Jung E Baqa Fanaa Season 2 By Sawera Ahmad New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Monday 5 August 2024

Jung E Baqa Fanaa Season 2 By Sawera Ahmad New Complete Romantic Novel

Jung E Baqa Fanaa Season 2 By Sawera Ahmad New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Jung E Baqa Fanaa Season 2 By Sawera Ahmad Complete Romantic Novel 

Novel Name: Jung E Baqa Fanaa Season 2 

Writer Name: Sawera Ahmad

Category: Complete Novel


رات کے اس گہرے سناٹے میں ہر چیز تاریکی کا لبادہ اوڑھے اپنی جگہ ساکت تھی۔ خاموش کمرہ ہر آہٹ پر کان دھرے ہوئے تھا۔ اگر جو سوئی ہی گرتی تو اس کی زرا سی آواز بھی محشر برپا کر دیتی۔ 

موسم سرما کی یخ بستا ہواؤں کے پیشِ نظر ساری کھڑکیاں دروازے بند رکھے گئے تھے۔ جس سے اجیب سا سکوت چھا گیا تھا ماحول میں۔

ملگجے سے اندھیرے میں بمشکل نظر آتا وہ وجود بستر پر کروٹ کے بل لیٹا، کندھے تک نرم گرم کمبل اوڑھے دنیا و مافیہا سے بےخبر محو خواب تھا۔

ہلکی ہلکی زیروبم ہوتی سانسیں پرسکوت فضا میں ارتعاش سا پیدا کر رہیں تھی۔

کھڑکی پر گرتے جڑے پردے زرا سا چاک کیا ہوئے، ہوا سرسراتی ہوئی کھڑکی کی دراڑ سے راستہ بنا کر کمرے میں داخل ہوئی۔ تھوڑی ہی دیر میں یہ دراڑ ہوا کے سرد اور بےرحم جھونکوں کے اندر آنے کیلئے مسلسل گزرگاہ بن گئی۔

کمرے کی حرارت رخصت ہونے لگی۔ ٹھنڈ بڑھنے لگی۔ وہ وجود گہری نیند میں کسمسانے لگا۔ نہیں، وجہ سردی نہیں تھی۔

وجہ اس کے چہرے کا جھلسنا تھا۔ اسے اپنا چہرہ جلتا محسوس ہو رہا تھا۔ آخر کیا شے تھی وہ جس کا موسم سرما نے بھی کچھ نہ بگاڑا تھا؟ اس ٹھنڈ میں بھی اپنے اندر اتنی جلن سمیٹے آخر وہ کون تھا یا کیا تھا؟

اس کی کیفیت اجیب ہونے لگی۔ شاید وہ جاگ گئی تھی۔ مگر یہ پلکیں کیوں نہ اٹھ رہی تھیں؟ یہ وجود حرکت کیوں نہیں کر پا رہا تھا؟ وہ ہاتھ بڑھا کر ان دہکتے انگاروں کو اپنے چہرے کے سامنے سے ہٹانا چاہتی تھی جو مسلسل اسے جھلسا رہے تھے۔

انتہا تو تب ہوئی جب ٹھوس ساخت کی گرم شے اسے اپنی گردن پر رینگتی محسوس ہوئی۔ اور جیسے جیسے وہ رینگتی ہوئی راج ہنس سی گردن کے گرد گھیرا تنگ کر رہی تھیں، ویسے ویسے سانسیں مشکل میں گھر رہی تھیں۔ ایک دم سے گھٹن بڑھنے لگی تھی۔ سانسیں بے ربط ہو رہی تھیں۔ دل سینے میں الگ پھڑپھڑا رہا تھا۔ سانس لینے کی کوشش لمحہ بہ لمحہ دشوار ہوتی جا رہی تھی۔ تبھی اس نے اپنے ہاتھوں کو حرکت دے کر اس وجہ کو ٹٹولا جو اس کی سانسوں پر ہر گزرتے پل قابض ہوتے گھیرا تنگ سے تنگ تر کرتا جا رہا تھا۔

اس کی مخروطی انگلیاں حرکت کرتیں اپنی گردن پر آ ٹھہریں۔ پلکیں ہنوز بند رہیں۔ انگلیوں کی پوروں سے وہ اس شے کو محسوس کرنے لگی۔ سخت، کھردری جلد والی وہ انگلیاں ہی تھیں۔

ساخت معلوم ہوتے ہی اس کے پورے وجود میں برق سی دوڑ گئی۔

گہری آزاد سانس لینے کی چاہ میں جھٹکے سے پلکیں اٹھائیں تو سامنے کا منظر دیکھ کر اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی پھیل گئی۔ نیم اندھیرے میں ایک ہیولہ اس کے اوپر جھکا تھا۔ جس کی گرم سانسوں کے وہ تھپیڑے آگ کے شراروں کو بھی مات دیتے محسوس ہو رہے تھے اسے۔ اور سخت انگلیاں اس کی گردن کے گرد پھندا سا لگائے ہوئے تھیں۔

وہ دونوں ہاتھوں کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے بھی اس سخت گرفت کو اپنی گردن سے ہٹا نہیں پا رہی تھی۔

آنکھیں باہر کو ابلنے لگی تھیں۔

وہ سانس لینے کی کوشش میں دوہری ہوتی جا رہی تھی۔

"کک۔۔۔کو۔۔ن۔۔۔"۔

"کون ہوں میں یہی جاننے کیلئے پرتول رہی ہو نا؟"۔ مقابل نے اس کی لڑکھڑاتی زبان سے الفاظ اچک لیئے تھے۔

اور وہ تو اس کے سرد۔۔۔برف سے ٹھنڈے لہجے پر کپکپا کر رہ گئی تھی۔

پھندا تھا کے اس کے گلے کے گرد ہر پل تنگ ہوتا جا رہا تھا۔

بالشت برابر فاصلہ تھا ان دو چہروں میں مگر اس شخص کے سانسوں کی گرماہٹ اس بے بس وجود کے چہرے کو ہر لمحہ جلا دینے کے درپے تھی۔

"میں وہ خوف ہوں تمہارا جس سے تم بھاگتی پھر رہی ہو۔ میں وہ سوچ ہوں تمہاری جس سے تم دامن بچانے کیلئے کوشاں رہتی ہو۔ میں موت ہوں تمہاری"۔

اتنی بے رحمی تھی اس کی گرفت اور اس کے انداز میں کے وہ ساکت رہ گئی تھی۔

"لیکن نہیں، میں ماروں گا نہیں۔ ابھی تو تمہیں اس تڑپ سے آشنائی بھی کروانی ہے جس سے میں گزر رہا ہوں۔ ابھی تو تمہیں اس آگ سے روبرو کروانا ہے جو میرے سینے میں لگی ہے۔ ایسی زندگی دوں گا تمہیں کے موت بھی کانپ جائے گی"۔ اس کا ہر لفظ گواہی دے رہا تھا کے جو وہ کہہ رہا ہے وہ کر بھی گزرے گا۔

"میں آؤں گا۔ بہت جلد میں پھر آؤں گا"۔ ایک ایک لفظ ٹھہر ٹھہر کر ادا کیا گیا۔

اس کی سانس اکھڑتے دیکھ کر اس شخص نے جھٹکے سے اس کی گردن چھوڑ دی۔

کھانستے کھانستے وہ دوہری ہونے لگی تھی۔ اسے سانس نہیں آ رہی تھی۔

اوندھے منہ نیم جان سی بستر پر پڑی وہ سانس لینے کی کوشش میں ہلکان ہو رہی تھی۔ وہ چیخنا چاہتی تھی مگر آواز ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ 

گردن سہلاتے بری طرح کھانستے ہوئے وہ بیڈ سے نیچے آ گری۔ فرش پر گرنے سے کہنی اور کمر میں ٹیسیں اٹھنے لگی تھیں۔

بکھرے بالوں سمیت نیم اندھیرے کمرے میں اس کی آنکھوں کی پتلیاں ارد گرد خوفزدہ سی جائزہ لے رہی تھیں۔ مگر کمرہ کسی بھی دوسرے وجود کے وہاں ہونے کی نفی کر رہا تھا۔

وہ اٹھتی گرتی پڑتی بے جان وجود کو گھسیٹتے ہوئے کمرے کے دروازے تک آئی۔

کانپتے ہاتھوں سے ناب گھمایا اور بےہنگم انداز میں چیختی ہوئی کمرے سے باہر بھاگی تھی۔

"امی۔۔۔بب۔۔۔بچاؤ امی۔۔۔وہ آ گیا ہے۔۔۔وہ۔۔۔مجھے۔۔۔مار ڈالے گا"۔ کھلے دروازے کی چوکھٹ پر گری وہ چیخ چیخ کر روتی ہوئی ایک ہی جملے کا ورد کر رہی تھی۔

اس کی چیخ و پکار سن کر فرزانہ جھٹکے سے بستر پر اٹھ بیٹھیں۔

وہ اپنے کمرے کی لائٹ ہمیشہ جلا کر سوتی تھیں۔ اور جیسے ہی ان کی نظر دروازے کی چوکھٹ میں ٹوٹی بکھری اپنی بیٹی پر پڑی تو ان کا ہاتھ بے اختیار سینے پر پڑا تھا۔

ایک لمحہ بھی ضائع کیئے بغیر وہ دوڑتی ہوئی اس کے پاس آئیں۔

"کیا ہوا میری بچی؟ کوئی برا خواب دیکھ لیا میری جان کیا ہوا؟"۔ وہ اسے اپنے ساتھ لگائے دلاسہ دینے کی کوشش کر رہی تھیں۔ مگر وہ تھی کے ان کے قابو میں ہی نہیں آتی۔

"امی۔۔۔وہ مجھے۔۔۔مار دے گا مجھے بچا لیں"۔ وہ کانوں پہ ہاتھ رکھے مسلسل چیخیں مارتی ہوئی ذہنی مریضہ لگ رہی تھی۔

"کوئی نہیں ہے یہاں میری بچی تم نے کوئی برا خواب دیکھا ہوگا اِدھر میری طرف دیکھو زیست"۔ ان کے اپنے ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے اسے اس حال میں دیکھ کر۔ اس کا آنسوؤں سے تر چہرہ تھامتے ہوئے وہ اسے یقین دلا رہی تھیں کے وہ ٹھیک ہے۔

"نن۔۔۔نہیں۔۔وہ آیا تھا۔۔۔اس۔۔۔نے کہا۔۔کے وہ۔۔پپ۔۔پھر آئے گا امی۔۔۔اس نے کہا وہ آئے گا"۔ وہ روتے ہوئے ان کی آغوش میں پناہ ڈھونڈ رہی تھی۔ جیسے اس کی ماں کا وہ نحیف سا وجود اسے اس ظالم دیو سے بچا لیتا۔

فرزانہ کے آنسو گرتے اس کے شہد آگیں بالوں میں جذب ہو رہے تھے۔

"کوئی نہیں آئے گا۔ میں ہوں نا تمہارے پاس۔ دیکھو تو یہاں کوئی نہیں ہے"۔ اس کی پشت سہلاتے ہوئے وہ اسے تسلی دے رہی تھیں۔

وہ ایک جھٹکے سے ان سے الگ ہوئی۔

"آپ میری بات کا یقین کیوں نہیں کرتی ہیں۔ اس نے پہلے بھی کہا تھا کے۔۔۔وہ آئے گا اور۔۔۔وہ آیا۔۔۔وہ پھر کہہ گیا ہے۔۔۔وہ پھر سے آئے گا امی۔۔۔وہ مجھے مار دے گا"۔ وہ ہذیانی انداز میں چلاتی ہوئی انہیں جھنجھوڑتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ آگاہ کر رہی تھی کے وہ اپنی بات پوری کرتا ہے اور آئندہ بھی کرے گا۔

اس سے قبل کے وہ کچھ کہتیں، دروازے پر ہونے والی اطلاعی گھنٹی نے ان دونوں کو ہی چونکا دیا۔

زیست اچھل کر فرزانہ بیگم کے وجود سے چمٹ گئی۔

اس کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید پڑنے لگا تھا۔ خوف سبز کانچ سی آنکھوں میں ہلکورے لے رہا تھا۔

اس کا چیخنا بند ہو چکا تھا مگر اب وجود پر کپکپی طاری ہو گئی تھی۔

"میں دیکھتی ہوں"۔ فرزانہ بیگم بمشکل بے جان ہوتی ٹانگوں سمیت اٹھیں۔

زیست نے اسی تیزی سے ان کے پیر تھام لیئے۔

"نن۔۔۔نہیں۔۔دروازہ مت کھولیں۔۔۔وہی ہوگا۔۔۔۔ہاں یہ وہی ہوگا"۔ ان کے پاؤں سے چمٹی وہ کسی خوفزدہ بچی کی مانند لگ رہی تھی۔

فرزانہ نے اسے سہارا دے کر اٹھاتے ہوئے خود سے لگایا۔

گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔

"کوئی نہیں ہے زیست۔ تم میری بہادر بیٹی ہو چلو شاباش"۔ وہ اسے اپنے ساتھ لگائے کمرے سے باہر نکل آئیں اور ہال سے ہوتے ہوئے وہ مین دروازے تک اسے اپنے ساتھ لگائے ہوئے آئیں۔

میجک آئی سے جھانکنے پر شناسا چہرا دیکھتے ہی انہوں نے جلدی سے دروازہ کھول دیا۔

زیست ماں کے بازوؤں سے نکل کر تیزی سے ان کے پیچھے چھپ گئی۔

گویا انہیں ڈھال بنا لیا۔

"کیا ہوا فرزانہ؟ سب خیریت تو ہے؟ یہ شور کیسا تھا؟"۔ سامنے والے گھر کی مسز شفیق دروازہ کھلتے ہی پریشانی سے آگے بڑھیں۔

ان کے پیچھے ہی عدنان (ان کا بیٹا) بھی تھا۔

"کک۔۔۔کچھ نہیں وہ بس زیست نے برا خواب دیکھ لیا تھا۔ تو ڈر گئی ہے"۔ انہوں نے اپنے پیچھے چھپی بیٹی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا۔ جو سر جھکائے کھڑی اب بھی خوفزدہ لگتی تھی۔ چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔

عدنان نے ایک اچٹتی سی نگاہ اس کے بکھرے حلیے پر ڈالی اور بے زار سا ہو کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ ہاجرہ شفیق زبردستی اسے بھی اپنے ساتھ کھینچ لائی تھیں۔ حالانکہ وہ ڈیوٹی سے تھکا ہارا ابھی ابھی گھر پہنچا تھا۔

اس کے برعکس ہاجرہ فکرمندی سے آگے بڑھیں۔

"اوہو، تم ٹھیک ہو نا بیٹا؟"۔ انہوں نے نرمی سے زیست کے بال سہلاتے ہوئے پوچھا۔

ان کے سوال پر زیست نے سر کو جنبش دے کر جواب دیا۔

"چلو شکر ہے میں تو ڈر ہی گئی تھی کے خدا نخواستہ کہیں کوئی چور اچکا نہ گھس آیا ہو گھر میں۔ اس لیئے اے-ایس-پی صاحب کو ساتھ لائی ہوں"۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے اپنے پیچھے کھڑے اکھڑ و مغرور سپوت کی جانب اشارہ کیا۔ وہ نیم رخ پہ کھڑا ارد گرد کا جائزہ لینے میں مگن تھا۔ 

فرزانہ تشکر سے مسکراتے ہوئے انہیں دیکھنے لگیں۔

"آپ کا بہت بہت شکریہ جو ہمارے لیے اتنا سوچا۔ اندر آیئے نا"۔ انہیں یک دم خیال آیا کے وہ تب سے دروازے پر ہی موجود ہیں۔

جبکہ زیست اس منظر سے لا تعلق نظر آتی تھی۔

"ارے نہیں تکلف نہ برتیں اور ویسے بھی شفیق صاحب گھر پر اکیلے ہیں ان کی طبیعت بھی زرا ناساز رہتی ہے اس لیئے اب ہمیں اجازت دیجئے"۔ ہاجرہ نے شائستگی سے کہا۔ 

"جیسا آپ بہتر سمجھیں۔ کسی وقت پھر چکر لگائیے نا"۔ انہوں نے دعوت دی۔

فرزانہ بیگم خوش اخلاق خاتون تھیں۔ اور ہاجرہ بھی انہیں اچھے مزاج کی ہی لگیں۔

ان کی دعوت ہاجرہ نے خوشدلی سے قبول کرلی۔

"آنٹی کوئی پریشانی ہو تو آپ بلا تکلف مجھ سے رابطہ کر سکتی ہیں۔ آخر کو پولیس عوام کی حفاظت کیلئے ہی ہوتی ہے"۔ ان سے بات کرتے ہوئے آخری جملہ اس نے زیست کو کن انکھیوں سے دیکھ کر ادا کیا تھا۔

اس نے پھر بھی سر اٹھا کر دیکھنے کی زحمت نہ کی۔ کیونکہ اسے ہر مرد کے چہرے میں وہ شخص نظر آتا تھا۔ جس کا خوف زیست کی رگ رگ میں خون بن کر گردش کر رہا تھا۔

"شکریہ بیٹا جی، اللہ آپ کو مزید کامیابیاں عطا کرے"۔ انہیں اس خوش شکل جوان کو دیکھ کر اپنا بیٹا یاد آ گیا۔ 

کچھ ہی لمحوں بعد وہ لوگ چلے گئے تو فرزانہ بیگم مین دروازہ لاک کرکے زیست کو لیئے اپنے کمرے کی جانب بڑھنے لگیں۔

"آ جاؤ، تم میرے ساتھ سو جاؤ۔ اور اب بالکل نہیں ڈرنا"۔ انہوں نے ایسے پچکارتے ہوئے کہا جیسے وہ چھوٹی سی بچی ہو۔

اسے بیڈ پر بٹھاتے انہوں نے سائیڈ میز پہ دھرے جگ سے پانی کا گلاس بھر کر اس کی جانب بڑھایا۔ جسے دو گھونٹ بھرنے کے بعد زیست نے واپس اسی جگہ رکھ دیا۔

اس کی کندنی رنگت والی جلد میں زردی کھنڈ گئی تھی۔

سبز آنکھوں میں ایک خوف نے ہمہ وقت کیلئے ڈیرہ ڈال لیا تھا۔

"بہت بھلے لوگ معلوم ہوتے ہیں یہ سامنے والے"۔ گھٹنے تھام کر بیڈ کے دوسری جانب بیٹھتے ہوئے انہوں نے اپنی رائے دی یا پھر اس کا دھیان بٹانے کی غرض سے کہا۔

"جتنے بھی اچھے لوگ ہوں۔ کچھ دنوں بعد یہ بھی ہم سے بے زار ہو جائیں گے"۔ وہ کھوئے کھوئے سے انداز میں بولی۔

اثبات پر انہوں نے چونک کر اس کی پشت دیکھی۔

"تو تمہیں خود کو سنبھال لینا چاہیئے بیٹا۔ دو سال اور چار ماہ ہو چکے ہیں اس حادثے کو تم کیوں اس بارے میں سوچ سوچ کر خود کو ہلکان رکھتی ہو؟ بھول جاؤ سب کچھ"۔ ان کی آواز بھرا گئی۔

وہ ماں تھی۔ لاکھ اعتراض کے باوجود بھی اپنی اولاد کا بڑے سے بڑا گناہ معاف کرنے کو تیار تھیں۔

"آرام کریں امی آپ"۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی وہ اس موضوع سے کنی کترا گئی۔

اپنی طرف کا لیمپ بجھا کے وہ سوتی بنی۔

جبکہ فرزانہ اچھی طرح جانتی تھیں کے ہر روز کی طرح آج بھی وہ رات آنکھوں میں کاٹ لے گی۔

_____________________________

 مختلف قسم کی بھاری مشینری سے آراستہ جم خانہ دیوار گیر آئینوں سے سجا تھا۔ 

ورک آؤٹ میوزک بجاتا ساؤنڈ سسٹم اس وسیع جم میں موجود اس واحد شخص کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا۔ 

آئینے میں نظر آتا وہ وجود میٹ پر بچھا، کہنیوں کی مدد سے خود کو زمین سے چند انچ اوپر اٹھائے پچھلے ایک منٹ پندرہ سیکنڈز سے پلینک کی پوزیشن میں تھا۔ سیاہ آدھی آستینوں والی شرٹ اس کے پھولے ہوئے مسلز کی وجہ سے قدرے چپکی ہوئی تھی۔

سامنے لگی بڑھی سی گھڑی گھنٹے اور منٹ کے علاوہ سیکنڈز بھی دکھا رہی تھی۔ جس کے مطابق اس کے دو منٹ پورے ہو چکے تھے۔ وہ پلینک کی پوزیشن سے نکل آیا۔

پسینے سے بھیگے بالوں کو دونوں ہاتھوں سے پیچھے کرتے ہوئے میوزک چینج کیا اور دونوں ہاتھوں میں ڈمبل سنبھال لیئے، جن سے وہ اب ہیمر کرلز کرنے لگا۔

پشت دروازے کی جانب تھی۔

سامنے موجود دیوار گیر آئینے میں اس کی سنجیدہ آنکھیں اور سپاٹ چہرا نظر آ رہا تھا۔

اچانک گہرے بھورے رنگ کا دروازہ وا ہوا اور کوئی بہت ہی دھڑلے سے اندر گھس آیا۔

ہاتھ میں موجود ٹرے میں بنانا شیک کا گلاس تھا۔ جسے وہ کونے میں ایک جانب کو رکھی چھوٹی سی میز پر تولیہ کے ساتھ رکھ چکی تھی۔

اس کا چہرا سپاٹ ہی رہا۔ البتہ آنکھوں کی سنجیدگی سرد مہری میں بدل گئی۔

"کون ہو تم؟ اور یہاں کس کی اجازت سے آئی؟"۔ ڈمبل نیچے رکھ کر میوزک بند کرنے کے بعد وہ اس کی طرف گھوما اور دنیا جہاں کی خشکی لہجے میں سموئے دریافت کیا۔

سیاہ جینز اور سرخ رنگ کی کرتی میں ملبوس، سیاہ بال آبشار کی طرح بکھیرے وہ بڑے ہی سکون سے پلٹی اور چند قدم چل کر اس کے نزدیک پہنچی۔

کھلتی گندمی رنگت پر گہری سیاہ آنکھیں اور پتلے نین نقش والی وہ جو کوئی بھی تھی انداز بے باکی لیئے ہوئے تھا۔ 

"نہ آپ حسنِ یوسف ہیں،

نہ ہم مصر کے کوئی تاجر،

اپنے اس بے رخی کے دام،

زرا کم کیجئے میرے چارہگر!"۔ 

سیاہ آنکھوں میں چمک لیئے دلکش مسکراہٹ کے ساتھ اس نے شعر کہے۔

میکائیل نے ایک نظر اپنے مضبوط بازو کی جانب بڑھتے اس کے کومل ہاتھ کو دیکھا اور اگلے ہی پل دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔ ایسے جیسے کے وہ کوئی اچھوت ہو۔ 

وہ رخ موڑ کر میز کی جانب آ گیا۔

"ہائے! ایسی بھی کیا بے رخی کے رخ موڑ کر پہچاننے سے ہی انکار کر گئے؟"۔ مجال ہے جو اس پر کسی بات کا اثر ہوتا۔ لہجے میں ہلکا سا شکوہ در آیا۔

مگر مقابل اسے اتنے آرام سے نظر انداز کیئے کھڑا تھا جیسے وہاں وہ اکیلا ہی ہو۔

"ماہا"۔ تولیے سے بھیگا وجود صاف کرتے ہوئے اس نے بلند آواز میں پکارا۔

اور ماہا اگلے ہی پل بوتل کے جن کی مانند حاضر تھی۔

ہلکے قد کاٹھ اور دھان پان سے وجود والی وہ چھوٹی سی لڑکی سامنے کھڑی ہستی کو وہاں موجود دیکھ کر ہی پریشان ہو گئی۔

"جی بھائی، آپ نے بلایا؟"۔ وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے تنبیہ کرتی اپنے بھائی سے مخاطب ہوئی۔

جو اب پانی کی بوتل کا ڈھکن کھول رہا تھا۔

"تمہاری دوست شاید راستہ بھٹک گئی ہے۔ نئی ہے نا، ابھی ہمارے گھر سے واقف نہیں ہے۔ اسے اکیلا مت چھوڑو۔ ورنہ یہ ایسی کھو جائے گی کے پھر ملنا ممکن نہ رہے گا"۔ ٹھنڈے ٹھار لہجے میں کہہ کر بوتل منہ سے لگا لیا اور غٹا غٹ پانی اپنے اندر انڈیلنے لگا۔

ماہا ان جملوں میں چھپی اس کی سنگین دھمکی کو خوب سمجھ چکی تھی۔ اس لیئے اگلے ہی پل ایک اچھی بچی کی طرح تابین کا بازو پکڑ کر اپنے ساتھ کھینچ کے لے جانے لگی۔

"خوش نصیبی میری، جو آپ مجھے غائب کر دیں۔ میری کشتی کنارے لگ جائے گی"۔ مجال ہے جو اس کے ڈھیٹ پنے میں کوئی کمی آئی ہو۔ ماہا کے ساتھ کھنچتے ہوئے وہ حسرت آمیز لہجے میں کہتی اس کٹھور شخص کو پلکیں جھپکائے بغیر دیکھتی ہوئی جیسے آنکھوں کے راستے دل میں اتار رہی تھی۔

"چلو تابین یونی بھی جانا ہے۔ دیر ہو رہی ہے"۔ بھائی کے تیور دیکھ کے ماہا نے گھبرا کر اسے مزید تیزی سے اپنے ساتھ کھینچ لیا اور کمرے سے باہر لے گئی۔

"اسے یونی سے زیادہ کسی دماغی ڈاکٹر کی ضرورت ہے"۔ اس نے پیچھے سے ہی ہانک لگائی تھی۔ پھر سر جھٹک کر وہ بھی کمرے سے باہر نکل گیا۔

بنانا شیک والے گلاس کو اس نے ہاتھ تک نہیں لگایا تھا۔

کچھ اتنی ہی نفرت تھی اسے۔ ہر اس چیز سے جسے کسی انجان عورت نے چھو بھی لیا ہو۔

___________________________

ان دونوں نے اس نیم جان سے وجود کو سڑک کنارے سے اٹھا کر گاڑی میں ڈال دیا تھا۔

اور خود بھی جلدی جلدی اگلی نشستوں پر سوار ہو گئے۔

"جلدی گاڑی بھگا جعفر، اس سے قبل کے پولیس یہاں بھی آ پہنچے"۔ گہرے سانولے رنگ کے حامل شخص نے ڈرائیونگ سیٹ پہ براجمان ساتھی سے کہا۔

"کر تو رہا ہوں۔ اب ہوائی جہاز تھوڑا ہی ہے یہ"۔ جھنجھلا کر کہتے ہوئے اس نے گاڑی واپس سڑک پر ڈال دی۔

سفید شلوار قمیض میں ملبوس خون میں لت پت قیصر خیام کے دماغ نے ایک خیال اسے سجھایا تھا۔ جس کا ذہن میں آنا ہی تھا کے اس کے وجود میں برق سی دوڑ گئی۔

اور اس سے قبل کے گاڑی مزید اسپیڈ پکڑتی اپنی تمام تر قوت مجتمع کرکے اس نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور چلتی کار سے پکی سڑک پر خود کو گرا دیا۔

وہ جو پہلے ہی زخمی تھا اب اس کی پیشانی پر اسی جگہ پھر سے چوٹ لگ گئی تھی جہاں گاڑی کے ایکسیڈنٹ کی وجہ سے پہلے ہی گہرا زخم لگا تھا۔

اور اس پر مستزاد یہ کے اس کا بازو اب فریکچر ہو چکا تھا۔

اس کا پورا جسم دہکتے کوئلوں پر جا پڑا تھا۔

خون تیزی سے بہہ رہا تھا۔

"ارے گاڑی روک جعفر، وہ کود گیا ہے"۔ دلاور چلایا تھا۔

جعفر نے ایک جھٹکے سے گاڑی روکی۔

وہ کالے آسمان کو دیکھتا زخمی سا مسکرا رہا تھا۔ ہاں اب وہ بھی الوینا کے پاس ہی جائے گا۔ اب اسے بھی جینا نہیں پڑے گا الوینا کے بغیر۔ اس نے زندگی بچانے کیلئے نہیں بلکہ اسے جلد سے جلد ختم کرنے کیلئے گاڑی سے چھلانگ لگائی تھی۔

کیونکہ اسے تھوڑی دیر پہلے کا منظر یاد تھا۔ الوینا کے سینے میں جیسے ہی گولی پیوست ہوئی تھی چند منٹوں میں ہی اس کی دھڑکن رک گئی تھی۔ اس بات کی تصدیق تب ہوئی جب جھٹکے کھاتی، الٹتی گاڑی میں قیصر نے اسے آخری ہچکی لیتے دیکھا تھا۔ ہاں! اس نے موت کی آخری ہچکی قیصر خیام کی نگاہوں کے سامنے لی تھی۔ تو بھلا اس منظر کو دیکھنے والا وہ شخص اب زندہ رہنے کی چاہ رکھتا بھی تو کیونکر؟

معاً گاڑی کی تیز ہیڈ لائٹس نے اس کی آنکھوں کو چندھیا دیا تھا۔

رات کے اس پہر سڑک سنسان پڑی تھی۔ پھر یہ گاڑی کس کی تھی؟

جہاں دلاور اور جعفر ٹھٹھکے تھے وہیں قیصر کے ماؤف ہوتے دماغ نے دھندلے منظر میں اسے سمجھایا تھا کے وہ گاڑی رک چکی ہے اور اب وہ شخص باقاعدہ دوڑتا ہوا اس کے زخمی وجود کے پاس پہنچا ہے۔

قیصر کو بس دھندلی آنکھوں سے اس آدمی کے لب ہلتے محسوس ہو رہے تھے۔ شاید وہ کچھ کہہ رہا تھا مگر آواز نہیں سنائی دے رہی تھی۔

"اوہ مائی گاڈ! یہ سب کس نے کیا؟ کون ہو تم؟"۔ اس وجود کے خون سے سنے چہرے میں فیض بخاری کو صرف سرمئی آنکھیں ہی نظر آ رہی تھیں۔

تبھی ان کی نظر زرا فاصلے پر موجود سیاہ پراڈو سے ٹکرائی۔

ان کی چھٹی حس الرٹ ہوئی۔

یک دم انہوں نے گن نکال کر اس گاڑی کی طرف دوڑنا شروع کر دیا۔

"ابے وہ یہیں آ رہا ہے۔ گاڑی بھگا جعفر!"۔ دلاور نے اس بارعب شخصیت کو اپنی جانب بھاگتے دیکھا تو چیخ اٹھا۔

"مگر وہ تو وہیں پڑا ہے۔ میڈم کو پتہ چلا تو وہ ہم دونوں کی کھال ادھیڑ دیں گی"۔ جعفر نے جھرجھری لے کر کہا۔

اس شخص سے زیادہ خوف اسے اس نازک اندام قاتل حسینہ کا تھا۔

جس نے اتنے توانا شخص کو مار گرایا تھا تو وہ کس کھیت کی مولی تھا۔

"ابھی تو بھگا گاڑی، یہاں سے بچ گئے تو ان سے بھی نپٹ لیں گے"۔ دلاور کو فل الفور اس شخص کا خوف تھا جو کچھ ہی قدم دور تھا۔

جعفر نے سر اثبات میں ہلایا اور اگلے ہی پل گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی فیض بخاری سے دور نکل گئی۔ 

"ڈیم اٹ"۔ وہ غصے سے کھول کر رہ گئے۔

پھر اچانک خیال اس زخمی وجود کا آیا تو بھاگ کر اس کی طرف آئے۔

اس کی سانسیں تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر بکھر رہی تھیں۔ موت بھی اسے قبول نہیں کر رہی تھی۔

"نہیں تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔ تم ٹھیک ہو جاؤ گے"۔ اس کی حالت دیکھ کر فیض بخاری جیسے مضبوط اعصاب رکھنے والے شخص کا بھی دل کٹ رہا تھا۔

اور وہ کسی قدر حیران بھی تھے کے اتنی چوٹیں لگنے اور اس قدر خون بہہ جانے کے باوجود بھی وہ شخص آخر اب بھی زندہ کیسے تھا؟

ان کا دل گواہی دے رہا تھا کے وہ کوئی عام انسان نہیں ہے۔ کیونکہ اس کی برداشت کی صلاحیت بہت زیادہ تھی۔ ایک نارمل انسان سے کئی زیادہ۔

مزید وقت ضائع کیئے بغیر وہ اٹھے اور گاڑی ڈرائیو کرکے اس کے بہت قریب لا کر روک دی۔ پھر جیسے تیسے کرکے اسے پچھلی نشست پر ڈالا اور خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔

اب گاڑی فیض صاحب کے معمول سے ہٹ کر پوری رفتار سے سیاہ سڑک پر دوڑتی ہوئی قریبی اسپتال پہنچنے کیلئے منزل طے کر رہی تھی۔

وہ تابین کا ہاتھ تھامے اسے لیئے برق رفتاری سے ہال کمرے سے ہوتی ہوئی مین دروازہ پار کرکے باہر نکل گئی۔

زینے اترتی نرمین نے کسی قدر چونک کر اپنی بیٹی کا ہوائیاں اڑاتا چہرا اور اس کے پیروں کی رفتار دیکھی۔

مگر اس سے قبل کے وہ اسے پکارتیں، ماہا اپنی دوست کو لیئے یونیورسٹی کیلئے جا چکی تھی۔

تبھی ان کی نظر اپنے بیٹے پر پڑی۔ جس کے چہرے پہ کھنچاؤ وہ دیکھ سکتی تھیں۔ اس کی روشن آنکھوں میں برف جیسا ٹھنڈا تاثر تھا۔ مٹھیاں وہ بار بار بھینچ کر کھول رہا تھا۔ یہ اس کا ایک انداز تھا، غصہ جتانے کا۔

اتنی دور سے بھی انہیں اندازہ ہو گیا تھا کے وہ برے موڈ میں ہے۔

"میکائیل؟"  انہوں نے آخری زینے پہ قدم دھرتے ہی اسے آواز دی تھی۔

وہ جو قدرے کونے میں موجود اپنے کمرے کی جانب جا رہا تھا راہداری میں ہی رک گیا۔

"جی"۔ اس نے فوری جواب دیا۔

وہ چلتی ہوئیں اس تک آئیں۔

"کیا ہوا؟ تمہارا موڈ کیوں آف ہے؟ "۔ وہ بھانپ گئی تھیں۔

میکائیل نے گہرا سانس بھر کے ان کی جانب رخ کیا۔

وہ بہرحال اپنی ماں سے سب کہہ دیا کرتا تھا۔

"یہ کیسی دوست ہے اس کی جو میرے جم ٹائم میں مخل ہوئی؟ اس کے ہاتھ آپ نے میرے لیے شیک کیوں بھیجا؟ آپ جانتی ہیں نا مجھے کسی بھی لڑکی کا وجود اپنے یا اپنی چیزوں کے ارد گرد برداشت نہیں ہے؟"۔ نہ آواز اونچی تھی نہ لہجہ تیز تھا۔ وہ صاف الفاظ میں بے تاثر لہجے میں اپنی کیفیت بتا رہا تھا۔ 

مکمل بات سنتے ہی انہیں ماہا کا جلدی جلدی یونی کیلئے بھاگنا یاد آ گیا۔ 

"اوہ! تو یہ بات تھی"۔ وہ لب بھینچے سوچنے لگیں۔ چہرے کے نقوش میں سختی پھیل گئی۔

"نوراں؟ جلدی یہاں آؤ"۔ طیش کے عالم میں وہ ملازموں کی ہیڈ کو آوازیں دینے لگیں۔

وہ بھاگتی ہوئی ان کے دربار میں پیش ہوئی۔

میکائیل اس عرصے میں ویسے ہی خاموش کھڑا رہا۔ چہرا بے تاثر تھا۔

"جی بیگم صاحبہ"۔ وہ ادب سے پوچھنے لگی۔

"کون تھی وہ لڑکی؟ اور میکائیل کے جم تک پہنچی کیسے؟"۔ انہوں نے قدرے سخت تیوروں سمیت اس سے پوچھا۔

"میں نے ان کو بہت بار منع کیا تھا پر انہوں نے کہا کے ماہا بی بی کی دوست ہیں وہ۔ میں نے تب بھی انہیں گلاس نہیں دیا پر وہ زبردستی مجھ سے چھین کر لے گئیں جی"۔ وہ سر جھکائے اپنی مجبوری بتا رہی تھی۔

انہیں ماہا کی لاپرواہی کھلی تھی۔

"تم جاؤ اب"۔ اگلے ہی پل انہوں نے نوراں کو اشارہ کیا۔

وہ سر ہلا کر وہاں سے چلتی بنی۔

جبکہ نرمین اب اس کی جانب متوجہ ہوئیں۔

"آئم سوری میرے چاند، ماہا کی لاپرواہی کی وجہ سے تمہیں یہ سب برداشت کرنا پڑا"۔ اس کی پیشانی چھوتے انہوں نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا۔

وہ ایسی ہی تھیں، جتنا میکائیل خود اپنے لیئے نہیں سوچتا تھا وہ اس کیلئے کانشئس ہوتی تھیں۔

"آپ کیوں سوری بول رہی ہیں غلطی اس لڑکی کی تھی"۔ وہ سر جھکائے دھیمی آواز میں کہنے لگا۔

نرمین کو اس پل وہ کوئی معصوم سا بچہ ہی لگ رہا تھا۔ وہ مسکرا دیں۔

"تم فریش ہو جاؤ میں تمہارے لیئے ناشتہ لاتی ہوں"۔ انہوں نے محبت بھرے لہجے میں کہا۔ جس پر میکائیل اثبات میں سر ہلا کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔

وہ بھی کچن جانے کیلئے مڑ گئیں۔

______________________________

"تمہیں کیا ضرورت تھی بھائی کے جم میں گھسنے کی؟ اب گھر جانے پر میری شامت پکی"۔ ماہا نے اسے ڈپٹنے کے ساتھ ہی آخری جملہ اپنے لیئے فکرمندی سے کہا۔

وہ دونوں اس وقت اپنے ڈپارٹمنٹ کی راہداری میں کھڑی تھیں۔

دونوں کا میجر اکنامکس تھا۔ ماہا کا یونیورسٹی میں یہ دوسرا سال تھا جبکہ تابین کا پہلا۔ 

تابین قدرے آزاد خیال اور باتونی لڑکی تھی۔ اس کا باپ دوسری شادی کرکے کینیڈا میں بس گیا تھا۔ جبکہ وہ اپنی نانی کے ساتھ رہ رہی تھی۔ کیونکہ بقول اس کے، سوتیلی ماں اسے قبول نہیں کرتی تھی۔

جبکہ ماہا مزاجاً اس کے الٹ تھی۔ کم گو اور سلجھی ہوئی۔ ان دونوں کی دوستی میں زیادہ تر ہاتھ تابین کا ہی تھا۔ 

"یار میں تو بس اسے ایک نظر دیکھنے گئی تھی۔ مجھے کیا پتہ تھا جو اس جذبات سے عاری شخص کو اتنا ناگوار گزرے گا میرا وہاں جانا"۔ وہ اداسی سے سر جھکائے کہہ رہی تھی۔

ماہا کو اس پر ترس آیا۔

"تو تم نے بھی تو پتھر سے سر پھوڑنے کی قسم کھا لی ہے نا۔ میکائیل بھائی تو لڑکیوں کے نام سے بھی الرجک ہیں۔ کبھی کبھی میں بھی سوچتی ہوں کے میں ان کی بہن ہوں شاید اس لیئے مجھے برداشت کرتے ہیں"۔ اسے تابین کیلئے برا لگ رہا تھا۔ جو محض دو بار دیکھنے پر ہی اس شخص کو دل دے بیٹھی جس کو یہ بھی نہیں پتہ تھا کے اس لڑکی کا کوئی وجود بھی ہے اس دنیا میں۔ 

"مجھے اتنا سمجھاتی ہو، کبھی کچھ عقل کی باتیں اس روبوٹ کم آدمی کو بھی سمجھا دیا کرو۔ آج تک اس نے میرا نام تک نہیں پوچھا بلکہ وہ تو مجھے ایک نظر دیکھتا بھی نہیں"۔ وہ ہمیشہ کی طرح آج بھی اپنے دکھڑے رو رہی تھی۔ ماہا کو برا بھی لگ رہا تھا اور اس کے انداز پر ہنسی بھی آ رہی تھی۔

"ان کے سامنے تو کبھی کبھی مام کی دال نہیں گلتی پھر میں کیا چیز ہوں۔ اس لیئے اب تمہیں سمجھا سکتی ہوں کے ان پر اپنی انرجی ضائع نہ کرو"۔ وہ صاف لفظوں میں اسے پیچھے ہٹنے کو کہہ رہی تھی۔

"تم نہیں سمجھ سکتی ماہا، تمہیں کسی سے محبت ہوگی نہ تب سمجھو گی۔ اپنے بس میں نہیں ہوتا ہے تب کچھ بھی"۔ اس کا انداز کھویا کھویا سا تھا۔

"چھوڑو یہ سب باتیں، چلو کلاس چلتے ہیں"۔ موضوع بدلنے کو اس نے کہا۔

ورنہ تابین ناجانے کتنی دیر اور وہیں کھڑی اپنی یک طرفہ محبت کا ماتم کرتی رہتی۔

____________________________

فیض بخاری نے چند میل نرس کو بلوا کر ان کے ذریعے اسے اسٹریچر پر منتقل کیا اور پھر جلدی جلدی اسے ہسپتال کے اندر لے جایا گیا۔

ان کے کپڑے قیصر خیام کے خون سے رنگ چکے تھے۔ 

"ڈاکٹر، پلیز اسے جلدی ٹریٹمنٹ دیجئے۔ بہت زیادہ بلڈ ضائع ہو چکا ہے آل ریڈی"۔ انہوں نے راہداری میں ایک ڈاکٹر کو روک کر کہا۔

"انہیں تو گولی لگی ہے یہ پولیس کیس ہے ہم انہیں پولیس کے آنے کے بعد ہی ٹریٹ کر سکتے ہیں"۔ ڈاکٹر نے معذرت کر لی۔

فیض صاحب بے یقینی سے اسٹریچر پر موجود اس وجود کی سانس اکھڑتے دیکھ رہے تھے۔ جو ہر پل موت سے قریب تر ہوتا جا رہا تھا۔

"اس میں تو بہت وقت جائے گا۔ میں بریگیڈیئر ریٹائرڈ فیض بخاری ہوں۔ اس قوم اور ملک کی ایک عمر حفاظت کی ہے میں نے اور اب بھی وہی کرنا چاہتا ہوں۔ ایک وجود کو اپنی نگاہوں کے سامنے دم توڑتے دیکھنا انسانیت کیلئے سب سے بڑی شکست کی بات ہے"۔ انہوں نے ڈاکٹر کو احساس دلانا چاہا۔

وہ لب بھینچے سوچ میں پڑ گیا۔

"میں سمجھ سکتا ہوں کے آپ قواعد و ضوابط کی پابندی کر رہے ہیں۔ آپ اس کا علاج کیجئے، میں بھی اپنا کام کرنے جا رہا ہوں۔ پھر پولیس بھی آ جائے گی"۔ انہوں نے بھرپور تسلی دی۔

"اوکے، انہیں جلدی آپریشن تھیٹر منتقل کرو جلدی! بلڈ گروپ معلوم کرو اور پھر بلڈ ارینج کرو فوراً"۔ اس نے نرس کو ہدایات جاری کیئے۔

پھر ان کی جانب متوجہ ہوا۔

"آپ کاؤنٹر پر باقی کی فارمیلیٹیز پوری کیجئے اور جلد سے جلد پولیس میں رپورٹ درج کروائیے"۔ جلدی جلدی بات مکمل کرکے وہ بھی آپریشن کی تیاری کرنے چلے گئے۔

فیض بخاری نے سب سے پہلے اپنے عزیز دوست کو کال ملائی مگر ان کا نمبر ہنوز بند جا رہا تھا۔

"انکل آپ یہاں؟ سب ٹھیک تو ہے؟"۔ 

وہ کاؤنٹر پر موجود تھے جب اچانک کسی کی آواز ان کی پشت پر گونجی۔ وہ مڑے اور اپنے سامنے پولیس وردی میں ملبوس ہارون عالم کو دیکھ کر وہ چونکے۔

"ہاں، میں ایک زخمی کو یہاں لایا ہوں اسے گولی لگی ہے۔ اچھا ہوا تم مل گئے یہاں، مختار کی کنڈیشن کیسی ہے اب؟"۔ وہ پریشانی کے عالم میں اس سے پوچھنے لگے۔

"کچھ ٹھیک نہیں ہے انکل، ان کی حالت بہت کرٹیکل ہے۔ بس دعا ہے کے اللہ انہیں جلد صحت یاب کرے"۔ ہارون نے بمشکل اپنی آنکھوں میں امڈتی نمی کو روکا۔

جبکہ اس کی بات سن کر ان کا دل دکھ سے بھر گیا۔

"پریشان مت ہو اللہ سب بہتر کرے گا۔ ہمت رکھو"۔ وہ اسے تسلی دینے لگے۔

ہارون نے ان کی بات پر محض سر ہلا دیا۔

"کہاں ایڈمٹ ہے وہ؟ میں یہاں اسے ہی دیکھنے آرہا تھا مگر سچویشن ایسی ہو گئی کے میں یہاں آ کر کسی اور کام میں لگ گیا"۔ انہوں نے افسردگی سے کہا۔

ان کو جیسے ہی خبر ملی تھی مختار صاحب کی طبیعت خرابی کی وہ فوراً گھر سے نکلے تو تھے اپنے دوست کو دیکھنے آنے کیلئے اور راستے میں وہ سب ہو گیا۔

"میں لے چلوں گا آپ کو ان کے پاس۔ آپ اس زخمی شخص سے متعلق کچھ کہہ رہے تھے؟ کیا ہوا ہے اسے؟ کچھ اندازہ ہے آپ کو؟"۔ وہ اب ایک ڈی-ایس-پی کی حیثیت سے ان سے مخاطب تھا۔

فیض صاحب کو بھی یک دم اس کا خیال آیا۔

"ہاں اس کی حالت بہت خراب ہے۔ کافی خون بہہ چکا ہے اور زخم بھی بہت گہرے ہیں"۔ وہ دل گرفتگی سے بتانے لگے۔

"آپ مجھے مکمل تفصیل بتائیے"۔ وہ انہیں لیئے راہداری میں موجود نشست پر آ بیٹھا۔ 

پھر فیض بخاری اسے شروع سے لے کر آخر تک سب کچھ تفصیل سے بتاتے چلے گئے۔

"میں نے جیسے ہی اس گاڑی کا پیچھا کیا وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس لیئے مجھے شک نہیں پورا یقین ہے کے یہ ان لوگوں نے ہی کیا ہے۔ گاڑی کا نمبر میں نے تمہیں بتا دیا ہے آفیسر، امید ہے اس سے کافی مدد ملے گی ان مجرموں کو پکڑنے میں"۔ انہوں نے پریقین لہجے میں کہا۔

ان کی بات پر دیوار کے ساتھ چپکے کھڑے دلاور اور جعفر کانپنے لگے۔

وہ دونوں فیض صاحب کی گاڑی کا پیچھا کرتے ہوئے اپنا مقصد پورا کرنے کیلئے یہاں آن پہنچے۔ مگر اب انہیں لینے کے دینے پڑ گئے تھے۔

"اب کیا ہوگا؟ وہ اگر بچ گیا تو وہ چڑیل ہماری جان کو آ جائے گی"۔ جعفر کے اعصاب پر اس لڑکی کا خوف طاری تھا۔

"ہم نے تو سوچا تھا کے پولیس کے آنے سے پہلے اپنا کام کرکے نکل لیں گے، پر سالے کی قسمت دیکھو، پہلے ایک فوجی کے ہاتھ لگ گیا اور اب پولیس بھی یہی مل گئی اس کا بیان لینے کو"۔ دلاور سرگوشی میں کہتے ہوئے قیصر کی قسمت کو کوس رہا تھا۔

"اس سے پہلے کے پولیس اس گاڑی تک اور اس کے بعد ہم تک پہنچے، نکل لے یہاں سے"۔ جعفر نے اسے ٹہوکا مارا۔

اس نے بھی بلا تامل اثبات میں سر ہلا دیا۔

وہ جو اسے موت کے گھاٹ اتارنے آئے تھے۔ اب سر پر پیر رکھ کر وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔

پون گھنٹے انتظار کرنے کے بعد وہی ڈاکٹر ان کے پاس چلا آیا۔

فیض صاحب سمیت ہارون بھی تیزی سے اٹھ کھڑا ہوا۔

"میں ڈی-ایس-پی ہارون عالم ہوں، اس شخص کا کیس میں نے درج کر لیا ہے۔ اب کیسی حالت ہے اس کی؟"۔ 

"دیکھیے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ خون کافی ضائع ہو چکا ہے۔ ہم نے انہیں بلڈ چڑھایا ہے مگر ان کا جسم کسی بھی علاج کو رسپانڈ نہیں کر رہا۔ لگ رہا ہے جیسے مریض خود اپنی زندگی کیلئے نہیں لڑنا چاہتا۔ اگر اگلے چوبیس گھنٹوں کے دوران انہیں ہوش نہ آیا تو کوما میں جانے کا خطرہ ہے"۔ جلدی جلدی اپنی بات مکمل کرکے ڈاکٹر آگے بڑھ گیا۔

"نرس، اے پازیٹو بلڈ ارینج کرو جلدی"۔ وہ اب نرس کو ہدایت دے رہے تھے۔

فیض صاحب سر تھامے کرسی پر ڈھے گئے۔

ہارون نے چونک کر انہیں دیکھا۔

"کیا آپ اسے جانتے ہیں انکل؟"۔ وہ دوسری بار یہ سوال ان سے کر رہا تھا۔

انہوں نے نفی میں سر ہلا دیا۔

"حوصلہ رکھیں، آپ نے تو پوری کوشش کی نا اس کی جان بچانے کیلئے۔ آگے جو اللہ کی مرضی"۔ اسے ایک انجان شخص کیلئے ان کی اتنی فکرمندی حیران کر رہی تھی۔

"مختار سے ملنا ہے مجھے"۔ وہ ایک بار پھر اٹھ کھڑے ہوئے۔ 

"جی آئیے، وہ سیکنڈ فلور پر ہیں"۔ انہیں اپنی معیت میں لیئے وہ لفٹ کی جانب بڑھ گیا۔

_____________________________

بہت دنوں بعد اپنی دوست کے اصرار پر وہ یوں کھلی فضا میں سانس لینے کو گھر سے باہر نکلی تھی۔ 

ورنہ زندگی تو کئی عرصے سے اس نے خود پر تنگ کر رکھی

تھی۔

سرما کی ٹھنڈی شام میں وہ ندا کے ہمراہ ایک کافی شاپ میں موجود تھی۔

بھانپ اڑاتا کافی کا مگ اس کے سامنے دھرا تھا۔ جس پر انگلی پھیرتی وہ نجانے کن خیالوں میں گم تھی۔

گوری سی سیاہ گھنگھریالے بالوں والی ندا اس کی واحد بہترین دوست تھی۔ 

کافی پیتے وہ بغور اپنے سامنے بیٹھی زیست کا جائزہ لے رہی تھی۔ زرد مرجھایا ہوا سا چہرہ، خوبصورت سبز آنکھوں سے وہ چمک مفقود تھی۔ اس کے گرد سیاہ ہلکے پڑ رہے تھے۔ اور تپتے صحرا کی مانند خشک پڑتے لب۔ یہ وہ زیست تو ہرگز نہیں لگ رہی تھی جسے وہ جانتی تھی۔

"کیا حال بنا رکھا ہے تم نے اپنا؟ زرا سوچو آنٹی کو کتنی تکلیف ہوتی ہوگی تمہیں اس طرح دیکھ کر؟ جوان جہان بیٹا تو انہوں نے پہلے ہی کھو دیا ہے اور بیٹی بھی نا جانے کن سوچوں کو سوچ سوچ کر اس حال کو پہنچ چکی ہے۔ تم کم از کم ان کے سامنے تو خود کو سنبھال لیا کرو زیست"۔ بالآخر اس سے رہا نہ گیا تو وہ سمجھانے بیٹھ گئی۔

اس کی بات پر وہ کافی کا سپ لیتے ہوئے تلخی سے مسکرا دی۔ اب وہ اسے کیا بتاتی اپنی حالت زار۔

"چھوڑو میری باتیں، اتنے عرصے بعد ملی ہو۔ کب آئی لندن سے؟"۔ وہ موضوع بدل گئی۔

ندا ٹھنڈی سانس بھر کے رہ گئی۔

فرزانہ بیگم نے اسے زیست کو سمجھانے کیلئے کہا تھا۔ مگر اب وہ اسے کیا سمجھاتی یا کیسے سمجھاتی؟ جب وہ اپنی ذات سے متعلق کوئی بات کرنے کو بھی تیار نہ تھی۔

"چند دن پہلے ہی آئی ہوں۔ زوہیب تو مجھے خود سے دور بھیجنے پر راضی نہ تھے مگر میری ضد دیکھ کر مجبور ہو گئے"۔ شوہر کا ذکر کرتے ہوئے اس کے لب دلکشی سے مسکرا اٹھے۔

جسے دیکھ کر زیست کو اس کی پرسکون ازدواجی زندگی کا یقین ہو گیا۔ وہ اپنی دوست کیلئے دل سے خوش تھی۔

"ہاں بھئی اب تھوڑا تو مکھن لگائیں گے ہی نا زوہیب بھائی۔ آخر کو ان کی عقل سے پیدل بیوی نے اپنی میڈیکل کی پڑھائی چھوڑ کر انہیں جو ترجیح دی"۔ زیست نے پہلی بار مسکراتے ہوئے تبصرہ کیا۔

ندا اس کی بات پر ہنس پڑی۔

"سچ کہوں تو میں اپنے فیصلے پر مطمئن ہوں۔ اور ویسے بھی تم نے ڈاکٹر بن کر کون سا معرکہ سر کر لیا۔ گھر ہی بیٹھ گئی"۔ بظاہر منہ بنا کر کہتے اس نے بڑی ہی صفائی سے اپنی توپوں کا رخ اس کی جانب موڑ دیا۔ 

اس کی بات سن کر زیست کے چہرے پر سایہ سا لہرایا۔

شیشے پر نظر آتے اس چہرے کے عکس نے زیست کے اوسان خطا کر دیئے تھے۔ وہ جلدی سے چہرا جھکا گئی۔

اس کی کیفیت سے انجان، ندا کہہ رہی تھی۔

"تو بتاؤ محترمہ اپنی ہاؤس جاب چھوڑ کیوں دی درمیان میں ہی؟ جبکہ میں گواہ ہوں کے ڈاکٹر بننا تمہارا واحد خواب اور واحد ہی مقصد تھا"۔ اس کی جانب دیکھتے ہوئے وہ پوچھنے لگی تھی۔

زیست کے چہرے پر گھبراہٹ واضح نظر آنے لگی تھی۔ اس کی سبز آنکھوں میں خوف تیرنے لگا تھا۔

ندا کو اس کی غیر ہوتی حالت تشویش میں مبتلا کر گئی۔

"کیا ہوا زیست؟ تم ٹھیک تو ہو؟"۔ اس کے ہاتھ پر ہاتھ دھرتے ہوئے وہ فکرمندی سے پوچھ رہی تھی۔

زیست کے ہاتھ یخ پڑنے لگے تھے۔ 

وہ بار بار چور نگاہوں سے اپنے سامنے کے شیشے پر نظر آتے اس عکس کو ہی دیکھ رہی تھی۔ جو ٹھیک اس کے پیچھے والی میز کے گرد بیٹھا تھا۔

"مم۔۔۔میں چلتی ہوں۔ پھر کبھی ملوں گی تم سے"۔ وہ یکا یک اٹھ کھڑی ہوئی۔

"ارے لیکن ہوا کیا ہے؟ ایسے اچانک کیوں جانے لگی تم؟"۔ ندا بھی پریشانی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

"میں چلتی ہوں۔ اللہ حافظ"۔ اس نے جھک کر اپنا بیگ اٹھایا اور جیسے ہی نگاہ شیشے پر پڑی، وہ چہرا وہاں کہیں نہیں تھا۔

زیست کی ہتھیلیاں پسینے سے بھیگنے لگیں۔

اس نے جلدی سے کافی شاپ سے باہر کی جانب سر پٹ دوڑ لگا دی۔

"زیست رکو تو"۔ اس سے قبل کے وہ اس کے پیچھے لپکتی ویٹر کی آواز نے اسے روک دیا۔

"میم، بل"۔ وہ اس کا راستہ روکے کھڑا تھا۔ ندا نے پریشانی سے ایک نظر سڑک پر دوڑتی زیست کو دیکھا پھر بل ادا کرنے کو پرس کھول لیا۔

پانچ منٹ بعد فارغ ہو کر وہ جیسے ہی باہر نکلی زیست اسے کہیں نظر نہ آئی۔

"کہاں چلی گئی یہ لڑکی اچانک"۔ ارد گرد فکرمند نگاہیں دوڑاتی وہ بڑبرائی۔

____________________________

سورج رخصت ہو چکا تھا۔ دن ڈھل گیا تھا۔ سفید آسمان سیاہ پڑنے کے قریب تھا۔

ہیلز کی پرواہ کیئے بغیر وہ تیز تیز چلتی چلی جا رہی تھی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کے پنکھ لگا کے اڑ کر گھر پہنچ جائے۔ 

اس نے پاس سے گزرتی ٹیکسی کو جلدی سے روکا اور بنا سوچے سمجھے اس میں سوار ہو گئی۔

ارد گرد خوفزدہ نگاہوں سے دیکھتی وہ گاڑی کے ایک کونے پہ دبک کے بیٹھی تھی۔

اس کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ رہے تھے۔ پیشانی پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے۔ وہ بار بار خشک ہونٹوں پہ زبان پھیر رہی تھی۔ گلے میں کانٹے اگ آئے تھے۔

"میڈم آپ نے بتایا نہیں کے کہاں جانا ہے؟"۔ ڈرائیور نے اس سے سوال کیا۔ 

اس اچانک آواز پہ وہ اچھل پڑی تھی۔

پھر خود کو بمشکل سنبھالتے ہوئے اڈریس بتانے لگی تھی جب اچانک اس کی نگاہ گاڑی کے شیشے میں نظر آتی ان دو سرمئی آنکھوں پر جم گئی۔ 

اس کے ارد گرد چلتی دنیا رک گئی تھی۔

دل کی دھڑکن مدھم پڑ گئی تھی۔

ہر شے جیسے بہت پیچھے رہ گئی تھی۔ 

وہ سرمئی آنکھیں سرد، برف جیسے تاثرات لیئے اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔

اس کی اوپر تلے کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی۔

سبز آنکھیں پھیلائے وہ گاڑی کے بیک ویو مرر کو ہی دیکھ رہی تھی۔ اس کا پورا وجود برف کا مجسمہ بن گیا تھا۔

جس سے وہ بھاگ رہی تھی وہ تو اس کے سائے کی طرح ساتھ ہی چل پڑا تھا۔

"گاڑی روکو"۔ حواس بحال ہوتے ہی بے ساختہ اس کے منہ سے یہی نکلا۔

خوف اس کی آنکھوں میں تیر رہا تھا۔ اسے لگ رہا تھا جیسے ابھی وہ شخص مڑے گا اور اس پر حملہ کردے گا۔

"کیا ہوا ہے میڈم؟"۔ ڈرائیور نے چونک کر شیشے میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔ البتہ گاڑی اب بھی سڑک پر رواں تھی۔

"میں نے کہا گاڑی روکو، گاڑی روکو ابھی کے ابھی"۔ ہسٹریک ہو کر چلاتے ہوئے اس نے سیٹ کی پشت پر زور زور سے ہاتھ مارنا شروع کر دیا۔

اس کے جارحانہ تیور دیکھ کر ڈرائیور کو رکتے ہی بنی۔

اور زیست گاڑی کے مکمل رکنے سے قبل ہی پھرتی سے دروازہ کھول کر گرتی پڑتی سڑک پر بھاگنے لگی تھی۔ 

"ارے میڈم میرا پیسہ تو دیتی جاؤ، اتنی دور لایا آپ کو"۔ گاڑی سے نکل کر ہلکی براؤن رنگت والے چھوٹی قد کاٹھ کے ڈرائیور نے پیچھے سے ہانک لگائی تھی۔ مگر وہ کہاں کچھ سن رہی تھی۔

"غریب کی روزی پر لات مار کے چلے گئے"۔ ڈرائیور دہائیاں دیتا رہ گیا۔

وہ بنا رکے یا پیچھے مڑے بس دوڑتی چلی جا رہی تھی۔ آس پاس سے گزرتے لوگ حیرت سے اس دیوانی کو دیکھ رہے تھے۔

مگر اسے ارد گرد کا ہوش ہی کب تھا وہ تو بس پوری رفتار سے بھاگ رہی تھی۔

دوڑتے دوڑتے اچانک ایک جھٹکا کھا کر وہ زمین بوس ہو گئی۔

"آہ"۔ درد کی ایک شدید لہر اس کے وجود میں اٹھی تھی۔ ہاتھ کی نازک ہتھیلیاں پتھریلی سڑک پر گرنے کی وجہ سے چھل گئی تھیں۔ جس سے اب ہتھیلیوں میں ناقابل برداشت جلن ہونے لگی۔ چوٹ لگنے سے گھٹنے الگ درد کرنے لگے تھے۔

گرنے کی وجہ تلاشتے ہوئے نگاہ اپنے پیروں پر گئی تو دیکھا کے اس کی پسندیدہ سیاہ ہیل جڑ سے ہی اکھڑ چکی تھی۔ اس نے جوتے سے پیر آزاد کر دیئے۔

اپنی لاچاری پر سبز آنکھیں تیزی سے بھیگ گئیں۔ 

آتے جاتے لوگ اسے دیکھ رہے تھے۔ کوئی ہنس رہا تھا تو کوئی افسوس کر رہا تھا۔ مگر رک کر اس کی مدد کرنے کی زحمت کسی نے نہیں کی تھی۔

وہ سر جھکائے آنسو بہانے لگی۔

"آنٹی کیا ہوا؟ آپ کو چوٹ لگی ہے؟"۔ شفاف سی آواز اس کے پاس گونجی تھی۔

زیست نے چونک کر سر اٹھایا۔ وہ آٹھ نو برس کا پھولے گالوں والا بچہ تھا۔ جو اپنے پیچھے بستہ لٹکائے رکوع کی حالت میں جھکا معصوم سی سیاہ آنکھوں سمیت اس کا چہرا دیکھتے ہوئے فکرمندی سے پوچھ رہا تھا۔

اس کے یوں پوچھنے پر زیست کو اور رونا آنے لگا۔ ہاتھ کی پشت سے بھیگا چہرا رگڑتے ہوئے اس کے سوال پر بمشکل سر ہلایا تھا۔

"چلیے، میں آپ کی ہیلپ کرتا ہوں"۔ مسکراتے ہوئے اس نے چھوٹے چھوٹے ہاتھ اس کی جانب بڑھائے۔

زیست گھبرا کر پیچھے ہوئی اور بے چارگی سے لب کاٹنے لگی۔

پھر اس کی جانب دیکھتے ہوئے کچھ سوچ کر اس کا بڑھایا گیا ہاتھ تھام لیا۔

بچہ خوش تھا کے اس نے اتنی بڑی لڑکی کو سہارا دے کر اٹھنے میں مدد کی ہے جبکہ حقیقت تو یہ تھی کے زیست نے اس کا ہاتھ برائے نام ہی تھام رکھا تھا۔ اور اپنے وجود پر زور دے کر وہ اٹھی بھی اپنی مدد آپ کے تحت ہی تھی۔

بچے نے جھک کر اس کا بیگ اٹھا کے اسے پیش کیا۔

جسے تھامتے ہوئے اس عرصے میں زیست پہلی بار مسکرائی تھی۔

"آپ تھوڑا سا پانی پی لیجیے"۔ اس نے اپنے بیگ کے سائیڈ پہ لگا بوتل نکال کر اس کے سامنے کیا۔

وہ ہچکچا کر اس بھری ہوئی بوتل کو دیکھنے لگی۔ پھر محض اس بچے کا دل رکھنے کو چند گھونٹ پانی حلق سے اتارا۔

"کیا نام ہے تمہارا؟"۔ وہ دلچسپی سے اس کی جانب دیکھ کر پوچھنے لگی۔ 

اتنے عرصے میں یہ پہلی بار تھا کے وہ کسی اجنبی وجود کو خود سے مخاطب کر رہی تھی۔

"قیصر"۔ وہ مسکراتے ہوئے بلاتامل بولا۔

اور یہ نام سنتے ہی اس کے چہرے کی مسکراہٹ غائب ہوئی۔

دو قدم پیچھے ہوتے ہوئے وہ بے اختیار لڑکھڑائی۔

اگلے ہی پل اس نے پھر سے رفتار پکڑ لی۔ اور ننگے پیروں میں چبھتے کنکر پتھر سے بے بہرہ ہو کر وہ تیز قدموں سے چلتی ہوئی وہاں سے نکل گئی تھی۔

بچہ کندھے اچکا کر رہ گیا۔ پھر چلتے ہوئے وہ سڑک کنارے آ رکا۔ درخت تلے دیوار کی جانب منہ کیئے کھڑا وہ لمبا تڑنگا وجود سرمئی رنگ کی ہڈی میں ملبوس تھا۔

"انکل، آپ کا کام ہو گیا ہے"۔ بیگ کے اسٹریپس تھامے وہ رازداری سے بولا۔

اگلے ہی پل ہڈی والے شخص نے رخ اس کی جانب موڑا۔ اس کا چہرہ آدھے سے زیادہ چھپا ہوا تھا۔ بس گہرے بھورے رنگ کے مونچھوں تلے بھرے بھرے سے احمریں لب اور پتلی تیکھی ناک ہی واضح ہو رہی تھی۔

"گڈ، بہت سمجھدار ہو تم۔ وہ پانی کی بوتل مجھے دو"۔ اس کے لب ہلے تھے۔ 

بچے نے سر ہلا کر بوتل اسے پکڑا دیا۔ جسے مقابل نے لیدر کے گلوز پہنے ہاتھوں سے تھام لیا۔

"بہت خوب"۔ مسکراہٹ اس کے لبوں پر ایک چھب دکھلا کے غائب ہوئی۔

"ویسے انکل، یہ قیصر کون ہے؟ اور وہ آنٹی اتنا ڈری کیوں؟"۔ گال تلے انگلی رکھے وہ سوچتے ہوئے پوچھ بیٹھا۔

"بیوی ہے میری، اپنے آشنا کے ساتھ بھاگ گئی تھی کچھ دن پہلے"۔ ٹھنڈا ٹھار لہجہ اختیار کرتے ہوئے ایک ہی جملے میں پوری کہانی ختم کردی۔

"اوہ، تو مطلب آپ اس کے شوہر یعنی قیصر کے دوست ہیں اور وہ یہ سوچ کر ڈر گئیں کے شاید آپ انہیں ڈھونڈ رہے ہوں گے اس لیے بھاگ گئیں"۔منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے ہوئے بچے نے ساری کڑیاں جیسی خود ہی ملا دیں۔

"بہت خوب، مستقبل قریب میں تم ضرور دنیا کی نمبر ون ایجنسی کے سپاہی بنو گے"۔ اس کا شانہ تھپکتے ہوئے مستقبل کا خاکہ کھینچا۔ 

بچہ کچھ سمجھتے ہوئے اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے مسکرا دیا۔

جبکہ مزید کچھ کہے بنا وہ اب جانے کیلئے مڑ گیا۔

"پر میری چاکلیٹ؟"۔ وہ منہ کھولے اس کی پشت تکتا ہوا پکارا۔

مگر وہ ان سنی کیئے تیز تیز چلتا ایک گلی میں مڑ گیا۔

بچہ منہ پھلائے خالی سڑک کو دیکھتا رہ گیا۔ بیگ کے اسٹریپس تھامے کے تبھی اسے اپنے شانے اور اسٹریپس کے درمیان ایک کاغذ کا ٹکڑا پھنسا ہوا نظر آیا۔ اس نے چونک کر کاغذ کا ٹکڑا کھولا اور چہرے کے سامنے کیا۔

"تمہاری ممی نے سکھایا تو ہوگا نا بیٹے کے کسی راہ چلتے سے کوئی چیز لے کر نہیں کھاتے۔۔۔ہوں؟ گھر جاؤ شاباش"۔  کاغذ پر لکھی وہ نوٹ اس کا منہ چڑھا رہی تھی۔

جسے پڑھتے ہوئے وہ آہستہ آہستہ سر ہلانے لگا۔ جیسے اس بات کی تائید کر رہا ہو۔

_____________________________

وہ ابھی ابھی مختار انصاری کو دیکھ آئے تھے۔ گھر سے ان کیلئے فون پر فون آ رہے تھے کیونکہ ہسپتال میں انہیں چار گھنٹے بیت چکے تھے۔ وہ کاؤنٹر پر ایمرجنسی کانٹیکٹ نمبر دے کر تھوڑی دیر کیلئے گھر کو روانہ ہو گئے تھے۔

خیابان بخاری تاریکی اور خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا۔ انہوں نے بارش میں بھیگ جانے کی وجہ سے جوتے وہیں دروازے کے باہر اتارے اور ڈپلیکیٹ چابی سے دروازہ کھولنے کے بعد گھر میں داخل ہوئے۔

ہال کمرے سے ہوتے ہوئے وہ راہداری کی جانب بڑھ گئے جہاں ان کا کمرہ تھا۔ 

اتنی ہی آہستگی سے دروازہ کھولا تو سامنے کا منظر دیکھ کر تھکے ہوئے ہونے کے باوجود مسکرا اٹھے۔

بیگم بخاری پریشانی سے ارد گرد چکر کاٹ رہی تھیں۔

"سوئی نہیں تم؟"۔ انہوں نے کوٹ اتار کر اسٹینڈ پر ڈالتے ہوئے انہیں مخاطب کیا۔ آواز پر وہ چونک کر مڑیں۔ اور اگلے ہی پل پرسکون سی ہو کر مسکرا دیں۔

"چور چوری سے جائے پر ہیرا پھیری سے نہ جائے۔ یہ والا حال ہے آپ کا بھی۔ ریٹائر ہو گئے آپ پر کچھ عادتیں اب بھی نہیں بدلتیں آپ کی"۔ وارڈروب سے ان کے کپڑے نکالتے ہوئے انہوں نے کہا۔

"جیسے کے کون سی عادت؟"۔ وہ بھی انہی کے سے انداز میں پوچھنے لگے۔

"چوروں کی طرح گھر میں داخل ہونا"۔ بلا تاخیر جواب دیا۔

فیض بخاری کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔

"بیل تو اس لیئے نہیں بجائی کے کہیں سب کی نیند نہ خراب ہو جائے۔ اور پھر چابی تھی نا میرے پاس"۔ انہوں نے جواب دیا۔

"اچھا یہ سب چھوڑیئے، پہلے آپ فریش ہو جائیں اور چینج کر لیں پھر بات کرتے ہیں"۔ انہوں نے شوہر کے خون سے سنے کپڑے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

"جیسا آپ کا حکم"۔ انہوں نے اثبات پر سر تسلیم خم کیا۔ اور اپنے کپڑے اٹھائے فریش ہونے چلے گئے۔

کچھ ہی دیر بعد وہ فارغ ہوئے۔ تب تک ان کی بیگم ناشتے کی ٹرے تھامے کمرے میں موجود تھیں۔

"پہلے ناشتہ کر لیجیے پھر اس کے بعد جائیے گا ہاسپٹل، اس مریض کی عیادت کو"۔ انہوں نے رسانیت سے کہا۔

فیض صاحب جو اب اپنا کوٹ پہن رہے تھے ان کی بات پر نفی میں سر ہلا دیا۔

"سچ کہوں تو جب تک وہ تندرست نہیں ہو جاتا یا ہوش میں نہیں آ جاتا میرا دل نہیں لگے گا کسی چیز میں"۔ ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے انہوں نے جواب دیا۔

"یہ فکر مختار بھائی کیلئے ہے یا اس انجان وجود کیلئے؟"۔ انہوں نے نرم لہجے میں سوال کیا۔

وہ ایک فوجی کی بیوی تھی۔ جس کے شوہر نے ایک عمر الگ الگ پہچان اور مختلف چہرے بدلتے گزارا تھا۔ ایک عمر ساتھ گزرا دونوں کا۔ لہٰذا وہ ان کی مزاج آشنا تھیں۔

"مختار کی فکر فطری ہے۔ کیونکہ وہ میرا دوست ہے۔ لیکن میری پریشانی اس وجود کیلئے ہے جس کے جسم پر سوائے سرخ خون کے اور کچھ نہیں ملا ہے اب تک، جس سے کے اس کی پہچان ہو سکے"۔ سفید و سیاہ بالوں میں برش پھیرتے ہوئے ان کا لہجہ پریشانی لیے ہوئے تھا۔

فیض بخاری کی اثبات پر وہ خاموشی سے انہیں دیکھتی رہیں۔

صبح کے چھ بجنے کے قریب تھے۔ آسمان گھن گرج کے ساتھ پوری آب و تاب سے برس رہا تھا۔ ایک گھنٹہ گھر پر گزار کر فریش ہونے کے بعد فیض بخاری اب پھر سے ہسپتال کیلئے نکل رہے تھے۔ آدھے گھنٹے کا فاصلہ طے کرنے کے بعد وہ دوبارہ ہسپتال پہنچے۔

ڈاکٹر سے ملنے کے بعد جو بات انہیں پتہ چلی اسے سن کر ان کی پریشانی دوچند ہو گئی۔

"مریض کی حالت کے پیش نظر ہم نے آپ سے فوری طور پر کانٹیکٹ کرنے کی کوشش کی مگر رابطہ نہ ہو سکا"۔ ہسپتال کے ہیڈ، ڈاکٹر شہزاد ان کے ساتھ راہداری میں چلتے ہوئے انہیں آگاہ کر رہے تھے۔

"معذرت خواہ ہوں، دراصل موبائل بند پڑا تھا میرا۔ پھر بعد میں چیک کرنے پر آپ کا پیغام ملا۔ اب کیسی کنڈیشن ہے اس کی؟"۔ وہ فکرمندی سے پوچھنے لگے۔

"ان کی حالت کے پیش نظر ہم نے سکون آور انجیکشن دے دیا ہے انہیں، ورنہ ہوش میں آنے کے بعد جس طرح سے وہ خود کو نقصان پہنچا رہے تھے، ہم تو تشویش زدہ رہ گئے"۔ وی-آئی-پی وارڈ کا دروازہ کھولتے ہوئے انہوں نے کہا۔

فیض صاحب اندر داخل ہوئے۔ اور نگاہ جیسے ہی اس چہرے پر پڑی ان کے پیروں تلے کی زمین سرک گئی۔ بے یقینی سے وہ اس پرسکون مگر زخمی چہرے کو دیکھ رہے تھے۔ 

جب انہوں نے پہلی بار اسے دیکھا تھا تو سرخ خون اور زخموں کی وجہ سے اس کا چہرا ہرگز بھی پہچانا نہیں جاتا تھا۔ اور اب؟

"بلیک اسکارپیئن"۔ ان کے لبوں نے بے آواز حرکت کی تھی۔ دروازے پر ان کی گرفت سخت تر ہوئی تھی۔ اور آنکھیں قدرے حیران۔

جس کی زندگی بچانے کیلئے انہوں نے اتنی تگ و دو کی تھی وہ تو خود قانون کا مجرم۔۔۔ایک بےرحم قاتل نکلا تھا۔

_________________________________

سربراہی کرسی کی پشت پر کھڑے ڈی-جی صاحب پیشانی پر بل لیئے اس وقت اپنے ہاتھ میں موجود اس فائل کو پڑھ رہے تھے۔

"دی کوبرا گینگ! غیر قانونی ہتھیار اور انسانی وجود کی اسمگلنگ کیلئے جانا جاتا ہے۔ پچھلے تین سالوں میں اس نے  بہت تیزی سے ملکی جڑوں میں گھس کر انہیں کھوکھلا کرنا شروع کر دیا ہے۔ ملک کے نامور شخصیات، جن میں مشہور سیاسی جماعتوں کے کارکنان، بیوروکریٹس اور کاروباری شخصیات میں سے کئی ایک نام ہیں جو اس کی پشت پناہی کر رہے ہیں"۔ انہوں نے فائل بند کرکے ٹیبل پر پٹخ دی۔

"یقین نہیں آتا کے میکائیل جیسے جینیس آفیسر کو اس کام پہ لگا دیا تم نے، یہ کام تو تم کسی بھی نئے بندے سے کروا سکتے تھے۔ ایک معمولی گینگ کے لیڈر کو ڈھونڈنے کا کام اتنا اہم نہیں تھا جتنا اہم یہ کام ہے جو میں اب تمہیں بتانے جا رہا ہوں"۔ انہوں نے تیوری چڑھائے اپنے سامنے کھڑے لیفٹینٹ جنرل سے کہا۔

"سر ہماری اب تک کی تیار کی گئی انٹیلیجنس رپورٹ کے مطابق، اس گینگ کی خاصیت یہی ہے کے اس نے لو پروفائل رکھا ہوا ہے۔ یہ مخصوص دنوں میں، مخصوص اوقات میں ہی اپنے کام سرانجام دیتا ہے۔ کسی بھی گینگ کا سربراہ اپنی گینگ کو بڑھانے کیلئے، اور پھیلانے کیلئے کام کرتا ہے۔ مگر "دی کوبرا گینگ" اس کے بالکل الٹ ہے۔ اور پھر اتنی غیر معروف گینگ کے سربراہ کا پتہ نہ لگ پانا سب سے تشویشناک بات ہے۔ پولیس کے کئی مخبر اور آفیسرز نے اپنی جان گنوائی ہے۔ اس گینگ کے سربراہ کا پتہ لگانے میں۔ اسی لیئے میں نے میکائیل کو اس مشن پر بھیجا۔ کیونکہ وہ بہت جلد یہ کام ختم کر لیتا"۔ لیفٹیننٹ جنرل نے ڈی-جی کو کنوینس کرنے کی اپنی سی کوشش کی۔

"اور اب میکائیل غائب ہے۔ اس سے رابطہ نہیں ہو پا رہا ہمارا۔ خیر وہ بعد کی بات ہے۔ ابھی کی بات سب سے اہم ہے۔ اور وہ یہ ہے کے ہمارے نیوکلیئر ہتھیاروں کا پتہ ملک دشمن عناصر کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ جس کا مطلب ہے تباہی اور صرف تباہی"۔ پیشانی پر بل ڈالے انہوں نے اطلاع دی۔

جبکہ ان کی بات سن کر مقابل کی سماعتوں پر جیسے کسی نے بم پھوڑا تھا۔

"مائی گاڈ! سر یہ تو واقعی قابل تشویش بات ہے"۔ 

"ہوں، بات واقعی تشویشناک ہے۔وقت بہت کم ہے ہمارے پاس۔ ایجنٹس کی ایک ٹیم تشکیل دو۔ انہیں صورتحال سے آگاہ کرو، معلوم کرو کے وہ دشمن عناصر کون ہیں اور اب تک کیا کیا معلومات حاصل ہو چکی ہیں انہیں"۔ انہوں نے حکم سنایا۔

"یس سر"۔ لیفٹیننٹ جنرل نے جواب دیا۔

"اور جس مشن پر میکائیل کام کر رہا تھا اس کا کیا سر؟"۔ وہ پوچھنے لگے۔

"اسے ابھی کیلئے روک دو۔ اس سے زیادہ اہم مسئلہ ہمیں فلحال درپیش ہے۔ جس سے نپٹنے کیلئے حکمت عملی تیار کرو۔ مشن "انڈر دی ماسک" پر توجہ دو، ان چہروں سے نقاب ہٹاؤ جنہیں ہمارا اہم راز معلوم ہو چکا ہے"۔ انہوں نے پرسوچ نگاہوں سے غیر مرئی نقطے پر نگاہیں جمائے حکم دیا۔

لیفٹیننٹ جنرل نے ان کی بات کی تائید کی۔

دروازے پر مسلسل بجتی اطلاعی گھنٹی کو سنتے ہوئے انہوں نے برنر کی آنچ دھیمی کر دی اور کچن سے نکل کر لاؤنج سے ہوتے ہوئے دروازے تک آئیں۔ جوں ہی دروازہ کھلا فرزانہ بیگم نے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔

"یا اللہ! زیست یہ سب کیا ہے؟"۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کا حلیہ ملاحظہ کرتے ہوئے پوچھ رہی تھیں۔

الجھے الجھے سے شہد رنگ بال، سبز آنکھوں میں پڑتے سرخ ڈورے، زخمی اور ننگے پاؤں وہ مٹی لگے کپڑوں کے ساتھ وہ بھاگ کر ان کے سینے سے لگی اور سسک پڑی۔

انہوں نے جلدی سے دروازہ بند کیا اور اسے اپنے ساتھ لگائے لاؤنج میں صوفے پر آ بیٹھیں۔

"رو کیوں رہی ہو؟ کچھ تو بولو میری بچی۔۔۔میرا دل بیٹھا جا رہا ہے؟دیکھو میری طرف"۔ انہوں نے اس کا چہرا ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے ہوئے پریشانی سے پوچھا۔

ان کے ہاتھ تھامے، اشک بہاتی ہوئی وہ روتے ہوئے آہستہ آہستہ سارا واقعہ ان کے گوش گزار کرتی چلی گئی۔

"شکر خدا کا تم صحیح سلامت گھر آ گئی"۔ اس کی پیشانی پر بوسہ ثبت کرتے ہوئے انہوں نے بے اختیار سکھ کا سانس لیا۔

پھر نگاہ اس کے زخمی پیروں اور ہاتھوں پر پڑی تو وہ بے چین ہو اٹھیں۔

کچھ کہے بنا وہ فرسٹ ایڈ باکس لے آئیں اور اب اس کے زخم صاف کرتے ہوئے پٹی کرنے لگیں۔

"تمہیں اس طرح اکیلے نہیں آنا چاہیئے تھا، ندا سے کہہ دیتی۔ جیسے وہ لے کر گئی تھی ویسے ہی تمہیں گھر چھوڑ بھی جاتی"۔ اس کے ہاتھوں پر مرہم پٹی کرنے کے بعد وہ گویا ہوئیں۔

ان کی بات پر وہ نفی میں سر ہلانے لگی۔

"میں نے کہا تھا آپ سے۔۔۔مجھے کہیں نہیں جانا مگر آپ نے مجھے زبردستی باہر بھیج دیا"۔ تکلیف سے بے نیاز وہ صوفے پر دونوں پاؤں اوپر کیئے بازو گھٹنے کے گرد لپیٹ کے بیٹھی تھی۔

فرزانہ بیگم نے بے چارگی سے اسے دیکھا۔

"تو میرا بچہ اب تم ساری زندگی خوف سے دبک کر گھر میں تو نہیں بیٹھ سکتی نا۔ تمہیں کبھی نہ کبھی تو اس دنیا کا سامنا کرنا ہی ہوگا۔ آخر میرا کمزور سہارا کب تک تمہارے کام آ سکے گا؟"۔ وہ اسے سمجھانے لگیں۔

"نہیں کرنا مجھے کسی کا سامنا، کسی سے نہیں ملنا مجھے اور نہ ہی کہیں جانا ہے"۔ وہ ہٹ دھرمی سے کہنے لگی۔

سبز آنکھیں بار بار بھیگ رہی تھیں۔ جنہیں وہ بے دردی سے ہاتھ کی پشت سے رگڑ دیتی۔

"جو شخص اس دنیا میں ہی نہیں ہے پھر تمہیں کیونکر اس کا اتنا خوف ہے؟ وہ مر چکا ہے زیست اور اس کے خون سے اپنے ہاتھ تم نے خود اپنی مرضی سے رنگے ہیں۔ جو شخص ہے ہی نہیں وہ تمہیں نقصان کیسے پہنچا سکتا ہے؟"۔ آج پہلی بار کھل کر کہتے ہوئے وہ اس کا ہر وہم اور ہر خدشہ جیسے ختم کر دینا چاہتی تھیں۔

وہ زور زور سے نفی میں سر ہلانے لگی۔

"وہ ہے۔۔۔میں نے اسے دیکھا ہے۔۔۔اس نے مجھ سے بات کی ہے۔۔۔دھمکی بھی دی ہے۔۔کئی بار مجھ پہ حملہ کیا ہے"۔ دانت پیس کر آہستہ آواز میں کہتی ہوئی وہ جیسے زچ ہوئی تھی۔ آخر کیوں اس کی بات پر وہ یقین نہیں کرتی تھیں۔

"آخر وہ ایسا کیوں کرے گا؟ کیا ملے گا اسے اس سب سے؟"۔ وہ بھی جیسے تھک چکی تھیں اس کی ایک ہی ضد سے۔

ان کی بات پر وہ سبز پتلیاں ارد گرد دوڑانے لگی۔

"کیونکہ اسے مجھ سے۔۔۔بدلہ لینا ہے"۔ قیاس آرائی کرتے ہوئے وہ اتنی آہستگی سے بول رہی تھی کے اس کی آواز بمشکل پاس بیٹھیں فرزانہ تک پہنچی ہوگی۔

"بس کردو زیست خدا کیلئے چپ ہو جاؤ۔ کچھ تو رحم کھاؤ اپنی ماں پر۔ بیٹا تو میں پہلے ہی کھو چکی ہوں اب اتنی ہمت نہیں ہے مجھ میں کے اس بڑھاپے میں کوئی اور صدمہ جھیل سکوں"۔ وہ آبدیدہ ہوگئیں۔ اس کی بگڑتی دماغی رو اور بہکی بہکی باتیں ان کا دل چھلنی کر رہی تھیں۔

اس نے تڑپ کر ان کے ہاتھ تھام لیئے۔

"مجھے معاف کر دیں امی۔۔۔میری وجہ سے آپ کو اتنی تکلیفیں اٹھانی پڑ رہی ہیں۔۔۔مم۔۔۔میں آپ کو دکھ نہیں دینا چاہتی"۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

پھر اچانک ان کے ہاتھ تھام کر اپنے گردن پر رکھ دیئے۔

"آپ۔۔آپ ایسا کریں۔۔۔آپ۔۔مجھے مار دیں۔۔۔میرا گلا گھونٹ دیں امی۔۔۔مجھے مار دیں۔۔مجھے اس بے رحم شخص کے ہاتھوں پل پل نہیں مرنا ہے امی۔۔۔آپ مجھے ایک ہی بار میں موت دے دیں"۔ آہ و بقا کرتی وہ تڑپ تڑپ کر رو رہی تھی۔

فرزانہ بیگم نے اپنے ہاتھ اس کی گردن سے کھینچ لیئے۔ 

"ہوش کرو زیست۔۔۔میری بچی ہوش کرو"۔ اسے مامتا بھرے  آغوش میں چھپاتے ہوئے ان کے اپنے آنسو بھی نہ رکتے تھے۔

"میں تھک گئی ہوں امی۔۔۔میں ہر روز مر مر کے تھک گئی ہوں۔۔۔مجھے جینا نہیں ہے"۔ ان کی گود میں منہ چھپائے روتے روتے وہ تھکنے لگی تھی۔ اس کا وجود ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا تھا۔ 

پچھلے دو ماہ سے اس کی یہ حالت دیکھ دیکھ کر ان کا روح تک زخمی پڑ گیا تھا۔ دل پہ آبلے پڑ گئے تھے۔ جہاں اس عمر میں اسے اپنی ماں کا سہارا بننا تھا وہیں الٹا وہ اسے سنبھال رہی تھیں۔

اپنے گود میں سر رکھے زیست کے شہد رنگ بالوں پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ جیسے من ہی من کوئی فیصلہ لے چکی تھیں۔

زیست کی روز بروز بگڑتی حالت کو دیکھتے ہوئے من ہی من وہ مصمم ارادہ کر چکی تھیں کے اسے ماہر نفسیات کے پاس لے جائیں گی۔

___________________________

بہت دنوں بعد آج اس نے گھر کا رخ کیا تھا۔

بھورے پینٹ پر سیاہ شرٹ کی آستیوں کے کف موڑتا ہوا وہ سنجیدہ تاثرات چہرے پر سجائے اپنے کمرے سے برآمد ہوا۔

انداز سے لگ رہا تھا جیسے بہت عجلت میں ہو۔

موبائل فون ایک ہاتھ میں تھامے اس کی اسکرین پر نگاہیں مرکوز کیئے اس کے قدم داخلی دروازے کی طرف اٹھ رہے تھے جب اچانک اس کے پیروں کو بریک لگ گیا۔

اچانک سامنے ابھر آنے والی اس ہستی پر ایک نگاہ ڈالتے ہی اس کا چہرا یوں ہو گیا جیسے کڑوا بادام منہ میں آ گیا ہو۔

"راستے سے ہٹو"۔ اسے مسلسل دروازے کے فریم میں کھڑے دیکھ کر وہ کوفت سے گویا ہوا۔

تابین جو بنا پلکیں جھپکائے دیدار یار کرتے اپنے دل اور آنکھوں کو سیراب کر رہی تھی اس کی اس بےرخی پر کلس کر رہ گئی۔

"نہ سلام نہ دعا، مجھے دیکھتے ہی دامن بچا کر نکلنے لگے؟یہ کون سا انداز ہوا مہمانوں کو ٹریٹ کرنے کا؟" دروازے پر بازو رکھ کر وہ اس کا راستہ روکے کھڑی تھی۔ گویا اس کا ضبط آزمانے پر تل گئی تھی۔

میکائیل نے گہرا سانس بھر کے اس کی جانب دیکھا۔

اور اس کے یوں دیکھنے پر تابین کے دل نے ایک بیٹ مس کیا۔

"جو سال میں ایک دو بار آئے وہ ہوتا ہے مہمان۔ ورنہ جو ہر دوسرے تیسرے دن آ موجود ہو وہ پھر وبالِ جان ہو جاتے ہیں"۔ سرد ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہتے اس نے تابین کی عزت افزائی میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔

مگر یہ اس کی خام خیالی ہی تھی کے وہ لڑکی بعض آ جاتی۔

دروازے کا دوسرا پٹ کھولتے ہوئے وہ باہر نکل گیا۔ وہ بھی بلاتاخیر اس کے پیچھے آئی اور لپک کر اس کا راستہ روک لیا۔

کھلے سیاہ بال اس کے رخسار پر اٹھکھیلیاں کر رہے تھے۔ جنہیں وہ پتلی لمبی انگلیوں سے بار بار پیچھے کر رہی تھی۔

لیکن اس کا ہر انداز اس شخص کی توجہ کھینچنے میں ناکام ٹھہرا تھا۔

"شکر ہے اس عرصے میں تمہارے لیئے میں کچھ تو بنی۔ کسی درجے پر فائز ہوئی۔ اب وبال بن گئی ہوں تو کسی دن جان بھی بن ہی جاؤں گی"۔ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے وہ مخمور لہجے میں بولی۔ 

اور یہی انداز۔۔۔یہی تو وہ بےباکی تھی جو مقابل کو زہر سے بھی زیادہ بری لگتی تھی۔

اب بھی وہ مٹھیاں بھینچے سخت نگاہوں سے اس کی جانب تک رہا تھا۔ بس چلتا تو وہ اس وجود کو اٹھا کر کہیں دور پھینک آتا۔ جہاں سے وہ میکائیل تک پھر کبھی واپس نہ آ پاتی۔

ایک قدم وہ اس کے نزدیک ہوا۔

"عورت ذات ہو، یہی سوچ کر میں خود پر ضبط کر جاتا ہوں۔ ورنہ وہ حشر کرتا کے پھر تمہارے خاندان کی آنے والی سات پشتیں بھی محبت لفظ سے گھن کھاتیں"۔ انگلی اٹھا کر دبے دبے لہجے میں غراتے ہوئے وہ باور کروا رہا تھا۔ فاصلے پر رہنے کی تنبیہ کر رہا تھا۔

"بہتر یہی رہے گا کے تم اپنی نگاہوں اور اپنے وجود کو لگام ڈالو، مجھے مجبور مت کرو کے میں اپنے مقام سے بہت نیچے گروں۔ آئندہ میرے ارد گرد بھی نظر آئی تو تمہارے وجود کے ریشے ریشے ادھیڑ کر تمہیں کسی بھوکے جانور کے آگے ڈال آؤں گا"۔ سفاکی سے کہتے ہوئے دھمکی میں مزید اضافہ کیا۔

اور تابین کو پہلی بار اس کی آنکھوں کا وہ سرد تاثر زائل ہوتا محسوس ہوا تھا۔ جس کی جگہ اب ان نگاہوں سے شعلے لپک رہے تھے۔ 

اس کی گردن میں گلٹی سی ابھر کر معدوم ہوئی۔ اور بے اختیار وہ ایک قدم پیچھے ہٹی تھی۔

میکائیل اسے ایک گھوری سے نوازنے کے بعد آگے بڑھ گیا تھا۔

جبکہ تابین دل پہ ہاتھ رکھے اپنی سانسیں درست کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔

اس شخص کی سطح برف سے بنی تھی تو اندر آگ کا دریا تھا۔

یہ بات اس نے آج جانی تھی۔ 

______________________________

فیض بخاری جوں ہی وارڈ سے باہر نکلے ہارون عالم سے ان کا سامنا ہوا۔

"میں ابھی اس زخمی کو دیکھنے ہی آ رہا تھا۔ ڈاکٹرز کہہ رہے تھے کے ہوش میں آنے کے بعد اس نے کافی ہنگامہ کیا؟"۔ سلام دعا کے بعد وہ اب ان سے پوچھنے لگا۔

فیص صاحب نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کے قیصر خیام کو ایک قاتل قرار دے کر ہارون کے حوالے کردیں یا اس کی حالت کے پیش نظر خاموش رہ جائیں۔

"دواؤں کے زیر اثر وہ فلحال سو رہا ہے"۔ انہوں نے مختصر جواب دیا۔

"چلیئے میں ایک بار اس سے مل لیتا ہوں۔ آخرکار اس کا بیان ہی اس کیس کو آگے بڑھائے گا"۔ وہ عجلت میں وارڈ کا دروازہ کھولنے کیلئے آگے بڑھنے لگا تھا کے تبھی اس کا موبائل بجنے لگا۔ وہ ٹھہر گیا۔

"معذرت چاہوں گا"۔ وہ فیض صاحب سے معذرت کرتا ہوا فون کان سے لگائے ایک طرف چلا گیا۔

جبکہ انہوں نے سوچ لیا تھا کے قیصر کی طرف کی کہانی جانے بغیر وہ اسے پولیس کے ہتھے نہیں چڑھائیں گے۔

کال ختم کرکے وہ دوبارہ ان کی جانب آیا۔

"آئم سوری انکل، فلحال تو مجھے نکلنا ہوگا کسی کام سے۔ میں بابر کو بھیج دوں گا وہ آکر زخمی کا بیان لے گا"۔ اس نے انہیں اطلاع دی۔

انہوں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اس کا شانہ تھپکا۔

"ڈونٹ وری مائی بوائی، ڈیوٹی کمز فرسٹ"۔ انہوں نے مسکرا کر کہتے ہوئے اس کی پریشانی دور کردی۔

ہاتھ میں پکڑی کیپ سر پہ پہنتے ہوئے اس نے مسکرا کر اس بات میں سر کو خم دیا اور آگے بڑھ گیا۔

فیض بخاری پرسوچ نگاہوں سے اس کی پشت تکتے رہے۔ ان کا دھیان قیصر کی موجودہ حالت کی جانب ہی تھا۔

_______________________________

رات کا نا جانے کون سا پہر تھا جب موبائل کی چنگھاڑتی ہوئی آواز ان کی نیند میں مخل ہوئی۔

وہ کچی نیند سوتے تھے۔ جس وجہ سے پہلی ہی بیل پر ان کی آنکھ کھل گئی تھی۔ گھڑی رات کے تین بجا رہی تھی۔

ہسپتال کا نمبر دیکھ کر ہی ان کی پریشانی بڑھی۔ کال آنا اب بند ہو چکی تھی۔

بیگم بخاری کی نیند کے پیش نظر وہ اٹھ کر کمرے سے باہر چلے گئے۔ اتنی دیر میں کال پھر سے آنے لگی۔

"ہیلو؟ جی بول رہا ہوں۔ کیا؟ اوکے میں نکلتا ہوں۔ ہاں میں بس ابھی نکلتا ہوں"۔ انہوں نے پریشانی سے کہتے ہوئے کال ڈراپ کردی اور کمرے میں جانے کیلئے مڑے ہی تھے کے تبھی ان کی نگاہ نرمین پر پڑی۔ 

"تم کب جاگی؟"۔ وہ تفکر سے پوچھنے لگے۔

انہوں نے ٹھنڈی آہ بھری پھر گویا ہوئیں۔

"جس ماں کا بیٹا اپنے کام کے سلسلے میں کئی کئی دن گھر سے دور رہتا ہو وہ ماں بھلا گہری نیند کیسے سو سکتی ہے؟"۔ انہوں نے افسردگی سے جواب دیا۔ اشارہ میکائیل کی جانب تھا۔

فیض صاحب نے ان کی بات پر محض سر ہلا دیا۔

وہ اب وارڈروب سے اپنے کپڑے نکال رہے تھے۔

"کیا ہوا؟ کہیں جا رہے ہیں؟"۔ وہ فکرمندی سے پوچھنے لگیں۔

"ہسپتال جا رہا ہوں"۔ کپڑے ہینگر سے نکالتے ہوئے انہوں نے جواب دیا۔

نرمین کی پریشانی مزید بڑھ گئی۔

"اتنی رات کو؟ سب خیریت تو ہے نا؟"۔ وہ پوچھے بنا نہ رہ سکیں۔

"کچھ خیریت نہیں ہے۔ جس زخمی شخص کو میں نے ہسپتال پہنچایا تھا اس پر کسی نے جان لیوا حملہ کر دیا ہے۔ ڈاکٹرز کے مطابق صورتحال بہت نازک ہے"۔ وہ ڈریسنگ روم میں کپڑے بدلنے چلے گئے۔

"یا اللہ! خیر ہو سب"۔ وہ دل ہی دل میں دعاگو ہوئیں۔ ان کا اپنا بیٹا خود سے دور تھا۔ ایسے میں ان کا دل ایک ماں کی طرح ہی فکرمند ہونے لگا تھا۔

"رکیں، میں بھی آپ کے ساتھ چلتی ہوں"۔ فیض صاحب جو تیار ہو کر ابھی بیرونی دروازے تک پہنچے تھے کہ نرمین کی پکار پر رک گئے۔

"ماہا اکیلی ہے گھر میں؟ تم یہیں رک جاؤ"۔ انہوں نے روکنا چاہا۔

"لیکن میرا دل بہت گھبرا رہا ہے گھر میں۔ باہر طوفانی بارش ہو رہی ہے۔ میکائیل کا ٹینشن اور اب آپ بھی اس وقت گھر سے باہر جا رہے ہیں۔ مجھے پریشانی رہے گی۔ ماہا تو سو رہی ہے ویسے بھی، اور نوراں ہے گھر میں"۔ وہ اصرار کرنے لگیں۔

فیض صاحب لب بھینچے سوچتے رہے۔ پھر سر ہلا کر انہیں ساتھ چلنے کا کہہ دیا۔

بارش کی وجہ سے انہیں ہسپتال پہنچتے پہنچتے بھی وقت لگ گیا۔

"ڈاکٹر کیسی کنڈیشن ہے اس کی؟"۔ انہوں نے ڈاکٹر شہزاد سے استفسار کیا۔ 

"ان کی حالت کافی خراب ہے۔ آج کی رات اگر نکال لیتے ہیں تو ہی ان کا بچ پانا ممکن ہے"۔ انہوں نے واضح الفاظ میں انہیں جواب دیا تھا۔

نرمین کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا۔ انہیں لگ رہا تھا جیسے وہ کسی اور کی نہیں بلکہ میکائیل کی ہی بات کر رہے ہیں۔

"آپ ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں؟ کچھ بھی کرکے اسے ٹھیک کر دیں"۔ وہ پریشانی سے بولیں۔

فیض صاحب نے چونک کر ان کا فکرمند چہرا دیکھا۔ اگر نرمین کو اس شخص کی اصلیت پتہ ہوتی تو وہ یقینا اسے بچانے کے بجائے پھانسی چڑھا دینے کو کہہ دیتیں۔

"زندگی دینا تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہم تو معمولی سے انسان ہیں۔ جو کوشش ہمارے بس میں ہو ہم وہ کر سکتے ہیں۔ دوا تو ہم کر رہے ہیں دعا آپ لوگ کریں"۔ وہ انہیں جواب دے کر آگے بڑھ گئے۔

جبکہ نرمین اب اس انجان وجود کیلئے دعائیں کرنے لگیں۔

بلاشبہ وہ دونوں میاں بیوی درد مند دل رکھتے تھے جو کسی اور کا دکھ بھی محسوس کر رہے تھے۔

ان سب سے بےخبر قیصر خیام ایک بار پھر سے موت کی سرحد پر کھڑا فنا و بقا کی جنگ لڑ رہا تھا۔

رات تمام تر طوفانوں اور سیاہی سمیت رخصت ہو چکی تھی۔ سورج کی کرنیں پھوٹتی ایک نئی صبح طلوع ہونے کی نوید سناتے ہوئے اس جان بہ لب وجود میں نئی روح پھونک گئی۔

نرمین بخاری ابھی کچھ دیر قبل ہی گھر کیلئے روانہ ہو گئیں تھی۔ 

جبکہ فیض صاحب اس وقت ڈاکٹر شہزاد کے کیبن میں موجود تھے۔ زیرِ بحث قیصر خیام کی موجودہ حالت تھی۔

"ان کا ایک بار پھر سے بچ جانا ایک معجزہ ہی ہے۔ ورنہ سچ کہوں تو مجھے امید کم ہی نظر آتی تھی۔ چونکہ ان کے پہلے کے زخم ہی ہرے تھے ابھی اور اس پر مستزاد یہ جان لیوا حملہ۔ میں معذرت چاہوں گا آپ سے۔ پتہ نہیں کیسے حملہ آور ان کے وارڈ تک پہنچ گئے"۔ پاور سیٹ پر بیٹھے وہ انگلیاں باہم ملائے تاسف سے کہہ رہے تھے۔

فیض صاحب کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔

"یہ ذمہ داری آپ کی اور آپ کے ہسپتال کی تھی جسے آپ ٹھیک طرح سے نبھا نہ سکے۔ وہ پہلے ہی زخمی تھا، اور مزید کسر آپ کے ہسپتال میں آ کر پوری ہو گئی۔ یہ ہسپتال ہے یا قصائی کی دکان؟ اس قدر بے رحمی سے وار کیئے گئے ہیں خنجر سے اس پر"۔ ان کا لہجہ قدرے تلخ ہو گیا۔

"دیکھیے سر، جیسا کے ہم پہلے ہی کہہ چکے یہ ایک پولیس کیس ہے۔ اور پھر جو قاتل ایک بار مارنے کی کوشش کر سکتا ہے وہ دوبارہ بھی یہ کام کر سکتا ہے۔ اس کیلئے میرا ہسپتال یا اس کا عملہ ہرگز بھی ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا"۔ ڈاکٹر شہزاد نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

"خیر میں اب اسے یہاں ایڈمٹ کرنے کا رسک نہیں لے سکتا اسی لیے میں نے ایک فیصلہ لیا ہے کہ باقی کا علاج اس کا اب یہاں نہیں ہوگا"۔ وہ جیسے طے کر چکے تھے۔

"ان کے زخم ابھی تازہ ہیں سر، ایسے میں ہم انہیں کہیں اور شفٹ کرنے یا ٹریول کرنے کی اجازت ہرگز بھی نہیں دے سکتے۔ آپ انہیں بےشک چند دن بعد یہاں سے ڈسچارج کروا کے لے جائیں مگر فلحال ہم انہیں کہیں لے جانے نہیں دے سکتے"۔ ڈاکٹر نے جیسے بات ہی ختم کر دی۔

"میں سمجھتا ہوں آپ کی بات کو۔ ساری صورتحال آپ کے سامنے ہے ڈاکٹر اور پھر میں چند دنوں کیلئے شہر سے باہر جا رہا ہوں اسے یہاں اکیلا کیسے چھوڑ جاؤں؟ جبکہ اس کی جان کو خطرہ بھی ہے۔ اس لیئے آپ مجھے اجازت دیجئے اسے یہاں سے لے جانے کی"۔ وہ زرا دھیمے لہجے میں اس بار درخواست کرنے لگے۔

دوسری جانب ان کی بات پر وہ کچھ دیر کیلئے سوچ میں پڑ گئے۔ 

پھر جیسے کچھ سوچ کر آمادہ نظر آنے لگے۔

"ٹھیک ہے اگر ایسی بات ہے تو آپ اسے اپنے رسک پر یہاں سے لے جائیں گے۔ اس صورت میں اگر اسے کچھ بھی ہوتا ہے تو اس کیلئے ہمارا ہسپتال یا عملہ ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جائے گا"۔ انہوں نے شرط رکھی۔

"مجھے منظور ہے"۔ بلا تامل جواب دیا۔

"اس پیپر پر سائن کر دیجئے آپ"۔ انہوں نے دو تین صفحات پر مشتمل ایک فائل فیض بخاری کے سامنے کیا۔ جو کچھ بھی ڈاکٹر نے کہا وہ ساری باتیں اس پیپر پر تحریری شکل میں موجود تھیں۔

فائل کو پڑھنے کے بعد فیض صاحب نے کاغذات پر اپنے دستخط بطور اجازت مرتب کر دیئے۔

_______________________________

یونیورسٹی میں دوسرے سیمسٹر کے امتحانات اختتام پذیر ہو چکے تھے۔ آج کل راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا۔

چھٹیوں کے خوب مزے لوٹتے ہوئے ماہا بی بی اپنا سارا ہی وقت نیند پوری کرنے میں گزار رہی تھی۔

وہ جو ابھی دروازے سے اندر داخل ہوئی تھی، نرمین بیگم پر نگاہ پڑھتے ہی رک گئی۔ شائستگی سے انہیں سلام کیا۔

جواب میں انہوں نے سر ہلانے پہ اکتفا کیا۔ اور اب سر تا پیر تابین کا جائزہ لینے لگیں۔

نیلی جینز پر سفید گلابی پھولوں کے نقش و نگار والے ٹاپ میں ملبوس، کھلے سیاہ بالوں کے ساتھ وہ لڑکی اپنے اندر بھرپور کشش رکھتی تھی۔

اب تک وہ دو تین بار ان کے گھر آ چکی تھی۔ مگر انہوں نے کبھی اس پہ اتنا دھیان نہ دیا تھا۔

"اگر وہ میکائیل نہ ہوتا تو یقیناً تمہارے حسن کی چکا چوند اسے چاروں شانے چت کر ہی دیتی"۔ وہ چلتے ہوئے اس کے مقابل آئیں۔ انداز توصیفی تھا۔ 

تابین نرمی سے مسکرا دی۔

"آپ نے بالکل ٹھیک کہا آنٹی۔ وہ میکائیل ہے۔ جو خود نہیں، سامنے والے کو چاروں شانے چت کر دیا کرتا ہے"۔ وہ پر اعتماد لہجے میں صاف گوئی سے بولی۔

"تمہاری حاضر جوابی بھی قابل تعریف ہے"۔ ان کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔ 

ان کی بات پر وہ جھینپ کے مسکرا دی۔

"آنٹی ماہا کہاں ہے؟"۔ وہ پوچھنے لگی۔

"اوپر ہے۔ اپنے کمرے میں"۔ انہوں نے نرمی سے جواب دیا۔ 

"اوکے، تھینک یو سو مچ"۔ وہ دھیمے لہجے میں کہتی ہوئی زینے چڑھ گئی۔

"اب مجھے سمجھ آیا کے میکائیل کیوں اس سے اتنا خار کھاتا ہے"۔ وہ من ہی من سوچ کر رہ گئیں۔ ان کا اشارہ اس کی بےباک طبیعت کی جانب تھا۔

پھر سر جھٹک کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئیں۔

____________________________

سیاہ پراڈو کا فرنٹ ڈور کھولے وہ اس کا جائزہ لے رہا تھا۔

قریب ہی پولیس کے چند دیگر اہلکار اور سرکاری گاڑی موجود تھی۔

"یہ گاڑی تو وہی ہے جسے اس رات وہ لڑکی بھگا لے گئی۔ وہ کسی زخمی وجود کو گھسیٹ کر لے جا رہی تھی۔ شاید وہ وجود کسی آدمی کا تھا"۔ وہ جانے کس رو میں بڑبڑا کر کہتے ہوئے تمام کڑیاں ملا رہا تھا۔

ساتھ کھڑا کانسٹیبل اس کی بات قطعی سمجھ نہیں پا رہا تھا۔

"الوینا کے ساتھ قیصر بھی تھا نا؟ تو کہیں جس زخمی کو ہسپتال میں ایڈمٹ کروایا تھا انکل فیض نے وہ قیصر تو نہیں؟"۔ وہ اندازے لگا رہا تھا۔

اس کی یہ بات کانسٹیبل کے کانوں نے بھی سن لی تھی۔

"سر وہ وہی ہوگا۔ قیصر ہی ہوگا۔ کیونکہ وہ اگر مر گیا ہوتا تو اب تک اس کی لاش بھی ہمیں کہیں سے مل گئی ہوتی۔ پھر اس گاڑی کی پچھلی سیٹ میں گولی اٹکی ہوئی ملی ہے۔ جبکہ گاڑی کی سیٹ پر خون کے دھبے بھی موجود ہیں۔ ضرور وہ لوگ قیصر کو ہی لے جا رہے ہوں گے اس گاڑی میں"۔ یعقوب نے جوش سے کہتے ہوئے اس کی بات میں اضافہ کیا۔

"ہوں، مجھے بھی یہی لگتا ہے"۔ وہ لب بھینچے سوچتے ہوئے بولا۔

"یعقوب تم ایسا کرو کے اس گاڑی کی نمبر پلیٹ سے پتہ لگواؤ اس کا خریدار کون ہے اور یہ نمبر پلیٹ کس کے نام پر رجسٹرڈ ہے"۔ اس نے حکم جاری کیا۔

"یس سر"۔ کانسٹیبل اسے سلیوٹ کرنے کے بعد وہاں سے نکل گیا۔

"اب تو فیض انکل کے اس مہمان سے ملنا ہی پڑے گا"۔ وہ من ہی من سوچنے لگا۔

______________________________

شام کے پانچ بجنے کے قریب تھے۔ 

سارا دن لنچ، شاپنگ اور سیر سپاٹے کے بعد تھک کر ماہا نے گاڑی کا رخ اب گھر کی جانب موڑ لیا تھا۔ مگر گاڑی چل ہی کب رہی تھی۔ پچھلے پندرہ منٹ سے تو وہ ایک ہی جگہ اٹکے کھڑے تھے۔ آگے پولیس نے چینز اور بلاکس لگا کے راستہ بند کر رکھا تھا۔ 

تابین کھڑکی سے جھانکتے ہوئے ارد گرد کا جائزہ لے رہی تھی۔ 

وردی میں ملبوس وہ مضبوط قد کاٹھ کا آفیسر چہرے پہ کرختگی لیئے ایک آدمی سے بحث کر رہا تھا۔

"کیا مصیبت ہے یار ان کو، آخر یہ بلاکس ہٹا کیوں نہیں رہے ہیں؟"۔ وہ کوفت سے گویا ہوئی۔

"پولیس والے ہیں یار وہ، اب ان سے یہ تو نہیں کہہ سکتے جا کر کے ماہا بی بی تب سے ایک جگہ بیٹھے بیٹھے پک چکی ہیں براہ مہربانی انہیں راستہ فراہم کر دیجئے"۔ تابین نے صاف مذاق اڑایا۔

ماہا کو اس کی بات پر تپ چڑھنے لگی۔

"کیوں نہیں کہہ سکتے؟ آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے تابین بی بی کے پولیس عوام کی جان و مال کی رکھوالی کرنے کیلئے ہوتی ہے۔ اس طرح سے ان کا جینا محال کرنے کیلئے نہیں"۔ وہ جل بھن گئی۔

تابین نے دیکھا اس آفیسر کا چہرا اب غصے سے لال بھبھوکا ہونے لگا تھا۔ یک دم اس کی آنکھیں کسی خیال کے تحت چمکیں۔

"ہاں تو تم یہ بات جا کر ان پولیس والوں کے منہ پر کیوں نہیں کہتی ہو؟ ہے ہمت تو کہہ کے دکھاؤ"۔ وہ چیلنج دینے والے انداز میں بولی۔

"ضرور کہوں گی تم نے کیا مجھے ڈرپوک سمجھ رکھا ہے۔ میں بھی ایک فوجی کی بیٹی ہوں، ڈرتی نہیں ہوں کسی سے"۔ توقع کے عین مطابق وہ پر اعتماد لہجے میں بولی۔

"بہت اچھے شاباش، جاؤ اور اس آفیسر کو کھری کھری سنا کر ہی واپس آؤ۔ خواہ مخواہ ہمارا وقت برباد کر رہے ہیں"۔ تابین نے آگ میں گھی کا کام کیا۔

جبکہ اس کی بات سننے سے قبل ہی ماہا کار کا دروازہ ایک دھماکے سے بند کرتی ہوئی لوگوں کی بھیڑ سے نکل کر اب اسی آفیسر کے پاس جا رہی تھی۔

"اب ماہا بی بی تمہاری خیر نہیں ہے"۔ وہ ہنستے ہوئے سامنے کا منظر دیکھنے لگی۔ 

اسے یقین تھا کے وہ جو شیرنی بن کر گئی تھی اس آفیسر سے بھڑنے کے بعد بھیگی بلی بن کر ہی واپس آئے گی۔

"او ہیلو، یہ کیا تماشا لگا رکھا ہے پچھلے آدھے گھنٹے سے آپ پولیس والوں نے؟"۔ اس کے سر پر پہنچ کر وہ قدرے اونچی آواز میں بولی۔

مگر مقابل کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔

اس کے تیور دیکھ کر تو ماہا کے تلوؤں میں لگی اور سر پہ بجھی۔

"میں آپ سے بات کر رہی ہوں"۔ ایڑیوں پہ زرا اونچی ہو کر وہ کچھ اور زور سے چیخی۔

ایک تو لوگوں کی دھکم پیل نے اس کا دماغ گرما دیا تھا۔ اوپر سے اس آفیسر کے انداز!

"یہ تماشا آپ کے سیاستدانوں کی جانب سے تحفہ ہے آپ کو۔ ہم تو اپنا کام کر رہے ہیں یہاں۔ جب تک ان سیاسی پارٹی کے کارکنان کا ٹولہ بحفاظت جلسہ گاہ نہیں پہنچ جاتا، آپ سب آگے نہیں جا سکتے۔ لہٰذا صبر سے ان کے جانے کا انتظار کریں"۔ اس کی جانب دیکھے بغیر شہیر نے تیکھے لہجے میں جواب دیا۔

"ارے واہ! آپ کے تو مزاج ہی نہیں مل رہے ہیں۔ اور آپ پولیس والوں کو تنخواہیں عوام کی رکھوالی کیلئے دی جاتی ہے یا

ان سیاستدانوں کی چاکری کرنے کیلئے؟ حد ہوتی ہے کسی چیز کی"۔ اس کی بات سن کر وہ چراغ پا ہو گئی۔

اس بار اس نے بھوری آنکھیں اٹھا کر اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا جو اپنے قد سے بہت زیادہ ہی بڑی باتیں کر رہی تھی۔ وہ ایڑیاں اونچے کیئے بمشکل بھی اس کے کندھے تک پہنچ رہی تھی۔ غصے سے اس کا چہرا لال پیلا ہو رہا تھا۔

شہیر نے اس کے انداز پر لبوں کی تراش میں مچلتی مسکراہٹ کو بمشکل روکا تھا۔

مگر ماہا نے اس کے چہرے پر مسکراہٹ کی رمق دیکھ ہی لی تھی۔ اور جیسے ہی دیکھی، اس کے اندر آگ بھڑک اٹھی۔

"آپ کو یہ مذاق لگ رہا ہے؟ میری سنجیدہ بات پر ہنسی آ رہی ہے آپ کو؟ اپنی ڈیوٹی کرنے کے بجائے آپ یہاں کھڑے مزے سے ہنس رہے ہیں؟ آپ کو یہ وردی دی کس نے؟ کس نے اتنا قابل سمجھ۔۔۔۔۔"۔ 

اور باقی کے الفاظ اس کے منہ میں ہی رہ گئے تھے۔ وجہ، پیچھے سے اسے کسی کا زوردار دھکا لگا تھا جس سے وہ لڑکھڑاتی ہوئی اسی کے بازو سے آ لگی جس کو ابھی کچھ سیکنڈز پہلے وہ کوسنے دے رہی تھی۔

"آپ ٹھیک ہیں محترمہ؟"۔ توقع کے برخلاف اس نے اسے فاصلے پہ کرتے ہوئے فکرمندی دکھائی تھی۔

جبکہ اتنی زور سے اس کی کہنی پیشانی پر لگنے سے ماہا کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا۔ وہ لڑکھڑا کے دو دو قدم پیچھے ہٹی۔ 

"سنبھل کے"۔ شہیر نے اس کا بازو تھامے بھیڑ سے زرا پرے کیا۔

"یہ پانی پی لیں تھوڑا سا"۔ پھر اس کی جانب بڑھتے ہوئے ہاتھ میں تھامی بھری ہوئی بوتل اسے پیش کی۔

جسے ماہا نے خاموشی سے تھام لیا۔ فلحال اسے واقعی پانی کی طلب تھی۔ آدھی بوتل پی جانے کے بعد اس نے زرا سکون کا سانس لیا۔

اس عرصے میں وہ فراموش کر چکی تھی کے وہ اسی کی جانب متوجہ ہے۔

"جب بھیڑ برداشت نہیں ہوتی ہے تو ان کے درمیان گھسی کیوں؟برا شوق چڑھا تھا تقریر جھاڑنے کا"۔ اس کی نازک طبع پر وہ کوفت زدہ رہ گیا۔

وہ سر جھکائے خاموش ہو گئی۔ چہرے پر شرمندگی کی رمق تھی۔

"ماہا کہاں رہ گئی تھی تم؟ چلو بھی، اب کیا یہاں بس جانے کا ارادہ ہے تمہارا؟"۔ تابین اسے پکارتی ہوئی وہیں چلی آئی تھی۔

اس نے ایک نظر اس شخص کو دیکھا جو اب راستہ کھلوا رہا تھا۔

پھر خاموشی سے تابین کے ہمراہ چل دی۔

______________________________

اس کا وجود ہوش و بد حواسی کے درمیانی فضا میں معلق تھا۔

سیاہ خم دار پلکیں ہنوز بند تھیں مگر دماغ جاگ رہا تھا۔ اپنا جسم اسے دہکتی ہوئی بھٹی میں جلتا محسوس ہو رہا تھا۔ وہ جیسے جلتے انگاروں پر لٹا دیا گیا تھا۔ جسم پہ لگا ہر ہر ٹانکا چیخ چیخ کر درد کی دہائیاں دے رہا تھا۔ جتنے زخم اس کے وجود نے کھائے تھے، جتنا خون اس کا بہا تھا اگر کوئی اور ہوتا تو اب تک جان کی بازی ہار چکا ہوتا۔ مگر یہ کیسی سزا ملی تھی اسے زندگی کی صورت جو ختم ہونے میں نہ آ رہی تھی۔ اتنی دردناک زندگی اور وہ بھی اتنی طویل! 

اسے اپنے جسم کی کھال کھنچتی محسوس ہو رہی تھی۔ داہنا کندھا ایسے جل رہا تھا جیسے کوئی اس مقام پر تیزاب ڈال کر   گلا رہا ہو۔ 

پیٹ کے مقام پر ایسا محسوس ہو رہا تھا کے جیسے کوئی تیز دھار آلے سے اس کے وجود کو دو حصوں میں تقسیم کر رہا ہو۔ درد ہی درد تھا۔۔۔اتنا درد کے جس کا تصور ہیچ تھا۔۔۔جو بیان سے باہر تھا! درد سے اس کا وجود تڑپ رہا تھا۔۔۔بلک رہا تھا۔

صحرا کی مانند اس کے لب خشک پڑ رہے تھے۔ جن سے وہ ناجانے کون سے لفظ کا ورد کیئے جا رہا تھا۔

سفید، ٹخنوں کو چھوتے لباس میں، لمبے شہد آگیں کھلے بالوں کے ساتھ وہ جگمگاتی ہوئی اس کی جانب قدم اٹھائے چلی آ رہی تھی۔ اس کا پرنور چہرا مطمئن سا تھا۔ وہ چلتی ہوئی اس کے نزدیک پہنچی۔

نرم ہاتھوں کی انگلیاں اس نے بہت ہی آہستگی سے اس کی جلتی پیشانی پر رکھ دی۔ ٹھنڈا لمس محسوس کرتے ہی  جیسے اس تڑپتے وجود کو سکون میسر آیا تھا۔ ریگستان پر بارش کی بوندیں گری ہوں جیسے!

یہ کون مہرباں تھا۔۔۔کون سا طبیب تھا کے جس کی ایک لمس نے اس کے درد درد چلاتے وجود کو یک دم شانت کر دیا تھا۔

لمحہ بھر کیلئے ہر تکلیف زائل ہو گئی تھی۔ 

"تم صرف درد دیتے تھے نا قیصر؟ مگر اب دیکھو تم درد محسوس بھی کرتے ہو"۔ شہد سا میٹھا لہجہ اس کی سماعتوں سے ہوتے ہوئے قطرہ قطرہ پگھل کے دل پر گر رہا تھا۔

"تم نے یہ کیسے سوچ لیا کے میں تم سے دور جا چکی ہوں؟"۔ وہ اب سوال کرنے لگی۔ انداز میں شکوے کی رمق بھی تھی۔

پھر اس کا ہاتھ پیشانی سے سرک کر اس کے دل کے مقام پر آیا۔

قیصر خیام کے وجود میں زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ جیسے تپتے صحرا میں اوس گرنے لگی ہو۔

"میں ہوں۔ اب بھی یہی ہوں۔ تمہارے قلب کی دھڑکن بن کر"۔ اپنا ہاتھ ہٹاتے وہ اٹھی اور چند الٹے قدم اٹھاتے ہوئے اس سے فاصلے پر ہوئی۔

"نہیں۔۔الوینا۔۔۔مت جاؤ"۔ اس کی بند پلکوں کی باڑ توڑ کر آنسو پھسلنے لگے۔

وہ قدم قدم پیچھے ہٹتی اس سے دور ہونے لگی۔ اداس شہد رنگ آنکھیں اس کے چہرے پر ہی جمی تھیں۔

"الوینا۔۔۔رک جاؤ۔۔۔پلیز مت جاؤ"۔ وہ نیم بےہوشی میں اسے پکار رہا تھا۔

فیض بخاری جو صوفے پر بیٹھے کوئی کتاب پڑھ رہے تھے۔ اس کی بڑبڑاہٹ پر متوجہ ہوئے۔ 

"نہیں تم نہیں جا سکتی۔۔۔پلیز رک جاؤ"۔ اس کی آواز اب قدرے اونچی اور واضح ہونے لگی تھی۔

فیض صاحب پھرتی سے اٹھ کر اس کے قریب پہنچے۔

"نہیں!! الوینا رک جاؤ"۔ ایک دردناک چیخ کے ساتھ ہی وہ بستر پر اٹھ بیٹھا تھا۔

گہری گہری سانسیں لیتے ہوئے اس نے ارد گرد دیکھا۔ وہ کہیں نہیں تھی۔ سرمئی آنکھوں میں ٹھہرا پانی سمندر کا سا منظر پیش کر رہا تھا۔

"تم ٹھیک ہو؟"۔ فیض صاحب اسے بغور دیکھتے ہوئے پوچھ رہے تھے۔

"آپ۔۔۔کون؟"۔ اس نے پہلی بار نگاہیں اٹھا کر ان کی جانب دیکھا۔

"میں ایک فوجی ہوں۔ بریگیڈیئر (ر) فیض بخاری"۔ انہوں نے اپنا تعارف دیا۔

"پورے بائیس دن بعد تم مکمل ہوش میں آئے ہو اور اس وقت میرے سیف ہاؤس میں موجود ہو۔ اور کوئی سوال؟"۔

ساتھ ہی ایک نئی اطلاع بھی دی تھی۔

وہ خالی خالی نگاہوں سے انہیں دیکھنے لگا۔ جیسے ان کے الفاظ اسے سمجھ نہ آئے ہوں۔

پھر نگاہ اپنے وجود پر گئی۔ بنا شرٹ کے سینے اور کندھے پر بندھی سفید پٹیاں اور بازو پہ چڑھا پلاسٹر۔ اور اس کی نگاہوں کے سامنے ایکسیڈنٹ کا منظر گھوم گیا۔ 

"الوینا"۔ لبوں نے بے آواز حرکت کی تھی۔

"وہ مر چکی ہے"۔ فیض صاحب نے جواب دیا۔

یہ جملہ قیصر خیام کے دل میں زہریلے تیر کی مانند لگا تھا۔ یہ حقیقت ناقابل برداشت اور جان لیوا تھی کے وہ اب اس کے ساتھ نہیں رہی تھی۔

وہ بے یقینی سے فیض بخاری کی جانب تکنے لگا۔ جن کے پروقار چہرے پر چھائی سنجیدگی گواہی دے رہی تھی کے ان کی بات سچ ہے۔

وہ نفی میں سر ہلانے لگا۔

"نہیں، ایسا نہیں ہو سکتا"۔ انداز قطعی ماننے والا نہ تھا۔

"ایسا ہو چکا ہے۔ وہ ماری جا چکی ہے اور منوں مٹی تلے

دفنائی بھی جا چکی ہے"۔ وہ جیسے کسی طور اسے یقین دلا دینا چاہتے تھے۔ 

ان کی بات پر قیصر کے دل میں ہوک سی اٹھی تھی۔ وہ آخری بار بھی اسے دیکھ نہ پایا تھا۔ اس کے دیکھنے کے مقام سے وہ بہت دور جا چکی تھی۔

اس کی سرمئی آنکھوں میں یک دم سرخی اترنے لگی۔

"جب وہ مر چکی ہے تو میں زندہ کیوں ہوں؟ کیوں بچایا آپ نے مجھے؟ مرنے دیا ہوتا مجھے بھی۔ جب وہ مر گئی تھی تو میں جی کر کیا کروں؟"۔  وہ چیخ اٹھا تھا۔ آنکھیں ضبط سے سرخ ہونے لگیں تھی۔

"زندگی دینے کا اختیار بھلا ہم انسانوں کو کب ہے؟ آج اگر تم زندہ ہو تو یقیناً اللہ نے ہی تمہیں یہ زندگی بخشی ہے۔ اس کے حصے میں شاید موت لکھی تھی جو اسے مل گئی"۔ اپنے مزاج کے برخلاف وہ اسے سمجھانے بیٹھ گئے۔

"نہیں چاہیئے مجھے یہ زندگی۔۔۔نہیں رہنا ہے مجھے زندہ۔ وہ مر گئی ہے تو میں کیوں جیوں اور کس کیلئے جیوں؟ مجھے بھی مر جانا چاہیئے"۔ فیض صاحب کی جانب دیکھ کر کہتا ہوا وہ ہرگز بھی اپنے حواسوں میں نہیں لگتا تھا۔

"میں نہیں رہنا چاہتا زندہ۔۔۔مجھے بھی اس کے پاس جانا ہے"۔ کہتے ساتھ ہی وہ بیڈ سے اترنے لگا تھا جب یک دم ہی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا۔

فیض بخاری اس کی اٹھنے کی کوشش ناکام بنانے کیلئے آگے بڑھے۔

"یہاں سے باہر جانا تمہارے لیئے ہرگز بھی خطرے سے خالی نہیں ہے اور نہ ہی تمہاری ابھی ایسی حالت ہے کے تمہیں کہیں باہر جانے دیا جائے"۔ انہوں نے آہستگی سے اس کا بایاں بازو تھام کر بیڈ پر واپس بٹھا دیا۔

"ا۔۔۔الوینا! مجھے۔۔الوینا کے پاس جانا ہے"۔ سر جھٹکتے ہوئے وہ جیسے آنکھوں کے سامنے موجود اندھیرے کو بھی جھٹک دینا چاہتا تھا۔ ساتھ ہی ایک بات پھر اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کی ضد پر فیض صاحب کا پارہ بلند ہو گیا۔

"کہیں نہیں جا رہے ہو تم بیٹھو یہاں"۔ انہوں نے اسے واپس بٹھا دیا۔

کمزوری کی وجہ سے اس کی ہمت ہی نہ ہو رہی تھی مزاحمت کی۔

"تمہارے سابقہ کاموں کی فہرست موجود ہے میرے پاس۔ کوئی ایسا جرم نہیں ہے جو تم نے نہ کیا ہو۔ اس قابل تو تم نہیں ہو کے تمہاری کوئی مدد کی جاتی۔ خوش نصیب سمجھو اپنے آپ کو جو مجھے تب اندازہ نہیں ہو پایا تھا کے تم قیصر خیام ہو۔ ورنہ یقین جانو میرے ملک کے معصوم لوگوں کا خون جس کے ہاتھوں میں لگا ہے ایسے شخص کی مدد کرنا تو درکنار میں خود ہی گولی مار دینے سے بھی دریغ نہ کرتا"۔

برہمی سے کہتے ہوئے انہوں نے گویا اپنے اس عمل کی وضاحت دی تھی۔ 

ان کی بات پر اس کے خشک لبوں پر تلخ مسکراہٹ رینگ گئی۔

"میں بھی تو۔۔۔یہی کہہ رہا ہوں نا سر، آپ مجھے موت دے دیں۔ میں خود بھی کب زندہ رہنا چاہتا ہوں۔ آپ نے میری اتنی مدد کرکے مجھ پر احسان کیا ہے۔ اب ایک اور احسان یہ بھی کر دیں۔ مجھے موت دے دیں"۔ وہ التجا کرنے لگا۔

سرمئی آنکھیں بنجر ہو رہی تھیں۔

"میرے تجربے نے مجھے سکھایا ہے کہ ملک دشمن، قاتل یا ایک مجرم کو کبھی موت کی سزا نہیں دی جاتی۔ بلکہ اس کی زندگی کو ہی اس کیلئے سزا بنا دینی چاہیئے"۔ وہ اطمینان سے بولے۔

قیصر ویران آنکھوں سے انہیں دیکھ کر رہ گیا۔

"لیکن تمہارا معاملہ بالکل الٹ ہے۔ تمہاری زندگی تو خود قدرت نے ہی ایک سزا بنا دی ہے۔ مجھے یا کسی اور کو یہ کام کرنے کی نوبت ہی نہیں آئی۔

تم نے بہت سے معصوم لوگوں کی جانیں لی ہے بہت سے گھر اجاڑے ہیں۔ تو آج جب مکافاتِ عمل کے تحت تم سے تمہارا کوئی عزیز چھین لیا گیا تو تمہیں تکلیف ہونے لگی؟ زندگی کی آرزو ختم ہو گئی؟ کبھی سوچا ہے وہ اپنے پیاروں کے بغیر کیسے رہ رہے ہوں گے؟"۔ وہ اسے حقیقت کا آئینہ دکھا رہے تھے۔

جس میں قیصر خیام کو اپنا چہرا اس قدر بدصورت لگا تھا کے اس کا ڈوب مرنے کو دل چاہا۔

ان کی باتوں کے جواب میں اس کے پاس اپنی صفائی میں ایک لفظ بھی نہیں تھا کہنے کو۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کے وہ کچھ بھی تو غلط نہیں کہہ رہے ہیں۔

"الوینا معصوم تھی۔ اس کا کوئی قصور نہیں تھا پھر اس کے ساتھ ایسا کیوں؟ اتنی ناانصافی کیوں کی قدرت نے؟"۔ سوال کرتے ہوئے وہ پہلی بار بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا تھا۔ ہاں وہ رو رہا تھا۔ کیونکہ اب اس کا جسم ہی نہیں بلکہ دل بھی درد محسوس کر رہا تھا۔ اور وہ درد اتنا تھا کے اسے لگا اس کا دل پھٹ جائے گا۔ 

وہ اپنے گناہوں پر نادم تھا۔ صحیح غلط کی سمجھ تو اسے اب بھی نہ آئی تھی۔ مگر وہ جان چکا تھا کے الوینا اس کے گناہوں کی بھینٹ چڑھی ہے۔ جس وجہ سے قیصر خیام کو اب اپنے ان گناہوں سمیت خود اپنی ذات سے بھی نفرت اور کراہیت محسوس ہوتی تھی۔

فیض بخاری مزید کچھ کہے بغیر لب بھینچے کمرے سے باہر نکل گئے۔ 

وہ جان گئے تھے کے فلحال اسے تنہائی چاہیئے۔ جو انہوں نے فراہم کردی تھی۔

_______________________________

گلاس ڈور دھکیل کر وہ آفس میں داخل ہوئے تو لیفٹیننٹ جنرل کو اپنا منتظر پایا۔ 

"سر"۔ انہوں نے سلیوٹ کیا۔

"تشریف رکھیے"۔ ڈی-جی صاحب نے اپنی نشست سنبھالنے کے بعد ان سے کہا۔

میٹنگ روم میں اس وقت وہ دو نفوس ہی موجود تھے۔

"ایک کام کہا تھا؟ کیا ہوا اس کا؟"۔ انہوں نے پیشانی پر بل ڈالے سنجیدگی سے سوال کیا۔

"یس سر، یہ ہے وہ فائل"۔ لیفٹیننٹ جنرل نے فائل ان کی جانب بڑھائی۔ جسے تھامنے کے بعد اب وہ اسے کھولے پڑھنے لگے۔

ساتھ ہی وہ انہیں آگاہ کرنے لگے۔

"سر یہ فائل ان تمام آفیشلز سے متعلق انفارمیشن پر مشتمل ہے جو ادارے کے ساتھ جڑنے کے بعد اس اہم راز میں شراکت دار ہوئے۔ ان میں سے جو ریٹائر ہو چکے ہیں ان پر بھی ہم کڑی نگاہ رکھتے ہوئے اس امر کو یقینی بناتے ہیں کے ملک کی دفاع سے جڑا یہ اہم راز ان کی موت کے بعد ان کے ساتھ ہی دفن ہو جائے اور کسی دشمن کے ہاتھ نہ لگے"۔

ڈی-جی صاحب نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے تائید کی۔ البتہ نگاہیں ہنوز فائل پر ہی جمی تھیں۔ جب اچانک وہ کرسی پر آگے کو جھکے۔

"بریگیڈیئر (ر) فیض بخاری"۔ فائل میں لگے صفحے پر فیض صاحب سے متعلق مہیا کی گئی معلومات پڑھ کر وہ چونک سے گئے۔

"جی ہاں سر، کوئی ہے جسے بریگیڈیئر صاحب چھپانے کی

کوشش کر رہے ہیں اور ان کی یہ حرکت انہیں مشکوک بنا رہی ہے"۔ سنجیدہ لہجے میں کہتے ہوئے فائل میں لکھی تحریر کو لیفٹیننٹ جنرل نے منہ زبانی بیان کیا تھا۔

ڈی-جی صاحب کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔

"تو پتہ لگائیے کے آخر وہ کیا چھپا رہے ہیں؟ اور کیوں چھپا رہے ہیں۔ ہو نہ ہو ان ایٹمی ہتھیاروں کا نقشہ ان ریٹائر ہو چکے فوجیوں میں سے کسی ایک کی توسط سے ہی دشمن کے ہاتھ لگا ہے"۔ وہ پریقین لہجے میں بولے۔

"آپ نے بالکل درست کہا سر، ان کی ایکٹویٹیز پر نگاہ رکھنے سے ہو سکتا ہے ہم اس دشمن تک بھی پہنچ سکیں جس نے یہ نقشہ چرایا ہے"۔ لیفٹیننٹ جنرل نے رائے دی۔

"ہوں۔ نظر رکھو ان پر اور خاص کرکے بخاری صاحب پر۔ اپنے ایجنٹس سے کہو جلد سے جلد پتہ لگانے کی کوشش کریں کے آخر انہوں نے کس کو چھپا رکھا ہے اور یہ بھی کے جسے چھپا رکھا ہے وہ واقعی کوئی خطرہ ہے ہمارے لیے یا نہیں"۔ انہوں نے تحکم سے کہا۔

"یس سر"۔ یک لفظی جواب دیا۔

_______________________________

ملگجے سے اجالے میں وہ بستر پر آنکھیں موندے چت لیٹی تھی۔ ایک ہاتھ اس کا تکیے پر رکھا تھا جبکہ دوسرا ہاتھ سینے پر۔

چہرے پر تکلیف کے آثار، بے ترتیب سانسیں اور سیاہ لرزتی پلکیں نیند میں بھی اس کی اذیت کا پتہ دے رہیں تھی۔

ذہن کے پردے پر وہ جانے کون سا بھیانک منظر دیکھ رہی تھی۔

وہ کسی ویرانے میں ننگے پاؤں چلتی جا رہی ہے۔ مسلسل چلتی چلی جا رہی ہے۔ یہاں تک کے چل چل کر اس کے پاؤں میں آبلے پڑ چکے ہیں۔ ہونٹ خشک ہو چکے ہیں۔ گلے میں کانٹے اگنے لگے ہیں۔ سبز آنکھوں کی پتلیاں ارد گرد پانی کی تلاش میں دیکھ رہی تھیں۔ اور بالآخر اسے ایک جگہ پانی کا نل نظر آ جاتا ہے۔

اس تک پہنچنے کیلئے وہ بنا اپنی حالت کی پرواہ کیئے بغیر تیز تیز چلنے لگتی ہے۔ 

نل کھلنے کے ساتھ ہی شفاف پانی کی دھار گرنے لگتی ہے۔ جسے دیکھ کر اس کی پیاس مزید بڑھ گئی ہے۔ وہ جھک کر گلابی ہتھیلی اس دھار کے نیچے دے دیتی ہے اور ہونٹ اس سے لگائے پانی پینے لگتی ہے۔ ٹھنڈے میٹھے پانی کا پہلا گھونٹ حلق سے اترتے ہی اس کی آنکھیں پرسکون سی ہو کر بند ہونے لگتیں ہیں۔

ابھی دو گھونٹ بھی نہیں بھرے ہوتے کے یک دم میٹھے پانی کا ذائقہ نمکین محسوس ہونے لگتا ہے۔ وہ آنکھیں کھولنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔

جونہی اس کی آنکھ کھلتی ہے شفاف بے رنگ پانی کے بجائے سرخ خون کی دھار بہتے دیکھ کر اس کی آنکھیں خوف سے پھٹنے کے قریب ہو گئیں۔ خون ہی خون گرتا اس کے منہ کو، ہاتھ کو، لباس کو داغدار کرتا چلا جا رہا تھا۔ وہ ایک چیخ مار کر اس نل سے پیچھے ہٹ جاتی ہے اور اندھا دھند وہاں سے بھاگنے لگتی ہے دوڑتے دوڑتے وہ پھر جھاڑیوں کے درمیان آ جاتی ہے۔ اچانک کوئی اس کا پیر کھینچتا ہے وہ اوندھے منہ زمین بوس ہو جاتی ہے۔ 

سپاٹ زمین میں دراڑیں پڑ جانے سے وہ اب مائے کی شکل اختیار کر چکی ہوتی ہے۔ سرخ مایا۔ سرخ خون کا دریا جس کے اندر وہ چیختی چلاتی ہوئی ہر پل دھنستی چلی جا رہی ہے۔ اس کے ہاتھ پاؤں جیسے باندھ دیئے گئے تھے۔

وہ سرخ دریا اسے دلدل کی مانند ہر پل اپنے اندر کھینچ رہا تھا۔ اپنے اندر سمو لینے کے درپے تھا اور وہ سوائے چیخنے کے کوئی مزاحمت نہیں کر پا رہی تھی۔ اپنی کوئی مدد نہیں کر پا رہی تھی۔ جانے کون سی ان دیکھی قوت اسے نیچے سے کھینچ رہی تھی۔

وہ کندھوں تک اس دریا میں ڈوب چکی تھی اب بس چہرا باقی تھا۔ پھر آہستہ آہستہ وہ سرخ مادہ اس کے چہرے کو بھی اندر کھینچنے لگا۔ گھٹن ہی گھٹن تھی۔۔۔اتنی گھٹن کے سانس لینا دوبھر ہو چکا تھا۔ اس کی سانسیں اکھڑنے لگیں تھی۔ وہ مکمل طور پر اس خون کے دریا میں ڈوب چکی تھی اب صرف سبز آنکھیں ہی باقی رہیں تھی کہ۔۔

پوری قوت صرف کرنے کے بعد اس نے ایک گہری سانس بھری تھی اور دلخراش چیخ مارتے ہوئے وہ بستر پر اٹھ بیٹھی۔

چہرا پسینے سے تر بتر ہو چکا تھا۔ سانسیں دھونکنی کی مانند چل رہیں تھی۔ سبز آنکھوں سے آنسوؤں کا ایک جھرنا بہہ نکلا تھا۔

اس کی چیخ سن کر برابر میں سوئی فرزانہ بیگم ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھیں۔ 

"کیا ہوا؟ تم ٹھیک تو ہو نا زیست؟ کیا ہوا بیٹا؟"۔ اس کا زرد چہرا نحیف ہاتھوں میں تھام کر وہ فکرمندی سے پوچھنے لگیں۔

وہ خوفزدہ سی ہو کر ان کے سینے سے لگ گئی۔

"امی۔۔امی وہ۔۔۔وہ خون ہر طرف خون ہی خون تھا امی۔۔۔مم۔۔۔میری سانس بند۔۔۔وہ خون"۔ کانپتے لبوں سے بے ربط جملے بولتی ہوئی وہ حد درجہ خوف کا شکار لگ رہی تھی۔

"شش۔۔۔کچھ نہیں ہوا بیٹا۔۔۔کچھ بھی نہیں ہوا"۔ اس کی پشت پر بکھرے بال سہلاتے ہوئے وہ اسے پرسکون کرنے کی کوشش کر رہیں تھی۔

اس کا سارا وجود خوف کے زیر اثر کانپ رہا تھا۔ فرزانہ نے پانی کا گلاس بھر کر اس کے منہ سے لگایا۔ گلاس پر نگاہ پڑتے ہی اسے اس پانی میں خون گھلتا محسوس ہوا۔ جسے دیکھ کر وہ ایک بار پھر چیخ پڑی تھی۔

"نن۔۔۔نہیں۔۔۔یہ نہیں چاہیئے۔۔دور۔۔۔کریں اسے"۔ گلاس پرے کرتے ہوئے وہ ان کے بازو سے لگ کر زور سے آنکھیں میچ گئی تھی۔

"اچھا ٹھیک ہے مت پیو پانی۔ رونا بند کرو شاباش"۔ انہوں نے گلاس واپس سائیڈ میز پر رکھ چھوڑا۔

"بس اب میں تمہاری ایک بھی نہیں سنوں گی۔ بہت ہو گئی تمہاری من مانی، اب تم وہی کروگی جو میں کہتی ہوں"۔ انہوں نے قطعی لہجے میں کہتے ہوئے فیصلہ سنایا۔

زیست اس وقت بالکل بھی احتجاج کرنے کی پوزیشن میں نہ تھی۔ لہٰذا وہ خاموش رہ گئی۔

_______________________________

وہ اپنی ماں کے ہمراہ اس وقت دماغی ڈاکٹر ثوبیہ شیخ کے کیبن میں ان کے سامنے والی نشست پر براجمان، نگاہیں جھکائے بیٹھی گود میں رکھی اپنی ہتھیلی کو گھور رہی تھی۔

جبکہ پینتالیس کے لگ بھگ وہ تجربہ کار ڈاکٹر اب فرزانہ بیگم سے چند سوالات کرنے کے بعد اس کی جانب متوجہ ہوئیں۔

"کیا نام ہے آپ کا؟"۔ انہوں نے چہرے پر مسکراہٹ سجائے پر شفقت لہجے میں پوچھا۔

زیست نے نگاہیں اٹھا کر ایک نظر ماں کو دیکھا پھر ڈاکٹر کو۔

"زیست ذوالقرنین عباسی"۔ دھیمی آواز میں جواب دیا۔

"عمر کیا ہے آپ کی؟"۔ انہوں نے اسی انداز میں پھر پوچھا۔

"چبھیس سال"۔ وہ سر جھکائے جوابات دینے لگی۔

 اسے اپنی ماں کی تسلی جو کروانی تھی کے وہ پاگل نہیں ہے۔

"کیا کرتی ہیں آپ؟"۔ نوٹ پیڈ پر قلم گھسیٹتے ہوئے پوچھا۔

"ایم-بی-بی-ایس کیا ہے۔ اور ہاؤس جاب درمیان میں ہی چھوڑ دیا"۔ سر جھکائے اس نے اپنی زندگی کے سب سے تکلیف دہ سوال کا جواب دیا تھا۔

"کوئی ایسی چیز جس سے آپ ڈرتی ہوں؟ جیسے کوئی کیڑا یا جانور؟"۔ انہوں نے مزید کریدنے کے بجائے اگلا سوال کیا۔

"میں میڈیکل کی طالب علم رہی ہوں۔ ان چیزوں سے نہیں ڈرتی"۔ اب وہ انہیں کیا بتاتی کے اسے کیا شے سب سے زیادہ 'خوف زدہ' کرتی تھی۔

اگلے آدھے گھنٹے تک ایسے ہی چند عام سوالات وہ اس سے کرتی رہیں۔ جن کا وہ تحمل سے نارمل انداز میں جواب دیتی رہی۔

"آپ کی زندگی کا سب سے برا وقت کون سا تھا؟"۔ انہوں نے ایک اور سوال کیا۔

وہ اب اس کے دماغ میں گھسنے لگیں تھیں۔ 

زیست کے چہرے پر پہلی بار تکلیف کے آثار نظر آئے۔

"تیمور بھائی۔۔۔کی موت"۔ لرزتے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔

فرزانہ بیگم کی آنکھوں سے اشک رواں ہوئے۔

"سب سے بھیانک حادثہ کون سا تھا؟"۔ ایک اور سوال۔

زی نے فوری جواب نہ دیا۔ 

ڈاکٹر نے فرزانہ بیگم کی جانب دیکھا۔ 

وہ نگاہیں چرا کر رہ گئیں۔

"ٹھیک ہے۔ میں کچھ ٹیسٹس لکھ کر دے رہی ہوں۔ آپ پہلے یہ سب کروا لیجیے پھر ہمارا نیکسٹ سیشن دو دن بعد جب ہوگا تو رپورٹس آپ لیتی آئیے گا۔"۔ انہوں نے پروفیشنل مسکراہٹ چہرے پر سجائے گویا انہیں جانے کی اجازت دے دی تھی۔

کچھ ہی دیر بعد فرزانہ بیگم زیست کے ہمراہ ان کا شکریہ ادا کرتی ہوئیں وہاں سے نکل گئیں۔

تب کیبن سے ملحقہ دوسرا دروازہ کھلا تھا اور سیاہ ہڈی میں ملبوس وہ لمبا چوڑا شخص ان کے سامنے آ موجود ہوا۔

"آپ کون ہیں؟ اور میرے پرائیویٹ روم تک کیسے پہنچے؟"۔ وہ کرسی چھوڑ کر سختی سے سوال کر رہیں تھی۔ انداز کسی قدر حیران بھی تھا۔ 

"جو لڑکی ابھی یہاں سے گئی ہے اس کا علاج آپ نہیں کریں گی ڈاکٹر"۔ ہڈی پشت پر گراتے ہوئے اس نقاب پوش نے سرد لہجے میں حکم دیا تھا۔

"میں ایک ڈاکٹر ہوں۔ اور آپ ہوتے کون ہیں مجھے میرا کام کرنے سے روکنے والے؟"۔ میز کے پیچھے سے نکل کر وہ اس کے سامنے تن کر کھڑی ہو گئیں۔

اس کی سرمئی آنکھیں سکڑیں۔ لگتا تھا جیسے نقاب کے پیچھے وہ مسکرایا تھا۔

"مجھے اس کا مرض معلوم ہے۔ اس لیئے میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کے آپ اس کا علاج نہیں کر سکتیں۔ اس لیئے یہ کوشش بھی ترک کر دیں"۔ اس بار اس کا لہجہ قدرے سخت ہو گیا۔

"میں کیسے مان لوں؟ تم کوئی ڈاکٹر ہو کیا؟"۔ وہ پھر پوچھنے لگیں۔

جبکہ اسے باتوں میں الجھا کر موبائل نکالنے کیلئے وہ اپنا ہاتھ جینز کی پاکٹ تک لے گئیں۔ 

"میں ڈاکٹر نہیں ہوں۔ لیکن ہاں، میں ہی اس کا مرض ہوں اور اس مرض کی دوا بھی میں ہی ہوں۔ لہٰذا آپ اس معاملے سے بالکل دور رہیں"۔ اب کی بار وہ وارننگ دینے لگا۔

"فائن، یہ بات تم پولیس سے کہہ دینا"۔ وہ اب اس کے سامنے ہی موبائل پر پولیس اسٹیشن کا نمبر ملانے لگیں۔

مگر اس نے آگے بڑھ کر روکنے کی کوشش ہرگز بھی نہیں کی۔

"شوق سے کیجیے پولیس کو فون، پھر آپ کے یونیورسٹی فیلو شاہزیب سے جو آپ کا افیئر شادی کے بعد بھی چلا کرتا تھا اس سے متعلق تمام تر ثبوت اگر میں نے آپ کے شوہر احسن شیخ کو مہیا کردیئے تو آپ کے بیٹے خرم اور بیٹی مشال کو ہرگز بھی اچھا نہیں لگے گا"۔ سینے پر ہاتھ باندھے وہ کتنے سکون سے ان کے سر پر بم پھوڑ چکا تھا۔

ثوبیہ کا موبائل والا ہاتھ ہوا میں ہی معلق رہ گیا۔ سانس حلق میں اٹک گئی۔ آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔

انہیں سامنے کھڑے شخص سے خطرے کی بو آئی تھی۔

وہ انجان شخص ان کی ذاتی زندگی سے متعلق کیا کچھ نہیں جانتا تھا۔ وہ راز بھی جو اتنے سالوں پرانا تھا۔

انہوں نے تھوگ نگلا۔

موبائل سمیت ہاتھ پہلو میں آ گرا تھا۔

وہ اتنا سب جانتا تھا۔ انہیں یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی کے وہ کون سے ثبوت ہیں؟

"کک۔۔۔کیا چاہتے ہو تم؟"۔ وہ اب بالکل ڈھیلی پڑ چکی تھیں۔

"یہ ہوئی نا کچھ بات۔ اب آپ زیست کی والدہ سے وہی کہیں گی جو میں سمجھانے لگا ہوں"۔ وہ وہی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا جہاں زیست عباسی کچھ دیر قبل بیٹھی تھی۔

سرمئی آنکھیں ان کے زرد پڑتے چہرے پر جمائے وہ انہیں ڈکٹیشن دینے لگا۔ جسے وہ خاموشی سے سننے پر مجبور تھیں۔

ہر گزرتا دن اس کیلئے اذیت ناک ثابت ہو رہا تھا۔ کہتے ہیں کے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دل کو صبر آ ہی جاتا ہے۔ لیکن اس کی کیفیت کچھ اور ہی تھی۔ الوینا سے کیا وعدہ اسے یاد آتا تو وہ خود پر جبر کرکے خاموشی اختیار کر لیتا اور زندگی کو ایک سزا سمجھ کر کاٹنے لگتا۔ مگر اگلے ہی پل جب الوینا سے بچھڑنے کا دکھ، اس سے دوری یاد آتی تو وہ پھر اپنے حواسوں میں نہ رہتا تھا اور ساتھ ہی اپنی زندگی سے نفرت بھی

محسوس ہونے لگتی۔ جینے کی چاہ ختم ہو جاتی۔

چھ ماہ وہ خود سے جنگ کرتا رہا تھا۔ پورے چھ ماہ تک وہ اس دوہری کیفیت میں رہا تھا۔ زندگی و موت کے درمیان۔ وہ الوینا سے کیا وعدہ نبھاتا تو زندگی ایک سزا لگتی۔ وہ موت کو گلے لگانا چاہتا تو زندگی اس کا ہاتھ تھام لیتی۔

جسم کے زخم تو مندمل ہو رہے تھے مگر وہ جو روح پر گھاؤ لگے تھے وہ کیسے بھرتے؟ ان کا علاج تو کسی طبیب کے پاس بھی نہ تھا۔

وہ ایک مضبوط اور تند و مند شخص تھا۔ صرف جسمانی لحاظ سے ہی نہیں بلکہ دماغی اور جذباتی رو سے بھی۔ مگر اب جو وہ اتنا کمزور اتنا بے بس ہوگیا تھا تو یقیناً یہ صدمہ اس کیلئے بہت گہرا تھا۔ دل پر ہوا یہ وار کاری ثابت ہوا تھا۔

وہ آنکھیں بند کرتا تو زیست عباسی نامی اس قاتلہ کے جملے سماعتوں کو چھلنی کر دیتے۔ 

وہ آنکھیں کھولتا تو الوینا مختار کی عدم دستیابی اس کی بصارتوں پر قیامت ڈھانے لگتی۔

اب تک کی زندگی میں وہ صرف ایک عورت کیلئے رویا تھا، تڑپا تھا، سسکا تھا۔ اور وہ تھی اس کی ماں۔ جس کا اسے نام تک پتہ نہیں تھا۔ جس کا اسے چہرا بھی بھول چکا تھا۔ 

اور اب یہی تڑپ، یہی دل کو چیر دینے والا غم دوسری بار بھی اسے ایک عورت کیلئے ہی محسوس ہو رہا تھا۔ وہ جو اس کی دلہن تھی۔ اس کی بیوی کے مرتبے پر بھی فائز نہ ہوئی تھی اور ظالموں نے اسے قیصر خیام کے وجود سے بری طرح نوچ کھسوٹ کر الگ کر ڈالا تھا۔

جب جب اسے الوینا کی کمی کھلتی۔ جب بھی وہ اس کیلئے روتا، تڑپتا۔ تب تب اسے زیست عباسی سے شدید نفرت ہونے لگتی۔ جتنی شدت اس کی محبت میں تھی۔ اس سے کئی زیادہ  شدت، ہر گزرتے پل، اس کی نفرت اختیار کرنے لگی تھی۔

اس نفرت کی جلن چنگھاری بن کر اس کے دل میں سلگی تھی اور اب بڑھتے بڑھتے وہ لاوے کی شکل اختیار کر گئی تھی۔ زیست سے روبرو ہونے، اس سے ملنے کی شدید چاہ اس نفرت کو مزید سلگا دیتی تھی۔ 

الوینا کی محبت اگر اسے مر جانے پر مجبور کرتی تو زیست کی نفرت اسے جینے پر اکساتی تھی۔ حقیقت تو یہ تھی کہ بدلے کا جذبہ ہی اسے اب تک زندہ رکھے ہوئے تھا۔ ورنہ بھلا اب جینے کا اور مقصد ہی کیا رہ گیا تھا؟ زندگی تو خالی ہو گئی تھی۔

شیشے کے سامنے کھڑا وہ نا جانے کتنے وقت بعد خود سے، اپنے عکس سے روبرو ہو رہا تھا۔ 

نیلے رنگ کی پینٹ پر پلین وہائٹ شرٹ پہنے، بھورے بال ترتیب سے سیٹ کیئے وہ حد درجہ سنجیدہ تھا۔

پیشانی پر موجود زخم اب مندمل ہو چکا تھا مگر ہلکا نشان اب بھی موجود تھا۔ گندمی رنگت والے چہرے پر پڑی خراشیں بھی اب مٹ چکی تھیں۔ دائیں بازو پر لگا پلاسٹر بھی اتر چکا تھا۔ مگر ڈاکٹرز کی تاکید کے مطابق اسے ہفتے میں کم از کم تین دن ایکسرسائز لازمی کرنا تھی۔ خاص طور پر اس بازو اور شانے کی، جہاں گولی لگی تھی۔

وہ بھورے بالوں میں ہاتھ پھیر رہا تھا جب اس کی پشت پر آہٹ ابھری۔ وہ مڑا۔

فیض بخاری چلتے ہوئے کھڑکی سے زرا فاصلے پر موجود  سنگل صوفے پر آ بیٹھے تھے۔

وہ بھی خاموشی سے ان کے ساتھ والی نشست پر جا بیٹھا۔

گزرے ماہ میں ایک اجیب سا تعلق بن گیا تھا ان دو انجان نفوس کے درمیان۔ جیسے بن کہے ایک دوسرے کی بات سمجھ جانے والے دو دوست۔ جیسے کوئی قریب کے رشتے دار یا پھر۔۔۔جیسے ایک باپ اور بیٹا۔ 

یہ سچ تھا کے ان دونوں میں گفتگو بہت کم ہوتی تھی۔ وہ کئی کئی گھنٹے ایک دوسرے کے برابر خاموشی سے بیٹھ کے گزار سکتے تھے اور گزارتے بھی تھے۔ مگر آج بہت دنوں بعد وہ اس سے روبرو ہونے آئے تھے۔

انہوں نے ایک گہرا سانس لیا۔ جیسے کچھ کہنے جا رہے ہوں۔

"اچھی بات ہے کے تم ہر گزرتے دن تندرست ہوتے جا رہے ہو۔ مجھے امید ہے کے اب تم اپنی زندگی ختم کرنے کے بجائے اسے نئے ڈھنگ سے جینے کی کوشش کرو گے"۔ اس کی جانب دیکھے بغیر انہوں نے کہا۔ 

قیصر خیام نے صوفے کی پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں موند لیں۔

"میں باہر جانا چاہتا ہوں۔ اس گھر کی ان اونچی اونچی دیواروں سے مجھے وحشت سی ہونے لگی ہے۔ آخر میری یہ قید کب ختم کریں گے آپ؟"۔ وہ ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولا۔ آنکھیں ہنوز بند تھیں۔

فیض بخاری اسے دیکھنے پہ مجبور ہو گئے۔ جیسے اس کے چہرے کو کھوج کر اس کی سوچ تک رسائی پانا چاہ رہے ہوں۔

مگر اس کا چہرا سپاٹ تھا۔ کسی بھی جذبے سے عاری۔ وہ جس کا پچھلے پانچ ماہ سے انہوں نے جذباتی روپ دیکھا تھا۔ جو روتا تھا۔ چیختا تھا اور کبھی کبھی بے بس ہوکر نفرت یا غصے کا اظہار بھی کر دیا کرتا تھا۔ وہ اب بالکل ٹھہرے ہوئے جھیل کی مانند لگ رہا تھا۔ آخر پچھلے ایک ماہ میں ایسا کیا ہوا تھا جو اس کی سطح اتنی پرسکون اور خاموش ہو گئی تھی؟ فیص صاحب کو کھٹکا سا ہوا۔

"ہارون کا ٹرانسفر ہو گیا ہے حیدرآباد۔ ورنہ وہ ہر روز آ کر مجھ سے تمہارے متعلق پوچھ گچھ کرتا رہتا تھا۔ ہسپتال میں بھی میں نے سختی سے ہدایت کر دی تھی کہ چاہے کوئی بھی آئے، وہاں کا اسٹاف کسی صورت بھی تمہارے متعلق زبان نہ کھولے"۔ وہ کہہ کچھ رہا تھا اور وہ جواب کچھ اور دے رہے تھے۔

"تو آپ مجھے یہاں سے آزاد نہیں کریں گے؟"۔ اس نے پھر سے اپنا سوال دہرایا۔ لہجے میں شکوہ تھا۔

آنکھیں اب بھی بند تھیں۔ کھڑکی سے چھن کر آتی مارچ کی دھوپ اس کے چہرے پر کرنیں بکھیر رہی تھی۔ اس کا چہرا دھوپ کی تمازت سے سنہری مائل ہو رہا تھا۔ بھورے رنگ کی شیو روشنی پڑنے سے چمک رہی تھی۔ جبکہ احمریں لب سختی سے باہم پیوست تھے، جیسے وہ خود پر بہت ضبط باندھ رہا ہو۔

"میں تمہیں کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کے اس گھر سے باہر نکلنے پر تمہاری جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ لہٰذا جب تک میں نہ کہوں تم اس گھر سے قدم باہر نہیں نکال سکتے"۔ وہ سخت لہجے میں تنبیہ کر رہے تھے۔

قیصر نے سختی سے مٹھی بھینچ کر صوفے کی کہنی پر رسید کی۔

"آپ کیا سمجھتے ہیں کے مجھے ان دیواروں نے باہر جانے سے روک رکھا ہے اب تک؟ یا میں انہیں پھلانگنے کی قوت نہیں رکھتا ہوں؟"۔ وہ سرد لہجے میں پھنکارا۔

"اچھی طرح جانتا ہوں کے تمہارے لیئے یہ دیواریں پھلانگنا مشکل کام نہیں ہے۔ مگر میں یہ بھی جانتا ہوں کے تم میری مرضی کے خلاف جا کر ان دیواروں کی حد پار کرنے کی گستاخی بھی کبھی نہیں کروگے"۔ انہوں نے پریقین لہجے میں جواب دیا۔

وہ خاموش رہا۔ سچ ہی تو کہہ رہے تھے وہ، قیصر خیام کو دل رکھنا نہیں آتا تھا مگر جانے کیوں وہ ان کا ہر حکم ماننے پر مجبور ہو جاتا۔ ان کی بات نہیں ٹال پاتا تھا۔ شاید وہ اس کے محسن تھے اس لیے یا پھر شاید اسے ان سے مانوسیت ہو گئی تھی اس لیے۔

"جب کسی سے حد سے زیادہ نفرت ہو اور بدلے میں اتنی ہی نفرت وہ بھی آپ سے کرتا ہو تو کیا کرنا چاہیئے؟"۔ بات بدلتے ہوئے اچانک اس نے یہ سوال کیا تھا۔

سرمئی آنکھیں کھلیں، سورج کی روشنی پڑتے ہی ان آنکھوں کی دلکشی بڑھ گئی تھی۔

فیض بخاری اس سوال پر کسی قدر چونکے۔

"اگر وہ شخص بےگناہ ہے تو اس سے نفرت کا یہ تعلق ختم کر دینا چاہیے۔ لیکن اگر وہ واقعی گناہگار ہے تو پھر اسے معاف کرنا نہ کرنا تمہارے اپنے ہاتھ میں ہے"۔ انہوں نے جواب دے کر فیصلہ اس پر چھوڑ دیا۔

"اگر میں معاف نہ کرنا چاہوں تو؟ اسے موت دینے کی اجازت بھی نہ ہو لیکن مجھے اسے سزا بھی دینی ہو تو؟ تب کیا کرنا چاہیئے؟"۔ اس کی آنکھوں میں اب سرخ ڈورے پڑنے لگے تھے۔ سورج کی روشنی اور تپش سرمئی آنکھوں کو جلانے لگی تھی۔ مگر دل کی جلن کے آگے سب بے معنی تھا۔

"نفرت اگر دونوں طرف ہے تو پھر سب سے زیادہ تکلیف صرف ایک ہی چیز دے سکتی ہے"۔ وہ ٹھہرے۔ ہاتھ بڑھا کر انہوں نے پردے سرکا دیئے۔ اب دھوپ کا راستہ رک چکا تھا۔

قیصر نے آنکھیں مکمل کھول لیں اور سیدھا ہو بیٹھا۔ 

"ایک دوسرے کے قریب رہنا"۔ انہوں نے اپنی بات مکمل کی تھی۔

اس کے لب تلخی سے مسکرا دیئے۔

"تو گویا یہ سزا دونوں کیلئے ہوگی پھر؟"۔ اس کا لب و لہجہ طنزیہ ہو گیا۔

"ہاں، جب نفرت دو طرفہ ہے تو پھر سزا بھی دونوں طرف ملنی چاہیئے۔ کیونکہ سزا دینے والا بھی تو قصوروار ہی ہوگا۔ لہٰذا وہ بھی سزا کا حقدار ٹھہرے گا"۔ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے انہوں نے وہ بات قیصر خیام کو ہی سنانے کیلئے کہی تھی۔

کیونکہ فیض بخاری جان چکے تھے کہ مقابل موجود شخص انتقامی آگ اپنے سینے میں جلائے ہوئے ہے۔ 

اور انتقام کی آگ تو پھر دونوں کو ہی جلاتی ہے۔ اسے بھی جس کو انتقام لینا ہو۔ اور اس کو بھی جس سے انتقام لینا ہو۔

قیصر خیام ان کی بات سمجھ چکا تھا۔ مگر اس لمحے، عمل کرنے یا نہ کرنے کا طے نہیں کر پایا تھا۔

"ہارون کا ٹرانسفر کیوں ہوا؟"۔ صوفے سے اٹھ کر وہ اب چھوٹے سے روم ریفریجریٹر تک آیا اور وہاں سے عرق گلاب کی شیشی نکال کر ایک بار پھر سنگار میز کے سامنے جا کھڑا ہوا۔

فیض بخاری وہیں بیٹھے رہے۔

"وہ "الوینا قتل کیس" کی تحقیقات کر رہا تھا۔ جس میں علی مرزا اور دیگر ایک عاد اہم شخصیات کا نام بھی سامنے آیا۔ اسی وجہ سے ہارون کو اس کیس سے ہٹانے کیلئے حیدرآباد ٹرانسفر کر دیا گیا"۔ انہوں نے سنجیدگی سے کہتے ہوئے اسے آگاہ کیا۔

جبکہ وہ بظاہر بےنیاز نظر آتا دھوپ سے جل جانے والی سرمئی آنکھوں کو ٹھنڈک دینے کیلئے عرق گلاب اسپرے کرنے کے بعد اب ٹشو سے تھپتھپا رہا تھا۔

"میں قبرستان تک جانا چاہتا ہوں۔ الوینا سے ملنے کیلئے"۔ وہ اب مڑ کر ان کی جانب اجازت طلب نگاہوں سے دیکھنے لگا۔

فیض صاحب نشست سے اٹھ کھڑے ہوئے۔

"ٹھیک ہے۔ مگر تم اکیلے نہیں جاؤ گے۔ بابا (ڈرائیور) تمہارے ساتھ جائے گا"۔ حکم صادر کرنے کے بعد وہ کمرے سے نکل گئے۔

جبکہ قیصر خیام کی آنکھوں میں سوچ کا عنصر بہت واضح نظر آ رہا تھا۔

_______________________________

ٹیسٹ رپورٹس کاؤنٹر سے کلیکٹ کر لینے کے بعد وہ جیسے ہی مڑیں کسی مضبوط وجود سے زوردار ٹکر کے نتیجے میں ان کے ہاتھوں میں موجود کاغذات زمین پر پھسلتے چلے گئے۔جبکہ اس اچانک افتاد پر وہ بوکھلا کر رہ گئیں تھیں۔

"اوہ! ویری سوری، میں زرا جلدی میں تھا"۔ وہ بلند قامت شخص زمین پر جھکا اب کاغذات اٹھا رہا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ لہجے سے ندامت بھی جھلک رہی تھی۔ وہ جیسے ہی ان کے کاغذات واپس کرنے کو اٹھا فرزانہ بیگم نے حیرانگی سے اسے دیکھا۔

"عدنان؟ بیٹا تم یہاں؟ سب خیریت تو ہے؟"۔ انہوں نے فکرمندی سے پوچھا۔

دور کونے میں رکھے صوفے پر بیٹھی زیست قدرے چونک کر اس شخص کی پشت تک رہی تھی جو نجانے فرزانہ بیگم سے کیا کہہ رہا تھا۔ 

"وہ ایکچولی میں بابا کی رپورٹس لینے آ رہا تھا۔ زرا جلدی میں تھا تو اس لیئے یہ سب۔۔۔مگر آپ یہاں؟"۔ اس کی سیاہ آنکھوں میں بھی وہی سوال ابھرا۔

فرزانہ بیگم اس سوال پر سوچ میں پڑ گئیں کے اب اسے کیا بتائے۔

"وہ۔۔دراصل میں بھی اپنے رپورٹس لینے ہی آئی ہوں۔ اب بیٹا اس بڑھاپے میں تو ایک سے ایک طرح کی بیماریاں لگ جاتی ہیں۔ آئے دن دوائیاں، ٹیسٹ۔ اب تو اس سب کی عادت ہو گئی ہے"۔ انہوں نے بات سنبھالتے ہوئے جواب دیا۔

"جی یہ بات تو ہے۔ آنٹی مجھے بابا کی رپورٹس لینے کے بعد پھر ارجنٹ کسی کام سے پہنچنا ہے۔ تو اب آپ سے اجازت چاہوں گا"۔ شائستگی سے کہا۔ انداز میں کسی قدر اجلت تھی۔

"ضرور بیٹا"۔ انہوں نے شفقت بھرے لہجے میں جواب دیا۔ پھر خود بھی زیست کی جانب آ گئیں۔

جبکہ وہ کاؤنٹر کی طرف بڑھا۔

"کیا ہوا امی؟ کون تھا وہ؟"۔ اس کی پشت پہ نگاہیں جمائے زیست نے پوچھا۔

"ارے وہ عدنان تھا۔ شفیق بھائی کی رپورٹس لینے آیا ہوا تھا وہ بھی۔ بڑا اچھا اور سلجھا ہوا بچہ ہے، اللہ اسے خوش رکھے۔ کتنا خیال رکھتا ہے اپنے ماں باپ کا"۔ وہ اسے دل سے دعائیں دینے لگیں۔

"اچھا، آپ تو ایسے کہہ رہی ہیں جیسے میں نہیں رکھتی آپ کا خیال؟"۔ ان کا بازو تھامے وہ نروٹھے پن سے بولتی ہوئی راہداری میں ان کے ساتھ چلنے لگی۔

"اب میں نے ایسا بھی تو نہیں کہا۔ تم تو میری بہت پیاری بیٹی ہو"۔ انہوں نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔ 

جس پر وہ مسکرا کر رہ گئی۔

_______________________________

کال کوٹھڑی کی پتھریلی دیوار سے کمر ٹکائے وہ بد حال قیدی ایک کونے میں بیٹھا تھا۔

چھوٹا سا گول روزن ہلکی ہلکی روشنی اندر پھینک رہا تھا۔ سیمنٹ کا فرش، جس میں سے جا بجا پلستر اکھڑ رہا تھا۔

دیوار کے ساتھ موجود پتلی پتلی نالیاں جن سے پانی کا نکال ہوتا تھا، پر چھوٹے موٹے ہر سائز کے چوہوں نے اپنا مسکن بنا رکھا تھا۔

اس سیل میں ان کے علاوہ دو قیدی اور بھی تھے جو اس وقت کال کوٹھڑی کے وسط میں بیٹھے باتیں بگھار رہے تھے۔ یہ دونوں ہی قیدی بہت زیادہ بولنے والے اور عقل سے خالی تھے۔ انہی خصوصیات کی بنیاد پر ان دونوں میں خوب دوستی تھی۔ جبکہ ان سے بے نیاز وہ سفید و سیاہ کھچڑی جیسے بالوں والا قیدی ہمیشہ کی طرح خاموش تھا۔

کانسٹیبل سلاخوں کے پار آ کر اب دھات کے دروازے کا تالہ کھولنے لگا تھا۔

"قیدی نمبر سات سو سولہ تمہاری ملاقات آئی ہے۔ چلو"۔ اس نے اطلاع دی تھی۔

اس بات پر وہ چونک سے گئے۔ بھلا ان چھ مہینوں کے دوران کب کوئی ان سے ملنے آیا تھا۔ 

یہی سوچتے ہوئے وہ بنا کوئی جواب دیئے اٹھ کھڑے ہوئے اور قدم کال کوٹھڑی سے باہر نکال کر کانسٹیبل کی معیت میں اٹھا دیئے۔

کچھ ہی دیر بعد وہ کانسٹیبل انہیں لیئے ملاقاتی کمرے میں لایا تھا۔ کمرا خالی تھا۔ اس کی تین دیواریں سیمنٹ اور اینٹ سے بنی تھیں۔ جبکہ چوتھی دیوار کے آدھے حصہ پر سلاخیں لگیں تھی۔ 

ان سلاخوں کے پار بھورے رنگ کی لیدر جیکٹ میں ملبوس اس شخص کا چہرا قدرے جھکا ہوا تھا۔ وہ کھوجتی نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے سلاخوں کے قریب آ موجود ہوئے۔

"کون ہو تم؟"۔ علی مرزا نے سخت لہجے میں پوچھا۔

سوال پر اس نے جھکا سر اٹھا۔ مگر نقاب کی وجہ سے صرف آنکھیں ہی واضح ہو رہیں تھی۔

اور اس شخص کی پہچان کیلئے وہ آنکھیں ہی بہت تھیں۔

علی مرزا کی آنکھیں اسے اپنے سامنے دیکھ کر صدمے سے پھٹی پھٹی کی رہ گئیں۔

"یاد تو کیا ہوگا مجھے؟" سرد برفیلی آنکھیں ان پر جمائے وہ طنز بھرے لہجے میں سوال کر رہا تھا۔

"تم۔۔۔تم زندہ ہو؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ تم تو۔۔۔"۔ وہ اتنا ششدر تھے کے اپنی بات بھی مکمل نہ کر سکے۔

"بد قسمتی سے اب تک جی رہا ہوں۔ مگر اپنے دشمنوں کو تڑپائے بغیر مروں گا میں بھی نہیں"۔ نفی میں سر ہلاتے ہوئے وہ بولا۔

اس کی بات پر علی مرزا کا قہقہہ بلند ہو تھا۔ کھوکھلی ہنسی۔

"افسوس قیصر خیام صد افسوس۔ مگر اس بار تمہارا دشمن تم سے کئی زیادہ شاطر اور تیز طرار ہے۔ تم اگر سیاہ بچھو ہو تو وہ کوبرا ہے۔ بہت بڑی غلطی کردی تم نے جو بل سے باہر آگئے۔ ایک بار اس تک یہ خبر پہنچ جائے کے تم زندہ ہو۔ پھر تم دیکھو گے کے کیسی دردناک موت دے گا وہ تمہیں"۔ زہریلے لہجے میں کہتے ہوئے وہ ایک بار پھر قہقہہ لگانے لگے۔

قیصر نے جیکٹ کی اندرونی جیب میں ہاتھ ڈالا اور کانچ کی شیشی برآمد کرکے اسے سلاخوں کے پار موجود علی مرزا کی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔

وہ جو ایک فاتح کی ہنسی ہنس رہے تھے بوتل پر نگاہ پڑتے ہی ان کے چہرے پر خوف طاری ہو گیا۔ وہ بدک کر دو قدم پیچھے ہٹ گئے۔

بوتل کے اندر پانچ سیاہ رنگ کے بچھو بےتابی سے چہل قدمی کرتے اپنے شکار کا انتظار کر رہے تھے۔

"یہ۔۔۔یہ کک۔۔کیا ہے؟ ہٹاؤ اسے"۔ وہ کراہ اٹھے تھے۔

"صرف ایک بار پوچھوں گا۔ زیست ذوالقرنین عباسی کون ہے؟"۔ اس کے انداز میں سفاکی تھی۔ وہ قطعی رحم کے موڈ میں نہیں تھا۔

علی مرزا دوڑ کر دروازے تک گئے اور اسے زور زور سے پیٹنے لگے۔

"دروازہ کھولو۔۔۔یہ۔۔۔پپ۔۔پاگل آدمی مار دے گا مجھے۔۔کوئی تو کھولو دروازہ"۔ وہ بلند آواز میں چیخ رہے تھے۔ موت کا خوف ہر چیز پر غالب آ گیا تھا۔

دروازے کے باہر موجود کانسٹیبل نے جیسے اپنے کان بند کر لیئے تھے۔

جبکہ سلاخوں کے پار موجود قیصر خیام اب گھوم کر اسی دروازے سے اندر داخل ہو گیا تھا۔ علی مرزا کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

اس نے جیسے ہی ایک قدم آگے بڑھایا وہ اچھل کر چند قدم پیچھے ہٹے۔ 

دروازہ اب بند ہو چکا تھا۔ وہ ان کی طرف قدم بڑھاتا کانچ کی بوتل ان کی نگاہوں کے سامنے لہرا رہا تھا۔ جیسے کسی بھی پل ان سیاہ بچھوؤں کو ان پر اچھال دے گا۔

"مم۔۔۔میں بتاتا ہوں۔۔سب کچھ بتاتا ہوں۔۔۔پلیز۔۔مجھے مت مارو"۔ وہ ہاتھ جوڑتے ہوئے اس سے زندگی کی بھیک مانگ رہے تھے۔ وہ رک گیا۔ وہ بھی ایک قدم کے فاصلے پر رک گئے۔ خوف کے مارے ان کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ گئے تھے۔

"دراصل۔۔۔وہ اس اینکر تیمور عباسی کی بہن ہے۔۔۔جس کو تم نے مارا تھا"۔ وہ ہاتھ جوڑے گویا ہوئے۔

قیصر ان کی بات پر چونکا۔ اور لمحے کے ہزارویں حصے میں اس نوجوان کا خوش شکل چہرا اس کے دماغ کے پردے پر روشن ہوا تھا جس کو مارنے کا حکم علی مرزا نے ہی اسے دیا تھا۔

"اور اس کی بہن کو میری خبر دینے والے تم تھے؟"۔ وہ مٹھی بھینچ کے غرایا۔

مرزا اس کی بات پر نظریں چرا کر رہ گئے۔

"بولو"۔ اس مرتبہ اس کی دھاڑ اتنی بلند تھی کے انہیں اچھلنے پر مجبور کر گئی۔

"ہاں۔۔۔مم۔۔میں نے ہی۔۔۔زیست کو تمہارے بارے میں بتایا۔۔۔کے تم نے اس کے بھائی کو۔۔مارا ہے۔۔۔اور یہ سن کر میری توقع کے عین مطابق اس کے دل میں بدلے کی آگ بھڑک اٹھی۔۔۔اور پھر۔۔۔اس نے خود مجھ سے تمہاری ساری معلومات حاصل کیں۔۔۔اور اس کے آگے مجھے نہیں پتہ کہ اس نے تمہارے ساتھ کیا کیا"۔ وہ طوطے کی طرح بولتے ہوئے ہر ایک بات اس کے سامنے کھولتے چلے گئے۔ اور ان کا ہر ہر لفظ قیصر کے اندر بھڑکتے آگ کو مزید ہوا دے گیا تھا۔

پھرتی سے ایک قدم کا فاصلہ مٹا کر اس نے سیاہ لیدر گلوز والے ہاتھ سے ان کی گردن پر گرفت کسی۔ علی مرزا کی آنکھیں خوف سے پھٹنےکے قریب ہو گئیں۔

"تو تم نے اسے یہ نہیں بتایا کے مجھے اس کے بھائی کو مارنے کا حکم دینے والے تم خود تھے؟"۔ انہیں گردن سے پکڑ کر جھنجھوڑتے ہوئے وہ دانت پہ دانت جمائے پوچھنے لگا۔ 

"ہاں۔۔۔مم۔۔میں نے۔۔۔یہ نہیں۔۔۔بتایا"۔ انہوں نے یہ جملہ جانے کتنے دقتوں سے مکمل کیا تھا۔ اس شخص کے ابلتے خون اور فولادی گرفت کے سامنے وہ ساٹھ سالہ کمزور سا آدمی بھلا کیا چیز تھا۔

"تمہاری اس ایک گھٹیا سازش کے نتیجے میں الوینا مجھ سے دور ہوگئی۔ کاش اس کی جگہ واقعی میں مر گیا ہوتا"۔ جھٹکے سے ان کی گردن چھوڑ کر، ہاتھ کی مضبوط مٹھی بنا کر ایک گھوسا مارنے کو آگے بڑھا تھا جب اچانک اس کی سماعتوں نے اس مانوس آواز کو سنا۔ وہ تھم گیا۔

"وعدہ کرتا ہوں۔ تمہارے لیئے سب چھوڑ دوں گا۔ سارے برے اور الٹے سیدھے کام بند"۔ 

یہ اس کی اپنی آواز تھی۔ ماضی میں کہا گیا اسی کا جملہ اس کی سماعتوں میں بازگشت بن کر گونج رہا تھا۔ وہ کیسے بھول گیا تھا کے وہ بدل چکا ہے۔ کیسے بھول گیا وہ کے اس وعدے کے ساتھ ہی جان لینے کا اختیار اس نے خود سے چھین لیا تھا۔

اس نے وہ مٹھی اب علی مرزا کے بجائے زور سے دیوار پہ رسید کی۔ ایک بار۔۔دو بار۔۔تین بار وہ مارتا چلا گیا۔ آخر کسی طرح تو اپنے اشتعال پر قابو پانا ہی تھا۔

علی مرزا نے خوف سے کانپتے ہوئے آنکھیں میچ رکھیں تھیں۔ مگر خود کو پنچ نہ پڑتے محسوس کرنے کے بعد آہستگی سے آنکھیں کھولیں تو وہ دیوار پہ ہاتھ رکھے غیض و غضب کی تصویر بنا نظر آیا۔

"تمہارے سامنے تو مجھے اپنا آپ بالکل پاک و صاف محسوس ہو رہا ہے آج علی مرزا۔ تمہاری طرح میں کم از کم اپنوں پر تو وار نہیں کرتا۔ اور نہ ہی سفید کالر میں چھپ کر کالے کام کرتا ہوں۔ میرا ظاہر اور باطن بالکل ایک سا ہے۔ تمہارے مقابلے تو میں پھر بھی بہت 'اچھا' ہوں"۔ ہر لفظ چبا چبا کر کہتا وہ ایک بار پھر ان کی جانب آیا تھا۔

مرزا کچھ بولنے کے بھی قابل نہ رہے۔

"بتاؤ زیست کہاں ملے گی؟"۔ اس کا گریبان پکڑ کے پوری قوت سے جھٹکا دیا۔ 

انہوں نے ایک خوفزدہ نگاہ بوتل پر ڈالنے کے بعد اس کی جانب دیکھا۔

"وہ۔۔۔تت۔۔تم میرے پی-اے غفور سے معلوم کر سکتے ہو۔ وہی لے کر آیا تھا اسے میرے پاس"۔ اس بار انہوں نے بلا تاخیر جواب دیا۔

قیصر نے مشکوک نگاہوں سے انہیں دیکھا۔

"میں سچ کہہ رہا ہوں۔ تم چاہو تو اس سے خود مل کر تصدیق کر سکتے ہو"۔ انہوں نے اپنی بات پر زور دیا۔

جھٹکے سے ان کا گریبان آزاد کرکے وہ پیچھے ہٹا۔

"اگر تمہاری بات جھوٹی نکلی تو یاد رکھنا، قیصر خیام تمہاری زندگی موت سے بھی بدتر کر دے گا"۔ اپنے سینے پر انگلی سے دستک دیتے ہوئے وہ دھمکانا نہیں بھولا تھا۔ اس دھمکی پر علی مرزا کے گلے میں گلٹی سی ابھر کر معدوم ہوئی۔

جبکہ وہ ایک تیز نگاہ ان پر ڈالنے کے بعد کمرے سے باہر نکل آیا۔

"سر رکیے"۔ 

ہڈی سر پر گرانے کے بعد وہ تیز تیز چلتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا جب پشت پر کانسٹیبل کی آواز ابھری۔ وہ رک گیا۔

وہ گھوم کر اس کے سامنے آ گیا۔

"سر۔۔۔میری بیوی اور بچی؟ ان کو آپ۔۔۔چھوڑ دیں گے نا؟"۔ اس کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑا وہ رو دینے کو تھا۔

قیصر نے گہرا سانس بھرا پھر تسلی آمیز انداز میں اس کے شانے پہ ہاتھ دھرنے کے بعد گویا ہوا۔

"تمہاری بیوی اور بیٹی بالکل ٹھیک ہیں مستقیم۔ اور اس وقت اپنے گھر پر موجود ہیں۔ بس یہاں جو کچھ بھی ہوا دھیان رکھنا کے وہ تم تک ہی محدود رہے"۔ وہ اسے مطمئن کرنے کے ساتھ ہی سخت تاکید بھی کر رہا تھا۔ جس پر مستقیم نے زور و شور سے سر ہلا کر اثبات کی تائید کی تھی کے وہ اپنی زبان بند رکھے گا۔

قیصر خیام مطمئن سا ہو کر آگے بڑھ گیا۔ یہ پہلا ایسا اتفاق تھا کے اس نے اپنے شکار کو موت نہیں دی تھی۔ بس اپنا کام کرکے وہاں سے نکل گیا۔

جبکہ اس کانسٹیبل نے سینے پر ہاتھ رکھ کے بے اختیار ایک پرسکون سانس فضا کے سپرد کیا۔

"لوگ اپنے کام کروانے کے پیسے دیتے ہیں اور یہ شخص خوف دلا کر، بلیک میل کر کے اپنا کام نکالتا ہے۔ بہت ہی خطرناک معلوم ہوتا ہے"۔ منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے ہوئے اس نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔ اور کمرے کا دروازہ کھول کر خوف سے کپکپاتے علی مرزا کو باہر کا راستہ دیا۔

_______________________________

دو دن پہلے جیسا ہی منظر تھا۔ زیست ویسے ہی آج بھی ڈاکٹر  ثوبیہ کے مقابل موجود نشست پر براجمان تھی۔ کیونکہ آج ان کا دوسرا سیشن تھا۔ بس ایک ہی فرق تھا آج کے منظر میں۔ ثوبیہ شیخ کے اندر سے اب ان کا وہ ازلی اعتماد مفقود تھا۔ 

"کیسی ہو زیست؟"۔ بمشکل چہرے کو بےفکر ظاہر کرکے وہ پوچھنے لگیں۔

زی نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ محض سر ہلا کر جواب دیا۔

"یہ ہیں ٹیسٹ رپورٹس، جو آپ نے کہے تھے"۔ فرزانہ بیگم نے ترتیب سے تھامے کاغذات ان کی جانب بڑھائے۔ جنہیں انہوں نے خاموشی سے تھام لیا اور جائزہ لینے لگیں۔

"رپورٹس تو نارمل ہیں سب"۔ کچھ دیر بعد انہوں نے جواب دیا۔

زیست نے اثبات پر ماں کی جانب دیکھا۔ جیسے کہہ رہی ہو "میں نے آپ سے کہا تھا مجھے کچھ نہیں ہوا ہے"۔ 

"بیٹا آپ باہر انتظار کیجئے، میں تب تک آپ کی امی سے کچھ باتیں ڈسکس کرنا چاہتی ہوں"۔ انہوں نے پر شفقت لہجے میں کہتے ہوئے شائستگی کے ساتھ زیست کو وہاں سے ہٹایا تھا۔

وہ خاموشی سے اٹھ کر باہر چلی گئی۔

اس کے جاتے ہی وہ ان سے مخاطب ہوئیں۔

"جس طرح سے آپ نے بتایا کے انہیں اکثر ڈراؤنے خواب آتے ہیں یا انہیں محسوس ہوتا ہے کے کوئی ان کا پیچھا کر رہا ہے۔ کمرے میں کسی کی موجودگی یا پھر ان کا بے وجہ ڈر جانا اس سب کی ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے۔ اور وہ ہے "دماغی فریب یا پھر hallucination جسے ہم کہتے ہیں"۔ وہ قیصر خیام کی زبان بول رہیں تھیں۔

فرزانہ بیگم کے چہرے پر پریشانی چھا گئی۔

"یہ کسی حادثے کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ کوئی ڈراؤنا منظر دیکھ لینے سے بھی انسان کو یہ دماغی لغزش ہو سکتی ہے۔ اس میں ہم وہ چیزیں اور وہ مناظر دیکھنے لگتے ہیں جو اصل میں ہوتے نہیں ہیں۔ ہمارا دماغ کسی حادثے کو توڑ مروڑ کر اسے الگ الگ مناظر میں ڈھال لیتا ہے اور ہماری آنکھوں کو وہ مناظر دکھانے لگتا ہے جو کے سچ نہیں ہوتیں"۔ وہ انہیں تفصیل سے سمجھانے لگیں۔

"تو پھر اس سب کا حل کیا ہے ڈاکٹر؟"۔ ان کی پریشانی دوچند ہو گئی۔

"کیا اس کے ساتھ کوئی حادثہ ہوا تھا؟"۔ تھوک نگل کر پرائیویٹ روم کے دروازے کو چور نگاہوں سے دیکھتی ہوئیں وہ یہ سوال کرنے لگیں۔

فرزانہ بیگم ان کی بات کا فوری جواب نہ دے سکیں۔ وہ کیسے اپنی بیٹی کا راز افشاں کرکے اسے رسوا کر دیتیں۔ 

"نن۔۔۔نہیں ڈاکٹر۔ مجھے لگتا ہے کے بھائی کی موت کا صدمہ پہنچا ہے اسے"۔ انہوں نے سنبھل کر جواب دیا۔

ان کی بات پر ثوبیہ خاموشی سے سر ہلا گئیں۔

"دیکھیے، کسی بھی بیماری کو ٹھیک ہونے میں زرا وقت درکار ہوتا ہے۔ آپ انہیں زیادہ سے زیادہ مصروف رکھا کریں۔ دماغ خالی ہوتا ہے تو اسے الگ الگ طرح کے واہمے گھیرنے لگتے ہیں۔ کوشش کریں کے انہیں گھر میں قید نہ کریں بلکہ باہر نکلنے پر اکسائیں، تاکہ چہل پہل دیکھ کر وہ کچھ دیر کیلئے ساری بری یادیں بھول جائیں۔ اور یہ بھی کے انہیں تنہائی کم سے کم میسر آئے"۔ انہوں نے حل پیش کیا۔

"میں اپنی طرف سے پوری کوشش کرتی ہوں کے اسے تنہا نہ چھوڑوں۔ اور وہ تو کہیں باہر جانے سے بھی کتراتی ہے۔ جس وجہ سے اس کی دوستی بھی نہیں ہے کسی سے۔ نجانے کس کی نظر لگ گئی میری بچی کو، وہ جو کبھی اتنی سوشل ہوا کرتی تھی اب بالکل ہی گھر میں قید ہو کر رہ گئی ہے"۔ وہ آزردگی سے گویا تھیں۔

ثوبیہ کو ان کا دکھ محسوس ہو رہا تھا۔ آخر کو وہ بھی تو ایک ماں تھیں۔

"تو آپ اس کی شادی کروا دیں۔ شوہر سے بہتر ساتھی اور غمگسار (اللہ مجھے معاف کر دے) کوئی اور نہیں ہو سکتا"۔ یہ مشورہ دیتے ہوئے انہوں نے بارہا دل میں اپنے رب سے معافی مانگی۔ کیونکہ جو شخص ان سے یہ سب کہلوا رہا تھا وہ کم از کم کسی کا غمگسار تو ہرگز بھی نہیں ہو سکتا تھا۔

ان کی سوچوں کے برعکس فرزانہ کہہ رہیں تھیں۔

"مجھے یہ خیال بہت بار آیا ہے مگر زیست اس بات کیلئے قطعی تیار نہیں ہوگی"۔ وہ کوئی خوش گمانی نہیں رکھتی تھیں۔

"آپ ماں ہیں اس کی۔ سب سے بڑی خیرخواہ۔ اس لیئے آپ کی بات وہ نہیں ٹالے گی۔ اور پھر یہ اس کی اپنی بھلائی کیلئے ہے"۔ وہ انہیں نامحسوس طریقے سے کنوینس کر رہیں تھیں۔

اور وہ آمادہ نظر بھی آ رہیں تھیں۔

"میں کوشش کروں گی اسے منانے کی"۔ انہوں نے کچھ سوچ کر کہا۔

"یہ تو اور بھی اچھی بات ہے۔ خیر، جو بھی ہدایات میں نے آپ کو دی ہیں ان پر عمل کرنے کے ایک ہفتے بعد آپ زیست کو دوبارہ یہاں لائیے گا۔ پھر میں دیکھوں گی کے فرق پڑ رہا ہے یا نہیں"۔ انہوں نے کہا۔

جس پر فرزانہ بیگم نے تائیدی انداز میں سر ہلایا۔

پھر چند مزید باتوں کے بعد وہ زیست کو منانے کا عظم لیئے وہاں سے اٹھ کر چلی گئیں۔

ثوبیہ نے سر ہاتھوں میں گرا لیا۔

"تو مان گئیں بھولی سی ساس؟"۔ لہجے میں فتح کی سرشاری تھی۔

آواز پر ڈاکٹر نے کرنٹ کھا کر سر اٹھایا۔ وہ ان کے مقابل بیٹھا آج بھی نقاب میں تھا۔

"یہ تم مجھ سے کیا کروا رہے ہو اور کیوں؟ میں اپنے پیشے سے غداری کر رہی ہوں"۔ وہ اپنی جانب اشارہ کرکے چیخ اٹھیں۔

وہ بے نیازی سے شانے اچکا گیا۔

"خیر، ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے۔ جب آپ اپنے شوہر سے غداری کر سکتیں ہیں تو پھر پیشہ کیا چیز ہے"۔ اس نے گویا ناک سے مکھی اڑائی۔

جبکہ ثوبیہ کا مارے طیش کے برا حال تھا۔ 

"مر جاؤ تم"۔ وہ بےبسی سے اتنا ہی کہہ پائیں۔

وہ دلچسپی سے مسکرایا۔

"آمین ثم آمین۔ آج تک اتنی بہترین دعا مجھے کسی نے نہیں دی"۔ اس کے انداز میں رتی بھر فرق نہ آیا۔

اس کی بات کو نظرانداز کیئے وہ اب پوچھنے لگیں۔

"سچ سچ بتاؤ کیا کھیل کھیل رہے ہو اس لڑکی کے ساتھ؟کہیں تمہارا ارادہ اسے مارنے کا تو نہیں؟"۔ وہ مشکوک نگاہوں سے اسے دیکھ رہیں تھیں۔

ان کی بات پر وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑا تھا۔ اس ہنسی میں ثوبیہ کیلئے تمسخر تھا۔ 

"میں بیچارہ بھلا اسے کیا مار سکتا ہوں جو خود دو دھاری تلوار ہے۔ آپ سے کہہ چکا ہوں نا کے میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں"۔ وہ ہاتھ اٹھا کر اس انداز میں کہہ رہا تھا جیسے ثوبیہ دکاندار ہو اور وہ اس کے ہاں سے کوئی چیز خریدنے کی بات کر رہا ہو۔

"تمہیں اگر اس سے شادی ہی کرنی ہے تو تم سیدھا سیدھا اس کے گھر جا سکتے ہو اس کی ماں سے اسے مانگنے۔ مگر تم اس کے ساتھ اتنا بڑا کھیل رچا رہے ہو"۔ وہ بہت ہی صفائی سے اس کے دماغ تک رسائی پانے کی کوشش کر رہیں تھیں۔

"وہ اتنی اہم نہیں ہے جو میں اسے در در مانگنے جاؤں"۔ ہاتھ جھلا کر جواب دیا۔

"میں تمہاری ساری حقیقت زیست اور اس کی ماں کو بتاؤں گی۔ اور اب تم مجھے دھمکی دو گے، تو اس سے پہلے میں تمہیں بتا دوں کے میرا ایسا کوئی راز نہیں ہے جس کو تم میرے خلاف استعمال کر سکو۔ اور اگر کوئی راز ہوتا بھی تو تمہارے پاس کیا ثبوت ہے اس بات کا؟"۔ وہ چیلنج دینے والے انداز میں بولیں۔ اپنا اعتماد دکھا کر وہ مقابل کو کمزور کرنا چاہتی تھیں۔ 

"آپ کے یہ ٹرکس بہت بچکانے ہیں"۔ وہ خاصا بدمزہ ہوا۔

پھر دیکھتے ہی دیکھتے جیکٹ کی اندرونی جیب سے ایک تصویر نکالی اور اسے ان کے سامنے میز پر الٹا کے رکھ دیا۔ ایسے کے اس تصویر کا سفید بیک گراؤنڈ ہی نظر آ رہا تھا۔

ثوبیہ زرد پڑتی رنگت کے ساتھ اس کا ایک ایک عمل دیکھ رہی تھی۔

پھر اس نے دوسری اور آخری بار جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک کاغذ برآمد کرکے تصویر کے برابر رکھ دیا۔

"بوجھو تو جانیں"۔ وہ ایسے بولا جیسے وہاں کوئی کھیل چل رہا ہو۔

"یہ سب کیا ہے؟"۔ اپنے آپ کو پراعتماد ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے استفسار کیا۔

"تحفہ ہے میری طرف سے۔ اور یقین جانیئے کسی قارون کے خزانے سے کم نہیں ہیں یہ چیزیں آپ کیلئے"۔ گلوز والے ہاتھ کی انگلی سے پیشانی سہلاتے ہوئے اس نے خوشدلی سے کہا۔

ثوبیہ کا ماتھا ٹھنکا۔

انہوں نے کانپتے ہاتھوں سے اس تصویر کو تھاما اور رخ اپنی جانب موڑا۔ اور اگلے ہی پل ان کا ہاتھ لرز کر رہ گیا تھا۔

تصویر میں شاہزیب اور خود ان کا عکس ایک ساتھ مقید تھا۔ وہ سر جھکانے پر مجبور ہو گئیں۔ 

"آخری پتا کھولیئے ڈاکٹر"۔ اس نے مسکراتے لہجے میں کہا۔

انہوں نے مرے مرے ہاتھوں سے کاغذ اٹھا کر کھولا۔ وہ ایک مہنگے ترین گفٹ شاپ کا بل تھا۔ جہاں سے شاہزیب نامی شخص وقتاً فوقتاً تحائف خرید کر اس مخصوص پتے پر بھیجتا رہتا تھا جو پچھلے کئی سالوں سے ثوبیہ شیخ اور ان کے شوہر کا مسکن بنا تھا۔

ان کے چہرے پر زلزلے کے تاثرات چھا گئے۔

"اتنا کافی ہے یا اب خود شاہزیب کو پکڑ کر لاؤں؟"۔ ایک ابرو اٹھائے وہ پوچھ رہا تھا۔

"نہیں پلیز ایسا غضب مت کرنا۔ میرا گھر برباد ہو جائے گا"۔ وہ ہاتھ جوڑ کے منتوں پر اتر آئیں۔ لہجے میں آنسو گھلنے لگے تھے۔ سارا اعتماد اڑنچھو ہو گیا تھا۔

"تو پھر بہتر یہی ہوگا کے آپ صرف اتنا ہی کریں جتنا کے میں آپ سے کہتا ہوں۔ اگلے ایک ہفتے تک زیست راضی ہو گئی تو پھر آپ کی جان بھی چھوٹ جائے گی مجھ سے۔ یقین جانیئے مجھے کسی کی ذاتی زندگی میں جھانکنے کا ہرگز بھی کوئی شوق نہیں ہے"۔ وہ مصنوعی افسردگی سے بولتا ہوا ڈھکے چھپے الفاظ میں انہیں تنبیہ کر رہا تھا۔

وہ بنا کچھ مزید کہے اس کی تائید کر گئیں۔

"امید ہے ہمارا یہ دوسرا سیشن آپ نہیں بھولیں گی"۔ کرسی سے اٹھ کھڑے ہونے کے ساتھ ہی وہ اپنے مخصوص لب و لہجے میں بولا۔ پھر عادتاً بالوں میں انگلیاں گھمانے کے بعد کیبن سے باہر نکل گیا۔

اس کے جاتے ہی ثوبیہ نے جلدی جلدی اس تصویر اور کاغذ کے پرزے پرزے کرکے اسے کوڑے دان میں پھینک دیا۔

_______________________________

کلینک سے باہر آنے کے بعد وہ سڑک کے دوسری جانب کھڑی گاڑی تک آیا اور اس کا پچھلا دروازہ کھول کر پھرتی سے اندر بیٹھ گیا۔

گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے نقاب اتار پھینکا اور چہرے پہ ہاتھ پھیرنے لگا۔

"چلیئے بابا"۔ اس نے ڈرائیور سے کہا۔ 

"جی صاحب"۔ جواب دے کر وہ جوں ہی گاڑی اسٹارٹ کرنے لگے عین اسی وقت دو لوگ اگلی اور پچھلی نشست کی کھلی کھڑکی میں آ کھڑے ہوئے۔

اس نے چونک کر انہیں دیکھا۔ چہرے انجان تھے۔ بالکل غیر شناسا، مگر حلیے سے اول درجے کے اوباش معلوم ہوتے تھے۔

"او چچا! گاڑی آگے نہ بڑھانا"۔ ڈرائیور کے پاس کھڑکی میں سر دھنے اس نوجوان نے کہا۔ انداز دھمکی آمیز تھا۔

"تم باہر نکلو اور چلو ہمارے ساتھ"۔ اس کی جانب موجود ایک دوسرے شخص نے اسے ساتھ چلنے کا حکم دیا۔

"نہ گیا تمہارے ساتھ تو کیا کر لوگے؟"۔ کان کی لو مسلتے ہوئے اس نے بے زاریت سے پوچھا۔ انداز لاپرواہ سا تھا۔

"تو۔۔۔تو کچھ نہیں ہم پھر بھی لے جائیں گے۔ دیکھو یار تم ہمیں اپنا دوست سمجھ لو، ہمارا ارادہ تمہیں نقصان پہچانے کا ہرگز بھی نہیں ہے"۔ اس نے دونوں ہاتھ اٹھا کر کہا۔

"ٹھیک ہے"۔ کچھ سوچ کر اس نے حامی بھر لی۔

"یہ ہوئی نا بات"۔ اس نے جھٹ گاڑی کا دروازہ کھول کر اسے باہر آنے کا راستہ دیا۔

"کہاں لے جا رہے ہو انہیں؟ رک جاؤ تم لوگ"۔ ڈرائیور نے پریشانی سے کہا۔

جبکہ وہ برابر کھڑی گاڑی میں جا بیٹھا۔

"او چچا تم سکون سے بیٹھو یار۔ اوئے عالی تم لے کر جاؤ نا مہمان کو"۔ ڈرائیور کو خاموش کروانے کے بعد اس نے دوسری گاڑی میں موجود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے شخص سے کہا۔

وہ ماتھے تک ہاتھ لے گیا پھر یہ جا وہ جا۔

"اب تم گھر جاؤ چچا اور اپنے مالک سے کہو کے اس کا لونڈا اغوا ہو چکا ہے کیا؟ اغوا۔ بیس لاکھ تاوان کے چاہیئے۔ بندوبست کرو۔ اسے ہم آزاد کر دیں گے"۔ وہ لمبے بالوں والا شخص انہیں اطلاع دے کر چند ہی لمحوں بعد بھیڑ میں گم ہو گیا تھا۔

بوڑھا ڈرائیور اپنا سر پکڑ کے رہ گیا۔

_______________________________

اس کی آنکھوں پر پٹی باندھے وہ تین لڑکے دو گھنٹے کی مسافت کے بعد اسے اپنے ساتھ شہر سے دور جانے کہاں لے آئے تھے۔

اسے بس اتنا احساس ہو رہا تھا کے وہ اسے لیے کسی زیر زمین بنی جگہ میں آگئے تھے۔

آنکھوں سے پٹی اترتے ہی اسے ایک دم کچھ سمجھ نہ آیا تھا۔ مگر جوں جوں منظر صاف ہوتا گیا اسے وہ کمرا نیم تاریکی میں ڈوبا نظر آیا۔

"تم سوچ رہے ہوگے کے تمہیں اس طرح یہاں کیوں لایا گیا ہے؟ اور کس مقصد کے تحت لایا گیا ہے؟ تو میں بس اتنا کہوں گا کے آہستہ آہستہ سب سمجھ آ جائے گا"۔ سامنے کرسی پر بیٹھا درمیانی عمر کا مرد اس سے مخاطب تھا۔

"آپ اغوا کار نہیں ہیں۔ میں اغوا نہیں ہوا ہوں بلکہ کسی کام کیلئے یہاں لایا گیا ہوں۔ رائٹ؟"۔ وہ ایک ابرو اٹھائے ان سے سوال کرنے لگا۔

"نام کیا ہے تمہارا؟"۔ اس کے سوالوں کو نظرانداز کرتے ہوئے وہ پوچھنے لگے۔

"میکائیل بخاری"۔ اس نے پراعتماد لہجے میں جواب دیا۔

اس کی بات پر مقابل نے گہرا سانس بھرا۔ پھر چلتا ہوا اس کے سامنے آیا۔

انگشت شہادت اس شخص سے اس کی آنکھوں کی جانب بڑھائی۔ وہ پلکیں جھپکائے بغیر انہیں دیکھتا رہا۔ اگلے ہی پل اس شخص نے اپنی کھردری انگلی سے اس کی آنکھ کی پتلی پر موجود وہ سیاہ رنگ کا پردہ اچک لیا تھا۔

"میکائیل یا پھر۔۔۔قیصر خیام؟"۔ شہادت کی انگلی پر موجود لینس اسے دکھاتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل نے اس کی سرمئی آنکھوں میں جھانک کر کہا تھا۔

ان کی بات پر قیصر کا چہرا پرسکون رہا۔ مگر ہاتھ کی مٹھیاں سختی سے بھینچ لیں۔

وہ بغور اس کے چہرے کا اتار چڑھاؤ نوٹ کرنے لگے۔ 

یک دم کمرے میں روشنی بڑھ گئی۔ شاید مزید روشنیاں بھی جلا دی گئیں تھیں۔ مگر وہاں ان دو نفوس کے علاوہ کوئی تیسرا وجود نہ تھا۔ پورا کمرا خالی تھا۔ بس ایک میز اور اس کے گرد ایک ہی کرسی کمرے کے وسط میں موجود تھے۔ جہاں کچھ دیر قبل لیفٹیننٹ جنرل صاحب تشریف فرما تھے۔

"میں میکائیل بخاری ہی ہوں"۔ اس نے پھر سے وہی جواب دیا۔ انداز بھرپور سنجیدگی لیئے ہوئے تھا۔

اس کی بات پر لیفٹیننٹ جنرل کے چہرے پر ویسی ہی

مسکراہٹ ابھری جیسے کسی چھوٹے بچے کی شرارت پکڑنے پر کسی بڑے کے چہرے پر ابھرتی ہے۔

انہوں نے ہاتھ میں موجود لینس ایک طرف کو اچھال دیا۔ 

"برخوردار، جتنی مہارت تمہیں جھوٹ بولنے میں حاصل ہے اس سے کئی زیادہ تجربہ جھوٹ پکڑنے میں رکھتا ہوں میں"۔ پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ خاصے پراعتماد اور بارعب لگتے تھے۔

"تجربہ آپ کا زیادہ ہی سہی مگر طاقت میں مجھ سے زیادہ نہیں ہیں۔ جو بھی ہیں آپ، مگر اب بوڑھے ہو چکے ہیں"۔ وہ انہیں ڈھکے چھپے الفاظ میں بہت کچھ سمجھا رہا تھا۔  

"تمہیں یہاں میرے اشارے پر لایا گیا ہے۔ کیا یہ بات طاقتور ہونے کیلئے کافی نہیں؟"۔ انہوں نے ایک ابرو اٹھائے سوال کیا۔

قیصر کے لبوں پر دھیمی مسکراہٹ چھب دکھلا کر غائب ہو گئی۔

"غلط! میں لایا گیا نہیں بلکہ خود چل کر یہاں آیا ہوں"۔ اس کا اعتماد قابلِ دید تھا۔

جبکہ اس نے اب اپنا دوسرا لینس خود ہی اتار پھینکا۔

اس حرکت پر ان کا انداز اسے داد دینے والا تھا۔ وہ میکائیل کہلوا رہا تھا جبکہ خود کو دکھا قیصر خیام جیسا رہا تھا۔

"اکثر لوگ ہمارے پاس اپنی مرضی سے آتے ہیں مگر ہم انہیں

ان کی مرضی سے جانے نہیں دیتے"۔ سرد لہجے میں جواب  دینے کے ساتھ ہی انہوں نے موبائل جیب سے برآمد کیا۔ پھر اس سے مزید کچھ کہے بنا موبائل اسکرین پر نگاہیں مرکوز کیئے شاید کوئی پیغام لکھنے لگے تھے۔ چند لمحوں بعد نگاہیں اٹھا کر اس کی جانب دیکھا۔ 

وہ ویسے ہی سینے پر ہاتھ باندھے پرسکون کھڑا نظر آیا۔ آنکھوں میں ایک سرد سا تاثر تھا۔ جو شاید اب اس کی مستقل پہچان بن چکا تھا۔ 

"تمہیں آزاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے"۔ انہوں نے تیز نظروں سے اسے گھورتے ہوئے اطلاع دے کر گویا اس پر احسان کیا تھا۔

اس نے کوئی جواب نہ دیا بس خاموشی سے اثبات پر کندھے اچکا دیئے۔ جیسے کہہ رہا ہو "میں کیا کہہ سکتا ہوں"۔ 

اس کے انداز پر وہ خون کے گھونٹ بھرتے رہ گئے۔ بظاہر بے نیاز نظر آتے، مزید ایک لفظ بھی کہے بغیر کمرے سے باہر نکل گئے۔ پھر تھوڑی ہی دیر بعد انہی دو نوجوانوں میں سے ایک اس کے پاس آیا تھا۔ جو اس کی گاڑی کی کھڑکی میں آ کھڑے ہوئے تھے۔

اس کا حلیہ اب پہلے سے بالکل مختلف اور قدرے شریفانہ تھا۔ 

"چلو باس، اوپر سے آرڈر آئے ہیں"۔ اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہناتے ہوئے وہ بتا رہا تھا۔ اس کے 'باس' کہنے اور بات کرنے کے انداز سے قیصر کو ایک پل کیلئے لگا جیسے وہاں اعظم کھڑا ہے۔ 

"نام کیا ہے تمہارا؟"۔ جانے کیوں اس کی زبان سے پھسلا تھا۔ 

اس کے سوال پر وہ چونک کر اسے دیکھنے لگا۔ پھر سنبھل کر بولا۔

"ویسے تو میرے دوست مجھے 'ذر' کہتے ہیں۔ لیکن چونکہ تم میرے دوست نہیں ہو تو اس لیئے 'ابو ذر' کہہ سکتے ہو"۔ وہ شوخ مزاج لگتا تھا۔ شاید بولتا بھی بہت تھا۔

اگلے ہی پل قیصر نے ایک بار پھر اپنی سنجیدگی اوڑھ لی۔ اس کا انداز اعظم جیسا ضرور تھا مگر وہ اعظم نہیں تھا۔ اور نہ ہی قیصر خیام کو اس پر ویسا اعتماد تھا۔

ایک نظر اس نے اپنے ہتھکڑی لگے ہاتھوں کو دیکھا اور پھر ابو ذر کی معیت میں چلتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔

_______________________________

"امی میں آپ سے کہہ چکی ہوں کے میں شادی نہیں کرنا چاہتی"۔ وہ صوفے پر سر پکڑ کے بیٹھی تھی۔

"کیوں نہیں کرنی شادی؟ کوئی وجہ تو بتاؤ۔ اور پھر میری زندگی کا کیا بھروسہ؟ آج ہے کل نہیں۔ آخر ہے ہی کون میرے بعد تمہارا؟"۔ اس کے برابر بیٹھیں فرزانہ بیگم دل گرفتگی سے پوچھنے لگیں۔

زیست نے ان کے ہاتھ تھام لیئے۔

"اللہ نہ کرے جو آپ کو کچھ ہو امی۔ آپ ایسی باتیں مت کیا کریں پلیز، میرا دل بند ہونے لگتا ہے"۔ اس کے چہرے پر آزردگی چھائی تھی۔ انداز بچوں کا سا تھا۔

"اور تمہاری جو حالت ہے اسے دیکھ کر میرا دل نہیں دکھتا؟ ہر ماں کی طرح میری بھی یہی خواہش ہے کے میں اپنی زندگی میں ہی بیٹی کو اس کے گھر میں آباد دیکھوں۔ یہ خواہش تو ہر ماں کی ہوتی ہے بیٹا۔ تو کیا مجھے حق نہیں تمہاری خوشی دیکھنے کا؟"۔ اس کا چہرا ہاتھوں میں تھامے وہ پر شفقت لہجے میں پوچھ رہیں تھی۔

زیست کا چہرا تاریک پڑ گیا۔

"ہر ماں کی بیٹی میری طرح بھی تو نہیں ہوتی نا امی! جو کچھ بھی ہو چکا ہے اس کے بعد یہ فیصلہ میرے لیئے ازحد مشکل ہے"۔ وہ مایوسی سے بولی۔

"تم ایک بار زندگی کو دوسرا موقع تو دو، آہستہ آہستہ سب سہل ہو جائے گا"۔ وہ پرامید تھیں۔

"آپ یہ کیسے بھول سکتی ہیں کے میرے ساتھ میرا ماضی بھی جڑا ہے؟ میری زندگی میں آنے والا جو بھی شخص ہوا اسے ہم اندھیرے میں تو نہیں رکھ سکتے نا؟ اور جھوٹ کی بنیاد پر کوئی رشتہ میں بنانا نہیں چاہتی اور سچ کے ساتھ کوئی مجھے قبول نہیں کرے گا"۔ افسردگی سے کہتی ہوئی وہ سر جھکا گئی۔

"دیکھو زیست میری بات سنو، جو کچھ ہو چکا وہ اب ماضی کا حصہ ہے اور اسے وہیں دفن رہنے دو۔ ایک برا خواب سمجھ کر بھولنے کی کوشش کرو۔ وہ شخص جو کوئی بھی تھا اب مر کھپ گیا ہے۔۔۔اسے یوں اپنے سر پر سوار مت کرو۔ اب اپنے ماضی سے نکل آؤ اور مستقبل کا سوچو"۔ انہوں نے اسے سمجھانا چاہا۔ 

وہ خاموشی سے سنتی رہی۔

"اب بس کردو بیٹا، دو سال سے بھی اوپر کا عرصہ ہو گیا ہے تمہیں اپنی اس ایک غلطی کا ماتم کرتے ہوئے اب بس نکل آؤ اس کے اثر سے اور اپنی زندگی نئے سرے سے شروع کرنے کی کوشش کرو۔ ہر فکر سے آزاد ہو کر۔ اندھیروں سے نکلو اور اپنے حصے کے اجالے تلاش کرو"۔ اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے وہ اسے اندھیرے سے روشنی میں قدم رکھنے کیلئے اکسا رہیں تھی۔ یہ جانے بغیر کے وہ روشنی اس آگ کی تھی جو کوئی نجانے کب سے اپنے اندر جلائے بیٹھا تھا۔

ان کی بات پر وہ لب بھینچے سوچ میں پڑ گئی۔ جبکہ وہ مزید گویا ہوئیں۔

"اپنے لیئے نہ سہی پر کم از کم اپنی اس ماں کا ہی سوچ لو۔ جس کی بوڑھی آنکھیں تمہاری خوشیوں کی منتظر ہیں۔ جس کے دل کو سکون تمہیں تمہارے گھر میں مطمئن دیکھ کر ملے گا"۔ انہوں نے اس کے ہاتھوں پر بوسہ ثبت کرتے ایک آس سے کہا۔

"تم جانتی ہو نا تیمور میری بات کبھی نہیں ٹالتا تھا۔ اور اگر آج وہ یہاں ہوتا تو اپنی ضدی گڑیا کو خود منا لیتا۔ تو کیا تم اس کی بات بھی نہ مانتی؟"۔ انہوں نے گلوگیر آواز میں اس سے پوچھا۔

کرب سے زیست نے آنکھیں میچ لیں۔ آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر عارض پر پھسلنے لگے۔ اس نے بمشکل اثبات میں سر ہلا کر گویا مثبت جواب دیا۔ اور پھر منہ پر ہاتھ رکھے اپنی سسکیاں دباتی ہوئی وہ وہاں سے اٹھ کر چلی گئی اور اپنے کمرے میں بند ہو گئی۔

فرزانہ بیگم دھندھلائی ہوئی آنکھوں سے اس کی پشت تکتی رہ گئیں۔

_______________________________

خیابان بخاری کے دروازے پر مسلسل بجتی اطلاعی گھنٹی دروازے پر موجود شخص کی بے صبری کا پتہ دے رہی تھی۔ جوں ہی ملازمہ نوراں نے دروازے کا ایک پٹ وا کیا ڈرائیور بھاگتا ہوا گھر میں داخل ہو گیا۔

"بخاری صاحب کہاں ہیں؟"۔ اس نے ملازمہ سے دریافت کیا۔

"وہ تو اپنے دوست کے گھر گئے ہوئے ہیں۔ کیا بات ہے؟"۔ وہ بھی تفکر سے پوچھنے لگی۔

"بیگم صاحبہ کہاں ہیں؟ ان سے بات کرنی ہے مجھے"۔ جواب دینے کے بجائے حواس باختہ ڈرائیور نے اگلا سوال داغا۔

"ہاں، ابھی بلاتی ہوں"۔ نوراں گھبرا کر جلدی سے نرمین بخاری کے کمرے سے انہیں بلانے چلی گئی۔

کچھ ہی لمحوں بعد وہ پریشان صورت لیئے وہاں آ گئیں۔

"کیا بات ہے کیا ہوا ہے؟"۔ انہوں نے سوالیہ نگاہوں سے ڈرائیور کو دیکھا۔

"بیگم صاحبہ وہ بات یہ ہوئی کہ۔۔۔"۔ وہ انہیں سب بتاتا چلا گیا۔ نرمین نے بے اختیار سینے پر ہاتھ رکھ لیا۔

"یا میرے اللہ! ایسے کیسے وہ لوگ لے گئے میکائیل کو؟ آپ نے روکا کیوں نہیں؟"۔ وہ ڈرائیور پر چیخیں۔ 

"بہت خطرناک لوگ تھے وہ بیگم صاحبہ، ان کے پاس اسلحہ تھا۔ میں انہیں روکنے میں ناکام رہا"۔ وہ ہاتھ باندھے سر جھکائے ندامت سے چور لہجے میں بولا۔

"تمہاری اس ناکامی کی وجہ سے وہ لوگ میکائیل کو لے گئے۔ یا خدا! فیض کو میں کیا جواب دوں گی؟"۔ پیشانی مسلتے ہوئے وہ پنڈولم بنی ادھر اُدھر چکر کاٹ رہیں تھیں۔ اضطرابی کیفیت بڑھتی جا رہی تھی۔

"مام کیا ہوا؟"۔ زینے اترتی ماہا ان کے نزدیک آئی۔

"میکائیل اغواء ہو چکا ہے۔ اب اللہ جانے کہاں ہوگا"۔ انہوں نے ایک ہی جملے میں ساری داستان اس کے گوش گزار کر دی۔

ان کی بات پر وہ بے اختیار ہنس دی اور دیوانوں کی طرح ہنستی چلی گئی۔

نرمین نے تیز نگاہ اس پر ڈالی مگر اس کی ہنسی تب بھی نہ رکی۔

"میں مان ہی نہیں سکتی کے کوئی انہیں اغواء بھی کر سکتا ہے۔ سیرئسلی مام! آپ انہیں جانتی نہیں ہیں۔ کیا پیٹتے ہیں وہ لوگوں کو، ان کا ایک ہاتھ پڑ جائے تو اگلا بندھا چند منٹ تک سنبھل نہیں سکے گا۔ اور ایسے بندے کو کوئی کڈنیپ کرے گا؟ فولش نیس، وہ ضرور اپنی مرضی سے گئے ہوں گے"۔ ماہا کا انداز قدرے مطمئن سا تھا۔

"یہ تم اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتی ہو؟ مت بھولو کے اس پر پہلے بھی حملہ ہو چکا ہے۔ خدانخواستہ وہ کہیں کسی مشکل میں نہ پھنس گیا ہو!"۔ نرمین اسے ٹوک گئیں۔ ساتھ ہی ساتھ اب وہ دوبارہ اسی فکر میں غرق ہو گئیں۔

ان کی بات پر ماہا کو بھی سنجیدہ ہونا پڑا۔

"فیض کو بتانا ہی پڑے گا"۔ آخری حل ان کے ذہن میں یہی آیا تھا۔

جس کے تحت وہ انہیں کال کرنے لگیں۔

_______________________________

اگلے دن لیفٹیننٹ جنرل سپائی ہیڈ کوارٹر، اسلام آباد میں جنرل کے سامنے حاضر تھے۔ ان کے آفس میں داخل ہو کر سلیوٹ کیا۔ مگر انداز زرا خفا خفا سا تھا۔

"چھوڑ دیا اسے؟"۔ جنرل نے براہ راست ان کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ساتھ ہی انہیں سیٹ آفر کی۔

"یس سر"۔ ان کے اشارے پر نشست سنبھالتے ہوئے انہوں نے جواب دیا۔

"لیکن کیوں سر؟ آپ نے کیوں اسے آزاد کرنے کا کہا؟"۔ بمشکل تمام اپنا لہجہ ہموار رکھتے ہوئے انہوں نے پوچھا۔

"کیونکہ اسے میں نے اپائنٹ کیا ہے باقر"۔ دونوں ہاتھوں کی انگلیاں باہم پھنسائے انہوں نے پرسکون لہجے میں جواب دیا۔

لیفٹیننٹ جنرل اس جواب پر چونک چونک گئے تھے۔

"وہ ایک مجرم ہے سر، اسپائی نہیں ہے"۔ وہ حیران تھے ان کے فیصلے پہ۔

"جانتا ہوں وہ اسپائی نہیں ہے۔ لیکن وہ اس سے کم بھی نہیں ہے۔ وہ میکائیل کی جگہ لے اس بات کیلئے فیض بخاری کو میں نے ہی تیار کیا تھا"۔ انہوں نے مزید اضافہ کیا۔

"تو پھر سر ہم نے اس کے پیچھے اتنی انرجی کیوں ضائع کی؟ جبکہ آپ اس کے متعلق سب کچھ جانتے ہی تھے"۔ باقر کے لہجے میں شکوہ در آیا۔

جنرل صاحب رواداری سے مسکرا دیئے۔

"کیونکہ اب وہ وقت آ گیا تھا کے تمہاری تشکیل دی گئی ٹیم اس سے روبرو ہوتی۔ وہ سولجر نہیں ہے، لیکن وہ کام کرے گا تمہاری ٹیم کے ساتھ۔ میکائیل بن کر"۔ انہوں نے اب کی بار تحکم سے کہا۔

لیفٹیننٹ جنرل چند لمحوں کیلئے کچھ بول نہ سکے۔ 

"وہ کب سے ہے میکائیل کی جگہ؟"۔ دھیمی آواز میں وہ دریافت کرنے لگے۔ آخر کو اب انہیں ہی اس کی کارکردگی جانچنی تھی۔

"چار ماہ سے"۔ انہوں نے جواب دیا۔ 

وہ چالیس سال کے آس پاس کی عمر والا، گندمی رنگت اور پستہ قد آدمی لڑکھڑاتا ہوا اپنے بنگلے میں داخل ہوا۔ پہلو میں اس کے ایک خوبصورت نیم عریاں سے جسم والی کمسن دوشیزہ بھی تھی جو اسے سہارا دیئے اس کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔

"یہ۔۔جو ہلکا ہلکا۔۔۔سرور ہے۔۔۔سب۔۔تیری نظر کا۔۔" وہ نشے میں دھت اس لڑکی کا رخسار سہلاتے ہوئے بےہنگم آواز میں گاتا جاتا۔

"تیری۔۔نظر کا۔۔۔قصور ہے۔۔کے شراب۔۔۔پینا سکھا دیا"۔ اس کی ہی طرح اس کی آواز بھی لڑکھڑا رہی تھی۔ اور قدم بہک رہے تھے۔

لڑکی اس کے بےسرے پن پر کھلکھلاتی ہوئی اب اسے ساتھ لیئے زینے چڑھ رہی تھی۔

"آپ کی بیگم گھر میں تو نہیں ہے نا؟"۔ وہ لڑکی اس کے بازو کے حلقے میں موجود سرخ لپ-سٹک سے سجے ہونٹ ہلاتے ہوئے رازداری سے پوچھنے لگی۔

غفور کا منہ اس کے سوال پر ایسا ہو گیا جیسے کوئی کڑوا بادام نگل لیا ہو۔

"ائے ہائے!! کس کا نام۔۔۔لے لیا ظالم لڑکی۔۔سارا نشہ ہی غارت کر دیا۔ دیکھ پرسکون گھر۔۔۔چیخ چیخ کر اس کی غیر موجودگی کی گواہی دے رہا ہے"۔ اس نے شہادت کی انگلی گھماتے ہوئے گھر کی جانب اشارہ کیا۔

مایا نے بھی مطمئن ہو کر اثبات میں سر ہلا دیا۔ ورنہ کئی

مرتبہ ان شرابیوں کی بیگمات کے ہاتھوں جو اس کی درگت بنی تھی اسے سوچ کر ہی اس کا خون خشک ہونے لگتا تھا۔

وہ دونوں چلتے چلتے اب بیڈروم میں آ چکے تھے۔ مایا نے اندازے سے سوئچ بورڈ پر ہاتھ مارا پورا کمرا روشن ہو گیا۔

غفور نے آؤ دیکھا نہ تاؤ لڑکی سمیت دھڑام سے بستر پر ڈھیر ہو گیا۔

"مایا ڈارلنگ۔۔۔تمہارے بال۔۔کتنے حسین ہیں"۔ وہ لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں اس کے بال سہلاتا ہوا کہہ رہا تھا۔ جبکہ اس کی تعریف پر مایا کھلکھلا کر ہنس دی۔

"اور ان بالوں کا پھندا بنا کے اگر تیرے گلے میں ڈال دیا جائے تو یہ اور بھی حسین لگیں گے"۔ سرد مردانہ آواز کمرے میں گونجی تھی۔

غفور نے حیرانگی سے مایا کو دیکھا۔

"مایا رانی۔۔۔یہ تیری آواز کو کیا ہوا؟"۔ اس کی گردن چھوتے وہ پلکیں جھپک جھپک کر تشویش سے پوچھنے لگا۔

"مم۔۔۔میری آواز؟ پر میں تو کچھ نہیں بولی"۔ اس نے گھبرا کر جلدی سے جواب دیا۔

"اچھا۔۔تو رک اِدھر ہی۔۔۔میں دیکھتا ہوں۔۔۔یہ چڑیل (بیوی) واپس تو نہیں آ گئی میکے سے"۔ وہ نشے میں جھومتا ہوا بستر پر اٹھنے کو ہی تھا جب نگاہوں کے سامنے اچانک نقاب میں چھپا چہرا آیا۔ مایا اس اچانک سامنے آ جانے والے شخص کو دیکھ کر بری طرح چیخ پڑی۔ 

غفور چت لیٹا آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے دیکھنے پر مجبور ہو گیا۔

اچانک ہی اس شخص نے موبائل سامنے کیا۔ پھر کچھ سیکنڈز کی کلپ بنا کر اس نے محفوظ کر لیا۔ ایسے کے لڑکی کا چہرا نظر نہ آ رہا ہو۔

اس کے بعد وہ اس لڑکی کی جانب متوجہ ہوا۔

"جاؤ یہاں سے"۔ سخت گیر آواز میں کہتے ہوئے اس نے مایا کو مخاطب کیا تھا۔

وہ اپنا وجود چھپانے کی سعی کرتی ہوئی ایک ہی جست لگا کر بستر سے اتری اور بھاگ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔

"کون ہے۔۔۔تو؟ تیری یہ ہمت۔۔جانتا نہیں ہے تو مجھے"۔ غفور تیز لہجے میں چیختے ہوئے بستر پر اٹھ بیٹھا تھا۔

اس نے اپنی گھورتی ہوئی سرمہ رنگ آنکھیں اس کے چہرے پر گڑا دیں۔ اور اگلے ہی پل اس کا ہاتھ پوری قوت سے غفور کے منہ پر پڑا تھا۔

"چٹاخ"۔ یہ آواز اس کے کان کے پردے پھاڑنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ وہ واپس اسی حالت میں بستر پر گر پڑا۔ کرارے تھپڑ نے سارے حواس ٹھکانے لگا دیئے تھے۔

قیصر نے ایک جھٹکے سے اپنا نقاب اتارا۔ جوں ہی غفور نے اس کا چہرا دیکھا، وہ ایسے چیخنے لگا جیسے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو۔

"ق۔۔قیصر"۔ اس کا نام لبوں سے آزاد کرکے وہ پھر سے بلند آواز میں چیخنے لگا۔

سیاہ بوٹ والا پیر بیڈ پر ٹکاتے ہوئے اس نے جھک کر غفور کی گردن دبوچتے ہوئے جھٹکے سے اپنے مقابل کھینچا۔

"بس ایک بار یہ سوال پوچھوں گا۔ اگر سچ سچ جواب نہ دیا تو تیرا یہ ویڈیو نا صرف تیری بیوی بلکہ پوری دنیا دیکھے گی"۔ غرا کر کہتے ہوئے اس نے موبائل دکھا کر دھمکی دی۔

مارے خوف کے اس نے میکانکی انداز میں اثبات پر سر ہلا دیا۔

"زیست کے بارے میں جو کچھ بھی جانتے ہو سب سچ سچ بتاؤ"۔ اس کا چہرا جھٹکے سے چھوڑتے ہوئے اس نے سوال کیا۔

"بتاتا ہوں۔۔۔سب بتاؤں گا"۔ اپنے جبڑے سہلاتے ہوئے وہ بمشکل بولا۔

اور پھر جو کچھ بھی علی مرزا نے پہلے زیست سے متعلق اسے بتایا تھا وہ بھی وہی سب بتاتا چلا گیا۔ 

"ایڈریس لکھ اس کا"۔ جیب سے رائٹنگ پیڈ اور پین نکال کر اس کی جانب بڑھاتے ہوئے اس نے مطالبہ کیا۔

غفور نے جھٹ کاغذ تھاما اور جلدی جلدی جتنے پتے بھی زیست سے متعلق اسے معلوم تھے وہ سب لکھتا چلا گیا۔ آخر میں کپکپاتے ہاتھوں سے کاغذ اس کی جانب بڑھا دیا۔

"بس۔۔مجھے اتنا ہی معلوم ہے اس کے بارے میں"۔ وہ جلدی سے بولا۔ مبادا پھر سے شامت نہ آ جائے۔

ان سطور کو بغور پڑھتے ہوئے قیصر نے زیر لب دہرایا۔

"میں تصدیق کروں گا تمہارے لکھے سطور کی۔ اور اگر کہیں بعد میں یہ سب جعلی نکلا تو یاد رکھنا دوسری بار پتہ مانگنے کیلئے یہاں آنے کی زحمت نہیں کروں گا بلکہ تمہارا ویڈیو سوشل میڈیا کی زینت بنا دوں گا۔ پھر یہ جو نئی نئی شہرت ملی ہے نا الیکشن کی بدولت؟ یہ سب راکھ بن کر ہوا میں تحلیل ہو جائے گا"۔ کاغذ قلم واپس جیب میں رکھتے ہوئے خطرناک تیوروں کے ساتھ اس نے سنگین نتائج سے آگاہ کیا تھا۔

"نہیں نہیں۔۔۔اس کی نوبت نہیں آئے گی۔ یہ سب صحیح پتے ہیں میں بالکل سچ کہہ رہا ہوں"۔ دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے اس نے جلدی سے کہا۔

قیصر مزید کچھ نہ بولا۔ چند لمحے اسے تیز نظروں سے گھورنے کے بعد وہ دروازہ پار کر گیا۔

اس کے جاتے ہی غفور نے سینے پہ ہاتھ رکھ کے کب سے اٹکی ہوئی سانس بحال کی تھی۔ پھر کچھ سوچتے ہوئے چہرے پر غصے بھرے تاثرات ابھرے۔

"ساری رات خراب کر دی کمینے نے"۔ وہ پیچھے اسے کوسنے دیتا رہ گیا۔

_______________________________

فرزانہ بیگم اس وقت ڈرائینگ روم میں موجود تھیں۔ ساتھ ہی ہاجرہ شفیق ان کے برابر والی نشست پر براجمان بڑے ہی خوشگوار موڈ میں تھیں۔

"اور سنائیں گھر پر سب خیریت ہے؟ شفیق بھائی کی طبیعت اب کیسی ہے؟"۔ وہ مسکراتے ہوئے دریافت کر رہیں تھیں۔

ہاجرہ کا چہرا پھیکا پڑ گیا۔

"بس جیسے تیسے چل رہی ہے زندگی کی گاڑی بھی۔ فالج کے مریض بھلا اور کیسے ہو سکتے ہیں فرزانہ بہن؟"۔ وہ آنکھ کے  گوشے پر آیا آنسو کا قطرہ صاف کرتے ہوئے بولیں۔

فرزانہ کو ان کے چہرے پر تحریر درد صاف نظر آ رہا تھا۔

"آپ بہت حوصلہ مند ہیں ہاجرہ۔ اتنے کڑے وقتوں میں بھی آپ نے اپنی چھوٹی سی فیملی کو بہت اچھے سے سنبھال لیا"۔ انہوں نے دل سے ان کیلئے یہ بات کہی۔ ایسے کڑے امتحانوں سے تو وہ بھی گرزر چکیں تھی۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ برے حالاتے سے۔ مگر پھر بھی ان کا حساس دل ہاجرہ کی تکلیف کو محسوس کر رہا تھا۔

"بس اللہ کی مرضی جان کر صبر کر لیا۔ سچ پوچھیں تو عدنان نے میرا بہت ساتھ دیا ہے۔ وہ واقعی ایک بہترین بیٹا ثابت ہوا۔ اللہ اسے لمبی عمر دے"۔ وہ دل سے دعاگو تھیں۔ لہجے میں ماؤں جیسی شفقت تھی۔

"بے شک، آپ بہت خوش نصیب ہیں جو اتنا فرمانبردار بیٹا دیا ہے اللہ نے آپ کو۔ سچ ہی کہتے ہیں کے خدا اگر اپنے بندوں سے کچھ لیتا ہے تو اس سے کئی زیادہ سے نوازتا بھی ہے"۔ وہ شکر کا کلمہ پڑھتی ہوئی بولیں۔

"کم نصیب تو آپ بھی ہرگز نہیں ہیں فرزانہ، آپ کی بیٹی بھی لاکھوں میں ایک ہے"۔ ان کا لہجہ توصیفی تھا۔

فرزانہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے مسکرا دیں۔

"آپ چائے لیں نا، ٹھنڈی ہو رہی ہے"۔ انہوں نے کپ اٹھا کر انہیں دیا۔

جسے انہوں نے تھام لیا۔

"دراصل میں زیست کے سلسلے میں ہی آپ کے پاس آئی ہوں فرزانہ"۔ اصل بات کی طرف آتے ہوئے انہوں نے تمہید باندھی۔

"زیست کے سلسلے میں؟"۔ انہوں نے سوالیہ نگاہوں سے ہاجرہ کو دیکھتے ہوئے انہی کے الفاظ دہرائے۔

"جی ہاں، میں سیدھا مدعے پہ آتی ہوں۔ عدنان کیلئے زیست کو آپ سے مانگنے آئی ہوں فرزانہ"۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے بالآخر کہہ دیا۔

فرزانہ بیگم خوشگوار حیرت سے انہیں دیکھنے لگیں۔

"زیست عدنان کیلئے؟"۔ 

"جی ہاں، اگر آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو تو۔ ویسے کوئی جلدی نہیں ہے آپ چاہیں تو سوچنے کیلئے وقت لے سکتی ہیں۔ میں سامنے ہی تو رہتی ہوں۔ جو آپ کا جواب ہو مجھے کبھی بھی اس سے آگاہ کر سکتی ہیں"۔ انہوں نے مزید اضافہ کیا۔

ہاجرہ کی بات پر وہ لمحہ بھر کیلئے سوچ میں پڑ گئیں۔ 

"میں کل شام تک آپ کو جواب دوں گی۔ زیست کی رائے بھی لینی ہے"۔ انہوں نے مناسب الفاظ میں جواب دیا۔

"بہتر، پھر کل میں آپ کے جواب کا انتظار کروں گی"۔ انہوں نے مطمئن لہجے میں کہا۔ پھر وہاں سے اٹھ کر چلی گئیں۔

جبکہ فرزانہ اب زیست کے جواب سے متعلق سوچنے لگیں۔ بظاہر تو انہیں اس رشتے پر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہ تھا مگر زیست کا جواب جاننا بھی ان کیلئے اہم تھا۔

_______________________________

اپنے کمرے میں موجود وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھا۔۔۔

لبوں میں سلگتے سگریٹ کے ساتھ ساتھ وہ خود بھی سلگ رہا تھا۔ اندھیرے کمرے میں صرف جلتی سگریٹ کا شعلہ ہی نظر آ رہا تھا۔

کمرے کے کھلے دروازے پر آہٹ ابھری۔

"کیا جواب دیا انہوں نے؟"۔ اس کے لبوں نے حرکت کی تھی اور دماغ میں چل رہے سوال کو باہر کا راستہ دیا۔

"وہ خود نیم رضامند لگ رہی تھیں۔ مگر زیست کے جواب کیلئے کل تک انتظار کرنا ہوگا"۔ انہوں نے اطلاع دی۔

"مجھے یقین ہے اس کا جواب ہاں میں ہی لائیں گی آپ"۔ اندھیرے میں ان کے ہیولے کی جانب دیکھتے ہوئے بھاری آواز میں کہا۔ انداز کچھ باور کرواتا ہوا تھا۔

ہاجرہ کے گلے میں کچھ اٹکنے لگا۔

"تم۔۔ایسا کیوں سوچتے ہو۔ اس کا جواب ہاں میں ہی ہوگا"۔ وہ جلدی سے بولیں۔

"اور اتنا یقین کیوں ہے آپ کو؟"۔ اس کے لہجے میں کاٹ تھی۔

"کیونکہ انکار کا کوئی جواز بنتا ہی نہیں"۔ ان کا لہجہ پریقین تھا۔

"وجہ ہے مسز شفیق، وجہ ہے اس کے پاس۔ چہرا نہیں دیکھا ہے اس نے میرا۔ اس بات پر وہ اعتراض اٹھا سکتی ہے"۔ وہ بے زاریت سے بولا۔

ہاجرہ اندازے سے چلتی ہوئیں اس کے بیڈ سے زرا فاصلے پر آ رکیں۔

"پھر تو ایک ہی آپشن بچتا ہے۔ تم اسے اٹھا کر لے جاؤ اور نکاح کر لو اس سے"۔ انہوں نے اپنے تئیں آسان حل پیش کیا۔

"مجھے اگر اسے رسوا کرنا ہوتا تو کب کا یہ کام کر چکا ہوتا۔ میں چاہتا ہوں وہ اپنی مرضی سے اپنے تمام جملہ حقوق میرے نام کرے۔ اور یہ اسے کرنا ہی ہوگا"۔ اس کا چہرا تو نظر نہ آ رہا تھا مگر آواز اس کے ارادوں کا پتہ دے رہی تھی۔

"یہ تو پھر بہت مشکل ہے۔ اگر اس نے تمہیں دیکھنے یا ملنے پر  زور دیا یا پھر اس کی ماں نے اصرار کیا تو میں کیا کہوں گی پھر ان سے؟"۔ انہوں نے اپنی پریشانی بتائی۔

اس نے سگریٹ ایش ٹرے میں مسل دیا اور ساتھ ہی لیمپ روشن کیا۔

پورے کمرے میں سگریٹ کا دھواں اور بو پھیلی ہوئی تھی۔

وہ اب سائیڈ میز پر سے اپنا والٹ اور چابی اٹھا رہا تھا۔

ہاجرہ بیگم کی جانب اس کی پشت تھی۔

"یہ میرا دردِ سر نہیں ہے مسز شفیق۔ ایسے مسائل سے نپٹنا آپ  کا کام ہے"۔ بے نیازی سے کہتے ہوئے وہ ڈریسنگ میز کے سامنے کھڑا خود پر پرفیوم اسپرے کر رہا تھا۔ پھر انگلیوں سے بال سنوارنے کے بعد اپنی چیزیں کوٹ کی جیب میں رکھتے ہوئے

کمرے سے باہر نکل گیا۔

وہ پریشانی سے بستر پر بیٹھتی چلی گئیں۔

"یا میرے خدا! بس یہ مشکل بھی کسی طرح حل ہو جائے"۔ وہ دل ہی دل میں دعاگو تھیں۔

_______________________________

وہ اس وقت فیض بخاری کے ساتھ ان کے کمرے میں موجود تھا۔ ان کے علاوہ نرمین بخاری بھی وہیں موجود تھیں۔

"خدا کا لاکھ لاکھ کا شکر ہے کے تم صحیح سلامت ہو۔ ورنہ مجھے تو بہت ٹینشن ہو گئی تھی"۔ انہوں نے اس کا جھکا چہرا دیکھتے ہوئے فکرمندی سے کوئی تیسری بار یہ جملہ کہا۔

"وہ ٹھیک ہے بیگم۔ تم پریشان مت ہو"۔ فیض صاحب نے انہیں تسلی دی۔

انہوں نے اثبات پہ سر ہلا دیا۔

اس نے نگاہیں اٹھا کر فیض بخاری کی جانب دیکھا۔

ان نگاہوں کی تحریر پڑھتے ہوئے وہ نرمین کی جانب متوجہ ہوئے۔

"نرمین بیگم، زرا کافی پلوا دو اچھی سی"۔ فیض صاحب نے فرمائش کی۔

"جی، آپ دونوں کیلئے بھجواتی ہوں"۔ انہوں نے مسکرا کر جواب دیا۔ ساتھ ہی کمرے سے چلی گئیں۔

"ہاں تو برخوردار، اب بتاؤ کیا بات ہے؟"۔ انہوں نے اس کی جانب دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے سوال کیا۔

"میں شادی کر رہا ہوں"۔ اس نے دھماکہ کیا۔ فیض بخاری کرسی پر آگے کو ہو بیٹھے۔

"کس سے؟"۔ انہوں نے اگلا سوال داغا۔

اس نے لب کچلتے ہوئے ایک نظر ان کی جانب دیکھا۔ پھر اگلے ہی پل جیب سے تصویر نکال کر اپنے اور ان کے درمیان موجود کانچ کی میز پر ڈال دیا۔

انہوں نے چونک کر اس تصویر کو دیکھا۔ جس میں سبز آنکھوں اور شہد رنگ بالوں والی لڑکی کا عکس قید تھا۔

"یہ ہے وہ لڑکی۔ زیست عباسی"۔ تصویر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس نے جواب دیا۔ انداز حد درجہ سنجیدہ تھا۔

فیض صاحب بے یقینی سے اسے دیکھنے لگے۔

"تم نے کیا سوچ کر یہ فیصلہ کیا ہے؟"۔ اس کے چہرے کو نگاہوں میں رکھتے ہوئے انہوں نے سوال کیا۔

انداز سے صاف لگتا تھا کے انہیں کسی قسم کا شک ہے اس پہ۔

قیصر نے گہرا سانس بھرا اور تصویر واپس اٹھا کر جیب میں رکھ لیا۔

"یہی کے آپ نے مجھے بارہا زندگی میں آگے بڑھنے کا مشورہ دیا ہے۔ تو بس اسی پر عمل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں"۔ شانے اچکاتے ہوئے اس نے حتی الامکان لہجے کو سرسری رکھا۔

جانتا تھا وہ کے مقابل چیل کی نگاہ رکھتا ہے۔ اتنی آسانی سے انہیں وہ بےوقوف نہیں بنا سکتا تھا جیسے اوروں کو بنا لیا کرتا۔

"اچانک تمہیں اس مشورے پر عمل کرنے کا خیال کیسے آیا؟ اس سے قبل تو تم نے ایسا کوئی ذکر نہیں کیا کے تم شادی کر رہے ہو؟"۔ وہ مشکوک نگاہوں سے اسے دیکھ رہے تھے۔ کسی طور وہ یہ ماننے پر تیار نہ تھے کے قیصر اتنی جلدی یہ فیصلہ لے سکتا ہے۔

وہ خود گواہ تھے۔ الوینا کیلئے اس کی تڑپ، اس کا درد فیض بخاری سے کچھ بھی تو نہیں چھپا تھا۔ وہ واقف تھے اس کی دیوانگی سے۔ اس لیئے یہ بات ان کیلئے اتنی آسانی سے ہضم ہونے والی تھی بھی نہیں۔

"اچانک کہاں؟ پورے دو سال لگے ہیں مجھے، اس غم سے نکلنے کیلئے اور زندگی میں آگے بڑھنے کا فیصلہ لینے کیلئے۔ دو سال بہت ہوتے ہیں۔۔۔کسی کا سوگ منانے کیلئے"۔ انہیں سمجھانے کیلئے اسے اپنے دل پر منوں کے حساب سے بوجھ لادنا پڑا تھا۔ ورنہ حقیقت تو کچھ اور ہی تھی۔ الوینا کو بھلانے کیلئے ایک پوری زندگی بھی اسے کم پڑنی تھی۔

"جب تم خود کہہ رہے ہو کے تم نے اپنی زندگی میں آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو بھلا مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ بلکہ یہ تو ایک طرح سے خوش آئند بات ہے۔ میں اس فیصلے میں تمہارے ساتھ ہوں"۔ اس کا شانہ تھپک کر کہتے ہوئے انہوں نے اپنے ساتھ کا یقین دلایا تھا۔

قیصر پرسکون ہو کر اس عرصے میں پہلی بار مسکرایا۔

"زندگی ہر کسی کو دوسرا موقع نہیں دیتی ہے۔ مگر تم خوش نصیب ہو جو تمہیں یہ دوسرا موقع ملا ہے۔ مجھے امید ہے کے اب تم اپنی سابقہ زندگی سے سبق لیتے ہوئے اپنے آنے والے کل کو بہتر انداز میں جینے کی کوشش کرو گے۔ ماضی کی اپنی غلطیاں نہیں دہراؤ گے"۔ ساتھ ہی انہوں نے بھرپور تنبیہ بھی کردی تھی۔ 

ان کی بات پر اس نے محض سر ہلانے پہ اکتفا کیا۔ پھر مزید گویا ہوا۔

"آپ سے ایک گزارش ہے۔ فلحال گھر میں یہ بات کسی کو نہ بتائیے گا۔ نکاح کے بعد میں انہیں خود سب کچھ بتاؤں گا۔ اور زیست کو آپ سب سے ملواؤں گا"۔ اسے اپنے کھیل کے بگڑنے کا خدشہ تھا۔ لہٰذا فل الوقت وہ کسی کو بھی اس راز سے واقف نہیں ہونے دینا چاہتا تھا کے زیست اصل میں کون ہے۔ ورنہ فیض صاحب سے کچھ بعید نہ تھا کے وہ اسے روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتے۔

"ٹھیک ہے۔ اگر تمہاری یہی مرضی ہے تو میں نرمین اور ماہا سے کوئی بات نہیں کروں گا ابھی۔ لیکن بھئی بعد میں اگر ان خواتین نے برا منایا تو مجھے الزام نہ دینا"۔ خلاف توقع وہ اس بات کیلئے مان گئے تھے۔ 

"نہیں دوں گا الزام آپ کو۔ میں سنبھال لوں گا سب بعد میں"۔ اس نے بھی ہلکے پھلکے انداز میں جواب دیا۔

جس پر فیض صاحب مطمئن سے ہو گئے۔

تب تک نرمین بیگم بھی کافی کا ٹرے تھامے واپس کمرے میں آ چکیں تھی۔

وہ دونوں اب اس موضوع سے ہٹ کر گفتگو کرنے لگے۔

_______________________________

ڈاکٹر ثوبیہ شیخ کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے روز کی طرح فرزانہ بیگم آج بھی اسے گھر سے باہر، چہل قدمی کی غرض سے کھلی فضا میں لے آئیں تھی۔

پچھلے تین دنوں سے یہ ان کا معمول بن گیا تھا۔ جس کا زیست کی طبیعت پر مثبت اور خاطر خواہ اثر ہوا تھا۔ ان کا ارادہ اسے اپنے اور ہاجرہ کے مابین کل ہونے والی گفتگو کے بارے میں بتانا تھا۔ آخر کو آج انہیں جواب بھی تو دینا تھا۔

شام کے اس تازہ منظر میں کئی دیگر لوگ بھی اس وقت پارک میں موجود تھے۔ آہستہ آہستہ لوگوں کی تعداد بڑھنے لگی تھی۔

"کیا بات ہے امی؟ کچھ کہنا چاہتی ہیں آپ؟"۔ اس نے ایک نظر میں ہی ان کے چہرے پر موجود کشمکش کو بھانپ لیا تھا۔

وہ دونوں زرا دیر کو چلنے کے بعد اب بینچ پر آ بیٹھیں۔

فرزانہ بیگم نے اپنے خیال سے چونک کر اس کی جانب دیکھا۔ وہ اداسی سے مسکرا دیں۔

"کہنا چاہتی تو ہوں پر تمہارا ردعمل سوچ کر پھر رک جاتی ہوں"۔ انہوں نے سرد آہ بھرتے ہوئے جواب دیا۔

"آپ ایسا کیوں سوچتی ہیں امی؟ مجھے کچھ بھی کہنے سے پہلے آپ کو بالکل سوچنے کی ضرورت نہیں۔ آپ جو چاہیں کہہ سکتی ہیں"۔ ان کے شانے سے لگتی ہوئی وہ مطمئن انداز میں بولی۔

بہت دنوں بعد تو اسے یہ سکون بھری سانسیں میسر آئیں تھی۔ نہ کوئی برا خواب اس کا چین خراب کر رہا تھا اور نہ ہی کوئی سایا اسے ڈراتا تھا۔ وہ یقین کر لینا چاہتی تھی کے ہاں، شاید وہ سب اس کا وہم ہی تھا۔ 

"تو پھر مجھے بتاؤ عدنان کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟"۔ انہوں نے بالآخر اپنا سوال اس کے سامنے رکھ دیا تھا۔

زیست نے اس سوال پر ٹھٹھک کر سر اٹھایا۔ پھر سنبھل کر بولی۔

"ہاں، اچھا ہی ہوگا وہ۔ میں اسے زیادہ جانتی نہیں ہوں"۔ عام سے انداز میں کہتے ہوئے اس نے شانے اچکا دیئے۔

"کل عدنان کی امی آئی تھیں۔ تمہارے رشتے کیلئے"۔ انہوں نے کل ہاجرہ سے ہوئی ساری باتیں اس کے گوش گزار کر دیں۔

مکمل بات سن کے وہ حیران رہ گئی۔

"اتنی جلدی رشتہ؟ ابھی ہمیں یہاں شفٹ ہوئے ایک مہینہ بھی نہیں ہوا امی اور اتنی جلدی وہ اپنے بیٹے کا رشتہ لے کر آ گئیں؟ جبکہ ہم دونوں ہی ایک دوسرے کیلئے اجنبی ہیں"۔ اس نے احتجاج اٹھایا۔

"شادی ہو جانے کے بعد آہستہ آہستہ جان لوگی اسے بیٹا۔ وہ بہت اچھا لڑکا ہے"۔ انہوں نے سمجھایا۔

"اوہ! تو مطلب آپ راضی ہو چکی ہیں عدنان کیلئے۔ امی ان کے بارے میں آخر ہم جانتے ہی کیا ہیں؟ زیادہ سے زیادہ آپ کی اور ہاجرہ آنٹی کی تین یا چار بار ملاقات ہوئی ہوگی۔ اور میری بھی ان سے سلام دعا سے زیادہ کوئی اور بات چیت نہیں ہوئی۔ پھر بھلا انہوں نے کیسے پسند کر لیا مجھے؟"۔ اسے یہ بات کسی طور ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ 

"کوئی بھی اجنبی ہمیشہ سے اپنا نہیں ہوتا ہے چندا، جان پہچان ہونے کے بعد ہی وہ اپنا بنتا ہے۔ جب تک ہم اگلے کو موقع نہیں دیں گے تو وہ کیسے اپنا بنے گا؟ اور پھر میری بیٹی تو ہے ہی اتنی پیاری کے ایک نظر دیکھ کر کوئی بھی با آسانی پسند کر سکتا ہے"۔ اس کی ٹھوڑی اونچی کیئے وہ محبت پاش لہجے میں بولیں۔

مگر زیست کے اندر سے کوئی اسے جھنجھوڑ رہا تھا۔ انکار پر اکسا رہا تھا۔

"کیا سوچنے لگی؟"۔ اسے خیالوں میں ڈوبا دیکھ کر انہوں نے پکارا۔

"ہوں۔ کچھ نہیں۔ امی یہ سب بہت جلدی ہو رہا ہے"۔ وہ افسردگی سے کہنے لگی۔

"کوئی جلدی نہیں ہے زیست۔ چبھیس برس کی ہو گئی ہو تم۔ یہ فیصلہ مجھے بہت پہلے لے لینا چاہیے تھا۔ مگر میں تمہیں وقت دیتی رہی یہی سوچ کر کے تم خود کو تیار کر لوگی"۔ وہ تاسف سے بولیں۔

"پر میں شادی نہیں کرنا چاہتی"۔ وہ کوفت سے گویا ہوئی۔

"بنا کسی ٹھوس وجہ کے اگر تم کسی اچھے رشتے سے انکار کروگی تو میں اس انکار کو تمہاری نادانی ہی سمجھوں گی۔ اس لیے اب تم یہ نادانی چھوڑو اور اپنا مائنڈ تیار کر لو۔ کیونکہ میں اب عدنان کی والدہ کو مثبت جواب ہی دوں گی"۔ انہوں نے بھی اپنی بات پر زور انداز میں کہی۔

زیست نے بے بسی سے لب کاٹتے ہوئے سر ہاتھوں میں گرا لیا۔ اب یہ ایک نئی مصیبت تھی۔

_______________________________

وہ عجلت میں گھر سے باہر نکل رہا تھا جب پیچھے سے ماہا پکاری۔

"بھائی رکیں، میں بھی آتی ہوں۔ مجھے تابین کے گھر چھوڑتے ہوئے جائیے گا پلیز"۔ وہ بھاگتی ہوئی اس کے سامنے آئی اور لجاجت سے کہنے لگی۔

"ڈرائیور کہاں ہے؟"۔ کمر پہ دونوں ہاتھ جمائے وہ پوچھنے لگا۔

ماہا گڑبڑا سی گئی۔

"وہ۔۔۔وہ ڈرائیور کی طبیعت نہیں ٹھیک تھی نا تو اس لیئے"۔ اس نے جلدی سے بات بنائی۔

"لیکن تمہاری اپنی گاڑی بھی تو ہے نا۔ اور تم چلانا بھی جانتی ہو"۔ ایک ابرو اٹھا کر کہتے اس نے اس کے تمام بہانوں پر پانی پھیر دیا۔

کچھ نہ بن پڑا تو اس نے منہ پھلا کر چہرا جھکا لیا۔

"دیکھو ماہا، تم جانتی ہو نا مجھے اس لڑکی سے کتنی چڑ ہے۔ اور میں اس سے دور ہی رہنا پسند کرتا ہوں"۔ اپنی پیشانی مسلتے ہوئے اس نے بے بسی سے جواب دیا۔ بہرحال وہ اپنی بہن کو ناراض نہیں کر سکتا تھا۔

"آئی پرامس میں آپ کو اندر آنے کیلئے نہیں کہوں گی۔ آپ بس مجھے باہر ہی چھوڑ جائیے گا۔۔۔پلیز!"۔ وہ التجا کرنے لگی۔

"میکائیل"۔ تبھی پیچھے سے بھاری آواز گونجی تھی۔

"جی"۔ وہ جواب دیتے ہوئے مڑا۔ 

"کیا بات ہے؟"۔ فیض صاحب نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا۔

اور اس سے قبل کے وہ کوئی جواب دیتا، ماہا جلدی سے آگے بڑھی۔

"ڈیڈ، دیکھیے نا میں کب سے کہہ رہی ہوں ان کو کے مجھے تابین کے گھر ڈراپ کر دیں مگر بھائی مجھے منع کر رہے ہیں"۔ وہ منہ بنائے ان کی عدالت میں اپنی شکایت لے گئی۔

"ڈراپ کردو بہن کو جہاں کہہ رہی ہے"۔ انہوں نے اب اس کی جانب دیکھتے ہوئے ماہا کی سفارش کی۔

"جی ٹھیک ہے"۔ وہ جو ماہا کو تب سے نہ نہ کیئے جا رہا تھا۔ اب فیض بخاری کے ایک بار کہنے پر ہی اچھے بچے کی طرح حکم بجا لایا۔

"ہرےے! تھینک یو ڈیڈ!"۔ وہ خوشی سے کہتی ہوئی ان کے گلے لگ گئی۔ 

"اب جاؤ"۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے اس سے کہا جو بچوں کی طرح خوش ہو رہی تھی۔

میکائیل کو دیکھ کر فخریہ انداز میں شانے اچکاتے ہوئے دروازے سے باہر نکل گئی۔

"بگاڑ رہے ہیں آپ اسے"۔ اس نے مخصوص لب و لہجے میں  فیض بخاری کو مخاطب کیا۔ 

"ارے بھئی ایک ہی بیٹی ہے میری۔ چھوڑ آؤ اسے۔ مجھے یقین ہے آج کے بعد وہ لڑکی تابین تمہیں تنگ نہیں کرے گی"۔ انہوں نے مسکرا کر کہتے ہوئے اسے کچھ سمجھایا تھا۔ جسے سمجھ کر اس نے اثبات میں سر ہلا دیا اور خود بھی وہاں سے چلا گیا۔

_______________________________

"یہ اچھا ہے۔ میں نے جب کہا تو آپ نے منع کر دیا اور ڈیڈ کو فوری ہاں کہہ دیا۔ نو ونڈر، ڈیڈ مجھے آپ کی مثالیں کیوں دیتے رہتے ہیں"۔ اس کے برابر بیٹھی ماہا نے ناک چڑھا کر کہا۔

اس کی بات پر وہ نا چاہتے ہوئے بھی مسکرا دیا۔

"ہاں کیونکہ وہ ڈیڈ ہیں، ان کی بات تمہیں بھی نہیں ٹالنی چاہیئے گڑیا"۔ موڑ کاٹتے ہوئے اس نے اسے اپنے مشورے سے نوازا۔

"لو جی اب آپ بھی مام جیسے مشورے دینے لگے مجھے"۔ وہ چڑ گئی۔

"تمہیں ان مشوروں کی ضرورت بھی ہے بہنا، کیونکہ تم جن کی صحبت میں رہتی ہو وہ لوگ خود تو بگڑے ہوئے ہیں ہی مگر میں نہیں چاہتا کے تمہیں بھی اپنے جیسا بنا لیں"۔اس نے سنجیدگی سے کہا۔

اور ماہا بخوبی جانتی تھی کے وہ کس کی بات کر رہا ہے۔ 

"ایسا نہیں ہے بھائی، وہ بہت اچھی لڑکی ہے۔ ہاں بس زیادہ بولتی ہے اس لیئے آپ کو نہیں پسند شاید"۔ وہ اس کے سنجیدہ چہرے کی جانب دیکھتے ہوئے تابین کی صفائی میں اتنا ہی بول پائی۔ مبادا کہیں وہ برا نہ منا لے۔ مگر اس کے سپاٹ چہرے اور براؤن شیڈز تلے چھپی آنکھوں سے وہ کچھ اخذ نہ کر سکی۔

اسی وقت ڈیش بورڈ پر پڑے اس کے موبائل کی میسج ٹون بجی۔

اس نے اٹھا کر ایک نظر ماہا کو دیکھا، اس کی ساری توجہ اپنے موبائل اسکرین پر تھی۔

مطمئن ہو کر اس نے پیغام کھولا۔ وہ ہاجرہ شفیق کی جانب سے تھا۔

"مبارک ہو۔ زیست اس رشتے کیلئے راضی ہو گئی ہے"۔ بس یہ ایک سطر لکھا تھا۔ لب بھینچ کر اس نے موبائل واپس ڈیش بورڈ پر پھینک دیا۔ چہرے کی سنجیدگی اب کچھ اور بڑھی تھی۔

پندرہ منٹ بعد گاڑی ایک بنگلے کے سیاہ گیٹ کے سامنے رکی تھی۔ اس سے قبل کے ماہا گاڑی سے اترتی، اسی وقت گیٹ کھول کر وہ باہر آئی تھی۔

ماہا گاڑی سے اتر گئی۔ اس کا ارادہ وہاں سے نکل جانے کا تھا مگر تابین اس کی جانب کھلی کھڑکی کے فریم میں آ گئی۔ 

جبکہ ماہا گھر کے اندر جا چکی تھی۔

"کہاں غائب تھے اتنے دنوں سے آپ؟ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے"۔ وہ ایسے شکوہ کر رہی تھی جیسے ان دونوں کا تعلق معمول ہو۔ یا جیسے دو دوست ایک دوسرے سے مخاطب ہوں۔ 

حالانکہ وہ تو خاموش بلکہ بے زار سا بیٹھا تھا۔

"ہٹو یہاں سے، مجھے دیر ہو رہی ہے"۔ ہمیشہ جیسا سرد لہجہ۔ وہ جو پہلے ہی خود سے۔۔۔زندگی سے خفا ہوا بیٹھا تھا یہ لڑکی اس کیلئے درد سر بنی ہوئی تھی۔

"نہیں ہٹ رہی میں۔ جب دیکھو تب کریلے چبائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ کبھی اگر سیدھے منہ بات کر لیں گے آپ تو شان میں کوئی کمی نہیں آ جائے گی میں یقین سے کہتی ہوں"۔ وہ تندہی سے بولی۔

"تمہاری کوئی عزت نفس ہے بھی یا نہیں؟ میں تمہیں منہ بھی نہیں لگانا چاہتا اور تم پیار محبت کی باتیں ایکسپیکٹ کرتی ہو مجھ سے؟"۔ اس کا دل کیا کے وہ اس لڑکی کی عقل پر ماتم کرے۔

"کیوں نہیں کر سکتے آپ؟ ادھر دیکھیں میری طرف"۔ بھرائی ہوئی آواز میں کہتے ہوئے اس کا مضبوط بازو کھینچ کر اپنی طرف متوجہ کیا۔ جبکہ تابین کا دوسرا ہاتھ اس کے کھلے گریبان کو جکڑے ہوئے تھا۔ وہ اس کی طرف دیکھنے پر مجبور ہو گیا۔

"محبت کرتی ہوں میں آپ سے۔ کیا اس بات کیلئے مجھے سزا دیں گے اب آپ؟"۔ اس کی سیاہ آنکھیں نمکین پانی سے بھرنے لگیں تھی۔

قیصر کے چہرے پر موجود سخت تاثرات اب بھی نہ بدلے۔

اس نے ایک نظر اپنے گریبان پر موجود اس نازک ہاتھ کو دیکھا۔ پھر اگلے ہی پل ایک جھٹکا دے کر بڑی بے دردی سے اس ہاتھ کو وہاں سے ہٹایا۔ جس کے نتیجے میں سرمئی شرٹ کے اوپری دو بٹن تابین کے ہاتھ میں آ گئے تھے۔

جبکہ اب اس نے اپنے بازو پر موجود اس کا دوسرا ہاتھ بھی بری طرح جھٹک دیا تھا۔ ساتھ ہی اسے گاڑی سے پرے دھکیل دیا۔

وہ لڑکھڑا کر بمشکل گرتے گرتے بچی۔

"اس دنیا میں ہر روز کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی سے یہ جملہ کہتا ہے۔ جس کے نتیجے میں اگلا شخص برباد ہونے کو بھی تیار ہو جاتا ہے۔ خوش قسمت ہو تم جو میں نے تمہیں اس بربادی سے بچا لیا ہے۔ کیونکہ جتنی تکلیف نامکمل محبت دیتی ہے نا۔۔۔اس سے کئی زیادہ اذیت اس کی تکمیل پر ملتی ہے۔ میرے لیے تمہارا یہ جملہ روز مرہ کی باتوں سے زیادہ اہمت نہیں رکھتا۔ اس لیئے گھر جاؤ شاباش اور اپنی پڑھائی پر فوکس کرو۔ تمہارے ابھی کھیلنے کودنے کے دن ہیں"۔ اس کا دھواں دھواں ہوتا چہرا دیکھتے ہوئے وہ سرد مہری سے کہتا ہوا اس کا دل چھلنی چھلنی کر گیا تھا۔

پھر گاڑی ریورس کرتے ہوئے وہ ایک پل رکا۔

"میں شادی کر رہا ہوں۔ تمہیں اور تمہارے گھر والوں کو دعوت ضرور دوں گا۔ میری بیوی سے بھی مل لینا تم۔ یقین کرو وہ تمہیں بہت اچھی لگے گی"۔ سنجیدگی سے اطلاع دیتے ہوئے وہ تابین کو پاتال میں اتار گیا تھا۔ پھر مزید ایک لمحہ بھی وہاں رکے بغیر گاڑی آگے بڑھا لے گیا۔

تابین دھندلائی آنکھوں سے اس کی گاڑی پر نگاہیں جمائے پل پل جھکتی زمین پر ڈھے سی گئی تھی۔ آنسو اب کھل کر بہنے لگے تھے۔ ہاتھ کی بند مٹھی اس نے سامنے کرکے کھولی۔ دو سرمئی رنگ کے بٹن اس کی شفاف ہتھیلی پر موجود چمک رہے تھے۔ ان پر نگاہیں جمائے ارد گرد سے بے بہرہ ہو کر وہ بلند آواز سے چیختی کسی معصوم بچی کی طرح تڑپ تڑپ کر رو دی تھی۔

"میکائیل کہاں ہے؟"۔ ڈنر کے وقت کھانے کی میز پر اس کی کمی محسوس کرتے ہوئے نرمین نے فیض صاحب سے استفسار کیا۔

انہوں نے کھانے سے ہاتھ روک کر بیوی کی جانب دیکھا۔

"ہاں وہ کام کے سلسلے میں شہر سے باہر گیا ہے"۔ سرسری انداز میں جواب دے کر وہ کھانے میں مگن ہو گئے۔

جبکہ نرمین کو مزید پوچھنے کی ضرورت نہ پڑی۔ وہ اپنے بیٹے کے کام سے بخوبی واقف تھیں۔ لہٰذا ان کی بات پر سر ہلا  گئی۔

ماہا اپنی پلیٹ پر سر جھکائے بے دلی سے کھانا کھاتی رہی۔ رہ رہ کر اس کے ذہن میں تابین کا اجڑا بکھرا روپ گھوم جاتا تھا۔ وہ حساس دل لڑکی اپنی دوست کیلئے دکھی تھی۔ اپنے طور پر تو اس نے بہت سمجھایا تھا اسے، روکنے کی کوشش بھی کی تھی کے جس راہ پر وہ چلنا چاہتی ہے وہ ایک اندھی گلی کی طرف جاتا ہے۔ اس میں سوائے اندھیروں اور کانٹوں کے کچھ نہیں رکھا ہے۔ مگر وہ نہ مانی تھی۔ اس لیئے اب یہ تو ہونا ہی تھا۔

حیرت کی انتہا تو تب ہوئی تھی جب تابین نے روتے ہوئے اس سے سوال کیا کے تمہارا بھائی شادی کرنے جا رہا ہے اور تم نے مجھے ایک بار بھی نہیں بتایا؟ حالانکہ اس کو خود نہ پتہ تھا کے اس نے ایسا کیوں کہا؟ 

اسے تابین کا اپنے بھائی پر اتنا بڑا الزام لگانا ہرگز بھی اچھا نہیں لگا تھا۔ اس لیئے وہ اس کی مزید سنے بغیر واپس اپنے گھر چلی آئی تھی۔ اور تب سے لے کر اب تک وہ اسی کشمکش میں تھی کے آخر تابین نے ایسا کیوں کہا۔

"ماہا؟"۔ نرمین نے اس کا کھویا کھویا انداز نوٹ کرتے ہوئے پکارا۔

"جی مام"۔ وہ اچانک پکارے جانے پر چونک سی گئی۔

"کیا بات ہے کھانا کیوں نہیں کھا رہی ہو ٹھیک سے؟"۔ انہوں نے اسے پلیٹ میں موجود چاولوں سے کھیلتے دیکھ کر ٹوکا۔

"نن۔۔۔نہیں تو۔۔۔میں کھا رہی ہوں"۔ جلدی سے جواب دے کر وہ کھانے کی جانب متوجہ ہوگئی۔ مبادا کہیں وہ مزید اسے کریدنے نہ لگ جائیں۔

"پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے دونوں بہن بھائی کو۔ اجیب ہی مزاج ہو رکھے ہیں دونوں کے"۔ وہ تاسف سے سر جھٹکتے ہوئے بڑبڑائیں۔

جسے پاس بیٹھے فیض بخاری کے کانوں نے بخوبی سن لیا تھا۔ اور جب سنا تو ان کے حلق میں نوالہ اٹک سا گیا۔ فوراً پانی کا گلاس اٹھا کر لبوں سے لگا لیا۔ اس عرصے میں وہ دونوں ہی متوجہ نہ ہو سکیں تھی۔ 

پھر کھانے کے بعد وہ اپنے اسٹڈی روم میں آ گئے۔ 

ان کی تمام تر سوچیں ماضی کی جانب پرواز کرنے لگیں تھی۔ دو سال چھ ماہ قبل جب میکائیل اپنے مشن "کیچ دی کوبرا" پر کام کر رہا تھا۔

جس کے سلسلے میں وہ سرحد پار، دشمنوں کی جھنڈ میں جا گھسا تھا۔ بہت قریب تھا وہ اپنے مقصد کے۔ پورے تیرہ ماہ کی اس کی محنت رنگ لانے کو تھی۔ مگر پھر کچھ ہوا تھا۔ کچھ ایسا کے اس کے بعد وہ کھو گیا۔ حتا کہ اس کے ساتھی بھی اسے ٹریس نہ کر پائے۔ وہ وطن کا رکھوالا جو میلوں دور دشمن ملک میں دشمنوں کے درمیان اپنے وطن کی بقا کیلئے گیا تھا وہ خود دھول بن کر کہیں غائب ہو گیا۔ پورے پانچ ماہ ہو گئے تھے۔ مگر اب تک اس کی کوئی خبر نہ آئی تھی۔ اس کے دو دیگر ساتھی جو اس کے ساتھ گئے تھے ان کی بھی کوئی خبر نہ تھی۔

کس قدر مجبور تھا وہ باپ کے اپنے بیٹے کی گمشدگی بھی اسے راز ہی رکھنا تھی۔ وہ نرمین یا ماہا کو بھی نہیں بتا سکتے تھے۔ کیونکہ کسی کو مشن ڈسکلوز کرنے کی اجازت ہرگز بھی نہ تھی۔ مگر چونکہ وہ خود بھی فوج کا حصہ رہے تھے۔ اس لیئے انہیں ہر چیز کی خبر ہوتی تھی۔ وہ عام آدمی کی طرح اپنے بیٹے کی گمشدگی کیلئے تھانے نہیں جا سکتے تھے۔ رپورٹ نہیں لکھوا سکتے تھے۔ یہی تو وہ قیمت تھی اس وردی کی، جسے پہننے والا وطن کا محافظ آخری سانس تک ادا کرتا ہے۔ جو اپنے بارے میں نہیں اپنے ملک اور ہم وطنوں کے بارے میں پہلے سوچتا ہے۔ جو اللہ کے حکم کے مطابق اسلامی ریاست کے سرحدوں کی حفاظت کیلئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بھی بہا دیتا ہے۔ انہیں اپنے بیٹے کیلئے افسوس نہ تھا بلکہ انہیں اس پہ فخر تھا۔کیونکہ وہ بچپن سے ہی اپنے بابا جیسا بننا چاہتا تھا۔ یہ اس کی اپنی خواہش تھی کے وہ فیض بخاری کے نقش قدم پر چلے۔ میکائیل ہر مشن پر جانے سے پہلے انہیں آخری جملے کے طور پر کہتا تھا۔

"میں اگر واپس آیا تو غازی کہلاؤں گا اور اگر نہ آیا تو شہید۔ آپ کو ہر صورت مجھ پہ فخر ہوگا بابا"۔ 

اور جب وہ غازی بن کر لوٹتا تھا تو انہیں واقعی اس پہ فخر ہوتا تھا۔ مگر اس بار وہ نہیں لوٹا تھا۔ لیکن اس بار بھی ان کے فخر کو شرمندہ نہیں ہونے دیا تھا اس نے۔ بلکہ ہر بار سے کئی زیادہ بڑھایا تھا۔

_______________________________

گھر میں شادی کی تیاریاں شروع ہو چکیں تھی۔ مگر وہ یوں ہر چیز سے لا تعلق نظر آتی تھی جیسے یہ اس کی نہیں کسی اور کی شادی ہو۔ فرزانہ بیگم کا مان رکھنے کیلئے اس نے حامی تو بھر لی تھی مگر خوشی کی کوئی رمق بھی اس کے چہرے پر نہ تھی۔ کچھ دیر قبل ہی دولہے کی والدہ منگنی کی رسم ادا کر گئیں تھی۔ چند لوگ لڑکے کی جانب سے تھے جبکہ لڑکی کی جانب سے اس کی والدہ اور کچھ دوست تھے۔ جن کی موجودگی میں زیست کو در پردہ اس شخص کے نام کی انگوٹھی پہنائی گئی تھی جو اس کی سب سے بڑی نفرت اور سب سے بڑا خوف تھا۔ 

مگر وائے رے نصیب! وہ تو اپنی لاعلمی میں ماری جا رہی تھی اور اسے اندازہ تک نہ ہو رہا تھا۔ کتنا اصرار کیا تھا فرزانہ بیگم نے کہ عدنان سے ایک بار مل کر بات چیت کر لو، تمہارا ہر اندیشہ زائل ہو جائے گا۔ مگر اس نے عدنان سے ملنے یا بات کرنے کیلئے صاف منع کر دیا۔ ایسا کرکے وہ ایک طرح سے اپنی ماں کے سامنے احتجاج کر رہی تھی کے اسے اس رشتے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ 

وہ نہیں جانتی تھی کے اپنی بے خبری میں وہ قیصر خیام کی راہیں ہموار کر رہی ہے۔ شاید اس کا اپنا نصیب بھی اسے اس شخص کی طرح دغا دے رہا تھا۔ 

اس وقت بھی وہ اپنے کمرے میں مقید تھی۔ جبکہ ندا اس کے سر پہ کھڑی شادی کی شاپنگ کیلئے ساتھ جانے کو اسے منا رہی تھی۔

"کتنی ڈھیٹ ہو گئی ہو زی تم؟ کب سے ساتھ جانے کو کہہ رہی ہوں مگر تم نہ نہ ہی کر رہی ہو۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے تمہاری نہیں بلکہ پڑوس میں کسی کی شادی ہے"۔ دونوں ہاتھ کمر پہ جمائے کھڑی وہ اسے شرم دلانے کو بولی۔

مگر زیست کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔

"ایکچولی ہاں، شادی پڑوس کی بھی تو ہے۔ آخر کو۔۔۔تمہارے 'وہ' سامنے ہی تو رہتے ہیں"۔ دھپ سے اس کے پاس گرنے کے بعد ندا نے شوخی سے کہتے ہوئے اسے ٹہوکا مارا۔

"پلیز یار بس کردو ندا تم۔ کم از کم تم تو میری پوزیشن سمجھو، میں یہ شادی نہیں کرنا چاہتی۔۔۔امی کسی طور سمجھنے کو تیار نہیں ہیں۔۔میں ہر طریقہ اپنا چکی ہوں انہیں منانے کیلئے۔۔۔مگر وہ کچھ سننے کو ہی تیار نہیں ہیں"۔ وہ تھکے ہارے لہجے میں کہتی اسے اپنی کیفیت سے آگاہ کر رہی تھی۔

ندا نے حیرانگی سے اسے دیکھا۔

"آخر تمہیں اتنا شدید اعتراض کس بات پہ ہے زیست؟ تم مجھے وجہ بتاؤ تو ہی میں آنٹی کو سمجھانے جاؤں نا۔ اور پھر ایک نہ ایک دن تو یہ ہونا ہی تھا، اتنا غیر متوقع کیا ہے اس میں تمہارے لیے؟"۔ وہ الٹا اسے سمجھانے لگی۔

زیست سر پکڑ کے رہ گئی۔ 

"چھوڑو تم رہنے دو تم نہیں سمجھو گی"۔ وہ مایوس ہوئی۔

"تم مجھے سمجھاؤ تو؟ آخر کیا برائی ہے عدنان میں؟ اتنے اچھے بلکہ اچھے خاصے ہیں وہ زیست، مردانہ وجاہت کا ایک بہترین نمونہ، ایک پولیس آفیسر اور اتنی شاندار شخصیت ہے ان کی، غرض ان میں وہ ہر کوالٹی ہے جو ایک لڑکی کو اپنے پارٹنر میں چاہیئے۔ اتنی ناشکری ہو لڑکی تم"۔ ندا اس کی تعریف میں رطب السان تھی۔ 

فون پر جب زیست نے اسے اپنی افراتفری میں ہونے والی شادی کے بارے میں بتایا تو ایک پل کو وہ بھی حیران پریشان رہ گئی تھی۔

مگر جب فرزانہ بیگم سے مل کر اس نے بات کی تو انہوں نے الٹا اس سے اصرار کیا کے وہ ایک بار عدنان اور اس کے گھر والوں سے مل کر دیکھ لے۔ اگر اسے وہ فیملی اپنی دوست کے قابل نہ لگی تو وہ انکار کر دیں گی۔ 

ندا نے بھی حامی بھرتے ہوئے ان سے ملاقات کی۔ عدنان سے ملنے کے بعد اسے وہ ہر طرح سے زیست کے لائق لگا تھا۔ اس لیے اس نے بھی اوکے کر دیا۔ اور اب وہ پچھلے دو دن سے نا صرف وہاں موجود تھی بلکہ زی کی شادی میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی تھی۔

"میں یہ نہیں کہتی کے اس میں کوئی برائی ہے۔ مجھے بس فلحال شادی نہیں کرنی"۔ بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی میں پڑی سونے کی نازک سی انگوٹھی گھماتے ہوئے وہ مضطرب دکھائی دیتی تھی۔

"لیکن ویکن اگر مگر کچھ نہیں زیست، تم کسی کو پسند کرتی ہوتی تو تمہارا انکار سمجھ میں بھی آتا۔ مگر تمہارا یہ انکار بلاوجہ ہے، اس لیے بالکل غلط ہے۔ تم یہ سوچو کے اتنے وقت بعد آنٹی کے چہرے پر خوشی دیکھنے کو ملی ہے، اور یہ صرف تمہاری شادی کی وجہ سے ہی ہے۔ تم ان کا ہی خیال کر لو"۔ وہ افسردگی سے کہنے لگی۔

زیست لب بھینچے سوچ میں پڑ گئی۔

"ٹھیک ہے۔ میں چلتی ہوں"۔ بالآخر اس نے رضامندی دے ہی دی۔

"یہ ہوئی نا بات۔ چلو اب جلدی کرو بہت ساری شاپنگ کرنی ہے اور وقت بھی اتنا کم"۔ ندا پیشانی پر ہاتھ مارتی ہوئی بولی۔ 

جبکہ زیست سر ہلا کر الماری سے اپنے کپڑے نکالنے لگی۔

_______________________________

"مسز شفیق ان لوگوں کو کہہ دیں کے میں دو دن بعد نکاح چاہتا ہوں۔ وہ بھی سادگی سے"۔ آئینے کے سامنے کھڑا وہ شرٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے ان سے مخاطب تھا۔ جو بیڈ پر اسی کے کپڑے پھیلائے بیٹھیں تھی۔

"سادگی سے کیوں؟ مانا کے میں تمہاری ماں نہیں ہوں لیکن پھر بھی، دھوم دھام سے کرنا چاہتی ہوں میں تمہاری شادی"۔ انہوں نے اس کی ڈل گولڈن کلر کی شیروانی پر نگاہیں جمائے محبت بھرے لہجے میں کہا۔

وہ ٹائی کی ناٹ درست کرتا ہوا مڑا۔

"آپ سے جو کہا ہے وہ کریں۔ مجھے کوئی دھوم دھام نہیں چاہیئے۔۔۔تو مطلب نہیں چاہیئے"۔ سنجیدگی سے ان کی جانب دیکھتے ہوئے اپنی بات پر زور دیا۔

ہاجرہ شفیق کا چہرا پھیکا پڑ گیا۔

"اتنے دنوں سے تم یہاں ہو، مقصد چاہے جو بھی ہو تمہارا لیکن جس طرح تم میرا اور شفیق صاحب کا خیال رکھتے ہو، اس گھر کی ذمہ داری اٹھائی ہے، شاید میری اپنی کوئی اولاد بھی اتنا نہ کر پاتی"۔ ان کی آنکھوں میں اس کیلئے ماں جیسی شفقت تھی۔

"اتنا اموشنل ہونے کی ضرورت نہیں ہے آپ کو۔ کیونکہ مجھے کسی کا مان رکھنا نہیں آتا اور میں رکھتا بھی نہیں ہوں۔ جو کچھ بھی میں نے آپ لوگوں کیلئے کیا اس میں میرا اپنا مقصد پوشیدہ تھا"۔ وہ بنا کوئی لگی لپٹی رکھے کہتا چلا گیا۔

اس کی بات پر دروازے سے اندر داخل ہوتیں فرزانہ بیگم کے قدم ٹھٹھک کر رکے۔

"تم بھلے ہی اس گھر میں کئی ماہ سے بطور پیئنگ گیسٹ رہ رہے ہو لیکن میرے لیے بیٹے جیسے ہی ہو اور ہمیشہ رہوگے"۔ وہ اس کی بات کا برا منائے بغیر نرمی سے مسکراتے ہوئے بولیں۔

فرزانہ نے بے اختیار منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔ ان کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں تھی۔

وہ اب بیڈ پہ پڑا اپنا کوٹ اٹھا کے پہننے لگا۔

"مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا۔ ایک بار یہ شادی ہو جائے تو بیوی کو لے کر میں یہاں سے چلا جاؤں گا"۔ بے نیازی سے کہتے ہوئے اچانک اس کی نگاہ دروازے کی اوٹ سے جھانکتے دوپٹے کے کنارے پر پڑی۔

اس کے احمریں لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔

"فرزانہ آنٹی سے بات کر لیں آپ۔ نکاح کی رسم ایک ہفتے کے بجائے کل ہی ادا کی جائے گی۔ وہ بھی سادگی سے"۔ پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے، دبے قدموں چوکھٹ تک جاتے ہوئے اس نے یہ بات بظاہر ہاجرہ شفیق سے کہی تھی مگر سنائی فرزانہ بیگم کو تھی۔

"کل ہی؟ لیکن تم نے تو ایک ہفتے بعد کا کہا تھا"۔ اس کی بات ان کے پلے ہی نہ پڑی تھی۔ بلکہ ہاجرہ کے تو فرشتوں کو بھی پتہ نہ تھا کے وہاں فرزانہ موجود ہے۔ وہ تو پہلے دو دن اور اب کل نکاح کا سن کر ہی حیران رہ گئیں تھیں۔

"ہاں، اور یہ بھی بتا دینا ان کو کے میں کوئی اے-ایس-پی نہیں ہوں"۔ وہ چلتے ہوئے اب براہ راست ان کے سامنے آ کر بولا تھا۔

فرزانہ کی آنکھیں حیرت سے پھٹنے کے قریب ہو گئیں۔

جبکہ ہاجرہ کی نگاہ جوں ہی دروازے تک گئی، فرزانہ کو وہاں دیکھ کر بے ساختہ ان کا ہاتھ اپنے سینے پر پڑا تھا۔ 

"چچ چچ چچ۔۔۔آپ نے تو سب سن لیا"۔ وہ مصنوعی تاسف سے سر جھٹکتے ہوئے بولا۔

ہاجرہ جو ان کی جانب آ رہیں تھی انہیں اشارے سے اس نے وہیں روک دیا۔

"تو یہ ہے تمہارا اصل چہرا"۔ ان کے چہرے پر چھائی حیرانی اب غصے میں بدلنے لگی تھی۔

ان کے سوال پر قیصر نے شانے اچکا دیئے۔

"بے شک، آپ تو کافی سمجھدار ہیں"۔ زیر لب مسکراتے ہوئے توصیفی انداز میں کہا۔ 

"بہت اچھا ہوا تمہاری اصلیت وقت رہتے سامنے آ گئی۔ اب میں خود یہ رشتہ ختم کر دوں گی۔ زیست تم سے شادی کبھی نہیں کرے گی"۔ وہ چیخ پڑیں تھیں۔

"آرام سے آنٹی جی، آپ کا بی پی ہائی ہو جائے گا"۔ وہ مصنوعی فکرمندی سے بولا۔ 

"جتنا اترانا ہے اترا لو، میں یہ رشتہ اب آگے نہیں بڑھاؤں گی۔ میری بیٹی تم جیسے جھوٹے، مکار اور عیار شخص سے ہرگز شادی نہیں کرے گی"۔ وہ اپنا فیصلہ سنا کر کھلے دروازے سے واپس پلٹنے لگیں تھی جب قیصر کے اگلے جملے کو سن کر آسمان ان کے سر پر آ گرا تھا۔

"ٹھیک ہے پھر اپنی بیٹی سے کہیے گا کے وہ تیار رہے، کل پولیس اسے گرفتار کرنے کو آپ کے در پر کھڑی ہوگی۔ ساتھ میڈیا نمائندگان بھی"۔ سکون سے دیوار کے ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے اس نے سفاکی سے کہا تھا۔

اس کی بات پر فرزانہ بیگم کا چہرا فق ہوا۔ اپنے وجود کا بوجھ اٹھانے کیلئے بے اختیار ان کے ہاتھ نے دیوار کا سہارا لیا تھا۔

جبکہ وہ اب چلتا ہوا ایک بار پھر سے ان کے سامنے آ گیا۔

چمکتی سیاہ آنکھیں ان کے چہرے پر جمائے وہ زرا جھکا اور رازداری سے گویا ہوا۔

"میں چشم دید گواہ ہوں اس قتل کا جو آپ کی پیاری بیٹی کے ہاتھوں ہوا تھا۔ دو سال اور چار ماہ پہلے۔ میرا اس کے مخالف اٹھایا گیا ایک قدم اسے پھانسی یا عمر قید دلوانے کیلئے کافی ہوگا"۔ سرد دھیما لہجہ مقابل کی روح فنا کرنے کی طاقت رکھتا تھا۔

وہ پتھر کا بت بن گئیں تھی۔ ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے۔ 

پھر وہ زرا سیدھا ہوا اور مسکراہٹ چہرے پر سجا لی۔

"عروسی لباس یا ہاتھوں میں ہتھکڑیاں۔ اپنی بیٹی کیلئے آپ کیا پسند کرتی ہیں یہ فیصلہ میں اب آپ پر چھوڑتا ہوں"۔ مطمئن انداز میں کہتے ہوئے اب عادتاً بھورے بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا۔

"کل آؤں گا میں آپ کے گھر برات لے کر۔ میری دلہن تیار رکھیے گا۔ ورنہ دوسری صورت میں پھر سسرال والے آئیں گے اسے 'باعزت' لے جانے کیلئے"۔ کمینگی سے مسکراتے ہوئے اس نے لفظ 'باعزت' پر خاصا زور دیا تھا۔

پھر سیاہ کوٹ کو جھٹکا دیتے ہوئے مضبوط چال چلتا وہ گھر سے باہر نکل گیا۔

فرزانہ بیگم زرد چہرا اور آنکھوں میں خوف لیئے اس کی پشت تکتی رہ گئیں۔

ان سیاہ آنکھوں کی شیطانی چمک انہیں خوف سے کانپنے پر مجبور کر گئی تھی۔

شام کے سائے گہرے ہونے لگے تھے۔ اندھیرا پر پھیلا رہا تھا اور دن رخصت ہونے کو تھا۔ مگر آنے والا کل کچھ اور ہی پیغام لا رہا تھا۔ 

سیاہ رنگ کے آفیشل سوٹ میں ملبوس ہاتھ میں بریف کیس تھامے وہ اس وقت کوکوان ریستوران میں داخل ہوا تھا۔ انداز ایسا تھا جیسے کسی بزنس میٹنگ کیلئے وہاں آیا ہو۔ پراعتماد چال چلتا ہوا وہ ایک کونے والی میز کی جانب آ گیا۔ چہرا کافی سنجیدہ تھا جبکہ نگاہیں بار بار مضبوط کلائی پہ موجود سلور گھڑی کو دیکھتیں، جیسے اسے کسی کا انتظار ہو۔  لوگوں کا رش بڑھنے لگا تھا۔

اس کے پاس سے دو میز چھوڑ کر بظاہر موبائل اسکرین پر جھکا وہ آدمی چور نگاہوں سے اس کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ مگر وہ اس کی جانب بالکل بھی متوجہ نہ تھا۔

"سر"۔ ویٹر نے دھیمے لب و لہجے میں اسے متوجہ کیا۔ ساتھ ہی مینیو کارڈ اس کے سامنے رکھ دیا۔

ایک سرسری نگاہ اس نے اپنے سامنے کھڑے ویٹر کے لباس میں ملبوس عالیان پر ڈالی۔

"تھینک یو"۔ فارمل انداز میں جواب دیا۔

جبکہ ویٹر اثبات پہ سر کو خم دینے کے بعد اس کی میز کے پاس سے ہٹ گیا۔

وہ سنجیدہ اور سپاٹ چہرے کے ساتھ ویسے ہی بیٹھا رہا۔

وہ سیاہ فام آدمی اب بھی کنکھیوں سے اس کا جائزہ لے رہا تھا۔ 

دوسری طرف وہ بور ہو کر اب مینیو کارڈ کھول کر دیکھنے لگا تھا۔ جوں ہی اس نے پہلا صفحہ پلٹایا، اسے مینیو کارڈ کے صفحے پر کچھ چپکا ہوا نظر آیا۔ وہ سفید رنگ کے کاغذ کا ٹکڑا تعویذ کی طرح توڑ موڑ کر وہاں چپکایا گیا تھا۔ بڑے آرام سے صفحہ پلٹاتے ہوئے اس نے وہ تعویذ کی طرح مڑا ہوا کاغذ انگوٹھے کی مدد سے اکھاڑ لیا اور ہاتھ کی خفیف سی حرکت کے ساتھ وہ کاغذ کا ٹکڑا کوٹ کی آستین میں اتار لیا۔ 

وہ ٹھوڑی تلے ہاتھ رکھے کارڈ کو سرسری انداز میں دیکھنے لگا۔

دو لوگوں کی بنا کہے ہی آپس میں بات چیت ہو گئی تھی اور زرا سے فاصلے پر بیٹھے نظر رکھنے والے آدمی کو اس گفتگو کی بھنک بھی نہ پڑی تھی۔ وہ اب بھی اسی طرح قیصر خیام پر نگاہ جمائے بیٹھا رہا تھا۔ 

مینیو کارڈ واپس میز پر رکھ کر اس نے کوفت سے ایک بار پھر گھڑی دیکھی۔ پانچ منٹ بعد وہ کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا اور بریف کیس ہاتھ میں لیئے واش روم کی جانب بڑھ گیا۔

سیاہ فام نے چونک کر اسے جاتے دیکھا پھر بلا تاخیر وہ بھی اس کے پیچھے جانے کیلئے لپکا۔ تیزی سے قیصر تک پہنچنے کی چاہ میں وہ پاس سے گزرتے ایک ویٹر سے ٹکرایا۔ نتیجتاً، ویٹر کے ہاتھ میں موجود جوس کا گلاس اس کے کپڑوں پر الٹ گیا تھا۔ 

"یہ کیا بدتمیزی ہے؟ یو ایڈیٹ"۔ غراتے ہوئے انگریزی میں وہ اس ویٹر کو موٹی موٹی گالیوں سے نوازنے لگا۔

"سوری سر، آپ اچانک سامنے آ گئے اور میں دیکھ نہیں پایا آپ کو"۔ ایجنٹ عالیان نے مسکین سی صورت بنا کر معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔

"تمہیں تو میں بعد میں دیکھوں گا۔ ابھی ہٹو میرے راستے سے"۔ سیاہ فام نے غصے سے دہاڑتے ہوئے اس کے سینے پہ ہاتھ رکھ کے دھکیلنا چاہا مگر وہ چٹان کی طرح اپنی جگہ کھڑا رہا تھا۔ 

سیاہ فام کی پریشان نگاہیں اس راستے پر جمی تھیں جہاں سے قیصر گیا تھا۔ وہ جلد از جلد اس تک پہنچنا چاہتا تھا مگر یہ ویٹر اس کی راہ میں رکاوٹ بنا کھڑا تھا۔

واش روم میں داخل ہو کر اس نے دروازہ بند کیا اور سب سے پہلے اپنے آستین میں چھپا وہ کاغذ کا ٹکڑا نکالا۔ پھر بریف کیس واش بیسن کے قریب کاؤنٹر پر رکھ کر کھولا۔ 

جلدی سے کوٹ، شرٹ اور گھڑی اتار کر بریف کیس میں رکھے۔ پھر ایک سفید رنگ کی ڈھیلی ڈھالی قمیض بریف کیس سے برآمد کرکے پہن لی۔ کلر اسپرے نکال کر اپنے براؤن بالوں کو اسپرے کیا۔ کچھ ہی سیکنڈز میں براؤن بال سفید رنگ میں تبدیل ہونے لگے۔ سفید داڑھی مونچھ لگانے کے بعد اس نے فائنل ٹچ کے طور پر سنہری فریم والا نظر کا چشمہ بھی لگا لیا۔ 

جھک کر اپنے سیاہ جوتے اتارے اور نیچے موجود کیبنٹ کھولا۔

"سارا انتظام کر رکھا ہے اس نے"۔ وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے ہوئے عالیان کو داد دینے لگا۔ چپل نکال کر پہنا اور اپنے جوتے وہیں کیبنٹ میں رکھ چھوڑے۔ ساتھ ہی بریف کیس بھی بند کرکے وہی چھپا دیا۔  

ان سب میں اس کا صرف تین منٹ گیا تھا۔

دوسری جانب عالیان نے اب تک اس آدمی کو روک رکھا تھا۔ اتنے میں مینجر بھی ان کی جانب متوجہ ہو گیا تھا۔

"کیا پرابلم ہے؟"۔ وہ ویٹر کو تیز نظروں سے گھورتے ہوئے پوچھنے لگا۔

"وہ سر۔۔۔میرے ہاتھ سے ان پر جوس گر گیا"۔ شرمندگی سے سر جھکائے وہ اعتراف جرم کر رہا تھا۔ 

جبکہ اس شخص کا بس نہیں چل رہا تھا کے اپنے راستے میں کھڑے ان دو لوگوں کو گولی سے اڑا دے۔

"سوری سر اس سے غلطی ہو گئی ہے۔ میں آپ سے معافی مانگتا ہوں"۔ ویٹر کو گھورنے کے بعد مینجر بھی اس سے معذرت کرنے لگا۔

"میں نے کہا ہٹ جاؤ"۔ طیش کے عالم میں کہتے ہوئے اس نے مینجر کو پرے کیا اور ویٹر کو دھکا دیا۔ تبھی اس کے ہاتھ پر کلائی کے مقام سے زرا نیچے بنا کوبرا کا ٹیٹو عالیان کی نگاہوں نے دیکھ لیا تھا۔ اور اس کی شرٹ پر لگے چھوٹے سے بٹن کیمرے نے بھی اس منظر کو قید کیا تھا۔

وہ تیز قدموں سے واش روم کی جانب بڑھ رہا تھا کے تبھی  سامنے سے آتے بزرگ سے ٹکرا گیا۔

"اوہ! سوری انکل"۔ سیاہ فام نے عجلت میں کہا۔

جس پر بزرگ نے محض سر ہلا دیا۔ اور آگے بڑھ گئے۔

"آج تو لگتا ہے ٹکرانے کا دن ہے"۔ بزرگ سے معذرت کرنے کے بعد وہ انگریزی زبان میں بڑبڑاتا ہوا جلدی سے واش روم میں گھس گیا۔

"انکل ہوگا تیرا باپ"۔ سفید بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ دھیمی آواز میں غرایا تھا پھر سر جھٹک کر تیز قدموں سے چلتا ہوا کوکوان سے باہر نکل گیا۔

پیچھے ٹرے تھامے کھڑا عالیان اس کی بڑبڑاہٹ پر بمشکل اپنی ہنسی دبا گیا تھا۔

_______________________________

ندا اور زیست ان کے کمرے میں بیٹھیں اپنی آج کی شاپنگ دکھا رہیں تھیں۔

مگر ان کا دھیان وہاں تھا ہی کب؟ ان کی سوچوں کا محور تو اس شخص کی کچھ گھنٹے قبل کہی گئی باتوں کے گرد گھوم رہا تھا۔ کیا سے کیا ہو گیا تھا ان کچھ گھنٹوں میں۔ وہ جو اپنی بیٹی کی شادی کیلئے خواب بنے بیٹھیں تھیں اب انہیں اسی بیٹی کا مستقبل تاریک ہوتا نظر آ رہا تھا۔ اپنی جلد بازی میں یہ کیسا فیصلہ لے لیا تھا انہوں نے؟ وہ تو زیست کی زندگی سنوارنے چلیں تھیں پھر اب یہ کیا ہونے جا رہا تھا اس کے ساتھ؟ انہوں نے ایک بے بس نگاہ زیست کے چہرے پر ڈالی۔ وہ ندا کی کسی بات پر مسکرا رہی تھی۔ دل ہی دل میں اس مسکراہٹ کی انہوں نے بلائیں لی تھی اور دائمی ہونے کی دعا کی تھی۔ کتنے وقت بعد تو وہ مسکرائی تھی۔ 

وہ کیسے روکتیں یہ سب؟ صرف آج کی رات تھی ان کے پاس اور پھر کل؟۔۔۔کل کا سوچ کر ہی ان کے ہاتھ پاؤں کانپ اٹھتے تھے۔ 

جو وحشی چمک انہوں نے تب اس شخص کی آنکھوں میں دیکھی تھی ان کا دل دہل گیا تھا۔ چھٹی حس بہت کچھ برا ہونے کا اشارہ دے رہی تھی۔ کیوں کر رہا تھا وہ آدمی یہ سب؟ کیا مقصد پوشیدہ تھا اس کا اس سب میں؟ کیوں وہ زیست سے شادی چاہتا تھا؟ جبکہ اسے اچھی طرح پتہ تھا کے زیست ایک قاتل ہے۔۔۔پھر کیوں وہ اسے اپنانا چاہتا تھا؟ 

یہ سارے سوال فرزانہ بیگم کے دماغ پر ہتھوڑے برسا رہے تھے۔ سوچ سوچ کر ان کا وجود شل ہو رہا تھا کے آخر وہ شخص چاہتا کیا ہے۔

زیست ان کا کھویا کھویا سا انداز بھانپ گئی تھی۔ پھر جب ندا فون سننے کو وہاں سے اٹھ کر چلی گئی تو بالآخر اسے پوچھنے کا موقع ملا۔

"امی۔۔کیا ہوا ہے؟اتنا ٹینشن میں کیوں ہیں؟"۔ زیست نے نرمی سے ان کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھ کے متوجہ کیا تو وہ چونک سی گئیں۔

"ہوں۔ کک۔۔۔کچھ نہیں۔۔۔کچھ بھی تو نہیں ہوا"۔ انہوں نے سنبھل کر جواب دیا۔

"اب تو میں نے ایک اچھی بیٹی کی طرح آپ کی بات بھی مان لی۔۔۔کیا آپ ابھی بھی ناراض ہیں مجھ سے؟"۔ ان کی گود میں سر رکھے وہ اداسی سے پوچھنے لگی۔

ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگنے لگیں۔

"تم بہت اچھی بیٹی ہو میری بچی، پر میں شاید اچھی ماں نہیں بن سکی"۔ انہوں نے دکھ سے سوچا۔

"بس یہی سوچ رہی ہوں کے میری بیٹی کل کو اپنے گھر کی ہونے جا رہی ہے۔ ابھی کل ہی کی تو بات لگتی ہے۔۔۔جب تم اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے میرے دوپٹے کا کونا تھامے ہر جگہ میرے پیچھے پیچھے چلتی تھی"۔ شفقت سے اس کے بال سہلاتے ہوئے انہوں نے گلوگیر آواز میں کہا۔

جبکہ زیست ان کی بات پر مسکرا دی۔

"یہ عادت مجھ میں تیمور بھائی کی وجہ سے آئی تھی"۔ وہ افسردگی سے بولی۔

فرزانہ بیگم نے اثبات میں سر ہلایا۔

"ہاں، کیونکہ تم ایک بار کھو گئی تھی مال میں۔۔۔کہیں پھر سے نہ کھو جاؤ اس لیئے اس نے یہ حل نکالا تھا"۔ اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے انہوں نے اس کی پیشانی چوم لی۔ انہیں لگ رہا تھا جیسے وہ پھر سے کھونے جا رہی ہے۔ اور اگر واقعی وہ کھو جاتی تو؟ اب تو اپنی گڑیا کو ڈھونڈ لانے والا وہ بھائی بھی نہیں رہا تھا۔ 

"یا اللہ! میری بچی کی حفاظت فرما۔ کچھ برا نہ ہونے دینا اس کے ساتھ میرے مالک!"۔ اس کے چہرے کو آنسو بھری آنکھوں سے دیکھتے ہوئے ان کا دل بس یہ ایک ہی دعا کر رہا تھا۔

جبکہ ان کی کیفیت سے انجان وہ خاموشی سے ان کی گود میں منہ چھپائے آنکھیں موند گئی تھی۔

"آنٹی، وہ ہاجرہ آنٹی آئی ہیں آپ سے ملنے"۔ کمرے میں داخل ہوتی ندا نے انہیں اطلاع دی۔

"وہ اس وقت؟"۔ زیست نے چونک کر سر اٹھایا۔ گھڑی رات کے بارہ بجا رہی تھی۔

"ہاں وہ شادی کے بارے میں کچھ ڈسکس کرنا چاہ رہیں ہیں"۔ زیست کے پاس بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے اس نے مزید اضافہ کیا۔

"اچھا، چلو میں دیکھتی ہوں"۔ اپنی پریشانی چھپاتے ہوئے انہوں نے کہا اور کمرے سے باہر نکل کر لاؤنج میں آ گئیں۔ 

"کیا بات رہ گئی ہے اب کرنے کو؟"۔ ہاجرہ کے سامنے صوفے پر بیٹھتے ہوئے انہوں نے دھیمی آواز میں کہا۔ مبادا زیست نہ سن لے۔

"دیکھیں، میں مانتی ہوں کے وہ میرا بیٹا نہیں ہے۔ لیکن آپ یقین جانیئے بیٹے سے بڑھ کر ہے وہ میرے اور شفیق صاحب کیلئے۔ دو ماہ سے وہ اس گھر میں پیئنگ گیسٹ کے طور پر رہ رہا ہے۔ اس کا مقصد جو بھی تھا مگر وہ دل کا برا نہیں ہے"۔ وہ انہیں یقین دلانا چاہتی تھیں۔

"اتنا ہی نیک تھا اس کا ارادہ تو کیوں مجھے پہلے نہیں بتایا آپ نے کے وہ آپ کا بیٹا نہیں ہے؟ ایک اے-ایس-پی بھی نہیں ہے۔ پھر آخر کون ہے وہ؟ کیا کوئی بہروپیا؟"۔ انہوں نے برہمی سے پوچھا۔

"یہ سب تو میں خود بھی نہیں جانتی۔ مجھے بس اتنا پتہ ہے کے اس کا نام قیصر خیام ہے۔ وہ بہت کم ٹکتا ہے گھر پر، زیادہ تر وقت وہ باہر رہتا ہے، کہاں رہتا ہے؟ یہ بات میرے علم میں نہیں"۔ انہوں نے مجرمانہ انداز میں بتایا۔

"اور آپ ایسے شخص کی ماں بن کر اس کا رشتہ مانگنے چلی آئیں میرے گھر؟ میں نے تو آپ پر اعتبار کرکے یہ رشتہ کیا نا کے آپ ایک اچھی خاتون ہیں اور وہ آپ کا بیٹا ہے تو اس کی تربیت بھی بہترین ہوئی ہوگی"۔ انہوں نے تاسف سے کہا۔

"میں اس کا رشتہ لے کر آئی کیونکہ میں واقعی اسے اپنا بیٹا مانتی ہوں فرزانہ بیگم، بھلے ہی اس کی پرورش نہیں ہوئی میرے ہاتھوں مگر میرے لیے وہ بیٹے جیسا ہی ہے۔ اس نے مصیبت کے وقت میری بہت مدد کی۔ شفیق صاحب کے علاج کا سارا بوجھ اٹھایا، میں ایک بے اولاد عورت ہوں۔ اولاد کا سکھ مجھے اس کی صورت میسر آیا۔ آپ چاہے تو اسے میری خود غرضی سمجھیں یا ایک ماں کی مامتا، کے جب اس نے مجھے زیست کیلئے کہا تو میں اسے منع نہیں کر سکی۔ ایک ماں کی طرح میں نے بھی اپنے بچے کی خواہش جان کر آپ کے گھر کا دروازہ کھٹکایا"۔ وہ اشک بہاتی ہوئی انہیں حقیقت سے آگاہ کر رہیں تھی۔

فرزانہ بیگم کو ان کے الفاظ کی سچائی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ واقعی ایک اچھی عورت تھی، جس نے ایک غیر شخص کو اپنا بیٹا مانا۔ 

اب وہ اس مامتا کی اندھی عورت کو اس شخص کی دھمکی کا کس منہ سے بتاتیں؟ کیسے بتاتیں کے اس شخص کے چہرے پر وہ شیطانیت دیکھ کر ان کا دل خوف سے کانپ گیا تھا۔

"وہ چاہتا ہے کے کل ہی نکاح ہو جائے۔ کیونکہ وہ کام کے سلسلے میں کچھ مہینوں کیلئے باہر چلا جائے گا۔ آپ سے گزارش ہے کے اس رشتے کو ختم نہ کریں"۔ ان کا لہجہ التجائیہ ہو گیا۔

فرزانہ بیگم سرد آہ بھر کے رہ گئیں۔

_______________________________

"مجھے معاف کردو رانا، میں اس پر برابر نظر رکھے ہوئے تھا۔۔۔پر جانے کیسے وہ میری آنکھوں میں دھول جھونک گیا"۔ وہی سیاہ فام اس وقت دونوں ہاتھ جوڑے کھڑا اندھیرے میں نظر آتے اس ہیولے سے مخاطب تھا۔

وہ ہیولہ طیش میں آگے بڑھا اور ایک بھرپور تھپڑ اس نے اس سیاہ فام کے چہرے پر رسید کیا۔ وہ ہٹا کٹا آدمی مقابل کا ایک ہاتھ پڑنے سے ہی زمین بوس ہو چکا تھا۔ تھپڑ کے ساتھ ہی اس کے گال پہ زور سے کچھ چبھا تھا۔ جیسے کوئی پن۔

رانا نامی وہ آدمی اب اجالے میں آ گیا تھا۔ آدمی کیا۔۔۔وہ تو دیو تھا۔ لمبا چوڑا۔۔۔سیاہ دیو۔ اس کی جسامت پہاڑ کی سی تھی۔ کچھ شک نہ تھا کے زمین پر پڑا وہ آدمی اس کے سامنے بچہ ہی لگتا۔

"معافی؟ ہماری دنیا میں کوئی معافی وجود نہیں رکھتی ولسن۔ صرف بدلہ ملتا ہے بدلہ۔ اچھے سے کام کیا تو بدلے میں انعام اور اگر کام مکمل نہ ہوا تو بہت برا انجام"۔ سفاکی سے کہتے ہوئے وہ آگے بڑھا۔

جبکہ ولسن کا وجود اب تڑپنے لگا تھا۔ زہر اپنا اثر دکھا رہا تھا۔

رانا نے اپنا بوٹ اس کے چہرے پر رکھا اور اس کا چہرا مسخ کر دیا۔ اسے چیخنے کا بھی موقع نہ ملا تھا اور وہ دم توڑ گیا۔

"ہمارا آدمی فیل ہو گیا باس۔ ہم خفیہ ادارے کے نئے بندے کا سراغ نہیں لگا سکے۔ مخبروں کا کہنا ہے کے اس کا نام نہ کہیں سنا اور نہ اب تک کسی نے اسے دیکھا ہے۔ یہ ایجنسی والے بہت اونچا کھیل گئے اس بار"۔ وہ حد درجہ سنجیدہ آواز میں اطلاع دے رہا تھا۔ 

"لگتا ہے بوڑھے ہو رہے ہو تم۔ ریٹائر ہونے کا وقت قریب آرہا ہے تمہارا"۔ رانا کے کان میں لگے آلے پر دوسری جانب سے سرد آواز ابھری۔

وہ لب بھینچ گیا۔

"آپ فکر مت کیجئے، میں پتہ لگا لوں گا۔ ایک بار وہ میرے ہاتھ لگ جائے بس۔۔۔اس کا حشر تو میں اس پہلے والے ایجنٹ سے بھی برا کروں گا"۔ وہ مکا اپنی ہتھیلی پر رسید کرتا ہوا بولا۔ بس نہیں چل رہا تھا کے اس شخص کو اپنے دونوں ہاتھوں کےدرمیان مسل ڈالے۔

"اسے ڈھونڈو، ان کیڑوں کو سبق سکھاؤ رانا، یہ میرے گھر میں داخل ہونے کی کوشش کرکے مجھے بہت غصہ دلا رہے ہیں۔ اور مجھے غصہ دلانے کا مطلب جانتے ہو نا؟"۔ سفاک لہجہ بہت کچھ باور کروا رہا تھا۔

رانا کے گردن میں گلٹی سی ابھر کر معدوم ہوئی۔

"باس۔۔۔آپ بے فکر رہیں۔ میں ایک ایک کو ڈھونڈ کر اپنے پیروں تلے کچل ڈالوں گا"۔ اس نے بھرپور یقین دہانی کروائی تھی۔

دوسری طرف سے مزید کوئی جواب دیئے بغیر رابطہ قطع کر دیا گیا۔ 

رانا اب نئے سرے سے دماغ لڑانے لگا۔

نیا دن طلوع ہو چکا تھا۔ اور اس کے ساتھ ہی بہت سے لوگوں کی فکر اور پریشانی بھی نئی ہو گئی تھی۔ صبح سے دوپہر ہو چکی تھی۔

فرزانہ بیگم چاہ کر بھی اس نکاح کو ہونے سے روک نہ پا رہیں تھی۔ زیست جو بڑی مشکل سے خود کو اس رشتے کیلئے آمادہ کر پائی تھی، پہلے ایک ہفتہ اور اب آج کے آج نکاح اور پھر رخصتی کا سن کر ہی پریشان ہو گئی تھی۔ 

"امی آخر اتنی جلدی کس بات کی ہے؟ ابھی دو دن پہلے ہی تو منگنی ہوئی ہے اور اب نکاح؟"۔ وہ ان کے سامنے سوالیہ نشان بنی کھڑی تھی۔

ان کے پاس کہنے کو کچھ رہا ہی کب تھا۔ کل سے ان کے حواس سلب ہو کر رہ گئے تھے۔ 

وہ جواب دینے کو الفاظ تلاش کر رہیں تھیں کے اتنے میں دروازے پر اطلاعی گھنٹی بجی۔

فرزانہ بیگم کا خوف سے خون خشک ہونے لگا۔ 

ندا کے دروازہ کھولنے پر ہاجرہ بیگم اندر داخل ہوئیں تھیں۔ 

فرزانہ نے سکھ کا سانس لیا۔ ہر آہٹ پر ان کا دل دہل کر یہی سوچتا تھا کے کہیں پولیس نہ آ گئی ہو۔

چہرے پر مسکراہٹ سجائے وہ آگے بڑھ کر فرزانہ سے گلے ملیں اور زیست کی پیشانی پر بوسہ ثبت کیا۔

وہ جھینپ کر رہ گئی۔ 

"دراصل میں یہاں دلہن کا جوڑا دینے آئی ہوں"۔ انہوں نے ہاتھ میں تھامی چیزیں صوفے پر رکھتے ہوئے اپنی آمد کی وجہ بتائی۔

اس اطلاع کے بعد ماحول میں اجیب سی خاموشی چھا گئی تھی۔ جسے اگلے پل ندا کی آواز نے توڑا۔

"واؤ! دیکھو زیست کتنا پیارا ہے تمہارا جوڑا۔ آئم شور، یہ عدنان بھائی کی پسند ہوگی"۔  وہ اسے ڈریس دکھاتے ہوئے شوخی سے بولی۔ وہ خاموش تماشائی بنی بیٹھی رہی۔

ندا اب ایک ایک چیز اٹھا کر اس کے وجود سے لگانے کے بعد بھرپور تعریف کر رہی تھی۔ جبکہ وہ نروس سی دکھائی دیتی تھی۔

ان دونوں کو مصروف دیکھ کر ہاجرہ شفیق فرزانہ کی جانب متوجہ ہوئیں۔

"شام سات بجے کا وقت طے ہوا ہے نکاح کیلئے"۔ وہ انہیں آگاہ کر رہیں تھیں۔ ایسے جیسے ان کی نہیں بلکہ کسی اور کی بیٹی کے بارے میں بات ہو رہی ہو۔

انہوں نے پلکیں جھپکا کر آنسو اندر اتارے پھر ضبط کے کڑے مراحل طے کرنے کے بعد بولیں۔

"زیست تیار رہے گی"۔ لہجہ شکست خوردہ سا تھا۔

ہاجرہ نے دکھی دل سے ان کے شانے پر ہاتھ رکھا۔ بہرحال وہ خود بھی مجبور تھیں۔ ان کیلئے کچھ نہ کر سکتیں تھی۔

_______________________________

اس سب سے بے نیاز قیصر خیام اس کاغذ پر لکھے ایڈریس کے مطابق ایک درمیانے درجے کے علاقے میں واقع بلڈنگ کے اندر داخل ہو چکا تھا۔ 

فلیٹ نمبر بارہ کے دروازے پر تالا پڑا تھا۔ ارد گرد اس نے چابی تلاش کی، جو اسے دروازے کے پاس پڑے گملے کی مٹی میں دبی ہوئی ملی تھی۔

چابی برآمد کرنے کے بعد اس نے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہو گیا۔ چند سیکنڈز میں ہی اس نے پورے گھر کا جائزہ لے ڈالا تھا۔ چھوٹا سا دو کمروں کا گھر اس کے انتظار میں خالی پڑا تھا۔

اسے یہاں آئے دو گھنٹے بیت چکے تھے جب دروازے پر وقفے وقفے سے تین بار دستک ہوئی۔ دروازہ کھولنے پر اسے سامنے ہی کورئیر والا کھڑا نظر آیا۔

"بادل برسات کا سندیس لایا ہے"۔ اس نے کوڈ ورڈ کہا۔

"طوفان سے بھلا کون ٹکرایا ہے"۔ اس نے جواب دیا۔ جس پر لڑکے نے پیکٹ اسے سونپ دیا۔

وہ دروازہ لاک کرکے کمرے میں آ گیا۔

اس نے پیکٹ کھولا۔ ایک خالی ڈبہ برآمد ہوا۔ پھر کھولا پھر اس سے چھوٹا ڈبہ۔۔۔اسی طرح تین چار بار کھولنے کے بعد ایک چھوٹی سی سیاہ رنگ ڈبی اس کے ہاتھ لگی۔

اس نے اس ڈبی کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔ وہ ایجنٹ کا کوڈ مانگ رہا تھا۔ 

_______________________________

سورج نے رخت سفر باندھ لیا تھا۔ گھڑی کے کانٹوں نے سرکتے سرکتے شام کے ساڑھے چھ بجا دیئے تھے۔

فرزانہ نے پہلے ہی کی طرح اب بھی سمجھا بجھا کر زیست کو  راضی کر لیا تھا۔ اس کی ضد پر ندا نے پارلر لے جانے کے بجائے اسے خود ہی تیار کیا تھا۔

میک اپ سے فارغ ہو کر جیولری پہنانے کے بعد وہ اب اس کا سرخ دوپٹہ سیٹ کر رہی تھی۔

کندنی رنگت گہرے سرخ رنگ کے بھاری کامدار عروسی لباس میں دمک رہی تھی۔ اس پر مستزاد جیولری اور مناسب میک اپ نے اس کے حسن کو دو آتشہ کر دیا تھا۔

"آج تو کوئی گھائل ہی ہو جائے گا"۔ ندا نے اس کے لشکارے مارتے عکس کو دیکھ کر شوخ لہجے میں کہتے اسے چھیڑا۔

زیست نے آئینے میں اسے گھور کر دیکھا۔

"اونہہ! یہ جارحانہ تیور اپنے شوہر نامدار کیلئے سنبھال رکھو اب"۔ اس نے فوراً ٹوکا۔

"سلام ہے زوہیب بھائی کی ہمت کو، جو تم جیسی آفت کو برداشت کر رہے"۔ زیست نے بھی بدلہ چکایا۔

"ماشاءاللہ! عدنان بھائی اگر اپنی بیگم صاحبہ کی فراٹے سے چلتی زبان دیکھ لیں تو غش کھا جائیں گے"۔ ندا نے برجستگی سے کہا۔

"پولیس والے اتنے کمزور دل نہیں ہوتے"۔ زیست نے اس کی معلومات میں اضافہ کیا۔

"جلدی کرو لڑکیوں۔ نکاح خواہ کو لے کر آتے ہی ہوں گے وہ لوگ"۔ فرزانہ بیگم پریشانی سے کہتیں ہوئی زیست کے کمرے میں داخل ہوئیں۔ 

جوں ہی نگاہ اس کے سجے سنورے عکس پر پڑی۔ انہوں نے بے اختیار اس کی ڈھیروں بلائیں لیں۔

"بہت پیاری لگ رہی ہے میری گڑیا"۔ انہوں نے محبت سے کہتے ہوئے نرمی سے اس کا رخسار چھوا۔ 

وہ نم آنکھوں سے مسکرا کر ان کے ساتھ لگ گئی۔

"ارے اب رونا مت۔۔۔میری گھنٹوں کی محنت پر پانی پھر جائے گا"۔ ندا نے جلدی سے ٹوک دیا۔

جس پر وہ دونوں روتے روتے بھی ہنس پڑیں۔

_______________________________

ڈل گولڈن شیروانی میں وہ آئینے کے سامنے کھڑا حد درجہ سنجیدہ تھا۔

ضبط کرتے کرتے آنکھیں لہو رنگ ہو گئیں تھی۔ آج اس نے اپنی آنکھوں کا رنگ نہیں بدلا تھا۔ آج اس نے اپنی پہچان پر کوئی چادر نہیں چڑھائی تھی۔ آج کے دن وہ نہ تو میکائیل بنا تھا اور نہ ہی عدنان۔۔۔وہ صرف قیصر تھا۔ وہ قیصر خیام کے جس سے زیست عباسی نفرت کرتی تھی۔ وہ اسے اپنے نام کروا کر درد کی انتہاؤں پر دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کے جس شخص کو وہ موت سے بدتر سزا دینا چاہتی تھی، انجانے میں اسی کے نام اپنی زندگی کرکے اس کی تڑپ کیسی ہوتی ہے۔

"مجھ سے میرا قلب۔۔میری سانسیں چھین لیں نا تم نے زیست؟ اب میں تم سے تمہارا وجود۔۔۔تمہاری پہچان تک چھین لوں گا۔ آج کے بعد تمہارا نام بھی میرے بغیر نہیں لیا جائے گا۔ تمہارا کچھ بھی اب تمہارا نہیں رہے گا۔ مجھے درد دینے والی۔۔۔میں تمہارے ان زخموں کو ناسور بنا کر زندگی کو تمہارے لیئے ایک درد بنا دوں گا"۔ دونوں ہاتھوں سے بھورے بال پیچھے کرتے ہوئے وہ خود سے عہد باندھ رہا تھا۔ 

سرمئی آنکھوں میں نفرت ہی نفرت تھی۔ چہرے سے انتقامی جذبہ جھلک رہا تھا۔

_______________________________

نکاح کی رسم دو گھروں کے مکینوں کے درمیان چند گواہان کی موجودگی میں ادا ہونی تھی۔ 

ایجاب و قبول کے مراحل طے پانے جا رہے تھے۔ زیست اپنے کمرے میں تھی جبکہ وہ اسی کے گھر کے لاؤنج میں موجود تھا۔ بظاہر فاصلہ کم تھا مگر کون جانتا تھا کے ان دونوں کے درمیان حائل فاصلے اتنے معمولی نہیں۔۔۔بلکہ میلوں کے سفر پر محیط تھے۔

"مسز شفیق"۔ نکاح سے قبل، قیصر نے ان کو اشارے میں ندا کو زیست کے پاس سے ہٹانے کیلئے کہا تھا۔ فرزانہ بیگم کی طرف سے وہ بےفکر تھا۔ مگر ندا اس کی حقیقت نہیں جانتی تھی۔ اور وہ چاہتا بھی نہیں تھا کے نکاح ہونے سے قبل اس کی اصلیت خود زیست بھی جانے۔

ہاجرہ بیگم سر ہلا کر ندا کو اپنے ساتھ لیئے کام کا بہانا کرکے اپنے گھر لے گئیں۔

جبکہ مولوی صاحب اب گواہان کی موجودگی میں زیست سے سوال کر رہے تھے۔

"زیست عباسی ولد ذوالقرنین عباسی آپ کا نکاح قیصر خیام ولد۔۔۔"۔

اور زیست کو اس سے آگے کچھ سنائی نہ دیا تھا۔ سبز کانچ سی آنکھیں اس نے زور سے میچ لیں۔ اپنے اندر کے خوف کو ڈپٹا۔۔۔وہ اس خوف کو خود پر حاوی نہیں ہونے دینا چاہتی تھی۔ اس نے اپنے خوف اور وہم کو تھپک تھپک کر سلا دیا۔

"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟"۔ مولوی صاحب کوئی تیسری مرتبہ پوچھ رہے تھے۔

فرزانہ نے اس کے ہاتھ پر دباؤ ڈالا۔ گویا اسے ہوش دلایا۔

"قبول ہے"۔ اس کے لبوں نے بہت آہستگی سے حرکت کی تھی۔

اور آنسو بھری آنکھوں سے نکاح نامے پر جہاں جہاں انگلی رکھی گئی وہ وہاں وہاں دستخط کرتی چلی گئی۔

اس کے بعد مولوی صاحب دولہے کی جانب آ گئے۔

"قیصر خیام ولد عبید خیام، زیست عباسی ولد ذوالقرنین عباسی کو بعوض پانچ لاکھ حق مہر سکہ رائج الوقت کے آپ کے نکاح میں دیا جاتا ہے۔ کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟"۔ سوال ہوا تھا۔

اس نے کرب سے آنکھیں میچ لیں۔ یہ کیسا اتفاق تھا کے جسے وہ اپنے قلب کا قاتل مانتا تھا اسی کو اتنا اہم مقام دینے جا رہا تھا۔ الوینا نہیں مری تھی۔۔۔قیصر کے اندر سے زندگی مر گئی تھی۔۔۔نرم جذبے مر گئے تھے۔۔۔وہ محبت برف کی طرح اس کے مردہ دل میں جم چکی تھی جو بہت پہلے الوینا مختار نامی پری نے جگائی تھی۔ اب تو وہ بس ایک خالی وجود کا بوجھ ڈھو رہا تھا۔ اور زیست کیلئے اس سے بڑی سزا اور کیا ہوتی کے ایک جذبات سے عاری اور محبت سے خالی مرد اس کے جسم و جاں کا مالک بننے جا رہا تھا؟ 

اس سوچ کا آنا ہی تھا کے اس نے خم دار پلکیں وا کیں۔

"قبول ہے"۔ بھاری آواز احمریں لبوں سے آزاد ہوئی تھی۔ پھر تسلسل کے ساتھ وہ مزید دو بار یہ الفاظ دہراتا چلا گیا۔

پھر نکاح نامے پر اس کے دستخط لیئے گئے تھے۔

"نکاح مبارک ہو"۔ مولوی صاحب نے مبارکباد دی۔ جس کے ساتھ ہی دیگر لوگوں میں بھی مبارک سلامت کا شور بلند ہو گیا۔

_______________________________

رخصتی کے وقت وہ ڈرائیور کو چند احکامات دینے اور زیست کو سیف ہاؤس لانے کی ہدایت کرنے کے بعد ایک بار بھی اس کی نگاہ میں آئے بغیر، دوسری گاڑی ڈرائیو کرکے وہاں سے چلا گیا تھا۔ 

جبکہ دوسری طرف وہ حیران تھی۔ گھر سامنے تھے تو بھلا گاڑی میں رخصت کرکے اسے کہاں لے جایا جا رہا تھا؟

پوچھنے پر ہاجرہ نے اسے یہ کہہ کر مطمئن کر دیا کے وہ اپنے کسی خاص رشتہ دار سے ملنے جا رہے ہیں۔ جو شادی میں شریک نہ ہوسکے تھے۔ وہ اس جواب پر پوری طرح مطمئن تو نہ ہوئی تھی پر بہرحال خاموشی اختیار کر لی۔ 

ندا اور فرزانہ بیگم سے مل کر وہ خوب روئی تھی۔ اپنے دل کا ہر درد۔۔۔ہر خوف وہ آج ان آنسوؤں کی صورت بہا دینا چاہتی تھی۔ اس نے آج کے دن تیمور کو شدت سے یاد کیا تھا اور اس کی مغفرت کی دعائیں مانگی تھی۔ وہ اب اپنی ماں کی ہدایات کے مطابق اپنا ہر خوف، ہر وہم پس پشت ڈال کر نئے سرے سے زندگی شروع کرنا چاہتی تھی۔ اس بات کیلئے وہ اپنے دل و دماغ کو تیار کرتی گاڑی میں آ بیٹھی تھی۔

"آپ نہیں آ رہیں؟"۔ اس نے دھیمے لب و لہجے میں گاڑی کے پاس موجود ہاجرہ بیگم سے پوچھا۔

اس سوال پر وہ بمشکل اپنے چہرے پر مسکراہٹ لائیں۔

"ہاں ہاں، ہم آ رہے ہیں نا دوسری گاڑی میں۔ تمہارے پیچھے ہی آ رہے ہیں"۔ انہوں نے تسلی آمیز لہجے میں بتایا۔

جس پر وہ لب بھینچ گئی۔ جانے کیوں اسے یہ سب بہت اجیب لگ رہا تھا۔

وہ پوچھنا چاہتی تھی کے ان کا بیٹا اپنی دلہن کو تنہا چھوڑ کر خود کیوں چلا گیا؟ مگر ڈرائیور گاڑی پہلے ہی اسٹارٹ کر چکا تھا۔ اور وہ اپنے دماغ میں چل رہے سوالوں کو زبان بھی نہ دے سکی۔

مسلسل دو گھنٹے سفر کرنے کے بعد گاڑی ایک مقام پر آ کر رکی تھی۔ 

اسے احساس ہوا کے وہ شہر سے دور لائی گئی ہے۔ گاڑی میں وہ اکیلی تھی۔ اسے دکھ ہوا تھا عدنان کے رویے پر اور کسی قدر حیرت بھی۔ وہ بھلا اسے تنہا ڈرائیور کے ساتھ آنے کیلئے کیوں چھوڑ گیا تھا؟

سیف ہاؤس میں گاڑی آ کر رکی تو وہ جیسے نیند کی کیفیت سے جاگی تھی۔ تھکن اس کے رگ و پے میں سرایت کر رہی تھی۔ روش پر گاڑی روکنے کے بعد ڈرائیور بت بنا بیٹھا جیسے اس کے اترنے کی راہ تک رہا تھا۔

ناچار وہ گاڑی سے نیچے اتر آئی۔ پورچ میں کھڑی دوسری گاڑی اس کی نظروں میں آئی تھی۔

سر جھٹک کر بھاری لہنگا سنبھالتے ہوئے وہ بڑی دقت سے چلنے لگی۔ سب کچھ بہت اجیب تھا۔ نئی نویلی دلہن کو کوئی پوچھنے والا بھی نہ تھا۔ کوئی اس کا ویلکم کرنے یا ریسیو کرنے کو وہاں موجود نہیں تھا۔

دروازے کو ہلکا سا دکھیلا تو وہ کھلتا چلا گیا۔ اندر داخل ہونے کے بعد وہ دونوں طرف سے لہنگا تھامے ارد گرد دیکھتی ہال کے وسط میں کھڑی تھی۔ اب سمجھ نہیں آ رہا تھا کے کس طرف جائے۔

"بی بی جی آپ میرے ساتھ آئیے"۔ اچانک وہ درمیانی عمر کی ملازمہ کہیں سے نکل کر سامنےآ گئی تھی۔ زیست کو یک گونہ سکون میسر آیا۔ چلو کم از کم کوئی تو وجود نظر آیا تھا اس خاموش گھر میں۔

ملازمہ اس کا لہنگا تھامے، اسے سہارا دیتی ہوئی زینے چڑھنے میں مدد دینے لگی۔ راہداری کے ایک کونے میں واقع کمرے کے دروازے تک اسے لانے کے بعد وہ رک گئی۔

"آپ کمرے میں آرام کریں۔ چھوٹے صاحب ابھی آتے ہوں گے"۔

ملازمہ اسے اطلاع دے کر اس کی کچھ بھی سنے بغیر دروازہ بند کرتی واپس پلٹ گئی۔

وہ سہج سہج قدم اٹھاتی کمرے کے وسط میں رکھے جہازی سائز بیڈ پر آ بیٹھی۔

نفیس سا کمرا سفید اور گولڈن رنگ کے امتزاج سے سجا، کسی بھی سجاوٹ سے عاری تھا۔ نہ کوئی مخملی گلاب کی پتیاں بکھریں تھیں۔۔۔نہ ہی کوئی خوشبو اس کی منتظر تھی۔

تھک کر اس نے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگانے کے بعد پیر سمیٹ کے گھٹنوں پہ سر ٹکا دیا۔ 

اسے سب کچھ بہت اجیب لگ رہا تھا۔ اچانک نکاح، عدنان کا رویہ، پھر اسے رخصت کرکے اس جگہ لانا۔۔۔اور اب جانے وہ خود کہاں تھا؟ 

اجب سی تشنگی۔۔اور احساس محرومی سر اٹھا رہی تھی اس کے اندر۔

_______________________________

راہداری کے دوسرے کونے پر واقع کمرے میں بیٹھا وہ خود سے لڑ رہا تھا۔۔۔خود سے بھی ناراض تھا۔ جس لڑکی نے اس کی الوینا کو اس سے چھینا تھا آج وہی لڑکی اس کی پوری زندگی کیلئے اس کے سر پر مسلط ہو چکی تھی۔ اسے سزا دینے کی چاہ میں اس نے اپنی زندگی بھی ایک سزا بنا دی تھی۔

جب جب وہ لڑکی اس کے سامنے آئی تھی۔۔۔تب تب اس کے زخموں سے لہو رسنے لگا تھا۔ اس کا دل چیخ پڑتا تھا۔۔۔دماغ اسے ترغیب دیتا تھا کے ہاں۔۔۔یہ وہی وجود ہے جس نے قیصر خیام سے اس کی محبت چھینی ہے۔۔۔وہ آگے بڑھے اور اس سے اس کی زندگی چھین لے۔۔۔مگر وہ دماغ کی یہ ترغیب مان نہیں سکتا تھا۔ اسے اگر ایک اور قتل کی اجازت دے دی جاتی تو وہ زیست کو عبرت ناک موت دے دیتا۔ اسے تڑپا تڑپا کر مارتا۔۔۔لیکن اس نے تو اپنے ہاتھ خود باندھ لیے تھے۔ 

پورے بیس ماہ لگے تھے اسے یہ فیصلہ لینے میں۔ اور آج۔۔۔اس فیصلے کے نتیجے میں وہ لڑکی اس کی زندگی کا حصہ بن بیٹھی تھی۔

ٹوٹے بکھرے وجود سے بے پرواہ وہ آج کئی عرصے بعد پھر اس مشروب کا سہارا لے رہا تھا۔ نہیں یہ ممکن ہی نہیں تھا کے وہ اپنے مکمل ہوش میں اس لڑکی سے روبرو ہوتا۔ اس کے سامنے بھی جاتا۔ کچھ بعید نہ تھا وہ اس کی جان ہی لے لیتا۔ جو آگ اس کے سینے میں لگی تھی۔۔۔یہ کیسے ممکن تھا کے وہ اس آگ میں اس لڑکی کو نہ جلاتا؟ اسے تو وہ جلا کر خاکستر کر دینا چاہتا تھا۔

وہ پیتا جا رہا تھا۔۔۔وہ مسلسل پی رہا تھا۔ مگر کمبخت یہ نشہ اس کے دماغ پر اثر ہی نہ کر رہا تھا۔

تکلیف ہی تکلیف تھی۔۔۔۔ہر طرف آگ ہی آگ۔

اپنی ذات کو فراموش کر دینے۔۔۔ہر اذیت کو بھلا دینے کیلئے اس نے سفید پاؤڈر کو بھی اپنے خون میں شامل کرنا شروع کر دیا۔ اسے سونگھتا رہا۔ ہاں اب دماغ پرسکون ہو رہا تھا۔ گو بےہوشی تو اب بھی اس پر طاری نہ ہوئی تھی۔ مگر دماغ مفلوج ہونے لگا تھا۔

"میں اکیلے یہ۔۔۔اذیت کیوں جھیلوں؟ اسے بھی۔۔۔اس تکلیف سے روبرو کرواؤں گا۔۔۔جو اس کی۔۔۔وجہ سے مجھے ملی ہے"۔ وہ ڈولتے وجود کے ساتھ اٹھا اور لڑکھڑاتے قدموں سے کمرے کے بند دروازے کو کھول کر باہر نکل گیا۔

_______________________________

ایک گھنٹہ۔۔۔دو۔۔۔گھنٹے۔۔۔تین گھنٹے بیت گئے مگر اس کا اب تک کوئی پتہ نہیں تھا۔ گھڑی رات کے ایک بجا رہی تھی۔ اس نے اب خود کو جیولری کے بوجھ سے آزاد کرنا شروع کر دیا۔ بوجھل آنکھیں بار بار بھیگ رہی تھیں۔ اس رشتے سے اتنی توقعات تو اس نے وابستہ نہیں کی تھیں۔ لیکن کچھ دیر قبل ہی اس نے پورے دل سے اس رشتے کو تسلیم کیا تھا اور نبھانے کا عہد باندھا تھا۔ 

تبھی اچانک اسے کمرے کے باہر قدموں کی چاپ سنائی دی۔ وہ ٹھہر گئی۔

جلدی سے آنکھیں رگڑ کر صاف کیں۔ تمام جیولری اتارنے کے بعد وہ ایک بار پھر سابقہ پوزیشن میں آ گئی۔

دروازے پر ہوئی آہٹ سن کر یکبارگی زیست کا دل دھڑک کر ساکت ہوا۔ جھکا ہوا سر کچھ اور بھی جھک گیا۔ عروسی لباس میں ملبوس وہ مزید خود میں سمٹ گئی۔

قدموں کی چاپ اب قریب سے قریب تر ہوتی جا رہی تھی۔ اور۔۔۔بالآخر سارے فاصلے مٹا کر۔۔۔ہر دیوار گرا کر وہ اس کے مقابل آ موجود تھا۔ اس شخص کی نگاہوں کی تپش اتنی تھی کے زیست کو اپنا وجود کوئلوں کی زد میں آتا محسوس ہوا۔ 

بہت ہی آہستگی سے وہ اس کے قریب جھکا تھا اور کان کے نزدیک ہوا۔ اور تب۔۔۔بے حد دھیمی۔۔۔سرسراتی ہوئی آواز احمریں لبوں سے برآمد ہوئی تھی۔

"ہیلو پیاری بیوی!"۔ بھاری آواز اور ٹھنڈا ٹھار لہجہ۔

اور اس ایک لفظ نے زیست کی دنیا تہہ و بالا کردی تھی۔ وہ اس آواز کو لاکھوں میں بھی پہچان سکتی تھی۔ اس کی سانس حلق میں ہی کہیں اٹک گئی۔ زور سے آنکھیں میچ کر اس نے شدت سے اس خیال کو جھٹکنا چاہا اور خود کو باور کروایا کہ نہیں۔۔۔یہ بس اس کا وہم ہے اور کچھ نہیں۔  وہ اس کی کیفیت بخوبی سمجھتا تھا۔ اس لیئے اب اس کا وہم توڑنے کو وہ مزید گویا ہوا۔

"مسز زیست! آپ کو الوینا کے قتل اور قیصر پر جان لیوا حملہ کرنے کے جرم میں قیصر خیام کے ”کتابِ قانون“ کے تحت تاحیات قیدِ بامشقت کی سزا سنائی جاتی ہے"۔ 

قیامت برپا ہو چکی تھی۔ اسے پتہ بھی نہ چلا تھا اور جنگ کا اعلان ہوگیا تھا۔ یک طرفہ جنگ کا۔ وہ تو بالکل خالی ہاتھ تھی۔ اسے علم ہی نہ ہو سکا تھا اور وہ میدانِ جنگ میں اتار دی گئی تھی۔

سرد پڑتے ہاتھ پاؤں اور رک رک کر دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے پلکوں کی چلمن اٹھائی تھی اور اگلے ہی پل وہ پتھر کا مجسمہ بن گئی تھی۔ آہ! کاش کوئی اسے جھنجھوڑ دے۔۔۔کاش جگا دے۔۔۔کاش آج بھی یہ خواب ہی ثابت ہو۔۔۔مگر نہیں۔۔۔مقابل بیٹھے شخص کی آنکھوں میں جو نفرت تھی۔۔۔چہرے پر جو حقارت تھی وہ کسی کا بھی روح چھلنی کر سکتی تھی۔ پھر بھلا یہ خواب کیسے ہو سکتا تھا۔ یہ تو اس کی آج تک کی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت تھی۔۔۔اور بہت ہی بھیانک حقیقت تھی۔

کتنے پل۔۔۔کتنے ساعت بیت گئے۔۔۔وہ اندازہ نہ کر سکی اور پتھرائی ہوئی آنکھوں سے مسلسل اسے دیکھتی چلی گئی۔ وہ اب بھی اپنی تمام تر نفرتوں سمیت اس کی جانب متوجہ تھا۔

نہیں۔۔ایسا کیسے ہو سکتا تھا؟ وہ شخص بھلا آج کے دن کیسے وہاں ہو سکتا تھا۔ وہاں تو اس کے شوہر کو ہونا تھا۔۔۔اور پھر؟۔۔۔جو خیال اس کے ذہن میں آیا وہ بہت جان لیوا تھا۔۔۔نکاح کا جو منظر اس کی نگاہوں نے دہرایا۔۔۔سب ہی کچھ تو واضح تھا۔ وہ کیسے اسے پہچان نہ سکی تھی؟ اتنی بڑی بھول اس سے کیسے ہو گئی تھی؟ جس شخص سے وہ گھن کھاتی رہی۔۔۔نفرت کرتی رہی اسے اپنی زندگی کا مالک وہ کیونکر بنا بیٹھی تھی؟

"حیران ہو؟ کسی اور کو ایکسپیکٹ کر رہی تھی؟"۔ غراتے ہوئے اچانک اس نے اس کا چہرا دبوچ کر گرفت میں لے لیا۔

سرد لمس پر وہ تڑپ اٹھی تھی۔ زبان ساتھ نہ دے رہی تھی۔ اسے اب یقین آ گیا تھا کے یہ کوئی خواب نہیں ہے۔۔۔بلکہ وہ حقیقت میں اس کے سامنے موجود تھا۔

"کیا ہے یہ سب ہاں؟ تم کیوں ہو اس لباس میں اب تک؟ کھیل ختم ہو چکا ہے۔۔۔اتارو یہ سب۔۔۔تماشا ختم ہو چکا"۔ بلند آواز میں دہاڑتے ہوئے اس کے سر پر ٹکا سرخ دوپٹہ اس نے نوچ کر دور اچھال دیا تھا۔

تکلیف سے زیست کراہ اٹھی تھی۔ وہ دوپٹہ کئی پنوں کی مدد سے اس کے سر پر جمایا گیا تھا۔ اسے لگا جیسے کسی نے اس کے بال نوچ لیئے ہوں۔

سبز آنکھوں سے جھرنا بہہ نکلا تھا۔

مگر وہ ہوش میں تھا ہی کب جو اسے احساس ہوتا۔ 

اس کے نازک وجود کو بے دردی سے جھٹکا دے کر اس نے اپنے نزدیک کیا تھا اور اتنی ہی بے رحمی سے اس کے دونوں ہاتھ پشت پر باندھ دیئے تھے۔

درد سے وہ چلا اٹھی تھی۔

"دیکھو میری طرف۔۔۔میں ہوں قیصر خیام۔ بد قسمتی سے تمہارا شوہر اور تم میری بیوی"۔ زہرخند لہجے میں کہتے ہوئے اس نے اسے حقیقت کا آئینہ دکھایا۔

"نہیں۔۔۔یہ۔۔۔سچ نہیں ہو سکتا۔ میں نہیں مانتی اس بات کو"۔ بے یقینی سے اس کے لب پھڑپھڑائے تھے۔ آنسو اس کی آنکھوں میں ٹھٹھر کر رہ گئے تھے۔

اپنی گرفت سے آزاد کرتے ہوئے اس نے زور سے اسے پرے پھینکا۔

پیچھے کی جانب گرتے ہوئے سائیڈ میز پر زیست کا ہاتھ اتنی زور سے لگا تھا کے کانچ کی کئی چوڑیاں ٹوٹ کر سفید قالین پر بکھریں تھی۔۔۔اور کچھ اس کی کلائی میں چبھ گئیں تھی۔

درد سے بے پرواہ وہ تیزی سے بیڈ سے اٹھ کر دروازے کی جانب بھاگنے لگی۔

قیصر نے اتنی ہی تیزی سے اٹھ کر ایک ہاتھ بڑھایا اور اس کے وجود کو آہنی گرفت میں لے کر واپس بیڈ پر لا پٹخا۔

"اتنی آسانی سے تمہیں جانے دوں گا میں؟ میری زندگی کو ایک قید بنا کر تم رہائی کے خواب دیکھتی ہو؟ تمہاری آنکھوں سے ایسا ہر خواب نوچ ڈالوں گا میں۔۔۔ہر وہم توڑ ڈالوں گا"۔ وہ اس کی زخمی کلائی پر سختی سے گرفت کستے اس پر جھکا پوری قوت سے دھاڑ رہا تھا۔

"نہیں۔۔۔پلیز۔۔مجھے معاف کردو۔۔مجھ پر رحم کرو پلیز"۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے التجا کر رہی تھی۔

اس کے ہاتھ پر قیصر کی گرفت مزید سخت ہوئی۔ زیست کی زخمی کلائیوں سے نکلتا خون اس کے ہاتھوں کو رنگ رہا تھا۔ مگر اس کی روح تو خود ہی آبلہ پا تھی۔ پھر بھلا کیسے وہ اس کی تکلیف کو خاطر میں لاتا؟

"رحم وہ کرتے ہیں جن کے پاس دل ہو۔ میرے پاس بھی تھا۔ پر اب کوئی دل نہیں ہے اور نہ ہی رحم نامی جذبہ۔ میرے محبت بھرے دل کی قاتل ہو تم اور مجھ سے رحم کی بھیک مانگتی ہو؟ میرے وجود کو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے تم کہتی ہو میں تمہیں معاف کر دوں؟"۔ وہ قہرآلود نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے دانت پیس کر چیخا۔

زیست روتے ہوئے تسلسل سے نفی میں سر ہلانے لگی۔ اس کے لب کچھ کہنے کی چاہ میں پھڑپھڑا رہے تھے لیکن آواز ساتھ نہیں دے رہی تھی۔

"مجھے نفرت ہے ان مردوں سے جو کمزور عورت پر زور آزمائی کرتے ہیں۔ مگر تم کہاں کمزور ہو؟ تم تو زی عباسی ہو نا۔ ایک قاتل۔۔۔میری ہی طرح ایک قاتل۔۔۔اور قتل کرنے والا تھوڑی نا کمزور ہو سکتا ہے۔ ہم دونوں برابری کی سطح پر ہیں"۔ اس کے پھڑپھڑاتے وجود کو قابو میں کیئے وہ اس کی سماعتوں میں زہر گھول رہا تھا۔ 

سائیڈ لیمپ پر زور سے ہاتھ مار کر اس نے اجالوں کو مات دے دی۔ وہ خوبصورت چراغ زمین بوس ہو کر ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ جس کے ساتھ ہی ہر طرف گھور اندھیرا چھا گیا۔ ایسا اندھیرا جس نے زیست قیصر خیام کے وجود کو نگل لیا تھا۔

صبح کی سنہری دھوپ رات کے سیاہ اندھیروں کا پردہ چاک کرکے، ہر سو اپنی کرنیں بکھیر رہی تھی۔ مگر مقدر میں جو سیاہی لکھی جا چکی تھی اسے شکست فاش دینے کیلئے یہ اجالے ناکافی تھے۔

کھڑکی پر گرے دبیز گولڈن اور سفید رنگوں کے امتزاج والے پردوں نے روشنی کا راستہ روک رکھا تھا۔ اس کے باوجود بھی ہلکی ہلکی سفید روشنی ان پردوں سے چھن کر کمرے کے اندر دھڑلے سے داخل ہو رہی تھی۔

سیاہ بھاری پلکوں کی جھالر اٹھاتے ہوئے مندی مندی سی آنکھیں سفید چھت سے ٹکرائیں اور غائب دماغی سے چھت کو گھورتی چلی گئیں۔ وہ چت لیٹی بے حس و حرکت پڑی رہی۔ 

اس کے وجود کا روم روم درد بنا ہوا تھا، ان دیکھی آگ میں جل رہا تھا۔ آہستہ آہستہ اس کی بنجر ہوتی آنکھیں اس ماحول سے آشنا ہو رہیں تھیں۔ دماغ سوچنے کے قابل ہوا تو اسے اپنے سیاہ دن کا ایک ایک منظر یاد آتا چلا گیا۔ اتنی بے وقعتی؟ اتنی بے توقیری؟ نفرت کا ایسا اظہار اس کی روح تک کو گھائل کر گیا تھا۔ اس کا دل دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔ وہ مر کیوں نہ گئی تھی۔ 

اپنی ڈھیٹ ہڈی پر اسے شدید حیرت ہو رہی تھی۔ اسے تو مر جانا چاہیئے تھا۔ وہ درندہ۔۔۔وہ انسان نما حیوان اس کے نصیب کا لکھا کیسے ہو سکتا تھا؟ بھلا اس طرح بھی تقدیر کسی کا مذاق اڑاتی ہے؟۔۔۔جیسا مذاق اس کا اڑایا گیا تھا۔ 

اس کی سبز آنکھوں کے سرخ ڈورے جلنے لگے تھے۔ اتنا رو چکنے کے باوجود بھی اس کے پاس آنسوؤں کا ذخیرہ کم نہ ہوا تھا۔ وہ یک ٹک چھت کو گھورے جا رہی تھی۔ اسے احساس ہی نہ ہوا تھا کے آنسو اس کی آنکھوں سے لڑھک کر بالوں میں جذب ہونا شروع ہو گئے تھے۔ ہلکی ہلکی سسکاری اس کے لبوں سے آزاد ہوتی فضا کی خاموشی چاک کر رہی تھی۔ 

بیڈ کے بائیں جانب وہ اس کی جانب پشت کیئے کروٹ کے بل لیٹا بے خبر سو رہا تھا۔ سسکیاں اب دھیرے دھیرے بلند ہونے لگیں تھیں۔ اتنی کے وہ گہری نیند میں بھی کسمسانے لگا تھا۔ 

وہ اب دوسری جانب کروٹ لے کر آنسوؤں سے تکیہ بھگونے لگی۔

تنگ آ کر اس کی آنکھ کھل گئی تھی۔ اس کا سر حد درجہ  بھاری ہو رہا تھا۔ جسے تھامے وہ اٹھ بیٹھا۔

"کیا مصیبت ہے؟ بند کرو یہ رونا دھونا"۔ وہ ایسے کہہ رہا تھا جیسے کوئی میوزک اس کی کانوں کو ناگوار گزرا ہو۔

وہ ان سنی کیئے ویسے ہی بے حس بنی پڑی رہی۔ 

قیصر نے تنگ آکر اس کا بازو دبوچ کے ایک ہی جھٹکے میں اپنے مقابل کھینچ لیا۔ 

"کیا کہہ رہا ہوں میں؟"۔ وہ سخت لہجے میں اس کے بھیگے چہرے پر نگاہیں جمائے بولا۔

زیست کی آنسو بھری آنکھیں نفرت سے جل اٹھیں تھیں۔

"چھوڑو مجھے۔۔۔ذلیل گھٹیا شخص۔۔۔گھن آتی ہے مجھے تم سے۔ دور رہو مجھ سے"۔ زیست کو اپنے بازو پر اس کی گرفت کسی زہریلے ناگ کی طرح لگ رہی تھی۔

جواباً۔۔۔اس کا بھاری ہاتھ اٹھا تھا اور زیست کے کومل رخسار پر اپنی انگلیاں نقش کر گیا۔ اگر قیصر کے ہاتھ میں اس کا بازو نہ ہوتا تو یقیناً وہ اس بھرپور تھپڑ کے نتیجے میں اوندھے منہ زمین پر پڑی ہوتی۔

"آئندہ اگر مجھ سے اس لہجے میں بات کی تو حلق میں ہاتھ ڈال کر زبان کھینچ نکالوں گا۔ ویسے بھی تمہیں برداشت کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے میرے پاس"۔ اس کے دونوں بازو پر گرفت کرتے سخت لہجے میں کہہ کر اسے جھنجھوڑ ڈالا تھا۔

وہ ڈبڈبائی آنکھوں سے گال پہ ہاتھ رکھے اسے دیکھنے لگی۔

"کیا دیکھ رہی ہو ہاں؟ آنکھیں نیچی رکھو"۔ اس کا چہرا دبوچتے ہوئے وہ دہشت ناک انداز میں دہاڑا۔

زیست نے سہم کر نگاہیں جھکا لیں۔

"اگر میرے عتاب سے بچنا چاہتی ہو تو اپنی نظروں اور آواز کا استعمال ترک کر دو سمجھی تم!"۔ سخت لہجے میں تنبیہ کرتے ہوئے اسے حقارت آمیز انداز میں پرے پھینک دیا۔

زیست اوندھے منہ بیڈ پہ گر گئی۔ شہد آگیں بال ارد گرد بکھر بکھر گئے تھے۔

قیصر نے ایک نگاہ غلط اس پر ڈالی۔۔۔اور بے اختیار اس کے بکھرے بے ترتیب بالوں کو دیکھتا چلا گیا۔ چہرے کے تاثرات ناقابل بیان ہو گئے۔ اس کا دل چاہا وہ ان ریشم سی زلفوں کو اپنے ہاتھوں میں لے۔۔۔انہیں چھو کر خوشبو اپنے اندر اتار لے۔

غیر ارادی طور پر اس کا ہاتھ بڑھنے لگا تھا۔ جب اچانک اس نے چہرا اٹھایا اور نیم رخ ہوئی۔ نہیں۔۔۔وہ الوینا نہیں تھی۔۔۔۔اگلے ہی پل وہ نفرت انگیز تاثرات چہرے پر سجائے بدک کر فاصلے پر ہو گیا۔

"آؤٹ۔۔۔نکلو یہاں سے۔۔۔دفع ہو جاؤ میری نظروں کے سامنے سے"۔ اچانک وہ بلند آواز سے چیخا تھا۔ 

زیست گھبرا کر بستر سے اتر کر کھڑی ہو گئی۔

"میں نے کہا دفع ہو جاؤ میری نظروں کے سامنے سے ورنہ ضائع ہو جاؤ گی میرے ہاتھوں"۔ اس مرتبہ ناصرف اس کی دہاڑ پہلے سے زیادہ بلند تھی۔ بلکہ اس نے سائیڈ میز پر دھرا کانچ کا گلدان اٹھا کر پوری قوت سے اس کی جانب پھینکا تھا۔

زیست نے منہ پر ہاتھ رکھ کے اپنی چیخ دبائی اور بروقت اچھل کر پیچھے ہوئی تھی۔ گلدان اس کے پیروں کے پاس آ کر ٹوٹا تھا۔ جس کا ایک ٹکڑا اس کے پاؤں کی دو انگلیاں زخمی کر گیا تھا۔ ایک لمحہ بھی ضائع کیئے بغیر اس نے قالین پر پڑا اپنا سرخ دوپٹہ اٹھایا تھا اور اپنے وجود کے گرد اسے لپیٹ کر وہ فوراً کمرے سے بھاگ نکلی تھی۔

اس کے جاتے ہی وہ بیڈ پر گرا گہری گہری سانسیں لیتے خود کو نارمل کرنے کی کوشش کرنے لگا۔

_______________________________

اس کے پاؤں کی زخمی انگلیوں سے تیزی سے خون بہہ رہا تھا مگر اس کا دھیان اس طرف تھا ہی کب؟ وہ تو بھاری لہنگے سے بھی بے پرواہ بس بنا رکے راہداری میں بھاگ رہی تھی۔ سفید ماربل پر وہ جہاں جہاں قدم دھرتی، وہاں وہاں زخمی انگلیاں اپنے نشان چھوڑ جاتیں۔

بھاگتے بھاگتے اس کے سامنے جس کمرے کا دروازہ پہلے آیا اس میں مقید ہو کر دروازہ لاک کرنے کے بعد ہی اس نے دم لیا تھا۔ یہ وہی کمرا تھا جہاں رات وہ بیٹھا اپنے دل و دماغ پر نشے کو سوار کرتا رہا تھا۔ دن ہوتے ہی دونوں کمرے اور اس میں موجود شخصیات بدل گئیں تھیں مگر حالات وہی تھے۔ جذبات بھی ویسے ہی رہے تھے بلکہ کچھ اور شدید ہو گئے تھے۔ قیصر کی نفرت نے عملی روپ اختیار کیا تھا تو زیست کی نفرت میں خوف و ڈر کا عنصر بھی شامل ہو گیا تھا۔ 

بھورے رنگ کے دروازے سے ٹیک لگائے، وہ آنکھیں بند کیئے ہوئے لمبے لمبے سانس لے رہی تھی۔ خوف سے اس کا چہرا زرد پڑ گیا تھا۔ چند لمحوں بعد جب سانسیں اعتدال پر آ گئیں تو وہ آہستگی سے چلتی ہوئی بیڈ پر آ بیٹھی۔ جوں ہی نگاہ اٹھائی سامنے سنگار میز کے آئینے میں اسے اپنا عکس جھلملاتا نظر آیا۔ بے اختیار اس کی مخروطی انگلیاں حرکت کرتی ہوئی چہرے پر آ ٹھہریں۔ سرسوں کے پھول سی رنگت پر سوجی ہوئی، بھاری پپوٹوں والی سبز آنکھیں۔۔۔جن میں شدت گریہ کے باعث سرخ ڈورے پڑ رہے تھے۔ سرخ پڑتی ناک۔۔۔خشک صحرا جیسے لب اور بکھرے شہد رنگ بال۔ زخمی کلائی پر نگاہ پڑی جہاں خشک خون موجود تھا۔ وہ کیا تھی ایک دن قبل اور اب کیا ہو گئی تھی۔ 

ضبط کھو کر وہ دونوں ہاتھوں میں چہرا چھپائے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

"کیا قصور تھا میرا؟۔۔۔کیوں ہوا میرے ساتھ یہ سب؟ میری زندگی کا سب سے زیادہ قابلِ نفرت شخص کیوں لکھ دیا گیا میرے نصیب میں؟۔۔۔کیوں؟"۔ وہ آہوں اور سسکیوں کے درمیان کہتی اپنے نصیبوں کو رو رہی تھی۔

"یا اللہ! اس ذلت بھری زندگی سے اچھا تو مجھے موت دے دے۔۔۔میرے مولا۔۔۔مجھے نہیں جینی ایسی زندگی۔۔۔مجھے اس قاتل کے ساتھ نہیں جینا"۔ تکیے میں منہ چھپائے وہ شدتوں سے روتی اپنے رب کو پکار رہی تھی۔ 

روتے روتے۔۔۔اپنے نصیب کو کوستے۔۔۔اپنے رب سے شکوہ کرتے ہوئے وہ کب نیند کی وادیوں میں گم ہوئی اسے خبر ہی نہ ہو سکی۔

_______________________________

ایک گھنٹہ ٹھنڈے پانی سے شاور لینے کے بعد بہرحال اب جا کر اس کا دماغ کچھ ٹھنڈا ہوا تھا۔ اگر وہ ایک لمحہ مزید بھی وہاں ٹھہر جاتی تو کچھ بعید نہ تھا کے وہ واقعی اس کی جان لے لیتا۔

وہ جس کی سطح اچانک پرسکون ہو گئی تھی۔۔۔اس کے وجود کی تہوں میں اٹھتے ان طوفانوں کا اندازہ کوئی بھی نہ لگا سکا تھا۔ مگر آج کئی عرصے بعد اس نے اپنے اندر اٹھتے ابال اور غصے کی آندھی کو باہر کا راستہ دیا تھا۔۔۔اور اب ایک دم ہی اس کی سطح پھر سے برف کی سل جیسی ٹھنڈی اور ٹھوس ہوگئی تھی۔ اب یہ کیفیت اس کی کتنے وقت یا کتنے دن کیلئے تھی یہ اندازہ اس کے سپاٹ چہرے سے نہیں لگایا جا سکتا تھا۔

گہرے نیلے رنگ کے سوٹ میں ملبوس بھورے بالوں کو ترتیب دینے کے بعد وہ اب خود پر پرفیوم اسپرے کر رہا تھا۔ پھر اپنی گھڑی باندھنے کے بعد اس نے آئینے میں اپنا تنقیدی جائزہ لیا اور مطمئن انداز میں بھورے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے مڑا۔

کمرے سے باہر نکل کر راہداری میں قدم رکھتے ہی اس کی نگاہ سفید ماربل پر موجود خون کے سرخ دھبوں پر پڑی جس سے اس کی کشادہ پیشانی پر سلوٹیں ابھر آئیں۔

"نوشین"۔ اگلے ہی پل اس نے ملازمہ کو آواز دی۔ 

"جی چھوٹے صاحب"۔ ملازمہ نے نیچے ہال میں کھڑے کھڑے ہی پوچھا۔

"یہ کیا ہے؟ گھر اتنا گندا کیوں ہے؟ جلدی آؤ اور صاف کرو یہ سب"۔ ناگواری سے بھنویں اکھٹی کیئے اس نے ملازمہ سے کہا۔ 

"جی ابھی آتی ہوں"۔ اس نے جلدی سے جواب دیا۔

جبکہ وہ سر جھٹک کر اب راہداری سے ہوتا ہوا اس کمرے کے بند دروازے تک آیا جہاں خون کے نشان ختم ہوتے تھے۔ ناب گھمایا تو دروازہ لاکڈ ملا۔ وہ کوفت زدہ ہوا۔

"دروازہ کھولو زیست"۔ برہمی سے کہتے ہوئے اس نے دستک دی۔ دوسری طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔

اس نے ایک بار پھر دستک دی اور مسلسل دیتا چلا گیا۔

"میں نے کہا دروازہ کھولو۔۔۔دو منٹ میں اگر یہ دروازہ نہیں کھلا نا تو یاد رکھنا بہت برا ہوگا"۔ ملازموں کی موجودگی کا خیال کرتے ہوئے اس نے دروازے کے قریب ہو کر زرا آہستہ آواز میں دھمکی دی۔

دوسری جانب اس آواز پر وہ نیند سے جاگ گئی تھی۔آنکھیں مسلتی ہوئی وہ بیڈ پر اٹھ بیٹھی۔ 

دروازہ مسلسل بج رہا تھا۔ اسے شدید گھبراہٹ نے آن گھیرا۔ آخرکار، مرتی کیا نہ کرتی کے مصداق وہ آگے بڑھی اور دروازہ انلاک کرکے جلدی سے پیچھے ہٹ گئی۔

ایک لمحہ بھی ضائع کیئے بغیر وہ اندر داخل ہو گیا تھا۔

"اتنی دیر سے آوازیں دے رہا ہوں۔۔۔سماعتیں کہاں چھوڑ آئی تھی؟ اور کیا آخر کر کیا رہی تھی تم؟"۔ وہ جارحانہ تیور لیئے اس کے سر پر آن پہنچا۔

"وہ۔۔۔میری۔۔۔آنکھ لگ گئی تھی"۔ سر جھکائے آہستہ آواز میں ایسے اطلاع دی جیسے کوئی جرم سرزد ہوگیا ہو۔

پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ اثبات پہ تلخی سے مسکرا دیا۔ پھر ایک قدم آگے بڑھا کر اس کے نزدیک ہوا۔

زیست بدک کر دو قدم پیچھے ہو گئی۔ وہ اس کے دو قدم کے جواب میں مزید چند قدم اٹھا کر اس کے قریب ہوا۔ زیست نے خوف سے ایک قدم پیچھے لیا مگر یک دم اس کا پاؤں زور سے بیڈ کی سائیڈ میز سے ٹکرایا تھا۔ بے اختیار اس کے لبوں سے سسکاری نکلی۔

پاؤں کے ٹخنے پر اسے زبردست انداز میں لگا تھا۔ 

جبکہ وہ اس سے چند انچ کے فاصلے پر رک گیا۔

"چچ چچ چچ۔۔۔کیا کرتی ہو بیوی؟ شوہر ہوں تمہارا اب اتنا بھی کیا ڈرنا؟ چوٹ لگوا لی نا"۔ وہ مصنوعی فکرمند سے کہتا ہوا مضبوط انگلیوں کی پشت سے اس کا وہ رخسار سہلا رہا تھا جہاں کچھ دیر قبل مارے گئے تھپڑ کے سرخ نشان اب بھی موجود تھے۔

زیست نے زخمی نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا۔۔۔پھر ہمت کرکے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔ 

خلاف توقع مقابل کے چہرے پر موجود تاثرات اب بھی نہ بدلے۔

"کیوں میرے مخلاف سمت میں چل کر اپنے لیئے مصیبتوں کو دعوت دیتی ہو؟ یقین جانو ایسا کرنے سے خسارہ صرف تمہارے ہی حصے آئے گا"۔ سرد لہجہ میں کہتے ہوئے وہ اسے بہت کچھ جتا رہا تھا۔

زیست استہزاء مسکرائی۔

"اس سے زیادہ اور کیا برا ہو سکتا ہے کے میرے جان سے پیارے بھائی کا قاتل دھوکے سے میرا شوہر بن بیٹھا"۔ اس نے پہلی بار لب کشائی کی۔

اثبات پر قیصر کا جاندار قہقہہ پڑا تھا۔ جو اس کے اندر باہر آگ لگا گیا۔

"دھوکا؟ سیرئسلی؟ تم ایسا سوچتی ہو بیوی؟"۔ اس کی صراحی دار گردن پر ہلکی سی گرفت کرکے انگوٹھے کی مدد سے اس کی شہ رگ سہلاتے ہوئے وہ دلچسپی سے پوچھنے لگا۔

"ہاں۔۔۔ایسا ہی ہے۔ اور بند کرو اپنا یہ بیوی بیوی کا راگ الاپنا"۔ وہ طیش کے عالم میں چیخ پڑی تھی۔

"نکاح ہوا ہے ہمارا۔۔۔بیوی"۔ وہ سرخ ہوتی آنکھوں سمیت سنجیدگی سے بولا۔ انگوٹھا اب بھی اس کی شہ رگ پر موجود تھا۔ 

قیصر کا لہجہ جتنا دھیما ہو رہا تھا۔ وہ اتنی ہی شیر ہوتی چلا رہی تھی۔

"کون سا نکاح؟ وہ تمہاری سوچی سمجھی سازش تھی۔۔۔میں اس رشتے کو نہیں مانتی اور نہ ہی تمہیں اپنا شوہر تسلیم کرتی ہوں"۔ غصے سے کہتے ہوئے اس نے اچانک سائیڈ میز پر دھری کانچ کی بوتل پھوڑ کر اس کا ایک ٹکڑا ہاتھ میں لیا اور اس پر حملہ آور ہو گئی۔

اگر قیصر بروقت اس کا ہاتھ نہ تھام لیتا تو وہ یقینا اب تک اس کانچ کے ٹکڑے سے اس پر کئی وار کر چکی ہوتی۔

زیست کا ہاتھ اس کانچ کے ٹکرے سمیت اس نے گھمایا جس سے وہ مکمل طور پر گھوم گئی اور وہ کانچ کا ٹکڑا اس کی اپنی ہی گردن کے سامنے آ گیا۔

اس کی اتنی پھرتی پر وہ دم بخود رہ گئی تھی۔ اور اپنی ہمت پر اس سے بھی زیادہ حیران۔ 

اب صورتحال یہ تھی کے وہ اس کی پشت پر موجود تھا اور اس کا ایک ہاتھ قابو میں کیئے دوسرے ہاتھ کو کانچ سمیت اس کی گردن پر رکھے ہوئے تھا۔

"ٹھیک کہا تم نے۔۔۔کی میں نے سازش۔ جال بنا میں نے تمہیں پھانسنے کیلئے پتہ ہے کیوں؟"۔ وہ سرد برفیلے لہجے میں اس کے کان کے قریب گویا تھا۔ اور زیست ایک انچ بھی ہل کر مزاحمت نہ کر سکتی تھی کے وہ کانچ اس کے گلے کے آر پار ہو جاتا۔ 

"وہ اس لیئے کیونکہ میں تم سے بے انتہا نفرت کرتا ہوں۔ اتنی نفرت کے تمہیں آزاد دیکھنا۔۔۔خوش دیکھنا میرے لیئے کتنا اذیت ناک تھا تم سوچ بھی نہیں سکتی۔ اس لیئے میں نے کی سازش"۔ لمحہ بھر کو وہ رکا۔

زیست کی گردن اس کی گرم سانسوں سے جلنے لگی تھی۔ کتنا اجیب تھا وہ شخص۔۔۔لہجہ برف جیسا تھا تو انداز آتش جیسا۔

"تم سے نکاح اس لیئے کیا تاکہ تمہاری زندگی ایک سزا بنا دوں۔۔۔تمہیں موت نہ دوں پر سکون سے جینے بھی نہ دوں۔ جیسے موت مجھ پر حرام ہے ویسے ہی زندگی تم پر حرام کر دوں"۔ وہ ایک پل کو ٹھہرا۔

زیست کا چہرا خوف کی تصویر بنا ہوا تھا۔ اس کا وجود لمحوں کے اندر پسینے میں نہا گیا تھا۔ 

"میرے روح پر لگے زخموں کی مسیحائی صرف تمہاری تکلیف ہی کر سکتی ہے۔ لوگ اپنی محبتوں میں اتنے دلیر نہیں ہوتے جتنا کے میں اپنی نفرت میں تمہیں پانے کیلئے ہر حد پار کر گیا۔ تمہیں تو شکر گزار ہونا چاہیئے بیوی کے میری تمام تر نفرتوں کی تم بِلا شراکت غیر۔۔۔اکیلی اور اکلوتی وارث ہو تم۔کیونکہ تمہارا شوہر اپنے جذبوں میں بےحد کھرا اور اپنی شدتوں میں بے انتہا جنونی ہے"۔ اپنی بات مکمل کرتے ہی اس نے وہ شیشے کا ٹکڑا اس سے چھین کر دور اچھال دیا اور اسے اپنی گرفت سے آزاد کر دیا۔

زیست کے چہرے پر ایک رنگ آ رہا تھا اور دوسرا جا رہا تھا۔ اس کا دل خوف سے دبک کر پہلو میں بیٹھ گیا تھا۔

"تیار ہو جاؤ ہمیں کہیں پہنچنا ہے۔ یاد رکھنا ہماری محبت کی شادی ہوئی ہے اور ہم بہت خوش ہیں۔ یہی تاثر دینا وہاں موجود ہر ایک شخص کو۔ ورنہ تمہاری امی کو میں بتا دوں گا کے ان کی بیٹی کا شوہر ہی اصل میں ان کے بیٹے کا قاتل ہے۔ پھر پتہ نہیں وہ یہ صدمہ برداشت کر پائیں یا۔۔۔"۔ اپنا کوٹ درست کرتے، سنجیدگی سے کہتے ہوئے اس نے دانستہ جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔

زیست کو لگا جیسے کسی نے اس کے جسم سے روح کھینچ لی ہو۔ وہ اتنی تیزی سے مڑی کے گردن سے ہڈی چٹخنے کی آواز آئی۔

"ایسا کچھ مت کرنا پلیز"۔ وہ آنسو بھری آنکھوں سے التجا کرنے لگی۔

"گڈ۔ تم اگر چپ چاپ میری باتیں مان لیا کرو تو مجھے یہ سب کرنے کی کوئی ضرورت ہے بھی نہیں یار"۔ وہ شانے اچکاتے ہوئے عام سے لہجے میں بولا۔

زیست کا دل کیا اس کا منہ نوچ لے۔ مٹھیاں بھینچتی وہ بمشکل دل میں اٹھتی اپنی خواہش دبا گئی۔

"تمہارا سامان میں نے اس کمرے میں رکھوا دیا ہے۔ پندرہ منٹ کے اندر اندر مجھے تم تیار چاہیے ہو"۔ وہ انگلی اٹھا کر کہتا ہوا دروازے کی جانب بڑھا۔

"اور ہاں، اس حرکت کی سزا تو تمہیں ضرور ملے گی"۔ نکلنے سے قبل وہ زمین پر پڑے کانچ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے دھمکی دینا نہیں بھولا تھا۔ 

اس کے جاتے ہی زیست نڈھال ہو کر بستر پر ڈھے سی گئی۔

وہ لاؤنج میں موجود کسی سے فون پہ بات کر رہا تھا جب اسے اپنے پیچھے ہیلز کی آواز سنائی دی۔

"میں بس نکل رہا ہوں پانچ منٹ میں"۔ اس نے الوداعی کلمات کہنے کے بعد رابطہ منقطع کر دیا۔

پھر رخ اس کی جانب موڑ دیا۔

سیاہ ٹراؤزر شرٹ میں ملبوس ہم رنگ دوپٹہ شانے پہ ڈالے اور کھلے شہد رنگ بالوں کے ساتھ وہ کانوں میں خوبصورت سیاہ و سلور رنگ کے آویزے پہنتی ہوئی زینے اتر کر اس کے سامنے آ رکی۔ مگر وہ اس کی جانب متوجہ نہ تھی۔ جبکہ وہ تنقیدی نگاہوں سے اسی کا جائزہ لے رہا تھا۔

چہرے پر موجود نشانات چھپانے کیلئے اس نے میک اپ کا سہارا لیا تھا۔ جو خلاف توقع اس کے حسن و دلکشی میں اضافے کا باعث بن گئی تھی۔ سیاہ رنگ اس کی کندنی رنگت کو مزید نمایاں بنا رہا تھا۔ وہ چلتا ہوا اس کے مقابل آ ٹھہرا۔

اس کی پیش قدمی دیکھ کر گھبراہٹ میں زیست کے ہاتھ سے وہ خوبصورت آویزہ پھسل کر قیصر کے جوتے کے پاس گرا تھا۔ وہ بےبسی سے لب بھینچ گئی۔ 

"جلدی کرو ٹائم نہیں ہے ہمارے پاس"۔ وہ سخت لہجے میں گویا ہوا۔

زیست نے ایک کٹیلی نگاہ اس پر ڈالی اور کچھ جھجھکتے ہوئے وہ ائیررنگ اٹھانے کو جھکی۔ ہاتھ بڑھایا ہی تھا کے وہ سرک کر زرا آگے کو ہوا۔۔۔جس سے وہ بالی اس کے دونوں پیروں کے درمیان آ گئی۔ زیست کا ہاتھ ہوا میں ہی رک گیا۔ جبکہ وہ ہنوز اس کے سامنے جھکی ہوئی تھی۔

"اٹھاؤ اسے اور پہنو"۔ وہ تحکم سے بولا۔

توہین کے احساس سے اس کی سبز آنکھیں جل اٹھی تھیں۔ اس نے ائیررنگ اٹھائے بغیر ہاتھ واپس کھینچ لیا اور خالی کان کو بالوں کی چند لٹوں سے چھپا دیا۔

"چلیئے۔۔۔میں تیار ہوں"۔ اس کی جانب دیکھے بغیر زیست نے اطلاع دی۔ 

قیصر نے ایک گہرا سانس بھرا پھر جھک کر خود ہی وہ آویزہ اٹھا لیا۔

"ابھی نہیں۔۔۔تمہاری تیاری ادھوری ہے"۔ کہتے ساتھ ہی وہ اس کے قریب جھکا اور بالوں کی لٹ ہٹائی۔

وہ بدک کے پیچھے ہٹنے لگی تھی مگر کمر کے گرد بندھ جانے والی مضبوط حصار نے اس کی پیش قدمی روک لی۔ اس وجود سے اٹھتی مردانہ پرفیوم کی مہک سے بھی اس کا دم گھٹنے لگا تھا۔ اس کی زرا سی قربت بھی زیست کیلئے کسی عذاب سے کم نہ تھی۔ خود پر ضبط کرتے ہوئے وہ اپنی آنکھیں میچ گئی۔

اس کی کیفیت سے بے نیاز وہ اب دوسرے ہاتھ میں موجود ائیررنگ اسے پہنا رہا تھا۔۔۔پہنا کیا رہا تھا تکلیف سے زیست کی جان نکال رہا تھا۔ نچلا لب دانتوں تلے دبا کر وہ ضبط کر گئی۔ اس قدر جارحانہ انداز پہ اس کے کان کی لوئیں تک سرخ پڑ گئیں تھی اور آنکھوں میں پانی بھر آیا تھا۔ 

"میں نے تم سے کہا تھا نا کے اپنی زبان کا استعمال ترک کردو؟ مانتی نہیں ہو میری بات تم"۔ انگشت شہادت سے اس ائیررنگ کو چھوتے ہوئے وہ شکوہ کرنے لگا۔ انداز ایسا تھا جیسے کسی بچے کو شرارت کرنے پر سمجھایا جا رہا ہو۔

زیست کے حلق میں کانٹا سا چبھنے لگا۔

"آخر تم کب سمجھو گی کے تمہاری زندگی اب تمہاری نہیں رہی ہے۔ بلکہ تمہاری ڈور اب میرے ہاتھوں میں آ چکی ہے۔ بس ہو گیا نا یار، اب قبول کرلو کے تم قیصر خیام کی قیدی بن گئی ہو۔ یقین کرو زندگی آسان ہرگز بھی نہیں ہوگی پر مشکلیں کچھ تو کم ہو ہی جائیں گی۔۔۔ہے نا؟"۔ اپنے مخصوص لب و لہجے میں کہتے ہوئے وہ اس سے تائید چاہنے لگا۔

سرمئی آنکھیں اس کی جھکی سیاہ پلکوں پر جمی تھیں۔ 

"مجھے تو قید کر لیا تم نے۔ میرے گناہ سے کئی بڑھ کر سزا بھی مختص کر دی میرے لیئے مگر خود اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟"۔ وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتی طنزیہ لہجے میں بولی۔

"مجھے تمہاری صورت ایک سزا تو ویسے ہی میسر آ چکی ہے"۔ اس کا لہجہ تلخ ہو گیا۔

"تو مار دو مجھے"۔ وہ دبے دبے انداز میں چیخ پڑی تھی۔

"بس؟ اتنی جلدی تھک گئی؟"۔ وہ تمسخر اڑانے لگا۔

"آہمم آہمم۔۔۔کیا ہم اندر آ سکتے ہیں"۔ عین اسی وقت ان کی  پشت پر شوخ کھنکتی ہوئی آواز گونجی تھی۔

بلا تاخیر۔۔۔اگلے ہی پل وہ اس سے فاصلے پر ہو گیا تھا۔ اور اپنے پیچھے مڑ کر دیکھا۔

"آپ لوگ یہاں؟"۔ وہ حیرانگی سے انہیں دیکھنے لگا۔ سامنے ہی نرمین سنجیدہ چہرا لیئے کھڑی تھیں۔ جبکہ ماہا اب چلتی ہوئی ان دونوں کی طرف آ گئی۔

"آپ تو کچھ بولیں ہی مت۔ مام اور میں بہت ناراض ہیں آپ سے"۔ وہ خفا انداز میں کہتی ہوئی زیست کی جانب آ گئی۔

اسی دوران فیض بخاری بھی ان کے درمیان آ پہنچے تھے۔

"بالکل۔۔۔ہم تم سے نہیں تمہاری بیگم سے ملنے آئے ہیں"۔ نرمین بھی بھرپور ناراضگی سے کہتی ہوئی ان دونوں لڑکیوں کی جانب آ گئی۔ 

اس نے ایک نظر فیض صاحب کو دیکھا جو اب چلتے ہوئے ان کے بیچ آ گئے۔

"انہیں مت دیکھو وہ بھی ناراض ہیں تم سے۔۔۔ہے نا فیض؟"۔ نرمین نے سنجیدگی سے کہتے ہوئے ان سے تائید چاہی۔ وہ اس اچانک افتاد پر زرا گڑبڑا سے گئے۔

"اب۔۔۔ہاں بالکل۔۔۔میں تو آپ لوگوں کے ہی ساتھ ہوں۔ بھئی آپ خواتین کے خلاف کون جا سکتا ہے"۔ وہ بلاتامل کہتے ہوئے ان کی جانب آ گئے۔ اب وہ بے بس سا اکیلا رہ گیا۔

"آپ سے یہ امید نہیں تھی"۔ اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں فیض صاحب سے شکوہ کیا۔

"مجبوری ہے یار۔۔۔کیا کہہ ہیں سکتے اب"۔ انہوں نے نرمین اور ماہا کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اسی کی طرح جواب دیا۔

جبکہ زیست کو اپنا آپ ان میں بےحد اجنبی لگنے لگا تھا۔

"اس سے پوچھیے فیض کے اپنی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ لینے سے پہلے کم از کم ہمیں بتا ہی دیا ہوتا۔ یا پھر اپنی خوشیوں میں ہمیں شامل کرنا ضروری ہی نہیں سمجھا اس نے؟"۔ وہ دیکھ فیض کو رہیں تھیں اور مخاطب اس سے تھیں۔

وہ لب بھینچے سر جھکا گیا۔

"تم لوگ پہلے چل کر آرام سے بیٹھ تو جاؤ۔ پھر بات کرتے ہیں"۔ فیض صاحب نے ٹوکا۔

جس پر وہ سب ہی لاؤنج میں صوفے پر آ بیٹھے۔

"تم یہاں آؤ بیٹا میرے پاس"۔ نرمین نے فاصلے پر کھڑی زیست کو آواز دی اور اپنے برابر جگہ بنائی۔

وہ جھجھکتی ہوئی ان کے ساتھ آ بیٹھی۔ جبکہ اس کے دائیں ہاتھ کی جانب وہ سنگل صوفے پر براجمان تھا۔

"ہم سب وہیں آ رہے تھے آپ سے ملنے۔ پھر آپ لوگ ایسے اچانک؟"۔ وہ باری باری ان کے چہرے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا۔

"بس جیسے ہی صبح تم نے کال کرکے اطلاع دی اپنی ہنگامی شادی کی تو ان خواتین کی ضد تھی کے وہ یہیں آ کر تمہاری کلاس لیں گی"۔ جواب فیض بخاری کی جانب سے آیا تھا۔ 

"اب تم بتاؤ گے کے ہم سے کیوں چھپائی اتنی بڑی بات؟"۔ نرمین نے پھر سے سوال دہرایا۔

اس نے ایک طویل سانس لیا پھر کچھ توقف کے بعد بولا۔

"دراصل یہ سب کچھ اس طرح سے ہوا کے مجھے کسی کو کچھ بتانے کا وقت ہی نہیں مل سکا۔ زیست کی امی کی طبیعت اچانک بہت خراب ہو گئی تھی اور اپنی حالت کے پیش نظر وہ اسے کسی محفوظ ہاتھوں میں سونپنا چاہتی تھیں"۔ وہ لمحہ بھر کو رکا۔ نگاہیں اپنے برابر بیٹھی زیست پر جمائیں۔ وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ ملامتی نگاہوں سے۔ سرمئی آنکھیں متبسم ہوئیں اور اس نے صوفے کے ہینڈل پر دھرے اس کے نازک ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔

وہ زہر کے گھونٹ بھر کے رہ گئی۔

جبکہ باقی سب بغور اسے سن رہے تھے۔ مگر فیض بخاری کی زیرک نگاہیں زیست کا چہرا کھوج رہیں تھی۔

"چونکہ ہم دونوں میں پسندیدگی تھی۔ اس لیئے زیست کی امی نے اپنی بیٹی کی خوشی جان کر اس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دیا اس شرط پر کے زیست اور میرا نکاح ان کی نگاہوں کے سامنے ہو جائے۔ بس یہی مختصر سا قصہ ہے"۔  اس کے چہرے کو والہانہ چاہت سے تکتے ہوئے وہ کہانی گھڑ گیا تھا اور وہ من ہی من اسے داد دیئے بنا نہ رہ سکی تھی۔ 

"بہت اچھے اداکار ہو تم"۔ اس کی آنکھوں میں دیکھتی وہ دل میں بولی تھی۔ وہ اب بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ مخروطی انگلیاں اس کی مضبوط انگلیوں کے درمیان جھٹ پٹا رہیں تھی۔ 

ماہا کو وہ منظر اتنا خاص لگا تھا کے اس نے بلا تامل اپنا موبائل کیمرہ آن کیا اور اس منظر کو ہمیشہ کیلئے قید کر لیا۔

دوسری طرف فیض صاحب کو اس کی یہ کہانی ہضم نہ ہوئی تھی۔ خاص طور پر اس کی "پسندیدگی" والی بات۔ بے اختیار ان کی نگاہ زیست کے پیروں سے ٹکرائی۔ جس کی دو انگلیوں پر تازہ سفید پٹی بندھی تھی۔ انہیں بہت کچھ گڑبڑ کا اندیشہ ہو رہا تھا۔

البتہ نرمین کو اس لڑکی کیلئے دکھ ہوا تھا۔

"بہت افسوس ہوا بیٹا تمہاری امی کا سن کر۔ اب کیسی طبیعت ہے ان کی؟"۔ زیست کو اپنے ساتھ لگائے وہ شفقت سے پوچھنے لگیں۔ وہ سٹپٹا کر ان کی جانب متوجہ ہوئی۔

"جی بہتر ہیں"۔ نگاہیں جھکائے اس نے جانے کس دل سے جواب دیا تھا۔ ورنہ من تو کر رہا تھا کے اس شخص کا حشر نشر کردے۔ جو اسی کے سامنے اس کی چنگی بھلی ماں کو بیمار بتا رہا تھا۔ 

"تابین کو تو پہلے ہی بتا دیا تھا آپ نے۔ پھر ہمیں کیوں نہیں؟" اس بار سوال ماہا نے کیا تھا۔

جو اس کیلئے کافی غیر متوقع ثابت ہوا۔

نرمین الجھن بھری نگاہوں سے اسے دیکھنے لگیں۔ وہ کچھ کہنے ہی لگا تھا جب فیض بخاری نے مداخلت کی۔

"میں نے ہی دراصل اسے یہ مشورہ دیا تھا کے اس لڑکی سے کہو تم شادی کر رہے ہو۔ اس طرح وہ خود ہی تمہارے راستے میں نہیں آئے گی۔ نرمین بیگم آپ تو جانتی ہی ہیں اس لڑکی کو"۔ فیض صاحب نے اب بیگم کو اپنی طرف کرنا چاہا۔

"جی بالکل"۔ انہوں نے شوہر کی تائید کی۔

جبکہ زیست اس سارے عرصے میں ہونق بنی بیٹھی رہی۔ اس کے تو سر کے اوپر سے گزر رہیں تھی ان کی باتیں۔

"برخوردار، ان خواتین کو اپنی باتیں کرنے دو۔ تم میرے ساتھ آؤ"۔ فیض صاحب نے اسے مخاطب کیا۔ اور اس تفتیشی نرغے سے نکلنے پر وہ شکر کا کلمہ پڑھتے ہوئے اٹھا تھا۔

"بیگم تم زرا ملازموں سے چائے کا کہہ دو"۔ لاؤنج سے نکلتے ہوئے انہوں نے نرمین سے کہا۔

"جی میں کہتی ہوں ابھی"۔ وہ جواب دیتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ 

جس پر فیض نے سر ہلا دیا۔ اور قیصر سمیت اوپری منزل کی سیڑھیاں چڑھ گئے۔

"آنٹی۔۔۔میں بھی آتی ہوں آپ کے ساتھ"۔ زیست ان کے ساتھ ہی اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

"نہیں بیٹا، تم بیٹھو آرام سے۔۔۔نئی دلہن بھلا اچھی لگے گی کچن جاتی ہوئی"۔ انہوں نے نرمی سے ٹوک دیا۔

ناچار وہ واپس اپنی جگہ پر ٹک گئی۔

"بھابھی۔۔۔آپ بہت پیاری ہیں ماشاءاللہ سے۔ جبھی تو میں سوچوں کے بھائی جیسے سخت مزاج انسان بھلا کسی کو پسند بھی کر سکتے؟ اور تو اور اس سے شادی بھی کر لی"۔ ماہا نے اظہار خیال کیا۔

اس کی بات پر زیست جبراً مسکرا دی۔ اب وہ اسے کیا بتاتی کے ان کی شادی پسند کی نہیں بلکہ نفرت کی ہوئی تھی۔

_______________________________

وہ دونوں مرد حضرات راہداری میں ٹہل رہے تھے۔ فیض بخاری کی نگاہ نامحسوس انداز میں ارد گرد دیکھتیں جانے کیا تلاش رہیں تھیں۔

قیصر کنکھیوں سے ان کا جائزہ لے رہا تھا۔ 

"آپ سے کچھ دیر قبل میری بات ہو رہی تھی فون پر۔ تب تو ایسا کوئی ذکر نہیں کیا تھا کے آپ لوگ یہاں آنے والے ہیں"۔ وہ وہی سوال اب پھر دہرا رہا تھا۔

"نرمین اور ماہا کو جب پتہ چلا تو انہیں انتظار مشکل لگ رہا تھا۔ اس لیئے وہ لوگ تم دونوں کو سرپرائز دینے کیلئے خود چلی آئیں یہاں"۔ انہوں نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

چلتے ہوئے ان کا رخ اب قیصر کے کمرے کی جانب تھا۔

"اگر آپ کی اجازت ہو تو میں زیست کو لے کر کہیں اور شفٹ ہونا چاہتا ہوں"۔ وہ سر جھکائے ان سے اجازت طلب کرنے لگا۔

فیض صاحب نے سنجیدگی سے اسے دیکھا۔

"اول تو میں تمہیں اجازت نہیں دے سکتا۔ جنرل صاحب کا حکم ہے۔۔۔تمہاری لوکیشن نامعلوم ہی رہنی چاہیئے۔ اور پھر اب تو تمہاری بیوی بھی ہے۔ خدانخواستہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ تمہاری طرف سے تو میں بےفکر ہوں کے تم ایک جگہ نہیں ٹکتے اور اپنی حفاظت بخوبی کر سکتے ہو مگر تمہاری بیوی پر تمہاری وجہ سے خطرہ آ سکتا ہے۔ لہٰذا اس کیلئے مناسب جگہ اس سیف ہاؤس سے زیادہ کوئی اور نہیں ہے"۔ وہ لمحہ بھر کو رکے۔

چلتے ہوئے وہ اب اس کے کمرے میں داخل ہو چکے تھے۔ فیض صاحب کی نگاہیں اب بھی ارد گرد دوڑ رہیں تھیں۔

"دوسری بات یہ ہے کے نرمین اور ماہا کے علم میں بھی اب تمہاری شادی کی بات آ گئی ہے۔ اس لیئے اب یہ مشکل ہی ہے کے وہ لوگ تم دونوں کو کہیں اور جانے کی اجازت دیں"۔ انہوں نے بات مکمل کرتے اس کی جانب دیکھا۔

"کیا تم واقعی اسے پسند کرتے ہو؟"۔ وہ کھوجتی نگاہوں سے اس کا چہرا دیکھتے ہوئے پوچھنے لگے۔

"جی ہاں"۔ اس کا لہجہ پراعتماد تھا۔ اور جواب برجستگی سے آیا تھا۔

وہ چلتے ہوئے بیڈ کے دوسری جانب رکھی سائیڈ میز تک آ گئے۔ قیصر ان کی حرکات سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔

"یہاں ایک گلدان ہوا کرتا تھا کانچ کا۔ وہ کہاں ہے؟"۔ وہ خالی میز پر انگلی بجاتے ہوئے پوچھنے لگے۔

اس سوال پر قیصر نے نچلا لب دانتوں تلے دبا لیا۔ کتنی کوشش کی تھی اس نے ہر چیز کو اعتدال پر رکھنے کی۔ اور بالآخر ایک چوک ہو ہی گئی تھی اس سے۔

"ٹوٹ گیا"۔ اس بار لہجے سے وہ اعتماد مفقود تھا۔ جو اس کی شخصیت کا خاصہ تھا۔

فیض صاحب چلتے ہوئے اس کے مقابل آ گئے۔

"کیسے ٹوٹا؟"۔ وہ جانے کیا سننا چاہ رہے تھے۔

"میرا ہاتھ لگ گیا تھا اسے"۔ ان کی آنکھوں میں دیکھ کر جواب دیا۔

"تم نے مارا ہے اسے؟"۔ ان کے لہجے میں برہمی کا عنصر نمایاں ہوا۔ ایک بزرگ کا سا رعب!

اس بار وہ فوری جواب نہ دے پایا۔

"تم نے کیوں مارا اسے؟ تم تو اسے پسند کرتے ہو نا؟"۔ ان کا سوال بدلا تھا۔ اور انداز پہلے سے بھی زیادہ سخت ہو گیا تھا۔

قیصر لاجواب ہو گیا۔

"کچھ پوچھ رہا ہوں تم سے؟ جواب دینا پسند کروگے؟"۔ اس بار ان کی آواز میں غصے کی رمق تھی۔

قیصر نے گہرا سانس بھر کے اپنے اعصاب کا بوجھ کم کیا پھر گویا ہوا۔

"آپ کو نہیں لگتا آپ مجھ پر کچھ زیادہ ہی بے اعتباری دکھا رہے ہیں؟"۔ وہ جذباتی انداز میں پوچھنے لگا۔

اور فیض بخاری کا سخت مزاج جھاگ کی طرح بیٹھتا چلا گیا۔

"ہاں کیوں نہیں۔۔۔میں چاہے کچھ بھی کر لوں پر آپ کا بیٹا تو نہیں بن سکتا نا۔ شاید میں کچھ زیادہ ہی ایکسپیکٹ کر رہا تھا آپ سے"۔ شکستہ لہجے میں کہتے ہوئے جیسے وہ اپنا ہی تمسخر اڑا رہا تھا۔ 

"تم مجھے اموشنل کرنے کی کوشش کر رہے ہو برخوردار، مگر ایک بات جان لو کے اتنے عرصے میں جتنا میں تم سے واقف ہو گیا ہوں اتنا تو تم بھی خود کو نہیں جانتے ہوگے"۔ دیھمے لب و لہجے میں کہتے ہوئے وہ اسے بہت کچھ باور کروا رہے تھے۔

"یعنی آپ کو مجھ پر ابھی بھی شک ہے؟"۔ وہ خفا نظر آنے لگا۔

فیض صاحب نے مسکراتے ہوئے اس کا مضبوط شانہ تھپکا۔

"میں دعا کرتا ہوں کے یہ صرف شک ہی رہے میرا"۔ 

"میں اس وقت غصے میں تھا۔ مجھے پتہ ہی نہیں چلا کب وہ فلاور واز میرے ہاتھ سے ٹوٹا اور اس کے پیر میں لگ گیا"۔ حد درجہ سنجیدہ لہجے میں وہ اس بار سچ کہہ گیا تھا۔ کہاں وہ اس وقت اپنے حواسوں میں تھا؟

"غصہ تمہاری طبیعت کا خاصہ نہیں ہے اور ہونا بھی نہیں چاہیئے۔ کیونکہ جس کام کیلئے تمہیں چنا گیا ہے اس میں زرا سی جذباتیت کا مظاہرہ بھی تمہیں لے ڈوبے گا۔ میں نے تمہیں بارہا منع کیا تھا لیکن پھر بھی تم نے اس کام کو کرنے کا فیصلہ لے لیا"۔ انہوں نے تاسف سے کہا۔

"وقت ثابت کردے گا کے میرا فیصلہ اتنا بھی غلط نہیں تھا۔ آپ نے بہت کچھ کیا ہے میرے لیئے، اور اب میری باری ہے"۔ وہ اپنے اذلی اعتماد سے کہتا انہیں یقین دلا رہا تھا۔

"تو پھر مجھ پر یہ ثابت کرو کے پچھلے چھ ماہ کے دوران جو ٹریننگ تمہیں دی گئی ہے اس کا تم پر مثبت اثر ہوا ہے۔ ورنہ دوسری صورت میں پھر تمہارا رویہ غیر ذمہ دارانہ قرار دے کر آنے والے مشن سے خارج کر دیا جائے گا تمہیں"۔ انہوں نے صاف لفظوں میں اسے سمجھا دیا تھا۔

"اوکے، آئندہ آپ کو میری طرف سے اس قسم کی کوئی شکایت موصول نہیں ہو گی"۔ مستحکم لہجے میں کہتے ہوئے اس نے بھرپور یقین دہانی کروائی۔

"ہوں۔ بہتر یہی ہوگا تمہارے حق میں۔ اب رشتہ جوڑا ہے اس لڑکی سے تو انسانوں کی طرح نبھاؤ بھی اس رشتے کو۔ ورنہ دوسری صورت میں پھر میرا سپورٹ تمہارے بجائے اس کے ساتھ ہوگا"۔ جتانے والے انداز میں کہتے ہوئے۔۔۔پیشانی پر بل لیئے وہ کمرے سے باہر نکل گئے۔

سینے پہ ہاتھ رکھے، بے اختیار اس نے پرسکون سانس خارج کی۔

یہ سب کب شروع ہوا تھا؟  وہ سوچنے لگا۔ ماضی کی کتاب سے چند صفحے پلٹنے لگے۔ اور وقت چھ ماہ پیچھے چلا گیا۔

_______________________________

اس دن فیض بخاری کئی دن بعد اس سے ملنے آئے تھے۔ وہ اس کے ہمراہ بیٹھے تھے جب دروازے پر ہونے والی اطلاعی گھنٹی نے ان دونوں کو ہی چونکا دیا تھا۔

"یہاں کون آ سکتا ہے؟"۔ ان کے ارد گرد خطرے کی گھنٹی بج رہی تھی۔ کیونکہ اس جگہ کی لوکیشن کسی کو معلوم نہ تھی۔ اسی لیئے تو وہ "سیف ہاؤس" کہلاتا تھا۔ ایسی جگہیں اکثر مجرموں یا خاص کر ان لوگوں کے پاس ہوا کرتی ہے جو ملکی دفاع کیلئے چھپ کر کام کرتے ہیں۔ جیسے کے کسی ایجنسی کے جاسوس۔ فیض بخاری نے یہ جگہ میکائیل کیلئے بنوائی تھی۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت یہی گزارا کرتا تھا۔ خاص طور پر اپنے کام کیلئے۔ اور اس کیلئے مناسب بھی یہی تھا۔ قیصر کی جان کو چونکہ خطرہ تھا اسی لیئے انہوں نے اسی جگہ کو اس کے قیام کیلئے مختص کیا تھا۔

مگر اب مسئلہ یہ تھا کے ایسی خفیہ جگہ پر وہ کون باہر کا شخص آیا تھا کے جو گھنٹی بجا کر اپنی آمد کی اطلاع بھی دے رہا تھا۔

"تم جاؤ یہاں سے"۔ انہوں نے قیصر سے کہا۔ وہ لب بھینچے لاؤنج سے اٹھ کر چلا گیا۔

پھر ان کے اشارے پر ملازم نے دروازہ کھولا تھا اور سوٹ بوٹ میں ملبوس وہ بارعب ہستی اندر داخل ہوئی تھی۔

انہیں سامنے پا کر فیض صاحب میکانکی انداز میں کھڑے ہو گئے اور انہیں سلیوٹ کیا۔

"سر۔۔۔آپ یہاں؟ پلیز تشریف رکھیے"۔ وہ ششدر سے تھے۔ بھلا جنرل صاحب کو ان سے کیا کام پڑ گیا تھا جو وہ بذات خود ان کے پاس چلے آئے؟

وہ مسکراتے ہوئے نشست سنبھال چکے تھے۔ فیض بھی ان کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئے۔

"دراصل بات ہی کچھ ایسی تھی کے مجھے خود آنا پڑا بریگیڈیئر۔ آپ کے اس گھر کی لوکیشن چونکہ خفیہ ہے تو اس لیے میں کسی اور کو یہاں بھیج کر آپ کیلئے مسئلہ نہیں چاہتا تھا۔ اس لیئے بھی مجھے خود آنا پڑا"۔ وہ اب سنجیدگی سے کہتے ہوئے میز پر موجود چائے کے دو کپ دیکھ رہے تھے۔

"شکریہ سر، آپ نے اتنا سوچا"۔ وہ مشکور ہوئے۔ 

انہوں نے ایک گہرا سانس بھرا۔

"میکائیل کی لوکیشن کھو گئی ہے بریگیڈیئر۔ آخری بار وہ انڈیا کی ایک ریاست مہاراشٹرا کے شہر اورنگ آباد میں دیکھا گیا تھا۔ پھر اس کے بعد وہ نہیں ملا"۔ وہ افسردگی سے انہیں اطلاع دے رہے تھے۔

فیض بخاری کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے کر بھینچ ڈالا تھا۔ وہ صوفے پر آگے کو ہو بیٹھے اور دونوں ہاتھ مضبوطی سے باہم ملا لیئے۔ گویا خود پر ضبط رکھا۔ وہاں کھو جانے کا مطلب کیا تھا یہ وہ بخوبی جانتے تھے۔ شاید وہ پکڑا جا چکا تھا اور شاید۔۔۔

"ایک اور بات ہے جو کرنے کیلئے میں آیا ہوں"۔ وہ اب مزید کہنے لگے۔

فیض صاحب نے ضبط سے سرخ پڑتی آنکھیں اٹھائیں۔

"آپ اسے بلوا سکتے ہیں اب جسے میری آمد کی وجہ سے یہاں سے بھیج دیا آپ نے"۔ وہ مستحکم لہجے میں بولے۔ اور بخاری صاحب تو کچھ کہنے کے نہ رہے۔

شاید وہ سن چکا تھا جو خود ہی باہر آ گیا اور فیض بخاری کی پشت پر آ رکا۔

"قیصر خیام۔ ایک عادی مجرم"۔ وہ طنزیہ نگاہوں سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے بولے۔

"تھا پر اب نہیں ہوں"۔ اس نے تصیح کی۔

"میں نے کہا عادی مجرم۔ یعنی جرم تمہاری عادت ہے۔ اور عادتیں اتنی جلدی بھلا کب بدلتی ہیں؟"۔ وہ تمسخرانہ لہجے میں بولے۔

"سر جب آپ اس کی موجودگی سے واقف ہیں تو مجھے یقین ہے کے آپ کو پس منظر بھی پتہ ہوگا"۔ فیض صاحب نے مداخلت کی۔

ان کی بات پر جنرل صاحب نے مثبت جواب دیا۔

"تو پھر بریگیڈیئر آپ نے اس کے صحتیاب ہونے کے بعد اسے سزا دلوانے کی نہیں سوچی؟ یا پھر آپ کا دل اس کیلئے رحم سمیٹ لایا؟"۔ وہ پوچھنے لگے۔

"مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے اعتراف جرم کرنے سے۔ بےشک آپ مجھے پھانسی چڑھا دیں"۔ وہ سر جھکائے سینے پہ ہاتھ باندھے بےنیازی سے بولا۔

جنرل صاحب نے بغور اس کی جانب دیکھا۔

"جبکہ ایسا کہتے ہوئے اپنے گناہوں کا پچھتاوا ہونا چاہئے تمہارے چہرے پر مگر مجھے غم، رنج، موت کی چاہ اور زندگی سے نفرت کے آثار کیوں دکھائی دے رہے ہیں تمہارے چہرے پر؟"۔ انہوں نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا۔

"کیونکہ جو یہ گزار رہا ہے اس کے نزدیک وہ زندگی نہیں ایک سزا ہے"۔ جواب فیض بخاری نے دیا۔

چند لمحوں کیلئے ان کے درمیان خاموشی حائل ہو گئی۔

جسے اگلے ہی پل جنرل صاحب کی بھاری آواز نے توڑا۔

"ولید کو جانتے ہو نا؟"۔ انہوں نے اگلا سوال کیا۔

"جی"۔ مختصر جواب دیا۔

"اسے تم نے ہی ڈی-آئی-جی مختار کے کہنے پر گرفتار کروایا تھا۔ شاید کسی شرط کے عیوض؟"۔ وہ صوفے پر کہنی رکھے  دلچسپی سے بولے۔

فیض بخاری یکسر لاتعلق ہو گئے تھے اس گفتگو سے۔

"جی ہاں"۔ دزدیدہ نگاہوں سے انہیں دیکھتا وہ بولا۔

"یہی شرط نا؟ کے وہ بدلے میں اپنی بیٹی کی شادی تم سے کروا دے؟"۔ وہ فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ جواب بھی سوال کرنے کے انداز میں دے رہے تھے۔ 

قیصر نے کرب سے آنکھیں میچ لیں۔

"جی"۔ اس بار لہجہ پست تھا۔

"انہوں نے بظاہر وہ شرط تب مان لی تھی۔ مگر پھر ولید کی گرفتاری کے بعد وہ شرط ماننے سے انکار کر دیا اور اپنی بیٹی کی شادی بھتیجے ہارون سے طے کر دی تاکہ تمہارے سائے سے وہ بچ سکے۔ لیکن انہیں کیا پتہ تھا کے قیصر خیام سایا نہیں بلکہ گرہن کی مانند الوینا مختار نامی اس چاند کو لگ چکا ہے"۔ وہ اب حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے قیصر خیام کا دل کچل چکے تھے۔ 

"لیکن یہ سب آپ کو کیسے پتہ؟ یہ تو صرف ان کے اور میرے درمیان کی بات تھی"۔ وہ اپنی حیرت چھپا نہیں پایا تھا۔

"ہمارے لیئے اندر سے اندر کی بات بھی نکلوا لینا کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے مائی سن"۔ وہ جیسے اس کی نادانی پر مسکرائے تھے۔

"تو یعنی آپ کے جاسوس مختار انصاری کے گھر اور پھر وہاں سے میرے دل کے در تک بھی پہنچ گئے"۔ وہ زخمی سا مسکرایا۔

اس کی بات پر انہوں نے شانے اچکا دیئے۔

"اب میں تمہیں ایک پتے کی بات بتاتا ہوں۔ قوی امکان ہے تمہیں یہ پتہ نہیں ہوگا کے مختار اور فیض بہترین دوست ہیں۔ اور یہ بھی کے مختار صاحب نے تمہارا سارا ریکارڈ تمام پولیس اسٹیشن سے مٹوا ضرور دیا تھا مگر ایک جگہ وہ آج بھی موجود ہے"۔ فیض بخاری کی جانب دیکھتے ہوئے وہ جیسے اب ان کا راز افشاں کرنے جا رہے تھے۔

وہ لب بھینچے خاموش رہے۔

قیصر نے بے یقینی سے فیض صاحب کو دیکھا۔ 

"مختار انصاری نے تمہارے تمام کارناموں کی ایک فائل بمع تمہاری تصویر کے اپنے دوست کے پاس محفوظ کر لی تھی۔ پھر مرتے وقت انہوں نے اپنے بہترین دوست فیض بخاری سے کہا تھا کے قیصر کو ہر صورت اس کے کیئے کی سزا دلوانا۔ پھر قسمت دیکھو تم خود ہی بریگیڈیئر کے ہاتھ لگ گئے"۔ وہ اطمینان سے کہتے ہوئے دونوں نفوس کے دلوں میں مدفن راز کھول رہے تھے اور قیصر خیام کو لگا تھا کے وہ شاید ہی اس سے پہلے کبھی زندگی میں اتنا حیران ہوا ہو۔

"میں یہاں آنے سے قبل آپ دونوں ہی سے متعلق سب پتہ کروا کے آیا ہوں۔ لیکن میرا مقصد یہاں آنے کا تم ہو قیصر خیام"۔ وہ اب مدعے پہ آ رہے تھے۔

"فیض بخاری نے تمہیں سزا نہیں دلوائی کیونکہ شاید انہیں تم سے انسیت ہو گئی ہوگی یا پھر انہیں لگا ہوگا کے مرے ہوئے کو بھلا کیا مارنا؟ مگر میں تمہاری زندگی کیلئے ایک مقصد لایا ہوں۔ ولید پھانسی چڑھ چکا ہے اور اب کوئی ہے جو اس کی جگہ لینے کیلئے کوشاں ہے"۔ وہ کہتے کہتے اٹھے اور چلتے ہوئے اس کے مقابل آ گئے۔

"تو میں کیا کر سکتا ہوں؟"۔ وہ سوالیہ نگاہوں سے ان کی جانب تکنے لگا۔

"مجھے باہر کا کوئی آدمی چاہیئے۔ جو میرے لیئے کوبرا گینگ کا سربراہ ڈھونڈ کر لائے اور یہ اجازت بریگیڈیئر آپ سے چاہیئے مجھے"۔ انہوں نے کہتے ہوئے فیض بخاری کی جانب دیکھا۔

فیض صاحب بھی اب اٹھ کر ان سے فاصلے پر کھڑے انہیں سننے لگے۔

"لیکن سر یہ کوئی جاسوس نہیں ہے۔ اس سے نہیں ہو سکے گا"۔ انہوں نے اعتراض کیا۔

"تو ہم بنا دیں گے اسے۔ میکائیل پر سے دشمن کا شک ہٹانے کیلئے اسے میکائیل بننا ہوگا"۔ انہوں نے تجویز پیش کی۔

"نہیں سر میں اس بات کی اجازت نہیں دے سکتا"۔ فیض بخاری نے صاف انکار کیا۔

"تو پھر آپ اسے میرا حکم کہہ سکتے ہیں بریگیڈیئر۔ اور میکائیل بننے کی ٹریننگ آپ ہی اسے دیں گے"۔ انہوں نے اس مرتبہ اٹل لہجے میں کہا۔

فیض بےبسی سے مٹھیاں بھینچ گئے۔

"نرمین اور ماہا سے میں کیا کہوں گا"۔ انہوں نے اب نیا نکتہ اٹھایا۔

"کہہ دیجئے گا کے یہ میکائیل کا ساتھی ایجنٹ ہے جسے دشمنوں کو گمراہ کرنے کیلئے میکائیل بنا کر بھیجا گیا ہے"۔ انہوں نے ان کا آخری جواز بھی ختم کر دیا۔

"اور مجھے یقین ہے کے تمہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا"۔ انہوں نے اب قیصر کی جانب دیکھا۔

"آپ لوگ ملک سے محبت کی خاطر یہ سب کرتے ہیں اور میں ملک سے محبت کرنے والوں کی خاطر کروں گا"۔ اس نے ایک نظر اپنے محسن کو دیکھ کر پریقین لہجے میں کہا تھا۔

فیض بخاری جو اسے انکار کی تجویز دے رہے تھے اثبات پہ خاموش ہو رہے۔

"ٹھیک ہے پھر۔ آج سے چھ ماہ بعد ملیں گے"۔ انہوں نے جواب دیا۔

جس پر وہ تائیدی انداز میں سر ہلا گیا۔

_______________________________

دوپہر کے کھانے کا وقت ہو چلا تھا۔ وہ سبھی لوگ ڈائننگ ٹیبل کے گرد موجود ایک ساتھ لنچ کر رہے تھے۔ موضوع گفتگو ان دونوں کی متوقع دعوت ولیمہ تھی۔

"شادی تو تم دونوں نے چھپ چھپا کے کر لی ہے۔ اب ولیمے کا کیا پروگرام ہے؟"۔ فیض صاحب کے بائیں جانب بیٹھیں نرمین نے ان دونوں سے مشترکہ طور پر سوال کیا۔

کھانے سے ہاتھ روک کر قیصر نے ایک نظر برابر بیٹھی زیست پر ڈالی، وہ اس کی جانب متوجہ نہ تھی یا پھر کم از کم ظاہر یہی کر رہی تھی۔ جبکہ اس نے اب اپنی نگاہوں کا زاویہ نرمین کی جانب موڑ لیا۔

"ان سب کی کیا ضرورت ہے۔ اور میرے پاس ویسے بھی وقت نہیں ہے ان چیزوں کیلئے، مجھے ویسے بھی کل کسی ضروری کام سے جانا ہے"۔ بے نیازی سے کہتے ہوئے وہ پھر سے کھانے کی جانب متوجہ ہو گیا۔

"ارے یہ کیا بات ہوئی؟ شادی میں تو ہم شامل نہیں ہوسکے اب ولیمے کے ٹائم تو آپ ایسا نہ کریں پلیز"۔ ماہا نے اعتراض اٹھایا۔

"ماہا ٹھیک کہہ رہی ہے۔ اور وقت نہیں ہے کیا مطلب؟  کل ہی تمہاری شادی ہوئی ہے اور اب کل پھر تمہیں کسی کام سے جانا ہے؟ نہیں میں تمہاری ایک نہیں سنوں گی اب۔ دعوت ولیمہ ہم کل ہی رکھیں گے۔ تم دونوں بس اتنا کرنا کے تیار ہو کر آ جانا"۔ نرمین نے حتمی انداز میں کہا۔

"ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہیں نرمین، اور وقت نکالنا پڑتا ہے اس سب کیلئے بھی۔ اب شادی کی ہے تو اس کے رسم و رواج بھی تو پورے کرنے ہوں گے کے نہیں"۔ فیض بخاری نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔

"اور نہیں تو کیا۔ ہر چیز میں بچوں کی ضد تھوڑی نہ چلتی ہے۔ ابھی شادی کو ایک دن نہیں ہوا اور تمہیں نئی دلہن کو چھوڑ کر کام سے جانا ہے؟ حد ہو گئی"۔ نرمین ڈپٹنے والے انداز میں بولیں۔

جس پر وہ بے بسی سے شانے اچکا کر رہ گیا۔

"آپ لوگوں نے سب طے کر لیا ہے تو میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ کیجئے پھر آپ لوگ"۔ وہ شکست تسلیم کرنے لگا۔

"ہرےےے! یہ ہوئی نا بات"۔ ماہا نے خوشی سے نعرہ بلند کیا۔ جس پر باقی سب بھی مطمئن سے ہو کر مسکرانے لگے۔

البتہ زیست کے حلق میں نوالہ اٹک کر رہ گیا۔ 

"لیکن میری دو شرائط ضرور ہیں"۔ اس نے بھی کچھ ان کی مانتے ہوئے اب کچھ اپنی بتانے کی ٹھانی۔

"کیسی شرائط؟"۔ فیض صاحب نے سنجیدگی سے پوچھا۔

باقی سب کی نگاہوں نے بھی سنجیدگی سے اس کے چہرے کا احاطہ کر لیا۔

"پہلی بات یہ کے دعوت ولیمہ میں چند جاننے والوں کے علاوہ باہر کا کوئی بھی شخص شریک نہیں ہوگا۔ اور دوسری بات یہ کے یہ تقریب زیادہ سے زیادہ تین گھنٹے میں ختم ہونی چاہیئے"۔ باری باری ان سب کو دیکھتے ہوئے اس نے شرائط بتائے۔

نرمین کچھ کہنے لگیں تھیں جب فیض صاحب نے ہاتھ اٹھا کر روک دیا۔

"ٹھیک ہے تمہاری دونوں شرائط منظور ہیں ہمیں"۔ انہوں نے فیصلہ کن انداز میں کہتے ہوئے بحث ہی سمیٹ دی۔

جس پر قیصر مطمئن ہو گیا۔ 

"تو پھر طے رہا۔ ہم کل کا دن رکھ لیتے ہیں"۔ نرمین نے اضافہ کیا۔

"مجھے اعتراض نہیں کوئی۔ تم کیا کہتی ہو؟"۔ اس نے رضامندی ظاہر کرتے ہوئے اچانک زیست کو مخاطب کیا۔ گفتگو کا رخ اپنی طرف مڑ جانے پر وہ سٹپٹا کر اس کی جانب دیکھنے پر مجبور ہوگئی۔

"جی۔۔۔جو آپ بہتر سمجھیں"۔ پھیکا سا مسکراتے ہوئے وہ آہستگی سے بولی تھی۔ آخر کو جب وہ اس کا بھرم رکھ رہا تھا تو اسے بھی کچھ نہ کچھ کہنا تھا۔

"پھر تو ہمیں جلد سے جلد نکلنا ہوگا فیض۔ بہت ساری تیاریاں بھی تو کرنی ہوں گی کل کیلئے"۔ نرمین کو ایک نئی فکر نے آن لیا۔

"ہوں۔ کچھ دیر میں نکلتے ہیں پھر"۔ انہوں نے جواب دیا۔ 

کھانے سے فارغ ہونے کے بعد وہ سب اب لاؤنج میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ساتھ ہی ساتھ چائے کا دور بھی چل رہا تھا۔

"رونمائی میں کیا تحفہ دیا تمہیں؟"۔ نرمین زیست کو اپنے ساتھ لگائے بیٹھیں اس سے سوال کر رہیں تھیں۔ جسے سن کر اس کے چہرے پر تاریکی سی چھا گئی۔

"وہ۔۔۔شاید انہیں۔۔یاد نہیں رہا"۔ یہ جملہ ادا کرتے ہوئے اسے اپنی بےوقوفی کا بھی بھرپور احساس ہو رہا تھا مگر وہ اور کہتی بھی کیا؟ آخر کچھ نہ کچھ جواب تو اسے دینا ہی تھا۔

"یہ میں کیا سن رہی ہوں؟ تم نے نئی دلہن کو رونمائی میں کوئی تحفہ ہی نہیں دیا"۔ اب کی توپوں کا رخ پاس بیٹھے، فیض بخاری سے گفتگو کرتے قیصر کی جانب ہو گیا۔

وہ جس کی سماعتیں ان ہی کی جانب تھیں۔ ان کا یہ سوال اس کے دل کو تیر کی مانند چبھا تھا۔ جس کی اذیت اس کے پورے وجود میں پھیلتی چلی گئی۔

"رونمائی یعنی منہ دکھائی کا تحفہ جو ایک دولہا اپنی دلہن کو دیتا ہے۔ تمہیں یہ نہیں پتہ؟"۔ ماضی میں سنا گیا وہ جملہ آج پھر اس کی سماعتوں میں تازہ ہو گیا تھا۔ اور اس کے دل میں اٹھتے درد کے نشان اس کے چہرے پر بھی نمایاں ہو گئے۔ 

"میں۔۔۔آتا ہوں"۔ کمزور لمحہ آ چکا تھا۔ بمشکل یہ جملہ کہہ کر وہ تیز قدموں سے چلتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا۔

نرمین اور ماہا کو حیرانگی ہوئی تھی اس کے یوں اٹھ کر جانے پر۔ لیکن فیض صاحب اس کے چہرے پر لکھی اذیت پڑھ سکتے تھے۔ یہ وہی اذیت تھی جو الوینا یا اس سے جڑی کوئی بات سن کر اس کے چہرے پر آتی تھی۔ وہ اس کی حالت بخوبی سمجھتے تھے۔

ان کے علاوہ ایک ہستی اور تھی جو اس درد کو پڑھ چکی تھی۔ زیست قیصر خیام۔ وہ اس کے چہرے پر لکھی درد کی تحریر پڑھ چکی تھی۔ اسے حیرانی ہوئی تھی۔۔۔شدید حیرانی۔ بھلا دوسروں کو ایذا پہنچانے والا شخص اپنے اندر ایسا کون سا درد کا طوفان چھپائے بیٹھا تھا جسے اس کا چہرا اس قدر عیاں کر گیا تھا؟

اسے زرا برابر بھی اس شخص سے ہمدردی محسوس نہ ہوئی تھی۔ وہ تو وہ قاتل تھا۔۔۔جس نے اس سے اس کا بھائی چھین لیا تھا۔ اور اب اس کی رہی سہی زندگی کا سکون بھی غارت کر دیا تھا۔ پھر بھلا وہ کیونکر اس کی تکلیف کو محسوس کرتی؟ حقیقت تو یہ تھی کے قیصر خیام کا درد اسے سکون دے رہا تھا۔ ہاں وہ اتنے مہینوں بعد پہلی بار دل سے مطمئن ہوئی تھی۔ اپنے سب سے بڑے دشمن کے چہرے پر شکست اور کمزوری دیکھ کر۔ اور اب وہ اس کمزوری کا سراغ لگانا چاہتی تھی۔ وہ اس درد کی وجہ کو تلاش کرکے اس کا درد مزید بڑھانا چاہتی تھی۔ اسے احساس دلانا چاہتی تھی کے دوسروں کو پہنچائی جانے والی تکلیف سے جب اپنا سامنا ہو تو کیسا محسوس ہوتا ہے؟

فیض بخاری نرمین اور ماہا سمیت شام کے پانچ بجے وہاں سے نکلے تھے۔ انہیں واپس رخصت کرنے کیلئے بہرحال اسے خود کو کمپوز کرکے گھر واپس آنا پڑا تھا۔ 

کل دن بارہ بجے کا وقت دعوت ولیمہ کیلئے مختص کیا گیا تھا۔ جو کے خیابان بخاری میں متوقع تھی۔ ان دونوں کو صبح ہی صبح سفر کیلئے نکلنا تھا۔ پھر دو گھنٹے بعد جا کر ہی وہ وہاں پہنچ پاتے۔

یہ بھی قیصر کی ہی ضد تھی کے وہ کل صبح وہاں پہنچ جائیں گے۔ ورنہ ان سب کا اصرار تو تھا کے وہ دونوں بھی ان کے ساتھ ہی چلے چلیں۔ فیض بخاری کے کہنے پر نرمین اور ماہا نے مزید پھر اصرار نہیں کیا تھا اور واپسی کیلئے روانہ ہو گئیں۔

ان سب کو رخصت کرنے کے بعد وہ اپنے کمرے میں آ گیا۔ اور اب اس باکس کو لے کر بیٹھا تھا جو اسے کوریئر کے ذریعے موصول ہوئی تھی۔ اس باکس پر اپنا کوڈ منتقل کرنے کے بعد وہ اس کے اندر موجود پین ڈرائیو برآمد کر چکا تھا۔ اور اب لیپ ٹاپ لے کر پین ڈرائیو اس سے کنیکٹ کرنے لگا تھا۔

وہ ہلکے گلابی اور سفید رنگ کے امتزاج والے لباس میں ملبوس  باتھروم سے برآمد ہوئی تھی۔ ایک نظر اس نے مصروف سے قیصر کو دیکھا پھر کسی خیال کے تحت اس کی مصروفیت کے رنگ میں بھنگ ڈالنے کو پاس سے گزرتے ہوئے اپنے گیلے بال زور سے جھٹکے۔ نتیجتاً پانی کے کئی قطرے پاس بیٹھے قیصر کے چہرے اور لیپ ٹاپ اسکرین پر پڑے تھے۔ اور وہ جو مکمل یکسوئی سے اس آڈیو کو سننے میں لگا تھا زیست کی اس حرکت پر ضبط سے جبڑے بھینچ گیا۔ قدرے سخت نگاہوں سے اس کے تعاقب میں دیکھا۔ وہ شان بے نیازی سے آئینے کے سامنے کھڑی اپنے بال برش کرنے کے ساتھ ساتھ کنکھیوں سے اس کا سرخ پڑتا چہرا دیکھ کر محظوظ ہو رہی تھی۔

طیش کے عالم میں لیپ ٹاپ زور سے بند کرتے ہوئے وہ اٹھا اور اس کی جانب بڑھنے لگا۔ 

"یا اللہ خیر! یہ تو اِدھر ہی آ رہا ہے۔ لگتا ہے لینے کے دینے پڑ گئے"۔ سٹپٹا کر برش رکھا اور جلدی سے بھاگنے کو مڑی ہی تھی جب اس نے سرعت سے آگے بڑھ کر اس کا بازو دبوچ لیا۔

"تم نے یہ جان بوجھ کر کیا"۔ وہ سرد لہجے میں غرایا تھا۔

"مم۔۔میں نے کیا۔۔۔کیا؟"۔ وہ گلا تر کرتے ہوئے پلکیں جھپک کر پوچھنے لگی۔

"جاہل عورت ایسے کون اپنے بال سکھاتا ہے؟"۔ اس کے بال اسی کے چہرے پر جھٹکتے ہوئے وہ دانت پہ دانت جمائے بولا۔

"نہیں تو۔۔۔میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا"۔ چہرے پر بکھرتے گیلے بال پیچھے کرتے ہوئے وہ منمنائی۔

"اوہ! ایک سیکنڈ ایک سیکنڈ۔۔۔اب میں سمجھا"۔ وہ جیسے اچانک کسی نتیجے پر پہنچا تھا۔ 

زیست نے نافہم نگاہوں سے اسے دیکھا۔ 

"اصل میں تم توجہ چاہ رہی تھی۔ ہے نا؟"۔ انگشت شہادت سے اس کی ٹھوڑی اونچی کیئے وہ دل جلانے والی مسکراہٹ چہرے پر سجائے پوچھ رہا تھا۔ 

لمحے کے ہزارویں حصے میں زیست کے دماغ نے اسے سمجھایا تھا کے وہ کتنی بڑی بےوقوفی کا مظاہرہ کر چکی ہے۔ اسے اب شدید غصہ آ رہا تھا خود پہ۔

"نہیں۔۔۔وہ میں نے جان بوجھ کر تو نہیں کیا"۔ نگاہیں جھکائے وہ سرخ پڑتے رخسار کے ساتھ قدرے پست آواز میں اپنی صفائی دے رہی تھی۔

"اتنی بےچینی؟ بیوی ایسی بےصبری؟ سچ مجھے کوئی حیرانی نہیں ہوئی ہے۔ تم اذل سے ہی قاتل مزاج ہو یہ مجھے معلوم ہے۔ جب دوسرے قسم کے ہتھیار بےاثر ہو گئے تو اب اپنے حسن کے تیر چلا کر مجھے گھائل کرنا چاہتی ہو؟ ہوں؟"۔ اسے بازوؤں کے حلقے میں لیتا وہ دوستانہ انداز میں گویا ہوا۔

زیست وحشت زدہ سی ہو گئی۔

"اگر تم اتنے میں ہی گھائل ہو سکتے نا تو میں تمہیں ہر روز نئے سرے سے زخم لگاتی اور پھر اسے نوچ نوچ کر تمہارے لیئے ناسور بنا دیتی"۔ اس کی گرفت میں پھڑپھڑاتے ہوئے وہ جلے دل کے پھپھولے پھوڑنے سے بعض نہ آئی۔

"میری سوچ بھی تمہارے لیئے اس سے زیادہ مختلف نہیں ہے"۔ اس کی پیشانی سے سر ٹکاتے ہوئے وہ گمبھیر لہجے میں بولا۔  پھر چند لمحوں کیلئے ان کے درمیان خاموشی در آئی۔ جس میں زیست کے رک رک کر دھڑکتے دل کو بخوبی سنا جا سکتا تھا۔ اس کا مضبوط وجود اس نازک حسینہ پر مکمل چھایا ہوا تھا۔ وہ بے بسی کی انتہاؤں پر تھی۔

"جانتی ہو میں کیا چاہتا ہوں؟ ایک لمحے کیلئے میں سب کچھ بھول کر تمہارے سینے پہ سر رکھ کے اپنے سارے آنسو تم میں منتقل کر دینا چاہتا ہوں اور پھر تم سے پوچھنا چاہتا ہوں کے اب بتاؤ اتنا سارا بوجھ لے کر جی سکتی ہو تم؟ تمہارے اس خوبصورت جسم کو کندھ چھری سے کاٹ کے میں دیکھنا چاہتا ہوں کے تمہاری تڑپ کیسی ہوتی ہے؟ تمہارے سینے سے دل نوچ کر اس سے پوچھنا چاہتا ہوں کے مجھے پتھر بناتے ہوئے وہ کانپا کیوں نہیں؟ میں چاہتا ہوں کے تمہاری یہ آنکھیں میرے حصے کا درد سمیٹ لیں اور پھر اس درد کو آنسو بنا کر قطرہ قطرہ پگھلتی جائیں۔۔۔اور بس پگھلتی ہی جائیں"۔ اس کی پیشانی سے سر ٹکائے۔۔۔مضبوط حصار اس کے وجود کے گرد باندھے وہ آنکھیں موند کر کہتا چلا جا رہا تھا۔ 

اور وہ ٹرانس کی کیفیت میں سنتی جا رہی تھی۔ وہ اسے اذیت سے دوچار کرنے کی باتیں کر رہا تھا اور زیست اس کے الفاظ کو چھوڑ کر لمحہ بھر کیلئے اس لہجے کی اسیر ہوگئی تھی۔ 

"کیا تمہیں احساس نہیں ہے کے میرا کتنا نقصان کرچکی ہو تم؟ جس کیلئے میں تمہیں چاہے جتنی سزائیں بھی دے دوں وہ میرے نزدیک کم تر ہی ہوگا۔ میں تمہاری تڑپ دیکھنا چاہتا ہوں۔ تمہیں درد کی انتہاؤں پر دیکھنا میری اولین خواہش سمجھ لو تم۔ اور تمہیں بے بس کرنا میرا مقصد۔ دشمنی مول لینے سے پہلے تمہیں پتہ کرنا چاہیئے تھا کے مقابل کون ہے اور کیا کر سکتا ہے"۔ بھاری سرد لہجے میں کہتے ہوئے آخر تک آتے آتے وہ اسے اپنے حصار سے آزاد کرکے ایک قدم پیچھے ہٹا تھا۔ اور ایک لمحے کیلئے زیست کے گرد بندھا وہ فسوں ٹوٹ گیا تھا۔ پلکیں وا کرتے ہی اسے محسوس ہوا کے اس کا چہرا آنسوؤں سے بھیگا ہوا ہے۔ وہ رو رہی تھی اور اسے پتہ ہی نہیں چلا؟ وہ اپنے آنسوؤں سے اتنی بے خبر ہو گئی تھی۔

جبکہ وہ اس سے فاصلے پر کھڑا اب چہرے پر مخصوص مسکراہٹ سجائے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ سرمئی آنکھوں میں فتح کی چمک تھی۔ جیسے اسے پتہ تھا کے وہ جادوگر ہے اور اس کا کوئی جادو کبھی فیل نہیں ہوتا۔ 

"اوہ ہاں۔۔۔یاد آیا، تمہاری رونمائی کا تحفہ لایا تھا یار۔ ایک منٹ"۔ اچانک یاد آنے پر وہ اس کے گم سم وجود کو چھوڑ کے سائیڈ میز کی دراز سے ایک چھوٹا سا گفٹ ریپ باکس لایا تھا۔ اس کے علاوہ ہاتھ میں کوئی سفید کاغذ بھی تھام رکھا تھا۔

"یہ لو۔ کھول کے دیکھو"۔ اس کے ہاتھ میں گفٹ تھماتے ہوئے وہ پرجوش انداز میں کہہ رہا تھا۔

زیست ہونقوں کی طرح اس کا چہرا دیکھتی رہی۔

"اچھا چلو میں خود ہی کھول دیتا ہوں"۔ اس کے ہاتھ سے باکس واپس لے کر وہ کھولنے لگا۔ ریپر کھول کر اب وہ باکس کھولنے کے بعد اس کے سامنے کر چکا تھا۔

اس کے اندر کئی سفید پڑیاں رکھیں تھی۔ جنہیں دیکھ کر زیست کے وجود میں سنسنی پھیل گئی۔

"یہ ڈرگز ہیں۔ انہی کی وجہ سے تمہاری وہ حالت رہتی تھی۔ لائک گھٹن، دل کی دھڑکن سست پڑ جانا یا ایک دم سے بڑھ جانا، وہ باتیں امیجن کرنا جو اصل میں ہیں ہی نہیں اور اس کیفیت پر مستزاد یہ کے میرا بار بار تمہارے سامنے آنا۔ یہ سب اسی لیے تھا تاکہ تمہیں پاگل ثابت کر سکوں۔ لیکن تم بھی بہت مضبوط اعصاب کی نکلی، ان حالات میں بھی اپنا دماغی توازن برقرار رکھا تم نے ماننا پڑے گا۔ لیکن تمہیں دینے کیلئے اب مزید وقت بھی تو نہیں تھا میرے پاس۔ اسی لیئے میں نے تم سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا، اب دیکھو نا اس طرح تو ہر وقت تم میری نگاہوں کے سامنے ہی رہتی ہو اور میں تم سے گن گن کے بدلے لے سکتا ہوں "۔ وہ یوں عام سے انداز میں اسے تفصیل بتا رہا تھا جیسے یہ باتیں بہت معمولی نوعیت کی ہوں۔ 

زیست کے کان ان انکشافات پر سائیں سائیں کرنے لگے تھے۔ 

"اور یہ ہے وہ بلڈ ٹیسٹ رپورٹ جن میں صاف صاف لکھا ہے کے تمہارے خون میں ڈرگز پایا گیا تھا۔ اب یہ رپورٹ میں ڈاکٹر ثوبیہ یا خود تمہارے ہاتھ تو لگنے دے نہیں سکتا تھا نا اس وقت؟ سو بدل دیا"۔ مطمئن انداز میں کہتے اس نے وہ کاغذ کھول کر اس کی آنکھوں کے سامنے لہرائی تھی۔ ساکت پڑیں سبز پتلیاں حرکت کرتے ہوئے اس کاغذ پر آ ٹھہریں۔ جسے پڑھتے ہی اس کا چہرا زرد پڑ گیا تھا۔ پیشانی پر پسینے کے قطرے نمودار ہونے لگے تھے۔

"اب تم اسے آرام سے بیٹھ کے پڑھو اسے اور میں اپنا کام کرتا ہوں"۔ اس کے ہاتھ میں رپورٹس تھماتے ہوئے وہ تسلی آمیز لہجے میں کہہ کر اب بیڈ سے اپنا لیپ ٹاپ اٹھا رہا تھا۔

پھر اسے ویسے ہی بت بنا چھوڑ کر وہ سر جھٹک کے کمرے سے باہر نکل گیا۔

_______________________________

رات کا وہ نجانے کون سا پہر تھا جب اس کی آنکھ کسی احساس کے تحت کھلی۔ کمرے میں زیرو پاور کی نیلگوں روشنی پھیل رہی تھی۔  

زیست نے زرا کی زرا سر اٹھا کر بیڈ پر چت لیٹے بازو آنکھوں پر رکھے وجود کو دیکھا۔ اس کی ہلکی ہلکی زیروبم ہوتی سانسیں پتہ دے رہیں تھیں کے وہ گہری نیند سو رہا ہے۔ وہ مطمئن سی ہو گئی۔ کمفرٹر اتار پھینکا اور صوفے سے اتر کر ننگے پیر دبے قدموں سے چلتی ہوئی دروازے تک آئی۔ ایک نظر پھر اس وجود پر ڈالی مگر وہ اب بھی ویسے ہی سوتا نظر آیا۔ گھبراہٹ کے مارے اسے ٹھنڈے پسینے آنے لگے تھے۔ ہمت کرکے اس نے بہت ہی آہستگی کے ساتھ دروازہ کھولا اور بنا کوئی چاپ پیدا کیئے جلدی سے باہر نکل گئی۔ فرش کی ٹھنڈ سے بے نیاز وہ چور نگاہوں سے ارد گرد تکتی ہال میں موجود مین دروازے تک آ گئی۔ لاک کھولنے کی کوشش کی مگر بے سود۔ مارے بے بسی کے اسے رونا آنے لگا۔ وہ اس لاک کو کھولنے کیلئے بھرپور زور لگا رہی تھی۔ جوں ہی دروازے پر تین بار لگاتار اس نے زور آزمائی کی دھکا لگنے سے اس کے اندر موجود ڈیوائس نے دیواروں میں نصب تاروں کو سگنل دیا اور پورا گھر الام کی چنگھاڑتی ہوئی آواز سے گونج اٹھا تھا۔ کہرام مچ گیا تھا اس گھڑی سارے گھر میں۔ اس اچانک افتاد پر زیست نے گھبرا کر ارد گرد دیکھتے ہوئے اس آواز کا سراغ لگانا چاہا تو اسے چھت سے لٹکتے فانوس کے اوپر ہی وہ وجہ نظر آ گئی جو آواز پیدا کر رہی تھی۔ چوکور شیپ کا وہ ڈبہ چیخ چیخ کر "خطرے کی گھنٹی" بجا رہا تھا۔

اس کے جسم میں سنسنی خیز لہریں دوڑنے لگیں۔ سماعتوں کو چیرتی ہوئی وہ آواز ناقابل برداشت ہو رہی تھی۔ وہ دونوں کانوں پہ ہاتھ رکھتی ہوئی گھٹنوں کے بل زمین پر گر کر شدت سے رونے لگی۔

"بند کرو اسے کوئی۔۔۔پلیز بند کرو"۔ وہ آنکھیں بند کیئے ہذیانی انداز میں چیخ رہی تھی۔

آواز سن کر پانچوں ملازمین بھاگتے ہوئے ہال میں پہنچے تھے۔ اچانک ہی وہ الام بند ہوا تھا اور پورا گھر روشنیوں میں نہا گیا۔ اس شور کے ختم ہوتے ہی ہر طرف سناٹا چھا گیا۔ جیسے طوفان تھم گیا ہو۔

زیست نے آنکھیں کھول کر کان پر موجود اپنے ہاتھ ہٹائے۔ جوں ہی اس نے سر اٹھایا سامنے ہی وہ دوسری منزل کی راہداری میں گِرل پر دونوں ہاتھ جمائے کھڑا نظر آیا۔ سفید ٹی شرٹ اور سیاہ ٹراؤزر میں ملبوس۔۔۔انداز بےحد پرسکون تھا۔ دونوں کی نظریں ملیں۔ سرمئی آنکھوں میں موجود تمسخر اپنے لیئے وہ اتنی دور سے بھی دیکھ سکتی تھی۔۔۔محسوس کر سکتی تھی۔ اس کے اندر خوف نے سر اٹھایا تھا۔ جانے اب وہ کیا کرے؟

ملازم ہونق بنے ان دونوں کو دیکھ رہے تھے۔

"تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا بیوی۔ باہر ٹہلنے جانا تھا تو مجھے جگا دیتی۔۔ٹھہرو میں چلتا ہوں تمہارے ساتھ۔ خواہ مخواہ ان سب کی نیند خراب کردی"۔ ملازمین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وہ خفگی سے بولا۔

"جاؤ تم لوگ سو جاؤ"۔ ان کو مطمئن کرنے کیلئے جواز تراش کر انہیں سنانے کے بعد قیصر نے اشارے سے جانے کا کہہ دیا۔ جس پر وہ مطمئن ہوکر حکم بجا لاتے ہوئے واپس پلٹ گئے۔

جبکہ وہ اب چلتا ہوا سیڑھیوں کی جانب آیا تھا۔ نگاہیں ہنوز زمین پر جھکے اس کے وجود پر جمی تھیں۔

زیست کے دل نے شدت سے یہ خواہش کی کے وہ اس کی نظروں کے سامنے سے غائب ہو جائے۔۔۔۔کہیں چھپ جائے بس اس کے ہاتھ نہ آئے۔۔۔بس وہ اس تک پہنچ نہ پائے۔

مگر اس کی کوئی بھی خواہش پوری نہ ہوئی تھی۔ وہ اب اس کے سر پر پہنچ چکا تھا اور زیست کو آنکھوں کے سامنے دنیا گھومتی محسوس ہو رہی تھی۔

"کیا سوچا تھا؟ اتنا آسان ہوگا میری قید سے نکلنا؟"۔ اپنے قدموں میں بیٹھی زیست پر کڑی نگاہیں جمائے وہ پوچھ رہا تھا۔ اور وہ مہر بہ لب تھی۔ نگاہیں اس کے سیاہ سلیپرز میں موجود پیروں پر جما رکھی تھیں۔ آنکھوں سے اشکِ مسلسل رواں تھے۔ پھر کچھ توقف کے بعد وہ اونچا اور مضبوط شخص جھکا اور اس کے نزدیک ہی رکوع کی حالت میں بیٹھ گیا۔ زیست کی سانس سینے میں ہی کہیں اٹک گئی۔

"مم۔۔۔مجھے۔۔۔معاف۔۔۔کر دیں"۔ کچھ نہ سجھائی دیا تو وہ آنسو بہاتی ہوئی اس کے سامنے ہاتھ جوڑ گئی۔ 

"نہیں نہیں نہیں۔۔۔یہ ناممکن ہے بیوی"۔ وہ اس کے نزدیک ہوا اور انگلیوں پر اس کے آنسو چننے لگا۔ زیست ششدر رہ گئی۔

"تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا۔ میاں بیوی کی بات کو تم ملازموں کے سامنے لے آئی؟ بہت برا کیا"۔ وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے تاسف سے کہہ رہا تھا۔ 

"میں۔۔۔دوبارہ نہیں بھاگوں گی پھر۔۔۔پلیز مجھے معاف کر دیں"۔ وہ التجا کرنے لگی۔

اس کی بات پر یک دم وہ ہنسا تھا۔۔۔اور بلند و بانگ قہقہے لگاتا ہنستا چلا گیا تھا۔ 

"تو تم مانتی ہو اپنی غلطی؟ اور یہ بھی کے تم نے بھاگنے کی کوشش کی تھی؟"۔ لمحہ بھر کو وہ ہنسی روک کر اس سے پوچھنے لگا۔

زیست کے گلے میں گلٹی سی ابھر کر معدوم ہوئی۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا تھا۔

اسے خاموش پا کر وہ پھر گویا ہوا۔

"بالکل ٹھیک کہا تم نے پیاری بیوی، آج کے بعد واقعی تم دوبارہ بھاگنے کی غلطی نہیں کروگی"۔ وہ پراسرار مسکراہٹ چہرے پر سجائے سرد لہجے میں بولا تھا۔ زیست کے اندر خوف کی ایک لہر اٹھی تھی۔

اس سے قبل کے وہ کچھ سمجھتی اگلے ہی پل اس کا ہاتھ تھامے وہ اٹھا تھا اور جیب سے چھوٹا سا ریموٹ نکال کر دروازے کا لاک کھولا۔ پھر اسے جارحانہ انداز میں اپنے ساتھ کھینچتے ہوئے وہ گھر سے باہر نکل گیا تھا۔

"بہت شوق ہے نا تمہیں کھلی فضا میں گھومنے پھرنے کا چلو اب تمہیں پیدل ہی آس پاس کی سیر کراتا ہوں۔ جسے تم ہمیشہ یاد رکھو گی"۔ سفاکی سے کہتے ہوئے سختی سے اس کا ہاتھ دبوچے وہ آگے آگے چل رہا تھا۔ اور پیچھے وہ ننگے پیر اس کے ساتھ گھسٹتی چلی جا رہی تھی۔

"چھوڑو میرا ہاتھ"۔ وہ سکتے کی کیفیت سے نکل کر چیخی تھی۔

پتھریلی روش پر چلتے ہوئے اس کے پیروں میں چبھن کا احساس بیدار ہو رہا تھا۔

مگر وہ تو جیسے اس پل بہرا بن گیا تھا۔

گیٹ کے پاس پہنچ کر اس نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔ زیست لڑکھڑا کر چند قدم پیچھے ہوئی۔

 اس کے پاؤں کی زخمی انگلیوں پر بندھی سفید پٹی سرخ ہو چکی تھی۔ شاید زخم سے پھر خون بہنے لگا تھا۔

"ڈیمن کو آزاد کرو"۔ اس نے قریب موجود گارڈ سے کہا۔

وہ بے یقینی سے اسے دیکھنے لگا۔

"لیکن سر وہ۔۔۔"

"وہ کرو جو میں نے کہا"۔ اس کی بات قطع کرتے ہوئے وہ سختی سے بولا۔

اور حکم دینے کے بعد گیٹ کے پاس رکھی کرسی پر سکون سے بیٹھ گیا۔

اگلے ہی پل گارڈ نے اونچے قد کاٹھ والے سیاہ ڈوبرمین کی زنجیر اسے تھما دی۔ 

اس جانور کی غراہٹ سن کر زیست کا سارا خون سمٹ کر چہرے پر آ گیا۔ خوف سے اس کا وجود کپکپا کر رہ گیا۔ پولز کی سفید روشنی میں وہ اس جانور کے سیاہ آنکھوں کی بھوکی چمک دیکھ سکتی تھی۔  

"بھاگو"۔ اس نے اگلا حکم اب زیست کو دیا۔

وہ میکانکی انداز میں پیچھے کی جانب قدم اٹھانے لگی۔

"میں نے کہا بھاگو"۔ اس بار وہ بولا نہیں بلکہ دہاڑا تھا۔

جسے سن کر وہ اپنی پوری طاقت صرف کرکے بھاگنے لگی تھی۔ 

اس کے پیٹھ دکھاتے ہی قیصر نے احتیاطاً ڈیمن کے منہ کو لوہے کا ماسک پہنا دیا اور پھر اس کی زنجیر چھوڑ دی۔

کئی رقبے پر پھیلے اس سیف ہاؤس کی چار دیواری کے درمیان اب بھاگتی ہوئی زیست تھی اور اس کے پیچھے غراتا ہوا ڈیمن۔

"بھاگو زیست بھاگو اپنا شوق پورا کرو اب"۔ وہ اپنی جگہ پہ بیٹھا بیٹھا ہانک لگا رہا تھا۔ اور وہ چار دیواری کے درمیان مسلسل دوڑتی ہوئی ساتھ ساتھ چیخ بھی رہی تھی۔ دوسری جانب وہ اپنی جگہ پہ بیٹھا یہ کھیل ملاحظہ کر رہا تھا۔ گارڈ بے بسی سے کبھی وحشی جانور کو دیکھتا، کبھی متوحش سی بھاگتی زیست کو تو کبھی مطمئن سی مسکراہٹ چہرے پر سجائے قیصر کو۔ اس پل اسے ڈیمن اور اس شخص کے وحشی پن میں ذرا برابر فرق نظر نہیں آ رہا تھا۔ بس فرق صرف اتنا تھا کے جانور غصے میں تھا اور وہ پرسکون۔

وہ پوری رفتار سے دوڑتی ہوئی پورچ میں داخل ہوئی تھی مگر اچانک پاؤں میں ٹھوکر لگنے سے وہ زمین پر گر پڑی۔ اس نے رخ موڑ کر ڈیمن کو دیکھا اور اپنی جگہ دہل سی گئی۔ وہ پھرتی سے دوڑتا ہوا اس سے ایک قدم دور تھا۔ چھلانگ لگانے کو ہی تھا جب ہوائی فائر کے نتیجے میں وہ ایک دم ٹھہر گیا۔ اپنے مالک کا یہ اشارہ پا کر وہ اب پرسکون ہو گیا تھا۔

جبکہ زیست اپنے چہرے کے آگے ہاتھ رکھے تھرتھر کانپ رہی تھی۔

"کم آن بوائی"۔ وہ ان کے نزدیک پہنچ کر ڈیمن کی زنجیر تھام چکا تھا۔ وہ چپ چاپ اس کے پیچھے چل دیا۔

قیصر نے اس کی لگام زرا دور آ کر گارڈ کے ہاتھ میں تھما دی۔

"ایسا کرنا ضروری تھا۔ اس نے بھاگنے کی کوشش کی، وہ نہیں جانتی کے باہر کون سا خطرہ منہ کھولے بیٹھا ہوگا۔ اسی لیئے اسے ڈرانا ضروری تھا، تاکہ پھر دوبارہ وہ یہ بےوقوفی نہ کرے"۔ اس نے قدرے سنجیدگی سے جواب دیا۔ اس سوال کا جسے گارڈ میں پوچھنے کی ہمت نہ تھی۔

جبکہ گارڈ اس کی بات سمجھ کر سلام کرنے کے بعد ڈیمن کی زنجیر تھامے اسے وہاں سے لے گیا۔

وہ اب چلتا ہوا اس کے پاس پہنچا اور جھک کر پنجوں کے بل اس کے قریب بیٹھ گیا۔

وہ گھٹنوں میں منہ چھپائے خوف سے لرز رہی تھی۔

"زیست"۔ اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے قیصر نے آہستگی سے پکارا۔

آواز پر ہڑبڑا کر اس نے سر اٹھایا تھا اور جوں ہی اپنے مقابل اس مضبوط شخص کو دیکھا بے سوچے سمجھے ہی اس کے کشادہ سینے سے لگ گئی۔

قیصر خیام اس کے اس عمل پر اپنی جگہ ششدر رہ گیا تھا۔ اس کے سینے میں منہ چھپائے زیست ہر لمحہ اس کے سفید شرٹ کو آنسوؤں سے بگھو رہی تھی اور وہ مٹھیاں بھینچے ساکت بیٹھا تھا۔ کوئی بھولا بٹھکا منظر ذہن کے پردے پر ابھر ابھر کے مٹ رہا تھا۔ اس کی کیفیت سے بے خبر وہ آنکھیں زور سے میچے گہرے گہرے سانس لیتی اپنے خوف سے نبرد آزما تھی۔ 

کیسا اجیب منظر تھا کے جو ظلم کر رہا تھا جو اس کی تکلیف کی وجہ تھا وہ اس کے وجود کو اپنے لیئے پناہ گاہ سمجھے بیٹھی تھی۔ انجانے میں اپنے ہی قاتل کو محافظ کا درجہ دے گئی تھی۔

کیا ایسی معصومیت کا حامل شخص بھی کسی کا قاتل ہو سکتا تھا؟ قیصر کے اندر کوئی بول اٹھا تھا۔

اس نے سر جھٹک کر گویا ذہن سے وہ خیال بھی جھٹک دیئے۔ اور پھر بنا ایک لفظ بھی کہے اسے بازوؤں میں بھر کے وہ اٹھا تھا اور ادھ کھلے دروازے کا ایک پٹ کھول کر گھر میں داخل ہو گیا۔

زیست تو آنکھیں موندے جانے کون سی خیالی دنیا میں تھی کہ اس کے وجود سے اٹھتی کلون کی مہک نے اسے واپس حقیقی دنیا میں کھینچ لیا۔

"اتارو مجھے"۔ یک دم وہ اس کے سینے سے سر اٹھا کر غصے سے بولی۔ مگر قیصر دھیان دیئے بغیر سیڑھیاں چڑھنے لگا۔

جبکہ وہ اب بھرپور ہاتھ پاؤں چلا رہی تھی۔

"تمہیں سنائی نہیں دے رہا کیا؟ نیچے اتارو مجھے"۔ اس بار وہ چیخ پڑی تھی۔ سبز آنکھوں میں نفرت ہی نفرت امڈ آئی تھی۔

"ایک بار اور اس طرح چیخی نا تم تو یہی پھینک کر چل دوں گا اور پھر مڑ کر دیکھوں گا تک نہیں"۔ اس کی جانب دیکھے بغیر وہ سخت لہجے میں تنبیہ کر گیا تھا۔ جس کا خاطر خواہ اثر ہوا۔ اس نے پھر بولنے کی غلطی نہ کی۔

"آئی ہوپ اب تمہارا بھاگنے کا شوق پورا ہو گیا ہوگا مسز"۔ راہداری میں چلتے ہوئے وہ تمسخر اڑانے سے بعض نہ آیا تھا۔

ضبط کرتے ہوئے وہ دانت کچکچا کر رہ گئی۔

اسے لیئے وہ اب کمرے میں داخل ہو چکا تھا۔ پھر صوفے کے قریب پہنچ کر اسے پھینکنے والے انداز میں بٹھا دیا۔ وہ تیکھے چتونوں سے اسے گھورتی صبر کے گھونٹ بھر گئی۔

اس کے زخمی پیر پر نگاہ پڑی تو کچھ سوچ کر وہ ڈریسنگ میز کی دراز کھنگالنے چلا گیا۔ 

اس سے بے نیاز زیست اب اپنے زخمی پیر کا جائزہ لے رہی تھی۔ گرنے کے باعث جہاں پہلے ہی زخم تھا وہاں اب دوبارہ چوٹ لگ گئی تھی۔ جس کی وجہ سے اب خون مزید بہنے لگا تھا اور زخم پھر خراب ہو گیا تھا۔ قیصر کے اپنے قریب پہنچتے ہی اس نے میز پر دھرا زخمی پاؤں جلدی سے نیچے کر لیا۔

"پیر آگے کرو"۔ ٹیبل پر فرسٹ ایڈ باکس رکھتے ہوئے اس نے حکم دیا۔ مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی اور ڈھیٹ بنی زمین کو گھورنے لگی۔

"بیوی"۔ سرد لہجے میں پکارا گیا۔

"مت پکارو مجھے اس لفظ سے۔شدید نفرت ہے مجھے اس سے اور اتنی ہی نفرت ہے تم سے"۔ وہ ہذیانی انداز میں چلائی۔

وہ تلخی سے مسکرایا۔ پھر پرسکون انداز میں ہاتھ سینے پر باندھے اسے دیکھا۔

"میں تو کہوں گا۔ ہر لمحہ ہر پل اس ایک لفظ کا ورد کرتے اس کے ذریعے تمہیں اس بھیانک حقیقت کا احساس دلاتا رہوں گا کے تمہاری زندگی کا مالک اب میں ہوں"۔ ایک ایک لفظ چبا چبا کر ادا کیا۔

وہ زخمی ناگن کی مانند بل کھا کر رہ گئی۔

اس کے انداز کو خاطر میں لائے بغیر وہ جھکا اور اس کا زخمی پاؤں زور سے کھینچ کر اپنے سامنے کیا۔۔جس سے کے وہ کھسک کر صوفے پر بیٹھے سے لیٹ گئی۔ 

"جنگلی انسان یہ کون سا طریقہ ہے کسی کی مرہم پٹی کرنے کا؟"۔ وہ دانت پیس کر کہتے ہوئے اٹھنے کی کوشش کرکے اپنا پاؤں اس سے چھڑوانے لگی مگر مجال ہے جو اس شخص کے انداز میں کوئی فرق آیا ہو۔

وہ ٹو سیٹر پر اس کے قریب ہی بیٹھا، اس کا پیر گھٹنے پہ رکھے پرانی پٹی کھول رہا تھا۔

"اس طریقے کو قیصر کریڈ کہتے ہیں"۔ اپنے کام میں مصروف وہ سنجیدگی سے بولا تھا۔

زیست دزدیدہ نظروں سے اس کی جھکی خمدار پلکیں تکتی خاموش ہو رہی۔

وہ ڈیٹول ملے پانی میں روئی بگھو کر اب اس کا زخم صاف کر رہا تھا۔ روئی کا زخم کو لگنا ہی تھا کے وہ تکلیف سے تڑپ اٹھی تھی۔ صوفے کی پشت کو مٹھی میں سختی سے تھامے وہ سسکاری بھرنے لگی۔

"ایک درندے کو مسیحائی کرتے پہلی بار دیکھ رہی ہوں"۔ وہ زیر لب بڑبڑائی تھی۔ لیکن وہ نہیں جانتی تھی کے مقابل بیٹھا شخص کبھی کبھی دل میں کہی باتوں کو بھی سن لینے کا ہنر رکھتا تھا۔ پھر یہ بڑبڑاہٹ تو انتہائی واضح تھی۔

"شاید اس لیئے کیونکہ میں نہیں چاہتا کے تم اتنی جلدی مر جاؤ۔ آخر کو تم مر گئی تو پیچھے میری دی گئی اذیتیں سہنے کیلئے اور کون رہ جائے گا پھر؟"۔ مرہم لگانے کے بعد ڈریسنگ کرتے ہوئے وہ تلخی سے کہہ گیا تھا۔ اس کے احمریں لبوں پہ در آنے والی مسکراہٹ زیست کو اپنا منہ چڑاتی محسوس ہوئی۔

اس کی ڈریسنگ کرکے وہ خون آلود پٹی اور روئی ڈسٹ بن کی نظر کرکے ہاتھ دھونے چلا گیا۔

دو منٹ بعد واپس آیا تو دیکھا وہ صوفے پر سمٹ کر سوئی ہوئی تھی۔

قیصر نے ایک اچٹتی نگاہ اس پر ڈالی پھر رخ موڑ کر الماری سے دوسری شرٹ نکال کر چینج کرنے چلا گیا۔

_______________________________

صبح آٹھ بجے کا شروع ہونے والا سفر اب تک جاری تھا۔ ابھی ایک گھنٹہ اور یہ سفر چلنا تھا۔

وہ خاموشی سے باہر بھاگتے دوڑتے مناظر دیکھ رہی تھی اور ایک نگاہ غلط بھی اپنے برابر بیٹھے گاڑی ڈرائیو کرتے قیصر پر اب تک نہ ڈالی تھی۔ 

وہ بھی اسے نظرانداز کیئے گاڑی چلا رہا تھا۔ اسے کب اس سے سروکار تھا۔

اپنے گھر میں بند رہ کر اسے کبھی اتنی گھٹن نہ ہوئی تھی جتنی کے ان دو دنوں میں اسے اس سیف ہاؤس میں رہ کر وحشت ہو چلی تھی۔ اب تک کا گزرا اس کا ہر ایک لمحہ اذیتوں بھرا تھا۔ 

مزید ایک گھنٹہ بھی خاموشی سے کٹ گیا تھا۔ نہ وہ بولا تھا اور نہ زیست نے اسے مخاطب کرنے کی کوشش کی تھی۔

یہی غنیمت تھا کے وہ دو بہت مختلف مزاج کے لوگ اس وقت ایک ساتھ ایک ہی گاڑی میں موجود تھے۔ 

خیابان بخاری میں داخل ہوتے ہی وہاں کے مکینوں نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا تھا۔ بےشک وہ میکائیل نہ تھا۔ وہ اس گھر کا بیٹا بھی نہ تھا مگر پچھلے چار ماہ سے وہ ان کے درمیان رہ رہا تھا۔ اتنے عرصے میں ان سب کو ایک دوسرے سے انسیت ہو چلی تھی۔ قیصر خیام جو بہت جلدی دوسروں پر اعتبار کرنے کا قائل نہ تھا۔ وہ بھی ان کی محبتوں سے بچ نہ پایا تھا۔ اس نے بھی میکائیل کے ان رشتوں کو ویسے ہی اپنا لیا تھا جیسے ان لوگوں نے اسے۔ 

"فیض قیصر کہاں رہ گیا ہے آخر؟ دیکھو وہ بیچاری اکیلی بیٹھی ہے"۔ نرمین نے تاسف سے کہتے ہوئے اسٹیج کی جانب اشارہ کیا۔ جہاں پیچ اور گولڈن رنگ کے لہنگے میں ملبوس سولہ سنگار کیئے وہ تختہ مشق بنی ہوئی تھی۔

"معلوم نہیں۔ پتہ کرتا ہوں"۔ انہیں جواب دے کر ہال سے باہر نکلتے ہوئے وہ اسے کال ملانے لگے تھے جب ان کی نگاہ سیاہ سوٹ میں ملبوس قیصر پر پڑی تھی۔ وہ اسی کی جانب چلے آئے۔

"کہاں چلے گئے تھے بھئی تم؟ کہا تھا نا کے انسانوں کی طرح شریک ہونا ہے تم نے اِدھر؟"۔ وہ برہمی سے گویا ہوئے۔

"میں زرا کام سے گیا تھا"۔ ان کے ساتھ چلتا ہوا وہ اب ہال میں داخل ہو چکا تھا۔

مہمانوں سے ملتے ہوئے اس کی نگاہ ابو زر اور عالیان پر پڑی ان کو وہاں دیکھ کر وہ چونک سا گیا۔

"تم لوگ یہاں بنا انویٹیشن کے کیا کر رہے ہو؟"۔ ان کے نزدیک پہنچ کر وہ بظاہر مسکراتے ہوئے زیر لب پوچھ رہا تھا۔

"لو بھلا، ہمیں بھی انویٹیشن کی ضرورت پڑی ہے کبھی؟ ہم تو جہاں چاہیں وہاں پہنچ جاتے ہیں"۔ زر نے کالر اکڑاتے ہوئے فخریہ کہا۔

جس پر اگلے ہی پل عالیان نے گھوسا اس کے شانے پہ رسید کیا۔

"کنٹرول رکھ"۔ ساتھ ہی سنجیدگی سے ٹوک بھی دیا۔ جس پر زر نے لبوں پر انگلی رکھ کے چپ سادھ لی۔

"خیر اب تم لوگ آ ہی گئے ہو تو کھانا کھا کر جانا"۔ وہ دوستانہ انداز میں بولا۔

"اوہو!بہت بڑا احسان ہے آپ کا۔ جیسے آپ نہ کہتے تو ہم بنا کھائے ہی چلے جاتے"۔ زیادہ دیر خاموش نہ رہتے ہوئے زر نے اس سے بغلگیر ہوتے ہوئے کہا۔

اس کی بات پر وہ پہلی بار کھل کر ہنسا تھا۔ 

اسٹیج پر بیٹھی زیست منہ بنائے اس کا انداز ملاحظہ کر رہی تھی۔ 

جبکہ وہ کچھ ہی لمحوں بعد اس کے برابر والے صوفے پر آ بیٹھا تھا۔

"غضب ڈھا رہی ہیں آپ تو آج مسز۔ رحم کریں زرا ہماری حالت پر۔۔دل کمزور ہے ہمارا"۔ اس کے نزدیک جھکا وہ سرگوشیوں میں یوں حال دل کہہ رہا تھا کے ایک پل کیلئے تو زیست کو بھی یقین آنے لگا کے واقعی ان کی لو میرج ہوئی ہے۔

"تمہیں تو اوسکر ملنا چاہیئے"۔ اس کی جانب دیکھتے ہوئے وہ دھیمے لہجے میں ہونٹ ہلائے بغیر بولی۔

اور وہ یوں اسے تک رہا تھا جیسے اس نے اظہار محبت کر دیا ہو۔

"تم میرے لیئے کسی اوسکر سے کم ہو کیا؟ ہوں؟"۔ اس کا ہاتھ تھام کر لبوں سے لگاتے ہوئے وہ جیسے ارد گرد کا ہر منظر بھول بیٹھا تھا۔

زیست نے گھبرا کر اِدھر اُدھر لوگوں کو دیکھتے ہوئے اپنا ہاتھ کھینچنا چاہا۔ مگر مقابل موجود شخص جانے کیا ٹھانے بیٹھا تھا۔

"اوور ایکٹنگ بند کرو اپنی سمجھے"۔ وہ اب اسے گھرکنے لگی۔ کیونکہ مہمان اب شوخی بھری آوازیں بلند کر رہے تھے۔ جبکہ کیمرہ مین دھڑا دھڑ ان کی تصویریں اتار رہا تھا۔

"اہمم اہمم"۔ اچانک کوئی قریب آ کر کھنکھارا تھا۔

زیست چونک سی گئی۔ قیصر نے نگاہیں اٹھائیں تو سامنے ہی نیلے رنگ کے انارکلی فراک میں ملبوس تابین سینے پہ ہاتھ باندھے کھڑی چبھتی نگاہوں سے اس کا چہرا تک رہی تھی۔ انداز خار کھایا ہوا تھا۔ سیاہ آنکھوں میں ویرانیاں پھیلی ہوئیں تھی۔

موقع غنیمت جان کر زیست نے جلدی سے اپنا ہاتھ قیصر کے ہاتھ سے کھینچ لیا۔ جسے تابین نے بخوبی نوٹ کر لیا تھا۔ اس کی آنکھیں شدت جذبات سے جل اٹھیں۔

"شادی مبارک ہو"۔ اس نے دانت پہ دانت جماتے ہوئے کہا۔ چہرے پر مسکراہٹ کا شائبہ تک نہ تھا۔

"تابین۔۔۔کیسی ہو تم؟"۔ لہجے میں زمانے بھر کی خوش اخلاقی سمیٹ لاتے ہوئے قیصر خیام نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ سوال کیا تھا۔

جس پر وہ زخمی سا مسکرائی۔

"اپنا نام مجھے آج سے پہلے اتنا خوبصورت کبھی نہیں لگا"۔ وہ پراعتماد لہجے میں بولی۔

اس کے جواب پر زیست غش کھاتے کھاتے رہ گئی۔ ساتھ ہی ایک تیز نظر پاس بیٹھے قیصر پر ڈالی تھی۔ اور جوں ہی وہ اس کی طرف متوجہ ہوا زیست نے اتنی ہی تیزی سے اپنا چہرا دوسری طرف پھیر لیا۔

"ہونہہ! رنگین مزاج کہیں کا"۔ وہ بڑبڑا کر رہ گئی۔

"کچھ کہا تم نے؟"۔ وہ سوالیہ نگاہوں سے اس کے چہرے کا نیم رخ دیکھنے لگا۔ زیست نے ایک کٹیلی نگاہ اس پر ڈالی۔

"نہیں کچھ بھی نہیں"۔ شانے اچکا کر جواب دیا۔ جس پر وہ مطمئن ہوا۔

اس عرصے میں وہ دونوں ہی تابین کو فراموش کرچکے تھے۔

"ایکسکیوز می"۔ تابین کیلئے بھی اب وہاں مزید رکنا محال تھا۔ اس لیئے وہ اسٹیج سے اتر گئی۔ 

"کون تھی وہ؟"۔ سر پر جمے دوپٹے کو درست کرتے ہوئے وہ بظاہر سرسری سا پوچھ بیٹھی۔

قیصر نے چونک کر اس کی جانب دیکھا۔

"تمہیں اس سے کیا؟"۔ مہمانوں کی جانب دیکھ کر مسکراتے ہوئے وہ زیر لب بےرخی سے بولا۔

"بہت ہنس ہنس کے باتیں کی جا رہی تھی۔ ضرور کوئی قریب کی ہوگی"۔ لفظ 'قریب' کو اس نے دانتوں تلے پیس ڈالا۔

"ہاں، ہے قریب کی تو پھر؟"۔ وہ ڈھٹائی سے پوچھنے لگا۔

"تو پھر اسے کیوں نہیں اپنے پہلو میں لا کر بٹھایا؟ میں کم از کم برباد نہ ہوتی"۔ وہ تنک کر بولی۔

"مجبوری ہے نا۔ اب شادی تم سے کی ہے تو پہلو میں اسے کیسے بٹھا دیتا؟ لوگ باتیں بناتے نا بس اسی لیئے"۔ کوٹ درست کرتے ہوئے وہ رازداری سے بولا۔

اور اس گھڑی زیست کو اپنی بےبسی، کم مائیگی پر شدت سے رونا آیا تھا۔ مگر ماہا کو اسٹیج کی جانب آتا دیکھ کر وہ ضبط کر گئی۔

"بھائی! یہ دیکھیں، یہ میں آپ دونوں کیلئے لائی ہوں"۔ اس نے بڑا سا ایک گفٹ ریپ باکس ان دونوں کے سامنے کرتے ہوئے چہک کر بتایا۔

"کیا ہے یہ؟"۔ قیصر نے باکس تھامتے ہوئے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا۔

"بعد میں ایک ساتھ کھول کر دیکھ لیجیے گا آپ دونوں۔ ابھی یہ لائیں اِدھر دیں"۔ اس نے پیکٹ واپس پکڑتے ہوئے کہا۔

"تو پھر تم اب کیا مجھے یہ صرف دکھانے لائی تھی؟" قیصر نے خفگی سے پوچھا۔

"اوہو۔۔۔یہ سرپرائز ہے نا اس لیے بعد میں سکون سے کھولیئے گا۔ ابھی نہیں"۔ وہ اسے پچکارنے والے انداز میں بولی۔

"اچھا دادی اماں، جیسا تم کہو"۔ وہ جیسے ہار مان گیا۔ 

ماہا اس کی بات پر ہنستی ہوئی اسٹیج سے اتر گئی۔

ان انجان چہروں کو تکتے ہوئے زیست کے اندر اداسی پھیل گئی تھی۔ اسے موہوم سی امید تھی کے آج کم از کم وہ اپنی ماں سے تو مل سکے گی۔ ان کے گلے لگ گے اپنے دل کی تکلیف کو تھوڑا کم کر لے گی مگر وہ مشفق وجود اسے اپنی پناہ میں لینے کیلئے وہاں کہیں نہیں تھا۔ اس کی سبز آنکھیں نمکین پانیوں سے بھرنے لگیں تھی۔ جنہیں وہ پلکیں جھپک جھپک کر اندر اتار رہی تھی۔

کھانے کا دور چل رہا تھا۔ مہمان کھانے پینے اور گفتگو میں مگن تھے۔ جبکہ وہ اس کی جانب متوجہ ہوا۔

"اب کیا ہوا تمہیں؟"۔ وہ کوفت سے پوچھنے لگا۔ 

زیست نے شکایتی نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

"کچھ نہیں ہوا مجھے۔ بدقسمتی سے تمہارا ہر ظلم سہہ کر بھی میں اب تک زندہ ہوں"۔ وہ رو دینے کو تھی۔ خود ترسی کی انتہا تھی یہ۔ قیصر خیام کی پیشانی پر بل پڑنے لگے۔

موبائل کی میسج ٹون بجنے پر اس نے پیغام کھول کر دیکھا۔ پھر واپس موبائل جیب میں رکھ کر اس نے ایک بار پھر زیست کی جانب دیکھا۔

"چلو میرے ساتھ"۔ اچانک اس کا ہاتھ تھامے وہ اٹھا تھا۔

وہ بھونچکی رہ گئی۔

"کہاں لے جا رہے ہو؟"۔ اس نے اٹھتے ہوئے پوچھا۔

"سوال مت کرو چپ چاپ چلو میرے ساتھ"۔ اسے ساتھ لیئے وہ اب ہال سے باہر نکل رہا تھا۔

پھر کچھ ہی دیر بعد وہ دلہن بنی زیست کے ہمراہ پارکنگ ایریا کی طرف آ گیا۔

"گاڑی میں بیٹھو"۔ فرنٹ سیٹ کا دروازہ وا کرتے ہوئے حکم دیا۔

وہ الجھ گئی۔

"کہاں لے جا رہے ہو مجھے؟"۔ وہ برہمی سے پوچھنے لگی۔

قیصر نے ضبط سے مٹھیاں بھینچی۔ پھر اس کا بازو دبوچ کے گاڑی میں بٹھا دیا اور غصہ دروازے پر نکلا۔

زیست اپنی جگہ اچھل کر ساکت ہوئی۔

"اغوا نہیں کر رہا ہوں تمہیں۔ اور اگر کر بھی رہا ہوں تو شوہر ہوں تمہارا اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے"۔ ڈرائیونگ سیٹ سنبھال کر گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے وہ تلخی سے کہہ گیا۔

اس کے تیور دیکھ کر وہ بوکھلا سی گئی۔

"لیکن ہم ایسے کسی کو بتائے بغیر کیسے جا سکتے ہیں؟"۔ اس نے جیسے یاد دلایا۔ مقصد اسے کسی طور روک لینا تھا۔

"وہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے"۔ گاڑی سڑک پہ ڈالتے ہوئے اس نے ایک ہی جملے میں بات تمام کردی۔ اور وہ نا چاہتے ہوئے بھی خاموشی اختیار کر گئی۔ وہ اس وقت بد زبانی کا مظاہرہ کرکے اپنی مشکل مزید بڑھانا نہیں چاہتی تھی کے بہرحال اس جلاد سے کچھ بعید نہ تھا غصے میں آکر وہ کیا کر گزرتا؟

_______________________________

وہ تابین کو ارد گرد ڈھونڈتی پھر رہی تھی جب اچانک اپنے سامنے آ جانے والی ہستی کو دیکھ کر لمحہ بھر کیلئے وہ ٹھہر سی گئی۔

گرے سوٹ میں ملبوس وہ اونچا مضبوط جسامت اور براؤن آنکھوں والا شخص۔ اس کے ذہن نے لمحوں کا سفر طے کیا تھا اس آفیسر کو پہچاننے کیلئے۔

"آپ؟ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟"۔ وہ بھنویں اکھٹی کیئے دونوں ہاتھ کمر پہ جمائے گردن اوپر اٹھا کر اس شخص کو دیکھتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔

شہیر نے سر تا پیر سبز رنگ کے غرارے میں ملبوس اس نازک اندام لڑکی کا جائزہ لیا اور پھر اس کی آنکھوں میں بھی شناسائی کے رنگ اترتے چلے گئے۔

"مجھے انوائٹ کیا گیا ہے تو غالباً میں مہمان ہوا"۔ دھیمے اور سنجیدہ لہجے میں جواب دیا۔

اس کا لب و لہجہ اور بولنے کا انداز کافی اکھڑ مگر متاثر کن تھا۔

"آپ یہاں کس کے مہمان ہیں؟ میں نے تو آپ کو پہلے کبھی نہیں دیکھا ڈیڈ کے سرکل میں۔ پھر کس نے بلایا ہے آپ کو یہاں؟ اور اگر بلایا بھی ہے کسی نے تو میرا خیال ہے ٹائمنگ صحیح نہیں بتائی آپ کو۔ سب جانے والے ہیں اور آپ ماشاءاللہ سے اب آ رہے ہیں؟"۔ وہ اس کے ارد گرد گھومتی تفتیش جاری رکھے ہوئے تھی۔

جبکہ وہ بیچارہ ابھی تک اینٹرنس وے پر کھڑا تھا۔

"اووفف! یہ لڑکی ہے یا سوالوں کی دکان"۔ وہ بے بسی سے زیر لب بڑبڑایا۔

"مسٹر، کچھ پوچھ رہی ہوں میں آپ سے؟"۔ اسے ہنوز خاموش پا کر ماہا نے ہوش دلایا۔

"آپ یقیناً بریگیڈیئر سر کی بیٹی ہیں"۔ اس نے جیسے اندازہ لگایا۔

"ہاں ہوں تو؟ شکایت لگاؤ گے میری ان سے؟"۔ وہ بلا وجہ اس پر چڑھ دوڑی۔

"نہیں ہرگز بھی نہیں۔ میری کیا مجال بھلا جو میں ایسا کروں"۔ اس نے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے بےچارگی سے کہا۔

"شہیر تم پہنچ بھی گئے اور بتایا ہی نہیں؟ یہاں کیا کر رہے ہو؟ چلو بھی اب"۔ عالیان کی نگاہ اس پر پڑی تو اُدھر چلا آیا۔

ماہا کبھی عالیان کو دیکھ رہی تھی تو کبھی اسے۔

"ہاں میں آ تو گیا تھا پر کچھ سیکیورٹی چیکس سے گزرنے میں وقت لگ گیا"۔ مصنوعی سنجیدگی سے کہتے ہوئے اس کا اشارہ صاف ماہا کی جانب ہی تھا۔ جسے سمجھ کے وہ تپ کر رہ گئی۔

"مذاق مت کر اور چل اب"۔ ماہا سے ایکسکیوز کرتے ہوئے عالیان نے اسے ساتھ چلنے کو کہا۔

ایک نظر اس کے تپے ہوئے چہرے پر ڈال کر وہ مسکراہٹ ضبط کرتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ وہ پیر پٹخ کر واپس اپنے سابقہ کام میں لگ گئی۔

_______________________________

وہ اسے ساتھ لیئے ایک ریسٹورنٹ میں آیا تھا۔ اور جس ہستی کو زیست نے اپنی نگاہوں کے سامنے دیکھا تھا اس کا دل جذبات اور خوشی سے بھر گیا۔ 

"امی آپ یہاں؟"۔ اگلے ہی پل وہ دوڑ کر ان کے سینے سے لگ گئی اور کب کے رکے آنسوؤں کو بہنے کا بہانا مل گیا۔

"میں یہیں ہوں"۔ اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے بعد وہ اپنے اور ان کے درمیان میں ایک میز چھوڑ کر دوسری خالی میز کے گرد کرسی کھینچ کے بیٹھ گیا۔ اس طرح کے اب اس کا رخ ان کی ٹیبل کی جانب ہی تھا۔

زیست نے جیسے کچھ سنا ہی نہیں۔ اسے اس پل کہاں کسی کا ہوش رہا تھا۔ کتنی ہی دیر تو وہ فرزانہ بیگم کے ساتھ لگی آنسو بہاتی رہی تھی۔ اور وہ بھی بیٹی کو اپنے سامنے پا کر آبدیدہ ہوگئیں تھی۔

"اتنے آنسو آتے کہاں سے ہیں اس کے پاس؟"۔ اس کی جانب دیکھتا ہوا وہ بدمزہ ہوا تھا۔

"امی بیٹھیں آپ"۔ زیست نے ان کا ہاتھ تھام کے واپس بٹھا دیا اور خود بھی ان کے برابر بیٹھ گئی۔

آس پاس بیٹھے لوگ حیرت سے دلہن کی طرح سجی سنوری اس لڑکی کو دیکھ رہے تھے۔ اور وہ ہر ایک کو نظرانداز کیئے انہی کی جانب متوجہ تھی۔ یہاں تک کے وہ اپنے ارد گرد قیصر خیام کی موجودگی بھی بھول بیٹھی تھی۔ 

"تم ٹھیک تو ہو نا میرا بچہ؟"۔ وہ اس کی پیشانی چومتی بارہا اس سے یہ سوال کر رہیں تھی۔ اور وہ پھیکا سا مسکراتی ہوئی اثبات پہ محض سر ہلا دیتی۔

تین لڑکوں پر مشتمل وہ ٹولہ ان کی میز کے پاس والی میز کے گرد آ بیٹھا تھا۔ 

"اے ذیشان دیکھ لگتا ہے اپنی شادی چھوڑ کر بھاگ آئی ہے"۔ ان میں سے ایک نے اس کے دلہناپے پر فقرہ اچھالا۔

"لگتا ہے دلہے میاں پسند نہیں آئے تھے میڈم کو"۔ ذیشان نامی لڑکے نے بھی تبصرہ کیا۔ 

زیست نے ان کی باتیں سنی ضرور تھی مگر نظرانداز کر گئی۔

"اوئے میڈم، اپنا دولہا پسند نہیں آیا تھا تو ہم میں سے کسی ایک کو پسند کر لو اگر اعتراض نہ ہو تو"۔ تیسرے لڑکے نے خباثت سے مسکراتے ہوئے اپنا حصہ ڈالا۔ جس پر باقی دو بھی کھی کھی کرنے لگے۔

قیصر کی آنکھوں میں سرخی اترنے لگی۔ مگر وہ ضبط کیئے بیٹھا رہا۔

"ایک نظر دیکھ تو لو، یہاں ورائٹی ہی ورائٹی ہے"۔ ان کے فقروں میں اب اضافہ ہی ہوتا جا رہا تھا۔

"چلیں امی ہم کہیں اور بیٹھتے ہیں"۔ زیست اچانک اپنی جگہ سے اٹھی تھی۔ 

"ہاں بیٹا چلو یہاں سے"۔ وہ بھی بیٹی کا بازو تھامے اٹھ کھڑی ہوئیں۔

اور وہ جو آگے کی جانب موجود میز کی طرف جا رہی تھی ان ہی میں سے ایک لڑکے نے اٹھ کر اس کا راستہ روک لیا۔

"یہ کیا بدتمیزی ہے؟ ہٹو سامنے سے"۔ زیست نے اپنی کمزوری دباتے ہوئے قدرے غصے سے کہا۔

"ارے بدتمیزی کہاں کی ہے؟ اچھا خاصا آفر دے رہے ہیں۔ دیکھو ہم تین ہیں کسی ایک کو پسند کر سکتی ہو تم یا پھر چاہو تو سب حاضر ہیں"۔ وہ ایک قدم آگے بڑھا کر بولا۔

زیست کا اعتماد ہوا ہونے لگا۔ وہ دبوسی نہ تھی مگر پچھلے کچھ عرصے سے چل رہے حالات نے اسے بنا دیا تھا۔

"شرم کرو تم لوگ۔ کل کو تمہاری بہن کے ساتھ بھی کوئی یہی کرے گا تو کیا گزرے گی تم پر؟"۔ فرزانہ بیگم نے زیست کو پیچھے کرتے ہوئے انہیں شرم دلانا چاہی۔

"آنٹی آپ بیچ میں نہ پڑیں۔ بے بی تم یہاں آؤ"۔ انہیں پیچھے کرتے ہوئے اس نے اب زیست کی کلائی تھامی اور کھینچ کر اپنے سامنے کر لیا۔ زیست کے سارے وجود میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔

تبھی اچانک کسی نے اس لڑکے کے کندھے پر پیچھے سے ہاتھ رکھا۔ جوں ہی زیست کی نگاہ اس مضبوط ہاتھ میں جگمگاتے فیروزہ پر پڑی اس کی رکی ہوئی دھڑکن اچانک تیز تر ہو گئی تھی۔

"ابے کون ہے؟"۔ جوں ہی وہ مڑا تھا وہی انگوٹھی والا ہاتھ مضبوط مٹھی بن کر اس کے چہرے پر پڑا تھا۔ اس ہاتھ کی انگلی میں پڑا فیروزہ اس لڑکے کے رخسار کو چیر کر رکھ گیا تھا۔

وہ اوندھے منہ پاس پڑے میز کے اوپر گرا تھا۔

لوگ ان کی جانب متوجہ ہو چکے تھے۔ 

"تمہارا باپ"۔ سفاکی سے کہتے ہوئے اس نے لڑکے کا گریبان پکڑ کر جھٹکے سے اپنے قریب کھینچا تھا اور اسے بے دردی سے فرش پر پھینک دیا۔

"نہیں۔۔۔۔رکو"۔ اس سے قبل کے وہ اسے ٹھوکروں پر رکھ لیتا زیست نے سرعت سے آگے بڑھ کر قیصر کا بازو تھام کے بمشکل اسے پیچھے کھینچ لیا۔

غیض و غضب سے سرخ پڑتیں سرمئی آنکھیں اس نے زیست کی جانب اٹھائیں۔ وہ جو پہلے ہی خوفزدہ تھی اس کا خون مزید خشک ہو گیا۔

مگر اس نے پھر بھی اس کا بازو تھام رکھا تھا۔ اور مسلسل نفی میں سر ہلا رہی تھی۔ 

"تیری تو (گالی) ذیشان پکڑ اسے"۔ زخمی لڑکا اب پھر سے اپنے پیروں پر آ چکا تھا اور ساتھ ہی اب اپنے دوسرے دوست کو اس پر جھپٹنے کا حکم بھی دیا۔

خود وہ آگے بڑھ کر اس پر حملہ کرنے کو ہی تھا جب قیصر نے اسی وقت ایک اور گھوسا اسے رسید کیا۔ وہ لڑکھڑا کر ایک بار پھر زمین پر گر پڑا۔ اور اس بار وہ فوری سنبھل نہ پایا تھا۔

جبکہ باقی دو لڑکے پیش قدمی کرنے کو آگے بڑھ ہی رہے تھے کے ریسٹورنٹ میں داخل ہونے والے عالیان اور شہیر نے آگے بڑھ کر ان دو لڑکوں کا ارادہ بھانپ کر ان کو فوری جکڑ لیا تھا۔

"کیا ہو رہا ہے یہ؟ مینجر مینجر"۔ ساتھ ہی ساتھ عالیان اب مینجر کو پکارنے لگا۔ جس کو صورتحال کا اندازہ شاید اب ہوا تھا۔

"مائی گاڈ! یہ سب کیا ہو رہا ہے یہاں؟"۔ وہ اپنا سر تھام کر رہ گیا۔ 

"سنبھالو اپنے کسٹمرز کو۔ میری بیوی سے بدتمیزی کی اس نے۔ اس کی تو۔۔"۔ غصے سے بلند ہوتی آواز میں کہتے ہوئے اس نے زمین پر پڑے وجود کو ایک لات رسید کی تھی۔ پھر زیست کا بازو تھامے وہ آندھی طوفان کی طرح وہاں سے نکل گیا۔

گاڑی تک پہنچنے کے بعد اس نے زیست کا بازو چھوڑ دیا اور خاموشی سے فرنٹ ڈور اس کیلئے وا کیا۔ یہ اشارہ تھا کے چپ چاپ بیٹھ جاؤ۔

اس کے تیور دیکھ کر وہ بنا کچھ کہے جلدی سے گاڑی میں سوار ہو گئی۔ جبکہ وہ خود اب ڈرائیونگ سیٹ پر آ چکا تھا۔ زیست نے آنسوؤں سے بھیگا چہرا اس کی جانب اٹھایا مگر وہ اس کی طرف متوجہ نہ تھا۔ بلکہ موبائل کو بلوٹوتھ سے کنیکٹ کرنے کے بعد آلے کو کان میں لگا کر وہ گاڑی اسٹارٹ کر چکا تھا۔ 

"زر، آنٹی کو جس فلیٹ سے لیا تھا انہیں بحفاظت وہیں واپس چھوڑ آؤ"۔ وہ اب کافی حد تک اپنی جذباتیت پر قابو پا چکا تھا۔ اسی لیئے جب بولا تو لہجہ سنجیدہ تھا۔

اپنا چہرا صاف کرتی وہ خاموشی سے ونڈ اسکرین کے پار دیکھنے لگی۔ اس کا ذہن مختلف سوچوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ کیا تھا یہ شخص؟ پل میں تولا اور پل میں ماشہ۔ ایک وقت پہ اسے زخم دے رہا ہوتا تو اگلے ہی پل ان زخموں پر مرہم بھی لگا دیا کرتا۔ خود اسے تکلیف سے دوچار کرتا تو وہیں کسی اور کے ایسا کرنے پر مرنے مارنے پہ اتر آتا۔ تھک کر اس نے سیٹ کی پشت سے سر ٹکا دیا۔

اس سے بے نیاز قیصر اب فون پر عالیان سے مخاطب تھا۔

"ہاں میں اس آدمی سے مطلوبہ چیز لے چکا ہوں۔ میرے پاس ہی ہے۔ اوکے میں تم لوگوں سے مل کر بتاتا ہوں پھر مزید"۔ اطلاع دے کر وہ اب رابطہ منقطع کر چکا تھا۔ پھر ماحول میں یک دم خاموشی در آئی۔

گاڑی مختلف راستوں سے ہوتی ہوئی سیف ہاؤس کی جانب رواں دواں تھی۔

"تمہیں تو خوش ہونا چاہیئے تھا نا۔۔۔میں مزید برباد ہو جاتی۔ تم جو سزا مجھے دینا چاہتے تھے وہ خود بخود مجھے مل جاتی۔ ذلت میرا مقدر بن جاتی۔ پھر کیوں تم نے اس مصیبت کا رخ موڑ دیا؟ جبکہ تمہارا اپنا مقصد بھی تو یہی ہے۔ مجھے برباد کرنا!"۔ خاموش فضا میں اچانک اس کی تھکی تھکی سی آواز گونجی تھی۔ انداز میں دکھ کا عنصر شامل تھا۔ صدمہ تھا۔ تو شکوہ بھی تھا۔

وہ جو خاموشی سے ڈرائیو کر رہا تھا اس کی بات سن کر پیشانی پر سلوٹیں ابھر آئیں۔

"کسی خوش فہمی میں ہرگز بھی مت رہنا کے میں نے یہ سب تمہارے لیے کیا۔ میں نے یہ اس لیئے کیا کیونکہ اب معاشرہ جان چکا ہے کے تم میری بیوی ہو اور اگر کوئی میری بیوی سے بدتمیزی کرتا، میں چپ چاپ بیٹھا رہتا تو یہ بات میری غیرت اور مردانگی پر تازیانے کی طرح لگتی۔۔۔بس یہی سوچ کر میں نے بقول تمہارے اس مصیبت کا رخ موڑ دیا"۔ سرد لہجے میں کہتا ہوا وہ سفاکی کی حد تک صاف گوئی کا مظاہرہ کر گیا تھا۔ گویا جو کچھ بھی کیا اس کیلئے عذر پیش کر رہا تھا۔

زیست کے دل میں ٹیس سی اٹھی تھی اس کی بات سن کر۔ 

"تو یعنی تم نے زمانے کا سوچ کر اپنی بیوی کی عزت بچائی؟ اس لیئے نہیں کیونکہ یہ تمہارا فرض تھا؟"۔ یہ سوال کرتے ہوئے اسے اپنا آپ پستیوں میں گرتا محسوس ہوا۔

"اول تو تم مجھے اپنا شوہر مانتی نہیں ہو۔ تو پھر اپنے حقوق کی دہائی دینے کی بھی ضرورت نہیں ہونی چاہیئے تمہیں۔ رہی بات میری، تو ہاں میرے حقوق ہیں تم پر کیونکہ میں مانتا ہوں تم میری بیوی ہو اور قیصر خیام کی بیوی کو ٹارچر کرنے کا اسے ذلیل کرنے کا حق صرف اسے ہی ہے۔ کوئی اور اگر تمہیں انگلی بھی لگائے گا تو مجھے اچھا نہیں لگے گا"۔ اس کا انداز سنجیدہ تھا۔۔۔بےحد سنجیدہ۔ اتنا کے زیست یک بارگی اسے دیکھنے پر مجبور ہو گئی۔

عین اسی وقت اس نے سڑک پر سے نگاہیں ہٹا کر اس کی طرف اٹھائیں تھی۔ نگاہیں ملیں۔ سرمئی آنکھوں سے ٹکراتیں سورج کی کرنیں زیست کو لمحہ بھر کیلئے پتھر کر گئی تھی۔ 

"اور جب مجھے کچھ اچھا نہیں لگتا ہے تو پھر میرا ردعمل کیا ہوتا ہے یہ تم میرے خیال سے اب تک جان ہی چکی ہوگی"۔ بہت گہری نگاہ۔۔۔بولتی ہوئی۔ آگ اگلتی ہوئی۔ 

وہ سانس روکے یک ٹک اسے دیکھ رہی تھی۔ بلاشبہ اس کی آنکھیں پتھر کرنے کا ہنر رکھتیں تھی۔ وہ اس کے الفاظ کب سن رہی تھی؟ وہ تو بس اس کے ہلتے لب اور بولتی آنکھیں دیکھ رہی تھی۔۔۔پڑھ رہی تھی۔

"میں تمہارے ساتھ کیسے پیش آتا ہوں یہ میرا معاملہ ہے۔ اور اگر کوئی میرے معاملے میں بولا یا پھر کوئی تیسرا اگر میرے اور تمہارے درمیان پڑا تو اس کا اس سے بھی برا حشر ہوگا"۔ اس کے قریب جھکتے ہوئے وہ انگارہ ہوتی آنکھیں اس کے چہرے پر جمائے اپنے ارادوں کا پتہ دے گیا تھا۔

"ایسا میں نے کیا کیا ہے جو تم مجھے سزا دینے پر تل گئے ہو اور اتنی نفرت کرتے ہو؟ آخر کیوں؟ کیا اتنا بڑا تھا میرا گناہ؟"۔ وہ لبوں پر سوال اور شکوہ لیئے اس کی آنکھوں میں جواب دیکھنے کی تمنائی تھی۔ 

اس کے اس سوال پر قیصر کی آنکھوں سے غیض جھلکنے لگا۔ گردن کی رگیں تن گئیں۔ جو گواہ تھیں کے وہ کس ضبط سے گزر رہا ہے۔

اگلے ہی پل اس کی گردن دبوچ کر اس نے اپنے مقابل کیا تھا۔ زیست کا دل زور سے دھڑک کر ساکت ہوا۔ وہ اس کے چہرے سے اس قدر نزدیک تر تھا کے اگر وہ آنکھیں جھپکتی تو سیاہ خمدار پلکوں سے اس کی پلکیں مس ہو جاتیں۔

"اتنی معصومیت؟ ایسی بےخبری؟ کیا تم نہیں جانتی کے تمہارا گناہ کیا ہے؟ کتنا ظلم کیا ہے میرے ساتھ کیا تمہیں نہیں پتہ؟"۔ جواب دینے کے بجائے وہ الٹا اس سے سوال کرنے لگا تھا۔

"مجھے نہیں پتہ تم کس بارے میں بات کررہے ہو"۔ آہستگی سے کہتے اس نے لاعلمی کا اعلان کر دیا۔ جس پر قیصر کو آگ ہی تو لگ گئی۔ 

"قاتل ہو تم۔ میری زندگی کی۔۔۔میری محبت کی۔ جو آگ اب تمہارا دامن جلا رہی ہے نا وہ تم نے دو سال پہلے خود لگائی تھی میرے سینے میں۔ تو اب تمہیں بھی تاعمر اس ان دیکھی آگ میں جلنا ہے۔ تم نے اپنی نفرت میں مجھ سے میری زندگی چھین لی تھی نا؟ تو اب میں نے اپنی نفرت میں تمہاری زندگی تم سے خرید لی ہے۔ اس لیئے اپنی اوقات میں رہو اور آئندہ مجھے اپنے لیئے تم کے بجائے آپ سننا ہے تمہارے منہ سے۔۔سمجھی؟"۔ سرد و سفاک لہجے میں کہتے ہوئے اس نے اس کی گردن پر سے گرفت ہٹا دی اور فاصلے پر ہو گیا۔

کچھ پل کیلئے پھر خاموشی چھا گئی۔کئی لمحے سرک گئے جب وہ گویا ہوئی۔

"مجھے امی سے ملنا ہے"۔ بولی بھی تو کیا؟

"اتنا تماشا ابھی جو تمہاری وجہ سے ہوا وہ کافی نہیں کیا؟"۔ ایک بار پھر گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے وہ اس کی جانب دیکھے بغیر بولا۔

"میں اس بار کوئی تماشا نہیں کروں گی۔ بس ایک دفعہ مجھے ان سے ملنے دیں میں نے تو ان سے ٹھیک طرح بات بھی نہیں کی"۔ وہ التجا کرنے لگی۔

اس سے قبل کے وہ کوئی جواب دیتا اس کا موبائل بج اٹھا۔ 

فیض بخاری کا نمبر دیکھ کر اس نے کال اٹینڈ کرلیا۔

"میں واپس سیف ہاؤس جا رہا ہوں۔ وہاں پہنچ کے آپ سے۔۔۔"

"پلیز مجھے امی سے ملنا ہے"۔ زیست نے اس کی بات درمیان میں ہی کاٹتے ہوئے اونچی آواز میں کہا۔ جس پر قیصر نے تیز نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔

"کیا کہہ رہی ہے وہ؟"۔ دوسری جانب سے فیض صاحب کی آواز ابھری۔

قیصر نے نچلا لب دانتوں تلے دبا لیا۔

"کچھ پوچھ رہا ہوں میں؟"۔ اس بار ان کی آواز میں سختی تھی۔

"اسے اپنی امی سے ملنا ہے"۔ ناچار قیصر کو جواب دیتے ہی بنی۔

"تو لے جاؤ اسے ملوانے۔ اس میں اتنا سوچنے والی کیا بات ہے؟"۔ انہوں نے فوراً کہا۔

"اس کے گھر پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں کچھ لوگ میری تلاش میں۔ اب آپ بتائیں میں وہاں جاؤں یا نہیں؟"۔ وہ جتانے والے انداز میں پوچھنے لگا۔

دوسری طرف کچھ پل کیلئے خاموشی چھا گئی۔ وہ ان کے بولنے کا انتظار کرتے ہوئے زیست پر کڑی نگاہ ڈال گیا۔ وہ جو بغور اس کی جانب دیکھتے ہوئے ان کی باتیں سن رہی تھی، سٹپٹا کر جلدی سے رخ موڑ گئی۔

"ٹھیک ہے پھر تم رہنے دو۔ نرمین اسے لے جائے گی کسی دن ملوانے"۔ انہوں نے جواب دینے کے ساتھ ساتھ حل بھی پیش کیا۔

"اوکے، جو آپ مناسب سمجھیں۔ میں اسے سیف ہاؤس چھوڑ کر آتا ہوں پھر آپ سے ملنے"۔ وہ اچھے بچے کی طرح فوری حکم بجا لایا۔ زیست جسے موہوم سی امید تھی ماں سے دوبارہ ملنے کی قیصر کی بات سن کر تو اب وہ بھی جاتی رہی۔

"مہمانوں کو آپ ہماری طرف سے ایکسکیوز کر دیجیے گا"۔ وہ مزید کہنے لگا تھا۔ مگر اب وہ اسے نہیں سن رہی تھی۔ بجھے دل سے اس نے شیشے سے سر ٹکا کر جلتی آنکھیں موند لیں۔

_______________________________

وہ اونچا لمبا چھریرے جسامت والا شخص پھٹی جینز پر سفید شرٹ اور سیاہ جیکٹ پہنے، سر پر پی-کیپ جمائے چائے خانے کے باہر موجود میز میں سے ایک کے گرد بیٹھا تھا۔ انداز سے لگ رہا تھا جیسے کسی کا منتظر ہو۔

گلے میں مفلر اس طرح ڈال رکھا تھا کے اس کا چہرا واضح نہ ہو پا رہا تھا۔ 

"بھائی صاحب، ماچس ملے گی؟"۔ گہرے سانولے رنگت کا ایک آدمی اچانک اس کی میز کے پاس آ کر بولا تھا۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا وہ سگریٹ منہ میں دبائے منتظر کھڑا تھا۔

بلاتاخیر اس نے جیب سے لائٹر نکال کر اس کی سگریٹ کو شعلہ دکھایا۔ بدلے میں اس آدمی نے جیب سے گولڈ لیف کا پیکٹ نکال کر اسے دکھایا تھا اور پھر آگے آگے چل دیا۔ کیپ والا آدمی بھی مطمئن سا ہو کر اپنی جگہ سے اٹھا اور دو قدم کا فاصلہ رکھ کر اس سفید شلوار قمیض والے شخص کے پیچھے چلنے لگا۔ 

پانچ منٹ تک چلتے رہنے کے بعد وہ آدمی رک گیا تھا۔ جس پر کیپ والا شخص بھی رک گیا۔ اس کے سامنے کھڑی سلور رنگ کی کرولا کا پچھلا دروازہ کھلا تھا وہ شخص بنا کچھ کہے پچھلی نشست پر سوار ہو گیا۔ سیاہ شیشوں کے پار سہ پہر کا منظر بھی رات کی مانند سیاہ رنگ معلوم ہو رہا تھا۔

اس کے پاس بیٹھے چینی نقوش والے شخص نے اس کا کیپ کھینچ لیا اور ہاتھ میں موجود سیاہ پٹی اس کی آنکھوں پر کس کے باندھ دی۔ وہ ایک لفظ بھی بولے بغیر ویسے ہی بیٹھا رہا۔ 

نجانے کتنا وقت بیت گیا تھا سفر کرتے ہوئے کے گاڑی کسی مقام پر آ کر رک گئی۔ گاڑی کا فرنٹ ڈور کھول کر ایک آدمی پیچھے کی جانب آیا اور پیچھے کا دروازہ کھول دیا۔

"موو"۔ چینی نقوش کے حامل شخص نے اسے پیچھے سے دھکا دیا۔ اشارہ پا کر وہ گاڑی سے باہر نکلا اور پھر دو آدمیوں نے آگے بڑھ کر اس کے دونوں بازو تھامے اور اپنے ساتھ لے جانے لگے۔

کچھ ہی دیر بعد وہ ایک جگہ رکے اور اس کے آنکھوں سے پٹی ہٹا کر وہ وہاں سے چلتے بنے۔

اپنی آنکھیں مسلتے ہوئے اس نے ارد گرد دیکھا۔ وہ خوبصورتی سے سجا کمرہ ڈرائینگ روم کا منظر پیش کر رہا تھا۔ اور صوفے پر سامنے ہی ایک دیوہیکل شخص قدرے پھیل کر بیٹھا تھا۔

"بیٹھو"۔ یک لفظی حکم دیا گیا۔ جس پر وہ پتلا اور لمبا سا شخص اس کے مقابل موجود نشست پر چپ چاپ بیٹھ گیا۔

"کہاں ہے وہ لسٹ؟"۔ چھوٹتے ہی رانا کی طرف سے پہلا سوال یہ ہوا۔

"پہلے میرے پیسے"۔ اس نے اپنا مطالبہ پیش کیا۔

جس پر رانا نے سر ہلاتے ہوئے اپنے ایک آدمی کو بلوا بھیجا۔

کچھ ہی لمحوں بعد اس کا آدمی ایک بیگ کے ساتھ حاضر ہوا تھا۔ اور بیگ کو درمیانی کانچ کی ٹیبل پر رکھ کر وہاں سے چلا گیا۔ 

"یہ رہی قیمت"۔ رانا نے جنبش ابرو سے بیگ کی طرف اشارہ کیا۔

جس پر وہ شخص بیگ لینے کو آگے بڑھا ہی تھا کے رانا نے پستول نکال کر اس پر تان لی۔

"پہلے ان ایجنٹس کے ناموں کی لسٹ دو مجھے"۔ وہ سخت لب و لہجے میں اپنا مطالبہ ایک بار پھر دہرا رہا تھا۔

اس نے ایک نظر رانا کو دیکھا پھر جیکٹ کی اندرونی جیب سے وہ لسٹ نکال کر اس کی جانب بڑھا دیا۔

رانا نے فوراً کاغذ جھپٹ لیا۔ اور کھول کر دیکھا مگر وہ خالی کاغذ اس کا منہ چڑھا رہی تھی۔ غصے سے اس کی پیشانی کی رگیں تن گئیں۔ لپک جھپک اس نے مقابل کی گردن دبوچ لی۔

"یہ خالی ہے۔ کہاں ہیں وہ نام؟"۔ وہ غرایا تھا۔

"میں۔۔۔اتنا بےوقوف نہیں ہوں۔ جو وہ نام ساتھ لے کر یہاں آتا۔ آخر کو مجھے میری زندگی کی بھی ضمانت چاہیے تھی۔ تم اگر مجھے یہاں سے جانے دو گے تو وہ لسٹ اپنے آپ تمہارے باس تک پہنچ جائے گی "۔ وہ رک رک کر کہتا ہوا بمشکل بات مکمل کر گیا تھا۔

"بکواس بند کرو۔ باس میں ہوں سمجھے"۔ رانا نے جھٹکے سے اس کی گردن چھوڑتے ہوئے ایک گھوسا اس کے چہرے پر رسید کیا تھا۔ وہ اچھل کر واپس صوفے پہ آ گرا اور بری طرح کھانستے لگا۔

اس منظر کو دیوار پر نصب کیمرے کی آنکھ کے ذریعے کوئی ملاحظہ کر رہا تھا۔ جس نے اگلے ہی پل رانا کو کال ملائی۔

"ہاں بولو"۔ رانا نے کال اٹینڈ کرنے کے بعد حتی الامکان دھیمے لہجے میں کہا۔

"اسے جانے دو اور تم فوری یہاں پہنچو"۔ سرد اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں حکم دیا گیا تھا۔

"ٹھیک ہے میں آتا ہوں"۔ اس نے جواب دے کر رابطہ منقطع کر دیا۔

"یہ تمہارے باس کا فون تھا نا؟ تم نے تو کہا کے باس کوئی نہیں ہے تمہارا"۔ حماد گردن پر ہاتھ رکھے تمسخر اڑانے لگا۔

"میرا باس صرف میں ہوں اور کوئی نہیں۔ دفع ہو جاؤ اب یہاں سے"۔ رانا حلق کے بل چلایا۔ اس کی سیاہ رنگت غصے کے باعث مزید سیاہ پڑنے لگی تھی۔

"اوکے پھر میں چلتا ہوں۔ میرے بحفاظت یہاں سے نکلنے کے بعد وہ لسٹ تمہارے ہاتھ آ جائے گی"۔ حماد نے یقین دہانی کروائی پھر پیسوں سے بھرا بیگ اٹھا کر وہاں سے چلتا بنا۔

رانا اس کے نکلنے تک وہی بیٹھا رہا پھر اس کے جانے کے پانچ منٹ بعد وہ اٹھا تھا کے تبھی اس کی نگاہ اپنے مقابل موجود صوفے پر پڑے اس یو-ایس-بی پر گئی۔ اس نے سرعت سے آگے بڑھ کر وہ اٹھا لیا۔ اور اگلے ہی پل وہ جوش کے عالم میں ڈرائینگ روم سے ملحقہ دوسرے کمرے کا دروازہ کھول کر وہاں آ گیا۔

"باس یہ دیکھیں، یہ ہیں وہ ایجنٹس جو انڈر دی ماسک نامی مشن پر کام کر رہے ہیں آج کل"۔ خوشی و جوش کے ملے جلے تاثرات چہرے پر سجائے اس نے اپنے ہاتھ میں موجود یو-ایس-بی کو اب لیپ ٹاپ سے کنیکٹ کر دیا تھا اور پھر اسکرین اپنے باس کے سامنے کر دی۔

کرسی پر بیٹھا وجود چونک کر لیپ ٹاپ اسکرین کو دیکھنے لگا۔ جس پر ایک کے بعد ایک تصویر بمع ان ایجنٹس کے ناموں اور بائیو ڈیٹا کے سلائیڈ ہو رہی تھی۔

"عالیان مصطفٰی، ابو زر طیب، شہیر ملک"۔ اس نے سارے نام زیر لب دہرائے۔ چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ پھیل گئی۔

"ڈھونڈو ان سب کو۔ ایک ایک کو ڈھونڈ کر کچل ڈالو"۔ سفاک آواز اور سرد انداز میں تحکم نمایاں تھا۔ 

"یس باس"۔ رانا نے جھٹ اثبات پہ سر ہلا دیا۔

_______________________________

شام ڈھلنے لگی تھی۔ وہ کچھ دیر قبل ہی گھر پہنچے تھے۔ فریش ہو کے چینج کرنے کے بعد وہ پھر کہیں جانے کیلئے تیار ہورہا تھا۔ جبکہ وہ سنگار میز کے سامنے بیٹھی بال سنوار رہی تھی۔ انداز زرا اداس سا تھا۔

اس سے بے نیاز قیصر بیڈ پہ بیٹھا شوز پہن رہا تھا۔ زیست کی نظریں اپنے پیچھے شیشے میں دکھائی دیتے اس کے عکس پر آ ٹھہریں۔ کیا شانِ بےنیازی تھی کے وہ اپنے سامنے موجود اس حسین عورت کو نگاہ بھر کے دیکھنا بھی گوارا نہیں کر رہا تھا۔  عورت بھی وہ جو اس کیلئے جائز تھی، جو اس کے نام لکھی گئی تھی۔ وہ جب سے ملا تھا اسے حیران ہی تو کر رہا تھا۔ ہر انداز اور ہر طور سے حیران۔ 

لاشعوری طور پر وہ یک ٹک اسے دیکھتی چلی جا رہی تھی اور سوچیں جانے کہاں سے کہاں پہنچ گئیں تھی۔ اس کی نظروں کی تپش اتنی تھی کے لاپرواہ ہونے کے باوجود بھی قیصر کو متوجہ کر گئی۔ نگاہیں اٹھا کر اس کے بت بنے وجود کو دیکھا ایک تلخ مسکراہٹ نے احمریں لبوں کا احاطہ کر لیا۔ اس کے چہرے کے بدلتے زاویے دیکھ کر زیست کو اپنی بےخبری کا اندازہ ہوا جلدی سے نگاہوں کا زاویہ بدل لیا۔

وہ اٹھا اور چلتا ہوا اس کی پشت پر آ ٹھہرا۔ زیست کے حلق تک میں کڑواہٹ گھلتی چلی گئی۔ وہ اسے نظرانداز کر گئی۔

"کبھی کبھی بہت افسوس ہوتا ہے تمہارے لیئے"۔ اس کے ہاتھ گرفت میں لے کر وہ گویا ہوا۔ وہ اسے دیکھنے پہ مجبور ہو گئی۔

"بہت ہی ناقدرے شخص کے ہاتھ لگ گئی نا تم؟ جس کو نہ تمہاری خوبصورتی کی قدر ہے اور نہ ہی وہ اسے سراہنا پسند کرتا ہے۔ دکھ تو ہوتا ہوگا نا؟ خواہش تو ہوتی ہوگی نا کے کاش قیصر خیام کی جگہ کوئی اور ہوتا۔ کوئی ایسا جو تمہارے حسن کے قصیدے پڑھتا۔۔۔کوئی ایسا جو تمہاری خوبصورتی پر شعر کہتا۔۔۔ہے نا؟"۔ مصنوعی افسردگی سے کہتے ہوئے وہ اس کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا فریضہ انجام دے گیا۔

زیست کی آنکھیں جل اٹھیں۔ 

"ہاں، دکھ ہوتا ہے بہت زیادہ دکھ۔ اس بات کا دکھ کے تم

جیسے شخص کی بیوی بننے سے پہلے میں نے خودکشی کیوں نہ کرلی۔ بہت برا لگتا ہے جب تم میرے قریب آتے ہو۔۔۔تب واقعی میری خواہش ہوتی ہے مر جانے کی یا تمہاری جان لے لینے کی"۔ نفرت آمیز لہجے میں کہتے ہوئے جھٹکے سے اپنے ہاتھ اس سے چھڑوا کر وہ اٹھی اور کرسی کو ٹھوکر مارتے ہوئے شیشے کے سامنے سے ہٹ گئی۔ مقابل نے اتنی ہی سہولت سے اس کی کلائی تھام کر بےدردی سے اپنی جانب کھینچ لیا۔ وہ بےدم سی ہو کر اس کے حصار میں آ قید ہوئی۔

"بڑے بڑے ڈھیٹ دیکھے مگر تم جیسی سے پالا آج پڑا ہے۔ مان کیوں نہیں لیتی ہو کے تم بےبس ہو چکی ہو؟ کیوں نہیں شکست تسلیم کر لیتی؟ ہوں؟ کیوں اپنی نازک جان جلاتی ہو؟ جبکہ اچھی طرح جانتی ہو کے میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی تم"۔  اس کے سرخ چہرے پر نظریں ٹکائے وہ تاسف زدہ سا بولا۔

"یہ مت سمجھنا کے مجھے مغلوب کر دیا ہے تم نے۔ اذیت جتنی مجھے مل رہی ہے سکون تمہیں بھی نہیں لینے دوں گی میں"۔ اس نے بھی جوابا تڑخ کر کہا۔

اس کی بات پر سرمئی آنکھوں سے آتش جھلکنے لگا۔

"تم نرم رویے کی مستحق ہی نہیں ہو اور نہ ہی اب میں مزید تمہیں کوئی رعایت دوں گا"۔ اس کا لہجہ آنچ دیتا ہوا تھا۔ 

اسے بیڈ پر دھکیلنے کے بعد وہ اب بیڈ کے پیچھے رکھی زنجیریں اٹھا لایا۔ 

زیست ششدر رہ گئی۔

"یہ۔۔۔یہ تم کیا کر رہے ہو؟"۔ اسے ان زنجیروں سے الجھتے دیکھ کر وہ اسپرنگ کی طرح اچھل کر بیٹھے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

"وہی جو مجھے کرنا چاہیئے۔ جس کا ایک قیدی مستحق ہے"۔ اس کا ہاتھ کھینچ کر اس میں بیڑیاں پہناتے ہوئے وہ سفاکی سے بولا۔

"نہیں تم ایسا نہیں کر سکتے۔ آخر میں نے کیا کیا ہے؟"۔ وہ اس کی زیادتی پر چیخ پڑی تھی۔ آنسو تیزی سے گرتے رخسار بگھو رہے تھے۔

"میری زندگی چھین لی تم نے مجھے زندہ لاش بنا دیا اور پوچھتی ہو گناہ کیا ہے تمہارا؟"۔ وہ اس سے بھی زیادہ بلند آواز میں دہاڑا تھا۔ زیست سہم کر رہ گئی۔

"قاتل تو تم ہو جس نے اتنی بےرحمی سے میرے بھائی کو قتل کر دیا۔ کیا گناہ تھا اس کا بولو؟ کیا دشمنی تھی اس کی تم سے اور کیا بگاڑا ہے اب میں نے تمہارا؟"۔ درد سے اس کی آواز پھٹ رہی تھی مگر وہ اپنے کان لپیٹے بےحس بنا اسے بیڑیاں پہنا چکا تھا۔ 

"میں نے اسے قتل کیا تھا کیونکہ میں ایک قاتل تھا۔ مجھے صحیح غلط میں فرق نہیں آتا تھا۔ مگر تم؟ تمہیں تو بچپن سے انسانیت کا درس دیا جاتا ہوگا پھر تم کیوں قاتل بن گئی؟"۔ اس کا چہرا دبوچے وہ سرد لہجے میں پھنکارا تھا۔ زیست اس کی آنکھوں میں تحریر درد دیکھ کر ساکت رہ گئی تھی۔ پہلی بار اس کی سرخ پڑتی سرمئی آنکھوں میں پانی مچلتے دیکھا اس نے۔ لمحہ بھر کو تو وہ اپنی حالت بھی بھلا بیٹھی تھی۔ وہ رو رہا تھا کیا ایک مرد رو سکتا تھا؟ اور مرد بھی وہ جو اس کی نظر میں سفاک اور ظالم ترین تھا۔ 

اس نے مرد کو کبھی روتے نہیں دیکھا تھا مگر اب جو اس نے بھیگی سرمئی آنکھیں دیکھیں تو ہر منظر پس منظر میں چلا گیا۔ وہ اپنی آنسو بہاتی آنکھوں کو فراموش کرکے اس کی نگاہوں میں جھانک رہی تھی۔ اپنی تکلیف بھول کر اس کا درد پڑھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ 

"مجھے مار دیتی پر اسے کیوں مارا؟ وہ بےگناہ تھی۔ غلط کیا تم نے۔۔۔بہت غلط"۔ اس سے فاصلہ بڑھا کر الٹے قدم اٹھاتے ہوئے اس کا لہجہ سرگوشی اختیار کر گیا تھا۔

"میں تمہیں مار نہیں سکتا کیونکہ تمہارا نقصان میں کر چکا ہوں۔ مگر میں تمہیں معاف بھی نہیں کر سکتا کیونکہ میرا نقصان ناقابل تلافی ہے۔ تمہارے پاس تو اور بھی لوگ تھے مگر میری کل کائنات ہی وہ تھی۔۔۔سب ختم کر دیا تم نے"۔ اس کی آواز میں درد نمایاں تھا۔ 

زیست کا دل اس کی بات سے کٹ کر رہ گیا تھا۔

اس سے قبل کے وہ اس کے سامنے اپنا ضبط کھو دیتا وہ تیز قدموں سے چلتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔ دروازے کا دھماکے سے بند ہونا ہی تھا کے زیست ہوش کی دنیا میں آئی تھی اور اپنے ہاتھوں میں پہنائی گئی بیڑیاں دیکھتی وہ بےدم سی ہو کر بیڈ پر گرنے کے سے انداز میں بیٹھ گئی۔

_______________________________

اس دو کمروں کے فلیٹ میں موجود وہ تین افراد اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔

عالیان فلور کشن پر بیٹھا تھا اس کی نگاہیں اپنے سامنے کھلے لیپ ٹاپ اسکرین پر جمی تھی۔ جو پچھلے آدھے گھنٹے سے ٹریکر کی ایک ہی لوکیشن دکھا رہا تھا۔ 

زر اپنا لیپ ٹاپ کھولے بیٹھا جانے کس جوڑ توڑ میں لگا تھا۔ جبکہ وہ صوفے پر بیٹھا فائل دیکھ رہا تھا۔

دروازے پر ہونے والی بیل نے ان سب کو چونکا دیا۔

"میں دیکھتا ہوں"۔ عالیان اپنا لیپ ٹاپ سائیڈ پہ کرتے ہوئے اٹھا اور دروازہ کھولنے چلا گیا۔

باقی دونوں نے فائل اور لیپ ٹاپ سے نگاہیں ہٹائیں شہیر سامنے سے چلا آ رہا تھا۔ 

"کچھ پتہ چلا اس کا؟"۔ وہ قیصر کے برابر موجود دوسرے سنگل صوفے پر آ بیٹھا۔

"نہیں لوکیشن ایک ہی جگہ پر ہے"۔ عالیان نے لیپ ٹاپ اٹھاتے ہوئے مایوسی بھرا جواب دیا۔

"کہیں وہ پکڑا تو نہیں گیا؟"۔ زر کو ایک نئی فکر لگ گئی۔

شہیر نے تیز نگاہ اس پر ڈالی وہ زبان دانتوں تلے دبا گیا۔

"اچھی بات منہ سے کبھی مت نکالنا تم"۔ قیصر نے طنز کیا۔

وہ معذرت خواہ ہوگیا۔

"یہ سب تمہاری وجہ سے ہو رہا ہے۔ اگر تمہارا پلان کامیاب نہیں ہوا تو ہمارا ایک ساتھی خواہ مخواہ مارا جائے گا"۔ شہیر کی توپوں کا رخ اس کی جانب ہو گیا۔

"ہمیں دشمن کا دھیان اپنے اوپر سے ہٹانا تھا اور اس کیلئے سب سے اچھا کام یہی ہو سکتا تھا کے دشمن کو ہم اپنا پتہ خود دے دیں تاکہ کچھ وقت کیلئے اس کا دھیان ہم پر سے ہٹ جائے اور ہم اپنا کام سکون سے کر لیں"۔ وہ اپنا موقف دے رہا تھا۔ 

"ریلیکس یار، ہم ایک ٹیم ہیں اور جب ہم میں اتفاق ہی نہیں ہوگا تو ساتھ کام کیسے کر پائیں گے؟"۔ عالیان نے مداخلت کی۔

"اور اگر تمہیں مجھ سے کوئی مسئلہ ہے تو جا کر ان سے بات کرو جن کے کہے مطابق میں اس وقت یہاں موجود ہوں۔ وہ اگر کہتے ہیں تو میں خود پیچھے ہٹ جاؤں گا۔ مگر۔۔۔اگر وہ میرے رہنے پہ کوئی اعتراض نہیں کرتے ہیں تو یہ یاد رکھو کے ایلفا میں ہوں اس لیئے تم سب کو کام میرے طریقے سے کرنا ہوگا"۔ قیصر نے لاپرواہی سے کہتے ہوئے پھر سے فائل اٹھا لی۔

شہیر اس کی بات پر ٹھیک ٹھاک تپ گیا۔

"ہاں، تمہیں کیوں پرواہ ہوگی؟ تمہارے نزدیک اگر حماد کو کچھ ہو بھی جاتا ہے تو تمہارا تھوڑی نہ کچھ جائے گا۔ اثاثہ تو وہ ہمارے لیئے ہے"۔ وہ تلخی سے کہہ گیا۔

"یہ کیا تم نے کب سے ہمارا تمہارا لگا رکھا ہے یار۔ ہم سب کا مقصد فلحال ایک ہے جو ہمیں یکجا کیئے ہوئے ہے۔ ذاتی لڑائی کے بجائے اس پر توجہ دو تو زیادہ بہتر رہے گا"۔ زر نے بھی بھرپور خفگی سے کہا۔ جس پر شہیر سختی سے لب بھینچ گیا۔ 

جبکہ وہ بےنیاز ہی رہا۔

"گائز یہ دیکھو، حماد کی لوکیشن ہمارے آس پاس ہے۔ اس کا مطلب وہ اپنا کام کرچکا ہے۔۔۔وہ سیف ہے"۔ عالیان کی خوشی سے چور آواز گونجی تھی۔

جس پر وہ سب ہی چونک گئے۔

قیصر نے شہیر کی جانب ایسی نگاہوں سے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو "اب بولو؟"۔

"دکھاؤ مجھے"۔ شہیر نے آگے بڑھ کر لیپ ٹاپ اس سے لیا۔

"وہ یہیں آ رہا ہے"۔ عالیان نے مزید اطلاع دی۔

پندرہ منٹ بعد ہی دروازے پر دستک ہوئی تھی۔ قیصر جو تب سے بےپرواہ سا بیٹھا تھا وہ بنا کچھ کہے اٹھا اور دروازہ کھولنے چل دیا۔

"کام ہو گیا"۔ حماد نے اندر داخل ہوتے ہی کیپ اتار پھینکا اور ہاتھ میں موجود بیگ اسے دکھایا۔ 

"بہت اچھے"۔ اس کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے اس نے سراہا۔

باقی تینوں بھی لاؤنج میں ہی آ گئے اور باری باری اس سے ملنے لگے۔

"اس نے پہچانا تو نہیں نا تمہیں؟"۔ عالیان نے تفکر سے پوچھا۔

"نہیں میں نے اسے نقلی یو-ایس-بی دے دی ہے اور اس نے یقین کر لیا۔ یہ بیگ گواہ ہے اس کے یقین کا"۔ حماد نے فاتحانہ انداز میں کہتے ہوئے نوٹوں سے بھرے بیگ کی جانب اشارہ کیا۔

"گریٹ، اب وہ نقلی چہرے اور نقلی ڈیٹا کو ڈھونڈتے رہ جائیں گے اور ہم ان کی نگاہوں میں آئے بغیر اپنا کام کر لیں گے"۔ قیصر نے شہیر کی جانب دیکھتے ہوئے بطور خاص یہ بات کہی۔ وہ ایک ابرو اٹھائے اسے دیکھنے لگا۔

"اب آگے کیا کرنا ہے؟"۔ زر نے عالیان کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔

"یہ تو ایلفا بتائیں گے"۔ وہ پرشوخ لہجے میں بولا۔

قیصر اس عرصے میں پہلی بار مسکرایا۔

"ہیکر"۔ اس نے زر کے شانے پر ہاتھ رکھا۔

"میں تیار ہوں باس"۔ اس نے گرین سگنل دے دیا۔ جس پر وہ سب واپس کمرے میں آ موجود ہوئے اور اب اگلا اسٹیپ ترتیب دینے لگے۔

_______________________________

رات کافی دیر سے اس کی واپسی ہوئی تھی۔ سیف ہاؤس پہنچ کر وہ سیدھا اپنے کمرے کی جانب آیا تھا۔

لاکڈ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ کمرے کے وسط میں رکھے جہازی سائز بیڈ پر اس کی نگاہ زیست کے بکھرے وجود پر پڑی۔

"زیست"۔ اس نے آواز دی۔ مگر جواب ندارد۔ 

وہ چلتا ہوا بیڈ کے پاس آ رکا۔ پھر بیڈ کراؤن سے بندھی زنجیر کا سرا کھولنے لگا۔

اسے بیڑیوں سے آزاد کرنے کے بعد وہ ایک بار پھر گویا ہوا۔

"میں تم سے مخاطب ہوں"۔ اب کی دفعہ لہجہ برہم ہوگیا۔ وہ اس کے نزدیک بیٹھ کر اب اس کے ہاتھ زنجیروں سے آزاد کرنے لگا۔

ہاتھوں کا آزاد ہونا ہی تھا کے قیصر کی نگاہ اس کی سرخ کلائیوں پر پڑی۔ جگہ جگہ زنجیروں نے نشان چھوڑ دیا تھا۔ اس کے تپتے ہاتھ بخار کی چغلی کھا رہے تھے۔ لمحہ بھر کیلئے اس کے دل میں ملال اترنے لگا تھا۔

"زیست اٹھو"۔ اس کے چہرے پر سے بکھرے بال ہٹاتے ہوئے وہ پکارا۔ اب کی بار لہجے سے سختی مفقود تھی۔ 

"امی۔۔۔امی"۔ وہ بدحواسی کے عالم میں ماں کو پکار رہی تھی۔ 

اس نے اسے اٹھا کر سیدھا لٹایا اور کمفرٹر اس پر ڈالنے کے بعد  کمرے سے چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد دودھ کا گلاس کا ہاتھ میں لیئے وہ واپس آیا تھا۔

"اٹھو زیست۔۔۔یہ میڈیسن لے لو پہلے"۔ اسے سہارا دے کر اٹھایا۔ پھر میڈیسن دینے کے بعد دودھ کا گلاس اس کے لبوں سے لگا دیا۔ دو تین گھونٹ پینے کے بعد اس نے ہاتھ مار کر گلاس پرے کر دیا اور مندی مندی سی آنکھیں کھول کر اس کے چہرے پر جما دیں۔

سبز آنکھوں میں پڑتے گلابی ڈورے قیصر خیام کو ٹھٹھکانے کیلئے کافی تھے۔ زیست کی ادھ کھلی آنکھوں میں پانی چمک رہا تھا۔ 

اس نے بلا ارادہ ہی اپنے لب اس کی بھیگی پلکوں اور بھاری آنکھوں پر رکھ دیئے۔ اس کی آنکھیں ایک بار پھر مکمل بند ہو چکی تھیں۔

وہ ہوش و حواس میں نہ تھی مگر وہ ہوش مند ہونے کے باوجود بھی اپنی غیر ارادی حرکت کو سمجھنے سے قاصر تھا۔ وہ قاتل تھی مگر پھر کیوں قاتل نہیں لگتی تھی؟ وہ جو اسے کڑی سے کڑی سزا دینے کی چاہ رکھتا تھا۔ یہاں تک کے جس کیلئے اسے اپنی زندگی کا حصہ بھی بنا بیٹھا تھا تو اب کیوں اسے وہ سزائیں دیتے ہوئے وہ برا محسوس کرتا تھا؟ کیوں اس کا ضمیر اسے کوس رہا تھا؟ اسے مجرم گردان رہا تھا۔ 

اپنے ہاتھوں میں موجود اس ہلکے پھلکے سے وجود کے زرد چہرے کو دیکھتے ہوئے قیصر کی سوچیں پراذیت ہونے لگیں تھی۔ اس نے نگاہوں کا زاویہ بدل کر گویا اپنی سوچوں سے فرار حاصل کرلی۔ وقتی فرار۔

آہستگی سے اس نے اسے واپس بیڈ پر لٹا دیا اور اس کے پاس سے ہٹ گیا۔ 

دو منٹ بعد ہی ٹھنڈے پانی سے بھرا باؤل اور کپڑا لیئے وہ واپس اس کے پاس آ بیٹھا۔ ٹھنڈے پانی میں پٹی بگھو کر وہ اب اس کی پیشانی پر رکھ رہا تھا۔ 

یہ کیسا منظر تھا؟ وہ جو اس کا مجرم تھا وہ اب اعجاز نمائی کر رہا تھا۔ وہ اس کیلئے سراپا نفرت تھا۔ دوپہر کی کڑی دھوپ اور پھر ابر رحمت بھی خود ہی بن جایا کرتا تھا۔ وہ جو اس وجود کے نزدیک درندہ تھا۔ پھر جانے کیوں اب انسانیت کے تقاضے نبھا رہا تھا۔

ہاں اس نے ٹھیک کہا تھا وہ اس کا مرض تھا مگر پھر اس کی دوا بھی وہ ہی تھا۔ 

کتنے ہی ساعت بیت گئے تھے جب اذان فجر کی صدائیں بلند ہوتیں اس کی سماعتوں سے ٹکرانے لگیں۔ جس کے ساتھ ہی اس نے پلکیں وا کیں۔ طبیعت پر چھائی نقاہت نے لمحہ بھر کیلئے تو کچھ سمجھنے نہ دیا۔ محسوسات کا جاگنا ہی تھا کے اسے اپنے داہنے ہاتھ پہ بھاری پن محسوس ہوا۔ نگاہیں دائیں جانب کرنے پہ اسے اپنا ہاتھ اس بھاری ہاتھ تلے دبا ہوا ملا۔ فیروزہ پہنے ہوئے ہاتھ سے ہوتی ہوئی اس کی نظریں اس پرسکون چہرے پر آ ٹھہریں۔ جسے دیکھ کر لمحہ بھر کو اس کی سانس سینے میں ہی اٹک گئی۔ ایک بار۔۔۔دو بار اور پھر وہ بےخیالی میں اس کا سویا ہوا چہرا تکتی چلی گئی۔ بند سیاہ پلکیں۔۔۔پیشانی پر گرے اس کے بھورے بال اور تیکھے نقوش بلاشبہ اس کا چہرا بھی اس کے مزاج کا عکاس تھا۔ اس نے پہلی بار اسے بغور دیکھا تھا۔ وہ حسین نہیں تھا وہ پرکشش تھا۔۔۔بےانتہا کشش کا حامل یا پھر اس گھڑی کم از کم زیست کو ایسا ہی لگا تھا۔

وہ سانس روکے، بے حس و حرکت اسے تک رہی تھی جیسے اگر زرا سا بھی ہلی تو اس ٹھہرے ہوئے جھیل میں ہلچل مچ جانے کا اندیشہ ہو۔ 

گزرے دن کا ایک ایک منظر اس کے ذہن میں تازہ ہوتا جا رہا تھا۔ اس شخص کی باتیں، ہر لفظ اور ہر ظلم یاد آتا چلا گیا۔ کیسے سارا دن اس نے بھوکے پیاسے رہ کر گزارا تھا، گزرے دنوں میں اس نے ایک بار بھی ڈھنگ سے کھانا نہیں کھایا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کے کمزوری غالب آ گئی اور اسے بخار نے آن لیا۔ بھوک کا خیال آنا ہی تھا کے ایک بار پھر پیٹ میں آگ بھڑک اٹھی۔ 

حتی الامکان آہستگی سے اس نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں سے کھینچ لیا اور نقاہت کو پرے دھکیل کر وہ اٹھ بیٹھی۔ اپنی پیشانی چھوئی، نبض چیک کیں بخار اب قدرے کم ہو چکا تھا۔ مگر کمزوری ہنوز تھی۔

رخ بدلتے ہی اس کی نگاہ سائیڈ میز پر دھرے باؤل اور سفید پٹیوں سے ٹکرائی لمحہ بھر کیلئے وہ حیران رہ گئی تھی۔ ایک بار پھر اس کی نگاہ دوبارہ اس سوئے ہوئے چہرے کی جانب اٹھی۔ وہ ہنوز ویسے ہی سویا ہوا تھا۔

"کیا یہ سب اس نے؟ پر کیوں؟"۔ اس گھڑی اس کے اندر لاتعداد سوال امڈنے لگے۔ 

"کون سا روپ تمہارا اصلی ہے قیصر خیام۔ یہ میں اب تک سمجھ نہیں پائی ہوں"۔ وہ اس کی بند آنکھوں کو دیکھتی دل ہی دل میں سوچ رہی تھی۔

پھر سر جھٹک کر بستر سے اتری اور جوں ہی اٹھنے کی کوشش کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا۔ وہ سر تھامے واپس بیڈ پر گر گئی۔

حرکت کا ہونا ہی تھا کے قیصر کی آنکھ کھل گئی۔ 

"کیا ہوا؟ یہ صبح صبح زلزلے کے جھٹکے کیوں دے رہی ہو؟"۔ پیشانی مسلتے ہوئے وہ بھاری آواز میں طنز کر گیا۔

اس پل زیست اس پوزیشن میں نہ تھی کے اسے جواب دے سکتی۔ وہ سر ہاتھوں میں گرائے ویسے ہی بیٹھی رہی۔

اس کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر وہ اٹھ بیٹھا اور بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے گھوم کر اس کے سامنے آ گیا۔

"کس نے کہا تھا تم سے اٹھنے کو؟ ایک جگہ ٹک کے بیٹھ نہیں سکتی کچھ وقت کیلئے"۔ شانوں سے تھام کر اسے واپس اپنی جگہ پر لٹاتے ہوئے وہ سوالیہ انداز میں بولا۔

اب کی بار اس نے نگاہیں قیصر کی جانب اٹھائیں۔

"تمہیں کس نے کہا ہے جھوٹی فکر جتانے کو؟ ہٹو سامنے سے"۔ دوبارہ اٹھ کر بیٹھتے ہوئے زیست نے اس کے ہاتھ جھٹک دیئے۔

"بدتہذیبی میں ہرگز برداشت نہیں کروں گا"۔ اس کے دھیمے لب و لہجے میں بھرپور تنبیہ تھی۔ 

"اور جو تم ظلم کرتے ہو اسے برداشت کرنا لازم ہے میرے لیئے؟"۔ وہ شاکی نگاہوں سے اس کی پشت تکتی ہوئی طنز کر گئی۔

"صبح صبح مجھے کسی قسم کی بحث نہیں کرنی ہے تم سے"۔ تندہی سے جواب دیتے ہوئے وہ الماری سے اپنے کپڑے نکال کر باتھ لینے چلا گیا۔ 

جبکہ وہ نئے سرے سے کڑھ کر رہ گئی۔

_______________________________

وہ شاور لے کر آیا تو وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھی نظر آئی۔ 

گیلا ٹاول اسٹینڈ پر ڈالنے کے بعد وہ آئینے کے سامنے کھڑا بال برش کرنے لگا۔ ایک نظر اس نے زیست کے زرد پڑتے چہرے کو دیکھا پھر کچھ بھی کہے بغیر کمرے سے باہر نکل گیا۔

بیس منٹ بعد واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ناشتے کی ٹرے تھی۔

آہٹ پر زیست نے جڑی پلکیں جدا کیں۔ وہ عین اس کے سامنے آ بیٹھا تھا۔ اور ٹرے اپنے اور اس کے درمیان رکھ رہا تھا۔

زیست نے ایک نظر ٹرے پر ڈالی جہاں بریڈ سلائس، آملیٹ اور جوس کا گلاس نفاست سے رکھے ہوئے تھے۔

"اب تم تو میرے لیئے ناشتہ بنانے سے رہی۔ سوچا یہ کام بھی میں اپنے ذمے لے لیتا ہوں"۔ وہ اسے چڑانے کو مزید طنز کر گیا۔

"میں نے نہیں کہا تھا ناشتہ بنانے کو۔ مجھے نہیں کرنا"۔ منہ پھیر کر کہتی ہوئی وہ صاف انکار کر گئی۔ حالانکہ خالی پیٹ اندر سے دہائیاں دے رہا تھا مگر انا بھی تو کوئی چیز تھی۔

"تمہیں اگر لگتا ہے کے میں تمہارے بلاوجہ کے نخرے اٹھاؤں گا تو یہ سراسر تمہاری خوش فہمی ہے۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کے تمہاری یہ ضد مجھے تمہارے لیئے مزید سخت بنا دے گی اور پھر جب میں سختی پہ آ جاؤں تو۔۔۔تم تو جانتی ہو کے میں کتنا برا ہوں"۔ سرد نگاہوں سے اس کی آنکھوں میں دیکھتا وہ جتانے والے انداز میں بولا۔

"اس لیئے بہتر ہوگا کے تم چپ چاپ میری بات مان لیا کرو"۔اس نے جوس کا گلاس اس کے سامنے کرتے ہوئے کہا۔

وہ ششدر سی رہ گئی۔

"میں۔۔۔خود کر لوں گی"۔ گھبرا کر جلدی سے گلاس تھام لیا اور لبوں سے لگا لیا۔

وہ اس کی جانب رخ کیئے کہنی کے بل بیڈ پہ دراز ہو کر بغور اسے دیکھنے لگا۔

اتنی توجہ سے دیکھے جانے پر زیست کے حلق میں نوالہ اٹکنے لگا تھا۔ وہ ہاتھ روک کر بےبسی سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔

"کیا ہوا؟"۔ وہ چونکا۔ 

"کچھ نہیں"۔ یک دم ٹرے پرے کرتے ہوئے وہ آہستگی سے بولی۔

قیصر نے ایک نظر آدھے ادھورے چھوڑے گئے ناشے کو دیکھا۔

"میرے لیئے اتنا مت سوچو، میں کسی کا جھوٹا نہیں کھاتا"۔شان بے نیازی سے کہا۔

"میں نے کب کہا جھوٹا کھانے کو؟"۔ وہ حیران ہوئی۔

"پھر یہ کس کیلئے بچایا ہے؟"۔ ٹرے کی جانب اشارہ کرکے پوچھا۔

اب کون اس سرپھرے کو کہتا کے تم گھورنا بند کرو تو وہ ناشتہ بھی کرے ٹھیک سے۔

"بس مجھے اتنی ہی بھوک تھی"۔ ناچاہتے ہوئے بھی اسے کہنا پڑا۔

"اپنی امی سے ملنا چاہو گی؟"۔ اس نے کچھ سوچ کر اچانک پوچھا۔

اور اس غیر متوقع سوال پر وہ چونک چونک گئی۔ بے یقین نگاہوں سے اس نے قیصر کا چہرا دیکھا۔ جہاں سنجیدگی رقم تھی۔

پھر اگلے ہی پل اثبات میں سر ہلا دیا۔

"تو ناشتہ پورا کرو پہلے پھر فریش ہو جاؤ۔ مجھے کچھ کام نبٹانے ہیں اس کے بعد میں تمہیں ان سے ملواؤں گا۔ شام میں"۔ تمام لائحہ عمل ترتیب دیتے ہوئے وہ اٹھ بیٹھا تھا۔ 

زیست اس کی باتیں سن کر بےہوش ہوتے ہوتے بچی تھی۔

"کیا۔۔۔آپ سچ کہہ رہے ہیں؟"۔ اچانک ہی طرز تخاطب بدل گیا تھا۔ قیصر کے چہرے پر مسکراہٹ در آئی۔ 

"ہاں، بالکل سچ"۔ اس نے تصدیق کردی۔

اور اس کی بات پر زیست کا چہرا پہلی بار کھل اٹھا تھا۔جیسے کسی نے زندگی کی نوید سنا دی ہو۔ بنا کچھ مزید کہے وہ ناشتہ کرنے لگی۔ فلحال اس کیلئے اتنا ہی بہت تھا کے وہ اپنی ماں سے ملنے جا رہی تھی۔

جبکہ وہ پرسوچ نگاہوں سے اس کا چہرا دیکھ رہا تھا۔

_______________________________

طلوع الشمس کے ساتھ ہی نیا دن نئے حاجات اور نئے امتحانات لے کر حاضر ہوا تھا۔

وہ لوگ آج بھی اسی فلیٹ میں موجود تھے۔ اس سوسائٹی کی سب سے اچھی بات یہ تھی کے یہاں زیادہ تر لوگ اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔ اور یہ بات ان کے حق میں سب سے بہتر تھی۔ کیونکہ وہ یہاں کسی کی نگاہ میں آئے بغیر اپنا کام کر سکتے تھے۔

شہیر رائٹنگ ٹیبل کے گرد بیٹھا بہت سے کاغذات بکھیرے رپورٹ تیار کر رہا تھا۔ زر اور حماد لیپ ٹاپ کے ساتھ لگے ان کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ جبکہ وہ کال پر موجود عالیان سے مخاطب تھا۔

"منہ کھولا اس نے؟"۔ وہ پوچھ رہا تھا۔

"اب تک تو نہیں، کوشش کر رہا ہوں"۔ عالیان نے اپنے سامنے کرسی پر بندھے زخمی شخص کی جانب دیکھ کر کہا۔

"میں آتا ہوں۔ کبھی دیکھا نہیں کسی کو تھرڈ ڈگری دے کر"۔ وہ معنی خیز انداز میں بولا۔ اسے اپنا وقت یاد آیا تھا۔ جب اسے جیل میں یونہی ٹارچر کیا جاتا تھا۔

"ہاں تمہیں تو تجربہ بھی ہے اس سب کا"۔ عالیان نے ہنستے ہوئے اسی کے انداز میں کہا۔ واحد وہ اور شہیر ہی تھے جنہیں قیصر خیام کے ماضی سے واقفیت تھی۔ کیونکہ انہی کے ذریعے تو ایجنسی والوں تک اس کی معلومات پہنچی تھی۔

"ٹھیک کہا تم نے۔ تجربہ تو مجھے واقعی ہے، اس لیئے میں یہ کام تم سب سے زیادہ بہتر طریقے سے کر سکتا ہوں۔ کیونکہ تم لوگوں نے اپنے دشمنوں کے ہتھے چڑھ کر اب تک وہ مار نہیں چکھی جو پکڑے جانے کے بعد میں کئی بار چکھ چکا ہوں"۔ وہ کہتے ہوئے زخمی سا مسکرایا۔ بہت کچھ یاد آیا تھا اسے اس پل۔

زر اور حماد فاصلے پر ہونے کی وجہ سے اس کی باتیں سن نہ سکے تھے۔ البتہ قریب ہی شہیر یہ سب بخوبی سن چکا تھا۔

"بندہ ایسے کام ہی کیوں کرے کے یہ سب جھیلنا پڑے"۔ وہ فائل پہ جھکا بڑبڑایا تھا۔ 

قیصر نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا۔ وہ بظاہر متوجہ نہ تھا۔ 

"یہ بھی ہمیشہ مجھے کسی کی یاد دلاتا رہتا ہے"۔ وہ اسی کے انداز میں بڑبڑایا۔

"کچھ کہا تم نے؟"۔ شہیر نے براہ راست اس کی جانب دیکھ کر پوچھا۔

"ہاں میں یہ کہہ رہا تھا کے عالیان کے پاس میری ضرورت ہے تو وہی جا رہا ہوں"۔ اسے اطلاع دے کر وہ بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا تھا۔

حماد اور زر اپنا کام کرتے ہوئے ان دونوں کی باتیں بھی سن رہے تھے۔

"اپنی عادت کو کنٹرول میں رکھو، پکڑے جا سکتے ہو کسی دن اپنی اس عادت کی وجہ سے"۔ شہیر نے اس کے بالوں میں چلتی انگلیوں کی جانب اشارہ کرکے کہا۔

قیصر نے ہاتھ روک کر اس کی طرف دیکھا۔ پھر اسے چڑانے والے انداز میں مسکرایا۔

"کبھی کبھی تم بھی چہرے پر مسکراہٹ سجا لیا کرو۔ ورنہ اس سڑے ہوئے چہرے کے ساتھ تو جتنی بار بھی بھیس بدل لو  مقابل تمہیں پہچان ہی لے گا"۔ وہ بھی اپنے نام کا ایک تھا۔

اس نے بھی پل میں حساب بے باق کیا تھا۔ شہیر اس کی بات پر مزید جل بھن گیا۔

گھر سے نکلنے سے قبل اپنے پیچھے اس نے ابو زر اور حماد کا قہقہہ بلند ہوتے سنا تھا۔

_______________________________

بہت دنوں بعد آج پہلی بار اس کے اندر باہر کا موسم اطمینان بخش ہوا تھا۔ باتھ لے کر چینج کرنے کے بعد وہ کافی حد تک خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی۔ بخار کا زور کم ہو گیا تھا۔ قیصر کی ہدایت کے مطابق ملازمین نے اس سے کھانے کا پوچھا تو وہ انکار نہیں کر سکی۔ 

صبح سے دوپہر ہو چکی تھی کھانا کھانے کے بعد بے چینی سے کمرے میں ٹہل رہی تھی۔ بس نہیں چل رہا تھا کے وہ اڑ کر فرزانہ بیگم کے پاس پہنچ جائے۔ اور ان کی گود میں سر رکھ کے اپنا ہر دکھ ہر تکلیف بہتے اشکوں کے ساتھ بہا دے۔

مگر وقت تھا کے بیت ہی نہیں رہا تھا۔ کمرے میں شدید گھٹن ہونے لگی تو وہ باہر نکل آئی۔ یہ پہلی بار تھا کے وہ یوں اپنی مرضی سے اس گھر میں پھر رہی تھی۔ ورنہ تو جب سے یہاں آئی تھی کمرے میں قیدی ہی بنی رہی تھی۔ گو قیصر نے اسے بند کرکے نہیں رکھا تھا سوائے کل کے دن کے۔ مگر وہ اپنی زندگی سے اور خود اپنے آپ سے اس قدر شاکی ہو چکی تھی کے اسے اپنے نصیب سمیت ہر چیز سے نفرت ہو چلی تھی۔ جب سے وہ شخص اس کی زندگی میں آیا تھا تب سے اس کی زندگی بے مقصد اور خالی خالی سی ہو گئی تھی۔ اس آدمی سے سمجھوتا تو اس نے اب بھی نہیں کیا تھا مگر وقتی طور پر خاموشی اختیار کر لی تھی۔

سیڑھیاں اتر کر وہ لاؤنج سے ملحقہ دروازے تک آئی۔ اس دروازے کو دیکھ کر اسے وہ رات یاد آئی تھی۔ پہلے اس کا پکڑے جانا، پھر وہ الام کی چنگھاڑتی ہوئی آواز، ڈیمن کا اپنے پیچھے بھاگنا سبھی کچھ یاد آیا تھا اور ایک مرتبہ پھر دل و دماغ میں قیصر خیام کیلئے نفرت نے سر اٹھایا تھا۔ 

اس رات کے برعکس دروازے پر دن کے اس وقت ٹائٹ سیکورٹی کے بجائے عام لاک لگا تھا۔ اس کے باوجود بھی زیست نے اسے چھونے یا کھولنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ بلکہ جھرجھری لے کر وہ وہاں سے ہٹ گئی۔

اس گھر میں ٹوٹل پانچ کمرے تھے۔ نچلی منزل کے ایک کونے میں دو ایک ساتھ جڑے کمروں کو ملازمین کیلئے مختص کر دیا گیا تھا۔ جبکہ دوسرے کونے پر واقع ایک اور کمرا گیسٹ روم کی حیثیت رکھتا تھا۔ 

دوسری منزل پر دو کمروں کے دروازے آمنے سامنے تھے اور درمیان میں راہداری۔ 

اکتا کر وہ دوبارہ دوسری منزل پر آ گئی۔ اپنے بیڈ روم کے برعکس وہ اس کے سامنے موجود خالی کمرے میں آ گئی۔ پھر وہاں سے ہوتی ہوئی بالکونی میں۔ 

دھوپ اور ہلکی ہلکی ہواؤں نے اس کا خیر مقدم کیا تھا۔ یہ بالکونی غالبا گھر کے پچھلے حصے کی جانب تھی۔ تھک کر وہ وہاں رکھی کین کی کرسی پر بیٹھ گئی اور اس کی پشت سے سر ٹکا دیا۔

دوپہر کی دھوپ میں اس کا کندنی چہرا سونے کی مانند چمک رہا تھا۔ دھوپ کی تمازت سے رخساروں پر ہلکی ہلکی سرخی بھی اترنے لگی تھی۔ وہ خود سے بےنیاز دور خلاؤں میں تکتی ماضی اور حال کی درمیانی فضا میں معلق تھی۔ 

"قاتل ہو تم"۔ اس شخص کا جملہ اس کی سماعتوں سے ٹکرایا تھا۔

وہ ایک بار پھر بے چین ہو اٹھی۔ 

کیوں وہ اسے قاتل کہتا تھا؟ آخر کیوں؟ اتنے دنوں سے حالات ایسے نہیں تھے کے وہ اس کے اس جملے پر غور کر پاتی۔ لیکن اب جب طوفان زرا تھما تھا تو اس کی سماعتیں بھی صاف ہو گئیں۔ اس سے اپنی نفرت کی وجہ تو وہ جانتی تھی مگر اس شخص کی اپنے لیئے نفرت کی وجہ اسے سمجھ نہیں آتی تھی۔ قصوروار تو وہ خود تھا پھر کیوں الزام وہ الٹا اسے دے رہا تھا؟ سزا کا حقدار تو وہ تھا۔۔۔تو آخر کیوں وہ سزائیں اسے دیتا تھا؟ اتنے عرصے میں پہلی بار وہ اس پہلو پر غور کر رہی تھی۔ 

"زیست"۔ شناسا سی آواز میں اپنے نام کی پکار پر وہ چونک سی گئی۔

پھر جیسے ہی نگاہیں اٹھائیں وہ پتھر کا بت بن گئی تھی۔

"امی"۔ اس کے لبوں نے جنبش کی تھی اور اگلے ہی پل وہ اٹھ کر فورا ان کے وجود سے آ لگی تھی۔ آنکھیں بھیگتی چلی گئیں تھی۔

"امی آپ یہاں؟ کیسے؟ کب؟"۔ ان سے الگ ہو کر وہ حیرانگی سے سوال کرنے لگی۔

"وہ دراصل میں۔۔۔"۔

"بھابھی، آنٹی ہمارے ساتھ آئی ہیں۔ لو بھلا ہم پورے گھر میں آپ کو ڈھونڈتے پھر رہے ہیں اور آپ ملیں بھی تو یہاں"۔ ان کا جملہ مکمل ہونے سے قبل ہی ماہا وہاں آئی تھی۔

"کیسی ہیں آپ؟"۔ وہ اس کے ساتھ لگ کر محبت سے پوچھنے لگی۔

"میں ٹھیک ہوں"۔ اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے وہ جوابا مسکرائی۔

"چلیں چلیں مام باہر ہیں ان سے بھی ملنا ہے آپ کو"۔ وہ اس کا بازو تھامے فورا اپنے ساتھ کھینچ کے لے گئی۔

تھوڑی ہی دیر میں ان کے آنے سے خاموش پڑے گھر میں رونق سی لگ گئی۔ 

"بھائی نے صبح کال کرکے بتایا تھا کے آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اس لیئے مام نے یہاں آنے کا کہہ دیا۔ تو انہوں نے کہا کے آنٹی کو بھی ساتھ ہی لیتے آئیں"۔ ماہا اسے تفصیل بتا رہی تھی اور اس کا ذہن اس شخص کے گرد گھوم رہا تھا۔

"چلو کم از کم اپنی زبان کا پاس تو رکھا اس نے"۔ وہ من ہی من سوچ کر رہ گئی۔

"میرے ساتھ آئیے مجھے کچھ دکھانا ہے آپ کو"۔ ماہا کی بات پر وہ اپنے خیالوں سے چونک گئی۔ جبکہ وہ اس کا ہاتھ تھامے سیڑھیاں چڑھ گئی۔

_______________________________

زیر زمین بنے ٹارچر سیل کا دروازہ کھلا تھا اور وہ تند و مند شخص اندر داخل ہوا۔

قدموں کی چاپ سن کر کرسی پر بندھے اس زخمی شخص نے سر اٹھایا۔ اس کا چہرا بری طرح زخمی تھا۔ مگر اس کے باوجود بھی وہ ہنس دیا۔

"جتنا مارنا ہے مار لو۔۔۔میں کچھ نہیں۔۔۔بتاؤں گا"۔ اسے جیسے اپنی مضبوطی پر پورا یقین تھا کے وہ کسی بھی حال میں زبان نہیں کھولے گا۔ یہ وہی شخص تھا جسے پکڑ کر اس کی جگہ ٹیم انڈر دی ماسک نے اپنے آدمی یعنی حماد کو بھیجا تھا۔ 

ٹوٹے پھوٹے جملوں میں اس نے اپنی بات مکمل کی تھی۔ اس کا منہ خون سے بھرا ہوا تھا۔ عالیان کے پنچ نے اس کے جبڑے سوجا دیئے تھے۔ اس کے علاوہ دو دانتوں سے بھی وہ محروم ہو گیا تھا۔

"جانتا ہوں تم ایک جاسوس ہو۔ برداشت کی طاقت بہت ہے تم میں"۔ بھاری لہجے میں کہتے ہوئے اس نے لائٹر سے لبوں  میں دبا سگریٹ سلگایا۔

پھر چلتا ہوا اس کے نزدیک پہنچا۔ داہنا پیر اٹھا کر جوتے سمیت کرسی کے ہتھے سے بندھے اس شخص کے ہاتھ پر رکھ دیا اور سگریٹ کے گہرے کش لیتے ہوئے وہ جوتے سے اس کے ہاتھ پر دباؤ بڑھانے لگا۔۔۔اور بڑھایا۔۔۔مزید بڑھاتا چلا گیا۔ وہ شخص ہذیانی انداز میں چلانے لگا تھا۔

"بس ایک بار پوچھوں گا۔ حسن بن سیف الدین کون ہے؟ "۔ کش لے کر دھواں اس کے چہرے پر چھوڑتے ہوئے اس نے پوچھا۔

"نہیں بتاؤں گا"۔ وہ چلاتے ہوئے نفی میں سر ہلانے لگا۔

گلوز پہنے ہاتھ سے اس کے بال پکڑ کے اس نے زور سے جھٹکا دیتے ہوئے اس کا چہرا سامنے کیا۔ وہ چلا اٹھا تھا۔

"درد کی انتہا دیکھنا چاہو گے؟"۔ سگریٹ پرے پھینک کر اس نے لائٹر جلاتے ہوئے کہا۔

اس کی آنکھیں باہر کو ابلنے لگیں تھی۔ 

جلتا ہوا لائٹر اس نے اس کی کان کی لوؤں سے قریب کیا۔ کان کے قریب موجود بال جل گئے تھے۔ شعلہ مسلسل اس کے کان کو جلا رہا تھا۔

تکلیف سے وہ شخص تڑپ رہا تھا اتنا کے اس کال کوٹھڑی کے در و دیوار اس کی وحشی چیخوں سے لرز اٹھے تھے۔ 

باہر کھڑا عالیان بغور اسے اپنا کارنامہ سرانجام دیتے دیکھ رہا تھا۔

اس کی سرخ ہوتی آنکھوں میں رحم کی زرا سی بھی رمق نہ تھی۔ یہ چہرا وہی قیصر خیام تھا جسے ایک غنڈے نے پروان چڑھایا تھا۔ جسے ایک فوجی نے شاگردی میں لیا تھا۔

بیس منٹ بعد وہ سنجیدہ چہرا لیئے عالیان کے روبرو آیا تھا۔

جیب سے موبائل برآمد کرنے کے بعد اس نے زر کو کال ملائی۔

"دبئی سے ایک ڈیلر کل صبح کی فلائٹ سے آنے والا ہے۔ حسن بن سیف الدین۔ اس کا چہرا ڈھونڈ سکتے ہو تو ڈھونڈو زر۔ صرف آج کا وقت ہے تمہارے پاس"۔ اپنی بات کہہ کر اس نے رابطہ منقطع کر دیا۔ پھر ایک نظر خاموش کھڑے عالیان پر ڈال کر وہ وہاں سے چلا گیا۔

اس کے جاتے ہی عالیان کی نگاہ کرسی سے بندھے شخص پر پڑی۔ جس کا آدھا چہرا جھلس گیا تھا۔ شاید وہ بے ہوش ہو چکا تھا۔ جبکہ انسانی چمڑی جلنے کی ناگوار بو فضا میں پھیلنے لگی تھی۔

"زیست؟"۔ فرزانہ بیگم نے اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے پکارا۔

"جی امی"۔ ان کی گود میں سر رکھے اس نے آنکھیں میچے جواب دیا۔

"تم خوش ہو نا؟"۔ وہ ہر بات جاننے کے باوجود بھی اس سے یہ سوال کر رہیں تھی۔ شاید وہ اپنے پریشان دل کو کسی خوش فہمی میں مبتلا کرنا چاہ رہیں تھی کے ہاں اس ان چاہے رشتے میں وہ خوش ہے۔

"اگر میرے ہاں کہنے سے آپ کو کچھ تسلی ہوتی ہے اور آپ کی پریشانی کم ہوتی ہے تو ہاں میں خوش ہوں"۔ وہ بجھے دل سے کہہ گئی۔

فرزانہ بیگم نے ٹھنڈی آہ بھری۔

"میں تم سے یہ بات کبھی نہ کہتی پر اس دن جو اس نے ریسٹورنٹ میں تمہارے لیے کیا اسے مدنظر رکھتے ہوئے میں یہ بات کہوں گی۔ تمہیں اسے ایک موقع دینا چاہیئے بیٹا"۔ انہوں نے نرمی سے کہا۔

زیست نے ان کی بات پر سر اٹھا کر حیرانگی سے انہیں دیکھا۔

"یہ آپ کہہ رہی ہیں امی؟ جبکہ آپ اچھی طرح جانتی تھیں کے وہ شخص دھوکے سے شادی کر رہا تھا میرے ساتھ مگر پھر بھی آپ نے مجھے انجان رکھا۔ اور تو اور اس کی من مرضی کے مطابق میرا نکاح بھی کروا دیا اس سے اور اب یہ۔۔۔"۔ دکھ و صدمے نے اسے جملہ مکمل نہ کرنے دیا۔ سبز آنکھوں میں پانی اترنے لگا تھا۔

"تو میں اور کیا کرتی؟ مجھ میں ہمت نہیں تھی تمہیں رسوا ہوتے دیکھنے کی۔ اس لیئے میں نے یہ کیا۔ میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ تم چاہو تو اسے ایک ماں کی مجبوری سمجھ لو یا خود غرضی۔۔۔دل پر بوجھ رکھ کر مجھے یہ فیصلہ کرنا پڑا"۔ وہ رنجیدگی سے گویا تھیں۔

زیست نفی میں سر ہلانے لگی۔

"اور اب آپ چاہتی ہیں کے میں ایک بلیک میلر ایک جھوٹے مکار شخص سے سمجھوتا کر لوں؟ نہیں میں یہ نہیں کر سکتی"۔ وہ درد سے جھلا اٹھی تھی۔ اتنا حوصلہ وہ خود میں نہیں پا رہی تھی کے انہیں اس شخص کی اصلیت سے واقف کر پاتی۔ ورنہ حقیقت جان کر تو شاید وہ اسے ایسا مشورہ کبھی نہ دیتیں۔

"ہوش میں آؤ زیست اب تم چھوٹی بچی نہیں ہو جو ہر بات میں اپنی ضد لے کر بیٹھ جاؤ۔ عورت کو صنف نازک کہا گیا ہے، سختی اور بے جا ضد عورت کا شیوا نہیں ہیں۔ دماغ کو زرا ٹھنڈا رکھ کے سوچو، حقیقت جاننے کے باوجود بھی اس نے تمہیں اپنایا ہے اور وقت پڑنے پر وہ تمہارا محافظ ثابت ہوا ہے۔ مانا کے اس کا طریقہ غلط تھا مگر وہ اس رشتے کو قبول کر چکا ہے اور تمہیں بیوی تسلیم کرتا ہے۔ اس لیئے تم بھی اپنے دل میں گنجائش پیدا کرو بیٹا"۔ وہ نرمی اور سختی ہر طریقے سے اسے سمجھا رہیں تھی۔ 

"آپ اس وقت میری ماں سے زیادہ قیصر کی وکیل لگ رہی ہیں"۔ وہ خود ترسی کا شکار ہونے لگی۔

"کوئی ماں بھی یہ برداشت نہیں کرے گی کے شادی کے ایک ہفتے بعد اس کی بیٹی علیحدگی اختیار کرکے گھر پر آ بیٹھے۔ مگر نہیں۔ تم ابھی ماں نہیں ہو نا اس لیئے میری کیفیت نہیں سمجھ سکتی۔ ایک ماں کو اکثر کڑے فیصلے لینے پڑتے ہیں۔ تمہیں اس وقت یہ لگ رہا ہے کے میں ظالم بن رہی ہوں مگر وقت ثابت کرے گا کے میرا فیصلہ غلط نہیں تھا"۔ وہ دکھی دل سے بولیں۔

زیست بنا کچھ کہے ان کے ساتھ لگ گئی۔

"آپ وہ نہیں جانتیں جو مجھے پتہ ہے امی، اور میں آپ کو اس شخص کا وہ روپ نہیں دکھا سکتی جسے صرف میں نے دیکھا ہے۔۔۔صرف میں جانتی ہوں"۔ من ہی من وہ آزردگی سے یہ باتیں صرف سوچ کر رہ گئی تھی۔ ان سے کہہ نہیں سکی تھی۔

"اچھے کو تو سب اپناتے ہیں بیٹا، اچھا تو ہر کسی کو ہی پسند آتا ہے۔ مگر انسان وہ ہے جو برے کو اپنائے اور اسے اچھا بننے کی ترغیب دے۔ تمہیں اسے سمجھنا چاہئیے اور ہو سکے تو بدلنا بھی"۔ اس کی سوچوں سے بے خبر وہ اس کی پشت سہلاتے ہوئے مزید کہہ رہیں تھی۔ جبکہ زیست کرب سے آنکھیں میچے انہیں سنتی رہی۔

یہ سب بھلا اتنا سہل کب تھا؟ 

_______________________________

رات ایک بجے اس کی واپسی ہوئی تھی۔ نرمین اور ماہا سمیت فرزانہ بیگم بھی زیست کے اصرار پر رات وہیں ٹھہر گئیں تھی۔ پھر صبح سویرے انہیں نکلنا تھا۔ 

گھر نیم اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ سبھی لوگ سو چکے تھے۔ 

کھانا وہ عالیان اور باقی سب کے ہمراہ وہیں کھا کر آیا تھا۔ فیض صاحب کی ہدایات کے پیش نظر اسے رات گھر پر ہی آنا پڑتا تھا۔ ورنہ اس کے نزدیک رات دنوں کا شمار تھا ہی کب؟

جیکٹ کندھے پہ لٹکائے وہ اپنے کمرے میں داخل ہوا تھا اور پیچھے دروازہ بند کر دیا۔

کمرے میں زیرو پاور کی ہلکی ہلکی روشنی پھیل رہی تھی۔ 

"محترمہ کتنے سکون سے سو رہی ہیں"۔ اس بے خبر سوئے وجود کے چہرے کو تکتے ہوئے وہ تلخی سے سر جھٹک گیا۔ 

اگلے ہی پل سوئچ بورڈ پر ہاتھ مار کر اس نے سارا کمرا روشن کر دیا تھا۔ اجالوں کے پھیلتے ہی جو منظر اس کی نگاہوں کے سامنے آیا تھا وہ بیڈ کے سراہنے لگی لارج سائز فریمڈ تصویر تھی جس میں وہ دو نفوس ہر چیز بھلائے ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانکتے جانے کس جہاں کو پہنچے ہوئے تھے۔ 

تصویر کو دیکھتے ہوئے وہ تلخی سے مسکرا دیا۔ 

اندھیرے اور روشنی کے اس اچانک ربط نے زیست کو آنکھیں کھولنے پر مجبور کر دیا تھا۔ جوں ہی اس نے پلکیں وا کیں وہ عین اس کی نگاہوں کے سامنے موجود تھا۔ گھبرا کر وہ جلدی سے اٹھ بیٹھی۔

"میں نہیں جانتا تھا کے تم اتنا مس کرتی ہو مجھے"۔ جیکٹ صوفے پر اچھال کر وہ اس کے نزدیک آ بیٹھا۔

اس کی بات پر وہ ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔ 

"تصویر کی کیا ضرورت ہے جب قیصر خیام تمہارے سامنے ہے۔ دیکھ لو جی بھر کے مجھے"۔ اپنا چہرا اس سے قریب تر کرتے ہوئے وہ مخمور لہجے میں بولا۔ 

زیست نے پلکیں میچ کر نفرت سے منہ پھیر لیا۔

انگشت شہادت اس کے رخسار پر رکھ کے اس نے ایک بار پھر اس کا رخ اپنی جانب کیا۔

"دیکھو میری طرف"۔ اس کا لہجہ سخت ہو گیا۔

وہ پلکیں اٹھا گئی۔

"اب پلکیں نہیں جھپکنا۔ جب تک میں نہ کہوں"۔ قطعی انداز میں کہا۔

وہ اسی طرح اسے دیکھتی رہی۔ جیسے وہ شخص کوئی طلسم جانتا ہو۔

"نفرت کرتی ہو مجھ سے؟"۔ یہ سوال بھی بھلا پوچھنے والا تھا؟ 

"بے انتہا"۔ وہ پلکیں جھپکائے بغیر اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بے خوفی سے بولی۔

"اس نفرت کیلئے تم کس حد تک جا سکتی ہو؟"۔ وہ سنجیدگی سے اگلا سوال کر گیا۔

اس بار وہ فوری جواب نہ دے سکی۔

"جان لے سکتی ہو میری؟"۔ سوال بدلا گیا۔

"نہیں"۔ اس کی آواز نم ہونے لگی۔

"کیوں؟"۔ وہ چونکا۔

"کیونکہ میں آپ کی طرح ایک قاتل نہیں ہوں"۔ آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر رخسار پر بہہ نکلے تھے۔ مگر کمال ضبط تھا کے پلکیں نہیں جھپکیں۔

"تو پھر الوینا کو کیوں مارا تم نے؟"۔ اس کا لہجہ آتشیں ہو گیا۔

زیست نے حیرانگی سے پلکیں جھپکائیں۔ یہ سوال بہت ہی غیر متوقع تھا۔ بلکہ یہ سوال تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔

"الوینا کون؟"۔ اس نے حیرت سے پوچھا۔ 

اور قیصر خیام کیلئے اس کا ردعمل انوکھا ثابت ہوا تھا۔ وہ کوئی جواب نہ دے سکا تھا۔

"کون ہے الوینا؟"۔ اسے خاموش پا کر وہ پھر سے پوچھ بیٹھی۔

وہ بنا ایک لفظ کہے خاموشی سے اس کے پاس سے اٹھ کھڑا ہوا۔ 

اپنے کپڑے نکال کر چینج کرنے چلا گیا۔ پانچ منٹ بعد جب وہ چینج کرکے واپس آیا تو وہ یونہی بیٹھی نظر آئی۔

روشنیاں گل کرکے وہ بیڈ کے دوسری جانب آ گیا۔ اندھیرے میں اس کی جانب تکتی وہ شاید اس سے جواب سننے کی متمنی تھی۔

"سو جاؤ"۔ اس نے تحکم سے کہا۔

مگر اس کی پوزیشن میں زرا برابر فرق نہ آیا۔ جانے کیوں وہ نام اسے اپنے دل و دماغ پہ نقش ہوتا محسوس ہوا۔

"زیست؟"۔ کچھ لمحوں بعد پھر اس کی بھاری آواز گونجی۔

"جی"۔ اس ایک لفظ میں بھی اس کی آواز کا بھیگا پن محسوس کیا جا سکتا تھا۔

اس نے خاموشی سے اس کا ہاتھ تھام کر اپنے قریب کیا اور کمفرٹر اپنے اوپر کھینچ کے اس کے وجود کے گرد حصار باندھ دیا۔ 

وہ اس کے سینے پہ سر رکھے آنکھیں میچ گئی۔ آنسو اب اس کے سینے پر گرتے شرٹ میں جذب ہو رہے تھے۔ قیصر اس نمی کو بخوبی محسوس کر سکتا تھا۔ مگر اس تکلیف کو نہیں جو زیست کے دھڑکتے دل میں اٹھ رہی تھی۔ 

اسے تکلیف قیصر کے اس الزام نے نہیں دیا تھا۔ تکلیف تو اسے اس نام سے بھی نہیں ہوئی تھی پر اس نام کے لبوں پر آتے ہی سرمئی آنکھوں میں جو درد کی تحریر نظر آئی۔۔۔چہرے پر جو جذبے امڈ آئے تھے انہیں سوچ کر وہ خود اذیتی کا شکار ہو رہی تھی۔ 

جس دل کے مقام پر سر رکھے وہ آنسو بہا رہی تھی وہ دل کسی اور کے نام تھا۔ وہ شخص سر تا پیر کسی اور کے عشق میں غرق تھا۔ یہی وہ خیال تھے جو اسے رلا رہے تھے۔

"مجھے آزادی چاہیئے اس رشتے سے"۔ اس کی گیلی آواز خاموش کمرے میں گونجی۔

"اوکے"۔ جواب فوراً آیا۔ 

وہ ششدر رہ گئی۔ اسے بھلا توقع ہی کب تھی اس جواب کی۔

"ٹھیک ہے۔ میں کل ہی امی کے ساتھ چلی جاؤں گی"۔ غصے سے کہتی ہوئی وہ اس کا حصار توڑنے لگی۔ مگر بے سود۔

"اوکے، چلی جانا"۔ اس نے آنکھیں موندے جواب دیا۔

"چھوڑیں مجھے، نہیں رہنا مجھے آپ کے ساتھ"۔ اس کے سینے پر دباؤ ڈالتے ہوئے بولی۔ غصہ بے بسی کی صورت اختیار کرنے لگا تھا۔

"کیا برائی ہے مجھ میں؟"۔ وہ محظوظ ہوا۔

اس سوال نے تو اس کے چھکے چھڑا دیئے۔

"برائی؟ اچھائی ہی کیا ہے آپ میں؟ "۔ وہ جھلا اٹھی۔ 

"بہت سی ہیں۔ بس دیکھنے والی آنکھ چاہیئے"۔ آواز میں مسکراہٹ نمایاں ہوئی۔ مگر وہ اسے محسوس نہ کر سکی۔ 

"ایسی آنکھوں والی کوئی تلاش کر لیجیے پھر"۔ وہ چبا چبا کر بولی۔

"ہوں۔ ڈھونڈ لوں گا کوئی۔ مگر اس بار دھیان رکھوں گا کے وہ زمرد آنکھوں والی نہ ہو"۔ مصنوعی سنجیدگی سے کہا۔

"آوارہ، اوباش، عورت باز"۔ اور بھی جانے کن القابات سے وہ اسے نواز گئی تھی۔ مگر زیرِ لب۔ 

"اتنی زیادہ تعریف سننے کی مجھے عادت نہیں ہے۔ اس لیئے اب سو جاؤ"۔ اس بار زرا سنجیدگی سے کہا۔

جس پر خفت زدہ ہو کر وہ سوتی بن گئی۔

نیم اندھیرے میں قیصر نے اس کی بند پلکوں کو دیکھا۔بہرحال وہ اسے بہلانے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ مطمئن ہو کر اس نے آنکھیں موند لیں۔

صبح ناشتے کی میز پر وہ سبھی اکٹھے موجود تھے۔ سوائے قیصر کے۔ 

"یہ کہاں ہیں آپ کے شوہر صاحب؟ شکل ہی نہیں دکھائی کل سے انہوں نے اپنی؟"۔ نرمین نے زیست کی جانب دیکھ کر پوچھا۔

وہ کھانے سے ہاتھ روک کر ان کی طرف متوجہ ہوئی۔

"وہ۔۔۔انہیں کچھ ضروری کام تھا اس لیئے ناشتہ کیئے بغیر جلدی چلے گئے۔ آپ سب سے معذرت چاہ رہے تھے"۔ ماں کی موجودگی کے پیش نظر اور باقیوں کی لاعلمی کی وجہ سے اسے اچھی بیوی کا کردار ادا کرنا تھا۔

"بیٹا، تمہیں پوچھنا چاہیے تھا نا ناشتے کا اس سے"۔ فرزانہ بیگم نے اسے نرمی سے ٹوکا۔ انہیں بہرحال زیست کی یہ لاپرواہی ناگوار گزری تھی۔

"اس بیچاری کی بھی کیا غلطی؟ وہ خود ہوا کے گھوڑے پر سوار رہتا ہے۔ اسے کچھ وقت تو نکالنا چاہیئے تھا ہمارے لیئے۔ فیض سے بات کروں گی میں، وہ خود کلاس لیں گے اب اس کی"۔ نرمین بیگم برہمی سے بولیں۔ اتنے مہینوں سے اس شخص کو میکائیل کہتے کہتے شاید وہ اسے میکائیل جیسا ہی تصور کرنے لگیں تھی۔ جبھی تو اس کیلئے ان کا انداز ایک ماں جیسا تھا۔

"کوئی بات نہیں نرمین، کسی اہم کام میں ہوگا وہ ورنہ کیوں نہ رکتا"۔ فرزانہ بیگم نے شائستگی سے کہتے ہوئے ان کی فکر کم کرنا چاہی۔

جس پر وہ محض سر ہلا گئیں۔

زیست ان کے درمیان بیٹھی خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔ اسے تو سرے سے یہ خبر ہی نہ تھی کے اس کا شوہر کن کاموں میں ہے۔ اور خبر ہوتی بھی تو اسے اس سے کوئی سروکار نہیں تھا۔

"نوشین جاؤ زرا ماہا کو جگا دو۔ کہو آ کر ناشتہ کرے پھر کچھ دیر بعد نکلنا ہے ہمیں"۔ نرمین نے ملازمہ کو آواز دے کر کہا۔

"جی بیگم صاحبہ"۔ وہ جواب دے کر اوپری منزل کی جانب بڑھ گئی۔

جبکہ وہ دونوں خواتین اب آپسی گفتگو میں مگن ہو گئیں تھی۔ اور زیست اپنی ہی سوچوں میں الجھی ہوئی تھی۔

_______________________________

جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے ارائیول لاؤنج میں موجود ارد گرد نگاہیں دوڑاتا وہ چوکنا سا تھا۔ 

دبئی سے آنے والی فلائٹ ای-کے چھ سو لینڈ کر چکی تھی۔ 

"فلائٹ لینڈ کر چکی ہے۔ شکار سامنے آنے والا ہے"۔ ہونٹ ہلائے بغیر اس نے کان میں لگے آلے کے ذریعے زر سے کہا جو اس وقت ایئر پورٹ کے باہر موجود تھا۔

"سب تیار ہے"۔ سیکورٹی اہلکار سے بات کرنے کے بعد زر پارکنک ایریا کی طرف چل دیا۔

اندر وہ محتاط نگاہوں سے ہر مسافر کا چہرا جانچ رہا تھا۔ 

اور بالآخر اس کی نگاہیں اس تک پہنچ ہی گئیں۔

رائل بلیو سوٹ میں ملبوس وہ ہلکی سانولی رنگت اور پرکشش چہرے والا لگ بھگ تیس کی عمر کا مرد انداز سے خاصا شریف النفس معلوم ہوتا تھا۔ اس کے ہاتھ میں سیاہ رنگ کا ہینڈ کیری تھا اور اس کے علاوہ کوئی دیگر سامان نہ تھا۔ قیصر ایک ہی نگاہ میں اس کا پورا ایکسرے لے چکا تھا۔ جبکہ وہ اب امیگریشن کلیرنس لے رہا تھا۔ 

اس کی نگاہیں اس پر ہی جمی تھیں۔

حسن ابن سیف الدین چلتا ہوا کسٹم کاؤنٹر کی طرف گیا تھا۔ 

پورٹر کے بھیس میں موجود وہ بھی عام سے انداز میں اس کے پیچھے چلتا ہوا آیا تھا اور براؤن سوٹ کیس یوں حسن کے قدموں کے پاس رکھ دیا جیسے وہ اسی کا سامان اٹھا کے لایا ہو۔ پھر اسی طرح وہ الٹے قدموں وہاں سے کھسک گیا تھا۔

اس سوٹ کیس سے بے خبر حسن نے اپنا بیگ کسٹم آفیسر کی جانب بڑھایا۔ وہ سنجیدہ چہرے کے ساتھ اس کا بیگ کھول کر چیک کرنے لگا تھا۔

"اپنا دوسرا بیگ دکھائیے"۔ آفیسر کی وردی میں ملبوس عالیان نے بیگ اس کی جانب بڑھاتے ہوئے اس کے پیروں کے پاس رکھے سوٹ کیس کی جانب اشارہ کیا۔

وہ چونک کر نیچے دیکھنے لگا۔

"یہ میرا نہیں ہے آفیسر"۔ وہ حیرانگی سے کہنے لگا۔

"آپ کے پاس پڑا ہے اور آپ کہتے ہیں کے آپ کا نہیں ہے؟ دکھائیے اِدھر"۔ عالیان نے سخت لہجے میں کہا۔

"لیکن میں کہہ رہا ہوں کے یہ میرا نہیں ہے"۔ وہ کوفت زدہ ہوا۔

مگر وہ سنے بغیر اس کا سوٹ کیس اٹھا کر کھولنے لگا تھا۔

"آپ یہ چیک کریں میں چلتا ہوں"۔ حسن نے عجلت میں کہتے ہوئے جانا چاہا۔

"رکیئے، کیا ہے یہ؟"۔ عالیان نے تین چار سفید پڑیاں نکال کر اسے دکھاتے ہوئے برہمی سے پوچھا۔

جسے دیکھ کر حسن دم بخود رہ گیا تھا۔

"یہ۔۔۔یہ میرا نہیں ہے۔۔۔میں آپ سے کہہ رہا ہوں کے یہ میرا نہیں ہے"۔ وہ قطعی ماننے کو تیار نہ تھا۔

"اچھا، ابھی پتہ چل جائے گا۔ پورٹر یہاں آؤ"۔ اس نے زرا فاصلے پر کھڑے قلی کو پکارا۔ اس کی پکار پر وہ چلتا ہوا ان کے نزدیک آ گیا۔

"یس سر"۔ اس نے ادب سے کہا۔

"ان صاحب کا سامان تم لائے تھے؟"۔ اس نے حسن کی جانب اشارہ کرکے پوچھا۔ 

قیصر نے اس کی طرف دیکھا۔ پہلے اس کا چہرا جانچا پھر اس کے بیگ کو دیکھ کر اچانک اس کے چہرے پر شناسائی ابھر آئی۔

"جی ہاں سر، انہیں میں ابھی دو منٹ پہلے ہی تو یہاں سامان سمیت کاؤنٹر پر چھوڑ گیا ہوں"۔ یاد آنے پر اس نے جلدی سے کہا۔

"یو اڈیٹ، تم جھوٹ بولتے ہو"۔ حسن طیش میں آ کر اس پر الٹ پڑا تھا۔

"چھوڑیئے اسے، جسٹ بیک آف"۔ عالیان غصے سے چیخا۔

جبکہ وہ بھوکے شیر کی طرح اس پر جھپٹ پڑا تھا۔ اور وہ مٹھیاں سختی سے بھینچے ہاتھ روکے اس کی مار کھا رہا تھا۔

آس پاس سے گزرتے لوگ حیرانگی سے انہیں دیکھ رہے تھے۔

صورتحال کشیدہ ہوتے دیکھ کر عالیان نے ایئرپورٹ سیکورٹی فورس سے رابطہ کیا۔ پانچ منٹ میں ہی تین چار افسران وہاں پہنچے تھے اور حسن کو قابو کیا تھا۔

"گرفتار کر لو اسے۔ کوکین سے بھرا بیگ برآمد ہوا ہے اس کے پاس سے"۔ عالیان نے سوٹ کیس سیکورٹی افسران کو دکھاتے ہوئے سخت نگاہوں سے حسن کو دیکھ کر بتایا۔

"یہ بیگ میرا نہیں ہے۔ بلیو می"۔ وہ چیخ چیخ کر اپنی بات کا یقین دلا رہا تھا۔ 

"یہ فیصلہ اب عدالت کرے گی"۔ آفیسر نے کہتے ہوئے اسے ہتھکڑیاں پہنائی اور اپنے ساتھ لے گئے۔ وہ شور کرتا رہ گیا۔

"تم ٹھیک ہو؟"۔ اس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کے عالیان نے فکرمندی سے پوچھا۔ 

رومال سے اپنا زخمی چہرا صاف کرتے ہوئے اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ 

"پکڑ کے دو لگا دیتے کمینے کو"۔ زر کی غصے بھری آواز اس کے کان میں گونجی تھی۔

"یہ وقت ہوش سے کام لینے کا ہے"۔ قیصر نے اسے ٹوکا۔

"ٹھیک ہے اب تم لیکچر مت دینے لگو مجھے، اس کا حساب تو میں اس سے لوں گا بعد میں"۔ وہ خفگی سے بولا تھا۔

اس کی بات پر وہ اپنی حالت کے برعکس بھی مسکرا دیا۔

_______________________________

"کیا لگتا ہے باس آپ کو؟ وہ آسانی سے ہمارے مطالبات مان لیں گے؟"۔ رانا نے اپنے سے ایک قدم آگے چلتے بہروز ولید کو مخاطب کیا تھا۔

"جو خبر ہم انہیں دینے والے ہیں وہ ان کیلئے انمول ہے رانا، اس کیلئے تو منہ مانگی قیمت بھی وہ ادا کریں گے۔ میں سوچ رہا ہوں کیوں نہ اس خبر کی دگنی قیمت وصول کی جائے"۔ مغرور چال چلتا ہوا وہ پراعتماد لہجے میں بولا۔

"وہ کیسے؟"۔ رانا نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔

وہ دونوں تہ خانے کی راہداری سے گزر رہے تھے۔ وہاں قطار کی صورت چھوٹے چھوٹے سیل بنے تھے۔ جن کے آگے لوہے کی سلاخیں لگی تھیں۔ جن کے اندر انسانی وجود قید تھے۔ پھٹے حال فقیروں سی حالت لیئے ان میں بہت سے پولیس اہلکار تھے۔ کئی مقابل گینگ سے تھے یعنی ان کے دشمن۔ کچھ عام لوگ تھے اور چند ایک وہ فوجی جو بے نام تھے۔ 

"امریکہ کو بھی اپنے گاہک کی فہرست میں شامل کر لو۔ بڑے بھیا کیلئے یہ خبر خاصی قیمتی ثابت ہوگی"۔ خباثت سے مسکراتے ہوئے اس نے تجویز پیش کی۔

"میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں"۔ رانا نے سر کو خم دے کر کہا۔

"ان کا آدمی آنے والا تھا دبئی سے۔ پہنچ گیا ہوگا وہ۔ کل اس سے میٹنگ ارینج کروا دو میری"۔ آخری سیل کے باہر رکتے ہوئے اس نے حکم سنایا۔ ساتھ ہی دروازہ کھولنے کا اشارہ دیا۔

رانا نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تو وہ اندر داخل ہو گیا۔

دیوار سے کمر ٹکائے اور گھٹنوں پہ سر گرائے وہ لمبے لمبے گھنگھریالے بالوں والا لاغر سا وجود سیمنٹ کے فرش پر بیٹھا تھا۔

وہ چلتا ہوا اس کے سر پر پہنچا اور پنجوں کے بل اس کے سامنے جھکا۔

"کیسے ہیں ہمارے خاص مہمان؟"۔ اس کے الجھے ہوئے بال مٹھی میں جکڑ کے بہروز نے اس کا چہرا اٹھایا۔

خشک پڑپڑی زدہ ہونٹ، حد درجہ بڑھی ہوئی شیو، اندر کو دھنسی ہوئی براؤن بجھی آنکھیں۔۔۔جن میں خالی پن تھا۔ گویا وہ اسے سن تو رہا تھا مگر اس کے الفاظ سمجھ نہیں پایا تھا۔

بہروز نے رانا کی طرف اشارہ کیا۔ جس نے سمجھتے ہوئے جیب سے ڈرگز کی ایک پڑیا نکال کر اس کی ہتھیلی پر رکھ دی۔

"یہ چاہیئے؟"۔  دوستانہ انداز میں کہتے ہوئے وہ پیکٹ اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔ جسے دیکھ کر اچانک ان خالی آنکھوں میں چمک ابھر آئی تھی۔ اس نے تیزی سے ہاتھ بڑھا کر وہ لینا چاہا مگر عین اسی وقت بہروز نے ہاتھ پیچھے کر لیا۔

"آؤ لو اسے"۔ وہ اسے بار بار پیکٹ دکھا کر للچا رہا تھا۔ اور وہ کمزور سا وجود آگے بڑھ کر اسے لینے کی ناکام کوشش کرنے لگتا۔

رانا یہ کھیل دیکھ کر محظوظ ہوتے ہوئے ہنس رہا تھا۔ جبکہ بہروز نے اب پڑیا کھول کر اسے فرش پر اِدھر اُدھر بکھیرنا شروع کر دیا۔

وہ بے بس نگاہوں سے فرش پر گرتے پاؤڈر کو دیکھ رہا تھا۔

"چچ چچ چچ، یہ تو سب ضائع ہو گیا۔ ایسا کرو یہ فرش سے اٹھا لو"۔ ترحم بھری نگاہوں سے اس کی جانب تکتے ہوئے بہروز نے اس کی بے کسی کا مذاق اڑایا۔

وہ بلا تامل فرش پر جھک گیا اور اس سفید پاؤڈر کو سونگھ کر اس سے سانسوں کو معتر کرنے کی کوشش کرنے لگا۔

وہ دونوں درندہ صفت اشخاص اس کی بے بسی دیکھتے ہوئے حلق پھاڑ کر بے ہنگم قہقہے لگا رہے تھے۔

ان دونوں سے بے نیاز میکائیل فرش پر بکھرے کوکین کو سونگھ کر جیسے پھر سے جی اٹھا تھا۔

_______________________________

خلاف معمول آج وہ سرے شام ہی گھر واپس آ گیا تھا۔

"نوشین، کھانا لگا دو میرے لیئے"۔ وہ لاؤنج میں موجود ملازمہ کو ہدایت دینے کے بعد اپنے کمرے میں آ گیا۔ جو زیست کے وجود سے خالی تھا۔ چینج کرنے کے بعد وہ دوبارہ نیچے آ گیا۔

"مسز بخاری اور ماہا چلی گئیں؟"۔ میز پر کھانا لگاتی نوشین سے اس نے استفسار کیا۔

"جی چھوٹے صاحب، وہ تو صبح ہی چلی گئیں تھی"۔ اس نے اطلاع دی۔

"اچھا۔۔۔اور زیست؟"۔ پلیٹ میں کھانا نکالتے ہوئے وہ سرسری سے انداز میں پوچھ بیٹھا۔

"وہ نرمین میڈم کے کمرے میں ہیں"۔ ملازمہ نے مزید اطلاع دی۔

اس کا ہاتھ رک گیا۔

"ٹھیک ہے تم جاؤ"۔ اسے حکم دینے کے ساتھ ہی وہ کھانا کھائے بغیر کرسی چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا۔

سبز رنگ کے شلوار سوٹ میں ملبوس وہ دونوں گھٹنے سینے سے لگائے اور ٹھوڑی گھٹنے پہ ٹکائے بیٹھی جامنی پڑتے افق کو دیکھ رہی تھی۔ گو اندھیرا زیادہ گہرا نہیں ہوا تھا ابھی مگر چند ستارے اب بھی آسمان پر ٹمٹمانے لگے تھے۔

فرزانہ بیگم، نرمین اور ماہا کے جانے سے یہ گھر پھر اداس اور خالی خالی سا ہو گیا تھا۔ پہاڑ جیسا دن کیسے اس نے کاٹا تھا یہ وہ ہی جانتی تھی۔ 

چند ملازموں کے علاوہ اور اس گھر میں دوسرا وجود تھا ہی کون؟ وہ تو جب مرضی ہو تب گھر آتا تھا۔ نہ اس کا کوئی مستقل وقت تھا اور نہ کوئی ٹھکانہ۔ پیچھے وہ تنہا رہ کر نہ جانے کن کن سوچوں سے لڑتی رہتی تھی۔

دروازے پر ہوئی آہٹ سن کے اس نے چونک کر اپنے پیچھے دیکھا۔ وہ چلتا ہوا اس کے مقابل رکھی خالی کرسی پر آ بیٹھا تھا۔

"آپ اس وقت؟"۔ وہ اس کے اتنی جلدی گھر آنے پر حیران تھی۔ 

"ہاں، کیوں میں جلدی نہیں آ سکتا؟"۔ وہ بغور اس کی آنکھوں میں جھانکتا پوچھنے لگا۔

"میں نے ایسا تو نہیں کہا"۔ وہ رخ پھیر گئی۔

"تو پھر میرا انتظار کر رہی تھی؟"۔ اس کے چہرے کو تکتا وہ گمبھیر لہجے میں گویا ہوا۔

اس سوال پر وہ سٹپٹا کر اس کی طرف دیکھنے لگی۔

"نہیں۔۔میں کیوں انتظار کرنے لگی"۔ اس نے فورا دامن جھاڑا۔

"کیونکہ تم بیوی ہو میری"۔ وہ دلچسپی سے بولا۔

"زبردستی کی بیوی"۔ اس نے تصیح کی۔ 

قیصر نے لمحہ بھر کو خاموشی سے اس کی طرف دیکھا اور نرمی سے اس کا ہاتھ تھام کر اپنی جانب کھینچ لیا۔ زیست کا دل زور سے دھڑکا۔

وہ آبشار کی مانند اس کے وجود پر بکھرتی چلی گئی۔  

"جیسی بھی ہو لیکن بیوی تو ہو تم"۔ اس کے شہد آگیں بال یک مشت کرتے ہوئے اس نے بھرپور سنجیدگی سے کہا۔

زیست ساکت نگاہوں سے اس کے چہرے پر پڑے نیل دیکھ رہی تھی۔ مخروطی انگلیوں نے بے ارادہ ہی اس کے نیل ہوتے رخسار کو چھوا۔

اس کی آنکھوں میں امڈتی سراسیمگی قیصر کو بے کل کر گئی تھی۔ وہ اس کی تکلیف کو محسوس کر رہی تھی۔ وہ جو ایک قاتل تھی۔

"وہ قاتل نہیں ہے"۔ ہاں یہ آواز اس کے اندر سے آئی تھی۔ اور چند دنوں سے مسلسل آ رہی تھی۔۔۔ہر گھڑی ہر لمحہ بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی۔ 

"اگر وہ قاتل نہ ہوئی تو؟"۔ اور اس سے آگے قیصر کی سوچ جواب دے جاتی تھی۔ وہ واقعی قاتل نہ ہوئی تو جو کچھ بھی وہ اب تک کر چکا تھا اس کے ساتھ وہ ظلم ہی کہلاتا۔ اسی لیئے تو وہ یہ سب سوچنا نہیں چاہتا تھا۔ 

اس نے اپنی گرفت ڈھیلی کردی۔ زیست کو اجیب سی بے چینی نے آن گھیرا وہ گھبرا کر اس سے فاصلے پر ہو گئی۔

"چلو باہر چلتے ہیں۔ ڈنر کرنے"۔ اس نے بیٹھے بیٹھے اچانک پلان بنایا۔ 

زیست نے مشکوک نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔

وہ اٹھ کر اس کے مقابل کھڑا ہوا۔

"گھبراؤ مت، تمہیں قتل کرنے کے ارادے سے نہیں لے جا رہا"۔ بالوں کی لٹ اس کے کان کے پیچھے کرتے ہوئے وہ مسکرایا۔

وہ اب بھی اس کا چہرا دیکھتی جانے کیا کھوجنا چاہ رہی تھی۔

"چلو جلدی سے تیار ہو جاؤ"۔ اسے ویسے ہی کھڑے دیکھ کر قیصر نے ٹوکا۔

"نہیں۔۔۔میں کھانا کھا چکی"۔ پلکیں جھکاتے ہوئے اس نے بات بنائی۔

"کوئی بات نہیں۔ تم مجھے کمپنی دینے کیلئے ساتھ چلو"۔ اس کا ہاتھ تھامے وہ اسے لیئے اندر کی جانب قدم بڑھا گیا۔

"لیکن میں نہیں۔۔۔"۔ وہ منمنائی۔

"شش۔۔۔بس اب بحث نہیں"۔ اس نے اسے خاموش کروا دیا اور اپنے ساتھ لیئے اندر کی جانب بڑھ گیا۔

ان کے ٹھیک سامنے والے بنگلے کے ایک کمرے کی کھڑکی سے دور بین کے ذریعے وہ منظر دیکھنے والا شخص پر اسرار انداز میں مسکرایا تھا۔ کچھ تھا اس کی مسکراہٹ میں۔۔۔کچھ بہت انہونا سا!

وہ گاڑی میں خاموشی سے اس کے برابر بیٹھی تھی۔ تو دوسری طرف وہ بھی اتنی ہی خاموشی اور سنجیدگی کے ساتھ ڈرائیونگ کر رہا تھا 

یہ صحیح بھی تھا۔ ان کے درمیان بھلا بولنے کو کچھ تھا ہی کب؟ وہ دونوں تو جب بھی ایک دوسرے کو مخاطب کرتے سوائے الزام تراشی کرنے کے اور کوئی گفتگو ان میں نہیں ہوتی تھی۔ 

جب کوئی جذبہ شدت اختیار کر جاتا ہے تو اس کا انت پھر یہ ہوتا ہے کے وہ بڑھتے بڑھتے ایک مقام پر آ کر رک جاتا ہے۔ اور پھر وہاں سے وہ گھٹنے لگتا ہے۔ ہر چیز کی انتہا بے شک نہ ہوتی ہو مگر ہر چیز کی ایک حد ضرور مقرر ہوتی ہے۔ جب درد حد سے بڑھ جاتا ہے تو ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کے وہی درد دوا بن جاتا ہے۔ محبت یا نفرت انسان کو تنگ نہیں کرتی بلکہ یہ کام تو ان جذبوں سے جڑی شدت کرتی ہے۔ انسان کو کسی بھی جذبے میں کبھی شدت پسندی نہیں دکھانی چاہیے۔ ورنہ اس جذبے کو ختم ہوتے دیر نہیں لگتی۔ پھر چاہے وہ محبت ہو۔۔۔یا نفرت!

کچھ ایسا ہی آج کل ان دونوں کے ساتھ بھی ہو رہا تھا۔ کہاں تو وہ پہلے پہل ایک دوسرے کا چہرا بھی دیکھنا نہیں چاہتے تھے اور اب کیسے وہ دونوں ساتھ تھے۔۔۔مہر بہ لب مگر ساتھ تو تھے۔ شاید نفرت کا اظہار کرتے کرتے تھک چکے تھے۔۔۔یا شاید مزید اظہار کیلئے الفاظ ختم ہو گئے تھے۔ بہرحال جو بھی تھا مگر اب ایک دوسرے سے اندھا دھند نفرت کرنے کے بجائے وہ دو لوگ خاموشی سے اپنی اپنی جگہ کسی سوچ میں تھے۔ 

آدھے گھنٹے کے دورانیہ کے بعد گاڑی ایک ریسٹورنٹ کے باہر رکی تھی۔ 

قیصر اپنی طرف کا دروازہ کھول کر اس کی جانب آیا تھا۔

"اب کیا یہاں بسنے کا ارادہ ہے محترمہ؟"۔ اس کی کوفت بھری آواز زیست کے کانوں میں پڑی تو وہ چونک سی گئی۔ پھر نگاہیں اٹھائیں تو اسے دروازہ کھولے اپنے قریب کھڑا پایا۔ وہ چہرا جھکائے خاموشی سے نیچے اتر آئی۔

گاڑی لاک کرنے کے بعد وہ اندر کی جانب چل دیا۔ اپنے کندھے پر شال درست کرتے ہوئے وہ بھی اس کے پیچھے پیچھے ریسٹورنٹ میں داخل ہو گئی۔

ایک خالی میز دیکھ کر وہ وہاں آ بیٹھے تھے۔

"تم مینیو دیکھو، پھر میں آرڈر کرتا ہوں"۔ ٹیبل پر پڑا مینیو کارڈ اٹھا کر اسے تھماتے ہوئے وہ اپنے موبائل پر مصروف ہو گیا۔ زیست ایک نظر اس پر ڈالنے کے بعد مینیو کارڈ دیکھنے لگی۔

"سر آپ کا آرڈر"۔ پانچ منٹ بعد ہی ویٹر ان کی میز کے پاس آیا۔

"دے دو زیست"۔ اس نے مصروف سے انداز میں جواب دیا۔

جبکہ زیست کو اس بار اس کا انداز برا لگا تھا۔ وہ اسے اصرار کرکے اس کی مرضی کے خلاف یہاں لایا تھا اور اب خود کیسے اپنے موبائل کے ساتھ مصروف تھا۔

ناچار اسے ہی آرڈر دینا پڑا۔

"جب اتنے ہی مصروف تھے آپ تو مجھے یہاں لانے کی زحمت بھی کیوں کی؟"۔ ویٹر کے وہاں سے ہٹتے ہی اس نے پہلی بار لب کشائی کی۔

اثبات پر قیصر نے نظریں اٹھائیں۔ وہ تیکھے چتونوں سے اسے ہی گھور رہی تھی۔

"غالباً ہم یہاں کھانا کھانے آئے ہیں۔ ہاں اگر تمہیں میری توجہ چاہیئے ہے تو مجھ سے مانگ کے لے سکتی ہو اس میں اتنا بھڑکنے کی ضرورت نہیں ہے"۔ وہ اسے چڑانے والے انداز میں گویا ہوا۔

زیست کے اندر اس کی مسکراہٹ اور سب سے بڑھ کر اس کے جملے نے آگ بھڑکا دی تھی۔

"آپ سمجھتے کیا ہیں خود کو؟ میں کوئی مری جا رہی ہوں آپ کی توجہ پانے کیلئے؟"۔ وہ چبا چبا کر بولی۔ آنکھوں میں سرخی اترنے لگی تھی۔

وہ کرسی پر آگے کو ہو بیٹھا۔

"میں ایسا سوچنے میں خود کو حق بجانب سمجھتا ہوں۔ تم اگر میری توجہ چاہتی بھی ہو تو اس میں ایسا کچھ غلط بھی نہیں۔ بیوی ہو آخر تم"۔ وہ مسکاتے ہوئے اسے مزید ستانے لگا۔

"غلط سمجھتے ہیں آپ۔ یا پھر مجھے کہنا چاہیئے کے اپنے آپ کو بہت زیادہ اور مجھے کمتر سمجھ لیا ہے آپ نے۔ میں اتنی گری پڑی نہیں ہوں کے کشکول لے کر آپ کی توجہ کے چند سکوں کی بھیگ مانگتی پھروں آپ سے"۔ وہ اس کی نگاہوں میں دیکھتی پھنکاری تھی۔

قیصر کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔

"بالکل ٹھیک کہا تم نے۔ قیصر خیام کی بیوی گری پڑی ہو ہی نہیں سکتی۔ تمہاری اس بات سے میں بھی اختلاف نہیں کرتا"۔ وہ اس کی بات سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے بولا۔

اس عرصے میں ویٹر ان کا کھانا لے کر آ چکا تھا۔ مجبوراً زیست نے جواب دینے کے بجائے محض اسے گھورنے پر ہی اکتفا کیا۔

_______________________________

جوں ہی انہوں نے دروازہ کھولا۔ صاف ستھرا سفید اور سرمئی رنگوں سے سجا کشادہ کمرا نگاہوں کے سامنے تھا۔ 

وہ چلتی ہوئیں الماری تک آئیں اور اس کا ایک پٹ کھولا۔مردانہ شرٹس وہاں ترتیب سے ہینگ کیئے گئے تھے۔ جن میں سے قریبا سارے ہی سفید، سرمئی، آسمانی رنگ اور سیاہ رنگ کے تھے۔ ان تمام رنگوں کے علاوہ اسے دوسرے رنگ پسند ہی کہاں تھے۔ 

"امی مجھے گہرے رنگ پسند نہیں ہیں۔ لڑکیوں کا انتخاب ہوتے ہیں ایسے رنگ"۔ 

وہ ایک ایک شرٹ کو چھوتی ان میں اس کا وجود محسوس کر رہیں تھی۔

"امی میں نے آپ سے کتنی بار کہا ہے کے مجھے اپنا کام خود کرنے دیں۔ آپ بالکل نہیں مانتیں نا۔ مجھے اچھا نہیں لگتا اپنی چھوٹی چھوٹی باتوں کیلئے آپ کو پریشان دیکھنا"۔ وہ اپنے کپڑے استری کرتیں نرمین پر خفا ہو رہا تھا۔ 

"میرا بچہ، تم چاہے جتنے بڑے ہو جاؤ پر میرے لیئے تو چھوٹے بچے ہی رہوگے۔ اور اسے پریشانی نہیں کہتے ماں کی اپنے بچے کیلئے فکر اور محبت کہتے ہیں"۔ اس کی پیشانی سہلاتے ہوئے انہوں نے محبت پاش لہجے میں کہا۔

ماضی کو سوچتیں وہ تصویر میں قید اس کے عکس کو دیکھتیں اس کے چہرے پر ہاتھ پھیر رہیں تھی۔  

بھوری بادامی آنکھوں والا ان کا شہزادہ اب نجانے کہاں کھو گیا تھا۔ انہیں لگتا تھا جیسے میکائیل کو دیکھے اس سے بات کیئے انہیں زمانے بیت گئے ہوں۔

اپنے شانے پر مہربان لمس محسوس کرتے ہی وہ چونک کر مڑیں۔ فیض بخاری کی سنجیدہ صورت ان کی نگاہوں کے سامنے آئی تھی۔ 

"کتنا وقت بیت گیا نا اس سے ملے ہوئے۔ اور آپ کو تو پتہ ہے کے وہ اچانک کسی بھی وقت گھر آ جاتا ہے۔ اپنے کمرے میں اسے زرا سی بھی گرد نظر آئے تو ناراض ہوتا ہے وہ۔ بس میں اس کا کمرا دیکھنے آئی تھی کے صاف ہے کے نہیں"۔ رخ موڑ کر اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے انہوں نے تصویر واپس سائیڈ میز پر رکھ دی۔ 

"مجھ سے مت چھپاؤ نرمین، میں جانتا ہوں تم اسے یاد کر رہی ہو"۔ ان کو شانوں سے تھامتے فیض صاحب نے ان کا رخ اپنی جانب موڑا۔

نرمین کی آنکھیں پھر سے بھرنے لگیں۔

"اور یاد کرکے رو رہی ہو یہ بات تشویش ناک ہے"۔ انہیں ان کا ایسے کمزور پڑنا اچھا نہیں لگا تھا۔

ان کی بات پر نرمین کے آنسوؤں میں روانی آ گئی تھی۔

"کیا کروں! میرے پاس آپ جیسا مضبوط دل نہیں ہے فیض۔ میں اپنے بچے کو یاد کیئے بنا نہیں رہ سکتی"۔ وہ دل گرفتگی  سے بولیں۔

فیض صاحب ان کی بات پر لب بھینچ گئے۔

"مجھے بتائیں وہ کیسا ہے؟ خیریت سے تو ہے نا وہ؟"۔ انہوں نے سوالیہ نگاہوں سے شوہر کو دیکھا۔

وہ خاموشی سے کچھ پل کیلئے جواب سوچتے رہے۔ پھر گہرا سانس لے کر گویا ہوئے۔

"میں تمہارے جذبات سمجھتا ہوں نرمین اور ان کی قدر ہے مجھے۔ مگر میکائیل کی جاب جس نوعیت کی ہے ایسے میں  تمہیں ہر قسم کے حالات کیلئے خود کو تیار رکھنا چاہیئے۔ اور یہ بات مجھے نہیں لگتا کے اتنے سالوں بعد تمہیں سمجھانے کی ضرورت ہے۔ ایک عمر گزاری ہے تم نے میرے ساتھ اور کم و بیش تب بھی حالات ایسے ہی تھے۔ دن ہفتوں مہینوں اور کبھی کبھی تو ایک عرصے تک میں دور رہتا تھا تم سے۔۔۔اپنے بچوں سے۔۔۔میرے پیچھے تم نے کتنے احسن طریقے سے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں نرمین، مجھے اس سب کا اعتراف ہے۔ تم بہت مضبوط ہو بہت حوصلہ مند"۔ ان کے سوال کے برعکس وہ ان کا حوصلہ بڑھا رہے تھے۔ 

نرمین کے دل کو ان کی باتوں سے ڈھارس ملی تھی۔ انہوں نے خود کو سنبھالتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔

"میں خود کو بہت خوش نصیب عورت سمجھتی ہوں فیض، جو اللہ نے مجھے آپ جیسا ہمسفر عطا کیا اور میکائیل جیسا بیٹا۔ جسے اس اعلیٰ مقصد کیلئے چنا گیا ہے"۔ وہ مضبوطی سے کہتیں ان کا حوصلہ بھی بڑھا گئیں تھی۔ 

_______________________________

کھانا کھانے کے بعد وہ ریسٹورنٹ سے نکل کر گاڑی کے پاس پہنچے۔ زیست اندر بیٹھنے کے بجائے ویسے ہی گاڑی کے پاس کھڑی رہی۔

"کیا ہوا؟ بیٹھو"۔ قیصر نے گاڑی انلاک کرتے ہوئے اس سے کہا۔

"کچھ دیر کیلئے یہاں نہیں رک سکتے؟ مجھے ابھی واپس نہیں جانا گھر"۔ اس نے اجازت طلب نگاہوں سے قیصر کی طرف دیکھا۔ جو گاڑی کے دوسری جانب کھڑا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ 

اسے نگاہوں میں رکھے وہ گھوم کر اس کے سامنے آیا تھا۔ زیست نامحسوس انداز میں ایک قدم پیچھے ہٹ گئی۔ وہ ایک قدم آگے بڑھا گیا۔ فاصلہ اب بس چند انچ کا تھا۔ وہ مزید آگے ہوا۔ وہ ہراساں سی ہو کر پیچھے ہٹنے لگی تھی جب قیصر کا بازو اس کی کمر کے گرد بندھ گیا۔ وہ آنکھیں پھیلائے یک ٹک اسے دیکھتی چلی گئی۔ اس کے حواس باختہ چہرے کو دیکھ کر احمریں لبوں کی تراش میں مسکراہٹ مچل گئی۔ 

اس کے وجود کو تھام کر اس نے آہستگی سے دروازے کے پاس سے ہٹایا تھا اور دوسرے ہاتھ سے گاڑی کا دروازہ کھول دیا۔ 

پھر وہ گاڑی میں جھک کر گلو کمپارٹمنٹ سے گن برآمد کر چکا تھا۔ 

زیست کی نگاہوں نے بھی اس بندوق کو دیکھ لیا تھا۔ 

"سیفٹی کا خیال رکھنا پڑتا ہے بیوی۔ ورنہ تمہارا کیا بھروسہ کہیں کسی سازش کے تحت لے جا کر مجھے قتل کرنے کی کوشش کی تو؟"۔ دل جلانے والی مسکراہٹ چہرے پر طاری کیئے وہ اسے صحیح معنوں میں سلگا گیا تھا۔

"حیرت ہے۔ ایک پیشہ ور قاتل کو مجھ سے ڈر لگ رہا ہے۔ میرے ساتھ ہونے سے اسے اپنی سیفٹی کی فکر ہو رہی ہے"۔ وہ طنز کر گئی۔

قیصر نے گاڑی کا دروازہ زور سے بند کیا اور اسے اپنے نزدیک کھینچ کر گن اس کی کمر پر تان لی۔ 

"خبردار جو آئندہ یہ طنزیہ باتیں میرے سامنے کہی تو۔ واقعی میں جان لے لوں گا تمہاری"۔ سرد و سفاک لہجے میں دھمکاتے ہوئے وہ اسے کپکپانے پر مجبور کر گیا تھا۔

زیست کی ساری بہادری ہوا ہو گئی۔ وہ سفید پڑتی رنگت کے ساتھ سانس روکے کھڑی تھی۔

اس کی حالت کے پیش نظر قیصر نے گن اس کے وجود سے ہٹا کر کوٹ کی اندرونی جیب میں رکھ لی۔

"اب چلیں؟"۔ ایک ابرو اٹھائے اس نے اشارہ کیا۔

کچھ کہے بغیر وہ خاموشی سے رخ موڑ کر آگے چل دی۔

گاڑی لاک کرکے وہ بھی اس کے ساتھ چل دیا۔

گو فاصلہ درمیان میں کم تھا مگر دونوں ہی ایک دوسرے کے ہم قدم تھے۔ اسٹریٹ پولز کی روشنی میں دونوں ہی سڑک کنارے چل رہے تھے۔ 

"واپس چلیں، میں تھک گئی ہوں"۔ بیس منٹ تک یونہی چلتے رہنے کے بعد زیست نے رک کر کہا۔

"کیوں؟ اتنی جلدی شوق پورا ہو گیا آپ کا؟"۔ وہ بھی رک گیا۔

"جی چلیں۔۔۔"۔ اسے جواب دیتے ہوئے زیست کی نگاہ عین اسی وقت قیصر کے ٹھیک پیچھے مگر زرا فاصلے پر کھڑی گاڑی سے باہر جھانکتے بازو سے ٹکرائی۔ اس کا دل ڈوب کر ابھرا۔ وہ جو کوئی بھی تھا اس کے ہاتھ میں موجود سیاہ پستول پولز کی روشنی میں چمک رہی تھی۔ زیست نے پلکیں جھپک کر اس گن کا رخ دیکھا۔۔۔جس کا نشانہ کوئی اور نہیں اس کے سامنے کھڑا قیصر خیام تھا۔

"قیصر نیچے جھکیں"۔ کانپتے ہاتھوں سے اس کا بازو کھینچ کر زمین پر جھکتی وہ چیخ پڑی تھی۔ 

"ٹھاہ"۔ کی زوردار آواز کے ساتھ ہی گولی چلی مگر نشانہ خطا ہو گیا۔ گولی درخت میں جا کر اٹک گئی تھی۔

صورتحال سمجھنے کو قیصر نے گردن گھمائی وہ دوسرا فائر کرنے کو تیار تھا۔ 

"اس کی تو"۔ پھرتی سے اس نے اپنے کوٹ کی جیب سے گن نکال کر اس کی گاڑی کے ٹائر پر گولی چلا دی۔ دھماکے سے ٹائر برسٹ ہوا تھا۔ اب کم از کم وہ اس کا پیچھا نہیں کر سکتا تھا۔

اتنی دیر میں وہ زیست کا ہاتھ تھامے اٹھا اور اس کے دوسرے فائر سے بچتا ہوا دوڑ کر سڑک کنارے قطار میں کھڑی گاڑیوں کی اوٹ میں گم ہو گیا۔

"پیچھا کرو ان کا"۔ گاڑی میں موجود وہ نقاب پوش اپنے آدمیوں پر دھاڑا تھا۔

"یس باس"۔

اگلے ہی پل وہ چار لوگ گاڑی سے اتر کر ان کے تعاقب میں بھاگنے لگے تھے۔

گاڑیوں کی اوٹ سے نکل کر وہ اب سڑک کنارے بھاگنے لگا تھا۔

بھاگتے ہوئے وہ احتیاطاً اپنے پیچھے ایک عاد نظر ڈال لیتا تھا۔ اپنے اور ان کے درمیان بہت سے فاصلے کے باوجود بھی وہ اپنے تعاقب میں تین چار لوگوں کے دوڑتے قدموں کی آواز سن سکتا تھا۔

زیست کو اپنے پاؤں بے جان ہوتے محسوس ہو رہے تھے۔ خوف سے اس کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔ آج سے قبل ایسی صورتحال کا سامنا بھی تو نہیں ہوا تھا۔ قیصر کا بازو مضبوطی سے جکڑے وہ اس کے دوڑتے قدموں کا ساتھ دے رہی تھی۔ جو کے اس پل ایک مشکل ترین امر تھا۔ کیونکہ وہ مرد تھا قوت اور پھرتی میں اس سے کئی زیادہ اور کہاں وہ نازک اندام سی لڑکی۔ بھاگتے ہوئے اس کے پاؤں شل ہونے لگے تھے۔ شال بھی کہیں گر گیا تھا۔ 

آس پاس سے گزرتے لوگ ان چار آدمیوں کو بندوقیں ہاتھ میں  لیئے دوڑتے دیکھ کر خوفزدہ ہو گئے تھے۔ ان ہی میں سے کسی نے پولیس کو فون کر کے اطلاع پہنچائی تھی۔

"اس طرف چلو"۔ بھاگتے ہوئے اس نے گلی کی طرف اشارہ کیا۔دونوں ہی سڑک سے اتر کر اب اس گلی میں مڑ گئے تھے۔

گاڑیوں کے شور اور ٹریفک کی وجہ سے وہ دونوں ان کی آنکھوں سے چوک گئے تھے۔

تبھی قیصر کے پینٹ کی جیب میں پڑا فون تھرتھرایا۔ اس نے رکے بغیر دوسرے ہاتھ سے موبائل نکالا۔ زر کی کال دیکھ کر اس نے اوکے کر دیا۔

"قیصر بہت بڑی گڑبڑ ہو گئی ہے یار"۔ چھوٹتے ہی اس کی  پریشان آواز قیصر کی سماعتوں سے ٹکرائی۔

دوڑتے ہوئے وہ دونوں اب گلی کے سرے پر پہنچ گئے تھے۔

"کیسی گڑبڑ؟"۔ اس کا ماتھا ٹھنکا۔

"دراصل میرے آدمیوں کو تم تک پہنچنے سے پہلے ہی کسی نے قتل کر دیا۔ مجھے نہیں پتہ عین وقت پہ یہ سب کیسے ہو گیا پر میں تمہارا کام نہیں کر پایا "۔ وہ شرمندگی سے بولا۔

وہ رک کر ارد گرد دیکھنے لگا۔ زیست بھی اس کے ساتھ رک گئی۔ وہ بری طرح ہانپ رہی تھی۔

"کہنا کیا چاہتے ہو؟ اگر یہ لوگ تمہارے نہیں تو پھر۔۔۔"۔ اور اسے بہت کچھ گڑبڑ ہونے کا یقین ہو گیا تھا۔

"کون؟ کون لوگ؟ تم کہاں ہو اس وقت؟"۔ اس کی آدھی ادھوری بات سن کر زر کو شدت سے کسی انہونی کا احساس ہوا تھا۔

جبکہ زیست قیصر کو مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگی۔

"کچھ لوگوں نے ہم پر حملہ کر دیا ہے۔ معلوم نہیں کون ہیں وہ اور میرے پاس تفصیل بتانے کا وقت ابھی نہیں ہے کیونکہ وہ میرے پیچھے ہی ہیں"۔ اس نے مختصر کرکے بتایا۔

"تم ٹھیک ہو؟ بھابھی کیسی ہیں؟"۔ دوسری طرف وہ مزید پریشان ہو گیا۔ 

"ہم ٹھیک ہیں"۔ اسے اطلاع دیتے ہوئے اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا، وہ لوگ اب اسے گلی میں داخل ہوتے نظر آ رہے تھے۔ 

"قیصر ایک بات یاد رکھنا خون خرابے یا کسی کو جان سے مارنے کی اتھارٹی ہمارے پاس نہیں ہے"۔ زر کی فکرمند اور تنبیہ بھری آواز اس کے کان میں پڑی۔

"مجھے پتہ ہے۔ چلو یہاں سے"۔ اسے جواب دیتے ہوئے قیصر نے زیست کا ہاتھ تھاما اور اسے ساتھ لیئے وہ گلی سے نکل کر بھاگتے ہوئے اب اسی مین روڈ  پر آ گیا تھا جہاں وہ ریستوران واقع تھا۔ 

بھاگتے ہوئے وہ ریستوران کے باہر پہنچا تھا اور اس کے باہر  کھڑی اپنی گاڑی کے قریب پہنچنے پر اس کا لاک کھولا۔

"گاڑی میں بیٹھو جلدی"۔ ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے ہوئے اس نے زیست سے کہا۔

وہ بھاگتی ہوئی گاڑی کے دوسری طرف پہنچی۔

"وہ رہے"۔ عین اسی وقت وہ لوگ بھی بھاگتے ہوئے وہاں آن پہنچے تھے۔ 

ان میں سے ایک نے وہیں سے گولی چلائی تھی۔ زیست کی چیخ نکل گئی۔ ٹانگیں لرز کر رہ گئیں۔ نشانہ اس کے بالکل پاس سے ہو کر گیا تھا۔ وہ شل ہوتے پاؤں کے ساتھ جلدی سے گاڑی میں سوار ہو گئی۔

گولی کی آواز سے آس پاس موجود لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ ان میں سے بہیتر چیخے بھی تھے۔

"تم ٹھیک ہو نا؟"۔ وہ جو گاڑی اسٹارٹ کر رہا تھا اس کی چیخ پر حواس باختہ ہو کر اس کی جانب متوجہ ہوا۔

"میں۔۔۔میں ٹھیک۔۔۔ہوں جلدی چلیئے پلیز"۔ وہ تھرتھر کانپتے ہاتھوں کو باہم جوڑے اٹک اٹک کر بولی تھی۔

قیصر نے گاڑی اسٹارٹ کرکے ریورس کرنے کے بعد سڑک پر ڈال دی تھی۔

وہ چاروں بھاگتے بھاگتے رک گئے تھے۔ 

"اے اتر نیچے اتر"۔ پاس سے گزرتے گاڑی والے کو انہوں نے گھیر کر روکا۔

"یہ کیا غنڈہ گردی ہے"۔ اس نوجوان نے ان چار نقاب پوش افراد کی اس حرکت پر احتجاج کیا۔

مگر ان لوگوں نے بندوق کے زور پر اس کی گاڑی چھین کر اسے زخمی کیا اور گاڑی سمیت وہاں سے فرار ہو گئے تھے۔

_______________________________

"پتہ چلا کہاں ہے وہ؟"۔ گاڑی چلاتے ہوئے عالیان نے برابر میں بیٹھے زر سے پوچھا۔ جو لیپ ٹاپ کے ساتھ لگا۔۔۔قیصر کی لوکیشن ٹریس کر رہا تھا۔ 

"اس کے فون کی لوکیشن کے مطابق وہ ہم سے بارہ کلو میٹر کے فاصلے پر جنوب مشرق کی طرف ہے"۔ زر نے لیپ ٹاپ اسکرین دیکھتے ہوئے لوکیشن بتائی۔

"لوکیشن آگے بڑھ رہا ہے؟"۔ اس نے مزید پوچھا۔

"ہاں وہ بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ گاڑی چلا رہا ہوگا"۔ زر کو یہ دیکھ کر یک گونا سکون ہوا تھا۔

چلو شکر، وہ ٹھیک ہے کم از کم یہ بات تو اچھی ہوئی"۔ عالیان کو بھی کچھ اطمینان ہوا۔

"اس کی اسپیڈ بتا رہی ہے خطرہ اس پر سے ٹلا نہیں ہے اب بھی۔ وہ کافی اسپیڈ سے جا رہا ہے"۔ زر نے تفکر سے کہا۔

"یعنی ہمیں جلد سے جلد اس تک پہنچنا ہوگا"۔ عالیان نے کہتے ہوئے گاڑی کی رفتار زرا تیز کردی تھی۔

"ہاں بالکل"۔ وہ اس سے اتفاق کرتا ہوا بولا۔

_______________________________

گاڑی پوری رفتار سے چلاتے ہوئے اس نے ایک نظر اپنے برابر بیٹھی زیست پر ڈالی۔ جس کا چہرا اس پل لٹھے کی مانند سفید پڑ رہا تھا۔ سبز آنکھوں میں خوف ہلکورے لے رہا تھا اور کانپتے ہاتھوں کو اس نے لبوں سے لگا رکھا تھا۔

پیشانی پر خنک موسم کے باوجود بھی پسینے کے قطرے پھوٹ رہے تھے۔

"زیست؟"۔ اس نے دھیرے سے پکارا۔

"ہوں"۔ قیصر کی پکار پر اس نے خوفزدہ آنکھیں اس کی جانب اٹھائیں۔

"کول ڈاؤن، سب ٹھیک ہے"۔ اس نے تسلی آمیز لہجے میں کہا۔

"وہ۔۔۔وہ کون تھے؟"۔ اس کے کانپتے لبوں نے سوال کیا۔

قیصر نے ایک نظر اسے دیکھا۔ وہ آنکھوں میں سوال لیئے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔

"نہیں جانتا"۔ اس کی نگاہیں ونڈ شیلڈ کے پار دیکھنے لگیں تھی۔

"وہ مارنے۔۔۔آئے تھے۔۔۔آپ کو"۔ اس نے جیسے اسے اطلاع دی تھی۔

"ہاں، مارنے آئے تھے۔ ظاہر بات ہے اب وہ دوست تو ہونے سے رہے"۔ اس کا انداز طنزیہ ہو گیا۔

"یہ سب آپ کے ستائے ہوئے لوگ ہوں گے۔ جو اب پلٹ کر دشمنی پر اتر آئے ہیں"۔ اس کے انداز میں کچھ ایسا تھا جو قیصر کو بری طرح چبھا۔

"ہاں کیوں نہیں۔ شہر کا شہر تو معصوم ہے نا۔۔۔تم سمیت سارے ہی یہاں مظلوم ہیں۔ صرف قیصر خیام کو چھوڑ کر!"۔ تمسخرانہ لہجے میں کہتے ہوئے جانے اس نے اس کا مذاق اڑایا تھا یا اپنا۔ مگر وہ اب کی بار جواباً کچھ نہ بولی تھی۔

تھوڑی ہی دور جا کر گاڑی سڑک کنارے رکی تھی۔

"ہمیں یہ گاڑی یہاں چھوڑنی ہوگی۔ کیونکہ مجھے یقین ہے وہ لوگ ہمارے پیچھے ضرور آئیں گے"۔ اس کی طرف دیکھے بغیر قیصر نے اطلاع دی تھی۔

پھر پانچ منٹ بعد ہی وہ دونوں برج پر موجود تھے۔ سڑک کے دو اطراف کو ملاتی ہوئی برج پر پہنچ کر اس کے قدم سست پڑ گئے۔ شاید وہ تھک گئی تھی۔ اس سے کچھ پوچھنے یا کہنے کے بجائے اس نے بھی اپنے چلنے کی رفتار دھیمی کر دی۔

تیز ہوا کے جھونکے اس کے کھلے شہد رنگ بالوں کو مزید بکھیر رہے تھے۔ لینن کے سرخ دوپٹے کو اپنے وجود کے گرد پھیلانے کے باوجود بھی اسے سردی محسوس ہو رہی تھی۔ دن کے برعکس رات کے وقت خنکی بڑھ گئی تھی۔ 

قیصر کی سرمئی آنکھیں ارد گرد دیکھتی ہوئی اس کے چہرے پر آ ٹھہریں۔ اسٹریٹ پولز کی نارنجی روشنی اور آس پاس کی تمام روشنیاں اس کے سنہرے چہرے پر بکھریں نظر آ رہیں تھی۔ 

"مجھے اندازہ نہیں تھا کے تمہیں بندوقوں سے اتنا ڈر لگتا ہوگا"۔ اپنے تئیں اس نے طنز کیا تھا۔

مگر زیست نے چونک کر اسے دیکھا۔

"ہتھیاروں سے تو ہر عام آدمی کو ڈر لگتا ہے۔ ہاں وہ الگ بات ہے کچھ لوگوں کو ان کا شوق ہوتا ہے۔۔۔یا پھر عادت کہہ سکتے ہیں"۔ وہ تیکھے پن سے کہہ گئی۔

اس کی بات پر قیصر تلخی سے مسکرا دیا۔

"اور مجھے پتہ ہے کیا لگتا ہے؟"۔ وہ چلتا ہوا یک دم اس کے سامنے آ گیا تھا۔ زیست کو رکنا پڑا۔

اس کی طرف دیکھتا وہ اپنا کوٹ اتارنے لگا۔

"مجھے یہ لگتا ہے کے تمہاری اس زبان کا مقابلہ کوئی تیز دھار ہتھیار بھی نہیں کر سکتا"۔ کوٹ اس کے شانوں پر پھیلاتے ہوئے وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔ 

زبان سے طنز کے تیر برس رہے تھے جبکہ ہاتھ اس کی پرواہ میں پیش پیش تھے۔ کتنا اجیب تھا وہ شخص۔ زیست کو لگا وہ اسے کبھی سمجھ نہیں پائے گی۔ کیونکہ اس کے نزدیک قیصر کو سمجھنا اس کی میڈیکل کی پڑھائی سے بھی زیادہ مشکل تھا۔

"میری جان کیوں بچائی تم نے؟"۔ اس کا انداز بے حد سنجیدہ تھا۔

"انسانیت کے ناتے"۔ بلا تامل جواب دیا۔

"تمہارے نزدیک میں ایک قاتل ہوں۔ تو کیا تم خون کا بدلہ خون نہیں چاہتی تھی مجھ سے؟"۔ وہ جانے کیا سننا چاہ رہا تھا۔

"وہ بدلہ میں لے چکی ہوں"۔ اس نے انکشاف کیا۔

"کب؟ کیسے؟"۔ خود پر قابو پاتے ہوئے اس نے مزید پوچھا۔

وہ چند لمحے یک ٹک اسے دیکھتی رہی۔ وہ بھی لہو رنگ آنکھوں سے اسے تکتا ہوا ہمہ تن گوش تھا۔

"شاید آپ کو یاد نہیں۔۔۔مگر"۔ وہ ٹھہری۔

"مگر کیا؟"۔ وہ بے چین ہو گیا۔

"آپ پر جو دوسری بار حملہ ہوا تھا ہاسپٹل میں وہ میں نے کیا تھا"۔ اس نے اعتراف کیا تھا۔ پلکیں عارض پر جھکتی چلی گئیں۔

"اور جو پہلی بار ہوا؟ وہ کس نے کیا؟"۔ اس کے لہجے سے شعلے لپکنے لگے تھے۔

"پہلی بار؟"۔ زیست نے چونک کر پلکیں اٹھائیں۔

"ہاں وہ کس نے کیا تھا؟ وہی جس میں میری بیوی الوینا ماری گئی"۔ وہ اب براہ راست اس سے پوچھنے لگا۔

زیست کی آنکھیں بے یقینی سے پھیل گئیں۔ 

"بیوی؟"۔ لبوں نے بے آواز حرکت کی۔

اس کے وجود کا بوجھ کئی زیادہ بڑھ گیا۔ قدم من من بھر کے ہو گئے۔ وہ پیچھے کی جانب لڑکھڑائی۔ سبز آنکھیں ضبط سے سرخ ہونے لگیں تھی۔ اس کے لبوں سے درد بھری آہ نکلی تھی اور وہ ٹوٹے شہتیر کی مانند بکھرتی چلی گئی۔ 

ورطہ حیرت میں مبتلا قیصر نے گولی کی آواز سنی تھی۔ اور برج پر پھیلتے زیست کے خون کو دیکھا تھا۔ جس کی سبز آنکھیں بے جان ہو کر بند ہونے لگیں تھی۔

قیصر کے ارد گرد دوڑتے قدموں کی آواز بڑھتی جا رہی تھی۔ مگر اس کے قدم بے جان ہو گئے تھے۔ وہ وہیں اس کے قریب گھٹنوں کے بل جھکتا چلا گیا تھا۔ 

وقت ریت کی مانند ہاتھ سے پھسلنے لگا تھا۔ گھڑی کی سوئیاں پیچھے کی جانب چلنے لگیں تھی۔ کیلنڈر کی تاریخیں پیچھے جا رہیں تھی۔۔۔وقت پیچھے چلا گیا تھا۔۔۔کافی پیچھے۔ وہاں جہاں الوینا نے آخری سانس لی تھی۔ وہاں جہاں اس کی آنکھیں بند ہوئیں تھی۔

"یعنی تم یہ کہنا چاہتے ہو کے الوینا کو مارنے والی تمہاری دوسری بیوی مطلب مسز قیصر خیام ہے؟"۔ اس کی زبانی مکمل بات سننے کے بعد زر نے تشویش سے پوچھا۔

"اب تک تو مجھے اس بات کا یقین تھا مگر یار۔۔۔جب بھی اس سے اس بارے میں کچھ پوچھتا ہوں یا کوئی بات کر دیتا ہوں تو اس کا رد عمل میری توقع کے برخلاف ہوتا ہے۔ وہ خوفزدہ نہیں ہوتی اس سوال سے، حواس باختہ نہیں ہوتی اس الزام پہ۔ بس وہ حیران نظروں سے میری طرف دیکھتی ہے۔۔۔ایسے جیسے یہ بات اس کیلئے بہت غیر متوقع ہو۔۔۔یا جیسے اس سوال کا اسے زرا برابر بھی اندازہ نہ ہو"۔ اتنے دنوں سے اپنے اندر چل رہی پکڑ دھکڑ کو اس نے ابو زر کے سامنے کھول کر رکھ دیا تھا۔ شاید کیونکہ اسے وہ اعظم جیسا لگتا تھا۔ ہمیشہ ہنستا مسکراتا، اس کیلئے فکر رکھنے والا دوست۔

وہ دونوں اس وقت اس فلیٹ میں تھے۔ باقی سارے کسی نہ کسی کام سے باہر گئے ہوئے تھے۔ ورنہ ان سب کی موجودگی میں وہ ہرگز بھی زر سے یہ باتیں شیئر نہ کرتا۔

"تو اب تمہیں لگتا ہے کے وہ قاتل نہیں ہے؟"۔ اس نے پرسوچ نگاہوں سے قیصر کو دیکھا۔

"شاید۔۔۔لیکن مجھے وہ ہی قاتل لگتی ہے"۔ اس نے بھرپور سنجیدگی سے کہا۔

"تو تم کیا چاہتے ہو؟ اس شک کو یقین میں بدل دینا؟ یا پھر ہمیشہ کیلئے اسے زائل کر دینا"۔ چائے کا کپ اٹھا کر لبوں سے لگاتے ہوئے وہ مزید پوچھنے لگا۔

"مجھے اس کے قاتل ہونے پہ کوئی شک نہیں ہے۔۔۔بلکہ یقین ہے۔ اور میں اس یقین کو یقین ہی رکھنا چاہتا ہوں"۔ وہ سفاکی سے کہہ گیا۔

زر کو افسوس ہوا تھا اس کی بات پر۔

"تم اپنے ذہن میں تو اسے قاتل کا امیج پہلے ہی دے چکے ہو، اب وہ بے گناہ بھی ہوئی تو تمہیں یقین کیسے آئے گا دوست؟تھوڑی تو گنجائش دو اسے"۔ اس نے سمجھانا چاہا۔

قیصر نے ناپسندیدہ نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا۔

"میں نے تمہیں یہ سب اس لیے نہیں بتایا کے تم اس کی وکالت کرو"۔ وہ جھلایا۔

"اچھا نہیں کرتا وکالت یار، اب دیکھو ایک طریقہ تو ہے"۔ خالی کپ میز پر رکھتے ہوئے وہ بولا تھا۔

"کیا؟"۔ اس نے برجستہ پوچھا۔

پھر اس طرح وہ اسے ترکیب سمجھاتا گیا۔ کس طرح نقلی غنڈے زیست کے پیچھے لگانے ہیں اور اسے ان سے مقابلہ کرنے کیلئے ایک عدد بندوق سمیت تنہا چھوڑ دینا ہے۔ کیونکہ قیصر کے مطابق جس نے الوینا پر گولی چلائی اس کا نشانہ بہت مضبوط تھا۔ اس کا مطلب تھا کے قاتل کوئی بہت ہی پروفیشنل بندہ تھا۔ اور اگر زیست ہی وہ قاتل ہوتی تو اس کیلئے ان چند لوگوں سے مقابلہ کرنا کوئی بڑی بات نہ ہوتی۔ 

"ٹھیک ہے پھر میں اسے گھر سے کہیں باہر لے جاتا ہوں تب تک تم اس پلان کو انجام دینے کا انتظام کر رکھو"۔ قیصر اسے جواب دے کر اٹھ کھڑا ہوا تھا اور گھر کیلئے نکل گیا۔

مگر یہ پلان تب فلاپ ہو گیا جب قیصر اور زیست تک پہنچنے سے قبل ہی کسی نے زر کے نقلی غنڈوں کا اصلیت میں ہی کام تمام کر دیا اور خود قیصر اور زیست تک پہنچ گیا۔

_______________________________

"گاڑی روکو عالی، وہ دیکھو"۔ سڑک کنارے کھڑی قیصر کی کار دیکھ کر زر چیخا تھا۔

عالیان نے بھی گاڑی روک کر کچھ ہی فاصلے پر کھڑی کار دیکھی۔

"وہ خود کہاں ہے؟"۔ اس نے تفکر سے پوچھا۔

"سگنل قریب سے ہی آ رہا ہے۔ وہ ایک جگہ رکا ہوا ہے"۔ زر نے اطلاع دی۔

"تم یہی رک کر مجھے اس کی لوکیشن بتاتے رہو میں جا کر دیکھتا ہوں کے وہ کہاں ہے"۔ عالیان نے گاڑی کا انجن بند کرتے ہوئے کہا۔

زر نے اثبات میں سر ہلایا۔ موبائل بلوٹوتھ سے کنیکٹ کرکے ایئر پیس کان میں لگانے کے بعد وہ گاڑی سے اتر گیا۔

"سیدھے جاؤ عالی"۔ زر نے کان میں لگے آلے کے ذریعے اس سے کہا۔ عالیان چلتا جا رہا تھا۔ جبکہ وہ لیپ ٹاپ اسکرین کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ ونڈ شیلڈ کے پار نظر آتے عالیان کو بھی دیکھ رہا تھا۔ 

"بائیں جانب وہ تم سے تین سو میٹر کی دوری پر ہے"۔ وہ اسے بتاتا جا رہا تھا۔

برج کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس کی نظر قیصر کی پشت سے ٹکرائی تھی۔ جس کے سامنے ہی زیست کھڑی تھی۔ 

"زر مجھے وہ دونوں نظر آ گئے ہیں"۔ عالیان نے پرسکون سانس خارج کرتے ہوئے خوشگوار لہجے میں کہا۔ 

اور ابھی وہ باقی ماندہ زینے چڑھنے ہی والا تھا کے تبھی گولی چلنے کی آواز نے اس کے قدم ٹھٹھکا دیئے۔ اسے زیست کا وجود لڑکھڑاتا ہوا نظر آیا تھا۔۔۔اور کچھ ہی لمحوں بعد وہ کمر کے بل برج پر ڈھیر ہوگئی تھی۔

صورتحال کا ادراک ہوتے ہی عالیان پھرتی سے آگے بڑھا تھا۔ آس پاس سے گزرتے لوگ بھی ان دونوں کے گرد جمع ہونے لگے تھے۔

طرح طرح کی چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں تھیں۔

عالیان نے آس پاس دیکھا تبھی اس کی نظر برج کے دوسری طرف سے سیڑھیاں اترتے اس ہڈی والے شخص پر پڑی۔ اس کے دماغ میں اچانک کلک ہوا تھا۔ 

"اے رکو"۔ وہ بلا تاخیر اس کے پیچھے بھاگا۔ مگر وہ بہت تیزی سے سیڑھیاں اتر چکا تھا۔ اسٹریٹ پولز کی روشنی میں اس کے جیکٹ پر بنا کوبرا عالیان کو بڑا واضح نظر آیا تھا۔ 

اس سے قبل کے وہ قریب پہنچ کر اسے دھر لیتا، سیاہ مرسڈیز اس شخص کے نزدیک آ رکی تھی اور وہ اس میں بیٹھ کر اس کی پہنچ سے بہت دور چلا گیا تھا۔

"ڈیم اٹ"۔ اسے بے طرح غصہ آیا۔

"عالی کیا ہوا؟ یہ شور کیسا ہے؟"۔ ابو زر کی پریشان آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔

"زر جلدی یہاں پہنچو کچھ ٹھیک نہیں ہے"۔ عالیان اسے جواب دے کر الٹے قدموں قیصر کی طرف بڑھا تھا۔ جو گھٹنوں کے بل زیست کے زخمی وجود کے پاس بیٹھا تھا۔ 

تھوڑی ہی دیر میں ایمبولینس وہاں پہنچی تھی اور زیست کے زخمی وجود کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ عالیان ساتھ گیا تھا۔

جبکہ قیصر اب بھی شاک کے عالم میں وہی بیٹھا تھا۔ زر اس کے پاس پہنچ چکا تھا۔

"قیصر چلو یہاں سے۔۔۔اس سے پہلے کے وہ لوگ پھر سے اٹیک کر دیں تم پر"۔ زر نے اس کا بازو تھام کے اٹھنے میں مدد دی۔ 

اپنا خون آلود کوٹ اٹھاتے ہوئے وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔

برج سے اترتے ہوئے قیصر کی نظر کسی چمکتی چیز سے ٹکرائی تھی۔ جو اس کی تمام تر توجہ اپنی طرف مبذول کروا گئی تھی۔ 

"ایک۔۔۔ایک منٹ"۔ اپنا بازو چھڑواتے ہوئے وہ وہیں ٹھہر گیا۔

نظریں اب بھی اس چمکتی ہوئی چیز پر جمی تھیں۔ جسے اٹھانے کو وہ جھکا۔ زر کچھ چونک کر اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔

قیصر نے وہ چیز اٹھا کر جیب میں رکھ لی۔ 

"مجھے زیست کے پاس لے چلو"۔ اس نے بھاری آواز میں زر سے کہا۔

وہ اس کی بات پہ سر ہلاتا اسے ساتھ لیئے گاڑی میں آ بیٹھا۔

_______________________________

ہسپتال کے کوریڈور میں وہ چیئر پر بیٹھا کسی ہارے ہوئے شخص کی مانند لگ رہا تھا۔ خون سے رنگا کوٹ اب بھی اس کے ہاتھوں میں تھا۔ 

اتنی بڑی غلطی اسے کیسے ہو گئی تھی؟ وہ جو خود ایک قاتل تھا اسے کیسے ایک معصوم شخص اور ایک قاتل میں فرق نظر نہیں آیا تھا؟ کیسے حقیقت جانے بغیر وہ اسے سزائیں دینے پر تل گیا تھا؟۔ 

اپنے شانے پر دباؤ محسوس کرکے اس نے چونک کر سرخ انگارہ ہوتی آنکھیں اٹھائیں۔ فیض بخاری کی افسردہ صورت اس کے سامنے تھی۔

ان کو نگاہوں کے آگے دیکھ کر ہی قیصر کی آنکھیں مزید سرخ ہونے لگیں۔

"میں ہار گیا بابا، میں فیل ہو گیا۔ میری ہی آنکھوں کے سامنے وہ اسے مار کر چلا گیا اور میں۔۔۔دیکھتا رہ گیا۔۔۔قیصر کچھ نہیں کر سکا"۔ وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے رنجیدگی سے بولا۔

"حوصلہ رکھو، وہ ٹھیک ہو جائے گی"۔ تسلی آمیز انداز میں کہتے ہوئے وہ اس کے پاس بیٹھ گئے۔

"نہیں۔۔۔اب کچھ ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ میں یہ جنگ ہار چکا ہوں۔ میری آنکھوں پر پردے گرا کر وہ بآسانی مجھے دھوکا دے گیا اور میں اسے پہچان نہیں سکا۔ مجھے قیصر کہلوانے کا حق نہیں ہے بابا۔۔۔میں ہارا ہوا انسان ہوں۔ دو سال سات ماہ پہلے بھی وہ میری آنکھوں کے سامنے تھا اور میں تب بھی کچھ نہ کر سکا۔۔۔الوینا کو نہیں بچا پایا۔ اور آج۔۔۔آج بھی وہ قاتل میرے سامنے تھا۔۔۔پھر سے مجھ پر وار کر گیا اور میں بے بس بنا رہ گیا۔ اس سے زیست کی حفاظت نہیں کر سکا میں"۔ ہارے ہوئے لہجے میں کہتا وہ مایوسیوں کی انتہا پر تھا۔ 

"میری طرف دیکھو قیصر"۔ فیض بخاری نے اس کا رخ اپنی طرف موڑا۔ وہ ضبط سے سرخ پڑتے چہرے کے ساتھ ان کی جانب متوجہ ہوا۔

"تم اس سے ہار چکے تھے پہلے بھی۔۔۔اور تم اس کے آگے کمزور پڑ گئے آج بھی کیونکہ تم بار بار ایک غلطی دہرا رہے ہو۔ جذباتیت تمہاری غلطی ہے قیصر خیام"۔ وہ دھیمی آواز اور سخت لہجے میں اس کی غلطی کی نشاندہی کروا رہے تھے۔ وہ خاموشی سے انہیں سننے لگا۔

"اس رات الوینا کی موت نے تمہیں کمزور کر دیا تھا۔ اتنا کے تم نے اپنے دشمن پر پلٹ کر وار کرنے کے بجائے اپنی زندگی ختم کرکے اسے آزاد جینے کیلئے چھوڑ دینے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ تمہارا پہلا جذباتی قدم تھا۔ تم نے دوسری جزباتی حرکت یہ کی کے زیست کو شک کا فائدہ دینے کے بجائے اسے قاتل مان کر سزا دینے کی ٹھان لی"۔ ان کے لہجے میں اس بار تلخی تھی۔

سرمئی آنکھیں چونک سی گئیں۔ تو گویا وہ سب جانتے تھے۔ 

"اسی سوچ کے چلتے آج بھی تم اسے موت کی کگار تک لے گئے۔ تم۔۔۔ہاں صرف اور صرف تم ذمہ دار ہو اس کی اس حالت کیلئے اور اپنی بربادی کا سبب تم خود ہو"۔

"اپنی غلطی تسلیم کرو قیصر خیام اور اسے سدھارنے کی کوشش کرو۔ اگر تم اسی طرح احمق بن کر اپنی بربادی کیلئے دوسروں کو ذمہ دار ٹھہراتے رہے تو پھر مزید بربادی کیلئے بھی تیار رہنا۔ پھر فیض بخاری بھی تمہارے لیئے کچھ نہیں کر سکے گا۔۔۔سمجھ رہے ہو نا میری بات؟"۔ انہوں نے تصدیق چاہی۔

قیصر نے تائیدی انداز میں سر ہلایا۔

"یہ جنگ بقا کیلئے ہے۔۔۔ملکی بقا کیلئے۔ لوگوں کی بقا کیلئے۔ اور دوسروں کیلئے بقا کی جنگ لڑنے والا شخص اپنے آپ میں ایک ایسا سپاہی ہوتا ہے جسے کوئی بھی دشمن مات نہیں دے سکتا۔ پھر چاہے وہ دشمن کتنا ہی شاطر اور طاقتور کیوں نہ ہو"۔ ان کی یہ بات تابوت میں آخری کیل کی طرح ثابت ہوئی تھی۔

وہ جو کچھ پل قبل مکمل طور پر خود کو ہارا ہوا محسوس کر رہا تھا اب اس کے اندر اس کے اذلی اعتماد نے سر اٹھایا تھا۔ وہ قیصر خیام تھا۔ وہ تو تب بھی نہیں ہارا تھا جب اس کی چنی گئی راہیں غلط تھیں۔ تو بھلا اب درست ہونے پر وہ کیسے ہار مان لیتا؟ اپنے دل میں اس نے یہ عہد باندھ لیا تھا کے وہ اس بار اپنے دشمن کو خاک کر کے رہے گا۔ پھر چاہے قیمت اس کی زندگی ہی کیوں نہ ہو۔ بہرحال اسے یہ جوا کھیلنا تھا۔

کچھ ہی دیر بعد ڈاکٹر باہر آیا تھا۔ قیصر تیزی سے ان کی جانب بڑھا۔

"ڈاکٹر اب وہ کیسی ہے؟"۔ لہجے میں اس کیلئے پریشانی تھی۔ 

"فکر کی کوئی بات نہیں۔ گولی کندھے کو چھو کر نکل گئی تھی۔ وہ اب خطرے سے باہر ہیں"۔ ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے خوشخبری سنائی۔

قیصر کے چہرے پر اطمینان اتر آیا۔ فیض صاحب بھی پرسکون ہو گئے۔

"کیا ہم مل سکتے ہیں اس سے؟"۔ قیصر کے بجائے فیض صاحب نے پوچھا۔

"جی آپ مل سکتے ہیں۔ مگر وہ ابھی غنودگی میں ہیں زیادہ  شور یا باتیں مت کریں ان کے پاس"۔ ڈاکٹر اسے تاکید کر کے وہاں سے چلا گیا۔

"جاؤ مل لو اس سے"۔ انہوں نے اب قیصر کو مخاطب کیا۔

ان کے کہے پر وہ اس کے روم میں داخل ہو گیا۔

شکستہ چال چلتا ہوا وہ اس کے بیڈ کے پائینتی کی جانب آیا تھا۔ نگاہیں آکسیجن ماسک کے پیچھے موجود اس کے زرد چہرے کا طواف کر رہیں تھی۔ وہ پنجوں کے بل جھکا۔ اس کے پاؤں سے چادر ہٹائی اور انہیں تھام کر اس پر لب رکھ دیئے۔ 

سرمئی آنکھوں سے اشک رواں تھے مگر لب خاموش تھے۔ کہنے کو بہت کچھ تھا پر زبان ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ آنکھیں اقبال جرم کر رہیں تھی۔ لب معافی مانگ رہے تھے۔ وہ سن نہیں سکتی تھی مگر وہ اس کے دہکتے لمس اور کھولتے آنسو اپنے پیروں پر محسوس کر سکتی تھی۔ 

ڈاکٹر نے کہا تھا کے اس کے پاس باتیں زیادہ نہ کرنا اب کوئی پوچھتا اس سے جا کر کے ان کی گفتگو میں الفاظ سرے سے تھے ہی کہاں؟ اس نے کہا تھا کے شور نہ کریں۔ اب کوئی اس سے کہتا جا کر کے اس مضبوط مرد کے آنسو کمرے کی ان سفید دیواروں کی سماعتیں چھلنی کر رہے تھے۔

پلکیں نیم وا ہوئیں تو اس نے اپنے آس پاس موجود کئی چہرے دیکھے۔ فرزانہ بیگم، نرمین ماہا وہ سبھی اس کے پاس موجود تھے۔ ان کے چہروں پر اس کیلئے فکر تھی۔ پریشانی تھی۔ 

"زیست۔۔۔میری بچی تمہیں ہوش آ گیا۔ شکر ہے میرے مولا"۔ اس کی کھلتی آنکھیں دیکھ کر فرزانہ بیگم نے خوشی سے چور لہجے میں کہتے جھک کر اس کی پیشانی چوم لی۔

"تم نے تو ڈرا ہی دیا تھا ہمیں۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے جو تم صحیح سلامت ہو"۔ نرمین نے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے فکرمندی سے کہا۔

لاشعوری طور پر اس کی آنکھیں ارد گرد دیکھتیں اس چہرے کو تلاش کر رہیں تھی۔ مگر وہ وہاں ہوتا تو نظر بھی آتا۔ زیست کے پیروں پر اس کا لمس اب بھی زندہ تھا۔ اس نے اپنا سب سے قیمتی اثاثہ۔۔۔اپنے آنسو اس کے قدموں میں رول دیئے تھے۔ پھر بھلا یہ کیسے ممکن تھا کے اسے ان آنسوؤں کی بھنک تک نہ پڑتی؟ 

نرمین اور فرزانہ جانے اور بھی کیا کیا کہتی رہیں تھی مگر اس کا دماغ تو اب بھی گزری رات کے منظر میں ہی اٹکا ہوا تھا۔ اس نے اپنے لیئے برے سے برا سوچا تھا پر اس کے ساتھ اتنا برا ہوگا یہ اندازہ بھی نہیں تھا۔ نجانے کیا کچھ نہیں چھپایا ہوگا اس شخص نے اس سے؟ پہلے دھوکے سے نکاح، اس کے بعد وہ اذیتیں اور نفرت، پھر دوسری عورت کیلئے اس کے نام نہاد شوہر کی دیوانگی اور اب۔۔۔پہلی بیوی؟ 

"تو گویا یہ اوقات تھی میری۔۔۔آپ کے نزدیک قیصر خیام۔ دوسری بیوی کے درجے پر فائز ہونا"۔ اذیت ناک سوچیں اندر ہی اندر اسے ناگن کی مانند ڈس رہیں تھی۔ تمام تکلیفیں پیچھے رہ گئیں تھی۔ سارے درد پر یہ حقیقت غالب آ گئی تھی کے اس کے دل میں۔۔۔اس کی زندگی میں پہلے سے ہی کوئی اہم وجود موجود تھا۔ زیست عباسی تو بس مسلط کی گئی تھی اس پہ۔ اور اسے مسلط بھی تو خود اسی نے کیا تھا خود پر۔ وہ اس کی زندگی میں کہیں نہیں تھی۔ 

"زیست کیا سوچ رہی ہو بیٹا؟"۔ فرزانہ نے نرمی سے اس کے بال سہلاتے ہوئے پوچھا۔

وہ چونک کر خالی خالی نظروں سے انہیں دیکھنے لگی۔ 

"کچھ نہیں امی"۔ اس نے آہستگی سے جواب دیا۔

"وہ یہیں تھا رات بھر۔ صبح ہی گیا ہے"۔ اس کے بے پوچھے ہی جواب دے کر انہوں نے اس کی مشکل آسان کردی۔

"مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ان سے"۔ اس نے لمحوں میں بے حسی اوڑھ لی۔

"تمہارا چہرا یہ نہیں کہہ رہا"۔ اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے انہوں نے سنجیدگی سے کہا۔

"آپ کہنا کیا چاہتی ہیں؟"۔ اس نے تھکے تھکے انداز میں پوچھا۔

"اچھا چھوڑو ان باتوں کو، دماغ پر بوجھ نہ ڈالو تم آرام کرو"۔ اس کی حالت کے پیش نظر انہوں نے مزید کچھ کہنے سے احتراز برتا۔

تھوڑی ہی دیر میں نرس اس کیلئے سوپ لائی تھی۔ جو فرزانہ بیگم اسے پلانے لگیں۔ جبکہ اس کی سوچیں اب بھی قیصر کے گرد گھوم رہیں تھی۔ وہ ایک بار بھی اسے دیکھنے نہیں آیا تھا۔ اور یہ بات اسے اس کی طرف سے مزید بددل کر رہی تھی۔ 

اسے تو اب اس بات پر بھی شبہ ہونے لگا تھا کے آیا وہ واقعی رات وہاں موجود تھا بھی یا یہ اسی کا محض ایک وہم تھا۔ 

_______________________________

جوں ہی ہاجرہ شفیق نے دروازہ کھولا سامنے موجود ہستی کو دیکھ کر ان کا چہرا کھل اٹھا تھا۔

دروازے کے سامنے سے ہٹ کر انہوں نے اسے اندر آنے کا راستہ دیا۔

"اتنے دنوں بعد تمہیں دوبارہ دیکھ کر خوشی ہوئی"۔ انہوں نے شفقت بھرے لہجے میں کہا۔

ہڈ اتار کر اس نے ان کی طرف دیکھا۔

"فی الحال میں کہیں اور نہیں جا سکتا تھا اس لیئے یہاں آنا پڑا۔ آئی ہوپ آپ کو برا نہیں لگا ہوگا"۔ اس کا بھاری لب و لہجہ بے حد سنجیدہ تھا۔ 

"نہیں بیٹا، مجھے برا کیوں لگے گا بھلا۔ اور پھر تم چھ ماہ کیلئے ایڈوانس کرایہ دے چکے ہو مجھے۔ تمہارا کمرا ویسا کا ویسا ہی ہے ابھی تک۔ سامان سب ویسے ہی ہے"۔ انہوں نے تسلی آمیز انداز میں کہتے ہوئے لاکڈ کمرے کی چابی اس کی جانب بڑھائی۔

"شکریہ"۔ سرسری انداز میں کہہ کر وہ کمرا کھولنے لگا۔

"زیست کیسی ہے؟ وہ نہیں آئی تمہارے ساتھ؟"۔ انہیں اس کی کمی محسوس ہوئی تھی سو وہ پوچھ بیٹھیں۔

ایک پل کیلئے قیصر کا ہاتھ رکا تھا۔ 

"ٹھیک ہے وہ"۔ مختصر جواب دے کر وہ کمرے میں داخل ہو گیا۔

صاف ستھرے کمرے کا جائزہ ایک نگاہ میں لینے کے بعد وہ بیڈ کی جانب آ گیا۔ جھک کر اس کے نیچے سے اپنا سوٹ کیس برآمد کیا۔ اور ترتیب سے رکھے کپڑوں میں سے سیاہ پینٹ اور سفید شرٹ نکالنے کے بعد وہ فریش ہونے چلا گیا۔

پندرہ منٹ بعد وہ آئینے کے سامنے کھڑا تھا۔ داڑھی مونچھیں غائب تھیں۔ قدرتی براؤن بالوں کو سیاہ رنگ میں رنگ کے جیل سے پیچھے کر دیئے تھے۔ پیشانی پر پڑے کٹ کو اس نے فاؤنڈیشن سے کنسیل کر دیا۔ سیاہ لینسز لگانے کے بعد وہ مڑا تھا جب ہاجرہ بیگم پر اس کی نظر پڑی۔ 

وہ کھانے کی ٹرے اٹھائے اندر آ گئیں۔

"میں جانتی ہوں تم نے صبح ناشتہ نہیں کیا ہوگا اور اب کھانا بھی نہیں کھایا ہوگا۔ اس لیئے اب انکار مت کرنا اور نہ ہی  کوئی جواز تراشنا"۔ انہوں نے قطعیت سے کہتے ہوئے کھانے کی ٹرے لکڑی کی چھوٹی سی میز پر رکھ دی۔

ان کی یہ بات بہت اچھی تھی کے وہ کتنی ہی بار قیصر کو بھیس بدلتے دیکھتیں مگر کبھی کوئی سوال نہیں کیا تھا۔ کوئی پوچھ گچھ نہیں کی تھی اس سے۔ اور یہی بات قیصر کو اب تک وہاں روکے ہوئے تھی۔ ورنہ تو وہ کب کا وہاں سے کھسک چکا ہوتا۔ شاید ہاجرہ بھی واقف تھیں اس کی طبیعت سے اسی لیئے پلٹ کر کچھ پوچھتی نہ تھیں۔ 

"شفیق صاحب کی طبیعت کیسی ہے؟ کوئی پریشانی تو نہیں؟"۔ صوفے پر بیٹھ کر کھانے کی ٹرے اپنی طرف کھسکاتے ہوئے اس نے استفسار کیا۔

"بہتر ہیں وہ اور کوئی پریشانی نہیں اللہ کے فضل سے"۔ انہوں نے مطمئن انداز میں کہا۔

جس پر وہ سر ہلا گیا۔

"زیست کی امی سے میری یہاں آمد کا ذکر مت کیجیے گا"۔ کھانے سے فارغ ہو کر اٹھتے ہوئے تاکید کی تھی۔

انہوں نے خاموشی سے اثبات میں سر ہلایا۔ جبکہ وہ اپنا موبائل اور والٹ لیئے وہاں سے چلا گیا تھا۔

_______________________________

"مجھے جانے دو پلیز، میری فیملی ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ اگر میں نے ان کا کام نہ کیا تو وہ میری بیوی اور بچوں کو مار ڈالیں گے"۔ میز کے گرد موجود واحد کرسی پر بیٹھا حسن گڑگڑا رہا تھا۔ 

"حداد رحمان سے تمہارا کیا تعلق ہے؟"۔ شہیر اس کے سامنے جھکا پوچھ رہا تھا۔

"کون حداد؟ میں کسی حداد رحمان کو نہیں جانتا مجھے جانے دو" وہ چیخا۔

"جھوٹ بول رہے ہو تم۔ سچ سچ بتاؤ کس کیلئے کام کرتے ہو؟"۔ عالیان نے دھاڑ کر میز پر ہاتھ مارا۔

"میں کسی کیلئے کام نہیں کرتا"۔ وہ بے بسی سے بولا۔

"دبئی سے کس کی شہ پر آئے ہو؟ تمہاری اصلی پہچان کیا ہے؟"۔ شہیر نے اس کا بازو کھینچ کر اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے پوچھا۔

"کون سی ڈیل ہونے والی ہے تم لوگوں کی؟ کس کے ساتھ کرنے والے ہو یہ ڈیل؟"۔ عالیان نے اس کا رخ اپنی طرف کیا۔

وہ کانوں پہ ہاتھ رکھے پاگل ہونے کو تھا۔

"کوبرا گینگ کا لیڈر کون ہے بتاؤ؟"۔ شہیر نے اگلا سوال داغا۔

"میں کچھ نہیں جانتا۔ خدا کیلئے میرا یقین کرو"۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔

شہیر اور عالیان نے نظروں کا تبادلہ کیا۔

"میں بس اتنا جانتا ہوں کے ہر روز کی طرح اس دن بھی میں کام سے واپس گھر پہنچا تو میرے دونوں بچے اور بیوی نہیں تھی گھر میں۔ میں نے انہیں پاگلوں کی طرح ڈھونڈا پر وہ مجھے کہیں نہیں ملے۔ پھر۔۔۔پھر مجھے ایک فون آیا۔ اس نے مجھے ایک آدمی سے ڈیل کرنے کو کہا اور دھمکی دی کے اگر انکار کیا تو وہ لوگ میری فیملی کو۔۔۔"۔ اس کی آواز رندھ گئی۔

"میں ایک انجینئر ہوں۔ عزت کی روٹی کماتا ہوں۔ میرا کسی غیر قانونی کام سے کوئی لینا دینا نہیں۔ مجھے مجبور کر دیا گیا تھا۔ میں نہیں جانتا اس سب کے پیچھے ان کا کیا مقصد تھا میں سچ کہہ رہا ہوں میں کچھ نہیں جانتا"۔ وہ روتے ہوئے اپنی سچائی کا یقین دلا رہا تھا۔

وہ دونوں ایک طرف کو آ گئے۔

"کل رات اور آج دن کی پوچھ گچھ کے باوجود بھی وہی جواب ہے اس کا"۔ شہیر نے کوفت سے کہا۔

"ہوں۔ اس کی پروفائل نکال لی ہوگی حماد نے۔ پہلے وہ دیکھ لیتے ہیں"۔ عالیان نے پرسوچ نگاہوں سے حسن کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔

_______________________________

وہ ابھی ابھی ہوٹل سے اپنی میٹنگ نبٹا کے نکلا تھا۔ پارکنگ ایریا میں کھڑی اپنی گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے اسے اپنے پیچھے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔ 

"تم میرا پیچھا کر رہے ہو؟"۔ رخ موڑ کر اسے دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے سوال کیا۔

"جاننا چاہتا تھا کے تم پچھلے دو دن سے کہاں چھپتے پھر رہے ہو"۔ زر نے تلخی سے کہا۔

"جو تم نے کیا ہے اس کے بعد تو میں تمہاری شکل بھی دیکھنا پسند نہیں کروں گا"۔ سیاہ آنکھوں میں مقابل کیلئے شدید ناگواری تھی۔

"میں نے کیا کیا؟"۔ ایک ابرو اٹھاتے ہوئے اس نے برجستہ پوچھا۔

"بھروسہ توڑا ہے تم نے میرا، وہ باتیں ظاہر کرکے جنہیں میں نے تم سے راز رکھنے کیلئے کہا تھا"۔ اس کے لہجے میں چبھن تھی۔ یقین ٹوٹنے کا دکھ تھا۔

"میں ان سے جھوٹ نہیں بول سکتا تھا۔ جب بریگیڈیئر سر نے مجھ سے سوال کیا تو میں نے ان پر ساری باتیں آشکار کر دیں۔ اس کیلئے میں معذرت چاہتا ہوں"۔ وہ متاسف تھا۔۔۔اور شرمندہ بھی۔

"یہ سب باتیں اب کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ آج سے تم لوگوں کے اور میرے راستے الگ ہیں۔ جتنا کرنا تھا میں کر چکا اب اور نہیں کچھ کر سکتا۔ پہلے ہی بہت کچھ کھو چکا ہوں میں مگر اب نہیں۔۔۔اب بس"۔ اس کا انداز حتمی تھا۔

"تم کہنا کیا چاہتے ہو؟"۔ زر کو کسی گڑبڑ کی بو آئی تھی۔ 

"یہی کے تم لوگوں کا کام تمہیں ہی مبارک۔ میں تم سب سمیت اس کام کو بھی یہیں پر خیرباد کہتا ہوں۔ آئندہ مجھ سے ملنے کی یا کانٹیکٹ کرنے کی کوشش تم میں سے کوئی بھی نہ کرے"۔ وہیں کھڑے کھڑے اس نے فیصلہ لیا تھا اور گاڑی میں سوار ہو گیا۔

"تم ایسا نہیں کر سکتے۔ تم اگریمنٹ سائن کر چکے ہو یہ مشن پورا کیئے بغیر تم پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ اور اگر تم نے ایسا سوچا بھی تو اس کا انجام صرف موت ہوگا"۔ وہ اس کے پیچھے آیا تھا۔

وہ رکا۔

"میں دھواں ہوں زر، غائب ہونے سے پہلے کسی کی اجازت نہیں لیتا۔ جتنی دوستی تم نے نبھائی اس کا شکریہ"۔ کہتے ساتھ ہی اس نے ہاتھ میں تھاما اسپرے اس کے چہرے پر کیا تھا۔

اس اچانک افتاد پر زر بوکھلا کر پیچھے ہوا تھا۔ وہ اتنی ہی پھرتی سے گاڑی میں بیٹھ گیا اور یہ جا وہ جا۔

اسپرے سے پیدا ہونے والی جلن نے کئی منٹ تک تو اسے سنبھلنے نہ دیا تھا۔

_______________________________

بہت دنوں بعد وہ آج اس گھر میں آئی تھی۔ قیصر کا کوئی پتہ نہیں تھا اور اسے یہ جاننے میں کوئی دلچسپی بھی نہ تھی کے وہ کہاں ہے۔ جو کچھ وہ اس کے ساتھ کر چکا تھا اس کے بعد تو وہ اس کی صورت بھی نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ فرزانہ بیگم اس کی حالت کے پیش نظر اسے ساتھ لے آئیں تھی۔

کچھ دن پہلے تک تو یہاں آنے والی بات ناممکن سی لگتی تھی۔ اور اب۔۔۔واپس آنے کے بعد اسے بیتے دن خواب کی طرح لگ رہے تھے۔ برے خواب۔ 

سوائے ذلت اور اذیت کے اس شخص نے اسے دیا ہی کیا تھا؟ اس ظالم دیو کی قید سے آزادی ایک نعمت ہی تو تھی۔ یہاں آ کر تو مانو جیسے وہ چند دنوں میں ہی چنگی بھلی ہو گئی تھی۔ گو وہ یادیں بہت خوفناک تھیں۔ پر اذیت بھی تھیں۔ جن سے بچنے کیلئے وہ سکون آور دوا کا سہارا لے کر سو رہی تھی۔

ہوائیں آج بھی ادھ کھلی کھڑکیوں سے سرسراتی ہوئی کمرے میں داخل ہو رہیں تھی۔ بے رحم ٹھنڈ اب بھی کمرے میں ویسے ہی موجود تھی۔

بے خبر سوتے ہوئے بھی وہ خود کو کسی کی پرتپش نگاہوں کے زیر اثر محسوس کرکے کسمسانے لگی تھی۔ 

سرد لمس کا چہرے پر محسوس ہونا ہی تھا کے اس نے پلکیں کھول دیں۔ نگاہیں اس ہستی کو سامنے پا کر ہی پتھر ہوگئیں تھی۔

دماغ اب بھی سویا سویا سا تھا مگر آنکھیں اس چہرے کو پہچان چکی تھیں۔

"تم!"۔ اس کے لبوں نے جنبش کی تھی۔ 

وہ اس کے قریب ہی رکھی کرسی پر بیٹھا تھا۔ نگاہوں میں سرد تاثر تھا۔ چہرا سپاٹ تھا۔

"کیسی ہو تم؟"۔ اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے جب وہ بولا تو لہجہ بہت دھیما اور گہرا تھا۔ اتنا کے زیست کو اپنا دل یک بارگی ڈوبتا محسوس ہوا۔

جھٹکے سے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے چھڑواتے ہوئے وہ اٹھ بیٹھی تھی۔ اس عمل نے بائیں کاندھے کا درد بڑھا دیا تھا مگر اسے تو جیسے اس پل اس زخم کا ہوش ہی نہیں رہا تھا۔

"کیوں آئے ہو تم یہاں؟ کوئی ظلم۔۔۔کوئی تحقیر۔۔۔کوئی کسر اب بھی باقی ہے جسے پورا کرنے آئے ہو؟"۔ وہ گہرے طنز سے بولی تھی۔

لیمپ کی سنہری روشنی میں وہ دیکھ سکتا تھا۔ دلکش سبز آنکھوں میں اس کیلئے نفرت ہی نفرت تھی۔ روز اول سے بھی کئی زیادہ بڑھی ہوئی نفرت! وہ جتنی حسین تھی اتنی ہی ظالم بن رہی تھی۔

"معاف نہیں کر سکتی مجھے؟"۔ لہجہ التجائیہ ہو گیا۔

اس کی بات پر وہ ہنسی۔۔۔اور استہزاء انداز میں ہنستی چلی گئی۔

سکوں کے جھنکار جیسی وہ ہنسی قیصر خیام کی سماعتوں کو بہت گراں گزری تھی۔

"معاف؟ نہیں قیصر خیام نہیں تم مجھ سے معافی مت مانگو تمہارا معیار کم ہو جائے گا۔ تم ایسا کرو کے تم مجھے معاف کردو۔۔۔معاف کردو مجھے ان گناہوں کیلئے جو میں نے کبھی کیا بھی نہیں ہے۔ معاف کردو ان سب جرائم کیلئے جو تم میرے حصے لکھ بیٹھے ہو جن کیلئے مجھے سزائے دیتے رہے ہو۔ معاف کردو مجھے ان تمام غلطیوں کیلئے جو کبھی مجھ سے ہوئی بھی نہیں ہیں"۔ وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑے تمام تر لحاظ بھلائے چیخ پڑی تھی۔

"مجھے معاف کردو۔۔۔مجھے بخش دو۔ میں اب اور سزائیں نہیں جھیل سکتی میں مر جاؤں گی۔ مجھے اور سزائیں مت دو"۔ آنکھوں سے سیل رواں ہو چکا تھا۔ ہاتھ اب بھی جڑے ہوئے تھے۔

قیصر نے گم سم نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔

"کیا چاہتی ہو؟"۔ اس کا جواب جانتے ہوئے بھی وہ اپنا سب سے ناپسندیدہ سوال اس کے سامنے رکھ چکا تھا۔

"آزادی۔ اس جھوٹے رشتے سے۔۔۔تمہارے نام سے تمہارے تسلط سے تمہاری دہشت سے آزاد ہونا چاہتی ہوں میں"۔ بے دردی سے آنسو رگڑتے ہوئے وہ چبا چبا کر بولی تھی۔

اور اس سے قبل اس نے خود کو اتنا بے بس محسوس نہیں کیا تھا کبھی۔ 

"ٹھیک ہے۔۔۔مل جائے گی آزادی تمہیں"۔ اس کی آنکھوں میں جھانکتا وہ ٹھہر ٹھہر کر بولا تھا۔

اس نے ہار مان لی تھی۔ وہ ہار گیا تھا۔

"کیا ہوا زیست یہ شور کیسا تھا؟"۔ فرزانہ کھلے دروازے سے اندر داخل ہوتیں ہوئیں بولیں۔

زیست نے گردن گھما کر انہیں دیکھا۔ 

"یہ تو آپ اس سے پوچھیئے امی"۔ زخمی نگاہوں سے قیصر کی جانب اشارہ کیا۔ جو بیڈ کے قریب ہی کھڑا تھا۔ وہ لب بھینچ گیا۔ فرزانہ نے چونک کر اس کی جانب دیکھا۔

"کوئی تو مجھے کچھ بتاؤ آخر بات کیا ہے؟"۔ انہیں گھبراہٹ سی ہونے لگی تھی۔ 

"آپ کی بیٹی کو میرے ساتھ نہیں رہنا ہے۔ علیحدگی چاہتی ہے یہ اور یہ اس کا حتمی فیصلہ ہے"۔ دھیمے لب و لہجے میں کہتے ہوئے اس نے سارا ملبہ زیست پر ڈال دیا تھا۔

انہوں نے بے یقینی سے بیٹی کی جانب دیکھا۔ جو اس کی بات پر بے بسی سے لب کاٹنے لگی تھی۔

"زیست کیا یہ سچ کہہ رہے ہیں؟"۔ فرزانہ کی توپوں کا رخ اب اس کی طرف ہو گیا۔ مگر وہ فوری جواب نہ دے سکی تھی۔

"جواب دو میں تم سے پوچھ رہی ہوں۔ کیا تم نے ایسا کوئی مطالبہ کیا؟"۔ ان کی آواز میں سختی در آئی۔

"جی، یہ سچ ہے۔ میں نہیں رہنا چاہتی اس دھوکے باز کے ساتھ۔ زندگی حرام کردی ہے اس نے میری"۔ وہ بولی تو لہجہ بھیگا ہوا تھا۔

"جب یہ چاہتی ہی نہیں ہے میرے ساتھ رہنا تو پھر یہی سہی۔ میں طلاق کے کاغذات بھجوا دوں گا"۔ اس کی برداشت بھی اب جواب دینے لگی تھی۔ اتنا کہہ کر وہ وہاں سے جانے لگا تھا جب فرزانہ بیگم کی پکار پر رک گیا۔ مگر مڑ کر نہیں دیکھا۔

"شادی کو کھیل سمجھ رکھا ہے تم دونوں نے؟ جسے جب جی چاہا تب کر لیا اور جب من کیا تب ختم کرکے راہیں جدا کرلیں؟ اور تم وہی ہو جس نے میری مرضی کے برخلاف میری بیٹی سے شادی کرلی تھی۔ کیا اسی دن کیلئے کے شادی کے کچھ دن بعد اسے واپس اس کے گھر چھوڑ جاؤ؟"۔ وہ پھٹ پڑیں تھی۔ 

"جواب دو اگر تم نبھا نہیں کر سکتے تو پھر زیست سے شادی کیوں کی؟"۔ ان کے لہجے میں برہمی تھی۔

وہ مڑا۔

"یہ آپ کی بیٹی کا فیصلہ ہے۔۔۔صرف اور صرف اس کے اکیلے کا۔ یقین جانیئے میرا اس میں کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ اس لیئے اگر آپ کو کچھ سمجھانا ہے تو اسے سمجھایئے۔ اگر وہ مجھے قبول کرتی ہے تو ٹھیک ہے، نہیں کرتی ہے تو مجھ پر اس کی خواہش کا احترام لازم ہے"۔ وہ اپنی پوزیشن کلیئر کر چکا تھا۔ 

زیست نے تیکھی نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا۔

"نہیں زیست ایسا کچھ نہیں کرے گی۔ کچھ دنوں میں جب اس کی طبیعت بہتر ہو جائے گی تو یہ وہیں رہے گی جہاں اس کا شوہر کہے گا۔ ہاں، اگر میری بیٹی کو اس کے بعد کوئی تکلیف ہوئی تو پھر میں اسے مزید تمہارے ساتھ رہنے پر مجبور نہیں کروں گی"۔ انہوں نے صاف گوئی سے کہا۔

قیصر نے ان کی بات پر تائیدی انداز میں سر ہلایا۔

"یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟ میں ہرگز اس کے ساتھ نہیں جاؤں گی"۔ وہ اپنی بات پر اڑی ہوئی تھی۔

"خیال رکھیں اس کا"۔ سنجیدگی سے کہہ کر وہ ایک سرسری نگاہ اس کے غصے بھرے چہرے پر ڈال کر وہاں سے چلا گیا۔

"اپنی جھوٹی فکر اپنے پاس رکھو تم"۔ وہ چیخی تھی۔ مگر وہ جا چکا تھا۔

"بس کرو زیست، کچھ تو ہوش کے ناخن لو"۔ ماں نے اسے ڈپٹا۔

"ہاں، آپ بھی اب مجھے ہی سنائیں۔ میں ہی غلط ہوں سارا قصور میرا ہی ہے۔ میں پوچھتی ہوں اگر آپ سب کو مجھ سے اتنی ہی تکلیف ہے۔۔۔اتنی شکایتیں ہیں تو مجھے ایک ہی دفعہ میں مار کیوں نہیں دیتے آپ لوگ۔ کسی کو تو سکون آئے گا"۔ وہ دونوں ہاتھوں میں چہرا چھپائے شدت سے رو دی۔

فرزانہ بیگم نے بے چارگی سے اسے دیکھا۔

وہ چلتی ہوئیں اس کے پاس آ بیٹھیں۔

"کیوں خود کو اتنی اذیت دے کر میرے دل کے ٹکڑے کررہی ہو میری بچی؟ کسی کو کوئی شکوہ نہیں ہے تم سے۔۔۔کوئی تکلیف نہیں ہے۔ میں ماں ہوں تمہاری، کیسے سوچ سکتی ہو تم کے مجھے تمہاری پرواہ نہیں ہوگی"۔ آزردگی سے کہتے ہوئے انہوں نے اسے خود سے لگا لیا۔

"تم اسے ایک موقع تو دو حقیقت کہنے کا۔ ایک بار اس کی بات کھلے دل اور ٹھنڈے دماغ سے سنو اور اسے سمجھنے کی کوشش کرو۔ بس ایک کوشش کرلو اس رشتے کو نبھانے کی۔ اگر اس کے بعد بھی وہ تمہارے ساتھ ٹھیک نہ ہوا تو آخری فیصلہ تمہارا ہوگا۔ پھر میں دوبارہ تمہیں مجبور نہیں کروں گی اس حوالے سے"۔ وہ دھیرے دھیرے کہتیں اسے سمجھا رہیں تھی۔ وہ بس ان کے ساتھ لگی آنکھیں موندے بیچارگی سے انہیں سن رہی تھی۔

_______________________________

سیاہ آنکھوں پر نظر کا چشمہ لگائے وہ بظاہر بڑی محویت سے کتاب پڑ رہا تھا۔ تبھی کوئی اس کے پاس آ کے کھنکھارا تھا۔ نگاہیں اٹھانے پر سامنے ہی موٹے موٹے چشمے والا سادہ سا لڑکا کھڑا تھا۔

"احمد، آؤ بیٹھو میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا"۔ لائبریری کی مقدس خاموشی کو دھیان میں رکھتے ہوئے وہ آہستہ آواز میں بولا تھا۔

احمد بیگ اس کے مقابل کرسی کھینچ کر بیٹھا اور کتاب اٹھا کر چہرے کے سامنے کر لی۔

"سر، آپ نے جو کہا تھا میں وہ سب لے آیا ہوں"۔ آہستہ مگر سنجیدہ آواز میں کہتے ہوئے اس نے چھوٹا سا شولڈر بیگ قیصر کی طرف بڑھایا۔

"بہت اچھے احمد، تم نے بالآخر کر دکھایا۔ اس کیلئے میں تمہارا احسان مند ہوں"۔ تشکر آمیز لہجے میں کہہ کر بیگ تھام لیا۔

"میرے پاپا کو سزا نہیں ہوگی نا سر؟"۔ اس نے سادگی سے سوال کیا۔

گو اس کا باپ ایک اسمگر تھا۔ غیر قانونی کام کرنے والا شخص مگر تھا تو اس کا باپ۔ جس سے وہ کبھی نفرت نہیں کر سکتا تھا۔

"تم فکر مت کرو، میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کے انہیں سزا نہیں ہوگی۔ تمہارے پاپا بس ایک ذریعہ ہیں اصل مجرموں تک پہنچنے کیلئے۔ بس ان ثبوتوں کے ذریعے میں اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر ان مجرموں تک پہنچ جاؤں ایک بار پھر سزا ان کو ہی ملے گی"۔ اس نوجوان لڑکے کو اس نے بآسانی شیشے میں اتار کر اس کے باپ کے کالے کرتوتوں کے ثبوت اکٹھا کیئے تھے۔ 

اس کی بات پر احمد کو یک گونہ سکون ہوا تھا۔ 

"اچھا اب میں چلتا ہوں۔ تم کچھ دیر بعد یہاں سے نکلنا ورنہ دیکھنے والوں کو لگے گا ہم ساتھ تھے یا ہماری کوئی گفتگو ہوئی تھی"۔ کتاب بند کرکے وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اور بیگ سے تمام چیزیں نکال کر اپنے بریف کیس میں منتقل کرکے خالی بیگ واپس اس کی جانب بڑھا دیا۔

"کیا آپ اب بھی الوینا کو یاد کرتے ہیں تبریز سر؟"۔ وہ کرب سے آنکھیں میچ گیا۔

کتاب کے کونے سے وہ اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو دیکھ رہا تھا۔

"ہاں، مجھے یاد ہے وہ۔ آخر کو میری اسٹوڈنٹ تھی"۔ سنبھل کر جواب دیتے ہوئے کوٹ اپنے بائیں بازو پر منتقل کیا۔

"مگر غزل نے تو کہا کے وہ صرف اسٹوڈنٹ نہیں تھی"۔ منہ سے بے ساختہ پھسلا تھا۔ اگلے ہی پل اس نے زبان دانتوں تلے دبا لی۔

اس نے گہرا سانس بھرا۔

"ہاں، وہ اسٹوڈنٹ نہیں تھی صرف۔ بیوی تھی میری"۔ اور اس سے قبل کے احمد مزید کوئی سوال کرکے اس کا ضبط آزماتا وہ بریف کیس اٹھائے وہاں سے نکل گیا۔

"بیوی؟"۔ احمد کیلئے حیرت کی انتہا تھی وہ۔ کب؟ کیوں؟ کیسے؟ جیسے سوال کرنے کیلئے اس نے کتاب چہرے سے ہٹائی مگر وہ وہاں نہیں تھا۔ اس نے گردن گھمائی وہ کتابوں کی ریک کے درمیان کھو کر اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو چکا تھا۔

_______________________________

بھورے پینٹ کوٹ میں ملبوس، سیاہ بال جیل سے پیچھے کو جمائے، سفید نگ والا چھوٹا سا ٹاپس اس نے ایک کان میں پہن رکھا تھا۔ وہ اپنے مقابل صوفے پر بیٹھے ہوٹل کے مالک سے محو گفتگو تھا۔ سیاہ آنکھوں میں اجب پراسراریت تھی۔ گہری، کئی رازوں کو اپنے اندر سموئے، مقابل کو تسخیر کرتی ہوئی۔

"میں کوئی بھی بات یا کام صرف ایک بار کرنے کا عادی ہوں مگر آپ چونکہ بزرگ ہیں اس لیئے آپ کا لحاظ کرتے ہوئے آج دوسری بار یہاں آیا ہوں دیکھیے، ویسے تو میں نہایت ہی شریف النفس انسان ہوں، اپنے کام سے کام رکھنے والا۔ لیکن جب کوئی میری بات سے انحراف کرنے لگتا ہے تو مجھے پھر بڑا دکھ ہوتا ہے۔ دل پر لے لیتا ہوں میں"۔ غمگین چہرا بناتے ہوئے تاسف سے کہا۔

فضل کے جبڑے بھنچ گئے۔

"اور آپ کا انکار اگر میں دل پر لے گیا تو اس ہوٹل کی آڑھ میں جو آپ غیر قانونی ہتھیاروں کی سوداگری کرتے ہیں اس سے متعلق ایک ایک ثبوت جو میں نے جمع کر رکھی ہے وہ۔۔۔۔"۔

"کیا کروگے اس کا؟ پولیس کو بھجوا دو گے؟ برخوردار، پولیس والے میرے پے رول پر ہیں"۔ اس کی بات درمیان سے ہی اچکتے ہوئے وہ بولے تھے۔

قیصر نے بدمزہ ہوتے ہوئے ہاتھ میں پکڑی گلاس کا مشروب میز کے نیچے گرا دیا۔ 

"یار، آپ نے اتنا ہلکا لے لیا مجھے؟ مطلب میں اب پولیس کی مدد لوں گا؟ بلکہ میں ان کی مدد کرتا ہوں۔ میں تو یہ سارے ثبوت میڈیا کو بھجوانے کا سوچ رہا ہوں"۔ مصنوعی افسردگی سے کہتے ہوئے اس نے منہ بنایا۔

اس کی بات سن کر فضل بیگ کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔

"تم مجھے دھمکی دے رہے ہو؟"۔ وہ جھلائے۔

"بالکل نہیں، میں تو تمہارے ساتھ کام کرنا چاہتا ہوں۔ تمہاری ٹیم میں آنا چاہتا ہوں"۔ سنجیدگی سے کہا گیا۔

"تم یہاں آ تو گئے ہو اپنے قدموں پہ مگر جاؤ گے کاندھوں پر"۔ کوٹ کی جیب سے گن نکال کر اس پر تانتے ہوئے وہ خباثت سے مسکرایا۔

"میں پیار سے بات کر رہا ہوں اور آپ بندوق دکھا رہے ہیں؟ جانتے ہیں اگر میں اگلے دس منٹ میں یہاں سے زندہ واپس نہ گیا تو وہ ثبوت خود بخود میڈیا تک پہنچ جائیں گے۔ پھر سوچیے زرا کیا ہوگا آپ کے نام، آپ کی شہرت کا۔ اتنے سال لگا کر جو حرام کے پیسوں سے یہ ایمپائر کھڑا کیا ہے، بس پانچ منٹ میں یہ بوسیدہ ہو کر مٹی میں مل جائے گا۔ پھر چاہے تمہیں پولیس نہ بھی گرفتار کرے مگر تمہارا چہرا عام ہو جائے گا۔ لوگ تمہیں پہچان لیں گے۔ کوئی تمہارے ساتھ دھندا نہیں کرے گا۔ بھیک مانگنے کی نوبت آ جائے گی تمہاری، مگر تمہیں تو بھیک بھی نہیں دے گا کوئی"۔ مستقبل قریب کا اس نے بھیانک خاکہ کھینچا تھا۔

فضل نے گن نیچے کر لیا۔

"کافی کام کے بندے لگتے ہو تم۔ ویسے کیوں آنا چاہتے ہو انڈر ورلڈ میں؟"۔ اس نے اب کی بار دلچسپی سے پوچھا۔

قیصر طنزیہ مسکرایا۔

"جس سیٹ پر آج تم بیٹھے ہو نا وہ میرے باپ حاجی کی ہوا کرتی تھی۔ جسے حاصل کرنے میں تمہارے سالوں لگے، جبکہ میں نے ایک ہی جھٹکے میں سب اپنے قبضے میں کر لیا تھا۔ مگر شاید تب حکومت میرے نصیب میں نہیں تھی۔ لیکن اب۔۔۔اب میں واپس آ گیا ہوں، کیونکہ میں اب اپنی فطرت سے نہیں بھاگ سکتا۔ قیصر خیام کو اپنی جگہ واپس چاہیئے ہے۔ اس لیئے اب جھکنا سیکھو فضل، ورنہ جان سے جاؤ گے"۔ لبوں میں دبی سگریٹ سلگاتے ہوئے اس نے سفاکی سے کہا۔

"یہ کوئی الیکشن کے بعد جیتی گئی کرسی نہیں ہے برخوردار جو مدت پوری ہونے تک تمہاری رہے گی۔ یہ انڈر ورلڈ کا تخت ہے، جسے حاصل کرنے کیلئے صرف دماغ نہیں بلکہ طاقت چاہیئے ہوتی ہے۔ اور فی الحال وہ طاقت میرے پاس ہے اسی لیئے جھکنا تمہیں ہے"۔ اس نے اپنی گن دوبارہ اٹھا لی۔

"انڈر ورلڈ کے تخت کیلئے بھی ایک الیکشن ہوتا ہے۔ موت کا الیکشن۔ جو زندہ رہا، حکومت اس کی"۔ سگریٹ کے گہرے کش لیتے ہوئے وہ سنجیدگی سے کہہ گیا۔

"موت تو تمہاری آئی ہے قیصر خیام، مرنے کیلئے تیار ہو جاؤ"۔ وہ فاتحانہ مسکراتے ہوئے بولا۔

"گولی چلانے سے پہلے ایک بات جان لو کے اس کمرے میں ووڈن فلور ہے۔ اس میز کے نیچے شراب گری ہے اور میرے ہاتھ میں چنگاری ہے۔ جو اگر میں نے گرا دی تو یہ کمرا لمحوں میں راکھ بن جائے گا۔ اگر تم یہاں سے زرا بھی ہلے تو میں یہ کر گزروں گا۔ پھر ہم دونوں ساتھ مریں گے فضل"۔ کش لیتے ہوئے وہ ہنوز پرسکون تھا۔ 

فضل کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوئی۔ اس کی جگہ اب خوف نے لے لی۔

"کیا چاہتے ہو تم؟"۔ وہ اب کی بار زچ ہو کر پوچھنے لگا۔

"اب آئے ہو تم مطلب کی طرف، مجھے میری کرسی واپس چاہیئے اور اس کے علاوہ بھی بہت ساری چھوٹی چھوٹی چیزیں جیسے تمہارے گھر سے کئی زیادہ بڑا اور وسیع گھر، تم سے زیادہ گاڑیاں، میرے انڈر کام کرنے کیلئے کچھ لوگ اور باقی اس لسٹ میں ہے"۔ کہتے کہتے اس نے جیب سے لسٹ نکال کر اس کی طرف بڑھائی۔

"اب اس پہ اپنے پیارے سے سائن کردو"۔ اگریمنٹ نکال کر اس کے سامنے رکھتے ہوئے اس نے سرد لہجے میں کہا۔

خطرناک تیوروں سے اسے گھورتے ہوئے فضل نے دستخط کر دیئے۔

کاغذ کو اگلے ہی پل قیصر نے واپس جھپٹ کر اپنے کوٹ کی اندرونی جیب میں رکھ لیا۔

"مبارک ہو، میں تمہارا باس بن گیا۔ اور ہمارا یہ کون بنے گا باس نامی شو یہاں لگے کیمروں کے ذریعے تمہارے آدمی لائیو دیکھ رہے ہیں۔ سو آئم آفیشلی یور باس ناؤ"۔ کمینگی سے مسکراتے ہوئے عادتا سیاہ بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ اٹھا تھا۔

فضل سر ہاتھوں میں گرا گیا۔

"ہمارے مطالبات وہ لوگ مان چکے ہیں۔ دبئی سے پارٹی بھی آ چکی ہے کافی دن پہلے۔ آج شام اس سے ملاقات ہوگی میری۔ مگر مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئی"۔ بہروز نے اطلاع دیتے ہوئے الجھ کر کہا۔

نیم اندھیرے کمرے میں وہ اپنے سامنے پشت کیئے کھڑے اس وجود سے مخاطب تھا۔ جس نے اندھیرا اوڑھ رکھا تھا۔ شاید اسے اندھیرا ہی پسند تھا۔

"کون سی بات؟"۔ برجستہ پوچھا۔

"یہی کے تم نے انہیں کسی پروفیشنل بندے کو بھیجنے کے بجائے کسی عام شخص کے ہاتھوں رقم بھجوانے کی ہدایت کیوں کی؟ جبکہ کوئی عام آدمی ایسے کاموں میں ایکسپرٹ نہیں ہوتا ہے، پکڑا بھی جا سکتا تھا وہ؟"۔ اسے یہ بات پسند نہیں آئی تھی۔

"کہیں ایسا تو نہیں ہے اخی کے باس کہلواتے کہلواتے تم واقعی خود کو باس سمجھنے لگے ہو؟ ایسا بھول کر بھی مت سوچنا سمجھے تم۔ تمہارا صرف چہرا دنیا کے سامنے ہے۔ مگر تمہارے اس چہرے کے پیچھے دماغ میرا ہے یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا"۔ باور کرواتا ہوا لہجہ تھا۔ بہروز کیا بولا تھا اور جواب کیا آیا تھا؟

"بخدا میں نے ایسا کبھی نہیں سوچا ہے۔ میں بلکہ تم سے مخلص ہوں اور ہمیشہ رہوں گا۔ ہماری مائیں بےشک الگ تھیں مگر ہمارا باپ ایک تھا۔ جس کا خون تمہاری اور میری رگوں میں بہتا ہے"۔ بہروز نے اداسی سے کہا۔

وہ مضبوط اور بھرپور مرد اس وقت کتنا جذباتی لگ رہا تھا۔ 

"خیر اب تم اپنے سوال کا جواب سنو، حالانکہ تم میرا اصول جانتے ہو تمہیں ایسا سوال کرنا نہیں چاہیئے تھا۔ پھر بھی، میں نے ایک عام آدمی کا مطالبہ اس لیئے کیا کیونکہ پروفیشنل کا ایمان ڈگمگا سکتا ہے اخی، وہ دھوکا دینے کی کوشش کر سکتا ہے کیونکہ وہ دھوکا دینے کے گُر سے واقف ہوتا ہے ۔ جبکہ ایک عام آدمی جس کی کمزوری ہمارے ہاتھ میں ہوتی ہے، وہ بیچارا کچھ نہیں کر سکتا۔ سوائے ہماری بات ماننے کے۔ آئی ہوپ تم اب آئندہ یہ سوال نہیں کرو گے"۔ تفصیلی جواب دینے کے بعد تنبیہ بھی کردی گئی تھی۔

جس پر وہ سر ہلا گیا۔

"تم اس سے ملو گے اور پیمنٹ لینے کے بعد اسے وہ نقشہ دے دو گے"۔ تحکم بھرے لہجے میں کہا۔

"جیسا تم ٹھیک سمجھو"۔ بہروز نے تائیدی انداز میں کہا۔

"ایک بات اور کرنی تھی"۔ وہ ہچکچایا۔

"کون سی بات؟"۔ اگلے ہی پل سوال ہوا۔

"تمہیں تلاش کرنے والے ایجنٹس کے چہرے ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی ہم نے مگر ان کا کوئی سراغ نہیں ملا اب تک"۔ یہ اطلاع دیتے ہوئے اس کا لہجہ پست تھا۔

"کیا بکواس ہے یہ؟ رانا کو بھیجو میرے پاس۔ ان ایجنٹس کی پروفائل سمیت آنے کا کہو اسے"۔ لہجے میں غراہٹ در آئی تھی۔

بہروز سر ہلا کے جلدی جلدی رانا کا نمبر ڈائل کرنے لگا۔ 

بیس منٹ بعد ہی وہ وہاں حاضر تھا۔

"باس آپ نے بلایا؟"۔ رانا نے سر جھکائے ہاتھ پشت پر باندھے ادب سے پوچھا۔

"وہ یو-ایس-بی مجھے دو جس میں ان ایجنٹس کی انفارمیشن ہے"۔ بہروز نے کہا۔

رانا نے جلدی سے یو-ایس-بی نکال کر اس کی ہتھیلی پر رکھ دی۔

جسے میز پر رکھے لیپ ٹاپ سے کنیکٹ کرنے کے بعد اسکرین کا رخ اس کی جانب موڑ دیا۔

اس نے نگاہیں لیپ ٹاپ پر جمائیں۔ بس ایک نظر دیکھا تھا ان ایجنٹس کی پروفائل کو۔

اگلے ہی پل کمرا طماچے کی زوردار آواز سے گونج اٹھا تھا۔ رانا اپنے دائیں گال پہ ہاتھ جمائے سر جھکا گیا۔

"بےوقوف! یہ نقلی ہے۔ یہ چہرے حاجی کے پالے ہوئے ان کتوں کے ہیں جو کب کے ابدی نیند سو چکے۔ ہڈ حرام تم ان مرے ہوئے لوگوں کو ڈھونڈتے پھر رہے ہو پچھلے دو ہفتوں سے!"۔ ایک اور بھرپور تھپڑ اس کے بائیں گال پر بھی پڑا تھا۔

مقابل موجود شخصیت رانا کی جسامت کے مقابلے آدھا بھی نہیں تھا اور وہ سر جھکائے اس سے تھپڑ پہ تھپڑ کھائے جا رہا تھا۔ یقینا اس شخص کے پاس کل اختیارات موجود تھے۔

جبکہ اس انکشاف پر تو بہروز پہ سکتہ طاری ہو گیا تھا۔

"دو دن۔۔۔صرف دو دن میں مجھے ان تمام ایجنٹس کا ڈیٹا چاہیئے جو میرے خلاف جتے ہوئے ہیں۔ یاد رکھنا اگر میرے خلاف ایک بھی سراغ ان کے ہاتھ لگا تو سب سے پہلے تمہاری گردن اڑے گی"۔ آخری بات بہروز کی جانب دیکھ کر کہی۔

"یس باس"۔ رانا نے مری مری سی آواز میں کہا۔

"اب دفع ہو جاؤ یہاں سے"۔ رانا کو باہر دھکیلتے ہوئے کہا۔

"تم فکر مت کرو، اب میں خود انہیں ڈھونڈوں گا۔ وہ چوہے جس بھی بل میں چھپے ہیں میں انہیں وہاں سے کھود کر نکالوں گا۔۔۔چن چن کر ماروں گا ان کو"۔ بہروز کے لہجے سے شرارے پھوٹ رہے تھے۔ اس کا انداز بتا رہا تھا کے وہ اپنے ہر لفظ کو سچ کر دکھائے گا۔

"کچھ بھی ہو جائے، ہماری ڈیل رکنی نہیں چاہیئے اخی"۔ اس کے لہجے میں قطعیت تھی۔

"ایسا ہی ہوگا"۔ وہ پریقین تھا۔

_______________________________

وسیع گیٹ سے اندر داخل ہونے کے بعد گاڑی کی رفتار دھیمی ہو گئی تھی۔ روش پر رینگتی ہوئی پورچ میں آ کر کار رک گئی۔

گاڑی سے اترتے ہوئے وہ ارد گرد کا جائزہ لیتی کھلے دروازے سے اندر داخل ہو گئی۔

"ویلکم بیک مسز خیام ویلکم بیک"۔ گول زینے اترتا ہوا وہ پرتپاک انداز میں کہتا اس کے مقابل آیا تھا۔

اسے سامنے پاتے ہی زیست کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔ آف وہائٹ سوٹ میں ملبوس سیاہ بال جیل سے پیچھے کو جمائے، کلین شیو۔ انداز حد درجہ بدلا ہوا لگ رہا تھا۔ 

"لگتا ہے دس دن گزرنے کے باوجود بھی تمہیں میری یاد نہیں آئی"۔ وہ اسے چڑانے والے انداز میں گویا ہوا۔

"دس دن تو بہت کم ہیں۔ اگلے دس سال بھی گزر جائیں تب بھی اتنے برے حالات نہیں ہوں گے کہ میں تمہیں یاد کروں"۔ وہ جل کر بولی۔

"ریئلی!"۔ اچانک اس کے گرد حصار باندھ کر اس نے اسے اپنے وجود کا حصہ بنا لیا۔ اس اچانک افتاد پر زیست بوکھلا سی گئی۔

وہ بغور اسے دیکھنے لگا۔ کندنی چہرے کی چمک مزید بڑھ گئی تھی۔ شاید وہ اس کے بغیر واقعی بہت مطمئن رہی تھی۔ 

"جب اتنا ہی برا لگتا ہوں میں تو پھر آئی ہی کیوں ہو میرے پاس؟"۔ لہجہ آنچ دینے لگا تھا۔

گرفت مضبوط تر تھی۔ 

"اگر امی مجھے مجبور نہ کرتیں تو میں ہرگز یہاں نہ آتی"۔  تیکھے پن سے جواب دیا۔

"تو تمہارے نزدیک قیصر ایک مجبوری ہے؟ ہوں؟"۔ انداز میں برہمی در آئی۔

"ہاں، تم میری مجبوری ہو، چاہو تو اسے میری بے بسی سمجھ لو۔ تمہیں میری مجبوری بنا دیا گیا ہے۔ اور ایسا کرنے والی ہستی مجھے ہر رشتے سے بڑھ کر عزیز ہے اس لیئے نہ چاہتے ہوئے بھی میں مجبور ہو گئی ہوں"۔ اس کے سینے پہ دباؤ ڈال کر اسے خود سے دور کرتے ہوئے وہ بھرپور تلخی سے کہہ گئی۔

"تو پھر سن لو، پچھتاؤ گی تم"۔ اپنی گرفت سے اسے آزاد کرتے ہوئے وہ گہری سنجیدگی سے کہہ گیا۔ 

"پچھتاؤ گے تو تم، میری امی کو اپنی جھوٹی دلیلیں پیش کرکے مجھے یہاں بلوانے پر۔ پچھتاؤ گے تم"۔ وہ انگلی اٹھا کر وارننگ دینے والے انداز میں بولی۔

"اچھا!؟ تو یعنی تم چیلنج کر رہی ہو مجھے؟"۔ کمر پہ دونوں ہاتھ جمائے وہ ایک ابرو اٹھائے پوچھنے لگا۔

"ہاں، یہی سمجھ لو"۔ سینے پر دونوں ہاتھ باندھتے ہوئے اس نے بھی اسی کے انداز میں جواب دیا۔

"اور اگر میرے بجائے تم پچھتائی تو؟"۔ وہ پھر پوچھنے لگا۔

"تو پھر میں تمہاری قید قبول کر لوں گی"۔ وہ بلا تاخیر بولی۔

"لیکن۔۔۔اگر تم ہارے تو پھر تم خود مجھے طلاق دو گے اور میری امی کو بھی اس بات کیلئے راضی تم کروگے"۔ ساتھ ہی اس نے بھی اپنی شرط بتائی تھی۔

"اوکے، مجھے کوئی اعتراض نہیں"۔ شانے اچکا کر جواب دیا۔

وہ اسے گھوری سے نوازنے کے بعد مزید کچھ کہے بغیر وہی سیڑھیاں چڑھ گئی جہاں سے وہ نیچے آیا تھا۔ شاید دونوں کو ہر چیز میں ایک دوسرے کی مخالفت کی عادت تھی۔ 

مگر انداز سے استحقاق واضح جھلک رہا تھا۔ لاشعوری طور پر ہی سہی شاید وہ مان چکی تھی کے وہ اس گھر کی مالکن ہے۔

"اففف، گھر سے باہر ایک جنگ کافی نہیں تھا جو اب گھر کے اندر بھی اس عورت نے اعلان جنگ کر دیا ہے۔ یہ مصیبت ہمیشہ میرا ہی در کیوں دیکھتی ہے؟"۔ تاسف سے کہتے ہوئے وہ نفی میں سر ہلانے لگا۔

پھر سر جھٹک کر گھر سے باہر نکل گیا۔ فلحال گھر سے باہر چھڑی سرد جنگ کو اس کی توجہ چاہیے تھی۔

اپنا بیگ سنبھالتے ہوئے اس نے جوں ہی پورچ میں قدم رکھا 

گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑا وہ لمبا تڑنگا شخص اسے پوری جان سے موبائل اسکرین کی طرف متوجہ نظر آیا۔ 

"آپ؟ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ وہ بھی میری گاڑی کے پاس؟"۔ پیشانی پر سلوٹیں طاری کیئے وہ اس کے سامنے آئی۔

مخاطب کیئے جانے پر شہیر نے نگاہیں اٹھائیں۔ براؤن آنکھوں کی سنجیدگی ماہا کو یک بارگی گڑبڑانے پر مجبور کر گئی۔

"ہٹیں میری گاڑی کے سامنے سے، مجھے دیر ہو رہی ہے"۔ اس بار وہ بولی تو لہجہ زرا دھیما تھا۔

شہیر نے گہرا سانس بھرا اور موبائل جیب میں رکھ لیا۔

"گاڑی میں بیٹھیے، ڈرائیو میں کروں گا"۔ بھاری سنجیدہ آواز میں جواب دیا۔

ماہا تو اس کی بات پر حیرت سے اچھل پڑی تھی۔

"کیا؟ لیکن کیوں؟ اور میں تو آپ کو جانتی بھی نہیں۔۔۔میں نے تو نہیں کہا آپ سے ایسا کچھ کرنے کو؟"۔ وہ حیرانگی سے بولی۔

"آپ نے نہیں کہا لیکن مجھے کہا گیا ہے آپ کو سیکیورٹی ایشوز ہیں۔ اس لیئے اب سے آپ جہاں کہیں باہر جائیں گی۔۔۔مجھے ساتھ جانا ہوگا آپ کے"۔ اجیب چڑچڑا سا انداز تھا۔ جیسے اسے یہ سب مارے باندھے کرنا پڑ رہا ہو۔

"مجھے کوئی سیکیورٹی ایشو نہیں ہے۔ کس نے کہا آپ سے یہ؟ ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی آپ کو۔ اب کھڑے کیا ہیں میری گاڑی کے سامنے سے تو ہٹیں"۔ کلائی پہ بندھی گھڑی دیکھ کر ناگواری سے کہا۔

"ماہا"۔ اس سے قبل کے شہیر کوئی جواب دیتا فیض بخاری چلے آئے تھے۔

"ڈیڈ یہ سب کیا ہے؟ کون ہے یہ آفیسر؟ اور کس نے ان کو یہاں بلایا ہے؟ اجیب باتیں کر رہے ہیں یہ"۔ شہیر کی جانب دیکھ کر ناک چڑھاتی ہوئی وہ باپ سے سوال کر رہی تھی۔

"بیٹا، یہ اے-ایس-پی شہیر ہیں ان کو میں نے بلوایا ہے یہاں، آپ کی سیفٹی کیلئے"۔ انہوں نے پر شفقت لہجے میں کہا۔

"اوہ، یعنی باڈی گارڈ؟ ڈیڈ۔۔۔کیا واقعی؟"۔ وہ بے بسی سے کبھی ان کو تو کبھی شہیر کو دیکھنے لگی۔

لفظ 'باڈی گارڈ' پر وہ پہلو بدل کے رہ گیا۔

"بالکل، اب مزید کوئی بحث نہیں ہوگی۔ یونیورسٹی کیلئے لیٹ ہو رہا ہے نا، جاؤ شاباش، باقی باتیں واپسی پر ہوں گی"۔ نر خوئی سے کہتے انہوں نے بات ہی سمیٹ لی۔

"اوہ گاڈ! یونی میں سب میرا مذاق اڑائیں گے ڈیڈ"۔ وہ کوفت زدہ ہوئی۔

"ماہا! بیٹا میں نے کہہ دیا نا۔ ابھی کیلئے کوئی اور بات نہیں ہوگی بس"۔ قطعی انداز میں کہہ کر وہ واپس پلٹ گئے۔

"اب چلیں۔۔۔مادام؟"۔ فیض بخاری کے جاتے ہی ایک ابرو اٹھائے اس نے طنزیہ انداز میں پوچھا۔

جس پر ماہا نے اسے ایک نظر گھور کر دیکھا پھر گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گئی اور دھماکے سے دروازہ بند کیا۔

شہیر آنکھیں میچ گیا۔

"یہی دیکھنا باقی رہ گیا تھا بس"۔ جلتے کڑھتے اس نے بھی ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔

_______________________________

"ڈیم اٹ"۔ غصے کی شدت سے پاگل ہوتے عالیان نے زوردار کِک میز کو رسید کی۔ بھاری میز اس کے اس طرز پہ لرز کر رہ گیا۔

زر نے تاسف سے اسے دیکھا۔

"اب غصہ کرنے کا کیا فائدہ؟ اتنے دن سے ایک غلط شخص کو پکڑ کر اس سے پوچھ گچھ کرکے اپنا وقت ضائع کرتے رہے ہم، جبکہ ہوا کیا؟ دبئی سے آنے والا اصلی حسن بن سیف الدین تو کوئی اور ہی نکلا۔ اب تک تو وہ اپنے مالکوں کے ہتھے بھی چڑ چکا ہوگا"۔ وہ تلخ لب و لہجے میں کہتا گیا۔

"شٹ اپ، ایک تو اتنی بڑی مشکل سر پہ کھڑی ہے اور تم ہو کے اپنا ہی باجا بجائے جا رہے ہو؟ کچھ دیر سکون سے بیٹھ نہیں سکتے منہ بند کرکے تم؟"۔ عالیان نے بپھر کر کہا۔

"مجھے سنانے سے کچھ نہیں ہوگا عالی، غلطی ہم سب سے ہی ہوئی ہے۔ اس لیئے بہتر یہی رہے گا کے اپنی غلطی تسلیم کرو اور اسے درست کرنے کا سوچو"۔ سرد لہجے میں کہتے ہوئے اس نے مشورہ دیا۔ جس پر عالیان کی جان مزید جل گئی۔

"ہم سب کی نہیں صرف تمہاری۔ یہ صرف اور صرف تمہارے اکیلے کی بھول تھی۔ اگر تم اپنا کام ٹھیک سے کر لیتے، ان کے لیپ ٹاپ کا ڈیٹا ہیک کرکے آنکھیں کھول کر حسن کا چہرا ٹھیک سے دیکھ لیتے اور ہمیں بھی دکھا دیتے تو اس وقت وہ ہمارے قبضے میں ہوتا اور ہم اپنی منزل سے حد درجہ قریب ہو جاتے۔ مگر نہیں، وہ زر ہی کیا جو اپنی لاپرواہی کے مظاہرے نہ کرے۔ ایک کام ٹھیک سے نہیں ہو سکا تم سے"۔ وہ جب بولنے پر آیا تو بولتا چلا گیا۔

حماد ان کے درمیان تب سے خاموش تماشائی بنا بیٹھا ان دونوں کی تکرار سن رہا تھا۔

اس کی بات نے زر کو اچھا خاصا تپا دیا تھا۔ وہ جارحانہ تیور لیئے عالیان کے مقابل تن گیا۔

"کیا کہنا کیا چاہتے ہو تم؟ کے میں بہت بےکار آدمی ہوں؟ کے مجھ سے کوئی کام نہیں ہو سکتا؟ بات سنو میری، جس مقام تک میں آج پہنچا ہوں وہ گواہی دیتا ہے میری ذہانت کی۔ لیکن تم کیوں یہ سمجھو گے؟ تمہیں تو بس اپنا آپ سب سے عقلمند اور چالاک نظر آتا ہے نا! ہم سب تو یہاں بس ایویں ہی ہیں ہم سے تو کچھ ہو نہیں سکتا۔ اگر اتنے ہی عقلمند ہیں جناب عزت مآب عالیان مصطفٰی تو آپ کو اکیلے ہی یہ مشن پورا کرنا تھا، ہم بے کار لوگوں کی تو پھر ضرورت ہی کیا تھی"۔ اس کا انداز بھی حد سے زیادہ ترش ہو گیا۔

"زر عالیان کیا ہو گیا ہے تم لوگوں کو یار؟ بند کرو یہ الزام تراشیاں ایک دوسرے پر"۔ حماد نے درمیان میں کود کر بیچ بچاؤ کرنا چاہا۔

ایک تو شہیر بھی وہاں نہیں تھا۔

"زبان سنبھال کر بات کرو سمجھے، مت بھولو میں سینئر ہوں تمہارا"۔ حماد کو پرے دھکیل کر وہ پھر سے سامنے آ گیا۔

"بس تم اسی زعم میں مبتلا رہو۔ اسی وجہ سے تو ہماری ٹیم الگ ہو گئی ہے۔ ایک قاتل، دوسرا ہر کسی کی مخالفت کرنے والا (عالیان) تیسرا خود پسند (شہیر) اور باقی بچے میں اور حماد ہم دونوں تو جیسے کسی گنتی کے ہی نہیں ہیں"۔ وہ حد درجہ بد گمان ہو رہا تھا۔

"بہت افسوس ہوا آج تمہاری سوچ جان کر"۔ عالیان نے افسردگی سے کہا۔

زر ناراض نگاہوں سے اسے دیکھتا رہا۔ حماد ان دونوں کو ہی یاس سے دیکھنے لگا۔

"یہ ٹیم بکھر چکی ہے۔ ختم ہو چکی ہے۔ اب ہر کوئی اپنی اپنی جگہ پر رہ کر یہ جنگ لڑے گا۔ کوئی کسی کا ساتھ نہیں دے گا کوئی کسی سے دوستی نہیں نبھائے گا۔ آج سے تم لوگ اپنے راستے اور میں اپنے"۔ فیصلہ کن لہجے میں کہہ کر وہ وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

"عالیان۔۔۔عالیان سنو یار"۔ حماد اسے پکارتا ہوا پیچھے گیا تھا مگر وہ وہاں سے نکل چکا تھا۔

"زر یہ کیا بچپنا ہے۔ تمہیں اس سے اس طرح بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔ دوستی الگ بات ہے مگر وہ ہمارا سینیئر ہے"۔ حماد نے ملامتی لہجے میں کہا۔

"ہونہہ، سینیئر ہے تو کیا کچھ بھی کہے گا؟ اب کرنے دو اسے اکیلے ہی سب کچھ۔ میں بھی اب جو کروں گا اپنی جگہ رہ کر اکیلے ہی کروں گا۔ تمہیں اگر میرا ساتھ دینا ہو تو دے دینا ورنہ مجھے تمہاری ضرورت بھی نہیں ہے"۔ بے گانگی سے کہہ کر اس نے لیپ ٹاپ اٹھا لیا۔

حماد افسوس سے اسے دیکھتا رہ گیا۔

_______________________________

گہرے سرخ اور گولڈن رنگوں سے سجے وسیع ترین لاؤنج میں اس وقت بہروز ولید اپنی پوری شان سے صوفے پر بیٹھا تھا۔ جیسے وہاں دیوانِ خاص لگا ہو اور وہ وہاں ایک حاکم کی حیثیت رکھتا ہو۔ اس کے صوفے کے پیچھے دائیں جانب رانا سینے پر بازو لپیٹے کھڑا تھا۔ انداز قدرے متکبرانہ تھا۔

"قیمت لائے ہو؟"۔ اس نے مقابل بیٹھے، گھبرائے ہوئے سے حسن کو دیکھ کر پوچھا۔ جو خوفزدہ نظروں سے باڈی بلڈر رانا کو

دیکھ رہا تھا۔

"ہاں، یہ۔۔۔اس میں لاکر کی چابی کا پتہ ہے۔ وہ چابی جس لاکر کی ہے اس میں ہی آپ کی مطلوبہ چیز موجود ہے باقی مجھے کچھ علم نہیں"۔ جیب سے کاغذ کا ٹکڑا برآمد کرکے اس کی جانب بڑھاتے ہوئے بتایا۔ رانا نے آگے بڑھ کر وہ کاغذ اس کے ہاتھ سے لینے کے بعد بہروز کو تھمایا۔

"ہوں، ٹھیک ہے۔ رانا، ہمارے مہمان کو گیسٹ روم میں شفٹ کردو"۔ مغرور مسکراہٹ چہرے پر سجائے اس نے حکم سنایا۔ اور خود وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔

"چلو"۔ رانا نے اسے ساتھ چلنے کا اشارہ دیا۔ وہ کچھ گھبراتا ہوا اٹھ کر اس کے پیچھے چل دیا۔

_______________________________

شام اترنے لگی تھی۔

باغیچے میں کچھ دیر تک چہل قدمی کرنے کے بعد وہ تھک کر سنگی بینچ پر آ بیٹھی۔ طبیعت پر چھائی مردنی اور کسلمندی کم نہ ہوئی تھی۔

ایک طویل سانس لے کر ان خوبصورت پھولوں کی مہک کو اپنے اندر اتارا مگر فریش محسوس کرنے کے بجائے دماغ کا بوجھ مزید بڑھ گیا تھا۔

بلاشبہ یہاں کی ہر چیز قیمتی اور شاندار تھی۔ حرام کے پیسوں کی بنیادیں ڈال کر اس خوبصورت ولا کو  کھڑا کیا گیا تھا۔ پھر بھلا یہ شاندار کیسے نہ ہوتا!

گلاب کی ٹہنی تھامے اس کی سوچیں لامحدود تھیں۔ فیض بخاری اور ان کی فیملی قیصر کی اپنی نہیں تھی یہ تو اسے اندازہ ہو گیا تھا اور وہ کسی قدر حیران بھی تھی کے کیونکر ان پرخلوص لوگوں نے قیصر جیسے مجرم کو اپنے گھر اتنی عزت سے رکھا تھا۔ جس کی توسط سے اسے بھی ہاتھوں ہاتھ لیا گیا تھا۔ اسے یہ گھر اور آسائشیں دیکھ کر کوئی خوش گمانی نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی یہ پوچھنے کی زحمت ہوئی تھی کے وہ کیا کام کرتا ہے کہاں سے کماتا ہے؟ کیونکہ وہ اچھی طرح جانتی تھی کے اس کے شوہر کا واحد ذریعہ معاش دوسروں کا خون بہانا ہی تھا۔ 

باغیچے کی مہک میں اسے خوشبو سے زیادہ خون کی بو رچی بسی محسوس ہو رہی تھی۔

وہ بے چین سی ہو کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ جانے کیلئے پلٹی ہی تھی کے اپنی جگہ مجسم بن گئی۔ کچھ کھوجتی، کچھ سنجیدگی سے فاصلے پر کھڑے شخص کی نگاہیں اسے ہی دیکھ رہیں تھی۔

"اس وقت یہاں کیا کر رہی ہو؟"۔ وہ چلتا ہوا اس سے کچھ ہی فاصلے پر آ رکا۔

"سکون کی تلاش میں یہاں آئی تھی۔ مگر اس گھر کے کسی ایک کونے میں بھی سکون نہیں ہے۔ صرف گھٹن ہے۔۔۔شدید گھٹن"۔ اجب کھویا کھویا سا انداز تھا۔

چند قدم چل کر وہ اس کے نزدیک ٹھہرا۔

"ٹھیک ہو تم؟"۔ اس کی پیشانی چھوتے ہوئے وہ تفکر زدہ سا پوچھنے لگا۔

زیست تلخی سے مسکرائی۔

"کچھ نہیں ہوا مجھے، تم جیسے شخص کے ساتھ رہ رہی ہوں،  اس کے بعد تو میری ہمت پر کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیئے"۔ پولز کی دودھیا روشنی میں اس کی آنکھیں دنیا جہاں کی اداسی سمیٹ لائیں تھی۔

"کیوں خود کو اذیت دے رہی ہو ایسی سوچیں سوچ کر؟"۔ اس کے لہجے میں تشویش در آئی۔

"کیونکہ اب عادت ہو گئی ہے اس اذیت کی۔ بہت دنوں سے تم نے یہ اذیت نہیں دی، کوئی کمی سی لگ رہی تھی اپنی ذات میں"۔ اس کی آواز میں حسرتیں تھیں۔ کچھ بکھرا ہوا سا تھا اس کے انداز میں۔

"عادتیں بدلی بھی جا سکتی ہیں مسز، خاص کر تب جب وہ عادتیں۔۔۔بری ہوں"۔ وہ اسے سمجھانے لگا۔

"تو پھر تم کیوں نہیں بدلتے؟"۔ وہ دبے دبے انداز میں چیخ پڑی تھی۔ آنسو خواہ مخواہ ہی چھلک پڑے تھے۔ 

لمحہ بھر کیلئے وہ لاجواب ہو گیا۔

"تم کیوں نہیں اپنی برائیاں چھوڑ دیتے؟ کیا تمہیں کوئی پچھتاوا نہیں ہے؟ کیوں تمہیں کوئی پچھتاوا نہیں ہوتا؟ کیسے سو لیتے ہو تم اتنے سکون سے؟"۔ اس کا گریبان تھامے وہ سسک پڑی۔

وہ لب بھینچے اسے دیکھے گیا۔

"تمہارا یہی سکون مجھے بے سکون کر دیتا ہے۔ دل کرتا ہے تمہارا یہ سکون چھین لوں، تمہیں تڑپتے سسکتے دیکھوں جیسے میں تڑپ رہی ہوں"۔ شکوہ کرتے کرتے اس کا چہرا جھکتا چلا گیا اور سر آپ ہی آپ اس کے سینے سے آ لگا تھا۔

"زیست؟"۔ اس نے پکارا۔ مگر اس کے وجود میں کوئی ہلچل نہ مچی۔ 

قیصر نے اس کا بھیگا چہرا سامنے کیا۔ وہ آنکھیں موندے ہوش گنوا چکی تھی۔

بلا تامل اسے بازوؤں میں اٹھائے وہ وہاں سے چل دیا۔

کچھ دیر بعد وہ اس سمیت قریبی کلینک میں موجود تھا۔

لیڈی ڈاکٹر اسے چیک کرنے کے بعد اپنی کرسی پر آ بیٹھی۔

"کون ہیں یہ آپ کی؟"۔ ڈاکٹر نے مقابل بیٹھے قیصر سے سوال کیا۔

"بیوی ہے میری"۔ فوری جواب دیا۔

"مبارک ہو آپ کو، آپ کی وائف پریگننٹ ہے"۔ پروفیشنل مسکراہٹ چہرے پر سجائے انہوں نے اطلاع دی تھی۔ 

وہ لب بھینچے سختی سے آنکھیں میچ گیا۔ یہ سب سے آخری بات تھی جو وہ سوچ سکتا تھا۔ اس نے ایک بے بس نگاہ زیست کے بے سدھ پڑے وجود پر ڈالی۔ وہ حقیقاً اس کا سکون چھین چکی تھی۔

زیست نے آہستگی سے پلکیں اٹھائیں۔ بصارتیں زرا صاف ہوئیں تو ڈاکٹر کی نسوانی آواز نے اس کی توجہ کھینچ لی۔ وہ یقیناً قیصر سے مخاطب تھیں۔

"آپ ان کی صحت کا خاص خیال رکھیں۔ ذہنی دباؤ اور کسی بھی قسم کی پریشانیوں سے انہیں جتنا دور رکھا جائے اتنا بہتر ہے۔ میں آپ کو ڈائٹ چارٹ دیتی ہوں ان کیلئے، اسے باقاعدگی سے فالو اپ کروانا ہے آپ نے ان سے"۔ لیڈی ڈاکٹر ہدایات دے رہیں تھی۔ اور وہ گنگ سا بیٹھا سب سن رہا تھا۔ فل الوقت تو اسے اپنے محسوسات کی بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ اسے خوش ہونا چاہیئے تھا مگر وہ ناخوش تھا۔ یہ سب اسے بہت غیر متوقع لگ رہا تھا۔ 

کچھ دیر بعد وہ اس کے ہمراہ گھر واپسی کیلئے روانہ ہو گیا تھا۔

وہ اب بھی سوتی جاگتی کیفیت میں تھی۔ کتنے ہی دن سے وہ اس بے آرامی کا شکار تھی۔ وجہ اپنے اندر رونما ہوتی وہ تبدیلیاں نہیں تھیں بلکہ اصل مرحلہ ان تبدیلیوں کو قبول کرنا تھا۔ جن کو لے کر وہ حد درجہ بوکھلائی ہوئی تھی۔ اس نے تو سوچا تھا کے وہ اس سے طلاق لے لے گی۔ مگر اب یہ کافی مشکل نظر آ رہا تھا

اس سے الگ ہونے کے وہ کتنے جتن کر رہی تھی اور قدرت اس کے ساتھ کیا کھیل کھیل چکی تھی؟ 

وہ پلکیں موندے اندر ہی اندر خود سے جنگ لڑ رہی تھی۔  

گاڑی پارکنک اسپیس میں آ رکی۔ وہ بنا کچھ کہے یا اس کی جانب دیکھے گاڑی سے اتر گیا۔

دروازہ کھلنے بند ہونے کی آواز پر اس نے پلکیں وا کیں۔ وہ اسے باغیچے کی جانب جاتا نظر آیا۔

وہ بے حس بنی بیٹھی اس کی پشت تکتی رہی۔۔۔یہاں تک کے وہ نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔

سر جھٹک کر اس نے گاڑی کا دروازہ کھولا مگر وہ نہ کھلا۔ وہ چونکی! دوسری، تیسری بار کوشش کرنے کے باوجود دروازہ نہ کھلا تو اب کی بار اسے پریشانی نے آن لیا۔ گھبرا کر وہ اب شیشہ پیٹنے لگی۔ 

"دروازہ کھولو کوئی"۔ بوکھلاہٹ کے مارے اسے اپنا دم گھٹتا محسوس ہو رہا تھا۔ سبز آنکھیں شدت سے برسنے لگیں تھی۔

مگر آس پاس متوجہ ہونے والا کوئی نہ تھا۔ 

فوارے کے گرد بیٹھا وہ اس کے پانی میں اپنا عکس جھلملاتا دیکھ رہا تھا۔ وہ خود پسند تھا۔ اسے اپنی عقل و فراست اور شخصیت پر ناز نہیں غرور تھا۔ 

غرور تو پھر ہوتا ہی ٹوٹنے کیلئے ہے۔ اپنی ظاہری شخصیت سے تو اسے اسی پل نفرت ہو گئی جس پل اسے بچانے کیلئے وہ اس دہکتے فولاد کو اپنی نازک جان پر جھیل گئی تھی۔ اس کی جان بچانے کیلئے وہ اپنا دل قربان کر گئی تھی۔ جس کے بعد اسے اپنی اسی شخصیت سے نفرت ہو گئی تھی۔ اور آج اسے اپنی عقل و فراست سے بھی نفرت ہو چلی تھی۔ جس کا ٹھیک استعمال نہ کرتے ہوئے اس نے ایک معصوم زندگی برباد کر دی تھی۔ 

وہ اس کا گناہگار تھا۔ حقیقت جاننے کے بعد وہ خود بھی نہیں چاہتا تھا کے اس جیسا شخص زیست کی زندگی میں رہے۔ وہ جان چکا تھا کے وہ اس کے قابل نہیں تھا اس لیئے وہ اس کی زندگی مزید برباد نہ کرتے ہوئے اسے آزاد کرنا چاہتا تھا۔ مگر زیست کی ماں کو جب اس نے اپنے فیصلے سے آگاہ کیا تو انہوں نے اسے ملامت کیا۔ گو اسے سچائی بتانے کی ہمت تو اب بھی نہ ہوئی کے اس نے یہ سب کیوں کیا مگر اپنے کیئے کی معافی اس نے مانگی، جس کے بعد پھر ان کا مطالبہ تھا کے وہ زیست سے علیحدگی اختیار نہ کرے اور اسے تحفظ دے۔۔۔اسی صورت وہ اسے معاف کرنے پر تیار تھیں۔ چنانچہ وہ مان گیا۔

لیکن یہ بھی ایک حقیقت تھی کے وہ جذبات سے خالی اور احساسات سے عاری ہو چکا شخص اسے صرف اپنا نام دے سکتا تھا۔ کوئی کومل جذبہ یا کسی روایتی محبت کا اظہار نہیں۔ کہیں نہ کہیں اسے گمان تھا کے ایک دن زیست کی امی ان کی ناکام ازدواجی زندگی کا احساس کرتے ہوئے ان کا فیصلہ مان لیں گی، پر کیا اب یہ خود اس کیلئے ممکن رہا تھا؟

جواب نہیں میں آیا۔ اتنے عرصے بعد تو آج اسے یہ احساس ملا تھا کے کوئی تو ہوگا جو اس بھری دنیا میں اس کا اپنا کہلائے گا۔ لاکھ برا اور بے پرواہ سہی مگر قیصر خیام اپنی اولاد نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ خوش وہ اب بھی نہ تھا کیونکہ آخری فیصلہ زیست کا ہونا تھا، جو وہ اچھی طرح جانتا تھا کے نہ میں ہی ہوتا۔ کچھ دیر قبل اگر کوئی قیصر سے پوچھتا تو اسے علیحدگی کا یہ سوال اتنا مشکل نہ لگتا جتنا اب لگنے لگا تھا۔ 

اپنے تئیں وہ ایک فیصلہ لے کر خود کو سمیٹتے ہوئے وہاں سے اٹھا تھا اور اس سے بات کرنے کو واپسی کی راہ پر چل پڑا۔

"زیست"۔ گھر میں داخل ہوتے ہی وہ بلند آواز سے پکارا۔

"منیر، زیست کہاں گئی؟"۔ اس نے ملازم سے پوچھا۔

"صاحب، انہیں تو میں نے آتے نہیں دیکھا"۔ اس نے لاعلمی ظاہر کی۔

قیصر چونکا۔

"کیا مطلب ہے آتے نہیں دیکھا؟ وہ گھر نہیں آئی تو۔۔۔۔۔ڈیم اٹ"۔ اور وہ الٹے قدموں دروازے سے ہی واپس پلٹ آیا۔

قدم تیز رفتاری سے گھر کے نچلے حصے کی جانب اٹھ رہے تھے جہاں گاڑیوں کیلئے علیحدہ پارکنگ ایریا بنایا گیا تھا۔

وہاں ترتیب سے کھڑی کئی گاڑیوں کے درمیان وہ اس کار کی جانب دوڑتا ہوا آیا جو آدھے گھنٹے قبل اس کے زیر استعمال  آنے کے بعد وہاں رکی تھی۔

"زیست۔۔۔"۔ گاڑی کا لاک کھولنے کے بعد تیزی سے آگے بڑھ کر اس نے دروازہ کھولا۔ اس کا وجود نیچے ڈھلکنے کو تھا جب وہ اسے بروقت تھام گیا۔

"زیست آنکھیں کھولو!"۔ بے چینی حد سے سوا تھی۔ اس کے گال تھپتھپاتے ہوئے وہ اسے ہوش میں لانے کی تگ و دو کر رہا تھا۔

گہری، بے ترتیب اور گھٹی ہوئی سانس بھرنے کے ساتھ ہی اس نے پلکیں اٹھائیں تھی۔ آنکھ کھلتے ہی اس کا فکرمند چہرا زیست کی نگاہوں میں سمایا تھا۔

"گاڈ! تم ٹھیک ہو"۔ اس کی آنکھیں کھلتے دیکھ کر قیصر کے چہرے پر اطمینان چھانے لگا تھا۔

اگلے ہی پل وہ بنا سوچے سمجھے شدت سے روتے ہوئے اس کے گلے کا ہار بن گئی۔

"ریلیکس، سب ٹھیک ہے۔۔۔کچھ نہیں ہوا ہے"۔ اس کے بال سہلاتے ہوئے وہ تسلی آمیز لہجے میں کہتا اسے وہاں اپنی موجودگی کا یقین دلا رہا تھا۔ 

"میں ڈر۔۔۔گئی تھی۔۔۔میں۔۔۔ڈر گئی تھی"۔ اس کے گلے کے گرد مضبوطی سے اپنے بازو جکڑے وہ ہچکیوں کے درمیان بس ایک ہی جملہ کہہ رہی تھی۔

اس کے گرد ایک ہاتھ کا حصار باندھتے وہ اٹھا۔ نازک وجود اس کا حصہ بن کر اس کے سنگ ہی اٹھا تھا۔

دوسرے ہاتھ سے گاڑی کا دروازہ بند کرکے وہ سنگی مجمسہ بن گیا۔

بہت سارا رونے کے بعد اسے احساس ہوا تھا کے اس اونچے وجود کا حصہ بنے اس کے پاؤں زمین سے چند انچ اوپر ہوا میں معلق تھے۔

"تم ٹھیک ہو؟"۔ وہ پھر پوچھنے لگا۔ آواز میں تفکر تھا۔

کوئی جواب دیئے بغیر اس نے اپنی گرفت ڈھیلی کردی، پیر احتیاط سے زمین پر آ پڑے۔ اچانک اس کا کچھ دیر قبل چھوڑ جانا یاد آیا تھا۔

اس سے الگ ہوتے ہی زیست نے پوری قوت صرف کرکے اسے نفرت سے پرے دھکیلا۔ وہ ایک قدم پیچھے ہوا۔

"مجھے مرنے کیلئے یہاں چھوڑ گئے اور پوچھتے ہو میں ٹھیک ہوں کے نہیں؟ تو سن لو بد قسمتی سے میں اب بھی زندہ ہوں"۔ ہاتھ کی پشت سے رخسار رگڑتے ہوئے وہ تلخی سے بولی۔

وہ سختی سے لب بھینچے اس کے جارحانہ تیور ملاحظہ کرنے لگا۔

"یہ مت سمجھنا کے اب میرا فیصلہ بدل جائے گا۔ تمہارے معاملے میں میں آج بھی وہی کھڑی ہوں جہاں روز اول تھی۔ کچھ نہیں بدلا ہے ہمارے درمیان، وہی تم ہو اور وہی میری نفرت"۔ وہ حد درجہ ترشی سے بولی تھی۔

"ختم نہیں کر سکتی تم یہ نفرت؟"۔ وہ بے بس ہوا۔

"ہرگز نہیں، یہ اب تمہارے ساتھ ہی ختم ہوگا"۔ وہ بے رحمی کی حد تک سفاکی سے کہہ گئی۔

"اتنی نفرت مت کرو کے پھر تمہیں ایک دن میری ہی طرح پچھتانا پڑے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اگر تم اس نفرت کو بھی پروان چڑھاتی رہی تو ایک دن یہ مہلک ترین مرض بن جائے گا جس سے نقصان بس تمہارا ہی ہوگا"۔ اس کا لہجہ سرگوشی نما ہو گیا تھا۔

"قصوروار تو تم ہو، پچھتاوا تمہیں ہونا چاہیئے اپنے کیئے کا"۔ وہ دوبدو بولی۔

"تو یعنی تمہارا فیصلہ نہیں بدلے گا؟"۔ اب کی بار وہ بولا تو آواز بجھی ہوئی تھی۔

"بالکل، میرا فیصلہ اب بھی وہی رہے گا"۔ بلا تاخیر جواب آیا تھا۔

"اوکے، جس دن میرا بچہ اس دنیا میں آنکھ کھولے گا۔ اس دن قیصر خیام اسے اپنے ساتھ لے کر تمہاری زندگی سے نکل جائے گا۔ اس کے بعد تمہیں کبھی میرا چہرا نہیں دیکھنا پڑے گا"۔ آن کی آن ہی اس نے فیصلہ سنایا تھا۔

اس کے مطالبے نے زیست کے دل پر پاؤں رکھ دیا۔

"ہونہہ، تاکہ کل کو تم اسے بھی اپنے جیسا بنا سکو۔ جان لو میرے رہتے ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ میرا بچہ صرف میرے پاس ہی رہے گا"۔ اس نے ایک ایک لفظ پر زور دیا۔

"خیر، یہ تو وقت ہی بتائے گا"۔ بحث سمیٹتے ہوئے آگے بڑھ کر نرمی سے اس کا ہاتھ تھام لیا۔

"چھوڑو میرا ہاتھ، میں خود چل سکتی ہوں"۔ اس کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے وہ اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے کھینچنے کی کوشش کرنے لگی۔

"تمہارا کوئی بھروسہ نہیں پھر کہیں اور جا کر بند ہو جاؤ۔ میں کوئی نقصان افورڈ نہیں کر سکتا"۔ بے نیازی سے کہتے ہوئے وہ اس کا ہاتھ چھوڑے بغیر چلتا رہا۔

مارے بے بسی کے وہ دانت کچکچا کے رہ گئی۔

_______________________________

"سنا ہے فضل ریٹائر ہو گیا"۔ سگار پیتے ہوئے ایم-این-اے فرخ نے مقابل بیٹھے بہروز سے استفسار کیا۔

"ہاں، ڈموشن ہو گیا ہے اس کا۔ ہوٹل کے اونر سے مینجر بن گیا بیچارا"۔ بہروز کا انداز مذاق اڑاتا ہوا تھا۔

"اس سب کی وجہ کیا ہوئی پھر؟"۔ فرخ کے برابر بیٹھے ایس-پی ضیاء نے پوچھا۔

"وجہ کیا ہونی تھی ضیاء صاحب، عیش کے دن پورے ہو گئے تھے اس کے"۔ بزنس ٹائیکون شیرازی نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔

وہ چار افراد اس وقت ایم-این-اے صاحب کے بنگلے پر موجود تھے۔ 

موضوع گفتگو انڈر ورلڈ کی دنیا میں اچانک در آنے والی تبدیلیاں تھیں۔

"حاجی تو کب کا قصہ پارینہ ہو گیا تھا، پھر یہ اچانک اس کا آدمی کہاں سے آ ٹپکا؟"۔ ایس-پی نے ایک اور نقطہ اٹھایا۔

"دایاں بازو کہلاتا تھا اس کا، قیصر خیام! سنا ہے بہت دم ہے اس شخص میں"۔ شیرازی نے جواب دیا۔

"اگر ایسی بات ہے تو بہروز تمہیں اسے ہاتھوں ہاتھ لینا چاہیئے"۔ فرخ نے مشورہ دیا۔

اس کی بات پر بہروز سوچ میں پڑ گیا۔ وہ سبھی لوگ واقف نہ تھے کے ایسے فیصلے لینے کا اختیار تو کسی اور کے ہاتھ میں تھا۔ 

"اتنی جلدی اسے شامل نہیں کرنا چاہیئے اپنے گروہ میں، پتہ تو کرنا ہوگا پہلے کے وہ اتنے سال کہاں تھا؟ اور اب اچانک کیسے حاجی کی کرسی کا دعویدار بن کر آ گیا؟"۔ بہروز نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔

"ٹھیک کہتے ہو تم، پہلے اسے پرکھ تو لیں کے وہ قابل اعتبار ہے بھی یا نہیں"۔ ایس-پی ضیاء نے بہروز کی بات سے بھرپور اتفاق کیا۔

جس پر باقی سب بھی کسی حد تک متفق نظر آنے لگے۔ 

_______________________________

گاڑی کے کھلے شیشے پر کہنی ٹکائے، چہرا ہتھیلی پر جمائے وہ سخت بے زار معلوم ہوتی تھی۔

آج اسے یونیورسٹی چھوڑنے جاتے ہوئے شہیر کا دوسرا دن تھا۔ 

گاڑی کے موڑ کاٹنے کی وجہ سے اس کی کہنی ڈگمگائی اور سر ایک جگہ ٹکرا گیا۔

"آہستہ چلائیں، جب گاڑی چلانی نہیں آتی تو ڈرائیونگ کرنے کیوں نکل پڑے خواہ مخواہ"۔ وہ تیکھے لب و لہجے میں بولی۔

اس کی بات پر وہ اسے گھوری سے نواز کر رہ گیا۔ بولا کچھ نہیں۔

دراصل ماہا میڈم کا منہ اس لیئے بن گیا کیونکہ تھوڑی ہی دیر قبل فیض بخاری نے اسے پچھلی نشست پر بیٹھے دیکھ کر اچھی طرح اس کی طبیعت صاف کی تھی۔۔۔وہ بھی اس نک چڑھے (بقول ماہا کے) کے سامنے۔ شدید سبکی کے احساس کے باوجود بھی اسے اس کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھنا پڑا تھا۔ 

"خوش ہو رہا ہوگا اندر ہی اندر میری بے عزتی پہ"۔ کن انکھیوں سے اس کا سنجیدہ چہرا جانچتے ہوئے وہ یہ خیال آتے ہی سلگنے لگی۔

گاڑی سگنل پر رک چکی تھی۔

وہ اب براہ راست اسے سخت نظروں سے گھورنے لگی۔ جوں ہی شہیر اس کی جانب متوجہ ہوا تو اس کے انداز پر کچھ چونک سا گیا۔

"اب کیا؟"۔ ایک ابرو اٹھائے اس نے پوچھا۔

"آپ۔۔۔بہت خوش ہو رہے ہیں نا آپ صبح ہی صبح میرے ہی ڈیڈ سے میری بے عزتی کروا کے؟"۔ وہ دانت کچکچا کے اس سے پوچھنے لگی۔

اس کے الزام پر وہ حیران رہ گیا۔

"میں کیوں خوش ہوں گا اس بات سے؟"۔ وہ الٹا اس سے پوچھنے لگا۔

اس کی بات پر وہ مکمل گھومی۔

"اس لیئے کیونکہ آپ کو اپنا یہ نیا جاب کچھ خاص پسند نہیں آیا ہے جسے بقول آپ کے، آپ میرے ڈیڈ کے کہنے پر کر رہے ہیں۔ اس لیئے آپ مجھ سے چڑتے ہیں اور میری بے عزتی پر اندر ہی اندر خوش ہوتے ہیں"۔ وہ جیسے بھری بیٹھی تھی۔

"تم نے میری باتیں سنی تھیں کل؟"۔ وہ بھوئیں اکٹھی کیئے اس سے پوچھ رہا تھا۔

"باتیں؟ وہ باتیں نہیں تھیں، وہ برائیاں تھیں۔۔۔میری برائیاں جو آپ اپنے کسی دوست سے فون پہ کر رہے تھے"۔ غصے سے اس کی ناک سرخ ہونے لگی تھی۔

اس کے انداز پر شہیر نے لبوں پر امڈتی مسکراہٹ بمشکل روکی۔

"چلو کم از کم تم نے مان تو لیا کے تم میں برائیاں ہیں"۔ وہ دل جلانے والے انداز میں بولا۔

"باجی اللہ کے واسطے دس بیس روپیہ دے دو، اللہ جوڑی سلامت رکھے آپ دونوں کی"۔ میک اپ سے اٹا چہرا ماہا کی طرف والے شیشے میں سے جھانکنے لگا۔

اس آواز اور اس سے بھی بڑھ کر اس جملے نے ان دونوں کو ہی اچھلنے پر مجبور کر دیا تھا۔

"کیا کہا تم نے؟"۔ وہ تعجب سے پوچھنے لگی۔

"میاں جی تم ہی بولو نا اپنی بیگم کو کچھ دے دے۔ اللہ نیک اولاد سے نوازے گا"۔ خواجہ سرا نے شہیر سے کہا۔

ماہا کے تو مزید چودہ طبق روشن ہو گئے۔

اس کا ہونق چہرا دیکھ کر شہیر نے ہنسی ضبط کرتے ہوئے نیلا نوٹ پکڑا دیا اسے۔ وہ مزید ششدر رہ گئی۔

زبان گنگ ہو گئی، ورنہ وہ اس کی غلط فہمی ہی دور کر دیتی۔

سگنل کھل چکا تھا۔ 

گاڑی بہتے ٹریفک کے ساتھ رواں ہو گئی۔ 

اور وہ جو کچھ دیر قبل پٹرپٹر بول رہی تھی اب منہ پر قفل لگائے رخ موڑ کر بیٹھ گئی۔ دل اجیب طرز پر دھڑکتا جانے کون سے افسانے بن رہا تھا۔ چہرے میں سرخیاں گھلنے لگیں تھی۔ جس سے انجان وہ اپنی جگہ چور سی بن گئی تھی۔

●فنا کا خلاصہ:  یہ کہانی شروع ہوئی تھی قفس میں بند ہوئے ایک خطرناک مجرم قیصر عبید خیام سے۔ جہاں وہ اپنے مالک حاجی فیروز کے تمام گناہوں کا کفارہ بن کر داخل ہوا تھا۔ گو وہ اس بات سے بےخبر تھا کے اس کا سوتیلا باپ اپنے عزائم کیلئے محض اسے استعمال کر رہا تھا۔ مگر جب قیصر کو اس بات کا احساس ہوا تو وہ اپنے ساتھیوں کی مدد سے جیل سے فرار ہوگیا۔ اب اس کی راہیں اپنے باپ سے جدا تھیں اور وہ کسی طرح خود کو ہر جرم سے بری کروا کر آزاد رہنا چاہتا تھا۔

اس مقصد کیلئے اس نے سیاسی شخصیت علی مرزا سے گٹھ جوڑ کرلیا۔

تقدیر کا پانسہ پلٹا اور اس کا ٹاکرا الوینا مختار سے ہوگیا۔ قیصر کو جب احساس ہوا کہ الوینا اصل میں کون ہے اور کس ہستی سے تعلق رکھتی ہے تو اس نے الوینا کی خود میں دلچسپی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے علی مرزا کے تمام تر احکامات نظرانداز کرکے اسے اپنی آزادی کا پروانہ بنانے کی ٹھان لی۔ 

مگر حالات و واقعات نے کچھ ایسا رخ بدلا کہ الوینا تیمور عباسی کے قتل کی گواہ بن گئی۔ جسے مارنے والا قیصر خیام تھا اور وہ تب اس بات سے انجان تھی۔ اپنے ایک گناہ کو چھپانے کیلئے وہ مسلسل چہرے پہ چہرہ چڑھاتا گیا اور بالآخر سنگین حالات میں پھنس کر اسے الوینا مختار کو اغواء کرنا پڑا۔ اور یہ اس کی سب سے بڑی بھول تھی۔ رفتہ رفتہ قیصر کے ارد گرد بنی ساری دیواریں توڑ کر الوینا اس کے دل تک پہنچ ہی گئی۔ قیصر جو ہر میدان مارنے والا شخص تھا وہ بھی اس محبت کے آگے گھٹنے ٹیکنے اور زیر ہونے سے نہ بچ سکا۔

اور جب دشمنوں کے کانوں تک یہ خبر پہنچی تو انہیں یہ بات گراں گزری۔ پھر وہی ہوا جو شمع کے گرد منڈلاتے پروانے کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔ 

علی مرزا اور ولید عثمان نامی مجرم  پر کیئے گئے وار کی قیصر خیام کو خاصی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ جو اس کی محبت الوینا کی صورت تھی۔

وہ ریت بن کر قیصر کی مٹھی سے پھسلتی چلی گئی اور وہ بے بسی کی انتہا پر کھڑا خود کو پھر سے پتھر ہوتے دیکھتا رہ گیا۔

دو سال بعد جب قیصر خیام الوینا کی قبر پر حاضر ہوا تو وہ ایک بار پھر سے وہی بن چکا تھا جو نہ بننے کا وعدہ کیا تھا کسی سے۔ اب وہ تھا اور اس کے سینے میں جلتی انتقام کی آگ۔ 

مگر کیا ہوا تھا اس دو سال کے عرصے میں؟ وہ کہاں رہا؟ کیسے زندہ بچا؟ الوینا کو کس نے مارا؟ کیوں مارا؟ ان سارے سوالوں کے جوابات لینے کیلئے آئیے چلتے ہیں فنا کے حصّہ دوم ”جنگِ بقا“ کی جانب۔

●جنگِ بقا کی پچھلی اقساط کا خلاصہ:  جس رات قیصر خیام کے ساتھ یہ دردناک حادثہ ہوا۔ اب یہ سنجوگ ہی تھا کہ بریگیڈیئر فیض بخاری اپنے دوست مختار انصاری  (جو اصل میں الوینا کے والد تھے) کی طبیعت خرابی کا سن کر ان کے پاس ہسپتال جا رہے تھے۔ جہاں راستے سے گزرتے اچانک ایک زخمی وجود لڑھکتا ان کی گاڑی کے سامنے آیا تھا۔ جس سے وہ رکنے پر مجبور ہو گئے۔ اور جب فیض صاحب نے اس خون میں لت پت نوجوان کو دیکھا تو وہ اسے ہسپتال لے گئے۔ یہ اندازہ کیئے بغیر کے جس قیصر سے متعلق فائل تیار کرکے مختار صاحب نے انہیں دیا تھا وہ وہی شخص ہے۔ 

زیست عباسی جو اسی ہسپتال میں بحیثیت ڈاکٹر اپنے فرائض انجام دے رہی تھی۔ اس نے جب اپنے بھائی کے قاتل اس شخص کو زخمی حال میں وہاں دیکھا تو اسے قدرت کے انصاف پر یقین سا آ گیا۔ مگر بدقسمتی یہ ہوئی کے اتنے زخموں کے باوجود بھی وہ حیات رہا۔ اور یہ کیسے ممکن تھا کے زی یہ سہہ جاتی۔ لہٰذا اس نے خود قیصر کیلئے ایک سزا تجویز کی۔ 

اپنے حال سے بےخبر قیصر کے وجود پر اس نے بڑے کاری وار کیئے تھے۔ وہ بھی کچھ اس طرح کہ یا تو وہ یقینی طور پر مر جاتا یا پھر خون زیادہ بہہ جانے سے وہ کومہ میں چلا جاتا۔ وہ بہرطور اسے سزا دینا چاہتی تھی۔

جذباتیت کا یہ فیصلہ ہوش آنے پر اسے ٹھٹھکا گیا تھا۔

مگر جب ہارون کو اس نے ہسپتال میں پایا تو وہ اپنی جاب چھوڑ کر وہاں سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئی۔

وہ جو ایک ڈاکٹر تھی، جس کا پیشہ لوگوں کی زندگی بحال کرنا تھا۔ اس نے ایک شخص کو بری طرح مارا ہے، کہیں نہ کہیں اس خیال نے اس کی روح تک منجمد کردی تھی۔ 

گو وہ شخص ایک قاتل تھا مگر اب زی بھی اپنے ضمیر کے بوجھ سے نبرد آزما تھی۔ اس سب سے بچنے کیلئے اس نے گھر تک بدل لیا۔ لیکن اسے یک گونہ سکون بھی تھا کہ اس کے مجرم نے اسی کے ہاتھوں سزا پائی تھی۔

دوسری جانب فیض بخاری کو جب رات گئے قیصر پر حملے کی خبر ملی تو انہوں نے ہاسپٹل کے اسٹاف کو سخت تنبیہ کردی کہ کسی کو بھی قیصر کی وہاں موجودگی کا علم نہ ہونے پائے۔ حتا کہ انہوں نے ہارون تک کو اس سب سے انجان رکھا۔ کیونکہ ان کے مطابق قیصر کو دوسرا موقع دیا گیا تھا۔ جس کو استعمال کرتے اب اسے اپنے جینے کا سلیقہ بدلنا تھا۔

اور جب اس نے آنکھیں کھولیں تو سب سے پہلا خیال ہی اس کے بچھڑنے کا آیا تھا۔ اور اس دکھ کی انتہا نے کئی ماہ تک قیصر خیام کو پاگل پن کی کیفیت سے دوچار کیے رکھا۔ پھر جب اس نے خود کو سنبھالنا شروع کیا تو دوسرا جذبہ جس نے اس کے اندر سر اٹھایا وہ اپنے دشمنوں سے انتقام لینے کا تھا۔ ہر ایک کو سزا ملنی تھی پر شروعات اس نے زیست عباسی سے کی۔ اسے ذہنی مریضہ بنا کر اس کی ماں کیلئے آخری حل یہ چھوڑا کہ وہ زی کی شادی کروا دیں۔ جس میں وہ کامیاب بھی رہا۔

وہ خود مجرم تھا۔ اسے سچ جھوٹ کا فرق بخوبی آتا تھا۔ زیست کے ساتھ رہتے ہوئے اسے احساس ہونے لگا کے جس قتل کیلئے ذمہ دار وہ اسے ٹھہرائے ہوئے تھا وہ تو اس نے کیا ہی نہیں تھا۔ 

اس رات جب ابو زر کے ساتھ کیئے پلاننگ کے تحت وہ اسے بہانے سے ریسٹورنٹ لے گیا تو وہاں سے واپسی پر طے شدہ حملے میں بجائے مقابلے کے وہ ایک خوفزدہ ہرنی کی مانند لگی تھی۔ اور پھر جب پہلی بار براہ راست قیصر نے اس سے الوینا کو قتل کیے جانے سے متعلق پوچھا تو تب بھی اس کا شاکڈ چہرہ اس بات کا غماز تھا کے قاتل وہ نہیں تھی۔

اس حقیقت نے قیصر کی دنیا تہہ و بالا کردی تھی۔

جرم جس کی پہچان تھا وہ قیصر خیام اب اپنی اسی سیاہ شخصیت کی وجہ سے بہت سی اہم شخصیات کو مطلوب تھا۔ جن میں سر فہرست تھے اعلٰی ایجنسی کے جنرل سرفراز۔ جن کے مطابق ایک مجرم ہی دوسرے مجرم کا پتہ بہتر طور پر جان سکتا تھا۔ جن لوگوں میں وہ اسے بھیجنا چاہتے تھے وہ لوگ وہی تھے جن سے کبھی قیصر کے ماضی کا تعلق رہا تھا۔ فیض بخاری کے احسانات، اپنے دشمنوں سے انتقام کی چاہ اور سب سے بڑی وجہ، میکائیل کو ڈھونڈنے کیلئے اس نے آن ہی میں اس مقصد کیلئے حامی بھر لی۔

پہلے مرحلے میں وہ ایک ریسٹورنٹ پہنچا جہاں اسے عالیان سے مل کر ان کی خفیہ لوکیشن کا ایڈریس لینا تھا۔ اپنے پیچھے لگے شخص کو گمراہ کرکے وہ یہ کام کرنے میں کامیاب رہا۔ 

پھر دوسرا مرحلہ تب شروع ہوا جب وہ عالیان کے بتائے ایڈریس پر پہنچا۔ وہاں اسے پارسل کے ذریعے  اپنے حالیہ سربراہ کی جانب سے ایک یو-ایس-بی موصول ہوئی۔ اس یو-ایس-بی میں وہ ساری انفارمیشن تھی جو صرف اور صرف قیصر خیام کیلئے تھی۔ اسے بتایا گیا کے کون سا کام انجام دینا ہے اور کون کون اس کے ساتھ شامل رہے گا۔

کوبرا گینگ جو دو سال کے عرصے میں ہی ملک کے حفاظتی اداروں کیلئے گلے کی ہڈی بن گیا تھا۔ اس کا سربراہ لاپتہ تھا۔ گویا کسی خول میں تھا۔ جسے ڈھونڈنے اور اس کی سازشیں ناکام بنانے کا کام انہیں سونپا گیا تھا۔

دیگر ساتھی ایجنٹس کے ہمراہ اس نے اپنا فریضہ انجام دینا شروع کیا۔ جس کے تحت ایٹمی ہتھیاروں کے خفیہ جگہ کے نقشے کو کوبرا گینگ نے دبئی سے آئے ڈیلر حسن بن سیف الدین کو بیچنا تھا۔ حسن کا ڈیٹا اور اس کا حلیہ جاننے کیلئے قیصر نے ساتھی ایجنٹ  حماد کو دشمن کی کچھار میں بھیجا۔ جس نے نقلی یو-ایس-بی بہروز کے آدمی رانا کو دی۔ 

اس یو-ایس-بی کو استعمال کرتے ہی ان کا سارا ڈیٹا بآسانی ہیک کر لیا گیا۔

اب وہ لوگ حسن کو دھرنے کیلئے ایئرپورٹ جا پہنچے اور اسے پکڑ بھی لیا۔ مگر یہاں دشمن نے انہیں مات دے دی۔ 

جس شخص کو انہوں نے حسن سمجھ کر پکڑا تھا وہ تو کوئی معمولی آدمی نکلا جو محض انہیں گمراہ کرنے کیلئے وہاں بھیجا گیا تھا۔

دوسرا یہ کہ زیست اور قیصر پر ہونے والے حملے نے بھی قیصر کو سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔

 اس سب کا مطلب صاف تھا کہ ان لوگوں کے درمیان دشمن کا کوئی مہرا موجود تھا۔

لہٰذا قیصر نے ان سب سے اپنی راہیں الگ کرلیں۔ اور اپنی زندگی اپنے طور پر جینے کا فیصلہ کیا۔

اس مقصد کیلئے اس نے اپنے پرانے "شاگرد" احمد بیگ (جو کے الوینا کا دوست ہوا کرتا تھا) سے اسی کے باپ کے خلاف ثبوت منگوائے۔ جنہیں بعد میں استعمال کرتے ہوئے اس نے آسانی سے فضل بیگ کو رام کر لیا اور خود اس کے تمام کالے کاموں کا آقا بن بیٹھا۔

اب اسے انتظار تھا بہروز سے روبرو ہونے کا۔  کیونکہ واحد وہی شخص تھا جس کے ذریعے وہ کوبرا گینگ کے اصل لیڈر تک پہنچ سکتا تھا۔

اس عرصے میں زیست کی جانب سے ملنے والی خبر اس کیلئے بے حد غیر متوقع ثابت ہوئی۔ وہ جو اس کی بے گناہی پر یقین کرلینے کے بعد سزائیں معاف کرنے اور اسے آزاد کرنے کا ارادہ کیئے بیٹھا تھا اب اس کیلئے یہ فیصلہ خاصہ مشکل ثابت ہو رہا تھا۔

وہ جانتا تھا وہ اس سے ویسی محبت کبھی نہیں کرسکتا جس کی وہ مستحق تھی۔ لیکن وہ اب اسے چھوڑ بھی نہیں پا رہا تھا کہ وہ اپنا مقام اب اس کی زندگی میں مزید مضبوط کرچکی تھی۔

قیصر خیام کی زندگی ایک جنگ بن چکی تھی۔ اور آنے والا وقت اب مزید مشکل ہونے جا رہا تھا۔

مگر اسے بہرطور زیست کو اس سب سے دور رکھنا تھا۔ کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کے اب اسے اور کوئی نقصان قیصر خیام کی ذات سے پہنچے۔ حقیقت جاننے کے بعد تو کم از کم وہ اس کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ 

اب سوال تھے اس کے ذہن میں۔ بے شمار سوال۔ 

وہ کون تھا جس نے اسے مارنا چاہا؟ کون تھا بہروز کے چہرے کے پیچھے؟ کس نے اسے اور اس کی ٹیم کو دھوکا دیا تھا؟ الوینا کو مارنا اور قیصر کو نیم مردہ چھوڑ دینے کی اتنی لمبی پلاننگ کے پیچھے آخر کون سا دماغ کارفرما تھا؟ اور میکائیل کہاں تھا؟ اعظم کہاں تھا؟ 

ان سب سوالوں نے قیصر کی نیندیں اڑا رکھی تھیں۔ مگر اسے اتنا ضرور یقین تھا کہ ان سارے واقعات کی کڑی، کہیں نہ کہیں کسی ایک ہی شخص سے جڑی تھی۔

اور اس ایک شخص کو وہ ہر حال میں ڈھونڈ لینے کا ارادہ کیئے ہوئے تھا۔ ایک بار پہلے وہ ہار چکا تھا۔ سب کھو چکا تھا۔ اس بار وہ ہارنے کا ارادہ ہرگز نہیں رکھتا تھا۔

اب آگے پڑھیں۔

"سیرئسلی ماہا؟ باڈی گارڈ؟"۔ اس کی دوست ثمرین نے ناک چڑھاتے ہوئے اس سے استفسار کیا۔ 

"تو اور میں کیا کرتی یار؟ ڈیڈ کا حکم تھا! اس لیئے مانتے ہی بنی"۔ وہ بے زاریت سے گویا ہوئی۔ 

"ویسے ماننا پڑے گا۔ بندے کی پرسنالٹی ہے دم دار۔ میں نے ہماری یونی کی بہت سی لڑکیوں کو اس کے ارد گرد منڈلاتے دیکھا ہے۔ دھیان رکھو اپنے محافظ کا۔۔۔کہیں لے نہ اڑیں اسے"۔ شرارت آمیز لہجے میں کہتے ہوئے وہ اسے چھیڑنے لگی۔ اس کی بات پر ماہا کا دل یک بارگی زور سے دھڑکا۔ اس اکھڑ اور آدم بےزار شخص کا ذکر آج کل یونہی بات بے بات اسے ٹھٹھکا دیتا تھا۔ 

"ہاں تو اس میں۔۔۔میں کیا کرسکتی ہوں؟ اور ویسے بھی وہ کوئی چھوٹا بچہ تھوڑی ہے جو یونہی کسی کی بھی انگلی پکڑ کر چل دے گا۔ ہونہہ!"۔ بظاہر بے نیازی سے کہتے ہوئے اس نے ناک سے مکھی اڑائی۔ 

عین اسی وقت اس کی نگاہ کیفیٹیریا میں داخل ہوتی تابین سے ٹکرائی۔ آن کی آن وہ اسے نظرانداز کیئے، قدرے ایک طرف کو خالی پڑی میز کی جانب چل دی۔ ماہا کو اندازہ تھا اس کی ناراضگی کا۔ وہ قیصر اور زیست کے ولیمے والے دن سے لے کر اب تک اس سے قطع تعلق تھی۔ 

دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو وہ سخت خفا تھی۔ جہاں وہ تابین کے کنی کترانے پر پرملال ہوئی۔ وہیں ثمرین نے بھی اس کی اداسی نوٹ کرلی۔ 

"ابھی تک ناراض ہے وہ؟"۔ ثمرین نے ماہا کے چہرے پر بکھرتی اداسی کو دیکھ کر پوچھا۔ جس پر اس نے مایوسی سے سر ہلا دیا۔ 

"اچھا جاؤ جا کر اسے مناؤ۔ آفٹرآل پوری یونیورسٹی میں اس کی واحد دوست تم ہی ہو۔ تمہارے روٹھنے سے وہ کافی اکیلی پڑ گئی ہے"۔ ثمرین نے اسے ٹہوکا دیتے ہوئے کہا۔ 

"ہوں، میں دیکھتی ہوں"۔ وہ جواب دیتی ہوئی فورا اٹھی اور اپنا بیگ سنبھالتے ہوئے تابین کی میز کی جانب آ کر اس کے مقابل بیٹھ گئی۔ 

"یار تمہاری ناراضگی بھائی سے ہونی چاہئے تھی نہ کے اپنی اکلوتی دوست سے"۔ چھوٹتے ہی اس نے گلہ آمیز لہجے میں کہا۔ تابین نے کوئی جواب نہ دیا۔ بس سپاٹ چہرے کے ساتھ ماہا کو دیکھنے لگی۔ 

"اچھا یہ بتاؤ اس دن تم ولیمے کی دعوت چھوڑ کر یوں درمیان میں کیوں چلی گئی تھی؟ اور جب گئی ہی تھی تو اتنا نہ ہو سکا کے اپنی واحد دوست سے مل کر ہی جاتی؟ اور تو اور میڈم میری توقع کے برخلاف دعوت ولیمہ میں شریک بھی ہوئی؟ جب میں نے انویٹیشن دیا تھا تب تو انکار کر گئی تھی تم"۔ وہ سوال در سوال کرتی اس سے کچھ بلوانے کی متمنی تھی۔ اور کچھ نہیں تو کم از کم وہ جواب دینے کو ہی منہ کھول لیتی۔ 

تابین دور خلاؤں میں تکتی زخمی سا مسکرائی۔ 

"تمہارے بھائی نے کسی راہ چلتی کی انگلی تھام لی۔۔۔مگر تابین کا بڑھایا گیا ہاتھ ٹھکرا دیا اور اب ان موصوف کی بہن مجھ سے یہ شکوہ کر رہی ہے کہ میں نے ان کا ولیمے والا ڈرامہ کیوں مس کردیا؟"۔ اس کے لہجے میں ہلکی سی چبھن اور گہرے طنز کی آمیزش تھی۔ 

جس پر لمحہ بھر کیلئے ماہا کچھ بول نہ سکی۔ 

"بھائی کے مزاج سے تو تم واقف ہی تھی۔ پھر کیا ضرورت تھی اپنے جذبوں کو اتنا بڑھاوا دینے کی؟ کیا میں نے روکا نہیں تھا تمہیں؟ سمجھایا بھی تھا کے اگر یہ سب یک طرفہ ہے تو مت بڑھو اتنا آگے کہ پھر پلٹنا مشکل ہو جائے تمہارے لیئے۔ مگر نہ جی۔۔۔تابین بی بی تو ہوائی گھوڑے پر سوار اندھا دھند اپنے جذبوں کی تقلید کرتی رہی اور جب گری تو چوٹ لگوا لینے کا شکوہ بھی میرے گلے ڈال دیا"۔ وہ الٹا اس پر خفا ہوئی۔ 

"مرضِ عشق میں مبتلا دل کسی کی نہیں سنتا ماہا بی بی، انسان ہوش مند رہتا ہی کب ہے اس مرض کے ہو جانے کے بعد؟ پھر تو بس جو دل کہے اس پر لبیک کہنے کو جی چاہتا ہے۔ صحیح غلط سب کا فرق بھول جاتا ہے۔۔۔اگر کچھ یاد رہ جاتا ہے تو بس اپنا محبوب شخص!"۔  وہ ٹرانس کی سی کیفیت میں کہتی جا رہی تھی۔ اور ماہا منہ کھولے آنکھیں پھاڑے حیرت زدہ سی سن رہی تھی۔ 

جوں ہی تابین خاموش ہوئی تو وہ بول پڑی۔ 

"پہلے تم یہ بتاؤ کے اتنی موٹی موٹی باتیں آتی کہاں سے ہیں تمہارے ذہن میں؟ کون سی کتابیں پڑھ رہی ہو آج کل؟ بتانا زرا؟"۔ ایک ابرو اٹھائے وہ طنزیہ پوچھنے لگی۔ 

تابین کے چہرے پر سایا سا لہرایا۔ شدتِ جذبات سے سیاہ آنکھیں جل اٹھیں۔ 

"یہ تم نہیں سمجھوگی۔ کیونکہ تم نے دنیا کی تلخیاں ابھی برداشت نہیں کی ہیں۔ جس کی وجہ تمہارے ارد گرد موجود لوگوں کی محبتیں ہیں۔ وہ لوگ جنہیں تم اپنا کہتی ہو، جو تم سے بے حد محبت کرتے ہیں۔ 

مگر جن کے پاس یہ محبتیں نہیں ہوتی ہیں نا، وہ یونہی وقت سے پہلے عمریں گزار لیتے ہیں۔۔۔عقل و عمر سے کئی زیادہ بڑے ہو جاتے ہیں۔ 

ان کی باتیں بزرگانہ لگتی ہیں۔۔۔اور روح بوڑھی! اپنی عمر سے زیادہ بڑے تجربات رکھنے والا اکثر ایسا ہی ہوتا ہے"۔ اداسی سے کہتے ہوئے وہ اپنا بیگ سنبھال کر اٹھی اور سست روی سے آگے قدم بڑھا گئی۔ 

اپنے پیچھے ماہا کو زندگی کے نئے پہلوؤں پر غور کرنے کیلئے تنہا چھوڑ گئی۔ _______________________________ 

بیڈروم کے دروازے پر ہلکے سے دستک کے ساتھ ہی بہروز کمرے میں آن وارد ہوا۔ 

"کہو کیسے آنا ہوا؟"۔ خاموش کمرے میں اچانک اس کی آواز گونجی۔ 

"کچھ لایا ہوں تمہارے لیئے"۔ 

چند قدم کا فاصلہ طے کرنے کے بعد قریب پہنچ کے ہاتھ میں تھامی فائل میز پر ڈال دی۔۔۔ساتھ ہی خود بھی کرسی سنبھال کر بیٹھ گیا۔ دوسری طرف اس نے ہاتھ بڑھا کر ابھی تک فائل کو اٹھایا نہیں تھا۔ 

بس ایک نگاہ ڈالی تھی۔ 

"قیصر خیام"۔ اگلے ہی پل یہ نام بہروز کے بھاری لب و لہجے سے برآمد ہوکر خاموش کمرے میں گونجا۔ 

اور جس کا سننا ہی تھا کے مقابل موجود ہستی کی ساری بےنیازی بھانپ بن کر اڑ گئی۔ اس نے فوراً سے بیشتر اپنے آگے پڑے فائل کو اٹھا کر نگاہوں کے سامنے کر لیا۔ 

صفحات الٹ پلٹ کر دیکھنے کے بعد اس نے نگاہیں ترچھی کیئے بھائی کو دیکھا۔ 

پھر فائل بند کرکے واپس میز پر پھینک دی۔ 

"مجھے وہ چاہیئے بہروز۔ اسے جلد سے جلد میرے سامنے لاؤ۔ ابھی بہت سے حساب باقی ہیں اس کے میرے"۔ اس کے لہجے میں ایک آنچ سی تھی جبکہ آنکھیں بہت سے اسرار اپنے اندر سمیٹے ہوئے تھیں۔ بہروز نے بلاتامل اس کی اثبات پہ سر ہلا دیا۔ 

مگر وہ کچھ الجھن کا شکار بھی لگ رہا تھا۔ 

"وہ حاجی کا آدمی رہ چکا ہے اور مجھے نہیں لگتا ایسے شخص کو اپنے پروں تلے لینا عقلمندی ہوگی۔ منہ بولا ہی سہی مگر ہے تو وہ ہمارے سب سے بڑے دشمن کا بیٹا"۔ بہروز کے لہجے میں دبا دبا سا احتجاج تھا۔ 

"یہ فیصلہ مجھے کرنا ہے تمہیں نہیں۔ مت بھولو کہ اس نے اسی سو کالڈ باپ کو اپنے ہاتھوں سے قتل کیا تھا"۔ وہی ہٹیلا انداز۔ 

اس بات پر بہروز نے گہرا سانس بھرا۔ 

"تو گویا تم نے ٹھان لی ہے اس پر بھروسہ کرنے کی؟"۔ اس کا انداز سوالیہ تھا۔ لہجے سے ناپسندیدگی جھلک رہی تھی۔ 

"بھروسہ؟"۔ اس کا انداز تمسخر سمیٹ لایا۔ 

بہروز ہنوز جواب کا منتظر تھا۔ 

"پہلے اسے اچھی طرح آگ میں تپانے دو۔ لوہے سے سونا اور پھر کندن بننے دو۔ پھر۔۔۔؟ سوچیں گے"۔ اس کے محظوظ ہوتے انداز کو دیکھ کر یکلخت ہی بہروز کے چہرے کا بھی موسم بدل گیا۔ 

"ضرور تم نے کچھ سوچ رکھا ہوگا اس کیلئے۔ اور کچھ 'اچھا' ہی سوچا ہوگا"۔ باریک مونچھوں تلے اس کے لب مسکراہٹ میں ڈھل گئے۔ اجب وحشی سی مسکراہٹ! 

"اطمینان رکھو، میں اسے وہ سب کچھ لوٹانے کا ارادہ رکھتی ہوں جو کچھ بھی اس نے مجھے دیا ہے۔ وہ بھی سود سمیت۔ ہر چیز کا حساب دینا ہوگا قیصر خیام کو۔۔۔ہر چیز کا!"۔ کہتے کہتے لہجہ سرگوشی نما ہو گیا۔ آنکھیں انتقامی آگ کی جلن سمیٹے ہوئے تھیں۔ 

جلن۔۔۔دل پہ لگے زخموں کی۔۔۔رگوں میں لاوا بن کر دوڑتی بے وفائی کی! _____________________________ 

اس خبر کے ملنے کے بہت سارے دنوں بعد آج جا کر ان دونوں کا آمنا سامنا ناشتے کی میز پر ہو رہا تھا۔ 

زیست کے چہرے پر اب پہلی سی نفرت نہ تھی۔ بلکہ مستقبل کو لے کر گہری سوچیں پناہ گزین تھیں۔ دوسری جانب وہ بھی اسے مخاطب نہ کرنے کی گویا قسم کھائے بیٹھا تھا۔ 

ہاں اتنا ضرور تھا کے اس نے نوکروں کو زیست سے متعلق سخت تنبیہ کر رکھی تھی تاکہ وہ اس کی غیر موجودگی میں بھی اس کا بےحد خیال رکھیں۔ بظاہر وہ اس سے لاپرواہ ہو کر بھی بے پرواہ نہیں تھا۔ 

"میں کل سے جاب جوائن کر رہی ہوں"۔ مصروف سے انداز میں کہتے ہوئے اس نے اچانک اطلاع دی تھی۔ جسے سن کر یک بارگی قیصر نے کھانے سے ہاتھ روک کر اسے دیکھا۔ 

نگاہیں بھر کر دیکھنے پر وہ اسے چہرہ جھکائے بے نیاز نظر آئی۔ 

"یوں بیٹھے بٹھائے اچانک یہ کون سا شوق چڑھ گیا تمہیں؟"۔ کھانا بھول کر دونوں ہاتھوں کی کہنیاں میز پر ٹکاتے ہوئے ایک ابرو اٹھائے اس نے طنزیہ پوچھا۔ 

زیست نے بھی عین اسی وقت نگاہیں اٹھائیں اور اس کی جانب دیکھا۔ 

"بیٹھے بٹھائے نہیں، میں نے بہت دنوں پہلے سے ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا۔ مگر چونکہ آج مجھے جوائننگ لیٹر ملا ہے سو اسی لیئے اب بتا رہی ہوں"۔ ناچاہتے ہوئے بھی وہ اسے تفصیل بتانے لگی۔ جسے سن کر قیصر خیام کو تپ چڑھ گئی۔ 

"کس سے پوچھ کر تم نے یہ فیصلہ لیا؟"۔ بھنویں اکٹھی کیئے وہ بمشکل خود پر قابو پا رہا تھا۔ آنکھوں میں ناگواری اترنے لگی تھی۔ 

اس استحقاق بھرے سوال پر زہرخند ہوتی وہ پہلو بدل گئی۔ 

"کسی سے پوچھنا ضروری نہیں سمجھا اور نہ ہی آگے بھی سمجھوں گی۔ میں اپنے فیصلوں میں آزاد ہوں یہ بات جان لو تم"۔ بھرپور نفرت کے باوجود بھی وہ بولی تو لہجہ زرا دھیما رہا۔ کیونکہ وہ اسے خود پر لاوہ بن کر پھوٹنے کا موقع فراہم نہیں کرسکتی تھی۔ یقیناً وہ آج بھی اس کے اثر سے پوری طرح نہ نکل سکی تھی۔ 

اس کی بات نے قیصر کو اچھا خاصا طیش دلایا تھا۔ 

یک دم وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور گھوم کر اس کے سر پر آن پہنچا۔

اس کی اس قدر پھرتی پر ایک بار کو زی کا دل ڈوب کر ابھرا تھا۔

"میں 'کسی' نہیں ہوں، آئی سمجھ؟ اور پھر جب تک تم میرے گھر میں میرے ساتھ ہو، چاہو یا نہ چاہو، میرا حکم ماننا ہوگا، یہ بات تم بھی جان لو اچھی طرح"۔ سرمئی آنکھوں میں شدید ناگواری لیئے وہ اسی کے انداز میں بولا۔ 

اتنا ہی سننا تھا کہ زیست کے اندر آگ بھڑک اٹھی۔ وہ تو جیسے پہلے ہی بھری بیٹھی تھی۔

"نہیں تو کیا کر لوگے تم ہاں؟ پھر سے ہاتھ اٹھانا ہے مجھ پہ؟ یا مجھے زنجیروں میں جکڑو گے؟ یا پھر اس ڈیمن کے آگے نوالہ بنا کر ڈالو گے مجھے؟ ہاں، بتاؤ 

 کیا کر لوگے تم؟"۔ وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتی بنا ڈرے ہر ایک ظلم اس کا گنواتی چلی جا رہی تھی۔      

بڑی جلن تھی ان سبز آنکھوں میں۔ 

مٹھیاں بھینچتے ہوئے وہ خود پر ضبط باندھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ نگاہیں مقابل کھڑی اس کندنی  صورت پر گڑھی ہوئی تھیں۔ بڑی ہی کاٹ دار تھی وہ سرمئی نگاہ۔

اسے یوں خاموش اور اپنی جانب دیکھتے پا کر وہ مزید گویا ہوئی۔

"مجھے اتنا ٹارچر کرنے کے بعد بھی تمہارا من نہیں بھرا ابھی؟ کیا ضمیر نام کی کوئی شے نہیں تم میں؟

جان تم نے لی کسی بے گناہ کی۔ قاتل تم تھے، کئی زندگیاں اجاڑنے والے بھی تم ہی تھے اور سزائیں دیتے رہے مجھے؟ آخر کیا سوچ کر؟ بولو؟کیوں اتنے ظلم ڈھائے مجھ پر؟"۔ ایک ہاتھ بے دردی سے اس کے سینے پر مار کر کہتے اپنی ہی بات سے اس کا گلا رندھنے لگا تھا۔ 

آنکھیں نا چاہتے ہوئے بھی بھیگنے لگ گئیں تھیں۔ 

وہ جس کیلئے بردباری کا مظاہرہ کرنا پہلے ہی مشکل ہو رہا تھا۔ اب تو جیسے انتہا ہی ہوگئی تھی اس کیلئے۔

ایک قدم کا درمیانی فاصلہ پانٹ کر اس نے اس کے بازو جکڑ لیئے۔

"بس بہت ہو گیا"۔ اس کی بات سن کر احساسِ گناہ اس قدر بڑھا تھا کے وہ اپنی ملال چھپانے کو اسے غصے کی آڑ دے گیا۔

"مجھے میرے گناہوں کی فہرست مت گنواؤ، میں جتنا  صبر کرنے کی کوشش کر رہا ہوں تم اتنی ہی سر چڑھ رہی ہو میرے؟ تم نے سمجھ کیا رکھا ہے مجھے آخر؟ اپنا غلام یا کوئی نوکر جس پر یوں چیخ رہی ہو تم؟ ہمت کیسے ہوئی تمہاری مجھ سے اس طرح بات کرنے کی؟"۔ دبے دبے سے لہجے میں غراتے ہوئے وہ اس پل اپنا آپا کھو چکا تھا۔

آنکھوں میں سرخی اتر آئی تھی۔ 

"کیا سمجھا ہے تم نے مجھے؟ دیکھو میری طرف۔۔۔"۔ دوسرے ہاتھ میں اس کا چہرا دبوچے وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتا اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑا گیا تھا۔

"دیکھو اور اپنی ہر خوش فہمی دور کر لو۔ یہ تو تم بھی جانتی ہوگی کے رحم میں نہیں کیا کرتا کسی پہ۔ اور کبھی سوچنا بھی مت کے دیگر عام شوہروں کی طرح یہ قیصر خیام کتا بن کے تمہارے اشاروں پر چلے گا۔ ابھی اگر خیال نہ ہوتا نا اپنے بچے کا۔۔۔تو یہی قصہ پاک کر دیتا۔ اور مجھے افسوس تک نہ ہوتا"۔ سلگتے لہجے میں کہتا وہ اس پل حد درجہ سفاک ہوا تھا۔ 

وہ ٹرانس کی سی کیفیت میں اسے تکتی چلی جا رہی تھی۔ اسے اپنے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوتے محسوس ہو رہے تھے۔ جسم بے جان سا ہونے لگا تھا۔ 

"جو کہہ رہا ہوں اب وہ دھیان سے سنو اور ذہن میں بٹھا لو"۔ انگشت شہادت سے سنہری پیشانی پر دستک دی۔

"میری مرضی یا اجازت کے بغیر تم اس گھر سے ایک قدم باہر نہیں نکالو گی۔ کھانا پینا سونا سب تمہارا وقت پر ہوگا اور میرے مقرر کیئے گئے وقت پر ہوگا۔ ورنہ بصورت دیگر میرے خلاف جانا کیسا رہے گا یہ تم شاید اب بہتر طور پر جان گئی ہوگی"۔ تنبیہ کرتے ہوئے آخر میں طنزیہ انداز اپناتے انگلی سے اس کا رخسار چھوا۔

اتنا ہی سننا تھا کہ زیست کا سر یکلخت ہی چکرایا

اور وہ اپنے ہلکے وزن کے ساتھ اگلے ہی پل اس کے بازوؤں میں جھول گئی۔

اس کے یوں ہوش گنوا دینے پر غصہ بھول کر وہ ششدر سا رہ گیا۔ 

_______________________

"انہیں کافی زیادہ ویکنس ہے۔ آپ پلیز ان کا خیال رکھیں اور ٹینشن والی باتوں سے کوشش کریں انہیں دور ہی رکھا جائے"۔ لیڈی ڈاکٹر کمرے کے دروازے پر کھڑی قیصر کو ہدایات دے رہی تھیں۔

پھر ان کے جانے کے بعد اس نے خود کو بیڈ سے زرا فاصلے پر رکھے ٹو سیٹر پر گرا دیا۔ سیاہ بال مٹھی میں بھینچتے نگاہیں بیڈ پہ آنکھیں بند کیئے پڑے اس وجود پر آ ٹھہریں۔

"آہ قیصر خیام، دیکھو یہ تم نے کیا کردیا ہے۔۔۔اپنے ساتھ اور اس معصوم لڑکی کے ساتھ بھی۔ اپنے جذبات کی رو میں بہہ کر پہلے اس کی زندگی اجاڑی۔ اور اب۔۔۔۔"۔ وہ بے دھیانی میں اس کا چہرہ تکتے جا رہا تھا۔

"اب تم اسے اپنے ساتھ رکھ کر مزید زیادتی کر رہے ہو اس سے۔ تم تو خود ایک اجڑے بکھرے شخص ہو، یہ جانتے بھی ہو کے تم اسے کچھ نہیں دے سکتے۔ وہ سب جس کی یہ حقدار ہے"۔ اس کا ضمیر اسے طعنے دے رہا تھا۔ وہ اتنا بے چین ہوا کے بیٹھے سے اٹھ کھڑا ہوگیا۔

قدم بے خیالی میں آگے بڑھتے ہوئے بیڈ کے قریب آ رکے۔ اس کا چہرہ تکتے ہوئے لمحہ بھر کو اس کی بصارتیں دھندھلائی۔ خم دار پلکیں جھپکیں تو اب اس کی جگہ کوئی اور ہی چہرہ نظر آیا تھا۔ 

یہ چہرہ۔۔۔۔جو اس کے دل کے بہت قریب تھا! ایک لمحہ ہی لگا تھا سرمئی آنکھوں کی کیفیت بدلنے میں۔ وہ خواب کی سی کیفیت میں اس کے چہرے کے نزدیک جھکا۔ مضبوطی انگلیاں یوں اس معصوم اور شفاف چہرے پر آ ٹھہریں جیسے وہ یقین کرنا چاہتا ہو کے آیا یہ کوئی خواب تو نہیں ہے۔

"ا۔۔۔الوینا"۔ لبوں سے سرد آہ کی صورت بے یقین سی صدا برآمد ہوئی تھی۔ جو بہت بلند نہیں تھی۔ گہری نگاہوں کی تپش اور ہاتھوں کا نرم لمس محسوس ہونا ہی تھا کہ زیست کی پلکیں وا ہوئیں۔

لحظہ بھر کیلئے تو وہ کچھ سمجھ نہ پائی۔ مگر جوں ہی اپنے قریب اس شخص کا چہرہ دیکھا اس کے حواس خود بخود ٹھکانے آتے چلے گئے۔

وہ جو اس پر الوینا کا گمان کیئے ہوئے تھا۔ اس سوئے ہوئے چہرے کے نقوش میں ہلچل پیدا ہوتے دیکھ کر ہوش کی دنیا میں واپس آیا اور زرا پیچھے کو ہو کر اس کی جانب تکنے لگا۔ سرمئی آنکھوں میں کچھ لمحے قبل امڈ آنے والے جذبے اب یکسر ہی بدل چکے تھے۔ زیست نے بھی فوری اس کی جانب سے منہ پھیر لیا۔

"میں نے جو کہا اس پہ اب بھی قائم ہوں۔ اس گھر اور خاص طور پر آپ کے ساتھ رہ کر مجھے وحشت سی ہونے لگی ہے۔ میں باہر جانا چاہتی ہوں۔ آپ سے اور آپ کے اس قید خانے سے کچھ دیر ہی سہی مگر دور رہنا چاہتی ہوں"۔ وہ اس کی جانب دیکھے بنا، یونہی منہ پھیرے اس سے مخاطب تھی۔ جیسے اسے اس کی آنکھوں سے خوف آتا ہو یا پھر جیسے وہ اپنے تاثرات چھپا لینا چاہتی ہو۔

اندازِ تخاطب پھر سے شریفانہ ہو گیا تھا۔ جیسے کچھ دیر قبل اس کے سامنے ڈٹ جانے والی وہ نہیں کوئی اور ہی تھی۔

اس کی ہٹ دھرمی پہ وہ نچلا لب دانتوں تلے دبائے اسے دیکھتا رہ گیا۔ بولا کچھ نہیں۔

وہ کچھ لمحے خاموش رہی۔ جیسے کسی سخت جملے کی توقع کر رہی ہو۔ مگر قیصر کی طرف سے خاموشی پا کر اس نے اپنا رُخ اس کی جانب کیا۔ گویا تصدیق کرنا چاہ رہی ہو کہ آیا وہ موجود بھی ہے یا نہیں۔

جب اس کا سپاٹ چہرہ سامنے آیا تو زیست کو یقین ہوا کے وہ اب بھی وہی موجود ہے۔

"کچھ کہنا نہیں آپ نے؟"۔ اس کی خاموشی پہ وہ تلملا کر پوچھنے لگی۔

قیصر نے گہرا سانس بھرا۔

"نہیں، ٹھیک ہے منظور ہے تمہاری بات مجھے"۔ حد درجہ اپنے اوپر قابو رکھتے ہوئے وہ دھیمے لہجے میں بولا تھا۔

"تم آرام کرو اب"۔ اتنا کہہ کر وہ جانے کیلئے مڑا تھا جب اس کے اگلے سوال نے قیصر کے قدم جکڑ لیئے۔

"یہ الوینا کون ہے؟"۔ حتی الامکان اپنا لہجہ عام سا رکھتے ہوئے اس نے پوچھا تھا۔

جب کہ کہیں نہ کہیں وہ خود بھی جانتی تھی، اندازہ کر سکتی تھی کے الوینا کون ہو سکتی تھی۔

اس کے سوال پر وہ یوں مڑا تھا جیسے زیست نے کوئی انہونی بات کہہ دی ہو۔

اس غیر متوقع سوال پر وہ چند لمحوں تک کچھ بول ہی نہ سکا تھا۔ 

زیست کو اس کے زبان سے الفاظ نکلنے تک کا انتظار کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ وہ اس کے چہرے پر تحریر درد بخوبی پڑھ پا رہی تھی۔ اور یہی تو آ کر اس کی حیرانی حد سے سوا ہو جاتی تھی۔ بھلا قیصر جیسا شخص بھی کسی کیلئے اتنا درد رکھ سکتا ہے؟ یہ ماننا اس کیلئے بہت مشکل تھا۔

وہ یک ٹک اس کا چہرہ تکتی جواب کی منتظر تھی۔ کچھ دیر تو یونہی خاموشی کی نظر ہو گئے۔

پھر وہ چلتا ہوا واپس اس کے پاس اسی جگہ آ گیا جہاں سے چلا تھا۔

زیست بھی آہستگی کے ساتھ لیٹے سے اٹھ بیٹھی۔ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتے ہوئے اس کی نگاہیں ایک لمحہ قیصر کے چہرے سے غافل نہ ہوئی تھی۔

وہ آہستگی سے اس کے قریب ڈھے جانے والے انداز میں بیٹھ گیا۔

زیست کو اس کا انداز تھکا تھکا سا لگا تھا۔ جیسے یک دم بہت سارا بوجھ اس کے کاندھوں پر آن پڑا ہو۔ اتنا زیادہ بوجھ کے قیصر جیسے مضبوط شانوں والے کیلئے بھی اسے سہارنا مشکل ہو رہا تھا۔

"تم یہ کیوں پوچھ رہی ہو؟"۔ جواب دینے کے بجائے وہ الٹا اس سے سوال کرنے لگا۔

"کیا آپ بتانا نہیں چاہیں گے؟"۔ اپنا تذبذب چھپانے کو وہ پھر سوال کر گئی۔

اس کی معصومیت پر ناچاہتے ہوئے بھی وہ نجانے کیوں مسکرانے پر مجبور ہوگیا۔

"یہ تم اب میری چاہت کے بارے میں پوچھ رہی ہو؟ جو کچھ دیر قبل ہی میری بات کو نظرانداز کرکے اپنی مرضی سنا چکی تھی"۔ زیر لب اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے نجانے وہ شکوہ کر رہا تھا یا بس کسی طرح اس کے سوال سے بچنا چاہ رہا تھا۔ وہ سمجھ نہ سکی۔ بس اس کی بات پر لاجواب ہو گئی۔ 

پھر وہ اس کے جواب کا انتظار کیئے بغیر بیٹھے سے کھڑا ہو گیا۔

"خیر چھوڑو یہ سب۔ تمہاری امی کو میں نے بلوایا ہے وہ دوپہر تک یہاں ہوں گی"۔ اچانک اس نے یہ خبر اس کے گوش گزار کی۔

جس پر وہ چونک سی گئی۔

"امی آ رہی ہیں۔ کب بلوایا آپ نے انہیں؟اور کس لیئے؟"۔ وہ اس سے اس عمل کی بھلا کب توقع کر رہی تھی۔ اور وہ بھی بنا کسی مقصد کے؟ لہٰذا خوش ہونے یا خوش فہمی میں مبتلا ہونے کے بجائے وہ سیدھا مدعے پہ آ گئی۔

اس کے سوال سے وہ بخوبی سمجھ گیا تھا اس کی کیفیت۔ دونوں ہاتھ پینٹ کی جیب میں ڈالے اچانک وہ سنجیدہ نظر آنے لگا۔

"بس تاکہ جب وہ یہاں رہیں تو ان کے سامنے تم تھوڑی شرافت دکھاتے ہوئے مجھے تم تم کہنے کے بجائے آپ آپ پکارتی نہ تھکوں۔ اور یہ کہ جو بھی کام میں کہوں اس سے انکار بھی نہ کر سکو۔ اور یہ بھی کہ تمہاری دوڑیں لگوا دوں تو تب بھی تم خاموش ہی رہو اور بس ایک اچھی خدمتگزار بیوی کا کردار ادا کرتی رہو"۔ آخر تک آتے آتے اس کا لہجہ چھیڑنے والا ہو گیا تھا۔

اور وہ جو منتظر سی بڑی ہی سنجیدگی کے ساتھ کوئی اہم جواز سننے کی توقع کر رہی تھی اس کے الفاظ اور سرمئی آنکھوں میں چمکتی شرارت کی آمیزش دیکھ کر جل تھل ہو گئی۔ 

"ہونہہ! یہ صرف اور صرف آپ کی خوش فہمی ہو سکتی ہے اور کچھ نہیں۔ امی کو بلوا کر ان کے سامنے  مجھ سے اپنی خدمتیں کروانے کا آپ کا خواب بس خواب ہی رہے گا"۔ ناک چڑھا کر کہتی وہ ہری جھنڈی دکھا گئی۔

"اچھا تو تم چیلنج کر رہی ہو مجھے؟"۔ وہ ایک قدم اٹھا کے اس کے نزدیک جھکا۔

زیست سٹپٹا کے پیچھے ہوتی بیڈ کراؤن کے اندر پناہ گزین ہونے لگی۔

"اا۔۔۔اب ہاں بالکل، جو آپ سمجھیں"۔  کلون کی مہک اس کے حواس مخمل کر گئی تھی۔ سارے الفاظ ساری اکڑ سب دھرے دھرے کے رہ گئے۔ 

وہ اس کے نزدیک جھکا اس کی گھبراہٹ واضح پا گیا تھا۔ 

پہلی بار وہ اس کے سنہری چہرے پر قوس و قزح کے رنگ بکھرتے اور ان سیاہ پلکوں کو لرزتے دیکھ رہا تھا۔ جو اسے چونکا رہے تھے۔ وہ یوں گلنار ہو رہی تھی جیسے وہ اس کا محبوب ہو یا جیسے وہ پہلی بار اس سے نزدیک ہوا ہو۔ قیصر خیام کو اس کے انداز ٹھٹھکا رہے تھے۔ 

آہستگی سے پیچھے ہٹتے ہوئے اس نے فوری فاصلہ بڑھایا تھا۔ 

"تم تھوڑی دیر آرام کر لو، میں کام سے جارہا ہوں باہر"۔  اس نے فورا سنجیدگی اوڑھ لی۔

زیست نے اس کی بات پر بوجھل پلکیں اٹھائیں۔ وہ اس کی جانب ہی دیکھ رہا تھا۔

"باہر نہ جانا اکیلی، جو بھی کام ہو ملازموں سے کہہ دینا"۔ تنبیہ کرتا ہوا ایک آخری نگاہ اس پہ ڈال کے وہ کمرے سے باہر نکل گیا تھا۔ 

جبکہ وہ تادیر اس خالی جگہ کو دیکھتی رہ گئی جہاں وہ کچھ دیر قبل موجود تھا۔

_________________________

کانچ کی میز پر دھرا فلاور واز اٹھا کر پوری قوت سے دیوار پر دے مارا تھا۔

ہاتھ میں جو بھی چیز آ رہی تھی وہ اسے تہس نہس کرتے جا رہے تھے۔

ان کا خاص آدمی جاوید کمرے کے دروازے میں ایستادہ یہ تماشا نجانے کتنی دیر سے دیکھ رہا تھا اور بارہا کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتا تھا۔

"سب برباد کردیا۔ میری اتنے سالوں کی محنت، برسوں کی ساکھ و عزت اس کمینے نے دو منٹ میں تار تار کرکے رکھ دی۔ سب برباد کر دیا سب کچھ"۔ اب انہوں نے کانچ کی چھوٹی سی خوبصورت میز بھی الٹ دی تھی۔

پھر ہانپتے ہوئے سینے پر ہاتھ رکھ کے صوفے پر گرنے کے سے انداز میں بیٹھ گئے۔

ان کی حالت کے پیش نظر جاوید تیزی سے ان کی جانب آیا تھا۔

"سر آپ ٹھیک تو ہیں نا؟ میں ڈاکٹر کو بلواؤں؟"۔ اس نے فکرمندی سے پوچھا۔

فضل بیگ نے اس کے ہاتھ جھٹک دیئے۔ سینے کو اب بھی بری طرح مسل رہے تھے وہ۔

"ہٹ جاؤ۔ تم نکمّے ہو سب کے سب"۔ وہ سانس لینے کی کوشش میں ہلکان ہوتے اتنا ہی کہہ سکے۔

"فضل بیگ ارے کہاں ہو یار تم؟"۔ ایس-پی ضیاء پکارتے ہوئے ان کے کمرے میں داخل ہورہے تھے۔ جوں ہی قدم اندر پڑے بیڈروم کا حال دیکھ کر وہ ٹھٹھک کر وہیں رک گئے۔ 

جاوید اور فضل بیگ دونوں نے اس آواز پہ نگاہیں اٹھائیں۔ سامنے سے وہ اندر چلے آ رہے تھے۔ 

"کیا ہوا میرے دوست میرے یار؟ یہ سب کیا حال بنا رکھا ہے؟"۔ وہ کانچ سے بچتے بچاتے ان کے قریب پہنچے۔

ہاتھ کے اشارے سے جاوید کو وہاں سے نکل جانے کا کہا۔

وہ ان کے حکم پہ سر ہلاتا انہیں اکیلا چھوڑ گیا۔ 

"اب بتاؤ سب کچھ تفصیل سے"۔ وہ ہمہ تن گوش تھے۔

"اس حرام زادے نے سب کچھ تباہ کر دیا ضیاء۔ میری ساری محنت مٹی میں ملادی۔ اتنا وقت لگا کر جو طاقت ہم نے اکٹھا کیا تھا وہ سب اس نے ایک ہی پل میں چھین لیا۔ سب کچھ دیوالیہ کر دیا اس قیصر خیام نے"۔ وہ دانت پہ دانت جما کر کہتے اپنا درد اور غصہ دونوں ہی ضبط کرنے کی ناکام کوشش میں تھے۔

ان کی اثبات پہ ضیاء کے ماتھے پر بھی بل پڑنے لگے۔

"ٹھیک کہہ رہے ہو تم۔ جب سے یہ کم ذات ہماری زندگیوں میں آیا ہے زہر گھول دیا ہے اس نے۔ اور اب وہ بے وقوف بہروز بھی اپنے دیگر دوستوں کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اسے اپنے ساتھ ملانے کی سوچ رہا ہے"۔ انہوں نے ایک نئی اطلاع دی۔

جس پر فضل کے جبڑے بھنچ گئے۔

"تم جانتے بھی ہو اس کا مطلب؟ وہ کن اونچائیو پر پہنچ جائے گا کچھ پتہ بھی ہے تم لوگوں کو؟"۔ وہ آپے سے باہر ہوئے۔

"اچھی طرح سمجھتا ہوں یار میں بھی یہ سب"۔ ضیاء نے بھی تپ کر جواب دیا۔

"کچھ کرنا پڑے گا اس شخص کا ضیاء۔ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا"۔ فضل کسی نتیجے پر پہنچ رہے تھے۔ 

وہ چونک سے گئے۔

"ہاں، اب وہی کریں گے جو اس نے اپنے باپ کے ساتھ کیا تھا"۔ اچانک ان کے دماغ نے ایک شیطانی خیال سجھایا تھا۔

"ٹھیک کہا تم نے۔ اس کمینے کا وقت اب پورا ہو چکا ہے۔ بہت دھوکا دے لیا اس نے موت کو۔ اب نہیں بچنا چاہیئے یہ۔ آج ہی اس کا بندوبست کرو تم جب تک میں اس کا مرا ہوا چہرا نہ دیکھ لوں مجھے چین نہیں آئے گا ضیاء"۔ ان کے لہجے میں قیصر کیلئے زہر ہی زہر تھا۔

"قیصر کے جتنے دشمن ہیں۔ اس سے کئی زیادہ اس کے چاہنے والے موجود ہیں کتوں"۔ دروازے پر کان لگائے کھڑا وجود زیر لب ان دونوں سے مخاطب ہوا تھا۔

__________________________

دوپہر تک فرزانہ بیگم ان کے ہاں پہنچ چکی تھیں۔ تب تک قیصر کی بھی گھر واپسی ہو گئی تھی۔ ماں کو دیکھ کر وہ یوں خوش تھی جیسے اداسی پاس بھی نہ بھٹکی ہو کبھی اس کے۔

لاؤنج میں وہ اپنی ماں کے ساتھ چمٹی بیٹھی ان سے باتوں میں مگن تھی۔ جب زینے اترتے ہوئے قیصر کی نگاہ سنہری جلد والے اس کے چہرے پر پڑی۔ جس کی چمک آج حد سے سوا تھی۔

نجانے کیوں اس کے ذہن کو ایک شرارت سوجھی تھی۔

"تو بیگم صاحبہ خوش ہیں آپ اب؟"۔ وہ اس کے برابر آ کر صوفے پہ بیٹھتے ہوئے محبت پاش لہجے میں بولا۔

فرزانہ بیگم زیست سے اس کی نرمی دیکھ کر کچھ مطمئن سی ہو گئیں۔

"جی بالکل۔ کچھ دیر پہلے تک خوش ہی تھی"۔ آخری جملہ اس نے زیر لب کہا تھا۔ جو ماں نے تو نہیں البتہ میاں کے کانوں تک ضرور پہنچ گیا تھا۔

اس کی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی۔

"تو کیوں نہ اپنی خوشی میں آج تم مجھے اور آنٹی جی کو اپنے ہاتھوں سے بنا کھانا کھلاؤ!"۔ دنیا جہاں کی خوشگواری اپنے لہجے میں سموئے قیصر نے بڑے پیار سے تجویز دی۔

اس نئی فرمائش پر تو وہ غش کھاتے کھاتے رہ گئی۔

"مم۔۔۔میں؟ مگر۔۔۔"۔ وہ منمنائی۔

"ہاں بیٹا، بنا دو جب شوہر اتنی چاہ سے کہہ رہا ہے"۔ اس کے کچھ کہنے سے قبل ہی انہوں نے اس کی بولتی بند کروا دی۔

اس کی تیکھی نگاہیں پاس بیٹھے قیصر کا نشانہ لے چکی تھیں۔ اب ان کے سامنے تو وہ کوئی بدتمیزی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔

وہ ایک ابرو اٹھائے اسے یوں دیکھ رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو "میں نے تمہیں کہا تھا نا!"۔

"جی۔۔۔ٹھیک ہے"۔ زبردستی کی مسکراہٹ وہ چہرے پر سجاتی اتنا کہہ کر اٹھ گئی۔

فرزانہ بیگم بیٹی کی سستی اچھی طرح جانتی تھیں۔ اور وہ اچھی ماں کی طرح اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتیں انکار سے قبل ہی اس کی بات اچک گئیں۔ 

اس بات سے انجان کے وہ دونوں تو محض سکون لیتے تھے۔ ایک دوسرے کو سلگا کر۔

وہ برے برے منہ بناتی ہوئی کچن میں داخل ہوئی۔ جہاں اس وقت ملازمہ دوپہر کے کھانے کی تیاریاں کر رہی تھی۔ 

اگر اس وقت اس کی ماں ان کے گھر نہ موجود ہوتیں تو وہ اس نئے مطالبے کی گٹھڑی بنا کر اس شخص کے منہ پر دے مارتی۔ 

"بیگم صاحبہ میں کچھ مدد کروں؟"۔ ملازمہ نے اسے شش و پنج میں مبتلا دیکھ کر اپنی خدمات پیش کیں۔ 

"نہیں تم جاؤ"۔ بھوئیں اکٹھی کیئے اس نے حکم جاری کیا۔ جس پر ملازمہ حکم بجا لاتی ہوئی وہاں سے کھسک گئی۔ 

بالآخر وہ کمر بستہ ہو کر میدان میں آ گئی۔ ڈیڑھ گھنٹے کی مشقت کے بعد اس نے اپنے اور قیصر کیلئے الگ کھانا بنایا اور ماں کیلئے پرہیزی کھانا علیحدہ کر لیا۔ 

"بہت شوق ہے نا اس کو میرے ہاتھوں سے بنا کھانا کھانے کا۔ اب کھائے زرا"۔ باری باری اس کے تمام کھانوں میں مرچوں کی مقدار حد درجہ بڑھاتے ہوئے وہ ساتھ ساتھ بڑبڑا بھی رہی تھی۔ دس منٹ بعد ہی ملازمہ کی مدد سے اس نے کھانا میز پر چن دیا تھا۔ جوں ہی وہ مڑی، وہ اسے سفید قمیض کے کف موڑتا ہوا ڈائننگ روم میں داخل ہوتا نظر آیا۔ فاتحانہ چمک لیئے، گہری سرمئی آنکھیں زیست کے چہرے کا طواف کر رہیں تھی۔ قریب پہنچنے پر وہ اس کے مقابل رک گیا۔ 

"اب تم صحیح معنوں میں میری بیوی کے فرائض انجام دے رہی ہو"۔ چہرے پر جاندار مسکراہٹ لیئے وہ سرگوشی میں بولتا زیست کو جلانے لگا۔ 

"جب نصیب پھوٹ ہی گیا ہے تمہارے ساتھ تو قبول کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں"۔ وہ لفظ چباتے ہوئے جواباً بولی۔ 

"اتنا کیوں مرچیں چبا رہی ہو؟ اتنا بھی برا نہیں ہوں میں۔۔۔بلکہ اچھا خاصا ہوں۔ آج بھی حسینائیں مرتی ہیں مجھ پہ"۔ اس کے قریب جھکتا ہوا وہ اسے چھیڑنے لگا۔ اثبات پر زیست کا چہرا غصے سے تمتمانے لگا۔ 

"یقیناً ان حسینوں کو جان بہت سستی ہوگی"۔ تڑخ کر جواب دیا۔ اس کی سرخ پڑتی ناک پر نگاہ جمائے وہ مسلسل مسکرا رہا تھا۔ 

"آہم آہم"۔ ان دونوں کی نزدیکی دیکھ کر فرزانہ بیگم رخ موڑتے ہوئے کھنکھاری۔ جس پر زیست گڑبڑا سی گئی۔ قیصر بھی فاصلے پر ہو گیا۔ 

"امی، آئیں نا! بیٹھیں"۔ اس نے سنبھل کر ماں سے کہا۔ ان کے نشست سنبھالتے ہی کھانے کا دور شروع ہو گیا۔ چور نگاہوں سے قیصر کا جھکا چہرا دیکھتے ہوئے زیست خود ماں کیلئے بنائے گئے پرہیزی کھانے میں سے کھا رہی تھی۔ 

جوں ہی پہلا نوالہ منہ میں گیا اس کی زبان دہک اٹھی۔ سختی سے لب بھینچے وہ تیز نگاہوں سے بیوی کو دیکھنے لگا۔ جو اس کی حالت سے حظ اٹھاتے ہوئے مسکراہٹ چھپانے کی کوشش بھی نہیں کر رہی تھی۔ 

"کیا ہوا بیٹا؟ کھانا کیوں نہیں کھا رہے؟"۔ فرزانہ بیگم نے چونک کر اس کے رکے ہاتھ کو دیکھا۔ جس نے پہلے نوالے کے بعد دوسرا نہیں لیا تھا۔ 

سرمئی آنکھیں سرخ ہونے لگیں تھی۔ ان کے سوال پر اس نے تیکھی نگاہوں سے زیست کو دیکھا پھر کسی خیال کے تحت اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ پانی کا گلاس چڑھانے کے بعد وہ گویا ہوا۔ 

"دراصل کیا ہے نا کہ زیست جب تک میرے ساتھ ایک ہی پلیٹ سے کھانا نہ کھائے تو میں بھی اس وقت تک کھانا شروع نہیں کرتا"۔ محبت پاش لہجے میں جواب دیا۔ زیست نے اس کی بات پر کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ 

"بس اتنی سی بات، زیست!"۔ فرزانہ نے اشاروں کنایوں میں اسے کچھ سمجھایا۔ 

"امی وہ کھانا بہت ہیوی ہے"۔ وہ منمنائی۔ اپنا داؤ خود پر ہی الٹا پڑتا محسوس ہو رہا تھا۔ 

"تم کم از کم میری خوشی کیلئے ایک یا دو نوالے تو لے ہی سکتی ہو نا!"۔ وہ معصوم سی صورت بنائے چاہت بھرے انداز میں اصرار کرنے لگا۔ 

"ہاں، ایک دو نوالے سے کچھ نہیں ہوتا"۔ صورتحال سے انجان فرزانہ نے بھی قیصر کی حمایت کردی۔ جس پر وہ منہ بسورتی ہوئی قیصر کو دیکھنے لگی۔ جس نے مسکراتے ہوئے اپنا کھانا اس کے آگے کر دیا تھا۔ زیست نے اس کی فاتحانہ چمکتی آنکھوں میں دیکھنے کی قطعی غلطی نہیں کی تھی۔ مرے مرے ہاتھوں سے نوالہ بنا کر اس نے منہ میں رکھا۔ 

"سسس۔۔۔ہائے اللہ!"۔ پہلا نوالہ لیتے ہی کانوں سے دھواں نکلنے لگا تھا۔ 

"کیا ہوا؟ کیا ہوا بیٹا؟"۔ فرزانہ فورا پریشان ہو گئیں۔ 

"امی۔۔۔مرچیں۔۔۔مرچیں"۔ پانی سے بھرا جگ اس نے بنا سوچے سمجھے ہی منہ سے لگا لیا۔ 

"زیست تم ٹھیک ہو نا؟"۔ قیصر فکرمندی سے آگے کو ہوا۔ وہ خونخوار نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔ 

"آخر اتنی مرچیں تم نے ڈالی ہی کیوں کھانے میں؟"۔ انہیں اب اس پر غصہ آنے لگا تھا۔ پھر اگلے بیس منٹ تک وہ اسے صلواتیں سناتی رہیں۔ قیصر ہنسی ضبط کرتا رہا۔۔۔اور خود وہ خون کے گھونٹ بھرتی اسے گھورتی رہی۔________________________

ہوٹل کے داخلی دروازے پر پہنچ کر بھرپور سیکورٹی چیکس سے گزرنے کے بعد ہی اسے اندر جانے کی اجازت دی گئی تھی۔

البتہ اس کا ہتھیار، موبائل سب ہی کچھ انہوں نے باہر روک کر لے لیا تھا۔

"یہ پھول تو دے دو یار، تمہارا مالک کہے گا کتنا کنجوس آدمی ہے جو خالی ہاتھ ملنے چلا آیا"۔ اندر داخل ہوتے ہوئے اس نے گارڈ سے کہا۔ 

وہ اجازت طلب نگاہوں سے مینجر کو دیکھنے لگا۔ ہاتھ کے اشارے سے مینجر نے بوکے لے جانے کی اجازت دے دی۔

وہ شکریہ کہہ کر اندر کی جانب بڑھ گیا۔

"لگتا ہے پی کے آیا ہے جو اکیلے آنے کی سوجھی اسے۔ ورنہ شیر کی کچھار میں کبھی تنہا نہ آتا"۔ گارڈز آپس میں گفتگو کرتے ہوئے اس کی کم عقلی پر ماتم کر رہے تھے۔

لاؤنج میں داخل ہونے کے بعد اس نے خوبصورتی سے سجایا گیا بڑا سا بوکے دونوں صوفوں کے درمیان موجود کانچ کی میز پر رکھ دیا۔

"یہ ہماری پہلی ملاقات کے نام"۔ بہروز کے مقابل نشست سنبھالتے ہوئے اس نے پرتکلف انداز میں کہا۔

جس پر وہ کسی قدر متاثر نظر آنے لگا۔

وہ دونوں شخصیات اس وقت آمنے سامنے بہروز کے ہوٹل میں موجود تھے۔ 

آف وہائٹ کلر کے تھری پیس سوٹ میں ملبوس، سرمئی آنکھوں پر سیاہ لینسز کا پردہ چڑھائے وہ اس وقت بہروز ولید عثمان کے مقابل بیٹھا تھا۔ عمریں دونوں کی لگ بھگ برابر تھیں۔ مگر تجربے اور سوچنے کے انداز میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ بہروز کسی کی حاکمیت تلے کام کرتا تھا اور قیصر خیام تو پھر آسمان پہ اڑان بھرتا ایک آزاد پنچھی کی حیثیت رکھتا تھا۔

ٹانگ پہ ٹانگ جمائے کسی قدر مغروریت سے بیٹھا بہروز سپاٹ چہرے کے ساتھ اس کی آنکھوں میں جھانکتا جانے کس کھوج میں تھا۔ اس کے صوفے کی پشت پہ رانا ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔ جس کی نگاہیں اپنے مالک کے مقابلے میں بیٹھے قیصر کا جائزہ لے رہیں تھی۔

بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی میں پہنا فیروزہ گھماتے ہوئے وہ اس کا جائزہ لے رہا تھا۔

"کیوں ملنا تھا مجھ سے؟"۔ کافی دیر گزرنے کے بعد پہلی بار قیصر نے لب کشائی کی۔

"یہ دیکھنے کیلئے کہ جیسا سنا تھا ویسے تم ہو بھی یا بس خالی ڈینگیں مارنے کی عادت ہے"۔ صوفے پر آگے ہو کر بیٹھتے ہوئے وہ طنزیہ لب و لہجے میں بولا۔

قیصر کے لبوں پر خفیف سی مسکراہٹ رینگ گئی۔

"مجھے عادت نہیں ہے خود کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کی۔ جو بھی آج تک میرے متعلق تم نے سنا وہ لوگوں کی اپنی رائے ہے میرے بارے میں۔ جس سے میرا کوئی لینا دینا نہیں۔ میں اپنے کام سے کام رکھتا ہوں"۔ دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے اس نے اپنا دامن جھاڑ لیا۔

"تو فضل کے کام میں تم نے کس لیئے ٹانگ اڑائی؟"۔ ایک ابرو اٹھائے بہروز نے اگلا سوال داغا تھا۔

سوال سن کر وہ کان کی لو مسلنے لگا۔

"میں نے اس سے وہ لیا جو میرا تھا۔ وہ کیا ہے کہ

میری چیزیں زیادہ دیر کسی اور کے پاس ٹکتی نہیں ہیں۔ کیونکہ میں وقت پڑنے پر اکثر انہیں یونہی چھین لیا کرتا ہوں"۔ شانے اچکاتے ہوئے عام سے انداز میں بتایا۔

انگلی میں پہنی انگوٹھی وہ اب بھی گھما رہا تھا۔

"کیوں تمہارے باپ کا راج ہے جو تم کسی سے کچھ بھی چھینتے پھروگے؟"۔ بہروز کے جبڑے بھنچ گئے۔

اسے لگا تھا کے وہ اس کے سامنے جھکے گا۔ اس کے جوتے سیدھے کرے گا۔ مگر یہ شخص تو پوری شان سے ناصرف اس کے سامنے بیٹھا تھا بلکہ اپنی طاقت کا دعوٰی بھی کر رہا تھا۔

"یہی سمجھ لو۔ میرے باپ کا ہی تو راج تھا۔ یہ سب اور وہ سب جو تمہارے پاس ہے وہ بھی سب میرے باپ کا ہے"۔ پرسکون لہجے میں کہتا ہوا وہ اسے ہر لمحہ آگ میں جھونک رہا تھا۔

"حد میں رہو اپنی۔ ورنہ اس ہوٹل سے تمہاری لاش ہی باہر جائے گی"۔ رانا نے اچانک پستول نکالتے ہوئے دھیمے لہجے میں اسے دھمکایا۔

اس کی بات پر وہ یوں ہنسا جیسے کوئی لطیفہ سن لیا ہو۔

اس کے یوں ہنسنے پر رانا بہروز کا منہ تکنے لگا۔ وہ خود بھی لب بھنچے یہ سب ملاحظہ کر رہا تھا۔ جس پر قیصر نے اپنی انگوٹھی دکھائی۔

"یہی بات اور بالکل اسی طرح فضل نے بھی کہی تھی۔ مگر۔۔۔چچ۔۔۔چچ۔۔۔چچ۔۔۔ بہت برا ہوا بے چارے کے ساتھ"۔ وہ تمسخرانہ لہجے میں کہتا ان دونوں کو متوقع حالات سے خبردار کر رہا تھا۔ انگوٹھی پر سے نیلی تہ سرکتے ہی انہیں ریموٹ کے بٹنز جیسی چیز نظر آئی تھی۔

"یہ کھلونا کچھ سال پہلے ہی تمہارے ہاتھ لگا ہوگا۔ مگر ہمارا کافی وسیع تجربہ ہے اس سے کھیلنے کا۔ اس لیئے بہتر یہی رہے گا کہ تم اسے وہی رکھو جہاں سے برآمد کیا ہے۔ کیونکہ یہ پھول میں تم لوگوں کی قبریں بنانے کیلئے پہلے سے ہی تیار کرکے لایا ہوں "۔  اس کا انداز اب قدرے سنجیدہ ہو گیا تھا۔ 

اس کا اشارہ سمجھ کر بہروز کے گلے میں گلٹی سی ابھر کر معدوم ہوئی۔

اس نے اشارے سے گن واپس رکھنے کا حکم دیا۔ رانا حکم بجا لاتا ہوا پھر سے اپنی جگہ جا کھڑا ہوگیا۔ 

"تمہیں لگتا ہے کہ میں صرف پرندوں کا شکار کرکے اس مقام تک پہنچا ہوں؟"۔ اس کا لہجہ حد درجہ سرد ہو چکا تھا۔ آنکھوں سے شرارے پھوٹ رہے تھے۔

"شیر کو مارا ہے میں نے۔ اور بہت سے لومڑی بھی میرا شکار بنے تب جا کر میں اس جگہ بیٹھا ہوں آج۔ مجھ سے کھیلنے کی کوشش کرو تو اگلی بار کوئی ڈھنگ کا آدمی بٹھانا سامنے"۔ کہتے ہوئے وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ 

"اور اوہوو!! ایک اہم اطلاع دینا تو میں بھول ہی گیا"۔ اچانک کچھ یاد آنے پر اس نے ماتھا چھوا۔

بہروز کا بس نہ چل رہا تھا وہ کیا کر گزرتا۔

"تمہارا باپ، ولید عثمان، اسے جیل پہنچانے والا میں ہی تھا۔ یہ بات تمہیں یقینی طور پر کسی نے نہیں بتائی ہوگی۔ احسان سمجھ لینا اسے میرا"۔ کوٹ جھاڑتا ہوا وہ آگے بڑھ گیا۔

اس انکشاف پر تو بہروز کچھ لمحے ہلنے کے بھی قابل نہیں رہا۔

"اس کی یہ مجال"۔ رانا آپے سے باہر ہوتے ہوئے گن نکال کر اس کے پیچھے بڑھا۔

دیوار کے ساتھ لگی میز کے پاس سے گزرتے ہوئے اس نے فلاوز واز گرفت میں لی اور اچانک پیچھے مڑ کر ایک ہی جھٹکے میں وہ اس بھینس جیسے شخص کے سر پر پھوڑ ڈالا تھا۔

یک دم کیئے جانے والے اس وار کیلئے رانا ہرگز بھی تیار نہیں تھا۔ اس کا سر پھٹ گیا تھا۔ گن اس کے ہاتھ سے چھوٹ چکی تھی۔ وہ زمین پہ گرا درد سے تڑپ اٹھا تھا۔

"تم ابھی کچے ہو بیٹا"۔ وہ ہاتھ جھاڑتا ہوا انہی قدموں سے آگے بڑھتا ہوا داخلی دروازے سے جانے کے بجائے ہوٹل کے لفٹ میں گھس گیا۔

گارڈز کو کسی گڑبڑ کا گمان ہوا تو وہ سارے ہی بھاگتے ہوئے اندر داخل ہو گئے۔ جوں ہی نظر فرش پہ زخمی پڑے کراہتے ہوئے رانا پر پڑی وہ گھبرا کر اس کی جانب آئے۔

بہروز کا صدمہ جب تک ختم ہوا وہ ان کی گرفت سے نکل چکا تھا۔

"کمبختو! پکڑو اسے زندہ نہ جانے پائے وہ"۔ اچانک وہ اپنی جگہ سے اٹھ کے ان پر دھاڑا تھا۔

وہ سارے خوفزدہ ہو کر ارد گرد بھاگنے لگے۔

"چٹاخ"۔ اس نے آگے بڑھ کر ایک زوردار تھپڑ مینجر کو رسید کیا۔ پھر اس کا گریبان پکڑ کے جھٹکا۔

"تمہیں میں نے کہا نہیں تھا کہ اس کی ہر ایک چیز اچھے سے چیک کرکے پھر ہی اسے اندر بھیجنا۔ کہا نہیں تھا میں نے کے اسے بالکل بے بس کرکے اندر بھیجو کیا نہیں کہا تھا میں نے یہ؟ جواب دو"۔ وہ بلند آواز سے چیختا ہرگز بھی ہوش و حواس میں نہیں تھا۔

مینجر کی سانس حلق میں اٹکنے لگی۔

"س۔۔۔سر۔۔ہم نے اسے اچھی طرح۔۔۔چ۔۔چیک کرکے ہی بھیجا تھا اندر"۔ وہ کمزور سے لہجے میں اپنا بچاؤ کرتے ہوئے صفائی دینے لگا۔

جواباً بہروز نے اسے میز پر پٹخ دیا۔

"تو پھر یہ اندر کیسے آیا احمق!"۔ اس نے پھولوں کی جانب اشارہ کیا جو قیصر وہاں چھوڑ کر گیا تھا۔

"یہ۔۔۔سر یہ تو مم۔۔۔محض ایک بوکے۔۔۔"۔ 

اس کی بات مکمل ہونے سے قبل ہی بہروز ایک مرتبہ پھر اسے دبوچ چکا تھا۔

"جسے تم نے محض ایک بوکے سمجھ کر بنا چیکنگ کے اندر بھیجا اس میں وہ ہماری موت کا سامان سجا کے لایا تھا۔ بم لگا ہے اس میں بے وقوف شخص"۔ دانت پیس کر کہتے ہوئے اس نے مینجر کو ہکا بکا کر دیا۔

"نن۔۔۔نہیں یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ہم نے اسے خود چیک کیا تھا۔۔۔اس میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا سر۔۔۔یقین کریں آپ۔۔پھر ایسا کیسے ہو سکتا ہے"۔ وہ حد درجہ گھبراہٹ کا شکار سمجھ ہی نہیں پا رہا تھا کے یہ ہو کیسے گیا۔ جبکہ بذات خود اس نے ہر چیز چیک کی تھی۔

اور تب بہروز ایک دم ٹھہر گیا تھا۔

"یا پھر۔۔۔"

"مجھ سے کھیلنے کی کوشش کرو تو اگلی بار کوئی ڈھنگ کا آدمی بٹھانا سامنے"۔ قیصر کا کچھ لمحوں پہلے کہا گیا جملہ اس کے کانوں میں گونجا تھا۔ اور ایک جھماکہ ہوا تھا اس کے ذہن میں۔

"کھیل کھیلا اس نے"۔ اس کا گریبان چھوڑ کر وہ سر تھامے صوفے پر ڈھے گیا۔

مینجر اپنی گردن سہلانے لگا۔

"سو کمینے مرے ہوں گے جب یہ ایک قیصر خیام پیدا ہوا"۔ اپنے ذہن میں سوچتا وہ زہرخند ہوا تھا۔_______________________

ٹیرس کا دروازہ دھکیل کر وہ اس وقت اس پرتعیش عمارت کے دسویں مالے پر آ پہنچا تھا۔ 

اپنے پیچھے دروازہ بند کرتے ہوئے اس نے آس پاس نگاہ دوڑائی۔

گارڈز اسے ڈھونڈتے ہوئے کسی بھی لمحے وہاں پہنچ سکتے تھے۔

دو ہی تو چیزیں تھی جن میں وہ ماہر تھا۔ ایک تو وہ بہروز کے ساتھ کچھ دیر قبل کر چکا تھا۔

اور اب دوسری مہارت دکھانے کی باری تھی۔

مضبوط رسی کا ایک سرا دیواروں کے گرد لگی گرل سے باندھ کر اس کا دوسرا سرا اپنے بائیں پیر کے ساتھ کس کے باندھ دیا۔ 

"وہ یہاں ہے۔ وہ یہاں ہے۔ ادھر آ جاؤ سب"۔ بند دروازے کے پیچھے کوئی گارڈ چیخا تھا۔

کچھ ہی دیر میں مزید بھی وہاں جمع ہوچکے تھے۔ شور بڑھ گیا تھا۔ بند دروازہ ٹھوک پیٹ کر توڑنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ 

"چلو قیصر خیام، اب شروع ہو جاؤ"۔ اس نے آنکھیں جھپک کے کھولیں۔

دروازہ نہ کھلتے دیکھ کر ان لوگوں نے اس پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی تھی۔

دیوار کے اس پار کود کر وہ اوندھے منہ ہوا کی رفتار سے نیچے آ رہا تھا۔ بس کچھ ہی فاصلہ رہ گیا تھا۔ 

لکڑی کا دروازہ ان لوگوں کو زیادہ دیر اب روک نہ سکتا تھا۔ 

پہلی منزل تک پہنچ کر زمین سے چھ سات فٹ فاصلے پر رسی ختم ہوئی تھی۔ اپنے جوتے کی تہ میں لگے چھوٹے سے مگر تیز دھار آلے کی مدد سے اس نے رسی کاٹ دی اور ایک ماہر قلاباز کی طرح زمین پر چھلانگ لگا دی۔

"آہ شاندار لینڈنگ"۔ خود کو داد دیتے ہوئے رسی کا ٹکڑا اپنے پاؤں سے الگ کرنے کے بعد وہ ہاتھ جھاڑنے لگا۔

یہ بلڈنگ کا پچھلا حصہ تھا۔ یہاں پہرہ تو درکنار کوئی وجود بھی نہ تھا۔ جس وجہ سے ہی اس نے اس طرف سے کودنے کا فیصلہ کیا تھا۔

پراعتماد چال چلتا ہوا وہ سیاہ کرولا کی جانب آ گیا جس میں کوئی تب سے اس کا منتظر تھا۔

اس کے اندر بیٹھتے ہی گاڑی پوری رفتار سے آگے بڑھ گئی۔

"کہاں گیا وہ!"۔ گرلز کے اوپر سے جھانکتے گارڈز ارد گرد کا نظارہ کرتے ہوئے ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے۔ جبکہ وہاں لٹکتی خالی رسی ان کا منہ چڑا رہی تھی۔

_________________________

"تو تمہارا شک صحیح تھا۔ بہروز وہ سربراہ ہرگز بھی نہیں ہے جو وہ خود کو دکھاتا ہے اور جس کی ہمیں تلاش ہے"۔ گاڑی چلاتے ہوئے عالیان نے اس کے اندازے کی داد دی۔

"بالکل، دیکھا نہیں تھا کتنی آسانی سے بے وقوف بن گیا۔ وہ صرف طاقت کے نشے میں دھت ایک بپھرا ہوا سانڈ ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ اصل کارستانی کسی اور ہی کی ہے"۔  شیشے سے پار دیکھتے ہوئے قیصر نے رائے دی تھی۔

"تو اب؟ کیا کرنا ہے پھر؟"۔ اس پر ایک نگاہ ڈال کر عالیان نے آگے کا لائحہ عمل پوچھا۔

"اب انتظار کرو۔ وہ خود میرے پیچھے آئے گی"۔ لینس لگی آنکھوں میں بڑی ہی گہری چبھن تھی۔ بہت ہی گہرا درد تھا۔

"آئے گی؟ کیا وہ کوئی عورت ہے؟"۔ اس کی بات سن کر وہ اپنی جگہ سے اچھل ہی پڑا تھا۔

"ہاں، عورت بھی وہ جس کا بہت گہرا تعلق ہے۔ میرے ماضی سے"۔  دور خلاؤں میں تکتا وہ بوجھل لہجے میں بولا تھا۔

اس سے آگے عالیان نے اس سے سوال نہیں کیا۔ وہ جان چکا تھا وہ اس وقت خاموش رہنا چاہتا ہے۔

_________________________

شام کے قریب اس کی گھر واپسی ہوئی تھی۔ 

فرزانہ بیگم کچھ دیر قبل ہی واپس جا چکی تھیں۔ جبکہ زیست ان کے جانے سے اداس ہو کر اپنے کمرے میں لیٹی تھی۔

ہلکی سی دستک کے ساتھ ہی وہ اندر داخل ہوا۔ اس کی آمد پر زی نے چونک کر سر اٹھایا۔ سرمئی آنکھیں اسی کے چہرے پر مرکوز تھیں۔

"کیا ہوا؟ ایسے کیوں لیٹی ہو؟ کون سا روگ لگا ہے؟"۔ کوٹ صوفے پر اچھال  کر وہ اس کی جانب چلا آیا۔

وہ نیم دراز سی ہو کر اس سے رخ موڑ گئی۔

"اچھا اچھا، تمہاری امی چلی گئیں اسی لیئے؟"۔ اپنے تئیں اس نے اندازہ لگایا۔

"ہاں اسی لیئے بس اب خوش آپ؟"۔ اجب چڑچڑی سی ہو گئی وہ۔

"ہوں، لگتا ہے مرچوں کی جلن زبان سے ہو کر دماغ پر اثر کر گئی ہے"۔  وہ اسے چڑانے سے اب بھی بعض نہ رہا۔

اثبات پہ یک بارگی زی نے اس کی طرف دیکھا۔ پھر جانے کیا ہوا کہ ایک دم وہ ہنسی اور خوب ہنستی چلی گئی۔

وہ یوں پہلی بار اسے ہنستے دیکھ کر اپنی مسکراہٹ بھی نہ روک پایا۔

"چلو آج پتہ چلا مجھے ہنسانا بھی آتا ہے"۔ سیاہ بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے اس نے تلخی سے کہا۔

زیست کی ہنسی کو بریک لگ گیا۔

"کم از کم آپ نے مانا تو سہی کے آپ رلانے میں ایکسپرٹ ہیں"۔ وہ خود کو طنز کرنے سے روک نہ سکی۔

اس کی بات کی تائید میں وہ سر ہلانے لگا۔

"ہاں، ٹھیک کہتی ہو تم۔ میں یہی کام بہتر طریقے سے کر سکتا ہوں شاید"۔ اس کے لہجے میں ملال تھا۔ 

وہ خاموش رہی۔

"اچھا چھوڑو یہ باتیں۔ اٹھو گارڈن میں چلتے ہیں۔ تمہاری طبیعت بھی فریش ہو جائے گی"۔ اس کے سامنے ہتھیلی پھیلاتے اس نے تجویز دی تھی۔

زیست چونک کر کچھ پل نگاہیں جھکائے یونہی اس کی چوڑی ہتھیلی دیکھتی رہی پھر بنا سوچے سمجھے اپنا ہاتھ اس پہ رکھ دیا۔ 

اس کے ہاتھ کو اپنی مضبوط ہتھیلی میں نرمی سے قید کرتے ہوئے وہ اٹھا آہستگی سے بیڈ سے اتار کر اسے اپنے مقابل کھڑا کیا۔ اس سخت مزاج شخص کے اس احتیاط اور نرمی پر لحظہ بھر کو اس کا دل دھڑک کر ساکت ہوا تھا۔

سبز آنکھوں میں تکتا وہ اس کے قریب ہوتے ہوئے بھی اس کی کیفیت سے انجان تھا یا بن رہا تھا وہ سمجھ نہ سکی۔

بس خاموشی سے اس کا ہاتھ تھامے وہ اسے اپنے ساتھ لیئے کمرے سے باہر نکال لایا۔

شام خاصی خوشگوار تھی۔ ٹھنڈے ہوا کے جھونکوں نے پھولوں کی تازہ مہک کو اپنے اندر سموئے ان کا استقبال کیا تھا۔

جس نے اس کی طبیعت پر بھی اچھا اثر ڈالا۔

اس کے بیٹھنے کے بعد وہ بینچ پر فاصلہ رکھ کے اس کے ساتھ آ بیٹھا۔ زیست نے ایک پرسکون۔۔۔لمبی سانس لینے کی کوشش کی۔ ذہن کسی حد تک پراگندہ سوچوں سے آزاد ہوا۔

دونوں ہی اپنی اپنی جگہ خاموش بیٹھے تھے۔ زرا زرا سی دیر بعد وہ دزدیدہ نگاہوں سے خود سے زرا فاصلے پر بیٹھے اس مضبوط شانوں والے شخص کو تکتی تھی۔ جیسے اس کی جانب سے کچھ سننے کی متمنی ہو۔

وہ سر جھکائے جوتوں سے گھاس کریدتا اس کی جانب  دیکھنے سے گریزاں تھا۔

"آپ ایسے کیوں ہیں؟"۔ جانے کیوں اس کی زبان سے یہ سوال پھسلا تھا۔ مقصد اس سے کچھ بلوانا تھا یا پھر خاموشی سے اسے وحشت ہو رہی تھی یہ وہ خود بھی نہ جان سکی۔

اس مختصر سوال پر اس نے پہلی بار سر اٹھا کے اس کی جانب دیکھا۔

"مثلاً کیسا ہوں میں؟"۔ وہ پھر سوال کے بدلے سوال کرنے لگا۔

زیست نے نچلا لب دانتوں تلے کچلا۔ مبادا کچھ ایسا نہ کہہ دے جس سے اس کی شامت آ جائے۔

"مطلب یہی۔۔۔خون خرابہ، یہ سب۔۔۔کیوں کرتے ہیں آپ؟"۔ اپنے تئیں اس نے محتاط انداز اپنایا۔

ایک تلخ مسکراہٹ قیصر کے لبوں پر چھب دکھلا گئی۔ پھر نگاہیں اس کی جانب سے پھیر لیں۔

"کیونکہ جب میں نے ہوش سنبھالا ارد گرد سارے ایسے ہی لوگ دیکھے"۔ یہ کہتے ہوئے اس کا لہجہ بھاری سا ہو گیا۔

جبکہ وہ ایک لمحہ بھی اس سے نگاہیں نہ ہٹا رہی تھی۔ جیسے اس کی زبان کے ساتھ ساتھ اس کے چہرے سے بھی جواب سننا چاہ رہی ہو۔

"انسان کا اپنا ضمیر اپنی عقل و خرد بھی تو ہوتی ہے نا۔ تو کیا آپ کو خود سے کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ یہ سب ٹھیک نہیں ہے جو آپ کر رہے؟"۔ اس نے کچھ سوچ کر پھر سے پوچھا تھا۔

قیصر کی نگاہیں پھر سے اس پر آ رکیں۔ جیسے وہ اندازہ کرنا چاہ رہا ہو آیا وہ اس پر طنز یا شکوہ تو نہیں کر رہی۔

مگر زیست کا چہرہ سپاٹ تھا۔ وہ سنجیدگی سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ اس نے رخ موڑ لیا۔

"یہ سب آدمی تب سوچتا ہے جب اس کے پاس گھر ہو، رشتے ہوں، پیسہ ہو۔ اور اگر یہ سب نہ ہو نا جس کے پاس تو بھوک سے جلتی انتڑیوں کے علاوہ اور کچھ سجھائی نہیں دیتا ایسے آدمی کو"۔ وہ جتنا تلخ تھا اتنا ہی صاف گو بھی۔

اس بات کا اندازہ آج پہلی بار ہو رہا تھا زیست کو۔

"ایک تیرہ سالہ بچہ جب بھوک سے نڈھال ہو رہا تھا تو کسی نے کہا کہ جاو وہاں ایک آدمی بیٹھا ہے وہ کھانا دے گا۔ وہاں گیا تو کہا دوسرے کے پاس جا وہ دے گا پھر کہا تیسرے کے پاس۔ اس کی بے بسی کا مذاق اڑاتے وہ لوگ ہنسے تھے اس پر۔ اور وہ کمزور سا لڑکا رو دیا تھا"۔ کھوئے ہوئے انداز میں کہتا وہ اس وقت کوئی معصوم بچے جیسا ہی لگ رہا تھا اسے۔ 

زیست کے اندر ہوک سی اٹھی تھی اس لمحے۔

"پھر کوئی آیا اور کندھے پہ ہاتھ رکھ کے کان میں سرگوشی کی اگر پیٹ بھرنا چاہتے ہو تو آگے بڑھ کر چھیننا ہوگا دوسرے سے۔ اور اگر وہ نہ دے تو اسے بھی اپنی پیٹ میں لگی آگ کا مزا چکھا دینا"۔ حاجی کا پڑھوایا سبق اس نے ہوبہو اسے سنایا۔

"پھر؟"۔ اس کے خاموش ہونے پر وہ بولی۔ 

قیصر نے گردن موڑ کر ایک نظر اپنے کاندھے پر ڈالی۔ جہاں اس نے بلا ارادہ ہی ہاتھ رکھ دیا تھا۔

اس کے یوں دیکھنے پر زیست کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اس نے ہاتھ فورا کھینچ لیا۔

"پھر یہ قیصر خیام تمہارے سامنے ہے"۔ اس سے نگاہیں ہٹائے بغیر وہ اپنی حقیقت بیان کر گیا۔

"ٹھاہ"۔ کی آواز کے ساتھ ہی گولی قیصر کے بالکل پاس سے ہوتی ہوئی سامنے پول پر لگی تھی۔

اس زوردار آواز پر زی اپنی چیخ نہ روک سکی۔

قیصر کے ذہن نے فوری کام کیا تھا ایک ہی جست میں اس کا ہاتھ تھامے اپنی جگہ چھوڑ کر وہ گھٹنوں کے بل زیست سمیت زمین پر گرا تھا۔

اس نے جیب پر ہاتھ رکھا۔ پستول وہاں نہیں تھی جو وہ ہمیشہ رکھتا تھا۔ پھر خیال آیا وہ تو کوٹ کی جیب میں ہی رہ گئی تھی۔

"تم اس بینچ کے نیچے چلی جاؤ۔ کچھ بھی ہو جائے باہر مت آنا۔ کسی بھی حال میں سمجھ رہی ہو تم؟"۔ جلدی جلدی ہدایات دینے کے ساتھ ساتھ وہ اسے وہاں چھپنے میں مدد بھی کر رہا تھا۔

فائرنگ اب پوری شدت سے ہونے لگی تھی۔ غالبا وہ لوگ گھر میں گھس آئے تھے۔ 

"یہ۔۔۔یہ۔۔۔سب۔۔۔کیا۔۔۔"۔ خوف سے اس کا دل بری طرح  کانپنے لگا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی بھی لمحے پسلیاں توڑ کر باہر آ جائے گا۔

"شسش۔۔۔ڈرو نہیں۔۔۔جو کہا وہی کرو۔ تم بس یہی پہ رہو۔ میں دیکھتا ہوں"۔ اسے دلاسہ دیتے ہوئے وہ اپنا ہاتھ چھڑوانے لگا تھا جب مزید گھبرا کر اس نے اس کا بازو جھپٹ کر سختی سے تھام لیا۔

"نن۔۔۔۔نہیں آ۔۔۔آپ۔۔۔نہیں جائیں۔۔۔پلیز۔۔۔مت جائیں۔۔مجھے۔۔۔ڈر۔۔۔لگ رہا ہے۔۔۔میرے۔۔۔س۔۔ساتھ رہیں"۔ وہ ہر چیز سے بے پرواہ اس کے بازو سے چمٹی بری طرح بلکنے لگی تھی۔

"میری بات سنو۔۔۔کچھ نہیں ہوگا۔ میں یہی ہوں۔ بس تم بہادری سے کام لو اس وقت"۔ اس کا بھیگا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں تھامے وہ نیم اندھیرے میں گھاس پر جھکا اسے یقین دلا رہا تھا۔

جبکہ قدموں کی آواز اب آس پاس سے آنے لگی تھی۔ یقینا وہ لوگ انہیں تلاش کر رہے تھے۔

اس کی بات سے زی کا خوف کم تو نہیں ہوا تھا مگر پھر بھی تائید میں سر ہلا گئی۔

"کچھ نہیں ہوا، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ میں وعدہ کرتا ہوں تم سے میں سب ٹھیک کردوں گا"۔ یونہی اس کا چہرا ایک ہاتھ میں تھامے وہ یقین دہانی کروا رہا تھا۔

اور وہ اب بھی اس کے بازو سے مضبوطی کے ساتھ چپکی ہوئی تھی۔

نیم اندھیرے میں قیصر کے چہرے کو تکتی صبر کے کڑے مراحل طے کر رہی تھی۔ سبز آنکھوں سے جھرنا تیزی کے ساتھ رواں تھا۔ 

لب زور سے بھنچے وہ اپنی سسکیوں کا گلا گھونٹ رہی تھی۔ جتنی وہ کم ہمت تھی اس سے کئی زیادہ کڑی آزمائشوں سے اسے زندگی نے روبرو کروایا تھا۔ جو ابھی تک ختم ہونے میں نہیں آ رہیں تھی۔

"ڈھونڈو اسے۔ کسی بھی طرح آج کھیل ختم ہونا چاہیئے اس کا"۔ چنگھاڑتی ہوئی آواز پاس ہی کہیں سے آئی تھی۔

نیم اندھیرے اور سنگی بنچ کے اوٹ میں ہونے کی وجہ سے وہ دونوں اب تک ان کی نظروں سے اوجھل تھے۔ مگر زیادہ دیر تک محفوظ وہ بہرحال نہیں رہ سکتے تھے۔

"قیصر۔۔۔مجھے۔۔۔ڈر۔۔۔لگ۔۔۔"۔

"ششش۔۔۔میں ہوں یہاں۔۔۔میرے رہتے وہ تمہیں چھو بھی نہیں پائیں گے۔۔۔یقین رکھو"۔ کپکپاتے لہجے میں وہ اپنا خوف بیان کرنے لگی تھی جب قیصر نے انگشت شہادت اس کے لبوں پہ رکھ کر خاموش کرواتے ہوئے اس کا خوف زائل کرنے کیلئے کہا تھا۔

مگر اس کی حالت غیر ہو رہی تھی۔

"زی اب جو میں تمہیں کہہ رہا ہوں وہ غور سے سنو"۔ سرگوشی نما انداز اپناتے وہ اس سے کہہ رہا تھا۔

جس پر وہ سو سو کی آواز کے ساتھ ہاں میں سر ہلانے لگی۔ 

"میں یہاں چھپا بیٹھا نہیں رہ سکتا۔ عالیان کو کسی بھی طرح اس سب کی خبر کرنی ہوگی۔ تمہاری یہاں موجودگی میں اگر میں نے سامنے سے مقابلہ کیا تو تمہیں خطرہ ہو سکتا ہے۔ اس لیئے میں انہیں الجھائے رکھوں گا تم تب تک یہی رہنا۔ جب تک عالیان یا میرا کوئی اور ساتھی نہ آ جائے تم ہرگز بھی یہ جگہ مت چھوڑنا۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے"۔ جلدی جلدی اسے تاکید و تنبیہ کر رہا تھا۔

وہ چپ چاپ اس کی بات پہ محض سر ہلانے لگی۔

"ہاں، ایک بات اور"۔ جاتے جاتے اسے خیال آیا تو وہ پھر رک گیا۔

"مجھے نہیں پتہ اگلا پل کیا لائے گا۔ میں نہیں جانتا کچھ دیر میں۔ کیا سے کیا ہو جائے گا۔ جب یہ بچہ اس دنیا میں آئے گا تو تب میں اس کے ساتھ ہوں گا بھی یا نہیں یہ میں نہیں جانتا"۔ اس کے لہجے میں حسرتیں محسوس کی جانے والی تھیں۔

جبکہ اس کی یہ بات زی کے دل میں سوئی کی طرح چبھی تھی۔

وہ کچھ کہنا چاہتی تھی مگر اس کے ہونٹوں پر موجود اس کی انگلی اسے ایسا کرنے سے روک رہی تھی۔

"لیکن۔۔۔چاہے میں رہوں یا نہ رہوں۔ تم سے بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کے جب میرا بچہ۔۔۔اس دنیا میں آئے تو تم اسے اس کے باپ قیصر خیام جیسا ہرگز نہ بننے دینا۔ بلکہ اسے اپنے بھائی تیمور جیسا بنانا"۔ پہلی بار۔۔۔ہاں زندگی میں پہلی بار اس نے خود کو رد کرکے پھر کسی اور کو اس پہ فوقیت دی تھی۔ وہ بھی اس وجود کیلئے جو ابھی آیا بھی نہیں تھا۔ اور جو اس دنیا میں آنے سے قبل ہی اسے ہر شے سے عزیز ہو گیا تھا۔

وہ جو خوف سے روئے جارہی تھی اس کی یہ بات سن کر آنسو بھی وہیں تھم گئے تھے۔ سسکیوں کی زد میں آکر لرزتا وجود تھم سا گیا تھا۔ 

آس پاس کی ہر شے اس پل جیسے ٹھہر سی گئی ہو!

"تم اب اسے میرا آخری حکم سمجھ لو، خواہش سمجھ لو درخواست یا جو تم چاہو مگر یہ ایسا ہی ہو جیسا میں نے کہا ہے"۔ اس کے لہجے میں مان تھا۔ وہ اس پر یقین کر رہا تھا۔ وہ جو محض اس بچے کیلئے اسے اب تک اپنے ساتھ رکھے ہوئے تھا وہ اب اتنی آسانی سے، اس قدر خوبصورتی سے اپنی خواہش اسے سونپ رہا تھا۔ وہ بھی پورے یقین کے ساتھ۔ 

کیا وہ اس پہ بھروسہ کرنے لگا تھا؟ مگر وہ تو وہ تھا جو اپنے سائے پر بھی اعتبار نہ کرتا تھا۔ پھر یہ معجزہ آج کیسے اور کیونکر ہو گیا تھا؟

زیست کو لگا وہ اس قیصر خیام سے پہلی بار روبرو ہو رہی ہے۔ جسے وہ اتنے مہینوں سے دیکھتی آئی تھی، جان چکی تھی اور پھر نفرت کرنے لگی تھی یہ وہ قیصر تو ہرگز بھی نہیں تھا۔ 

آہستگی سے اپنا ہاتھ پیچھے ہٹاتے ہوئے اس نے زی کی گرفت سے اپنا بازو چھڑوایا تھا۔ جو اب قدرے ڈھیلی پڑ گئی تھی۔

اور اس طرح وہ اپنی جنگ لڑنے کیلئے میدان میں کود چکا تھا۔

وقت نے دیکھا تھا۔۔۔ہوائیں شاہد تھیں۔ خوشبوؤں نے یہ راز پایا تھا کے جو اتنے عرصے میں نہ ہوا تھا۔ وہ حادثہ آج۔۔۔ابھی۔۔۔اس ایک لمحے میں رونما ہو گیا تھا۔

اس کا دل اس کی بنائی گئی ہر دیوار، ہر بند، ہر قید توڑ کر آزاد ہوتے ہوئے پہلی بار دھڑکنے لگا تھا اور بڑی ہی شدت سے دھڑکا تھا۔ 

دھڑکا تھا۔۔۔اس شخص کے نام سے جس سے وہ گھن کھاتی آئی تھی۔ جو اس کے نزدیک دنیا کا سب سے قابل نفرت انسان تھا۔ جس نے سوائے آنسوؤں کے اسے کچھ بھی تو نہ دیا تھا۔ 

اور اب دیکھو اس کے بدلے زی نے کیا کیا تھا۔ اپنا ہر جذبہ اس آدمی کے نام لکھ دیا تھا۔

زیست عباسی نے بے پناہ نفرت کی تھی قیصر سے۔ اور اب زیست قیصر خیام کو اتنے عرصے بعد اپنے ان چاہے شوہر سے بے انتہا محبت ہوئی تھی۔ 

محبتیں یوں بھی ہوا کرتی ہیں بھلا؟

محبتیں یونہی تو ہوا کرتی ہیں!

ایسے ہی، بن بلائے، بن سجھائے، بن سمجھے اور بن سوچے بس نازل ہو جاتی ہے دل پر اور پورے وجود پر تسلط جما کر بیٹھ جاتی ہے۔

ہاں۔۔اب نہ کوئی خوف اس کے اندر رہا تھا اور نہ کوئی اندھیرا اسے ڈرانے آیا تھا۔ محبت کے اجالوں سے وہ یوں مطمئن ہو گئی تھی جیسے کوئی تڑپ، کوئی درد اب باقی ہی نہ رہا ہو!

اسے قیصر سے محبت تھی۔ کب سے تھی کیسے تھی اس بات کا اندازہ خود اسے بھی نہ تھا مگر یہ لمحہ آگاہی کا تھا۔ اس لمحے نے زیست پر وہ راز کھول دیا تھا جو اس نے کبھی خواب و خیالوں میں بھی نہ سوچا ہوگا۔

جس تیمور کے قتل نے زی کو اس سے نفرت کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ آج اسی تیمور کے نام نے اسے قیصر سے محبت بھی کروا دی تھی۔ 

ہاں اسے قیصر خیام سے محبت ہو گئی تھی۔ 

کبھی کہا تھا۔۔۔قیصر نے کہ کوئی شخص اس کی اصلیت جان کر اس سے محبت کر ہی نہیں سکتا تھا۔ مگر کیا نصیب پایا تھا اس نے۔ وہ جو اس کے ماضی سے بخوبی واقف تھی۔ وہ اسے ویسے ہی قبول کرکے اپنے دل کے مسندِ اعلیٰ پر بٹھا گئی تھی۔

محبت ہو جائے گی۔۔۔اس نے نہ سوچا تھا۔

محبت قیصر خیام سے ہو جائے گی یہ تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔

"تیمور"۔ اپنے شکم پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس کے لبوں نے بے آواز حرکت کی تھی۔

___________________________

کسی سانپ کی سی سرسراتے ہوئے وہ اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر ان میں سے ایک کو پیچھے سے آ کر دبوچ چکا تھا۔ اس کے منہ پر ہاتھ رکھے گھسیٹ کر اسے ایک فوارے کے ستون کے پیچھے لے گیا۔

دوسرا ہاتھ اس کے سر پہ جما کے بھرپور قوت سے اس نے اس آدمی کی گردن مروڑ دی۔ ہڈی ٹوٹنے کی ہلکی سی چڑچڑاہٹ ان لوگوں کے شور میں دب کر رہ گئی۔

لاش کو ٹٹول کر اس نے اس کا موبائل برآمد کیا۔ پھر اس پہ عالیان کے نام پیغام لکھ کر اس نے جلدی سے میسج کلیئر کر دیا اور موبائل فون پانی میں اچھال دیا۔ 

اب جب تک عالیان اور باقی ٹیم ممبرز وہاں پہنچتے اسے ان کو الجھائے رکھنا تھا۔ 

ارد گرد دیکھ کر، محتاط انداز میں وہ ان سے نظر بچاتا ہوا اپنا اگلا شکار منتخب کرنے لگا تھا۔

اب تک جو اس نے اندازہ لگایا اس کے مطابق وہ دس سے بارہ افراد تھے۔ 

اندھا دھند فائرنگ اب بند ہو چکی تھی۔ وہ لوگ اب اسے ہر جگہ تلاشنے لگے تھے۔

"اگر یہ کام کوبرا گینگ کی لیڈر کا ہوتا تو وہ اپنی ذہانت کے مطابق مجھے مارنے کیلئے کوئی ایک شارپ شوٹر منتخب کرکے بھیجتی"۔ وہ آس پاس دیکھتا ہوا ذہن میں تانے بانے بھی بن رہا تھا۔

"لیکن یہاں جس نے پوری فوج بھیجی ہے مجھے مارنے کیلئے اس سے اس کی نفرت اور میرے خلاف بغض کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ آہ فضل، تم ہی ہو نا اس جذباتی حرکت کے پیچھے"۔ کسی نتیجے پر پہنچنے کے بعد پیشانی کی رگیں تن گئیں۔

"بزدل سالا۔ بڈھے کا وقت پورا ہو گیا لگتا ہے"۔ دانت پہ دانت جماتے ہوئے وہ من ہی من فضل کو کئی موٹی موٹی گالیوں سے نواز چکا تھا۔

ایک اور آدمی کو اس نے پیچھے سے دھر لیا تھا۔ جوتے میں چھپایا گیا چھوٹا سا تیز دھار خنجر نکال کر اس آدمی کے منہ پہ ہاتھ رکھے ہوئے اس نے گلے پر چلا دی تھی۔

خون کی ایک دھار سی بہہ نکلی تھی اور قیصر نے اس کے وجود کو زمین پر تڑپنے کیلئے چھوڑ دیا۔ کچھ ہی لمحوں میں اس کا کام تمام ہو چکا تھا۔

اسی طرح اپنے راستے میں آنے والے تین سے چار آدمیوں کو وہ موت کی نیند سلا چکا تھا۔

ان میں سے ایک کی نظر جب اپنے کسی ساتھی کی لاش پر پڑی تو وہ ایک دم الرٹ ہو کر چیخ چلاتے ہوئے باقیوں کو بھی بلانے لگا۔

"وہ یہی ہے۔ وہ آس پاس ہی ہے۔ جلدی یہاں آ جاؤ"۔ آوازیں لگاتا ہوا وہ ساتھ ساتھ اسے تلاش بھی کر رہا تھا۔

جب اچانک قیصر اس کے سامنے آیا تھا۔ اس سے قبل کے وہ آدمی اس پر فائر کر پاتا قیصر نے ہاتھ میں پکڑی بندوق کا منہ اس پہ کھول دیا تھا۔

خاموش رات گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے تھرّا اٹھی تھی۔

اب پیچھے رہے تھے آٹھ افراد۔

بھاگتے دوڑتے محتاط انداز میں وہ اس جگہ آئے تھے جہاں سے گولیاں چلنے کی آواز سنی گئی تھی۔

ان کے ساتھی کی لاش چھلنی ہوئی پتھریلے روش پر پڑی تھی۔

یہ دیکھ کر ان کا غم و غصہ مزید بڑھ گیا تھا۔ البتہ وہ اب کسی قدر خوفزدہ بھی ہو چکے تھے۔

کیونکہ انہیں اندازہ ہو چکا تھا کہ ان کا پالا اس شخص سے پڑا ہے جس کے متعلق کئی کہانیاں سن کر وہ ہنسی میں اڑا دیا کرتے تھے۔ 

"ہم تھوڑا سا سدھر کیا گئے کل کے لونڈے اپنے آپ کو بادشاہ سمجھنے لگے"۔ وہ یہ کہتا ہوا عین ان کے سامنے آ کھڑا ہوا تھا۔ ہونٹوں کے درمیان تازہ سلگائی گئی سگریٹ دبا رکھی تھی۔ جو اس نے اس مردہ شخص کے وجود سے اٹھایا تھا۔

وہ آٹھ تھے۔ مگر اس کی دیدہ دلیری دیکھ کر ان افراد کے قدم بھی لڑکھڑا سے گئے تھے۔

"وہ اکیلا ہے اور ہم آٹھ۔ کیوں ڈر رہے ہو تم لوگ"۔ ان میں سے ایک غصے سے بولتا ہوا آگے آیا تھا۔ جس پر اگلے ہی پل وہ پچھتایا۔

قیصر نے جلتی سگریٹ اس کے قدموں کے آگے پھینکی تھی۔ جس سے اس کے اور ان کے درمیان آگ کا دریا بن گیا تھا۔

آگ کی لپٹیں اس شخص کو نگل رہیں تھی۔ وہ درد سے چلا رہا تھا اور اسے جلتا دیکھ کر باقی سب خوف سے آنکھیں پھاڑے تماشائی بنے تھے۔

انسانی چمڑی جلنے کی ناگوار بو ساری فضا میں پھیل گئی تھی۔

ان لوگوں نے ہوا میں پھیلی پٹرول کی بو پر اب غور کیا تھا اور جب اپنے سے زرا فاصلے پر دیکھا تو پٹرول کا ایک بڑا سا گیلن الٹا پڑا مایا باہر گرا رہا تھا۔ جو بہتا ہوا ان ہی کی جانب آ رہا تھا۔ 

اس مائے کی کشش آگ کو بھی ان کی جانب بہائے لے آ رہی تھی۔ 

"ابے پٹرول ہے۔۔۔بھ۔۔۔بھاگو سب۔۔۔جان بچاؤ"۔ وہ سارے ہی بد حواس ہو کر ارد گرد بھاگنے لگے تھے۔ اتنے میں آگ نے دو اور لوگوں کو بھی اپنی پناہوں میں لے لیا تھا۔

اتنی روشنی پھیلی تھی کے جیسے رات کے وقت میں سورج جل اٹھا ہو۔ بے ہنگم چیخوں سے پورا گھر گونج اٹھا تھا۔

ان آوازوں سے بچنے کیلئے زیست نے دونوں کانوں پر مضبوطی کے ساتھ ہاتھ جما لیئے تھے۔

باقی چھ افراد اپنی اپنی جانیں بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ سپاٹ چہرے کے ساتھ انہیں سر پر پیر رکھ کر بھاگتے دیکھ رہا تھا۔ 

بہت آہستگی کے ساتھ دبے قدموں کوئی اس کے پیچھے آ کھڑا ہوا تھا۔

زرا سی آہٹ سے بھی قیصر یک دم الرٹ ہو گیا تھا۔

اس سے قبل کے آنے والا ہاتھ میں موجود بھاری چیز سے اس پہ وار کر پاتا وہ نہایت ہی پھرتی سے پیچھے مڑا تھا اور اسے گردن سے پکڑ کر اس کا ہاتھ مضبوطی و سختی کے ساتھ وہیں روک لیا تھا۔

"تو وہ تم تھی ہاں، یہ سارا کھیل تمہارا رچایا گیا تھا"۔ قیصر کا چہرہ پتھریلے تاثرات سے سج گیا تھا۔ البتہ سرمئی آنکھوں سے نکلتے شعلے اس آگ سے بھی زیادہ شدید تھے جس نے ابھی ابھی تین زندہ آدمیوں کو نگل لیا تھا۔

"کیوں کیا تم نے ایسا؟ کیا دشمنی تھی تمہاری مجھ سے؟ جواب دو!"۔ غم و غصے کی شدت سے اس کی آواز پھٹنے لگی تھی۔

مقابل کے چہرے کے نقوش میں ہلچل مچاتی مسکراہٹ قیصر کو اپنا مذاق اڑاتی محسوس ہوئی تھی۔

جس کے چلتے اس نے اس نے اس کی گردن پر موجود دوسرا ہاتھ بلند کیا تھا اور اگلے ہی پل تھپڑ کی ایسی گونج فضا میں پیدا ہوئی تھی الامان۔

اس کا ہونٹ کنارے سے پھٹ گیا تھا۔ وہاں سے ہلکا سا خون بھی برآمد ہو چکا تھا۔

وہ گری نہ تھی کہ قیصر نے اب بھی سخت گرفت کے ساتھ اس کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔ ورنہ اس شدید تھپڑ کے نتیجے میں وہ اس وقت زمین کو سلامی دے رہی ہوتی۔

"جواب دے ذلیل عورت"۔ اس کا چہرہ بے دردی سے دبوچتے ہوئے وہ غصے سے پاگل ہونے کے قریب تھا۔

"یہ۔۔۔رویہ تمہیں بہت مہنگا پڑے گا"۔ نم ہوتی پلکوں کے ساتھ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بڑی دلیری سے یہ بات بول گئی تھی۔

اور اس سے پہلے کے قیصر کوئی جواب دیتا کسی نے اچانک پیچھے سے آ کر اس کے سر پہ کسی بھاری چیز سے ضرب لگائی تھی۔ 

وار اتنا شدید تھا کے اگلے ہی لمحے قیصر کی مضبوط گرفت ڈھیلی ہوئی تھی اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا تھا۔

وہ بار بار پلکیں جھپکتا اندھیرے کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کرتا۔ مگر ہر بار اندھیرا پہلے سے کئی زیادہ شدت کے ساتھ اس پر حاوی ہونے لگ جاتا۔

اس کے قدم لڑکھڑائے تھے۔ آنکھوں کے سامنے موجود چہرہ مکمل دھندلایا تھا۔ 

اور اگلے ہی پل سر کسی سخت چیز سے ٹکرایا تھا۔ 

اندھیرا اسے نگلے اس سے پہلے، جو آخری چیز اسے محسوس ہوئی تھی وہ زمین پر اپنا گھسیٹا جانا تھا۔

اس کے بعد وہ اپنے ہی اندھیروں میں گم ہوتا چلا گیا تھا۔

________________________

پیشانی سے ہوتے ہوئے پیچھے گردن تک آتی درد کی لہر اتنی شدید تھی کہ سر میں دھماکے سے ہو رہے تھے۔ پورا وجود سن ہوا پڑا تھا۔

آنکھیں کھولنے کی چاہ بڑی شدید تھی مگر پلکوں کا بوجھ سہارنا ناقابل برداشت ہو رہا تھا۔ 

اس نے اپنا گھومتا سر تھامنا چاہا پر کوشش کے باوجود ہاتھ نہ ہلا پایا۔

ہاں اس کوشش کی وجہ سے بازوؤں میں کھنچاؤ سا محسوس ہوا تھا اور تکلیف کی شدت کچھ اور بھی بڑھ گئی تھی۔

سن ہوتے حواس کے باوجود بھی اس کے محسوسات کسی حد تک جاگ رہے تھے۔

جس سے اس نے اندازہ لگایا کے کوئی وجود چلتا ہوا اس کے بالکل سامنے بے حد نزدیک آ رکا تھا۔

"ہم ایک بار پھر سے آمنے سامنے ہیں قیصر خیام۔ اور تم ایک بار پھر سے میرے رحم و کرم پر ہو"۔ ہلکی بڑھی شیو والی اس کی ٹھوڑی کو انگلی سے اونچا کرکے وہ سرد، بے حد ٹھہری ہوئی آواز میں بولی تھی۔

قیصر کے جسم پر موجود آف وہائٹ شرٹ جگہ جگہ سے پھٹ چکی تھی۔ اور جہاں جہاں سے پھٹی وہاں وہاں خون و زخم موجود تھا۔ اس کے چہرے پر بھی کئی ایک زخم موجود تھے۔ آنکھیں سوج رہیں تھی۔ بازو دونوں اطراف سے زنجیروں کے ساتھ بندھے تھے۔ اور اس کا زخمی، درد درد پکارتا نیم جان سا وجود ہر لمحہ جھول رہا تھا۔

"تم۔۔۔نے۔۔ا۔۔۔الوینا۔۔۔کو مارا"۔ اس قدر زخم خوردہ ہونے کے باوجود بھی وہ خود سے بے پرواہ بدلے کی آگ میں جل رہا تھا۔

"ہاں مارا میں نے اسے۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں تھا وہ بے وقوف خود درمیان میں آئی تھی۔۔۔ تمہاری میری دشمنی کے۔ اور میری بندوق سے نکلی گولی اس نے ضائع کروا دی"۔ اس کا سرد لہجہ سلگ اٹھا تھا۔ 

"ہماری۔۔۔دشمنی؟" بھاری پپوٹوں کی وجہ سے اس کی آنکھیں آدھی کھل رہی تھیں۔ جس میں اس مرتبہ نا سمجھی کا تاثر در آیا تھا۔

وہ تلخی سے مسکرائی۔

"ولید عثمان کو تو نہیں بھولے ہوگے نا تم؟"۔ اس کے لب و لہجے میں کاٹ سی تھی۔

قیصر منتظر سا آگے سننا چاہ رہا تھا۔

وہ اس کے کان کے قریب ہوئی اور سرگوشی کی۔

"میں۔۔۔اسی ولید عثمان کی بیٹی ہوں۔۔۔تابین ولید"۔ وہ زہر اس کے کانوں کے ذریعے اس کے وجود میں انڈیل کر خاموش ہو چکی تھی۔

دل میں بھڑکتے شعلے بڑھتے بڑھتے اس قدر بڑھ گئے تھے کے قیصر کی سرخ پڑی آنکھیں جلن کی وجہ سے کچھ اور سرخ ہوئیں تھی۔

بے بسی کی انتہا کو جا کر جانے اس پل اس میں اتنی قوت کہاں سے آئی جو اپنا غصہ نکالنے کو وہ اتنی زور سے چلایا تھا کہ قید خانے کے در و دیوار تک ہلا ڈالے تھے۔

"میں تابین ولید"۔

"اپنے باپ ولید عثمان کی انچاہی اولاد۔ اس کے گلے میں پھنسی وہ ہڈی جسے زندگی بھر نہ کبھی وہ نگل سکا اور نہ اگل سکا"۔

"میں تابین ولید، سات سال کی عمر میں جس سے باپ نے دامن جھاڑ لیا اور گیارہ برس تک پہنچنے کے بعد ماں نے بھی ہاتھ چھڑوا لیا"۔

"میں تابین۔ آدھی عربی لڑکی، گیارہ سال کی عمر میں تنِ تنہا، کانپتے ٹانگوں اور ٹھنڈے پڑتے ہاتھوں کے ساتھ ریاستِ سعودیہ کی ریت چھانتی کوئی ایسا چہرہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہوں جو مجھے میرے باپ تک پہنچا سکے"۔

"تاکہ میں اسے اپنا درد بتا سکوں۔ اور اس سے کہہ سکوں کے وہ کیا کھو چکا ہے"۔

"میں اس وقت ایک ریستوران کے باہر بے یار و مددگار بیٹھی کسی غیبی مدد کی منتظر تھی۔ میرے ہاتھ میں ولید عثمان کی مڑی تڑی واحد تصویر تھی، جس پر گرتے میرے آنسو ہر لمحہ اسے دھندلاتے جا رہے تھے"۔ 

"میرے چہار سو گہرے اندیشوں اور مایوسیوں کے سائے پھیل گئے تھے۔ یہ خیال بےحد جان لیوا تھا کہ میرا اپنا کہنے والا کوئی نہیں بچا تھا"۔

"جس شخص نے مجھے چار سال قبل ترک کر دیا تھا، کیا ہو اگر جو اب میں اسے ڈھونڈ کر اس کے پاس پہنچ  بھی جاؤں تو تب بھی مجھے وہ اپنانے سے انکاری رہے؟ کیا ہو اگر اب بھی اسے بیٹے کی توقع ہو تابین جیسی کسی نازک اندام بیٹی کی نہیں؟

کہاں جائے گی تب تابین؟ اگر دوسری بار بھی اس کے باپ نے اسے ٹھکرا دیا؟"۔ 

گیارہ سال کی بچی اپنی عمر سے بڑے خیال سوچ رہی تھی۔ ہاں وہ ایسی ہی تو ذہین تھی۔ باپ نے کبھی ایک بار بھی اس سے پیار سے بات کرکے اس کی ذہانت کو جانچنے کی یا اسے شاباشی دینے کی کوشش نہ کی تھی۔

اسے چھوڑ کر جاتے ہوئے یہ نہ سوچا تھا کے وہ عام بچوں جیسی نہیں تھی۔ بلکہ درحقیقت وہ جاتے ہوئے اس کے ذہن پر گہرا نقش چھوڑ گیا تھا۔ 

"مجھے خبر نہیں ہوئی کے کتنی ہی دیر سے میں وہاں بیٹھی آنسو بہاتی رہی تھی۔ سر تو تب اٹھایا تھا جب اچانک کوئی بھاری ہاتھ میرے سر پہ آ پڑا تھا"۔

"تم اس شخص کو کیسے جانتی ہو بیٹی؟"۔ لمبی قد کاٹھ والا وہ اٹھائیس تیس برس کے لگ بھگ آدمی آنکھوں میں جانے کون سے اسرار لیئے میری جانب دیکھتا سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔

مجھے اس کی زبان سمجھ نہ آئی تھی۔ مجھے عربی کے سوا کوئی اور زبان آتی ہی نہ تھی۔ میں بس خالی خالی نگاہوں سے اس کی جانب دیکھتی رہی۔

تب اس نے میرے ہاتھ سے تصویر لی اور اپنے پیچھے ہاتھ باندھے مودب کھڑے شخص کو اشارے سے پاس بلوایا۔

وہ دو قدم اٹھا کے قریب پہنچا تھا۔

"اس لڑکی سے پوچھو یہ شخص کون لگتا ہے اس کا؟"۔ اس نے اپنے آدمی سے کہا جو یقینا عربی بولنا جانتا تھا۔

"بیٹا، یہ کون ہیں؟"۔ اس نے آگے بڑھ کر عربی لب و لہجے میں دریافت کیا۔

"بابا"۔ کچھ پس و پیش کے بعد میں بولی تھی۔

جس کا سننا ہی تھا کے سامنے کھڑے شخص کے ماتھے پر پڑی لکیریں یکلخت غائب ہوئیں اور اس کی جگہ سیاہ آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔  

کچھ لمحے وہ یونہی بت بنا کھڑا رہا تھا۔ پھر پیشانی مسلتے ہوئے اچانک جیسے کوئی خیال ذہن میں کوندھا تھا۔

"اس سے کہو میں اس کے باپ کا دوست ہوں۔ ساتھ آنے کیلئے مناؤ اسے"۔ اس شخص نے مترجم کو حکم دیا۔ 

جس پر وہ سر ہلا کر اب میری جانب متوجہ ہوا تھا۔

وہ کہہ رہا تھا کے وہ میرے باپ کا دوست ہے۔ 

چار دن تنہا اور بھوکے پیاسے رہ کر اب جو شنائی کا زرا سا تاثر ملا تھا، اسے پا کر ساری ذہانت و عقل کو پس پشت ڈال کر میں یک دم بول پڑی تھی۔

"میں چلوں گی تمہارے ساتھ"۔ 

پھر اس کے بھاری اور کھردرے ہاتھ تھام کر میں اس انجانے سفر پر نکل پڑی تھی جس کا خواب میں بھی نہ سوچا تھا۔

ایک نئی شروعات کی طرف۔ ایک نئی شناخت بنانے کیلئے!

اتنا لکھنے کے بعد ایک گہرا سانس بھرا۔ پھر بھورے رنگ کی ڈائری بند کرتے ہوئے اس نے قلم چھوڑ دیا۔

ماضی کو سوچتے ہوئے سیاہ آنکھوں میں اجب ویرانی اور اداسی امڈ آئی تھی۔ 

کون کہہ سکتا تھا کے جس پراسرار و خطرناک گینگ کے سربراہ کو نجانے کتنے وقتوں سے خفیہ ادارے ڈھونڈنے میں لگے تھے وہ ایک تیئس سالہ دھان پان سی لڑکی تھی۔ 

ایسی لڑکی جس کی واحد عقل ہی کل فساد کے پیچھے کار فرما تھی۔ 

اور اب خدا ہی جانتا تھا کے وہ آگے اور مزید کیا کرنے جا رہی تھی۔

                              ☆☆☆☆☆

وہ صوفے پر پاؤں اوپر کیئے بیٹھی سر گھٹنوں پہ رکھے ہوئے تھی۔ 

عالیان اور ابو ذر نے، قیصر کا پیغام ملنے کے بعد، موقع پر پہنچ کر اسے تو وہاں سے نکالا تھا مگر چند ایک لاشوں کے علاوہ انہیں قیصر کا کچھ پتہ نہ لگ سکا۔ 

وہ تب سے یہاں آ کے اسی پوزیشن میں بیٹھی تھی۔

اس کے جذبات بیان سے باہر تھے۔ سمجھ نہیں آتی تھی کے روئے یا پریشان ہو۔ انتظار کرے یا کچھ برا ہو جانے کے ڈر سے اس کے پیچھے انجانے راستوں پر چل پڑے۔

وہ اپنے ہی الجھنوں سے الجھ رہی تھی۔ 

عالیان جو قدرے فاصلے پر بیٹھا تب سے خاموش تھا اسے اس سے ہمدردی ہوئی۔

"بھابھی، آپ پریشان نہ ہوں۔ ان شاء اللہ سب بہتر ہوگا۔ آپ ایسا کریں۔۔۔کچھ کھا لیجیے پلیز"۔ اسے تسلی دیتے ہوئے اس نے ڈائننگ میز پر رکھے ٹرے کی جانب دیکھ کر کہا۔ جس میں رکھا کھانا تب سے انچھوا ہی تھا۔

سمجھ نہیں آ رہی تھی کے وہ اس کے ساتھ کیسے پیش آئے۔ کسی خاتون سے ایسی سچویشن میں کبھی پالا ہی نہ پڑا تھا۔

اس کی بات پر توقع کے برخلاف زیست نے سر اٹھایا۔

سبز آنکھیں بہت سارا رو لینے کے باعث قدرے سرخ اور سوجی ہوئی تھیں۔

"مجھے نہیں کھانا۔ آپ پلیز کسی طرح پتہ کریں کے وہ کہاں ہے اور کس حال میں ہے۔ مجھے بس اتنا ہی جاننا ہے اس وقت۔ پلیز!"۔ کمزور سے لہجے میں وہ بمشکل اتنا بول سکی کہ آخر تک آتے آتے آواز بھیگ گئی تھی۔

وہ لب بھنچے سر جھکا گیا۔ اب وہ اسے کیا بتاتا کے وہ کس مشکل میں جا پھنسا تھا اور پتہ نہیں واپسی ممکن تھی بھی یا نہیں اس کی۔

"مجھے میری امی کے گھر چھوڑ آئیے کم از کم اتنا تو کر دیں آپ"۔ اسے سر جھکائے خاموش پا کر زیست نے اس بار نئی درخواست کی تھی۔ 

"آئم سوری پر یہ اس وقت ممکن نہیں ہے بھابھی۔ آپ کا یہاں سے باہر جانا خطرے سے خالی نہیں ہے بالکل بھی"۔ اس بار ابو ذر نے مداخلت کی تھی۔

زیست نے بے بسی سے سر ہاتھوں میں گرا لیا۔

رات کے دو بج رہے تھے اور وہ تین نفوس اس فلیٹ کے لاؤنج میں قدرے خاموش بیٹھے تھے۔ نیند ان کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔

عالیان اور ابو ذر کو جب تک اگلا حکم نہ ملتا وہ ایک ہی جگہ ٹکے رہنے کے پابند تھے۔ لہٰذا کوئی حرکت نہ کرسکتے تھے سوائے انتظار کے۔

جبکہ زیست اپنی حالت سے بے پرواہ سب کچھ بھول بھال کر بس اس شخص کی جانب سے کسی خبر کی منتظر تھی۔ 

پچھلے کئی گھنٹے یوں ہی گزر چکے تھے۔

"آپ جا کر آرام کر لیں کچھ دیر۔ ورنہ وہ آیا تو ہم سے سوال کرے گا کے ہم نے ٹھیک سے خیال نہیں رکھا آپ کا"۔ ذر نے اسے سوچوں سے نکالنے کو کہا۔

جس پر اس نے سر اٹھا کر ایک نظر اس کی جانب دیکھا پھر گردن تائید میں ہلا کر آہستگی سے اٹھ کے کھلے دروازے میں داخل ہو کر کمرہ بند ہو گئی۔

اس کے جاتے ہی ذر پریشانی کے عالم میں عالیان کے پاس پہنچا۔

"کوئی نئی خبر؟"۔ دھیمے لب و لہجے میں اس نے دریافت کیا۔ مبادا زیست نہ سن لے۔

عالیان نے مایوسی سے سر نفی میں ہلایا۔ 

جس پر وہ آہ بھر کے رہ گیا۔

                                ☆☆☆☆☆

زنجیروں میں جکڑے اس ٹھنڈی اور بے رحم قید نے اس مضبوط وجود والے شخص کو بھی نڈھال کر ڈالا تھا۔

گہرے چوٹ کی وجہ سے سر کے پچھلے حصے میں ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔

کئی گھنٹوں سے وہ اسی پوزیشن میں بندھا تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ کوڑے الگ برسائے گئے تھے اس کے وجود پر۔

وہ ہوش و بے ہوشی کے عالم میں جھولتا، تکلیف سہتے سہتے ہر درد سے عاری ہو چلا تھا۔ ٹھنڈ نے اس کا جسم اکڑا دیا تھا۔ اس حد تک کے اس کے محسوسات ہی منجمد ہو گئے تھے۔

ذہن ہر خیال سے خالی ہو چکا تھا۔ یوں جیسے اس کی یادداشت ہی ختم ہو گئی ہو۔

یہ قیصر ہی تھا جس نے اتنی اذیت برداشت کی تھی۔ ورنہ اس کی جگہ کوئی عام شخص ہوتا تو اب تک مردہ ہو چکا ہوتا۔

ساری عمر تکلیفیں اور زخم جھیلنے کے بعد اس کی قوت برداشت بھی کسی دوسرے شخص کے مقابلے کئی زیادہ بڑھ چکی تھی۔ جس کی وجہ سے وہ اب بھی سانسیں لے رہا تھا۔ 

کال کوٹھڑی میں موجود لوہے کا دروازہ بےہنگم  گڑگڑاہٹ کے ساتھ کھلا تھا، اور وہ ہیلز کے ساتھ سیاہ فرش روندتی ہوئی اسی کی جانب چلی آ رہی تھی۔

ہاتھ میں شاید کچھ تھام رکھا تھا۔

"تمہیں بھوک تو نہیں لگی؟"۔ سوپ کا پیالہ تھامے ہوئے اس نے بڑی توجہ سے پوچھا۔ جیسے ان دونوں میں بہت گہرا دوستانہ ہو۔ 

قیصر نے پھولے ہوئے بھاری پپوٹوں کی اوٹ سے اس کا دھندلا سا نظر آتا چہرا دیکھا۔

خون اگلتے لب تلخ مسکراہٹ کا خاکہ کھینچنے کیلئے کوشاں تھے۔

"رسی جل گئی مگر بل نہیں گیا، ہاں؟"۔ تابین کے لہجے میں گہرا طنز تھا۔

پھر زرا چلتے ہوئے اس کے تھوڑا نزدیک آن پہنچی۔

"لو پیو اسے"۔ گرم سوپ کا چمچہ بھر کے اس نے اس کے منہ کے قریب کیا۔

قیصر نے سر اٹھا کر جیسے ہی لب وا کیئے اس نے ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔

اسکی اس حرکت سے زخمی چہرے پر سختی پھیلنے لگی تھی۔

"رہائی چاہیئے یہاں سے؟"۔ اس کے چہرے سے کچھ اور نزدیک ہو کر وہ للچاتے ہوئے لب و لہجے میں پوچھ رہی تھی۔

وہ بھی زخم خوردہ سا اسی کی جانب متوجہ تھا۔

اس سوال پر اس نے آہستگی سے تائید میں سر ہلانے کی کوشش کی۔

"ہوں، بہت خوب"۔ وہ دلکشی سے مسکرائی۔ پھر نزاکت سے پیچھے کھسک گئی۔

"مگر اس کیلئے۔۔۔پہلے تمہیں میری غلامی قبول کرنی ہوگی۔ یعنی جو میں کہوں وہی تمہیں کرنا ہوگا اس کے بعد ہی رہائی ممکن ہے"۔ اس نے پیشکش کے ساتھ ہی شرط بھی رکھی۔

وہ اپنا رد کیئے جانا، بےدرد سے جھٹک دیئے جانا بھولی نہیں تھی اب بھی۔ بھولنے کا سوال ہی نہ اٹھتا تھا۔

قیصر کے بندھے ہاتھ مٹھی میں ڈھلنے کو بے تاب تھے۔ بس نہیں چل رہا تھا وہ سامنے کھڑے وجود کو تہس نہس کردیتا۔

مگر اس وقت وہ ہر طرح سے بے بس تھا۔

"بولو۔ منظور ہے؟"۔ ایک ابرو اٹھائے وہ ایک مرتبہ پھر کاٹ دار لہجے میں بولی۔

قیصر نے بغور اس کا چہرا دیکھا۔ پھر سر کو ہلکی سی جنبش دے کر نزدیک ہونے کو کہا۔

اشارہ پا کر وہ اس سے قریب ہوئی۔ 

جس پر اس نے ایک بار پھر سر کو جنبش دی۔

وہ اور کھسک آئی۔ اب صورتحال یہ تھی کے وہ کان اس سے قریب تر کیئے گویا جواب سننے کی متمنی تھی۔

"ہرگز۔۔۔بھی نہیں"۔ بھاری بوجھل آواز اس کے خون آلود لبوں سے برآمد ہوئی تھی۔ 

جسے سننا ہی تھا کے تابین کا خون کھول اٹھا۔ وہ ناگواری سے پیچھے کھسک گئی اور ہاتھ میں تھاما پیالہ پوری قوت سے دیوار پر دے مارا۔ 

پھر آگے بڑھ کر جارحانہ انداز سے اس کا گریبان پکڑ کر جھٹکا۔ 

"تم کروگے یہ۔ تم ایسا ہی کروگے قیصر خیام۔ تمہارے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے۔ صرف ایک۔۔"۔

انگشت شہادت بلند کرکے وہ دانت پہ دانت جماتے بولی۔

"صرف اور صرف ایک ہی چوائس ہے۔ جو ہوں میں"۔اجب ضدی پن تھا۔

"تمہیں یہ ماننا ہوگا قیصر۔ تمہیں میرے آگے جھکنا ہی ہوگا۔ تمہیں میرا ہونا ہوگا۔۔سمجھے تم؟ تمہیں میرا ہونا ہی ہوگا۔ چاہے تو مرضی سے، یا پھر بن مرضی کے"۔ وہ حتمی اور فیصلہ کن انداز میں کہتی پیچھے ہٹی تھی۔

وہ جبڑے بھنچے اس کا پاگل پن ملاحظہ کر رہا تھا۔

"میں نے ماہا سے کیوں دوستی کی پتہ ہے؟"۔ وہ اچانک اس سے پوچھنے لگی۔

وہ ہنوز چپ رہا۔

"ہاں تمہیں تو پتہ ہی ہوگا۔ تم اتنے جینیئس جو ہو، میری طرح۔ مگر خیر پھر بھی تمہیں بتا دیتی ہوں"۔ وہ خود ہی جواب دینے لگ گئی۔

"یہ میں نے اس لیئے کیا کیونکہ وہ ایک ریٹائرڈ فوجی کم جاسوس کی بیٹی تھی۔ جس کے ذریعے سے میں اس فوجی کے گھر میں بآسانی گھس سکتی تھی۔ 

جان بوجھ کر اس کی یونیورسٹی میں ایڈمیشن لیا، اس کی دوست بنی۔ واللہ! ہوں نا میں جینیئس!"۔ وہ فاتحانہ ہنسی ہنستے ہوئے اپنی کارستانی بتا رہی تھی۔ یوں جیسے وہ یہ سن کر اسے داد دیتا۔

قیصر کو اس کے پل پل بدلتے انداز سے یقین سا آنے لگا تھا کے وہ ذہنی مریضہ ہے۔

"ہاں، مجھے پتہ تھا ماہا کا ایک بھائی ہے۔ اسی لیئے ماہا کو یہ جتا کر کہ میں اس کے بھائی پہ مرتی ہوں، بہانے بہانے سے گھڑی گھڑی اس کے گھر آ جایا کرتی تھی۔ جس سے بہرحال ایک دن، مجھے وہ چیز مل ہی گئی جو چاہیے تھی"۔ اپنے لیدر کوٹ کی جیب میں سے اس نے رول کیا ہوا کاغذ برآمد کرکے اس کے سامنے کیا۔

"دیکھو اسے۔ جانتے ہو اس کی قیمت کیا لگائی میں نے؟"۔ وہ کتنے ایکسائٹمنٹ سے پوچھ رہی تھی۔

"پورے تین ہزار عرب"۔ وہ انگلیاں دکھاتی بھرپور جوشیلے انداز سے کہہ رہی تھی۔

"اور اب۔۔۔اس شاندار سودے کے بعد، تابین ولید بن جائے گی انڈر ولڈ کی پہلی ایسی لڑکی جس کی طاقت تمہارے جیسے ذہین اور دیگر کئی ایک طاقتور لوگوں سے کئی گنا زیادہ ہوگی"۔ وہ گول گول گھومتی جیسے اس وقت بادلوں پر تیر رہی تھی۔

"مت کرو ایسا۔ تم۔۔۔ایک لڑکی ہو۔ ایک عورت۔۔۔کبھی اتنی ظالم نہیں۔۔۔ہوا کرتی"۔ قیصر نے اس عرصے میں پہلی بار اسے احساس دلانے کو لب کھولے تھے۔

وہ رکی۔ یک دم چہرے پر تکلیف کا احساس امڈ آیا تھا۔

"میں بھی ظلم نہیں کر رہی کسی پہ۔ اپنے بابا سے زیادہ طاقتور بن کر انہیں دکھانا چاہتی ہوں کہ مجھے ٹھکرا کر وہ کتنے غلط تھے"۔ سیاہ آنکھوں میں اذیت ہی اذیت در آئی تھی ولید کا ذکر کرتے ہوئے۔

"انہیں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ میں ان کیلئے کسی بیٹے سے کم نہیں ہو سکتی تھی اگر جو۔۔۔وہ تھوڑا سا بھروسہ دکھاتے مجھ پر، تو میں بیٹا بن جاتی"۔ اس کی آواز میں درد نمایاں تھا۔

"لیکن۔۔۔تم نے انہیں مار دیا"۔ اچانک وہ غصے سے ایک بار پھر اس کے مقابل آ گئی۔

"اگر تم نہ مارتے ان کو تو آج وہ یہ سب دیکھ لیتے۔ میں ان کو یہ سب دکھا کر جیت لیتی۔ لیکن تم نے سب گڑبڑ کر دیا۔۔۔سب کچھ!"۔ اس کا گلا دبوچے وہ زہرخند ہوئی تھی۔

پھر اس کی نگاہوں میں جھانکتی وہ اداس سی ہوگئی۔

"کیا۔۔۔ایسا کیا ہے تم میں قیصر؟ ہاں کیا ہے ایسا جس نے تین تین عورتوں کو برباد کر ڈالا؟"۔ اس کا انداز حسرت سمیٹ لایا تھا۔

قیصر چپ تھا۔ مگر دل میں ٹیس سی اٹھی تھی اس کی یہ بات سن کر۔

ہاں وہ کچھ غلط کب کہہ رہی تھی؟

"تمہاری محبت کی وجہ سے وہ لڑکی، الوینا جان گنوا بیٹھی"۔ 

"اور تمہاری اسی محبت نے مجھے اب تک اپنے باپ کے قاتل کو مارنے نہیں دیا ہے"۔ اس کی آواز میں نمی گھلتی محسوس ہو رہی تھی۔

وہ خاموش سا اسے تکتا اور سنتا رہا۔ 

"اور اب۔۔"۔ وہ اس سے پھر فاصلے پر ہو گئی۔

"اب اگر تم نے میرا ہونے کیلئے حامی نہیں بھری تو تمہارے ہونے والے بچے سمیت زیست بھی ماری جائے گی"۔ اس کا انداز قدرے سخت اور برفیلا ہو گیا۔

اس کے الفاظ اور دھمکی کو سن کر وہ پوری قوت سے زنجیروں سمیت اس کی جانب کھنچا تھا۔

"خبردار! جو تم نے۔۔۔اسے ہاتھ بھی لگایا تو!"۔ وہ کسی زخمی شیر کی مانند زنجیروں میں جکڑا غرایا تھا۔

تابین پوری جان سے سلگ گئی تھی اس کی بات پر۔

"وہ۔۔۔مرے گی۔ اگر تمہارا وجود یوں ہی اس کے اور میرے درمیان بٹا رہا تو۔۔۔بلاشبہ وہ مرے گی! الوینا کی طرح!"۔ وہ یہ کہتی ہوئی مڑی۔

تیز قدم اٹھاتی کال کوٹھڑی سے باہر نکل گئی تھی۔

"برباد کر دوں گا میں تمہیں۔۔۔اگر جو تم نے اس کا بال بھی بیکا کیا۔ سنا تم نے؟ برباد کردوں گا میں تمہیں"۔

قفس میں بند پنچھی کی مانند پھڑپھڑاتے ہوئے وہ سارے درد و زخم بھلائے چیخ رہا تھا۔

                             ☆☆☆☆☆

داؤد عثمان مقابل بیٹھی اس لڑکی کو بغور دیکھ رہا تھا۔

جس کے فرشتوں تک کو علم نہ تھا کے سامنے بیٹھا شخص اس کے باپ کا سگا بھائی ہے یعنی تابین کا چچا۔

وہ فلحال سب کچھ بھول بھال کر بس کھانے میں مگن تھی۔ بھوک نے کچھ دیر کیلئے حواس سلب کر دیئے تو وہ کچھ بھی سوچنے یا پوچھنے کی کنڈیشن میں نہ رہی تھی۔ 

"ولید بھائی نے آخر کیونکر چھپائے رکھا اسے ہم سے؟"۔  وہ گال تلے انگلی جمائے بھتیجی کو دیکھتا بس یہی بات سوچے جا رہا تھا۔

"کیا آپ جانتے ہیں میرے بابا کہاں ہیں؟ اور آپ انہیں کہاں سے جانتے ہیں؟"۔ کھانے سے فارغ ہوتے ہی وہ عربی لب و لہجے میں اب باقاعدہ تفتیش شروع کر چکی تھی۔

مترجم داؤد کا اشارہ پاتے ہی ان کی میز کے قریب ہاتھ باندھے کھڑا ہو گیا۔ ساتھ ہی اس کا سوال اردو میں داؤد کے سامنے رکھ دیا۔

وہ لب بھنچے کچھ سوچتے ہوئے چند لمحے خاموش رہا پھر جیسے کسی نتیجے پر پہنچ کر جواب دینے لگا۔

"ولید عثمان میرا دوست ہے۔ میں اور وہ ایک ہی کالج میں پڑھتے تھے۔ اسی طرح ہماری دوستی ہوئی"۔ حقیقت بتانے سے اس نے فلحال احتراز برتا۔ اس لیئے کہانی گھڑنا ہی اسے بہتر لگا۔

مترجم سے یہ بات سننے کے بعد پہلے تو وہ سوچ میں پڑ گئی، اور پھر بغور داؤد کے ہاتھ میں چمکتی گولڈ کی برسلیٹ پر اس کی نگاہ جم سی گئی۔

"آپ جھوٹ بول رہے ہیں نا؟"۔ وہ بھنویں اکٹھی کرکے ناگواری سے پوچھ رہی تھی۔

جس کا ترجمہ سن کر وہ ٹھٹھکا۔

"میں بھلا جھوٹ کیوں بولوں گا تم سے؟"۔ سنبھل کر کہتے ہوئے اس نے اپنا پرسکون انداز برقرار رکھا۔

"کیونکہ آپ کی عمر اور میرے بابا کی ایج میں بہت فرق ہے۔ اور یہ ممکن نہیں لگتا کے آپ اور وہ کلاس فیلوز رہے ہوں گے"۔ سینے پہ ہاتھ باندھتے ہوئے اس نے بڑی ہوشیاری سے اس کا جھوٹ پکڑا تھا۔

داؤد کچھ حیرانگی اور کچھ دلچسپی سے اس کی جانب تکنے لگا۔ اب اسے احساس ہوا تھا کے وہ اسے بچی سمجھ کے خاطر میں نہ لا کر غلطی پر تھا۔

لہٰذا اس نے اب کی بار سچ کہنے کا فیصلہ لیا۔

"چلو مان لیتے ہیں میں نے جھوٹ بولا"۔ اس نے دونوں ہاتھ اٹھا لیئے۔ گویا ہار تسلیم کر لی۔

جس پر وہ سر ہلاتی ہوئی شانے اچکا گئی۔ 

"اچھا تو یہ بتاؤ کے تمہیں اندازہ کیسے ہوا میری بات کا؟ کے سچ ہے یا جھوٹ؟"۔ وہ اب دلچسپی سے پوچھ رہا تھا۔

"سمپل ہے۔ آپ کے بریسلٹ پر تاریخ پیدائش لکھی ہے۔ جس کے مطابق آپ میرے بابا سے کئی سال چھوٹے ہیں۔ اس لئے میں نے اندازہ لگایا کے آپ دونوں ایک ہی کلاس میں نہیں پڑھے ہوں گے"۔ وہ صاف گوئی سے کہتی اپنا مشاہدہ پیش کر رہی تھی۔

تابین کی بات سن کر اس کی نگاہیں اپنی کلائی پر آ ٹھہریں۔ جہاں سنہری تختی پر جلی حروف میں چار اپریل، انیس سو اکہتر انگریزی میں کندہ تھا۔

"یہ تاریخ پیدائش کسی اور کی بھی تو ہو سکتی ہے۔ میری ہی ہوگی اس بات کی کیا گارنٹی ہے تمہارے پاس؟"۔ وہ اسے الجھانے کی کوشش کر رہا تھا، یا شاید اس کا امتحان لینا مقصود تھا۔

مترجم بدستور ان دونوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنا ہوا تھا۔

"نہیں، یہ آپ کا ہی ہے۔ کیونکہ آپ جس طرح اپنی سیفٹی کے پیش نظر اتنے گارڈز باہر چھوڑنے کے بجائے اپنے ساتھ یہاں اندر لے آئے ہیں اس سے اور آپ کی بڑی اور عالیشان گاڑیوں اور ڈریسنگ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کے آپ کو خود سے کتنا پیار ہے۔ 

اور خود سے پیار کرنے والا انسان ہی ایسے اپنی ڈیٹ آف برتھ پرنٹڈ قیمتی بریسلٹ پہن کر گھومے گا"۔ وہ مضبوط دلائل دیتی اب بھی اپنے موقف پر قائم رہی تھی۔

وہ اسے حیران کر رہی تھی۔ اور اسے یوں حیران ہونا اچھا محسوس ہو رہا تھا۔ جبھی وہ اس کا مزید امتحان لینے پر آمادہ تھا۔

"یہ سب تو امیر آدمی کی بنیادی ضروریات ہوتی ہیں۔ انہیں خود پسندی سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی میرے خیال میں"۔ اس نے نیا نقطہ اٹھایا۔

اس کی بات پر وہ کرسی پہ آگے کو ہوئی۔ ہاتھ اب بھی سینے پہ باندھ رکھے تھے اس نے۔

"اور آپ کے نام کی پرنٹڈ شدہ اس انگوٹھی کا کیا السید داؤد (مسٹر داؤد)؟"۔ وہ پرسکون سی بولی۔

اب کی بار وہ ہنس پڑا تھا۔

"بہت خوب! تم نے مجھے قائل کر لیا"۔ وہ ہار مان گیا۔

اسے یہ لڑکی خاصی غیر معمولی لگی تھی۔

"اچھا تمہارا نام کیا ہے؟"۔ یک دم یاد آنے پر اس نے پوچھا۔

"تابین"۔ اس نے فوری جواب دیا۔

"اور اب آپ بتائیں کے میرے والد کا آپ سے کیا تعلق ہے؟"۔ وہ اب مدعے پہ آ گئی۔

"بھائی ہیں وہ میرے"۔ داؤد نے اس بار قدرے سنجیدگی سے جواب دیا۔

"عم! (چچا)"۔ وہ اچانک پرجوش ہوئی تھی۔

اپنی جگہ سے اٹھ کر درمیانی فاصلہ پانٹتے ہوئے وہ جلدی سے اس کے کندھے سے آ لگی تھی۔ بہت عرصے بعد اسے ماں اور باپ کے علاوہ کوئی تیسرا رشتہ محسوس کرنے کو ملا تھا۔ جس پر وہ پہلی بار یوں خوش ہوتی کھل کر مسکرا رہی تھی۔

جبکہ داؤد نے کچھ بوکھلاتے ہوئے اس کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا تھا۔ اپنائیت کا یہ اظہار اس کیلئے نیا تھا۔ کیونکہ ان کے خاندان میں ابھی تک کوئی لڑکی جو نہیں تھی۔ 

دوسری طرف اسے جیسے نئی دنیا مل گئی تھی۔ وہ جو اتنے دنوں سے اداس و پریشان حال تھی اب اچانک اپنا خاندان مل جانے پر اس کیلئے جیسے دنیا کی ساری نعمتیں مکمل ہو گئیں تھی۔

پھر یہی سے شروعات ہوئی تھی تابین ولید کی۔

                               ☆☆☆☆☆

وہ چت لیٹی بستر پر دنیا جہاں سے بے خبر پڑی تھی۔ یوں جیسے جسم سے جان نکل گئی ہو۔ جیسے سانس ختم ہو گئی ہو۔ 

اتنے عرصے تک تمام دکھ، بہت سی تکلیفیں نت نئے تلخ تجربات سے سامنا کرنے کے بعد اسے لگا جیسے اب محسوس کرنے کیلئے کوئی حس بچی ہی نہیں تھی اس کے پاس۔ ہر دن کی نئی اذیتوں پر آنسو بہاتے بہاتے اب تو اشکوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا تھا۔

خشک پڑی سبز ویران آنکھیں غیر مرئی نقطے پر جمی ہوئی تھیں۔

وقت و ساعت کا حساب اسے بھول چکا تھا۔ ماضی اور حال گڈ مڈ ہوتے بار بار اس کے سامنے آ رہے تھے۔ تمام تکلیف دہ اور بری یادوں کے سائے اس نیم اندھیرے کمرے میں پڑے وجود کو ہر جانب سے گھیر رہے تھے۔ اسے ڈرا رہے تھے۔ 

اس کا دل قفس میں قید پنچھی کی مانند پھڑپھڑا رہا تھا۔ واہمے و وسوسوں سے اس کا دل ہر لمحہ کانپ رہا تھا۔

ہر ہر آہٹ پہ وہ ہما تن گوش تھی کہ کہیں کسی پل وہ بری خبر نہ آ جائے جس کو وہ سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی۔ 

کتنی اجیب بات تھی کے کچھ عرصہ قبل وہ جس شخص کیلئے ہر ہر لمحہ ہر پل اذیت ناک موت کی دعائیں مانگتی رہی تھی اب اس کا خوف سے کانپتا دل شدت سے اس شخص کو صحیح سلامت اپنے سامنے دیکھنے کی شدید چاہ میں تھا۔ 

وہ کسی بھی برے نتیجے پر پہنچنے سے خود کو روکنے کی ہر ممکن سعی کر رہی تھی مگر۔۔۔اس دماغ کا وہ کیا کرتی؟ جو ہر وقت اسے کسی انہونی خبر کے پیش نظر ڈرا رہا تھا۔

"مجھے نہیں پتہ اگلا پل کیا لائے گا"۔ خاموش فضا میں قیصر کی آواز گونجی تھی۔

زیست نے پلکیں بار بار جھپکائیں۔

"میں نہیں جانتا کچھ دیر میں کیا سے کیا ہو جائے گا"۔ نجانے کب ایک آنسو اس کی آنکھ سے پھسل کر سفید بستر میں مدغم ہو گیا۔

نچلا لب اس نے، مارے بے بسی کے، دانتوں تلے کچل ڈالا۔

"جب یہ بچہ اس دنیا میں آئے گا تب اس کے ساتھ میں ہوں گا بھی یا نہیں یہ میں نہیں جانتا"۔ آواز خاموش کمرے میں مسلسل گونج رہی تھی۔

زیست کا دل سوکھے پتے کی مانند لرز رہا تھا۔ آنسوؤں کا سیل رواں ہو گیا تھا۔

"قیصر!"۔ جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے وہ نام درد بن کر اس کے لبوں سے آزاد ہوا تھا۔ 

پھر جو وہ رونا شروع ہوئی تو تسلسل سے روتی چلی گئی۔

اسے تو لگا تھا کے وہ رو نہیں سکے گی مگر اب جو آنسوؤں کا سیلاب امڈ آیا تو تھمنے کا نام نہیں لیا تھا۔

بیڈ شیٹ کو مٹھی میں دبوچے، دوسرے ہاتھ سے اپنا منہ ڈھانپے وہ بمشکل اپنی چیخوں اور ہچکیوں کا گلا گھونٹ رہی تھی۔

ابھی تو بہار نے آنے کا عندیہ دیا تھا۔ 

ابھی ہی تو اس کی معیت میں دل نے دھڑکنا شروع کیا تھا۔ کچھ ہی ساعت قبل ہی تو محبت کے ایک ننھے پودے نے سر اٹھایا تھا۔۔۔پھر اسے اکھاڑ پھینکنے کیلئے یہ بے رحم طوفان کہاں سے آ گیا تھا؟ یہ خوشی و سکون کے چند اک پل کیوں اس سے چھین لیئے گئے تھے۔ 

"کہاں ہو تم قیصر؟۔۔۔کہاں ہو؟"۔ روتے روتے بستر پر گرتے ہوئے اس کے لبوں پر بس اسی جملے کی تکرار تھی۔ پھر ہوش کی دنیا سے کب اس کا ناطہ ٹوٹا زیست کو اس کا احساس تک نہ ہو سکا۔

                              ☆☆☆☆☆

بیرونی دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی تھی۔ جس پر شہیر اپنی جگہ سے اٹھا۔ کیونکہ زر وہاں نہ تھا۔

میجک آئی سے دیکھنے پر اسے عالیان کی صورت نظر آئی تو اس نے دروازہ کھول دیا۔ لیکن اگلے ہی پل اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا۔

"تم؟ تم یہاں کیا کر رہی ہو؟"۔  عالیان کے ساتھ موجود ماہا کو دیکھ کر اس نے حیرانگی سے استفسار کیا۔

وہ منہ کھولنے ہی لگی تھی جب عالیان بول پڑا۔

"ان محترمہ کو میں لایا ہوں ساتھ"۔ جواب دیتے ہوئے وہ شہیر کو پرے ہٹا کر اندر داخل ہو گیا تھا۔ پیچھے پیچھے ماہا بھی اندر آ گئی۔

"تم اسے کیوں لائے؟ پہلے ہی کیا کم خطرہ تھا ہمارے سروں پر؟جو اب ایک نئی مصیبت لے آئے"۔ وہ دونوں ہاتھ کمر پہ جمائے برہمی سے گویا تھا۔

وہ جو ہاتھ میں پکڑے ہوئے شاپرز ڈائننگ میز پر رکھ رہی تھی اس کے اس جارحانہ انداز پر ہکا بکا رہ گئی۔

عالیان کچھ کہنے لگا ہی تھا جب وہ تیز گام غصے سے تمتماتے چہرے کے ساتھ اگلے ہی پل اس کے سامنے آئی تھی۔

"تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے مصیبت کہنے کی؟ آخر مطلب کیا ہے تمہارا اس بات سے، ہاں؟ آخر خود کو تم سمجھتے کیا ہو؟"۔ وہ اچھی طرح اس کی طبیعت صاف کرنے کا تہیہ کر چکی تھی اب کی بار۔

عالیان پیشانی مسلتا ہوا صوفے پر ڈھے گیا۔

"جیسی تمہاری یہ فراٹے سے چلتی ہوئی زبان ہے نا اس حساب سے تو یہ ٹائیٹل تم پر خوب جچتا ہے"۔ وہ بھی دوبدو بولا تھا۔

جس پر وہ مزید تپ گئی۔

"اور تم؟ تمہیں کسی لڑکی سے بات کرنے کی تمیز نہیں سکھائی گئی ہے کیا؟ جب دیکھو تب مرچیں چبانے لگتے ہو۔ تم آخر۔۔۔۔"۔

"بس کرو یار اب تم دونوں"۔ آخر عالیان نے زچ ہو کر مداخلت کی۔

ماہا کا جملہ درمیان میں ہی رہ گیا۔

شہیر نے ایک تیکھی نگاہ اس پر ڈالی پھر اور کچھ کہے بغیر رخ موڑ کر کچن کی طرف چلا گیا۔

"اور ماہا تمہیں میں یہاں کس لیئے لایا تھا؟"۔ وہ ایک ابرو اٹھائے اسے یاد دلانے لگا۔

جس پر وہ فورا شرمندہ سی ہو گئی۔

"آئم سوری، ویری سوری، میں دیکھتی ہوں بھابھی کو"۔ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے وہ اب جلدی سے سامنے موجود اس چھوٹے سے کچن کی جانب چلی آئی۔

شہیر پانی کی بوتل منہ سے لگائے بغور اس کا خفت سے سرخ پڑتا چہرا دیکھ رہا تھا۔ 

نگاہ ملائے بغیر اسے نظرانداز کرکے وہ رخ موڑ کر کیبنٹ کھول کھول کے برتن ڈھونڈنے لگی۔

شہیر نے اس کی اس حرکت پر امڈ آئی اپنی مسکراہٹ کو چھپانے کی غرض سے فرج کھول لیا۔

عین اسی وقت اس کی نگاہوں نے جھکے چہرے پر مسکراہٹ کی ہلکی سی چھاپ دیکھ لی تھی۔

"کیا مسئلہ ہے؟"۔ وہ پوچھے بنا نہ رہ سکی۔

وہ متذبذب سا ہو کر سر اٹھا گیا۔

"وہ میں کہنا چاہ رہا تھا کہ۔۔۔دراصل کیا ہے کے اس کچن میں آپ کو سوائے چائے بنانے کیلئے چند ایک برتن کے اور کچھ نہیں ملے گا"۔ اطلاع بہم پہنچاتے ہوئے اس نے اب کی بار مسکراہٹ چھپانے کی قطعا زحمت نہ کی تھی۔

اس کی بات پر وہ خفت زدہ ہو گئی۔ سر خود بخود جھکتا چلا گیا۔ 

وہ کچھ حیرت کچھ دلچسپی سے حیا کا یہ رنگ اس کے چہرے پر ملاحظہ کر رہا تھا۔

"ایسا کیوں ہے؟"۔ اب کی بار جب اس نے سوال کیا تو لہجہ قدرے دھیما سا ہو گیا تھا۔

شہیر نے گلا کھنکار کر گویا اپنی اور اس کی جھینپ مٹانی چاہی۔

"اب ظاہر ہے یہاں ہمارے درمیان آج سے پہلے کسی خاتون کی تشریف آوری تو ہوتی نہیں تھی۔ سو بے کار کے کام نہ بڑھے اس لیئے اسی سے کام چلا لیتے ہیں"۔ تفصیلی جواب دیتے ہوئے اس نے ایک شاپر فرج کے اوپر سے اٹھا کر اس کے سامنے لا کے رکھ دیا۔

ماہا نے ڈسپوزیبل پلیٹس کو ایک نظر دیکھا پھر سر اٹھا کر کچھ فاصلے پر موجود اسے۔

"تھینک یو"۔ آہستگی سے اس کے لبوں سے ادا ہوا۔

"یو آر مور دین ویلکم"۔ بھاری لب و لہجے میں وہ بے اختیار بولا تھا۔

ماہا کے دل نے ایک بیٹ مس کیا۔

اسے وہاں مزید رکنا محال تھا۔ جلدی سے شاپر اٹھائے وہ کچن سے باہر نکل گئی تھی۔

"اوہ خیر!۔ یہ کیا تھا؟"۔ پیشانی مسلتے وہ اپنی کچھ دیر قبل والی کیفیت پر غور کرتے بوکھلا سا گیا۔

                               ☆☆☆☆☆

کھانے کی ٹرائے سجائے وہ بند کمرے کے سامنے آئی۔ ناب گھمایا مگر دروازہ اندر سے لاکڈ ملا تھا۔

"بھابھی؟ دروازہ کھولیں میں ہوں، ماہا"۔ اس نے ایک ہاتھ میں ٹرے تھامے دوسرے سے دروازے پر ہلکی سی دستک دی ساتھ ہی آواز بھی لگائی۔

مگر جواب ندارد۔

"بھابھی  پلیز دروازہ کھولیں"۔ دستک اب زور پکڑنے لگی تھی۔ ساتھ ہی ماہا کی تشویش بھی بڑھتی جا رہی تھی۔

لاؤنج میں بیٹھے عالیان اور شہیر اس کی پریشان آواز سن کر ٹھٹھک گئے تھے۔

"کچھ گڑبڑ لگتی ہے"۔ شہیر نے اندیشہ ظاہر کیا۔

اور اگلے ہی پل وہ دونوں وہاں آن وارد ہوئے تھے۔

ان کی صورت دیکھتے ہی ماہا کی گھٹی ہوئی آواز برآمد ہوئی۔

"وہ دروازہ نہیں کھول رہیں"۔ آنکھیں لبا لب پانیوں سے بھر آئیں تھی۔

عالیان کو اس پر ترس آیا۔

"اچھا تم ٹینشن مت لو ہم دیکھتے ہیں"۔ اس نے تسلی آمیر لہجے میں کہا۔ پھر شہیر کو اشارہ کیا۔

وہ جلدی سے جا کر برابر والے کمرے سے ماسٹر کی اٹھا لایا۔

دروازہ جیسے ہی کھلا ماہا دوڑ کر اندر داخل ہو گئی۔ 

"بھابھی!"۔ ٹرے ایک طرف رکھ کے اس کے آڑے ترچھے پڑے وجود کی جانب آئی تھی۔

"اوہ گاڈ! یہ تو بے ہوش ہیں"۔ وہ اپنے آنسو روک نہ پائی تھی زیست کی یہ حالت دیکھ کر۔

عالیان اور شہیر الگ پریشان تھے۔

"انہیں فورا ہسپتال لے جانا ہوگا"۔ عالیان یہی سمجھ آیا۔ لہٰذا وہ آگے بڑھا تھا۔ 

"پاگل ہو گئے ہو؟ تم جانتے بھی ہو وہ لوگ اسے ہی ڈھونڈ رہے ہوں گے ہر طرف۔ باہر جانا سیف نہیں ہے اس وقت اس کیلئے"۔ شہیر نے اسے روکا تھا۔

ماہا کو ان کی باتیں خاک سمجھ نہ آ رہی تھی۔

"یہاں رہی تو تب بھی نہیں بچ پائے گی۔ اور اس نے امانت کے طور پر اسے ہمارے حوالے کیا ہے"۔ جھٹکے سے اپنا بازو چھڑواتے ہوئے آگے بڑھ کر اس نے زیست کو اٹھا لیا۔

"چاہو تو مدد کر سکتے ہو"۔  رک کر اس نے سنجیدگی سے اس کی جانب دیکھ کر کہا۔

"ظاہر ہے اب کنوئیں میں کودنے جا رہے ہو تو کوئی سمجھدار شخص بھی ہونا چاہیئے نا ساتھ"۔ بیڈ سائیڈ ٹیبل سے گاڑی کی چابی اٹھاتے ہوئے اس نے طنزیہ کیا۔

"گڈ۔ ماہا جا کے دروازہ کھولو تم"۔ آگے آگے چلتے ہوئے اس نے کہا۔

وہ سر ہلاتی آنسو پونچھتی ہوئی باہر بھاگی تھی۔

آنا فانا وہ اسے قریبی ہسپتال لے گئے تھے۔

                                 ☆☆☆☆☆

قید کا دوسرا دن ہو چکا تھا۔ وہ اسی طرح زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ ہاتھ ایک ہی پوزیشن میں رہنے کی وجہ سے اکڑ گئے تھے۔ سفید شرٹ کا سفید رنگ اب رہا ہی نہیں تھا۔ کوڑوں نے اسکے جسم سمیت شرٹ بھی چھلنی چھلنی کر دیا تھا۔ اس کا سر نیچے ڈھلکا ہوا تھا اور گھٹنے زمین سے زرا اوپر کو ہوا میں معلق تھے۔ کیونکہ اس کے ہاتھ دونوں جانب سے سختی کے ساتھ بندھے تھے۔ ایسے کے اس کی ٹانگیں زمین سے نہ لگ سکیں۔

وہ شاید ہوش میں نہ تھا۔

سیمنٹ کی فرش اور اکھڑے ہوئے پینٹ والی سفید دیواریں اس قید میں بس یہی دو چیزیں دیکھنے کو تھیں۔ تیسری شے وہ چھوٹا سا روزن تھا جس سے دن کی ہلکی ہلکی سی روشنی سیاہ فرش پر پڑتی اس کمرے کے اندھیرے دور کرنے کیلئے ناکافی ثابت ہو رہی تھی۔ معلوم ہوتا تھا جیسے شام کا وقت ہو رہا ہے۔

چوتھی شے وہ لوہے کا بند دروازہ تھا جس سے کچھ دیر قبل تابین کے آدمی اس پر بے انتہا تشدد کرنے کے بعد گئے تھے۔ پھر کئی گھنٹوں کی خاموشی چھا گئی تھی۔ تب سے اب تک وہ اسی پوزیشن میں تھا۔

دروازہ اپنی مخصوص بے ہنگم آواز کے ساتھ کھلا تھا۔ ہیلز کی آواز ہر لمحہ قید کی خاموشی چاک کر رہی تھی۔

وہ اس کے سامنے آ کر رک گئی۔

پانی سے بھری پڑی بالٹی اٹھا کر اس نے قیصر پر الٹا دی تھی۔  جس سے وہ بیدار ہونے لگا تھا۔

"کہیں آرام میں خلل تو نہیں ڈال دیا میں نے"۔ طنز سے کہتے ہوئے اس نے انگلی سے اس کا چہرا اونچا کیا۔ 

اس کی آنکھیں پہلے سے زیادہ سوج چکی تھیں۔ جس سے جاگتے رہنے کے باوجود بھی خم دار پلکوں نے بہت حد تک سرمئی آنکھوں کو ڈھانپ رکھا تھا۔ 

پیشانی پر، گال پر کئی ایک ضرب کے نشان پڑے تھے۔ منہ سے خون رستا رہا تھا۔ جسے پانی نے کافی حد تک دھو ڈالا تھا۔

وہ خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔

"کیوں خود پر اتنا ظلم کر رہے ہو؟ بات مان کیوں نہیں لیتے میری؟"۔ اس کی پیشانی سے چپکے گیلے بال ہٹاتے ہوئے وہ دھیمی آواز میں کہہ رہی تھی۔

سپاٹ چہرے سے اندازہ لگانا مشکل تھا کے وہ کیا چاہ رہی ہے۔ 

البتہ نگاہوں میں تکلیف تھی۔ بہت گہری آنکھیں تھیں اس کی۔ خالص سیاہ۔ سمندر کی گہری تہہ ہو جیسے!

"تم یہ سب۔۔۔کیوں کر رہی ہو؟ مار کیوں۔۔۔نہیں۔۔۔دیتی مجھے؟"۔ اس کے سرسراتے لبوں سے نقاہت زدہ سی آواز میں الفاظ برآمد ہوئے تھے۔ 

تابین نے گہرا سانس بھرا۔

"تمہیں مارنا میرا مقصد نہیں ہے"۔ وہ حد درجہ سنجیدگی سے بولی۔

قیصر کا چہرا سوالیہ نشان بن گیا۔

"تمہیں اپنانا چاہتی ہوں قیصر"۔ نہ التجا تھی نہ اطلاع۔ وہ صاف حکم تھا۔ جس پر قیصر کو سر نگوں ہونا ہی تھا۔ تابین کے مطابق۔

"انکار کی کوئی گنجائش نہیں، نہ ہی فرار کی کوئی راہ ہے تمہارے پاس"۔ اس کے لہجے میں قطعیت تھی۔

وہ تلخی سے ہنسا۔

"تمہیں کیا میں۔۔۔اتنا پسند ہوں کے اپنے۔۔۔باپ کا خون بھی۔۔۔مجھے معاف کرنے پر۔۔۔راضی ہو؟"۔ وہ اس کا مذاق اڑا رہا تھا۔

تابین نے زور سے مٹھیاں بھینچ لیں۔

"کس نے کہا کے میں تمہیں معاف کر رہی ہو؟ یہی تو اصل کھیل ہے قیصر، تمہیں میرے باپ کے خون کی سزا اپنی چہیتی الوینا کے قاتل کو قریب رکھ کر ملے گی"۔ اپنے غصے و درد کے طوفانوں کو دباتی وہ اپنا زہر اس میں انڈیلنے میں کامیاب ہوئی تھی۔

کوشش کے باوجود وہ اپنے چہرے پر چھا جانے والے درد کے بادلوں کو روک نہ سکا تھا۔ سرمئی آنکھ کا گوشہ بھیگ گیا۔

"اور مجھے تم سے محبت کرنے کی سزا میں خود دوں گی۔ کیونکہ تم بیک وقت میری محبت و نفرت کے اکلوتے امیدوار ہو۔ تمہیں پاس رکھ کے میں اپنی محبت پا لوں گی اور اپنی نفرت کی آگ میں خود کو جلا کر اپنے باپ کے قاتل سے محبت کرنے کی سزا پاؤں گی"۔ اس کے رخسار پر انگلیاں پھیرتے ہوئے وہ اپنے عزائم بتا رہی تھی۔

"تم پاگل ہو"۔ اپنا چہرا اس کی انگلیوں کے پہنچ سے دور ہٹاتے ہوئے اس نے اپنی رائے دی تھی۔

جس پر تابین کا قہقہہ بلند ہوا۔ اور پھر وہ ہنستی چلی گئی تھی۔

"تم اتنے حیران کیوں ہو قیصر؟ مجھے تو لگا تھا کے اپنے پرفیکٹ میچ سے مل کر تم خوشی محسوس کرو گے"۔ وہ پلکیں جھپکاتی معصومیت سے گویا ہوئی۔

اس نے بغور اسے دیکھا۔ ہاں وہ ٹھیک ہی تو تھی۔ وہ ہوبہو قیصر خیام کا پرتو تھی۔ اس جیسی ہی سنگدل و بے رحم۔

"تم نے الوینا کو۔۔۔میری وجہ سے مارا؟"۔ قیصر کی آواز میں ایک ان کہا درد تھا۔

"اوہ! تو فائنلی آپ کو سمجھ آ گیا؟"۔ وہ ابرو اٹھائے پراشتیاق لہجے میں بولی۔

"یہ ابھی کی بات نہیں۔ پچھلے پانچ سال سے تم میری نگاہوں میں رہے ہو قیصر خیام۔ اس دن سے، جس دن سے داؤد چچا نے مجھے حاجی کے قریب ہر شخص کا تعارف دیا تھا۔

تو پھر بھلا یہ کل کی آئی الوینا کون ہوتی تھی ہمارے درمیان؟"۔ وہ رقابت کے جذبے سے لبریز تھی۔

قیصر کرب سے آنکھیں میچ گیا۔

"تم مجھے نہیں، اسے مارنے آئی تھی۔ ہے نا؟"۔

اور یہ سمجھنے میں اس نے بہت وقت لگایا تھا۔ اس دوران وہ اس بات کا مکمل فائدہ اٹھا چکی تھی۔

"ہاں، ایسا ہی تھا"۔ وہ کس قدر بے باکی سے اقرار جرم کر رہی تھی۔ چہرے پر کوئی ملال تک نہ تھا۔

"اتنا چاہتی تھی تم مجھے؟"۔ اس نے حیرانگی سے پوچھا۔

"اس سے بھی زیادہ"۔ جواب برجستہ تھا۔

"تو پھر میری طرف، بڑھی کیوں نہیں؟ الوینا کو آنے کا موقع کیوں دیا؟"۔ وہ خود کو کمپوز کرتا پوچھ رہا تھا۔

"اس بات کی ایک وجہ میرے چچا داؤد تھے۔۔۔وہ تم سے شدید نفرت کرتے تھے۔ مجھے کبھی اتنی شہ نہ دیتے۔ تب میں ان کے حکم کی پابند ہوا کرتی تھی"۔ وہ اپنی ہی رو میں یہ سب کہتی جا رہی تھی۔ 

"انہیں بھی تو میں نے مروایا۔ وہ بھی خود اس کے بھائی ولید کے ہاتھوں سے۔ اس کے باوجود بھی تم کیوں مجھ سے محبت کی دعویدار ہو؟"۔ وہ پرتجسس سا اس سے مزید سننا چاہ رہا تھا۔

وہ تلخی سی مسکرائی۔

"کبھی سوچنے کی زحمت کی تم نے؟ کے تمہیں میرے چچا کے کارناموں کے بارے میں وہ ٹپ (معلومات) کس نے دی تھی؟"۔ وہ اپنا جواب سوال کی صورت اس کے سامنے رکھ چکی تھی۔

قیصر نے کچھ سوچا پھر مشکوک نظروں سے اسے دیکھا۔

"تم تھی وہ؟ ہاں، تم ہی تھی۔ اس کا مطلب تمہارے چچا کا خون تمہارے ہاتھ ہے"۔ کڑی سے کڑی ملا کر وہ اپنا جواب پا چکا تھا۔

"وہ بھی کوئی دودھ کے دھلے نہیں تھے۔ میری ذہانت اور اپنی طاقت کو مجتمع کرکے میرے باپ کی پیٹھ پر وار کرکے ان کی جگہ لینا چاہتے تھے وہ۔ اور میں مجبور ہو کر ان کا ساتھ دیتی آئی تھی"۔ اس کی سیاہ آنکھوں میں تکلیف کا عنصر نمایاں تھا۔

اسے یاد تھا وہ دن۔ جب داؤد اسے لے کر بھائی کے پاس آیا تھا۔ وہ ذلت و تکلیف دہ دن تابین کبھی چاہ کر بھی نہیں بھول سکتی تھی۔

کیونکہ ولید عثمان نے دوسری بار بھی اسے ریجیکٹ کر دیا تھا۔ اس شخص نے اپنی سگی بیٹی پر سوتیلی اولاد کو ترجیح دی تھی، یعنی بہروز کو۔ 

"کیوں؟ تمہاری کیا مجبوری تھی ایسی؟"۔ وہ اسے مزید کرید رہا تھا۔ جانے کیوں اسے اس کی ذات کے پہلوؤں کو جاننے میں دلچسپی ہونے لگی تھی۔

"بس آج کیلئے اتنا کافی ہے۔ میرے مزید راز و کمزوری ڈھونڈنے کی کوشش بیکار ہے۔ اگر مزید اور کوشش مقصود ہو تو پہلے میری شرط ماننی ہوگی۔ پھر میں طے کروں گی کے تمہیں اپنا رازدار بنایا جا سکتا ہے یا نہیں"۔ اپنا آپ واضح کرتی ہوئی وہ جانے ہی لگی تھی جب اس کی پکار پر اسے رکنا پڑا۔

"مجھے پانی چاہیے۔ کھانا بھی"۔ اس نے بے اختیار فرمائش کر ڈالی۔

تابین ایڑیوں پر مڑی۔

"تم میری آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر رہے ہو؟"۔ سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے وہ شبے کا اظہار برملا کر رہی تھی۔

وہ کمزور سی ہنسی ہنس دیا۔

"میں یہاں۔۔۔مکمل طور پہ، تمہارے رحم و کرم پر موجود ہوں۔ یہ تک معلوم نہیں کے جگہ کون سی ہوگی یہ۔ اور کیا تمہارے پاس گارڈز اور ہتھیار نہیں ہیں۔۔۔جو تم ایک نہتے آدمی سے اتنا خوف کھا رہی ہو؟"۔ اس کے لہجے میں چبھن تھی۔ گہرا طنز تھا۔

"خوف کھانا پڑتا ہے۔ خاص طور پر تب، جب آپ کو پوری امید ہو کے جسے آپ دل و جان سے بڑھ کر عزیز رکھتے ہیں وہی ایک دن دھوکے کے خنجر سے آپ کی پیٹھ چھلنی کرے گا"۔ وہ حد درجہ صاف گو تھی۔ قیصر کو پورا یقین ہو چلا تھا۔

وہ اب کی بار لاجواب ہو گیا۔ اس سے مزید کچھ کہا یا پوچھا نہ گیا تھا۔

جبکہ وہ بھی اب باہر جا چکی تھی اور اپنے پیچھے پھر اسے قید تنہائی میں چھوڑ گئی تھی۔

دروازے کے باہر ہی کھڑے کھڑے اس نے آواز دی۔

"رانا"۔ اس کی پکار اتنی بلند اور غصیلی تھی کے وہ اگلے ہی لمحے تہہ خانے کی سیڑھیاں دو، تین کرکے پھلانگتا ہوا اس کے سامنے آ گیا تھا۔

"جی مادام"۔ پھولی سانس کے ساتھ وہ اس کے سامنے ہاتھ باندھے مودب سا کھڑا ہو گیا۔

بنا کچھ کہے سنے اچانک اس نے آگے بڑھ کر ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے گول مول چہرے پر رسید کر دیا۔ رانا شاکڈ رہ گیا۔

"تم سے کہا نہیں تھا کے اس کے چہرے پر مار نہیں پڑنی چاہیئے۔ کہا تھا یا نہیں؟"۔ وہ اس کا گریبان پکڑے گرج رہی تھی۔ 

"سوری باس"۔ اس کی آواز خوف سے لڑکھڑائی تھی۔ چھٹانک بھر کی لڑکی کے سامنے وہ پہاڑ جیسا شخص بھی ہیچ تھا۔

"دفع ہو جاؤ میری نظروں کے سامنے سے اور خبردار جو آئندہ میری زرا سی حکم عدولی بھی کی ہو تم نے"۔ اس کے سینے کو پرے دھکیلتے ہوئے اس نے شکل گم کرنے کا اشارہ کیا۔

وہ سر ہلاتا انہی قدموں سے واپس پلٹ گیا تھا۔

تابین گہری گہری سانسیں لیتی اپنا تنفس بحال کرتے ہوئے سیڑھیاں چڑھ گئی۔

                               ☆☆☆☆☆

زیست کو پورا ایک دن انڈر آبزرویشن رکھ کے مکمل تسلی کر لینے کے بعد جا کر ڈاکٹر نے اسے ہسپتال سے جانے کی اجازت دی۔

ماہا زیست کو لیئے گاڑی میں جا بیٹھی تھی۔ جبکہ عالیان اور شہیر کو ڈاکٹر نے طلب کیا تھا۔

"آپ لوگ ان کے کیا لگتے ہیں؟"۔ ڈاکٹر نے اپنے سامنے والی نشستوں پر بیٹھے ان دو نفوس کو باری باری دیکھتے ہوئے زیست کے حوالے سے دریافت کیا۔

"بھابھی ہیں وہ ہماری"۔ عالیان نے جواب دیا۔

"اچھا! کیا میں پوچھ سکتی ہوں کے ان کے شوہر ساتھ کیوں نہیں آئے؟"۔ ان کے لہجے میں ہلکی سی ناگواری در آئی تھی۔ 

"وہ آؤٹ آف سٹی ہیں اس وقت"۔ شہیر نے وضاحت دی۔

"آئی سی، اصولا تو ان کے شوہر کو ساتھ ہونا چاہیئے تھا۔ کیونکہ کچھ باتیں صرف ان ہی کی موجودگی میں ڈسکس کی جا سکتی تھیں"۔ وہ گہری سنجیدگی سے بولیں۔

 ان کی بات پر وہ دونوں ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔

"لیکن خیر، اب چونکہ وہ یہاں نہیں ہیں تو یہ مجبوری ہے کے میں چند باتیں آپ دونوں کے ذریعے ہی ان تک پہنچا دوں"۔ انہوں نے اضافہ کیا۔

"جی ضرور"۔ شہیر نے ہی کہا۔

"فائن، مجھے نہیں معلوم کے اپنی بیوی اور بچے سے زیادہ اہم کام ان کیلئے کیا ہو سکتا تھا۔ لیکن میرا یہ خصوصی پیغام انہیں لازمی دیجیے گا کہ ان کی وائف کے کیس میں کچھ پیچیدگیاں ہیں، اس لیئے اگر وہ ان کی سلامتی چاہتے ہیں تو ان کو کیئر کی، اچھی نگہداشت کی بہت سخت ضرورت ہے۔ جو صرف وہ ہی کر سکتے ہیں۔ ورنہ پھر دوسری صورت میں مریضہ کی جان کے پیش نظر، بہت افسوس کے ساتھ، بچہ ابارٹ کروانا پڑ سکتا ہے"۔ انہوں نے آخری بات قدرے مایوسی کے عالم میں کہی تھی۔

ان کی بات پر دونوں نے افسردگی سے ایک دوسرے کو دیکھا۔

کچھ ہی دیر بعد وہ دونوں ہسپتال کی عمارت سے باہر آگئے تھے۔ شہیر میڈیکل اسٹور تک گیا تھا۔ جبکہ عالیان کے ہاتھ میں موجود موبائل کی روشن اسکرین پر قیصر کا آخری پیغام کھلا تھا۔

"ہم نے جو طے کیا تھا سب اسی کے مطابق ہو رہا ہے۔مجھے پورا یقین ہے کہ تھوڑی ہی دیر تک میں ان کی کچھار میں داخل ہو جاؤں گا۔ تم سے بس ایک ہی درخواست ہے کے میرے جانے ہے بعد یہاں آکر زیست کو کسی محفوظ جگہ لے جانا اور جب تک میری طرف سے دوسرا پیغام نہ ملے اسے حفاظت میں رکھنا۔ کیونکہ وہ میرے بچے کے ساتھ ہے۔ 

اللہ کے بعد وہ تمہاری امانت ہیں عالیان!"۔ اس میسج کو اب تک دو دن بیت چکے تھے۔ لیکن قیصر کی جانب سے کوئی خیر خبر نہ آئی تھی۔

"امید ہے تم ٹھیک ہوگے میرے دوست! جلد واپسی کرو، تمہارے اپنوں کو تمہاری بےحد ضرورت ہے"۔ وہ یاسیت سے کہتا زیر لب اسے مخاطب کر رہا تھا۔

"چلو چلیں"۔ شہیر نے قریب پہنچ کر اسے مخاطب کیا۔ نظریں اس پیغام کو دیکھ چکی تھیں۔

اس نے سر ہلا کر موبائل جیب میں رکھتے ہوئے قدم آگے بڑھا دیئے۔

                               ☆☆☆☆☆

بند دروازے پر دستک کے ساتھ ہی وہ اندر داخل ہو گیا تھا۔

آفس نما اس چھوٹے سے کمرے میں اس وقت لیفٹیننٹ جنرل باقر موجود تھے۔ دروازے کی جانب ان کی پشت تھی۔ 

وہاں کی سفید دیواریں الگ الگ مناظر میں لی گئیں مختلف تصویروں سے مزین تھیں۔ باقر کھڑے کھڑے انہی کو دیکھ رہے تھے۔

"آؤ شہیر"۔ رخ موڑتے ہوئے اپنے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے شہیر کو مخاطب کرتے ہوئے کرسی کی جانب اشارہ کیا۔

"تھینک یو سر"۔ وہ بیٹھ چکا تھا۔

وہ بھی پاور سیٹ پر آ بیٹھے۔

"قیصر اغواء ہو چکا ہے"۔ چند فائلز ان کے سامنے میز پر رکھتے ہوئے اس نے آگاہ کیا۔

"اغواء؟ یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟"۔ انہوں نے بے یقینی سے کہا۔

"جی ہاں"۔ اس نے مختصر جواب دیا۔

"سر کیا ایسا نہیں ہو سکتا کے ہم اس کی مدد کرنے کیلئے کوئی نئی منصوبہ بندی کریں؟ میں اسی سلسلے میں بات کرنے کیلئے آپ سے ملنے آیا ہوں"۔ وہ اب مدعے پہ آ گیا تھا۔

"ہرگز نہیں۔ تم لوگوں سے کہا جا چکا ہے کے اگلے حکم تک تم لوگ کچھ نہیں کرو گے۔ جو کرنا ہے اب وہ خود کرے۔ ایسے مراحل میں ہم اس کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔ یہ شروع سے طے تھا"۔ انہوں نے اس معاملے میں معذوری ظاہر کردی۔

وہ گہرا سانس بھر کے رہ گیا۔

"میں بس، نہیں چاہتا کے وہ بچہ بن باپ کا رہ جائے"۔ اس کے لہجے میں گہرے دکھ کا عنصر نمایاں تھا۔

ان کے چہرے پر بھی افسردگی چھا گئی۔

"تم جانتے ہو ایسی صورت میں ہم کچھ نہیں کر سکتے شہیر، اور اگر کر سکتے تو اس وقت میکائیل ہمارے ساتھ ہوتا "۔ ان کا لہجہ حسرت آمیز ہو گیا۔

وہ چند لمحے خاموش ہو گیا۔

"اگر ہم ان کی لوکیشنز بدلوا دیں تو؟ وہ نقشے جو ان کے قبضے میں ہیں بے کار ہو جائیں گے"۔ اچانک اس نے نئی تجویز پیش کی۔

"اس وقت یہ خاصا خطرناک ہوگا۔ یہ ہمیں ارد گرد سے گھیر کر ہمارے درمیان داخل ہو چکے ہیں۔ کوئی پتہ نہیں کہ ان کا پالتو کتا کون ہو سکتا ہے۔ جب تک یہ پتہ نہیں چل جاتا ہماری ہر احتیاط، ہر وار کا وہ کوئی توڑ کرتے رہیں گے"۔ انہوں نے اس تجویز کو فل الفور موخر کر دیا۔

وہ کچھ سوچ کر کسی نتیجے پر پہنچنا چاہ رہے تھے جب اچانک ان کے ذہن میں جھماکا ہوا۔

"تم نے کہا تھا کے ایئر پورٹ پر تم لوگ حسن کو پکڑنے گئے تھے اور اس کے بجائے کوئی نقلی آدمی حسن بن کر تم لوگوں کے ہاتھ آ گیا تھا؟"۔ وہ اسے چند ہفتے قبل کے واقعے کا حوالہ دے رہے تھے۔

"ہاں، لیکن اس کا یہاں کیا ذکر؟"۔ وہ کنفیوز سا ہو گیا۔

"حسن کی تصویر بہروز کے ڈیٹا کو ہیک کرکے کس نے نکال کر دی تھی؟"۔ وہ اس کا سوال نظرانداز کئے مزید پوچھنے لگے۔

"اس دن ہم نے۔۔۔حماد کو نقلی یو ایس بی میں وائرس ڈال کر بہروز کے پاس بھیجا تھا۔ پھر غالبا اس کے بعد بہروز نے جیسے ہی وہ یو-ایس-بی اپنے ڈیوائس سے کنیکٹ کی جس سے اس کا ڈیٹا ہم تم پہنچا۔ وہاں سے ہمیں حسن کی وہی تصویر ملی تھی"۔ شہیر من و عن سب دہراتا چلا گیا۔

"تم لوگوں میں ڈیٹا ہیک کرنے والی بات کون کون سے آفیسرز کو پتہ تھی؟"۔  وہ جلدی جلدی کڑی سے کڑی ملانے لگے۔

"یہ بات تو مجھے عالیان، قیصر، حماد اور زر کو پتہ تھی"۔ پیشانی مسلتے ہوئے وہ کہہ رہا تھا۔ 

عین اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی تھی۔

"کم ان"۔  باقر نے بلند آواز سے کہا۔

اگلے ہی پل عالیان ان کے روبرو موجود تھا۔

انہیں سلیوٹ کرنے کے بعد وہ بولا۔ 

"سر وہ ابو زر ہے"۔ سر جھکائے دھیمی آواز میں اس نے انکشاف کا بم پھوڑا تھا۔ ہاتھ میں پکڑی ہوئی فائل اس نے انہیں سونپ دی۔

"ابو زر پہ میں نے کڑی نگاہ رکھنے کے بعد یہ رپورٹ بنائی ہے اور اس نتیجے پہ پہنچا ہوں کے ہمارے درمیان موجود کھوٹا سکہ وہی ہے"۔ عالیان کا سر مارے شرمندگی کے جھکا ہوا تھا۔ 

"یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا بکواس کر رہے ہو تم یہ؟"۔ شہیر کو قطعی یقین نہ آیا تھا۔

"وہی جو تم سن رہے ہو شہیر، حقیقت"۔  عالیان نے افسردگی سے کہا۔

"ابو زر؟ وہ ایسا کرے گا؟"۔ وہ اب تک شاکڈ تھا۔

"وہ ایسا کر چکا ہے۔ ہمیں اسے رنگے ہاتھوں پکڑنا ہوگا"۔ شہیر کو نظرانداز کرکے وہ باقر سے مخاطب ہوا۔

اس وقت وہ اپنے ایک دوست کی دغا کا غم مناتا تو دوسری جانب قیصر کی جان خطرے میں تھی۔ چونکہ وہ بھی اب اس کا دوست تھا لہٰذا عالیان اسے ہر حال میں بچانا چاہتا تھا۔

"ٹھیک کہا تم نے۔ اس کا پیچھا کرتے رہو۔ موقع ملتے ہی گرفتار کر لاؤ اس دھوکے باز کو"۔ انہوں نے سخت لہجے میں حکم دیا۔

"یس سر"۔ سلیوٹ کرنے کے بعد وہ وہاں سے نکل گیا تھا۔

جبکہ شہیر ابھی تک حیران پریشان کھڑا تھا۔

                               ☆☆☆☆☆

"چلیں اب آپ آرام کریں"۔ اسے اپنی نگرانی میں کھانا کھلانے کے بعد ماہا نے اسے سونے بھیج دیا۔

"تم سب کو میری وجہ سے کتنی پریشانی اٹھانی پڑ رہی ہے"۔ اپنی ذات کی الجھنوں سے نکل کر اس نے پہلی بار ان کی اپنے لیئے فکر و پریشانی کا احساس کیا تھا۔ اور شرمندہ سی ہو گئی۔

"ارے یہ بھلا کیا بات ہوئی؟ آپ کیلئے کیا میں کوئی غیر ہوں جو آپ ایسا کہہ رہیں؟"۔ ماہا نے فورا خفگی کا اظہار کیا۔

"نہیں میری گڑیا، میرا یہ ہرگز بھی مطلب نہیں تھا۔ تم تو چھوٹی بہنوں کی طرح ہو میرے لیئے"۔ زیست نے بےحد اپنایت سے کہا۔

"بس تو پھر اپنی اس بہن کا کہا مانتے ہوئے آپ ناشتہ، کھانا سونا سب میری بنائی گئی ڈائیٹ چارٹ کے مطابق کریں گی۔ پتہ ہے دو گھنٹے بیٹھ کر میں نے انٹرنیٹ پر سرچ کرنے کے بعد سب نوٹ کرکے رکھا ہے آپ کیلئے۔ اس لیئے پلیز آپ اچھی بچی بنی رہیں اور  میرے بھائی کے سامنے مجھے شرمندہ مت ہونے دیں"۔ وہ لجاجت سے بولی تھی۔

زیست اداسی سے ہنس دی۔

"وہ واقعی آئے گا نا؟"۔ سبز آنکھوں میں امید کے کتنے ہی دیئے روشن تھے۔ اور ساتھ ساتھ کتنے ہی اندیشے تھے اس کے سوال میں۔

ماہا کا دل تکلیف سے بھر آیا۔ مگر اس نے زیست کے سامنے خود کو بشاش رکھنے کی کوشش کی۔

"کیوں نہیں آئیں گے بھلا؟ میں انہیں خوب جانتی ہوں، کوئی قید انہیں زیادہ دیر نہیں روک سکتی۔ آپ دیکھنا وہ جلد ہی ہمارے ساتھ ہوں گے"۔ 

"کیا سچ میں؟"۔ وہ کسی طرح یقین چاہ رہی تھی۔

"بالکل، سو فیصد سچ"۔ وہ پریقینی سے بولی۔

"ان شاء اللہ ایسا ہی ہوگا"۔ اس عرصے میں وہ پہلی بار مایوسیوں سے نکل کر امید کا دامن تھامنے لگی تھی۔

"اچھا اب آپ سو جائیں۔ تھوڑی دیر آرام کریں۔ پھر آپ کو بہت سارے جوسز بنا کر دینے ہیں میں نے شام کو۔ وہ سارے پینے ہیں آپ کو"۔ انگلی اٹھا کر وہ اسے حکم سنا رہی تھی۔

"جی دادی اماں جیسا آپ ٹھیک سمجھیں"۔ وہ اس کے انداز پر مسکراتی ہوئی لیٹ چکی تھی۔

اس کے کمرے سے باہر ٹرے اٹھائے وہ جوں ہی ڈائیننگ میز تک آئی تھی اس کی ہمت جواب دے گئی۔ وہ منہ پر ہاتھ رکھے سسک پڑی۔

عالیان جو ابھی ابھی وہاں پہنچا تھا اسے یوں روتے دیکھ کر اس کی جانب چلا آیا۔

"کیا ہوا؟ تم رو کیوں رہی ہو؟"۔  قریب پہنچ کر اس نے استفسار کیا۔

آواز پر ماہا نے جلدی سے رخ موڑ کر آنسو صاف کر لیئے۔

"نہیں تو، میں کب روئی"۔ وہ صاف مکر گئی۔

"ہاں آپ تو پہاڑ جیسی مضبوط قسم کی شخصیت ہیں۔ رو تھوڑی سکتی ہیں اتنی مضبوط شخصیت؟"۔ وہ ہلکے پھلکے انداز میں اسے مزاح کا روپ دینا چاہ رہا تھا۔ جبکہ ماہا پر الٹا اثر ہوا۔ وہ اب زور و شورو سے رونے لگی تھی۔

"آئم۔۔۔آئم سوری ویری سوری میں تو بس مذاق میں۔۔۔۔"۔

"میں آپ کی وجہ سے نہیں رو رہی"۔ اس کی بات پوری ہونے سے قبل ہی وہ بھیگی آواز میں بولی۔

"تو پھر کیا وجہ ہے؟"۔ سینے پر ہاتھ باندھے وہ ہمہ تن گوش ہوا۔

"مجھے سچ بتائیں قیصر بھائی کہاں ہیں؟ وہ کیسے ہیں کس حال میں ہیں؟ کہیں بھائی (میکائیل) کی طرح وہ بھی۔۔۔۔"۔

"شش شش! ایسا کیوں سوچ رہی ہو تم؟ کچھ نہیں ہوگا اسے وہ بہت مضبوط ہے"۔ عالیان نے بھرپور تسلی سے کہا۔

"آپ سب ہی ایسے جواب دیتے ہیں مجھے۔ بھائی کے ٹائم پہ بھی سب نے یہی کہا تھا مجھ سے مگر۔۔۔وہ نہیں آئے۔۔۔نہیں آئے وہ واپس"۔ آنسوؤں سے تر رخسار کو بے دردی سے رگڑتی ہوئی وہ آج پہلی بار میکائیل سے متعلق کھل کر اپنے خدشے کا اظہار کر رہی تھی۔

اپنے والدین کی پریشانی کے سبب اس سے پہلے اس نے کبھی بھائی کا ذکر نہیں کیا تھا ان سے۔ 

وہ تینوں ہی اس موضوع کو ایک دوسرے کے سامنے چھیڑنے سے کتراتے تھے۔

وہ اس کے کام کی نوعیت سے واقف تھی۔ اور کیسے نہ ہوتی؟ وہ سب سے زیادہ اس کے قریب ہوتی تھی۔ اور پھر فیض صاحب جب قیصر کو ان کے مقابل میکائیل بنا کر لائے تھے تو لاشعوری طور پر وہ اس سے بھی ویسے ہی قریب ہوگئی جیسے وہ واقعی میکائیل ہی ہو۔ اپنے بھائی کو وہ قیصر میں دیکھتی تھی۔ اور آج وہ بھی اس سے دور چلا گیا تھا۔

عالیان کچھ لمحے تذبذب میں گھرا سوچتا رہا۔ پھر حتمی فیصلہ کرتے ہوئے کہا۔

"اچھا چلو تم یہاں بیٹھو پہلے کم آن"۔ میز کے گرد کرسی گھسیٹ کر اسے پچکارا۔

وہ چپ چاپ جا کر بیٹھ گئی۔

وہ بھی اس کے برابر آ بیٹھا۔

"تمہیں یہ شکایت ہے نا کے ہم میں سے کسی نے بھی تمہیں تمہارے بھائی کے معاملے میں تم سے کچھ بھی نہیں کہا؟"۔ پانی کا گلاس بھر کر اسے دیتے ہوئے اس نے بات شروع کی۔

ماہا نے ایک نظر اس کو دیکھا پھر گلاس تھامتے ہوئے اس بات میں سر ہلایا۔

"تو اب میں نے فیصلہ کیا ہے کے تمہیں وہ باتیں بتائی جائیں جو میرے اور قیصر کے علاوہ ابھی تک تیسرا کوئی نہیں جانتا"۔ اس نے تمہید باندھی۔

ماہا نے دو گھونٹ بھر کے پانی کا گلاس رکھ دیا۔ وہ آنسو پونچھ کر اب پوری توجہ سے اس کی بات سننے لگی تھی۔

"لیکن اس کیلئے میری دو شرائط ہیں"۔ مدعے پر آنے سے قبل وہ اسے تیار کر رہا تھا۔

"کیسی شرائط؟"۔ ماہا کا تجسس اب بڑھتا جا رہا تھا۔

"پہلی یہ کے تم ساری باتیں بس اپنی ذات تک ہی محدود رکھو گی"۔ عالیان نے اس سے وعدہ لیا۔

"ٹھیک ہے وعدہ۔ اور دوسری؟" وہ بچوں کے سے انداز میں بولی۔

"تمہیں پھر میرا ایک کام کرنا ہوگا"۔ 

"میں بھلا کیا کر سکتی ہوں؟"۔ وہ حیرانگی سے بولی۔

"جو بھی ہو لیکن یہ کام صرف تم کر سکتی ہو"۔ عالیان نے وثوق سے کہا۔

"میں تیار ہوں"۔ کچھ سوچ بچار کے بعد اس نے جواب دیا۔

"گڈ! تو اب بات یہ ہے کے۔۔۔"۔ وہ اسے قیصر کے شروع دن سے لے کر اب تک (کچھ اہم باتیں چھوڑ کر) ساری باتیں بتاتا گیا۔ جو کے غیر حساس تھیں۔

ماہا کے چودہ طبق روشن ہو گئے یہ سب جان کر۔

"تو اس لیئے ڈیڈ انہیں ہمارے گھر لائے"۔ وہ اب کافی حد تک معاملے کی گہرائی سمجھ چکی تھی۔

"ہاں، اور اب جو بات تم جانو گی وہ سب سے اہم ہے"۔ وہ مزید بتانے لگا۔

                                ☆☆☆☆☆

پورے چار دن بیت چکے تھے اسے اس سیاہ قید میں۔ 

قیصر اب تک بری طرح نڈھال ہو چکا تھا۔

سیمنٹ کے سیاہ فرش پہ دیوار سے کمر ٹکائے وہ اکڑوں بیٹھا تھا۔ 

ابھی کچھ دیر قبل ہی دو آدمی اسے زنجیروں سے آزاد کر گئے تھے۔ غالبا تابین کے ہی حکم پر۔

اس کے ہاتھوں میں ایک ہی جگہ اور ایک ہی پوزیشن میں رہنے کی وجہ سے خون کا دورانیہ سست پڑ گیا تھا۔ جس سے ہاتھ اکڑ گئے تھے۔ وہ سخت تر تکلیف ہونے کے باوجود بھی انہیں دائرے کی صورت گھماتے درست حالت میں لانے کی کوشش کر رہا تھا۔

اگلے ہی لمحے دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز آئی۔ اس نے سر اٹھانے کی زحمت نہ کی۔ وہ جانتا تھا آنے والا کون ہے۔

"امید ہے تم نے اپنا فیصلہ لے لیا ہوگا"۔ اس کے سر پہ کھڑی وہ اس کی زبان سے نکلنے والے ہاں کی منتظر تھی۔

قیصر نے سر اٹھایا۔ وہ اسی پہ نظریں جمائے کھڑی تھی۔

"اگر میں انکار کردوں تو؟"۔ دیوار کا سہارا لے کر اٹھ کھڑے ہوتے وہ اس کے مقابل آیا۔

تابین کو اس سے اسی بات کی امید تھی۔

"تو پھر۔۔۔تمہاری بیوی جو میرے ہاتھوں میں ہے وہ آنے والے بچے سمیت دردناک موت ماری جائے گی"۔ اس کا لہجہ سنگین تھا۔

قیصر کے چہرے پر تناو کی کیفیت واضح محسوس کی جا سکتی تھی۔

"تم ایسا کچھ نہیں کرو گی"۔ وہ اس کے دوبدو آ کے بولا۔

"کیوں نہیں؟ کون روکے گا مجھے؟"۔ وہ مزاق اڑانے والے انداز میں بولی۔

"دیکھو، مجھے زیست سے زرا برابر فرق نہیں پڑتا۔ لیکن میرے بچے کو کوئی ضرر نہیں پہنچنا چاہیے، یاد رکھنا یہ بات"۔ اس کا انداز سرد اور دھمکی بھرا تھا۔ 

"کوئی فرق نہیں پڑتا؟ تمہیں کیا لگتا ہے کے میں تمہاری اس بات کو تسلیم کر لوں گی؟"۔ وہ بے یقین تھی۔

"میرے اور زیست کے درمیان یہ پہلے ہی طے ہو چکا تھا کے بچے کے آنکھ کھولتے ہی میں اسے آزاد کر دوں گا۔ اب یہ تو ظاہر ہے کے وہ کون لڑکی ہوگی جو اپنے بھائی کے قاتل کے ساتھ رہنا پسند کرے گی؟"۔ جانے انجانے میں وہ اپنے الفاظ کی مار اس ہی مار رہا تھا۔

"محبت انسان کو مجبور کر سکتی ہے۔ اس سے کچھ بھی کروا سکتی ہے۔ جب میں اپنے باپ کا خون تمہارے ہاتھوں میں دیکھنے کے باوجود تمہیں چاہ سکتی ہوں۔۔۔تو وہ کیوں نہیں؟"۔ تابین کے انداز میں زخمی پن تھا۔

"تم میں اور اس میں بہت فرق ہے۔ تم بھول سکتی ہوگی لیکن وہ مجھ سے اپنی نفرت آج بھی رواں رکھے ہوئے ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک میں بھی اسے دشمنی کی نظر سے دیکھتا تھا لیکن جب مجھے احساس ہوا کے میں نے اسے غلط سمجھا ہے تو میں نے اسے آزاد کرنے کا فیصلہ کر لیا"۔ وہ سفید دیوار پہ نظریں جمائے اپنی ہی رو میں کہتا جا رہا تھا۔

"اچھا ہوتا اگر میں زیست کے بجائے تابین بن کر ہی الوینا کو مارتی۔ اس طرح تم اس کے بجائے مجھے سزا دینے کیلئے اپنے قریب رکھتے"۔ اس نے کس افسوس سے کہی تھی یہ بات۔

قیصر کے اندر لاوا پکنے لگا تھا۔ وہ بمشکل تمام اسے باہر ابلنے سے روکے ہوئے تھا۔

"خیر، اب بھی خاصی دیر نہیں ہوئی اس بات کیلئے"۔ وہ مطمئن سی ہو گئی۔ 

"میں تیار ہوں۔ اپنے نزدیک سب سے قابل نفرت ہستی کو اپنانے کیلئے"۔ اس کے سیاہ بال مٹھی میں جکڑتے ہوئے وہ زہر آلود لہجے میں کہتا اپنی نفرت چھپانے کی زرا برابر بھی کوشش نہیں کر رہا تھا۔

تابین کی سیاہ آنکھوں کی چمک دو آتشہ ہو گئی۔

"خبردار جو اپنی زبان سے پھری تو، ہمارے درمیان ہوئے اس سودے کو ہرگز بھی فراموش مت کرنا۔ سمجھی تم؟"۔ اس کی گرفت مزید مضبوط ہو گئی تھی اس کے کھلے بالوں پر۔

اس قدر نقاہت طاری ہونے کے باوجود بھی اس میں  طاقت کسی حد تک اب بھی برقرار تھی۔

مگر تابین کو اس اذیت میں بھی جانے کون سا سکون مل رہا تھا کے وہ ہنوز مسکرائے جا رہی تھی۔

"مجھے پوری امید ہے کہ جسے تم ابھی سودا کہہ رہے ہو وہ ایک دن محبت کا روپ ضرور دھار لے گا"۔ اس کے انداز میں زعم تھا۔

"آزما کے دیکھ لیں گے پھر"۔ وہ دوبدو بولا۔

جھٹکے سے اس کے بال چھوڑ دیئے تھے۔

"یہ رویہ تم میرے آدمیوں کے سامنے روا نہیں رکھو گے۔ ورنہ دوسری صورت میں شرط سے پھر جانے کیلئے قصوروار مجھے نہ ٹھہرانا"۔ اپنے سلکی بال سنوارتے ہوئے وہ اسے خبردار کر رہی تھی۔

قیصر اس سے متعلق پرواہ کیئے بغیر دروازے کی جانب بڑھا تھا۔

لاک نہ ہونے کی وجہ سے وہ بآسانی باہر نکل آیا۔

گو وہ اب بھی تہہ خانے کے احاطے میں ہی موجود تھا مگر پھر بھی وہ پرسکون محسوس کر رہا تھا۔

"آہ آزادی"۔ دونوں ہاتھ فضاء میں پھیلائے اس نے خود کو آزاد محسوس کیا تھا۔ 

جیسے دو ڈھائی سال قبل مختار صاحب کی جیل سے فرار ہونے پر محسوس کیا تھا۔

وہ آندھی طوفان کی طرح دھڑا دھڑ سیڑھیاں چڑھتا ہوا دوسری منزل پہ واقع اس کمرے کے سامنے پہنچا تھا اور دھماکے سے دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوا۔

رانا جو اسے روکنے کیلئے پیچھے لپکا تھا اس کے تیور دیکھنے کے بعد گھبرا کر وہی ٹھہر گیا۔ اب وہ پچھتا رہا تھا کے آخر اس نے قیصر سے متعلق اسکے سامنے منہ کھولا ہی کیوں۔

بس ایک ہی حل تھا اسکے پاس۔ وہ بھاگا دوڑا تابین کو خبر کرنے چلا گیا۔

وہ جو اپنے زخموں کی دوا و مرہم پٹی کرنے کے بعد، نکھرا ستھرا ڈریسنگ میز کے سامنے کھڑا بال پیچھے کو سیٹ کر رہا تھا آنے والے طوفان کا عکس بہروز کی صورت اس وقت آئینے میں اسے اپنے پیچھے نظر آگیا تھا۔

وہ دروازہ بند کرتا مڑا اور اس کی جانب پیش قدمی کرنے لگا۔

"تجھے یہاں آزاد گھومنے کا حق کس نے دیا ہے؟ زندہ نہیں چھوڑوں گا میں تجھے"۔ وہ خون آ شام بلا کی مانند آگے بڑھا تھا اور اسے چیر پھاڑ ڈالنے کو اس پر جھپٹنا ہی چاہا مگر اچانک کوئی شے ان دونوں کے درمیان حائل ہو گئی تھی۔

"خبردار جو ایک انچ بھی حرکت کی تم نے"۔ قیصر کے ہاتھ میں موجود گن نے اس وقت بہروز کے میدے کا نشانہ لیا ہوا تھا۔ جسے دیکھ کر وہ توقع کے عین مطابق رکنے کے بجائے مزید برہم ہوا۔ یہی تو وہ چاہتا تھا۔ اسے بھڑکانا۔

"تیری اتنی جرت!"۔ وہ مٹھیاں بھنچتا اسے کچا چبا جانے کے درپے ہوا۔

"اس کا راز تم اپنی بہن سے جان سکتے ہو۔ اسی نے دی ہے مجھے یہ جرت۔۔۔سالے صاحب"۔ دل جلانے والی مسکراہٹ زخمی ہونٹوں پر سجائے وہ اسے آگ لگا گیا تھا۔

"اپنی زبان کو لگام دے ورنہ۔۔۔"۔

"کیا کرو گے ورنہ؟ ہمت ہے تو اپنی سوتیلی بہن کو روک کر دکھا دو۔ جو مجھ پر مر مٹنے کو تیار بیٹھی ہے۔ میرا بننے کو مر رہی ہے وہ"۔ اس کے اس جملے نے آگ میں پیٹرول کا کام کیا تھا۔

اگلے ہی پل بہروز نے اس کے ہاتھ سے گن جھپٹ کر چھینی اور ایک زوردار پنچ اس کے گال پر رسید کر دیا وہ لڑکھڑا کر ڈریسنگ میز سے کمر ٹکا گیا۔ حتا کہ اب اس کے گھوسوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔

قیصر نے مٹھیاں سختی سے بھینچ کر جوابی کارروائی کرنے سے خود کو روک رکھا تھا۔

"تیرا قصہ تو میں ابھی پاک کرتا ہوں ذلیل شخص"۔ ایک آخری مکا جڑنے کے بعد اس نے وہی گن اب قیصر پر تان لی تھی اور اس سے قبل ٹریگر دب جاتی۔ دھڑام سے دروازہ کھلا تھا اور تابین کے دھاڑنے پر گارڈز کا ایک ریلا اس سے بھی پہلے کمرے میں گھس آیا تھا۔

ان میں سے ایک نے دوڑ کر بہروز کے ہاتھ سے پستول لے لی۔

"تمہاری ہمت کیسے ہوئی اس پر ہاتھ اٹھانے کی؟"۔ وہ ان دونوں کے درمیان آ کھڑی ہوتی اب بھائی پر برس پڑی تھی۔ 

"تم نے اسے کس لیئے آزاد کر دیا؟ کیا تم نہیں جانتی کے یہ ہمارے باپ کا قاتل ہے؟ اور زرا پوچھو اس سے یہ تمہارے متعلق ابھی کیا بکواس کر رہا تھا۔ پوچھو اس سے"۔ وہ گرج رہا تھا۔

اپنے منہ سے رستا خون آستین سے پونچھتے ہوئے میز پر گرا پڑا قیصر سیدھا ہوا۔

"یہی کہا کے تم میرے سالے ہو۔ کیونکہ تمہاری بہن اور میرے درمیان ایک رشتہ قائم ہونے جا رہا ہے"۔ وہ تابین کی گردن پر جھکا اس کے کان کے قریب بولا تھا۔

"کمینے میں تجھے۔۔۔"۔

"بس اخی! بہت ہو گیا"۔ ہاتھ اٹھا کر اس نے بھائی کو سختی سے ٹوک دیا تھا۔

بہروز نے بے یقینی سے بہن کو دیکھا۔ مگر وہ بے حس بنی کھڑی کچھ بھی سننے کو تیار نہ تھی۔

"تم غلط کر رہی ہو اس پر یقین کرکے۔ بہت غلط کر رہی ہو۔ پچھتاؤ گی میری بہن، اس پر بھروسہ کرکے پچھتاؤ گی"۔ اس بضد پا کر بہروز کا لہجہ اب پست ہونے لگا تھا۔

"مجھے کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے یہ میں بہتر طور پر جانتی ہوں۔ آپ جا سکتے ہیں اس وقت یہاں سے"۔ وہ مغرور سر کو اونچا کیئے حکمیہ کہہ رہ تھی۔

بہروز کو شدید تکلیف ہوئی تھی اس کی اس اجنبیت پہ۔ 

وہ اپنے ان معمولی آدمیوں کے سامنے وہ بھی اپنی چھوٹی بہن کے ہاتھوں اتنی تذلیل پر کسی سے نظریں ملائے بغیر سر جھکائے تیز قدموں کے ساتھ کمرے سے نکل گیا تھا۔

باقی سب کو بھی تابین نے ہاتھ کے اشارے سے جانے کو کہہ دیا۔ وہ فوری حکم بجا لاتے ہوئے چلے گئے اور ان کے پیچھے کمرہ خالی ہو گیا۔

جب سب چلے گئے تو وہ قیصر کی جانب متوجہ ہوئی۔

"کیا تم ٹھیک ہو؟"۔ اس کے انداز میں تفکر تھا۔

"بھائی زخم لگاتا ہے اور بہن خیریت پوچھتی ہے۔ واہ کیا کہنے ہیں!"۔ وہ آئینے کی جانب رخ موڑ کے اسی دوائی کو اپنے ہونٹ کنارے کے زخم پر روئی کی مدد سے لگانے لگا جو کچھ دیر قبل اس نے اپنے چہرے و جسم کے باقی زخموں پر لگائی تھی۔ 

وہ آہستگی سے چلتی ہوئی اس کے قریب پہنچی پھر ہاتھ سے روئی لے کر خود ہی اس کے زخموں کی نگہداشت کرنے لگی۔

قیصر خاموش رہا۔

"تم نے اس سے ایسا کیا کہا جو وہ یوں الٹ پڑا تم پہ؟"۔ وہ اس سے پوچھ رہی تھی۔ ہاتھ مسلسل حرکت کررہے تھے۔ وہ بے حد احتیاط سے اس کا زخم صاف کر رہی تھی۔

قیصر کو وہ وقت یاد آیا جب وہ اسے ٹوٹے بکھرے کانچ کے اوپر سے گھسیٹ کر اپنے ساتھ لے گئی تھی۔ اس نے سر جھٹکا۔

"وہی جو حقیقت ہے"۔ اپنا لہجہ اس نے ہموار رکھا۔ 

"کیا ہے حقیقت؟"۔ زخم صاف کرنے کے بعد اب وہ دوا لگا رہی تھی۔

قیصر کو شدید جلن ہونے لگی۔ جانے کون سے زخموں کی جلن تھی وہ۔

"یہی کے۔۔۔اسیر ہو تم میری"۔ اس کی سیاہ آنکھوں میں دیکھتا وہ کس اعتماد سے بول رہا تھا۔ تابین عش عش کر اٹھی۔

"تمہیں بھی ہونا ہوگا"۔ وہ ضدی پن سے بولی۔

قیصر نے آنکھیں بند کرکے گویا آخری حدوں تک جا کر خود کو، اپنے ضبط کو آزمانے کی ٹھان لی تھی۔

"کوشش کرکے دیکھ لو، شاید میں متاثر ہو جاؤں تم سے"۔ اسے پرے دھکیل کر وہ اپنے بےترتیب بال پھر سے سنوارنے لگا۔

 "وہ تو ہو کر ہی رہنا ہے۔ ورنہ تم جانتے ہو اس کا انجام کسی صورت بھی اچھا نہیں ہوگا"۔ حسب توقع وہ دھمکی پر اتر آئی تھی۔

قیصر نے برش زور سے ڈریسنگ میز پر پٹخ دیا۔

"اگر تمہارے بھائی نے اپنا یہی رویہ برقرار رکھا اور اسی طرح ہمارے درمیان آتا رہا تو قصوروار مجھے مت ٹھہرانا پھر تم"۔ اس کے چہرے کے قریب جھک کر وہ اسی کے انداز میں کہہ رہا تھا۔

وہ ساکن کھڑی اس کی سحر انگیز آنکھوں میں دیکھتی رہ گئی۔ جانے کیوں وہ ہمیشہ ان نگاہوں سے ہار جاتی تھی۔ پگھل جاتی تھی ان کے سامنے۔

وہ اسے سوچوں میں گم چھوڑ کر کمرے سے باہر جا چکا تھا۔ 

                              ☆☆☆☆☆

گیٹ کے باہر مخصوص جگہ پر اس نے گاڑی روک دی تھی۔

"لو آ گئی تمہاری منزل جاؤ اب"۔ وہ یہ کہہ کر اس کے اترنے کا انتظار کرنے لگا۔ مگر وہ جوں کی توں بیٹھی رہی۔

"کیا ہوا؟"۔ شہیر نے اسے سر جھکائے انگلیاں چٹخاتے دیکھ کر پوچھنا لازمی سمجھا۔

"تم اس کے بعد اب نہیں آؤ گے مجھے چھوڑنے یونی؟"۔ وہ اس کی جانب دیکھتی افسردگی سے پوچھ رہی تھی۔ 

شہیر کیلئے یہ سوال بہت ہی غیر متوقع تھا۔

"کیوں؟ تم ہی تو میرے آنے سے چڑتی رہتی تھی کے تمہاری دوستیں ایک باڈی گارڈ کو تمہارے ساتھ دیکھ کر چڑاتی ہیں پھر اب کیا ہوا؟"۔ وہ بھنویں اکٹھی کیئے حد درجہ سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔

وہ شرمندہ سی ہو گئی۔

"آئم سوری، ماضی میں بہت بار تم سے بد تمیزی سے پیش آئی"۔ وہ ازحد شرمندگی سے کہتی چھوٹی بچی ہی لگی تھی۔

"اٹس اوکے، پرانی بات ہو گئی اب وہ"۔ شہیر نے صلح جو انداز میں کہا۔

"تو کیا ہم پھر سے۔۔۔مل سکتے ہیں؟" کچھ جھجکتے ہوئے وہ بمشکل تمام یہ پوچھ پائی تھی۔

شہیر نے زرا چونک کر اسے دیکھا۔

وہ حیا سے پلکیں جھکا گئی۔ 

"کیوں کس لیئے؟"۔ اپنی مسکراہٹ پر قابو پاتے ہوئے اس نے سنجیدگی اوڑھے رکھی۔

ماہا کے چہرے پر مایوسی چھا گئی۔

"کچھ نہیں۔۔۔میں چلتی ہوں"۔ وہ خفگی سے منہ پھلاتی بیگ سنبھالے گاڑی کا دروازہ کھول رہی تھی جب اس نے فورا اس کا بازو تھام لیا۔

"اچھا اچھا ٹھیک ہے۔ منہ مت بناؤ، ہم ملیں گے"۔ اس کی خواہش مانتے ہوئے وہ بولا تھا۔

جس پر اگلے ہی پل ماہا کا چہرا کھل اٹھا۔

"سچ میں؟"۔ وہ کتنی پرجوش ہو گئی تھی۔

شہیر کو اس کا انداز اچھا لگا۔

"ہاں، اب ان چاہی ہی سہی لیکن تم دوست تو بن گئی ہو ہماری"۔ وہ مجبور سا ہو کر کہہ رہا تھا۔

"کیا کہا تم نے؟"۔ ماہا نے فورا آنکھیں دکھائیں۔

"نہیں کچھ نہیں تم جاؤ اب"۔ وہ جلدی سے بول پڑا۔ مبادا وہ پھر بحث نہ شروع کردے۔

"ہوں، ٹھیک ہے۔ شام کو ملتے ہیں"۔ وہ ہنکار کر کہتی  باہر نکل گئی۔

"تیور دیکھے کوئی زرا اس کے"۔ وہ سر جھٹک کر کہتا آپ ہی آپ مسکراتے ہوئے گاڑی ٹرن کر چکا تھا۔

                                 ☆☆☆☆☆

تابین نے اس کے باہر جانے یا بیرونی دنیا سے رابطے کیلئے فون اور اس جیسی کوئی دوسری شے اپنے پاس رکھنے سے منع کر دیا تھا۔ جو کہ قیصر کیلئے ایک مشکل شرط تھی۔ گویا وہ آزاد کردیئے جانے کے باوجود بھی قید ہی تھا۔۔۔ایک طرح سے۔

قیصر کے حق میں اس وقت صرف ایک ہی بات اچھی تھی۔ وہ یہ کے تابین نے اسے اپنے بنگلے میں پھرنے کی چھوٹ دے دی تھی۔ اور یہ بھی اس کیلئے غنیمت تھا۔سوائے چند ایک خاص مقاموں کے، جہاں اسے جانے سے سختی سے منع کر دیا گیا تھا۔ 

مثلا تہہ خانے کے اندر، تابین کے کمرے میں بلا ضرورت یا اسٹڈی روم میں۔

تین منزلہ عمارت پر مشتمل اس بنگلے کو وہ دس مرتبہ گھوم پھر کر دیکھ چکا تھا۔ حتا کہ وہ کسی طرح ان ممنوع جگہوں کو بھی جا کر دیکھ آیا تھا جہاں تابین نے اسے سختی سے منع کر رکھا تھا جانے سے۔ 

اس گھر کا ایک ایک کونہ اسے حفظ ہو چکا تھا۔ 

ہر منزل کے مخصوص جگہوں پر پانچ سے چھ آدمی گارڈز کی وردی میں اسلحہ تھامے ہما وقت چوکس کھڑے رہتے تھے۔ اور اگر غلطی سے کوئی ان کی نگاہوں سے چوک کر اس عمارت میں اوپر نیچے کہیں گھس بھی جاتا تو تب بھی اندر باہر جانے والے دروازوں پر لگے کیمرے سے نہیں بچ سکتا تھا۔ 

یہ بنگلہ غالبا کسی کم آبادی والے علاقے میں واقع تھا۔ کیونکہ آس پاس نہ تو گاڑیوں کا شور و غل تھا اور نہ ہی کسی ذی روح کی کوئی آواز۔

اس نے محسوس کیا تھا کہ تہہ خانے میں موجود قید گاہوں پر کوئی خاص پہرہ نہیں لگایا گیا تھا۔ یہ اس نے وہاں سے باہر نکلتے وقت ارد گرد کا جائزہ لے کر نوٹ کیا تھا۔

البتہ باہر دروازے پر دو گارڈز ہوتے تھے۔ اور اندر چار کیمرے الگ الگ جگہوں پر لگے تھے۔

قیصر خیام کا ذہن اس وقت تہہ خانے میں داخل ہونے کیلئے سدباب کرنے میں لگا ہوا تھا۔ اسے یقین تھا میکائیل وہی کہیں ہوگا۔

رات کا اندھیرا پھیلتے ہی اس نے تابین کی کچھار میں اپنا پہلا داؤ چلنا تھا۔ جس کی تیاریاں وہ دن گئے کر چکا تھا۔

اسٹڈی روم سے ہوتا ہوا وہ تہہ خانے کی جانب جاتے راستے پر چل پڑا۔

اس کی پہلی گفتگو تہہ خانے کے دروازے پر پہرہ دیتے ان دو گارڈز سے ہوئی۔ یہ دروازہ ایسی راہداری میں واقع تھا جہاں سے عموما کسی کا خاص گزر نہیں ہوا کرتا تھا۔ اور یہ خوش نصیبی ہی تھی اسکی کے یہاں کے راستے پر کوئی کیمرہ نہ لگا تھا۔

"کیسے ہیں آپ دونوں؟"۔ وہ ان کے درمیان موجود تہہ خانے کے دروازے سے ٹیک لگاتے ہوئے بڑے دوستانہ انداز میں پوچھ رہا تھا۔ 

ان میں سے ایک نے گرم جوشی سے اس کے سلام کا جواب دیا۔ جبکہ دوسرا اپنے موبائل میں موجود گیم میں پوری طرح غرق تھا۔ اس نے سر تک نہ اٹھایا۔

"برا نہ ماننا صاحب، یہ بہرام ایسا ہی ہے۔ ہر وقت موبائل میں سر دیئے رہتا ہے"۔ قادر نے اس کی جانب سے صفائی پیش کی۔ 

تابین کی قیصر پر خاص نظرکرم کی وجہ سے وہ اس کے ساتھ بےحد احترام سے پیش آ رہا تھا۔

قیصر کو بہرام کے موبائل کی لت کا اندازہ تھا۔ یہاں سے آزاد ہوتے وقت جب وہ اس کے پاس سے گزرا تھا تب بھی وہ اپنے فون میں منہمک تھا۔

"کیوں بھئی بہرام؟ ایسی ڈیوٹی کرتے ہو تم یہاں؟ ابھی جا کے بتاؤں تمہاری باس کو یہ کارنامے؟"۔ اس سے موبائل چھینتے ہوئے قیصر نے دھمکایا تھا۔

وہ سٹپٹا کر اس کی طرف متوجہ ہوا۔

"ارے نہیں نہیں سر ایسا مت کریں پلیز، وہ تو مجھے بنا سوال جواب کیے پہلی فرصت میں گولی مار دیں گی"۔ وہ خوف سے زرد پڑتے ہوئے دہائی دے رہا تھا۔

قادر اس کے انداز و بےبسی پر ہنس رہا تھا۔ 

"جب اتنا ڈر لگتا ہے تو کیوں یہاں نوکری کر رہے ہو پھر؟"۔ سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے اس نے سنجیدگی سے پوچھا۔

اسے قادر کے مقابلے میں بہرام کسی حد تک پڑھا لکھا لگا۔

"کیا بتاؤں سر۔ آج کل جتنا پڑھ لکھ لو کہیں نوکری نہیں ملتی ہے۔ والد صاحب کینسر سے چل بسے اور والدہ دمے کی مریضہ تھی۔ میں اس وقت انٹر کر رہا تھا۔

ان کے علاج کیلئے ہر قدم پر پیسوں کی سخت ضرورت پڑتی تھی۔ پھر جب وہ دونوں ایک کے بعد ایک مجھے تنہا چھوڑ کر چل بسے بس میں نے غصے میں فیصلہ کر لیا کے میں مافیا میں آ جاؤں گا۔۔۔لیکن"۔

"لیکن یہاں آ کر ان مردے نما قیدیوں کا چوکیدار بن گیا"۔ قادر اس کا جملہ مکمل کرکے زور زور سے ہنستے  اسکا مذاق اڑا رہا تھا۔

بہرام اسے گھورتا رہا مگر اس کی ہنسی نہ رکی۔

قیصر کو اس کے ان قیدیوں کو 'مردہ' کہنے پر خاصی تشویش ہوئی۔

"کیوں؟ ایسا کیا ہے ان قیدیوں کے ساتھ؟"۔ وہ بظاہر عام سے انداز میں پوچھ رہا تھا۔

اسے ان سے کسی قسم کا خطرہ لاحق نہ تھا۔ ان دو میں سے ایک معصوم اور بےضرر سا تھا تو دوسرا انتہائی منہ پھٹ اور باتوں کا شوقین۔

"کیا بتائیں سر، ان بیچاروں کو کھانا کم اور پڑیا(ڈرگز) زیادہ دی جاتی ہے۔ اس لیئے ان میں سے بیشتر تو اس کے زیر اثر آ کر مردہ پڑے رہتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ سچ مچ کے مردہ بنتے جاتے ہیں۔ بہت ظالم قید ہے یہ بہت"۔ قادر روانگی سے کہتے ہوئے تاسف زدہ سا تھا۔

"انہیں یہ کیوں بتا رہے ہو؟ یہ اس قید کے مظالم خوب جانتے ہیں۔ شروع میں جب صاحب لوگ لائے تھے ان کو تو تین دن اسی قید میں رہے، بڑا تشدد کیا بہروز سر نے ان پہ"۔ بہرام نے اس کی عقل پر ماتم کرتے ہوئے گویا اسکی معلومات میں اضافہ کیا۔

"اوہ! ہاں ہاں بالکل! میں تو بھول ہی گیا تھا کے یہ ہمارے مہمان رہ چکے ہیں اِدھر"۔ اتنا کہہ کر وہ پھر سے قہقہہ لگا کر ہنس پڑا تھا۔ اس بار بہرام بھی ہنسی میں اس کے ساتھ شریک تھا۔

"کیا نمونے پال رکھے ہیں"۔ دل ہی دل میں وہ کوفت زدہ سا ہو رہا تھا۔

"چلو بھئی تم لوگ لگے رہو، میں چلتا ہوں"۔ ہاتھ میں پکڑا موبائل بہرام کے پینٹ کی جیب میں ٹھونستے ہوئے وہ بولا تھا۔

"اور ہاں، میں تم دونوں پر خاص کرکے بہرام تم پر نظر رکھے ہوئے ہوں گا۔ اگر اب یہ موبائل پھر سے تمہارے ہاتھوں میں دیکھا میں نے تو تابین سے پھر کوئی نہیں بچا سکے گا تمہیں"۔ وہ جاتے جاتے بھی اسے دھمکانا نہیں بھولا تھا۔

"نہیں سر پلیز خدا کیلئے ان کو مت بتائیے گا۔ دیکھئے گا اب میں نہیں نکالوں گا موبائل، قسم کھاتا ہوں"۔ وہ جلدی سے بول پڑا۔

قیصر ہنستے ہوئے وہاں سے نکل گیا۔ 

"ہوگا تو نکالو گے نا"۔ آستین میں چھپا موبائل نکال کر وہ کوٹ کی اندرونی جیب میں رکھتے ہوئے دل میں سوچ رہا تھا۔

اس بات سے انجان بہرام موبائل فون کی جگہ اپنے جیب میں رکھی گئی ڈمی کی موجودگی سے مطمئن تھا۔ اب خاک اس نے نکال کر دیکھنا تھا اسے۔

"اب زرا خانساماں کی خبر لیتے ہیں"۔ اس نے کچن کا رخ کیا تھا۔

 خانساماں ایک بھلکڑ شخص تھا۔ جسے ہر آدھ گھنٹے تک کچھ نہ کچھ بھول جایا کرتا تھا۔ پھر جب تک اس کا ساتھی خلیل آ کر اس کی رہنمائی نہ کر دیتا اسے کچھ یاد نہ رہتا تھا۔ 

قیصر کیلئے یہ بات متاثر کن تھی۔

اس سے دوران گفتگو اس نے یہ معلوم کیا تھا کے

سیکیورٹی روم میں کھانا کب اور کتنے بجے بھیجا جاتا تھا۔ اس کے مطابق دوپہر کو ایک بجے اور رات کو آٹھ بجے وہاں کھانا جاتا تھا۔

اس کے علاوہ ہفتے میں تین دن، یعنی ایک دن چھوڑ کر پھر اگلے دن قید گاہ میں جو لوگ بند تھے ان کیلئے بھی ایک وقت کا کھانا بھیجا جاتا تھا۔ جو ایک سادہ لوح ملازم خلیل لے جایا کرتا تھا۔

آج طاق عدد کا دن تھا۔ یعنی آج وہاں کھانا جانا تھا۔ اور اسی دوران اسے کسی نہ کسی طرح وہاں گھسنا تھا۔ کیونکہ باورچی کے مطابق تہہ خانے کا دروازہ صرف کھانا دینے کیلئے کھولا جاسکتا تھا، یا پھر تابین جب چاہے تب۔ وہ بھی صرف خلیل وہاں جا سکتا تھا۔

"ایسے آڑھے تیڑھے نمونے پال کر وہ سمجھتی ہے کے وہ اپنی کچھار میں محفوظ ہے"۔

طے یہ کیا قیصر نے کے جب قیدیوں کا کھانا تیار کیا جا رہا ہوگا وہ ہر حال میں کچن میں موجود ہوگا۔

اندھیرا چہار سو پھیلنے لگا تھا۔ 

قیصر پھر سے باورچی خانے میں آ موجود ہوا۔ 

"تم کون ہو برخوردار اور کہاں گھسے چلے آرہے ہو؟"۔ بوڑھے خانساماں نے کڑے تیوروں سے نووارد کی خبر لی۔

قیصر ٹھٹھک گیا۔

"ارے یہ اپنی باس کے وہ ہیں وہ۔ صاحب ہیں ہمارے"۔ اس کے جواب دینے سے قبل ہی خلیل نے اپنی سادگی کے مطابق اس کی حیثیت بتائی۔ 

"اوہ! معاف کیجئے گا حضور، ہم نے پہچاننے میں غلطی کر دی"۔ وہ بیچارا جلدی سے معذرت کرنے لگا۔

"کوئی بات نہیں۔ میرے لیئے سوپ تیار کیا تم نے جو میں نے کہا تھا"۔ قیصر نے اپنے وہاں آنے کیلئے جواز تراشا۔

"ہیں؟ کون سا سوپ؟"۔ خانساماں سوچ میں پڑ گیا۔

"لگتا ہے تم پھر بھول گئے؟ ویج سوپ بنانے کو کہا تھا تمہیں۔ یاد آیا اب؟"۔ وہ سخت لہجے میں بولا۔

وہ قدرے گھبرا سا گیا۔

"جی۔۔۔جی جناب ابھی حاضر کر دیتے ہیں جہاں پناہ"۔ وہ خوش اخلاقی سے کہہ کر جلدی جلدی سوپ بنانے کی تیاری کرنے لگا۔

"مغل اعظم کے زمانے کا لگتا ہے"۔ قیصر نے زیرلب کہتے ہوئے کنکھیوں سے ٹرالی تیار کرتے خلیل کو دیکھا۔ وہ بہت دلجمعی سے اپنے کام میں مصروف تھا۔

ان دونوں کو مصروف پاتے ہوئے اس نے اپنے سامنے پڑے چاقو کو ہاتھ مار کر نیچے گرا دیا۔

آواز پر وہ دونوں متوجہ ہوئے۔

"اف او، میں اٹھا دیتا ہوں"۔ وہ جھک کر چاقو تلاش کرنے لگا۔

ایک نظر ان کو دیکھا۔ وہ اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے تھے۔ 

اپنے پاس موجود موبائل کی ویڈیو ریکارڈنگ آن کرتے ہوئے ٹرالی کے نچلے حصے میں کچھ اس طرح سے برتنوں کے درمیان رکھا کے خلیل جس جس سیل کے اندر جائے یا سامنے سے ٹرالی گھسیٹتے ہوئے گزرے وہ فون میں ریکارڈ ہوتا جائے۔

"بس اب یہ بےوقوف کوئی گڑبڑ نہ کردے"۔ وہ دل ہی دل میں خلیل سے متعلق سوچ رہا تھا۔

چھری ڈھونڈ کر اٹھانے کے بعد اس نے واپس اوپر رکھ دیا۔

پھر تب تک وہاں سے نہیں ہلا جب تک خلیل مشکوک ہوئے بغیر ٹرالی وہاں سے لے نہ گیا۔

"سرکار آپ کھڑے کیوں ہیں؟ جا کر تشریف رکھیے ہم آپ کا سوپ تیار کرکے آپ کے سامنے خود پیش کرنے آ جائیں گے"۔ خانساماں نے اسے پچھلے دس منٹ سے یوں کھڑے دیکھ کر نہایت عزت و احترام سے آفر دی۔

"جو حکم شہنشاہ اکبر"۔ پرسکون سانس خارج کرنے کے بعد وہ ہلکے پھلکے انداز میں کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔

"ہیں؟ انہیں میرا نام کہاں سے پتہ چلا؟"۔ وہ حیرت سے سوچ رہا تھا۔ پھر خیال آیا کے شاید بتا کر بھول گیا ہوگا۔

سر جھٹک کر واپس کام میں لگ گیا۔

                              ☆☆☆☆☆

قیصر کو لاپتہ ہوئے کئی دن گزر چکے تھے۔ 

اس فلیٹ سے باہر کہیں بھی بنا اجازت یا بغیر کسی کی معیت کے اسے نکلنے نہیں دیا جاتا تھا۔ یہاں بند رہ کر اب اس کی وحشت مزید بڑھنے لگی تھی۔ ماہا کو بھی عالیان نے بار بار وہاں آنے جانے سے منع کر دیا تھا۔ 

کیونکہ اس کا پیچھا کیا جا سکتا تھا جس سے زیست خطرے میں پڑ جاتی۔ 

اسے مصروف رکھنے کیلئے اس نے اسے لیپ ٹاپ لا دیا تھا۔ جس پر وہ ندا تک رسائی حاصل کر گئی۔ وہ آج کل پاکستان میں ہی تھی۔ اسے وہ بارہا اپنی ماں کے حوالے سے خیر خبر رکھنے کیلئے کہہ چکی تھی۔ جس پر وہ ہر چند دن بعد ان کے پاس سے ہو آتی تھی۔ اس طرح زیست کی ان کے حوالے سے پریشانی کچھ کم ہوئی تھی۔

فکر تھی تو بس اس کی جس کی جانب سے کوئی خیر خبر نہ تھی۔ جو یوں گیا جیسے اس کی زندگی میں کبھی تھا ہی نہیں۔ اور اب جانے اس کی واپسی ممکن تھی بھی یا نہیں۔

"زر کے حوالے سے کوئی نئی چیز پتہ لگی؟"۔ کافی کا مگ تھامے اس کے برابر بیٹھتے ہوئے شہیر نے استفسار کیا۔

"کہاں یار، وہ تو ایسے غائب ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ"۔ عالیان نے کسی قدر مایوسی سے کہا۔

"یقین نہیں ہوتا کے وہ دھوکا دیتا رہا اتنے وقت سے"۔ وہ اب بھی سوچتا تو حیران ہوتا تھا اس بات پہ۔ 

عالیان نے ٹھنڈی آہ بھری۔

"یقین کر لو دوست، یقین کر لو۔ دغا اکثر ہمارے سب سے قریب رہنے والے ہی کی طرف سے ملتا ہے"۔ وہ آزردگی سے بولا۔

"اور قیصر؟ وہ کہاں غائب ہو گیا یوں اچانک؟"۔ شہیر مطمئن نہیں ہو پا رہا تھا۔ گو وہ اس سے چڑتا تھا مگر پھر بھی کافی وقت سے ساتھ ہونے کی وجہ سے ایک رشتہ قائم ہو گیا تھا ان سب کے درمیان۔ جو دشمنی سے گھٹ کر شاید دوستی تک کا سفر طے کر لیتا۔ مگر وہ یوں غائب ہو گیا۔

"اسے اغواء کیا ہے کوبرا والوں نے۔ نہیں جانتا ان کا اس میں کیا مفاد تھا مگر وہ کسی سخت مصیبت میں پڑ گیا ہے یہ طے ہے"۔ وہ حد درجہ مایوس نظر آتا تھا۔ 

وہ دونوں اس بات سے قطعا انجان تھے کے ان کے پیچھے دیوار کی اوٹ میں کھڑی زیست ان کی ساری گفتگو سن رہی تھی۔ 

"اغواء" اس کے کپکپاتے لبوں نے بے آواز ہلتے ہوئے وہ لفظ ادا کیا تھا۔ اس کے ساتھیوں میں پولیس اور فوج کے افسران دیکھ کر یہ تو وہ اندازہ لگا چکی تھی کے قیصر کن کاموں میں ہے مگر اس کی غیر موجودگی اس کے ساتھیوں کیلئے بھی سوالیہ نشان بنی ہوگی یہ اندازہ اسے بالکل بھی نہیں تھا۔

اس کا سانس اکھڑنے لگا تھا۔ اور اگلے ہی لمحے وہ بے دم سی ہو کر زمین پر گر پڑی تھی۔

آواز پر عالیان اور شہیر نے چونک کر ایک دوسرے کو دیکھا پھر خیال آنے پر وہ فورا اس کے کمرے کی جانب بھاگے تھے۔ دروازے کے سامنے ہی وہ بے ہوش و حواس پڑی تھی۔

"اوہ گاڈ!"۔ ان دونوں نے سر پکڑ لیا تھا۔

"بھابھی، بھابھی اٹھیں"۔ وہ دونوں پریشانی کے عالم میں اسے آوازیں دیئے جا رہے تھے۔ مگر وہ دنیا جہاں سے بے خبر پلکیں موندے بے جان پڑی تھی۔

"ایک دم سے ایسا کیا ہو گیا ابھی تھوڑی دیر پہلے تک تو ٹھیک ہی تھی"۔ شہیر نے تشویش زدہ ہو کر کہا۔

"آئی ہوپ انہوں نے ہماری باتیں نہ سن لیں ہوں"۔ عالیان نے اندازہ لگاتے ہوئے کہا۔

"اب کیا کریں گے؟"۔ وہ نا سمجھی سے عالیان کو دیکھتا پوچھ رہا تھا۔

"کرنا کیا ہے ماہا کو فون لگاؤ اسے فورا آنے کا کہو"۔ اسے ہوش میں لانے کی کوشش کرتے ہوئے وہ شہیر سے کہہ رہا تھا۔

"ہاں ٹھیک ہے کرتا ہوں"۔ وہ یہ کہہ کر اس کا نمبر ملانے لگا۔

اور پھر شہیر کی کال کے تھوڑی ہی دیر تک وہ بھاگی بھاگی ان کے پاس آ پہنچی تھی۔ وہ تینوں اسے ہسپتال لے گئے۔

اسے ایڈمٹ کرنے اور فوری ٹریٹمنٹ دینے کے بعد ڈاکٹر اپنے کیبن میں موجود ان دونوں پر برس رہیں تھی۔

"آپ سے پہلے ہی کہا تھا کے ان کو اچھی دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔ لیکن شاید آپ لوگوں نے مریضہ کو اس کے حال پر چھوڑ رکھا ہے۔ ان کا بی-پی خطرناک حد تک شوٹ کر جاتا ہے اور یہ بچے کیلئے کوئی اچھی علامت نہیں ہے۔

کہاں ہیں ان کے ہزبینڈ؟ مجھے ابھی ان سے بات کرنی ہے"۔ وہ فوری طور پر مطالبہ کرنے لگیں۔

وہ دونوں جزبز ہوگئے۔

"یہ ممکن نہیں ہے اس وقت"۔ عالیان نے ناچار جواب دیا۔

"کیوں نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کے آپ لوگوں نے خاتون کو زبردستی اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے؟"۔ وہ اب مشکوک ہو رہیں تھی۔

"بس بہت ہو گئی۔ میں بزات خود پولیس میں ہوں اور آپ ایک ایماندار پولیس آفیسر پر الزام لگا رہیں ہیں جو کے میرے لیئے بالکل بھی قابل قبول نہیں ہے"۔ اس کی برداشت جواب دے گئی تھی۔

اس کے پیشے سے متعلق جان کر ڈاکٹر کسی حد تک دھیمی پڑ گئیں تھی۔

"آئم سوری آفیسر، مجھے اس کا علم نہیں تھا۔ لیکن آپ کو بھی میرے پیشے کی ذمہ داریاں اور مجبوریاں سمجھنی چاہیئے۔ آخر کو یہ دو،دو زندگیوں کا سوال ہے۔ اور اب کوئی حتمی فیصلہ لینا ہوگا۔ جس کیلئے ان کے شوہر کی موجودگی اور اجازت درکار ہوگی ہمیں۔ اس لیئے میرا ان سے بات کرنا بے حد اہم ہے"۔ وہ تحمل سے اسے سمجھا رہی تھیں۔ 

جس پر وہ بھی کچھ ڈھیلا پڑ گیا۔

"ہم کوشش کرتے ہیں ان سے رابطے کی۔ آپ پلیز ابھی کسی فوری نتیجے پر نہ پہنچیں"۔عالیان نے اپنے مخصوص دھیمے پن سے مداخلت کرتے ہوئے کہا۔

پھر وہ دونوں معذرت کرکے ان کے کیبن سے باہر نکل گئے۔

"اف یہ کیسی مصیبت میں پھنس گئے ہیں۔ اب کہاں سے لائیں گے قیصر کو"۔ عالیان نے بے بسی سے دیوار پر مکا جڑ دیا۔

شہیر اسے تسلی دیتا رہا۔

بظاہر ہسپتال کا فرش صاف کرتے ہوئے سویپر ان کی ساری باتیں سن رہا تھا۔ ان دونوں کی جانب اس کی پیٹھ تھی۔ وہ زر کی وہاں موجودگی سے قدرے لاعلم تھے۔

جب اس نے ان دونوں کی مکمل گفتگو سن لی تو وہ سر جھکائے تیز قدموں سے چلتا ہوا لفٹ میں گھس گیا تھا۔

"وہ یہی موجود ہیں ہسپتال میں۔ لگتا ہے زیست کی حالت کچھ بہتر نہیں ہے"۔ موبائل کان سے لگائے وہ محو گفتگو تھا۔

                                  ☆☆☆☆☆

وہ لاؤنج میں موجود بے صبری سے خلیل کی واپسی کا انتظار کر رہا تھا۔ مگر بظاہر خود کو اطراف سے لاپرواہ ظاہر کرکے سوپ پینے میں مگن تھا۔ جو اکبر اسے دے گیا تھا۔

قریب آدھے گھنٹے کے دورانیے کے بعد خالی ٹرالی گھسیٹ کر لاتا ہوا خلیل راہداری عبور کرتے اس کی نگاہ میں آیا تھا۔ کنکھیوں سے اس نے اسے کچن میں جاتے دیکھا۔

سوپ کے پیالے سے آخری چمچ لینے کے ساتھ ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ قدم باورچی خانے کی جانب اٹھ رہے تھے۔ 

خالی پیالہ اس نے آئی لینڈ پر رکھا۔ صد شکر کچن میں صرف خلیل موجود تھا۔ 

قیصر نے نگاہیں جھکا کر ٹرالی کے نچلے حصے کی جانب دیکھا۔ اسے شدید جھٹکا لگا تھا۔ موبائل وہاں نہ تھا۔ بلکہ وہ تو بالکل خالی پڑا تھا۔

"آپ یہ ڈھونڈ رہے ہیں"۔ عین اسی وقت خلیل اس کی جانب آیا۔ اس کے ہاتھ میں موبائل تھا، جس کی ریکارڈنگ اب بھی چل رہی تھی۔ 

صورتحال بےحد اجیب تھی۔ خلیل کے چہرے پر بےحد سنجیدگی تھی۔

قیصر کے لبوں پر اچانک مسکراہٹ رینگ گئی۔

"یہ رہا تمہارا انعام"۔ کوٹ کی جیب سے اس نے تین،چار چاکلیٹ کے پیکٹس برآمد کرکے اس کے سامنے کر دیئے۔ پہلے اس نے مسکراتی نگاہوں سے دیکھا پھر ان کو قیصر کے ہاتھ سے لیتے اس کے چہرے پر بچوں جیسی خوشی در آئی تھی۔

وہ اس کی کمزوری سے واقف ہو چکا تھا۔ فرج سے چاکلیٹس اور آئس کریم چرا کر کھانے والا خلیل دماغی رو سے آج بھی بچوں جیسا ہی تھا۔ اور یہ بات قیصر کے حق میں گئی تھی۔

یہی وہ کمزوریاں تھیں جو پچھلے چند دنوں میں اس کے ہاتھ کسی خزانے کی طرح لگیں۔

"کسی کو دکھانا مت یہ، ورنہ مادام غصہ کریں گی"۔ اس سے موبائل لے کر جیب میں رکھتے ہوئے وہ اسے ڈرا کر خاموش رہنے کا کہہ چکا تھا۔

وہ بخوشی سر ہلاتا چاکلیٹ کھانے میں مگن ہوگیا۔

جبکہ وہ کوٹ جھاڑتا پراعتماد چال چلتے ہوئے وہاں سے باہر نکل گیا۔ اس کا رخ اب اسٹڈی روم کی جانب تھا۔ جہاں کیمرہ نہیں ہوتا تھا۔

دروازہ بند کرکے اس نے کوئی سی ایک کتاب اٹھا لی اور اب اسے کھول کر اس کے اندر موبائل اسکرین روشن کیئے اس میں ریکارڈ ہوئے مناظر دیکھنے لگا۔

ہر سیل قدرے چھوٹا سا تھا۔ اس کے سامنے کی دیوار سلاخوں اور جالیوں پر مشتمل تھی۔ قادر صحیح کہتا تھا۔ ان میں بیشتر قیدی ڈرگز کے زیر اثر ادھ مرے پڑے تھے۔ 

جو قیدی کھانا کھانے کی حالت میں تھے خلیل ان کے سیل کے جالیوں میں نیچے سے موجود خلاء کے ذریعے انہیں کھانا دیتا جاتا تھا۔ شروع کے دو سیلز میں کھانا دے کر پھر قریب چھٹے سیل کے قریب وہ رکا تھا۔ پلیٹ نیچے سے سرکا دیا۔ جسے دیکھ کر قیدی گھسٹا ہوا اس تک آیا تھا۔

قیصر کی آنکھیں اس کے چہرے پر جم سی گئیں۔ اس نے فورا وڈیو پاز کیا۔ الجھے لمبے بال اور شیو، اندر کو دھنسی آنکھیں، زرد کملایا ہوا چہرہ۔ وہ تو میکائیل کا محض ڈھانچہ ہی معلوم ہوتا تھا۔ جس پر اس کی کھال چڑھا دی گئی تھی۔

"ظالموں نے تمہارے ساتھ یہ کیا کر دیا بہادر جوان"۔ اس کی ابتر حالت کسی پتھر کو بھی رلا سکتی تھی۔ قیصر تو پھر بھی انسان ہی تھا۔ اس کی سرمئی آنکھیں سرخ پڑنے لگیں تھی۔ 

اس سے جب مزید نہ دیکھا گیا تو اس نے وڈیو ایک دو منٹ آگے کر دیا۔

کل سینتیس منٹ کی وڈیو تھی۔ ابھی اٹھائیس منٹ اور گیارہویں سیل تک پہنچی ہی تھی کے قیصر کی آنکھیں حیرت سے کھل گئیں۔

"اعظم"۔ اس کے لبوں نے آہستگی سے نام خارج کیا تھا۔

اس کی حالت میکائیل سے زرا بہتر تھی۔ اس کے لمبے بال بے ترتیب سے بندھے ہوئے تھے۔ رنگت زرد پڑی تھی۔ قیصر جانتا تھا اعظم ڈرگز ہینڈل کر سکتا ہے۔

کیونکہ وہ کم و بیش ہر طرح کا نشہ آزما چکے تھے۔ ان کیلئے یہ غیر متوقع نہ تھا۔ قیصر اور وہ اچھی طرح جانتے تھے یہ اس کا اثر خود پر ہونے سے کیسے روکنا ہے۔

جن دو چہروں کی اسے وہاں ہونے کی توقع تھی وہ دونوں ہی اسے مل گئے تھے۔ اور یہ ایک واضح کامیابی تھی۔

بس انہیں اب کسی طرح وہاں سے نکالنا تھا۔

"میں تم لوگوں کو اس جہنم سے نکال کر رہوں گا اعظم۔ نہیں تو اس کوشش میں اپنی جان دے دوں گا۔ وعدہ کرتا ہوں میرے دوست"۔ دل ہی دل میں وہ اس سے مخاطب ہو کر عہد باندھ رہا تھا۔

اب بس کسی طرح اسے یہ ضروری پیغام عالیان کو بھیجنا تھا۔ مگر اس کے باہری دنیا سے رابطے پر پابندی عائد تھی۔

وہ قطعی اس فون سے یا یہاں کے کسی بھی فون سے ان میں سے کسی کو بھی پیغام نہیں بھیج سکتا تھا۔ اسے یقین تھا تابین ایسی تمام صورتحال کیلئے اقدامات کر چکی ہوگی۔

کسی طرح بھی اسے رابطے کا ذریعہ ڈھونڈنا تھا۔

اس نے وہ ریکارڈنگ تمام مقامات سے مٹا دیا۔ اس سے پہلے کے بہرام کو اسکے موبائل کی غیر موجودگی کا احساس ہو پاتا وہ جلد از جلد اس فون کو اس کے اصل مالک تک پہنچانا چاہتا تھا۔

                                ☆☆☆☆☆

دوپہر سے شام اور اب شام سے رات ہو گئی تھی۔ نہ قیصر سے رابطہ ممکن تھا اور نہ ہی وہ لوگ ڈاکٹر کو مطمئن کر پا رہے تھے۔

زیست کو بڑی دقتوں کے بعد ہوش آیا تھا۔ ڈاکٹر نے جب بچہ ابارٹ کرنے کا اسے مشورہ دیا تو وہ صاف انکار کر گئی تھی۔ مگر انہوں نے پھر بھی اسے ڈسچارج نہ کیا۔ یہ سوچ کر کے شاید وہ اسے راضی کر لیں گی۔

 اسے کچھ دیر ریسٹ کرنے کا کہہ کر ڈاکٹر نے کہا تھا کہ وہ دوبارہ آئیں گی۔ جب آہٹ سنی تو اس نے غصے سے منہ دوسری جانب موڑ لیا۔

"پلیز ڈاکٹر میں آپ کو اپنا جواب دے چکی ہوں۔ قائل کرنے کی کوشش بیکار ہے"۔ وہ اب بھی اپنی بات پر قائم تھی۔

"اگر تم یہی چاہتی ہو اور تمہارا شوہر بھی تو کوئی تیسرا کیا کر سکتا ہے پھر؟"۔ 

لفظ 'شوہر' پر زیست کا دل زور سے دھڑک کر ساکت ہوا تھا۔ اور وہ آواز! وہ لہجہ!

کیا یہ ممکن تھا؟ اگر یہ اس کا وہم ہوا تو؟ 

ذہن میں اٹھتے خدشات کے باوجود آہستگی سے اس نے گردن گھمائی۔ 

"یا اللہ مجھے ایسے خواب سے بچا جو مزید دکھ دے"۔ دل ہی دل میں دعائیں مانگتے اس نے احتیاط سے پلکیں اٹھائیں اور اگلے ہی پل اس کے سامنے زمین کی گردش رک گئی تھی۔ سورج غروب ہونے کے بعد پھر طلوع ہو گیا تھا۔ اندھیری رات اچانک روشن صبح میں بدل گئی تھی۔

"یہ خواب ہے"۔ اس کے لبوں سے الفاظ سسکی کی صورت نکلے تھے۔ 

سبز آنکھوں میں آنسو ٹھہرے جھیل کی مانند ساکت تھے۔ وہ سانس بھی نہیں لے رہی تھی کے کہیں منظر تبدیل نہ ہو جائے!

"یہ حقیقت ہے زیست"۔ قدم قدم اس کے قریب آتا ہوا وہ پورے قد سے اسکے سامنے کھڑا اسے یقین دلا رہا تھا۔۔۔اپنی موجودگی کا۔

اور جب اس نے دیکھا کہ خیالوں و خوابوں کا مجسمہ بولا تھا تو وہ فرط جذبات سے منہ پر ہاتھ رکھے گنگ ہو گئی تھی۔

کب سے رکے آنسو سبز آنکھوں سے جھرنے کی مانند بہہ نکلے تھے۔

وہ سست روی سے چلتا ہوا اس کے نزدیک آ بیٹھا تھا۔

نگاہیں ایک پل بھی اس کے چہرے سے ہٹی نہیں تھیں۔ 

ہاتھ بڑھا کر اس نے اس کا سرد کانپتا ہوا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں تھام لیا۔

اس کے لمس کا ملنا ہی تھا کے وہ اس کے سینے پہ سر جھکائے سسک پڑی تھی۔

آنسو تواتر سے اس کے سینے کے مقام پر گرتے جذب ہوتے جا رہے تھے۔ 

قیصر کی تکلیف اور بڑھ گئی تھی۔ سینے پر جیسے بوجھ سا آ گیا تھا۔ ان بے رنگ و بے وزن آنسوؤں کا بوجھ۔۔۔جو جانے کتنے عرصے سے اسی کی مرہون منت تھے۔

وہ اس کی پشت پر بکھرے شہد رنگ بال، جن کا رنگ اب پھیکا پڑتا جا رہا تھا، کو دیکھ رہا تھا۔

"تمہارے بالوں کا اصل رنگ بہت خوبصورت ہے۔ اس کو بدلا مت کرو"۔ ان بالوں کو سہلاتے وہ دھیمے سروں میں گویا تھا۔

مگر وہ کوئی جواب دیے بنا آنسو بہانے میں مشغول رہی۔

قیصر خاموش ہو گیا۔ اس نے کچھ دیر یونہی اسے رونے دیا۔ تھک کر زی نے خود ہی آہستگی سے سر اٹھایا تھا۔

قیصر انگلیاں بےحد احتیاط سے اس کے بھیگے رخسار پر پھیرتا آنسو سمیٹنے لگا۔ 

"کیا حال بنا رکھا ہے تم نے یہ اپنا؟ میری بات نہیں سنی نا تم نے!"۔ بےحد ٹھہری ہوئی اور نرم آواز میں وہ اسے ٹوک رہا تھا۔

زیست کو اس کے ایسے لہجے کی کہاں عادت تھی۔ آنسو مزید گرنے لگے تھے۔ وہ جتنا انہیں صاف کرتا جاتا، وہ پھر سے اپنا وجود کھونے کیلئے گر پڑتے۔

"مجھے تو لگا اس ظالم شخص سے کچھ دن دور رہ کر تم خوش باش اپنی زندگی جی رہی ہوگی۔ لیکن تم پر تو الٹا ہی اثر معلوم ہوتا ہے"۔ وہ تاسف سے کہہ رہا تھا۔

روتے روتے وہ اس کی کی بات پر مسکرا اٹھی۔ جیسے برستی بارش میں اچانک سورج کی سنہری کرنیں بکھر گئیں ہوں۔

"تم نے اپنا خیال نہیں رکھا؟"۔ اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں تھامے وہ کس توجہ سے پوچھ رہا تھا۔

زیست کا دل بھر آیا تھا۔

وہ نفی میں سر ہلاگئی۔

"شفاء تمہارے پاس تھی۔ اس لیئے علاج ممکن نہ تھا"۔ وہ دکھی دل سے بولی۔

اور قیصر جان چکا تھا کے اس کا مرض کیا ہے۔

"کیا مجھے معاف کر دیا تم نے؟ کیسے کر سکتی ہو تم ایسا؟"۔ ضمیر کا بوجھ یک دم کچھ اور بڑھ گیا تھا۔

وہ تو خود کو اسکی معافی کے قابل بھی نہ سمجھتا تھا۔ کجا کہ اس کے دل میں اپنے لیئے کسی مقام کی توقع کرتا۔

"ابھی نہیں، ہاں اگر تمہیں واقعی مجھ سے خود کو معاف کروانا ہے تو اس کیلئے تمہیں میرے پاس واپس آنا ہوگا۔۔۔صحیح سلامت"۔ وہ بھیگتی آواز میں بولی۔ 

قیصر اداسی سے مسکرا دیا۔

"کوشش کروں گا ایسا ہی ہو۔ تم دعا کرو بس۔ میں تب تک زندہ رہوں جب تک وہ جانیں آزاد نہ کروا دوں جو مجھ پر قرض ہیں"۔ وہ بےحد آہستگی سے کہہ رہا تھا۔ اتنا کے زیست بھی بمشکل اسے سن پائی۔

دل میں اٹھتی تمام تر تکلیف کے باوجود بھی وہ اس کی بات کی تائید میں سر ہلا رہی تھی۔

"تم بہت بہادر ہو زیست۔ ہر چیز کا مقابلہ کر سکتی ہو، ان حالات کا بھی۔ اور اگر ضرورت پڑی۔۔۔تو تمہیں یہ میرے بغیر بھی کرنا ہوگا۔ مت بھولنا کے تمہارے پاس میری امانت ہے۔ اس کی حفاظت ہر صورت تمہیں ہی کرنی ہوگی"۔ اس کے شکم پر ہاتھ رکھ کے وہ اسے ہر قسم کے حالات کیلئے تیار رہنے کی تنبیہ کر رہا تھا۔ 

زیست نے افسردگی سے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ جیسے اس کی یقین دہانی کرائی ہو۔

"میں اس امید پر جاؤں گا کہ اگر میرے لیئے واپسی ممکن نہ ہو پائی تو تم مجھے میرے گناہوں کیلئے معاف کردو گی۔ شاید میری تڑپتی روح سکون پا جائے"۔

یہ کہہ کر اس نے آہستگی سے لب اس کی پیشانی پر رکھ دیئے۔ 

زیست نے اس کی بات پر تکلیف سے آنکھیں میچ لیں۔

اور اسی دوران وہ ہاتھ چھڑوا چکا تھا۔ شاید وہ جا چکا تھا۔ یہ وہ بھی جانتی تھی، بہرحال میں اسے جانا ہی تھا!

کچھ لمحوں بعد جب اس نے پلکیں اٹھائیں تو وہ اب وہاں کہیں نہ دکھائی دیا اسے۔

ہاں اس کے الفاظ کی بازگشت وہ اب بھی سن سکتی تھی۔

"اس نے واپسی کا کوئی عندیہ نہیں دیا"۔ اس کے اندر ایک شور سا اٹھا تھا۔

"مگر میں پھر بھی اس کا انتظار کروں گی"۔ فیصلہ کن انداز میں کہہ کر اس نے اپنے اندر اٹھتے ہر منفی سوچ کو خاموش کروا دیا تھا۔

اپنے آنسو پونچھ لیئے تھے۔ اگر انتظار ہی مقدر تھا، تو وہ اپنے اس شوہر کا انتظار دل و جان سے کرنا چاہتی تھی جس نے اپنی زخم خورد روح کو نظرانداز کرکے دوسروں کے درد کا مرہم بننا قبول کیا تھا۔ اور ایسے شخص پہ وہ فخر کر سکتی تھی۔ آنسو بہا کر اسے کمزور نہیں کر سکتی تھی۔

راہداری عبور کرکے وہ ایک خالی کمرے کا دروازہ کھول کر اس میں بند ہو گیا۔ تنفس تیز سے تیز تر ہو رہا تھا۔ پھر وہ چونک اٹھا۔ کپکپاتا ہاتھ دل تک پہنچا۔ اس مقام پہ سیاہ شرٹ اب بھی بھیگی ہوئی تھی۔ یہ اس کے درد کے، انتظار کے آنسو تھے جو وہ اس کے جانے کے بعد بہاتی رہی تھی۔

"تو کیا وہ واقعی اس کیلئے سوچتی رہی تھی؟"۔ قیصر کو اس بات پر اچھنبا سا ہو رہا تھا۔

کیا وہ اس جیسے قاتل اور ظالم شخص کو چاہنے لگی تھی؟ کیسے اس دھوکے باز سے اسے محبت ہو سکتی تھی جس نے اسے دھوکے سے رشتہ میں باندھا اور ہر پل اذیت ہی دی؟

بڑے سے بڑا مسئلہ خندہ پیشانی سے حل کرنے والا قیصر اس مسئلے کو سمجھنے سے قاصر تھا۔ اس کی عقل اس مقام پر آ کر جواب دے جاتی تھی۔ 

سر جھٹک کر اس نے خود کو کمپوز کیا۔

"کم آن قیصر، یہ وقت اس سب کو سوچنے کیلئے نہیں ہے، فوکس فوکس"۔ گہری گہری سانسیں لے کر وہ تنے ہوئے اعصاب بحال کرنے لگا۔

اسے یاد آیا تھوڑی دیر قبل جب تابین نے اس کی حالت سے اسے آگاہ کیا تھا تو جیسے قیصر کے دل میں سوئی چبھو دی گئی تھی۔ خاص طور سے یہ سن کر اس کے بچے کو خطرہ لاحق تھا وہ ایک لمحہ بھی مزید نہ ٹھہر سکا۔

پھر کس طرح وہ اسے راضی کرکے زیست سے ملنے چلا آیا وہ ایک الگ ہی داستان تھی۔

بہرحال اکیلے تو اسے اب بھی نہ بھیجا گیا تھا۔

"باہر نکلو"۔ دروازہ ناک کرنے کے ساتھ ساتھ رانا نے آواز لگائی۔

اسے قیصر پر نظر رکھنے کی غرض سے تین چار آدمیوں کے ہمراہ تابین نے ساتھ کر دیا تھا۔ 

وہ جب کافی حد تک فارم میں آ چکا تو دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔

رانا مشکوک نگاہوں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

"کیا کر رہے تھے؟"۔ وہ پوچھے بنا نہ رہ سکا۔

اس سوال پر بہت مشقت سے مقابل نے اپنا غصہ کنٹرول کیا تھا۔

"خالی کمرے میں کسی سے خط و کتابت کر رہا تھا"۔ 

اپنا کوٹ ان میں سے ایک آدمی کے ہاتھ سے چھین کر پہنتے، اس پر طنز بھرا جملہ اچھال کر قدم آگے بڑھا دیئے۔ 

رانا نے اپنے دو آدمی اندر تلاشی لینے کی غرض سے کمرے میں بھیج دیئے۔ خود وہ باقی دو کے ساتھ جلدی سے اس کے پیچھے ہو لیا۔

"آئم سوری، دو منٹ آپ سے بات کرنی ہے مجھے۔ ساتھ آئیے پلیز"۔ سامنے سے آتی ڈاکٹر رابعہ نے اسے روک لیا۔

غالبا وہ زیست سے ملنے کے بعد سے اسے ڈھونڈ رہیں تھی۔

"تم لوگ یہی رکو"۔ اس نے اپنے پیچھے آتے ان لوگوں سے کہا۔

"باس کا حکم ہے، ہمیں ایک منٹ بھی تمہیں اکیلا چھورنے کیلئے منع کیا گیا ہے۔ سو اب کوئی ہوشیاری نہیں"۔ وہ اس کے کان سے قریب ہو کر دھمکی بھرے انداز میں بولا۔

قیصر نے ایک تیز نظر اس کے چہرے پر ڈالی۔ پھر ایک لفظ کہے بنا کیبن میں داخل ہو گیا۔ 

"یہی انتظار کرو"۔ باقی دو کو ٹھہرنے کا کہہ کر وہ خود اس کے پیچھے اندر داخل ہو گیا۔

سیاہ کوٹ جھٹکتے ہوئے وہ ان کے سامنے کرسی سنبھال چکا تھا۔

رانا ہاتھ باندھے اس کی پشت پر کھڑا ہو گیا۔

ڈاکٹر رابعہ نے ایک نظر اسے دیکھا پھر قیصر کو۔

"آپ کہہ سکتی ہیں جو کہنا ہے"۔ ان کے تذبذب کو دور کرتے ہوئے اس نے کہا۔

وہ سر ہلا کر گویا ہوئیں۔

"آپ کے دوستوں سے اس بارے میں بات ہو چکی ہے پہلے بھی۔ مگر شاید آپ ان کے رابطے میں نہیں تھے اس لیئے میری بات وہ آپ تک نہیں پہنچا سکے ہوں گے"  انہوں نے تمہید باندھی۔

وہ بغور انہیں ہی سن رہا تھا۔

ڈاکٹر رابعہ اپنے سامنے فائل کھولے بیٹھیں تھی۔ 

"میں نے یہ کچھ کاغذات تیار کروائے تھے۔ کسی خراب صورتحال کے پیش نظر۔ اس غرض سے کے شاید یہ بچہ مزید نہ پھلے پھولے"۔ کچھ پس و پیش کے بعد انہوں نے اصل مدعا بیان کردیا۔

"آپ ایسا کچھ نہیں کریں گی۔ یہ میری آپ سے درخواست ہے۔ میں زیست سے بات کر چکا ہوں وہ آپ سے کوآپریٹ کرے گی، پلیز اس کی مدد کریں اور یہ مشورہ ہمیں نہ دیں پھر کبھی"۔ درخواست کرنے کے ساتھ ساتھ وہ انہیں آخر میں تنبیہ بھی کر رہا تھا۔ 

"بالکل، چونکہ آپ بچے کے والدین ہیں ظاہر سی بات ہے کے فیصلہ کرنے کا اختیار آپ کے پاس ہی ہے۔ لیکن میں بحیثیت ڈاکٹر اپنی پیشنٹ کی صحت کو لے کر فکرمند ہونے کی پابند ہوں۔ اس لیئے مجھے زیست کیلئے یہ بچہ خطرہ نظر آیا جس کے چلتے میں نے یہ مشورہ دیا۔ 

آپ چاہیں تو اسے مان کر ان کاغذات پر دستخط کرکے ہمارے مشورے کو فیصلہ بنا سکتے ہیں۔ اور چاہیں تو رسک لیں۔ یہ آپ پر منحصر ہے"۔ انہوں نے تفصیلی وضاحت دے کر آخری فیصلہ اس پر چھوڑ دیا۔

قیصر اپنی نشست پر آگے کو ہوا۔ 

رانا بغور ان دونوں کی گفتگو سن رہا تھا۔

"میں اپنے فیصلے سے آپ کو آگاہ کر چکا ہوں اور یقینا زیست بھی اپنا جواب دے چکی ہوگی۔ اس لیئے ہم آپ کا یہ مشورہ رد کرتے ہیں۔ آپ سے گزارش ہے کے میری بیوی کا ہر ممکن علاج کریں اور اسے اس بچے سمیت تندرستی کی طرف لائیں"۔ وہ صاف لفظوں میں اپنی بات کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا۔

اس کی تقلید میں رابعہ بھی کھڑی ہوگئیں۔

"جیسا آپ مناسب سمجھیں"۔ انہوں نے اس کی بات کی تائید میں کہا۔

"شکریہ"۔ یہ کہہ کر وہ کیبن سے باہر نکل گیا۔ 

جوں ہی رانا بھی منظر سے غائب ہوا انہوں نے اپنے فائل کا صفحہ پلٹایا۔

اندر ایک لیٹر تھا۔ جس پر عالیان مصطفٰی کا نام درج تھا۔ 

انہیں یاد آیا جب وہ ان کے پیچھے پیچھے اندر آ رہا تھا تب ہی ہاتھ کی خفیف حرکت سے یہ لیٹر اس نے کوٹ سے برآمد کرکے چپکے سے ان کو تھما دی تھی اور آنکھ کے اشارے سے خاموش رہنے کو کہا۔

تب انہوں نے بروقت فائل کے صفحات میں رکھ کے چھپا دیا تھا اسے۔

اب اس پہ نام دیکھ کر وہ اس کے صحیح مالک کو بلانے کا قصد کر چکی تھیں۔ انہیں یاد آیا عالیان اپنا نمبر چھوڑ گیا تھا۔ اس خیال کے آتے ہی انہوں نے اس نمبر پر کال کر لیا۔

"ہیلو، مسٹر عالیان؟ پلیز جلدی سے میرے کیبن میں آ جائیے۔ اکیلے آئیے گا براہ مہربانی"۔ انہوں نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا۔

اتنا تو وہ سمجھ چکیں تھی کے یہ کوئی حساس معلومات کا چکر ہے۔ لہٰذا جس کے نام کا تھا صرف اسی کو انوالو کرنا ہی عقلمندی تھی۔

                             ☆☆☆☆☆

گاڑی کی پچھلی سیٹ کا دروازہ کھول کر وہ اندر آ بیٹھا۔

"مل آئے اپنی چہیتی سے؟"۔ برابر میں بیٹھی وہ سرد لب و لہجے میں گویا ہوئی۔

"پلیز، اس وقت مجھے تم سے کوئی بحث نہیں کرنی ہے"۔ قیصر نے زچ ہوتے ہوئے اسے ٹوک دیا۔

"اوکے، ایز یو وش۔ چلو رانا"۔ تابین نے مزید کچھ نہ کہا۔ گاڑی خاموشی سے روانا ہو چکی تھی۔

پیچھے پیچھے ان کی دوسری گاڑی بھی چل پڑی۔

سیٹ کی پشت سے سر ٹکاتے وہ پلکیں موند گیا۔ 

بند آنکھوں کے پردے پر آنسوؤں سے تر وہ چہرہ نمودار ہوا تھا۔ جو اس کی بے چینی کی وجہ بنا ہوا تھا۔ 

تابین کی نظریں اس کے چہرے پر جمی تھیں۔ جو سمندر کی طرح اوپری سطح سے دیکھنے پر پرسکون معلوم ہوتا تھا، مگر سارے طوفان اس کے اندر۔۔۔کہیں بہت گہرائی میں اٹھتے تھے۔ جسے وہ نہ دیکھ سکتی تھی اور نہ ہی محسوس کر سکتی تھی۔

                                ☆☆☆☆☆

ماہا زیست کو سہارا دیئے گاڑی تک لے آئی تھی۔ گو اسے سہارے کی ضرورت نہ تھی مگر ماہا کو پھر بھی وہ کمزور لگی تھی۔ اس لیئے وہ ایک پل بھی اسے تنہا چھوڑنے کو تیار نہیں تھی۔ وہ تھی ہی اتنی حساس، اوروں کا درد محسوس کرنے والی اور کچھ قیصر کے حوالے سے بھی وہ اسے عزیز ہوگئی تھی۔

شہیر کو اس کیلئے کچھ ضروری چیزیں لینے بھیج دیا۔ جن کی اس وقت زیست کو شدید ضرورت تھی۔

عالیان ارد گرد نظریں دوڑانے کے بعد بہت احتیاط سے واپس ہسپتال کی عمارت میں داخل ہو گیا۔

کچھ ہی لمحوں بعد وہ ان کے کیبن آ پہنچا تھا۔

"کہیے کیا بات کرنی تھی آپ کو؟"۔ وہ قریب چلا آیا۔

ڈاکٹر رابعہ کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھی۔

وہ جلد از جلد اس امانت سے سبکدوش ہو جانا چاہتی تھیں۔

"یہ دینا تھا آپ کو"۔ فائل سے نکال کر لیٹر اس کے حوالے کرتے ہوئے بتایا۔

عالیان چونک سا گیا۔

"کیا قیصر یہاں آیا تھا؟"۔ وہ حیرانگی سے پوچھنے لگا۔

انہوں نے اس بات پہ ہاں میں سر ہلایا۔

"مجھے پتہ کیوں نہ چل سکا پھر"۔ لب بھنچے سوچ میں پڑ گیا۔

"خیر، بہت بہت شکریہ آپ کا"۔ وہ ممنون ہوا۔

"مگر یہ سب کیا ہے؟ کہیں کچھ غلط تو نہیں؟"۔ وہ فطری شک کے پیش نظر پوچھنے لگیں۔

"بے فکر رہیے۔ آپ کی یہ چھوٹی سی مدد بھی کسی کیلئے نجات کا باعث ہو سکتی ہے"۔ عالیان نے ڈھکے چھپے الفاظ میں بس اتنا ہی بتایا۔

وہ کسی قدر مطمئن سی ہو گئیں۔ ان کیلئے اتنا ہی جاننا کافی تھا کے اس معاملے سے کسی وجود کو نقصان نہ پہنچتا ہو!

"اور ہاں، اس کا ذکر آپ کسی سے مت کیجئے گا۔ کسی سے بھی نہیں"۔ وہ جاتے جاتے یہ کہنا نہیں بھولا۔

"بے فکر رہئیے آپ"۔ انہوں نے زبان پر تالا لگا لیا۔

وہ اثبات میں سر ہلا کر لیٹر سنبھال کر رکھتے ہوئے وہاں سے نکل گیا۔

                                ☆☆☆☆☆

وہ نسبتا ایک خالی اور محفوظ کونے میں آ کر اس لیٹر کو کھول کر پڑھنے لگا۔

"میرے پاس رابطے کا وہاں سے کوئی دوسرا ذریعہ نہیں۔ میں ان کوبرا گینگ کی شہ رگ تک پہنچ چکا ہوں۔ ان کا گڑھ یہی ہے۔ 

سب کچھ پلان کے تحت ہو رہا ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کے میں میکائیل اور اپنے ساتھی تک پہنچ چکا ہوں۔ لیکن بری خبر یہ ہے کہ ہمیں انہیں اس جہنم سے جلد نکالنا ہوگا۔ وقت بہت کم ہے۔ تمہیں مندرجہ ذیل اقدامات کرنے ہوں گے۔

• ان کے خفیہ خزانے کی چابی ڈھونڈو۔ انہیں کمزور کرنے کا یہ پہلا قدم ہے۔ ان کے گینگ کی ہر قسم کی کمائی روکنی ہوگی۔

مطلوبہ جگہ کے بارے میں تمہیں ان کے ساتھی سے معلوم ہوگا۔ جانتے ہو نا اسے تم کون ہے؟

• اس خفیہ نقشے کی بہت بڑی ڈیل عنقریب ہونے جا رہی ہے ایک بہت بڑے گروہ کے بیچ۔ اس ڈیل کو روکنا ہوگا کسی بھی صورت۔ جو کوئی بھی اس میں شریک ہوگا ان سب کو ٹھکانے لگا دینا۔ سوائے بہروز کے۔ 

• اور تیسری اہم بات یہ کے زیست کو یہاں سے کہیں دور بھیج دو۔ کہیں ایسی جگہ جہاں تابین کا سایا بھی نہ پہنچ سکے۔ میں تابین کو اپنی کمزوری سے فائدہ اٹھانے نہیں دے سکتا۔ تم اچھی طرح جانتے ہو یہ کیسے کرنا ہے۔ 

میں کسی طرح تم سے رابطہ کرنے کی کوشش کروں گا۔ اگلی مرتبہ میرے پیغام کے ساتھ ہی تمہیں باقیوں کے ساتھ مل کر ان کے مقام پر حملہ کرنا ہوگا۔ تبھی ہم یہاں موجود لوگوں کو بچا سکتے ہیں۔

نیچے اس ہوٹل کا پتہ بھیج رہا ہوں جہاں یہ ڈیل ہوگی"۔

پورا خط پڑھ لینے کے بعد اس نے پتہ نوٹ کیا اور اپنے ذہن میں اچھی طرح اسے بٹھا دیا۔ 

پھر اس کے بعد اس نے وہ خط لائیٹر جلا کر نظر آتش کر دیا۔ فلحال اسے اور قیصر کو اپنے پلان میں کسی اور کو شریک کرنے کی ضرورت نہ تھی۔

وہ جانتا تھا اب اسے کیا اور کیسے کرنا ہے۔

                                ☆☆☆☆☆

گال تلے ہتھیلی رکھے وہ اپنے ہاتھ میں موجود اس قیمتی نفیس سی گھڑی کو دیکھ رہی تھی۔ انداز سے بے چینی جھلک رہی تھی۔ 

وہ اس وقت یونیورسٹی کے کیفیٹیریا میں موجود تھی۔ 

"ماہا"۔ کسی نے دور سے ہانک لگائی۔

اس نے نگاہیں اٹھا کر دیکھا پھر ہاتھ ہلایا۔

فرحین اس کی جانب چلی آئی تھی۔

"کیا ہوا؟ ایسے اکیلی کیوں بیٹھی ہو؟"۔ اس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے وہ پوچھے بنا نہ رہ سکی۔

پھر نظر اس کے ہاتھ پر پڑی۔

"اوہ مائی گاڈ! دکھانا ذرا"۔ اس نے گھڑی ماہا کے ہاتھ سے تقریبا جھپٹ کر لی۔

"مردانہ گھڑی؟ اوہو تو بات یہاں تک آ پہنچی ہے! گفٹ شفٹ دیئے جا رہے ہیں اسے"۔ فرحین نے ٹہوکا مارا۔

"کہاں دیا ہے ابھی یار، سمجھ ہی نہیں آ رہا کیسے کہوں کیا کہوں اس سے؟ ہر وقت تو روکھا پھیکا منہ لیئے گھومتا رہتا ہے"۔ وہ کس بے زاریت سے اس کے شان میں قصیدے پڑھ رہی تھی۔

"کون ہیں یہ جناب؟ نام بتاؤ۔ زرا دیکھیں تو کس نے ہماری دوست کو اتنا پریشان کر رکھا ہے"۔ وہ اسے چھیڑنے والے انداز میں بولی۔

ماہا چہرا جھکائے دلکشی سے مسکرا دی۔

"بس ہے کوئی پاگل شخص۔ پتہ نہیں اسے کب احساس ہوگا"۔ اس کے لہجے میں حسرتیں پناہ تھیں۔

"اسے نہیں احساس تو تم کروا دو۔ یہ گھڑی دے کر"۔ فرحین نے اپنے تئیں آسان مشورہ دیا۔

"کیا واقعی؟ اسے برا تو نہیں لگے گا؟ غلط سمجھ لیا اس نے اگر تو؟"۔ اس کے ذہن میں سینکڑوں اندیشے تھے۔

"کام ڈاؤن لڑکی، ان مایوس کن سوچوں کو اپنے ذہن سے نکال دو اور بس اپنے دل کی بات پر۔۔۔فیلنگز پر فوکس رکھو اور جا کر کہہ دو۔ آسان ہے یار"۔ وہ جتنی آسانی سے یہ خاکہ کھینچ رہی تھی سب اتنا آسان بھی نہ تھا اس کیلئے۔ 

وہ تو وہ تھی کے زرا زرا سی بات پر دل ٹوٹ جاتا تھا اس کا۔ اور اب یہ بڑا قدم اٹھاتے ہوئے اسے بہت

گھبراہٹ محسوس ہو رہی تھی۔

بہرحال وہ یہ ارادہ باندھ چکی تھی کے اسے شہیر سے صاف بات کرنی ہی پڑے گی۔

                             ☆☆☆☆☆

وہ آئینے میں جھلملاتے اپنے عکس کو دیکھتی جانے کس خیال کے تحت مسکرا رہی تھی۔

رف جینز اور نیلے ٹاپ میں وہ کوئی چھوٹی سی کالج گرل ہی معلوم ہوتی تھی۔ بکھرے آبشار جیسے سیاہ بالوں میں کنگھی ڈالتی وہ وقتا فوقتا مسکرا رہی ہوتی۔

تبھی دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز گونجی تھی۔

اس نے رخ موڑ کر دیکھنے کی زحمت نہ کی۔ وہ نووارد کو اس کی خوشبو سے بھی پہچان سکتی تھی۔

سرمئی آنکھیں توصیفی انداز میں اطراف کا جائزہ لے رہیں تھی۔ 

اس کا کمرہ سیاہ اور سلور رنگوں سے سجا تھا۔ کم و بیش ہر چیز میں اسے یہی دو رنگ نظر آ رہے تھے۔ سیاہ رنگی کنگ سائز بیڈ کے اوپر خوبصورت سی سیاہ و سلور ہی رنگ سے مزین کینوپی تھی۔

 کمرے کے وسط میں لٹکتا قیمتی و نفیس فانوس اس کے اعلٰی ذوق کی ترجمانی کر رہا تھا۔

بیڈ سے میچنگ فرنیچر۔ قیمتی و دبیز پردے اور قالین۔ ہاں اس دنیا میں دو ہی گروہ امیر ہیں۔ جن کے پاس بے تحاشا پیسے کمانے کا گر موجود ہے۔

ایک تو ان میں سیاست دان ہوتے ہیں اور دوسرے کاروباری حضرات۔

انڈر ورلڈ بھی ایک قسم کا کاروبار ہی ہے۔ خون و دھوکے پر مشتمل سیاہ کاروبار۔ 

جہاں نفس پرست لوگ اپنی بے لگام نفس کی خواہشات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا سودا لے کر آتے ہیں۔ اور بدلے میں حاجی و تابین جیسے بےضمیر لوگ من چاہی قیمت وصول کرکے ان کے معاون و مددگار بن جاتے ہیں۔

اس نظام کو چلائے رکھنے کیلئے دونوں طرف سے مہرے استعمال کیئے جاتے ہیں۔ سفید کالر کہلائے جانے والے نفس پرستوں کی ترجمانی چند ٹکوں میں بک جانے والے سرکاری افسران یا سرکاری آدمی کرتے ہیں۔ یہ علی مرزا جیسوں کے مہرے ہوتے ہیں۔

اور دوسری طرف سے مسخ شدہ شخصیات جیسے حاجی، ولید۔ یہ اپنے مہروں کے طور پر قیصر خیام کی طرح کے لوگ پالتے ہیں۔ جن کی وفاداری مختلف طریقوں سے خرید کر ان سے پھر کام لیتے ہیں۔

"مجھے یقین ہے تمہارے جیسے شخص کو اس کمرے کی چکا چوند ہرگز بھی اندھی نہیں کر سکتی۔ پھر یوں گم سم ہو جانے کی وجہ کیا ہے؟"۔ اسے تب سے یونہی خاموش پا کر تابین نے خود ہی متوجہ کیا تھا۔

قیصر نے چونک کر اس کی جانب دیکھا وہ گہری نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔

"سوچ رہا تھا کبھی تمہاری عمر میں لڑکیاں سفید گھوڑے پر سوار شہزادوں کے خواب دیکھا کرتی تھیں۔ مگر اب دیکھو کن کاموں میں پڑ گئیں ہیں"۔ اس کے انداز میں تلخی تھی۔ ہلکی سی چبھن بھی۔

تابین زخمی سا مسکرائی۔

"زمانہ ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔اور پھر میرے تجربے کے حساب سے ہمیں ایسا تمہارے جیسے مرد ہی تو بناتے ہیں۔ اپنے مطلب و فائدے کی خاطر ہمارے ذہن و دل سے کھیل کر انہیں خراب کردیتے ہیں اور پھر۔۔۔یوں تمہاری طرح کھڑے ہو کر طنز بھی خود ہی کرتے ہیں"۔ وہ انجانے میں اس پر گہری ضرب لگا گئی تھی۔ 

قیصر چلتا ہوا اس کے نزدیک آ رکا۔

"میں اب بھی تمہارے اس ظالم اور گھناؤنے چہرے کے پیچھے چپھی اس گیارہ سالہ معصوم سی تابین کی معصوم صورت دیکھ سکتا ہوں"۔ اس کے رخسار پر انگلی سے لکیر کھینچتے ہوئے وہ اس کی ذات کی گہرائیوں میں اتر کر اسے جھٹکوں کی زد میں لے آیا تھا۔

تابین کے چہرے پر پہلے بے یقینی اور پھر غصہ عود کر آیا۔

"تم نے۔۔۔"۔ 

"پڑھی ہے تمہاری ڈائری"۔ اس نے اعتراف کیا۔

تابین نے بری طرح اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔ وہ شاکی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

"تمہیں یہ حق دیا کس نے؟"۔ غرا کر کہتی وہ اس کا گریبان دبوچ چکی تھی۔

"تم نے خود"۔ اپنے شرٹ کا کالر اس سے الگ کرتے ہوئے وہ کس جرت سے کہہ رہا تھا۔

اس کی نظریں جھکتی ہوئی اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پہ آ ٹھہریں۔ جہاں سفید شرٹ کا اوپری بٹن ٹوٹ کر آ گیا تھا۔

اس منظر کو دیکھ کر قیصر کو وہ رات یاد آئی جب زیست کو گولی لگی تھی۔

اس رات برج پر جب اس نے کوئی شے چمکتی دیکھی تو جھک کر اٹھانے پر اسے اپنے سرمئی شرٹ کا وہ بٹن ملا جو تابین کے ہاتھوں نے اس کے گریبان سے نوچا تھا۔

ماضی سے نکل کر اس نے فل سلیوس شرٹ سے جھانکتی تابین کی کلائی دیکھی۔ سرمئی رنگ کا دوسرا بٹن اب بھی اس کی کلائی میں بریسلٹ کی صورت موجود تھا۔ 

اس بٹن کے کنارے پر انگریزی حرف تہجی کے دو سنہری حروف "کیو-کے" جگمگا رہے تھے۔ یہ خاص بٹن قیصر خیام کے پسندیدہ رنگوں والی کسی کسی شرٹ پر ہی لگا کرتی تھی۔ خاص اس کی فرمائش پر۔ یہ سب وہ تب کیا کرتا تھا جب اس کے نزدیک اس کی ذات ہی ہر شے سے اوپر اور اہم ہوا کرتی تھی۔

جس رات وہ گولی چلا کر فرار ہوئی تھی قیصر کے نام والا وہ خاص بٹن اسی دوران وہاں پایا گیا تھا۔ جسے تابین نے شاید تعویز بنا کر اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ اور یہی اس کی سب سے بڑی بھول ثابت ہوئی۔

وہ شاطر سے شاطر سہی مگر قیصر کو اپنا اہم سراغ دے گئی تھی۔ اسی چھوٹے سے بٹن کو دیکھنے کے بعد ہی تو قیصر نے عالیان کے ساتھ مل کر اتنا بڑا کھیل ترتیب دیا تھا۔ جس کے تحت آج وہ اس کے گھر تک آ پہنچا تھا۔

"میں نے تمہیں جتنا بھی اختیار دیا ہو لیکن ہر بات کیلئے ایک حد مقرر ہے۔ جس کے تحت تمہیں میرے ماضے میں جھانکنے کا کوئی حق حاصل نہیں"۔ اس کے اندر اٹھتے طوفانوں اور موجوں سے بے خبر وہ کہہ رہی تھی۔

"ہماری دنیا میں کون سی حد؟ یہاں ہر چیز لامحدود ہوتی ہے کیا یہ بات تمہیں سکھائی نہیں گئی مس تابین؟"۔ اس کا ہاتھ پشت پر موڑتے ہوئے وہ اسے یاد دلانے لگا۔

جواب میں وہ خاموش ہو گئی۔

کچھ لمحوں بعد قیصر نے اس کے ہاتھ پر گرفت ڈھیلی کردی۔

"ہر مجرم کا ایک ماضی ہوتا ہے۔ ضروری نہیں ہے وہ ماضی ہر بار دردناک ہو تمہاری میری طرح۔ مگر ماضی بہرحال سب کا ہی ہوتا ہے۔ اسے چھپانے کی یا خفیہ رکھنے کی کوشش بے سود ہے۔ کیونکہ جب تک ہم میں اس سے سامنا کرنے کی ہمت نہیں آئے گی، ماضی ہر پل ہمیں ستاتا رہے گا۔ اس لیئے اب یہ وقت ہے کے ماضی کو ایک طرف کردو اور حال میں آ جاؤ۔ مستقبل کا سوچو"۔ وہ اس کے نازک و ہلکے سے وجود کو اپنے حصار میں لیتے ہوئے بہت صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے سمجھا رہا تھا۔

اور تابین گنگ سی ہو کر اس کے وجود میں پناہ گزین یہ سب سن رہی تھی۔ اسے یقین نہ آ رہا تھا مقابل کے اس روپ پہ۔ اس کے نزدیک قیصر دنیا کا وہ آخری شخص ہوتا جو اسے تسلی دے سکتا تھا۔

اس کا دل کر رہا تھا کے وہ اس کے ہاتھوں میں بکھر جائے۔ پگھل جائے۔

اس کا لمس تابین کے دل تک پہنچ کر اسے یہ احساس دلا رہا تھا کے اپنی ٹوٹی بکھری ذات پر چڑھایا ہوا یہ خول کس قدر جھوٹا اور ناپائیدار تھا۔

وہ اندر سے کسی بھی عام لڑکی جیسی ہی تھی۔ نرم و گداز جذبے اس کے اندر بھی پائے جاتے تھے۔ اس بات کا احساس اسے آج اس پل قیصر نے کروایا تھا۔ 

گھبرا کر وہ اس سے اپنا آپ چھڑواتے ہوئے دور ہٹ گئی۔

کچھ پل کی یہ بےخودی اس کی عقل کو ناگوار گزری تھی۔ 

"وہ کھیل رہا ہے"۔ ذہن میں اٹھتی یہ سرگوشی ارد گرد پھیل رہی تھی۔

"اسے ایک موقع تو دے کر دیکھو"۔ دل کی گزارش تھی۔

وہ اجب جنگ میں پڑ گئی تھی۔

بہت دیر تک وہ یونہی پتھر بنی کھڑی رہی۔

"تم ٹھیک ہو؟"۔ وہ تشویش سے پوچھ رہا تھا۔

تابین نے خیالات سے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔

"ہوں، ہاں میں ٹھیک ہوں"۔ اس کی جانب سے رخ موڑ کر آنکھیں میچتے ہوئے اس نے جواب دیا۔

"تو۔۔۔میں جاؤں؟"۔ وہ منتظر سا پوچھ رہا تھا۔

اس نے فورا ہاتھ کے خفیف اشارے سے اسے جانے کو کہا۔

وہ خاموشی کے ساتھ وہاں سے ہٹ گیا۔

اس کے جاتے ہی وہ ڈریسنگ میز پر پڑا اپنا موبائل اٹھا کر مخصوص نمبر ڈائل کرنے لگی۔

"ایک کام ہے۔ فوری کرنا ہے یہ"۔ آئینے میں اپنا عکس دیکھتے ہوئے اس نے کہا۔

"زیست کو اٹھا کر اس پتے پہ لے آنا جو ابھی میں بھیج رہی ہوں۔ کل تک کا وقت دے رہی ہوں۔ ہر حال میں یہ کام ہو جانا چاہیئے"۔ حکم دے کر فون کال ڈکلائن کردی۔ پھر کچھ ہی پل میں پتہ لکھ کر اس نمبر پر بھیج دیا۔

"اب شروع ہوگا تمہارا اصل امتحان قیصر۔ دیکھتی ہوں تمہارے اچانک بدلے ہوئے رویے میں کتنی سچائی ہے"۔ وہ اپنے جون میں واپس آ چکی تھی۔

تھوڑی دیر قبل نمودار ہونے والی کمزور سی تابین اب کہیں نہیں تھی۔

خود کو بحال کرنے کے بعد وہ کمرے سے باہر نکل آئی۔ اس کا رخ اسٹڈی روم کی جانب تھا۔

                              ☆☆☆☆☆

ایک بزنس مین کی طرح سوٹڈ بوٹڈ وہ اس عالی شان ہوٹل میں داخل ہوا تھا۔ بریف کیس ہاتھ میں لیئے گھڑی دیکھتے ہوئے اس کے ہر انداز سے وہ ایک کاروباری شخصیت ہی معلوم ہوتا تھا۔ 

ہوٹل کی لابی میں اطراف کا جائزہ لیتی اس کی نگاہیں لفٹ میں داخل ہوتے بہروز اور اس کے ساتھ دو گورے پر جا رکی۔ اس کے علاوہ چار سے پانچ باڈی گارڈ بھی ان کے ساتھ تھے۔ 

 وہ عام سے انداز میں ہنستے اور خوش گپیا کرتے ہوئے جا رہے تھے۔

"وہ جا چکے ہیں۔ تم لوگ تیار رہو۔ جیسے ہی سگنل دوں آ جانا"۔ کان میں لگے بلو ٹوتھ کے ذریعے وہ پارکنگ ایریا میں موجود اپنے ساتھیوں سے مخاطب تھا۔

جنہیں عالیان کی فرمائش پر اس کے زیر کمان لیفٹیننٹ باقر نے کر دیا تھا۔ ان کے ساتھ حماد بھی تھا۔

"اس کے ساتھ صرف پانچ باڈی گارڈز آئے ہیں۔ باقی کے تین اب بھی پارکنگ ایریا کے آس پاس کہیں موجود ہوں گے۔ تم میں سے تین جا کر انہیں دھر لو"۔ 

وہ انہیں بے حد احتیاط کے ساتھ ہدایات جاری کرتا بہروز کے برابر والے لفٹ میں سوار ہو گیا۔

چھٹے فلور کا بٹن دبا دیا۔ 

کچھ ہی لمحوں بعد وہ وہاں موجود تھا۔ 

"میں پہنچ چکا ہوں۔ چھٹے فلور، روم نمبر تین سو سات"۔ 

پانچ منٹ بعد حماد کا جواب آیا۔

"یس سر، وہ تینوں ہماری گرفت میں ہیں"۔ ایک کا گریبان پکڑتے ہوئے اس نے کہا۔

"گڈ! اب ان میں سے ایک کو بھاگنے کا موقع فراہم کرو۔ کچھ اس طرح کے وہ تابین تک بہروز کا سلام لے جا سکے"۔ عالیان نے تین سو سات کے بند دروازے کو دیکھتے ہوئے کہا۔

حماد نے اس کا گریبان چھوڑ دیا اور بات کرتے کرتے اس سے زرا فاصلے پر آ گیا۔

"ارے فکر مت کیجئے بہروز سر آپ، وہ تینوں ہمارے قبضے میں ہیں۔ مادام کے فرشتوں کو بھی علم نہیں ہو سکے گا کے ہم انہیں ڈبل کراس کرگئے ہیں"۔ اس نے آواز اس قدر اونچی ضرور رکھی کے وہ آدمی برابر سن سکے۔ 

اور جوں ہی اس نے نقاب پوش حماد کی یہ بات سنی، اپنی نگرانی پر کھڑے ایک آدمی کو دھکا دیا اور دوسرے کو لات رسید کرکے حماد کو زور سے دھکیلتا ہوا موقع سے فرار ہو کر بجلی کی سی تیز رفتاری سے بھاگ نکلا۔

"پکڑو اسے پکڑو"۔ گاڑی کے بونٹ پر گرا پڑا حماد زور زور سے چیخ رہا تھا۔

اس کے دو ساتھی مفرور ہوئے آدمی کے پیچھے لپک جھپک بھاگ کھڑے ہوئے۔

جب تھوڑی دور تک وہ بھاگ لیئے تو حماد بولا۔

"نہیں پکڑو اسے نہیں پکڑو"۔ بلو ٹوتھ کے ذریعے ان دونوں کو رکنے کا حکم ملا تو وہ ٹھہر گئے۔

"شاباش"۔ عالیان نے سن کر بے ساختہ کہا۔

"تھینک یو سر"۔ حماد خوش ہو گیا۔

"ان ایکشن"۔ اگلے ہی پل اس نے فورا حکم دیا۔

"یس سر"۔ اس نے باقیوں کو ساتھ آنے کا اشارہ دیا۔

ان میں سے تین نقاب اتار کر حماد کے پیچھے چل پڑے جبکہ ایک گاڑی میں ہی بیٹھا ان دو بے ہوش باڈی گارڈز کی نگرانی پر معمور ہو گیا۔

پانچ منٹ کے مختصر سے عرصے میں حماد موقع پر پہنچ چکا تھا۔

"دروازہ جوں ہی کھلے فورا گھس جانا۔ گولی کوئی نہیں چلائے گا یاد رہے"۔ دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا عالیان اپنے موبائل اسکرین کو دیکھتا انہیں زیرلب سمجھا رہا تھا۔

وہ سب ایک ایک دو دو کرکے ایک دوسرے سے زرا فاصلے پر کھڑے ہوگئے تھے۔ تاکہ وہاں سے گزرنے والوں کو کسی گڑبڑ کا شبہ نہ پڑے۔

دو منٹ بعد ہی ایک گورے نے دروازہ کھولا تھا۔ جسے دیکھتے ہی وہ پھرتی سے جمع ہوئے اور ایک طوفان کی طرح کمرے پر دھاوا بول دیا۔

اب وہ پانچ تھے اور مقابل ان کے سات۔

"یہ کیا ہو رہا ہے؟ کون ہو تم لوگ؟"۔ بہروز گن نکالتے ہوئے دہاڑا۔ اس سے قبل وہ فائر کر پاتا اس کے پیچھے کھڑے ایک انگریز نے گلدان اٹھا کر اس کے سر پر پھوڑ دیا۔

اس کے ہاتھ سے ہتھیار گر پڑا اور وہ سر پکڑے زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔

بہروز کے گارڈز پر ان لوگوں نے تابڑ توڑ وار کرکے ان کا حملہ ناکام بنا دیا تھا۔ اپنے پاس موجود سرنجز ان کی گردن میں گھونپتے ہوئے وہ پانچ منٹ کے اندر اندر ان کو بے ہوش کر چکے تھے۔

"ویلڈن"۔ عالیان نے آگے بڑھ کر فائق اور عباس کی پیٹھ تھپتھپائی۔

"شکریہ سر"۔ وہ دونوں ہاتھ باندھے مودب سے ہو کر بولے۔

"بے وقوف، اپنے دیس کے پٹھانوں اور بدیس کے گوروں میں فرق ہی نہ پہچان پایا"۔ حماد نے بے ہوش پڑے بہروز کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔

اسکی بات پر وہ سب ہی ہنس پڑے تھے۔

"لیکن یہ ہوا کیسے؟ ہم تو سارا وقت ساتھ تھے۔ پھر کب ادلا بدلی ہو گئی؟"۔ ان میں سے ایک جو جونیئر تھا اپنی کنفیوژن بتائی۔

"سمجھ جاؤ گے بچوں۔ دھیرے دھیرے سب سمجھ آنے لگتا ہے"۔ عالیان نے جواب میں یہی کہا۔

عین اسی وقت دروازے پر دستک ہونے لگی۔

"کون ہے؟"۔ حماد نے آگے بڑھ کر پوچھا۔

"روم سروس"۔ جواب آیا تھا۔

"آؤ بھئی تمہارا ہی انتظار ہو رہا تھا۔ یہ سب ٹھکانے لگاؤ اس سے قبل کے اسٹاف کو شک گزرے"۔ عالیان نے ویٹر کے لباس میں موجود ساتھی سے کہا۔

"یس سر"۔ وہ جلدی سے کام میں لگ گیا۔

"ان کو یہاں سے نکالنے کا بھی بندوبست کرو"۔ اس نے بے ہوش پڑے آدمیوں کیلئے نیا حکم دیا۔

                               ☆☆☆☆☆

کھڑکی سے سر ٹکائے وہ خاموش بیٹھی تھی۔ گاڑی پچھلے دو گھنٹے سے انجانے راستوں پر رواں دواں تھی۔ 

موسم ابر آلود ہو رہا تھا۔ بالکل اس کے دل کی طرح۔

اس کا ذہن قیصر میں ہی اٹکا ہوا تھا۔

"ماہا سے نہیں مل سکی میں"۔ وہ اپنی ہی دھن میں کہہ رہی تھی۔

گاڑی ڈرائیو کرتا شہیر اس کی بات پر چونکا۔

"ہاں اسے نہیں بتا سکے۔ یہ فیصلہ جلد بازی میں کرنا پڑا۔ آپ کیلئے وہاں خطرہ لاحق تھا۔ اسی لیئے کہیں اور شفٹ کرنے کے آرڈرز ملے ہیں"۔ وہ اس سفر کی نوعیت سمجھانے لگا۔

"کہاں جاؤں گی میں؟  اور یہ خطرہ کہاں تک پیچھا نہیں کرے گا میرا؟"۔ وہ جیسے تھک سی گئی تھی۔ اس سب سے۔

"جہاں تک ہو سکے۔ جب تک یہ معاملہ حل نہیں ہو جاتا قیصر کے قریب ہر شخص کو خاص طور پر آپ کو خطرہ رہے گا"۔ شہیر ناچاہتے ہوئے بھی اسے حقیقت کا سامنا کروانے کی کوشش کر رہا تھا۔

اس کے ذکر پر وہ تکلیف سے آنکھیں میچ گئی۔

"بے فکر رہیے۔ وہاں تنہا نہیں ہوں گی آپ۔ بلکہ آپ کی امی کو بھی آپ کے پاس ہی لایا جائے گا"۔ اپنے تئیں اس نے اچھی خبر سنائی۔

زیست نے چونک کر پلکیں وا کیں۔

"کیا واقعی؟"۔ اسے یقین نہ آیا تھا جیسے۔

"جی ہاں"۔ شہیر نے تصدیق کی۔

اور وہ پہلی بار مسکرائی تھی۔ کسی حد تک مطمئن بھی ہوئی تھی۔ 

                                 ☆☆☆☆☆

"کیا بکتے ہو تم؟"۔ خبر لانے والے کو ایک زوردار تھپڑ رسید کرکے وہ چیخی تھی۔

جو خبر اس تک پہنچی تھی اس کے پیروں تلے سے زمین سرکانے کیلئے کافی تھی۔

وہ 

"یہ نہیں ہو سکتا۔ اخی دھوکا نہیں دے سکتے مجھے۔ ہرگز بھی نہیں"۔ وہ کپکپاتے لبوں سے ایک ہی جملہ دہرا رہی تھی۔

"وہ بہروز کے ہی آدمی تھے۔ ان لوگوں کو پتہ تھا کے ہم تین خاص آپ کے حکم پر ان کے ساتھ بھیجے گئے تھے۔ مگر انہوں نے ہم تینوں کو اپنے ساتھ اندر جانے سے منع کرکے باہر رکنے کو کہا۔ اور تھوڑی دیر بعد ہمیں اچانک آ کے دھر لیا۔ ان کے چہرے نقابوں میں تھے مگر وہ ضرور سر کے حکم پر ہی عمل کر رہے تھے"۔ وہ سر جھکائے صفائیاں پیش کر رہا تھا۔

جس سے تابین مزید بھڑک اٹھی۔

"چپ ہو جاؤ! چپ ہو جاؤ میں نے کہا چپ۔۔۔ہو۔۔۔جاؤ"۔ جیکٹ سے گن نکالتے ہوئے اچانک فائر کے ساتھ اس نے ایک ہی سیکنڈ میں اسے قصہ پارینہ کر دیا۔

نشانہ ٹھیک پیشانی کے بیچ و بیچ لگا تھا۔ وہ بے جان ہو کر فرش پر ڈھیر ہو چکا تھا۔

وہ بے دم سی ہو کر صوفے پر گر گئی۔

"اخی! دھوکا دیا تم نے مجھے۔ آخر پرایا خون وفا کر بھی کیسے سکتا تھا!؟"۔ کانچ کی میز کو زوردار لات رسید کرتے ہوئے وہ چلائی تھی۔

"زندہ نہیں چھوڑوں گی تمہیں بہروز! جس بھی کونے میں چھپ کر بیٹھے ہوگے وہاں گھس کر تمہیں عبرتناک موت دوں گی"۔ ایک عظم کے ساتھ ہی عہد باندھتے ہوئے وہ اٹھی تھی اور پراعتماد چال چلتی ہوئی اسٹڈی سے باہر آ گئی۔

رانا اسے دیکھ کر اس کے پیچھے پیچھے بھاگنے لگا۔

"باس کیا بات ہے؟"۔ ڈرتے ڈرتے اس نے پوچھا۔

"سب کو فون کرو۔ ہمارے تمام دوستوں اور اتحادیوں کو ایک دعوت پر جمع کرو۔ بہت ہو گیا یہ چوہے بلی کا کھیل۔ میرا ان سے روبرو ہونے کا وقت آگیا ہے۔ انہیں پتہ لگنا چاہیئے کے اصل میں یہاں حکومت کسی بادشاہ کی نہیں تھی۔۔۔"۔ وہ یک دم رکی۔

سامنے ہی وہ اپنی تمام تر جاہ و جلال سمیت کھڑا تھا۔

"بلکہ ایک۔۔۔ملکہ کی ہے"۔ اس کی آنکھوں میں جھانک کر کہتی وہ اپنا آپ واضح کر رہی تھی۔ 

پھر اسے مکمل نظرانداز کرکے وہ اسی تیز رفتاری سے آگے بڑھ گئی تھی۔

"پچھتاؤ گی اس فیصلے پہ تم۔  میں نے موقع دیا، سمجھایا تمہیں۔ مگر حاجی، علی مرزا اپنے باپ اور اب بہروز کے انجام سے بھی تم نے کچھ نہ سیکھا۔ اب میں تمہیں تابین کا انجام بھی دکھا دیتا ہوں۔ دیکھتی جاؤ زرا تم"۔ اس کی پشت تکتا قیصر اپنے ذہن میں اس سے مخاطب ہوا تھا۔

                                 ☆☆☆☆☆

وہ دونوں اس وقت ایک ریستوران میں موجود تھے۔

موضوع گفتگو موجودہ حالات تھے۔

"یہ سب کب نارمل ہو پائے گا؟ میکائیل بھائی کیلئے میرا نا ختم ہونے والا انتظار کیا کم تھا کے اب مجھے اپنے دوسرے بھائی کی گمشدگی کا بھی یہ تلخ تجربہ کرنا پڑ رہا ہے"۔ وہ سر جھکائے اداسی سے کہہ رہی تھی۔

شہیر کو اس سے ہمدردی ہوئی۔

"تم جانتی تو ہو اس کام کی نوعیت۔ تمہیں تو عادت ہو جانا چاہیے تھی"۔ وہ افسردگی سے بولا۔

"نہیں ہوتی عادت کیا کروں پھر میں؟ ایسا ہی دل ہے میرا۔۔۔کمزور سا۔ جو اپنوں کی ہر وقت کی جدائی کا دکھ اب سہہ نہیں پاتا ہے۔ میں تھک گئی ہوں اس سب سے"۔ وہ سر ہاتھوں میں گرائے پھٹ پڑی تھی۔

"اور اگر کل کو تمہارا ہمسفر بھی اسی کا حصہ ہوا تو؟ تب کیا کرو گی؟"۔ اس نے دھیمے، بے حد ٹھہرے ہوئے لہجے میں یہ اہم سوال رکھا تھا اس کے سامنے۔

ماہا نے چونک کر سر اٹھایا۔

اس کی براؤن آنکھیں اسے ہی دیکھ رہیں تھی۔

"تو پھر میرے پاس ایک ہی آپشن رہ جائے گا کہ میں بھی اس کے پیچھے پیچھے اس فیلڈ میں داخل ہو جاؤں۔ اب اور تو کچھ ہو نہیں سکتا نا"۔ اس نے جلا بھنا سا جواب دیا۔

اس کے انداز پر شہیر بے اختیار ہنستا چلا گیا تھا۔ 

وہ خود بھی اس کی تقلید میں مسکرا اٹھی۔

"تو پھر کیا خیال ہے؟"۔ کچھ دیر بعد سنجیدہ ہو کر اس نے پوچھا۔

"کس بارے میں؟"۔ وہ نا سمجھی سے بولی۔

اس نے گہرا سانس لیا۔ پھر جیب میں ہاتھ ڈال کر مرون مخملی ڈبیا نکال لایا۔

"اس بارے میں"۔ اس نے کھول کر اس کی نگاہوں کے سامنے میز کے وسط میں رکھ دی۔

وہ مبہوت سی ہو کر کبھی اسے تو کبھی اس خوبصورتی سے تراشی گئی انگوٹھی کو دیکھتی۔

"کیا تم سیریس ہو؟"۔ بے ساختہ اس کے لبوں سے نکلا۔

"نہیں بالکل نہیں۔ تمہیں اس کا ڈیزائن دکھانے لایا"۔ وہ طنزیہ کہتے ہوئے خفگی سے رنگ واپس اٹھانے لگا جب اس نے اسکا ہاتھ تھام کر روک لیا۔

"آئم سوری، میں تھوڑا سپرائزڈ ہو گئی۔ کیونکہ آج صبح ہی تو میں نے۔۔۔۔"۔

"اپنی دوست سے بات کی تھی۔ ہاں، اسی نے مجھے بتایا"۔ اس کی بات مکمل ہونے سے قبل ہی شہیر نے جملہ مکمل کیا۔

اس کے چہرے کی چمک و وجاہت میں اس پل کتنا اضافہ ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔

ماہا نے کسی قدر گھبراتے اور شرماتے ہوئے سر جھکا لیا۔ 

پھر آہستگی کے ساتھ اپنے پرس سے وہ گھڑی نکال لی جو اس نے خاص اس کیلئے پسند کی تھی۔

"پھر تو اس کے بارے میں بھی بتایا ہوگا"۔ وہ پلکیں جھکائے بولی۔ اس سے نگاہیں اٹھانا دوبھر تھا۔

شہیر کے چہرے پر شوخ مسکراہٹ در آئی۔

"چوائس اچھی ہے لیکن تھوڑی سمپل زیادہ اچھی لگتی"۔ اس نے شرارت آمیز انداز میں کہا۔

ماہا نے شدید حیرت سے سر اٹھایا۔

"اوہ! تو اتنے نخرے ہیں آپ کے؟"۔ 

"جی بالکل"۔ اس نے کالر اکڑائے۔

"چپ چاپ رکھو اسے۔ ورنہ پھر سے تمہیں اپنا ڈرائیور بنا لوں گی میں"۔ اس نے بھرپور طریقے سے دھمکایا۔

اس کی بات پر وہ ہنس پڑا۔

"اچھا اچھا ٹھیک ہے پہن لیتا ہوں"۔ اس نے ہاتھ اٹھا لیئے۔ وہ بھلا اس سے کہاں جیت سکت تھا۔

گھڑی اپنی کلائی کی زینت بنا ہی لی۔

"اور اس کا کیا کروں؟"۔ اس نے انگوٹھی کی جانب اشارہ کیا۔

"اسے آپ میری فیملی کے سامنے آ کر پہنائیں گے جناب۔ ہمارے ہاں یہی رواج ہے"۔ وہ ہنستے ہوئے کہتی اٹھ کھڑی ہوئی۔

"تب دوسری لے آؤں گا"۔ اس نے بھی کہتے ہوئے انگوٹھی اٹھا لی۔ 

وہ دونوں ساتھ چلتے چلتے ریستوران سے باہر نکل آئے تھے۔

"کیوں؟ تمہیں میرے بابا سے ڈر لگتا ہے کیا؟"۔ وہ مسکراہٹ دبائے پوچھ رہی تھی۔

"نہیں۔۔۔نہیں تو، ان کی رسپیکٹ ہے یہ تو اس لیئے تھوڑی جھجھک ہے بس"۔ اس نے پراعتمادی سے کہا۔

"جائیں بھی آفیسر، مان لیجیے آپ ڈر رہے ہیں"۔ وہ اس کی غیر ہوتی حالت سے حظ اٹھاتے ہوئے بولی۔

"اچھا! چیلنج کر رہی ہو مجھے ہاں؟"۔ وہ رک کر پوچھنے لگا۔

"اگر کہوں ہاں تو؟"۔ پیچھے مڑ کر اسے دیکھتے ہوئے ماہا مسکرائی۔

"تو میں چیلنج قبول کرتا ہوں"۔ اس نے وہی کھڑے کھڑے فیصل کیا۔

"تو میرا گھر کھلا ہے۔ ڈیڈ اُدھر ہی ہوتے ہیں موسٹلی۔ آپ ہمیں شرف بخشیئے کسی دن آ کر"۔ ایک ادا سے کہتے ہوئے اس نے رخ مڑ لیا۔

شہیر لب بھینچے سوچ میں پڑ گیا تھا۔

فیض صاحب سے بات کرنا اتنا بھی آسان نہ تھا جتنا وہ دکھا رہا تھا۔ آخر کو ان کی اکلوتی بیٹی کا معاملہ تھا۔ مگر وہ بھی پیچھے ہٹنے والا نہ تھا۔ اب چیلنج قبول کرلیا تھا تو بہرحال اس نے کوئی قدم اٹھانا ہی تھا۔

                               ☆☆☆☆☆

شہر سے کئی کلو میٹر دور واقع یہ فارم ہاؤس بالکل شانت اور پرسکون تھا۔

اس سے زرا فاصلے پر کئی ایک دیگر گھر موجود تھے۔ البتہ آبادی کچھ زیادہ نہ تھی۔ لیکن ضروریات زندگی کی چیزیں موجود تھیں۔

زیست کو فلحال وہاں کی کئیر ٹیکر کم ملازمہ کے سپرد کرکے شہیر چلا گیا تھا۔ البتہ اس نے اسے کسی بھی حالات کیلئے تیار رہنے کو کہا، کے کسی وقت زیست کو وہاں سے بھی کہیں اور جانا پڑ سکتا ہے۔ 

رات گہری ہوتی چلی جا رہی تھی۔ کھانے کے بعد بستر پر بیٹھے بیٹھے خود کو بہلانے کیلئے اس نے کوئی کتاب کھول لی۔

جسے پڑھتے ہوئے جانے کب اس کی آنکھ لگی تھی۔ 

کتنے ساعت بیت گئے تھے۔ نجانے کون سا پہر چل رہا تھا کے جب اسے محسوس ہوا کوئی اسے جگانے کی کوشش کر رہا ہے۔ مسلسل کانوں میں پڑتی اپنے نام کی گونج نے اسے نیند سے ہڑبڑا کر اٹھنے پر مجبور کر دیا۔

"تم؟ تم اس وقت یہاں کیا کر رہے ہو؟"۔ بیدار ہوتے ہی یک دم اسے خیال آیا تھا۔ پاس پڑا دوپٹہ اس نے جلدی سے اپنے وجود کے گرد لپیٹ دیا۔

"آئم سوری اس طرح سے آنے کیلئے پر آپ کا یہاں سے ابھی اسی وقت نکلنا بہت ضروری ہے"۔ زر کی پریشان آواز سن کر اسے کچھ کھٹکا سا ہوا۔

"اس وقت اس طرح؟ شہیر اور عالیان بھائی نے مجھے یہاں آنے کیلئے کہا تھا اور اب تم کہہ رہے ہو کے میں یہاں سے بھی چلی جاؤں؟ یہ ہو کیا رہا ہے؟"۔ اسے اب شبہات ہونے لگے تھے۔

خاص طور سے زر کا یوں منہ اندھیرے چوروں کی طرح اسے وہاں سے لے جانے کیلئے آنا، زیست کی چھٹی حس الرٹ ہو گئی تھی۔

"پلیز یہ سب باتیں اس وقت رہنے دیں، میں آپ کو بعد میں سب سمجھا دوں گا۔ بس آپ ابھی چلیں میرے ساتھ یہ جگہ سیف نہیں رہی ہے اب آپ کیلئے"۔ وہ اب التجا کر رہا تھا۔

زیست گومگو کی کیفیت میں پڑ گئی۔

سمجھ نہیں آتا تھا کیا کرے۔

"آپ کی امی، وہ بھی میرے ساتھ ہی ہیں"۔ اچانک اس نے ایک نئی خبر سنائی۔

"امی یہاں آئی ہیں؟ وہ بھی تمہارے ساتھ اس وقت؟ کہاں ہیں وہ؟"۔ ان کے ذکر پہ وہ حیرانگی سے استفسار کرنے لگی۔

"آپ چلئیے تو سہی پہلے۔ میں سب سمجھا دوں گا آپ کو"۔ اس کی پیکنگ بھی نہ کھلی تھی ابھی۔ زر نے جلدی سے اس کا واحد سفری بیگ کھڑکی کے راستے نیچے گھاس پر پھینک دیا۔

چاروناچار زیست اس کے ساتھ جانے کیلئے رضامند ہو گئی۔ شہیر اسے پہلے ہی کہہ چکا تھا کسی بھی وقت اس جگہ کو بھی چھوڑنا پڑ سکتا ہے۔ کسی اور وقت زر یہاں آتا تو شاید وہ اتنی مشکوک نہ ہوتی مگر اس کا یوں منہ اندھیرے چوروں کی طرح گھس آنا زیست کو تذبذب میں ڈال گیا۔

اس نے تمام منفی خیالات کو رد کرتے ہوئے سر جھٹکا۔

شاید اس کے یہاں رہنے کا دورانیہ بس اتنا ہی ہونا تھا۔

"ہمیں کودنا ہوگا"۔ کھڑکی کے نزدیک پہنچ کر زر نے کہا۔

اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

"تم جانتے ہو میں یہ نہیں کرسکتی"۔ وہ ایک قدم پیچھے ہٹ گئی۔

"فاصلہ زیادہ نہیں ہے بھابھی، بھروسہ رکھیں مجھ پہ۔ کچھ نہیں ہوگا"۔ اس نے یقین دلایا۔

سست روی سے آگے بڑھ کر اس نے نیچے جھانک کر گہرائی جانچنی چاہی مگر اندھیرے کے باعث کچھ ٹھیک سے نہ نظر آیا تھا۔

"رکیے، پہلے میں جاتا ہوں"۔ یہ کہہ کر وہ اس چوکور شیپ کی کھڑکی میں سے کود گیا۔ پھر جوں ہی اپنے پیروں پہ کھڑا ہوا۔ نیچے سے موبائل ٹارچ جلا کر روشنی پھینکی۔

تب یہ دیکھ کر زیست کو کچھ اطمینان سا ہوا کے گہرائی واقعی زیادہ نہ تھی۔

اس نے ایک پاؤں باہر نکالا پھر ہمت کرکے آنکھیں بند کرتے ہوئے وہ اللہ کو یاد کرتی کود پڑی۔ 

زر نے اسے بروقت سنبھال لیا۔ گھاس پر گرنے کی وجہ سے اسے جھٹکا زیادہ نہ لگا تھا۔

"سوچا نہیں تھا کبھی اس قسم کے اسٹنٹس کرنے پڑ سکتے ہیں۔ ورنہ باقاعدہ ٹریننگ لے لیتی"۔ سانس بحال کرتے ہوئے اس نے سرگوشی نما آواز میں کہا۔

"اس طرف۔ کم آن"۔ اس کا بیگ تھامے وہ فارم ہاؤس کے پیچھے کی جانب دوڑ رہا تھا۔ جہاں اس نے گاڑی کھڑی کر رکھی تھی۔

زیست بھی اس کے پیچھے پیچھے موبائل ٹارچ تھامے چل رہی تھی۔

تین منٹ کے مختصر سے عرصے میں ہی وہ لوگ اس جگہ کو چھوڑ کر روانہ ہو گئے تھے۔

                                  ☆☆☆☆☆

دو دن بعد دعوت کا انتظام تابین کے حکم پر اس کے اپنے ہوٹل میں کیا گیا تھا۔ جہاں صرف خاص لوگوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ عام لوگوں کی آمد ہوٹل میں ممنوع قرار دے دی گئی۔

سیاہ گاؤن پہنے، سیاہ ریشمی بالوں کی ہائی پونی ٹیل بنائے وہ اینٹرنس پہ کھڑی اپنے مہمانوں کو خود ریسیو کر رہی تھی۔

جن میں بڑی بڑی سیاسی شخصیات، اعلٰی پائے کے کاروباری حضرات اور اونچے اونچے عہدوں پر مستند سرکاری افسران شامل تھے۔ 

ان سفید کالر والوں کے اہل خانہ میں سے اکثر سرے سے واقف ہی نہ تھے کے ان کے گھر کا سربراہ در پردہ کن کاموں میں ملبوس رہتے ہیں۔ اسی لیئے وہ ایسی بدنام زمانہ گیدرنگ اور میٹنگز میں اپنے خاندان کے افراد یا اپنی بیگمات کو لانے کا خطرہ مول نہیں لیتے تھے۔

نفاست سے کی گئی ہوٹل کی سجاوٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ میزبان کے اعلٰی ذوق سے خاصے متاثر نظر آتے تھے۔

"آپ نے تو ہمیں حیرانی میں ڈال دیا مس تابین! سوچ رہا ہوں اپنی اس قدر خوبصورت اور عقلمند صاحبزادی کو بھلا ولید صاحب نے کیونکر ایک عرصہ تک چھپا کر رکھا ہم سب سے"۔ ایس-پی ضیاء اس کی کم عمری اور بے داغی حسن کو دیکھ کر رال ٹپکاتے ہوئے بولا۔

تابین کو اس کی ایکسرے کرتی نظریں خاصی بری لگ رہیں تھی۔ چونکہ وہ میزبان تھی اس لیئے کوئی سخت جواب نہ سے سکتی تھی۔

"کیونکہ انہیں ڈر تھا کے کہیں ان کی بیٹی کو کسی کی نظر نہ لگ جائے"۔ سیاہ ٹکسیڈو میں ملبوس اس نے اس کی کمر کے گرد حصار کھینچتے ہوئے مسکرا کر جواب دیا۔ 

قیصر کی اچانک مداخلت نے سب کی نگاہیں اس کی جانب پھیر دی تھی۔ خود تابین بھی چونک کر اسے دیکھ رہی تھی۔ مگر اسے اس کی موجودگی یک گونہ سکون اور مضبوطی کا احساس فراہم کیا تھا۔

"اوہ! قیصر خیام، ہمیں پتہ نہیں تھا کے آپ بھی یہاں مدعو ہیں"۔ گلاس تھامے شیرازی نے اس کی موجودگی کا نوٹس لیتے ہوئے کہا۔

"یہ یہاں مہمان نہیں ہیں باقیوں کی طرح۔ بلکہ میرے ساتھ میزبانی کے فرائض انجام دے رہے ہیں"۔ تابین نے خوش اخلاقی سے کہتے ہوئے صاف اس کا دفاع کیا۔

کیونکہ وہ جان چکی تھی کے ان چند لوگوں نے ابھی اس کا اثر قبول نہ کیا تھا۔ کیونکہ وہ بہروز کے حامی تھے اور اسی کو ولید کی جگہ دیکھتے آئے تھے۔ 

"کیا یہ وہی قیصر ہے؟ حاجی کا معمولی آدمی؟"۔ شیرازی صاحب بھی کہاں پیچھے رہے تھے۔

ان لوگوں کی اس طنزیہ گفتگو کے باوجود قیصر ہنوز مسکرا رہا تھا۔ اسے ایسے جملے بازیوں کی عادت تھی۔ بچپن سے اب تک اس جیسے بلکہ اس سے بھی برے جملوں کی تکرار سنتے سنتے ہی وہ اس مقام تک پہنچا تھا۔

تابین کو قیصر کے متعلق ایسی گفتگو ایک آنکھ نہ بھا رہی تھی۔

"آپ اپنا بتائیے شیرازی صاحب، سنا ہے نیب آج کل آپ کے پیچھے پڑی ہے؟ بس دعا ہے کوئی ثبوت نہ ان کے ہاتھ لگ جائے۔ خیر چونکہ ہم آپ کے دوست ہیں۔ اور قیصر میرے نزدیک سب سے بھروسے مند شخص ہے۔ اس لیئے کوئی بھی کام ہو تو آپ ان کے پاس آ سکتے ہیں۔ یہ فوری ہر مسئلہ حل کروا دیں گے میری جانب سے"۔ اس کے مسکراتے انداز میں کیئے گئے تبصرے کے اندر پوشیدہ دھمکی کو وہاں موجود ہر نفس بخوبی سمجھ گیا تھا۔

البتہ شیرازی کی جو عزت افزائی ہوئی تھی اس پر وہ جز بز ہوتا منظر سے فرار اختیار کر گیا۔

اس کے بعد ان میں کوئی معذرت کرکے ادھر اُدھر ہوا تو کوئی گلا کھنکارتے ہوئے موضوع بدلنے کی کوشش کرنے لگا۔

"تو تمہارے نزدیک میں اتنا اہم ہوں؟"۔ اس کے بالوں کی گھنگھریالی لٹ چھوتے ہوئے اس نے زیر لب استفسار کیا۔

"یہ بات تو تمہیں اب تک سمجھ جانی چاہیئے تھی۔ خیر اب تم ہواؤں میں مت اڑو، شیرازی کو اس کی اوقات دکھانے کیلئے وہ سب کہنا ضروری تھا"۔ اس کا ہاتھ پیچھے ہٹاتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولی۔

"میرے لیئے سوفٹ ڈرنک لے کے آؤ"۔ حکم دیتی وہ نزاکت سے لٹ پیچھے کرتے ہوئے چند مزید لوگوں میں گھل مل گئی۔

"ہونہہ! چاہے جتنا خود کو مضبوط دکھا لو، میں جانتا ہوں تم اندر سے پگھل چکی ہو۔ اور یہ میرے حق میں بہترین ہے"۔ اس کے چہرے پر نگاہ جمائے وہ دل میں اس سے کہہ رہا تھا۔

پاس سے گزرتے ویٹر کی ٹرے میں سے سوفٹ ڈرنک کا گلاس اٹھا لیا۔

تابین کے سخت احکامات پر عمل کرتے ہوئے رانا قیصر پر برابر نگاہ رکھے ہوئے تھا۔ اسے ایک لمحہ بھی اوجھل نہ ہونے دیا۔

اچانک اس نے قیصر کو جیب سے کچھ نکال کر ڈرنک میں ملاتے ہوئے دیکھا۔۔۔جو وہ اب تابین کو دینے کیلئے جا رہا تھا۔

"باس اس نے ڈرنک میں کچھ ملایا ہے میں نے خود دیکھا"۔ اس نے تابین کو فورا بلوٹوتھ کے ذریعے آگاہ کیا۔

اس نے اپنے چہرے پر کوئی منفی ردعمل نہ آنے دیا۔

گروپ کے لوگوں سے معذرت کرتے ہوئے اس نے تابین کو  گلاس دینا چاہا۔

"تم پیو میرا دل نہیں چاہ رہا"۔ اچانک اس نے گلاس پرے کرتے ہوئے اسرار کیا۔

"میں دوسرا گلاس لے آتا ہوں۔ ہارڈ ڈرنک فار می"۔ اس نے رد کرتے ہوئے جانا چاہا۔

جب اس نے اس کا بازو تھام لیا۔

"اسے پیو ورنہ تم زندہ نہیں نکل پاؤ گے یہاں سے"۔ اس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے اس نے دھمکی دی۔

ان کے گرد جمع پانچ چھ لوگ دلچسپی سے ان کو دیکھ رہے تھے اور ان کی جوڑی کو سراہ رہے تھے۔

"اب اتنی خوبصورت لڑکی جب ڈرنک آفر کر رہی ہو تو انکار کیسے کر سکتے ہیں"۔ ہنس کر کہتے ہوئے اس نے گلاس تھام لیا اور ایک ہی سانس میں خالی کر ڈالا۔

جہاں تابین حیران رہ گئی تھی۔ وہی باقی سب کو اس کا یہ انداز خاصا بھایا تھا۔

"بس خوش؟"۔ اس کے قریب جھک کر اس نے دھیمے پن سے کہا۔

وہ حد درجہ شرمندگی محسوس کرنے لگی۔

دل ہی دل میں وہ رانا کو کوستی اسے سخت سزا دینے کا سوچ چکی تھی۔

                                 ☆☆☆☆☆

شام مزید رنگین ہونے لگی تھی۔ ہر کوئی اپنی ذات میں خوش تھا۔ تابین کچھ دیر قبل ہی ولید کی ہر شے پر اپنے تسلط کا اعلان کر چکی تھی۔ جس پر اسے بہت سے لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ 

کچھ نے اس کے حسن کی وجہ سے، دیگر نے اس کی ذہانت کی وجہ سے۔

بہرحال ان کے نزدیک سربراہ کوئی بھی ہوتا۔ بس ان کا کام چلتے رہنا ہے۔ اور کیا چاہیے۔

وہ بے زاریت سے ارد گرد ان مصنوعی چہروں کو دیکھ رہا تھا۔ یہ سب اس کیلئے قطعا نیا نہیں تھا۔ ایک عمر اس نے اس قسم کی رنگینیوں اور روشنیوں والی شامیں اٹینڈ کرتے گزاری تھی۔ 

انڈر ورلڈ کا دوسرا نام گلیمر تھا۔ اس میں موجود ہر شخص اپنے آپ کو دوسرے سے برتر ظاہر کرنے کا موقع ڈھونڈتا تھا۔ اور ایسی پارٹیز اور گیدرنگز کا اہتمام کرکے اپنی چکا چوند دکھانا مقصود ہوتا تھا۔

رانا اب بھی اس پر ہی نظر جمائے بیٹھا تھا۔ وہ پچھلے دو گھنٹے سے اس سے غافل نہیں ہوا تھا۔

"ڈرنک لیں گے سر؟"۔ ویٹر کی آواز نے اسے سوچوں سے باہر کھنچ لیا۔

"شکریہ"۔ گلاس اٹھاتے ہوئے اس نے کہا۔

چند گھونٹ لینے کے بعد منہ کے زاویے بگاڑنے لگا۔

"کیا بے کار ڈرنک لے آیا یار۔ تم یہاں کیسے پہنچے؟"۔ جانے پہچانے چہرے کو وہاں دیکھ کر اس نے رازداری سے پوچھا۔

ویٹر یوں کھڑا تھا کہ رانا کی جانب اس کی پشت تھی۔

"ہمارے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ جتنے دشمن اتنے دوست"۔ اس نے مسکرا کر بےحد دھیمے پن سے کہا۔ میوزک چلنے کی وجہ سے قیصر اتنے قریب ہونے کے باوجود بھی بڑی مشکل سے سن پایا۔

"یہ لے جاؤ اور ایک دم اسٹرانگ والی بنا کے لاؤ"۔ گلاس واپس ویٹر کو تھماتے ہوئے اس نے حکم دیا۔

"سوری سر"۔ وہ شرمندگی سے کہتا واپس چلا گیا۔

قیصر جسے اب سے کچھ دیر قبل اس تماشے کا حصہ بن کر گھٹن ہو رہی تھی، یہ جان لینے کے بعد کہ اب اس کے اور اس کی منزل کے درمیان کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی ہے، وہ کھلے ذہن اور سوچ کے مطابق اب سارا منصوبہ دماغ میں ترتیب دے چکا تھا۔ تابین کی بربادی کا منصوبہ!

پندرہ دن بعد!

"یہ نقشہ ہم نے بہروز سے برآمد کیا تھا سر"۔ عالیان مؤدب سا کھڑا انہیں وہ نقشہ دے رہا تھا جس کیلئے ہی اتنی زندگیاں داؤ پر لگ گئیں تھی۔

"گڈ جاب!"۔ انہوں نے توصیفی انداز میں کہا۔

"لیکن سر اس کی نجانے اور کتنی کاپیاں بنا چکے ہوں گے وہ لوگ۔ اسے ہم کہاں کہاں سے ریکور کریں گے؟"۔ خطرہ ٹل چکا تھا مگر پریشانی اب بھی باقی تھی۔

"سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کے آپ لوگوں نے یہ نقشہ ایسے دشمن کے ہاتھ لگنے سے قبل محفوظ کر لیا جسے ہم جانتے نہیں تھے۔ اس لیئے ان کی سب سے بڑی ڈیل اب فوری طور پر روک دینے سے ہمیں ان ہتھیاروں کی نقل مکانی کیلئے کچھ وقت مل گیا ہے۔ ورنہ دوسری صورت میں اتنی مہلت ہرگز نہ مل سکتی تھی"۔ انہوں نے کسی قدر مطمئن ہو کر کہا۔

"کیا قیصر سے رابطہ ہو رہا ہے تمہارا؟"۔ مزید پوچھا۔

"یس سر، میں اس سے کسی نہ کسی طرح رابطے میں ہوں"۔ اس نے تسلی آمیز لہجے میں بتایا۔

"اسے مزید کتنا وقت لگے گا؟"۔وہ فائل پڑھتے ہوئے پوچھنے لگے۔

"اس کا بھروسہ جیتنے میں وہ کامیاب رہا سر، اب تابین کے پاس گنتی کے دن رہ گئے ہیں۔ شاید اس سے بھی کم وقت۔ ہم نے قیصر کی خبر پر کام کرتے ہوئے اس کے بہت سارے غیر قانونی ہوٹلوں اور فیکٹریوں پر پولیس کی مدد سے چھاپے مار کارروائی کی۔ جس کے کامیاب نتیجے میں ان کی کمائی کا جائز ناجائز ہر طریقہ ہم نے ختم کر دیا ہے۔

البتہ تین ہوٹلیں اب بھی موجود ہیں جو قانون کے حساب سے کلیئر ہیں۔ اس لیئے ہم ان کے خلاف کاروائی نہیں کرسکے"۔ عالیان نے گزرے دنوں کی تفصیلی رپورٹ پیش کی۔

"کیا وہاں ان کے کسی غیر قانونی کام کرنے کا شبہ ہے؟"۔ انہوں نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔

"بظاہر تو نہیں سر، مگر قیصر کے مطابق وہاں بھی وہ ڈرگز کا کاروبار کرتے ہیں۔ ہمارے پاس کوئی ظاہری شواہد یا ثبوت نہیں"۔ عالیان نے مایوسی بھرا جواب دیا۔

"ایسا ہے تو پھر ثبوت بناؤ۔ کسی طرح بند کروا دو ان ہوٹلوں کو بھی"۔ انہوں نے معنی خیز انداز میں کہتے ہوئے اس کی مشکل آسان کردی۔

"جیسا آپ بہتر سمجھیں"۔ ان کی بات کے مفہوم کو سمجھ کر وہ مسکراہٹ چھپاتے ہوئے بولا۔

"اور بہروز جن افراد سے ڈیل کرنے والا تھا ان کا کیا بنا؟"۔ وہ پھر سے فائل دیکھنے میں مصروف ہو گئے۔

"ان سے ہمارے ساتھی بہروز کی جگہ ڈیل کرنے گئے تھے۔ کل تین لوگ تھے۔ پکڑ لیا گیا ہے انہیں"۔ وہ بہت تحمل سے ان کے ہر سوال کا جواب دیتا جا رہا تھا۔

بہرحال یہ اس کے کام کا ایک حصہ تھا۔

"بہت خوب! بظاہر تو ان کی کمائی کا ہر ذریعہ بند ہو چکا ہے۔ جس کا مطلب ہوا کے تابین کی شہرت اب خاک میں مل چکی ہے۔ 

مگر کیا اب بھی کوئی ایسی جگہ ہے جہاں سے وہ لڑکی اپنے ہاتھ پھر سے مضبوط کر سکتی ہو؟"۔ انہوں نے اب تک کا سب سے اہم سوال پوچھا۔

"یس سر، اس کے خفیہ خزانے کی ہمیں اب تک کچھ خاص معلومات حاصل نہیں ہو سکی ہیں"۔ عالیان نے آہستگی سے بتایا۔

ان کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔

"کیا قیصر سے یہ معلومات شئر نہیں کی اس نے؟ تم نے تو کہا کے وہ لڑکی اس پر اعتماد کر رہی ہے"۔ 

"نہیں سر، اس نے قیصر کو اس راز میں شراکت دار نہیں بنایا۔ البتہ اس کے سب سے قریبی ساتھی کو معلوم ہے۔ ہماری کڑی نظر ہے اس پر۔ جب بھی وہ پکڑے جانے کے ڈر سے جگہ تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے تو وہ اس خزانے تک پہنچنے کی کوشش ضرور کریں گے۔ اس طرح ہم ان سے پہلے وہاں پہنچ جائیں گے"۔ اس معاملے سے متعلق اس نے اپنا تیار شدہ منصوبہ بتایا۔

وہ فائل رکھ کر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔

"تو پھر انتظار کس بات کا ہے؟ ریڈ ڈالنے کی تیاری کرو۔ اس لڑکی کے ٹھکانے کو تباہ کرو اور وہاں پھنسے ہمارے آفیسرز کو اس کے چنگل سے آزاد کروا کے لاؤ"۔ آخری حکم دیا جا چکا تھا۔

جس کیلئے وہ پابند کر دیا گیا تھا۔

"یس سر"۔ سلیوٹ کرنے کے ساتھ ہی وہ اجازت طلب کرکے وہاں سے چلا گیا۔

جبکہ لیفٹیننٹ پھر سے ان تمام واقعات کی تحریری رپورٹ کو پڑھنے لگے تھے۔ جو ابھی عالیان کی زبانی وہ سن چکے تھے۔

                                   ☆☆☆☆☆

پچھلے دنوں کا واقعہ ایک ایک کرکے اس کے دماغ میں فلم کی طرح چل رہا تھا۔ جسے سوچ سوچ کر اس کا غم و غصہ ساتویں آسمان کو پہنچ گیا تھا۔ 

سارا کمرہ اس نے تتر بتر کر دیا تھا۔ کوئی ایک شے بھی اپنی جگہ پر موجود نہ تھی۔

کانچ کی خوبصورت ٹیبل اوندھی پڑی تھی۔ ڈریسنگ میز کا آئینہ چکنا چور کر دیا تھا اور اس پر ترتیب دیا ہوا سارا سامان زمین بوس ہو چکا تھا۔ اس دوران ہاتھ الگ زخمی ہوا تھا۔ مگر وہ نہ رکی۔

یہاں تک کے سائیڈ میز پر رکھی لیمپس بھی الٹ پلٹ کر دی تھی۔

پھر پورا کمرہ اجاڑنے کے بعد تھک ہار کر وہ اپنا زخمی ہاتھ لیئے صوفے پر ڈھے گئی۔

خون کے قطرے ہاتھ سے پھسل کر سیاہ دبیز قالین میں جذب ہو رہے تھے۔ یہاں تک ان کا رنگ بھی نہ مل پاتا تھا۔

دروازے پر مسلسل دستک ہو رہی تھی۔ مگر وہ بے حس بنی بیٹھی رہی۔ کوئی جواب نہ دیا۔

آخر تھک کر وہ خود ہی اندر داخل ہو گیا۔

جوں ہی نظر الٹے پڑے کمرے پر گئی وہ ٹھٹھک گیا۔

"یہ سب کیا ہے؟"۔ اطراف میں نگاہیں دوڑاتے ہوئے وہ تاسف سے کہہ رہا تھا۔

تبھی نظر صوفے سے لٹکے زخمی ہاتھ پر گئی۔

"یہ کیا حال بنا رکھا ہے تم نے؟"۔  اس اجاڑ کے اندر وہ بڑی مشکل سے فرسٹ ایڈ باکس ڈھونڈنے میں کامیاب ہوا تھا۔

پھر اس کے قریب بیٹھتے ہوئے وہ اس کے زخمی ہاتھ کی مرہم پٹی کرنے لگا۔ 

تابین اداس نظروں سے اس کا ہمدرد چہرا دیکھ رہی تھی۔ 

پٹی بندھ جانے کے بعد اس نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ اس کی ہتھیلی پر سے کھینچ لیا۔

"یہ سب تم نے کیا نا؟"۔ وہ بدک کر اس کے پاس اٹھی۔

قیصر نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔

"مجھے ایسے مت دیکھو، جواب دو میری بات کا یہ تمہارا کیا دھرا ہے نا؟"۔ اس کے جیکٹ کا گریبان پکڑتے ہوئے وہ حلق کے بل چلائی۔

"کیا بکواس کر رہی ہو تم؟"۔ اس کے ہاتھ اپنے کلر پر سے جھٹکتے ہوئے وہ غرایا تھا۔

"بنو مت میرے سامنے قیصر خیام۔ تم اچھی طرح جانتے ہو میں کیا بات کر رہی ہوں۔ وہ ہوٹلز کا سیل ہونا، فیکٹریوں پر ریڈ پڑنا، بہروز کا غائب ہو جانا۔۔۔یہ سب یونہی ہی نہیں ہوا۔ یہ تم نے کیا ہے تم نے!"۔ اس کے شانے پر مکا رسید کرتے ہوئے وہ دانت پیستی کہہ رہی تھی۔ 

قیصر اس کے مقابل کھڑا ہوا۔

"لگتا ہے اتنے خسارے گننے کے بعد تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ تمہیں کیا لگتا ہے؟ کہ انڈر ورلڈ میں لوگ ہمیشہ فائدہ ہی کماتے ہیں؟ وہ کوئی نقصان نہیں اٹھاتے؟ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچتی کوئی درد نہیں ہوتا؟ وہ جو چاہیں وہ کرتے ہیں؟ کیا یہی ڈیفیشن ہے تمہاری ان سے متعلق؟"۔ وہ بھی اتنی ہی بلند آواز میں چلاتے ہوئے بول رہا تھا۔

تابین ایک دم چپ ہو گئی تھی۔ سیاہ آنکھوں میں آنسو جم سے گئے تھے۔

"نہیں مس تابین ولید ایسا کہیں نہیں ہوتا۔ کوئی شخص بھی اتنا خوش قسمت نہیں ہوتا کے وہ دنیا کا ہر میدان مار لیتا ہو، ہر جنگ جیت لیتا ہو اور ہر بار فائدہ ہی اس کے حصے آتا ہو۔

بادشاہت چاہے کہیں کی بھی ہو، کتنی ہی عالیشان ہو مگر انت میں زوال ہی اس کا مقدر بنتا ہے"۔ وہ صاف لفظوں میں اسے آئینہ دکھا رہا تھا۔

"تم میری ہار کی خوشی منا رہے ہو ہے نا؟ تمہیں لگتا ہے کے میرا زوال قریب ہے؟"۔ اس کے قدم پیچھے کی جانب جا کر لڑکھڑائے تھے۔

"میری بات صرف اتنی ہے کے ہر چیز دائمی نہیں ہوتی کبھی بھی۔ نہ ہار اور نہ ہی جیت۔ اب یہ تم پر ہے کے تم اپنی ہار کو جیت میں تبدیل کرنے کے بارے میں کب سوچتی ہو اور کب پھر اس پر عمل کرتی ہو"۔ اس کے شانے پر مضبوطی سے ہاتھ رکھے وہ کہہ رہا تھا اور وہ بت بنی بس سن رہی تھی۔

"پھر تم کیا یوں ہار جانا قبول کر لوگی؟"۔ جس انداز میں اس نے یہ پوچھا تھا تابین کو اپنا آپ اس کے سامنے بے حد کمزور لگا۔

"یہ تو وقت ہی بتائے گا"۔ اس کے ہاتھ اپنے کندھوں سے ہٹاتے ہوئے وہ آہستگی سے چلتی کمرے سے باہر نکل گئی۔

"اس وقت کیلئے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا"۔ وہ تلخی سے مسکرایا۔

                              ☆☆☆☆☆

ڈیفنس سنٹرل لائبریری کے باہر موجود وہ اپنے موبائل اسکرین پر ٹریکر کی لوکیشن دیکھ رہا تھا۔ جو پچھلے دس منٹ سے لائبریری کے اندر کسی ایک مخصوص جگہ ٹھہری ہوئی تھی۔

پی-کیپ کے اوپر ہڈی گرائے وہ قدرے چوکنا سا تھا۔ 

بالآخر اسے مزید انتظار نہیں کرنا پڑا تھا اور وہ اسے باہر آتا دکھائی دیا۔

"دلہا تیار ہے سر، بارات ریڈی رکھیے گا "۔ حماد غیر محسوس طریقے سے ایئر پیس میں بولتا اطلاع دے رہا تھا۔

"بے فکر رہو، ہم وہ ہوں گے جو اپنے یار کی بارات میں سب سے آگے ناچ رہے ہوں گے"۔ عالیان کے لہجے میں گہرا دکھ اور ملال تھا۔

ایسا دکھ جو ایک دوست کے دوسرے دوست کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے پر ہوتا ہے۔

"اللہ آپ کا مددگار ہو"۔ اس نے اپنا کام پورا کر دیا تھا۔ اب آگے عالیان کا فرض تھا۔

"اس کی لوکیشن مجھے بھیجتے رہو"۔ گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے اس نے حماد سے کہا۔

"راجر دیٹ"۔ ٹریکر تیز رفتاری سے لوکیشن آگے بڑھنے کی اطلاع دے رہا تھا۔

"آپ سے سات سو میٹر کے فاصلے پر ہے"۔ وہ اسکرین دیکھ کر کہہ رہا تھا۔

"دیکھ رہا ہوں میں بھی، زیادہ ہوشیاری نہ مارو بیٹا"۔ عالیان کے برابر بیٹھے زر نے گویا اس کے غبارے سے ہوا نکال دی تھی۔

"جانتا ہوں۔ ابھی آپ جیسے کھلاڑیوں کے لیول تک آنے کیلئے اور جان کھپانی ہے میں نے"۔ حماد نے مسکرا کر کہتے انہیں دل سے سراہا۔

عالیان اس کی بات پر ہنس پڑا۔

"ارے میرے بھائی کو دیکھو زرا، ایسی اسپیڈ پکڑ لی ہے اس نے جیسے آج ہی یہ اسی گاڑی میں پاکستان چھوڑ جائے گا"۔ زر اس کا مذاق اڑاتے ہوئے بولا۔

یہ تعاقب مزید ایک آدھ گھنٹے تک جاری رہا تھا اور وہ ایک دم سنسان بلڈنگ کے آس پاس آ پہنچے تھے۔

گاڑی ان سے کچھ ہی فاصلے پر رکی ہوئی تھی۔

اترنے سے قبل عالیان نے اپنی ٹیم کو بلاوہ بھیج دیا تھا۔ پھر وہ دونوں گاڑی سے نیچے اتر آئے۔

"یہ کہاں گیا؟"۔ زر نے اطراف میں نظریں دوڑاتے ہوئے خود کلامی کے سے انداز میں کہا۔

"کیا مجھے ڈھونڈ رہے ہو میرے بھائیوں؟"۔ پشت پہ اچانک آواز ابھری تھی۔

عالیان اور زر نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر تلخی سے مسکرائے اور رخ موڑ کر اس کے  بمقابل آ گئے۔

"ہاں، صحیح کہا ہم اپنے بھائی شہیر کی کھال کے اندر چھپے ایک دھوکے باز کو ڈھونڈنے آئے ہیں"۔ عالیان کے لہجے میں ٹوٹا ہوا مان تھا۔ 

"اچھا! پھر تمہاری تلاش ختم ہوئی، یہ لو یہاں ہوں میں۔۔۔عین تمہارے سامنے"۔ باہیں پھیلائے وہ بلا کی بے باکی سے ناصرف اپنے جرم کی تائید کر رہا تھا بلکہ اس پہ فخر بھی محسوس ہو رہا تھا اسے۔

"میرے بھائی ہم نے تمہیں کیا نہیں دیا؟ بھائی جیسے دوست تھے تمہارے پاس، اور فیض انکل؟ ماہا؟ سب سے بڑھ کر مان و چاہت تو انہوں نے تمہیں دیا۔ پھر

 کس چیز کی کمی رہ گئی تھی؟ ہماری دوستی میں خلوص میں؟ آخر کیا کمی رہ گئی تھی میرے یار جو تم نے یوں ہمیں فروخت کر دیا؟"۔ زر افسردہ لہجے میں کہتا اس کی بے ضمیری کو ملامت کر رہا تھا۔

جبکہ تابین کے کم از کم بھی بارہ لوگوں نے ان دونوں کو دائرے کی صورت گھیر لیا تھا۔

"کوئی کمی نہیں تھی۔ اور میں نے تم میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی کبھی کچھ غلط نہیں کیا۔ بس ولید صاحب سے اپنی وفاداری نبھائی ہے"۔ وہ ہرگز بھی پشیمان نہ تھا اپنے کیئے پہ۔

"اور میکائیل؟ کیا اس کے ساتھ بھی تم نے کوئی ناانصافی نہیں کی؟"۔ ابو زر نے اچانک ایک نیا سلسلہ جوڑ دیا۔

میکائیل کے ذکر پر شہیر کی رنگت متغیر ہوئی۔

"کیا۔۔۔کیا مطلب ہے تمہارا اس بات سے؟"۔ وہ بوکھلا سا گیا۔

"بنو مت میری جان میں تمہاری ہر گھٹیا حرکت سے واقف ہوں۔ وہ تم ہی تھے جس نے میکائیل کو پکڑوایا تھا"۔ وہ مزید بولا۔

"یہ۔۔۔یہ سب کس نے کہا؟"۔ یہ راز تو اس کے وجود میں گڑھا تھا۔ پھر بھلا کیسے ممکن تھا کوئی اور جان لیتا؟

"حالانکہ تم اس کی ٹیم میں تھے۔ اس کے ساتھ ہی تھے۔ مگر جب اچانک سے پردہ فاش ہوا تو وہ تو باقیوں سمیت پکڑا گیا۔۔۔مگر تم کسی نہ کسی طرح بھاگ نکلے؟ واہ بھئی واہ زبردست! ہم نے یقین کر لیا اس کہانی پہ"۔ زر تالی پیٹتے ہوئے اپنے مخصوص طنزیہ لب و لہجے میں اسے بھگو بھگو کر مار رہا تھا۔

"تو یعنی تم لوگ اب تک مجھے بےوقوف بنا کر میرے پیٹھ پیچھے کھیل رچاتے رہے؟ اور تو اور اس پر بھی تم مجھ پہ دھوکے باز کا لیبل لگا رہے ہو؟"۔ وہ بھی جوابا طنز کے تیر برسانے لگا۔

"تم پر تو میں اسی دن سے نظر رکھے ہوئے تھا جس دن سے میکائیل غائب ہوا۔ بس تمہاری قسمت اپنے عروج پر تھی ان دنوں، اس لیئے میرے ہاتھ کوئی ثبوت نہ آیا۔ اپنے سنیئرز سے خاص طور پر تمہارے ہی لیئے اسپیشل پرمیشن لے کر اپنی ٹیم سے الگ ہوا اور خود کو غدار کہلوایا۔

مگر در پردہ اپنا کام جاری رکھا۔ جس کی معلومات صرف مجھے تھی اور ہمارے جو خاص ہیں ان کو"۔ 

یہ زر ہی تھا جس نے قیصر اور عالیان کے علم میں لائے بغیر ان کے ہر قدم کی خبر رکھی اور لیفٹیننٹ کو ہر شے سے باخبر رکھا، انہی کے حکم پر زیست کو تابین کی قید سے بچایا۔ اور ان ہی کی خبر پر وہ تابین کی پارٹی میں ویٹر بن کر داخل ہوا۔

جہاں اس نے قیصر کو زیست کے محفوظ مقام پر ہونے کی اطلاع دی۔ جواب میں قیصر نے اسے تابین کے گھر کا نقشہ دے دیا۔ 

"میں نے جو زر کے نام سے رپورٹ پیش کی اسے زر نے ہی تیار کیا تھا۔ مگر نام تمہارا لکھا گیا تھا"۔ عالیان نے بھی اپنی طرف سے اسکی معلومات میں اضافہ کیا۔

"شٹ اپ! جسٹ شٹ اپ! اب ایک لفظ بھی اور کہا تو تم دونوں کو یہی زندہ درگور کر دوں گا"۔ جب دکھتی رگ پر دباؤ بڑھا تو وہ اپنا آپا کھو کر چیخ و پکار کرنے لگا۔

"زمانہ چاہے کتنا ہی بدل جائے مگر ایمان والو کے دل سے شہادت کی چاہ کبھی نہیں مٹتی ہے دوست۔ شک ہے؟ تو آزما کے دیکھ لو!"۔ یہ کہہ کر عالیان آگے بڑھا۔

"رک جاؤ اگر ایک قدم بھی اور آگے بڑھے تو گولی چل جائے گی عالیان"۔ شہیر نے دھمکاتے ہوئے ٹریگر پر انگلی رکھی۔

مگر وہ نہ رکا۔

"رک جاؤ میں نے کہا"۔ اس کا لہجہ کمزور ہوتا جا رہا تھا۔ ہاتھ کانپنے لگے تھے۔

اسے مسلسل اپنی جانب بڑھتے دیکھ کر اس نے ہاتھ نیچے گرا لیا۔ وہ چاہ کر بھی یہ نہ کر سکا۔

"مار دو انہیں"۔ شکستہ انداز میں اپنے اسلحہ تھامے آدمیوں سے کہا۔

اس سے قبل کے وہ کوئی حرکت کرتے پولیس کی سائرن بے حد قریب سے سنائی دی تھی۔

"رک جاؤ ورنہ کوئی زندہ نہیں بچے گا تم میں سے"۔ گاڑی کا دروازہ بند کرتے ہارون کی دہاڑ پر سب اپنی اپنی جگہ جم سے گئے۔

اس کی گرفت میں ہوش و بے ہوشی کے عالم میں جھولتا بہروز تھا۔ جس کی کنپٹی پہ اس نے گن تان رکھی تھی۔ وہ جانتا تھا اپنے مالک کو اس حال میں دیکھ لینے کے بعد وہ بےبس ہو جائیں گے۔ اس لیئے حماد کے مشورے اور اس کی بتائی گئی لوکیشن پر جا کر اس نے بہروز کو ساتھ لیا تھا۔

"ان کو کون سی ہوا کھینچ لائی؟"۔ زر نے پولیس وردی میں ملبوس ہارون کو اشتیاق سے دیکھ کر کہا۔

"یہ میری بھیجی گئی لوکیشن اور بریگیڈیئر سر کی اطلاع پر آئے ہیں"۔ حماد کی چہکتی ہوئی آواز کان میں گونجی تھی۔

"ہیں؟ تم ابھی تک یہی تھے؟ پھر یہ قبرستان جیسا سکوت کیوں طاری ہو گیا تھا تم پہ؟"۔ ابو زر نے کوفت زدہ ہو کر پوچھا۔

"کیا کرتا سر، آپ کی طرف سے میرا کام ختم قرار دیا گیا مگر اپنے تجسس کو قابو میں نہ رکھ سکا"  اس کی ندامت بھری آواز ابھری۔

"شکریہ بھائی، تمہارے اس تجسس نے آج ہمیں زندگی سے تھوڑی مہلت اور دلوا دی"۔ اس نے ٹکڑا لگاتے کہا۔

تب تک کانسٹیبل باری باری ان سب کے ہتھیار لے چکا تھا۔

"اسے جیپ میں ڈال دو"۔ اس نے بہروز کو کانسٹیبل کی جانب دھکیل دیا۔

شہیر سر جھکائے نادم کھڑا تھا۔

"ہائے آفیسر"۔ زر نے مسکرا کر کہا۔

"تم لوگ کون ہو؟ ایسی جگہ پر کیا کام ہے تم لوگوں کا؟"۔ گن کا رخ عالیان اور ابو زر کی جانب کرتے ہوئے کرخت لہجے میں دریافت کیا۔

"کچھ نہیں سر، ہم تو بس ایسے ہی گھومنے نکلے تھے مگر ان ڈاکو نما لوگوں نے ہمارا راستہ روکا اور یہاں کھنچ لائے"۔  عالیان نے سادگی سے جواب دیا۔

"ہوں۔ لگتا ہے ہماری غیر موجودگی میں ڈکیتیاں حیرت انگیز طور پر بڑھ گئیں ہیں"۔ اس نے اس سب کا کریڈٹ اپنی غیر موجودگی کو ہی دیا۔

وہ دونوں ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے۔

تبھی ایک اور گاڑی وہاں آ کر رکی تھی۔ جس میں سے فیض صاحب برآمد ہوئے۔ ماہا بھی ان کے ساتھ تھی۔

اس کی ملامتی نظریں ہتھکڑی لگے ہاتھوں اور ندامت سے سر جھکائے کھڑے شہیر کی جانب اٹھیں تھی۔

"تھینک یو آفیسر، آپ نے بروقت ان بچاروں کی مدد کی اور میرے بیٹے کے مجرم کو بھی گرفتار کر لیا"۔ ہارون سے مصافحہ کرتے ہوئے فیض صاحب مشکور نظر آتے تھے۔

"نو پرابلم سر، یہ میرا فرض تھا"۔ جوابا اس نے بھی گرمجوشی سے ان کا ہاتھ تھام کر چھوڑا۔

اب چونکہ اس کا کام ختم ہو چکا تھا۔لہٰذا اپنے نئے مہمانوں کو لیئے فیض بخاری سے اجازت طلب کرنے کے بعد وہ روانہ ہو گیا۔ شہیر کو البتہ وہ اپنے ساتھ نہ لے گیا۔

ان کے جاتے ہی تب سے خاموش کھڑی ماہا یک دم آگے بڑھی تھی اور درمیانی فاصلہ عبور کرتے ہوئے اس کے چہرے پر زوردار تھپڑ رسید کر دیا۔

"تم جھوٹے، ذلیل، مکار، دھوکے باز شخص! میرے بھائی کو غائب کرکے تمہاری جرات بھی کیسے ہوئی مجھ سے محبت کا ڈرامہ کرنے کی؟"۔ تکلیف سے سرخ پڑتی آنکھیں اشک مسلسل بہا رہیں تھی۔

وہ اس کے سینے پر بے دریغ مکے برساتی رہی۔

فیض صاحب نے آگے بڑھ کر اسے سنبھالا۔

"نفرت ہے مجھ تم سے۔ تمہاری شکل سے بھی!"۔ وہ فیض صاحب کے سینے میں منہ چھپائے تکلیف سے بلک اٹھی۔

شہیر کو اس کی گریہ و زاری تکلیف دے رہی تھی۔ مگر وہ آگے بڑھ کر اس کے آنسو پونچھنے کا حق کھو چکا تھا۔

"یہ سچ ہے کے آج تک جو بھی میں نے کیا وہ دھوکہ تھا۔ ایک کھیل تھا۔ لیکن تم سے محبت حقیقی تھی ماہا۔ آئم سوری"۔ وہ سر جھکائے حد درجہ ندامت سے کہہ رہا تھا۔

"خبردار! نام مت لو اپنی غلیظ زبان سے میری بیٹی کا"۔ فیض صاحب کی دہاڑنے پر وہ مزید کچھ نہ بولا۔

"جھوٹ! تم اب بھی خود کو بچانے کیلئے جھوٹ بول رہے ہو۔ تمہاری ہر بات کی طرح یہ بات بھی جھوٹ ہے اور تمہارا یہ اعتراف اس سے بھی بڑا جھوٹ!"۔ اپنے رخسار پر پھسلتے آنسو بے دردی سے رگڑتے ہوئے وہ سرے سے اس کے سچ کو بھی ماننے سے انکاری ہو گئی تھی۔ یقینا وہ ایسا کرنے میں حق بجانب تھی۔

اس کی بھرائی ہوئی بھوری آنکھیں اپنی کلائی پہ بندھی اس گھڑی پر آ ٹھہریں۔ 

اس گھڑی میں ٹرانسمیٹر لگا ہوا ہے۔ یہ وہ اچھی طرح جانتا تھا۔ مگر اس کے باوجود وہ اس کا دیا گیا تحفہ رد نہ کر سکا تھا۔ اس پل اسے احساس ہوا تھا کے وہ اتنے عرصے سے جس محبت کے جذبے کو معمولی سمجھ کر نظرانداز کرتا آیا ہے وہ اصل میں کتنی طاقتور، کتنی بااثر ثابت ہوئی تھی۔

شہیر کو زیر کرنے، اسے اسیر بنانے والے کوئی جاسوس نہ تھے۔ بلکہ درحقیقت ماہا کی محبت تھی۔ جس نے اسے جھکا دیا تھا۔ چاروں شانے چت کر دیا تھا۔

 ورنہ کیا یہ ممکن تھا کے ایسا ذہین و شاندار جاسوس یونہی راہ چلتے بے نقاب ہو کر پکڑا جاتا؟

عالیان اور ابو زر نے اسے کھینچ کھانچ کر یا زبردستی نہیں۔ بلکہ بہت عزت سے اپنے ساتھ گاڑی میں سوار کیا تھا۔

ہاں وہ بے شک برا تھا۔ اس نے ہر کام ان کے خلاف کیا تھا۔

 مگر پکڑوایا بھی تو خود کو خود ہی تھا نا۔ جس سے وہ ان کی نظروں میں سرخرو ہو گیا تھا۔

 پھر ایسے شخص کو زور و ذلت سے گزرانا بھلا کہاں کا انصاف ہوتا!

                                ☆☆☆☆☆

اس نے باری باری اپنے اعتمادیوں کو فون لگائے۔ مگر ان میں سے بیشتر اس سے ہاتھ کھینچ چکے تھے۔ وہ جو کل تک اس سے گرمجوشی دکھاتے ہاتھوں ہاتھ لے رہے تھے اب سرے سے اس کی مدد کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

بہروز جیسے تجربہ کار اور دور اندیش شخص کی پیٹھ پر سوار ہو کر وہ سمجھتی تھی کے حکومت وہ چلا رہی ہے۔ ہاں یہ ٹھیک تھا کے ہر پیچیدہ سے پیچیدہ حالات کو سر کرنے کیلئے پلان وہ ترتیب دیتی تھی۔ مگر اتنا کافی نہ تھا۔ کون سا آدمی کس کام کے لیئے موزوں ہے، کس پر کتنا بھروسہ کیا جا سکتا ہے یہ چیز ابھی تابین نے سیکھی ہی نہ تھی۔ 

اس کی نو تجربہ کاری کا ہی فائدہ اٹھاتے ہوئے قیصر نے اسے اس مختصر سے عرصے میں جڑ سے کھوکھلا کر دیا تھا۔

ولید عثمان نے جو دن رات لگا کر ہر جائز نا جائز کام کرکے دولت کا انبار لگایا تھا اسے اس کی صاحبزادی نے ایک ماہ سے بھی قلیل عرصے میں اتنی ہی تیزی سے گنوا بھی دیا تھا۔

آخری حربے کے طور پر اس نے شہیر کو خفیہ طور پر چھپائی ہوئی دولت حاصل کرنے بھیجا تھا۔ مگر اب اس سے اس کا رابطہ نہ ہو پا رہا تھا۔ یقینا وہ ناکام ٹھہرا تھا۔ یہ وہ سمجھ چکی تھی۔

اندر ہی اندر خود کو بے بس و کمزور محسوس کرنے لگی تھی وہ۔ اسے چہار اطراف سے ان دیکھے سائے خود کو گھیرتے محسوس ہو رہے تھے۔ وہ چھوٹی بچی کی مانند خوف سے کانپنے لگتی تھی۔

اس کے بے شمار اخراجات تھے۔ اور کمائی اب کوئی نہ رہی تھی۔ جن جن کو کام پہ رکھا تھا وہ تو ٹکے ہی پیسے کیلئے تھے، جب ان کو معاوضہ ملنا بند ہو گیا تو وہ ایک ایک کرکے جانا شروع ہو گئے۔ سوائے رانا اور ایک دو ملازموں کے۔

وہ بہروز کا ازحد وفادار رہا تھا۔ اسی کی وجہ سے وہ تابین کو بھی ان تلخ حالات میں پیٹھ نہ دکھا سکا۔ اس کا ایک ہی مشورہ تھا کے وہ ملک چھوڑ جائیں۔ کیونکہ ان کے گرد کسی بھی لمحے گھیرا تنگ کر دیا جانا تھا۔ تب پھر ان کا بچ پانا ناممکن ہو جاتا۔

بڑے بڑے بہادر ایسے وقت میں ہوش کھو بیٹھتے ہیں۔ وہ تو پھر تھی ہی ایک صنف نازک۔ جس نے اپنے قد سے اونچے دشمن بنائے تھے۔ اور جس نے عام لڑکیوں سے ہٹ کر کام کرتے ہوئے بھیڑیوں کے درمیان کھانا کھانا پسند کیا تھا۔

مگر ایسے وقت میں اس کی عقل بھی ساتھ چھوڑ چکی تھی۔ 

اس کا ذہن دور کہیں ماضی کے حالات میں گردش کرنے لگا تھا۔

جب باپ سے ٹھکرائے جانے کے بعد داؤد نے حوصلہ بڑھاتے ہوئے اس سے کہا تھا۔

"تم بالکل فکر مت کرو، جس دن تم بھائی جان کے خواب کی وہ تعبیر بن جاؤ گی جس کیلئے انہوں نے کسی بیٹے کی تمنا کی تھی۔ تو اس دن میں تمہیں پھر سے ان کے پاس لے جاؤ گا۔ دیکھنا تب پھر وہ ہرگز بھی تمہیں ٹھکرا نہ سکیں گے"۔ اسے اس میں ایک امید نظر آئی تھی۔ خود اپنی ذات کیلئے۔ وہ ولید کا مقام پانا چاہتا تھا اور تابین اس مقصد کیلئے ایک اہم مہرا تھی بس۔

جس کے تحت ولید عثمان سے چھپ کر وہ اس کی تربیت کرتا رہا۔

"یہ کون سی جگہ ہے؟"۔ انواع و اقسام کے ہتھیار دیکھ کر گھبراتے ہوئے وہ داؤد کے پیچھے چھپ گئی تھی۔

"ڈرو نہیں بھتیجی۔ یہ ہمارے ہتھیاروں کا کارخانہ ہے۔ یہ جو تم دیکھ رہی ہو نا۔۔۔یہ اتنے سارے ہتھیار۔ ان کی قیمت کروڑوں مالیت کی ہے"۔ اس کا ہاتھ پکڑے وہ اسے ہر جگہ گھوم پھر کر دکھاتے ہوئے وہاں کی باریک سے باریک چیز بھی سمجھانے لگا تھا۔

"کاش آپ مجھے نہ ملے ہوتے چچا، کاش میں وہاں ساری عمر تنہا ہی رلتی رہتی۔ پھر ایک دن گمنامی کی موت مر جاتی۔ مگر وہ موت۔۔۔اس زندگی سے بہتر ہوتی۔ بہت زیادہ بہتر"۔ گھٹنوں پہ سر رکھے وہ بےبسی بھرے انداز میں خود کلامی کر رہی تھی۔

"مادام"۔ دروازے پر دستک دیتے ہوئے رانا کی آواز ابھری۔

"آ جاؤ رانا"۔ چہرا صاف کرتے ہوئے اس نے بمشکل خود کو کمپوز کیا۔

"کیا بات ہے؟"۔ اسے سر جھکائے کھڑے دیکھ کر تابین نے پوچھا۔

"ایم-این-اے صاحب ہماری مدد کرنے کو راضی ہیں۔ ان کی توسط سے ہم ملک چھوڑ کر دبئی جا رہے ہیں۔ مگر"۔ وہ کہتے کہتے رکا۔

"مگر؟"۔ وہ بے چین سی ہو گئی۔

"ہمیں بھیجنے کیلئے کم سے کم بھی انہیں تین دن درکار ہوں گے اور ہمارے پاس وقت بہت کم ہے۔ اب تک تو شاید وہ ہماری تلاش کو نکل چکے ہوں گے"۔ مایوسی بھرے انداز میں وہ بتا رہا تھا۔ اور تابین کی پریشان میں بددرجہ اضافہ کردیا تھا۔

"ٹھیک کہتے ہو۔ ہمارے شواہد ان کو مل چکے ہوں گے۔ ہمیں برباد کرکے تو وہ اپنا مقصد پا ہی چکے ہیں۔ اور اب ہماری جان کے پیچھے بھی پڑنے والے ہیں"۔ وہ فکرمندی سے حساب کتاب لگا رہی تھی۔ پھر اچانک بیٹھے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

"اس لیئے اب ہمارے پاس واحد راستہ ہے۔ روپوش ہونا ہوگا۔ تین دن کیلئے"۔ جیکٹ پہنتے ہوئے وہ بولی۔

"یس مادام، مجھے اندازہ تھا۔ اس لیئے گاڑی تیار کھڑی ہے"۔ رانا نے اطلاع دی۔

"پھر جلدی کرنی ہوگی"۔ اپنے چہرے کے گرد نقاب لگاتے ہوئے اس نے کہا۔ 

"تم جاؤ کچھ ضروری چیزیں سنبھالو۔ جانے سے قبل میں کچھ حساب برابر کر لیتی ہوں"۔ سیاہ آنکھوں میں انتقامی جذبے کی آگ دہک رہی تھی۔

وہ کچھ لمحے کھڑا رہا، پھر سر ہلا کر کمرے سے باہر جانے ہی لگا تھا جب تابین نے اسے روکا۔

"نکلنے سے قبل قید خانے میں موجود سب قیدیوں کو مار دو۔ ہر ایک کو"۔ اس نے ایک آخری حکم اور آخری کام رانا کے سپرد کیا۔

وہ حکم بجا لاتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔

اس کے بعد وہ ڈریسنگ میز کے سامنے پہنچی اور اپنی گن نکال کر اس میں بلیٹس چیک کیں۔ پھر اسے جیکٹ کی اندرونی جیب میں ڈال دیا۔ چھوٹا سا چاقو اپنی کمر کے گرد نتھی کر لیا۔

سیاہ بیگ میں اپنی ڈائری اور جتنا بھی نقد پیسہ تھا وہ سب اس میں رکھا اور بیگ کندھے پہ ڈالے وہ جوں ہی باہر نکلی اس کے مضبوط سینے سے ٹکرائی تھی۔

"اوہ! تو کیا بھاگنے کا پلان بنایا جا رہا ہے؟"۔ سر تا پیر اس کا جائزہ لیتے ہوئے اس نے دلچسپی سے پوچھا۔

"کیا اتفاق ہے۔ میں تمہارے ہی پاس آ رہی تھی"۔ گن نکال کر اس پر تانتے ہوئے وہ بولی۔

وہ کسی سوچ میں تھا۔ 

"اوہ! ہاں مجھے یاد آیا۔ تم آج بھی ویسا ہی حلیہ بنائے ہوئے ہو جس رات مجھے گولی مارتے ہوئے بنایا تھا۔ کیا اب بھی زیست کو پھنسانے کا ارادہ ہے؟ ارے نہیں، اس کی چمکتی سبز آنکھوں کی طرح تم نے لینس تو لگائے ہی نہیں؟"۔ سوچ سوچ کر بولتے وہ اس رات کا تذکرہ کر رہا تھا۔

"جب میں نے الوینا کو مارا تھا تب کی بات کر رہے کیا؟"۔ وہ کس سفاکی سے کہہ رہی تھی۔

قیصر کی سرمئی آنکھوں میں پہلے درد کا تاثر ابھرا تھا۔ اور پھر۔۔۔انتقام کا شدید جذبہ۔

آؤ دیکھا نہ تاؤں، وہ تندہی سے آگے بڑھا اور اس کا پستول والا ہاتھ دبوچ کر ایسا کرارا تھپڑ رسید کیا تھا کے اگر اس کا ہاتھ نہ تھام رکھا ہوتا تو وہ اب تک فرش کو سلامی دے رہی ہوتی۔

"سوچنا بھی مت کے میں یہ بات بھول سکتا ہوں۔ نہ کبھی بھولا تھا اور نہ آئندہ کبھی بھولوں گا۔ جس جس طرح سے تم نے میرا جگر چھلنی کیا ہے میں وہ ہر زخم سود سمیت تمہیں واپس کروں گا۔ ابھی اور اس وقت!"۔ ہتھیار چھینتے ہوئے اس نے ایک زوردار دھکا اسے دیا تھا۔ لڑکھڑا کر دیوار سے لگتے ہوئے بیگ اس کے کندھے سے پھسل کر گر پڑا۔

وہ ہار ماننے والی نہ تھی۔

چہرے پر سے نقاب نوچ کر اتارا۔

تمام تر قوت مجتمع کرتے ہوئے حملہ کرنے کی غرض سے اس نے آگے بڑھ کر مہارت سے ہاتھ اور پیروں کا استعمال شروع کر دیا۔ 

وہ اس کے ہاتھوں کا ہر ضرب کہنی اور بازوؤں کے دم پر روک لیتا تھا اور اس کے پاؤں سے وار کرنے کی صورت میں دائیں بائیں ہو جاتا۔ جس سے تابین کا ہر وار خالی رہ جاتا۔

قیصر کا بھاری ہاتھ دو تین بار اس کی پسلی اور چہرے، جبکہ گھٹنے پر پڑے کئی وار نے اسے بالآخر اسے زمین بوس کر دیا۔

"کیا ہوا؟ تھک گئی بلیک کوبرا؟"۔ رکوع کی حالت میں اس پر جھکا وہ اس کی کیفیت سے حظ اٹھاتے ہوئے بولا۔

وہ ہنسی پھر اچانک سے اپنے زخمی پیر کے برعکس دوسرے سے زوردار لات اس کے سینے پر رسید کی تھی۔ وہ پیچھے کو کھسک گیا۔ فوری طور پر وہ بحال نہ ہو سکا۔

جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تب تک وہ سنبھل کر کھڑی ہو چکی تھی۔ جوں ہی بھاگنے کا قصد کیا جسم کو چیر دینے والے درد کی ایک لہر اس کے گھٹنے سے اٹھی تھی۔ چرمرانے کی آواز واضح تھی۔

اس کے بعد وہ ایک انچ بھی ہلنے کی سکت خود میں نہ پا رہی تھی۔ آخر ہار کر اس نے خود کو زمین پر گرا دیا۔

وہ کوٹ جھاڑ کر ایک مرتبہ پھر اس کے مقابل آ گیا۔ مگر اب وہ بے بس تھی۔

اسے نظرانداز کرتے ہوئے قیصر کمرے کے اندر داخل ہو گیا۔

دو منٹ بعد وہ باہر آیا تھا۔ ہاتھ میں موجود ہنٹر کو زور سے فرش پر دے مارا۔

جس پر اس نے جھکا چہرا اٹھا کر اسے دیکھا۔ اس کے چہرے پر جو سرد تاثر پھیلا تھا۔ آنکھوں میں جو آگ دہک رہی تھی اس سے تابین کے ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی خیز لہر دوڑ گئی۔

"تمہارا قصہ اسی دن ختم کر دینا چاہیے تھا"۔ شکستہ لہجے میں وہ اپنے پچھتاوے کا اظہار کر رہی تھی۔ ناک اور منہ سے خون رواں ہو چکا تھا۔ مگر وہ اس سے بے پرواہ تھی۔

"کچھ ایسی ہی حسرت میرے اندر بھی جاگی تھی۔ جب پہلی بار یہ ہنٹر تمہارے کمرے میں دیکھا تھا۔ آج لگتا ہے جیسے یہ حسرت بھی پوری ہو جائے گی"۔ وہ اس وقت ہرگز بھی اپنے آپ میں نہ تھا۔

اس کی نگاہوں کے سامنے بار بار الوینا کا بے جان چہرا آ رہا تھا۔ اس کے عروسی لباس کا وہ خون آ رہا تھا۔ جو اس کی نفرت و غصے کہ آگ کو مزید سلگا رہے تھے۔

"تم نے مجھ سے میری الوینا چھین لی۔ مجھے اتنا مجبور کر دیا کے تمہارے وجود کے ٹکڑے ٹکڑے کردینے کے بجائے میں تم سے دلگی کرتا رہوں۔۔۔محبتیں جتاتا رہوں۔ 

جس جہنم سے تم نے مجھے گزارا ہے نا، اس کیلئے میں اگر تمہارا ریشہ ریشہ بھی الگ کردوں تو تب بھی مجھے سکون نہیں آئے گا"۔ اتنے عرصے میں وہ پہلی بار یوں اس کے سامنے اپنے دل میں دبی نفرت کو زبان دے رہا تھا۔

اس کے پرکشش چہرے پہ جو نفرت اور حقارت تابین نے اس وقت اپنے لیئے دیکھی وہ اس کا روح چھلنی کر گئی تھی۔

مگر اس کے اندر جو جذبہ اس گھڑی منہ زور ہو رہا تھا۔ وہ رقابت کا جذبہ تھا۔

"تو اتنی محبت کرتے ہو تم اس الوینا سے ہاں؟"۔ 

"اس سے بھی زیادہ"۔ کسی وقت میں اس کا کہا گیا یہ جملہ وہ اب اسی کو لوٹا چکا تھا۔

"کاش وہ زندہ ہوتی، تو میں اسے اور دردناک موت دے کر مارتی"۔ جلن کی آگ اسے یوں بے خوفی سے بولنے پر مجبور کر رہی تھی۔

دوسری طرف قیصر کی برداشت اب جواب دے رہی تھی۔ کنپٹی کی رگیں تن گئیں تھیں۔ تنفس تیز سے تیز تر ہو رہا تھا۔ 

"کیا تھا اس میں ایسا؟ ایک عام سی۔۔۔معمولی سی لڑکی۔ سوچا جائے تو اس کا باپ پولیس والا تھا۔ ہاں اس کے ماما نے بتایا مجھے۔ جیل میں بلا کر"۔ وہ رازداری سے بولی۔

قیصر کی آنکھوں میں اب غصے کی جگہ حیرت نے لے لی تھی۔

"یوں حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ تمہاری محبوبہ اور تمہیں برباد کرنے کیلئے مجھے اسی نے بلوایا تھا۔ بڈھے سے تم نے پنگا بہت لیا تھا۔ اس لئے تو جیل جا کر بھی وہ انتقامی کارروائی سے نہ رکا"۔ وہ ہنستی ہوئی مزے سے بتا رہی تھی۔ جیسے یہ سب کوئی دلچسپ کھیل تھا۔

اس کے انداز پر وہ مٹھیاں بھینچنے لگا۔

"الوینا، مجھے تو لگتا ہے قیصر کے اس نے تمہیں دھوکا دیا۔ بھلا سوچنے کی بات ہے۔۔۔کوئی لڑکی اپنے سگے باپ اور ماما کو چھوڑ کر۔۔۔تمہارے جیسے شخص کا ساتھ کیوں پانا چاہے گی؟"۔ اپنے دل کا غبار نکالنے کیلئے اس نے الوینا سے متعلق یہ انوکھا تجزیہ پیش کیا۔

"بند کرو اپنی یہ پاگل باتیں۔۔۔چپ ہو جاؤ بالکل"۔ دانت پیس کر کہتے ہوئے وہ اسے خبردار کر رہا تھا۔

"جس لڑکی سے تم نے محبت کی تھی نا؟ دو چہروں کی مالکہ تھی وہ۔ دوغلی شخصیت کی تھی وہ"۔ طنز بھرے لہجے میں کہتی وہ اس کا تمسخر اڑا رہی تھی۔

اس کی اثبات پر اس کا اشتعال مزید بڑھا دیا۔ وہ ان دیکھی آگ میں جلتا اس کے سر پر آ پہنچا۔

"تمہیں لگتا ہے کے میں تمہاری بکواس باتوں پر آنکھیں موند کر یقین کر لوں گا؟ ہوں؟ اتنا بے وقوف لگتا ہوں میں؟"۔ اس کے بال مٹھی میں دبوچتے ہوئے وہ دبے دبے لہجے میں غرایا۔

مگر مقابل کے انداز میں رتی بھر فرق نہ آیا تھا۔

"جس پر اتنا مرتے ہو، جس کیلئے اپنا آپ گنوا کر خود کو فنا کیئے بیٹھے ہو نا اگر اس کی اصلیت تمہیں پتہ چل جائے تو اسے قبر سے نکال کر ایک بار پھر موت کا ذائقہ چکھانے کی خواہش جاگ اٹھے گی تمہارے اندر"۔ وہ ہنوز اس کا مذاق اڑا رہی تھی۔

اب کی بار اس کی بات سن کر سرمئی آنکھوں میں بلا کے غیض و غضب نے سر اٹھایا تھا۔ 

"بکواس بند کرو اپنی"۔ وہ پوری قوت سے دہاڑا۔

اس کا بھاری ہاتھ تابین کے گال پر ایک مرتبہ پھر پڑ چکا تھا۔ ہونٹ دوسرے کنارے سے بھی پھٹ پڑا۔ خون کی ایک لکیر بہہ نکلی تھی وہاں سے۔

"دنیا کو دھوکا دینے والے خیام نے آج خود دھوکا کھا لیا ہے"۔ وہ زور زور سے ہنستی ہوئی یہ بات کہہ رہی تھی اور بارہا دہراتی ہی چلی جاتی۔

آنکھوں میں سرخی سمیٹے وہ آگے بڑھا۔ پھر وہ تھا، اس کے ہاتھ میں موجود سیاہ ہنٹر۔

تابین نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کے چیخوں کا گلا گھونٹ دیا تھا۔ درد کو محسوس نہ کرنے کیلئے اس کا ذہن انوکھے خیال سوچ رہا تھا۔

جیسے قیصر کے ہاتھ سے وہ کوڑے اس پر نہیں بلکہ زیست پر برس رہے ہوں۔ یا پھر الوینا پر۔ یا پھر ہر اس شخص پر جسے قیصر چاہتا ہو، عزیز رکھتا ہو۔

اور یہ خیالات اسے درد کے بجائے سکون کا احساس دلا رہے تھے۔ وہ اپنے جسم پر برستے کوڑوں کے برعکس زور زور سے ہنس رہی تھی۔

اس کی ہنسی قیصر کا دماغ گھما رہی تھی۔ اسے مزید وحشی بنائے دے رہی تھی۔

وہ رکے بنا اس پر تشدد جاری رکھنے کے ارادہ کیئے ہوئے تھا جب کسی کمزور گرفت نے اس کا بازو تھام لیا۔

وہ چونک پڑا۔ بے ترتیب سانسیں اس کے غصے کو بتدریج کم کر رہیں تھیں۔ ہر اگلی سانس اسے مزید مطمئن کرنے لگی تھی۔ اور آخرکار جب اس کا طوفانی غصہ تھما تو اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔

"قیصر"۔ ابتر و بکھری حالت والا اعظم اس کے سامنے کھڑا تھا۔

جسے دیکھ کر ہنٹر کو تھاما اس کا ہاتھ قدرے ڈھیلا پڑ تا پہلو میں آگرا۔

"اعظم۔۔۔میرے بھائی!"۔ قیصر نے اس کا چہرہ ہاتھ میں لیا۔ نگاہیں بے چینی و اشتیاق سے اعظم کو تک رہیں تھی۔ 

اتنے عرصے بعد اسے اپنے سامنے پا کر وہ آس پاس موجود باقی ہر شے کو فراموش کر گیا تھا۔ 

ہنٹر پھینک کر وہ اس بے تابی سے اس سے بغلگیر ہوا کے اعظم بچوں کی طرح رو پڑا۔

"مجھے لگا میں تم سے پھر کبھی نہیں مل سکوں گا میرے یار"۔ وہ بے اختیار روتے ہوئے کہہ رہا تھا۔

اس کی پشت تھپکتے اسے سنبھالنے کی کوشش میں قیصر کی اپنی آنکھیں بھیگ گئیں تھی۔

"زیست۔۔۔میرے پاس۔۔۔ہے۔ میں اسے۔۔۔مار دوں گی"۔ زمین پر گھٹڑی کی صورت پڑی وہ کھانسی کے درمیان کہہ رہی تھی۔

آواز پر قیصر نے اعظم سے علیحدہ ہوتے ہوئے اس کی جانب دیکھا۔

"تمہارے ہر داؤ کی طرح یہ بھی فیل ہو گیا تھا۔ جس دن شہیر تمہارے حکم پر اسے اغواء کرکے ساتھ لے گیا۔ اسی رات عالیان اور زر کی مدد سے میں نے اسے بازیاب کروا لیا تھا"۔ وہ فاتحانہ مسکراتے ہوئے اس کے جلے پر نمک چھڑک چکا تھا۔

وہ بے حس و حرکت پڑی حسرت و درد کے ملے جلے تاثرات چہرے پر سجائے اسے دیکھ رہی تھی۔

"کیا ہے تم میں ایسا؟ جس۔۔۔نے الوینا کو۔۔۔تمہارے عشق۔۔۔میں فنا کر دیا؟ ایسا کیا۔۔۔دیکھا زیست نے۔۔۔تم میں جو۔۔۔اپنے بھائی کا خون تک۔۔۔معاف کر دیا؟"۔ وہ زخمی پن سے کہہ رہی تھی۔ آنسو اس کی تکلیف کی ترجمانی کر رہے تھے۔

اس کی بات پر قیصر نے لب بھنچ لیئے۔

"ایسا بھی کیا۔۔۔جادو کیا تم نے۔۔۔کہ تابین تمہارے دھوکے کو۔۔۔پہچان کر بھی اندھی بن گئی؟"۔ اپنے ذکر پر اس کی آواز بھیگ گئی تھی۔

اس دوران اس کا ہاتھ سرسراتے ہوئے اس ننھے سے چاقو کو اپنی گرفت میں لے چکا تھا۔

قیصر کی نگاہ کب اس کی اس حرکت سے غافل رہی تھی۔ 

"میں ہار نہیں۔۔۔مانوں گی۔ تمہیں خود کو۔۔۔تمہاری جیت کی ٹرافی بنانے کی اجازت۔۔۔ہرگز نہیں دوں گی"۔

اس سے قبل کے وہ اس چاقو کو اپنی گردن کی شہ رگ پر پھیر کر خود کو ختم کرنے کے ارادے میں کامیاب ہو پاتی۔ قیصر نے پھرتی سے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ دبوچ لیا۔

"تم نہیں مر سکتی۔ جیسے مجھے جیتے جی مرنے کیلئے چھوڑا تھا اب وہی کچھ تم خود بھی برداشت کرو گی۔ سمجھی!"۔ چاقو چھین کر اس سے دور پھینکتے ہوئے اس نے دہاڑ کر کہا۔

وہ بے بسی سے چیخ چیخ کر رو پڑی تھی۔

عالیان اور زر جو باقی سب کے ہمراہ وہاں آن پہنچے تھے فورا ان کی جانب چلے آئے۔

میکائیل کو ان لوگوں نے فوری طور پر آرمی ہاسپٹل بھجوا دیا۔ تابین کے چند گنے چنے گارڈز کے علاوہ سیکیورٹی پر اور کوئی معمور نہ تھا۔ اس لیئے وہ  بآسانی اندر گھسنے میں کامیاب ہوئے۔

قیصر کے فراہم کیئے گئے اس جگہ کے نقشے کے مطابق وہ تہہ خانے میکائیل اور باقی سب کو آزاد کروانے پہنچے۔ جہاں مد بھیڑ کے دوران رانا مارا گیا۔

اس طرح ان کا حملہ کامیاب رہا۔

                                ☆☆☆☆☆

خطرناک چالوں اور خونی کھیلوں کا یہ سلسلہ جب تھما تو ہر طرف یوں سکوت چھا گیا جیسے طوفانی بارش کے بعد مطلع صاف ہو جاتا ہے اور چہار سو خاموشی چھا جاتی ہے۔

شہر کے ڈی-آئی-جی و ایس-پی کی جانب سے پولیس کی ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ جس کا سربراہ ہارون عالم کو بنایا گیا تھا۔ اس تحقیق کا بنیادی مقصد یہ تھا کے تابین کے ساتھ جن جن معروف شخصیات کا نام میڈیا کے ذریعے جوڑا جا رہا تھا ان کے خلاف ٹھوس ثبوت و شواہد ڈھونڈے جائیں اور انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کی ہرممکن کوشش کی جائے۔

میڈیا و دیگر خبر رساں ویب سائٹس کا آج کل یہ پسندیدہ موضوع بن گیا تھا۔ 

اس خطرناک گینگ کی سربراہ، ایک تیئس سالہ چھوٹی سی لڑکی ہر ایک کی توجہ و دلچسپی کا مرکز تھی۔ ہر کوئی اس کے متعلق زیادہ سے زیادہ جاننے اور دو باتیں جان کر آگے چار کرکے پھیلانے کی دوڑ میں لگا تھا۔

کوئی اس پر ترس کھا رہا تھا۔ تو کوئی اس کی ہمت و ذہانت کا قائل نظر آتا تھا۔ کوئی غصے و غضب کا نشانہ بنا رہا تھا تو کوئی اس سے ہمدردی کر رہا تھا۔

غرض ہر کسی کی اپنی رائے اپنی منطق تھی۔

عام عوام الناس میں ڈی-جی صاحب کی ہدایت پر پولیس نے تابین کو مردہ اعلان کیا تھا۔ اور ایک مسخ شدہ چہرے والی لاش کی تصویریں بھی وائرل کروا دیں۔

خفیہ اداروں نے ایٹمی ہتھیاروں کی ایسے نقل مکانی کردی کے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو بھی کچھ خبر نہ ہونے پائے۔ اور اس معلومات میں کم سے کم لوگوں کو شامل کیا۔ یہ بات باہری دنیا پر ہرگز بھی ظاہر نہ کی گئی کہ تابین نے نقشے حاصل کرکے ان کا سودا کرنا چاہا تھا۔

بلکہ اسے دہشت گردوں اور ملک دشمن عناصر سے تعاون کرنے کی بنا پر انکاونٹر کر دیا گیا ہے، یہ کہا گیا۔

باہری دنیا سے کاٹ کر ہر چیز سے قطع نظر کرکے اسے زمین تلے سانس لینے کو چھوڑ دیا گیا۔

 ڈھیلے ڈھالے شلوار قمیض میں وہ پتھریلے فرش پر بیٹھی الجھے بکھرے بالوں سے کھیل رہی تھی۔

اچانک اسے کچھ محسوس ہوا۔ گردن موڑ کر دیکھنے پر اسے جو شخص نظر آیا وہ اس کے ذہن و دل کی کیفیت کو تہہ و بالا کر گیا تھا۔

"میرا باپ" وہ ٹرانس  کے عالم میں اٹھ کر اس کی طرف چلنے لگی۔ ایک پاؤں سے وہ لنگڑا کر چل رہی تھی۔

 "وہ دیکھو۔۔۔کھڑا مجھے دیکھ رہا ہے۔ مجھ سے ناراض ہے۔ میں نے اسے دھوکہ دیا۔ اسکی اچھی بیٹی نہ بن سکی"۔ اس کے لب ہلتے یہ الفاظ دہراتے جاتے تھے اور سیاہ آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہو چلی تھیں۔

وہ اس کے نزدیک پہنچ چکی تھی۔ قریب تھا کے اسے انگلیوں سے چھو لیتی جب وہ خیالی عکس ہوا میں تحلیل ہو گیا۔ اور ایک دوسرا عکس نمودار ہوا تھا اس کے سامنے۔

وہ خوفزدہ سے پیچھے ہٹ گئی۔

دیکھتے ہی دیکھتے گولی چلنے کی آواز سنائی دی تھی۔ کانوں پہ ہاتھ رکھے وہ چیختی ہوئی زمین پر بیٹھ گئی اور مسلسل چیختی رہی۔ 

چند لمحوں تک اس پر یہ کیفیت طاری رہی۔ پھر جب اس نے جھکا ہوا سر اٹھایا تو اب اس کی سیاہ آنکھوں میں اجب وحشت سی چھائی ہوئی تھی۔

"أخبرك الان انی سوف انتقم"۔ (میں نے کہا ہے تم سے،

میں بدلہ لوں گی)۔

تابین کے پکڑے جانے سے لے کر تحقیقاتی کمیٹی بننے تک اس واقعے کو دس دن سے زائد کا عرصہ بیت چکا تھا۔

زندگی پھر سے معمول پر آنے لگی تھی۔ گو اس سب کے اثر سے نکلنے میں انہیں اب بھی وقت لگنا تھا۔ خاص طور سے زیست اور قیصر کو۔

"میں نے تم سے وعدہ کیا تھا۔ نارمل زندگی دینے کا۔ تو یہ رہا اس کا پہلا قدم"۔ بنگلے کے اندر داخل ہوتے ہوئے اس نے مسکرا کر زی کے کان میں سرگوشی کی تھی۔

جوابا اس کا بازو تھامے وہ مطمئن سی مسکراہٹ چہرے پر سجاتی اس کے کندھے سے سر ٹکا گئی۔

وہ دونوں اب اندر آنے کے بعد ارد گرد دیکھتے بنگلے کا جائزہ لے رہے تھے۔

ڈرائنگ روم اور دو کمروں کے ساتھ چھوٹے سے مگر خوبصورت صحن پر مشتمل وہ گھر خاصا کشادہ اور جدید طرز کا تھا۔ اسٹیٹ ایجنٹ آگے آگے چلتا ہوا انہیں پورا گھر دکھانے کے بعد اب صحن کی جانب لے جا رہا تھا۔

"کیا ہم یہ گھر لے رہے ہیں؟"۔ صحن میں داخل ہوتے اس نے قیصر سے پوچھا۔

"تمہیں اگر پسند آ گیا ہے تو ضرور لیں گے"۔ فراخدلی سے جواب دیا۔ 

زیست اس کے انداز پر مسکرا اٹھی۔

"آپ زرا باہر انتظار کریں ہم کچھ دیر مشورہ کرنے کے بعد آپ کو بتائیں گے"۔ اس نے اسٹیٹ ایجنٹ کو وہاں سے بھگانا چاہا۔

"جیسا آپ بہتر سمجھیں۔ میں منتظر رہوں گا"۔ وہ یہ کہتا انہیں تنہا چھوڑ گیا۔

اس کے جاتے ہی وہ دوبارہ اسکی جانب متوجہ ہوا۔

"ہاں،تو اب بتاؤ کیا خیال ہے تمہارا؟ پسند آیا گھر؟"۔ 

اسے شانوں سے تھامے وہ فکرمندی سے پوچھ رہا تھا۔

مبادا کہیں وہ ناپسندیدگی کا اعلان نہ کردے۔

"میری طرف سے تو فائنل ہو گیا ہے۔ اب تم اپنا جیب دیکھ لو کے اس کے مطابق ہے یا نہیں"۔ اس نے سنجیدگی سے کہہ کر معاملہ اس پہ چھوڑ دیا۔

"جی محترمہ، آپ کو بتایا نہیں لیکن درحقیقت میری بجٹ یہی تک ہے۔ ہاں، اگر تم میرے وہ الٹے سیدھے کاموں پر پابندی عائد نہ کرتی تو تمہارے لیئے ایک نہیں دس بیس محل تو ضرور بنوا دیتا"۔ اس کا چہرہ ہاتھوں میں لیتے ہوئے وہ کس جذب سے کہہ رہا تھا۔

زیست کو اپنا دل معمول سے ہٹ کر دھڑکتا محسوس ہوا۔

"میں نے کبھی سوچا نہ تھا کہ تم سے یہ کہوں گی"۔ وہ سر جھکائے گویا ہوئی۔

"کیا؟"۔ قیصر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔

 "یہی کے تمہارے بغیر گزرا ہر ایک پل تکلیف دہ تھا"۔ اس بات کو زبان دیتے ہوئے اس نے جب نگاہیں اٹھائیں  تو وہ بھیگ رہیں تھی۔

"ششش! وہ وقت اب بیت چکا ہے۔ اسے یاد کرکے خود کو اور تکلیف مت دو۔ تم پہلے ہی میری وجہ سے بہت نقصان اٹھا چکی ہو۔ اب مزید آنسو ضائع کرکے مجھے شرمندہ مت کرو"۔ اس کی پیشانی سے سر ٹکاتے وہ دھیمے لب و لہجے میں کہہ رہا تھا۔ 

"میرے لیئے آسان نہ تھا یہ۔ پہلے اپنے بھائی کا دکھ اور پھر تمہارا دور چلے جانا۔ میں بہت ڈرتی تھی۔ ڈر لگتا تھا اس وقت سے۔۔۔جب میرا بچہ اپنی آنکھیں کھولتا اور اس کا باپ اسکی نگاہوں کے سامنے نہ ہوتا۔ میں اس کا وقت سے بہت ڈرتی تھی قیصر، میں اس سے کیا کہتی؟"۔ آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر رخسار پر بہہ نکلے۔

"ایسا کچھ نہیں ہوا اور ان شاء اللہ نہ کبھی ایسا ہوگا۔ دیکھنا تم، ہم دونوں مل کر اس کا اس دنیا بہت شاندار ویلکم کریں گے"۔ اس سے الگ ہو کر وہ پرجوش سا کہہ رہا تھا 

"ہاں بالکل"۔ وہ روتے روتے بھی ہنس پڑی۔

جوابا وہ اس کے آنسو پونچھنے لگا۔

"قیصر؟"۔ وہ کچھ لمحوں بعد پکاری۔

"ہوں"۔ وہ پوری طرح اس کی جانب متوجہ تھا۔

"کیا تمہیں مجھ سے محبت ہوگی کبھی؟"۔ اس سے الگ ہوتے ہوئے وہ دھیمے لب و لہجے میں کتنی آس و امید سے پوچھ رہی تھی۔

قیصر اس غیر متوقع سوال پر فوری کچھ بول نہ سکا تھا۔

ایسا نہ تھا کہ اس کے پاس جواب موجود نہ ہو۔ اس کے پاس وہ الفاظ موجود نہ تھے جن کو استعمال کرتے ہوئے وہ اپنا جواب دیتا اور زیست کا دل بھی اس جواب سے نہ دکھتا۔

اسے یوں خاموش اور سر جھکائے دیکھ کر اسے تکلیف ہوئی تھی لیکن وہ اپنا جواب جان چکی تھی۔ 

"آئم سوری! یہ سوال کرنا ہرگز بھی اچھا آئیدیا نہیں تھا"۔ آنسو اپنے اندر جذب کرتے ہوئے وہ خود کو مضبوط ظاہر کرنے لگی۔

وہ جانتی تھی اگر اس کی اپنی ذات پہ مشکل وقت آتا رہا تھا۔ تو قیصر نے بھی اپنی زندگی کوئی پھولوں کی بستر پر نہ گزاری تھی۔ وہ اپنے زخمی دل، اپنے ذہن پر سوار غصہ و انتقامی جذبہ اور اس پہ بھی مستزاد تابین کے ساتھ رہنا وہ بیک وقت کئی محاذوں پر لڑ رہا تھا۔

اور اب جا کے ہی تو اسے ٹھہرنے، سانس لینے کا موقع ملا تھا۔

وہ جلدبازی سے کام لے رہی تھی یہ وہ بھی سمجھتی تھی مگر اپنے دل کو کیسے سمجھاتی؟ کیسے سنبھالتی؟ جو ہر حال میں اپنے محبوب سے وہی محبت چاہتا ہے جو وہ خود اس سے کرتا ہے۔ 

اس نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھام لیا۔

"ڈونٹ بی سوری، تمہارا سوال ہرگز بھی ناجائز نہیں ہے اور نہ ہی بےمقصد۔ تم نے ناصرف مجھے اپنی زندگی میں قبول کیا بلکہ اپنے دل میں بھی جگہ دی، جس کے میں قابل نہیں تھا کبھی"۔ وہ ایک لمحہ کو رکا۔

وہ خاموشی سے اسکے مزید بولنے کا انتظار کرتی رہی۔

"میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کے مجھے پھر سے محبت ہوگی یا نہیں۔ لیکن میں یہ تم سے وعدہ کرتا ہوں کے ایک اچھا شوہر اور اچھا باپ بننے کی ہر ممکن کوشش کروں گا۔ ہر مشکل میں تمہارے ساتھ کھڑا رہا ہوں گا۔

جیسی زندگی کی تم مستحق ہو ویسی زندگی تمہیں دینے کیلئے میں اپنی دسترس میں موجود ہر شے کروں گا زیست! 

یہ محض اس لیئے نہیں کہ میں تم سے شرمندہ ہوں۔ اس لیئے بھی کیونکہ تم بہت خالص، بہت اچھی اور نیک دل ہو۔ یہ سب ڈیزرو کرتی ہو۔

اور تم وہ پہلی عورت ہو جس نے قیصر خیام کی اصلیت جانتے ہوئے بھی اس سے محبت کی ہے۔ دور نہیں بھاگی مجھ سے، اتنا سب کچھ ہو جانے کے بعد بھی کبھی چھوڑ کر جانے کا خیال نہ آیا ذہن میں"۔ اس کی نگاہوں میں تکتا وہ اپنے دل میں موجود اس کی قدر کو اس پر آشکار کر رہا تھا۔

زیست مبہوت سی اسے سنتی جا رہی تھی۔ وہ ایک بار بھی مداخلت نہ کر پائی تھی۔

"میں بس تمہیں اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ اگر تم بھروسہ رکھو تو تمہارا میرا رشتہ محبت لفظ کا محتاج نہیں رہے گا"۔ وہ کتنے جذب کتنی سادگی سے اسے اپنی بات سمجھا رہا تھا۔ زی کی نظروں نے دیکھا تھا اور دیکھ کر پہچانا کے ہاں، اصل قیصر خیام یہی ہے۔ ایک درد مند دل رکھنے والا، دل کے جذبوں کو باریک بینی سے محسوس کرنے اور سمجھنے والا!

وہ جوابا کچھ نہ بولی تھی۔ بس مطمئن سی سانس فضا کے سپرد کرتی اس کا بازو تھام لیا۔ 

قیصر بھی یہ جان چکا تھا کہ وہ اس پر مکمل اعتماد کا اعلان کرچکی ہے۔

وہ دونوں ایک دوسرے کی معیت میں چلتے ہوئے اندر آگئے۔

"تم رکو میں اس سے بات کرکے سب کچھ فائنل کرنے کو کہتا ہوں"۔

وہ یہ کہتا ہوا اب اس گھر کو خریدنے سے متعلق اسٹیٹ ایجنٹ کو اپنی رائے سے آگاہ کرنے لگا تھا۔

وہ اطراف کا جائزہ لینے کو باہر نکل آئی۔ اس جیسے اور اس سے بھی کئی زیادہ شاندار بنگلے زرا زرا سے فاصلے پر موجود تھے۔

 غالبا یہ سوسائٹی رئیسوں کیلئے تھی۔ اس کے برعکس قیصر نے ماحول کو مدنظر رکھ کر وہاں رہائش اختیار کرنے کا سوچا تھا۔ اس بات پر وہ بھی اس کی ہم خیال تھی۔

"ایکسکیوز می، کیا آپ ہی زیست ہیں؟"۔ اچانک اسے پشت پر ایک نسوانی آواز سنائی دی۔

وہ چونک کر متوجہ ہوئی۔ 

"جی ہاں، آپ کو میرا نام کیسے پتہ؟"۔ وہ سر تا پیر اسے تولتی نگاہوں سے جانچ رہی تھی۔ 

اس کے انداز پر وہ ہنس پڑی۔

"میں معذرت چاہتی ہوں، آپ کو اس طرح سرپرائز کر دینے کیلئے۔ دراصل یہیں سے کچھ ہی دوری پر میرا گھر ہے۔ میں اپنے ہزبینڈ کے ساتھ رہتی ہوں۔ ان سے آپ کے اور قیصر کے متعلق سنا کے یہاں شفٹ ہونے کا سوچ رہے ہیں۔ تو اس لیئے میں خود کو روک نہ پائی"۔ وہ ایک ہی سانس میں پوری کہانی بتا چکی تھی۔  

"آپ قیصر کو بھی جانتی ہیں؟"۔ زیست کو وہ ہر پل حیران کررہی تھی۔ 

"جی ہاں، وہ جناب کبھی ہمارے پروفیسر ہوتے تھے۔ بس وہاں سے ہی جان پہچان ہے"۔ پرانے دنوں کو سوچ کر کہتی وہ اداسی سے مسکرائی۔ نگاہیں زیست کے وجود میں رونما ہونے والی تبدیلی کو نوٹ کر چکی تھیں۔ 

"پروفیسر؟ اور وہ؟"۔ اس کی آنکھیں پوری کھل گئیں اس انکشاف پر۔

عین اسی وقت باہر نکلتے ہوئے قیصر کی نگاہ اس پر پڑی تھی۔ پھر وہ ان کی جانب چلا آیا۔

"غزل؟ تم یہاں کیا کر رہی ہو؟"۔ زیست کے برعکس وہ حیران ہوئے بغیر استفسار کر رہا تھا۔

"کچھ نہیں، مجھے پتہ چلا کے آپ لوگ یہاں آ رہے ہیں تو ملنے چلی آئی"۔ وہ اب سنجیدہ ہو چکی تھی۔

"اوہ! تو یعنی تمہارا شوہر اب بھی میری جاسوسی کرتا ہے؟ کیا آدمی ہے یار"۔ اسے سمجھنے میں زرا دیر نہ لگی تھی۔

اس دوران زیست کے ذہن میں نجانے کتنے سوال گردش کرنے لگے تھے۔

"ایسی بات نہیں ہے۔ ہارون سے میں نے ہی آپ کے متعلق پوچھا تھا۔ اس نے بتایا کے آپ کی وائف ہے ایک تو مجھے بس اشتیاق ہوا اسے دیکھنے کا۔ اس لیئے۔۔۔خیر آئم سوری"۔ وہ اب نادم نظر آ رہی تھی۔

قیصر کچھ کہنے کو منہ کھول ہی رہا تھا جب زیست بول پڑی۔

"تم سوری کیوں ہو رہی ہو؟ ان فیکٹ مجھے خوشی ہوگی تم سے بات کرکے۔ کیا ہم کہیں کسی جگہ مل سکتے ہیں؟"۔ اس نے طے کر لیا تھا کے وہ اپنے سوالوں کا جواب اسی سے لے گی۔

قیصر کی آنکھوں میں موجود تنبیہ کا بھی اس نے کوئی اثر نہیں لیا تھا۔

جبکہ غزل اس کے اس دوستانہ انداز سے خاصی متاثر نظر آنے لگی تھی۔

"کیوں نہیں، میں ضرور ملوں گی تم سے۔ بلکہ تم چاہو تو کسی دن میرے گھر آ سکتی ہو"۔ اس نے کھلے دل سے دعوت دی۔

وہ دونوں اسے نظرانداز کیئے اپنی ہی کہے جا رہیں تھی۔ لہٰذا اس کیلئے وہاں مزید ٹھہرنا اب بےمعنی تھا۔ 

اگر وہ الوینا کے متعلق جاننے کا قصد کر ہی چکی تھی تو ہاں اسے جان لینا چاہیے تھا۔ ماضی کو جانے بغیر وہ ساتھ مستقبل کی شروعات نہیں کرسکتے تھے۔

"میں کل ہی آ جاتی ہوں۔ اگر تمہیں کوئی مسئلہ نہیں تو؟"۔ اپنی اس قدر ایکسائٹمنٹ پر خفت زدہ ہوتی وہ آخر میں پوچھنے لگی۔

"ہاں کیوں نہیں ضرور آؤ۔ یو آر موسٹ ویلکم!"۔ وہ خوشی سے چور آواز میں بولی۔

زیست تشکر سے مسکرا دی۔ 

"اللہ خیر خیریت سے اس ننھے مہمان کو اس دنیا میں آنا نصیب کرے اور آپ دونوں کیلئے اسے مبارک کرے"۔  اسے ساتھ لگاتے ہوئے وہ یہ دعائیہ کلمات کہہ رہی تھی اور اس لمحے زیست کو اس کے خلوص دل ہونے میں کوئی شبہ باقی نہ رہا تھا۔

دونوں کے درمیان رابطے کے غرض سے نمبروں کا تبادلہ ہوا۔

"امید ہے ہم دونوں کچھ ہی عرصے میں اچھی دوستیں بن جائیں گی"۔ اس سے الگ ہوتے ہوئے وہ پرجوش سے ہوتی کہہ رہی تھی۔

جوابا زیست مثبت انداز میں سر ہلاتے ہوئے مسکرائی۔

                                ☆☆☆☆☆

پھر وہ سارا دن اس غیر متوقع ملاقات سے متعلق سوچتی رہی تھی۔ قیصر اس وقت سے اس سے قطرہ رہا تھا اور وہ چاہ کر بھی اس سے کوئی سوال نہیں کر پا رہی تھی۔ اسے یہ خدشہ تھا کہ کہیں زیادہ کریدنے سے اسے دکھ نہ پہنچے۔ کیونکہ جس طرح سے وہ زیست اور غزل کے ملنے سے غیر آرام دہ محسوس کر رہا تھا اس سے وہ بہت کچھ سمجھ چکی تھی۔

یہ معاملہ الوینا سے جڑا تھا۔ اتنا تو وہ جانتی تھی۔ اور یہ بھی کے وہ قیصر کے نکاح میں تھی۔ اب وہ قیصر سے کن حالات میں ملی؟ اس کے ساتھ کیا پیش آیا؟ کیونکر پیش آیا؟ یہ سب جاننے کیلئے وہ بے چینی سے کل کا انتظار کر رہی تھی۔

رات ان دونوں نے اپنی اپنی جگہ ماضی و مستقبل کو سوچتے ہوئے بے سکونی میں گزاری تھی۔

وہ صبح ہی صبح گھر کے کاغذات و شفٹنگ سے متعلق جاننے کیلئے اسٹیٹ ایجنٹ کی طرف چلا گیا۔

اسکے پیچھے وہ بھی نرمین کو اطلاع دے کر گھر سے نکل گئی تھی۔

غزل کی بھیجی گئی لوکیشن کے مطابق پتہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس کے گھر پہنچ گئی۔ 

وہ اسے دیکھ کر بےحد خوش ہوئی۔

پھر سلام دعا کے بعد وہ اس کی صحت کے پیش نظر اس کیلئے جوس لے آئی اور اپنے لیئے کافی۔

"تم کل کہہ رہی تھی کے ماضی میں میرا شوہر تمہارا پروفیسر رہا ہے۔ لیکن جہاں تک میں جانتی ہوں وہ ایسے کسی پیشے سے منسلک نہیں رہے۔ پھر یہ کیسے؟"۔ وہ اپنے ذہن میں چل رہے اس سوال کو بالآخر زبان پر لے آئی۔

غزل کو اس کی بات پر وہ وقت آیا تو بے اختیار ہنس پڑی۔ پھر الوینا اور اپنی دوستی، قیصر کا ان کی یونیورسٹی بطور پروفیسر آنا، الوینا کا اغواء ہو جانا غرض اس نے اسکے سامنے ماضی کی کتاب کے تمام اوراق پلٹ ڈالے تھے۔

اور وہ کبھی کسی بات پر حیران ہوتی تو کبھی اس سے اگلی بات اسے دکھی کر دیتی تھی۔ وہ اسے فنا کے اسم سے جڑی قیصر و الوینا کی وہ کہانی سنا رہی تھی جس سے اس کی اپنی بقا کی الجھنیں جڑیں تھیں۔

جس کی گرہیں اب ایک ایک کرکے غزل اس کیلئے کھولتی چلی گئی تھی۔

پھر زیست نے اسے اپنی جانب سے کہانی کے دوسرے پہلو سے روشناس کروایا۔ کیسے قیصر اس کی زندگی میں آیا، کن کن مصائب سے وہ دونوں ہی گزرتے رہے، تابین نے کس طرح اسے قیصر کی نگاہ میں ایک قاتل بنا کر پیش کیا وہ سب کہتی چلی گئی۔

غزل کو وہ پہلی بار ہی دیکھنے پہ اچھی لگی لیکن وہ جن تکلیفوں سے گزری تھی اس کے متعلق سن کر وہ اس کی ہمدرد بن گئی۔ 

"تم قیصر کو کہاں سے جانتی ہو؟ مطلب اس سے کیسے ملی تم؟"۔ اس ایک سوال کا جواب غزل کو نہ مل سکا تھا۔

وہ پھیکا سا مسکرائی۔

"یہ جو تم نے علی مرزا کا ذکر کیا ہے اپنی کہانی میں میری فیملی اور میری بربادی کیلئے ذمہ دار شروع سے وہ ایک ہی شخص رہا ہے۔ میرے بھائی نے حق و سچ کا ساتھ دینے کی پاداش میں اپنی جان گنوائی۔ جس کیلئے اس نے بتایا کے قیصر ذمہ دار ہے۔ اسی نے میرے بھائی کو مارا ہے سو مجھے اس سے بدلہ لینے پر اکسانے کیلئے اکثر جیل میں ملنے بلاتا تھا پر میں نے کبھی اس کا ساتھ دینے کیلئے حامی نہیں بھری"۔ وہ زخمی دل سے یہ سب بتا رہی تھی۔ 

 "پھر بھی اس نے اپنے ایک آدمی کے ذریعے مجھے قیصر سے متعلق ساری معلومات پر مشتمل ایک فائل مہیا کی بمع اس کی تصویر کے۔ اس طرح میں اس کا چہرہ کبھی نہ بھول سکی۔ لیکن میں نے پھر بھی اس سے بدلہ لینے کا کبھی نہ سوچا۔

جب تک کے ایک دن وہ شدید زخمی حالت میں ہسپتال نہ لایا گیا۔ جہاں میں ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے موجود تھی"۔ وہ لحظہ بھر کو ٹھہر گئی۔

"وہاں میں نے پہلی بار اسے روبرو دیکھا۔ تصویر کے مقابلے میں حقیقی آنکھوں سے اسے دیکھنے پر نفرت زیادہ محسوس ہوئی تھی۔ اس لیئے بہت کمزور لمحے میں میں نے ایک دن اس پر حملہ کیا۔ جسے میرے سامنے ٹھیک کرنے کیلئے لایا گیا تھا اس پر، جان لیوا حملہ کیا میں نے"۔ پہلی بار وہ کسی غیر کے سامنے اس موضوع پر بولی تھی۔ اپنی خاموشی توڑی تھی اس نے۔ 

اس کے یوں آنسو بہانے پر غزل کو اس پر ترس آیا۔

"آئم سوری زیست، پلیز مجھے معاف کردو۔ میں نے تمہاری تکلیف کا اندازہ لگائے بغیر یہ ذکر چھیڑ دیا۔ ویری سوری"۔ وہ اسے ساتھ لگائے ازحد شرمندگی سے کہہ رہی تھی۔

"نہیں، بلکہ میں تمہارا شکریہ ادا کرتی ہوں۔ تمہاری وجہ سے میرے دل پر کئی عرصے سے پڑا بوجھ اتر گیا اب میں پرسکون ہو گئی ہوں"۔ وہ اپنے آنسو صاف کرتی مسکرائی۔

"ایک بات تم سے ضرور کہنا چاہوں گی زیست"۔ غزل نے اس کے ہاتھ تھامتے ہوئے نرمی سے کہا۔

"کون سی بات؟"۔ وہ سوالیہ نظروں سے اس کا چہرہ تکنے لگی۔

"قیصر کو میں نے الوینا کے معاملے میں دیکھا ہے وہ اپنے رشتوں کو لے کر بہت زیادہ حساس اور سنجیدہ انسان ہے۔ اگر کوئی ایک بار اس کا اپنا ہو جائے تو چاہے دوسرے اسکی کتنی ہی مخالفت کر لیں، وہ انہیں کبھی نہیں چھوڑتا۔ 

اس نے تمہارے ساتھ جو کیا وہ الوینا کی محبت میں آ کر کیا۔ اور میں الوینا کی دوست ہونے کی حیثیت سے یہ جانتی ہوں کے وہ اسے ہر حال میں خوش دیکھنا چاہے گی۔ اس لیئے میری تم سے درخواست ہے، ماضی کو ذہن میں رکھ کر کبھی اس سے نفرت نہ کرنا۔ اپنے حال اور مستقبل میں اس کے ساتھ خوش رہو۔ ایک دوست ہونے کی حیثیت سے میں تم دونوں کیلئے دل سے یہی چاہتی ہوں"۔ وہ اسے بےحد نرمی سے سمجھا رہی تھی۔ ایک ہمدرد اور غمگسار دوست کی طرح۔

زیست نے اس کی اس بات کی تائید کی تھی۔ اور یقین دلایا کے وہ اسے الوینا جیسی ہی بےلوث محبت دے گی۔  گو وہ اس جیسی نہیں بن سکتی تھی لیکن اتنے دکھوں سے گزرنے کے بعد وہ اب کبھی اسکی تکلیفوں میں اسے تنہا نہ چھوڑنے کا عہد خود اپنی ذات سے کر چکی تھی۔

اسکے جانے کے تھوڑی ہی دیر بعد ہارون کی بیٹے کے ساتھ واپسی ہوئی تھی۔ فائزہ کے بلاوے پر وہ بیٹے کو ان سے ملوانے لے گیا تھا۔ مختار صاحب کے گزر جانے کے بعد وہ اب اپنی بھتیجیوں کے ساتھ رہ رہی تھیں۔ جن کے والدین گزر چکے تھے۔

چونکہ غزل آج کے دن زیست سے ملنے کا کہہ چکی تھی اس لیئے وہ نہ جا سکی۔

سوئے ہوئے مرسلین کو بیڈ پر لٹانے کے بعد وہ دونوں لاؤنج میں آ گئے۔

"مل لیا تم نے اس سے؟"۔ پانی کا گلاس اس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے وہ پوچھنے لگا۔

غزل اسکے برابر آ بیٹھی۔

"ہاں، بہت کچھ برا ہوا ہے بےچاری کے ساتھ"۔ وہ اسکے ساتھ رونما ہوچکے حادثات و واقعات سن کر اب بھی اس کیلئے اداس تھی۔

"جانتا ہوں۔ فیض انکل سے ساری کہانی سن رکھی ہے میں نے"۔ خالی گلاس میز پر رکھتے ہوئے اس نےعام سے انداز میں بتایا۔

غزل حیرانگی سے اسے دیکھنے لگی۔

"اور آپ نے مجھے اس سب کے متعلق کچھ بتایا ہی نہیں،  کیوں؟"۔

"اس لیئے کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کے تم وہ سب باتیں جان کر خواہ مخواہ پریشان ہو جاؤ۔ جیسے اب ہو رہی ہو"۔ وہ سنجیدہ نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔

اس بات پر غزل نے تھکی تھکی سی سانس فضا کے سپرد کی۔

ہارون نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھام لیا۔

"دیکھو غزل یہ ان کا آپسی معاملہ ہے اس لیئے ہمیں مداخلت نہیں کرنی چاہیے اور پھر میں نہیں چاہتا کے وہ قیصر اس بات کو بنیاد بناتے ہوئے ہم سے پھر الجھے۔ تم سجھ رہی ہو نا؟"۔ وہ صاف طور پر اسے زیست سے مزید رابطہ رواں نہ رکھنے کو کہہ رہا تھا۔

"دیکھیے میری بات بھی سنیے اب، قیصر اور آپ کا ایک دوسرے کو ناپسند کرنا ایک الگ معاملہ ہے۔ اسے ہم خواتین پر لاگو نہیں کیا جا سکتا یہ آپ مردوں کی آپسی رنجش ہے تو اس لیئے آپ کو ہی اس کا سدباب کرنا چاہیے۔ اور جہاں تک رہی زیست کی بات تو وہ ایک بےضرر سی لڑکی ہے اس کے ساتھ بہت کچھ برا ہو چکا ہے اس لیئے وہ قیصر کی جانب سے مجھے یا آپ کو کوئی نقصان نہیں دے سکتی ہے یہ آپ بھی سمجھیں"۔ وہ اسی کے انداز میں اپنی رائے دے رہی تھی۔

"کیا اب تم اس میں الوینا کو دیکھتی ہو؟ کم آن یار وہ ایک بالکل انجان عورت ہے اور سونے پہ سہاگہ یہ کے قیصر خیام کی بیوی بھی ہے۔ اس سے کچھ بعید نہیں ہے کیا کرے"۔ وہ اس کی رائے کی مخالفت میں بولا تھا۔

"دیکھیے، میں جانتی ہوں آپ میری فکر کے پیش نظر یہ کہہ رہے ہیں۔ آپ یقین کریں وہ ایسی ہرگز بھی نہیں ہے جیسا آپ سمجھتے اسے۔ اور رہی بات قیصر کی تو میں اتنا یقین سے کہتی ہوں کے جس شخص کی قید سے الوینا باعزت و بحفاظت نکل کر آئی ایسا شخص کسی عورت کو تو کم از کم اپنی دشمنی کا نشانہ ہرگز نہیں بنائے گا"۔ وہ اس کی بات سے صحمت نہ ہوئی تھی۔

اس کی اس بات پر وہ خاموش ہوگیا۔ کیونکہ اب اسے سمجھانا بےمقصد تھا۔ 

غزل اسے خفا ہوتے دیکھ کر فورا اس کے کندھے سے لگ گئی۔

"اچھا آئم سوری، اب آپ بلاوجہ خفا مت ہوں اس طرح"۔ وہ صلح جو انداز میں بولی۔

وہ ناچاہتے ہوئے بھی مسکرا دیا۔

"میں تم سے خفا نہیں رہ سکتا۔ وہ بھی کسی غیر کی وجہ سے"۔ اس کے گرد حصار بناتے وہ ناراضگی شروع ہونے سے قبل ختم کردینے کا اعلان کر چکا تھا۔

وہ بھی مطمئن سی ہو کر مسکرائی تھی۔

                                 ☆☆☆☆☆

 کھڑکی پر گرے پردے جوں ہی کسی نے سرکائے تیز روشنی اس کی بند آنکھوں کو کھبنے لگی۔

"امی پلیز بند کر دیں اسے میرا ابھی اٹھنے کا دل نہیں کر رہا"۔ تکیہ منہ پہ رکھتے ہوئے اس نے اپنے ارادے بتائے۔

نرمین پریشانی سے اس کے نزدیک چلی آئیں۔

"ماہا! مجھ سے نہیں چھپا سکتی ہو تم۔ اور تمہیں کیا لگتا ہے کہ مجھے یہ ہر وقت رویا ہوا چہرہ اور تمہارے بوجھل دل کا راز معلوم نہیں ہوگا؟ آخر یہ کب تک چلے گا بیٹا؟"۔ وہ اس کیلئے ازحد فکرمند تھیں۔

تکیہ پرے پھینک کر وہ اٹھ بیٹھی۔

"تو اور میں کیا کروں امی آپ ہی بتائیں؟ اپنے دل پر پڑا یہ بوجھ کیسے برداشت کروں؟ میں کتنی پاگل تھی کے جس شخص نے دھوکے سے اتنے سال میرے بھائی کو قید میں رکھا، انہیں اتنا ٹارچر کیا کے وہ نہ آپ کو، نہ ڈیڈ کو اور نہ اپنی بہن کو پہچان پا رہے ہیں۔  کیسے اس سب سے آنکھیں چرا لوں؟"۔ وہ ان کے گلے لگتی سسکیوں کے درمیان بول رہی تھی اور نرمین کا دل مزید کٹ رہا تھا۔

"کیسے کر لیا اس نے ایسا؟ کیسے وہ اپنے دوست کے ساتھ اتنا ظلم کر گیا؟"۔ اس کے لب بار بار یہی دہراتے جاتے تھے۔

"بس میرا بچہ، اللہ نے میرے بیٹے کو اور تمہارے بھائی کو دشمن کی قید میں زندہ رکھا اور وہاں سے صحیح سلامت اسے ہم تک لایا۔ یہ کوئی کم بات نہیں ہے بیٹا۔ ہمیں اپنے رب کا شکر ادا کرنا چاہیئے کے میکائیل ٹھیک ہے۔ اور تم دیکھنا وہ دن دور نہیں جب وہ پھر سے ہمارے پاس لوٹ آئے گا۔ یقین رکھو تم"۔ اس سے علیحدہ ہو کر وہ اس کے آنسو پونچھتی تسلی دے رہی تھیں۔

جس سے ماہا کا رونا اب کم ہو چکا تھا۔

"ان شاء اللہ امی، وہ دن جلد آئے گا"۔ اس نے زیر لب دہرایا۔

فیض صاحب دروازے میں ایستادہ ان دونوں کو دیکھ کر اداسی سے مسکرا دیئے۔

نرمین کی ان پر نگاہ پڑی تو وہ بھی ان ہی کی طرح مسکرا دی۔

میکائیل کی واپسی نے ان میں نئی روح پھونک دی تھی مگر اس کا انہیں پہچان نہ پانا انہیں حد سے زیادہ تکلیف اور شاک سے دوچار کر رہا تھا۔

وہ سب اس مشکل وقت میں ہمت و حوصلے سے کام لیتے ہوئے کسی طرح ایک دوسرے کو سنبھال رہے تھے۔

                                 ☆☆☆☆☆

ہسپتال کے بیڈ پر آنکھیں بند کیئے لیٹا وہ دواؤں کے زیر اثر تھا۔

آہستگی سے قدم اٹھاتا وہ اس کے نزدیک چلا آیا نظریں اسکے زرد پڑتے کمزور چہرے پر تھیں۔

وہ اس کے بیڈ کے پاس موجود اسٹول کھسکا کر اس کے نزدیک بیٹھ گیا۔

"کس حال کو پہنچ گئے تم!"۔ اس کے ڈرپ لگے کمزور ہاتھ کو بےحد احتیاط سے اس نے تھام لیا۔

لمس محسوس کرنے پر اس کی پلکوں میں حرکت پیدا ہوئی تھی۔ 

"قیصر"۔ غنودگی میں وہ اسے پکارنے لگا۔

وہ تیزی سے اٹھ کر نزدیک آیا۔

"ہاں! میں یہیں ہوں میرے دوست۔۔۔یہیں ہوں"۔ اس کی پیشانی سہلاتے اس نے اپنی موجودگی کا احساس دلانا چاہا۔

"تم آگئے۔۔۔باس"۔ وہ نقاہت زدہ سا مسکرایا۔

"کیسے نہ آتا؟ کیا کبھی اپنے دوستوں کو اکیلا چھوڑا ہے جو اب چھوڑ دیتا"۔ اس کی آواز بھرانے لگی۔

"لیکن۔۔۔اس بار تم نے۔۔۔دیر کردی یار۔ مجھے لگا میں وہاں۔۔۔مر جاؤں گا"۔ وہ ان وقتوں کو یاد کرتے ہوئے افسردگی سے کہہ رہا تھا۔

اور قیصر کی آنکھوں میں جمے آنسو پگھلنے لگ گئے۔

اپنے شانے پر دباؤ محسوس کرکے اس نے جلدی سے آنکھیں صاف کی اور مڑا۔ 

سامنے موجود ہستی کو دیکھ کر ہی اس کے چہرے پر سختی پھیل گئی۔

"آئم سوری غلط وقت پر آنے کیلئے۔ مگر میں ان کا بیان لینے آیا ہوں"۔ ہارون نے سنجیدگی سے کہتے اپنی آمد کی وجہ بتائی۔

"آئم سوری ٹو آفیسر، لیکن میرا دوست ابھی اس حالت میں نہیں ہے"۔ اس نے قدرے ناگواری سے کہا اور باہر جانے لگا تھا جب اس نے بازو تھام کر روک لیا۔

"دیکھو قیصر میں اب وہ پرانا والا ہارون نہیں ہوں جسے تم چکما دے کر بھاگ جایا کرتے تھے"۔ وہ نا چاہتے ہوئے بھی تلخی اختیار کر گیا۔

قیصر نے ایک جھٹکے سے اپنا بازو چھڑوایا۔

"اصل میں تو میں وہ پرانا والا قیصر نہیں ہوں۔ جسے تم گرفتار کرنے کیلئے سونگھتے پھرتے تھے۔

 بہت آئے تم میرے راستے میں تب، اور بہت روڑے اٹکائے لیکن میں نے کوئی جوابی کارروائی نہیں کی۔۔۔مگر اب۔۔"۔

رخ موڑ کر وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتا عین اس کے مقابل آ گیا۔

"آج کے بعد دوبارہ کبھی تم نے میری راہ میں حائل ہونے کی کوشش کی تو یاد رکھنا۔۔۔میں وہاں سے تمہیں کچلنے کے بعد ہی آگے بڑھوں گا ہارون عالم!"۔ اپنی بات مکمل کرکے وہ اس کے کندھے سے ٹکرا کر آگے بڑھا تھا۔

ہارون بڑی مشکل سے خود پر قابو کیئے رہا۔ وہ وہاں ایک پولیس آفیسر کی حیثیت سے آیا تھا۔ فی الفور اپنے معیار کے برخلاف کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا تھا۔

                                  ☆☆☆☆☆

ایک سال بعد!

"غزل؟"۔ شرٹ کے بٹن باندھتے ہوئے اس نے مصروف سے انداز میں کوئی تیسری مرتبہ آواز دی تھی۔

وہ جو بیٹے کو نہلا دھلا کر اس کا ہاتھ پکڑے کمرے میں داخل ہو رہی تھی ہارون کی پکار پر بولی۔

"جی جی جی، آپ کا کوٹ، آپ کی گھڑی اور یہ رہا آپ کا پرفیوم"۔ ترتیب سے آراستہ کی ہوئی ہر چیز کی جانب اشارہ کرکے آخر میں پرفیوم لا کر اس پر اسپرے کر دیا۔

"تھینک یو ڈیئر!"۔ وہ محبت پاش نگاہوں سے اسکی جانب دیکھتا مشکور ہوا۔

"یہ تیا (کیا) بابا؟ آپ تو مشلین (مرسلین) سے بھی لٹل ہو"۔ اپنے چھوٹے سے ہیئر برش سے بال سیٹ کرتے ہوئے وہ باپ کا مذاق اڑاتا ہنس رہا تھا۔

اس کی بات سن کر غزل نے بمشکل اپنی مسکراہٹ  چھپائی۔

وہ کمر پہ ہاتھ جمائے دونوں ماں بیٹے کو اپنی کھنچائی کرتے دیکھ رہا تھا۔

"اچھا بیٹا، خود کو تو ابھی ابھی امی نہلا دھلا کر لائیں اور میرے بارے میں یہ رائے دی جا رہی ہے، ہوں!"۔ اس کے نزدیک پنجوں کے بل بیٹھتا وہ اس کے پھولے ہوئے سپید گال کھینچ کر بولا۔

"اوف! میں تو شوٹا (چھوٹا) ہوں نا!"۔ اپنی جانب سے اس نے خاصی مضبوط دلیل پیش کی تھی۔

ہارون کی آنکھیں کھلی رہ گئیں۔ جبکہ غزل ان کی گفتگو سے لطف اندوز ہوتی مسکرائے جا رہی تھی۔

"یہ لو سن لو"۔ ہارون نے بیوی کو متوجہ کرتے ہوئے کہا۔

"آپ ہی سنیں، میں تو گھر میں رہ کر یہ روز سنتی ہوں"۔ وہ شانے اچکا کر یہ کہتی اپنا ڈریس اٹھائے چینج کرنے چلی گئی۔

وہ ہکا بکا کھڑا رہ گیا۔

"ہم تو اتنے ایڈوانس نہ تھے۔ خاندان کے کس چالاک شخص پہ گیا ہے یہ لڑکا؟"۔ وہ تاسف سے سر ہلاتے ہوئے بڑبڑایا تھا۔

"بابا، آپ نے مشلین سے تہا(کہا) تیا(کیا)؟"۔ وہ بغور ہارون کے ہلتے لب دیکھتا کچھ اخذ نہ کرسکا تو پوچھ لیا۔

اس نے آگے بڑھ کر مرسلین کو اٹھایا۔

"یہی کے جیتے رہو میرے شیر، تم اپنے باپ سے بھی بہت آگے جاؤ گے ان شاء اللہ"۔ وہ دل ہی دل میں اس کے شاندار مستقبل کیلئے دعاگو ہوا تھا۔

                               ☆☆☆☆☆

پنک اور سی گرین رنگوں سے مزین انار کلی فراک میں ملبوس وہ میچنگ جیولری زیب تن کر رہی تھی جب وہ پکارتا ہوا کمرے میں آ رہا تھا۔ اسے دیکھ کر دروازے میں ہی رک گیا۔

"کیا بات ہے! آج تو کوئی غضب ڈھا رہا ہے"۔ رائل بلیو سوٹ میں ملبوس وہ سینے پہ ہاتھ باندھے مخمور لہجے میں گویا ہوا۔

اپنے سوفٹ کرل کیئے براؤن بالوں کی لٹ پیچھے کرتے ہوئے وہ اس کے توصیفی انداز پر دلکشی سے مسکرائی۔

اس نے زرا کمرے میں نگاہیں دوڑائیں تو کچھ کمی سی لگی۔

"اور ہماری بےبی کہاں ہیں بھئی؟ ان کو صبح سے نہیں دیکھا۔ مصروفیات ہی کچھ ایسی تھیں"۔  

"زوہا کو اعظم بھائی لے کے گئے ہیں کچھ دیر پہلے۔ امی کے پاس"۔ دوپٹہ اٹھا کر کندھے سے لگاتے ہوئے وہ بولی۔

اس نے ایک نظر مصروف سی زیست کو دیکھا۔ پھر یک دم اسے شرارت سوجھی۔

"اچھا تو، پھر کچھ دیر کیلئے ہم بےبی کی امی سے ہی گفتگو کر لیتے ہیں"۔ اس کے گرد حصار بناتے ہوئے وہ آئینے میں اس کی سنہری رنگت والے چہرے کا عکس ملاحظہ کرتا مسکرایا۔

"جی نہیں، مجھے لگتا ہے کے اس گفتگو میں کافی وقت جائے گا دولہن کے بھائی کا۔ اس لیئے ہم کبھی فرصت میں اس پہ غور کریں گے"۔ رخ مڑ کر وہ اس کی سرمئی آنکھوں میں دیکھتی جوابا بولی تھی۔

"اچھا تو ہماری بیگم صاحبہ یہ سوچتی ہیں"۔ اس کے رخسار کو دو انگلیوں سے چھوتے وہ بولا۔

"جی ہاں۔ اب چلیں نیچے مہمان آنا شروع ہو گئے ہوں گے"۔ اپنا آپ اس کے بازوؤں سے چھڑوا کر وہ جلدی جلدی جوتے پہننے لگے۔

"بہت اچھے! ماضی کے سارے بدلے گن کے لیئے جا رہے ہیں ہم سے"۔ وہ منہ بنائے خفگی سے کہہ رہا تھا۔

"ہاں تو ٹھیک بھی ہے۔ تم بھی زرا اپنی دوا چکھ لو جو آج تک دوسروں کو دیتے آئے"۔ اس نے اثر نہ لیتے ہوئے زرا سنجیدگی سے کہا۔

ابھی وہ اس کی بات کر اثر قبول کرنے ہی لگا تھا کہ اسے سبز آنکھوں میں شرارت کی چمک نظر آ گئی تھی۔

"میں تو یہ دوا چکھ چکا ہوں۔ لیکن اب زرا تمہیں بھی اس کا ذائقہ چھکنا لازم ہے"۔ یہ کہہ کر وہ اس کی جانب لپکا تھا۔

وہ کھلکھلا کر ہنستی اس کی پہنچ سے دور ہوگئی تھی۔ وہ اسے گھیرنے کو آگے بڑھا۔

"نہیں دیکھو پلیز، میں بھاگ نہیں سکتی۔ ہیلز پہن رکھی ہیں"۔ وہ گھبرا کر کہتی اسے روکنے کی سعی کر رہی تھی۔

"یہ تو تمہیں مجھ سے پنگا لینے سے پہلے سوچنا چاہیئے تھا"۔ کہتے ساتھ ہی وہ آگے بڑھا۔

"نہیں، رک جاؤ"۔ اسکی ہنسی چھنکتے سکوں کی مانند اطراف میں گونج رہی تھی۔

وہ بھی ہنستا ہوا اس کے تعاقب میں کمرے سے باہر بھاگا تھا۔

اور اس سے قبل کے وہ دوڑتی ہوئی لڑکھڑاتی، عین اس وقت وہ اسے سنبھالنے کو وہاں پہنچ گیا تھا۔

                               ☆☆☆☆☆

اسٹیج پر سلور کلر کے ڈریس میں، ہلکے پھلکے میک اپ و زیورات سے آراستہ منگنی کی دلہن بنی بیٹھی ماہا قدرے نروس دکھائی دیتی تھی۔ اس کے برابر وہ شخص بیٹھا تھا جو اسے اپنے نام کی انگوٹھی پہنا کر اس پل سے اس کی زندگی کا اہم حصہ بن گیا تھا۔

بلیک سوٹ میں ملبوس خوبرو اور سوبر سے عالیان کو اپنے برابر دیکھ کر اسے اپنی قسمت پہ رشک آ رہا تھا۔ کیونکہ اس کے مطابق وہ ہر طرح سے اس قابل تھا کے اسے ایک آئیڈیل ہمسفر کے طور پر دیکھا جاتا۔

 مگر ایک طرح کی جھجھک بھی تھی ان میں۔ کیونکہ اس سے قبل وہ دونوں دوست کی حیثیت سے ایک دوسرے کو دیکھتے آئے تھے۔ جبکہ ان کے خاندان نے آپس میں یہ طے کرنے کے بعد مناسب سمجھا کہ ان دونوں کو رشتہ ازدواج میں باندھا جائے۔ اس فیصلے میں زیادہ تر ہاتھ فیض بخاری کا تھا۔ ان کے مطابق عالیان ہی ہر طرح سے ان کی بیٹی کے شایان شان تھا۔ 

ماہا کیلئے شروع میں یہ فیصلہ زرا مشکل تھا۔ مگر نرمین نے اس کے ہر خدشے کو دور کردیا۔ گو اس پر کوئی دباؤ نہ ڈالا گیا تھا ان کی جانب سے۔ اسے آزادی دی گئی تھی ہر فیصلے کی۔ 

بہت سوچ بچار کے بعد جا کر اس نے اپنی ماں کو مثبت اشارہ دیا تھا۔

جہاں تک عالیان کی بات تھی تو اس کیلئے ایسی کوئی مشکل نہ تھی۔ اس نے اپنے گھر والوں کے فیصلے پر حامی بھرلی تھی۔ البتہ اس کی شرط یہی تھی کہ ماہا کی رضامندی شامل ہو۔ 

اور آج اسی فیصلے کے نتیجے میں وہ دونوں رشتہ ازدواج کے پہلے مرحلے میں داخل ہوئے تھے۔ ایک وعدہ وہ کرچکے تھے ایک دوسرے سے، مستقبل قریب میں ایک مضبوط رشتہ قائم کرنے کا وعدہ! 

"ارے مبارک ہو میرے یار، آخرکار تم نے دولہا بننے کیلئے وقت نکال ہی لیا"۔ زر نے مبارکباد دیتے ہوئے آخری بات اسکے کان میں کہی تھی۔

جس پر عالیان نے کہنی اس کے پیٹ پہ ماری۔ 

وہ بلبلا اٹھا۔

"اوف اتنی زور سے مارا مجھے۔ ماہا اب بھی وقت ہے سنبھل جاؤ۔ اس عالیان کو دوسروں کو پیٹنے کی بری عادت ہے یہ میں ابھی سے تمہیں بتائے دے رہا ہوں"۔ پیٹ سہلاتے ہوئے وہ اسے وارن کر رہا تھا۔

"کیا کان بھرے جا رہے ہیں میری بہن کے؟"۔ زر کی گردن پیچھے سے کسی نے ہاتھ میں دبوچ لی تھی۔

جس پر وہ دونوں ہنس پڑے تھے۔

"یار میکائیل میری گردن چھوڑو بہن کے سامنے ذلیل نہ ہو جانا تم دوست کے ہاتھوں"۔ وہ پھنسی پھنسی سی آواز میں کہتا اسے خبردار کر رہا تھا۔

"بہت بک بک کرتے ہو۔اسی طرح جاری رہا تو کسی دن میں نے تمہارا یہ گلا سچ میں دبایا تو اس سے ہوا نکلنے کے بعد ہی چھوڑوں گا"۔ جواب اس نے بھی بھرپور دھمکی دی

"ارے یار اب اپنے دوست اور اپنی بہن سے مذاق بھی نہ کرے بندہ؟"۔ اپی گردن دائیں بائیں گھما کر ورزش دیتے وہ اپنی صفائی میں بولا تھا۔ 

سوٹڈبوٹڈ نک سک سے تیار وہ زر کی بات انجوائے کرتا مسکرایا تھا۔

پچھلے آٹھ ماہ کی مسلسل کوششوں کے بعد جا کر اس سے ڈرگز کی لت چھڑوائی گئی تھی اور دو ماہ قبل ہی وہ پہلے والا میکائیل بن کر بخاری فیملی کی بےرنگ و اداس زندگی کو دھنک کے رنگوں میں تبدیل کرنے واپس آگیا تھا۔

ماہا اس کے چہرے کی مسکراہٹ دیکھتی دل ہی دل میں اس مسکراہٹ کے دائمی ہونے کی دعا کر رہی تھی۔

"زر بھائی آپ تو یوں چغلیاں لگا رہے ہیں جیسے میں عالیان کو جانتی ہی نہیں؟"۔ وہ ابرو اچکا کر کہتی صاف عالیان کا دفاع کر رہی تھی۔

اس کے اس انداز پر جہاں عالیان مطمئن ہو کر مسکرایا وہی زر عش عش کر اٹھا۔

وہ اسے نظرانداز کیئے کن انکھیوں سے عالیان کا خوشی سے چمکتا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ عین اسی وقت اس نے بھی نظروں کا رخ ماہا کی جانب کیا۔

نگاہوں کے اس تصادم پر وہ جلدی سے سر جھکا گئی۔

 عالیان نے اسکے اس انداز پر دلچسپی سے مسکراتے ہوئے نگاہوں کا زاویہ بدل لیا۔ 

اس نے ایک بار بھی شہیر کے حوالے سے ماہا سے کوئی تلخ جملہ نہیں کہا تھا یا کوئی ایسا سوال نہ کیا تھا جس سے اسے تکلیف پہنچے۔ بلکہ اس نے اسے سمجھنے کی کوشش کی تھی۔ 

یہ بات اس کی نگاہ میں عالیان کی قدر و قیمت مزید بڑھا گئی تھی۔

"میکائیل، یہاں آؤ بیٹے کچھ رشتہ دار ملنا چاہتے ہیں"۔  فیض بخاری نے اسے پکارا تھا جو زر اور عالیان سے محو گفتگو تھا۔

"یس ڈیڈ، ابھی آیا"۔ ان سے معذرت کرنے کے بعد وہ باپ کے پاس پہنچا تھا اور خوشدلی سے سب سے ملنے لگا۔

فیض صاحب نے اس کے غائب ہونے سے متعلق بتا رکھا تھا کے وہ لندن میں اپنی مزید تعلیم جاری رکھنے کی غرض سے مقیم ہو گیا ہے۔ لہٰذا کسی نے زیادہ سوالات نہ کیئے تھے۔

مہمان کوئی باہر کا نہ تھا۔ رشتہ دار یا جو بھی ان کے حلقہ احباب میں جاننے والے تھے صرف انہی کو مدعو کیا گیا تھا دونوں جانب سے۔

انہی میں ایک چہرہ ہاجرہ شفیق کا بھی تھا۔ جنہیں شوہر کے انتقال کر جانے کے بعد زیست اور قیصر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ ایک بزرگ کی حیثیت سے۔ وہ ان کی مشکور و ممنون تھیں۔ 

"زیست بیٹا اسے دیکھو زرا، بےچاری بچی رو رو کر ہلکان ہو گئی ہے"۔ فرزانہ جو ہاجرہ بیگم کے ساتھ بیٹھیں بڑی دیر سے زوہا کو سنبھالنے کی کوشش کر رہیں تھیں اس کا رونا ہر پل بڑھتا دیکھ  کر وہ خاصی پریشانی سے بیٹی کی طرف آئیں۔

"لائیں مجھے دیں اسے، میرا بچہ کیوں روئے جا رہا ہے"۔ اس نے بیٹی کو گود میں لے کر اس کے مسلسل بہتے آنسو صاف کیئے۔

"قیصر جو دیکھ لیں اسے اس طرح تو مجھ پر برس پڑیں گے"۔ اسے چپ نہ ہوتے دیکھ کر زیست کو اپنی فکر لگ گئی۔

ہاتھ میں پکڑا فیڈر وہ بار بار اس کے منہ سے لگاتی اور وہ اسے ہاتھ مار کر دور کر دیتی یا منہ پھیر لیتی۔

"یا اللہ! یہ بالکل قیصر کی پرتو ہے"۔ اس کی ضد دیکھ کر وہ بےساختہ بولی۔

اس کی بات سن کر قریب آتی غزل ہنس پڑی۔

"کیا ہوا ہیلپ چاہیئے کیا؟"۔ اس نے آفر دیتے ہوئے کہا۔

"پتہ نہیں یار اسے کیا ہو گیا ہے۔ فیڈر کو تو منہ ہی نہیں لگا رہی بس روئے جا رہی ہے، تم ہی کوشش کرو زرا"۔ غزل کے کہنے پر اس نے زوہا کو اسکے حوالے کر دیا۔

"او بےبی! کیا ہوا ہماری شہزادی کو!"۔ وہ اسے بانہوں میں جھلاتے پیار سے کہہ رہی تھی مگر وہ بجائے خاموش ہونے کے اور زیادہ رونے لگی۔

مرسلین جو تب سے کھڑا ان کی کاروائی دیکھ رہا تھا اس نے اپنی جانب سے ایک حل پیش کیا۔

"آپ بےبی تو (کو) باہر تیوں (کیوں) نہیں لے جاتی آنٹی؟"۔ 

اس کی بات سن کر وہ دونوں ایک دوسرے کا منہ تکنے لگیں۔ پھر زیست کو ہی خیال آیا۔

"اوہ! شاید زوہا کو بھیڑ سے الجھن ہو رہی ہے تبھی وہ ایسا کر رہی"۔ 

"ہاں شاید ہو بھی سکتا ہے۔ چلو تھوڑی دیر کہیں اور لے جاتے ہیں اسے"۔ وہ بھی ساتھ ہی جانے لگی۔

اس کے دوپٹے کا پلو تھامے پیچھے پیچھے مرسلین بھی ان کے ساتھ چل پڑا تھا۔

                             ☆☆☆☆☆

وہ اسے لیئے ٹیرس پہ آ گئے۔ 

جہاں توقع کے عین مطابق بچی تھوڑی ہی دیر میں پرسکون ہو گئی تھی۔

"شکر ہے یہ چپ ہو گئی"۔ اس کے گال چوم کر زیست نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"مرسلین تھینک یو میری جان آپ نے بہت اچھا آئیڈیا دیا۔ ورنہ میرا ذہن تو کام کرنا بند کرگیا تھا"۔ مرسلین کے پھولے ہوئے گال تھپتھپاتی وہ تشکر بجا لائی۔

جبکہ وہ معصومیت سے مسکرا دیا۔

"آنٹی تیا (کیا) میں بےبی تو(کو) اٹھا لوں؟"۔ اس نے اتنی معصومیت سے پوچھا کے زیست اور غزل دونوں کو اس پر ڈھیروں پیار آنے لگا۔

"نہیں بیٹا، زوہا بہت چھوٹی ہے آپ اسے کیسے اٹھاؤ گے۔ دونوں کو چوٹ لگ جانی ہے گر کر"۔ اسے گود میں بٹھاتے ہوئے غزل نے نرمی سے سمجھایا۔

اس کی بات پر وہ مایوسی سے منہ پھلا گیا۔

"کیوں دل توڑ رہی ہو ہمارے شہزادے کا۔ مرسلین  اِدھر  آؤ بیٹا"۔ زیست نے اس کا خفگی بھرا چہرہ دیکھ کر اپنے پاس بلایا۔

وہ ماں کی گود سے اتر کر خاموشی سے اس کی جانب چلا آیا تھا۔

"ایسے ہاں"۔ زوہا کو اس نے اس کے ننھے سے ہاتھوں میں تھمایا مگر اس طرح کے زیست نے اب بھی اسے تھام رکھا تھا تاکہ سارا وزن اس چھوٹے سے بچے پر نہ پڑے۔

اس کی خوشی دیدنی تھی۔

"امی اسکی آئیز گلین (گرین) ہیں"۔ وہ پرجوش سا ہو کر ماں کو یوں بتا رہا تھا جیسے اس نے کوئی انوکھی چیز دریافت کرلی ہو۔

وہ دونوں اسکی بات پر ہنس پڑیں۔

"ہاں کیوں کے اس کی آنکھیں اپنی امی پر گئی ہیں مرسلین، جیسے آپ کی آئیز آپ کے بابا جیسی ہیں۔ ڈارک براؤن"۔ وہ اسے تفصیل سے اس کا مطلب سمجھا  رہی تھی۔

جبکہ وہ دلچسپی سے اس بڑی بڑی سبز آنکھوں اور گلابی گالوں والی بچی کو دیکھ رہا تھا۔

وہ جو انہیں ڈھونڈتے ہوئے وہاں آن پہنچا تھا سامنے کا منظر دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔

"یہ کیا ہو رہا ہے؟"۔ 

اس کے یوں اچانک پکارنے پر وہ دونوں گڑبڑا سی گئیں۔

"کچھ نہیں یہ بچہ بےچارہ۔۔۔"۔ 

"ڈا۔۔۔ڈا"۔ وہ جو اپنی ہی ذات میں مگن تھی باپ پر نگاہ پڑتے ہی خوشی سے چہکتی ہوئی اس کی طرف جانے کو ہمکنے لگی۔

"ہاں یہی بات، ایک بچے کے ہاتھ میں اتنی چھوٹی بچی تھما دی۔ کمال کی خواتین ہیں آپ دونوں بھی"۔ زوہا کو اس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے وہ اب ان کی کلاس لے رہا تھا۔ 

اس کی بات پر وہ دونوں سر جھکائے بیٹھی رہیں۔

جبکہ وہ اب زوہا کے وجود پر آگے پیچھے دیکھتے ہوئے جیسے کوئی ان دیکھا زخم تلاش کر رہا تھا۔

"گبر انتل(انکل) بےبی مجھے دو نا"۔ وہ ہاتھ بلند کرتا جیسے اس ناقابل رسائی وجود تک پہنچنا چاہ رہا تھا۔

اس کے گبر کہنے پر وہ دونوں منہ چھپائے ہنسی ضبط کرنے کی کوشش میں ہلکان ہو رہیں تھیں۔

اسکی فراٹے سے چلتی زبان نے قیصر کو حواس باختہ کردیا۔

"انکل؟ کاہے کا انکل بچو؟"۔ وہ بھنویں اکٹھی کیئے غصے سے بولا۔

مرسلین نے بھی تیوری چڑھاتے ہوئے دونوں ہاتھ کمر پہ رکھ لیئے۔

"میلے(میرے) بابا جیل میں ڈالیں دے(گے) آپ تو(کو)"۔

اس کے اس جواب نے جہاں نے زیست اور غزل کے چھکے چڑھائے وہی قیصر کو کلین بولڈ کردیا۔

"آج یہ زبان دیکھ کر یقین ہو گیا کے یہ ہارون ہی کا بیٹا ہے"۔ انگلی دکھا کر کہتے وہ اس پر چڑھ دوڑنے کو تھا۔

"مرسلین! بیٹے ایسا نہیں کہتے۔ وہ آپ کے بڑے ہیں نا؟ چلو شاباش سوری بولو"۔ غزل نے فورا اسے ٹوکا۔

ماں کی بات سن کر وہ شرمندہ سا ہوا۔

"سو۔۔ل۔۔ی"۔ اس نے حرف حرف بکھیر کر رکھ دیا سوری کا۔

"ہونہہ! سوری،مجھے جیل بھیجنے کی دھمکی دیتا ہے۔  بیٹا ابھی جتنے دانت تمہارے نکلے نہیں ہیں نا اس سے بھی زیادہ مرتبہ جیل دیکھ آیا ہوں میں"۔ وہ اندر ہی اندر کھولتا اسے مخاطب کر رہا تھا۔

"اٹس اوکے، چھٹانک بھر کا لڑکا مجھے جیل بھیجے گا"۔ جاتے ہوئے اس نے آخر کے الفاظ زیر لب کہے تھے۔

"آئم سوری زیست، اس سب کیلئے"۔ غزل خود بھی شرمندہ سی نظر آ رہی تھی۔

زیست اس کی بات پر ہنس پڑی۔

"کم آن یار، وہ ایک بچہ ہی تو ہے بیچارا۔ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں قیصر سے بات کر لوں گی"۔ اسکی تسلی کراتے ہوئے وہ بولی۔

پھر قیصر کے پیچھے جانے کو نکل گئی۔

غزل کو اس کی بات نے یک گونہ سکون بخشا۔ ورنہ وہ تو قیصر سے پنگا لینے کا سوچ کر ہی ہول رہی تھی۔

پھر وہ اس کی جانب متوجہ ہوئی۔

"مرسلین آپ نے آج بہت بری بات کی۔ گھر پہنچ کر زرا آپ کے بابا سے کہتی ہوں وہی کچھ سمجھائیں گے آپ کو"۔ اس کا ہاتھ پکڑے وہ اسے ہارون کے حوالے کرنے کی دھمکی دے رہی تھی۔ وہ متوقع ڈانٹ کا سوچ کر ہی منہ بنانے لگا تھا۔

                                 ☆☆☆☆☆

زوہا کو سلانے کے بعد وہ اس کی جانب چلی آئی جو بالکونی میں ایزی چیئر پر بیٹھا سگریٹ پھونک رہا تھا۔

زیست کو اس کے چہرے پر پھیلی سختی سے ڈر لگ رہا تھا۔

گو وہ اب زوہا کیلئے خود کو پہلے سے کافی حد تک بدل چکا تھا۔ مگر ایک چیز اس کے اندر آج بھی جوں کی توں تھی۔ اور وہ تھا اس کا طوفانوں کو مات دیتا غصہ۔ 

وہ جی کڑا کرکے اس کے نزدیک پہنچی۔ 

"قیصر میں۔۔۔"۔

اس کی بات درمیان میں ہی رہ گئی۔ وہ اسے ہاتھ دکھا کے خاموش کروا چکا تھا۔

"دروازہ بند کردو۔ اسکی نیند خراب ہو جائے گی"۔ گہرا کش لیتے ہوئے اس نے بےتاثر لب و لہجے میں حکم دیا۔

زیست کے وجود میں سرد لہر دوڑ گئی تھی۔ وہ سست روی سے اسکے حکم پر عمل پیرا ہوئی۔

"تم جانتی ہو نا مجھے میری بیٹی ہر شے سے زیادہ عزیز ہے زیست۔ جانتی ہو نا تم؟"۔ سگریٹ ایش ٹرے میں مسلتے ہوئے وہ شروع ہو چکا تھا۔

وہ جھکا سر اثبات میں ہلانے لگی۔

"تو اس قدر لاپرواہی کی کوئی وجہ تھی تمہارے پاس؟"۔ خود پر قابو رکھنے کے باوجود بھی اس کی آواز پھٹ رہی تھی۔

"آئم سوری، بچہ ضد کر رہا تھا تو۔۔۔"۔

"وہ بچہ ضد کر رہا تھا تو کھیلنے کیلئے اسے تم نے میری بیٹی دی؟ قیصر خیام کی بےبی!"۔  وہ اٹھ کر اسکے مقابل آتے گرجا تھا۔

"وہ میری بھی بیٹی ہے یہ تم کیوں بھول جاتے ہو"۔ وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھتی دکھ سے بولی۔

"تو پھر اس کا خیال رکھنا سیکھو، مجھے دکھاؤ کے تم واقعی اسے اپنا سمجھتی ہو"۔ وہ لفظ چبا چبا کر کہتا رخ موڑ گیا۔

دو قدم کا فاصلہ طے کرتی وہ اس تک آئی۔

"یہ غصہ ایسے ہی نہیں ہے۔ اسکی وجہ کچھ اور ہے، ہے نا؟"۔ اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ دھیمے پن سے بولی۔ 

وہ گہرا سانس لیتے مڑا۔ اسکے مضبوط ہاتھ نرمی سے اسکے شانوں پر آ ٹھہرے۔

"اس لڑکے کا وہ جملہ بہت چبھا ہے میرے دل کو زیست، اتنا کے میں وہ درد زبان سے بیان نہیں کر سکتا"۔ اس کا لہجہ حد درجہ سرد پڑ گیا تھا۔ 

زیست نے اس کا چہرہ تھام لیا۔

"وہ صرف ایک بچہ ہے قیصر۔ اس نے اپنی معصومیت میں اگر کچھ بول بھی دیا ہے تو تمہیں بڑا بن کر اسکی غلطی نظرانداز کردینی چاہیئے۔ نا کے اسے دل کا درد بنا لینا چاہیئے"۔ وہ اپنے مخصوص نرم خو انداز میں اسکی تکلیف بانٹ رہی تھی۔

قیصر نے اسکے ہاتھ تھام لیئے۔

"میں کیا کروں تمہارے جیسا عالیشان دل جو نہیں ہے میرے پاس درگزر کرنے کیلئے۔۔۔میں کیا کروں؟"۔ وہ بےبسی سے بولا۔

"کس نے کہا تمہارے پاس عالیشان دل نہیں ہے؟ کیا اپنی ایک بیٹی کیلئے کوئی ایسا باپ ثابت ہوا جو اس کی پیدائش کے دن کو عید منائے۔ جو اسکے ایک آنسو کیلئے ساری دنیا جلا دینے کے درپے ہوجائے۔ ایسا عالیشان دل صرف تمہارا ہی ہو سکتا ہے قیصر، اور کسی کا نہیں"۔ وہ اس کا وہ وصف بتا رہی تھی جسے دیکھ کر اس کے دل میں قیصر کی قدر و منزلت ہر چیز سے زیادہ بڑھ گئی تھی۔

"وہ بہت مشکل دور سے گزر کے آئی ہے زیست۔ جب وہ اس دنیا میں ہی نہیں تھی تب سے آس پاس کے لوگ اسے ختم کرنے کے درپے ہو گئے تھے۔ میں نہیں چاہتا اس پر ویسا وقت دوبارہ گزرے۔ وہ ہر مشکل کا سامنا کرکے، ہر مصیبت سے لڑ کے میرے پاس آئی ہے۔ اس دور میں جب میں اور تم نت نئی مصیبتیں جھیل رہے تھے۔ اس نے اپنی آمد کا عندیہ دے کر ہمیں نئی امید دی۔ دو نفرت سے بھرے دلوں کو جوڑ کر اللہ نے اسی کے ذریعے ان کے رشتے کو مضبوطی عطا کی ہے۔

تم ہی بتاؤ پھر کیا وہ میرے لیئے ایک عام سی بچی ہوگی؟ 

 ایسی بیٹی کیلئے میں اپنا آپ بھی قربان کرنے سے دریغ نہ کروں کبھی"۔ وہ زوہا سے اپنی محبت میں جنونی تھا یہ وہ جانتی تھی مگر کیوں تھا یہ اندازہ اسے آج ہورہا تھا۔

اب تو اسے بھی زوہا کی قدر و قیمت پتہ چل رہی تھی اور وہ اس کیلئے اپنی لاپرواہی پر پچھتاوے کا شکار تھی۔

"مجھے معاف کردو، جس طرح سے آج تک تم اسے دیکھتے آئے تھے وہ نظریہ میں کبھی سمجھ ہی نہ سکی۔ اپنی بیٹی کی قدر ویسے نہ کی جیسی کے وہ حق رکھتی تھی"۔ اس کے ہاتھ لبوں سے لگاتے وہ بھیگی آواز میں کہہ رہی تھی اور قیصر کو اس سے کچھ دیر قبل خراب رویہ اختیار کرنے پر افسوس ہونے لگا۔

"آئم سوری ٹو! تم ایسے الفاظ کی حقدار نہیں ہو جو میں نے غصے میں تم سے کہے"۔ اسے حصار میں مقید کرتے ہوئے وہ ندامت سے بولا تھا۔

"کوئی بات نہیں۔ تمہارا غصہ بھی میرا ہے"۔ چاہت سے لبریز آواز میں کہتی وہ اس کے دل کا ہر درد مٹا گئی تھی۔

اب کوئی تکلیف باقی نہ رہی تھی۔

                             ☆☆☆☆☆ 

جھک کر تازہ سرخ گلاب رکھتے ہوئے اس نے آنکھوں پہ موجود سن گلاسس اتار دیئے۔

"تمہارے جانے کے بعد زندگی نے بہت اتار چڑھاؤ دیکھے الوینا، لیکن تم سے کیئے گئے وعدے کے مطابق میں نے زندگی سے منہ نہیں موڑا اور ہر مشکل و مصائب کا مقابلہ کرکے اپنی بقا کیلئے لڑتا رہا۔ تم سے کیئے وعدے کو ایفا کرنے کیلئے لڑتا رہا"۔ وہ سر جھکائے مٹی پر ہاتھ پھیرتا کہہ رہا تھا۔

"تم چھوڑ گئی مجھے اکیلا۔ حالانکہ تمہارے سوا میرے پاس اپنا کوئی نہیں تھا۔ مگر میں تم سے جانے کا شکوہ کروں بھی تو کیسے؟ کیونکہ اس سب کی وجہ تو میں خود ہی تھا۔ میں جو ایسا بےرحم و بےضمیر شخص تھا جس کی آدھی سے زیادہ عمر بڑے سے بڑا گناہ بھی ماتھے پر ایک شکن تک لائے بغیر انجام دینے میں گزری۔ اور تم! ایک رحمدل شہزادی جس نے میرے بنجر دل کو سرسبز بنانے کیلئے اپنا آپ بھی کھو دیا اور خاک ہو گئی"۔ مٹی اس نے مٹھی میں بند کرلی۔

سرمئی آنکھیں بھیگ رہیں تھی۔

"تم نے میرے لیئے اپنی ہستی بستی زندگی ترک کرکے میرے اندھیروں کو اپنانے کیلئے حامی بھری۔ اس وقت میرا ہاتھ تھاما جب ساری دنیا مجھے چھوڑ چکی تھی۔ مجھے محبت لفظ کے اصل معنی تم نے سمجھائے۔ ایک عمر گزرنے تک جو قیصر محض اپنے لیئے جیتا آیا تھا۔ اس نے یہ دوسری زندگی تمہارے نام کردی۔ 

تم نے کہا تھا کے زیست تمہاری منتظر ہے۔ تو ہاں وہ منتظر تھی میرے لیے۔ اس نے ایک نئی زندگی کا باب کھول دیا مجھ پر۔ ایک ایسی زندگی جس سے میں واقف نہ تھا"۔ وہ لحظہ بھر کو ٹھہر سا گیا۔

"میری ایک بیٹی ہے الوینا"۔ وہ اسکے ذکر پر بھیگی آنکھوں سمیت مسکرایا۔

"وہ بھی بالکل معصوم ایک فرشتے کی طرح۔ تمہاری طرح! اس نے میری زندگی کو ایک نیا موڑ دے دیا۔ مجھے باپ کہلوانے کا شرف اسی کی وجہ سے ملا۔ وہ میرے سیاہ ترین وقتوں میں امید کی کرن بن کر چمکی۔ اس لیئے میں نے اسے زوہا کہا۔ میرے اندھیروں کی روشنی!"۔ بیٹی کے ذکر پر اس کے چہرے کی چمک کئی گنا بڑھ گئی تھی۔

"میں آج پہلی بار یہاں سے جاتے ہوئے مطمئن ہو کر جا رہا ہوں۔ کوئی ملال، کوئی درد اب باقی نہیں رہا ہے۔  لگ رہا ہے جیسے یہ کبھی نہ بھرنے والے زخم اب مندمل ہو رہے ہیں۔ میں جا رہا ہوں الوینا، لیکن تمہاری محبت کا وہ پودہ جو تم نے میرے دل میں لگایا۔ وقت کے طوفانوں نے اسے اکھڑنے نہیں دیا۔ یہ آج بھی اسی شان سے میرے دل میں موجود ہے"۔ وہ یہ کہہ کر اٹھا تھا۔ پھر آخری بار جاتے ہوئے فاتحہ پڑھی۔

دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیر کر وہ مڑا۔

"چلیں؟"۔ اپنے پیچھے موجود سیاہ عبایا میں ملبوس بیوی کو مخاطب کرتے اس کے سامنے ہتھیلی پھیلائی۔

وہ بھی بھائی کی قبر پر فاتح پڑھ چکی تھی۔ اس کے پکارنے پر اسکی جانب چلی آئی۔

"بالکل"۔ ایک پرسکون مسکراہٹ اپنے چہرے پر سجاتے ہوئے اس نے خالی ہتھیلی پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔

سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ مگر اس کی تپش و گرمائش کو محبت کے ٹھنڈے چھاؤں نے آرام دیا تھا۔ ان کے اندر کا موسم خوشگوار ہو چکا تھا تو باہر پڑتی یہ گرمی ان کیلئے خاص معنی نہ رکھتی تھی۔

"وہ دیکھو، زوہا بےبی کے ڈاڈا آگئے"۔ اعظم نے ان کو آتے دیکھ کر زوہا سے کہا۔

"ڈاڈا"۔ وہ ہاتھ پاؤں مارتی گویا ان کے آنے پر خوشی کا اظہار کر رہی تھی۔

زیست نے آگے بڑھ کر زوہا کو اعظم سے لے لیا۔ 

"آپ کو تنگ تو نہیں کیا ہماری شہزادی نے اعظم بھائی؟"۔ اس کے سر پر پہنایا گیا کیپ اتارتے ہوئے وہ بولی۔

"ارے نہیں بھابھی، یہ محترمہ تو بڑے صبر سے چچا کے ساتھ کوآپریٹ کرتے ہوئے آپ دونوں کا انتظار کر رہی تھی"۔ ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے ہوئے اس نے خوشدلی سے بتایا۔

زیست اس کی بات پر مسکرا دی۔

"لاؤ ہماری بےبی کو ہمیں دو۔ آج اسے بھی کیفے ساتھ لے جائیں گے۔ کیوں اعظم؟"۔ اسے گود میں لیتے ہوئے اس نے اعظم کی رائے لی۔

"بالکل باس۔ آخر کو یہ ہماری مالکن ہیں بھئی"۔ اس کے روئی جیسے گال پر ہلکی سی چٹکی لیتے ہوئے وہ اس آئیڈیا کے فیور میں بولا۔

"لیکن میں اس کی اجازت نہیں دوں گی آپ دونوں کو۔ ارے اس قدر چھوٹی بچی کو کیسے سنبھالیں گے آپ؟"۔ زیست اس خیال کے حق میں نہ تھی۔

"یار تھوڑی دیر کیلئے لے جائیں گے۔ بعد میں تم آجانا اسے لینے"۔ قیصر نے حل پیش کیا۔

"یہ مشکل ہوگا۔ میرا ہاسپٹل کیفے کے بالکل الٹ ہے۔ دونوں میں فاصلہ زیادہ ہے سو یہ میرے لیئے آسان نہیں رہے گا"۔ وہ اب بھی رضامند نہ تھی۔

"اچھا میں خود آ جاؤں گا اسے لے کر تمہارے پاس۔ بس؟"۔ اس نے ایک آخری حل پیش کیا۔

"ہاں جی، اب ٹھیک ہے"۔ وہ مسکرائی۔

قیصر کی نگاہیں اسے گھورتی رہیں ۔ مگر وہ اسے نظرانداز کرتی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ 

یقینا اسے یوں تنگ کرکے وہ لطف اندوز ہوتی تھی۔ اور وہ یہ اچھی طرح جانتا تھا اس لیئے برا منائے بغیر، چہرہ اس کی جانب سے موڑتے ہوئے وہ آپ ہی آپ مسکرایا تھا۔

                                                                 ختم شد☆

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Jung E Baqa Fanaa Season 2 Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Jung E Baqa Fanaa Season 2 written by Sawera Ahmad. Jung E Baqa Fanaa Season 2 by Sawera Ahmad is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages