Tu Mera Ishq By Zonia Saleh New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Saturday, 3 August 2024

Tu Mera Ishq By Zonia Saleh New Complete Romantic Novel

 Tu Mera Ishq By Zonia Saleh New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Tu Mera Ishq By Zonia Saleh Complete Romantic Novel 

Novel Name: Tu Mera Ishq 

Writer Name: Zonia Saleh

Category: Complete Novel

لیپ ٹوپ کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل کرتا وہ اپنی دھن میں کوریڈور سے گزر رہا تھا۔۔۔

حولیے سے وہ کہی سے بھی پروفیسر نہیں لگ رہا تھا۔۔

بلیک پینٹ پر لمبی گرے شرٹ کے بازو کہنیوں تک فولڈ کئے گئے تھے جن میں سے کالے ٹیٹوں سے بھرے سفید مضبوط ورزشی بازو کسی باڈی بلڈر کا تاثر دے رہے تھے  بال ماتھے پر بےترتیب سے بکھرے ہوئے تھے ۔۔۔

لڑکیاں تو لڑکیاں لڑکے بھی  بار بار آس کو دیکھنے پر مجبور ہورہی تھے اس کی سہر انگیز شخصیت کی بنا پر۔۔۔منہ مسلسل کچھ چبانے سے ہل رہا تھا جو اس کے اردگرد  سے بےنیاز ہونے کا اندیہ دے رہا تھا۔۔۔

کلاس میں داخل ہوتے ہی وہ سیدھا ڈائیسک پر آتا لیپ ٹاپ کھول کر آج کے لیکچر کی فالز کھولنے لگا۔۔۔

گوڈمارنگ پروفیسر سارنگ!

جیسیکا نے فورا سے کھڑے ہوکر جوش میں اسے گوڈمارنگ وش کی جس کے جواب میں اسے اگنور کیا۔۔۔

اپنی اتنی بےعزتی پر وہ سرخ چہرہ لئے بیٹھی جبکہ کلاس میں کھکھی کی گونج اٹھی جسے سارنگ کی ایک سرد نظر نے بیچ میں ہی گھونٹ دیا۔۔ 

کلاس کی سیکنڈ لاسٹ رو میں بیٹھی وہ یک ٹک ایک ہاتھ  گال پر رکھے اس کو دیکھ رہی تھی بغیر کسی کی پرواہ کئے۔۔ 

یہ اس کا روز کا معمول تھا جب سے اس نے اس  یونیورسٹی میں ایڈمیشن لیا تھا۔۔ 

زوفی اپنے لیکچر پر دھیان دو نہیں تو باہر نکال دی جاو گی تم بہتر جانتی ہو ۔۔۔

رشا  اس کو بولتی جلدی سے اپنے رجسٹر پر جھک گئی۔۔ 

ظالم دیکھنے تو دو فقط یونیورسٹی کے سارے لیکچرز میں یہی تو ایک لیکچر ہے جو میں غور سے سنتی ہوں وہ گہری سانس بھر کر بولی ۔۔۔

غور سے سنتی یا دیکھتی ہو؟۔۔

جو بھی ہو بس مجھے ڈسٹرب مت کرو ۔۔۔

وہ اب دونوں ہاتھ اپنے دائیں بائیں گال پر رکھے پرفیسر سارنگ کو دیکھتی بولی۔۔

جو وائیٹ بورڈ پر لیکچر لکھنے کے ساتھ اس کے اہم پوائنٹس ایکسپلین بھی کررہا تھا۔۔۔

یہ تو تمہیں سر ہی بتائیں گے ابھی جب سب کے سامنے تمہیں کلاس سے باہر نکالیں گے ۔۔۔ 

ارے یار اس کے لئے تو کچھ بھی فقط ایک نظر تو ڈالے مجھ پر۔۔

بیٹا  صبر رکھ صبر ابھی دیکھنا بس ۔۔۔۔۔ 

لیکچر دینے کے بعد وہ باری باری سب سٹوڈنٹس سے اپنے دئیے گئے لیکچر کے متعلق سوال کرنے لگا ۔۔۔

سو مس زوفی بتائیں آج کے لیکچر کے بارے میں؟۔۔۔ 

لیکن پروفیسر میں کیسے بتاو۔۔۔

کیا مطلب کیسے بتاو؟۔۔

کیا آپ نے لیکچر نہیں سنا؟۔۔

تاثر میں یک دم سردگی ائی۔ ۔۔ 

نہیں سر کیوں کہ میں تو اپ کو دیکھنے میں ہی مگن تھی وہ معصومیت کے سارے ریکارڈ توڑتی پلکیں جھپک کر بولی۔۔ 

کلاس کی ساری لڑکیاں اور لڑکے حیرت سے منہ کھولے اسے دیکھے گئی ۔۔۔

میرال تو جھلس ہی گئی حقارت سے اس کی اور دیکھنے لگی ۔۔۔ 

سارنگ کے انداز میں کوئی تبدیلی نہیں آئی جسے یہ اس کے لئے معمول کی بات ہو ۔۔۔ 

میں کوئی سرکس کا جوکر نہیں جسے آپ دیکھنے میں ہی مگن تھیں ۔۔۔ 

آپ شاید بھول رہی ہیں کہ میں آپ کا ٹیچر ہوں تو زرا ان لہجوں  سے پرہیز کریں نہیں تو میں آپ۔ کے منسٹر باپ سے تو بلکل نہیں ڈرتا جس کی دھمکی آپ پرنسل تک کو دیتی ہیں وہ وارنگ دیتے ہوئے حقارت سے بولا ۔۔۔

کل آپ اس سارے لیکچر کی پریزینٹیشن بنا کر لائیں گی اور کلاس میں دیں گی بھی ۔۔۔۔

کہتے ہی وہ اپنا لیپ ٹوپ اٹھاتا وہاں سے چلا گیا۔۔ 

زوفی ایک بیس سال کی بگڑی ہوئی امیر زادی ۔۔۔لیکن دوسری لڑکیوں سے زرا مختلف ۔۔

درمیانے سائز کے باب ہئیر کٹ کو پونی میں مقید کئے جو بمشکل کندھے تک آتی تھی۔۔

ٹائیٹ جینز پر ریڈ ٹاپ اور بلیک لیدر جیکٹ پہنے وہ گھور کر اس کو دیکھنے لگی جو وہاں سے اب جا چکا تھا ۔۔۔ 

پھر سے کام آف ۔میری تو جان جاتی ہے کوئی نہیں میں کون سا کرو گی کرتی ہے میری جوتی۔۔۔ 

وہ آپنا بیگ اٹھاتی کلاس  سے بھاگ کر نکلی معلوم تھا اس وقت وہ پارکنگ لاٹ میں ہوگا یہ اس کا آخری لیکچر جو تھا۔۔۔ 

اپنی بائیک کے پاس آتے وہ منہ میں ببل چباتا ہیلمٹ پہن کر ابھی بائیک سٹارٹ کرتا کہ زوفی جلدی سے بھاگ کر آتی اس کے پیچھے بے تکلفی سے بیٹھی تو وہ یک دم سٹل ہوتا حیران سا پیچھے موڑ کر اس کو دیکھنے لگا، وہ جی جان سے مسکرائی۔۔

ہیلو پروفیسر کیا آپ مجھے بھی ڈراپ کردیں گے پلیز،،۔۔

اس کے بولنے پر  اسکی حرکت پر وہ یک لخت شدید غصے میں بائیک سے نیچے اترا۔۔۔۔ 

یہ کیا بتمیزی ہے؟ 

واپس نیچے اترو وہ اسے وارن کرتا شدید غصے میں بولا۔۔۔ 

لیفٹ ہی تو مانگی ہے پروفیسر کونسا دل مانگ لیا کیا مجھے لیفٹ تک نہیں دے سکتے  دیکھیں نہ آج میرا ڈرائیور بھی نہیں آیا بس زیادہ دور نہیں ہے پلیز اپنے سٹوڈنٹ کی اتنی سی مدد نہیں کرسکتے کیا آپ؟

وہ ڈھیٹ بنتی بیٹھی اس کی بات کو اگنور کرتی منہ بسور کر بولی۔۔۔ 

جسٹ شٹ اپ مزید کوئی بحث نہیں 

سٹے ان یورلیمٹس 

اس کو بازو سے سختی سے پکڑتا وہ جارحانہ انداز میں بولا اور بغیر اس کی طرف دیکھے وہاں سے نکل گیا۔۔

اس کا بازو اس کی سخت گرفت سے سرخ ہوچکا تھا وہ اپنا بازو سہلاتی غصے سے اس کو جاتا دیکھتی رہی۔۔۔ 

کتنا بھی بھاگ لو چھوڑو گی تو میں بھی نہیں وہ اٹل لہجے میں خود سے بولتی اپنی کار کی طرف بڑھ گئی۔۔۔

اپنے فلیٹ کا دروازہ کھول کر وہ بےزاری س اندر داخل ہوا جو کے اس کی لاپرواہی کی وجہ سے کباڑ خانے کا نظارہ پیش کررہا تھا۔ 

ہر جگہ خالی کین اور جنک فوڈ آئیٹمز کے بوکس یہاں وہاں بھکرے ہوئے تھے ایسے لگا رہا تھا جیسے مہینوں سے صاف صفائی نہ کی گئی ہو۔۔۔ 

اپنے اوپن کیچن کا رخ کرتا وہ فریج سے انرجی ڈرنک کا کین نکال ایک ہی سانس میں وہی کھڑے کھڑے ختم کرتا لاپرواہی سے اچھالا  جو کہ سیدھے جاکر بد رنگ سے صوفے پر گرا  تھا اور اپنے کمرے کی اور بڑھ گیا۔کمرہ بھی کسی کباڑ خانے سے کم نہیں تھا ہر جگہ چیزیں یہاں وہاں پھیلی ہوئی تھیں،۔ بیڈ پر پڑے سامان کو ایک ہی ہاتھ سے ہٹاتا اوندھے منہ بیڈ پر گرا۔۔۔ 

پے درپے انے والے ان مصیبتوں سے تنگ اچکا تھا وہ ،۔۔نجانے یہ جاب اب کب تک اس کے پاس تھی ہر جگہ جہاں وہ جاب کرتا کسی نہ کسی مسئلہ میں پڑنے سے اسے وہاں سے نکال دیا جاتا۔اب یہ نئی سڈوڈنٹ اس کے پیچھے پڑ چکی تھی۔۔۔

یہ بھی مجھے اب میری اس جاب سے نکلوا کر ہی دم لے گی۔۔۔ بےبسی سے اپنے تکیے پر مکا رسید کرتا وہ ضبط سے اپنی موٹھی بینچ گیا۔۔۔۔۔ 

گہرا سانس بھرتے اپنے والٹ سے ایک تصویر نکال کر وہ سرخ آنکھوں سے اس میں موجود مسکراتی عورت کو شکایت  کرتی نظروں سے دیکھنے لگا۔۔۔ 

سب آپ کی وجہ سے ہوا ہے کاش اپ نے میری بات مان لی ہوتی تو آج میں در در نہ بھٹک رہا ہوتا۔خیر میں نے کونسا ہار مان لی ہے جب تک میری بات نہ مانی میں بھی اپنی ضد سے نہیں ہٹو گا اپنی نم آنکھوں کو ہاتھ کی پشت سے صاف کرتا وہ وجاہت اور حسن سے بھر پور انسان  بلکل کسی چھوٹے بچوں کی طرح لگا۔۔۔۔ 

اپنی ضد کی وجہ سے وہ اپنے گھر والوں سے دور اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس عورت کی وجہ سے غزیت سے دوچار کررہا تھا جو اس کو کسی خاطر میں نہ لاتی تھی۔۔۔

******************* 

کیا مطلب مام اور ڈیڈ بزنس ٹور پر جا چکے ہیں اور مجھے اپنی اکلوتی اولاد کو بتانا تک ضروری نہیں سمجھا؟۔۔۔

زوفی اس وقت سخت خراب موڈ میں تھی اور اب یہ خبر اسے مزید غصے سے دوچار کر چکی تھی اس کے پیرنٹس ہمیشہ ایسے ہی کرتے تھے اس کے ساتھ ۔۔۔ بچپن سے لے کر اس کے بڑے ہونے تک وہ اس کو وہ توجہ اور محبت کبھی نہیں دے سکے جو اسے چاہیے تھی جس کی وجہ سے وہ اس حد تک بگڑ چکی تھی اور آئے اس کی سنے والی شکایتوں اپنے ماں باپ کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی تھی ڈانٹ اور سزا کی صورت میں۔۔۔ 

وہ غصے سے واپس وہی سے پلٹتی گھر سے نکلی۔۔

رکیے بےبی کہاں جارہی ہیں آپ دیکھیں میری سنیں؟۔۔

جین اس گھر کی کئیر ٹیکر ہیڈ بوکھلا کر اس کے پیچھے آئی مگر وہ اپنی کار لیتی جا چکی تھی۔وہ تاسف سے سر ہلاتی واپس موڑ گئی۔۔۔۔ 

************** 

پتہ نہیں یہ لوگ کیا سمجھتے ہیں مجھے بھی تو لے کر جاسکتے تھے لیکن نہیں لے کر بھی کیوں جاتے میں تو ویسے ہی عذاب ہوں ان کے لئے۔۔ کار ڈرائیو کرتے سخت غصے میں تھی۔۔

اور ایک یہ پروفیسر ہے ،۔۔اتنی امیر ترین لڑکی اسے لفٹ کروا رہی ہے لیکن نہیں نخرا ہی نہیں ختم ہوتا جناب کا۔۔

کسی کو میں راس ہی نہیں آتی ہوں نہ کسی کو میری ضرورت ہے خود سے باتیں کرتی وہ اب کسی بچی کی طرح اونچا اونچا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔۔۔۔

آستین سے ناک اچھی طرح پونچھتی وہ اتنی سیرئیس حالت میں بھی بہت مضائقہ خیز لگ رہی تھی۔۔۔

ناک رگڑ رگڑ کر صاف کرنے سے سرخ ہو چکی تھی۔۔۔۔ 

دیکھنا پروفیسر خود سے محبت کرنے پر مجبور نہ کردیا نہ میرا نام بھی زوفی نہیں وہ تصور میں پروفیسر سے بولی۔۔۔۔

******************** 

اپنی انگینت سوچوں میں گم ہو جانے سے اس کی کب آنکھ لگی اس کو خبر نہ ہوئی اب اپنے فلیٹ کا دروازہ زور زور سے کھٹکنے پر وہ آنکھیں ملتا اٹھ کر روم سے نکلا۔۔۔

دروازہ کھولتے ہی جیم کو دروازے پر دیکھ اس کا موڈ سخت خراب ہوا۔۔۔ 

کہہ تو چکا ہوں اس ویک کے اینڈ تک تمہیں کرایہ مل جائے گا ۔۔۔

کب تک میں تمہارا یہ بہانہ سنو گا آخر؟

میں تمہیں بول تو چکا ہوں سچ کہہ رہا ہوں نہیں تو میرا سامان اٹھا کر باہر پھینک دینا اب خوش؟۔۔۔ 

اچھا ٹھیک ہے ۔۔۔لیکن میں تمہیں یہ رینٹ معاف کرسکتا ہوں اگر تم میری دی گئی آفر قبول کر لو تو وہ ابھی بھی ایولیبل ہے۔۔۔

جیم معنی خیز نظر سے دیکھتے بولا تو وہ خود کو بمشکل اس کو مارنے سے روک سکا۔۔۔ 

یہ لاسٹ وارنگ تھی دوبارہ میرے سامنے یہ بکواس مت کرنا نہیں تو انجام اچھا نہیں ہوگا انگلی اٹھا کر وارن کرنے والے انداز میں کہتا وہ دروازہ اس کے منہ پر بند کر چکا تھا۔۔ 

جیم کی بہن اس کے پیچھے پاگل تھی اور جیم کو اپنی بہن بہت عزیز تھی وہ اسے اپنی بہن کو ڈیٹ کرنے کی افر تک کر چکا تھا جس سے وہ اسے بری طرح رد کر چکنے کے ساتھ اس کی بہن کو اچھا خاصہ سنا بھی چکا تھا۔۔ 

اپنے بالوں کو اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑے وہ پاگل ہوچکا تھا یہ سب برداشت کرتے کرتے۔۔۔۔

کہ اچانک پھر سے بیل ہونے پر وہ اس بار شدید غصے میں دروازے کی اور بڑھا اور اس جیم کو ایک مکا رسید کرتا کہ دروازے پر اپنی اسی سٹوڈنٹ زوفی کو دیکھ کر دنگ رہ گیا۔۔۔۔

اور ہوا میں اٹھا ہاتھ وہی رک گیا۔۔۔ 

ت۔۔۔تم۔۔یہاں؟۔۔یہاں بھی پہنچ گئی؟

ہوش میں آتے وہ اس پاگل کو دیکھتے بولا جو شام کے وقت اس کے فلیٹ کے دروازے پر کھڑی اپنی پوری بتیسی کی نمائیش کررہی تھی۔۔۔۔۔۔۔

تم یہاں کیا کررہی ہو لڑکی؟ وہ اسے یہاں دیکھتے دانت پیس کر بولا۔۔ 

ارے یہ کیا طریقہ ہے گھر آئے مہمان سے بات کرنے کا کیا آپ کے گھر مہمانوں سے ایسا سلوک کیا جاتا ہے کیا؟۔

اور آپ ۔۔۔

وہ ابھی اور کچھ بھی بولتی کہ وہ جھنجھلا کر فورا سے اس کو بازو سے پکڑتے اندر کھینچ چکا تھا فلیٹ کا دروازہ بند کرنے سے پہلے اس نے ادھر ادھر  نظر ماری کہی کسی نے دیکھ تو نہیں لیا ۔۔کسی کو نہ پاکر مطمئن ہوتا فورا سے دروازہ بند کرتا وہ اسے کھینچ کر لایا اور اپنے چھوٹے سے لاؤنج میں لا کر اس کا بازو چھوڑا...

اس بیچ وہ احتجاج کرتی جھٹ پٹاتی ارے۔۔ ارے۔۔ کرتی رہ گئی۔۔ 

کیا پروفیسر  یہ کیسا سلوک کررہے ہیں آپ گھر آئی  اپنی سڈوڈنٹ سے وہ اپنی کلائی سہلاتی منہ بسور کر بولی ۔۔۔۔

بازو اس کی پکڑ سے سرخ ہوچکا تھا۔۔۔۔ 

او۔۔جسٹ شٹ آپ ۔۔۔

سیدھے پوائنٹ پر او کیوں آئی ہو یہاں؟۔۔

اس کی فضول باتیں اب اس کا ضبط آزما رہی تھی۔۔۔ 

اور ایک منٹ تمہیں کیسے پتہ میں کہاں رہتا ہوں؟۔۔

وہ سنجیدگی اور کرخت لہجے میں بولا تو وہ جھر جھری لے کر رہ گئی اس کے غصے کو دیکھ کر ۔۔۔۔

آپ کا پیچھا کرتے ہوئے اب آپ اتنے بھی بھولے نہیں ہیں پروفیسر کسی کا ایڈریس لینا اتنا مشکل بھی نہیں ہے اور میرے لئے تو بلکل نہیں ۔۔۔وہ دل جلانے والی مسکراہٹ دیتی بولی ۔۔۔ 

اور رہی بات کیوں آئی تو آپ کو بہت مس کررہی تھی تو آگئی کندھے آچکاتے بہت عام لہجے میں  بولی جیسے وہ دونوں  لورز ہوں ۔۔۔ 

اس کو جواب دیتے وہ اس کے فلیٹ کو دیکھتی  اردگرد کا جائزہ لینے لگی ۔۔۔فلیٹ کی حالت دیکھتی پہلے تو وہ حیرت ذدہ  رہ گئی۔۔پھر ہونٹوں کو واؤ کی صورت میں گول کرتی وہ داد دیتی نظروں سے دیکھنے لگی 

آپ کا فلیٹ تو بہت خوبصورت ہے وہ اردگرد اس کے فلیٹ کو دیکھتی بولی ۔۔۔ 

کتنا کچھ کومن ہے نہ ہم میں  پروفیسر میں بھی اپنے کمرے کو ایسے ہی سجا کر رکھتی ہوں وہ کیا ہے نہ کہ مجھے بھی آپ  کی طرح صفائی  سے بہت الرجی ہے وہ پرجوش ہوکر بولتی اس کی طرف متوجہ ہوئی تو اس کو دیکھتے اس کا جوش جھاگ کی طرح بیٹھ چکا تھا۔۔۔ 

سارنگ  بہت عجیب سے انداز میں اس کو دیکھ رہا تھا اس کی آنکھوں کی تپش سے زوفی کو اپنا آپ جلتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔ 

اس کی ساری شوخی ہوا ہوئی تھی۔۔

وہ آہستہ سے ایک ایک قدم اس کی طرف بڑھاتا اس کو سنجیدگی سے دیکھتا اس کے قریب آنے لگا اس نے اب تک زوفی کی کسی بات کا کوئی جواب نہیں دیا تھا ۔۔۔۔

وہ اس کو یوں اپنے قریب آتا دیکھ کر گھبراہٹ کا شکار ہونے لگی۔۔۔ 

پروفیسر کیا بات ہے آ۔۔۔اپ نے مم۔۔میری بات کا جواب نہیں دیا وہ ہلکلاتے ہوئے بمشکل ہنستی بولی۔۔ 

وہ اس کے قریب اتا ایک قدم کے فاصلے پر رک گیا اس کی آنکھوں میں سنجیدگی سے دیکھتا جھکا تو وہ اپنا سانس روکتی سر پیچھے ہٹا گئی اس کی نزدیکی پر لیکن نظریں بغور اس کی آنکھوں پر ٹکی تھیں۔۔

کیا تم یہ بھی جانتی ہو کہ میں اس فلیٹ پر اکیلا رہتا ہوں؟۔اور تم یہاں وہ بھی اس وقت بغیر کچھ بھی سوچے سمجھے منہ اٹھا کر چلی آئی!۔۔جانتی بھی ہو یہاں تمہارے ساتھ کیا کچھ ہوسکتا ہے؟

وہ طنزیہ مسکراہٹ سے بولا 

زوفی کو اس کی گرم سانسیں اپنے منہ پر پڑتی محسوس ہورہی تھیں جو اس کو عجیب سے احساس سے دوچار کررہی تھیں۔۔ 

مجھے آپ پر یقین ہے وہ ہمت کرتی بغیر کسی خوف کے بولی۔۔ 

کیوں؟

مجھ پر اتنا یقین کیوں ہے تمہیں،۔ لگتا ہی کیا ہوں میں تمہارا؟۔۔

وہ اس کی بات سنتا بھڑک کر بولا۔۔۔

عجیب چپکو لڑکی ہے۔۔۔

بس مجھے بھروسہ ہے اور کیا آپ کو نہیں پتہ محبت میں لوگ اندھے ہوجاتے ہیں تو بس یہی سمجھ لیں وہ آنکھیں ٹپٹپا کربولتی اسے زہر لگی۔۔ 

وہ واپس سیدھا ہوتا گہرا سانس بھر کر رہ گیا۔۔ 

کیوں پڑی ہو میرے پیچھے؟۔

وہ بے زار ہونے لگا تھا اب 

بولا تو محبت ہوگئی ہے آپ سے۔۔ 

لیکن میں تم سے محبت نہیں کرتا ۔میں کسی اور سے محبت کرتا ہوں۔۔۔اس لئے میرا پیچھا چھوڑ دو۔۔

لیکن میں آپ سے محبت کرتی ہوں وہ اس کی بات سنتی چیخ کر بولی۔۔ 

کوئی نئی بات کرو یہاں آئے دن کسی نہ کسی لڑکی کو مجھ سے محبت ہوتی رہتی ہے۔۔۔۔وہ آنکھیں گھما کر  بے نیازی سے بولا۔۔۔ 

تو وہ اس کی بات سنتی رونے لگی اور اپنی عادت کے مطابق روتے روتے وہ اونچا اونچا منہ کھول کر رونے لگی بلکل کسی چھوٹے بچوں کی طرح۔۔۔ 

سارنگ کی بےزاری آچانک ہونے والے

شوک میں بدلی وہ سٹل ہوتا اس کو اونچا اونچا روتے دیکھ رہا تھا ۔۔۔

اس نے پہلی بار کسی لڑکی کو یوں روتے دیکھ رہا تھا ۔۔۔ 

جانے کیوں بہت عرصے بعد اس کے لب یک لخت مسکراہٹ میں ڈھلے۔۔اس سے پہلے کہ یہ مسکراہٹ قہقوں میں بدلتی 

اس کی مسکراہٹ فورا سمٹی جب اس کے فلیٹ کا دروازہ ڈھر دھڑیا جانے لگا۔۔۔ 

**************************

آپ مایوس کیوں ہوتے ہیں۔۔۔کچھ وقت تک اور انتظار کرلیں وہ ہمارے پاس آئے گا مجھے یقین ہے ہمارے صبر کا پھل ہمیں ضرور ملے گا ۔۔۔ 

فریحہ بیگم انکھوں میں آس اور امید  لئے جہانگیر صاحب سے بولیں ۔۔۔۔ 

آخر کب تک بیگم کب تک؟ 

آپ کا لاڈلا ضد میں اکر اُس دھوکے باز فریبی عورت کی وجہ سے اپنے ماں باپ کو اس عمر میں اکیلا چھوڑ کر باہر در در بھٹکتا پھر رہا ہے صرف اس عورت کے پیچھے جو عمر میں بھی اس سے بڑی ہے اسے اس عورت پر یقین ہے مگر اپنے باپ پر نہیں وہ بولتے بولتے اب ہانپنے لگے تھے ۔۔۔۔ 

فریحہ بیگم ان کو جلدی سے کندھے سے پکڑتی بیڈ پر بیٹھاتی ان کے لئے پانی لائیں۔۔۔

اور خود  نم آنکھوں کو دوپٹے کے پلو سے صاف کرنے لگی ۔۔۔ 

سانس بحال ہونے پر وہ نڈھال سے لہجے میں ان کو دیکھنے لگے۔۔

میری صحت اب اس چیز کی اجازت نہیں دیتی بیگم  اور نہ ہی مجھ سے اب مزید آفس کا کام ہوتا ہے۔۔

میں اب پاکستان جانا چاہتا ہوں،۔۔

بیٹا نہ سہی بھتیجے ہی سہی وہ سنبھال لے گے میرے بزنس کو ۔۔۔۔

ایک ہی بیٹا تھا وہ بھی ماں باپ کو پرایا کر گیا۔۔

ہاتھ جھلاتے 

وہ خود پر طنزیہ ہنسی ہنستے ہوئے بولے ۔۔۔۔ 

فریحہ بیگم دوپٹے کا پلو ہونٹوں پر رکھتی رونے لگی تو جہانگیر صاحب انہیں نم آنکھوں سے دیکھتے اپنے ساتھ لگا گئے۔۔

پورے گھر میں اس وقت ان دونوں کی سسکیاں ماتم کنا تھی۔۔۔ 

دل کو تڑپا کر رکھ دینے والی ۔۔۔۔۔

"چپ ایک دم چپ!!۔خبر دار اگر اب تمہاری ذرا سی بھی آواز آئی تو اس کمرے سے باہر مت نکلنا جب تک میں خود آکر نہ کہو" 

اپنا مضبوط مردانہ ٹیٹو سے بھرا ہاتھ اس کے لگاتار چلتے منہ پر رکھتا وہ وارن کرنے والے انداز میں بولا.

وہ آنکھیں پھاڑے آنسوؤں سے بھری نگاہوں سے اسے شاک سے دیکھ رہی تھی اپنے اتنے قریب۔

وہ اسے جلدی سے کھینچ کر اپنے کمرے میں لا کر بند کرتا خود جلدی سے لگاتار بجتے دروازے کی طرف بڑھا ۔۔۔ 

اور اس کی توقع کے مطابق دروازے پر مسز جینیٹ تھیں جو اپنے دونوں ہاتھوں کو کمر پر رکھے اسے تیکھے چتونو سے گھور رہی تھیں۔۔

وہ لگ بھگ پچاس پچپن کے پیٹے میں بھاری جسامت کی  عورت تھی۔۔۔ 

"ارے مسز جینیٹ آپ!!۔ کہیے کیسے آنا ہوا کافی دنوں بعد دیکھی ہیں آپ تو"وہ اپنے تاثرات پر قابو پاتا اپنے لہجے کو خوشگوار بناتے بولا۔۔ 

"مجھے اصل موضوع سے ہٹانے کی کوشش مت کرو لڑکے تمہارے اپارٹمنٹ میں کوئی لڑکی ہے اور اس کے چیخنے کی آوازیں آرہی تھی"

وہ اس کی بات کاٹتی گھور کر بولیں۔۔ 

"نہیں تو ایسا کچھ نہیں ہے آپ کو وہم ہوگا مسز جینیٹ۔ کیا کبھی آپ نے میرے فلیٹ پر کسی لڑکی کو دیکھا ہے آپ جانتی ہیں میں ایسا بلکل نہیں ہوں" وہ ضبط سے بولا اپنی زات پر ایسا الزام اسے سخت تیش دلا گیا۔۔

"مرد کو بدلتے دیر ہی کتنی لگتی ہے!!۔

اور تم ایسے ہو نہیں تو دیکھو لڑکے تم جوان ہو اور خوبصورت بھی میں کیسے تم پر یقین کر لو۔

تم مسلمان لوگوں پر مجھے تو بلکل یقین نہیں ہے ضرور کسی لڑکی کو تم نے موقع دیکھتے کیڈنیپ کیا ہوگا پیچھے ہٹو میں خود دیکھتی ہوں ضرور کوئی لڑکی قید کر رکھی ہے تم نے۔" 

وہ طنزیہ انداز میں بولتی اسے پیچھے ہٹاتی زبردستی اندر داخل ہوئی اور اردگرد کا جائزہ لینے لگی۔۔۔ 

"مسز جینیٹ اب اپ حد سے بڑھ رہی ہیں میں بول تو چکا ہوں کوئی نہیں ہے یہاں"

وہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتا ان کے پیچھے آیا تھا۔بے بسی سے انہیں یہاں وہاں تلاشی لیتے دیکھ کر وہ سخت کوفت میں مبتلا ہورہا تھا۔۔اندر سے دل میں  پکڑ دھکڑ بھی جاری تھی کہی وہ لڑکی کوئی گڑبڑ نہ کردے۔۔۔ 

لیکن اس کی پریشانی مزید بڑھی جب وہ اس کے کمرے کی طرف بڑھی۔۔۔ 

"مسز جینیٹ اب آپ اپنی لیمٹس کراس کررہی ہیں میں اپ کے خلاف کمپلین بھی کرسکتا ہوں" وہ انہیں دھمکی دیتا بولا۔۔۔مگر شاید ان پر رتی بھر بھی اثر نہیں ہوا تھا۔۔

"لڑکے میں تمہاری دھمکیوں ںسے نہیں ڈرنے والی"

وہ ہاتھ جھلاتے ہوئے لا پرواہی بول کر اس کے کمرے میں داخل ہوگئی تو اپنا سانس تک روک گیا۔۔ 

مگر تھوڑی دیر بعد انہیں یوں ہی مایوسی سے باہر نکلتے دیکھ وہ خود بھی حیران ہوا ۔۔۔۔ پھر فورا تاثرات پر قابو پاتے ان کے پاس ایا۔۔۔

"دیکھ لیا آپ نے سب چیک کرلیا اچھے سے یا ابھی  بھی کوئی کثر رہ گئی ہے۔آپ کو مجھ سے ویسے ہی مسئلہ ہے بس مجھے یہاں سے نکالنے کی وجہ تلاش کرتی رہا کریں۔۔

ہر وقت  شک ہی کرتی رہتی ہیں مجھ پر" 

"تو میرے کان تو نہیں بجے تھے ایسے ہی۔

 میں نے خود ایک لڑکی کی رونے کی آواز سنی تھی" وہ منہ بسور کر بولیں۔۔ 

"یہ بھی تو ہو سکتا ہے میں کوئی مووی دیکھ رہا ہوں؟"

طنزیہ انداز میں اوبرو اچکا کر بولا۔

تو وہ خفت ذدہ ہوتی ہنہ۔۔۔کرتی اس کے فلیٹ سے نکل گئیں ۔۔۔۔

ان کے جاتے ہی وہ پھر سے اپنے کمرے میں آیا۔ کمرہ خالی دیکھ وہ خود اپنے کمرے کو اچھے سے چیک کرنے لگا مگر وہ اسے کہی نہیں دیکھی۔۔

"عجیب کہاں گئی یہ لڑکی کمرا تو میں نے خود بند کیا تھا باہر سے پھر!!۔" 

جب اچانک اس کی نظر کھولی کھڑی پر پڑی تو وہ بھاگ کر کھڑکی کے پاس آیا اور یہاں وہاں دیکھا مگر کچھ نہیں دیکھا۔۔۔ 

صبح یونیورسٹی میں اس کی طبیعت  سیٹ کرنے کا سوچتا وہ بیڈ پر دھپ سے گرا آج اس کے ساتھ کچھ زیادہ ہی ہوچکا تھا۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔ 

******************* 

ادھر زوفی کمرے میں بند رہ کر تنگ آگئی تھی اس کی حرکت پر اور باتوں پر غصے سے دماغ الگ خراب ہو گیا تھا ۔۔۔ 

"مجھے سے بول کر کیسے گئے  ہیں  جیسے ہم لوگ کوئی غلط کام کررہے ہوں ۔۔۔" 

وہ غصے سے کمرے میں موجود واحد کھڑکی سے کودتی اپنی کار لیتی وہاں نکلی ۔۔۔ 

گھر کے قریب پہنچتی منہ بسورتے اپنی کار باہر ہی پارک کرتی گھر میں داخل ہوئی تو گھر میں اپنے  ماں باپ کی غیر موجودگی یاد کرتے اور کچھ سارنگ کا رویہ اور اس کی محبت والی بات سن کر   شدید غصے میں آگئی ،۔

 اپنے جوتے لاؤنج میں ہی اتار کر  چلا کر یہاں وہاں پھینکے ایک جوتا ایک بہت قیمتی واس کو لگتا اس کو چکنا چور کرچکا تھا جس سے گھر میں موجود سرونٹس بھاگ کر لاؤنج میں آئے۔۔۔ 

ان سب کو اگنور کرتی اپنے کمرے میں بند ہوگئی۔۔۔ 

تو وہ سب پھر سے اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے کے یہ ان کے لئے عام بات تھی۔۔

میں کسی اور سے محبت کرتا ہوں!!۔۔

"ہنہ!!۔ میں تو جیسے اس بات پر آسانی سے یقین کرلو گی نہ، پاگل سمجھ رکھا ہے مجھے ان باتوں سے پیچھے ہٹ جاو گی میں۔ "

وہ بیڈ پر لیٹی چھت کو گھورتی اُس کی نقل اتارتی خود سے بڑبڑائے جارہی تھی۔۔ 

"آج تک کسی لڑکی کو قریب بھٹکنے نہیں دیا اور آئے بڑے محبت کرنے والے۔۔۔میں دوسری لڑکیوں جیسی نہیں ہوں پیچھا تو اتنی آسانی سے نہیں چھوڑوں گی جو چیز ایک بار زوفی کو پسند آجائے تو وہ بس اسی کی ہوکر رہتی ہے ،۔۔آپ نے تو پھر اس ضدی دل پر وار کیا ہے۔"

وہ مسکراتے ہوئے خود سے بولی۔۔

********************

صبح یونیورسٹی کے لئے ٹائم پر تیار ہوتی وہ بھاگ کر نیچے آئی تو جینی بغیر حیران ہوئے اس کے لئے ناشتہ لانے کے لیے واپس کیچن کا روخ کرتی کہ وہ اسے ٹوک گئی اور بغیر ناشتہ کئے باہر آئی۔۔۔

جینی بےبسی سے اس جاتا دیکھتی رہی ۔۔۔۔

"کسی دن میڈم کو پتہ چلا تو میری پکی چھٹی ہوگی۔۔۔۔"

تاسف سے سر ہلا کر رہ گئی ۔۔۔

کار کا ڈور ان لاک کرتی کہ اس کی نظر  سامنے بنے بڑے  سے بنگلے کے کھولے دروازے پر پڑی تو کار کا دروازہ بند کرتی اس طرف بڑھی۔۔۔ 

اندر داخل ہونے پر اسے مسز فریحہ دیکھی جو 

وہاں بنے بڑے سے گارڈن میں کھڑی پھول توڑتی باسکٹ میں رکھ رہی تھیں وہ شرارت سے دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی ان کے قریب جاتی یک دم سے انہیں کندھوں سے پکڑتی ڈرا گئی۔۔۔

دل پر ہاتھ رکھتی ڈر سے مسز فریحہ کے ہاتھ میں پکڑی ٹوکری نیچے گرگئی۔۔۔

"ارے !! کیا بیوٹی آپ تو سچ میں ڈر گئی ہمیشہ کی طرح  مجھے بلکل اندازہ نہیں تھا" وہ کھلکھلا کر ہنستی ان کے سامنے آتی بولی۔۔۔ 

تو وہ خفگی سے اس کو گھورنے لگیں۔۔ 

"یہ میرے ساتھ زیادتی ہے کیڈو  ایک بار ڈر گئی تو اب آپ نے روز کا معمول ہی بنا لیا ہے"

وہ ٹوکری اٹھاتی مصنوعی ناراضگی سے بولیں۔۔۔ 

اب اس میں میرا تو کوئی قصور نہیں آپ کو پتہ ہوتا ہے تب بھی اپ ہر بار کی طرح ڈر جاتی ہیں۔۔۔

وہ کندھے اچکا کر بولی۔۔ 

پھر رازداری سے ان کے نزدیک ہوتی محتاط انداز میں بولی۔۔۔

ویسے آج آپ کے پرنس نظر نہیں آرہے اور تو اور گیٹ بھی کھولا تھا اپنی بیوٹی کو یوں تن تنہا  اکیلے چھوڑ کر کہاں گئے ہیں آپ کو نظر رکھنی چاہیے ان پ۔۔۔۔۔

"میں آپ کی سب باتیں سن رہا ہوں زوفی!!۔۔۔"

عقب سے آنے والی ان کی آواز سے وہ اچل پڑی دانتوں تلے زبان دباتی وہ ان کی طرف موڑی جو

گلفز پہنے کونے میں بیٹھے کیاروں میں لگے ہوئے تھے۔۔۔

اس کی طرف دیکھ کر مسکرا کر بولے ۔۔۔۔ 

"آپ یہاں ہیں اور میں سمجھی اپنی بیوٹی کو اکیلا چھوڑ کر آفس جا چکے ہونگے" 

"نہیں آج میرا ارادہ اپنی بیوٹی کے ساتھ ٹائم بتانے کا تھا سو دیکھ تو رہی ہیں آپ"

ایک نظر شرارت سے اپنی بیگم کو دیکھتے  بولے ۔۔۔

تو فریحہ بیگم چھنپتی انہیں گھور کر دیکھنے لگیں۔۔۔

تو ان کی صورت دیکھتے وہ دونوں ہنس پڑے۔۔۔ 

"اوکے!!۔آپ لوگ اپنا پرائیوٹ مومنٹ انجوئے کریں شام میں ملتی ہوں آکر ابھی یونیورسٹی سے لیٹ ہورہی ہوں۔۔"

فریحہ بیگم کو گال پر  زور دار بوسہ دیتی جہانگیر صاحب کو شرارت سے دیکھتی چڑانے والے انداز میں بولتی وہاں سے بھاگی اور وہ جو اس کی حرکت پر اس کی طرف بڑھنے لگے تھے رک کر سر نفی میں ہلاتے ہنس دئیے۔۔۔۔

"یہ کبھی نہیں سدھرے گی۔۔۔۔" 

"بلکل آپ کے بچپن کی کاپی ہے" 

اب ہم اتنے بھی شرارتی نہیں تھے بیگم یہ سراسر الزام لگا رہی ہیں ۔۔۔وہ گھور کر بولے۔۔ 

"جو سچ ہے وہی بول رہی ہوں خیر میں اندر جارہی ہوں چائے پئے گے اپ؟" 

"ارے آپ اپنے ہاتھوں سے زہر بھی پلائیں تو خوشی خوشی پی لیں گے"

وہ سینے پر ہاتھ رکھتے دل لگی سے بولے 

"آپ بھی کبھی نہیں سدھرے گے"

وہ ہنستے ہوئے بول کر اندر بڑھ گئی ۔۔۔۔۔ 

ان کی مسکراہٹ دیکھ کر وہ آسودگی سے مسکرا  دئیے اور ایک ممنون بھری  نظر گیٹ پر ڈالی جہاں سے زوفی ابھی گئی تھی۔۔۔۔

*********************

کلاس میں داخل ہوتے ہی اسے جیسیکا کسی لڑکے کے قریب جھکی نظر آئی جو اسے دیکھتے واپس ہڑبڑا کر سیدھی ہوئی کیونکہ اس کے عین پیچھے سارنگ بھی کھڑا تھا جو اندر ہی داخل ہورہا تھا۔۔۔ 

لیکچر سٹارٹ کرتے ہی اس نے زوفی کی جانب دیکھا جو اسی کی طرف دیکھ رہی تھی اس کے دیکھنے پر مسکرائی ۔۔ 

تو وہ اس کے کل اچانک آنے اور پھر غائب ہوکر اسے سخت پریشانی میں ڈالنے  پر ضبط کر کے رہ گیا کیونکہ وہ یہاں یونیورسٹی میں اپنی زات کا کوئی تماشا نہیں بنانا چاہتا تھا ۔۔۔۔ 

"مس زوفی آپ کو کل میں نے اسائیمنٹ دی تھی لے کر آئیں"

بازوں کو سینے پر باندھے وہ اس سے سنجیدگی سے بولا۔۔۔ 

"وہ تو نہیں کی میں نے پروفیسر بھول گئی" 

وہ لاپرواہی سے بولی۔۔۔ 

ساری کلاس خاموشی سے ان کو دیکھ رہی تھی مگر ہمت کسی میں نہیں تھی بولنے کی کیونکہ زوفی کا انہیں پتہ تھا وہ ایسی ہی تھی اور ہر کوئی اس کے باپ کی وجہ سے شکایت تک نہیں کرتا تھا۔۔۔ 

آوٹ!!۔۔۔ 

اس کے اچانک دھاڑ کر بولنے پر وہ اچلی تھی ڈر سے اور ساری بےنیازی اور لاپرواہی اڑن چھو ہوچکی تھی ۔۔۔ 

"میں نے  کیا کہا سنا نہیں یا میں خود آپ کو نکالو"

وہ پھر سے شدید غصے میں بولا۔۔ 

جیسیکا اس کی عزت افزائی پر مسکرا کر اس کو مزے سے دیکھ رہی تھی۔۔ 

اتنی بے عزت پر وہ سب کی تمسخر اڑاتی نظریں محسوس کرکے سر جھکا کر نم آنکھیں لئے اپنا بیگ اٹھاتی فورا باہر نکلی۔۔ 

اس کے جاتے ہی وہ  اپنا لیکچر شروع کرچکا تھا۔۔۔ 

کلاس کے باہر آکر وہ اپنی ہاتھ کی پشت سے آنکھوں میں آئی نمی صاف کرتی یہاں وہاں دیکھنے لگی مگر کسی کو متوجہ نی پاکر وہ غصے سے کلاس کو گھورنے لگی جیسے وہ اس کے سامنے ہو ۔۔۔۔ 

"میری بےعزتی کی وہ بھی سب کے سامنے اب دیکھنا پچھتانے پر مجبور نہیں کردیا تو میرا نام بھی زوفی نہیں"

وہ دانت پیس کر بڑبڑائی۔۔۔ 

پھر کچھ سوچتی  وہ شیطانی مسکراہٹ لئے اس کے کیبن کی اور بڑھی ۔۔۔۔

اپنےتمام لیکچرز وہ لے چکا تھا اب  اس کا ارادہ سیدھا گھر جانے کا تھا وہ کلاس سے نکلتا کہ جیسیکا فورا سے اس کے پاس آئی تھی اسے کچھ ضروری پوائنٹس سمجھنے تھے۔۔۔

"کلاس میں آپ کا دھیان کہا ہوتا ہےجب میں سب سمجھا رہا ہوتا ہوں؟۔۔"

وہ اسے گھور کر سخت لہجے میں بولا۔۔ 

"سوری سر آئیندہ ایسا نہیں ہوگا مگر دیکھیں نیکسٹ ویک ٹیسٹ بھی ہے تو پلیز".. وہ اس کی ڈانٹ کا اثر لئے بغیر ڈھیٹ بنتی بولی۔۔ 

اصل میں وہ اس کے ساتھ کچھ وقت گزارنا چاہتی تھی ویسے تو ملنے سے رہا۔۔

تو وہ اسے لئے اپنے کیبن میں آیا اور بغیر کوئی فضول بات کئے پندرہ منٹ میں سارے پوائنٹس سمجھا کر اسے جانے کا کہا تو وہ بےزاری سے منہ بناتی پیر پٹختی چلی گئی۔۔۔

اور اس کے کیبن میں پڑی درمیانے سائز کی بک شیلف کے پیچھے چھپ کر کھڑی زوفی یہ سب دیکھتی دانت پیس کر رہ گئی ۔۔ 

لگتا ہے اس کا بھی کچھ انتظام کرنا پڑے گا

اس کا منہ بنا کر بار بار موڑ کر سارنگ کو دیکھنا سخت زہر لگا۔۔ 

باقیوں سے دل نہیں بھرا کہ اب میرے والے پر نظر ڈالے بیٹھی ہے۔۔انداز بلکل مرنے مارنے والا تھا ۔۔۔

سارنگ اپنی چیزیں سمیٹتا اٹھ کر جانے ہی لگا تھا کہ یک لخت جہاں تھا وہی فریز ہوا ۔۔

اس نے کرسی سے اٹھنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔۔

چیک کرنے پر پتہ چلا اس کی پینٹ کرسی کی سیٹ سے بری طرح چپک گئی تھی۔۔ 

بہت بار کوشش کرنے پر بھی ناکام ہوتا جھنجھلا گیا ۔۔۔ 

زوفی یہ سب دیکھتی اس کی حالت سے محفوظ ہورہی تھی  ناچاہتے ہوئے بھی اس کا قہقہ  چھوٹ گیا جس سے سارنگ چونک گیا اور بک شیلف کی اور دیکھنے لگا زوفی کی ہلکی سی جھلک دیکھنے پر اور اس کے ہسنے کی آواز پر اسے ساری بات سمجھ آگئی کہ یہ شرارت اسی کی تھی۔۔۔ 

وہ غصے سے سرخ ہوتا اس کی طرف بڑھنے لگا مگر ایک انچ بھی ہل نہیں پایا تو وہ بغیر کسی خوف کے اس سے دو قدم کی دوری پر رک اسے دیکھتی شرارت سے آنکھ ونک کی۔۔ 

کیسا لگ رہا پروفیسر؟۔۔ 

"تم نے اس بار حد پار کردی ہے مس صوفی!!۔"

اس کا انجام جانتی ہو ایک ٹیچر کے ساتھ ایسی حرکت پر تمہیں اس یونیورسٹی سے نکالا جاسکتا ہے۔۔

ایک ہاتھ سے کرسی کے ہینڈل کو پکڑے دوسرے ہاتھ کی موٹھی سختی سے بینچے وہ زور سے ٹیبل پر مارتا اشتعال انگیز لہجے میں بولا۔۔

جیسے مجھے تو بہت فرق پڑتا ہے نہ۔۔

زوفی یک لخت اچل پڑی اس کی حرکت پر مگر جلد ہی خود کو بےنیاز ظاہر کرتی کندھے اچکا کر بولی ۔۔ 

یہ تو میں تمہیں میں بہت جلد بتاو گا!!۔

انداز طنزیہ اور وارنگ دیتا ہوا تھا۔۔ 

پہلے یہاں سے خود کو نکالنے پر غور کریں پھر مجھے اس یونیورسٹی سے نکالنے کی کوشش کریے گا!!۔

پروفیسرررر!!

وہ پروفیسر پر زور دیتی شرارت سے مسکراتی بولی ۔۔۔ 

سارنگ ضبط کے باوجود ایک بار پھر غصے سے اس کی اور بڑھنے لگا مگر ایک بار پھر سے ناکام ہوتا ٹیبل پر پڑی چیزیں غصے سے ایک ہاتھ سے سب زمین بوس کر چکا تھا اب کہ زوفی سچ میں ڈر گئی۔۔۔ 

ابھی کہ ابھی مجھے اس مصیبت سے نکالو زوفی نہیں آج تمہارا قتل میرے ہاتھوں ہوگا۔

وہ چیخ پڑا۔۔ 

ککک۔کیوں  نکالو؟ مجھے نکالا تھا نہ کلاس سے پہلے سوری بولیں۔۔

سوری مئی فٹ ۔۔تم مجھ سے گالیاں ضرور سنو گی!!! 

"دیکھا!!۔ آپ پھر سے رووڈ بہیو کر رہے ہیں جبکہ میں اتنے پیار سے بولتی ہوں" وہ بچوں کی منہ بناکر بولتی اس کا ضبط آزمارہی تھی۔۔۔ 

اچھا چلیں سوری کو چھوڑیں اب پیار کرتی ہوں اتنا تو معاف کر ہی سکتی ہوں ۔۔۔ 

آئی لو یو بول دیں پھر کرو گی کچھ وہ ادائے بے نیازی سے بولی۔۔ 

تو وہ اس بار شدید غصے میں پورا زور لگا کر اٹھا تو چررر!! کی آواز پر جہاں وہ شاک سے جم کر کھڑا رہ گیا۔۔وہی زوفی منہ پر دونوں ہاتھ رکھتی اسے آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے گئے ۔۔

اسے امید نہیں تھی یہ سب ہوجائے گا ۔۔ 

وہ ڈر سے بغیر کوئی بات کرتی وہاں سے بھاگ کر نکلی اور سارنگ چاہ کر بھی اس کے پیچھے نہ جاسکا۔۔ 

اپنے بالوں کو دونوں ہاتھوں سے نوچتا وہ پاگل ہوچکا تھا ۔۔۔ 

کچھ دیر بعد وہ غصے میں اپنی چیک شرٹ کو کمر سے گزار کر پیٹ پر باندھے ناک کی سیدھ میں چلتا اپنی بائیک کی طرف جارہا تھا ۔۔

بدن پر صرف وائیٹ بنیان تھی ۔۔سٹوڈنٹس حیرت سے موڑ موڑ  کر اسے دیکھ رہے تھے مگر وہ بغیر سب کی طرف دیکھے وہاں سے نکل گیا۔۔۔ 

اس بار تو وہ اس لڑکی کو یونیورسٹی سے نکلوانے   فیصلہ کرچکا تھا۔۔۔ 

********************* 

دو دن اس بات کو گزر چکے تھے اور زوفی کو لگا وہ سب بھول چکا ہوگا یہ اس کی کسی نے بات ہی نہیں سنی ہوگی مگر اس کی یہ خوش فہمی بھی دھری کی دھری رہ گئی جب اسے  پرنسپل نے اپنے آفس میں بولایا ۔۔۔

مگر پھر بھی وہ بغیر کسی خوف کے چل پڑی۔۔ 

مگر ان کے آفس میں اپنے پاپا کو دیکھ کر اسے سانپ سونگھ گیا جو غصے میں اسے گھور رہے تھے۔سارنگ بھی ایک سائیڈ پر کھڑا دل جلانے والی مسکراہٹ سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔ 

وہ بمشکل حلق تر کرتی اندر آئی تو اس کے پاپا نے بغیر پرنسپل کو کوئی بولنے کا موقع دئیے اسے سب کے سامنے زناٹے دار تھپڑ جڑ دیا جس کی شدت سے وہ لڑکھڑاتی نیچے گری ۔۔۔

سارنگ کے مسکراتے لب سکڑے اسے جانے کیوں یہ اچھا نہیں لگا مگر چپ چاپ لب بینچے دیکھے گیا۔۔ 

مسٹر فاروق اپنے کوٹ کا بٹن بند کرتے پرنسپل کی طرف موڑے۔۔

میرے خیال میں اسے سزا مل چکی ہے اب ایسا کچھ نہیں ہوگا۔۔

امید ہے اب  میرے بزی شیڈول کے دوران اس فضول سی شکایت کی وجہ سے میرا وقت بربادنہیں ہوگا۔۔

وہ سرد و سپاٹ لہجے میں بولے۔۔

زوفی سرخ گال لئے بےتاثر چہرہ کے ساتھ سر جھکائے کھڑی تھی۔۔ 

سارنگ اسے ایک نظر دیکھتے حیران نظروں سے اس کے باپ کو دیکھ رہا تھا جو یہاں آنا اپنے وقت کی بربادی بتا رہے تھے ۔۔۔ 

پرنسپل ان کے سٹیٹس کو دیکھتے کچھ بھی نہ بول سکا تو وہ زوفی کو بازو سے پکڑتے کھینچ کر وہاں سے لے گئے۔۔ 

مسٹر سارنگ آپ کو کس نے کہا تھا انہیں کال کرنے کو؟

آپ میرے پاس بھی آسکتے تھے اگر آپ کو زیادہ مسئلہ تھا تو۔۔

آپ نہیں جانتے آپ نے میرے لئے کتنی بڑی مصیبت کھڑی کردی ہے ۔۔

اگر اپ کو زیادہ مسئلہ ہے تو آپ بصد شوک یہ جاب چھوڑ سکتے ہیں ہمارے پاس ٹیچرز کی کمی نہیں ہے!!۔۔

سو پلیز نیکسٹ ٹائم میرے پاس آئے گا نہیں تو!۔

۔

آپ بہتر جانتے ہیں آپ کو کیا کرنا ہے ۔

پرنسپل اسے اچھے وارن کرتا سنجیگی سے اسے دیکھنے لگا وہ لب بینچ کر خاموشی سے وہاں سے نکل گیا ۔۔۔ 

اسے زوفی کے پاپا کا بیہو زوفی سے بہت عجیب لگا ۔۔۔

اس چیز کی تو اس نے امید بلکل نہیں کی تھی وہ تو بس ڈانٹ کی توقع کررہا تھا مگر یہ سب اس کو مزید پریشان کرچکا تھا۔۔۔۔ 

"آخر کب تک تم یہ کھیل کھیلو گی میں تنگ اچکا ہوں اب ۔۔کب تک ہم لوگ شادی کریں گے مجھ سے اب اور انتظار نہیں ہوتا"۔۔

گلے میں سونے کی ڈھیر ساری چین پہنے سانولے رنگت کا حامل  وہ پچاس سالہ بھاری جسامت کا شخص کرخت لہجے میں بولتا اسے دانت پسینے پر مجبور کرگیا تھا۔۔

بمشکل اپنے تاثرات پر قابو پاتی وہ چالیس سالہ خوشکل خوبصورت عورت مصنوعی ۔مسکراہٹ سکراہٹ چہرے پر سجائے اس کے قریب آئی۔۔

جیمی  ڈارلنگ آخر تم اتنے اتاولے کیوں ہورہے ہو  کیا تمہیں مجھ پر بھروسہ نہیں؟۔

کیا تم نہیں چاہتے اس کی جائیداد ہماری ہو؟ سوچوں تمہیں کتنا فائدہ ہوگا!!۔۔ 

مگر تمہیں ضرورت ہی کیا تھی اس سب میں جانے کی کیا تمہیں مجھ پر میری صلاحیتوں پر بھروسہ نہیں؟

اس کے برہنہ بازو پر اپنا کھردرا ہاتھ پھیرتا وہ  ہوس بھری نظروں سے دیکھتا بولا۔۔

وہ خود کو مشکل سے ہی باز رکھ پائی کچھ سخت بولنے سے فلحال وہ اسے برداشت کرنے پر مجبور تھی نہیں تو اتنی تگڑی اسامی ہاتھ سے جاتی۔۔۔۔ 

بس تھوڑی دیر اور ڈارلنگ پھر جیسا جب تم چاہوں گے ہم شادی کر لیں گے۔۔

تمہارے پاس صرف تین مہینوں تک کا وقت ہے گل بےبی اس کے بعد میں تمہاری ایک نہیں سنو گا اسے چاہے میری اخری وارنگ سمجھو۔۔

صوفے سے اٹھتا اسے گھور کر بولتا وہ اس کے فلیٹ سے نکل گیا تھا ۔۔ 

وہ نفرت اور گھن سے اس گھورتی رہ گئی ۔۔

ایک بار ساری بازی میرے ہاتھ آنے دو تمہارا پتہ صاف نہ کیا تو میرا نام بھی گل مینہ نہیں۔۔

خبیس سانڈھ کہی کا۔۔ 

شادی کرتی ہے میری جوتی نہ شکل نہ عقل ہنہ۔۔ 

آف ایک تو کتنے دن ہوئے اس لڑکے نے مجھے فون تک نہیں کیا؟۔

کہی میرے فون اٹھانے سے مایوس نہ ہوگیا ہو؟۔۔

نہیں نہیں ایسا نہیں ہونا چاہیے 

کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا مجھے ۔۔۔

اتنی آسانی سے تو معاف نہیں کروں گی میں تمہیں جہانگیر ۔۔خود سے بڑبڑاتی وہ یک لخت مسکراتی سوچوں میں جہانگیر سے بولی ۔۔ 

کتنے دن ہوگئے ہیں سارنگ سے ملے ہمم آج تو ملنا پڑے گا۔۔

ویسے کیا خوبصورتی پائی ہے میں نے جوان لڑکے تک میرے خواہش مند ہیں ۔۔۔آئینے میں اپنا چہرہ دیکھتی وہ مغرور سے انداز میں بولی۔۔ 

ہا۔۔تم نہ سہی جہانگیر بےبی تمہارا بیٹا ہی سہی ویسے تمہارا بیٹا تو تم سے بھی کئی گنا خوبصورت ہے اور خوبصورتی تو میری کمزوری ہے ۔۔ 

خود کو جس طرح سے اس نے مینٹین کیا ہوا تھا وہ کہی سے بھی چالیس کی نہیں لگتی تھی۔۔۔

*****************

آج تیسرا دن تھا اور زوفی کلاس سے غیر حاضر تھی اب اسے واقعی ٹیشن ہونے لگی تھی۔۔۔

اپنے کیبن میں آتے ہی وہ اس کے گھر کال کرکے پوچھنے کا سوچتا کہ اس کے موبائیل پر  کسی انجانے نمبر سے کال آئی جس کو سنتے اس کے ہوش اڑے تھے ۔۔۔

وہ دیونہ وار عجلت بھرے انداز میں آپنی بائیک لے کر وہاں سے نکلا تھا ۔۔

*************** 

دو دن سے وہ یونیورسٹی نہیں جار رہی تھی اپنی طرف سے تو یہ اس کا سارنگ سے ناراضگی کا اظہار تھا۔۔اور اپنے آپ کو خوش فہمیوں میں رکھنے کا بھی کہ وہ اسے ضرور پوچھے گا مگر اب تک ناکامی پر بھی وہ ناامید نہیں تھی۔۔۔

اس وقت وہ بے زاریت سے کھڑی یہاں وہاں دیکھ رہی تھی۔

اس کا سر بھاری ہورہا تھا اور طبیعت بھی بوجھل سی لگ رہی تھی ۔۔۔ 

وہ اس پارٹی میں نہیں آنا چاہتی تھی لیکن یونیورسٹی میں ہوئی انسلٹ کے بعد وہ اپنے باپ کے غصے  کے آگے انکار کرنے کی جرت نہیں کر پائی۔۔

اب یہاں بور ہوتی اس پارٹی میں وقت گزار رہی تھی۔۔۔ 

ایلیٹ کلاس کی یہ پارٹی اس کو سخت بے زار کررہی تھی اور اوپر سے اس کے پاپا کے بزنس پارٹنر کا وہ آوارہ بیٹا جو بہانے بہانے سے اس سے بات کرنے کی کوشش کررہا تھا اور تو اور اسے ڈانس کی اوفر بھی کر چکا تھا لیکن اس کے صاف انکار پر بھی وہ ڈھیٹ بنا اپنی جگہ سے نہ ہلا تھا۔۔۔ 

کچھ دیر بعد جب اس کی برداشت سے باہر ہوا تو وہ بغیر کسی کی پرواہ کئے بغیر اپنے ماں باپ کو بتائے گھر آگئی تھی۔۔۔ 

گھر آتے ہی وہ اپنے کمرے میں آتی لیٹی تو آنکھ لگنے میں بھی دیر نہ لگی۔۔ 

اچانک دروازہ بجنے پر وہ اچانک اٹھی تھی۔۔پورا جسم درد سے ٹوٹ رہا تھا اور گلا شدید درد کررہا تھا۔۔

وقت دیکھا تو رات کے بارہ بج رہے تھے اور اس وقت گہری نیند سے اٹھائے جانے اور تبعیت کی وجہ سے اس کو شدید غصہ آیا وہ تن فن کرتی دروازے کے پاس پہنچتی دروازہ کھول کر کچھ بولتی کہ یک دم پڑنے والے تھپڑ نے اس کی بولتی بند کردی وہ شاک سے اپنے باپ کو دیکھے گئے۔۔ 

تم کتنی بار اپنے باپ کو زلیل کواو گی؟۔

کیا میں جان سکتا ہوں کہ بغیر مجھے بتائے وہاں سے آنے کی وجہ کیا تھی؟۔

اس کو بازوں سے پکڑے وہ شدید غصے میں بولے۔۔۔ 

و۔۔وہ۔۔۔وہ طبیعت ٹھیک نہیں تھی ت۔۔و۔۔تو واپس آگئی۔۔

وہ ان کے غصے سے ڈرتی ہلکلا لر بولی۔۔ 

تو؟۔۔

تھوڑی دیر ویٹ نہیں ہوسکتا تھا تم سے؟۔مرنے تو نہیں لگی تھی نہ!! 

کیا بول رہے ہیں فاروق آپ آب بس بھی کریں سمانا بیگم برہمی کا اظہار کرتیں بولی جو ابھی ابھی اپنی ساڑی کو سنبھالتے آئیں تھیں۔۔۔ 

تم تو چپ ہی کرو سب تمہاری ڈھیل کا نتیجہ ہے یہ۔۔

وہ غصے سے ان پر چیخ کر بولتے اپنے جاہل ہونے کا ثبوت دے رہے تھے۔۔۔ کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ ویل ایجوکیٹیڈ مشہور بیزنس مین ہیں

۔ 

ہنہ!!۔ میری بیٹی ہی نہیں تمہاری بھی ہے کیا تمہاری کوئی ذمہ داری نہیں اس حوالے سے بس سب ماں پر تھوپ دیا کرو جب اولاد کچھ غلط کرے تو

سمانا بیگم برہمی سے کہتی منہ کے زاویے بگاڑتی وہاں سے تن فن کرتی نکل گئی۔۔ 

زوفی شاک سے انہیں جاتا دیکھتی رہی ۔۔ 

اور تم میری بات سنو زوفی میں آج تمہاری انگیجمنٹ اناونس کرنے جارہا تھا وہ پارٹی اسی لئے دی تھی میں نے اور تم نے مجھے سب کے سامنے شرمندہ کر کہ رکھ دیا ہے ۔۔

نیکسٹ ویک میں کوئی شکایت نہ سنو سمجھی۔۔

انگلی اٹھا کر وارن کرتے وہ اپنی سنا کر وہاں سے چلے گئے ۔۔۔

بغیر اس کی مرضی جانے اور کچھ اس کی سنے ۔۔ 

وہ سرخ ہوتی نم  آنکھوں سے بند دروازے کو دیکھتی رہی۔۔ 

کیا زندگی تھی اس کی؟۔۔

کیا تھی وہ؟۔۔ 

سوچتی وہ اذیت سے دوچار تھی۔۔۔ 

اپنی اپنی سنا کر وہ دونوں وہاں سے چلے گئے بغیر یہ دیکھے کہ وہ بخار کی شدت سے تپ رہی تھی لیکن وہ بےحس بنے چلے گئے۔۔

اب تو اسے شک ہونے لگا تھا کہ وہ ان کی بیٹی تھی بھی یہ نہیں؟۔۔

گہرے گہرے سانس لیتی وہ خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کرنے لگی مگر سب برداشت سے باہر تھا ۔۔۔

وہ اپنی گاڑی کی کیز اٹھاتی جم سوٹ میں ہی گھر سے نکلی زکام کی وجہ سے اس کا سر شدید درد سے پھٹ رہا تھا لیکن وہ بےحس بنی اذیت سے خد پر ہنسی تھی۔۔۔ 

جب کسی کو فکر نہیں تو میں کیوں کروں اپنی شاید مجھ میں کوئی مسئلہ ہے یا میں ہوں ہی منہوس تب ہی تو کسی کو میری پرواہ نہیں ۔۔۔

روتے وہ خود سے مخاطب تھی ۔ ۔

کار ایک ریسٹورنٹ کے قریب لاتے روکی اور اندر بڑھ گئی۔۔۔ زکام کے ساتھ گلا بھی اب درد کررہا تھا بخار سے جسم الگ ٹوٹ رہا تھا مگر وہ خود سے لاپرواہ بنی ایک خالی ٹیبل کے قریب آتی بیٹھی۔۔۔۔

ویٹر کے آنے پر فل سائیز باول ائیسکریم کا اڈر کیا تو ویٹر اس کی سرخ ناک اور اسے مسلسل کھانستا دیکھ کچھ سیکنڈ تو الجھن سے اسے دیکھتا رہا۔۔۔ 

کیا آپ واقعی شور ہیں میم؟۔۔

کیونکہ یہ تو ہمارے مینیو میں شامل نہیں ہے۔۔

تو؟۔

جو میں نے کہا وہ کرو اور جتنا بل بنا دے دو گی وہ سختی سے بولی تو گھبرا کر بی بولتا وہاں سے چلا گیا۔۔۔

وہ پریشانی کے عالم میں ریش ڈرائیونگ کرتے ہسپتال پہنچا تھا ۔۔ 

سسٹر  مس گل مینہ نام کی ایک پیشنٹ آئی تھی آج ایمرجنسی میں۔ کیا مجھے ان کا روم نمبر بتا سکتی ہیں؟۔۔ 

جی آئی تو ہیں ایکسیڈنٹ کا کیس تھا ان کا، آپ روم نمبر پانچ میں چلے جائیں وہی ان کا روم ہے۔۔

نرس کی بات سنتے وہ بھاگ کر اس کے بتائے  روم کی جانب آیا تھا۔ 

سامنے ہی وہ بیڈ پر پٹیوں میں جگڑی لیٹی تھی۔۔

اسے دیکھ کر خفگی اور ناراضگی سے منہ موڑ گئی تو وہ تڑپ کر اس کے پاس آیا تھا۔۔ 

کیسی ہیں آپ؟۔ لہجے میں بےقراری تھی۔

تمہیں کیا میں جیسی بھی ہوں؟۔تم تو بس اپنی ضد پر آڑے رہنا ۔۔۔دیکھ رہے ہو میری یہ حالت!!۔

یہ سب تمہارے ماں باپ کی بد دعا کا ہی نتیجہ ہے ۔۔

وہ روتے ہوئے بولیں ۔۔ 

تو آپ کیوں ضد پر اڑی ہوئی ہیں  یہ سب میں صرف آپ کی وجہ سے کررہا ہو صرف آپ کی وجہ اگر میری بات مان جاتیں تو میں بھی سکون میں ہوتا۔۔ 

کیوں مانو میں تمہاری بات آخر تم کیوں نہیں سمجھتے میں ۔۔۔ 

اپنی اور میری عمر کی بات مت کریے گا کیوں کہ عمر کا فرق کچھ نہیں ہوتا اور نہ مجھے فرق پڑتا ہے۔۔وہ ان کی بات بیچ میں ہی کاٹ کر بولا۔۔ 

تو ٹھیک ہے پھر مناو اپنے ماں باپ کو ان کی مرضی کے بغیر میں کبھی نہیں مانو گی اور نہ ہی بےعزت ہونا چاہتی ہوں۔۔

وہ کبھی نہیں مانیں گے آپ کیوں نہیں سمجھتی ۔۔زندگی ہم دونوں نے گزارنی ہے تو۔۔۔ 

بس سارنگ میں اور کچھ نہیں سننا چاہتی  اس بارے میں اور۔۔

تم اب جاسکتے ہو جب میری بات مان جاو تو اجانا نہیں تو میرا پیچھا  چھوڑ دو ۔۔ 

ٹھیک ہے اب میں تب ہی واپس او گا مگر پیچھا کبھی نہیں چھوڑو گا آپ کا۔۔ 

وہ ضبط اور غصے سے  موٹھیاں بینچتا وہاں سے ٹن فن کرتا نکل گیا۔

وہ اسے جاتا دیکھ کر تمسخر سے مسکرائی ۔۔

********************

کچھ ہی دیر میں ویٹر بڑے  سائیز کا آئسکریم باؤل لئے اس کی جانب آتے میز پر رکھ کر جا چکا تھا اور وہ سرخ نم آنکھوں سمیت اپنی سرخ ناک رگڑتی آئسکریم خانے کھانے لگی۔۔

شدید خراب گلے اور زکام سے ہوتا برا حال بھی اس کو روک نہیں سکا۔۔

کھانس کھانس کر اسکا حال برا ہوچکا تھا مگر وہ ڈھیٹ بنی ایک کے بعد ایک لگاتار چمچ بھر بھر کر آئسکریم کا منہ میں ڈال رہی تھی ۔۔

اس پاس بیٹھے لوگ حیرت سے اسے موڑ موڑ کر دیکھ رہے تھے مگر وہ سب سے بے نیاز بنی اپنی ائیسکریم کھا رہی تھی ۔۔ 

کھانس کھانس کر اسکا حال برا ہو چکا تھا۔۔ 

سارنگ جو وہاں سے غصے اور ضبط سے نکلا تھا کافی دیر تک بے مقصد یہاں وہاں بائیک لئے پھرتا رہا اب جب بھوک نے ستایا تو پاس ہی سے کھانا پیک کروا کر واپس جانے کا ارادہ کرتے نزدیک ریسٹورنٹ تک آیا۔۔ 

اپنا اڈر بتا کر جو ہی وہ موڑا تو اس کی نظر زوفی پر پڑی۔۔وہ حیران ہوتا دھیرے سے چلتا اس تک آیا ۔۔ 

لگتا ہے بےعزتی نے تمہارے دماغ پر اثر کردیا ہے۔۔

وہ اس کی حالت دیکھ کر ماتھے پر بل لئے بولا۔۔

اتنے دن بعد اس کو دیکھ کر جانے وہ کیوں اسے اگنور نہ کر پایا ۔۔ 

زوفی اس کی بات کو اگنور کرتی اپنے کام میں مصروف رہی تو وہ غصے سے بل کھا کر رہ گیا۔۔ 

پھر اپنی ائیسکریم ختم کرتی اسے اگنور کرتی وہاں سے جانے لگی تو وہ بھی اس کے پیچھے آتا پارکنگ لاٹ میں آیا ۔۔ 

اب آپ کیا چاہتے ہیں مجھ سے سکون نہیں ملا آپ کو اتنا سب کر کہ۔۔

تو تم نے کون سا آچھا کام کیا تھا وہ بھی اپنے پروفیسر کے ساتھ  وہ سلوک کر کے ۔۔

مقابل نے بھی طنز کے تیر برسائے۔۔۔ 

لگتا ہے تمہارا ارادہ دو ماہ اور چھٹیاں کرنے کا ہے؟۔۔ 

نہیں فل حال تو مرنے کا ہے۔ 

کیا مطلب وہ ناگواری سے بولا۔۔ 

وہی جو آپ نے سنا۔۔ 

آپ کو کیا فرق پڑتا ہے اچھا ہے آپ کی تو جان چھوٹے گی نہ۔۔

وہ سجیدگی اور دکھ کی ملی جلی کیفیت میں بولی۔۔۔ 

وہ گہرا سانس بھر کر رہ گیا۔۔ 

پلیز آپ مجھ سے شادی کر لیں میں آپ کی سب باتیں مانو گی۔۔

میرے پیرنٹس میری شادی کررہے ہیں مگر میں آپ سے محبت کرتی ہوں۔۔

وہ دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر اس سے فریاد کرنے لگی۔۔۔ 

دیکھو زوفی میں صاف لفظوں میں تمہیں بتا چکا ہوں اب دوبارہ یہ بات میرے سامنے مت کرنا ۔۔

میں تمہارا لحاظ کر جاتا ہوں یہ آخری بار تھا۔۔

وارن کرنے والے انداز میں کہا اور بولتے وہاں سے چلا گیا۔۔ 

مجھے ٹھکرا کر آپ بھی خالی ہاتھ ہی رہیں گے وہ روتے ہوئے چیخ کر بولی ۔۔ 

بوجھل دل اور خراب ہوتی حالت  سے وہ تھکے قدموں سے گھر روانہ ہوئی تھی۔۔

************************

مگر مجھے یہ شادی نہیں کرنی انگیجمنٹ تو بہت دور کی بات ہے۔ میں کسی اور کو پسند کرتی ہو آپ لوگ میرے ساتھ یہ ذبردستی نہیں کرسکتے یہ میری زندگی ہے مجھے جینی ہے۔۔ 

بکواس بند کرو اپنی زوفی یہ کیا طریقہ ہے اپنے پاپا سے بات کرنے کا شاید تم بھول رہی ہو ہم تمہارے ماں باپ ہیں تو ہماری مرضی کے بغیر تم کچھ نہیں کرسکتی اور یہ سب ہم تمہارا فیوچر سکیور کرنے کے لئے ہی تو کررہے ہیں تم ہماری بیٹی ہو ہمیں معلوم ہے تمہارے لئے کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔۔

اس لئے چپ چاپ جاو اور ریڈی ہو جاو ۔۔ 

میں ایسا کچھ نہیں کرنے والی آخر کیوں؟۔کیا اس لئے پیدا کیا تھا مجھے اور آپ تو پیدا کرتے ہی مجھے نوکروں کے حوالے کرکے اپنی اپنی لائیف میں بزی ہوگئے یہ تک نہیں سوچا کے مجھے آپ لوگوں کی سخت ضرورت ہے مگر نہیں آپ لوگوں کے لئے تو دولت پیسہ ہی سب کچھ تھا 

میری فیلنگز میری مرضی تو آپ لوگوں نے جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کبھی بس اپنی تھوپتے رہے ہیں 

کیا آپ لوگوں کو مجھ سے ذرا پیار نہیں ہے کل کو مجھے اگر کچھ ہوگیا تو کیا کرے گے آپ لوگ کس کام کی یہ دولت یہ پیسہ ۔۔۔ 

چیخ چیخ کر بولتی وہ دونوں کو سن کر چکی تھی ۔۔

سمانا اسے کہوں اس لڑکے کو گھر لائے میں بھی تو دیکھو اس کی پسند ۔۔بولاو اس لڑکے کو جس نے تمہارا دماغ خراب کر کے رکھ دیا ہے میں بھی تو دیکھو کس ہیرے کو پسند کر بیٹھی ہو تم کہ اپنے ماں باپ سے  بدتمیزی پر اتر آئی ہو۔۔

ویسے کیا تکلیف ہوئی تمہیں آج تک؟۔

یہ جو آج عیش و عشرت سے زندگی جی رہی ہو نہ یہ سب میری ہی وجہ سے ہے ۔ 

چار دن کی محبت نے تمہیں باغی کر دیا ہے ۔

تم کیا جانو میں نے کیسی زندگی گزاری ہے۔۔۔۔

میں کوئی سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا نہیں ہوا تھا اور نہ ہی تمہاری ماں ۔۔۔ یہ سب مجھے بیٹھے بٹھائے نہیں مل گیا زوفی۔۔ تمہیں کیا معلوم تمہارے باپ نے کیسے کیسے فاقے کئے ہیں!!۔

تمہیں صرف یہ معلوم  ہے کہ ہم لوگ تمہیں وقت نہیں دے پائے تو ہم برے ماں باپ بن گئے؟۔۔

تم نے ہمیں ہر طرح سے تنگ کیا زوفی صرف ہماری توجہ آپنی طرف کھینچنے کے لئے۔۔تمہیں کیا لگتا مجھے پتہ نہیں چلے گا تم یہ سب کیوں کرتی رہی؟ 

میں جانتا ہوں ہم اچھے ماں باپ تو بالکل نہیں ہیں لیکن زوفی  فرشتے بھی تو نہیں ہیں انسان ہیں ہوئی ہیں غلطیاں مجھ سے تمہاری ماں سے 

شاید معافی کے قابل نہ ہوں ۔۔ 

تم اس لڑکے کو گھر لاو میں ملنا چاہتا ہوں اس سے۔۔۔

وہ دکھ اور تکلیف سے بولتے وہاں سے چلے گئے سمانا بیگم بھی دل گرفتگی سے اس کو دیکھتی وہاں سے چلی گئی 

۔

ان کی باتیں سنتی وہ سن ہو چکی تھی وہ اپنے آپ کو بہت بے جان محسوس کرتی وہی ڈھ گئی۔۔

اور زوفی کو نہیں معلوم تھا کہ اسے یہ دوبارہ موقع ملنے والا تھا یا نہیں 

۔

***********************

آپ لوگ کیوں نہیں مان جاتے میری بات آخر کیوں نہیں؟۔۔

ایک اکلوتا بیٹا ہوں میں اس کی خوشی بھی اپ لوگوں کو برداش نہیں ہے۔۔ 

بکواس بند کرو اپنی سارنگ تمہاری ہمت کیسے ہوئی اپنے باپ سے ایسے بات کرنے کی۔۔۔ مجھے لگا تھا  تم ہم سے محبت کرتے ہوں اپنی غلطی کا احساس ہونے پر واپس ضرور او گے مگر تم نے ساری حدیں پار کردی ہیں ۔۔

صرف اس دوغلی بے شرم  جھوٹی عورت کے پیچھے جو پہلے تو تمہارے باپ کے پیچھے پڑی رہی تمہارے بابا کے نکار پر جب بھی وہ باز نہ آئی تو ان کے سختی سے منع کرنے کے باوجود  جب یہاں دال نہیں گلی تو وہ تمہارے پیچھے پڑ گئی ۔۔

اور میرا ہونہار اکلوتا بیٹا  اس کی باتوں میں ابھی گیا 

واہ بیٹے واہ سلام ہے تمہاری محبت کو جس کے پیچھے تم اندھے ہوئے پھرتے ہو۔۔ 

ایسی محبت تو تمہارے بابا نے بھی مجھ سے نہیں کی،۔۔

ان کی بات سن کر جہانگیر صاحب ہونق انداز میں ان کو دیکھے گئے۔۔"

 تم پتہ نہیں تم کس پر چلے گئے ہو۔۔رہو اس عورت کے ساتھ آج سے میں تمہیں آزاد کرتی ہوں جو جی میں آئے کرو 

بس جہانگیر اب آپ بھی مجھے مت روکے ۔۔۔ 

اور تم بیٹا اتنے تو غیرت مند ہوگے کے اپنے زور باز پر اسے کما کر کھلاو اور ہاں ہم لوگ کل پاکستان جا رہے ہیں ۔۔

تمہارے بابا سارا بزنس پاکستان شفٹ کر چکے ہیں 

تمہیں تو ویسے بھی ہم سے اب کوئی مطلب نہیں اس سارے بزنس پر لات مارتے گئے تھے کہ تم خود کما سکتے ہو اور تمہارے 

سارے مطلب بھی اسی عورت سے ہیں تو جاو جی لو اپنی زندگی۔۔

***************************

بابا آپ کو کچھ نہیں ہوگا میرا قصور تھا سب میرا ۔۔آپ آپ جیسا کہے گے میں ویسا ہی کرو گی۔۔ 

میں میں کیسے رہوں گی آپ کے بغیر۔۔۔

ماما چلی گئی پاپا پلیز آپ مت جائیں مجھے چھوڑ کر  وہ روتے ہوئے ان سے بولی جو اکسیجن  ماسک میں بمشکل سانس لے رہے تھے

۔۔۔

بزنس ٹور پر جاتے ہوئے ان دونوں کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا مسز فاروق تو موقع پر ہی مر چکی تھیں اور فاروق صاحب کی حالت بہت سیریس تھی۔۔

زوفی م۔۔۔مج۔۔۔مجھ ۔۔۔مجھے معاف ک۔۔کرنا بیٹا ۔۔

می۔میں تم سے بہت پیار کرتا ہو بیٹا یہ مت سمجھنا کہ تمہارے پاپا تم سے پیار نہیں کرتے ۔۔

وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر نم آنکھوں سے بمشکل اٹک اٹک کر بولے۔۔ 

میں جانتی پاپا پلیز آپ بولیں نہیں آپ کو تکلیف ہوگی ۔۔

پاپا ۔۔۔پاپا ۔۔

ان کی ساکت آنکھوں کو دیکھتی وہ ہڑبڑا کر خوف سے انہیں بولی مگر وہ کچھ نہ بولے ان کی ساکت آنکھوں میں زندگی کی کوئی رمک نہ تھی وہ دھاڑے مار کر روتے ان کو جھنجھوڑتی چیخنے چلانے لگی تو نرس نے آکر اسے ہٹایا ۔۔۔

نہیں تو دلاسا دینے والا بھی کوئی نہ تھا تن تنہا سب کچھ جھیلتی وہ سب کی ترس کھاتی نظروں کے حصار میں تھی۔۔۔ 

*********************

جی مگر یہاں جو لوگ پہلے  رہتے تھے وہ تو ایکسیڈنٹ میں مرگئے۔۔

کیا؟؟۔

جی اور ہاں ان کی ایک بیٹی تھی جس کو ان لوگوں نے اس کے گھر پر قبضہ کرکے گھر سے نکل دیا ۔۔سنا ہے دھوکے سے ساری پراپرٹی اپنے نام کروالی تھی تو لڑکی کو گھر سے نکال دیا اس کے بعد نہیں دیکھا اس لڑکی کو۔۔۔

ان کی بات سنتا وہ گم سم ہوکر رہ گیا تھا ۔۔ 

لگتا ہے میں نے آنے میں بہت دیر کردی اب میں تمہیں اس اتنے بڑے شہر میں کہا ڈھونڈو گا۔۔

واپسی کے سفر پر وہ خود سے بڑبڑاتے بولا۔۔

********************

آپ لوگ کیوں کررہے ہیں میرے ساتھ ایسا؟۔۔ 

وہ دکھ اور تکلیف سے بولا۔۔

کیونکہ تم اندھے ہو چکے ہو اس دھوکے باز عورت  کے پیچھے جو صرف تمہارے باپ سے بدلہ لے رہی ہے۔۔

فریحہ بیگم زچ ہوکر بولیں ۔۔ 

وہ تھک چکیں تھی اس کی ایک ہی تکرار سے۔۔ 

تمہیں کتنی بار بتا چکے ہیں وہ تمہارے باپ کو پسند کرتی تھی ان کے انکار پر وہ ضد میں آگئی وہ کسی بھی حالت میں تمہارے باپ کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی تھی اس کی بہت کوشش کے بعد بھی وہ ناکام رہی۔۔۔ میرے اور  تمہارے باپ کی شادی ہوگی کیونکہ کے یہ ہماری پسند کی شادی تھی جو اسے بلکل ہضم نہیں ہوئی۔۔

وہ ویسے بھی دولت اور جائیداد کی وجہ سے تمہارے باپ کے پیچھے تھی۔۔ وہ تو نہیں ہاتھ لگے تو اب تم مل گئے  اسے

اس نے اگلا شکار تمہیں بنایا اور تم اس کی باتوں میں آگئے۔۔ 

اگر ہمیں پہلے سے پتہ ہوتا کہ تم کس دوست سے ملنے جاتے تھے تو ہم یہ نوبت ہی نہ آنے دیتے ۔۔۔

سب ہماری لاپرواہی کا نتیجہ ہے۔۔

بہت بھروسہ تھا ہمیں تم پر۔۔

وہ تلخی سے بولیں ۔

وہ لب بینچ کر خاموشی سے انہیں دیکھے گیا ۔۔ 

ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ آپ لوگ غلط ہوں ۔۔۔ 

تو ٹھیک ہے جاو اور جاکر اپنے بل بوتے پر کماو اور کھلاو اسے۔۔جہانگیر صاحب تیش میں بولے ان کی بھی اب بس ہوچکی تھی ۔۔۔وہ عورت ان سے ان کا بیٹا چھین چکی تھی 

ان کا آٹل فیصلہ اورانکار سنتے ہی وہ شدید غصے  میں وہاں سے نکل گیا ۔۔۔

۔۔۔ 

دو ہفتوں تک وہ غم و غصے سے اپنے اپارٹمنٹ میں بند رہا۔۔ اسے اپنے ماں باپ کا یہ رویہ مزید دکھ میں مبتلا کر چکا تھا ۔۔ 

آج اس کا ارادہ گل کے پاس جانے کا تھا وہ اسے منا لینا چاہتا تھا آخر کو وہ کب تک انتظار کرتا ۔۔ 

اس سے پہلے بھی وہ کئی بار یہاں اچکا تھا مگر آج وہ تقریبا چھ مہینوں بعد آیا تھا مگر بغیر اطلاع کے

گل کے فلیٹ پہنچتے ہی جب وہ دروازے کے پاس پہنچا تو وہ پہلے سے ہی کھلا ہوا ملا۔۔

وہ حیران ہوتا اندر داخل ہوا مگر سامنے کا منظر دیکھ کر وہ شل ہوچکا تھا۔۔

اسے یقین نہیں ہو رہا تھا آیا سامنے نظر آتا منظر دھوکہ ہے یا سچ ۔۔۔۔ 

گل مینا اس وقت جمیل کی باہوں میں مست نازیبا حالت میں تھی ۔۔۔ 

اور اوپر سے ان کی گفتگو سن کر سارنگ سفید پڑتی رنگت لئے بہت کچھ کہنے اور کرنے کے باوجود غصہ ضبط کرتا

خاموشی سے وہاں سے نکل ایا۔۔ 

آج سارا سچ جاننے کے بعد وہ خود کو زمین میں دھنستا ہوا محسوس کررہا تھا ۔۔

اپنے سگے ماں باپ پر اس نے اس دوغلی عورت کو ترجیح دی اپنا وقت یہاں وہاں در در کی ٹھوکریں کھاتے برباد کیا اور تو اور اپنے ماں باپ کو جو دکھ اور تکلیف اس کی ذات سے ملی وہ الگ ۔۔ 

اسے خود سے نفرت محسوس ہونے لگی۔۔۔

وہ فورا سے اپنے گھر کہ جانب بھاگا مگر وہاں لگا تالا اسے سب سمجھا گیا کہ وہ لوگ صحیح بول رہے تھے وہ نہیں رکے تھے جا چکے تھے اب وہ کس منہ سے ان کے پیچھے جاتا ان کا سامنہ کرتا ۔۔

بے جان قدموں سے وہ وہاں لوٹ گیا۔۔۔ 

اور وہ لڑکی جو اس کی محبت کا دم بھرتی نہیں تھکتی تھی اسے کتنی تکلیف دی تھی اس نے۔۔اس سوچ نے اسےمزید  دکھی کردیا۔

*********************

وہ اس وقت ویٹر کے ڈریس میں موجود مختلف ٹیبلز پر جاتی لوگوں کے اڈرز لے رہی تھی۔۔وقت نے کیا پلٹہ کھایا تھا۔۔ 

جو خود مہنگے مہنگے ریسٹورنٹ سے کھانا کھاتی تھی اس وقت ایک معمولی سے کیفے میں ویٹرس کی جوب کرنے پر مجبور تھی۔۔ 

ماں باپ کے مرنے کے بعد اس کے باپ کے بیزنس پارٹنر نے بہت چلاکی سے سب کچھ اپنے نام کروا لیا تھا۔۔وہ اچھے سے جانتا تھا اس کے پیچھے کوئی نہیں ہے اس کے باپ کی سالوں کی محنت سے بنائی پراپرٹی پر وہ قابض ہوچکا تھا گھر تک پر قبضہ کر چکا تھا اور اسے دھکے مار کر گھر سے نکال دیا تھا ۔۔

جس کے بعد وہ اب دھکے کھاتی مخلتف جوب کرنے پر مجبور تھی پڑھائی تک اس کی چھوٹ چکی تھی ۔۔ 

وہ الگ ہی زوفی بن چکی تھی سنجیدہ،  خاموش، دنیا سے بیزار ۔۔۔

ساری اکڑ حالات نے ختم کردی تھی۔۔۔ 

شام کو اپنے بوسیدہ سے ایک کمرے کے فلیٹ میں آتے ہی اس کی ساری رات اپنے ماں باپ کو یاد کرتے روتے تڑپتے گزرتی۔۔

روز پچھتاوے کا ناگ اسے ڈستہ جو سلوک وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ کرتی تھی کتنا تنگ کیا تھا انہیں ۔۔

اور وقت نے اسے محلت بھی نہ دی ان سے معافی مانگنے کی اپنی غلطیوں  کو سدھارنے کی ۔۔۔

*************************

کئی دن تک یونیورسٹی میں  وہ نامحسوس سہ اس کا منتظر رہا مگر وہ اسے نہ دیکھی۔۔ 

دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ آج اس کے گھر موجود تھا اور اسے حیرت نے ان گھیرا کہ اس کا گھر اس کے گھر کے قریب تھا یہ کیسا اتفاق تھا۔۔۔ 

مگر گھر پر کسی کے موجود نہ ہونے پر ساتھ والے گھر سے نکلی ایک عورت کی زبانی ساری بات سنتے وہ سکتے میں چلا گیا ۔۔

اب جب وہ اس کی طرف متوجہ ہوا تھا تو وہ نظروں سے یوں غائب ہوئی کہ اب مل ہی نہیں رہی تھی۔۔۔ 

وہ ہر جگہ اسے تلاش کرچکا تھا اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ کہاں تھی یا کسی رشتے دار کے پاس بھی جاچکی ہوگی مگر وہ پھر بھی اسے ڈھونڈنے میں لگا تھا۔۔۔

دو ہفتوں کی لگاتار کوشش بھی ناکام رہی۔۔

آج وہ  یونیورسٹی سے فارغ ہوتا اپنے کام سے شہر سے باہر آیا تھا اور اب ریسٹورنٹ میں آیا تھا تاکہ کچھ کھا سکے صبح سے لگاتار کام سے وہ تھک چکا تھا اور ناشتہ بھی برائے نام ہی کیا تھا۔۔ 

سر اپکا آڈر۔۔۔

وہ جو اپنے دھیان میں اس ٹیبل کا اڈر سرف کرنے آئی تھی مگر مقابل کو دیکھ سانس روک کر رہ گئی ۔۔

سارنگ بھی اسے اس حولیے میں دیکھ کر شاک ہوا۔۔

اپنے تاثرات پر قابو پاتا اپنے حواسوں میں واپس ایا۔۔۔۔۔ 

تم یہاں۔۔۔۔۔؟

آپ ۔۔۔آپ یہاں کیا کرریے ہیں سر یہ میرے کام کا وقت ہے نہیں  تو یہاں  کا اونر مجھے  یہاں سے نکال دے گا پلیز آپ جائے یہاں سے۔۔

وہ گھبرا کر بولی کیوں کہ اب دوسرے لوگ اور ویٹرس اسے عجیب نظروں سے دیکھنا شروع ہوچکے تھے ۔۔۔ 

ٹھیک ہے پھر میں باہر تمہارا انتظار کررہا ہوں ۔۔

لیکن میں رات آٹھ بجے تک فری ہوتی ہوں ۔۔۔ 

تو ٹھیک ہے میں تب تک باہر انتظار کررہا ہوں ۔۔

وہ اطمینان سے بولتا اس کا اطمینان غارت کرگیا۔۔۔۔۔ 

وہ شدید پریشانی کے عالم میں کام کرتی رہی دھیان کا سارا رخ اس شخص کی طرف تھا جو باہر اس کے انتظار میں بیٹھا تھا ۔۔۔ 

اٹھ بجتے ہی وہ بھاگ کر اپنا سامان سمیٹتی پچھلے دروازے سے باہر نکلی تاکہ اس کی نظروں سے بچ کر یہاں سے جا سکے مگر اس کا سکون تب غارت ہوا جب اپنے فلیٹ کے گیٹ پر پہنچتے ہی اس کی آواز اپنے عقب سے سنائی دی۔۔۔۔

تم شاید بھول گئی تھی کہ میں تمہارا انتظار کررہا تھا؟۔۔

وہ طنزیہ انداز میں بولا ۔۔ 

اور کیوں کررہے تھے؟

گہرا سانس بھر کر وہ سنجیدگی سے بولتی اس کی اور موڑی ۔۔۔ 

تم یونیورسٹی کیوں نہیں آرہی تھی؟۔۔ 

پڑھائی چھوڑ دی ہے میں نے وہ بغیر کسی تاثر کے بولی۔۔۔ 

وجہ جان سکتا ہوں؟۔۔ 

میری مرضی میں پڑھو یا نہ پڑھو یہ اپ کا مسئلہ نہیں سو مہربانی کرکے یہاں سے چلے جائیں ۔۔

وہ تلخی سے بولتی دروازہ اس کے منہ پر بند کرگئی۔۔ 

وہ لب بینچتا بند دروازے کو گھورنے لگا۔۔

پھر اردگرد کا جائزہ لیتا اندر جانے کا راستہ تلاش کرنے لگا۔۔ 

یہاں کا علاقہ دیکھ کر ہی وہ پریشان ہوچکا تھا کہ نجانے وہ یہاں کیسے رہ رہی تھی۔۔۔

بہت کوشش کے بعد اسے اندر جانے کا راستہ ملا یہ واحد کھڑکی تھی جو جام ہوچکی تھی بمشکل  کھڑکی کھولتا وہ جپ لگا کر اندر اترا ۔۔وہ اسے سامنے ہی نظر اگئی کیونکہ یہ ایک کمرے اور ایک چھوٹے لاؤنج پر مشتمل تھا جگہ جگہ سے پنٹ اترا ہوا تھا گھر کی حالت بہت خراب تھی کہاں وہ بنگلوں میں رہنے والی اب کس حال میں رہ رہی تھی۔۔۔

زوفی کی نظر اس پر پڑی تو وہ ڈر کر اچھلی ۔۔ 

آپ ۔۔۔۔آپ اندر کیسے آئے؟۔۔وہ غصے سے چیختے بولی۔۔ 

سمپل جیسے تم میرے گھر سے بھاگی تھی ۔۔

وہ چڑانے والے انداز میں بولا۔۔ 

تو وہ دانت پیس کر رہ گئی ۔۔

اب اسے صحیح معنوں میں سارنگ کی حالت کا اندازہ ہوا تھا ۔۔۔ 

تم تو مجھ سے بہت محبت کرتی تھی پھر اب اچانک میں برا کیوں لگنے لگا ؟۔۔

وہ طنزیہ انداز میں اوبرو اچکا کر بولا ۔۔۔۔ 

میری  غلطی تھی سر میں اپنی پسندگی کو محبت  کا نام  دے بیٹھی تھی۔۔

وہ تلخی سے ہنسی ۔۔ 

مگر اب میری آنکھیں کھل گئی ہیں اور سر پسند تو کچھ بھی اجاتا ہے ۔۔۔

میں نے آپ کو بہت تنگ کیا اس کے لئے مجھے معاف کردیں ویسے سزا تو مل چکی ہے مجھے دیکھ تو لی ہی ہے آپ نے میری حالت ۔۔ 

سارنگ خاموشی سے اسے سنے گیا مگر بولا کچھ نہیں ۔۔

زوفی اس کی خاموشی سے جھنجھلانے لگی تھی اب ۔۔۔

مجھ سے شادی کرو گی؟۔۔

ہیں؟۔۔وہ ہونق پن سے اسے دیکھنے لگی ۔۔۔ 

میں نے کہا شادی کرو گی۔۔

میری حالت دیکھنے کے بعد بھی آپ یہ کہہ رہے ہیں حیرت ہے اور وہ آپ کی لور کہاں گئی ۔۔

وہ تلخی سے بولی ۔۔

میں بھی تمہاری طرح غلطی کر بیٹھا تھا ۔۔پیار توجہ اور احترام کو محبت سمجھ بیٹھا تھا ۔۔

لیکن خیر اب میری بھی آنکھیں کھل چکی ہیں ۔۔ 

چلو اسی وقت کیونکہ پھر تمہارے کاغذات بھی بنوانے ہیں ہم لوگ شادی کے بعد پاکستان رہیں گے ۔۔۔

اس کا ہاتھ پکڑتا وہ باہر جانے کو موڑا تو بوکھلاتی اپنا ہاتھ کھینچ گئی۔۔ 

ارےے۔۔۔ارے۔۔۔

میرا جواب تو آپ نے جاننا ضروری نہیں سمجھا اور اپنی من مانی کررہے ہیں ۔۔ 

اس کی بات سنتا وہ اسے کلائی سے کھینچتا اپنے قریب کر گیا۔۔ 

کیوں کیا تم نہیں کرنا چاہتی تھی مجھ سے؟۔۔ 

اب میں راضی ہوں تو یہ نخرا کیوں؟

اپنی تپش دیتی سانسوں اسے جھلساتا وہ اس کے مذید قریب ہوتا سرگوشی کے انداز میں بولا۔۔۔۔

وہ اس کی نزدیکی و قربت پر سرخ پڑتی اپنا سانس تک روک گئی ۔۔ 

اس کا یہ دھونس بھرا انداز اسے ڈرا رہا تھا۔۔ 

می۔۔۔میں ۔۔میں آپ کو بتا چکی ہوں میں محبت نہیں پسند کرتی تھی آپ کو بس اسی وجہ سے۔۔وہ ہلکلاتی بمشکل فقرہ مکمل کرتی اس سے دور ہونے کی کوشش کرنے لگی مگر ناکام رہی۔۔۔ 

تو محبت نہ سہی پسندیدگی ہی سہی مجھے منظور ہے ۔۔محبت بھی ہو جائے گی ۔۔ 

وہ تو جیسے سب فیصلے کئے بیٹھا تھا۔۔

وہ تز بز کا شکار ہوتی سوچ میں پڑ گئی ۔۔۔ 

اسے سوچ میں گم دیکھ کر وہ اس کے ماتھے پر آئی بالوں کی لٹ پکڑتا ہلکے سے کھینچ کر اسے اپنی طرف متوجہ کرگیا۔۔ 

م۔۔مجھے سوچنے کا۔۔ کچھ وقت دیں ۔۔۔اس کی گہری  نظروں سے گھبرا کر پلکیں جھکاتی بولی ۔۔ 

اس کے حصار میں وہ ناز چھوئی موئی سی گڑیا لگ رہی تھی۔۔۔ 

ٹھیک ہے پھر میرے ساتھ چلو میرے فلیٹ پر رہو گی تم یہ جگہ تمہارے معیار کی نہیں۔۔

  اسے اپنے حصار سے آزاد کرتا بولا ۔۔۔ 

لیکن ۔۔۔

بس کوئی لیکن ویکن نہیں ۔۔ 

بولو شادی یا پھر تب تک میرے فلیٹ پر؟۔۔

اس کا دھونس بھرا انداز دیکھ کر وہ جھنجھلا کر رہ گئی۔۔۔۔ 

اب آپ مجھ سے سارے بدلے اس طرح لیں گے جب میرے سر پر میرے ماں باپ کا سایہ تک نہیں میرے پیچھے کوئی نہیں تو آپ کو موقع مل گیا ہے آپ جو چاہے مرضی کریں گے۔۔۔ 

وہ غصے میں بولی۔۔

تو وہ لب بینچ کر اپنا غصہ قابو کرنے لگا اسے معلوم تھا اس وقت وہ احساس کمتری کا شکار ہے۔۔ 

تو کہہ تو رہا ہوں شادی کر لو اور اجاو میرے حصار کی چھاو میں ۔۔۔

پھر میں ہی سب کچھ تمہارا ہوں گا ۔۔ 

۔۔۔۔ 

اس کی ہٹ دھرمی دیکھ کر وہ بے بس ہوتی اسے دیکھنے لگی جو بڑی فرصت سے اسے نہار رہا تھا۔۔۔ 

ٹھیک ہے م۔۔۔۔میں تیار ہوں ۔۔۔

بولتے ہی وہ سسکتی رونے لگی 

۔

اس کی پیار بھری دھونس اور کچھ اپنے دل کے ہاتھوں مجبور وہ اخر مان ہی گئی ۔۔

وہ بھی تو پہلے یہی چاہتی تھی۔۔

پھر حالات کے بدلتے روک کی وجہ سے ڈر گئی تھی مگر اب وہ اسے ایک موقع دے کر دیکھنا چاہتی تھی ۔۔

****************************

آپ کا ویلج بہت خوبصورت ہے سر وہ کار کی ونڈو سے اردگرد کا جائزہ لیتی اشتیاق سے بولی تو کار ڈرائیو کرتا سارنگ دل کھول کر ہنسا تھا ۔۔۔۔

اب تو سر بولنا بند کرو زوفی کتنی بار کہہ چکا ہوں اب اگر تم نے پھر سے سر بولا تو میں اس بار اپنے انداز میں  سمجھاو گا وہ اسے گھورتے ہوئے معنی خیزی سے بولا۔۔

۔

تو وہ گڑبڑا کر سرخ چہرہ لئے پھر سے باہر دیکھنے میں لگ گئی ۔۔

سارنگ نہ میں سر ہلا کر ہنس دیا۔۔۔

ان کے نکاح کو ایک مہینہ ہوچکا تھا وہ اپنے اس فیصلے سے بہت خوش تھے سارنگ تو سہی معنوں میں احساس ہوا تھا کہ وہ اس لڑکی کو کھونے جا رہا تھا جو اسے دل و جان سے عزیز ہو چکی تھی۔۔ زوفی تو اپنی محبت پاکر خود کو اسمانوں پر محسوس کررہی تھی۔۔۔ یہ سارنگ تو کوئی اور ہی سارنگ تھا جو اس کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔۔۔ دونوں ایک دوسرے کی سنگت میں بہت خوش تھے۔۔۔ 

آج ہی وہ پاکستان آئے تھے اور اب سارنگ اپنے گھر کی طرف روا تھا۔۔ 

دھڑکتے دل سے گیٹ کی بیل بجانے پر کچھ دیر بعد ہی ملازم نے دروازہ کھولا تو سارنگ کو دیکھ کر خوشی سے بولنا چاہا تو سارنگ نے اسے خاموش کروادیا اور زوفی کو لئے اندر آیا زوفی اتنی بڑی حویلی دیکھ کر دنگ رہ گئی۔۔۔جو پرانے طرز پر بنی تھی۔۔

یہ تو کوئی تاریخی جگہ لگ رہی ہے سر۔۔ 

زوفی!!!!!۔۔۔۔ 

اوپس سوری ۔۔۔۔ 

وہ اس کی تنبیہ کرتی نگاہ کو سمجھتی زبان دانتوں تلے دبا گئی۔۔۔

لاوئج میں داخل ہوئے تو اسے فریحہ بیگم اور جہانگیر صاحب دونوں بیٹھے نظر آئے مگر ان دونوں کی نظر ان دونوں پر پڑتے ہی وہ حیران اور خوشی کی ملی جلی کیفیت میں  فورا سے اپنی جگہ سے اٹھتے ان کی طرف آئے ۔۔

سارنگ بیٹا تم یہاں؟۔۔۔

فریحہ بیگم روتے ہوئے اس کے گلے لگ گئی ۔۔۔ 

مجھے معاف کردیں آمی میں نے آپ کو بہت تنگ کیا ہے۔

اور پاپا آپ بھی مجھے معاف کردیں وہ فریحہ بیگم سے الگ ہوتا جہانگیر صاحب کے گلے لگا تو وہ اس کو خود میں بینچ گئے ۔۔۔۔

کوئی بات نہیں تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے ہمارے لئے یہی کافی ہے بیٹا وہ نم آنکھیں صاف کرتے خوش ہوکر بولےلیکن زوفی پر نظر پڑی تو وہ مزید حیران اور پریشان ہوئے ۔۔۔

یہ۔۔۔ 

اوہ۔۔۔!!  اس سے ملیں یہ میری بیوی ہے  زوفی۔۔۔

وہ ان سے زوفی کا تعارف کرواتا ہچکچاتے بولا۔۔۔ 

زوفی ۔۔۔۔تمہاری بیوی پر کیسے۔۔۔؟

تم۔۔؟

وہ دونوں الجھن آمیز نگاہوں سے دیکھتے بولے ۔۔۔

زوفی جو انکل اور انٹی کو سارنگ کے ماں باپ کے روپ میں دیکھ کر شاک میں تھی فورا سے فریحہ بیگم کے گلے لگتی زور و قطار رونے لگی تو جہاں جہانگیر صاحب اور فریحہ بیگم بوکھلا ئے وہی سارنگ بھی ہونق پن سے اپنی بیوی کو دیکھنے لگا جو آتے ہی اس کے ماں باپ کے گلے لگی سالوں سے بچھڑی ہوئی ان کی بیٹی لگ رہی تھی۔۔۔

ارے زوفی بیٹا کیا ہوا ہے ۔۔

اور تم سارنگ کے ساتھ کیسے۔۔۔ 

کیا آپ لوگ پہلے سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں؟۔۔

وہ ان کو حیرت بھرے انداز میں دیکھتا بولا۔۔

ان سب کی الجھن تھی کے بڑھتی جارہی تھی پھر زوفی نے اپنے آپ پر قابو پاتے دھیرے دھیرے سے انہیں سب بتاتی گئی ۔۔ 

جہانگیر صاحب تو غصے سے پاگل ہونے لگے۔۔۔ 

تو تم نے ہمیں کیوں نہیں بتایا بیٹا ۔۔

آپ لوگ تب تک جاچکے انکل آپ کے گھر گئی تھی مگر وہاں تالا لگا ہوا تھا ۔۔۔ 

وہ اپنی سرخ ناک رگڑتی بولی۔۔ 

فریحہ بیگم اسے اپنے حصار میں لئے بیٹھی تھیں اور وقفے وقفے سے اپنی نم آنکھیں پونچھ رہی تھیں ۔۔۔

آپ فکر نہ کریں پاپا زوفی کو اس کا سب کچھ واپس ضرور ملے گا میں اسے دلا کر رہو گا ۔۔

وہ ان کو شانت کرتا بولا۔۔ 

خیر سارنگ تم نے ایک کام تو بہت اچھا کیا ہماری کتنی خواہش تھی زوفی ہماری بہو بنے مگر یہ ناممکن لگتا تھا لیکن دیکھیے میرے صبر کا پھل کتنا خوبصورت ہے وہ زوفی کا گال پیار سے چھوتے بولیں ۔۔۔ 

تو چھنپ گئی ۔۔۔۔

بلکل ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ بیگم میں سارنگ کے زندگی میں پہلی دفعہ اس اچھے کام سے بہت خوش ہوا ہوں ۔

۔ 

سارنگ ان کی بات سنتا پہلے تو خوش ہوا۔مگر پھر بات کا طلب سمجھتے چیخ پڑا ۔۔۔

پاپا۔۔۔۔۔ 

کیا پاپا؟۔

۔

اتنے بڑے ہوگئے مگر عقل نام کی بھی نہیں اور زوفی سارنگ کی بنتی اس درگت پر کھلکھلا کر ہنس دی۔۔۔۔۔ 

اسے بہت مزا آرہا تھا سارنگ کو یہ حالت دیکھ کر ۔۔۔

پچھلے دو ہفتوں سے اس نے اسے تنگ کر رکھا تھا۔۔

اور وہ سرخ پڑتی جھنجھلا جاتی۔۔

تو وہ اس کی حالت سے خوب مزا لیتا ۔۔۔۔

دل کھول کر ہنس لو بیوی ایک بار کمرے میں چلو تمہیں اچھے سے ہنساو گا وہ اس کے کان میں سرگوشی کے انداز میں معنی خیزی سے بولا ۔۔

تو اس کی ہنسی کو فورا بریک لگی۔۔۔ 

اس کی طرف دیکھتے وہ مسکراتی فریحہ بیگم کی طرف متوجہ ہوئی جو اس سے کچھ بول رہی تھی۔۔۔ 

اسے ایک مکمل فیملی مل چکی تھی ایک ہنستہ بستہ گھر ماں باپ اور ایک محبت کرنے والا شوہر وہ خدا کا جتنا شکر کرتی کم تھا۔۔۔

**(**************

کیامطلب جو لڑکا یہاں رہتا تھا وہ اپنی بیوی کو لے کر چلا گیا؟۔۔۔ 

گل اچنبھے سے اس عورت کی بات سنتی بولی ۔۔۔

مگر وہ تو شادی شدہ نہیں تھا۔۔۔ 

دیکھو لیڈی ایک مہینہ ہوا تھا اس کی شادی کو بیوی بھی بڑا پیارا تھا مگر یہ کچھ دن پہلے بولا اس نے کہ وہ پاکستان جا رہے ہیں ۔۔۔ 

اب آگے کا مجھے کچھ نہیں معلوم اور میرا وقت مزید برباد نہ کرو۔۔۔بولتے ہی وہ ٹھک سے دروازہ اس کے منہ پر بند کرگئی۔۔۔ 

وی غصہ ضبط کرتی وہاں سے نکلی ۔

ایک تو میرا فون بھی نہیں اٹھا رہا۔۔

کہاں گیا یہ لڑکا۔۔۔ 

وہ سخت کوفت کا شکار ہوتی نکلی مگر روڈ کراس کرنے کے چکر میں گاڑی سے ٹکرا کر دور جا گری اور گاڑی میں بیٹھا جمیل نخوت سے پیچے موڑ کر دیکھتا فورا وہاں سے فرار ہوگیا۔۔۔ 

سڑک کے درمیان خون میں لت پت وہ زندگی کی سانسیں گن گن کر لیتی تڑپتی رہی۔۔۔۔

ختم شد ۔۔۔۔۔۔

*******************************

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


 Tu Mera Ishq Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Tu Mera Ishq written by Zonia Saleh. Tu Mera Ishq  by Zonia Saleh is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages