Ishq Ky Rang Mohabbat Ky Sang By Sameena Jannat New Complete Romantic Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
Ishq Ky Rang Mohabbat Ky Sang By Sameena Jannat Complete Romantic novel |
Novel Name: Ishq Ky Rang Mohabbat Ky Sang
Writer Name:Sameena Jannat
Category: Complete Novel
مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔
aزونیشہ تم صرف میری ہو۔میں تمہیں کبھی کسی کا نہیں ہونے دوں گا ۔
میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں ۔
تم صرف میرے لیے بنی ہو۔بلکہ ہم دونوں صرف ایک دوسرے کے لئے بنے ہیں ۔
سمندر کے کنارے وہ دونوں چہل قدمی کررہے تھے ۔چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ایک دوسرے کے چہرے کی طرف دیکھتے ،ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔
رائد زونیشہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا
چہرے پہ مسکراہٹ سجائے نرمی سے زونیشہ نے رائد کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھا ۔
"تم ساتھ ہو نہ۔تو مکمل ہے محبت میری ۔"
ہمیشہ ایسے ہی رہنا کبھی بدلنا مت۔
کبھی نہیں ۔رائد مسکرایا ۔
اس نے دائیں بائیں کروٹ لی ۔گھبرائٹ سے اسکی آنکھ کھل چکی تھی۔
کمرے میں ہر سو اندھیرا چھایا ہوا تھا۔اس نے اٹھ کر لیمپ آن کرنا چاہا۔مگر وہ اپنی جگہ منجمند پڑی تھی۔اس سے ہلا نہیں جا رہا تھا۔
اس نے دوبارہ اٹھنے کی کوشش کی اور لیمپ آن کیا۔اور خود کو سنبھالا۔۔
آشفہ کی طرف دیکھا جو اپنے اوپر کمفرٹر اوڑھے گہری نیند سو رہی تھی۔
وہ اٹھی وضو کیا اور تہجّد کی نماز کے لئے جائے نماز بچھائی اور نماز پڑھنے لگی۔
سجدہ لمبا کیا اور جب سجدےسے اٹھی تو آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے سلام پھیر کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے
" اے اللّٰہ! تو نہایت رحم کرنے والا اور مہربان ہے۔میری حالت پے رحم فرما ۔مجھے صبر عطا فرما۔یا اللّٰہ میں تیری رضا میں راضی ہوں ۔بس اس دل کو سکون عطا فرما۔یہ دل نادان ہے۔تیری مصلحتوں کونہیں سمجھتا۔ضد کرتا ہے۔اڑ جاتا ہے۔اسکو سکون عطا فرما اور مجھے صبر جمیل عطا فرما ۔۔
(آمین ثم آمین)
دل کو اطمینان ہوا ۔آنسو اب خشک ہونے لگے تھے ۔وہ اٹھی ۔جائے نماز تہ کرکے شیلف میں رکھی -۔
بیڈ سے ٹیک لگائے پیر سیدھے کیےاپنے اوپر کمبل اوڑھے رائد کے بارے میں سوچنے لگی۔
یادوں کا ایک لمبا سفر تھا۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
فجر کی اذان ہو رہی تھی۔
وہ گہری نیند سو رہی تھی جب آشفہ نے آکر اسے جگایا۔
زونیشہ اٹھو نماز کا وقت ہو گیا ہے ۔
اٹھو زونیشہ ۔
تمہاری نماز قضا ہو جائے گی ۔آشفہ اسے جگانے کی ہر ممکن کوشش کررہی تھی ۔مگروہ کبھی دائیں جانب تو کبھی بائیں جانب کروٹ بدل لیتی۔
ٹھیک ہے مت اٹھو۔پھر مت کہنا مجھے جگایا کیوں نہیں ۔
آشفہ نے ہار مانتے ہوئے شانے اچکائےاور چلی گئی...
زونیشہ نے کروٹ بدلی ۔آنکھیں آہستہ آہستہ کھولیں اور سامنے دیوار پہ لگی کلاک سے ٹائم دیکھا ۔نماز میں ابھی وقت تھا ۔
جلدی سے اٹھی فریش ہو کر وضو کیا ۔نماز ادا کی۔اسکے بعد تلاوت قرآن پاک کرنے لگی۔یہی اسکا معمول تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*اَمَّنۡ يُّجِيۡبُ الۡمُضۡطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَيَكۡشِفُ السُّوۡٓءَ*
ترجمہ ؛؛
*جب کوئی ٹوٹ کر تڑپ کے مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں اس کی تکلیف کو دور کر دیتا ہوں*
*(القرآن، سورة النمل 62)
لب مسکرائےمگر آنکھوں سے آنسو چھلکنے لگے۔۔۔
زونیشہ بہت حیرت سے اس آیت کو دیکھ رہی تھی ۔خوشگوار حیرت۔۔
اے اللّٰہ بے شک تو دلوں کے حال جانتا ہے۔مجھے سکون عطا فرما۔
آمین ثم آمین ۔۔۔۔
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
زونیشہ ،وجیہہ آجاؤ۔ناشتہ تیار ہے ۔ناشتہ کرلو۔
مہوش چلاتی ہوئی کہہ رہی تھی۔
پانچ منٹ مما ۔بس آتی ہوں۔
وجیہہ نے بالوں میں برش کرتے ہوئے کہا
پھر تم دونوں کہو گی ہم لیٹ ہو رہی ہیں ۔کالج جا کر کچھ کھا پی لیں گی۔
میں تو ایسے ہی صبح اٹھ کر ناشتہ بنا دیتی ہوں۔تم لوگوں نے تو کرنا نہیں ہوتا۔
مہوش نے خفا ہوتے ہوئے ڈائننگ ٹیبل پہ ناشتہ لگایا۔
مما آپ ناراض کیوں ہوتی ہیں ۔ہم دونوں نے پیٹ بھر کے کھانا کھانا ہے۔
بہت بھوک لگی ہے۔
زونیشہ نے آکر اپنی کرسی سنبھالی ۔
لو میں بھی آگئی مما۔وجیہہ بھی کرسی کھسک کر بیٹھی۔اور ناشتہ کرنے لگی۔
بھئی ہماری تو کسی کو پرواہ ہی نہیں ۔اکبر آکر بیٹھے اور خفت سے کہا۔
آپ بھی بچوں کے ساتھ بچے بن جاتے ہیں ۔مہوش نے کھانا نکال کردیتے ہوئے کہا۔
تب ہی اذان اور اذلان آئے اور ایک ساتھ سینےپہ ہاتھ باندھے کھڑے ہو کر مہوش کو دیکھنے لگے۔
مما ہم بھی آپ ہی کے بچے ہیں ۔لیکن آپ کا سارا پیار ،محبت ان دونوں چڑیلوں کے لیے ہی ہے۔
اذلان چڑکے بولا
اٹھ گئے تم دونوں اور آشفہ؟
وہ ابھی تک سو رہی ہے۔
"جی " دونوں نے یک آواز ہو کر طنزیہ انداز میں کہا۔
بھئی میں تم سب سے ایک جیسی محبت کرتی ہوں تم لوگ کیوں میری شہزادیوں سے جلتے ہو۔آخر میری سب سے چھوٹی بیٹیاں ہیں ۔
مہوش نے اذان اور اذلان کو بت بنے دیکھا تو کہا
زونیشہ اور وجیہہ نے مغرورانہ انداز میں شانے اچکائے۔
" شہزادیاں "
یک آواز ہو کر دونوں نے دوہرایا ۔
مما آپکو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے یہ دونوں شہزادیاں نہیں بلکہ چڑیلیں ہیں چڑیلیں ۔
اذلان نے چڑکر کہا۔
پاپا دیکھیں نہ کیا کہہ رہا ہے۔وجیہہ نے ناراض ہوتے ہوئے کہا۔
اچھا بھئی بس بہت ہو گیا طنزوتنقید ۔بیٹھ کر ناشتہ کرلواب تم دونوں ۔
اکبر نے بات ختم کرتے ہوئے کہا۔
جی پاپا ۔دونوں نے یک آواز کہا اور اپنی اپنی کرسی سنبھالی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلیں اذلان ۔زونیشہ نےاٹھتے ہوئے کہا ۔
ہمم چلتے ہیں ۔وجیہہ بھی ساتھ تھی۔
وجیہہ کو کالج ڈراپ کیا اور زونیشہ کو یونیورسٹی ۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
زونیشہ گیٹ سے داخل ہوئی اور کلاس کی جانب بڑھ رہی تھی ۔جب اچانک سامنے سے آتے ہوئے لڑکے سے ٹکرا گئی ۔جو بے دھیانی میں نظریں موبائل پہ جمائے تقریباً دوڑتے ہوئے چلا آرہا تھا ۔
سوری ایم سوری ۔آپکو لگی تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زونیشہ کہتے کہتے رکی ۔اور سامنے کھڑے لڑکے کو گھور کر دیکھنے لگی ۔
دیکھ کر نہیں چل سکتی ۔
وہ لڑکا چلایا ۔
بے دھیانی میں تم چلے آرہے تھے میں نہیں ۔
زونیشہ بھی جواب میں چلائی۔۔
" ہٹو مجھے تمہارے منہ نہیں لگنا صبح صبح ۔"
زونیشہ نے رستہ بدلتے ہوئے کہا اور جانے لگی۔
" اوہ یہ اچھا طریقہ ہے پہلے جان کر ٹکراؤ اور پھر کہو مجھے تمہارے منہ نہیں لگنا۔ "
رائد نے زونیشہ کا رستہ روکتے ہوئے کہا۔
" رائد میرا رستہ چھوڑو۔"
"پہلے بتاؤ ۔جان کر ٹکرائی ہو نہ۔"
"میں نے کہا میرا رستہ چھوڑو۔رائد ۔
زونیشہ چلائی"
" یار میں تو تمہیں اور تمہارا رستہ کب کا چھوڑ چکا ہوں ۔تمہیں یہ بات سمجھ کیوں نہیں آتی۔
تم اس بات کو قبول کیوں نہیں کر لیتی ۔
یہ جان بوجھ کر میرے رستے میں آنا۔مجھ سے ٹکرانا۔۔"
یہ چیپ حرکتیں کیوں کرتی ہو۔
کچھ نہیں ہونا تمہاری ان حرکتوں سے۔
رائد سینے پہ ہاتھ باندھے بڑے مغرورانہ انداز میں زونیشہ سے یہ سب کہہ رہا تھا۔
نا چاہتے ہوئے بھی زونیشہ کی آنکھوں میں پانی ابھرنے لگا۔
شٹ اپ ۔جسٹ شٹ اپ۔۔
کب سے بکواس کیے جا رہے ہو تم ۔
فلزہ کچھ فاصلے سے چلتی ہوئی انکی طرف بڑھ رہی تھی ۔دونوں نے سامنے سے آتی ہوئی فلزہ کو دیکھا۔
" آ گئی تمہاری چمچی"
رائد نے طنزیہ انداز میں کہا۔
اب فلزہ زونیشہ اور رائد کے درمیان (زونیشہ کے سامنے ) کھڑی تھی ۔۔
" تم نے جو کچھ زونیشہ کے ساتھ کیا ہے ۔وہ تم سے ٹکرانہ تو کیا تم پہ تھوکنا بھی پسند نہ کرے ۔"
فلزہ نے شہادت والی انگلی رائد کے چہرے کے سامنے کرتے ہوئے اسے وارن کیا ۔
اچھا ہوا جو تم نے میری دوست کا پیچھا چھوڑ دیا۔
آئندہ ایسی کوئی چیپ حرکت کی تم نے تو اسکے زمہ دار تم خود ہو گے ۔
فلزہ نے غصہ میں کہا۔اور پلٹی ،زونیشہ کا ہاتھ پکڑا اور کلاس کی جانب بڑھ گئی۔
رائد کی آنکھیں غصے سے سرخ ہو رہی تھیں ۔اس نے اپنا غصہ ضبط کرنے کی کوشش کی۔اور پانچوں انگلیاں اکھٹی کرکے مٹھی بند کی ۔
دیکھ لوں گا تمہیں فلزہ۔
خود کو تم کیا سمجھتی ہو ۔
"۔ وہ تم سے ٹکرانا تو کیا تم پہ تھوکنا بھی پسند نہ کرے "
اسکی سماعت سے الفاظ ٹکرائے۔
زونیشہ تم کیوں اسکی بکواس خاموشی سے سن رہی تھی ۔اسکے منہ پہ دے مارتی ۔
فلزہ نے زونیشہ سے خفگی سے کہا۔
زونیشہ لب بھینچ کر رہ گئی۔ مگر آنکھوں میں ابھرے آنسو اب گال پہ گرنے لگے ۔
زونیشہ تم رو رہی ہو ۔وہ بھی اس گھٹیا انسان کے لیے ۔
فلزہ نے حیرت سے اسکے گال پہ گرتے آنسو کو دیکھا ۔
اس انسان کے لیے نہیں رو رہی ۔اس کی کہی ہر اک بات کے لیے رورہی ہوں ۔
لعگ اتنے بے درد کیسے ہوتے ہیں ۔اتنے بے رحم ؟
اتنے ظالم ؟
زخم بھی خود دیتے ہیں اور پھر ان زخموں پہ نمک بھی خود چھڑکتے ہیں ۔
زونیشہ بہت اپ سیٹ تھی۔
فلزہ اسکی بات پہ ہنس پڑی ۔
زونیشہ تم نے تو محاورہ ہی الٹا کردیا۔
" لوگ پہلے خود زخم دیتے ہیں اور پھر مرہم بھی خود رکھتے ہیں ۔"
اور تم نے کیا کہا ۔اس کے الٹ۔
لوگ پہلے خود زخم دیتے ہیں اور پھر ان زخموں پہ نمک بھی خود چھڑکتے ہیں ۔
فلزہ نے اس کے الفاظ دوہرائے۔
تمہیں ہنسی آرہی ہے ۔
میرے ساتھ جو ہوا میں تو وہی کہوں گی نہ ۔
میرا دل خون کے آنسو رورہا ہے ۔اور تمہیں ہنسی آرہی ہے ۔
فلزہ جو ابھی تک ہنس رہی تھی۔
اوکے فائن ۔ایم سوری ۔فلزہ سنجیدہ ہوئی ۔
چلو ہم کلاس کے لیے لیٹ ہورہے ہیں ۔زونیشہ نے ہاتھ پہ بندھی گھڑی پر ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
ہاں چلو ۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
وہ سنگھار شیشے کے سامنے اپنے آپ کو سنوارنے میں مصروف تھی۔بےبی پنک کلر کی شارٹ شرٹ جسکی گھٹنوں سے تھوڑا اونچی تھی اور بلیو جینز پہنے ۔ہونٹوں پہ پنک لپ لوز برش مسل رہی تھی۔
" پرفیکٹ ۔"
آشفہ نے خود کو آئینے میں دیکھتے ہوئے ستائشی انداز میں کہا۔
ہمم ۔
ایک چیز کی کمی ہے ؟
آشفہ نے ادھر اُدھر ٹیبل پہ نظر دہراتے ہوئے کہا۔
ہاں یہ رہا مسکارا۔
تمہارے بغیر تو میرا میک اپ ہی ادھورا ہے ۔آشفہ نے مسکارا اٹھاتے ہوئے کہا ۔
آشفہ کی پلکیں قدرتی طور پر اچھی خاصی لمبی اور خوبصورت تھیں ۔مگر اسے عادت تھی مسکارا لگانے کی۔
تب ہی موبائل ٹون بجی۔
آشفہ احتیاط سے مسکارا لگانے میں مصروف تھی۔وہ دیکھے بنا ہی جانتی تھی کہ کس کی کال ہے۔
مسکارا لگانے کے بعد جب اس نے ڈریسنگ ٹیبل سے موبائل اٹھایا تب تک کال بند ہو چکی تھی۔۔
ابھی اس نے موبائل رکھا بھی نہ تھا کہ دوبارہ ٹون بجی ۔اس نے کال ریسیو کی اور موبائل کان سے لگایا۔۔
"ہاں میں ریڈی ہوں ۔تم کہاں ہو ؟"
آشفہ نے خود کو آئینے میں ستائشی انداز میں دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
"تمہارے گھر کے لان میں۔خالہ خالو کے پاس ۔ "
بابر نے پیار سے جواب دیا۔
"اب جلدی نیچے آجاؤ ۔میں کب سے تمہارا ویٹ کررہا ہوں ۔"
تب ہی با بر کی نظر سامنے سیڑھیوں سے اترتی ہوئی آشفہ پہ پڑی جو کان سے موبائل لگائے بابر کی آواز سنتے ہوئے مسکراتی ہوئی آخری زینہ اتر رہی تھی۔
بابر جو لان میں ٹہل ٹہل کر آشفہ سے بات کررہا تھا ۔ایک دم ساکن رہ گیا اور بے یقینی سے آشفہ کی طرف دیکھا ۔اسکے کھلتے لب بند ہو گئے۔۔۔۔۔
Wow, You are looking Gorgeous 😍😍
بابر کی زبان سے بے اختیار نکلا۔
آشفہ بابر کے سامنےنظریں جھکائے کھڑی تھی ۔
بابر کی نظرآشفہ پہ ٹھہرسی گئی۔
چلیں ؟
آشفہ نے شائستگی سے پوچھا اور چہرے پہ آتے بالوں کو ہاتھ سے پیچھے کیا جو تیز ہوا کی وجہ سے بار بار چہرے پہ آجاتے ۔
اب کی بار بابر نے ہاتھ بڑھا کر اس کے چہرے پہ آتے بالوں کو پیچھے کیا۔
آشفہ تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔۔اب اور انتظار نہیں ہوتا ۔دل چاہ رہا ہے آج ہی بارات لے آؤں اور تمہیں رخصت کرکے لے جاؤں
بابر کیا کررہے ہیں آپ ؟
کوئی آجائے گا ۔
آشفہ نے بابر کا ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے کہا ۔ دیکھ لے گا کوئی ۔
آشفہ نے شرماتے ہوئے نظریں جھکا لیں ۔بابر نے آشفہ نے چہرہ ٹھوڑی سے اوپر اٹھایا۔
میں کوئی غلط کام نہیں کررہا ۔۔۔بیوی ہو تم میری ۔۔میرے نکاح میں ہو۔۔ میں شرعی اور قانونی دونوں لحاظ سے یہ حق رکھتا ہوں ۔
بابر نے محبت سے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
"اور شاید آپ کی یاداشت کمزور ہے ۔تب ہی آپ یہ بات بھول گئے کہ ابھی رخصتی نہیں ہوئی۔
آشفہ نے بابر کا ہاتھ پیچھے ہٹاتے ہوئے کہا ۔
اور بنا رخصتی کے میاں بیوی کا ایک دوسرے سے ملنا جلنا ہمارے معاشرے میں معیوب سمجھا جاتا ہے۔
چلیں ؟
آشفہ نے بابر کو دیکھتے ہوئے پوچھا جو ابھی تک دیوانہ وار آشفہ کو دیکھ رہا تھا ۔
ہمم چلو ۔بابر ہوش میں آیا۔
دونوں کار میں بیٹھتے بیرونی دروازے سے باہر نکل گئے۔
بابر میں ایک بات سوچ رہی ہوں ۔آشفہ نے سامنے کار کے شیشے سے سڑک کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"کیا سوچ رہی ہو ؟"
بابر نے ڈرائیو کرتے ہوئے آشفہ کی طرف دیکھا ۔
کیا اذان بھائی اور حرمین بھابھی بھی باہر لنچ یا ڈنر کرنے جاتے ہیں ؟
"ہاں جی " ۔بالکل جاتے ہیں ۔مگر ہم سے کم ۔
حرمین بیوی ہے اذان کی اور اذان کا حق ہے اسے باہر لے کے جانا ۔اس کی ہر خواہش کا احترام کرنا۔بابر نے اسٹیئرنگ گھماتے ہوئے کہا ۔
" ہمم " ۔۔ صیح۔
ویسے تمہیں پتا ہے گھر میں ہماری شادی کی ڈیٹ فکس ہونے کی بات چل رہی ہے ۔آشفہ نے بابر کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
ہاں پتہ تو ہے مگر پھر بھی ایک ماہ کے بعد کی ہی ڈیٹ فکس ہونے کی بات چل رہی ہے۔ابھی ایک ماہ اور گزارنا ہے تمہارے بغیر ۔
بابر نے افسردگی سے کہا ۔
جہاں دو ماہ گزر گئے وہاں ایک اور صیح۔۔آشفہ نے مسکراتے ہوئے بابر کو دیکھا ۔
" کوئی میوزک ہی پلے کردو ۔۔۔"
" کون سا کروں ؟ "
"میرا مجھ میں کچھ نہیں
سب تیرا ۔"
مجھے پتہ ہے سب میرا ہے۔
بابر نے تنگ کرتے ہوئے کہا اور میوزک پلے کردیا ۔
فلزہ ،زونیشہ اور وردہ کیفے ٹیریا میں تھے ۔لنچ ٹائم تھا۔
سب لنچ کرنے میں مصروف تھے جب فلزہ کی نظر سامنے والے ٹیبل پہ بیٹھے باسل پہ پڑی جو اکیلا بیٹھا تھا ۔
وہاں سے زونیشہ صاف دیکھائی دیتی تھی اور وہ وہاں اسی کو دیکھنے کے لیے بیٹھا تھا ۔
زونیشہ! وردہ نے باسل کو دیکھتے ہوئے پکارا ۔
ہوں زونیشہ متوجہ ہوئی جو ہاتھ میں گلاس پکڑے ٹھنڈا جوس پی رہی تھی ۔
مجھے لگتا ہے کہ باسل تم میں انٹرسٹیڈ ہے ۔
وردہ نے باسل کی طرف دیکھتے ہوئے تقریباً سرگوشی میں کہا ۔
شٹ اپ یار۔زونیشہ نے نارمل موڈ میں کہا ۔
ہاں مجھے بھی یہی لگتا ہے ۔فلزہ نے وردہ کی بات میں ہامی بھرتے ہوئے کہا ۔
دیکھو تم دونوں چپ ہو جاؤ ۔ورنہ میں نے یہاں سے اٹھ کر چلے جانا ہے ۔زونیشہ نے گلاس ٹیبل پہ رکھتے ہوئے قدرے سنجیدگی سے کہا۔
ریلکس زونیشہ ۔
کیا ہو گیا ہے تمہیں ۔باسل اتنا بھی برا نہیں ہے ۔
اور اس رائد سے تو لاکھ گنا اچھا ہے ۔
فلزہ شائستگی سے بولی ۔
میں نے کب کہا کہ باسل برا ہے ۔یا وہ مجھے نا پسند ہے
۔
تم اسے ایک موقع دے کر تو دیکھو ۔وردہ نے کہا۔
یار وردہ ،فلزہ ،۔۔۔
میں ایک جیتی جاگتی انسان ہوں جو سانس لیتی ہوں کوئی کھلونا یا بے جان چیز نہیں ہوں کہ رائد نہیں تو باسل صیح۔
زونیشہ کا لہجہ سپاٹ تھا ۔
" اور مجھے نفرت ہے لفظ محبت سے "
زونیشہ نے مایوس ہوتے ہوئے کہا۔
زونیشہ تم کچھ وقت لے لو ۔مگر اپنی قسمت کو ایک موقع ضرور دو۔۔
ہر کوئی ایک جیسا نہیں ہوتا ۔اس دنیا میں جہاں برے لوگ ہیں وہاں اچھے لوگ بھی ہیں ۔
باسل سچ میں تم سے بہت محبت کرتا ہے ۔اور وہ تو تمہارے اور رائد کے بارے میں سب جانتا ہے نہ ۔
پھر بھی تم سے محبت کرتا ہے ۔تمہیں اپنانا چاہتا ہے ،اپنا نام دینا چاہتا ہے ۔
فلزہ نے سفارشی انداز میں زونیشہ کو سمجھایا ۔
زونیشہ لب بھینچ کر رہ گئی ۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
بھئی لڑکیوں جلدی کرو۔وہ لوگ کچھ دیر تک پہنچنے والے ہیں۔
-
مہوش نے زونیشہ اور وجیہہ سے کہا جو آہستہ آہستہ ہاتھ ہلاتی قدرے سستی کا مظاہرہ کررہی تھیں ۔
-
آشفہ کوکنگ تم نے اور عاشی نے دیکھنی ہے۔دیکھو کسی چیز کی کمی نہ ہو ۔
مہوش نے فکر مندانہ انداز میں کہا ۔
آپ بے فکر رہیں مما ۔ہم نے الریڈی سب کچھ تیار کرلیا ہے ۔آشفہ نے مطمئن ہوتے ہوئے کہا۔۔
جی بیگم صاحبہ ۔سب تیار ہے ۔
بریانی دم پہ ہے اور کباب کچھ دیر تک فرائے کروں گی تاکہ ٹھنڈے نہ ہو جائیں ۔۔عاشی نے پرجوش انداز میں کہا ۔۔
آج سب ہی بہت خوش تھے ۔آشفہ اور اذان تو خاص طور پر ۔۔۔۔۔
آشفہ بیٹا جاؤ اب تم تیار ہو جاؤ۔مہوش نے کچن میں مصروف آشفہ سے کہا ۔
مما ہمیں بھی تو تیار ہونا ہے ۔زونیشہ اور وجیہہ نے انتہائی لاڈ سے کہا ۔
اسکے سسرال والے آرہے ہیں ۔اس لئے اس نے تیار ہونا ہے اور تم دونوں نے کیوں تیار ہونا ہے ؟۔
مہوش نے مصنوعی غصہ چہرے پہ بناتے ہوئے کہا۔
کیونکہ میری بھابھی آ رہی ہیں اس لئے ۔وجیہہ جھٹ سے بولی ۔
اور میری خالہ خالو آرہے ہیں اس لئے ۔زونیشہ بھی فوراً بولی ۔
مہوش ان کی باتوں پر ہنس پڑی ۔
جاؤ ہو جاؤ تم لوگ بھی تیار ۔
گاڑی کا ہارن بجا ۔مجھے لگتا ہے وہ لوگ آ گئے بیگم صاحبہ ۔
عاشی نے ہارن کی آواز سن کر کہا ۔
جاؤ ان کی مدد کرو سامان اتارنے میں ۔
جی بیگم صاحبہ ۔عاشی کہتی بیرونی دروازے کی طرف بڑھی ۔
آئیے آئیے جاوید میاں کیسے ہیں آپ ۔اکبر نے جاوید کو گرم جوشی سے گلے لگاتے ہوۓ کہا۔
اسلام علیکم فرزانہ کیسی ہو ۔مہوش نے فرزانہ کو ویلکم کیا ۔
اسلام علیکم خالہ امی ۔حرمین نے سلام کیا ۔
وعلیکم السلام کیسی ہے میری بیٹی ۔مہوش نے حرمین کو گلے لگایا
بابر ادھر اُدھر نظر دوھڑا رہا تھا ۔
بابر پہلے خالہ خالو سے تو مل لو ۔
کسی نے نوٹس کرلیااگر تمہیں تو کیا سوچیں گے ۔حرمین نے بابر کو کہنی مارتے ہوئے سرگوشی کی ۔
تب ہی اذلان آگیا ۔
اسلام علیکم کیسے ہیں آپ سب ۔اور باری باری سب سے ملا ۔سب کو لونگ روم میں بٹھایا ۔
اسلام علیکم کیسی ہیں آپ خالہ ۔
وعلیکم السلام ۔میں بالکل ٹھیک تم کیسی ہو میری گڑیا ۔کتنی پیاری لگ رہی ہو ۔
وجیہہ جوکہ گرے کلر کی شارٹ فراک اور شرارے میں ملبوس تھی جبکہ زونیشہ نے بلیک شارٹ شرٹ اور شرارہ پہن رکھا تھا ۔
بھئی ہمارا داماد نظر نہیں آرہا ۔کہاں ہے ؟
بلآخر جاوید نے پوچھ ہی لیا ۔
وہ تیار ہو رہا ہے ۔جیسے آج ہی بارات لے کر جانی ہو ۔اذلان نے تنگ کرتے ہوئے کہا اور حرمین کی طرف دیکھا ۔
حرمین نے شرما کر نظریں جھکا لیں ۔
لو جی آگئے بھائی ۔
وجیہہ نے سیڑھیوں سے اترتے اذان کو دیکھ کر کہا ۔وہ سفید کرتے پاجامے میں ملبوس تھا ،بالوں کو جیل سے سیٹ کیے ہوئے ، ہاتھ میں برانڈیڈ گھڑی پہنے ۔وہ بہت ہینڈسم اور ڈیشنگ لگ رہا تھا..جو اپنی مستی میں چلتا ہوا آرہا تھا ۔
حرمین نے آہستہ آہستہ پلکیں اٹھائیں اور اذان کی طرف دیکھا وہ واقعی بہت ہینڈسم لگ رہا تھا مگر حرمین کے لئے توجیسے کوئی پرنس آ گیا ہو۔
اذان کی نظر حرمین پہ پڑی جو کہ ریڈ لانگ فراک اور چوڑی دار پاجامے میں ملبوس تھی ۔ریڈ لپسٹک لگائے، کانوں میں کانٹے پہنے ، ڈوپٹہ ایک طرف کندھے پر لٹکائے،وہ بہت خوب صورت لگ رہی تھی ۔اذان سب سے باری باری ملا اور ایک طرف صوفے پہ بیٹھ گیا۔
سب باتوں میں مشغول تھے۔چلیں پہلے کھانا کھا لیتے ہیں ۔اکبر نے کہا۔
چلیں میں کھانا لگواتی ہوں،مہوش کہتی اٹھی ۔
بھئی آشفہ کو تو بلاؤ۔وہ کہاں ہے ۔نظر نہیں آ رہی ۔فرزانہ نے ادھر اُدھر نظر دوھراتے ہوئے کہا ۔
مجھے میری بہو سے ملنا ہے ۔
زونیشہ ۔
جاؤ بیٹا جا کر آشفہ کو لے آؤ ۔مہوش نے زونیشہ کو اشارہ کیا ۔
میں بھی چلتی ہوں ساتھ ۔وجیہہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی ۔
کچھ دیر بعد زونیشہ اور وجیہہ کےآشفہ آگئی ۔
وہ گولڈن فراک میں ملبوس، بالوں کو فرینچ چٹیا میں قید کیے ،آگے سے دو شرارتی لٹیں نکالے ،لائٹ سےمیک اپ میں، کانوں میں گولڈن ائیر رنگز پہنے جو بابر نے اسے گفٹ کیے تھے، وہ غصب ڈھا رہی تھی ۔
بابر جو کب سے اسے دیکھنے کے لئے بے چین تھا اسے دیکھا تو سکون پایا ۔ بابربھی وائٹ کرتے پاجامے میں ملبوس تھا ۔برانڈیڈ گھڑی پہنے ،بالوں کو جیل سے سیٹ کیے وہ بھی کسی شہزادے سے کم نہیں لگ رہا تھا ۔
ادھر آؤ میری بیٹی ۔ادھر میرے پاس آ کر بیٹھو ۔ فرزانہ نے پیار سے کہا اور اپنے پاس بیٹھایا۔آشفہ خالہ کے پاس جا کر بیٹھ گئی ۔کتنی پیاری لگ رہی ہے میری بیٹی ۔کسی کی نظر نہ لگے ۔فرزانہ نے آشفہ کی پیشانی پہ بوسہ دیا۔ ۔
چلیں کھانا لگ گیا ہے چل کر کھانا کھا لیں ۔ زونیشہ نے آکر کہا تو سب ڈائننگ ٹیبل پر آگئے ۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
زونیشہ تم نے شادی کی شاپنگ کرلی ؟
وردہ نے پوچھا ۔
نہیں یار۔ ابھی تو نہیں کی ۔
زونیشہ نے لاپرواہی سے جواب دیا۔
ویسے تم مہندی اور بارات پہ کیسی ڈریسنگ کررہی ہو؟
فلزہ نے پوچھا۔
میں اور وجیہہ سیم ڈریسنگ کررہے ہیں ۔یو نو وجیہہ کو سیم ڈریسنگ کا کتنا شوق ہے ۔
ہمم یہ تو ہے۔ فلزہ نے اثبات میں سر ہلایا ۔
سب کچھ اسی نے ڈیسائیڈ کیا ہے ۔ ۔
۔
ویسے میرے اور وجیہہ کے ساتھ تم لوگ بھی چلو نہ۔
ساتھ شاپنگ کرلیں گے
ہاں یہ اچھا أئیڈیا ہے. ساتھ چلتے ہیں پھر کل. فلزہ نے کہا.
اوکے ڈن.....
میں آتی ہوں یہ کہہ کر فلزہ اٹھ گئی.
یہ کہاں چلی.
زونیشہ نے الجھتے ہوئے پوچھا.
اس کے نوٹس حمزہ کے پاس ہیں. وہی لینے گئی ہو گی.وردہ نے بتایا.
ہممم۔
ویسے یہ اور حمزہ کچھ زیادہ کلوز نہیں ہونے لگے ۔
زونیشہ نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا ۔
ہاں یہ تو سب جانتے ہیں کہ حمزہ فلزہ کو پسند کرتا ہے
اور فلزہ کے دل میں بھی اسکے لئے سافٹ کارنر ہے ۔
وردہ نے بتایا ۔
چلو تو آج فلزہ ہمیں کنفرم کردے کہ وہ بھی حمزہ سے محبت کرتی ہے
زونیشہ نے وردہ کی طرف دیکھتے ہوئے شرارت سے کہا ۔
حمزہ فلزہ کے نوٹس ہاتھ میں لئے بیٹھا تھا اور انہیں غور سے دیکھ رہا تھا ۔
حمزہ؟۔۔۔۔۔۔
فلزہ کی آواز پہ چونکا ۔
فلزہ تم ۔۔۔۔۔۔
میں تمہارے پاس ہی آنے والا تھا۔
حمزہ نے مسکراتے ہوئے پیار سے کہا ۔
تم آتے،میں آگئی ۔ایک ہی بات ہے ۔فلزہ نے پیار سے مسکراتے ہوئے جواب دیا ۔
اور حمزہ کے پاس بیٹھ گئی
وہ دونوں سیڑھیوں میں بیٹھے تھے ۔اور باتوں میں مشغول ہو گئے
سامنے سے گراؤنڈ صاف دکھائی دیتا تھا ۔
جہاں گھاس پہ باسل بیٹھا کاپی پینسل لئے کچھ بنانے میں مصروف تھا۔
فلزہ کی نظر سامنے بیٹھے باسل پہ پڑی ۔
اچھا حمزہ میں آتی ہوں ،کہہ کر فلزہ اٹھ گئی۔اور باسل کی طرف جانے لگی ۔
باسل ؟
فلزہ کی آواز پہ وہ چونکا ۔
جی ؟
باسل نے گردن موڑ کر فلزہ کی طرف دیکھا ۔
اور جھٹکے سے کاپی پینسل بند کردی۔
جی کوئی کام آپ کو ؟
باسل نے الجھے ہوئے انداز میں پوچھا ۔
نہیں ۔
میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں ؟
فلزہ نے اجازت چاہی ۔
جی کیوں نہیں ۔باسل نے الجھتے ہوئے کہا.
فلزہ کچھ فاصلے پر باسل کے قریب بیٹھ گئی ۔
میں یہ دیکھ سکتی ہوں ؟
فلزہ نے اس کاپی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا ۔
نہیں سوری۔
یہ پرسنل ہے۔
باسل نے معزرت خواہ لہجے میں کہا ۔
اوکے ۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن میں اکثر دیکھتی ہوں کہ آپ اکیلے بیٹھے اس پر کچھ نہ کچھ بناتے اور لکھتے رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔فلزہ نے اپنی بات کی وضاحت کی۔
جی ۔۔۔۔۔۔۔
میری تنہائی کا یہ واحد سہارا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باسل نے نظریں اس کاپی پہ مرکوز کیے محبت سے کہا۔
آپ تنہا پسند کیوں ہیں ؟
فلزہ نے باسل کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
باسل نے گھور کے فلزہ کو دیکھا۔۔۔۔۔۔۔
میرا مطلب ہے کہ آپ سنجیدہ مزاج ہیں ،تنہا پسند ہیں ،
کسی سے بات نہیں کرتے
آپ صاف صاف کہیں ،
کیا کہنا چاہتی ہیں ۔
باسل نے تنے ہوئے نقوش سے فلزہ کو دیکھا۔
اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ اتنا غصہ کیوں کررہے ہیں ؟
میں تو بس آپ کی مدد کرنا چاہتی ہوں ۔
کیسی مدد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باسل نے ناسمجھی سے فلزہ کو دیکھا ۔
میں جانتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں سب جانتی ہوں ۔۔۔۔
باسل نے نظریں جھکا لیں ،شرم سے یا شرمندگی سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پتہ نہیں ۔۔۔۔۔
دیکھو باسل ۔۔۔
محبت کرنا غلط نہیں ہے ،اور نہ ہی محبت کا اظہار کرنا غلط بات ہے۔۔۔
زونیشہ اچھی لڑکی ہے۔اچھے گھر سے تعلق رکھتی ہے ،اور میں جانتی ہوں کہ تم اسے پسند کرتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور وہ ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کرتی ہے مجھے پسند ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باسل نے یک دم پوچھا اور نظریں فلزہ پہ مرکوز کیں ۔
دیکھو باسل ۔۔۔
اسکے ساتھ جو کچھ ہوا ،تم جانتے ہو ۔
اگر تم سچ میں اسے محبت کرتے ہو تو اسے اس ڈپریشن سے نکالو۔
وہ دن بہ دن ڈپریشن میں جا رہی ہے ۔
اسے محبت ہی ڈپریشن سے نکال سکتی ہے ۔
یہ تم کرسکتے ہو ۔باسل پلیز اسے اس ڈپریشن سے نکال لو۔
تم اپنی محبت سےاس کو زندگی کی ایک نئی امید،روشنی کی ایک نئی کرن دے سکتے ہو۔
اور زونیشہ کو منانے میں میں تمہاری مدد کروں گی ۔
یہ سچ ہے کہ میں زونیشہ سے محبت کرتا ہوں اور آج سے نہیں ،۔۔۔۔۔۔
میں اس کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہوں ،۔۔۔۔۔۔
مگر اسے کھونے سے ڈرتا ہوں ۔۔۔۔
میں نہیں چاہتا کہ اسے پرپوز کرکےکہیں میں اسے ہمیشہ کے لئے نہ کھو دوں ۔۔۔۔۔۔۔
ایسا کچھ نہیں ہوگا ۔۔۔۔۔
اس بات کی گارنٹی میں دیتی ہوں ۔۔۔
فلزہ نے اسے یقین دلایا ۔۔
محبت میں گارنٹی نہیں ہوتی ۔۔۔ ۔۔۔۔
یہ تو دل سے دل تک کا سفر ہے ۔۔۔۔۔۔۔اس میں کوئی دوسری چیز نہیں آسکتی ۔۔۔
باسل نے محبت سے پھر اس کاپی کو دیکھتے ہوئے کہا۔
اوکے پھر ڈن ۔۔۔۔
ڈن۔۔۔۔۔
باسل نے کہا
فلزہ اٹھ کر چلی گئی۔
کہاں سے آ رہی ہو؟
زونیشہ نے حکمانہ انداز میں پوچھا ۔
میرے نوٹس ، حمزہ کے پاس تھے ،وہی لینے گئی تھی ۔
فلزہ نے بلا خوف کہا۔
کہاں ہیں نوٹس؟
زونیشہ نے اس کے خالی ہاتھ دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
اوفو ، وہ تو میں اٹھانا ہی بھول گئی ۔۔۔فلزہ نے دل میں سوچا ۔۔۔
وہ پڑھ رہا تھا ،کہہ رہا تھا کچھ دیر تک دے جاؤں گا۔
مگر تم تو اپنی چیز کسی کو نہیں دیتی نہ ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے ضرورت تھی تو میں نے دے دیئے ۔
فلزہ کیا ،چل کیا رہا ہے تم دونوں کے درمیان ؟
کچھ نہیں چل رہا۔۔۔۔۔
کیا فضول باتیں لے کر بیٹھ گئی ہو تم ،۔ ۔۔۔۔فلزہ نے نظریں چرائیں ۔
فضول کچھ بھی نہیں ہے ۔۔۔۔۔
اور محبت تو باکل بھی فضول نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زونیشہ نے شرارت سے کہا ۔۔۔
یہ محبت کہاں سے بیچ میں آگئی ۔۔۔۔۔۔فلزہ چونکی ۔۔۔۔
محبت تو بیچ میں ہی ہے ۔۔۔۔۔
محبت کی ہی تو بات ہے۔۔۔۔۔ ۔
زونیشہ آج طے کر چکی تھی کہ فلزہ کے منہ سے اقرار کروا کے ہی رہے گی ۔
"اگر محبت فضول نہیں ہے"
تو تم باسل کوایک موقع کیوں نہیں دیتی ۔
فلزہ نے بغور اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
زونیشہ کا چہرہ زرد پڑ گیا۔۔۔۔۔۔
زونیشہ دیکھو ۔۔۔۔
فلزہ کچھ کہنے لگی ،جب زونیشہ نے اس کی بات کاٹی ۔۔۔۔۔۔۔
فلزہ دیکھو،تم دیکھو ۔۔۔۔۔
تم میری بہت اچھی دوست ہو۔۔۔۔۔مجھے سمجھتی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے بارے میں سب کچھ جانتی ہو ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو تم کیسے یہ بات کرسکتی ہو ،۔۔۔۔۔۔
وہ بھی اتنی آسانی سے ۔۔۔۔۔۔
یار دیکھو ۔۔۔۔میں نے رائد سے محبت کی تھی ۔۔۔۔۔
بے پناہ محبت ۔۔۔۔۔
"میرے لئے محبت کا لفظ رائد سے شروع ہو کر رائد پہ ہی ختم ہو گیا تھا ۔۔۔۔
اب میرے دل میں ،اور میری ذندگی میں کسی اور کے لئے جگہ نہیں ہے ۔۔
سو پلیز آج کے بعد اس ٹاپک پہ مجھ سے کوئی بات مت کرنا ۔
زونیشہ نے التجا کی ۔۔۔۔۔
"میری زندگی میں اب لفظ محبت کی کوئی جگہ نہیں ہے "۔۔۔
فلزہ خالی خالی ،خاموش نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔
زونیشہ ،وہ اتنا ہی کہہ پائی ۔۔۔
مجھے میرے حال پہ چھوڑ دو فلزہ ،۔۔۔۔
اس نے التجا کی۔۔۔
اور تم نے ٹاپک بدل دیا ، میں تمہاری بات کررہی تھی ۔۔۔
حمزہ اچھا لڑکا ہے ،تمہیں پسند بھی کرتا ہے ۔۔۔۔
اور تم بھی اس سے محبت کرنے لگی ہو۔۔۔۔۔آئی نو ۔۔۔۔تمہاری بیسٹ فرینڈ ہوں اتنا تو تمہیں جانتی ہوں ،۔۔۔۔
حمزہ کو بتا دو۔۔۔۔۔
وہ تمہیں بہت خوش رکھے گا ۔۔۔۔۔۔
فلزہ خاموش بیٹھی اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔
فلزہ تم نے آج تک تنہا زندگی گزاری ہے ۔نہ ماں باپ،نہ کوئی بہن بھائی ،۔۔۔
۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔آنٹی تھی ،وہ بھی گزر گئی ۔۔۔۔۔۔
وہ اسے شانوں سے پکڑے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پیار اور فکر سے کہا،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلزہ نے نظریں جھکا لیں ۔اسکی آنکھیں نم ہو گئی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
"میری وکالت کرنے کے لئے شکریہ میم زونیشہ"
اس کی سماعت سے آواز ٹکرائی ۔۔۔
وہ پلٹی،اسکے پیچھے چند قدم دور حمزہ کھڑا مسکرا تے ہوئے کہہ رہا تھا ۔
زونیشہ نے نظریں چرانا چاہیں،۔۔۔۔۔۔(یہ کب سے یہاں کھڑا ہماری باتیں سن رہا تھا ،کہیں اس نے وہ سب تو نہیں سن لیا ۔۔۔۔۔۔)
زونیشہ نے دل میں سوچا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دل میں کئی سوال تھے۔۔۔۔۔۔۔
میں بس ابھی ہی آیا تھا،وہ نوٹس دینے۔۔۔۔۔۔۔
وہ چند قدم کا فاصلہ طے کر چکا تھا اور اب زونیشہ کے روبرو کھڑا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلزہ کے آنسو اب رخسار پر پھسلنے لگے ۔۔۔
زونیشہ نے اس کے ماں باپ کا ذکر کرکے اسے ایموشنل کردیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
فلزہ اب سے میری زمہ داری ہے ۔۔۔۔
میں وعدہ کرتا ہوں کہ ہمیشہ فلزہ کا بہت خیال رکھوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری محبت میں کبھی کمی نہیں آئے گی ۔۔۔۔۔۔۔
آج کے بعد ، اب وہ فلزہ کی جانب بڑھ رہا تھا ،
کبھی فلزہ کی آنکھ میں آنسو نہیں آئے گا ۔۔۔۔اس نے فلزہ کے آنسو اپنے ہاتھ کی پشت سے صاف کرتے ہوئے کہا ۔
فلزہ نے نم آنکھوں سے چہرہ اٹھایا اور حمزہ کو مسکراتے ہوئے دیکھا ۔۔۔۔۔۔
تھینک یو حمزہ۔۔۔۔میری دوست کو ہنسانے کے لئے،اسکے دکھ ،درد سمیٹنے کے لئے ۔۔۔۔
ہمیشہ اسکا ایسے ہی خیال رکھنا ۔۔۔۔۔۔۔
وہ اب مزید کباب میں ہڈی نہیں بننا چاہتی تھی ۔۔۔اس لئے وہاں سے خاموشی سے چلی گئی ۔۔۔۔۔
فلزہ اور حمزہ گراؤنڈ میں پتھر کے بینچ پہ بیٹھے تھے ۔۔۔۔۔
فلزہ۔۔۔۔۔آئی لو یو۔۔۔۔۔
حمزہ نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ۔۔
تم نہیں کہو گی۔۔۔۔وہ خفا ہوا ۔۔۔۔۔
آئی۔۔۔۔ لو ۔۔۔۔۔۔۔یو ۔۔۔۔۔۔۔ٹو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ نظریں جھکائے مسکرا کر بولی ۔۔۔۔
Will you marry me filzah?
اس نے اپنے ہاتھ سے انگوٹھی اتار کر اس کی جانب بڑھاتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔۔
نم آنکھیں ، ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے اس نے شرماتے ہوئے اثبات میں سر ہلادیا ۔۔۔۔۔اور ہاتھ بڑھا دیا۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
فلحال اسی سے گزارا کرلو۔۔۔۔حمزہ نے مسکراتے ہوئے کہا اور انگوٹھی پہنا دی۔۔۔۔۔
حمزہ میں جان ہی نہیں سکی ۔۔۔مجھے کب تم سے محبت ہوگئی ۔۔۔۔
وہ بمشکل اتنا ہی کہہ پائی ۔۔۔
جب بھی ہوئی ، جیسے بھی ہوئی ،۔ ۔۔۔۔بس ہوگئی نہ ۔۔۔۔میرے لئے اتنا ہی کافی ہے ۔۔۔۔۔
حمزہ کی خوشی اس کے چہرے سے واضح تھی ۔۔۔۔
فلزہ بھی خوش تھی ۔۔۔۔۔۔
-
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
-
آج اذان اور حرمین کی رخصتی تھی ۔
حرمین نے مہرون کلر کا لہنگا پہنا تھا جس پر بھاری گولڈن کام ہوا ہوا تھا جبکہ اذان گولڈن کرتے پاجامے میں مہرون واسکوٹ پہنے،ہاتھ میں برانڈیڈ گھڑی پہنے ،بالوں کو جیل سے سیٹ کیے بہت ہینڈسم لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
سب میریج ہال میں موجود تھے ۔
آشفہ اپنا لہنگا سنبھالتی ہوئی سٹیج کی طرف بڑھ رہی تھی ۔جب کسی نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا ۔
ستون کے پیچھے کھڑا وہ بابر تھا ۔
بہت حسین لگ رہی ہو ۔بابر نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ۔
چھوڑو بابر ۔کوئی دیکھے گا تو کیا سوچے گا ۔آشفہ نے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا ۔
ارےیار ایک تو تمہیں لوگوں کی بہت فکر رہتی ہے۔کبھی ہماری بھی فکر کر لیا کرو ۔ہم بھی آپ ہی کے حصے میں آئے ہیں ۔
بابر نے آشفہ کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑتے ہوئے کہا ۔
آشفہ مسکرائی ۔
بس کچھ گھنٹے رہ گئے ہیں ۔پھر آپ اور میں ہمیشہ کے لئے ایک ہو جائیں گے ۔آشفہ نے بابر کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
اور یہ چند گھنٹے چند صدیوں برابر لگ رہے ہیں ۔
اچھا اب ہاتھ چھوڑو میرا ۔اذان خفا ہو رہا ہے کہ میں اسٹیج پر نہیں گئی ۔ آشفہ نے بابر کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔
سب کپلز ساتھ جارہے ہیں اسٹیج پر ۔
ہم بھی ساتھ چلتے ہیں ۔ بابر نے پیار سے کہا ۔
اوکے جلدی چلو ۔
اسٹیج پر پوری فیملی موجود تھی ۔
آپی جلدی آئیں فیملی فوٹو شوٹ ہورہا ہے ۔
جیا نے آشفہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
آشفہ اور بابر بھی اسٹیج پر گئے ۔فیملی فوٹوز بن رہی تھی ۔
وجیہہ نے ریڈ فراک پہنی تھی ۔جبکہ زونیشہ نے بلیک لونگ فراک پہنے ، لائٹ سے میک اپ میں بلیک ائیرنگز پہنے بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔
رخصتی کا وقت ہو چکا تھا
حرمین باری باری اپنے ماں باپ اور بھائی سے ملی ۔
بابر قرآن مجید کے سائے میں اپنی بہن کو رخصت کررہا تھا ۔سب کی آنکھیں نم تھیں ۔
جب حرمین کار میں بیٹھ چکی تھی تو بابر نے آشفہ کے کانوں میں سرگوشی کی ۔
میرا انتظار کرنا ۔کل میں بھی تمہیں ہمیشہ کے لئے اپنے ساتھ لے جاؤں گا ۔
آشفہ شرمائی ۔۔۔۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
حرمین بیڈ پہ لہنگا پھیلائےگردن جھکائے بیٹھی اذان کا ویٹ کررہی تھی ۔
جب اذان دروازے سے داخل ہوا ۔
اور حرمین کے سامنے آبیٹھا ۔
اس نے بڑے پیار سے حرمین کا چہرہ اٹھایا ۔
ماشاءاللہ!
بہت خوبصورت لگ رہی ہوتی ہو ۔
"۔ سو دل اگر ہمارے ہوتے تو سب تم پر ہی ہارے ہوتے ۔"
تو کیسا لگ رہا ہے میری دلہن بن کر مسز حرمین اذان ؟
یہ لمحہ ،یہ پل ،۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔میں بیان نہیں کرسکتی کہ مجھے کتنی خوشی ہو رہی ہے آپکی مسز بن کر ۔
اذان نے حرمین کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا ۔
آئی لو یو حرمین ۔
لویو آلوٹ ۔
می ٹو ۔حرمین نے شرماتے ہوئے کہا ۔
میری منہ دکھائی ؟
حرمین نےخالی ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا ۔
منہ دکھائی ۔
ایک سیکنڈ ۔ ۔۔۔۔۔۔اذان نے سائیڈ دراز سے ایک بلیک بوکس نکالا ۔اور کھولا ۔
اس میں خوبصورت کنگن تھے ۔
یہ ہے تمہاری منہ دکھائی۔
حرمین نے ہاتھ آگے بڑھائے اور اذان نے باری باری وہ کنگن حرمین کے ہاتھوں میں پہنا دیئے ۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
اگلے دن آشفہ اور بابر کی رخصتی تھی ۔
آشفہ نے گولڈن لانگ میکسی پہنی تھی جبکہ بابر نے گولڈن شیروانی ۔
دونوں بہت پیارے لگ رہے ہیں ۔ فرزانہ نے دونوں کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔
ماشاءاللہ ۔اللہ تعالیٰ بری نظر سے بچائے ۔۔۔۔۔مہوش نے کہا ۔
آمین ۔
آمین ۔
زونیشہ اور جیا نے بلیو کلر کی فراک پہنی تھی۔
آشفہ کی رخصتی ہونے لگی تھی ۔
آشفہ باری باری اپنے سب گھر والوں سے ملی۔
بھابھی کا بہت خیال رکھنا ۔آشفہ نے جیا سے کہا ۔
زونی ۔اب مما بابا کو تم نے سنبھالنا ہے ۔انکا بہت خیال رکھنا ۔
آپ فکر نہ کریں آشفہ ۔
سب ٹھیک ہو گا انشاء اللہ ۔
انشاء اللہ ۔
آشفہ کی رخصتی ہو چکی تھی ۔۔۔۔
مہوش اداس سی ہو کر ایک طرف کرسی پہ بیٹھ گئی ۔
مما آپ بالکل فکر نہ کریں ۔آشفہ اپنے ہی گھر گئی ہے ۔
چلیں ہم بھی گھر چلتے ہیں ۔حرمین نے مہوش کو تسلی دی ۔
ہاں مما چلو بھائی ویٹ کررہے ہیں ۔
جیا نے کہا ۔
سب گھر جا چکے تھے ۔
آشفہ بیڈ پہ بیٹھی بابر کا ویٹ کررہی تھی جب بابر اندر آیا ۔
میرا انتظار کررہی تھی ؟
بابر نے پوچھا ؟
آشفہ نے منہ موڑ لیا
آج کے دن بھی لڑنے کا ارادہ ہے کیا ؟
بابر نے آشفہ کا چہرہ اپنی طرف گھماتے ہوئے کہا ۔
آشفہ نے پھر منہ موڑ لیا ۔
آشفہ میری جان ؟
بابر نے پیار سے کہا ۔
اتنا انتظار کون کرواتا ہے اپنی نئی نویلی دلہن کو ۔
آپکو کچھ احساس بھی ہے کب سے آپ کا ویٹ کررہی ہوں ۔
آپکو کیا فکر ؟
آشفہ نے پھر سے منہ موڑ لیا ۔
اچھا بھئی سوری ۔
یہ دیکھو ! کان پکڑ کے سوری ۔۔۔۔۔
بابر نے کان پکڑے ۔۔۔۔۔
اچھا بس بس ۔اب مجھے آپ ظالم نہ شو کریں ۔
یہ بتائیں میری منہ دکھائی ؟
آشفہ نے ناراضگی ختم کرتے ہوئے پوچھا ۔
منہ دکھائی ۔۔۔۔اوہ !
سوری وہ تو میں لینا بھول گیا ۔
بابر !!!!!
آپ بہت برے ہیں ۔۔۔۔۔
مجھے نہیں کرنی آپ سے بات ۔
میں چینج کرنے جا رہی ہوں ۔۔۔۔
آشفہ میکسی سنبھالتی بیڈ سے اٹھی ۔۔۔۔
بابر نے آشفہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا ۔
اتنا انتظار کیا ہے اس دن کے لئے ۔
ایسے کیسے تم چینج کرنے جارہی ہو ۔۔۔
آشفہ جو خفگی سے بابر کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔
اور تم نے کیسے یقین کرلیا کہ میں تمہاری منہ دکھائی لانا بھول سکتا ہوں۔
آشفہ بے یقینی سے بابر کو دیکھ رہی تھی
جب بابر نے اپنی شیروانی کی پاکٹ سے ایک خوبصورت بوکس نکال کر کھولا ۔
جس میں ایک خوبصورت ڈائمنڈ رنگ تھی ۔
واؤ!!!
آشفہ نے خوشگور حیرت سے دونوں ہاتھ منہ پر رکھے ۔
مے آئی ؟
بابر نے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا اور آشفہ نے خوشی سے اثبات میں سر ہلایا ۔
اور ہاتھ آگے بڑھا دیا ۔
آئی رئیلی لو یو آشفہ ! یو آر کوکنگ سو بیوٹی فل ۔۔۔۔۔۔۔۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
---
چھ ماہ بعد !!!!!!
زونیشہ کلاس میں اکیلی بیٹھی تھی جب باسل اسکے پاس آکر بیٹھا ۔
آج آپ اکیلی ؟
جی ۔۔۔۔۔۔۔
لگتا ہے آپکی فرینڈز نہیں نہیں آئیں ۔
جی .زونیشہ نے مختصر جواب دیا ۔
زونیشہ آپ مجھ سے صیح سے بات کیوں نہیں کرتیں ۔
کیا مطلب ؟
اور کیسے بات کروں ۔زونیشہ نے اکھڑے ہوئے لہجے میں کہا ۔۔۔۔۔۔۔
زونیشہ مجھے آپکی فکر ہے ۔میں آپکی رسپکیٹ کرتا ہوں ۔
آپ سے محبت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بس ۔۔۔
اور کچھ مت کہنا ۔زونیشہ نے باسل کی بات کاٹی ۔۔۔۔
آپ میری بات تو سنیں ۔ باسل نے ریکوئسٹ کی ۔
آپ جارہے ہیں ؟
یا میں چلی جاؤں ۔۔۔۔۔۔زونیشہ نے اکھڑے لہجے میں پوچھا ۔۔۔۔۔
اوکے فائن ۔فائن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں جا رہا ہوں ۔۔۔
مگر سوچ کر جواب دینا ۔۔۔۔
پلیز - - - - - - - - - - - - - - -
زونیشہ نے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔
باسل کے جانے کے بعد زونیشہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی ۔
ایم سوری ۔۔۔۔
مجھے تم سے اس انداز میں بات نہیں کرنی چاہیے تھی باسل ۔
لیکن تمہیں بھی تو مجھ سے اس طرح کی بات نہیں کرنی چاہیے نہ
تم لوگ کیوں نہیں سمجھتے ۔
کوئی نہیں سمجھتا ۔
کوئی سمجھ ہی نہیں سکتا ۔۔۔۔
۔
وہ خود سے الجھ رہی تھی ۔
-
رات کا وقت تھا ۔سب اپنے اپنے رومز میں تھے ۔
مہوش وہ میرا دوست جو دبئی میں رہتا ہے ۔ اکبر بات کررہے تھے
جب مہوش نے ان کی بات کاٹی ۔
جمال بھائی؟
ہاں جمال اور اس کا بیٹاہادی پاکستان آرہے ہیں اسی سنڈے ۔۔۔ ۔۔۔۔۔
اور جب تک وہ پاکستان میں رہیں گے
ہمارے گھر رہیں گے ۔۔۔۔
انکی خدمت میں کوئی کمی نہ رہے ۔
آپ فکر نہ کریں ۔شکایت کا موقع نہیں ملے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے اتنے سالوں بعد پاکستان ؟
سب خیریت ؟
مہوش نے الجھتے ہوئے پوچھا ۔
ہاں ہاں سب خیریت ۔
تمہیں تو پتہ ہے ہادی اور زونیشہ بچپن میں کتنے اچھے دوست ہوا کرتے تھے ۔۔۔۔۔
تو جمال کی خواہش ہے کہ یہ دوستی رشتہ داری میں بدل جائے ۔
مطلب وہ لوگ ہماری زونیشہ کو دیکھنے آرہے ہیں ۔
ہممم!!!!
لیکن آپ نے زونیشہ کو کچھ بتایا ہی نہیں ۔مہوش نے پوچھا
ہاں میری ہادی سے بات ہوئی تھی ۔
وہ کہہ رہا تھا آپ پلیز زونی کو کچھ مت بتاہیے گا میں اسے سرپرائز دینا چاہتا ہوں ۔۔۔۔
اسکا مطلب سمجھ رہے ہیں آپ ؟
ہاں بالکل سمجھ رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔
۔
ہادی بذاتِ خود زونیشہ کے سامنے اپنا پرپوزل رکھنا چاہتا ہے ۔
اور میرے خیال سے اس میں کوئی برائی نہیں ہے ۔۔۔۔۔وہ بچپن سے زونیشہ کے ساتھ ہے ۔
میرا نہیں خیال کہ اب ہمیں اس طرح سے کچھ سوچنا چاہیے ۔
چلیں جیسے آپ کو مناسب لگے ۔۔۔۔مہوش نے اکبر کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔
۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
سنڈے کی صبح سب کھانے کی ٹیبل پہ موجود تھے ۔۔۔۔۔
حرمین بیٹا آج ہمارے بہت ہی اسپیشل گیسٹ آرہے ہیں ۔۔۔۔
تم اچھے سے سب دیکھ لینا ۔خاطرطوازہ میں کوئی کمی نہ ہو ۔۔۔۔۔
مہوش نے حرمین کو تلقین کی ۔۔۔۔
جی خالہ امی ۔آپ بے فکر رہیں ۔۔۔۔۔
مما کون سے گیسٹ آرہے ہیں ۔۔۔
آپ نے ہمیں تو کچھ نہیں بتایا ۔۔۔ اذان نے حیرت سے پوچھا ۔۔۔۔
بتا تو رہی ہوں بیٹا ۔۔۔۔۔۔مہوش نے اذان کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
جبکہ سب حیرت سے مہوش کو دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔
میرے بچپن کے دوست جمال صاحب آج دبئی سے واپس پاکستان آرہے ہیں ۔۔۔۔
اور سب سےپہلے میزبانی کا شرف ہمیں بخشنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
جمال انکل وہ جو بچپن میں ہمارے گھر بہت آیا کرتے تھے ۔۔۔۔۔؟
جیا نے پوچھا ۔۔۔۔۔۔۔
وہ جس کا بیٹا تھا ہادی ۔۔۔۔؟
زونیشہ کا بیسٹ فرینڈ اور کرائم پارٹنر -----------------؟
اذلان نے شرارت سے کہا ۔۔۔۔۔
زونیشہ جو انکے آنے کا سن کر گم غم بیٹھی تھی ۔۔۔۔۔اذلان کی بات پہ چونکی ۔۔۔۔۔۔۔
ہے نا زونیشہ ۔۔۔۔۔اذلان نے پھر تنگ کرنا چاہا ۔۔۔
زونیشہ نے گھور کر دیکھا تو خاموش ہوگیا ۔۔۔۔
اچھا بھئی ۔۔۔۔۔۔سب نے ان کے ساتھ اچھے سے رہنا ہے ۔۔۔۔انہیں بالکل یہ محسوس نہ ہو کہ وہ کسی غیر فیملی میں رہ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔
اور۔ زونیشہ جیسا کہ تم جانتی ہو کہ ہادی اور تم دوست تھے اور یقیناً اب بھی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ان کی زیادہ اکسپیکٹیشنز تم سے ہی ہوں گی ۔۔۔۔انہیں شکایت کا موقع مت دینا ۔۔۔
اکبر نے زونیشہ کو یاد دلاتے ہوئے کہا ۔
جی پاپا!!!!!
زونیشہ نے بس اتنا ہی کہا ۔۔۔۔
گیسٹ روم کی صفائی کروا دینا ۔۔۔۔۔
اکبر آپ ریلیکس کریں ۔۔۔۔۔۔سب ہو جائے گا ۔آپ کیوں پریشان ہورہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سارے گھر کی اچھے سے صفائی کی گئی ۔۔۔۔۔اسپیشل کھانے تیار کروائے گئے ۔۔۔۔
گیسٹ روم کی اچھی طرح صفائی کرائی گئی ۔۔۔مگر زونیشہ جانتی تھی کہ ہادی گیسٹ روم میں نہیں سوئے گا ۔۔۔۔۔۔۔
انکے آنے میں صرف آدھا گھنٹہ رہتا تھا ۔۔۔۔۔
عاشی آپ نے کسٹرڈ بنایا ہے ؟
زونیشہ نے پوچھا ۔۔۔
نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو۔۔۔۔۔میٹھے میں کھیر بنائی ہے ۔۔۔۔ کچن میں کھڑی مصروف عاشی نے بتایا ۔۔۔۔۔
ہادی کو میٹھے میں کسٹرڈ بہت پسند ہے ۔اگر آپ کو زحمت نہ ہو تو پلیز کسٹرڈ بھی بنالیں ۔
ارے نہیں زونیشہ ۔۔۔۔۔
زحمت کیسی۔۔۔۔۔۔میں ابھی بنا دیتی ہوں ۔۔۔
اچھا تم رہنے دو ۔تھک گئی ہوگی ۔۔۔۔میں خود بنالیتی ہوں ۔۔۔۔
زونیشہ نے کسٹرڈ کا پیکٹ اٹھاتے ہوئے کہا ۔
آپ خود کچن میں کام کریں گی ۔۔۔عاشی نے حیرت سے پوچھا ۔۔۔۔
ہاں کیوں ؟؟؟؟
وہ پہلے آپ نے کبھی کچن میں کوئی کام کیا نہیں ہے نہ ۔۔۔اس لئے ۔۔۔۔
عاشی نے بتایا ۔۔۔۔
پتہ ہے عاشی ۔۔۔بچپن میں نہ جب رات کو سب سو جاتے تھے تو ہادی اور میں کچن میں آتے تھے ۔میں کسٹرڈ بناتی تھی اور وہ میری ہیلپ کرتا تھا ۔۔۔۔
صبح جب سب کچن گندا ہوا اور بکھرا ہوا دیکھتے تھے تو مما کہتی تھی مجھے بتا دیا ہوتا میں بنا دیتی ۔۔۔
اصل میں مجھے کسٹرڈ بنانا سکھایا ہی ہادی نے ہے۔۔۔۔
اور ہادی کو ؟؟؟
عاشی نے پوچھا ۔۔۔
اسکی مرحوم ماں نے ۔۔۔۔
۔
شاید وہ جانتی تھی کہ اس کی زندگی بہت تھوڑی ہے اس لئے اپنی زندگی میں ہی اپنے بیٹے کو ہر کام سکھا گئی ۔۔۔۔
زونیشہ کسٹرڈ بناتے ہوئے عاشی سے باتیں کررہی تھی ۔
ہادی کا اور کوئی بہن بھائی نہیں ہے ؟
عاشی نے پوچھا ۔۔۔
وہ صرف باپ بیٹا ہی ہیں ۔۔۔۔
۔
اور ہم ہی ان کی فیملی ۔۔۔۔۔بچپن میں بھی ہمارے ساتھ ہی رہا کرتے تھے ۔۔۔۔۔
آنٹی کی ڈیتھ کے بعد دو سال ہمارے ساتھ رہے ۔۔۔پھر بیرون ملک چلے گئے ۔۔۔
اور اب آج آرہے ہیں ۔۔۔۔
پورے پندرہ سال بعد ۔۔۔۔۔
ان پندرہ سالوں میں آپ ہادی کے ساتھ کنٹیکٹ میں تھیں ؟
جب ہی گاڑی کا ہارن بجا ۔۔۔۔۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
وہ لوگ آگئے ۔۔۔زونیشہ نے کہا اور سب نے انکا پھولوں اور بکے کے ساتھ ویلکم کیا ۔۔۔۔
ہادی تھری پیس پہنے کوئی بڑا بزنس مین لگ رہا تھا ۔۔۔۔
چہرے پہ بلا کی سنجیدگی ؛ لہجے میں مٹھاس ،۔۔۔۔وہ بہت ہینڈسم نوجوان تھا۔
وہ دکھنے میں ہی سب سے الگ لگ رہا تھا
جمال اور اسکا بیٹا سب سے خوش دلی سے ملے ۔۔۔۔۔۔۔۔
سب سے آخر میں ہادی زونیشہ سے ملا ۔
اسلام وعلیکم زونی !!!!
کیسی ہو ؟؟؟
ہادی نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔۔
زونی ناراض ہے تم سے ۔۔۔۔زونیشہ نے منہ بناتے ہوئے کہا ۔۔۔
چلیں آئیں بیٹھتے ہیں اب کیا کھڑے کھڑے ساری باتیں کرنی ہیں ۔۔۔۔اکبر نے کہا ۔۔۔
سب لاؤنج میں بیٹھے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
مہوش کھانا لگواؤ ۔۔۔اکبر نے مہوش کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
جی کہتی مہوش اٹھ گئی ۔۔۔میں مدد کروادیتی ہوں کہتے ساتھ حرمین بھی اٹھ گئی
سب کھانے کی ٹیبل پر موجود تھے ۔۔۔۔
عاشی یہ کسٹرڈ پاس کردیں ۔۔۔زونیشہ نے کسٹرڈ آگے بڑھاتے ہوئے کہا ۔۔۔
ہادی کی نظر مسلسل زونی کے مصنوعی ناراضگی کی طرف تھی ۔۔۔۔
ہادی کسٹرڈ کے نام پہ چونکا تھا۔۔۔۔
۔
کچھ یاد آگیا تھا ۔۔۔۔۔
لو ہادی بیٹا ۔۔۔۔ تمہیں تو کسٹرڈ بہت پسند ہے نہ ؟
مہوش نے کسٹرڈ ڈالتے ہوئے کہا ۔۔۔
آنٹی آپ کو ابھی تک یاد ہے ؟
ہادی چونکا ؟
نہیں بیٹا!!!
میری یاداشت کہاں اتنی اچھی !
یہ تو زونیشہ کو یاد تھا ۔۔۔اور اسی نے بنایا ہے ۔۔۔۔
مہوش نے بتایا۔۔
آنٹی وہ تو میں ٹیسٹ کرتے ہی جان گیا کہ زونی کے ہاتھ کا ٹیسٹ ہے ۔۔۔
ہادی نےکسٹرڈ ٹیسٹ کرتے ہوئے پیار سے زونی کو دیکھا ۔۔۔
تو زونیشہ بیٹی کو ابھی تک ہم لوگ اور ہماری پسند ناپسند یاد ہے ؟
جمال صاحب نے پوچھا ۔۔۔۔
۔
انکل اس میں بھولنے والی کونسی بات تھی ۔۔۔
چھوڑ کے آپ لوگ گئے تھے ۔۔۔۔
۔
ہم سب تو وہی ہیں ۔۔۔۔ویسے ہی ہیں ۔۔
زونیشہ نے خفا سے لہجے میں کہا ۔۔۔
تو میری بیٹی ابھی تک اسی بات پہ ہم سے خفا ہے کہ ہم چھوڑ کے کیوں گئے ۔۔۔
بیٹا وہ حالات ہی ایسے تھے کہ ہمیں جانا پڑا ۔۔۔
ہمارے جانے میں ہی بہتری تھی تب ۔۔۔۔
حرمین ان کے آنے سے ڈسٹرب تھی ۔ ان کی باتیں اسکی سمجھ میں نہیں آرہی تھیں ۔
اتنی بے تکلفی!!!!! وہ بہت شوکڈ تھی ۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
ہادی کو کچھ یاد آیا تھا ۔۔۔۔
۔
۔
او شٹ ۔۔۔۔
میں بھول کیسے گیا زونیشہ کی ناراضگی کی وجہ ۔۔۔
اور میں نے یہ کیسے سوچ لیا کہ زونی بھول گئی ہوگی ۔۔۔
اور مجھے معاف کردیا ہوگا ۔۔۔
ہادی کو سب یاد آرہا تھا ۔
۔
پندرہ سال پہلے
جب ہادی نے زونی کو بتایا تھا کہ ہم بیرون ملک جارہے ہیں تو زونی نے کتنا روکا تھا ۔۔۔
تب زونی چھ سال کی اور ہادی آٹھ سال کا تھا ۔
۔
مت جاؤ ۔ہادی ۔۔۔
میں کس کے ساتھ کھیلوں گی ۔۔
میرا تمہارے سوا اور کوئی دوست نہیں ہے ۔۔۔
ہادی پلیز مت جاؤ ۔یا مجھے بھی بھی ساتھ لے جاؤ۔
وہ بچی تھی اور بچوں کی طرح ضد کررہی تھی ۔۔۔
زونی میرا انتظار کرنا ۔۔۔
میں واپس آؤں گا اور جب آؤں گا تو تمہیں ساتھ لے جاؤں گا ۔
۔
ہادی نے تسلی دی تھی ۔۔۔
چلیں بیٹا ۔۔۔۔
جمال صاحب نے پوچھا تھا ۔۔
جی پاپا ۔۔۔ہادی نے زونیشہ کو امید بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا تھا کہ شاید وہ میری بات سمجھ گئی ہے ۔۔۔
ہادی اب کبھی واپس مت آنا ۔۔۔
میں تمہارے ساتھ اب کبھی نہیں جاؤں گی ۔
آئی ہیٹ یو ۔
اگر آج جارہے ہو تو کبھی واپس مت آنا ۔
زونیشہ روتے ہوئے ہادی کو جاتے دیکھ رہی تھی ۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
۔
ہادی ماضی کی یادوں سے باہر نکلا تھا ۔
زونیشہ کو دیکھا جو ابھی بھی اسی غصے میں تھی ۔۔۔
جیسے زونیشہ اسی پل میں کہیں رک سی گئی تھی ۔۔۔
وہ ہادی کو دیکھے بنا کھانا کھانے میں مصروف تھی ۔۔۔
۔
ناک پہ غصہ رکھے وہ وہی بچپن والی زونی تھی ۔۔۔
مگر وہ بہت خوبصورت ہوگئی تھی ۔۔
۔
بہت سنجیدہ ۔۔ بچپن میں تو اتنی سنجیدہ نہ تھی ۔
ہنسنا تو جیسے بھول ہی گئی ہو۔ ۔
وہ مکمل طور پر بدل چکی تھی ۔۔۔
اسکے غصے کے علاؤہ ہادی کو اپنی پہلے والی زونی اب کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی ۔۔
وہ ہادی کے آنے سے خوش تھی یا نہیں ۔
۔
وہ نہیں جان سکا ۔۔
۔
سب کچھ الجھا ہوا سا تھا ۔
وہ کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھا ۔
مگر یہ سب اس نے خود الجھایا تھا اور اسے خود ہی سلجھانا تھا ۔۔
۔
اور وہ اس سب کے لئے تیار تھا ۔۔۔
اور خوفزدہ بھی ۔۔۔
کہیں زونی اپنی زندگی میں آگے نہ بڑھ گئی ہو ۔۔
۔
یہی فکر اسے کھائے جا رہی تھی ۔
زونی کی سنجیدگی کی آخر کیا وجہ تھی ۔۔۔
وہ اسی بات کی کھوج میں تھا ۔۔۔۔
سب کھانا کھا چکے تھے ۔۔۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
۔ شام کے چھ بج رہے تھے -
فرزانہ اور جاوید لان میں بیٹھے باتیں کررہے تھے ۔
جب آشفہ چائے لے کر آئی اور فرزانہ اور جاوید کو بنا کر دی ۔
شکریہ بیٹا ۔جاوید نے چائے کا کپ پکڑتے ہوئے کہا ۔
خالہ امی چائے ۔آشفہ نے خالہ کو مخاطب کیا ۔
کتنی بار کہا ہے مجھے صرف امی کہا کرو ۔
مجھے اچھا لگے گا ۔فرزانہ نے چائے کا کپ پکڑتے ہوئے کہا ۔۔
۔
آشفہ چائے پکڑا کر کچھ الجھی ہوئی سی لگ رہی تھی ۔
کیا بات ہے بیٹا !
کچھ کہنا چاہتی ہو ۔ جاوید نے کچھ دیر آشفہ کو دیکھنے کے بعد کہا ۔
فرزانہ بھی متوجہ ہوئی ۔
وہ خالو۔
وہ میں !!
کیا بیٹا ۔بولو کیا چاہیئے ۔
جاوید نے پیار سے پوچھا ۔۔
وہ ابو کے دوست ہیں جمال انکل ۔
آج انہوں نے دبئی سے پاکستان آنا تھا ۔
ہم سب سے بہت پیار کرتے تھے ۔
کچھ عرصہ ہمارے ساتھ رہے بھی تھے ۔۔۔
تو وہ میں چاہ رہی تھی کہ ۔بابر ۔آ۔جائے ۔تو میں ۔۔۔
امی ابو کی طرف چلی جاؤں ۔۔
اسی بہانے بابر بھی ان سے مل لیں گے ۔
آشفہ نے ڈرتے ڈرتے پرمیشن چاہی ۔
ہاں ہاں بیٹا کیوں نہیں ۔
ضرور جاؤ۔۔۔۔ اور اس میں اتنا گھبرانے والی کونسی بات تھی ۔
وہ امی ۔۔
می ۔ میں نے کھانا بنا دیا ہے ۔۔۔۔
اگر آپ کی اجازت ہو تو میں تیاری کرلوں ۔آشفہ نے فرزانہ سے اجازت چاہی ۔۔
ہاں ہاں جب جاوید صاحب نے اجازت دے دی ہے تو مجھ سے الگ سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے ؟
فرزانہ نے طنزیہ انداز میں کہا ۔۔
جی ۔میں جاؤں ۔
ہاں ہاں بیٹا جاؤں ۔۔
جاوید نے پہلے فرزانہ کو دیکھا اور پھر کہا ۔۔۔
آشفہ جا چکی تھی ۔۔
۔
کیا ہوگیا ہے تمہیں فرزانہ ۔کیوں بچی کے پیچھے پڑی رہتی ہو ۔
بھانجی ہے تمہاری ۔
جاوید نے فرزانہ سے پیار سے کہا ۔
۔
جی، بھانجی ہے مجھے یاد ہے ۔
اور میرا ایک ہی بیٹا ہے ۔۔۔۔۔
اور ابھی تک ہمیں کوئی خوشی کی خبر نہیں سنائی اس نے ۔۔
فرزانہ نے اپنے چڑچڑے پن کی وجہ بتائی ۔۔۔
۔
ابھی شادی کو وقت ہی کتنا ہوا ہے ۔
تم خواہ مخواہ بچی کے دل میں ہمارے لئے نفرت کا بیج بو رہی ہو ۔
جاوید نے سمجھایا ۔
۔
حرمین کی شادی بھی تو اسکے ساتھ ہوئی تھی نہ ۔
۔
وہ تو ماشاءاللہ سے خوش خبری سنا چکی ہے ۔
آشفہ بابر کا ویٹ کرنے باہر لان میں آئی تھی جب اس نے فرزانہ کی آخری بات سن لی ۔
اپنے آنسوؤں کو ضبط کیے وہ چہرے پہ ہاتھ رکھتی اپنے کمرے کی طرف بھاگتے ہوئے گئی ۔
جاوید نے اسے جاتے ہوئے دیکھ لیا تھا ۔
اس نے تمہاری ساری باتیں سن لی ہیں ۔
تم بھی حد کرتی ہو فرزانہ ۔
جاوید نے فرزانہ کو ڈانٹتے ہوئے کہا ۔
سن لی ہیں تو اچھا ہے نہ ۔
اسے پتہ تو ہونا چاہئے نہ ۔فرزانہ اپنی ڈھٹائی پہ قائم تھی ۔
-
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
آشفہ آئینے میں خود کو دیکھ رہی تھی ۔
آنسو اب رخسار پر گرنے لگے تھے ۔
" حرمین کی شادی بھی تو اسکے ساتھ ہوئی تھی نہ ۔
وہ تو سنا چکی ہے خوشخبری ۔"
آشفہ کو فرزانہ کے کہے لفظ یاد آئے ۔
کیا ہوا تم تیار نہیں ہوئی ۔۔
تب ہی بابر اندر داخل ہوا اور کہنے لگا ۔
آپ کب آئے ؟ آشفہ نے آنسو پونچھتے ہوئے پوچھا ۔
میں تیار ہوں
۔
آشفہ نے اپنے آنسو چھپانے کی کوشش کی ۔
کیا ہوا تم رو رہی ہو ۔بابر نے کف موڑتے ہوئے آشفہ کو دیکھا۔
نہیں ۔۔۔۔۔۔
بس آنکھ میں کچھ چلا گیا!!!!!
بابر نے آشفہ کا چہرہ اپنی طرف کیا ۔
نہیں تو ۔۔
میں کیوں روؤں گی ۔
آشفہ تمہیں پتہ ہے ۔بابر نے آشفہ کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا ۔
آنکھیں کبھی جھوٹ نہیں بولتیں ۔
اور اس وقت پتہ ہے تمہاری آنکھیں کیا کہہ رہی ہیں مجھ سے ؟
بابر نے آشفہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ۔
آشفہ نے نظریں جھکا لیں ۔
یہ کہہ رہی ہیں کہ تم رو رہی ہو ۔
۔
اور مجھ سے کچھ چھپا رہی ہو ۔
۔
آشفہ نے نظروں کے ساتھ ساتھ چہرہ بھی جھکا دیا۔
کیا ہوا ہے بتاؤ۔
ادھر میری طرف دیکھو ۔بابر نے آشفہ کا جھکا چہرہ اٹھایا ۔
آنکھوں میں نمی سی آگئی ۔
بابر چلیں ۔
لیٹ ہو رہے ہیں ۔آشفہ نے پلٹتے ہوئے کہا اورآنکھیں صاف کیں ۔
میں اپنا بیگ لے لوں ۔کہتی آشفہ اپنا بیگ اٹھانے لگی ۔
۔
جب تمہیں مناسب لگے ۔تب بتا دینا ۔
میں ویٹ کروں گا ۔
بابر نے آشفہ کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
دونوں گاڑی میں بیٹھتے اکبر کے گھر کی طرف روانہ ہوگئے ۔
آشفہ بہت اداس تھی ۔۔۔پورے راستے اس نے کوئی بات نہیں کی ۔بابر اسٹیرنگ گھماتا اسے بار بار دیکھ رہا تھا ۔
کچھ بھی پوچھنا بے سود تھا ۔وہ جانتا تھا آشفہ کم سے کم ابھی تو کچھ نہیں بتائے گی ۔
راستے میں بابر نے آشفہ کو گجرے لے کر پہنائے ۔۔۔۔۔
تمہیں گجرے بہت پسند ہیں نہ ۔بابر نے پیار سے آشفہ کو دیکھا جو گجرے پہن کے خوش ہوئی تھی ۔۔۔
ہممم ۔۔۔۔۔۔
آشفہ میں نہیں جانتا تم کیوں اداس ہو ۔پر پلیز اپنا موڈ ٹھیک کرلو۔
ورنہ خالہ خالو کیا سوچیں گے کہ میں تمہیں خوش نہیں رکھتا ۔۔بابر نے التجا کی ۔
بابر میں بالکل ٹھیک ہوں ۔۔۔دیکھیں کچھ نہیں ہوا مجھے ۔۔۔آشفہ نے بابر کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ۔
میں صاف دیکھ سکتا ہوں کہ تم آپ سیٹ ہو ۔۔۔خالہ خالو تو پھر تمہارے ماں باپ ہیں ۔۔۔۔
ماں باپ تو من کی بات بھی جان لیتے ہیں۔۔۔
کیا وہ تمہاری سرخ آنکھیں نہ دیکھ پائیں گے۔۔۔۔بابر نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ۔
بابر ۔۔۔۔
اگر میں ابھی تک ماں نہیں بن سکی تو اس میں میرا کیا قصور ہے ؟
آشفہ نے چہرہ جھکائے وجہ بتا دی ۔اس نے بابر سے کبھی کچھ نہیں چھپایا تھا ۔
میرا خیال ہے اب ہمیں چیک اپ کروا لینا چاہیئے ۔آشفہ نے بنا چہرہ اٹھائے اپنے من کی بات کہہ دی ۔۔۔
بابر نے گاڑی روکی ۔۔۔۔۔۔۔
آشفہ کسی نے کچھ کہا ہے ؟ بابر اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے بولا ۔
نہیں - - - -
بس ۔---تم ہی ضد کررہے تھے کیوں آپ سیٹ ہو تو بس وجہ بتائی ہے ۔۔۔
الحمدللہ بھابھی بھی تو خوش خبری سنا چکی ہیں ۔۔۔۔اب سب کی اکسپیکٹیشنز ہم سے ہیں ۔۔۔
آشفہ نے بڑی صفائی سے جھوٹ بولا ۔۔
آشفہ اللّٰہ پہ بھروسہ رکھو ۔۔۔۔
-
-
وہ گھر پہنچ چکے تھے ۔۔۔
بابر سے بات کرکے آشفہ اپنا دل ہلکا کر کی تھی ۔
زونی اب تو مان جاؤ۔
اب تو آئسکریم بھی کھلا دی ہے ۔تمہیں تو آئسکریم بہت پسند تھی نہ ۔
آئسکریم کے نام پہ تم ہمیشہ مان جاتی تھی ۔
ہادی نے زونیشہ کو اس کا فیورٹ فلیور دلاتے ہوئے کہا ۔
زونی نے ایک نظر ہادی کو دیکھا ۔
پھر آئسکریم کھانے میں مصروف ہوگئی ۔۔
ہادی زونیشہ کو دیکھتا رہا ۔
-
۔۔۔۔
ارے ہادی بھائی !
آپ کی آئسکریم تو پگھل گئی ۔
جیا نے ہادی کی آئسکریم کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
چھوڑو ۔۔۔۔
مجھے ویسے بھی نہیں کھانی ۔ہادی نے آئسکریم پھینکتے ہوئے کہا ۔
تم لوگ آئسکریم ختم کرلو ۔پھر چلتے ہیں ۔
ہادی نے زونیشہ سے منہ موڑتے ہوئے کہا ۔
۔
آپ نے نہیں کھانی ؟
جیا نے پوچھا ۔
نہیں ۔ ہادی نے مختصر جواب دیا ۔
-
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
سب ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے تھے جب آشفہ اور بابر آئے ۔
اسلام وعلیکم مما بابا ۔
کیسے ہیں آپ ؟
بابراور آشفہ مما بابا سے ملے
-
اسلام وعلیکم انکل ۔آشفہ اور بابرجمال صاحب سے ملے ۔کیسے ہیں آپ ؟
بہت ناراض ہوں آپ سے ۔
میری شادی پہ نہیں آئے آپ ۔
آشفہ نے بیٹھتے ہوئے شکوہ کیا ۔
تم بھی ناراض ہو ۔
زونیشہ بھی ناراض ہے ۔
جمال صاحب نے معصومانہ انداز میں کہا ۔
انسان اسی سے ناراض ہوتا ہے جس پر اسے مان ہوتا ہے ۔
آشفہ نے لاڈ سے کہا ۔
ہادی کہاں ہے ؟
نظر نہیں آرہا ۔؟
آشفہ نے ادھر ادھر نظریں گھماتے ہوئے پوچھا ۔
اور بھابھی ؟
وہ آرام کررہی ہے ۔صبح سے کام میں لگی رہی ہے ۔میں نے اسے آرام کرنے بھیجا ہے ۔
مہوش نے بتایا ۔
اورہادی
وہ !!!!!۔
جیا ضد کررہی تھی کہ ہمیں آئسکریم کھلانے لےجائیں تو بس ان ہی کو لے کر گیا ہے ۔
مہوش نے بتایا ۔
۔
جیا کبھی نہیں بڑی ہوگی
آج ہی تو آیا ہے ۔اسے ریسٹ تو کرنے دیا ہوتا ۔
آشفہ نے کہا ۔
نہیں ایسی کوئی بات نہیں ۔
وہ خود بھی یہاں کے ماحول اور یہاں کی موج مستی کو بہت مس کررہا تھا ۔
اگر جیا نہ کہتی تو ہادی نے خود آفر کردینی تھی آئسکریم ۔
جمال صاحب نے وضاحت دی ۔
اچھا میں بھابھی کو دیکھ کہ آتی ہوں ۔کہتی آشفہ اذان کے روم کی طرف بڑھ گئی ۔۔
بھابھی ،
بھابھی؟
حرمین سو رہی تھی ----
تو آشفہ واپس آگئی ۔
جمال بابر اور آشفہ سے گپ شپ میں مصروف تھا ۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
ہادی کے سامنے آئسکریم کی ۔
جیا میں نے کہا نہ میرا دل نہیں ۔۔۔۔۔۔
ہادی کہتے ہوئے مڑا ۔
وہ جیا نہیں زونی تھی ۔
کھا لو۔زونی نے آئسکریم بڑھاتے ہوئے بس اتنا ہی کہا ۔
مجھے نہیں کھانی ۔ہادی نے دوبارہ منہ موڑ لیا ۔
چلو جیا ۔ ۔۔۔ہمیں بھی نہیں کھانی ۔
چلو گھر چلتے ہیں ۔زونی نے جیا کے ہاتھ سے آئسکریم لیتے ہوئے کہا ۔
جیا کو تو کھانے دو ۔۔۔۔۔کیوں بچی سے آئسکریم چھین رہی ہو ۔
ہادی نے زونی کا ہاتھ روکتے ہوئے کہا ۔
بھیا!!.
ایک اور آئسکریم دیجیئے گا چوکلیٹ فلیور میں ۔۔۔۔۔۔
ہادی نے ز ونی کو دیکھا ۔
میرے لئے آئسکریم لینی تھی تو کم سے کم میرا فیورٹ فلیور تو لیتی ۔
ہادی نے آئسکریم پکڑتے ہوئے کہا ۔
یہ سزا ہے تمہاری ضد کی ۔
اب جلدی کرو ۔دیر ہورہی ہے ۔
زونی نے کہا ۔۔۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
۔
سب گھر آچکے تھے ۔
ارے آشفہ دی آپ ۔
ہادی دیکھ کر اچھلا تھا ۔
نمستے۔۔۔۔دیدی ۔
دی ۔۔۔۔۔ ہادی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آشفہ نے ہادی کا کان پکڑا ۔۔۔
اچھا چھوڑو نہ دی ۔
اتنے سالوں بعد آیا ہوں ۔
ایسے میرا ویلکم کریں گی ۔
آشفہ نے ہادی کا کان چھوڑا ۔
۔۔
اسلام وعلیکم بابر بھائی ۔ ہادی بابر سے ملا ۔۔۔۔
آپکی تو خیر نہیں ہوتی ہوگی آشفہ دی سے ۔۔۔۔
بابر ہنس۔ پڑا ۔۔۔۔
ہادی اب مجھے دی مت کہنا آشفہ خفا سی ہوئی ۔
ارے دیدی ۔میں ہندو نہیں ہوا بس تھوڑی سی ہندی سیکھی ہے ۔۔۔۔۔
وہ کیا ہے نہ انسان کو ہر زبان آنی چاہیے ۔
ہادی نے شرارتی انداز میں کہا ۔۔۔
۔
۔
اکیلے اکیلے آئسکریم کھانے چلے گئے ۔مجھے کسی نے پوچھا ہی نہیں ۔
۔آشفہ نے مصنوعی ناراضگی کا اظہار کیا ۔
آشفہ دی ۔
۔
گیسٹ کون ہے ؟
عبدالہادی ۔۔
میزبان کون ہے ؟
آشفہ دی ۔۔
تو آئسکریم کسے کھلانی چاہیے تھی ؟
آشفہ دی کو ۔۔۔
ہادی ۔۔۔۔۔۔۔۔بالکل نہیں بدلے ۔
بدلنا بھی کون چاہتا ہے ؟
آشفہ دی ۔
۔
سب
گپ شپ میں مصروف تھے ۔
-
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
رات کافی ہوگئی ہے چلو سب سوجاؤ۔
۔
آشفہ نے کہا ۔
میں کہاں سوؤں گا مجھے کسی نے بتایا ہی نہیں ۔
ہادی نے معصوم سا چہرہ بناتے ہوئے پوچھا ۔
گیسٹ کہاں سوتے ہیں ؟
گیسٹ روم میں ۔۔۔۔
تو آپ عبدالہادی صاحب کہاں سوئیں گے ۔۔۔ زونی نے ہادی کے انداز میں لاڈ سے کہا
گیسٹ روم میں ۔۔۔۔آشفہ نے بات مکمل کی ۔
نہیں۔۔۔۔ نہیں گیسٹ روم میں تو چھپکلیاں ہوں گی ۔
مجھے ڈر لگتا ہے ۔
مجھے نہیں وہاں سونا ۔۔۔
ہادی اچھلا ۔۔۔
تو کیا دبئی میں چھپکلیاں نہیں ہوتیں ہادی بھائی ؟
جیا نے معصومانہ انداز میں سوال کیا ۔۔۔
سب ہنس پڑے ۔۔
نہیں ۔نہیں ۔مجھے گیسٹ روم میں۔ نہیں سونا ۔۔۔
اوکے تم سٹورروم میں سو جانا ۔۔زونی نے حل نکالا ۔
وہاں بھی تو چھپکلیاں ہوں گی نہ؟
ہادی نے معصوم سا چہرہ بناتے ہوئے پوچھا ۔
۔
زیادہ نہیں ۔بس ایک آدھی ہوگی تمہیں کمپنی دینے کے لئے ۔زونی نے کہا ۔۔۔
دی ۔۔۔مجھے اپنے گھر لے جائیں ۔
ان کے گھر میں شاید اب میری کوئی جگہ نہیں ۔ ہادی نے آشفہ کا پلو پکڑتے ہوئے کہا ۔
کون کہے گا کہ یہ ایک بزنس مین ہیں ۔ اور دبئی سے آئے ہیں ۔۔۔۔زونی نے مذاق بناتے ہوئے کہا ۔
ہادی زونیشہ کو ہنستے ہوئے دیکھ رہا تھا ۔وہ جب سے آیا تھا زونیشہ کو ہنسانے کی کوشش کررہا تھا ۔۔۔
اب کہیں جاکر زونیشہ کھل کھلا کر ہنس رہی تھی ۔۔۔۔
ہادی مجھے پتہ تھا تم گیسٹ روم میں نہیں سو گے ۔اس لئے تمہارا روم صاف کرا دیا تھا میں نے ۔
۔
ہادی کی یہی فیملی تھی ۔ہادی سب سے مل کر بہت خوش ہوا تھا ۔اور ہادی سے مل کر بھی سب کو خوشی ہوئی تھی ۔
بس شاید ہادی کی محبت اب اس کی نہیں رہی تھی ۔۔۔۔اسے ایسا محسوس ہورہا تھا ۔۔۔۔۔
اور شاید وہ صیح بھی تھا ۔۔شاید یہ صرف اسکا وہم ہو ۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
-
ہفتہ کی صبح سب معمول کے مطابق اٹھے تھے ۔۔۔لیکن ہادی سو رہا تھا ۔۔۔۔
سب ڈائننگ ٹیبل پہ موجود تھے ۔
چلیں اذلان.
زونیشہ نےاٹھتے ہوئے بریڈ کا پیس منہ میں ڈالتے ہوئے کہا ۔
ہمم چلو۔۔ دیر ہورہی ہے ۔جیا بھی ساتھ اٹھی تھی ۔
اللّٰہ حافظ مما ۔
اور ہاں آج میری ایکسٹرا کلاس ہے ۔اس لئے مجھے دیر ہو جائے گی ۔
اذلان تم جیا کو ٹائم سے لے لینا ۔
میں فری ہوکر تمہیں کال کرلوں گی ۔
اوکے ۔اذلان نے ہامی بھری ۔
اوکے بیٹا نو ایشو ۔۔
اچھا کیا جو تم نے ابھی بتا دیا ورنہ ہم ایسے ہی پریشان ہوتے رہتے ۔
مہوش نے فکر سے کہا ۔
مما فکر کرنے کی کوئی بات نہیں ۔
اوکے مما بائے ۔
بائے مما جیا بھی بیگ کندھے پہ ڈالتی باہر گاڑی میں جا بیٹھی ۔۔۔
۔۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
زونیشہ کہاں تھی یار ؟
کتنی کالز کی میں نے ؟
وردہ نے زونیشہ کو جیسے ہی اندر داخل ہوتے دیکھا ۔اسکی طرف بڑھتے ہوئے پوچھا ۔۔
۔
اوہ سوری ۔۔۔فون ساہلینٹ پہ تھا ۔
زونیشہ نے بیگ میں سے فون نکالتے ہوئے کہا ۔
سات مس کالز تھیں وردہ کی ۔
سب خیریت تو ہے نہ ؟
زونیشہ نے فکرمندی سے وردہ کو دیکھا ۔
ہاں ہاں سب خیریت ہے ۔۔۔
حمزہ نے گھر میں فلزہ کی بات کی تھی ۔۔۔۔۔
-
اس کے گھر والے فلزہ سے ملنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔فلزہ چاہ رہی تھی کہ آج کا دن ہمیں اس کے ساتھ ہونا چاہیے ۔
آج فلزہ کی سادہ سی منگنی ہے
زونیشہ وردہ کی بات سن کرخاموش ہوگئی۔ وہ کچھ سوچنے لگی ۔۔۔۔۔
کیا سوچ رہی ہو ۔
ہمیں ابھی نکلنا چاہیے ۔وردہ نے اسے کندھے سے پکڑ کر ہلایا ۔
وردہ تم جاؤ۔۔۔۔میری آج ایک ایکسٹرا کلاس ہے ۔پہلے بھی مس ہوگئی تھی ۔
بہت مشکل سے سر مانیں ہیں دوبارہ لیکچر دینے پر ۔۔۔۔۔میں آج پھر سے لیکچر مس نہیں کرسکتی ۔
پلیز تمہیں اسکے پاس ہونا چاہیے ۔۔ میں کلاس لے کر فوراً پہنچنے کی کوشش کروں گی ۔
تم جاؤ۔
زونیشہ نے وردہ کو جانے کو کہا ۔
اوکے ۔کوشش کرنا جلدی آجاؤ۔
وردہ تلقین کرتی چلی گئی ۔
اوفوہ ۔
آئی نو فلزہ تم مجھ سے بہت ناراض ہوگی لیکن میں کیا کروں ۔
زونیشہ کی کلاس کا وقت ہوگیا تھا وہ کلاس اٹینڈ کرنے چلی گئی ۔
کلاس کے دوران باسل زونیشہ کے پاس آکر بیٹھ گیا ۔
سر لیکچر دے رہے تھے ۔
زونیشہ نے ایک نظر باسل کو دیکھا ۔وہ بے پرواہ سا ہو کر بیٹھا صرف لیکچر سن رہا تھا ۔
زونیشہ کو باسل کا اسکے پاس آکر بیٹھنا بالکل اچھا نہیں لگا تھا ۔۔۔۔۔۔
لیکچر آف ہو چکا تھا ۔۔۔
زونیشہ لیکچر نوٹ کررہی تھی جب باسل نے اس کی طرف دیکھا ۔
اوہ زونیشہ!!!!
تم ۔
مجھے لگا کوئی اور ہے ۔
کیسی ہو ۔باسل نے پوچھا ۔
زونیشہ نے نظر اٹھائے بنا جواب دیا ۔
ٹھیک ہوں ۔۔۔۔۔
آج بھی اکیلی ہو ۔
باسل نے ادھر ادھر دیکھنے کے بعد کہا ۔
جی ۔۔
زونیشہ آپ نے جواب نہیں دیا ۔
باسل نے بغور اسکا چہرہ دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
کس بات کا ؟
زونیشہ کے ہاتھ رکے تھے ۔
آج پورا ایک ہفتہ ہوگیا ۔اور آپ نے کوئی جواب نہیں دیا ؟
باسل مسلسل اسے دیکھ رہا تھا ۔
کس بات کا جواب ؟
کیسا جواب ؟۔
زونیشہ کی آواز بلند ہوئی تھی ۔
میں نے کہا تھا سوچ کے جواب دیجیئے گا ۔
باسل نے بس اتنا ہی کہا ۔۔۔
اس بارے میں مجھے سوچ کر جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔
میں نے آپ کو اسی دن ،اسی پل جواب دے دیا تھا ۔
زونیشہ نے شائستگی سے جواب دیا ۔
زونیشہ مجھ میں آخر کیا کمی ہے ؟
باسل بہت افسردگی سے بولا تھا ۔
کوئی کمی نہیں ہے ۔۔۔۔۔زونیشہ نے مختصر جواب دیا ۔
تو پھر آپ مجھے اکسیپٹ کیوں نہیں کرتیں ۔
میں وعدہ کرتا ہوں ہمیشہ آپ کا بہت خیال رکھوں گا ۔
باسل نے التجا کی ۔
باسل تم اچھے لڑکے ہو ۔اور یقیناً ایک بہت اچھے لائف پارٹنر ثابت ہو گے ۔۔۔۔
تم ایک اچھی اور خوبصورت لڑکی ڈیزرو کرتے ہو ۔
جو تم سے محبت کرے ۔تمہیں چاہے ۔تمہیں دل سے اپنائے ۔۔۔۔
جسے اس بات پر فخر ہو کہ تم اس کے لائف پارٹنر ہو ۔۔۔۔۔۔۔
جس کے لئے اس کا سب کچھ تم ہی ہو ۔
اور وہ لڑکی میں نہیں ہوں ۔۔۔
کمی تم میں نہیں ،کمی مجھ میں ہے ۔۔۔
میں تمہاری محبت کے قابل نہیں ہوں ۔۔
میں---
اپنے پیرنٹس کی مرضی سے شادی کرنا چاہتی ہوں ۔
کسی ایسے انسان سے ۔جو میرے ماضی کے بارے میں کچھ نہ جانتا ہو ۔
جو مجھ سے ہمدردی یا سمجھوتہ نہیں کرے ۔بلکہ دل سے اپنائے ۔
اور رائد سے محبت کرنے کے بعد میں اس نتیجے پہ پہنچی ہوں کہ ایک لڑکی کو ایسا لائف پارٹنر چاہیے ہوتا ہے جو اس سے محبت کرے یا نہ کرے اس کی عزت ضرور کرے ۔
پلیز باسل تم مجھے اپنے دل و دماغ سے نکال دو ۔۔۔۔۔
تم دیکھنا ایک دن تمہیں مجھ سے بھی اچھی لڑکی ملے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے تمہیں اپنانے میں صرف ایک پرابلم ہے کہ تم میرے ماضی کے بارے میں جانتے ہو۔۔۔۔
اور کوئی بھی لڑکی یہ نہیں چاہے گی کہ اس کا لائف پارٹنر اسکے پاسٹ کے بارے میں جانتا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔
اور تم لڑکے محبت میں یہ بات بہت آسانی سے کہہ دیتے ہو کہ تمہیں اپنے من پسند چاہے انسان کے ماضی سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔۔۔۔
فرق پڑتا ہے اور بہت پڑتا ہے ۔۔۔۔۔۔
-
اس طرح آپ کے من چاہے انسان کا آپ کی محبت سے مان اٹھ جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔ بھروسہ ٹوٹتا ہے ۔۔۔۔۔اور انسان ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" جب تک کپل کپل رہتا ہے ، تب تک چیزیں نارمل رہتی ہیں ،۔ جب کپل فیملی بنتا ہے تو رشتوں کی ڈائنامک چینج ہوجاتی ہے ۔"
زونیشہ مسلسل بولے جا رہی تھی ۔۔۔اور باسل صرف خاموش بیٹھا اسکے کہے ہر ایک لفظ کو دل میں اتار رہا تھا
وہ بالکل صیح تو کہہ رہی تھی ۔۔۔۔
وہ اس کی ہر بات سمجھ رہا تھا ۔۔۔۔۔دل اب بھی ضد پر تھا ۔۔۔مگر دماغ قائل ہوچکا تھا ۔۔۔۔
امید ہے تم میری بات سمجھ گئے ہوگے ۔۔۔اور آئندہ مجھ سے ایسی کوئی بات نہیں کرو گے ۔
اللّٰہ حافظ ۔۔۔۔کہتی زونیشہ اٹھ گئی ۔اسکی دوسری کلاس کا ٹائم ہو چکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
زونیشہ ابھی فری ہوئی ہی تھی کہ فلزہ کی کال آئی۔
" زونیشہ تم آرہی ہو کہ نہیں"
ہاں میں بس ابھی بھائی کو کال کرنے لگی تھی تاکہ وہ مجھے تمہارے فلیٹ پہ ڈراپ کردے ۔
وہ لوگ کچھ دیر میں پہنچنے والے ہیں ۔۔۔اور میری بیسٹ فرینڈ میرے اتنے اسپیشل مومینٹ پر غائب ہے ۔۔
جو مرضی کرو ۔ان کے آنے سے پہلے تمہیں یہاں پہنچنا ہے ۔
فلزہ نے یہ کہتے ساتھ ہی فون بند کردیا ۔۔۔
زونیشہ نے جلدی سے اذلان کو کال کی ۔۔۔
اس کا نمبر نوٹ ریچ ایبل آرہا تھا ۔۔۔
زونیشہ جلدی سوچ کچھ ۔وہ بار بار ٹرائے کررہی تھی مگر اذلان کا فون نہیں لگ رہا تھا ۔۔۔
" زونیشہ فری ہو جاؤ تو بتانا ۔میں تمہیں پک کرلوں گا ۔
اذلان نے مجھ سے کہا ہے ۔ "
وہ ہادی کا میسج تھا ۔۔۔
" زونیشہ فری ہو جاؤ تو بتانا ۔میں تمہیں پک کرلوں گا ۔
اذلان نے مجھے کہا ہے ۔ "
وہ ہادی کا میسج تھا ۔۔۔
زونیشہ نے جلدی سے ہادی کو کال ملائی ۔
ہاں زونی!
ہوگئی فری ?۔۔۔
ہادی نے کال اٹھاتے ہی پوچھا ۔۔
ہاں ۔
ہادی !!!
مجھے فلزہ کے گھر جانا ہے ۔
پلیز جلدی آجاؤ ۔
زونیشہ نے ریکوئسٹ کی ۔
سب ٹھیک ہے ۔
ہادی پریشان ہوا ۔
ہاں ہاں سب ٹھیک ہے
پلیز جلدی آجاؤ ۔
اوکے بس پانچ منٹ میں آیا۔۔۔ہادی نے کہتے ساتھ فون کاٹا ۔۔۔
زونیشہ ادھر اُدھر ٹہل کر کر ہادی کا انتظار کررہی تھی ۔۔۔
پانچ منٹ میں ہادی یونیورسٹی پہنچ گیا تھا ۔
،،، ،،،،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،،،،
چلو جلدی ۔۔۔زونیشہ نے فرنٹ سیٹ پہ بیٹھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔
لو پانی پیو !
ہادی نے پانی کی بوتل دی ۔
تھنکس ۔۔۔
اب جلدی چلو !
زونیشہ نے پھر یاد دلایا ۔۔۔
جانا کہاں ہے ؟ ہادی نے زونیشہ کو دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔
فلزہ کے گھر ۔
آج اس کی سادہ سی منگنی کی رسم ہے ۔
اس نے مجھے بتایا تھا ۔۔۔۔۔میں بھول گئی تھی ۔
ایڈریس؟...
ہادی نے پوچھا ۔۔
چلو!! میں بتاتی ہوں اڈریس۔
،،،،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،،،،
وجیہہ ،
زونیشہ آگئی؟
مہوش نے پوچھا ۔
نہیں مما , اب تک تو ہادی بھائی کو آجانا چاہیے تھا ۔
وجیہہ نے بتایا ۔
ہادی لینے گیا ہے زونیشہ کو؟
جی ،وہ اذلان کو آفس میں کام تھا ۔
اچھا!! پوچھو تو ،اتنی دیر کیوں ہوگئی ؟
سب ٹھیک تو ہے ؟
مہوش فکرمند تھی ۔
جی مما ۔
وجیہہ نے کال کی ۔
،،،،،،،،،،،،،،،
اب بتاؤ ۔کیا بات ہے؟
-
اتنی عجلت میں کیوں ہو ؟
ہادی اب ڈرائیونگ کررہا تھا اور زونیشہ خاموش بیٹھی سامنے شیشے سے خالی سڑک کو دیکھ رہی تھی ۔
فلزہ ، میری بیسٹ فرینڈ ہے ۔۔
اس کا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے ۔۔۔۔۔
-
یونیورسٹی کا ایک لڑکا اسے پسند کرتا تھا ۔
آج وہ اپنے پیرنٹس کو لے کر فلزہ کے گھر آرہا ہے ۔۔۔
فلزہ کی زندگی میں فلحال میرے اور وردہ کے سوا اور کوئی نہیں ہے ۔۔۔۔
حمزہ سے شادی کے بعد انشاء اللہ اسے اسکی فیملی مل جائے گی ۔۔۔۔۔
زونیشہ نے پوری بات بتائی ۔۔۔۔
،،،
ہادی خاموش سا بیٹھا اس کی بات سن رہا تھا ۔۔۔۔
کہاں کھو گئے ہادی !!!
زونیشہ نے اسے گم صُم سا پایا تو پوچھا ۔۔۔
کچھ نہیں ۔۔۔۔
۔
،،،،،،،،،،،،
مما!!!
زونیشہ فلزہ کے گھرہے ۔
وجیہہ نےبتایا
اچھا!!
،،،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،،،
زونیشہ پھر سے سامنے درختوں سے ڈھکی سڑک کو دیکھنے لگی ۔۔۔
ہادی نے ایک نظر زونیشہ کو دیکھا ۔۔۔۔
۔
اس کے چہرے پہ آج سکون تھا ۔۔۔
سوچ رہا ہوں تمہیں بھی کسی نے یونیورسٹی میں پرپوز کیا ہوگا ؟
کسی نے تمہارے گھر بھی پرپوزل بھیجنے کی بات کی ہوگی ۔۔؟
ہادی بہت سنجیدہ تھا ۔۔۔۔
ہادی کی بات سن کر زونیشہ کا رنگ زرد پڑگیا ۔۔۔۔
اس نے حیرت سے ہادی کو دیکھا ۔۔۔۔۔
،،،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،،،
جانے کہاں رہ گئی زونیشہ ۔۔۔۔۔
فلزہ ریڈی تھی ۔
اور حمزہ سے زیادہ اسے زونیشہ کا انتظار تھا ۔۔۔
وردہ زونیشہ کو کال کرو ۔۔۔
فلزہ نے وردہ سے کہا ۔
زونیشہ راستے میں تھی ۔آتی ہی ہوگی ۔۔۔
وردہ نے بتایا ۔
کال تو کرو !
فلزہ بے چین تھی ۔
اچھا میں کال کرکے پوچھتی ہوں۔
وردہ نے نمبر ڈائل کیا ۔
۔
،،،،،،،،،،،،
ہادی نے زونیشہ کو دیکھا
-
اس ایک بات سے زونیشہ کو بہت کچھ یاد آیا تھا ۔۔۔۔۔
رائد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ رائد کا دیا ہوا دھوکہ ۔۔
باسل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔باسل سے کی گئی آج کی ساری گفتگو ۔۔۔
۔
زونیشہ؟
ہادی نے زونیشہ کو دیکھا
-
زونیشہ نے نظریں چرا لیں ۔۔۔
جب ہی وردہ کی کال آگئی ۔
- - - - - - - - - -
زونیشہ راستے میں ہے
آتی ہی ہوگی ۔۔۔
جب ہی بیل بجی ۔
زونیشہ آگئی ۔
زونیشہ کہاں رہ گئی تھی ۔کب سے تمہارا انتظار کررہی ہوں ۔
تم میرے لئے ایک دن کا آف بھی نہیں کرسکی ۔
فلزہ نے خفا ہوتے ہوئے کہا ۔
جب ہی ہادی آیا ۔
-
اسلام وعلیکم ۔۔۔۔
-
وعلیکم السلام ۔فلزہ نے حیرت سے دیکھا ۔
میں زونیشہ کا کزن ۔۔۔
ہادی نے خود اپنا تعارف کروایا ۔
فلزہ یہ ہادی ۔۔۔۔
ہادی یہ فلزہ ۔۔ اور یہ وردہ میری بیسٹ فرینڈز ۔۔۔
زونیشہ نے تعارف دیا ۔
اوہ ہادی ۔۔۔۔!!
وہ لوگ ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے تھے ۔
تو آپ ہیں عبدالہادی ؟
وہ جو دبئی سے آئے ہیں ؟
فلزہ نے خوش گوار حیرت کا اظہار کیا ۔
جی ۔ہادی نے مختصر جواب دیا ۔
آپ کو اینگیجمینٹ کی بہت بہت مبارک ہو ۔۔
ہادی نے مبارک باد دی ۔
تھینکس ۔۔۔۔
جب ہی دوبارہ بیل بجی ۔
لگتا ہے حمزہ وغیرہ بھی پہنچ گئے ۔وردہ نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ۔
میں دیکھ کے آتی ہوں ۔وردہ کہتی دروازے کی طرف بڑھ گئی ۔
اسلام وعلیکم ۔
نادیہ بیگم سب سے ملی ۔۔۔۔
۔ساتھ رومی تھی ۔
حمزہ کی چھوٹی بہن ۔
حمزہ سادہ سےوائٹ کرتے پاجامے میں ملبوس تھا ۔
جب کہ فلزہ نے گلابی رنگ کی شارٹ شرٹ اور شرارہ پہنا تھا ۔۔۔۔
فلزہ نے حمزہ کی خواہش پرگلابی رنگ پہنا تھا ۔۔۔۔۔
-
حمزہ نے فلزہ کو پیار سے دیکھا ۔
نادیہ نے فلزہ کو اپنے پاس بٹھایا ۔۔۔
وہ پہلی بار فلزہ سے ملی تھی ۔
ماشاءاللہ بہت پیاری ہو ۔اللہ پاک نصیب اچھے فرمائے ۔
-
حمزہ اورفلزہ کی سادہ سی منگنی کی رسم ہوئی
سب ہی بہت خوش تھے ۔
سب ہی
نے مبارک باد دی ۔
مہوش اور وجیہہ لان میں بیٹھی تھیں جب گاڑی کا ہارن بجا۔
اذان آگیا ۔مہوش نے گیٹ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔
بھائی ؟
اتنی جلدی ! وجیہہ چونکی ۔
ہمم !
حرمین کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی ۔ تو میں نے بلایا ہے ۔
مہوش نے بتایا ۔
گاڑی کھڑی کرتا اذان تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے اپنے اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا ۔
جب مہوش نے اسے آواز دی ۔
اذان !!! بیٹا
اذان تقریباً دوڑتا ہوا مہوش کے پاس آیا ۔
جی مما ۔
حرمین کیسی ہے ؟
اذان بہت پریشان اور فکرمند تھا ۔
بیٹا حرمین کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔ اسے ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ۔
ضد کررہی ہے کہ ڈاکٹر کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے ۔
اور کھا بھی کچھ نہیں رہی ۔
مہوش نے اذان کو تلقین کی ۔
اور بیٹا !
اتنا پریشان مت ہو ۔ایسی کنڈیشن میں طبعیت خراب ہوتی رہتی ہے ۔
اس لئے حرمین کا ریگولر چیک اپ کرواتے رہا کرو ۔
جی مما .
کہتا اذان اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔
حرمین سو رہی تھی ۔ جب اذان کمرے میں داخل ہوا ۔
حرمین ،۔ اذان حرمین کے پاس بیڈ پہ آ بیٹھا اور اس کی پیشانی پہ ہاتھ رکھ کر اسے پکارا ۔
حرمین نے آنکھیں کھولیں ۔
اذان آپ !!
کب آئے ، حرمین نے اٹھنے کی کوشش کی ۔
نہیں نہیں لیٹی رہو۔اذان نے اسے اٹھنے سے روکا ۔
میں بس ابھی ہی سوئی تھی ۔حرمین نے بتایا ۔
طبیعت کیسی ہے ؟
اذان نے پوچھا ۔
ٹھیک ہوں میں ۔۔۔۔۔۔۔۔ بس تھوڑا سا چکر آگیا تھا ۔۔۔حرمین نے بتایا ۔
چلو ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں ۔ تمہیں بہت کمزوری ہورہی ہے۔
اذان نے فکر مندی سے کہا ۔
اذان روز روز ڈاکٹر کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے ؟
میرا دم گھٹتا ہے ہسپتال میں ۔
حرمین جانا ضروری ہے ۔۔۔پلیز ضد مت کرو ۔
اذان نے اسے اٹھاتے ہوئے کہا ۔
اذان!!!!
حرمین کچھ کہنا چاہتی تھی ۔
اذان وذان کچھ نہیں ۔ ابھی بس ڈاکٹر کے پاس چلو تم ۔
اذان نے اس کی بات کاٹی ۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
بھائی ادھر دیکھیں !
رومی حمزہ اور فلزہ کی کپل فوٹوز بنا رہی تھی ۔
چلو اب ایک گروپ فوٹو لے لو ۔
حمزہ نے کہا ۔
رومی نے ایک گروپ سیلفی لی ۔
جس میں فلزہ ،وردہ،ہادی ،رومی اور حمزہ تھے ۔
نادیہ تصاویر نہیں بنواتی تھی ۔
۔
فلزہ بیٹا ۔
ادھر میرے پاس آکر بیٹھو!!
تم سے کچھ بات کرنی ہے ۔ نادیہ نے فلزہ کو اپنے پاس بیٹھنے کو کہا ۔
جی آنٹی ۔ فلزہ نادیہ کے پاس آکر بیٹھی ۔۔۔
حمزہ کے بابا کو گزرے ہوئے پانچ سال ہوگئے ہیں ۔ حمزہ ،رومی اور میں بس ہم تین لوگ ہی ہیں ۔
انکے بابا کی پینشن سے ہم لوگ گزارا کرتے آئے ہیں ۔
حمزہ میرا ایک ہی بیٹا ہے ۔ جیسے تیسے کرکے میں نے اسے پڑھایا ہے ۔
رومی اب حمزہ کی زمہ داری ہے ۔
میں تو چلو پینشن پہ گزارہ کرلوں گی ۔
رومی کا فرض ادا کرکے تم دونوں جیسے جینا چاہو ، جیسے رہنا چاہو ۔
رہ سکتے ہو ۔ نادیہ فلزہ کو سمجھا رہی تھی ۔
اب انشاء اللہ حمزہ کا لاسٹ سمسٹر ہے ۔اسکے بعد حمزہ کوئی نوکری کرے گا ۔
نادیہ نے بتایا ۔
آنٹی کیسی باتیں کررہی ہیں آپ ۔
میری اپنی تو کوئی فیملی نہیں تھی ۔ لیکن حمزہ کی فیملی میری فیملی بھی ہے ۔
رومی صرف حمزہ کی ہی نہیں، میری بھی بہن ہے ۔
اور آنٹی حمزہ کے ساتھ ساتھ میرا بھی لاسٹ سمسٹر ہے ۔
ہم دونوں جاب کریں گے اور انشاللہ ایک اچھی زندگی گزاریں گے ۔،اور رومی کا فرض بہت اچھے سے ادا کریں گے ۔
فلزہ نے نادیہ کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔
نادیہ کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آگئے ۔
جیتی رہو میری بچی ۔
پتہ ہے فلزہ!
میں ہمیشہ دعا کرتی تھی کہ حمزہ کو کبھی پیار نہ ہو ۔ کیونکہ پیار اسٹیٹس دیکھ کر نہیں ہوتا ۔
ڈرتی تھی کہ اگر حمزہ کو کسی امیرزادی سے پیار ہوگیا تو کیا ہوگا ؟
لیکن تمہیں دیکھ کر ، تم سے مل کر مجھے اپنے بیٹے کی پسند پر فخر ہورہا ہے ۔
مجھے بالکل تمہارے جیسی بہو چاہیے تھی ۔۔۔۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
اذان ہسپتال تھا ۔
جی ڈاکٹرصاحبہ ، کیسی طبعیت ہے حرمین کی ؟
اذان نے بے تابی سے پوچھا ۔
دیکھیں !!!!
اذان صاحب آپکی مسز کو بہت ویکنیس ہورہی ہے ۔
بلڈ پریشر بھی بہت لو ہے ۔
آپ ان کی خوراک کا خاص خیال رکھیں ۔
انہیں ریلکس رکھیں اور انہیں جتنا ہو سکے خوش رکھیں ۔ ڈاکٹر نے تلقین کی ۔
انہیں میڈیسن سے زیادہ آپ کے وقت کی ضرورت ہے ۔ ڈاکٹر نے بتایا ۔
اوکے تھینکس ڈاکٹر صاحبہ ،
اذان اٹھتا چلا گیا ۔
-
حرمین!!!
آج آشفہ کی طرف چلیں ؟
اذان نے حرمین کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
حرمین کے چہرے پہ مسکراہٹ پھیل گئی ۔
جی جی اذان پلیز ۔
میں خود بھی آپ سے کہنا چاہ رہی تھی کہ مما بابا اور اپنے گھر کو بہت مس کررہی ہوں میں ۔
حرمین نے خوشی سے کہا ۔
تو چلو پھر ۔۔
آج ہم خالہ کے گھر چلتے ہیں ۔کہتے ہوئے اذان نے بابر کے گھر کی طرف گاڑی روانہ کردی ۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
حمزہ وغیرہ جا چکے تھے
اچھا فلزہ!!!! اپنا خیال رکھنا ۔آج بہت دیر ہوگئی ہے ۔
اب ہم چلتے ہیں ۔زونیشہ نے فلزہ سے ملتے ہوئے کہا ۔
پھر ملتے ہیں یونیورسٹی میں ۔
فلزہ نے گلے ملتے ہوئے کہا ۔
میں بھی چلتی ہوں فلزہ ۔ٹیک کیئر ۔وردہ بھی جانے کے لئے تیار تھی ۔
اوکے بائے ۔
اب تم دونوں کی باری ہے ۔
تم دونوں بھی اپنے فیوچر کو سیریس لے لو ۔فلزہ نے جاتے ہوئے وردہ اور زونیشہ کو کہا ۔
دونوں نے نظریں جھکا لیں ۔
ہادی نے زونیشہ کو دیکھا ۔۔۔۔
وہ فلزہ کی بات سن کر اپ سیٹ ہوگئی تھی ۔
مطلب کچھ ہے ؟
جو مجھے نہیں معلوم۔ ہادی نے دل میں سوچا۔
وردہ کا چہرہ بھی مرجھا گیا ۔
کاش !!!!!!!
میں اپنے فیوچر کے بارےمیں سوچ سکتی ۔۔۔۔
کاش وہ میرا ہوتا !!!!!
وردہ بھی اپ سیٹ ہوگئی تھی ۔مگر کسی نے نوٹس نہیں کیا ۔۔۔۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
ہادی اور زونیشہ اب رستےمیں تھے ۔
ہادی ڈرائیو کررہا تھا ۔
جبکہ زونیشہ کچھ سوچ کر مسکرا رہی تھی ۔
کیا سوچ کر مسکرا رہی ہو؟
ہادی نے سامنے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔
ہمم ؟
زونیشہ خیال سے باہر نکلی...
کیا کہہ رہے تھے تم ؟
زونیشہ نے دوبارہ پوچھا۔
میں نے کہا کہ کیا سوچ رہی ہو ؟
ہادی نے اپنی بات دوہرائی۔
سوچ رہی ہوں دونوں ایک ساتھ کتنے اچھے لگ رہے تھے نہ۔
حمزہ فلزہ سے بہت پیار کرتا ہے ، فلزہ نے اپنی زندگی میں بہت مشکلات دیکھی ہیں ۔بہت تکلیفیں جھیلیں ہیں ۔
وہ بھی تنہا۔۔۔۔۔
صیح کہتے ہیں صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے ۔
میں فلزہ کے لئے بہت خوش ہوں ۔زونیشہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
ہمم۔۔ ماشاءاللہ!!!
۔
اللّٰہ پاک دونوں کی جوڑی سلامت رکھے ۔ ہادی نے جواباً کہا۔
تمہاری بھی اسٹڈی مکمل ہو رہی ہے ۔
تم نے اپنے فیوچر کے بارے میں کیا سوچا ہے ؟
ہادی نے سامنے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
کچھ خاص نہیں ۔۔۔
ابھی میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔زونیشہ نے لا پرواہی سے جواب دیا ۔
۔
تمہیں کیسا لائف پارٹنر چاہیئے ؟
ہادی نے اب زونیشہ کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
مجھے ؟
کیسا لائف پارٹنر چاہیئے!!!!!
مجھے ایسا لائف پارٹنر چاہیئے جو عورتوں کی عزت کرنا جانتا ہو۔
جس کے لئے میں سب کچھ ہو۔
جو لونگ ہو ،۔۔۔
کئیرنگ ہو ۔
جو انڈرسٹینڈنگ ہو ۔
کمپرومائز کرنا بھی جانتا ہو ۔
اور میاں بیوی کے رشتے میں کبھی بھی انا کو نہ لائے ۔
ایسا لائف پارٹنر چاہیئے مجھے ۔
زونیشہ بتا رہی تھی ۔
یہ کیسی خواہش ہے تمہاری ؟
یہ کیسی کوالٹییز بتا رہی ہو تم ۔
نہ ہینڈسم ہو، ؟
نہ ڈیشنگ ہو ،؟
نہ امیر ہو ؟
عام طور پر لڑکیاں ایسے ہی لڑکے امیجن کرتی ہیں ؟
جو ہینڈسم ہو،ڈیشنگ ہو ، امیر ہو ۔۔
تم نے تو ان میں سے کوئی کوالٹی نہیں بتائی ۔
ہادی زونیشہ کی بات پہ حیران ہوا تھا ۔
وہ عام لڑکیاں ہوتی ہیں ۔
میں عام نہیں ہوں ۔
" میں خاصوں میں سے عام سی لڑکی ہوں ، ذرا مختلف مزاج کی "۔
زونیشہ نے فخر سے کہا ۔
کیا بات ہے !!!!
زونی تم تو بہت تیز ہوگئی ہو ۔۔۔۔
ہادی نے خوشگوار حیرت کا اظہار کیا ۔
بس دیکھ لو پھر ۔۔۔۔۔
زونیشہ آج خوش تھی ۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
حرمین سب سے باری باری ملی۔
وہ سب ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے تھے
آشفہ نے جوس دیا ۔
تھنکس بھابھی ۔
یہ کام کاج چھوڑ یں۔
آپ ادھر ہمارے پاس آکر بیٹھیں نہ ۔
حرمین نے آشفہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بیٹھا لیا ۔
بھائی خیال تو دکھتے ہیں نہ آپ کا؟
حرمین نے پوچھا ۔
ہمم ۔آشفہ نے مختصر جواب دیا ۔
بھابھی پھر میں پھوپھو کب بن رہی ہوں ۔
حرمین کا سوال معصومانہ تھا ۔
آشفہ کا چہرہ اتر گیا ۔
بس دعا کرو ۔
ہم دوا کررہے ہیں ۔
آگے اللّٰہ پاک کی مرضی ۔آشفہ اداس ہوئی تھی ۔
اوہ سوری بھابھی !!!
میرا مقصد آپ کو ہرٹ کرنا نہیں تھا ۔
حرمین شرمندہ ہوئی ۔
آشفہ ذرا بات سننا ۔
اذان نے کہا ۔
جی بھائی ۔۔۔
آشفہ اور اذان آٹھ کر لان میں آگئے ۔
کیا بات ہے بھائی ؟
سب خیریت تو ہے ؟
آشفہ اذان کو پریشان دیکھ کر فکرمند ہوئی ۔
آشفہ اس وقت حرمین کو سب سے زیادہ میری ضرورت ہے ۔۔۔
اور میں حرمین کو وقت نہیں دے پاتا ۔۔۔میں کیا کروں آفس میں اتنا کام ہوتا ہے ۔۔
آج ڈاکٹر کہہ رہی تھی حرمین کو خوش رکھیں ۔۔۔۔۔
اسے میڈیسن سے زیادہ میری ضرورت ہے ۔
میں صبح آفس جاتے ہوئے حرمین کو یہاں چھوڑ جایا کروں گا اور واپسی پہ پک کر لیا کروں گا ۔
کچھ امپورٹنٹ میٹنگز اٹینڈ کرنی ہیں ۔
ایک ویک میں میں اپنا کام بائنڈاپ کرکے لیو لے لوں گا ۔
تب تک تمہیں حرمین کا ہر طرح سے خیال رکھنا ہے ۔
بھائی آپ فکر نہ کریں ۔حرمین کایہ اپنا گھر ہے ۔
اسے یہاں کوئی تکلیف نہیں ہوگی ۔
آشفہ نے تسلی دی ۔
آپ بے فکر ہو جائیں ۔
تھینک یو آشفہ ۔
یہ بات میں زونیشہ یا جیا سے نہیں کہہ سکتا تھا ۔
-
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
یونیورسٹی ؛
حمزہ اور فلزہ ساتھ تھے ۔۔۔۔وہ دونوں سیڑھیوں میں بیٹھے تھے ۔
واہ بھئی !!!!
سنا ہے حمزہ تمہاری اینگیجمینٹ ہو گئی ہے ۔
ہمیں بلایا ہی نہیں ؟
۔
رائد اپنی شرٹ کے کف موڑتے ہوئے ان کے سامنے آ کھڑا ہوا۔
رائد !!!!!!
جاؤ یہاں سے ۔
حمزہ نے اپنا غصہ دباتے ہوئے کہا ۔
چلا جاتا ہوں ؛اتنی بھی کیا جلدی ہے ۔
تمہیں مبارکباد دینے آیا ہوں ۔
وہ تو دے لوں ۔
اوئے نومی !!!!
مٹھائی لا۔۔۔۔۔۔
رائد نے پیچھے مڑ کے اپنے دوست کو مخاطب کیا ۔
نومی مٹھائی کا کھلا ہوا ڈبہ لے آیا ۔
لے ، حمزہ مٹھائی کھا ۔۔۔
کھلانی تو تجھے چاہیے تھی ۔
پر چل کوئی نہ ۔
دوستوں میں اتنا تو چلتا ہے ۔
رائد نے لڈو حمزہ کے منہ میں ڈالتے ہوئے کہا ۔
حمزہ نے کوشش کی منہ بند رکھنے کی ،مگر رائد نے زبردستی لڈو اسکے منہ میں دے دیا ۔
لو فلزہ !!!
تم بھی لڈو کھاؤ ۔
اینگیجمینٹ تمہاری بھی ہوئی ہے ۔
تمہیں بھی مبارکباد دینا بنتی ہے ۔
رائد نے لڈو فلزہ کی طرف بڑھایا ۔
جب حمزہ نے رائد کا ہاتھ پکڑ لیا ۔
رائد ، اپنی حد میں رہو ۔
حمزہ کھڑا ہوا تھا ۔
تماشا مت کرو ۔۔۔ حمزہ نے اپنا غصہ ضبط کرنے کی آخری کوشش کی ۔
ارے !!!
یار تم تو غصہ کر گئے ۔۔
فلزہ دوست ہے میری ۔
اور !!!!!
یہ بھی تو ساتھ ہوتی تھی جب زونیشہ اور میں ڈیٹ پہ جاتے تھے ۔
رائد نے ڈھٹائی سے کہا ۔
بکواس مت کرو ۔
حمزہ یہ جھوٹ بول رہا ہے ۔
فلزہ چلائی ۔
فلزہ کو اس پہ بہت غصہ آرہا تھا ۔
فلزہ تم جاؤ۔ حمزہ نے گردن موڑ کر فلزہ کو جانے کو کہا ۔
میں کہیں نہیں جاؤں گی حمزہ ۔
ہمیشہ آپ کے ساتھ کھڑی رہوں گی ۔
چاہے کچھ بھی ہو۔
فلزہ نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا ۔
ارے دیکھ !!!
نومی ،،
لیلہ مجنوں کی محبت ، پبلک پلیس پہ ۔
رائد نے پھر نومی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔
رائد !!!
حمزہ نے ہاتھ ہوا میں اٹھا کر خود کو روکا ۔
مارے گا مجھے ؟
مار ۔۔
مار ۔
مار مجھے ۔
تو مجھے مارے گا ۔
رائد حمزہ کو اکسا رہا تھا ۔
حمزہ نے رائد کے چہرے پہ ایک زوردار طمانچہ دے مارا ۔
ساری یونیورسٹی اکھٹی ہوگئی ۔
رائد حمزہ پہ جھپٹ پڑا ۔
جس کا اسے انتظار تھا ۔
جب ہی زونیشہ بھی رش دیکھ کر وہاں آگئی ۔
رائد مسلسل حمزہ کو مار رہا تھا ۔
یہ سب دیکھ کر زونیشہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا ۔
رائد چھوڑو ۔
چھوڑو حمزہ کو ۔
وہ انہیں چھڑانے کی کوشش کررہی تھی ۔
آخر حمزہ اور رائد نے ایک دوسرے کو خوب پٹ کر چھوڑا ۔
زونیشہ نے پہلے حمزہ کو دیکھا ۔
اس کی شرٹ پھٹی ہوئی تھی اور منہ سے خون نکل رہا تھا ۔
پھر رائد کی طرف دیکھا ۔
اسکو چھوٹی موٹی کچھ چوٹیں لگی تھیں ۔
زونیشہ نے رائد کے منہ پہ ایک زور دار تھپڑ مارا ۔
ساری یونیورسٹی دیکھ رہی تھی ۔
دفع ہو جاؤ ہماری زندگیوں سے ۔
ہمیں جینے دو ۔
تم میں ذرا خوف خدا نہیں ہے ۔
زونیشہ چلائی تھی ۔
یہ کیا تماشا کیا ہے تم نے ؟
ہاں کیا بگاڑا ہے فلزہ اور حمزہ نے تمہارا ۔
تمہارا تعلق مجھ سے تھا نہ ۔
ٹوٹ چکا وہ تعلق ۔
چھوڑ چکے تم مجھے، اور میں تمہیں ۔
مجھے افسوس ہے کہ میں نے کبھی تم جیسے گھٹیا انسان سے محبت کی تھی ۔
اب تم خود بھی چین سے جی لو ۔
اور ہمیں بھی چین سے جینے دو ۔
نفرت کرتی ہوں میں تم سے ۔
آئندہ اپنی شکل مت دکھانا مجھے ۔
رائد کا چہرہ غصے سے سرخ ہورہا تھا ۔
مگر پوری یونیورسٹی کے سامنے وہ کچھ کر نہ سکا ۔
زونیشہ جاتے ہوئے مڑی ۔
اور ہاں!!!!
ایک بات اور ۔۔
آئندہ میری دوستوں کے آس پاس بھی مت بھٹکنا ۔
ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ۔
آئی سمجھ ، زونیشہ نے وارننگ دی تھی ۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
زونیشہ کیفے ٹیریا میں جا کرسر پکڑ کر اکیلی بیٹھ گئی تھی ۔
۔
وردہ اور باسل چھٹی پہ تھے ۔
فلزہ ،حمزہ کے زخم دیکھ کر اسکی مرہم پٹی کررہی تھی ۔
حمزہ تمہیں بہت چوٹ لگی ہے ، تمہیں ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے ۔
فلزہ نے حمزہ کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
فلزہ اس کے منہ سے نکلنے والا خون صاف کررہی تھی ۔
حمزہ نے شرٹ چینج کرلی تھی ۔
وہ ہمیشہ بیگ میں ایک ایکسٹرا شرٹ رکھتا تھا ۔
فلزہ مکمل طور پر حمزہ میں الجھی ہوئی تھی جب اچانک حمزہ کو زونیشہ کا خیال آیا ۔
فلزہ ،میں ٹھیک ہوں ۔
زونیشہ!
تمہیں زونیشہ کے پاس جانا چاہیے ۔
حمزہ ایک دم سیدھا ہو کر بیٹھا اور فلزہ کو یاد کرایا ۔
اوہ !!!!!
میں زونیشہ کو تو بھول ہی گئی ۔
چلو ساتھ چلتے ہیں ۔فلزہ نے اٹھتے ہوئے کہا ۔
زونیشہ ہے کہاں ؟
وہ دونوں زونیشہ کو ہر طرف دیکھ چکے تھے ۔مگر زونیشہ کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی ۔
جانے کہاں چلی گئی یہ لڑکی ۔
بہت اپ سیٹ تھی ۔ کہیں بیٹھی رو رہی ہو گی ۔فلزہ اسکی نیچر سے اچھی طرح واقف تھی ۔
کیفے ٹیریا ، وہاں چل کر دیکھتے ہیں ۔
حمزہ کو اچانک یاد آیا ۔
وہ دونوں کیفے ٹیریا میں گئے ۔
زونیشہ ایک طرف ٹیبل پہ اکیلی سر پکڑ کر بیٹھی تھی ۔
اس کے سامنے اسکی چائے پڑی ٹھنڈی ہوچکی تھی ۔
زونیشہ ۔
کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا تمہیں ، اور تم یہاں ہو ۔
فلزہ نے ایسے بات کی ۔
جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو ۔
وہ زونیشہ کا دھیان بھٹکانا چاہتی تھی ۔
زونیشہ نے چہرہ اوپر اٹھایا ۔
وہ رورہی تھی ۔
اس نے جلدی سے اپنی آنکھوں کے کنارے صاف کئے ۔
فلزہ ،حمزہ آؤ بیٹھو ۔
حمزہ اب کیسے ہیں آپ ۔
زونیشہ نے اسکے زخم صاف ہوئے دیکھے تو پوچھا ۔
میں ٹھیک ہوں ۔ حمزہ کو زونیشہ کی حالت دیکھ کر اس پہ ترس آرہا تھا ۔
ایم سوری فلزہ ،
حمزہ ،
ایم رئیلی سوری ۔
وہ مجھے ہرٹ کرنے کے لئے ، مجھے تکلیف دینے کے لیے ، مجھ سے بدلہ لینے کے لیے تم لوگوں سے الجھا ۔
بھری یونیورسٹی میں اس نے تماشا کیا ۔
میں بہت بری ہوں ۔
میری وجہ سے تمہاری یہ حالت ہوئی حمزہ ۔میں خود کو کبھی معاف نہیں کرپاؤں گی ۔
زونیشہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔
فلزہ میں اس کی فطرت پہلے کیوں نہیں سمجھ پائی تھی ۔
کیوں میری آنکھوں پہ پٹی بندھی تھی محبت کی ۔
زونیشہ مسلسل رو رہی تھی ۔
نہیں زونیشہ ، تمہارا اس میں کیا قصور ہے ۔
وہ کم ظرف نکلا ہے ،اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں ۔
اور پتہ ہے ،جس طرح آج تم نے ساری یونیورسٹی کے سامنے اسے تھپڑ مارا ، اور اپنے دل کی بھڑاس نکالی ۔
اسے اس کی اوقات یاد دلائی ۔مجھے بہت خوشی ہوئی ۔
مجھے خوشی ہوئی کہ آج تم اس کے سامنے کمزور نہیں پڑی ۔
اور جس طرح تم نے میرےلئے ، حمزہ کے لئے اسٹینڈ لیا ،
مجھے فخر ہے کہ تم جیسی بہادر لڑکی میری دوست ہے ۔
آئی لویو زونیشہ ۔
فلزہ نے زونیشہ کو گلے لگا لیا جبکہ زونیشہ ابھی تک رو رہی تھی ۔
فلزہ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے ۔جس طرح آج تم نے ہمارے لئے اسٹینڈ لیا ۔
اور رائد کو تھپڑ مار کر اسے اسکی اوقات یاد کرائی ۔
بہت بہادری کا کام کیا ۔
آئندہ تمہیں کبھی بھی رائد کے سامنے کمزور نہیں پڑنا۔
اب وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ پائے گا ۔
حمزہ نے زونیشہ کو تسلی دی ۔
جو ہوگا دیکھ لیں گے مل کر ، تم اکیلی نہیں ہو ۔
ہم ہیں تمہارے ساتھ ۔
تھینک یو حمزہ ،فلزہ۔
تھینکس آلوٹ ۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
ہادی بہت بے چین تھا ۔
وہ اپنے کمرے میں ٹہل رہا تھا
اسے بار بار زونیشہ کا خیال آرہا تھا ۔
یہ مجھے کیا ہورہا ہے ؟
زونیشہ کسی مشکل میں تو نہیں.
نہیں نہیں ۔
یہ صرف میرا وہم ہے ۔
تو پھر دل کیوں اتنا بے چین ہے ۔
وہ خود سے خود ہی سوال کررہا تھا اور خود ہی جواب دے رہا تھا ۔
ہادی !!!!
میرا خیال ہے اب تجھے زونی کو پرپوز کردینا چاہیے ۔
وہ خود کو آئینے میں دیکھتے ہوئے خود سے ہی مخاطب تھا ۔
اب اور کتنا انتظار کرے گا ۔
تجھے پاکستان آئے ہوئے اتنا وقت ہوگیا ہے ۔
اب تجھے دیر نہیں کرنی چاہیے ۔
وہ خود سے ہی بات کررہا تھا ۔
ہاں بس ؛
اب میں زونی سے اپنا حال دل کہہ ڈالوں گا ۔
اور انتظار نہیں کرسکتا ۔
وہ ٹھان چکا تھا کہ اب زونیشہ کو پرپوز کردے گا ۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
نہیں نہیں نہیں!
زونیشہ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ بھری یونیورسٹی کے سامنے مجھے انسلٹ کرے ۔
رائد اپنے کمرے میں تھا اور نومی اس کے ساتھ تھا ۔
وہ تو بہت بزدل ہوا کرتی تھی ۔
ایک وقت تھا جب یہ لڑکی ،
مجھ سے بات کرنے کو ترستی تھی ۔
مجھے دیکھنے کو ترستی تھی ۔
مجھ سے ملنے کے لئے بے چین رہتی تھی ۔
آج اس نے مجھے تھپڑ مار کر یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ مجھے بھول گئی ہے ۔۔۔۔
اتنی آسانی سے ۔۔۔۔
مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔
آخر اس کو کس کی سپورٹ ہے ؟
رائد غصے سے پاگل ہورہا تھا ۔
ریلکس ہو جا یار، کوئی بڑی بات نہیں ہے ۔
نومی نے اسے تسلی دی ۔
اس نے سب کے سامنے مجھے تھپڑ مارا ۔اور تو کہہ رہا ہے کہ کوئی بڑی بات نہیں ہے ۔
رائد نے غصے سے نومی کو دیکھا ۔
پہلے تو بیٹھ جا ۔
رائد بیڈ پہ بیٹھ گیا ۔
آپ ذرا ریلکس ہو کر سوچ ۔
جو کچھ تو نے اس کے ساتھ کیا ۔
اسکے جواب میں اس نے صرف ایک تھپڑ مارا ہے ۔
اور وہ بھی اپنے لئے نہیں ۔اپنی دوست کے لئے ۔
تو تو آرام سے بیٹھ کر سوچ ، کہ بدلہ کیسے لینا ہے ۔
کچھ ایسا سوچ کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ۔
نومی نے مشورہ دیا ۔
بات تو تیری سو فیصد ٹھیک ہے ۔لیکن ایسا ہوگا کیسے ؟
رائد کچھ بھی سوچنے سمجھنے سے قاصر تھا ۔
ابھی اس بات کو تو چھوڑ ۔
وہ بھی دیکھ لیں گے کہ کیسے کیا کرنا ہے ۔
ابھی تو مجھے ایک بات بتا ؟
نومی نے سوالیہ انداز میں رائد کو دیکھا ۔
ابے بول بھی!
کیا ؟
کیا پوچھنا چاہ رہا ہے ؟
رائد نے کچھ سیکنڈ نومی کے بولنے کا انتظار کرنے کے بعد کہا ۔۔
میں یہ بات سوچ رہا ہوں کہ
نومی کہتا ہوا پھر رکا۔
کہ ؟
رائد نے غصے سے نومی کو دیکھا ۔
میں سوچتا ہوں کہ تو نے آخر زونیشہ کو کیوں چھوڑا تھا؟
رائد نے نومی کو دیکھا ۔
وہ اچھی خاصی ہے ، خوبصورت ہے ، امیر ہے ، ٹوپر ہے ۔۔۔۔۔اور ایک باکردار لڑکی ہے ۔
اور اگر تجھے اس سے محبت نہیں تھی تو تو نے اس کے ساتھ افیئر کیوں رکھا ؟
نومی نے اپنی بات مکمل کی ،
رائد نے منہ موڑ لیا
رائد نے منہ موڑ لیا
۔
دولت کے لئے ۔
مجھے لگا تھا زونیشہ اکلوتی اولاد ہے ۔
زونیشہ سے شادی کرکے لائف سیٹ ہو جائے گی ۔۔۔۔
لیکن پھر پتہ چلا کہ اسکے دو بھائی اور بھی ہیں اور پھر پتہ چلا کہ صرف دو بھائی اور نہیں ہیں ،بلکہ دو
بہنیں بھی اور ہیں ۔
زونیشہ سے بریک اپ کرنے کے سوا میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا ۔
رائد نے نومی کو سب بتایا ۔
-
تو تجھے زونیشہ سے کبھی پیار نہیں ہوا ؟
نومی نے سوال کیا ۔
جن کو دولت سے ، پیسے سے عشق ہو جائے ۔
انہیں پھر انسانوں سے کبھی محبت نہیں ہوتی ۔
اور چھوڑ یہ محبت وحبت ۔
یہ سوچ کہ بدلہ کیسے لینا ہے ۔
،،،،،،،،،، , ،،،،،،،،،،، ,،،،،،،،،،، ,،،،،،،،،،، ,،،،،،،،،، ,،،،،،،،،،،
وردہ اپنے کمرے میں تھی ۔
وہ بیڈ پہ لیٹی سونے کی کوشش کررہی تھی ۔مگر اسے نیند نہیں آرہی تھی ۔
" اب تم دونوں بھی اپنے فیوچر کو سیریس لے لو"
اس کے کانوں میں فلزہ کی آواز گونجی تھی ۔
وہ پھر سے بہت بے چین ہوگئی ۔
اس نے اپنی کلائی اٹھا کر دیکھی ۔
جس پر اس نے چاقو سے
"A"
لکھا تھا ۔۔۔۔
یہ اس نے بہت پہلے لکھا تھا ۔
وردہ نے پیار سے اے پر ہاتھ رکھا ۔
آئی لو یو ۔۔۔ !!!!
میں کیا کروں تمہیں نہیں بھول پا رہی میں ۔
جانتی ہوں میری محبت یکطرفہ ہے ۔
اور یہ بھی جانتی ہوں کہ تم کسی اور کے ہو چکے ہو ۔
لیکن اس دل نادان کا کیا کروں ۔
اسے تمہارے سوا نہ تو کچھ دکھائی دیتا ہے ، نہ سنائی دیتا ہے ۔
میں ساری زندگی بس تمہارا انتظار کرنا چاہتی ہوں ۔
چاہے اس انتظار میں مجھے موت آجائے ۔
لیکن تمہاری جگہ میں کسی اور کو نہیں دے سکتی ۔
وردہ کی آنکھیں بھر آئیں !
جانتی ہوں شادی شدہ مرد کی محبت دل میں رکھنا حرام ہے ۔
لیکن تم میری محبت پہلے ہو اور شادی شدہ بعد میں ہوئے ہو ۔
تو میری محبت گناہ تو نہ ہوئی نہ ۔
وردہ نے "اے" کو کس کی ۔
جانے اسے کب نیند آگئی ۔اسے پتہ ہی نہیں چلا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فجر کی اذان ہورہی تھی ۔
جب زونیشہ کی آنکھ کھلی ۔وہ اٹھی
۔
وضو کیا ، نماز ادا کی اور قرآن پاک کی تلاوت کرنے لگی ۔
-
اچانک اس آیت پہ وہ رکی ۔
اورکافی دیر بیٹھی آنکھوں میں آنسو لیے اس آیت پر انگلی رکھے محسوس کر رہی تھی جیسے ﷲ پاک مجھ سے بات کر رہے ہیں وہ مجھے سمجھا رہے ہیں
*وَلَلۡآخِرَةُ خَیۡرُلَّكَ مِنَ الاُؤلٓی ___* القرآن {93.4}
*("تمہارا مستقبل تمہارے ماضی سے بہتر ہوگا")*
ان شاء اللہ
❤️
-
آیت پڑھ کر زونیشہ کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا ۔
بے شک اللّٰہ دلوں کے حال سے واقف ہے ۔
آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔
-
اللّٰہ پاک نے ایک بار پھر اسے اس کے سوال کا جواب دیا تھا ۔
جو بات اسکی بے چینی کی وجہ تھی اللّٰہ پاک نے اسے اسکی اس بے چینی کا جواب دیا تھا ۔۔۔۔
-
,,,,, ,,,,,, ,,,,,, ,,,,, ,,,,, ,,,,, ,,,,, ,,,,,, ,,,,, ,,,, ,,,,
-
آج وہ فجر کی نماز کے بعد سوئی نہیں تھی ۔
قرآن مجید کی تلاوت کرنے کے بعد وہ اسٹڈی میں مصروف ہوگئی ۔
وہ بکس لے کر چھت پہ چلی گئی تھی ۔
اسکے لاسٹ سمسٹر کے ایگزامز سر پہ تھے ۔جن کی تیاری میں وہ دن رات مصروف رہتی تھی ۔
-
زونی آج یونیورسٹی نہیں جانا ؟
وہ ٹہل ٹہل کر پڑھ رہی تھی جب ہادی نے آکر پوچھا ۔
نہیں۔
زونیشہ نے مختصر جواب دیا ۔
کیوں ؟
ایگزامز ہونے والے ہیں ۔اب یونیورسٹی جا نا ضروری نہیں ۔
زونیشہ نے یہ وجہ بتائی جبکہ اصل وجہ کل ہونے والا تماشا تھا ۔
-
وہ فلحال یونیورسٹی نہیں جانا چاہتی تھی ۔
اوکے ۔
زونی !!
ہمم ؟
آج تمہارے لئے ایک سرپرائز ہے ۔ چلو گی نہ میرے ساتھ ؟
ہادی نے پوچھا ۔
کہاں ؟ اور کیسا سرپرائز ؟
وہ چونکی ۔
آج تو میرا برتھ ڈے بھی نہیں ہے ۔ نہ تمہارا برتھ ڈے ہے ۔
پھر کیسا سرپرائز ؟
-
وہ حیران ہوئی تھی ۔
چلو گی تو پتہ چل جائے گا ۔
ہادی کہتا واپس نیچے چلا گیا ۔
کیونکہ زونیشہ پڑھ رہی تھی اور وہ اسے ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا تھا ۔
,,, ,,, ,,, ,,, ,,, ,,, ,,, ,,, ,,, ,,, ,,, ,,,, ,,, ,,,,
حرمین لان میں اکیلی بیٹھی تھی جب آشفہ اس کے پاس آئی ۔
یہاں اکیلی کیوں بیٹھی ہو ؟
خالہ امی کے پاس چلی جاتی ۔
آشفہ نے کہا ۔
مما سو رہی ہیں ۔میں بس ابھی باہر آئی ہوں کچھ دیر پہلے ۔
حرمین نے شائستگی سے جواب دیا ۔
آشفہ نے حرمین کو جوس دیا ۔
تھینکس بھابھی ۔
اور خود حرمین کے پاس چائے پینے بیٹھی تھی ۔ جب حرمین نے کہا ۔
بھابھی ایک بات پوچھوں ؟
پوچھو ۔
آشفہ متوجہ ہوئی ۔
یہ جمال انکل کے بارے میں مجھے پوچھنا تھا ۔
کون ہیں یہ لوگ ۔اور کب سے آپ لوگوں کے ساتھ ہیں کیسے ؟
میں سب جاننا چاہتی ہوں ؟
-
حرمین نے آشفہ کو دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
-
جمال انکل اور بابا بچپن کے دوست ہیں ۔ایک ہی گاؤں سے ہیں ۔
دونوں بچپن سے ہی ہمیشہ ساتھ رہتے تھے ۔
ایک ہی سکول سے پڑھے ۔ایک ہی کالج سے پڑھے اور ایک ہی یونیورسٹی سے ۔
دونوں کو یونیورسٹی میں پیار ہوا ۔
ہادی کی مما اور میری مما بھی فرینڈز تھیں ۔
پھر بابا اور جمال انکل نے پارٹنرشپ پہ یہ بزنس سیٹ کیا ۔
یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ ہمارے بہت قریب ہیں ۔
-
ہادی ہمارے ہی گھر پلا بڑھا ہے ۔
ہادی کی مما کی ڈیتھ کے بعد مما نے ہادی کو اپنی اولاد کی طرح پالا ہے ۔
اور پتہ ہے حرمین ،ہادی بچپن سے ہی بہت شرارتی تھا ۔سب کا لاڈلا ۔
ہادی کسی سے نہیں ڈرتا تھا ،سوائے اذان بھائی کے ۔
-
ہادی ابھی تک اذان سے ڈرتا ہے ۔آشفہ کو بتاتے ہوئے ہنسی آگئی تھی ۔
جبکہ حرمین مکمل توجہ سے آشفہ کی بات سن رہی تھی ۔
ابھی بھی اذان سے ڈرتا ہے ؟
حرمین نے پوچھا ؟
ہاں نہ ۔
یہ جو بھائی ہیں نہ ۔بچپن سے ہی بہت سنجیدہ مزاج تھے ۔ ہادی کی شرارتوں سے چڑتے تھے ۔
انہیں بس اپنی کتابوں سے ،اپنی پڑھائی سے محبت تھی ۔
ہر وقت اسی میں لگے رہتے تھے
جیسے اب آفس کے کاموں میں بزی رہتے ہیں ۔۔۔۔۔
اور اذلان اپنے کام سے کام رکھتا تھا ۔وہ بھی جیسا اب ہے ،بچپن سے ایسا ہی ہے ۔ اسے کسی دوسرے انسان سے کوئی مطلب نہیں ۔
-
ہادی اور زونیشہ کی بچپن سے ہی بہت بنتی تھی ۔ دونوں دوست تھے ۔جیا تب بہت چھوٹی تھی ۔اور ہادی مجھ
سے بچپن سے ہی اٹیچ تھا ۔
جیسے چھوٹے بھائی اپنی بڑی بہنوں سے اٹیچ ہوتے ہیں ۔
آشفہ نے بتایا ۔
اچھا ۔۔۔۔۔
-
بھابھی میں بچپن سے ہی لوگوں سے زیادہ ملتی جلتی نہیں ہوں ۔یہی وجہ ہے کہ میں لوگوں سے زیادہ جلدی اٹیچ نہیں ہوتی ۔۔۔
بس اسی لئے اتنی بے تکلفی سے تھوڑا پریشان ہوگئی تھی ۔
حرمین نے بتایا ۔
ارے نہیں ،ایسی کوئی بات نہیں ۔ہادی کو بھی اپنا فیملی ممبر ہی سمجھو ۔ جیسے اذلان ہے ویسے ہی ہادی ہے ۔
اور مما پاپا زونیشہ اور ہادی کی شادی کا سوچ رہے ہیں ۔
بس دونوں کی رضامندی جاننا بہت ضروری ہے ۔۔۔۔
آشفہ حرمین کو بتا رہی تھی ۔
ہممم، دونوں کی اچھی انڈرسٹینڈنگ ہے ۔ خوب جمے گی دونوں کی ۔
حرمین کو خوشی ہوئی تھی ۔
-
آشفہ کا فون بجا !
مائی لائف کالنگ ۔۔۔۔۔۔۔
تمہارے بھائی کی کال ہے ۔۔۔۔آشفہ نے بتایا ۔۔۔میں آتی ہوں ۔۔۔
آشفہ کال اٹھاتی چلی گئی ۔۔۔۔۔۔۔
-
بھائی اور بھابھی میں کتنا پیار ہے نہ
ماشاءاللہ سے ۔۔۔کاش اذان!!!!
آپ کو بھی میری اتنی پرواہ ہوتی ۔
آفس جا کر بھول ہی جاتے ہیں کہ آپکی کوئی بیوی بھی ہے ۔۔۔۔۔
-
آفس ،آفس آفس اور بس آفس ۔۔۔
وہ خود سے بات کررہی تھی ۔
میں جانتی ہوں کہ آپ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں ۔لیکن وقت نہیں دیتے ۔۔۔
آئی مس یو اذان ۔۔۔۔۔ آئی لویو ۔۔۔۔ لویو سو مچ۔۔۔۔۔۔ جیسے بھی ہیں ،
جو بھی ہیں ،
مجھے قبول ہیں ۔۔۔۔
,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,
اسلام وعلیکم کیسی ہے میری جان !
بابر نے کال ریسیو ہوتے ہی کہا ۔
وعلیکم السلام ۔۔۔میں بالکل ٹھیک ۔۔۔
آپ بتائیں ۔کیسے ہیں ۔
ہماری یاد کیسے آگئی ۔۔۔آشفہ ٹہلتے ہوئے بات کررہی تھی ۔
لنچ ٹائم ہے ۔سب لنچ کرنے چلے گئے ۔۔۔۔
مجھے تمہاری یاد آگئی ۔تو تمہیں یاد کرلیا ۔۔۔۔تمہیں کال کرلی ۔۔۔بابر نے تنگ کرتے ہوئے کہا ۔۔
اچھا تو یہ بات ہے ۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے لنچ کرلیا ؟ ۔۔۔۔۔۔آشفہ نے پوچھا ۔
نہیں ۔۔۔۔ابھی نہیں کیا ۔۔۔کہا تو کھانے کے وقت تمہاری یاد آگئی ۔بابر نے شرارت سے کہا ۔۔۔
میں آکر کھلاؤں ؟ ۔۔۔۔آشفہ نے پوچھا ۔۔۔۔
ہائے !!!!!!!!!!!
دل کی بات کہہ دی میری جان ۔۔۔۔ ایسے ہی تو میں تمہیں جان نہیں کہتا نہ ۔۔۔۔میرے دل کی ہر بات سے تم واقف ہو ۔۔۔
بابر نے پیار سے کہا ۔۔۔
کیا کررہی تھی ؟ ۔۔۔
بابر کو اچانک یاد آیا ۔۔۔
کچھ نہیں ۔۔۔بھابھی کے پاس بیٹھی تھی ۔۔۔۔۔ بچپن کی یادیں تازہ کررہی تھی ۔۔۔۔آشفہ نے بتایا ۔۔۔۔
مجھے لگا تھا ، تم بھی مجھے یاد کررہی تھی ۔۔۔۔بابر نے مصنوعی ناراضگی کا اظہار کیا ۔۔۔۔
اوہ ۔۔۔۔۔۔مجھے یاد آیا ، بھابھی اکیلی ہیں ۔ مجھے انکے پاس ہونا چاہیے ۔۔۔
بائے ٹیک کیئر ۔۔۔اور ہاں ، لنچ کرلیں ۔ورنہ میں بھی نہیں کروں گی ۔۔۔
آشفہ کہتی فون بند کرنے لگی ۔۔۔
اوکے بائے ۔۔۔
لویو ۔۔
لویو ٹو ۔۔
,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,
آنٹی ؟
ہادی مہوش کے پاس آیا اور پکارا جب وہ لان میں بیٹھی کتاب پڑھ رہی تھی ۔۔
جی بیٹا ؟
مہوش کتاب بند کرکے ہادی کی طرف متوجہ ہوئی ۔۔
وہ ۔۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔
ہادی سے بات نہیں ہورہی تھی ۔۔
مہوش ہادی کا چہرہ بغور دیکھتے ہوئے بولی ۔
ہادی !!!
کیا بات ہے ۔۔۔مجھے پریشانی ہورہی ہے ۔ بولو بھی ؟
آنٹی ۔۔۔میں آج زونیشہ کو باہر لے کر جانا چاہتا ہوں ،ڈنر پر ۔۔۔
میں آج زونیشہ کو پرپوز کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔
آنٹی ،میں پاکستان شادی کرنے ہی آیا تھا ۔۔۔۔
مجھے واپس دبئی جانا ہے ۔۔۔۔
ہادی نے بات مکمل کردی تھی ۔۔۔
تم اب بھی دبئی جانا چاہتے ہو ؟
ہمیں تو لگا تھا کہ اب تم یہی پاکستان میں رہو گے ۔۔۔
مہوش چونکی تھی ۔۔۔۔
آنٹی ۔۔۔وہاں کچھ ضروری کام ہے وہ نمٹا کر ،کیا پتہ پاکستان شفٹ ہو جاؤں ۔۔۔
لیکن ابھی ایک مرتبہ تو جانا ضروری ہے ۔
ہادی نے بتایا ۔۔۔
زونیشہ کو تو تم لے جانا ۔۔۔اپنے ہی بچے ہو ،کوئی غیر تھوڑی ہو ۔
مہوش نے اجازت دے دی ۔۔۔
تھینکس آنٹی ۔۔۔کہتا ہادی اپنے روم میں چلا گیا ۔
۔
,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,
زونی تیار ہوگئی ؟
زونیشہ اپنے کمرے میں تھی جب ہادی کا میسج آیا ۔ ۔۔۔آج وہ زونی کے کمرے میں نہیں آیا تھا بلکہ میسج کیا تھا ۔
نہیں بس دس منٹ ۔زونیشہ نے رپلائے کیا ۔۔
اوکے میں گاڑی میں انتظار کررہا ہوں ۔ ۔۔۔جلدی آجاؤ۔
اوکے ۔ زونی نے رپلائے کیا ۔۔۔
اس نے سرخ رنگ کی لانگ فراک پہنی تھی ۔اور چوڑی دار پاجامہ ، سرخ ٹوپس پہنے ، سکن کلر کا کھسہ پہنے وہ ایک باربی ڈول لگ رہی تھی ۔۔۔
اس نے زیادہ میک اپ نہیں کیا تھا ۔اور اس نے سرخ رنگ ہادی کے کہنے پہ پہنا تھا ۔۔۔
ہادی کار کے پاس کھڑا تھا جب زونیشہ چل کر اسکی طرف آرہی تھی ۔وہ بہت سمپل تھی مگر پھر بہت پیاری لگ رہی تھی ۔
چلیں ۔زونیشہ نے قریب آکر کہا ۔
ہادی نے کار کا دروازہ کھولا ۔
زونیشہ بیٹھ گئی ۔۔
ہادی نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی ۔
اس نے ابھی زونیشہ کی تعریف نہیں کی تھی ۔۔۔ ۔۔۔
اب تو بتا دو ؟
ہم کہاں جا رہے ہیں ؟
زونی نے بے تابی سے پوچھا ۔۔
بس تھوڑا صبر اور ۔۔ہادی نے بس اتنا ہی کہا ۔۔
۔
زونیشہ چپ ہوکرمنزل پہ پہنچنے کا انتظار کررہی تھی ۔۔
,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,
حرمین اپنے روم میں تھی .جب دروازہ نوک ہوا ،
کون ہے ؟
آجاؤ۔ حرمین نے کہا ۔
اذان ہاتھ میں ایک ٹرے لے کر اندر داخل ہوا ۔
اذان آپ ؟
یہ کیا کررہے ہیں ۔ حرمین اٹھ کر بیٹھی ۔
چلو اب جلدی سے یہ فروٹ اور دودھ ختم کرو ۔اذان نےسائیڈ ٹیبل پہ ٹرے رکھتے ہوئے کہا اور بیڈ پہ حرمین کے پاس بیٹھ گیا ۔
اذان ، ابھی موڈ نہیں ہے ۔ا بھی کچھ دیر پہلے ہی تو جوس پیا ہے ۔حرمین نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا ۔
حرمین ۔ڈاکٹر نے کہا تھا ۔تمہیں ویکنیس ہورہی ہے ۔
تم نہیں کھاؤ گی تو ہمارا بچہ صحت مند کیسے پیدا ہوگا ۔
اپنے لئے نہ صیح ،اپنے بچے کے لئے ہی کھا لو ۔اذان نے پیار سے کہتے ہوئے سیب کا ایک ٹکڑا اسکے منہ میں دیا ۔
اذان !!!!
جی اذان کی جان ؟
آپ کیا چاہتے ہیں ، بیٹی ہو یا بیٹا ؟
حرمین نے اذان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا
❤۔
میں ؟
مجھے بیٹی پسند ہے ۔۔۔۔۔۔میں چاہتا ہوں میری بیٹی ہو۔
بالکل تمہارے جیسی ۔۔۔۔۔
اس کی آنکھیں تمہاری طرح نیلی ہوں ،سمندر کی طرح گہری اور خوبصورت ۔۔۔۔۔ روشن اور چمکدار ۔۔۔
اس کی مسکراہٹ تمہارے جیسی ہو ۔۔۔وہ مسکرائے تو لگے ساری کائنات مسکرا رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
جب مجھے پاپا کہہ کر پکارے ، تو لگے کسی نے میرے قدموں میں کائنات کا کر رکھ دی ہے ۔۔۔۔
مجھے آیت چاہیے ۔۔۔۔۔۔اذان نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے نام بھی سوچ رکھا ہے ۔۔۔۔ حرمین نے انتہائی حیرت سے پوچھا ۔۔۔
ہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اذان اور حرمین کی بیٹی ہو ۔۔۔تو اس کا نام آیت یا مروہ ہونا چاہیے ۔۔۔۔
تم کیا چاہتی ہو ۔۔۔۔؟
اذان نے اچانک حرمین سے سوال کیا ۔۔۔
میں ؟
مجھے بیٹا پسند ہے ۔۔۔۔ میں چاہتی تھی کہ میرا بیٹا ہوتا ۔۔ آپ کے جیسا ۔۔
بالکل آپ کے جیسا ۔۔۔۔۔
حرمین نے اذان کو پیار سے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔
ہادی اور کتنا وقت ہے ؟
اس نے اپنی آنکھوں پہ بندھی پٹی پہ ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا ۔
بس دو قدم اور ۔۔۔۔
ہادی نے شائستگی سے جواب دیا ۔
زونیشہ نے مضبوطی سے ہادی کا ہاتھ تھاما ہوا تھا ۔۔۔۔
سرپرائز!!!!!!!!
کہتے ہوئے ہادی نے اس کی آنکھوں سے پٹی کھولیں ۔۔۔
زونیشہ خوشگوار حیرت میں ڈوب گئی ۔۔۔
وہ سب کچھ غور سے دیکھنے لگی ۔۔۔۔
اتنی شوکڈ تھی کہ اسکی آنکھیں چمک اٹھیں ۔۔۔
اس کے سامنے جو دیوار تھی اس پہ ہادی اور زونیشہ کے بچپن کی تصویریں اس طرح لگی ہوئی تھی کہ کوئی جگہ خالی نہ تھی ۔۔۔۔
کھیلتے ہوئے کی تصاویر ۔۔۔
ہادی کے برتھڈے کی تصاویر ۔۔۔۔۔
زونیشہ کے برتھڈے کی تصاویر ۔۔۔
ایک دوسرے پہ پانی پھینکتے ہوئے کی تصویر ۔۔۔۔۔۔
ہادی کا زونیشہ کو جھولا دیتے ہوئے کی تصویر ۔۔۔۔۔۔۔
،،،،،،،
ہادی !!!!!!! ، وہ بے یقینی سے پیچھے مڑی ۔۔۔
جب ہادی نے ایک فوٹو فریم اس کے ہاتھ میں تھما دیا ۔۔۔
جس میں ہادی دبئی جاتے ہوئے زونی کو بائے کے لئے ہاتھ ہلا رہا تھا اور زونیشہ رورہی تھی ۔۔۔۔
یہ ؟؟؟؟
یہ سب کیا ہے ہادی ؟
وہ بہت شوکڈ تھی ۔۔۔
تم نے یہ سب تصاویر سنبھال کے رکھیں ہوئی تھیں ؟
زونیشہ سوال کررہی تھی
مگر ہادی جواب نہیں دے رہا تھا ۔۔۔
چلو ایک اور سرپرائز ہے ۔۔۔
ہادی نے زونیشہ کا ہاتھ تھاما ۔۔۔
ابھی کچھ اور بھی باقی ہے ؟
-
زونیشہ نے ہادی کو دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔
ہاں ابھی بہت کچھ باقی ہے ۔۔۔
ہادی نے زونیشہ کا ہاتھ چھوڑا ۔۔۔
زونیشہ نے سامنے دیکھا ۔۔۔
یہ جھولا ۔۔۔؟
یہ تو وہی جھولا ہے جس پہ بچپن میں تم مجھے جھولے دیا کرتے تھے ۔۔۔
اور یہ سویمنگ پول ؟
یہ بھی وہی ہے ۔۔جہاں تم اور میں پانی میں پاؤں ڈالے گھنٹوں بیٹھا کرتے تھے ۔۔۔
ہادی تم مجھے یہ سب کیوں دکھا رہے ہو ؟
-
زونیشہ کچھ بھی سوچنے سمجھنے سے قاصر تھی ۔۔
چلو !!!! ہادی نے پھر زونیشہ کا ہاتھ پکڑا اور اسے ایک روم میں لے گیا ۔۔۔
زونیشہ کا بے یقینی سے ایک بار پھر منہ کھلا کا کھلا رہ گیا ۔۔۔
یہ ؟
یہ تو وہ تمام تحفے ہیں جو میں نے بچپن میں تمہیں دیئے تھے ۔۔۔
یہ فٹ بال ، زونیشہ نے فٹ بال کو چھوتے ہوئے کہا ۔۔
یہ چھوٹی سی رسٹ واچ ،
یہ چھوٹی سی شرٹ ۔۔۔۔
یہ سب ،،،،
تم نے ابھی تک سنبھال کے رکھا ہے ہادی ؟
زونیشہ کی حیرت بڑھتی جارہی تھی ۔۔۔۔
مگر ہادی اسے اس کے کسی سوال کا جواب نہیں دے رہا تھا ۔۔۔
اب ایک بار پھر اس نے زونیشہ کا ہاتھ تھاما اور اسے ایک کمرے میں لے گیا ۔۔۔
جہاں رنگ برنگی لائٹس جل رہی تھیں ،
فرش پہ پھول ہی پھول بچھے تھے ۔۔۔۔۔
کمرے کے درمیان میں ایک ٹیبل لگا تھا جس پہ انکا ڈنر ریڈی تھا ۔۔۔
چلو ، ڈنر لیتے ہیں ۔۔۔
ہادی نے زونیشہ کو بیٹھنے کا کہا اور خود بھی بیٹھ گیا ۔۔۔اور ڈنر کرنے لگا ۔۔۔
زونیشہ سے کچھ بھی کھایا نہیں جارہا تھا ۔۔۔۔۔
وہ ہادی کے آج کے بی ہیوئیر سے بہت پریشان تھی ۔۔۔
,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,
وہ دونوں ڈنر کرچکے تھے ۔۔۔
ہادی تمہارا سرپرائز ختم ہوگیا ؟
سب کچھ بہت اچھا تھا اور حیراں کن بھی !!!
مجھے یقین نہیں ہورہا کہ ،،،،،، زونیشہ ابھی بول رہی تھی کہ ہادی نے اسکی بات کاٹی ۔
زونی ؟
اپنی آنکھیں بند کرو ۔۔۔ہادی نے پیار سے کہا ۔
کیا ؟
زونیشہ کو لگا اسے سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہے ۔۔
اپنی آنکھیں بند کرو ۔۔۔۔
ایک لاسٹ سرپرائز ہے!!!!!! ۔۔۔۔۔۔
زونیشہ نے آنکھیں بند کیں ۔۔۔
زونیشہ ،
ول یو میری می ؟
،،،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،،،
۔
چلو اب یہ دودھ ختم کرو ۔۔۔۔ اذان نے دودھ کا گلاس اٹھا کر حرمین کو خود دودھ پلایا ۔۔۔۔
تمہیں ریسٹ کی ضرورت ہے ۔۔۔۔
تم ، تمہاری صحت ہر چیز سے اوپر ہے ۔۔۔
اور ہاں ۔۔۔۔۔۔
میں نے چھٹیاں لے لی ہیں ۔اب سے تمہارا خیال میں خود رکھوں گا ۔۔۔
اذان نے حرمین کی پیشانی پہ بوسہ دیا ۔
چلو اب لیٹ جاؤ۔۔۔تمہیں آرام کرنا چاہیے ۔۔۔۔
حرمین لیٹ گئی ۔
بہت محبت کرتا ہوں تم سے حرمین ۔
۔کہتا نہیں ہوں ۔۔۔ کیونکہ مجھے کہنا نہیں آتا ۔۔۔۔۔
میں بیان نہیں کرسکتا کہ تم میری زندگی میں کتنی امپورٹنٹ ہو ۔۔۔۔
میں تمہارے بنا یہ زندگی تصور بھی نہیں کرسکتا ۔۔۔۔
ہمیں ساتھ بوڑھے ہونا ہے ۔۔۔
۔۔
وہ حرمین کے بال سہلاتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔اور حرمین بس سن رہی تھی ۔
۔
اسے کچھ دن پہلے خود سے کی گئی باتیں یاد آگئیں ۔۔۔
کہ
کاش اذان!!!!
آپ کو بھی میری اتنی پرواہ ہوتی ۔
آفس جا کر بھول ہی جاتے ہیں کہ آپکی کوئی بیوی بھی ہے ۔۔۔۔۔
-
آفس ،آفس آفس اور بس آفس ۔۔۔
-
میں جانتی ہوں کہ آپ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں ۔لیکن وقت نہیں دیتے ۔۔۔
آئی مس یو اذان ۔۔۔۔۔ آئی لویو ۔۔۔۔ لویو سو مچ۔۔۔۔۔۔ جیسے بھی ہیں ،
جو بھی ہیں ،
مجھے قبول ہیں ۔۔۔۔
-
وہ بہت حیران ہوئی تھی ۔
میرے دل کی پکار تم نے سن لی اذان ۔۔۔۔۔
تم واقعی مجھ سے بہت محبت کرتے ہو ۔۔ میں ہی نہیں سمجھ سکی ۔۔۔
آئی رئیلی لو یو اذان ۔۔۔ حرمین بولی تھی ۔۔۔
اذان نے پیار سے حرمین کو دیکھا ۔۔اور اسکے بال سہلاتا رہا ، جب تک حرمین سو نہیں گئی ۔۔۔۔۔۔
++++++----------+++++ ++++++---------+++++
-
ہادی کی آواز سن کر زونیشہ نے بے اختیار آنکھیں کھولیں ۔۔۔
وہ اسکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھا ہاتھ میں رنگ لیے زونیشہ کی طرف بڑھائے پوچھ رہا تھا ۔۔۔
زونیشہ نے بے یقینی سے پہلے رنگ کو دیکھا اور پھر ہادی کو ۔۔۔۔
اس کے چہرے سے اس کی سنجیدگی واضح تھی ۔۔۔
ہاں زونیشہ ،
آئی لو یو ،
آئی رئیلی لو یو ۔۔۔۔
یو آر مائی چائلڈ ہووڈ لو ۔۔۔
میں تمہیں بچپن سے چاہتا ہوں ۔۔۔۔
تم بچپن سے میری محبت ہو ۔۔۔
زونیشہ تم بہت خوبصورت ہو ۔۔۔۔
-
"۔ لاکھوں لوگوں کے درمیاں میرے دل نے تمہیں چنا ، تمہاری روح کی چمک نے ہمیشہ مجھے تمہاری طرف متوجہ ہونے پر مجبور کردیا ۔۔۔۔۔۔۔
۔اور اس دن سے میرے دل نے میرے لئے دھڑکنا چھوڑ دیا ۔۔۔اس کی ہر دھڑکن اب تم سے وابستہ ہے ۔۔۔
میں زندہ تو ہوں ،لیکن میری ہر دگثمیں تمہارا نام گونجتا ہے ۔۔اور میری روح اس خوبصورت تال پہ رقص کرتی ہے ۔۔۔
"
Zonesha , Will you marry me ?
I love you alot 😍🥰🥰
-
زونیشہ بے یقینی کی سی کیفیت میں ہادی کو دیکھ رہی تھی ۔
وہ اپنی جگہ ساکن کھڑی تھی ۔
یہ کوئی اور ہی ہادی تھا ۔۔۔
،،،،،
آج پہلی بار ہادی نے زونیشہ کو زونی نہیں ، بلکہ زونیشہ کہہ کر مخاطب کیا تھا ۔۔۔
آج پہلی بار زونیشہ نے ہادی کو اتنا سنجیدہ دیکھا تھا ۔۔۔
آج پہلی بار ہادی کی آنکھوں میں کچھ ایسا تھا جسے زونیشہ دیکھ بھی پا رہی تھی اور پڑھ بھی پارہی تھی ۔۔۔۔
-
ہادی!!!
مجھے کچھ وقت چاہیے ۔۔
-
ایسے فیصلے ایک پل میں نہیں ہوسکتے ۔۔۔
زونیشہ نے ہادی کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا ۔
زونیشہ اتنا ہی کہہ پائی ۔۔۔
,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,
تمہیں جتنا وقت چاہیے ،تم لے لو ۔۔۔
یہ تمہارا حق ہے ۔۔۔۔
لیکن مجھے افسوس ہے ، تمہیں مجھے جواب دینے کے لئے وقت کی ضرورت پڑی ۔۔۔
ہادی کی آنکھیں بھر آئیں تھیں ۔
ناجانے کیوں ؟
وہ خود بھی نہیں سمجھ سکا ۔۔
زونیشہ نے انکار تھوڑی نہ کیا تھا ۔بس وقت ہی تو مانگا تھا ۔۔۔
لیکن زونی کو میرے بارے میں فیصلہ کرنے کے لئے وقت چاہیے ، وہ سوچنا چاہتی ہے اس رشتے کے بارے میں ؟
یہ چیز ہادی کو دکھی کررہی تھی ۔۔۔
-
-
چلیں ۔
کافی دیر ہوگئی ہے ۔۔۔زونیشہ نے موبائل پہ ٹائم دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
ہادی کو لگا اس کا دل ڈوب کر ابھرا تھا ۔۔۔
اتنی سنگ دل ؟
کیسے ہوسکتی ہے زونی ؟
اس نے خود سے سوال کیا تھا ۔۔۔
ہمم چلو ۔۔۔۔ہادی باہر چلا گیا ۔۔۔
اس نے زونیشہ کی طرف دیکھا بھی نہیں ۔۔۔
زونیشہ نے پہلے ہادی کی بے رخی دیکھی ، پھر اسکے پیچھے چل پڑی ۔۔۔
-
-
پورے رستے دونوں خاموش رہے تھے ۔۔۔
یہ گھر تو تم لوگوں نے بیچ دیا تھا نہ ؟
زونیشہ نے پو چھا۔۔
ہمم .
پھر آج یہ۔۔۔۔
میں نے دوبارہ خرید لیا ہے ۔۔۔
میری بہت ساری یادیں وابستہ ہیں اس گھر سے ۔۔
ہادی نے بتایا ۔۔
صیح۔۔۔
وہ لوگ گھر پہنچ چکے تھے ۔۔۔
زونیشہ اور ہادی بنا کسی سے بات کئے اپنے اپنے کمرے میں چلے گئے ۔
زونیشہ نے اپنے کمرے میں جا کر کمرہ لوک کرلیا تھا ۔۔۔
اور دروازے سے ٹیک لگائے کچھ گھنٹے پہلے ہونے والی باتوں کو یاد کرنے لگی ۔۔۔
-
وہ بچپن کی اتنی ساری تصاویر ،
وہ گھر ، وہی جھولا ، وہی سوئمنگ پول ،
وہی سیٹنگ ۔۔۔۔
-
میرے دیئے ہوئے سارے گفٹس ۔
اس نے سب سنبھال کے رکھا ۔۔
-
آج پہلی بار ہادی ، تم نے مجھے میرے پورے نام سے بلایا ۔
زونی نہیں بلکہ زونیشہ کہہ کر بلایا ۔۔
تمہاری دل کی سچائی تمہاری آنکھوں میں چمک رہی تھی ۔۔۔
لیکن میں نے تمہیں کبھی اس نظر سے دیکھا ہی نہیں ۔
کبھی ایسا سوچا بھی نہیں ۔۔۔میرے لئے یہ سب بہت نیا تھا ۔۔۔
میں کیسے تمہیں آج ہی ہاں کہہ دیتی ۔
کیسے ہادی ؟
کیسے ۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
ہادی نے بھی اپنا کمرہ لوک کرلیا ۔۔۔
وہ کچھ نہیں سوچنا چاہتا تھا ۔۔
سونے کی غرض سے بستر پہ لیٹا اور تکیہ کو ہگ کیے وہ سونے کی کوشش کررہا تھا ۔مگر بار بار اسکے سامنے زونی کا چہرہ آجاتا ۔۔
آج تم بہت حسین لگ رہی تھی ۔۔۔خوبصورت تو تم ہمیشہ سے ہی تھی زونی ۔۔۔
مگر آج تم میرے لئے تیار ہوئی تھی ۔۔۔میرے کہنے پہ سرخ فراک پہنا تھا ۔۔۔اس لئے آج تم پہلے سے کئی زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی ۔۔۔
میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں زونی ۔
نہیں رہ سکتا تمہارے بغیر ۔۔۔
نہیں رہ سکتا
ناجانے کیوں اسکی آنکھیں بھیگ گئیں ۔
زونی کے خیالوں میں اسے کب نیند آگئی ۔اسے پتہ ہی نہیں چلا ۔۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
زونیشہ کے ایگزامز تک اس بارے میں کسی نے کوئی بات نہیں کی ۔
مہوش اپنے کمرے میں بیٹھی کتاب پڑھ رہی تھی جب دروازہ نوک ہوا۔
آجاؤ۔مہوش نے نظریں کتاب پہ جمائے کہا۔
زونیشہ اندر داخل ہوئی ۔
آپ نے بلایا مما ؟
زونیشہ نے پوچھا ۔
ہاں آؤ ،
بیٹھو ۔
کچھ بات کرنی ہے تم سے ۔۔۔مہوش نے کتاب بند کرتے ہوئے کہا ۔
زونیشہ مہوش کے پاس صوفے پہ آکر بیٹھ گئی ۔
جی مما ۔
کہیں کیا بات ہے ؟
اب تک زونیشہ ، میں تمہارے ایگزامز کی وجہ سے خاموش تھی ۔مگر اب تو ایگزامز ختم ہوئے کو بھی تین دن ہو گئے ۔۔۔
مجھے لگا تھا کہ تم مجھ سے بات کروگی ۔مگر تم نے مجھ سے کچھ نہیں کہا ۔تو مجبوراً مجھے ہی بات کرنا پڑرہی ہے ۔
مہوش نے زونیشہ کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔
مما ،کھل کر کہیں ۔
کیا کہنا چاہ رہی ہیں ۔
مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔آپ کس بارے میں بات کررہی ہیں ۔
زونیشہ نے کہا ۔
جس دن ہادی تمہیں ڈنر پہ لے کر گیا تھا ۔اس سے پہلے وہ میرے پاس آیا تھا
اور تمہیں ڈنر پہ لے کر جانے کی اجازت مانگی تھی ۔
یہ بھی بتایا تھا کہ تمہیں پرپوز کرنا چاہتا ہے ۔
مگر اس دن کے بعد سے تم دونوں ایک دوسرے سے دور دور رہنے لگے ہو۔
کیوں زونیشہ ؟
کیا تم نے ہادی کو منع کردیا ہے؟
مہوش نے پوچھا تو زونیشہ نے نظریں چرا لیں ۔
زونیشہ جمال بھائی اور تمہارے بابا کی بھی یہی خواہش ہے ۔
مگر تمہاری رضامندی بہت اہمیت کی حامل ہے ۔۔۔کیا تم کسی اور کو ۔۔۔۔۔
مما ! نہیں بالکل نہیں ۔زونیشہ نے مہوش کی بات کاٹی ۔
اور میں نے ہادی کو منع نہیں کیا ۔بس کچھ وقت مانگا تھا۔۔۔
اسکے بعد اس بارے میں کوئی بات ہی نہیں ہوئی تو اس لئے میں اور ہادی خاموش تھے۔
زونیشہ نے وضاحت دی۔
-
زونیشہ!
تم نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ تم نے وقت مانگا تھا ۔
ہادی تمہارے جواب کا منتظر ہوگا ۔
مہوش نے سمجھایا ۔۔
جی مما ۔زونیشہ نے اتنا ہی کہا ۔
تم نے سوچا کیا ہے ؟
مہوش نے پھر پوچھا ۔
مما ۔میں نے اسے کبھی اس نظر سے نہیں دیکھا ۔
ہمیشہ ایک دوست مانا ہے ۔۔۔
ہادی بہت اچھا لڑکا ہے ۔۔۔لیکن میں بہت کنفیوز ہوں ۔ ۔۔
کچھ چیزیں وقت کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا کرو زونیشہ ۔
ہادی کو ہاں کہہ دو۔
پھر دیکھنا۔تمہیں کیسے ہادی سے محبت ہوتی ۔۔
مہوش نے سمجھایا ۔
جی مما ۔۔۔
میں نے بھی یہی سوچا ہے ۔
کہ اگر آپ سب کی خوشی اسی میں ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔
میں راضی ہوں ۔زونیشہ نے ہامی بھرلی ۔
جیتی رہو۔
جاؤ ،اور ہادی سے بات کرو۔۔۔
اسے اپنا حال دل کہہ دو ۔
ہادی تمہارے جواب کا منتظر ہوگا ۔
جی کہتی زونیشہ اٹھ کئی
اور ہادی کے روم میں جانے لگی ۔
دروازہ نوک کیا ۔
کون ہے ؟
ہادی نے اکھڑے لہجے میں پوچھا ۔
تمہاری زونی ۔ زونیشہ نے بتایا ۔
مجھے کسی سے بات نہیں کرنی ۔ہادی نے اکھڑے لہجے میں ہی جواب دیا ۔
تم بات نہ کرو ۔بس مجھے سںن لو۔
کہتے ہوئے زونیشہ نے دروازہ کھولا اور اندر آکر ہادی کے سامنے والے صوفے پہ بیٹھ گئی ۔
ہادی نے منہ پھیر لیا ۔
ہادی ،
زونیشہ نے پکارا
زونی میرا موڈ نہیں ہے ۔ہادی نے بے رخی سے کہا۔
اچھا سوری ۔
یہ لو کان پکڑ کے سوری ۔زونیشہ نے کان پکڑتے ہوئے کہا ۔
-
سوری ؟
کس بات کی سوری ۔ہادی چونکا۔
تمہیں ہرٹ کرنے کے لئے۔۔۔
تمہیں انتظار کرانے کے لئے سوری ۔زونیشہ نے کہا ۔
تم نے جواب نہیں دیا ۔میں سمجھ گیا ۔۔
پھر اس سوری کی کیا ضرورت ہے ؟
ہادی نے زونیشہ کو دیکھے بنا کہا ۔
کیا سمجھ گئے تم ؟
زونیشہ ہادی کے پاس بیڈ پہ اسکے سامنے آبیٹھی ۔
یہی کہ تم مجھ سے محبت نہیں کرتی ۔
ہادی نے کہتے ہوئے منہ دوسری طرف پھیر لیا ۔
اور یہ تم سے کس نے کہا ؟
زونیشہ نے کہا۔
ہادی نے بے یقینی سے زونیشہ کو دیکھا ۔
میں کرتی ہوں تم سے محبت ۔
ہوگئی مجھے تم سے محبت ۔
اگر تم اپنی محبت کا اظہار نہ کرتے تو شاید میں ایسا کبھی سوچ بھی نہ پاتی ۔۔
لیکن تمہاری محبت اور انداز محبت نے مجھے تم سے محبت کرنے پہ مجبور کردیا ۔
آئی لو یو ہادی ۔زونیشہ نے ہادی کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا ۔
" کیا فائدہ ،اس محبت کا۔ جو نہ دکھائی دے ، نہ محسوس ہو ۔
بلکہ کہہ کر کروائی جائے ۔
مجھے نہیں چاہیے ایسی محبت ۔۔
ہادی نے کہتے ہوئے پھر منہ پھیر لیا ۔
ہادی !!!!
تمہیں میرے خیالوں کے لائف پارٹنر کی کوالٹییز یاد ہیں ؟
مجھے ایسا لائف پارٹنر چاہیئے جو ہمارے رشتے میں انا کو نا لے کر آئے ۔
ہوگئی نہ تم سے محبت ۔۔۔
اور اگر تم مجھے نہ چھوڑکے جاتے تو شاید------
شاید
؟
مجھے تم سے پہلے ہی محبت ہوجاتی ۔
میں اب تک ناراض تھی تم سے ۔
تمہیں پتہ بھی ہے سب چھوڑ دیا تھا میں نے تمہارے بعد ۔
کھیلنا ، جھلنا ،کھانا پینا ۔۔
اپنی پسند کی ہر چیز سے دور ہوگئی تھی میں ۔
سارا سارا دن تمہیں یاد کرتی رہتی
اور روتی رہتی تھی ۔
کچھ بھی اچھا نہیں لگتا تھا ۔
ان دنوں ہی مجھے تم سے شاید محبت ہوگئی تھی-
-
اور نفرت بھی ۔۔
اتنے سالوں بعد جب تم سامنے آئے تو نفرت اور محبت کی جنگ شروع ہوگئی ۔۔
اور آج محبت اپنی جیت کا اعلان کررہی ہے ۔
زونیشہ بتاتے ہوئے رونے لگی تھی ۔
ہادی نے زونی کو دیکھا ۔
میرا بھی یہی حال تھا زونی ۔
تم سے دور تو چلا گیا تھا ۔
مگر رہ نہیں پایا تھا ۔۔
سارا سارا دن تمہیں یاد کرتا اور آنکھیں بھر آتیں ۔
تب ہی سوچ لیا تھا کہ میں واپس آؤں گا اور تمہیں ہمیشہ کے لیے لے جاؤں گا۔
آئی لو یو زونی ۔
ہادی نے زونیشہ کا ہاتھ تھاما اور اس پہ ہونٹ رکھ دیئے ۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
بابر آفس جانے کے لئے تیار ہورہا تھا ۔
بابر آپکا لنچ ۔آشفہ نے ٹیفن بابر کے ہاتھ میں تھما یا ۔
شکریہ آشفہ ۔بابر کہتا مڑنے لگا جب آشفہ کی لڑکھڑاتی آواز بابر کے کانوں میں پڑی ۔
ب۔۔۔۔با۔۔۔ب۔۔ر ۔۔
بابر مڑا ۔آشفہ کو چکر آیا اور وہ نیچے گرنے ہی والی تھی جب بابر نے اسے اپنی بانہوں میں تھام لیا ۔
آشفہ بے ہوش ہوچکی تھی ۔
آشفہ ،آشفہ ۔۔بابر چلانے لگا ۔
جاوید اور فرزانہ دوڑ کے آئے ۔
کیا ہوا بیٹا ۔
مما ، آشفہ کو چکر آیا ہے ۔چلیں جلدی ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں ۔
کہتا اذان آشفہ کو بانہوں میں اٹھائے کار تک لے گیا ۔۔۔
-
اگلے ہی لمحے وہ ہسپتال میں تھے ۔
ڈاکٹر صاحبہ کیا بات ہے ؟
سب ٹھیک ہے ۔۔پہلے ایسے کبھی نہیں ہوا آشفہ کے ساتھ ۔
بابر بہت فکر مند تھا ۔
جی جی سب ٹھیک ہے ۔
خوشی کی خبر ہے ۔
مبارک ہو آپکی مسز امید سے ہیں ۔
ڈاکٹر کے کہنے کی دیر تھی کہ سب کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے ۔
کیا ؟
میں باپ بننے والا ہوں ؟
بابر نے بے یقینی اور خوشگوار حیرت کی ملی جلی کیفیت میں کہا ۔
جی۔۔۔۔
۔
بہت بہت مبارک ہو آپ کو ۔
اب آپ اپنی مسز کو گھر لے جائیں اور انکا بہت خیال رکھیں ۔
ڈاکٹر نے تلقین کی ۔
جی ڈاکٹرصاحبہ ۔کہتا بابر آشفہ کے پاس گیا
کیا ہوا بابر ۔
میں یہاں ہسپتال میں داخل ہوں اور
آپ مسکرا رہے ہیں ۔آشفہ نے بابر کو مسکراتے دیکھا تو پوچھا ۔۔
معجزے ہوتے ہیں....!!
دعائیں سن لی جاتی ہیں
زخم بھر دیے جاتے ہیں....!!
دل جوڑ دیے جاتے ہیں
کُن فرما دیا جاتا ہے....!!
لیکن بات ہے تو صرفـــــــــ
ایمان ، توکل اور صبر کی..
بابر نے مسکراتےہوئےکہا
کیا
ہوا بابر ۔
۔
تھینک یو آشفہ ۔
تھینک یو سو مچ ۔تم نے مجھے آج بہت بڑی خوشی دی ہے ۔
بابر نے آشفہ کی پیشانی پہ بوسہ دیا ۔
مبارک ہو تم ماں بننے والی ہو ۔
سچ ؟
آشفہ نے بے یقینی کی کیفیت میں بابر کو دیکھا ۔
بابر نے ہوں میں سر ہلایا ۔
تب ہی فرزانہ اور جاوید اندر داخل ہوئے ۔
مبارک ہو بیٹا ۔دونوں نے مبارکباد دی ۔
شکریہ خالہ امی ۔شکریہ خالو ۔
سب بہت خوش تھے۔
چلو گھر چلتے ہیں ۔ہمارا گھر اس خوشی کی خبر کا انتظار کررہا ہے ۔
جاوید نے کہا اور سب گھر کے لیے روانہ ہو گئے ۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
حرمین ہسپتال میں داخل تھی۔اذان بہت پریشان تھا ۔
آپریشن کئی گھنٹوں سے چل رہا تھا مگر کوئی اطلاع نہ تھی ۔۔۔
اذان صبر رکھو میرے بچے ۔مہوش نے تسلی دی تھی ۔
جب ہی ایک نرس باہر آئی ۔
آپکی مسز کو خون کی ضرورت ہے ۔
جلدسے جلد " او نیگٹیو"
O-
ارینج کریں ۔۔
او نیگٹیو ۔۔۔
یہ بلڈ گروپ تو ہم میں سے کسی کو بھی نہیں ہے ۔
اکبر نے پریشانی کی حالت میں کہا ۔
اذان یہ سن کر اپنی جگہ ساکن کھڑا رہ گیا ۔ ۔
حرمین ۔تمہیں کچھ نہیں ہوگا ۔میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا۔ ۔
اذان بہت پریشان تھا ۔
بھائی فکر نہ کریں ۔
کچھ نہ کچھ ہوجائے گا ۔ہم سب اپنے دوستوں سے پتہ کرتے ہیں ۔اذلان نے تسلی دی تھی ۔
سب نے اپنے دوستوں سے کنٹیکٹ کیا اور خون مانگا ۔۔
سر پلیز جلدی کریں ۔نرس نے پھر آکر کہا تھا ۔
اذان سر پکڑ کر بیٹھ گیا ۔
میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا۔ ۔
وہ اپنے کمرے میں بیڈ پہ لیٹی ہاتھ میں موبائل لیے اذان کی فیس بک آن کیے ہوئے تھی ۔
اذان کی ہر تصویر کو زوم کرکرکے دیکھ رہی تھی ۔
۔
آج تم باپ بن گئے ۔۔۔۔
۔ا۔۔۔ذ۔۔ان۔۔۔
اذان کا نام لیتے ہوئے اسکی آواز لڑکھڑاتی تھی ۔
تب ہی دروازہ نوک ہوا ۔
کیا پرابلم ہے رانی ؟
وردہ ڈسٹرب ہونے کی وجہ سے اس پہ چلائی تھی ۔
وردہ بی بی ۔۔
آپکی مام کا فون آیا ہے ۔۔۔وہ کہہ رہی ہیں آپ ان کی کال ریسیو کریں ۔
انہیں آپ سے کچھ بات کرنی ہے ۔
رانی نے جھجکتے ہوئے کہا ۔
اوکے ۔۔۔۔۔
کہہ دیا ۔۔۔
وردہ نے اکھڑے لہجے میں پوچھا ۔
جی ،،، رانی نے اثبات میں سر ہلایا ۔
اب جاؤ ۔۔۔ وردہ نے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔
۔
مام۔آپ بھی نہ ۔
کتنی بار کہا ہے مجھے ابھی شادی نہیں کرنی ۔نہیں کرنی ، نہیں کرنی ۔
پھر بھی جانے کیوں پیچھے پڑی ہیں ۔
وردہ خود سے مخاطب تھی ۔
وہ دوبارہ موبائل کی طرف متوجہ ہوئی ہی تھی کہ کال آگئی ۔
"۔ مام کالنگ "
وردہ نے کال ریسیو کرتے ہوئے موبائل کان سے لگایا ۔
۔
وردہ کتنی کالز کیں تمہیں ۔
جی مام ؟
تمہیں میں نے فیصل کی تصویر بھیجی تھی ۔۔۔تم نے کوئی رسپانس نہیں دیا ۔
خاموشی ۔۔۔۔
وردہ ۔۔۔بولو کچھ پوچھ رہی ہوں ۔۔
مام میں کسی کو پسند کرتی ہوں ۔۔۔
۔آپ پلیز میرے لئے پریشان مت ہوا کریں ۔۔میں کوئی بچی نہیں ہوں ۔اپنی لائف کیسے گزارنی ہے مجھے اچھے سے پتہ ہے ۔
ٹیک کیئر ۔
مگر وردہ ۔۔۔۔
وردہ کال کاٹ چکی تھی ۔۔
،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،
اذلان،جیا،زونیشہ اذان ، سب اپنے اپنے دوستوں سے کنٹیکٹ کررہے تھے ۔
مگر بلڈ ارینج نہیں ہورہا تھا ۔۔
۔
وردہ ۔۔۔۔۔
زونیشہ کو اچانک یاد آیا ۔۔
وردہ نے ایک بار یونیورسٹی میں بلڈ ڈونیٹ کیا تھا ۔۔
اس کا بلڈ گروپ سیم ہے ۔
زونیشہ نے بتایا ، تو سب اسکی طرف متوجہ ہوئے ۔
کنٹیکٹ ہر۔
اذان جلدی سے بولا ۔
ہاں میں کرتی ہوں کال ۔
زونیشہ نے وردہ کو کال کی ۔
اٹھا نہیں رہی ۔۔۔زونیشہ نے موبائل کان سے لگائے کہا ۔
ٹرائے اگین ۔
اذلان نے کہا ۔
ہاں میں کرتی ہوں ۔ زونیشہ نے دوبارہ نمبر ڈائل کیا ۔
ہیلو !
ہاں وردہ ۔۔۔کیسی ہو ۔۔
بھابھی کو بلڈ چاہیے ارجینٹ ۔
او نیگٹیو ۔
تم پلیز جلدی آجاؤ۔
ہاں تھینکس وردہ ۔۔۔۔پلیز جلدی آنا ۔
کہتے ہوئے زونیشہ نے موبائل بند کیا ۔
تب ہی فرزانہ اور جاوید آئے ۔
۔
کیا ہوا ، حرمین ٹھیک ہے ؟
فرزانہ نے انتہائی فکر سے پوچھا ۔
جی بس دعا کریں ۔
مہوش بھی بہت پریشان بیٹھی تھی ۔
جب ہی وردہ آئی ۔۔۔اذان کو دیکھا جو امید بھری نظروں سے وردہ کو دیکھ رہا تھا ۔
آج بھی بہت ہینڈسم اور وجاہت مرد لگ رہا تھا ۔۔
نرس وردہ کو اندر لے گئی ۔
سب بہت بے تابی سے خبر کا انتظار کررہے تھے ۔
کچھ دیر بعد ایک نرس باہر آئی ۔۔سب اسکی طرف متوجہ ہوئے ۔
مبارک ہو ۔۔۔
بیٹی ہوئی ہے۔۔۔نرس نے بتایا ۔
ماشاءاللہ ۔۔۔ مہوش اور فرزانہ نے کہا
یا اللّٰہ تیرا شکر ہے ۔۔۔۔جاوید نے کہا ۔
میری مسز ؟
اذان نے پوچھا ۔۔
وہ بھی ٹھیک ہیں ماشاءاللہ سے ۔ خطرے کی کوئی بات نہیں ۔۔۔نرس نے اذان کو بتایا ۔
۔
شکر ہے اللّٰہ کا ۔ اذان نے شکر ادا کیا ۔
اچانک اذان کو وردہ کا خیال آیا ۔
اگر وہ نہ ہوتی تو ماں اور بچے دونوں کی جان کو خطرہ تھا ۔
وردہ ۔۔۔۔
سسٹر ، جنہوں نے بلڈ ڈو نیٹ کیا ہے وہ کہاں ہیں ۔۔
اذان نے پوچھا ۔
وہ تو فوراً چلی گئی تھیں ۔
چلی گئی؟
جی ۔۔۔وہ اسی وقت چلی گئی تھی ۔
اکسکیوزمی ۔۔کہتے ہوئے نرس الگ ہوئی تھی ۔
-
زونیشہ ، وردہ بنا بتائے ، بنا ملے ہی چلی گئی ۔
شکریہ کہنے کا بھی موقع نہیں دیا ۔
اذان زونیشہ سے مخاطب تھا ۔
مجھے ملی تھی وہ بھائی ۔۔۔کہہ رہی تھی بہت ویکنیس ہورہی ہے اور میری طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے ۔اس لئے
اچھا ۔۔۔۔
اذان حرمین سے مل لو ۔۔۔فرزانہ نے کہا تو وہ اندر حرمین کے پاس چلا گیا ۔
سب سے پہلے اذان نے اپنی بیٹی کے کان میں اذان دی ۔
ماشاءاللہ میری گڑیا ۔
میری باربی ڈول ۔۔ بہت پیاری ہے ۔
بالکل اپنی ماں کے جیسی ۔
اذان اپنی بچی کو اپنے ہاتھوں میں اٹھائے اسے پیار کرتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔
حرمین مسکرائی ۔۔
میری جیسی ہے ؟
ہممم۔۔ ناک بالکل تمہارے جیسی ہی تو ہے ۔۔۔اذان نے حرمین کی ناک دیکھتے ہوئے کہا ۔
اور مسکراہٹ بالکل آپکے جیسی ۔۔۔حرمین نے مسکراتے ہوئے اذان کو دیکھا اور پھر اپنی بچی کو ۔ اذان حرمین کے پاس بیڈ پہ ہی بیٹھا تھا
اذان نے بچی کی پیشانی پہ بوسہ دیا ۔۔۔
آج سے اس کا نام " آیت " ہے ۔
اذان نے آیت کو پیار کرتے ہوئے کہا ۔
جب ہی زونیشہ اور ہادی اندر آئے ۔
بھائی مجھے بھی آیت کو دیکھنے دیں ۔اور کتنا دیکھیں گے آپ ؟
زونیشہ نے پیار سے اذان سے کہا تو زونیشہ آیت کو لے کر روم سے باہر آگئی ۔
تھینک یو حرمین ۔۔۔ آج تم نے مجھے دنیا کی سب سے بڑی خوشی دی ہے ، اذان نے حرمین کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے ان پر بوسہ دیا ۔
،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،
کتنی پیاری ہے نہ ماشاءاللہ سے ۔زونیشہ نے آیت کو پیار کرتے ہوئے کہا ۔
ہاں ماشاءاللہ بہت پیاری ہے ۔۔۔ ہماری بھتیجی ۔
ہادی جو زونیشہ کے بالکل پیچھے کھڑا تھا ۔زونیشہ کی طرف دیکھتے ہوئے پیار سے بولا ۔
زونیشہ نے ہادی کی طرف دیکھا ۔
دونوں مسکرائے ۔۔
-
،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،
تین دن بعد !!!
-
اذان نے دروازے کی بیل بجائی ۔
گارڈ نے دروازہ کھولا ۔
جی کون ؟؟؟
گارڈ نے اذان کو ناپہچانتے ہوئے پوچھا ۔
جی ، میں اذان ۔۔۔زونیشہ کا بھائی ۔
مجھے وردہ سے ملنا ہے ؟
اذان نے اپنا تعارف کرایا ۔
آئیے ۔گارڈ نے اذان کو ڈرائنگ روم میں بٹھایا ۔
گھر بہت ہی اعلیٰ شان تھا ۔۔
وردہ اتنی رچ فیملی سے بیلونگ کرتی ہے ؟
اذان حیران ہوا تھا ۔۔
وردہ اپنے کمرے میں صوفے پہ بیٹھی اذان کے خیالوں میں ہی گم تھی ۔جب رانی نے آکر اسے بتایا
وردہ بی بی ۔ آپ سے کوئی اذان صاحب ملنے آئے ہیں ۔۔
رانی نے جیسے ہی بتایا ، وردہ نے بے یقینی سے رانی کو دیکھا ۔
اذان ؟
تمہیں سننے میں کوئی غلطی تو نہیں ہوئی ؟
وردہ نے حیرت سے پوچھا ۔
جی نہیں وردہ بی بی ۔
اذان صاحب ہی اپنا نام بتا رہے ہیں ۔۔۔کہہ رہے ہیں۔ کہ زونیشہ کے بھائی ہیں ۔
زونیشہ کے بھائی ،اذان ، ہمارے گھر ؟
کہاں ہیں وہ ؟
وردہ اپنی جگہ سے اٹھی تھی ۔۔
قاسم نے اسے ڈرائنگ روم میں بٹھایا ہے ۔۔۔ابھی انہیں ٹھنڈا دے کر آرہی ہوں ۔
صرف ٹھنڈا ؟
جاؤ ، ان کے کھانے کا اہتمام کرو ۔۔
میں جاتی ہوں اذان کے پاس ۔
رانی ؟
میں ؟
رانی میں ٹھیک لگ رہی ہوں ؟
وردہ دروازے کی جانب جاتے ہوئے مڑی تھی ۔
ج۔۔۔۔جی۔ ۔۔۔وردہ بی بی ۔۔
وردہ کا رنگ خوشی سے گلابی ہوگیا تھا ۔وہ چہچہاتی ہوئی باہر چلی گئی ۔
-
جبکہ رانی اپنی جگہ ساکن کھڑی تھی ۔۔
پانچ سالوں میں آج پہلی بار وردہ نے رانی سے صیح سے بات کی تھی ۔۔اسے جھڑکا نہیں تھا ۔۔۔
آخر یہ کون ہیں اذان صاحب ؟
رانی نے خود سے سوال کیا تھا ۔
-
،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،
زونیشہ اور ہادی لانگ ڈرائیو پہ گئے تھے ۔
زونیشہ آئسکریم کھانی ہے ؟
ہادی نے آئسکریم والے کو دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
نیکی ،اور پوچھ پوچھ ؟
زونیشہ کے منہ میں آئسکریم کے نام سے ہی پانی آگیا تھا ۔
چلو پھر ۔۔
ہادی آئسکریم لینے گیا تھا ۔۔
زونیشہ کا فون بجا ۔
"باسل کالنگ "
زونیشہ کی ہارٹ بیٹ مس ہوئی ۔ ہادی کے ساتھ ہوتے ہوئے جب باسل کی کال آئی ۔۔
اگر ہادی نے دیکھ لیا ،اور پوچھ لیا تو ۔۔۔
زونیشہ سوچ کرہی خوفزدہ ہوگئی تھی ۔
ہادی آئسکریم لے کر اب زونیشہ کی طرف آرہا تھا ۔زونیشہ نے جلدی سے کال کاٹی ۔
یہ لو تمہارا فیورٹ فلیور ۔۔۔
آج میں نے اپنے لئے بھی تمہارا فیورٹ فلیور لیا ہے ۔
ہادی نے زونیشہ کو آئسکریم پکڑتے ہوئے کہا ۔
تھینکس ۔
پھر زونیشہ کا فون بجا ۔
باسل کالنگ ۔
زونیشہ نے پہلے ہادی کو دیکھا اور پھر کال کو ۔
اٹھا لو ؟
کس کی کال ہے ۔ہادی نے آئسکریم کھاتے ہوئے کہا ۔
زونیشہ نے پھر کال کاٹی ۔۔۔نہیں کچھ نہیں ۔
رانگ نمبر ہے ۔۔ زونیشہ نے جھوٹ بولا تھا ۔
-
کیا ہوا زونی ؟
تم ٹھیک ہو ،تمہیں پسینہ کیوں آرہا ہے ؟
ہادی نے زونیشہ کی پیشانی پہ آتے پسینے کو دیکھا ۔
-
نہیں کچھ نہیں ۔۔۔
زونیشہ نے ٹشو سے اپنی پیشانی صاف کی ۔
گر۔۔۔گرمی بہت ہے نہ ۔۔۔بس اس لئے ۔۔۔ زونیشہ نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا ۔
-
ہادی گھر چلیں ۔۔۔۔پلیز ۔
زونیشہ نے آئسکریم ختم کرتے ہوئے کہا ۔
شیور۔۔۔ہادی نے کہتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کی ۔۔
-
،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،
وردہ اندر داخل ہوئی ۔۔
اذان جو ہاتھ میں جوس کا گلاس پکڑے بیٹھا تھا ۔۔وردہ کو دیکھ کر کھڑا ہوا ۔۔
نہیں نہیں ۔کھڑے مت ہوں ۔
بیٹھیے ۔۔
وردہ نے اذان کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور سامنے والے صوفے پہ خود بیٹھ گئی
وہ ؟
میں ۔۔۔۔وہ ۔۔۔۔۔
آپ کا شکریہ ادا کرنے آیا تھا ۔۔۔
اس دن آپ بنا بتائے ، بنا ملے ہی چلی گئیں ۔
شکریہ تک کہنے کا موقع نہ دیا ۔
اذان نے وردہ کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
۔
دیکھیں اذان صاحب ۔۔۔۔
میں وہاں زونیشہ کی وجہ سے آئی تھی اور میں واپس آنے سے پہلے زونیشہ سے مل کر آئی تھی ۔
آپ سے ملنا ، مجھے ضروری نہیں لگا تھا ۔۔۔
-
وردہ نے خود کو مضبوط رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔
اذان نے وردہ کو دیکھا ۔۔
وہ بہت سنجیدہ تھی ۔۔
مگر اسکی آنکھیں بھر آئیں ۔
-
بائے دا وے ۔
کنگریجولیشنز۔۔۔
آپ باپ بن گئے ،
کہتے ہی وردہ کی آنکھ سے ایک آنسو اسکے رخسار پہ گرا تھا ۔۔
تھینکس ۔۔۔ اذان نے مختصر جواب دیا ۔
آپ کی مسز کیسی ہیں اب ؟
وردہ نے اپنے گال پہ گرے آنسو کو پونچھتے ہوئے پوچھا ۔
-
تب ہی اذان کی نظر اسکی کلائی پہ پڑی ۔۔
جہاں اس نے چاقو سے
A Z A N
لکھا تھا ۔۔
اذان نے صرف
Z A N
دیکھا تھا ۔۔۔
-
جی بہتر ہیں اب ۔
ایک بات پھر آپکا شکریہ ۔۔
اذان نے کہا ۔
-
اذان صاحب باربار شکریہ کہہ کر مجھے شرمندہ نہ کریں ۔
یہ تو میرا فرض تھا ۔
اذان بہت الجھ رہا تھا ۔
وردہ کے بی ہیو سے ۔۔۔
وردہ ۔۔۔
ایک بات مانیں گی ؟
۔
جی کہیں ؟
وردہ نے اذان کو دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
-
اذان آٹھ کر وردہ کے پاس گیا ۔
یہ آپ ؟
آ۔آ۔پ کیا ک۔کر۔۔رہے ۔۔
وردہ کی زبان لڑکھڑا رہی تھی ۔جب اذان نے اسکے قریب جا کر اسکی کلائی پکڑ کے دیکھی ۔۔۔
جس پہ اس نے چاقو سے
A Z A N
لکھا تھا ۔
A ,
کچھ پرانا لگ رہا تھا لکھا ہوا ۔جبکہ
Z A N
بالکل فریش تھے ۔۔۔
جیسے دو ،تین دن پہلے ہی لکھے ہوں ۔۔
اذان نے بے یقینی سے اسکی کلائی پہ لکھے اپنے نام کو دیکھا ۔
-
اور پھر نظر اٹھا کر ۔۔۔ وردہ کو ۔۔
جسکی آنکھوں سے ایسے آنسو بہنے لگے تھے ۔جیسے کوئی چشمہ پھوٹا ہو ۔۔
وردہ نظریں جھکائے رورہی تھی ۔
-
یہ ؟
یہ سب ؟
کیا ۔۔۔ہے ۔۔۔وردہ ؟
-
اذان کو اپنی آنکھوں پہ یقین نہیں ہورہا تھا ۔۔۔
وردہ نے اذان کے ہاتھ سے اپنی کلائی چھڑائی اور منہ موڑ کے کھڑی ہوگئی ۔۔
میں آپ کو کبھی نہیں بتانا چاہتی تھی ۔
کبھی بھی نہیں ۔۔۔لیکن شاید قسمت کو یہ بات منظور نہ تھی ۔۔
دیکھیں نہ ۔۔۔۔ آپ خود چل کر آئے میرے گھر ۔۔۔
اور آج ہی آپ کو یہ بات پتہ چلنی تھی ۔۔۔
وردہ نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے بتایا ۔
-
میں نے پوچھا یہ سب کیا ہے وردہ ؟
اذان وردہ کے سامنے جا کھڑا ہوا تھا ۔۔
آپ ۔۔۔۔میری چھوٹی بہن کی دوست ہیں ۔۔۔اس کی ایج فیلو ہیں ۔۔۔
آپ کی اور میری ایج میں کتنا ڈیفرنس ہے ۔۔۔۔
آپ جانتی ہیں کیا ؟
اذان نے وردہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سوال کیا تھا ۔۔
وردہ نے پھر منہ پھیر لیا ۔۔
-
م۔۔۔ج ۔۔مجھے ۔۔۔۔آپ سے ۔۔۔محبت ہوگئی تھی ۔۔۔۔
وردہ نے کہا ۔۔
لیکن کب ، کہاں اور کیسے ؟
میرا نہیں خیال کہ آپ اور میں کبھی ملے ہیں ؟
اذان نے حیرت سے پوچھا ۔۔
-
وہ ۔۔۔آپ زو۔۔زونیشہ کو یونیورسٹی چھوڑنے آتے تھے ۔۔
تب دیکھا ۔۔تھا میں نے آپ کو ۔۔۔
۔
وردہ ۔۔۔۔آر یو کریزی ۔۔
وہ کتنی پرانی بات ہے ۔۔میں تو بس زونیشہ کو دو تین مہینے ہی یونیورسٹی ڈراپ کرنے آتا رہا ہوں پھر تو اذلان ۔۔
-
او مائی گاڈ ۔۔۔
تم تب سے۔۔۔۔اذان نے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔۔
وردہ نے مڑکر اذان کو دیکھا تھا ۔۔
جی ۔۔
تب سے ۔۔۔
-
یہ ۔۔؟
۔میرا نام اپنے ہاتھ پہ لکھنے کی کیا ضرورت تھی آپکو ۔۔
اذان نے اسکی کلائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔
جس ۔۔دن ۔۔
آپ کی شادی تھی ۔۔۔
اس دن
A
لکھا تھا ۔۔
-
اور جس دن آپ باپ بنے ۔۔
اس دن اس نام کو میں نے مکمل کردیا تھا ۔۔
---
کیونکہ مجھے اپنی لائف میں آپکے سوا اور کوئی نہیں چاہیئے ۔
آج تک آپ سے نہیں کہا .
آج کہتی ہوں
I Love you Azan
-
I really love you
وردہ نےآج کہہ دیا تھا -
پلیز وردہ اسٹاپ اٹ-
میں ایک بیٹی کا باپ ہوں
وردہ میں یہاں صرف آپ کا شکریہ ادا کرنے آیا تھا .کیونکہ آج میری وائف آپ کی وجہ سے سلامت ہیں
اس کے لئے میں آپ کو دل سے شکریہ کہتا ہوں .
اذان کا لہجہ سپاٹ تھا -
-
مجھے اب چلنا چاہیے .کہتے ہوۓ اذان دروازے کی جانب بڑھا تھا جب وردہ نے اسے پکارا .
.
کتنی عجیب بات ہے نہ اذان .
شاید اس دنیا میں میں سب سے زیادہ نفرت حرمین سے کرتی ہوں .
اذان رکا تھا ورد ہ کو سنّنے کے لئے -
میری کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے اس سے . .
بس آپ سے محبت اس سے نفرت کی وجہ بن گئی . اور ......
الله پاک نے اس کی مدد کے لئے مجھے چنا.
مجھے اپ سے کچھ نہیں چاہیے
آپ ہمیشہ خوش رہیں .--
اذان چلا گیا تھا جبکے وردہ نے وہی کھڑے اپنے آنسوؤں کو بہنے دیا تھا
....
،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،
زونیشہ تم میری کال کیوں نہیں رسیو کررہی- مجھے تم سے ملنا ہے .
ایڈریس سینڈ کررہا ہوں.
وہ باسل کا میسج تھا جب زونیشہ اور ہادی راستے میں تھے -
وہ لوگ سگنلز پر رکے تھے جب رائد نے زونیشہ اور ہادی کو ساتھ دیکھا تھا .
بہت خوش لگ رہی ہو زونیشہ ملک -
تم نے پوری یونیورسٹی کے سامنے مجھے تھپڑ مارا تھا نہ ...
اس کا بدلہ تو تمہیں چکانا ہو گا .
رائد نے دل میں سوچا تھا .
گھر جاتے زونیشہ اوپر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی.
جبکے ہادی لان میں بیٹھے جمال صاحب اور اکبر کے پاس جا کر بیٹھ گیا .
ہا ں پھر برخودار .
تمہاری منگنی کریں یا ڈائریکٹ شادی کرنا چاھتے ہو؟
. جمال نے پوچھا-
پاپا .
ابھی بس منگنی کرلیتے ہیں . مجھے ابھی ایک بار دبئی جانا ہے . وہا ں پہ کچھ ارجنٹ کام ہے . اسکے بعد پھر شادی .
ہادی نےبتایا .
تم دبئی جاؤ گے دوبارہ
-
کچھ ارجنٹ کام ہے. پھر ہمیشہ کے لئے پاکستان آ جاؤں گا . ہادی نے بتایا
اچھا.
،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،
ہاں باسل کیوں بار بار کال کررہے ہو ؟
زونیشہ نے کال رسیو ہوتے ہی کہا .
تم نے میرا میسج نہیں پڑھا . باسل نے پوچھا -
کیوں ملنا چاھتے ہو مجھ سے .
میں نہیں آ سکتی .
تمھیں آنا ہوگا زونیشہ . میں آج تمہارا انتظار کرو ں گا . کہتے ہوۓ باسل نے کال کاٹ دی .
ہیلو -ہیلو - باسل - میں---
،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،
یہ لو اشفہ جوس پی لو پھر میڈیسن بھی لینی ہے. وہ لان میں بیٹھی تھی جب بابر اس کے لئے جوس لایا تھا ..
تھینکس بابر .. تم بیسٹ ہسبنڈ ہو .
ا لو یو بابر .
اشفہ نے جوس کا گلاس پکڑتے ہوۓ کہا ..
ا لو یو ٹو میری جان
پتا ہے مما پاپا بہت خوش ہیں . بابر نے اشفہ کو دیکھتے ہوۓکہا
ہا ں خالہ امی تو بہت خوش ہیں .
انہوں نے تو ابھی سے نام بھی سوچنے شروع کردیئے ہیں
- .
ہا ں
،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،
شام کے پانچ بج رہے تھے .
مما مجھے فلزہ کے گھر جانا ہے . میں جا رہی ہوں . زونیشہ نے سمپل بلیک کرتا پاجامہ پہنا تھا .
ہادی کے ساتھ چلی جاؤ. مہوش نے کہا .
نہیں مما- میں چلی جاؤں گی. کہتی زونیشہ باہر نکلی .
تم میرے ساتھ جاتی زونی تو مجھے اچھا لگتا . ہادی نے کہا اور پھر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا -
تمھیں نہیں بتا سکتی ہادی .
سوری ہادی-
اگلے ہی لمحے وہ باسل کے ساتھ ریسٹورانٹ میں تھی .
ہاں باسل .
کیوں ضد کررہے تھے ملنے کی .
زونیشہ میں نے بہت سوچا .
بہت سوچا . لیکن ہر بار دل نے ایک ہی جواب دیا
کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں-
پلیزمان جاؤ .
میں تمھیں .....................
میری اینگیجمینٹ ہورہی ہے اس ہفتے .
مجھے بھول جاؤ .
زونیشہ نے باسل کی بات کاٹی .
تم ایسا نہیں کرسکتی زونیشہ . باسل نے بے یقینی سے زونیشہ کو دیکھا .
زونیشہ پلیز . --
باسل نےزونیشہ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوۓکہا .
-
رائد بھی وہی تھا جو زونیشہ کو فالو کررہا تھا . ....جیسے ہی باسل نے زونیشہ کا ہاتھ پکڑا اس نے تصویر لے لی .
،،،،،،،
زونیشہ نے اپنا ہاتھ چھڑانے کے لئے باسل کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھا .
باسل . ایسا مت کرو .. میں اپنے ماں باپ کی مرضی سے شادی کررہی ہوں .
رائد نے پھر تصویر لی تھی ....
باۓ . زونیشہ کہتی اپنا بیگ لیتی وہا ں سے چلی گئی
.......
،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،
وہ لان میں زونیشہ کا انتظار کررہا تھا .
زونی
ہادی نے اسے پکارا جب وہ اپ سیٹ سی ہو کر اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھی .
ہا ں ہادی ----
مل آئی فلزہ سے .. ہادی کا لہجہ سرد تھا
ہ. ہا..ہاں.. کیوں ....؟
پھر جھوٹ ....
تم مجھے سچ بتا سکتی تھی زونی . آخرمیں تمہارا بچپن کا دوست ہوں.
ہادی کا لہجہ سپاٹ تھا .
ک.کی.کیا.....مطلب ....زونی کی آواز لڑکھڑائی - .
مطلب ....
-
واؤ زونی ...ہادی نے تالیاں بجائیں-
چلو مطلب بھی بتا دیتا ہوں ..
ہادی نے زونی اور باسل کی پیکس زونی کو دکھائیں ...
یہ ....یہ سب جھوٹ ہے ہادی .....
زونی کا رنگ اوڑھ گیا
- ....
اس لئے تم آج میرے ساتھ نہیں گئی کیونکہ تمہیں اس سے ملنا تھا .....
شیم آن یو زونیشہ ملک
- .
کہتا ہادی وہاں سے غصے سے چلا گیا
....
،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،
جیا ہادی کو دیکھا ہے کہیں ؟
. زونیشہ نے جیا سے پوچھا جو لیونگ روم میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی....
وہ تو میں نے سنا ہے دبئی چلے گۓ ہیں .
کہہ رہے تھے کچھ ارجنٹ میٹنگ ہے... آپ کو نہیں پتہ... وجیہہ حیران ہوئی تھی....
زونیشہ بنا کچھ کہے اوپر اْپنے روم میں چلی گئی
-
تم یہی تو کرتے ہو ہادی .---
جب دل چاہتا ہے چھوڑہجاتے ہو ---
. جب دل چاہتا ہے .
لوٹ آتے ہو .---
ا ہیٹ یو ہادی .
ا ہیٹ یو ۔۔۔
وہ روئی تھی
-
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
جب ہی رائد کی کال آئی۔
زونیشہ نے کال اٹھائی۔۔
کیا پرابلم ہے۔زونیشہ چلائی۔
-
ارے-ارے میری جان-
آرام سے
-
وہ میں نے یہ پوچھنا تھا کہ سرپرائز کیسا لگا
--
چلا گیا ہادی کہ نہیں۔
چلا ہی گیا ہوگا-غیرت مند لگتا ہے
--
زونیشہ اپنی جگہ ساکن رہ گئی۔
موبائل اسکے ہاتھ سے گرکے فرش پہ جا گرا-
وہ بے یقینی کے عالم میں تقریباً بیڈ پہ گری ۔
رائد ، باسل ۔۔۔۔
ہادی ۔۔۔۔۔۔
رائد ، تم نے ایک بار پھر میری زندگی برباد کردی۔۔۔کاش تم کبھی میری زندگی میں آئے ہی نہ ہوتے ۔۔۔۔۔
اسے رائد سے زیادہ اپنے آپ پر غصہ آرہا تھا ۔۔۔
،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،،
پندرہ دن ہوگئے ہیں ہادی کو گئے ہوئے ۔
پندرہ دن سے زونیشہ نہ کچھ کھا رہی ہے ،نہ پی رہی ہے ۔نہ کسی سے ملتی ہے ، نہ اپنے کمرے سے باہر نکلتی ہے ۔۔
میں بہت پریشان ہوں اس لڑکی کے لئے ۔۔۔۔۔مہوش نے فکرمند انداز میں اکبر صاحب سے کہا جب وہ دونوں لان میں بیٹھے چائے پی رہے تھے ۔۔۔
ایسی بھی کیا ایمرجنسی آگئی تھی ہادی کو ۔۔۔؟
کچھ گھنٹے پہلے اس نے اپنے بابا کے سامنے کہا تھا کہ ابھی بس اینگیجمینٹ کرلیتے ہیں ، دبئی سے سب کچھ بائنڈ اپ کرکے آجاؤں ۔پھر شادی کروں گا ۔۔
اکبر صاحب بھی بہت پریشان تھے ۔
آپ جمال بھائی سے بات کریں نہ ۔۔
مہوش نے چائے کا کپ ہاتھ میں لیے کہا ۔
ہاں میں کرتا ہوں جمال سے بات ۔۔
تم ایسا کرو زونیشہ کی دوستوں کو بلاؤ ۔انہیں کہوکہ زونیشہ کے ساتھ کچھ وقت گزاریں ۔۔۔
اپنی ہم عمر لڑکیوں سے ملے گی تو خود بہ خود بہتر ہوجائے گی ۔ اکبر نے مہوش کو مشورہ دیا ۔۔
-
جب ہی فلزہ اور حمزہ اندر داخل ہوئے ۔
اسلام وعلیکم آنٹی ، اسلام وعلیکم انکل ۔۔
کیسے ہیں آپ لوگ ۔۔۔فلزہ دونوں سے باری باری ملی ۔ حمزہ نے بھی اکبر صاحب سے ہاتھ ملایا ۔۔۔
میں فلزہ کا فیوچر ہسبنڈ ۔۔۔ اکبر کی سوالیہ نظروں کو دیکھتے ہوئے حمزہ نے اپنا تعارف دیا ۔۔
آنٹی ۔۔۔میری شادی ہے نیکسٹ ویک ۔۔۔ اسی کا کارڈ دینے آئی ہوں ۔
مبارک ہو بیٹا ۔آپ کو بہت بہت ۔
ہمیشہ خوش رہو ۔آباد رہو ۔
شکریہ آنٹی ۔۔
کہاں ہے زونیشہ ۔۔۔؟
فلزہ نے مہوش سے پوچھا ۔
وہ ۔۔۔۔۔۔
بیٹا ،جب سے ہادی گیا ہے بہت اپ سیٹ رہنے لگی ہے ۔نہ کسی سے بات کرتی ہے ۔نہ کچھ ڈھنگ سے کھاتہ پیتی ہے ۔۔۔اب تم اور وردہ ہی ہو جن کو شاید وہ کچھ بتا دے ۔
ہمیں تو کچھ نہیں بتارہی ۔نہ ہی ہمارا ہادی سے کوئی کنٹیکٹ ہوپارہا ہے ۔
مہوش نے پریشانی میں کہا ۔
زونیشہ ہے کہاں ؟
اپنے روم میں ؟
جی ۔۔۔۔مہوش نے سیڑھیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔
حمزہ تم یہی رکو پلیز ۔
میں زونیشہ کو دیکھ کر آتی ہوں ۔
اوکے نو پرابلم ۔ حمزہ نے کہا اور اکبر صاحب کے پاس بیٹھ گیا ۔
،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،،
زونیشہ اپنے کمرے میں کھڑکی کے پاس اپنے خیالوں میں کھوئی بیٹھی تھی ۔
جب فلزہ نے آکر دروازہ نوک کیا ۔
آجاؤ۔۔۔زونیشہ نےبنا چہرہ اٹھائے کہا ۔
فلزہ ڈور ناب کھول کر اندر داخل ہوئی ۔
بکھرے بال ، رف سے کپڑے ، چہرہ ایسے جیسے کئی دنوں سے سوئی نہ ہو ۔۔۔۔
زونیشہ!!!
تم نے اپنی یہ کیا حالت بنا رکھی ہے ۔۔۔۔ فلزہ نے بے یقینی سے زونیشہ کو دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔
فلزہ تم!!!!!
زونیشہ چونکی ۔۔۔
فلزہ نے ادھر اُدھر کمرے میں بکھری ہر ایک چیز کو دیکھا ۔اور پھر چل کر زونیشہ تک گئی ۔
زونیشہ ۔۔۔؟
زونیشہ اٹھ کر فلزہ کے گلے لگ گئی ۔۔۔
فلزہ ۔۔۔۔شکر ہے تم آگئی ۔۔۔۔میں بہت اکیلی ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔ فلزہ ۔۔۔۔۔۔
زونیشہ کی آنکھوں میں پانی بھر آیا ۔
فلزہ نے زونیشہ کو پیچھے کیا ۔۔۔
ایک آنسو زونیشہ کے رخسار پہ پھسلا ۔۔
کیا ہوا ہے زونی ۔۔۔۔۔۔
بتاؤ ۔۔۔۔ فلزہ نے اس کے رخسار سے آنسو پونچھو ۔۔۔۔
ر۔۔۔۔۔۔ا۔۔۔۔را۔۔۔۔۔زونیشہ سے رائد کا نام نہ لیا گیا اور وہ ہچکیوں سے رونے لگی ۔۔۔
رائد ؟
کیا کیا ہے اس جاہل انسان نے ۔۔۔
فلزہ نے زونیشہ کو کندھے سے پکڑ کر پوچھا ۔۔
وہ ۔۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔را۔۔۔رائد ۔۔۔۔۔نے ۔۔۔
زونیشہ بولو بھی ۔۔۔۔کیا ہوا ہے ۔۔۔
ورنہ میرا دل پھٹ جائے گا ۔۔۔
فلزہ بہت حیرانی سے زونیشہ کو دیکھتے ہوئے بولی تھی ۔۔
اچھا ..... ادھر آؤ۔
بیٹھو ۔۔۔لو پانی پیو ۔۔۔۔
فلزہ نے جگ سے پانی کا گلاس زونیشہ کو دیا ۔۔۔۔
اب ریلکس ہوجاؤ۔فلزہ نے گلاس واپس ٹیبل پہ رکھتے ہوئے کہا ۔۔۔
ریلکس ۔۔۔
زونیشہ اب کافی بہتر لگ رہی تھی ۔۔
وہ ۔۔۔۔۔ سوری ۔۔۔فلزہ ۔۔۔۔
میں ۔۔۔بہت ۔۔جذباتی ہوگئی تھی ۔۔۔
زونیشہ سنبھلی ۔۔۔
ہاں گڈ!!!!
اب بتاؤ کیا ہوا ہے ۔۔۔فلزہ نے زونیشہ کے مقابل بیٹھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔
۔
اس دن باسل ۔۔۔۔باسل ملنے کی ضد کررہا تھا ۔۔میں نہیں جانا چاہتی تھی ۔۔مگر اس نے مجبور کیا کہ ایک آخری بار میں اس سے مل لو ۔۔۔
۔
جب میں باسل سے ملنے جارہی تھی تو میں نے ۔۔۔۔
زونیشہ رکی تھی ۔۔
میں نے ؟
تمہارے گھر جانے کا کہا تھا ۔۔۔
مما نے کہا ہادی کے ساتھ چلی جاؤ ۔۔۔میں نے کہا ۔نہیں میں چلی جاؤں گی ۔۔۔
ہادی نے میری اور مما کی باتیں سن لیں ۔۔۔۔
ہادی نے مجھ سے کہا تم میرے ساتھ جاتی تو مجھے ۔۔۔
زونیشہ پھر رکی تھی ۔۔۔
مجھے ؟
بولو زونیشہ ۔۔۔
خوشی ہوتی ۔۔۔یہ کہتے ہی وہ غصے سے اپنے روم کی طرف چلا گیا تھا ۔۔۔
میرے پاس وقت نہیں تھا ۔۔۔مجھے باسل کے پاس پہنچنا تھا پانچ بجے ۔۔۔
جب میں واپس آئی ۔۔۔تو
زونیشہ پھر رکی تھی ۔۔۔
زونیشہ بات مکمل کرو ۔۔۔فلزہ نے کہا ۔
تو زونیشہ نے لفظ بہ لفظ ساری کہانی کہہ دی ۔۔
۔
اوہ مائی گاڈ ۔۔۔۔
زونیشہ یہ سب ۔۔۔۔۔۔
فلزہ کو یقین نہیں ہورہا تھا ۔۔۔
۔
ہادی ہمیشہ ایسے کرتا ہے ۔۔۔
ہمیشہ ۔۔چھوڑ جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔میں ہادی کو کبھی معاف نہیں کروں گی ۔کبھی نہیں ۔۔
ایک بات تو بتاؤ فلزہ ۔۔۔۔
یہ سچی محبت صرف ناولوں میں ، ڈراموں میں ۔۔ہوتی ہے کیا ؟
رئیل لائف میں کوئی کیوں نہیں سنسیئر ہوتا ۔۔۔
جو جیسا دکھائی دیتا ہے ویسا کیوں نہیں ہوتا ۔۔۔
Everyone is fake and artificial in this world.
Everyone is........
۔
ایسی بات نہیں ہے زونیشہ ۔۔۔۔
تم سوچو ۔۔۔۔اگر تم ہادی کی جگہ ہوتی تو کیا کرتی ۔۔
فلزہ نے زونیشہ کو اتنا دکھی اور غصے میں دیکھا تو پوچھا ۔۔۔۔
مجھے نہیں پتہ فلزہ!!
میں کیا کرتی ، مگر ہاں ۔۔۔میں ہادی کو اپنی صفائی دینے کا ایک موقع ضرور دیتی ۔۔۔
بنا بتائے ، ملک چھوڑ کر نہ چلی جاتی ۔۔۔
اس نے مجھے صفائی دینے کا ایک موقع تک نہیں دیا ۔۔۔ ۔
زونیشہ ، ہادی اپنی جگہ بالکل ٹھیک ہے ۔۔
جب اس نے تمہیں پرپوز کیا تم نے اسے فوراً اکسیپٹ نہیں کیا ۔۔
جب اس نے تم سے کہا میں لے چلتا ہوں تمہیں فلزہ کے گھر ۔۔۔
تم نےمنع کردیا ۔۔
جب اس نے پوچھا کہاں سے آرہی ہو ۔۔ فلزہ کے گھر سے ۔۔۔
تم نے کہا ۔۔۔ہاں ۔۔۔۔۔۔
۔
فلزہ تم کہنا کیا چاہتی ہو ۔۔۔
میں نے ہادی کو چیٹ کیا ہے ۔۔۔میں نے اسے چھوڑا ہے ۔۔۔
زونیشہ نے بے یقینی کیفیت میں فلزہ کو دیکھا ۔۔۔
نہیں بالکل نہیں ۔۔۔
لیکن ہادی کی نظر میں یہی سچ ہے ۔۔۔
تم نے خود ، خود کو ہادی کی نظروں میں مشکوک بنایا ہے ۔۔۔
تمہیں ہادی سے بات کرنی چاہیے زونیشہ ۔
وہ تم سے بہت محبت کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔اور تم بھی تو ہادی سے اتنا پیار کرتی ہو ۔۔
اسے بتا دو ۔۔۔
زونیشہ ، اب کی بار اپنی زندگی برباد مت کرو ۔۔
رائد یہی تو چاہتا ہے ۔۔کہ تم کبھی خوش نہ رہ سکو ۔۔۔۔
تم ہادی سے بات کرو ۔۔۔
ابھی اسے کال کرو ۔۔۔
فلزہ نے زونیشہ کو اس کا موبائل تھماتے ہوئے کہا ۔
زونیشہ نے پہلے موبائل کو اور پھر فلزہ کو دیکھا ۔۔
Take it and do it ...
زونیشہ نے موبائل پکڑا اور ہادی کو کال کی ۔۔۔
۔
ہیلو !!!!
ہادی نے کال ریسیو کی تھی ۔۔
ہ۔۔ہا۔۔دی ۔۔۔
ہاں زونی ۔بولو سن رہا ہوں۔۔۔
تم پلیز پاکستان آجاؤ۔۔۔
میں تمہیں بہت مس کررہی ہوں ۔
پلیز ہادی ۔۔۔
زونیشہ نے منت کی تھی ۔۔۔
پاکستان!!!!!
میں پاکستان میں ہی ہوں ۔۔۔
اچھا تم ایسا کرو ۔۔۔۔وہی آجاؤ ۔جہاں میں تمہیں لے کر آیا تھا ۔۔۔
ہادی کا لہجہ نرم تھا ۔۔
تم۔تمہارے گھر ۔۔۔
۔
ہاں ۔۔۔
میں ویٹ کررہاہوں ۔۔۔
۔زونیشہ نے موبائل کان سے ہٹایا ۔۔
کیاہوا زونیشہ ۔فلزہ نے بے تابی سے پوچھا ۔۔
وہ یہی ہے اسلام آباد میں۔۔۔
ملنے کے لئے بلایا ہے ۔۔
مجھے جانا ہوگا ۔۔۔زونیشہ نے کہا اور اٹھی ۔۔
ویری گڈ ۔۔۔اب جاؤ جلدی سے تیار ہوجاؤ۔
،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،،
ہادی بلیک کلر پہنے تھری پیس سوٹ میں تھا ۔کیونکہ زونی کا فیورٹ کلر بلیک تھا ۔۔۔
زونیشہ نے آج بھی ریڈ کلر کا وہی فراک پہنا تھا جو اس نے تب پہنا تھا جب ہادی نے اسے پرپوز کیا تھا ۔۔
ہادی نے زونیشہ کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا ۔۔۔
آج وہ میک اپ کرکے آئی تھی ۔۔۔
زونیشہ کو دیکھ کر ہادی کی ہارٹ بیٹ مس ہوئی ۔
آؤ بیٹھو ۔۔۔ہادی نے کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔
زونیشہ بیٹھی ۔۔
ہاں ۔۔۔اب کہو ۔۔۔
تم تو دبئی ۔۔۔؟
ہاں گیا تھا ۔سب بائنڈاپ کرکے دس دن میں واپس آگیا ۔۔
تو تم اپنے گھر کیوں نہیں آئے۔۔۔
اپنے گھر ۔۔۔
اپنے گھر ہی تو آیا ہوں ۔۔
میرا مطلب ۔
ہمارے گھر ۔۔
تمہارے گھر ۔۔۔وہاں آنے کا کوئی جواز نہیں تھا ۔۔
ہادی ۔۔۔۔
I love you
زونیشہ نے کہا تھا ۔۔۔
What ???
You love me ...?
I can't believe it...
زونیشہ ۔۔۔محبت میں سب سے پہلی سیڑھی بھروسہ ہوتی ہے ۔۔۔۔اور تمہیں مجھ پہ بھروسہ ہی نہیں ہے تو کیا فائدہ اس محبت کا ۔۔
ہادی ۔۔۔ایم سوری ۔۔۔۔۔۔ تمہیں سب اس لئے نہیں بتایا تھا کیونکہ میں تمہیں کھونے سے ڈرتی تھی ۔۔
سچ تو مجھے ابھی بھی نہیں پتہ ۔۔
ہادی نے زونیشہ کو دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
اوکے ۔۔۔میں آج آپ کو سب سچ سچ بتاتی ہوں ۔۔
زونیشہ نے ہادی کو سب بتا دیا ۔۔۔
ہادی پلیز مجھے چھوڑ کے مت جائیے گا ۔۔بہت محبت کرتی ہوں آپ سے ۔
پلیز ہادی ۔۔۔
-
بس اک چھوٹی سی ہاں کر دو!!
ہمارے نام اس طرح جہاں کر دو
وہ محبتیں جو تمہارے دل میں ہیں!!!
زباں پر لاؤ اور بیاں کر دو
I love you too zoni ,
ہادی نے زونیشہ کو معاف کردیا تھا ۔۔
وعدہ کرو ۔آئندہ کچھ نہیں چھپاؤگی ۔کچھ بھی نہیں ۔
وعدہ ۔۔۔
دونوں مسکرائے تھے ۔
،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،،
ہادی اور زونیشہ کی شادی تھی ۔۔
سب میریج ہال میں موجود تھے ۔۔۔وردہ بھی تھی ۔۔
ایک لمحے کو وردہ اور اذان کی نظر ملی تھی ۔پھر وردہ فلزہ اور زونیشہ کے ساتھ مصروف ہوگئی ۔۔۔۔
وہ اذان کو فیس نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔
اذان نے ناچاہتے ہوئے بھی بار بار وردہ کی طرف اٹریکٹ ہورہا تھا ۔۔
اسے وہ ملاقات بار بار یاد آرہی تھی ۔۔۔
ایکسکیوزمی ۔۔۔ اذان نے کہا ۔
جی ۔۔۔
وردہ نے کہا ۔۔
آپ سے کچھ بات کرنی ہے ۔۔
وردہ اذان کی طرف متوجہ ہوئی تھی ۔
وردہ اس دن کے لئے سوری۔۔۔۔مجھے غصہ آگیا تھا ۔۔
مجھے بعد میں بہت گلٹی فل ہوا ۔
ایم سوری ۔
اٹس اوکے ۔۔۔وردہ جانے لگی ۔۔۔
جب اذان نے اسے پکارا ۔
وردہ ۔۔۔
جی ۔۔۔
آپ میری ایک بات مانیں گی ۔۔۔پلیز۔۔
اذان کچھ ایسا مت کہنا جو میں نہ سن سکوں۔۔۔وردہ نے اذان کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
آپ ۔آپ پلیز اذلان سے شادی کرلیں ۔۔
وہ آپ کو بہت خوش رکھے گا ۔
پلیز ۔۔۔یہ جتنا گہرا آپ نے اپنے ہاتھ پہ میرا نام لکھا ہے ۔۔۔آپ جس کسی سے بھی شادی کریں گی آپ کو بہت ٹرچر کرے گا ۔۔
پلیز ۔۔۔انکار مت کیجیئے گا ۔۔۔اذان نے ریکوئسٹ کی تھی۔۔
وردہ نے شادی میں مصروف اذلان کو دیکھا اور پھر اذان کو ۔۔۔
آپ کی خواہش کا احترام مجھ پہ فرض ہے اذان ۔۔
اگر آپ کی خوشی اسی میں ہے تو میں راضی ہوں ۔۔۔
تھینکس وردہ ۔۔۔
بہت خوبصورت لگ رہی ہو زونیشہ ۔۔۔
ہادی نے زونیشہ کے کانوں میں سرگوشی کی ۔
یہ خیال آپ کو آج آیا ہے ؟
ارے ارے دلہا بھائی ۔۔۔۔
کچھ باتیں شادی کے بعد کے لیے بھی سنبھال کے رکھ لیں ۔
جیا نے کہا ۔۔
فوٹو شوٹ ہوا ۔۔
فیملی فوٹوز بنیں ۔۔۔۔
،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،،
چھ مہینے بعد ۔۔۔۔
-
آیت احد سے کتنا اٹیچ ہے نہ ۔۔بابر نے آیت اور احد کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔
ہمم۔۔آیت احد کا بہت خیال رکھتی ہے ماشاءاللہ سے ۔
وہ سب لان میں بیٹھے تھے
وردہ نے چائے سرو کی ۔۔
شکریہ بھابھی ۔۔۔ آشفہ نے کہا ۔۔
حرمین اور اذان بہت خوش تھے ۔۔
وردہ کچن میں کام کررہی تھی جب اذلان آیا ۔۔۔۔۔عاشی تم جا کر دیکھو مما وغیرہ کو کچھ چاہیے تو نہیں ۔۔۔
اذلان نے کچن میں مصروف عاشی سے کہا ۔
جی بھائی ۔۔کہتی عاشی چلی گئی ۔
آپ کو کچھ چاہیے ؟
وردہ نے اذلان کو دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
مجھے ؟
جی ۔۔۔۔وردہ نے کہا ۔
مجھے آپ کی توجہ چاہیے ۔۔۔۔۔آپ کی محبت چاہیے ۔۔۔
کیا ملے گی ؟ ۔۔۔
اذلان نے وردہ کے قریب آتے ہوئے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
ج۔ج۔۔۔جی۔۔۔
وردہ تھوڑا سا پیچھے ہوئی ۔۔
اذلان نے اسے کمر سے پکڑ کے اپنے قریب کیا تھا ۔۔۔
وردہ نے نظریں جھکا لیں ۔۔
اذلان نے دوسرے ہاتھ سے اس کا چہرہ اٹھایا ۔۔۔
ادھر دیکھو ۔۔۔۔میری طرف۔۔۔۔۔
وردہ ۔۔۔۔۔اذلان نے کہا ۔۔۔
وردہ نے نظر اٹھا کر اذلان کو دیکھا ۔۔۔
قریب سے ۔۔۔۔بہت قریب سے ۔۔۔۔
میں نے آج تک اذان بھائی کی کوئی بات نہیں ٹالی ۔۔۔۔۔۔
تم سے شادی بھی میں نے ان کے کہنے پہ کی ۔۔۔۔۔جبکہ میں جانتا ہوں کہ تم ۔۔۔۔۔
اذلان نے وردہ کی کلائی پکڑ کر لکھے گئے اذان کے نام کو دیکھا تھا ۔۔۔
پھر بھی جب بھی تمہیں دیکھتا ہوں ۔مجھے کچھ ہوجاتا ہے ۔۔۔
تمہاری آنکھوں میں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے ۔۔
اب وردہ اذلان کی گرفت ڈھیلی ہونے کی وجہ سے اس کی بانہوں سے نکل گئی تھی ۔
چھ مہینے ہوگئے ہیں ہماری شادی کو ۔۔
مجھے ۔۔۔۔تم سے شاید اب محبت ہوگئی ہے ۔۔۔۔-
ہاں وردہ ۔۔۔۔۔مجھے تم سے محبت ہوگئی ہے
I love you warda ...
-
میں انتظار کروں گا اس دن کا ۔۔۔
جس دن تم بھی مجھ سے کہوگی کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے ۔کہتے ہوئے اذلان کچن سے باہر چلا گیا تھا جبکہ وردہ اپنی جگہ ساکن کھڑی رہ گئی تھی ۔
،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،،
جب ہی ہادی اور زونیشہ آئے ۔
اسلام وعلیکم ۔۔۔
کیسے ہیں آپ سب ۔۔
زونیشہ نے کہا ۔
وعلیکم السلام ۔۔۔بڑے صیح وقت پہ آئے ہو ۔بس تم دونوں کی ہی کمی تھی ۔
آؤ بیٹھو ۔۔۔چائے پیو ۔۔۔
مہوش نے کہا۔۔
ایک خوشخبری ہے ۔۔۔۔
ہادی نے بیٹھتے ہوئے کہا ۔۔
ارے بھئی ۔۔۔۔۔جلدی سے سناؤ پھر ۔۔۔جمال نے کہا ۔۔۔
آپ دادا بننے والے ہیں ۔۔۔
ہادی نے کہا ۔
ماشاءاللہ ماشاءاللہ ۔۔۔
بہت بہت مبارک ہو ۔۔
سب نے مبارک باد دی ۔۔
،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،،
جب ہی باسل کا میسج آیا ۔۔
میں شادی کررہا ہوں ۔۔۔۔میرے ماموں کی بیٹی ، مجھے خفیہ طور پہ پسند کرتی تھی ۔۔
کبھی کبھی چاہنے سے زیادہ چاہے جانے کا احساس زیادہ خوبصورت ہوتا ہے ۔۔۔
مجھے اس بات کا اندازہ اب ہوا ہے ۔۔
زونیشہ میسج پڑھ کر مسکرائی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ہی فلزہ کی کال آئی ۔۔
زونیشہ ہم لوگ ہنی مون پہ جارہے ہیں ۔۔
کہاں جارہے ہو ۔ہنی مون پہ ؟
-
کشمیر ۔۔۔۔فلزہ نے بتایا ۔
-
ارے واہ ۔۔۔۔۔۔
پکس بھیجتی رہنا ۔۔زونیشہ نے اسے کہا ۔
ہاں ہاں ضرور ۔۔
۔
اوکے بائے ۔
،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،،
رات کو سب اپنے اپنے کمروں میں تھے ۔۔۔۔
وردہ ۔۔۔یہ تمہارے ہاتھ پہ کیا ہوا ہے ۔۔۔
تم نے پٹی کیوں باندھ رکھی ہے ۔۔۔
اذلان نے وردہ کی کلائی پہ بندھی پٹی کو دیکھ کر انتہائی فکرمندی سے پوچھا ۔۔
کچھ نہیں ۔۔۔۔چوٹ لگ گئی تھی ۔۔۔
-
وردہ نے مختصر جواب دیا ۔
چوٹ۔۔۔دیکھاؤ۔۔۔زیادہ تو نہیں لگی ۔۔۔
اذلان نے وردہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے پاس بیڈ پہ بٹھایا تھا ۔۔
نہیں اذلان ۔۔۔۔۔کچھ نہیں ہوا ۔۔۔وردہ نے ہاتھ پیچھے ہٹانا چاہا ۔۔
وردہ مجھے دیکھنے دو۔۔۔کہتے ہوئے اذلان نے پٹی کھولیں ۔۔۔۔
وردہ نے ۔۔۔۔۔
جہاں اذان لکھا تھا ۔۔۔
وہاں
" l"
کا اصافہ کردیا تھا ۔
۔۔
A Z L A N
لکھا تھا ۔۔۔۔۔زخم بالکل تازہ تھا اس لئے خون بہہ رہا تھا ۔۔۔
وردہ ۔۔۔۔یہ ۔۔۔۔
I love you azlan ....
-
میرے ہسبینڈ آپ ہیں ۔۔۔۔۔میری محبت پہ اب صرف آپ کا حق ہے ۔۔۔
صرف آپ کا ۔۔۔
اذلان نے وردہ کو گلے لگا لیا ۔۔۔
تھینک یو وردہ ۔۔۔تھینک یو سو مچ۔۔۔
،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،،
اذان بیڈ پہ بیٹھا حرمین کو دیکھنے میں مصروف تھا جو آیت کو سلانے کی کوشش کررہی تھی ۔۔
مگر آیت نہیں سو رہی تھی ۔۔۔
جب سے آیت آئی ہے ۔تم نے مجھے بالکل ٹائم دینا چھوڑ دیا ہے حرمین ۔۔
اذان نے شکوہ کیا ۔۔۔
-
کیا ہوگیا ہے آپ کو اذان ۔۔
آیت سن رہی ہے ۔۔۔حرمین نے سرگوشی کی ۔۔
آیت سو چکی تھی ۔
اذان حرمین کے بال سہلا رہا تھا ۔
تم بہت خوبصورت ہو حرمین ۔۔
آپ بھی ۔۔۔۔اذان ۔
I love you Azan
می ٹو ۔۔۔۔اذان نے کہا اور حرمین کی پیشانی پہ بوسہ دیا ۔
،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،،
احد سو رہا تھا ۔۔۔
آشفہ ہاتھ میں کتاب لئے صفحے الٹ پلٹ کررہی تھی ۔
جب بابر اندر داخل ہوا ۔
آگیا آپکو یاد ۔۔کہ کوئی آپ کا انتظار کررہا ہے ۔۔
آشفہ نے ناراضگی ظاہر کی اور کتاب بند کرکے لائٹ آف کیے لیٹ گئی ۔
آشفہ ۔۔۔۔میری جان ۔۔۔۔بابر بیڈ پہ آبیٹھا ۔۔
آج تم نے شادی کی پہلی رات یاد دلا دی ۔
آشفہ نے اپنی مسکراہٹ دبائی ۔
آئی لو یو آشفہ ۔۔۔
بابر نے گلاب کا پھول آشفہ کے رخسار پہ رکھتے ہوئے کہا ۔
آشفہ گدگدی ہونے کی وجہ سے اٹھ بیٹھی ۔۔
بہت برے ہیں آپ۔۔آشفہ نے کہا اور پھول تھام لیا ۔
بابر نے آشفہ کو بانہوں میں لے لیا ۔۔
،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،،
ہادی بیڈ پہ لیٹا تھا جبکہ زونیشہ ناول پڑھ رہی تھی ۔
زونی ۔۔۔؟
ہممم ۔زونیشہ نے بنا نظر اٹھائے کہا ۔
رکھ دو ناول کو ۔۔۔
ورنہ ہمارا بے بی بھی ناولوں کا دیوانہ نکلے گا ۔
ہادی نے چڑ کے کہا ۔
زونیشہ نےنظر اٹھا کرہادی کو دیکھا اور پھر ناول سائیڈ پہ رکھ دیا ۔
تم ناول کو نہیں ، مجھے ٹائم دیا کرو ۔۔
ہادی نے زونیشہ کو اپنے قریب کرتے ہوئے کہا ۔
اچھا جی ۔۔۔زونیشہ نے ہادی کے سینے پہ سر رکھ دیا ۔۔
آئی رئیل لو یو ہادی ۔۔۔۔زونیشہ نے کہا ۔۔
-
آئی لو یو ٹو میری جان ۔۔۔۔میری زونی ۔۔۔
،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،،
ختم شد ۔
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Ishq Ky Rang Mohabbat Ky Sang Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Ishq Ky Rang Mohabbat Ky Sang written by Sameena Jannat. Ishq Ky Rang Mohabbat Ky Sang by Sameena Jannat is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment