Teri Meri Rah Mein By Fariha Islam Complete Urdu Novel Story - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Wednesday 22 May 2024

Teri Meri Rah Mein By Fariha Islam Complete Urdu Novel Story

Teri Meri Rah Mein By Fariha Islam Complete Urdu Novel Story 

Madiha Shah Writer ; Urdu Novels Stories

Novel Genre : Romantic Urdu Novel Enjoy Reading… 

Teri Meri Rah Mein By Fariha Islam Complete Novel 

Novel Name :Teri Meri Rah Mein

Writer Name : Fariha Islam

New Upcoming :  Complete 

آرام سے چل لے میرے پاؤں میں درد ہورہا ہے اب تو نور کے بولنے پر بھی اسکی اسپیڈ کم نہیں ہوئی تھی وہ ہوا کے گھوڑے پر سوار تیز تیز قدم اٹھا رہی تھی

اوئے کسی کے کئے کی سزا اپنے پیروں کو کیوں دے رہی ہے آہستہ چل لے وہ خود اسکی اسپیڈ سے تو چل ہی نہیں سکتی تھی آج ایسا لگ رہا تھا کہ اگر وہ اولمپکس کی ریس دوڑتی تو اول آتی۔۔۔۔۔۔۔۔

تو میرے پیچھے مت آ دماغ سٹکا ہوا ہے فضول میں تیری شامت آجائے گی

ہاں تو بھلے آنے دے ۔۔۔۔۔ وہ بھاگتی بھاگتی بلا آخر اسکے ہم قدم ہوئی تھی اور اسکا ہاتھ پکڑ کر روکا پھولی سانس بحال کرنے میں اس نے کچھ ٹائم لیا تھا

کیا مصیبت ہے تجھے نور کی بچی کیوں خالی پیلی میں دماغ گھوما رہی بول دیا نا کہ آئندہ اس گھر میں قدم نہیں رکھوں گی تو نہیں رکھوں گی جا بول دے اپنی ماں کو

ہائے میری بہنا اتنا غصہ نور نے حیران ہونے کی بہت گندی اداکاری کی

اپنا یہ پوپلے جیسا منہ لے کر غرق ہو جا تو ورنہ اسی سال پرانی جوتی سے منہ لال کردینا میں

ہائے پوپلا منہ ہو میرے دشمن کا۔۔۔۔۔۔

ہاں تو تیری دشمن تو ہی ہے نا اب جا اکیلا چھوڑ مجھے

کیوں ایسے کر رہی ہے چھوڑ نا گھر چل وہ اسکی منتیں کرنے پر اتر آئی تھی

ہاتھ چھوڑ میرا مجھے نہیں جانا کہیں بھی۔۔۔۔

وہ غصے سے بھری بیٹھی تھی

میرے لئے چل لے پلیز اس نے ترچھی نظر اس پر ڈالی اور منہ پھیر لیا

دیکھ چل کے شام ہونے کو آرہی ہے اماں آجائیں گی تو بہت غصہ ہونگی

تیری ماں کو آتا ہی کیا ہے اور اس کی بات پر وہ اور بھڑکی

اچھا اب میں بولوں گی نا اماں کو تجھے کچھ نا کہا کریں بس تو چل نا

پکا وعدہ بولے گی ۔۔ اس نے ہاتھ آگے پھیلا کر تصدیق چاہی

ہاں میری بہنا پکا وعدہ نور نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر مضبوطی سے پکڑا

یہ بات وہ دونوں ہی جانتی تھی کہ یہ وعدہ کبھی وفا نہیں ہوگا نا کبھی ہوا لیکن وہ ہر بار ایسے کی وعدہ کیا کرتی تھیں شاید اس سے اسے خوشی ملتی تھی۔۔

تو غصہ مت کیا کر نا تجھے پتا تو ہے اماں کا۔۔نور نے اسے سمجھایا تھا 

تو یہ بات اسے بھی بول سکتی ہے نور کہ ایک یتیم سمجھ کر ہی میرا پیچھا چھوڑ دیا کرے۔۔۔

میں تو پھنس جاتی ہوں نا ایک طرف ماں ایک طرف بہن۔۔۔

تو پھر تو چپ رہا کر اپنی ماں کی وکالت نا کیا کر میرے سامنے۔۔وہ سخت چڑی ہوئی تھی۔۔

اففف اللّٰہ ایک تو تیرا غصہ۔۔ کم کر ورنہ ساس جوتے مارے گی۔۔۔

نور نے اسے ڈرایا 

ہاں جیسے میں آرام سے کھا لونگی ہیں نا۔۔ آنسہ کامران اتنی آسانی سے ہاتھ آنے والوں میں سے نہیں ہے۔۔۔۔

اس نے فرضی کالر کھڑے کئے تو نور ہنس دی۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

اووو بھائی کیوں جان کا دشمن بنا ہوا ہے میری اسپیڈ کم کر۔۔۔گاڑی فل اسپیڈ سے روڈ پر ہواؤں سے باتیں کر رہی تھی

وہ فل اسپیڈ سے گاڑی دوڑاتا ایک نظر ساتھ بیٹھے گھبرائے گھبرائے اپنے یار پر بھی ڈال لیتا جو خوف نے مارے سفید پڑ رہا تھا

لیکن اس کی چیخ و پکار سے بے نیاز وہ فل اسپیڈ سے گاڑی چلاتا میوزک بھی تیز کر چکا تھا

مائکل جیکسن کا گانا گاڑی میں گونج رہا تھا اور میوزک کے ساتھ اس کے ہاتھ بھی اسٹیرنگ پر چل رہے تھے جیسے وہ فل انجوائے کرنے کے موڈ میں ہو

جتنی دیر تک وہ لوگ کلب پہنچے حاشر کا آدھا خون تو خشک ہی ہوچکا تھا گاڑی رکتے ہی وہ غصے سے کھولتا گاڑی کا دروازہ زور سے بند کرتا باہر نکلا تھا ۔۔۔

ابراہیم نے ایک نظر اپنی ناراض حسینہ کو دیکھا جو منہ پھلائے باہر کھڑی تھی وہ زیر لب مسکراتا گاڑی سے باہر نکلا

آجا یار چل اس نے حاشر کا بازو پکڑا تو اسنے فوراً سے پہلے اپنا ہاتھ اس سے  چھڑایا تھا

ہاتھ مت لگا تو کمینے مجھے۔۔۔۔وہ سخت ناراض تھا جس کا ثبوت وہ اسے دے رہا تھا

ارے یار اچھا سوری نا۔۔۔اسکا پھولا منہ دیکھ ابرہیم کو اپنی ہنسی کنٹرول کرنا مشکل ہورہا تھا

ہاں تیرا سوری ہوگیا جب میں مر جاتا ہارٹ اٹیک سے تو تب بھی یہی بولتا تو اور اگر ایکسیڈنٹ ہو جاتا تو؟؟؟ وہ حد سے زیادہ ہی جذباتی تھا

کچھ ہوا تو نہیں نا دیکھ تجھے صحیح سلامت یہاں لے کر آگیا ہوں تو اب موڈ خراب مت کر انجوائے کر آجا وہ زبردستی اسکو تقریباً گھسیٹتا اندر کی طرف بڑھا۔

لنگڑا نہیں ہوں جو یوں لے کر جارہا یے چھوڑ۔۔۔

اس سے خود کو چھوڑا کر وہ خود لمبے لمبے ڈاگ بھرتا اندر گھس گیا

وہ بھی اسکے پیچھے بھاگا تھا کیونکہ اپنی ناراض سی حسینہ کو منانا بھی تو تھا۔۔۔

اندر کلب میں رنگ و بو کا سیلاب آیا ہوا تھا

لڑکے لڑکیاں اپنی اپنی مستیوں میں مگن تھے کوئی کاؤنٹر پر بیٹھا تھا تو کوئی فلور پر ڈانس کرنے میں مصروف وہ اندر آیا تو کئی نظریں اس تک آئی تھی اور پلٹنا بھولی تھی

صاف رنگت پر کھڑی ناک بکھرے بال ہلکی بڑھی شیو وائٹ شرٹ اور بلیک پینٹ پہنے بے نیاز سا ادھر ادھر کسی کو دیکھ رہا تھا

وہ کبھی زیادہ ڈریس اپ نہیں ہوتا تھا آفس کے بعد اسکا حلیہ ایسا ہی ہوتا تھا میسی سا جس میں وہ سکون محسوس کرتا تھا

حاشر پر نظر پڑتے ہی وہ اسکی طرف بڑھا

اور اس کے گلے میں بازو ڈالے

جند جان تو کیوں ناراض ہوتا ہے اپنے یار سے۔۔۔۔وہ لاڈ سے اسکے پاس آیا تھا 

اور اس کے اس انداز پر حاشر کی ساری ناراضگی دور ھوئی تھی لیکن تھوڑا نخرہ دیکھانا تو بنتا تھا نا کبھی کبھی تو وہ ہاتھ لگتا تھا

اس لئے ناراض ہوتا ہوں کہ تجھے نا میری پرواہ ہے نا اپنی۔۔

ایسے گاڑی چلاتا ہے جیسے رشتہ دار کی سڑک ہو

خدا نا خواستہ کچھ ہوجاتا تو۔۔۔وہ اب بھی اسے اس کی غلطی کا احساس دلا رہا تھا کیونکہ وہ اسکا دوست تھا مخلص دوست۔۔

اچھا چل نا کان پکڑ کر سوری اب چل نا منہ ٹھیک کر۔۔۔

ابرہیم نے اسے پیار سے پچکارہ

ہممم۔۔۔۔ اس نے ہمم کہنے پر اکتفا کیا

کیا ہمممم؟ چل نا معاف کر اور بتا کیا کھائے گا

چیز پاستہ۔۔، رشین سیلڈ اور گرل چکن ود سیون اپ۔۔۔۔ ابرہیم کے پوچھنے پر اسنے مزے سے اپنا آرڑر بتایا تھا

اتنا کچھ۔۔۔۔۔ اس کی آنکھیں باہر کو نکلیں تھیں

منگوانا ہے تو ٹھیک ورنہ میں ناراض ہی ٹھیک ہوں۔۔۔ وہ اب بھی فل موڈ میں تھا

اچھا نا بھوکے فقیر منگواتا ہو۔۔۔ اس نے اسکی ناراضگی کی وجہ سے ہتھیار ڈالے تھے

ویری گڈ میرا بچہ ہاں اب بتا کیا کرنا۔۔۔۔۔؟؟؟ کھانا آرڈر ہوتے ہی وہ ابراہیم کے گلے پڑا تھا

تو بہت کمینہ ہے حاشے۔۔۔۔۔۔اس نے مصنوعی خفگی سے کہا تھا

ہاں لیکن تو میرا بھی باپ ہے اس نے دانت نکالے تھے

کبھی کبھی تو ہاتھ لگتا ہے تو اب اس میں بھی بندہ شریف بنا رہے ایمپوسیبل۔۔۔۔

اسکا اپنا موڈ آن ہوچکا تھا ابراہیم نے شکر ادا کیا تھا

دفاع ہو وہ ابھی اسے اور بھی کچھ سناتا کہ پیچھے سے آنے والی آواز نے اسکی زبان کو بریک لگائے تھے۔۔۔۔۔۔

ہائے ابے بی کیسے ہو؟؟؟؟

اسنے آواز پر پلٹ کر دیکھا تو دیکھتا رہ گیا

ٹائٹ جینس پر ٹاپ پہنے گلے میں مختلف رنگوں کی مالا پہنے گوری رنگت پر لال رنگ میں رنگے بال جو اس پر جچ بھی رہے تھے ہیزل براؤن لینس لگائے ہونٹوں کو لال رنگ میں رنگے وہ اروبہ جمشید تھی

جس کی ایک نگاہ کے لئے لڑکے ترستے تھے لیکن ابراہیم کے ساتھ تو اسکا خاص رشتہ تھا

اےےے روبی میں فٹ تم کیسی ہو؟ میوزک کی وجہ سے وہ تھوڑا اونچا بول رہا تھا

ایم گڈ تم یہاں کیا کررہے ہو میں کب سے ویٹ کر رہی ہوں چلو ڈانس فلور پر وہ اسکا ہاتھ تھامتی ڈانس فلور پر آگئی میوزک کی بیٹ پر وہ مہارت سے اسٹیپ کر رہی تھی اور ابراہیم اسکا ساتھ دینے کی کوشش۔۔۔۔

تم اپنے اس چمچے کو کیوں ساتھ لے کر گھومتے ہو وہ تھوڑا اس کی طرف منہ کر کہ بولی اور حاشر کی طرف اشارہ کیا جو ایک کونے میں بیٹھا اپنے موبائل میں مصروف تھا۔۔

اسے ناگوار تو گزرا مگر اس نے ظاہر نہیں کیا تھا

دوست ہے یار میرا۔۔۔۔ اس نے بھی اسی طرح اس کی طرف جھک کر کہا شور اتنا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔۔۔۔۔

بہت ہی تھرڈ کلاس دوست ہے ڈریسنگ ہی دیکھ لو تم تمہیں دیکھ کر ہی کچھ سیکھ لے وہ منہ بنا کر بولی جبکہ ابراہیم نے اسے حیرت سے دیکھا

حاشر کا ڈریسنگ سینس بہت زبردست تھا وہ خود اکثر اسکے کمرے پہن لیا کرتا تھا

چھوڑو اسے یار آجاؤ کچھ کھاتے پیتے ہیں وہ اسکا ہاتھ تھام پر کاؤنٹر پر لے آیا۔۔

اور اس کے اور اپنے لئے جوس آرڑر کیا

کم ان یار مجھے نہیں پینا یہ بچوں جیسی چیز۔۔ وہ منہ بناتی گلاس پرے کر گئی آجاؤ شیشہ پیتے ہیں اس نے اسے شیشہ کارنر پر لے جانا چاہا۔۔

اروبہ نہیں میں نہیں پیتا۔۔اس نے اسے منع کیا تو وہ منہ بنا گئ

کم ان یار کیا عجیب بات کر رہے اٹس ٹرینڈی لیٹس گو وہ تقریباً اسکا ہاتھ گھسیٹتی اسے کارنر پر لائی ایک کش پر ہی اسکی حالت ٹائٹ ہوئی تھی

کیونکہ شاید اس میں کچھ ملا ہوا تھا

ون مور نا بے بی وہ اس تک آئی

لیکن وہ کھانستا ہوا جلدی سے کاؤنٹر پر آیا اور پانی کا گلاس جلدی سے خالی کیا۔۔۔۔۔۔

اووو اے بی تم تو بہت ہی کمزورہو ایک شیشہ برداشت نہیں کرسکے وہ ہنستے ہوئے بولی تھی

اٹس ٹو ہارڈ اروبہ ۔۔۔۔۔

اووو سوری پر اٹس جسٹ کا پرانک بٹ یو فیل۔۔۔ اس نے منہ بنا کر کہا

سوری یار پر یو نو میں یہ سب یوز نہیں کرتا۔۔وہ ناجانے کیوں شرمندہ ہوگیا 

ہمم آئی نو۔۔۔ وہ کندھے  ویل انجوائے مجھے جانا ہے ایک کام سے۔۔۔

کہا؟؟؟

بس جانا ہے ہر بات بتانی ضروری تو نہیں نا وہ اسکے گال سے اپنا گال مس کرتے اسے بائے بول کر کلب سے نکل گئی

جبکہ وہ پیچھے اسے دیکھتا رہا۔۔۔

کیا ہوا گئی وہ۔۔۔ حاشر نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا تو اس نے چونک کر اسے دیکھا اور  ہاں میں سر ہلایا

چل پھر چلتے ہیں ہم بھی بہت دیر ہوگئی ہے اور میں تو قسم سے بور ہوگیا ہوں وہ سڑے منہ کے ساتھ بولا تو وہ ہنس دیا

چل پھر۔۔۔

اسکے بولنے وہ اسکا ہاتھ تھامتا باہر کی طرف بڑھا تھا۔۔

آگئی مہارانی دل ہوگیا گھر آنے کا۔۔۔ وہ دونوں گھر میں آئیں تو زلیخا نے اسے دیکھتے ہی تیوری چڑھائی۔۔۔

کیوں میں کیوں نا آؤ۔۔ وہ سخت چڑی تھی

ہاں تو کیون آئی جب اتنی ہی ناک ہے تو ۔۔۔۔

اماں۔۔۔۔۔۔۔ نور نے انہیں اشارے سے منع کیا کہ کچھ نا بولیں

کیوں نا آتی میرے باپ کا گھر ہے تم جہیز میں نہیں لائی تھیں آئی سمجھ تو اگر جاؤ گی تو تم جاؤ گی یہاں سے میں نہیں۔۔۔وہ غصے سے بولی تھی

دیکھوں زرا کیسے قینچی جیسی زبان ہے اب تو چپ نہیں کروائے گی اسے مجھے ہی بولتی رہتی ہے۔۔۔ انہوں نے نور کا دیکھ کر اسے سنایا تو وہ بے بس ہوئی تھی

چپ کر نا آنسہ چل اندر چل۔۔۔ وہ اسے گھسیٹتی ہوئی اندر لے گئی تو وہ بڑبڑانے لگی

دیکھ لے اب پھر مجھے بولتی ہے ۔۔۔۔

چھوڑ نا یار اماں ہیں نا۔۔۔وہ اسے سمجھانے والے انداز میں بولی تھی بہت مشکل تھا اس کے لئے ان دونوں کو سنبھالنا

تیری اماں ہیں میری نہیں سمجھ آئی تو جیسا بولے گی ویسا سنے گی بھی۔۔وہ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھی

بچاری نور اسے دیکھ کر رہ گئی کیا بولتی وہ ماں اور بہن میں پھنس کر رہ گئی تھی بہن کی سائیڈ لیتی تو ماں کی بری،ماں کی لیتی تو بہن بھڑکتی۔۔

اچھا چھوڑ بتا کھانا کھائے گی لاؤں۔۔اس نے آنسہ کو پچکارا تھا

نہیں کوئی ضرورت نہیں بس چھالی دے اگر ہے تو ساری ختم ہوگئی۔۔اپنے پاس دیکھ وہ چنی کاکی بنی بولی تو نور کو ہنسی آئی

میرے پاس سپاری ہے وہ چاہیے تو بول نور کے بتانے پر اسکا منہ بنا تھا

بچے کھاتے ہیں یہ سپاری لیکن لا پھر بھی دے دے منہ کڑواہ ہورہا ہے۔۔اس کے ہاتھ سے سپاری لے کر وہ ایک ساتھ ہی ساری کھا گئی تھی

مت کھایا کر سارا خون نچوڑ لینگی تیرا۔۔۔۔

جتنا خون یہ تیری اماں نچوڑتی ہے نا اس سے زیادہ نہیں کرتی ہوں گی یہ چھالیاں۔۔۔ اس نے ہتھیلی پر دوسری سپاری کھول منہ میں ڈالی۔۔اور پھر کچھ یاد آنے کر اسکی طرف مڑی

سن کل روشنی کے گھر قرآن خوانی ہے چلے گی ؟؟؟

میں کیسے جاؤنگی اماں کام پر جائینگی تو گھر کون دیکھے گا۔۔۔۔ نور نے اپنے ناجانے کی وجہ بتائی تو وہ کندھے اچکا گئی

چل خیر ہے میں تو جاؤنگی بریانی ہی مل جائے گی کھانے کو۔۔ وہ تو سدا کی بریانی کی دیوانی تھی بس چلتا تو ہر وقت وہی کھاتی۔۔۔۔

اس نے اٹھ کر ریموٹ سنبھالا اور گانوں کا چینل لگا کر آواز تیز کردی جانتی تھی اب باہر بیٹھی عورت جلتی رہے گی۔۔۔۔

نور نے اسے تاسف سے دیکھا اور الماری میں سے کل کے لئے کپڑے نکالنے لگی

کس کی شادی ہورہی ہے جو یہ گانے اتنے تیز چل رہے بند کر نور میرے سر میں درد ہورہا ہے

وہ کافی دیر سے برداشت کر رہی تھی کہ کچھ نہیں بولے گی لیکن اب صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تھا۔۔

اتنی تکلیف ہے تو جا کر باہر جاؤ یہ میرا گھر ہے

وہ بھی اونچی آواز میں بول کر آواز اور تیز کرنے لگی لیکن اللّٰہ کا کرنا اسی وقت لائٹ بند۔

اللّٰہ تیرا شکر… زلیخا کے ہنسنے کی آواز پر اسکے آگ لگی تھی

اللّٰہ پوچھے ان لائٹ والوں کو کمینے کہی کے جب دیکھو لائٹ کی بند کردیتے منحوس وہ بکتی جھکتی اوپر چھت پر چلی گئی جب کے اس کے چپ ہونے پر زلیخا اور نور دونوں نے سکھ کا سانس لی⁩۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

روشن محلہ تمام علاقوں میں سب سے مشہور تھا تقریباً تیس کے قریب گھر تھے ایک مسجد اور کریانے کی دوکان۔۔۔۔

گلی کے کونے پر راحیل بھائی کا چپس اور سموسے کا ٹھیلا جس پر ہر وقت بچوں کا رش رہتا

اس کے علاؤہ ثریا خالہ کی ایک چھوٹی سی چیز کی دوکان بھی تو تھی  جو انہوں نے گھر میں کھولی ہوئ تھی

رمضان کریانہ اسٹور پر روز رات محلے کے آدمی محفل جماتے حالات حاضرہ پر بحث کرتے تو وہی دوسری طرف رضیہ خالہ کے گھر کے باہر عورتیں چبوترے پر یا کرسی پر بیٹھ کر غیبتیں کرتی نظر آتی تو وہی لڑکیاں کسی ایک کی چھت پر ہوتی تو لڑکے باہر کبھی لڈو کیرم یا دوسرا کوئی کھیل کھیلتے نظر آتے

وہ واقعی روشن سا محلہ تھا جہاں ہر وقت رش ہوتا تھا کبھی سناٹا یا اندھیرا نہیں ہوتا تھا۔۔۔

اسی محلے کے ایک دو کمروں کے گھر میں کامران صاحب اپنی بیوی اور ماں کے ساتھ رہنے آئے تھے

وہ ریلوے میں کلرک تھے ایماندار اور بے حد رحم دل۔۔۔۔ انکی بیوی بھی انہیں کی طرح تھی نسا بیگم

وہ ٹوٹل تین ہی افراد تھے زندگی میں سکون تھا بہت۔۔۔

کامران صاحب نے اپنے باپ کی جائداد سے ملنے والی زمین کو بیچ کر مین بازار میں ایک دوکان خرید کر کرائے کر چڑھا دی تھی تاکہ ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے کام آسکے

شادی کے دس سال بعد اللّٰہ نے انہیں اولاد سے نوازہ جس کا نام انہوں نے آنسہ کامران رکھا

گندمی رنگت پر گول گپا چہرہ اور اس پر پرکشش آنکھیں کہ دیکھنے والے کو خود ہی پیار آجائے

دوسرے بچے کی پیدائش پر نساء زندگی کی بازی ہار گئیں بچہ بھی چند دن بعد ہی چل بسا ان کی زندگیوں میں اچانک طوفان آگیا تھا۔

فریدہ بیگم نے پوتی کی زمہ داری لے لی لیکن وہ بوڑھی جان کب تک اسکے ساتھ رہتی انہوں نے کامران صاحب پر دوسری شادی کے لئے دباؤ ڈالا

وہ دوسری شادی کے لئے راضی نہیں تھے لیکن آنسہ کے لئے ہونا پڑا اور یوں ان کی خالہ زاد زلیخا ان کے نکاح میں آئیں جو ساتھ میں اپنی تین سالہ نور کو بھی لے کر آئی تھیں

جو شروع میں تو اسکے ساتھ بہت اچھی رہیں اسکے لئے اسکی ماں بن گئی لیکن پھر ولید اور عریشہ کے بعد انکا رویہ تبدیل ہوگیا فریدہ بیگم کے انتقال کے بعد کامران صاحب نے ایک فیصلہ کیا کہ اپنا گھر اور دوکان آنسہ کے نام کردی پتا نہیں انہوں نے اپنے باقی بچوں کے ساتھ انصاف کیا یا نہیں لیکن آنسہ کو وہ کبھی بھی تکلیف میں نہیں دیکھنا چاہتے تھے وہ انکی پہلی اولاد تھی ان کو اس نے باپ کا نام دیا تھا سب سے پہلے وہ اسکا بہت خیال رکھتے تھے لیکن اس کے بعد زلیخا کا رویہ اس سے تبدیل ہوا تھا پہلے جو تھوڑا بہت پیار کرلیتی تھیں وہ بھی ختم کردیا وہ اگر بہت بری نہیں تھی اس کے ساتھ تو اچھی بھی نہیں تھیں

وہ اسے ولید اور عریشہ کے ساتھ کھیلنے نہیں دیتی تھیں صرف نور تھی جو اسکے ساتھ رہتی تھی ہر حال میں زلیخا کے رویے کی وجہ سے اسکا سارا دن شبانہ کے یہاں گزرتا تھا جو اسکی ماں کی دوست تھی ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی روشنی اس کی پکی سہیلی جبکہ شان اور علی اس کے استاد اسکول کے بعد وہ ڈائریکٹ ان کے گھر آتی تھی جہاں وہ تینوں اسے سوتیلی ماں سے نبٹنے کے طریقے سیکھاتے تھے جنہیں خود کچھ آتا جاتا نہیں تھا 😅🤦🤦

وہ اسے اپنے ساتھ لڑکوں والے کھیلوں میں شامل کرتے تھے تو اسے بھی گڑیا گڈوں سے زیادہ کرکٹ اور گلی ڈنڈے میں دلچسپی ہوئی

جس عمر میں لڑکیاں گھر گھر کھیلتی ہیں وہ ہاتھ میں کنچے لئے اسو پنجو کھیلتی یا کسی کی چھت پر پتنگ اڑا رہی ہوتی۔۔۔

وہ زلیخا کو جلانے کے لئے روز ان لڑکوں کے ساتھ محلے میں کرکٹ کھیلتی

کامران تو خوش ہی ہوتے تھے کہ ان کی بچی لڑکوں کے مقابلے میں نا صرف کھیلتی ہے بلکہ جیت بھی جاتی ہے باقی کنچوں اور پتنگ کو لے کر وہ اسے سمجھاتے رہتے تھے

لیکن ایک دن اسکا یہ سمجھانے والا بھی اسے چھوڑ کر چلا گیا ایک ایکسیڈنٹ میں

اسنے رو رو کر خود کو بیمار کرلیا ناجانے کتنے دن وہ باپ کی یاد میں روتی تڑپتی رہی

پھر شبانہ اسے اپنے ساتھ گھر لے آئی علی اور شان ہر وقت اسکا دماغ کھاتے رہتے روشنی اس نے لئے ہر وقت کچھ نا کچھ نیا بناتی

یہاں اسکا بڑا دل لگا تو وہ تھوڑی سنبھلی اور دو مہینے بعد پھر محلے والوں نے آنسہ کو واپس اپنے موڈ میں دیکھا لیکن اس بار زلیخا نے اس پر سختی شروع کردی وہ اسے گھر سے نکلنے نہیں دیتی تھی

ہر وقت کی ڈانٹ پھٹکار سے تنگ آکر وہ چھتیں پھلانگ کر شبانہ کے گھر پہنچ جاتی

زلیخا اسے جتنا روکتی ٹوکتی وہ اتنا ہی اسکا جینا حرام کردیتی وہ روز شان اور علی سے سوتیلی ماں سے نبٹنے کے ایک سو ایک گن سیکھتی تھی

شبانہ ان کوسمجھا کر ڈانٹ کر تھک چکی تھی

لیکن ان پر اثر ہی نہیں ہوتا تھا اسے مار کٹائی وہ سیکھاتے تھے اسے بلکل ایسا کردیا تھا کہ وہ خود کو لڑکی نہیں لڑکا سمجھتی تھی اور اسے مزہ بھی اسی میں آتا تھا

کامران صاحب کے انتقال کے بعد انکا گزارہ ان کی پینشن اور دوکان کے کرائے سے ہوتا تھا اور اب زلیخا نے گھر میں ہی سلائی کا کام شروع کردیا تھا کسی کے کہنے پر اب وہ دفتروں میں کھانا پہچانے کا کام کرنے کا سوچ رہی تھیں جس کے لئے انہیں پیسے چاہیے تھے کرائے دار نے پیسے دینے سے صاف انکار کردیا تھا ایسے میں وہ بہت زیادہ پریشان تھیں تین بیٹیوں کا ساتھ آسان تھوڑی تھا

وہ مست مگن سی گھر میں داخل ہوئی تو گھر میں سناٹا چھایا ہوا تھا ورنہ سلائی مشین کی آواز تو لازمی ہی آتی تھی

اندر آئی تو زلیخا خاموش سی اک طرف لیٹی تھی

اس نے نور کو اشارہ کیا کہ کیا ہوا

تو اس نے آنکھوں کے اشارے سے اسے صبر کا کہا لیکن ہماری امل میڈم میں صبر تھا ہی کب

نور کی اماں کیوں چپ چپ لیٹی ہو؟؟

اس سے انکی خاموشی برداشت ہی نہیں ہوئی تو انکے پاؤں کا انگوٹھا ہلایا

ہٹ جا امل مجھے نہیں لگنا ابھی تیرے منہ

ہاں تو نہیں لگو لیکن ہوا کیا ہے یہ تو بتاؤ کیوں منہ سوجا کر بیٹھی ہو

کرایے دار نے کرایا دینے سے منع کردیا ہے بولتا ہے بھول جاؤ دوکان

نور کے بتانے پر اسکا دماغ گھوما تھا

اس کا تو باپ بھی کرایا دے گا وہ غصے میں باہر کی طرف نکل گئی

جبکہ نور اس کے پیچھے بھاگی تھی

جبکہ زلیخا نے اپنا سر پکڑا تھا

وہ چادر سنبھالتی تیزی سے مارکیٹ کی طرف بڑھی تھی نور نے بھاگ کر شان اور علی کو بتایا تو وہ اس کے پیچھے نکلے تھے لیکن وہ تو ٹرین کی رفتار سے بھاگ رہی تھی

دوکان کے سامنے پہنچ کر اسنے یاتھوں میں پتھر بھرے تھے۔۔۔

آج تو گئے یہ غلط جگہ پنگا لے لیا ہے بچو۔۔۔۔وہ بڑبڑاتی چادر میں پتھر ڈالنے کا عمل کر رہی تھی 

جب اپنا کام پورا ہوا تو اس نے دوکان کی طرف قدم بڑھائے تھے آج یقیناً اسکا دماغ گھومنے والا تھا۔۔۔۔

دوکان کے باہر ان باپ بیٹوں کے نام کی تختی دیکھ اسکا دماغ بھنایا تھا

اوئے باہر نکل تو میرے باپ کی دوکان پر قبضہ کرتا ہے۔۔۔

بولنے سے پہلے اس نے دو پتھر دوکان کے شٹر کے پاس مارے تھے

دل پھر بھی نہیں بھرا تو اس نے ایک پتھر اٹھا کر دوکان کے اندر مارا۔۔۔

دوکاندار پتھر کی آواز پر جلدی سے باہر نکلا تھا جہاں وہ پتھر ہاتھوں میں بھرے اسے گھور رہی تھی

پاگل پاگل ہے کیا جو پتھر مار رہی میری دوکان پر۔۔۔۔۔۔ وہ بھڑکا

تیری دوکان؟؟؟ وہ استہزایہ ہنسی تھی ہاہاہاہا اچھا تیری دوکان ہے نا  اچھا پھر اب  بتاتی ہوں میں ٹھیک سے۔۔۔بولنے کے ساتھ ساتھ  اس نے دوکان کے اندر ایک ایک کر کے پتھر پھینکنے شروع کئے تو دوکاندار شور کرنے لگا آس پاس کے دوکاندار تو مزے سے یہ تماشہ دیکھ رہے تھے مجال تھی جو کوئی آگے بڑھ کر اسے روکتا یا معاملہ جاننے کی کوشش کرتا۔۔

علی جو اسکے پیچھے نکلا تھا اسے یہ کرتے دیکھ اسپیڈ پکڑی تھی

اوئے آنسہ رک رک۔۔۔ علی نے بھاگ کر اس کے ہاتھ سے پتھر پھینکے

چھوڑ بھائی مجھے۔۔۔وہ غصے سے پاگل ہورہی تھی اس کی ہمت کیسی ہوئی میری دوکان کا اپنا کہنے کی۔۔۔۔

تیری دوکان کہاں سے آگئی تیرا باپ خرید کر گیا ہے کیا اپنی دوکان کی حالت پر وہ آدمی اچھا خاصہ بھڑکا تھا یہ جاننے کے باوجود کہ دوکان تو واقعی اسکے باپ کی تھی

نہیں تو تیرے باپ کی ہے بے شرم قابض میری دوکان ہے یہ تیری ہمت بھی کیسے ہوئی کرایہ نا دینے کی ہاں۔۔۔کمر پر ہاتھ رکھے وہ لڑاکا عورتوں کی طرح بولی تھی

اور کرایے کی بات پر وہ ایک دم سٹپٹایا تھا

کیا ہوا بیٹا کیوں شور کر رہی ہو؟؟؟؟ تبھی ایک انکل اسکے پاس آئے تھے اور ان کے پوچھنے پر اس نے ایک خونخوار نظر اس دوکان پر کھڑے شخص پر ڈالی

میں شور کر رہی ؟؟؟ یہ آدمی ہماری دوکان پر کرایہ دار ہے آج ماں آئی کرائے کے لئے تو بولا نہیں ملے گا بھول جاؤ یتیم کا مال ہے تو مال مفت ہوا نا جس کا دل کیا ہاتھ صاف کرلیا۔۔۔۔

یہ ہماری دوکان۔۔۔اس آدمی کے بیٹے سے آگے بڑھ کر بولنا چاہا تو اس نے اسے بھی چپ کروایا تھا

چپ کمینے بلکل چپ۔۔۔۔ اس سے پہلےوہ بات مکمل کرتا  اس نے اسے آنکھیں دکھائیں تھیں۔۔۔

تیری  اتنی اوقات ہے کہ یہ دوکان خرید سکے ہاں  میرے باپ کی دوکان ہے یہ اس کے خون پسینے کی کمائی سے بنائی گئی دوکان اور وہ مرا ہے لیکن میں نہیں بہت اچھے سے اپنی چیز لینا جانتی ہوں جو میرا ہے وہ کوئی لے نہیں سکتا مجھ سے اور جو نہیں دیتا اس سے چھین لیتی ہوں میں ڈرنے والوں میں سے کا خوموش بیٹھنے والوں میں سے نہیں میں آئی سمجھ ۔۔۔وہ غرائی

ایسے کیسے چھینے گی یہ ہماری دوکان ہے دفاع ہو یہاں سے۔۔۔ وہ لڑکا بھی اسی کے انداز میں بولا تھا۔۔

تو تم کرایہ نہیں دوگے؟؟ اس نے انتہائی نرم لہجہ میں پوچھا تو علی اور شان نے ایک دوسرے کو دیکھا یعنی اب وقت آگیا تھا کہ وہ کچھ کرے وہ اس لئے علی وہاں سے کھسکا تھا  اب اسے سامان بھی تو لا کر دینا تھا نا

نہیں دونگا جا جو کرنا ہے کرلے۔۔۔۔وہ آدمی بھی ڈھیٹ بنا تھا یہ جانے بغیر کے سامنے وہ سرپھیری کچھ بھی کرسکتی ہے

اچھا تو مطلب واقعی نہیں دوگے؟؟؟؟اس نگ آئی برو اچکا کر ایک بار پھر پوچھنا چاہا

بول دیا نا نہیں دونگا اب جا یہاں سے۔۔۔وہ ڈھیٹ ابن ڈھیٹ بنا تھا 

اس نے ایک نظر سب کو دیکھا جو خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے غلط کو غلط بولنے کی ہمت ہی نہیں تھی ہاں تماشہ دیکھنے کے لئے سب اپنا اپنا کام چھوڑے کھڑے تھے

تبھی علی واپس آیا تو اسکے ہاتھ میں دو بڑے گیلن تھے

اس نے اشارہ کیا تو وہ دوکان کی طرف بڑھے تھے 

اوئے کہا جارہے ہو ہٹو یہاں سے وہ آدمی ان دونوں کے بیچ دیوار بنا تھا 

جبکہ وہ مزے سے ہاتھ باندھ کر کھڑی ہوگئی

ارے ہٹو اب نا یہ دوکان تمہاری نا ہماری اسے ہٹا کر علی نے گیلن میں موجود پیٹرول کو دوکان میں ڈالنا شروع کیا

دیکھوں یہ نہیں کرو وہ آدمی ان سے گیلن چھیننے کے لئے آگے بڑھا لیکن شان نے اسے پکڑ لیا

دوسرے کے مال پر قبضہ کرنے سے پہلے سوچنا تھا نا انکل جی۔۔۔وہ مزے سے بول کر اپنے کام میں مصروف ہوا تھا

دیکھو تم لوگ یہ ٹھیک نہیں کر رہے میں پولیس کو بلاؤں گا۔۔۔وہ اب دھمکی پر اتر آیا تھا

بلاؤ میں نہیں ڈرتی شوق سے بلاؤ اسنے چادر کے کونے سے چھالی نکال کر منہ میں ڈالی اور ایک طرف ہوکر تماشہ دیکھنے لگی

جہاں شان اور علی دوکان کے اندر پیٹرول ڈالنے میں مصروف تھے اور وہ صاحب اور انکا بیٹا ان کو روکنے میں۔۔۔

دیکھوں ہمارا لاکھوں کا سامان ہے اس میں سب برباد ہو جائے گا ۔۔۔۔علی کو ماچس نکالتا دیکھ وہ آدمی اس کے پاس آیا تھا اور اب اسکا انداز منت بھرا تھا

تو ہم کیا کریں ویسے بھی کسی کی دوکان پر قبضہ کروگے تو انجام تو بھگتوں گے نا میں کچھ نہیں کر سکتی اس نے کندھے اچکائے

علی اور شان نے دوکان کے اندر جا کر بھی پیٹرول ڈالنا چاہا لیکن اس لڑکے کی آواز پر رکے

ابا کیا کر رہے ہو لاکھوں کا مال جل جائے گا تو کیا ہوگا روکو انہیں۔۔۔۔۔

میں کیسے روکوں ؟؟؟ دیکھوں بیٹا یہ دوکان تمہاری ہے بس ہم کرایہ دینگے لیکن دیکھوں ہمارا سامان نہیں جلاؤ ان کے منت کرنے پر اس نے ان دونوں کو اشارہ کیا اور ایک پین اور پیپر منگوا کر اس پر کچھ لکھا

تم جیسے لوگ ہی ہوتے ہیں جو غریبوں کا حق کھانے میں سب سے آگے ہوتے ہیں لیکن جب بات اپنے نقصان کی آئے تو گڑگڑاتے ہیں اگر تم یہ سمجھے تھے کہ ہمارا بھائی بڑا نہیں تو آسانی سے اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاؤ گے تو بھول جاؤ ابھی میں زندہ ہوں اپنے باپ کا بیٹا آئی سمجھ۔۔۔۔

اور یہ سارے جو تماشہ دیکھ رہے ہے نا ان پر لعنت ہے کہ کوئی ہمارے حق میں نہیں بولا شرم سے ڈوب مرو سارے۔۔۔اس نے اس آدمی کے ساتھ باقی سب کو بھی گھسیٹا تو وہ سب کھسیانے بن گئے

اور تم اس کاغذ پر سائن کرو اور آج ابھی اسی وقت کرایے کی رقم دو اس کے غصے میں بولنے پر وہ جلدی سے کرایا لایا تھا شاید قبضہ کرنے میں کمزور تھے یا ڈرپوک کہ اس سے ڈر رہے تھے اور پانی اور پیٹرول میں فرق نہیں کرسکے لیکن اسکا تو فائدہ ہی ہوا تھا

اور یہ کاغذ ہے کہ بہت جلد دوکان خالی کروگے اور ہاں جب تک نہیں مل جاتی دوسری جگہ تب تک وقت پر کرایا گھر آکر دوگے کرو سائن اس کے بولنے پر سب کی موجودگی میں ان سے سائن لے کر وہ پر سکون ہوئی تو شان اور علی کو اشارہ کرتے باہر کی جانب بڑھی جہاں باہر نور ہانپتے ہوئے آرہی تھی

چل میرا بچہ واپس چل فلم ختم ہوگئی اسکا ہاتھ پکڑ کر وہ باہر کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

چل میرا پتر جلدی کر ویسے ہی تو ہمیشہ لیٹ کر دیتا ہے۔۔حاشر اس کے پاس آیا تھا جو اپنی تیاری میں مصروف تھا

تو جا گاڑی نکال میں آرہا ہوں۔۔ خود پر پرفیوم چھڑکتے اس نے چابی اٹھائی تھی

اوئے میں ڈائیونگ کرونگا آج۔۔ حاشر نے اسکے ارادہ بھانپا تو  فوراً چلایا تھا

ابے او بہرہ نہیں ہو میں جو فضول میں چیخ رہا ہے۔۔اسکی چیز پر ابراہیم نے اسے ایک چھپ رسید کی تھی۔

ہاں تو میں چلاؤ گا گاڑی تیرا کوئی بھروسہ نہیں کہیں بھی گاڑی ٹھوک دے شادی کرنے سے پہلے میں اوپر نہیں جانا چاہتا۔۔۔۔

میرا بچہ تو یہ بتا تجھ سے شادی کرے گی کون جو تو شادی کے خواب دیکھ رہا ہے۔۔۔اس نے مزے سے کہتے والے جیب میں ڈالا تھا

مجھے بھی پہلے یہی لگتا تھا کہ مجھے کوئی نہیں ملنے والی لیکن جب تیرے جیسے کو مل سکتی ہے تو میں تو پھر بھی اچھا بھلا ہینڈسم ہوں۔۔۔ اس نے بھی حساب برابر کیا تھا۔۔

ہینڈسم تو خیر تو کہیں سے نہیں لگتا اور جو تو لگتا ہے وہ بتا دیا اگر تو سن کر فوت ہوجائے گا

لے کمینے فٹے منہ تیرا⁦🖐️⁩⁦🖐️⁩ حاشر نے اسے دونوں ہاتھوں سے محبت کی سوغات دی تھی

دیکھ تو جلنا چھوڑ دے ویسے ہی عجیب  تیری شکل اوپر سے جل جل کر ہیبت ناک بنتا جارہا ہے تو۔۔

ابراہیم ابھی بھی باز نہیں آرہا تھا

چل کوئی نہیں میرا بچہ تو بول جتنا مرضی بول بس آج آفس پیدل آنے کے لیے تیار رہ یہ کہہ کر وہ چابی اس سے چھینتا بھاگا تھا

اوئے حاشر کمینے چابی دے۔۔ وہ اس کے پیچھے بھاگا

نہیں دونگا اب تو آ بیٹا دھکے کھاتے ہوئے وہ دور سے کہتا سیڑھیاں پھلانگتا نیچے اتر گیا وہ جلدی سے اوپر آیا گھر لاک کر کے باہر آیا لیکن وہ غائب تھا

اللّٰہ پوچھے تجھے حاشر 😒😒 وہ پریشان سا کھڑا ہوگیا

اچھی بھلی اس کی زندگی تھی پتا نہیں کیا شوق چڑھا تھا یہاں آنے کا

وہ اندر کی طرف بڑھا تاکہ کیب بلا سکے لیکن تبھی ہارن کی آواز پر پلٹا جہاں حاشر کھڑا دانت دکھا رہا تھا

مرتا کیوں نہیں ہے تو وہ اسنے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا

تجھے ساتھ لے کر مرو گا میری جان۔۔۔وہ مزے سے بولا 

قسمت ہی خراب تھی میری جو تجھ سے دوستی ہوئی۔۔۔

اس کی بات پر حاشر کا چھت پھاڑ قہقہ گونجا تھاابراہیم حیات۔۔۔

حیات یوسفزئی کا سب سے چھوٹا اور لاڈلا بیٹا۔۔۔

ابراہیم سے بڑا دراب اور کنزہ تھے دونوں ہی شادی شدہ تھے اور ایک کامیاب ازدواجی زندگی گزار رہے تھے 

حیات صاحب کئی سال پہلے کام کے سلسلے میں دوبئی گئے تھے کچھ وقت و حالات کا تقاضہ تھا کہ انہیں وہاں رہنا پڑا نوکری راس آئی تو انہوں نے پاکستان میں اپنا ایک بہترین گھر بنایا مگر فیملی کے بغیر رہنا ناگزیز تھا جاب کی وجہ سے وہ وہی کے ہو کر رہ گئے تھے مگر گھر کی یاد بے حد ستاتی تھی اسٹیبلش ہونے کے بعد انہوں نے سب سے پہلے اپنی فیملی کو پاس بلانا چاہا تھا اور سہولیات ملتے ہی انہوں نے کچھ عرصے بعد اپنی  فیملی کو بھی وہیں بلا لیا۔۔۔

زندگی پرسکون گزر رہی تھی گھر خوشیوں کا گہوارہ تھا ان کے بچے ان کو مکمل کرتے تھے  مگر پھر ان کی زندگی میں طوفان آیا تھا ان کی بیوی کا انتقال ہوا تو وہ ٹوٹ کر رہ گئے بات بچوں کی پرورش کی آئی تو انہوں نے اپنے بچوں کو اپنی ماں کی گود میں ڈالا تھا بچوں کی پرورش ان کی دادی نے کی تھی وہ ان کے لئے ان کی ماں بن گئی تھیں

وقت گزرتا گیا بچے تعلیمی مراحل طے کرتے اب پریکٹیکل لائف میں آگئے تھے بیٹی کا رشتہ آیا تھا لڑکا ان کے دوست کا بیٹا تھا ہر لحاظ سے ان کی بیٹی کے قابل۔۔انہوں نے فوراً ہاں کی تھی جبکہ دراب نے کے لئے انہوں نے اپنی بھتیجی کا انتخاب کیا تھا

دراب وہاں اپنی جاب کرتا تھا اور سیٹل تھا جبکہ کنزہ ہاوس وائف تھی اور شادی ہو کر شارجہ میں مقیم تھی

سب سے چھوٹا اور لاڈلہ تھا ابراہیم۔۔

ابراہیم نے بزنس کی ڈگری لی تو اسکی خواہش تھی کہ وہ اپنا کام پاکستان میں سیٹ کرے انسان چاہے جہاں بھی چلے جائے اپنے وطن کی محبت اسے کھینچ لاتی ہے وہ بھی پاکستان دیکھنے کا خواہشمند تھا اور اپنے باپ اور دادی کی خواہش بھی سمجھتا تھا جبھی یہ فیصلہ لیا۔۔۔

حیات صاحب کو اس کے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں تھا وہ تو اب چاہتے تھے کہ وہ پاکستان جائیں لیکن وہاں کام جمانا آسان نہیں تھا جبکہ وہاں صرف ان کا اپنا گھر تھا اس کے علاؤہ ان کا سارا بزنس ہی یہاں تھا جسے اب وہ پاکستان منتقل کرنا چاہتے تھے  اس لئے ابرہیم کے فیصلے پر وہ بہت خوش تھے

وہ چاہتے تھے کہ انکا گھر پھر سے کھل جائے لیکن اس میں کام ہونا باقی تھا اتنے سالوں بند رہنے کے بعد گھر کو نئی حالت میں لانا تھا  اس لئے ابرہیم حاشر کے کہنے پر جو نا صرف اسکا خالہ زاد تھا بلکہ بیسٹ فرینڈ بھی تھا اس کے ساتھ بزنس اسٹارٹ کرنے کا سوچ کر پاکستان آیا تھا۔۔۔

پاکستان میں قدم رکھتے ہی اس نے اپنے آپ کو بہت پرسکون محسوس کیا تھا

اس نے یہاں رہنے کے لئے ایک فلیٹ لیا تھا

حاشر کے کہنے پر بھی وہ اس کے گھر کے بجائے اپنے لئے رینٹ پر ایک فلیٹ میں رہ رہا تھا اسے اکیلا دیکھ حاشر بھی اس کے پاس ہی آگیا تھا ان دونوں نے مل کر اپنا بوتیک کھولا تھا اس سے پہلے ان دونوں نے ایک شارٹ کورس کیا تھا جہاں اس کی ملاقات ردابہ سے ہوئی تھی اس نے حاشر کو تو منہ نہیں لگایا البتہ ابراہیم سے اسکی دوستی کافی گہری ہوگئی اس نے بوتیک اوپن کرنے میں بھی اسکی کی کافی مدد کی تھی اپنے سرکل میں بھی اسے پروموٹ کیا تھا

اسے ردابہ سے محبت ہوگئی تھی لیکن وہ اسے کہنے سے ڈرتا تھا

ان پانچ سالوں میں اس نے بہت محنت کی تھی اب باری تھی اپنا گھر بنوانے کی تاکہ وہ ردابہ کو پرپوز کر سکے

حاشر کو بھی اسنے نہیں بتایا تھا لیکن وہ تو اسکا یار تھا بن کہے سب سمجھ جاتا اور ریکارڈ بھی خوب لگاتا تھا لیکن پھر بھی وہ جان تھا۔۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

اس نے گھر میں آکر کرایا زلیخا کے ہاتھ میں رکھا تھا

یہ پیسے؟؟؟

دوکان کا کرایہ ہے وہ چادر اٹھا کر اسٹینڈ پر رکھ کر اندر بڑھ گئی

کیسے دیا اس نے مجھے تو صاف منع کردیا تھا

جتنا تم مجھے سناتی ہو نا نور کی اماں اسکا آدھا بھی اس ڈرپوک کو سنایا ہوتا نا تو پیسے ہاتھ میں رکھ دیتا…وہ بولتی اس نے اپنا سامان سمیٹ کر رکھا

تو لڑ کر آئی ہے اسسے آنسہ؟؟؟؟؟

نہیں میں لڑ کر آئی نا جھگڑ کر  اور تمہیں پیسے مل گئے نا تو مزے کرو کچن سے کھانا نکال کر وہ بولتی اوپر چلی گئی

نور یہ کیا کر کے آئی ہے وہ اب نور کے پاس آئی تھیں۔۔۔

مجھے نہیں پتا اماں جب میں وہاں پہنچی تو وہ باہر آرہی تھی

اچھا پتا نہیں کیا کر کے آئی ہے یہ لڑکی۔۔۔۔

 وہ پریشان ہوئی تھیں

آپ کا تو اچھا ہوگیا نا تو کیوں پریشان ہیں آپ جانتی ہیں نا وہ بنا سوچے سمجھے کرتی ہے سب۔۔

ہاں لیکن کل کلاں کو کچھ ہوگیا تو اس کے باپ کو کیا منہ دیکھاؤں گی میں۔

یہی منہ دیکھا دینا ورنہ بلیچ اور فیشل کر لینا تو شاید ابا خوش ہوجائے چھت سے اتر کر اس نے آدھی بات ہی سنی تھی

نور نے اپنی ہنسی چھپائی تو زلیخا نے اسے گھور کر دیکھا

جب جب وہ اس کے لئے دل میں محبت محسوس کرتی تھیں وہ پھر دل جلا دیتی۔۔

جب بھی منہ کھولتی ہے بکواس ہی کرتی ہے وہ منہ بنا کر اندر بڑھ گئیں

تو کیوں چھیڑتی ہے انہیں آنسہ نور نے اسکے ہاتھ پر نوچا

آآآ کمینی۔۔۔

بتا۔۔

بھئی میرا کھانا ہی ہضم نہیں ہوتا جب تک سوتیلی سے کچھ سن نا لوں اس نے آنکھ ماری

تو قسم سے لوفر ہوتی جارہی ہے

شکریہ شکریہ اس نے سر کو خم دیا

سدھر جا اور پیپر کی تیاری کر ورنہ سپلی پکی تیری۔۔نور نے اسے ڈرانا چاہا

ہاں تو بس بد دعا دے مجھے۔۔۔۔

وہ دونوں انٹر کر رہی تھیں نور تو بہت اچھی تھی پڑھائی میں لیکن اسکا دل ہی نہیں لگتا تھا لیکن اپنے بابا کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے پڑھ رہی تھی۔۔

گھر کے کام میں تو وہ تاک تھی لیکن زلیخا کو جلانے کے لئے کرتی ہی نہیں تھی

ان دونوں کا رشتہ دھوپ چھاؤں جیسا تھا۔

زلیخا نے جو کھانے بنانے کا کام شروع کیا تھا اس کے لئے شان اور علی ان کی پوری مدد کر رہے تھے انہیں ایک آفس میں دس بندوں کا کھانا پہنچانا تھا جس کے لئے انہیں پیسے بھی ٹھیک ہی مل رہے تھے سلائی تو وہ شروع سے کرتی تھیں

شبانہ نے انہیں کہا تھا کہ ایک بوتیک میں سلائی کرنے کے لئے عورت کی ضرورت ہے انہیں وہاں بھی جانا تھا

اس لئے اپنا کام مکمل کر کے وہ جلدی سے شبانہ کے ساتھ نکلی تھی

شبانہ کے ساتھ وہ یہاں آئی تھی آفس بہت خوبصورت اور شاندار انداز میں سیٹ کیا گیا تھا

وہ دونوں تو آفس دیکھ کر ہی مرعوب ہو گئی تھیں

ریسپشن پر بات کی تو وہ  ان دونوں کو انتظار کرنے کا کہہ کر اندر بڑھ گئی تقریباً پندرہ منٹ انتظار کے بعد انہیں اندر بلایا گیا

جہاں موجود حاشر اور ابراہیم کو انکا کام بہت پسند آیا تھا اور انہیں کام پر رکھ لیا گیا تھا انکا کام اسٹیچنگ پر تھا ٹائم بھی مناسب تھا اس لئے انہیں کوئی مسئلہ بھی نہیں تھا

زلیخا نے ان کا شکریہ ادا کیا اور وہاں سے نکلیں

کیا خیال ہے یہ کر پائیں گی؟؟

بلکل مجھے انکا کام بہت پسند آیا ہے اور ان کے ہاتھ میں صفائی بھی بہت ہے حاشر کے پوچھنے پر ابراہیم نے اسے کہا تبھی اسکا فون رنگ ہوا ردابہ کالنگ۔۔۔

وہ ایکسکیوز کرتا باہر بالکونی میں آیا تو حاشر نے معنی خیز انداز میں اسے دیکھا تو وہ اسے گھورتا آگے بڑھ گیا

ہے بے بی کیسے ہو؟؟؟؟ اسکی آواز میں بے حد میٹھاس تھی ابرہیم تو وارے صدقے گیا

میں بلکل ٹھیک تم سناؤ کیا حال ہے ؟؟

ائم آل رائٹ اچھا اے بی یہ بتاؤ فری ہو؟؟

فری؟؟؟ اس نے اپنی میٹنگ کا سوچا

ہاں آل موسٹ فری ہی ہونے والا ہوں کیوں؟

مجھے شاپنگ کرنی ہے تو فری ہو کر مجھے پک کرلینا۔۔

ٹھیک ہے چھ بجے تک پک کرتا میں تمہیں۔۔۔

اوکے ڈن بائے پلان کنفرم ہوتے ہی اس نے کال بند کی تو وہ فون کو دیکھ کر اس طرح مسکرایا جیسے وہ فون نہیں ردابہ ہو

کیا کہا بھابھی جی نے ؟؟؟ اسے مسکراتا اندر آتے دیکھ حاشر نے پوچھا

کچھ نہیں بس آج ملنے کا بول رہی تھی

ملنے کا یا شاپنگ کا؟؟؟ حاشر کی بات پر وہ ہنس دیا

تجھ میں مجھے کبھی کبھی دادو کی جھلک نظر آتی ہے چل کام کمپلیٹ کر پھر تجھے گھر چھوڑتا میں جاؤنگا۔۔۔

اچھا پھر رک کچھ ڈیزائن فائنل کرنے ہیں آرڈر کے لئے تو وہ دیکھ پھر مجھے گھر چھوڑ دینا خالو کی کال آئی تھی کہ ایک راؤنڈ لگا کر کام دیکھ لوں چل ٹھیک ہے میں بھی ساتھ ہی چل کر دیکھ لونگا ایسے ٹائم نہیں ملتا۔

وہ دونوں کام سے فری ہوکر حیات مینشن آئے تھے جہاں کا تقریباً سارا کام ہوچکا تھا بس چند ایک چیزیں تھیں جو ہونی باقی تھیں تبھی ایک بار پھر ردابہ کی کال آئی کے وہ ویٹ کر رہی ہے فوراً پہنچے اس لئے وہ جلدی سے وہاں سے نکلا تھا حاشر کو بھی اسے ہی چھوڑنا تھا کیونکہ اس کی گاڑی خراب تھی تو وہ دونوں ایک ہی گاڑی یوز کر رہے تھے

وہ فل اسپیڈ سے گاڑی چلا رہا تھا کہ اچانک سامنے ایک لڑکی ان کی گاڑی کے سامنے تیزی سے آئی تھی اگر وہ بریک نا لگاتا تو آج اس کے ساتھ حادثہ ہوجاتا۔۔۔

وہ غصے میں بھرا باہر نکلا تو حاشر نے بھی اس کی تقلید کی

ابرہیم آرام سے یار۔۔۔۔۔۔

وہ باہر آیا تو وہ لڑکی اسے غصے میں گھور رہی تھی

اندھی ہو کیا دیکھتا نہیں ہے جو روڑ پر بنا دیکھے بھاگ رہی ہو وہ غصے سے آگ بگولا ہورہا تھا ایک تو پہلے ہی دیر ہورہی تھی اوپر سے یہ۔۔

ہاں اندھی بھی ہوں گونگی بھی بہری بھی ہوں تیرے سے مطلب۔۔۔۔اس نے یوں بھڑکنے کر وہ بھی بدتمیزی پر اتر آئی تھی

تو جب اتنی ہی بیماریاں ہے تو ہاسپٹل جاؤ یہاں کیا سڑکوں پر ناچتی پھر رہی۔۔

وہ بھی دوبدو بولا تھا

اسپتال جائے تو، تیرا یہ گھنا دوست تیرے سارے رشتہ دار۔۔۔ وہ کہا کم تھی ایک کی دس سناتی تھی آج تو ویسے ہی اتنی گرمی تھی کہ اسکا دماغ گھوما ہوا تھا

تم جاہل گوار۔۔۔۔۔ وہ اس پر غرایا

اور تم۔۔۔ وہ لمحے کو رکی پڑھا لکھا جاہل۔۔بدلہ وہاں سے بھی برابر لیا گیا تھا

جاہل کس کو بولا۔۔۔

جاہل لفظ ہر وہ تڑپا تھا

آپ کو بولا۔۔۔۔ تمہیں بولا۔۔۔۔ تیرے کو بولا تجھے بولا چل بھاگ اب یہاں سے۔۔۔وہ اب بھی باز نہیں آئی تھی اسے امیروں سے ویسے ہی بڑی چڑ تھی جو اپنی دولت کا رعب جھاڑتے تھے

تم۔۔۔۔۔۔ وہ دانے پیس کر رہ گیا اتنی بد تمیز لڑکی

بد تمیز۔۔۔۔ وہ بڑبڑا کر رہ گیا

تو ہوگا بد تمیز جاہل سب کچھ۔۔۔آج گرمی نے اسکا دماغ گھوما کر رکھا ہوا تھا

وہ اسے کوئی جواب ہی دیتا لیکن حاشر نے اسکا ہاتھ پکڑ کر روکا

چھوڑ نا چل دیر ہورہی ہے کیوں اپنا دماغ خراب کر رہا چل۔۔۔ اس کے کہنے پر وہ اسے گھوری سے نوازتا گاڑی کی طرف بڑھا

کیا ہوا ڈر گیا آیا تھا بڑا تیس مار خان بن کے۔۔۔۔

اسنے ایک زور کی لات اسکی گاڑی پر ماری خود کے بھی لگی تھی لیکن یہاں پرواہ کسے تھی

اس کے بولنے پر وہ اسے سخت نظروں سے گھور رہا تھا

اوئے للو گھورتا کس کو ہے ڈرپوک اب لڑ نا گاڑی کا روعب جا کر کسی اور کو دیکھائیو مجھے نہیں۔۔۔۔

وہ خود پر ضبط کرتا گاڑی میں بیٹھا اور دروازہ دھڑام سے بند کیا

اوئے گاڑی والے ڈر گیا کیا اسکے جاتے ہی اس نے مزے سے آواز لگائی اور چادر میں سے چھالی کھول کر اپنے منہ میں ڈالی

آیا بڑا مجھ سے پنگا لے گا۔۔۔

ہونہہ۔۔۔۔

وہ بلی کے بچے کو بچانے کے لئے بھاگی تھی لیکن اس گاڑی کے سامنے آگئی

اندھا دیکھ کر گاڑی نہیں چلاتا اب بھلا بندہ روڈ پر چل بھی نہیں سکتا میسنا گاڑی چلا لیتا کہیں اور۔۔مسلسل بڑبڑاتی اب وہ سائیڈ پر چلنے لگی تھی

مجال تھی کہ وہ کبھی اپنی غلطی مانتی یہاں بھی روڈ چلنے کے لئے تھا ہاں گاڑی وہ کہیں اور چلا سکتا تھا۔۔۔

سڑا کریلا اخروٹ دماغ مجھ پر یعنی آنسہ کامران پر غصہ کریگا اس کی اتنی مجال

وہ مسلسل اسے غائبانہ طور پر سنائے جا رہی تھی ۔۔۔

وہ ڈائریکٹ شبانہ خالہ کے گھر آئی تھی جہاں روشنی بیٹھی اسی کا انتظار کر رہی تھی

اتنی دیر کردی تو نے کب سے انتظار کر رہی ہوں میں تیرا۔۔اسے دیکھتے ہی روشنی نے خفگی سے کہا تھا

دیر کہاں ہوئی چھ ہی تو بجے ہیں۔۔ اس نے مزے سے بول کر پاؤں پھیلائے

آنسہ ہمیں جانا تھا یار۔۔۔ روشنی نے منہ بسورہ تھا

ہاں تو چل نا کس نے روکا۔وہ لاپرواہی سے بولی تھی

تو کہا گئی تھی پہلے یہ بتا؟روشنی کو کچھ عجیب لگا تھا

نور کی دوست کے گھر۔۔۔ اسے بخار ہے نا تو مجھے جانا پڑا وہ کالج نہیں آئی تھی تو نور کو سامان بھیجنا تھا اسے وہ دے کر میں تیرے پاس ہی آنے کے لئے نکلی تھی پھر منحوس روڈ پر وہ گاڑی والے سے منہ ماری ہوگئی اب تو بس تیار ہے تو میں آتی تیار ہو کر۔۔۔اس نے بولتے کے ساتھ اٹھ کر چپل پاؤں میں ڈالی تھی

تیرا سوٹ نکال دیا ہے میں نے بس یہی ہوجا تیار۔۔۔ روشنی نے اسکا سوٹ اسکے ہاتھ میں تھمایا جو وہ اکثر یہاں رکھتی تھی

چل ٹھیک۔۔۔

وہ دونوں تیار ہوکر نکلی تھیں روشنی کو ایک سوٹ لینا تھا جو اسے مال میں بے حد  پسند آیا تھا جب وہ بوتیک میں سامان دینے گئی تھی شبانہ کے ساتھ اب پیسے جمع کر کے وہ لینے جارہی تھی 

غریبوں کو بھی اپنی ضروریات کو ایسے ہی پورا کرنا پڑتا ہے لوگ لمحہ نہیں لگاتے ان کے گھر تباہ کرنے میں۔۔۔

مال جانے کے لئے  اس نے سب سے اچھے کپڑے پہنے تھے

البتہ امل تو پہنتی ہی اچھا تھی کیونکہ وہ خود کو بہت امیر سمجھتی تھی بھئی دوکان اور مکان کی مالکن تھی کوئی چھوٹی بات تھوڑی تھی زلیخا بیگم بڑا چڑتی تھی مگر وہ کہاں کسی کی سنتی تھی

اس کے پاس کپڑے بہت تھے

شبانہ کو بتا کر وہ علی کے ساتھ وہاں سے نکلی تھیں آنسہ کو تو کچھ نہیں لینا تھا بس روشنی کی ضد پر وہ اسکے ساتھ جارہی تھی۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

وہ حاشر کو چھوڑ کر ردابہ کے گھر آیا تھا خراب موڈ اسے دیکھ کر ایک دم ٹھیک ہوا تھا اس نے باہر نکل کر اسکا استقبال کیا تو عادت کے مطابق وہ اسکے گلے لگی گال سے گال مس کیا تو ابراہیم کی دھڑکن منتشر ہوئی

اس نے اس کے لئے فرنٹ دور کھولا تو وہ بڑی شان سے اسکے ساتھ بیٹھی تھی اور پھر ہاتھ بڑھا کر میوزک پلیئر آن کیا

مال پہنچ کر وہ تو بس پاگل ہوگئی اسے بے حد کریز تھا شاپنگ کا 

مال میں تقریباً ساری پیمنٹ ہی ابراہیم نے کی تھی

ردابہ کا بس چلتا تو پورا مال ہی خرید لیتی

ابھی بھی وہ اسکا ہاتھ تھامے جیولری شاپ میں آئی

یہ دیکھوں یہ رنگ کتنی پریٹی ہے نا اے بی(اسے ابراہیم لمبا نام لگتا تھا اس لئے وہ اسے اےبی ہی کہتی تھی)

ہمم پیاری ہے۔۔۔وہ ہلکا سا مسکراتے بولا تھا

تو تم مجھے پرپوز کرتے ہوئے اسی طرح کی رنگ پہنانا یو نو یونیک سی۔۔۔

ردابہ کی بات پر اسے جھٹکا لگا۔۔

وہ خود سے ایسا بولے گی اس نے سوچا نہیں تھا

کیا ہوا کیا سوچ رہے؟؟

ہہہ۔۔۔۔ ہاں نہیں کچھ نہیں وہ مسکرادیا

اوکے وہ کندھے اچکا کر جیولری دیکھنے میں بزی ہوگئی

جبکہ اسکا دل تو خوشی سے زور زور جھوم رہا تھا۔۔۔

وہ دونوں اپنی مطلوبہ جگہ سے سامان لے کر ایسے ہی مال گھوم رہی تھیں کہ اس کی نظر جیولری شاپ پر پڑی

روش وہ دیکھ یہ وہی لنگور ہے جس سے لڑائی ہوئی تھی میری۔۔۔اسکی نظر ابراہیم پر پڑی تو اس نے روشنی کو دیکھایا تھا

آنسہ کی بچی تو اتنے ہینڈسم انسان کو لنگور  مت بول۔۔روشنی نے سخت برا منایا تھا

چل بے ایسا ہینڈسم در فٹے منہ۔۔۔ اس نے منہ سڑایا

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

وہ دونوں گاڑی میں بیٹھے ہی تھے کہ اچانک ردابہ کو یاد آیا کہ وہ اپنا ایک بیگ اوپر ہی بھول گئی اس لئے وہ ابرہیم کو ویٹ بول کر اندر کی طرف بڑھی

وہ بیگ لئے باہر کی طرف جا ہی رہی تھی کہ کسی سے بری طرح سے ٹکرائی

اندھے ہو دیکھتا نہیں ہے کیا جاہل انسان

اس نے ٹکرانے والے شخص کو گھورا

جو دیکھنے میں ہی اسے مڈل کلاس لگا

سوری میڈم۔۔۔۔

سوری مائے فٹ تم جیسے جاہل گوار لوگوں کو مال میں آنے ہی کون دیتا ہے جنہیں نا چلنے کی تمیز ہے نا بات کرنے کی اسٹوپڈ انسان۔۔

وہ غصے سے غرائی تھی

دیکھوں میری غلطی نہیں ہے۔۔۔وہ اس کی شرافت کا زیادہ ہی فائدہ اٹھا رہی تھی

اچھا تو پھر کس کی غلطی تھی ہاں میری رکو زرا ابھی مینیجر کو بلاتی

مینجر سے نہیں مجھ سے بات کر تو۔۔۔وہ مینجر کو آواز دینے ہی لگی تھی کہ کسی کے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسکا رخ اپنی طرف کیا

اے جنگلی ہاتھ چھوڑ میرا۔۔۔۔۔

جنگلی پن ابھی دیکھایا ہی کب ہے میں نے ہاں

میرا بھائی کچھ بول نہیں رہا تو سر چڑھ رہی ہے زیادہ ہی۔۔۔

یہ مال تیرے باپ کا نہیں ہے جو تو یہاں بیٹھ کر سب کی ماں بن کر گھومے گی اس نے اسکے ہاتھ پر گرفت مضبوط کی

تم جاہل گوار گندی ہاتھ چھوڑ وہ خود کو پڑھا لکھا ثابت کرنے والی خود بھی جاہلوں کی طرح بول رہی تھی

گند ہوگی تو گندی نالی کی کیڑی امل نے اسکا ہاتھ مروڑا

آوچ۔۔۔۔۔درد اسکے پورے ہاتھ میں سرایت کر گیا تھا

آئندہ اپنی زبان سنبھال کر رکھنا آئی سمجھ تم جیسے لوگوں کو جوتی پر رکھتی ہے امل کامران۔ کسی کو کچھ بھی بولنے سے پہلے ایک بار مجھے ضرور یاد کر لینا

ایک جھٹکے سے اسکا ہاتھ چھوڑ کر اس نے علی کا ہاتھ تھاما اور باہر نکلتی چلی گئی

جبکہ وہ پیچھے روتے ہوئے اپنا مسل رہی تھی سب کے سامنے اتنی بے عزتی

اسکا دل کیا جاکر منہ نوچ لے اس لڑکی کا جو جانے کون تھی

سب اسے دیکھ رہے تھے

کیا تماشہ ہورہا ہے جو یہاں کھڑےہو دفاع ہو سب۔۔۔

ان سب پر چیختی ہو اپنا بیگ اٹھاتی وہاں سے نکلی

اس کو ٹھیک سنایا اس لڑکی نے اسکی بد تمیزی دیکھ ایک عورت سے دوسری سے کہا تھا

وہ غصے میں تن فن کرتی گاڑی میں بیٹھ کر دروازہ دھاڑ سے بند کیا

آر یو اوکے ردابہ؟؟

چلو یہاں سے۔۔۔اسکا موڈ حد سے زیادہ خراب تھا

پر ہوا کیا ہے؟ وہ اسکے رویے پر حیران ہوا

آئی سیڈ چلو آواز نہیں آئی کیا تمہیں وہ اس پر چیخی تھی۔۔۔ اپنا غصہ اسنے ابراہیم پر اتارا تھا

کیا ہوا کیوں ہوا کیسے ہوا سوال شروع جب ایک بات بولا کروں نا تو اس پر عمل کیا کرو مجھے نہیں پسند ہے میرے آگے فضول کے سوال کئے جائیں۔۔۔

ابراہیم کو ناگوار تو گزرا لیکن پھر اسکے موڈ کا سوچ کر چپ چاپ گاڑی آگے بڑھا دی

کیا ہوا سب سیٹ؟؟؟ وہ کمرے میں آتے ہی بستر پر ڈھے سا گیا تھا تو لیپ ٹاپ پر کام کرتے حاشر نے اس سے پوچھا

ہممم۔۔۔۔۔وہ آنکھیں موندے اپنے بالوں پر ہاتھ پھیر کر رہ گیا

کیا ہممم بول بھی اب کیا ہوا ہے۔۔۔حاشر کو اسکی خاموشی عجیب لگی تھی اس لئے وہ کام چھوڑے سیدھا ہوکر بیٹھا۔۔۔

ردابہ نے خود سے ہماری شادی کی بات کی ہے۔۔ 

ہیں ؟؟؟؟سچ بول رہا حاشر اپنا کام چھوڑ کر اس تک آیا تھا۔

اتنی بڑی خبر ایسے سوکھے انداز میں کیوں دے رہا ہے؟؟

کیونکہ میں خود شاکڈ ہوں مجھے تو لگا تھا میں اسے پرپوز کرونگا یہاں تو الٹا ہی ہوگیا۔۔اس نے اپنے بالوں میں ہاتھ چلایا تھا 

ہاں تو کیا ہوا خیر ہے ماڈرن ایج ہے نا۔۔۔۔حاشر کو لگا وہ اس بات پر پریشان ہے

ابے بےوقوف یہ نہیں بول رہا بس میں نے کچھ اور سوچا ہوا تھا خیر اب جلد ہی اس سے بات کر کے دادو کو بتاؤ گا ورنہ اس بار وہ پکا کسی کو لے کر آجائیں گی اور نکاح پڑھوا دینگی وہ سڑے منہ سے بولا تھا۔۔

تو ظاہر ہے اٹھائیس سال کا ہوگیا ہے تو اب تو شادی کر لے۔۔۔ حاشر نے اسے جتایا تو وہ ہنس دیا

ہاں اب میں سیریس میں شادی کا سوچ رہا ہوں دادو کو بھی خوش کردوں

ارے گڈ میرا بچہ چل اب اسی بات پر آجا کھانا کھائیں میں نے پیزا آرڈر کیا ہے۔۔۔ حاشر کے پچکارتے پر وہ مسکرا دیا

تھینکس یار۔۔۔۔ وہ حاشر کا ہاتھ تھام کر باہر بڑھا۔۔۔

کوئی پریشانی ہے کیا؟؟؟حاشر کو ناجانے کیوں تسلی نہیں ہوئی تھی

پتا نہیں حاشر مگر کبھی کبھی ردابہ کا رویہ میری سمجھ میں نہیں آتا کبھی بہت اچھی تو کبھی بہت روڈ۔۔۔

خیر ہے یہ کونسی بڑی بات یار امیر باپ کی بیٹیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔۔

ایسا تو نہیں ہے

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

اوئے شیرنی نہیں کیا کر پھڈے فضول میں سب تجھے لڑاکا سمجھے گے…

علی نے اسے سمجھایا جو پورا راستہ بکتی آئی تھی

تو تو چپ کر وہاں اس کو سوری بول رہا تھا ارے یہ بڑے گھر کی لڑکیاں ہم لوگوں کو کیڑا سمجھتی ہیں ان کو اوقات دیکھانا بہت ضروری ہے۔۔۔غصے سے بولتے اس نے علی کو گھورا

اچھا نا چھوڑ بس اب غصہ تھوک دے آجا تجھے آئسکریم کھلاؤ۔۔

اسکا موڈ ٹھیک کرنے کی خاطر وہ اسے لئے شاپ تک آیا تینوں کے لئے آئسکریم لی پھر وہ گھر آئے تھے امل تو ڈائریکٹ گھر ہی آئی تھی جہاں زلیخا غصے میں بھری بیٹھی تھی

کچھ تجھے خیال نہیں ہے نا جوان جہاں لڑکی ایسے دندناتی پھرتی ہے کچھ الٹا سیدھا ہوگیا دنیا تھو تھو کرے گی مجھ پر۔۔۔اسے دیکھتے وہ پھٹ پڑی تھیں

ہاں تو تجھے دنیا کی فکر ہے اور اپنی کہ دنیا تجھے برا کہے گی تو فضول میں میری فکر کا ناٹک نہیں کیا کر

اور ویسے بھی دم گھٹتا ہے اس گھر میں میرا۔۔۔۔

ہاں تو جان کیوں نہیں چھوڑ دیتی شادی کر اور اپنے گھر جا۔۔

ہاں ہاں چلی جاؤں گی تم فکر نہیں کرو جب وقت آئے گا چلی جاؤں گی لیکن یہ مت سمجھنا یہ اس گھر پر تم اکیلی حکومت کرو گی

ہاں ہاں تیرا ہی گھر ہے رکھ تو سنبھال کر ارے میرے دم سے چلتا ہے یہ گھر ورنہ تو نے تو برباد کرنا تھا سب کچھ۔۔۔۔

وہ تو جیسے بھری بیٹھی تھیں

ارے رہنے دو برباد تو پہلے ہی سب ہے منحوس گھڑی تھی جب تم میرے باپ کی زندگی میں آئیں میری ماں کی جگہ تو تم پھر بھی نہیں لے سکی

وہ بھی مقابلے پر آگئی تھی۔۔۔

نور نے افسوس سے ان دونوں کو دیکھا جو ایک دوسرے سے اس طرح بات کرتی تھیں جیسے دشمن ہو

اس نے تکیہ میں منہ دے دیا کیونکہ ان دونوں کو سمجھانا اب بے کار تھا

وہ باہر سے لڑ جھگڑ کر اب اسکے برابر میں آکر لیٹ گئی

جان عذاب ہوگئی ہے😒

سوجاؤ آنسہ مجھے نیند آرہی ہے

ہاں تو مرو تم میں نے کب جگایا تمہیں وہ منہ بنا کر کہتی کروٹ لے کر لیٹ گئی

ایک آنسو اس کی آنکھ سے گرا وہ بہت مضبوط تھی زندگی کا مقابلہ کرنا جانتی تھی چھوٹی سی عمر میں ہی اس نے بہت کچھ سیکھ لیا تھا لیکن کبھی کبھی وہ کمزور پڑنے لگتی تھی لیکن ہمت کرنی تھی اسے جہاں وہ کمزور پڑی سب اسے زندہ رہنے نہیں دینگے۔۔۔۔

زلیخا نے اپنا کام شروع کردیا تھا اس لڑائی کے بعد وہ زیادہ تر وقت کتابوں میں گھسی رہتی انٹر تو اسے کرنا ہی تھا اسی لئے پیپرز تک اسنے اپنی ساری ایکٹیویٹی ترک کردی تھی

بس گھر میں رہ کر ہی اپنے کام کرتی رہتی علی اور شان سے بھی اس کی ملاقات نہیں ہوئی تھی روشنی البتہ آکر چکر لگا جاتی تھی

اسے ثابت کرنا تھا کہ وہ بھی کسی سے کم نہیں ہے

تین مہینے اس نے بس خود کو دئیے تھے سب حیران تھے کہ اسے کیا ہوا لیکن زلیخا سکون میں تھیں انکی جاب بہت اچھی چل رہی تھی محنتی تو وہ بہت تھی اس لئے انکا کام وہاں کے لوگوں کو پسند بھی بہت آرہا تھا وہ اپنے کام اور جگہ دونوں سے مطمئن ہوگئی تھیں

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

کیا ہوا؟ ابراہیم اس کے ساتھ ساحل پر آیا تھا جہاں اسکے لئے ابراہیم نے اسپیشل ارینجمٹ کروایا تھا

جسے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئی تھی تب ابراہیم نے اسکا ہاتھ تھاما اور خود گھٹنوں کے بل بیٹھا

ول یو میری می ؟؟؟؟

اس نے انگوٹھی اس کے آگے کی۔

وہ شاکڈ سے اسے دیکھنے لگی

کیا ہوا؟؟ اسے یوں خاموش کھڑا دیکھ اسے عجیب سا لگا تھا

کچھ نہیں ہوا بس حیران ہوں اتنا جلدی یہ سب۔۔۔۔ وہ مصنوعی سا مسکرائی

جلدی تو نہیں ہم اتنے سالوں سے ساتھ ہیں اور پھر اس دن تم نے ہی تو ہرپوز۔۔۔ اس نے بات ادھوری چھوڑی

اووو کم اے بی پرپوز کرنے میں اور شادی کرنے میں بہت فرق ہے پرپوز کر کے ہم سب میں کلیئر کردیتے کہ وی آر ان ریلیشن شپ اور شادی تو بہت بڑی کمٹمنٹ ہے جس کے لئے میں تو فلحال ریڈی نہیں ہوں

پر درا۔۔۔۔

پلیز اے بی ٹرائے ٹو ایڈرسٹینڈ می دیکھوں میں منع نہیں کر رہی تم سے شادی کے لئے بٹ  ابھی کچھ ٹائم چاہیے۔۔۔

ٹھیک ہے تم ٹائم لو لیکن ایٹلیس انگیجمنٹ تو کر سکتے ہیں نا

نہیں وہ بھی نہیں اور پلیز فیملی کو ابھی کچھ بھی مت بتانا۔۔۔

خیر ابھی چلو یہاں سے مجھے کچھ کام ہے وہ بیگ اٹھا کر آگے بڑھ گئی لیکن وہ وہی کھڑا تھا وہ سمجھ رہا تھا اسے ٹائم چاہئے ظاہر ہے شادی اتنی جلدی تو ہوتی نہیں ہے

لیکن خود بول کر اس طرح کرنا اسے سمجھ نہیں آیا تھا

اسے گھر ڈراپ کر کے وہ فلیٹ آیا تھا جہاں حاشر وڈیو کال پر بات کرنے میں مصروف تھا وہ اتنی فرصت سے دادی سے ہی بات کرتا تھا اسنے حاشر کو اشارہ کیا کہ اس کا نا بتائے ورنہ شادی لیکچر پھر شروع ہوجانا تھا

کیا ہوا موڈ کیوں آف ہے؟؟؟فون بند کرتا وہ اس کی طرف مڑا تھا

نتھنگ تو بتا کیا ۔۔۔۔

جھوٹ تو بولا بھی مت کر مجھ سے

دادی کیا بول رہی تھیں ؟؟؟؟

وہی تیری شادی اور اس بار وہ حد سے زیادہ سیریس ہیں

تو کیا کرو میں ردابہ ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی اسے ٹائم چاہیے میں یہ بات دادی کو بول بھی نہیں سکتا عجیب مسئلے میں پھنس گیا ہو میں۔۔ 

ردابہ نے صاف منع کردیا ہے ابھی فیملی میں بتانے سے۔۔۔وہ بیزار ہوا تھا

میرے پاس ایک حل ہے۔۔۔ حاشر کے بولنے پر اس وہ ایک دم چونک کر اٹھا تھا

کیا؟؟؟؟

تھوڑا رسکی ہے…

تو بول نا یار۔۔۔۔وہ بےچین ہوا تو حاشر نے لمبا سانس کھینچا

تو دادی کو بول تونے یہاں شادی کرلی ہے۔۔پٹاری میں سے بم نکلا تھا

دماغ خراب ہے تیرا؟؟۔ وہ ایک دم بھڑکا تھا

سن تو لے یار۔۔۔حاشر نے یوں اسکے غصے پر برا منایا تو وہ سر ہلا گیا

دیکھ تو دادی کو یہ بولے گا تو ظاہر ہے انہیں برا لگے گا ناراض ہونگی تو کچھ عرصے تک تجھے ٹائم مل جانا پھر بعد میں ردابہ کے مانتے ہی بول دینا کہ میں نے مذاق کیا تھا کون سا دادو نے یہاں آکر تیری وائف کو دیکھنا اور ان کی ناراضگی کا تو تجھے ویسے ہی پتا ہے۔حاشر کی بات اسکے دل کو لگی تھی

آئیڈیا برا نہیں یار وہ متاثر ہوا تھا اس آئیڈیا سے

ویسے بھی اگر دادی ایک بار ناراض ہوجائے تو پھر بہت مشکل سے مانتی ہیں اور میرے پاس اتنا ٹائم ہوگا کہ ردابہ مان جائے تب تک میں خود بھی کانٹیکٹ نہیں کرونگا۔۔وہ آگے کی پیلنگ کررہا تھا

واہ یار حاشو میری جان وہ اسکے گلے لگا

اچھا اچھا زیادہ نہیں

ویسے یہ کام کرے گا؟؟؟اس نے حاشر کو دیکھا

بلکل۔۔۔۔

چل پھر سوچتے کیا کرنا اگے

وہ دونوں اپنی پلینگ میں مصروف تھے یہ جانے بغیر کے کاتب تقدیر پہلے ہی ان کے لئے سب لکھ چکے ہیں ۔۔۔۔۔۔

وہ کافی دونوں سے نوٹ کر رہی تھی کہ زلیخا کافی سست سست رہنے لگی ہے ہر وقت سر میں درد رہتا تھا نور کو کئی بار اس نے پوچھنے کے لئے بھیجا بھی تھا

تو خود کیوں نہیں پوچھ لیتی جب اتنی فکر ہے

مجھے تو فکر نہیں تیری ماں ہے اس لئے بول رہی

اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نور نے اچھا کو کافی لمبا کھینچا تو اس نے نور کی کمر پر ایک دھپ رسید کی۔۔۔

ہاں۔۔۔۔۔ اب اٹھ اور جا کر روٹی بنا

تو خود بھی کچھ کرلیا کر سارے کام مجھ سے کرواتی ہے ساس جوتے مارے گی

ابے چل مجھے مارنے والا ابھی پیدا نہیں ہوا

ہاں ہاں وہ تو وقت آنے پر پتا چلے گا

وہ دونوں اپنی باتوں میں ہی لگی ہوئی تھیں تبھی زلیخا کی آواز آئی وہ نور کو بلا رہی تھی

جی امی۔۔۔

میں جارہی ہوں گھر کا خیال رکھنا بیٹا

پر امی آپ کی تو طبیعت ٹھیک نہیں نا…

ارے کچھ نہیں ہوتا ٹھیک ہوں میں دوا لی ہے ٹھیک ہوجاؤنگی

وہ اسے بول کر گھر سے نکل گئی۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

وہ دونوں لاونج میں بیٹھے ٹی وی دیکھنے میں مصروف تھے تبھی ابراہیم کا موبائل رنگ ہوا

نمبر دیکھ کر اس نے حاشر کو ہلایا

کیا ہوا؟؟؟

دادو ہیں.. کیا کروں۔۔۔۔

مجھے دے میں بات کرتا ہوں حاشر نے اسکے ہاتھ سے موبائل لیا

اسلام وعلیکم دادو کیسی ہیں ؟

وعلیکم السلام ٹھیک ہوں میں بیٹا تم کیسے ہو؟

میں بھی ٹھیک دادو۔۔وہ مسکرایا تھا

ابراہیم کہا ہے بیٹا؟؟

جی دادو وہ واشروم میں گیا ہے

ہمم بات کراؤ میری آئے تو۔۔۔

جی ٹھیک ہے اس کے آتے ہی کال بیک کرتا ہوں میں۔۔

کال بیک نہیں حاشر مجھے ابھی بات کرنی ہے۔۔ انکا لہجہ ایک دم سخت ہوا

جی جی دادو کرواتا بات یہ لیں آگیا اس نے جلدی سے موبائل اسکی طرف بڑھایا کہ کہیں دادو اس پر ہی غصہ نا اتار دیں

اسلام وعلیکم دادو۔۔۔ اس نے حاشر کو گھورتے ہوئے موبائل کانوں سے لگایا۔۔

وعلیکم السلام دادی اتنی بری ہوگئی کہ اب بات نا کرنے کے بہانے بنانے کی ضرورت پڑ گئی۔۔وہ سخت خفا تھیں

نہیں نہیں دادو ایسی کوئی بات نہیں۔۔وہ گڑبڑایا

ایسی ہی بات ہے بوڑھی دادی اتنی بری ہے تو بول دو نا۔۔۔

دادو ایسا نہیں۔وہ۔منمنایا 

تو کیسا ہے ہاں کیوں نہیں مانتا شادی کے لئے بول۔۔۔

دادو۔۔۔۔۔وہ بے بس ہوا تھا

نہیں بس ابراہیم اب تو کرے گا شادی بس جلدی میں رشتہ لے کر جارہی کنزہ کی نند کے لئے۔۔

دادو میں یہ شادی نہیں کرسکتا۔۔وہ ایک دم بولا تھا

کیوں نہیں کرسکتا؟؟؟ وہ بھی بھڑکی تھی

کیونکہ میں نکاح کر چکا ہوں جھوٹ پٹارے سے نکل چکا تھا اب بس انتظار تھا دادی کے ریکشن کا۔۔۔۔

لیکن انہوں نے بنا کچھ بولے ہی فون بند کردیا

یعنی وہ ناراض ہوگئی تھیں

کیا ہوا ؟؟؟حاشر نے اسے فون کو گھورتے دیکھ تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر پوچھا

ابراہیم کے چہرے پر ایک دل فریب مسکان آئی۔۔۔

پلین سکسیس فل🥳🥳🥳

اس کے بولتے ہی حاشر نے فوراً بھنگڑے ڈالے۔۔۔

دیکھا میرا آئیڈیا….. حاشر نے فرضی کالر اٹھائے۔

ہاں میری جان مان گیا۔۔۔

تو ڈنر پکا نا میرا؟؟؟ حاشر کی ٹانگ کھانے پر ہی ٹوٹی

ابے ہاں نا چل میں جارہا ہوں کل ملتے ہیں

کہاں جارہا ہے؟؟

ردابہ کی طرف انوائیٹیڈ ہوں

اوہو بڑے مزے آرہے کبھی ہم غریب کو بھی لے جایا کرو

غریب بولنے سے پہلے اپنی شکل دیکھ لیا کر تو آئینے میں۔۔

وہ حاشر کو جواب دیتا ردابہ کی طرف کے لئے نکلا تھا

پارٹی ایک کلب میں ارینج کی گئی تھی اس کی نظر ردابہ پر پڑی جو سلیو لیس میکسی پہنی ہوئی تھی جو اتنی فٹ تھی کہ خدوخال سارے نمایاں تھے

وہ اس تک آیا تو وہ مسکراتے ہوئے اس نے گلے لگی

کم ان اے بی لیٹس ڈانس۔۔۔۔

وہ کافی بہترین ڈانس کرتی تھی ابھی بھی فلور پر اسکا ہی قبضہ تھا

کافی دیر تک وہ اسکے ساتھ اس رنگین دنیا میں کھویا رہا وہ پارٹیز میں جانا پسند نہیں کرتا تھا لیکن ردابہ کے لئے سب کر سکتا تھا

ناجانے ایسی کونسی بات تھی جس کی وجہ سے اسے ردابہ سے محبت ہوگئی تھی

جتنی وہ حسین تھی کسی کو بھی اس سے محبت ہوسکتی تھی۔

افس کے بعد اسکا سارا وقت آج کل ردابہ کے ساتھ ہی گزر رہا تھا

اس نے ماڈلنگ اسٹارٹ کرنے کا فیصلہ کیا تھا

ردابہ یہ پروفیشن اچھا نہیں ہوتا تم نہیں کرو گی ماڈلنگ۔۔۔۔وہ دوٹوک انداز میں بولا تھا

تم کون ہوتے مجھے بتانے والے کے مجھے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں وہ اسکی طرف دیکھ کر بولی انداز عجیب ہی تھا

آئی تھینک میں تمہارا۔۔۔

ویٹ ویٹ اب یہ مت کہنا کہ ریلیشن میں ہیں تو میں بول سکتا نو وے یہ میری لائف ہے اور اسے گزارنے کا طریقہ بھی میرا ہے جب میں تمہیں کسی چیز کے لئے نہیں روکتی تو تم کیوں؟ میں بولوں کے حاشر سے فرینڈ شپ ختم کردو تو کیا کردو گے۔۔۔۔

یہ کیسا سوال ہے؟؟؟ وہ جنجھلایا۔۔۔

نہیں چھوڑو گے۔۔ جانتی ہوں تو فضول میں آرگیو نہیں کرو ہم دونوں کی الگ الگ لائف ہے سو پلیز ڈونٹ انٹرفئیر

اس کا اچھا خاصا منہ بن گیا تھا ابراہیم کو اپنی بات پر شرمندگی ہوئی

اچھا سوری یار موڈ تو ٹھیک کرو

ہمم ٹھیک ہے میرا موڈ۔۔۔

کم ان یار…..

پلیز اے بی ابھی تم جاؤ مجھے بھی کچھ کام ہے وہ اپنا بیگ اٹھا کر وہاں سے نکل گئی تو وہ افسوس کرتا رہ گیا کہ کیا ضرورت تھی اسے اسکا موڈ خراب کرنے کی۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

کیا ہوا طبیعت ٹھیک ہے آپکی ؟؟ حاشر اندر راؤنڈ پر آیا تو زلیخا کو سر پکڑے دیکھ ان کے پاس آیا

جی وہ صاحب ٹھیک ہوں میں۔۔۔ اسے دیکھ زلیخا جلدی سے بولی تھی مبادہ نوکری ہی نا چلی جائے

زلیخا بی آپ ٹھیک نہیں لگ رہی ہیں مجھے۔۔

نہیں نہیں بس وہ ایسے کام تھوڑا زیادہ تھا تو تھک گئی

ہمم آپ تھوڑی دیر ریسٹ کرلیں کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے حاشر کے بولنے پر وہ اسکی شکر گزار ہوتی اندر ریسٹ روم میں چلی گئیں

وہ ابھی اپنے کیبن کی طرف بڑھا ہی تھا کہ موبائل رنگ ہونے لگا

فون پر نظر پڑتے ہی اسکی جان نکلی تھی

دادی کا نمبر تھا

اسنے موبائل سائلنٹ پر لگایا اور آگے بڑھ گیا تبھی نیچے شور کی آواز سن کر وہ واپس پلٹا تھا جہاں زلیخا ہوش و حواس سے بیگانہ پڑی تھیں سارے ورکر ان کے اردگرد جمع تھے

ہٹیں پلیز وہ سب کو ہٹاتا آگے آیا۔۔۔۔

ان پر پانی کے چھینٹے مارے مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا

انہیں اٹھا کر باہر لایا اور گاڑی میں ڈال کر ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی تھی

اجمل ان کے گھر کال کر کے انفارم کرو۔۔ کلرک کو بول کر وہ تیز اسپیڈ سے گاڑی بھگا کر لے گیا

اسکے پیچھے اجمل نے گھر پر کال کر کے انہیں فوراً اسپتال آنے کا کہا تھا

وہ دونوں فوراً اسپتال آئیں تھی نور کا تو رو رو کر برا حال تھا آنسہ اسے سنبھالے ہوئے تھی دل تو اسکا بھی رونے کو تھا مگر خود کو کمزور ثابت کرنا اسکی فطرت میں نہیں تھا

حاشر کو دیکھ کر وہ چونکی تھی لیکن ایسے ظاہر کیا کہ پہچانی نا ہو

نور حاشر کی طرف بڑھی تھی 

سر میری امی؟؟؟؟ 

اندر ہیں ٹریٹمنٹ چل رہا ہے ابھی تک ڈاکٹرز نے کچھ نہیں بتایا۔۔

وہ پریشان سی بینچ پر بیٹھ گئی آنسہ کیا ہوگیا ہے اماں کو؟؟ اس کی آنکھیں نم تھیں 

کچھ نہیں ہوا ہے ٹھیک ہو جائیں گی تو پریشان نہیں ہو ابھی ڈاکٹر آکر بتائیں گے نا۔۔۔اس نے تسلی تو دی تھی مگر اپنا دل خود پریشان تھا اسکا۔۔۔

تبھی ڈاکٹر باہر آئے تھے۔۔۔ 

پیشنٹ کے ساتھ کون آیا یے؟؟؟ ڈاکٹر نے بولنے پر وہ دونوں آگے بڑھی تھی 

آپ کے ساتھ کوئی جینٹس نہیں ہے۔۔۔ 

میں ہوں ڈاکٹر ان کے کچھ بولنے سے پہلے ہی حاشر سامنے آیا تھا 

آپ کیبن میں آئیں میرے ساتھ۔۔۔

یہ ہمارے کچھ نہیں لگتے میں بیٹی ہوں ان کی آپ مجھ سے بات کریں۔۔۔

حاشر کو آگے بڑھتا دیکھ وہ آگے بڑھ کر بولی تھی 

آپ بھی آجائیں پھر۔۔ ڈاکٹر ایک نظر اس پر ڈال کر بولتا آگے بڑھ گیا 

میں آؤں کیا آنسہ؟؟؟نور کے پوچھنے پر اسنے نفی میں سر ہلایا 

نہیں تو یہاں بیٹھ اور دعا کر ٹھیک ہے نا وہ اسکا گال تھپتھپا کر حاشر کے ہم قدم ہوئی..

آئیں بیٹھیں ان کے اندر آتے ہی ڈاکٹر نے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود اپنی سیٹ سنبھالی۔۔

دیکھیں گھوما پھیرا کر بات کرنے کا فائدہ نہیں ہے اس لئے سیدھی بات کرونگا۔۔

آپ کے پیشنٹ کے ٹیسٹ اچھے نہیں آئے ہیں۔۔

کیا مطلب؟؟ حاشر نے نا سمجھی سے انہیں دیکھا 

انہیں برین ٹیومر ہے۔۔۔ 

ڈاکٹر کے الفاظ نے گویا اسکی قوت گویائی چھیینی تھی وہ یک ٹک بس ڈاکٹر کو ہی دیکھے جارہی تھی۔۔۔۔

ایک پہاڑ تھا جو سر پر گرا تھا وہ اسکی سگی ماں نا سہی مگر ماں تو تھی نا حاشر نے پریشانی سے اسے دیکھا جو اب اپنے ہاتھوں کو گھورنے میں مصروف تھی۔۔

ڈاکٹر کنڈیشن کیا ہے؟ مطلب وہ ٹھیک تو ہو سکتی ہیں نا؟؟ 

دیکھیں آپریشن کے بعد ٹھیک ہوسکتی ہیں لیکن ان کی ایج کی وجہ سے چانسز کم ہیں لیکن اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپریٹ ہو تو جلد از جلد کروائے کیونکہ جتنا ٹائم لگے گا اتنا ہی ان کی جان کو خطرہ ہے 

ڈاکٹر پروفیشنل انداز میں انہیں بتا رہا تھا جس کے دماغ میں اب نور تھی کہ اسے کیسے بتائے گی وہ یہ سب۔۔۔

وہ مردہ قدموں سے باہر آئی تھی۔۔

آپ کی مدر ٹھیک ہو جائیں گی ڈونٹ وری۔۔ حاشر کے بولنے پر اس نے صرف سر ہلایا تھا۔۔

امل۔۔ کیا ہوا ہے اماں کو کیا بولا ڈاکٹر نے۔۔؟؟؟

انہیں باہر آتا دیکھ نور اس کی جانب لپکی تھی اور اب پہ در پہ سوال کر رہی تھی 

ٹھیک ہو جائیں گی وہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔۔

تو کیوں ہوا ایسا کچھ بتایا نہیں ڈاکٹر نے۔۔ وہ بے چین تھی اپنی ماں کی خیریت کے لئے۔۔

نور گھر جاکر کرلینا سوال ابھی گھر جاؤ۔اس نے سختی سے کہا تھا

لیکن۔۔۔ 

کوئی لیکن ویکن نہیں تم جاؤ ابھی اسکے سختی سے کہنے پر وہ آنے کو تیار ہوئی تھی۔۔۔

کتنا خرچا ہوگا ڈاکٹر میری ماں کے آپریشن پر۔۔ وہ ایک بار بھی ڈاکٹر کے کیبن میں موجود تھی 

دیکھیں بڑی سرجری ہے تو دس سے پندرہ لاکھ لگے گے زیادہ بھی ہوسکتے ہیں 

اور جتنی جلدی ہوسکے آپریشن کروا لیں۔۔ڈاکٹر کی بات پر اس کے دل پر گرہ پڑی تھی

جی شکریہ۔۔ وہ وہاں سے اٹھ کر اپنی ماں کے پاس آئی تھی  جو دوائیوں کے زیر اثر بے ہوش پڑی تھی 

کیسا عجیب تعلق رہا تھا ان کا کبھی بے حد اچھے ہوتے ایک ساتھ تو کبھی بہت برے وہ اسے ماں سمجھتی تھی اپنی لیکن ان کے بدلے رویے نے اسکا دل خراب کردیا تھا نفرت نہیں کرتی تھی وہ ان سے بس انہیں تنگ کرتی تھی لیکن ان کے لئے دل میں موجود محبت کو وہ چاہ کر بھی ختم نہیں کرسکتی تھی آج اسے اپنا دل ڈوبتا محسوس ہوا تھا کیسے بتائی گی وہ سب کو۔۔۔

آج وہ مضبوط لڑکی کمزور پڑی تھی۔۔۔

ڈاکٹر نے ڈسچارج پیپر ریڈی کردیے ہیں تھوڑی دیر بعد آپ انھیں لے جاسکتی گھر۔۔

حاشر کی آواز پر وہ خیالات سے باہر آئی تھی 

ہمم ٹھیک۔۔

میں ہوں یہاں ان کو ہوش آجائیں تو آپ مجھے بلا لیجئے گا 

سہی۔۔۔ ایک لفظی جواب دے کر وہ پھر دروازے کے پار اس بے ہوش وجود کو دیکھنے لگی۔۔۔

ایک گھنٹے بعد انہیں ہوش آیا تو وہ حاشر کی مدد سے اسے لے کر گھر آئی تھی ڈاکٹر نے انہیں دماغی کام کرنے سے منع کردیا تھا 

اسے بس ان کے علاج کی فکر تھی اتنا پیسہ کہاں سے آئے گا یہ سوچ سوچ کر وہ پاگل ہوگئی تھی

علی اور شان کو پتا چلا تو وہ بھی افسردہ ہوگئے تھے لیکن وہ بھی کچھ نہیں کرسکتے تھے بس اتنا کیا کہ اس کے ساتھ مختلف ہاسپٹل کے چکر لگائے تاکہ علاج کے بارے میں اچھے سے معلومات لے سکیں ہر کوئی منہ پھاڑ کر پیسا بتا رہا تھا 

کیسے مرنے دوں اسے جس نے بھلے برے دل سے ہی مگر میری پرورش کی۔۔ وہ اداسی سے بینچ سے ٹیک لگاگئی

امل تیرے اداس ہونے سے کیا ہوگا تو بس پریشان نہیں ہو ان کے کام والی جگہ پر معلوم کر کیا پتا مدد کردیں ۔۔

روشنی نے اسے مشورہ دیا تھا

اس کی بات پر چونکی ضرور تھی مگر کچھ ظاہر نہیں۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

وہ گھر آیا تو گھر میں کافی سناٹا تھا سر درد سے پھٹ رہا تھا آج تو حاشر بھی پتا نہیں کہا غائب تھا 

ردابہ سے بھی اسکی کوئی بات نہیں ہوئی تھی وہ بھی منہ بنا کر بیٹھی تھی 

وہ تھکا ہارا صوفے پر ڈھے سا گیا اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ اٹھ کر پانی پی سکے۔۔

وہی صوفے میں بیٹھے بیٹھے اس نے آنکھیں موند لی تب کہیں جاکر تھوڑا دماغ کو سکون ملا تھا 

ایک بات کے لئے جھوٹ بولنے پر بھی اسکا دل خفا تھا لیکن یہ بھی تو اسکی ایک مجبوری ہی تھی۔۔

وہ کافی دیر وہی بیٹھا رہا پھر اٹھ کر کچن میں آیا اپنے لئے کافی بنائی آج شدت سے اپنے گھر کی یاد آرہی تھی لیکن کال کیسے کرتا دادی کو تو خود ناراض کر کے بیٹھا تھا۔۔

کافی پی کر اسنے تھوڑا سکون محسوس کیا تو فریش ہونے کے بعد بستر پر لیٹ گیا آج حاشر سے بھی کوئی بات نہیں ہوئی تھی وہ پتا نہیں کہاں غائب تھا 

اس نے موبائل سائیڈ سے اٹھا کر حاشر کا نمبر ڈائل کیا لیکن جواب میسر نا ہونے کی صورت میں وہ موبائل رکھ کر واپس لیٹ گیا 

دھیان کے سارے دھاگے ردابہ سے جڑے تھے 

وہ اسکی پسند تھی محبت تھی وہ کبھی ایسا انسان نہیں رہا تھا جو بے بات پابندی لگائے یا کچھ بھی وہ شروع سے آزاد خیال تھا اور اسے ردابہ کی سوچ نے ہی متاثر کیا تھا لیکن اب اسے پتا نہیں کیوں وہ چیزیں پسند نہیں آرہی تھیں جو ردابہ کے لئے معمولی بات تھی وہ یہ سب کرنے کی عادی تھی لیکن وہ تو نہیں تھا پھر بھی اس نے کوئی روک ٹوک نہیں کی اور اب کی تو ردابہ نے تو اسکی سننے سے ہی منع کردیا۔۔۔

دادی سے بھی اتنا بڑا جھوٹ بول چکا تھا پتا نہیں کیا بننا تھا اس کی زندگی کا۔۔۔

یہ سب سوچتے سوچتے وہ جب نیند کی وادی میں گیا اسے پتا بھی نہیں چلا

صبح معمول کے حساب سے اس کی آنکھ دیر سے کھلی تھی کتنی ہی دیر تو وہ غائب دماغی سے لیٹا رہا عجیب سستی و کسلمندی چھائی ہوئی تھی 

کافی دیر بعد وہ بستر سے اٹھا تھا دادی کی یاد ایک بار پھر آئی تھی لیکن فون بھی نہیں کرسکتا تھا

بے بسی سے لب کاٹے تھے اس نے

موبائل چیک کیا تو حاشر کا میسج آیا ہوا تھا وہ اسے کال کرتا رہا تھا مگر وہ موبائل سائلنٹ پر لگا کر سویا تھا کیونکہ دل ہی نہیں تھا کسی سے بھی بات کرنے کا۔۔

وہ اٹھ کر فریش ہوا تھا ناشتے کے نام پر اسنے جوس کا ایک گلاس پیا تھا 

بوتیک آیا تو اسے کل کے واقعے کا حاشر سے پتا چلا افسوس بھی تھا اسے بہت ۔۔

کیونکہ کم وقت میں ہی زلیخا نے کافی متاثر کیا تھا انہیں اپنے کام سے 

ان کے علاج کا جو بھی خرچا ہے وہ ہم دیں گے حاشر مجھے ان کے فیملی بیک گراؤنڈ کا پتا ہے اتنے اسٹیبلش نہیں ہیں کہ اپنا علاج کرواسکیں۔۔

ہممم بات تو ٹھیک ہے لیکن ابھی ایک اور اہم مسئلہ ہے جو ہمیں درپیش ہے؟ 

حاشر کے بولنے پر اس نے ناسمجھی سے حاشر کو دیکھا تھا

دادو….. حاشر نے اپنا موبائل آگے کیا جہاں کافی ساری کالز تھی دادی کی نمبر سے 

شٹ۔۔۔ اس نے سر تھاما تھا دادو کی کال آنا مطلب ایک اور مصیبت ان کی منتظر تھی

کیا کرنا ہے اب؟؟ 

دعا کر وہ پاکستان نا آئیں ورنہ بہت بڑا مسئلہ بن جانا ہے ہمارے لئے 

بس دعا ہی کرسکتے ہیں حاشر نے بول کر اپنا رخ لیپ ٹاپ کی جانب کیا تھا تبھی انٹر کام بجا تھا 

سن میں راؤنڈ پر جارہا ہوں تو ڈیل کرلینا سب کو۔۔ حاشر کو بول کر وہ اٹھ کر باہر نکل گیا تو حاشر نے انٹر کام اٹھایا 

سر آپ سے زلیخا بی کی بیٹی ملنے آئی ہیں ۔۔

جی آپ بھیجیں انہیں۔۔ اس نے فوراً اجازت دی تھی

تبھی تھوڑی دیر بعد ڈور ناک ہوا تھا۔۔

یس۔۔ اسنے لیپ ٹاپ میں دیکھتے ہوئے آنے والے کو اجازت دی تھی 

تبھی اس کے کانوں میں چوڑیوں کی کھنک سنائی دی تھی

اس نے لیپ ٹاپ سے نظر اٹھا کر سامنے دیکھا تو نظریں پلٹنا بھول گئی تھیں 

کالے رنگ کے لباس میں اسکا رنگ دمک رہا تھا کاجل سے بھری آنکھیں نازک سا سراپا ہاتھوں میں موجود کالی چوڑیاں سوگوار سا حسن سیدھا اس کے دل میں اترا تھا وہ تو بس یک ٹک ہی اسے دیکھے جارہا تھا اور وہ بچاری اس کے اس طرح دیکھنے پر کنفیوز سی انگلیاں چٹکھانے لگی تھی 

وہ۔۔۔ اس نے دروازہ بجایا تو وہ جیسے ہوش کی دنیا میں آیا تھا 

جی۔۔جی پلیز آئیں اس نے ہڑبڑا کر کہا سمجھ ہی نہیں آیا کہ ہوا کیا ہے 

وہ آہستہ سے آکر اس کے سامنے بیٹھ گئی آنکھیں لال ہورہی تھیں شاید وہ سارا راستہ روتی آئی تھی 

مس نور کیا ہوا ہے؟ زلیخا بی ٹھیک ہیں۔۔۔

اس کے اس طرح بولنے پر وہ اور شدت سے رو دی کہ وہ بوکھلا گیا 

آپ سب نے جھوٹ بولا مجھے نہیں بتایا میری اماں کو کیا بیماری ہے ان کا علاج بھی نہیں ہوسکتا امل بہت محنت کر رہی پیسوں کے لئے آپ پلیز میری اماں کا علاج کروائیں نا ہم بہنیں مل کر آپکا قرضہ دے دینگی۔۔

وہ ایک ہی سانس میں ساری بات کرگئی تو وہ مبہم سا مسکرایا 

آپ کو ان کے لئے فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ہم سے جتنا ہوگا ہم کریں گے اس طرح روئیں نہیں پلیز۔۔۔ نور کے رونے سے اسکا دل ڈوب رہا تھا 

سچی آپ اماں کا علاج کروائیں گے؟؟؟ اس کے لہجے میں بچوں کی سی خوشی تھی اس کے اس طرح پوچھنے پر اس نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا تھا 

تھینک یو سو مچ تھینک یو فرط جذبات سے اس کی آواز رندھ گئی تھی 

لیکن اب رونا نہیں ہے آپ نے اسے دوبارہ آنسو بہاتا دیکھ وہ بولا تو وہ جھینپ گئی

حاشر نے یہ دھوپ چھاؤں کا منظر دل میں اتارا تھا 

اور یوں حاشر مراد نور کامران سے دوسری نظر کی محبت کا شکار ہوا تھا پتا نہیں پہلے دیکھا نہیں تھا یا شاید دل ایک خاص وقت چاہتا تھا

لیکن آپ یہ کسی کو مت بتانا کہ میں آپ کے پاس مدد کے لئے آئی تھی پلیز وہ ملتجی انداز میں بولی تھی۔۔جاتے جاتے وہ واپس پلٹی تھی 

آپ فکر مت کریں یہ بات آپ کے اور میرے درمیان رہے گی ۔۔وہ اسکی اس بات کا پس منظر سمجھتا تھا

تھینکس۔۔ اب میں چلتی ہوں اپنی بات بول کر وہ جلدی سے اٹھی تھی مبادہ کسی کو اس کے آنے کا پتا چل جائے 

اللّٰہ حافظ۔۔۔۔

وہ فل اسپیڈ سے وہاں سے نکلی تھی دل میں ایک امید سی جاگی تھی کہ اب سب ٹھیک ہو جائے گا ماں کی بیماری کا تو اسے تبھی پتا چل گیا تھا جب امل نے علی اور شان کو بتایا تھا اس وقت وہ بس چپ روتی رہی تھی مگر اینڈ کی بات پر اسنے فوراً عمل کیا تھا اور بنا وقت ضائع کئے وہ آج یہاں آئی تھی دل درد سے پھٹ رہا تھا مگر اب تھوڑا سکون تھا کہ اماں کا علاج ہوسکتا ہے وہ ٹھیک ہوسکتی ہیں اسی امید کے سہارے وہ وہاں سے نکلی تھی

لیکن ابھی امتحان باقی تھے۔۔۔۔

وہ خاموش سا کیبن میں بیٹھا تھا تبھی ابرہیم اندر آیا تھا اسے اس طرح گم صُم بیٹھے دیکھ اس نے اسکا کندھا ہلایا 

کہاں گم ہے؟؟

کہیں نہیں تو بتا کچھ سوچا کیا کرنا ہے اگے؟؟ 

کیا سوچنا دماغ نے تو ساتھ دینا ہی چھوڑ دیا ہے سچ بولوں تو بہت گلٹی فیل ہورہا ہے یار اس طرح جھوٹ بول کر۔۔۔ 

ردابہ کیا بولتی ہے؟؟

بات نہیں ہوئی اس موضوع پر میری… 

کیا مطلب؟؟ تو پاگل ہے ابرہیم تو نے اتنا بڑا جھوٹ جس کے لئے بولا اسے بتایا تک نہیں؟؟

وہ بزی تھی تو۔۔۔

تو؟؟؟؟ مطلب میں نے یہ اس لئے بولا کہ جب تک دادو آئیں گی تب تک ردابہ سے تیری ساری بات ہوجانی ہے یا تو سنبھال لے گا

وہ اچھا خاصا تپ گیا تھا

میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں مزید مت کر یار وہ واقعی پریشان تھا اب کچھ نا کچھ تو اسے کرنا ہی تھا لیکن سوچنے کے ابھی اسے مزید ٹائم چاہیے تھا۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

کہاں گئی نور بیٹا مجھے پانی دے۔۔ وہ کب سے سو رہی تھیں پیاس لگی تو نور کو آواز دی

یہ لو۔۔۔ اس نے پانی کا گلاس دیا تو زلیخا بی نے اسے دیکھا 

بجھی ہوئی کیوں لگ رہی ہے امل؟؟؟

 ان کے بولنے پر اس نے ایک نظر انہیں دیکھا 

تم ایسے لیٹی ہو لڑو مجھ سے تو تھوڑی رونق لگے اب ایسے پڑی رہوگی تو ایسا تو ہوگا ہی نا وہ منہ بنا کر بولی تو وہ ہنس دی 

ٹھیک ہو جاؤں گی میں فکر مت کر میری۔۔۔۔ 

تمہاری فکر کسے ہے میں تو اپنے لئے پریشان ہو سکون اچھا نہیں لگ رہا

وہ کہاں باز آتی تھی اس کی بات پر وہ ہنس دی 

کرلے یہ بھی مرے مرنے کے بعد۔۔۔

کتنا فضول بولتی ہو سوتیلی چپ کر کے پانی پیو اور آرام کرو دماغ نہیں کھاؤ میرا۔۔۔ اسکی بات کاٹ کر وہ غصے سے بولی تھی

وہ بھلے سگی ماں نہیں تھی لیکن ایک سہارا تو تھا نا اسے اس طرح دیکھ اسکا دل پھٹ رہا تھا 

ان کی طبعیت میں کوئی سدھار نہیں تھا وہ متفکر تھی ان کی صحت کو لے کر 

اس نے علی اور شان سے گھر بیچنے کی بات کی تھی لیکن اتنی جلدی گھر بیچنا ناممکن تھا دوکان بھی بیچنے کے لئے کم از کم اسے دو مہینے رکنا پڑتا کیونکہ کرایے دار کی روزی کا سوال تھا

آج پہلی بار اسے بڑے بھائی اور باپ کی کمی شدت سے کھلی تھی 

اب ایک آخری حل وہی تھا جو علی اور شان نے بتایا تھا اپنی انا کو کچل کر اسے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے پڑ رہے تھے 

وقت واقعی کبھی کبھی بہت ظالم ہوتا ہے اور لوگ اسے مزید مشکل بنادیتے ہیں بیماری اگر امیر کو ہو تو وہ صرف زندگی کی پرواہ کرتا ہے کہ پیسہ ہے وہ بچ سکتا ہے 

لیکن اگر غریب بیمار ہو تو اسے ہزاروں فکریں ستاتی ہیں علاج کیسے ہوگا پیسے کہاں سے آئیں گے اگر کچھ ہوگیا تو بچوں کا کیا ہوگا گزارہ کیسے ہوگا بیماری سے زیادہ تو اسے یہ سوچیں مار دیتی ہیں

اس لئے اس نے زلیخا بی کو ابھی کچھ نہیں بتایا تھا جب تک پیسوں کا انتظام نہیں ہوجاتا وہ اور ہی فکروں میں گھلی رہتی لیکن وہ بھی اسی کی ماں تھی انہیں اتنا تو اندازہ تھا کہ کوئی بڑی بات ہے جو چھپائی جارہی یے

مگر پوچھنے کی ہمت خود میں پاتی تھیں مبادہ کوئی ایسی بات نا ہو جسے سن کر وہ ہمت ہار جائیں کیونکہ اگر وہ ہمت ہار گئی تو ان سب کا کیا ہوگا ۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

نا چاہتے ہوئے بھی اس نے حاشر سے مدد لینے کا فیصلہ کیا تھا۔۔ 

زلیخا کو اس نے بہت ہمت کرکے بتایا تو وہ بس چپ ہوگئی البتہ نور جان کر بھی پھر سے روئی تھی ولید اور عریشہ تو ابھی چھوٹے تھے انہیں ویسے بھی بہت جلد یہاں سے چلے جانا تھا ان کے بڑے ماموں نے ان کی زمہ داری لی ہوئی تھی کیونکہ وہ بے اولاد تھے

وہ اپنی طرف سے جتنا کرسکتے تھے کر رہے تھے سفید پوش تھے لیکن بہن کے لئے بہت کررہے تھے لیکن پھر بھی اتنی رقم وہ پھر بھی نہیں دے سکتے تھے جتنی زلیخا کے علاج میں خرچ ہونی تھی

 فلحال وہ حاشر سے ہی رابطے میں تھی اسی کے زریعے اسے دوسرے پارٹنر کا پتا چلا تھا وہ ان کی شکر گزار تھی کہ وہ اس کی مدد کر رہے تھے لیکن یہ بھی ایک قرضہ تھا جو اسے چکانا تھا 

گھر اور دوکان وہ بیچ ہی نہیں پائی تھی۔۔

تھوڑا تھوڑا ہی سہی مگر وہ محنت کر رہی تھی زلیخا بی کا علاج شروع ہوگیا تھا دوائیں مہنگی تھی لیکن وہ یہ خرچا اٹھا رہی تھی سرجری کے لئے انہوں نے حاشر سے پیسے قرضے کے طور پر مانگے تھے

سرجری اسی مہینے کی پندرہ تاریخ کو ہونی تھی لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ تاریخ اس کے لئے ایک نیا موڑ لائے گی۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

آبی ۔ابی۔۔۔۔۔ا بی۔۔۔ وہ تقریباً بھاگتا ہوا اس کے پاس آیا تھا 

کیا ہوا خیریت تو ہے؟؟؟ 

اس کی اسپیڈ دیکھ کر وہ بھی کھڑا ہوا تھا 

بہت برا پھسنے والے ہیں ہم یار شٹ شٹ شٹ۔۔۔۔۔۔ اس نے ہاتھ کا مکا بنا کر دوسرے ہاتھ پر مارا 

بتا بھی حاشر ہوا کیا ہے کیوں ٹائم ویسٹ کر رہا۔۔۔

اپنا برا وقت آنے والا ہے یار قسم سے ۔۔۔

تو بتائے گا بھی یا یونہی بکواس کرتا رہے گا۔  وہ غصے سے بولا تھا پیٹ میں ویسے ہی ہول ہورہی تھی 

دادو آرہی ہیں پاکستان۔۔۔۔

حاشر نے اس کے سر پر بم پھوڑا تھا۔۔۔ وہ بیچارہ تو گنگ رہ گیا 

کہاں سے لائیں گے تیری بیوی۔۔؟؟؟ یار آبی یہ آئیڈیا بہت بکواس تھا یار سوری وہ روہانسا ہورہا تھا 

ابرہیم کو تو جیسے سکتا ہوگیا تھا بالوں کو ہاتھوں میں جکڑ کر وہ وہی سیٹ پر بیٹھ گیا۔۔۔

سن تو ردابہ کو بول نا کہ وہ ہیلپ کرے۔۔

وہ بدحواس ہورہا تھا ابرہیم کو خود کو سنبھالنا پڑا تھا

ہمم اب بس یہی آخری راستہ ہے وہ پریشانی سے بولتا باہر کی جانب بڑھا تھا

ردابہ کو کال کی لیکن نمبر مسلسل مصروف جارہا تھا اس نے پریشانی سے ماتھا مسلا تھا

آخری کوشش کے طور پر اس نے نمبر ڈائل کیا جو ریسو کرلیا گیا 

کیا مصیبت ہوگئی تھی یار اتنی کالز ریسو نہیں کر رہی تو بزی ہی ہونگی نا حد ہوتی ہے ایک بات 

کال اٹھاتے ہی وہ اس پر برسی تھی جو پہلے ہی پریشان بیٹھا 

بہت ضروری بات کرنی ہے مجھے ردابہ لیسن مجھے ہیلپ چاہیے تمہاری کچھ۔۔

ابھی میں بزی ہوں اےبی بعد میں بات کرتی اس نے جان چھڑانی چاہی تھی 

پلیز ردابہ بات سنو وہ بے بس سا ہوا تھا 

اچھا بولو۔۔۔ اس نے احسان کیا تھا 

اس نے اسے اپنی پروبلم بتائی تھی پہلے تو دوسری طرف خاموشی چھائی رہی 

لیکن تھوڑی دیر بعد اسکا قہقہ گونجا تھا 

اوووو مائے گاڈ اے بی تم اتنے ڈرپوک ہو سوچا بھی نہیں تھا

وہ ہنسے جارہی تھی ابرہیم کو اسکا ہنسنا برا لگ رہا تھا 

دیکھو اے بی یہ تمہارے مسئلے ہیں گوگل کرو بہت آئیڈیاز مل جانے میں کل دبئی جارہی ہوں آل دا بیسٹ۔۔۔

اس نے اپنی کہہ کر فون ہی بند کردیا 

وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا تھا 

پھر ردابہ کی بات یاد آئی تو موبائل نکال کر گوگل کیا اور جو آئیڈیا سامنے آیا وہ سارے ہی دل جلانے والے تھے  تبھی موبائل رنگ ہوا تھا 

ردابہ کا میسج تھا جس نے اسے جلد آنے کا کہا تھا کہ وہ آکر شادی کریگی 

خوشی اور مصیبت ساتھ آئے تھے لیکن وہ پھر بھی خوش تھا آئیڈیا جو سامنے آیا تھا اب اس پر عمل کرنے کی دیر تھی

اب یہ کام خود ہی کرنا پڑے گا اس کا دماغ تیزی سے کام کررہا تھا اب آگے اس کے پاس بہت کم دن تھے اس پر عمل کرنے کے لئے۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

وہ خاموشی سے بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا تبھی حاشر باہر آیا۔۔

کہا جارہا ہے حاشر؟؟ 

ہاسپٹل جارہا ہوں یار آج زلیخا بی کو سرجری کی ڈیٹ کنفرم کرنی ہے تو بس وہی جارہا ہوں

ہمم ویسے پیسے دے دئیے 

ہاں لان کا کہا تھا انہوں نے تھوڑے تھوڑے کر کے دے دینگے ویل نا بھی دیں تو مسئلہ میں نہیں یہ میں اپنے اکاؤنٹ سے دے دوں گا غریب ہیں بچاری دو دو جوان بیٹیاں ہے ثواب ہی ملے گا 

ہممم اچھی بات ہے چل تو جا 

تو آفس نہیں جارہا؟؟ 

ہاں بس جارہا ہوں تو نکل میں بھی نکلوں گا تھوڑی دیر میں ۔۔

وہ حاشر کو بائے بول کر تیار ہونے چل دیا 

آفس پہنچ کر وہ کام میں کافی مصروف رہا تھا تبھی اسے کسی کے آنے کی اطلاع ملی 

اسکا دوست ارحم کافی ٹائم بعد اس سے ملنے آیا تھا 

وہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا 

کہا غائب تھا یار ۔۔

کہیں نہیں یار بس باہر ہوتا ہوں 

اوو گڈ ویسے کیا جاب کرتا وہاں ۔۔

آرام کرتا ہوں اور کیا وہ آنکھ مار کر بولا 

کہا مطلب ؟؟ 

ارے گرین کارڈ ہولڈر سے شادی کی مطلب پیپر میرج اور اب مزے تو بتا 

اس کی بات پر وہ حیران ہوا تھا 

کوئی پرابلم ہے؟؟ اس نے ابرہیم کو پوچھا تو وہ اسے اپنی پرابلم بتاتا گیا 

ارے تو اس میں کونسی مشکل ہے آج کل بہت ایسے طریقے بلکہ ایک طریقہ میں تجھے بتاتا اور جو طریقہ اس نے بتایا وہ ناچاہتے ہوئے بھی اسے ٹھیک ہی لگا تھا

لیکن میں؟؟ 

کچھ نہیں ہوگا ابھی میں ہوں یہاں سب ٹھیک کر کے جاؤں گا 

اسے بول کر وہ ہنس دیا تو وہ بھی ریلیکس ہوا تھا 

آج وہ لوگ زلیخا بی کو لے کر ہاسپٹل آئے تھے  آپریشن کی ڈیٹ فائنل ہوگئی تھی وہ حاشر کی بہت شکر گزار تھیں جو اتنا کچھ کر رہا تھا ان کے لئے 

ہاسپٹل سے وہ خود انہیں چھوڑنے آیا تھا 

نور تو بس اپنی اماں سے لپٹے پڑے تھی جیسے دوسرا کوئی کام ہی نا ہو حاشر اسے اس طرح کرتے دیکھ مسکرا دیا زرا بھی بناوٹ نہیں ان دونوں میں ایک جتنی غصے والی تھی دوسری اتنی ہی شانت 

اسے پہلی ملاقات کے برعکس کافی اچھی لگی تھی امل حق بات کہنے والی کسی سے نا ڈرنے والی وہ تو بڑا متاثر ہوا تھا ان سب سے 

زلیخا بی نے اسے زبردستی کھانے کے لئے روکا تھا اور وہ رک کر پچھتایا نہیں تھا کیونکہ کھانا واقعی بہت لذیذ تھا امل نے بہت زبردست کھانے بنایا تھا وہ تعریف کئے بغیر نا رہ سکا تھا۔۔

اچھا اب میں چلتا ہوں آپ بلکل بھی پریشان مت ہونا اللہ تعالیٰ سب ٹھیک کردیں گے آپ جلد ہی ٹھیک ہو جائیں گی انہیں تسلی دے کر وہ باہر آیا تھا 

اس نے مڑ کر دیکھا تو دروازے پر نور کھڑی تھی وہ اسے دیکھ کر مسکرایا ۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

آج زلیخا بی کی سرجری ہونی تھی وہ پریشان تھی دل بہت عجیب سا ہورہا تھا

وہ لوگ انہیں لے کر ہاسپٹل آئے تھے شبانہ علی شان سب ان کے ساتھ آئے تھے 

حاشر کو ضروری کام سے باہر جانا پڑا تھا اس لئے وہ آ نہیں سکا لیکن وہ ابرہیم کو سب سمجھا کر گیا تھا کیونکہ ابھی آپریشن کے پیسے سبمنٹ نہیں کروائے گئے تھے 

تبھی اسکا موبائل فون رنگ ہوا تھا ان نان نمبر تھا وہ اٹھانا نہیں چاہتی تھی مگر کچھ سوچ کر اسنے فون اٹھایا تھا حاشر کے آفس سے فون تھا اسے چیک لینے کے لئے بلایا گیا تھا 

آپ جلدی سے پیسوں کا ارینج کریں آپریشن لیٹ ہو جائے گا ورنہ 

ڈاکٹر کے بولنے پر علی کو لئے ساتھ بڑھی تھی مگر راستے میں ہی علی کو اسے اکیلے بھیجنا پڑا تھا

وہ آفس کے باہر آکر کھڑی ہوگئی دل بہت خراب ہورہا تھا مگر ہمت کر کے اندر بڑھی ریسیپشن کر بات کر کے وہ اندر آفس میں آئی لیکن سامنے بیٹھے وجود کو دیکھ کر اسے لمحہ لگا تھا 

آجائیں وہ اسے پہچان گیا تھا لیکن فلحال ایسی سچیوشن نہیں تھی کہ وہ کوئی طعنہ مارتا 

آجائیں بیٹھے۔۔۔ اس نے امل کو بیٹھنے کا کہا اور دراز سے پیسے نکال کر اسے دئیے

یہ لیں۔۔۔

تھینک یو میں جلد اسے لوٹانے کی کوشش کرونگی 

ہممم کوئی بات نہیں۔۔ اللّٰہ آپکی امی کو صحت دے آمین۔۔۔

وہ ابھی کچھ بولتا کہ ارحم اندر آیا تھا 

آبی یار۔۔۔ اوووو سوری میں نے ڈسٹرب کردیا 

ارے نہیں آجا ابرہیم نے اسے آنے کا کہا

میں چلتی ہوں اونس اگین تھینکس۔۔۔ وہ پیسوں کا بیگ تھام کر جلدی سے وہاں سے نکلی تھی 

یہ کون تھی؟؟ ارحم نے شرارت سے آنکھ دبائی..

اس کی مدر یہاں جاب کرتی تھیں تو بیمار ہے قرضہ لیا ہے اس نے۔۔

ہممم اس نے پرسوچ انداز میں کہا؟؟

ایک آئیڈیا ہے۔۔

کیا؟؟؟ 

اور ارحم نے آئیڈیا پر وہ بدکا تھا 

پاگل ہوگیا ہے کیا وہ کبھی راضی نہیں ہوگی۔۔

اسے ہونا پڑے گا وہ پراسرار مسکراہٹ سے بولا تھا 

چھوڑ یار میں ٹھیک کرونگا سب۔۔

تو پاگل ہے یار یہ غریب لڑکیاں ہے کچھ نہیں بولیں گی وہ اسے ایک نیا ہی رخ دکھا رہا تھا وہ شاید اپنے مفاد میں اتنا اندھا ہوگیا تھا کہ اسے یہ ٹھیک لگ رہا تھا۔۔

اب بس اسے اس پر عمل کرنا تھا۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

آپریشن اسٹارٹ نہیں ہوا تھا پورا ایک دن انہیں آوبزروشن میں رکھا گیا تھا پیسے وہ سبمنٹ کروا چکی تھی 

رات اس نے نور کو شںانہ کے ساتھ گھر بھیج دیا تھا  جبکہ خود وہ شان کے ساتھ ہاسپٹل میں رک گئی تھی 

تبھی اچانک نرس بھاگتی ہوئی زلیخا کہ روم میں گئی تھی 

یہ ایسے کیوں گئی ہے شان ؟؟؟ اس نے پریشانی سے شان کو دیکھا 

کچھ نہیں ہوا تو پریشان نہیں ہو۔۔ اس نے اسکا ہاتھ تھپتھپایا

تبھی ڈاکٹر بھی اندر روم میں گئے تھے یہ سب اس کی برداشت سے باہر ہورہا تھا 

دوسری طرف نور پوری رات اپنی ماں کی صحت کے لئے سجدہ ریز تھی 

زلیخا بی کا بی پی نارمل نہیں ہورہا تھا پوری رات ان سب کی آنکھوں میں کٹی تھی 

صبح گیارہ کے قریب اسکا موبائل پھر سے بجا تھا نمبر وہی کل والا تھا 

اس نے فوج اٹھایا تو آج پھر اسے بلایا گیا تھا وہ پریشان تھی کہ اب کیا ہوا شان تھوڑی دیر پہلے ہی سونے گیا تھا اور علی آیا تھا وہ علی کو بول کر وہاں سے نکلی تھی۔۔چادر سر پر ڈالے وہ بس میں سوار ہوئی 

آفس کے پاس اتر کر اسنے قدم اندر کی طرف بڑھائے تھے 

آج آفس میں سناٹا سا لگا 

سارا کام اوپر ورک شاپ میں ہورہا تھا وہ ریسیپشن سے ہوتی آفس میں آئی تو ابرہیم بیٹھا تھا اسے دیکھ کر کھڑا ہواجیسے اسی کا منتظر ہو۔۔۔

آئیں بیٹھیں ۔۔۔

ہممم۔۔۔

مجھے ایک بہت ضروری بات کرنی تھی آپ سے۔۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ بات کہاں سے شروع کرے

جی کہو۔۔۔ اسکا لہجہ بلکل سپاٹ تھا 

جیسا کہ آپ نے ہماری کمپنی سے اچھا خاصا لون لیا ہے تو اس کو لینے کی کچھ فارمیلیٹیز ہوتی ہیں جو کہ حاشر نے آپ کو نہیں بتائی ہونگی 

جی ۔۔۔؟؟ وہ ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی 

اس لون کی ایک قسط آپ کو پندرہ دن بعد دینی ہوگی۔۔۔

جی۔۔۔ اس نے پریشانی سے اسے دیکھا 

حاشر بھائی نے تو کوئی ایسی بات نہیں کہی تھی۔۔

ہاں جانتا ہوں لیکن یہ رول ہے جسے ہم توڑ نہیں سکتے ۔۔۔

لیکن میں اتنی جلدی کیسے؟؟ دیکھیں کم از کم چند مہینے مجھے دیں میں وعدہ کرتی ہوں میں فوراً سے پہلے آپکی رقم دے دونگی۔۔۔ وہ بے حد پریشان ہوئی تھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کریے 

کچھ ٹائم کی تو مہلت دیں پلیز۔۔ 

دیکھیں مہلت کے ساتھ ایک فیور دے دیتا ہوں چلیں آپ کو۔۔۔

اس نے تھوڑے توقف کے بعد کہا 

کیسا فیور اس کے بولنے پر اس نے جلدی سے پوچھا

آپ مجھ سے پیپر میرج کرلیں جیسے ہی قرض ادا ہوگا آپ آزاد ہونگی ۔۔۔

جی۔۔۔۔ اس کا منہ کھلا تھا اسکی بات پر۔۔۔

کہنا کیا چاہتے ہیں آپ کھل کر کہیں۔۔اس نے بہت مشکل سے اپنا غصہ کنٹرول کیا تھا 

آپ مجھ سے ایک کنٹریکٹ کریں گی جس کے تحت جب تک آپ قرضہ ادا نہیں کرسکتی تب تک آپ کو میری بیوی بن کر رہنا پڑے گا۔۔

کیا مطلب ہے ہاں آپکا اس بات سے؟؟؟ وہ غرائی تھی 

مطلب بہت صاف ہے دیکھیں ہم نے آپ کی مدد کی اب آپ سے بھی مدد چاہتے ہیں۔۔ بولتے ہوئے وہ ہچکچاہٹ کا شکار تھا مگر ابھی یہ کرنا بھی بہت ضروری تھا 

مدد نہیں چاہتے بلکہ۔۔۔ وہ کچھ سخت کہنے سے باز آئی تھی

میں آپ کے پیسے بہت جلد آپ کو دے دوں گی اس لئے مجھے آپ کی یہ آفر قبول نہیں ہے۔۔

اس نے دو ٹوک انداز میں اپنا فیصلہ سنایا تھا

سامنے بیٹھے شخص نے پہلو بدلہ۔۔

ساری مصیبت اسی کے ساتھ ہونی تھیں وہ چڑ گیا تھا 

دیکھوں مجھے ابھی اور اسی وقت پیسے چاہیے آئی سمجھ۔۔۔

اس نے دھونس جمائی اب ایسے تو ایسے ہی سہی ۔۔

اس نے چونک کر اس خود غرض انسان کو دیکھا۔ 

ہممم سہی لیکن ایک بات بتائیں اس پیپر میرج کا وجود کیا ہے ہمارے معاشرے میں؟؟؟ 

ایک لڑکی سے وقتی شادی کرو ارے شادی نہیں سوری کاغذ کے ٹکڑوں سے اسکی زندگی خراب کرو پھر جب مطلب پورا ہوجائے تو چھوڑ دو۔۔۔ 

اس نے ایک ایک لفظ چبا چبا کر کہا تھا 

وہ لمحے بھر کو شرمندہ ہوا تھا۔۔

امیروں کا تو یہ شیوا ہے کوئی طوائفوں سے دل بہلاتا تو کسی کو۔۔۔

انف۔۔۔۔ اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ دھاڑا تھا

بہت بکواس ہوگئی ہے کچھ بول نہیں رہا تو اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ جو منہ میں آئے وہ تم بولو گی آئی سمجھ اس نے ٹیبل پر ہاتھ مارا 

اسکا دماغ پل میں گھوما تھا سامنے رکھا پیپر ویٹ زور سے زمین پر مارا۔۔

ابرہیم نے اسے دیکھا جو اسکے غصے کے جواب میں اسکی چیز پھینک کر اب پر سکون تھی

اسے اپنی نیا پار لگتی ہوئی نظر نہیں آرہی تھی۔۔۔۔

مجھے ابھی اسی وقت پیسے چاہیے تم اپنا بندوبست کہی اور سے کرو اس نے اپنے تئیں اسے دھمکایا تھا 

اس نے ایک افسوس بھری نظر اس پر ڈالی تھی جیسے اسے شرمندہ کروانا چاہتی ہوں۔۔۔

پہلے مجھے لگا تھا ہماری پہلی ملاقات میں جو ہوا اس میں کہی نا کہیں میری بھی غلطی تھی لیکن نہیں تم جیسا انسان ہمیشہ ہی غلط ہوگا 

کہاں سے سیکھ لیا ہے ہم نے یہ طریقہ ضرورت کے لئے شادی اور پھر طلاق زرا اپنی بہن پر رکھ کر سوچو اگر اسے کوئی اس طرح وقتی شادی کا کہے ہاں اس انسان کو چھوڑو گے نہیں تم لیکن دوسروں کی بہنوں کے لئے یہ بولتے ہوئے تم زرا شرمندہ نہیں ہوئے 

کیا منہ دکھاؤں گے اللّٰہ کو ارے شادی تو پسندیدہ عمل ہے تو کیسے اس کا مذاق بنا لیا ہے تم سب نے زرا بھی شرم نہیں آتی جو طلاق کا نام ایسے لے رہے جیسے کوئی بہت عام بات ہو طلاق کا مطلب پتا ہے؟؟؟ نکاح کا پس منظر پتا ہے؟؟؟؟ 

ارے تم جیسے پڑھے لکھے امیر سے ہم غریب اچھے ہیں جن از کم اپنی نظر میں اٹھے ہوئے ہیں اور تمہاری طرح گری ہوئی بات نہیں کرتے۔۔۔

میری مجبوری میری ماں ہے لیکن ابھی میں اتنی بھی مجبور نہیں ہوئی کہ اپنے اللّٰہ کے فیصلے کے خلاف جاؤ 

تمہیں مبارک ہو یہ جعلی شادی جس کا تصور ہمارے اسلام میں ہے ہی نہیں۔۔ 

وہ ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا رہی تھی 

یہ بگاڑ جو لوگ لارہے ہیں نا ان کا تو اللّٰہ ہی حافظ ہے لیکن تم کیسے عقل کے اندھے اس بگاڑ کو بڑھاوا دینے میں سب سے آگے ہوتے ہو تف ہے تم پر تف۔۔۔

اس نے ایک کہر بار نظر اس پر ڈالی تو دروازے کی طرف قدم بڑھائے مگر اس کی آواز پر رکی تھی۔۔۔

ایک منٹ۔۔۔ اس نے اسے روکا تھا 

ائم سو سوری مجھے ایسے نہیں کہنا چاہیے تھا لیکن مجھے واقعی آپ کی ہیلپ چاہئیے۔۔

وہ اب کی بار نرمی سے بولا تھا 

مجھے کوئی مدد نہیں کرنی اور نا آپ کا کوئی احسان لونگی رہے آپ کے پیسے تو میں وہ جلد واپس کردونگی 

یہ بولتے ہوئے اسکا دل ڈوبا تھا جانتی تھی اتنی جلدی پیسوں کا انتظام وہ چاہ کر بھی نہیں کرسکتی تھی 

دیکھوں مجھے پیسے نہیں چاہیے بس ہیلپ چاہیے ائم سوری میں دوست کی باتوں میں آکر پتا نہیں کیا بول گیا

وہ پریشان تھا اس لئے لہجے کو نرم کرتے بولا تھا۔۔

پلیز بیٹھو۔۔ اس کے بولنے پر وہ ناچاہتے ہوئے بھی بیٹھ گئی 

ابرہیم نے اس کے آگے اپنا مسئلہ رکھا تھا

پیپر میرج نہیں تو نکاح پلیز۔۔۔ 

دیکھو میں تم سے کسی قسم کی کوئی ڈیمانڈ میں رکھتا بلکہ تمہیں مجھے یہ پیسے واپس کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے یہ بات تم بھی جانتی ہو کہ کینسر نے علاج کے لئے سرجری کے بعد بھی اتنا پیسہ لگتا ہے میں ہر طرح سے ہیلپ کرونگا بس تم میری ہیلپ کردو

وہ ملتجی انداز میں بولا تھا 

امل نے بس خالی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی سودا برا نہیں تھا وہ نور اور اپنے باقی بہن بھائیوں کے لئے اتنا تو کرسکتی تھی اسے تو ویسے بھی کسی کی ضرورت نہیں تھی نا اسکی کسی کو اس نے بس لمحے کو سوچا تھا 

آج اگر وہ زلیخا کی سرجری روکتی ہے اور اپنی انا کے لئے پیسے واپس کرتی ہے تو نور کا کیا ہوگا وہ تو اپنی ماں کے بغیر رہ چکی ہے وہ کیسے رہے گی

ٹھیک ہے مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔۔۔۔ 

بالآخر اس نے ابرہیم کو اچھی خبر سنائی تھی 

ٹھیک  ہے ہم آج ہی نکاح کریں گے میں مزید تاخیر نہیں چاہتا۔۔

وہ خوشی سے بولا تھا کتنا بڑا بوجھ تھا جو اس نے سر سے ہٹا تھا 

تمہیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے نا ؟؟ اسے امل کا خیال آہی گیا تھا اس نے نفی میں سر ہلایا 

اس نے جلدی سے ارحم کو کال کر کے نکاح کا ارینج کرنے کو بولا

وہ بس خاموشی سے سارا تماشہ دیکھ رہی تھی کیا کرنے جارہی تھی وہ اپنی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ اور بھی اس طرح کے مستقبل کی کوئی خبر نہیں وہ کبھی کمزور نہیں پڑی تھی نا پڑنا چاہتی تھی لیکن تھی تو وہ بھی ایک لڑکی ہی نا بھلے شادی کو لے کر اس نے ارمان نہیں تھے لیکن اس طرح شادی تو اس نے بھی نہیں سوچی تھی اور وہ اس کے لئے شادی کرے گی جس سے اسکی بنتی ہی نہیں تھی

ایک منٹ۔۔۔ اس کے اچانک بولنے پر وہ رکا تھا 

کیا ہوا؟ 

میرا کوئی ولی نہیں ہے۔۔۔ 

تو اب۔۔۔

ولی کی موجودگی لازمی ہے۔۔ اس نے سر جھکا کر کہا 

اپنوں کے چہرے کبھی کبھی بہت کمزور کردیتے ہیں 

تمہاری امی کی موجودگی میں نکاح کرنا ہوگا کیا ؟؟ 

مجھے نہیں پتا۔۔ وہ سرے سے دامن بچا گئی تھی 

اس سے اسے مزید وقت مل سکتا تھا سوچنے کے لئے شاید کوئی راہ نکل آتی۔۔۔

لیکن مایوسی تب ہوئی جب وہ اسے لئے اسپتال لایا تھا

زلیخا بی بے سدھ سی بستر پر پڑی تھیں 

آپ سے ایک اجازت چاہتا ہوں بی وہ ان کے پاس کرسی گھسیٹ کر بیٹھا تھا

انہوں نے ناسمجھی سے اسے دیکھا جو ان کے لئے اتنا کر ریے تھے 

آپ کی بیٹی کو اپنے نکاح میں لینا چاہتا ہوں آپ کی اجازت درکار ہے

اسے حیرت کا جھٹکا لگا تھا یہ کیا کررہا تھا وہ کہاں وہ پیپر میرج کی بات اور کہاں اب یہ سب ….. 

اور دوسرا جھٹکا اسے تب لگا جب۔۔۔۔

زلیخا بی نے لمحہ سوچ کر ہاں میں سر ہلایا تو وہ مسکرا اٹھا۔۔۔

جب کے وہ آخری امید کے ٹوٹنے پر رو بھی نا سکی۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

وہ اپنے کام کے سلسلے میں یہاں آیا تھا مگر واپسی اب ناممکن سی لگ رہی تھی 

وہ پریشان حال سے ہوٹل کے روم میں بیٹھا تھا رہ رہ کر نور اور زلیخا بی کا خیال آرہا تھا نا جانے آپریشن ہوا بھی ہوگا یا نہیں ان میں سے بس علی کا نمبر تھا اس کے پاس باقی کے نمبر پتا نہیں کیسے مس ہوگئے تھے اس سے ۔

ابرہیم بھی کال ریسیو نہیں کر رہا تھا وہ پریشان ہوگیا تھا میٹنگ ڈیلے پر ڈیلے ہورہی تھی 

یا اللّٰہ پلیز اب مزید تاخیر نا ہو۔۔۔

تبھی اس کے فون کی بیل رنگ ہوئی تھی

بنا نمبر دیکھے ان سے کال ریسیو کی تھی 

ہیلو اسلام وعلیکم۔۔۔

وعلیکم اسلام حاشر۔۔۔ 

دادو۔۔۔ وہ زیر لب بڑبڑایا ۔۔

اتنے کیوں حیران ہورہے ہو؟؟ انہیں نے اچھنبے سے اس سے پوچھا 

نہیں نہیں دادو وہ بس یہاں میٹنگ میں پھنسا ہوا ہوں تو بس اس لئے۔۔۔ 

اس نے صفائی پیش کی تھی 

کل صبح کی فلائٹ سے آرہی ہوں اور اپنے دوست کا خیر خواہ بن کر اسے یہ بات بتانے کی قطعی ضرورت نہیں ہے 

وہ دو ٹوک لہجے میں بولی تھیں 

مگر دادو…..

کچھ مت بول تو تم دونوں نے بہت دکھ دیا ہے مجھے تجھے اس لئے بتا رہی ہوں کہ ڈرائیور کو بھیج دینا کیونکہ تم لوگوں کو تو دادی بوجھ لگتی ہے نا 

ایسی بات نہیں ہے دادو۔۔ 

بس کر مجھے صفائی نہیں چاہیئے یہ کہہ کر انہوں نے کھٹاک سے فون رکھ دیا 

یا اللّٰہ۔۔۔ اسے سر ہاتھوں میں گرایا

اس نے ایک بار پھر ابرہیم کو کال تھی جس کا نمبر بند ہی جارہا تھا آفس کی ٹائمنگ بھی اب ختم ہوچکی تھی 

علی کو کال کی تو پتا چلا وہ ہاسپٹل میں ہے آخر تھک کر اس نے وقت پر سب چھوڑا اور میٹنگ کے لئے میٹنگ روم میں بڑھ گیا 

یہ جانے بغیر کے واپسی پر ایک بم اس پر پھوٹے گا۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

ایک تماشہ تھا جو اسکی زندگی کا آج لگا تھا کبھی کسی کی ایک نا سننے والی اپنی زندگی کے اتنے بڑے فیصلے پر چپ تھی ہارے جواری کی طرح بیٹھی وہ اپنے بے رنگ ہاتھوں کو دیکھ رہی تھیں جن پر سہاگ کا کوئی رنگ نہیں لگ تھا 

مولوی صاحب آئے تو اس نے ایسے نکاح کیا جیسے اسکا نہیں بلکہ کسی اور کا ہو 

سخت جان تو وہ شروع سے تھی جن کے ماں باپ نہیں ہوتے انہیں خود کو مضبوط کرنا پڑتا ہے اس دنیا میں اس نے بس دو لوگوں سے شدید محبت کی تھی ایک اسکا باپ اور ایک نور۔۔

ان دونوں کی ہی محبت اس کے لئے بے غرض تھی اس نکاح کے پیچھے بھی نور کا چہرہ تھا جو گلابی رنگ سے سفید ہوگیا تھا شاید ماں کو کھونے کا اس میں حوصلہ نہیں تھا اور اس میں بھی بھلا کہا تھا اتنے اپنوں کو کھو چکی تھی اب سوتیلی بھی چلی جاتی تو وہ کہاں جاتی یہ زمانہ تو ویسے بھی کسی کا نہیں سب تاک میں رہتے ہیں

زلیخا کو آپریشن تھیٹر میں لے جایا گیا تھا اس کے پاس نور بیٹھی تھی جو اس نے یوں نکاح کرنے پر اس سے خفا تھی لیکن اسے ابھی پرواہ نہیں تھی پرواہ تھی تو اس وجود کی جو اندر زندگی موت کی جنگ لڑ رہا تھا 

البتہ علی سے اس نے کچھ نہیں چھپایا تھا وہ تو اسکے بچپن کا ساتھی تھا  ہر قدم پر اسکے ساتھ ہاں البتہ وہ شخص غائب تھا جس کے نام کے ساتھ اسکا نام کچھ گھنٹے پہلے جوڑا گیا تھا اور اسے پرواہ بھی نہیں تھی کیونکہ جس مقصد کے تحت یہ سب ہوا تھا وہ اب پورا ہوگیا تھا اب انتظار تھا ڈاکٹر کا 

تقریباً چار گھنٹے بعد ڈاکٹر نے آکر آپریشن کے کامیاب ہونے کی خبر سنائی تھی تو جیسے مانوں سب کی جان میں جان آئی تھی 

زلیخا بی فلحال ہوش میں نہیں تھیں لیکن خطرے سے باہر تھیں

نور کی خوشی سے آنکھیں چمک رہی تھیں اس کی خوشی دیکھ کر وہ مسکرا دی 

اگر وہ آج یہ نکاح نا کرتی تو ان آنکھوں میں خوشی کیسے دیکھتی اسے خوش دیکھ کر وہ خود بھی مسکرادی

دل سے بوجھ سرکا تو اس نے اللّٰہ کا شکر ادا کیا تھا۔۔۔

اگلے دن صبح زلیخا بی کو ہوش آیا تھا سب سے پہلے انہوں نے نور کو پکارا تھا جو تقریباً بھاگتے ہوئے ان کے پاس گئی تھیں ایک ایک کر کے سب ہی لوگ ان سے ملے تھے 

لیکن زلیخا بی نے نا اسکا پوچھا اور نا وہ خود گئی دل تو ایسے ہمک رہا تھا کہ جائے اور سینے سے لگ کر روئے کبھی ماں کی محبت محسوس ہی کب کی تھی اس نے اس کے آنچل میں چہرہ چھپانے کا موقع دیا ہی نہیں تھا زندگی نے

اور اب بھی وہ تنہا اسپتال کے کاریڈور میں بیٹھی تھی جیسے اسکا کوئی اپنا ہی نا ہو سب اندر تھے وہ خاموشی سے اٹھ کر گھر آگئی اب دل رکنے کا تھا ہی نہیں صبح سے اس انتظار میں تھی کہ اب زلیخا بلائے اور وہ ماں کہہ کر لپٹ جائے…

مگر انسان جو سوچتا ہے وہ ہوتا کب ہے بھلا۔۔۔۔

وہ  رات کو ہی گھر آگیا تھا سر سے ایک بڑا بوجھ ہٹا تھا وہ ارحم کا احسان مند تھا جس نے اس کو یہ راہ دکھائی تھی ورنہ تو اس کی سہی والی بینڈ بج جانی تھی رات وہ کافی پرسکون نیند سویا تھا ہر فکر سے آزاد کھانا بھی اپنی پسند کا کھایا تھا 

رات دیر تک وہ مووی دیکھتا رہا تھا مووی دیکھتے دیکھتے کب آنکھ لگی اسے احساس ہی نہیں ہوا 

صبح آنکھ کھلی تو صبح کے گیارہ ہورہے تھے وہ ہڑبڑا کر اٹھا تھا ۔

وہ آج پھر آفس سے لیٹ ہوگیا تھا 

ارے یار کیا مصیبت ہے وہ بیزار ہوا تھا موبائل کی تلاش میں سائیڈ ٹیبل پر ہاتھ رکھا لیکن موبائل غائب تھا 

موبائل کہاں گیا۔۔۔۔۔ خود سے بڑبڑاتے اسنے موبائل کی تلاش شروع کی جو کہ نا ملنا تھا اور نا ہی ملا۔۔

موبائل پر لعنت بھیج کر وہ جلدی جلدی سے تیار ہوا تھا حاشر بھی ابھی تک نہیں آیا تھا یقیناً میٹنگ لیٹ ہوئی ہوگی 

فل تیار ہوکر خود پر پرفیوم چھڑک کر وہ بلکل تیار تھا تبھی ڈور بیل بجی تھی 

حاشر کا خیال کرکے وہ جلدی سے ڈور تک آیا تھا مگر جیسے کی ڈور اوپن کیا سامنے کھڑی ہستی نے اس کے چھکے چھڑائے تھے۔۔۔

اسے یہ تو پتا تھا دادو آئیں گی مگر اتنی جلدی۔۔

وہ شاکڈ سا کبھی ان کو دیکھتا تو کبھی ان کے پیچھے کھڑے حاشر کو جس کے چہرے پر خفگی کے تاثرات تھے 

ہٹ راستے سے۔۔۔ دادی کی گرجدار آواز پر وہ تھوک نگلتے سائیڈ ہوا تھا 

اور بے بسی سے حاشر کو دیکھا۔۔

یار دادو کہاں سے آئیں؟؟ وہ دبی آواز میں حاشر سے مخاطب ہو اتھا 

مجھ سے پوچھ نا اس سے نہیں۔۔

دادو کے کان اس عمر میں بھی غضب کے تھے 

نہیں وہ دادو۔۔۔۔

حاشر تیار ہوکر آفس جا یہ آج یہی میرے ساتھ رہے گا۔۔

لیکن دادو۔۔۔۔۔ 

ایک آواز سمجھ نہیں آئی میری۔۔ 

اس نے زندگی میں پہلی بار انہیں اتنے غصے میں دیکھا تھا اسکا وکیل بھی آج بے بس تھا 

حاشر کندھے اچکاتا تیار ہونے کے لئے اندر چلے گیا جب کہ وہ پریشان سا انہیں دیکھ رہا تھا جو ناجانے کیا سوچ رہی تھیں۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

نور صبح ناشتے کے بعد گھر آئی تھی۔۔ اس نے بات کرنی چاہی لیکن نور نے رخ پھیر لیا کیونکہ اس کے اس اچانک شادی پر وہ ناراض تھی 

اس لئے اپنا ضروری سامان اٹھایا اور اسپتال واپس چلے گئی تو اس نے اپنا سر دیوار سے ٹکایا 

اس شادی کی وجہ سے بہن ناراض تھی جس کا کوئی مستقبل ہی نہیں تھا اس نے نکاح کیا تھا لیکن ایک نا ایک دن اسے ختم ہو جانا تھا وہ من چاہی نہیں تھی جو اس نکاح پر خوش ہوتی یا سب کو مناتی پھیرتی

روشنی بھی اس سے ناراض تھی 

وہ تلخی سے ہنس دی خودغرضی دیکھاتی تو بری بنتی بے غرض ہوکر کچھ کرنا چاہا تو سب کی بری بن گئی

ہونہہ مجھے کیا مجھے کونسا فرق پڑتا ہے میرا گھر میری دوکان مجھے کیا کسی سے لینا ۔

غصے سے بڑبڑاتی وہ کچن میں گھس گئی ناشتہ کرنا تو تھا نہیں بس دل بہلانے کے لئے وہ سامان ادھر ادھر پٹخنے لگی۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀I

کہاں ہے وہ؟؟؟؟ ان کے بولنے پر اس نے ناسمجھی سے  انہیں دیکھا

کون؟؟؟  

کون سے کیا مراد ہے ابرہیم حیات خان؟؟؟؟ انہوں نے اسے تیکھے چتونوں سے سے گھورا تو وہ ہڑبڑایا

نہہ۔۔نہیں دادو وہ میرا مطلب۔۔۔ 

کوئی مطلب نہیں ابرہیم حیات خان میں نے پوچھا بہو کہاں ہے؟؟؟ 

اس عمر میں بھی ان کی آواز بے حد کڑک اور رعب دار تھی 

یہ جو گھر کا حال ہے نا لگتا نہیں ہے کہ کوئی عورت یہاں رہ کر گئی ہے۔۔

انہوں نے ایک طائرانہ نظر پورے گھر پر ڈالی تھی جو سارا کا سارا بکھرا پڑا تھا

وہ دادو۔۔۔ اسے سمجھ ہی نہیں آیا کہ کہے تو کیا کہے عجیب مصیبت میں پھنس گیا تھا دماغ کام ہی نہیں کر رہا تھا 

کہا ہے بہو؟؟؟ وہ ایک بار پھر گرجی تھیں 

یہاں نہیں ہے دادو۔۔۔۔ 

کیا مطلب یہاں نہیں ہے ؟؟ کہاں ہے پھر نکاح کیا بھی ہے یا جھوٹ کہا ہے ہاں؟؟ 

اگر یہ جھوٹ ہوا تو آج ہی لالی کی بیٹی سے نکاح کروگے تم ہر حال میں۔۔۔ وہ کرخت لہجے میں بولی تھیں

لالی کی بیٹی….. اس نے ذہن میں جھماکہ سا ہوا تھا ان کی دوست کی پوتی ایک نمبر کی چپکو اور عجیب جو اسے ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی 

اس نے شکر ادا کیا تھا کہ اس نے نکاح کرلیا 

میرا مطلب ہے وہ ابھی اپنے گھر پر ہے دادو۔۔۔ 

کیوں کیا لینے گئی ہے اپنے گھر ہاں شوہر کا گھر چھوڑ کر ایسے کون جاتا ہے

دادو ادھر بیٹھے بات سنیں پلیز۔۔۔ وہ ان کا ہاتھ تھامے صوفے تک لایا جو جب سے آئی تھیں ایک ہی جگہ کھڑی تھیں 

میں مانتا ہوں جو ہوا غلط ہوا مجھے یہ سب نہیں کرنا چاہیے تھا مگر میں مجبور تھا اسکی امی کینسر کی پیشنٹ ہیں کل ہی سرجری ہوئی ہے ان کی بس یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ مجھے کچھ سوچنے کا وقت ہی نہیں ملا۔۔پلیز معاف کردیں وہ وہی ان کے گھٹنے سے لگ کر بیٹھ گیا

اب کیسی ہیں اسکی امی۔۔ کینسر کا لفظ سن کر وہ نرم پڑی تھیں

جی  بس ویسے ہی ہیں۔۔

ہممم اللّٰہ پاک صحت کاملہ عطا فرمائے۔۔ آمین۔۔

نام کیا ہے اسکا؟؟؟

اور یہاں آکر اسکی سٹی گم ہوئی تھی نام تو اسے یاد ہی نہیں تھا 

اسکا نام۔۔۔۔ اس نے تھوک نگلا 

کیوں نام نہیں پتا اپنی بیوی کا؟؟؟ انہوں نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا 

افففف دادو کیوں نہیں پتا ہوگا بس آپ جب ملیں خود ہی پوچھیے گا اس سے ابھی میں آپ کے لئے بہت اچھا سا ناشتہ بناتا ہوں آپ فریش ہو جائیں۔۔وہ بات بدلتا اٹھا تھا

اس نے انکا سامان لے جا کر روم میں شفٹ کیا تھا 

مجھے اسکی ماں سے ملنا ہے۔۔۔ 

لو بھئی ایک اور ٹینشن اس نے ماتھا مسلا 

مل لینا ابھی تو آپ آئی ہیں ریسٹ کریں مجھے بھی آفس جانا ہے میڈ آکر صفائی کر جائے گی ۔

ابھی مطلب ابھی ابراہیم۔۔۔۔۔۔وہ بضد تھی 

دادو حاشر کو آنے دیں پھر چلتے ہیں نا۔۔۔ ضروری میٹینگ ہے نا اس نے ناشتہ ان کے آگے کیا اور فوراً سے وہاں سے نکلا تھا مبادہ وہ پھر اپنی ضد پر آجائیں سر درد سے پھٹ رہا تھا ایک جھوٹ کی وجہ سے کتنے جھوٹ بولنے پڑ رہے تھے۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

اداسی سے وہ منڈیر پر بیٹھی تھی زندگی کے بہت کم موقعوں پر وہ اداس ہوتی تھی 

کیوں چھوڑ گئے آپ تینوں دیکھیں آپ کی بچی کیسے رل رہی ہے

جس نے لئے اپنی زندگی داؤ پر لگائی اس نے تو پلٹ کر بھی نہیں پوچھا بس ایک بوجھ کی طرح اتار پھینکا ایسی زندگی کی خواہش تو نہیں کی تھی میں نے بابا۔۔۔

میں تو آپ کا بہادر بچہ تھی نا آپ کی سب باتیں مانتی تھی پر دیکھیں یہ زندگی مجھے کہاں لے آئی ہے سب مجھ سے خفا ہوگئے مگر مجھے فرق نہیں پڑتا میں تو ہمیشہ سے محبت کے لئے ترسی ہوں بابا ۔۔

مجھ سے اچھے تو یہ پرندے ہیں کیسے خوش ہیں سب ان سے پیار کرتے۔  شبانہ خالہ کہتی تھیں کہ میرا شوہر مجھ سے پیار کرے گا مگر وہ تو کسی اور کا ہے۔۔وہ تلخی سے ہنسی تھی 

تو یہ طے ہوا بابا کہ آپ کی بیٹی کے نصیب میں نا محبت ہے نا خوشیاں۔۔۔

وہ آج مایوس ہوگئی تھی

اسے اپنا دم گھٹتا محسوس ہورہا تھا۔۔۔

تبھی دروازے پر ہوتی دستک پر وہ گہرا سانس بھرتی باہر آئی جہاں علی کو دیکھ وہ ٹوٹی تھی 

ایک وہی تو تھا اسکا دوست بچپن کا ساتھی۔۔۔

کیوں کیا تم نے ایسا جس کے لئے اسکو دیکھا ہے۔۔۔

وہ تلخی سے بولا تو وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی

کچھ ہوا ہے؟؟؟

کچھ نہیں ہوا چھوڑ پانی پلا دے پلا سکتی ہے تو۔۔۔۔۔

اچھا لاتی ہوں وہ پریشان سی اس کے لئے پانی لائی تھی۔۔۔

اب بتاؤ کیا ہوا ہے؟؟ کیوں چہرے پر بارہ بج رہے؟؟؟

وہاں تیری سوتیلی نے اماں کو بتایا کہ تیرا چکر تھا اس ابرہیم صاحب کے ساتھ۔۔

کون ابرہیم؟؟ اس نے حیرت سے آنکھیں بڑی کی تو علی نے تاسف سے اسے دیکھا۔۔

وہی جس سے نکاح کیا تھا اپنی ماں کے علاج کے لئے تو نے۔۔۔

اوو۔۔۔ چھوڑ نا بولنے دے کیا فرق پڑتا میں کونسا اچھی تھی جو اب اچھی رہونگی

تیری قسم نے روک دیا ورنہ ۔۔ورنہ شرنہ کچھ نہیں۔۔

تو کسی کو کچھ نہیں بولے گا ویسے بھی اور بھی کئی مسئلے ہیں مجھے۔۔۔

ہمم بس خود ہی سب کر تو لیکن اب وہ کچھ بولی تو میں لحاظ نہیں کرونگا۔۔۔علی نے اسے وارن کیا تو وہ ہنس دی

چلو کوئی تو ہے جسے میری پرواہ ہے ۔۔۔

تو اس قابل ہے آنسہ کے تیری پرواہ کی جائے۔۔۔

مجھے ایسا نہیں لگتا۔۔۔ علی کی بات کر وہ تلخی سے ہنسی تھی۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

وہ آفس آیا تو حاشر اسے کہیں نظر نہیں آیا وہ بے تاب تھا اس سے بات کرنے کے لئے مگر پھر کام میں اتنا مصروف ہوا کہ اسے کچھ یاد ہی نہیں رہا 

وہ تھک کر اپنے آفس میں آکر بیٹھا ہی تھا کہ دروازہ دھاڑ سے کھولتا حاشر اندر آیا تھا 

تو نے آنسہ سے شادی کرلی ابراہیم؟؟؟ اس کے لہجے میں بے یقینی تھی

اسے دیکھ کر ابرہیم نے سر کھجایا تھا 

ہاں۔۔۔ ایک لفظی جواب۔۔

اور وہ بھی اس سے جسے تو پسند تک نہیں کرتا مجھے تو نور سے پتا چلا وہ سب سمجھ رہے تیرا آنسہ سے افئیر تھا۔۔وہ پریشان تھا کہ ایک دن میں ہوا کیا تھا

واٹ افئیر۔؟؟؟ اسے ٹھیک ٹھاک جھٹکا لگا تھا 

پاگل ہوگئے ہیں کیا اسے میں منہ لگانا پسند نا کرو اور بات کر رہا آفئیر کی۔۔

واہ منہ لگانا پسند نہیں نکاح کرنا پسند ہے۔۔۔اسکی بات پر پہلی بار حاشر کا کیا اسکا منہ توڑ دے

افف بات سن اس سے شادی صرف دادی کی وجہ سے کی ہے شادی بھی نہیں بس ایک کانٹریکٹ ہے۔۔

پوری بات بتا ابرہیم۔۔۔۔وہ سخت کنفیوز ہورہا تھا اسکی باتوں سے۔۔

تبھی اسنے گہرا سانس لیتے ہوئے سب بتایا تھا 

مطلب وہ بچاری قصور نا ہوتے ہوئے بھی بدنام ہورہی ہے صرف تیری خود غرضی کی وجہ سے۔۔۔ حاشر کا دل کیا اسکا منہ لال کردے 

دیکھ میری مجبوری۔۔۔

بس کردے ابرہیم ایسے کیسے مان لوں ہاں میں نے تجھے جھوٹ بولنے کو کہا تھا اسے سچ کرنے کو نہیں تجھے اندازہ بھی ہے تو نے کیا کیا ہے۔۔؟؟؟ وہ اسے ملامت کررہا تھا 

میرے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا۔۔ وہ لب کاٹتے بولا تھا 

مجھے تجھ سے یہ امید نہیں تھی۔۔تو نے اچھا نہیں کیا ابراہیم۔۔

اور وہ ارحم اسکے کہنے پر تو نے اپنا بڑا کام لیا مجھ سے پوچھنا تو دور بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا تو ٹھیک اب اپنے مسئلے خود ہی سلجھانا مجھ سے امید نا رکھنا۔۔غصے سے کہتا وہ تن فن کرتا باہر کی طرف بڑھ

یار حاشر بات تو سن۔۔ وہ اسکے پیچھے لپکا تھا مگر وہ رکا نہیں

شٹ کیا مصیبت ہے۔۔۔وہ گاڑی پر ہاتھ مارتا بے بس ہوا تھا وہ جانتا تھا حاشر غصہ ہوگا مگر اتنا۔۔

کہاں پھنس گیا ہوں میں یار۔۔۔ 

اس وقت اسے احساس ہوا تھا کہ بے بسی کیا ہوتی ہے گھر جانے کا تو اسکا دل ہی نہیں کیا تھا جاتا تو دادی کو جواب دہ ہونا پڑتا،سیٹ پر ڈھے جانے کے انداز میں بیٹھا تھا سر سیٹ کی پشت سے لگائے اس نے آنکھیں موندی تھیں 

واقعی ایک دن میں کیا سے کیا ہوگیا تھا 

کیوں کیا میں نے یہ ۔۔۔۔۔ سیٹ پر سر پٹختا وہ پچھتاوں کی زد میں آیا تھا۔۔

ویسے بہت بے حس ہے تو آنسہ ۔۔مانا۔ میری ماں سوتیلی ہے مگر لوگ تو دوشمن کی بھی خیریت معلوم کرلیتے ہیں مگر  میں بھی کہاں سر پھوڑ رہی ہوں تجھے کبھی اپنے علاؤہ کوئی دیکھا ہے کبھی بہت دکھ ہوا مجھے تیرے اس طرح کرنے سے۔۔۔

نور کے اتنا بولنے پر بھی اسکے منہ سے ایک لفظ نہیں نکلا اور یہی بات نور کو پریشان کرگئی تھی

کیونکہ وہ مسلسل آنکھوں پر ہاتھ رکھے دیکھ اسے الجھن ہوئی تھی

آنسہ کیا ہوا ہے ؟؟ وہ ایک دم اسکے پاس آئی تھی اور اسکا ہاتھ آنکھوں پر سے ہٹانا چاہا مگر وہ اپنی گرفت سخت کرگئی

آنسہ۔۔۔نور نے بےبسی سے لب کاٹے یقیناً وہ اسکا دل دکھا گئی تھی اسے خود پر غصہ آیا کیا ضرورت تھی اس سے یوں ناراض ہونے کی ڈانٹنے کی۔۔۔

اٹھ نا آنسہ اچھا دیکھ میں سوری۔۔۔

جاؤ یہاں سے نور مجھے کسی سے بات نہیں کرنی۔۔وہ رو رہی تھی یا ایسا نور کو لگا مگر فلحال اسے بات نہیں کرنی تھی تو مطلب تھا نہیں کرنی نور نے بے بسی سے لب کاٹے تھے

دل میں عجیب سے ملال نے ڈیرے ڈالے تھے

اسے خود پر بھی غصہ آیا تھا کہ کیوں وہ غصہ ہوئی

آنسہ نے ہمیشہ خوشیاں شئیر کی تھیں کبھی اپنی تکلیف نہیں افسوس میں گھری وہ کمرے سے باہر آکر وہ صحن میں بیٹھ گئی گرمی اچانک سے بڑھ گئی تھی۔۔

اماں جلدی سے گھر آجاؤ یار۔۔خود سے بولتے اس نے گھٹنے سے تھوڑی ٹکائی تھی۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

وہ رات کافی دیر سے گھر میں گھسا تھا اور صبح دادی کے اٹھنے سے پہلے ہی آفس کے لئے نکل گیا تھا۔۔۔

حاشر سو کر اٹھا تو انہیں لاونج میں بیٹھے پایا تھا

اسلام وعلیکم دادو۔۔ ان سے پیار لیتا وہ ان کے پاس ہی بیٹھ گیا

خیریت ہے ایک سویرے سے اٹھ کر بھاگ گیا جبکہ دوسرا ابھی تک میرے سامنے ہے اب کونسی کھچڑی پکا رہے ہو؟؟

ان کے بولنے پر اس نے پہلو بدلہ تھا اب وہ کیا بتاتا تھا کہ ابراہیم کے اس عمل نے اسے کتنا دکھ دیا تھا

جی بس رات کافی دیر تک کام کرتا رہا تو نیند نہیں کھلی۔۔۔

کچن کا رخ کرتے اس نے وضاحت دی

کافی بنا رہا ہوں آپ کیا کھائیں گی بتا دیں۔۔کاگی مگ میں ڈالتے اس نے ان سے پوچھنا ضروری سمجھا ۔۔

کب تک یہ عورتوں والے کام خود کرو گے ایک تم شادی نہیں کرتے ایک وہ ہے جو شادی کا بول کر اب مجھ سے چھپتا پھر رہا ہے۔۔

ان کی اس بات پر وہ تلخی سے ہنسا تھا

آپ ہی تو کہتی ہیں دادو کوئی کام کسی کے لئے مخصوص نہیں ہوتے۔۔

بس میری بات سے اپنی مرضی کا مطلب اخذ کر لینا۔۔وہ منہ بنا کر بولی تو وہ ہنس دیا

ہنس مت ادھر آ میرے پاس۔۔۔

ان کے بلانے پر وہ کپ تھامے ان کے پاس آیا تھا

ابراہیم کا رویہ میری سمجھ سے باہر ہے حاشر کل میں نے لڑکی کا نام پوچھا تو ٹال گیا میں نے ملنے کا بولا تو بھی منع کرگیا مجھے کیوں لگ رہا وہ مجھ سے جھوٹ بول رہا ہے؟؟ میں تو اس کی شادی کے اتنے ارماں لئے ہوئے تھے پھر جب اسنے شادی کا بولا تو غصہ آیا مگر اب تو یہ ہوچکا تھا تو قبول کرلیا اب اسکا اس طرح کا رویہ۔۔۔انہوں نے اسے اپنا خدشہ ظاہر کیا تھا

کچھ نہیں دادو وہ بس پریشان ہے ایکچوئیلی آنسہ کی والدہ کو ٹیومر تھا ان کی ابھی ہی سرجری ہوئی ہے اس لئے وہ ملوانے نہیں لے گیا اور بس نکاح بھی اسی سب ٹینشن میں ہوا ہے۔۔

وہ انہیں تسلی دیتا بولا تھا اور چاہ کر بھی وہ انہیں سچ نا بتا سکے خفگی اپنی جگہ مگر وہ ابراہیم کے لئے کوئی نئی مصیبت نہیں تیار کر سکتا تھا

تو مجھے ملواؤں تو میں ملنا چاہتی اس بچی سے اسکی ماں سے۔۔۔

باپ کیا کرتا ہے کچھ تو بتاؤ۔۔

ان کی بات پر وہ گہری سانس بھر کر رہ گیا

اس کے والد حیات نہیں ہیں والدہ سوتیلی ہیں ۔۔

یا اللّٰہ سوتیلی ماں۔۔۔ پتا نہیں کس طرح کا رویہ رکھتی ہو گی وہ پریشان ہوئی جبکہ اسے ہنسی آئی تھی دادی اپنی شیرنی بہو سے اچھی واقف ہی کہاں تھیں

افف دادو آپ بھی اچھا اب میں آفس جاؤ گا آپ اکیلے کیسے رہیں گیں۔۔

جبھی تو بول رہی بہو کو لاؤ تاکہ میری تنہائی کا کچھ ہو اور اب ویسے بھی ہم نے ہمیشہ کے لئے یہاں رہنا ہے

یہ تو بہت اچھی بات مگر ابھی کے لئے تو آپ میری امی کی کمپنی سے گزارہ کریں یقین جانئے بہت مزے کا کھانا بناتی ہیں وہ۔۔اسکے انداز پر وہ ہنس دی

چل یہ بھی اچھا آئیڈیا برا نہیں میں آتی۔

وہ انہیں پھر اپنے گھر چھوڑ کر آفس آیا تھا مگر ابراہیم کو دیکھ ماتھے پر تیوری سجائے اپنے کام میں مصروف ہوا تھا۔۔

اور اسکو دیکھ ابراہیم جو خود پر غصہ آرہا تھا۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

وہ کیبن میں آیا تو ٹیبل پر اسکے پسندیدہ لوازمات دیکھ اس نے تاسف سے سر ہلایا مطلب اسکی ناراضگی ختم کرنے کے لئے میدے والا فارمولہ اپنایا تھا مگر وہ بھی حاشر تھا اس لئے کھانے کو دوسری نظر دیکھے بغیر لیپ ٹاپ آن کر کے بیٹھ گیا..

ابراہیم روم میں آیا تو کھانے کو ایسے ہی دیکھا تو اسے دکھ ہوا تھا۔۔

کب تک ناراض رہے گا بس کر نا یار۔۔۔کیپ ٹاپ بند کرتا وہ اس کے پاس بیٹھا تھا

مجھے کام ہے پلیز ڈسٹرب نہیں کرو۔۔وہ بے رخی سے کہتا واپس سے لیپ ٹاپ آن کر بیٹھا۔۔

یار معاف کردے نا قسم سے بس اس ٹائم کچھ سمجھ ہی نہیں آیا اب ہوگئی نا غلطی۔۔

ابراہیم تیری اس ایک غلطی نے کسی کا کردار اسکی فیملی کی نظروں میں مشکوک کردیا ہے اوپر سے تیری خود غرضی کہ اسے اپنے مطلب کے لئے استعمال کرتا بعد میں اسے چھوڑ دے گا تجھ سے اس بے حسی کی امید نہیں تھی۔۔

وہ اسے ملامت کر رہا تھا۔۔۔

اچھا میں ٹھیک کردونگا نا سب تو کیوں ناراض ہے آئی پرامس۔۔وہ اسے یقین دلا رہا تھا اس نے اسے ایسے دیکھا جیسے یقین نا آیا ہو

سچ بول رہا ہوں نا اب مان جا۔۔۔وہ ایک اس پر گرا تو وہ مسکرا دیا

دیکھ لے اس معاملے میں تیرا دوست نہیں بنو گا

اچھا نا چل آجا دیکھ تیرے لئے اتنا کچھ منگوایا ہے وہ اسے پچکارتے ٹیبل تک لایا تھا۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

خالہ آپ کیا بول رہی ہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے حاشر نے کبھی تذکرہ تک نہیں کیا ایسا کچھ۔۔۔سفینہ بیگم تو سن کر شاکڈ ہوئی تھیں

مجھے بھی ایسے ہی جھٹکا لگا تھا مگر اپنے پوتے سے ناراض نہیں رہ سکتی اور اسکی خوشی ہی سب سے اہم ہے اس لئے حیات کو بتائے بغیر میں نے پہلے خود یہاں آکر سب دیکھنے کا فیصلہ کیا ہے

پھر بھی خاکہ حیات بھائی کو بہت دکھ ہوگا

نہیں سفینہ حیات کے لئے ابراہیم کی خوشی سب سے اہم ہے بس تو دعا کرنا کہ جو بھی ہو ہمارے حق میں بہتر ہو

انشاء اللہ آپ پریشان نا ہو

میں تو ویسے اس حاشر نے بچے کر حیران ہوں مجھے بھنک تک نہیں پڑنے دی۔۔

دوست ہونے کا حق ادا کر رہا ہے۔۔

اب آگے کا کیا ارادہ ہے آپ کا؟؟

بس ایک دو دن میں اس لڑکی کے گھر جاکر دیکھنا ہے حاشر کے مطابق تو متوسط گھرانے سے تعلق ہے چھوٹی فیملی ہے باقی وہاں جاکر ہی اندازہ ہوگا۔۔

بس اب جو ہوگیا اس پر یہی دعا کر سکتے کہ ہمارے ابراہیم کے نصیب میں بہت ساری خوشیاں ہوں۔۔۔

آمین۔۔۔۔

انہوں نے ایک ساتھ آمین کہا تھا۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

شبانہ اور نور کے سہارے وہ گھر میں داخل ہوئی تھیں اس نے چھت کی منڈیر سے جھانک کر نیچے دیکھا 

وہ دونوں اب انہیں لئے اندر کمرے میں بڑھی تھیں

اس نے خود کو ریلکس کرکے نیچے قدم بڑھائے تھے 

تبھی اندر سے آتی آواز پر اسکے قدم رکے تھے 

دیکھ لیا شبانہ اس دن کے لئے ڈرتی تھی کیسے معصوم بنتی تھی اور یوں لڑکے کو پھانس کر بیٹھی تھی جبھی تو اتنی آسانی سے اتنے لاکھ انہوں نے میرے علاج کے لئے دے دئیے ارے ایسی آوارہ کو پالا میں نے۔۔

اماں۔۔۔نور نے انہیں ٹوکا تھا 

تو چپ کر۔۔

زلیخا طبیعت ٹھیک نہیں ہے بعد میں بات کرتے ہیں ہم ابھی تم آرام کرو۔۔شبانہ خالہ کا لہجہ انہیں سپاٹ لگا تھا 

انکے باہر آنے پر وہ ایک دم اوٹ میں ہوئی تھی 

چھپ اس سے جو تجھے جانتا نا ہو۔۔انہوں نے اسکا ہاتھ تھامے اسے آگے کیا تو وہ نظر جھکا گئی 

بڑے افسوس کی بات ہے ساری زندگی جو نظریں اٹھا کر چلتی آئی آج قربانی دے کر بھی نظریں جھکا رہی ہے۔

ان کی بات پر اسے دھچکا لگا تھا 

تجھ سے یہ امید نہیں تھی آنسہ کہ تو اپنی خوشیوں کی قربانی دے گی وہ بھی اس عورت کے لئے۔۔۔

ایسی تو نہیں تھی نا تو۔۔

مجھے اب کوئی فرق نہیں پڑتا کوئی کیا بولتا ہے۔۔۔

جبھی یو چھپ کر بیٹھی ہے 

میرا دل نہیں کرتا اب کسی سے بھی بات کرنے کا۔۔۔

اس کا میسج آیا؟؟

کس کا؟؟ اس نے تعجب سے انہیں دیکھا 

وہی کو نکاح کرکے بھول گیا ہے کیا ساری زندگی یونہی تجھے اپنے نام پر بیٹھا کر رکھے گا۔۔۔۔

کیا فرق پڑتا ہے خالہ۔۔وہ تلخی سے بولتی مسکرائی 

ٹھیک نہیں کیا تو نے یہ آنسہ بہت غلط کیا مگر میری دعا ہے خدا تجھے ساری خوشیاں دے۔اسکا ماتھا نرمی سے چومتی وہ باہر بڑھی تھی جبکہ اس کے رگ و پے میں سکون دوڑ گیا تھا 

یہی تو وہ ممتا کا احساس تھا جس کے لئے وہ ترستی تھی اور باہر کے لوگوں سے ملتا تو وہ باؤلی ہوجاتی تھی۔۔

کاش امی آپ پاس ہوتی یوں آپ کی بیٹی محبت کے لئے ترس نا رہی ہوتی۔۔۔ تلخی سے سوچتی وہ کچن کی طرف بڑھی تھی اسکے اپنا کمزور پہلو نہیں دیکھانا تھا کسی کو نا اسے مظلوم بننا تھا وہ آنسہ کامران تھی اسے مضبوط بننا تھا کیونکہ وہ کمزور پڑنا افورڈ نہیں کرسکتی تھی۔۔۔

زندگی اپنی ڈگر پر چل رہی تھی آج زلیخا کے آپریشن کو ہفتہ ہوگیا تھا مگر ان کے اندر کی تلخی وہ زبان کے زریعے باہر نکالتی رہی تھی لوگ تو اتنے بڑے آپریشن کے بعد بدل جاتے ہیں خوف خدا ان کے دل میں ڈیرے ڈالے ہوتا ہے مگر وہ تو اور زیادہ اس نے لئے بڑی بن گئی تھیں اب یہ ان کی طبعیت کی وجہ سے تھا یا کیا مگر وہ اسے تکلیف دے رہی تھیں اور وہ تو جیسے ڈھیٹ ابن ڈھیٹ ایک بار پھر پتھر جیسی بن گئی تھی جیسے نا سنتی تھی نا محسوس کرتی تھی پہلی بار اسے ایک ماں کی گود چاہیے تھی مگر ہائے رے قسمت

کبھی کبھی تو وہ اپنی قسمت کر روتی نہیں ہنستی تھی اتنی بڑی ہوگئی مگر ماں کے پیار کے لئے ترستی رہی اب تو دل نے خواہش بھی چھوڑ دی تھی مگر ایک وقت تھا جب اسکا دل ہمکتا تھا ماں کی ممتا کے لئے۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

حسب معمول وہ چھت پر بیٹھی آسمان کو تک رہی تھی جبکہ روشنی اس کے پاس بیٹھی میری کھانے میں مصروف تھی 

آنسہ تیری ابراہیم بھائی سے بات ہوتی ہے؟؟ 

کون ابراہیم؟ اس نے اچنبھے سے پوچھا 

اور پھر جن نظروں سے روشنی نے اسے دیکھا وہ زندگی میں پہلی بار شرمندہ ہوئی تھی

ارے بھئی میرا دھیان ادھر ادھر تھا

تبھی بنتے دروازے پر انکا دھیان وہاں گیا تھا یہ نور کہاں رہ گئی وہ خود سے بولتی نیچے اتری مگر تب تک نور دروازہ کھول چکی تھی اس لئے بنا دیکھنے کی زحمت کئے وہ واپس اوپر آگئی 

کون تھا ؟؟

مجھے نہیں پتا نور نے دیکھ لیا شاید اسکی ماں سے کوئی ملنے آیا ہے۔۔

اچھا چل چھوڑ تو پتا مارکیٹ چلے گی اتنا وقت گزر گیا ہم نے کوئی تفریح نہیں کی۔۔

یہاں اپنی تفریح بنی ہوئی ہے۔۔وہ تلخی سے ہنسی تھی 

بس کردے تو۔۔روشنی نے چڑ کر کہا تو وہ ہنس دی

اچھا چل کر دیتی بس۔۔۔وہ ہنس کر بولی تو روشنی نے ایک دھپ اسے رسید کی تھی

چل اب جارہی میں ورنہ امی نے بے عزتی کر دینی ہے۔۔

ہاں تو جا۔۔۔اسے بول وہ واپس اپنے چھوڑے گئے شغل میں مصروف ہوگئی تھی 

نیچے سے آتی آوازوں پر اس نے کان دھرنا ضروری نہین سمجھا تھا 

تبھی نور ہانپتی ہوئی اوپر آئی تھی 

آنسہ۔۔۔آنسہ۔۔۔

کیا ہوا ہے بہن خیریت؟؟ کونسی ریس دوڑ کر آرہی ہو؟؟

ریس تو کوئی نہیں دوڑ رہی تمہارا بلاوہ آیا ہے۔۔

کیوں بھئی اب کیا کردیا میں نے ۔۔۔

کیا کچھ نہیں بس تم سے ملنے کچھ لوگ آئے ہیں جلدی سے آؤ اور حلیہ ٹھیک کرلینا۔۔۔

اپنی بولتی وہ وہاں سے واپس نیچے بھاگی تھی۔۔

حد ہے بھئی۔۔۔ہاتھ میں پکڑی کیری کا پیس پلیٹ میں رکھتی وہ ہاتھ صاف کرتی اٹھی تھی 

اب اسکا رخ نیچے کی طرف تھا۔۔

کمرے میں داخل ہوئی تو سامنے ہی صوفے پر ایک بڑھی خاتون اور ایک زلیخا کی عمر کی عورت کو دیکھ وہ ٹھٹھکی تھی وہ کہیں سے بھی اس ماحول کا حصہ نہیں لگ رہی تھیں ان کی ڈریسنگ ہی ان کے اپر کلاس ہونے کی گواہ تھی اسے بے حد عجیب سا لگا تھا 

مگر پھر سر جھٹک کر وہ اندر آئی اور سب کو مشترکہ سلام کیا تھا 

اسکے سلام پر سفینہ بیگم اور دادو نے اسے دیکھا تھا 

بلیک لیلن کی قمیض اور پاجامہ پہنے کالے بالوں کی چوٹی ڈالے بھرا بھرا جسم کھلتی رنگت اس پر متضاد اسکی آنکھیں۔۔

اسکا میک اپ سے پاک چہرہ۔۔

ان دونوں کے چہرے کر ستائش ابھری تھی 

آجاؤ بیٹا ہمارے پاس آؤ۔۔۔ دادو کے بولنے پر وہ جھجھکتی ان کے پاس آئی تھی 

ابراہیم کی دادی ہیں یہ اور میں خالہ۔۔۔سفینہ بیگم نے اسے پریشانی میں دیکھا تو اپنا تعارف کروایا جبکہ ابراہیم کے نام پر اسکا حلق تک کڑوا کڑوا ہوا تھا وہی تو تھا فساد کی جڑ۔۔۔

ماشاءاللہ بہت پیاری۔۔۔ روبینہ بیگم تو اسکے واری صدقے گئی تھیں 

انہیں آنسہ بہت پیاری لگی تھی بناوٹ سے پاک۔۔

ہمم بس یتیم بچی کی پرورش کرنا آسان نہیں ہوتا۔۔زلیخا کی بات پر وہ ناسمجھی سے انہیں دیکھنے لگی

ان کے بیچ کیا کچھ باتیں ہو چکی تھیں اس سے وہ انجان تھی 

بس اب آنسہ سے مل لیا تسلی ہوگئی اب بہت جلد اپنی بیٹی کو ہم لینے آئینگے جو بھی ہوا اور جن حالات میں بھی ہوا اسے بھول جائیں۔۔

دادو نے محبت سے اسکا ہاتھ تھپتھپایا۔۔

اسے تو سمجھ ہی نہیں آیا کہ آخر کرے تو کیا کرے۔۔

نور نے اچھی خاصی ٹیبل سجائی تھی مگر مجال ہے جو وہ اٹھی ہو یونہی ٹھس بیٹھی رہی شادی اور اسکی اور اس شادی کا انجام وہ سب بے خبر تھے مگر غصہ اسے ابراہیم کر آرہا تھا جو اسکی زندگی برباد کر اپنی خوشیوں کی آس لگائے بیٹھا تھا 

میرا کردار مشکوک بنایا میرے لئے اپنے ہی گھر میں رہنا محال کیا تمہیں بھی سبق ملنا چاہیے محترم ابراہیم تلخی سے سوچتی وہ اٹھ کر کمرے سے باہر آگئی 

پتا نہیں کون ہوتے تھے جو یوں اچانک شادی پر تماشے لگاتے تھے لمبی چوڑی پنچائیت لگتی تھیں یہاں تو سب افسانوں جیسا ہوا تھا اس کے ساتھ اور اسے غم تھا کہ اسکے ساتھ ہی کیوں ہوا۔۔

اندر ناجانے کیا کیا باتیں چل رہی تھی اسے غرض نہیں تھی اس لئے منہ بنائے وہ چھت پر آگئی تاحد نگاہ سرمئی شام چھارہی تھی جیسے اسکی زندگی اندھیروں کی زد میں آرہی تھی مگر کیا وہ جانتی تھی کہ اس اندھیرے کے پیچھے کتنی روشنی چھپی ہے جسے تلاشنے کے لئے کئی مراحل اسے طے کرنے تھے۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

کیا بکواس ہے یہ تو مجھے اب بتا رہا یار حاشر۔۔۔۔

وہ جو ابھی آفس سے آئے تھے گھر کو خالی دیکھ حاشر نے کال کرکے پوچھا تھا اور جو اسے بتایا گیا وہ ان دونوں کو پریشان کرگیا تھا 

مجھے بھی تو تیرے سامنے ہی پتا چلا ہے نا ۔۔اسکے یوں بولنے وہ بھی تپا تھا 

جبکہ ابراہیم نے اپنا سر پکڑا تھا بات تو طویل ہوتی جارہی تھی وہ بھنا کر رہ گیا تھا 

کہا پھنسا دیا یار ارحم۔۔۔

وہ بڑبڑایا۔۔

ہاں اور سن اسکی اب کیا کرے گا اس رشتے کو ختم کرنے کی بات ہوئی تو سوچ دادو تیرے ساتھ کیا کرینگی۔۔۔

مجھے کیا پتا تھا کہ یہ سب ہوجانا یار یہ کہانیوں میں کیسے آرام سے لوگ دیکھا دیتے میری تو جان نکل رہی ہے ایسا لگ رہا کسی نے بیچ آگ کے دریا میں کھڑا کردیا نا تیر کر بھاگ سکتا نا کھڑے رہ سکتا دونوں صورتوں میں جھلسنا ہی مقدر ہے۔۔

اور اس آگ کے دریا کا انتخاب تو نے خود کیا ہے خود کو اب ہر چیز کے لئے تیار رکھ۔۔

اسے بولتا وہ کمرے میں چلا گیا۔۔

تبھی اسکا موبائل رنگ ہوا تھا ردابہ کا نمبر دیکھ دیکھ اس نے گہری سانس خارج کی تھی

اور اٹھ کر بالکونی میں آیا تھا خود کو کمپوز کرتا اس نے فون اٹھایا تھا

ہیلو ابراہیم کب سے کال کر رہی کہاں تھے؟؟ دوسری طرف سے شکوہ کیا گیا تھا 

بزی تھا ردابہ۔۔۔

آر یو اوکے۔۔۔اسکے بجھے لہجے کو محسوس کرتے اس نے سوال پوچھا تھا 

ہاں بلکل آئی ایم اوکے تم سناؤ واپسی کب ہے؟؟

اسکے پوچھنے پر اس نے خود کو چئیر کیا تھا 

واپسی۔۔یار اے بی ایکچوئیلی ڈینی اور میں شارجہ جارہے ایک کانٹریکٹ کے لئے۔۔اس کے لہجے میں ایسا پتا نہیں کیا تھا کہ ابراہیم چونکا تھا 

کتنے دن کے لئے۔۔۔

چھ مہینے۔۔۔ اسکے بولتے ہی اسکا دماغ گھوما تھا 

دماغ خراب ہے تمہارے یہاں میں پاگل بنا بیٹھا ہوں کہ تم آؤ اور میں اپنی فیملی سے بات کرو مگر تم تو مجھے سیریس ہی نہیں لے رہی ہو شادی کی باتیں ہورہی ہیں میری اور تمہیں کوئی پرواہ نہیں۔۔۔

اب۔۔

شٹ اپ جسٹ شپ اپ ردابہ کیا سمجھا ہوا ہے مجھے ہاں کوئی غلام ہوں میں جو ہوں رکا رہوں تمہارے لئے۔۔ اسکا غصے سے برا حال ہوا تھا تم نے کہا تھا تم واپس آکر شادی کرو گی اور اب یہ چھ مہینے کا تماشہ۔۔۔

ویٹ ۔۔۔یہ تم بات کس لہجے میں کر رہے ہوں ہاں میں نے کہا تھا کہ انتظار کرو تمہیں پتا ہے میرے لئے میرا کرئیر بہت اہم ہے اور غلام واٹ ربش۔۔۔

اگر تم ویٹ نہیں کرسکتے تو الگ ہوجاو کیونکہ فلحال کچھ سال تک میرا ارادہ صرف اپنے کرئیر پر فوکس کرنے کا ہے۔۔۔

اسکے دوٹوک انداز پر اسکا دماغ گھوما تھا 

ٹھیک ہے پھر تم کرو جو کرنا مگر پھر سے گلہ مت کرنا۔۔۔

غصے سے بولتے اس نے فون کٹ کردیا لمحے میں وہ ایک نتیجے پر پہنچا تھا ساری پریشانی ہوا ہوئی تھی 

بہت پچھتاؤ گی تم ردابہ بہت زیادہ۔۔۔۔

موبائل میں اسکا نمبر دیکھتا وہ خود سے بولا تھا۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

گھر آئے مہمان جا چکے تھے مگر جانے سے پہلے موت کا پروانہ اسے تھما کر گئے تھے اس نے ہاتھ میں انگوٹھی ڈال کر شادی کے لئے انہوں نے اگلے مہینے کی تاریخ مانگی تھی زلیخا نے اتنی جلدی تیاری کی وجہ پیش کی تو انہیں کچھ نہیں چاہیے بول انہوں نے زلیخا بیگم کی ساری پریشانی ہوا کی تھی وہ سمجھ رہی تھی ان کی خوشی کی وجہ ایک ان چاہے بوجھ سے جان چھوٹ جانے والی تھی۔۔

نور تو بے حد خوش تھی مگر خوشی تو دور اسکے چہرے پر کسی قسم کے کوئی تاثرات تک نہیں تھے 

علی اس سے ملنے آیا تھا مگر زلیخا کی آواز پر وہ باہر آئی تھی 

تم لوگوں نے تو بگاڑا ہے اسے اب کیوں آئے ہو کسی کی امانت کے اب دور رہو اس سے۔۔۔

وہ علی کو سنا رہی تھی اس کے ماتھے پر لاتعداد بل پڑے تھے 

بس کردیں بس بہت ہوگیا اب تک چپ تھی کیونکہ لحاظ تھا کہ ابھی آپریشن ہوا ہے مگر آپ کو خدا کا خوف نہیں کیا سمجھتی ہیں آپ بچی ہوں جانتی نہیں ہوں کچھ اگر چپ ہوں تو بس اسکی وجہ سے۔۔اس نے نور کا بازو تھام کر ایک دم آگے کیا تھا 

اگر بولی نا تو آپ اپنی اولاد کو کیا منہ دیکھائیں گی ہاں ۔۔۔

میں چپ ہوں کیونکہ اب میں کوئی بدمزگی اس گھر میں نہیں چاہتی تو برائے مہربانی مجھے بولنے پر مجبور نہیں کریں اور یہ بھائی ہے میرا دوست ہے اس نے نہیں بگاڑا مجھے تمہارے رویے نے بتایا ہے جس شخص کی جائداد چاہیے نا میں بھی اسی کی بیٹی ہوں۔۔۔وہ تڑخ کر بولی تھی 

زلیخا بیگم کو اس سے اتنی صاف گوئی کی امید نہیں تھی ان کی زبان کو ایک دم بریک لگے تھے 

چل علی۔۔۔ علی کا ہاتھ تھامتی دوپٹہ سنبھالے وہ باہر نکل گئی۔۔۔

دیکھا اس کو کیسے اپنا خون پسینا ایک کر اس ناگن کو پالا اور مجھے اتنا سنا کر چلی گئی۔۔

امی۔۔ یہ کس بارے میں بات کرکے گئی ہے کہ آنسہ۔۔ نور ان کے پاس آئی تھی 

کچھ نہیں دماغ نا کھا میرا جا یہاں سے۔۔۔

اسے جھڑکتی وہ اندر بڑھ گئی دماغ میں ایک دم ٹیسیں اٹھی تھیں مگر انہیں پرواہ نہیں تھی پرواہ تھی تو بس ایک چیز کی جس پر اب وہ جلد از جلد عمل کرنا چاہتی تھی۔۔۔



وہ تھکا ہارا سا ان کے سامنے بیٹھا تھا جن کے چہرے پر آج ایک الگ قسم کی ہی چمک تھی وہ انہیں بس دیکھتا رہ گیا 

حاشر اپنے انکل کو کال کرو اور بولو جلد از جلد پاکستان آنے کی کریں کنزہ کو میں کال کرچکی وہ بھی اپنا ویزہ وغیرہ دیکھ لے گی۔۔

حاشر نے پریشانی سے اسے دیکھا جو دم سادھے بیٹھا تھا 

سن بھی رہے یا نہیں ۔۔۔حاشر کو چپ دیکھ وہ ایک دم بولی تھیں

جی دادو میں بات کرتا ہوں انکل سے۔۔

اور گھر کا کام بھی مکمل کرواؤ۔۔۔ان کے انگ انگ سے خوشی جھلک رہی تھی 

دادو سب ہوجائے گا آپ آرام کریں۔۔حاشر نے انکا ہاتھ تھامے انہیں تسلی دی تو وہ مسکراتی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں 

کیا مسئلہ ہے تجھے چپ کیوں ہے؟؟ وہ پریشان سا اس کے پاس آکر بیٹھا تھا 

کچھ نہیں ہوا مجھے کیا ہونا ہے۔۔وہ تلخی سے ہنس دیا تھا

اور اسکے یوں کرنے پر حاشر کے دل کو کچھ ہوا تھا۔۔

ادھر دیکھ ابراہیم کیا ہوا ہے؟؟ اسکا چہرہ اپنی طرف موڑے وہ ایک دم ٹھٹھکا تھا 

اس کی آنکھیں لال سرخ ہورہی تھیں 

دیکھ ابراہیم کیوں خود کو تکلیف دے رہا ہے میں بات کرتا ہوں دادو سے۔۔

وہ ایک اٹھا تھا تبھی ابراہیم نے اسے روکا تھا 

کرنے دے انہیں جو کرنا ہے۔۔

مگر ردابہ؟؟ وہ ایک دم پوچھ بیٹھا جس پر وہ مسکرا دیا 

اسے اپنا کیرئیر بنانا ہے وہ میرے بغیر خوش رہ سکتی ہے۔۔ٹوٹے لہجے میں بولتا وہ حاشر کو مسلسل پریشان کررہا تھا 

ادھر دیکھ ابی بتا مجھے۔۔۔اس کے یوں پوچھنے پر وہ اسے اپنے اور ردابہ کے درمیان ہوئی بات بتاتا چلا گیا 

حاشر کو افسوس ہوا تھا وہ جانتا تھا ابراہیم کتنا سیریس ہے اسے لے کر۔۔

تو پریشان مت ہو دیکھ ابراہیم ہر چیز کے پیچھے یقیناً کوئی نا کوئی مصلحت ہوتی ہے اگر یہ سب ہوا تو ضرور اللّٰہ پاک نے تیرے لئے کچھ بہترین سوچا ہے۔۔

ہممم۔۔

بس اب خوش رہ انشاء اللہ سب ٹھیک ہی ہوگا۔۔۔

حاشر کے سمجھانے پر وہ سر ہلاتا اٹھ گیا۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

یہ وقت پر لگا کر اڑا تھا اس نے خود کو بے حد مصروف کرلیا تھا حیات مینشن ایک بار پھر پوری آب و تاب کے ساتھ اپنی جگہ کھڑا ہوا تھا۔۔

حیات صاحب دراب کنزہ سب پاکستان پہنچ چکے تھے

وہ بظاہر مسکراتا سب سے مل رہا تھا مگر اسکا دل بجھ کر رہ گیا تھا وہ کسی طور آنسہ کو اپنی زندگی میں شامل نہیں کرنا چاہتا تھا مگر اب بہت دیر ہوگئی تھی حاشر خوش تھا کہ وہ موو آن کر رہا ہے مگر وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ اسکے دماغ میں اس وقت کیا چل رہا ہے جان جاتا تو یقیناً اسے سمجھانے کی کوشش کرتا۔۔

کنزہ تو آنسہ سے مل کر بہت خوش ہوئی تھی 

وہ لوگ حیات مینشن شفٹ ہوگئے تھے گھر کو دولہن کی طرح سجایا گیا تھا آخر کو اس گھر کی آخری شادی تھی 

حاشر بھی اس سب میں آگے آگے تھا 

اسکی خاموشی دیکھ حیات صاحب نے خود حاشر سے پوچھا تھا کہ کیا ابراہیم خوش ہے جس پر اس نے انہیں تسلی دی تھی۔۔

دوسری طرف وہ سب سے بیزار بیٹھی تھی اسکا دل ہی نہیں کرتا تھا کچھ کرنے کا جتنی وہ ایکٹیو تھی اس سے کہی زیادہ وہ سست ہوگئی تھی 

نور اس کے پاس بیٹھ گھنٹوں پیلینگ کرتی تھی مگر وہ گونگی بہری بنی بیٹھی رہتی۔

روبینہ بیگم نے کسی قسم کا جہیز لینے سے صاف انکار کردیا تھا یہاں تک کے کپڑے بھی۔۔

بری کے نام پر کنزہ اور حمیرا اس کے لئے ایک سے بڑھ کر ایک قیمتی سامان لائی تھیں وہ بس چپ چاپ یہ تماشہ دیکھ رہی تھی 

ناجانے ایسا کیا تھا جو وہ دل میں دبائے بیٹھی تھی 

کل اسے مایوں بیٹھ جانا تھا ایسے وقت میں ایک لڑکی کو اپنوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے اسے بھی اپنی ماں کی کمی آج پھر شدت سے کھلی تھی 

وہ ناشکری نہیں تھی اس نے اللّٰہ کے ہر فیصلے پر سر جھکایا تھا 

اگر اللّٰہ نے اس سے کچھ لیا تھا تو اسے بیش بہا چیزوں سے نوازہ بھی تھا 

وہ چھت پر لیٹی آسمان کو دیکھ رہی تھی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا روح میں اتر کر عجیب سا۔ احساس پیدا کر رہی تھی ۔۔

تبھی نور نے اسکو خود میں بھینچا تو وہ گردن موڑ کر اسے دیکھنے لگی 

کیا دیکھ رہی ہے آنسہ؟؟

کچھ نہیں تو کب آئی؟؟ وہ اسکا ہاتھ ہٹا کر اٹھ کر بیٹھی تھی

میں تو تبھی آئی جب آپ ہمارے دولہا بھائی کے خیالوں میں گم تھیں۔۔

نور کی بات پر اسکا دل کی قہقہ لگا کر ہنسے 

میں ایسے کام نہیں کرتی جو مجھ پر جچتے نا ہو۔۔

بس بھی کر یار آنسہ قسم سے کل مایوں بیٹھ جانا اور تو یہاں سن ہوئی بیٹھی ہے۔۔

تو کیا کروں بھنگڑے ڈالوں؟؟ وہ چڑ کر بولی تھی نور کے پاس اسکے علاؤہ کوئی ٹاپک ہی نہیں تھا۔۔

ناراض ہے مجھ سے ؟؟ نور نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالوں میں بھرا تو وہ مسکرا کر نفی میں سر ہلا گئی 

نہیں تو میں بھلا کیوں تجھ سے ناراض ہونگی؟؟

اماں بہت درد دیتی ہیں نا آنسہ میں جانتی ہوں ان کی باتیں مجھے اتنی تکلیف دیتیں ہیں تو تجھے کتنا زیادہ برا لگتا ہوگا مجھے احساس ہے میں ان کی طرف سے معافی مانگتی ہوں آنسہ۔۔ اس نے ایک دم اس کے آگے ہاتھ جوڑے تھے۔۔

پاگل ہوگئی ہے کیا نور ایسے کیوں کر رہی تو جانتی ہے مجھے فرق نہیں پڑتا ہے۔۔

بس کردے کیوں خود کو پتھر ظاہر کرتی ہے جسے کوئی فرق نہیں پڑتا میں جانتی ہوں تجھے فرق پڑتا ہے میری ماں غلط کر جاتی ہے اور تو بس کر اب۔۔

اسے گلے سے لگائے وہ رونے لگی اور اسکے یوں کرنے پر آنسہ کو اس پر بے تحاشہ پیار آیا تھا 

افف بس کردے شادی میری ہے رو تو رہی اگر ایسے روئے گی تو میں نے شادی سے انکار کردیا پھر سوتیلی ساری زندگی یونہی مجھے سناتی رہے گی۔۔

اسے پچکارتے وہ ہنس کر بولی تو وہ منہ بنا کر اس سے الگ ہوئی 

سوچنا بھی نہیں ایسا میری سب سے بڑی خوشی ہے تجھے خوش دیکھنا دادو بہت اچھی ہیں تجھے اماں کی طرح نہیں سنائیں گی تو بہت خوش رہے گی ابراہیم بھائی بھی تجھے بہت سارا پیار کریں گے۔۔

وہ خوشی خوشی بول رہی تھی یہ جانے بغیر کہ اس شخص کے نام پر اسکا دل برا ہوا تھا 

وہ شخص جو مجھے کچھ عرصے بعد مجھے چھوڑ دے گا اس سے کیسی محبت ملے گی مجھے۔۔۔۔

خود سے بولتی وہ تلخی سے ہنسی تھی۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

پورے حیات مینشن کو دولہن کی طرح سجایا گیا تھا 

وسیع وعریض لان کو برقی قمقموں سے سجایا گیا تھا مہمان گو کو بس اپنے ہی تھے مگر پھر بھی انتظام انہوں نے بھرپور کیا تھا

بےبسی کیا ہوتی ہے یہ آج ابراہیم نے جانا تھا 

پیلے کرتے پر سفید پاجامہ اور چنری ڈالے ہلکی بڑھی شیو وہ گہری کالی آنکھیں جو آج اداس سی تھی اسکی وجاہت کو مزید بڑھانے کا سبب بن رہی تھیں

روبینہ بیگم نے فوراً اس کی نظر اتاری تھی۔۔

آنسہ لوگ آتے ہی ہونگے حاشر جیسے ہی وہ لوگ آئیں ابراہیم کو لے کر آنا ہے۔۔

نیچے سے آتی کنزہ نے حاشر کو بول اب اپنے بھائی کا صدقہ اتار رہی تھی 

ویسے آپی بھائی تو میں بھی آپکا ہوں اور آج کافی وجہہ لگ رہا ہوں تو آپ کو نہیں لگتا میرا صدقہ بھی اتارنا چاہیے آپ کو۔۔

اسکے شوخی سے کہنے پر کنزہ نے ہنستے ہوئے اسکا بھی صدقہ اتارا تھا۔۔

بی بی کی دولہن بیگم اور انکے گھر والے آگئے ہیں۔۔ملازمہ بھاگتی انہیں اطلاع دینے آئی تھی۔۔

چلو بچوں جلدی سے آجاؤ نیچے۔۔

جاتے جاتے وہ حاشر کو تاکید کرتی نیچے آئی تھیں 

جہاں اب انہیں اپنی ہونے والی بہو کا اسکے شایانِ شان استقبال کرنا تھا۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

گاڑی میں بیٹھی وہ اس گھر کو دیکھ رہی تھی جہاں کل اسے آنا تھا اور پھر طلاق لے کر واپس اپنے گھر جانا تھا وہ خود کو ہر طرح سے تیار کر کے بیٹھی تھی 

نور نے ہاتھ بڑھا کر اسے باہر نکالا تھا 

مسٹرڈ کلر کی گھیر دار فراک پہنے ہم رنگ نیٹ کا دوپٹہ گھونگھٹ کی صورت لئے پھولوں کے زیورات سے سجی وہ آج ہر دیکھنے والی آنکھ کو خیراں کررہی تھی کھلتی سے رنگت پر آج نرالی سی چمک تھی

کنزہ نے محبت سے اسکا ہاتھ تھام کر اسے ابراہیم کے پہلو میں کھڑا کیا تھا 

کیسے نرالے دولہا دولہن تھے جو ایک دوسرے سے سخت چڑ محسوس کئے کھڑے تھے۔۔

فلش لائٹس ان پر پڑ رہی تھیں

خوشی سب کے چہروں سے عیاں تھی

انہیں کے جا کر اسٹیج پر ساتھ بیٹھایا گیا تھا 

اس کے بیٹھتے ہی ابراہیم اس کے پہلو میں بیٹھا لمحے میں ان کا ہاتھ ٹچ ہوا تھا 

تبھی اس نے اپنا ہاتھ اتنی زور سے آگے کیا کہ اسکی کہنی ابراہیم کی پسلی میں لگی تھی 

کیا پاگل ہو انسان بن کر بیٹھو۔۔۔وہ آواز نیچی کئے غرایا تھا 

تم انسانوں کی طرح بیٹھنا سیکھو پہلے۔۔

وہ گھونگھٹ کے اندر سے بڑبڑائی تھی

تمیز نہیں ہے بات کرنے کی بدتمیز۔۔۔

ہاں خود نے تو جیسے پی ایچ ڈی کی کوئی ہونہہ۔۔۔

اس سے پہلے وہ کوئی جواب دیتا کنزہ ان کے پاس آکر بیٹھی تھی 

کیا باتیں ہورہی ہیں بھئی صبر کرو میرے بھائی کل تمہارے پاس آجانا ہماری بھابھی نے۔۔۔

کنزہ شرارت سے بولی تھی اور اس کی بات پر ان دونوں نے پہلو بدلہ تھا۔۔

چلو بھئی رسم شروع کرو۔۔۔۔

سب سے پہلے بولتے کے ساتھ دادو ان کے پاس بیٹھی تھیں اور رسم ادا کی تھی اسکے بعد ایک ایک کر کے سب نے رسم ادا کی اور اسے ڈھیروں پیار کیا ناچاہتے ہوئے بھی اسکی آنکھیں نم ہوئی تھیں دادو نے اسے سینے سے لگایا تھا 

ایسے نہیں روتے گڑیا۔۔۔انہوں نے اسے خود میں بھینچا تھا 

اسے انکے سینے سے لگے سکون سا ملا تھا

سب کی آنکھیں نم ہوئی تھیں 

ہونہہ ویسے تو بڑی زبان چلتی اب جیسے معصوم بن رہی ڈھونگی عورت۔۔

اسے یوں اپنی دادو سے لپٹا دیکھ وہ جل بھن کر کباب ہوا تھا

جبکہ اسکی بڑبراہٹ سنتے ہی حاشر نے پیچھے سے اسے نوچا تو وہ بلبلا کر رہ گیا۔۔

منحوس انسان۔۔۔

فنکشن کے اختتام تک وہ بے تحاشہ تھک گئی تھی گیارہ بجے کے قریب حاشر ان لوگوں کو گھر چھوڑ کر گیا تھا ہرے گرارے میں موجود نور کو دیکھ اس نے بمشکل نظریں ہٹائی تھیں۔۔

اور اب بھی فنکشن میں لی اسکی تصویر دیکھتے وہ مبہوت سا ہوا تھا

جبکہ دوسری طرف اسکی فیلنگ سے انجان وہ آنسہ کے پاس بیٹھی تھی

کچھ بات ہی کرلے میں بور ہورہی۔۔وہ سخت بیزار ہورہی تھی 

سوجا نور قسم سے سر درد سے پھٹ رہا ہے میرا۔۔۔

دفع ہوجا مر تو۔۔وہ منہ بنا کر کہتی کروٹ بدل گئی۔۔

جبکہ دوسری طرف اس نے اپنے آنسو پونچھے تھے۔۔۔۔

اگلا دن اس کی زندگی میں عجیب سی ویرانی لایا تھا 

بارات ان کے چھوٹے سے گھر میں آئی تھی اور زلیخا کے کہنے پر یہ سب ہوا تھا وہ دولہن بنی بے حس و حرکت بیٹھی تھی تبھی زلیخا کمرے میں آئی تھیں 

جا نور مہمانوں کو دیکھ۔۔۔ 

جی اماں۔۔فراک سنبھالتی وہ کمرے سے باہر نکل گئی۔۔

اتنی شریف ہے تو نہیں جتنی تو بن رہی لیکن خیر آج میں کوئی بدمزگی نہیں چاہتی مگر۔۔

وہ لمحے کو رکی تھیں…

میں نہیں چاہتی کہ دوبارہ کبھی اس گھر میں قدم رکھے۔۔۔ تیرے جو لچھن ہیں وہ میری بیٹی کے کردار پر بھی داغ لگا دینگے۔۔۔

اس نے حیرت سے اس عورت کو دیکھا تھا۔۔

ایسے مت دیکھ اور رہی بات اس مکان اور دوکان کی تو بے فکر رہ وہ تیرا ہی رہے گا بس اپنا منحوس وجود لے کر واپس مت آنا۔۔۔

اپنی بات کہہ کر وہ رکی تھی 

جبکہ اس کے پاس تو شاید الفاظ ختم ہوگئی تھے یا آواز گنگ۔۔

خاموشی کے ساتھ وہ باہر آئی تھی رخصتی کے وقت گھونگھٹ لئے اسکی آنکھ سے ایک آنسو بھی نہیں گرا تھا 

جس کے لئے قربانی دی وہ خود اس کے کردار کو داغدار کرگئی اپنا فیصلہ اس نے اللّٰہ کے سپرد کیا تھا۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

حیات مینشن میں اسکا استقبال بیت شاندار انداز میں ہوا تھا مگر وہ تو جیسے گونگی بہری ہوگئی تھی

ابراہیم نے کسی بھی طرح کی رسم کرنے سے صاف انکار کردیا تھا

لیکن پھر بھی دادو اور کنزہ نے ضد کر کے رسمیں ادا کی تھیں۔۔

ان سب سے بیزار ہوتا وہ لان میں آیا تھا 

اپنا بولا جھوٹ بہت برے طریقے سے اس کے گلے پڑا تھا 

سیگریٹ سلگھاتے وہ سخت مضطرب تھا اندر وہ لڑکی اس کی بیوی کے روپ میں موجود تھی جو اسے سخت ناپسند تھی

موبائل نکال کر اس نے ردابہ کی تصویر کھولی تھی اور اسے خود پر غصہ آیا وہ جذبات میں ایک اور غلط قدم اٹھا چکا تھا

اس نے واپس موبائل پاکٹ میں رکھا ہی تھا کہ وہ رنگ ہوا تھا

موبائل پر ردابہ کا نمبر دیکھ اسے ٹھیک ٹھاک جھٹکا لگا تھا

لمحے سے پہلے اس نے کال ریسیو کی تھی 

ابراہیم۔۔۔اسے لگا وہ روئی ہے۔۔

کیا ہوا ہے ردابہ آر یو اوکے؟؟ وہ پریشان ہوا تھا 

میں ٹھیک ہوں ائم سوری میں ہرٹ کرتی ہوں مگر میں نہیں رہ سکتی تمہارے بغیر۔۔

تو آجاؤ نا واپس۔۔

اسکی آواز سن وہ موم بن کر پگھلا تھا..

ابراہیم تم جانتے ہو نا میں نے اس سب نے لئے کتنی محنت کی ہے اب مجھے چانس ملا ہے تو میں نہیں چھوڑ سکتی پلیز۔۔

بٹ آئی پرامس میں وہاں سے آتے ہی گھر میں بات کرونگی پلیز مینج کرلو۔۔

ٹھیک تم ریلکس کرو میں انتظار کرونگا۔۔

اسے تسلی دیتے اس نے فون رکھا تھا 

مگر اب اس کو اگلا لائحہ عمل تیار کرنا تھا اسے ردابہ کے آنے تک اس زبردستی کے ان چاہے رشتے کو گھسیٹنا تھا ۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

کنزہ اسے کمرے میں بیٹھا کر گئی تو سجے کمرے کو دیکھ اسکو وحشت ہوئی تھی لمحے کو دل کیا سب نوچ ڈالے اس انسان کا گریبان پکڑ کر پوچھے کیوں اس نے اپنی خاطر اس کو ہوں رسوا کروایا 

وہ ایک جھٹکے سے اٹھی تھی اپنے اوپر سے ایک ایک سامان نوچ نوچ کر اتارتی وہ وحشت زدہ سی ہوگئی تھی۔۔

کوئی اسے اس حال میں دیکھتا تو اسکا دل پھٹ جاتا۔۔۔

ناجانے وہ کتنی دیر یونہی بیٹھی رہی۔۔ہوش آیا تو اپنے آپ کو دیکھ وہ بے یقین ہوئی تھی۔۔

اٹھ کر خود کو سنبھالتی وہ منہ دھو کر صوفے پر آکر بیٹھی تھی 

نہیں آنسہ نہیں تو ایسی نہیں ہے تو یوں ہمت نہیں ہار سکتی۔۔

خود کو ہمت دیتی وہ صوفے پر کشن ٹھیک کرتی آنکھیں موند گئی۔۔۔۔

تقریباً آدھے گھنٹے بعد اس کمرے کا دروازہ کھلا تھا اور وہ اندر داخل ہوا تھا 

اندر آتے ہی اسکی نظر صوفے پر لیٹی آنسہ پر پڑی تو حلق میں کڑواہٹ گھل گئی۔۔

اچھا ہے جو اپنی اوقات خود ہی جانتی ہے مجھے اس پر اپنی الفاظ ضائع نہیں پڑے۔

بہت جلد چھٹکارہ حاصل کرلوں گا بس ایک بار ردابہ آجائے۔۔

شیروانی سائیڈ پر رکھ وہ فریش ہونے گیا تھا واپس آکر لائٹس آف کرتے اسکے دماغ میں بس ردابہ تھی۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

صبح اسکی آنکھ کافی دیر سے کھلی تھی رونے کی وجہ سے آنکھیں سر دونوں بھاری ہورہا تھا 

جسم درد سے دکھ رہا تھا وہ اپنا سر تھام کر رہ گئی 

کیا مصیبت ہے یار۔۔

بڑبڑاتی وہ دوپٹہ سنبھالتی اٹھی تھی تبھی واشروم کا دروازہ کھولتا وہ اندر کمرے میں آیا تھا۔۔۔

نکھرا نکھرا سا نم بال ماتھے پر پڑے ہوئے تھے جنہیں ہاتھوں کی مدد سے پیچھے کرتا وہ ڈریسنگ مرر کے سامنے کھڑا ہوا تھا وہ اس کے سائیڈ سے نکلتی واشروم کی طرف بڑھی تھی تبھی اس کی آواز نے اس کے قدم روکے تھے۔

تمہیں صوفے پر دیکھ اچھا لگا مطلب تم اپنی حیثیت اور اوقات دونوں جانتی ہو آگے بھی اسی طرح کی سمجھداری کی توقع رکھو گا مجھے مایوس مت کرنا۔۔۔۔اس کے لہجے میں جتنی چبھن تھی یہ صرف وہ ہی جانتی تھی۔

مضبوط قدم جماتی وہ ایک دم اسکی سامنے آئی تو اس نے اپنی آئی برو اچکائی تھی۔۔

حیثیت اور اوقات کی بات وہ لوگ کرتے ہیں جن کی خود کی کوئی عزت ہوتی ہے اینڈ یونو تمہاری اوقات کیا ہے؟؟؟

تم جیسوں سے بات کرنا تو دور میں انہیں دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی کجا کہ تمہارے اس بیڈ کو استعمال کرنا تو یہ غلط فہمی تو دور کرلو کہ مجھے تم سے کوئی مطلب۔

آنسہ تو کبھی کسی کی اترن نہیں پہنتی چاہے وہ کپڑے ہی کیوں نا ہوں اور تم تو پھر۔۔

سینے پر ہاتھ باندھے اس نے دانستہ جملہ ادھورا چھوڑا تھا 

خیر صبح صبح مجھے میرا موڈ تمہاری شکل دیکھ کر خراب نہیں کرنا تو کوشش کرنا مجھ سے کم کم ہی مخاطب ہو۔۔

مضبوط لہجے میں کہتی وہ واشروم کی طرف بڑھ گئی 

جبکہ وہ کھولتا اپنا غصہ ضبط کرنے کے چکر میں لال ہوگیا تھا…

سمجھتی کیا ہے خود کو جنگلی جاہل۔۔۔وہ بڑبڑایا تھا تبھی دروازے پر ہوئی دستک اسے کنٹرول رہنے پر مجبور کرگئی۔۔

سامنے کنزہ کو دیکھ وہ مسکرایا تھا 

اٹھ گئے۔۔

جی بلکل اٹھ گیا دادو اٹھ گئیں؟؟

اسے راستہ دیتا وہ اس سے پوچھنے لگا 

ہاں کب کی۔۔ اس نے جواب دیتے ساتھ ایک نظر واشروم سے نکلتی آنسہ کو دیکھا تو مسکرائی۔۔

مارننگ بھابھی جان۔۔۔ اسکی شوخی سے بھرپور پکار پر وہ مبہم سا مسکرائی۔۔

اسلام و علیکم۔۔وہ آگے بڑھی تو کنزہ نے اسے ساتھ لگایا۔۔

ابراہیم نے حیرت سے اسے دیکھا جو ابھی اس کے ساتھ بکواس کر کے گئی تھی اور اب اسکی بہن سے میٹھی بن کر باتیں کر رہی تھی۔۔

دوغلی عورت۔۔منہ ہی منہ بڑبڑاتے اس نے خود پر پرفیوم چھڑکا تھا 

میں نیچے دادو کے پاس جارہا ہوں۔۔

تم بتاؤ کیا پہننا ہے؟ ابراہیم کے جاتے ہی کنزہ اس سے مخاطب ہوئی تھی 

کچھ بھی۔۔ وہ مسکرا کر بولی 

ویسے میں نے تو سنا تھا ہماری بھابھی شیرنی ہے مگر یہاں تو حالات ہی کچھ اور ہیں۔۔ کنزہ کے یوں چھڑنے پر اسے لگا کسی نے اسکے زخموں پر مرچیں بھر دی ہوں۔۔۔

بس جب انسان کو یہ یقین ہو کہ وہ اکیلا ہے اور اسے اس دنیا میں رہنے کے لئے خود ہی لڑنا ہے تو اسے شیر بننا پڑتا ہے ورنہ یہ دنیا اسے چیر پھاڑ کر رکھ دیتی ہے۔۔

اسکے لہجے کی سختی کو محسوس کئے کنزہ کو اپنے سوال پر پچھتاوا ہوا تھا 

اچھا خیر دادو نے تمہاری امی کو ناشتے کا منع کردیا ہے یونو شام میں ولیمہ ہے تو اب تم جلدی سے ریڈی ہوجاو پھر سارا سامان بھی دیکھنا ہے۔

اور ہاں ابھی تو آجاؤ نا ناشتے کے لئے بلانے آئی تھی اور کیا کیا باتیں لے کر بیٹھ گئی۔۔

اسکا گال تھپتھپا کر وہ بولی تو اسے اپنے لہجے کی سختی کا اندازہ ہوا تھا۔۔

جی میں بس پانچ میں ریڈی ہوتی پھر ساتھ چلتے۔۔۔ مسکرا کر کہتی وہ جلدی سے تیار ہوئی تھی

نیچے لاونج میں قدم رکھتے ہی اس کی نظر سامنے صوفے پر حیات صاحب کے ساتھ بیٹھے ابراہیم پر پڑی تھی 

بلیک ٹی شرٹ جینس میں کوئی کافی فریش لگ رہا تھا 

ہونہہ دوسرا کا دل دکھا کر ناجانے لوگ کیسے اتنے مطمئن رہ سکتے ہیں۔۔

ارے ہماری بچی آگئی۔۔۔دادو کی نظر جیسے ہی اس پر پڑی وہ فوراً اٹھی تو وہ سب کو سلام کرتی ان کے پاس آئی تو انہوں نے اسے ڈھیروں پیار کیا تھا۔۔۔

بھئی اماں ہمیں بھی زرا دعائیں دینے دیں اپنی بہو کو۔۔

حیات صاحب کے انداز پر وہ کھول کر مسکرائی تھی۔۔

اور اٹھ کر ان کے پاس آکر بیٹھی تو انہوں نے شفقت سے اسکے سر پر ہاتھ رکھا تھا 

چندا یہ اب تمہارا گھر ہے جو چاہے کرو کوئی روک ٹوک نہیں اور اگر یہ میرا نالائق کچھ کہے تو فوراً شکایت کردینا۔۔

ان کے شرارت سے کہنے پر وہ ہنس دی اور ابراہیم کو اس وقت وہ نیلے تھوتھے سے بھی زیادہ زیر لگی جو اس کے گھر والوں کو اسکے خلاف کرنے آگئی تھی۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

ولیمے کے لئے وہ لوگ ھال پہنچ چکے تھے زلیخا نور وغیرہ سب وہاں پہنچ چکے تھے

وہ اسٹیج پر مسکراتی سب سے مل رہی تھی سامنے سے آتے علی کو دیکھ وہ ایک دم اٹھی تھی۔۔

علی۔۔۔۔

آرام سے آرام سے دولہن بیگم۔۔ وہ مسکراتا اس کے پاس آیا تھا 

اللّٰہ علی میں بتا نہیں سکتی کتنا مس کیا تجھے میں نے قسم سے۔۔فرط جذبات سے اسکا تھام تھامے وہ روہانسی ہوئی تھی۔۔۔

اوئے پاگل کوئی یوں دیکھے گا تو کیا سوچے گا۔۔رونا نہیں 

کیا سوچے گا میں نے آج تک کسی کی پرواہ کی ہے؟؟

ہاں یہ بھی ہے ویسے اس ابراہیم کا رویہ تھیک تھا؟؟

ٹھیک اسے تو ٹھیک کرکے رکھ دونگی میں۔۔۔

وہ چبا کر بولی جیسے دانتوں میں ابراہیم ہو 

اس نے انداز پر علی کا قہقہ گونجا تھا اور اپنی بات پر وہ خود بھی ہنسی تھی 

جبکہ یہ منظر کسی نے بڑے جلے دل سے دیکھا تھا۔۔۔

رات گئے وہ لوگ گھر پہنچے تھے تھکن سے سب کا برا حال تھا اس لئے بنا رکے سب نے اپنے اپنے کمروں کا رخ کیا تھا 

وہ بھی تھکی ہاری سی کمرے میں آئی تھی تو چینج کر خود کو ریلکس کیا تھا تبھی وہ اندر آیا تھا۔۔

آنسہ نے ایک کڑوی سی نظر اس پر ڈالی اور تکیہ چادر سنبھالے صوفے کا رخ کیا تھا۔۔۔۔

نخرے تو دیکھو جیسے کوئی پری ہو۔۔

وہ سوچتا سر جھٹکتا چینج کرنے گیا تھا 

ایسے رشتے بھلا کب پائیدار ہوتے ہیں جو یوں شرطوں پر مبنی ہوں یہ تو ہمارے لوگ ناجانے کہاں سے سیکھ کر آجاتے ہیں ایسی واہیات باتیں،۔۔

کروٹ لیتے اس نے دل میں سوچا تھا۔۔

وہ دادو اور کنزہ سے دل سے متاثر ہوئی تھی وہ دونوں تھی ہی ایسی حیات صاحب نے بھی جس طرح اسے پیار دیا اس کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں ان میں سے اسے کامران صاحب کی خوشبو آئی تھی۔۔۔۔

اس واقعے نے اس سے واقعی اسکی ساری اکڑ اسکا غصہ سب لے لیا تھا آج اس نے خود کو ان لڑکیوں کی جگہ رکھا تھا جن کے ماں باپ نہیں ہوتے اور وہ دوسروں کے در پر پڑی ہوتی ہیں کسی دوسرے کا بوجھ سنبھالنا آسان نہیں ہوتا اور ہر لڑکی مضبوط بھی نہیں ہوتی اس کے قدم مضبوط نہیں ہوتے کوئی اسکا پرسان حال نہیں ہوتا ۔۔۔

یہاں یتیموں کے حق کے لئے بھلا کب کوئی بولا ہے۔۔

اس کے ساتھ بھی تو یہی ہوا تھا اسے کمزور سمجھ وہ اسکے ساتھ یہ معاہدہ کرگیا وہ کمزور نہیں تھی مگر نور کی خاطر اسے یہ سب کرنا پڑا اور فائدہ کیا ہوا اس نے تو بس ماں کی محبت چاہی تھی مگر یہاں تو اسے ایک محبت کا بول تک سننے کو نا ملا اس نے بس سب اللّٰہ پر چھوڑ دیا تھا۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

صبح اس کی آنکھ کھلی تو گھڑی صبح کے چھ بجا رہی تھی۔۔

بیڈ پر ابراہیم کو خواب خرگوش میں دیکھ وہ اٹھ کر فریش ہوئے باہر آئی تھی پورے گھر میں سناٹہ چھایا ہوا تھا 

وہ چلتی ہوئی لان میں آئی تھی صبح کا منظر بے حد حسین تھا پرندوں کی چہچہاہٹ عجیب سا سرور بخش رہی تھی 

پاؤں کو چپل کی قید سے آزاد کرتی وہ ننگے پیر گھاس پر قدم بڑھانے لگی تھی 

تازگی کا احساس رگ وپے پر چھایا تھا 

کتنا خوبصورت بنایا تھا اللّٰہ نے دنیا کو۔۔۔

اپنے پیچھے کھٹکے کی آواز پر وہ ایک دم مڑی تھی سامنے دادو کو دیکھ اس نے مسکرا کر سلام کیا تو وہ دھیمے قدم چلتی اس کے پاس آئی تھیں 

کیا بات ہے اتنی جلدی اٹھ گئیں گڑیا؟؟ 

جی دادو بس آنکھ کھل گئی تو یونہی باہر آگئی۔۔

اس نے مسکرا کر انکا ہاتھ تھاما اور پاس پڑی چئیر پر بٹھایا۔۔

ایک راز کی بات بتاؤں؟؟ ان کے قدرے جھک کر کہنے پر اس نے انہیں دیکھ سر ہلایا تھا 

جب ابراہیم نے بتایا نا کہ اس نے شادی کرلی تو مجھے بڑا غصہ آیا پھر دل میں عجیب طرح کے وسوسے کہ ناجانے کیسی لڑکی پسند کرلی مگر تمہیں دیکھ دل ایک دم پرسکون ہوگیا ہے برسوں پہلے ہمارا گھر شاد و آباد تھا پھر حیات چلے گیا تو ہم دونوں ساس بہو مل کر رہتے۔۔

اسکی موت نے ایک خلا سا پیدا کردیا لیکن تمہیں دیکھ ناجانے کیوں یہ دل کہتا کہ اب کوئی ہے جو اس کے جیسا ہے جو کہ گھر سنبھال لے گا ہمیں سنبھال لے گا 

ان کی بات پر اس نے ان کے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کی تھی 

میں پوری کوشش کرونگی کہ اپنے فرائض میں کوئی کوتاہی نا کرو ایک عرصہ میں نے اپنی ضد میں گزارہ ہے زندگی کبھی مہربان ہی نہیں رہی سرد و گرم تو چلتے ہی رہے ماں کی محبت کو ہمیشہ ترسی مگر آپ کے پاس سے جو گرمائش ملی شاید سب کو اپنی ماؤں سے ایسی ہی ملتی ہے۔۔

ان کے ہاتھ چومتی وہ بولی تو انہوں نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا تھا 

میں جانتی ہوں سوتیلی ماں آخر کو سوتیلی ہوتی ہے میں نے محسوس کیا اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ تم نے ہمیشہ خود کو مضبوط رکھا بس میرے گھر کو بھی ایسے ہی مضبوط رکھنا۔۔

ان کے لہجے میں مان تھا اب وہ انہیں کیا بتاتی یہ تو بس چند مہینوں کا معاہدہ تھا۔۔۔

میں پوری کوشش کرونگی۔۔ اس نے بولنے پر انہوں نے اسے اپنے ساتھ لگایا تھا اور یہ منظر کھڑکی پر کھڑے ابراہیم نے بڑے سڑے دل سے دیکھا تھا۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

دن بہت تیزی سے گزر رہے تھے ان کی شادی کو ایک مہینہ ہو چلا تھا اور اس ایک مہینے میں اس نے حیات مینشن کو مکان سے گھر بنایا تھا وہ ذہین تھی سگھڑ تھی اوپر سے محبت و توجہ نے اسکا دل خوبصورت کردیا تھا وہ ہر کام صرف دادو کی خوشی کے لئے کرتی تھی اور ان کی طرف سے ملی ستائش اس کا سیرو خون بڑھا دیتی تھی۔۔۔

ابراہیم کی اسے اتنی پرواہ نہیں تھی کیونکہ وہ شادی کے چوتھے دن ہی اپنے کام کے سلسلے میں دبئی گیا ہوا تھا۔۔۔

کنزہ بھی کچھ دن پہلے ہی واپس لوٹی تھی اور اس دوران اس کی کافی دوستی بھی ہوگئی تھی

ابھی بھی اکثر ہی وہ وڈیو کال پر موجود ہوتی تھی۔۔

اس نے دادو سے کافی چیزیں سیکھی تھیں اور اس عرصے میں وہ ایک بار بھی گھر ملنے نہیں گئی تھی۔۔

حیات صاحب تو اسے دیکھ کر پھولے نہیں سماتے تھے۔۔

وہ روز ان کی فرمائش پر ناجانے کیا کیا بنا رہی ہوتی تھی تو کبھی دادو کے ساتھ اکثر کبھی کوئی کہانی سن رہی ہوتی تو کبھی کچھ نیا سیکھ رہی ہوتی۔۔۔

زندگی ایک دم حسین ہوگئی تھی وہ بہت خوش رہتی تھی مگر پھر ایک دم اداسی کا غلبہ اس پر چھا جاتا کہ یہ سب وقتی ہے سب ختم ہو جائے گا ایسے میں اسکا دل ڈوب جاتا تھا 

مگر پھر نئے سرے سے خود کو مضبوط کرتی وہ خوش رہنے کے لئے کوشاں رہتی تھی۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

اس وقت وہ سب لان میں بیٹھے چائے سے لطف اندوز ہورہے تھے تبھی دروازہ کھلا تھا اس نے گھر میں قدم رکھا تو گانوں میں ہنسی کی آواز آئی اس نے رخ پھیر کر آواز کی سمت دیکھا تو لمحے کو مبہوت ہوا تھا 

کائی رنگ کی فراک میں بالوں کی فرنچ باندھیں وہ ہنستی ہوئی بت تحاشہ حسین لگ رہی تھی 

وہ بس یک ٹک اسے دیکھتا رہ گیا عجیب سی کشش تھی یا کیا وہ سمجھ نا سکا سمجھ آیا تو اپنی بےخودی پر وہ خود کو ملامت کرتا اندر آیا تھا 

اسلام وعلیکم۔۔۔

اس کی آواز پر سب اسکی طرف متوجہ ہوئے تھے 

دادو تو خوشی سے ایک دم اسکے پاس آئی تھیں 

آرام سے دادو۔۔۔وہ ناچاہتے ہوئے بھی انہیں ٹوک گئی۔۔

کچھ نہیں ہوتا گڑیا تیری دادو کو۔۔ اے میرا شہزادہ آیا ہے۔۔

میرا بچہ۔ابراہیم کا ماتھا چومتی وہ مسکرائی تو وہ بھی مسکرا دیا  

اتنا وقت لگا دیا۔۔

بس دادو کام بہت تھا نا۔۔

جا آنسہ ابراہیم کے لئے کافی بنا کر لا۔۔ ان کے بولنے پر ناچاہتے ہوئے بھی وہ اٹھی تھی 

اس کا سڑا چہرہ دیکھ ابراہیم کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی 

دادو بھوک بھی بہت لگی ہے پلیز کچھ فریش بنوائیں نا۔۔۔

اور اندر کی طرف جاتی آنسہ اس کی فرمائش پر کھول کر رہ گئی تھی۔۔

آنسہ۔۔۔ انہوں نے اسے پکارا تھا 

سن لیا ہے دادی لاتی ہوں۔۔

کچھ میں آکر اس نے پاستہ بوائل کے لئے رکھا تھا کھانا ملازمہ نہیں بناتی تھی بلکہ یہ زمہ داری اس نے لی تھی۔۔

پاستہ کے ساتھ اس نے کباب فرائی کئے اور کافی ریڈی کرتی وہ باہر آئی تو وہ سکون سے بیٹھا حیات صاحب سے کوئی بات کررہا تھا کپڑے چینج تھے جسکا مطلب تھا وہ فریش ہوچکا ہے۔۔

سب کو چیزیں سرو کرتی وہ دادو کے پاس آکر بیٹھی تھی 

انہوں نے بغور ان دونوں کا دیکھا تھا دل میں ایک خیال سا گزرا تھا فل وقت اس خیال کو جھٹک وہ چائے پینے لگی مگر دماغ کئی تانے بانے بن رہا تھا۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

آج گرمی زیادہ تھی اوپر سے کالج سے بھی دیر ہوگئی تھی تبھی اسے لگا کوئی اسکے پیچھے ہے۔۔

وہ ایک دم چونک کر پیچھے مڑی تھی مگر پیچھے کسی کو نا پاکر اسے عجیب سا احساس ہوا وہ آگے بڑھی تبھی پھر اپنے پیچھے قدموں کی آہٹ پاکر اس کے قدموں میں تیزی آئی تھی۔۔۔

اللّٰہ۔۔۔ہلیز مدد۔۔۔ تیز قدموں سے بھاگتی وہ اپنے محلے میں داخل ہوئی تھی۔۔

پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی نہیں تھا 

پھولی سانسوں کے درمیان میں وہ گھر میں داخل ہوئی تھی 

نور کیا ہوا خیریت سانس کیوں پھول رہا؟؟؟  

اسے ہانپتے دیکھ زلیخا نے تعجب سے اسے دیکھا تھا 

کچھ نہیں اماں گرمی بہت ہے نا بس تیز چل کر آئی تو۔۔۔

وہ انہیں بتا نا سکی کہ اسے مسلسل یہ لگ رہا تھا کہ کوئی اس کے پیچھے ہے۔۔۔۔

چل منہ دھو کر آ کھانا لگاتی میں ۔۔۔

نہیں آپ بیٹھو میں لگا لونگی۔۔ وہ کہتے کے ساتھ اندر بڑھی تھی 

دل ابھی تک زور زور سے دھڑک رہا تھا۔۔۔

تو پاگل ہے نور ہوسکتا ہے تیرا وہم ہو۔۔۔

دل کو سنبھالتی وہ کچن میں آئی کھانا نکال کر کمرے میں آگئی جہاں زلیخا بیٹھی ٹی وی دیکھنے میں مصروف تھی 

اللّٰہ جانے کیا ہوگا اس ملک کا۔۔

کیا ہوا اماں؟

بھئی ایک لڑکی گھر سے بھاگ گئی بھائی باپ نے قتل کردیا 

بس یہ لڑکیاں بھی نا ڈوب کر نہیں مرتیں ایک اس ناگن نے چاند چڑھایا۔۔

اماں۔۔۔ تم ہر بار اسے بیچ میں کیوں لے آتی ہو سب جانتے ہیں وہ ایسی نہیں ہے۔۔۔

بس کر تو زیادہ حمایتی نا بنا کر۔۔۔ اسے جھڑکتی وہ کھانے میں مصروف ہوگئی جبکہ وہ بس انہیں دیکھ کر رہ گئی۔۔۔

آنسہ بیٹا زرا میرے کمرے میں آنا۔۔۔ وہ ملازمہ کے ساتھ کام کروا رہی تھی دادو کے پکارنے پر سر ہلاتی وہ ان کے کمرے میں آئی تو وہ بیڈ پر بیٹھی تھیں

آجاؤ بیٹا۔۔۔ ان کے بولنے پر وہ انکے پاس جاکر بیڈ پر بیٹھ گئی۔۔

ایک بات پوچھوں گی سچی سچی بتانا۔۔

جی دادو۔۔

بیٹا ابراہیم اور تمہاری لڑائی ہوئی ہے یا کوئی اور بات؟؟ میں جانتی ہوں یہ ذاتی سوال ہے 

مگر۔۔۔

نہیں دادو ایسا نہیں ہے ہم کیوں بھلا لڑیں گے۔۔۔

تو پھر کیا بات ہے کوئی نئے شادی شدہ جوڑے والی بات ہی نہیں ہے وہ اپنی دنیا میں رہتا تم اپنی۔۔۔

تم بھی بلکل بھی ایسا نہیں لگتا کہ ابھی شادی ہوئی ہے

بس وہ تو ایسے ہی مجھے یوں تیار رہنا پسند نہیں ہے دراصل شروع سے عادت نہیں تو۔۔۔

عادت ہے نہیں تو بناؤ نا بیٹا یہ کچھ سامان ہے تمہاری ساس کا اب اس پر بس تمہارا حق ہے ۔۔

پر دادو یہ بہت قیمتی۔۔۔سامنے رکھی جیولری کو دیکھ وہ جھجھکی تھی۔۔۔

قیمتی تب ہوگا جب تم یہ پہنو گی چلو شاباش اسے رکھو۔۔

جی وہ سامان اٹھا کر کمرے میں آئی اور اسے لاکر میں رکھ کھڑکی کر آگئی 

حیات صاحب کا وقت آج کل آفس میں ہی گزرتا تھا دراب اور کنزہ سے اکثر ان کی بات ہوتی رہتی تھی۔۔

ابراہیم سے تو بمشکل ہی اسکی ملاقات ہوتی تھی اور اسی میں ان کی عافیت تھی ورنہ تو دونوں ہی ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑتے تھے۔۔۔

باہر کا موسم آج بہت خوبصورت ہورہا تھا شاید بارش ہونے والی تھی کچھ سوچ وہ واپس سے کچن میں آئی تھی 

رشیدہ ماسی مجھے بیسن نکال کر دیں۔۔

انہیں بولتی وہ باقی سامان نکالنے لگی 

حیات صاحب تو آج خوش ہوجاتے وہ کھانے کے شوقین تھے اسکا اندازہ تو اسے شروع میں ہی ہوگیا تھا۔۔

وہ تن دہی سے اپنے کام میں لگے تھی جبکہ رشیدہ ماسی برابر اسکی مدد کررہی تھیں 

اس نے شاید ہی کبھی اتنے شوق سے کوئی کام کیا تھا 

تب اس کو ایسی محبت بھی کب ملی تھی یہاں تو ہر کوئی اس سے محبت کرتا تھا سوائے اس پاگل آدمی کے۔۔۔

کنزہ دراب بھائی بھابھی دادو اور بابا ہاں وہ اسکے بابا تو تھے جیسے کامران صاحب تھے ویسے ہی حیات صاحب تھے پہلے وہ اکثر یہ سوچ کر اداس ہوجاتی تھی کہ وہ یہ گھر چھوڑ کر چلی جائے گی مگر اب اس نے سوچنا چھوڑ دیا تھا وہ خود میں آئی تبدیلیوں کو بھی اچھے سے محسوس کررہی تھی اس جگ لہجے میں نرمی آگئی تھی مزاج میں ٹہراؤ آگیا تھا 

وہ خوش رہنے لگی تھی کہاں اسکا گھر میں رہنے کا دل نہیں کرتا تھا اور اب اسکا یہ گھر چھوڑنے کا دل نہیں کرتا تھا۔۔

کبھی وہ کچھ کر رہی ہوتی تو کبھی کچھ۔۔

کبھی دادو کے ساتھ بیٹھ ماضی کا کوئی قصہ سن رہی ہوتی تو کبھی حیات صاحب کے ساتھ مل کر کچن میں کچھ ٹرائے کر رہی ہوتی۔

زندگی حسین ہوگئی تھی اور یہ سچ ہے اپنوں کے ساتھ زندگی بے حد حسین ہوجاتی ہے وہ تو ابراہیم کو دیکھ کر حیران ہوتی کہ یہ کھڑوس بابا کو بیٹا اور دراب بھائی کا بھائی ہے۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

ویسے ابراہیم مجھے لگتا تمہیں مزید اپنے کام کو آگے بڑھانا چاہیے تمہارا کیا خیال ہے حاشر؟؟

بلکل خالو میں نے بھی ابراہیم کو یہی مشورہ دیا ہے کہ ہمیں ایک بوتیک اسلام آباد میں بھی اوپن کرنی چاہیے وہاں کے لوگ اکثر آرڈر پر ہمارے ڈریس بک کرتے تو اس کا بھی یہی مشورہ ہوتا کہ ایک برانچ اسلام آباد میں بھی ہونی چاہیے 

پر بابا میں اکیلے وہاں سب کیسے ہینڈل کرونگا۔۔

اکیلے کیوں آنسہ بٹیا ہے نا ہماری۔۔

اس کو تو اس کام میں کافی مہارت ہے ہم اکثر ہی ڈسکس کرتے ہیں 

ہاں خالو بھابھی کو تو یہ کام آتا ہوگا ان کی امی بھی کافی ایکسپرٹ تھی ہیں نا ابراہیم۔۔

حاشر نے بات بولتے اس کی تائید چاہی اس نے اسے گھوری سے نوازہ تھا 

یار خالو میں زرا راؤنڈ پر سے آتا ہوں آپ لوگ بات کرو تب تک۔۔۔

حاشر نے وہاں سے کھسکنا ہی ضروری سمجھا 

کیا بات ہے ابراہیم میرا مشورہ پسند نہیں آیا؟؟ ان کے بولنے پر وہ سٹپٹایا تھا 

نہیں بابا ایسی تو کوئی بات نہیں ہے آپ کو کیوں ایسا لگا؟؟

مجھے ہی نہیں ہم سب کو لگتا کہ تم آنسہ کے ساتھ خوش نہیں ہو کوئی ایسی بات ہمیں نظر ہی نہیں آتی ۔۔

ارے بابا ایسی بات نہیں ہے بس آپ جانتے تو ہیں آج کل کام کتنا لوڈ ہے۔

کام چاہے کتنا ہی کیوں نا ہو بیٹا انسان کو گھر سے لاپرواہ نہیں ہونا چاہیے 

ایسے تو تمہارا رشتہ خراب ہو جائے گا جو کم از کم ہمیں بلکل اچھا نہیں لگا گا وہ بہت پیاری بچی ہے۔۔

پیاری بچی کے نام پر اسکی آنکھیں پھیلیں تھی اور اسے دیکھ انکا قہقہ گونجا تو ایک دم سیدھا ہوا تھا 

بتایا تھا حاشر نے کیسے ہوئی تھی تم لوگوں کی پہلی ملاقات۔۔

منحوس کمینہ۔۔۔ اسے حاشر پر رج کر غصہ آیا تھا 

ارے بابا ایسی کوئی بات نہیں ہے میں اب سے کوشش کرونگا کہ اسے ٹائم دوں۔۔۔

وہ مسکرا کر بولا تو وہ اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کھڑے ہوئے تھے 

کام نبٹالو پھر ساتھ گھر چلتے آج تو موسم بھی بارش کا ہورہا ہے۔۔

جی بابا۔۔

آپ یہاں بیٹھیں میں بس راؤنڈ لگا کر آتا پھر چلتے ہیں۔۔

انہیں بول کر وہ باہر نکلا تو وہ کھڑکی پر آکر کھڑے ہوگئے 

ماتھے پر سوچ کی لکیریں تھیں جیسے کچھ چل رہا ہو ان کے دماغ میں۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

وہ سب گھر پہنچے تو آنسہ نے لان میں ہی سارا ارینجمنٹ کیا ہوا تھا 

حیات صاحب تو سب سے پہلے جاکر بیٹھے تھے جبکہ دادو پہلے ہی وہاں موجود تھیں 

یہ بڑا اچھا کام کیا بچی نے قسم سے بڑا دل تھا 

ٹیبل پر رکھے سموسے پکوڑے کچوری دیکھ وہ تو خوش ہی ہوگئے تھے 

بابا یہ سب آپ کو نہیں کھانا آپ کے لئے الگ سے کم آئل میں بنایا ہے آپ وہ کھائیں گے صحت کو لے کر کوئی کمپرومائز نہیں۔۔

ابے بھئی۔۔۔وہ سخت بیزار ہوئے تو وہ کھلکھلا کر ہنس دی اور ابراہیم نے پہلی بار اسے ہوں غور سے دیکھا تھا شاید 

بس پتر تیری ہی بیوی ہے بعد میں دیکھ لینا۔۔۔ حیات صاحب کے چھیڑنے پر وہ ہوش میں آیا تھا

ایسی بھی بات نہیں بابا۔۔وہ منمنایا تھا 

اسے کچھ دن پہلے آنسہ سے اپنا معاہدہ یاد آیا تھا 

جب وہ کمرے میں آیا تو وہ بیڈ پر بیٹھی کوئی کام کر رہی تھی اس نے اسکا ہاتھ تھام اسے کھڑا کیا تھا 

تم سمجھتی کیا ہو میرے بابا اور دادو کو اپنی طرف کرلو گی۔۔

ہاتھ چھوڑو میرا۔۔ اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے نکالنے کو وہ پھڑپھرائی تھی

کیا چل رہا ہے ہاں کیا چاہ رہی ہو؟؟

میں کیا چاہ رہی تم بتاؤ تم کیا چاہ رہے ہو کب تک مجھے یوں تمہارے گھر میں رہنا پڑے گا ہاں کب تک یہ ڈھونگ کرنا پڑے گا

کیا مطلب ہے اس ڈھونگ کا ہاں جب تک میں چاہوں گا تمہیں یہاں رہنا پڑے گا۔

ایسا سوچنا بھی مت صرف چند دن اور میں یہاں سے بہت دور چلی جاؤنگی مگر ایک حقیقت تمہیں آج ضرور بتا دوں 

تم ایک ایسے انسان ہو جس کی اپنی کوئی سوچ نہیں جو دوسروں کے اشاروں پر ناچتا ہے

اپنا دماغ استمال کرو ورنہ نقصان اٹھاو گے۔۔۔

مجھے تمہارے مشورے کی ضرورت نہیں 

وہ۔ سخت جھنجھلایا تھا 

ضرورت نہیں تو میرے معاملات میں بولنے کی بھی ضرورت نہیں۔۔۔

تم میرے گھر والوں سے دور رہو۔۔۔

انہیں بولو مجھ سے دور رہیں ۔۔۔۔

میں نہیں بولوں گا۔۔۔ وہ جزر ہوا تھا 

تو پھر چپ رہو نا تم میرے معاملات میں بولو نا میں بولو نگی۔۔۔۔

اپنی بات کرتی وہ ٹھک ٹھک کرتی کمرے سے ہی نکل گئی

تو یہ طے ہے تو ان لڑکیوں کے آگے لاجواب رہے گا ۔۔

بالوں کو نوچتے اس نے خود کو لعنت بھیجی تھی تب سے وہ دونوں ایک دوسرے سے الجھتے ہی نہیں تھے

اسے بھی ویسا اپنا سکون بڑا پیارا تھا۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

وہ کافی دن سے محسوس کر رہی تھی کہ کوئی کالج سے اسکا پیچھا کرتا تھا اور گھر تک آتا تھا اسے اب خوف محسوس ہونے لگا تھا وہ پیچھے مڑ کر دیکھتی تو کوئی موجود نہیں ہوتا تھا اسکا کالج جانے کا دل نہیں کرتا تھا مگر پھر زلیخا کو کیا جواب دیتی ان کی اپنی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو وہ انہیں ٹینشن دینے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔۔

آج بھی وہ کالج سے گھر کے لئے نکلی تو اسے محسوس ہوا کوئی پیچھے ہے مگر اگنور کئے چلتی رہی 

موسم ابر آلود تھا ہوا پوری رفتار سے چل رہی تھی تبھی اسے اپنے عقب سے آواز آئی تھی 

نور۔۔۔۔۔

گھبرا کر وہ پلٹی تو سامنے ایک لڑکے کو دیکھ وہ ڈری تھی 

یار ڈرو نہیں مجھ سے کیسا ڈر؟؟ وہ کوئی پچس چھبیس سال کا خوبرو سا لڑکا تھا 

اس نے ایک قدم آگے بڑھایا تو وہ ڈر کر تقریباً بھاگی تھی۔۔

بھاگتے بھاگتے سانس پھولا تھا مگر وہ رکی نہیں۔۔

ایسا لگ رہا تھا جیسے اس نے پیچھے کوئی بھوت لگ گیا ہو

گھر پہنچ کر اسنے پیچھے دیکھا تو اس کی جان ہتھیلی میں آئی تھی وہ لڑکا وہاں کھڑا اسے دیکھ رہا تھا اسکے دیکھنے پر ہاتھ ہلایا تھا 

منحوس ذلیل۔۔۔ گھر میں قدم رکھتے ہی اس نے درازہ ٹائٹ سے بند کیا تھا دل پسلیاں توڑ کر باہر آنے کو تیار تھا 

کاش میں آنسہ جیسے مضبوط ہوتی تو آج اس انسان کو ٹھیک ٹھاک سبق سیکھاتی۔۔۔

ٹھیک ہی کہتی تھی آنسہ ایک لڑکی کو اتنا مضبوط تو ہونا ہی چاہیے کہ وہ اپنی حفاظت کرسکے اپنا دفاع کرسکے خود کو دنیا کی غلیظ نظروں سے محفوظ رکھ سکے جو لڑکیاں کمزور ہوتی ہیں لوگ بھی انہیں کو ٹارگٹ بناتے ہیں 

ماں باپ کو بچپن سے ہی بچیوں کی تربیت اس انداز میں کرنی چاہیے تاکہ باہر کہ یہ آوازہ کتے انہیں ڈرا نا سکے۔۔

مجھے ہمت کرنی ہوگی مجھے نہیں ڈرنا۔۔

وہ خود کو ہمت دے رہی تھی مگر جانتی تھی وہ کبھی اتنی بہادر نہیں بن سکتی۔۔۔۔


حیات صاحب اور دادو کے کہنے پر وہ اسے اپنے ساتھ اسلام آباد لے جانے کو راضی ہوا تھا وہ یہ بھی جانتا تھا کہ آنسہ کو اس کام کا شوق ہے اس نے اکثر زلیخا بی کو کہتے سنا تھا کہ اس کام میں ان کی دونوں بیٹیاں تاک ہیں  وہ کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تھا مگر دادو اور بابا کی وجہ سے مجبور تھا 

حاشر وہاں پر لوکیشن دیکھ کر آیا تو وہ اور حاشر دوبارہ جاکر ڈیک فائنل کر آئے تھے اب وہاں ان کی مرضی کے مطابق کام ہورہا تھا 

آنسہ نے اپنی سی کوشش کی تھی کہ وہ یہی رہے مگر دادو کی ضد اور حیات صاحب کی خواہش کی وجہ سے وہ چپ ہوگئی 

اسے ابراہیم یہاں برداشت نہیں ہوتا تھا وہاں کیسے ہوگا یہ سوچ سوچ اسکا سر دکھنا شروع ہوگیا تھا

دادو اسے زبردستی شاپنگ پر لے کر گئی تھیں جہاں سے انہوں نے اسے ایک سے بڑھ کر ایک سوٹ دلایا تھا 

اس کے لئے یہی بہت تھا کہ وہ لوگ اس کے بارے میں سوچتے تھے اس سے پیار کرتے تھے۔۔۔

ان لوگوں کے جانے سے پہلے دادو نے زلیخا اور نور کو گھر دعوت پر بلایا تھا 

نور تو بے حد خوش تھی کہ وہ اپنے شوق کو آگے بڑھا رہی ہے مگر اسے زرا خوشی نہیں تھی۔۔

وہ کسی کام سے باہر آئی تو سامنے حاشر کسی سے بات کرنے میں مصروف تھا اسے دیکھ رکنے کا اشارہ کیا تو وہ ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی 

اس کے قریب آنے پر اس نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تھا 

سوری بھابھی یوں روکنے کے لئے مگر مجھے آپ سے کچھ بہت ضروری بات کرنی تھی۔۔۔

بولو۔۔۔۔

دراصل مجھے بتا ہے ابراہیم نے کس مقصد کے لئے آپ سے شادی کی تھی۔۔۔

تو۔۔۔؟ اس کی بات کاٹتے اس نے سوال کیا تو وہ سٹپٹایا تھا 

مجھے بس یہ کہنا ہے کہ وہ بےوقوف ہے اسے نہیں بتا ہوتا کہ کیا کرنا ہے وہ اکثر دوسروں کی باتوں میں آکر اپنے لئے مشکلات کھڑی کرلیتا ہے۔۔

یہ سب میں جانتی ہوں حاشر آگے بولو۔۔۔

میں نہیں چاہتا آپ لوگ الگ ہوں وہ بےوقوف ہے اسے کھرے کھوٹے کا فرق نہیں سمجھ آتا آپ کوشش کریں گی تو یہ رشتہ کبھی ختم نہیں ہوگا دادو اور خالو کہ لئے آپ یہ کوشش کریں پلیز۔۔۔

میں ہی کیوں سب کے لئے سوچوں کوئی میرے لئے کیوں نہیں سوچتا ایک بارسوچ کر دیکھا تھا باخدا رسوائی کے سوا کچھ نہیں ملا اور ویسے بھی نصیب کا لکھا کوئی نہیں بدل سکتا تو تم پریشان نہیں ہو۔۔

سپاٹ لہجے میں کہتی وہ اندر بڑھ گئی 

ہونہہ جسے دیکھوں مجھ سے ہی امیدیں لگائے بیٹھا ہے میں بلا یہ انسان جائے بھاڑ میں یہاں یہ چند مہینے رہنا عذاب ہے ساری زندگی کا تو سوچ بھی نہیں سکتی میں۔۔۔

خود سے بولتی وہ اپنا سامان پیک کرنے لگی۔۔

تبھی نور کمرے میں آئی تھی۔۔

میں آجاؤں آنسہ؟؟ 

آجاؤ نور تجھے کب سے اجازت لینے کی ضرورت پڑ گئی۔۔

اپنا بیگ سائیڈ پر رکھتے اس نے نور کو بیٹھنے کے لئے جگہ دی تھی

جب سے ہمارے درمیان فاصلے آگئے ہیں۔۔۔

یہ فاصلے تو تم لوگوں کے خود کے بنائے ہیں خیر بتا سب ٹھیک ہیں ؟؟

ہاں سب ٹھیک ہیں تجھے بہت یاد کرتی ہیں سب سے زیادہ تو روشنی خالہ شان اور علی۔۔

ان سب کو تو میں بھی بہت یاد کرتی ہوں خاص کر علی کا اس نے ساتھ گزرا وقت تو میں بھول ہی سکتی کبھی۔۔۔

وہ حسرت سے بولی تھی اور کمرے میں آتے ابراہیم نے اس کے الفاظ بہت اچھے سے سنے تھے

تو کیا یہ بھی میری طرح زبردستی اس رشتے میں بندھی اور کسی اور کو پسند کرتی ہے۔۔۔

چلو اچھا ہی ہے میرے اوپر کوئی الزام نہیں آئے گا۔۔

خود کو مطمئن کرتا وہ جیسے آیا تھا ویسے ہی واپس چلے گیا

تم اب جب واپس آؤ تو گھر آنا نا ہم بہت مزے کریں گے۔۔

کوشش کرونگی ابھی تو بابا نے ایک زمہ داری دی ہے دعا کرنا اچھے طریقے سے نبھا سکوں۔۔

انشاء اللہ تم ضرور کامیاب ہونگی۔۔

آمین۔۔۔

چلو اب میں جاؤ پھر کل کالج بھی جانا ہے۔۔

کالج کے نام پر اسکا دل ڈوبا تھا مگر کیا کرتی۔۔۔

چل ٹھیک آجا نیچے چلیں۔۔۔

وہ دونوں نیچے آئی تو زلیخا بی سب سے باتوں میں مصروف تھیں 

اچھا بھائی صاحب اجازت دیں۔۔۔

وہ سب سے اجازت لے کر نکلی تھیں 

اور اس کے بعد وہ کافی دیر تک دادو نے پاس بیٹھی رہی دل یہ سوچ کر ہی اداس ہورہا تھا کہ ان سے دور رہنا ہوگا 

میں کیسے رہوں گی آپ کے بغیر۔۔۔ 

لو بھئی شوہر کے بغیر عورت یہ کہتی ہے اور تم دادی کو ایسے بول رہی۔۔۔ دادو نے ہنس کر بولنے پر اس نے خفگی سے منہ بنایا تھا۔۔

اور اس کے یوں منہ بنانے کر وہ ہنس دیں 

جھلی نا ہو تو۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

ان کی فلائٹ نو بجے کی تھی اس لئے وہ سب سے ملکر نکلے تھے فلائٹ میں بیٹھنے کا اس کا یہ پہلا تجربہ تھا مگر وہ یہ ابراہیم پر ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی 

اس لئے پورے اعتماد سے اس کے قدم سے قدم ملا کر چلی تھی 

مگر جیسے ہی جہاز نے اڑان بھری اس کا دل ڈوبا تھا اس نے سختی سے ابراہیم کا بازو تھاما تھا اور سر اس کے ہاتھ پر رکھا تھا ابراہیم نے اسے چونک کر دیکھا تھا

میچی آنکھوں کے ساتھ ابراہیم کو وہ چھوٹی سے بچی لگی تھی 

ریلیکس آنسہ کچھ نہیں ہے۔۔۔اسے اپنے لہجے کی نرمی پر حیرانی ہوئی تھی

نہیں مجھے ڈر۔۔۔۔ لفظوں کو توڑ کر کہتی وہ اسکے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کرگئی 

اور اسے دیکھ وہ مسکرایا 

چلو بھئی یہ جھانسی کی رانی بھی کسی چیز سے ڈرتی ہے۔۔۔

پورے سفر نے ایک لمحے  اسکا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا 

ائیر پورٹ پر اترتے ہی اس نے ایک دم اسکا ہاتھ چھوڑا تھا

باہر نکلتے انہوں نے اس شہر کو دیکھا تھا جس کے بارے میں جیسا سنا تھا ویسا ہی پایا۔۔

اپارٹمنٹ کے باہر گاڑی رکتے ہی وہ باہر نکلے تھے

مگر اپارٹمنٹ کے اندر جاکر وہ چونکے تھے وہ جو سوچ کر آئے تھے کہ یہاں آزادی سے رہ سکیں گے اس ایک روم کے اپارٹمنٹ کو دیکھ ارمانوں پر اوس پڑی تھی

وسیع لاونج کارنر پر موجود کچن کا دروازہ اور باہر کی طرف ڈائننگ ٹیبل۔۔۔

سامنے بالکونی میں کھولتا دروازہ اور اس کے ساتھ منسلک بیڈ روم۔۔۔

سامان لاونج میں رکھتا وہ صوفے پر ڈھے سا گیا تھا۔۔

تھکن سے برا حال تھا بھوک بھی لگ رہی تھی مگر گھڑی اس وقت رات کا ایک بجا رہی تھی ۔۔

شٹ اس وقت تو کوئی ریسٹورنٹ بھی اوپن نہیں ہوگا۔۔ زور سے بڑبڑاتا وہ آنکھیں موند گیا۔

آنسہ نے ایک نظر اسے دیکھا اور کچن کا رخ کیا تھا مگر وہاں سوائے چند برتن اور کچھ نہیں تھا اور یقیناً یہ برتن صبح صفائی کرتے وقت رکھے گئے تھے کیونکہ ان کے ساتھ ہی چائے کا سامان رکھا تھا۔۔

کچھ سوچ کر اس نے چائے کا پانی چڑھایا تھا اور اندر کمرے میں آکر اپنے بیگ سے کچھ سامان نکال کر کچن کا رخ کیا تھا۔۔۔

کچھ دیر بعد وہ باہر آئی تو اس کے ہاتھ میں ٹرے تھی ٹرے ٹیبل پر رکھتے اس نے ابراہیم کو دیکھا تھا برتن کی آواز پر اٹھ کر سیدھا ہوا تھا۔۔۔

یہ سب۔۔

سامنے ٹیبل پر رکھے نوڈلز،چپس نمکو کے پیکٹ دیکھ اس نے حیرانی سے اسے دیکھا تھا 

فلحال تو کچن میں کچھ بھی نہیں تھا کہ سامان میرے پاس تھا تو میں نے بنالیا شروع کریں۔۔

نوڈلز اس کی طرف بڑھاتی اس نے چپس کا پیکٹ کھولا تھا۔۔

تھینکس۔۔

کوئی بات نہیں بس کچھ ضروری سامان ہے برتن وغیرہ وہ ہمیں کچن کے لئے لانا پڑے گا۔۔

اس نے بولتے کے ساتھ چپس کا پیکٹ اس کی طرف بڑھایا تھا۔۔

کھانے کے برتن سمیٹ وہ اس کے آگے چائے کا کپ رکھتی واپس کچن میں گھسی تھی۔۔

اور چائے پی کے اس نے واقعی خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کیا تھا 

وہ کمرے میں آیا تو اسے کھڑکی میں کھڑا پایا۔۔

اس کی نظر بیڈ پر پڑی وہاں کوئی ایکسٹرا صوفہ وغیرہ نہیں تھا اور باہر موجود سیٹ اس قابل نہیں تھا کہ اس پر سویا جا سکے اسے ڈیلر پر رج کر غصہ آیا تھا ۔۔

یہ سامان کہاں رکھنا ہے مجھے نیند آرہی ہے۔۔

بیڈ پر اس کا سامان دیکھ وہ پوچھ بیٹھا تو اسنے آگے بڑھ کر اپنا سامان وہاں سے ہٹایا۔۔

میں نے ہٹا دیا ہے تم سوجاؤ۔۔ اسے بولتی وہ کمرے میں باہر کی طرف بڑھی تبھی اسکی آواز نے اسکے قدم جکڑے تھے 

باہر کا صوفہ سونے کے قابل نہیں ہے اس لئے یہی بیڈ پر آجاؤ۔۔

اس کی آفر کر اسنے مڑ کر اسے دیکھا تھا 

میرا مطلب تھا جب تک سیٹنگ نہیں ہوجاتی ہم شئیر کرسکتے ہیں بیڈ۔۔

اپنی بات کی وضاحت کرتا وہ پتا نہیں کیوں آنسہ کے چہرے پر مسکراہٹ لے آیا تھا 

وضاحت کی ضرورت نہیں مجھے پتا ہے۔۔ اسے کہتی وہ باہر بڑھ گئی۔۔

تھوڑی دیر بعد وہ پانی کی بوتل لئے کمرے میں آئی تھی

بیڈ پر لیٹتے اس نے آنکھوں پر ہاتھ رکھا تھا مگر دماغ سوچوں سے خالی نہیں تھا۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

حسب معمول وہ کالج کے لئے گھر سے نکلی تو قدموں کی آواز اپنے پاس محسوس کرتے وہ ایک دم گھبرا کر مڑی تھی 

جہاں ایک لڑکا اس کے پیچھے تھا اسے رکتے دیکھ اس کے قدم بھی رکے تھے اور اس نے ایک بھرپور مسکراہٹ اسکی طرف اچھالی تھی 

کیسی ہو نور؟؟؟ اس نے مسکرا کر کہا تھا 

اور اس کے منہ سے اپنا نام سن وہ ایک دم گھبرائی تھی اور اپنے قدم بڑھائے تھے 

ارے میری بات تو سنو نور۔۔۔ رکو۔۔

اپنے پیچھے مسلسل اپنے نام کی آواز اسکو بدحواس کر رہی تھی قدم تیزی سے بڑھاتی وہ تقریباً بھاگتی ہوئی کالج میں داخل ہوئی تھی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیل رواں ہوا تھا۔۔

خود کو سنبھالتی وہ واشروم کی طرف بڑھی تھی منہ دھو کر کلاس میں آئی مگر دل کہیں باہر کی اٹک گیا تھا ڈر کے مارے اسکے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔۔

خود کو سنبھالتی اس نے پانی پڑھائی پر دھیان دیا تھا...خود پر پڑے بوجھ کو محسوس کئے اس کی آنکھ کھلی تھی مگر برابر نظر پڑتے وہ ساکت ہوئی تھی 

اپنا ہاتھ پاؤں اس پر رکھے ابراہیم بے خبر سو رہا تھا 

اس نے فوراً سے پہلے اسکا ہاتھ اپنے اوپر سے ہٹانا چاہا تھا تبھی وہ ایک دم اٹھا تھا اور خود کو آنسہ کے اتنے قریب دیکھ وہ تھما تھا 

تمہارا ہاتھ… ابراہیم کو خود کو تکتا پاتے وہ اتنی دھیمی آواز میں بولی تھی کہ ابراہیم کو بمشکل سنائی دی تھی 

پہلی بار کوئی یوں اسکے اتنے قریب آیا تھا اسکا دل ہتھیلی میں دھڑکا تھا

ایک جھٹکے سے اسنے اپنا ہاتھ اس کے اوپر سے ہٹایا تھا اور اس نے پھر لمحہ نہیں لگایا تھا وہاں سے اٹھ کر بھاگنے میں۔۔۔

شٹ ابے یار۔۔ اپنی حرکت پر شرمندہ ہوا تھا

بیڈ پر یونہی لیٹے لیٹے ناجانے کتنا وقت ہوا تھا کہ فون کی آواز پر وہ بے اختیار چونکا تھا 

فون ریسیو کئے وہ بالکونی میں آیا تھا۔۔

بات ختم کئے وہ سامنے دیکھنے لگا جہاں کا منظر بے حد خوبصورت تھا تبھی اپنے پیچھے آہٹ محسوس کئے وہ مڑا تھا جہاں وہ سادگی میں بھی غضب ڈھا رہی تھی 

گھر میں کوئی سامان نہیں ہے ناشتہ کیسے بناؤ۔۔

نہایت سنجیدگی سے کہتی وہ سامنے دیکھنے لگی۔۔

ٹھیک ہے میں فریش ہوتا ہوں پھر لاتا ہوں اسے بولتا وہ چینج کرنے گیا تھا جب کے وہ یونہی بالکونی میں کھڑی ہوگئی۔۔۔

کتنا بدل گئی تھی وہ اپنے حق میں بولنا چھوڑ چکی تھی خود کو وقت کے دھارے پر چھوڑ دیا تھا مگر یہاں کوئی ایسا بھی تو نہیں تھا کہ جس سے وہ لڑتی جھگڑتی۔۔۔

اسکا تو ابراہیم سے بھی لڑنے کا دل نہیں کرتا تھا حاشر کی باتیں اسکے دماغ میں گھوم رہی تھیں۔۔۔

اپنا سر جھٹک کر وہ باہر آئی پورا گھر سیٹ کرنا باقی تھا شروعات اس نے بیڈ سے کی تھی بیڈ صاف کرتی وہ لاونج میں آئی تھی  جب تک ابراہیم واپس آیا تھا 

اس نے اسکے آگے پانی کا گلاس رکھا اور ناشتہ اٹھاتی کچن میں چلی گئی 

ٹیبل پر ناشتہ کرتے ابراہیم نے اسے مخاطب کیا تھا 

ایک کام کرتے ہیں ناشتہ کرکے بوتیک سائیڈ جانا ہے تو تم بھی ساتھ چلو اس کے بعد اسٹور سے گھر کے لئے کچھ سامان بھی لے آئیں گے۔۔

ٹھیک ہے میں لسٹ بنا لیتی ہوں۔۔

چلو ٹھیک ایک کام کرو یہ سب رکھ کر ریڈی ہوجاؤ۔۔۔

ابراہیم۔۔۔ وہ جو باہر کی طرف بڑھا تھا اس کی آواز پر ٹھٹکا تھا 

ہمم بولو۔۔

دادو سے بات کروا دیں میرے پاس بیلنس نہیں ہے۔۔

اچھا ٹھیک ہے میں تھوڑی دیر میں کرواتا ہوں۔۔ 

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

وہ اسکے ساتھ بوتیک آئی تھی ان دونوں نے مل کر بہت ساری چیزیں چینج کروائی تھیں 

وہاں سے نکل کر انہوں نے باہر ہی لنچ کیا تھا 

گھر آتے آتے انہیں رات ہوگئی تھی اس لیے کھانا وہ پیک کروا کر لائے تھے 

وہ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ گھر کو مس کر رہے تھے۔۔

اس وقت بھی وہ بالکونی میں کھڑا تھا جب وہ کافی لئے وہاں آئی تھی۔۔

آنسہ۔۔وہ جو کہ رکھے جانے کو مڑی تھی اسکی پکار پر رکی تھی 

کیا ایسا ممکن نہیں کہ ہم یہاں دوست بن کر رہیں؟؟ 

اسکی بات پر وہ حیران ہوئی تھی۔۔۔

کیا ہم دوست بن سکتے ہیں؟؟ اس نے سوال پر سوال کیا تھا۔۔

ہاں بلکل اگر تم مجھے آپ کہو،مجھے تھوڑا کم زلیل کرو اور میری ہر بات نا سہی کچھ کچھ باتیں مان لیا کرو۔۔۔

اس کی بات پر بے اختیار ہنسی تھی اور وہ اس کی ہنسی میں کھو سا گیا تھا 

ویسے اچانک اس دوستی کا خیال کیسے آگیا؟؟ اس کے شرارت سے پوچھنے پر وہ ہنس دیا۔۔

اب تم بات بات پر لڑتی نہیں ہو نا تو اب تم شریف ہوگئی ہو تو دوستی کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔۔

اس کے یوں بولنے پر اس نے آنکھیں چھوٹی کی تھیں 

دادو نے مجھ سے پرامس لیا تھا کہ آپ کی عزت کرونگی تو مجبوراً مجھے کرنی پڑی۔۔

ایک منٹ تم نے مجھے آپ بولا تو دوستی پکی۔۔۔

اس کی طرف ہاتھ بڑھائے وہ مسکرا کر بولا تو اسنے بھی ابراہیم کا ہاتھ تھاما تھا۔۔

چلو اسی بات پر واک پر چلتے ہیں موسم پیارا ہے آئسکریم کھا کر آئینگے۔۔

اسے اگر دیتا وہ باہر نکلا تو چادر لئے وہ بھی اس کے ساتھ باہر نکلی تھی۔۔

پورے راستے وہ دونوں باتیں کرتے آئے تھے وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ایک دن یوں بھی آئے گا۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

وہ لڑکا تقریباً روز ہی اسکے سامنے آنے لگا تھا وہ ڈر کی وجہ سے گھر میں بھی نہیں بتا سکتی تھی۔۔

اس روز بھی معمول کے مطابق وہ کالج سے نکلی تھی گلی کے کونے پر پہنچتے ہی وہ لڑکا ایک دم اسکے سامنے آیا تھا اور اس کے ہاتھ میں خط تھماتا غائب ہوا تھا۔

اس حرکت پر بدحواس ہوئی تھی ہاتھ میں تھما کاغذ دبوچے وہ گھر میں داخل ہوتے ہی کمرے میں بند ہوئی تھی۔۔

دھڑکتے دل کے ساتھ کاغذ کھولے اس نے پڑھنا شروع کیا تھا۔۔

میری جان نور۔۔۔۔

بہت سارا پیار جب سے تمہیں دیکھا ہے دل میں بس ایک ہی چاہ ہے تمہیں اپنا بنانے کی۔۔۔

ایک بار تم سے مل کر دل کا حال سنانا چاہتا ہوں کل کالج کے پیچھے والے پارک میں تمہارا انتظار کرونگا نہیں آئیں تو انجام کی زمہ دار تم ہونگی۔۔

تمہارا اور صرف تمہارا۔۔۔۔

عاشق۔۔

جیسے جیسے وہ پڑھتی جارہی تھی اسکے پیروں سے جان نکلتی جارہی تھی۔۔

کھڑا ہونا مشکل ہوا تو وہ زمین بوس ہوئی تھی یہ کیسی مصیبت تھی جو یوں اچانک اس پر آئی تھی۔۔

نہیں پلیز اللّٰہ جی پلیز مجھے بچا لیں میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا پلیز مجھے بچا لیں۔۔دعا مانگی تھی۔۔

نور۔۔۔۔ نور۔۔۔۔۔ زلیخا بی کی آواز پر وہ آنسو صاف کرتی جلدی سے باہر آئی تھی 

آئی اماں۔۔۔

آج آتے ہی کمرے میں چلے گئی خیریت تو ہے اور یہ آنکھیں کیوں لال ہورہی ہیں۔۔

کچھ نہیں اماں بس سر بہت درد کر رہا۔۔

خود کو سنبھالتی اس نے جھوٹ کا سہارا لیا تھا کہ جانے بغیر کے یہ جھوٹ کل کو اس نے کے لئے کیا نئی مصیبت لانے والا ہے

اچھا چل میں زرا شبانہ کی طرف جارہی تو دروازہ بند کرلے اور کھانا کھا لینا۔۔

اماں نہیں جاؤ نا۔۔۔ وہ انکا ہاتھ تھام گئی تھی 

کیا ہوا ہے تجھے؟؟ ان کے پوچھنے کر وہ ایک دم گڑبڑائی تھی

نہیں کچھ نہیں بس یوں ہی۔۔

شبانہ نے بلوایا ہے اس لئے جارہی تو کھانا کھا کر سوجانا۔۔ اسکا ہاتھ تھپک کر وہ باہر نکل گئی تو اسنے بھاگ کر دروازہ بند کیا تھا

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

یہ یہاں نہیں وہاں رکھیں۔۔۔ 

ارے یہاں نہیں وہاں۔۔ وہ اسے پینٹنگ کی ڈائریکشن بتا رہی تھی 

تبھی وہ چڑ کر نیچے آیا تھا

کیا مصیبت ہے بھئی تم کوئی دس دفعہ جگہ تبدیل کر چکی ہو۔۔

ہاں تو وہ وہاں سوٹ نہیں کر رہی تھی نا ۔۔ وہ بھی اسے کے انداز میں بولی تھی 

ایک کام کرو آپ یہاں سے بتاؤ میں اوپر چڑھتی۔۔اسے بولتی وہ اسٹول پر چڑھی تھی 

آرام سے آنسہ گر نا جانا۔۔۔

اتنی نازک نہیں آپ کی طرح۔۔۔۔ اس پر طنز کرتی وہ اپنا کام مکمل کرنے لگی جب کے خود کو نازک بولنے پر وہ اسٹول کے پاس آیا تھا 

ابھی بتاتا ہوں کون ہے نازک۔۔ دانت پیس کر بولتا اسنے اسٹول ہلایا تھا 

ااااااا۔۔۔۔۔۔ کیا کر رہے میں گر جاؤں گی۔۔

ارے اتنی نازک۔۔۔ ہنس کر کہتا وہ پھر سے اسٹول ہلانے سے باز نہیں آیا تھا۔۔

ابراہیم قسم سے نیچے آئی نا حشر بگاڑ دونگی۔۔۔ قدم مضبوط کرتی وہ دھمکی پر اتر آئی تو وہ ہنستا ہوا رکا تھا اور ہاتھ بڑھا کر اسے اترنے میں مدد دی تھی

کھانے کا کیا سین ہے بھوک لگ رہی ہے ۔۔

پاستہ بنایا ہے اور ساتھ میں اسپیگھٹی بھی ہے۔۔

اسے بتاتی وہ روم میں گئی تھی۔۔

جب تک وہ واپس آئی وہ ٹیبل پر کھانا کھا چکا تھا 

تھینکس۔۔۔ اسے بولتی وہ آکر بیٹھی تھی اور دونوں کی پلیٹ میں کھانا نکالا تھا۔۔

بوتیک میں کام شروع ہوچکا تھا وہ اکثر اسے ساتھ لئے وہاں جاتا تھا انہوں نے وہاں مل کر کافی چیزیں کی تھیں۔۔

انہیں یہاں آئے تین مہینے ہوچکے تھے۔۔

ڈور بیل کی آواز پر وہ کچن سے نکلتی باہر آئی تھی جہاں ابراہیم کھڑا تھا اس کا کورٹ تھامتی وہ اندر بڑھی تھی 

آنسہ دادو کی کال آئی تھی بہت یاد کر رہی ہیں۔۔

تو چلتے ہیں نا کراچی میں بھی انہیں بہت مس کر رہی۔۔ اسکے ہاتھ پانی کا گلاس گھماتی وہ وہیں اسکے پاس بیٹھی تھی

اوکے پھر کام تو یہاں کا الریڈی ڈن ہے تو چلتے ہیں اس سنڈے۔۔

اوکے اس کی بات پر وہ ایک دم خوش ہوئی تھی مگر پھر اسکے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوئی تھی 

ان کی شادی کو چھ مہینے مکمل ہوگئے تھے اب ان کے علیحدہ ہونے کا وقت آگیا تھا یہ سوچ کر ہی اسکا دل ڈوبا تھا 

پاگل ہے کیا آنسہ یہ تو پہلے سے طے تھا تو کیوں اداس ہونا خود کو سرزنش کرتی وہ اٹھی تھی مگر دل کی ویرانی کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی تھی 

کب کیسے کیوں… پر وہ ابراہیم کو دل میں بسا بیٹھی تھی۔۔۔

بے دلی سے کام کرتی وہ بالکونی میں آگئی۔۔

تاحد نگاہ اندھیرے میں روشنیاں جگنو جیسی لگ رہی تھیں۔۔۔

ناجانے کتنی کہ دیر وہ یونہی کھوئی رہتی کہ ابراہیم کی آواز پر وہ مڑی تھی 

کیا سوچ رہی ہو کب سے آواز دے رہا ہوں ۔۔

کچھ نہیں بس یونہی۔۔۔ اپنا چہرہ سیدھ میں کئے وہ بولی تھی۔۔

کچھ سوچ رہی ہو؟؟ اس کے برابر آکر کھڑے ہوتے اس نے اسکو دیکھا تھا جس کا چہرہ بلب کی روشنی سے منور ہورہا تھا

کچھ نہیں بس یہی سوچ رہی تھی کہ چھ مہینے مکمل ہوگئے ہیں ہمارے راستے اب الگ الگ ہونے والے ہیں۔۔

دادو کو کیا بتاؤ گے؟؟ بولتے ساتھ اس نے اپنا رخ اسکی طرف کیا تھا جو اسکی بات پر چپ ہوا تھا وہ اسکی خاموشی سے کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرسکی تھی

کھانا لگا رہی ہوں آجاؤ۔۔ اسے بولتی وہ باہر بڑھی تھی 

جب کے وہ ریلنگ کو تھام گیا تھا۔۔۔

کیا اتنا آسان تھا سب ختم کرنا ؟؟ وہ سر جھٹک کر خود کو کمپوز کرتا اندر کی طرف بڑھا تھا۔۔


وہ آج پورے ہفتے بعد کالج آئی تھی اس واقع کے بعد اس نے خود کو گھر تک محدود کرلیا تھا مگر اب پیپرز کی وجہ سے اسے آنا پڑا تھا 

کلاسس ختم کرکے وہ گھر کے لئے نکلی تھی مگر گلی کے موڑ پر  ایک بائیک اسکے آگے آکر رکی تھی 

ملنے نہیں آئی نا تم۔۔ اس لڑکے کو دیکھ وہ ایک دم پیچھے ہوئی تھی

بیٹھو بائیک پر۔۔۔ اس لڑکے کے بولنے پر وہ نفی میں سر ہلاتی سائیڈ سے نکلی تھی مگر تبھی اسکی کلائی اس لڑکے کی گرفت میں آئی تھی 

بہت تماشہ دیکھ لیا بیٹھ چل۔۔۔ اسکا ہاتھ اپنی طرف کھینچے وہ غرایا تھا۔

ہاتھ چھوڑو میرا جانے دو مجھے روہانسی ہوئی اس نے اس لڑکے کی منت کی تھی 

ہاہاہاہا ایک ہی بار رونا آج تو نکاح ہوکر رہے گا۔۔۔

مکروہ انداز میں ہنستا وہ اسے خوفزدہ کرگیا تھا۔۔

ارے دیکھو زرا یہ زلیخا کی لڑکی ہے ارے دیکھو کیسے دیدہ دلیری سے ہاتھ تھامے کھڑی ہے۔۔

ایک دم ہی سائیڈ سے اسکے محلے کی عورتیں گلی میں داخل ہوئی تھیں

ارے دیکھو زرا تو۔۔۔ ان عورتوں نے ایک دم شور کیا تھا اس کا ہاتھ تھامے وہ لڑکا فوراً وہاں سے بھاگا تھا 

اری دیکھو تو کیسی بیغیرت ہے زرا ماں کا لحاظ نہیں اسکا عاشق گلی گلی آگیا۔۔

وہ عورتیں ناجانے کیا کیا زہر اگل رہی تھی اس میں ہمت نہیں تھی کہ کھڑی رہ کر سنتی روتی ہوئی وہ گھر گئی تھی 

آنکھوں سے آنسوؤں کا سیل رواں تھا۔۔

سامنے بیٹھی زلیخا بی کو دیکھ وہ ان کے سینے سے لگ کر روئی تھی 

اے نور کیا ہوا ہے۔۔

اماں میں بے گناہ ہوں اماں میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔ ان کے بازؤں میں سمائی وہ پھپک پھپک کر روئی تھی۔۔

نور مجھے کیوں ہولا رہی ہے ہوا کیا ہے بتا تو۔  

اماں وہ۔۔۔ بہتے اشکوں سنگ وہ انہیں سب بتاتی چلی گئی

چپ کر اچھا رونا بند کر ۔ اسے بولتی وہ خود پریشان ہوئی تھیں

باہر سے دروازہ بجنے کی آواز پر نور مزید ان میں سمٹی تھی۔۔

زلیخا دروازہ کھول۔۔۔۔ 

اماں نہیں۔۔ اس نے ہاتھ تھام انہیں روکنا چاہا تھا

رک جا نور۔۔۔ اسکا ہاتھ ہٹاتی وہ دروازے تک آئی تھی

کیا ہوا ہے؟؟؟ 

کیا ہوا ہے ارے تیری بیٹی محلے میں بے حیائی مچائے پھر رہی ہے اور تو پوچھ رہی کیا ہوا ہے بتاؤ زرا کیسی معصوم بنی پھرتی ہے اور لڑکوں کو پھانسے گھوم رہی ہے۔۔۔

عورتوں کی زبان تھی کہ خنجر۔۔

زلیخا بی کو اپنا آپ زمین میں گڑتا محسوس ہوا تھا قسمت نے ان کے الفاظ انہیں کے منہ کر طمانچے کی صورت مارے تھے۔۔۔

ضبط سے ان کا چہرہ سرخ ہوا تھا 

کیا ہورہا ہے یہاں۔۔۔ نور نے بے اختیار آواز کی سمت دیکھا تھا 

آنسہ۔۔۔۔۔

وہ بھاگ کر اس سے لپٹی تھی۔۔۔

کیا بکواس ہورہی ہے یہاں ہاں کیا سمجھا ہوا ہے اکیلی روتوں کو دیکھ تم لوگ ان پر چڑھ دوڑو گے زرا شرم نہیں آئی نا میری بہن پر تہمت لگاتے ارے کتنا دیکھا ہے اسے لڑکوں کے ساتھ بتاؤ۔۔۔

وہ آج پھر سے پرانی آنسہ بن گئی تھی اپنی بہن کی ڈھال۔۔۔

میں نے خود اسے لڑکے ساتھ۔۔۔ ایک عورت نے بولنا چاہا مگر وہ بیچ میں ہی اسکی بات کاٹ گئی 

میں نے بھی دیکھا تھا تمہاری بیٹی کو کیا یہاں سب کے سامنے بتاؤ کہ کس کا چکر کس کے ساتھ ہے اور کون کس کے ساتھ پارکوں میں گھومتا ہے؟؟؟ 

بتاؤ مجھے بتاؤں میں؟؟؟؟ 

آنسہ آرام سے۔۔۔۔

ابراہیم نے اسکا ہاتھ اسے ریلیکس کرنا چاہا تھا 

میں نے کچھ نہیں کیا آنسہ میں سچ بول رہی وہ لڑکا خود مجھے تنگ کر رہا تھا بھائی میں ابو کی قسم کھا کر کہتی ہوں میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔ وہ آنسہ کے گلے لگے ایک بار پھر پوری شدت سے روئی تھی 

میں جانتا ہوں میری بہن ایسا نہیں کرسکتی۔۔ ابراہیم نے آگے بڑھ کر اسکے سر پر ہاتھ رکھا تھا 

شرم آنی چاہیے اس لڑکے کو پکڑنے کے بجائے ہاک معصوم پر اپنی غلاظت پھینک رہے لعنت ہے آپ لوگوں پر جانتے نہیں ہیں کیا کہ قیامت کے دن تہمت لگانے والے کا کیا حال ہوگا۔۔

اور زلیخا بی آپ کو یہاں رہنے کی کوئی ضرورت نہیں آپ ساتھ چل رہی ہمارے۔۔۔

ابراہیم کی بات پر انہوں نے چونک کر اسے دیکھا اور مردہ قدموں سے آنسہ کے پاس آئی تھیں

مجھے معاف کردے آنسہ مگر دیکھ اللّٰہ نے کیسا انصاف کیا۔۔اس کے آگے ہاتھ جوڑے وہ کھلے کندھے لئے کھڑی تھی آنسہ کے دل کو کچھ ہوا تھا۔۔۔

ایسا مت کرو پلیز سب ٹھیک ہے۔۔ ان کے جڑے ہاتھ ہٹاتی وہ بولی تھی 

مجھے معاف۔۔۔

معافی مانگ مجھے گناہگار مت کریں۔۔۔

اس نے ان کے ہاتھ چومے تھے

اور انہوں نے اس لڑکی کو دیکھا جو کیا سے کیا ہوگئی تھی انہیں اپنے رویے پر ماضی کر پچھتاوا ہوا تھا وہاں موجود ہر شخص کا سر جھکا ہوا تھا 

ابراہیم نے پورے حق سے اسکا ہاتھ تھاما تھا اور انہیں لئے وہاں سے نکلا تھا۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

 نور بس ہوگیا نا جو ہونا تھا سنبھالو خود کو۔۔ اسے ساتھ لگائے آنسہ نے اسے تسلی دی تھی 

ہاں بیٹا آنسہ بلکل ٹھیک کہہ رہی ہے ایسے کم ضرف لوگوں میں رہنے سے اچھا ہے تم لوگ یہاں آگئے۔۔

دادو نے اسکے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا تھا 

میں نے کچھ نہیں کیا تھا۔۔ وہ ایک بار پھر بول کر روئی تھی 

ہم جانتے ہیں گڑیا بھئی تم ہماری آنسہ کی بہن ہوں جب ہماری آنسہ اتنی پیاری ہے تو اسکی بہن کیسے ایسا کچھ کر سکتی ہے۔۔ حیات صاحب نے اسکے سر پر ہاتھ رکھا تھا جبکہ ان کی بات پر زلیخا بی کا سر شرمندگی کے احساس سے جھکا تھا۔۔۔

آنسہ نور اور بی کے لئے روم ریڈی کروادو۔۔ ابراہیم نے اسے کہا اس سے پہلے وہ کچھ کہتی اسکا فون بجا تھا۔۔

ردابہ کالنگ۔۔۔

ردابہ کا نام دیکھ اس کا دل ڈوبا تھا ابراہیم نے ایک دم موبائل آف کیا تھا 

تم جاؤ میں آتا ہوں۔۔۔

اسے بھیج وہ خود لان میں آیا تھا 

ہیلو؟؟ 

ہیلو ابراہیم کب سے کال کر رہی ہوں یار تم ہو کہ کال ہی نہیں اٹھا رہے۔۔

سوری میں بزی تھا تم بولو کیسے یاد کیا ؟؟ 

ہاہاہاہا ہاؤ سوئٹ تم ٹونٹ کرتے کتنے اچھے لگتے ہو۔۔۔

خیر میں پاکستان آگئی ہوں تو تم ابھی مجھ سے ملنے آرہے ہوں۔۔

اس وقت؟؟ اسکی فرمائش پر اسنے گھڑی پر نظر دوڑائی تھی کو رات کے گیارہ بجا رہی تھی

اس سے پہلے تو آج تک تم نے کبھی ٹائم نہیں دیکھا اور اب اچانک ٹائم کا بول رہے۔۔۔

مجھے ابھی کلب میں ملو ابراہیم اوکے۔۔۔

اسے حکم دیتی وہ فون بند کرگئی۔۔۔

اس نے ایک نظر فون کو دیکھ گہرا سانس لیا تھا اور پھر اپنی کھڑکی پر نظر دوڑائی جہاں اسے کوئی اندر جاتا ہوا نظر آیا تھا۔۔

گہری سانس لیتا وہ باہر کی طرف بڑھا تھا۔۔۔۔

جبکہ دوسری طرف وہ کمرے میں آکر بیڈ پر گر کر پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی 

کتنا بدل گئی تھی وہ زرا سی محبت نے اس کے اندر موجود نرم دل آنسہ کو باہر نکالا تھا حاشر کی باتوں پر اس نے دل نے عمل کیا تھا وہ نہیں چھوڑنا چاہتی تھی یہ محبت بھرا آنگن دادو اور بابا کی شفقت بھری چھاؤں دراب بھیا اور بھابھی کی محبت کنزہ کی دوستی صرف اس ایک شخص سے منسلک ہوکر اسے اتنے رشتے ملے تھے اور اب جب وہ اس ایک شخص سے محبت کرنے لگی تھی تو یہ سمجھوتے کی ڈوری ٹوٹنے کے قریب تھی۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

وہ کلب میں داخل ہوا تو ہر طرف رنگ و بو کا سیلاب آیا ہوا تھا سب سے بچتا بچاتا وہ آگے بڑھا تھا مگر سامنے کا منظر دیکھ اسکے قدم رکے تھے 

بیک لیس سلیولس ڈریس پہنے وہ شاید نہیں یقیناً ردابہ تھی اور اس کے ساتھ کوئی لڑکا تھا جو اس کے ساتھ کافی واہیات انداز میں رقص کر رہا تھا۔۔

ردابہ کو دیکھ انجانے میں اس کے ذہن میں ایک چہرہ آیا تھا اور اس نے انکا موازنہ کیا تھا 

تبھی ردابہ کی نظر اس پر پڑی تھی۔۔

وہ بھاگ کر اسکے گلے گلی تھی۔۔ اسنے آگے بڑھ کر اس نے گال چومنے چاہے تھے مگر وہ ایک دم پیچھے ہوا تھا۔۔

آؤ اے بی میں کب سے ویٹ کر رہی۔۔اسکا ہاتھ تھامے وہ اندر کی طرف بڑھی تھی۔۔

ایک وسیع حال میں بڑی سی اسکرین لگی ہوئی تھی۔۔

ردابہ نے آگے بڑھ کر کسی کو گلے لگایا تھا اور جواب میں اس آدمی نے اس کے گال چومے تھے۔۔

وہ بنا کچھ بولے بس خاموشی سے سب دیکھ رہا تھا۔۔

وہ اسکے پاس آکر بیٹھی تھی تبھی اسکرین روشن ہوئی تھی

یہ میرے شوٹ ہیں۔۔اس نے ابراہیم کو بتایا تھا اور ان تصاویر کو دیکھ ابراہیم کو کراہیت محسوس ہوئی تھی 

ان چھ ساتھ ماہ میں اس نے آنسہ کو کبھی بغیر دوپٹے کے نہیں دیکھا تھا اس نے کئی ماڑدن لڑکیاں بھی دیکھی تھیں مگر کوئی آگے بڑھنے کے لئے اتنا گر سکتا ہے اس نے سوچا تک نہیں تھا۔۔۔

اشتعال کی ایک لہر پورے جسم میں دوڑی تھی تبھی وہ جھٹکے سے اٹھا تھا وہ اس حال سے نکلتا چلا گیا تھا 

دماغ کی نسیں تن گئی تھیں۔۔

خود کو کنٹرول کرتا وہ گاڑی تک آیا تھا مگر اس سے پہلے کہ وہ وہاں سے نکلتا ردابہ نے اسکا ہاتھ تھاما تھا 

یہ کیا طریقہ ہے ابراہیم ہے کوئی ایسے بیہیو کرتا ہے صرف تمہارے لئے میں نے یہ سرپرائز پلین کیا اور تم۔۔۔ وہ غصے سے اس پر غرائی تھی 

یہ سرپرائز تھا واؤ ردابہ واؤ۔۔۔ اس نے ایک دم تالیاں بجائی تھیں 

مجھ سے شادی کا وعدہ کرکے کسی اور کی بانہوں میں جھول کر مجھے دیکھانا یہ سرپرائز تھا ہر ایک سے یوں گلے ملنا اسکے گال چومنا یہ سرپرائز تھا 

واٹ دا ہیل یہ کیا بکواس ہے اتنی چھوٹی سوچ کے تو نہیں تھے تم کبھی ارے ہاں کب مڈل کلاس لڑکی کے ساتھ رہو گے تو مڈل کلاس جیسی ہی سوچ رکھو گے۔۔ 

اس کی بات پر ابراہیم نے حیرت سے اسے دیکھا تھا جس پر وہ قہقہ لگ کر ہنسی تھی 

تمہیں کیا لگتا ہے جو شادی کا جھوٹا کھیل تم نے کھیلا اس سے میں انجان ہوں نہیں مگر میں چپ تھی دیکھو زرا روز رات اس کے ساتھ منہ کالا کرتے اور  شریف تو ایسے بن رہے جیسے۔۔ ارے ایسی حرا۔۔۔۔۔

ردابہ۔۔۔۔ اسکی بات پر وہ ایک چیخا تھا کہ اسکی زبان کو بریک لگے تھے 

خبردار۔۔۔ خبردار جو تم نے اس کے لئے کوئی لفظ نکالا یہ زبان گدی سے کھینچ کر نکال دونگا۔۔

واٹ تم۔۔۔ تم اس دو ٹکے کی لڑکی کے لئے مجھ سے اس طرح بات کر رہے میں کہاں اور وہ کہا۔۔۔

اور اس کی بات پر ہنسا تھا خود کا اور اسکا موازنہ مت کرنا کبھی کیونکہ تم اسکی جوتی جیسی بھی نہیں ہو۔۔

اسے بولتا وہ وہاں سے نکلا تھا اسے اسکے سارے سوالوں کے جواب مل گئے تھے اور اب وقت آگیا تھا اپنی غلطیوں کو سدھارنے کا۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

وہ کمرے میں آیا تو پورا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا

انسہ۔۔ لائٹ آن کرتا وہ بیڈ کے پاس آیا تھا جہاں وہ منہ کے بل لیٹی تھی اسکی آواز پر ایک جھٹکے سے اٹھی تھی 

کیوں کیوں میرے گھر والوں کو یہاں لائیں ہیں کیوں کس حق سے لائیں ہیں ختم ہوگئی ہے ہمارے اس نام نہاد رشتے کی مدت اب کیا کہہ کر لے کر جاؤں گی میں واپس بتائیں 

آنسوؤں سے تر چہرہ لئے وہ اسکا گریبان پکڑ کر بولی تھی 

تبھی اس نے اسکی کمر کے گرد بازو باندھے خود سے قریب کیا تھا 

اور اس کی اس حرکت پر وہ ساکت ہوئی تھی۔۔

کیا ہوا چپ کیوں ہوگئیں بولو نا میں سن رہا ہوں۔۔۔

اسکے گال سے گال مس کرتا وہ مبہم سا مسکرایا تھا 

جب کے اسکی جان سینے میں اٹکی تھی 

یہ کیا بےہودگی ہے چھوڑو مجھے۔۔۔

اسکی قربت سے گھبراتی اس نے اسکے سینے پر ہاتھ مار اسے خود سے دور کرنا چاہا تھا مگر وہ ایک انچ بھی نہیں ہل سکا۔۔

ابراہیم۔۔۔ مت کریں۔ اسی کے سینے سے لگی وہ پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی 

اس کے آنسہ کی گرد حصار قائم کیا تھا

معافی ملے گی ہر اس بات کی جس پر دل دکھا تمہارا؟؟ 

نہیں۔۔۔ اسکی بات پر وہ نفی میں سر ہلاتی بولی تو وہ بے اختیار مسکرایا تھا 

ردابہ کے پاس جاؤں میں؟؟ شرارت سے کہتے اس نے ہونٹوں کو دانتوں میں دبایا تھا 

آنسہ اپنی کوئی چیز کسی کو نہیں دیتی اور آپ تو شوہر ہو۔۔۔

سو سو کر کے کہتی وہ اسے دنیا جہاں سے زیادہ پیاری لگی تھی 

وہ آکر چھین کر لے گئی تو؟؟

آپ کو گنجا کردونگی اب اس نک چڑھی کو گنجا آدمی تو نہیں چاہیے ہوگا نا۔۔۔ خفگی سے اسے کہتی وہ رخ موڑ گئی جبکہ کمرے میں اسکا قہقہ گونجا تھا 

محبت ہوگئی ہے نا مجھ سے؟؟ سرگوشی میں پوچھتا وہ اسے نظر جھکانے کر مجبور کر رہا تھا 

نہیں اور آپ کو؟؟ اسے منع کرتی اس نے سوال کیا تھا

مجھے ہوگئی ہے صرف تم سے۔۔۔میں نے اب جاکر جانا ہے محبت ہوتی کیا ہے محبت تو دینے کا نام ہے اور تم نے صرف مجھے دیا ہے میرے گھر والوں کو دیا ہے کب کیسے محبت ہوئی میں نہیں جانتا ہاں مگر اب تمہارے ساتھ رہنا اچھا لگنے لگا ہے دل کرتا ہے تمہارے ساتھ جب جب میں ہوں تب تب یہ وقت تھم سا جائے۔۔۔

اس کے ماتھے پر لب رکھے وہ اظہار کرگیا تھا 

مجھے آپ سے محبت کب ہوئی میں بھی نہیں جانتی مگر میں بدل گئی ہوں میں جیسی تھی ویسی نہیں رہی مجھ میں برداشت آگئی ہے صبر آگیا ہے رشتوں کو سنبھالنا آگیا ہے اگر میں یوں آپ کی زندگی میں نا آتی تو شاید کبھی اتنے مخلص رشتوں کو سمجھ ہی نہیں پاتی اسکے سینے پر سر رکھے اس نے اپنے دل کا حال اسے بتایا تھا۔۔۔

دو دلوں کو اس اقرار سے قرار آیا تھا اسکا سر سینے پر رکھے وہ بس اسے محسوس کئے گیا تھا۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

اگلی صبح بے حد روشن تھی آنسہ کو ایسا لگا کوئی بوجھ اس نے کندھوں سے ہٹا تھا۔ 

اس کے سینے پر سر رکھے وہ اسی کو دیکھ رہی تھی 

ان کی پہلی ملاقات۔۔  وہ یاد کر کے مسکرائی تھی 

دوسری ملاقات۔۔

تیسری ملاقات کر مسکراہٹ تھوڑی تھمی تھی پھر وہ وقت جب وہ دونوں ساتھ تھے اسے وہ دن یاد آیا جب اچانک دادو کی طبیعت بگڑی تھی 

وہ کیسے پاگل ہوگئی تھی رو رو کر برا حال کرلیا تھا اسے نہیں یاد تھا کہ وہ کبھی اتنا روئی ہو

یہاں پہلی بار ابراہیم نے اسکے لئے دل میں کوئی احساس محسوس کیا تھا

وہ گزرے وقت کو سوچ مسکرائی تبھی نظروں کی تپش خود پر محسوس کرتی اسنے سر اٹھایا تھا اسے خود کو تکتا پاکر وہ کھل کر مسکرائی تھی 

گڈ مارننگ…اسکے ماتھے کر پیار کئے اس نے محبت سے کہا تو وہ ہنس دی 

کیا ہوا ہنسی کیوں؟؟ وہ اسکے یوں ہنسنے پر حیران ہوا تھا 

کچھ نہیں بس سوچ رہی کہ کیا سے کیا ہوگئے دیکھتے دیکھتے۔۔

کل تک جو دشمن تھی آج اس سے اتنی محبت۔۔۔

اسکے گرد بازو پھیلائے وہ اسکی تھوڑی سے سر ٹکا گئی تھی

ہاں میں بھی وہی سوچ رہا پہلے مجھے کچا چبانے کے ارادے رکھنے والی آج کیسے لاڈ جتا رہی۔۔

اس کے بولنے وہ کھلکھلا کر ہنسی تھی آج زندگی کتنی حسین لگ رہی تھی یہ کوئی اس سے پوچھتا۔۔

بہت بہت شکریہ مجھے مان دینے کے لئے۔۔۔

اسکے گرد گرفت تنگ کئے دل سے مسکرایا تھا۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔۔ دادو کی بات سن کر زلیخا بی حیران ہوئی تھیں 

اس میں حیرانی کی کیا بات ہے زلیخا؟؟ نور کی اب عمر ہے شادی کی اور میری نظر میں حاشر سے اچھا تو کوئی اس کے لئے ہو ہی نہیں سکتا۔۔

مگر آپ سب جانتی ہیں۔۔

پاگل مت بنو زلیخا سفینہ کو میں عرصے سے جانتی ہوں اور حاشر اور اسے سب باتوں کا علم ہے میں تو یہ ہی کہوں گی کہ اس سے اچھا کچھ نہیں ہوگا ہماری نور کے لئے آگے تم اچھے سے سوچ لو۔۔

زلیخا کو بولتی وہ اٹھ گئیں۔۔

جبکہ وہ سوچ میں پڑ گئی تھیں مگر وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ اس فیصلے سے ان کی بیٹی کی زندگی سنور جائے گی۔

اس بات کو انہوں نے آنسہ سے ڈسکس کیا تھا اور وہ تو بے تحاشہ خوش ہوئی تھی 

سارے کام جلدی جلدی ہی ہوئے تھے۔۔

نور تو اپنی قسمت پر حیران و پریشاں تھی کب سوچا تھا کہ کوئی یوں اتنا اچھا اس کی زندگی میں آئے گا 

ان کی شادی جلدی رکھی گئی تھی۔۔

گھر میں ایک دم رونق ہوگئی تھیں اور اس سب میں آنسہ سب سے آگے تھی علی اور شان بھی اس کے ساتھ ساتھ تھے

ابھی بھی وہ بیڈ پر بیٹھی سامان کی لسٹ بنانے میں مصروف تھی کہ وہ کمرے میں آیا تھا۔۔

اس کی گود سے سامان ہٹائے اپنا سر اسکی گود میں رکھا تو اسنے مسکرا کر اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا۔۔

بیگم بھول گئی ہیں آپ کہ آپ کا ایک عدد شوہر بھی اسی دنیا میں رہتا ہے۔۔

پھولے منہ کے ساتھ وہ اسے شکوہ کرتا کوئی چھوٹا سا بچہ لگا تھا۔۔

ویسے تو یہ شکوہ بجا نہیں ہے آپ خود پورا دن بزی ہوتے ہیں اور مجھے بول رہے۔۔ اسکے بالوں میں انگلیاں چلاتی وہ بھی بھولے منہ سے بولی تو وہ اسے گھور کر رہ گیا 

شادی ہوجائے اس حاشر نے بچے کی پھر بتاتا تمہیں۔۔اسکے بالوں کی کٹ کھینچ وہ اسے مسکرانے پر مجبور کر دیتا تھا۔۔۔

اب آپ سوجائیں کل شادی ہے اور آپ جانتے ہیں کل کا دن بہت مصروف گزرنے والا ہے۔۔اسے بولتے اس نے سامان سمیٹا تھا 

آنسہ میں نے ایک فیصلہ کیا ہے۔۔

اسے اٹھتے دیکھ اس نے ہاتھ پکڑے اسے واپس بیٹھایا تھا 

کیا؟؟؟

میں چاہتا ہوں زلیخا بی ہماری اسلام آباد والی بوتیک سنبھالیں اور علی اور شان اگر ان کے معاون ہونگے تو مجھے خوشی ہوگی۔۔۔

اس کی بات پر اس نے تعجب سے اسے دیکھا تھا 

کچھ دن پہلے ہی اس نے علی اور شان کی بےروزگاری کا اس سے سرسری سا ذکر کیا تھا 

کیا وہ اس کے لئے اتنی اہم ہوگئ تھی۔۔

ناجانے کیوں مگر اسکی آنکھیں نم ہوئی تھیں۔۔

ہے آنسہ واٹ؟؟؟رو کیوں رہی ہو یار؟؟ اسکے آنسو دیکھ وہ ایک دم پریشان ہوا تھا مگر حیراں تب ہوا جب وہ ایک دم اسکے سینے سے لگی تھی 

کیوں ہیں آپ اتنے اچھے کیوں؟؟ کتنی خوش نصیب ہوں میں جو آپ مجھے ملے ایک عرصے تک میں نے خود کو بد نصیب سمجھا تھا کہ میرے پاس کوئی مخلص رشتہ نہیں مگر اب دیکھیں اللّٰہ نے آپ سب کی صورت میں مجھے سب کچھ دے دیا۔۔

روتے ہوئے بولتی وہ اسے ہمیشہ مسکرانے کر مجبور کر دیتی تھی۔۔

اچھا تو عورت اب چپ کرو ورنہ میں شروع ہوا تو پھر ہمیں مسئلہ ہوگا۔۔

خدا کا خوف کریں ابراہیم۔۔۔ اسکی بات پر وہ اسکے سینے پر مکا مارتی بولی تو وہ قہقہ لگا کر ہنس پڑا۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

آج وہ پور پور سجی تھی خوشی اس کے انگ انگ سے عیاں تھیں 

گولڈن اور مہرون شرارہ اور اس پر غضب کا میک اپ۔۔

آتے جاتے ابراہیم کی نظر خود کر محسوس کئے وہ جھینپ سی جاتی تھی بارات کے آتے ہی نکاح کی رسم ادا ہوئی تھی لال رنگ کے جوڑے میں نور کسی پری جیسی لگ رہی تھی حاشر کی نظر آج اس پر سے ہٹنے سے انکاری تھی

حاشر کی نظروں سے پزل ہوتی اس نے بے بسی سے آنسہ کو دیکھا تو وہ کھلکھلائی تھی۔۔

حاشر بھائی انسان بن جائے ورنہ میری پری اڑ جائے گی۔۔۔

آنسہ۔۔۔ نور نے اسے گھورا تو وہ ہنس دی 

اچھا بھئی حاشر بھائی اب آپ اسے کنفیوز نا کریں۔۔

لو میں کہا کچھ کر رہا ہوں۔۔وہ فوراً معصوم بنا تھا 

اس سے پہلے آنسہ اسے کوئی جواب دیتی اس کی نظر سامنے سے اندر آتی ردابہ پر پڑی تھی ماتھے پر لاتعداد بل آئے تھے 

میں ابھی آئی۔۔

نور کو بول وہ نیچے اتری تھی۔۔

ابراہیم یہ یہاں کیا کر رہی ہے؟؟ 

ابراہیم کے پاس آنے پر وہ خفگی سے بولی تھی

ہیلو ابراہیم کیسے ہو؟؟ تبھی وہ ان کے قریب آکر اس سے مخاطب ہوئی تھی آنسہ کو تو سرے سے نظر انداز کیا تھا

الحمدللہ بہت خوش۔۔ آنسہ کا ہاتھ ہاتھ اسنے آنسہ کو خود سے قریب کیا تھا 

اتنی جلدی دوسری سے دل لگا لیا کل تک تو میری محبت کا دم بھرتے تھے۔۔ چبا چبا کر کہتی اس نے نفرت سے آنسہ کو دیکھا تھا 

بلکل صحیح کیا میں نے بھی یہی کہا تھا ان سے مگر وہ کیا ہے نا یہ پہلے عقل سے پیدل تھے اب انہیں میں مل گئی تو انہیں عقل بھی آگئی اور اچھے برے کی پہچان بھی۔۔ ابراہیم سے پہلے اس نے ردابہ کو لاجواب کیا تھا۔۔

ہونہہ میری اترن ہے یہ۔۔۔ استہزایہ ہنستی وہ ابراہیم کو مٹھھ بھینچے پر مجبور کرگئی تھی۔۔

اترن اور یہ؟؟ آنسہ حیران ہوئی تھی اور ابراہیم اسکی اداکاری سے جم کر متاثر ہوا تھا 

اترن وہ ہوتی ہے جو کوئی پہن کر چھوڑ دے مگر یہ تو بلکل خالص ملے مجھے ہاں اترن تو تم ہوں جو ہر مرد کی بانہوں میں جانے کو تیار رہتی ہو۔۔

ردابہ نے کبھی امید بھی نہیں کی تھی کہ اسے یہ سننے کو ملے گا اس لئے اسکے چہرہ کے تاثرات لمحوں میں تبدیل ہوئے تھے۔۔

اب یہاں سے خود جاؤ گی کہ گارڈ کو بلاؤ؟؟ سپاٹ انداز میں کہہ کر اسنے ردابہ کو دیکھا تھا جو اتنی عزت پر پیر پٹخ کر وہاں سے نکلی تھی 

واہ شیرنی۔۔۔ ابراہیم اس سے متاثر ہوا تھا 

آپ بھی تھوڑے شیر بن جائیں ڈرپوک۔۔ اسے چھیڑتی وہ وہاں سے نکلی تھی 

یہ تو مجھے بھی نہیں چھوڑتی۔۔ سر کھجاتا وہ اسکے پیچھے گیا تھا۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

وقت اپنی پوری رفتار سے گزرا تھا زلیخا بی شبانہ اور علی اسلام آباد شفٹ ہوگئے تھے وہاں وہ لوگ بوتیک کو بہت اچھے سے سنبھال رہے تھے یہاں کراچی میں حاشر اور ابراہیم نے مل کر سب سنبھالا ہوا تھا 

زندگی پرسکون ہوگئی تھی اور اس پرسکون زندگی کو پر رونق کرنے کے لئے اللّٰہ نے آنسہ کے آنگن میں دو پیارے پیارے پھول کھلائے تو وہیں نور کی چھولی بھی خوشیوں سے بھری تھی

وقت چاہے کتنا ہی مشکل کیوں نا ہو رشتے چاہے کتنے ہی ادھورے کیوں نا ہو ایک وقت آتا ہے سب ٹھیک ہو جاتا ہے 

اسنے بھی صبر کرنا سیکھا تھا دینا سیکھا تھا نبھانا سیکھا تھا اور آج وہ خوش تھی اللہ کی شکر گزار تھی وہ اس ایک ذات پر توکل کرتی تھی اور اس پاک زات نے اسے کبھی نامراد نہیں ٹہرایا تھا 

دو الگ الگ لوگوں کی راہیں الگ سے ایک ہوئی تھیں 

وہ تیری میری راہ کے سفر سے ہماری راہ کے سفر پر گامزن تھے اور یہی ان کے رشتے کی خوبصورتی تھی۔۔۔

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Web by Madiha Shah Writes.She started her writing journey from 2019.Masiha Shah is one of those few writers,who keep their readers bound with them , due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey from 2019. She has written many stories and choose varity of topics to write about

'' Nafrta Se barhi Ishq Ki Inteha '' is her first long novel . The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ❤️.There are many lessons to be found in the story.This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lasson to be learned from not leaving....,many social evils has been repressed in this novel.Different things which destroy today’s youth are shown in this novel . All type of people are tried to show in this novel.

"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second best long romantic most popular novel.Even a year after the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.

Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is a best novel ever 3rd Novel. Novel readers liked this novel from the bottom of their heart. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that, but also how sacrifices are made for the sake of relationships.How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice

 

Tum Se Seekhi  Janaa Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Tum Se Seekhi Muhabbat Janaa written Fariha Islam Tum Se Seekhi Muhabbat Janaa   by Fariha Islam  is a special novel, many social evils has been represented in this novel. She has written many stories and choose varity of topics to write about

Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel you must read it.

Not only that, Madiha Shah provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

If you all like novels posted on this web, please follow my webAnd if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

If you want to read More  Madiha Shah Complete Novels, go to this link quickly, and enjoy the All Madiha Shah Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                  

 

Complete Novels Link 

 

Copyrlight Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only share links to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted

 

 

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages