Rabba Mainu Maaf Kary By Saima Bakhtiyar Complete Urdu Novel Story - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Monday 20 May 2024

Rabba Mainu Maaf Kary By Saima Bakhtiyar Complete Urdu Novel Story

Rabba Mainu Maaf Kary By Saima Bakhtiyar Complete Urdu Novel Story 

Madiha Shah Writer ; Urdu Novels Stories

Novel Genre : Romantic Urdu Novel Enjoy Reading… 

Rabba Mainu Maaf Kary By Saima Bakhtiyar Complete Novel Story

Novel Name :Rabba Mainu Maaf Kary

Writer Name : Saima Bakhtiyar

New Upcoming :  Complete 

یہ جو پٹریوں کے سامنے مکان دیکھ 

رھے ہیں نہ آپ لوگ ۔۔۔جی یہ چائنا کٹنگ۔۔۔بس اسی گھر کی کہانی ہے۔۔۔قمر صاحب کی بیوہ رہتی ہیں اس ایک منزلہ گھر میں اپنی دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کے ساتھ۔۔۔۔

بیٹا یعنی مصدق میاں اوپر والے پورشن میں اپنی بیوی کے ساتھ مقیم ہیں۔۔یعنی بیوی کو پیارے ہیں۔۔۔۔

اور نیچے قمر صاحب کی بیوہ شمع اور بیٹیاں سارا اور حسنہ رہتی ہیں۔۔۔۔

شمع کی قسمت میں کوئی امید کی شمع نہیں ہے۔۔۔یہی شمع کا رونا ہے۔۔۔۔وہ ایک بیوٹیشن بھی ہیں مگر ماہر نہیں۔۔۔

سارا ایک کمپنی میں جاب کرتی ہے چوبیس سال کی عمر میں وہ اپنی ماں کی گھر چلانے میں بھرپور مدد کرتی ہے۔۔۔۔۔۔مگر جتانا کبھی نہیں بھولتی۔۔۔

حسنہ کو صرف حسن نکھارنے کا شوق ہے ۔۔۔شاید نام کا اثر ہے۔۔۔عمر بائیس سال۔۔۔دو دفعہ بی اے کی سپلی لگا چکی نتیجہ صفر۔۔۔۔مگر اس بار حسنہ کو پوری امید ہے کے چار میں سے تین ہی رکیں گے ایک تو نکل ہی جانا ہے۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

نکڑ کی کمیونیکیشن کی شاپ پر کھڑی حسنہ دوپٹے کی گرہ کھولنے میں مصروف تھی۔۔۔

باجی پہلے کام بتا دو دوپٹے سے بعد میں جنگ کرنا ۔۔۔دکان پر کھڑا چھوٹی عمر کا لڑکا چڑ گیا تھا۔۔۔۔وہ کافی دیر سے پلو میں بندھے پیسے کھولنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔مگرگرہ بہت ہی کس کے ماری تھی اب کھلنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔۔۔۔

صبر نہیں آ رہا کیا۔۔۔پیسے نکال لوں پھر نمبر لکھواتي ہوں۔۔۔حسنہ نے دانتوں سے گرہ کو کھینچا۔۔ بلآخر وہ کھل ہی گئی۔۔۔۔

لو پکڑو۔۔۔پچاس کا نوٹ کاؤنٹر پر پٹخا۔۔۔اور جلدی سے بیلینس بھیجو۔۔۔نمبر بتا کر وہ تیزی سے گھر کی طرف بڑھی۔۔۔اگر امّاں کو پتہ چلتا کے وہ دکان گئی تھی تو اُس کو جوتیاں پڑنی تھیں۔۔

۔نالیاں پھلانگ پھلانگ کرابھی آدھی گلی ہی پہنچی تھی کہ ایک بائک والا تیزی سے اُس کے برابر سے گزرا۔۔۔گندے پانی  کے چھینٹےاُس کے کپڑوں پر آگئے۔۔۔

ہائے ستیاناس جائے تیرا۔۔۔کمبخت ۔۔۔منہوس آدمی۔۔۔حسنہ کا غصے سے بُرا حال ہو گیا۔۔۔

وہ گھر پہنچی تو امّاں ابھی تک واپس نہ آئی تھیں وہ پڑوس والی سروری باجی کا فیشل کرنے گئی ہوئی تھیں۔۔۔

سارہ دفتر گئی ہوئی تھی۔۔۔بھابی کو سیڑھیاں اترنے کی توفیق نہیں ہوئی کبھی۔۔۔۔

وہ آرام سے کپڑے صاف کر کے فون لے کے بیٹھ گئی۔۔۔فون پر شہلا کی مسڈ کالز دیکھ کر اُس نے شہلا کو مسڈ کال دی۔۔۔۔

شہلا کا فوری فون آ گیا تھا۔۔۔۔کہاں مر گئی تھی حسنہ۔۔کب سے فون ملا رہی ہوں۔۔۔شہلا کے تیور بگڑے ہوئے تھے۔۔۔

بیلنس دلوانے گئی تھی نہ۔۔۔۔حسنہ نے بھی چلا کر جواب دیا ۔۔۔پھر ڈر کر اوپر کی طرف دیکھا اگر بھابی کو آواز جاتی تو وہ بھائی کو فوراً بتا دیتیں۔۔۔۔پھر حسنہ کو ذلیل ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا تھا۔۔۔۔

رزلٹ چیک کیا۔۔۔شہلا سیدھے مدعے پر آئی۔۔۔نہیں کیا نہ ابھی۔۔۔نیٹ کیسے چلتا بیلنس نہیں تھا نہ اتنا۔۔۔۔اب کے حسنہ دھیرےدھیرے چیخ رہی تھی۔۔۔۔

اچھا میرا بھی کرنا۔۔۔شہلا نے مطلب کی بات کی۔۔۔

ہاں ہاں۔۔۔تو دعا کر اس سال پاس ہو جاؤں میں۔۔۔خالہ نے امّاں کو صاف کہہ دیا ہے وہ فراز کے لیے پڑھی لکھی بہو چاہتی ہیں۔۔۔حسنہ کا دل فراز میں اٹکا تھا۔۔۔

ہاں تو اور کیا۔۔۔ایم اے ہیں نے فراز بھائی۔۔۔۔اور تو بی اے میں دو دفعہ فیل۔۔۔شہلا ہنسی تھی۔۔۔

جا دفعہ ہو جا۔۔۔اب نہیں کروں گی تیرا ریزلٹ چیک۔۔۔وہ بھنّا گئی۔۔۔

اے میں تو مذاق کر رہی تھی بہنا۔۔۔شہلا نے پیار سے پچکارا۔۔۔۔

خالہ کی ڈیمانڈ تو بڑھتی جا رہی ہے روز بروز مہنگائی کی طرح ۔۔۔۔حسنہ جل کے بولی۔۔۔پہلے گوری کہا ۔۔۔پھر لمبی۔۔۔پھر امیر۔۔۔اور اب پڑھی لکھی۔۔۔۔بتاؤ ذرا ۔۔۔اُس نے خود کو الماری کے ٹوٹے شیشے میں دیکھا۔۔چھوٹا قد۔۔۔بی اے فیل۔۔۔یتیم۔۔۔بس ذرا رنگ ہی گورا تھا۔۔۔۔

گئی محبت پانی میں۔۔۔۔اُس کے دل نے صدا لگائی۔۔۔

حسنہ ڈر کے شیشے کے آگے سے ہٹ گئی۔۔۔

چیک کر لینا میرا بھی رزلٹ۔۔۔پلیز۔۔۔شہلا نے مکھن مارا۔۔۔

چل ٹھیک ہے شام کو گھر آ ۔۔۔پھر بتاؤں گی۔۔۔دروازہ کھلنے کی آواز پر اُس نے کال کاٹ دی۔۔۔موبائل کو تکیے کے نیچے دبا کے دروازے کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔

شمع بیگم تھکی ہاری گھر لوٹیں تھیں۔۔۔۔صحن میں پڑی چارپائی پے ہی بیٹھ گئیں۔۔۔۔

کیا ہوا امّاں ٹھیک تو ہو۔۔۔حسنہ کو امّاں کی شکل دیکھ کر فکر لا حق ہوئی۔۔۔

کچھ نہیں سروری کا دماغ الٹ گیا ہے۔۔۔امّاں بڑ بڑانے لگیں۔۔۔کہتی ہے کاشف کے سلون جائے گی۔۔۔

کاشی کہا ہوگا۔۔۔حسنہ نے اپنے طور پر تصیح کی۔۔۔

امّاں نے غصے سے گھور کر دیکھا۔۔۔تجھے بڑا پتہ ہے حسنہ۔۔۔۔

وہ امّاں مارننگ شو میں آتا ہے نہ وہ ۔۔۔تبھی دیکھا ہے حسنہ گڑ بڑ ا گئی۔۔۔۔

چل دفعہ کر۔۔۔۔۔کمیٹی ڈالی ہے اُس نے کاشف سے جا کر فیشیل کروانے کے لیے۔۔۔۔یہاں تین سو روپے دینے میں بھی موت پڑتی ہے۔۔۔۔امّاں کو شدید غصّہ آیا ہوا تھا۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

شمع بیگم جلتی کڑھتی باورچی خانے میں گھس گئیں۔۔۔۔

حسنہ واپس چھوٹے کمرے میں جا کر موبائل نکال کر بیٹھ گئی۔۔۔اس گھر میں تین کمرے تھے۔۔ایک چھوٹا کمرہ۔۔ایک بڑا کمرہ اور ایک ابّا کا کمرہ۔۔۔۔

غریبوں کے گھر کمروں کے نام ایسے ہی رکھے جاتے ہیں۔۔قمر صاحب نے جس کمرے میں زندگی کے آخری ایام گزارے اُسے ابّا کے کمرے کا نام دے دیا گیا۔۔۔چھوٹا کمرہ بڑے کمرے کی نسبت تھوڑا چھوٹا تھا لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ بڑا کمرہ بہت بڑا ہے ۔۔۔

شرر ۔۔شرر۔۔شرر۔۔۔۔پانی گرنے کی آواز پر شمع بیگم صحن کے ایک طرف کونے میں بنے باورچی خانے سے باہر نکلیں۔۔۔

سیڑھیوں سے پانی گرتا صحن کو بھگو گیا تھا۔۔۔۔

شمع بیگم کا غصّہ آسمان کو پہنچ گیا۔۔۔۔مصدق میاں کی بیوی نے اوپر کا حصہ دھویا تھا۔۔۔اب سارا گندا پانی صحن میں کھڑا ہو گیا۔۔۔

پتہ نہیں کون سی منہوس گھڑی  تھی جو اسے بیاہ لائی۔۔ہمارےسروں پر چڑھی بیٹھی ہے ۔۔وہ زور زور سے اوپر کی طرف دیکھ کر بولنے لگیں مقصد بہو صاحبہ کو سنانا تھا۔۔۔

حسنہ پیر پٹختی کمرے سے بر آمد ہوئی۔۔۔کیا مسئلہ ہے امّاں۔۔وہ رزلٹ سرچ کرنے کی کوشش میں لگی تھی۔۔۔رزلٹ ڈھونڈنے دو مجھے۔۔۔اتنا شور ڈال دیا ہے۔۔۔ ایک تو اس علاقے میں سگنلز ہی نہیں آتے ۔۔۔۔۔حسنہ بی بی کے اپنے ھی مسئلے تھے۔۔۔۔

امّاں تو پہلے ہی جلی ہوئی تھیں ۔۔۔

اے حسنہ اس بار بھی پیپر رکے نہ تو اب فیس نہ بھروں گی تمھاری۔۔۔۔۔رزلٹ تو ایسے ڈھونڈ رہی ہے جیسے ٹاپ کیا ہو۔۔۔۔

بس امّاں تمہارا سارا زور مجھ پے ہی چلتا ہے۔۔۔۔اتنی ہمت ہے نہ تو جا کے بہو صاحبہ سے کہو اپنی۔۔۔آ کر یہ گند صاف کرے۔۔۔حسنہ نے صحن میں کھڑے پانی کی طرف اشارہ کیا۔۔۔

شمع بیگم کی بولتی بند ہوگئی اتنی ہمت نہیں تھی اُن میں کے زرینہ مصدق سے پنگا لیتیں۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

حسنہ نے تنگ آ کر خود ہی وائپر اٹھا لیا۔۔۔شہلا بھی آنے والی ہوگی۔۔۔وہ جلدی جلدی صحن صاف کرنے لگی۔۔

۔دروازے پر دستک کی آواز سن کر صحن میں بندھی رسی پر پڑا کالا دوپٹہ کندھے پے ڈالا اور دروازے کی طرف بڑھی۔۔۔

یہ کالا دوپٹہ بہت قسمت والا تھا ہر وقت رسی پر ڈلا رہتا۔۔۔حسب ضرورت تینوں خواتین اسی ایک دوپٹے کو استعمال کر تیں۔۔۔

دروازہ کھولتے ہی فراز کی شکل نظر آئی۔۔۔اپنے حلیے کا خیال آتے ہی حسنہ کو شرمندگی ہونے لگی۔۔۔۔اُس نے فراز کو اندر آنے کے لیے راستہ دیا اور خود دروازہ بند کر کے دوپٹے کو پھیلاتے ہوئے اُس کے پیچھے آئی۔۔۔صحن میں کہیں کہیں پانی اب بھی موجود تھا۔۔۔حسنہ نے وائپر ایک سائڈ کھڑا کر دیا۔۔۔۔

فراز صحن میں موجود چار پائی پر ہی ٹک گیا۔۔۔۔

✨✨✨✨😊✨✨✨✨✨✨😊✨✨✨✨

جی تو یہ ہیں فراز مرزا۔۔۔۔۔حسنہ کے دل کے مالک۔۔۔صرف حسنہ کے مطابق۔۔۔۔فراز نے کبھی حسنہ کو گھاس بھی نہیں ڈالی۔۔۔۔

سانولی رنگت۔۔۔درمیانہ قد۔۔۔چھوٹی چھوٹی آنکھیں۔۔۔چہرے پر غرور۔۔۔۔

ایم اے پاس کو غرور تو بنتا ہے نہ حسنہ کے مطابق۔۔۔۔

اوپر سے سرکاری نوکری۔۔۔ایک سرکاری دفتر میں فائلیں ادھر سےاُدھر کرتا ۔۔۔۔فراز کا دماغ ساتویں آسمان پر تھا۔۔۔۔۔۔۔

✨✨✨✨✨😊😊✨✨✨😊😊✨✨✨✨

وہ چارپائی پر بیٹھا حسنہ کو دیکھ کر منہ بسورنے لگا۔۔۔ڈھنگ بھی ہے کچھ تمھیں۔۔۔

حسنہ نے خود کو اوپر سے نیچے تک دیکھا۔۔ غصے میں وائپر مارتے ہوئے اُس نے اپنے کپڑے کافی حد تک گیلے کر لیے تھے۔۔۔شلوار کا ایک پائنچا اوپر ایک نیچے ۔۔۔سوٹ کا نیلا رنگ دھل دھل کر ہلکا پڑ چکا تھا۔۔۔

ہر وقت بھنگن بنی رہنا۔۔۔مغرور انداز میں اُس کا مذاق اڑاتا ہوا بھی حسنہ کو وہ شہزادہ لگا۔۔۔۔

جی بس کام کر رہی ہوں نہ تو اس لیے۔۔۔وہ جھینپی جهینپی ہنس دی۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨😏😏✨✨✨✨✨✨

ارے میرا بیٹا آیا ہے۔۔۔شمع بیگم فراز کو دیکھ کر بہت محبت کا اظہار کرتیں۔۔۔

اُن کی پوری کوشش تھی کہ کسی طرح فراز اُن کا داماد بن جائے ۔۔۔۔فراز خاندان کا سب سے ہونہار لڑکا تھا۔۔۔۔پورے خاندان کی نظریں فراز پر تھیں ایم اے پاس سرکاری نوکری۔۔۔اپنا گھر۔۔اکلوتا بیٹا۔۔۔سب کی نظروں  میں اُس کی حیثیت کسی دودھ پیڑے سے کم نہیں تھی۔۔۔اسی بات نے اُسے مغرور بنا دیا تھا۔۔

شمع اور شمس دو بہنیں تھیں۔۔جاوید اور نوید اُن سے چھوٹے دو بھائی تھے۔۔۔سب ہی صاحب اولاد تھے۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨💕✨✨✨✨✨✨

شمس بیگم کا اکلوتا بیٹا فراز ہے۔۔۔جاوید صاحب کی ایک بیٹی عطیہ اور ایک بیٹا فرحان ہے۔۔۔۔نوید صاحب کی دو بیٹیاں آمنہ ، مومنہ  اور دو بیٹے ذیشان اور ریحان ہیں۔۔۔۔

جاوید صاحب کی بیگم یعنی بڑی بھابی کو بھی عطیہ کے لیے فراز پسند ہے۔۔۔اور چھوٹی بھابی یعنی نوید صاحب کی بیوی کو بھی آمنہ کے لیے فراز پسند ہے۔۔۔

(وجہ تو آپ سب جان ہی چکے ہیں۔۔۔۔ہاں جی سرکاری نوکری۔۔۔ایم اے پاس۔۔۔اپنا گھر۔۔۔😉😉😉 )

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨😉✨✨✨✨

ارے حسنہ یہاں کیوں کھڑی ہے جا جلدی چائے چڑھا چولہے پر۔۔۔حسنہ کو آنکھیں دکھاتی شمع بیگم نے چارپائی پر پڑے گول تکیے کے نیچے سے کالا چھوٹا پرس بر آمد کیا۔۔۔

زپ کھول کر دس دس کے پانچ نوٹ نکال کر دو بار گنے۔۔۔

حسنہ او حسنہ۔۔۔۔۔۔شمع بیگم کی آواز پر وہ دوڑ کر آئی۔۔۔

لے یہ پکڑ۔۔۔نوٹ اُس کے ہاتھ میں تھما ئے۔۔۔سروری کے چھوٹے سے کہہ نکڑ سے سموسے لے آئے۔۔۔وہ گرم جوشی سے بولیں۔۔

نہیں خالہ بس جلدی میں ہوں چائے ہی کافی ہے۔۔۔امّاں نے کہا آپ سے پیسے لے آؤں بس اس لیے آیا تھا۔۔۔فراز نے آنے کا مقصد بیان کیا۔۔۔

کون سے پیسے بیٹا۔۔۔شمع بیگم کو بات سمجھ نہ آئی۔۔۔

پرسوں آپ امّاں کے ساتھ مارکیٹ گئیں تھیں نہ ۔۔۔دونوں طرف کا کرایہ امّاں نے لگایا تھا ۔۔۔فراز نے یاد دھیانی کروائی۔۔۔

ہاں ہاں۔۔۔شمع بیگم کو یاد آیا۔۔۔۔۔۔

تو امّاں نے کہا کہ ایک طرف کے کرائے کے پیسے آپ سے لیتے آؤں۔۔۔۔فراز کی بات سن کر شمع بیگم کا خون کھول اٹھا۔۔۔مگر بات بگاڑنے کا وقت نہیں تھا ابھی۔۔۔حسنہ کو بیاہنہ تھا بہن کے گھر۔۔۔جذبات کو قابو کرتیں شمع بیگم نے ساٹھ روپے نکال کر بھانجے کے ہاتھ میں دھر دئیے۔۔۔۔

امّاں نے پینسٹھ روپے کہے تھے۔۔۔وہ کمال ڈھیٹائی سے بولا۔۔۔۔

حسنہ چائے لے ائی تھی شمع بیگم کا دِل چاہا اُس کے سر پر الٹ دیں گرم گرم چائے۔۔۔۔ہائے مجبوری حسنہ کی شکل دیکھ کر پھر ضبط کرنا پڑا۔۔۔۔

پرس کھول کر الٹا کر دیا کچھ نہ نکلا۔۔زور سے چارپائی پر جھٹکا تو ایک پانچ کا سکّہ گرا۔۔اٹھا کر فراز کے ہاتھ میں تھمایا۔۔۔ایک جھوٹی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر چائے کا کپ فراز کی طرف بڑھایا۔۔۔

حسنہ نے چائے بناتے ہوئے ہی اپنا حلیہ تھوڑا بہتر کر لیا تھا۔۔۔ وہ باورچی خانے کی دہلیز پر ہی ٹک گئی۔۔۔فراز کسی مغرور شہزادے کی طرح چارپائی پر ٹانگ پر ٹانگ جمائے بیٹھا چائے پی رہا تھا۔۔۔۔حسنہ کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔۔

✨✨✨✨✨✨✨😉😉✨✨✨✨✨✨✨

فراز کے جاتے ہی شمع بیگم پھٹ پڑیں۔۔۔۔۔

آپا کو ذرا شرم نہیں ہے حد ہے منہ اُٹھا کر بیٹے کو بھیج دیا پینسٹھ روپے کے لیے۔۔۔سروتا اٹھائے چھالیہ ایسے کترنے لگیں جیسے چھالیہ نہیں شمس بیگم ہوں۔۔۔

بیوہ بہن کا ذرا لحاظ نہیں ہے۔۔۔ارے قمر صاحب مجھے کیوں چھوڑ گئے تنہا۔۔۔۔دیکھ رھے ھیں نہ میرا حال۔۔اُنہوں نے بین ڈالا۔۔۔

۔امّاں ابّا حوروں کے ساتھ مزے سے ہوں گے تمھیں کیوں دیکھنے لگے اب۔۔۔۔حسنہ نے لا پرواہی سے کہا ۔۔امّاں نے جوتی اٹھا کر کھینچ ماری۔۔۔

دفعہ ہو جا میرے سامنے سے نگوڑ ماری۔۔۔تیری خاطر خاموش رہی ورنہ اس فراز کو تو ایسی سناتی نہ۔۔۔دل ہی دل میں سنا بھی ڈالی۔۔۔

ہاں تو ٹھیک ہے نہ امّاں ایک طرف کا کرایہ ہی مانگا ہے نہ خالہ نے اس میں غلط کیا ہے۔۔تم بھی تو مفتہ ہی ڈھونڈتی ہو نہ۔۔۔۔حسنہ نے سچ بات کہہ ڈالی تھی اس لیے کمرے میں بھاگی۔۔۔۔۔۔

Hmm to kis kis ko parhnay hy zra comments main aye na....😜😜😜#ربّا مینو معاف کرے۔۔۔۔

#saimabakhtiyar

Epi 3

شمع بیگم نے پان منہ میں ڈالا اور چارپائی پر ہی پاؤں پھیلائے بیٹھ گئیں۔۔۔۔سورج کی ٹھنڈی کرنیں صحن میں پڑ رہی تھیں۔۔۔۔شام ہونے جا رہی تھی۔۔۔ 

دروازہ کھول کر مصدق میاں اندر آئے ۔۔۔امّاں کو صحن میں دیکھتے ہی ہاتھ میں پکڑی بریانی کی تھیلی پیچھے چھپائی۔۔۔

السلام وعلیکم امّاں۔۔۔۔جھینپتے ہوئے سلام کیا۔۔۔

وعلیکم السلام۔۔۔۔امّاں نے سر سے پاؤں تک بیٹے کا جائزہ لیا۔۔۔

ہاتھ میں کیا چھپا رکھا ہے۔۔۔شمع بیگم سرد لہجے میں گویا ہوئیں۔۔۔

کچھ۔۔۔ کچھ نہیں امّاں۔۔۔مصدق میاں کی ماں کے آگے جان نکلتی تھی۔۔۔۔

گھر کا کچھ سودا لایا ھوں۔۔۔جھٹ سے جھوٹ بول کر جان بچانے کی کوشش کی۔۔۔

خوشبو تو بریانی کی آ رہی ہے۔۔۔شمع بیگم نے نتھنے پھلائے۔۔۔

بریانی۔۔۔نہیں امّاں کیا ہو گیا ہے۔۔۔تم تو بس۔۔۔جان حلق میں اٹک گئی۔۔

مصدق میاں جھٹ سیڑھیاں چڑھ گئے مبادا امّاں تھیلی ہی نہ کھلوا دیں۔۔۔

ہاں سب پتہ ہے مجھے ۔۔اُس اوپر بیٹھی ڈائن نے کچھ پکا ہی نہ دیا ہو۔۔۔لایا ہوگا باہر سے پاؤ بھر بریانی ۔۔۔۔ ماں بہنوں کا خیال نہیں آتا کمبخت کو۔۔۔۔وہ پھر اوپر منہ کیے زور زور سے بولنے لگیں۔۔۔

✨✨✨✨✨✨🤪🤪🤪✨✨✨✨✨✨✨

مصدق پلیٹ میں بریانی نکال کر زرینہ کے پاس لے آیا۔۔وہ آرام سے بیڈ پر بیٹھی نیل پینٹ لگا رہی تھی۔۔

تمھاری امّاں کا تعلق شکاری کتّوں کےخاندان سے لگتا ہے۔۔۔وہ ہنسی تو مصدق شرمندہ ہو گیا۔۔۔

سونگھ کر ہی بتا دیتی ہیں۔۔۔ پچھلی دفعہ برگر لاتے ہوئے بھی پکڑے گئے تھے نہ۔۔۔کوئی پرانا قصہ یاد کر کے وہ پھر زور سے ہنسی۔۔۔

پلیٹ اپنی طرف کھینچتے پوری بریانی کی پلیٹ پر قبضہ کیا۔۔۔۔۔۔

اپنی نہیں لائے۔۔۔ایک چمچ بھر کر منہ میں ڈالا۔۔۔

نہیں زری۔۔۔پیسے نہیں تھے۔۔۔مصدق میاں مینمینائے۔۔۔

چلو کوئی نہیں۔۔۔تم امّاں کے پاس کھا لینا رات میں کھانا۔۔۔نہایت بے دردی سے کہتے وہ بریانی کی پلیٹ پر ٹوٹ پڑی۔۔۔۔

مصدق بیچارہ اُسے دیکھتا ہی رہ گیا۔۔۔۔۔

اسے دھو بھی دینا ۔۔میرا نیل پینٹ خراب ہو جاۓ گا۔۔

خالی پلیٹ مصدق کے حوالے کرتے ہوئے بولی۔۔مصدق کا دل چاہا اُس کے سر پے پلیٹ دے مارے۔۔۔مگر سسر کی وردی کے خیال نے اُسے روک دیا۔۔۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨🤩🤩🤩✨✨✨✨✨✨✨

یہ ہیں زرینہ مصدق۔۔۔فیشن کی ماری۔۔۔دیکھنے میں حسین۔۔۔ زبان کی تیز۔۔۔جہیز میں پانچ تولہ سونا لانے کہا زعم۔۔۔۔۔۔ابّا پولیس انسپکٹر۔۔۔امّاں سیکٹر انچارج۔۔۔مصدق میاں کی خا موشی تو بنتی ہے نہ۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨🤩🤩🤩✨✨✨✨✨✨

حسنہ بریانی کے نام پے کمرے سے نکلی تھی۔۔۔کون لایا ہے امّاں بریانی۔۔۔اُس کے منہ میں پانی آیا۔۔۔

کمال ہے حسنہ۔۔تجھے لاکھ آوازیں دوں بحری بنی بیٹھی رہتی ہے بریانی کے نام پے کیسے بھاگی چلی ائی۔۔۔

امّاں ۔۔۔جان کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑی ہو میری۔۔۔حسنہ منہ بنائے واپس کمرے میں گھسنے ہی لگی امّاں نے آواز دے ڈالی۔۔۔

چل اب شام کی چائے ہی چڑھا دے۔۔۔مجھے کریمیں لینے بازار بھی جانا ہے سارا آتی ہو گی۔۔۔آج اُس کی تنخواہ کا دِن ہے۔۔۔۔

امّاں سنو۔۔۔۔محبت جتاتے لہجے میں امّاں کے قریب ہوئی۔۔۔

شمع بیگم کی چھٹی حس نے الارم دیا۔۔۔

دور سے ہی بات کر۔۔۔زیادہ مکھن لگانے کی ضرورت نہیں۔۔۔

امّاں مجھے بھی بائیس اکتیس نوے لا دو نہ۔۔۔وہ لجاجت سے بولی۔۔۔

امّاں نے ایک گھوری ماری۔۔۔امّاں فراز کو گورا رنگ پسند ہے نہ۔۔۔اُس نے امّاں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا۔۔۔

چل لا دوں گی۔۔۔۔۔شمع بیگم فراز کے نام پے بلیک میل ھو گئیں۔۔۔

سلام خالہ۔۔۔۔دروازہ کھول کر شہلا اندر آئی ۔۔۔

شمع بیگم کے منہ کا زاویہ بگڑا۔۔۔اُنھیں شہلا کا آنا سخت نا پسند تھا۔۔۔۔۔

وسلام۔۔۔۔پیرسمیٹ کر چارپائی پر ہی جگہ دی۔۔۔

کیوں آی ہے گھر میں کچھ کام کاج نہیں تیرے۔۔۔جلتےلہجے میں شہلا کو بے عزت کیا۔۔۔۔۔۔

خالہ ریزلٹ کے لیے آئی ھوں۔۔۔شمع بیگم سے اُس کی جان نکلتی تھی۔۔۔

شہلا چائے پیے گی۔۔۔۔حسنہ دوست کی محبت میں پوچھ بیٹھی۔۔۔۔

پتی ختم ہونے کو ہے حسنہ۔۔۔شہلا پی کر آئی ہو گی۔۔۔یہ کون سی مہمان ہے۔۔۔جا تو جا کے میری اور سارا کی چڑھا دے۔۔۔

شہلا سے پہلے شمع بیگم کا جواب آیا۔۔۔

شہلا نے حسنہ کو گھورا۔۔۔۔

✨✨✨✨✨😁😁😁✨✨✨✨✨✨✨✨

(شہلا احمد ۔۔۔حسنہ کی مطلبی دوست۔۔۔گلی کے نکڑ والا گھر۔۔۔۔چھوٹا قد۔۔۔گورا رنگ۔۔۔بال  ہمیشہ کھلے۔۔۔دوپٹہ گلے میں۔۔۔ہر وقت تیار۔۔۔خوبصورت ہونے پر ناز۔۔۔۔)

تیری دوستی میں بے عزت ہونے چلی آتی ہوں یہاں ۔۔۔۔چھوٹے کمرے میں گھستے ہی اُس نے حسنہ کو سنا ڈالی۔۔۔

چھوڑ نہ امّاں کی عادت ہے دل کی بری نہیں۔۔۔حسنہ نے ماں کی طرف داری کی۔۔۔

رہنے دے اچھے سے جانتی ہوں شمع باجی کو میں۔۔۔شہلا جل کر راکھ ہوئی۔۔۔چھوڑ رزلٹ بتا۔۔۔۔۔

حسنہ نے جھٹ اُسے بھینچ کر گلے لگایا۔۔۔۔۔مبارک ہو شہلا۔۔۔خوشی اُس کے انگ انگ سے پھوٹنے لگی۔۔۔

ارے بتا تو صحیح۔۔۔کیا ہوا۔۔۔۔وہ حیران ہوئی۔۔۔

ہم دونوں کے دو دو پرچے کلیئر ہو گئے۔۔۔۔۔وہ خوشی سے بولی۔۔۔۔

ہائے سچی۔۔۔شہلا کو یقین نہ آیا۔۔۔۔

مطلب اب صرف دو کی سپلی لگانی ہو گی۔۔۔اُس کی آنکھیں خوشی سے پھیلیں۔۔۔

ہاں پھر ہم بی اے پاس۔۔۔۔افّفف۔۔۔حسنہ خوشی میں گول گھومی۔۔۔خیالوں میں فراز کا مغرور چہرہ لہرایا۔۔۔

پتہ ہے شہلا۔۔۔آج فراز آیا تھا۔۔۔دیکھنا میرا بی اے ہوتے ہی خالہ نے رشتے کی بات ڈالنی ہے جھٹ سے۔۔۔۔وہ اترائی۔۔۔۔

خیالوں کی دنیا سے باہر نکل حسنہ۔۔۔۔تیری خالہ کو پڑھی

لکھی اور خوبصورت بہو چاہیے۔۔۔شہلا نے سر سے پیر تک حسنہ کو دیکھا۔۔۔گھر میں رہ رہ کر اور کھا کھا کر تیرے تو پیٹ میں بھی بل پڑ رہے ہیں۔۔۔اُس نے حسنہ کا مذاق اڑایا۔۔۔۔

خود کو دیکھا ہے کبھی آئینے میں۔۔۔سوکھی ہڈی۔۔۔تیرا اور میرا قد بھی برابر ہے سمجھی۔۔۔۔حسنہ کو تپ چڑھی۔۔۔

چل میں چلتی ہوں۔۔وہ جانے کو پلٹی۔۔۔اُس کی غرض پوری ھوچکی تھی ۔۔۔وہ رزلٹ معلوم کرنے آی تھی۔۔۔۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨🤩🤩🤩✨✨✨✨

تھکی ہاری سارہ گھر میں داخل ہوئی۔۔۔حسنہ بہن کو پانی پلا۔۔۔امّاں نے آواز لگائی۔۔۔۔

آج سارہ کی تنخواہ کا دِن تھا۔۔۔اس دِن گھر میں گھستے ہی سب اُس کی خاطر مدارات شروع کر دیتے۔۔۔۔۔

سارہ نے پیر چارپائی پر رکھ کر خود ہی دبانے شروع کر دیے۔۔۔

لا میری بیٹی میں دباؤں۔۔۔آج کے دن شمع بیگم کے لہجے میں سارا کے لیے خصوصی مٹھاس ہوتی۔۔۔

کیوں آتی ہے اتنا پیدل چل کر اور کوچوں کے دھکّے کھا کر۔۔۔جب دفتر والوں نے گھر تک چھوڑنے کو گاڑی دی ہے۔۔۔۔

گاڑی میں اور بھی لوگ ہوتے ہیں امّاں ۔۔۔۔سب کو پتہ چل جائے گا کہ ہم یہاں ۔۔۔یہاں رہتے ہیں۔۔۔۔پٹریوں کے ساتھ۔۔۔۔وہ غصے سے بولی۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨😏😏✨✨✨✨✨✨

(یہ سارا قمر ہیں ۔۔۔ایک اچھی فرم میں مرحوم ابّا کے دوست کی توسط سے ملازمت کرتی۔۔۔۔آفس سے واپسی گاڑی سے ماڈل ٹاؤن میں اتراتی ہوئی اترتیں۔۔۔اور گاڑی کے جاتے ہی کوچ پکڑ کر سیدھا گھر۔۔۔سٹاپ سے گھر تک کا پیدل رستہ الگ۔۔۔۔قد سارہ کا بھی چھوٹا۔۔۔رنگ گورا۔۔۔فیشن بھر پور۔۔۔۔)

✨✨✨✨✨✨✨✨😏😏✨✨✨✨✨✨

بجّو۔۔۔۔بات سنے نا۔۔۔۔۔حسنہ چائے لے آئی۔۔۔۔

ہممم بولو۔۔۔موبائل پرس سے نکالتے حسنہ کو دیکھا۔۔۔

میرے کپڑے بہت خراب ہو گئے ہیں اس مہینے دو جوڑے لے دو نہ۔۔۔۔۔حسنہ نے بہن کی خوشامد کی۔۔

یہ جو تیری الماری میں ہر جوڑے کا نیا دوپٹہ رکھا ہے نہ ۔۔۔اسے کاٹ کر قمیضیں سی لے۔۔۔۔۔۔شمع بیگم سارہ سے پہلے ہی بول اٹھیں۔۔۔

اور شلوار۔۔۔۔حسنہ تلملآی۔۔۔شلوار کون سا دکھتی ہے قمیض لمبائی میں زیادہ رکھ لینا۔۔۔شمع بیگم نے حل پیش کیا۔۔۔

امّاں اپنے تیزابی ٹوٹکے اپنے پاس رکھو۔۔۔۔

آنکھوں میں آنسو بھرتی سارا کو مدد طلب نظروں سے دیکھا۔۔۔۔

ٹھیک ہے۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔ایک جوڑا بنا دوں گی ۔۔۔سارہ نے فراخ دلي کا مظاہرہ کیا۔۔۔۔

حسنہ خوشی سے سارا کے گلے لگ گئی۔۔۔

یہ گھر جاوید اور نوید صاحب کا ہے شمع بیگم کےبھائیوں کا۔۔۔۔۔نیچے کے پورشن میں جاوید صاحب اُن کی بیگم فرخندہ جاوید ، بیٹا فرحان اور بیٹی عطیہ رہتے ہیں۔۔۔

فرحان ایک میڈیکل سٹور چلاتا ہے جب کے عطیہ نے میٹرک کے بعد گھر میں ہی سلائی کا کام شروع کر دیا۔۔۔

فرخندہ جاوید کو عطیہ کے لیے فراز پسند ہے۔۔اور عطیہ کو چچی جان کا ذیشان۔۔۔۔

اوپری حصے میں نوید صاحب اُن کی بیگم طاہرہ نوید ۔۔آمنہ ،مومنہ ۔۔۔ذیشان اور ریحان رہتے ہیں۔۔۔

طاہرہ نوید کو آمنہ کے لیے فراز پسند ہے اور مومنہ کے لیے فرحان۔۔۔۔مومنہ کو فرحان سے ہی محبت ہے مگر آمنہ کو فراز ایک آنکھ نہیں بھاتا۔۔۔

ذیشان رکشا چلاتا ہے۔۔عطیہ اُس کی بچپن کی محبت ہے۔۔۔ جب کے ریحان گارمنٹس فیکٹری میں کام کرتا ہے۔۔۔اور حسنہ کے عشق میں مبتلا ہے۔۔

قسمت ان کے ساتھ کیا کرتی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا)

😍😍😍😍😍😍😍😍😍😍😍💕💕😍😍😍

دروازہ بجنے کی آواز پر فرخندہ جاوید چیخیں۔۔۔ہم ہی کھولیں گے کیا دروازہ۔۔۔اوپر چڑھ کر بیٹھ گئی ہیں ماہ رانیاں۔۔۔۔ہم نوکر لگے ہیں ان کے۔۔

۔۔ٹانگیں ٹوٹ جاتی ہیں کم بخت ماریو ں کی سیڑھیاں اترنے میں۔۔۔

امّاں اتنی دیر میں تو دروازہ بھی کھول آتیں تم۔۔۔عطیہ نے منہ سے دھاگہ توڑتے ہوئے کہا۔۔۔۔

تو اپنی سلائی کر۔۔۔میرے منہ نہ لگ۔۔۔فرخندہ دندناتیں ہوئیں دروازے کی طرف گئیں۔۔۔۔

ارے فراز بیٹا آپ۔۔۔سارا غصّہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔۔۔۔

جی مامی۔۔۔امّاں نے کہا کہ یہ کپڑے عطیہ کو دینے ہیں سلائی کے۔۔۔مغرور نظروں سے مامی کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔

ہاں ہاں آ جاؤ نہ اندر۔۔۔فرخندہ کے لہجے میں چا شنی گھل گئی۔۔۔

وہ اُسے عطیہ کے سلائی والے کمرے میں ہی لے آئیں۔۔۔

عطیہ امّاں کے ارادوں سے واقف تھی سو فراز کو دیکھ کر منہ پھیر لیا۔۔۔

ارے عطیہ ۔۔۔چھوڑ سلائی ۔۔جا۔۔ جا کے روح افزا گھول فراز کے لیے۔۔۔بڑے پیار سے عطیہ کو کہتی مسکرائیں۔۔۔

امّاں تم ہی گھول لو۔۔۔لائٹ جانے سے پہلے سلائی کرنی ہے پوری۔۔۔۔وہ چڑ کر بولی۔۔۔

فرخندہ بیگم نے گھور کر دیکھا مگر عطیہ ڈھیٹ بن کر سلائی کرنے لگی۔۔۔۔

مامی آپ تکلف نہ کریں میں چھوٹی مامی سے مل کر جاؤں گا بس۔۔۔عطیہ کا روّیہ دیکھتے وہ اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔

طاہرہ نوید نے جیسے ہی فراز کو دیکھا ۔۔بلائیں لے ڈالیں۔۔۔میرا بچہ ۔۔اللّٰہ نظر بد سے بچائے۔۔۔منہ ہی منہ میں کچھ پڑ کر پھونکا۔۔۔

بیٹھو نہ بیٹا۔۔۔آمنہ نے پلاؤ بنایا ہے کھا کر جانا۔۔۔محبت سے بولتے ہوئے آمنہ کو اشارہ کیا۔۔۔۔آمنہ نے ماں کو ان دیکھا کرتے ہوئے ٹی وی کی آواز بڑھا دی۔۔۔

مومنہ نے ماں کی لاج رکھتے ہوئے دستر خوان لگایا۔۔۔

فراز کے مزاج نہیں مل رہے تھے۔۔۔مامی آلو کا پلاؤ۔۔۔۔فراز نے منہ بنا لیا۔۔۔۔

ہاں بیٹا بس گوشت سے جی اُکتا گیا تھا۔۔۔طاہرہ نے جھٹ سے بات بنائی۔۔

مومنہ کو ہنسی آنے لگی۔۔۔پچھلے ایک ہفتے سے گوشت بنا ہی نہیں تھا۔۔۔

بھائ کے لیے ایک کالی بوتل منگوا دو باہر کسی بچے سے۔کھاتےمیں لکھوادینا۔۔۔۔۔

اور سنو۔۔تیس والی چھوٹی منگوانا۔۔۔۔مومنہ کو گھور کر کہتے ہوئے جیسے ہی فراز پر نظر پڑی مسکرا اٹھیں۔۔۔

بیٹا ہم لوگ کم پیتے ہیں نے گردے خراب نہ ہو جائیں۔۔۔جھینپ مٹاتی ہوئی بولنے لگیں۔۔۔۔

آمنہ ٹی وی کے سامنے ہی جمی بیٹھی تھی امّاں کی بات پر اُس کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨😍😍😍✨✨✨✨✨✨✨

سارہ تیری پسند کی کڑاہی بنائی ہے میں نے۔۔۔۔شمع بیگم پاؤں دباتے ہوئے بولیں۔۔۔

امّاں یہ لو تنخواھ ۔۔۔اب بس کرو یہ مکھّن لگانا۔۔۔منہ بناتے وہ ابّا کے کمرے میں چلی گئی۔۔۔

شمع بیگم کا کام ہو چکا تھا۔۔۔

ستاروں سے بھری شال اپنے گرد لپیٹی بازار کے لیے نکل گئیں۔۔۔۔۔فیشیلکی کریمیں خریدنا تھیں آخر۔۔۔

✨✨✨✨✨✨🤪🤪✨✨✨✨✨✨✨

زرینہ کچھ تھوڑا کھانے کو دے دو۔۔۔رّات کے کھانے میں بہت وقت ہے ابھی۔۔۔۔مصدق میاں کی بھوک سے حالت بری ہونے لگی۔۔۔۔ڈرتے ڈرتے زرینہ سے کہا۔۔۔

حد ہے مصدق۔۔۔خاندانی بھوکے ہو تم تو۔۔۔افطار کے وقت پیدا ہوئے تھے کیا۔۔۔اپنی بات پر خود ہی ہنس دی۔۔

مصدق میاں کا  منہ مزید چھوٹا ہوگیا۔۔۔۔۔۔

اچھا سنو۔۔۔۔فریج میں پرسوں کی دال اور کل کی تندور کی روٹی پڑی ہے کھا لو۔۔۔اور اب گرم کرنے کے چونچلے نہ کرنا ۔۔۔پھر تمہیں برتن بھی دھونا پڑیں گے۔۔فکر کرتے لہجے میں کہا۔۔۔۔جیتو پاکستان دیکھتے ہوئے وہ ساتھ ساتھ ڈبّے کھلوانے میں بھی مصروف تھی۔۔۔۔

مصدق خاموشی سے نیچے چلا آیا۔۔۔

بھائ بریانی لائے تھے نہ۔۔۔مصدق کو دیکھتے ہی حسنہ نے سوال کیا۔۔۔

ہاں لایا تھا۔۔۔۔حسنہ ۔۔کچھ کھانے کو ہے تو دو۔۔۔۔وہ بیچارگی سے بولا۔۔۔

بریانی کھا کے بھی۔۔۔۔حسنہ نے آنکھیں پھیلائیں۔۔۔

حسنہ منہ بند کر اپنا۔۔کیا بریانی بریانی لگائی ہے۔۔۔تصور

 میں زرینہ چمچ بھر بھر کھا تی یاد آئی۔۔۔کمینی عورت۔۔۔دل ہی دل میں زرینہ کو گالی دے ڈالی۔۔۔

حسنہ نے جلدی سے مصدق کے ڈر سے کھانا نکال دیا۔۔

✨✨✨✨✨✨✨😁😁😁✨✨✨✨✨

اتوار کی صبح حسنہ جلدی اٹھ گئی۔۔۔آج سارا کے ساتھ ایک سوٹ خریدنے جانا تھا۔۔۔ابھی وہ صفائی سے فارغ ہو کر جانے کی تیاری پکڑ ہی رہی تھی۔۔۔امّاں کے چلّانیے کی آواز آئی۔۔۔

زرینہ او زرینہ۔۔۔تیرا دماغ جگہ پے ہے کے نہیں۔۔۔شمع بیگم سیڑھیوں کے پاس کھڑی چلا رہی تھیں۔۔۔

امّاں اب کیا ہوگیا۔۔۔سارا اور حسنہ کمرے سے نکل آئیں۔۔۔

صحن میں قدم رکھتے ہی حسنہ کے پیروں میں مٹّی لگی۔۔۔ابھی تو صفائی کی ہے۔۔۔اُسے سمجھ نہ آیا۔۔۔۔

اوپر سے زرینہ بھابی نے جھانکا۔۔۔

صفائی کی ہے میں نے۔۔۔مٹّی نیچے آ گئی بس۔۔۔۔ایک جلا دینے والی مسکراہٹ اُس کے لبوں پر پھیل گئی۔۔۔

حسنہ اور سارا تو بھای کے ڈر سے کچھ نہ کہتی ۔۔مگر شمع بیگم جہاں تک بول سکتیں حسب توفیق ضرور کہہ ڈالتیں۔۔۔۔۔

وہ دونوں بازار کے لیے نکلیں ۔۔۔

دکان پر بیٹھی حسنہ کو ہر سوٹ پسند آ جاتا۔۔۔سارہ نے کہنی ماری۔۔۔ایک ہی لینا بس ہزار والا۔۔۔سمجھ گئی۔۔۔

ہممم۔۔حسنہ کا دل ٹوٹا۔۔۔۔۔۔

بہت مشکل سے ایک سوٹ خریدا۔۔۔واپسی پر ریحان راستے میں ٹکرا گیا۔۔۔

حسنہ کو دیکھ ریحان کی بانچھیں کھل گئیں۔۔۔

چلو آئس کریم کھلاتا ہوں۔۔وہ حسنہ پر آنکھیں جمائے بولا۔۔۔

ہاں ہاں کیوں نہیں۔۔۔۔حسنہ اور سارہ فٹ راضی ہو گئیں۔۔۔

ریحان گوشت لینے نکلا تھا۔۔۔گوشت کے پیسوں سے آئس کریم خرید ڈالی۔۔۔۔

امّاں کی جوتیاں کھانے سے کوئی نہیں بچا سکتا وہ جانتا تھا مگر حسنہ پر تو جان بھی قربان۔۔۔۔

چھوٹے قد پر گول مٹول حسنہ کی بڑی بڑی کاجل والی آنکھیں۔۔۔ریحان کا دل اُسے دیکھ کر بے قابو ہو جاتا۔۔۔

ریحان۔۔۔حسنہ نے بہت لاڈ سے پکارا۔۔۔

ہاں حسنہ بولو نہ۔۔۔۔ریحان نے ہے قراری سے کہا۔۔۔۔۔

چنا چاٹ بھی کھلاؤ نہ۔۔۔وہ اٹھلا ئی۔۔۔

ہاں ہاں ضرور۔۔۔۔جیب میں پڑے بل کے پیسے نکال کر گنے۔۔۔

چلو ۔۔۔کھلاتا ہوں۔۔۔فراخ دلي سے بولا۔۔۔

گوشت اور بل کے پیسے ٹھکانے لگ گئے تھے۔۔۔اُس نے خود کو امّاں سے جوتیاں کھانے کو تیار کر لیا۔۔۔

گھر پہنچتے ہی حسنہ اور سارہ ریحان پر ہنس دیں۔۔۔

بڑی مامی کے ہاتھوں قورمہ بن رہا ہوگا اب بیچارے کا۔۔۔حسنہ نے تصور میں ریحان کا قورمہ چڑھتے دیکھا۔۔۔

سارہ کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔۔

تو نے بھی تو آئس کریم کے بعد چارٹ کی فرمائش جھاڑ دی۔۔۔اپنے فراز سے کہا کر نہ۔۔۔سارہ نے لفظ اپنے پر زور دیا۔۔۔حسنہ شرما گئی۔۔۔اپیا کیا بتاؤں۔۔۔فراز بہت ہی اکھڑے اکھڑے رہتے ہیں۔۔۔پڑھےلکھے بھی تو بہت ہے نہ۔۔۔حسنہ کو فراز کا مغرور چہرہ یاد آیا۔۔۔۔

پڑھے لکھے لوگ نہیں کرتے ایسا حسنہ ۔۔۔جاھل کرتے ہیں۔۔۔سارہ نے مذاق اڑایا۔۔۔حسنہ کا دل جل کر راکھ ہو گیا۔۔۔۔

زرینہ سیڑھیاں اترتے دکھائی دی۔۔وہ دونوں الرٹ ہو گئیں۔۔۔

کیا باتیں ہو رہی ہیں فراز کی۔۔۔زرینہ سب سن چکی تھی۔۔

کچھ نہیں بھابی۔۔۔حسنہ کو زرینہ سے بہت ڈر لگتا تھا اُس نے بات ختم کر دی۔۔۔

سن۔۔۔حسنہ۔۔۔لڑکوں کو میری جیسی لڑکیاں پسند ہوتی ہیں کترینہ کیف جیسی۔۔۔وہ اترائی۔۔۔

تم کھا کھا کے سانڈ ہوتی جا رہی ہو۔۔۔آئینہ غور سے دیکھو ذرا۔۔۔بالوں میں ہاتھ پھیرتے وہیں بیٹھ گئی۔۔۔۔

حسنہ نے خود کو دیکھا اور پھر زرینہ کو۔۔۔وہ سچ ہی کہہ رہی تھی حسنہ کا وزن کوئی پینسٹھ کلو کے آس پاس ہو گیا تھا۔۔۔

کوئی ٹوٹکا کرو نہ ۔۔۔آج زرینہ الگ ہی موڈ میں تھی ورنہ سیڑھیاں اُترنا اُس کی شان کے خلاف تھا۔۔۔

جی بھابی کرتی ہوں۔۔۔حسنہ باؤلی تھی مگر سارہ کو بھابی کے روّیے سے اندازہ ہو گیا کے پوری کی پوری دال کالی ہے۔۔۔

اچھا حسنہ سنو ذرا۔۔۔زرینہ نے پہلو بدلا۔۔۔

جی جی۔۔۔حسنہ اُس کی باتوں میں آ گئی تھی۔۔۔

میرے کپڑے تو استری کر دو ذرا ۔۔۔مٹھاس بھرے لہجے میں کہا۔۔۔

جی کر دیتی ہوں۔۔۔حسنہ فوراً راضی ہوئی۔۔۔

سارہ نے اُسے گھورا۔۔۔بھابی آپ خود کیوں نہیں کر لیتی۔۔۔سارہ کو غصّہ آ رہا تھا۔۔۔۔

میرے ہاتھوں میں درد ہے۔۔۔زرینہ نے ہاتھ ہلایا۔۔۔

ریموٹ کا بٹن کم دبایا کریں نہ۔۔۔طنزیہ انداز میں کہتی وہ باورچی خانے میں گھس گئی۔۔۔

چلیں بھابی میں کرتی ہوں۔۔۔حسنہ اُس کے ساتھ سیڑھیاں چڑھ گئی۔۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨🧐🧐🧐✨✨✨✨✨

ابھی دفتر میں داخل ہوئی تھی کہ اُس کے پر قیامت ٹوٹی۔۔۔۔

سارہ آج ہم سب واپسی میں تمھاری طرف چلیں گیں۔۔۔اُس کی کولیگ فروہ نے کہا۔۔۔

ہائے وہ کیوں۔۔۔سارہ کے گلے میں کوئی گولہ سا پھنسا۔۔۔۔

تم نے بتایا تھا نہ کے تمھاری موم بیوٹیشن ہیں۔۔۔ہم نے سوچا آج اُن سے سروسز لی جائیں۔۔۔فروہ کی بات پر وہاں موجود سب خواتین نے سر ہلایا۔۔۔

ماڈل ٹاؤن سے ہم سب کے گھر زیادہ دور بھی نہیں اس لیے واپسی کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔۔۔شانزے نے بھی فروہ کی طرف داری کی۔۔۔۔۔

نہیں ۔۔۔نہیں جا سکتے آپ لوگ۔۔۔سارہ کی آنکھوں میں اپنا اسی گز کا گھر گھوم گیا۔۔۔

دیواروں سے چونا بھی جھڑ چکا تھا۔۔۔اور گلی میں تین جگہ گندے پانی کی نالیاں کھلی ہوئی تھیں۔۔۔اور شمع بیگم کا انداز۔۔۔افّفف ۔۔۔نہیں۔۔۔۔اُس کا دل چیخا۔۔۔

کیوں نہیں جا سکتے۔۔۔فروہ نے حیرت سے پوچھا۔۔۔

موم بہت بزی ہیں آج کل ۔۔۔ سوسائٹی میں ہی اتنے کسٹمرز ہیں کہ موم کو ٹائم ہی نہیں ملتا۔۔۔بہت شان سے ایک جھوٹی مسکراہٹ اچھالی۔۔۔

اوہ۔۔۔چلو کوئی نہیں ۔۔۔حسنہ سے ہی مل لیں گے۔۔۔شانزے نے نیا شوشہ چھوڑا۔۔۔

حسنہ ۔۔۔اُس کے تو ایگزیمس ہونے والے ہیں نہ ۔۔۔وہ لائبریری میں ہوتی ہے گھر سے زیادہ۔۔۔سارہ کو نیا جھوٹ بولنا پڑا۔۔۔

چلو کوئی نہیں۔۔۔نیکسٹ ویک چلیں گے۔۔۔۔۔سب نے متفق ہو کر کہا۔۔۔۔

سارہ کی جان میں جان آئی۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨🧐🧐🧐✨✨✨✨✨

عطیہ ریل بٹن خریدنے نکلی تو گلی کے کونے پر ہی ذیشان کا رکشا کھڑا تھا۔۔۔ذیشان نے عطیہ کو دیکھتے ہی منہ میں بھرے پان کو سائڈ میں تھوکا۔۔۔دیوار پر نظر پڑی۔۔۔جہاں جلی حروف میں لکھا تھا یہاں تھوکنا منع ہے۔۔۔جلدی سے ادھر اُدھر نظر دوڑائی آس پاس کوئی نہیں تھا۔۔۔ رکشا اسٹارٹ کیا۔۔۔عطیہ قریب پہنچ گئی تھی۔۔۔بیٹھ جاؤ جلدی۔   ذیشان نے عطیہ کو جلدی سے رکشے میں بٹھایا۔۔۔بازار چلو۔۔۔منہ پھلائے بولی۔۔۔اب کیوں موڈ قریب ہے۔۔۔انگلیوں سے ہونٹوں کے کناروں کی لالی صاف کی۔۔۔تم چھوڑ نہیں سکتے یہ پان۔۔۔عطیہ کو اُس کا پان کھانا سخت نہ پسند تھا۔۔۔

ارے مجبوری ہے جھلی۔۔۔ذیشان کے ہنستے ہی لال دانت جھلملائے۔۔۔عطیہ کا مزید خون جل گیا۔۔۔۔

کیسی مجبوری۔۔۔دانت پیستے ہوئے شیشے میں سے اُسے گھو را۔۔۔۔

منہ میں کچھ نہ ڈالوں تو نیند لگ جاتی ہے یار۔۔۔سواری سمیت جنت پہنچ جاؤں گا۔۔۔وہ کمال ڈھیٹآئی سے بولا۔۔۔

جنت۔۔۔۔ہا ہا ہا ہا۔۔۔جمعہ تک تو پڑھا نہیں جاتا جنت میں جاؤ گے۔۔۔

ذیشان نے رکشا سائڈ پے لگایا۔۔۔اتنا برا لگتاہوں تو نہ آیا کرو میرے ساتھ۔۔۔۔غصے میں عطیہ کو اترنے کا اشارہ کیا۔۔۔

عطیہ نے غصے سے اُسے دیکھا۔۔۔بازار جانا ہے۔۔۔۔وہ غرآئی۔۔

تو جاؤ نہ پیدل۔۔۔تائ امّاں کو ویسے ہی میں زہر لگتا ہوں۔۔۔پان کی پڑ یا میں سے بچا ہوا آدھا پان نکال کر منہ میں ڈالا۔۔۔عطیہ اُسے پان منہ میں ڈالتا دیکھ رکشا سے چھلانگ لگا کر اُتری۔۔۔تم سے اچھا تو فراز ہے۔۔۔پڑھا لکھا سرکاری نوکری والا۔۔۔۔اُس کے دانت بھی صاف ہیں۔۔۔۔عطیہ کے الفاظ ذیشان کی غیرت پر ٹھا کر کے لگے۔۔۔

ہاں تو کر لینا اُس بیغیرت فراز سے ہی شادی۔۔۔۔ذیشان نے غصے میں رکشا اسٹارٹ کیا اور آگے بڑھ گیا۔۔۔۔

ہائے یہ میں نے کیا کر دیا۔۔۔عطیہ کو اندازہ ہوا اُس نے غلط وقت پر پنگا کیا تھا۔۔۔بازار ابھی کافی دور تھا اُسے پیدل چلنے میں موت آتی۔۔۔۔۔۔اب تو ذیشان جا چکا تھا فراز کے ذکر پر تو ذیشان کو ہمیشہ ہی مرچی لگتی۔۔۔۔فراز کا لائق ہونا باقی سارے خاندان کے لڑکوں کے لیے عذاب بن گیا تھا اسی لیے باقی سب نے مل کر فراز کا نام بیغیرت فراز رکھ دیا۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨🤪🤪🤪✨✨✨✨✨✨

حسنہ کو دبلا ہونے کا جنون سوار ہو گیا۔۔۔بھابی کی باتوں نے اُس کے دل میں دبلا ہونے کی خواہش پیدا کر دی تھی۔۔۔

ہر وقت مارننگ شو لگائے دبلا ہونے کے ٹوٹکے سیکھ رہی تھی حسب ضرورت ایک دو کاپی پر بھی لکھ ڈالتی۔۔۔۔پچھلے ایک ہفتے سے شمع بیگم اُسے دیکھ رہی تھیں مگر اب تک چپ تھیں۔۔۔ آج اُن کا صبر جواب دے گیا جب گیارہ بجے بھی گھر گندہ پڑا دیکھا اور حسنہ کوپی میں ٹوٹکے اُتارنے میں مصروف نظر آئی تو شمع بیگم نے آگے بڑھ کر ٹی وی بند کر دیا۔۔۔۔

امّاں ۔۔۔حسنہ چلائی ۔۔۔کیا مسئلہ ہے تمہارا۔۔۔۔

دبلا ہونا ہے نہ تو جھاڑو پونچھا کر۔۔۔سمجھی۔۔۔امّاں نے نیا ٹوٹکا بتایا۔۔۔

پیٹ میں پیر دبا کر بیٹھ اور ہر کونے کونے سے کچرا نکال۔۔۔۔ہر فرنیچر کے نیچے گھس گھس کر پونچھا مار۔۔۔

پیٹ خود ہی اندر جاۓ گا۔۔۔

اور قد بڑھا نا ہے نہ تو اُچک اُچک کر باورچی خانے کی چھت اور دیواریں بھی رگڑ ڈال سرف سے۔۔۔شمع بیگم نے اپنے تئیں بہت کام کی بات بتائی۔۔۔

امّاں ہزار بار کہا ہے اپنے تیزابی ٹوٹکے مجھے نہ دیا کرو تم۔۔۔۔وہ جھنجلا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔کوپی میں کوئی سات آٹھ ٹوٹکے تو اُس نے باجی رشیدہ کے لکھ لیے تھے اب عمل کرنے کی باری تھی۔۔۔۔

۔۔اماں اماں حسنہ نے آواز  لگائی۔۔۔

 بولو کیا مسئلہ ہے ۔۔ اماں منہ دھو کر ناشتہ کرنے کا بیٹھیں۔۔۔

 اماں مجھے انڈے لا دے۔۔۔۔اور بریڈ بھی۔۔حسنہ نے دو پراٹھے اور رات کا بچا سالن پلیٹ میں بھر لیا۔۔

امّاں نے حیرت سے دیکھا۔۔ناشتا کر تو رہی ہے پھر۔۔۔۔

امّاں باجی رشیدہ کی ڈائیٹ پر آج سے عمل کرنا ہے۔۔ہر تھوڑی دیر میں اُبلا ہوا انڈہ کھانا ہے۔۔۔

حسنہ نے خیالوں میں خود کو دبلا ہوتے دیکھا۔۔۔

اتنا ناشتا کر کے انڈے بھی ٹھونسے گی تو دبلی کیسے ہو گی حسنہ۔۔۔امّاں کو اُس کی دماغی حالت پر شبہ ہوا۔۔۔

امّاں باجی رشیدہ نے یہی بتایا تھا۔۔۔وہ بضد ہوئی۔۔۔

باجی رشیدہ تیرے گھی سے بھرے پراٹھے دیکھ لیں نہ تو مر جائیں۔۔۔شمع بیگم کو حسنہ کے پراٹھوں پر لگے گھی سے ہمیشہ چڑ تھی۔۔۔

حسنہ ٹوٹکوں پر عمل کرنے کے لیے کمر کس چکی تھی اب وہ امّاں کو خاطر میں لانے والی نہیں تھی۔۔۔

یہ اور بات تھی کے اُس نے ڈائیٹ کو اپنے کھانے کے ساتھ شروع کیا تھا۔۔۔کھانا چھوڑ کر نہیں۔۔اب اُسے اپنے کھانے کے ساتھ انڈے جوئس اور فروٹس بھی لازمی کھانے تھے۔۔۔اور سب سے ضروری شو میں بتائی گئی وٹامنز کی گولیاں بھی۔۔۔

✨✨✨✨😜😜😜✨✨✨✨😏😏✨✨✨

مومنہ چھت پر دھوپ میں بیٹھی کنگھی کر رہی تھی فرحان ٹب اُٹھائے چھت پر آیا۔۔مومنہ نے جلدی سے کنگھی پاؤں کے نیچے چھپائی۔۔۔بالوں میں انگلیاں مار کر  سے سیٹ کیا۔۔ایک ادا سے مسکرائی۔۔

فرحان ٹب رکھ کر کپڑے رسی پر پھیلاتے ہوئے اُسے بھی دیکھ رہا تھا۔۔۔

میں مدد کر دوں ۔۔۔مومنہ اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔

نہیں تم اپنی جوئیں سنبھالو یہ میں کر لوں گا۔۔۔فرحان کی کنگھی پر نظر پڑ گئی تھی۔۔۔

کوئی جوئیں نہیں ہیں میرے سر میں۔۔۔۔مومنہ شرمندگی چھپانے کے لیے ٹب کی طرف بڑھی۔۔

چچی نے دیکھ لیا نہ میرے ساتھ کپڑے سکھا تے تو جینا حرام کر دیں گی میرا۔۔۔۔

عطیہ سے تو نہیں کرواتے کام ۔۔۔میری پھول جیسی بیٹی کو گھستے شرم نہیں آتی۔۔۔منہ چڑھا کر چچی کی نقل اتارتے فرحان کو دیکھ کر مومنہ ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہو گئی۔۔۔۔

نہیں آتی چچی تمھاری۔۔۔۔شمع پھوپو کے گھر گئیں ہیں۔۔۔

کیوں خیریت۔۔۔حیران ہوتے اُس نے مومنہ کو دیکھا۔۔۔۔

مزے لینے گئی ہیں بس اور کیا۔۔۔۔مومنہ نے لا پرواہی سے کہا۔۔۔

مومنہ ایک بات کہوں۔۔۔ریحان حسنہ کو پسند کرتا ہے۔۔۔فرحان نے مومنہ کے سر پر بمب پھوڑ دیا۔۔۔

ہاہاہاہا۔۔۔مومنہ کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔۔

میرا بھائی اور وہ موٹی حسنہ۔۔۔بی اے فیل۔۔۔ہا ہا ہا ہا۔۔۔

مومنہ نے فرحان کا خوب مذاق اڑایا۔۔۔

تمہارا بھائی بھی کوئی آسمان سے نہیں ٹپکا۔۔۔میٹرک بھی نقل سے کیا۔۔۔گارمنٹس میں چند ہزار پر ملازم ہے۔۔۔تم لوگوں کو کیا کوئی حو ر پری چاہیے۔۔۔فرحان کپڑے پھیلا چکا تھا مومنہ کو آئینہ دکھا تے زینہ اُتر گیا۔۔۔

مومنہ کے پیٹ میں اب یہ بات بھلا کہاں ٹکنے والی تھی جھٹ اپنے پورشن میں آ کر آمنہ کے گوش گزار کر ڈالی۔۔۔

ہائے ہائے۔۔۔کیا کہہ رہی ہے مومنہ۔۔۔تیرے منہ میں خاک۔۔۔سوچا تھا شمع پھوپو فراز کے سر حسنہ کو تھوپ کر رہیں گی اور میری جان چھوٹے گی۔۔۔تُو نے تو نیا ہی سیاپا سنا ڈالا۔۔۔۔آمنہ کو اپنی فکر لاحق ہوئی۔۔۔۔

مومنہ کو امّاں کے واپس لوٹنے کا انتظار تھا۔  ابھی انکو بھی بتانا باقی تھا۔۔۔آج تو آمنہ جیو نیوز سے زیادہ ایکسکلوزیو خبر لیے بیٹھی تھی۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨😜😜✨✨✨✨✨

عطیہ نے بہت مشکل سے بازار تک کہ راستہ طے کیا تھا۔۔۔ذیشان سے زیادہ خود پر غصّہ آ رہا تھا۔۔۔ریل بٹن والے سے بھی جھگڑ بیٹھی۔۔۔۔

ذیشان کا غصّہ بہت تیز تھا۔۔۔عطیہ جانتی تھی وہ اتنی آسانی سے نہیں مانے گا فراز کے نام پے اُسے تپ چڑھ گئی تھی۔۔۔

عطیہ نے پرس میں جھانکا۔۔۔کچھ نوٹ نکل ہی آئے۔۔۔گفٹ شاپ کی طرف بڑھی۔۔۔ذیشان کے لیے کوئی تحفہ تو لیا جا سکتا تھا۔۔۔سو روپے نکال کر سامنے رکھے اور شاپ پر نظر دوڑائی۔۔۔

محبت کرنے کے لیے بھی پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔افف عطیہ کا دماغ کام نہیں کر رہا تھا کیا لیتی سو روپے میں۔۔۔

جی باجی کیا چاہیے۔۔۔دکان دار اُسے خاموش کھڑا دیکھ کر خود ہی مخاطب ہوا۔۔۔۔

وہ مجھے۔۔۔۔وہ۔۔گفٹ لینا تھا۔۔۔وہ بوکھلا گئی۔۔۔

رینج بتائیے باجی۔۔۔اور کس کے لیے۔۔۔دکاندار نے پھر پوچھا۔۔۔

جی سو روپے میں۔۔۔۔بھائی کے لیے۔۔۔۔آدھا سچ آدھا جھوٹ بولا۔۔۔

جی اچھا۔۔۔وہ ایک شو کیس کی طرف بڑھا۔۔۔ایک والٹ ایک کی چین نمونے کے طور پر اٹھا لایا۔۔۔۔

عطیہ نے جھٹ کی چین خرید لی۔۔۔پیسے تو ذیشان دودھ کی تھیلی میں رکھتا مگر رکشا کی چابیاں وہ کی چین میں لگاتا تھا۔۔۔

عطیہ خوشی سے واپسی کے لیے پلٹی۔۔۔سو روپے میں اُس نے ایک اچھا تحفہ خرید ہی لیا۔۔۔واقعی امّاں ٹھیک کہتی ہیں بنا پیسے کے محبت بھی ایسی ہے ۔۔۔جیسے بنا سلائی کے کپڑا۔۔۔ایک دم بیکار۔۔۔۔

درزن کی بیٹی تھی نہ اس لیے مثال بھی سلائی سے شروع سلائی پر ختم۔۔۔

✨✨✨✨✨🤩✨🤩✨✨✨✨✨✨✨✨

آج پانی آنے کا دِن تھا حسنہ موٹر اُٹھائے گلی کے کونے پر پہنچی وہاں پہلے ہی عورتوں کی بھیڑ جمع تھی۔۔۔

اُن کی گلی کے کونے سے پانی کی لائن گزر رہی تھی وہیں سب اپنی اپنی موٹر لگا کر گھروں تک پائپ کے زریعے پانی پہنچاتے ۔۔۔پانی آنے کے دِن حسنہ کا موڈ صبح سے ہی خراب رہتا۔۔۔یہ ذمےداری شمع بیگم نے اُس کے جھولی میں ڈالی ہوئی تھی۔۔۔

حسنہ نے دوپٹہ کمر پر کس کر باندھ لیا۔۔۔اپنے بھاری بھرکم وجود کے ساتھ عورتوں کو دھکّا دیتی آگے بڑھی۔۔

اے حسنہ اندھی ہو گئی ہے کیا۔۔۔سروری دھکّا کھا کر لڑکھڑا گئی پلٹ کر حسنہ کو گالی دے ڈالی۔۔۔

حسنہ نے سنی ان سنی کرتے مزید دو کو اور دھکّا مارا تیزی سے آگے بڑھتی جوائنٹ پر اپنی موٹر لگائی۔۔۔سروری نے غصے میں اُس کے پائپ پر پاؤں رکھ دیا۔۔پریشر بننے سے پائپ کا جوائنٹ کھل گیا۔۔۔پانی کسی فوارے کی طرح پھوٹا۔۔۔حسنہ پانی میں شرا بور ہو گئی۔۔۔بس پھر کیا تھا اُس نے سروری کی طرف پائپ کا رخ کیا۔۔۔۔پانی پت کی جنگ شروع ہو چکی تھی۔۔۔یہ اکثر کا قصہ تھا محلے والے حسنہ کی عادت سے واقف تھے مگر سروری کو حسنہ کی یہ عادت برداشت نہیں ہوتی۔۔۔ابھی سب لطف اندوز ہو رہے تھے جب حسنہ کی نظر سامنے سے آتی چھوٹی مامی پر پڑی۔۔۔۔

چھوٹی مامی کے ماتھے پر بل پڑ گئے وہ حسنہ کے سامنے سے يوں انجان بن کر گزریں جیسے حسنہ کوئی بھکارن ہو۔۔۔حسنہ کو مزید آگ لگ گئی۔۔۔۔

مجھے نہیں پہچانا ۔۔۔اب بتاؤں گی انکو ۔۔۔کیسے ان کے بیٹے نے مجھے آئس کریم اور چھو لے کھلا ئے ہیں۔۔۔۔حسنہ پائپ واپس جوڑتی سارا منصوبہ بنا چکی تھی۔۔۔

حسنہ پانی پت کی جنگ جیت کر  گھر پہنچی تو چھوٹی مامی سامنے ہی چارپائی پر بیٹھی نظر آئیں۔۔۔

سلام مامی۔۔۔حسنہ نے لا پرواہی سے سلام کیا۔۔۔

آ گئیں خاندان کا نام پانی میں بہا کر۔۔۔۔چھوٹی مامی کہاں موقع چھوڑنے والوں میں سے تھیں۔۔۔

جی آ گئی۔۔۔آپ سنائے کیسی ہیں۔۔۔۔حسنہ کو حساب برابر کرنا اتا تھا۔۔۔

ہممم۔۔۔چھوٹی مامی نے منہ پھیر لیا۔۔۔۔

زرینہ سیڑھیاں اترتے مسکرائی۔۔۔۔

دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔۔۔۔۔چھوٹی مامی کے آنے پر سب سے زیادہ خوشی زرینہ کو ہی ہوتی۔۔۔

کیسی ہیں مامی۔۔۔۔وہ سیدھے مامی کے گلے لگ کر باری باری دونوں گالوں کو دور سے چومتی ہوئی بولی۔۔۔

ٹھیک ہوں میری جان۔۔۔تم سناؤ۔۔۔۔

مامی کو بھی زرینہ بہت ہی پسند تھی۔۔۔۔

حسنہ نے دونوں کی جھوٹی محبتوں کو دیکھ کر خدا کو یاد کیا۔۔۔۔

ارے بھابی آپ کب آئیں۔۔۔

شمع بیگم دروازے سے داخل ہوئیں ۔۔۔

تمھیں فرصت ہو تو پتہ چلے نہ۔۔۔۔بیٹی بھی محلے میں جھنڈے گارتی پھر رہی ہے۔۔۔۔کوئی شرم لحاظ نہیں سکھایا۔۔۔۔مامی تو آئیں ہی ٹائم پاس کرنے تھیں۔۔۔

لگتا ہے مامی دال کھا کھا کر موڈ خراب ہو گیا ہے آپکا۔۔۔۔حسنہ نے ہمدردی سے کہا۔۔۔۔

شمع بیگم نے اسے گھور کر دیکھا۔۔۔

مامی اصل میں گوشت کے پیسوں سے تو ریحان نے ہمیں آئس کریم کھلا دی تھی نہ بازار میں۔۔۔اسلئے مجھے لگا کہ دال کھا کھا کر موڈ خراب ہو گیا آپکا۔۔۔مسکراہٹ دباتے حسنہ نے پتّہ پھینکا تھا۔۔۔۔

چھوٹی مامی کو سو واٹ کا جھٹکا لگا۔۔۔۔

ریحان نے انھیں پیسے چھن جانے کی روداد سنائی تھی۔۔۔اُنہوں نے بیٹے کے بچ جانے پر نفل باندھ لیے۔۔۔۔مگر حسنہ نے تو کلیجہ ہی جلا ڈالا۔۔۔اب تو ریحان کے جلنے کی باری تھی۔۔۔۔۔

بنا کچھ کہے چھوٹی مامی اٹھ کھڑی ہوآئیں۔۔۔۔چلتی ہوں میں ۔۔۔کچھ کام یاد آ گیا۔۔۔۔وہ جھٹ پٹ گھر کو روانہ ہوئیں ۔۔ریحان کا گوشت ہی پکانے کا ارادہ کر لیا۔۔۔۔۔۔۔

اس بات سے بیخبر  کہ آمنہ اور مومنہ جیو نیوز سے زیادہ ایکسکلوزیو خبر لیے بیٹھیں ہیں۔۔۔۔

زرینہ نے حسنہ کو دیکھا جو مامی کے جاتے ہی کھلکھلا اٹھی تھی۔۔۔۔

شاباش۔۔۔۔شمع بیگم نے حسنہ کی داد دی۔۔۔۔

اب لگا نا کے شمع کی بیٹی ہے حسنہ۔۔۔۔وہ فخریہ مسکرائیں۔۔۔۔

ریحان بیچارے کے ساتھ اچھا نہیں کیا حسنہ۔۔۔زرینہ کو ریحان سے ہمدردی ہوئی۔۔۔

بیبی ۔۔۔تم واپس سیڑھیاں چڑھ جاؤ تو بہتر ہے۔۔۔۔شمع بیگم نے بہو کو زینہ دکھایا۔۔۔

آئی بڑی ہمدرد۔۔۔۔میسنی کہیں کی۔۔۔۔شمع بیگم کو زرینہ کا یہ دوستانہ ایک آنکھ نہ بھاتا۔۔۔۔

جا رہی ہوں امّاں۔۔۔مجھے بھی شوق نہیں۔۔۔سسرال نبھانے آ جاتی ہوں بس۔۔۔زرینہ نے آنکھیں گھما گھما کر کہا۔۔۔

سسرال۔۔۔۔ساس میں ہوں کبھی پوچھا مجھے۔۔۔۔شمع بیگم کو آگ لگی۔۔۔۔

پوچھنے کی کیا بات ہے مجھے پتہ ہے آپ ہی ساس ہیں ابّا کی اتنی ہمت کہاں تھی کے من مرضیاں کرتے ۔۔۔اب جا کے سکون ملا ہوگا ابّا کو ۔۔۔زرینہ کھلکھلا کر بولی۔۔۔

دروازہ کھلا تھا۔۔۔۔

مصدق نے غلط ٹائم پر گھر میں انٹری ماری۔۔۔۔

آ جا بیٹا آ جا۔۔شمع بیگم نے مصدق کو پچکارا۔۔

دیکھ ذرا بہو کو۔۔۔۔کیسے جواب دے رہی ہے۔۔۔۔شمع بیگم کی آنکھوں میں پانی بھر گیا۔۔۔۔۔حسنہ نے بھی مظلوم شکل بنا ڈالی۔۔۔

زرینہ۔۔۔۔مصدق نے زرینہ کو شکایتی نظروں سے دیکھا۔۔۔

مصدق صاحب ۔۔۔۔صبح برتن نہیں دھو کے گئے تم۔۔۔۔جاؤ ذرا سنک کی حالت دیکھو۔۔۔زرینہ نے الٹا مصدق کو جھاڑ دیا۔۔۔۔

کتنی دفعہ کہا ہے وقت پر کیا کرو گھر کا کام۔۔۔زرینہ مصدق کا ہاتھ پکڑ کر زینہ چڑھ گئی۔۔۔شمع بیگم کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔۔۔

امّاں منہ تو بند کرو اب۔۔۔۔حسنہ نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔

سوچا تھا پولیس والے کی بیٹی لاؤں گی محلے میں نام ہوگا ہمارا۔۔۔لوگ دب کے رہیں گیں ہم سے۔۔۔۔شمع بیگم کا رونا شروع ہو چکا تھا۔۔۔۔

کیا خبر تھی ایسی فتنی نکلے گی یہ زرینہ۔۔۔میرے پھول سے بچے کا کیا حال کر ڈالا۔۔۔۔برتن تک مانجھ کر دیتا ہے نگوڑ ماری کو۔۔۔۔

حسنہ نے خاموشی سے کمرے کی راہ لی ۔۔۔امّاں کا واویلا تھمنے والا نہیں تھا اتنی جلدی۔۔۔۔

😏😏😏😏😏😏✨✨✨😏😏😏😏😏✨✨

ریحان تو نے ماں کے ساتھ دھوکہ کیا۔۔۔آج تجھے نہیں چھوڑنے والی میں۔۔۔۔وہ تن فن کرتی سیڑھیاں چڑھ رہی تھیں۔۔۔عطیہ نے حیرت سے چچی کو دیکھا۔۔۔۔ریحان کا نام اُس نے سن لیا تھا مگر ماجرہ سمجھ نہیں آیا۔۔۔

امّاں امّاں ۔۔۔عطیہ سیدھا امّاں کے کمرے میں پہنچی۔۔۔

چچی بہت غصے میں اوپر گئیں ہیں ۔۔۔کچھ گڑ بڑ ہے۔۔۔رازدارانہ انداز میں امّاں تک خبر پہنچا کر بیٹی ہونے کا فرض انجام دیا گیا ۔۔۔۔

اچھا۔۔۔۔چل پیچھے چلتے ہیں گیلری میں۔۔۔خود ہی آواز آ جائے گی۔۔۔۔دونوں تیزی سے گھر کے آخر میں بنی گیلری میں پہنچے جو نیچے سے اوپر تک کھلی ہوئی تھی۔۔۔۔ہوا سے زیادہ آواز آتی اور جاتی تھی۔۔۔۔

کیا کہہ رہی ہے مومنہ۔۔۔۔تیرے منہ میں خاک۔۔۔ریحان اور حسنہ۔۔۔۔ چچی کی چنگھاڑتی ہوئی آواز پر عطیہ کا منہ کھلا رہ گیا۔۔۔

ریحان اور حسنہ۔۔۔۔امّاں بیٹی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔۔۔دونوں کی آنکھیں پھیل گئیں ۔۔۔۔

عطیہ نے منہ پے انگلی رکھ کر امّاں کو چپ رہنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔ابھی تو کہانی شروع ہوئی تھی۔۔۔۔

ہاں امّاں فرحان نے بتایا مجھے۔۔۔۔۔مومنہ کی پرجوش آواز سنائی دی۔۔۔۔

درد ناک خبر کو کیسے جوش سے بیان کر رہی ہے۔۔۔ خبر نامے والوں کی طرح۔۔ بدبخت۔۔۔۔عطیہ کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔۔امّاں نے اُس کے پیر پر پیر دے مارا۔۔۔۔

آواز اوپر گئی تو قصہ نہ پتہ چلے گا۔۔۔جانتی نہیں تیری چچی کے کان۔۔۔۔اشاروں میں عطیہ کو سمجھاتے ہوئے آوازوں پر دھیان لگایا۔۔۔

دروازہ بجنے کی آواز پر عطیہ کو دروازہ کھولنے جانا پڑا۔۔۔دروازہ کھلتے ہی ریحان اندر آیا تھا۔۔۔عطیہ کا دل چاہا اُسے اوپر جانے سے روک دے مگر مزہ کیسے آتا پھر۔۔

وہ جلدی سے واپس امّاں کی طرف بھاگی۔۔۔

کون آیا۔۔۔امّاں نے اشاروں میں ہی دریافت کیا۔۔۔

ریحان۔۔۔حسنہ نے دھیمے سے کہا۔۔۔

دونوں ہنس دی۔۔۔۔

آؤ بیٹا آؤ۔۔۔۔اوپر سے چچی کی آواز آئی۔۔

پیسے چھن گئے تھے نہ بازار میں۔۔۔

۔عطیہ نے حیرت سے ماں کو دیکھا۔۔۔یہ کون سا معاملہ ہے جس سے وہ دونوں بے خبر تھیں۔۔۔اُنھیں تو لگا تھا آتے ہی ریحان کی شامت آنی ہے۔۔۔۔

جی امّاں۔۔۔۔ریحان کی۔آواز ابھری۔۔۔۔

چنا چاٹ والے نے چھین لیے تھے نہ۔۔۔۔چچی کی آواز میں تلخئ تھی۔۔

عطیہ کو کچھ کچھ سمجھ آنے لگا ۔۔۔

✨✨✨✨✨✨😜😜😜✨✨✨✨✨✨✨

امّ ۔ مم ۔۔۔ماں۔۔۔۔ریحان حکلایا۔۔۔۔۔۔

اس دِن کے لیے پال پوس کر بڑا کیا تھا۔۔۔گوشت سبزی کے پیسوں سے اُس آٹے کی بوری کو چنا چاٹ کھلا آیا 

بے غیرت۔۔۔۔۔۔

آمنہ اور مومنہ کا منہ کھلا رہ گیا۔۔۔۔

بھائ کبھی بہنوں کا بھی سوچا ہے۔۔۔ آمنہ کے منہ میں چنا چاٹ کے نام پر پانی آ گیا ۔۔۔۔

بتا مجھے ۔۔۔کیسے جھوٹ بولا ماں سے۔۔۔بتا۔۔۔طاہرہ بیگم کا بس نہیں چل رہا تھا بیٹے کو پنکھے سے لٹکا دیتیں۔۔۔

امّاں وہ حسنہ نے فرمائش کی۔۔۔ریحان بیچارہ برا پھنسا۔۔

حسنہ ۔۔وہ تو ہے ہی کمینی۔۔۔۔ماں پر گئی ہے پوری میسنی۔۔۔تیری پھوپو بھی کم حرا فہ نہیں ہے۔۔۔۔کیسے میرے بیٹے کو پھنسا لیا۔۔۔۔

نہیں امّاں یہ غلط ہے۔۔۔ریحان نے ٹوکا۔۔۔

ماں کو غلط کہہ رہا ہے۔۔۔۔ گھور کر بیٹے کو دیکھا۔۔۔

امّاں سن تو صحیح۔۔اگر آمنہ کی شادی فراز سے کرنی ہے تو حسنہ کو راستے سے ہٹانا ضروری ہے۔۔۔ریحان خود کو بچانے کے لیے دور کی کوڑی لایا۔۔۔۔

آمنہ نے غصّے سے بھائی کو دیکھا۔۔۔یہ فراز بیچ میں کہاں سے آیا۔۔۔۔

تم چپ کرو۔۔۔امّاں نے اُسے ہی چپ کروادیا۔۔۔۔

کہنا کیا چاہتا ہے۔۔۔۔ ریحان۔۔۔۔

بات کچھ کچھ دل کو لگی تھی۔۔۔

امّاں شمع پھوپو شمس پھوپو سے حسنہ کے لیے بات کرنے والی ہیں۔۔۔۔دونوں بہنوں کا پیار بہت ہے ۔۔۔شمس پھوپو نے فوراً ہاں کر دینی۔۔۔۔ریحان بڑی رازداری سے بولا۔۔۔

نیچے کھڑی امّاں بیٹی کے کانوں میں جیسی ہی یہ بات پڑ ی۔۔۔وہ اچھل گئیں۔۔۔عطیہ خوشی سے اور اُس کی امّاں صدمے سے۔۔۔۔

امّاں تم اس سے پہلے ہی حسنہ کا پتّہ صاف کر دو۔۔۔۔ریحان اب مدے پر آیا۔۔۔۔۔

ہاں اور اُس چنڈال کو اپنی بہو بنا لوں۔۔۔۔آج بیچ چوراہے پر پھڈا کر رہی تھی۔۔۔۔طاہرہ بیگم کو حسنہ کی پانی پت کی جنگ یاد آئی۔۔

مرضی ہے تمھاری۔۔۔ریحان نے جال بچھا دیا تھا۔۔۔۔

امّاں پاگل بنا رہا ہے تمھیں بھائی۔۔۔۔آمنہ کو اپنی فکر لاحق ہوئی۔۔۔۔

مومنہ صرف ادھر کی اُدھر کرتی تھی بیچ میں رائے دینا اُس کی عادت نہیں تھی۔۔۔۔

فراز کے پاس بہت پیسہ ہے آمنہ۔۔۔۔بہو تو کوئی بھی بنے میں لگام ڈال ہی لوں گی۔۔۔وہ نیم رضا مند ہو گئیں۔۔۔

آمنہ کا جہاں دل جل کر راکھ ہوا وہیں نیچے کھڑی اُس کی تائی کے تلوؤں تلے آگ لگ گئی۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨😜😜😜✨✨✨✨✨✨✨

عطیہ خوشی سے ناچتے پھر رہی تھی فراز سے پکّا پکّا جان چھوٹ گئی ۔۔۔اُس کے دل کو یقین آ گیا۔۔۔۔۔

سلائی کرنے کا بھی دل نہیں چاہ رہا تھا وہ آنکھوں میں کاجل ڈالتی گنگنا رہی تھی جب دروازہ بجا۔۔۔

پیر ہی ٹوٹ جانے ہیں آج تو۔۔۔۔۔وہ چڑگئی۔۔۔۔۔باتیں سننے کی چکر میں دو گھنٹے گیلری میں کھڑی ہوئی تھی۔۔

دروازہ کھلتے ہی ذیشان نے عطیہ کو دیکھ کر منہ موڑ لیا

۔۔۔ذیشان ۔۔۔بات تو سنو۔۔۔۔عطیہ مینمینای۔۔۔

بولو ۔۔۔نہیں ایک کام کرو ۔۔فراز کے پاس جا کر اُسے سناؤ اپنی باتیں۔۔۔۔ذیشان ابھی تک تپا ہوا تھا۔۔۔۔۔

عطیہ نے جلدی سے دوپٹے کے کونے پر بندھی کی چین کھول کر اُس کی طرف بڑھا آئی۔۔۔

یہ کیا ہے۔۔۔۔وہ چڑ کر بولا۔۔۔۔

تمھارے لیے لائی ہوں پاگل۔۔۔۔اپنے رکشے کی چابیاں ڈال لو نہ اس میں۔۔۔۔عطیہ نے محبت سے بھر پور لہجے میں کہا۔۔۔

ذیشان نے ہاتھ بڑھا کر کی چین پکڑا تھا۔۔۔۔

کیسا ہے۔۔۔۔عطیہ نے تجسس سے پوچھا۔۔۔۔۔

اچھا ہے ۔۔۔کتنے کا لیا۔۔۔۔۔ذیشان نے مڈل کلاس ہونے کا ثبوت دیا۔۔

توبہ ہے زیشان ۔۔۔تحفے کی قیمت کون پوچھتا ہے۔۔۔عطیہ کو قیمت بتاتے شرمندگی ہونی تھی اس لیے جھاڑ دیا۔۔۔

کہیں لٹ کر نہ آئی ہو اس لیے پوچھا۔۔۔۔ٹھیلےپر یہ تیس چالیس سے زیادہ کا نہیں۔۔۔۔ذیشان نے کی چین الٹا پلٹا کر دیکھا ۔۔۔

کیا۔۔۔۔۔عطیہ کو صدمہ لگا۔۔۔۔

مطلب مہنگا لائی ہو۔۔۔وہ بے دردی سے ہنسا۔۔۔۔

عطیہ کی بولتی بند ہو گئی۔۔۔۔۔اس گفٹ کے پیسوں کی چکر میں اُس نے ریلیں اور بکرم سستے یعنی خراب کوالٹی کے خریدے تھیے۔۔۔

ذیشان کی چین انگلیوں میں گھماتا سیڑھیاں چڑھ گیا۔۔عطیہ دکھ سے نڈھال ہو گئی۔۔۔سوروپے۔۔۔۔افف۔۔۔عطیہ کا دل چاہا دکاندار کا قیمہ ہو بنا ڈالے۔۔۔

یہاں کیوں کھڑی ہی عطیہ۔۔۔فرحان آتا ہی ہوگا کھانا بنا جا کر۔۔۔۔امّاں کی آواز پر وہ اندر کو بھاگی۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨🙈🙈🙈✨✨✨✨✨

شہلا تو کیوں آئی ہے اس وقت۔۔۔امّاں گھر میں ہی ہیں۔۔۔۔شہلا کو دیکھ کر حسنہ دبی دبی آواز میں بولی۔۔۔

ڈرتی کیوں ہے امّاں سے اتنا ۔۔۔۔کچھ نہیں ہوگا۔۔۔۔شہلا آرام سے بولی۔۔۔

بے غیرت ۔۔ہمیشہ اتنی بے عزت ہو کر جاتی ہے۔۔۔تیرے جانے کے بعد مجھے بھی امّاں کے کوسنے سننے کو ملتے ہیں۔۔۔حسنہ تلملا ئی۔۔۔

میرا قصور کیا ہے۔۔۔شہلا نے بالوں کو جھٹکا مارا۔۔۔

یہ۔۔۔۔حسنہ نے اُس کے کھلے بالوں ، رسی کی طرح گلے میں جھولتے دوپٹے اور لالی لگے ہونٹوں کی طرف اشارہ کیا۔۔۔

شہلا نے منہ بسورا۔۔۔رہنے دے حسنہ ۔۔۔۔تیری امّاں بھی کچھ کم نہیں۔۔۔۔

دروازہ بج رہا ہے ذرا کھول دے جا کر۔۔۔حسنہ کے ہاتھ آٹے میں بھرے تھے۔۔۔۔

دروازہ کھولتے ہی فراز اندر آیا۔۔۔۔شہلا کو دیکھ کر وہ چونک اٹھا۔۔۔

آپ۔۔۔۔فراز نے ایکسرے مشین کی طرح اُسے جانچا۔۔۔

میں شہلا۔۔۔۔حسنہ کی دوست۔۔۔شہلا نے ایک ادا سے منہ پر آتی لٹ کو پیچھے ڈالا۔۔۔۔

آپ شاید فراز ہیں نہ۔۔۔۔شہلا اُس کے حلیے سے سمجھ گئی ۔۔۔

جی ٹھیک پہچانا آپ نے۔۔۔۔فراز شہلا کے پیچھے پیچھے اندر آ کر چارپائی پر بیٹھ گیا۔۔۔۔

کچھ چاہیے آپ کو۔۔۔۔شہلا کا اشارہ پانی کی طرف تھا۔۔۔

ہاں چاہیے تو ۔۔۔اگر مل جائے۔۔۔فراز نے زو معنی لہجے میں کہا۔۔۔

جی۔۔۔شہلا نے آنکھیں پھیلائیں۔۔۔

بہت خوبصورت ہیں آپ ماشاء اللہ۔۔۔فراز ابھی تک دیدے پھاڑے اُسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

شہلا کھلکھلا کر ہنس پڑی۔۔۔

کیا ہو رہا ہے یہاں۔۔۔شمع بیگم شہلا کے ہنسنے کی آواز پر کمرے سے نکلیں۔۔۔۔

فراز کے ساتھ شہلا کو کھلکھلا تے دیکھ کر اُنھیں آگ لگ گئی۔۔۔

کتنی بار کہا ہے اپنے گھر میں بیٹھا کر سکون سے۔۔۔۔۔شمع بیگم نے غصے میں اُسے جھاڑ دیا۔۔۔

بس جا ہی رہی تھی خالہ۔۔۔۔۔وہ تیزی سے باہر نکلی۔۔۔

فراز کی نظروں نے دروازے تک اُس کا پیچھا کیا۔۔۔

یہ کون ہے خالہ۔۔۔فراز کا دل شہلا کی اداؤں میں اُلجھ گیا۔۔۔

ارے نگوڑ ماری حسنہ کی سہیلی ہے۔۔۔منہ اُٹھائے محلے میں پھرتی ہے۔۔۔ماں کو ذرا ہوش نہیں اس کا۔۔۔۔۔جوان جہاں لڑکی کو کھلا چھوڑ دیا۔۔۔۔شمع بیگم نے دل کی بھڑاس نکالی۔۔۔

تم سناؤ بیٹا کیسے آنا ہوا۔۔۔پاندان کھینچ کر اپنے پاس کرتے فراز سے پوچھا۔۔۔۔

امّاں کہہ رہی تھیں بازار جانا ہے آپ کے ساتھ۔۔۔ایک ایک طرف کا کرایہ لگا کر ساتھ چلیں گی کیا آپ۔۔۔فراز کی بات پر شمع بیگم نے اُسے گھور کر دیکھا۔۔۔۔

بیٹا میں بیوہ مظلوم۔۔۔۔میاں میرا اللہ کو پیارا۔۔۔۔بیٹا میرا بیوی کو پیارا۔۔۔۔میں کہاں سے چالیس چالیس روپے کا کرایہ لگاؤں گی۔۔۔۔۔شمع بیگم نے دکھڑا ڈالا۔۔۔

میں نے بھی امّاں سے یہی کہا تھا۔۔۔فراز نے مونچھوں پر ہاتھ پھیرا۔۔۔

شمع بیگم نے بھانجے کو محبت سے دیکھا۔۔۔اُسے تو ان کا خیال تھا۔,۔۔

امّاں کو میں نے پہلے ہی کہا تھا کے شمع خالہ کے ہزار مسئلے ہیں تم بڑی مامی کو لیے جاؤ ساتھ۔۔۔فراز انتہائ خود غرضی سے بولا۔۔۔۔

عطیہ کپڑے بھی اچھے دلا دے گی۔۔۔۔فراز کے منہ سے عطیہ کا نام سن کر اُنھیں مزید آگ لگ گئی۔۔۔

واہ واہ فراز میاں۔۔۔۔تمھیں خالہ سے ذرا ہمدردی نہیں۔۔۔ہیں۔۔۔چلے مامیوں کی تعریفیں کرنے۔۔۔

معاف کرنا خالہ۔۔۔سارہ بھی کما تی ہے اور تم بھی کام کرتی ہو۔۔۔مصدق بھی کماتا ہے۔۔۔۔مگر تمھارے رونے ختم نہیں ہوتے۔۔۔۔۔فراز نے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا۔۔۔

شمع بیگم منہ کھولے بھانجے کو تک رہی تھیں۔۔۔۔

فراز آئے ہیں۔۔۔حسنہ باورچی خانے سے نکلی۔۔۔۔بکھرے بال۔۔۔ڈھیلے ڈھالے کپڑے۔۔۔۔۔فراز کو اُسے دیکھ کر شدید کوفت ہوئی۔۔۔

حسنہ اپنا فون دکھاؤ۔۔۔کچھ سوچتے ہوئے فراز نے اُس سے فون مانگا۔۔۔۔

کیوں۔۔۔۔۔حسنہ نے حیرت سے پوچھا۔۔۔

آجکل ایک وائرس آیا ہوا ہے فون میں۔۔۔۔چیک کرنے دو مجھے۔۔۔ورنہ بیٹری خراب ہو جانی ہے۔۔۔۔فراز نے بے تکا سا جواب دے ڈالا۔۔۔

حسنہ جلدی سے فون لے آئی۔۔۔

فراز نے بہانے سے شہلا کا نمبر نکال لیا۔۔۔تھوڑی دیر موبائل کو چیک کرنے کہ بہانا کیا اور پھر واپس حسنہ کو تھما دیا۔۔۔

لو کر دیا ٹھیک۔۔۔وہ جانے کو اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔

آج شمع بیگم نے اسے چائے کا بھی نہیں پوچھا۔۔۔۔اُنھیں بھانجے کے تیور کچھ ٹھیک نہیں لگے۔۔۔

فراز جا چکا تھا حسنہ دروازہ بند کر آئی۔۔

کیا سوچ رہی ہے امّاں۔۔۔حسنہ بھی پاس ہی بیٹھ گئی۔۔۔

مجھے لگتا ہے تیری بڑی مامی اور عطیہ نے مل کر فراز پر تعویذ کروایا ہے۔۔۔شمع بیگم نے فکر مند ہو کر کہا۔۔۔

تعویذ۔۔۔۔حسنہ نے امّاں کو حیرت سے دیکھا۔۔۔۔

ہاں یہ عطیہ تو ہے ہی جادوگرنی۔۔۔اس کی ماں ڈائن۔۔۔شمع بیگم نفرت سے بولیں۔۔۔

اب کیا کریں گے ہم امّاں۔۔۔فراز تو مجھے چھوڑ دیں گے۔۔۔حسنہ کو اپنی فکر لا حق ہوئی۔۔۔۔

تو فکر نا کر۔۔۔میں کل ہی جاتی ہوں نور بیبی کے آستانے۔۔۔۔ہر کالے جادو کا توڑ ہوتا ہے وہاں۔۔۔دیکھتی ہوں میں کیسے فراز ور نہیں ہوتا عطیہ سے۔۔۔شمع بیگم نے خود ہی خیالوں میں سارا جمع جوڑ کر لیا۔۔۔

اوپر کھڑی زرینہ دل ہی دل میں ماں بیٹی پر  ہنس دی۔۔۔

فراز نے باہر نکلتے ہی شہلا کا نمبر ڈائل کیا۔۔۔۔

ہیلو جی کون۔۔۔۔۔شہلا کی اٹھلا تی ہوئی آواز آئی۔۔۔

مطلب کے ٹھیک نمبر ملا ہے۔۔۔فراز کو تسلی ہوئی۔۔۔

میں ہوں فراز۔۔۔فراز نے اُسے یاد دلایا۔۔۔

فراز ۔۔۔آپکو میرا نمبر کہاں سے ملا۔۔۔شہلا کی حیرت میں ڈوبی آواز آئی۔۔۔

بس جب جذبہ سچا ہو تو راہیں نکل ہی آتی ہیں۔۔۔فراز نے   محبت بھرے لہجے میں کہا۔۔۔

جذبہ۔۔۔کونسا جذبہ۔۔۔شہلا کو فراز کی دماغی حالت پر شبہ ہوا۔۔۔

ملنے آؤ گی تو بتا دوں گا۔۔۔فراز نے اُسے ڈائریکٹ ملنے کو کہا۔۔۔

شہلا نے حیرت سے فون کان سے ہٹا کر فون کو دیکھا۔۔۔

آپ مجھے ملنے بلا رھے ہیں۔۔۔۔

ہاں میں ملنا چاہتا ہوں آپ سے کوئی ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔فراز نے سادیے لفظوں میں کہا۔۔۔

ٹھیک ہے میں آ جاؤں گی لنچ کروائیے گا۔۔۔شہلا نے حامی بھری۔۔

تمھاری پسند کا۔۔۔۔فراز راضی ہوا۔۔۔کل دوپہر بارہ بجے کراچی نفسیاتی ہسپتال کے پاس سے پک کر لوں گا تمھیں۔۔۔ آجاؤ گی نہ وہاں تک۔۔۔۔فراز نے پکّا کیا۔۔۔

ہاں ہاں آ جاؤں گی۔۔۔شہلا نے اطمینان دلایا۔۔۔

فون کاٹتے ہی اُسے فراز پر ہنسی آئی۔۔۔

چلو شہلا رانی۔۔۔گفٹ وصول کرنے کا ٹائم آ گیا ہے۔۔وہ خوش ہوئی۔۔۔۔

شہلا اس کام میں ماہر تھی۔۔۔اُس کے بہت افیئرز تھے۔۔۔

الماری سے جلدی سے ایک سرخ رنگ کا جوڑا بر آمد کیا ۔۔الٹا پلٹا کر دیکھا ۔۔۔ہمم ۔۔یہی ٹھیک ہے۔۔۔شہلا نے فراز سے ملنے کے لیے تیاری پکڑی۔۔

کہاں کی تیاری ہے شہلا۔۔۔۔امّاں آئی تھیں کمرے میں۔۔۔

امّاں ۔۔۔فراز ہے نہ حسنہ کی پھوپو کا بیٹا۔۔۔اُس نے ملنے بلایا ہے۔۔۔۔بنا کسی ڈر کے امّاں کو سچ بتا ڈالا۔۔

وہ جو سرکاری افسر ہے۔۔۔۔اُن کو تھوڑا بہت یاد آیا۔۔

ہاں امّاں وہی۔۔۔۔لگتا ہے لٹو ہو گیا ہے۔۔۔۔حسنہ ہنس دی۔۔۔

دیکھ حسنہ ۔۔۔ اس دفعہ محض گفٹ وصولی نہ کر۔۔۔امّاں نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا۔۔۔لڑکا اچھا ہے تو شادی کی بات ہی کر۔۔۔ہم جیسوں کے ہاں کون رشتا ڈالتا ہے ورنہ۔۔۔

امّاں لڑکا نہ کہو اُسے۔۔۔۔آدمی ہے وہ کوئی تیس بتیس سال کا۔۔شہلا جل کر بولی۔۔۔۔اگر دل والا ہوا تو دیکھیں گے۔۔۔اُس نے امّاں کو دلاسہ دیا۔۔۔۔

✨✨✨✨🙄🙄🙄✨✨✨🙄🙄✨✨✨✨

نور بیبی۔۔۔میرا ہونے والا داماد میری بھابی کی بیٹی کو پسند کرتا ہے ۔۔۔شمع بیگم نے نقلی آنسوؤں کے ساتھ اپنا مسئلہ پیش کیا۔۔۔۔میری بیٹی کا تو دل ہی ٹوٹ گیا۔۔۔۔

منگنی کو کتنا عرصہ ہوا۔۔۔۔نور بیبی کالا جھبہ پہنے بال کھولے ایک اونچی ٹیبل پر بیٹھی تھیں۔۔۔

جی منگنی نہیں ہوئی۔۔۔۔شمع بیگم نے عقیدت سے جواب دیا۔۔۔

رشتا کب ہوا تھا۔۔۔۔نُوربیبی نے بند انکھوں کے ساتھ جھومتے جھومتے پوچھا۔۔۔

جی رشتا بھی نہیں ہوا۔۔۔شمع بیگم نے ڈرتے ڈرتے کہا۔۔۔

نور بیبی نے غصے میں آنکھیں کھولیں۔۔۔

تیرا داماد کیسے ہوا پھر۔۔۔۔وہ غضبناک ہوئیں۔۔۔۔

جی حسنہ میری بیٹی بچپن سے ہی اُسے پسند کرتی ہے۔۔۔شمع بیگم نے جواز پیش کیا۔۔۔۔

تیری بیٹی کے پسند کرنے سے وہ تیرا داماد ہو گیا۔۔۔۔نُور بیبی کے لہجے میں طنز تھا۔۔۔۔

شمع بیگم بوکھلا گئیں۔۔۔۔۔

چل یہ تعویذ پکڑ۔۔۔۔ایک داماد کے گھر کے باہر دبائی دیو۔۔۔ایک اپنی بھابی کے گھر کے باہر۔۔۔نور بیبی نے دو کاغذ شمع بیگم کے ہاتھ میں دھر دیے۔۔۔تیرا کام ہو جائے گا۔۔۔۔شمع بیگم کی بانچھیں کھل گیں۔۔۔

نذرانے کے ڈبّے میں پانچ ہزار ڈال کے جا۔۔۔نور بیبی نے واپس آنکھیں بند کرلیں۔۔۔

پانچ ہزار۔۔۔شمع بیگم کو جھٹکا لگا۔۔۔۔مگر فراز کا خیال آیا تو جھٹ ڈال دیے۔۔۔۔خوشی اُن کے چہرے سے عیاں تھی۔۔۔۔

شمع بیگم کے باہر نکلتے ہی نور بیبی نے جھٹ سے آنکھیں کھول دیں۔۔۔

گئی نہ۔۔۔۔تسلی کر کے چندے کے ڈبّے سے نوٹ نکال کر گنّے اور تکیے کے نیچے دبا لیے۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨🙄🙄✨✨✨✨✨✨

ذیشان اوپر آیا تو امّاں کو سوچوں میں غرق پایا۔۔۔ریحان بھی اُن کے گھٹنے سے لگا بیٹھا تھا۔۔۔۔

کیا ہوا ہے بھئی۔۔۔۔ذیشان نے حیرت سے کمرے کا منظر دیکھا۔۔۔۔

کچھ نہیں بھائی ۔۔۔امّاں کو سمجھا رہا ہوں اگر حسنہ کو اپنی بہو بنا لیں گی تو آمنہ کے لیے فراز کا رشتا ڈالنا آسان ہوگا۔۔۔۔۔۔

بھولو مت میرے بھای۔۔۔عطیہ بھی ہے فراز تک پہنچنے والے راستے میں۔۔۔۔ذیشان نے نیا شوشہ چھوڑا۔۔۔۔

امّاں آپکو اُسے بھی راستے سے ہٹانا ہوگا۔۔۔۔آمنہ اور مومنہ کے ساتھ ساتھ امّاں نے بھی اُسے حیرت سے دیکھا۔۔۔

سچ کہہ رہا ہوں امّاں۔۔۔یہ سلائی کے بہانے سے شمس پھوپو کو پھنسا يا جا رہا ہے۔۔۔۔ذیشان نے پنکھے کی طرف دیکھتے ہوئے ایسے کہا جیسے کوئی راز سمجھ آگیا ہو۔۔۔

ہمم۔۔۔کہہ تو ٹھیک رھے ہو ۔۔مگر عطیہ کا کیا کروں میں۔۔۔۔حسنہ کو تو ریحان سے بیاہ لاؤں۔۔۔مگر عطیہ۔۔۔۔امّاں کو کچھ سجھائی نہیں دیا۔۔۔

فکر کیوں کرتی ہو امّاں۔۔۔۔بہن کے خاطر میں یہ کڑوا گھونٹ پینے کو تیار ہوں۔۔۔۔ذیشان نے خود کو قربانی کے لیے پیش کیا۔۔۔۔

آمنہ نے غصے سے دونوں بھائیوں کو دیکھا جو اپنی راہیں ہموار کرنے کے لیے کھلم کھلا اُس کا استعمال کر رہے تھے۔۔۔

کیا کہا۔۔۔اُس عطیہ کو میں اپنی بہو بناؤں گی۔۔۔تیری تائی کی بیٹی۔۔۔گھنی ہے پوری۔۔۔جتنی زمین کے اوپر ہے نہ اتنی زمین کے نیچے بھی ہے۔۔۔۔امّاں نے دل کے جلے پھپولے پھوڑے۔۔۔۔

ذیشان نے سر پیٹ لیا۔۔۔۔

امّاں آجکل رکشا ڈرائیور کو بیٹی کون دیتا ہے۔۔۔ریحان نے بھائی کا ساتھ دیا۔۔۔۔

تم کرو جی کیا آمنہ کی شادی کسی رکشا ڈرائیور سے۔۔۔ذیشان نے ماں کو جھنجھوڑا۔۔۔

نہیں نہ۔۔۔پھر عطیہ کو بنا لاؤ اپنی بہو۔۔۔۔۔ریحان نے لقمہ دیا۔۔۔

بات تو تیری ٹھیک ہے۔۔۔مگر حسنہ اور عطیہ مجھے ہی چٹیاں پکڑ کر گھر سے باہر نہ کر دیں۔۔۔اُنہوں نے پھر نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔

امّاں تم کون سی کم ہو۔۔۔۔اب کے مومنہ بول پڑی۔۔۔تم بھی تو آری کے جیسی زبان لیے بیٹھی ھو نہ منہ میں۔۔۔کاٹ ڈالنا دونوں کے پر۔۔۔۔مومنہ نے ماں کو نئی پٹّی پڑھائی۔۔۔۔

اچھا سوچتی ہوں۔۔۔دیکھ لے آمنہ تیرے لیے کیا کیا کرنا پڑھ رہا ہے۔۔۔وہ جتا تی نظروں سے آمنہ کو دیکھتے ہوئے بولیں۔۔۔

نہ کرو امّاں تم میرے لیے کچھ۔۔۔یہی احسان کافی ہوگا تمہارا۔۔۔۔آمنہ تو پہلے ہی تپی بیٹھی تھی۔۔۔موقع ملتے ہی چڑھائی کی۔۔۔۔جان بخشی کرو میری۔۔۔۔پنکھے سے لٹک جاؤں گی فراز سے شادی نہیں کروں گی میں۔۔۔۔موٹے موٹے آنسو آنکھوں سے ٹپکنے لگے۔۔۔۔

دفعہ دور کمبخت۔۔۔بات بے بات نحوست پھیلاتی ہے رو رو کے۔۔۔جا روٹی بنا بھائیوں کی۔۔۔۔وہ تپ کر بولیں۔۔۔۔

,✨✨✨✨✨✨✨🎊🎊🎊✨✨✨✨✨

شہلا خوشبوں میں رچی بسی گھر سے نکلی تھی۔۔۔۔مطلوبہ جگہ پہنچ کر نظر دوڑائی تی سامنے ہی فراز نظر آیا۔۔۔۔سانولی رنگت پر گہرا بیگنی رنگ پہنے وہ شہلا کو ایک آنکھ نہ بھایا۔۔۔۔

جلدی بیٹھ جاؤ۔۔۔بائک شہلا کے قریب لا کر وہ جلدی سے بولا۔۔۔

کیوں چوری کی ہے کیا۔۔۔۔شہلا نے مشکوک نظروں سے بائک کو دیکھا۔۔۔۔

نہیں نہ ۔۔۔کوئی جاننے ولا دیکھ نہ لے۔۔۔فراز نے ڈرتے ڈرتے کہا۔۔۔

شہلا نے حیرت سے فراز کو دیکھا مگر کچھ کہیے بنا ہی دپٹہ سنبھالتی بائک پر بیٹھ گئی۔۔۔۔

کہاں چلو گی۔۔۔۔فراز نے اُسی سے پوچھا۔۔۔۔چلچلاتی دھوپ میں شہلا کی حالت ویسے ہی خراب ہو رہی تھی ۔۔۔اُس پر فراز کا ساتھ۔۔۔۔۔

طارق روڈ لے چلو۔۔کچھ شاپنگ بھی کر لوں گی۔۔۔۔شہلا نے محبت سے بھرا لہجہ اپنایا۔۔۔۔

شاپنگ۔۔۔۔فراز کو کرنٹ سے لگا۔۔۔۔وہ پیدائشی کنجوس ٹہرا۔۔۔۔

ہاں شاپنگ۔۔۔نہیں کروا سکتے کیا۔۔۔۔شہلا کی ادائیں ہی الگ تھیں ۔۔۔

کرواتا ہوں نہ ۔۔۔فکر نہ کرو۔۔۔۔فراز نے پھنسی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔

شہلا دل ہی دل میں ہنس دی۔۔۔۔

طارق روڈ پہنچتے ہی شہلا بول پڑی۔۔۔مجھے ڈولمن جانا ہے فراز ۔۔۔۔۔وہیں چلنا ڈائریکٹ۔۔۔

ارے پگلی۔۔۔ڈلمن میں کیا رکھا ہے۔۔۔۔یہاں دیکھو۔۔۔پٹھان بھائی کتنے زبردست بیگز لیے بیٹھے ہیں۔۔۔فراز نے روڈ کے ایک طرف اشارہ کیا۔۔۔۔

چلو یہیں سے کچھ لے لو ۔۔۔فراز نے زبردستی شہلا کا ہاتھ پکڑ کر اُسے گھسیٹا۔۔۔

باجی یہ ماریہ بی کی کاپی ہے یہ لے لو۔۔۔۔ایک پٹھان نے آواز لگائی۔۔۔۔شہلا کا رکنے کا ارادہ دیکھتے ہوئے فراز نے اُسے اور بری طرح کھینچا۔۔۔۔

کیا کر رھے ھو فراز۔۔۔شہلا بری طرح تلملا گئی۔۔۔

مجھے بات کرنی ہے تم سے ۔۔۔شاپنگ پھر کبھی کروا دوں گا۔۔۔۔فراز بیگ والے کو بھی کراس کرتے ہوئے اُسے ایک گلی میں بنی ہوئی چنا چاٹ کی دکان کی طرف لے گیا۔۔۔۔

شہلا نے حیرت سے اُسے دیکھا۔۔۔لنچ پر بلایا تھا تم نے۔۔۔

لنچ میں ابھی وقت ہے شہلا۔۔۔ابھی تو ناشتا کر کے نکلا ہوں میں۔۔لنچ تک تو واپس گھر بھی پہنچ جائیں گے۔۔۔۔فراز نے اپنی اوقات دکھائی۔۔۔۔

حسنہ تیرے لیے ہی بنا ہے یہ نمونہ ۔۔۔کنجوس ۔۔بےشرم۔۔۔وہ دل ہی دل میں فراز کو کوسنے دیے گئی۔۔۔

ایک پلیٹ چنا چاٹ۔۔۔ ایک چمچ اور ایک ایکسٹرا پلیٹ ساتھ۔۔۔فراز نے آرڈر کیا۔۔۔

شہلا کا دل کیا سامنے بیٹھے اس فقیر کا منہ توڑ دے۔۔۔گفٹ تو دور یہاں تو چاٹ کی پوری پلیٹ بھی نصیب ہوتے دکھائی نہیں دے رہی تھی۔۔۔۔

شہلا میں اپنی امّاں کو تمھارے گھر بھیجنا چاہتا ہوں۔۔۔فراز اب مدے پر آیا۔۔۔

کیوں۔۔۔شہلا کی بری طرح تپ چکی تھی۔۔۔

رشتا ڈالنے۔۔۔۔مجھ جیسا لڑکا تمھیں کہاں ملے گا۔۔۔۔فراز کا غرور آسمانوں پر تھا۔۔۔

اچھا ۔۔۔بھیج دینا۔۔۔۔۔شہلا نے دل میں بدلا لینے کی ٹھان لی۔۔۔۔

فراز نے چاٹ کے آتے ہی چمچ کی مدد سے اُسے دونوں پلیٹوں میں بانٹ لیا۔۔۔۔شہلا خاموش بیٹھی اُس کی حرکتیں دیکھ رہی تھی اُس نے آج تک ایسا کنجوس لڑکا نہیں دیکھا تھا۔۔۔

پیار بڑھتا ہے نہ شہلا اس لیے۔۔۔۔اُس نے ایک پلیٹ شہلا کی طرف بڑھاتے ہوئے وضاحت دی۔۔۔

پیار۔۔۔۔۔شہلا کے چہرے پر ایک کمينی سی مسکراہٹ بکھر گئی۔۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨👇👇👇✨✨✨✨✨✨

حسنہ۔۔۔۔دیکھ نور بیبی نے مجھے کیا دیا ہے۔۔۔۔شمع بیگم نے تعویذ نکال کر حسنہ کو دیے۔۔۔

امّاں کیا کرنا ہے اس کا۔۔۔حسنہ منہ کھولے تعویذ دیکھ رہی تھی۔۔۔

منہ تو بند کر اپنا۔۔۔امّاں نے تعویذ واپس کھینچتے ہوئے اُنھیں کالے بٹوے میں دبایا۔۔۔۔

چل شام کو شمس آپا کے ہاں جانا ہے۔۔۔اُن کے گھر کے باہر ایک دبا آئیں گے۔۔۔۔شمع بیگم نے خیالوں ہی خیالوں میں ایک پتھر کے نیچے تعویذ دبا بھی ڈالا۔۔۔

امّاں کِسی نے دیکھ لیا تو۔۔۔۔حسنہ نے ڈر کر کہا۔۔۔

کالی زبان نہ نکال حسنہ۔۔۔تیرے منہ کی بد فالیں تو پہلے ہی پوری ہو جاتی ہیں۔۔۔۔شبو کے ابّا کے انتقال میں تو نے کہا تھا کے اُس کی امّاں جی کر کیا کرے گی اب۔۔اور آدھے گھنٹے میں ہی اُس ھٹی کٹی عورت کو موت آ گئی تھی۔۔۔۔مت بول اب تو کچھ۔۔۔۔شمع بیگم کو ڈر ہوا کہیں واقعی اُس کی بات پوری نہ ہو جائے۔۔۔۔

امّاں ۔۔۔امّاں ۔۔۔سارا گھر میں چلاتی ہوئی گھسی تھی۔۔۔

اب تجھے کیا ہوا سارا۔۔۔۔

امّاں آفس والے گھر آنے کا کہہ رہے ہیں۔۔۔ابھی تو کیسے بھی کر کے ٹلا دیا مگر وہ اگلے ہفتے میں ضرور آئیں گے۔۔۔سارا ایک نئی مصیبت میں پھنس گئی تھی۔۔۔

ہاں تو آنے دے نہ کیا مسئلہ ہے۔۔۔۔شمع بیگم بھول گئیں کے وہ کیوں اتنا پیدل چل کر آتی ہے۔۔۔۔

امّاں کیا ہو گیا سب کو پتہ ہے میں ماڈل کالونی میں رہتی ہوں۔۔۔سارا نے اپنا سر پیٹا۔۔۔۔

جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے بیٹا۔۔۔۔کتنا چلتا تمہارا جھوٹ۔۔۔شمع بیگم کی بات پر سارا کو پتنگے لگ گئے۔۔۔امّاں تم بس جلے پر نمک چھڑکنے کا ہی کام کرنا ۔۔تمھاری خاندانی عادت ہے آخر کو۔۔۔۔سارا سر پکڑ کر چارپائی پر ہی لیٹ گئی۔۔۔۔

ایک شخص ہے جو تمہارا مسئلہ حل کر سکتا ہے۔۔۔۔حسنہ نے سارا کو راستہ دکھایا۔۔۔۔

کون۔۔۔سارا اٹھ بیٹھی۔۔۔

بھابی۔۔۔زرینہ بھابی۔۔۔حسنہ نے آہستہ سے زرینہ کا نام لیا۔۔۔

مطلب بھابی کی امی کا گھر ۔۔۔۔اوہ۔۔۔اوہ۔۔۔۔۔۔سمجھ گئی۔۔۔

سارہ کو حسنہ کی بات کا مطلب اچھے سے سمجھ آ گیا تھا۔۔۔۔

چل بھابی کے لئے پکوڑے بناتے ہیں۔۔۔سارہ کے اندر جیسے کِسی نے نئی روح پھونک دی۔۔۔وہ حسنہ کو لیے باورچی خانے کی طرف بڑھ گئی۔۔۔

شمع بیگم نے اپنی دونوں بیٹیوں کو غصے سے گھورا۔۔۔تیل کم جھونکنا کڑاہی میں۔۔۔سارا پر اُن کا بس نہیں چلتا تھا۔۔۔

گرمہ گرم پکوڑے تیار تھے دو نوں بہنیں جلدی سے ٹرے میں سجا کر سیڑھیاں چڑھتی نظر آئیں۔۔۔۔شمع بیگم نے جا کر باورچی خانے میں جھانکا۔۔۔۔

ہائے ستیاناس جائے۔۔۔باورچیخانےمیں جیسے جنگ لڑی گئی تھی جلدی کی چکر میں برتنوں کا ڈھیر دھلنے میں پہنچ گیا تھا۔۔۔۔وہ واپس چارپائی پر بیٹھ گئی۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨😍😍😍✨✨✨✨✨

بھابی ۔۔۔حسنہ نے آواز دی۔۔۔۔

آ جاؤ کمرے میں۔۔۔زرینہ کی اجازت لے کر ہی وہ اُس کے کمرے میں داخل ہو سکتی تھیں۔۔۔

زرینہ منہ پر سفید کریم لگائے آنکھوں پے کھیرا جمائے کرسی پر آرام سے بیٹھی تھی۔۔۔۔وہیں ایک کونے میں چادر بچھائے مصدق میاں استری کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔۔۔۔

حسنہ اور سارہ نے اپنے بھائی کو ترس بھری نظروں سے دیکھا۔۔۔۔

مصدق ٹراؤزر کی لائن اچھے سے جمانا سمجھے۔۔۔زرینہ کی ہدایتیں جاری تھیں۔۔۔

مصدق بھیگی بلی کی طرح بیٹھا اُس کی ہدایات پر عمل کر رہا تھا۔۔۔

بھابی آپ کے لیے پکوڑے بنائے تھے سوچا مل کر کھائیں گے۔۔۔۔سارہ نے محبت کی چاشنی سے منہ بھرا۔۔۔۔

زرینہ نے جھٹکے سے آنکھیں کھول کر دونوں نندوں کو دیکھا۔۔۔۔

کام بتاؤ حسنہ۔۔۔۔زرینہ کا دماغ میٹرو ریل سے زیادہ تیزی سے چلا۔۔۔۔

کچھ خاص نہیں بھابی۔۔۔۔سارہ نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔۔

کھڑے۔۔۔کھڑے ہو جاؤ۔۔۔زرینہ نے اُسے واپس کھڑا کروا دیا۔۔۔

نئی بیڈ شیٹ ہے یہ ۔۔۔یہاں نیچے بیٹھ جاؤ اپنے بھائ کے پاس چٹائی پر۔۔۔زرینہ نے سیکنڈوں میں عزت کا جنازہ نکال دیا۔۔۔۔

سارہ کا دل کیا پکوڑوں کی پلیٹ اُس کے منہ پے دے مارے۔۔۔مگر اس وقت مجبور ہو کر خاموشی سے نیچے بیٹھ گئی۔۔۔حسنہ نے بھی اُس کی پیروی کی۔۔۔۔

مصدق نے مظلوم نظروں سے بہنوں کو دیکھا۔۔۔۔

بھابی سارا کے آفس کے کچھ دوستوں نے آنا ہے۔۔۔۔حسنہ نے ہی ہمت کر کے بات شروع کی۔۔۔

میں اپنا چینی کا برتن نہیں دینے والی۔۔۔۔زرینہ نے جیسے بات سمجھ کر پہلے ہی انکار کر ڈالا۔۔۔

نہیں نہیں بھابی۔۔۔برتن نہیں چاہیے۔۔۔سارہ نے اُسے ٹوکتے ہوئے حسنہ کو دیکھا۔۔۔۔

پھر۔۔۔۔پھر کیا چاہیے۔۔۔۔زرینہ خود ہی اندازے لگانے لگی۔۔۔۔

بھابی وہ آپ کی امی کا گھر ہے نہ ماڈل کالونی میں۔۔۔بولتے بولتے سارہ نے تھوک نگلا۔۔۔

ہاں تو۔۔۔زرینہ نے آنکھیں پھیلائیں۔۔۔

بھابی وہ میری دوستوں کو یہی پتہ ہے کے میں ماڈل کالونی میں رہتی ہوں۔۔۔۔سارہ کو سمجھ نہیں آ رہا تھا مطلب کی بات کیسے کرے۔۔۔

واہ واہ۔۔۔شاباش۔۔۔کیا بات ہے تمھاری۔۔۔۔ہو نہ جھوٹوں کے خاندان سے۔۔۔زرینہ نے ہاتھ ہلا ہلا کر سنائی۔۔۔

شادی میں بھی سونے کا کہہ کر پیتل کا سیٹ پکرایا تھا تمھاری امّاں نے۔۔۔زرینہ کی توپوں کا رخ مصدق کی طرف مڑ گیا۔۔۔۔

بھابی۔۔۔۔بات تو ان لیں پوری۔۔۔۔حسنہ بیچ میں کودی۔۔۔زرینہ اُس کی تھوڑی بُہت سن لیتی تھی۔۔۔۔

سارہ آپ کی امی کے گھر دوستوں کی چائے پارٹی رکھنا چاہئے رہی تھی۔۔۔۔حسنہ نے بمب پھوڑ ہی دیا۔۔۔۔

کیا ۔۔۔۔زرینہ اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔دماغ تو ٹھیک ہے نہ حسنہ۔۔۔

بھابی آپ کی بھی تو عزت کی بات ہے نہ۔سارا کی دوستیں آپ سے ملیں گی۔۔۔سب کو یہی کہا ہے سارا نے کے آپ کو گھر جہیز میں ملا ہے۔۔۔تو یہاں کیسے لے آئے۔۔۔۔۔حسنہ نے اُسے باتوں میں گھمایا۔۔۔۔

زرینہ پل بھر کو چپ ہوئی۔۔

نہیں نہیں ۔۔یہ نا ممکن ہے۔۔۔۔تم لوگوں کے لیے کیوں میں امّاں کا گھر لوں گی۔۔۔مجھے کیا لینا دینا ۔۔۔زرینہ کی سوئی اٹک گئی تھی سارا نے مدد طلب نظروں سے مصدق کو دیکھا۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨💘💘💘✨✨✨✨✨

شہلا کو فراز نے واپس وہیں چھوڑا تھا۔۔۔ایک پلیٹ نہیں یوں کہیں کے آدھی پلیٹ چنا چاٹ میں اُس نے ملاقات مکا دی تھی۔۔۔

آنے دو تمھاری امّاں کو۔۔۔۔آج کا حساب تو اب وہی دیں گی۔۔۔کنجوس کہیں کا۔۔۔

شہلا غصے میں اُسے پیچھے سے جاتا ہوا دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

شہلا گھر پہنچی تو امّاں اُس کی منتظر تھیں۔۔۔

کیا ملا۔۔۔۔اُنہوں نے شہلا کے خالی ہاتھ دیکھ کر پوچھا۔۔۔

شہلا نے غصے میں پرس دیوار پر پھینک مارا۔۔۔کنجوس کہیں کا ۔۔۔اُس کی اوقات ہی نہیں ہے کچھ دینے والی۔۔۔سمجھ نہیں آتا حسنہ کیوں مری جا رہی ہے اُس منہوس

ٹٹ پونجھیے کے پیچھے۔۔۔۔شہلا نے دل کی بھڑاس نکالی۔۔۔

ارے ہوا کیا ہے شہلا ۔۔۔۔امّاں کو اُس کی کوئی بات سمجھ نہ آئی۔۔۔

اُس کی امّاں آۓ ذرا رشتا لے کر۔۔۔۔دیکھنا امّاں کیسے اس بے عزتی کا بدلہ لیتی ہے شہلا۔۔۔۔شہلا کا غصّہ کِسی طور کم ہونے پر نہیں آ رہا تھا۔۔۔

کھانا لگا امّاں۔۔۔۔شہلا کو بھوک بھی ستانے لگی۔۔۔

کیوں کھا کر نہیں آئی۔۔۔غلطی سے امّاں نے وہ سوال کر ڈالا جس نے شہلا کو پھر بپھرا دیا۔۔

نہیں ۔۔۔نہیں کھا کر آئی۔۔۔کہا نہ اُس فقیر کے پاس پچاس روپے ہی تھے بس۔۔۔اُس کا بس چلتا تو پیٹرول کے پیسے بھی مجھ سے ہی لیتا۔۔۔آیا بڑا کھانا کھلانے والا۔۔۔شہلا کے دل میں ایک الاؤ جل اٹھا تھا جو فراز کی امّاں کے آنے پر ہی بجھنے والا تھا۔۔۔

🌼🌼🌼🌼🤭🤭🤭🌼🌼🌼🌼🤭🤭🌼🌼🌼

زری۔۔۔۔بات تو سنو۔۔۔۔مصدق میاں نے ہمت جٹائی۔۔۔

بولو۔۔۔۔زرینہ نے پلٹ کر تیکھی نظروں سے میاں کو دیکھا۔۔۔

ایک چائے کی ہی تو بات ہے ۔۔۔مان جاؤ نہ۔۔۔۔سارہ کے دوست جلدی چلے جائیں گے۔۔۔ہے نہ سارہ۔۔۔مصدق نے تائیدی نظروں سے سارہ کو دیکھا۔۔۔

جی بھابی وہ تو بس آپ سے ملنا چہ رھے تھے۔۔۔میں نے بتایا تھا نہ اُنھیں کے آپ کے پاپا پولیس آفیسر ہیں تو اس لیے۔۔۔۔سارہ نے اُسے چنے کے جھاڑ پر چڑھایا۔۔۔

مان جاؤ نہ میں تمھیں ایک برانڈڈ سوٹ بھی لے دوں گا۔۔۔مصدق نے بہن کے خاطر اُسے منایا۔۔۔

جے دوٹ کا۔۔۔۔زرینہ نے انگلی اٹھا کر اُسے تنبیہ کی۔۔۔

ہاں ہاں میری جان۔۔۔جو تم کہو۔۔۔۔مصدق کو دال گلتی نظر آئی۔۔۔

ٹھیک ہے بس ایک گھنٹہ۔۔۔اس سے زیادہ ایک منٹ بھی برداشت نہیں کروں گی میں۔۔۔۔وہ حسنہ اور سارا کو سختی سے بولی۔۔۔

جی بھابی جی بس ایک گھنٹہ۔۔۔۔سارا نے پکّا کیا۔۔۔اُس کا دل خوشی میں ناچ رہا تھا آفس کے لوگوں میں وہ بھی تو شامل تھا جس پر وہ اپنی ٹھات باٹ کا رعب جما تی رہی تھی ہمیشہ ۔۔۔احسن احمد اُس کا باس۔۔۔۔اُسے بھی تو بتانا تھا سارا کِسی سے کم نہیں۔۔۔۔

سارہ اور حسنہ پکوڑوں کی پلیٹ اوپر ہی چھوڑ کر دوڑتی ہوئی نیچے آئیں۔۔۔۔

زینہ توڑنا ہے کیا بھینسوں۔۔۔شمع بیگم چلائی۔۔۔

خالی ہاتھ کیوں ہو پلیٹ کہاں ہے ۔۔۔کہا ہے نہ برتن نہ چھوڑا کرو اوپر۔۔۔۔اب وہ پوہڑ توڑ کر ہی واپس دے گی۔۔۔اُن کا دل جلا۔۔۔۔

پھو ھڑ وہ نہیں آپ کا بیٹا ہے۔۔۔۔برتن تو وُہ دھوتا ہے نہ۔۔۔۔سارا زور سے ہنسی۔۔۔۔

لگتا ہے تیرا کام بن گیا۔۔۔جبھی بتیسی کی نمائش لگا رکھی ہے۔۔۔۔امّاں سیکنڈوں میں سمجھ گئی۔۔۔۔

ہاں امّاں بن گیا۔۔۔۔سارا خوشی میں شمع بیگم کو لپٹ گئی۔۔۔۔

حسنہ جا جا کر باورچی خانہ سدھار۔۔۔۔تیری خالہ کے گھر جانا ہے پھر۔۔۔۔۔اُنہوں نے حسنہ کو یاد دلایا۔۔۔

ہاں ہاں یاد ہے۔۔۔۔وہ پھرتی سے باورچی خانے میں گھس گئی۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨🤐🤐✨✨✨✨✨✨

شمس بیگم کی گلی میں پہنچ کر دونوں ماں بیٹی نے ادھر اُدھر نظر دوڑائی۔۔۔۔گلی تقریباً سنسان ہی تھی۔۔۔

موقع تو ٹھیک ہی لگ رہا ہے۔۔۔چل دیکھتے ہیں آپا کے گھر کے باہر کوئی پتّھر بڑا سا۔۔۔

وہ دونوں قدم بڑھاتی دروازے تک پہنچ گئی۔۔۔امّاں یہ دیکھو یہ اینٹیں۔۔۔۔۔خالہ کا گھر بننے سے اب تک یہیں رکھی ہیں۔۔۔حسنہ نے چبوترے کے ساتھ رکھی اینٹوں کی طرف اشارہ کیا۔۔۔

ہاں ٹھیک کہہ رہی ہے ۔۔۔آپا تو کبھی کسی کو نہ دیں یہ۔۔۔چل اس کے نیچے ہی دبا دے جلدی ۔۔۔میں یہیں کھڑی نظر رکھتی ھوں۔۔۔۔شمع بیگم نے تعویذ حسنہ کو تھمایا۔۔۔

امّاں مجھے ڈر لگتا ہے ایسے کاموں سے۔۔۔تم دباؤ۔۔۔حسنہ نے واپس شمع بیگم کو تھمایا۔۔۔

شادی بھی میں ہی کر لوں پھر ۔۔۔ہیں۔۔۔شمع بیگم کو غصّہ چڑھا۔۔۔وہ تن فن کرتیں اینٹ کے نیچے تعویذ دبانے لگیں۔۔۔۔

بائک کی آواز پر دونوں اچھلیں۔۔۔امّاں جلدی کر کوئی آ رہا ہے۔۔۔۔حسنہ نے جلدی سے امّاں کو کھینچا۔۔۔۔

ہاں ہاں ہو گیا بس۔۔۔۔شمع بیگم اٹھنے ہی والی تھیں سامنے سے فراز بائک پر آ پہنچا۔۔۔۔

دونوں کا دم حلق میں اٹک گیا۔۔۔۔دل تیز رفتاری سے دھڑک کر سینا چیرنے لگا۔۔

کیا کر رہی ہو خالہ مٹّی میں۔۔۔فراز نے اُنھیں مشکوک نظروں سے گھورا۔۔۔

کچھ نہیں بیٹا وہ سکّہ گر گیا تھا ہاتھ سے وہی ڈھونڈ رہی تھی۔۔۔۔شمع بیگم نے جلدی سے بہانا گھڑا۔۔۔

ہمم۔۔۔چلو اندر۔۔۔دروازہ کھولتا وہ اندر چلا گیا۔۔۔دونوں کی سانسیں بحال ہوئیں۔۔۔تھوڑی دیر وہ شمس بیگم کے گھر بیٹھ کر واپسی کو نکلیں۔۔چائے پانی کا آسرا تو تھا نہیں وہاں۔۔۔۔

چل یہیں سے عطیہ کا قصہ بھی مکا آئیں۔۔۔۔بُہت پر پرزے نکال رہی ہے وہ بھی۔۔۔۔شمع بیگم نے خیالوں میں ہی عطیہ کے پر کاٹ ڈالے۔۔۔۔

امّاں اُن کے گھر کے باہر رش بُہت ہوتا ہے۔۔۔حسنہ نے یاد کروایا۔۔۔

ہاں ۔۔۔آمنہ کا گھر کے سامنے والے دودھ والے سے چکر جو  چل رہا ہے ۔۔۔اُس کے سارے دوست بھی وہیں جمع رہتے ہیں بھابی کے دیدار کو۔۔۔۔شمع بیگم کلس کر بولیں۔۔۔

کیا۔۔۔آمنہ کا دودھ والے سے چکر۔۔۔۔حسنہ کے لیے یہ تازہ رپورٹ تھی۔۔۔

ابھی چل رہی ہے نہ اپنی آنکھوں سے دیکھنا۔۔۔چھت سے کیسے نین مٹکا چلتا ہے دونوں کا۔۔۔ہائے ربّا مینو معاف کرے۔۔۔اپنے پیٹ میں بیٹیاں رکھ کر کسی دوسرے کی بیٹی کو برا نہیں کہنا چاہتی میں۔۔۔۔مگر یہ آمنہ۔۔۔۔انتہائی کوئی آوا رہ ہو گئی ہے۔۔۔بھابی صاحبہ کو ہوش نہیں ہماری۔۔۔۔شمع بیگم کی غیبت کی ریل چل گئی تھی۔۔۔۔آمنہ کی وہ برائیاں بھی نکالی کا رہی تھیں جس کی خبر آمنہ کے فرشتوں کو بھی نہیں پہنچی تھی ابھی تک۔۔۔

زرینہ نے اپنی ماں کو فون ملایا۔۔۔

ماما ۔۔۔ کیسی ہیں آپ۔۔۔۔زرینہ کا انداز ہی سب سے جدا تھا۔۔۔

میری جان میری زری۔۔۔۔آپ بتاؤ نہ ڈرلنگ آپ ٹھیک ہو۔۔۔۔ماما کی لاڈ بھری آواز نے زرینہ کو اور مغرور کیا۔۔۔وہ انگلی میں لٹ لپیٹتی صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ جمائے بیٹھ گئی۔۔۔

ماما ۔۔۔بس یہ لوگ ہے نہ پیچھا نہیں چھوڑتے۔۔۔زری نے آواز میں دکھ بھرا۔۔۔

ہاں میری شہزادی ۔۔۔میں سمجھ سکتی ہوں جان ۔۔۔وہ تھرڈ کلاس لوگ میری بیٹی کے قابل کہاں۔۔۔۔نفرت بھرے لہجے میں کہتی ماما زرینہ کو اپنی لگیں۔۔۔

ماما آپ کا گھر چاہیے تھا ایک پارٹی کے لیے۔۔۔مصدق نے بہت فورس کیا ہے۔۔۔۔سارہ کے دوست آئیں گے نہ۔۔۔۔۔زرینہ نے ایسے بتایا جیسے مصدق نے کوئی ظلم ڈھایا ہو۔۔۔

بیٹا یہ مصدق اتنا جبر کیوں کرتے ہیں آپ پر ڈارلنگ۔۔۔آپ کہیں تو میں سمجھاؤں انکو۔۔۔۔وہ پتہ نہیں کیا سمجھ رہی تھیں۔۔۔۔

نہیں ماما مصدق مجھ سے ناراض ہو جائیں گے۔۔۔آپ تو جانتی ہیں نہ کتنے سخت مزاج ہیں وہ اور ان کی امّاں۔۔۔جانے زرینہ نے کون کوں سی کہانیاں مصدق کے حوالے سے گھڑ رکھی تھیں۔۔۔

ہاں بیٹا۔۔۔میری جان میں جانتی ہوں آپ کتنا صبر کرتی ہوں گی اُن جاہلوں کے ساتھ۔۔۔اُن کے لہجے میں بیٹی کے لیے دکھ در آیا۔۔۔

اچھا ماما میں رکھتی ہوں بُہت کام ہیں ابھی۔۔۔پارٹی کے لئے آئیں گے ہم۔۔۔اُس نے مصروفیت جتائی۔۔۔۔

ٹھیک ہے جان کچھ اپنا خیال بھی رکھا کرو گھر کے ساتھ۔۔۔وہ محبت سے بولتی چلی گئیں۔۔۔۔

زرینہ نے لائن منقطع کر کے ایک چیری اٹھا کر منہ میں ڈالی۔۔۔۔خیال تو بُہت رکھتی ہوں میں ماما۔۔۔۔وہ دل ہی دل میں ہنس دی۔۔۔۔یہ تھی سب کو انگلیوں پے نچا نے والی معصوم زری۔۔۔۔

🌼🌼🌼🌼🎊🎊🎊🌼🌼🌼🎊🎊🎊🌼🌼🌼

احسن سر اور آپ سب لوگ ٹی پارٹی پر آ رہے ہیں نہ۔۔۔۔سارہ نے فخر سے پوچھا۔۔۔

ہاں ہاں کیوں نہیں ۔۔۔سب نے مل کر جواب دیا۔۔۔

اُس نے احسن کی طرف دیکھا۔۔۔۔ہاں ضرور کیوں نہیں ۔۔۔احسن نے با وقار لہجے میں جواب دیا۔۔۔سارہ کا دل مسرت سے بھر گیا۔۔۔۔۔

احسن اُس کا باس تھا ہینڈسم اور پڑھا لکھا۔۔۔۔اُس کے بارے میں سارہ زیادہ تو نہیں جانتی تھی بس تھوڑی بُہت کام کے حوالے سے ہی بات ہو جاتی۔۔۔۔

احسن جب گاڑی میں بیٹھ کر آتا تو سارہ کو وہ اپنا خابوں کا شہزادہ دکھائی دیتا۔۔۔۔

🌼🌼🌼🌼🌼🌼💔💔🌼🌼💔💔🌼🌼🌼🌼

شمس بیگم بیٹے کے کہنے پر شہلا کے گھر جانے کو راضی ہوئیں۔۔مٹھائی کا ڈبہ بھی لے جانا پڑے گا نہ۔۔۔اُنہوں نے فراز کی طرف دیکھا۔۔۔

ہمم۔۔۔لے لیں نہ۔۔۔۔فراز نے سوچ کر جواب دیا۔۔۔

ایک بڑی مٹھائی کی دکان کے آگے بائک روک کر وہ اُترا ہی تھا کے اُس کی نظر دکان کے باہر کھڑے مٹھائی کے ٹھیلے پر پڑی۔۔۔

جلی حرف میں لکھا تھا 200 روپے کلو۔۔۔۔

امّاں یہ لے لوں۔۔۔فراز نے ساتھ کھڑی امّاں سے پوچھا۔۔۔

ہاں یہی لے لو۔۔۔ شمس بیگم فوری راضی ہوئیں۔۔۔

بھیّا۔۔۔آدھا کلو دے دو۔۔۔اور پیسے بھی کچھ کم کرو۔۔۔فراز نے رعب سے کہا۔۔۔

بھائ اس میں اور کیا کم کروں۔۔۔ٹھیلے والے کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔۔۔۔

مٹھائی کی تھیلی پکڑ کر وہ شہلا کے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔۔۔۔

بیٹا بات سن۔۔۔شمع کے گھر کی طرف سے نے لینا۔۔۔۔شمس بیگم نے اُسے پہلے ہی سمجھایا۔۔۔۔

امّاں بیٹیاں ٹوہ لینے میں ماہر ہیں۔۔۔۔پہلے ہی پوری برادری کو بتا دیں گی۔۔۔شمس بیگم بہن سے با خوبی واقف تھیں۔۔۔

ہاں ہاں امّاں پتہ ہے مجھے۔۔۔۔دوسری طرف سے گھوم گھما کر وہ شہلا کے دروازے پر پہُںچ گئے۔۔۔۔

✨✨✨✨🤠🤠🤠🤧🤧🤧✨✨✨🤠🤠✨

 گلی میں داخل ہوتے ہی حسنہ نے پہلے دودھ کی دکان کی طرف دیکھا۔۔۔

کون ہے وہ جس کو آمنہ پسند آ گئی۔۔۔۔اُس کے اندر تجسس بڑھ گیا۔۔۔۔

امّاں بتا نہ کون ہے وہ۔۔۔۔دکان کے اندر تو دو لوگ موجود ہیں۔۔۔حسنہ سے صبر نا ہو رہا تھا۔۔۔

یہ کالی شرٹ والا لمبا گورا۔۔۔شمع بیگم نے اشارے سے بتایا۔۔۔

اتنا ہینڈ سم۔۔۔۔یہ دودھ والا تو نہیں لگ رہا۔۔۔حسنہ کا منہ کھل گیا۔۔۔۔

ایاز نام ہے اسکا۔۔۔خوب زوروں سے چل رہا ہے نین مٹکا۔۔۔امّاں نے حسنہ کی معلومات میں اضافہ کیا۔۔۔

حسنہ منہ کھولے اُس ایاز کو ایک ٹک دیکھے جا رہی تھی۔۔۔اُسے فراز یاد آیا تو آمنہ خود سے عقلمند لگی۔۔۔

چل تعویذ دبانا ہے نہ۔۔۔۔یا آنکھوں سے ہی اسے کھا جانے کا ارادہ ہے۔۔۔امّاں نے حسنہ کو کھنی ماری۔۔

یہاں تو بُہت رش ہے امّاں ۔۔۔کیسے ممکن ہوگا یہ۔۔۔حسنہ نے ارد گرد نظر دوڑائی۔۔۔

سوچ کچھ سوچ حسنہ۔۔۔۔شمع بیگم کا دماغ بھی تیزی سے کوئی طریقہ ڈھونڈنے لگا۔۔۔

آئیڈیا۔۔۔۔۔حسنہ کو کچھ سوجھ گیا تھا۔۔۔۔

تھوڑی دیر میں مامی کے گھر کے باہر حسنہ نے ٹماٹروں سے بھرا تھیلا پھاڑ ڈالا۔۔۔

چل امّاں میں یہ سب چنتی ہوں تو تعویذ دبا۔۔۔۔حسنہ نے جلدی سے شمع بیگم کو اپنے پیچھے کور کیا۔۔۔۔اور خود ایک ایک ٹماٹر کو اٹھا کر پہلے دپٹے سے پونچتی اور پھر ٹھیلے میں ڈالتی ۔۔۔پانچ کلو اٹھانے تک تو لازمی تعویذ دس فٹ زمین کے اندر تک گڑ ہی جانا تھا۔۔۔۔

مگر ہائے ری قسمت۔۔۔۔ریحان سر پر آن پہنچا۔۔۔۔

حسنہ کو دیکھ کر اُس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔۔۔۔میں کرتا ہوں نہ حسنہ ۔۔۔تم اٹھ جاؤ مٹّی میں سے۔۔۔محبت اُس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔اُسے حسنہ کے ساتھ موجود شمع بیگم بھی نظر نہیں آئیں ۔۔حسنہ کا دل چاہا اُسے کسی منتر سے غائب کر دے۔۔۔۔

حسنہ نے ریحان کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے باتوں میں الجھائے رکھا۔۔۔۔۔شمع بیگم نے تیزی سے اپنا کام کر ڈالا۔۔۔۔۔

دونوں تعویذ دبائے جا چکے تھے اب نتائج آنا باقی تھے۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨😜😜😜✨✨✨✨✨✨

فراز نے آگے بڑھ کر دروازہ پیٹ ڈالا۔۔۔۔

شہلا نے ہی دروازہ کھولا تھا۔۔۔۔صبح ہی تو وہ فراز کی ذلالت کا شکار ہو کر آئی تھی اور وہ بے صبر ا شام کو ہی آن پہنچا تھا ۔۔۔اُسے کیا پتہ تھا شہلا کتنی شدت سے منتظر تھی اُن لوگوں کی۔۔۔۔

شہلا کی نظر جیسے ہی فراز پر پڑی صبح والا ہر منظر اُس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔۔۔۔کیسے وہ اُسے کھینچتا ہوا لے گیا تھا اُس نے تو نظر بھر کر رپلیکا بھی نہیں دیکھے تھے۔۔۔نہ ہی بیگز والے کے سامنے رکنے کا موقع دیا اور چنا چاٹ کی آدھی پلیٹ یاد آتے ہی اُس کا چہرہ غصے سے لال نیلا پیلا ہو گیا۔۔۔۔

آئیے نہ دروازے پر کیوں کھڑے ہیں آپ لوگ۔۔۔میں تو شدت سے منتظر تھی آپ لوگوں کی۔۔۔۔شہلا نے جما جما کر کہا۔۔۔۔

فراز نے محبت سے اُسے دیکھا ۔۔۔۔ شمس بیگم کو بھی وہ پہلی ہی نظر میں اچھی لگی ۔۔دبلی پتلی اسٹائلش ہیئر کٹنگ گورا رنگ بلکل اکشرا کی جھلک نظر آئی اُنھیں۔۔۔۔شمس بیگم کو سٹار پلس کی اکشرا جیسی بہو ہی تو چاہیے تھی۔۔۔حسنہ تو اُن کی نظر میں گوپی گنوار  تھی۔۔۔

امّاں نہیں ہیں کیا آپ کی۔۔۔شمس بیگم نے

مٹھائی کا شاپر شہلا کے ہاتھ میں دیتے ہوئے پوچھا۔۔

بنا ڈبّے کے شاپر میں پڑی مٹھائی چیخ چیخ کر اپنے ٹھیلے کے ہونے كا عندیہ دے رہی تھی۔۔۔۔

مٹھائی کہاں سے لی آپ نے فراز۔۔۔۔بہت معصومیت سے فراز سے پوچھا۔۔۔۔

وہ لمحوں میں گڑ برا گیا۔۔۔۔۔یہیں ایٹی نائن سے۔۔۔۔اُس نے قریب کی ہی ایک جگہ کا نام بتایا۔۔۔دکان کا نام گول کر گیا۔۔۔۔

ہممم۔۔۔حاجی صاحب کے ٹھیلے کے لگ رہے ہیں وُہ دو سو روپے کلو والے۔۔۔شہلا اب اپنی بے عزتی کا بدلہ لیے بنا چھوڑنے والی نہیں تھی۔۔۔

ہاں ہاں وہیں کے ہیں۔تمھیں پسند ہیں۔۔۔فراز کو لگا شاید شہلا کو پسند ہیں وہاں کے جبهی فورا ہاں کہہ دیا۔۔۔

نہیں۔۔۔ایک دفعہ امّاں لائیں تھیں بلکل یہی بدبو آ رہی تھی اس لیے پہچان گئی۔۔۔میں نے امّاں کو اُسی دِن کہہ دیا تھا آئندہ پیسے بچانے کی چکر میں پیسے ضائع نہ کرنا۔۔۔۔حد ہے کنجوسی کی۔۔۔۔شہلا نخوت سے کہتی مسکرائی۔۔۔۔

فراز کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔۔۔وہیں شمس بیگم نے بھی پہلو بدلا۔۔۔۔

شہلا کی امّاں اندر آئی تھیں اُن لوگوں سے ملنے کے بعد وہ شہلا کے برابر آ بیٹھیں۔۔۔۔

فراز کے لیے رشتوں کی تو کوئی کمی نہیں لیکن میرے بیٹے کو شہلا پسند ہے اس لیے میں یہاں آئی ہوں۔۔۔شمس بیگم نے اپنا رعب جما نے کی کوشش کی۔۔۔۔

یوں تو میری شہلا کے لیے روز ہی ایک سے بڑھ کر ایک رشتا آتا ہے لیکن یونہی کسی کو تھوڑی میں اپنی بیٹی دے دوں گی۔۔۔شہلا کی امّاں بھی کم نہیں تھیں۔۔۔

کیا ہے آپ کے بیٹے کے پاس جو میں آپ کو شہلا جیسا ہیرا دے دوں۔۔۔۔۔اب کے انہوں نے فراز کو گهورا۔۔۔۔

سرکاری افسر ہے میرا بیٹا۔۔۔۔شمس بیگم نے فخر سے کہا۔۔۔

اچھا فائلیں اِدھر اُدھر کرتے ہو نہ تم ۔۔۔شہلا نے فرض کو دیکھا۔۔۔۔تو افسر نہیں کلرک ہو تم۔۔۔ہے نہ۔۔۔۔پہلی بار کسی نے فراز کو کلرک کہا تھا اس کی انا کو دھچکا لگا۔۔۔۔

جیب میں کتنے پیسے ہیں تمہاری۔۔۔۔شہلا کی امّاں کے سوال پر فراز نے حیرت سے اُنہیں دیکھا۔۔۔

بتاؤ نہ۔۔۔۔سنا ہے دو دو مہینے تنخواہ نہیں ملتی سرکاری ملازمین کو۔۔۔۔ایک نیا تیر پھینکا گیا۔۔۔۔

شمس بیگم ایک فٹ اچھلیں۔۔۔بہن یہ کس طرح کی باتیں پوچھ رہی ہیں آپ۔۔۔۔

بیٹی مانگنے آئی ہیں نہ آپ ۔۔۔اتنا پوچھنے کا تو حق بنتا ہے میرا۔۔۔۔۔

فراز میاں اس کٹھارا بائک کے علاوہ کوئی گاڑی ہے آپ کے پاس۔۔۔۔میرا مطلب کار وار۔۔۔۔۔۔آج تو فراز کو ڈوبا ڈوبا کے مارنے کا ارادہ تھا۔۔۔اس کی ساری اکڑ یہیں خاک میں ملا نی تھی۔۔۔

نہیں گاڑی نہیں ہے میرے پاس ۔۔۔فرض کی صورت رونے والے ہو گئی۔۔۔آج تک وہ خاندان بھر کے آگے اکڑ کر چلتا رہا تھا سب اسے سر آنکھوں پر بیٹھا تے ۔۔آج پہلی دفعہ اسے آئینہ دیکھنے کو ملا۔۔۔۔

بہن میری بیٹی کے رشتے تو امریکہ سے تک آئے ہیں میں فراز جیسے سے کیوں کر بیاہ دوں۔۔۔ہے ہی کیا آپ کے پاس۔۔۔۔شہلا کی امّاں نے اُنہیں عجیب نظروں سے دیکھا۔۔۔

میرے بیٹے کو بھی رشتوں کی کمی نہیں۔۔۔وہ تو آپ کی بیٹی نے پھانس لیا۔۔تو میں عزت سے رشتا لئے چلی آئی۔۔۔شمس بیگم کا صبر جواب دے گیا تھا۔۔۔۔

میری بیٹی کو پھانسنے کے لیے یہی لنگور ملا تھا کیا۔۔۔دونوں امّاں بیٹی تمسخر اڑاتے زور زور سے ہنسنے لگی۔۔

شہلا کیا ہو گیا ہے تمہیں۔۔۔۔فراز نے مزاحمت کی۔۔۔

آدھی پلیٹ چنا چاٹ کہا کر بد ہضمی ہو گئی ہے مجھے۔۔۔شہلا نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔۔۔۔

فراز کے منہ کو تالا لگ گیا۔۔۔۔شمس بیگم بات سمجھ نہ سکیں۔۔۔۔

چلیں امّاں وہ اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔

یہ لو اپنی مٹھائی لیتے جاؤ۔۔۔۔شہلا نے تھیلی واپس فراز کو تھمائی۔۔۔۔

اور بات سنو۔۔۔۔۔جا کر چلوبھر پانی میں ڈوب مرو ۔۔۔۔تم تو حسنہ کے بھی لائق نہیں ہو۔۔۔۔نفرت سے کہتی شہلا نے دروازہ پٹخ سے بند کیا تھا۔۔۔۔اس کے دل کو تھوڑا سکون آیا تھا۔۔۔۔

باہر کھڑے دونوں ماں بیٹے کی شکل پر بارہ بج گئے تھے۔۔۔۔شمس بیگم نے مٹھائی کی تھیلی کھول کر سونگھی تو واقعی ایک عجیب سی بدبو نتھنوں سے ٹکرائی۔۔۔

چل اس کو شمع کے گھر ٹھکانے لگاتے چلتے ہیں۔۔۔۔شمس بیگم نے بیٹے کی اُتری ہوئی شکل دیکھ کر کہا۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨😜😜😜✨✨✨✨

کچھ ہی دیر میں شمع بیگم اور حسنہ واپس گھر کے لیے نکلے۔۔۔تھوڑی دیر ہی وہ اپنی دونوں بھابیوں کے پاس بیٹھی تھیں۔۔۔تعویذ گاڑ دیے گئے تھے سو اُن کا کام ہو گیا تھا۔۔۔۔

گھر پہنچتے ہی شمع بیگم کی نظر شمس آپا پر پڑی تو انہوں نے حیرت سے حسنہ کو دیکھا۔۔۔۔۔

کیسی ہے حسنہ میری بچی۔۔۔۔شہلا سے جوتے کھا کر انہیں حسنہ پر پیار آیا۔۔۔

حسنہ حیران پریشان سی کھڑی تھی خالہ کا لہجہ بالکل ہی الگ تھا۔۔۔

یہ مٹھائی لائی تھی میں ۔۔۔۔سوچا کچھ لیتی چلوں اپنی بہن کے لیے۔۔۔۔انہوں نے شمع بیگم کی طرف تھیلی بڑھائی۔۔۔۔شمع بیگم بس چکرا کر گرنے کو تھیں۔۔۔۔تعویذ دبائے ابھی گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے ۔۔۔نور بیبی کی کرامات کی وہ قائل ہو گئیں۔۔۔۔واقعی اُن کے تعویذ نے تو کمال ہی کر دیا تھا۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨🤭🌼🌼✨✨✨✨🌼✨

یہ شمع پھوپو بُہت جلدی میں تھیں آج ۔۔۔یوں آئی یوں گئیں۔۔۔مومنہ کو اُن کا آنا سمجھ نہیں آیا۔۔۔

اچھا ہے نہ تمہیں کیا کرنا اُن سے ۔۔۔جاتی ہیں تو جائیں۔۔۔حسنہ کو دیکھ کر تو غصّہ ہی آ گیا ریحان اُسے بھابی بنا کر ہمارے سر پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔۔۔آمنہ دوپٹہ اوڑھتی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔

تم کہاں جا رہی ہو۔۔۔مومنہ نے اُسے دوپٹہ اوڑھتے دیکھ کر پوچھا۔۔۔۔

دودھ لینے ۔۔ختم ہو گیا تھا صبح ۔۔۔میں منگوانا بھول گئی بھائی سے۔۔۔وہ جواب دیتی باہر کو نکل گئی۔۔۔سیڑھیاں اترتے ہوئے اُس نے احتیاط سے نیچے دیکھا ۔۔۔تائی امّاں اور عطیہ سامنے نہیں تھیں وہ تیزی سے باہر نکلتی چلی گئی۔۔۔

ایاز۔۔۔دکان پر پہُںچ کر اُس نے ایاز کو پکارا۔۔۔۔

آمنہ ۔۔۔۔ایاز لپک کر آیا۔۔۔۔

ایاز رشتا بھیجو اب۔۔۔ورنہ امّاں اُس فراز کے چکر میں دو دو ڈائن ہم پر مسلط کر دیں گی۔۔۔وہ دبی دبی آواز میں بولی۔۔۔۔

امّاں تو آنے کو تیار ہیں آمنہ مگر۔۔۔۔ایاز کے لبوں پر بات آ کر اٹک گئی۔۔۔۔

کیا مگر ایاز۔۔۔آمنہ کا دل ڈوبا۔۔۔

باجی نہیں مان رہی۔۔۔۔وہ نظریں جھکائے بولا۔۔۔

تو محبت کرنے سے پہلے کیوں نہیں پوچھا تھا باجی سے۔۔۔آمنہ کو غصّہ آیا۔۔۔۔

بولو۔۔۔وعدے کرتے وقت باجی یاد نہ آئی تھی تمھیں ۔۔۔وہ دکان پر لگی گرل کو جھٹکے دینے لگی۔۔۔

کیا کر رہی ہو آمنہ ۔۔۔لوگ دیکھ رھے ھیں۔۔۔ایاز نے دوسرے گاہکوں کو دیکھا۔۔۔۔

دیکھو ایاز مجھے ٹھیک طرح بتاؤ ۔۔۔تمھاری امّاں آئیں گی یا نہیں۔۔۔وہ دو ٹوک لہجے میں بولی۔۔۔

ہاں میں بھیجتا ہوں آمنہ۔۔۔ایاز کی گوری رنگت پر شرمندگی سے لالی چھا گئی۔۔۔۔

اُس نے دودھ کی تھیلی باندھ کر آمنہ کو تھمائی۔۔۔۔

باجی سے کہو اپنے گھر کو دیکھے۔۔۔ائی بڑی منع کرنے والی۔۔۔آمنہ نے پیسے کاؤنٹر پر پٹخ دیئے۔۔۔اور واپسی کے لیے مڑ گئی۔۔۔۔

🙄🙄🙄🙄🙄🙄🙄🙄🙄🙄🙄🙄🙄🙄🙄🙄

ذیشان کو کِسی بھی صورت عطیہ کے لیے امّاں کو ماننا تھا اور فراز ہی وہ کارڈ تھا جسے کھیل کر عطیہ اُس کی ہو جاتی۔۔۔۔مگر تائی امّاں بھی اتنی آسانی سے عطیہ کو اُس کا نہیں ہونے دینے والی تھیں۔۔۔۔

جاوید اور نوید صاحب کا گھر کے کسی بھی معاملے میں عمل دخل نہیں تھا وہ دونوں سارا دِن ہی گھر سے باہر گزار آتے۔۔۔۔

عطیہ ۔۔۔ نچلے حصے میں پہُںچ کر ذیشان نے عطیہ کو آواز لگائی۔۔۔۔

ہاں ۔۔۔ذیشان کی آواز پر وہ دوڑ کر آئی۔۔۔

میری جان ۔۔امّاں سے اپنے تعلقات میں بہتری لاؤ نہ۔۔۔وہ عطیہ کو سمجھا نے لگا۔۔۔

چچی جان کو زہر لگتی ہوں میں۔۔۔اور امّاں سے تو انہیں اللّٰہ واسطے کا بیر ہے۔۔۔عطیہ نے چٹخ کر جواب دیا۔۔۔

بس یہ۔۔۔یہ جو تمہارا انداز ہے نہ ۔۔۔اسی سے امّاں کو نفرت ہے۔۔۔ہمیشہ تلوار بنی رہنا۔۔۔۔۔ذیشان کو غصّہ آنے لگا۔۔۔

اچھا نہ۔۔غصّہ نہ کرو ۔۔۔میں کرتی ہوں کچھ۔۔۔۔عطیہ کو اُس کے غصے سے خوف آنے لگا۔۔۔۔

کون ہے عطیہ۔۔۔۔پیچھے سے امّاں کی آواز سن کر عطیہ واپس اندر کو دوڑی۔۔۔۔

کوئی نہیں امّاں ذیشان تھا آپ کا پوچھ رہا تھا۔۔سلام بھی کہا۔۔۔عطیہ نے جھوٹ سے کام چلایا۔۔۔

رہنے دے ۔۔آیا بڑا سلام کرنے والا۔۔۔کبھی جھانک کر نہیں پوچھا تائ امی کوئی کام ہے تو بتاؤ۔۔۔۔فراز کو دیکھو۔۔۔۔۔عطیہ نے سر پیٹ لیا ۔۔فراز کی تعریفوں کا پل بندھنا شروع ہو چکا تھا اب یہ اتنی آسانی سے ختم نہیں ہونے والا تھا وہ چپکے سے امّاں کے پاس سے کھسک لی۔۔۔

🙄🙄🙄🙄🙄🌼🌼🌼🌼🌼🌼🙄🙄🙄🙄🙄

شمس آپا اور فراز جا چکے تھے۔۔۔شمع بیگم عجیب سی کیفیت میں مبتلا تھیں۔۔۔حسنہ کا دل خوشی سے دھڑکنا بھول گیا تھا۔۔۔اور اوپر کھڑی زرینہ کو بھی شوکڈ لگا تھا۔۔۔شمس بیگم اور مٹھائی کے ساتھ ۔۔۔اُن کی کنجوسی پر تو آنے والے وقتوں میں کتابیں شائع ہونے والی تھیں پھر آج یہ کیا ماجرا ہو گیا۔۔۔۔

میں کہتی ہوں امّاں نور بیبی تو بہت پہنچی ھوئی ہستی ہیں۔۔۔حسنہ مٹھائی منہ میں بھر کر بولی۔۔۔۔

بس عطیہ سے جان چھوٹ جائے کسی طرح۔۔۔شمع بیگم کو عطیہ کی فکر ستائی ۔۔۔

بھروسہ رکھو امّاں تعویذ پر۔۔۔۔دیکھنا اب تم کیسے فراز کا رشتا ڈالتی ہیں خالہ۔۔۔حسنہ خوشی میں ساتویں آسمان کو بھی کراس کر چکی تھی۔۔۔۔۔

🤓🤓🤓🤓🤓🤓🌼🌼🌼🤓🤓🤓🤓🤓🤓🤓

آج پارٹی تھی۔۔۔سارہ کے گھر۔۔۔ماڈل کولونی میں۔۔۔اُس کی ادائیں اتراہٹيں سب عروج پر تھیں۔۔۔

زرینہ سارہ اور حسنہ تینوں گھر میں موجود تھیں بس شمع بیگم نہیں آئیں تھی یہ اُن کی شان کے خلاف تھا کے وہ زرینہ کے گھر میں قدم رکھتیں۔۔۔۔

سارہ نے زرینہ کی ماما کو ہی ماما بنا لیا ویسے بھی وہ ہائی فائی سوسائٹی کے مینرز سے واقف تھیں۔۔۔اور سب سے بڑھ کر اُن کی انگریزی بھی کمال کی تھی۔۔۔شمع بیگم کو وہ با خوشی گھر چھوڑ آئی تھی۔۔۔

زرینہ نے ساڑھی باندھ کر جوڑا لپیٹا بلا شبہ وہ بہت حسین تھی۔۔۔۔سارہ کو اُس کی تیاری دیکھ کر غصّہ آنے لگا۔۔۔۔زرینہ تیار ہو کر سارہ اور حسنہ کو مات دے جاتی۔۔۔۔

سب مہمان آ چکے تھے احسن احمد بھی موجود تھا سارہ کی ماما سے وہ بُہت متاثر ہوا تھا۔۔۔زرینہ کی بھی اُس نے کھلے دل سے تعریف کی سارا کو تو جیسے آگ ہی لگ گئی تھی ۔۔۔حسنہ خاموش ہی بیٹھی رہی تھی۔۔۔۔۔

سب کچھ بہت اچھا جا رہا تھا۔۔۔بس ایک گھنٹہ ہونے کو تھا زرینہ نے سارہ کو آنکھیں دکھائیں۔۔۔۔

سب لوگ آرام سے خوش گپیوں میں مصروف تھے اُن کو واپس جانے کا کیسے کہتی۔۔۔۔۔

سارہ مشکل میں آ پھنسی کِسی کا بھی اٹھنے کا کوئی ارادہ نہیں لگ رہا تھا ۔۔۔اُس نے مدد طلب نظروں سے حسنہ کو دیکھا۔۔۔۔

مجھے لائبریری جانا ہے ایگزیم ہونے والے ہیں نہ۔۔۔۔حسنہ نے سب کو مخاطب کیا۔۔۔۔

اکیلی مت جانا حسنہ میں ساتھ چلوں گی ۔۔۔سارہ نے لقمہ دیا۔۔۔

زرینہ واپس کمرے میں آئی تھی ۔۔۔ایک گھنٹہ پورا ہوا۔۔۔اُس نے زور سے اعلان کیا۔۔۔۔

سب نے حیرت سے زرینہ کو دیکھا وہ کونسے گھنٹے کی بات کر رہی تھی پتہ نہیں۔۔۔

حسنہ اور سارہ جو طریقے سے بات کرنے والے تھے گڑ بڑ ا گئے۔۔۔

جی بھابی ۔۔۔آپ چلیں میں آتیں ہوں۔۔۔سارہ نے منت بھرے لہجے میں کہا۔۔۔۔

زرینہ دھیرے سے مسکراتی کمرے سے نکل گئی۔۔۔

کیا ہوا سارہ ۔۔۔۔کیسا گھنٹہ پورا ہو گیا۔۔۔۔احسن نے سارہ کو حیرت سے دیکھا۔۔۔۔

سارہ کے ماتھے پر پسینہ چمکنے لگا۔۔۔۔

وہ اصل میں ہر ایک گھنٹے بعد ماما کو میڈیسن دینی ہوتی ہے نہ بھابی وہی یاد دلاتی ہیں ۔۔۔بہت پیار کرتی ہیں نہ ماما سے۔۔۔۔سارہ نے مسکرانے کی بھر پور کوشش کی۔۔۔۔سارہ کی بات پر حسنہ کا قہقہ لبوں پر ہی دم توڑ گیا سارہ نے اُسے بری طرح گھورا تھا۔۔۔۔

اچھا چلو ہم نکلتے ہیں جلد ہی پھر آئیں گے بُہت اچھا لگا  تمھاری ماما سے مل کر ۔۔۔۔سارہ کو گہری نظروں سے دیکھتا احسن اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔اُس کے پیچھے سب ہی اٹھ گئے۔۔۔۔سارہ کی جان میں جان آئی۔۔۔آج عزت بچ گئی تھی ورنہ زرینہ بھابی تو وہیں ذلیل کر دیتیں۔۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨😍😍✨✨✨✨✨

دروازے کی آواز آئی تو عطیہ نے کپڑا سائڈ میں پھینک کر اٹھ کر دروازہ کھولا۔۔۔۔

سامنے ہی دودھ والا ایاز کھڑا تھا ۔۔۔۔

بولو۔۔۔عطیہ نے حیرت سے اُس کے پیچھے کھڑی دو عورتوں کو دیکھا۔۔۔۔

جی وہ میں ایاز۔۔۔۔ایاز کو سمجھ نہ آیا کیسے تعارف کروائے۔۔۔۔

ہاں ہاں دودھ والے ہو نہ ۔۔۔جانتی ہوں میں ۔۔۔یہاں کیوں آئے ہو۔۔۔۔۔عطیہ کو ابھی بھی اُس کا آنا سمجھ نہیں آیا۔۔۔۔

رشتا لے کر آئے ہیں بیبی۔۔۔۔اندر بلانے کا رواج نہیں ہے کیا تمھارے یہاں۔۔۔

اُس کے پیچھے کھڑی ایک عورت زہر بھرے لہجے میں بولی۔۔۔۔

رشتا۔۔۔۔عطیہ کو لگا اُس نے غلط سنا ہے۔۔۔۔

ہاں آمنہ کا رشتا۔۔۔ایاز نے دھیمی آواز میں کہا۔۔۔۔

عطیہ کی آنکھیں پھٹ گئیں۔۔۔۔۔پل۔بھر لگے اُسے ماجرہ سمجھنے میں۔۔۔۔آمنہ کا دِن میں پانچ بار دودھ لینے جانا اب سمجھ آیا اُسے۔۔۔۔۔۔

آئیں نہ جی آئیں ۔۔۔اوپر رہتے ہیں وہ لوگ چلے جائیں آپ۔۔۔عطیہ نے اُنہیں سیڑھیوں کا راستہ دکھایا۔۔۔۔

اُن کے اوپر جاتے ہی وہ امّاں کے پاس بھاگی پھر کیا تھا تھوڑی ہی دیر میں وہ دونوں پیچھے گیلری میں پہُںچ گئیں ۔۔۔آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔۔۔۔۔

ابھی تعارف چل رہا تھا۔۔۔۔آنے والوں نے آنے کا مقصد بیان نہیں کیا تھا۔۔۔۔عطیہ کے کان پوری طرح اوپر لگے ہوئے تھے۔۔۔۔۔آج تو فری میں شو سننے کو ملنا تھا۔۔۔۔۔

🤭🤭🤭🤭🤭✨✨✨🤭🤭🤭✨✨✨🤭🤭

شہلا کی یاد میں فراز کا حال مجنوں جیسا تھا۔۔۔۔کتنی بیزتی کی تھی شہلا نے۔۔۔۔کیسا سلوک کیا گیا تھا اُس کے ساتھ۔۔۔۔

دل ٹوٹ کر کرچی کرچی ہوا تھا۔۔۔۔وہ کمرے میں گانے لگانے بیٹھا تھا۔۔۔۔

شیشہ ہو یا دل ہو آخر

ٹوٹ جاتا ہے ٹوٹ جاتا ہے۔۔۔

فراز کو شہلا کی شکل چار سو دکھائی دے رہی تھی۔۔۔وہیں شمس بیگم کو مٹھائی کے پیسے ضائع ہو جانے کا دکھ تھا۔۔۔۔فضول میں شمع کو مٹھائی دے آئیں تھی۔۔۔مگر جو بھی تھا حسنہ نے ہمیشہ بہت عزت دی تھی اُنھیں ۔۔۔۔ فراز کے لیے عطیہ اور حسنہ میں سے ہی کِسی کا انتخاب کرنا ٹھیک لگا اُنھیں۔۔۔۔

فراز اب اُس شہلا کو بھول جاؤ بیٹا اور یہ بتاؤ عطیہ یہ حسنہ میں سے کسے بہو بنا کے لے آؤں۔۔۔۔وہ بیٹے کے پاس ہی بیٹھ گئیں۔۔۔۔۔

امّاں کیوں دل جلاتی ہو میرا۔۔۔۔۔فراز تپ گیا۔۔۔

بیٹا پورے بتیس برس کا ہو رہا ہے بتا کون لڑکی دے گا تجھے۔۔۔۔آجکل تو لڑکی والوں کی ڈیمانڈ ہی زیادہ ہے۔۔۔۔شمس بیگم کو ایک ہی ٹھوکر کھا کر عقل آ گئی تھی۔۔۔۔

فراز نے ناراض نظروں سے ماں کو دیکھا۔۔۔۔۔

بیٹا دیکھ سچ کہوں تو عطیہ اور حسنہ دونوں ہی اچھی ہیں۔۔۔۔

امّاں حسنہ کا موٹاپا دیکھا ہے۔۔۔۔نہ پہننے کا ڈھنگ نہ چلنے کا سلیقہ۔۔۔۔فراز کو حسنہ کا سراپا یاد آیا۔۔۔۔

اور عطیہ ہر وقت بس کپڑوں اور سلائی میں چپکی رہتی ہے اور ٹوہ لینے کی تو بیماری ہے اُسے۔۔۔۔۔فراز نے بڑا غیر جانبدارانہ تجزیہ پیش کیا۔۔۔۔۔

سوچ لو فراز ۔۔۔۔ایسا نہ ہو کے سب کچھ ختم ہو جائے۔۔۔۔اب تو تمھارے چہرے پر گڈے پڑ رہے ہیں جگہ جگہ۔۔۔۔اُنہوں نے بیٹے کو آئینہ دکھایا۔۔۔۔

فراز سوچوں میں ڈوب گیا۔۔۔عطیہ ۔۔حسنہ ۔۔۔۔حسنہ ۔۔عطیہ۔۔۔۔دل و دماغ جنگ لڑ رہے تھے۔۔۔اُسے دونوں ہی پسند نہیں تھیں۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨😘😘😘✨✨✨✨✨😍

رشتا لائے ہیں ہم آمنہ کے لیے ایاز کا۔۔۔۔ایاز کی بہن نے چبھتے ہی لہجے میں کہا۔۔۔۔۔

آمنہ جہاں شرم سے لال ہوئی وہیں امّاں غصے سے لال ہو گئیں۔۔۔۔

کیا کہا آپ نے۔۔۔۔اس دودھ والے کا رشتا ۔۔۔میری آمنہ کے لیے۔۔۔۔اُن کا بس نہیں چلا ایاز کا منہ نوچ لیں۔۔۔۔

ہمیں بھی کوئی شوق نہیں آپ کی بیٹی کو بیاہنے کا۔۔۔۔ایاز کی بہن تو ویسے ہی نا خوش تھی۔۔۔۔

یہ تو آپ کی بیٹی نے پھنسا لیا میرے اکلوتے بھائ کو۔۔۔ہے وقت چھت پر کھڑی نین مٹکّے کرتی ہے۔۔۔ذرا شرم نہیں۔۔۔۔انہوں نے دل کی بھڑاس نکالی۔۔۔۔

نیچے کھڑی عطیہ اور اس کی امّاں کی بتیسی نکل آئی۔۔۔

باجی خدا کے لیے چپ کرو۔۔۔ایاز نے ہاتھ جوڑے۔۔۔۔

اٹھو اور نکلو یہاں سے۔۔۔۔میری بیٹی پر الزام لگاتے شرم نہیں آئی۔۔۔۔آمنہ میری سیدھی سادہی بچی ہے۔۔۔کبھی کسی کو نظر اٹھا کر نہیں دیکھا اس نے۔۔۔۔امّاں کو اپنی بیٹی ہی نیک نظر آئی۔۔۔۔۔

جی ٹھیک کہا آپ نے۔۔۔نظر اٹھا کرنہیں دیکھا دیدے پھاڑ پھاڑ کر دیکھا ہے اس نے۔۔۔۔سیدھی تو اتنی ہے کہ گھر کے سیدھ میں ہی دکان والے کو پھنسا لیا۔۔۔۔ایاز کی بہن رشتا جوڑنے نہیں ہمیشہ کے لیے قصہ مکانے آئی تھیں۔۔۔

آمنہ کی آنکھیں برس پڑیں۔۔۔۔وہیں ایاز بھی اس صورتحال سے نمٹنے کی کوششں کر رہا تھا مگر باجی چپ ھونے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔۔۔

دیکھا امّاں کیسا گل کھلایا آمنا نے۔۔۔عطیہ نے سر گوشی کی۔۔۔۔

ہممم۔۔۔ٹھیک کہا ۔۔۔۔مومنہ بھی فرحان کے آگے پیچھے پھرتی ہے نظر رکھنا پڑے گی ہمیں۔۔۔۔اُن کو فرحان کی فکر ستائی۔۔۔۔

عطیہ کو اپنا اور ذیشان کا رشتہ کھٹائی میں پرتا نظر آیا۔۔۔

باجی چپ کر جاؤ خدا کا واسطہ۔۔۔ایاز کی شکل پر بارہ نہیں چوبیس بج رہے تھے۔۔۔۔

نہیں نہیں ایاز بولنے دو۔۔۔بولنے دو باجی کو اپنی۔۔۔آمنہ سے اپنی توہین برداشت نہیں ہو رہی تھی۔۔۔۔

میں کہتی ہوں کے بیٹی کو اچھی تربیت دی آپ نے ۔۔۔پیسے والا لڑکا دیکھا نہیں رال ٹپک گئی وہیں۔۔۔۔۔باجی تو کسی سینٹر سے ٹریننگ لے کر آئی تھیں شاید۔۔۔۔

پیسے والا۔۔۔۔دودھ والا ہے تمہارا بھائی۔۔۔۔آمنہ کی امّاں کو آگ لگی۔۔۔۔

باڑے ہیں اپنے۔۔۔ دو سو بھینسیں ہیں اپنی۔۔۔۔پورے شہر میں ہمارا کام چلتا ہے۔۔۔۔باجی نے امیری کا رعب جھاڑ ا۔۔۔وہیں آمنہ کی امّاں چونکی تھیں۔۔۔۔۔

باجی خدا کا واسطہ بھی دے چکا میں تمھیں ۔۔۔اب تو بس کر دو۔۔۔۔

وہ جو ان لوگوں کو دھکّے مار کے نکالنے والی تھیں اب خاموش کھڑی تھیں دماغ نے ایک اور ایک گیارہ کا حساب نکال لیا تھا۔۔۔۔

فراز سے کہیں زیادہ خوش شکل اور پیسے والا تھا ایاز۔۔۔تووہ گھاٹے کا سودا کیوں کرتیں جب کے  آمنہ بھی یہی چاہتی تھی۔۔۔۔۔

بیٹھ کر بات کرو بہن ۔۔۔۔ اُن کا لہجہ ہی بدل گیا ایاز اور آمنہ نے حیرت سے اُنھیں دیکھا۔۔۔۔

ایاز کی امی نے اپنی بیٹی کو زبردستی بٹھایا۔۔۔۔

بہن آئے تو رشتا لے کر تھے ایاز کا۔۔۔مگر لگتا ہے آپ کو ایاز کا دودھ والا ہونا پسند نہیں۔۔۔۔ایاز کی امی کچھ سلجھی ہوئی خاتون تھیں۔۔۔۔

ارے نہیں بہن۔۔۔کام کوئی بھی چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا۔۔۔ایاز تو بہت محنتی بچہ ہے۔۔۔۔مجھے تو بہت پسند ہے۔۔۔۔۔آمنہ پانی تو لا مہمانوں کے لیے۔۔۔۔اچانک ہی اُن کے لہجے میں شہد جیسی مٹھاس در آئی۔۔۔۔

آمنہ دوڑ کر پانی لے آئی۔۔۔۔مومنہ بھی خاموشی سے کونے میں کھڑی تھی۔۔۔۔

اور گیلری میں نیچے وہ دونوں سانس روکے کھڑی تھیں۔۔۔۔آمنہ نے کیا ہاتھ مارا ہے امّاں۔۔۔۔عطیہ کو جلن سی محسوس ہوئی۔۔۔۔

ہاں ٹھیک کہا تم نے۔۔۔۔یہ ایاز تو بُہت پیسے والا ہے بھئی۔۔۔بیٹی کی بات پر وہ سو فیصد متفق ہوئی تھیں۔۔۔۔

🎊🎊🎊🎊🎊🎊🎊🎊🎊🎊🎊🎊🎊🎊🎊🎊

احسن سارہ کے کیبن میں ہی چلا آیا۔۔۔۔سارہ بھی اسی کی طرف متوجہ تھی۔۔۔۔بُہت نائس ہے آپ کی فیملی۔۔۔۔وہ مسکرایا تھا۔۔۔۔

مجھے آپ جیسی ہی لائف پارٹنر چاہیے تھی سارہ۔۔۔۔پڑھے لکھے لوگ سمجھ بوجھ رکھنے والے۔۔۔۔اور کلاسی۔۔۔۔وہ سارہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بات کرتا ہوا اُس کے قریب آیا تھا۔۔۔

سارہ کو اپنا سانس اٹکتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔۔وہ اُس کے اور قریب ہوا۔۔۔۔۔سارہ۔۔۔۔شادی کرو گی مجھ سے۔۔۔۔احسن احمد نے سارہ کے دل کے تاروں کو چھوا تھا۔۔۔۔

وہ اثبات میں سر ہلا گئی۔۔۔۔احسن نے پیار سے اُس کے بالوں کو کندھے سے پیچھے دھکیلا۔۔۔۔

تھینکس سارہ۔۔۔۔۔ماما کو کب بھیجوں۔۔۔۔وہ ڈائریکٹ رشتا بھیجنا چاہ رہا تھا ۔۔۔سارہ کے طوطے اڑ گئے۔۔۔۔جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے سارہ۔۔۔۔اُسے امّاں کا جملہ یاد آیا۔۔۔۔

زرینہ بھابی اب کوئی فیور نہیں دینے والی تھیں۔۔۔۔۔۔

🎊🎊🎊🎊🎊🎊🎊🎊🎊✨✨✨✨🎊🎊🎊

میں آمنہ کے ابّا سے بات کر کے آپ کو کل ہی جواب دیتی ہوں۔۔۔۔۔وہ راضی تھیں۔۔۔۔

بہن مجھے بُہت بیماریاں لگی ہوئی ہیں بس آج کل کی مہمان ہوں اس لیے فوری شادی کرنا چاہتے ہیں ہم لوگ۔۔۔

اگر آپ کا جواب ہاں ہے تو اسی جمعے کو سادگی سے شادی کر لیتے ہیں۔۔۔۔۔ایاز کی امی نے سیدھے سادے لفظوں میں بات مکمل کی۔۔۔۔

ابھی بیٹے کا سہرا دیکھنے کی جلدی ہے پھر پوتے پوتیاں گود میں کھلانے کی جلدی ہو گی۔۔۔۔۔یہ جو اس طرح کہہ کر شادیاں نمٹائ جاتی ہیں یہ لوگ کبھی نہیں مرتے لکھ لو میری بات۔۔تمھیں موت آ جائے گی ان کی تب بھی کوئی خواہش ادھوری ہو گی ۔۔مومنہ نے سرگوشی کی تھی آمنہ کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔۔۔۔

ایاز کی امّاں نے آمنہ کو گھورا تھا۔۔۔اُس نے جلدی سے دانت اندر کیے۔۔۔۔

مومنہ منہ بند رکھ اپنا۔۔۔وہ دبی دبی آواز میں بولی۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨💓💓✨✨✨✨✨✨

ذیشان سیڑھیاں چڑھ رہا تھا جب عطیہ پر نظر پڑی ۔۔۔۔اُس نے مسکرا کر عطیہ کو دیکھا۔۔۔۔رکشے کی چابیاں ہاتھ میں گھوما تا عطیہ کی طرف چلا آیا۔۔۔۔

کیا بات ہے کچھ کہنا ہے۔۔۔۔عطیہ کی خاموش نظریں اُس پر جمی ہوئی تھیں۔۔۔

سب کی محبت امر ہو جائے گی بس میں سلائی کرتے ہی رہ جاؤں گی اور تم رکشا ہی چلاتے رہنا۔۔۔۔عطیہ نے جلے دل سے کہا۔۔۔۔

کیا ہوا میری رانی۔۔۔۔غصّہ کیس بات کا ہے پھر کچھ غلط سل گیا کیا۔۔۔۔آجاؤ رکشے میں بیٹھا کر گھما لاؤں۔۔۔وہ مذاق اڑاتے ہوئے بولا۔۔۔۔

قسمت غلط سل گئی تمھارے ساتھ ذیشان۔۔۔۔تم کبھی شادی نہیں کرو گے مجھ سے۔۔۔بس رکشے میںہیگھماتےرہو گے۔۔۔۔دو آنسو اُس کے رخسار بھگو گئے۔۔۔۔

ہوا کیا ہے کیوں سٹار پلس بن گئی ہو۔۔۔اُس کے آنسو ذیشان کے دل پر نہیں دماغ پر گرے تھے وُہ غصے کا اتنا ہی تیز تھا۔۔۔۔

عطیہ نے ایاز کے رشتے والا سارا قصہ سنا ڈالا۔۔۔ذیشان غصے میں بھڑکتا ہوا تیزی سے سیڑھیاں چڑھ گیا۔۔۔۔عطیہ اُسے آوازیں ہی دیتی رہ گی۔۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨💓💓💓✨✨✨✨✨❤️

امّاں۔۔۔ امّاں ۔۔ وہ بہت غصے میں گھسا تھا۔۔۔

کیا ہوا بیٹا۔۔۔۔امّاں نے بیٹے کے تیور دیکھتے ہوئے نرمی سے کہا۔۔۔۔

اپنی بیٹی سے پوچھو کیا ہوا۔۔۔اب یہاں دودھ والوں کے رشتے آئیں گے۔۔۔۔اسے سارا غصہ ایاز کے دودھ کے کام کی وجہ سے آیا تھا۔۔۔۔

تم تو کوئی وزیر لگے ہوئے نہ بھائی۔۔۔۔آمنا تپ کے  بولی۔۔۔

شرم نہیں آتی بھائی سے زبان چلاتی ہے۔۔۔ذیشان نے امّاں کو شکایتی نظروں سے دیکھا۔۔۔۔

بات سن بیٹا۔۔۔اس کا دودھ کا کام ہے تو تُو بھی رکشا چلاتا ہے کل کو کوئی یہی کہہ کر تجھیے بھی بیٹی نہیں دے گا۔۔۔امّاں نے صاف لفظوں میں اسے آئینہ دکھایا۔۔۔۔

امّاں ۔۔مطلب تمہیں کوئی اعتراض نہیں۔۔۔ذیشان حیران ہوا۔۔کل تک تو تم فراز کے لیے مر رہی تھیں نہ۔۔۔۔

بیٹا فراز کے پاس سرکاری نوکری کے علاوہ ہے ہی کیا۔۔۔ایازکا پورا کاروبار ہے دودھ کا۔۔۔۔پسند بھی کرتا ہے اپنی آمنہ کو۔۔۔فراز کے مزاج تو سات آسمان بھی پار کر چکے ہیں عمر بھی زیادہ ہے اس کی آمنہ سے۔۔۔۔وہ مکمل طور پر راضی تھیں۔۔۔ایاز کے کاروبار نے اُنہیں فراز کی ساری خامیاں دکھا دیں تھیں جو انہیں آج تک نظر نہیں آئی تھیں۔۔۔۔

بس اس جمّے کو سادگی سے شادی ہے۔۔۔میں نے ہاں کر دی ہے اب کوئی کچھ نہیں بولے گا تمہارے ابّا بھی راضی ہیں۔۔۔یہ کہہ کر انہوں نے ذیشان کا منہ بند کر دیا۔۔۔

✨✨✨✨✨✨💓💓💓✨✨✨😍✨😍✨

چھوٹی مامی کا فون آیا تھا۔۔۔شمع بیگم نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا جہاں حسنہ اور سارہ بیٹھی ٹی وی پر بگ باس دیکھ رہی تھیں۔۔۔۔آمنہ کی اس جمعے شادی ہے۔۔۔انہوں نے دونوں کے سر پر پٹاخہ پھوڈا۔۔۔۔۔

کیا آمنہ کی شادی ۔۔۔۔تعویذ تو عطیہ کے لیے گارّا تھا نہ۔۔۔حسنہ کو بات حضم نہیں ہوئی۔۔۔۔۔

تعویذ کے بنا کسی کا رشتہ نہیں ہو سکتا کیا۔۔۔موٹی عقل کی۔۔۔سارہ نے حسنہ کے سر پر چپت لگائی ۔۔۔حسنہ سر سہلانے لگی۔۔۔۔

پتہ نہیں کس راہ چلتے سے رشتا کر ڈالا بھابی نے۔۔۔اب یہ تو جا کے ہی پتہ چلے گا۔۔۔شادی بھی اتنی جلدی رکھی ہے پتہ نہیں کیوں۔۔۔۔شمع بیگم کو کھلبلی لگ گئی۔۔۔۔اسی اثناء میں اُن کا فون بجا تھا۔۔۔شمس آپا لکھا دیکھ کر فون اٹھایا۔۔۔

جی آپا۔۔۔ہاں آئی ہے شادی کی دعوت۔۔۔فون پر ۔۔۔پھوپو ہیں ہم کوئی صلاح مشورے کی ضرورت تک نہ سمجھی بھابی نے۔۔۔غیروں کی طرح فون پر دعوت دے ڈالی۔۔۔۔اب وہ دوسری طرف کی بات سن رہی تھیں۔۔۔

جی ٹھیک کہا آپ نے آپا میں بھی ڈھائی سو کا لفافہ رکھ آؤں گی جب غیروں کی طرح بلایا ہے تو ہم کیوں سگے بنیں۔۔۔۔اب جا کے پتہ چلے گا کون سا ہیرا مل گیا بھابی کو۔۔۔۔آمنا کا چکر پکڑا گیا ہوگا اس دودھ والے سے۔۔۔اس لیے جلد بازی میں کسی سے رشتا کر ڈالا ہوگا بھابی نے۔۔۔شمع بیگم نے تکا مارا۔۔۔

چلیں جمّے کو ملتے ہیں ۔۔۔اللّٰہ حافظ۔۔۔۔فون بند کر کے وہ وہیں بیٹھ گئیں۔۔۔

امّاں میں شہلا سے کپڑے مانگ لاؤں شادی میں پہننے کے لئے۔۔۔۔حسنہ نے ڈرتے ہوئے پوچھا۔۔۔

کمبخت ماری۔۔۔مانگ کے پہننے کی عادت نہیں جائے گی تیری۔۔۔الماری بھری پڑی ہے مگر نہیں۔۔۔ابھی کھول الماری۔۔۔آٹھ بارہ جوڑے تو یونہی قدموں میں آ کے سلامی دیں گے۔۔۔شمع بیگم نے اسے اچھے سے سنا ڈالیں۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨😍😍😍😍😍😍😍😍✨✨

آمنہ دلہن بنی بیٹھی تھی۔۔۔محلے کے ایک پارلر سے اُسے تیار کروایا گیا تھا ۔۔۔اس کی خوبصورتی کو چار داغ لگ گئے تھے۔۔۔۔

اچھی بھلی لڑکی کو لال بھوتنی بنا کر بھیج دیا۔۔۔۔مومنہ غصے میں اسے بار بار منہ دھونے کا کہہ رہی تھی۔۔۔۔

برات آنے والی ہے مومنہ۔۔۔فضول کے مشورے مت دے۔۔۔۔امّاں نے اسے جھاڑا۔۔۔۔

گھر کے باہر ہی ایک چھوٹا ٹینٹ لگا کر گلی بند کی گئی تھی۔۔انتظام گلی میں ہی کیا گیا تھا۔۔۔۔۔عطیہ کا دل جلا جا رہا تھا وہ آمنہ سے پورے دو ماہ بڑی تھی پھر بھی پہلے شادی اس کی نہیں ہو رہی تھی۔۔۔۔

شمع پھوپو اور شمس پھوپو تشریف لے آئیں تھی حسنہ اور سارہ بھی خوب پینٹ کر کے آئیں تھی زرینہ اور مصدق بھی ساتھ آئے تھے زرینہ لال ساڑھی باندھے نخوت سے ایک کونے کی کرسی پر بیٹھ گئی۔۔۔۔کوئی بینکوائٹ نہیں ملا تھا تمہاری مامی کو ۔۔۔یہاں اونچی نیچی زمین پر کرسیاں رکھ دیں۔۔۔بالوں کو جھٹکا مارتی وہ سب کی نظروں کا مرکز تھی۔۔۔۔۔

تمہاری شادی بھی گلی سے ہی کی تھی تمہارے ابّا نے۔۔۔مصدق کا دل جلا۔۔۔۔زری نے اسے گھو ر کر دیکھا۔۔۔۔

چل ہم آمنہ کےپاس اندر چلتے ہیں۔۔۔۔حسنہ سارہ کا ہاتھ پکڑ کر کھڑی ہوئی۔۔۔سامنے سے آتے فراز کو دیکھ کر اس کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں تھیں۔۔۔۔

حسنہ کو دیکھ کر فراز رک گیا تھا ۔آج وہ واقعی بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔۔عطیہ یا حسنہ ۔۔۔ دل نے لمحوں میں فیصلہ کیا تھا۔۔۔۔

حسنہ اُس سے نظر چراتی اندر جانے ہی لگی تھی کہ پاؤں کے نیچے پتھر آجانے کے وجہ سے وہ لڑکھڑا گئی فراز نے آگے بڑھ کر اُس کے بھاری بھرکم وجود کو سنبھالنے کے کوشش کی اور نتیجتاً وہ خود بھی لڑکھڑا گیا۔۔۔۔ارد گرد بیٹھے لوگوں کی دبی دبی ہنسی کی آوازیں سنائی دیں۔۔۔ حسنہ نے شرمندگی سے فراز کو دیکھا۔۔

سمبھل کر حسنہ۔۔۔۔فراز نے نرمی سے کہا۔۔۔

حسنہ فراز کے منہ سے کچھ سخت الفاظ سننے کے لئے تیار تھی مگر فراز کے لہجے نے اُسے ششدر کر دیا۔۔۔

چلو بھی اندر۔۔۔سارہ نے اُسے کھینچا۔۔۔۔دل میں بجتے گٹار سارہ کی آواز پر خاموش ہو گئے۔۔۔وہ دونوں اندر کی طرف چلی گئیں فراز پیچھے سے حسنہ کو جاتے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔ شہلا کی نسبت آج حسنہ اُسے زیادہ خوبصورت لگی تھی یا شاید یہ اُس بعزتی کا کمال تھا جو شہلا نے کی تھی۔۔۔

سارہ سن۔۔۔حسنہ اُس کے کان میں گھسی۔۔۔۔

کیا ہے سب دیکھ رھے ھیں۔۔۔۔سارہ نے اُسے دھکیلا۔۔۔

تعویذ کا کمال دیکھا۔۔۔فراز کا لہجہ ہی بدل گیا۔۔۔وہ خوشی سے سر شار ہو کر بولی۔۔۔۔۔

سارہ نے اُسے غصے سے دیکھا تھا۔۔۔۔

💝💝💝💝💝👌👌💝💝💝💝💝👌👌💝💝

بہت خوب بھابی ۔۔۔ضرورت ہی نہ سمجھی نندوں کو پوچھنے کی۔۔۔

رشتا بھی ہو گیا اور شادی بھی رکھ دی۔۔۔اب بھی کیوں بلا لیا ہمیں۔۔۔۔شمع بیگم اور شمس بیگم آج بھابی سے لڑنے کے لئے تیار تھیں۔۔۔

برات آنے کو ہے اور آپ دونوں ہیں کے۔۔۔۔بھتجی کی شادی ہے برات کا استقبال کریں۔۔۔۔فرخندہ اور طاہرہ نے مل کر بات ختم کرنے کی کوشش کی۔۔۔

یہی تو کہہ رھے ہیں ہم۔۔۔ کے بھتیجی کی شادی ہے اور ہمیں مہمانوں کی طرح بلایا گیا ہے۔۔۔وہ دونوں ٹلنے کو تیار نہ تھیں۔۔۔۔

آمنہ کا میک اپ بہنا شروع ہو گیا تھا جگہ جگہ سے بیس پھٹنے لگی ۔۔ آنکھوں پر لگی چمکی اب گالوں پر آ ٹہری تھی۔۔۔۔مگر برات نہ آئی تھی ۔۔۔۔

ہائے آمنہ۔۔۔یہ میک اپ کو کیا ہوا ۔۔۔کیا حال ہو گیا۔۔۔سارہ کی چیخ نکلی تھی۔۔۔۔

آمنہ کی شکل بھی رونے والی ہو گئی تھی سارہ جو اُس کے ساتھ سیلفی لینے کے ارادے سے اندر آئی تھی اب اپنی اکیلے کی ہی سیلفیاں لے رہی تھی۔۔۔۔

برات دروازے پر کھڑی ہے چلو لڑکیوں ۔۔۔۔ چلیں نہ آپا آپ دونوں بھی ۔۔۔گلے شکوے پھر کبھی۔۔۔۔طاہرہ بیگم نے سب کو برات کے استقبال کے لیے بلایا۔۔۔۔

سب ہی دلہا دیکھنے کو بےتاب تھے سو جلدی سے باہر کو لپکے۔۔۔۔۔

پھولوں سے بھری پلیٹیں لیے مومنہ سارا عطیہ اور حسنہ سب سے آگے کھڑی تھیں۔۔۔آج عطیہ بہت بجھی بجھی تھی بار بار شکوہ کناں نظروں سے ذیشان کو دیکھتی اور منہ پیھرتی رہی۔۔۔۔

کیا ہوا عطیہ کیوں سڑ رہی ہو۔۔۔حسنہ پوچھ بیٹھی۔۔۔۔

میں کیوں سڑ نے لگی۔۔۔عطیہ کھول اٹھی۔۔ ۔

اچھا یہ تو بتاؤ دلہا کون ہے۔۔۔۔۔سارہ نے سہرے کے اندر چھپے دلہے کو جھانک جھانک کر دیکھنے کی کوشش کی۔۔۔

ابھی دیکھ لینا۔۔۔کون ہے۔۔۔۔اتنی کیا جلدی ہے۔۔۔۔عطیہ نے منہ بنایا۔۔۔۔

برات اندر آئے تو دیکھے نہ۔۔۔۔حسنہ نے دروازے پر اٹکی برات کو دیکھا۔۔۔۔

کچھ گڑ بڑ لگ رہی ہے سارہ۔۔۔مامی ماموں کی شکل دیکھ۔۔۔۔لگتا ہے کوئی مسئلہ ہو گیا ہے۔۔۔۔۔حسنہ کو تشویش ہوئی۔۔۔۔

جاؤ جا کر پتہ کر کے آو۔۔۔عطیہ نے اُسے ہی بھیجا ۔۔۔

حسنہ فورا کھوج لگانے آگے بڑھ گئی۔۔

🥴🥴🥴🥴🥴🥴🥴🥴🥴🥴🥴🥴💘🥴🥴🥴

کتنا ٹائم لگے گا مصدق ۔۔۔یہ برات اندر کیوں نہیں آ رہی۔۔۔۔زرینہ بیٹھے بیٹھے تھک گئی۔۔۔۔

پتہ نہیں یار۔۔۔۔لڑکے کی بہن نے کوئی ڈیمانڈ رکھ دی ہے۔۔بس وہی مسئلہ چل رہا ہے۔۔۔مصدق بیزار ہو کر بیٹھ گیا۔۔۔

افف ۔۔۔کن لوگوں میں رشتا کر دیا۔۔۔صبح کا ناشتہ کیا تھا بس ۔۔۔سوچا تھا اب شادی میں ہی کھا لوں گی۔۔۔مگر تمھارے خاندان میں جب تک دس ڈرامے نہ ہو جائیں نہ کوئی کام پورا نہیں ہوتا۔کم ازکم کھانا ہی کھول دیتے۔۔۔زرینہ نے حسب عادت سسرال کو برابھلا کہا۔۔۔

ہاں ہاں ۔۔۔بس ٹھیک ہے۔۔۔۔پتہ ہے مجھے۔۔۔یہاں شادی رکی ہوئی ہے تمہیں کھانے کی پڑی ہے۔۔مصدق اٹھ کر چلا گیا۔۔۔

سچ بولنے کا تو زمانہ ہی نہیں ہے۔۔۔۔اُس نے پرس سے ایک بسکٹ کہ پیکٹ نکال کر کھولا۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨🎊🎊✨✨✨✨✨

پہلے ہی کہا تھا میں نے ۔۔پتہ نہیں کس سے رشتا جوڑ دیا ۔۔۔اب دیکھو۔۔۔۔دکھادی نہ اوقات۔۔۔۔شمس بیگم نے آہستہ سے شمع بیگم کے کان میں کہا۔۔۔

ہائے آپا مانگا کیا ہے یہ تو بتاؤ۔۔۔۔۔شمع بیگم ابھی تک لا علم تھیں۔۔۔۔

لڑکے کی ایک بہن ہے گلشن۔۔۔ عمر میں بڑی ہے سرکاری اسکول میں ہیڈ ماسٹرنی ہے ۔۔۔اُس کی شادی نہیں ہو رہی۔۔۔تو دوسری شادی شدہ بہن نے شرط رکھی ہے کے ریحان کا نکاح اُس سے کروایا جائے آج ہی۔۔۔۔ایاز اور آمنہ کے نکاح کے ساتھ۔۔۔جب ہی ایاز اور آمنہ کا نکاح ممکن ہے۔۔ ۔۔دبی دبی آواز میں اُنہوں نے سارا ماجرا سنایا۔۔۔۔

ہائے ہائے۔۔۔یہ کیا کہہ رہی ہیں آپا۔۔۔۔شمس بیگم کی آنکھیں کھل گئیں۔۔۔۔ریحان بیچارے کا کیا قصور۔۔۔

دیکھ لو زمانہ۔۔۔۔قیامت بس آنے کو ہے۔۔۔۔۔۔شمس بیگم کو شہلا کا رویّہ بھی یاد آ گیا۔۔۔

اب کیا ہوگاآ پا۔۔۔

بس خاموش بیٹھ کر تماشا دیکھو۔۔۔ہم تو مہمان ہی ہیں ویسے بھی۔۔۔۔شمس بیگم اور شمع بیگم بھی ایک کونے پر لگی کرسیوں پر بیٹھ گئیں۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨🥴🥴🥴✨✨🤔🤔✨

مومنہ عادت سے مجبور خبر ملتے ہی آمنہ کی طرف دوڑی۔۔۔۔آمنہ پہلے ہی اپنے میک اپ سے پریشان بیٹھی تھی یہ خبر سن کر تو اُس کے طوطے ہی اُڈ گئے۔۔۔

ایاز کی بہن فساد ن ہے یہ تو اُسے اندازہ ہو گیا تھا لیکن شادی روکنے کے لیے ایسے ہتکھندے استعمال کرے گی یہ آمنہ کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔۔۔۔

ریحان کبھی نہیں مانے گا۔۔۔آمنہ کے آنسو اُس کے چہرے کو مزید بگاڑ گئے۔۔۔۔

ریحان باہر ہی موجود ہے آمنہ۔۔۔تسلی رکھو تم۔۔۔مومنہ نے اُسے غلط وقت پر خبر دی تھی۔۔۔آمنہ کے رونے میں شدت آ گئی تھی۔۔۔

وہ کبھی نہیں مانے گا مومو۔۔۔آمنہ کِسی طور چپ ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔۔۔

اگر سیدھی طرح میری ایاز سے شادی نہ ہوئی نہ تو میں اپنی جان لے لوں گی۔۔۔۔۔جاؤ جا کر بتا دو ریحان اور امّاں کو اور ایاز کو بھی۔۔۔۔۔۔۔آمنہ نے دھمکی دی۔۔۔

مومنہ دھمکی لیے باہر کی طرف بھاگی۔۔۔۔۔

✨✨✨✨🤔🤔🤔✨✨✨🤔🤔✨✨✨✨

آمنہ کی دھمکی پر سب ہی پریشان ہوئے تھے۔۔۔صرف شمع بیگم شمس بیگم اور زرینہ اطمینان سے بیٹھے تماشا دیکھ رھے تھے۔۔۔۔

اندر چل کر بات کرتے ہیں آرام سے۔۔۔۔جاوید صاحب نے معاملہ نمٹانے کی کوشش کی۔۔۔

آپ لوگ جائیے اندر۔۔۔ہم تب تک اندر نہیں آئیں گے جب تک ریحان گلشن سے نکاح کے لیے ہامی نہیں بھرتا۔۔۔ایاز کی باجی نے جھٹ سے جواب دیا۔۔۔

چلو ریحان اندر ۔۔۔۔سب ریحان کو لیے آمنہ کے پاس چلے آئے۔۔۔

ریحان بھائی۔۔۔۔آمنہ ریحان کو دیکھتے ہی چیخی۔۔۔۔آج تو کچھ بھی کر کے ریحان کو منانا تھا۔۔۔۔

بتاؤ ریحان۔۔۔کیا فیصلہ ہے تمہارا۔۔۔امّاں ابّا کے سوال پر بیچارے ریحان کے پسینے چھوٹ گئے۔۔۔

ایک طرف بہن کی محبت اور ایک طرف حسنہ کی۔۔۔

ابا ۔۔۔ یہ سب ڈراما ہے ایاز کی بہن یہ رشتا کرنا ہی نہیں چاہتی۔۔۔۔ریحان نے اپنی جان چھڑوانے کے لیے کہا۔۔۔۔

ہاں مگر ہم اُس کی شرط ابھی مان لیں تو آمنہ کا بیاہ ممکن ہے۔۔۔۔پیسے والے ہیں بیٹی کو خالی ہاتھ تو نہیں بھیجیں گے نہ۔۔۔۔گلشن بھی ہیڈ ماسٹر نی ہے ساری زندگی کما کے کھلائے گی۔۔۔۔امّاں نے ریحان کو روشن مستقبل دکھایا۔۔۔۔۔

ریحان شش و پنج میں پڑ گیا تھا۔۔۔

آمنہ کا میک اپ رو رو کر ہی ختم ہو گیا تھا اور جو تھوڑی بہت چمکی باقی تھی وہ مومنہ نے صاف کر ڈالی۔۔۔اب اُس کی شکل قدرے بہتر نظر آ رہی تھی۔۔۔۔

💝💝💝💝💝💝💝💝💝💝💝💝💝💝💝💝

میں تو کہتی ہوں مامی اور ریحان کو ہاں کر دینی چاہیے آمنہ کی شادی ٹوٹی تو وُہ مر جائے گی۔۔۔حسنہ نے دِل گرفتگی سے کہا۔۔۔

منہوس ہزار بار کہا ہے اپنی کالی زبان سے نہ کہا کر کچھ۔۔منہ بند رکھ اپنا۔سارہ نے اُسے ڈپٹا۔۔۔۔

عطیہ بھی پاس ہی بیٹھی تھی اب اُس کا موڈ قدرے بہتر تھا۔۔۔۔دل کو اس تماشے سے ٹھوڑی ٹھنڈ پڑی تھی۔۔۔۔

پتہ نہیں کیا فیصلہ کرتے ہیں یہ لوگ۔۔ہم بھی اندر چلیں کیا آپا۔۔شمع بیگم سے باہر بیٹھے نہیں جا رہا تھا۔۔۔

کوئی ضرورت نہیں۔۔۔۔کِسی نے جھوٹے منہ پوچھا تک نہیں ۔۔ پھوپو ہیں ہم ۔۔کِسی کھاتے میں نہیں ڈالا ہمیں۔۔۔اب پچھتانے دو خود ہی۔۔۔۔شمس بیگم تپی بیٹھی تھیں۔۔

بہن ہی بہن کی سگی ہوتی ہے آپا۔۔۔۔کچھ بھی کر لو بھابھی بہن کی جگہ تھوڑی لے سکتی ہے۔۔۔شمع بیگم نے موقع سے فائدہ اٹھایا۔۔۔۔

میں تو کہتی ہوں فراز کا رشتا بھی بہت اپنوں میں کرنا ۔۔غیروں کا کیا بھروسہ۔۔۔۔شمع بیگم کی بات پر شمس بیگم نے سامنے بیٹھی حسنہ اور عطیہ کو دیکھا۔۔۔۔

حسنہ خوش مزاج تھی کام کاج میں بھی اچھی تھی اور سب سے بڑھ کر بہن کی بیٹی تھی۔۔۔عطیہ کے مقابلے میں اُنھیں حسنہ کا پلڑا بھاری لگا۔۔۔۔

سوچ تو میں بھی یہی رہی ھوں شمع۔۔۔اب دیکھو فراز کیا کہتا ہے۔۔۔اُنہوں نے اشاروں کنایوں میں اپنی رضا مندی سنائی۔۔۔۔

شمع بیگم کا دل تو خوشی سے پھسلیاں توڑ کر نکلنے کو تھا۔۔۔جہاں شمس بیگم بیٹھی تھیں بلکل اُس کے پیچھے ہی وہ جگہ تھی جہاں تعویذ دبایا تھا وہ تشکر بھری نظروں سے اُس جگہ دیکھنے لگیں۔۔۔۔

کیا دیکھ رہی ہو شمع۔۔۔۔شمس بیگم نے اُن کی نظروں کو محسوس کیا۔۔۔۔

کچھ نہیں آپا۔۔۔وہ گڑ بڑ ا گئیں۔۔۔۔

،🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🤓🤓🤓🤓🌼🌼🌼🌼

امّاں میں پنکھے سے لٹک جاؤں گی امّاں۔۔۔۔۔آمنہ نے اوور ایکٹنگ کی انتہا کی۔۔۔

جا لٹک جا۔۔۔ٹینوں کی چھت سمیت زمین پر ہوگی۔۔۔امّاں غصے سے بولیں۔۔۔۔

ریحان چل بس ۔۔۔نکاح ہی کرنا ہے نہ ابھی ۔۔رُخصتی کے وقت سوچیو جو سوچنا ہے۔۔۔اٹھ شاباش۔۔۔۔امّاں نے ریحان کو بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا۔۔۔۔

امّاں وہ حسنہ۔۔۔۔ریحان نے بمشکل حسنہ کہ نام لیا۔۔۔۔

حسنہ ۔۔۔کیا حسنہ۔۔۔۔وہ پہلے ہی ہمارے گوشت سبزی کے پیسوں پر بہت عیش کر چکی ریحان۔۔۔اگر اُسے بہو بنا کر لائی نہ تو ہم سب کو فاقے کروائے گی وہ۔۔۔اور اپنی پھوپو کی عادت کا نہیں پتہ کیا۔۔۔۔چل بیٹا شاباش۔۔۔ماں باپ کی عزت کا مان رکھ لے۔۔۔وہ اُسے تقریباً گھسیٹتے ہوئے باہر لے آئیں۔۔۔

چلو لڑکیوں پھولوں کی پلیٹیں اٹھا کر آؤ۔۔۔وہ سب کو حکم دیتیں خود بھی ٹینٹ کے دروازے کی طرف گئیں۔۔۔۔

عطیہ حسنہ اور سارا پلیٹیں اٹھا کر ایک دوسرے کو آنکھوں ہی انکھوں میں اشارے کرتے مامی کے پیچھے چل پڑیں۔۔۔

🤔🤔🤔🤔🤔🤔🤔🤔🤔🤔🤔🤔🤔🙄🤔🤔

مصدق ایک کاغذ میں لپٹا برگر لیے زری کے پاس آیا تھا۔۔۔یہ لو۔۔۔۔بہت چھپا کر برگر زرینہ کو پکڑایا۔۔۔۔

اب امّاں سے چھپا کر نگلو اسے۔۔۔۔چبانے کی بھی ضرورت نہیں سمجھیں۔۔۔زرینہ نے غصے سے اُسے گھورا۔۔۔

چھپانے کی کیا بات ہے گیارہ بج گئے ہیں اب تک بریانی کی دیگیں نہیں کھلیں۔۔۔ہمارا قصور ہے کیا۔۔۔۔زرینہ ناشتا کر کے آئی تھی بس اُس کا حال برا ہو رہا تھا۔۔۔۔

اُس نے منہ نیچے کر کے جلدی سے ایک ٹکڑا کھایا۔۔۔۔اب وہ مسکراتے مسکراتے ہلکے ہلکے چبانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔

شاباش بس اسی طرح ختم کرو جلدی۔۔۔۔مصدق کی جان حلق میں اٹکی ہوئی تھی اگر امّاں کو پتہ چلتا تو وہ یہیں ذلیل کر کے رکھ دیتیں۔۔۔۔

مصدق۔۔۔۔کولڈڈرنک بھی لے آتے نہ۔۔۔۔زرینہ نے اُسے آہستہ سے کہا۔۔۔

مصدق کا دل چاہا اُس کا سر پھوڑ دے۔۔۔

😛😛😛😛😛😛😛😛😛😛😛😛😛😛😛😛

برات اندر آ گئی تھی۔۔۔نکاح شروع ہو چکا تھا باری باری آمنہ اور ریحان کا نکاح پڑھایا گیا تھا۔۔۔اب دونوں دلہنیں اسٹیج پر اپنے اپنے دلہے کے ساتھ بیٹھی تھیں۔۔۔

ریحان کی نظریں حسنہ پر جمی ہوئی تھیں جو فراز کے ساتھ کھڑے ہو کر سیلفیاں لے رہی تھی۔۔۔۔

💕💕 کیسے بھولوں میں اُس کا وہ طرز محبت

اُس کا مجھ سے وہ محبت سے چنا چاٹ مانگنا

مسکرا کر دیکھنا وہ ایک ادا سے میری طرف

اور پان کے کھو کے سے وہ میٹھا پان خریدنا

کبھی آئسکریم کبھی جوس اور کبھی چاکلیٹ 

اُس کی ہر فرمائش کو، میرا پورے کرتے جانا۔۔۔💕💕

ریحان نے ایک سرد آہ بھر کر پہلی دفعہ گلشن کی جانب دیکھا ۔۔۔ ریحان کا منہ کھلا ہی رہ گیا اُسے لگا شاید کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔۔۔اُس نے دس بار آنکھوں کو مسل ڈالا۔۔۔مگر ہر بار وہی چہرہ نظر آیا۔۔۔۔

اپنی فزکس کی اُستانی کو برابر میں بیٹھا دیکھ کو ریحان کے چودہ طبق روشن ہو گئے تھے۔۔۔۔

مس گلشن آپ۔۔۔وہ حكلا یا تھا۔۔۔۔

گلشن عمر میں اُس سے کوئی بارہ برس تو بڑی تھی ہی لیکن شکل سے عمر معلوم نہ ہوتی تھی۔۔۔

ہاں میں۔۔۔۔گلشن اپنے سابقہ اُستانی والے کرخت لہجے میں بولی۔۔۔۔

ریحان کو اپنی جان نکلتی محسوس ھوئی۔۔۔پیروں کی حرکت ختم ہو گئی تھی اب تو ہاتھ بھی سن ہو رھے تھے۔۔۔بس جان لبوں پر آ کر اٹک گئی تھی۔۔۔۔اُس نے ایک نظر حسنہ پر ڈالی اور دوسری گلشن پر۔۔۔اُس کی زندگی کے گلشن میں ہمیشہ کے لیے خزاں اُتر آئی تھی۔۔۔۔

جہاں آمنہ ایاز کی رفاقت میں مسکرائی تھی وہیں ریحان گلشن کے پہلو میں بیٹھ کر آنسو بہا رہا تھا۔۔۔

آمنہ کی رخصتی دے دی گئی تھی گلشن کی رخصتی کے لیے وقت لیا گیا تھا۔۔۔زرینہ تو کھانا کھاتے ہی نکل گئی تھی۔۔۔شمع بیگم حسنہ اور سارہ آخر تک موجود تھے۔۔۔۔

ذیشان نے انہیں گھر چھوڑنے کے لیے رکشا اسٹارٹ کیا تو زبردستی عطیہ کو بھی گھسا لیا۔۔۔

ہائے ہائے عطیہ کا کیا کام۔۔۔جگہ کہاں ہے حسنہ چلا اٹھی۔۔۔

عطیہ اُسے دھکّا مارتی اپنی جگہ بنا چکی تھی۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨💕💕✨✨✨✨✨✨

ہمارا مستقبل کیا ہے شانو۔۔۔عطیہ نے واپسی کے راستے میں پوچھا وہ دونوں ہی تھے رکشے میں اب۔۔۔۔

تمھیں پوری دنیا گھما وں گا میری انار کلی۔۔۔۔ذیشان نے محبت سے چور لہجے میں کہا۔۔۔۔

اس رکشے میں۔۔۔عطیہ کو غصّہ آیا۔۔۔۔۔

فکر کیوں کرتی ہوں عطیہ ۔۔۔ سب ہو جائے گا ایک دن۔۔۔وہ بے فکر ہو کر بولا۔۔۔۔

ہاں ہاں لاٹری نکل آئے گی نہ تمھاری۔۔۔۔وہ منہ پھیر کر بیٹھ گئی۔۔۔۔

اُس کے لیے بھی پہلے لاٹری لینی پڑتی ہے۔۔۔وہ ڈھیٹ بن کر ہنسا۔۔۔۔

اُس کے ہنستے ہی عطیہ کی نظر اُس کے لال دانتوں پر پڑی۔۔۔وہ بھنا گئی۔۔۔

نہیں کرنی تم سے شادی سمجھے۔۔۔۔تم زندگی بھر رکشا ڈرائیور ہی رہنا۔۔۔۔

یہ رکشا نہیں ہوائی جہاز ہے۔۔۔تم نے اس کے پیچھے لکھا ہوا کبھی پڑھا نہیں۔۔۔۔ذیشان آج اُسے زچ کرنے پر تلا تھا۔۔

گھر آ گیا تھا عطیہ تن فن کرتی اُتر گئی۔۔۔۔

عجیب لڑکی ہے اس لیے تو ساتھ نہیں لے گیا تھا نہ۔۔۔۔بس لڑائی کرنی آتی ہے۔۔۔ذیشان منہ ہی منہ میں عطیہ کو کوسنے لگا۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨😍😍✨✨✨✨✨

کھانا اچھا نہیں تھا امّاں۔۔۔۔حسنہ نے گھر پہنچتے ہی تبصرہ جھاڑا۔۔۔

ہاں اور کچھ لوگ تو بھوکے ہی رہ گئے اتنا کم تھا۔۔

میر ہادی کو بھی نہیں ملا اور سونو حسن تو ٹوٹ ہی پڑی تھی چمچ لے کر پلیٹ پر۔۔۔چاٹ مصالحہ کی اکیلی کی دعوت تھی اور وہ مزید چار دوستوں سمیت چلی آئ۔۔۔ یہ تو ہونا ہی تھا پھر۔۔۔۔سارہ نے بھی لقمہ دیا۔۔۔

امّاں نے بھی تو ڈھائی سو کا لفافہ رکھا ہے۔۔۔اتنے میں تو ایسا ہی ملنا تھا۔۔۔اوپر سے زرینہ نے جھانک کر آگ لگانے کو جملہ کسا۔۔۔۔

ہاں اور تم خاندانی بھوکی۔۔۔چھپ چھپ کر برگر کھاتے دیکھا تھا میں نے۔۔۔۔شمس آپا کی وجہ سے خاموش رہی میں۔۔۔۔میاں میں بھی ذرا شرم نہیں ہے اتنے مہمانوں کے بیچ کیسے کاغذ میں لپیٹ کر لایا۔۔۔جوروکا غلام۔۔۔۔شمع بیگم زرینہ کی حرکتوں سے غافل نہیں تھیں۔۔۔۔

زرینہ غصے میں واپس اپنے کمرے میں گھسی تھی۔۔۔

تمھاری امّاں کی آنکھوں میں ایکسرے مشین فٹ ہے مصدق۔۔۔۔بنا چبائے نگلا میں نے ۔۔۔پھر بھی پتہ لگ گیا اُنھیں۔۔۔اُس نے ہیلز اُتار کر مصدق کی طرف اچھالی۔۔۔۔

اپنے میاں کا کھا تی هوں میں۔۔۔کِسی کو کیا۔۔۔۔کھینچ کر آنکھوں سے نقلی پلکیں الگ کی۔۔۔

مصدق نے خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی۔۔۔

✨✨✨😍✨✨✨💕💕✨✨✨✨✨✨✨

امّاں وہ میری فزکس کی اُستانی تھی۔۔بہت مارتی تھی امّاں ۔۔۔ اُس سے کروا دی میری شادی۔۔۔۔ریحان اب باقاعدہ رو رہا تھا۔۔۔۔

کوئی بات نہیں بھائی۔۔۔اب آپ بدلہ لینا۔۔۔مومنہ نے اُسے دلاسہ دیا۔۔۔

دفعہ ہو جا یہاں سے۔۔۔ریحان کا بس نہیں چل رہا تھا پورا گھر جلا دیتا۔۔۔

بہن سے تمیز سے بات کرو۔۔۔امّاں نے غصّہ دکھایا۔۔۔

بھول جاؤ پرانی باتیں ۔۔۔اب وہ بیوی ہے تمھاری۔۔۔اور اگر کبھی مارا بھی تو کیا ہوا تم تھے ہی پڑھائی چور۔۔۔۔امّاں نے اُسے ہی برا بھلا کے دیا۔۔۔۔

وہ دل برداشتہ ہو کر گھر سے نکل گیا۔۔۔

💘💘 غم عاشقی تیرا شکریہ

میں کہاں کہاں سے گزر گیا💘💘

ریحان کی حالت اس وقت ایسی تھی جیسے فزکس کے پیپر میں کیمسٹری کی تیاری کر کے چلا گیا ہو۔۔۔کوئی کوئی ہی اُس کا درد سمجھ سکتا ہے بس۔۔۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

گھونگٹ اٹھا کر کو آمنہ کے چہرے کو دیکھا تو ایاز کو صدمہ سا لگا۔۔۔

آمنہ یہ تمھیں کیا ہوا۔۔۔ایاز نے اُس کے گالوں کو چھوا۔۔۔کچھ چمکی ایاز کی انگلیوں پر بھی لگ گئی۔۔۔۔

کچھ نہیں تمھاری باجی نے اتنا رولایا کے میک اپ بھی رو دیا۔۔۔۔آمنہ نے چالاکی سے سارا الزام باجی کے سر ڈالا۔۔۔۔

معاف کر دو آمنہ۔۔۔۔مجھے نہیں پتہ تھا آخری وقت میں۔ وہ یہ تماشا کرنے والی ہیں۔۔۔۔ایاز نے شرمندگی سے مافی مانگی۔۔۔

اچھا چلو چھوڑو۔۔۔ تحفہ دو میرا۔۔۔آمنہ نے شرما کر کہا۔۔۔۔

اپنی دو بھینسیں میں نے تمھارے نام کر دی ہیں آمنہ۔۔۔ایاز نے فخر سے بتایا۔۔۔

کیا۔۔یہ تحفہ ہے دو بھینسیں۔۔۔آمنہ کو لگا چھت اُس کے سر پر آ گری۔۔۔۔

ہاں آمنہ۔۔۔تم اب دو بھینسوں کی مالکن ہو۔۔۔اُس نے آمنہ کو اپنے قریب کیا۔۔۔

دو بھینسیں۔۔۔منہ دکھائی میں۔۔۔۔

آمنہ ایک دم ہی اُس کے بازوں میں جھول گئی۔۔۔

آمنہ اُٹھو آمنہ۔۔۔کیا ہوا۔۔۔ایاز نے پانی کے چھینٹے اُس کے چہرے پر مارے۔۔۔

آمنہ کو ہوش آیا تھا

۔۔۔۔ایاز۔۔۔۔ایاز۔۔۔۔

ایاز ۔۔۔میں سب کو کیا کہوں گی میرے شوہر نے منہ دکھائی میں بھینسیں دی ہیں مجھے۔۔۔اُس کا پھر سے رونے کا سیشن شروع ہو چکا تھا۔۔۔۔آمنہ کا آج رونے کا  دِن نکلا ہوا تھا۔۔۔

آمنہ۔۔۔دو بھینسوں کا مطلب پتہ ہے تمھیں۔۔۔۔چار لاکھ روپے۔۔۔ایاز نے اُسے سمجھانا چاہا۔۔۔

اگر نہ فروخت کی تو زندگی بھر خالص دودھ اور مکھن بھی ملے گا۔۔۔۔تمھیں دودھ کے فائدے پتہ ہیں۔۔۔۔وہ ایک ایک کر کے خالص دودھ کے فوائد بتانے لگا۔۔۔

چپ کر جاؤ خدا کے لیے۔۔۔آمنہ نے ہاتھ جوڑے۔۔۔یہ ہماری سُہاگ رات ہے یا دودھ کی کوئی نئی دکان کھلی ہے۔۔۔۔حد ہے ایاز۔۔۔۔بھینسوں سے آگے بھی دنیا ہے۔۔۔۔۔

اگر پندرہ سولہ ہزار کی کوئی انگوٹھی دے دیتا نہ تو تم نے خوش ہو جانا تھا چار لاکھ کی بھینسوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔۔۔۔۔ایاز دلبرداشتہ ہوا تھا اُسے لگا تھا آمنہ کو اُس کا تحفہ پسند آئے گا۔۔۔

آمنہ ایاز کا اُترا چہرہ دیکھ کر خاموش ہو گئی۔۔۔۔اچھا کوئی نہیں۔۔۔کل مجھے میری پسند کا بھی کچھ دلا دینا۔۔آج شادی کی رات وہ ایاز کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔

💝💝💝💝💝💝💝💝💝💝💝💝💝💝💝💝

حسنہ یا عطیہ۔۔۔کیا فیصلہ ہے تمہارا۔۔۔۔شادی سے واپسی میں شمس بیگم نے بیٹے کو ٹٹولا۔۔۔۔

فراز کا دل دھڑک اٹھا تھا۔۔۔

حسنہ کی معصومیت اُس کا اپنے آگے پیچھے پھرنا۔۔۔وہ حسنہ کے جذبات سے انجان نہیں تھا۔۔۔اور شہلا سے ملنے والے دھوکے نے اُسے حسنہ کی قدر سیکھا دی تھی۔۔۔۔عطیہ تو اُسے دیکھ کر سڑ یل منہ بناتی تھی۔۔۔۔

بولو بیٹا۔۔۔۔۔شمس بیگم نے اُسے خیالوں میں گم دیکھ کر پھر سے پوچھا۔۔۔۔

حسنہ ٹھیک ہے امّاں۔۔۔۔جھجکتے ہوئے اُس نے حسنہ کا نام لے دیا۔۔۔

جیتا رہے میرا بیٹا۔۔۔کل ہی بات کرنے جاتی ھوں شمع کے گھر۔۔۔۔وہ تو تیار بیٹھی ہے حسنہ کو بیاہنے کو۔۔۔۔اور حسنہ کا وزن بھی کچھ کم دکھائی دے رہا ہے اب۔۔۔۔شمس بیگم بیٹے کی رضامندی پا کر خوشی سے نہال ہوئیں۔۔۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕😍😍😍😍💕💕💕

فرحان تم نے پوری شادی میں نظر اٹھا کر نہیں دیکھا مجھے۔۔۔۔مومنہ سیڑھیوں پر فرحان کے ساتھ بیٹھی تھی۔۔۔

دیگوں سے کھانا نکالنے کا زمہ میرا تھا مومنہ بیبی۔۔۔

گوشت چاولوں میں چھپا بیٹھا تھا اتنی مشکل سے کھانا نکا لا ہے کیا بتاؤں۔۔۔۔

نہ بتاؤ مجھے یہ سب۔۔۔یہ بتاؤ میں کیسی لگ رہی تھی۔۔۔مومنہ نے ہاتھ اٹھا کر فرحان کی آنکھوں کے سامنے چوڑیاں چھنکائی۔۔۔۔

سچ کہوں تو دیکھا نہیں ٹھیک سے تمھیں۔۔۔میں بہت دیر میں پہچانا کے تم مومنہ ہو۔۔فرحان نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔

کیا مطلب۔۔۔۔مومنہ نے نظریں اُس کے چہرے پر جمائیں۔۔۔

مطلب چہرے پر دو کلو بیس ۔۔ایک کلو آنکھوں پر رنگ۔۔۔ ایک ایک کلو گالوں پر۔۔۔۔آنکھوں میں یہ بلی کے رنگ جیسے لینس۔۔۔بالوں میں اتنی لہریاں۔۔۔۔ناخنوں تک کا رنگ بدل ڈالا۔۔۔۔بندہ پہچانے بھی تو کیسے۔۔۔فرحان اپنی بات مکمل کرتا تیزی سے  سیڑھیاں اُتر گیا پیچھے سے آتی مومنہ کی ہیلز اُس کی کمر سے ٹکرائیں تھیں۔۔۔

وہ آخری اسٹیپ پر کمر پکڑتا رکا تھا۔۔۔۔اور ہاں ۔۔۔قد لمبا کرنے کے لیے یہ ہیلز بھی۔۔۔پھر کیسے پہچانتا میں بھلا ۔۔۔۔یہ کہتا وہ اندر کو بھاگا تھا۔۔۔۔

مومنہ نے پیچھے سے اُسے گالیاں دے ڈالی۔۔۔۔

سچی محبتیں ایسی ہی تو ہوتی ہیں جھوٹ سے پاک۔۔۔کوئی لمبے چوڑے پیار بھرے جملوں اور دعووں کی ضرورت نہیں ہوتی ۔۔۔ ایک احساس ہوتا ہے اپنے پن کا۔۔۔اور کچھ جان جلانے والی حرکتیں ۔۔۔

💕💕😜😜😜😜😜😜💕💕💕💕💕💕💕💕

ماما کو گھر آنا ہے تمھارے۔۔۔۔احسن نے اُس کے کیبن میں آ کر پٹاخہ پھوڑ دیا۔۔۔

سارہ نے خوشی اور صدمے کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ احسن کو دیکھا۔۔

کیا ہوا۔۔۔احسن نے جواب نہ پا کر حیرت سے اسے دیکھا۔۔۔

اپنی ماما سے پوچھ کر آپ کو بتاؤں گی۔۔۔۔اُس نے بات بنائی۔۔۔

ہممم۔۔ٹھیک ہے شام میں ہی بات کر لو۔۔۔۔زیادہ انتظار نہیں کروں گا میں ۔۔۔معنی خیز لہجے میں کہتا وہ واپس چلا گیا ۔۔مگر جاتے جاتے سارہ کا چین و سکون لے گیا۔۔۔

افف۔۔کیا کروں گی اب میں۔۔۔کیا کروں گی۔۔۔زرینہ بھابی تو دوبارہ ساتھ نہیں دینے والیں۔۔۔۔ویسے بھی کب تک چلنا ہے اس جھوٹ کو۔۔۔۔اُس نے غصے میں پیپر ویٹ اٹھا کر پٹخ دیا۔۔۔

سوچ سارہ سوچ۔۔۔۔احسن احمد کے لیے سوچ۔۔۔دماغ نت نئے راستے دکھا رہا تھا ۔۔۔دل کہہ رہا تھا سچ بول دو۔۔۔وہ عجیب مصیبت میں پھنس گئی۔۔۔

😊😊😊😊😊😊😊😊😊💘😊💘😛😛😛😛

شمس بیگم اگلی ہی صبح رشتا ڈالنے شمع بیگم کے گھر پہنچ گئیں۔۔۔۔اس دفعہ مٹھائی لانے کی زحمت نہ کی تھی۔۔۔۔

آپا آپ۔۔۔صبح صبح۔۔۔شمع بیگم نے حیرت سے بہن کو دیکھا۔۔۔۔

دیکھ شمع۔۔۔۔آج میں بہن بن کر نہیں آئی۔۔۔مہمان بن کر آئی ھوں اچھے سے خاطر مدارت کرو میری۔۔۔وہ اکڑ کر بولیں۔۔۔

کیا مطلب۔۔۔مہمان کیوں ہونے لگیں آپ۔۔۔۔شمع بیگم کو بات سمجھ نہ آئی۔۔۔۔

فراز کا رشتا لائی ہوں حسنہ کے لیے۔۔۔۔اُنہوں نے محبت سے حسنہ کو دیکھا۔۔۔۔

پانی پیتے پیتے حسنہ کو اچھو لگ گیا وہیں شمع بیگم کے حلق میں بھی پان پھنسا تھا۔۔۔

کیا ۔۔۔کیا کہا آپا۔۔۔

ارے فراز اور حسنہ کا رشتا کرنا چاہتی ہوں۔۔۔تمھیں کوئی اعتراض ہے کیا۔۔۔۔میں نے سوچا تم بیوہ ہو کہاں رشتے ملیں گے تمھیں بچیوں کے۔۔۔ حسنہ میری بہانجی ہے۔۔۔اپنے ہی اپنوں کا خیال کریں گے نہ۔۔۔اُنہوں نے جتا کر کہا۔۔۔۔

شمع بیگم جھٹ آپا کے گلے لگ گئیں وہیں حسنہ شرما کر باورچی خانے کا رخ کر گئی۔۔۔۔۔

چائے چڑھاتے حسنہ کے ہاتھ بھی کانپ رہے تھے۔۔۔فراز سے شادی۔۔۔نور بیبی کا احسان تھا۔۔۔۔وہ اُن کی پکی مرید ہو گئی۔۔۔۔شہلا بہت دِن سے نہیں آئی تھی اُس نے شہلا کو خوش خبری سنانے کے لئے فون کر ڈالا۔۔۔۔

کیا ہے حسنہ اتنی صبح صبح۔۔۔شہلا کی نیند میں ڈوبی آواز سنائی دی۔۔۔

فراز کے ساتھ میرا رشتا پکّا ہوگیا شہلا۔۔۔۔حسنہ نے اپنے تئیں خوش خبری سنائی تھی۔۔۔

دوسری طرف شہلا کو حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔۔۔۔

وہ نا مراد فراز۔۔۔۔شہلا کی زبان سے پھسلا۔۔۔۔

شہلا۔۔۔۔۔دوبارہ ایسا کوئی لفظ اُن کے لیے استعمال نا کرنا۔۔۔حسنہ کا دل دکھا۔۔۔۔

میں شام کو آتی ہوں پھر بات کروں گی۔۔۔شہلا نے فون کاٹ دیا۔۔۔۔

ایک دن آپ یوں

ہم کو مل جائیں گے

پھول ہی پھول راہوں میں

کھل جائیں گے

میں نے سوچا نہ تھا۔۔۔۔۔۔

حسنہ گنگنانے لگی تھی۔۔۔۔

میں نے سوچا نہ تھا۔۔۔

❤️❤️😉❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️💕💕❤️❤️❤️

آمنہ میکے جانے کے لیے تیار ہو رہی تھی۔۔۔ایاز نے اُسے محبت سے اپنے قریب کیا۔۔۔

کب واپس آؤ گی میری جان۔۔۔۔۔۔ایاز نے اُس کے بالوں سے کلپ نکال دیا۔۔۔۔

یہ کیا کیا۔۔۔آمنہ نے ناراضگی سے کلپ کی طرف دیکھا۔۔

کھلے بالوں میں بہت حسین لگتی ہو جان۔۔۔۔ایاز نے اُس کے بالوں میں اُنگلیاں پھیریں۔۔۔

ایاز کی اُنگلیاں اُس کے بالوں میں ہی اٹک گئیں۔۔۔

آں۔۔۔۔آمنہ سسکی۔۔۔

اتنے اُلجھے ہوئے بال۔۔۔ایاز کا سارا رومانٹک موڈ غارت ہو گیا۔۔۔۔

ہاں تو ۔۔۔سر پے جو اتنا بڑا جوڑا بنایا تھا نہ شادی میں۔۔۔وہ ان کو اُلجھا کر بنایا تھا۔۔۔آمنہ نے بال سلجھانے کی کوشش کی جو کسی طور سلجھنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔۔۔۔

کیا مطلب۔۔بال بنانے کے لیے بالوں کو الجھاتا  کون ہے۔۔۔ایاز کو منطق سمجھ نہ آئی۔۔۔

ارے انگلش میں کہتے ہیں کچھ ۔۔۔پارلر والی بھی کوئی نام بتا رہی تھی۔۔۔آمنہ کو انگلش کے لفظ کہاں یاد رہنے والے تھے۔۔۔۔

چلو ہوگا کچھ ۔۔۔چھوڑو۔۔۔۔ایاز نے پھر اُسے تنگ کرنے کے لیے اُس کا بازو پکڑ کر سینے سے لگایا ہی تھا کہ دروازہ کھول کر باجی اندر گھسی چلی آئیں تھیں۔۔۔۔

ایاز نے جلدی سے آمنہ کو جھٹکے سے دور کیا تھا وہ لڑ کھڑا کر ڈریسنگ ٹیبل سے ٹکرائی۔۔۔۔

شرم کرو۔۔۔ایاز ۔۔۔جوان بہنوں کے گھر میں ایسی حرکتیں۔۔۔۔باجی نے اُن دونوں کو دیکھ لیا تھا۔۔۔۔۔

جوان بہنوں کو بھی دروازہ بجا کر اندر آنا چاہیے تھا نہ۔۔۔۔آمنہ نے لفظ جوان پر زور ڈالتے ہوئے باجی کو آگ لگائی۔۔۔۔

ہائے توبہ۔۔۔۔کیسی منہ زور گائے اٹھا لائے ایاز۔۔۔۔پہلے ہی دن قینچی کی طرح زبان چل رہی ہے اس کی تو۔۔۔۔۔باجی نے بات کو بڑھانے کے لئے زور زور سے واویلا شروع کیا۔۔۔۔

ایاز نے سر پکڑ لیا۔۔۔۔۔

سورج کی ٹھنڈی کرنیں صحن میں ایک طرف اُتر رہی تھیں دوسری طرف حسنہ چارپائی پر ٹانگیں چڑھائے بیٹھی مٹر چھیل رہی تھی۔۔۔۔سارہ تھکی ہاری دفتر سے لوٹی تھی۔۔۔احسن کی ما ما نے ایک دو دِن میں ہی گھر آنے کو کہا تھا وہ بہت ٹینشن میں تھی جب کے حسنہ صبح سے ہی خوشی میں گنگنائے جا رہی تھی ۔۔ شمع بیگم چندہ دینے نُور بیبی کے آستانے گئی تھیں۔۔۔

اپنی بھونڈی آواز بند کر حسنہ۔۔۔۔سارہ اُس کی مستقل گنگناہٹ سے چڑ گئی تھی۔۔

تم سے کس نے کہا تھا اتنا جھوٹ بولو کہ جھوٹ بھی خود کو سچ سمجھنے لگے۔۔۔آج تو حسنہ کا لہجہ ہی بدلا ہوا تھا۔۔

زبان بہت نہیں چل رہی تمھاری۔۔۔فراز کا رشتا کیا آیا پر پرزے نکل آئے تمھارے۔۔۔۔حد میں رہو سمجھیں نہ۔۔۔سارہ نے سارا غصّہ حسنہ پر نکالا۔۔۔۔

وہ تو صرف زرینہ سے نا امید تھی یہاں تو حسنہ کے تیور بھی بدلے ہوئے نظر آئے۔۔۔۔افّف اب کیا کروں گی میں۔۔۔وہ جلے پیر بلی کی طرح ادھر اُدھر چکر کاٹنے لگی۔۔۔

حسنہ اُسے نظر انداز کیے مٹر چھیلتی رہی۔۔۔۔

جا نم دیکھ لو مٹ گئی دوریاں 

میں یہاں ہوں یہاں ہوں یہاں ہوں یہاں۔۔۔۔

وہ اب تیز آواز میں گا رہی تھی۔۔۔جبہی شہلا دروازے کے ساتھ ڈلا پردہ سرکا کر اندر آئی۔۔۔

کیا بات ہے بُہت خوش ہو۔۔۔شہلا نے طنز کیا۔۔۔

ہاں ہوں بہت خوش۔۔۔مگر یہاں تو جلنے والوں کی قطاریں لگ گئی ہیں۔۔۔۔حسنہ واقعی آج دسویں آسمان تک پہنچ گئی تھی۔۔۔۔

مجھ سے لات کھا کر فراز اتنا نیچے گرا کے سیدھا تمھارے صحن میں آ پہنچا۔۔۔۔شہلا بھی کہاں کم تھی۔۔۔

کیا مطلب۔۔۔۔حسنہ نے حیرت سے اُسے دیکھا سارہ بھی چکر کاٹتے کاٹتے پاس ہی رک گئی۔۔۔۔

مطلب یہ کے جب میں نے بے عزت کر کے گھر سے نکالا تو وہ ماں بیٹا یہاں چلے آئے۔۔۔۔۔

سیدھی طرح بات کرو شہلا ۔۔۔پہلیاں بجھوانے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔حسنہ کو غصّہ آیا تھا۔۔۔۔

چلو سنو پھر۔۔۔بس برداشت کر لینا۔۔۔پتہ چلا چھیپا کو بلوانا پڑے۔۔۔۔وہ طنزیہ ہنسی۔۔۔۔

ڈیٹ پر بلایا تھا فراز نے مجھے۔۔۔ پرپوز کیا ۔۔۔رشتا بھیجا۔۔۔اور جب میں نے انکار کیا تو یہاں ۔۔۔یہاں رشتا ڈال دیا۔۔۔۔شہلا نے حقارت سے حسنہ کی شکل دیکھی۔۔۔

سارہ زور سے ہنسی تھی کوئی اور وقت ہوتا تو وہ حسنہ کا ساتھ دیتی مگر آج حسنہ کے رویے نے اُسے بد ظن کر دیا تھا۔۔۔۔۔

فراز اور تم۔۔۔۔

تم نے ہی پھنسایا ہوگا بیچارے کو۔۔۔امّاں ٹھیک کہتی ہیں تمھاری امّاں نے تمھیں پیدا کر کے محلّے میں چھوڑ دیا۔۔۔آوارہ۔۔۔۔گلے میں پھندے کی طرح دوپٹہ ڈالے بال کھول کر گھومنے سے تم کوئی سشمیتا نہیں بن جاؤ گی۔۔۔فراز کو اپنی اداؤں میں پھنسا کر اب بد نام کر تے ہوئے شرم آنی چاہیے۔۔۔۔ حسنہ نے شہلا کے بخیے اُدھیڑ دئیے۔۔۔

بیچارہ فراز۔۔۔۔شہلا کا منہ کھلا۔۔۔

جب شادی کے بعد آدھی روٹی توڑ کر کھانے کو دے گا نہ جب پتہ چلے گا تمھیں ۔۔۔۔ جب گول گپے کے دو ٹکڑے کرے گا نہ۔۔۔ تمھیں شہلا کی باتیں یاد آئیں گی۔۔۔شہلا آدھی چاٹ والا دکھ زندگی بھر نہیں بھول سکتی تھی۔۔

حسنہ کے سر سے شہلا کی باتیں گزر گئیں۔۔۔اُسے اس وقت صرف فراز نظر آ رہا تھا۔۔۔

اُٹھو نکلو یہاں سے ابھی کے ابھی۔۔۔سب جانتی ہوں میں۔۔۔آگ لگی ہوگی تمھیں اور تمھاری امّاں کو۔۔۔اتنا اچھا لڑکا جو مل گیا مجھے۔۔۔۔حسنہ نے اُسے باہر کا راستہ دکھایا۔۔۔۔

جسے تم لڑکا کہہ رہی ہو نہ وہ بتیس سال کا مرد ہے۔۔۔شوق سے کرو شادی ۔۔۔جلتی ہے میری جوتی۔۔۔۔مگر یاد رکھنا آدھی چاٹ کی پلیٹ جب جب سامنے آئے گی نہ تمھیں شہلا ضرور یاد آئے گی۔۔۔۔شہلا تن فن کرتی نکل گئی۔۔۔۔

یہ کیا کہہ کر گئی ہے ۔۔۔فراز سے پوچھنا چاہئے ہمیں۔۔۔سارہ اُس کی باتوں میں اُلجھ گئی تھی۔۔۔۔

چھوڑ اس کمبخت کو۔۔۔دل جلانے آئی تھی بس۔۔۔۔ہضم نہیں ہو رہا ہوگا نا اس سے۔۔۔۔حسنہ کو فراز پر ذیادہ بھروسہ تھا۔۔۔

سارہ نے بھی تائید کی۔۔۔۔

💘💘💘💘💘💘💘💘💘💘💘💘💘💘💘💘

آمنہ کو گھر واپس آئے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی عطیہ اور تائی امّاں اوپر ہی چلی آئیں۔۔۔

کیا تحفہ دیا ایاز نے۔۔۔عطیہ نے آنے کا مقصد عیاں کیا۔۔۔

آمنہ کی زبان تالو سے چپک گئی۔۔۔

بتاؤ بھی۔۔۔تائی امّاں سے بھی رہا نا گیا۔۔

جی تائی امّاں وہ ایاز نے ۔۔۔چار لاکھ دیئے ہیں۔۔۔آمنہ نے بات گھما کر بیان کی۔۔۔

ہینننن۔۔۔۔عطیہ اور تائی امّاں کا منہ کھلا رہ گیا۔۔۔

دکھا ذرا جھوٹی۔۔۔عطیہ کو یقین نہ آیا۔۔۔

اتنا پیسہ لے کر کون گھومتا ہے پاگل۔۔۔اکاؤنٹ میں رکھا ہے۔۔۔۔آمنہ نے اُسی کا مذاق اڑایا۔۔۔

کہیں ایاز نے تمھیں اُلو تو نہیں بنایا۔۔۔۔تائی امّاں کو شک ہوا۔۔۔

نہیں نہیں تائی امّاں۔۔۔میں نے خود کہا اُن سے کے اکاؤنٹ میں رکھ دیں حالات ٹھیک نہیں۔۔۔آمنہ نے سب کو مطمئن کروایا۔۔۔

عطیہ کو آمنہ کی قسمت پر رشک آنے لگا۔۔۔ایاز خوبصورت بھی تھا مالدار بھی۔۔۔اور آمنہ سے محبت بھی کرتا تھا ۔۔۔ وہ ایاز کا موازنہ ذیشان سے کر رہی تھی۔۔۔ذیشان اُسے صرف رکشا کے جھٹکے ہی دے سکتا تھا اُس کا دل خراب ہوا وہ واپس زینہ اتر گئی۔۔۔

تائی امّاں کا مزید آمنہ سے پوچھ گچھ کا ارادہ تھا۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨🙄✨✨✨✨✨

فراز اور حسنہ کی شادی سادگی سے کرنے کا ارادہ کیا گیا۔۔۔

شمس بیگم پھول لئے آئی تھیں۔۔۔فراز بھی ساتھ تھا۔۔۔

آپا بھابیوں کو بھی بتا دیں کیا رشتے کا۔۔۔شمع بیگم خوشی سے نہال تھیں۔۔۔

پاگل ہوئی ہو کیا۔۔۔جل کر راکھ ہو جائیں گی دونوں۔۔۔بس شادی سے دو دِن پہلے دعوت دے دیں گے۔۔جیسے اُنہوں نے آمنہ کی شادی کی دی۔۔۔۔

ہاں مگر بھائی اپنے ہیں اُنھیں ضرور ابھی فون کر کے بتاتی ھوں۔۔۔شمس بیگم نے بھابیوں کو سائڈ لگایا۔۔۔

زرینہ چہرے پر معصومیت سجائے بیٹھی رہی۔۔۔وہیں دل میں خود خبر پھیلانے کا پکّا ارادہ کر لیا تھا سب سے پہلے چھوٹی مامی کو ہی بتانا تھا۔۔۔

حسنہ سر پر گلابی دوپٹہ اوڑھے شرماتے ہوئے ادھر اُدھر گھوم رہی تھی۔۔۔۔فراز نے سانولی رنگت پر گہرے کلیجی رنگ کا کرتا پہنا ہوا تھا۔۔۔شہلا نے اُس کا غرور توڑ دیا تھا۔۔۔جبھي آج اُس کی نظریں حسنہ پر جمی ہوئی تھیں۔۔۔

مصدق کو زرینہ نے کسی معاملے میں بولنے نہیں دیا تھا۔۔۔مبادا کہیں شادی کے اخراجات کا زمہ ہی نہ مل جائے۔۔۔۔

سارہ ایک طرف پریشان بیٹھی تھی کسی نے اُسے نوٹس نہیں کیا تھا۔۔۔۔وہ اپنی جھوٹ کی دلدل میں دھنسی ہوئی تھی۔۔۔۔اُس نے احسن کو سچائی بتانے کا فیصلہ کر لیا وہ مزید زرینہ کی خوش آمد نہیں کرنے والی تھی۔۔۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

گلشن کے فون پر ریحان کی آنکھ کھلی تھی ۔۔رات کے ایک بجے گلشن کی آواز سن کر اُس کا دم نکلا تھا۔۔۔گلشن سے پڑنی والی ڈنڈیاں اُسے آج بھی یاد تھیں۔۔۔

سو گئے تھے کیا۔۔۔گلشن کی کرخت آواز نے مزید اُس کے اوسان خطا کیے۔۔۔

نن ۔۔ نہیں۔۔۔۔۔وہ گھبراہٹ میں جھوٹ بول گیا۔۔۔۔

یہ جھوٹ بولنے والی عادت گئی نہیں تمھاری۔۔۔گلشن ابھی بھی وہی گلشن تھی۔۔۔

نن۔۔۔نہیں۔۔۔بس ابھی آنکھ لگی تھی جھوٹ نہیں کہا۔۔۔ریحان اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔

تم خوش ہو نہ اس رشتے سے۔۔۔۔عجیب دھمکی آمیز لہجے میں پوچھا گیا۔۔۔۔

ہاں۔۔ہاں خوش ہوں۔۔۔۔

وہ نہ چاہتے ہوئے بھی بول گیا۔۔۔

اچھی بات ہے۔۔۔۔عمر کا فرق کوئی معنی نہیں رکھتا یوں بھی کچھ ہی سال بڑی ہوں تم سے بس۔۔۔۔گلشن نے جتایا۔۔۔

کچھ سال۔۔۔کم از کم پندرہ سال۔۔۔۔دل کی آواز دل میں ہی رہ گئی۔۔۔

رُخصتی جلدی لو۔۔۔یہی کہنا تھا بس۔۔۔۔حکم دیتی وہ آج بھی ریحان کو اپنی فزکس کی اُستانی ہی لگی جیسے کسی ہوم ورک کی آخری تاریخ دی ہو۔۔۔

ٹھیک ہے۔۔۔۔اس سے آگے کچھ کہنے کی ہمت اُس میں نہ تھی۔۔۔۔

گلشن نے جواب سن کر فون کاٹ دیا۔۔۔۔

ریحان کی آنکھیں نم ہونے لگیں۔۔۔آگے آنے والی پوری زندگی یونہی تابعداری میں گذرنے والی تھی۔۔۔وہ تکیے میں منہ دیے پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔۔۔۔

کون کہتا ہے مرد روتے نہیں۔۔۔۔ریحان کی سسکیوں سے پاس سوئے ذیشان کی آنکھ کھل گئی تھی۔۔۔

آدھی رات کو کیوں زنانیوں کی طرح سسک رہا ہے۔۔۔وہ تپ کر بولا۔۔۔

تو کیا کروں پھر۔۔۔۔ریحان کی ناک سرخ ہو گئی۔۔۔

سو جا فلہال ۔۔۔صبح اٹھ کر کرتے ہیں کچھ۔۔۔بنا مسئلہ جانے ذیشان واپس سو گیا تھا۔۔۔

ریحان کا دل چاہا اُس کا ہی گلا گھونٹ دے۔۔۔۔

🥰🥰🥰🥰🥰🥰🥰🥰🥰🥰🥰✨✨🥰🥰🥰

احسن ۔۔۔سارہ ہمت کر کے لنچ ٹائم میں اُس کے روم میں چلی آئی۔۔

ہاں آ جاؤ۔۔۔احسن لنچ شروع ہی کر رہا تھا۔۔۔

احسن وہ میرا گھر نہیں۔۔۔۔۔سارہ آہستگی سے بولی۔۔۔

ہاں سارا مجھے پتہ ہے۔۔۔۔احسن نے محبت سے کہا۔۔۔

کیا کیا پتہ ہے آپکو۔۔۔۔سارا کے پسینے چھوٹ گئے۔۔۔۔

تمہارا گھر تو وُہ ہوگا نہ جہاں میری دلہن بن کر آؤ گی۔۔۔احسن کچھ اور ہی سمجھا تھا۔۔۔۔

نہیں احسن میرا کہنے کا مطلب تھا میں ماڈل کالونی میں نہیں رہتی۔۔۔۔وہ گھر ہمارا نہیں۔۔۔میں قائد آباد میں رہتی ہوں پٹریوں کے ساتھ والے علاقے میں۔۔۔۔سارہ نے بمب پھوڑ دیا۔۔۔۔

کیا مطلب سارہ۔۔۔تو وہ گھر۔۔۔۔احسن نے کھانا سائڈ میں کیا۔۔۔

وہ زرینہ بھابی کا گھر ہے۔۔۔۔سارہ کی آنکھوں میں انسو جھلملانے لگے۔۔۔۔

احسن کو چپکی لگ گئی تھی۔۔۔

کچھ بولو گے نہیں احسن۔۔۔میں مانتی ہوں میں نے جھوٹ کہا مگر یہاں آفس میں سب ہی اچھے علاقوں سے آتے ہیں مجھے اچھا نہیں لگا یہ بتانا کے میں۔۔۔موٹے موٹے آنسو اُس کے چہرے کو بھگا گئے۔۔۔لفظوں نے دم توڑ دیا تھا۔۔۔

غریب ہونا کوئی برائی تو نہیں۔۔احسن نے آہستگی سے کہا۔۔۔حسنہ نے چونک کر اُسے دیکھا۔۔۔

۔۔انسان کا اچھا ہونا معنی رکھتا ہے۔۔۔۔کوئی فرق نہیں پڑتا کے ہم بنگلے میں رہتے ہیں یہ جھونپڑی میں۔۔۔۔ہمارا دل صاف ہونا چاہیے بس۔۔۔۔احسن نے آگے بڑھ کر اُس کے بھیگے چہرے کو دیکھا۔۔۔۔۔۔

میرے پاس جو گاڑی ہے وہ آفس سے ملی ہوئی ہے۔۔۔گھر بھی چھوٹا ہے میرا۔۔۔کرائے کا۔۔۔میری ساری سیلری گھر کے بلوں اور کرائے میں چلی جاتی ہے مگر یہ سب تو زندگی کا حصہ ہے نہ۔۔۔۔احسن نے سارہ کو جو حقیقت کا آئینہ دکھایا اُس میں سارہ کا عکس دھندلا گیا۔۔۔۔وہ تو احسن کو امیر سمجھتی آئی تھی اُس کے پاس تو اپنا گھر تک نہیں تھا۔۔۔

سارہ خوشیوں اور محبت کا تعلق پیسوں سے نہیں ہوتا ۔۔۔۔تم جس طرح جوب کر کے اپنے گھر والوں کا سہارا بنی ہو اس سے پتہ چلتا ہے کہ تمہارا دل کتنا اچھا ہے۔۔۔۔۔۔ میری ماما کا تعلق بھی ایک گاؤں سے ہے اُن کا رہن سہن بھی گاؤں والا ہی ہے۔۔وہ بھی محبت اور خلوص کو ترجیح دیتی ہیں۔۔۔تمھیں اُن سے مل کر خوشی ہوگی۔۔۔احسن  کی باتوں نے اُس کے دل کا بوجھ اتار دیا تھا۔۔۔۔

میں تمہیں پسند کرتا ہوں مجھے تمھارے اسٹیٹس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔۔ احسن نے اُس کا ہاتھ تھام کر اُسے معتبر کر دیا تھا آج اُس کے اندر کا احساسِ محرومی ختم ہوگیا تھا۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨✨✨😜😜✨✨✨✨✨✨

کیسی ہیں چھوٹی مامی آپ۔۔۔۔زرینہ نے اوپر آتے ہی چھوٹی مامی کو فون ملایا تھا۔۔۔۔

آپ کو پتہ ہے فراز اور حسنہ کا رشتا طے ہو گیا ہے۔۔۔اگلے مہینے کی بارہ تاریخ کو شادی ہے۔۔۔۔مگر آپ لوگوں کو ابھی نہیں بتایا جانے والا۔۔۔۔زرینہ نے مرچ مصالحہ لگا کر خبر پہنچائی۔۔۔۔

کیا شادی فراز اور حسنہ کی۔۔۔۔کتنی میسنی ہے یہ حسنہ۔۔۔پہلے  میرے ریحان کو پھنسایا اور اب فراز کو۔۔۔افف۔۔۔۔آگے سے چھوٹی مامی نے شمع بیگم اور حسنہ کو خوب بُرا بھلا کہا۔۔۔

زرینہ اپنا کام کر چکی تھی سو تھوڑی چکنی چپڑی باتوں کے بعد اُس نے لائن منقطع کر دی۔۔۔

👌👌👌👌👌👌👌👌👌👌👌👌👌👌👌👌

طاہرہ بیگم زرینہ کی خبر ملتے ہی تیزی سے سیڑھیاں اتریں۔۔۔

بھابی۔۔۔ بھابی۔۔۔فرخندہ بیگم کو آوازیں لگائیں۔۔۔

ارے آرام سے ۔۔۔کیا ہوگیا۔۔۔ٹماٹر ختم ہو گئے ہیں ہمارے پاس۔۔۔مہنگے اتنے ہو گئے ہیں کیا بتاؤں۔۔۔۔فرخندہ سمجھیں کے وہ ہمیشہ کی طرح ٹماٹر مانگنے آئی ہیں۔۔۔

بھاڑ میں گئے ٹماٹر۔۔۔۔یہاں تو آگ لگی ہے جنگل میں۔۔۔اُنہوں نے سنسنی پھیلائی۔۔۔

کون سا جنگل ۔۔ کہاں ہے آگ۔۔۔پاگل ہوئی ہو کیا۔۔۔۔فرخندہ بیگم کی سمجھ کچھ نہ آیا۔۔۔۔

فراز اور حسنہ کی شادی طے ہو گئی۔۔۔بس ہم دونوں کو ہی نہیں بتایا جانے والا۔۔۔۔اُنہوں نے سارا قصہ سنا ڈالا۔۔نندوں کے خلاف دونوں میں بُہت ایکّا تھا ورنہ ایک دوسرے کو منہ بھی نہ لگاتیں۔۔۔۔

عطیہ نے جلدی سے کلمہ شکر ادا کیا اُس کی جان تو چھوٹی تھی۔۔۔۔وہیں فرخندہ بیگم کو صدمہ پہنچا تھا ۔۔۔۔کیا کیا خواب دیکھ رہی تھیں وہ اور کیا ہو گیا۔۔۔۔

میں تو کہتی ھوں چچی جان اُن کے یہ خبر دینے سے پہلے آپ لوگ کوئی خبر تیار کر لیں وہ بھی ایسی کے اُن کو آگ لگ جائے۔۔۔۔۔۔

عطیہ نے دماغ چلایا تھا۔۔۔۔

مومنہ اور ذیشان بھی نیچے ہی چلے آئے تھے۔۔۔فرحان بھی ابھی میڈیکل سٹور سے آیا تھا سب مل بیٹھے تھے۔۔۔

کہنا کیا چاہ رہی ہے عطیہ۔۔۔۔امّاں نے حیرت سے اُسے دیکھا۔۔۔ذیشان اور فرحان اُس کا مطلب سمجھ گئے تھے۔۔۔

مطلب یہ تائی امّاں کے اگر وہ دونوں بہنیں آپس میں رشتا کر کے آپ دونوں کو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال سکتی ہیں تو آپ دونوں بھی آپس میں رشتا کر کے اُنھیں حلوے میں سے الائچی کی طرح نکال دیں۔۔۔ذیشان نے بہت طریقے سے دل کی بات کہی تھی۔۔۔

فرخندہ اور طاہرہ بیگم نے آنکھیں پھیلائے ایک دوسرے کو دیکھا۔۔۔۔

صحیح کہہ رہا ہے ذیشان ۔۔۔ ہم کیوں پیچھے رہیں اُن سے۔۔۔فرحان نے بھی اپنا اُلو سیدھا کیا۔۔۔

مومنہ اور عطیہ نے دونوں کو نظروں ہی نظروں میں داد دی۔۔۔

اگر عطیہ کا رشتا ذیشان سے اور مومنہ کا رشتا مجھ سے کر دیا جائے تو۔۔۔۔۔فرحان نے ڈرتے ڈرتے بات ادهوري چھوڑی۔۔۔۔

تو دونوں پھوپو کو جلا کر راکھ کیا جا سکتا ہے۔۔۔۔مومنہ نے اُن کی دکھتی رگ پے ہاتھ رکھا۔۔۔

نندوں کو جلانے کے لیے تو وہ کسی بھی حد تک جا سکتی تھیں یہاں تو بات صرف آپس میں رشتے جوڑنے کی تھی۔۔۔۔

وہ دونوں کچھ دیر کو تذبذب کا شکار ہوئیں اور پھر مسکرا اٹھیں۔۔۔۔

کیا کہتی ہیں بڑی بھابی۔۔۔۔ذیشان کے لیے عطیہ کا رشتا قبول ہے آپ کو۔۔۔طاہرہ بیگم نے مسکرا کر پوچھا۔۔۔

عطیہ کا دل زور زور سے دھڑکا تھا ۔ ۔

اکلوتی بیٹی نظروں کے سامنے رھے یہ کس ماں کا دل نہیں چاہتا طاہرہ۔۔۔مجھے قبول ہے۔۔۔فرحان کے لیے مومنہ کا رشتا بھی قبول کرو۔۔۔فرخندہ نے محبت سے کہا۔۔۔۔

ہاں ہاں کیوں نہیں بھابی۔۔۔۔مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔۔۔

جاوید اور نوید صاحب سے کسی نے پوچھنے یہ بتانے کی زحمت بھی گوارہ نہ کی اور بچوں کے رشتے طے پا گئے۔۔۔۔

شمس آپا کا فون آنے سے پہلے ہم اُنھیں فون کر کے اپنے بچوں کے رشتے کی اطلاع دیتے ہیں دیکھنا آگ لگ جائے گی اُنھیں۔۔۔۔وہ دونوں ٹیلیفون کی طرف بڑھ گئیں۔۔

اُن چاروں نے ایک دوسرے کو دیکھا ۔۔۔ 

قسم سے آج فراز اتنا اچھا لگ رہا ہے نہ کیا بتاؤں۔۔۔ذیشان بول پڑا۔۔۔۔اُن سب کا قہقہ بلند ہوا تھا۔۔۔۔

✨✨✨✨✨✨❤️❤️❤️✨✨✨😜✨✨✨

آج فراز اور حسنہ کی شادی کا دن تھا۔۔۔۔سب اپنے اپنے رشتوں میں خوش اور مکمل تھے صرف ایک شخص تھا جو گم سم سا ایک کونے میں کھڑا تھا۔۔۔

۔ہائے حسنہ مجھے ڈبو کر تم نے ساحل پر گھر بنا لیا۔۔۔میرا کیا قصور تھا۔۔۔۔ریحان کی آنکھیں نم ہونے لگیں۔۔۔گلشن کی ڈنڈیاں اُس کی روح کو گھائل کر گئیں تھیں۔اُس کا جلدی رخصتی لینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔۔۔وہ کچھ عرصہ اور جینا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔

حسنہ لال شرارہ پہنے فراز کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔۔شہلا اسٹیج پر چڑ ھی تھی اور فراز کا چہرہ اُترا تھا۔۔۔۔۔

کیوں جیجا جی۔۔۔پہچانا مجھے۔۔۔شہلا نے نخوت سے کہا۔۔۔

ہاں آپ حسنہ کی سہیلی ہے نہ۔۔۔فراز نے بات سمیٹی ۔۔۔

ارے بُہت کمزور ہے آپ کی یاد داشت۔۔۔۔شہلا کمینگی سے مسکرائی۔۔۔۔۔

دفعہ ہو جا یہاں سے ورنہ۔۔۔۔حسنہ کو غصّہ آیا تھا۔۔۔۔

پوچھ تو لو ایک دفعہ اپنے فراز سے ۔۔۔میرے ساتھ گئے  تھے طارق روڈ یا نہیں۔۔۔آگ لگاتی وہ واپس اسٹیج سے اُتر آئی تھی۔۔۔۔

کیا کہہ رہی ہے یہ فراز۔۔۔۔۔

ہاں حسنہ میں گیا تھا اس کے ساتھ مگر تمھارے لیے تحفہ لینے۔۔۔میں نے سوچا دوست ہے تمھاری اُسے پتہ ہوگا تمھاری پسند کا۔۔۔۔مگر یہ تو میرے گلے ہی پڑ گئی۔۔۔فراز نے با مشکل اپنا دفاع کیا۔۔۔۔

حسنہ مطمئن ہو گئی تھی اور فراز جان گیا تھا کہ اب یہ شہلا اُسے زندگی بھر سکون نہیں لینے دے گی۔۔۔

احسن اور اُس کی ماما بھی شادی میں شریک تھے۔۔۔سارا بھی اُن کے ساتھ سیلفیاں لینے میں مصروف تھی ۔۔۔

ذیشان عطیہ کو رکشا میں لیے خاموشی سے آئس کریم کھانے نکل گیا تھا۔۔۔

زرینہ سے آج بھی بھوک برداشت نہیں ہوئی تھی اور اُس نے مصدق سے کہہ کر پہلے ہی ایک پلیٹ میں بریانی نکلوا لی تھی۔۔۔اب وہ ایک کونے میں بیٹھی بریانی کے مزے لے رہی تھی۔۔۔۔

رُخصتی کا وقت آ گیا تھا۔۔۔شمع بیگم نے ایسے بین ڈالے تھے کے سب ہی کی آنکھیں نم ہو گئیں تھیں وہیں محلّے کی عورتیں حسنہ کی رخصتی پر خدا کا شکر ادا کر رہی تھیں اب پانی آنے کے دِن محلّے میں جنگ نہیں ہونے والی تھی۔۔۔۔

فراز نے منہ دکھائی میں حسنہ کو لاہور تک کے ریل کے ٹکٹ دیے تھے۔۔۔یہی منہ دکھائی تھی۔۔ یہی ہنی مون۔۔۔اور حق مہر میں بھی یہی ٹکٹ لکھوائے گئے تھے۔۔۔۔آج اُن کی خوب صورت زِندگی کا آغاز ہوا تھا۔۔۔۔

ختم شد  

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Web by Madiha Shah Writes.She started her writing journey from 2019.Masiha Shah is one of those few writers,who keep their readers bound with them , due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey from 2019. She has written many stories and choose varity of topics to write about

'' Nafrta Se barhi Ishq Ki Inteha '' is her first long novel . The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ❤️.There are many lessons to be found in the story.This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lasson to be learned from not leaving....,many social evils has been repressed in this novel.Different things which destroy today’s youth are shown in this novel . All type of people are tried to show in this novel.

"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second best long romantic most popular novel.Even a year after the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.

Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is a best novel ever 3rd Novel. Novel readers liked this novel from the bottom of their heart. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that, but also how sacrifices are made for the sake of relationships.How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice

 

Rabba Mainu Maaf Kary Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Rabba Mainu Maaf Kary  written Saima Bakhtiyar  Rabba Mainu Maaf Kary by Saima Bakhtiyar is a special novel, many social evils has been represented in this novel. She has written many stories and choose varity of topics to write about

Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel you must read it.

Not only that, Madiha Shah provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

If you all like novels posted on this web, please follow my webAnd if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

If you want to read More  Madiha Shah Complete Novels, go to this link quickly, and enjoy the All Madiha Shah Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                  

 

Complete Novels Link 

 

Copyrlight Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only share links to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted

 

 

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages