا! ماما سب کو ڈانٹتی ہیں۔ ہان کو بھی ڈانٹتی ہیں جب بابا ہمالے ساتھ لہیں گے تب ہم دونوں ماما کو ڈانٹیں گے ہے نا بابا؟" شاہان نے منہ پُھولا کر خفگی سے کہا تو وہ بُرہان اُو کے برابر بیٹھ کر اُس کا گال چوم گیا۔

"بالکُل بہت ڈانٹیں گے آپ کی ماما کو۔" بُرہان نے اُس کی ہاں مہں ہاں مِلائی تو وہ خوش ہوتا اُس کے بازووں کے گھیرے میں لیتے کہا۔

"اب ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے۔ ہانی غلطی کرتا ہے تبھی ماما ڈانٹتی ہیں۔ کیوں ہانی صحیح کہہ رہا ہوں نا میں؟" اذہاد نے نفی میں سر ہلاتے شاہان سے تصدیق چاہی۔

"ماما تب ہی ڈانٹتی ہیں جب میں ضِد کلتا ہوں بابا پاس جانے کی۔" شاہان نے کہا تو بُرہان گہرا سانس لیتا اُسے گود میں اُٹھاتا کھڑا ہوا۔ اذہاد بھی چُپ ہی رہا تھا۔ کُچھ کہنے کو تھا ہی نہیں۔

"گھر لوٹ آئیے بھائی! سب آپ کے مُنتظِر ہیں۔ مانو آپی نا بھی کہیں تب بھی وہ آپ کا اِنتظار کرتیں ہیں اور اِس بات کا ثبوت یہ ہے کہ وہ آج بھی آپ کے نام پر آپ کے گھر میں موجود ہیں۔" اذہاد نے سنجیدگی سے کہا تو بُرہان نے اکیس سالہ اذہاد کو دیکھا جو پہلے سے بہت سمجھدار ہو گیا تھا۔ جِس کے لہجے میں اپنی بہن کے لیے فِکر تھی۔

"ہمّت جمع کر رہا ہوں۔ بہت جلد سب کے ساتھ سب کے پاس ہوں گا۔" بُرہان نے کہا اور شاہان کے ہاتھ چومے جو وہ اُس کی شان یعنی کہ داڑھی پر پھیر رہا تھا۔ لگتا تھا کہ وہ سنجیدگی سے مرد کی شان کے بارے میں سوچ رہا تھا۔

"ٹھیک ہے پِھر میں چلتا ہوں۔ آپی کو یہی پتہ ہے کہ شاہان میرے ساتھ یُونیورسٹی گیا ہے۔ مُجھے یُونی میں ضروری کام ہے پِھر مِلیں گے۔" اذہاد نے کہا تو وہ سر ہلا گیا۔ اُنہیں الوِداع کہتے وہ واپس چلا گیا تو وہ شاہان کو لیے کیفے میں آ گیا۔ اُسے کُچھ کھانا نہیں تھا تو وہ اُسے لیے اندر چلا گیا جہاں مُختلف گیمز لگیں تھیں۔ وہاں دو گھنٹے اُس کو کِھلاتے اُس کے ساتھ کھیلتے اُنہیں ٹائم گُزرنے کا پتہ بھی نا چلا۔

وہاں کافی وقت گُزار کر وہ اُسے لیے لاہور کے بڑے شاپنگ مال اِمپوریم مال لے آیا۔ وہاں اُس کو لنچ کروایا۔ اُس کے بعد اُس کے لیے ڈھیر ساری شاپنگ کی جِس میں اُس کے جوتوں اور کپڑوں سے لے کر کِھلونے تک شامِل تھے۔ شاہان تو بہت خوش تھا۔ ایک تو اُس کے بابا اُس کے ساتھ تھے دوسرا وہ اُسے ڈھیر سارے کِھلونے دِلا رہے تھے۔ وہاں سے فارِغ ہو کر وہ اُسے لیے ایک پارک میں آ گیا۔ سارے شاپنِگ بیگز وہ گاڑی میں رکھ چُکا تھا۔ اپنے اور شاہان کے لیے آئس کریم لیے اب وہ پارک میں بنے ایک سیمنٹ کے ایک بینچ پر بیٹھے تھے۔


*******************

"کپڑے گندے نہیں کرنے ہان! ورنہ ماما ڈانٹیں گی۔" بُرہان نے نرمی سے اُسے ٹوکا جِس کے منہ پہ چاکلیٹ لگی ہوئی تھی۔

"تو آپ ماما کو ڈانٹ دینا نا۔ وہ پِھل مُجھے نہیں ڈانٹیں گی۔" شاہان نے مشورے سے نوازا تو وہ اُس کے پھولے پھولے سیبی گال چوم گیا پِھر اُس کے سر پر پہنی اونی ٹوپی ٹھیک کی جو اُس کے سر سے اُتر رہی تھی۔

"ماما کو میں کیسے ڈانٹ سکتا ہوں میں آپ کی ماما سے بہت پیار کرتا ہوں نا۔ اور وہ تو ساری باتیں مانتیں ہیں پِھر کیوں ڈانٹوں؟" بُرہان نے کہا تو وہ منہ بسور گیا۔

"آپ مُجھ سے زیادہ پیال کلتے ہیں یا ماما سے؟" شاہان نے سادگی سے پیچیدہ سوال کیا۔

"آپ کی ماما میرا دِل ہیں اور آپ اِس دِل کی دھڑکن۔ دونوں کے بغیر گُزارا نہیں ہے اور دونوں ہی مُجھے اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں۔" بُرہان نے کہا تو شاہان اُلجھن سے اُسے دیکھنے لگا۔ اُس کِسی بات کی سمجھ نہیں آئی تھی۔

"مُجھ سے پیال کلتے ہیں نا؟" شاہان نے پِھر پوچھا۔

"ہاں میں آپ سے پیار کرتا ہوں آپ سے زیادہ کِسی سے نہیں۔" بُرہان نے گہرا سانس بھر کر کہا تو وہ خوش ہوتا اُس کا گال چومنے لگا پِھر اُس کا گال دیکھ کر کُھل کر ہنسا۔

"بابا میں آپ کے چاکلیٹ لگا دی۔" اُس نے ہنس کر اپنا کارنامہ بتایا تو وہ نفی میں سر ہلاتا جیب سے رومال نِکال کر اپنا گال صاف کرنے لگا مگر چِپچِپاہٹ تھی دھوئے بغیر کیسے اُترتی۔

"آو منہ دھو کے آتے ہیں ایسے صاف نہیں ہو گی۔ "بُرہان نے کہہ کر اُسے اُٹھا لیا وہ مزے سے اُس کے کندھے پر سر رکھ کر آتے جاتے لوگ دیکھنے لگا۔

بُرہان اُسے پاس بنے ریسٹورانٹ لے آیا۔ وہاں اپنا اور اُس کا منہ دُھلایا ابھی وہ باہِر آتے کہ چشمان کی دوست وہاں آئی اور حیرت سے شاہان کو بُرہان کے ساتھ دیکھنے لگی۔ وہ چشمان کی زندگی کی کِتاب کے ہر پنّے سے آگاہ تھی۔

"ہان بیٹا! آپ اِن انکل کے ساتھ کیا کر رہے ہو؟ ماما کو پتہ ہے کہ آپ اِن کے ساتھ ہیں؟" نائلہ نے پوچھا وہ اپنی امّی کے ساتھ آئی تھی اُس کی شادی ہونے والی تھی جِس کی شاپنگ کے بعد وہ لنچ کرنے یہاں آئے تھے۔ نائلہ کی امّی باہِر نِکل گئیں تھیں جبکہ وہ بھی اُن ہی کے پیچھے جا رہی تھی جب اُسے بُرہان کے ساتھ شاہان نظر آیا۔

"مِس! شاہان اپنے باپ کے ساتھ ہے آپ کو فِکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ چلتے ہیں۔ بُرہان نے سخت لہجے میں کہا اور اندر جانے لگا جب نائلہ کے لفظوں نے اُسے ساکت کیا تھا۔

"ّوہ ہی باپ جو شاہان کی ماں کو بیچ بھنور میں اکیلے چھوڑ کر اُس کے کِردار پہ داغ لگا کر اُسے مرنے کے لیے چھوڑ گیا تھا۔" نائلہ کا طنز تیر کی طرح بُرہان کے دِل میں گھڑا تھا۔

"میں آپ کو جواب دینے کا پابند نہیں ہوں۔" دوٹوک لفظوں میں کہہ کر وہ شاہان کو لیے اندر کی جانِب چل دیا جب کہ نائلہ نے فون نِکال کے چشمان کا نمبر مِلایا تھا۔

بُرہان شاہان کو لیے جلد ہی وہاں سے نِکل آیا تھا۔ وہ ابھی گاڑی تک پہنچا ہی تھا جب اذہاد کا فون آیا تھا۔ اُس نے اُس سے پوچھا تھا کہ وہ اِس وقت کہاں ہیں۔ اُس کے بتانے پر اذہاد اپنی بائیک پر وہاں پہنچا تھا۔ شاہان کو اپنے آگے بِٹھا کر وہ جانے لگا جب بُرہان نے سارا سامان بھی اُس کی بائیک کے ہینڈلز پہ لٹکایا تھا۔

"میں ابھی بے روزگار ہوں اِس کی ماں جب مُجھ سے پوچھے گی کہ کون سا پرائز بونڈ نِکلا ہے تو کیا کہوں گا؟" اذہاد نے بے چارگی سے کہا۔

"اِس کی ماں کو بھی پتہ ہے کہ یہ سب کہاں سے آیا۔" اُس نے اِطمینان سے جواب دیا ساتھ ہی جُھک کر شاہان کا سر چوما تو شاہان نے بھی بدلے میں اُس کی بئیرڈ والی تھوڑی کو چوم لیا پِھر خود ہی ہنسا۔ جب کہ اذہاد کے کان کھڑے ہوئے .

"اُن اُنہیں کیسے پتہ چلا؟" وہ ہکلایا تو بُرہان نے اُس لڑکی سے ہونے والی مُلاقات بتا دی۔ اُسے معلوم تھا کہ وہ ضرور چشمان کو بتائے گی۔

"آپ مُجھے مروائیں گے۔" جھنجھلا کر کہتا وہ بائیک دوڑا لے گیا۔ جبکہ بُرہان اُس کی دور جاتی بائیک کو دیکھ کر اپنی گاٹی میں بیٹھا اور اپنے فلیٹ کی جانِب چل دیا۔ پانچ بج رہے تھے اور اب شام ہو چُکی تھی۔

سردیوں کے دِنوں میں تو ویسے بھی وقت سے پہلے ہی اندھیرا چھا جاتا ہے۔ اِس وقت بھی دُھند بڑھ رہی تھی اور ہلکا ہلکا اندھیرا بھی چھا رہا تھا۔


*****************


چشمان جو مُطمئن سی شاہان کو اذہاد کے ساتھ بھیج کر گھر کے کاموں میں مصروف ہوئی تھی اِس وقت فرازیہ کے کمرے میں ہانیہ کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔ فرازیہ اُس کے پاس ہی بیڈ پر لیٹی اُس سے ہلکی پُھلکی باتیں کر رہی تھی۔ تبھی اُس کا فون بجا تھا۔

دشت تنہائی میں اے جان جہاں لرزاں ہیں

تیری آواز کے سائے، تیرے ہونٹوں کے سراب

دشت تنہائی میں دوری کے خس و خاک تلے

کھل رہے ہیں تیرے پہلو کے سمن اور گلاب

اٹھ رہی ہے کہیں قربت سے تیری سانس کی آنچ

اپنی خوشبو میں سلگتی ہوئی

مدھم مدھم

دور افق پر چمکتی ہوئی

قطرہ قطرہ

گر رہی رہے تیری دلدار نظر کی شبنم

اس قدر پیار سے اے جان جہاں رکھا ہے

دل کے رخسار پے اس وقت تیری یاد نے ہاتھ

یوں گماں ہوتا ہے گرچہ ہے ابھی صبح فراق

ڈھل گیا ہجر کا دن آ بھی گئی وصل کی رات

دشت تنہائی میں اے جان جہاں لرزاں ہیں

تیری آواز کے سائے، تیرے ہونٹوں کے سراب

(منقول)

اُس نے فون اُٹھا کے اپنے سامنے کیا تھا۔ فون کی سکرین کو سلائیڈ کیا تو فون انلاک ہوا۔ فیض احمد فیض کی غزل تھی جو فون کی سکرین پہ جگمگا رہی تھی۔ اُس نے اچھنبے سے فون کو گھورا تھا۔ اُس کا نمبر گِنے چُنے لوگوں کے پاس ہی تھا اور یہ کوئی ان ناون نمبر تھا متزاد کے اِک عدد غزل بھی اُس کے فون کے اِنباکس کی زینت بنا دی گئی تھی۔ جِس پہ اُس کی حیرانی بجا تھی۔ اُس نے فون بند کر کے سائیڈ پہ رکھا تھا اور دوبارہ سےفرازیہ سے بات کرنے لگی تھی۔

حماد احمد اور ریحان فیکٹری گئے تھے جو اِن گُزرے تین سالوں میں کافی ترقی کر گئی تھی اور اُن کو پہلے سے زیادہ آرڈرز مِلنے لگے تھے۔ چشمان اوپر ہی اپنے ساس سسُر کے ساتھ رہتی تھی جبکہ نیچے والے فلور پر اذہاد اور شائستہ بیگم رہتے تھے۔ اوپر والا فلور خالی تھا جہاں پر پہلے فرازیہ لوگ رہتے تھے مگر اب وہ بھی فرازیہ کی ریحان سے شادی کے بعد سیکنڈ فلور پر شِفٹ ہو گئے تھے۔ اذہاد لوگ بے شک رہتے نیچے ہی تھے مگر کھانا سب کا ایک ہی جگہ یعنی کہ سیکنڈ فلور پر بنتا تھا۔

فرازیہ سے بات کرتے اُس کا فون گُنگُنایا تھا۔ ہانیہ کو فرازیہ کے پاس بیڈ پر لِٹاتے وہ سائیڈ ٹیبل سے اپنا فون اُٹھاتی باہِر نِکل گئی تھی۔ نائلہ کا فون تھا۔ اُس نے خُوشی سے فون اُٹھایا تھا۔ سلام دُعا کے بعد جو خبر اُس نے دی تھی اُسے سُن کر اُس کے دِل میں ایک درد اُٹھا تھا۔ آنکھوں میں بے اختیار آنسو آئے تھے۔ اذہاد پر حد سے زیادہ غُصّہ آیا تھا۔ خود کو سنبھالتے اُس نے اذہاد کو فون لگایا تھا۔ اُسے شاہان کو گھر لانے کا کہہ کر وہ کِچن کی جانِب بڑھی۔ اُس نے اذہاد کو نہیں بتایا تھا کہ وہ کیوں شاہان کو گھر لانے کا کہہ رہی ہے۔

کِچن میں گئی تو سامنے ہی شائستہ بیگم کے ساتھ رریحہ اُن کی ہیلپ کروا رہی تھی۔ دونوں رات کے کھانے کی تیاری کر رہیں تھیں۔ آہٹ پرشائستہ بیگم نے مُڑ کر چشمان کو دیکھا تو وہ اُنہیں پریشان سی لگی۔

"مانو! کیا ہوا میری بچّی؟ پریشان کیوں ہو؟" اُنہوں نے اؐ۔سکی طرف بڑھتے ہوئے پوچھا تو عریحہ بھی اُن کی طرف متوجّہ ہوئی۔

"امّی! وہ وہ شش شاہان وہ ہادی اُسے اُس کے باپ کے پاس لے گیا ہے۔ اا امی بہ بُرہان مُجھ سے ہان کو چھین لیں گے امّی! و وہ وہ مُجھ سے چھین لیں گے میں اا ایک بار پہ پِھر خالی ہاتھ رہ جاؤں گی۔" ماں کا سہارا پاتے ہی وہ اُن کے گلے سے لگتی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اُس کی بات سُن کر عریحہ کو اذہاد پر غُصّہ آیا تھا۔ کیا وہ نہیں جانتا تھا چشمان کی کیا حالت ہوتی تھی بُرہان کا نام سُن کر ہی۔ شائستہ بیگم عریحہ کو کھانا بناے کا کہتیں چشمان کو لاونج میں لے آئیں اور اُسے صوفے پر بِٹھایا۔

"مانو! میرا بچّہ! کُچھ نہیں ہو گا۔ نہیں چھین رہا کوئی بھی تُم سے تُمہارے بیٹے کو۔ وہ ہمیشہ تُمہارے پاس رہے گا کوئی تُمہیں اُس سے الگ نہیں کر سکتا۔" شائستہ بیگم نے تسلّی دی تو وہ نفی میں سر ہلانے لگی۔

"شش شاہان نے کک کہا کہ وہ بھی اپنے بابا کے پاس چلا جائے گا۔ وو وہ تو میرا بیٹا ہے نا؟ اا اُس شش شخص کا کوئی تعلُق نہیں ہم سے۔ مُجھے اپنا بیٹا اپنے پاس چاہیے امّی!" وہ اُن سے الگ ہوتی بتانے لگی تو شائستہ بیگم تاسف سے اُسے دیکھ کر رہ گئیں۔

"وہ بُرہان کا خون ہے اُس کا بیٹا ہے مانو! تُم اِس حقیقت کو جُھٹلا نہیں سکتی۔" شائستہ بیگم نے اُسے بآور کروایا تو وہ زخمی نِگاہوں سے اُن کی جانِب دیکھنے لگی۔

"کیا ہوا ہے کیوں رو رہی ہے میری بچّی؟" رضیہ بیگم نے بڑی اماں کے کمرے سے لاونج میں آتے پوچھا۔

"تت تائی امیّ! ہہ ہان میرا بیٹا ہے نا؟ صِرف میرا؟ ہے نا؟" اُس نے اُن کی طرف رُخ موڑتے پوچھا۔ انداز تصدیق کروانے والا تھا۔

"ہاں میری بچّی! شاہان صِرف تُمہارا بیٹا ہے۔" اُنہوں نے اُس کے ماتھے پر بوسہ دیتے کہا تو وہ سِسک اُٹھی۔

"پِھر بُرہان اُسے کیوں لے گئے؟ وہ اُسے مُجھ سے چھین لیں گے تائی امّی!" وہ ایک بار پِھر اُن سے لِپٹ کر رونے لگی۔ جبکہ رضیہ بیگم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

"کب سے گیا ہے شاہان اُس کے ساتھ؟" اُنہوں نے آنسو پونچھتے پوچھا۔

"صُبح اذہاد لے کے گیا تھا جھوٹ بول کے۔ پِھر اُسے بُرہان کو پاس چھوڑ دیا سارے دِن کے لیے۔" چشمان نے ہِچکیاں بھرتے بتایا۔

"آٹھ گھنٹوں کی دوری برداشت نہیں کر پائی تُم! اِتنا سا دِل ہے تُمہارا؟" رضیہ بیگم نے عجیب سے لہجے میں پوچھا۔ چشمان نے اُلجھی ںطتوں سے اُنہیں دیکھا جبکہ شائستہ بیگم اُن کی بات کا پسِ منظر سمجھ کر گہرا سانس بھر کر رہ گئیں۔

"ماں ہوں میں شاہان کی۔ میرے جینے کی وجہ ہے وہ۔ کیسے دور رہ لوں اُس سے؟" چشمان نے پوچھا تھا۔

"میں بھی تو اپنے بیٹے سے پِچھلے تین سال سے دور ہوں۔ میں بھی تو رہ رہی ہوں۔ میری بھی جان بسی ہے اُس میں۔" رضیہ بیگم نے کہا تو چشمان دھک سے رہ گئی۔ کُچھ بولنے کو تھا ہی نہیں کیا بولتی۔

آخری بار اُسے معاف کر دو۔ مُجھے یقین ہے کہ وہ اپنے کیے پر ناداں ہو گا۔ ایک ماں کی اِلتجا ہے یہ۔" رضیہ بیگم نے اُس کے سامنے ہاتھ جوڑے تو وہ تڑپ کر اُن کے ہاتھ تھام گئی۔

"گُنہگار مت کریں مُجھے۔ بڑی ہیں آپ مُجھ سے۔" چشمان نے روتے ہوئے اُن کے ہاتھ کھولے۔

"تو پِھر معاف کر دو اُسے۔ میرے کہنے پر ایک موقع دے دو۔ اُسے گھر آنے دو۔" رضیہ بیگم نے اُسے نرم پڑتے دیکھ کر کہا۔

"مُجھے اُن کے گھر آنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ یہ اُن کا ہی گھر ہے۔ مگر میری ایک ہی شرط ہے کہ میرا اُن سے کوئی تعلُق نہیں ہو گا۔ وہ اِس گھر میں آپ کے بیٹے کی حیثیت سے آئیں گے نا کہ چشمان کے شوہر کی حثیت سے۔" چشمان نے کہا تو رضیہ بیگم نے اُس کا ماتھا چوما۔

"تُم معاف کر دو گی نا اُسے؟" رضیہ بیگم نے پوچھا تو وہ چُپ ہو کے اُنہیں دیکھنے لگی۔ اُن کے ساتھ شائستہ بیگم بھی اُس کے جواب کی مُنتظِر تھیں۔

"میرا ظرف اِتنا بڑا نہیں کہ میں اُنہیں معاف کر پاؤں۔ اُن کے اِس گھر میں آنے کے بعد میں اُن سے طلاق لے لوں گی۔ اِس کے بعد اُن سے میرا کِسی قِسم کا کوئی تعلُّق نہیں رہے گا۔ یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔" اُس کے فیصلے نے شائستہ بیگم اور رضیہ بیگم کے ساتھ ساتھ کِچن کے دروازے پہ کھڑی عریحہ کی سانسیں بھی خُشک کر دیں تھیں۔ اِس سے پہلے کہ شائستہ بیگم اپنی بیٹی کو ٹوکتیں دروازے پہ بیل ہوئی تھی۔ عیریحہ بھاگتی ہوئی نیچے گئی تھی۔ دروازے پر حماد احمد، ریحان اور اذہاد کے ساتھ شاہان بھی تھا جو اب تھکا ہارا سو رہا تھا۔ عریحہ نے انہیں اندر آنے کا راستہ دیتے اذہاد کے کارنامے اور چشمان کے غُصّے سے لے کر اُس کے فیصلے تک کے بارے میں سب کُچھ بتا دیا تھا جِسے سُن کے اُن کے چہرے پر پریشانی کی تاثرات چھائے تھے۔

وہ اوپر آئے تو لاونج میں فرازیہ کے عِلاوہ سبھی لوگ موجود تھے۔ بڑی امّاں بھی اب وہاں موجود تھیں۔ اذہاد نے شاہان کو صوفے پر لٹایا۔ ریحان نے اذہاد کی بائیک سے اُتارا گیا سارا سامان صوفے پہ رکھا۔

"آپی میں نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" الفاظ اذہاد کے منہ میں ہی رہ گئے تھے۔ چشمان نے ایک زوردار تھپڑ اذہاد کے گال کی زینت بنایا تھا کہ وہ سُن ہو کر رہ گیا تھا۔ سب چشمان کی حرکت پہ ہی دنگ تھے۔ اذہاد اُس کا لاڈلا اِکلوتا بھائی تھا جِسے اُس نے کبھی پھول سے بھی نہیں مارا تھا اور آج وہ اُس پہ ہاتھ اُٹھا چُکی تھی۔ عریحہ کے دِل پر بُرچھیاں چلیں تھیں اُس نٹ کھٹ سے شخص کو یُوں بُت کی مورت بنے دیکھ کر۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو بہتے اُس کے گالوں کو بھگونے لگے تھے۔

"کِس سے پوچھ کر تُم میرے بیٹے کو اُس گِرے ہوئے شخص کے پاس لے کر گئے جِس نے تین سال پہلے تُمہاری ہی بہن پر بد چلن ہونے کا اِلزام لگایا تھا؟ بھول گئے کہ اُس شخص کی وجہ سے کیا کیا نہیں سہا تُمہاری بہن نے؟" چشمان اُس کا کالر جھنجھوڑتے وحشت زدہ سے لہجے میں پوچھنے لگی۔

"چشمان! یہ کیا طریقہ ہے؟ وہ اب چھوٹا سا بچّہ نہیں ہے جِس پہ تُم ہاتھ اُٹھاو اور وہ کوئی اور نہیں شاہان کا باپ ہے جِسے پورا حق ہے اُس سے مِلنے کا۔" شائستہ بیگم نے اُسے ڈپٹا۔

"شاہان صِرف میرا بیٹا ہے۔ اور کِسی کا نہیں۔ ہاں یہ چھوٹا بچّہ نہیں ہے مُجھے لگا تھا یہ سمجھدار ہے اپنی بہن کے دُکھ اور تکلیف کو سمجھے گا۔ مگر یہ بھی اُس شخص کے ساتھ مِل گیا۔" چشمان نے روتے ہوئے اذہاد کو دیکھا جو سُرخ چہرہ لیے سر جُھکائے کھڑا تھا۔

"مانو! بیٹا ہم بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ ایسے غُصّہ مت ہو میری بچّی! عورت کے سر پر مرد کا سایہ ہونا بہت ضروری ہے۔ اکیلی عورت کا زِندگی گُزارنا بہت مُشکِل ہوتا ہے۔" بڑی اماّں نے کہا۔ اذہاد ایک جھٹکے سے مُڑا اور نیچے والے پورشن کی جانِب بھاگتا چلا گیا۔ ریحان اُس کے پیچھے بھاگا تھا۔

"میرے لیے میرا بیٹا ہی کافی ہے۔ تایا ابُو! آپ آپ اپنی بیٹی کے ساتھ ہیں نا؟ میں غلط نہیں ہوں نا؟" چشمان نے حماد صاحب سے پوچھا تو وہ اُس کی جانِب بڑھے۔

"میری مانو بالکُل صحیح ہے۔ تُم جیسا چاہو گی ویسا ہی ہو گا۔

کوئی تُمہیں اُس شخص کو معاف کرنے پر مجبور نہیں کرے گا جِس کو تُمہاری قدر نہیں۔" حماد صاحب نے اُس کے سر پر ہاتھ رکھا تو اُس کے بے چین دِل کو سکون مِلا۔ وہ ہرگِز بھی اُس شخص کو واپس اپنی زِندگی میں شامِل نہیں کرنا چاہتی تھی۔

"بھائی صاحب؟ یہ تو ہے ہی بے وقوف۔ آپ تو اِسے سمجھائیں۔ شاہان کو باپ کی ضرورت ہے۔ وہ اِس گھر میں نہیں آئے گا تو شاہان کو کیسے ایک باپ کا پیار مِلے گا۔ کل کو شاہان بھی باپ کی کمی محسوس کرے گا تب کیا جواب ہو گا تُمہارے پاس۔" شائستہ بیگم نے تاسف سے کہا۔

"مم میں منع نہیں کر رہی اُنہیں یہاں آنے سے۔ وہ جب چاہیں یہاں آئیں۔ مم میں شش شاہان کے ساتھ اپنے پورشن میں شِفٹ ہو جاؤں گی۔ مُجھے اُس شخص سے کوئی تعلُق نہیں رکھنا۔ ااا اور شش شاہان کو میں سنبھال لوں گی۔ اُسے ماں اور باپ دونوں کا پیار دوں گی۔" چشمان نے آنسو پونچھتے کہا اور شاہان کی طرف بڑھی۔

"تُم جا کے آرام کرو۔ ریا بیٹا! چشمان کھانا اپنے کمرے میں کھائے گی۔" حماد صاحب نے بیک وقت دونوں سے مُخاطِب ہوتے کہا۔ چشمان شاہان کو لیے اپنے کمرے کی جانِب بڑھ گئی جبکہ عریحہ سر ہلاتی ڈائننگ ٹیبل پہ کھانا لگانے لگی۔

ریحان نامُراد سا واپس آ چُکا تھا اذہاد نے دروازہ نہیں کھولا تھا۔ ریحان بُرہان کو فون پہ ساری صُورتحال بتا چُکا تھا جِسے سُن کر وہ بھونچکا رہ گیا تھا۔ چشمان سے اِتنے شِدت بھرے ردّ عمل کی اُمید اُسے ہرگِز نہیں تھی۔ ریحان نامُراد سا واپس لوٹا تو رضیہ بیگم کی زبانی اُسے چشمان کا فیصلہ معلوم ہوا جِسسے سُن کر وہ بے بسی سے کڑھ کر رہ گیا تھا۔ رات کا کھانا اُس نے سب کے ساتھ کھایا تھا۔ عریحہ چشمان اور شاہان کے لیے کھانا اُن ہی کے کمرے میں لے جا کے اُن کو کِھلا چُکی تھی۔


*******************

شائستہ بیگم اذہاد کے لیے کھانا لے کر اُس کے کمرے کے باہِر کافی دیر کھڑی رہیں تھیں مگر اُس نے دروازہ نہیں کھولا تھا۔

سب اپنے اپنے کمرے میں جا چُکے تب شائستہ بیگم ٹرے اُٹھائے اوپر کِچن میں آئیں تھیں عریحہ جو برتن دھو رہی تھی اُنہیں کھانے سے بھری ٹرے واپس لاتے دیکھ کر چونکی۔

"کیا ہوا ممانی جان؟ ہاد بھائی نے کھانا نہیں کھایا؟" وہ پریشانی سے گویا ہوئی تو شائستہ بیگم نفی میں سر ہلا گئیں۔

"بہت ضدّی ہے۔ دروازہ نہیں کھول رہا۔ اب مُجھ میں بھی اِتنی جان نہیں کہ گھنٹوں وہاں کھڑی رہوں۔ جانےِ دوپہر کو بھی کُچھ کھایا تھا یا نہیں۔" وہ پریشانی سے ممتا بھرے لہجے میں کہہ رہیں تھیں۔

"آپ فِکر مت کریں میں لے جاتی ہوں اُن کے لیے کھانا۔ آپ جا کے آرام کریں ورنہ بی پی لو ہو جائے گا۔" اُس نے اُن کو تسلّی دیتے کہا۔

"میری پیاری بچّی۔ صدا خوش رہو۔" وہ اُس کا ماتھا چومتی اُسے دُعائیں دینے لگیں جو احساسِ ذِمہ داری میں بالکُل اپنی ماں پر گئی تھی۔ وہ اپنے پورشن میں چلی گئیں تو عریحہ نے سارے برتن دھو کر کھانا گرم کرنے لگی۔ ٹرے میں کھانا سیٹ کر کے وہ نیچے کی جانِب بڑھی۔ رات کے آٹھ بج رہے تھے۔ سبھی اپنے اپنے کمروں میں جا چُکے تھے۔

وہ نیچے آئی اور اذہاد کے کمرے کے سامنے کھڑی ہوتی گہرے سانس بھرنے لگی۔ خود کو پُرسکون کر کے دروازہ ناک کیا۔ ایک بار، دو بار، تین بار مسلسل دستک پر بھی دروازہ نا کُھلا تو وہ دروازے کو گھورنے لگی۔

پِھر وہ مسلسل بغیر آواز دئیے دروازہ کھٹکھٹاتی رہی۔ سخت سردی میں اُس کے ہاتھ شل ہو رہے تھے مگر مقابل کو پرواہ ہی نہیں تھی۔

اب تو اُسے رونا آنے لگا تھا اور پِھر وہ دستک دیتی رونے بھی لگی تھی۔ ایک ہاتھ میں ٹرے پکڑے دوسرے سرد پڑتے ہاتھ سے دروازہ ناک کرتے وہ مسلسل رو رہی تھی۔ اب تو اُس کی سِسکیاں بُلند ہونے لگیں تھیں۔ اچانک دروازہ کُھلا تو اُس ک ناک کرتا ہاتھ ہوا میں ہی اُٹھا رہ گیا۔ سامنے اذہاد کھڑا سُرخ ہوتی آنکھوں سے اُسے گھور رہا تھا۔ وہ اِس وقت ایک شرٹ اور ٹراوزر میں ملبوس تھا۔ سردی کی شِدّت سے بے نیاز ننگے پاوں۔

وہ اُسے دیکھ کر واپس مُڑ گیا۔ عریحہ نے اندر داخِل ہو کر دروازہ تھوڑا سا بھیڑ دیا اور ٹرے ٹیبل پر رکھی۔ شال کو سر پر درست کر کے اپنے دونوں ہاتھ آپس میں رگڑتی وہ اُنہیں گرمائش پہنچانے لگی۔ آنسو اب بھی بہہ رہے تھے جِنہیں صاف کرنے کی زحمت اُس نے نہیں کی تھی۔

"رو کیوں رہی ہو ریا؟" اذہاد نے بیڈ پر بیٹھتے سنجیدگی سے پوچھا۔

"آپ دد دروازہ کیوں نہیں کھول رہے تھے؟ اور کھانا بھی نہیں کھایا؟" عریحہ نے سوال پہ سوال کیا تو اذہاد نے نظریں اُٹھا کر اُس کے نم چہرے کو دیکھا۔ پِھر بے اختیار اُس سے نظریں چُرائیں۔

"مُجھے بھوک نہیں ہے لے جاو واپس اور رونا بند کرو۔" اذہاد نے دو ٹوک کہا۔

"آپ کھانا کھا لیں۔ مانو آپی کا غُصّہ آپ کھانے پہ کیوں نِکال رہے ہیں؟" عریحہ نے بے بسی سے پوچھا۔

"اُن پہ غُصّہ نہیں ہوں میں۔ اُنہوں نے جو کیا ٹھیک کیا۔ بُرہان بھائی کی وجہ سے اُنہوں نے بہت کُچھ سہا ہے۔ میری ہی غلطی یے۔" اذہاد نے کہا تو عریحہ نے اچھنبے سے اُسے دیکھا۔

"تو پِھر غُصّہ ہو کے کمرہ بند کیوں ہو گئے ہیں؟" عریحہ نے کہا تو وہ اذیت سے ہنسا۔

"میں اپنی آپی کی خوشی چاہتا ہوں اور اُن کی خوشی بُرہان بھائی کے ساتھ ہے۔ جو وہ اپنے غُصّے میں سمجھ نہیں رہیں۔ میں اُن کی زندگی برباد ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ میں چاہتا ہوں کہ سب کُچھ ٹھیک ہو جائے کیونکہ بُرہان بھائی اپنے کیے پر بہت شرمِندہ ہیں۔ میں غُصّہ نہیں ہوں مانو آپی سے۔ اُنہیں حق ہے مُجھے ڈانٹنے کا مارنے کا۔ مُجھے خود پر غُصّہ ہے کہ میں نے اپنی آپی پر بُرہان بھائی کو فوقیت دی۔" اذہاد نے کہا تو وہ اُسے دیکھ کر رہ گئی۔

"تو اب کیا سوچا ہے آپ نے؟ مانو آپی نے تو فیصلہ کر دیا ہے کہ وہ بُرہان بھائی سے طلاق لے لیں گی اور یہ بھی کہ اُنہیں اُن کے گھر آنے پہ کوئی اعتراض نہیں مگر وہ یہاں شِفٹ ہو جائیں گی۔" عریحہ نے اُسے بتایا تو وہ ضبط سے آنکھیں میچ گیا۔

"میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔ مُجھے اُمید ہے کہ ایک بار بُرہان بھائی یہاں آ گئے تو مانو آپی کو منا لیں گے۔" اذہاد نے مضبوط لہجے میں کہا تو وہ سر ہلاتی ٹرے اُٹھا کر اُس سے زرا فاصلے پر بیڈ پر بیٹھی یُوں کہ ٹرے دونوں کے درمیان تھی۔

"آپ کھانا کھا لیں۔ ممانی جان بہت پریشان ہو رہیں تھیں۔" عریحہ نے کہا تو وہ باتھ روم کی جانِب بڑھا۔ ہاتھ دھو کر واپس آیا اور کھانا کھانا شروع کیا۔

"ّویسے تُمہیں کیا پڑی تھی کہ اِتنی سردی میں میرے دروازے پر کھڑی ہو کے اپنے ہاتھوں اور پیروں کا ستیاناس کرو۔ "اذہاد نےکھانا کھاتے سرسری سے لہجے میں پوچھا۔

"مُجھے فِکر ہو رہی تھی آپ کی۔" سادہ سے جُملے نے اذہاد کو ایک الگ سی خوشی دی تھی۔

"ہمیشہ کرنا۔" اذہاد نے کہا تو وہ سوالیہ نظروں سے اُس کی جانِب دیکھنے لگی۔

"میری فِکر۔ مُجھے عادت ہو گئی ہے تُمہاری فِکر کی۔" اذہاد نے اُس کی سوالیہ نظروں کو سمجھ کر کہا تو وہ ناسمجھی سے سر ہلا گئی۔

"جی ہاد بھائی!" وہ بولی تو اذہاد نے تیکھی نظروں سے اُسے گھورا۔

"کِتنی بار سمجھاؤں کہ ہم دوست ہیں۔ مُجھے بھائی مت کہا کرو۔ میری دو ہی بہنیں ہیں۔ ایک مانو آپی اور ایک رازی آپی تُم میری دوست +کزن ہو بس اور کُچھ نہیں۔ اب سوال مت کرنا۔" اذہاد نے دوٹوک کہا تو وہ چُپ کر کے سر ہلا گئی۔

"اب جا کے سو جاؤ کل یُونیورسٹی بھی جانا ہے اور ہاں رویا کم کرو۔" اذہاد نے کھانا کھا کر پانی کا گلاس پیتے کہا تو وہ سر ہلا کر ٹرے اُٹھا کر شبِ بخیر کہتی دروازے کی جانِب بڑھی۔ اُس کے جانے کے بعد اذہاد نے کمرے کا دروازہ بند کیا اور بیڈ پر لیٹ کر بلینکٹ لیتا سونے کی کوشش کرنے لگا۔


*****************


اگلی صُبح روشن اور اُجلی تھی۔ ریحان فرازیہ کو بھی سب کُچھ بتا چُکا تھا جِس پہ وہ چُپ کی چُپ رہ گئی تھی۔ وہ خود ایک عورت تھی اور دوسری عورت کا دکھ اچھے سے سمجھ سکتی تھی اور چشمان جِس اذیّت اور تکلیف سے گُزری تھی اُن لمحوں کو بھی وہ بھول نہیں سکتی تھی۔ پِھر کیسے وہ بُرہان کو صحیح کہتی۔ اِس سب میں وہ چشمان کی ہم خیال تھی۔ ریحان کے کہنے پہ بھی اُس نے چشمان کو سمجھانے کی کوشش نہیں کی تھی کہ وہ اپنا فیصلہ بدل دے۔ اُس کے مُطابِق چشمان اِس وقت جذباتی ہو رہی تھی۔ اُسے سمجھانے کی کوشش کی جاتی تو وہ اُن کی ضِد میں اُلٹ ہی کرتی۔

اِس واقعے کو پندرہ دِن گُزر چُکے تھے مگر ابھی تک بُرہان گھر نہیں آیا تھا۔ چشمان نے اگلے دِن اذہاد کو منا لیا تھا جِس پہ وہ بھی سب کُچھ بھولتا چشمان کو سوری کر چُکا تھا۔ اُس دِن کے بعد سے چشمان نے شاہان کو کبھی کِسی کے ساتھ اکیلے باہر نہیں نِکلنے نہیں دیا تھا۔ شاہان ابھی محض تین سال کا تھا اِس لیے ابھی اُسے سکول میں داخِل نہیں کروایا تھا۔

حماد صاحب نے بُرہان کو معاف تو نہیں کیا تھا مگر چشمان کے فیصلے کو مانتے اُسے گھر آنے کی اِجازت دے دی تھی۔ ریحان اور اذہاد کی اُس سے مُلاقات ہوتی رہتی تھی جِس میں وہ اُسے گھر میں سب کے بارے میں بتایا کرتے تھے۔ وہ شاہان سے مِلنے کو بے چین تھا مگر کُچھ کر نہیں سکتا تھا۔ اِن پندرہ دِنوں میں شاہان نے باپ کے دِلائے ہوئے کِھلونوں اور کپڑوں کو جی بھر کر اِستعمال کیا تھا۔ پہلے والے کپڑے تو اُسے پہننے ہی نہیں تھے کہ یہ اُس کے بابا نے دِلائے تھے۔

یہ بھی عام دِنوں کا ایک دِن تھا۔ جنوری کا اِختتام ہو رہا تھا اور سردی کی شِدّت پہلے سے کم ہوتی جا رہی تھی۔ دِن کے وقت دھوپ نِکلتی تو ایک عجب سی فرحت کا احساس ہوتا جو جِسم میں چھا جاتا۔ ایسے میں چشمان شاہان کو لے کر اوپر والے فلور کے ٹیرس پر بیٹھ جایا کرتی۔ اُس کے ساتھ کھیلتی رہتی۔ جب کبھی وہ اپنے بابا کے پاس جانے کی ضِد کرتا تو اُس کا دھیان بھٹکانے کو ہر اوٹ پٹانگ حرکت کر جاتی۔

نو بجے کے قریب حماد احمد اور ریحان احمد فیکٹری جا چُکے تھے۔ عریحہ اور اذہاد بھی یُونیورسٹی جا چُکے تھے۔ جہاں اذہاد کا فائنل ائیر چل رہا تھا وہیں عریحہ کا ابھی یُونیورسٹی میں سٹارٹ چل رہا تھا۔

گھر میں اِس وقت باقی کی خواتین ہی موجود تھیں۔ ریحان نے فرازیہ کو بتا دیا تھا کہ آج بُرہان گھر آئے گا اور یہ بات وہ گھر میں سب کو بتا چُکی تھی۔ جِسے سُن کر چشمان سیکنڈ فلور پر موجود اُس کمرے سے اپنا اور شاہان کا سارا سامان سمیٹ رہی تھی جہاں پہ اُس کی رہائش تھی۔ یہ کمرہ بُرہان احمد کی ملکیت تھا جہاں وہ دُلہن بن کر آئی تھی اور بُرہان کے اِس گھر سے جانے کے بعد رضیہ بیگم اور حماد احمد کے کہنے پر وہ یہاں رُکی تھی۔ یہ تو طے تھا کہ اُس شخص کی موجودگی میں اُسے اِس کمرے میں تو کیا اِس پورشن میں بھی نہیں رہنا تھا۔ رضیہ بیگم، شائستہ بیگم اور بڑی اماّں بے بسی سے باہر لاونج میں بیٹھیں تھیں۔

فرازیہ بھی ہانیہ کو گود میں لیے ایک صوفے پر براجمان تھی۔ ہانیہ سو رہی تھی جِس کی وجہ سے وہ بھی پُرسکون تھی۔

"بھابھی! آپ ہی سمجھائیں اُسے۔ کیوں اپنا گھر برباد کرنے پر تُلی ہے؟" شائستہ بیگم نے تاسف سے کہا۔

"میں کیا سمجھاؤں شائستہ؟ میرے بیٹے نے اُس کی زندگی کو جہنّم بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ پھر میں کِس منہ سے کہوں کہ وہ میرے بیٹے کے ساتھ پِھر سے گھر بسا لے؟ ایسے تو وہ سمجھے گی کہ مُجھے آج بھی اُس سے زیادہ بُرہان عزیز ہے حالانکہ یہ سچ ہے مُجھے دونوں ہی عزیز ہیں۔" رضیہ بیگم بے بسی سے گویا ہوئیں تو وہ گہرا سانس بھر کر رہ گئیں۔

"فِکر مت کرو۔ سب کُچھ پہلے جیسا ہو جائے گا۔ میاں بیوی کے رِشتے کی ایک اہم کڑی اولاد ہوتی ہے جو اُن کے تعلُق کو مضبوط کرتی ہے۔ ُمجھے یقین ہے کہ شاہان اپنے ماں ماں باپ کو پِھر سے ایک کر دے گا۔" بڑی امّاں نے کہا تو وہ سر ہلا گئیں۔

"بڑی امّاں! اگر شاہان بُرہان بھائی سے نا مِلتا تو شاید وہ آج بھی واپس نا آتے۔ اِس کا تو یہی مطلب ہے نا کہ وہ صِرف اپنی اولاد کے لیے واپس آ رہے ہیں۔ پِھر اِن سب میں مانو آپی کہاں ہیں؟ اگر وہ اپنے کیے پر شرمِندہ ہیں تو مانو آپ سے معافی مانگیں۔" فرازیہ نے سادگی سے کہا۔

"بات تو تُمہاری سچ ہے رازی! کبھی کبھی ہماری آنکھوں پہ بِلا وجہ کی غلط فہمی اور نفرت کی پٹّی بندھ جاتی ہے جو ہمارے اپنوں کو ہم سے دور کر دیتی ہے اور ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا۔ اپنی اِس نفرت میں ہم اپنے لفظوں سے دوسروں کے دِلوں پر اِتنی کڑی بُرچھیاں چلاتے ہیں کہ سامنے والے کا دِل زخمی زخمی ہو جاتا ہے مگر ہمیں پرواہ ہی نہیں ہوتی۔" رضیہ بیگم کے لفظوں میں پچھتاوا بول رہا تھا جِسے محسوس کر کے فرازیہ بے اختیار شرمِندہ ہوئی۔

"میرا مقصد آپ کو شرمندہ کرنا نہیں تھا ممانی جان! جو ہوا بھول جائیں قِسمت میں یہی سب ہونا لِکھا تھا۔" فرازیہ نے کہا تو وہ نم آنکھیں صاف کرتیں سر ہلا گئیں۔


***************


وہ الماری سے کپڑے نِکال نِکال کر ایک سوٹ کیس میں رکھ رہی تھی۔ شاہان کا سارا سامان وہ پہلے ہی پیک کر چُکی تھی اب اُسی کا سامان باقی بچ گیا تھا۔ شاہان بیڈ پر سوٹ کیس کے پاس پاؤں نیچے لٹکائے بیٹھا گُھٹنوں پر کُہنیاں ٹِکائے دونوں ہاتھ گالوں پر رکھے ٹُکر ٹُکر اپنی ماں کو دیکھ رہا تھا جو پِھرتی سے یہاں وہاں ہوتی کپڑے پیک کر رہی تھی۔

"ماما ہم یہاں نہیں لہیں گے؟" اُس سے جب چُپ نا رہا گیا تو پوچھ بیٹھا۔

"نہیں بیٹا! ہم نانو پاس نیچے رہیں گے۔" چشمان نے مصروف سے لہجے میں جواب دیا۔

"مگل چاچو نے کہا تھا ہم بابا ساتھ لہیں گے۔ بابا ہیں نا؟ بابا نہیں آئے۔" شاہان نے ریحان کی بتائی بات بتائی تو وہ گہرا سانس بھر کر رہ گئی۔

"ہان بیٹا! آپ ماما سے زیادہ پیار کرتے ہیں یا بابا سے؟" چشمان نے اُس کے پاس گُھٹنوں کے بل بیٹھتے کہا۔

"ہان بابا سے پیال کلتا ہے کیونکہ وہ ماما سے پیال کلتے ہیں۔ ہان ماما سے بھی پیال کلتا ہے کیونکہ وہ ہان سے بہت پیال کلتی ہیں۔" اُس نے یکدم جُھک کر چشمان کی تھوڑی چومی تو وہ نم آنکھوں سے مُسکرائی۔

اُس کا بیٹا ذہین تھا یہ تو وہ شروع سے ہی جانتی تھی مگر آج اُس کی ذہانت اُسے اچھی نہیں لگ رہی تھی۔ کاش وہ جانتا ہی نا کہ بابا بھی ہوتے ہیں۔ اُس نے کبھی شاہان سے اُس کے باپ کی تصویریں نہیں چُھپائیں تھیں۔ وہ روز رات کو باپ کی تصویر دیکھ کر سوتا تھا۔ جب سے وہ سب کو پہچاننے کے قابِل ہوا تھا تب سے وہ بابا بابا پوچھتا تھا جِس پر اُس نے بُرہان کا البم نِکال کر اُس اُس کے باپ کی پہچان کروانا شروع کر دی تھی۔ پِھر وہ اپنے باپ کا دیوانہ ہو گیا تھا۔ اُسے بس بابا چاہیے تھے جو چشمان اُسے کہیں سے لا کے نہیں دے سکتی تھی۔

"میری جان! میری روح ہے ہان میں۔ آپ ماما کو کبھی مت چھوڑ کے جائیے گا۔ ماما آپ سے بہت پیار کرتیں ہیں۔" اُس نے شاہان کی تھوڑی، ناک، گال ، پیشانی، چومتے اُسے خود میں بھینچا کی وہ پریشان ہو گیا تھا۔

"مم ماما۔ ہہ ہان ہہ ہرٹ ہوتا ہے۔" وہ بمشکِل ہی بول سکا تو چشمان کو اندازہ ہوا کہ اُس کی گرفت شاہان پہ زیادہ ہی سخت تھی۔

"ماما سوری ٹو ہان! ابھی چلیں ہم نیچے جائیں گے۔ پِھر ہم نانو کے ساتھ رہا کریں گے۔" چشمان نے بریف کیس اُٹھایا اور شاہان کی اُنگلی تھامی۔

"ماما! ہان کو ہانی کے پاس لہنا ہے۔ ہانی میلی ڈول ہے نا؟" شاہان نے کہا۔

"ہان جب چاہے اوپر آ کر ہانی سے مِل سکتا ہے۔ ہان کو کوئی نہیں روکے گا۔" چشمان نے اُسے تسلّی دی تو وہ خوشی سے سر ہلاتا اُس کے ساتھ باہِر نِکلا۔ لاونج سے ہوتے وہ اُسے لیے نیچے والے پورشن میں جانے لگی تو شائستہ بیگم نے نجانے کیا سوچ کر اُسے ٹوکا۔

"ایک بار بیٹی جب رُخصت ہو جائے تو اُسے اپنے سُسرال ہی رہنا پڑتا ہے۔ مُجھ میں اِتنا دم خم نہیں کہ میں اِس فیصلے میں تُمہارا ساتھ دوں۔ تُم شادی شُدہ ہو اپنا گھر ہے تُمہارا۔ بھرا پرا سسُرال ہے۔ بہتر ہے کہ تُم اپنا گھر بساو میں تُمہیں اپنے گھر میں نہیں رکھ سکتی۔" شائستہ بیگم نے کہا تو سب اُن کے فیصلے پر اچھنبے کا شِکار ہوئے۔

"ٹھیک ہے امّی! آپ نے آج اپنی بیٹی کی بجائے اُس شخص کا ساتھ دیا ہے جِس کی وجہ سے آپ کی بیٹی موت کے منہ سے واپس آئی تھی۔ میں آپ کی بات کا مان رکھتی ہوں۔ رازی! اگر تُمہیں اعتراض نا ہو تو کیا میں تُم لوگوں کے گھر میں رہ سکتی ہوں؟ مُجھے چابی چاہیے اوپر والے پورشن کی۔" شائستہ بیگم کو دو ٹوک کر کہہ کر اُس نے فرازیہ سے پوچھا تو وہ گڑبڑا گئی۔

جبکہ اُس کے فیصلے پر باقی سب نے یاسیت سے اُسے اور پِھر شائستہ بیگم کو دیکھا۔ شائستہ بیگم نے چشمان کی طرف دیکھا جو اُن کے فیصلے کو خاطِر میں نہیں لائی تھی۔

"اا اِس میں پوچھنے والی کیا بات ہے آپی! چابی میرے کمرے میں بیڈ کی سائیڈ ٹیبل میں ہے میں لا دیتی ہوں۔" فرازیہ نے کہہ کر ہانیہ کو صوفے پر لٹانا چاہا جب چشمان نے اُسے روکا۔

"تُم آرام کرو رازی؟ میں خود لے لیتی ہوں۔" شاہان اور بیگ وہیں چھوڑ کر وہ فرازیہ کے کمرے کی جانِب بڑی اور بیڈ کی سائیڈ ٹیبل سے چابی نِکال کر باہر آئی تو نظر شاہان پر پڑی جو فرازیہ کے پاس کھڑا ہانیہ کے ننھے ننھے ہاتھ سے کھیل رہا تھا۔

"مانو! یہ کیا بے وقوفی ہے۔ بدل دو اپنا فیصلہ۔ کیوں خود کی زندگی برباد کر رہی ہو؟" بڑی امّاں نے تاسف سے پوچھا تو وہ تلخی سے ہنسی۔

"اب برباد ہونے کو بچا ہی کیا ہے؟ چلو ہان۔" اُنہیں جواب کے بدلے سوال تھما کر وہ سکون سا شاہان کا ہاتھ تھامتی سائیڈ پہ بنی اوپر والے پورشن کی طرف جانے والی سیڑھیوں کی جانِب بڑھی اور اُن کی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔

اوپر آ کر اُس نے ایک کمرہ کھولا۔ یہ پورشن بھی ویسا ہی تھا جیسے نیچے والے دونوں پورشن تھے۔ پورشن صاف سُتھرا تھا کیونکہ ہر تین دِن بعد اِس پورشن کی صفائی ہوتی تھی۔ پةھر بھی چشمان نے ایک دفعہ ہر جگہ کی صفائی کرنے کا سوچا۔

ایک کمرہ کھول کر اُس نے سامان اندر رکھا اور شاہان کو وہاں بِٹھا کر وہ نیچے آئی۔ دو چکّر لگا کر وہ اپنا سارا سامان اوپر شِفٹ کر چُکی تھی۔ یہ کمرہ پہلے فرازیہ کا ہوتا تھا جِس میں اب وہ خود رہائش اختیار کر رہی تھی۔ اُس نے پہلے کِچن میں جا کر شاہان کے لیے نوڈلز بنائے جو وہ نیچے سے ہی لے کر آئی تھی۔ پِھر اُسے نوڈلز کِھلا کر سارا سامان سیٹ کرنے لگی۔ اُس کے سامان سیٹ کرنے تک شاہان سو چُکا تھا۔ اُس پر بلینکٹ ڈال کر وہ اُس کے پاس بیٹھی اور اُس کے بال سہلانے لگی۔

اُس کا معصوم چہرہ نِہارتے نِہارتے کب اُس کی آنکھ لگی اُسے پتہ بھی نا چلا۔


****************

بُرہان پندرہ دِنوں سے اُن سے دور رہ رہا تھا۔ اُس کا بس نا چلتا تھا کہ اُڑ کر اُن کے پاس چلا جائے مگر بس ہی تو نا چلتا تھا۔ چشمان کا فیصلہ جان کر وہ بے بسی سے خود کو کوس کر رہ گیا تھا وہ نہیں رہ سکتا تھا اب اُن دونوں کے بغیر۔ پہلے جِس چشمان تنویر سے وہ نفرت کرتا تھا اُسی کی محبّت میں وہ کب ڈوبٹا چلا گیا اُسے پتہ بھی نہیں چلا تھا۔ یہ محبّت تب تو پیدا نا ہوئی جب وہ اُس کے قریب تھی ہاں مگر جب دونوں کے درمیان جُدائی آ گئی اور تب اُسے احساس ہوا تھا کہ نفرت اور چِڑ کی آڑ میں وہ اُس لڑکی کو سوچتے سوچتے اُس کی محبّت میں گِرفتار ہو گیا تھا۔ کہتے ہیں نا کہ جِس چیز کے بارے میں زیادہ سوچا جائے جِس چیز پر زیادہ توجْہ اور دھیان دیا جائے وہی چیز ہمارے دِل کے قریب ہوتی چلی جاتی ہے اور ہم نا چاہتے ہوئے بھی اُس سے محبّت کرنے لگتے ہیں۔ بُرہان کے ساتھ بھی یہی کُچھ ہوا تھا۔ چشمان پر توجّہ دیتے اُس کے بارے میں سوچتے اُسے اُس سے محبت ہو گئی تھی جِس کا احساس اُسے تب ہوا تھا جب وہ اپنے ہی ہاتھوں اپنی محبّت کو رُسوا کر کے اُسے لوگوں کے لیے سوالیہ نِشان بنا کر چھوڑ گیا تھا۔

چشمان کے نمبر پر ایک غزل سینڈ کی تھی۔ جانتا تھا کہ جواب نہیں آئے گا مگر اپنے احساسات رگِ جاں تک پہنچانے میں کوئی حرج تو نہیں تھا۔ اُس کا گُناہ معافی لائق نہیں تھا مگر آس کا دامن ہاتھ سے بھی نہیں چھوٹنے دینا چاہتا تھا کہ مایوسی کُفر ہے۔

آج وہ آفس کے بعد ساڑھے چار کے قریب فیکٹری گیا تھا وہی فیکٹری جہاں وہ، اُس کا بھائی، باپ اور چچا ایک ساتھ سارا کام دیکھتے تھے۔ چچا تو رہے نہیں تھے مگر باپ اور بھائی وہیں موجود تھے۔ وہاں کے پُرانے ورکرز اُسے اچھنبے سے دیکھنے لگے تھے۔ کُچھ تو آ کر باقاعدہ اُس سے مِلے بھی تھے کہ وہ اُس کے آنے سے خوش دِکھائی دیتے تھے۔ اُن سے مِلنے مِلانے کے بعد وہ اپنے باپ کے آفس میں داخِل ہوا تھا جہاں ریحان پہلے سے ہی موجود تھا۔ ریحان سے تو وہ پہلے بھی مِل چُکا تھا مگر حماد صاحب کو آج ساڑھے تین سال بعد دیکھ کر اُس کی آنکھوں میں آنسو آئے تھے۔

وہ نم آنکھیں لیے اُن کی جانِب بڑھا تھا اُن کے گلے لگ کر وہ رویا تھا مگر حماد صاحب کے ہاتھ اُس کی پُشت تھپتھپانے کے لیے نہیں اُٹھے تھے۔ وہ سپاٹ چہرہ لیے اُس کے گلے لگے کھڑے تھے۔ ایک بھی تسلّی بھرا جُملہ اُن کے منہ سے ادا نہیں ہوا تھا۔

"کُچھ کہیں گے نہیں؟ کوئی لعن طعن؟ ماریں مُجھے۔ سزا دیں مگر ایسے چُپ مت رہیں۔ آپ کی خاموشی مُجھے اذیّت دیتی ہے۔" بُرہان نے اُن سے الگ ہوتے بوجھل لہجے میں کہا تو وہ سپاٹ چہرے سے اُسے دیکھنے لگے۔

"مُجھے تُم سے کوئی گِلہ شِکوہ نہیں۔ جو تُم نے کیا وہ تُمہارا ظرف تھا یا شاید ہماری ہی تربیت میں کمی رہ گئی تھی جو تُم عورتوں کی عِزّت کرنا بھول گئے۔ عورت بھی وہ جو تؐمہاری عِزّت تھی۔ مُجھ سے کِسی ہمدردی کی اُمید مت کرنا بُرہان احمد! میری ساری نرمیاں میری بیٹی چشمان کے ساتھ ہیں اور اُس کے کِسی فیصلے میں میں اُس کی مُخالفت ہرگِز نہیں کروں گا۔ یہ تو اُس کا ظرف ہے کہ اُس نے تُمہیں تُمہارے گھر والوں سے دور رکھنے کی کوشش نہیں کی ورنہ تُمہارے لیے گھر بدری سے بہتر کوئی سزا ہی نہیں تھی۔" سرد بے تاثر لہجے میں اُنہوں نے بُرہان کو بآور کروایا تھا جِس پہ وہ شرمِندہ سا ہوتا سر جُھکا گیا تھا۔

"بابا پلیز! بُرہان بھائی ہم گھر جا رہے ہیں۔ آپ چلیں گے نا ہمارے ساتھ؟" ریحان نے ماحول کا تناو کم کرنا چاہا۔۔

"ہمم چلوں گا۔" دھیمے سے بول کر وہ اُن کے ساتھ ہی باہِر نِکلا تھا۔ کُچھ بھی اِتنا آسان نہیں تھا جِتنا اُس نے سوچا تھا۔

آدھے گھنٹے میں وہ گھر تھے۔ مین گیٹ سے گُزر کر وہ اندر داخِل ہوئے۔ دروازہ اذہاد نے کھولا تھا۔ اُنہیں ایک ساتھ دیکھ کر وہ خوشی سے اُنہیں لیے اندر کی جانِب بڑھا تھا۔ شائستہ بیگم سے مِلتے وقت وہ شرمندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب گیا تھا کیونکہ وہ اُس سے اُسی پیار محبّت سے پیش آ رہی تھیں جیسے ساڑھے تین سال پہلے۔ وہ اُن سے معاف مانگ چُکا تھا جِس پہ اُنہوں نے اعلٰی ظرفی سے اُسے معاف کر دیا تھا بلکہ وعدہ بھی لیا تھا کہ وہ چشمان کو منا کے اُس کی زندگی کو خوشیوں سے بھر دے اور یہ وعدہ اُس نے سچّے دِل سے کیا تھا۔ اُن کے کمزور وجود اور آس بھری آنکھوں کو دیکھ کر وہ اپنی ہی نظروں سے گِر گیا تھا۔ کِتنا مان تھا اُنہیں اُس پر اور اُس نے وہی مان توڑ دیا تھا۔

اُن سے مِلنے مِلانے کے بعد وہ سب لوگ سیکنڈ پورشن کی جانِب بڑھے تھے۔ حماد صاحب پہلے ہی اوپر جا چُکے تھے اور سب کو بُرہان کی آمد کا بتا بھی چُکے تھے جِس پہ سب بے صبری سے اُن کا اِنتظار کر رہے تھے۔ وہ اوپر آئے تو سب ہی لاونج میں براجمان تھے۔ اُن کے آنے پر سب ہی اُٹھ کر اُن کی جانِب بڑھے تھے۔ فرازیہ اپنی طبیعت خرابی کی وجہ سے وہیں بیٹھی رہی تھی۔ بڑی امّاں اور عریحہ سے مِل کر وہ اپنی ماں کی جانِب بڑھا تھا جو آنکھوں میں آنسو لیے اُسی کی جانِب دیکھ رہیں تھیں۔

رضیہ بیگم اُس کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر روئیں تھیں۔ ساڑھے تین سال بعد وہ اپنے لختِ جِگر کو دیکھ رہیں تھیں۔ اُس کا منہ ماتھا چومتیں وہ اپنی ساڑھے تین سال کی تشنگی مِٹا رہیں تھیں۔ بُرہان اُن کا کمزور سا وجود اپنے بازو کے حلقے میں لیتے صوفے کی جانِب بڑھا۔ اُنہیں وہاں بِٹھا کر اُس نے فرازیہ کے سر پر ہاتھ رکھا تھا اور اُس کی گود سے ہانیہ کو لے کر پیار کیا تھا جو بالکُل اپنے ماں باپ جیسی تھی۔

سب سے وہ مِِل چُکا تھا مگر اُس کی چھوٹی سی دُنیا اُسے کہیں نظر نہیں آئی تھی۔ ریحان کے مُطابِق وہ نیچے والے پورشن میں شِفٹ ہو رہی تھی مگر وہ نیچے کہیں بھی نہیں تھی تو اُسے لگا کہ وہ سب کے ساتھ سیکنڈ پورشن میں ہو گی مگر وہ تو یہاں بھی کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔ نا وہ اور نا ہی شاہان۔

اُس کی نظریں یہاں وہاں گھوم رہیں تھیں جِسے سمجھ کر سب نظریں چُر اکر رہ گئے تھے۔

"ؑباری بیٹا؟ یہاں آو۔" بڑی امّاں نے کہا تو وہ اُن کے پاس جا کر بیٹھ گیا جبکہ باقی سب بھی وہیں اُن کو گھیر کر بیٹھ گئے۔

"دیکھو بیٹا! ماضی میں جو ہوا وہ بہت تکلیف دہ تھا۔ اور جِس کے ساتھ ہوا وہ اُس غم سے ابھی تک پوری طرح باہِر نہیں آ پائی۔ وہ ابھی تُم سے رِشتہ رکھنے کو تیار نہیں ہے مگر آہستہ آہستہ سمجھ جائے گی اور تُمہیں معاف بھی کر دے گی۔ مایوس مت ہونا کیونکہ عورت کا ظرف بہت بڑا ہوتا ہے۔ اِس کے لیے تُمہیں صبر کرنا ہو گا۔ زور زبردستی سے رِشتے ٹوٹتے ہیں جُڑتے نہیں۔ صبر کا دامن تھامے رکھو گے تو زِندگی تُمہیں گُلزار لگے گی۔" بڑی امّاں نے اُسے سمجھایا تو اُن کی بات سمجھ کر وہ سر ہلا گیا۔

"چچی جان! آپ نے مُجھے معاف کر دیا نا؟ مم میں وعدہ کرتا ہوں کہ چشمان کو بہت خُوش رکھوں گا۔ اُس سے معافی بھی مانگوں گا ہر سزا قبول کر لوں گا۔ بس آپ دِل سے مُجھے معاف کر دیں۔" وہ شائستہ بیگم کے قدموں میں گُھٹنوں کے بل بیٹھتا اُن کے ہاتھ تھام کر شرمندہ سا بولنے لگا۔

"تُم میرے مرحوم شوہر کی رضا تھے بُرہان! اُن کی آخری خُواہش تھی کہ چشمان تُمہاری سرپرستی میں آئے کیونکہ اُنہیں تُم پہ یقین تھا کہ تُم کبھی اُس پر آنچ بھی نہیں آنے دو گے۔" وہ اُن کی باتیں سُنتا سر جُھکا کر رہ گیا تھا۔ شائستہ بیگم کی آنکھیں نم تھیں۔

"کوئی بھی ماں برداشت نہیں کرتی کہ اُس کی اولاد کی عِزت پہ کوئی حرف آئے۔ مگر تُم نے ہر لحاظ توڑ کر وہ سب کیا جِس کی تُم سے اُمید بھی نہیں کی جا سکتی۔ اپنی بیٹی کی اذیّت اور تکلیف نہیں بھول سکتی میں۔ ساڑھے چار سال پہلے ہم سب نے چشمان کا ساتھ دیا تھا کیونکہ وہ صحیح تھی اور تُم غلط۔ وہ آج بھی صحیح ہے اور تُم غلط۔ مگر میں اور اپنی بیٹی کو اُجڑتا نہیں دیکھ سکتی۔ میری بیٹی کی خُوشیاں تُم سے ہیں۔ وہ نا بھی کہے تو بھی میں جانتی ہوں کہ اُس کی خُوشی تُم میں ہی ہے۔" وہ دھیرے دھیرے بولتیں اُسے احساس دِلا رہیں تھیں۔

"میں وعدہ کرتا ہوں کہ کبھی کوئی دُکھ اور تکلیف اُس تک نہیں آنے دوں گا۔ آخری بار میرا یقین کر لیں۔" اُس نے مضبوط لہجے میں کہا تو وہ سر ہلا گئیں۔ سب اُن کی جانِب دیکھ رہے تھے مگر خاموش تھے۔

"اب جا کے فریش ہو جاؤ اور فِکر مت کرنا وہ زیادہ دور نہیں ہے بس ضِد میں آ کر اوپر والے پورشن میں جا کر بس گئی ہے۔" رضیہ بیگم نے کہا تو وہ اپنا بیگ گھسیٹتا اپنے کمرے کی جانِب چل دیا۔ ریحان بھی اپنے کمرے میں فریش ہونے چلا گیا جبکہ رضیہ بیگم اور شائستہ بیگم کِچن کی جانِب چل دیں۔

عریحہ ہانیہ کو اُٹھائے اُس سے لاڈ کرنے لگی تو اذہاد بڑی امّاں کے پاس بیٹھا مگن انداز میں عریحہ میں اپنا فیوچر تلاشنے لگا۔

بڑی امّاں اُس کے تعاقُب میں دیکھتیں مُسکرا دیں۔

"کیا اِرادے ہیں صاحبزادے کے؟ میری نواسی کو نظر لگاؤ گے کیا؟" بڑی امّاں نے اُسے سر پر چپت لگائی تو وہ ہنسا۔

"اِرادے تو نیک ہی ہیں بڑی امّاں! بس آپ ساتھ دیں تو وہ اِرادے آپ کے ساتھ شئیر کر لیتا ہوں میں۔" اُس نے شرارت سے کہا۔

"ہاں ہاں کیوں نہیں۔ میں تُمہارے ساتھ ہوں۔ بتاؤ کہاں فساد پھیلانا ہے؟" وہ رازداری سے گویا ہوئیں تو وہ منہ بنا گیا۔

"دھماکے نہیں کروانے میں نے۔ سامنے کھڑی لڑکی کو اپنی دُلہن بنانا ہے۔" اذہاد نے خفگی سے کہا تو وہ شریر سا ہنسیں۔

"اچھا یہ تو ناممکِن ہے بھئی۔" بڑی امّاں نے سنجیدگی سے کہا۔

"کیوں نا مُمکِن ہے؟ آپ بس تایا ابّا سے بات کریں۔ اگلے تین سال تک مُجھے عریحہ سے شادی کرنی ہے۔" اذہاد نے دوٹوک کہا تو وہ اچھنبے سے اُسے دیکھنے لگیں۔

"تین سال بعد کیوں؟" اُنہوں نے اپنی حیرت کو سوال دیا۔

"تب تک ہم دونوں کی ہی سٹڈی کمپلیٹ ہو جائے گی نا۔ اور میں جاب بھی کرنے لگوں گا سو۔ سمجھا کریں نا۔" اُس نے کہا تو وہ سمجھتیں سر ہلا گئیں۔

"تُم تو سب کُچھ طے کیے بیٹھے ہو۔ چلو کوئی نہیں کر لوں گی بات بھی مگر ریا سے بھی پوچھا ہے کیا؟" اُنہوں نے پوچھا تو وہ نفی میں سر ہلا گیا۔

"وہ منع نہیں کرے گی۔ آخر کو دا موسٹ ہینڈسم بوائے سے شادی ہو گی اُس کی۔ منع تو اُس کے اچھے بھی نا کریں۔" اذہاد نے فخریہ کہا تو وہ سر ہلا کر رہ گئیں۔ پوتے کی خوشی میں اُن کی خوشی تھی۔ اور وہ جانتیں تھیں کہ عریحہ تو کیا اور کِسی کو بھی اِس پر اعتراض نہیں ہونا تھا۔

جب کہ اِن سے دور وہ لڑکی جِس کا مُستقبِل طے کیا جا رہا تھا، بے نیاز سے ہانیہ کو جھلاتی یہاں سے وہاں ٹہل رہی تھی۔

رات کے کھانے پر بھی چشمان نیچے نہیں آئی تھی۔ عریحہ اُسے بُلانے گئی تو اُس نے بتایا کہ وہ اپنے اور شاہان کے لیے کھانا بنا کر کھا چُکی تھی۔ سب اُس کی بات پر چُپ رہ گئے تھے اور ایک شِکوہ کناہ نظر حماد احمد پر ڈالی تھی جِنہوں نے اُس کے ہر فیصلے میں اُس کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ بُرہان اِس سب کی وجہ خود کو مانتا سر جُھکائے بیٹھا رہا تھا کیونکہ یہی سچ تھا وجہ وہ خود ہی تو تھا۔

اُسے چشمان کو اور اپنے بیٹے کو دیکھنا تھا مگر وہ نرم دِل لڑکی اُس کے لیے سنگدِل بن چُکی تھی جو اُسے ایک نظر دیکھنا بھی گوارا نہیں کر رہی تھی۔ بے دِلی سے کھانا کھا کر وہ کُچھ باقی سب کے ساتھ بیٹھا گُزرے ماہ و سال کا حِساب دیتا رہا تھا پِھر اپنے کمرے میں جا کر بند ہو گیا تھا۔ اِس کمرے سے اُسے چشمان کی خوُشبو محسوس ہوتی تھی۔ جِس کو محسوس کرتا وہ بے بس سا ہو رہا تھا۔


***************


وہ رات کے لیے بریانی بنا چُکی تھی۔ ساتھ اُس نے رائتہ بنا لیا تھا۔ اب تک اُس کا سارا خرچ حماد صاحب اُٹھاتے آئے تھے مگر اب وہ سوچ رہی تھی کہ کہیں جاب کر لے۔ خود کھانا کھاتے اُس نے شاہان کو بھی کھانا کِھلایا تھا۔ کھانے کے بعد وہ لوگ ہال میں بیٹھے ٹی وی دیکھنے لگے تھے۔ شاہان کو کارٹونز پسند تھے تو کافی دیر وہ دونوں وہی دیکھتے رہے۔ ٹی وی دیکھنے کے بعد وہ اُسے کمرے میں لے آئی۔ ابھی وہ بیٹھی ہی تھی جب اُس کا فون گُنگُنا اُٹھا۔ اُس نے سکرین روشن کی تو وہی انجانا نمبر سکرین پہ جگمگا رہا تھا۔ اُس نے میسج کھولا۔

میری زندگی تو فراق ہے وہ ازل سے دل میں مکیں سہی

وہ نگاہِ شوق سے دور ہیں رگِ جاں سے لاکھ قریں سہی


ہمیں جان دینی ہے ایک دن ہو کسی طرح ہو کہیں سہی

ہمیں آپ کھینچیے دار پر جو نہیں کوئی تو ہم ہی سہی


سرِ طور ہو سرِ حشر ہو ہمیں انتظار قبول ہے

وہ کبھی ملیں وہ کہیں ملیں، وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی


غمِ زندگی سے فرار کیا؟ یہ سکون کیوں یہ قرار کیا؟

غمِ زندگی بھی ہے زندگی جو نہیں خوشی تو نہیں سہی


نہیں ان پے میرا جو بس نہیں، کہ یے عاشقی یہ ہوس نہیں

میں انہی کا تھا، میں انہی کا ہوں وہ میرے نہیں تو نہیں سہی


مجھے بیٹھنے کی جگہ ملے، میری آرزو کا بھرم رہے

تری انجمن میں اگر نہیں، تیری انجمن سے قریں سہی


ترے واسطے رہے یہ وقف سر، رہے تا ابد ترا سنگِ در

جو کسی کی جبیں نا جھک سکے، اک میری ہی جبیں سہی


میری زندگی کا نقیب ہے، نہیں دور مجھ سے قریب ہے

مجھے اسکا غم تو نصیب ہے، جو نہیں وہ تو نہیں سہی


جو ہو فیصلہ وہ سنائیے اسے حشر پے نہ اٹھائیے

جو کریں گے آپ ستم وہاں وہ ابھی سہی، وہ یہیں سہیآہستہ سے اندر داخِل ہو کر اُس نے کمرے کا دروازہ بند کیا اور بیڈ کی طرف قدم بڑھائے۔ مین لائٹ آف تھی جبکہ سائیڈ لیمپ روشن تھا جو کمرے کی تاریکی کو ختم کرتا کمرے کو اُجالا بخش رہا تھا۔ اُس کی نِگاہ کمرے کی واحد کھڑکی پر پڑی جو کُھلی ہوئی تھی۔ باہر ٹھنڈی ہوائیں سرسرا رہیں تھیں ایسے میں وہ ہوائیں کمرے میں داخِل ہوتی کمرے میں سردی کے احساس کو بڑھا رہیں تھیں۔ وہ کھڑکی بند کر کے واپس پلٹا اور شاہان والی سائیڈ پر آیا۔

جُھک کر اُس کا چہرہ دیکھا جو اپنی ماں کے گلے لگا اُس سے چِپک کر سو رہا تھا۔ اُس نے محبّت سے شاہان کے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔ اُس کا چہرہ چھونے کی کوشش نہیں کی کہ اُسے گُدگُدی ہوتی تھی اور وہ جاگ بھی سکتا تھا۔ وہ وہاں سے اُٹھ کر چشمان والی سائیڈ پر جانے لگا جب شاہان ایک دم کسمسایا اور چشمان سے الگ ہوتا کروٹ بدل کر سو گیا۔ بُرہان نے اُس کے اوپر بلینکٹ درست کیا۔

چشمان کے قریب بیٹھ کر وہ اُسے ٹکٹکی باندھے تکنے لگا۔ اُسے لگا جانےِ کِتنی صدیاں بیت گئیں اُسے یہ چہرہ دیکھے۔ وہ آج بھی ویسی ہی تھی تیکھے ناک والی۔ بس ذرا سی ضِدّی ہو گئی تھی۔ فسوں خیز لمحے سِرکتے جا رہے تھے اور وہ سردی سے بے نیاز بس اپنی محرم کو نِہارتا جا رہا تھا۔ دِل تھا کہ بس دُعا کر رہا تھا کہ یہ لمحے کبھی ختم نا ہوں۔ وہ وقت کو واپس موڑ لیتا۔ ماضی میں جا کے خود کو وہ غلطی وہ گُناہ کرنے سے روک لیتا جو وہ کر چُکا تھا اگر اُس کے بس میں ہوتا تو۔

اُس کی نظروں کی تپش تھی یا اُس کی موجودگی کا احساس چشمان کی پلکیں لرزنے لگیں تھیں مگر وہ بے خوف سا بیٹھا اُسے دیکھتا رہا۔ دِل تھا کہ بھر ہی نہیں رہا تھا۔ اچانک اُس نے تھوڑا جُھک کر اُس کی پلکوں پہ پھونک ماری تو وہ پُرسکون ہو گئی۔ ایک بار پِھر جُھک کر اُس کی پیشانی کو چھوا۔ وہ زرا سا کسمسائی مگر جاگی نہیں۔ یہ لڑکی بُرہان کے دِل میں بستی تھی جِس کے بغیر اب اُس کا جینا بھی محال تھا مگر افسوس صِرف یہ تھا کہ اُسے احساس تب ہوا تھا جب پانی سر کے اوپر سے گُزر چُکا تھا۔ اِس لڑکی کی محبّت کی شِدّت اِس قدر تھی کہ اب تو وہ ہزار بار اِس کے پاوں پڑنے کو بھی تیار تھا بشرطیکہ وہ معاف کر دیتی جو اِتنا آسان بھی نا تھا۔

اب کی بار وہ اُس کے چہرے پر رقص کرتی اُس کی سیاہ زُلفوں کو پیچھے ہٹانے لگا جو رقیب کا فریضہ سر انجام دے رہیں تھیں۔ اُس کا ہاتھ چشمان کے گال سے ٹکرایا تو وہ نیم وا آنکھیں کھولے اُسے دیکھنے لگی۔ خوابیدگی کے عالم میں وہ اُس کی موجودگی سے بے خبر تھی۔ بُرہان نے ہاتھ کی پُشت سے اُس کا گال سہلایا تو وہ مُسکراتی اُس کا ہاتھ تھام کر اپنے ہاتھ میں لیتی گال پر رکھ کر واپس سو گئی۔ وہ اُسے خواب سمجھ رہی تھی۔ بُرہان خوشگوار حیرت میں گِھرا۔ خواب میں بھی وہ اُس کا ہاتھ نہیں جھٹک رہی تھی۔

وہ اپنے ہاتھ کو اُس کے ہاتھ میں دیکھنے لگا جو وہ قید کر کے سکون سے سو گئی تھی۔ اُس نے دوسرے ہاتھ سے اُس کا گال سہلایا۔

"ہہ ہان۔" وہ بڑبڑائی تو وہ مُسکرایا۔

"ہان کو مِس کیا؟" اُس نے بوجھل ہوتے دِل سے پوچھا۔

"بب بہت زیادہ۔" اُس کی بند آنکھوں سے آنسو بہنے لگے جو بُرہان کے دِل پر بُرچھیاں چلا گئے تھے۔ اُس نے نرمی سے اُس کے آنسو اپنی پوروں پر چُنے۔

"ہان سے محبّت ہے؟" دھڑکتے دِل سے پوچھا۔ یُوں لگ رہا تھا جیسے وہ اُس پر تنویمی عمل کر رہا ہو اور وہ معمول کی طرح جواب دیتی جا رہی ہو۔ معمول تو وہ تھی مگر تنویمی عمل کے زیرِ اثر نہیں بلکہ بُرہان کی محبّت کے۔

"خود سس سے زز زیادہ۔" سرگوشی کے عالم میں کہا گیا تو بُرہان کا روم روم خوش سے مہک اُٹھا۔

"ہان کے ساتھ رہنا ہے نا؟" اُس نے مطلب کا سوال کیا۔

"نن نہیں کک کبھی نہیں۔" ڈرتے ہوئے جواب دیا۔ اُس کے لہجے میں خوف محسوس کر کے بُرہان اُس کے بال سہلانے لگا۔

"کیوں؟ تُم تو ہان سے محبّت کرتی ہو۔" اُس نے سرگوشی میں بولتے اُسے یاد کروایا۔

"ہہ ہان ہہ ہرٹ کرتے بب بہت ہہ ہرٹ کیا پپ پیار بب بھی نن نہیں کرتے نن نہیں نن نہیں۔" وہ لرزتے کانپتے لہجے میں بولتی اُس کے ہاتھ پر گرفت مضبوط کر گئی۔

"ہان اب ہرٹ نہیں کرے گا۔ بہت عِزّت اور پیار دے گا۔ کبھی اپنی مانو کو نہیں رُلائے گا۔" اُس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ آزاد کرواتے وہ اُس کی تھوڑی چومتا اُٹھا اُس پر بلینکٹ درست کیا اور ایک نظر اپنی چھوٹی سی دُنیا پر ڈال کر جیسے آیا تھا ویسے ہی نِکل گیا۔ چشمان اب بھی بڑبڑاتی سو رہی تھی وہ اب بھی اِس سب کو ایک خواب ہی سمجھ رہی تھی۔

********************

اگلی صُبح اپنے اندر ایک سرشاری سی لیے طلوع ہوئی تھی۔ فضا مہکی مہکی تھی۔ سردی کا زور پہلے کی نِسبت زرا کم تھا۔ درختوں پر چِڑیاں چہچہاتی اپنی آواز میں اللّٰہ کی پاکی بیان کر رہی تھیں۔ ایسے میں راجپوت ہاوس کے سبھی مکین سیکنڈ پورشن کے ڈائنینگ ٹیبل پر بیٹھے ناشتے میں مصروف تھے۔ سب نے کافی دیر تک چشمان اور شاہان کا اِنتظار کیا تھا کہ وہ بھی اُن کے ساتھ ہی ناشتہ کریں مگر وہ نیچے نہیں آئے تھے ہاں مگر اوپر سے شاہان کی چہچہاہٹ کی آوازیں اُنہیں صاف سُنائی دے رہیں تھیں جِنہیں سُن کر بُرہان کے ہونٹوں کی مُسکراہٹ اُس کے ہونٹوں سے جُدا ہی نہیں ہو رہی تھی۔

ناشتے کے بعد اذہاد اور عریحہ یُونیورسٹی چلے گئے جبکہ ریحان اور حماد صاحب فیکٹری چلے گئے۔ شائستہ بیگم رضیہ بیگم کے ساتھ برتن سمیٹنے لگیں۔ بڑا گھر اور بڑی فیملی ہونے کے باوجود بھی اُنہوں نے شروع سے ہی مُلازمہ نہیں رکھی تھی۔

بُرہان نے چشمان کے نمبر پہ ایک بار پِھر ایک شعر سینڈ کرنا چاہا تھا مگر شاید وہ اُسے بلاک کر چُکی تھی۔ وہ گہرا سانس بھر کر رہ گیا تھا۔ وہ کمرے سے باہر آیا۔ سامنے ہی بڑی امّاں براجمان تھیں۔

بُرہان بڑی امّاں کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔ اِس ممتا بھرے لمس کو بہت یاد کیا تھا اُس نے۔ اپنے کیے پر ایک بار پِھر شرمندگی نے آن گھیرا تھا۔ اُس کا اِرادہ آج آفس جانے کا نہیں تھا اور احراز کو وہ وجہ بھی بتا چُکا تھا۔ جِسے سُن کر وہ بُرہان کے لیے بہت خوش ہوا تھا۔ بڑی امّاں اُسے شاہان کے بارے میں بتا رہیں تھیں کہ وہ کِتنا شرارتی بچّہ ہے۔ ابھی وہ اپنے بیٹے کے کارنامے سُن ہی رہا تھا جب سیڑھیوں پہ کِسی کے دوڑنے کی آواز سُنائی دی۔ بُرہان بے ساختہ اُٹھ کر بیٹھا تو نظر شاہان پر پڑی جو بھاگتا ہوا نیچے آ رہا تھا۔

"آرام سے ہانی۔" بُرہان بے ساختہ اُس ٹوک اُٹھا۔ جیسے وہ بھاگ رہا تھا ایسے گِر بھی سکتا تھا۔

اُس کی آواز سُن کر شاہان نے اُس کی جانِب دیکھا۔ اُس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں حیرت اور بے یقینی سے کُچھ اور بڑی ہوئیں۔ پِھر یقین آنے پر وہ چیختا اُس کی جانِب بھاگا۔

"میلے بابا۔" وہ آ کر اُس کی بانہوں میں سما گیا ساتھ ہی اُس کے گلے میں بازو ڈالتے اُس کی گردن میں منہ دے دیا۔

"میری جان! کیسا ہے میرا بیٹا؟" اُس نے ایک نظر چشمان کو دیکھ کر کہا جو اُسے دیکھ کر سیڑھیوں پر ہی ساکت ہو گئی تھی۔ اُسے اُمید نہیں تھی کہ وہ نیچے ہو گا۔ اُس کے مُطابق تو بُرہان کو اِس وقت فیکٹری ہونا چاہیے تھا۔

شاہان کو گلے سے لگائے وہ چشمان کو آنکھوں کے رستے دِل میں اُتار رہا تھا جو دوپٹے کو حِجاب کی مانِند لپیٹے، کندھوں پر شال اوڑھے، ایک ہاتھ میں فائل تھامے اور دوسرے کندھے پر بیگ ڈالے بہت گریس فُل لگ رہی تھی۔

"بابا کو بہت مِس کیا۔" شاہان نے اُس بتایا تو وہ اُسے الگ کر کے اُس کے گال چومنے لگا۔

"پِھر بابا پاس کیوں نہیں آئے مِلنے؟" اُس نے پوچھا اور اُس کے من موہنے چہرے کو نِہارا۔ بلیو جینز اور گرم ریڈ شرٹ کے اوپر بلیو کلر کا ہی فوم کا پھولا پھولا کوٹ پہنے وہ اِس وقت بھالو لگ رہا تھا۔ سر پر اونی ٹوپی پہن رکھی تھک جِس کے اوپر موٹے سے دھاگے سے دو گیندیں لٹک رہیں تھیں جو اُس کے سر ہلانے پر دائیں بائیں جھول جاتیں۔

"ہان کو پتہ ہی نہیں تھا بابا آئے ہیں۔ اب ہان بابا ساتھ لہے گا۔" شاہان نے بتایا تو وہ اُسے اُٹھا کر کھڑا ہو گیا۔ بڑی امّاں پیار سے دونوں کو دیکھ رہیں تھیں۔

"ہان چلیں بیٹا! ہمیں جانا ہے۔" چشمان کی آواز پر وہ بُرہان کی گود سے اُترنے کی کوشش کرنے لگا۔ مگر بُرہان نے اُسے نیچے نا اُتارا۔

"کہاں جانا ہے مانو؟" بڑی امّاں نے اچھنبے سے پوچھا۔

"میں سوچ رہی تھی جاب کر لوں بڑی امّاں! کب تک تایا ابّو اور ریحان بھائی پر بوجھ بنی رہوں گی اب تو شاہان بھی بڑا ہو رہا ہے۔" چشمان نے سادگی سے جواب دیا۔ بُرہان کو یکسر نظر انداز کر دیا تھا۔

"کوئی ضرورت نہیں ہے جاب کرنے کی۔ شاہان کا باپ ابھی زِندہ ہے اُس کا اور اُس کی ماں کا خرچہ اُٹھانے کے لیے۔" بُرہان نے دوٹوک لہجے میں کہا۔ ابھی وہ نرمی دِکھاتا تو وہ اور شیر ہوتی۔

"میں کِسی ایرے غیرے کے احسانات لے کر خود کو احسانوں تلے دبانا نہیں چاہتی۔ اور اُس شخص کے تو بالکُل نہیں جو اپنی بیوی کو چھوڑ کر بھاگ گیا ہو۔ جو ایک بار بھاگ سکتا ہے وہ بار بار بھاگ سکتا ہے۔ اِتنا ہی میرا وجود ناگوار تھا تو طلاق کا پرچہ تھما جاتے مُجھے بالکُل بھی دُکھ نہیں ہوتا۔ بڑی امّاں میں آپ سے بات کر رہی ہوں کوئی کم ظرف شخص مُجھ سے بات نا کرے تو بہتر ہے۔" اُس کے لہجے کی تلخی محسوس کر کے وہ لب بھینچ گیا۔ طلاق کی بات پر اُس کا دِل ڈوبا تھا جبکہ شاہان پہلی بار اپنی ماں کو یُوں اونچا اونچا بولتا دیکھ رہا تھا۔

"کوئی ضرورت نہیں ہے جاب کرنے کی۔ فیکٹری میں سے تنویر بھائی کا بھی حِصّہ ہے اور وہ حِصّہ اب اذہاد اور تُمہارا ہے۔ اگر اُس میں سے تُم پر خرچ ہو رہا ہے تو ریحان یا حماد صاحب کوئی احسان نہیں کر رہے تُم پر۔ تُمہارا حق ہے جو تُمہیں مِل رہا ہے بُرہان احمد کی بیوی کی حیثیت سے نہیں بلکہ تنویر احمد کی بیٹی کی حیثیت سے۔" رضیہ بیگم جو کِچن سے آوازیں سُن کر باہِر آئیں تھیں، چشمان کو سمجھاتے ہوئے بولیں۔

"مگر تائی امّاں۔۔۔۔۔۔۔" اُس نے کُچھ بولنا چاہا جب بڑی امّاں نے اُسے چُپ کروا دیا۔

"یہ اپنا مُوا بیگ اور فائل جا کے رکھو اندر۔ شاہان ابھی چھوٹا ہے اُسے سنبھالا کرو گھر پر۔ اور اب کوئی بات نہیں سُنوں میں۔" بڑی امّاں نے دوٹوک کہا تو وہ ایک زہر خند نظر بُرہان پر ڈال کر سیڑھیاں چڑھتی اوپر چلی گئی جبکہ شاہان واپس بُرہان کی جانِب بھاگا جو اِشارے سے اُسے اپنے پاس بُلا رہا تھا۔

"ہان اوپر آو۔" وہ جو بُرہان کی گود میں چڑھ کر بیٹھا اُس کے گالوں پہ ہاتھ پھیر رہا تھا منہ بناتا اُترنے لگا۔ جب بُرہان نے اُسے روکا۔

"ماما بُلا لہیں ہیں بابا۔" اُس نے بتایا۔

"وہ آپ کو نہیں مُجھے بُلا رہیں ہیں ہانی۔" اُس نے شاہان کی ٹوپی درست کرتے کہا۔

"ہان میلا نام ہے وہ مُجھے بُلا لہیں ہیں۔" اُس نے معصومیت سے توجیح پیش کی۔

"آپ کی ماما مُجھے ہان کہتیں ہیں۔ آپ کا نام ہانی ہے۔ ہان میرے نام بُرہان کا نِک ہے۔ آپ یہاں دادو پاس بیٹھیں میں آپ کی ماما کی بات سُن کر آتا ہوں۔" بُرہان نے اُسے سمجھایا اور گود سے نیچے اُتارا۔

"میں بھی ساتھ چلوں؟" اُس نے پوچھا۔

"آپ ایسا کرو دادو ساتھ کھیلو تب تک میں آپ کی ماما کو لے کے آتا ہوں پِھر ہم باہر چلیں گے۔" بُرہان نے کہا تو وہ سر ہلاتا بڑی امّاں کی طرف بھاگ گیا۔

"کیوں شیرنی کے منہ میں ہاتھ ڈال رہے ہو۔ کچّا چبا جائے گی تُمہیں۔" بڑی امّاں نے ڈرایا تو وہ ہنسا۔

"وہ شیرنی ہے تو میں بھی شیر ہوں اور اپنی شیرنی کو ہینڈل کرنا بھی اچھے سے جانتا ہوں۔" شرارت سے کہتا وہ سیڑھیاں چڑھتا اوپر کی جانِب بڑھا جبکہ شاہان اب بڑی امّاں کی گود میں بیٹھا اُن سے کہانی سُننے لگا۔

********************

وہ غُصّے سے تیکھی ناک پُھلائے سیڑھیاں چڑھتی اوپر آئی تھی۔ اُسے غُصّہ آ رہا تھا بُرہان کے ٹوکنے پر۔ اب کیوں حق جمانے آ گیا تھا وہ شخص جِس نے اُسے کِسی فالتو شے کی طرح اُسے اپنی زِندگی سے نِکال پھینکا تھا۔ صِرف تین حرفوں تک آنے کی کمی رہ گئی تھی ورنہ اُس وقت بُرہان وہ بھی کر گُزرتا۔

بیگ اور فائل کو صوفے پر پٹخ کر وہ غُصّے سے کمرے کی جانِب بڑھی۔ شال اُتار کر دور پھینکی۔ ہیل شوز اُتار کر فلیٹ سوفٹ شوز پہنے۔ حِجاب کھول کر دوپٹہ اوڑھا لیا۔ اِن سب سے فارِغ ہو کر وہ اِدھر اُدھر ٹہلتی شاہان کو آواز دینے لگی۔ اُسے پتہ تھا کہ اُس کی ایک آواز پر وہ دوڑا چلا آئے گا۔ اُسے آواز دے کر وہ الماری کھول کر کپڑے سیٹ کرنے لگی۔

ابھی وہ کپڑے سیٹ کر ہی رہی تھی جب دروازے پر کھٹکا ہوا۔

"ہان! آپ ایسا کرو۔ ٹیرس پر چلے جاؤ میں ابھی آتی ہوں پِھر مِل کر کھیلیں گے۔" اُس نے مصروف سے لہجے میں بغیر پلٹے کہا تو وہ شرافت سے سر ہلاتا شرارتی مُسکراہٹ ہونٹوں پہ سجائے ٹیرس پر چلا گیا۔

چشمان نے ایک نظر الماری کا جائزہ لیا اور گہرا سانس بھرتی ٹیرس کی جانِب بڑھنے لگی۔ وہ اوپر پہنچی تو اُسے کوئی نظر نا آیا۔ وہ جا کر اِردگِرد دیکھنے لگی مگر وہاں کِسی کو نا پا کر وہ پلٹنے لگی جب اپنے پیچھے کھڑے بُرہان سے ٹکرائی۔ ایک پل کو وہ سنبھل نا سکی۔ بُرہان نے اُسے بازو سے تھام کر گِرنے سے بچایا اور اُسے سیدھا کھڑا کیا۔ بُرہان پر نظر پڑتے ہی وہ اُس کا ہاتھ جھٹک کر اُس سے کُچھ دور ہوئی۔

"دور رہو مُجھ سے۔ دوبارہ ہاتھ لگانے کی کوشش مت کرنا۔" وہ پھنکارتے لہجے میں بولی۔

"کیوں ہاتھ نا لگاؤں؟ شوہر ہوں تُمہارا۔ حق ہے مُجھے۔" وہ اُس کے قریب ہوتے اُسے دونوں کندھوں سے تھامتا قریب کر گیا کہ وہ اُس کی سانسیں اپنے چہرے پر محسوس کر کے مچل گئی۔

"کوئی حق نہیں ہے تُمہیں۔ بہت جلد تُم سے خُلع لے لوں گی میں۔ پِھر تُم میرے شوہر نہیں رہو گے۔" تلخی سے کہہ کر وہ اُس سے اپنے کندھے چُھڑانے لگی مگر مقابل کی گرفت مضبوط تھی۔

"شوہر تو میں ہی رہوں گا تُمہارا۔ دیکھتا ہوں کیسے مُجھ سے الگ ہوتی ہو۔ اِسے چھوڑو۔ یہ بتاؤ مُجھے یہاں بُلا کر مُجھ سے دور کیوں ہو رہی ہو؟" بُرہان نے دوٹوک کہہ کر نرمی سے پوچھا۔ آنکھیں محبّت سے اُسے تک رہیں تھیں۔

"میں نے تُمہیں نہیں اپنے بیٹے ہان کو بُلایا تھا۔ اور یہ اپنے غلیظ ہاتھ ہٹاو مُجھ پر سے۔" وہ اُس کے منہ کو نوچنے کی کوشش کرتی بولی تو وہ حیرت سے اُسے دیکھنے لگا۔

"یہ جنگلی بِلّی کب سے بن گئی ہو؟ اور ہان تو میرا نِک نیم ہے نا؟ تُم مُجھے ہان کہتی تھی۔۔" بُرہان نے اُس کے کندھے چھوڑ کر اُس کے ہاتھ قابو میں کیے۔ اُس کی تلخ باتوں کو سِرے سے نظر انداز کیا تھا۔

"چچ چھوڑو مُجھے۔ آگ لگاتا ہے تُمہارا لمس مُجھے۔ اِتنی اذیّت ہوتی ہے کہ دِل کرتا خود کو آگ لگا لوں تا کہ تُمہارا لمس میرے وجود سے مِٹ جائے۔ خود سے گِھن آتی ہے مُجھے۔" وہ چیخ کر نفرت سے پُر لہجے میں بولی۔

"اِتنی نفرت مت کرو کہ میں مر جاؤں چشمان! اِتنی نفرت مت کرو کہ یہ وجود اپنا نِشان کھو دے۔ ایک بار معاف کر دو پلیز ایک بار۔" بُرہان نے اُس کے ہاتھ چھوڑتے اُس کے سامنے جُھک کر بیٹھتے ہاتھ جوڑے۔

"کل کے مرتے آج مر جاو بُرہان احمد! مُجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تُم سے تُمہارے وجود سے نفرت ہے مُجھے۔" چشمان نے نفرت سے منہ پھیرا۔

"پِھر شاہان سے اِتنی محبّت کیوں ہے تُمہیں؟ وہ بھی تو میرا خون ہے اُس کا باپ ہوں میں۔" بُرہان نے آنسو پونچھتے پوچھا۔

"میرے بیٹے کا نام بھی مت لو وہ تُمہاری طرح گھٹیا نہیں ہے۔ معصوم ہے وہ۔ صِرف میرا بیٹا ہے وہ۔ میرے وجود کا حِصّہ ہے جِسے میں نے تنہا پالا ہے۔" چشمان نے اُسے سرد لہجے میں ٹوکا۔

"آخری دفعہ معاف کر دو پلیز! ایک دفعہ صِرف ایک موقع دے دو۔" بُرہان نے کھڑے ہوتے اُس سے اِلتجا کی۔

"ایک شرط پر۔" چشمان نے کُچھ سوچ کر کہا۔

"کیا؟" وہ جلدی سے گویا ہوا۔

"تُم مُجھے اپنے نام سے آزاد کر دو میں تُمہیں معاف کر دوں گی۔"

چشمان کی بات سُن کر اُس کی ذات زلزلوں کی زد میں آئی تھی۔

"ساری زندگی معاف مت کرنا مگر خُود سے الگ تُمہیں کبھی نہیں کروں گا۔" دوٹوک انداز میں کہہ کر وہ آگے ہوتا اُس کے ساکت وجود کو گھیرے میں لیتا اُس کی پیشانی پر محبّت بھرا لمس چھوڑتا وہاں سے چلا گیا۔ پیچھے وہ زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔ جانےِ کیوں اُس کے حِصار میں وہ پِگھل سی جاتی تھی۔ اپنے دِل پہ بِٹھائے کڑے پہروں کو وہ ایک بار پِھر سے مضبوط کرتی وہ بوجھل قدموں سے نیچے کی جانِب بڑھی۔


******************



انہیں دیکھنے کی جو لو لگی، تو نصیر دیکھ ہی لیں گے ہم

وہ ہزار آنکھ سے دور ہوں، وہ ہزار پردہ نشیں سہی

(پیر نصیرالدین)

اُس نے ایک ناگوار نظر فون پر ڈالی۔ نمبر کو بلیک لِسٹ میں ڈالا اور شاہان کی طرف متوجّہ ہو گئی جو اُسے کھیلنے کو کہہ رہا تھا۔

"ماما! ہم دادو پاس جائیں؟" وہ بیڈ پر بیٹھی اُس کے ساتھ کھیل رہی تھی جب اُس نے اچانک پوچھا۔

"ابھی بہت رات ہو گئی ہے نا؟ دادا اور دادو سو گئے ہوں گے۔ اب اِس وقت اُنہیں ڈِسٹرب کرنا اچھے بچّوں کا کام تو نہیں اور ہان تو اچھا بچّہ ہے۔ ہم صُبح اُن کے پاس جائیں گے۔" اُس نے شاہان کو بہلایا۔ جانتی تھی کہ صُبح بُرہان ریحان اور حماد کے ساتھ فیکٹری چلا جائے گا۔

"اوکے۔ اب آپ مُجھے سٹولی سُنائیں۔ ایسے مُجھے نینو نہیں آتی۔" شاہان نے بیڈ پر لیٹتے کہا تو وہ اُس کے سر کے نیچے تکیہ سیٹ کرتی اُس پر بلینکٹ ٹھیک کرتی خود بھی اُس کے ستھ دراز ہوئی۔ حسبِ عادت وہ اُس کی کمر کے گِرد ایک بازو حائل کرتا ایک ٹانگ بھی اُس پر رکھ چُکا تھا۔ وہ مُسکراتی اُس کی پُشت کو تھپکتی اُسے کہانی سُنانے لگی۔ جِسے سُنتے سُنتے وہ نیند کی وادیوں میں اُترنے لگا۔ اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے اُسے خود میں بھینچتے وہ خود بھی سب سوچیں جھٹک کر خوابِ خرگوش کے مزے لینے لگی مگر اِس سب میں وہ اپنے کمرے کا دروازہ بند کرنا بھول گئی تھی اور یہ بات وہ نہیں جانتی تھی۔


******************


رات گہری گہری اور گہری ہوتی جا رہی تھی۔ ہر طرف ہُو کا عالم تھا۔ ہر طرف ایک پُراسرار سا سکوت چھایا ہوا تھا جو ہر چیز کو اپنے حِصار میں لے رہا تھا۔ سردی کے اِس موسم میں رات کے وقت ہر طرف دُھند سی چھائی ہوئی تھی کہ ایک چیز دوسری میں مدغم ہوتی محسوس ہوتی تھی۔ دور کہیں جھینگروں کے بولنے کی آواز آ رہی تھی۔

فضا میں ایک اُداسی سی تھی جو بُرہان احمد کو اپنے چاروں طرف چھاتی محسوس ہو رہی تھی۔ اُس کا دِل بوجھل ہو رہا تھا جو بس اِس وقت اپنی مانو کو اور اپنے ہان کو دیکھنے کی خواہش کر رہا تھا۔ اپنے پاگل اور ضِدّی دِل کو سمجھاتے سمجھاتے وہ تھک گیا تھا مگر وہ تھا کہ کُچھ سُننے سمجھنے کو تیار ہی نہیں تھا۔ اپنے دِل کی آواز پر لبّیک کہتے وہ بلینکٹ خود سے ہٹاتا اُٹھا تھا۔ سلیپرز پہنے اور دروازے کی جانِب بڑھا۔ اِس وقت وہ شلوار قمیض میں ملبوس تھا کندھوں پر اپنی گرم چادر اوڑھی اور دروازہ کھول کر دبے قدموں اوپر والے پورشن کی جانِب بڑھنے لگا۔

سب کے ساتھ اچھا وقت گُزار کر اور ڈِنر کرنے کے بعد وہ اپنے کمرے میں چلا آیا تھا۔ تب سے ہی اُس کے دِل میں ایک کسک سی اُٹھ رہی تھی۔ جِس کو مِٹانے کی خاطِر وہ ہر حد توڑتا اب چشمان کے کمرے کے باہِر کھڑا تھا۔ اُس نے دروازہ کو تھوڑا سا دھکیلا تو وہ کُھلتا چلا گیا۔

****************

دِن یونہی گُزرے جا رہے تھے اب تو مارچ کا مہینہ شروع ہو گیا تھا اور سردی کا زور بالکُل ختم ہو چُکا تھا۔ چشمان اب بھی شاہان کے ساتھ تھرڈ والے پورشن میں رہائش پذیر تھی یہ الگ بات تھی کہ شاہان کا سارا دِن سیکنڈ پورشن میں گُزرتا تھا۔ دوپہر کا کھانا بھی وہ نیچے ہی کھاتا تھا۔ رات کو چشمان اُسے لینے آتی تو وہ اُس کے ساتھ اوپر بھاگ جاتا۔ بُرہان کی غیر موجودگی میں چشمان بھی وہیں پائی جاتی تھی مگر جیسے ہی بُرہان کے آنے کا وقت ہوتا وہ خود اوپر چلی جاتی مگر شاہان کو یہیں چھوڑ جاتی کیونکہ جب تک وہ باپ سے نا مِل لیتا اُس کے ساتھ کھیل نا لیتا اُسے چین نہیں پڑتا تھا اور اِس معاملے میں وہ بے بس ہو جاتی تھی کہ اپنے بیٹے کی آنکھوں میں وہ آنسو نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔

سنڈے والے دِن بُرہان کا سارا وقت شاہان کے ساتھ ہی گُزرتا تھا۔ وہ اُسے باہِر لے جاتا۔ جگہ جگہ گُھماتا اور ڈھیر ساری شاپنگ بھی کرواتا۔ بُرہان ابھی بھی احراز کے ساتھ ہی کام کر رہا تھا۔ وہ اُس کے ساتھ بِزنِس میں پارٹنر تھا اِس لیے اُس کا پیچھے ہٹنا بِزنس کو نُقصان دے سکتا تھا اور ریحان نے تو کہا تھا کہ وہ اپنا بِزنس جاری رکھے۔

آج سنڈے تھا سبھی گھر پر تھے۔ شائستہ بیگم اور اذہاد بھی اُن سب کے ساتھ لاونج میں بیٹھے ہوئے تھے۔ شاہان ہانیہ کے ساتھ لگا ہوا تھا جبکہ مرد حضرات نیوز چینل لگائے بیٹھے تھے۔ عریحہ اور فرازیہ ایک طرف بیٹھیں ہوئیں تھیں۔ عریحہ کی گود میں ہانیہ تھی جِس کے ساتھ شاہان باتیں کرتا اُس کے ہاتھ پاوں سے کھیل رہا تھا۔ ہانیہ بھی ہنستی ہوئی اُس کا ساتھ دے رہی تھی۔

رضیہ بیگم اور شائستہ بیگم بڑی امّاں کے کمرے میں بیٹھیں تھیں۔ وہ سب مگن سے انداز میں بیٹھے تھے جب چشمان نیچے آئی۔ وہ حماد صاحب کے پاس گئی۔

"تایا ابّو! آپ سے بات کرنی تھی۔" چشمان نے سنجیدگی سے کہا۔

"ماما!" شاہان اُسے پُکارتا اُس کی ٹانگوں سے لِپٹا۔

"ہاں کہو بیٹا؟" حماد صاحب اُسے لیتے وہاں سے دوسرے صوفے پر آ بیٹھے۔

"آپ نے کہا تھا کہ جو میں چاہوں گی وہی ہو گا؟" چشمان نے یا دہانی کروائی۔ آواز اِتنی اونچی تھی کہ سب کا دِل زور سے دھڑکا۔ بُرہان کو لگا شاید وہ اُس کی جان مانگنے والی ہے۔

"ہاں یاد ہے بیٹا! کہو کیا چاہتی ہو تُم؟" حماد صاحب نے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے اُسے تسلّی دی۔

"مُجھے بُرہان احمد سے طلاق چاہیے۔" اُس کے سرد، بے تاثر لہجے میں کہا گیا فِقرہ وہاں موجود ہر شخص کا دِل توڑ گیا تھا۔ چشمان کے ہاتھ اپنی گود میں بیٹھے شاہان کی پُشت کو سہلا رہے تھے جبکہ چہرہ ہر قِسم کے تاثر سے پاک تھا۔ بُرہان نے زخمی نِگاہوں سے اُس کی جانِب دیکھا۔

"ماما وہ کیا ہوتی ہے؟ مُجھے بھی چاہیے ۔بابا! مُجھے بھی لا دیں گے نا؟" شاہان نے معصومیت سے بُرہان کے دِل پر تیر چلائے۔

"نہیں بیٹا وہ ہر کِسی کو نہیں مِلتی۔ جِن کے نصیب میں کم ظرف لوگ آ جاتے ییں نا؟ اُن کو مِلتی ہے۔" چشمان نے اُس نے بہلایا۔

"سمجھ نہیں آیا ماما؟" اُس نے اُلجھن سے پوچھا۔

"بیٹا آپ جا کے ہانیہ کے ساتھ کھیلو۔" چشمان نے اُس کا دھیان بھٹکایا تواُس کی بُرہان پر نِگاہ اُٹھی جو آنکھوں میں سُرخی اور نمی لیے اُسی پر نِگاہیں گاڑھے بیٹھا تھا۔ کیا کُچھ نہیں تھا اُن نِگاہوں میں۔ معافی کی اِلتِجا، دُکھ، تکلیف، شِکوہ اور پِھر نمی۔ چشمان کا دِل دھک سے رہ گیا وہ شخص رو رہا تھا جِسے ہمیشہ اُس نے مضبوط دیکھا تھا۔ جب بھی وہ اُس سے الگ ہونے کی بات کرتی تھی اُسے بُرہان کی آنکھوں میں آنسو نظر آتے تھے جو اُسے محض دِکھاوا لگتے تھے۔ مگر اب جانےِ کیوں اُس کا دل کیا اُس پر یقین کرنے کو۔ مگر صِرف ایک پل کو اگلے ہی پل وہ اپنے دِل کو ڈپٹ چُکی تھی۔

"ایک دفعہ پِھر سوچ لو بیٹا!" حماد احمد نے کہا وہ نہیں چاہتے تھے کہ اُن کی بیٹی جیسی بہو کی زندگی برباد ہو۔

"میں اچھی طرح سوچ چُکی ہوں۔" بُرہان کی سرخ سیاہ آنکھوں سے نظریں ہٹاتے اُس نے سنجیدگی سے کہا۔

"ٹھیک ہے میں کل ہی پیپر تیار کرواتا ہوں۔" حماد احمد نے کہا تو بُرہان نے اذیّت سے آنکھیں میچیں اور بغیر کِسی کی طرف دیکھے باہِر نِکل گیا۔ اذہاد اور ریحان بھی اُس کے پیچھے گئے تھے۔ حماد احمد اپنے کمرے کی طرف چل دئیے تا کہ سب کو اُس کے فیصلے سے آگاہ کر سکیں۔

"ایک دفعہ پِھر سوچ لیں آپی! شاہان کو ماں اور باپ دونوں کی ضرورت ہے۔ علیحدگی ضروری یے کیا؟" فرازیہ اُٹھ کر چمشان کے پاس آئی جبکہ عریحہ ہانیہ اور شاہان کو لیے اُن کو کھیل میں مصروف کرنے لگی۔

"شاہان کو میں سنبھال لوں گی۔" چشمان نے مضبوطی سے کہا۔

"مگر آپ کے سامنے ابھی ساری زندگی پڑی ہے۔ تنہا عورت کی زندگی بہت مُشکِل ہو جاتی ہے۔ اپنی ماں کو گُھٹ گُھٹ کر جیتے دیکھا ہے میں نے۔ بُرہان بھائی کو معاف کر دیں۔ سب کُچھ بھول جائیں۔ اُنہیں اپنے کیے کا احساس ہو چُکا ہے اپنے کیے کی معافی بھی مانگ رہے ہیں وہ۔ اپنا دِل بڑا کر کے اُنہیں معاف کر دیں۔ آج وہ اپنی انا کو مار کر معافی مانگ رہے ہیں مگر ہیں تو مرد ہی نا؟ کل کو پِھر اکڑ کر آپ کا مُطالبہ مان کر آپ کی ضِد میں دوسری شادی کر لیں گے۔ شاہان کا سوچیں ایک بار۔" فرازیہ نے سنجیدگی سے کہا تو وہ تلخی سے مُسکرائی۔

"جانتی ہو رازی! یہ مردوں کا معاشرہ ہے۔ مرد سو گُناہ کرے تو بھی اُسے کوئی نہیں پوچھتا مگر عورت کا ایک غلط قدم اُسے ساری زندگی کے لیے رُسوا کر جاتا ہے۔ عورت کو ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا ہے اپنے لیے اور اپنے گھر والوں کی عِزّت کے لیے۔ میں نے بھی ہر قدم پھونک کر اور سنبھل کر رکھا تھا مگر پِھر بھی میرے حِصّے میں بدنامی آئی اور وہ بھی میرے ہی شوہر کی وجہ سے۔ میرے ہی شوہر نے مُجھ پر یقین نہیں کیا۔ بچپن سے جانتے تھے نا وہ مُجھے؟ پِھر بھی ایک غلط فہمی کی بُنیاد پر مُجھے میری ہی نظروں میں گِرا دیا۔ میاں بیوی تو ایک دوسرے کا لِباس ہوتے ہیں مگر میرے شوہر نے مُجھے سب کے سامنے بے لِباس کر دیا۔ میری عزّت پہ سوالیہ نِشان لگا دیا۔ آج اگر وہ شرمِندہ ہیں تو اِس لیے کہ اُنہیں پتہ چل گیا ہو گا کہ میں بے قصور تھی۔ اگر اُنہیں میری بے گُناہی کا یقین نا آتا تو شاید وہ شاہان کو اپنا خون ماننے سے ہی اِنکاری ہوتے۔ اور اگر وہ دوسری شادی کرنا بھی چاہیں تو مُجھے کوئی اعتراض نہیں۔ میں تو ویسے بھی اُن کی ان چاہی بیوی تھی اب وہ من چاہی لے آئیں۔۔" چشمان نے اذیّت سے پُر لہجے میں کہا تو وہ گہرا سانس بھر کر رہ گئی۔

"آپ کی ہر بات ٹھیک ہے مگر ایک موقع دے کر تو دیکھیں۔ پہلے خود کے لیے اُنہیں موقع دیا تھا اب کی بار شاہان کے لیے ایک موقع دے کر دیکھیں۔ مُجھے یقین ہے کہ وہ بدل گئے ہیں۔" فرازیہ نے اُسے سمجھانا چاہا۔

"مُجھے اب کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ بدل گئے ہیں۔ اُنہیں میرے کِردار پر شک تھا میری کوئی صفائی اُنہیں میرا یقین نا دِلا سکی تھی۔ کِسی اور کی بات ہر یقین کر کے اُن کو یہ احساس ہو گیا کہ میں بے گُناہ تھی لیکن میری بات پر نہیں۔ جو شخص کانوں کا کچّا اور آنکھوں کا اندھا ہو اُس پر میں دوبارہ کیسے یقین کر لوں اور ویسے بھی مومِن ایک ہی سانپ سے بار بار نہیں ڈسا جاتا۔ بُرہان احمد کی ذات سے مُجھے ہمیشہ تکلیف ہی پہنچی ہے وہ تکلیف جو میں نے کبھی کِسی سے بیان نہیں کی مگر سچ تو یہ ہے کہ بُرہان احمد اِنسان نہیں حیوان ہے۔" تکلیف زدہ سے لہجے میں کہہ کر وہ شاہان کی طرف بڑھی۔ اُسے گود میں اُٹھایا اور اوپر کی جانِب چل دی۔ پیچھے فرازیہ اور عریحہ اُسے دیکھ کر رہ گئیں۔


****************


بُرہان دِن کا نِکلا رات کے دس بجے گھر پہنچا تھا۔ اذہاد اور ریحان کو وہ کہیں نہیں مِل تھا جِس پر وہ نامُراد سے واپس آ گئے تھے۔ دروازہ اذہاد نے کھولا تھا۔بغیر اُس سے کوئی بات کیے وہ اوپر کی جانِب بڑھتا اپنے کمرے میں بند ہو گیا تھا۔ رات کا کھانا بھی اُس نے نہیں کھایا تھا نا اُس کا دِل تھا۔ کھانے کا ہوش بھی کِسے تھا جب دِل کو کوئی نوچ رہا ہو۔

وہ اپنے کمرے میں بیڈ کے ساتھ ٹیک لگائے کارپٹ پر بیٹھا ہوا تھا۔ اُس کا کمرہ جِس میں اُسے چشمان اور شاہان کی مہک محسوس ہوتی تھی، کافی بڑا تھا۔ کمرے کے وسط میں بڑا سا بیڈ تھا، دائیں جانِب ڈراینگ اور اُس سے زرا فاصلے پر ڈرسینگ روم تھا۔ ایک طرف بالکونی کا دروازہ تھا جبکہ بیڈ کے بائیں جانِب زرا فاصلے پر اٹیچ باتھ روم تھا۔ بیڈ کے بالکُل سامنے ایل ای ڈی لگی ہوئی تھی جب کہ ایک طرف دو سِنگل صوفے اور درمیان میں ٹیبل سیٹ کیا ہوا تھا۔ کمرے کی دیواروں پر چشمان اور شاہان کی وہیں تصویریں لگا رکھیں تھیں جو اُس نے فریم کروا کر اپنے فلیٹ میں لگوائیں تھی۔

وہ یک ٹِک اُن تصویروں پر نظریں جمائے چشمان سے مُخاطِب تھا جو اِتنی سنگدِل ہو گئی تھی کہ طلاق جیسا لفظ اپنے منہ سے نِکال کر اُس سے راہیں جُدا کرنے کا فیصلہ کر گئی تھی۔ کِتنی مضبوط ہو گئی تھی وہ۔ اُسے یک دم وہ ساڑھے تین سال پہلے والی روتی بِلکتی چشمان یاد آئی جو اُس کی سختیاں، اُس کا غُصّہ جھیلتی رو پڑتی تھی۔ جو اُس کا اپنے کِردار پر اُٹھا ہر سوال سُن کر رو رو کر اپنی صفائیاں دیتی تھی اور وہ اپنی آنکھوں پر شک کی پٹّی باندھے یقین نہیں کرتا تھا۔

اُس کے بس میں ہوتا تو وہ وقت کو واپس موڑ دیتا۔ مگر بس ہی تو نہیں چلتا تھا۔ چشمان اُسے معاف نہیں کر رہی تھی نا ہی اُس کے ساتھ رہنا چاہتی تھی مگر آج وہ جو کر آیا تھا اُس پر اُسے یقین تھا کہ وہ اُس سے طلاق کا مُطالبہ نہیں کرے گی۔ مگر یہ تو طے تھا کہ وہ ہرگِز بھی اُسے چھوڑنے والا نہیں تھا چاہے سب اُس کے خِلاف ہی ہو جاتے۔

اچانک ہی اُس کا ضبط چھلکا تھا اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا وہ اپنے بے چین دِل کو سمجھا رہا تھا مگر دِل تھا کہ اُس کی قُربت کا خواہاں تھا جو اُس سے نفرت کرتی تھی۔ بے اختیاری تھی کہ بڑھتی جا رہی تھی ساڑھے چار سال وہ اُس سے دور رہا تھا اور یہ عرصہ اُس نے اپنے سکون کے بغیر کیسے گُزارا تھا یہ وہی جانتا تھا یا اُس کا خُدا۔

یک دم وہ اپنی جگہ سے اُٹھا اور اوپر والے پورشن کی جانِب بڑھا۔ تیز تیز قدم اُٹھاتا وہ اُس کے کمرے کے سامنے رُکا۔ دروازہ کھول کر وہ اندر داخِل ہوا اور بیڈ کی جانِب قدم بڑھائے۔ سائیڈ لیمپ کی مدمھم روشنی میں اُسے چشمان کا چہرہ نظر آ رہا تھا مگر شاہان وہاں نہیں تھا۔ شاید وہ نیچے اذہاد کے پاس تھا کیونکہ اکثر وہ اُس کے ساتھ ہی سو جاتا تھا۔ آہستہ سے چشمان کے قریب جگہ پر لیٹ کر وہ اُس کا چہرہ نِہارنے لگا۔ کمبل کھینچ کر خود پر اوڑھ لیا تھا۔ تیکھی ناک پہ اِس وقت کِسی قِسم کا غُصّہ نہیں تھا۔ چہرے پر معصومیت رقصاں تھی۔ ماتھے پر بل پڑے ہوئے تھے جیسے وہ کوئی پریشان کن خواب دیکھ رہی ہو۔ ناک میں پہنی نوز پِن دمک رہی تھی۔

وہ آپستہ سے جُھکا اور اُنگلیوں کی پوروں سے اُس کے چہرے کے نقوش چھونے لگا۔ تنہائی، فسوں خیز ماحول، دِل میں پل پل اُمڈتے محبّت بھرے جذبات اور پہلو میں سوئی اُس کی محرم محبّت۔ بے خود ہوتا وہ بھول گیا تھا کہ یہ حرکت اُس کے لیے کِتنی خطرناک ہو سکتی ہے۔ اُس کے نقوش کو محبّت سے چھوتے وہ اُس کے گیسوء اپنے ہاتھ پہ لپیٹنے لگا تھا۔ اُس کی ذات میں گُم ہوتے وہ سب کُچھ فراموش کر گیا تھا۔


***************


آج شاہان اذہاد کے پاس ہی سو گیا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد وہ اپنے کمرے میں چلی آئی تھی۔ دروازہ اُس نے بھیڑ دیا تھا مگر لاک نہیں کیا تھا کیونکہ کبھی کبھی شاہان اُٹھ کر خود ہی اُس کے پاس چلا آتا تھا۔ وہ پُرسکون سی بیڈ پر لیٹٹی ہی نیند کی وادیوں میں اُتر گئی تھی۔ اپنے فیصلے پر وہ مُطمئن تھی کِسی قِسم کا کوئی پچھتاوا اُس کے سنگ نہیں تھا۔

آدھی رات کا وقت تھا جب اُسے اپنے چہرے پر جانےِ پہچانے لمس کا احساس ہوا۔ اُس گُدگُداتے ہوئے لمس کو پہچانتے اُس کے ماتھے کے بل ختم ہوتے گئے تھے۔ وہ اِس قُربت کی عادی تو نا تھی مگر پہچان تو تھی۔ لاشعور میں اُس کی قُربت کو محسوس کرتے وہ اپنا ہاتھ مقابل کے گال پر رکھ گئی تو مقابل کے ہونٹوں پر مُسکراہٹ چھائی تھی جو وہ دیکھنے سے قاصِر تھی کیونکہ اُس کی آنکھیں بند تھیں۔

لاشعور سے شعور تک آتے وہ وہی لمس اب اپنے بالوں پر محسوس کرتی بے چین ہو اُٹھی تھی۔ وہ آنکھیں کھولنا چاہ رہی تھی مگر یُوں لگتا تھا جیسے کِسی نے اُسے اپنے طِلسم میں باندھ دیا ہو۔ چاہنے کے باوجود وہ آنکھیں نا کھول پائی۔ آہستہ آہستہ وہ احساس ختم ہونے لگا جِس نے اُس کے حواس گُم کر دئیے تھے۔ اُس نے جھٹکے سے آنکھیں کھولیں تو اُس کا پورا وجود پسینے میں ڈوبا ہوا تھا۔ بے اختیار اُٹھ کر بیٹھی تو اُسے اپنے وجود سے الگ سی مہک اُٹھتی محسوس ہوئی۔ ابھی تک اُسے اپنے چہرے اور بالوں پر کِسی کا لمس محسوس ہو رہا تھا وہ لمس جِسے وہ اب بھولنے لگی تھی۔ وہ لمس ایک بار پِھر پوری شِدّت سے اُس کی روح میں اُترا تھا۔

اُس نے کمرے میں اِردگِرد نِگاہ دوڑائی مگر اُسے کہیں بھی کوئی نظر نا آیا۔ گہرا سانس بھر کر اُس نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتے خود کو کمپوز کیا۔ اُس کے دِل کی دھڑکنوں کی رفتار حد سے سوا تھی۔ اُٹھ کر سائیڈ ٹیبل سے گلاس میں پانی ڈال کر پیا۔ ایک بار پِھر سرسری سی نظر کمرے میں دوڑاتی وہ بیڈ پر لیٹتی ہر سوچ سے چُھٹکارا پاتی سونے کی کوشش کرنے لگی۔


**************

اگلا دِن عام دِنوں جیسا ہی تھا۔ مرد حضرات آفس جا چُکے تھے۔ اذہاد اور عریحہ یُونیورسٹی جا چُکے تھے جبکہ چشمان لاونج میں بیٹھی تھی۔ اُس کے پاس ہی باقی سب خواتین بھی براجمان تھیں۔ ہانیہ رضیہ بیگم کی گود میں تھی جبکہ فرازیہ شائستہ بیگم کے پاس بیٹھیں ان سے سویٹر بُننا سیکھ رہی تھی۔

"بلی امّاں! ہانی میلی بہن نہیں ہے نا؟" شاہان نے پوچھا تھا وہ اِس وقت بڑی امّاں کے پاس بیٹھا جانےِ کون سے رازونیاز کر رہا تھا۔

"ہانی آپ کی ہی بہن ہے بِیٹا! آپ سے کِس نے کہا کہ وہ آپ کی بہن نہیں ہے؟" بڑی امّاں نے لاڈ سے پوچھا۔

"مگل وہ تو چاچی کی بیٹی ہے۔ میں اپنی ماما کا بیٹا ہوں پِھل وہ میلی بہن کیسے ہوئی؟" شاہان نے سمجھداری سے کہا تو چشمان گہرا سانس بھر کر رہ گئی۔

"تو بیٹا وہ آپ کی کزن سِسٹر ہے نا۔" چشمان نے کہا تو وہ نفی میں سر ہلانے لگا۔

"مگل مُجھے میلی اپنی بہن چاہیے۔ جِس کی ماما آپ ہوں۔ میلی رئیل والی بے بی سِسٹل۔" وہ اب چشمان کے پاس آتا اُس کے گالوں پہ ہاتھ رکھتا فرمائش کرنے لگا جِسے سُن کر چشمان کو اپنے کانوں سے دُھواں نِکلتا محسوس ہوا جبکہ باقی سب نے ہنسی دباتے اُس کی جانِب دیکھا جِس کا چہرہ ناچاہتے ہوئے بھی سُرخ ہو گیا تھا۔ ابھی پوری طرح بے حِس نہیں ہوئی تھی وہ اور یہ بات اُن کو سمجھ آ گئی تھی۔ چشمان نے سب کی معنی خیز ہنسی پر خفگی سے اُن سب کی جانِب دیکھا اور پِھر شاہان کو گھورا جو اپنی فرمائش کر کے معصومیت سے اُسے دیکھ رہا تھا۔

"بیٹا آپ کے لیے ہانیہ ہے نا۔ وہی آپ کی بے بی سِسٹر ہے۔" چشمان نے اُسے بہلانا چاہا۔

"میلی اپنی بے بی سِسٹل نہیں ہے وہ۔" شاہان ماننے سے اِنکاری تھا۔ اِس سے پہلے کہ وہ کُچھ کہتی دروازے پر بیل ہوئی تھی۔ وہ اُس ایک سائیڈ کرتی دروازہ کھولنے کے لیے نیچے کی جانِب بڑھی۔ پہلے پورشن پہ پہنچ کے اُس نے مین گیٹ کھولا تو سامنے بُرہان کھڑا تھا وہ آج اِتنی جلدی آ گیا تھا ابھی تو اُسے گئے دو گھنٹے ہوئے تھے۔

دروازے پر چشمان کو دیکھ کر وہ مدھم سا مُسکرایا اور آگے کو ہوا۔ اِس سے پہلے کہ چشمان سنبھلتی وہ اُس کے ماتھے کو اپنے لمس سے مُعتبر کر گیا تھا۔ چشمان کو یقین نہیں آیا تھا اور جب یقین آیا تو اُس نے خونخوار نظروں سے اُسے دیکھا تھا جو مُطمئن سا ہاتھ میں چھوٹا سا بیگ اُٹھائے اُسی کو نِہار رہا تھا۔

"اِتنے اچھے ویلکم کے لیے تھینکیو وائفی! روز ایسا ویلکم چاہتا ہوں میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں۔" بُرہان تھوڑا اور نزدیک ہوا تو وہ بوکھلا کر پیچھے ہوئی۔

"بابا۔" اِس سے پہلے کہ وہ اُسے بے نُقط کی سُناتی شاہان چہچہاتا آ چُکا تھا۔

"ارے میرا شیر۔" بُرہان اُسے اُٹھاتا اُس کے گال پر بوسہ دیتے بولا۔ وہ اُن کو دیکھ کر واپس اوپر کی جانِب بڑھنے لگی تو بُرہان بھی شاہان کو اُٹھائے اُس کے پیچھے چل دیا۔

"اور کیا کر رہا تھا میرا شیر؟" بُرہان نے پوچھا تو شاہان نے اپنی فرمائش کا پینڈورا باکس کھولا جِسے سُن کر چشمان سٹپٹا کر رہ گئی

"میں ماما سے کہہ لہا تھا کہ مُجھے اپنی بے بی سِسٹل چاہیے۔ بابا آپ مُجھے لا دو نا بے بی سِسٹل۔ ماما کہتیں ہانیہ ہے مگل وہ نہیں ہے نا۔" شاہان نے کہا تو بُرہان نے آگے چلتی چشمان کو دیکھا پِھر اُس کے برابر آتا دایاں ہاتھ اُس کی کمر میں ڈال گیا یُوں کہ اب بائیں ہاتھ میں شاہان کو اُٹھا رکھا تھا۔ چشمان نے اُسے غُصّے سے گھورا جو شاہان کی پرواہ کیے بغیر اپنی چھِچھوری حرکتوں پر اُترا ہوا تھا۔

"ہم بہت جلد تُمہارے لیے بے بی سِسٹر لے آئیں گے ہیں نا مانو؟" جذبات سے بوجھل لہجے میں کہتے وہ اُس کی کمر پر دباو بڑھا گیا تو وہ آنکھوں میں نمی لیے اُسے دیکھنے لگی۔ شاہان کے سامنے وہ کُچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھی جِس کا وہ شخص فائدہ اُٹھا رہا تھا۔

"ہاں جیسے پہلے مم مُجھے اپنی ننن نفرت کا نِشانہ بنایا تھا اا اب بھی وہی کر کک کے مُجھے میری ہی نن نظروں میں گِرا دینا۔" حلق میں کُچھ اٹکا تھا جِس سے وہ اٹک اٹک کر بولی تھی۔

وہ کُچھ بھی سُنے بغیر اُس کا ہاتھ جھٹک کر آنکھوں میں آنسو لیے اوپر کی جانِب بھاگی۔ وہ گہرا سانس بھرتا شاہان کو لیے اوپر آیا تو وہ کہیں نہیں تھی۔ اُس نے سب کو سلام کیا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ شاہان بڑی امّاں کے پاس چلا گیا تھا۔


***************


اوپر آنے کے بعد وہ کافی دیر روتی رہی تھی۔ کیا کرتی وہ؟ آخر تھی تو وہ بھی ایک عورت۔ جو اپنے شوہر سے بہت محبّت کرتی ہے جو اپنے لیے ایک گھر چاہتی ہے جِس میں وہ اپنے بچوں اور شوہر کے ساتھ ہنسی خوشی رہے۔ جِسے وہ اپنے ہاتھوں سے سجائے، سنوارے۔ عام عورت کی طرح اُس کے بھی کُچھ خواب تھے کہ وہ اپنے ہم سفر کی ہمراہی میں ایک حسین زندگی جیے۔ جہاں صِرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوں۔ شوہر مِلا تھا اُس کا گھر بھی مِلا تھا مگر اُسے سنوارنے کی نوبت ہی نہیں آئی تھی۔ اپنے دِل کی ساری تلخی اور نفرت اُس کے وجود کی زینت بنا کر وہ اُسے آدھے راستے میں ہی چھوڑ گیا تھا۔ جو پہلے ہی اُسے چھوڑ کر چلا گیا تھا دوبارہ اُسی پر کیسے یقین کرتی۔ ایک بار پِھر اُس شخص پر یقین کرنا جوا کھیلنے کے مُترادِف تھا۔ اُس شخص پر یقین کرنا جِس نے کبھی اُسے اپنی ذات کا اعتماد نہیں بخشا تھا دوسری بار اپنی غلطی دُہرانے کے مُترادف تھا۔ وہ ایک بار پِھر اُسے چھوڑ جاتا تو؟ محبّت تو نہیں کرتا تھا وہ اُس سے۔ صِرف اپنے بیٹے کی خاطِر آیا تھا تو کیا گارنٹی تھی کہ وہ اُسے خوش رکھے گا۔ محبّت تو وہ تب بھی نہیں کرتا تھا جب اُن کی شادی ہوئی تھی نا ہی تب جب اُس پہ اپنا حق جماتے اُس کے وجود پہ اپنی چھاپ چھوڑی تھی تو اب کیسے کر لیتا وہ اُس سے محبّت۔

چاہے جانے کا احساس دُنیا کا سب سے حسین اور دِلکش احساس ہوتا ہے۔ جب دِل کو معلوم ہوتا ہے کہ ہاں کوئی ہے جِس کے لیے ہم اہم ہیں۔ جِس کے لیے ہماری خوشی معنی رکھتی ہے۔ کوئی ہے جِسے ہمارے دُکھ اور تکلیف سے فرق پڑتا ہے۔ چاہے جانا تو ہر عورت کی چاہت ہوتی ہے۔ اُسے بھی چاہت تھی کہ اُسے چاہا جائے اور یہ چاہت اُسے اپنے شوہر سے تھی۔ اُن کا رِشتہ بدلا تھا چشمان کے دِل کی دُنیا بھی بدلی تھی مگر بُرہان احمد اُس پہ مہربان نا ہو سکا تھا۔ پِھر اب کیسے اُس پر یقین کر لیتی۔

اُس نے یہ ساڑھے چار سال پہلے مایوسی اور پِھر صبر سے کاٹے تھے۔ اُسے نہیں پتہ تھا کہ ایک دِن بُرہان احمد اُس کے سامنے آ کر کھڑا ہو جائے گا اور اُمید رکھے گا کہ وہ سب بھول کر اُس کے ساتھ ایک نئی زِندگی شروع کرے گی۔ چشمان کو اپنی خوداری بہت عزیز تھی۔ وہ اُس کا گُنہگار تھا اُس کی کردار کشی کرنے کا گُناہ کیا تھا اُس نے۔ پِھر کیسے وہ سب بھول کر اُس کے ساتھ نئے سِرے سے زندگی شروع کرتی۔ یہ سب اُس کے لیے بہت مُشکِل تھا مگر بُرہان کو وہ بھول نہیں سکتی تھی یہ بھی سچ تھا۔ جب جب وہ اُس کے قریب آتا وہ سب بھولنے لگتی تھی۔

اُسے بُرہان کا سامنا کرنا تھا۔ اب تو روز ہی ٹکراو ہو گا وہ ایک جگہ پر بند ہو کر نہیں رہ سکتی تھی۔ بُرہان کا سامنا کرتی تو شاید ہمّت پیدا ہوتی اپنے فیصلے پر قائم رہنے کی۔

اُس نے باتھ روم جا کر چہرہ دھویا اور خود کو کمپوز کیا۔ دوپٹہ سر پر درست کرتے وہ نیچے کی جانِب بڑھی۔


**************


بُرہان سب کے ساتھ بیٹھا تھا گود میں شاہان کو اُٹھا رکھا تھا جو چشمان کی لاکھ احتیاط کے باوجود اُسی کے پاس پایا جاتا تھا۔ اِس وقت بھی وہ بُرہان سے باتیں کر رہا تھا جب چشمان سُرخ ہوتا چہرہ لیے وہاں آئی اور بڑی امّاں کے پاس بیٹھ گئی۔

"مانو آپی! کل ہم بازار چلیں گے۔ ہانیہ کے لیے کُچھ شاپنگ کرنی ہے۔" فرازیہ نے ہانیہ کو جھلاتے ہوئے اُسے مُخاطِب کیا۔

"ہاں ٹھیک ہے۔" اُس نے سر ہلا دیا۔ اُس کا گُم صم انداز دیکھ کر بڑی امّاں نے اُس کی جانب غور سے دیکھا۔

"کیا بات ہے بیٹا؟" اُنہوں نے نرمی سے پوچھا تو وہ نفی میں سر ہلا گئی

"کُچھ نہیں بڑی امّاں! ٹھیک ہوں میں۔" اُس کا یہ جُملہ سُن کر اُس کا ہم سفر جان گیا تھا کہ وہ بالکُل ٹھیک نہیں تھی۔

"ہانی بیٹا! آپ میرے کمرے میں جاؤ۔ میں آپ کے لیے چاکلیٹ لایا تھا بیگ میں ہوں گی جا کر لے لیں آپ۔" بُرہان نے شاہان سے کہا تو وہ چیختا کمرے کی جانِب بڑھا۔

"آہمم۔ تو تُمہیں مُجھ سے علحیدگی چاہیے؟" بُرہان کے مُخاطِب کرنے پر اُس کا دِل ناخُوشگوار انداز میں دھڑکا تھا۔ یہی تو وہ چاہتی تھی پِھر بے سکونی کیوں تھی اُسے؟

ہہ ہاں چچ چاہیے۔" اُس کے لہجے کی لڑکھڑاہٹ بُرہان احمد کے ہونٹوں پہ مُسکراہٹ کے پھول کِھلا گئی تھی۔

"پِھر شاہان کو بھول جاؤ۔" اُس نے پُرسکون لہجے میں کہا تو چشمان نے سُرخ ہوتی آنکھوں سے اُسے گھورا۔

"میرا بیٹا ہے وہ۔ کیوں بھول جاؤں؟" اُس نے تلخی سے پوچھا۔

"میں عدالت میں کیس دائر کرنے والا ہوں اُس کی کسٹڈی کا۔ تُم بغیر کِسی وجہ کے مُجھ سے طلاق لینا چاہتی ہو تو ظاہِر ہے عدالت کبھی بھی ایسی عورت کو ایک بچّے کی تربیت نہیں سونپے گی جو بغیر وجہ کے اپنے شوہر سے علیحدگی چاہے۔ پِھر عدالت کا فیصلہ میرے حق میں ہو گا۔ تُمہیں طلاق مِل جائے گی اور مُجھے میرا بیٹا۔" بُرہان کے پُرسکون لہجے نے چشمان کو آگ لگائی تھی اور وہ وہ بول چُکی تھی جو وہ پِچھلے ساڑھے چار سال سے اپنے آپ کو بھی نہیں بتا سکتی تھی۔

"یہ وجہ کافی نہیں کہ میں تُمہارے جیسے گھٹیا اِنسان کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی۔ بغیر رُخصتی کے مُجھ پہ اپنی سوکالڈ مردانگی ثابت کی تھی تُم نے۔ یہ کافی نہیں کہ حیوانوں کی طرح مُجھے مارتے تھے تُم؟" چشمان کی سرد لہجے میں کہی گئی بات سُن کر وہاں موجود ہر ایک کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ سب نے بے یقینی سے بُرہان کی جانِب دیکھا تھا جو فق ہوتا چہرہ لیے زمین پر نظریں گاڑھ گیا تھا۔ اُس کا جُھکا سر اور خاموشی چشمان کی بات پر سچائی کی مہر لگا گئے تھے۔

"بب بُرہان نن نہیں میرا بب بیٹا نن نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" رضیہ بیگم اپنے کمرے کے دروازے پر بولتی ایک دم سے ڈھے گئیں تھیں جبکہ اُن کے پاس کھڑی شائستہ بیگم اُنہیں سبھالنے میں ناکام ہوتیں اُن کے ساتھ ہی نیچے بیٹھتیں چلی گئیں تھیں۔

"اا امّی۔" اُن کی آواز سُن کے وہ بھاگا تھا اُن کی جانِب۔ اُن کے قریب دو زانو بیٹھ کر اُن کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھاما تھا۔ چشمان بھی دوڑتی اُن کے پاس آئی تھی۔ رضیہ بیگم کا ایک ہاتھ اپنے دِل پر تھا۔

فرازیہ اور بڑی امّاں بھی اُن کے پاس چلے آئے تھے۔ شاہان جو چاکلیٹ کھاتا باہر آیا تھا سب کو پریشان دیکھ کر اپنی ماں سے لِپٹ گیا تھا۔

"دادو کو کیا ہوا؟" وہ پریشانی سے پوچھنے لگا مگر وہاں ہوش کِسے تھا۔ بُرہان نے جلدی سے اُن کو اُٹھایا۔

"چادر لے کے آو۔" تیزی سے کہہ کر وہ نیچے کی جانِب بھاگا تو وہ سر ہلاتی بڑی امّاں کے کمرے میں گئی وہاں سے اُن کی چادر نِکالتی وہ تیزی سے نیچے پہنچی۔ روتے ہوئے شاہان کو شائستہ بیگم نے سنبھال لیا تھا۔ فرازیہ نے فون کر کے ریحان کو اِطلاع دی تھی جو حماد صاحب کو بتانے اُن کے کیبن کی جانِب بھاگا تھا۔

وہ رضیہ بیگم کا سر گود میں لیے پِچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی تھی۔ بُرہان نے گاڑی سٹارٹ کرتے ہسپتال کے راستے پر ڈالی تھی۔ ریش ڈرائینوگ کرتے وہ بر بار پیچھے دیکھ رہا تھا جہاں چشمان حواس باختہ سی رضیہ بیگم کے ہاتھ سہلا رہی تھی۔ آنکھوں سے آنسو رواں تھے جب کہ ہونٹ مسلسل آیتہ الکُرسی کا وِرد کر رہے تھے۔ اگلے بیس مِنٹوں میں وہ ہسپتال پہنچ چُکے تھے۔

گارِ کا دروازہ کھول کر وہ پریشان سا تیزی سے باہِر نِکلا تھا۔ چشمان کی طرف کا دروازہ کھول کر اُس نے احتیاط سے رضیہ بیگم کو باہِر نِکال کر بازووں میں اُٹھایا اور اندر کی جانِب بھاگا تھا۔ چشمان بھی خُود کو سنبھالتی اُس کے پیچھے بھاگی تھی۔

رضیہ بیگم کو اسٹریچر پر ڈال کر ایمرجنسی میں لے جایا گیا تھا۔ بُرہان شکِست خوردہ سا ایمرجنسی روم کے باہِر دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا تھا۔ آنکھیں ضبط ِ غم سے سُرخ ہو رہیں تھیں۔ دِل بوجھل تھا تو دماغ سن۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اچانک سے ہُوا کیا ہے۔ چشمان اُس پر ایک نظر ڈال کر چئیر پر بیٹھ گئی تھی۔ دِل تشویش میں مُبتلا تھا لبوں پر بس ایک ہی دُعا تھی کہ رضیہ بیگم ٹھیک ہو جائیں۔ خُود پہ بے اِنتہا غُصّہ آ رہا تھا یہ سب اُسی کی وجہ سے تو ہُوا تھا اگر وہ خُود پہ قابو رکھ لیتی تو آج یہ سب نا ہوتا۔

ہسپتال کے ٹھنڈے اور یخ بستہ ماحول میں دوائیوں کی مہک رچی ہوئی تھی۔ لوگ یہاں سے وہاں گُزرتے اپنے پیاروں کے لیے پریشان حال دِکھائی دیتے تھے۔ کاریڈور کے سرد فرش پہ نظریں جمائے وہ پینٹ شرٹ میں ملبوس سردی سے بے نیاز نظر آ رہا تھا۔ اِس وقت دِل میں صِرف ماں کی فِکر تھی جو اُس کی وجہ سے آج اِس حال کو پہنچ گئی تھی۔ کوئی بھی ماں اپنے بیٹے کے بارے میں وہ سب نہیں سُن سکتی جو چشمان نے کہا تھا مگر جو بھی اُس نے کہا تھا وہ تھا تو سچ ہی اِسی لیے تو اُسے چشمان سے کوئی شِکوہ نہیں تھا۔

اُس نے ایک نظر سر جُھکائے بیٹھی چشمان پر ڈالی اور پِھر ایمرجنسی روم کے اوپر جلتی سُرخ بتی کو دیکھنے لگا۔ سامنے لگے دروازے کے پار اُس کی جنّت زِندگی اور موت کے بیچ جُھول رہی تھی۔

"ماں" کہنے کو تین لفظوں کا مجموعہ ہے جو اپنے اندر پوری کائنات کو سمیٹے ہوئے ہے۔ اِس ایک رِشتے سے اِنسان کے سبھی جذبات مُنسلک ہوتے ہیں۔ دوست، خیرخُواہ، ہمدرد، اور سب سے بڑھ کر ہماری ہر بات کو بغیر کہے سمجھنے والی ہستی ماں ہی کی ہوتی ہے جو بے غرض ہو کر اپنی اولاد کو چاہتی ہے۔ اِس سب سے بے نیاز کہ اُسے کوئی صِلہ بھی مِلے گا۔ دُنیا کی ہر مُشکل کو خُود پہ سہہ کر اپنی اولاد کے سامنے ڈٹ کر ڈھال بننے والی یہ ہستی انمول ہوتی ہے جِس کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔ مگر جب اِسی ہستی کا اپنی اولاد پہ کیا مان اور بھروسہ ٹوٹتا ہے نا تو اُس کے پاس کُچھ نہیں بچتا۔ اُس کی سانسوں کی ڈور تو یہ سوچتے ہی تھمنے لگتی ہے کہ اُس کی تربیت پہ حرف اُٹھایا جائے گا۔ جِس اولاد کی تربیت میں اُس نے اپنی حیات لگا دی اُسی تربیت پہ جب سوال اُٹھنے کا خدشہ ہو تو سانسیں بڑی تھم کر چلتی ہیں۔

اور یہی سب کُچھ رضیہ بیگم کے ساتھ ہوا تھا۔ بُرہان اُن کا بڑا اور سب سے لاڈلا بیٹا تھا جِس کے ناز نخرے اُنہوں نے بغیر کِسی اعتراض کے اُٹھائے تھے۔ جِس پہ اُنہیں مان تھا کیونکہ وہ اُن کا سُلجھا ہوا بہت فرمانبردار بیٹا تھا۔ اُس کے بارے میں ایسی بات سُن کر ہی وہ زِندگی سے دور جانے لگیں تھیں۔ اُنہوں نے تو ایسا کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا کہ اُن کا بھرم یُوں ٹوٹ کر کِرچی کِرچی ہو جائے گا۔ وہ کہتے ہیں نا کہ جب دِل ٹوٹتا ہے تو بہت تکلیف ہے مگر جب بھرم ٹوٹتا ہے تو کُچھ نہیں بچتا۔ رضیہ بیگم تو شرمندگی میں گھری زِندگی سے ہی منہ موڑنے کو تیار ہو گئیں تھیں۔

وہ ساکت سا دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا تھا جب کوریڈور کے فرش پر دھپ دھپ قدموں کی آواز سُنائی دینے لگی۔ وہ آواز اب قریب ہوتی جا رہی تھی۔ اِن قدموں کی آوازیں اُس کی سماعتوں میں تلخی گھولنے لگی تھی۔ وہ اِس وقت خاموشی چاہتا تھا مکمّل سکوت چاہتا تھا۔ جیسا سنّاٹا اُس کے اندر تھا ویسا ہی سنّاٹا وہ اپنے اندر چاہتا تھا مگر چاہنے سے کیا ہوتا ہے۔ دُنیا ہمارے کہے پر چلے یہ ضروری بھی تو نہیں۔ اُس کے اندر باہِر کی خاموشی کو حماد صاحب کی پریشان کن آواز نے توڑا تھا۔


************

"مانو! بیٹا کیا ہوا تُمہاری تائی کو؟ فرازیہ نے بھی کُچھ نہیں بتایا۔ کُچھ بتاؤ تو سہی میرا دِل گھبرا رہا ہے۔" حماد صاحب نے بُرہان کو نظر انداز کیے چشمان کے پاس بیٹھتے اُس کے سر پر ہاتھ رکھ کر پوچھا تھا۔ جبکہ ریحان بُرہان کی جانِب بڑھا تھا جِس کی سُرخ نظریں ایمرجنسی روم کے سُرخ بلب پر جمی ہوئی تھیں

حماد صاحب کے پوچھنے پر چشمان نے نظریں چُرائیں تھیں وہ کیا بتاتی کہ اُسی کی وجہ سے یہ سب ہوا تھا۔ وہ بات ہی اِتنی شرمناک تھی کہ وہ اپنے منہ سے بتانے کا یارا بھی نہیں رکھتی تھی۔

"امی کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے بابا۔" جواب بُرہان نے دیا تھا۔ حماد صاحب کا سوال اُس کی سماعتوں سے مخفی نہیں رہا تھا۔ حماد صاحب نے پریشانی سے اُس کی جانِب دیکھا تھا مگر پِھر اُس کا بے تاثر چہرہ دیکھ کر نظریں موڑ گئے اور چشمان کے سر پر ہاتھ رکھا جو ایک بار پِھر بے آواز رو رہی تھی۔

"بھائی! امّی تو بالکُل ٹھیک تھیں پِھر ایسے کیسے ہو گیا؟" ریحان نے اُسے بازو سے پکڑ کر چئیر پر بِٹھایا تھا۔

"دُعا کرو ریحان! کہ وہ ٹھیک ہو جائیں کُچھ اور کھونے کا حوصلہ نہیں ہے مُجھ میں۔" بُرہان نے ضبط سے سُرخ پڑتی آنکھیں میچ کر کہا۔

"پریشان مت ہوں وہ ٹھیک ہو جائیں گی۔" ریحان نے اُسے تسلّی دی۔

ابھی وہ سب پریشان حال سے چئیرز ر بیٹھے تھے جب اُنہیں دور سے اذہاد کے ساتھ شائستہ بیگم اور شاہان آتا دِکھائی دیا۔ شاہان کو اذہاد نے اُٹھا رکھا تھا۔ اُن کے قریب پہنچ کر اُس نے شاہان کو نیچے اُتارا تو وہ بھاگ کر بُرہان سے لِپٹ گیا۔

"بابا آپ مُجھے چھول (چھوڑ) کر پِھل (پِھر) چلے گئے تھے؟" شاہان کے سوال پر بُرہان کا دِل کِسی نے جیسے تند چُھری سے کاٹا تھا۔

"نہیں بیٹا! بابا آپ کو چھوڑ کر کہیں نہیں گئے تھے۔ بابا یہیں ہیں آپ کے پاس۔" بُرہان نے اُسے اُٹھا کے گود میں بِٹھایا تو وہ اُس کے گلے میں بانہیں ڈال کر اُس سے لِپٹ گیا۔ چشمان نے ڈبڈبائی نظروں سے شاہان کو دیکھا تھا۔ کِتنا ترسا تھا وہ اپنے باپ کے پیار کو۔ اب تو اُس کو کھونے سے بھی ڈرنے لگا تھا۔

"اب کیسی طبیعت ہے آپا کی؟ ڈاکٹر نے کیا بتایا؟" شائستہ بیگم نے فِکر مندی سے اِستفسار کیا۔

"ابھی تک ڈاکٹر باہِر نہیں آئے کُچھ بتایا نہیں ابھی تک۔" چشمان نے بھرائے لہجے میں جواب دیا تو وہ اُس کے قریب بیٹھتی اُسے حوصلہ دینے لگیں۔ ماں تھیں وہ اُس کی۔ اُس کے منہ سے یہ تلخ حقیقت جان کر تو وہ بھی انگشتِ بدنداں رہ گئیں تھیں۔ سب کی طرح وہ بھی اپنی بیٹی کے غم سے لاعِلم ہی رہ گئیں تھیں۔ مگر اب کر بھی کیا سکتیں تھیں؟ عام روایتی ماں کی طرح اُن کی بھی خُواہش تھی کہ وہ اپنے گھر میں بس جائے اُس کی زِندگی میں بھی خُوشیاں آئیں۔ کب تک وہ اُسے روتے سِکستے دیکھتیں رہتیں؟ وہ آج تھیں کل نہیں پِھر کون ہوتا اُس کا پُرسانِ حال؟ بُرہان جیسا بھی تھا جِتنا بھی بُرا کیا تھا تو اُس کا شوہر ہی نا۔ آج معاف کر دیتی تو آنے والی زِندگی بہت خُوشگوار گُزرتی اُس کی۔ مگر اُنہیں اب اندازہ ہوا تھا کہ اُس کی یہ تلخی اور نفرت یُوں ہی نہیں تھی۔ بُرہان کا کیا وہ سب سے چُھپاتی رہی تھی کبھی بتایا یوتا تو وہ جان پاتے کہ اُن کی لاڈوں سح پلی بیٹی کِس اذیّت سے گُزری تھی۔

"پریشان مت ہو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اللّٰہ پاک رحم کرے گا۔" اُنہوں نے اُسے ساتھ لگاتے تسلّی دی تھی۔ حماد صاحب اور اذہاد صاحب اب ریحان کے ساتھ ہی چئیرز پر بیٹھے تھے۔ سب کے دِل بس اندر موجود ہستی کی صحت یابی کے لیے دُعا گو تھے۔

تقریباً دو گھنٹے کے طویل اِنتظار کے بعد ڈاکٹر باہر آئے تھے۔ بُرہان شاہان کو چئیر پہ بِٹھاتا ڈاکٹر کی جانِب بڑھا۔ باقی سب بھی ڈاکٹر کو گھیر کر کھڑے ہو گئے تھے۔

"ڈاکٹر صاحب! کیسی طبیعت ہے اب امیّ کی؟" بُرہان نے بے چینی سے اِستفسار کیا۔ شاہان چئیر سے اُٹھ کر اُس کی ٹانگوں سے لِپٹ کر کھڑا ہو گیا۔

"پیشنٹ کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ آپ لوگ بروقت ہاسپِٹل لے آئے ورنہ زیادہ دیری اُن کی جان کو نِگل بھی سکتی تھی۔ ابھی وہ خطرے سے باہِر ہیں مگر ابھی ہوش میں نہیں ہیں۔ اُمید ہے کہ جلدی ہوش بھی آ جائے گا۔" ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ انداز میں بتایا تو وہ سکون بھرا سانس بھر گئے۔ رضیہ بیگم ٹھیک تھیں یہ خبر ہی خُوش کن تھی۔

شُکریہ ڈاکٹر صاحب!" حماد صاحب نے کہا تو وہ مُسکراتے آگے بڑھ گئے۔

کُچھ دیر بعد رضیہ بیگم کو روم میں شِفٹ کر دیا گیا تھا۔ وہ سب اُن کے روم میں جمع تھے۔ شاہان تو ٹُکر ٹُکر رضیہ بیگم اور باقی سب کے پریشان حال چہرے دیکھ رہا تھا۔

"دادو کو کیا ہوا؟" اُس نے چشمان کا پلّو کھینچتے پوچھا تو وہ اُس کی جانِب متوجّہ ہوئی۔

"دادو ٹھیک نہیں ہیں بیٹا! آپ دادو کے لیے اللّٰہ پاک سے دُعا کرو کہ وہ ٹھیک ہو جائیں۔" چشمان نے اُس کے بال سہلاتے کہا اور اُس کی جیکٹ ٹھیک کی۔ شاہان نے سمجھ کر اپنے دونوں ہاتھ اُٹھائے اور آنکھیں بند کیے منہ ہی منہ میں کُچھ بڑبڑانے لگا۔ اُس کی معصومیت کو دیکھتے سب مُسکرائے۔

وہ سب وہیں موجود تھے جب رضیہ بیگم کو ہوش آنے لگا۔ سب اُن کی طرف متوجّہ ہوئے۔ چشمان اُن کا ہاتھ تھام کر وہ نم آنکھوں سے اُن کے ُپژمردہ چہرے کو دیکھنے لگی۔ آہستہ آہستہ وہ آنکھیں کھولتیں سب پر نظریں ڈالنے لگیں۔ بُرہان اُن کے پیرہانے کی طرف کھڑا تھا۔ جبکہ اُن کے دائیں طرف ریحان اور حماد صاحب تھے۔ اُن کے بیڈ کے بائیں جانِب شائستہ بیگم کھٹیں تھیں جو منہ میں آیتہ اُلکرسی کا وِرد کرتیں اُن پر پھونک رہیں تھیں۔ چشمان کی کُرسی کے پیچھے اذہاد شاہان کو گود میں اُٹھائے کھڑا تھا جو رضیہ بیگم کی آہستہ آہستہ کُھلتی آنکھوں کو دیکھ رہا تھا۔

اُن کے ہوش آنے پر سب نے خُدا کا شُکر ادا کیا تھا سبھی اُن سے اُن کی طبیعت کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ وہ سب کے سوالوں کے جواب مدھم سی آواز میں دے رہیں تھیں۔ سب سے بات کرنے کے بعد وہ بُرہان کی جانِب متوجّہ ہوئیں تھیں۔

"مم مانو! کک کیا تُم اب بھی اا اپنے فیصلے پر قق قائم ہو؟" اُنہوں نے بُرہان پر نظریں جمائے چشمان سے سوال کیا تھا جبکہ اُن کے سوال پر سب ہی چونک گئے تھے۔ سوال کا پسِ منظر سبھی بخوبی سمجھتے تھے۔

"تائی امیّ! ابھی آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں یے۔ ہم گھر چل کر اِس بارے میں بات کریں گے آپ آرام کریں؟" چشمان نے زرد رنگتے لیے اُنہیں ٹالا تھا جبکہ بُرہان یک ٹِک اپنی ماں کی طرف دیکھ رہ تھا۔

"نن نہیں۔ ابھی بتاؤ مُجھے۔" اُنہوں نے ضِدّی لہجے میں کہا تو وہ گرا سانس بھر کر رہ گئی۔

"جج جی!" اُس نے کپکپاتے لہجے میں جواب دیا تھا۔

"ماما کو کیا ہوا نانو! وہ لو کیوں لہیں ہیں؟ بابا ماما کو چُپ کلائیں نا؟" شاہان نے بُرہان سے کہا مگر اُس کا ذہن تو جیسے سن پڑ گیا تھا۔

باقی سب خاموشی سے چہرے پر پریشانی کے تاثرات سجائے اُن کو دیکھ رہے تھے۔

"بُرہان احمد! ابھی کک کے ابھی چچ چشمان کو طط طلاق دو۔" رضیہ بیگم نے سرد لہجے میں اٹک اٹک کر کہا تو سب کی سماعتوں پہ جیسے بم پھوٹا۔

"اا امّی!" بُرہان درد بھری آواز میں اُنہیں پُکار کر رہ گیا تھا۔ ریحان نے بے بسی سے اُس کی دگرگوں ہوتی حالت کو دیکھا تھا۔ آنکھیں جو پہلے ہی سُرخ تھیں اب تو لہو چھلکانے لگیں تھیں۔

شائستہ بیگم خاموش تھیں۔ جو کُچھ آج اُنہیں پتہ چلا تھا اُس پر وہ چپپ ہو کر رہ گئیں تھیں۔ کیا کہتیں بُرہان نے تو کُچھ کہنے کو چھوڑا ہی نا تھا۔ آج اُنہیں سمجھ آیا تھا کہ اُن کی بیٹی کِس اذیّت سے گُزری تھی۔ باپ نے آخری سانسوں میں اُس کے روشن مستقبل کی خاطِر اُسے بُرہان کو سونپا تھا مگر وہی سہارا کھوکھلا نِکلا تھا۔

"بیگم! ہم گھر جا کر اِس مسلے پر بات کر سکتے ہیں۔ ابھی کیا ضرورت ہے؟" حماد صاحب نے سمجھانا چاہا تھا۔ سچ تو یہ تھا کہ وہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ اُن کے بچّوں کا گھر ٹوٹے۔ کہیں نا کہیں اُنہیں اُمید تھی کہ وہ مان جائے گی اور بُرہان سے علیحدہ نہیں ہو گی اِسی لیے اُنہوں نے اب تک طلاق کے پیپرز بھی نہیں بنوائے تھے۔

"نہیں میں اا ابھی اِس کے مم منہ سے وہ تت تین بول سُننا چاہتی ہوں جج جو چشمان کی آزادی کا پپ پروانہ ہیں۔" رضیہ بیگم نے بے تاثر لہجے میں جواب دیا تھا۔ بُرہان کی آنکھوں سے آنسو بہتے اُس کے گالوں کو بھگونے لگے تھے۔ وہ بے بسی کی عملی تصویر بنا کھڑا تھا۔

"بابا کیوں لو (رو) لہے ہیں؟ کیا ہوا بابا؟ ماما بابا کو چُپ کلائیں (کرائیں) نا۔" شاہان نے بُرہان کے نم چہرے کو دیکھ کر اذہاد کے ہاتھوں سے جھُک کر چشمان کے کندھے کو چھوا تھا۔

"کُچھ نہیں ہوا بیٹا! آو میں آپ کو آئس کریم کِھلا کر لاتا ہوں۔" اذہاد ریحان کے اِشارے پر اُسے لیتا باہِر نِکلتا چلا گیا تھا۔

"امّی! پلیز ایسے مت کہیں۔ سب کُچھ بِگڑ جائے گا۔ آپ کو تو چشمان کو سمجھانا چاہیے اور اب آپ بھی اُسی کا ساتھ دے رہیں ہیں۔" ریحان نے رضیہ بیگم کے پاس بیٹھتے اُن کا ہاتھ تھاما تھا۔

"یہ جو کُچھ کر چچ چُکا ہے اِس کک کے بدلے مم میں یہ بہت کک کم سزا ہے۔ یہ تو اِنسان کک کہلانے کے بھی للل لائق نہیں۔" رضیہ بیگم نے کپکپاتے لہجے میں کہا تھا۔

"ایک آخری موقع دے دیں امّی! کبھی شِکایت کا موقع نہیں دوں گا۔ کبھی اپنا گُناہ نہیں دُہراوں گا۔ ایک دفعہ معاف کر دیں بس۔" وہ اُن کے پیروں پہ ہاتھ رکھتا سر جُھکائے مِنّت کرنے لگا۔ چشمان خاموش بیٹھی تھی۔ نظریں کِسی غیر مرئی نُقطے پہ جمیں ہوئیں تھیں۔

"افسوس ہہ ہوتا ہے کہ تُم میرے بب بیٹے ہو۔ نجانےِ کیا کمی رہ گگ گئی تھی مم میری تت تربیت میں جج جو تت تُم اِتنا بڑا گُناہ کر بیٹھے۔" رضیہ بیگم کی سانس اُکھڑنے لگی تھی۔ چشمان نے اُن کے ہاتھ سہلائے مگر اُن کی طبیعت بِگڑتی جا رہی تھی۔

"ررر ریحان ڈاکٹر کو بُلاو جلدی۔" شائستہ بیگم نے ریحان سے کہا تو وہ باہِر کی جانِب بھاگا۔ شائستہ بیگم پریشان سی اُن کی صحت کے لیے دُعا کر رہیں تھیں۔

"طط طلاق دد دو چچ چشمان کک کو۔ مم میری سس سانسیں اا اکھڑنے سس سے پہلے میری بب بچّی کو اپنے غغ غلیظ وجود سے آزاد کر دو۔" رضیہ بیگم اٹک اٹک جر بولتیں بُرہان کا دِل چیز گئیں تھیں۔ اُس نے اِلتجائی نظروں سے باپ اور چچی کو دیکھا مگر وہ نظریں چُرا گئے۔ چشمان نے بھی کوئی ردِعمل ظاہِر نا کیا۔

"مم میں بُرہان احمد اا اپنے پپ پورے ہہ ہوش و حح حواس مم میں چچ چشمان تنویر کک کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" دِل پہ پتھر رکھتے وہ اپنی ماں کی خُواہش پوری کر رہا تھا۔ دِل کی دھڑکنیں بند ہونے کو تھیں اور سیاہ آنکھیں سُرخ انگارہ ہو گئیں تھیں جِن سے آنسو بہتے رضیہ بیگم کو پیروں کو تر کر رہے تھے۔ اُن کی سانسیں مسلسل اکھڑ رہیں تھیں جو بُرہان کو اذیّت میں مُبتلا کر رہیں تھیں۔

وہ جانتا تھا کہ اب کُچھ نہیں بچا۔ اُس کی معافی قابلِ قبول نہیں تھی۔ اُس نے غلطی نہیں گُناہ کیا تھا جِس پہ شاید ستّر ماوں سے زیادہ محبّت کرنے والے خُدا نے تو معاف کر دیا ہو مگر یہ مٹی کے مادھو بہت ظالِم تھے مہربان نہیں ہوئے تھے۔ معاف نہیں کیا تھا اور اب سزا سُنا دی تھی۔ نظروں کے سامنے شاہان کا معصوم چہرہ گھوم گیا تھا۔ وہ بھی تو اب اُس کے قریب نہیں رہے گا۔ ابھی تو جی بھر کر اُسے محسوس بھی نہیں کیا تھا کہ سزا کی گھڑی آ گئی تھی۔

اور چشمان اُس کے ساکت وجود میں حشر برپا تھا۔ قلب جیسے دھڑکنا بھول گیا تھا۔ اُس کا شوہر تھا وہ جِس کے ساتھ زِندگی گُزارنے کے خُواب سجائے تھے اُس نے۔ اُس کے بیٹے کا باپ تھا وہ جو اُسے حد سے زیادہ چاہتا تھا۔ کیا وہ رہ لے گا اپنے باپ کے بغیر؟ کیا وہ اُس کی زِندگی سے باپ کا خلاء پُر کر پائے گی؟ کِس بھی سوال کا جواب نہیں تھا اُس کے پاس اور وہ یہ سب سوال سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی۔ اُسے وہ وقت یاد آیا جب اِسی بند ہوتے قلب سے اُس نے بُرہان کو اپنی زِندگی میں شامِل کیا تھا جب اُس نے اپنی زِندگی کے سارے حقوق بُرہان احمد کے نام کیے تھے۔ وہ آنکھیں میچے آنسووں کو اپنی آنکھوں میں چُھپائے بے حِس سی بیٹھی اپنے نام کو اُس کے نام سے جُدا ہوتا سُن رہی تھی۔


*************


جِس وقت وہ گھر پہنچے رات کے سات بج رہے تھے۔ نیچے والے پورشن کی لائٹ آف تھی۔ دروازہ اذہاد نے ہی کھولا تھا۔ اُن کو ساتھ لیے وہ سیکنڈ پورشن کی جانِب بڑھ گیا۔ سبھی لاونج میں بیٹھے تھے۔ سب کے چہروں پہ چھائے پریشانی کے تاثرات دیکھتے حماد صاحب نے سب کو رضیہ بیگم کی خیریت کی اِطلاع دی تھی۔

مگر اِس سب کے عِلاوہ بھی سب کے چہروں پر ایک سوال تھا جِسے وہ سمجھ کر ساری بات بتا گئے تھے۔ یقیناً اذہاد نے ہی اُنہیں رضیہ بیگم کے فیصلے کے بارے میں بتایا تھا۔ سب کے چہروں پہ وہ ایک ہی سوال دیکھ کر اُنہیں جواب دیے گئے تھے جِس پر سب نے سکون کا سانس بھرا تھا۔ شاہان چشمان کو کہیں نظر نہیں آیا تو فرازیہ نے بتایا کہ وہ تھک گیا تھا ابھی کُچھ دیر پہلے ہی بُرہان کے کمرے میں سویا ہے۔ گہرا سانس بھر کر وہ اُس کمرے کی جانِب بڑھ گئی جہاں وہ پِچھلے چار سالوں سے رہ رہی تھی اور بُرہان کے آنے پر وہاں سے شِفٹ ہو گئی تھی۔

عریحہ نے سب کے لیے کھانا لگا دیا تھا۔ چشمان نے کھانا کھانے سے اِنکار کر دیا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد فرازیہ نے عریحہ کے ساتھ مِل کر برتن سمیٹے۔ باقی سب اپنے اپنے کمرے کی جانِب بڑھ گئے۔ اذہاد عریحہ کو کافی کا کہہ کر نیچے جا چُکا تھا۔


**************


وہ کمرے میں داخِل ہوئی تو نظر بیڈ پر بائیں کروٹ پہ سوئے شاہان پر پڑی۔ گُھٹنوں کو پیٹ سے مِلائے وہ سِمٹا سِمٹایا سو رہا تھا۔ گرمیاں شروع ہو گئیں تھیں اِس لیے وہ بغیر بلینکٹ کے سویا تھا۔ کمرے کی لائٹ آن تھی اور ہر سو جیسے بُرہان احمد کی خُوشبو چھائی تھی۔ سُرخ ہوتی آنکھیں جلن کے باعث بند ہو رہیں تھیں۔

وہ ایک ہاتھ سے آنکھوں کو مسلتے بیڈ کی جانِب بڑھی۔ چادر اُتار کر دوپٹہ کھول کر کندھے پر ڈالا اور شاہان کے پاس بیڈ پر بیٹھتی اُس کا معصوم ہر فِکر سے پاک چہرہ دیکھنے لگی۔ بُرہان کے جیسے بال ماتھے پہ بِکھرے پڑے تھے جب کہ ہونٹوں کو باپ کی ہی مانِند بھینچ رکھا تھا۔ دائیں گال کا گڈھا واضح نظر آ رہا تھا۔ شاہان کے نقوش ماں کی طرح تھے تو عادتیں باپ کی طرح۔

بُرہان اِس کمرے میں نہیں تھا وہ گھر ہی نہیں آیا تھا کہاں گیا تھا کوئی نہیں جانتا تھا اور وہ بھی جاننا نہیں چاہتی تھی۔ شاہان کے پاس لیٹتی وہ اُس کے بال سہلانے لگی تو اُس نے نیند میں ہی ایک ٹانگ اُٹھا کر اُس پر رکھی۔ چشمان نے نم آنکھوں سے اُس کا ہاتھ تھام کر چوما۔


****************

اچانک دروازہ کُھلنے کی آواز پر وہ چونک کر گردن موڑے ایک ہاتھ شاہان کی کمر پر رکھے دروازے کو دیکھنے لگی جہاں وہ ہرجائی جُھکے کندھے اور ستا چہرہ لیے کھڑا تھا۔ اُسے دیکھ کر اُسے وہ وقت یاد آیا جب وہ اُسے طلاق دینے والا تھا۔ ہاسپِٹل کے کمرے کا وہ منظر اُس کی آنکھوں کے سامنے گھوما تھا۔

ابھی بُرہان کے منہ سے نِکلنے والے الفاظ مُکمّل معانی اختیار بھی نا کر پائے تھے کہ یک دم دروازہ کُھلا اور ڈاکٹر کے ساتھ دو نرسیں اندر داخِل ہوئیں۔ اُن کے پیچھے ہی ریحان بھی تھا۔

"آپ سب پلیز باہِر جائیں۔ پیشنٹ سے زیادہ باتیں کرنے سے منع کیا تھا میں نے۔" ڈاکٹر نے کہتے ہی نرس کو اِشارہ کیا۔ ایک نرس باقی سب کو کمرے سے باہِر نِکالنے لگی تھی جبکہ دوسری نرس ہارٹ بیٹس چیک کرنے لگی۔

ایک ایک کر کے وہ سب وہاں سے باہِر آگئے تھے۔۔ بُرہان نے ایک نظر سب کو دیکھا اور اُلٹے قدموں وہاں سے نِکلتا چلا گیا تھا۔ ریحان نے نے تاسف سے اُس کی پُشت کو دیکھا تھا۔ شائستہ بیگم کو چئیر پر بِٹھا کر اُس نے چشمان کے سر پر ہاتھ رکھا جِس کی ڈبڈبائی نظریں روم کے دروازے پر جمیں تھیں۔ حماد صاحب پریشانی سے یہاں وہاں ٹہل رہے تھے۔ ریحان ایک طرف آیا اور جیب سے فون نِکال کر اذہاد کا نمبر مِلایا تھا۔ اُسے شاہان کو گھر لے جانے کی ہِدایت دے کر فون رکھ کر چئیر پر بیٹھ گیا۔

ڈاکٹر نے چیک اپ کر لیا تھا۔ رضیہ بیگم کو سکون آور انجیکشن دیا گیا تھا تا کہ اُن کا ذہن پُرسکون رہے۔ ڈاکٹر اُنہیں تسلّی دے کر جا چُکا تھا۔ ریحان نے حماد صاحب اور شائستہ بیگم کو گھر بھیجنا چاہا تھا۔ رات ہو گئی تھی ایسے میں کِوئی دو لوگ ہی وہاں رُک سکتے تھے مگر شائستہ بیگم نے چشمان کو حماد صاحب کے ساتھ گھر کی طرف روانہ کیا تھا۔ خُود وہ ریحان کے ساتھ وہیں رُک گئیں تھیں۔

ریحان کھانا لانے چلا گیا تھا جبکہ شائستہ بیگم رضیہ بیگم کے پاس بیٹھی گئیں تھیں۔ وہ منظر یاد کر کے اُس کا چہرہ بے تاثر ہوا تھا۔

وہ شاہان کا ہاتھ سائیڈ پر کرتی اُٹھ کھڑی ہوئی۔ دوپٹہ ٹھیک کرتی وہ بُرہان سے نظریں مِلائے بغیر باہِر کی جانِب بڑھنے لگی جب اُس کی کلائی بُرہان کی گرفت میں آئی۔ اُس نے سرد نظروں سے اُسے گھورا اور کلائی چُھڑوانی چاہی مگر وہ اُس کی طرف متوجّہ نہیں تھا۔ وہ اُسے کلائی سے پکڑ کر صوفے تک لایا۔ اُسے صوفے پر بِٹھا کر وہ خُود گُھٹنوں کے بل اُس کے سامنے بیٹھا۔ کلائی وہ چھوڑ چُکا تھا۔

"اِس گھٹیا حرکت کی وجہ؟ مُجھے چھونے کی ہِمّت کیسے کی؟" اُس نے تلخی سے پوچھا۔ لفظوں میں کاٹ تھی۔

"ایسے۔" بُرہان نے ایک بار پِھر اُس کی کلائی تھام کر چھوڑتے اُسے آگاہ کیا تو وہ دانت پیس کر رہ گئی۔ وہ اُسے کندھوں سے تھام کر صوفے پر لایا اور خود گُھٹنوں کے بل اُس کے پاس بیٹھا۔

"تُم عورتیں کِتنی عجیب ہوتی ہو نا؟ پہلے جب تُمہارا شوہر تُم پہ اپنا غُصّہ اُتارتا ہے، بے عِزّت کرتا ہے، حقارت بھری نظروں سے دیکھتا ہے، عِزّت نہیں دیتا، اپنی انا کے زعم میں تُمہارے سامنے جُھکتا نہیں، پیار کے دو بول نہیں بولتا اور تُمہاری زِندگی اجیرن کر دیتا ہے تو اِس سب کے باوجود بھی تُم لوگ اپنے شوہر کے آگے ڈری سہمی، دبی دبی سی رہتی ہو۔ اُس کے ہر غلط کام میں جی حضوری کرتی ہو۔ کبھی سر اُٹھا کر جواب نہیں دیتی۔ لیکن اگر وہی مرد جب تُمہارے سامنے جُھک جائے، تُمہارے ترلے مِنتیں کرے، محبّت سے پیش آئے اپنی غلطیوں کی معافی مانگے اور تُمہیں منانے کے لیے ہر حد سے گُزر جائے حتّی کہ اپنی مردانہ انا کو مار کر پاؤں پڑنے کو بھی تیار ہو تب تُم کِتنے نخرے کرتی ہو، تُمہاری انا بیدار ہو جاتی ہے، معافی جیسے لفظ سے بے بہرہ ہو جاتی ہو، وہ محبّت جو مرد کے غُصّے میں تو تُمہارے دِل میں اُجاگر رہتی یے مگر مرد کے جُھکتے ہی اُس محبّت پر اوس پڑ جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہے مانو؟ کیوں پِھر ہر رشتے ناطے کو بھول جاتے ہو تُم لوگ؟ کیوں بے حِس ہو جاتے ہو؟ تُم اپنا بتاؤ مانو! تُم نے بھی تو یہی کیا ہے نا؟" بُرہان کے ایک ایک لفظ پر وہ غور کرتی بے حِس و حرکت سی بیٹھی تھی جواب تو تھا نہیں اُس کے پاس۔

"مُجھے تُمہارے کِسی سوال کا جواب نہیں دینا۔" وہ بس یہی بول پائی تھی۔

"پتہ ہے اِشفاق احمد کہتے ہیں کہ جب تُم اُس کے (اللّٰہ) کے سامنے گِڑگِڑاو گے تو وہ پتہ ہے کیا کرے گا؟ وہ تُمہارا بھرم رکھ لے گا لیکن اِنسان یہ نہیں کرتے یہ صِرف رب کرتا ہے کیونکہ وہ بے نیاز ہے۔" بُرہان نے کہا تو ایک تلخ مُسکراہٹ نے چشمان لے ہونٹوں پر بسیرا کیا تھا۔

"ہاں اِنسان یہ واقعی نہیں کرتے. جانتے ہو چار سال پہلے تُم نے بھی یہی کیا تھا آخر کو تُم بھی تو اِنسان تھے۔ میں بھی تُمہارے سامنے گِڑگِڑائی تھی مگر تُم نے بھی تو میرا بھرم نہیں رکھا تھا آخر کو تُم بھی اِنسان ہی تھے۔" چشمان کے کڑواہٹ سے بھر پور طنز پر وہ نظریں بھی نہیں مِلا پایا تھا۔ وہ جب سے آیا تھا ایک بار بھی چشمان کی طرف نِگاہ نہیں کی تھی سر کو جُھکائے ہی رکھا تھا۔

"بھٹک گیا تھا میں۔ دِل اور دماغ پہ شیطان سوار تھا صحیح اور غلط کی پہچان بھول گیا تھا۔ بھول گیا تھا کہ سزا دینے والی ذات صِرف اور صِرف اللّٰہ پاک کی ذات ہے۔ ہم اِنسانوں کو کوئی حق نہیں کہ کِسی اور صحیح اور غلط کی کسوٹّی پر رکھ کر سزا دیں۔ آج میرے پاس سِوائے پچھتاوے کے اور کُچھ نہیں ہے۔ ایسے کوئی الفاظ کوئی اعمال نہیں ہیں کہ تُم مُجھے معاف کر دو۔ امّی نے جو فیصلہ کیا بالکُل ٹھیک کیا۔ میں یہی ڈیزرو کرتا ہوں۔ مگر ایک بار اپنے دِل سے پوچھو کہ کیا مُجھے ایک موقع بھی نہیں مِلنا چاہیے؟ تب میری جگہ کوئی بھی ہوتا یہی کرتا۔ جِس حالت میں، جِس جگہ پر مُجھے تُم مِلی تھی میری جگہ کوئی بھی ہوتا تو وہی سمجھتا جو میں نے سمجھا تھا۔" وہ اُس کے ہاتھوں کو چھوڑ کر اب اپنے دونوں ہاتھ آپس میں بھینچ چُکا تھا۔

"تُمہارا قصور جانتے ہو کیا تھا؟ یہ کہ تُمہیں اپنی بیوی پر بھروسہ نہیں تھا۔ میاں بیوی کی رِشتے کی پہلی سیڑھی ہی اعتبار ہوتا ہے۔ تُم نے مُجھ پہ اعتبار نہیں کیا۔ میری دی گئی صفائی پر یقین نہیں کیا بلکہ وہی کیا جو تُم نے سچ سمجھا۔ اعتبار تو دے نہیں سکے عِزت تو پِھر ثانوی چیز تھی۔" وہ ایک جھٹکے سے کھڑی ہوئی تھی۔ اُسے اپنے سامنے بیٹھا یہ شخص اداکار لگ رہا تھا جو آج بھی صِرف خُود کی معافی چاہ رہا تھا صِرف معافی۔ تلافی کرنا تو شاید وہ جانتا ہی نا تھا۔

"جانتا ہوں کہ گُناہ کیا ہے میں نے۔ اپنے گُناہ پر شرمِندہ ہوں میں۔ وقت کو واپس نہیں موڑ سکتا مگر آئیندہ آنے والے وقت کو بہتر تو بنا سکتا ہوں نا۔ توبہ کا راستہ تو خُدا نے بھی رکھا ہے تا کہ بھٹکا ہوا اِنسان اگر توبہ کر کے سیدھے راستے پر چلنا چاہے تو اُسے واپس پلٹنے میں دِشواری نا ہو۔ ایک موقع ہی تو مانگ رہا ہوں پلیز۔" وہ اِلتجائیہ ہوا تھا اب تو اُس کی آواز بھی بیٹھی بیٹھی لگ رہی تھی خراش زدہ سی۔

"جانتے ہو؟ میں نے اپنی زِندگی میں تُمہیں روشنی سمجھ کر شامِل کیا تھا کہ تُم میری زِندگی کو اُجالوں سے بھر دو گے۔ پِچھلی ہر بات ہر چپقلش کو بُھلا کر نئی زِندگی کا آغاز کرنا چاہا تھا مگر تُم نے میری زِندگی کو اندھیروں کی سیاہی سے بھر دیا۔ اگر مُجھے پتہ ہوتا کہ تُمہارے میری زِندگی میں آنے سے میرے دامن میں داغ لگ جائیں گے تو میں کبھی اپنے باپ کی آخری خُواہش کو پورا نا کرتی۔" چشمان کی بات پہ اُس نے تڑپ کر سر اُٹھایا تھا چشمان کی نظریں بُرہان کی نظروں سے چار ہوئیں تھیں۔ جہاں بُرہان کو چشمان کی آنکھوں میں غُصّہ، غم، آنسو اور شِکوے نظر آئے تھے۔ وہیں چشمان کو بُرہان کی آنکھوں میں ندامت، پچھتاوے اور معافی کی طلب نظر آئی تھی۔ سیاہ آنکھوں کے نیچے بڑے بڑے حلقے بھی واضح تھے جیسے وہ کئی راتوں سے سویا نا ہو۔

"لوٹ آیا ہوں واپس۔ اب اِن اندھیروں کو ختم کر کے نئے اُجالے بھر دوں گا تُمہاری زِندگی میں۔ پلیز ایک موقع صِرف ایک۔" بُرہان اِلتجائیہ ہُوا۔

"میں تو آج بھی وہی چشمان ہوں جو چار سال پہلے تھی۔ تب بدکردار سمجھا تھا تو آج کیوں معافی مانگ رہے ہو؟ میں تو اب بھی بد کردار ہوں۔" چشمان کے لفظ اُس کو شرمندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل رہے تھے۔

"بے وقوف تھا میں جو تُمہیں سمجھ نہیں سکا۔ مگر اب مُجھے پتہ چل چُکا ہے کہ تُم بے قصور تھی۔ مُجھے غلط فہمی ہوئی تھی۔ ارمان نے مُجھے سب کُچھ بتا دیا تھا۔" بُرہان کی بات سُن کر وہ اِستہزائیہ ہنسی تھی۔

"اب بھی صِرف واپس آئے ہو تو دوسروں کی بات پہ یقین کر کے۔ پہلے مُجھے چھوڑ کر گئے دوسروں پہ یقین کر کے اور اب واپس آئے ہو تو بھی دوسروں کی باتوں پر یقین کر کے۔ اِن سب میں میں کہاں ہوں؟ تُمہاری بیوی کہاں ہے جِس پہ تُمہیں اعتبار ہونا چاہیے تھا؟ سوری مگر مُجھے ایسے شخص کے ساتھ نہیں رہنا جو کانوں کا اِتنا کچّا ہو کہ اپنی نِصف بہتر کو چھوڑ کر دوسروں پر یقین کرے۔" چشمان نے افسوس بھرے لہجے میں کہا۔ لہجہ مذاق اُڑاتا ہوا تھا۔

"ایسے مت بولو مانو! ایک دفعہ معاف کر دو۔ سچ کہہ رہا ہوں تُم سے علیحدہ ہو کر مر جاؤں گا میں۔ تُمہارا ہان مر جائے گا مانو!" بُرہان نے اذیّت سے کہتے اُس کے ہاتھ تھامے تھے۔ نطریں اُس کے تھوڑی سے تھوڑا اوپر موجود تِل پر جمیں تھیں۔

"یہ سب افسانوی باتیں ہیں بُرہان احمد! کوئی کِسی کے لیے نہیں مرتا۔ نا تُم رانجھا ہو نا میں ہیر۔ تُم بُرہان احمد ہو ایک خُود غرض اور بے حِس شخص۔" چشمان نے اُسے تلخی سے دیکھ کر ہاتھ چُھڑوائے تھے۔

"میں بُرہان احمد ہوں اور میں سچ میں مر جاؤں گا۔" مضبوط لہجے میں کہہ کر وہ اُس کے قریب آیا تھا اُس نے سوچنے سمجھنے سے پہلے اُسے ہاتھ بڑھا کر اپنے قریب کیا تھا۔ اپنے شِدّت بھرے لمس سے اُس کی پیشانی کو مُعتبر کرتے وہ اُسے ساکت چھوڑ کر شاہان کی جانِب بڑھا۔ ایک گُھٹنا بیڈ پہ موڑ کر ٹِکاتے وہ شاہان پہ جُھکا۔ اُس کے پھولے پھولے گالوں کو باری باری چوما۔

"بابا آپ سے بہت پیار کرتے ہیں بچّے! اپنی ماما کا بہت خیال رکھنا اور اپنے بابا کو کبھی مت بھولنا۔ بابا شاید اب کبھی واپس نا آئیں مگر آپ بہت سٹرونگ ہو نا سب کُچھ سنبھال لینا۔" اُس کے کان میں دھیرے سے سرگوشی کرتے وہ سیدھا کھڑا ہوا۔

"مُجھے کوئی فرق نہیں پڑتا اگر میں بیوہ بھی ہو جاؤں۔" وہ دروازے کی جانِب بڑھا تھا جب پیچھے سے چشمان کی آواز آئی جو اُس کے ہونٹوں پہ اذیّت بھری مُسکراہٹ چھوڑ گئی۔

"کُچھ عرصہ پہلے میری انا جیتی تھی اور بدلے میں میں نے اپنا بہت خاص رِشتہ کھو دیا تھا اِس دفعہ تُمہاری انا جیت رہی ہے اور اب تُم بھی اپنا خاص رِشتہ کھو دو گی۔ میری دُعا ہے کہ میرے بعد تُم بہت خُوش رہو۔ تت تُمہیں بب بہت اچھا ہہ ہہ ہمسفر مِلے اور خُدا کرے تُمہاری یہ خُواہش جلدی پوری ہو جائے۔ آمین۔" بغیر پلٹے وہ کہہ کر رُکا نہیں تھا باہِر کی جانِب بڑھتا چلا گیا۔ چشمان کے ذہن میں اُس کی دُعا اور دُعا پہ کہا جانے والا آمین گونج رہا تھا۔ مگر پِھر سر جھٹک کر آنسو صاف کرتی وہ دروازہ بند کرتی بیڈ کی جانِب بڑھی تھی۔

"کوئی کِسی کے لیے نہیں مرتا خاص کر وہ جو آپ سے محبّت بھی نا کرتا ہو۔" منہ میں بڑبڑاتے وہ لیٹ کر شاہان کو دیکھنے لگی جو گہری نیند میں تھا۔

اُس کو دیکھتے دیکھتے وہ سوچوں میں گُم ہوئی تھی۔ دِماغ کہیں ماضی میں جا کھویا تھا۔ وہ وقت وہ لمحے اُسے آج بھی روزِ اوّل کی طرح ازبر تھے۔ وہ وقت جب سب کُچھ ٹھیک تھا۔

اُن کی زِندگی ندی کے بہتے پُرسکون پانی کی طرح تھی جِس میں اچانک ہی پتھر آن پڑا تھا اور اُن کی زِندگیوں میں تلاطم اُٹھا تھا۔ ماضی کی کِتاب کا ورق ورق کُھلتا اُسے ماضی میں دھکیل گیا تھا۔


*************

ماضی:

وہ چلچلاتی دھوپ میں اپنی دُھن میں چلتی جا رہی تھی۔ جون کا مہینہ چل رہا تھا گرمی ٹوٹ کر پڑ رہی تھی۔ وہ پیدل ہی گھر کی طرف چل پڑی تھی جو پیدل تو پچِیس مِنٹ کے فاصلے پر تھا جبکہ اگر وہ رِکشے پہ جاتی تو زیادہ سے زیادہ دس مِنٹ لگتے۔ پیدل چلتے چلتے وہ پسینے میں شرابور ہو چُکی تھی مگر ضبط کیے وہ سبزی کا تھیلا تھامے بس چلی ہی جا رہی تھی۔ سکن کلر کی چادر کا کونہ چہرے تک کر رکھا تھا جِس سے اُس کا چہرہ چُھپ سا گیا تھا۔

گھر کے سامنے پہنچ کر اُس نے ایک نظر اِس تین منزلہ عمارت کو دیکھا جِس کے نِچلے فلور پر وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ رہتی تھی۔ اندر داخِل ہو کے اُس نے دروازہ بند کیا اور کچن کی طرف بڑھ گئی کچن میں سبزی والا تھیلا رکھ کے وہ برآمدے میں بیٹھی اور پنکھے کی ہوا لینے لگی۔

"کیا ہوا؟" شائستہ بیگم نے پانی کا گلاس تھماتے پوچھا تو وہ گہرا سانس بھرتی اُن کی جانِب دیکھنے لگی۔

" کُچھ نہیں ہوا۔ ایسے ہی تھکاوٹ زیادہ ہو گئی ہے۔" اُس نے بے زار سے لہجے میں کہا۔

"کِتنی دفعہ کہا ہے کہ چھوڑ دو یہ سکول جانا۔ کِس چیز کی کمی ہے جو تُم یہ نوکری کر رہی ہو؟" اُنہوں نے جھنجھلا کر اُسے کہا اور خود کُرسی پہ بیٹھیں وہ جلدی سے اُٹھ کر کچن کی جانب بڑھی۔ سبزی اور برتن لا کر شائستہ بیگم کے پاس رکھے اور خود جا کر آٹا گوندھنے لگی۔ آٹا گوندھ کر اُس نے ایک سائیڈ پہ رکھا اور سبزی میں ڈالنے کے لیے مِرچیں اور ٹماٹر وغیرہ کاٹنے لگی۔

"شوق ہے مُجھے بس۔ اور سکول میں ٹیچر کی کمی تھی بس جیسے ہی نئی ٹیچر مِل گئی چھوڑ دوں گی میں۔" اُس نے مصروف سے لہجے میں جواب دیا تو وہ تاسف سے سر ہلا کر رہ گئیں۔ سبزی کٹ جانے کے بعد وہ کِچن میں گُھس گئی۔

ڈیڑھ گھنٹے تک اُس نے آلو پالک کے سالن کے ساتھ چپاتیاں بنا لیں۔ کِچن کی صفائی کے بعد اُس نے اذہاد کو کھانا دِیا جو ابھی ہی کالج سے آیا تھا۔


****************

یہ منظر تھا راجپوت ہاوس کا۔ تین منزلہ یہ عمارت کافی خوبصورت تھی۔ جِس کو ہر تین سال بعد پینٹ کروایا جاتا تھا۔ اِس گھر کے سربراہ مُراد احمد اِس دُنیا سے چار سال پہلے رُخصت ہو چُکے تھے۔ جبکہ بڑی اماں یعنی مُراد احمد کی زوجہ ریحانہ بی بی ابھی حیات تھیں جِن کی عُمر اب تقریباً پینسٹھ سال تھی۔ اُن کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ بڑے بیٹے حماد احمد کی شادی رضیہ بی بی سے ہوئی تھی اور اُن کے دو بیٹے تھے۔ بُرہان احمد اور ریحان احمد۔

جو بالترتیب چھبیس اور ستائیس سال کے تھے دونوں ایم بی اے کر چُکے تھے۔ اُن کی اپنی کپڑے بنانے کی چھوٹی سی فیکٹری تھی جِس کا سارا کام وہ تینوں باپ بیٹا سنبھالتے تھے۔ تنویر احمد بھی وہیں کام دیکھتے تھے۔ حماد احمد سے چھوٹے تنویر احمد تھے جِن کی شادی شائستہ بی بی سے ہوئی تھی۔ اُن کی ایک بیٹی چشمان اور ایک ہی بیٹا اذہاد تھا۔ چشمان کی عُمر بائیس سال تھی اور وہ ایم ایس سی کرنے کے بعد فارِغ تھی اِسی لیے سکول میں جاب شروع کر چُکی تھی۔ جبکہ اذہاد ابھی اٹھارہ سال کا تھا۔

تنویر احمد سے چھوٹی بہن کُلثوم بی بی تھیں جِن کی شادی کے پندرہ سال بعد وہ بیوگی کی چادر اوڑھے اپنے مائیکے کے در پہ آ گئی تھیں۔ اُنہیں سب سے اوپر والا پورشن دیا گیا تھا جہاں وہ اپنی بیٹیوں فرازیہ اور عریحہ کے ساتھ رہتیں تھیں۔ فرازیہ بیس برس کی تھی وہ بی ایس سی کر چُکی تھی اور اب گھر پر ہی ہوتی تھی۔ جب کہ عریحہ ابھی سولہ سال کی تھی اور میٹرک کی سٹوڈنٹ تھی۔ اُن کا ذریعہ آمدن تو کوئی نہیں تھا اِسی لیے حماد احمد اور تنویر احمد اُن کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے۔

یہ دوپہر کا وقت تھا گرمیوں کے موسم تھے اور گرمی ٹوٹ کر پڑ رہی تھی۔ تیز تیز گرم ہوائیں چلتی جِسم جُھلسائے دے رہیں تھیں۔ باہر تو باہر گھر میں بھی ایسے تھا جیسے سورج گھر میں گُھس گیا ہو۔ ۔ نیچے والے پورشن میں تین کمرے، ایک ڈرائینگ روم اور ایک کِچن تھا۔ سیکنڈ اور تھرڈ فلور پر بھی ایسے ہی سیٹنگ تھی۔ بڑی اماں دوسرے فلور پر اپنے بڑے بیٹے حماد احمد کے ساتھ رہتیں تھیں۔

دوپہر کے کھانے کے بعد وہ اپنے کمرے میں بیٹھی بچوں کے ٹیسٹ چیک کر رہی تھی۔ آج سکول سے وہ بارہ بجے واپس آ گئی تھی اِسی لیے دوپہر کے لیے سبزی بھی لیتی آئی تھی کیونکہ صُبح تنویر صاحب لائے نہیں تھے۔

دوپہر کے دو بج رہے تھے۔ ابھی وہ ٹیسٹ چیک ہی کر رہی تھی جب لائٹ چلی گئی۔ اُس نے منہ بسورتے چھت پہ بند ہوتے پنکھے کو دیکھا اور روہانسے لہجے میں بڑبڑانے لگی۔

،"یاللّٰہ پاک! پہلے ہی اِتنی گرمی ہے کہ جان نِکلنے والی ہو گئی ہے اور اوپر سے یہ واپڈا والے بھی رہی سہی کسر نِکال رہے ہیں۔ آپ تو جانتے ہیں نا کہ مُجھے کِتنی گرمی لگتی ہے پلیز لائٹ بھیج دیں۔ یا پِھر ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا ہی بھیج دیں۔ اِن گرم گرم ہواوں سے تو میری ساری سکِن بھی جلنے والی ہو گئی ہے۔" وہ آنکھیں بند کیے وہ خُد اسے لائٹ آنے کی دُعا مانگ رہی تھی جب اُسے اپنے چہرے اور گردن پہ ٹھنڈی ہوا کا احساس ہوا۔ وہ بے اختیار مُسکرائی۔

"تھینکیو سو مچ اللّٰہ جی! آپ کِتنےےےے اچھے ہیں تھینکیو تھینکیو تھینک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ جلدی سے آنکھیں کھولتی تیزی سے بولتی جا رہی تھی جب اپنے دائیں جانب کِسی کی موجودگی کو محسوس کر کے اُس نے آنکھیں اُس طرف گُھمائیں۔

" رر ریحان ببب بھائی آپ۔" وہ ہکلاتی جلدی سے دوپٹہ سیدھا کرتی سر پہ اوڑھ گئی۔ اور پھر اُس کی جانب دیکھنے لگی جو اُسے پنکھا جھل رہا تھا۔

"کام سے تھکا ہارا میں آیا ہوں۔ بجائے میری بہن مُجھے ٹھنڈی ہوا دے مُجھے پنکھیاں جھلے۔ اُسے میں پنکھی جھل رہا ہوں۔" ریحان نے خفگی سے سے کہا تو اُس نے جلدی سے ریحان سے پنکھی جھپٹ لی۔

" سس سوری ریحان بھائی! مُجھے لگا تھا کہ لائٹ آ گئی ہے۔" اُس نے تیز تیز پنکھی جھلاتے اُسے ہوا دی تو وہ مُسکراتا رہ گیا۔

"کوئی بات نہیں گُڑیا! میں نے سوچا مِلتا ہوا جاؤں۔ یہ بتاو کھانے میں کیا بنایا آج؟" ریحان بیڈ کے پیرہانے کی جانب بیٹھا بیٹھا پیچھے کو لیٹ گیا جبکہ پاؤں نیچے لٹک رہے تھے۔

"آلو پالک بنائے تھے دوپہر کو۔ آپ کھائیں گے؟" چشمان نے پوچھا۔

"ہاں بھوک تو لگی ہے جاؤ لے کے آو میں یہیں بیٹھا ہوں۔" اُس نے بے تکلفی سے کہا تو وہ سر ہلاتی کِچن کی جانِب بڑھ گئی۔

چشمان کِچن میں آئی تو اذہاد کھڑا پانی پی رہا تھا۔

"روٹی کِس کے لیے بنانے لگیں ہیں؟" اذہاد نے حیرت سے پوچھا۔

"ریحان بھائی کہہ رہے ہیں کہ اُنہیں بھوک لگی ہے اِسی لیے بنانے لگی ہوں۔" وہ فریج سے گوندھا ہوا آٹا نِکالتی بولی۔ گیس آن کر کے وہ توا اوپر رکھ چُکی تھی۔ پِھر وہ پیڑے بنانے لگی۔

"اچھا۔ میں کُچھ دیر اوپر جا رہا ہوں دادو کے پاس۔ پِھر آ کے آپ سے پڑھوں گا۔" اذہاد نے کہا تو اُس نے مصروف سے انداز میں سر ہلا دیا۔ اذہاد ایک نظر اُسے دیکھتا اوپر کی جانِب بڑھ گیا۔

چشمان نے ایک چولہے پہ سالن گرم ہونے کے لیے رکھا اور دوسرے پہ روٹیاں بنانے لگی۔

چشمان کے جانے کے بعد وہ بیڈ کے کراؤن سے ٹیک لگائے ٹیسٹ چیک کرنے لگا۔ ابھی وہ مصروف سا تھا جب اچانک کوئی کمرے میں داخل ہوا۔

"مانو آپی میں کہہ رہی تھی کہ مُجھے بازااااااااا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" فرازیہ جو ابھی اندر داخل ہوتی چشمان کو کُچھ بول رہی تھی کہ ریحان پہ نظر پڑتے ہی وہ بوکھلا کر چپ ہو گئی۔

"اا السلامُ علیکُم! معذرت مم میں نے آپ کو دیکھا نہیں تت تھا۔ میں چچ چلتی ہوں۔" ماتھے پہ آیا پسینہ صاف کرتی معذرت کر کے وہ واپسی کے لیے مُڑی جب مقابل کی نرم سی آواز پہ اُسے ٹھہرنا پڑا۔

"یہاں آو۔" ریحان نے اُسے اِشارے سے بیڈ پہ بیٹھنے کو کہا۔

"مم میں مُجھے کام ہے آپ کک کو جو کہنا ہے یہی کہہ دیں۔ "وہ ہکلا کر بولی۔

"اِتنا ڈرتی کیوں ہو مُجھ سے؟" ریحان نے پوچھا۔

نظریں اُس کے چہرے پہ جمی تھی جو اِس وقت کِھلا کِھلا فریش سا لگ رہا تھا۔

گندمی رنگت، ہلکے بھورے ہونٹ، ستواں پتلی سی ناک، سیاہ روشن بڑی بڑی آنکھیں اور آنکھوں پہ لگا نظر کا چشمہ، بھرے بھرے گال اور معصوم سے نین نقوش کی حامِل وہ کیوٹ سی معصوم لڑکی ریحان احمد کے دِل میں بستی تھی۔

"نن نہیں ریحان بھائی! میں کیوں ڈرنے لگی مم میں تو نہیں ڈرتی۔" اُس نے ریحان کی بات کی پُرزور انداز میں نفی کرتے اپنے عینک کو ناک پہ جمایا جو پِھسل کر نیچے آ رہی تھی۔

"اچھا نہیں ڈرتی؟" اُس نے معنی خیزی سے پوچھتے اُس کا پلّو پکڑا۔

"رر ریحان بھائی! کک کیا کر رہے ہیں؟" وہ گھبراتی بول اُٹھی۔

"بھائی مت بولا کرو مُجھے ورنہ تُمہاری وراثت میں سے حِصّہ مانگ لینا ہے میں نے۔" اُس نے شرارتی لہجے میں کہا تو فرازیہ کی آنکھیں بھیگ گئیں۔

"مم میرے پاس کونسا کوئی جائیداد ہے جِس میں آپ کو حِصّہ مِل جائے گا۔" اُس کا لہجہ بھرایا ہوا تھا۔

"ہے نا۔ یہ تُمہارا دِل کِسی پراپرٹی سے کم ہے کیا؟ یہی مُجھے دے دو۔ میرا نام لِکھ دو اِس پہ پھر تو میرے سامنے قارون کا خزانہ بھی ہیج ہے۔" ریحان نے گھمبیر آواز میں کہا تو اُسے اپنا دِل ہاتھوں میں دھڑکتا محسوس ہوا۔ بچّی نہیں تھی جو اُس کی نظریں اُس کی باتیں سمجھ نا پاتی۔

"مم مُجھے ممانی کی نظروں مم میں اور مت گِرائیں کہ مم میں یہاں رہ ہی نا پاؤں۔" اُس کی آنکھوں سے آنسو بہتے گالوں پہ رواں ہوئے تھے جِنہیں دیکھتا وہ تڑپ اُٹھا تھا۔

"ہے شش کیا ہوا؟ کیوں رو رہی ہو؟ امّی نے کُچھ کہا ہے کیا؟" وہ اُس کے آنسوووں کو بے بسی سے دیکھتا نرم لہجے میں پوچھنے لگا۔ ابھی اُسے اِتنا اختیار نہیں تھا کہ وہ اُس کے آنسو اپنی پوروں پہ چُن پاتا۔

"کک کِسی نے کُچھ نہیں کہا۔ آپ پلیز میرے ساتھ ایسی باتیں مت کیا کریں مُجھے اچھا نہیں لگتا۔" اُس نے اپنی آنکھیں صاف کرتے کہا۔

"اچھا اب میں سیدھا ابو سے بات کروں گا تُم رو مت نا پلیز۔" اُس نے کہا تو وہ پھٹی آنکھوں سے اُسے دیکھنے لگی۔

"مم ماموں سے کیا بات؟" اُس نے سٹپٹا کر پوچھا۔

"وہ تُمہارا درد سر نہیں ہے۔ ویسے چشمان سے کیا کام پڑ گیا تھا تُمہیں۔" ریحان نے بات بدلی۔

"وہ بازار جانا تھا اِسی لیے۔" فرازیہ نے نظریں جُھکاتے جواب دیا۔ ریحان کی پُرتپش نظریں اُسی کے چہرے پہ جمی تھیں۔

"ارے رازی تُم یہاں؟" چشمان نے ہاتھوں میں ٹرے تھامے اندر آتے حیرت سے پوچھا وہ بہت کم اپنے پورشن سے نیچے آتی تھی۔

"مانو آپی! وہ بازار جانا تھا۔ امی نے کہا آپ کے ساتھ چلی جاؤں۔" اُس نے دھیمے لہجے میں کہا۔

"ابھی تو میں ٹیسٹ چیک کر رہی ہوں رازی! تُم ایسا کرو ریحان بھائی کے ساتھ چلی جاؤ یہ تو ابھی مصروف بھی نہیں ہیں۔" چشمان نے مشورہ دیا تو جہاں ریحان کُھل کر مُسکرایا وہیں فرازیہ سٹپٹا گئی۔

"نن نہیں میں امی ہی کے ساتھ چلی جاؤں گی آپی! میں چلتی ہوں۔" وہ جلدی جلدی کہتی وہاں سے باہر نِکل گئی تو چشمان قہقہہ لگا کر ہنس پڑی۔

"فِکر نا کریں شادی کے بعد ٹھیک ہو جائے گی وہ۔ آپ آئیں کھانا کھا لیں ورنہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔" چشمان نے شرارت سے کہا تو وہ جو ابھی تک دروازے کو دیکھ رہا تھا گہرا سانس بھر کر اُس کی طرف متوجّہ ہوا۔

"ہمم اللّٰہ کرے کہ شادی ہو جائے ورنہ جِس طرح کے امّی کے نادر خیالات ہیں جانے وہ مانیں گی بھی یا نہیں۔" ریحان نے کُرسی پہ بیٹھتے ٹرے اپنی جانب کھسکائی اور کھانا کھانے لگا۔

"فِکر نا کریں۔ تائی ماں مان جائیں گی میں منا لوں گی اُنہیں۔" چشمان نے تسلّی دی تو وہ سر جھٹکتا کھانا کھانے میں مصروف ہو گیا۔ جانتا تھا کہ امی کو منانا جوئے شیر لانے کے مُترادف ہے۔ جانے اُنہیں کیا بیر تھا اپنی نند کُلثوم اور اُن کی بیٹیوں سے کہ وہ اُنہیں دیکھتے ہی ناک بھوں چڑھا لیتی تھیں۔

چشمان ریحان کے افسردہ چہرے کو دیکھتی خود بھی اُن کے لیے افسردہ ہو گئی تھی۔


*****************


وہ ابھی تھکا ہارا آیا تھا اور اِس وقت اپنی دادی کی گود میں سر رکھے لیٹا ہوا تھا۔ ڈریس بلیک شرٹ پہ ڈریس ہی بلیک پینٹ پہنے ہوئے، ڈھیلی سی ٹائی سمیت وہ بغیر چینج کیے دادی سے لاڈ اُٹھوا رہا تھا۔

"اِتنا کام کرتے ہی کیوں ہو۔ تھک جاتے ہو دیکھو اِتنا سا منہ نِکل آیا ہے تُمہارا۔" بڑی اماّں نے خفگی سے کہا۔

"کام نہیں کروں گا تو فیکٹری ترقی کیسے کرے گی۔ اور کہاں منہ نِکلا ہے اچھا بھلا تو ہوں میں۔" اُس نے بڑی اماں کا ہاتھ تھام کے چومتے ہوئے کہا۔

"ہاں ہاں پتہ ہے کِتنے اچھے ہو۔ آج سے میں مکھن والی روٹی بنواوں گی تُمہارے لیے۔ روز کھاو گے تو پہلے جیسے صحت مند ہو جاؤ گے۔" بڑی اماں نے لاڈ سے کہا۔

"کبھی ہمارے لیے بھی مکھن والی روٹی بنوا لیا کریں بڑی اماں۔" ریحان نے سیڑھیوں سے ہال میں آتے خفگی سے کہا۔

"تُو تو پہلے ہی اِتنا موٹا ہے۔ مکھن والی کھا کے گول گپّہ بن جائے گا۔" بڑی اماں نے اُسے لتاڑا تو وہ ہنس دیا۔

"یہ موٹاپا نہیں فِٹ نیس ہے بڑی اماں۔ آپ کیا جانیں۔ لڑکیاں مرتی ہیں مُجھ پہ۔" ریحان نے کالر اکڑاتے فخر سے کہا تو وہ جو بڑی اماں کی گود میں لیٹا تھا بے ساختہ دھیمے سے مُسکرا دیا۔

"ہاں ہاں مر ہی تو جاتیں ہیں۔ تُمہیں دیکھ کے زندہ رہنے کا یارانہ جو نہیں ہوتا اُن میں۔" بڑی امّاں نے کہا تو وہ منہ بسورتا اُن کے دائیں جانِب بیٹھا۔

"بس بس۔ یہ بحث بند کرو اور کھانا کھا لو آ کے۔" رضیہ بیگم نے اُنہیں چُپ کرواتے کہا تو بُرہان سیدھا ہو کے بیٹھ گیا۔

"نہیں امی! میں نے تو مانو کے ہاتھ کے آلو پالک اور ساتھ میں پھولی پھولی گرم روٹیاں کھائیں ہیں۔ آپ لوگ کھائیں میں اپنے کمرے میں ہوں۔ تھوڑا آرام کروں گا۔" کہہ کر وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔

"بہت سمجھدار بچّی ہے میری مانو۔ خُدا اُسے ساری زندگی کی خوشیاں عطا فرمائے آمین۔" رضہ بیگم کے لہجے میں محبّت ہی محبّت تھی۔ ریحانہ بیگم کے ساتھ ساتھ ریحان نے بھی زیرِ لب آمین کہا تھا جب کہ بُرہان بے زاری سے اپنی نشست سے اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔ اُسے اِس "مانو نامے" میں کوئی دِلچسپی نہیں تھی۔

"امیّ! آپ کھانا لگائیں بہت بھوک لگ رہی ہے میں فریش ہو کر آتا ہوں۔" بُرہان نے کہہ کر قدم اپنے کمرے کی طرف بڑھائے تو ریحان بھی اپنے کمرے کی جانِب چل دیا۔

"امّاں جی! میں سوچ رہی تھی کہ کیوں نا ہم بُرہان کی شادی کر دیں اب؟ عُمر بھی تو ہو گئی ہے شادی لائق؟" رضیہ بیگم نے مشورہ لینے والے انداز میں کہا۔

"ہاں کہہ تو ٹھیک ہی رہی ہو۔ پِھر لڑکی ڈھونڈنا شروع کر دو؟" ریحانہ بیگم نے کہا تو رضیہ بیگم گہرا سانس بھر کر رہ گئیں۔

"لڑکی کیوں ڈھونڈنی ہے امّاں جی؟ لڑکی تو اپنے گھر میں ہے۔" رضیہ بیگم نے مُسکرا کر کہا تو ریحانہ بیگم چونک اُٹھیں۔

"کِس کی بات کر رہی ہو؟ فرازیہ کی یا چشمان کی؟" ریحانہ بیگم نے حیرت سے پوچھے۔

"اللّٰہ نا کرے کہ فرازیہ کبھی میری بہو بنے۔ میں اپنی مانو کی بات کر رہی ہوں۔ وہی میرے بُرہان کی دُلہن بنے گی۔" اماں جی کی بات سُن کے جیسے رضہ بیگم کو مِرچیں لگیں تھیں۔

"فرازیہ میں کیا بُرائی ہے؟ وہ کیوں نہیں بن سکتی؟" ریحانہ بیگم نے تلخی سے پوچھا۔

"اماں جی صاف اور سیدھی بات ہے۔ پہلے فرازیہ کی ماں ہمارے سروں پہ بیٹھی رہی اور اب میں اُس کی بیٹی کو اپنے گھر میں اپنے سامنے برداشت نہیں کر سکتی۔ اور آپ کو کیا مانو اور ہان کی شادی پہ کوئی اعتراض ہے؟" رضیہ بیگم نے دو ٹوک لہجے میں کہتے آخر میں اِستفسار کیا۔

"نہیں مُجھے کیا اعتراض ہو گا میں تو خوش ہوں کہ مانو ہمیشہ ہماری نظروں کے سامنے رہے گی مگر فرازیہ بھی تو اپنی ہی بچّی ہے اُس کی شادی بھی اپنوں میں ہو جائے تو اچھا ہے اور میں نے ریحان کے لیے ہی فرازیہ کو سوچا ہے اور یہی میرا آخری فیصلہ ہے۔" اماں جی نے بھی دوٹوک الفاظ میں کہا تو وہ سُلگ کر رہ گئیں۔

"ہرگِز نہیں امّاں جی! میں مر جاؤں گی مگر فرازیہ حبیب کو اپنی بہو کبھی نہیں بناوں گی۔ اور اگر آپ نے مُجھے ایموشنل بلیک میل کرنا چاہا تو میں خود کے ساتھ کُچھ کر بیٹھوں گی۔" وہ تیکھے لہجے میں کہتیں تیزی سے اُٹھ کر کِچن کی جانِب چلی گئیں جبکہ بڑی اماں اُن کی ُپشت کو بے بسی سے دیکھتی رہ گئیں۔ اُنہیں یہ سمجھ نہیں آتا تھا کہ رضیہ کو آخر کُلثوم اور اُس کی بیٹیوں سے کِس قِسم کا بیر ہے۔


****************

وہ اوپر آئی تو سامنے ہی رضیہ بیگم ہال میں لگے تخت پہ بیٹھیں تھیں۔ وہ مدھم سا مُسکراتی اُن کی جانِب بڑھی اور اُن کے پاس جا کے بیٹھ گئی۔

کیا کر رہی ہیں تائی ماں؟" اُس نے اُن کے کندھے پہ سر رکھتے پوچھا۔

"کُچھ نہیں میری لاڈو بس بُرہان کے لیے چائے بنانے لگی تھی تو سوچا ساتھ رات کے کھانے کی تیاری بھی کر لوں۔" وہ اُس کے من موہنے چہرے کی جانِب دیکھتیں نرمی سے بولیں۔

"اچھا لائیں میں یہ سبزی بناتی ہوں آپ ہان بھائی کے لیے چائے بنا لیں۔" اُس نے سبزی والی ٹوکری اُن کے آگے سے اُٹھاتے کہا تو وہ اُسے روک گئیں۔

"نہیں بیٹا۔ یہ سبزی تو میں بنا لوں گی تُم بس چائے بنا کے بُرہان کے کمرے میں دے آو۔" اُنہوں نے کہا تو وہ سٹپٹا گئی۔

"تت تائی ماں! آپ جائیں نا۔ وہ مُجھے بہت ڈانٹتے ہیں بِلا وجہ ہی۔ اب بھی ڈانٹیں گے۔" اُس نے روہانسے لہجے میں کہا۔

"نہیں ڈانٹے گا مانو۔ تُم جاؤ تو۔" اُنہوں نے اِصرار کیا تو وہ روتا چہرہ بناتی اُٹھ کھڑی ہوئی یہ الگ بات تھی کہ بھورے نینوں میں ایک آنسو تک نا تھا۔

"آپ نہیں جانتیں اُنہیں۔ جب بھی میرا سامنا ہوتا ہے نا تو بس ایک ہی بات بولتے ہیں کہ دیکھ کر نہیں چل سکتی؟ دھیان کہاں ہوتا ہے تُمہارا؟ آنکھیں ہیں یا بٹن جو کُچھ دِکھائی نہیں دیتا۔" وہ بازو پھیلائے اپنی نسوانی آواز کو گھمبیر اور بھاری کرتی بُرہان کی نقل اُتارنے لگی۔

"ہاں تو تُم ہر دفعہ اُس سے ٹکرا جاؤ گی تو وہ یہی کہے گا نا رضیہ بیگم نے اُس کے پیچھے کھڑے وجود کے سُرخ ہوتے چہرے کو دیکھ کر ہنسی دباتے کہا۔

"میں دیکھ کر ہی چلتی ہوں تائی ماں! خود وہ ایسے گینڈے ٹائپ ہیں خود دیکھ کر نہیں چلللللللللللل آہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ روانی سے کہتی کِچن کی جانِب مُڑنے لگی کہ پیچھے کھڑے کسرتی جِسم کے مالِک بُرہان احمد کے سینے سے زور سے ٹکرائی تھی۔

"کیا گوہر فشانیاں ہو رہی ہیں زرا میں بھی تو سُنوں؟" بُرہان نے دانت پیستے کہا تو وہ بوکھلا سی گئی۔

"کک کُچھ نہیں ہان بھائی مم میں کک کُچھ بھی تو نہیں کہہ رہی تھی۔" وہ ہکلاتی ماتھا سہلاتی اپنی صفائی دینے لگی۔ بُرہان کے چہرے کے کرخت تاثرات تو اُس کا حلق تک خُشک کر دیتے تھے اور اب تو وہ اُس سے باز پرس بھی کر رہا تھا۔

"چائے لے کے کمرے میں آو۔" وہ تحکم بھرے لہجے میں کہتا وہاں سے واک آؤٹ کر گیا تو اُس نے روہانسا چہرہ بناتے رضیہ بیگم کی جانِب دیکھا۔ تو وہ بے نیازی سے کندھے اُچکا گئیں جیسے کہہ رہی ہوں بھئی میں کیا کر سکتی ہوں؟ تُم ہی بُھگتو۔

وہ مرتی کیا نا کرتی کے مُصداق کِچن کی جانِب بڑھی اور دس مِنٹ میں چائے بنا کے کپ ٹرے میں رکھتی بُرہان نے کمرے کی جانِب بڑھی۔ کمرے کے دروازے پہ رُک کر گہرا سانس بھر کر خود کو پُرسکون کیا اور ریلیکس ہوتی کمرے کا دروازہ ناک کیا۔ اِجازت مِلنے ہر وہ ٹرے ہاتھوں میں تھامے اندر داخل ہوئی تو اُس کے سرد بت تاثر چہرے کو دیکھ کر اُس کا دِل پِھر سے گھبرایا تھا۔ خود کو پُرسکون کرنے کی ساری پریکٹس کنوئیں میں جا پڑی تھی۔

"ہہ ہان بھائی یہ چائے۔" وہ اٹک کر کہتی ٹرے کو سائیڈ ٹیبل پر رکھتی واپس جانے لگی جب نظر سامنے رکھی کِتاب پر پڑھِی۔ آدھی پیکڈ اور آدھی کُھلی کِتاب شاید تُحفے میں دی گئی تھی۔ وہ برق رفتاری سے کِتاب تک پنچی اور جھپٹ کر اُس کی رہی سہی پیکنگ بھی کھول دی وہ ایک بہت مشہور مصنف کی کِتاب تھی۔ اور کِتابیں تو چشمان بی بی کو بچپن سے ہی بہت پسند تھیں۔ بغیر بُرہان کی اِجازت لیے وہ اُس کِتاب کے صفحات پلٹتی اب کِتاب کے کنٹینٹس دیکھ رہی تھی۔ جبکہ اُس کی اِس حرکت پر بیڈ پہ بیٹھے بُرہان کے ماتھے پہ بل پڑھے تھے۔ وہ تیزی سے اُٹھتا اُس کے سر پہ پہنچا تھا اور تیکھی نظروں سے اُسے گھورتا اُس سے کِتاب جھپٹ گیا تھا۔ وہ جو خود میں مگن اِردگِرد سے بے نیاز ہوئی تھی اِس آفت پر سر اُٹھا کر سامنے والے کو گھورنا چاہا تھا مگر سامنے ہی وہ کڑک نظروں سے اُسے دیکھتا آنکھوں ہی آنکھوں سے کھا جانا چاہتا تھا۔

"کِسی کی اِجازت کے بغیر کِسی کے تُحفے کو نہیں کھولتے اور تُحفہ ہی کیا کِسی بھی چیز کو پوچھے بغیر نہیں لینا چاہیے۔ لیکن شاید تُمہیں تمیز ہی نہیں ہے کہ کِسی کی اِجازت لینا بھی ضروری ہوتا ہے۔" بُرہان دانت کچکچا کر کہہ رہا تھا۔

"سس سوری ہان بھائی! وہ مُجھے خیال نہیں رہا۔ کیا میں یہ کِتاب پڑھ لوں؟" اُس نے للچائی نظروں سے کِتاب کو دیکھتے معذرت کی تھی۔

"نہیں یہ میرے لیے بہت خاص ہے کیونکہ یہ مُجھے ایک خاص اِنسان نے دی ہے اور مُجھے بالکُل پسند نہیں کہ میری خاص چیزوں کو کوئی ہاتھ بھی لگائے خاص کر تُم۔" وہ تیکھے لہجے میں بولتا اُس کے دِل کے ٹُکڑے کر رہا تھا۔

"سس سوری ہان بھائی! آآ آئیندہ نن نہیں مانگوں گی آپ سے کک کُچھ۔" وہ نم بھرائے لہجے میں کہتی تیزی سے باہر نِکلتی چلی گئی جبکہ وہ اُس کا بھرایا لہجہ اور آنکھوں میں نمی محسوس کر کے کُچھ شرمِندہ سا ہوا تھا مگر پِھر سر جھٹک کر چائے کی طرف متوجہ ہوا تھا جو پڑی پڑی ٹھنڈی ہو رہی تھی۔ چائے کا گھونٹ بھرتے ہی اُسے پتہ چل گیا تھا کہ چائے چشمان نے بنائی ہے۔ اُس کے ہاتھ کے ذائقے کو اچھے سے پہچانتا تھا وہ۔


****************


بُرہان احمد کی چشمان سے چِڑ بِلا وجہ نہیں تھی۔ اُسے لڑکیاں سنبھلی ہوئی اور سُلجھی ہوئی ہی اچھی لگتیں تھیں۔ سنجیدہ، باوقار، اور کم گو لڑکیاں جو زیادہ شور شرابہ نا کرتی ہوں اور نا ہی بہت شوخ و چنچل ہوں۔ اور چشمان اُن لڑکیوں کے بالکُل برعکس تھی۔ شوخ و چنچل، ہر چھوٹی چیز میں خوشی ڈھونڈنے والی، پٹر پٹر بولنے والی اور زندگی کو بھرپور طریقے سے جینے والی کیونکہ بقول چشمان زندگی ایک ہی بار مِلتی ہے اور اپنی زندگی کا ہر دِن ایسے جینا چاہیے جیسے وہ آخری ہو اور اِسی بات پہ عمل کرتے وہ اپنی زندگی کا ہر دِن ایسے ہی جیتی تھی جیسے وہ اُس کی زندگی کا آخری دِن ہو۔

وہ بُرہان سے اکثر اپنی ہڑبڑی میں ٹکرا جاتی تھی جِس پہ وہ تپ کر رہ جاتا تھا اور وہ دامن بچا کے نِکل جاتی تھی۔ آج اِسی بات کا غُصّہ بُرہان نے اُس پہ نِکالا تھا جِس سے وہ ہرٹ ہوئی تھی۔ وہ آرام سے بھی اُسے منع کر سکتا تھا مگر نہیں اِتنے تلخ لہجے میں چشمان بی بی کی بے عِزتی کرنا تو فرض تھا نا اُس پہ۔

اپنے پورشن میں آ کے کُچھ دیر آنسو بہانے کے بعد وہ پِھر سے سب بھولتی رات کے کھانے کی تیاری کرنے لگی تھی۔ مگر اب اُس نے سوچ لیا تھا کہ وہ اُس کھڑوس کے منہ بھی نہیں لگے گی نا ہی اُس کی موجودگی میں اب اوپر جائے گی۔ مگر اُس کے سوچنے سے کیا ہوتا ہے ہونا تو وہی تھا جو قِسمت میں لِکھ دیا گیا تھا۔

رات کے کھانے کے بعد وہ باقی ماندہ ٹیسٹ چیک کرنے لگی تھی۔ اذہاد ایل ای ڈی کے آگے بیٹھا تھا۔ اپنی پڑھائی وہ ٹائم پہ کر کے اب فارِغ وقت میں ایل ای ڈی دیکھ رہا تھا۔ وہ ابھی کوئی میچ دیکھ رہا تھا جب عریحہ وہاں آئی۔

"ہاد بھائی ہمارا ٹی وی نہیں چل رہا میرا سیریل آ رہا ہے مُجھے دیکھنے دیں نا پلیز۔" وہ بچوں کی طرح ہونٹ لٹکا کے بولتی اذہاد کے دِل کے تار چھیڑ گئی تھی۔

"نہیں میں میچ دیکھ رہا ہوں بعد میں آنا۔" اُس نے بظاہر سنجیدگی سے کہا جب کہ آنکھوں میں شرارت ناچ رہی تھی۔

"ہاد بھائی پلیز پلیز۔ میچ تو اِتنے گھنٹے چلتا رہے گا جبکہ میرا سیریل آدھے گھنٹے کا ہے پلیز نا؟" وہ اِلتجا کرنے لگی اور جھٹ سے اُس کے پاس صوفے پہ بیٹھ گئی اور اُسے بازو سے تھام لیا۔ اذہاد کا دِل اُچھل کر رہ گیا تھا۔ کچّی عُمر کی پکّی محبّت اُس کے دِل میں پِچھلے کُچھ مہینوں سے پروان چڑھنے لگی تھی۔

"بالکُل نہیں۔ میرا فیورٹ پاکِستان اور اِنڈیا کا میچ لگا ہے تُم جا کے اپنے ناولز پڑھو۔" اُس نے اپنا بازو اُس کی گرفت سے آزاد کروایا تو وہ روہانسا چہرہ بنائے اُس کی جانِب آس بھری نظروں سے دیکھنے لگی۔

"کوئی ناول نہیں ہے میرے پاس۔ جو تھے وہ پڑھ لیے ہیں اب میں کیا کروں۔" اُس کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو دیکھ کے اذہاد کا دِل کیا اپنا سر پیٹ لے۔

"اِتنا چھوٹا دِل کیوں ہے تُمہارا؟ میں نے ڈانٹا ہے جو رونے بیٹھ گئی ہو؟" اُس نے زرا سخت لہجے میں پوچھا اور یہاں اُس نے زرا سخت لہجہ اپنایا اور وہاں عریحہ کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو بہتے اُس کے گالوں کو بھگونے لگے۔

"ڈانٹ ہی تو رہے ہیں مُجھے۔ "وہ سوں سوں کرتی بولی۔

"کیا ہو گیا ہے؟ ریا بیٹا کیوں رو رہی ہو؟ ہادی نے کُچھ کہا ہے کیا؟" چشمان جو ٹیسٹ چیک کر چُکی تھی اُن کے پاس آتی عریحہ کو روتے دیکھ کر کڑے تیوروں سے اذہاد کو گھورنے لگی۔ اُس کے اِس طرح دیکھنے پر اذہاد سٹپٹا سا گیا۔

"نہیں آپی! میں نے تو کُچھ نہیں کہا۔" اُس نے صفائی دینی چاہی۔

"آپی! یہ مُجھے ڈرامہ نہیں دیکھنے دے رہے۔ ہمارا ٹی وی خراب ہے پلیز اِن سے کہیں نا کہ مُجھے دیکھنے دیں۔" عریحہ نے اپنا ہمدرد پاتے فوراً ہی اذہاد کی شِکایت لگائی۔

"ہادی! چلو دیکھنے دو ڈرامہ اُسے۔ تُم جاؤ جا کے سو جاؤ۔ بہن ہے تُمہاری اور بہنوں کو رُلاتے نہیں۔" چشمان نے کہا تو اذہاد کو لگا جیسے کِسی نے اُسے سوئیاں چھبوئی ہوں۔

"لاحول ولا قوة۔" وہ بے ساختہ ہی بول اُٹھا تو چشمان اچھنبے سے اُسے دیکھنے لگی۔ جبکہ عریحہ بی بی اُن سے بے نیاز اب ریموٹ پکڑے ڈرامہ دیکھنے لگی تھی۔

"کیا کہا؟" چشمان نے اُسے گھورا۔

"کک کُچھ نہیں آپی! میں کہہ رہا تھا کہ اب ڈرامے کیوں دیکھ رہی ہے جا کے پڑھے اوپر۔ اِس کے فائنلز ہونے والے ہیں۔" اُس نے بات گُھمائی۔

"آپی میں نے ساری تیاری کر لی ہے بس میتھ کے کُچھ چیپٹرز رہ گئے ہیں وہ سمجھ ہی نہیں آ رہے۔" عریحہ نے اپنے بارے میں بات سُن کے جلدی سے صفائی دی۔

"تو اذہاد سمجھا دے گا نا تُمہیں۔ ابھی ڈرامہ دیکھ لو پِھر جو چیز نہیں آتی اذہاد سے سمجھ لینا اِس کے میتھ پڑھنے کا بھی تو کوئی فائدہ ہو۔" چشمان نے کہا تو عریحہ مُسکراتی سر ہلا گئی جبکہ اذہاد اُس کی ڈنپل والی مُسکراہٹ سے نظریں چُراتا اُٹھ گیا۔

"جب پڑھنا ہو مُجھے بتا دینا میں پڑھا دوں گا۔ ابھی میں سونے جا رہا ہوں۔گُڈ نائٹ۔" وہ سرسری سی ایک نظر اُس کے کِھلتے چہرے پہ ڈال کر اپنے کمرے میں چلا گیا جبکہ چشمان اب عریحہ کے ساتھ بیٹھی ڈرامہ دیکھ رہی تھی۔


***************


لاہور میں اگلی صبح روشن اور چمکیلی تھی۔ سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمکتا ہر سو اپنی تپش چھوڑ رہا تھا۔ گرمی کا زور پہلے سے اور بڑھ گیا تھا۔ ایسے میں گھر سے نِکلنا ہر کِسی کے لیے دُشوار ہو گیا تھا مگر باہر نِکلے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔

تنویر احمد ریحان کے ساتھ فیکٹری جا چُکے تھے۔ جبکہ حماد احمد بھی اُنہی کے پیچھے نِکل گئے تھے۔ بُرہان ابھی تک گھر پر ہی تھا۔ اذہاد کالج چلا گیا تھا۔ عریحہ کو روز وہی ڈراپ کرتا تھا اِسی لیے وہ بھی سکول چلی گئی تھی۔ چشمان کِچن سمیٹتی اب تیار ہونے چلی گئی تھی۔ شائستہ بی بی اب اذہاد کے کمرے کی صفائی کر رہیں تھیں۔

وہ اپنے کمرے میں آئینے کے سامنے کھڑی تیار ہو رہی تھی۔ یہ سادی سا نفاست سے سیٹ کیا گیا کمرہ تھا۔ درمیان میں بیڈ رکھا گیا تھا۔ دائیں جانِب ڈریسنگ اور بائیں جانب کبرڈ تھا ایک طرف کھڑکی تھی جب کہ دوسری جانب اٹیچ باتھ روم تھا۔ کمرے کی دیواروں پہ کُچھ نہایت خوبصورت پینٹنگز لگیں تھیں۔

اُس نے ریڈ اور بلیک کنٹراسٹ کا نفیس سا سوٹ پہنا ہوا تھا جِس کے گلے اور دامن پہ کڑھائی کی گئی تھی۔ دوپٹہ ایک طرف رکھا ہوا تھا۔ بال بنا کے اُس نے درمیان سے مانگ نِکال کے چوٹیا بنائی اور کمر پہ پھینک کر دوپٹہ اُٹھایا۔ ایک کندھے پہ دوپٹہ ڈال کے وہ اوپر کی جانب بڑھی۔ ابھی اُسے سکول کے لیے نِکلنے میں آدھا گھنٹہ تھا اور اُس کا معمول تھا کہ وہ روز سب سے مِل کے ہی سکول جاتی تھی۔

ابھی بھی وہ اپنی تائی کے پورشن میں آئی تھی۔ اُس کا خیال تھا کہ بُرہان فیکٹری جا چُکا ہو گا اِسی لیے لاپرواہی سے کندھے پہ دوپٹہ اٹکائے وہ اوپر آئی تھی۔ تائی ماں کِچن میں تھیں اُن سے مِلنے کے بعد وہ بڑی امّاں کے کمرے کی جانب بڑھی۔ ابھی وہ بُرہان کے کمرے کے سامنے سے گُزر کر بڑی اماں کے کمرے کی جانب بڑھنے ہی لگی تھی جب اچانک سے اندر سے کوئی باہر نِکلا اور زور سے اُس سے ٹکرایا۔ اگر وہ ایک دم اُسے نہیں تھامتا تو شاید وہ اب تک زمین پہ پڑی ہوتی۔ چشمان کے منہ سے کراہ نِکل کے رہ گئی تھی مگر جب مقابل پر نظر پڑھی تو دانتوں تلے لب دبایا تھا۔

بُرہان جو کمرے سے تیزی سے نِکل رہا تھا اچانک کِسی کے ٹکرانے سے وہ اُس کی کمر کے گِرد بازو حائل کرتا اُسے گِرنے سے بچا گیا تھا۔ وہ اُس کے ساتھ لگی کانپ رہی تھی۔ بُرہان کے جب نظر مقابل پہ پڑی تھی وہ دانت کچکچا کے رہ گیا تھا۔ ایک جھٹکے سے اُسے خود سے الگ کیا تھا کہ وہ پیچھے گِرتے گِرتے بچی۔

"اندھی ہو کیا؟ نظر نہیں آتا؟ یا صُبح صُبح ہی آنکھیں نیچے چھوڑ آئی ہو۔ یا خُدا یا تو مُجھے اُٹھا لے یا اِس آفت کو۔" بُرہان نے اوپر کی طرف منہ اُٹھا کے جیسے خُدا سے دُعا کی تھی جِس پہ وہ خجل ہوئی تھی۔

"سس سوری ہان بھائی! پپ پتہ نہیں چلا۔" وہ معصوم سا منہ بنائے بس یہی کہہ پائی تھی۔ بُرہان نے ایک نظر اُس کی طرف دیکھا۔ پُرکشش صاف شفاف رنگت، سُرخ گُلابی ہونٹ، دائیں گال پہ تھوڑی سے تھوڑا اوپر سیاہ تِل، ناک میں پہنی نوز پِن، کمر تک آتے چوٹیا میں بندھے بال، تیکھے ناک اور تیکھے نین نقوش کے ساتھ وہ خوبصورتی کی عُمدہ مِثال تھی۔ اُس نے ایک نظر میں اُس کے من موہنے مُکھڑے کا جائزہ لیتے رُخ پھیرا اور کوئی بھی جواب دیئے بِنا کِچن کی جانب بڑھا۔

وہ بھی اُس کی پُشت دیکھتی زبان نِکال کے چِڑاتی بڑی اماّں کے کمرے میں داخل ہوئی۔ وہ سامنے ہی بیٹھیں تسبیح پڑھ رہیں تھیں۔ اُنہیں سلام کر کے وہ اُن کے قریب بیٹھی۔

"کیا بات ہے میرا بچہ؟ منہ کیوں لٹکایا ہے؟" اُنہوں نے اُس کے افُسردہ چہرہ دیکھ کے پوچھا۔

"ہان بھائی ہر وقت سڑے ہوئے کیوں رہتے ہیں بڑی اماں؟ کیا وہ ہر وقت کریلے کھاتے رہتے ہیں؟" چشمان نے سادگی سے پوچھا تھا مگر وہ آگے سے ہنس دیں تھیں۔

"نہیں مانو! وہ تو کریلے کھاتا ہی نہیں ہے۔ اور اِتنا اچھا تو ہے وہ تُمہیں پتہ نہیں کیوں کریلے کی طرح کڑوا لگتا ہے۔" بڑی امّاں نے خفگی سے کہا تو وہ دانت دِکھاتی ہنس دی۔

"ہر وقت تو میتھی کا لڈو بنے رہتے ہیں کبھی کڑوا کبھی پھیکا۔ کبھی سویٹ بھی بن جایا کریں۔" اُس نے منہ بسورا۔

"تُم بنا دینا اُسے سویٹ۔" اُنہوں نے معنی خیزی سے کہا مگر وہ اپنی ہی دُھن میں تھی۔

"نا بابا نا میرا کوئی موڈ نہیں ہے شیر کے منہ میں ہاتھ دینے کا۔ اور اِتنے وہ فرمانبردار کہ میری مان بھی لیں۔ " اُس نے کانوں کو ہاتھ لگاتے کہا تو وہ مُسکرائیں تھیں۔

"اچھا اب میں چلتی ہوں۔ لیٹ نا ہو جاؤں۔" اُس نے بڑی اماں کے ہاتھ چومے اور باہر کی راہ لی۔

"اللّٰہ حافِظ تائی ماں۔" وہ جانے لگی مگر پِھر رضیہ بیگم کی آواز پہ رُکی۔

"مانو! بیٹا رُکو۔ اکیلی کہاں جاؤ گی؟ بُرہان چھوڑ دے گا۔" اُنہوں نے کہا تو چشمان کی سانسیں خُشک ہوئیں۔

"نن نہیں تائی اماں۔ میں چلی جاؤں گی۔" اُس نے بُرہان کی کھا جانے والی نظروں سے گھبراتے کہا۔

"نہیں بُرہان ہی چھوڑے گا تُمہیں۔ ہے نا بُرہان؟" اُنہوں نے بُرہان سے تصدیق چاہی۔

"جی امی! میں ہی چھوڑوں گا۔" بُرہان نے دانت پیستے کہا جِسے رضیہ بیگم تو نہیں مگر چشمان محسوس کر گئی تھی۔

"نہیں ہان بھائی میں چلی جاؤں گی آپ زحمت مت کریں۔" وہ اُس کا احسان کیسے لے سکتی تھی اِسی لیے منع کرنے لگی۔

"ایک دفعہ سُنائی نہیں دیا کہ امی نے کیا کہا؟ جا کے تیار ہو میں آتا ہوں۔" بُرہان نے سرد لہجے میں کہا تو وہ ڈرتی نیچے کی جانب بھاگی جبکہ اُس کے ایسے بھاگنے پر بُرہان نے ناگواری سے اُس کی طرف دیکھ کر سر جھٹکا۔

اُس نے نیچے آ کے حِجاب سیٹ کیا اور کندھوں پہ چادر اوڑھ کے بیگ اُٹھایا اور باہر آئی جہاں بُرہان شائستہ بیگم سے باتیں کر رہا تھا۔ ایک نظر اُس کے چہرے پہ ڈال کے شائستہ بیگم کو خُدا حافِظ کہتا وہ باہر کی جانب بڑھ گیا۔ وہ بھی ماں کو خُدا حافةظ کہتی باہر بھاگی کہ کہیں دیر ہونے پہ ڈانٹ ہی نا دے۔

وہ باہر آئی تو وہ کار کی فرنٹ سیٹ پہ بیٹھا تھا۔ اُس نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور جلدی سے اندر بیٹھ کے سیٹ بیلٹ لگائی۔

اُس کے بیٹھتے ہی بُرہان نے خاموشی سے گاڑی آگے بڑھائی۔

وہ خاموشی سے ڈرائیو کر رہا تھا جب کہ چشمان کن انکھیوں سے اُسے ہی دیکھ رہی تھی۔ پِھر خاموشی سے اُکتا کر اُس نے ٹیپ آن کر دی تو گاڑی میں راحت فتح علی خان کی آواز گونجنے لگی۔

محبّت بھی ضروری تھی

بِچھڑنا بھی ضروری تھا

تیری آنکھوں کے دریا کا اُترنا بھی ضروری تھا

ضروری تھا کہ ہم دونوں طوافِ آرزو کرتے

مگر اِن آرزووں کا بِکھرنا بھی ضروری تھا

ابھی گانا اور چلتا جب بُرہان نے ہاتھ آگے بڑھا کے ٹیپ بند کر دی۔ چشمان نے خفگی سے اُس کی جانِب دیکھا۔

"میں نے کہا تھا نا کہ بغیر اِجازت میری چیزوں کو ہاتھ مت لگایا کرو۔" بُرہان نے غُصّے سے پوچھا۔

"تو میں بور ہو رہی ہوں اب میوزک سُننے کے لیے ہی ہوتا ہے۔" اُس نے بھی بے خوفی سے جواب دیا۔

"بدتمیزی مت کرو چشمان! ورنہ مُجھ سے بُرا کوئی نہیں ہو گا۔" اُس نے ٹوکا۔

"آپ سے بُرا کوئی ہے بھی نہیں۔" وہ بڑبڑائی۔

"کیا کہا؟" بُرہان نے اُسے تیکھے چتونوں سے گھورا۔

"کُچھ بھی تو نہیں کہا۔ آپ کے کان بج رہے ہیں۔" اُس نے منہ بسورتے کہا۔

"اب آواز نا آئے مُجھے تُمہاری۔" بُرہان نے کہا تو وہ ہونٹوں پہ اُنگلی رکھ کے بیٹھ گئی۔

وہ اُس سے رُخ موڑ کر کِھڑکی کی طرف رُخ کر کے بیٹھ گئی تھی۔ بُرہان نے ایک نظر اُس کی پُشت پہ ڈال کر وہ سنجیدگی سے ڈرائیو کرنے لگا تھا۔

پندرہ مِنٹ بعد اُسے سکول کے سامنے اُتار کے بغیر اُس کی طرف دیکھے وہ گاڑی آگے بھگا لے گیا تھا۔ وہ ایک نظر اُس کی دھول اُڑاتی گاڑی کو دیکھتی سکول کا گیٹ عبور کر گئی تھی۔


****************

وہ آفس میں بیٹھا تھا آج کل کام زیادہ بڑھ گیا تھا۔ اُن کو نئے آرڈرز مِل رہے تھے جِس کی وجہ سے ایک لمحہ بھی فراغت کا نہیں مِل پا رہا تھا۔ وہ جلدی جلدی ہاتھ چلاتا لیپ ٹاپ پہ کُچھ ضروری ای میلز کر رہا تھا۔

کُچھ دیر بعد ریحان اُس کے کیبن میں داخل ہوا۔ کُچھ دیر فائلز ڈِکسکس کرتے رہے پِھر ریحان اُٹھ کر واپس اپنے کیبن کی طرف بڑھ گیا۔

سارا دِن ہی وہ کام میں مصروف رہا تھا۔ دِن کے ڈیڑھ بج رہے تھے۔ ابھی وہ لنچ کے لیے نِکلنے لگا تھا جب تنویر صاحب اندر آئے۔

"ارے چچا جان آئیے آئیے۔" وہ اُنہیں دیکھ کر رُکتا ہوا واپس آ گیا۔

"بُرہان بیٹا مصروف تو نہیں ہو؟" اُنہوں نے حلیمی سے پوچھا۔

"نہیں چچا جان! آپ بتائہں کوئی کام تھا کیا؟" اُس نے نرمی سے اِستفسار کیا۔

"ہاں بیٹا وہ مانو کا فون آیا تھا اُس کا جوتا ٹوٹ گیا ہے تو سٹاپ وہاں سے کافی دور ہے اِس لیے چل کے جا نہیں سکتی تو کیا تُم اُسے گھر چھوڑ دو گے؟" اُنہوں نے پریشانی سے بتایا تو وہ لب بھینچ کر رہ گیا۔

"میں ریحان سے کہتا ہوں وہ چھوڑ آئے گا۔" اُس نے کہہ کر فون کی طرف ہاتھ بڑھایا۔

"ریحان فیکٹری کے پِچھلے حِصے میں ساری تیاری دیکھ رہا ہے۔ کپڑوں کے تھان آج ہی ریڈی کر کے بھیجنے ہیں تو وہ وہی دیکھ رہا ہے۔ تُم مصروف ہو تو کوئی بات نہیں میں ہی چلا جاتا ہوں۔" اُنہوں نے اُسے بتاتے اپنی نشِست چھوڑی تو وہ شرمندہ سا ہوا۔

"نہیں اب اِتنی بھی مصروفیت نہیں ہے۔ میں جاتا ہوں۔" اُس نے نرمی سے کہہ کر باہر کی طرف قدم بڑھائے تو وہ اُسے دُعائیں دیتے کیبن سے باہر نِکل گئے۔

"ہننہ یہ مانو تو سچ مچ کی بِلی ہے کِسی کو سکون سے رہنے بھی نہیں دیتی۔ پتہ نہیں کب جان چھوٹے گی۔ اب اِس مُحترمہ کا شوفر ہوں میں جو چھوڑنے بھی جاوں اور لینے بھی جاؤں۔" وہ خود سے بڑبڑاتا گاڑی سٹارٹ کرتا اُس کے سکول کے لیے نِکل گیا۔

پندرہ مِنٹ میں وہ اُس کے سکول کے سامنے کھڑا تھا۔ گاڑی کو لاک کرتے اُس نے گیٹ کی جانِب قدم بڑھائے مگر سامنے کا منظر اُس کے ماتھے کی رگیں واضح کر گیا تھا۔ وہ سامنے ہی کِسی لڑکے سے مُسکرا مُسکرا کر باتیں کر رہی تھی۔لڑکا کوئی سترہ اٹھارہ سال سے زیادہ نہیں تھا لیکن چشمان اُس کے سامنے اپنی ہائیٹ کی وجہ سے چھوٹی ہی لگ رہی تھی۔ سڑک سے تھوڑے فاصلے پہ کھڑا اُسے ایک لڑکے سے یُوں بے تکلّفی سے دیکھ کر اُس کی آنکھیں سُرخ ہوئیں تھیں۔

سر جھٹکتا وہ اُس کی جانِب بڑھا۔ جو اُسے اپنے قریب آتے دیکھ چُکی تھی مگر پِھر بھی جانے کون سی باتیں تھیں جو ختم نہیں ہو رہیں تھیں۔

"ٹھیک ہے مِس میں اب چلتا ہوں۔ آپ کی نصیحت پر عمل کرنے کی پوری کوشش کروں گا۔" وہ جب پاس پہنچا تو وہ لڑکا بولا تھا۔

"ٹھیک ہے مگر پوری کوشش کرنا اِن شااللّٰہ تُم کامیاب ہو گے۔" چشمان نے خوشدِلی سے کہا تو بُرہان لب بھینچ کر رہ گیا۔

وہ اللّٰہ حافِظ کہہ کر چلا گیا تو چشمان بُرہان کی طرف متوجّہ ہوئی۔

"چلو۔" وہ ابھی کُچھ بولتی کہ بُرہان نے سرد لہجے میں کہہ کر قدم آگے بڑھائے وہ اُس کے پُشت کو زبان دِکھاتی اُس کے پیچھے چلنے لگی۔ گاڑی میں بیٹھ کر اُس نے گاڑی گھر کے راستے پر ڈال دی۔

"کون تھا وہ؟" بُرہان نے اچانک ہی پوچھا تھا۔

"سسس سٹوڈنٹ تت تھا ہان بب بھائی!" ایک دم پوچھے جانے پہ وہ اُچھل کر اٹکتے ہوئے بولی تھی۔ اُس کے لفظوں ہی ہِچکچاہٹ پہ بُرہان نے بغیر کُچھ اور پوچھے اپنے ہی دِل میں اُس کی حرکت ہہ ناگواری محسوس کی تھی۔ کُچھ تو غلط تھا نا جو وہ یُوں اٹکی۔ بُرہان نے یہ نہیں سوچا کہ اِتنی اچانک مُخاطِب کیے جانے پہ وہ ڈر گئی تھی۔

"ہنننہ۔ کیا کہہ رہا تھا؟ ۔" بُرہان نے ہُنکارا بھر کر پوچھا۔

"جی وہ میٹرک کے پیپرز ہو گئے اُس کے تو اب کِسی کالج میں ایڈمیشن لینا یے۔ کِس اچھے کالج کا ہوچھ رہا تھا۔" اُس نے سادگی سے بتایا تھا۔

"تُم پڑھاتی تھی اُنہیں؟" بُرہان نے کُچھ سوچ کر پوچھا تھا۔

"جی ہان بھائی بہت اچھا ہے وہ۔ بہت بریلینٹ سٹوڈنٹ ہے۔ مُجھے بہت پسند ہے وہ۔" وہ بُرہان کی فرینکنس پہ حیران ہوتی پُرجوش سی بتانے لگی جب کہ اُس کی بات سُن کر بُرہان نے خُود پر مُشکِل سے ضبط کیا تھا۔

"دور رہو اُس سے۔" اُس نے سرد لہجے میں کہا تو وہ چونک کر اُس کی جانب دیکھنے لگی جو یکدم یی لہجہ بدل گیا تھا۔ چشمان کو سمجھ نا آئی کہ وہ کیا جواب دے اِس لیے چُپ رہی۔ وہ ریش ڈرائیونگ کرتا گاڑی گھر کے راستے پہ ڈال گیا۔ دس مِنٹ بعد بعد وہ گھر پر تھے۔ چشمان کو گھر کے مین گیٹ پر اُتار کر وہ واپس فیکٹری چلا گیا تھا۔

وہ گھر میں داخل ہوئی تو اذہاد بھی آ چُکا تھا۔ اُس کی امی نے کھانا بنا لیا تھا۔ فریش ہونے کے بعد اُس نے ظہر کی نماز ادا کی اُس کے بعد خود کے لیے اور اذہاد کے لیے کھانا گرم کرنے لگی۔ کھانا کھانے کے بعد اُس نے اِستعمال شُدہ برتن صاف کیے کِچن سمیٹ کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔ کُچھ دیر ریسٹ کرنے کا سوچا۔ بِستر پر پڑتے ہی وہ صدا کی نیند کی دیوانی گہری نیند میں ڈوب چُکی تھی۔


****************


اذہاد اوپر آیا تو بڑی امّاں تخت پہ بیٹھی تسبیح پڑھ رہیں تھیں۔ اُن سے مِلنے کے بعد وہ رضیہ بیگم سے مِلا اور پِھر اوپر والے فلور کی جانِب بڑھ گیا۔ رضیہ بیگم نے تیکھی نظروں سے اُسے اوپر جاتے دیکھا تھا۔ اُنہیں کہاں گوارا تھا کہ کوئی اوپر والے فلرو پہ بسنے والوں سے ذرا سا بھی رابطہ رکھے۔ لیکن حماد صاحب کی وجہ سے وہ چُپ رہ جاتیں تھیں۔

اذہاد اوپر پہنچا تو کُلثوم بیگم کِچن میں کُچھ کام کر رہیں تھیں۔ وہ اِردگِرد دیکھتا کِچن میں داخل ہوا۔

"اسلامُ علیکُم پھوپھو! کیا کر رہیں ہیں؟" اُس نے سلام کرتے پوچھا تو وہ اُس کی طرف پلٹتیں مُسکراہٹ لبوں پہ سجاتی اُس کے سر پہ پیار دے گئیں۔

"وعلیکُم اسّلام! چائے بنا رہی تھی تُم پیو گے؟" اُنہوں نے نرمی سے اِستفسار کیا۔

"نیکی اور پوچھ پوچھ۔ ضرور پیوں گا۔ عریحہ کہاں ہے؟" اذہاد نے کان کُھجاتے نظریں چُرائیں کہ کہیں وہ اُس کے دِل کے موسم کو پڑھ نا لیں۔

"کمرے میں ہے۔ ابھی لنچ کر کے فارِغ ہوئی ہے کِتابیں پکڑ کے بیٹھی تھی۔" اُنہوں نے چائے میں پتی اور چینی ڈالتے کہا۔

"اچھا میں پِھر اُسی کے کمرے میں ہوں۔ کل وہ کہہ رہی تھی کہ اُسے میتھس پڑھنے میں مُشکِل ہو رہی ہے تو میں نے کہا میں سمجھا دوں گا۔" اُس نے بتاتے ساتھ ہی وضاحت دی۔

"ٹھیک ہے تُم جاؤ میں چائے لے کر آتی ہوں۔" اُنہوں چائے میں آتے اُبھال کو دیکھ کر گیس کی آنچ ہلکی کی۔ وہ سر ہلاتا عریحہ کے کمرے کی طرف بڑھا۔

وہ کمرے میں داخل ہوا تو سامنے ہی وہ دُشمنِ جاں بیڈ پر کِتابیں بِکھرائے دو زانو بیٹھی تھی۔ سر کو ایک کِتاب پر جُھکا رکھا تھا جبکہ ہاتھ تیزی سے رِجِسٹر پر چل رہے تھے۔ سیاہ اور گُلابی رنگ امتزاج کے سوٹ میں وہ نِکھری نِکھری سی سامنے تھی۔ بال کُھلے ہوئے اور نم بھی محسوس ہو رہے تھے۔ لاپرواہی سے دوپٹہ ایک کندھے پہ ڈالے وہ مقابل کی جان کو ہلکان کر گئی تھی۔ اُس کے خوشبو بکھیرتے وجود سے نظریں ہٹاتے وہ دروازے پہ ناک کرنے لگا تو وہ اُس کی جانِب دیکھتی جھٹ سے اپنا دوپٹہ ٹھیک کرنے لگی۔

"آجاوں؟" اذہاد نے اِجازت چاہی۔

"جی ہاد بھائی آ جائیں۔" اُس نے شرمندگی سے کہا۔

"ویسے مُیری اور تُمہاری عُمر میں دو ہی سال کا تو فرق ہے پِھر تُم مُجھے ہاد بھائی کیوں کہتی ہو؟ صِرف ہاد ہی کہہ لیا کرو نا۔" اُس نے اپنے دِل کی خواہش کو سادگی سے بیان کیا تھا۔

"دو سال ہی سہی بڑے تو ہیں نا مُجھ سے۔ اور امی بھی مُجھے کہتی ہیں کہ آپ کو عِزّت دوں۔" عریحہ نے کِتابیں سمیٹتے اُس کے لیے جگہ بنائی۔

"اچھا۔ تو عِزت کِسی اور طریقے سے بھی دی جا سکتی ہے ضروری ہے تُم بھائی ہی کہو؟" ہاد نے خفگی سے پوچھا۔

"کِس طریقے سے پِھر؟" اُس نے سر اُٹھا کر اذہاد کی آنکھوں میں جھانکا تو اذہاد نظروں کا رُخ موڑ گیا۔

"پِھر کبھی بتاوں گا تُم یہ بتاؤ ابھی کیا کر رہی ہو؟" ہاد نے بات کو گُھمایا تو وہ اپنے سامنے پڑی کِتاب اُس کے سامنے کر گئی۔

"میتھس کے سوال حل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ بورڈ پیپرز ہونے والے ہیں اور سکول میں فُل بُکس کے ٹیسٹ ہو رہے ہیں۔" عریحہ نے منہ بسورتے اُسے بتایا۔

"تو منہ کیوں بنا رہی ہو؟ تیاری کرو دھیان سے۔" اذہاد نے ٹوکا۔

"میتھس کی سمجھ ہی نہیں آتی مُجھے کب سے یہ چیپٹر حل کرنے کی کوشش کرر ہی ہوں مگر یہ ہے کہ ہو ہی نہیں رہا۔" اُس نے منہ پُھلا کر اِطلاع دی۔

"لاو کون سا نہیں ہو رہا میں کرواتا ہوں۔" ہاد نے اُس کے سامنے سے رِجسٹر پکڑتے پینسل چلانی شروع کی۔ ساتھ ساتھ وہ اُسے سمجھانے بھی لگا۔ چھوٹے چھوٹے پوائنٹس سمجھاتے وہ اُسے میتھس کی بیسک چیزیں اور فارمولاز بتانے لگا۔ تقریباً دس مِنٹ ہوئے تھے جب کُلثوم بیگم کمرے میں ٹرے تھامے داخل ہوئیں۔ اُنہیں پڑھائی میں مصروف دیکھ کر مُسکرائیں اور دونوں کو ایک ایک کپ تھمایا۔

"آئیں نا پھوپھو! آپ بھی میتھس کریں۔" اذہاد نے اُنہیں کہا تو وہ ہنس کر رہ گئیں۔

"کیوں مُجھے اِس عُمر میں پاگل کرنے پر تُلے ہو۔ تُم لوگ ہی کرو یہ میتھس شیتھس۔ میں زرا شام کے کھانے کی تیاری کر لوں۔" اُنہوں نے دروازے کی جانب قدم بڑھاتے کہا۔

"رازی آپی کِدھر ہیں نظر نہیں آئیں؟" اذہاد نے چائے کی چُسکی بھرتے کہا۔

"وہ اپنے کمرے میں ہیں سو رہیں تھیں۔" عریحہ نے بتایا تو وہ سر ہلا گیا۔

"ویسے آج کل کیا کھاتی ہو۔ موٹی ہوتی جا رہی ہو۔" اذہاد نے شرارتی لہجے میں پوچھا۔

"کیا سچ میں؟ میں کیا کروں ہاد بھائی؟ آج کل مُجھے بھوک ہی بہت لگتی ہے۔ کوئی حل بتائیں نا ڈائٹنگ کا۔" عریحہ پریشانی سے سنجیدگی بھرے لہجے میں بولی۔

"یار میں کیا بتاوں۔ مگر تُم نا فاسٹ فوڈ کھانا بند کر دو جیسے کہ لیز، فرائز، برگرز اور پیزا وغیرہ۔" اذہاد نے مشورہ دیا تو وہ آنکھوں میں شاک کی سی کیفیت لیے اُسے دیکھنے لگی۔

"ہاد بھائی! یہ سب تو میرے فیورٹ ہیں کیسے چھوڑ دوں۔ میں موٹی ہی سہی مگر اپنی فیورٹ چیزوں کی قُربانی نہیں دے سکتی۔" اُس نے دُکھی لہجے میں دو ٹوک کہا تو وہ ہنسی دبا گیا۔

"مگر پِھر تو تُم بالکُل ہاتھی کی طرح ہو جاؤ گی اور سب تُمہیں بے بی ایلیفنٹ کہیں گے پِھر تُمہیں بُرا تو نہیں لگے گا نا؟" وہ ریاضی کے سوال چھوڑ کر اُسے اور ہی مسلے میں اُلجھا چُکا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ بہت موٹی تھی۔ وہ نا ہی بہت موٹی تھی اور نا ہی بہت پتلی۔ سولہ سال کی عُمر میں ہی وہ متناسب جِسم کی مالک تھی۔ اُس کا قد پانچ فِٹ تھا اور اپنے قد کے حِساب سے اُس کی صحت اچھی تھی۔

"کوئی کہہ کر تو دِکھائے میں منہ نا توڑ دوں۔" عریحہ نے بِگڑ کر کہتے فِضا میں مکہ لہرایا تو وہ بے ساختہ قہقہہ لگا اُٹھا۔

"ہنس کیوں رہے ہیں؟" وہ خفا خفا سی بولتی اُس کے دِل میں اُتر رہی تھی۔

"کُچھ نہیں بے بی ایلیفینٹ! اوپس میں نے تُمہیں بے بی ایلیفینٹ بول دیا اب تُم مُجھے مارو گی؟" وہ مصنوعی خوف سے پوچھنے لگا تو وہ کُچھ دیر اُسے گھورنے کے بعد ہنس پڑی۔

"آپ بھی نا۔ چلیں باقی باتیں چھوڑیں مُجھے جو رہ گیا وہ سمجھائیں۔ قسم سے بہت اچھا سمجھاتے آپ۔" اُس نے جھینپ کر بات بدلی تو وہ بھی سنجیدہ ہوتا اُسے میتھس کرانے لگا۔


***************


دِن ایسے ہی گُزرتے جا رہے تھے سب کی زندگی پُرسکون سی اپنے ڈگر پر چل رہی تھی۔ اذہاد کے آئی کام کے اور عریحہ کے میٹرک کے پیپرز ہو چُکے تھے اور اُن کے لیے راوی اب چین ہی چین لِکھ رہا تھا مگر تنویر احمد کی طبیعت خراب رہنے لگی تھی جِس کی وجہ سے یہ چین کُچھ ہی دِنوں کا ثابت ہوا تھا۔ چشمان اپنے باپ کی بِگڑتی حالت پر جہاں پریشان تھی وہیں اکثر اُداسی کی صورت بن جایا کرتی تھی۔ پھر فرازیہ اور ریحان ہی تھے جو اُس کی دِل جوئی کرتے اُس کا حوصلہ بڑھا دیتے تھے۔ اذہاد اور عریحہ کی تُو تُو میں میں ہنوز جاری رہتی تھی جو گھر میں ایک رونق لگائے رکھتی تھی۔

وہ سکول جانے کے لیے تیار ہو رہی تھی۔ گرمیوں کی چُھٹیاں ہونے والی تھی جِس سے پہلے بچّوں کے پیپرز ہو رہے تھے اور اِن دِنوں میں وہ چُھٹی بھی نہیں کر سکتی تھی۔

تیار ہو کر وہ اپنے کمرے سے باہر نِکلی تو سامنے ہی اذہاد بیٹھا ہوا تھا۔ سامنے ٹی وی لگا ہوا تھا جِس پہ کوئی مارننگ شو آ رہا تھا۔ اُس کے ایف ایس سی کے پیپرز ہو چُکے تھے اور اب رِزلٹ کے آنے تک وہ فارِغ ہی تھا۔

"اذہاد! مُجھے سکول تک تو چھوڑ آو۔" چشمان نے نارمل سے انداز میں کہا تو وہ سر ہلاتا اُٹھ کھڑا ہوا۔

"چلیں میں باہر ہوں۔" وہ بائیک کی چابی اُٹھاتا باہر نِکلا تو وہ بھی ماں کو خُدا حافِظ کہتی باہر نِکل گئی۔

سارا دِن وہ سکول میں بِزی رہی تھی۔ سکول سے ہاف ڈے ہو گیا تھا۔ بچّوں کے پیپرز لینے کے بعد وہ فارِغ ہی تھے تو بچّوں کے ساتھ اُن کو بھی چُھٹی دے دی گئی۔ اُس کا فون بھی گھر پر تھا۔ کال کر کے وہ کِسی کو بُلا بھی نہیں سکتی تھی۔ وہ خود ہی گھر جانے کا سوچ کر باہر نِکلی کہ اُسے گیٹ پر ہی ارمان مِل گیا۔

ارمان اُن کے سکول ہی کا سٹوڈنٹ تھا۔ وہ میٹرک کے بعد فارِغ ہوا تھا اور کِسی اچھے سے کالج میں ایڈمیشن لے چُکا تھا۔ اکثر وہ پڑھائی کے معاملے میں مدد لینے کے لیے چشمان سے مِلنے سکول آتا رہتا تھا کہ وہ سائنس کی سئینئر ٹیچر تھی۔ اب بھی وہ اُسے سامنے دِکھی تو وہ مُسکراتا اُسکی جانِب بڑھا۔

"السلامُ علیکُم مِس!" ارمان نے احترام سے سلام کیا۔

"وعلیکُم السّلام ! آج تُم پِھر یہاں خیریت تھی؟" اُس نے نرمی سے پوچھا۔

"جی مِس خیریت ہی تھی۔ دراصل مُجھے کُچھ کورسِز میں مُشکلات ہو رہیں ہیں تو میں سوچ رہا تھا کہ آپ کے پاس ٹیوشن رکھ لوں اگر آپ کو کوئی پریشانی نا ہو تو؟" ارمان نے اپنا مدّعا بیان کیا۔

"مگر ارمان میں تو ٹیوشن نہیں دیتی۔ اور یہ بات تُمہیں اچھے سے پتہ ہے۔" چشمان نے سہولت سے اِنکار کیا تو ارمان کے چہرے پر مایوسی کے رنگ چھا گئے۔

"اچھا تُم پریشان مت ہو میں کِسی اچھی سی اکیڈمی کا پتہ کر کے تُمہیں بتاؤں گی تا کہ تُمہاری یہ اُداسی دور ہو سکے۔" اپ سنے ارمان کے بال بِگاڑے تو وہ کُھل کر ہنسا۔ جبکہ دور سے یہ منظر دیکھ کر کِسی کا خون کھول اُٹھا تھا۔

"تھینکیو مِس! آپ بہت اچھی ہیں۔" ارمان نے مُسکرا کر کہا اور جیب میں ہاتھ ڈال کر کُچھ نِکالا۔

"یہ آپ کے لیے مِس! ہوپ سو آپ مائینڈ نہیں کریں گی۔" ارمان نے کہا تو وہ نفی میں سر ہلاتی شُکریہ ادا کرنے لگی۔

"نہیں۔ تُم تو میرے اچھے سے بریلینٹ سٹوڈنٹ ہو تُمہاری بات کا کیسے بُرا مان سکتی ہوں میں؟" چشمان نےمُسکرا کر کہا تو وہ بھی مُسکرا دیا۔

"گھر چلیں چشمان میرے خیال سے جِتنی باتیں ہو گئیں اُتنی ہیں کافی ہیں۔" بُرہان نے ایک سخت نظر ارمان پر ڈال کر چشمان سے کہا۔

"ہاں! جی چلیے۔ ٹھیک ہے ارمان! میں جلد ہی آپ کو بتاوں گی آپ سکول ہی آ جانا۔" چشمان نے کہا تو وہ خُدا حافِظ کہتا وہاں سے چلا گیا۔

"راستے میں کھڑا ہو کر لڑکوں سے باتیں کرنے کا بہت شوق ہے تُمہیں؟" بُرہان نے گاڑی میں بیٹھتے ہی سخت لہجے میں پوچھا تھا۔

"جی کک کیا مطلب؟" وہ اُس کے اچانک مُخاطب کرنے پر ہکلا سی گئی تھی .

مطلب وہی جو تُم سمجھ رہی ہو۔ کون ہے وہ تُمہارا جِس سے اِتنا ہنس ہنس کر باتیں کرتی ہو وہ بھی یوں سڑک کِنارے۔" بُرہان نے تلخی سے پوچھا تھا۔

"میرا سٹوڈنٹ ہے وہ۔ مُجھ سے ٹیوشن کا پوچھ رہا تھا میں گھر کے لیے نِکل رہی تھی تو راستے میں مِل گیا۔" چشمان نے نا چاہتے ہوئے بھی وضاحت کی تھی۔ بُرہان کے طنز کا مطلب اچھے سے سمجھ گئی تھی وہ اور اُسے بُریان کی بات سخت زہر لگی تھی۔

"یہ یارانے چھوڑ دو تُم! ہماری عِزّت پہ دھبّا لگانے کی ضرورت نہیں ہے تُمہیں ورنہ انجام تُم اچھے سے جانتی ہو۔" بُرہان کے لہجے میں وارنِنگ تھی۔ ہِتّک کا احساس شدید تھا جو چشمان کو ہوا تھا۔ وہ اُسے کیا سمجھ رہا تھا؟ وہ سیدھا سیدھا اُس کے کِردار پر سوال اُٹھا رہا تھا۔ مگر وہ چُپ رہی تھی اُس کے نزدیک وہ اِس قابِل ہی نہیں تھا نا ہی اُس کا کوئی حق تھا اُس پر کہ وہ اُسے اپنے کِردار کی صفائیاں دیتی پِھرتی۔

بُرہان یہاں سے گُزر رہا تھا جب اُس کی نظر چشمان پر پڑی جو اُسی لڑکے سے ہنس ہنس کر باتیں کرنے میں مصروف تھی۔ جِسے دیکھ کر وہ لب بھینچتا اُس کی جانِب بڑھا تھا۔

باقی سارے راستے خاموشی رہی تھی۔ چشمان مُکمّل کِھڑکی کی جانِب رُخ کیے بیٹھی تھی جبکہ بُرہان نے بھی اُسے دوبارہ مُخاطِب نہیں کیا تھا۔

گاڑی گھر کے سامنے رُکی تو وہ بغیر اُس کی جانِب دیکھے اندر چلی گئی تھی۔ وہ بھی گاڑی گیراج میں کھڑی کرتا اوپر والے فلور کی طرف بڑھ گیا تھا۔


*****************

ریحان ابھی فیکٹری سے واپس آ کر فریش ہو کے لاونج میں بیٹھا ہی تھا جب بُرہان آتا دِکھائی دیا۔ وہ اُس کی طرف بڑھنے لگا جب بُرہان اُسے سلام کرتا اپنے کمرے میں گُھس گیا تھا۔ وہ واپس اپنی جگہ پہ دراز ہوا اور ٹی وی دیکھنے لگا۔ ابھی اُسے بیٹھے کُچھ ہی دیر ہوئی تھی جب رضیہ بیگم اُس کے لیے چائے لے آئیں۔

"ایک تو مُجھے تُمہاری سمجھ نہیں آتی۔ دوپہر کے کھانے کا وقت ہے اور تُمہیں کھانے کی بجائے چائے کی سوجھی۔" رضیہ بیگم نے چائے کا کپ اُسے تھماتے کہا تو وہ ہنس دیا۔

"امّی جان! جِس چیز کے دِل راضی ہو نا وہی کرنا چاہیے ورنہ دِل کو مار کر کُچھ بھی کرنے میں مزہ نہیں آتا۔" وہ چائے کی چُسکی بھرتا گویا ہوا۔

"تُمہاری یہ فلسفی میری سمجھ میں تو آنے سے رہی۔" رضیہ بیگم نے کہا۔

"اچھا یہ بڑی امّاں کہاں ہیں نظر نہیں آ رہیں۔" ریحان نے اِدھر اُدھر دیکھ کر پوچھا۔

"وہ زرا نیچے گئیں ہیں۔ تُمہارے چچا کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی آج کل تو اُنہی کا حال چال پوچھنے گئی ہیں۔ میں اور تُمہارے ابّو بھی شام کو جائیں گے۔" اُنہوں نے اِطلاع دی تو وہ سر ہلا گیا۔

"ہمم! دِن بہ دِن اُن کی طبیعت بِگڑتی جا رہی ہے۔ مانو اور ہادی بھی بہت پریشان رہتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر تو چچی بہت پریشان ہیں۔" ریحان نے تبصرہ کیا تو وہ گہرا سانس بھر کر رہ گئیں۔

"عِلاج تو بہت کروا رہے ہیں۔ مگر کُچھ افاقہ ہی نہیں ہو رہا۔ اب جاؤں گی تو پتہ چلے گا کہ ڈاکٹر نے کیا کہا ہے۔" رضیہ بیگم نے کہا تو وہ سر ہلا کر رہ گیا۔

"میں زرا بُرہان کو دیکھ لوں شاید وہ بھی کھانا نا کھائے۔ آج تو میں نے اُسی کی پسند کی بریانی بنائی تھی۔" وہ کہہ کر بُرہان کے کمرے کی جانِب بڑھ گئیں۔

اُن کے جانے کے بعد وہ چائے کا خالی کپ ٹیبل پر رکھتا اُٹھا اور اوپر کُلثوم بیگم کے پورشن کی جانِب بڑھ گیا۔

وہ اوپر آیا تو کُلثوم بیگم کپڑے پریس کر رہیں تھیں۔ عریحہ ٹی وی پہ کوئی ڈرامہ دیکھ رہی تھی جبکہ فرازیہ اُسے کہیں نظر نہیں آئی۔

"ریا؟ چائے تو پِلا دو گُڑیا۔" ریحان نے پاس بیٹھی عریحہ سے کہا۔ حالانکہ وہ ابھی چائے پی کر آ رہا تھا مگر اب مقصد صِرف فرازیہ کو دیکھنا تھا۔ وہ اچھے سے جانتا تھا کہ عریحہ کو کِچن کے کاموں سے کِتنا خار ہے اور وہ کبھی بھی کِچن میں چائے بنانے نہیں جائے گی اور کُلثوم پُھوپُھو تو مصروف تھیں اور اب پیچھے بچتی تھی فرازیہ۔ اور ریحان کو چائے پِلانے کے لیے کُلثوم بیگم پکّا فرازیہ کو ہی کہتیں کہ خود وہ کام میں مصروف تھیں۔

"رازی آپی! ایک کپ ریحان بھائی کے لیے بھی بنا دیجیے گا۔" عریحہ نے وہیں بیٹھے بیٹھے آواز لگائی اور ریحان کو بیٹھنے کا اِشارہ کیا۔

"میں زرا ہاتھ دھو لوں۔" وہ کہتا کِچن کی طرف بڑھ گیا کہ اب تو اُس پتہ بھی چل چُکا تھا کہ رازی صاحبہ کِچن میں موجود تھیں۔

وہ کِچن میں آیا تو سامنے ہی وہ برنر کی طرف رُخ کیے چائے بنانے میں مصروف تھی۔ پانی میں اُبال آ رہا تھا اور اب وہ اُس میں پتی اور چینی وغیرہ ڈال رہی تھی۔ ریحان نے ایک نظر میں اُس کا جائزہ لیا۔ وہ گُلابی رنگ کے سادہ لان کے سوٹ میں ملبوس تھی۔ دوپٹہ ایک کندھے پر جھول رہا تھا جبکہ لمبے سیاہ بالوں کی چُٹیا کمر پہ لاپرواہی سے پڑی تھی۔ وہ زیرِ لب مُسکرایا اور ایک قدم آگے بڑھا۔ وہ ہنوز اُس کی موجودگی سے بے خبر تھی۔ ریحان دبے قدم چلتا اُس کے قریب پہنچا اور آہستہ سے اُس کی چُٹیا کو آخر سے نرمی سے تھاما کہ وہ محسوس بھی نا کر سکی۔ اُس نے اُس کی چُٹیا کو ہلکا سا جھٹکا دیا۔

"آہ۔" وہ بے اختیار پیچھے کو ہوئی کہ اُس کی پُشت ریحان کے سینے سے ٹکرائی۔ وہ سر گُھما کر پیچھے دیکھنے لگی۔ ریحان پر نظر پڑتے ہی اُس کا رنگ زرد پڑا۔ ایک دم خود کی چُٹیا چُھڑانے کی کوشش کرتی وہ باقاعدہ کانپنے لگی تھی۔

"کک کیا کر رہے ہیں چھوڑیں میرے بال۔ کوئی آ جائے گا۔" وہ روہانسی ہوتی کہنے لگی تو وہ سکون سے اُس کے چہرے پر چھایا ڈر اور خوف دیکھنے لگا۔

"کوئی آتا ہے تو آئے۔ مُجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔" وہ ڈھٹائی سے کہتا اُس کی چُٹیا اپنے ہاتھ پر لپیٹنے لگا۔

"آپ کو کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ آپ مرد ہیں۔ آپ کو کُچھ نہیں کہا جائے گا کیونکہ آپ مرد ہیں۔ مگر میں ایک عورت ہوں جِسے اپنے پل پل کا حِساب دینا پڑتا ہے۔ میرے دامن پر بدکردار کا داغ لگ جائے گا صفائیاں مُجھے دینی پڑیں گی۔ غلط نا ہوتے ہوئے بھی سب کی نظروں میں میں بُری بن جاؤں گی۔" آنکھوں میں آنسووں کا سمندر لیے وہ اُس کی جانب پلٹتی اُسے احساس دِلا گئی تھی کہ اُس کی حرکت واقعی غلط تھی۔

"ایم سوری۔ میرا وہ مقصد نہیں تھا میں تو بس ایسے ہی ستا رہا تھا تُمہیں۔" وہ شرمِندگی سے اُس کی چُٹیا چھوڑتا تھوڑا پیچھے کو ہوتا دونوں کے درمیان فاصلہ قائم کر گیا۔

"آپ کا کیا مقصد تھا میں نہیں جانتی۔ مگر ابھی کے لیے آپ یہاں سے جائیں۔ میں آپ کی چائے باہِر لے کے آتی ہوں۔" وہ سنجیدگی سے کہتی واپس برنر کی طرف رُخ موڑ گئی جِس پہ پانی کھول کھول کر اب تقریباً ختم ہو چُکا تھا۔ وہ کیتلی کو سِنک میں خالی کر کے اُسے دھونے کے بعد واپس چائے بنانے لگی۔

"مُجھ سے بدگُمان مت ہونا فرازیہ! اِس دِل نے سچّے دِل سے بس تُمہیں ہی چاہا ہے اور بہت جلد میں اپنی چاہت کو اپنی زندگی میں اپنی شرِیکِ حیات کے طور پر شریک کر لوں گا۔ آج کے لیے معافی چاہتا ہوں مگر تُم میری عِزّت ہو اور اپنی عِزّت کو میں اپنے ہی ہاتھوں سے تار تار نہیں کروں گا۔ ابھی اِتنا بے غیرت نہیں ہوا میں۔ چائے رہنے دو پی کر آیا تھا تُمہیں دیکھنے کا دِل کیا تو ایسے ہی کہہ دیا۔" سنجیدگی سے کہتے آخر میں اُس کا لہجہ زرا نرم ہوا تھا۔

فرازیہ کی باتیں اُس کے دِل پہ جا لگیں تھیں سچ ہی تو کہہ رہی تھی وہ۔ عورت کی صحیح بات کو بھی لوگ غلط قرار دے دیتے ہیں۔ مرد کو کوئی پوچھتا بھی نہیں غلطی ہمیشہ عورت کے حِصّے میں ہی آتی ہے چاہے پِھر وہ کوئی بھی معاملہ ہو۔ قصور ہمیشہ عورت کا ہی نِکالا جاتا ہے۔ ایک نظر اُس کے چہرے پر ڈال کر وہ باہر کی جانِب بڑھ گیا تو وہ بھی بوجھل دِل سے کُلثوم بیگم اور عریحہ کے لیے چائے کپوں میں نِکالنے لگی۔

ایسا نہیں تھا کہ اُسے ریحان احمد پسند نہیں تھا۔ وہ اُس کی عِزّت کرتی تھی کیونکہ وہ اُس سے بڑا تھا مگر ایک لڑکی ہونے کے ناتے وہ اپنے دِل کے جذبات مارنے پر بھی مجبور تھی۔ ایک تو اُس کے ماموں کے بہت احسانات تھے اُن لوگوں پر اور دوسرا وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ اُس کی تائی رضیہ بیگم اُن لوگوں کو پسند نہیں کرتیں۔ اِس کی اُسے صِرف ایک ہی وجہ لگتی تھی اور وہ یہ کہ وہ لوگ بے آسرا ہو کر اُن کے در پر پڑ گئے تھے۔ مگر وہ بھی مجبور تھے خُدا کے بعد اگر اُن کا کوئی سہارا تھا تو وہ کُلثوم بیگم کے بھائی ہی تھے۔

سر جھٹک کر وہ ٹرے تھامے باہر کی جانِب بڑھی۔


***************


اگلے دِن کا سورج چڑھ چُکا تھا۔ گرمی تو عروج پر تھی ہی مگر آج کُچھ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں بھی چل رہیں تھیں۔ موسم پہلے کی نِسبت اچھا تھا۔ وقت دھیمی رفتار سے گُزر رہا تھا۔ دِن لمبے اور راتیں چھوٹیں تھیں اور ابھی دِن کے صِرف دس ہی بجے تھے۔

یہ اگلے دِن کی بات تھی۔ بُرہان، ریحان اور حماد صاحب فیکٹری جا چُکے تھے جبکہ تنویر احمد طبیعت خرابی کی وجہ سے گھر پر ہی تھے۔ چشمان آج سکول نہیں گئی تھی پیپرز کے بعد بچّوں کو چُھٹیاں کر دی گئیں تھیں جبکہ ٹیچرز کو بھی آج کے دِن چُھٹی تھی۔ اذہاد کالج جا چُکا تھا جبکہ عریحہ سکول۔ فرازیہ اوپر اپنے پورشن پہ کام نِپٹا رہی تھی جبکہ کُلثوم بیگم اور بڑی امّاں کے ساتھ ساتھ رضیہ بیگم بھی تنویر احمد کی طبیعت پوچھنے آئیں تھیں۔ شائستہ بیگم اُنہی کے پاس براجمان تھیں اور چشمان کِچن میں سب کے لیے چائے بنا رہی تھی۔

ٹرے میں چائے، اسنیکس اور بِسکٹ رکھتے وہ ٹرے سنبھالتی تنویر احمد کے کمرے کی جانِب بڑھی۔ اندر سے تنویر صاحب کے کھانسنے کی آوازیں آ رہیں تھیں۔ وہ اندر داخِل ہوئی اور سب کو چائے پیش کرنے کے بعد خُود تنویر صاحب کے سرہانے ٹِک گئی۔

"بس اا اب ایک ہی خُواہِش ہے کہ مم میری بچّی میری زِندگی میں اا اپنے گھر کی ہہ ہو جائے۔" تنویر صاحب نے کہا تو چشمان نےخفگی انہیں گھورا۔

"ایسی باتیں مت کریں بابا! آپ ٹھیک ہو جائیں پِھر دھوم دھام سے میری شادی کریے گا۔" چشمان نے بھوری آنکھیں گُھماتے کہا تو سب مُسکرا دئیے۔

"ہاں ہاں کیوں نہیں۔ جلد ہی دھوم دھام سے شادی کریں گے تُمہاری۔" رضیہ بیگم نے محبّت سے اُس کی طرف دیکھتے چائے کا گھونٹ بھرا تو وہ سٹپٹا سی گئی۔

"بس ممم میرے بچّے ہی تت تو میرا آہ سرمایہ ہہ ہیں آہ۔ اِن کک کی خخ خُوشی ہہ ہی چچ چاہتا ہہ ہوں مم میں آہ۔" تنویر صاحب بُری طرح کھانستے بمُشکِل ہی بات مُکمّل کر پائے تھے۔ چشمان نے تیزی سے اُٹھ کر اُنہیں پانی پِلایا مگر اُن کی طبیعت بِگڑتی ہی جا رہی تھی۔

"مانو! بُرہان کو فون کرو جلدی۔ اِسے ہسپتال لے جانا ہو گا۔" بڑی امّاں نے پریشانی سے کہا تو وہ ہڑبڑاتی باہِر کی جانِب بھاگی۔ لینڈ لائن سے بُرہان کو فون کیا جو دوسری بیل پر اُٹھا لیا گیا۔

"ہیلو۔" بُرہان کی آواز سُنتے وہ پھوٹ پھوٹ کے رو دی تھی جبکہ دوسری طرف وہ اُس کی آواز پہچانتا چونکا تھا۔

"کیا ہوا ہے؟ رو کیوں رہی ہو تُم؟" اُ سنے جلدی سے پچھا تھا۔ کُچھ انہونی کا خدشہ جاگا تھا۔

"بابا کی طبیعت خراب ہو گئی ہے۔ جلدی گھر آ جائیں پلیز۔" اُس کی پوری بات سُنتے ہی وہ فون رکھتا فیکٹری سے نِکلا تھا۔

چشمان واپس ابدر گئی تھی جہاں شائستہ بیگم اُن کی ہتھیلیاں رگڑ رہی تھیں۔ بڑی امّاں اپنے بیٹے کو یُوں تڑپتا دیکھ کر اشک کناں تھیں۔ پندرہ مِنٹ تک بُرہان آ گیا تھا۔ آتے ہی اُس نے تنویر صاحب کے نحیف وجود کو اُٹھایا تھا اور باہِر کی جانِب بڑھا تھا۔ رضیہ بیگم اور چشمان اُس کے پیچھے گئیں تھیں جبکہ شائستہ بیگم خُود بھی روتیں اپنے مجازی خُدا کی صحت یابی کی دُعا کرنے لگیں تھیں۔ کُلثوم بیگم ریحانہ بیگم کو سنبھالنے لگیں تھیں۔


************


تنویر صاحب کو ایمرجنسی میں لے جایا گیا تھا جہاں ڈاکٹرز اُن کا چیک اپ کر ریے تھے۔ چشمان روتی ہوئی رضیہ بیگم کے کندھے پر سر رکھے بیٹھی تھی۔ بُرہان نے ایک سرسری نظر اُس پہ ڈال کر ہٹا لی تھی۔ ہر وقت ہنستے رہنے والی لڑکی آج روتی ہوئی بے حال ہو رہی تھی۔

اُس نے ریحان اور حماد صاحب کو اِطلاع کر دی تھی۔ ریحان کو فیکٹری میں رہنے کی تاکید کرتے وہ خود ہاسپِٹل کی طرف روانہ ہوئے تھے۔ آدھے گھنٹے تک وہ ہاسپِٹل پہنچ گئے تھے۔ اُنہیں دیکھتے ہی چشمان اُن کے گلے لگ کر روئی تھی۔

دو گھنٹے کے طویل اِنتظار کے بعد ڈاکٹر باہِر آئے تھے۔ اب اُن کی جانِب بڑھے تھے۔ سب کے چہروں پر آس تھی۔

"دیکھیے اُن کی حالت بہت خراب ہے۔ دونوں کِڈنیز فیل ہو چُکیں ہیں جِگر بھی ڈیمیج ہے۔ اِتنی جلدی ڈونر مِلنا بھی مُشکِل ہے۔ اُن کے پاس وقت کم ہے آپ اُن سے مِلنا چاہیں تو مِل سکتے ہیں۔" ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ انداز میں کہتے اپنے قدم آگے بڑھائے تو چشمان نے حیرت سے بُرہان اور حماد صاحب کو دیکھا۔

"تنویر کی طبیعت اِسی وجہ سے خراب رہتی تھی۔ وہ خود ہی ڈاکٹر سے چیک اپ کرواتا اور دوائی کھاتا رہا تھا۔ کبھی کِسی کو کُچھ بتایا ہی نہیں۔ ہمیں بھی تبھی پتہ چلا جب ہم اُس کے ساتھ آئے تھے چیک اپ کے لیے۔ اُس نے تُم سب کو یہ بات بتانے سے منع کیا تھا۔ اُس کا ڈایا لِسز بھی ہوا تھا مگر اُس کی طبیعت نہیں سنبھل پائی۔ ڈونر بھی نہیں مِل پایا۔ ہم نے اپنے ٹیسٹ کروائے تھے مگر بلڈ گروپ مُختلف تھا۔" حماد صاحب نے اُس کی سوالیہ نظروں کو سمجھتے خود ہی جواب دیا تھا۔ جِسے سمجھ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔ وہ اپنےباپ کی اِتنی بڑی بیماری سے بے خبر رہ گئی تھی۔ کِتنی تکلیف اور اذیّت میں رہے ہوں گے وہ اور وہ سکون بھری زِندگی جی رہی تھی۔ رضیہ بیگم نے اُسے آگے بڑھ کر خود سے لگایا جبکہ حماد صاحب تنویر صاحب سے مِلنے روم میں چلے گئے تھے۔ بُرہان ڈاکٹر کے روم کی جانِب بڑھ گیا۔

"مم میں اپنا گُردہ دے دوں گی۔ میرا تو میچ کر جائے گا نا میں بیٹی ہوں اُن کی۔ میں اُنہیں بچا لوں گی۔" ہِچکیاں بھرتی وہ رضیہ بیگم کو کہہ رہی تھی۔

"اب سب کةچھ اللّٰہ پر ہے بیٹا! بھائی صاحب کا جِگر بھی بُری طرح سے متاثر ہوا ہے بس حوصلہ رکھو۔ اللّٰہ پاک اپنا کرم کریں گے۔" وہ اُس کے سر کو تھپتھپاتے ہوئے اُسے ہمّت دینے لگیں مگر اُس کا غم بڑا تھا جو کوئی چاہ کے بھی کم نہیں کر سکتا تھا۔

حماد صاحب روم میں داخِل ہوئے تو سامنے ہی اُن کے بھائی مُختلف نالیوں میں جکڑے نظر آئے۔ منہ پر آکسیجن ماسک بھی لگا ہوا تھا۔ وہ آہستہ سے چل کر اُن کے پاس بیٹھے اور اپنا ہاتھ اُن کے کمزور و نحیف ہاتھ پہ رکھا۔ کِسی کی آمد محسوس کر کے اُنہوں نے آنکھیں کھولیں۔

"فِکر مت کرو۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ہمت مت ہارنا ہم جلد ہی ڈونر کا اِنتظام کر لیں گے۔" اُنہوں نے نم لہجے میں اُن سے زیادہ خُود کو تسلّی دی۔

کُچھ بولنے کی کوشش کرتے تنویر صاحب نے کپکپاتے ہاتھوں سے منہ سے ماسک ہٹایا۔ حماد صاحب نے اُنہیں روکنا چاہا مگر وہ نفی میں سر ہلا گئے۔

"مم میرا وو وقت آن پپ پہنچا ہہ ہے۔ مم مُجھے اپنی مانو کک کی بہہ بہت فف فِکر ہے۔" وہ اِتنا سا بول کر ہانپنے لگے۔

"تُم کِسی کی فِکر مت کرو۔ وہ میری بیٹی ہے اور جان سے زیادہ عزیز بھی ہے یہ تُم بھی جانتے ہو۔ بس جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ پِھر ہم ساتھ میں اُس کی خُوشیاں دیکھیں گے۔" حماد صاحب نے اُن کا ہاتھ سہلاتے تسلّی دی۔

"مم میری مم مانو کک کو بب بُرہان کے نن نام کر دو۔" اُن کی بات سُن کر حماد صاحب نے گہرا سانس بھر کر اُنہیں دیکھا۔

"پہلے تُم ٹھیک ہو جاؤ پِھر دھوم دھام سے اُسے بُرہان کے نام کریں گے۔" حماد صاحب نے اُنہیں مُطمئن کرنا چاہا۔

"نن نہیں مم میری زِندگی کا ببب بھروسہ نن نہیں۔ اا ابھی بب بُرہان سس سے بات کرو۔ مم میں اپنی زز زِندگی میں اُسے اُس کے گھر کک کا کرنا چچ چاہتا ہوں۔" اُن کی سانس پھولنے لگی تو حماد صاحب نے بغیر کُچھ سوچے سر ہلا دیا۔ آکسیجن ماسک اُن کے منہ پر لگا کر وہ اُن کا ہاتھ تھپتھپاتے باہِر نِکلے۔

بُرہان بھی آ چُکا تھا اُسے ڈاکٹر نے کوئی اچھی خبر نہیں دی تھی۔ ڈاکٹر نے کہا تھا بس کُچھ سانسیں ہی باقی بچیں ہیں اُن کی کِڈنیز اور جِگر بُری طرح سے خراب ہو چُکے ہیں۔

اُسے دیکھ کر حماد صاحب اُس کی طرف بڑھے اور اُسے ایک کونے میں لے جا کر تنویر صاحب کی خُواہش کا اِظہار کیا۔ وہ تو دنگ ہی رہ گیا تھا۔ اُس نے ایسا تو کبھی خُواب میں بھی نہیں سوچا تھا وہ اور چشمان ایک ساتھ؟ کبھی نہیں۔ اُس نے ایک دم اِنکار کیا تھا۔

"میں پوچھ نہیں رہا بتا رہا ہوں کہ ابھی کُچھ دیر میں تُمہارا نِکاح ہے مانو کے ساتھ۔ اِنکار کی کوئی گُنجائش ہی نہیں ہے۔ میرا بھائی موت کے منہ میں کھڑا ہے اور تُم اُس کی آخری خُواہش پوری نہیں کر سکتے۔" وہ ایک دم بھڑکے تھے جبکہ بُرہان نے سُرخ ہوتی نظروں سے اُنہیں دیکھا تھا۔ اُس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا کیا بتاتا کہ وہ اُس لڑکی کو پسند ہی نہیں کرتا شادی تو دور کی بات تھی۔

"آپ سمجھ کیوں نہیں رہے؟ مُجھے چشمان سے نِکاح نہیں کرنا اور نِکاح ضروری تو نہیں ہے ابو!" بُرہان اُن کا فیصلہ سُن کر جھٹپٹایا تھا۔

"ایک بار کہہ دیا تو کہہ دیا۔ ہمارا نہیں تو اپنے چچا کا ہی خیال کر لو جو اِس حالت میں بھی اپنی بیٹی کے لیے پریشان ہے۔ اب اگر ایک دفعہ بھی اعتراض کیا تو سوچ لینا کہ پِھر ہم سے تُمہارا کوئی رِشتہ نہیں رہے گا تُم نا کرو نِکاح ابھی میرا دوسرا بیٹا ہے جو میرا مان رکھے گا۔ ریحان سے نِکاح کروا دوں گا میں اور مُجھے یقین ہے کہ وہ اِنکار ہرگِز نہیں کرے گا۔۔" اُنہوں نے اُس کے فرار کے سارے راستے بند کر دئیے تھے۔

"میں تیار ہوں نِکاح کے لیے۔" وہ دوٹوک فیصلہ کرتا بولا تھا۔

وہ ریحان کی آنکھوں میں فرازیہ نام کے دیے جلتے دیکھ چُکا تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ وہ اُس سے مُحبّت کرتا ہے اور وہ اپنی وجہ سے اپنے بھائی کی خُوشیاں تباہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اِس لیے چُپ کر کے اِقرار کر گیا تھا۔ اپنے چچا سے بھی بہت محبّت تھی اُسے اور جِس حالت میں وہ ابھی تھے وہ اُنہیں اور پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔ فی الوقت وہ مان گیا تھا چشمان کو وہ سُدھار لے گا شادی کے بعد۔ ایسا اُس کا ماننا تھا۔ اُس کے اِقرار پر حماد صاحب نے ریحان کو فون کیا تھا۔ اُسے ساری بات سمجھا کر وہ رضیہ بجگم کی طرف بڑھے تھے تا کہ اُنہیں سب کُچھ بتا سکیں تا کہ وہ چشمان کو سمجھا دیں۔

چشمان اُن کی بات اور تنویر صاحب کی خُواہش سُن کر حیران ہوئی تھی۔ دِل ہی دِل میں وہ پریشان بھی تھی۔ ڈاکٹرز دوبارہ اُن کا چیک اپ کر رہے تھے مگر کوئی حوصلہ افزا خبر اُنہوں نے نہیں سُنائی تھی۔


**************


اگلے ڈیڑھ گھنٹے میں وہ چشمان تنویر سے چشمان بُرہان احمد بن چُکی تھی۔ وہ بُرہان کے متوقع ردِعمل سے ڈر رہی تھی۔ جِس طرح کی باتیں وہ اةس کے کِردار کے بارے میں کر گیا تھا ایسے میں وہ ہرگِز بھی راضی نا ہوتی مگر بات یہاں اُس کے باپ کے مان کی تھی۔ پِھر سب کُچھ خُدا کے حوالے کرتی وہ تنویر صاحب کی صحت یابی کی دُعا کر رہی تھی۔ نِکاح تنویر صاحب کے سامنے ہی ہوا تھا۔ ریحان بھی وہیں موجود تھا اُس نے گھر فون کر کے سب کُچھ بتا دیا تھا جِس پہ کِسی کو بھی اعتراض نہیں ہوا تھا۔ شائستہ بیگم تو شِدّتِ غم سے نڈھال تھیں۔

تنویر صاحب کی طبیعت کُچھ سنبھلی تھی۔ تین بجے کے قریب شائستہ بیگم اور اذہاد بھی ہاسپِٹل پہنچ گئے تھے۔ اذہاد کی آنکھیں نم تھیں۔ ریحان نے بُرہان کے ساتھ چشمان اور رضیہ بیگم کو گھر بھیج دیا تھا۔ اب وہاں حماد صاحب کے ساتھ ریحان، شائستہ بیگم اور اذہاد ہی رہ گئے تھے۔

رضیہ بیگم اور چشمان کو گھر چھوڑ کر وہ جانے کہاں نِکل گیا تھا۔ یہ نِکاح اُس کی خُوشی سے نہیں ہوا تھا۔ وہ مر کر بھی چشمان سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا وہ بھی تب جب اُس کے دِل میں چشمان کا کِردار بھی اچھا نہیں تھا۔ وہ ذہنی طور پہ ڈِسٹرب تھا اور ڈِسٹرب تو چشمان بھی تھی۔

اُسے اپنے بابا کا فیصلہ کُچھ سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ بُرہان اُسے پسند نہیں کرتا تھا یہ بات وہ اچھے سے سمجھتی تھی اور اب وہ پوری زِندگی اُس کے ساتھ گُزارنے والی تھی۔ خیر اب جو ہونا تھا وہ ہو گیا تھا۔ وہ بُرہان کی ہر بات کو بھول کر اِس رِشتے کے لیے راضی ہوئی تھی تو شِکوہ بنتا ہی نہیں تھا۔ اپنے باپ کے فیصلے پر اُسے آنکھ بند کر کے یقین تھا کہ وہ کبھی اُس کے لیے کوئی غلط فیصلہ کر ہی نہیں سکتے۔

کُلثوم بیگم اور فرازیہ کے ساتھ عریحہ بھی سیکنڈ پورشن میں چشمان کے پاس موجود تھے۔ رضیہ بیگم اُسے اپنے ساتھ اوپر ہی لے آئیں تھیں۔ بڑی امّاں ایک طرف بیٹھی تسبیح پڑھتیں اپنے بیٹے کی صحت یابی کی دُعا مانگ رہیں تھیں۔

"چُپ کرو بیٹا اور اللّٰہ سے بھائی صاحب کی صحت کے لیے دُعا کرو۔ وہبالکُل ٹھیک ہو جائیں گے۔" کلثوم بیگم نے اُسے کا ہاتھ سہلاتے کہا تو وہ غائب دماغی سے سر ہلا گئی۔

"آپی آپ بالکُل پریشان نا ہوں۔ اللّٰہ پاک کِسی کی جان پر اُس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ ماموں جان ٹھیک ہو جائیں گے۔" فرازیہ نے بھی اُسے تسلّی دی تھی وہ بھی اِس غم سے واقف تھی اُس نے بھی تو چھوٹی عُمر میں اپنا باپ کھو دیا تھا۔

"اب یہاں بیٹھی ہی رہو گی یا کُچھ کھانے کا بھی بندوبست کرو گی؟ امّاں جی نے بھی شاید صُبح سے کُچھ نہیں کھایا اور چشمان بھی صُبح سے بھوکی ہے۔ باتیں بعد میں کر لینا آ کر۔" رضیہ بیگم نے ایک ناگوار نظر فرازیہ پر ڈالی تھی جِس پہ وہ شرمندہ سی ہوتی کِچن کی جانِب بڑھ گئی تھی۔

"ایسی بات نہیں ہے بھابھی! میں نے امّاں کو کھانا کِھلا دیا تھا۔" کلثوم بیگم نے صفائی دی تھی۔ جبکہ ریحانہ بیگم رضیہ بیگم کے ترش لہجے پر تاسف سے سانس بھر کر رہ گئیں تھیں۔

"ہاں ہاں پتہ ہے کِتنی تُمہیں فِکر ہے۔ مانو! بیٹا تُم کُچھ کھا لو پھر جا کر آرام کرو اور آج تُم میرے ساتھ ہی سو جانا۔" وہ اُسے ہدایت کرتیں اپنے کمرے کی جانِب بڑھ گئیں۔

کُچھ ہی دیر میں عریحہ اور فرازیہ نے کھانا ٹیبل پر چُن دیا تھا۔ چشمان برائے نام کھانا کھا کر رضیہ بیگم کے کمرے کی جانِب بڑھ گئیں تھیں۔ عریحہ بھی بڑی امّاں کے ساتھ اُن کے کمرے میں چل دی۔ کلثوم بیگم فرازیہ کو لے کر اپنے پورشن میں جا چُکیں تھیں۔ آج کی رات تو سب کی آنکھوں میں کٹنے والی تھی۔ جب کوئی اپنا تکلیف ہو تو وہی تکلیف اِنسان اپنے اندر بھی محسوس کرتا ہے۔ اپنوں کی تکلیف سے تو کوئی منہ نہیں موڑ سکتا۔


****************

چشمان اور رضیہ بیگم کو گھر ڈراپ کرنے کے بعد وہ سڑک پہ گاڑی دوڑاتا اپنے اندر کے اِضطراب سے لڑ رہا تھا۔ اُس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ کبھی چشمان کو اپنی بیوی کے روپ میں بھی دیکھے گا۔ اُس نے ہمیشہ ایک سنجیدہ، بُردبار، کم گو لڑکی کو ہی اپنا آئیڈیل مانا تھا اور ایسی ہی کِسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا مگر سب کُچھ اُلٹا ہو گیا تھا۔ چشمان اُس کے آئیڈیل کی تعریف پہ پورا نہیں اُترتی تھی۔ وہ ندی کے دو کِناروں جیسے تھے جو چاہ کے بھی نہیں مِل سکتے تھے مگر قِسمت نے اُنہیں ایک کر دیا تھا۔

نِکاح تو وہ کر چُکا تھا مگر چشمان کے سابقہ رویے کو دُہراتا اب وہ جھنجھلاہٹ کا شِکار ہو رہا تھا۔ جِس طرح اُس کے لیے یہ رِشتہ ناقابلِ قبول تھا ویسے ہی چشمان پر بھی تو تھوپا ہی گیا تھا۔ وہ تو شاید اُسی لڑکے کو پسند کرتی تھی جِس کے ساتھ وہ اُسے دو مرتبہ دیکھ چُکا تھا۔ وہ کیسے اُس لڑکی کے ساتھ زِندگی گُزارے گا جِس کے دِل میں کوئی اور بستا تھا۔

اُس کی زِندگی میں کِسی لڑکی کی پرچھائی تک کا گُزر نہیں ہوا تھا۔ سنبھل کر چلنے والا وہ مرد اپنے لیے ایسی ہی بیوی چاہتا تھا جِس کی زِندگی میں آنے والا وہ پہلا اور آخری مرد ہو۔

مگر چشمان کی زِندگی میں وہ پہلا مرد نہیں تھا وہ کِسی اور کو چاہتی تھی اور یہی بات اُس کی مردانہ انا اور غیرت گوارا نہیں کر رہی تھی۔

چشمان اُس کے گلے میں ہڈی کی طرح اٹک چُکی تھی جِسے نا وہ اُگل سکتا تھا اور نا نِگل سکتا تھا۔ وہ یہ بات بھی اچھے سے جانتا تھا کہ حماد صاحب کبھی بھی اُسے چشمان سے علیحدہ ہونے نہیں دیں گے اور اب یہ رِشتہ اُسے ہر حال میں نِبھانا تھا مان کر یا زبردستی۔

تھک ہار کر وہ ایک جگہ گاڑی روک کر سٹیئرنگ پر سر رکھ کر آنکھیں موند گیا تھا۔ وہ چشمان کے ساتھ رِشتہ نِبھانے پر مجبور تھا اور اب چشمان کو بھی اُس کا ساتھ دینا ہو گا۔ وہ اپنے ماں باپ کو ناراض نہیں کر سکتا تھا۔

اُسے چشمان یا ارمان سے کوئی چِڑ نہیں تھی۔ اُسے تو بس چشمان کو کِسی غیر کے ساتھ سڑک پر دیکھ کر بُرا لگا تھا اور اِس غُصّے میں وہ اُسے جانے کیا کُچھ بول چُکا تھا۔ وہ یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ وہ چشمان پر زبردستی تھوپا جائے۔ اُس کی انا یہ گوارا ہی نہیں کرتی تھی۔ اُس کی طرح چشمان کو بھی اپنی زِندگی کا فیصلہ لینے کا حق تھا۔ جو اُس کی دانست میں چشمان سے چھینا جا رہا تھا۔

ابھی وہ اپنی ہی سوچوں میں گُم تھا جب اُس کا موبائل گُنگُنایا تھا۔ بوجھل دِل سے جیب سے فون نِکالتے اُس نے کال اٹینڈ کی تھی۔ دوسری جانِب ریحان تھا جِس کی آواز بھرّائی ہوئی تھی اور اُس نے جو بتایا تھا اُسے سُن کر ایک کرب زدہ سی آہ اُس کے دِل سے نِکلی تھی۔ اپنے آنے کا بتا کر وہ فون بند کر کے جیب میں رکھ گیا۔ آنکھوں سے آنسو نِکلتے اُس کے گالوں کو بھگو گئے تھے۔


****************


رات کے بارہ بج رہے تھے جب گھر کے باہِر ایمبولینس کے سائرن کی آواز گونجنے لگی۔ چشمان جو اپنے باپ کے لیے بے اِنتہا پریشانی کے باعث سو نہیں پائی تھی چونک کر اُٹھ بیٹھی تھی۔اُس کے یُوں اُٹھنے سے اُس کے ساتھ ہی سوئی رضیہ بیگم بھی اُٹھیں تھیں اور سائرن کی آواز پر وہ بھی چونکتیں دِل ہی دِل میں سب ٹھیک ہونے کی دُعائیں کرنے لگیں تھیں۔ چشمان کو تسلّی دیتیں وہ اُسے لیے کمرے سے باہِر آئیں تھیں۔ بڑی امّاں اور باقی سب بھی لانوج میں جمع ہو گئے تھے۔ سب کے چہرے کِسی انہونی کے احساس سے زرد پڑے تھے۔

وہ سب ایک ساتھ نیچے کی جانِب بڑھے تھے۔ چشمان کے کپکپاتے قدم اُس کی خراب حالت کا واضح پتہ دے رہے تھے۔

اذہاد نے ہی دروازہ کھولا تھا اور سامنے دیکھتے اُس کی آنکھیں نم ہوئیں تھیں۔ بُرہان اور حماد صاحب ایمبولینس کے پیچھے ہی گاڑی میں آئے تھے جبکہ ریحان شائستہ بیگم کے ساتھ ایمبولینس میں آیا تھا اور اب اُنہیں سنبھالتے ہوئے ایمبولینس سے باہر آنے میں مدد دے رہا تھا۔

سب ہی پتھرائی آنکھوں سے وارڈ بوائز کو دیکھ رہے تھے جو اسٹریچر پہ موجود کِسی وجود کو باہر لائے تھے اور حماد صاحب کے اِشارے پر اندر کی جانِب بڑھے تھے۔ شائستہ بیگم زارو قِطار رو رہی تھی جبکہ چشمان ساکت کھڑی بس سب کو عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

"کک کیا ہوا ہہ ہے مم ماموں؟" یہ پوچھنے والی عریحہ تھی جو کانپ رہہ تھی۔

"تُمہارے چھوٹے ماموں اِس دُنیا میں نہیں رہے بیٹا! اُن کی مغفِرت کے لیے دُعا کرو۔" اُنہوں نے رضیہ بیگم کو اِشارہ کرتے عریحہ کو جواب دیا تھا۔ اُن کی بات سُن کر چشمان کے وجود میں حرکت ہوئی تھی اور وہ روتے روتے نیچے بیٹھی تھی۔ فرازیہ، عریحہ بھی روتی ہوئیں بڑی اماّں کو سنبھالنے میں لگیں تھیں جو بیٹے کو کھو کر ایک دم سے ہی کمزور پڑ گئیں تھیں۔ رضیہ بیگم اور کلثوم بیگم نے چشمان کو سنبھالنے کی کوشش کی تھی مگر وہ کِسی کے قابو میں نہیں آئی تھی۔ بُرہان نے سب کو اندر جانے کا اِشارہ کیا اور خُود چشمان کی جانِب بڑھا۔ باقی سب اندر چلے گئے تھے جبکہ وارڈ بوائز میت کو اندر رکھ کر واپس جا چُکے تھے۔ اب دروازے کے پاس چشمان اور بُرہان ہی موجود تھے۔

"چشمان! حوصلہ کرو۔ ایسے مت روؤ۔ چاچو کو تکلیف ہو گی تُمہارے رونے سے۔" بُرہان اُس کے پاس گُھٹنوں کے بل بیٹھتے اُس کے ہاتھ تھام کر بولا تھا۔ ایک پل کو اُسے ترس سا آیا تھا اِس لڑکی پر۔ پہلے نا سہی مگر اب وہ اُس کی بیوی تھی جِس کو سنبھالنا اُس کا فرض تھا کیونکہ وہ اُس کا شریکِ سفر ہی نہیں شریکِ غم بھی تھا۔ وہ اِس رِشتے کو قبول کر چُکا تھا اور اِس رِشتے کو نِبھانے کا فیصلہ بھی کہ یہ تنویر صاحب کی آخری خُواہش تھی۔

"ہہ ہان! مم میرے بابا۔ مم مُجھے اکیلا چچ چھوڑ گئے ہان! میں اکیلی ہہ ہو گئی ہہ ہوں۔" وہ اٹک اٹک کر روتی اُسے بتا رہی تھی۔ بُرہان نے اذیّت سے آنکھیں میچیں تھیں یہ لڑکی ہنستے کِھلکِھلاتے ہی اچھی لگتی تھی

"ایسے کیوں کہہ رہی ہو؟ ہم ہیں نا تُمہارے پاس۔ ہم سب تُمہارے ساتھ ہیں اور چاچو بھی تو ہمارے پاس ہیں ہمارے دِل میں۔ وہ کہیں نہیں گئے چشمان!" اُس نے ہاتھ بڑھا کر اُسے قریب کرتے تسلّی دی تھی۔

"مم مگر خخ۔خود تو پاس نن نہیں ہیں نا؟ مم میرے بابا چلے گگ گئے اا اب کک کِس سس اپنے دد دُکھ کک کہوں گی؟ مم میرا سائبان مم میرے سر سس سے اُٹھ گیا ہہ ہان! اا اِتنی جلدی کیوں بب بُلا لیا اا اللّٰہ پاک نن نے بابا کک کو؟" وہ اُس کی کالر دبوچے سراپا سوال تھی۔

"ہر اِنسان اللّٰہ پاک کی امانت ہے چشمان! ہر ایک کو دیر یا بدیر جانا ہی ہوتا ہے۔ ہم اللّٰہ پاک کے فیصلوں سے اِنحراف نہیں کر سکتے۔ اُسی نے ہمیں پیدا کیا ہے اور اُسے حق ہے کہ جب چاہے ہمیں اپنے پاس بُلا لے۔ ہم اُس سے سوال نہیں کر سکتے چشمان! سنبھالو خُود کو۔ تُم ایسے کرو گی تو چچی جان کو کون سنبھالے گا؟" اُس کا سر تھپکتے وہ نرمی سے اُسے سمجھانے لگا تھا۔ ساری کڑواہٹ، سارا غُصّہ کہیں دور جا سویا تھا یاد تھا تو یہ کہ اب اِس لڑکی کی ذِمہ داری اُس پر ہے اور وہ کبھی اُسے دُکھ نہیں دے گا۔

"بابا کے پپ پاس جج جانا ہے۔" وہ سر اُٹھا کر اُس کی سُرخ ہوتی آنکھوں میں دیکھ کر بولی تو بُرہان نے اُس کی سیاہ آنکھوں میں ہلکورے لیتے آنسووں کو دیکھا پِھر سر ہلاتے اُٹھا اور اُسے اپنے گھیرے میں لیتا وہ اندر کی جانِب بڑھا جہاں لاونج میں ہی میت رکھی گئی تھی۔ چشمان اُس کے گھیرے سے نِکلتی باپ کی میت کے پاس جا بیٹھی تھی اور اُن کا چہرہ دیکھتی پِھر سے رونے لگی تھی۔ کِسی نے اُسے منع نہیں کیا تھا کہ دِل کا غُبار آنسووں کی صورت بہہ جائے۔ بڑی امّاں بھی آنسو بہاتیں اپنے بیٹے کو آخری بار دیکھ رہیں تھیں۔ دِل تھا کہ بھر ہی نہیں رہا تھا۔

اذہاد کو ریحان نے سنبھال لیا تھا۔ وہ ابھی اِتنا بڑا نہیں ہوا تھا کہ اپنے آنسو اپنے اندر ہی کہیں اُتار لیتا اور اب بھی وہ ریحان کے سینے سے لگا رو رہا تھا۔

بُرہان نے فون پر ہی رِشتے داروں کو اِطلاع دے دی تھی۔ فجر کی اذانیں ہو چُکیں تھیں۔ کُچھ دیر بعد سورج بھی نِکل چُکا تھا۔ دِن کا اُجالا چھاتے ہی رِشتے دار آنا شروع ہو چُکے تھے۔ میت کا چہرہ دیکھتے سب ہی گھر والوں کو تسلّی دلاسے دینے میں لگے تھے جِن کو صبر کرنا مُشکِل ہو رہا تھا۔ چشمان ایک مِنٹ کے لیے بھی اپنے باپ کے پاس سے نہیں ہِلی تھی۔

بُرہان اور ریحان نے تجہیزو تکفین کو سارا اِنتظام کر لیا تھا۔ بارہ بجے کے قریب جنازہ اُٹھنے کا وقت ہوا تھا اور پِھر گھر والوں کی آہوں اور سِسکیوں میں سبھی مرد کلمہ پڑھتے میت کو اُٹھا لے گئے تھے۔ چشمان اب بھی وہیں بیٹھی رو رہی تھی۔ فرازیہ اور عریحہ نے اُسے اُٹھایا تھا مگر وہ سنبھلنے میں نہیں آ رہی تھی۔ بُرہان کی تلقین کے مُطابِق فرازیہ نے دودھ کے گلاس میں نیند کی گولی ڈال کر چشمان کو پِِلا دیا تھا تا کہ وہ کُچھ دیر کے لیے ُپرسکون ہو جائے۔

تین بجے کے قریب بُرہان لوگ گھر آ گئے تھے۔ شائستہ بیگم اِس وقت اپنے کمرے میں تھیں۔ کُلثوم بیگم اُن کے ساتھ ہی تھیں جبکہ رضیہ بیگم بڑی امّاں کو دوائی دے رہیں تھیں۔ ریحان نے ایک نظر اذہاد کو دیکھا جو سُرخ آنکھیں لیے صوفے پر سر جُھکائے بیٹھا تھا۔ وہ اس کے قریب بیٹھ کر اُسے حوصلہ دینے لگا جِسے سمجھتا وہ سر ہلا گیا۔ ریحان اُسے لیے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا۔

حماد صاحب بُرہان کے پاس ہی لاونج میں بیٹھے تھے۔ اُنہوں نے پُرسوچ انداز میں بُرہان کو مُخاطِب کیا تو وہ اُن کی طرف متوجّہ ہوا۔ بِکھرے ہوئے بال، ستا چہرہ، اور سُرخ ہوتی آنکھیں لیے وہ پُژمردہ دِکھائی دیتا تھا۔

"دیکھو بُرہان! میں جانتا ہوں کہ یہ نِکاح بہت اچانک ہوا ہے جِس میں تُمہاری منشاء شامِل نہیں تھی مگر تنویر اپنی بیٹی کے لیے مضبوط سہارا چاہتا تھا۔ وہ ایک باپ تھا جِسے اپنی بیٹی کی فِکر تھی اِسی لیے اُس نے اپنی زِندگی میں ہی اُس کے لیے ایک مضبوط سہارا ڈھونڈ لیا۔ اُسے تُم پہ بہت اعتبار تھا اور میں نہیں چاہتا کہ اُس کا یہ اعتبار ٹوٹے۔" حماد صاحب کی بات کا پسِ منظر وہ جان گیا تھا۔

"میں چچا جان کے فیصلے کی عِزّت کرتا ہوں ابّو! میں وعدہ کرتا ہوں کہ چشمان کو خُوش رکھوں گا۔ میں اِس رِشتے کو پوری ایمانداری سے نِبھانے کی کوکشش کروں گا۔ مُجھے چشمان سے ذاتی دُشمنی نہیں ہے وہ میری کزن ہے اور مُجھے اُس کی فِکر بھی ہے۔ میری ذات سے اُسے کوئی دُکھ نہیں پہنچے گا۔" بُرہاان نے مضبوط لہجے میں اُنہیں یقین دُہانی کروائی تھی جِس پہ وہ پھیکا سا مُسکرا دئیے تھے۔

"خُدا تُم دونوں کو خُوش رکھے آمین۔" دُعائیہ انداز میں کہتے وہ اُس کا کندھا تھپتھپا کر بڑی امّاں کے کمرے کی جانِب بڑھ گئے۔

بُرہان گہرا سانس بھرتا اُٹھا اور چشمان کے کمرے میں داخِل ہوا جہاں فرازیہ اور عریحہ بیٹھیں تھیں۔ اُسے دیکھ کر وہ دونوں کھڑی ہوئیں۔ دونوں کی آنکھیں نم اور سُرخ تھیں۔ باپ کو کھونے کے غم سے وہ گُزر چُکیں تھیں اور چشمان کا دُکھ اچھے سے سمجھ سکتیں تھیں۔

"پریشان مت ہو دونوں۔ ہر کام میں خُدا کی مصلحت ہوتی ہے۔" اُن کے سر پر باری باری شفت بھرا ہاتھ رکھتے وہ نرمی سے بولا تو وہ سر ہلاتے کمرے سے باہِر نِکل گئیں۔ بُرہان نے دروازہ بند کیا اور چشمان کے دائیں طرف اُس کے سامنے بیٹھا اورر غور سے اُس کا چہرہ دیکھنے لگا۔ اُس کا دوپٹہ گلے میں پڑا تھا جب کہ لمبے بالوں کی چُٹیا آدھی کندھے پر اور آدھی بیڈ پر پڑی تھی۔ گالوں پر آنسووں کے مِٹے مِٹے نِشان تھے۔

"ہمارا رِشتہ جُڑ چُکا ہے چشمان! ایک دوسرے سے مُحبّت نا سہی مگر ایک دوسرے سے بہت گہرا رِشتہ ہے ہمارا اور وہ ہے احساس کا رِشتہ۔ میں نہیں جانتا کہ تُم میرے بارے میں کیا سوچتی ہو لیکن اِتنا چاہتا ہوں کہ آئیندہ تُمہاری سوچوں پر صِرف میرا حق ہو۔ سمجھوتہ ہی سہی مگر اب ہمیں ایک ساتھ زِندگی گُزارنی ہے۔ میں کوشش کروں گا کہ کبھی میری ذات سے تُمپیں تکلیف نا پہنچے بدلے میں مُجھے صِرف وفا چاہیے۔ میری بیوی ہی نہیں میرے چاچو کی بیٹی بھی ہو تُم اور مُجھے عزیز بھی ہو۔ نِکاح جیسے رِشتے میں بندھ کر مُجھے یقین ہے کہ ہمارے دِل ایک دوسرے کے لیے بدل جائیں گے۔ بس میری ہو کے رہنا کیونکہ شراکت سے نفرت ہے مُجھے۔ پہلے کی بات اور تھی مگر اب تُم میرے نِکاح میں ہو۔" اُس کا ایک ہاتھ تھام کر انگوٹھے سے اُس کے ہاتھ کی پُشت سہلاتے وہ اُس کے بے خبر وجود سے مُخاطِب تھا۔

"کوشش کروں گا کہ زِندگی میں کبھی تُمہیں میری وجہ سے تکلیف نا ہو۔ ایک شوہر کی ذِمہ داری پوری ایمانداری سے نِبھاوں گا۔" آنے والے وقت سے بے خبر وہ اُس کے غُفلت میں ڈوبے وجود سے وعدے وعید کر رہا تھا جب کہ دور کھڑی تقدیر طنزیہ اور تمسخرانہ مُسکراہٹ اُس کی طرف اُچھال کر ایک ترس بھری نظر چشمان کے وجود پر ڈالی تھی۔ زِندگی اُس کو آزمائش میں ڈالنے والی تھی جانے وہ اِس آزمائش میں پوری اُترتی یا ڈگمگا جاتی؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتانے والا تھا۔


***************


رات کے سائے گہرے ہونے لگے تھے کھانے پینے کا کِسے ہوش تھا مگر پِھر بھی کلثوم بیگم نے بڑی امّاں اور شائستہ بیگم کو کھانا کِھلا دیا تھا۔ شائستہ بیگم عِدّت میں تھیں۔ کلثوم بیگم پہلے ہی اپنے پورشن میں جا چُکیں تھیں۔ فرازیہ اور عریحہ بھی اوپر والے پورشن کی جانِب جا رہیں تھیں جب ریحان اپنے کمرے سے برآمد ہوتا فرازیہ کو آواز دے گیا۔

"جی ریحان بھائی؟" فرازیہ نے سوالیہ انداز میں پوچھا تھا جِس پہ ریحان کی سُرخ ہوتی نظریں کُچھ اور سُرخ ہوئیں تھیں۔

"ایک کپ کافی بنا دو۔" تحکم اور سرد بھرے انداز میں کہتے وہ اپنے کمرے کی جانِب چل دیا۔

فرازیہ نے عریحہ کو دیکھا تو وہ آنکھیں مسلتی اوپر کی جانِب بڑھ گئی وہ تھک گئی تھی اوپر سے رو رو کر اُس کی حالت بھی خراب ہو رہی تھی۔ ایک بوجھل سانس ہوا کے سپُرد کرتے فرازیہ کِچن کی جانِب گئی۔

دس مِنٹ میں کافی بنا کر مگ ٹرے میں رکھتی، سر پر دوپٹہ درست کر کے وہ ریحان کے کمرے کی جانِب بڑھی۔ ایک ہاتھ میں ٹرے تھامی اور دوسرے سے دروازے پر دستک دی۔

اِجازت مِلنے پر وہ اندر داخِل ہوئی تو وہ بیڈ کے سامنے پڑے تھری سیٹر صوفے پر براجمان تھا۔ ایک بازو آنکھوں پر رکھا ہوا تھا۔ وہ آہستہ سے قدم اُٹھاتی اُس کے قریب پہنچی۔

"ریحان بب بھائی! آپ کی کافی۔" مدھم سے لہجے میں اُسے مُخاطب کرتے اُس نے چشمہ درست کیا اور ٹرے ٹیبل پر رکھی۔ ٹرے رکھ کر وہ واپس مُڑنے لگی جب ایک دم اُس کی کلائی ریحان کی گرِفت میں آئی تھی۔ ایک پل کو وہ جھنجھنا اُٹھی تھی مگر پِھر خود کو کمپوز کرتی اُس کی جانِب مُڑی۔

"رر ریحان بب بھائی! مم میری کلائی چھوڑیں۔" وہ کمزور سے لہجے میں اُس کی مضبوط گرفت سے کلائی کھینچنے کی۔کوشش کرتے بولی مگر وہ ان سُنی کرتے کافی کا مگ اُٹھا کر سکون سے کافی پینے لگا۔ فرازیہ کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے تھے۔

"رونا مت ورنہ پٹائی کروں گا۔ شاباش ایک بھی آنسو نہیں۔" ریحان نے اُسے بچوں کی طرح پُچکارا تو وہ اُس لمحے کو کوس کر رہ گئی جب وہ اُس کے کمرے میں آئی تھی۔

"یہاں آو۔" ایک گھونٹ بھر کر اُس نے مگ ٹیبل پر رکھا اور اُسے اپنے سامنے صوفے پر بِٹھایا۔ وہ اُس سے کُچھ فیصلے پر صوفے ہر براجمان ہوئی تو ریحان نے اُس کی طرف رُخ کرتے ایک گُھٹنا موڑ کر صوفے پر رکھا جب کہ دوسرا پاوں نیچے ذمین پر ٹِکا ہوا تھا۔ ایک نظر فرازیہ کو دیکھا جو پلکیں جھپک جھپک کر آنسو روکنے کی کوشش میں ہلکان ہو رہی تھی۔ اُس نے تاسف سے اُسے دیکھا تو وہ نظریں چُرا گئی۔

"کِتنے تھپڑ مارے ہیں میں نے تُمہیں؟" اُس نے سنجیدگی سے پوچھا۔

" کک کوئی بھی نہیں۔" وہ اُلجھن زدہ سی جواب دہ ہوئی۔

"پِھر یہ آنسو کیوں بہا رہی ہو۔ آنکھیں پہلے ہی اِتنی سوجھ رہیں ہیں کُچھ تو رحم کرو اِن پر۔" ریحان نے کہا تو وہ چشمہ اُتار کر آنکھیں صاف کرنے لگی۔

"ماموں چلے گئے ہمیں چھوڑ کر۔ صبر نہیں آ رہا۔" نم سا لہجہ تھا۔

"صبر کرنا پڑتا ہے رازی! ہر ایک کو اِس دُنیا سے اپنی مقررہ مُدّت پوری کر کے جانا ہے۔ ہر چیز فانی ہے لافانی تو بس اللّٰہ کی ذات ہے۔ اپنے ماموں کی مغفرت کی دُعا کرو۔ اُنہیں سکون مِلے گا۔" ریحان نے اُسے سمجھایا تو وہ اثبات میں سر ہلا گئی۔

"مانو سو گئی؟" ریحان نے کافی کا مگ دوبارہ تھامتے بات کو طول دینے کی کوشش کی۔

"جی سو گئی ہیں وہ۔ نیند کی گولی دی تھی تا کہ وہ ُپرسکون رہیں۔" فرازیہ جواب دیتے ہی اُٹھ کھڑی ہوئی۔

"کہاں جا رہی ہو؟" ریحان بھی ایک دم کھڑا ہوا۔

"رات کافی ہو گئی یے مُجھے چلنا چاہیے۔ اِس وقت میرا یہاں ہونا نا مُناسب ہے۔" سنجیدگی سے کہہ کر وہ دروازے کی جانِب بڑھنے لگی جب یک دم دروازہ کُھلا اور رضیہ بیگم اندر داخِل ہوئیں۔ فرازیہ پر نظر پڑتے ہی وہ حیران ہوئیں پِھر اُن کی حیرت ناگواری میں بدلی۔ فرازیہ کے چہرے کی رنگت پھیکی پڑی تھی جبکہ ریحان پُرسکون کھڑا تھا۔

"تُم یہاں اِس وقت کیا کر رہی ہو؟" وہ سخت چتونوں سے اُس سے باز پرس کرنے لگیں۔

"وو وہ مم ممانی جان! مم میں کک کافی دینے آئی تھی۔" اُن کے غُصّے سے تو ویسے ہی اُس کی جان جاتی تھی اب بھی وہ اٹک گئی تھی۔

"بکری کی طرح کیا ہانک رہی ہو؟ جاؤ یہاں سے اور آئندہ دھیان رکھنا کہ اِس وقت کِسی غیر مرد کے کمرے میں مت جاؤ۔" اُن کی بات پہ وہ آنسو پیتی سر ہلا گئی۔

"امّی! یہ کیسی باتیں کر رہیں ہیں آپ؟ بولنے سے پہلے سوچ تو لیا کریں۔" ریحان نے اُنہیں ٹوکا تھا۔

"اب شکل گُم کرو اپنی۔ یہاں کیا کھڑی ہو؟" فرازیہ جو اِجازت کا اِنتظار کر رہی تھی فٹ سے باہِر کو بھاگی۔

"امّی! ایسا کیوں کرتیں ہیں آپ؟ کیوں اِتنی تلخ ہو جاتیں ہیں اُن کے ساتھ؟" ریحان صوفے پر بیٹھتا بے بسی سے پوچھ رہا تھا

"کیونکہ وہ اِسی لائق ہیں اور میرے سامنے اُن کی وکالت مت کیا کرو۔ مُجھے قطعی پسند نہیں وہ تنیوں ماں بیٹیاں۔" اُنہوں نے نخوت سے ناک چڑھائی تھی۔ آگے بڑھ کر وہ ریحان کے پاس بیٹھیں۔

"کیوں نہیں پسند؟ کیا کہتیں ہیں وہ آپ کو؟" ریحان نے اِستفسار کیا۔ لہجے میں خفگی تھی۔

"نہیں پسند تو نہیں پسند۔ ساری زِندگی میرے سر پر مسلّط رہیں ہیں وہ۔ نہیں ہوتیں برداشت مُجھ سے۔" وہ اپنی بات پر قائم تھیں۔

"امّی! میں فرازیہ کو پسند کرتا ہوں۔ شادی کرنا چاہتا ہوں اُس سے۔ آپ پلیز اُن کے لیے دِل بڑا کریں وہ بہت اچھی لڑکی ہے۔" وہ اُن کے ہاتھ تھام کر اِلتجائیہ انداز میں بولنے لگا تو رضیہ بیگم نے غُصّے سے اُس کے ہاتھ جھٹکے۔

"کیا بکواس کر رہے ہو ریحان؟ میں ہرگِز بھی اُس لڑکی کو اپنی بہو نہیں بناوں گی۔ تُم پر اُس کا جادو چل سکتا ہے مگر مُجھ پر نہیں۔ اپنی ادائیں دِکھا کر تُمہیں پھانس لیا ہے اُس نے۔ مگر میری طرف سے بالکُل اِنکار ہے۔" وہ دوٹوک کہہ کر اُٹھنے لگیں تھیں جب کہ ریحان اُن کی زبان کے وار پر دنگ تھا۔

"ایسا کیسے سوچ سکتیں ہیں آپ؟ آپ جانتیں ہیں وہ کِتنی معصوم ہے اور اُس کی طرف سے ایسا کُچھ بھی نہیں ہے۔ میں اُسے پسند کرتا ہوں اور شادی بھی کرنا چاہتا ہوں۔" ریحان نے حیرت سے باہر نِکلتے اُنہیں ٹوکا تھا۔

"جو بھی ہے مگر میں ہرگِز بھی راضی نہیں ہوں۔ تھک گئے ہو گے تُم اِس لیے اذہاد کے پاس سو جاؤ آج۔ وہ ٹھیک نہیں ہے ابھی۔" اپنی بات مُکمّل کرتے وہ باہِر نِکل گئیں تھیں جبکہ پیچھے وہ مُٹھیاں بھینچتا اُن کی تقلید میں باہِر کی جانِب بڑھا۔


***************

وقت کا کام ہے گُزرنا سو وہ اپنی رفتار سے گُزر رہا تھا۔ اُس دِن کے بعد سے فرازیہ نے ریحان سے پہلو تہی برتی تھی اور رضیہ بیگم کے سامنے تو وہ اُسے یُوں نظر انداز کرتی تھی جیسے وہ وہاں ہو ہی نہیں۔ وہ ہرگِز بھی رضیہ بیگم کو موقع نہیں دینا چاہتی تھی کہ وہ اُس کو باتیں سُنائیں۔ دوسری طرف ریحان ابھی تک اُس سے شرمِندہ تھا۔ رضیہ بیگم نے جو کُچھ کہا تھا اِس کے بعد سے وہ اُن سے ناراض ہو گیا تھا۔ بات بھی ضرورت کے تحت ہی کرتا تھا۔

تنویر صاحب کی وفات کو ایک مہینہ گُزر گیا تھا۔ اِس ایک مہینے میں باقی سب تو سنبھل گئے تھے مگر چشمان چُپ ہو کر رہ گئی تھی۔ پہلے کی طرح وہ ہنستی بولتی نہیں تھی کوئی بات کر لیتا تو وہ جواب دے دیتی ورنہ ویسے ہی خاموش پڑی رہتی۔ اُس نے سکول جانا بھی چھوڑ دیا تھا۔ اُس دِن کے بعد سے اُس کی بُرہان سے کوئی بات نہیں ہوئی تھی نا ہی بُرہان نے بات کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ اُسے سپیس دے رہا تھا اور جانتا تھا کہ ایک دِن وہ پہلے کی طرح ہو جائے گی۔

رضیہ بیگم ابھی عِدّت میں تھیں اور زیادہ تر اپنے پورشن میں ہی رہتیں تھیں۔ کلثوم اور رضیہ بیگم زیادہ وقت اُن کے پاس ہی رہتیں تھیں۔ فرازیہ بھی چشمان کی دِلجوئی کرتی رہتی تھی۔

بُرہان، ریحان اور حماد صاحب فیکٹری گئے تھے جب کہ اذہاد کالج اور عریحہ سکول جا چُکی تھی۔ رضیہ بیگم بڑی امّاں کے پاس تھیں جبکہ کلثوم بیگم شائستہ بیگم کے کمرے میں بیٹھیں تھیں۔

فرازیہ اِس وقت چشمان کے کمرے میں موجود تھی۔ یہ درمیانے سائز کا کمرہ تھا جِس میں ترتیب سے ہر چیز کو سیٹ کیا گیا تھا۔ دیواروں پر مُختلف قِسم کی سینریز لٹکی ہوئیں تھیں جب کہ کمرے کے وسط میں بیڈ رکھا گیا تھا۔ بیڈ کے دائیں جانِب ڈریسنگ ٹیبل تھا اور بائیں جانِب کبرڈ۔ بیڈ کے آگے دیوان رکھا ہوا تھا۔ بیڈ شیٹز، کارپٹ اور کِھڑکیوں کے پردے پرپل۔کلر کے تھے جب کہ کمرے کا پینٹ بھی آف وائٹ اور پرپل کلر کا تھا۔

چشمان کے سامنے بیڈ پر بیٹھی وہ چشمان کو غور سے دیکھ رہی تھی جو بیڈ کراون سے ٹیک لگائے، آنکھیں موندھے، دونوں ہاتھ گُھٹنوں کے گِرد لپیٹے ہوئے تھی۔ دوپٹہ کندھے پر جھول رہا تھا جب کہ بالوں کی لمبی چُٹیا دائیں کندھے پر پڑی تھی۔

"مانو آپی! ایک بات پوچھوں؟" فرازیہ نے کمرے کے سکوت کو توڑا تھا۔

"پوچھو۔" مدھم سی آواز تھی جو فرازیہ کے سماعت سے ٹکرائی تھی۔

"آپ بُرہان بھائی سے شادی پر خُوش ہیں نا۔" فرازیہ نے کُچھ جِھجھک کر سوال کیا تھا۔ اُس کا سوال سُن کر چشمان نے آنکھیں کھول کر اُسے دیکھا تھا۔ فرازیہ یکدم ہڑبڑائی تھی۔

"گھبرا کیوں رہی ہو؟ میں نے بُرا نہیں مانا۔" چشمان کے نرمی سے کہنے پر فرازیہ نے آنکھوں پر عینک درست کی تھی۔

"جج جی۔" وہ اٹک سی گئی۔

"ہان کو میں نے کبھی اِس نظریے سے دیکھا ہی نہیں مگر مُجھے اپنے بابا کے فیصلے پر پورا بھروسہ ہے۔ ہان بُرے نہیں ہیں اور مُجھے اُن سے نِکاح پر کوئی دُکھ نہیں ہے۔ آج نہیں تو کل نِکاح تو ہونا ہی تھا ہان سے ہو گیا تو کیا فرق پڑتا ہے۔ میں خُوش نہیں ہوں تو دُکھی بھی نہیں ہوں۔" چشمان نے سادگی سے جواب دیا تو وہ نم آنکھوں سے مُسکرائی۔

"ہان بھائی بہت اچھے ہیں۔ آپ اُن کے ساتھ بہت خُوش رہیں گی۔" اُس نے سچّے دِل سے کہا تھا۔

"اور میرا بھائی کیسا ہے؟" چشمان نے سنجیدگی سے پوچھا تو وہ اُلجھ کر اُسے دیکھنے لگی پِھر سمجھ آنے پر سُرخ گال لیے چہرہ جُھکا گئی۔

"پ پتہ نہیں۔" وہ اُداس سا چہرہ لیے بولی۔

"ریحان بھائی بہت اچھے ہیں رازی! بہت چاہتے ہیں وہ تُمہیں۔" چشمان نے اُس کے ہاتھ تھامے۔

"میں اُن کی چاہت کو کیا کروں گی جب مُجھے عِزت ہی نہیں مِلے گی؟ آپ ہمارے ساتھ ممانی جان کا رویہ اچھے سے جانتی ہیں وہ کبھی راضی نہیں ہوں گی۔ اور میں نہیں چاہتی کہ اِس گھر میں کوئی بدمزگی پھیلے وہ بھی میری وجہ سے۔" فرازیہ نے اپنے ہاتھ آہستہ سے چُھڑوائے۔

"تُم اُن کی فِکر چھوڑو۔ میں اُنہیں منا لوں گی۔ پھوپھو جان کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہو گا اور نا ہی کِسی اور کو۔ تُم اپنا بتاؤ رازی؟ کیا تُمہیں ریحان بھائی نہیں پسند؟" چشمان نے تسلّی دیتے سوال کیا۔

"وو وہ بہت اچھے ہیں آپی! مم مُجھے پتہ ہے وہ مم مُجھے چاہتے ہیں مم مگر ممانی جج جان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ ابھی بول ہی رہی تھی جب چشمان نے اُس کی بات کاٹی۔

"تُم اُنہیں پسند کرتی ہو؟" چشمان نے دوٹوک پوچھا تو وہ چہرہ جُھکائے سر کو اثبات میں ہلا گئی جِس پر ایک مہینے بعد آج چشمان کے ہونٹوں پہ مُسکراہٹ نے اپنی چھب دِکھائی تھی۔

"تو اگر وہ تائی امّی کی رضا سے تُم سے شادی کریں تو تُمہیں کوئی اعتراض تو نہیں ہو گا؟" چشمان نے نرمی سے پوچھا تو وہ ایک بار پِھر نفی میں سر ہلا گئی۔

"ہمیشہ خُوش رہو۔" وہ ابھی کہہ ہی رہی تھی جب دروازہ کُھلا اور شائستہ بیگم اندر داخِل ہوئیں۔

"مانو! بیٹا باہِر ارمان آیا ہے کہہ رہا ہے تُم سے مِلنا چاہتا ہے۔" شائستہ بیگم نے بتایا تو وہ سر ہلاتی اُٹھ کھڑی ہوئی۔

"مانو آپی! آپ جائیں میں ریفریشمنٹ کا اِنتظام کرتی ہوں۔" فرازیہ نے کہا تو وہ مُسکرا کر باہِر کی جانِب بڑھی۔

وہ سر پہ دوپٹہ جماتی ڈرائینگ روم میں داخِل ہوئی تو ارمان اُسے دیکھ کر اُٹھ کھڑا ہوا۔ یہ نفاست سے سجا ہوا سادہ سا کمرہ تھا۔ کمرے میں صوفے سیٹ کیے گئے تھے جو کہ کمرے کی چاروں دیواروں کے ساتھ لگے تھے۔ درمیان میں بڑے بڑے شیشے کے دو ٹیبل رکھے ہوئے تھے۔ کھڑکیوں پر پردے پڑے ہوئے تھے۔

"اسلامُ علیکُم مِس!! کیسی ہیں آپ؟" اُس نے سلام کرتے اُس کی خیریت دریافت کی تو وہ اُسے بیٹھنے کا اِشارہ کرتی وہ بھی اُس کے سامنے صوفے پر ٹِک گئی۔

"میں ٹھیک ہوں ارمان! آپ کیسے ہیں اور پڑھائی کیسی جا رہی ہے آپ کی؟" چشمان نے پھیکا سا مُسکرا کر پوچھا۔

"پڑھائی اچھی جا رہی ہے مِس! بہت اچھا کالج ہے اور جِس ٹیوٹر کا آپ نے بتایا تھا وہ بھی بھی اچھی ہیں۔" ارمان نے ادب سے کہا۔

"بہت اچھی بات ہے۔ خیر آج اچانک کیسے آنا ہوا؟ آپ تو ہمارے گھر کبھی نہیں آئے۔" چشمان نے اُلجھ کر پوچھا۔

ابھی وہ کوئی جواب دیتا کہ فرازیہ اندر داخِل ہوئی۔ اُس نے فرازیہ کو سلام کیا جِس کا جواب دے کر وہ اُسے چائے پیش کرنے لگی۔ بِسکٹس وغیرہ ٹیبل پر رکھ کر وہ بِیٹھنے لگی جب کلثوم بیگم کی آواز آئی۔ وہ ایکسکیوز کرتی اوپر والے پورشن کی جانِب بڑھ گئی۔

"وہ مِس میں سکول گیا تھا تو پتہ چلا کہ آپ سکول نہیں آ رہیں۔ وجہ پوچھنے پر آپ کے بابا کی وفات کا پتہ چلا۔ بہت افسوس ہوا سُن کر۔" اُس نے بتایا تو وہ سر ہلا کر رہ گئی۔

"بس بابا ٹھیک نہیں تھے اِس لیے ہمیں چھوڑ گئے۔" اُس کی آنکھیں ایک بار پِھر برسنے لگیں تھیں۔

"جی مِس! یہ تو اللّٰہ کے فیصلے ہیں ہر اِنسان کو ایک دِن اُس کے پاس واپس جانا ہوتا ہے۔ ہم اِنسان صبر کے عِلاوہ تو کُچھ نہیں کر سکتے۔" وہ اُداس سا گویا ہوا۔

"جانتی ہہ ہوں اا اللّٰہ کا فیصلہ ہے مم مگر صبر نہیں آتا اا ارمان! وو وہ میری دُنیا تھے۔ اا اُن کے بغیر کُچھ اچھا نن نہیں لگتا۔" وہ پوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔ آنسووں کو قابو کرنے کی ہر کوشش بے کار ہو گئی تھی۔ زخم پِھر سے تازہ ہوئے تھے۔

"مِس پلیز روئیں مت۔ آپ کے رونے سے انکل کی روح کو تکلیف ہو گی۔ آپ پلیز چُپ ہو جائیں۔" ارمان کو سمجھ نا آیا وہ کیا کرے اِس لیے اُٹھ کر اُس کے سامنے زمین پہ گُھٹنوں کے بل بیٹھا۔

"وہ کیوں چلے گئے مُجھے چھوڑ کر؟ مُجھے صبر نہیں آتا ارمان۔ دُعا کرو کہ میں بھی اُن کے پاس چلی جاؤں۔" چشمان کی بات سُن کر وہ دہل اُٹھا تھا۔

"ایسا مت کہیں مِس! موت کی تمنا نہیں کرتے گُناہ ہوتا ہے۔" بے ساختہ ہی اُس کے ہاتھ تھام کر اُس نے چشمان کو ٹوکا تھا۔ یہ سب بے ساختہ ہوا تھا اِس سب میں اُس کی کوئی غلط اِٹینشن نہیں تھی۔

ابھی چشمان سنبھلتی کہ کوئی ڈرائینگ روم سے اندر داخِل ہوا تھا اور اُس کی نظر اُن دونوں کے ہاتھوں پہ پڑی تھی اور ایک اشتعال کی لہر اُس وجود کے دِل میں اُٹھی تھی۔

"جاؤ یہاں سے میں سنبھال لوں گا۔" اُس نے دوٹوک تلخ لہجے میں کہا تو ارمان اُس کے تیور دیکھتا گھبرا کر بغیر کوئی بات کیے اُٹھ گیا تھا۔ چائے کا کپ وہیں پڑا رہ گیا تھا۔ چشمان نے اُس کی آواز سُن کر اُس کی جانِب دیکھا تھا جو بھینچی مُٹھیاں لیے اُس کے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھا تھا۔ چشمان کا ایک بازو اُس کی گرفت میں آیا جِس پہ وہ سِسک اُٹھی تھی۔

"ہہ ہان کک کیا کک کر رہے ہیں تت تکلیف ہو رہی ہے مم مُجھے۔" وہ کراہی تھی۔

"مُجھے بھی تکلیف ہوتی ہے جب بھی تُمہیں اُس کے ساتھ دیکھتا ہوں۔ میں نے کہا تھا نا کہ اُس سے دور رہنا پِھر کیوں اُس کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کے بیٹھی تھی؟ بیوی ہو میری مُجھے بالکُل گوارا نہیں یہ سب۔" وہ بول نہیں پھنکار رہا تھا اور چشمان تو اُس کی باتوں کا پسِ منظر سمجھنے کی کوشش میں تھی۔

"کک کیا مطلب ہے آپ کا؟ چچ چھوٹا بچّہ ہے وہ ہان!" بازو چُھڑوانے کوشش میں وہ ہلکان ہوتی بولی تھی۔

"بالکُل پسند نہیں وہ لڑکا مُجھے۔ آج کے بعد مُجھے وہ تُمہارے اِردگِرد نظر نا آئے چشمان! ورنہ مُجھ سے بُرا کوئی نہیں ہو گا۔" اُس نے ایک جھٹکے سے اُس کا بازو چھوڑا تو وہ ڈبڈبائی آنکھوں سے اُسے دیکھتی بازو سہلانے لگی۔

"بب بہت بُرے ہیں آپ!" وہ بھرّائے لہجے میں بولی تو وہ سرد سپاٹ چہرہ لیے اُسے دیکھنے لگا۔

"تو اچھا کون ہے وہ ارمان؟" بُرہان نے تیکھے چتونوں سے پوچھا۔

"آپ خُود کو اُس سے کمپیئر کیوں کر رہے ہیں؟ وہ میرا سٹوڈنٹ ہے اِس کے عِلاوہ کُچھ نہیں۔" چشمان نے تلخی سے کہا تھا۔

"صِرف سٹوڈنٹ؟ پسند کرتی ہو تُم اُسے۔ تُم نے خُود کہا تھا۔" بُرہان کی بات سُن کر اُس کا دِماغ بھک سے اُڑا تھا۔

"وہ ایک اچھا طالِب عِلم ہے۔ لائق ہے۔ تمیز دار ہے اِسی لیے پسند ہے۔ میرے لیے وہ ایک بچّے سے زیادہ کُچھ نہیں ہے۔ آپ شوہر ہیں میرے۔ آپ کا اور اُس کا مُقابلہ ہی نہیں ہے۔" چشمان نے تاسف سے کہا تو وہ بے تاثر نظروں سے اُس کا چہرہ دیکھنے لگا۔

"مُحبّت نہیں کرتی تُم اُس سے؟" بُرہان کے سوال پر اُس کا دِل کیا کہ کُچھ اُٹھا کر اُس کے سر میں مار دے۔

"نہیں کرتی میں اُس سے مُحبّت۔ اُس سے کیا کِسی سے بھی نہیں۔" وہ چٹخ گئی تھی۔

"مُجھ سے بھی نہیں؟" بُرہان نے عجیب سے لہجے میں پوچھا تو وہ نظریں چُرا گئی۔ کیا کہتی کہ ہاں نہیں کرتی مُحبّت۔ اُس کو نظریں چُراتے دیکھ کر وہ اِستہزائیہ سا مُسکرایا تھا۔

"ہاں تُم مُجھ سے کیسے مُحبّت کر سکتی ہو؟ میں تو کڑوا کریلا ہوں جو ہر وقت تُمہیں ڈانٹتا ہے۔ خُوش رہو۔" کہہ کر وہ رُکا نہیں تھا جب کہ اُس کے لہجے میں یاسیت محسوس کرتے وہ خُود کو کوس کر رہ گئی تھی۔ وہ اُس کا شوہر تھا جِس کے سوال پر وہ اُلجھ گئی تھی۔ اُس کی زِندگی میں محبت نامی کوئی چیز کبھی آئی نہیں تھی تو کیسے کہہ دیتی کہ ہاں کرتی ہے وہ اپنے شوہر سے مُحبّت۔ شاید آہستہ آہستہ وہ اُس کی طرف مائل ہو جائے آخر نِکاح کے بول مُحبّت پیدا کر ہی دیتے ہیں۔ چشمان نے سوچتے سر صوفے کی پُشت سے ٹِکایا تھا۔


******************


بُرہان جو یہ کوشش کر رہا تھا کہ وہ اپنے اور چشمان کے رِشتے کو ایک موقع دے گا اب ان دیکھی آگ میں جلنے لگا تھا۔ جانے کیوں مگر اُسے ارمان کو چشمان کے آس پاس دیکھ کر جلن ہوتی تھی۔ کیوں ہوتی تھی یہ وہ بھی نہیں جانتا تھا۔ وہ اُس کی بیوی تھی جِس کو کوئی دیکھے بھی تو وہ برداشت نہیں کر پاتا تھا۔ وہ تو تب بھی برداشت نہیں کر پاتا تھا جب وہ اُس سے نِکاح کے رِشتے میں نہیں تھا۔ مگر اب تو وہ اُس کے نِکاح میں تھی۔

اُس کے دِل میں عجیب سے جذبات اُمڈنے لگے تھے جِنہیں وہ کوئی نام دینے سے قاصِر تھا۔ اُسے چشمان کی وہ کھنکتی ہنسی یاد آنے لگی تھی جِس سے وہ چِڑتا تھا۔ اُسے اُس کا شور شرابہ اور چنچل باتیں یاد آنے لگیں تھیں۔ وہ چشمان تو کہیں کھو کر رہ گئی تھی۔

اُس نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک چوکور باکس باہِر نِکالا۔ باکس کھول کر اُس نے اندر سے وہ رِنگ نِکالی جو وہ چشمان کے لیے لایا تھا۔ وہ گولڈ کی ایک خُوبصورت سی انگوٹھی تھی جِس کے اوپر گُلاب کی شیپ بنی ہوئی تھی۔ اُس نے بے دِلی سے ایک نظر اُس انگوٹھی پر ڈال کر اُسے واپس باکس میں رکھا اور اُسے کبرڈ میں رکھ دیا۔

وہ یہ چشمان کے لیے لایا تھا۔ مگر اُس کے پاس ارمان کو دیکھ کر وہ اُس پر سختی کر گیا تھا جو وہ کرنا نہیں چاہتا تھا۔ گہرا سانس بھر کر وہ بغیر کپڑے بدلے بیڈ پر ڈھے گیا تھا۔


****************


اِس بات کو تین مہینے گُزر چُکے تھے۔ سردیوں کی آمد آمد تھی جِس کی وجہ سے موسم بھی تھوڑا خُوشگوار اور ٹھنڈا ہو چلا تھا۔ زِندگی اپنے ڈگر پر رواں دواں تھی۔ شائستہ بیگم کی عِدّت ختم ہو چُکی تھی۔ جہاں ریحان کی فرازیہ کے لیے مُحبّت دِن بہ دِن بڑھتی جا رہی تھی وہیں فرازیہ رضیہ بیگم کے رویّے سے خائف رہنے لگی تھی۔ وہ کوشش کرتی کہ رضیہ بیگم کے سامنے زیادہ نا جائے۔ رضیہ بیگم کی اُن سے چِڑ ابھی بھی برقرار تھی۔

اذہاد اور عریحہ اپنی پڑھائی میں ہی مصروف رہتے تھے۔ باپ کی وفات کے بعد اذہاد بہت سنجیدہ اور ذِمہ دار سا ہو گیا تھا۔ پہلے کی طرح چہکتا بھی نہیں تھا۔

اُس دِن کے بعد سے بُرہان اور چشمان کی بھی کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ بُرہان نے چشمان سے کوئی بات نہیں کی تھی اور رہی چشمان وہ تو پہلے بھی بُرہان سے دامن بچاتی تھی اب بھی وہ اُس سے پہلو تہی برتے ہوئے تھی۔ وہ اب اپنی تائی کے پورشن میں بھی کم ہی جایا کرتی تھی۔ جانا بھی ہوتا تو دِن میں جاتی جب یہ یقین ہوتا کہ بُرہان گھر میں نہیں ہو گا۔

ابھی وہ کام نِپٹا کے بیٹھی ہی تھی جب رضیہ بیگم وہاں آن موجود ہوئیں۔ اُنہیں سلام کر کے وہ اُن کے لیے چائے بنانے کے لیے جانے لگی جب رضیہ بیگم نے اُسے روک لیا اور اپنے پاس بیٹھنے کا اِشارہ کیا۔

"میں جانتی ہوں بیٹا! کہ بھائی صاحب کی وفات کے غم سے تُم نِکل نہیں پا رہی۔ مگر زِندگی رُکتی نہیں ہے ہمیں ہر حال میں جینا ہی پڑتا ہے۔ اذہاد بھی اُس دِن سے ہنسنا بھول گیا ہے اور شائستہ بھی چُپ چاپ بیٹھی رہتی ہے۔ اپنی ماں اور بھائی کو تُمہیں ہی زِندگی کی طرف لانا ہے۔ اذہاد ابھی چھوٹا ہے اُسے بھی تُمہیں ہی سنبھالنا ہے۔ اور تُم بھی گھر سے باہِر نِکلا کرو۔ تا کہ تُمہارا ماحول بدلے اور دِل سنبھلے۔" رضیہ بیگم اُسے پیار سے سمجھانے لگیں تو وہ سر ہلا کر رہ گئی۔

"مُجھے تُم سے ایک اور بات پوچھنا تھی چشمان! تُم بُرہان سے نِکاح پہ خُوش تو ہو نا؟ میرا مطلب ہے جِن حالات میں نِکاح ہوا تُم سے پوچھ ہی نہیں پائے۔" رضیہ بیگم نے نرمی سے پوچھا۔

"جی تائی امیّ! میں خُوش ہوں۔" بُرہان کی کڑوی کسیلی باتوں سے قطع نظر وہ سکون سے بولی۔ وہ اُنہیں بتا کر پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔

"صدا خُوش رہو میرا بچّہ! میری شروع سے ہی خُواہش تھی کہ تُم میرے بُرہان کی دُلہن بنو۔ مگر یہ وقت ایسے آئے گا کبھی سوچا نہیں تھا۔ مگر اب بہت دھوم دھام سے میں تُمہیں رُخصت کروا کے اپنے گھر لے کر جاؤں گی۔ میری بہو نہیں بیٹی بن کر رہو گی تُم۔" وہ خُوشی سے گویا ہوئیں تھیں۔

"آپ سے ایک بات کیوں تائی امّی!" اُس نے سوچ کر کہا۔

"ہاں کہو؟" وہ متوجّہ ہوئیں۔

"جِس طرح میں آپ کی بیٹی ہوں کیا فرازیہ آپ کی بیٹی نہیں؟ وہ بہت اچھی ہے تائی امّی! ریحان بھائی پسند کرتے ہیں اُسے اور میں اپنے بھائی کی پسند کو پسند کرتی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ آپ کی ایک نہیں دو دو بیٹیاں ہوں۔" چشمان نے اُن کے ہاتھ تھام کر کہا تو وہ لب بھینچ گئیں۔

"ریحان کو تو اپنے جال میں پھنسایا ہی تھا اب تُمہیں بھی اپنے ساتھ مِلا لیا ہے اُس نے۔ اُس جیسی چالاک لڑکی کو میں اپنی بہو کبھی نہیں بناوں گی۔ پہلے ہی اپنی اداوں سے ریحان کو قابو کر لیا ہے شادی کے بعد ناجانے کیا گُل کِھلائے؟" وہ زہر خند ہوئیں تو چشمان نے آنکھیں میچ کر کھولیں۔

"ایسا مت کہیں تائی امّی! آپ مُجھے بیٹی مانتی ہیں کہیں ایسا نا ہو کہ یہ سارے الفاظ میری ذات کی سِمت مُڑ جائیں۔" چشمان کی بات سُن کر وہ چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگیں۔

"شش۔ ایسی باتیں منہ سے نہیں نِکالتے۔ تُم تو میری اچھی بیٹی ہو۔ میں شائستہ کے پاس جا رہی ہوں اور تُم بھی اپنے کمرے سے باہِر نِکلا کرو۔" وہ بات بدلتیں اُسے ہدایت دے کر کمرے سے نِکل گئیں پیچھے وہ تاسف سے گہرا سانس بھر کر رہ گئی۔

************

حال:

اچانک شاہان نے اُس کے گال پر ہاتھ رکھا تھا جِس پر وہ چونک کر ماضی کی تلخ یادوں سے باہِر نِکلی تھی۔ اُس نے گالوں پہ ہاتھ پھیرا جو نم تھے اور آنسو بہہ کر گردن پہ گِر رہے تھے۔ گہرا سانس بھر کر وک سیدھی ہوئی اور شاہان کو دیکھا جو پُرسکون سا سو رہا تھا۔ ایک دفعہ ہاتھ چشمان کے چہرے پر رکھ کر ہٹا لیا تھا۔ وہ بے ساختہ جُھک کر اُس کے نقوش کو چھونے لگی۔ یہ اُس کا بیٹا تھا اُس کے وجود کا حِصّہ۔ جِس میں جان بستی تھی اُس کی۔ جِس کے بِنا ایک پل بھی محال تھا تھا چشمان کا۔ شاہان کسمسایا تو وہ اُسے خُود میں بھینچتی سونے کی کوشش کرنے لگی مگر دور کہیں فجر کی اذانوں کی آواز پر وہ چونک اُٹھی۔ 

وہ ماضی میں اِتنی ڈوب گئی تھی کہ وقت گُزرنے کا پتہ بھی نہیں چلا تھا۔ ایک ایک لمحہ کِسی فِلم کی طرح اُس کی آنکھوں کے سامنے سے گُزرا تھا۔ وہ شاہان کو ایک سائیڈ پہ کرتی اُٹھی اور باتھ روم میں گُھس گئی۔ کُچھ دیر بعد وہ وضو کر کے باہِر آئی۔ فجر کی نماز ادا کی اور دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھا دئیے۔ اُسے سمجھ نہیں آیا کہ کیا مانگے تو اُس نے خُدا سے اپنے لیے بھلائی مانگی۔ بہتر فیصلہ کرنے کی توفیق مانگی۔ اپنے بیٹے کی صحت مند زِندگی کی دُعا مانگی۔ مگر ذہن جب بیٹے کے باپ کی طرف گیا تو وہ چُپ رہ گئی۔ کیا مانگتی اُس کے لیے؟ کُچھ چھوڑا ہی نہیں تھا اُس نے۔ اُس کے ذہن میں بُرہان کی آخری مُلاقات کی باتیں گونجنے لگیں۔ اُس کے معافی بھرے الفاظ ذہن میں اُمڈنے لگے۔ مگر پِھر سر جھٹک کر اپنے سامنے خالی ہاتھوں کو دیکھنے لگی۔ بے ساختہ ہی اُس نے بُرہان کی سلامتی کے لیے دُعا کی تھی۔ پِھر خُود سے ہی نظریں چُراتی اُٹھ کھڑی ہوئی اور قُرآن پاک کی تلاوت کرنے لگی۔ 

پچھ بجے کے قریب وہ اُٹھی اور باہِر کی جانِب بڑھ گئی۔ کُچھ دیر یُونہی اِدھر اُدھر ٹہلنے کے بعد اُس نے کِچن کا رُخ کیا۔ سب کے لیے ناشتہ بناتے بناتے اُسے ساڑھے سات ہو گئے۔ باقی سب بھی دھیرے دھیرے جاگ گئے تھے۔ اُس نے رضیہ بیگم کے لیے پرہیزی کھانا بنا دیا تھا۔ اذہاد اُن کے لیے ناشتہ لے کر ہسپتال کے لیے نِکل گیا تھا جب کہ حماد صاحب ہسپتال میں ہی تھے۔ریحان کو اُنہوں نے گھر بھیج دیا تھا تا کہ وہ فیکٹری چلا جائے۔ وہ ناشتہ ڈائینگ ٹیبل پر سیٹ کر رہی تھی جب شاہان کمرے سے باہِر نِکلا۔ منہ دُھلا ہوا تھا جو اُسے چشمان نے ہی دھونا سِکھایا تھا۔ کمرے سے نِکل کر وہ ہر کمرے میں تانکا جھانکی کرنے لگا۔ سارے کمرے چیک کر کے وہ سیڑھیوں کی جانِب بڑھا اور اوپر والے پورشن میں چلا گیا۔ 

چشمان کے ساتھ ساتھ عریحہ اور فرازیہ بھی اُس کی حرکت نوٹ کر رہیں تھیں۔ تقریباً دس مِنٹ بعد شاہان مایوس سا چہرہ لیے واپس آیا اور نیچے والے پورشن کی طرف بڑھ گیا۔ چشمان نے اُسے روکا نہیں تھا وہ بیٹا تھا اُس کا۔  جانتی تھی کہ وہ کِسے ڈھونڈ رہا ہے۔ دس مِنٹ بعد وہ واپس آیا تو اب آنکھوں میں بھی نا اُمیدی تھی۔ وہ ڈائیننگ ٹیبل کے پاس کھڑی چشمان کے پاس آیا اور اُس کا دوپٹہ تھام کے کھینچا۔

"ماما! بابا کہاں ہیں؟ میں سب جگہ دیکھا بابا نہیں ہیں۔ لُووم میں نہیں ہیں۔ نانو گھل نہیں ہیں۔ لازی کے گھل بھی نہیں ہیں۔ میں سب جگہ دیکھا مگل وہ کہیں نہیں ہیں۔ بابا کہاں ہیں ماما؟" وہ روہانسا ہوتا پوچھ رہا تھا جبکہ چشمان نے بے بسی سے اُس کی جانِب دیکھا تھا۔ 

"بیٹا بابا ابھی آپ کی دادو پاس گئے ہیں۔ وہ جلدی ہی آ جائیں گے۔ شاباش آ جاؤ ناشتہ کرو ماما کی جان!" چشمان نے اُسے بہلاتے ہوئے کہا اور پِھر خُود ہی اُٹھا کر چئیر پر بِٹھایا۔ فرازیہ اور عریحہ بھی خاموشی سے بیٹھیں اُسے ہی دیکھ رہیں تھیں۔ 

"مُجھے لے کل کیوں نہیں گئے؟ مُجھے بھی بابا ساتھ جانا تھا۔ ابھی فون کلیں اُن کو کہ وہ مُجھے ساتھ لے کل جائیں۔ مُجھے بابا ساتھ لہنا ہے۔" شاہان کو کُچھ حوصلہ ہوا تو وہ ضِدّی لہجے میں بولا۔ 

"بیٹا بابا ابھی بِزی ہیں نا؟ دادو کی طبیعت خراب ہے ایسے آپ کو ساتھ کیسے لے کے جاتے؟ وہاں دوائیوں کی سمیل ہوتی ہے نا۔ تو بچّوں کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے اُس سے۔ بابا جلدی آ جائیں گے نا میری جان!" چشمان نے اُس کے بال سنوارتے پیار سے کہا۔ 

"بابا مُجھے چھول کر تو نہیں گئے نا؟ بابا آ جائیں گے نا؟" وہ بے یقینی سے پوچھنے لگا تو چشمان کا دِل حلق میں آن اٹکا۔ 

"نہیں میری جان! بابا آ جائیں گے اور دیکھنا وہ آپ کے لیے آئس کریم بھی لائیں گے۔" وہ اُسے یقین دُہانی کرواتی ہوئی بولی۔

"پلامش؟" شاہان نے اپنا ننھا سا ہاتھ آگے کیا۔

"پرامس ماما کی جان!" وہ اُس کا ننھا سا ہاتھ چوم کر وعدہ کر گئی یہ جانے بغیر کہ ہر وعدہ وفا نہیں ہوتا۔ 

"ہانی بابا کی جان ہے۔" وہ کِھلکِھلا کر بولا تو وہ سر ہلا کر اُس کی تائید کرتی اُسے ناشتہ کروانے لگی جبکہ فرازیہ اور عریحہ نم آنکھوں سے اُن کی جانِب دیکھ رہیں تھیں۔ 

اگلے پانچ مِنٹ بعد ریحان بھی آ گیا۔ اُس نے ہانیہ کو اُٹھا رکھا تھا جو کہ ابھی ہی جاگی تھی۔ فرازیہ نے جلدی سے اُٹھ کر ہانیہ کو تھاما تو ریحان ناشتہ کرنے لگا۔ 

"چاچو! بابا سے بات کلنی ہے میں نے۔ اپنا فون دیں نا ہانی کو۔" شاہان نے نئی فرنائش کی تو ریحان نے مُسکرا کر جیب سے فون نِکالا اور بُرہان کا نمبر ڈائل کیا۔ مگر دوسری طرف سے موبائل بند جا رہا تھا۔ 

"بیٹا ابھی تو آپ کے بابا کا فون بند ہے۔ آپ بعد میں بات کر لینا۔ مانو! بھائی کا نمبر سیو کر لو شاہان کی بات کروا دینا۔" ریحان نے شاہان اور چشمان سے بیک وقت مُخاطب ہوتے کہا تو وہ ناچاہتے ہوئے بھی اپنا فون لے آئی۔ 

ریحان نمبر بولنے لگا تو وہ اُسے بُرہان کے نام سے سیو کرنے لگی۔ سیو کرنے کے بعد وہ نمبر بلاک لِسٹ میں شو ہونے لگا تو اُسے اچھنبا ہوا۔ اُس نے نمبر ان بلاک کیا اور اِنباکس چیک کیا جہاں وہی غزلیں موجود تھیں جو اُسے کِسی انجان نمبر سے آئیں تھیں۔ وہ ایک گہرا سانس بھر کر رہ گئی یعنی یہ نمبر بُرہان احمد کا تھا۔ وہ گھر سے جانے کے بعد انا پُرانا نمبر بند کروا چُکا تھا اور یہ یقیناً اُس کا نیا نمبر تھا۔ 

عریحہ بھی ریحان کے ساتھ ہی چلی گئی تھی۔ ریحان نے کہا تھا کہ وہ اُسے ڈراپ کر دے گا۔ اُن کے جانے کے بعد فرازیہ اور چشمان ہی گھر پر رہ گئیں۔ 

"رازی! تُم شاہان کو روم میں لے جاؤ تب تک میں برتن سمیٹ لوں۔" چشمان نے سنجیدگی سے کہا تو وہ ہانیہ کو اُٹھائے سر ہلاتی اُٹھ کھڑی ہوئی۔ 

"آپی! بب بُرہان بب بھائی کہاں ہیں؟" فرازیہ نے کُچھ جِھجھک کر پوچھا۔

"میں نہیں جانتی۔" چشمان کے سپاٹ سے انداز پر وہ گہرا سانس بھرتی ہانیہ کو گود میں اُٹھائے شاہان کی اُنگلی تھامے اپنے کمرے کی جانِب بڑھ گئی۔ شاہان چشمان کا موبائل اپنے ساتھ لے جانا نہیں بُھولا تھا۔ 

***************

ماضی:

بڑی امّاں نے فیصلہ کہا تھا کہ اب چشمان کی رُخصتی ہو جائے اِسی لیے اُنہوں نے باقی سب سے بھی اُن کی مرضی جانی تھی جِس پہ کِسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ جہاں باقی سب خُوش تھے وہیں چشمان کا دِل گھبراہٹ کا شِکار رہنے لگا تھا۔ آنے والا وقت جانے کیوں اُسے اپنی آزمائش لگنے لگا تھا۔ بُرہان اُس سے زیادہ بات نہیں کرتا تھا۔ کبھی آمنا سامنا ہو بھی جاتا تو وہ سرسری سا حال چال پوچھ کر اپنے راستے چل دیتا۔ 

وہ اپنے خول میں سِمٹ سا گیا تھا رُخصتی کی بات پر بھی اُس نے خاموشی سے ہامی بھر لی تھی۔ 

شادی دو مہینے بعد ہونا طے پائی تھی۔ اِس مہینے میں اذہاد کے فائنل پیپرز تھے اور اُس سے اگلے مہینے میں عریحہ کے میٹرک کے پیپرز تھے جِس کی وجہ سے رُخصتی دو مہینے بعد رکھی گئی تھی۔

وقت تیز رفتاری سے گُزرا تھا۔ اذہاد کے پیپرز ہو چُکے تھے اور اب وہ فارِغ ہی تھا اور اکثر اوقات عریحہ کو پڑھاتا ہوا پایا جاتا۔ اِن ہی دِنوں میں خاندان میں شادی آ گئی تھی۔ شادی رضیہ بیگم کے مائیکے میں تھی اور سب کو ہی مدعو کیا گیا تھا۔ عریحہ کے پیپرز کی وجہ سے کلثوم بیگم نے رُکنا چاہا تھا مگر عریحہ نے یہ کہہ کر شور مچا دیا کہ بہت عرصے بعد شادی آئی ہے تین دِن کی ہی تو بات ہے۔ وہ شادی اٹینڈ کرنا چاہتی ہے۔ کلثون بیگم نے اِنکار کر دیا تھا مگر پھر حماد صاحب کے کہنے پر وہ بھی جانے کے لیے مان گئیں تھیں۔ شائستہ بیگم کو رضیہ بیگم زبردستی لے کر جا رہیں تھیں کہ وہ گھر رہ رہ کر یقیناً افسردہ ہی رہتیں۔ 

شاپنگ ساری کلثوم بیگم، رضیہ بیگم نے کی تھی۔ چشمان صِرف ایک دو بار اُن کے ساتھ گئی تھی۔ آخر کار وہ دِن بھی آ گیا تھا جِس دِن سب ہی کو شادی کے لیے روانہ ہونا تھا۔ بُرہان کو فیکٹری کے کام کے سِلسلے میں رُکنا پڑ رہا تھا اور وہ شام کو جانے والا تھا۔ دو گاڑیوں میں باقی سب ہی براجمان ہو پائے تھے اور چشمان رہ گئی تھی۔ جِس پہ حماد صاحب نے اُسے بُرہان کے ساتھ آنے کا کہہ کر اُسے گھر ہی چھوڑ دیا تھا۔ بُرہان نے اُن کی بات پہ سر ہلا دیا تھا جبکہ چشمان چُپ ہی رہ گئی تھی۔ 

باقی سب رُخصت ہوئے تو وہ گھر کے اندر چلی گئی تھی۔ بُرہان اپنے پورشن کی جانِب بڑھ گیا اُسے فیکٹری جانا تھا۔ 

ابھی چشمان اپنے کمرے میں پہنچی ہی تھی جب اُسے سکول کی پرنسِپل کی کال آئی تھی۔ وہ اُسے سکول بُلا رہیں تھیں۔ اُنہیں تھوڑی دیر میں آنے کا کہہ کر وہ اوپر کی جانِب بڑھی تھی۔ کُچھ جِھجھک کر بُرہان کے کمرے کا دروازہ کھول کر وہ اندر داخِل ہونے لگی جب سامنے سے وہ باہِر آتا اُس سے ٹکرا گیا تھا۔ اُسے گِرنے سے بچانے کو وہ اُسے تھام گیا تھا۔ اُسے سیدھا کھڑے کرتے وہ اُسے گھورنے لگا تھا۔ 

"یہ ہر بار ٹکرا کر کیوں اپنا ماتھا زخمی کروانا چاہتی ہو؟ کہیں سوراخ وغیرہ ہو گیا تو؟" وہ کافی ہلکے پُھلکے لہجے میں بولا تھا۔ پِچھلی بار کی تلخ کلامی کا شائبہ تک نہیں تھا اُس کی گُفتگو میں۔

"سس سوری۔" وہ بس یہی بول پائی تھی۔ اُس کی نرمی سے اُس کا دِل کُچھ سنبھلا تھا۔ ورنہ تو وہ اوپر آتے ہوئے بھی ڈر رہی تھی۔ 

"اِدھر آو۔" وہ نرمی سے اُسے بازو سے تھامتا بیڈ پہ بِٹھا گیا۔ خُود اُس کے سامنے ہی اُس کے قریب بیڈ پر بیٹھا اور اُس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیے۔ وہ ہقّا بقّا سی اُس کی حرکتیں دیکھ رہی تھی۔ دِل حیرانی کے سمندر میں غوطہ زن تھا اور حیران آنکھیں بس بُرہان کے چہرے پر جمیں تھیں۔ 

"میں جانتا ہوں کہ پِچھلے کُچھ عرصے سے میں نے تُمہارے ساتھ بہت تلخ رویہ رکھا ہے اور جو کُچھ بھی میں نے کہا وہ بہت بُرا تھا۔ اُس سب کے لیے مُجھے معاف کر دو۔ جانتا ہوں دِل دُکھایا ہے میں نے مگر مُجھے برداشت نہیں ہوا تھا تُمہارے قریب کِسی اور کو دیکھنا۔" وہ سر جُھکائے اُس کے ہاتھ سہلاتے ہوئے بول رہا تھا۔

"وہ چھوٹا بچّہ ہے ہان!" وہ بے ساختہ بولی تھی۔ پِھر لب بھینچ گئی۔

"پِھر بھی مُجھے اچھا نہیں لگتا۔ ہمارے درمیان ایک مضبوط رِشتہ ہے جِسے میں نِبھانا چاہتا ہوں اور یہ تبھی ممکن ہے جب تُم بھی راضی ہو۔ میں جانتا ہوں تُم مُجھے پسند نہیں کرتی مگر اب جب یہ رِشتہ جُڑ گیا ہے تو اِسے نِبھانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔" بُرہان نے کہا تو وہ سر ہلا گئی۔ بے یقین آنکھیں اب بھی اُس پہ ٹِکی تھیں۔ منہ سے ایک لفظ نہیں نِکلا تھا۔ 

میں پِچھلی ہر بات بھول کر آگے بڑھنا چاہتا ہوں میرا ساتھ دو گی؟" وہ اُس کے سامنے اپنا ایک ہاتھ پھیلا کر بولا۔ تو وہ کُچھ جِھجھک کر اپنا ہاتھ اُس کے ہاتھ پر رکھ گئی۔ بُرہان کُچھ لمحے اُس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ کی قید میں دیکھتا رہا پِھر جُھکا اور اُس کے ہاتھ کو لبوں سے چھو لیا۔ وہ اُس کی حرکت پر سانس روک گئی تھی۔ وہ تو آج اُسے ہارٹ اٹیک کروانے پر تُلا ہوا تھا۔ 

"میتھی کے لڈّو کو کیا ہوا آج؟" وہ دِل ہی دِل میں سوچ رہی تھی۔ 

"ہہ ہان!" بُرہان نے ہاتھ نا چھوڑا تو وہ اُسے پُکار اُٹھی۔ اُس کی پُکار پر وہ اُٹھ کر کبرڈ کی جانِب بڑھا۔ وہاں سے ایک چھوٹا سا باکس نِکالا اور اُس کے سامنے بیٹھ کر باکس کھولا۔ بغیر کُچھ کہے اُس کا بایاں ہاتھ تھاما اور باکس سے نِکال انگوٹھی اُس کے بائیں ہاتھ کی رِنگ فِنگر میں پہنا دی۔ وہ تو خُوشگوار حیرت سے بس انگوٹھی کو دیکھے جا رہی تھی جو اُسے پسند آئی تھی۔ 

"بب بہت شُکریہ ہان! یہ بہت پیاری ہے۔" وہ خوشی سے بولی تھی اور آج اِتنے مہینوں بعد بُرہان کو اُس میں پہلے والی چشمان کی جھلک نظر آئی تھی۔ 

"تُم خُوش ہو نا شادی سے؟" بُرہان نے پوچھا تو وہ سر جُھکاتی اِقرار کر گئی تھی۔ 

"میرا یقین کبھی مت توڑنا چشمان! میرے نام سے منسوب ہو تُم اور میری عِزت تُمہاری عِزّت میں ہے۔ تُم نے میرے دِل کا بوجھ تو پہلے ہی ہلکا کر دیا تھا اب میں بھی کوشش کروں گا کہ تُمہیں میری ذات سے کوئی تکلیف نا پہنچے۔" اُسے اپنے حِصار میں لیتے وہ آنکھیں موندتا سکون سے بولا تھا جبکہ وہ ساکت سی بیٹھی اُس کی حرکت پہ بے یقین بیٹھی تھی۔

دوسری طرف وہ جیسے سکون میں آیا تھا۔ جِس دِن سے نِکاح ہوا تھا وہ ایک بے چینی اور ایک اِضطراب کی سی کیفیت میں مُبتلا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ کیوں اُسے سکون نہیں مِل پا رہا۔ جِس چشمان کو وہ سخت ناپسند کرتا تھا اب اُسے دیکھنے کی تمنّا کرنے لگا تھا۔ اِن گُزرے مہینوں میں اُس کا چشمان سے سامنا تو ہوا تھا مگر کوئی تفصیلی تو کیا مُختصِر بات بھی نا ہو پائی تھی۔ وہ اپنے دِل کی بدلتی کیفیت سمجھنے سے قاصِر تھا۔ اپنے ہی خیالوں سے اُلجھتا وہ اب بھی انجان ہی تھا کہ اُس کے دِل میں چشمان کی چاہت گھر کرنے لگی ہے۔ چشمان کو سامنے پا کر اُس کا سکون اُسے واپس مِل رہا تھا اِس کے عِلاوہ اُسے کیا چاہیے تھا۔ اپنے بدلتے دِل سے انجان وہ اب اُسے خود میں قید کیے بیٹھا تھا۔ اُسے وہ چنچل شرارتی سی چشمان یاد آنے لگی تھی جو پہلے ہوا کرتی تھی۔ وہ ہنستی کِھلکِھلاتی ہی اچھی لگتی تھی کہ بُرہان کو سمجھ آ گیا تھا۔ 

 کئی پل وقت کے تھال پہ گِرتے چلے گئے تھے۔ بُرہان پُرسکون سا اُسے قید کیے بیٹھا تھا جبکہ اُس کے ہاتھ بھی نا محسوس انداز میں بُرہان کے گِرد حائل ہو گئے تھے۔ دِل میں ایک عجیب سے احساس نے انگڑائی لی تھی۔ جانے کیوں مگر اُسے بُرہان اپنے دِل کے بہت قریب محسوس ہوا تھا۔ بُرہان بھول گیا تھا کہ اُسے آفِس جانا ہے اور چشمان کو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ وہ کُچھ پوچھنے آئی تھی بُرہان سے۔ 

اچانک فون کی بیل سے وہ دونوں ہوش میں آئے تھے۔ بُرہان نے خجل سا ہو کر اُسے آزاد کیا تھا جب کہ چشمان گُلال چہرہ لیے فون کی جانِب متوجّہ ہوئی تھی۔ اُس کال رسیو کی اور فون سپیکر پر ڈال دیا تھا۔ 

دوسری طرف اُس کی پرنسپل ہی تھیں جو اُسے آنے کا کہہ رہیں تھیں۔ اُس نے اِجازت طلب نظروں سے بُرہان کو دیکھا تھا جِس نے اِقرار میں سر ہلا کر اُسے اِجازت دی تھی۔ چشمان نے پرنسپل کو آنے کا بول کر فون کاٹ دیا تھا۔ 

"جا کر تیار ہو جاؤ۔ میں آفس جاتے ہوئے ڈراپ کر دوں گا اور اکیلے آنے کی ضرورت نہیں ہے میں خُود تُمہیں پِک کر لوں گا۔ اپنا دھیان رکھنا۔" اُس نے چشمان کے بال سنوارتے نرمی سے کہا تو وہ کُھل کر مُسکراتی سر اثبات میں ہلا گئی تھی۔ بُرہان کا نرم سا لہجہ، اُس کی فِکر اور توجّہ اُس کے دِل کو گُدگُدانے لگی تھی۔ 

"آپ پہلے کی طرح کڑوے کریلے تو نہیں ہو جائیں گے نا؟" اُس کی نرمی کا ہی اعجاز تھا کہ وہ شرارت سے سوال کر گئی۔ ساتھ ہی وہ بیڈ سے اُٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ 

"ابھی بتاتا ہوں۔" وہ مُسکرا کر کہتا اُس کی جانِب بڑھا مگر وہ ٹھینگا دِکھاتی کِھلکِھلا کر ہنستی باہر بھاگی تھی۔ بُرہان کُچھ دیر اُس راستے کو دیکھتا رہا جہاں سے وہ گئی تھی پِھر خُود بھی ہنس پڑا۔ وہ لڑکی واقعی بہار کی مانِند تھی جِس کے ہونے سے فضا مہک اُٹھتی تھی۔ اُسے اپنے کمرے میں زِندگی دوڑتی محسوس ہوئی تھی۔ 

"زِندگی تُمہارے ساتھ بہت پُرسکون گُزرے گی مِسز!" آسودگی سے کہہ کر وہ ڈرسینگ کے سامنے کھڑا بال بنانے لگا۔ اُس نے سوچ لیا تھا وہ اب اپنی زِندگی میں کِسی تلخی کو جگہ نہیں دے گا۔ 

وہ اُسے سکول چھوڑ کر خُود آفس چلا گیا تھا۔ اُسے سختی سے تاکید کی تھی کہ وہ خُود اُسے پِک کرے گا۔ وہ سر ہلاتی پرنسپل کے آفس چلی گئی تھی۔ اُنہوں نے اُسے ایک شیلڈ دی تھی۔ وہ رِزلٹ فنکشن پہ نہیں جا سکی تھی اسی لیے اُسے بُلایا تھا۔ پرنسپل نے اُس سے اُس کے والد کی وفات پر تعزیت بھی کی تھی جِس پر وہ ایک سرد آہ خارج کر کے رہ گئی تھی۔ وہ تقریباً ایک گھنٹہ ہی وہاں رُکی تھی۔ اُس نے بُرہان کو فون کر دیا تھا کہ وہ فری ہو گئی ہے تو آ کر اُسے لے جائے۔

بُرہان نے اُسے ایک گھنٹہ ویٹ کرنے کا کہا تھا کیونکہ اُس کی میٹنگ چل رہی تھی جِس کو چھوڑ کر وہ نہیں آ سکتا تھا۔ چشمان اوکے کا میسج کرتی وہیں سکول کے گراونڈ میں بینچ پر بیٹھ گئی تھی۔ ابھی اُسے بیٹھے کُچھ ہی دیر ہوئی تھی جب اُس کا فون گُنگُنایا تھا۔ اُس نے فون اُٹھا کر دیکھا تو ارمان کا میسج تھا۔

"مِس مُجھے بچا لیں مِس! پلیز جلدی آ جائیں میری جان کو خطرہ ہے پلیز مِس۔" میسج کے نیچے ہی ایک لوکیشن بھی سینڈ کی گئی تھی۔

وہ میسج پڑھ کر پریشان ہوئی تھی۔ ارمان نے ایسا میسج کیوں کیا تھا وہ سمجھنے سے قاصِر تھی۔ اُس کا دِل ایک دم ہی پریشان ہوا تھا۔ کُچھ سوچ کر وہ اُٹھی تھی اور اپنے قدم باہِر کی جانِب بڑھائے تھے۔ اُس کا اُٹھتا ہر قدم اُس کی بربادی کی طرف اُٹھ رہا تھا۔ اُس نے بُرہان کو کال کرنے کی کوشش کی مگر اِس دفعہ نمبر بند جا رہا تھا۔

اُس نے سوچا تھا کہ وہ جلدی واپس آ جائے گی۔ اگلے آدھے گھنٹے میں وہ اُس جگہ پر موجود تھی جہاں کی لوکیشن سینڈ کی گئی تھی۔ یہ سُنسان سے عِلاقے میں بنا کوئی ہوٹل تھا جِس کی حالت اِتنی اچھی نہیں تو بُری بھی نہیں تھی۔ وہ اندر داخِل ہوئی تو ہر طرف ایک رش سا لگا ہوا تھا۔ لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے یہاں سے وہاں جاتے نظر آ رہے تھے۔ وہ کُچھ اُلجھ کر ریسپیشن کی جانِب بڑھی اور ارمان کے بارے میں پوچھا۔ ریسیپشن بوائے نے کُچھ عجیب اور معنی خیز نظروں سے اُسے دیکھا اور پِھر کمرہ نمبر کا بتاتے ایک جانب اِشارہ کیا۔

چشمان کو کِسی انہونی کا احساس ہو رہا تھا جانے کیوں مگر اُسے لگا اُس نے یہاں آ کر غلط کیا ہے۔

پِھر اپنا وہم جان کر وہ سر جھٹکتی اُس جانب بڑھی جِس طرف اِشارہ کیا گیا تھا۔ کمرے کا دروازہ کھول کر وہ اندر داخِل ہوئی تو اُس کے ہوش اُڑ گئے۔ ارمان کمرے کے وسط میں بیڈ کے قریب گِرا پڑا تھا۔ سر سے خُون نِکل کر فرش کو سُرخ کر رہا تھا۔ ابھی وہ اُس کے قریب پہنچتی کہ اچانک کمرے کا دروازہ ٹھاہ کی آواز سے بند ہوا تھا۔ اُس نے پلٹ کر دیکھا تو وہاں کوئی اکیس، بائیس سال کے دو لڑکے کھڑے اُسے غلیظ نظروں سے گھور رہے تھے۔

وہ اُنہیں دیکھ کر ساکت رہ گئی تھی۔ اُن کی نظروں سے ٹپکتی غلاظت اُس سے چُھپی ہوئی نہیں تھی۔

"کک کون ہہ ہو تُم؟ اا اور یہ ارمان کک کو کیا ہہ ہوا؟" وہ اٹک اٹک کر پوچھنے لگی تو وہ قہقہہ لگا اُٹھے۔

"ارے میری بلُبُل! تُمہاری تعریفیں سُن سن کر تُم سے مِلنے کی خُواہش ہونے لگی تھی اِسی لیے یہ سارا ڈرامہ رچایا۔ اور تُمہارا یہ بے وقوف شاگِرد، اِسے یہ تو سکھا دیتی کہ اچھے بُرے کی پہچان کیسے کرتے ہیں اب بن گیا نا بے وقوف۔" اُن میں سے ایک استہزائیہ ہنستا ارمان کے بے ہوش وجود کو دیکھ کر بولنے لگا۔ جبکہ دوسرا لڑکا چشمان کی طرف بڑھا۔ وہ اُسے پکڑنے لگا جب وہ اُسے دھکا دیتی دروازے کی جانِب بھاگی۔ مگر دروازہ بند تھا اُس کے دروازے تک پہنچنے سے بھی پہلے دوسرا لڑکا اُسے زمین پر دھکا دے چُکا تھا۔

چشمان کو شِدّت سے اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا اُسے یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔ اُن لڑکوں کو خُود پر جُھکتا دیکھ کر وہ مچل کے پیچھے کی جانِب کِھسکی تھی۔ وہ دونوں بلند بانگ قہقہے لگاتے اُس کی بے بسی کا مذاق اُڑا رہے تھے۔ چشمان کا حِجاب ڈھیلا ہو گیا تھا جبکہ آنسو گالوں پر بہہ رہے تھے۔

"میں نے کیا بِگاڑا ہے تُمہارا؟ مُجھے جانے دو پلیز۔ اا ارمان کک کو بھی جانے دد دو یی یہ مر جائے گا۔" وہ گِڑگِڑا کر بولی۔

"مرتا ہے تو مرنے دو اِسے۔ جاتے جاتے ہمارا کام کر گیا ہمیں اور کیا چاہیے؟" ایک لڑکا ہنس کر بولا اور چشمان کی ٹانگ کھینچی۔ وہ پُشت کے بل نیچے گِری۔

"ویسے ہے بہت بے وقوف یہ ارمان! ہم نے ڈئیر دیا کہ کِسی بھی لڑکی کو بُلاو یہاں تو ہی ہم اِسے نڈر اور بہادر سمجھیں گے ورنہ تو یہ نامرد ہی ہے۔ اور اپنے آپ کو مرد ثابت کرنے میں یہ تُمہارج جان کو داو پر لگا گیا۔ اُف سو سیڈ بے بی۔" دوسرا لڑکا اِتنا بول کر چشمان پر جُھکا تو وہ زور زور سے رونے لگی۔ اُس کا حِجاب کُھل کر اب گلے میں جُھول رہا تھا۔

"چچ چھوڑ دو۔ تت تُمہیں اللّٰہ کا واسطہ ہے پلیز۔" وہ ہاتھ جوڑ کر بولی تو وہ نفی میں سر ہلا گئے۔

اِس سے پہلے کہ وہ اُس کی نسوانیت کو روندتے اچانک سائرن سا بجنے لگا۔

وہ دونوں لڑکے بوکھلا کر سیدھے ہوئے اور پریشانی سے ایک دوسرے کو دیکھا۔ سائرن پولیس کی گاڑی کا تھا۔ وہ دونوں تیزی سے باہر کی جانِب بھاگے۔ وہ ناسمجھی سے دروازے کو دیکھنے لگی جو اب بند ہو چُکا تھا۔ اُسے سمجھ نہیں آیا تھا کہ ہوا کیا ہے۔ چشمان اُٹھی اور دوپٹہ سر پر اوڑھا۔ زمین پہ گِرنے سے اُس کے بازوں پر خراشیں آئیں تھیں۔ وہ بھاگ کر ارمان کے پاس گئی جِس کی سانسیں مدھم سی چل رہیں تھیں۔ ابھی وہ اُسے جھنجھوڑتی کہ اچانک کمرے کا دروازہ ٹھاہ کر کے کُھلا اور دو لیڈی کانسٹیبل اندر داخِل ہوئیں۔

اُنہیں دیکھ کر اُس کی جان میں جان آئی تھی کہ وہ محفوظ ہے مگر یہ اُس کی خام خیالی ہی تھی۔ ایک کانسٹیبل نے اُسے بالوں سے پکڑا تھا جبکہ دوسری نے اُس کا زمین پر گِرا بیگ تھاما اور اُسے وہاں سے لے جانے لگیں۔

اُس کی سمجھ سے باہِر تھا اُن کا رویہ۔ وہ چیختی چِلاّتی اُنہیں خُود کو چھوڑنے کی اِلتجا کرتی رہی مگر وہ کان لپیٹے اُسے گھسیٹتی باہِر لے گئیں۔ اُن کے باہِر نِکلتے ہی ایک میل کانسٹیبل اندر آیا جو ارمان کو اُٹھانے لگا۔

چشمان کی مزاحمت پر ایک لیڈی کانسٹیبل نے رکھ کے ایک تھپڑ اُس کے گال پہ جڑا تھا جِس سے اُس کے ہونٹ کا کِنارہ پھٹ گیا تھا۔ بے تحاشا جلن کے احساس سے وہ بلبلا اُٹھی تھی۔

"اب بڑا مچل رہی ہے تُو؟ رنگ رلیاں منانے کا اِتنا ہی شوق تھا تو شادی رچا لیتی۔ اب آواز آئی تو زبان کاٹ دوں گی۔" لیڈی کانسٹیبل کی بات پہ وہ اپنی ہی نظروں میں گِری تھی۔ وہ کیا سمجھ رہیں تھیں اُسے؟ وہ ایسی نہیں تھی اُس کا رب جانتا تھا۔

اُس کی لاکھ صفائیاں بھی رائیگاں گئیں تھیں۔ ایک بھی نہیں سُنی گئی اُس کی اور اُسے جیل میں ڈال دیا گیا۔ جِس گاڑی میں اُسے لایا گیا تھا اُس میں بھی کافی لڑکیاں تھیں جِن میں سے زیادہ تر تو نازیبا سے لِباس میں ملبوس تھیں۔ شُکر تھا کہ ابھی میڈیا والے نہیں پہنچے تھے ورنہ اُس کی سوچ سے بھی زیادہ بُرا ہو جاتا۔

جِس کمرے میں اُسے بند کیا گیا وہاں بھی وہی لڑکیاں رکھیں گئیں تھیں مگر اُن کے چہروں پہ اُسے ڈھونڈنے سے بھی پریشانی کے آثار نہیں مِلے۔

لاک اپ کے سلاخوں سے سر ٹکائے وہ پھوٹ پھوٹ کر روتی اپنے آپ کی بے گُناہی کا یقین دِلانے کی کوشش کر رہی تھی مگر بے سود۔ ایک ذِلّت تھی جو آج اُس کے دامن میں لِکھ دی گئی تھی اور وہ انجان تھی کہ یہ ذِلّت اُس کے مقدّر میں کیا کیا درد لِکھنے والی تھی۔


****************


آج اُس کا دِل پُرسکون تھا۔ جانے کیوں مگر چشمان کے ساتھ جُڑے رِشتے کو قبول کر کے اور اُس کے منہ سے ارمان سے مُحبّت نا ہونے کا سُن کر اُس کا بے چین دِل قرار پا گیا تھا۔ جو بے چینی اُسے پہلے لاحق تھی اب اُس کا خاتمہ ہو چُکا تھا اور اُس کے لیے یہی بہت تھا۔

اُسے سکول چھوڑنے کے بعد وہ آفس گیا تھا۔ ایک گھنٹے بعد اُسے چشمان کی کال آئی تھی کہ وہ اُسے لے جائے مگر ابھی وہ میٹنگ میں تھا۔ اُسے ایک گھنٹے کا کہہ کر وہ میٹنگ میں واپس مصروف ہو گیا تھا۔ اِس دوران اُس نے فون بند کر دیا تھا۔ ایک گھنٹے بعد اُس نے فون آن کیا تھا اور چشمان کو پِک کرنے چلا گیا تھا مگر وہاں سے اُسے پتہ چلا تھا کہ وہ جا چُکی ہے۔ اُس کے ماتھے پہ بل پڑے تھے۔ اُس کے منع کرنے کے باوجود وہ سکول سے نِکل گئی تھی جو اُسے ناگوار گُزرا تھا۔

اُس کا نمبر ڈائل کرتے وہ گھر کی جانِب روانہ ہوا تھا۔ اُسے یہی لگا تھا کہ وہ گھر چلی گئی ہو گی۔ ایک کے بعد مسلسل وہ اُس کو فون کرتا رہا مگر آگے سے فون نہیں اُٹھایا گیا۔ وہ گھر پہنچ چُکا تھا مگر کہیں بھی چشمان موجود نہیں تھی۔ اب تو اُسے چشمان کی فِکر ہونے لگی تھی۔ وہ واپس سکول گیا تھا وہاں چوکیدار سے پوچھنے پر بھی کُچھ پتہ نہیں چلا تھا وہ پیدل ہی گھر جانے والے راستے کی طرف چلا تھا اور آتے جاتے ہر اِنسان سے چشمان کا حُلیہ بتا کر پوچھنے لگتا تھا۔ مگر کہیں سے بھی کوئی پتہ نہیں چلا تھا۔

اُس کا دِل انجانے خدشوں میں گِھرنے لگا تھا اُس کی کِسی دوست کا نمبر بھی اُس کے پاس نہیں تھا۔ وہ واپس ٹیکسی میں سکول گیا تھا پرنسپل سے پوچھنے پر اُنہوں نے بھی لاعِلمی کا اِظہار کیا تھا۔ بُرہان کی جان لبوں پر آ گئی تھی۔ وہ اُس کی عِزّت تھی اور اُس کی رپیشانی بجا تھی۔ شام تک وہ اُسے پاگلوں کی طرح ہر سڑک پر ڈھونڈتا رہا مگر اُسے نہیں مِلنا تھا نہیں مِلی۔

وہ واپس گھر کے راستے پر مُڑا تھا اور ہزار دفعہ کا مِلایا نمبر پِھر سے مِلایا تھا اور اِس دفعہ فون اُٹھا لیا گیا تھا آگے سے پولیس والے تھے جِنہوں نے اُسے پولیس اسٹیشن بُلایا تھا۔ کِسی انہونی کے ڈر سے وہ کانپ کر رہ گیا تھا۔ چشمان؟ وہ ٹھیک تو تھی نا؟ اُسے کُچھ ہو تو نہیں گیا؟ وہ وہاں کیسے پہنچی؟ سب ٹھیک ہو گا نا؟ ان گِنت سوال تھے جِن کا جواب اُس کے پاس نہیں تھا۔ دِل الگ پریشان تھا اِسی پریشانی کی حالت میں وہ پولیس اسٹیشن پہنچا تھا جہاں ایک الگ ہی شور شرابا تھا۔ ایک طرف بنے لاک اپ میں ڈھیروں لڑکیاں قید تھیں جو اِنتہائی نازیبا حالت میں تھیں۔ جب کہ دوسرے لاک اپ میں لڑکے بھی تھے جِس میں بڑی عُمر کے مرد بھی شامِل تھے۔ وہ اُن سے نظریں پھیرتا اِنسپکٹر کے پاس پہنچا تھا جو ایک کے بعد دوسری فائل کھول رہا تھا۔

اُنہیں سلام کرنے کے بعد اُس نے اُن کی طرف سے کی جانے والی کال کے بارے میں بتایا اور اپنی بیوی کی گُمشدگی کے بارے میں بھی۔ جواب میں اِنسپکٹر نے اُسے معنی خیز نظروں سے دیکھا اور لیڈی کانسٹیبل سے چشمان نامی قیدی کو لانے کو کہا جب کہ اُن کے حُکم پر بُرہان ناسمجھی سے اُنہیں دیکھ کر رہ گیا۔ اُس نے اِردگِرد نِگاہ دوڑائی تو سب کو اپنی طرف دیکھتا پایا۔ کِسی کی نظروں میں کاٹ تھی تو کِسی کی نظروں میں معنی خیزی۔ وہ اُلجھ کر سامنے دیکھنے لگا جہاں اُسے کانسٹیبل کے ساتھ چشمان آتی دِکھائی دی جِس کی حالت کافی بُری لگ رہی تھی۔

بِکھرے بال، سوجھا ہوا ہونٹ، سُرخ ہوتی آنکھیں اور گالوں پر آنسووں کے نِشان، ایک کندھے پہ جُھولتا دوپٹہ، چہرے پر تھپڑ کے نِشان بھی واضح تھے۔ وہ تڑپ کر اُس کی جانِب بڑھا اور اُسے خود میں سمو گیا۔ وہ اُسے سنبھالے اُس کے وجود کو چُھپانے کی کوشش کرتا چئیر کے پاس لایا مگر وہ اُسے چھوڑنے کو اِنکاری تھی۔

"کک کیا ہوا ہے اِسے؟ یی یہاں ایسے کیوں ہے یہ؟" بُرہان کا لہجہ سرد تھا مگر ایک اذیّت میں پُر۔

"یہ لڑکی ایک بدنام ہوٹل میں رنگ رلیاں مناتی پکڑی گئی ہے۔ ایک لڑکے کے ساتھ تھی یہ۔ اُس ہوٹل میں غیر قانونی کام ہوتے ہیں آج ریڈ کے دوران یہ سارے لڑکے لڑکیاں وہاں سے ملے جِن میں یہ لڑکی بھی شامِل ہے۔" اِنسپکٹر کی بات تھی یا بم جو بُرہان کے سر پر پھٹا تھا اُس کی گرفت چشمان پر ڈھیلی ہوئی تو وہ لڑکھڑا سی گئی۔

"نن نہیں ہہ ہان نن نہیں۔" وہ بس یہی بول پائی تھی پھر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

"میری بب بیوی ایسی نہیں ہہ ہے۔" بُرہان کے منہ سے نِکلا تو اِنسپکٹر طنزیہ ہنسی ہنس دیا۔

"واہ شادی شُدہ ہو کر بھی ایسے کارنامے کمال ہے۔" وہ پِھر طنزیہ بولا۔

"بکواس بند کرو اپنی۔ کہا نا میری بیوی ایسی نہیں ہے۔" اب کی بار وہ چیخا تھا۔

"یہاں شور مچانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر کوئی ایسا ہی کہتا ہے مگر سب کُچھ سامنے ہی تو ہے۔" اِنسپکٹر نے ایک زہرخند نِگاہ چشمان کے وجود پہ ڈال کر کہا۔

"مم میں اِسے لل لے جج جاؤں؟" بُرہان نے ٹوٹے پھوٹے لہجے میں پوچھا تھا۔

اِتنی ذِلت کا وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اُس کی سیاہ آنکھوں میں سُرخی لہرانے لگی تھی جیسے وہ خُود پر ضبط کے کڑے پہرے بِٹھا رہا ہو۔ اُس کی گرفت چشمان کے بازو پر اِتنی سخت ہوئی تھی کہ چشمان کو لگا اُس کا کندھا جڑ سے اکھڑ جائے گا۔

"نہیں بابو! ہم اِسے نہیں جانے دے سکتے جب تک کہ یہ عدالت میں پیش نا ہو جائے۔ اب تو اِسے سخت سے سخت سزا مِلنی چاہیے تا کہ اِسے بھی تو پتہ چلے گناہ ہوتا کیا ہے۔ لے جاو اِسے۔" اِنسپکٹر نے زہر خند لہجے میں لیڈی کانسٹیبل سے کہا تو وہ چشمان کو بُرہان سے الگ کرتی زبردستی واپس لے گئی۔ بُرہان سرد سُرخ نظروں سے اُسے جاتے دیکھتا رہا۔ پِھر وہ وہاں سے باہِر کی جانِب بڑھا تا کہ وکیل کو فون کر سکے۔ ابھی وہ باہِر کی جانِب بڑھ ہی رہا تھا جب ایک آواز اُس کے کانوں میں سیسہ اُتار گئی تھی۔

"نامرد ہو گا یہ تبھی تو بیوی کِسی غیر سے تعلق رکھنے لگی۔" وہ آواز بُرہان کے دِل میں ایک آگ لگا گئی تھی۔ پیچھے مُڑ کر کُچھ کہنے کی ہمّت نہیں تھی اُس میں۔ اِس لیے بغیر مُڑے چلتا باہِر نِکل گیا یہ الگ بات تھی کہ اُس کے کندھے کِسی ان دیکھے بوجھ سے جُھک گئے تھے۔

اُس کے فون پر حماد صاحب کی کئی کالز آ گئیں تھیں۔ اُن کی کال اٹینڈ کرتے اُس نے چشمان کی طبیعت خرابی کا بہانہ کرتے اپنے نا آنے کی اِطلاع دی تھی اور اپنے لہجے اور اذیّت میں ڈوبے دِل پر کِس طرح قابو پایا تھا یہ وہی جانتا تھا۔

اُن کو مُطمئن کرنے کے بعد اُس نے اپنے کلاس میٹ کو فون کیا تھا جِس سے وہ ابھی بھی رابطے میں تھا۔ اُس کی پہنچ دور تک تھی اِسی لیے بُرہان کا مسلہ جلدی ہی حل ہو گیا تھا۔ اُس نے بُرہان سے کُچھ نہیں ہوچھا تھا کہ وہ لڑکی کون ہے بس کمیشنر کو فون کیا تھا اور بُرہان کا کام کروا کر اُسے یقین دُہانی کروائی تھی کہ وہ لڑکی رِہا کر دی جائے گی بغیر کِسی بھی کاغذی کاروائی کے۔


****************

وہ پولیس سٹیشن کے باہِر کھڑی اپنی گاڑی میں بیٹھ کے رویا تھا۔ بے اِنتہا بے تحاشا۔ اُسے لگتا تھا کہ شاید اب اُن کی زِندگی سنور جائے گی۔ شاید اب وہ ایک دوسرے کو سمجھنے لگیں گے۔ سمجھوتہ ہی سہی مگر شاید اب اُن کا رِشتہ چل پائے۔ چشمان کی رضا مندی جان کر وہ آج اِتنا خُوش تھا کہ وہ خُود بھی حیران ہوا تھا۔ مگر اب اُس کی وہی خُوشی ماند پڑ گئی تھی۔ پولیس سٹیشن میں بیٹھ کر جِن حقارت آمیز نظروں کا سامنا اُسے کرنا پڑا تھا ایسا تو اُس نے کبھی گُمان بھی نہیں کیا تھا۔

سٹیرنگ پہ سر جمائے وہ اپنے دِل کا غُبار نِکال رہا تھا۔ آنسو اُس کے گالوں سے بہتے جا رہے تھے۔

سیاہ آنکھوں میں سُرخی تھی۔ یُوں لگتا تھا جیسے ابھی خُون چھلک اُٹھے گا۔ بے تحاشا رونے کے بعد اُس نے سٹیرنگ سے سر اُٹھایا اور اپنے آنسو صاف کیے۔ اُس کے نفاست سے سجے بال اب بِکھر سے گئے تھے۔ ایک ہاتھ سے بال درست کرتے اُس نے اپنے چہرے پہ دونوں ہاتھ پھیرتے خُود کو کمپوز کیا۔ جب جب وہ چشمان۔کی جانِب بڑھنے لگتا تھا کُچھ نا کُچھ ایسا ہو جاتا تھا کہ وہ پِھر وہیں آ کر کھڑا ہو جاتا تھا جہاں سے چلتا تھا۔

جانے زِندگی اُس کے ساتھ یہ مذاق کیوں کر رہی تھی؟ کِتنا بھروسہ کیا تھا اُس نے چشمان سے ہوئی آخری باتوں پر۔ وہ تو کہتی تھی کہ وہ ساتھ نِبھائے گی۔ وفا کرے گی پِھر اب یہ کیوں کِیا تھا اُس نے۔ اُس کے منع کرنے کے بعد بھی وہ اُس ہوٹل میں گئی تھی جو ایک مشہور بدنام ہوٹل تھا۔ مگر ایک مِنٹ۔ وہ گئی کِس کے ساتھ تھی؟ کِس سے مِلنے گئی تھی اور کِس لڑکے کے بارے میں بات کر رہا تھا اِنسپکٹر؟ ان گِنت سوالات تھے جو ذہن میں گونج رہے تھے۔ مگر کُچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ دِل و دماغ میں بس غُصّہ اور نفرت حاوی تھا۔ اُس کا بس نا چلتا تھا کہ چشمان کو قتل کر دے۔

ایک گھنٹے بعد وہ بوجھل دِل سے واپس پولیس اسٹیشن کے اندر گیا تھا۔

اُس نے جا کر اِنسپکٹر کو اپنا نام بتایا تھا جِس پر وہ ناک بھنوں چڑھاتے چشمان کو بُلانے کا حُکم دے چُکا تھا۔

اگلے پانچ مِنٹ میں چشمان ایک لِیڈی کانسٹیبل کے ساتھ آتی دِکھائی دی تھی۔ اُس کی حالت پہلے سے بھی خراب لگ رہی تھی۔ صُبح صِرف ناشتہ ہی کیا تھا اُس نے۔ اُس کے بعد سے وہ بھوکی پیاسی تھی۔ جِسم نقاہت میں ڈوبا ہوا تھا۔ بُرہان کو دیکھ کر اُس کے وجود میں ان دیکھی سی طاقت آئی تھی۔ وہ اُس کے لیے وہاں تھا یہی اُس کے لیے کافی تھا۔

مگر بُرہان نے ایک دفعہ بھی اُس کی طرف نہیں دیکھا تھا۔ اِس دفعہ اُس کا دوپٹہ اُس کے جِسم کے گِرد لِپٹا ہوا تھا۔ اُس کی نظریں بُرہان پر ٹِکیں تھیں جبکہ بُرہان کی سُرخ ہوتی سیاہ آنکھیں سامنے موجود ٹیبل کر گھور رہیں تھیں۔ چہرے کے تاثرات خطرناک حد تک سنجیدہ تھے۔ اِنسپکٹر سے بات کرنے کے بعد وہ اُٹھا۔ چشمان نے لیڈی کانسٹیبل سے ہاتھ چُھڑایا اور بُرہان کا بازو تھام لیا جِسے بُرہان نے جھٹکا نہیں تھا تو تھاما بھی نہیں تھا۔

لو آ گیا وہ جِس کے ساتھ پکڑی گئی یہ۔" اِنپسکٹر کے کہنے پہ بُرہان نے اُس طرف دیکھا جہاں ارمان کے دائیں بائیں دو سپاہی اُسے اپنی نگرانی میں لا رہے تھے۔ سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور چہرہ بھی زرد پڑا ہوا تھا۔ بُرہان کا خلفشار خون بلند ہوا تھا۔ ایک دم وہ آگے بڑھا جِس سے چشمان لڑکھڑائی تھی۔ بُرہان نے ایک زور دار مُکّہ ارمان کے منہ پہ جڑ دیا وہ جو پہلے ہی ناتوانی سے قدم اُٹھا رہا تھا سنبھل نا پایا اور زمین پر گِر گیا۔ کُچھ دوسرے سپاہیوں نے اُسے قابو کیا جبکہ باقی دو سپاہی ارمان کو اُٹھا کے لاک اپ میں لے گئے۔

"اپنی بیوی تو سنبھالی نہیں جاتی اُس لڑکے پہ مردانگی ثابت کر رہے ہو۔" ایک سپاہی نے بُرہان کو پیچھے کو دھکا دیا تھا۔ بُرہان نےآستین سے آنکھیں رگڑتے سپاہی کو زہر خند نظروں سے دیکھتے چشمان کا بازو دبوچا تھا اور پِھر پولیس اسٹیشن سے باہِر نِکل آیا تھا۔ بے دردی سے اُس کا بازو دبوچتے اُس نے چشمان کو فرنٹ سیٹ پر پٹخا تھا۔ اُس کی سائیڈ کا دروازہ بند کرتے وہ ڈرائینوگ سیٹ پر آیا تھا۔ بغیر کُچھ کہے وہ گاڑی سٹارٹ کرتا گھر کے راستے پر ڈال گیا۔

گاڑی میں چشمان کے رونے کی آواز گونج رہی تھی جو بُرہان کی وحشت میں اور اضافہ کر رہی تھی۔ اُس کا بس نا چلتا تھا کہ اِس لڑکی کی جان لے کر یہیں کہیں پھینک جاتا۔ ذہن میں بس ارمان کی شکل اور اُن سپاہیوں کے کہے گئے فِقرے گونج رہے تھے۔ سیاہ آنکھیں جل رہیں تھیں۔ سُرخی تھی جو بڑھتی جا رہی تھی۔

"اب اگر منہ سے آواز نِکلی تو زبان کاٹ کر رکھ دوں گا۔" چشمان کا رونا سُن کر گاڑی روک کر وہ اُس کا جبڑا دبوچ کر سختی سح بولا تو اُس کی سُرخ آبکھیں دیکھ کر چشمان کو یکبارگی خوف کا احساس ہوا .

"مم میں نے کک کُچھ نن نہیں کیا ہہ ہان! مم میں بے قصور ہہ ہوں۔" ابھی ہی تو اُس کا دِل ہان کے نام پہ دھڑکنے لگا تھا۔ آج ہی تو اُسے اپنے خُوبصورت رِشتے کا احساس ہوا تھا۔ آج ہی تو اُسے لگا تھا کہ یہ مِسٹر کھڑوس ہی اُس کے لیے پرفیکٹ ہے۔ اور آج ہی یہ کیا ہو گیا تھا؟

"ہاں بے قصور ہو تبھی وہاں پائی گئی تھی۔ جیل سے لایا ہوں میں تُمہیں۔ اچھی طرح جانتی ہو کہ کِس اِلزام میں تھی تُم وہاں۔" بُرہان چیخا تو وہ سہم کر دروازے سے چِپک گئی۔ اُس کے آنسووں کی روانی میں مزید اضافی ہوا تھا۔ آنکھیں رو رو کر بُری طرح سوجھ چُکیں تھیں جب کہ پھٹا ہوا ہونٹ بھی اب بے تحاشا جلن پیدا کر رہا تھا۔ اگلے آدھے گھنٹے میں وہ گھر پر تھے۔ گاڑی کو گیٹ سے اندر داخِل کر کے اُس نے گاڑی سے نِکل کر دروازہ بندکیا اور چشمان کی طرف آیا۔ اُس کی سائیڈ کا دروازہ کھول کر اُسے کھینچ کر باہِر نِکالا۔ اِس وقت وہ جِس قدر غُصّے میں تھا چشمان کو ڈرانے کے لیے کافی تھا۔ وہ مزاحمت کر رہی تھی مگر بُرہان کی مضبوط گرفت کے آگے اُس کی ایک نہیں چلی تھی۔ اُسے گھسیٹتا وہ اندر آیا اور بیڈ پر دھکا دے کر اپنے پیچھے دروازہ بند کیا۔

اِس وقت رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ باہِر چھائی تاریکی ماحول کو وحشت ناک بنا رہی تھی۔ ایک حبس اور ایک عجیب قِسم کی اُداسی سی تھی جو فضا میں رچی بسی ہوئی تھی۔ باہِر دور کہیں کہیں کُتّوں کے بھونکنے کی آوازیں بھی کانوں میں پڑ رہیں تھیں۔ جیسی وحشت اِس وقت باہِر چھائی تھی ویسی ہی وحشت اب اِس کمرے میں موجود چشمان اور بُرہان کے دِل میں چھائی تھی۔ چشمان کے دِل میں ڈر تھا تو بُرہان کے دِل میں غم اور غُصّہ۔

"تُم نے کہا تھا تُم اُسے پسند نہیں کرتی؟" بُرہان نے سُرخ آنکھیں چشمان کے وجود پر گاڑھے سوال کیا تھا۔

"مم میں نن نے سس سچ بب بولا تھا ہہ ہان!" وہ اُٹھنے کی کوشش میں ہلکان ہوئی۔

"تُم نے کہا تھا تو مُجھ سے وفا کرو گی؟" بُرہان قدم قدم چلتا اُس تک آیا۔

"میں قق قائم ہہ ہوں اپنی بب بات پر۔" وہ کُہنیوں کے بل اُٹھ کر اُس کے سامنے بیٹھی۔

"ایک بار مُجھ سے کہا ہوتا میں ایک مہینے بعد کی رُخصتی کل ہی کروا لیتا مگر کِسسی غیر کی بانہوں میں جانے کی کیا ضرورت تھی؟" بُرہان کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ کرتے اُس کے گالوں کو بھگو گئے تھے۔ وہ چشمان پر جُھکا تھا

"نن نہیں یی یہ جج جھوٹ ہہ ہے مم میں نن نہیں گگ گئی۔" وہ تڑپ ہی تو گئی تھی۔

"اُنہوں نے مُجھے نن نا مرد کک کہا جو اا اپنی بیوی کو خخ خوش نن نہیں رکھ پایا۔" بُرہان کی کرب زدہ بھرّائی آواز پر وہ آنکھیں میچ گئی۔

"مم میں نے کک کُچھ نہیں کیا۔" وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

"بب بہت شش شوق ہہ ہے نا تت تو میں تمہارا شوق پپ پورا کک کرتا ہوں۔" اُسے سوچنے سمجھنے کا موقع دئیے بغیر بُرہان نے اپنی گالوں پہ بہتے آنسو بے دردی سے صاف کیے اور اُس کو اپنے حِصار میں قید کیا۔

چشمان کو آج اپنے سودوزیاں کا احساس ہوا تھا۔ آج کی کی گئی اُس کی ایک غلطی اُس کی ذات پر بھاری پڑ گئی تھی۔ اگر وہ جانتی ہوتی کہ یہ سب ہو گا تو وہ مر کر بھی وہاں نا جاتی مگر جو ہونا تھا وہ ہو چُکا تھا اور جو ہو رہا تھا اِس کو روکنے کی وہ صِرف کوشش ہی کر سکتی تھی جو وہ کر رہی تھی مگر بُرہان پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔

اِس کی مزاحمت، اُس کی گِریہ وزاری سب کُچھ بیکار گیا تھا اور پِھر بُرہان احمد کی قُربت میں اُس پہ ادراک ہوا تھا کہ مرد جب دِل سے اُتری ہوئی اور گِری ہوئی عورت کو اپنی قُربت مہیا کرتا ہے تو وہ کیسا بے رحم اور سنگدِل بن جاتا ہے۔ پِھر اُس مرد کا ساتھ عورت کو اپنی نسوانیت کی پامالی کے احساس سے دوچار کرتا ہے اور بُرہان احمد کی گرفت سخت نہیں تھی تو نرم بھی نہیں تھی۔ وہ روئی تھی بے حد بے تحاشا کہ اب آنکھیں سوجھ کر کُھلنے سے اِنکاری تھیں مگر وہ اُس کے معاملے میں بے حِس اور بہرہ ہو گیا تھا۔


*****************


اگلی صُبح کا منظر جہاں باہری دُنیا میں روشنیاں لے کر آیا تھا وہیں چشمان کی ذات میں اندھیرے بھر گئے تھے۔ اُس نے کیا سوچا تھا اور کیا ہو گیا تھا۔ بُرہان نے آج اُسے توڑ دیا تھا۔ وہ تو خُود کی نظروں میں ہی گِر گئی تھی۔ جب وہ جاگی تو بُرہان کمرے میں نہیں تھا۔ ٹوٹے بِکھرے وجود اور روح کے ساتھ وہ فریش ہونے کے بعد پِھر سے لیٹ گئی تھی۔ پِھر وہ سارا دِن اپنے کمرے میں بند پڑی رہی تھی۔ خُوف اور پریشانی سے وک بُری طرح بُخار میں تپ رہی تھی۔ بُرہان نے بھی جھانک کے نہیں پوچھا تھا کہ وہ زِندہ ہے یا نہیں اور نا خُود وہ باہِر گئی تھی کہ بُرہان سے نظریں مِلانے سے بھی ڈرنے لگی تھی وہ۔

دوسری طرف بُرہان اُس کے اُٹھنے سے پہلے کمرے سے نِکل کر اپنے پورشن میں چلا گیا تھا۔ جہاں چشمان اذیت میں تھی وہاں بُرہان بھی خُوش نہیں تھا۔ اُس نے یہ سب اپنی خُوشی سے نہیں کیا تھا، چشمان کو سزا دینے کے لیے کیا تھا۔ وہ اُس کے نِکاح میں ہوتے ہوئے کیسے یہ سب کر سکتی تھی؟ اُس کی غیرت یہ سب برداشت نہیں کر پا رہی تھی۔ وہ چشمان پر اپنا غُصّہ اُتار دیتا تو شاید وہ سہہ بھی نا پاتی۔ وہ چاہ کر بھی چشمان کو اِتنی تکلیف نہیں دے پایا تھا جِتنی تکلیف اُس کے دِل میں تھی۔ اُس نے تو سب کُچھ بُھلا کر ایک نئی شُروعات کرنی چاہی تھی پِھر کیوں یہ سب اُس کے ساتھ ہو گیا تھا؟

وہ صُبح سے بھوکا پیاسا اپنے کمرے سے نہیں نِکلا تھا۔ نا ہی کُچھ کھایا پیا تھا۔ شام کے پانچ بج رہے تھے جب وہ بوجھل دِل لیے کمرے سے باہِر نِکلا۔ سُنسان گھر میں ایک سکوت سا چھایا ہوا تھا جو دِل کی خاموشی سے میل کھاتا تھا۔

وہ اِس وقت ہاف سلیو ٹی شرٹ اور ٹراوزر میں ملبوس تھا۔ سیڑھیاں اُتر لر وہ نیچے آیا تو نیچے بھی ویسی ہی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اُس نے چشمان کے کمرے پر ایک نِگاہ ڈالی جِس کا دروازہ ویسے ہی تھوڑا سا کُھلا ہوا تھا جیسے وہ صُبح چھوڑ کر گیا تھا۔ ایک تیکھی نظر دروازے پر ڈال کر وہ کِچن کی جانِب بڑھا۔ صاف سُتھرا کِچن دیکھ کر وہ سمجھ گیا تھا کہ چشمان بھی اب تک بھوکی ہی ہے۔ اُس نے اپنے اور چشمان کے لیے پاستہ بنایا۔

پونے ایک گھنٹے بعد وہ باول ٹرے میں رکھے ہاتھوں میں اُٹھائے چشمان کے کمرے کی جانِب بڑھا۔ بغیر دستک دئیے وہ اندر داخِل ہوا تو نظر سیدھا بیڈ کی طرف گئی جہاں خُود پہ چادر اوڑھے کوئی وجود محوِ اِستراحت تھا۔ اُس نے اپنے پیچھے ایک ہاتھ سے دروازہ بند کیا اور آگے بڑھ کر ٹرے سائیڈ ٹیبل ہر رکھی۔ کمرے کی کِھڑکی بند ہی تھی جِس کی وجہ سے کمرے کیں اندھیرا سا محسوس ہو رہا تھا۔ اُس نے مین لائٹ آن کی تو کمرہ روشن ہو گیا۔

گہرا سانس بھر کر وہ چشمان کے پاس بِستر پہ بچی جگہ پہ بیٹھا۔ اور غور سے اُس کا چہرہ دیکھنے لگا جو ایک ہی دِن میں زرد پڑ گیا تھا۔ اُس کا چہرہ کُچھ سُرخ سا تھا۔ گالوں پہ ابھی بھی رونے کے نِشان تھے۔ اُس کے کُھلے بال تکیے پر بِکھرے ہوئے تھے جبکہ ایک ہاتھ بیڈ پر اور ایک پیٹ پر رکھا ہوا تھا۔ وہ چت لیٹی ہوئی تھی۔ بُرہان کی نظر اُس کی کلائی پر پڑی جو کافی سُرخ ہو رہی تھی۔ اُس نے ایک ہاتھ سے اُس کے بال تھوڑے سمیٹے۔

"میری روح کو چِھلنی کر دیا ہے تُم نے مانو! تُمہارا ہان پہلے والے سے بھی بُرا ہان بن گیا ہے۔ جانتی ہو یہاں اِس دِل کے سو ٹُکڑے ہو گِے ہیں۔ کیوں کیا تُم نے میرے ساتھ ایسے؟ جانتی تھی نا کہ مُجھے وہ لڑکا نہیں پسند؟ کہا تھا نا اُس سے دور رہنا؟ پوچھا بھی تھا کہ تُم اُسے پسند کرتی ہو کہ نہیں؟ پِھر بھی تُم نے میرے ساتھ یہ سب کیا؟ تُمہارا ہان تو تبھی زمین میں دفن ہو گیا تھا جب وہاں اا اُن پپ پولیس والوں نن نے اا اُس کی مردانگی پر سس سوال اُٹھایا۔ بب بہت غُصّہ آیا تھا تت تُم پر۔ مم مگر مم میں چاہ کر بھی تُمہیں تکلیف نن نہیں دے پایا۔ مم میں کک کیا کروں مانو؟ دد دِل جلتا ہے میرا۔ بب بہت جلن ہہ ہوتی ہے یہاں۔ بب برداشت سے باہِر حح حد سے زیادہ۔" اپنے دِل کے مُقام پہ ہاتھ کی مُٹھی مارتا وہ اُسے اُس کے کیے کا احساس دِلا رہا تھا مگر وہ بے حِس و حرکت پڑی تھی۔

اُس کا لہجہ بھرانے لگا تھا جِس کی وجہ سے وہ اٹک اٹک کر بولا تھا۔ سیاہ آنکھوں میں پِھر سے نمی بھرنے لگی تھی۔ پولیس سٹیشن میں اُن کی طنزیہ، تمسخرانہ نظریں اُسے بُھلائے نہیں بھولتی تھیں۔ کاٹ دار، کھا جانے والی نظریں جو اُس کے اندر کو جلا گئیں تھیں۔

اُس نے ایک ہاتھ سے آنسو پونچھتے چشمان کا ہاتھ تھام کر اُسے بِٹھانا چاہا تھا جب وہ ایک دم چونکا تھا۔ وہ بُری طرح بُخار میں تپ رہی تھی۔ بُرہان پریشان ہوا تھا۔ تیزی سے اُٹھ کر اُس کا ماتھا چیک کیا۔ اُس کا چہرہ بُخار کی تپش سے سُرخ ہو رہا تھا۔ وہ پریشان سا ہوتا اُٹھا اور سائیڈ ٹیبل سے ایڈ باکس نِکالا۔ اُس میں سے بخار کی میڈیسن نِکالی مگر اِس سے پہلے اُسے کُچھ کِھلانا ضروری تھا۔

"مانو! اُٹھو شاباش۔ کھانا کھا لو۔ دیکھو کِتنا بُخار ہو رہا ہے۔" وہ اُسے کندھوں سے تھام کر تکیے سے ٹیک لگوا کر بِٹھاتا بولا تو وہ مُندی مُندی آنکھیں کھولتی اُسے دیکھنے لگی۔ وہ لاشعور کی دُنیا سے دور تھی۔ اِس وقت کُچھ بھی ازبر نہیں تھا اُسے۔


****************

بہ مُشکِل اُسے اپنے سہارے بِٹھا کر اُس نے اُسے پاستہ کِھلایا تھا۔ تین چار چمچ کے بعد وہ کھانے سے اِنکاری ہوئی تھی۔ بُرہان نے پانچ مِنٹ کے وقفے کے بعد اُسے میڈیسن کِھلائی اور اُسے بیڈ پر لِٹا دیا۔ چشمان کی حالت دیکھ کر اُسے اپنے کیے پر پشیمانی ہوئی تھی مگر پِھر خُود کو حق بجانب سمجھتے وہ اِس گِلٹ سے بھی نِکل آیا تھا۔

چشمان میڈیسن کھا کر پِھر بے سُدھ سی ہو گئی تھی۔ بُرہان نے ٹھنڈے پانی کی پٹیاں اُس کے سر پر رکھنا شروع کیں تا کہ اُس کا بُخار ہلکا ہو سکے۔ آدھے گھنٹے تک وہ اُس کے ماتھے پر ٹھنڈی پٹیاں رکھتا رہا جِس سے اُس کا بُخار کُچھ کم ہوا۔ جِس پر بُرہان نے سکون کا سانس لیا۔ اُس کی طرف سے مُطمئن ہوا تو اپنے پیٹ کی بھوک کا احساس ہوا۔ گہرا سانس بھر کر وہ ٹرے اُٹھائے واپس کِچن میں گیا۔ اپنے لیے پاستا گرم کیا اور کھانے لگا۔

کھانے سے فارِغ ہو کر وہ واپس چشمان کے کمرے میں آ گیا اور خُود بھی اُس کے ساتھ بیڈ پر ہی لیٹ گیا۔ گھڑی اِس وقت رات کے نو بجا رہی تھی۔ چشمان کو دیکھتے دیکھتے وہ کب نیند کی وادیوں میں اُترا اُسے پتہ بھی نہیں چلا۔


***************


اگلے دِن سب لوٹ آئے تھے جہاں سب چشمان کو اِتنا بیمار دیکھ کر پریشان ہو اُٹھے تھے وہیں چشمان نے چُپ سادھ لی تھی۔ اُس کی چُپی کو اُس کی بیماری سے منسوب کرتے کِسی نے بھی اِس بارے میں اِستفسار نہیں کیا تھا۔ گھر میں اب پہلے کی طرح چشمان کی چنچل آواز نہیں گونجتی تھی۔

بُرہان نے رضیہ بیگم سے اگلے ہی ہفتے رُخصتی کا کہا تھا جِس پہ وہ تھوڑا حیران ہوئیں تھیں مگر بُرہان کے یہ کہنے پر راضی ہو گئیں تھیں کہ کل بھی تو ہونی ہے نا تو آج کیوں نہیں۔ رضیہ بیگم نے حماد صاحب اور ریحان بیگم کو یہ بات بتائی تو وہ بھی اِس پہ راضی ہو گئے تھے۔ بُرہان نے سادگی سے رُخصتی کرنے کو کہا تھا کہ ابھی کُچھ عرصہ پہلے ہی چچا کی وفات ہوئی ہے تو وہ کِسی قِسم کا شور شرابہ نہیں چاہتا۔ اُس کی بات کو مدِ نظر رکھتے ہی سب اِنتظام کیے گِے تھے۔

چشمان سے پوچھنے پر وہ اِقرار میں سر ہلا گئی تھی کہ اُس کے پاس کہنے کو کُچھ بچا ہی نہیں تھا۔ جِس بات کی سزا اُسے دی جا رہی تھی وہ گُناہ اُس نے کیا ہی نہیں تھا۔ اُس کے شوہر نے، اُس کے ہان نے اُس کی بات پر یقین نہیں کیا تھا اُسے تو یہی غم کھائے جا رہا تھا۔ اُس کے پاس اِقرار کرنے کے عِلاوہ اور کوئی راستہ بھی نہیں تھان

اُس رات کے بعد سے چشمان کی بُرہان سے کوئی بات نہیں ہوئی تھی نا ہی بُرہان نے ہوٹل والے واقعے کا کِسی سے ذِکر کیا تھا۔ چشمان مُکمّل خاموش تھی۔ اپنی رُخصتی کی تیاریوں میں بھی اُس نے کوئی حِصّہ نہیں لیا تھا۔ اُس کی ساری شاپنگ بھی بُرہان نے خُود کی تھی۔

رُخصتی والے دِن بس قریبی کُچھ مہمان بُلائے گئے تھے۔ چشمان نے سفید کامدار شرارہ پہنا ہوا تھا جب کہ بُرہان نے سفید شلوار قمیض۔ گھر والے بھی اُن کی خُوشی میں خُوش تھے۔ رُخصتی کے وقت چشمان نے اپنے اِتنے دِنوں سے جمع کیے سارے آنسو اپنی ماں کے گلے لگ کر بہا دیئے تھے۔ اذہاد مے اُس پہ قُرآن پاک کا سایہ کیا تھا اور یُوں وہ اپنے کمرے سے بُرہان کے کمرے میں اوپر والے پورشن میں رُخصت ہو گئی تھی۔

بُرہان رات کو کمرے میں آیا تو وہ کپڑے بدلے، بغیر اُس کا اِنتظار کیے بیڈ پر دراز تھی جِس پر بُرہان کو اُس پہ تپ چڑھ گئی تھی۔ اپنی ذات کو یُوں نظر انداز ہوتا دیکھ کر وہ تلملا اُٹھا تھا۔

ایک جھٹکے سے اُس کی طرف بڑھتا وہ اُسے اُٹھا کر اپنے سامنے کھڑا کر گیا تھا۔ اور وہ جو سونے کی تیاریوں میں تھی گھبرا اُٹھی تھی۔

"اِتنا ناگوار ہوں میں تُمہارے لیے؟ اِتنی نفرت کرتی ہو مُجھ سے کہ میرا انتظار بھی نہیں کیا؟" بُرہان کے پوچھنے پر وہ اُس کی سیاہ آنکھوں میں آنکھیں گاڑھتی گویا ہوئی تھی۔

"ہاں اِتنے ناگوار ہیں آپ میرے لیے۔ اپنی ہوس مِٹا کر بھی چین نہیں مِلا جو اب مُجھ سے یُوں سوال کر رہے ہیں جیسے میں آپ کی راہ میں پلکیں بِچھائے بیٹھی ہوں گی؟" چشمان پُھنکاری تھی مگر اُس کے لفظ سُن کر بُرہان کا ہاتھ بے ساختہ ہی اُٹھا تھا اور چشمان کے چہرے پر چھپ گیا تھا۔ وہ بیڈ پر گِری تھی۔

"میرے جذبات کو ہوس کا نام مت دینا کبھی چشمان بُرہان احمد! بیوی تھی تُم میری۔ کوئی ناجائز تعلُقات نہیں رکھے میں نے تُم سے اور ہوس میں نے اپنی نہیں تُمہاری پوری کی ہے جِس کی خاطِر تُم ہوٹل میں گئی تھی۔" بُرہان کی تلخی سے کہی بات پر اُس کی آنکھوں سے آنسو نِکلے تھے۔ کیسے سمجھاتی کہ وہ بے قصور تھی وہ اِس مقصد کے لیے وہاں نہیں گئی تھی۔

"رونا بند کرو اپنا۔ نفرت ہوتی ہے مُجھے تُمہارے اِن جھوٹے آنسووں سے اور ہاں ایک بات اپنے ذہن میں بِٹھا لو آج کے بعد مُجھ سے چّوں چرا مت کرنا۔ میں تُمہیں برداشت کر رہا ہوں تو صِرف گھر والوں کی وجہ سے۔ میں نہیں چاہتا کہ تُمہاری اِس گھٹیا حرکت کی وجہ سے وہ لوگ تُم سے کنارہ کشی کر لیں۔" بُرہان نے اُس پہ جُھکتے اُس کا رُخ سیدھا کرتے کہا۔ چشمان کا چہے پر بُرہان کے بھاری مردانہ ہاتھ کی اُنگلیاں چھپ سی گئیں تھیں۔ چہرے پہ آنسو بہہ رہے تھے۔

"آپ کو میں اب اپنی کوئی صفائی نہیں دوں گی۔ اور جِس کو بتانا ہے بتا دیں میں نہیں ڈرتی کِسی سے۔" وہ زخمی شیرنی بمی دھاڑی تھی جبکہ اُس کی ہٹ دھرمی پر بُرہان کا دِل کیا اُس کا گلا دبا دے۔

"اُس لڑکے کی مُحبّت سر چڑھ کر بول رہی ہے نا تُمہارے؟ بہت افسوس ہے نا اُسے کھونے کا تو یاد رکھو اب کبھی بھی تُمہیں آزاد نہیں کروں گا میں۔ ساری زِندگی میرا نام تُمہارے نام سے جُڑا رہے گا۔" بُرہان نے کہا تو وہ اِستہزائیہ ہنسی۔

"کرتی ہوں بہت مُحبّت کرتی ہوں اور ہمیشہ کرتی رہوں گی۔ دِل پہ بھی کِسی کا زور چلا ہے۔" وہ اُس کی سیاہ آنکھوں میں آنکھیں گاڑھے سکون سے بولی تھی۔ آنکھوں میں بُرہان احمد کا عکس تھا۔ وہ بُرہان سے مُحبّت کرنے لگی تھی اِس بات کا اِنکشاف اُس وقت ہوا تھا جِس وقت وہ پولیس سٹیشن میں اُس کے سینے سے لگی کھڑی تھی۔ وہ تو اُس رات کی انہونی کے بعد بھی اُس سے نفرت نہیں کر پائی تھی مگر وہ اُسے بتا بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ کون سا اُس کی بات پر یقین کرتا۔ جِس حال میں جِس جگہ پر اور جِس اِلزام کے سائے میں وہ اُسے مِلی تھی، بُرہان تو کیا کوئی بھی مرد یقین نا کر پاتا۔

غُصّے میں بُرہان اُس کی آنکھوں میں اپنے عکس کو بھی نہیں دیکھ پایا تھا ورنہ جان لیتا کہ وہ اکیلا ہی نہیں جل رہا۔ اُس کے الفاظ سُن کر بُرہان نے اپنا آپا کھویا تھا۔ ایک کے بعد دوسرا تھپڑ چشمان کے منہ پہ پڑا تھا کہ اُس کا دماغ جھنجھنا اُٹھا تھا۔ حواس سلب ہوئے تھے اور وہ ہوش و حواس کھو کر بیڈ پہ ڈھے گئی تھی۔

مردانہ بھاری ہاتھ کے دو تھپڑ اور کھا کر وہ بائیس سالہ لڑکی کیسے ہوش میں رہ سکتی تھی۔ اُس کے بے سُدھ وجود کو دیکھ کر بُرہان نے اپنے ہاتھ کو دیکھا تھا اور پِھر زور سے دیوار پر دے مارا تھا۔ وہ جان بوجھ کر اُس کا ضبط آزماتی تھی اور تکلیف بھی پِھر اُسے ہی اُٹھانا پڑتی تھی۔ چشمان کی ٹانگیں بیڈ سے نیچے لٹک رہیں تھیں جبکہ باقی کا دھڑ بیڈ پر تھا۔

اپنی آنکھیں مسل کر بُرہان نے اُس کا وجود بیڈ پہ مُنتقِل کیا اور اُس کے اوپر چادر ڈال کر خُود باتھ روم کی جانِب بڑھ گیا۔ فریش ہر کر وہ باہِر آیا اور بیڈ پر براجمان ہو گیا۔ چشمان کو ہوش میں لانے کی اُس نے کوئی کوشش نہیں کی تھی۔ اُس کا دِل اُکتا سا گیا تھا دِل کر رہا تھا یا خُود کو مار دے یا چشمان کو۔ مگر دونوں ہی کام وہ نہیں کر سکتا تھا۔


***************


زِندگی اپنے ڈگر پر چل پڑی تھی۔ عریحہ اور اذہاد اپنے پیپرز کی تیاری میں مصروف ہو چُکے تھے جبکہ باقی گھر والے بھی اپنی روٹین پہ آ چُکے تھے۔ ریحان اور فرازیہ کی کہانی اب تک وہیں اٹکی پڑی تھی۔ اُس دِن کے بعد سے ریحان رضیہ بیگم سے کم ہی مُخاطِب ہوتا تھا مگر رضیہ بیگم بھی خاموش تھیں کہ ایک نا ایک دِن بیٹے کے سر سے فرازیہ نام کا فتور اُتر جائے گا۔ فرازیہ بھی خاموشی سے اپنی زِندگی جی رہی تھی جبکہ کُلثوم بیگم تو اپنی بیٹیوں کو دیکھ دیکھ کر ہی جیتیں تھیں۔ اُنہوں نے حماد صاحب سے فرازیہ کی شادی کی بات کی تھی جِس پر وہ اُس کے لیے کوئی مُناسب رِشتہ ڈھونڈنے کا کہہ کر اُنہیں تسلّی دے گئے تھے۔ کلثوم بیگم نے اُن سے یہ نہیں کہا تھا کہ وہ ریحان سے ہی رِشتہ طے کر دیں کیونکہ وہ اچھے سے جانتی تھیں کہ رضیہ بیگم کو وہ لوگ پسند نہیں۔ وجہ صِرف روایتی نند بھاوج والی چِڑ تھی۔

بُرہان اور چشمان بھی اپنے رِشتے سے سمجھوتہ کیے اِس رِشتے کو نِبھا رہے تھے۔ سب کے سامنے ہیپی کپل کی طرح اور تنہائی میں وہ اجنبی بن کر رہتے تھے۔ بُرہان نے چشمان سے اپنے کیے کی کوئی معافی نہیں مانگی تھی اور نا ہی اُس کا ایسا کوئی اِرادہ تھا۔ چشمان اُس سے کوئی بات نہیں کرتی تھی۔ اُس کے سارے کام بھی وہ خاموشی سے کرتی تھی۔ چشمان کا فون تو وہیں ہوٹل میں ہی رہ گیا تھا ورنہ وہ بُرہان کو وہ میسج دِکھا کر اُسے اپنی بے گُناہی کا یقین دِلا دیتی۔ اُس نے اب اپنی صفائی دینا بھی چھوڑ دیا تھا کہ جب پہلے یقین نہیں کیا تو اب کیسے کرے گا۔

رُخصتی کی رات کے بعد سے بُرہان نے اُس پر دوبارہ ہاتھ نہیں اُٹھایا تھا کہ وہ پہلے ہی اپنی حرکت پر شرمِندہ تھا۔ وہ اُس پہ ہاتھ نہیں اُٹھانا چاہتا تھا مگر چشمان کی باتیں اُس کی انا پہ کاری وار کرتی تھیں اور وہ اپنے غُصّے پہ قابو نہیں رکھ پاتا تھا۔ چشمان کی زُبان اُسے بے بس کر دیتی تھی۔

اُن کی زِندگی ایک سمجھوتے پہ چل رہی تھی۔ بُرہان اور چشمان کے رِشتے میں اُبھرتی مُحبّت تو اُس حادثے میں ہی کھو گئی تھی مگر بُرہان اِس رِشتے کے سارے تقاضے نِبھا رہا تھا بھلے ہی وہ پِھر چشمان کی منشاء کے خِلاف ہوں۔ اب بھی وہ اُسے جواب دے دیتی تھی جِس پر وہ اپنے غُصّے کو ضبط کرتا گھر سے ہی نِکل جاتا تھا۔ چشمان کو صِرف اپنے سودوزیاں کا حِساب تھا مگر جِس اذیّت سے بُرہان گُزرا تھا اُس کا اُسے کوئی احساس نہیں تھا۔ وہ صِرف یہ سوچ رہی تھی کہ بُرہان نے اُس پہ یقین کر کے صحیح نہیں کیا یہ نہیں کہ بُرہان جیسا غیرت مند مرد وہ سب دیکھ کر بھی اُس سے رِشتے میں تھا اور اُس کی زبان درازی بھی برداشت کر رہا تھا۔


****************


حال:

رضیہ بیگم کو تین دِن بعد ڈِسچارج کر دیا گیا تھا۔ اُن کی حالت اب پہلے سے بہتر تھی۔ سب ہی اُن کا بہت دھیان رکھ رہے تھے جِس کی وجہ سے وہ جلدی سے صحت یابی کی طرف لوٹ رہیں تھیں۔ ریحان اور حماد صاحب اب باقاعدگی سے فیکٹری جانے لگے تھے جبکہ اذہاد کی سٹڈی بھی مُکمّل ہو چُکی تھی اور وہ کوئی اچھی سی جاب ڈھونڈ رہا تھا۔ عریحہ کی پڑھائی ابھی جاری تھی اور فرازیہ وہ ہانیہ میں ہی مصورف ہوتی تھی۔

سب اپنی اپنی زِندگی گُزار رہے تھے مگر کِسی کی زِندگی رُک گئی تھی تو وہ تھی چشمان۔ اِس لیے نہیں کہ اُسے بُرہان اپنے پاس چاہیے تھا اِس لیے کیونکہ شاہان کو اُس کا باپ اپنے پاس چاہیے تھا۔

بُرہان اُس دِن کے بعد سے گھر نہیں آیا تھا۔ نا ہی اُس کا فون لگ رہا تھا نا ہی اُس کا کہیں پتہ چلا تھا۔ شاہان پِچھلے تین دِن سے لگاتار بُرہان کا نمبر مِلاتا اب مایوس ہو کر رہ گیا تھا۔ چشمان کا فون ہر وقت اُس کے پاس ہوتا تھا جِس سے وہ ہر دو مِنٹ بعد ڈیڈا کا نمبر نِکال کر فون کرنے لگتا مگر آگے سے کوئی جواب موصول نا ہوتا۔ وہ اپنے باپ کو بے تحاشا یاد کر رہا تھا مگر وہ اُس کے پاس نہیں تھا جِس کا نتیجہ یہ نِکلا تھا کہ وہ اب بُخار میں مُبتلا ہو چُکا تھا۔ سبھی اپنے اپنے کمروں میں تھے اور چشمان بُرہان کے کمرے میں موجود بیڈ پر لیٹے شاہان کا ماتھا سہلا رہی تھی مگر بُخار کم ہونے کی بجائے بڑھ رہا تھا۔ وہ اُسے کھانے کے بعد بُخار کی دوائی دے چُکی تھی مگر کوئی افاقہ نا ہوا تھا۔ کُچھ دیر بعد وہ ٹھنڈا پانج او رپٹی لے آئی اور پِھر بھگو بھگو کر شاہان کے ماتھے پہ رکھنے لگی۔ وہ غنودگی لیں تھا اور ہر دو مِنٹ بعد اپنے بابا کو پُکار رہا تھا جو اُسے میسر نہیں تھا۔

آدھا گھنٹہ اُس کے ماتھے پہ ٹھنڈی پٹیاں رکھنے کے بعد اُس نے

بُخار چیک جو جوں کا تُوں تھا۔ وہ بے ساختہ پریشان ہو اُٹھی تھی۔ وہ کبھی یُوں بیمار نہیں ہوا تھا۔ موسمی بُخار بھی ہوتا تو چند گھنٹوں میں ٹھیک ہو جاتا تھا مگر اب تو اُس کی طبیعت بِگڑتی جا رہی تھی۔

"بب بابا پاس جانا ہے۔ بب بابا چچ چھوڑ کل چلے گئے میلے بابا نہیں آتے۔" وہ اِدھر اُدھر ہاتھ مارتا اب رونے لگا تھا۔ بے بسی سے چشمان کی آنکھوں میں آنسو آئے تھے۔ اُس کا بیٹا تکلیف میں تھا تو وہ کیسے سکون محسوس کرتی؟

"ماما ہیں نا پاس میرے بچّے! بابا بھی آ جائیں گے۔" وہ اُس کے گال سے آنسو صاف کرتی اُسے بہلانے لگی تھی مگر وہ چُپ کیا ہوتا اور رونے لگا تھا۔

چشمان نے تڑپ کر اُسے خود میں بھینچا تھا۔ پِھر اُسے بیڈ پر لٹا کر چادر اوڑھی اور اُسے اُٹھاتی باہِر آ گئی۔ لاونج میں بڑی امّاں بیٹھیں تسبیح پڑھ رہیں تھیں۔ اُسے پریشان دیکھتے اِستفسار کیا تو وہ شاہان کے بُخار کا بتاتی نیچے کی جانِب بڑھی۔

اذہاد گھر پر ہی تھا وہ اُسے ساتھ لے کر قریبی ہاسپِٹل آئی تھی۔ جہاں شاہان کو چیک اپ کے لیے لے جایا گیا تھا۔ تقریباً آدھے گھنٹے بعد وہ ڈاکٹر کے سامنے بیٹھی تھی۔

"دیکھیے۔ وہ چھوٹا سا بچہ ہے مگر کِسی ذہنی دباو کا شِکار ہے۔ وہ بُخار کی حالت میں بار بار اپنے باپ کو پُکار رہا ہے۔ اِتنے ذہنی دباو کی وجہ سے بچّے کے اعصاب پر بہت بُرا اثر پڑا ہے جِس کی وجہ سے وہ شدید بُخار میں مُبتلا ہے۔ آپ اُن کے بابا کو بُلا لیں تا کہ وہ اِس ٹینشن سے باہِر آسکے۔" ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ انداز میں اُسے بتایا تو وہ بے بسی سے بس سر ہی ہلا سکی۔

"میں نے کُچھ میڈیسنز لِکھ دیں ہیں وہ آپ احتیاط سے اِستعمال کروائیں۔" ڈاکٹر نے ایک کاغذ اُس کی طرف بڑھایا تو وہ کاغذ تھامتی اُٹھ کھڑی ہوئی۔ ریسیپشن پر اذہاد نے ڈاکٹر کی فیس جمع کروائی تو وہ واپسی کے لیے گھر کی جانِب روانہ ہوئے۔

گھر پہنچ کر وہ شاہان کو لیے کمرے کی جانِب بڑھ گئی۔ شاہان کو بیڈ پر لٹا کر وہ اُس کے قریب بیٹھی اُس کے ُپژمردہ چہرے کو دیکھنے لگی جِس کی شادابی پِچھلے کُچھ دِنوں سے نُچڑ کر رہ گئی تھی۔ جِس گھر میں شاہان کی چہچہاہٹ گونجتی تھی اب وہ سُونا سا لگنے لگا تھا۔

کُچھ ہی دیر میں سب شاہان کے کمرے میں جمع ہو چُکے تھے۔ رضیہ بیگم اپنے کمرے میں ہی تھیں کہ وہ آ نہیں سکتی تھیں۔ سب ہی شاہان کے لیے فِکر مند تھے۔ ڈاکٹر کی بتائی بات وہ سب کو بتا چُکی تھی۔ اُس کی بات سُن کر سب خاموش رہ گئے تھے کیونکہ وہ سب بھی لاعِلم تھے کہ بُرہان کہاں ہے۔ چشمان کو حوصلہ دیتے وہ ایک نظر شاہان پر ڈال کر باہِر نِکل گئے تھے۔ وہ چُپ چاپ دروازہ بند کر کے شاہان کے پاس لیٹ گئی جِو بے خبر غنودگی کے عالم میں تھا۔ وہ اُس کے قریب ہوتی اُس کے بالوں میں اُنگلیاں پھیرنے لگی تو وہ اُس کی طرف رخ کرتا اُس سے لِپٹ گیا۔ اُس کی آنکھوں سے کئی آنسو ٹوٹ کر شاہان کے بالوں میں جذب ہو گئے تھے۔

کُچھ دیر وہ اُس کے پاس لیٹی رہی پِھر اُٹھ کر باہِر آئی۔ اُس کے لیے کِھچڑی بنائی تا کہ اُسے میڈیسن کِھلا سکے۔ کِھچڑی بنا کر وہ پلیٹ میں ڈالتی روم کی جانِب بڑھی اور اُسے اپنے بازو کے سہارے اُٹھا کر اُسے کِھچڑی کِھلانے لگی۔ بہ مُشکِل پانچ سے چھ چمچ کھا کر وہ بس کر چُکا تھا۔ چشمان نے بھی زیادہ نہیں کِھلایا۔ پانچ مِنٹ کے وقفے سے اُسے میڈیسن کِھلا کر وہ اُسے بیڈ پر لٹاتی ٹرے اُٹھائے باہِر کی جانِب بڑھی۔

ابھی وہ باہِر آئی ہی تھی جب سامنے ٹیبل پر رکھا فون گُنگُنانے لگا۔ وہ قریب پہنچی تو وہ ریحان کا فون تھا اور سکرین پر بُرہان کالنگ لِکھا جگمگا رہا تھا۔ اُس نے لب بھینچ کر فون سکرین کو دیکھا تھا۔ اُس کا بیٹا اِس شخص کی یاد میں بیمار ہو گیا تھا اور وہ جانے کہاں بیٹھا سکون سے اب ریحان کو فون کر رہا تھا۔ ایک دم ہی اُس پہ غُصّے نے حملہ کیا تھا۔ فون اُٹھا کے ابھی وہ کُچھ بولنے ہی لگی تھی جب مُقابل کی آواز اُس کے کانوں میں اُترتی اُسے کُچھ بھی بولنے سے روک گئی تھی۔

"یہ جِس کا بھی فون ہے وہ مر چُکا ہے۔ آپ ہاسپِٹل آ کر اُس کی ڈیڈ باڈی لے جائیں۔" دوسری طرف سے انجان سی آواز تھی۔ چشمان بے حِس و حرکت بیٹھی ری گئی تھی۔ کب اُس کی آنکھوں سے ٹِپ ٹِپ آنسو گِرنے لگے وہ جان بھی نا پائی۔


**************

ماضی:

یہ اِنہی دِنوں کی بات ہے۔ کلثوم بیگم کو شوگر کا مسلہ تو کافی عرصے سے تھا مگر اب اُن کی بی پی بھی کافی ہائی رہنے لگا تھا۔ اُنہیں اپنی دونوں بیٹیوں کی بہت فِکر تھی۔ عریحہ تو خیر بڑی تھی لیکن فرازیہ کی وہ جلد ہی شادی کر دینا چاہتی تھیں اور اِسی سِلسلے میں آج کوئی فیملی فرازیہ کو دیکھنے آ رہی تھی۔ اِس بات کا پتہ ریحان کے عِلاوہ سب کو ہی تھا۔ ریحان کی فرازیہ سے پسندیدگی کِسی سے ڈھکی چُھپی تو نا تھی لیکن حماد صاحب سچ میں انجان تھے ورنہ وہ رضیہ بیگم کے خِلاف جا کر ریحان کی شادی فرازیہ سے کروا دیتے۔ رہحان کو کِسی نے نہیں بتایا تھا اور حماد صاحب کی اُس سے بات نہیں ہوئی تھی ورنہ وہ ہی بتا دیتے۔

ریحان بُرہان کے ساتھ فیکٹری گیا ہوا تھا جبکہ حماد صاحب آج گھر پر ہی تھے۔ چشمان اور فرازیہ مہانوں کی خاطِر تواضع کے لیے ریفریشمنٹ کا اِنتظام کر رہیں تھیں۔ سارا اِنتظام پہلے پورشن پر کیا گیا تھا۔

چشمان نے ریحان کو بتانا چاہا تھا مگر فرازیہ نے منع کر دیا کہ وہ نہیں چاہتی اُس کی وجہ سے ماں بیٹے میں کوئی ان بن ہو۔ فرازیہ خُود بھی دُکھی تھی مگر وہ باپ جیسے ماموں کا مان نہیں توڑنا چاہتی تھی۔ اُن کے بہت احسان تھے اُن پر اور وہ اپنی ماں کی تربیت پر کوئی حرف نہیں آنے دینا چاہتی تھی پِھر بھلے اُسے اپنے دِل کے ارمانوں کا خُون ہی کرنا پڑتا۔

گیارہ بجے مہمان آ چُکے تھے۔ وہ سادہ سے گُلابی رنگ کے پرِنٹڈ سوٹ میں ملبوس، آنکھوں پہ چشمہ لگائے، ہلکا پھُلکا سا میک اپ کیے مہمانوں کے سامنے بیٹھے تھے۔ لڑکا، لڑکے کی ماں اور لڑکے کی بہن اُس کے سامنے بیٹھے تھے۔ سوبر سا لڑکا تھا جو ایک ہی نظر میں فرازیہ کو پسندیدگی کی سند سے نواز چُکا تھا۔ اُس کی ماں اور بہن کو بھی فرازیہ پسند آئی تھی۔ لڑکا کُلثوم بیگم پسند آیا تھا اور آیا بھی حماد صاحب کے توسط سے تھا اِس لیے کِسی چھان بین کی ضرورت نا تھی۔ اُنہوں نے یہ رِشتہ موقعے پہ ہی پکّا کر دیا تھا۔ ابھی وہ سب مِٹھائی کھا ہی رہے تھے جب باہر گیٹ پر بیل ہوئی اور چشمان باہِر کو بھاگی۔ دروازے پہ ریحان تھا جِسے دیکھ کر چشمان کے ہونٹوں پہ مُسکراہٹ آئی تھی۔ چشمان۔نے ہی اُسے فون کر کے ساری بات بتائی تھی۔ وہ اپنی بہنوں جیسے کزن اور بھائی جیسے دیور کو خُوش دیکھنا چاہتی تھی اور اُن کی خُوشی ایک دوسرے کے ساتھ تھی۔

وہ ایک خفگی بھری نظر چشمان پر ڈال کر اندر کی جانِب بڑھا اور پِھر ڈرائینگ روم میں داخِل ہوا۔ سامنے ہی سب براجمان تھے۔ وہ فرازیہ کے پاس جا کر ٹو سیٹر صوفے پر سکون سے بیٹھ گیا۔ دونوں کے درمیان ایک تھوڑا سا ہی فاصلہ تھا۔

رضیہ بیگم نے اةسے گھورا تھا جب کہ باقی سب بھی اُس کی اِس حرکت پر خفت کا شِکار ہوئے تھے جبکہ فرازیہ کا دِل دھک رہ گیا تھا۔

"یہ کون ہے؟" لڑکے کو یُوں ریحان کا فرازیہ کے پاس بیٹھنا پسند نہیں آیا تھا۔

"میں اِن کا ہونے والا شوہر ہوں۔ مگر آپ کون ہیں اور یہاں کِس حوالے سے آئے ہیں؟ میں نے پہچانا نہیں آپ کو۔" اُس کی بات سُن کر جہاں باقی سب حیرت میں گِھرے تھے وہیں رضیہ بیگم نے دانت پیسے تھے جب کہ بڑی امّاں مُسکرا رہیں تھیں۔

"کک کیا مطلب ہے اِس بات کا؟ یہ لڑکی پہلے سے ہی کِسی سے رِشتے میں ہے تو ہمیں یہاں کیوں بُلایا؟" لڑکے کی ماں نے تیکھے لہجے میں پوچھا تو حماد صاحب نے پہلے ریحان کو گھورا پِھر اُن سے معذرت خُواہانہ انداز میں مُخاطب ہوئے۔

"معافی چاہتا ہوں بہن جی! ہم فون پہ آپ کو بتا دیں گے کہ ہمارا کیا فیصلہ ہے۔" حماد صاحب اُن کے سامنے ریحان سے بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔

"فون کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے ہمیں آپ لوگوں سے رِشتہ نہیں جوڑنا چلو بیٹا۔" وہ عورت نخوت سے بول کر اپنے بیٹے اور بیٹی کو لے کر باہِر نِکل گئی جب کلثوم بیگم پریشانی سے سب دیکھتی رہ گئیں۔ وہ رضیہ بیگم کے ری ایکشن کے بارے میں سوچ رہیں تھیں۔

"یی کیا بکواس تھی ریحان؟" حماد صاحب نے غُصّے سے پوچھا تھا جبکہ ریحان کے پاس بیٹھی فرازیہ رضیہ بیگم کے خوف سے کانپنے لگی تھی۔ جانے وہ اُس کو کیا کیا باتیں سُناتی۔

"وہی جو سچ ہے ابو! مُجھے فرازیہ پسند ہے اور میں اِس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ گھر کی لڑکی گھر میں ہی رہ جائے تو کیا مضائقہ ہے؟" ریحان نے ایک خفگی بھری نظر ماں پر ڈال کر باپ کو جواب دیا تو وہ اُسے دیکھ کر رہ گئے جبکہ رضیہ بیگم منہ پھیر چُکیں تھیں۔

"کوئی مضائقہ نہیں ہے مگر تُمہیں پہلے بتانا چاہیے تھا یُوں بے عِزّتی کروانے کی کیا ضرورت تھی؟" حماد صاحب کی بات پر وہ مُسکرایا تھا۔ اُسے یقین تھا کہ حماد صاحب کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ اُس نے ایک جتاتی نظر ماں پر ڈالی تھی پِھر کلثوم بیگم کی جانِب دیکھا جو آنکھوں کیں نمی لیے مُسکرا رہیں تھیں۔

"امی کو بتایا تھا مگر اُنہوں نے اِنکار کر دیا۔ آپ راضی ہیں تو اُنہیں بھی راضی کر لیں۔ "ریحان نے کہا تو حماد صاحب نے چونک کر رضیہ بیگم کو دیکھا۔

"فرازیہ کو کوئی اعتراض تو نہیں؟" حماد صاحب نے رضیہ بیگم کو اِگنور کر کے پوچھا تھا۔ بچّے راضی ہوتے تو وہ کیوں اُن سے اُن کی خُوشی چھینتے؟

"جی بڑے ابو رازی بھی راضی ہے۔" جواب چشمان نے دیا تھا جِس پہ رضیہ بیگم کے سِوا سب ہی مُسکرا دئیے تھے۔

"ٹھیک ہے پِھر یہ رِشتہ پکّا ہوا۔ دو مہینوں بعد فرازیہ اور ریحان کی شاید ہو گی۔" حماد صاحب نے بڑی امّاں کی طرف دیکھ کر کہا تو وہ بھی ہولے سے سر ہلا گئیں۔

فرازیہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر اپنے کمرے کی جانِب بڑھ گئی تو چشمان بھی اُس کے پیچھے گئی تھی۔ ریحان کُلثوم بیگم کے پاس بیٹھا اُنہیں تسلّی دینے لگا تھا کہ وہ اُن کی بیٹی کو خُوش رکھے گا۔ شائستہ بیگم سب کو مِٹھائی کِھلانے لگیں تھیں بڑی امّاں اور حماد صاحب کةچھ ڈِسکس کر رہے تھے جبکہ رضیہ بیگم ناگواری سے اُٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئیں تھیں اور رہی بات اذہاد اور عریحہ کی تو وہ دونوں دو مہینے بعد ہونے والی شادی کے لیے ابھی سے کپڑے ڈیسائیڈ کرنے لگے تھے۔


**************


بُرہان بھی ریحان اور فرازیہ کے لیے بہت خُوش تھا۔ اُس کے بھائی کو اُس کی مُحبّت مِل گئی تھی اِس سے بڑھ کر اُس کے لیے خُوشی کی بات کیا ہو سکتی تھی؟ اُس کا اور چشمان کا رِشتہ اِسی نہج پر کھڑا تھا۔ بُرہان اور چشمان کے بیچ دوریاں کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہیں تھیں۔ نا تو بُرہان نے اُس سے دوبارہ اُس معاملے پر بات کی تھی نا ہی چشمان نے اپنی بات سے پلٹنا چاہا تھا۔

وہ دونوں ہی ایک دوسرے کی تکلیف سے بے بہرہ بنے زِندگی کو بس گُزارتے جا رہے تھے۔ کبھی کبھی اُن میں تلخ کلامی ہو جاتی تھی جِس کے بعد ہفتہ ہفتہ وہ ایک دوسرے سے بات تک نہیں کرتے تھے۔ بُرہان کے سامنے چشمان اپنے چہرے پر اُکتاہٹ اور بیزاری کا ایک خول سجائے رکھتی جو بُرہان کی اذیّت میں اضافہ کر دیتا مگر دِل ہی دِل میں وہ بُرہان کی مُحبّت میں ڈوبتی جا رہی تھی۔ وہ جو اُس سِتم گر سے نفرت کرنا چاہتی تھی بے بس ہو کر رہ گئی تھی۔

دِن رات کڑھتی وہ اب اپنے آپ سے بھی بیزار رہنے لگی تھی۔ حگھر میں ریحان اور فرازیہ کی شادی کی تیاریاں شروع ہو چُکیں تھیں۔رضیہ بیگم کی ناراضگی کو کِسی نے خاطِر خواہ توجّہ نہیں دی تھی وہ اوپری دِل سے شادی کی تیاریاں تو کر رہیں تھیں مگر دِل سے خُوش نہیں تھیں۔ اُنہیں فرازیہ پسند نہیں تھی نا ہی اُس کی ماں اور نا ہی اُس کی بہن۔ صِرف اِس لیے کہ وہ ساری عُمر اُن کے سروں پہ مسلط رہیں تھیں۔ وہ نہیں چاہتیں تھیں کہ ایک نیا رِشتہ جُڑ کر وہ دوبارہ اُن کے گھر میں رہیں۔ مگر اب وہ بے بس ہو چُکیں تھیں۔ حماد صاحب کے فیصلے کے آگے اُن کی ایک نہیں چلی تھی۔ اُنہوں نے اُن سے باز پرس کی تھی کہ اُنہوں نے حماد صاحب کو کیوں نہیں بتایا ریحان کی پسندیدگی کے بارے میں تو وہ آگے سے چُپ ہو کر رہ گئیں تھیں کیا کہتیں کہ مُجھے آپ کی بھانجیاں اور بہن پسند نہیں ہیں؟ اب مجبوراً ہی سہی وہ شادی کی تیاریوں میں حِصّہ لے رہیں تھیں۔


**************


رات کا کھانا کھانے کے بعد سب ہی اپنے اپنے کمروں میں جا چُکے تھے۔ ریحان بھی سب کو اُٹھتا دیکھ کر اپنے کمرے کی جانِب بڑھ گیا۔ اچانک اُسے کِچن سے کھٹ پٹ کی آواز سُنائی دی تو وہ اُس جانِب بڑھا۔ کِچن میں داخِل ہونے پر اُسے فرازیہ نظر آئی جِس کے ساتھ چشمان بھی موجود تھی۔ چشمان نے ریحان کو دیکھا تو مُسکراہٹ دباتی تھمبز اپ کا اِشارہ کرتی اپنے کمرے کی جانِب بڑھ گئی۔ فرازیہ ریحان کی موجودگی سے انجان تھی۔

"خُوش ہو نا؟" وہ اُس کے پیچھے کھڑا ہوتا سرگوشی میں پوچھنے لگا تو وہ سانس روکے اپنی جگہ پہ کھڑی رہ گئی۔

"جواب دو؟ خُوش ہو نا؟ صِرف ایک دفعہ کہہ دو پِھر نہیں پوچھوں گا۔" ریحان نے اُس کی خاموشی پہ اِلتجائیہ انداز میں کہا۔

"جج جی۔" وہ بس یہی کہہ پائی۔ وہ اُس کے اِتنا قریب کھڑا ہونے سے نروس ہو رہی تھی۔

"کیا جی؟" وہ اُس کے کندھوں پی ہاتھ رکھ کر اُسے اپنی طرف پلٹا کر پوچھنے لگا۔

"و وہی جو آپ نن نے پوچھا۔" وہ نظریں جُھکا کر ہِچکِچا کر بولی تو وہ زیرِ لب مُسکرا دیا۔

"میں نے کیا پوچھا؟" وہ جان بوجھ کر اُسے چھیڑنے لگا۔ نظریں اُس کی جُھکی نظروں پہ جمیں تھیں۔

"مم میں شادی سے خخ خوش ہوں۔" وہ دونوں ہاتھ چہرے پہ رکھ کر اُسے قہقہہ لگانے پہ مجبور کر گئی۔

"مم مانی جج جان آ جائیں گی۔" وہ اُس کے چھت پھاڑ قہقہے پر کِچن کے دروازے کی طرف دیکھتی پریشانی سے بولی۔

"کُچھ نہیں کہیں گی وہ اب۔ مان گئیں ہیں وہ ہماری شادی کے لیے۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔" اُس نے فرازیہ کے گال کو تھپتھپا کر تسلی دی تو وہ سر ہلا گئی۔

"آئی لو یُو۔" بالکُل اچانک بول کر وہ اُس کے ساکت وجود کو نظر اندا زکر کے اُس کے ہاتھ کی ُپشت پہ مُحبّت بھرا بوسہ دے کر کِچن سے باہِر نِکل گیا۔ جانتا تھا کہ اُس کے سامنے کھڑا رہا تو وہ شاید بے ہوش ہی ہو جائے۔

پیچھے وہ کِتنی ہی دیر تک اُس ہاتھ کو ٹِکٹِکی باندھے دیکھتی رکھی۔ پِھر اُسی ہاتھ کو ہولے سے چھو کر وہ حیا آلود مُسکراہٹ ہونٹوں پہ سجا کے اپنے پورشن کی جانِب بڑھ گئی۔


****************


یہ عام دِنوں سا ایک دِن تھا۔ موسم کافی خُوشگوار تھا۔ بُرہان آج گھر پر ہی تھا۔ ریحان اور حماد صاحب فیکٹری گئے ہوئے تھے جبکہ اذہاد کالج اور عریحہ سکول۔ فرازیہ اور کلثوم بیگم بڑی امّاں کے پاس بیٹھیں تھیں۔ شائستہ بیگم اور رضیہ بیگم بیٹھیں فرازیہ کے لیے شادی کی چادر پہ کڑھائی کر رہیں تھیں۔

بُرہان صوفے پر بیٹھا چشمان کا اِنتظار کر رہا تھا۔ رضیہ بیگم کی ہدایت تھی کہ وہ بُرہان کے ساتھ جا کر شاپنگ کرے اِسی لیے اب وہ چاروناچار کمرے میں تیار ہو رہی تھی۔ بُرہان جب ویٹ کر کر کے تھک گیا تو اُکتا کر کمرے کی طرف بڑھا۔ دروازہ کھول کر وہ اندر داخِل ہوا تو سامنے ہی وہ بالوں میں برش پھیر رہی تھی۔ اُس کے سیاہ، لمبے، گھنے بال اُس کی کمر پر بِکھرے ہوئے تھے اور اُن کی لمبائی کمر سے کافی نیچے تک تھی۔ وہ ایک ٹرانس کی سی کیفیت میں اُس کی جانِب بڑھا جو اپنے دھیان میں تھی۔

اُس کے قریب پہنچ کر اُس نے چشمان کے بالوں کو ہاتھوں پہ لپیٹ کر اُن کی خُوشبو محسوس کی تھی۔ چشمان اُس کی حرکت پہ چونک اُٹھی تھی۔ مگر پلٹی نہیں تھی۔ بُرہان نے اُس کے ہاتھ سے برش لے کر اُسے سٹول پر بِٹھایا تھا اور پِھر خُود اُس کے بال بنانے لگا تھا۔ وہ مصروف سا اُس کے تاثرات پر دھیان دئیے بغیر اپنے کام میں مصروف تھا جبکہ چشمان حیرت سے اُس کا یہ روپ دیکھ رہی تھی۔ اُس نے کہاں سوچا تھا کہ کڑوا کریلا ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ بُرہان اُس کی خُود پہ حیران نظریں محسوس کر رہا تھا مگر انجان بنا ہوا تھا۔

اُس کے بال بنا کر اُس کی بالوں کی ڈھیلی سی چُٹیا بنائی اور جُھک کر بغیر کُچھ کہے اُس کے سر پہ بوسہ دیا جِس پر وہ آنکھیں بند کر گئی۔ وہ آئینے کے سامنے کھڑا اُس کے عکس کو دیکھ رہا تھا۔ وہ دونوں آئینے میں ایک پرفیکٹ کپل کی عُمدہ تصویر لگ رہے تھے جو صِرف ایک دوسرے کے لیے بنے ہوں مگر حقیقت تو وہ دونوں ہی جانتے تھے کہ جِتنا قریبی اُن کا رِشتہ تھا اِتنی ہی دوری اُن کے دِلوں میں تھی۔


چشمان نے آنکھیں کھول کر آئینے میں دیکھا تو نظریں سیدھا بُرہان کی سیاہ آنکھوں سے جا ٹکرائیں۔ چشمان کو اُس کی ںاکھوں میں کوئی ہلچل، کِسی بھی قِسم کے جذبات محسوس نہیں ہوئے تھے۔ بے رنگ، بے رونق، بے حد ٹھنڈا تاثر لیے وہ آنکھیں بے حد سپاٹ تھیں۔ اُس کا چہرہ ہر قِسم کی مُسکراہٹ سے پاک تھا، چہرے کے تاثرات سرد اور ٹھنڈے سے تھے۔ اُس کا یہ ٹھنڈا سا رویہ چشمان کے دِل پہ اوس گِرا گیا تھا۔ اُس کی حرکت سے چشمان کو ایک عجیب سی سرشاری اور پنائیت کا احساس ہوا تھا مگر جِتنی اپنائیت اور نرمی اُس کی حرکت میں تھی اُتنا ہی سرد سا اُس کا رویہ تھا۔ چشمان سمجھ نہیں پائی اُس کے کِس رُخ پر یقین کرے۔

وہ اُس کو ایک نظر دیکھ کر اُٹھ کھڑی ہوئی اور حِجاب اوڑھ لیا۔ بُرہان کی نظریں اُس کے وجود پر ہی تھیں۔ اُس کی کوئی حرکت بُرہان سے پوشیدہ نہیں تھی جبکہ چشمان اُس کی نظروں کے اِرتکاز سے اُلجھن میں مُبتلا ہو رہی تھی۔ بُرہان بغیر کوئی بات کیے بس خاموشی سے اپنے ہونے کا اِحساس دِلا رہا تھا اور وہ اُس کے ہونے کو محسوس کر رہی تھی۔ عجیب سا رِشتہ تھا اُن کا۔ ایک کے دِل میں مُحبّت نہیں تھی تو دوسرے کے دِل میں اعتبار۔ پِھر بھی وہ اِس پاک بندھن میں بندھ گئے تھے اور اب نِبھا بھی ریے تھے۔

کندھوں پر چادر اوڑھ کر وہ باہِر کی جانِب بڑھنے لگی جب بُرہان کے ہاتھ میں اُس کی کلائی آئی۔ وہ چونک کر رُکی تھی۔

""مُجھ سے کِتنی نفرت کرتی ہو؟" بُرہان نے ٹھنڈے سے لہجے میں پوچھا تھا۔

"میں آپ سے نفرت نہیں کرتی۔" اُسی کے انداز میں جواب دیا تھا۔ اِس کے بعد بُرہان نے کوئی بات نہیں کی۔ سب کو بتا کر وہ باہِر کی جانِب بڑھ گئے تھے۔ بے تکلفی تو پہلے بھی اُن کے رِشتے کیں نہیں تھی مگر اب تو اُن کے درمیان بات چیت بھی بس ضرورت کے تحت ہوتی تھی۔

وہ اُسے اُس کے بتائے ہوئے شاپنگ مال میں لے آیا تھا۔ وہ اپنی پسند سے ساری شاپنگ کر رہی تھی جِس پہ بُرہان نے اُسے ٹوکا بھی نہیں تھا۔ جوتے، کپڑے، جیولری غرض یر چیز وہ بہت دیکھ بھال کر لے رہی تھی۔ وہ کوئی شو پیس دیکھ رہی تھی جب بُرہان اُسے وہیں چھوڑ کر ایک شاپ میں گُھس گیا۔ وہ کوئی گارمِنٹس کی شاپ تھی۔ کوئی دس مِنٹ بعد وہ وہاں سے نِکل آیا۔ واپسی کیں اُس کے ہاتھ میں ایک شاپنگ بیگ تھا۔

چشمان کے پاس آ کر وہ دوبارہ ویسے ہی خاموشی سے کھڑا ہو گیا تھا۔ چشمان نے فرازیہ کے لیے ایک شو پیس خریدا تھا۔ بُرہان نے اُس کی پیمینٹ کی اور چشمان کے ساتھ باہِر کی جانِب بڑھا۔ ابھی وہ چل ہی رہے تھے جب بُرہان کے فون پر کال آنے لگی۔ وہ رُک کر فون سُننے لگا جبکہ چشمان اُکتا کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگی پِھر نظر سامنے شاہ پی پڑی جِس کے شو کیس میں مُخگلف قِسم کی مردانہ گھڑیاں لگیں ہوئیں تھیں۔ تھا۔ وہ اُسے کافی اچھا لگا تھا۔ وہ بغیر بُرہان کو بتائے اُس شاہ میں گُھس گئی اور گھڑی پسند کرنے لگی۔ اُس کی نظروں کے سامنے بُرہان کا مرادنہ ہاتھ گھوما تھا۔ اُس نے آج تک بُرہان کو کُچھ نہیں دیا تھا اور آج وہ اُسے کُچھ دینا چاہتی تھی۔ بُرہان کی آج کی حرکت سے ناجانے کیوں مگر اُس کا دِل نرم پڑنے لگا تھا۔

"ابھی وہ گھڑی پسند کر ہی رہی تھی جب وہ مانوس سی آواز سُن کر پلٹی تھی اور پِھر اُسے لگا تھا اُس نے غلطی کر دی۔


****************

"مِس مُجھے آپ سے بات کرنی ہے۔" وہ ارمان تھا جو چہرے پر ندامت اور پچھتاوے کے تاثرات سجائے سر جُھکائے کھڑا تھا مگر چشمان کو اُس کی پروا نہیں تھی۔ پروا تھی تو اُس سِتم گِر کی جو شاید اُس کے وقار کی دھجیاں اُڑانے میں ایک پل نا لگاتا۔

"مُجھے تُم سے کوئی بات نہیں کرنی ارمان! بہتر ہو گا کہ تُم یہاں سے چلے جاؤ۔" چشمان نے چادر درست کرتے ناگواری سے اُسے ٹوکا تھا۔

"مِس مُجھے آپ سے معافی مانگنی ہے ایک بار میری بات سُن لیں پلیز۔" وہ اِلتجائیہ انداز میں بولا تو وہ گہرا سانس بھرتی دروازے کی جانِب دیکھنے لگی جہاں بُرہان کا نام و نِشان نہیں تھا۔

"کہو کیا کہنا ہے مگر دو مِنٹ سے زیادہ وقت نہیں میرے پاس۔" چشمان نے رُخ اُس کی طرف پلٹتے سختی سے کہا تھا۔

"اُس دِن میرا قصور نہیں تھا۔ میں اپنے دوستوں کے ساتھ ہوٹل گیا تھا مُجھے نہیں پتہ تھا کہ وہ کِس قِسم کا ہوٹل ہے۔ انہوں نے زبردستی مُجھے شراب پِلا دی تھی۔ میں نے آپ کو کوئی میسج نہیں کیا تھا میرے فون سے اُنہوں نے ہی میسج کیے تھے ۔ میری غلطی بس یہ تھی کہ مُجھے دوست چُننے میں غلطی ہو گئی۔" ارمان نے شرمِندگی سے اُسے ساری بات بتائی تھی جِسے سُن کر وہ بس گہرا سانس ہی بھر سکی تھی۔ اب کیا ہو سکتا تھا جِتنا بُرا ہونا تھا ہو چُکا تھا۔

"تُمہارے اُن اچھے دوستوں کا کہنا تھا کہ اُنہوں تُمہیں ڈیر دیا مُجھے وہاں بُلانے کا۔" چشمان کو اُن کی کہی بات یاد آئی تھی۔

"اُنہوں نے جھوٹ بولا تھا مِس! میں نے آپ کو میسج نہیں کیے تھے پرامس۔" ارمان گلے پہ ہاتھ رکھے بولا تو وہ سر ہلا گئی۔

"مُجھے تُم سے کوئی گِلہ نہیں ہے ارمان! جو میری قِسمت میں لِکھا تھا وہ تو ہو چُکا کیا فرق پڑتا ہے کہ کیوں اور کیسے ہوا۔ چلتی ہوں دھیان رکھنا۔" وہ کہہ کر مُڑی اور شاپ سے باہِر نِکلنے لگی۔ ارمان بھی باہِر کی جانِب بڑھا۔

بُرہان کال سُننے کے بعد واپس پلٹا تو اُسے چشمان کہیں بھی دِکھائی نا دی۔ وہ ایک دم پریشان ہوا تھا۔ ابھی تو یہیں تھی وہ پِھر اچانک سے کہاں چلی گئی۔ وہ وہیں کھڑا یہاں وہاں دیکھ رہا تھا جب وہ اُسے ایک شاپ سے نِکلتی دِکھائی دی وہ تیزی سے اُس کی جانِب بڑھنے لگا۔ اُس کا دِل کِتنا پریشان ہو گیا تھا وہ لفظوں میں بتا بھی نہیں سکتا تھا۔ اور اب اُسے سامنے دیکھ کر اُس کے دِل میں سکون کے جھرنے بہنے لگے تھے۔ ابھی وہ اُس کی جانِب بڑھ ہی رہا تھا جب اُسے چشمان کے پیچھے ہی شاپ سے ارمان نِکلتا دِکھائی دیا۔ اُس کے قدم یکبارگی آہستہ ہوئے تھے۔ وہ جو تیزی سے چلتا اُس تک جا رہا تھا اب اچانک ہی اُس کے قدموں نے چلنے سے اِنکار کیا تھا۔ آہستہ آہستہ ہوتے اُس کے قدم اب رُک گئے تھے۔ چشمان ارمان سے مِل کر آ رہی تھی اِسی لیے اُس نے اِس شاپنگ مال میں آنے کا کہا۔ ایک چُھبن سی ہوئی تھی اُس کے دِل میں۔ اِتنا سب کُچھ ہو جانے کے بعد، چشمان کے ساتھ اپنے رِشتے کو آگے بڑھا لینے کے بعد بھی وہ ارمان سے مِل رہی تھی۔ اِس کا ایک ہی مطلب نِکلتا تھا کہ وہ آج بھی بُرہان سے صِرف نفرت ہی کرتی تھی۔

چشمان بُرہان کو تیزی سے اپنی جانِب آتا دیکھ کر خُود بھی اُس کی طرف بڑھ رہی تھی مگر پِھر بُرہان رُک گیا تھا۔ اُس کی نظروں پر غور کرنے سے اُسے پتہ چلا تھا کہ وہ چشمان کی طرف نہیں بلکہ چشمان کے پیچھے دیکھ رہا تھا۔ چشمان نے رُک کر زرا چونک کر پیچھے دیکھا تو اپنے پیچھے شاپ سے باہِر آتے ارمان کو دیکھ کر اُس کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ اُسے لگا آج بُرہان اُسے نہیں چھوڑے گا شاید جان سے مار دے۔ اُس نے سہم کر رُخ پلٹتے بُرہان کو دیکھا تھا جو ٹھنڈا سا تاثر لیے، سپاٹ چہرے کےساتھ کھڑا اب ارمان سے نظریں ہٹا کر چشمان پہ گاڑھ چُکا تھا۔ چشمان کو اُس کی سیاہ سرد آنکھوں سے خوف آیا تھ جو ضبط کے مارے اب سُرخ ہو رہیں تھیں۔ ایک لاوا تھا جو بُرہان کی آنکھوں میں نظر آ رہا تھا۔

"بُرہان وہ میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ کُچھ کہنے لگی تھی جب بُرہان نے اُس کی بات کاٹی۔

"گھر چلیں؟ دیر ہو رہی ہے۔" بے تاثر و سرد لہجے میں کہہ کر وہ بغیر اُس کا ہاتھ تھامے باہِر کی جانِب بڑھا تھا۔

"بُرہان میری بات سُنیں۔ ایسا کُچھ نہیں جیسا آپ سوچ رہے۔" وہ اُس کے ساتھ تیزی سے چلتی بولی رہی تھی۔

"میں نے کُچھ پوچھا؟ نہیں نا تو چُپ کر کے چلو ورنہ میں یہیں چھوڑ جاؤں گا۔" بُرہان نے سرد لہجے میں کہہ کر گاڑی کا دروازہ کھولا تھا۔

چشمان اب کی بار خاموشی سے بیٹھ گئی تھی۔ وہ اب گاڑی کو گھر کے راستے پر ڈال چُکا تھا۔ اُس کا چہرہ بے تاثر تھا اور نظریں وِنڈ سکرین کے پار جمیں تھیں۔ چشمان کن انکھیوں سے بار بار اُس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ مگر وہ اُس کی طرف متوجّہ نہیں تھا۔ اِس کے بعد چشمان نے بُرہان سے کوئی بات نہیں کی تھی۔ ایک تو اُس کا غُصّہ اور اوپر سے اُس کا یہ ٹھنڈا سا رویہ چشمان کو ہولائے دے رہا تھا۔

گھر پہنچ کر وہ چشمان کو گھر چھوڑ کر باہِر نِکل گیا تھا۔ کہاں گیا تھا چشمان بے خبر تھی۔ وہ اُسے بتا کر تو جاتا نہیں تھا جو اُسے کُچھ خبر ہوتی۔


****************


دِن اپنی رفتار سے گُزرتے جا رہے تھے۔ شادی کا دِن بھی آ گیا تھا۔ چشمان کی طبیعت کُچھ بوجھل سی رہنے لگی تھی۔ وہ اپنی طبیعت سے بے نیاز بس شادی کی تیاریوں میں مصروف تھی۔ حماد صاحب نے شادی کے فنکشنز کی جگہ بس نِکاح کی رسم رکھی تھی۔ شادی گھر میں تھی تو بارات وغیرہ کا کوئی جھنجھٹ ہی تھا۔ نِکاح کے اگلے دِن ہی ولیمے کا فنکشن رکھا گیا تھا۔ آج شام میں ہی چشمان اور عریحہ فرازیہ کے کمرے کیں ڈیرے ڈالے بیٹھیں تھیں۔ اُن کا فیصلہ آج رات فرازیہ کے پاس رُکنے کا ہی تھا۔ فرازیہ کو مہندی عریحہ لگا رہی تھی۔ وہ بہت اچھی مہندی لگاتی تھی اِسی لیے فرازیہ پارلر بھی نہیں گئی تھی۔

چشمان کُچھ فاصلے پر بیٹھی دھیمی آواز میں ڈھول ماہیے گا رہی تھی جِس پہ فرازیہ کبھی ہنس دیتی تو کبھی شرما جاتی۔ اُس کے چہرے کے کِھلتے رنگ دیکھ کر چشمان نے اُس کی دائمی خُوشیوں کی دُعا کی تھی۔ عریحہ فرازیہ کو مہندی لگا کر فارئغ ہوئی تو چشمان کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھ گئی۔ ابھی ایک ہی پھول ڈالا تھا جب مہندی کی خُوشبو سے چشمان کا دِل متلایا تھا۔ وہ ہاتھ چُھڑاتی باتھ روم کیں جا گُھسی تھی۔ فرازیہ اور عریحہ نے پریشانی سے ایک دوسرے کو دیکھا تھا۔ وہ دونوں اِس معاملے میں نافہم تھیں۔ اِسی لیے عریحہ پریشانی میں کلثوم بیگم کو اُن کے کمرے سے بُلا لائی تھی۔ کُچھ دیر بعد چشمان نڈھال سی باہر آئی تو کلثوم بیگم کی تفتیش پر وہ اُنہیں اپنی کُچھ دِنوں سے بوجھل ہوتی طبیعت کے بارے میں تاتی گئی جِسے سُن کر کلثوم بیگم نے خُوشی سے

اُسے خُوشخبری سُنائی تھی جِسے سُن کر وہ کُچھ دیر تو یُوں ہی ساکت اور بے یقین سی بیٹھی رہی۔

پِھر یک دم ہی اُس کا چہرہ گُلال ہوا تھا۔ وہ ماں بننے والی تھی یہ احساس ہی مسحور کن تھا۔ بُرہان تو بہت خُوش ہو گا۔ سبھی گِلے شِکوے دور ہو جائیں گے۔ اُن کا رِشتہ مضبوط ہو جائے گا۔ خُوشی چشمان کے چہرے سے پھوٹی پڑ رہی تھی۔ کلثوم بیگم بے اُس کی نظر اُتاری تھی۔ وہ سب کو بتانے باہِر کی جانِب بڑھیں تھی جب چشمان نے اُنہیں روکا تھا۔ وہ پہلے ڈاکٹر سے چیک اپ کروا کے کنفرم کروانا چاہتی تھی پِھر یی سب کو بتانا چاہتی تھی۔

کلثوم بیگم اُس کی بات سمجھتیں سر ہلا گئیں تھیں جبکہ فرازیہ اور عریحہ نے بھی ہاں میں سر ہلایا تھا۔


****************


اگلا دِن جہاں اپنے آنگن میں ریحان اور فرازیہ کے لیے بے شمار خُوشیاں لے کے آیا تھا وہیں وہ دِن چشمان کے لیے غم لایا تھا جِس سے فی الوقت وہ انجان تھی۔ بُرہان سارا دِن نِکاح انتظامات میں مصروف رہا تھا۔ اُس نے چشمان سے اُس دِن اے کوئی خاص بات نہیں کی تھی۔ چشمان نے اُس سے بارہا بات کرنے کی لوشش کی تھی مگر اُس کا سپاٹ اور سرد انداز دیکھ کر وہ چُپ کی چُپ رہ جاتی۔

اُس کا چہرہ دیکھ کر اندازہ لگانا مُشکِل تھا کہ اُس کے اندر کیا چل رہا ہے ہاں مگر اُس کی سیاہ آنکھیں ہمہ وقت سُرخ رہنے لگیں تھیں۔ جِس کی وجہ سے چشمان انجان تھی۔ دوپہر ایک بجے نِکاح کی رسم مُنعقد ہوئی تھی۔ قریبی مہمان آ چُکے تھے جو کہ زیادہ نہیں تھے۔

فرازیہ نے سُرخ رنگ کا غرارہ زیب تن کیا ہوا تھا۔ نفاست سے کیے میک اپ میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔ ریحان نے سفید شلوار قمیض زیب تن کیا ہوا تھا۔ اُس کے چہرے کی خُوشی اُس کی اندرونی کیفیت کا پتہ دے رہی تھی۔ نِکاح کی رسم کے بعد فرازیہ کو ریحان کے کمرے میں پہنچا دیا گیا تھا۔ جبکہ مہمانوں کے لیے کھانا کھول دیا گیا تھا۔ کھانے کے بعد سب مہمان اپنے اپنے گھروں کو جانا شروع ہو چُکے تھے۔ اِس سارے عرصے میں شام کے چار بج چُکے تھے۔ ریحان کو مُبارکباد دینے کے بعد سے بُرہان نظر نہیں آیا تھا۔ جانے کہاں گیا تھا وہ۔ کِسی کو پتہ بھی نہیں تھا کہ وہ ہے کہاں۔

رات کو آٹھ بجے کے قریب وہ گھر آیا تو اُس کے ہاتھ میں ایک لِفافہ تھا۔ ریحان اور فرازیہ کے عِلاوہ سب ہی سیکنڈ پورشن میں لاونج میں بیٹھے ہوئے تھے۔ چشمان بھی ایک طرف رضیہ بیگم کے ساتھ ہی براجمان تھی۔ بُرہان نے خاموشی سے لفافہ ٹیبل پر رکھا تھا اور سب کو اپنی طرف متوجّہ کیا تھا۔

"مُجھے آپ سب سے کُچھ کہنا ہے۔" اُس کی آواز پر سب نے چونک کر اُسے دیکھا تھا۔

"کہو کیا بات ہے؟" حماد صاحب نے اُس کے لہجے میں سنجیدگی محسوس کرتے کہا۔

"میں چشمان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتا میں اُسے طلاق دینا چاہتا ہوں یہ طلاق کے پیپرز ہیں۔" اُس نے ٹیبل پر پڑے لفافے کی طرف اِشارہ کرتے کہا تھا۔ اُس کی آواز تھی یا بم جو سب کی سماعتوں کو ہلا گیا تھا۔ چشمان جو آج اپنی سب سے بڑی خُوشی اُس سے شئیر کرنا چاہ رہی تھی ساکت بیٹھی رہ گئی تھی۔ طوفان سے ہہلے کی خاموشی کا اندازہ اُسے آج ہوا تھا۔

"کیا بکواس کر رہے ہو تُم؟ ہوش میں تو ہو؟" رضیہ بیگم چیخ کر اُٹھ کھڑی ہوئیں تھیں۔ ایک جھٹکے میں اُنہوں نے کاغذات پھاڑ کر پھینکے تھے۔

"آج ہی تو ہوش میں آیا ہوں۔ چشمان مہرے ساتھ خُوش نہیں ہے وہ میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی اِس لیے بہتر یہی ہے کہ ہم الگ ہو جائیں۔" اُس کی بات ختم ہوتے ہی حماد صاحب کا ہاتھ اُٹھا تھا اور بُرہان کا گال لال کر گیا تھا۔ اذہاد، عریحہ، کلثوم بیگم، شائستہ بیگم اور بڑی امّاں سب ہی سکتے میں تھے۔

"یی یہ کیا کہہ رہا ہے بُرہان؟" بڑی اماں نے چشمان کی طرف دیکھا جو نفی میں سر ہلا رہی تھی۔

"نن نہیں مم میں نہ نہیں یی یہ سب۔۔۔۔۔" اُس سے بات بھی مُکمّل نہیں ہوئی تھی۔ دِل کی دھکم پیل میں وہ بُری طرح بدحواس ہوئی تھی۔ یہ خیال ہی جان لیوا تھا کہ بُرہان اُسے چھوڑنے کی بات کر رہا ہے۔

"یہی سچ ہے۔ چشمان کِسی اور کو پسند کرتی ہے اور میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔ اُس لڑکے کا نام ارمان ہے اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ابھی بول ہی رہا تھا جب ایک اور تھپڑ اُس کا منہ لال کر گیا تھا اور یہ تھپڑ اُسے چشمان نے مارا تھا۔بُرہان نے سُرخ ہوتی نظروں سے اُسے دیکھا تھا۔ طیش سے اُس کا بُرا حال تھا۔

"جھوٹ ہے یہ سب جھوٹ۔" چشمان چیخی تھی اور پِھر بُرہان کا غُصّہ سب کے سامنے آیا تھا۔ بُرہان نے شروع سے لے کر آخر تک اُنہیں سب کُچھ بتا دیا تھا۔ جِسے سُن کر شائستہ بیگم تو دِل کو بہ مُشکِل سنبھالے صوفے ہر بیٹھ گئیں تھیں جبکہ اذہاد آنکھوں میں شرارے لیے بُرہان کو دیکھ رہا تھا۔

"دفعہ ہو جاو میری نظروں کے سامنے سے۔ ہمارے سامنے، ہماری آنکھوں کے سامنے بڑی ہوئی ہے یہ۔ ہمیں اِس پر پورا یقین ہے۔ میری بیٹی ایسا کبھی نہیں کر سکتی۔ میری بیٹی پر تُہمت لگانے کا حق کِس نے دیا تُمہیں؟ اِس سے پہلے کہ میں بھول جاؤں کہ تُم میرے بیٹے ہو نِکل جاؤ میرے گھر سے۔" حماد صاحب اُس پہ برسے تھے جب کہ شور کی آواز سُن کر ریحان بھی کمرے سے باہِر آتا اب صورتحال سمجھنے کی کوشش میں تھا۔

"ٹھیک ہے چلا جاؤں گا اور اب یہ ساری زِندگی میرے نام پر بیٹھی رہے گی۔ پہلے میں اِسے آزاد کرنا چاہتا تھا مگر اب جب آپ کو اپنے بیٹے سے زیادہ اِس پہ یقین ہے تو اب کبھی آزاد نہیں کروں گا۔" وہ دھاڑتا وہاں سے اپنے کمرے کی جانِب بڑھا تھا۔ اپنا سامان اور ضروری کاغذات لے کر وہ باہِر آیا تھا اور بغیر کِسی کی طرف دیکھے وہ سیڑھیاں اُترنے لگا۔

"بُرہان بیٹا کوئی غلط فہمی ہوئی ہو گی۔ تُم بھی جانتے ہو کہ مانو ایسی نہیں ہے . ایسی باتیں بیٹھ کر سُلجھائی جاتی ہیں۔" بڑی امّاں نے اُسے روکنے کی کوشش کی۔

"آنکھوں دیکھا کبھی جھوٹ نہیں ہوتا۔" بُرہان نے دوٹوک کہا تھا۔

"مگر بیٹا اب چشمان اکیلی نہیں ہے تُم ب۔۔۔۔۔۔۔۔" کلثوم بیگم ابھی بول ہی رہیں تھیں جب چشمان نے ڈبڈبائی آنکھیں لیے اُن کا ہاتھ تھام کر نفی میں سر ہلایا تھا جِسے سمجھ کر وہ بے بسی سے چُپ رہ گئیں۔

"بھائی گھر چھوڑ کر مت جائیں پلیز۔ ہم سب کُچھ کلئیر کر لیتے ہیں۔" ریحان نے اذہاد سے ساری بات پوچھ کے اُسے روکنا چاہا تھا۔

"اب بات سمجھنے سمجھانے کی حد سے بہت آگے نِکل گئی ہے۔ میں ایسی لڑکی کے ساتھ نہیں رہ سکتا جو کِس کے نِکاح میں ہو کر کِسی اور کی مُحبّت دِل میں رکھے۔ آج سے آپ لوگ یہی سمجھیے گا کہ بُرہان آپ لوگوں کے لیے مر گیا۔" کہہ کر وہ رُکا نہیں تھا بلکہ گھر سے ہی نِکل گیا جبکہ چشمان اب دھاڑیں مار مار کر رونے لگی تھی جِسے سنبھالنا مُشکِل ہونے لگا تھا۔ پِلر کی اوٹ سے سُنتی فرازیہ بہ مُشکِل اپنے آنسو روکے اُس تک آئی تھی۔ وہ اِس وقت سادے سے لِباس میں ملبوس تھی۔ عریحہ اور فرازیہ نےچشمان کو سنبھالا اور کمرے کیں کے گئیں۔ جبکہ حماد صاحب نے شائستہ بیگم کے آگے ہاتھ جوڑ دئیے۔ جِسے دیکھ کر وہ تڑپ کر نفی میں سر ہلاتیں نیچے کی جانِب بڑھ گئیں۔ کلثوم بیگم اور آذہاد اُن کے پیچھے گئے تھے۔

کیسی نے چشمان سے صفائی نہیں مانگی تھی۔ کِسی نے چشمان کو بُرا بھلا نہیں کہا تھا۔ سب کو یقین تھاا کہ اُن کی چشمان ایسی نہیں ہے مگر جِس کو یقین کرنا چاہیے تھا اُسی نے نہیں کیا تھا۔ جِس کا دُکھ چشمان کو اندر ہی اندر سے مار رہا تھا۔ فرازیہ نے چشمان کو دودھ میں نیند کی گولی ڈال کر دے دی تھی جِس کی وجہ سے وہ روتی روتی سو گئی تھی۔ عریحہ چشمان کے کمرے میں رُک گئی تھی جبکہ اُس نے فرازیہ کو واپس بھیج دیا تھا۔


*******************


حال:

چشمان ساکت سی بیٹھی روئی جا رہی تھی جب ریحان کمرے میں داخل ہوا۔ وہ اُسے یُوں روتے دیکھ کر چونکا تھا۔ تیز کی تیزی سے وہ اُ سکے پاس آتا اُس سے پوچھنے لگا تھا جِس ہر اُس نے روتے ہوئے فون کال کا بتایا تھا۔ ریحان ہقّا بقّا رہ گیا تھا ایسا کیسے ہو سکتا تھا؟ وہ چشمان کا فون تھامتا باہرِ کی جانِب بڑھا تھا۔ اذہاد کو ساتھ لے کے وہ ہاسپِٹل کے نِکل گیا تھا۔ حماد صاحب کو وہ فون کر ساری صورتِحال بتا چُکا تھا۔

حماد صاحب پریشان ہوتے گھر آ گئے تھے۔ ریحان نے گھر میں کِسی کو بھی بتانے سے منع کیا تھا۔

ہاسپِٹل پنچ کر ہولیس اُنہیں سرد خانے میں کے گئی تھی جہاں پہ بُرہان کی ڈیڈ باڈی رکھی ہوئی تھی۔ پولیس کے مُطابِق کار کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا جِس کی وجہ سے سلنڈر پھٹ گیا تھا اور گاڑی کو آگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ باڈی مُکمّل طور پر جل چُکی تھی اور شناخت نا مُمکن تھی۔ کار کے نمبر اور کُچھصحیح سلامت بچا ہوا سامان دیکھ کر ریحان کی ساری اُمیدیں دم توڑ گئیں تھیں۔ وہ والٹ بُرہان کا تھا۔ کار بھی بُرہان کی تھی مطلب وہ بُرہان کی ہی ڈیڈ باڈی تھی۔

نم آنکھیں لیے اذہاد کے ساتھ وہ پولیس کی کاغذی کاروائی کے بعد ڈیڈ باڈی کو گھر لے آیا تھا۔ ایمبولنس میں وہ خُود تھا جب کہ گاڑی میں اذہاد آیا تھا۔

ایمبولینس کی آواز سُنتے سب ہی کمروں سے باہِر آئے تھے۔ بڑی امّاں، شائستہ بیگم اور فرازیہ نیچے والے پورشن میں آ گئیں تھیں۔ عریحہ رضیہ بیگم کے پاس تھی۔ وارڈ بوائز اسٹریچر سے ڈیڈ باڈی کو مُنتقِل کرنے کے بعد وہ واپس جا چُکے تھے جبکہ حماد صاحب جُھکے کندھوں کے ساتھ بُرہان کی لاش کے پاس نیچے بیٹھے تھے۔ سبھی حیرانی اور سوالیہ نظروں سے اُنہیں دیکھ رہے تھے جِس پر اذہاد نے روتے ہوئے اںہیں بُرہان کی موت کے بارے میں بتایا تھا۔

رضیہ بیگم کو ابھی کِسی نے نہیں بتایا تھا۔ چشمان آہستہ سے سیڑھیاں اُترتی نیچے آئی تو نظر سامنے رکھی میت پر پڑی۔ اُس کا دِل کُرلا اُٹھا تھا۔ دِل پہ جو بے حِسی کا خول چڑھایا تھا ایک دم ٹوٹا تھا۔ آنکھوں سے آنسو بہتے اُس کے گالوں کو پِھر سے بھگو گئے تھے۔ وہ تب سے رو رہی تھی جب سے فون کال آئی تھی۔ پہلے وہ بے یقین سی تھی مگر اب ڈیڈ باڈی دیکھ کر وہ اپنی جگہ سے ہِل بھی نہیں پائی تھی۔

مرے مرے قدم اُٹھاتی وہ بُرہان کی میت کے پاس آئی تھی۔ دوزانوں بیٹھ کر اُس نے کانپتے ہاتھوں سے میت کے چہرے سے چادر ہٹائی تھی مگر پِھر چیخوں کا ایک سِلسلہ تھا جو چشمان کے حلق سے برآمد ہوا تھا۔ مسلسل چیختی، روتی، گِریہ وزاری کرتی وہ بس ایک ہی بات کہے جاتی تھی کہ یہ اُس کا بُرہان نہیں ہو سکتا۔ مگر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ موت تو برحق ہے جو اپنے وقت پہ آ کر رہتی ہے۔

نیچے سے جانے والی چیخوں کی آواز پر عریحہ بھاگتے ہوئے نیچے آئی تھی اور پِھر وہ چشمان کو پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھ خُود بھی بے اختیار رونے لگی تھی۔ ریحان اوپر جا کر رضیہ بیگم کو سنبھالنح لگا تھا جو نیچے آنے کی کوشش میں تھیں۔ چشمان کی حالت قابلِ رحم تھی۔ نفی میں سر ہلاتی وہ بس روئے جا رہی تھی اور اب شاید یہی رونا اُس کا مُقدّر تھا۔

ماضی:

اگلے دِن کلثوم بیگم نے سب کو ہی چشمان کے اُمید سے ہونے کی خبر دے دی تھی۔ جِس پر سب لوگ خُوش ہوئے تھے مگر بُرہان کا کیا سب کو خُوش بھی نہیں ہونے دے رہا تھا۔ ریحان نے بُرہان کا نمبر کئی بار ٹرائی کیا تھا مگر اُس کا فون بند گیا تھا۔ چشمان سے کِسی نے بھی صفائی نہیں مانگی تھی مگر اگلے دِن اُس نے سب کو شروع سے لے کر آخر تک بُرہان کے رویے اور شک کے بارے میں بتا دیا تھا۔ ہاں بُرہان نے ہاتھ اُٹھایا اور رُخصتی سے پہلے اُسے بیوی کا درجہ دیا تھا یہ بات وہ گول کر گئی تھی جانے کیوں؟

بُرہان کے جانے کے بعد سب کُچھ بدل گیا تھا۔ جِس گھر میں چشمان کی ہنسی مذاق کی آواز گونجتی تھی اب وہاں خاموشیوں کا ڈیرا تھا۔ سب ہی اُس کے غم کو خُود ر محسوس کر رہے تھے۔ رضیہ بیگم کو بُرہان کے رویے اور باتوں سے چشمان کی ایک ہی بات یاد آئی تھی جب اُس نے رضیہ بیگم سے کہا تھا کہیں آپ کا کہا اُس پر نا پلٹ آئے۔ اور سچ میں اُن کا کہا چشمان کو بُھگتنا پڑ رہا تھا۔ وہ اپنی سوچ پر شرمِندہ ہوتیں فرازیہ سے معافی مانگ چُکیں تھیں اور اُسے دِل سے بہو بھی مان چُکیں تھیں۔ فرازیہ تو اِس کایا پلٹ پر خُوش بھی تھی اور حیران بھی۔

چشمان کی زِندگی جیسے رُک سی گئی تھی اُسے کبھی کبھی یقین نا آتا تھا کہ اُس کی اچھی بھلی ُپرسکون زِندگی میں ایسا بھی ہو سکتا تھا۔ دِن رات سوچوں میں کُڑھتی وہ پہلے کمزور لو گئی تھی مگر فرازیہ اور ریحان کے سمجھانے پر وہ اپنی اولاد کے لیے سنبھل گئی تھی۔ ہاں مگر اُس کی خاموشی پہلے جیسی چہچہاہٹ میں نہیں بدل سکی تھی۔

نو ماہ بعد اُس نے ایک خُوبصورت سے بیٹے کو جنم دیا تھا جِس کی آنکھیں اور ناک تو باپ کی طرح کے تھے جبکہ چہرے کے نین نقوش چشمان کے جیسے تھے۔ وہ اُسے پا کر خُوش تھی مگر اُس کی پیدائش کے دِن وہ بہت روئی تھی ایک آخری مرتبہ وہ بُرہان کو روئی تھی۔ آج اُس کے بیٹے کا باپ اُس کا ساتھ نہیں تھا مگر اُس نے خُود سے عہد کیا تھا کہ کبھی اُسے باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دے گی۔ اُس نے اپنے بیٹے کا نام شاہان رکھا تھا۔ جِس میں اُس کے ساتھ ساتھ بُرہان کے نام کے بھی حروف شامِل تھے۔

شاہان بڑا ہونے لگا تھا وہ اکثر اپنے بابا کا پوچھتا جِس پر چشمان نے اُسے بُرہان کی کئی تصویریں تھما دیں تھیں جِن کو وہ دیکھ دیکھ کر خُوش ہوتا رہتا تھا۔ شاہان کی چھوٹی چھوٹی باتیں اور ننھی سی جان ہی تھی جو چشمان کو جینے کا آسرا دئیے ہوئے تھی۔

شاہان دو سال کا تھا جب کلثوم بیگم کی وفات ہو گئی تھی۔ تب فرازیہ اور عریحہ کو باقی سب نے ہی مِل کر سنبھالا تھا۔ فرازیہ کی زِندگی اب ریحان کی سنگت میں اچھی گُزر رہی تھی۔ وہ خپوش نصیب تھی کہ اُس نے جِسے چاہا تھا وہ اُس کو نا صِرف مِل گیا تھا بلک وہ اُس سےمُحبّت بھی کرتا تھا۔

دِن ہفتوں میں، ہفتے مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدلتے گئے تھے۔ مگر نا بُرہان سے رابطہ ہو سکا نا ہی وہ واپس آیا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کہاں گیا تھا۔ اب تو چشمان نے اپنے دِل کو پتھر کر لیا تھا کہ وہ واپس آ بھی جائے تو وہ اُس سے کوئی رِشتہ نہیں رکھے گی۔ وہ سب کے سامنے اُس کے کِردار ہر سوال اُٹھا گیا تھا تو وہ کیسے اُس کم ظرف شخص کے ساتھ رہتی۔


***************


بُرہان نے یہ فیصلہ یُوں ہی نہیں کیا تھا۔ چشمان کو ارمان کے ساتھ ایک بار پِھر دیکھ کر وہ بہت کُچھ سوچنے پر مجبور ہو گیا تھا۔ اِتنی سختی، اِتنی پابندی کے باوجود وہ ارمان کے ساتھ تھی اِس کا تو یہی مطلب تھا نا کہ وہ اُس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔ اِن سب باتوں کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اُس نے چشمان کو آزاد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ میں چاہتا تھا کہ وہ زبردستی چشمان کو اپنے ساتھ جوڑے رکھے۔ اِسی لیے اُس نے سب کے سامنے اپنا فیصلہ سُنایا تھا مگر کِسی نے اُس کا ساتھ نہیں دیا تھا بلکہ چشمان کا ساتھ دیا تھا۔ چشمان کے مارے گئے تھپڑ کی وجہ سے وہ غُصّے میں بغیر اُسے آزاد کیے وہاں سے آ گیا تھا۔

گھر چھوڑنے کے بعد وہ اپنے دوست احراز کے پاس آیا تھا۔ اُس نے ایک فلیٹ کرائے پر لے لیا تھا جہاں پہ وہ رہتا تھا۔ اُس کا واپس جانے کا کوئی اِرادہ نہیں تھا جاتا بھی کِس لیے؟ وہ تو سب کی نظروں میں جھوٹا تھا۔

اُس نے احراز کے ساتھ بِزنس میں پارٹنر شِپ کر لی تھی۔ چشمان کی یادوں سے پیچھا چُھڑانے کی خاطِر وہ ایک میشین بن گیا تھا جِسے ہر وقت کبس کام ہی سوجھتا تھا۔ وہ جو یہ سمجھتا تھا کہ چشمان سے وہ کبھی مُحبّت نہیں کر سکے گا چار مہینوں میں ہی وہ جان گیا تھا کہ چشمان کی مُحبّت اُس کی رگوں میں دوڑنے لگی ہے۔ بارہا اپنے خیالات کو جُھٹلاتے وہ چشمان کولی یادوں کو نظرانداز کرنے لگا تھا مگر اُسے وہ ہر جگہ نظر آتی تھی، کبھی اُس سے ٹکراتی ہوئی، کبھی اُس کی نقل اُتارتی، کبھی اُس کے لیے چائے لاتی ہوئی، کبھی اُسے کڑوا کریلا پُکارتی ہوئی۔ وہ ہر جگہ تھی اُس کے ساتھ اور اُس کے پاس۔

کبھی کبھی اُسے لگتا وہ غلط کر رہا ہے اور کبھی لگتا کہ وہ صحیح تھا۔ اپنے دِل و دِماغ کی جنگ میں وہ اُلجھ کر رہ گیا تھا۔ کبھی اُس کا دِل کرتا کہ اُڑ کر واپس چلا جائے اور ہر بات بُھلا کر نئی شُروعات کرے مگر پِھر اپنے ہی خیالات کی نفی کر دیتا۔ سارے دروازے وہ بند کر آیا تھا اب پیچھے مُڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ کرتے کرتے تین سال کا عرصہ گُزر چُکا تھا مگر کُچھ بھی تو نہیں بدلا تھا وہ بھی وہیں تھا اور اُس کا دِل بھی۔ ہاں اُس کی مُحبّت جو اُسے چشمان کے ساتھ ہوتے ہوئے سمجھ نہیں آئی تھی اب چشمان سے دور ہو کے سمجھ آ گئی تھی۔ اُس کے دِل میں چشمان کی مُحبّت بستی تھی اِس بات کا احساس بہت دیر سے ہوا تھا اُسے۔

یہ بھی عام دِنوں سا ہی دِن تھا جب وہ یُوں ہی پیدل چلتا جا رہا تھا۔ اِردگِرد سے بے نیاز بس خُود میں مگن۔ جب کِسی نے اُسے پیچھے سے آواز دی تھی۔ وہ چونک کر پلٹا تھا اور اپنے پیچھے کھڑے اکیس بائیس سال کے لڑکے کو دیکھنے لگا تھا جو اُسے کُچھ دیکھا بھالا سا لگا تھا اور غور کرنے پر وہ اُسے پہچان بھی گیا تھا۔ وہ ارمان تھا جِس کا حُلیہ پہلے سے کافی بدل گیا تھا۔ پہلے وہ کلین شیو تھا اور اب اُس کے چہرے پر بئیرڈ اور سنجیدگی کو اضافہ وہ چُکا تھا۔ بُرہان اُسے نظر انداز کرتے واپس مُڑنے لگا تھا جب ارمان کی اِلتجائی آواز پر وہ رُکا تھا۔

"مُجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے سر! پلیز کُچھ وقت دے دیں۔" وہ درخواست کرنے لگا تھا۔

"مُجھے تُم سے کوئی بات نہیں کرنی۔ بہتر ہے کہ یہاں سے اپنی شکل گُم کرو۔" بڑہان نے دانت پیس کر کہا تھا۔ بس نا چلتا تھا کہا ِس لڑکے کو اپنے سامنے سے غائب کر دے جِس کی بدولت آج وہ اپنوں سے دور تھا۔

"میں جانتا ہوں کہ آپ بھی مُجھ پر بہت غُصّہ ہوں گے۔ مِس تو بہت زیادہ غُصّہ ہوں گی۔ میرے منہ پہ بھلے ہی وہ مُجھے معاف کر چُکی ہوں مگر میرا دِل سکون میں نہیں ہے۔ میں اُن سے معافی مانگنا چاہتا ہوں مگر پِچھلے تین سال سے اُن کے سامنے جانے کی ہمّت ہی نہیں ہوئی۔" ارمان اُس کے چہرے پر غُصّے بھرے تاثرات دیکھتا جلدی سے بول رہا تھا۔

"بکواس بند کرو اور دفعہ ہو میرے سامنے سے۔" بُرہان چیخا تھا۔

"میں جانتا ہوں کہ ساری میری غلطی ہے۔ میری بُری صحبت کی وجی سے مِس کو بہت بدنامی کا سامنا کرنا پڑا وہ تو مُجھے اپنا چھوٹا بھائی کہتیں تھیں مگر میری وجہ سے اُنہیں جیل جانا پڑا وہ بھی اِتنے گھٹیا اِلزام میں۔ مگر یہ سب میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا۔ میرے دوستوں نے اُنہیں جان بوجھ کر میسج کر کے بُلایا وہ تو بس میری فِکر میں وہاں چلی آئیں۔ میں اُس کے ساتھ ساتھ آپ سے بھی معافی مانگنا چاہتا ہوں۔ وہ آپ کی عِزّت ہیں اور میری وجہ سے اُن کو اِتنا سب کُچھ جھیلنا پڑا۔ وہ تو اُن کی قِسمت اچھی ہے کہ اُنہیں آپ مِلے جو اُنہیں وہاں سے نِکال لائے ورنہ شاید میں خُود سے بھی نظریں نا مِلا پاتا۔" یہ ارمان کیا کہہ رہا تھا؟ مطلب جو کُچھ چشمان نے کہا وہ سچ تھا مگر اُس نے اپنے غُصّے میں اُس کی کوئی بات ہی نہیں سُنی اور اُسے سزا دیتا رہا۔

"بب بھائی؟" بُرہان بس یہی بول پایا۔

"ہاں وہ مُجھے چھوٹا اذہاد کہتیں تھیں میرے لیے وہ ہمیشہ گھنا سایہ بنی رہیں۔ وہ سچ میں بہت اچھی ہیں۔ وہ آپ کی بیوی ہیں آپ کی بات ضرور مانیں گی۔ پلکہ پلیز اُن سے کہیے گا کہ مُجھے معاف کر دیں۔" ارمان نے کہا تو وہ بس سر ہلا سکا۔ کُچھ تھا ہی نہیں اُس کے پاس کہنے کو بس پچھتاوا تھا جو اُس کے دِل کو کچوکے لگا رہا تھا۔ ارمان تو چلا گیا تھا مگر اُس کو آندھیوں کی زد میں چھوڑ گیا تھا۔

پِھر بُرہان کی زِندگی کو پچھتاوں نے آن گھیرا تھا۔ مگر کوئی فائدہ نہیں تھا جو ہو چُکا تھا اُسے بدلا نہیں جا سکتا تھا۔ احراز اُسے اکثر سمجھاتا کہ وہ گھر لوٹ جائے مگر وہ شرمندگی میں ڈوبا گھر والوں کا سامنا کرنے کا حوصلہ بھی نہیں رکھتا تھا۔ اِس طرح کرتے کرتے ایک اور سال گُزر گیا تھا۔ وہ روز اپنے گھر کے سامنے جاتا تھا اور بغیر اندر داخِل ہوئے واپس آ جاتا تھا۔ اِس عرصے میں گھر میں کیا ہوا تھا اِس سب سے ناواقف تھا وہ۔

پِھر اُس کی مُلاقات شاہان سے ہوئی تھی۔ شاہان اُسے اپنا اپنا سا لگا تھا۔ شاہان کے ذرہعے ہی وہ چشمان سے مِلا تھا اور پِھر وہ گھر آ گیا تھا۔ چشمان کی ضد گھر والوں کا اُس کا ساتھ دینا اُسے حق بجانے لگتا تھا مگر وہ معافی مانگ رہا تھا۔ وہ شرمندہ تھا۔ اپنے لیے معافی چاہتا تھا جو اُسے مِل نہیں رہا تھا۔ وہ صِرف شاہان کے لیے نہیں آیا تھا بلکہ چشمان سے مُحبّت میں آیا تھا۔ وہ تو افسردہ تھا کہ اپنے بچّے کے پہلے اُٹھتے قدم نہیں دیکھ پایا تھا۔ اُس کی ننھی ننھی قِلقاریاں نہیں سُن پایا تھا۔ اُس کے سودوزیاں کا حِساب تو بس وہ ہی لگا سکتا تھا۔ چشمان کا رویہ اُس کے ساتھ حد سے زیادہ تلخ تھا وہ اُس کی کِس بات سے اِنکاری نہیں تھا۔ پِھر اُس کی شاہان کی کسٹڈی کیس کے بارے میں سُن کر وہ ہتھے سے اُکھڑ گئی تھی۔ اُس کا مقصد اُسے واپس اپنی زِندگی میں لانا تھا نا کہ شاہان کو اُس سے چھیننا۔ اِسی لیے اُس نے شاہان کی دھمکی دی تھی مگر وہ بات بُری طرح بِگڑ جائے اُس نے سوچا بھی نہیں تھا۔ چشمان کو اُس نے کبھی ویسے نہیں مارا تھا جیسے اُس نے کہا تھا۔ اُن تین تھپڑوں کے عِلاوہ اُس نے کبھی اُس پر ہاتھ نہیں اُٹھایا تھا۔ وہ مانتا تھا کہ اُسے اُس پر ہاتھ نہیں اُٹھانا چاہیے تھا مگر وہ غُصّے میں بے قابو ہو گیا تھا۔

اُس نے چشمان کی کِسی بات کی تردید مہیں کی تھی اگر اِسی سے اُس کا غُصّہ، اُس کی نفرت کم ہوتی تھی تو ایسے ہی سہی۔ مگر پِھر یہ سب سُن کر رضیہ بیگم کی طبیعت خراب ہو گئی تھی۔ پِھر بھی اُس نے کِسی سے کُچھ نہیں کہا تھا۔ اُن کی خراب حالت کا ذِمہ دار بھی بُرہان کو مانا گیا تھا اور چشمان اب بھی اپنے فیصلے پر قائم تھی۔ وہ اپنے کیے پر شرمِندہ تھا اور ایک موقع تو خُدا بھی دیتا ہے۔ وہ بھی ایک موقعے کی تلاش میں تھا جو اُسے نہیں مِلا تھا اور پِھر چشمان کی خُواہش پر وہ گھر چھوڑ گیا تھا۔ تا کہ وہ خُوش رہے جِس کی خوشی اب اُسے خُود سے زیادہ عزیز تھی۔


*******************


حال:

رضیہ بیگم کو بھی بُرہان کی موت کے بارے میں پتہ چل چُکا تھا۔ وہ کِسی سے سنبھالے نہیں سنبھل رہیں تھیں۔ ریحان اُنہیں احتیاط سے تھام کر نیچے لے آیا تھا جہاں سب موجود آنسو بہا رہے تھے۔ شائستہ بیگم چشمان کو سنبھال رہیں تھیں جو اب دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھی رو رہی تھی۔ آنسو بھری آنکھیں بُرہان کی سفید چادر میں لِپٹی لاش پر ٹِکی تھیں۔

رضیہ بیگم ریحان کے سہارے چلتیں بُرہان تک آئیں تھیں اور پِھر ایک دم سے ڈھے گئیں تھیں۔ وہ وقت کو موڑ دینا چاہتیں تھیںگر یہ اُن کے بس میں نہیں تھا۔ کیا تھا جو وہ اِتنا سخت رویہ اختیار نا کرتیں۔ کیا تھا جو وہ اُسے معاف کر دیتیں تو آج وہ بھی ہنسی خُوشی اُن کے ساتھ ہوتا۔ لامتناہی سوچیں تھیں جو اُن کے ذہن میں گونجتیں اُن کو رُلا رہیں تھیں۔

بڑی امّاں الگ غمزدہ تھیں۔ پہلے بیٹا پِھر بیٹی اور اب پوتا۔ اِس عُمر میں اُنہوں نے اِتنے غم دیکھ لیے تھے کہ اب تو وہ تھکنے لگیں تھیں۔ عریحہ اور فرازیہ بھی رضیہ بیگم کے پاس بیٹھیں اشک بار تھیں۔ ابھی وہ سب اپنے اپنے غم میں ڈوبے ہوئے ہی تھے جب پژمردہ سا چہرہ لیے شاہان ہاتھ میں فون پکڑے نیچے آتا دِکھائی دیا۔ اذہاد تیزی سے اُس کی جانِب بڑھا مگر وہ تیزی سے چشمان کے پاس آیا اور اُس کے گُھٹنوں سے بازو ہٹاتا اُس کک گود میں بیٹھ گیا۔ چہرہ ماں کی طرف موڑ رکھا تھا۔

"ماما! بابا کو فون نہیں لگ لہا۔ آپ دوسلا والا نمبل مِلا کے دیں نا مُجھے۔ یہ نمبل بند جاتا ہے۔" وہ اُس کے سامنے فون لہراتا روہانسا چہرہ لیے بولنے لگا جب کہ اُس کی فرمائش چشمان کا کلیجہ چیر گئی تھی۔ وہ اپنے جِگر گوشے کو کیسے سمجھاتی کہ اب اُس کے بابا کبھی فون نہیں اُٹھائیں گے۔ وہ اُسے خُود میں بھینچتی اور زیادہ رونے لگی تھی۔

"ماما کیا ہوا؟ لو کیوں لہیں ہیں؟ بابا غُصّہ ہیں کیا؟ میں منا لوں گا آپ فون تو کلیں نا اُنہیں۔ وہ میلی بات ضلول (ضرور) مان جائیں گے۔" وہ اپنے ننھے مُنھے ہاتھوں سے اُس کے آنسو پونچھتا بولا۔ چشمان کو ابھی بھی اُس کا جِسم ہلکا ہلکا تپتا محسوس ہوا تھا۔

"بابا نے کہا کہ وہ خُود فون کریں گے۔ آپ جاؤ جا کے ریسٹ کرو۔ بابا نے کہا تھا کہ شاہان کو بالکُل ٹھیک ہونا چاہیے۔ پِھر وہ

شاہانکے لیے ڈھیر ساری چاکلیٹ لے کے آئیں گے۔" چشمان نے اُسے بہلایا۔

"سچی بابا نے ایسا کہا؟ میں ابھی جا کل لیسٹ (ریسٹ) کلوں گا۔ پِھل میں ٹھیک ہو جاؤں گا اول بابا چاکلیٹ لائیں گے۔"

وہ سب کے غم سے بے نیاز چہک کر بولا تھا۔

"ہاں اب آپ جاؤ آرام سے سو جاؤ۔" چشمان۔نے کہا تو وہ نفی میں سر ہلا گیا۔

"میں ہانی پاس جاتا ہوں میں اُس کے ساتھ کھیلوں گا۔" وہ اُس کے ہاتھ سے فون اُچکتا سیڑھیوں کی طرف بھاگ گیا۔ اُسے کِسی اور سے غرض نا تھی وہ بس باپ کو چاہتا تھا جو اُسے ابھی اپنے سامنے چاہیے تھا۔ اُس نے کِسی سے نہیں پوچھا تھا کہ وہ رو کیوں رہے ہیں؟ بس باپ کا پوچھ کر وہ واپس چلا گیا تھا۔

چشمان کو آج احساس ہوا تھا کہ اُس کا بیٹا اپنے باپ کو بہت چاہتا ہے مگر شاید اُس کا باپ ہی اب کبھی اُس کے پاس نہیں آ سکے گا۔

آہستہ آہستہ قریبی رِشتہ دار آنا شروع ہو چُکے تھے۔ سب ہی اِتنی جوان موت پر افسردہ تھے۔ سب گھر والوں کو صبر کی تلقین کرتے وہ لوگ قُرآن خوانی بھی کرنے لگے تھے۔ سب مرد حضرات باہِر تھے جبکہ خواتین اندر ہال میں تھیں۔ تقریباً چار بجے جنازہ اُٹھا تھا۔ چشمان کا بس نا چلتا تھا کہ ایک دفعہ یہ ابدی نیند سویا شخص اُٹھے اور وہ اُسے معافی کا پروانہ دے دے۔ مگر اب تو یہ ناممکن تھا جب وہ زِندہ تھا تب اُس کی معافی بھی قبول نہیں تھی اور اب مر گیا تھا تو وہ اُسے ایک موقع دینا چاہ رہی تھی۔

ریحان، اذہاد اور حماد صاحب جنازے کے لیے جا چُکے تھے جبکہ چشمان وہاں سے اُٹھتی اوپر والے پورشن میں اپنے کمرے میں جا کر بند ہو گئی تھی۔ وہ کمرہ جہاں وہ بُرہان کے ساتھ اور بُرہان کے بعد رہتی تھی۔ اور اب اُسے ہمیشہ یہاں اکیلے ہی رہنا تھا۔ شاہان نیچے فرازیہ کے کمرے میں ہانیہ کے ساتھ تھا۔ وہ بیڈ کے ساتھ نیچے لگ کر بیٹھتی روتی چلی گئی تھی۔ وہ۔خای ہاتھ خالی دامن رہ گئی تھی۔ کُچھ بھی تو نہیں بچا تھا اُس سکے پاس۔

کیا اُس نے غلط کیا تھا بُرہان کو ایک موقع نا دے کر؟ کیا اُسے بُرہان کو سزا نہیں دینی چاہیے تھی؟ کیا وہ گُنہگار تھی؟ اُسے بُرہان کی بات یاد آئی جب اُس نے کہا تھا کہ تُمہاری زِندگی میں کوئی بہت اچھا اِنسان آئے۔ تو کیا وک بُرہان کو بھول کر آگے بڑھ سکتی ہے؟ اُس نے بے ساختہ اپنے دِل سے ہوچھا تھا اور دِل نے ایک ہی جواب دیا تھا کہ نہیں۔ وہ جیسا بھی تھا جِتنا بُرا سہی مگر وہ اُس کا شوہر تھا اُ سکے بچّے کا باپ۔ جِس سے وہ چاہ کر بھی نفرت نہیں کر پائی تھی ہاں خُود پر بے حِسی کا ایک خول چڑھا لیا تھا جو بُرہان کی موت کے ساتھ ایک دم اُترا تھا۔ مگر اب تو یہ سب بے سود تھا۔


****************

بُرہان کی موت کو ایک مہینہ گُزر گیا تھا۔ رضیہ بیگم کی طبیعت پہلے سے زیادہ خراب رہنے لگی تھی۔ وہ ہر وقت بُرہان کو یاد کر کے روتی رہتیں تھیں۔ شائستہ بیگم اور فرازیہ اُنہیں سمجھاتے تھک جاتیں مگر وہ صِرف اپنے بیٹے سے مِلنا چاہتیں تھیں۔ حماد صاحب ایک دم سے بوڑھے لگنے لگے تھے۔ جوان بیٹے کو کھو کر وہ بھی غم میں ڈوب چُکے تھے۔ اذہاد کو نوکری مِل چُکی تھی اور وہ اب روز آفس جاتا تھا۔ فرازیہ اکثر چشمان کے پاس ہوتی جو اب خاموش رہتی تھی۔ شاہان جو ر وقت فون اپنے پاس رکھتا تھا اب خاموش سا ہو کر رہ گیا تھا۔ نا پہلے کی طرح چہچہاتا نا ہی باتیں کرتا۔ کبھی گھنٹوں فون پکڑ کر گھورتا رہتا اور کبھی فون ٹرائی کرتا رہتا۔

چشمان کو کِسی کا کوئی ہوش نا تھا۔ فرازیہ ہی شاہان کو بھی سنبھال رہی تھی۔ فرازیہ کو چشمان پہ ترس آتا تھا۔ جب بُرہان زِندہ تھا تب اُس کو دیکھنا بھی گوارا نہیں تھا اور اب وہ اُسے یاد کر کے روتی رہتی تھی۔ اُس نے ریحان سے بات کی تھی کہ شاہان کو سکول میں داخِل کروا دیا جائے تا کہ وہ اِس گُھٹن زدہ سے ماحول سے باہر نِکلے جِس پہ اُس نے مُثبت جواب دیا تھا۔

چشمان باہِر سے روم میں آئی تو اُسے کِسی کی سِسکیوں کی آواز سُنائی دی۔ وہ پریشان سی ہوتی آگے بڑھی او رپِھر اُس کی نظر بیڈ کی دوسری جانِب گُٹھری کی مانند بیٹھے شاہان پر پڑی جس کا وجود ہِچکیاں لیتا ہوا ہِل رہا تھا۔ وہ تڑپ کر اُس کے پاس پہنچی اور اُسے سیدھا کر کے اپنے سامنے کیا۔ شاہان کا چہرہ آنسووں سے تر تھا جبکہ سیاہ آنکھیں رونے کے باعث سُرخ ہو رہیں تھیں۔ اپنے لاڈلے کی یہ حالت دیکھ کر اُس کے دِل پر چُھریاں چلیں تھیں۔

"ہانی! میری جان کیا ہوا ہے؟ رو کیوں رہے ہیں آپ؟ کِسی نے کُچھ کہا ہے؟" وہ اُس کے چہرے سے آنسو پونچھتی اُس سے پوچھنے لگی۔

"کِسی نن نے کک کُچھ نہیں کک کہا۔ مم میں لو لہا ہوں۔" وہ آنکھیں مسلتا ہوا بولا اور چہرہ چشمان کی گردن میں چُھپا لیا۔

"پِھر میرا بچّہ رو کیوں رہا ہے؟ ماما کو بتاؤ؟" چشمان نے اُس کے بال سہلاتے نرمی سے پوچھا۔

"مم ماما بب بابا مل (مر) گئے؟ مم میں بابا کے لل لیے لو لہا ہوں۔ وہ اب کبھی نن نہیں آئیں گگ گے۔" شاہان کی بات پر اُس کا دِل دھک رہ گیا تھا۔

"یی یہ آپ سے کک کِس نے کہا؟" اُس کا لہجہ کانپ گیا تھا۔

"دادو کک کہ لہیں تت تھیں کک کہ بب بُلہان مل گیا۔ وہ اب کک کبھی نن نہیں آئے گا۔ بب بُلہان میلے بابا ہیں نا۔ وہ مم مل گئے ماما۔" وہ ایک بار زور سے روتا اُس کی گردن بھگونے لگا۔

"نن نہیں میری جان! وہ آپ کے بابا کے بارے میں نہیں کہہ رہیں تھیں وہ کوئی اور تھا۔ آپ کے بابا بہت جلدی آئیں گے ہمارے پاس۔" وہ نم آنکھیں لیے اُس کا ماتھا چو کر بولی۔

"پپ پِھل و وہ فف فون کیوں نہیں اُٹھاتے۔ مم مِلنے کیوں نیں آتے؟ وہ شاہان کک کو یاد نہیں کلتے؟ شش شاہان سے پیار نہیں کلتے؟" وہ سراپا سوال تھا جِس کا جواب چشمان کے پاس نہیں تھا۔

"وہ شاہان سے بہت پیار کرتے ہیں۔ وہ بہت جلد آ جائیں گے اور آپ کے لیےڈھیر سارے کِھلونے اور گِفٹس بھی لائیں گے۔ بس آپ نے اب رونا نہیں ہے۔" وہ ایک پِھر اُسے خُود سے لِپٹا کر بہلاتے ہوئے بولی۔

"مُجھے گِفٹس نہیں چاہیے۔ بب بابا چاہیے۔ اُن سے کک کہیں کہ وہ آ جج جائیں پلیز ماما۔" وہ اِلتجا کرنے لگا تو وہ آنسو اپنے حلق میں اُتارتی سر ہلا گئی۔

"میں اُن سے کہوں گی کہ جلدی آ جائیں اپنے شاہان کے پاس۔" اُس نے تسلّی دی تو وہ اُس سے لِپٹ کر آنکھیں موند گیا۔ کِتنی ہی دیر وہ اُسے گود میں لیے نیچے بیٹھی رہی۔ وہ سو گیا تو وہ اُسے احتیاط سے اُٹھاتی بیڈ پر لِٹا کر خُود بھی پاس بیٹھ گئی۔ اُس کی نظریں بُرہان کے فوٹو فریم پر جمیں تھیں جو سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہوا تھا۔ اُس نے بے اِختیار اُسے پکڑا اور اُس کی ہنستی مُسکراتی تصویر پر اُنگلیاں پھیرنے لگی۔

"اِتنی جلدی ہار مان گئے؟ اِتنی جلدی پیچھے ہٹ گئے؟ میں نے معاف نہیں کیا تو زِندگی سے کنارہ کشی کر لی؟ ایک بار بھی اپنے بیٹے کا نہیں سوچا؟ میرا نہیں تو اپنے بیٹے کا خیال کیا ہوتا کہ وہ کیسے رہے گا آپ کے بغیر؟ اپنی عادت لگا کر اُسے تنہا چھوڑ گئے۔ پہلے مُجھے چھوڑ دیا اور اب اپنے بیٹے کو چھوڑ گئے۔ مپجھ سے تو آپ کو مُحبّت نہیں تھی نا مگر کیا اپنے بیٹے سے بھی مُحبّت نہیں تھی؟ ذرا رحم نہیں آیا آپ کو ہان! پلیز ایک دفعہ ایک دفعہ واپس آ جائیں کبھی بھی کچھ نہیں مانگوں گی۔ ہم ایک اچھی زِندگی جئیں گے۔ سب کُچھ بُھلا کر ایک نئے سِرے سے شروعات کریں گے پلیز ہان! ایک آخری بات مان لیں میری پلیز۔" وہ اُس سے سرگوشیوں میں مُخاطِب تھی جو اب کہیں نہیں تھا۔ وہ چھوڑ کر گیا تھا تو صبر آ گیا تھاا مگر اب ہمیشہ کے لیے چلا گیا تھا تو صبر کرنا ناممکن ہو گیا تھا۔ دِل ہمک ہمک کر اُس کو ہی پُکارتا تھا جِس کی شکل بھی دیکھنا اُسے گوارا نا تھا۔ وہ روٹھا تھا تو ہمیشہ کے لیے روٹھ گیا تھا کہ منا بھی نہیں سکتی تھی۔

اِس ایک مہینے میں اُس نے شروع سے لے کر آخر تک اپنے اور بُرہان کے رویے کا مُحاسبہ کیا تھا۔ شروع سے آخر تک ہر ایک بات اُسے اچھے سے ازبر تھی۔ اگر بُرہان کا رویہ تلخ تھا تو وہ بھی اُس کی تلخی سے تنگ آ کر اُس کی باتوں پہ سچ کی مہر لگا چُکی تھی۔ بُرہان کے شک سے لے کر اپنی غلطیوں اور زبان درازی تک اُسے اچھے سے یاد تھی۔ غلط صِرف بُرہان نہیں تھا بلکہ وہ بھی تھی۔ اگر بُرہان نے اُس کی بات پہ یقین نا کر کے اُس پہ اپنا غُصّہ اُتارا تھا تو اُس نے بھی بُرہان کی بات نا مان کر ہمیشہ اپنی غلطی دُہرائی تھی۔ آج جب بُرہان نہیں تھا تو وہ اپنی حرکتوں کا بھی مُحاسبہ کر رہی تھی۔ جب جب بُرہان کا رویہ اُس سے ٹھیک ہونے لگتا تھا تب تب کُچھ نا کُچھ ایسا ہو جاتا تھا کہ وہ اُس سے اور دور چلا جاتا تھا۔ وہ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ پر ٹھیک تھے۔ غلطی اگر بُرہان کی تھی تو چشمان کی بھی تھی۔ دونوں کو ایک دوسرے کی عادتوں اور فِطرت کا پتہ تھا مگر پِھر بھی اُنہوں نے ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ آج جب اُسے اِن سب باتوں کا احساس ہو رہا تھا تو وہ سِتم گر کہیں نہیں تھا۔ کیا تھا جو قِسمت اُن کے ساتھ اِتنا بُرا نا کرتی؟ کیا تھا جو وہ باقی لوگوں کی طرح ہنسی خُوشی رہ رہے ہوتے؟ اِن گِنت سوال تھے جو اُس کے ذہن میں گونجتے حسرت پیدا کر رہے تھے۔ مگر اب شاید یہ حسرتیں ہی رہنی تھیں۔


********************


ریحان نے چشمان سے شاہان کے سکول کے بارے میں بات کی تھی جِس پر وہ مان گئی تھی ویسے بھی اب شاہان پانچ سال کا ہونے والا تھا اُس کا سکول شروع ہو جانا چاہیے تھا۔ سکول جانے سے اُس کا دھیان بٹ جاتا تو وہ پُرسکون ہو جاتا۔

شاہان سکول نہیں جانا چاہتا تھا۔ اُسے گھر پر رہنا تھا اپنی ماما کے پاس مگر پِھر چشمان کے بُرہان کا نام لے کر بہلانے پر وہ راضی ہو گیا تھا۔ بابا کے لیے تو کُچھ بھی کر سکتا تھا وہ۔ ریحان چشمان کو سکول چھوڑ کر فیکٹری جا چُکا تھا۔ چشمان آج کے دِن سکول میں شاہان کے ساتھ رہنا چاہتی تھی تا کہ وہ اجنبی ماحول میں گھبرائے نہیں۔ شاہان کو نرسری کلاس میں ایڈمِٹ کیا گیا تھا۔ پورے دِن وہ سکول میں رہی تھی اور وقفے وقفے سے جا کر اُس کو دیکھتی بھی رہی تھی کہ وہ گھبرایا تو نہیں۔ مگر سب ٹھیک تھا۔ اپنے ہم عُمر بچّوں کے ساتھ وہ مزے سے کھیلتا، باتیں کرتا کُچھ دیر کے لیے ہی سہی بُرہان کو بھول گیا تھا۔

تقریباً دو بجے کے قریب وہ شاہان کو لیے سکول سے نِکلی تھی۔ وہ بہت خوش تھا اور چشمان کو آج کے سارے دِن کی کاروائی کے بارے میں بتا رہا تھا۔ چشمان اُس کی اُنگلی تھامے پوری توجّہ سے اُس کی باتیں سُن رہی تھی۔ وہ اُسے لے کر چلتی ہوئی سکول سے باہِر نِکل آئی۔ بس سٹاپ یہاں سے تھوڑا ہی دور تھا۔ وہ شاہان کے ساتھ پیدل ہی چلنے لگی۔ اُس نے ریحان کو فون کر کے نہیں بُلایا تھا کہ وہ فیکٹری میں مصروف ہو گا۔ ابھی وہ کُچھ ہی دور گئے تھے جب شاہان نے اُس کا ہاتھ ہلایا۔

"ماما آئس کلیم۔" وہ فرمائشی لہجے میں بولا تو وہ اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔ سڑک کے دائیں طرف آئس کریم پارلر تھا۔ وہ اُس کو لیے احتیاط سے سڑک پار کرنے لگی۔آئس کریم پارلر سے اةس نے دو آئس کریم لیں اور شاہان کو لیے سامنے بنے پارک میں لے آئی۔ تا کہ وہ سکون سے بیٹھ کر کھا سکے ورنہ وہ سارے کپڑے خراب کر لیتا۔

اُسے بینچ پر بِٹھا کر وہ احتیاط سے اُسے آئس کریم کھلانے لگی تھی۔

"ماما پتہ ہے؟ بابا مُجھے یہاں بھی لائے تھے۔ مُجھے اِتنی زیادہ چاکلیٹ اول آئس کلیم لے کل دی۔ بابا اب آئس کلیم نہیں لاتے۔" وہ پُرجوش سا بولتا آخر میں افسردگی سے بولا۔

"بابا آپ کے لیے ڈھیر ساری آئس کریم لینے گئے ہیں۔ بہت جلد وہ ہان کے لیے آئس کریم لے کے آئیں گے پِھر یم گھومنے بھی چلیں گے۔" چشمان نے آنکھوں میں آئی نمی اندر دھکیل کر کے کہا۔

"جب بابا آئیں گے تو میں اُن سے بالکُل بات نہیں کلوں گا۔ میں بابا سے کٹّی ہو جاوں گا۔" وہ منہ بسور کر بولا تو وہ نم آنکھوں سے مُسکرا دی۔

"ہم آپ کے بابا کو پنِش کریں گے کہ وہ ہمیں کیوں چھوڑ کر چلے گئے۔ ایک بار آنے دو اُنہیں ہم دونوں بات نہیں کریں گے۔" وہ اُس کی ہاں میں ہاں مِلاتی بولی تو وہ خُوش ہوتا آئس کریم کھانے لگا۔ وہ شاہان کو کب تک بہلا سکتی تھی؟ ایک نا ایک دِن تو اُسے پتہ چل ہی جانا تھا کہ اُس کا باپ اِس دُنیا میں نہیں پِھر وہ کیسے سنبھالے گی اُسے۔ اب بھی وہ اُسے بہلاتی لاحاصل اِنتظار کا سِرا تھما رہی تھی۔

ابھی وہ بیٹھی یاسیت سے سوچ ہی رہی تھی جب اُس کی نِگاہ سامنے اُٹھی جہاں بینچ کی طرف رُخ کیے کوئی وہیل چئیر پر بیٹھا ہوا تھا۔ اُس کا رُخ دوسری جانِب تھا مگر جانے کیوں اُسے اُس میں بُرہان کی شبیہہ نظر آئی تھی۔ وہ اپنے ہی خیال کو جھٹکتی اُٹھ کھڑی ہوئی۔ اُس نے شاہان کا ہاتھ تھاما۔ وہ اپنی آئس کریم کے ساتھ ساتھ چشمان کی بھی آئس کریم کھا چُکا تھا۔

"گھر چلیں؟" چشمان نے پوچھا تو وہ سر ہلا گیا۔ ابھی وہ باہِر کی جانِب بڑھنے ہی لگے تھے جب ایک سفید اور کالے رنگ کی خُوبصورت سی بِلیّ شاہان کے پاس سے بھاگتی دوسری جانِب نِکل گئی۔ شاہان چشمان سے ہاتھ چُھڑواتا بِلّی کے پیچھے بھاگا۔ اپنے منہ سے میاوں میاوں کی آوازیں نِکالتا وہ خُود بھی بِلّا ہونے کا تاثر دے رہا تھا مگر وہ بِلّی رُک نہیں رہی تھی۔ وہ تیزی سے شاہان کے پیچھے بھاگی تھی۔ اُس کے شاہان کے پیچھے جاتے ہی وہ وہیل چئیر کِھسکتی اُن کی مُخالف سِمت میں بڑھنے لگی تھی۔

پِھر اُس وہیل چئیر والے آدمی کے پاس ایک اور آدمی آیا تھا اور اُس کی چئیر کو پیچھے سے تھام لیا تھا۔ چشمان رُک کر اُنہیں ہی دیکھ رہی تھی جبکہ شاہان اب اُس کے اِردگِرد گول گول چکر لگا رہا تھا بِلّی تو نجانے کہاں غائب یو گئی تھی۔ ایک عجیب سا احساس تھا جو چشمان کے رگ و پے میں سرایت کر گیا تھا۔ کُچھ تھا جو اُس کے دِل کو کھٹک رہا تھا۔ وہ جاگتی آنکھوں سے تو خُواب نہیں دیکھ سکتی تھی نا۔ جانے کیوں مگر وہ شاہان کی اُنگلی تھامے اُنہی کی جانِب بڑھنے لگی تھی۔

وہ آدمی وہیل چیئر کو دھکیلتا باہِر نِکل گیا تھا۔ چشمان بھی اُن کے پیچھے ہی تھی۔ ایک ہاتھ سے شاہان کی اُنگلی تھامتی وہ تیز تیز چل رہی تھی۔ جب وہ باہِر پہنچی تو وہ آدمی وہیل چئیر والے آدمی کو کار میں بیٹھنے میں مدد کر رہا تھا۔ وہ تیز کی سی تیزی سے اُن تک پہنچی تھی۔ اِس سے پہلے کہ وہ دوسرا آدمی وہیل چئیر والے کو کار کے اندر بِٹھاتا وہ اُن کے سر پر کھڑی تھی۔ اِس سے پہلے کہ وہ آدمی کار کے اندر بیٹھتا چشمان نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔ وہ آدمی چونک کر پلٹا تھا جب کہ سامنے کھڑا مرد بھی اب حیرانی سے سامنے کھڑی چشمان کو دیکھنے لگا تھا۔ چشمان کے ہاتھ رکھنے سے وہ پلٹا تھا اور اُسے دیکھ کر چشمان کے سامنے ہفت و اِقلیم گھوم گئے تھے۔ چشمان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے جبکہ اُس کا دایاں ہاتھ اُس کے منہ پر جم چُکا تھا۔ اپنی سِسکیاں روکنے کی کوشش میں وہ سامنے کھڑے شخص کی آنکھوں میں اجنبیت کے تاثرات نہیں دیکھ پائی تھی۔

"بابا میلے بابا۔" شاہان ایک دم چیخ کر اُس کی ٹانگوں سے جا لِپٹا تھا جبکہ وہ جو ساتھ کھڑے شخص کے سہارے کھڑا تھا ایک دم لڑکھڑایا تھا۔ دوسرے آدمی نے اُسے سہارا دے کر واپس وہیل چئیر پر بِٹھایا اور چشمان کی جانِب متوجّہ ہوا۔ شاہان تو وہیل چئیر کے ساتھ لگا ہوا اب اُس شخص کے ہاتھ تھام چُکا تھا جو کُچھ سمجھنے کی کوشش میں تھا۔

"بب بُرہان آپ کک کہاں چلے گئے تھے؟ سس سب کِتنا پریشان تھے آپ کو پتہ ہے؟" وہ اُس کے پاس گُھٹنوں کے بل بیٹھتی سِسک کر بولی تھی جب کہ سامنے وہیل چئیر پہ بیٹھا وہ شخص اب بھی سپاٹ چہرے کے ساتھ اُسے دیکھ رہا تھا۔

"آپ کون ہیں؟ میں آپ کو نہیں جانتا۔ اا احراز مم مُجھے یہاں سے لے چلو پلیز۔" اُس نے جواب دے کر ساتھ کھڑے احراز سے کہا تھا جو اُس کے جواب پر ایک نظر اُسے دیکھ کر سر ہلا گیا تھا۔

"یی یہ آپ کک کیا کہہ رہے ہیں؟ مم میں چشمان ہوں آپ کی بیوی اا اور یی یہ آپ کا اور میرا بیٹا شاہان! آپ آپ اِتنی جلدی بھول گئے ہمیں؟ آپ اا ایسے کک کیوں کہہ رہے ہیں؟" وہ اب کی بار رونے لگی تھی۔

"بابا مم میں ہان! آپ کو میں یاد ہوں نا؟" شاہان جو توجّہ سے ساری باتیں سُن رہا تھا ایک دم بُرہان کو یاد دِلانے والے انداز میں بولا تو وہ چشمان سے نظریں ہٹا کر شاہان کو دیکھنے لگا مگر بولا کُچھ نہیں۔ شاہان ہونٹ لٹکائے مایوس سا اُسے دیکھ رہا تھا۔ اُس نے بے ساختہ ہاتھ بڑھا کر اُسے اپنے قریب کیا اور اُس کے ماتھے کو لبوں سے چھو لیا۔ شاہان کُھل کر مُسکرایا اور اُس کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔

"آپ چشمان بھابھی ہیں؟ آپ پلیز ایسے روئیں مت۔ بُرہان ٹھیک ہے بس اُس کی یادداشت چلی گئی ہے جِس کی وجہ سے وہ کِسی کو پہچان نہیں رہا۔ آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائے گا۔" احراز نے کبھی چشمان کو دیکھا نہیں تھا اِسی لیے پہچان نہیں پایا تھا مگر اب تعارف کروانے پر وہ نرمی سے بولا تھا۔

"یی یاداشت؟ کک کیسے ہہ یوا یی یہ سب اا اور یہ ایسے کک کیوں؟" وہ اُس کی بات سُن کر ڈبڈبائی نظروں سے بُرہان کی جانِب دیکھ کر پوچھنے لگی جو شاہان کے کِسی سوال کا جواب دے رہا تھا۔ زرا کی زرا نظریں اُٹھا کر اُسے دیکھا اور پِھر نظریں شاہان کی طرف واپس موڑ دیں۔ چشمان کو وہ سیاہ آنکھیں بُجھی ہوئیں بے رنگ نظر آئیں جِن میں کِسی قِسم کا کوئی تاثر نہیں تھا۔


*****************

"آپ ہمارے ساتھ گھر چلیں پِھر میں آپ کو تفصیل سے بتاتا ہوں۔" احراز نے کہا تو وہ ایک نظر بُرہان کو دیکھتی سر ہلا کر شاہان کا ہاتھ تھامتی پِچھلی سیٹ کی جانِب بڑھی۔ احراز نے بُرہان کو فرنٹ سیٹ پر بِٹھایا اور خُود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا گاڑی سٹارٹ کرنے لگا۔

اگلے آدھے گھنٹے میں وہ احراز کے گھر تھے۔ دروازہ ماہم نے کھولا تھا۔ احراز کے ساتھ اجنبی چہروں کو دیکھتے وہ حیران ہوئی تھی مگر کُچھ پوچھا نہیں تھا۔ احراز نے ماہم کا تعارُف کروایا تو وہ ایک دوسرے سے خُوشدِلی سے مِلیں۔ جہاں ماہم کے چہرے پر خُوشی کی رمق تھی وہیں چشمان کُچھ اُلجھی ہوئی تھی۔ وہ لوگ ایک دوسرے سے پہلی بار مِل رہے تھے اِسی لیے چشمان کُچھ جِھجھک گئی تھی۔ شاہان تو بُرہان کی چئیر تھامے اُس کے ساتھ ہی کھڑا تھا۔ ماہم اُن سب کو لیے اندر کی جانِب بڑھی پِھر اُنہیں بِٹھا کر کِچن کی جانِب چل دی تا کہ مُلازمہ کو ریفریشمنٹ کا کہہ سکے۔

وہ واپس آئی تو چشمان بُرہان پر نظریں جمائے صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی بُرہان اپنی وہیل چئیر پر بیٹھا ہوا اُس سے لاپرواہ نظر آ رہا تھا۔

"اپ نے بتایا نہیں کہ یہ سب کیسے ہوا؟" چشمان نے اپنا سوال پِھر سے دُہرایا تھا۔

"دراصل جِس رات کو یہ گھر سے نِکلا تھا اِس نے مُجھے فون کیا تھا کہ یہ ہمارے گھر آ رہا ہے۔ میں اِس کا اِنتظار کر رہا تھا مگر یہ نہیں آیا میں نے اِس کا فون بھی ٹرائی کیا مگر فون بھی نہیں لگ رہا تھا تو میں نے ریحان کو فون کا مگر اُس نے بتایا کہ بُرہان تو گھر ہی نہیں آیا۔ تب میں پریشان ہو گیا اور پِھر پولیس سٹیشن میں رِپورٹ کروائی۔ تب پولیس کے ذریعے اِس کا پتہ چلا۔ یہ اُنہیں سڑک کِنارے زخمی حالت میں پڑا مِلا تھا اور اِس کی حالت بھی بہت خراب تھی۔ پورے دو مہینے یہ ہاسپِٹل میں ایڈمِٹ رہا ہے اور اِسے کُچھ یاد بھی نہیں تھا۔ اگر پولیس کو اِس ایکسیڈنٹ کا پتہ نا چلتا اور مُجھے شناخت کے لیے نا بُلایا جاتا تو شاید میں بھی کبھی اِس سے مِل نا پاتا۔ یہ تو مُجھے بھی نہیں پہچان رہا تھا میں بہت مُشکِل سے اِسے ساتھ لے کر آیا۔ بُرہان کے پورے جِسم پر بہت چوٹیں آئیں تھیں اور سب سے دُکھ کی بات تو یہ ہے کہ بُرہان کی۔۔۔۔۔۔۔۔" احراز تفصیل سے بتاتا بول رہا تھا جب ایک دم بُرہان نے اُس کی بات کاٹی۔

"مُجھے بھوک لگ رہی ہے احراز! بھابھی آپ کُچھ بنوا دیں اور اِس چُٹکو کے لیے بھی کُچھ لے آئیں۔" بُرہان نے احراز کی بات کاٹ کر شاہان کے گال پر چُٹکی بھرتے ماہم سے کہا تو وہ سر ہلاتی کِچن کی جانِب چلی گئی۔ جبکہ اُس کے یُوں بات کاٹنے سے اراز ایک دم چُپ ہو کر بُرہان کو دیکھنے لگا جو اُس کی طرف متوجّہ نہیں تھا۔ جبکہ چشمان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ جانے وہ کِتنی تکلیف میں رہا تھا اور کوئی اپنا اُس کے پاس بھی نہیں تھا۔

"آپ کُچھ کہہ رہے تھے؟" چشمان نے بُرہان سے نظریں پھیر کر نم آواز میں احراز سے پوچھا تو وہ پھیکا سا مُسکرایا۔

"ہاں وہ میں کہہ رہا تھا کہ بُرہان اب پہلے سے ٹھیک ہے بس کُچھ ریسٹ کی ضرورت ہے۔ اِسے بہت جلد سب کُچھ یاد بھی آ جاِے گا اور یہ پہلے کی طرح چلا بھی کرے گا۔" احراز نے بات گُھمائی تو وہ سر ہلا گئی۔ اُس کا بات بدلنا وہ سمجھ نہیں پائی تھی۔

"ہہ ہمیں گھر چلنا چاہیے۔ سب بُرہان کو دیکھ کر بہت خُوش ہوں گے اور تائی امّی تو سب سے زیادہ خُوش ہوں گی۔" چشمان نے پُرجوش لہجے میں کہا تو بُرہان نے ایک دم اُسے دیکھا۔

"مم میں کہیں نہیں جاؤں گا احراز! مم میں اِنہیں نہیں جانتا۔" بُرہان نے کہا تو چشمان نے نم آنکھوں سے اُسے دیکھا۔۔

"بُرہان یہ سچ میں تُمہاری بیوی ہیں اور جب تُم گھر جاؤ گے تو ہو سکتا ہے کہ تُمہیں سب یاد آ جائے۔ تُمہارے گھر والے بھی تو پریشان ہوں گے۔" احراز نے اُسے سمجھایا۔

"بابا دادو بہت لوتی (روتی) ہیں اول ماما بھی۔ آپ میلا فون بھی نہیں اُٹھاتے تھے میں اِتنا فون کیا آپ نے مُجھ سے بات ہی نہیں کی۔ آپ مُجھ سے نالاض ہیں؟" شاہان نے اُس کی بات کو سمجھ کر اُس کے ہاتھ تھام کر کہا۔

"نہیں میں کِسی سے بھی ناراض نہیں ہوں۔" بُرہان نے زرا سا مُسکرا کر کہا۔ چشمان کو لگا کہ وہ زبردستی مُسکرا رہا ہے۔

"تو پِھل آپ چلیں گے نا گھل؟" شاہان نے زور سے کہا تو وہ احراز کی طرف دیکھنے لگا جِس نے اثبات میں سر ہلاتے آنکھوں ہی آنکھوں میں اُسے تسلّی دی۔

"یاہو۔" بُرہان کے سر ہلانے پر شاہان ایک دم چیختا اُس کے گلے میں بانہیں ڈالتا اُس کا گال چوم گیا تو اُس نے بھی کُچھ جِھجھک کر اُس کے گِرد بازو حائل کیے۔

مُلازمہ سنیکس اور چائے وغیرہ لے آئی ہے وہ چاِے پینے میں مصروف ہو گئے۔ جہاں چشمان کی نظریں بار بار بُرہان کے چہرے کا طواف کر رہیں تھیں وہیں بُرہان کا چہرہ سپاٹ تھا۔ اپنے چہرے پر چشمان کی بار بار اُٹھنے والی نظروں سے جھنجھلا کر بُرہان نے ایک دم اُسے دیکھ کر سوالیہ انداز میں ابرو اُچکائے تو وہ گڑبڑا کر نظروں کا رُخ موڑ گئی۔ چشمان کا دِل اِس وقت بے یقینی اور یقین کے درمیان میں ڈول رہا تھا۔ بار بار نظرِن بُرہان کے چہرے پر اُٹھتیں تھیں کہ کہیں وہ اُس کا وہم تو نہیں؟ مگر نہیں وہ حقیقت تھا اور یہ سوچ ہی اِتنا سرشار کر رہی تھی کہ نِگاہ بے اِختیار اُس کے چہرے سے جا لِپٹتی تھی۔

کُچھ دیر بعد فجر اور اذان آ گئے تو شاہان اُن کے ساتھ کھیلنے لگا جبکہ چشمان نے فون کر کے ریحان کو بُلایا تھا تا کہ وہ اُنہیں یہاں سے لے جائے۔ پِھر ماہم اُس سے چھوٹی چھوٹی باتیں کرتی رہی۔ اُس سے پِھر اُن کے گھر آتے جاتے رہنے کا وعدہ لینے لگی۔ اِس سارے عرصے کے دوران بُرہان خاموش رہا تھا۔ احراز بھی چشمان سے باتیں کر رہا تھا۔ کُچھ دیر بعد ریحان آ گیا۔ چشمان نے اُسے بُرہان کے بارے میں کُچھ نہیں بتایا تھا اور اب بُرہان کو سامنے پا کر اُس کا حال بھی چشمان سے کم نا تھا۔ کِتنی ہی دیر وہ اُس کے ہاتھ تھامے بیٹھا رہا جبکہ بُرہان کے انداز میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ اگر اُس کی آنکھوں میں چشمان کے لیے واقفیت کے رنگ نہیں تھے تو ریحان کے لیے بھی نہیں تھے۔

ریحان نے احراز کا شُکریہ ادا کیا تھا اور پِھر رُخصت چاہی تھی۔ وہ جلد از جلد گھر جا کر یہ خبر سب کو دینا چاہتا تھا۔ چشمان نے شاہان کو بُلایا تو وہ فجر اور اذان کو ہائی فائیو کرتا بُرہان کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔ احراز اور ماہم اُنہیں دروازے تک چھوڑنے آئے تھے۔ کار تک پہنچ کر احراز نے بُرہان کو کار میں بیٹھنے میں مدد کی تھی۔ گاڑی کا دروازہ بند کر کے وہ بُرہان کی طرف دیکھنے لگا۔ بُرہان بھی اُسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ احراز کو اُس کی آنکھوں میں شِکوے کے ساتھ ساتھ بے بسی کا عنصر بھی مِلا تھا مگر وہ سب جانتے بوجھتے نظریں چُرا گیا تھا۔


*****************


وہ تقریباً تین بجے گھر پہنچے تھے۔ ریحان نے بُرہان کی وہیل چئیر باہِر رکھی اور اُسے وہیل چئیر پر شِفٹ کیا۔ ریحان آگے بڑھ کر بیل بجانے لگا جبکہ چشمان وہیل چئیر کے پیچھے کھڑی تھی۔ کُچھ ہی دیر میں دروازہ کُھل گیا۔ سامنے عریحہ کھڑی تھی جو بُرہان کو دیکھ کر حیرت اور خُوشی سے اپنی جگہ جم سی گئی تھی۔ پِھر ہوش میں آتی بُرہان کے سامنے جُھکی تھی۔ ریحان کے اِشارہ کرنے پر اُس نے عریحہ کے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔ پِھر وہ سب اوپر والے پورشن کی جانِب بڑھے تھے۔ بُرہان ریحان کے سہارے چلتا اوپر پہنچا تھا جبکہ چشمان نے وہیل چئیر کو فولڈ کر کے نیچے ہی رکھ دیا تھا۔

جب وہ اوپر پہنچے تو بڑی امّاں، رضیہ بیگم اور شائستہ بیگم ہال میں ہی بیٹھیں تھیں۔ اُن کے ساتھ بُرہان کو دیکھ کر وہ سب بے یقینی میں گِھرے تھے مگر پِھر یقین آنے پر جلد ہی اِس کیفیت سے باہِر نِکل آئے تھے۔

ریحان نے بُرہان۔کو صوفے پر بِٹھایا تو رضیہ بیگم بے اِختیار اُس کا منہ چومننے لگیں۔ کِتنا تڑپی تھیں وہ اپنے بیٹے کے غم میں۔ آج اُن کا بیٹا سامنے تھا تو یقین نہیں آ رہا تھا۔ بڑی امّاں اور شائستہ بیگم بھی نم آنکھوں سے اُس سے مِلیں۔ بُرہان اجنبی انداز سے سب کو دیکھ رہا تھا جِس پر ریحان نے سب کا تعارُف کروایا تھا۔ باقی سب نے حیرت سے اُسے دیکھا تھا جِس پہ ریحان نے اُنہیں بُرہان کی یاداشت گُم ہونے کے بارے میں بتایا تھا۔ پِھر سب اُسے چھوٹی چھوٹی باتیں یاد دِلانے کی کوشش کرنے لگے تھے۔ اِن سب میں شاہان بھی بُرہان کے پاس کھڑا تھا۔ وہ اب ایک پل بھی اپنے باپ سے الگ نہیں ہونا چاہتا تھا۔

فرازیہ بھی باتوں کی آوازیں سُن کر باہِر آئی تھی اور رضیہ بیگم کی گود میں سر رکھ کر لیٹے بُرہان کو حیرت سے دیکھنے لگی تھی۔ مگر پِھر خُوشی سے اُس کی جانِب بڑھی تھی۔ اُسے سلام کر کے وہ وہیں بیٹھ گئی تھی۔

سبھی اُس سے کوئی نا کوئی بات کر رہے تھے۔ پِچھلی زِندگی کی باتیں یاد دِلانے کی کوشش کر رہے تھے جِس پر وہ خاموشی کا اِظہار کرتا بس سُن ہی رہا تھا۔

"میرے خیال سے بھائی کو ریسٹ کرنا چاہیے۔ اُن کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں۔" ریحان نے کہا تو سب نے تائید کی تھی۔

"میری وہیل چئیر؟" بُرہان کے پوچھنے پر سب نے آنکھوں کی نمی چُھپائی تھی۔

"بھائی میں آپ کو روم میں چھوڑ آتا ہوں بعد میں نیچے سے لے آوں گا۔" ریحان نے کہہ کر اُسے سہارا دیا اور اُسے اُس کے کمرے تک کے جانے لگا۔ شاہان بھی اُس کے ساتھ ساتھ ہی تھا۔

"مانو بیٹا! جاؤ دیکھو کِسی چیز کی ضرورت تو نہیں؟" چشمان کی آنکھوں کو بُرہان پہ مرکوز دیکھ کر بڑی امّاں نے کہا تو وہ سر ہلاتی جلدی سے اُن کے پیچھے چل دی۔

ریحان بُرہان کو بیڈ پر لِٹا چُکا تھا اور شاہان اب ایک البم پکڑے بُرہان کو تصویریں دِکھا رہا تھا جِن میں سے کُچھ فیملی فوٹوز تھیں، کُچھ اکیلے بُرہان کی اور چشمان کی بھی تھیں۔ وہ کر تصویر کو بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔ ریحان اُنہیں کمرے میں چھوڑ کر چشمان کو تسلّی دیتا باہِر نِکل گیا جبکہ چشمان آہستہ سے چلتی بیڈ کے دوسری جانِب بیٹھی۔ درمیان کیں شاہان تھا جبکہ دوسری جانِب بُرہان۔ بُرہان کا سارا دھیان شاہان اور تصویروں پہ تھا چشمان کو اپنا آپ بے معنی لگا مگر وہ وہیں بیٹھی رہی۔

"بابا نیند آ لہی ہے۔" شاہان نے کہا تو وہ البم ایک طرف رکھتا ٹانگوں کو جوتوں سمیت بیڈ پہ پھیلاتا شاہان کی طرف کروٹ لے کر اُسے تھپکنے لگا۔

"میں جوتے اُتار دیتی ہوں۔" چشمان نے اجنبیت کی دیوار کو توڑنے کی کوشش کرتے کہا۔

"نہیں میں اُتار لوں گا آپ زحمت مت کریں۔" بُرہان نے نفی میں سر ہلاتے کہا تو وہ وہیں رُک کر اُسے دیکھنے لگی۔ شاہان اب گہری نیند میں جانے لگا تھا۔

"میری اور شاہان کی تصویریں نہیں ہیں البم میں شاہان کی بچپن کی تصویروں میں بھی آپ ہی اُس کے ساتھ ہیں جبکہ میں کہیں نہیں ہوں اور ہماری شادی کی تصویریں بھی نہیں ہیں۔ " بُرہان نے ایک نظر چشمان پر ڈال کر کہا تو وہ چونک کر اُسے دیکھنے لگی۔

"ہمارا سادگی سے نِکاح ہوا تھا تو تصویریں نہیں بنائیں اور شاہان جب پیدا ہوا تب آپ اِس مُلک میں نہیں تھے۔ کام کے سِلسلے میں باہِر گئے تھے۔" چشمان نے سوچ سوچ کر جواب دیا تو وہ سر ہلا گیا۔

"مُجھے نیند آ رہی ہے میں سو جاؤں؟" بُرہان نے پوچھا۔

"جی سو جائییں اِس میں اِجازت لینے والی کیا بات ہے؟" چشمان نے اُس کے سر کے نیچے تکیہ سیدھا کرتے کہا۔

"آپ جِس طرح مسلسل مُجھے دیکھتی رہتی ہیں مُجھے سے سویا نہیں جائے گا۔" بُرہان نے آنکھیں موند کر کہا۔ تو وہ خجل سی ہو گئی۔

وہ چُپ چاپ بیڈ کے دوسرے کِنارے بیٹھ گئی مگر اب بُرہان کو دیکھنے کی غلطی نا کی تھی۔

****************

ختم شدہ


          

 مزید ناولز کے لئے نیچے جائیں ، یہاں مکمل اور قسط وار سبھی ناولز کے لنکس دئیے گئے ہیں۔

آپ مزید ناول کی پکس دیکھنے کے لیے نیچے جائیں ، اور ہماری ویب سائٹ کو وزٹ کریں ، اگر آپ نے ابھی تک مدیحہ شاہ کے مکمل اور قسط وار ناولز نہیں پڑھے ۔ تو جلدی سے مدیحہ شاہ کے سبھی ناولز کو پڑھیں اور اپنا فیٹ بائک دیں ۔

 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Web by Madiha Shah Writes.She started her writing journey from 2019.Masiha Shah is one of those few writers,who keep their readers bound with them , due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey from 2019. She has written many stories and choose varity of topics to write about


 

Teri Yaad Shakh E Gulab Hai  Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Teri Yaad Shakh E Gulab Hai written Kanwal Akram .Teri Yaad Shakh E Gulab Hai by  Kanwal Akram is a special novel, many social evils has been represented in this novel. She has written many stories and choose varity of topics to write about

Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel you must read it.

Not only that, Madiha Shah provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Forced Marriage Based Novel Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

If you all like novels posted on this web, please follow my webAnd if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

If you want to read More  Mahra Shah Complete Novels, go to this link quickly, and enjoy the All Mahra Shah Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                  

 

Complete Novels Link 

 

Copyrlight Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only share links to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be delete

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages