Mera Sodagar Mera Dildar By Aiman Raza Season 2 Complete Urdu Novel Story - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Tuesday 28 May 2024

Mera Sodagar Mera Dildar By Aiman Raza Season 2 Complete Urdu Novel Story

Mera Sodagar Mera Dildar By Aiman Raza Season 2 Complete Urdu Novel Story  

Madiha Shah Writer ; Urdu Novels Stories

Novel Genre : Romantic Urdu Novel Enjoy Reading… 

Mera Sodagar Mera Dildar By Aiman Raza Season 2 Complete Novel Story

Novel Name :Mera Sodagar Mera Dildar Season 2 
 Writer Name : Aiman Raza 

New Upcoming :  Complete 

بیپ بیپ بیپ"

اس کمرے میں موجود مریض کی ہارٹ بیٹ تیز ہونا شروع ہوئی تو ڈاکٹرز میں افرا تفری مچ گئی تھی۔۔۔

"فوراً سر کو کال کرو مریضہ کو ہوش آ رہا ہے"

ڈاکٹر کے کہنے پر نرس بھاگ کر کسی کو کال کرنے بھاگی۔۔۔

"آہہہ یہ میں کہاں ہوں کونسی جگہ ہے یہ کون ہو تم لوگ"

اس لڑکی نے سر تھامتے ہوئے کہا۔۔۔

سر میں ٹیسوں کی شدید لہر اٹھ رہی تھی۔۔

"مجھے مجھے میرے بچے کے پاس جانا ہے کہاں ہے وہ میرا بچہ"

یارم کا یاد آتے ہی وہ فوراً اپنے سٹریچر سے اٹھتی باہر کو بھاگنے لگی مگر نرس نے دونوں اطراف سے اسے پکڑ لیا۔۔۔

"چھوڑو مجھے جانے دو میرا بچہ میرا انتظار کر رہا ہو گا"

روتے ہوئے اسکا گلا بیٹھ گیا تھا۔۔۔

"یلدرم فوراً اندر آیا تھا"۔۔۔

"عفاف اٹھو یہ کیا کر رہی ہو تم "

یلدرم نے اسے اٹھا کر اوپر بٹھایا۔۔۔

"یلدرم میرا بچہ کہاں ہے میرا بچہ پلیز مجھے میرا بچہ لا دو سردار مجھے نہیں دے رہا میرا بچہ۔۔۔

تم نے دیکھا تھا نہ کل میرے پاس آنے کے لیے کیسے رو رہا تھا وہ مگر سردار بیچ میں آ گیا"

اسنے روتے ہوئے کہا تو یلدرم کو شدید جھٹکا لگا۔۔۔۔

"عفاف یہ کل کی بات نہیں "

یلدرم نے اٹک اٹک کر کہا۔۔۔

اسکے اس طرح کہنے پر اسے کچھ غلط ہونے اندیشہ ہوا۔۔۔

"کیا کیا مطلب"

"عفاف کیا تم نہیں جانتی کہ تم چار سال سے کوما میں تھی"

اسکی بات تھی یا خنجر جو اسکے دل کو لہولہان کر گئی تھی۔۔۔

اور وہاں خامشی چھا گئی تھی ایسی جو دل کو حولا کر رکھ دے۔۔۔

"تم جھوٹ بول رہے ہو ایسا کیسے ہو سکتا ہے یہ نہیں ہو سکتا میرا بچہ میرا انتظار کر رہا تھا میں کیسے اس سے اتنی دور ہو چکی ہوں"

وہ تو اپنے بال کھینچتے بلکل پاگل ہو جانے کے در پر تھی۔۔۔

"عفاف عفاف سمبھالو خود کو تمہیں مضبوط بننا ہو گا کیا تمہیں اپنے یارم سے نہیں ملنا پلیز اسکے لیے ہی صحیح خود کو سمبھالو۔۔۔۔"

اسکے احساس دلانے پر اسنے آنسو بھری آنکھیں اٹھا کر اسکو دیکھا۔۔۔

"یلدرم جب سب نے میرا ساتھ چھوڑ دیا تو تم نے مجھے کیوں بچایا تم بھی مرنے دیتے مجھے"

اسنے دلگرفتگی سے کہا۔۔۔

"ایسے کیسے جانے دیتا ۔۔۔ بہن کہا نہیں مانا بھی ہے تمہیں اور ویسے بھی تم نے بھی تو میری جان بچائی تھی ایک دفعہ بھول گئی"

اسنے اسکا سر تھپکتے کہا تو وہ سر ہلا گئی۔۔۔۔۔

"مجھے یارم سے ملنا ہے کسی طرح ملا دو مجھے یلدرم"

اسنے درخواست کی تھی۔۔۔

"یہ بہت مشکل ہے عفاف شاید تمہیں اچھا نہ لگے سن کر لیکن یارم تم سے نفرت کرنے لگا ہے "

اسکے افسوس سے کہنے پر اسے دھچکا لگا تھا۔۔۔

"یہ کیا بول رہے ہو تم"

اسنے غصے سے کہا۔۔۔

"یہ سچ ہے سردار کی والدہ تم سے نفرت کرتی تھیں اور تم سے بدلہ لینے کی خاطر انہوں نے یارم کے دل میں اتنی نفرت بھر دی ہے تمہارے لیے کہ وہ تمہارا نام سننا بھی پسند نہیں کرتا"۔۔۔۔۔

یلدرم نے افسوس سے کہا۔۔۔

"کوئی اتنا کیسے گر سکتا ہے کہ اپنی ہی اولاد کی خوشیوں کا دشمن بن جائے"

اس نے دلگرفتگی سے کہا تو یلدرم بےبس نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔

"عفاف اب تمہیں خود کو مضبوط بنانا ہوگا کہ تمہیں کوئی توڑ نہ سکے اور تمہیں بزنس کی دنیا کی بےتاج ملکہ بننا ہو گا۔

تبھی جا کر تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو پاؤ گی"

یلدرم نے عفاف کو ہمت دلاتے کہا جسکی آنکھوں میں اب کچھ کر دکھانے کا جنون تھا۔۔۔

اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے عفاف نے خود کو پوری طرح بدل لیا ۔۔۔۔

دو سال لگے تھے اسے پرانی عفاف کو مار کر ایک نئی پختہ ارادوں والی عفاف سیال بننے میں جسکی زندگی میں محبت کی کوئی جگہ نہیں تھی۔۔۔

مسکرائے ہوئے تو شاید اسے عرصہ بیت چکا تھا۔۔۔۔

ان دو سالوں میں اسنے کیا کیا نہیں جھیلا تھا اپنی محبت کا قتل اپنے بچے کی نفرت اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی اسنے جب وہ اپنے بچے سے سکول ملنے گئی تھی اور اسنے یہ کہ کر اسے دھتکار دیا تھا کہ اسکی کوئی ماں نہیں۔ وہ اپنی ماں کے نام تک سے نفرت کرتا ہے جو جھوٹی ہونے کے ساتھ ساتھ قاتل بھی ہے۔۔

اسکی ماں اسکے لیے مر چکی ہے۔۔۔

اور یہ وہ آخری الفاظ تھے جو عفاف کو توڑ سکتے تھے اسکی سانسیں کھینچ سکتے تھے۔۔۔

اور ایسا ہوا بھی پھر کئی دن نروس بریک ڈاؤن کے بعد ہسپتال میں گزارنے کے بعد وہ نئے عزم سے واپس آئی تھی اور جی جان لگا تھی اپنے کام میں اور آج حال یہ تھا کہ وہ بزنس کی دنیا کی بے تاج ملکہ تھی۔۔۔۔

جس سے ملنے کے لیے لوگ اپوائنٹمنٹ کا انتظار کرتے ۔۔۔

بڑے بڑے بزنس مین اسکی کمپنی سے ڈیل ملنے کو ترستے تھے۔۔۔۔

اب وہ , وہ بن گئی تھی جسے اسنے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔۔۔۔

Stone queen

جسکے پاس دل نہیں تھا لڑکوں کے بقول کیونکہ کینیڈا کے نوجوانوں کا کرش تھی وہ۔۔۔

بےشک کبھی وہ منظرِ عام پر نہیں آئی تھی۔ مگر وہ stone queen کے نام سے لوگوں میں شہرت حاصل کر چکی تھی۔۔۔

لوگوں کا کہنا تھا اسے اپنی خوبصورتی پر غرور ہے تبھی وہ کسی سے نہیں ملتی۔۔۔

اور آج وہ اپنا بدلہ پورا کرنے سپیشل پاکستان واپس آ رہی تھی جسکے لیے اسنے دو سال کی نیندیں قربان کی تھیں۔۔۔۔

Wait for your karma Sardar...

یہ پہلا جملہ تھا جو اسنے پاک کی سر زمین پر قدم رکھتے ادا کیا تھا۔۔۔

                      *********

جب وہ ایرپورٹ پر اتری تو 

گہما گہمی آج بھی ویسے ہی تھی جیسے پہلے ہوا کرتی تھی۔ بس فرق صرف اتنا تھا کہ وہ عفاف پہلے والی عفاف جیسی نہیں رہی تھی۔

 بزنس سوٹ میں آنکھوں پر سن گلاسز لگائے۔ بال کھلے چھوڑے وہ بار بار لوگوں کو اپنی طرف بری طرح متوجہ کر رہی تھی۔

 ہر کوئی ایک دفعہ اسے پلٹ کر ضرور دیکھ رہا تھا کہ یہ ایسی کون سی ہستی ہے جو اپنے اندر مقناطیسی طاقت رکھتی ہے۔۔۔

عفاف نے دیکھا کہ آج اسے لے جانے کے لیے ایئرپورٹ پر کوئی اپنا موجود نہیں تھا۔۔۔

 کیونکہ پہلے جب بھی وہ کہیں سے آتی تھی تو سردار اپنی گاڑی لیے پہلے سے اس کا منتظر ہوتا تھا۔۔۔

 ایک پرانی یاد چھم سے اس کے ذہن پر لہرائی تھی جب وہ سردار کے لئے بس ایک ضرورت کا سامان ہوا کرتی تھی۔۔۔۔

*فلیش بیک*                    

اسے یاد تھا جب وہ ایک دن سردار کی حرکتوں سے تنگ آ گئی تھی تو اس نے ڈرائیور کو یونیورسٹی آنے سے منع کر دیا تھا کیونکہ وہ سردار کے ساتھ نہیں جانا چاہتی تھی بلکہ کہیں بھاگ جانا چاہتی تھی لیکن جیسے ہی وہ یونیورسٹی کی اینٹرنس پہ آئی تو دیکھا سردار کی بلیک چمچماتی گاڑی وہاں پہلے سے ہی موجود تھی۔۔۔

 حریم بھی سردار کی گاڑی باہر دیکھ کر حیرت کا شکار ہوئی تھی۔۔۔

"حریم مجھے یاد آیا کہ مجھے مسٹر سردار کے ساتھ کسی بزنس ڈیل کے لیے جانا ہے میں تم سے معافی چاہتی ہوں کہ میں تمہیں پہلے نہ بتا پائی۔۔۔"

عفاف نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا کیونکہ اسے ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ سردار یہاں اچانک آ جائے گا۔۔۔

" کوئی بات نہیں عفاف تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا چلو پھر میں چلتی ہوں اپنا خیال رکھنا "

یہ کہتے ہی حریم وہاں سے جا چکی تھی...

"مجھے معاف کرنا حریم میں تمہیں سچ نہیں بتا سکتی مجھے ڈر ہے کہ اگر میں نے تمہیں سچ بتا دیا تو تم مجھ سے نفرت کرنے لگو گی اور مجھ میں تمہاری نفرت سہنے کی ہمت نہیں ہے۔۔"

 اس نے دل میں افسردگی سے سوچا اور سردار کی گاڑی کی طرف قدم بڑھائے جیسے ہی وہ سردار کی گاڑی کے قریب پہنچی تو شیشا کھل کر نیچے ہوا تھا جہاں سردار بیٹھا اسے واضح نظر آیا۔۔

 تو کیا وہ اسے خود لینے آ گیا تھا مگر کیوں وہ کونسا اسکے اتنے قریب تھی۔۔۔

ڈرائیور بھیجنے کی بجائے یہ یہاں خود کیوں آگیا عفاف اسے یک ٹک دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی جو سردار کے گلا کھنکھارنے پر پر ہوش میں آئی تھی۔۔۔

"آکر گاڑی میں بیٹھو"

 سردار نے سرد لہجے میں کہا..

 تو وہ تیزی سے دوسری طرف سے آ کر گاڑی میں بیٹھی تھی۔۔ کچھ دیر خاموشی چھائی رہی۔۔۔

"آپ کے اردگرد کے لوگ ہمارا رشتہ نوٹ کرنے لگے ہیں ہمیں ایک دوسرے سے دور رہنے کی احتیاط برتنی چاہیے"

عفاف نے ہچکچاتے ہوئے اپنا مدعا بیان کیا۔۔

"کونسا رشتہ" 

سردار کے دو لفظ جواب پر وہ حیرت سے دنگ رہ گئی تھی ایک دم اس کا چہرہ سفید پڑا تھا تو کیا وہ نہیں جانتا تھا کہ ان دونوں کے درمیان کوئی رشتہ تھا بےشک ان دونوں کے درمیان کنٹریکٹ میریج تھی

 مگر تھا تو رشتہ ہی نہ بےشک دل کا نہ سہی۔۔۔

 تو کیا وہ اسے اپنی باندھی سمجھتا تھا صرف اپنے دل بہلانے کا سامان"

 اس سے زیادہ عفاف کچھ سوچ نہیں سکی تھی کیا وہ اس پر کسی بات سے غصہ تھا عفاف نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا۔۔

" ایک تو میں اتنی دور سے اس سے ملنے کے لیے آیا اور اس کم عقل لڑکی کے دماغ میں یہ بات نہیں آرہی مگر میں خود سے بتا کر اپنی انا کو گرانا نہیں چاہتا کیونکہ مجھے  سردار شاہ کو اپنی انا سب سے زیادہ عزیز ہے"۔۔۔۔

 اس نے دل میں کڑھ کر سوچا۔۔۔

" تم مجھ سے اتنی دور کیوں بیٹھی ہو کیا تمہیں مجھ سے ڈر لگ رہا ہے "

سردار نے اس کی طرف آنکھیں کرتے پوچھا۔۔۔

" ہاں میں بری طرح ڈری ہوئی ہوں"

 اس نے حقیقت پسندی سے کام لیا تھا کیونکہ سردار کے تاثرات اسے ڈرنے پر ہی مجبور کر رہے تھے....

" آں ہاں تو تم مجھ سے سچ بول رہی ہو بہت خوب مجھے تمہاری یہ دلیری پسند آئی"

 سردار نے اس کی طرف دیکھتے شریر لہجے میں کہا اور اسے جھٹکے سے اپنے قریب کیا تھا کہ وہ اس کی گود میں آ گری تھی۔

"اس انسان کے تو جیسے سینے میں دل ہی نہیں ہہے اس کی تو چہرے کی مسکراہٹ بھی کتنی بناوٹی ہے" اس نے سردار کی مسکراہٹ کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا...

" مسٹر سردار میں آپ کی کوئی حکم عدولی نہیں کرنا چاہتی مگر ہمارے درمیان یہ طے ہوا تھا کہ ہمارے رشتے کا کسی کو بھی پتہ نہیں چلے گا "

"اچھا میں نے ایسے کب کہا تھا مجھے تو یاد نہیں"

 سردار نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے آنکھ ونک کر کے کہا۔۔۔

 "کیا تم مجھ سے واقعی اتنا ڈرتی ہو یا میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی" اس نے عفاف پر جھک کر کہا کہ اس کی سانسیں عفاف کا چہرہ جھلسانے لگیں۔۔

" وہ میں۔۔۔ آپ ۔۔۔۔"

 وہ اس کے اس طرح نزدیک آنے پر ہڑبڑا گئی تھی...

 لیکن وہ اس سے پہلے کہ کچھ کہتی سردار اس کو گرفت میں لیتے اس پر شدت سے جھکا تھا۔۔۔

اور اس پر اپنے جذبات کا سمندر انڈیلنے لگا تھا کہ وہ سہمی ہوئی چڑیا کی طرح پھڑ پھڑا کر رہ گئی اس کی کوئی بھی مزاحمت سردار کے آگے کام نہیں آئی تھی بلکہ سردار اور بھی جذبات اس پر نچھاور کرنے لگا تھا۔

 جس سے عفاف کی جان آدھی ہو کر رہ گئی تھی اور چہرہ شدت سے سرخ ہوا تھا۔۔۔

 *حال*

عفاف جھٹکے سے خیالوں سے باہر آئی تھی۔۔۔

" پہلے تم اپنی حرکتوں اور منمانیوں سے مجھے چپ کروا لیا کرتے تھے اور میں بھی بےوقوفوں کی طرح تمہارے جال میں پھنس جاتی تھی مگر اب میں پہلے والی عفاف نہیں رہی۔۔۔

 اب تمہیں مجھ سے کون بچائے گا۔ پہلے تم میں دل نہیں تھا مگر اب میرے سینے میں نہیں ہے"

 عفاف نے دور سے اپنے ڈرائیور کو آتے دیکھ کر سوچا اور اپنے دل میں سردار سے مخاطب ہوئی جس سے وہ بدلہ لینے کا پوری طرح ٹھان چکی تھی۔۔۔

اس وقت وہ سب سردار کے آفس میں موجود تھے اور ابھی ہی میٹنگ سے فری ہوئے تھے جب یلدرم نے سردار سے پوچھا....

" سردار آج تمہارے ڈریم پروجیکٹ کی جگہ کی نیلامی ہے تو کیا تم وہ جگہ خریدنے نہیں جاؤ گے Treasure hunt"

Treasure hunt 

میں ہر سال کسی بڑی اور مہنگی زمین کی نیلامی ہوتی تھی جسکو امیر بزنس مین خریدتے اور اس پر اپنا پروجیکٹ تعمير کرتے۔۔۔

 یلدرم نے سردار کو کام میں مصروف دیکھ حیرت سے پوچھا جب کے باقی سب جن میں ذیشان اور برہان شامل تھے وہ بھی اس کی طرف دیکھنے لگے پوچھنا تو وہ بھی چاہتے تھے۔۔۔۔۔۔۔

" تم لوگوں کو کیا لگا وہ جگہ میں ایسے ہی جانے دوں گا بالکل غلط میں Treasure hunt میں اپنا ایک بندہ بھیج چکا ہوں جو بولی لگائے گا۔۔۔۔

" اور اگر کسی اور نے وہ زمین خرید لی تو"

 ذیشان نے اسے جانچنا چاہا۔۔۔

" ایسا ممکن ہی نہیں جس چیز پر سردار کی پرچھائی ہو وہ کوئی اور خرید سکے"

 سردار نے کھرے انداز میں کہا۔۔۔

" اتنا غرور مت کرو سردار یہ دنیا ہے اور یہاں کسی بھی چیز کی امید کی جاسکتی ہے"

 یلدرم نے اس پر لطیف سا طنز کیا تھا۔۔۔

عفاف کے جانے کے بعد اکثر ان میں سرس جنگ ہو جایا کرتی تھی۔۔۔

 اس کی بات پر وہ سرد نظروں سے دیکھنے لگا اور بولا ۔۔۔

"میں اپنا بندہ وہاں بھیج چکا ہوں جو سب سے اونچے داموں کی بولی لگائے گا اور یقین وہاں کوئی ایسا شخص نہیں ہوگا جو اس جگہ کو اتنے مہنگے داموں خرید سکے"

 سردار نے بھی منہ پر اس کے جواب مارا تھا جس پر یلدرم ہلکا سا ہمس کر رہ گیا۔۔

 اب یہ تو قسمت ہی جانتی تھی کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔۔۔

" یلدرم بات چاہے جو بھی کرو مگر سردار وہ جگہ حاصل کر ہی لے گا جیسے پہلے اتنے سالوں سے کرتا آیا ہے۔ پہلے کوئی اس سے جیت نہیں سکا تو اب کیسے جیتے گا"

 برہان نے بھی سردار کی طرف داری کی تھی۔۔۔

 اس کی بات پر یلدرم سردار کو چبھتی آنکھوں سے دیکھنے لگا۔۔۔

" چلو ہوپ فار دا بیسٹ مجھے واپس جانا ہے میں چلتا ہوں "

اور یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا تھا۔۔

 جبکہ باقی سب Treasure hunt سے آنے والی کال کا انتظار کر رہے تھے...

 جب کہ وہ جانتے تھے کہ جواب وہی ہوگا جو اتنے سالوں سے ہوتا آرہا ہے کہ سردار یہ زمین بھی جیت چکا ہے۔۔۔

مگر آج شاید قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔۔۔

                          *****

"میڈم کہاں جانا ہے آپ کو"

 ڈرائیور نے گاڑی ڈرائیو کرتے پیچھے بیٹھی عفاف کو گاڑی کی ونڈو سے باہر دیکھتے اپنی سوچوں میں گم دیکھ کر پوچھا۔۔۔۔

 اس کی بات پر وہ چونک کر سیدھی ہوئی اور اپنی پرانی تلخ یادوں سے باہر نکلی اور ڈرائیور کو دو لفظی جواب دیا تھا۔۔

"Treasure hunt"

 یہ کہتے ہوئے اس کی ہونٹوں پر جلتی ہوئی مسکراہٹ تھی اور آنکھوں میں تپش جو جانے کتنے دل جلا دینے والی تھی۔۔۔

 آدھے گھنٹے میں وہ Treasure hunt پہنچ چکی تھی...جہاں نیلامی شروع ہو چکی تھی....

 اس نے ایک نظر حال میں دوڑائی اور اپنا ساتھی ملتے ہی وہ اس میز پر گئ اور وہ جگہ سنبھال کر وہاں بیٹھ گئ۔۔۔۔

 اس نے سفید رنگ کا لیڈیز پینٹ کوٹ پہن رکھا تھا سنہری آنکھوں پر چشمہ تھا جبکہ منہ کو ماسک سے ڈھانپ رکھا تھا۔۔۔

 کوئی چاہ کر بھی نہیں پہچان سکتا تھا کہ وہاں سٹون لیڈی موجود ہے۔۔۔

 جسے سب ایک نظر دیکھنے کے لئے مرتے تھے۔وہ آج ان کے درمیان موجود تھی مگر کسی کو علم نہ تھا۔۔۔۔

"پانچ کروڑ پانچ لاکھ" سردار کے بندے نے آخری بولی لگائی تھی۔۔۔

 جسے سن کر پورے ہال میں سناٹا چھا گیا تھا۔۔۔

 پانچ کروڑ دس لاکھ,پانچ کروڑ بیس لاکھ, پانچ کروڑ تیس لاکھ۔۔۔۔

 زمین کے مالک نے بولی بلند کرنا شروع کی تھی۔۔۔ کیا سردار انڈسٹریز کی بولی آخری بولی ہے اس کے علاوہ کوئی بولی نہیں لگانا چاہتا اس نے سوالیہ انداز میں پوچھا جیسے اس کے بعد وہ زمین سردار انڈسٹریز کو دینے کا ارادہ رکھتا ہو۔۔۔

" دس کروڑ"

 نسوانی آواز پر سب نے مڑ کر اس جگہ دیکھا تھا جہاں عفاف ہاتھ میں وہ دس کروڑ کا وڈن سائن پکڑے پر اعتماد سی بیٹھی بولی لگا رہی تھی۔۔

 سب میں چہ مگوئیاں ہونے لگی تھیں۔۔۔

 آخر کون تھی یہ صنفِ نازک جس نے سردار انڈسٹریز سے بھی اونچی بولی لگائی تھی۔۔۔

" دس کروڑ دس لاکھ"

 سردار کے بندے نے دوبارہ بولی لگائی تھی وہ اپنے باس کو اچھی طرح جانتا تھا کہ اگر اس کو پتا چلتا کہ وہ خالی ہاتھ ناکام لوٹا ہے تو اس کو زندہ دفنانے میں وہ کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔۔۔

 اس لیے تھوک نگلتے ہوئے ابھی بولی لگائی تھی کیونکہ اسے ابھی زندہ رہنا تھا۔۔۔

" دس کروڑ پچاس لاکھ"

عفاف نے ایک بار پھر بولی کو انتہائی اونچائی پر پہنچا دیا تھا "بیس کروڑ"

 سردار کا آدمی فوراً بولا۔۔۔

 "25 کروڑ "

عفاف نے بھی نہ رکنے کی قسم کھائی تھی۔۔۔

آخر وہ پہلا بدلہ لینے والی تھی سردار سے کوئی کمی کیسے رہنے دیتی بھلا۔۔۔

 معاملہ ایک دلچسپ موڑ پر پہنچ گیا تھا۔۔۔

 ہر کوئی جاننے کے لیے بے چین تھا کہ آخر زمین کس کے حصے میں آتی ہے۔۔۔۔

" 40 کروڑ"

سردار کے بندے کریم کا گلا خشک ہوا تو اسنے فوراً غٹاغٹ پانی کا گلاس گلے میں اتارا تھا۔۔

" 50 کروڑ"

ان میں سے کوئی بھی ہار ماننے کو تیار نہ تھا۔۔۔

" 60کروڑ"

" 70 کروڑ"

کبھی ایک بولتا تو کبھی دوسرا۔۔

" 80کروڑ"

" 90 کروڑ"

نوے کروڑ پر سردار کے آدمی کی بس ہوئی تھی اسنے فوراً سرداد کو کال ملائی تھی جسکا فون پاورڈ آف آ رہا تھا۔۔۔

اسنے فوراً زیشان کو کال ملائی لیکن یہ کیا اسکا فون بند ہو چکا تھا۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا اسے سردار کی طرف سے میسج موصول ہوا۔۔۔

"واپس پہنچو اور زمین چھوڑ دو"

آگے سردار لکھا ہو تھا۔۔۔

" 90 کروڑ 90 لاکھ"

عفاف نے آخری بولی لگائی تھی اور طنزیہ نظروں سے سردار کے ساتھی کو دیکھا تھا اور اٹھ کر وہاں سے نکلتی چلی گئی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی آج جیت اسکا مقدر بن چکی تھی۔۔۔

لیکن جانے سے پہلے وہ ایک چٹ سردار کے بندے کو پکڑا گئی تھی۔۔۔

"اپنے باس سے کہنا یہ پڑھنا مت بھولے"

اور شاہانہ چال چلتی وہ سے نکلتی چلی گئی...سب مڑ مڑ کر اسے حیرت سے جاتا دیکھ رہے تھے جو نیلامی کے بیچ سے اٹھ کر چلی گئی تھی۔۔۔

مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ تو پہلے ہی نیلامی جیت چکی تھی۔۔۔

 سردار کاا بندہ جو کبھہ اس پرچی کو تو کبھی اپنے فون کو گم سم نظروں سے دیکھ رہا تھا کہ آیا وہ سردار کا ہی میسج ہے یا کسی اور مخلوق کا۔۔

 اس کا باس جو اس زمین کو ہر کسی طرح سے بھی خریدنے پر بضد تھا۔۔

 آخر یہ میسج کیسے کر سکتا تھا۔۔۔

 مگر اب اس کے پاس کوئی چارہ بھی تو نہ تھا 90 کروڑ 90 لاکھ۔۔۔

سو کروڑ "

مگر حال میں خاموشی چھا گئی تھی کیونکہ سردار کی کمپنی کی طرف سے کوئی بھی بولی نہیں اٹھائی جارہی تھی۔۔۔

سب معنی خیز نظروں سے انہیں دیکھنے لگے کیونکہ یہ پہلی بار تھا جب سردار کی کپمنی کسی نیلامی میں ہاری تھی۔۔۔

اس پارٹی کی خاموشی پر زمین کے اونر نے 90 کروڑ 90 لاکھ میں اس زمین کا مالک عفاف کو بنا دیا تھا۔۔۔

 میں درخواست کرنا چاہوں گا کہ جیتی ہوئی پارٹی آکر یہ پیپر ریسیو کرے اور اپنا نام بتائے"

مگر عفاف تو پہلے ہی جا چکی تھی۔۔۔

 سب کو اب اسکا وہاں سے جانا یاد آیا تھا کہ وہ پہلے سے جانتی تھی کہ وہ جیت چکی ہے تبھی وہ چلی گئی۔۔۔

عفاف کی طرف سے وہ بندہ اٹھ کر گیا اور زمین کے پیپرز رسیو کیے ہال تالیوں سے گونج اٹھا تھا۔۔۔

 جبکہ سب اس صنفِ نازک کا نام جاننے کی چاہ رکھتے تھے۔۔۔

"آپ نے بتایا نہیں آپ کی اونر کا نام کیا تھا"

اسنے خوش اخلاقی سے ہاتھ ملاتے کہا تو وہ بس دو لفظی جواب بولا تھا۔۔۔

"Stone lady"

اور یہ نام سنتے ہی سب کا منہ حیرت سے کھلا اور کیمرہ مینز سمیت بزنس مینز بھی سب باہر کو بھاگے تھے اسے ملنے۔۔۔

 آخر کو اس سے ملنا سب کا خواب تھا ۔۔۔

مگر باہر تو کسی ذی روح کا نشان بھی نہ تھا۔۔

 وہ تو کب کی جا چکی تھی سب دل مسوس کر رہ گئے کہ وہ کیسے نہ جان پائے کے ایک مشہور اور کامیاب ترین بزنس ومین ان کے درمیان موجود تھی۔۔۔۔

                *******

 وہ سب کافی سے لطف اندوز ہو رہے تھے جب سردار کے بندے کی کال آئی۔۔۔

" بتاؤ کریم کے اس بار بھی ہم جیت گئے ہیں"

 ذیشان نے خوش اخلاقی سے کہا..

 مگر آگے کی بات سنتے ہی اس کی تیوری پر بل چڑھے تھے..

" یہ کیا کہہ رہے ہو تم"

 اس کے انداز پر سردار بھی چوکنا ہوا تھا۔۔

جیسے ہی اس نے فون بند کیا تو سردار اسے جواب طلب نظروں سے دیکھنے لگا۔۔۔

" سردار وہ زمین کسی اور نے خرید لی ہے سننے میں آیا ہے کہ وہ ایک عورت ہے

 اور تمہارے لئے ایک چٹ بھی بھیجی ہے اس نے"

 ذیشان نے اسے کہا تو کریم وہ چٹ لے کر اندر آیا اور سردار کے سامنے میز پر رکھی۔۔

 جس پر سنہری حرفوں میں لکھا ہوا تھا۔۔

"Check mate"

یعنی شکست فاش۔۔۔

چھناکے کی آواز سے سردار نے کافی کا مگ زمین پر پھینک کر توڑا  تھا۔۔۔

جو کرچی کرچی ہوا تھا۔۔۔

آخر یلدرم کا کہا سچ ہو ہی گیا تھا۔۔۔

 سردار کا چہرہ غصے کی شدت سے سرخ پڑنے لگا تھا۔۔

"کون ہے یہ لڑکی مجھے اس کا بائیو ڈیٹا شام تک اپنی ٹیبل پر چاہیے"

اسنے غصے سے پھٹتی رگوں پر ہاتھ رکھتے کہا۔۔۔

پہلی ہار تھی اسکی آخر کیسے برداشت کر لیتا وہ۔۔

" سر زیادہ تو کچھ نہیں جانتے مگر سب لوگ اسے سٹون لیڈی کے نام سے جانتے ہیں "

کریم نے اس کی معلومات میں اضافہ کیا اور وہاں سے نکلتا چلا گیا کوئی بھروسا نہیں تھا کہ سردار اس کو ہی کافی کے مگ کی طرح چکنا چور کر دیتا۔۔۔

 اس لیے اس نے وہاں سے جانے میں ہی عافیت جانی تھی۔۔۔

 جبکہ باقی سب پریشان نظروں سے سردار کو دیکھنے لگے تھے کیونکہ جو بھی تھا اب اس لڑکی کی خیر نہیں تھی۔۔

 مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اب سردار کی خیر نہیں تھی۔۔۔

"hmmm stone lady"

 تم نے مجھ سے ٹکر لے کر اچھا نہیں کیا اب مجھ پر تمہارے اوپر دنیا تنگ کر دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا"

 اس نے تمسخرانہ انداز میں کہتے سوچا...

مگر آگے ہونے والے معاملات اسکی زندگی کو ہلا کر رکھ دینے والے تھے اس بات سے وہ انجان تھا۔۔۔۔

                    *******

وہ Treasure hunt سے سیدھا یلدرم کے گھر ہی آئی تھی...

" بدلے بدلے میرے سرکار نظر آتے ہیں"

 اسے اندر آتا دیکھ کر یلدرم نے اپنے ازلی شریر انداز میں لہک کر شعر گیا تھا۔۔۔

 جس پر اس کی بیوی عروج نے کس کر اس کی کمر پر دھموکا جھڑا تھا اور کھڑی ہوتی عفاف کا استقبال کرنے لگی تھی۔۔۔

 وہ اپنے شوہر کی بات بے بات جگت کرنے سے بہت تنگ تھی۔۔۔۔ یلدرم کے منہ بسور نے پر عفاف نے اپنی ہنسی کو بہت مشکل سے کنٹرول کیا تھا۔۔۔

یہی تو یادیں تھیں جنہیں اس نے ابراڈ میں بہت مس کیا تھا۔۔۔۔

 عروج سے گلے ملنے کے بعد اس نے مائرہ کی تلاش میں ادھر ادھر نظر دوڑائی تھیں۔۔۔

" مائرہ کو ڈھونڈ رہی ہو تو وہ اس وقت سکول میں ہے۔اگر اسے پتہ ہوتا کہ تم آج آ رہی ہو تو وہ کبھی نہ جاتہ سکول۔۔۔"

عروج نے ہنس کر اپنی اکلوتی بیٹی کا زکر کیا جو عفاف کی دیوانی تھی۔۔۔

جسکا عفاف سے بات کیے بغیر ایک دن بھی نہیں گزرتا تھا۔۔۔

" بیٹھو میں تمہارے لئے کچھ لے کر آتی ہوں"

 عروج نے ایک ہی سانس میں اس سے اس کا حال چال پوچھتے فوراً اندر کو دوڑ لگائی تھی۔۔۔

 اس کی جلد بازی پر وہ مسکرا کر رہ گئی۔۔

 مگر جب نظر یلدرم پر گئی تو اس کی اندر تک جھانکتی نظروں سے وہ ایک دم سیدھی ہو کر بیٹھی۔۔۔

" کیا ہوا ایسے کیا دیکھ رہے ہو"

" کچھ نہیں بس یہ دیکھ رہا ہوں کہ کتنی بدل گئی ہو تم پہلے سے...

 پہلے جب تم ہنستی تھی تمہاری آنکھیں بھی مسکراتی تھیں۔ مگر اب تمہاری آنکھیں ویران ہوگئی ہیں عفاف۔۔۔

 میرا یقین کرو خوشیاں بہت جلد تمہارا مقدر بنیں گی"

 یلدرم نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔۔

" وقت جب ایک سا نہیں رہتا تو پھر میں کیسے وہ پہلے جیسی عفاف رہ سکتی ہوں"

 اس نے عجیب لہجے میں کہا تھا "بہرحال مبارک ہو تمہاری پہلی کامیابی کی آخر تم Treasure hunt کی نیلامی جیت ہی گی..

 پہلی بار سردار کسی اور سے نہیں بلکہ اپنی بیوی سے ہارا ہے جس سے وہ خود انجان ہے"

 یلدرم نے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔

" یہ تو شروعات ہے ابھی تو میں نے صرف اس کا ڈریم لینڈ چھینا ہے اب باری اس کے ڈریم پروجیکٹ چھیننے کی ہے"

 عفاف نے آنکھوں میں تپش لیے کہا تو یلدرم اسے دیکھ کر رہ گیا۔۔۔

 وقت اور کڑے حالات نے اسے کتنا بدل کر رکھ دیا تھا۔۔

 ایک ہنستی کھیلتی لڑکی کو ظالم صفت لڑکی میں تبدیل کرکے رکھ دیا تھا۔۔۔

عروج جب کھانے پینے کی چیزیں لے کر آئی تو ان دونوں نے باتوں کا موضوع بدل لیا تھا۔۔۔

                         ******

عفاف سے ایک دن بھی اور برداشت نہ ہوا تھا۔اس لیے وہ اگلے ہی دن یارم کے اسکول کے باہر موجود تھی۔۔۔

 اس کی آنکھیں ترس گئی تھیں۔اپنے خون کو دیکھنے کے لیے جس سے وہ دو سال تک جدا رہی تھی۔۔۔

 بے شک اس عرصے میں یلدرم اسے یارم کی لاتعداد تصویریں کھینچ کر بھیجتا رہا تھا۔۔۔

مگر وہ اس سے روبرو ہو کر ملنا چاہتی تھی۔۔

ایک یہی وجہ تھی کے یلدرم نے اپنی بیٹی ماہرہ کو بھی اسی سکول میں ایڈمیشن دلوایا تھا جس میں یارم جاتا تھا اور ان لوگوں کی فرینڈ گیدرنگز کی وجہ سے یارم اور ماہرہ بیسٹ فرینڈز بن چکے تھے۔۔۔

 بے شک ان دونوں میں تین سال کا گیپ تھا۔ مگر وہ دونوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے۔ جیسے ماہرہ کا اسے ایک بھی بات بتائے بغیر دن نہیں گزرتا تھا۔۔۔

 وہیں یارم بھی اسے جب تک روز دیکھ نہ لیتا تب تک بے چین رہتا تھا۔۔۔

 اب بھی وہ ان دونوں سے ملنے چھٹی ٹائم ان کے سکول کے باہر موجود تھی۔

 جب اس نے یارم کو باہر آتے دیکھا۔اسے دیکھ عفاف کی آنکھوں میں جگنو چمکنے لگے تھے۔۔۔

کتنا خوبرو تھا اس کا بیٹا کہ اسے دیکھتے ہی نظر نہیں ہٹتی تھی اس پر سے۔۔۔

 اس نے دل ہی دل میں ماشاءاللہ کہتے سو بار بلائیں لی تھیں اس کی۔۔۔

 اس سے پہلے کے وہ آگے بڑھ کر اسے گلے لگاتی یارم کی اس پر نظر پڑی تھی اور اسے دیکھ کر اس کے چہرے پر نفرت کے تاثرات چھا گئے تھے۔۔۔

جو عفاف کو اپنے قدم روکنے پر مجبور کر گئے تھے۔۔۔

" کہا تھا نہ میں نے کہ کبھی مت آئیے گا  یہاں پھر کیوں آئی ہیں آپ۔۔۔

 آپ کو ایک بار سمجھ نہیں آتی آپ نہیں ہیں میری ماما۔آپ ایک گندی عورت ہیں۔۔۔

 آپ نے میری دادی کو مارنے کی کوشش کی اور مجھے بھی چھوڑ کر چلی گئی۔۔

میرے ڈیڈ کو بھی ہرٹ کیا۔۔۔

 آپ میری کچھ نہیں لگتی۔۔۔

سمجھیں آپ ۔۔۔۔۔

 اس نے غصے سے اپنی مٹھیاں بھینچتے ہوئے کہا۔۔۔

" نہیں چاہیے مجھے آپ کے گفٹس"

 ایک نظر یارم نے اس کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے گفٹس کو دیکھا اور غصے سے اسکے ہاتھ سے چھینتے ہوئے گفٹس زمین بوس کرتے ہوئے کہا۔۔۔

جو عفاف اسے ہر ماہ بھیجواتی رہتی تھی۔۔۔لیکن اسکا علم صرف یارم کو تھ۔۔۔

اسنے کبھی اسکی بھنک اپنے باپ تک کو لگنے نہیں دی تھی۔۔۔

 مگر یارم اسکے گفٹس کو کھول کے دیکھنا تو دور ہاتھ تک نہیں لگاتا تھا اور کچرے میں پھینک دیتا تھا۔۔۔

 لیکن اب جو نفرت اور زہر اس کی زبان اگل  رہی تھی۔

 وہ مہر کی ذات کی دھجیاں اڑا گئی تھی۔

مگر وہ پھر بھی خود کو مضبوط ظاہر کئے وہاں کھڑی رہی۔۔۔

 آنسو ایک ایک کرتے اسکی سرخ آنکھوں سے بہتے چلے گئے تھے۔۔۔

سردار کی ماں اس کے بچے کے ذہن میں اس کی نفرت پختہ کر چکی تھی جو عفاف کو اندر مانے جا رہی تھی۔۔۔

 اس نے ان دیکھے انداز میں اپنے آنسو صاف کیے تھے اور یارم کے پیچھے دیکھتی ہوئی ایک گھٹنے کے بل زمین پر بیٹھی اور اپنے ہاتھ وا کیے تھے گلے لگانے کے لئے۔۔۔

 اس سے پہلے کہ یارم کچھ اور بول کر اس کی بےعزتی کرتا۔۔۔۔

ماہرہ پیچھے سے آتی اسے دھکا دیتی ہوئی خالہ خالہ کی گردان کرتے عفاف سے گلے جا لگی تھی۔۔

 جسے عفاف نے بھی خود اپنی سینے میں بھینچ لیا تھا ایک یارم کے بعد ماہرہ ہی تو تھی جسے اس سے دل سے پیار تھا۔۔۔

یارم سنجیدگی اور حیرت سے ماہرہ کو دیکھ رہا تھا جو عفاف کو اپنی خالہ بلا رہی تھی۔۔

 تو اتنے عرصے سے ماہرہ جس خالہ کا ذکر کر رہی تھی وہ عفاف ہی تھی۔۔۔

جو کہنے کو تو اس کی ماں تھی مگر وہ اچھی نہیں تھی یہ بات اس کے ذہن میں گڑ چکی تھی۔۔۔

" خالہ آپ آگئیں خالہ آپ آگئیں۔۔ میں نے آپ کو بہت مس کیا۔۔۔ کیا لائیں آپ میرے لئے۔۔۔"

 اس نے عفاف کو پیار کرنے کے بعد فوراً اپنے مطلب کی بات پر آتے ہوئے کہا تو عفاف اسکی چالاکی پر ہنسنے لگی تھی۔۔۔

" ایسا ہو سکتا ہے کہ خالہ اپنی جان کے لیے کچھ لے کر نہ آئیں"

اسنے ماہرہ کو گال پر چومتے ہوئے کہا۔۔۔

 اس نے ایک نظر نیچے گرے ہوئے تحفوں کو دیکھا اور دوسری نظر یارم پر ڈالی جو شرمندہ ہو گیا تھا۔۔

 اسے اب سمجھ آئے تھی کہ تحفے وہ اس کے لئے نہیں بلکہ ماہرہ کے لئے لائی تھی۔۔

مگر حقیقت کیا تھی یہ تو عفاف  ہی جانتی تھی۔

وہ ماہرہ کو سائیڈ پر کرتے گاڑی میں سے بڑا سا ٹیڈی بیئر نکال کر لائی تھی۔

 جسے دیکھتے ہی ماہرہ کی آنکھوں میں جگنو ٹمٹمانے لگے تھے اور وہ خوشی سے چیختی ہوئی ٹیڈی بیئر کو ہوا میں گول گول اچھالنے لگی تھی۔۔۔

"خالہ یو آر دا بیسٹ"

ماہرہ جوش سے کہتی ہوئی پھر عفاف کے گلے لگی دی۔ بدلے میں عفاف نے چٹاچٹ اسکے سرخ پھولے ہوئے گالوں کو چوما تھا جو کہ جوش کے مارے اور سرخ ہو گئے تھے۔۔۔۔

 پتہ نہیں کیوں مگر یارم کو یہ منظر ایک آنکھ نہ بھایا تھا۔

اس کے دل میں چبھن ہوئی تھی اس منظر کو دیکھ کر۔ مگر وجہ اسے خود بھی سمجھ نہیں آئی تھی۔۔۔

 وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ احساس کوئی اور نہیں بلکہ جلن کا ہے۔ اپنی ماں کو کسی اور کے اوپر پیار نشہ لٹاتے دیکھ اس کے دل میں چبھن ہوئی تھی۔۔۔۔

 وہ جانا چاہ رہا تھا وہاں سے مگر اس کے قدم اٹھنے سے انکاری تھے۔۔

 وہ آنکھوں میں عجیب سا احساس لئے عفاف اور ماہرہ کو دیکھ رہا تھا اور تب تک دیکھتا رہا جب تک عفاف ماہرہ کو لے کر وہاں سے چلی نہ گئی۔۔

 گاڑی کے بیک مرر سے یارم کو اپنی طرف تکتا پاکر عفاف حیرت کا شکار ہوئی تھی۔۔۔

 مگر اس کی آنکھوں میں جو تاثر تھا وہ دیکھ کر عفاف کو اس سے بھی زیادہ حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا۔۔

 مگر یہ جھٹکا خوشی کا تھا بہت جلد اپنا بیٹا واپس پا لینے کا۔۔

 کیونکہ اس جلن کے تاثر سے عفاف کو ایک امید ملی تھی کہ اس کا بیٹا اب بھی اسے واپس مل سکتا ہے۔۔۔

 اور اس سوچ نے اس کا موڈ خوشگوار کر دیا تھا۔۔۔

                       *******

 "آخر کون ہے یہ سٹون لیڈی اس نے دو سالوں میں اتنی ترقی کیسے کر لی کہ میرے مقابل آ پہنچی۔۔۔

 جس کے برابر آنے سے بڑے بڑے بزنس ٹائیکون کا گھبراتے ہیں وہاں یہ ایک عورت ان سب مردوں پر بھاری پڑ رہی ہے"۔۔۔۔

 آخر میں نے یہ سب نظرانداز کیسے کر دیا۔۔۔

سردار ادھر ادھر غصے سے اپنے کمرے میں ٹہلتے ہوئے اس عورت کے بارے میں سوچ رہا تھا۔۔۔

 جس نے اس کے ہاتھوں سے جیت چھین لی تھی۔۔۔

اس سے یہ بات ہضم ہی نہیں ہو رہی تھی۔۔۔

 پانچ منٹ بعد کریم دروازہ کھٹکھٹاتا وہ اندر آیا اور ہاتھ باندھ کر اس کے سامنے کھڑا ہو گیا۔۔۔

 اپنے باس کو غصے سے اپنی طرف بڑھتے دیکھ اس کی ٹانگیں کانپنے لگی تھیں۔۔۔

" دو منٹ ہے تمہارے پاس بولنا شروع کرو اگر تمہاری باتوں میں ایک بھی بات میرے مطلب کی نہ ہوئی تو اپنے انجام کے ذمہ دار تم خود ہو گے"

 سردار نے سرد لہجے میں کہا تو کریم کسی رٹو طوطے کی طرح بولنا شروع ہوا۔۔۔۔

" سر جانچ پڑتال کرنے کے بعد بھی کوئی نہیں جان پایا کہ یہ سٹون لیڈی کون ہے۔۔۔

 چاہے نیوز پیپر ہو یا میڈیا کوئی بھی اس کے اصل نام سے واقف نہیں ہے۔۔۔

 اس نے کسی بھی جگہ غلطی سے بھی اپنا اصل نام شو نہیں کروایا۔۔۔

 مگر آپ کے کہے کے مطابق کسی بھی طرح اس کے کسی بندے کو ڈھونڈ کر۔۔۔

 اس تک آپ کا پیغام پہنچا دیا گیا ہے کہ وہ آپ کے برابر آنے کی کوشش نہ کرے اور آگ سے نہ کھیلے"

" بہت خوب"

 اس نے سنجیدگی سے ہنکارا بھرا...

"مگر سر"

کریم نے ہکلاتے ہوئے کہا..

" بولو کیا کہنا چاہتے ہو"

 سردار نے اس کو جواز تلاشتے دیکھ کر کہا۔۔۔

" انہوں نے آپ کے پیغام کا جواب  بھی بھجوایا ہے"

" میں سننا چاہتا ہوں ذرا مجھے بھی تو بتاؤ اس نے کیا کہا ہے"

 سردار نے طنزیہ لہجے میں کہا...

"" انہوں نے کہا ہے کہ آگ سے کھیلنا میرا پسندیدہ اور پرانا مشغلہ ہے۔۔۔

تو پھر ڈرنا کیسا, اور وہ آپ کے راستے میں نہیں آرہیں بلکہ آپ ان کی منزل کے درمیان رکاوٹ بن کر کھڑے ہیں اور وہ آپ کو آپ کا مقام بتانے کا کل اچھے سے ارادہ رکھتی ہیں"

 کریم نے حرف با حرف عفاف کا پیغام سردار تک پہنچا دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔

 مگر سردار کے چہرے کو غصے سے سرخ ہوتے دیکھ۔۔

 اس نے اپنی جان بخشی کی دعا کی تھی۔۔

" نکل جاؤ یہاں سے"

 اس نے ٹیبل کی تمام چیزیں زمین بوس کرتے زور سے چلا کر کہا...

 تو وہ دم دبا کر بھاگا تھا ۔۔۔

"لڑکی تم نے اپنے لیے خود موت کو دعوت دیی ہے "

سردار نے ایک ایک لفظ چباتے ہوئے کہا۔۔۔

 اس بات سے انجان کہ کل جب اس کا سامنا اس لڑکی سے ہوگا تو اس کی کیفیت کیسی ہوگی۔۔۔۔۔

                    ****

 یارم جب سے اسکول سے آیا تھا تب سے وہ ماہرہ اور عفاف کی ملاقات کو سوچ سوچ کر پریشان ہو رہا تھا۔۔۔

 اس کے ذہن سے وہ منظر ہی نہیں نکل رہا تھا۔۔۔

جیسے عفاف ماہرہ کو پیار کر رہی تھی کیا اس سے بھی وہ ویسے ہی پیار کرتی ہوں گی اس کے دل میں سے آواز آئی۔۔۔

 مگر دماغ میں نے فوراً نفی کی تھی۔۔۔

 اس کی دادی نے اس کے ذہن میں اتنا زہر بھر دیا تھا کہ وہ چاہ کر بھی عفاف کے بارے میں کچھ اچھا نہیں سوچ پا رہا تھا۔۔۔۔

 مگر خون کی کشش اسے بار بار عفاف کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر رہی تھی۔۔۔

جسے وہ سوچنا نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔

 مگر جب دل کے ساتھ ساتھ روحیں بھی ملی ہوں تو دماغ لاکھ چاہے پھر بھی وہ دو دلوں کو دور نہیں کر سکتا۔۔۔

خاص کار جب بات ماں اور اولاد کی ہو۔۔۔

 وہ کل عفاف سے بات کرنے کا سوچ چکا تھا وہ جانتا تھا کہ وہ ماہرہ کو لینے ضرور آئے گی۔۔۔ لیکن کل جو وہ عفاف کو کہنے والا تھا اس سے عفاف کو کتنا دکھ پہنچنے والا تھا۔۔

 یہ وہ نہیں جانتا تھا۔۔۔

                  ******

آج سردار کے ڈریم پروجیکٹ کی ڈیل سائن ہونے والی تھی اس لئے آج وہ کافی خوشگوار موڈ میں تھا۔۔۔

 جیسے ہی کلائنٹس آئے ذیشان اور عالیان نے مل کر کافی اچھی طرح پریزنٹیشن دی تھی۔۔۔

جو کہ کلائنٹس کو پسند بھی آئی تھی۔۔۔

 ان کے چہرے بتا رہے تھے کہ انہیں سردار کی کمپنی کی تیاری بہت پسند آئی تھی۔۔۔

 جیسے ہی پروجیکٹر آف ہوا سردار نے ان کی رائے لی تھی۔۔۔

" آپ کیا کہتے ہیں مسٹر جارج کیسا لگا آپ کو ہمارا آئیڈیا"

" بہت اچھا بے شک یہ آئیڈیا لاجواب ہے"

 انہوں نے خوش اخلاقی سے انگریزی میں کہا۔۔۔

"تو ہم یہ ڈیل فائنل سمجھیں" سردار نے پر اعتماد لہجے میں کہا تو کلائنٹس نے ایک دوسرے کو دیکھا...

"کیا ہوا کوئی پرابلم ہے"

 سردار نے اچھنبے پوچھا۔۔۔

" مسٹر سردار بے شک آپ کا پروجیکٹ بہت عمدہ ہے۔۔۔

 مگر آپ کی کمپنی میں آنے سے پہلے ہم پرل کمپنی گئے تھے۔۔۔ اس نے عفاف کی کمپنی کا حوالہ دیا۔۔

جسے سن کر سردار کی ماتھے پر سلوٹیں پڑی تھیں اور ان کی پریزنٹیشن آپ سے بھی کئی گنا اچھی تھی اس لیے ہم نے یہ پروجیکٹ ان کے نام کیا ہے۔۔۔

 سردار کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔۔

 کیا اس نے اپنا ڈریم پروجیکٹ کھو دیا تھا۔۔۔

جس پر اس نے اتنے سال محنت کی تھی وہ کل کی لڑکی اسے چھین کر کیسے لے جا سکتی تھی۔۔۔

آخر کیسے۔۔

 غصے کے مارے اس کی رگیں پھولنے لگی تھیں اور چہرہ سرخ پڑ چکا تھا۔۔۔

شہریار اور ذیشان ایک دوسرے کو پریشانی سے دیکھنے لگے تھے۔۔۔

" اور وہ کچھ ہی دیر میں آتی ہوں گی آپ بھی ان سے مل لینا وہ دیکھیں آگئی وہ ۔۔۔

جارج نے پیچھے اشارہ کرتے ہوئے کہا تو سب اس کی طرف پلٹے تھے سوائے سردار کے۔۔۔

 "ہیلو ایوری ون میں نے سوچا میرے تک پہنچنے میں میرا دشمن جتنی سر توڑ کوششیں اور محنت کر رہا ہے۔۔۔

 آخر آج اس کے پاس جا کر اسے اس کی کاوشوں کا صلہ دیا جائے اپنی صورت میں۔۔۔

 کیوں کہ سٹون لیڈی کسی کا ادھار نہیں رکھتی۔۔۔

 خاص کر سودے بازی میں ۔۔۔کیوں سوداگر صاحب او سوری منہ سے پھسل گیا۔۔۔

 میرا مطلب ہے سردار صاحب صحیح کہا نا میں نے"

 عفاف نے شروع میں جان بوجھ کر اور آخر میں انجان بنتے طنزیہ لہجے میں سردار کو کہا۔۔۔

 تو وہاں کھڑے چار شخص ایسے تھے جنکی سانس رکی تھی۔۔۔

 بزنس حال میں ہیل کی ٹک ٹک ارتعاش پیدا کر رہی تھی۔۔۔

 اس صنفِ نازک کی ماسک ہٹانے کی دیر تھی پھر جس کا چہرہ سامنے آیا تھا۔۔۔

اسے وہ لوگ سپنے میں بھی نہیں سوچ سکتے تھے۔۔۔

اور سردار وہ تو سوداگر لقب پر جیسے پتھر کا ہو گیا تھا گویا اب کبھی سانس نہیں لے پائے گا۔۔۔

                   ******

عفاف"

سردار اسکی آواز سن حیرت سے پلٹا تھا۔۔۔

وہی آنکھیں وہی چہرہ وہی آواز بس بدل گئی تھی تو اسکی شخصيت اور اسکا لہجہ۔۔۔۔

جو سردار کو اپنے سے بھی زیادہ سرد لگا تھا۔۔۔

وہ اسکی عفاف تو نہ تھی جو نرم مزاج سی تھی۔ یہ تو کوئی اور ہی تھی جسکی آنکھوں میں سردار کے لیے پیار نہیں بلکہ نفرت تھی۔۔۔

"عفاف تم آ گئی"

وہ ہوش میں آتا بےقابو ہوتا اسکو گلے لگانے بڑھا تھا۔۔۔

"اکس کیوز می مسڑ سٹے ان یور لمٹس"

عفاف نے ہاتھ آگے کرتے اسے روکتے وہیں رہنے کا کہا تھا۔۔۔

اسکی بےگانگی پر وہ وہیں رکا تھا۔۔۔

"کیا آپ ایک دوسرے کو جانتے ہیں"

جارج نے اچھنبے سے پوچھا۔۔۔

"ہا ہا ہا آپ نہیں جانتے جارج مسٹر سردار اس وقت اپنے آپ جیسی شخصیت سے مل رہے ہیں"

اسنے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔۔۔

اسکی نظروں میں کچھ دیر پہلے کا منظر گھوما جب وہ ماہرہ کو لینے سکول گئی تھی تو یارم نے اسے وہیں روک لیا تھا۔۔۔

"اہم اہم "

عفاف نے جاتے ہوئے یارم کے کھنکھارنے پر پلٹ کر دیکھا۔۔۔

"خیریت"

اسنے حیرت سے دیکھتے پوچھا۔۔۔

"ماہرہ تم جاؤ مجھے زرا تمہاری خالہ سے بات کرنی ہے"

کیوں کیوں میں کیوں جاؤ"

اسنے ناک سکیڑتے کہا۔۔۔

"ماہرہ خالہ گاڑی میں آپ کے لیے ایک سرپرائز ہے جاؤ دیکھو"

سرپرائز کا سنتے ماہرہ فوراً بھاگ گئی تھی۔۔۔

"آخر کب پیچھا چھوڑیں گی آپ ہمارا چلی کیوں نہیں جاتیں آپ۔ میں آپ کو ماہرہ کو ہرٹ کرنے نہیں دوں گا"

اس چھٹانک بھر کے بچے کا لہجہ بلکل سردار جیسا تھا۔۔۔

ہوتا بھی کیوں نہ بلکل اپنے باپ پر جو گیا تھا بلکل سفاک۔۔۔

"سنو لڑکے ہر کوئی تم جیسا نہیں ہوتا جسے اصلی پیار کی پرکھ نہ ہو تم سے اچھی تو ماہرہ ہے جو پیار کرنا بھی جانتی ہے اور بڑوں کو عزت دینا بھی۔۔۔

جو مجھے لگتا ہے تمہیً تمہارے باپ اور دادی نے نہیں سکھایا"

اسکی بات ہر یارم سلگ گیا تھا۔۔۔

"صحیح کہتی ہیں مام آپ تھیں ہی بری جو ڈیڈ اور دادی کو ہرٹ کرتی رہیں۔آئی ہیٹ یو"

وہ نفرت سے بولا تو عفاف اسکی بات اور لہجے پر ششدر رہ گئی۔۔۔

"کونسی مام وہ حیرت سے بولی"۔۔۔

"ہممم آپ کو اتنا بھی نہیں پتہ میری مام ماریہ ہیں آپ نہیں اور وہ مجھ سے بہت بہت پیار کرتی ہیں آپ کی طرح نہیں ہیں وہ سیلفش"

یارم نے بدتمیز لہجے میں کہا۔۔۔

"تو سرادر نے شادی بھی کر لی اور میرے بچے کے ذہن میں میرے خلاف اتنی نفرت بھر دی کہ وہ میرے وجود تک سے نفرت کرنے لگا ہے۔ اس کے لیے میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی سردار"

عفاف کے آنکھیں رنج و غم سے سرخ ہو چکی تھیں بہت برداشت کے باوجود بھی اسکی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے تھے۔۔۔

اسکی آنکھوں میں آنسو پتہ نہیں کیوں یارم کو بہت چبھے تھے۔۔۔

"وہ اسکے سامنے بیٹھی اور کہا۔۔۔

"کیا میں نے کبھی تمہیں مارا یا تم سے نفرت کی پھر تم مجھ سے کیوں اتنی نفرت کرتے ہو"

اسکے لہجے میں کرب تھا بےبسی تھی۔۔۔

جسکے جواب میں یارم کچھ نہ کہ پایا وہ سچ ہی تو کہ رہی تھی اسنے تو کبھی یارم کو برا بھلا نہ کہا تھا پھر وہ کیوں اس سے نفرت کرتا تھا۔۔۔

شاید اسے چھوڑ کے چلے جانے کی وجہ سے خاموش۔۔۔

"یارم تم نے میری خالہ کو کیا کہا ہے وہ رو کیوں رہی ہیں یو گندے بیڈ بوائے معافی مانگو خالہ سے"

ماہرہ نے وہاں آتے جب یارم کو عفاف سے بدتمیزی کرتے دیکھا اور عفاف کی آنکهوں میں آنسو دیکھے تو اسکا غصہ آخیر حد تک پہنچ چکا تھا۔۔

اسنے یارم کو غصے سے دھکا دیتے چیختے ہوئے کہا۔۔۔

جو ماہرہ کو خود پر غصہ کرتے پہلی دفعہ حیرت سے دیکھ رہا تھا۔۔۔

"ماہرہ بیٹا کچھ نہیں کہا مجھے آپ کے بیٹی نے "

عفاف نے فوراً اسے اپنے بازوؤں سے قابو کیا جو یارم کو مارنے کے لیے بے قابو ہو رہی تھی۔۔۔

"تم گندے ہو آئی ہیٹ یو تم نے میری خالہ کو رلایا میری خالہ بہت سٹرونگ ہیں وہ لبھی نہیں روئیں مگر تم نے انکو ہرٹ کیا۔۔۔

وہ تمہاری وجہ سے روئیں"

وہ اسکو ننھے ننھے مکے مارتی غصے سے کہتی ہوئی رو رہی تھی۔۔۔

"جاؤ تم نہیں ہو میرے دوست تمہیں نہیں پتہ بڑوں کی رسپیکٹ کرتے ہیں کٹی اب میں تم سے کبھی بات نہیں کروں گی"

اسنے سرخ چہرہ لیے غصے سے نتھنے پھلاتے کہا تو عفاف کو بیک وقت رونا اور ہنسی آئی تھی۔۔

وہ بچی کتنی حساس تھی اسکے لیے یہ آج اس نے ثابت کر دیا تھا۔۔۔

اور یارم آنکھیں پھاڑے ماہرہ کو خود سے بدتمیزی کرتے دیکھ رہا تھا۔۔۔

جس نے آج تک اس سے اونچی آواز میں بھی بات نہیں کی تھی۔۔۔

 آج اسی کی ماں کے لئے وہ اس سے ساری دوستی ختم کر دینے کے در پر تھی۔۔۔

" ماہرہ ماہرہ میری جان ادھر دیکھو کچھ نہیں کہا مجھے آپ کے دوست نے یہ تو میری آنکھ میں کچھ چلا گیا اس لیے پانی آگیا"

 اس نے ماہرہ کا منہ چومتے ہوئے کہا۔۔۔

" خالہ جانی آپ کو پتہ ہے نہ میں آپ کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتی...

اسنے تو آپ کو ہرٹ کیا میں نے دیکھا۔۔۔

 مجھے آپ روتے ہوئے بالکل اچھی نہیں لگتیں"

عفاف نے اس کے گلے سے لگ کر سسکتے ہوئے کہا ۔۔

تو عفاف نے اسے کسی متاعِ جان کی طرح اپنے سینے میں بھینچ لیا۔۔۔

یارم خاموش نظروں سے انہیں دیکھ کر پلٹتا چلا گیا۔۔۔

"کیا مام اور دادی نے جھوٹ کہا مجھ سے اگر میری ماما واقعی بری تھیں تو پھر وہ ماہرہ سے کیوں اتنا پیار کرتی ہیں"

اسنے دکھتے دل سے سوچا۔۔

 اسے اپنے آپ کو وہاں ان فٹ محسوس کیا تھا۔۔۔

 جب کہ دل میں درد اٹھا تھا اس کے۔ وہ بھی تو بغیر کسی پیار کے پلا بڑھا تھا۔۔۔

 نہ ہی کبھی سردار نے اس کو وقت دیا تھا اور نہ ہی ماریا نے وہ کہنے کو تو دنیا کی نظروں میں سردار کی بیوی تھی۔۔

 مگر یہ صرف وہی گھر والے جانتے تھے کہ یہ دکھاوے کی شادی ہے۔۔

اصل میں ان کے بیچ کوئی رشتہ نہیں تھا۔۔

یارم کی ذات کو تو انہوں نے بالکل ہی فراموش کر دیا تھا۔۔

 اس جھگڑے کے چکر میں اس کو زرا بھی پیار نہ ملا تھا اور اب جب اس نے عفاف کو ماہرہ پر پیار لٹاتے دیکھا تھا تو اسے جلن ہوئی تھی۔۔۔

 پیار کا ترسہ بچہ تھا وہ پھر کیسے نہ وہ اپنی ماں کی طرف کھنچتا چلا جاتا۔۔۔۔

                *******

 عفاف سر جھٹکتے حال میں لوٹی تھی اور سرد نگاہوں سے سردار کو دیکھا تھا۔۔۔

 جو اسے دیکھ کر پتھر کی مورت بنا تھا۔۔۔

 جارج اور اس کی ٹیم وہاں سے جا چکی تھی۔۔

" عفاف تم زندہ ہو اور کتنا بدل گئی ہو تم۔۔

 کیا تم نے ہم سب سے جھوٹ بولا اور اپنے مرنے کا ناٹک کیا۔۔۔

 سردار نے رنج و غصے سے پوچھا تم نے تو مجھے مارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی مگر وہ تو اللّٰہ کا شکر ہے کہ میں زندہ ہوں اور اس زندگی کا مقصد صرف سردار سے بدلہ لینا ہے"

 اس نے ایک ایک لفظ چباتے ہوئے کہا تو سردار حیرت سے صرف یہی بول پایا۔۔۔

" عفاف"

 کیوں کیا ہوا ہے حیرت کا جھٹکا لگا مجھے اتنا بدل ہوا دیکھ کر۔۔۔

اسنے آنکھیں پٹپٹا کر کہا۔۔۔

" بالکل اسی طرح مجھے بھی لگا تھا اس دن جب تم نے کسی کی پرواہ کیے بغیر مجھ پر یقین نہیں کیا تھا...

 اور تو اور میرے بچے تک کے دل میں میرے لئے نفرت پیدا کر دی جس کے لیے شاید میں تمہیں دنیا کی تمام سزائیں بھی دے دوں تو وہ بھی کم ہوگی۔۔۔۔

 بہرحال اپنی الٹی گنتی گننا شروع کر دو کیونکہ تمھیں برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑوں گی"

 اس نے یہ کہتے ہوئے سن گلاسس لگائے اور نکلنے لگی۔۔

 جب سردار نے جھٹکے سے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے پلٹ کر دیوار سے لگایا۔۔۔

                       ***

"کہاں تھی تم اتنا عرصہ کیوں روپوش رہی مجھے جواب چاہیے"

سردار کی انگلیاں اسے اپنے بازو میں دھنستی محسوس ہو رہی تھیں۔۔۔۔

"انسان کی فطرت کبھی نہیں بدلتی اور نہ تمہاری بدلی دوسروں کو درد دینے کی۔۔۔

اور میں تمہیں اپنے معاملات کے بارے میں بتانا ضروری نہيں سمجھتی تم ہو کون آخر میرے جو تمہیں یہ سب بتاؤں۔۔۔۔

اسنے طنزیہ نظروں سے دیکھتے سردار کو اپنی باتوں سے راکھ کیا تھا۔۔۔

اور پھر یاد نہیں تمہیں نے تو کہا تھا کہ کہیں ایسی جگہ اپنی شکل گم کرو جہاں تم مجھے ڈھونڈ نہ پاؤ۔۔۔

میں نے تمہاری بات ہی تو مانی ہے پھر تمہیں اتنی آگ کیوں لگ رہی ہے"

اسکے الفاظ نہیں نشتر تھے جو ایک کے بعد ایک وہ سردار پر برسا رہی تھی۔۔۔

اسنے سردار کو دھکا دیتے خود سے دور کیا۔۔۔

"تمہاری معلومات میں اضافہ کرتی چلوں کے میں اپنے بھائی کے پاس تھی"

عفاف نے جلانے والے لہجے میں تمسخرانہ انداز میں مسکراتے کہا۔۔۔۔

عفاف نے ایک نظر سب پر ڈالی۔۔۔

"عفاف ایک دفعہ سردار کی سنو تو صحیح ذیشان نے آگے ہوتے اسے سمجھانا چاہا۔۔۔

"او شٹ آپ مجھے اپنے معاملات کے کسی غیر کی مداخلت نہیں چاہیے"

اسنے بےزار لہجے میں انکی طرف دیکھتے کہا جو سب عفاف کی زبان دیکھ کر ششدر تھے۔۔۔

"عفاف یہ تم کیسی بات کر رہی ہو ہم سے "

عالیان نے حیرت اور غصے سے کہا۔۔۔

"اچھا تو پھر تم بتا دو مجھے کیسے بات کرنی چاہیے ان لوگوں سے جن میں انسانیت نہیں۔۔۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے جب یہ بے ضمیر شخص مجھے گھر کی دہلیز سے باہر نکال رہا تھا تو کوئی آیا تم میں سے نہیں نہ۔۔۔

اس دھوکے باز نے ایک دفعہ کہا کہ یہ تم لوگوں سے سارے رشتے ختم کر لے گا۔۔۔

اور تم لوگوں نے اسکی بات مانتے ہوئے مجھے باہر اندھیری رات میں تنہا چھوڑ دیا۔۔۔۔

صرف اسکی ناراضگی کے ڈر سے تم لوگوں نے اپنی انسانيت نار دی"

چیختے چیختے اسکی سفید گردن سرخ پڑ چکی تھی۔۔۔

اور انکی گردنیں اسکی بات پر پشیمانی سے جھک چکیں تھیں کیونکہ وہ سچ جو کہ رہی تھی۔۔۔

وہ جانے کو پلٹی مگر کچھ یاد آنے پر رکی اور سردار کے قریب آتے اسکے کان میں جھک کر سرگوشی کی۔۔۔

"ایک سیکرٹ بتاؤں ضرور تمہیں یہ سن کر دکھ ہو گا اور  مجھے تمہیں دکھی دیکھ کر خوشی۔ 

میں زندہ ہوں یہ بات تمہارا بیٹا اور تمہاری ماں دو سال پہلے سے جانتے ہیں"

اس بات پر سردار کی ہستی زلزلوں کی ضد میں آ گئی تھی۔۔۔

اتنا بڑا دھوکا وہ بھی اسے گھر سے ملا تھا اپنے اپنوں سے"

عفاف نے ایک نظر دلچسپی سے اسکے سفید پڑتے چہرے کو دیکھا پھر وہاں سے چلی گئی۔۔۔۔

"سردار ریلیکس برہان نے اسکے کندھے پر تھپکی دیتے کہا۔۔۔

"ریلیکس ریلیکس آخر کیسے بے فکر ہو جاؤں دھوکا دیا ہے اسنے مجھے اتنا بڑا فریب اپنی موت کا دکھاوا کیا اسنے چھوڑوں گا نہیں میں اسے آخر کس بھائی کے پاس تھی وہ کس بھائی کے۔۔۔۔"

سردار نے ٹیبل کی چیزیں زمین پر پٹختے کہا تو وہ سب پریشان ہو گئے۔۔۔

جیسے ہی اسکی نظر یلدرم پر گئی اسکے دماغ میں کچھ کلک ہوا تھا اور وہ چیل کی طرح یلدرم کی طرف لپکا اور اسکے گھونسے مارنے لگا۔۔۔

"تیرے پاس تھی وہ کمینے تیرے پاس تھی وہ تو نے اسکے ساتھ مل کر مجھے دھوکا دیا اتنے سال میرا مزاق بنتے دیکھتا رہا تجھے کبھی معاف نہیں کروں گا میں"

سب نے بمشکل یلدرم کو اس سے چھڑوایا تھا۔۔۔

"تیری معافی کی ضرورت کسے ہے۔ ہاں میں ہوں اسکا بھائی جب تم سب نے اسکا ساتھ چھوڑ دیا تو میں کھڑا رہا تھا اسکے ساتھ کیونکہ میرا ضمیر ابھی زندہ ہے اور تیرا تو کب کا مر چکا ہے سردار۔۔۔

معافی تجھے مانگنی چاہیے وہ بھی عفاف سے کیونکہ تو نہیں جانتا تیری وجہ سے۔

اس دن کیا ہوا اس راز کا پتہ تمہیں خود لگانا ہو گا۔۔

 اس بےچاری نے کتنا سفر کیا ہے اس مقام تک پہنچنے کے لیے اسنے کس کس چیز کی قربانی دی ہے۔۔

تو نہیں سمجھے گا نہ تو سمجھ سکتا ہے تف ہے تیری محبت پر "

یلدرم نے منہ سے خون صاف کرتے کہا۔۔۔

"میں اب بھی اور ضرورت پڑنے پر ہزار بار بھی اگر عفاف اور تجھ میں سے کسی ایک کو چننا ہو تو میں اسے چنوں گا بغیر کسی شبے کے۔

اور اسے اکیلی سمجھ کر دشمنی کرنے سے پہلے یہ جان لینا کہ یلدرم اسکے ساتھ کھڑا ہے"

یلدرم نے اسکا کالر جھنجوڑتے ہوئے کہا اور اسے جھٹک کر باہر نکلتا چلا گیا۔۔۔

پیچھے ہی سردار بھی گھر کے لیے نکلا تھا جہاں اسے دو لوگوں سے سوال جواب کرنے تھے۔۔۔

                       ******

یارم , یارم مام کہاں ہیں آپ"

سردار جیسے ہی گھر میں داخل ہوا وہ غصے سے یارم اور اپنی مام کو آوازیں دینے لگا تھا۔۔۔

اسکی آواز سن یارم فوراً بھاگا چلا آیا تھا۔۔۔

"یس ڈیڈ"

"یارم جو میں تم سے پوچھوں گا اسکا بلکل سچ سچ جواب دینا جھوٹ مت بولنا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔۔"

سردار نے یارم کو وارن کیا تھا۔۔

"کیا تم جانتے تھے تمہاری سگی ماں زندہ ہے".

اسکی بات پر یارم کا رنگ سفید ہوا تھا بھلا اسکے ڈیڈ کو یہ بات کیسے پتہ چلی۔۔۔

"میں کچھ پوچھ رہا ہوں تم سے"

سردار نے اسے جھنجھوڑتے ہوئے کہا جسکے چہرے سے حقیقت صاف بیان ہو رہی تھی۔۔۔

"سردار یہ کیا کر رہے ہو چھوڑو اسے وہ بچہ ہے"

اسکی مام نے سردار کو گرکھا تھا۔۔

"مام اسے چھوڑیں آپ نے بھی مجھ سے یہ بات چھپائی کہ عفاف زندہ ہے بتایا کیوں نہیں مجھے آخر,"

اسکی بات پر تو انکی زبان جیسے دنگ ہو گئی تھی۔۔۔

"سردار تمہیں کیسے پتہ چلا "

انہوں نے ہکلاتے ہوئے کہا۔۔۔

"مجھے اس نے ہی بتایا ہے"

"تو مام نے آپ کو میری شکایت لگائی کہ میں نے ان سے بدتمیزی سے بات کی انہیں ہیٹ یو کہا انہیں اپ کی زندگی سے دور جانے کو کہا تو انہوں نے آپ کو بتا دیا"

یارم نے غصے سے چیخ کر کہا اسے اب بھی عفاف بری ہی لگ رہی تھی۔۔

"یارم تمیز سے بات کرو وہ سگی ماں ہے تمہاری یہ کیسے بد تہزیب لہجے میں بات کر رہے ہو تم۔۔۔

تمہیں پتہ بھی ہے کہ وہ تم سے کتنا پیار کرتی تھی جاہل اور تم اس سے ہی اتنی بد تمیزی کر آئے۔۔۔

وہ تو آپ کو اپنے پاس بلانا چاہتی تھیں مگر۔۔۔"

"سردار وہ بچہ ہے بس کرو"

سردار کی مام فوراً بیچ میں آئیں تھیں کہ کہیں سردار سارا سچ نہ اگل دے بچے کے سامنے اور جو انکا خاص مہرہ تھا کہیں انکے ہاتھ سے نہ نکل جائے۔۔۔

یارم اپنے باپ کی ادھوری بات سے حیران بھی ہوا تھا اور الجھن کا شکار بھی آخر کیا کہنا چاہتا تھا سردار کیا اسکی ماں بری نہیں تھی۔۔۔

تو کیا دادی اور اسکی مام نے اس سے جھوٹ کہا تھا۔۔۔

سردار ایک تاسف بھری نظر ان پر ڈال ہر وہاں سے جا چکا تھا۔۔۔

پیچھے یارم کشمکش کا شکار تھا اور اسکی دادی اسے بہلانے لگیں تھیں تا کہ وہ اب کی باتیں کو سیریس نہ لے۔۔۔

مگر وہ نہیں جانتی تھیں کہ اب یارم معاملے کی تہ تک جا کر چھوڑے گا۔۔۔

                         *******

"عفاف تمہاری آنکھیں سرخ کیوں ہیں اتنی"

عفاف جب ماہرہ کو چھوڑنے آئی تو یلدرم نے پوچھا۔۔۔

"کچھ نہیں بس مٹی آنکھ میں چلی گئی تھی"

اسنے فوراً بہانہ گھڑا تھا۔۔

"او اچھا کیا دونوں آنکھوں میں"

اسنے معنی خیزی سے کہا تو عفاف نے نظریں چرائی تھیں۔۔۔

"عفاف مت ڈھال بنا کرو دوسروں کی تمہیں کب سمجھ آئے گا۔ماہرہ مجھے بتا چکی ہے کہ آج یارم نے تم سے کتنی بدتمیزی کی ہے"

عفاف نے اسکی طرف دیکھا۔۔۔

"میرے بس میں نہیں ہے وہ خون ہے میرا مگر دیکھو تو اسکی نفرت نے میری محبت کو مات دے دی"

اسنے غمگین لہجے میں کہا تو اسکی بات پر یلدرم بھی دکھی ہوا تھا۔۔۔

"آج یہیں رک جاؤ اتنے بڑے گھر میں اکیلی کیوں رہتی ہو۔ یہ بھی تو تمہارا گھر ہے عفاف"

یلدرم نے اسے بڑے بھائیوں والے لہجے میں دباؤ ڈالنا چایا ۔۔۔

"کیا کروں ایک تنہائی ہی تو میری ساتھی ہے کمبخت کسی بھی حال میں پیچھا نہیں چھوڑتی خیر میں چلتی ہوں"

اسنے آنکھ کے کونے سے آنسو صاف کیا اور باہر کی طرف بڑھی۔۔۔

                     *******

اگلے دن جب عفاف ماہرہ کو لینے گئی تو یارم بھی اسکے ساتھ کھڑا تھا۔۔۔

"خالہ جان آج یارم بھی ہمارے ساتھ جائے گا"

ماہرہ اسے دیکھتی خوشی سے اسکے پاس بھاگی چلی آئی اور عفاف کو بتایا۔۔۔

جسنے آج کھلی سے ہڈی پہنی تھی جسکے آستینوں نے اسکے ہاتھوں کو بھی ڈھانپ رکھا تھا۔۔۔

سنیکرز پہنے دو ڈچ والی چٹیا کیے وہ سکول گوئنگ بچی ہی تو لگ رہی تھی۔۔

یارم نے غور سے اسکے اوپر سے نیچے تک دیکھا۔۔۔

عفاف نے کن آنکھیوں سے یارم کو دیکھا۔۔۔

"لے تو جائیں مگر انکے گھر والے بعد میں انکو کیڈنیپ کرنے کا کیس نہ کر دیں ہم پر۔

ایک دفعہ اپنے دوست سے دوبارہ پوچھ لی جیے شاید میری وجہ سے جانا نہ چاہتے ہوں"

عفاف نے بے زار لہجے میں کہا۔۔۔

"مجھے کوئی اعتراض نہیں میں آج آپ کے ساتھ ہی جاؤں گا۔ میں گھر بتا چکا ہوں"

اسکی بات اور اسکی انداز پر عفاف نے جھٹکے ست اسکی طرف دیکھا جسنے فوراً نظریں اس طرف موڑ لی تھیں۔۔۔

"چلیں گاڑی میں بیٹھیں "

اس سے پہلے کے وہ بیٹھتے لڑائی کی آواز سن کر وہ اس طرف متوجہ ہوئی۔۔۔۔

جہاں کچھ لڑکے ایک لڑکے کو گھیرے میں لیے بری طرح مار رہے تھے جو لہو لہان تھا۔۔۔

"گاڑی میں بیٹھو"

عفاف انہیں گاڑی میں بیٹھنے کا کہتی فوراً اس طرف بڑھی۔۔۔

اس سے پہلے کے ایک لڑکا روڈ پکڑا اس لہولہان لڑکے سے سر پر مارتا کسی نے بیچ میں ہی اسکی شرٹ سے پکڑتے اسے پیچھے پٹخا تھا۔۔۔

سب نے مڑ کر اس طرف دیکھا تو ایک نوجوان لڑکی کو دیکھ وہ سب دلچسپی اور حوس بھری نظروں سے اسے دیکھنے لگے۔۔۔

"کیوں اپنے نازک ہاتھوں کو زحمت دیتی ہو میری جان پیچھے ہٹ جاؤ۔ بیچ میں مت آؤ"

ایک لڑکے نے خباثت سے اسے آنکھ مارتے کہا اور دوبارہ اس لڑکے پر وار کرنے لگا۔۔۔

جو کچھ ہی دیر میں زمین پر اوندھے منہ لیٹا تھا۔۔۔

"آہہہہ"

سب نے اس لڑکی کو خونخوار نظروں سے دیکھا جو معصوم بنے کھڑی تھی۔۔۔

"بیچ میں تو میں آ گئی ہوں ہمت ہے تو روک کے دکھاؤ"

عفاف نے اپنے ہاتھوں کے کڑاکے نکالتے ہوئے کہا تھا۔۔۔

یارم اور ماہرہ دلچسپی سے اسکی کارکاردگی دیکھ رہے تھے۔۔

جبکہ یارم بہت پرجوش تھا۔ کتنی طاقت ور تھی اسکی ماں بغير کسی سہارے کے وہ تنہا ان سب لڑکوں پر بھاری پڑ رہی تھی۔۔

عفاف نے بغير کسی کو ہاتھ لگائے انکی شرٹ سے پکڑ پکڑ کر ایک دوسرے میں ٹکراتے , زمین پر گراتے اور لکڑی کے ڈنڈے سے خوب انکی درگت بنائی تھی۔۔۔

جو زخمی حالت میں کچھ ہی دیر میں ڈھیر ہوئے نیچے پڑے تھے۔۔۔

اسنے فوراً آگے بڑھتے اس لڑکے کو سہارا دیا اور اپنی گاڑی میں لیجانے لگی۔۔۔

"بہت شکریہ اب میں خود چلا جاؤں گا"

اس لڑکے نے سنجیدہ انداز میں کہا تو عفاف ایک دم رکی اور تیوری چڑھا کر اسے دیکھا۔۔۔۔۔

"چپ چاپ گاڑی میں بیٹھو تم اس حالت میں نہیں کے مجھے انکار کر سکو"

عفاف نے گرکھ کر کہا۔۔۔

چہرہ البتہ اسنے اب تک نہیں دیکھا تھا اس لڑکے کا کیونکہ وہ خون اور اس لڑکے کے لمبے بالوں سے ڈھکا ہوا تھا۔۔۔

عفاف نے اسے فرنٹ سیٹ پر بٹھایا اور بیلٹ لگائی ۔بچے بہت غور سے اس شخص کی طرف دیکھ رہے تھے۔۔۔

عفاف جیسے ہی گاڑی میں بیٹھی اور ڈرایونگ شروع کی۔۔۔

اسنے اس شخص سے پوچھا ۔۔۔

"گھر کہاں ہے تمہارا کہاں جانا ہے تمہیں "

"یتیم خانہ"

اسکے لفظوں پر وہ دنگ رہ گئی تھی۔۔۔

                      *******

اسکی آواز اور بات دونوں سنجیدہ تھیں۔۔۔

عفاف کو اپنا دل پتہ نہیں کیوں ایک دم تاریکی میں ڈوبتا ہوا محسوس ہوا تھا۔۔۔

اسنے ایک نظر بیک سیٹ پر بیٹھے بچوں کو دیکھا جو پریشانی سے اس نوجوان کا بہتا خون دیکھ رہے تھے۔۔۔

عفاف نے فوراً یلدرم کو کال کی۔۔۔

"یلدرم میں کینٹ کے باہر آ رہی ہوں فوراً وہاں پہنچو اور بچوں کو گھر لے جاؤ"

عفاف نے زرا غیر آرام دہ لہجے میں کہا۔۔۔

"کیوں تم کہاں ہو کیا گھر نہیں آؤ گی آج تو یارم بھی آیا ہے"

یلدرم نے نا سمجھی سے پوچھا۔۔۔

وہ لڑکی جو اپنے بچے سے ملنے کے بہانے ڈھونڈتی تھی آج جب اسکا بچہ گھر آ رہا تھا تو وہ باہر سے ہی جا رہی تھی۔۔۔

"یلدرم بات کو سمجھو میرے پاس وقت نہیں"

اسنے چبا چبا کر کہا اور کال کاٹ دی۔۔۔

یلدرم فوراً گاڑی لے کر نکلا تھا۔۔۔

"خالہ جانی آج یارم ہمارے گھر آ رہا ہے کیا آپ ہمارے ساتھ گھر نہیں جائیں گی"

ماہرہ نے اسکی سیٹ سے آگے کو لٹکتے پوچھا۔۔۔

"نہیں بیٹا آپ دیکھ رہی ہو نہ بھائی کی طبيعت خراب ہے میں ابھی بھائی کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جاؤں گی"

اسنے ایک نظر یارم کے چہرے کے تاثرات جانچتے کہا تھا جس پر عجیب سا تاثر تھا۔۔۔

اسکی ماں ایک غیر کے لیے بھی اتنی فکر مند تھی تو نجانے اسکے لیے کتنی ہوتی یارم نے دکھی دل سے سوچا۔۔۔

"وہ یارم آپ سے سوری کرنا چاہتا تھا"

ماہرہ نے یارم کو کوہنی مارتے ہوئے کہا۔۔۔۔

جس پر عفاف نے تعجب سے یارم کو دیکھا۔۔۔

"معافی وہ بھی مجھ سے یارم سردار مانگیں گے یہ تو معجزہ ہی ہو گیا۔"

عفاف نے ہنس کر کہا کیا زمانہ آ گیا تھا اب اسکا بچہ اس سے بدتمیزی کر کے معافی بھی مانگے گا۔۔۔

"سوری مجھے کل اووور پہلے بھی آپ سے بد تمیزی سے بات نہیں کرنی چاہیے تھی"

یارم نے اٹک اٹک کر کہا۔۔۔

عفاف سر جھٹک کر رہ گئی معافی مانگنا تو باپ بیٹے دونوں کے لیے بہت مشکل امر تھا۔۔۔

"چلیں آپ نے معافی مانگی ہم نے معاف کیا مگر کیا میں جان سکتی ہوں آج آپ کو معافی مانگنے کا خیال کیسے آیا۔۔۔"

عفاف نے اسکو دیکھتے کہا۔۔۔

"امم بس مجھے میری غلطی کا احساس ہو گیا تو میں نے مانگ لی"

یارم نے گاڑی سے باہر دیکھتے سنجیدہ لہجے میں کہا وہ عفاف کو اس چیز کی بھنک بھی نہیں لگنے دینا چاہتا تھا کہ وہ پشیمان ہے۔

کل کی اپنے باپ کی باتوں سے وہ بہت سی باتیں سوچنے پر مجبور ہو گیا تھا۔۔۔

آج جو وہ عفاف کے ساتھ دن گزارنا چاہتا تھا اس نوجوان کو دیکھتے اسے پھر نئے سرے سے غصہ چڑھا تھا جس کی وجہ سے اسکی ماں اسے ٹائم نہیں دے پائی تھی۔۔۔

عفاف نے گاڑی روکی کیونکہ یلدرم پہنچ چکا تھا۔۔۔

بچے اتر کر اسکی گاڑی میں بیٹھ چکے تھے جبکہ یلدرم پریشانی سے اندر فرنٹ سیٹ پر لہولہان نوجوان کو بیٹھے دیکھ معاملہ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔

"یہ سب"

اسنے پریشانی سے گاڑی کے شیشے پر جھکتے عفاف سے کہا۔۔۔

"بعد میں بتاؤں گی ابھی وقت نہیں"

یہ کہتے ہی وہ گاڑی بھگاتی چلی گئی۔۔۔

                         *****

عفاف نے گاڑی سیدھا کلینک کے سامنے روکی تھی۔۔۔

"میرا نہیں خیال اسکی کوئی ضرورت ہے مجھے چلنا چاہیے"

اس لڑکے نے نیم وا آنکھوں سے کہا۔۔۔

"نہ میں نے تم سے مشورا مانگا نہ ہی کوئی اجازت بہتر یہی ہے کہ چپ چاپ چلو"

عفاف نے اسکی لاکھ نہ نہ کرنے کے باوجود اسکی پٹی کروائی۔ جس سے اسکا چہرہ واضح ہوا۔۔۔

عفاف کو اسکی آنکھیں خوبحو اپنے جیسی لگیں۔۔۔اور چہرہ بھی بہت حد تھ جانا پہچانا۔۔۔

"کیا میں تم سے پہلے کبھی ملی ہوں"

عفاف نے گاڑی میں بیٹھتے اسے دیکھتے تشویش سے کہا۔۔۔

"نہیں تو "

اسنے عفاف کی الجھن بھری نظریں خود پر دیکھیں تو کہا۔۔۔

"تم کیوں پوچھ رہی ہو"

اسنے آئیبرو اچکاتے کہا۔۔۔

"نہیں بس ویسے ہی مجھے لگا میں نے تمہیں یا تم سے ملتا جلتا کوئی شخص دیکھا ہے۔۔

 ایک منٹ رکو یہ تم مجھے تم کس خوشی میں کہ رہے ہو میں بڑی ہوں تم سے"

عفاف نے بیچ میں رک کر اسکے تم کہنے پر اسے ڈپٹا۔۔۔

"تم نہ کہوں تو اور کیا کہوں اپنے آپ کو دیکھو پھر مجھے کس اینگل سے میں تمہیں خود سے چھوٹا لگتا ہوں"

جہان نے اسکے دو چٹیا والے ہلیے پر طنز کرتے کہا۔۔۔

بات تو صحیح تھی وہ واقعی قد کاٹھ اور داڑھی کی وجہ سے اس سے بڑا لگتا تھا۔۔۔

"نام کیا ہے تمہارا"

"جہان"

یک لفظی جواب دے کر وہ پھر چپ ہو گیا تھا۔۔

"اور عمر"

20

تو تم مجھ سے سات سال چھوٹے ہو۔۔۔

"ہنہ تم کچھ بھی کہو گی اور میں مان لوں گا تم اور مجھ سے سات سال بڑی نا ممکن"

اسنے آنکھیں بڑی کرتے کہا جس پر عفاف اسے غصے سے گھورنے لگی تھی۔۔۔

اسے یوں ہی سنجیدہ دیکھ جہان سمجھ گیا تھا کہ وہ سچ بول رہی ہے سو چپ رہنے میں ہی عافیت جانی۔۔۔

"کوالیفیکیشن کیا ہے تمہاری"

عفاف نے روکھے لہجے میں کہا صاف ظاہر تھا اسے اپنی چھوٹی عمر والی بات بری لگی تھی۔ جہان کی سمجھ سے باہر تھی یہ لڑکی ۔۔۔

لڑکیاں اپنی ایج کے لیے اتنی کانشیئس رہتی تھیں اور یہ چھوٹی کہلائے جانے پر برا مان رہی تھی۔۔۔

"بزنس میں ماسٹرز کر رہا ہوں"

"تمہاری ایج کے حساب سے بہت جلدی نہیں کور کر لیا تم نے"

عفاف نے حیرت سے کہا۔۔۔

"ہنہ بہت ذہین ہوں میں "

اسنے اپنے دماغ پر دستک کرتے کہا۔۔۔

جہان خود بھی اس بات سے انجان تھا کہ کسی سے بھی بات نہ کرنے والا ہمیشہ خاموش رہنےوالا لڑکا آخر عفاف کے سامنے ہی کیوں بول رہا تھا۔۔۔۔

عفاف نے اسے اسکی جگہ پر چھوڑا۔۔۔

"کہنا تو نہیں چاہیے مگر پہلی دفعہ مجھے زندگی میں کسی سے مل کر برا نہیں لگا"

یہ کہتے ہی وہ جا چکا تھا۔۔۔

اسکی تعریف کا یہ انداز عفاف کو بہت دلچسپ لگا تھا۔۔۔

اور وہ دل میں اس سے دوبارہ ملنے کا تہیہ کرتی وہاں سے جا چکی تھی۔۔۔

                           ****

یارم اس وقت ماہرہ کے گھر موجود تھا۔

ماہرہ کمرے میں فریش ہونے گئی تھی سو کمرے میں یلدرم اور یارم اکیلے تھے۔

"چاچو میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں"

یارم کوئی بھی تمہید باندھنے کی بجائے سیدھا پوائنٹ پر آیا تھا اپنے باپ کی طرح۔۔۔۔

"ہمم پوچھو"

یلدرم اسکے سنجیدہ انداز پر سیدھا ہوا تھا۔۔۔

"کیا ماما گھر چھوڑ کر خود گئی تھیں"

یارم نے ماتھے پر تیوری ڈالے یلدرم سے سوال کیا۔۔۔

"یہ تم اپنے باپ سے بھی پوچھ سکتے ہو وہ تمہیں صحیح جواب دے گا پھر میرے سے کیوں پوچھ رہے ہو"

یلدرم نے بھی سنجیدگی سے آئیبرو اچکاتے کہا۔۔۔

"کیونکہ میں سچ جاننا چاہتا ہوں "

اسنے سیدھی بات کی تھی۔۔۔

"کیا گیرنٹی ہے کہ میں تمہیں سچ بتاؤں گا میں جھوٹ بھی تو بول سکتا ہوں"

اسنے یارم کو آزمانہ چاہا۔۔۔

"مجھے یقین ہے کہ آپ سچ ہی بولیں گے کیونکہ آپ ان سے بہت پیار کرتے ہیں"

یلدرم اسے دیکھ کر رہ گیا کہ وہ ہر ایک چیز کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بات کرتا تھا۔۔۔۔

"اس دن تمہاری ماما خود نہیں گئی تھیں انہیں تمہارے ڈیڈ نے نکالا تھا وہ بھی زبردستی۔ وہ روتی رہی چلاتی رہی کہ اسے مت نکالیں مگر تمہاری دادی اور بابا نے انکی ایک نہ سنی اور نکال دیا۔۔۔

وہ منتیں کرتی رہیں کہ تمہیں تو اس سے الگ نہ کریں تمہیں ایک بار دیکھنے کے لیے وہ کتنی دیر دروازے کے باہر بیٹھی رہی تھی۔۔۔

"تو پھر وہ دوبارہ مجھ سے ملنے کیوں نہیں آئیں"

یارم نے آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لیے کہا۔۔۔

"جب رات گہری ہوئی تو پھر بھی اسنے ہمت نہ چھوڑی وہ پولیس کے پاس جا کر انکی مدد لینا چاہتی تھی کہ وہ تمہیں اس سے ملا دیں اور پھر جب وہ پولیس اسٹيشن جانے لگی تو اسکا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔۔۔۔

جسکے بعد اسکی حالت خطرناک حد تک بگڑ گئی"۔۔۔

یارم کو ایک دم ڈھیر سارے پچھتاؤے نہ آن گھیرا تھا۔ اسکی ماں اس کو کتنی بار منانے آئی تھی مگر اسنے کیسے بےدردی سے اسے جھٹک دیا تھا۔۔۔

اب سچائی سامنے آئی تھی تو اسکا دل دکھ رہا تھا۔۔۔

"میں یہ سب تمہیں کبھی نہ بتاتا مگر تم اس سے بہت بد تمیزی کر جاتے ہو ابھی بھی وقت ہے سمبھل جاؤ"۔۔۔۔

                           ****

رات کو یلدرم عفاف کے گھر میں آیا جو بہت پوش علاقے میں تھا۔۔۔

عفاف لان میں ٹہلتی ہوئی کافی پی رہی تھی۔۔یلدرم بھی وہیں آ گیا تھا۔ عفاف اسے وہاں دیکھ اسکی طرف مڑی۔۔۔

"خیریت یہاں اس وقت"

اسنے آئیبرو اچکا کر کہا۔۔۔

"تم پہلے تو یہ بتاؤ کہ کل تم پھر Treasure hunt

جا رہی ہو نیلامی پر"

یلدرم نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔۔۔

"مجھے لگا تھا تمہیں صبح ہی پتہ چل گیا ہو گا۔۔مگر دیر ہو گئی شاید"

اسنے شرارت سے کہا۔۔۔

"تو تم جانتی تھی کہ سردار بھی کل وہاں آ رہا ہے"

یلدرم نے کچھ سمجھ کر کہا۔۔۔

"تو اسہی کا تو ایک اور پراجیکٹ ہتھیانے جا رہی ہوں روبرو یار کی آنکهوں میں ہار دیکھنے کا کتنا لطف آئے گا تم نہیں سمجھو گے"

اسنے چٹخارہ لیتے ہوئے کہا۔۔۔

تو یلدرم اسے دیکھ کر رہ گیا کیا محبت واقعی ختم ہو گئی تھی تو پھر یارم کی آخری امید کا کیا اسنے دل میں سوچا۔۔۔

"تو یہ سب تم کرو گی کیسے"

"سرپرائز ہے برو مل کر دیکھیں گے "

اسنے ایک بات میں گفتگو کا اختتام کیا تھا اور گہرا سانس لے کر اندر بڑھ گئی تھی۔۔۔۔

                        ******

Treasure hunt 

میں آج پھر بہت گہما گہمی تھی۔ سب کو خبر تھی کہ سٹون لیڈی اور سردار کے درمیان آج پھر کڑاکے دار مقابلہ ہونے والا تھا۔

جسے دیکھنے کے لیے لوگ دلچسپی سے منتظر تھے۔۔۔

آج سردار خود یہاں موجود تھا اسے پچھلی دفعہ کا واقعہ اچھی طرح یاد تھا۔۔۔

عفاف کے آنے پر سب مڑ مڑ کر اسے دیکھنے لگے تھے۔۔۔

لوگوں میں چہ مگوئیاں شروع ہو چکی تھیں۔۔۔

آج وہ پنک پینٹ کوٹ میں موجود تھی۔ وہ سردار کو دیکھے بغیر ناک کی سیدھ میں چلتی ہوئی جا کر اپنے فرسٹ ٹیبل پر بیٹھ گئی جبکہ سردار کا دل اسے دیکھ بےچین ہوا تھا۔ آج اسکا چہرہ ماسک سے ڈھکا نہیں تھا تبھی لوگ ہزاروں کی تعداد میں اسکی تصاویر لے رہے تھے۔۔۔

جسنے لڑکی ہو کر اتنی کم عمری میں بزنس کی دنیا میں نام بنایا تھا۔۔۔

اور یہی نظریں سردار کے غصے میں شدید اضافہ کر رہی تھیں وہ لاکھ خود کو بے پرواہ ظاہر کرتا مگر اسکا دیہان صرف اور صرف عفاف پر تھا۔۔۔

آج وہ اسے جلانے کے لیے ساتھ ماریہ کو لے آیا تھا جو اس سے چپک کر بیٹھی تھی۔

مگر عفاف نے اسے دیکھنا تک گوارا نہ کیا تھا اور یہی چیز سردار کو تیش دلا رہی تھی۔۔۔

""کیا کرنے کا ارادہ ہے آج سردار"

ذیشان کے پوچھنے پر سردار نے اسکی طرف دیکھا اور کہا۔۔۔

"زیادہ کچھ نہیں جس لینڈ کو وہ خریدنا چاہتی ہے آج اس لینڈ کو ہم اپنے قبضے میں کریں گے"

سردار نے آنکھوں میں چمک لیے کہا۔۔۔

"سردار یہ نہایت پاگل پن ہے اگر اسنے زیادہ قیمت لگا دی تو "

عالیان بیچ میں بولا تھا۔۔

"شاید تم بھول رہے ہو میرا پیچھلا ڈریم لینڈ میلینز کا تھا اور وہ اسنے منہ مانگی قیمت دے کر خرید لیا تھا اور اب اس سے خوب منافع کما رہی ہے۔۔۔

سمپل آج ہم بھی یہی کریں گے جتنی قیمت وہ لگائے گی اس سے دگنی قیمت کی بِڈ ہم لگائیں گے یہ میری ضد ہے"

اسنے سرد لہجے میں یلدرم کو عفاف کے پاس بیٹھتے دیکھ کہا۔۔۔

عفاف نے اپنے پر نظروں کی تپش محسوس کی تو سردار کی طرف دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ عفاف کے دیکھنے پر اسنے ماریہ کا ہاتھ پکڑا تھا۔۔۔

عفاف اسے دیکھ مسکرائی تو وہ چونکا کیونکہ وہ جلتی مسکراہٹ تھی۔ جیسے اس کا مزاح اڑا رہی ہو۔۔۔

جس پر وہ پیچ و تاب کہا کر رہ گیا۔۔۔

کچھ تو غلط تھا مگر کیا۔۔۔

                        *****

بِڈ لگنا شروع ہوئی تھی ہزار سے دس ہزار, لاکھ اور پھر میلین تک جا پہنچی تھی۔۔۔

سب ہی باری باری خاموش ہو گئے تھے اور اب بچے تھے عفاف اور سردار جو ایک کے بعد ایک بولی لگا رہے تھے۔۔۔

کوئی بھی رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا دس بیلین پھر پچاس پھر اور آگے۔۔۔

"عفاف بس کرو اتنی قیمت مت لگاؤ جو ہم دیں نہ پائیں"

یلدرم نے اسکے کان میں کہا جو ایک معمولی لینڈ کی قیمت کو کہاں سے کہاں لے گئی تھی ضد میں۔۔۔

"کس نے کہا قیمت ہم ادا کریں گے"

اسنے گلاسس نیچے کرتے یلدرم کو آنکھ مارتے کہا تو اسے عفاف کی دماغی حالت پر شبہ ہوا۔۔۔

"تھرٹی ٹریلین"

عفاف کی آخرہ بولی پر حال میں سناٹا چھا گیا تھا۔ سوئی گرنے تک کی آواز بھی نہیں آ رہی تھی۔۔۔

سبکے سانس سوکھ چکے تھے اتنی بڑی قیمت۔۔۔

عفاف نے اب تمسخرانہ نظروں سے سردار کو دیکھا جیسے کہ رہی ہو اب بولو کیا لگا سکتے ہو اس سے بڑی قیمت۔۔۔۔

اور رہی سردار کی بات وہ تو ازل سے چیلینجز لینے کا عادی تھا سو اسے دیکھ جلتی مسکراہٹ سمیت بولا۔۔۔۔

"تھرٹی فائو ٹریلین"

ایک بار پھر سب شاکڈ ہوئے تھے وجہ عفاف کا اور بولی نہ لگانا تھا جو سردار کو عجیب سی مسکراہٹ سے دیکھ رہی تھی۔۔۔

"تھرٹی فائو ٹریلیلن ون, ٹو , تھری"۔۔۔۔

کوئی بھی نہ بولا تو زمین دار نے وہ لینڈ سردار کے نام کر دیا ۔۔۔۔

سب کیمرہ مینز کھٹاکھٹ سردار اور ماریہ کی تصاویر بنانے لگے تھے۔۔۔

"کیسا لگ رہا ہے آپ کو مسٹر سردار ایک قیمتی زمین خرید کر"

ایک صحافی کی بات پر وہ مسکرایا اور دھیرے قدم اٹھاتا عفاف کے مقابل آیا جو اسے دیکھ مسکراتی ہوئی کھڑی ہوئی تھی۔۔۔۔۔

اب وقت تھا ترپ کا پتہ پھینکنے کا۔۔۔

یلدرم تاسف سے اسکی مسکراہٹ دیکھ رہا تھا آخر یہ کرنا کیا چاہتی تھی۔۔۔

"وہی خوشی جو ہر ایک بزنس مین کو اپنے قابل حریف سے جیت جانے پر ہوتی ہے۔ کیا آپ مجھے مبارک باد نہیں دیں گی سٹون لیڈی "

سردار نے طنزیہ انداز میں عفاف کو کہا تو سب کیمرہ مینز نے رخ اس طرف کیا۔۔۔

"جی ضرور میں اس وقت اپنے سب سے بڑے حریف کو اسکی تیسری ہار کہ مبارکباد پیش کرنا چاہوں گی"

اسنے سردار کو مسکراتے ہوئے دیکھتے کہا۔۔۔

"ایکسکیوز می مس عفاف شاید آپ اپنی ہار تسلیم نہیں کر سکیں اس لیے یوں بہکی بہکی باتیں کر رہی ہیں"

سردار نے ایک ایک لفظ چباتے کہا آخر اتنی بڑی ہار پر بھی عفاف کے ماتھے پر ایک شکن تک نہ آئی تھی۔ ایسا کیسے ممکن تھا۔۔۔

"آپ کی ہار کے چرچے کچھ ہی دیر میں سب ہی نیوز چینلز پر ہوں گے سردار صاحب سٹون لیڈی کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کیا کرتی اسہی لیے تو آخری بولی میں نے نہیں لگائی ورنہ میں اپنی پسند کی چیز ہاتھ سے جانے دوں ایسا ممکن نہیں"

عفاف نے اسکے کندھے سے گرد جھاڑتے کہا تو سبنے یہ منظر کیمرے کی آنکھ میں قید کیا تھا۔۔۔

"اگلی ہار کے لیے تیار رہنا سوداگر"

اسکے کان میں وہ سرگوشی کرتی شاہانہ چال چلتی جا چکی تھی۔۔۔۔

                        ******

"آخر وہ کس ہار کی بات کر رہی تھی ذیشان مجھے فوراً پتہ کر کے بتاؤ"

سردار نے آفس میں داخل ہوتے بےچینی سے اپنی ٹائی ڈھیلی کرتے کہا۔۔۔

"سردار "

اسکے اٹک اٹک کر کہنے پر وہ چونک کر پلٹا ۔۔۔

"کیا"

"ہم بری طرح پھس گئے سردار ہمیں میلین نہیں بیلین نہیں بلکہ ٹریلینز کا نقصان ہوا ہے کیونکہ جو زمین ہمنے خریدی ہے وہ ڈی فیکٹڈ ہے جہاں کلٹیویشن تو کیا ایک عمارت بھی کھڑی نہیں کی جا سکتی۔

اور یہ بات وہ جانتی تھی تبھی قیمت اتنی اوپر لے گئی کہ تم اس نقصان سے نکل نہ پاؤ"

ذیشان کی بات پر اسنے بےیقینی سے اسے دیکھا اور پھر غصے کی شدت سے سارا آفس تہس نہس کرتا گیا۔۔۔

"آآآآآآآ"

                        *******

"تو یہ تھا تمہارا پلین"

یلدرم نے عفاف کو کال پر کہا جو اس سے پہلے ہی کہیں نکل گئی تھی۔۔۔

" "تو اور کیا"

 عفاف نے کندھے اچکائے جیسے وہ اس کے سامنے بیٹھا ہوں۔۔

" تم پہلے سے ہی جانتی تھی نہ کہ وہ لینڈ ڈیفیکٹڈ ہے

 لیکن میری سمجھ میں ایک بات نہیں آئی کہ سردار نے لینڈ کی چھان بین پہلے ہی کیوں نہیں کروائی"

 اس کے الجھن پر عفاف ہنسی۔۔۔۔۔

" آف کورس میں جانتی تھی کہ وہ لینڈ ڈیفیکٹڈ ہے کیونکہ وہ میں نے پورا گھوم پھر کر دیکھا ہے اور رہی بات سردار کی لاعلمی کی تو وہ بھی تمہیں بتاتی چلوں کہ اس کے مینیجر کو میں نے اتنا مصروف کر رکھا تھا کہ اسے اس لینڈ کے بارے میں پتہ کروانے کا وقت ہی نہ ملا 

اور اب رزلٹ تمہارے سامنے ہے سردار کا نقصان ہو چکا ہے اور یہی تو میں چاہتی تھی کہ اسے ملین نہیں بلین نہیں بلکہ ٹریلینز اس کا نقصان ہو۔۔۔۔

 میلینز تو وہ مہینوں میں ہی کما لیتا ہے۔۔ مگر ٹریلینز کمانے کے لئے اسے سال لگ جائیں گے

 اور اس کے چہرے پر یہی شکست دیکھنا چاہتی تھی میں۔۔۔

 جو میں دیکھ چکی ہوں عفاف نے سرد لہجے میں کہا۔۔۔

"تم ایسی تو نہ تھی عفاف"

 یلدرم نے تاسف سے کہا....

وہ عفاف کو دن بدن بدلتے دیکھ رہا تھا جو کہ وہ نہیں چاہتا تھا۔۔۔

" میں پہلے ایسی نہیں تھی یلدرم یہ تم بھی جانتے ہو مجھے یہاں کے لوگوں نے اپنی طرح بنا دیا ہے"

عفاف نے خشک لہجے میں کہا۔۔۔

" تم جا کہاں رہی ہو اب "

"ہے کوئی جس کے ساتھ مل کر سیلیبریٹ کرنا چاہتی ہوں تمہیں بھی جلد ملواؤں گی اس سے"

 یہ کہتے ہی اس نے کال کاٹی اور پھولوں کا گلدستہ اور چوکلیٹ لئے یتیم خانے کے آگے گاڑی روکی اس کا ارادہ آج جہان سے ملنے کا تھا...

                  ******

جیسے ہی وہ آرفنیج کے اندر گئی اسے جہان کو ڈھونڈنے میں زرا بھی مشکل پیش نہ آئی۔۔۔۔

کیونکہ وہ سامنے ہی درخت سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا ساتھ کسی کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا۔۔۔

"اہم اہم لوگ تو بڑے مصروف نظر آتے ہیں لگتا ہے میں نے ڈسٹٹرب کر دیا"

عفاف نے شرارت سے کہا تو وہ عفاف کو وہاں دیکھ چونکا اور حیرت سے کھڑا ہوا۔۔۔

بھلا آرفنیج کے بچوں کو کون یاد رکھتا تھا جسکا کوئی نہ ہو بھلا لوگ اس سے کیوں کوئی تعلق رکھنا چاہیں گے۔۔۔

وہ بھی سمجھا تھا کہ اب تو عفاف اسے بھول بھی گئی ہو گی مگر اسنے جہان کو یاد رکھا تھا یہ بات اسکا دل خوش کر گئی تھی۔۔۔

"یہ لو یہ تمہارے لیے آج میری جیت میں نے سوچا تمہارے ساتھ سیلیبریٹ کروں"

عفاف نے جہان کو سرخ گلاب کا گلدستہ اور چاکلیٹس پکڑاتے کہا۔۔۔

جسنے حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات سمیت تھام بھی لی تھی۔۔۔

آج سے پہلے اس کو کسی نے چاکلیٹس نہیں دیں تھی۔ لڑکیاں اسکے ارد گرد منڈلاتی تھیں اسے رجھانے کی کوشش کرتی تھیں۔۔۔

مگر عفاف ایسی نہ تھی وہ تو شاید اسے بچوں کی طرح ٹریٹ کرتی تھی۔ جو دل ہی دل میں جہان کو اسکا گرویدہ کر رہی تھی۔۔۔

"چاکلیٹس بچپن میں کسی نے دی نہیں اور اب کسی سے ملنے کی امید نہیں تھی۔

اب تو لگتا ہے چاکلیٹس کھانے کی عمر بھی گزر گئی"

جہان کی باتوں اور آنکھوں میں چھپی ہوئی حسرت اور ملال دیکھ عفاف کا دل پتہ نہیں کیوں کٹ کے رہ گیا تھا۔۔۔۔

"چاکلیٹس کھانے کی کوئی عمر نہیں ہوتی چھوٹے"

عفاف نے پیار سے اسکے بال بکھیر کر کہا تو وہ منہ بنا کر رہ گیا جس پر وہ کھلکھلا کر ہنس دی۔۔۔

"بس عمر میں چھوٹا ہوں دکھنے میں تو آپ سے پانچ سال بڑا ہی لگتا ہوں"

اسنے زبان چڑاتے کہا تو وہ اسے گھور کر رہ گئی۔۔۔

"تمہاری تو"

اس سے پہلے کے وہ اسے ایک لگاتی وہ آگے کو بھاگا جبکہ وہ بچوں کی طرح اسکے پیچھے۔۔۔۔

فرحین بی بی جو یہاں کی دائی اماں تھیں بچوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں جہان کو کسی لڑکی کے ساتھ بھاگتے دیکھ وہ ٹھٹکیں۔۔۔

جہان انہیں کے ہاتھوں میں پلا بڑھا تھا بچپن سے آج تک انہوں نے کبھی جہان کواتنا خوش نہ دیکھا تھا جتنا اب دیکھ رہی تھیں۔۔۔۔

لڑکی پر زرا غور کیا تو انکا دل تھما تھا خوبخو  وہی چہرہ ایسا کیسے ہو سکتا تھا۔۔۔

انہوں نے اپنی آنکھیں صاف کی مگر منظر وہی تھا۔ وہ فوراً باہر کو لپکیں یہاں تک کہ وہ بری طرح ہانپ چکی تھیں۔۔۔۔

"نا ممکن نا ممکن ایسا کیسے ممکن ہے"

فرحین بی بی کی آواز پر وہ دونوں جو بھاگ رہے تھے ٹھٹھک کر رکے۔۔۔

"فرحین بی آپ یہاں مجھے بلا لیا ہوتا"

جہان نے انکے قریب جاتے کہا تو عفاف نے بھی انکے پاس آ کر سلام کیا۔۔۔۔

"وہی چہرہ وہی آنکھیں اگر میں ایک ایک نقش اس سے چرایا ہے تم نے"

وہ بےیقینی سے بولیں تو عفاف نے اچھنبے سے انہیں دیکھا۔۔۔

"سوری آپ کس کی بات کر رہی ہیں"

چونکا تو جہان بھی تھا۔۔

"اگر میں غلط نہیں تو تم شہرین کی بیٹی ہو ہے نہ"

انکی بات پر وہ جو سنجیدہ سی انہیں دیکھ رہی تھی حیرت سے آنکھیں پھاڑے انکی بات کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔

"آپ کیسے جانتی ہیں"

"آخر تم وہی ہو شک کی کوئی گنجائش نہیں کیا تم دونوں نے ایک دوسرے کو نہیں پہچانا "

انکی بات پر عفاف اور جہان نے ایک دوسرے کو غور سے دیکھا پھر نفی میں سر ہلا دیا۔۔۔

"فرحین بی کیسی باتیں کرتی ہیں جب ہم ایک دوسرے سے پہلے ملے ہی نہیں تو ایک دوسرے کو پہچانیں گے کیسے"

جہان نے حیرت سے کہا۔۔۔۔

"واہ رے مولا کیا وقت آ گیا ہے خون , خون کے سامنے کھڑا ہے اور ایک دوسرے کو پہچان ہی نہیں پا رہا "

انہوں نے نم آنکھوں سے کہا تو عفاف فوراً چونک کر جہان کو بغور دیکھنے لگی۔۔۔

"کہنا کیا چاہتی ہیں آپ صاف صاف کہیں آپ میری ماما کو کیسے جانتی ہیں اور آپ کی ان باتوں کا کیا مطلب ہے"

عفاف نے انکے قریب آتے سنجیدگی سے کہا۔۔۔

"تمہاری ایک بڑی بہن بھی تھی کیا تم جانتی ہو"

"ہاں جانتی ہوں میرے سے دس سال بڑی تھیں مگر وہ تو کھو گئی تھیں آپ انکو کیسے جانتی ہیں"

ہزاروں سوال عفاف کے ذہن میں گردش کرنے لگے تھے مگر وہ تھیں کہ پہیلیاں بھجوائی جا رہی تھیں۔

 مگر جواب نہیں دے رہی تھیں جس سے عفاف کو سخت محسوس ہوئی تھی۔۔۔

" وہ کھوئی نہیں تھی بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس کی پیدائش پر تمہارا باپ خوش نہ تھا۔۔۔۔

 جب وہ پیدا ہوئی تو تمہارا باپ تمہاری ماں کو بیٹی ہونے کے طعنے دینے لگا تھا۔۔۔

 ایک نظر بھر کر بھی اس بیچاری کو تمہارے باپ نے پیار کی نظر سے نہ دیکھا تھا اور ستم تو یہ تھا کہ اس کی سولہ سال کی عمر میں شادی کروا دی گئی تھی۔۔۔

 تمہاری ماں نے لاکھ اسے بچانا چاہا مگر تمہارے باپ کو اس پر رحم نہ آیا۔۔۔

 اس نے اپنی بیٹی کو اس سے بیس سالہ بڑے شخص سے بیاہ دیا۔۔۔

 جو ہر دن ہر رات اسے مارتا پیٹتا تھا اور ستم تو یہ تھا کہ جب اس کے گھر اولاد ہوئی تو اس کے باپ نے اس بچے کو اپنا ماننے سے ہی انکار کر دیا تھا۔۔۔

 وہ ظالم درندہ اپنے بچے کو بھی مار دیتا اگر تمہاری بہن اسے لے کر بھاگتی نہ ۔۔۔

وہ بڑی مشکل سے اپنی حالت کی پرواہ کئے بغیر اس بچے کو لیئے رات کے پہر بھاگ گئی تھی اور یہاں پہنچی تھی۔۔۔

 میں نے دیکھی تھی اس ماں کے چہرے پر بے بسی۔

 اپنے بچے کے مر جانے کا خوف اپنے بچے سے دور ہوجانے کا خوف۔

 مگر اس کی ماں نے دل پر پتھر رکھ کر اس بچے کو میرے حوالے کر دیا تھا تا کہ وہ زندہ تو رہ سکے۔۔۔۔

میری آنکھوں کے سامنے اس لڑکی نے جان دی تھی اور ایک وعدہ لیا تھا کہ جب اس کے گھر سے اس کی ماں یا بہن آئے تو وہ بچہ اسے دے دوں اور اپنی آخری خواہش کا اظہار کرتے ہی وہ اس دنیا سے جا چکی تھی۔۔۔

 جانتی ہو وہ عورت کون تھی اور وہ بچہ کون تھا نہیں نا میں بتاتی ہوں۔۔۔۔

 فرحین بی نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔۔۔

"وہ عورت تمہاری بہن تھی تمہاری سگی بہن اور وہ بچہ جہان ہے جو بچ گیا تھا۔"

 بے یقینی سی بے یقینی تھی اپنے باپ کا اتنا گھٹیا اور ظالم روپ دیکھ کر اس کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی تھی۔

 کیا وہ اس دنیا میں اکیلی نہیں تھی کیا اس کا بھی کوئی اس دنیا میں تھا۔۔۔

جہاں یہ سوچ کر اسے خوشی محسوس ہوئی تھی وہیں جہان کے ساتھ ہوئی ظلم اور بے حسی پر اس کا دل بند ہونے کو ہوا تھا آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا تھا وہ جہان کو دیکھے گئی۔

یہاں تک کی اس کی آنکھوں کا منظر دھندلا ہو گیا اور وہ نیچے گر کر بے ہوش ہو گئی۔۔۔۔

"عفاف"

وہ لپک کر اسکے پاس اسے اٹھانے کو آیا مگر اسکے وجود میں جنبش نہ ہوئی۔۔۔۔

                       *******

رائیٹر ایمن رضا 

جہان اور فرحین بی بی فوراً عفاف کو ہسپتال لے گئے تھے۔ اسے فوری طور پر ایڈمٹ کیا گیا تھا جب ڈاکٹر باہر آئے تو جہان لپک کر اس کی طرف گیا اور اس سے پوچھا۔۔۔

" ڈاکٹر اب وہ کیسی ہیں "

ڈاکٹر نے اسکی بے تابی دیکھی اور کہا ..

"آپ اس کے کیا لگتے ہیں"۔۔۔

" میں, میں ان کا بھانجا ہوں"

 اس کی بات پر ڈاکٹر نے بڑے مشکوک انداز میں اسے اوپر سے نیچے تک گھورا کیونکہ وہ کہیں سے بھی اندر لیٹی مریضہ کا بھانجا تو نہیں لگ رہا تھا...

 کیونکہ وہ کم ازکم قد کاٹھ میں تو عفاف سے بڑا ہی تھا۔۔

 فرحین بی بی کے یقین دلانے پر ڈاکٹر کو ان کی بات پر یقین آیا اور بولا۔۔۔

" کیا آپ نہیں جانتے یہ پہلے اتنا عرصہ کوما میں رہی ہیں تو پھر انہیں اسٹریس کیوں دیا ۔۔۔

انکی بات پر جہان کو شدید حیرت ہوئی۔۔

"کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک شدید جھٹکا بھی ان کے لیے کتنے خطرے کا باعث بن سکتا ہے یہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی اگر جھٹکا شدید ہوتا۔۔

پہلے تو انہوں نے جیسے تیسے ریکور کر لیا مگر اب اگر انہیں ذرا سا بھی دھچکا لگا تو یہ برداشت نہیں کر پائیں گی۔۔

 اس لیے ان کا خاص خیال رکھیں اور انہیں کوئی دکھ کی یا اسٹریس کی بات نہ پہنچائیں تاکہ یہ جلد ٹھیک ہوجائیں۔۔۔

 ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ انداز میں کہا اور وہاں سے نکلتی چلی گئی۔۔

عفاف کے ساتھ اتنا کچھ ہو گیا اور اسے پتہ بھی نہ چلا جہان نے اپنی لاعلمی کو کوسہ۔۔

 کہ وہ کیوں اتنا عرصہ اس سے انجان رہا۔۔

 اور ایسی کیا وجہ تھی کہ عفاف اتنا عرصہ کوما میں رہیں کچھ تو بہت برا ہوا تھا اس کے ساتھ جس کا علم جہان کو بھی نہیں تھا۔۔۔

                ********

 سردار ادھر ادھر غصے میں ٹہل رہا تھا ایک کے بعد ایک ہار نے اس کا دماغ چکرا کر رکھ دیا تھا۔۔۔

 عفاف نے اسے ایسا منہ کے بل گرا دیا تھا کہ وہ اپنے آپ کا عکس شیشے میں بھی نہیں دیکھ پا رہا تھا۔

آخر وہ کیسے کسی سے ہار سکتا ہے اور وہ بھی اپنی بیوی سے جس کو اس نے خود گھر سے نکالا تھا۔۔

 یہ بات سردار برداشت نہیں کر پا رہا تھا۔۔۔۔

 "آخر کیسے ,کیسے وہ مجھ سے بھی آگے تک پہنچ گئی کیسے وہ اتنی ترقی حاصل کر سکتی ہے اتنے کم عرصے میں۔۔

" وہ تو ایسی بالکل بھی نہ تھی وہ تو بہت کم بولنے والی خاموش رہنے والی اور محبتیں لٹانے والی لڑکی تھی..

 پھر اتنی سنگدل کیسے ہوگی"

 وہ یہ بات کہتے ہوئے بھول گیا تھا کہ اسے سنگ دل بنانے کے پیچھے اس کا سب سے بڑا ہاتھ ہے وہ تو اس کے پیار کو ترستی تھی۔۔۔

 مگر اس نے خود ہی عفاف سے منہ پھیر لیا تھا اور اسی بات سے سردار اب نظریں چرا رہا تھا۔۔۔

 چاہے وہ اوپر سے جتنا بھی سخت یا سرد کیوں نہ بن جاتا مگر وہ اس بات کو نہیں جھٹلا سکتا تھا کہ وہ اس کی پہلی اور آخری سچی محبت تھی۔۔۔

 اب بھی سب سے زیادہ جلن عفاف کو اس کے جیت جانے کی نہیں تھی بلکہ لوگوں کو اسے سراہنے کی تھی۔۔

 جس کا حق وہ صرف خود پر ہی سمجھتا تھا۔۔۔

 جسے وہ صرف اپنی ریاست سمجھتا تھا آج ہر شخص کے لبوں پر اس کی تعریف کی تھی۔۔۔۔

 جو عرصہ پہلے صرف وہ کیا کرتا تھا آخر کسی کو کیسے حق پہنچتا کہ وہ اس کی بیوی کی تعریف کرتے۔۔۔

 اس کا حقدار تو صرف وہی تھا نا۔۔۔

 نہیں عفاف نہیں تم صرف میری ہو میں تمہیں کسی اور کا ہونے نہیں دوں گا۔۔۔

 سالوں پہلے جو غلطی میں نے کی وہ میں دوبارہ نہیں دہراؤں گا۔۔۔

               *********

عفاف کو جب ہوش آیا تو جہان اس کے پاس ہی بیٹھا تھا۔

اس نے نم آنکھوں سے اپنے بھانجے پر نظر ڈالی۔۔۔

ایک خوبصورت عرصہ وہ مس کر چکی تھی۔ مگر جو باقی بچا تھا وہ اسے ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی..

" آپ ٹھیک تو ہیں نہ"

 جہان نے اسے ہوش میں آتا دیکھو فوراً بیتابی سے اس سے پوچھا تھا ۔جس پر وہ نم آنکھوں سے مسکرا دی۔

" یہ تم مجھے آپ کب سے کہنے لگے مت کہو ایسا لگتا ہے کوئی تکلف نبھا رہا ہو اور آخر تم تو یارم کے بعد میرے واحد خون کے رشتے بچے ہو۔۔۔

 جسے میں کسی بھی حال میں کھونا نہیں چاہتی۔۔۔

 عفاف نے اس کی طرف یک ٹک دیکھتے ہوئے کہا۔۔

" یارم"

جہان نے نا سمجھی سے یارم کا نام لیا جیسے پوچھنا چاہ رہا ہو کہ یہ یارم کون ہے۔۔

 "یارم میرا بیٹا ہے"

 اس کی بات پر اور آنکھیں چرانے پر جہان نے اوووو کے انداز میں ہونٹوں کو گول کیا۔۔۔

" تو کیا وہ آپ کے ساتھ نہیں رہتا"

 جہان نے اسے کریدا۔۔۔

" نہیں وہ سات سال سے اپنے باپ کے پاس ہی رہ رہا ہے" 

اس نے اپنی نم نگاہیں دیوار کی طرف موڑتے ہوئے جہان کو صاف اور سیدھا جواب دیا۔۔

" کیا آپ اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہتیں جہان نے آنکھیں چھوٹی کرتے اسے جانچتے ہوئے کہا۔۔۔

 تو وہ اس کے انداز پر مسکرا دی۔۔۔

" تمہیں تو ڈیٹیکٹیو ہونا چاہیے تھا اتنی پوچھ تاچھ اس کی بات پر وہ شرمندہ سا ہو گیا۔۔

 اس کی طبیعت خراب تھی اور وہ یہ کیسی باتیں لے کر بیٹھ گیا تھا ۔۔۔۔

"کوئی بات نہیں تم پوچھ سکتے ہو تم تو میرے اپنے ہو چلو میں خود ہی بتا دیتی ہوں میں اور سردار ایک ساتھ نہیں رہتے بہت سال پہلے ایک غلط فہمی کی بنا پر ہم دونوں الگ ہو گئے اور میرا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔۔۔

 جس کی وجہ سے مجھے چار سال کوما میں گزارنے پڑے۔۔

 خیر اب تو اللہ کا شکر ہے میں ٹھیک ہوں اور اپنے پاؤں پر کھڑی ایک کامیاب بزنس ومین ہوں اور یہ بھی چاہتی ہوں کہ تم میرے ساتھ میرے بزنس شامل ہو جاؤ۔۔

بلکہ بزنس میں ہی کیوں آج سے تم میرے گھر چل رہے ہو میرے ساتھ رہنے۔ بہت دیر تنہا رہ لیا اب تو تنہائی بھی کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے۔۔۔۔"

 عفاف نے گہری سانس بھرتے ہوئے کہا۔۔۔

" میں تمہارے گھر کیسے چل سکتا ہوں میں تو آرفنیج رہتا ہوں"

 اس نے بھونڈا سا جواز تراشنا چاہا ۔۔

"تم وہاں رہتے تھے تب تک جب تک تمہارے علم میں تھا کہ تمہارا کوئی نہیں۔۔۔

 مگر اب تم یہ جان گئے ہو کہ تم میرا خون ہو میرے بھانجے ہو پھر میں اپنی سگی بہن کے بیٹے کو ایسے رلتے ہوئے کیسے دیکھ سکتی ہوں۔۔۔

 کبھی بھی نہیں میں یہ کبھی برداشت نہیں کروں گی کہ تم جس نے اپنا بچپن کھو دیا اور اب اپنی جوانی بھی سڑکوں کی خاک چھاننے کے در پر ہو۔۔۔

 کبھی نہیں۔۔۔

تم میرے ساتھ چل رہے ہو. اسے میری خواہش سمجھو یا حکم"

عفاف کے لہجے میں کچھ تو ایسا تھا کہ وہ اسے انکار نہ کر پایا اور مسکرا کر سر خم کیا۔۔۔۔

 جیسے اس کے ساتھ جانے پر رضامند ہو اور عفاف بھی سرشار سی کھلے دل سے مسکرا دی۔۔۔

                    ****

یہ ایک ہفتہ بعد کی بات ہے جہان آباد کے گھر ہی شفٹ ہو چکا تھا پہلے جہاں وہ تنہا رہتی تھی اب اسے ایک ساتھ مل چکا تھا صبح کا کھانا اور رات کا کھانا وہ دونوں ساتھ ہی کھاتے تھے اور پھر اپنے روزمرہ کی لائف کو ڈسکس کرتے تھے..

سردار نے عفاف سے جارج کے تھرو پارٹنر شپ کر لی تھی اور وہ کچھ نہیں کر پائی تھی۔۔۔

کیونکہ یہ ڈیل اسکے لیے بھی بہت ضروری تھی۔۔

 آج عفاف نے کوئی فائل دے کر جہان کو سردار کے آفیس میں بھیجا تھا۔۔۔

 جہاں سردار, ذیشان,عالیان, برہان اور یلدرم بھی موجود تھے۔۔۔

 وہ دستک دے کر اندر داخل ہوا تو سب نے چونک کر اس کی طرف دیکھا پینٹ کوٹ میں وہ نہایت وجیح لگ رہا تھا۔۔۔

 سردار کے اجازت دینے پر وہ اندر داخل ہوا اور ناک کی سیدھ میں چلتا ہوا اس کے سامنے آ کر رکا اور فائل اس کے سامنے ٹیبل پر رکھی۔۔۔

" یہ عفی نے آپ کے لیے دی ہے اس نے کہا ہے کہ آپ یہ ایک دفعہ گو تھرو کر لیں تاکہ وہ آگے کا پروسیجر طے کر سکے"

جہان نے جلدی جلدی میں کہا تو سردار سمیت سبھی اسے نا سمجھی سے دیکھنے لگے۔۔

 وہ کس عفی کی بات کر رہا تھا "سوری کس کی بات کر رہے ہو" سردار نے ناسمجھی سے پوچھا۔۔۔۔۔

" اووو سوری عفی نہیں میرا مطلب عفاف تھا"

 جہان نے جلدی جلدی میں اپنی زبان دانتوں تلے دبائی اور سردار کا ری ایکشن دیکھا۔۔

 جس کا چہرہ پہلے تو بے یقینی میں لپٹا لیکن پھر غصے کی شدت اور ,اور جلن کی سرخی سے لال ہو گیا تھا۔۔۔

جہان نے بمشکل اپنے قہقے کا گلا گھونٹا تھا۔۔۔

حیران تو وہ سب بھی تھے جو اتنی بے تکلفی سے عفاف کا نام لے رہا تھا آخر کیا رشتہ تھا اس لڑکے کا عفاف کے ساتھ۔۔۔۔

" آپ یقیناً سردار ہیں کیونکہ عفی نے کہا تھا کہ جو سب سے سڑیل موڈ میں بیٹھا ہو گا وہی سردار ہو گا۔ اسی کو یہ فائل دینی ہے۔۔۔

 یہ فائل آپ کو ہی چاہیے تھی نا"

 جہان نے سب معصوموں کے ریکارڈ توڑتے ہوئے کہا..

 تو یلدرم نے اپنا قہقہ ضبط کیا تھا...

" اور آپ فارغ ہو کر عفی سے ملنے آ جائے گا آپ یلدرم ہی ہیں نا کیونکہ عفی نے کہا تھا جس کے چہرے پر سب سے زیادہ میسنا پن ہو گا وہ ہی یلدرم ہوگا"

 اس کی توپوں کا رخ اچانک یلدرم کی طرف ہوا جس پر وہ ہڑبڑا کر رہ گیا تھا۔۔۔

اور جہان کو گھورنے لگا۔۔۔

" تم ہو کون ؟؟؟

اور عفاف کو کیسے جانتے ہو اور کیا رشتہ ہے تمہارا اس سے جو تم اسے اتنی بے تکلفی سے بلا رہے ہو"

 سردار نے دانت پیستے ہوئے غصے سے پوچھا..

 جس پر جاتے ہوئے جہان نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا تھا جیسے اسکے بولنے کا ہی منتظر ہو اور اسی کے انداز میں بولا۔۔۔

" یہ میرا اور عفی کا پرسنل میٹر ہے۔ میں کسی تیسرے کو ہمارے درمیان شریک کرنا ضروری نہیں سمجھتا"

اسنے غرور سے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے کہا۔۔۔

مقصد صاف اسے اسکی حیثیت یاد دلانا تھا۔۔۔

 یہ کہتے ہی وہ کھٹاک سے جا چکا تھا۔ 

یہ سراسر سردار کے منہ پر جوتا لگنے کے مترادف تھا۔۔

 یا یہ کہنے کی کوشش کہ وہ اس کی طرح کسی تیسرے کو اپنے اور عفاف کے درمیان نہیں لاتا۔ جس سے اسکا رشتہ خراب ہو۔۔۔

 سردار کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ سب کچھ تہس نہس کر دیتا۔۔۔

اب وہ بہت جلد عفاف سے ملنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ اسے یہ بتانے کا کہ اب بھی اس پر صرف سردار کا ہی حق ہے۔۔۔

                        *******

یہ کچھ دن بعد کی بات ہے جب جہان اور یلدرم کی اچھی خاصی دوستی ہو چکی تھی۔۔۔

 دو دن بعد عفاف کی سالگرہ تھی جس کو جہان اچھے طریقے سے منانا چاہتا تھا۔

 یلدرم نے اسے بتا رکھا تھا کہ عفاف اپنی سالگرہ نہیں مناتی مگر اس بار جہان کچھ الگ کرنا چاہتا تھا۔۔

 وہ چاہتا تھا کہ اس دفعہ عفاف کر اچھے طریقے سے اپنی سالگرہ منائے۔۔۔

 اس لیے اس نے یلدرم کو یارم کو بلانے کا بھی کہا تھا۔۔

یہ پورے طریقے سے ایک سرپرائز پارٹی تھی۔

 جس کا علم عفاف کو بالکل بھی نہ تھا۔ جس میں جہان, یلدرم, ماہرہ, یارم, عروج اور اس کی چھوٹی بہن عائشہ شامل تھی جو اتفاقاً جہان کی بھی کلاس فیلو تھی۔۔۔

 یارم اور یلدرم کی تو پہلے کی ہی پلیننگ چل رہی تھی۔۔۔

اس لیے یار ہم نے سردار کو بھی وہاں بلا لیا تھا۔۔۔

اس پارٹی میں عفاف اور یلدرم کے کچھ قریبی دوست موجود تھے۔۔۔

 پلین کے مطابق عروج عفاف کو سفید میکسی میں اس بڑے ہال میں لے کر آ چکی تھی

 جس کی آنکھوں پر کالی پٹی بندھی تھی۔۔۔

" یہ تم کیا کر رہی ہو عروج یہ بچوں کی طرح میری آنکھوں پر پٹی کیوں باندھی رکھی ہے اور اس ڈریس کا مقصد "

عفاف نے جھنجھلائے ہوئے لہجے میں کہا۔۔

 جب ایک جھٹکے سے عروج نے اس کی آنکھوں سے پٹی اتار دی تھی۔۔

 چاروں طرف سے ایک ہی شور گونجا تھا۔۔

"ہیپی برتھ ڈے ٹو یو ,

ہیپی برتھ ڈے ٹو یو عفاف"

عفاف یہ سب دیکھ کر حیرت کا شکار ہوئی تھی۔

 جبکہ یارم کو بھی وہاں موجود دیکھ اس کو دلی خوشی ہوئی تھی۔۔۔

 اس نے نظریں ادھر ادھر دوڑائی مگر جہان اسے کہیں نہ دیکھا البتہ سردار دکھ گیا تھا۔۔۔

سردار کو دیکھتے ہی اس کے ماتھے پر تیوری چڑہی تھی۔۔۔ کیونکہ اس کے ساتھ ذیشان عالیان اور بہرام بھی تھے۔۔۔۔

 ان لوگوں کا یہاں آنا عفاف کو کچھ خاص پسند نہیں آیا تھا مگر مصلحت کے تحت خاموش ہو گئ۔

 لوگ باری باری آتے اور اسے سالگرہ کی مبارکباد دیتے اور چلے جاتے۔

 یلدرم,عروج اور ماہرہ لوگ آپ کے پاس کھڑے تھے۔

 جب سردار اور باقی لڑکے بھی اسے سالگرہ کی مبارک دینے آئے تھے۔

" سالگرہ مبارک ہو"

 سردار نے خوش اخلاقی سے کہا تھا کیونکہ وہ آج کا دن عفاف کا خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔

 اتنی دیر بعد تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھی تھی۔

جو شاید کئی سال پہلے دیکھی تھی اور آج دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔۔۔

"ہنہ لمبی عمر کی دعا دینے آئے ہو یا بد دعا"

عفاف نے کربناک لہجے میں کہا تو سردار کو اپنے پرانے الفاظ یاد آئے اور ان پر ملال بھی ہوا۔۔

 سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتا ایک چھوٹا بچہ بڑا سا باکس لیے عفاف کے پاس آیا اور بولا اسے کھولیں۔۔

عفاف نے وہ باکس کھولا تو اس کے اندر سے بلیک کلر کی ہوڈی نکلی۔

جس پر آدھا ریڈ ہارٹ بنا ہوا تھا۔ اس کی کپل ہوڈی پر یقیناً اس کا باقی کا ہارٹ تھا اور یہ جاننے میں عفاف کو لمحہ بھی نہ لگا کہ یہ کون ہو سکتا ہے۔۔۔

 لیکن سردار ضرور جلن کا شکار ہوا تھا۔

 " آخر کون بھیج سکتا تھا عفاف کو ایسی ہوڈی سردار نے ایک طائرانہ نگاہ حال میں دوڑاتے ہوئے دل میں سوچا۔۔۔۔

عفاف چھپاک سے چینجینگ روم میں ہوڈی پہننے جا چکی تھی۔۔ اس کے جاتے ہی تمام لائٹس آف ہوگئی تھی اور ایک اسپاٹ لائٹ روشن ہوئی۔۔۔

 اور Copines میوزک بجنے لگا....

جہان سپاٹ لائٹ میں نمودار ہوا تھا اور ہلکے ہلکے سٹیپ لیتا ڈانس کرنے لگا۔۔۔

Il m'a dit "t'es où? J'te rejoins au tel-hô?

جہان نے ادھر ادھر آنکھوں پر ہاتھ رکھتے اشارہ کیا جیسے کسی کا انتظار کر رہا ہو کسی کو بلا رہا ہو۔۔۔

Moi j'm'en bats les reins, j'ai

عفاف ایک دم چھلانگ لگاتی وہاں آئی تھی اور دونوں ہلکے ہلکے سٹیپ لینے لگے جن میں ماہرہ بھی شامل ہو چکی تھی۔

آخر یہ اسکا اور اسکی خالہ کا فیوریٹ گانا جو تھا۔۔۔

 besoin d'un vrai djo

Trop tard, trop tard

J'suis trop loin pour toi

Trop tard, trop tard

J'suis trop loin pour toi

انہیں دیکھ سب سے زیادہ جلن کا شکار دونوں باپ بیٹے تھے۔۔۔

جن کی جلن کی وجہ جہان ہی تھا۔۔۔ جہاں آج انہیں کھڑے ہونا چاہیے تھا وہاں آج وہ موجود تھا۔۔۔

 اور اسی بات کا تو احساس جہان انہیں دلانا چاہتا تھا کہ وہ اپنی زندگی سے کس قیمتی انسان کو کھوئے بیٹھے ہیں۔۔۔

 جس کی قدر و قیمت جہان اب انہیں اچھی طرح سمجھانے والا تھا۔۔۔۔

"بام بارڈا بوم بوم بام بارڈا بوم"

 آخری سٹیپ لیتے انہوں نے ڈانس کا اختتام کیا تھا۔۔

جہان اور عفاف ایک جیسی ہوڈی میں بہت پیارے لگ رہے تھے۔۔

عفاف نے کیمرہ مین کو اشارہ کیا تو وہ فورا بھاگا چلا آیا تھا اس کی طرف۔۔۔

 اور پھر کیا تھا عفاف اور جہان اونٹ پٹانگ تصاویر کھنچوانے لگے تھے۔۔

 وہ دونوں ساتھ کھڑے تھے تو شرٹ پر بنے آدھے دل دونوں مل کر ان کا دل بھی ایک بن گیا تھا۔۔۔۔

 جو بہت خوبصورت لگ رہا تھا مگر سردار کے لیے یہ یقیناً خوبصورت لمحہ نہیں تھا۔۔۔

 بعد میں یلدرم کے کہنے پر سب نے عفاف کے ساتھ گروپ فوٹو کھنچوائی تھی جو کہ یادگار بنی تھی۔۔۔۔

                 *******

" میں تمہیں کب سے نوٹ کر رہا ہوں چھوٹو تم مجھے کب سے گھور رہے ہو جیسے میں نے تمہاری چاکلیٹ کھا لی ہو۔۔۔خیریت ہے"

 جہان نے معصومیت سے یارم کو پوچھا حالانکہ وہ اچھی طرح جانتا تھا۔۔۔

 کہ یارم اپنی ماں کی توجہ کسی غیر کو ملتے دیکھ کر برداشت نہیں کر پا رہا تھا۔۔

 مگر وہ منہ سے بھی اقرار نہیں کر رہا تھا میں چاکلیٹس نہیں کھاتا۔۔۔

 اس نے سنجیدہ سے انداز میں پٹک جہان کو جواب منہ پر مارا تھا۔۔۔

 جس پر وہ اوووو کے انداز میں لب گول کر کے رہ گیا پھر بولا تو

 لہجہ ذرا شریر تھا۔۔۔

" میں سمجھ سکتا ہوں تمہارے حصے کی چاکلیٹس بھی تمہاری ماں مجھے دے دیتی ہیں۔۔۔

 اس لئے تم چاکلیٹس نہیں کھاتے ہے نہ"

 اس نے جلانے والے انداز میں کہا تھا اور یارم ٹھیک ٹھاک جل بھی گیا تھا۔۔۔

 اس سے پہلے کہ یارم اس کو کچھ سخت کہتا وہ فوراً بولا۔۔۔۔

"اووو دیکھو مجھے تمہاری ماں بلا رہی ہیں میں چلتا ہوں آخر کو میں نے ان کے ساتھ تمام گفٹس بھی تو کھولنے ہیں۔۔۔ جاتے ہوئے یارم کو جلانا نہ بھولا تھا۔ جس پر یارن محض پاؤں پٹخ کر رہ گیا تھا۔۔۔

                 ********

" ہمیں بھول کر بہت خوش لگ رہی ہو."

عفاف جو سوئمنگ پول کے پاس کھڑی نہ جانے کن خیالوں میں کھوئی تھی۔۔

 سردار کی جبھتے لہجے میں بات کرنے پر ٹھٹک کر پلٹی۔۔۔

" اس لڑکے کی صحبت میں بہت خوش رہنے لگی ہو تم,

اتنا تو خوش تم میرے ساتھ بھی نہیں تھی "

سردار نے لہجے میں تپش لیے کہا تو وہ آہستہ آہستہ قدم لے کے اس کے قریب آنے لگی اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔۔۔

" وہ تم سے لاکھ درجے بہتر ہے خود کا موازنہ اس سے مت کرو کیونکہ وہ سوداگر نہیں ہے تمہاری طرح۔۔

 جو کسی انسان کو پل دو پل میں بے مول کر دے۔۔۔۔۔۔۔

 اس کے احساسات خرید لے اس کی عزت نفس کو روند کر رکھ دے۔۔۔

 وہ تم سے بالکل مختلف ہے کیونکہ میری جان ہے وہ "

عفاف نے سینے پر دستک دیتے غرور سے کہا۔۔۔

عفاف نے جب اس کو جواب دیا تو اس کا لہجہ آگ برسا رہا تھا۔۔۔۔۔

 سردار کو لگا وہ اس کے لہجے کی تپش سے بھی پگھل جائے گا۔۔۔

 سردار کو اس کا بات اور اس کا انداز جلا کر راکھ کر گیا تھا آخر وہ کیسے کسی اور کے ساتھ خوش رہ سکتی تھی اس پر تو صرف سردار کا حق تھا۔۔۔۔

 تھی نا آخر خود غرضی کی بات۔۔۔۔

" شاید تم بھول رہی ہو کہ تم ابھی بھی میرے نکاح میں ہو کسی اور سے تعلق نہیں بنا سکتیں"

 سردار نے انگلی اٹھا کر اسکو اسکی حیثیت یاد دلاتے۔

 اس کو چوٹ پہنچانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی اور وہ اس میں پورا پورا کامیاب بھی ہوا تھا۔۔۔

 کیونکہ اس کی بات کا کراہیت آمیز پسِ منظر سمجھ عفاف کی آنکھیں شدتِ ضبط سے سرخ ہو چکی تھیں۔۔۔

 اس نے مٹھیاں بھینچتے ہوئے بمشکل اپنا غصہ ضبط کرتے اپنا ہاتھ سردار پر اٹھنے سے روکا تھا۔۔۔۔

" آخر نکلے نا تم وہی پست ذہنیت کے مرد تم سے اور امید بھی کیا کی جا سکتی ہے۔۔۔

 جو سالوں پہلے میرا نہ ہو سکا وہ اب میرا کیا ہوگا بھلا۔۔۔

 اس میں بھی قصور تمہارا نہیں بلکہ تمہاری تربیت کا قصور ہے۔۔۔۔۔

"عفاف"

سردار نے غصے سے اسکا نام لیتے اپنی مام کا نام لینے اور ان کے بارے میں کچھ کہنے سے باز کیا تھا ۔۔۔

باقی سب بھی وہیں جمع ہوگئے تھے۔۔۔

یلدرم اسے افسوس سے دیکھنے لگا تھا۔۔۔

"تم اب ابھی یہ کہہ رہی ہو حلانکہ پچھلی بار بھی غلطی صرف تمہاری تھی"

 سردار نے ایک ایک لفظ چباتے ہوئے کہا۔۔۔

جیسے عفاف اپنی غلطی پر پردہ ڈال کر خود کو سچی ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہو۔۔۔

" یو نو واٹ سردار میں اپنی صفائی دینا تمہیں تو خاص کر ضروری نہیں سمجھتی...

کیونکہ میرے نزدیک جو میرے اپنے ہیں انہیں مجھ پر یقین ہے....

 تم نہ بھی کرو تو تمہاری میری زندگی میں کوئی اہمیت نہیں اور ایک بات میری سالگرہ کا دن تو تم تباہ کر ہی چکے ہو۔۔۔

 آئندہ میرے سامنے اپنی یہ سو کالڈ شکل لانے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی میں اسے دیکھنا چاہتی ہوں "۔۔۔

یہ کہتے ہی وہ وہاں سے غصے سے واک آؤٹ کر گئی تھی۔۔۔

 اس کے پیچھے ہی جہان بھاگا تھا۔۔۔

جبکہ یلدرم سردار کے پاس آیا۔۔۔

" تف ہے تم پر جو اتنے سالوں میں بھی تمہارے سامنے سچائی نہ آ سکی نہ ہی تم سچائی کا پتا لگا سکے۔۔۔

کیونکہ اس میں بھی تمہارے گھر والے ہی شامل تھے"۔۔۔

یلدرم سردار کو دیکھتا ہوا طنزیہ لہجے میں بولا تھا۔۔۔

" یلدرم اپنی زبان سنبھال کر بات کرو تم میری ماں کے بارے میں بات کر رہے ہو۔

 اس لیے زرا تمیز سے رہو ورنہ میں تمہارا لحاظ نہیں کروں گا۔۔۔"

 سردار نے اسے کالر سے دبوچتے ہوئے کہا۔۔۔

" کیوں برا لگ رہا ہے۔۔؟

سچائی سامنے آنے پر ایسی ہی کڑوی لگتی ہے سردار جیسی اب تم ہی لگ رہی ہے....

 ہم پر مت چلاّؤ بلکہ اس اصل قصوروار کو ڈھونڈو اپنے گھر جاؤ۔۔۔

 تمہیں کیا لگا تھا گھر تمہارا ہے تو سیکیورٹی سسٹم بھی تمہارا ہوگا۔۔۔

 تم مجھ سے کیمرے لگاواؤ گے اور میں اندر ہر جگہ کیمرے نہیں لگاؤں گا یہ بھلا کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔

بے شک تم نے مجھے کہا تھا کہ حال میں کیمرے نہیں ہونے چاہیے مگر میں نے وہاں بھی ہڈن  کیمرے لگوائے تھے۔۔۔

 تاکہ ہم کسی ایسی ہی مشکل سے بچ سکیں جس میں آج ہم پھنس چکے ہیں۔۔۔۔

 مگر تم نے کیا کیا میرے آنے تک کا انتظار بھی نہ کیا اور سب کچھ آنکھوں دیکھا سچ مان لیا اور عفاف کو ذمہ دار ٹھہرا دیا۔۔۔۔۔

 یہ بھی جاننے کی کوشش نہیں کی کہ اصل قصوروار کون ہے مجرم کوئی اور بھی تو ہو سکتا ہے۔۔۔۔

 مگر نہیں تمہاری آنکھوں پر تو تمہارے ماں کے پیار کی پٹی بندھی تھی جو انہوں نے کہا تم نے مان لیا اور اس ہی بات کی وجہ سے تم نے سب سے بڑا خسارہ اٹھایا ہے سردار۔۔۔

 تم جانتے ہو میں پہلے سے جانتا تھا کہ عفاف قصوروار نہیں"۔۔۔

سردار حیرت کی زیادتی سے اسے دیکھنے لگا تھا۔۔۔

" لیکن میں نے تمہیں نہیں بتایا لیکن آج اس لئے بتا رہا ہوں کہ میں تمہیں پچھتاتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔

 تم اسی لائق ہو کہ تمہیں عفاف کا پیار نہ ملے تم اس کو ڈیزرو نہیں کرتے تم ماریہ جیسی لڑکی کو ہی ڈیزرو کرتے ہو"۔۔۔

 اس نے غصے سے سردار کو دھکا دیتے ہوئے کہا جس پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے۔۔۔۔

" تم جھوٹ بول رہے ہو ایسا نہیں ہوسکتا میری ماں میری زندگی تباہ نہیں کرسکتی"

 اس نے بے یقینی سے کہا...

" مجھے پتہ تھا تم میری بات پر یقین نہیں کرو گے اب تو تمہارا دوستی پر سے بھی اعتبار اٹھ گیا ہے...

 اس لیے بہتر ہے کہ گھر جا کر اپنی آنکھوں سے سچائی دیکھو۔۔۔۔

 ویڈیو دیکھتے ہی تمہیں پتا چل جائے گا کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ اور تب تم تڑپو گے اسے پانے کے لئے اور وہ تمہیں میسر نہیں ہوگی۔۔۔۔

یلدرم نے اسے جتلاتے ہوئے کہا تھا اور سردار تو ایسا تھا کہ جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔۔۔

 وہ بے یقینی کی کیفیت میں یارم کو وہاں سے لے کر نکلتا چلا گیا تھا۔۔۔

"ڈیڈ مجھے چھوڑ دو مجھے نہیں جانا مجھے اپنی ماما کو گفٹ دینا ہے".

 مگر سردار اس کی ایک بھی بات سنے بغیر زبردستی اسے اپنے ساتھ لے گیا تھا....

                  ******

عفاف غصے میں وہاں سے نکل کر سوئمنگ پول کی طرف آ گئی تھی جہاں خاموشی کا راج تھا۔۔۔۔

 پانی کی لہروں کو دیکھتے ہوئے اسے پرانا منظر یاد آیا تھا جب ایسے ہی ایک رات عفاف سویمنگ پول کے پاس کھڑی تھی اور سردار سویمنگ پول میں تیراکی کر رہا تھا۔۔۔

" رات کے اس پہر بھیگنے والا کسی پاگل سے کم نہیں ہوتا"

پانی کے قریب کھڑے ہی اس نے سردار کو دیکھتے سرگوشی کی تھی۔۔۔

 جو رات کو ٹھنڈے پانی میں تیراکی کر رہا تھا۔۔

 سردار جو ایک دم پانی سے ڈبکی لگا کر نکلا تھا عفاف کی بات اسکے کانوں سے مخفی نہ رہی۔۔۔

"لیٹل تھنگ دور کیوں کھڑی ہو قریب آؤ دونوں مل کر نہاتے ہیں"۔۔

سردار نے بے باک انداز میں کہتے اس کا ہاتھ پکڑ کے جھٹکے سے اسے اپنے ساتھ پانی میں کھینچا تھا۔۔۔

 وہ اس افراتفری پر ہڑبڑا سی گئی تھی ٹھنڈے پانی نے اس کے اعصاب جھنجھوڑ کر رکھ دیے تھے۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ ڈوبتی سردار نے اس کی کمر پر دونوں ہاتھوں کی گرفت بناتے اسے اوپر کھینچا اور اپنے سینے سے لگایا۔۔۔۔

 اس کی اوپر کی طرف سرکتی انگلیوں سے عفاف کی جان لبوں پر آئی تھی۔۔۔

 اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی اور سانس بہال کرتی سردار نے اس کی سانسوں کو پی لیا تھا۔۔۔

عفاف نے اسے دھکا دے کر پیچھے کرنا چاہا مگر سردار کی گرفت اس پر اور مضبوط ہوئی تھی عفاف کو لگا آج سردار اس کی جان نکال کر ہی دم لے گا۔۔۔۔

 دونوں کے بھیگے وجود اس وقت الگ ہی منظر پیش کر رہے تھے۔۔۔

 سردار نے جھٹکے سے اسے چھوڑتے ہوئے اس کے چہرے پر چپکی بھیگی ہوئی لٹوں کو اپنے ہاتھوں سے پیچھے کیا اور اسے نظر بھر کر دیکھا۔۔۔۔

 جس کا چہرہ تو گویا شرم سے ایسے لال تھا جیسے کسی نے سرخ رنگ چھڑک دیا ہو۔۔۔۔

 سردار نے اسے پھر بھی نہیں چھوڑا تھا بلکہ اپنی باہوں میں بھر کر پانی سے باہر نکالا تھا اور بیڈ روم کی جانب بڑھنے لگا تھا۔۔۔۔

 اسے کمرے کی جانب بڑھتے دیکھ عفاف کی جان لبوں پہ آئی تھی۔۔۔

"چھوڑیں پلیز مجھے کہیں نہیں جانا پلیز مجھے ٹھنڈ لگ رہی ہے"

 مگر عفاف کی بات پر سردار نے کان بھی نہ دھرا اور بےباک لہجے میں بولا۔۔۔۔

" میری جان تمہاری ٹھنڈ کا ہی علاج کرنے جا رہے ہیں "

سردار نے آنکھ ونک کرتے اس کی ناک سے ناک مس کرتے ہوئے کہا۔۔۔

 تو عفاف کا دل کیا اس کا گلا دبا دے۔۔۔

 آنسو نکلتے ہی عفاف جھٹکے سے سوچوں سے باہر نکلی تھی

 "تو کیا وہ سب یادیں محض جھوٹ اور فریب تھیں کیا سردار اس سے واقعی پیار نہیں کرتا تھا۔

 کیا وہ صرف اس کے قربت کا دیوانہ تھا عفاف کی محبت اس کا پیار سردار کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا تھا"۔۔۔

 اس سوچ نے آج بھی عفاف کا دل چیر کر رکھ دیا تھا۔۔۔

ابھی بھی وہ انہی سوچوں میں کھوئی رہتی جب جہان نے ایک دم گلا کھنکار کے اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔۔۔

"اہم اہم"

 اس کی آواز پر عفاف نے فور اپنے آنسو پہنچے تھے۔۔۔

" ارے یہ کیا میری عفی کی آنکھوں میں آنسو"

جہان نے اسکی آنکھ سے گرتا آنسو اپنی مٹھی میں قید کیا تھا۔۔۔

" انہیں مت بہاؤ مجھے تکلیف ہوتی ہے"

 جہان نے دکھ سے لبریز لہجے میں کہا تو عفاف اسے دیکھ کر رہ گئی۔۔۔

ایک یہ تھا جو اس کی آنکھ میں آنسو بھی نہیں آنے دینا چاہتا تھا۔۔۔

 اور ایک اس کا شوہر تھا جو اس کے ہر آنسو کی وجہ بنتا تھا کون مخلص تھا اس کے ساتھ"۔۔۔۔۔

 اسنے اسے غور سے دیکھتے دل میں سوچا۔۔۔

"وہاں سے چلی کیوں آئیں جس عفاف کو میں جانتا ہوں وہ تو ہر مشکل حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والوں میں سے ہے۔۔۔

 پھر آج ایسی بزدلی کیوں "

جہان نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا جیسے اسے اندر تک پڑھ لینا چاہتا ہو۔۔۔۔

" کبھی کبھار آپ دکھ سہتے سہتے اس منزل پر پہنچ جاتے ہیں جہاں آپ اپنے اندر کسی سے بھی لڑنے کی ہمت نہیں پاتے۔۔۔

 خاص کر کسی اپنے سے۔۔۔

 شاید میں بھی اسی منزل پر کھڑی ہوں جہاں میرا کوئی نہیں"۔۔۔

اس کو دکھی دیکھ کر جہان کا بھی دل دکھ سے بھر گیا تھا....

" تو کیا میں آپ کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا۔۔۔

 میں بھی تو آپ کا ہی خون ہوں نہ آپ کو یوں دکھی دیکھ مجھے کتنا دکھ ہوتا ہے کیا جانتی ہیں آپ۔۔۔

 میں نے کبھی اپنی ماں کو نہیں دیکھا مگر اپنی ماں کا پیار آپ سے پایا ہے۔۔۔

 اتنے کم دنوں میں جتنا پیار آپ نے مجھے دیا ہے شاید ہی میری ماں کبھی مجھے دے پاتی۔۔۔

 پھر آپ نے کیسے سوچ لیا کہ آپ تنہا ہے اس دنیا میں۔۔۔

 میں ہوں نہ آپ کے ساتھ ہر قدم پہ اور آپ دیکھئے گا...

 آپ کی زندگی سے غموں کو کیسے چٹکیوں میں دور کر دوں گا۔۔۔

 میں بس تھوڑا سا صبر اور تھوڑا بھروسہ چاہیے مجھے۔۔۔

 لیکن اگر آپ پھر بھی یوں ہی دکھی رہیں تو میں سمجھوں گا کہ میں آپ کی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا"۔۔۔

 جہان نے اس کی آنکھوں میں دوبدو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔

" ایسی بات نہیں ہے جہان تم یہ کبھی مت سوچنا کہ تم مجھ سے الگ ہو۔۔۔

اپنے بیٹے کے دور جانے کے بعد ایک تم ہی تو ہو جس کے سہارے میں زندہ ہوں۔۔۔

 اب تم بھی نہ ہوتے تو اب تک شاید میں ہمت ہار چکی ہوتی بھلا میں تمہیں کیسے بھلا سکتی ہوں۔۔۔۔"

عفاف نے نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے جہان کے بال بگاڑتے ہوئے کہا تو وہ منہ بنا کر رہ گیا۔۔۔

جس پہ ہنس دی تھی۔۔۔

" چلیں پھر اسی بات پر آپ کے لئے ایک سرپرائز ہے چلیں میرے ساتھ"

" کیا مطلب کہاں لے کر جا رہے ہو مجھے"

 عفاف اس نے حیرت سے کہا ۔۔۔

"آپ کو یہ یقین دلانے کے آپ اس دنیا میں اکیلی نہیں ہیں آپ کا بیٹا بھی آپ سے اتنا ہی پیار کرتا ہے جتنا  آپ اس سے "

جہان نے شرارت سے کہا۔۔۔

"کیا مطلب تم یارم کی بات کر رہے ہو"

 عفاف نے حیرت کی زیادتی سے آنکھیں پوری کھولتے ہوئے کہا ۔۔۔

"جی بالکل میں اسی کی بات کر رہا ہوں آج تو اس نے آپ کے لیے برتھ ڈے گفٹ بھی تیار کر رکھا تھا...

مگر آپ وہاں سے غصے میں چلی آئی"

جہان نے تاسف سے کہا۔۔

" کیا تم سچ کہہ رہے ہو یارم بھی مجھ سے اتنا ہی پیار کرتا ہے "

وفا اسے بے یقینی سے دیکھ رہی تھی۔۔

 اس کا بچہ جو کل تک اس سے نفرت کرتا تھا۔۔۔

 آج وہ اس کے لئے ہی گفٹ تیار کر کے لایا تھا اور وہ سے مل بھی نہ پائی تھی۔۔۔

 یہ کیسی دوری تھی بھلا وہ فوراً جہان کے ساتھ جانے کے لئے بے تاب ہوئی تھی اور اگلے ہی سیکنڈ اس کے ساتھ گاڑی میں موجود تھی۔۔

 گاڑی کو سیدھا سردار کے گھر کے آگے رکتا دیکھ عفاف نے نہ سمجھی اور کچھ ضبط سے  جہان کی طرف دیکھا۔۔۔

جیسے معاملہ جاننا چاہ رہی ہو

 "سردار یارم کو واپس لے آیا تھا یلدرم انکل نے مجھے بتایا ہے۔۔۔

اب یہی وقت ہے کہ چیزوں کو اپنی جگہ پر رکھا جائے۔

 اس لیے بہتر ہے کہ آپ نئی عفاف کے ساتھ ان حالات کا مقابلہ کریں۔۔۔۔۔

 اور اپنا بیٹا واپس حاصل کریں بہت دیکھ لیے دکھ آپ نے۔۔

 اب آپ کی باری ہے لوگوں کے رازوں سے پردہ فاش کرنے کی"۔۔۔۔۔

 جہان نے اسے ایک نئی راہ دکھائی تھی اور اب وہ بالکل تیار تھی۔

 پرانی عفاف کی طرح نہیں بلکہ نئی عفاف کی طرح جو مضبوط تھی۔۔۔

 وہ گہرا سانس بھرتے گاڑی سے باہر نکلی تھی اور سردار کے گھر کے اندر قدم بڑھائے تھے۔۔۔۔

                        ********

سردار یارم کو لیے افراتفری میں گھر کے اندر داخل ہوا تھا اور ناک کی سیدھ میں چلتا ہوا کنٹرول روم کی طرف بھاگا تھا۔۔۔۔

 آج وہ ویڈیو دیکھ کر سچائی کا پتا لگانے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔

 وہ چاہتا تھا کہ آج ہی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے تا کہ یلدرم اسے آئندہ کسی بھی بات کا الزام نہ دے سکے۔۔۔۔

 وہ اب بھی اپنی ماں کو حق پر ہی سمجھ رہا تھا۔۔۔

 مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کا اپنی ماں پر یقین کتنی بری طرح ٹوٹنے والا ہے۔۔۔

 بشریٰ بیگم دونوں باپ بیٹے کو افراتفری میں رات کے اس پہر  گھر آتا دیکھ بوکھلا گئی تھیں۔۔۔۔۔

" سردار کیا ہوا؟پریشان ہو کیا؟

کیا ہوا کیا ہے آخر؟

 انہوں نے سردار کو آتے دیکھ ایک کے بعد ایک سوالات کی بوچھاڑ کر دی...

مگر وہ ان کے ایک بھی سوال کا جواب دیے بغیر چلا گیا تھا جس پر وہ کڑھ کر رہ گئیں۔۔۔

" یارم تم مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے آخر تمہارے ڈیڈ اتنے غصے میں کیوں لگ رہے ہیں اور کہاں گئے تھے تم لوگ۔۔

 وہ جانتی تھیں کہ کوئی جواب دیے نہ دیے مگر یارم انہیں جواب ضرور دے گا۔۔۔

لیکن یارم پر بھی اب ان کی حقیقت کھل کر واضح ہو گئی تھی۔۔

 اس لئے وہ بھی ان کا جواب دیے بغیر سردار کے پیچھے بھاگ گیا تھا۔۔

 وہ بھی آخر اپنی آنکھوں سے سچائی دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔

وہ بل کھا کر رہ گئی تھیں آخر انہیں کہاں منظور تھا کہ انہیں نظر انداز کیا جائے۔۔۔

 یہ بات ان کا دل کھولا رہی تھی۔۔

 ان کی سمجھ سے باہر ہوتا جا رہا تھا سب کہ آخر ہوا کیا ہے اور یہ حیرت بھی زیادہ دیر کے لئے نہ رہی کیونکہ جب انہوں نے داخلی دروازے سے اندر آتی عفاف کو دیکھا تو وہ خوف سے لڑکھڑا کر پیچھے کو گریں۔۔۔۔

" کیا ہوا آپ تو ایسے ڈر رہی ہیں جیسے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو"۔۔۔

عفاف نے اندر داخل ہوتے شگفتہ بیگم کو اپنے سے یوں ڈرتت دیکھ ان کی طبیعت پر طنز کرتے ہوئے کہا جو عفاف کو بے یقینی سے دیکھ رہی تھیں۔۔۔

" تم, تم یہاں کیسے تم تو مر گئی تھی نہ"

 انہوں نے اٹکتے ہوئے کہا۔۔۔

" آپ یہ ڈرامہ کس کے سامنے کر رہی ہیں نہ تو یہاں آپ کا بیٹا ہے اور نہ ہی پوتا۔۔۔

اس لیے اپنے اصل روپ میں آ جائیں تو بہتر ہوگا۔۔

 آپ اور میں دونوں ہی اچھی طرح جانتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے اور آپ تو بہت پہلے سے جانتی تھی کہ میں تو کبھی مری ہی نہیں۔۔۔

 بلکہ میں نے یارم سے ملنے کی کوشش کی تھی۔۔

 مگر آپ نے میرے خلاف اس کے ذہن میں اتنا زہر بھر دیا تھا کہ وہ اپنی ماں سے ہی نفرت کرنے لگا تھا۔۔۔

 بولیں کیا یہ سچ ہے یا جھوٹ وہ ان کی طرف ایک ایک قدم بڑھاتے ہوئے چبا چبا کر بولی تو اس کے لہجے پر وہ لرز کر رہ گئی تھیں۔۔۔۔

" اے لڑکی وہیں رک جاؤ میں تم سے ڈرتی ورتی نہیں میں تب بھی وہی تھی اور آج بھی وہی ہوں۔۔۔

 تمہیں یوں چٹکیوں میں اس گھر سے دفان کر دوں گی اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔۔۔۔۔

 کیونکہ میرا بیٹا آج بھی مجھ پر اندھا یقین کرتا ہے۔۔۔"

 انہوں نے غرور سے کہا تو ان کی خوش فہمی پر عفاف کھلکھلا کر ہنس دی۔۔۔۔

"چچ چچ چچ آپ کی غلط فہمی ہے یہ کہ اس بار بھی آپ جیت جائیں گی"

 عفاف نے ان کے ارد گرد چکر کاٹتے ہوئے کہا۔۔

"تمہارے لیے بہتر ہے لڑکی کے سردار کی زندگی سے نکل جاؤ.....

 کیونکہ اب اس کی زندگی میں تمہارے لیے کوئی جگہ نہیں....

 یہ تو تم اچھی طرح جان چکی ہوں گی "

انہوں نے بھی عفاف پر دوبدو طنز کرتے ہوئے کہا تو وہ ان کی طرف (کیا واقعی میں ایسا ہے) والی نظروں سے دیکھنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔

 آپ یہ کیسے کہہ سکتی ہیں آپ کا بیٹا تو میرے ارد گرد یوں منڈلاتا ہے جیسے چاند کے گرد چکور...

 اب آپ بتائیے کہ میں کون سی چال چل کر آپ کے بیٹے کو آپ کے خلاف اشاروں پر نچاؤں"

عفاف نے ان کو دیکھتے ہوئے آنکھ مار کر کہا تو وہ جی جان سے جل کر رہ گئیں۔۔۔۔

" لڑکی تمہاری اتنی ہمت"

 انہوں نے اتنا کہتے ہی غصے سے عفاف پر ہاتھ اٹھایا تھا۔۔۔

جو اس نے جھٹکے سے بیچ میں ہی روک لیا تھا اور مروڑ کر ان کی کمر سے لگایا تھا کہ ان کی آہ نکل لگی تھی درد سے"۔۔۔۔

" ابھی آپ نے میری ہمت دیکھی کہاں ہے۔۔۔

 آج تو یہ ہاتھ مجھ پر اٹھا لیا ہے اگر دوبارہ اٹھانے کی جرات بھی کی تو اسے اٹھنے لائق نہیں چھوڑوں گی میں"

 اس نے ان کی کلائی زور سے مروڑ کر جھٹکا دیا تو وہ بل کھا کر صوفے پر گریں۔۔۔

انہیں لگا ان کا ہاتھ جڑ سے اکھڑ گیا ہے اتنی شدید درد ان کے بازو میں اٹھی تھی کہ ان سے اٹھنا دو بھر ہو گیا تھا۔۔۔

مگر وہ پھر بھی اپنی انا کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس کے سامنے کھڑی ہوئی تھیں۔۔۔۔

" اور رہی بات آپ کے بیٹے کی تو وہ آپ کو ہی مبارک ہو مجھے میرا بیٹا چاہیے یارم میرا بیٹا ہے کیونکہ اس کی رگوں میں میرا خون ہے۔۔۔۔

 اسی لئے بغیر میں کہیں نہیں جاؤں گی"

عفاف نے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا۔۔۔

جیسے آج یارم کو اپنے ساتھ لے کر ہی جائے گی۔۔۔

" ہاہاہاہا اور تمہیں یہ خوش فہمی کیوں کر لاحق ہو گئی کہ یارم تمہارے ساتھ چل پڑے گا۔۔۔۔۔۔

 میں نے بچپن سے اس کے ذہن میں تمہارے خلاف ایسا زہر بھرا ہے کہ وہ تمہاری شکل تک دیکھنا گوارا نہیں کرے گا۔۔۔

 بھول گئی بچپن میں کیسے اس نے تمہیں منہ کے بل گر گیا تھا۔۔

 تمہاری ممتا کسی کام نہیں آئی تھی۔۔

 اب بھی وہ یہی کرے گا کیونکہ میں نے اسے یہی سکھایا ہے۔۔۔

 وہ سینہ تان کر اپنی برائی بیان کر رہی تھیں۔۔۔

عفاف انہیں تاسف سے دیکھتی رہ گئی۔۔۔

"میں آپ کی نظروں کے سامنے اسے آج اپنے ساتھ لے کر جاؤں گی اور میں بھی دیکھتی ہوں مجھے کون روکتا ہے"

عفاف نے انہیں کھلا چیلنج دیا تھا۔۔۔

" لڑکی تم اس کھیل میں نئی کھلاڑی ہوں جبکہ میں منجھی ہوئی کھلاڑی ہوں۔۔۔

 نہ ہی مجھے آج تک کوئی ہرا سکا تھا اور نہ ہی کبھی کوئی ہی رہ سکے گا۔۔۔

اور مجھے ہرائے گا بھی کون۔۔۔

 انہوں نے تکبر سے کہا۔۔۔

" میں اور کون آخر میں بھی تو آپ کی بہو ہوں چلاکی میں دو ہاتھ آپ سے آگے۔۔۔

آپ کے لئے انچاہی ہوں تو کیا ہوا مگر اپنی شوہر کی تو من چاہی بیوی ہوں نا میں"

 اس نے شگفتہ بیگم کو آنکھ مار کر کہا تو ان کا چہرہ غصے کی زیادتی سے سرخ پڑنے لگا۔۔۔

" اگر آپ کا ہار سے کبھی پالہ نہیں پڑا تو تیاری کر لیجئے ساسو ماں کیونکہ اس بار ہار آپ کا مقدر بننے والی ہے۔۔۔۔

یارم۔۔۔ یارم۔۔۔"

عفاف نے انہیں جلاتے ہوئے کہا اور یارم کو آواز دینے لگی تاکہ اسے یہاں سے لے کر  جائے اور انہیں پہلی ہار سے لطف اندوز کروا سکے جیسے ان کے بیٹے کو کروایا تھا۔۔۔

                  *******

سردار فوراً کنٹرول روم میں گیا تھا اور جاتے ہی وہاں بیٹھے شخص کو اس دن کی ویڈیوز نکالنے کا کہا تھا۔۔۔

 جس نے فوراً اپنے بوس کے کہنے پر اپنے ہاتھ تیزی سے چلانا شروع کیے تھے۔۔۔

 اور کچھ ہی دیر میں سکرین پر اس کالی رات کے منظر چلنے لگے تھے۔۔۔

 یہ حال کا منظر تھا جہاں شگفتہ بیگم اپنی ملازمہ کے ساتھ مل کر اپنے گھناونے کھیل کی منصوبہ بندی کر رہی تھیں۔۔۔۔۔۔

 یارم دروازے کے پیچھے چھپ کر یہ ساری حقیقت دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

 منظر چلتا گیا اور سردار پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹتے گئے تھے۔۔۔

 اس نے جو اپنی ماں کا ایک کامل آئڈیئل کا بت بنا رکھا تھا وہ پل میں مسمار ہوا تھا۔۔۔

 اتنا بڑا دھوکہ وہ بھی اپنی ماں سے ملنے پر سردار ٹوٹ کر رہ گیا تھا ۔۔۔

سکرین پر سب واضح تھا کہ کیسے شگفتہ بیگم نے سانس نہ آنے کا بہانہ کیا اور پھر ملازمہ عفاف کو بلا لائی تھی۔۔

عفاف نے ان کی مدد کرنی چاہئے پر سردار اور باقی سب غلط لمحے اندر داخل ہوئے تھے۔۔۔

 اور سردار نے اپنی ماں کے ناٹک کو سچ سمجھ لیا تھا۔۔۔

 اور عفاف کو اپنی بے گناہی کا ایک بھی ثبوت دیئے بغیر اس گھر سے بے دخل کر دیا تھا۔۔۔۔

اسے یاد آیا تھا کہ عفاف اکثر اس سے کہا کرتی تھی۔۔۔

("سردار آپ کبھی مجھے چھوڑیں گے تو نہیں نہ"

عفاف نے آنکھوں میں محبت کا جہان لیے سردار کے سینے پر ٹہوڑی ٹکاتے کہا۔۔۔

"بھلا کوئی اپنی زندگی کو بھول سکتا ہے"

سردار نے عفاف کو جھٹکے سے پلٹتے اپنے نیچے کیا اور خود اسکے اوپر آیا۔۔۔

سردار نے اسکی آنکھوں پر سلگتے لب رکھے تھے جس پر وہ شرما گئی تھی۔ لبوں کے قریب پہنچتے دیکھ عفاف کی جان حلق میں اٹک گئی تھی۔۔۔

سردار نے اسکے سلگتے لبوں کو اپنی دسترس میں لیتے دنیا جہان سے غافل کر دیا تھا۔۔۔)

 یہ اگلا منظر تھا جب عفاف اس کے گھر کی دہلیز پر بیٹھے اس سے اندر آنے کی منت کر رہی تھی۔۔۔

 وہ کس کس پل کو کوستا۔۔۔

اس پل سردار نے چاہا تھا کہ اسے موت نصیب ہو۔

مگر وہ اتنا کتنا بدنصیب تھا کہ موت نے بھی اس سے منہ موڑ لیا تھا۔۔۔

"میں کیسے اپنی ہی بیوی اپنی محبت پر شک کر سکتا ہوں"

 اس کا دل کیا شرم سے ڈوب مرے۔۔۔

سکرین پر چلتے منظر میں سڑک پر عفاف کا ایکسیڈنٹ ہوتے دیکھ سردار کی ہستی ہل کر رہ گئی تھی۔۔۔

 اب وہ جان گیا تھا کہ اتنے سال عفاف کہاں تھی اور وہ اس کو ہی دوش دیتا جا رہا تھا جسکی کبھی کوئی غلطی ہی نہیں تھی۔۔۔۔

 آخر وہ کہاں جاتا اور کس منہ سے عفاف سے معافی مانگتا۔۔۔

کیا عفاف اسے معاف کر دیتی یا وہ اسے اپنی زندگی میں جگہ دیتی ؟؟

ہمیشہ سہتی تو وہ آئی تھی اور وہ ہر بار کی طرح سوداگر ٹھہرا تھا۔۔۔

وہ گھٹنوں کے بل گر چکا تھا اور ندامت کے آنسو بہانے لگا تھا یہی حال باہر کھڑے یارم کا بھی تھا.... 

اس کی آنکھیں دکھ اور آنسووں سے لبریز تھیں۔۔۔

 جب وہ عفاف کی آواز پر باہر کی جانب بھاگا تھا۔۔۔

" ماما "

یارم مما مما کی گردان کرتا ہوا عفاف سے آ لپٹا تھا جسے شگفتہ بیگم حیرت سے منہ کھولے دیکھنے لگی تھیں۔۔۔

 آخر ایسا کیسے ہو سکتا تھا ان کی چال الٹی کیسے پڑ گئی تھی ان کی سمجھ سے باہر تھا۔۔۔

" میرا بچہ میرا پیارا بیٹا عفاف اس کا منہ چومنے لگی تھی۔۔

 کتنی دیر وہ اس کے گلے سے لگی اپنی ممتا کی پیاس بجھا رہی تھی۔۔۔

" مما آئی ایم سوری میں نے آپ کے ساتھ بہت غلط کیا "

اسنے روتے ہوئے کہا۔۔

"کوئی بات نہیں میرا بچہ ,

میرے بچے کو احساس ہو گیا میرے لئے یہی کافی ہے"

عفاف نے یارم کا منہ چومتے ہوئے کہا۔۔۔

جہان بتا رہا تھا تم نے میرے لیے تحفہ تیار کیا ہے اور میں وہ دیکھ بھی نہ سکی"

عفاف نے پیار سے اس کے بال پیچھے کرتے ہوئے کہا۔۔

"میں ابھی لے کر آیا"

 وہ فوراً کمرے میں بھاگا تھا اور اپنے ہاتھ سے بنایا ہوا فریم لے کر آیا تھا۔۔۔

 جس میں اس نے اپنی عفاف کی اور سردار کی پیاری سی تصویر بنا کر لگائی تھی۔۔

 جسے دیکھ کر عفاف کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں۔ں۔۔

 کیا اتنی محبت کرتا تھا اس کا بیٹا اس سے اور وہ جان ہی نہیں پائی تھی۔۔

عفاف نے ایک بار اسے پھر سے اپنے ساتھ لپٹا لیا تھا سردار بھی فورا اس کی آواز سنتا باہر نکلا تھا۔۔

"چلو میں اپنے بیٹے کو لےجانے آئی تھی اب میں جا رہی ہوں میرا یہاں کوئی کام باقی نہیں بچا "

جیسے ہی وہاں سے لے کر نکلنے لگی شگفتہ بیگم بیچ میں آئی تھیں۔۔

" تم ایسے کیسے میرے پوتے کو لے جا سکتی ہو چھوڑو اسے سردار تم دیکھ نہیں رہے کہ یہ ہے تمہارے بیٹے کو لے کر جا رہی ہے نکالو اسے گھر سے باہر"

 شگفتہ بیگم نے سردار کو گرکھا۔۔۔۔

" عفاف "

 اس کے بلانے پر عفاف کے قدم زنجیر ہوئے تھے۔۔

 وہ اس کی طرف پلٹی اور سرخ آنکھوں سے اسے دیکھا۔۔۔

" میری بات سنو"

 سردار نے کہنا چاہا...

 "اووو پلیز ول یو شٹ آپ میں تمہاری کوئی بکواس نہیں سننا چاہتی۔۔۔"

  اس کی بات اور لہجہ پر وہ ماں اور بیٹا دونوں ہی ششدر رہ گئے تھے۔۔۔۔

"چھ سال, چھ سال تم نے میرے بچے کو مجھ سے دور رکھا ہے اسکی سزا جانتے ہو تم۔۔۔

کتنا تڑپی ہوں میں اپنے ہی بیٹے کے لیے اسکا اندازہ ہے تمہیں۔۔۔

ہنہہ تمہیں کیسے اندازہ ہو گا کسی اپنے سے دور ہونے کا غم کیا ہوتا ہے تم نے تو کسی سے پیار ہی نہیں کیا"

عفاف نے رنج و غم سے کہتے سر جھٹکا اور وہ اسے یہ بھی نہ کہ سکا کہ اسنے کیسے عفاف کی جدائی برداشت کی تھی۔۔۔

سو بار مرا تھا وہ جب اسے پتہ چلا تھا کہ عفاف اس دنیا سے جا چکی ہے۔ خود کو کمرے میں بند کر چکا تھا اب بھی اگر عالیان اور یارم نہ ہوتے تو وہ کبھی آج جیسا سردار نہ بن پاتا۔۔۔

شگفتہ بیگم خوف سے اسے دیکھ رہی تھیں جو انکی بساط الٹ دینے کے در پر تھی۔۔۔

"کیا ہوا اپنی ریاست میں کسی اور دعوے دار کو دیکھ کر ڈر لگ رہا ہے کہ آپ کی ریاست نہ چھن جائے"

عفاف نے انہیں تمسخرانہ نظروں سے دیکھتے کہا۔۔۔۔

"یقین مانیں اب آپ کا تخت الٹنے میں زیادہ وقت نہیں بچا"

اسنے آخری نگاہ ان پر ڈالتے باہر کی جانب قدم بڑھائے۔۔۔

جوں ہی وہ پورچ میں آئی سردار بھاگتا ہوا آیا تھا اور عفاف کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔۔۔

عفاف نے اسے تندہی نگاہوں سے دیکھا۔۔۔

اور یارم کی طرف پلٹی۔۔۔

"بیٹا آپ باہر جا کر گاڑی میں بیٹھو اور جہان کو کہنا میں پانچ منٹ میں آئی۔۔۔"

یارم اسکی بات سنتا باہر کو بھاگا اور سردار جہان کے زکر پر کڑھ کر رہ گیا تھا۔۔۔

"میں کچھ کہنا چاہتا ہوں پلیز میری بات سن لو کچھ دیر"

سردار نے بےبسی سے کہا۔۔۔۔

"سردار اور پلیز خیریت تو ہے تم جیسا انا پرست مرد درخواست کر رہا ہے"

عفاف نے اسے طنزیہ نگاہوں سے اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔

"ایک منٹ زرا میری آنکھوں میں دیکھنا ادھر ادھر میری آنکھوں میں دیکھو"

عفاف ایک دم چوکنی ہوئی اور اسکے سامنے چٹکی بجاتے اسے اپنی آنکھوں میں دیکھنے کے لیے کہا۔۔۔

آخر کار سردار نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں تو وہ دھک سے رہ گئی۔ 

کچھ تھا ان آنکھوں میں جسے بہت پہلے دیکھنے کی چاہ کی تھی اسنے۔۔

 اور اب اس وقت وہ چیز صاف دیکھی جا سکتی تھی سردار کی آنکھوں میں۔۔۔۔۔

"ہنہ ہنہ ہنہ ہنہ"

وہ طنزیہ ہنسی ہنس کر رہ گئی۔۔۔۔

"میری بےگناہی جان چکے ہو نہ"

عفاف نے دکھی لہجے میں اسکی آنکھوں میں دیکھتے اس کی ان کہی بات کو الفاظ دیے تھے۔۔۔

وہ دنگ رہ گیا تھا اسکے اتنے صحیح اندازے پر۔۔

"آنکھیں نم, چہرے پر پشیمانی صاف ظاہر کر رہے ہیں کہ تم سچائی جان چکے ہو اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تم مجھ سے درخواست کر رہے ہو جو تم نے زندگی میں کبھی نہیں کی۔۔۔۔

مگر دکھ اور رنج پتہ ہے کس بات کا ہے۔۔۔۔

کہ تم آج بھی آنکھوں دیکھے ثبوت پر یقین کرتے ہو۔۔۔

یقیناً اب بھی تم نے ثبوت کے طور پر ویڈیو دیکھی ہو گی اور تب تمہیں مجھ پر یقین آیا ہو گا۔۔۔

ورنہ سردار شاہ بھلا کیسے مجھ جیسی عورت پر یقین کرتا جسے وہ خود مار دینے کے در پر تھا"۔۔۔۔

عفاف نے عزیت ناک لہجے میں کہا ایک کے بعد ایک آنسو اسکی آنکھوں سے بہتے چلے جا رہے تھے۔۔۔

اسکی بات پر سردار شرمندگی سے نظریں جھکا گیا کیونکہ یہی سچ تھا۔۔۔

"لیکن اب تمہارے لیے میری زندگی میں کوئی گنجائش نہیں نہ ہی میں تمہیں معاف کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں"

اسنے انگلی اٹھاتے سردار کے خیالوں پر پانی پھیرا تھا۔۔۔۔

"عفاف میری بات تو سنو میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں نہیں رہ سکتا تمہارے بن ,یقین کرو تم سے دور رہ کر خوش میں بھی نہیں رہا کبھی۔۔۔۔

کیا تم نے کبھی میری خبر لی"

سردار نے اسکا بازو دبوچتے کہا۔۔۔

"ہنہ خبر وہ بھی اس شخص کی جو میرا سوداگر ہے جب جی چاہے مجھے خرید لیتا ہے جب جی چاہے اپنی زندگی سے نکال دیتا ہے"

عفاف نے اسے دھکا دیتے کہا۔۔۔۔

"نہیں عفاف نہیں میں تمہیں جانے نہیں دوں گا میں دوبارہ تمہيں کھو نہیں سکتا"

سردار نے عفاف کو پکڑتے کہا جو واپس جانے لگی تھی۔۔۔

"اور مجھے روکے گا کون"

عفاف نے خود کو چھڑانے کی کوشش کرتے کہا۔۔۔

"تمہارا شوہر"

سردار نے اسے باور کرواتے کہا اور زبردستی اسکے سرخ لبوں پر جھکا جو اتنی دیر سے اسکا ضبط آزما رہے تھے۔۔۔

سردار کے لبوں کی گرفت سے اسکا سانس لینا مشکل ہو گیا تھا۔۔وہ اس پر مکے برسانے لگی مگر سردار کو اس پر رحم نہ آیا اور وہ اپنی شدت اس پر ظاہر کرنے لگا۔۔۔

جب اسے لگا کہ عفاف اور برداشت نہیں کر پائے گی تو وہ پیچھے ہٹا۔۔۔

عفاف نے اسے دھکا دیا اور کھانستی ہوئی زبردستی اپنا منہ صاف کرنے لگی جیسے اسکا لمس مٹا دینا چاہتی ہو۔۔۔

"میرا لمس تم چاہ کر بھی نہیں مٹا سکتی اپنے وجود پر سے کیا تمہیں ہماری ویڈنگ نائیٹ یاد نہیں"

سردار نے آنکھ ونک کر کے کہا تو وہ اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھنے لگی۔۔

"بس تمہیں ایک بار اپنی قربت تازہ کروانے کی دیر ہے کیونکہ بدلا تو میں اب بھی نہیں اور تمہیں کسی اور کا میں ہونے نہیں دوں گا۔۔۔

چاہے اسکے لیے مجھے تم سے معافی ہی کیوں نہ مانگنی پڑے, چاہے تمہارے در پر بیٹھے رہنا پڑے مگر تمہیں میں کسی صورت نہیں چھوڑوں گا۔۔۔

کہو تو ایک اور ڈیمو دے کر دکھاؤں"

سردار نے اسکی طرف قدم بڑھاتے کہا تو وہ اسکی ہائی لیول کی بغیرتی پر اسکو گالیاں دیتی الٹے قدموں باہر کو بھاگی۔۔۔۔

"لچا لوفر لفنگا"

"لوفر ہوں وہ بھی بس تمہارے لیے"

وہ بھی پیچھے سے ہانکا تھا۔۔۔

وہ غصے سے آتی گاڑی کا دروازہ زور سے بند کرتی بیٹھی تو یارم اور جہان دونوں اسے حیرت سے دیکھنے لگے جو تیکھی مرچ بنی ہوئی تھی ابھی۔۔۔

"ماما یہ آپ کے لپس پر کیا ہوا ہے"

یارم نے معصومیت سے پوچھا تو جہان کو شدید کھانسی کا دورہ شروع ہوا تھا۔۔۔

جب کہ عفاف کا دل کیا شرم سے ڈوب مرے۔۔۔۔

جہان کے سامنے وہ بری طرح اس سوال پر شرمندہ ہوئی تھی مگر یارم کو کچھ تو جواب دینا تھا نہ۔۔۔

"کچھ نہیں بیٹا ایک زہریلا کیڑہ لڑ کیا تھا"

عفاف نے دانت پیستے ہوئے کہا جیسے اسکے دانتوں کے نیچے سردار ہو۔۔۔

اور اسکے زکر پر پورچ میں کھڑے سردار کو چھینکوں کا دورہ شروع ہوا تھا۔۔۔

"یہ مجھے کون یاد کر رہا ہے اس وقت"

اسنے اپنی چھینکیں روکتے خود سے سوال کیا۔۔۔۔😂

سردار جب اندر گیا تو 

اس کی والدہ تیزی سے اس تک پہنچ کر بولیں۔۔۔

" سردار تم نے یارم کو کیوں لے جانے دیا آخر, کیا تمہیں ابھی بھی وہ لڑکی پسند ہے.

 جس نے مجھے مارنے کی کوشش کی"

 وہ غصے سے اس پر چلائیں

" بس کریں موم بس کریں نہیں ہے وہ کوئی قاتل بند کریں اپنا یہ ڈرامہ۔۔۔

 میں جان چکا ہوں کہ عفاف بےقصور تھی اور اسے اس سب میں آپ نے پھنسایا ۔۔

اور میں اندھوں کی طرح اپنی ماں کو بغیر سچ جانے سچا مان بیٹھا۔۔۔

مجھے کیا پتہ تھا کہ سب سے بڑا دھوکا تو مجھے آپ دیں گی"

سردار ان سے بھی زور سے دھاڑا تھا۔جس پر وہ دہل کر رہ گئی تھیں۔۔۔

" بیٹا یہ تم کیا کہہ رہے ہو یہ سچ نہیں ضرور  اسی نے تمہیں پٹیاں پڑھائی ہیں "

وہ اس کے آگے منمناتی ہوئی بولیں۔۔۔

 بس کر دیں موم بس کر دیں ابھی بھی آپ اپنے جھوٹ پر پردہ ڈال رہی ہیں۔۔۔

 اور کتنا گریں گے آپ۔۔

 آپ نے میری زندگی چھین لی مام مجھ سے اور تکلیف کی بات پتا ہے کیا ہے۔۔۔

 کہ میں آپ کو کچھ کہہ بھی نہیں سکتا۔۔۔

 آپ نے مجھے اس کی نظروں میں اٹھنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا۔۔

اس لیے میں آپ کو چھوڑ کر جارہا ہوں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔۔۔۔

 اور خدارا میری طرح پلٹ کر بھی مت دیکھیے گا کیونکہ میں واپس نہیں آؤں گا"

 سردار یہ کہتے ہوئے غصے سے وہاں سے جا چکا تھا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کبھی نہ واپس آنے کے لیے۔۔۔

 وہ روتی رہی گڑگڑاتی رہیں اسے آوازیں دیتی رہیں عفاف کو جھوٹا کہتیں اور اپنی بیگناہی ثابت کرتی رہیں۔۔۔

 مگر وہ واپس نہ آیا۔۔۔

                          *****

وہ جب گھر پہنچے تو یارم نے گھر کو داد دی تھی واقعی گھر کافی ویلمینٹینڈ تھا۔۔۔

"واؤ بہت پیارا گھر ہے"

اسنے ستائش سے کہا۔۔۔

"تمہیں پسند آیا"

عفاف نے خوشی سے پوچھا تو یارم نے مسکراتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔۔۔

"یہاں کون کون رہتا ہے"

اسنے عفاف کو دیکھتے پوچھا ۔۔۔

"پہلے تو میں اکیلی رہتی تھی اب جہان بھی میرے ساتھ رہتا ہے اور اب تم بھی تو آ گئے ہو"

عفاف نے پیار سے اسکی ناک چھو کر کہا۔۔۔

"یہ یہاں کیوں رہتے ہیں یہ ہیں کون"

یارم نے جہان کو مشکوک نظروں سے دیکھا تو وہ اسکی جیلسی پر قہقہ ضبط کر کے رہ گیا۔۔۔

"یہ میرا بھانجا ہے تمہاری مرحوم خالہ کا بیٹا اور تمہارا کزن"

اتنے لمبے تعارف پر یارم نے جہان کو اوپر سے نیچے تک آنکھیں پھاڑتے ہوئے دیکھا۔۔۔

اسے یقین نہ آیا تھا کہ اس کی ماں سے بھی بڑا دیکھنے والا شخص  اس کا کزن کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔

اسکا کھلا منہ جہان نے اپنے ہاتھوں سے بند کیا تھا۔۔۔

"چلو چھوٹے تمہیں تمہارا کمرہ دکھا دوں "

اسنے یارم کو چڑاتے اسکے گلے میں زبردستی بازو ڈالتے گھسیٹا۔۔۔

 جو ابھی کزن والی حقیقت کو بڑی مشکل سے ضبط کر رہا تھا۔۔۔

 پیچھے وہ انکی بےتکلفی پر ہنس دی تھی۔۔۔

 کچھ دیر بعد وہ تینوں عفاف کے کمرے میں موجود تھے اور گفٹس کھول رہے تھے۔۔۔

 ان میں سے کچھ گفٹس نہایت قیمتی تھے تو کچھ بیت خاص۔۔۔۔

"عفی یہ دیکھو کسی نے ڈائمنڈ کا نکلس بھیجا ہے اور اتنا فراخ دل ہے کہ اس نے گفٹ پر اپنا نام بھی نہیں لکھا۔۔۔"

 جہان نے عفاف کی طرف نکلیس بڑھاتے ہوئے کہا۔۔

جس نے اسے یک ٹک دیکھتے ہوئے تھام لیا تھا ۔۔۔

اور اپنے ہاتھ پر رکھے اس نکلیس کو دیکھنے لگی اور کسی پرانی یاد میں کھو گئی۔۔۔

"بہت خوبصورت یہ ہار تمہارے گلے میں لگ کر اور بھی قیمتی ہو گیا ہے"

 سردار نے ڈائمنڈ کا نیکلس عفاف کے گلے کی زینت بناتے ہوئے۔۔۔

 اس کا عکس شیشے میں سے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔

جس پر وہ ہنس دی تھی۔۔۔

"مگر ایک چیز کی کمی ہے"

سردار نے ڈرامائی انداز میں کہا۔۔۔

" وہ کیا"

عفاف نے بے چینی سے پوچھا۔۔۔

"وہ یہ "

سردار کہتے ہی جھکا تھا اور شدت سے اسکی گردن پر جگہ جگہ اپنے سلگتے لبوں کا پر زور لمس چھوڑنے لگا۔۔۔

کہ عفاف کی جان پر بن گئی اسنے بمشکل آئینے کا سہارا لیتے خود کو گرنے سے بچایا تھا۔۔

اسکا چہرہ سرخ پڑ چکا تھا۔۔۔

 سردار نے اسے گھما کر اپنے سامنے کیا۔۔

" بس اسی چیز کی کمی تھی یہی دیکھنا چاہتا تھا میں تمہارے چہرے پر ان قوس قزح کے رنگوں کو جو میری قربت سے آتے ہیں"۔۔۔۔

 جہان کے گلا کھنکھارنے پر وہ ہوش میں آئی تھی۔۔

نیکلیس کے ڈائمنڈ میں باریکی سے کندھے اپنے اور سردار کے نام کو پڑھنے لگی۔۔۔۔

 جو اس نیکلس کو چارچاند لگا رہا تھا بے شک یہ بہت محنت سے بنایا گیا تھا۔۔۔

 مگر کیا اب اس کی اہمیت تھی عفاف کے نزدیک۔۔

 اس نے وہ نیکلس اپنی مٹھی میں دبایا اور کچھ دیر سوچتی رہی۔۔۔

پھر کچھ سوچتے ہوئے نکلس پھینکنے کی بجائے اپنے سائڈ ڈرار میں رکھ دیا۔۔۔

                    ****

صبح آفس میں وہ ایک میٹنگ میں بزی تھی جب سردار دروازہ کھولتے ہوئے دھڑلے سے اندر آیا۔۔۔۔

" گڈ ایوننگ ایوری ون اینڈ مائے وائفی۔۔۔"

 اس نے اندر داخل ہوتے ہوئے سب کو خاص کر عفاف کو اپنے نشانے میں لیا تھا۔۔۔

 جس پر وہ جی جان سے جلی تھی۔۔۔

" مسٹر سردار آپ یہاں کیا کر رہے ہیں"

عفاف نے ایک ایک لفظ چباتے ہوئے کہا۔۔۔

"آفکورس ڈارلنگ تمہارے ساتھ ہنی مون کی پلیننگ کرنے آیا ہوں اور کیا"

 اس نے یہ کہتے ہوئے معصومیت کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے تھے...

 اور عفاف تو ایسی شرمندگی میں غوطہ زن ہوئی تھی کہ اس کو لگا وہ کبھی شرمندگی سے باہر نکل نہیں پائے گی۔۔۔

وہ اب بھی اتنا ہی بے باک تھا۔۔

جس پر وہ اسے کچھ بول بھی نہ پاتی۔۔۔

                ********

"ایوری ون جو بیک ٹو یور جابز ہری اپ آئی وانا سپینڈ سم ٹائم ود مائے وائف"

سردار نے جلدی جلدی تالی بجاتے سب کو باہر جانے کا اشارہ کیا جو فوراً اسکی بات سنتے باہر کی طرف بڑھے تھے۔۔۔

اسنے عفاف کی ریوالونگ چیر گھما کر اپنی سمت کی۔۔۔

"بہت دور دور رہنے لگی ہو مجھ سے کیا میں اتنا برا لگنے لگا ہوں تمہیں"

سردار نے اسکے ارد گرد اپنی باہوں کا حالہ بناتے ہوئے کہا۔

"تمہاری سوچ بھی وہاں تک نہیں پہنچتی جہاں تک تم سے نفرت کی میری آنچ ہے۔۔۔

اور ہٹو پیچھے چاہتے کیا ہو تم"

عفاف نے سفاکیت سے کہا تھا سردار کا دل ایک دم دکھ سے بھر گیا تھا۔۔۔

آخر کیسے اسنے سب کی سنی اور آنکھوں دیکھی باتوں پر یقین کر لیا۔۔۔

آخر کیوں وہ اپنی محبت پر یقین نہ کر پایا۔۔۔

"میں نے بھی تو اسکے ساتھ یہی کیا ہے اب یہ میرے ساتھ ایسا کر رہی ہے اس میں برا کیا ہے"

سردار نے دل میں دکھ سے سوچا۔

"سردار آخر چاہتے کیا ہو تم"

عفاف نے سردار کو پیچھے دھکا دینے کی کوشش کرتے کہا۔۔۔

"معافی"

یک لفظی جواب آیا تھا۔۔۔

"ناممکن مرتے دم تک نہیں"

عفاف اسکی آنکھوں میں آنکھیں گاڑتے بولی تو اسنے کچھ دیر اسکی آنکھوں میں دیکھنے کے بعد باری باری ان پر لب رکھے تھے جس سے وہ بوکھلا گئی تھی۔۔۔۔

"ہاؤ ڈیئر یو"

عفاف نے اسے دھکا دے کر پیچھے دھکیلتے کہا جو پھیل کر ٹیبل پر لیٹ ہی گیا تھا۔۔۔

"ڈیئر کی بات تو مت ہی کرو بیگم ڈیئر تو ہماری بہت اچھی اچھی جگہ پر پہنچنے کی بھی ہے"

سردار نے اسکو اوپر سے سے نیچے تک ایسی گہری نگاہوں سے دیکھتے کہا تو وہ شرم سے سرخ پڑ گئی کتنا کمینا شخص تھا یہ ۔۔۔

وہ کیا کہ رہی تھی اور وہ بات کو کہاں سے کہاں لے جاتا تھا۔۔

"تم , تم نکلو ابھی کے ابھی"

عفاف آگے بڑھتی اسے ٹیبل سے کھینچ کر اٹھانے لگی اسکو سردار پر اس وقت شدید غصہ تھا۔۔۔

بجائے اس کے کہ وہ اٹھتا اسنے عفاف کو ہی اپنے اوپر گرا لیا تھا اور اپنے لمبی اور مضبوط انگلیوں سے اسکو اپنے سینے پر گراتے اسکی پتلی کمر پر ہاتھوں کی گرفت جمائی تھی۔۔۔

وہ سیدھا اسکے سینے سے آ ٹکرائی تھی۔ دھڑکن بےساختہ بڑھی تھی۔ دل سینہ توڑ کر باہر آنے کو ہوا تھا۔۔۔

"چپ کیوں ہو گئی کچھ بولو نہ میں تمہارے ان رس بھرے لبوں کو گردش کرتے دیکھنا چاہتا ہوں جو ہلتے ہیں تو میرے دل کے تار ہلا دیتے ہیں"

سردار نے اسکے لبوں کے قریب سلگتی سے سرگوشی کرتے کہا کہ وہ تھوک نگل کر رہ گئی۔۔۔

وہ نازک ہرنی جیسے شیر کے پنجرے میں آ پھنسی تھی۔۔۔

اتنی قربت نے ایک دم اسکے حواس صلب کر لیے تھے۔ جسم کپکپانے لگا تھا۔ چہرہ شدت سے سرخ پڑ رہا تھا۔۔۔

دماغ اس سے دور جانے کی تاویلوں دے رہا تھا جبکہ دل کمبخت ہمک ہمک کر اس سوداگر کی پناہوں میں بےکرار ہونے کا چاہ رہا تھا۔۔۔

جسکی قربت کئی سال بعد میسر آئی تھی۔ جسنے اسکے پورے وجود کو ایک شدت بھری نرم گرم آغوش میں لے لیا تھا۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ اسکے لبوں پر جھکتا اور وہ اسکی قربت میں مدحوش ہوتی۔ ایک دم اسکا الزام اس سوداگر کی بےیقینی یاد آئی تھی۔۔۔

بھلا وہ کیسے بھول سکتی تھی کہ اس شخص کی وجہ سے اسکے کئی سال ضائع ہو گئے وہ اپنے بچے سے دور ہو گئی۔۔۔

یہ سوچتے ہی ٹپ ٹپ کرتے آنسو اسکی آنکھوں سے ٹپکتے سردار کے چہرے پر گرنے لگے تھے۔ وہ جو آج اسکا اپنا بنا لینے کے در پر تھا۔۔۔

چونک کر حواسوں میں لوٹا عفاف کے آنسو دیکھ اسکی جان پر بن آئی تھی۔۔۔

"کیا ہوا عفاف سب خیریت تو ہے نہ تم ایسے کیوں رو رہی ہو مت رو مجھے تکلیف ہوتی ہے"

سردار نے اسے سینے سے لگاتے کہا جبکہ عفاف نے اسے جھٹک دیا تھا اور اس سے فوراً دور ہوئی۔۔۔

"چلے جاؤ یہاں سے مجھ سے دور ہو جاؤ میں نہیں ملنا چاہتی تم سے۔ جب جب تم میرے سامنے آتے ہو میرے سب زخم ہرے ہو جاتے ہیں۔۔۔

مجھے رہ رہ کر تمہاری بے وفائی یاد آتی ہے۔۔۔

"میں معافی مانگ تو رہا ہوں تم سے میں جانتا ہوں میں غلط تھا مگر آئندہ ایسا کبھی نہیں ہو گا آئی سویئر"

وہ بےچینی سے بولا اب عفاف سے دوری ناممکن تھی اسکے لیے مگر وہ اسکے پاس آنے کو تیار ہی نہیں تھی۔۔۔

"معافی ایک بہت چھوٹا لفظ ہے سردار کیا اگر میں تمہارا قتل کر کے معافی مانگ لوں۔۔۔۔۔۔

  تو کیا مجھے معافی مل جائے گی نہیں نہ۔۔۔۔۔

 اس ہی طرح تم نے بھی میری محبت کا قتل کیا ہے تو پھر تمہیں کیسے معاف کر دوں بولو۔۔۔

عفاف نے اسے جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔۔۔

اس کا ایک ایک کہا گیا لفظ سچ تھا اور وہ بےبس تھا۔۔۔

"بس ایک بار ایک موقع دے دو"

وہ شاہد زندگی میں پہلی بار گڑگڑایا تھا اپنی عزتِ نفس کر روندھ کر بہت ناممکن کام تھا مگر وہ کر گیا تھا اپنی محبت کی .....

عفاف نے سردار کو حیرت سے دیکھا تھا۔۔۔

عفاف کچھ نہ بولی تو سردار کو کچھ حوصلہ ہوا اسنے منع بھی تو نہیں کیا تھا۔۔۔

"سنا ہے سٹون لیڈی چیلنجیز لینے کی شوکین ہے تو ایک چینج دینا چاہتا ہوں تمہیں "

عفاف نے اسے حیرت سے دیکھا وہ یہ کیا بات بیچ میں لا رہا تھا۔۔

"ہاں تو"

عفاف نے ایک آئیبرو اچکا کر کہا۔۔۔

"تو یہ کہ میں تمہیں چیلنج دیتا ہوں کار ریسنگ کی اگر میں جیتا تو تمہیں مجھے ایک چیز دینی ہو گی بولو منظور"

سردار نے اسکے قریب آتے کہا۔۔۔

عفاف نے اسے ایسے دیکھا جیسے اسکا دماغ چل گیا ہو۔۔۔

"اور میں ایسا کیوں کروں گی"

عفاف نے اسے گھورتے پوچھا۔۔۔

"کیونکہ اس میں تمہارا فائدہ ہے"

سردار نے کہا۔۔

"کیا"

"وہ یہ کہ اگر میں ہار گیا تو چہ چاپ تمہیں تنگ کیے بغیر کسی رکاوٹ کے تمہاری جان چھوڑ دوں گا کبھی تمہارے پیچھے نہیں آؤن گا وعدہ رہا بلکہ یہ لو سائن بھی کر دیے۔۔۔"

سردار نے سائن کرتے عفاف کی طرف پیپر بڑھایا جو اسے بےیقینی سے دیکھ رہی تھی۔

"کیا سچ میں "

اسنے حیرت سے کہا۔۔۔

"اور نہیں تو کیا بولو منظور ہے سٹون لیڈی"

"منظور ہے مگر تمہیں جہتنے پر کیا چاہیے"

عفاف نے مشکوک لہجے میں کہا۔۔۔

"تمہاری کس تمہاری اجازت کے ساتھ"

اسنے آنکھ ونک کرتے کہا تو وہ سر پیٹ کر رہ گئی اسکا کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔

"منظور ہے کیونکہ تم مجھ سے ہر حال میں ہارو گے "

عفاف نے گلاسس لگاتے چیلنج اکسیپٹ کیا تھا۔۔۔

"لیٹ سی"

دو دن بعد وہ کھلے میدان میں موجود تھے۔۔۔

سردار بلیک کار جبکہ عفاف ریڈ کار میں تھی۔۔۔

دونوں نے ایک ساتھ زور زور سے گاڑی کو ریس دی تھی کہ گاڑی سے دھواں نکلنے لگا تھا۔۔۔

ایک دوسرے کو وہ گاڑی کے شیشے کھولے دیکھ رہے تھے کیونکہ دونوں کی گاڑیاں ساتھ ساتھ ہی کھڑی تھی۔۔۔

سردار نے ہاتھ نکالتے تین تک گننے کا اشارہ کیا تھا اور پھر۔۔۔

ایک دو اور تین گنتے ہی دونوں نے سپیڈ سے گاڑی دوڑائی تھی۔۔

کبھی عفاف آگے نکل جاتی تو کبھی سردار مقابلہ بلکل کڑاکےدار تھا۔۔۔

دونوں ہی کسی سے کم نہیں تھے۔۔ نہ ہی ایک دوسرے سے ہارنا چاہتے تھے۔۔۔

عفاف سردار سے کافی آگے پہنچ چکی تھی اسکی جیت یقینی تھی۔۔۔

عفاف نے فرنٹ مرر میں سردار کی کار کو تلاشنا چاہا جو پیچھے کہیں بھی نہیں تھی اسے حیرت ہوئی تھی۔۔

ابھی وہ اس ہی حیرت میں تھی کہ سردار کی گاڑی فراٹے بھرتے اسکے پاس سے گزرتی چلی گئی اور آنکھیں اور منہ کھول کر بس اسے جاتا دیکھتی رہ گئی۔۔

وہ بھی سردار تھا اپنے نام کا ایک آخر اسے ڈاج دے ہی گیا تھا۔۔۔

عفاف نے بمشکل تھوک نگلتے گاڑی کی سپیڈ بڑھائی تھی مگر تھوڑی ہی دور پہنچ کر وہ یہ جان چکی تھی کہ سردار جیت گیا ہے۔۔۔۔

کیونکہ وہ ویننگ لائن پر کھڑا تھا۔۔۔

اور اب اسکی جان لیوا شرط ماننے کے علاوہ عفاف کو کوئی اور چارہ نظر نہیں آ رہا تھا۔

عفاف کو کوئی راہ نہ دکھی تو اسنے گاڑی ریورس میں گھمائی تھی اور وہاں سے نو دو گیارہ ہو گئی تھی۔۔۔

وہ جانتی تھی اب اسکی خیر نہیں کیونکہ سردار کے ارادے اسے خطرناک لگ رہے تھے۔۔۔

مجھے وہ اسے گاڑی کو پلٹتا دیکھ غصے اور گھورنے کے ساتھ پیر پٹخ کر رہ گیا۔۔

"عفاف بی بی اب تو میں تمہیں نہ چھوڑوں گا اور ایک کس تو بہت دور کی بات ہے اب تو میں۔۔۔"

وہ سوچ کر رہ گیا اور وہاں سے نکلا۔۔۔

****

"مجھ پر آپ کا یہ حکم نہیں چلنے والا"  عفاف جنجھلائی ہوئی سی 

۔۔۔۔ زرا سی پیچھے کی جانب کھسکتے ہوئے بولی تھی

 اس ڈریکولا کا کیا بھروسہ تھا کب چمٹ جائے۔۔۔۔۔ 

دو دن سے وہ نہیں سوئی تھی اور سردار نے اس کی جان آدھی کر رکھی تھی۔۔۔۔۔ 

"یار یہ نا انصافی ہے تم نے کہاتھا کہ اگر میں جیت گیا تو مجھے کس کرو گی۔ ۔۔۔۔۔ جلدی سے اپنا پرامس پورا کرو۔۔۔۔۔ ورنہ ۔۔۔۔ میں نے کیا تو پھر۔۔۔۔ تمہیں بے شرم ہی لگوں گا اور دھیان رہے میں صرف ایک کس۔۔۔۔ پر تو بلکل اتفاکیہ نہیں کروں گا"

۔۔۔۔سردار کی معنی خیز گفتگو پر عفاف سر سے پاوں تک سرخ پڑی تھی۔۔۔۔۔۔

سردار آپ کیوں ہیں ۔۔۔اتنے بے شرم۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔عفاف اپنی گھبراہٹ چھپاتے  ہوئے بولی تھی۔۔۔۔۔

اس کی جھجھکتی آواز پر سرادر دل سے مسکراتا ہوا۔۔۔۔اسے کمر سے تھام کر اپنے قریب کر گیا تھا۔۔۔۔ دونوں کے درمیاں محض بال کی مسافت جتنا فاصلہ برقرار تھا۔۔۔۔

"جان سردار ۔۔۔۔۔ اس لیے کہ تمہیں دیکھ کر ۔۔۔۔میرے اندر سویا ۔۔۔۔شیر جاگ اٹھتا ہے ۔۔۔ تمہاری مدہوش کن خوشبو مجھے بے خود کیے رکھتی ہے میرا بس چلے۔۔۔۔۔۔تو تم سے ایک پل کی بھی دوری برداشت نہ کروں۔۔۔۔ ہمیشہ تمہیں اپنے حصار میں رکھوں۔۔۔۔۔۔"

سردار کی جنون خیزی کو محسوس کرتی عفاف ۔۔۔۔۔ کا پورا وجود آتش کدہ بن گیا تھا۔۔۔۔ اس نے کب سوچا تھا یہ بے رحم سوداگر اس کی روح تک میں سرائیت کرتا ۔۔۔۔۔ اسے خود میں قید کرلے گا ۔۔۔۔۔

سردار عفاف کو لیے اپنی من پسند جگہ آیا تھا جہاں۔۔۔۔۔۔ صرف وہ تھی اور اور اس کا سوداگر۔۔۔۔۔۔۔ 

سردار کی محبت و جنون ۔۔۔۔ نے عفاف کو ساری دنیا بھلا دی تھی ۔۔۔۔

وہ چاہنے کے باوجود اس سے دور نہ جا سکی تھی ۔۔۔۔۔دل کی دھڑکنیں ۔۔۔۔ سردار کی محبت پر ایمان لائی تھیں۔۔۔۔۔ تو دونوں کے دل ایک ہی تال پر دھڑکنے لگے تھے مدہوشی کا خمار بڑھتا دونوں کو دنیا کی ہر فکر سے دور لے گیا تھا۔۔۔۔۔ 

چلو ڈارلنگ ۔۔۔۔ نو ۔۔۔ مور ۔۔۔۔ اکسکیوزز جلدی سے مجھے کس کرو۔۔۔۔۔

 ۔۔۔۔ سردار نے اس کی گردن پہ شرارت سے اپنی انگلیاں پھیرتے مزید عفاف کو خود میں سمٹنے پر مجبور کیا تھا۔۔۔۔۔۔عفاف نے پیچھے ہونا چاہا ۔۔۔ پر سردار کا دوسرا بازو اس کی کمر کے گرد ہائل ۔۔۔۔ تھا ۔۔۔۔۔

عفاف خود کو کوسنے لگی کچھ دیر پہلے اپنی کی گئ باتوں پر ۔۔۔۔ جب وہ سردار کو ڈرائیونگ میں ہرانے کے چکر میں شرط لگا بیٹھی تھی ۔۔۔۔۔

سردار جو چیمپین تھا ۔۔۔۔ اس نے بڑے شاطر انداز میں اسے الجھا کر اپنی ڈیمانڈ عفاف کے سامنے رکھی تھی 

کہ اگر تم جیت گئی تو ۔۔۔ جو تم کہو گی وہ ہوگا۔۔۔۔ اور اگر میں جیتا تو تمہیں مجھے اپنے ہونٹوں سے ۔۔۔۔۔ میرے لبوں تک کا فاصلہ بنا کسی تردد کے طےکرو گی 

عفاف پہلے تو اسے آنکھیں  پھاڑے دیکھنے لگی۔۔۔۔۔ پر اسے خود پر ہورا کانفیڈینس تھا۔۔۔۔ تو فورا سے ہامی بھر لی ۔۔۔۔ 

اور ہمیشہ کی طرح ہی عفاف سردار سے ہار چکی تھی۔۔۔۔۔۔ پر وہ کسی بھی طرح ماننے کو تیار نہ تھی ۔۔۔۔۔

سردار ۔۔۔۔ کافی دیر سے اس سے اپنی ڈیمانڈ پوری کرنے کا بول رہا تھا۔۔۔۔ پر عفاف کسی نا کسی بہانے سے ٹال دیتی ۔۔۔۔۔

پر برا ہو قسمت کا جو وہ پھر سے شیر کے شکنجے میں پھنس گئی تھی ۔۔۔۔ 

عفاف نے گہرا سانس بھرتے ۔۔۔۔۔ اپنی آنکھیں موندی اور دونوں بازو ۔۔۔۔ اپنے بے حد قریب بیٹھے سردار کی گردن کے گرد ہائل کیے۔۔۔۔ اور بہت دھیرے سےاس کے لبوں پر جھکی اس کی ساری شکایتیں اپنے لبوں پر چن گئی ۔۔۔۔۔

سردار ۔۔۔۔ 

اپنے ہونٹوں پر نرم گرم سا لمس محسوس کرتا خود بھی  مدہوش ہوا۔۔۔. 

 اور دونوں ہاتھوں سے عفاف کی کمر جکڑتے ایک انچ کا فاصلہ بھی مٹاگیا۔۔۔۔.  

دونوں کی دھڑکنیں ایک دوسرے میں گم تھیں ۔۔۔

 سانسوں کا زیروبم پورے آفس روم میں گونج رہا تھا۔۔۔۔۔۔ 

کون کم بخت ایسی قید سے رہائی چاہتا عفاف اور سردار کی یہ داستان ہر موڑ پر نئے پہلو سے روشناس کرانے والی تھی جس سے شاید وہ دونوں نا بلد تھے۔۔۔۔

اس اے پہلے کے سردار حد پار کرتا جہان ناکنگ کرنے لگا تھا۔۔۔

"عفی دروازہ کھولو"

عفاف جھٹکے سے پیچھے ہوئی جبکہ سردار کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ جہان کی گچی مروڑ دیتا۔۔۔

جیسے ہی وہ اندر داخل ہوا عفاف فائلز ادھر ادھر کرنے لگی تھی۔۔۔

جبکہ سردار کو بھی وہیں موجود 

موجود پا کر جہان نے مشکوک انداز میں اسے دیکھا تھا۔۔۔

 جیسے اس کی آمد کی وجہ جاننا چاہ رہا ہوں۔۔

 مگر سردار کی خونخوار نظروں کو اپنے اوپر ٹکا دیکھ وہ تھوک نگل کر رہ گیا۔۔۔

"کیا میں نے کیا کیا"

جہان نے انجان بنتے سردار کو دیکھتے کہا جو خطرناک ارادے لیے اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔۔۔۔۔

"بہت دیر بعد ملنا ہوا کیسے ہو بھانجے"

سردار نے جہان کو زبردستی زور سے گلے لگاتے کڑاکے نکال ڈالے تھے اور مسکرا تھے زور دار دھموکوں سے اسکی کمر کو تھپتجپاتے ہوئے۔۔۔

جبراً مسکرا کر بولا جس پر جہان درد سے ٹھیک ہے بھی نہ کہ پایا تھا۔۔۔

"بیٹا کبھی اپنی خالہ کو اکیلا بھی چھوڑ دیا کرو ہر جگہ پلو کی طرح لٹکنا ٹھیک نہیں ہوتا دوسرا بندہ بھی ڈسٹرب ہوتا ہے"

جہان اسکی زو معنی بات کا مطلب سمجھ کر قہقہ ضبط کر کے رہ گیا وہ اب سمجھا تھا کہ سردار اسکے آنے پر ناخوش کیوں تھا۔۔۔

کیونکہ وہ کباب میں ہڈی بن رہا تھا۔۔۔

"اہم اہم سوری سر ابھی تو عفی کو کام ہے آپ جا سکتے ہیں سو ایکسکیوز" جہان نے سردار کو جلاتے اور جلے پر بھر بھر کر نمک چھڑکتے ہوئے کہا۔۔۔

جس پر وہ بس اسے مٹھیاں بھینچ کر دیکھتا رہ گیا۔۔۔

"تمہیں تو میں دیکھ لوں گا"

سردار دانت پیستے بولا۔۔۔

"شوق سے"

دو لفظی جواب دیا تھا اسنے۔۔۔

"تفصيلی ملاقات کے لیے تیار رہنا کیونکہ اگلی بار تمہاری ایک نہیں چلے "

سردار عفاف کو معنی خیزی سے کہ کر انگلی دکھا کر وارن کرتا جا چکا تھا۔۔۔

پیچھے وہ ہنس کر رہ گئی۔۔۔

"تو مطلب بات بن گئی"

جہان نے عفاف کو دیکھتے شریر لہجے میں کہا جسنے فوراً اپنے دانت اندر کیے اور اسے گھور کر رہ گئی۔۔۔

                  ******

ایک ماہ سے سردار نے اسکی جان تنگ کر رکھی تھی۔

کبھی وہ اسے کسی طرح مناتا تو کبھی کسی طرح۔ جہاں وہ جاتی سردار کا تو جیسے وہاں پہلے پہنچ جانا لازم ہو جاتا۔۔۔

آج بھی وہ جب جہان اور یارم کے ساتھ لنچ پر گئی تو وہ ادھر آ گیا تھا۔۔۔

"ہائے گائز"

سردار نے آتے لہک کر کہا جس پر وہ تینوں چونک اٹھے۔۔۔

عفاف تو اب تک عادی ہو چکی تھی۔۔۔

"کیسے ہو چیمپ"

سردار نے یارم کے بال بکھیرتے کہا۔۔۔

"میں ٹھیک ڈیڈ آپ کیسے ہیں"

"پہلے تو ٹھیک نہیں تھا مگر اب آپ کی ماما کو دیکھ لیا ہے تو فٹ فاٹ ہو گیا ہوں"

اسنے دانت نکالتے کہا تو یارم اور جہان قہقہ ضبط کر کے رہ گئے کیونکہ عفاف کا چہرہ غصے اور شرم سے سرخ پڑ رہا تھا۔۔۔

"اب اگر تمہارا ہو گیا ہو تو کیا میں آرڈر کروں"

عفاف دانت پیس کر بولی

۔۔

"نیکی اور پوچھ پوچھ"

سردار نے جان نثار کر دینے والی نظروں سے دیکھتے کہا تو اسنے فوراً گڑبڑا کر آرڈر کرنا شروع کیا۔۔۔۔

                           ****

کئی دن بعد۔۔۔

وہ آج یارم کو سلا رہی تھی اور وہیں اسے سلاتی سلاتی سو گئی تھی۔۔۔

کوئی دھڑم سے بالکنی میں کودا تھا اور کھڑکی کھول کر کمرے میں داخل ہوا تھا۔

ایک نظر بچے کو دیکھتے قدم عفاف کی طرف  آہستہ آہستہ بڑھائے

ایک ایک نظر اسکے نقوش کو نہارتے اسنے بےقرار نظروں سے اسے اپنی اندر جزب کیا۔۔۔

وہ اسے سوئی ہوئی کوئی پری لگ رہی تھی۔۔۔

اس سے صبر نہ ہوا تو اسنے شدت سے لب اسکے گال پر رکھے اور دور ہوا۔۔۔

"امم امم مچھر دور دور"

عفاف نے ہاتھ جھلاتے ہوئے کہا۔۔۔

تو سردار کا منہ حیرت اور صدمے کی زیادتی سے کھل گیا۔۔۔

"سیریسلی مچھر, میں اور وہ بھی مچھر ڈسکسٹنگ"

سردار کو گہرا دھچکا پہنچا اور اسنے سوئی ہوئی پری وشکو دیکھا جو نیند میں اپنے شوہر کو مچھر سمجھ رہی تھی کیونکہ اسے سردار کی داڑھی چبھ رہی تھی۔۔

"ابھی بتاتا ہوں تمہیں "

اس سے پہلے کے سردار اس کو مزہ چکھاتا عفاف نے مچھر کو پیچھے کرنے کے لیے ہاتھ اٹھایا تھا جو ٹھا کر کے سردار کے منہ پر تھپڑ کی صورت میں لگا تھا۔۔۔

"ام ہم مچھر"

ایک بار پھر عفاف منہ بنا کے بڑبڑائی تو سردار گرتے گرتے بچا اتنی بےعزتی۔۔۔

"اب تم دیکھو یہ مچھر کیا کرتا ہے"

وہ عفاف کی دونوں کلایاں پکڑے اس پر جھکا اور اسکے نرم سرخ گداز لبوں کو اپنی دسترس میں لے کر وارفتگی لٹانے لگا۔۔۔

جب عفاف کا اچاانک دم گھٹنے لگا تو اسکی نیند بھک سے اڑی اسنے اپنے اوپر سردار کو دیکھ۔۔۔

آنکھیں پھاڑے دیکھا اور اسے پیچھے ہٹانے کی کوشش کی جو آج شاید ناممکن تھی۔۔۔

اسکا سانس سکھانے کے بعد جب وہ ہٹا تو وہ گہرے گہرے سانس بھرنے لگی۔

یارم کا خیال کرتی وہ کچھ بول بھی نہیں رہی تھی۔ اسکی مشکل سمجھ سردار نے اسے اپنی باہوں میں اٹھایا اور اسکے کمرے میں لے آیا۔۔۔

"سردار میری بات سنو"

عفاف نے اسے روکنا چاہا جو آج شاید ممکن نہیں تھا۔۔۔

"ششش کچھ مت کہو بس آج مجھے محسوس کرو"

سردار نے اسے کہتے اس سے تمام فاصلے ختم کر دیے اور بوند بوند کر کے اس میں اترنے لگا۔۔۔

عفاف کی مزاحمت کسی کام نہ آئی تھی بلکہ وہ آج پھر اس میں سرائیت کر کے اسے اپنے نام کر چکا تھا اور ساری ناراضگی مٹا چکا تھا۔۔۔

عفاف سردار کے سینے پر سر رکھے سو رہی تھی۔ جسے وہ یک ٹک دیکھتا اپنے آپ کو پرسکون محسوس کر رہا تھا۔

آخر پریشانیوں کے بادل چھٹ چکے تھے۔

                     *******

اب عفاف اور سردار اکثر ساتھ ہی پائے جاتے تھے۔آج سردار کی سالگرہ تھی سو عفاف نے اسے سرپرائز دینے کا سوچا۔

سردار سے پوچھا تو وہ گھر ہی تھا سو اسنے جہان اور یارم کو لیا اور وہاں چل دی۔۔۔

گھر پہنچ کر دیکھا تو خاموشی کا راج تھا۔۔۔

وہ کمرے کی طرف بڑھی۔۔۔

               ********

جیسے ہی وہ کمرے میں خوشی خوشی داخل ہوئی تھی یہ سوچ کر کہ ضرور اسکے شوہر نے اسکے لیے کوئی سرپرائز پلین کیا ہو گا۔ لیکن کمرے میں داخل ہوتے ہی اسکی ہستی زلزلوں کی ضد میں آ گئی تھی۔۔۔

کیونکہ اسکا محبوب شوہر کسی اور غیر لڑکی کی پناہوں میں تھا۔۔۔

لڑکی کا نیم عریاں لباس دیکھ کر اسکی نگاہیں شرم سے جھک گئی تھیں جبکہ دل میں نہ ختم ہونے والا درد اٹھا تھا کہ اسنے اپنے لبوں کو دانتوں تلے بے دردی سے کچلتے درد سہنے کی سعی کی تھی۔۔۔

پیچھے ہی اسکے بچے خوشی خوشی اندر داخل ہوئے تو اسنے انکے آگے ہاتھ رکھتے اپنے بچوں کو اندر آنے سے روکا کیونکہ وہ جانتی تھی وہ برداشت نہیں کر پائیں گے۔۔

جہان نے جیسے ہی اندر کا واحیات ماحول دیکھا تھا اسکی آنکھوں میں غصے کے سبب مرچیاں بھر گئی تھیں۔۔۔

اسنے فوراً آٹھ سالہ یارم کی آنکھوں پر ہاتھ رکھا تھا جو سب حیرت اور غصے سے دیکھ کر سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔

عفاف کے اشارے پر وہ اسے باہر لے کر نکلا تھا۔۔۔

"عفاف جیسا تم سمجھ رہی ہو ویسا کچھ نہیں ہے"

اسکے شوہر نے آگے ہوتے فوراً شرٹ پہنتے اسے سمجھانا چاہا تھا۔۔۔

جبکہ اسکے پیچھے کھڑی اسکے سابقہ منگیتر خود کو شیٹ سے کور کیے تمسخرانہ انداز میں اسے دیکھتی مسکرا رہہ تھی۔۔۔

"بس بس ایک بار بتا دو مجھے آخر کب سے مجھ سے بےوفائی کر رہے ہو"

اسکی آواز میں اتنا درد تھا کہ اسکے شوہر کا دل کیا خود کو تہس نہس کر لے۔۔۔

"عفاف ایسا کچھ بھی نہیں ہے میری جان جو سب تم نے دیکھا وہ جھوٹ ہے ہے یہ مارہا۔۔۔"

اس سے پہلے کو وہ اپنے الفاظ پورے کرتا عفاف نے اسکے ہاتھ جھٹکتے اسے پیچھے کو دھکا دیا تھا۔۔۔

"ایک دفعہ تو تم مجھے مار ہی چکے ہو اور کتنی بار مارو گے کیا اب بھی کچھ کہنے کو باقی ہے"۔۔۔

وہ دھاڑی تھی۔۔۔

عفاف میرا یقین۔۔۔

"یقین مائے فٹ میرا یقین کیا تھا تم نے جب میں چلا چلا کر خود کو بےقصور ثابت کر رہی تھی تو پھر میں کیسے کر لوں"

اسنے سرخ بہتی ہوئی آنکھوں سے کہا تھا۔۔۔۔

"فائن مت کرو یقین میں تمہیں سفائی دینے کا پابند نہیں ہوں"

اسکے شوہر نے غصے سے کہا تھا۔۔۔

"اور آپ بھی اب میری عفی کے ساتھ رہنے کے لائق نہیں ہیں شرم سے ڈوب مرنا چاہیے آپ کو۔۔۔ صبح تلاق کے پیپرز مل جائیں گے آپ کو سائن کر دیجیے گا"

جہان اسکے مقابل آتا اسکے آنکھوں میں اپنی سرخ آنکھیں گاڑے غصے سے دھاڑا تھا اور عفاف کو وہاں سے لے کر نکلتا چلا گیا تھا جو ایک بار پھر بری طرح ٹوٹی تھی۔۔

"اگر میری عفی کو کچھ ہوا تو یاد رکھنا سردار تمہاری ہستی مٹا دوں گا"

جہان سردار کو آگ میں جھونکتے ۔۔

عفاف کا بےہوش وجود اٹھاتا باہر کو لپکا تھا۔۔۔

اسکے ساتھ ہی یارم بھی نکلا تھا۔۔۔۔

پیچھے سردار سب کچھ توڑ پھوڑ کرنے لگا تھا۔۔۔

تم صرف تمہاری وجہ سے آج میں اس حال میں پہنچا ہوں بولو کیوں کیا ایسے۔۔

 کس نے بھیجا ہے تمہیں ۔۔۔

سردار نے ماریہ کا منہ بچتے ہوئے کہا۔۔۔

"ت تمتمہ تمہا تمہاری مام نے"

 اس نے سردار کو پیچھے دھکیلا دیتے ہوئے کہا۔۔۔

 مگر وہ تھا کہ پہاڑ کی طرح جم کر اس کے آگے کھڑا ہوگیا تھا اور اس کی سانسیں چھین لینے کے در پر تھا۔۔۔

 وہ اتنی زور ست ماریہ کا گلا دبا رہا تھا کہ ایسے لگ رہا تھا کہ وہ آج اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔۔۔

 یلدرم فوراً وہاں پہنچا تھا اور فٹافٹ سردار کو پیچھے ہٹایا تھا ماریا سے۔۔

" سردار کیا پاگل ہوگئے ہو جان لو گے کیا اس کی"

 یلدرم نے اسے پیچھے دھکا دیتے ہوئے کہا..

" ہاں میں جان لے لوں گا اس کی اس نے عفاف کو مجھ سے دور کرنے کی کوشش کی ہے اور اس میں کامیاب بھی ٹھہری ہے۔۔۔

 مجھے اس کی نظروں میں یہاں تک گرا دیا ہے کہ شاید ہی کبھی اٹھ پاؤں"

 سردار نے غصے اور غم کی ملی جلی کیفیت سمیت کہا ۔۔۔

"تو کیا غلط کیا اس نے, اس نے بھی تو وہی کیا نہ جو تم نے سالوں پہلے کیا تھا آنکھوں دیکھا سچ مان لیا..

 لیکن تمہاری وجہ سے وہ موت کے منہ میں پہنچ چکی ہے.

 اس لئے تمہارے لیے بہتر ہے کہ اب تم اس سے دور ہی رہو ورنہ تمہاری قریبی اس کی جان لے لے گی ...

اور میں ایسا کبھی بھی نہیں چاہتا "

سردار نے دکھ سے اسے دیکھا..

" لیکن اس کو میں زندہ نہیں چھوڑوں گا نہ تو میں اسے زندہ میں رہنے دوں گا نہ مردوں میں"۔۔۔

 اس نے ماریہ کو ٹارچر روم میں دھکیلتے ہوئے کہا۔۔

 جہاں اس کے لوگ مجرموں کو ٹارچر کیا کرتے تھے اس کالے کمرے میں سردار اسے دھکا دے چکا تھا۔۔

 جہاں پہلے ہی لوگوں پر چابک چل رہے تھے ۔۔

وہاں اس کمرے میں اب ماریہ کی چیخیں گونج رہی تھی "سردار خدارہ مجھے معاف کر دو میں آئندہ تمہارے راستے میں کبھی نہیں آؤں گی.

 بس ایک بار مجھے باہر نکال دوں میں کبھی پلٹ کر بھی تمہیں نہیں دیکھوں گی۔"

 مگر سردار نے اس کی بات پر ایک بھی کان نہ دھرا اور وہاں سے غصے میں نکلتا چلا گیا۔۔۔

                         ******

وہ سب ہسپتال میں جمع تھے جہاں عفاف کو ایمرجنسی وارڈ میں داخل کیا گیا تھا۔۔۔

یارم جو پہلے کبھی نہیں رویا تھا آج ماں کے دور ہونے کے ڈر سے رو دیا تھا۔۔۔

ماہرہ کا بھی یہی حال تھا وہ بھی زار و قطار رو رہی تھی۔۔۔

جبکہ جہان ادھر ادھر پریشانی کے عالم میں چکر کاٹ رہا تھا۔ اسکا بس نہ چل رہا تھا کہ دروازہ توڑ کر عفاف کے پاس چلا جائے مگر وہ مجبور تھا۔۔۔

"ڈاکٹرز باہر نکلے تو وہ سب سے پہلے ان تک پہنچا تھا"

ڈاکٹر وہ وہ کیسی ہیں اس نے اٹکتے ہوئے کہا بہت کچھ کھو جانے کا ڈر تھا یا پھر ایک بار پھر سے یتیم ہو جانے کا جو وہ کسی طور نہیں چاہتا تھا۔۔۔

"میں نے پہلے بھی آپ کو کہا تھا کہ وہ ایک لمبا عرصہ کومہ میں گزار کر آئی ہیں۔۔

 انکی ول پاور اتنی اچھی تھی کہ وہ اب تک بچتی آئیں۔۔

 لیکن آخری بار جب انہیں آپ یہاں لے کر آئے تھے۔۔۔

 تو میں نے آپ کو نصیحت کی تھی کہ انہیں ہر طرح کے غم اور سٹریس سے دور رکھیے گا ورنہ آپ انہیں کھو دیں گے

لگتا ہے آپ نے میری نصیحت کو سیریس نہیں لیا تھا۔۔۔

ڈاکٹر نے جہان کو تاسف سے دیکھتے کہا۔۔

"ڈاکٹر آپ بتاتے کیوں نہیں کہ آخر ہوا کیا ہے عفاف ٹھیک تو ہے نہ۔۔۔

اسے کچھ ہوا تو نہیں"

یلدرم نے انہیں جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔۔۔

"مجھے بہت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ پیشنٹ کو برین سٹروک آیا ہے۔۔۔

جس کی وجہ سے انکا دماغ رسپانڈ نہیں کر رہا۔۔۔

اگلے چوبیس گھنٹے انکے لیے بہت قیمتی ہیں۔ اب زندگی اور موت صورف اللہ کے ہی ہاتھ میں ہے انکی اس لیے اللہ سے دعا کریں۔۔۔"

ڈاکٹر کی بات تھی یا بجلی جان پر گری تھی۔۔۔

 سب کو ان کی بات سے حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا اور ایک غم کی فضا چھا گئی تھی ایک دم ان سب پر۔۔۔۔

 جہان نے اپنا سر پکڑ لیا تھا۔۔۔

 ہر کوئی ایک دوسرے سے نظریں چرا رہا تھا۔۔

 ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ سردار تیز قدموں سے چلتا ہوا آیا جسے دیکھ کر جہان کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ چکا تھا اور وہ اسے دیکھتے ہی چیل کی طرح اس پر جھپٹا۔۔۔

 اس نے سردار کو دھکا دے کر نیچے گرایا اور اس پر ایک کے بعد ایک مکوں کے وار کرتا چلا گیا۔۔۔

یہاں تک کہ سردار کا منہ خون سے بھر کر چکا تھا اور ہونٹ,ناک سے خون بہنے لگا تھا۔۔۔

کسی نے بھی آگے بڑھ کر اس کو نہیں روکا تھا کیونکہ سب ہی جانتے تھے کہ اس بار غلطی سردار کی تھی۔۔۔

حالانکہ سردار کو پھنسایا گیا تھا مگر جو بھی تھا عفاف اس وقت اس حالت میں سردار کی وجہ سے ہی پہنچی تھی۔۔۔

" کوئی کسر رہ گئی تھی اسے مارنے میں جو یہاں بھی پہنچ گئے ہو۔۔۔

تم چاہتے ہی نہیں کہ وہ زندہ رہیں "

 جہان نے اس پر ایک کے بعد ایک وار کرتے ہوئے کہا جو بغیر اپنا دفاع کیے زمین پر پڑا جہان کی مار کھا رہا تھا۔۔۔۔

""مجھے بس ایک دفعہ عفاف سے مل لینے دو میں خود اس سے معافی مانگ کر یہاں سے چلا جاؤں گا۔۔

مگر بس ایک بار مجھے اس سے ملنے دو اس سے بات کرنے دو"

 سردار نے نم آنکھوں سے کہا اس شخص کی آنکھیں دیکھ کر جہان کو حیرت ہوئی تھی۔۔۔

مگر وہ کچھ ہی دیر میں زائل ہوگئی تھی۔۔

 وہ بھی سچ جانتا تھا کہ اب وہ سردار کو پھنسایا گیا تھا۔۔

 مگر عفاف کی حالت کا ذمہ دار بھی وہ سردار کو ہی ٹہراتا تھا۔۔۔۔۔

 اس لیے وہ اب عفاف کو سردار سے بہت دور لے جانے کا سوچ کا تھا۔۔۔

"مل کر کیا کرو گے جب تم یہ جانتے ہی نہیں کہ وہ تم سے مل  بھی پائے گی کہ نہیں...

اسکی بات پر سردار نے اسے حیرت سے دیکھا۔۔۔

 مبارک ہو تمہیں کیوں کہ ڈاکٹرز کہہ کر جا چکے ہیں کہ اگلے 24 گھنٹے اسکی جان کے لیے بہت قیمتی ہیں۔۔۔۔

 اور آج اس سب کے ذمہ دار صرف تم ہو صرف اور صرف تمہاری وجہ سے آج وہ زندگی اور موت کی لڑائی لڑ رہی ہے"

 جہان نے اسے غصے سے جھٹک کر کہا۔۔

 ظاہری بات ہے وہ اپنا سارا غصہ اس پر نکال چکا تھا جب کہ سردار حیرتوں کی زد میں آچکا تھا۔۔۔

وہ بے یقینی سے اٹھا اور ہر ایک کا چہرہ دیکھنے لگا جو یہی کہانی سنا رہا تھا۔۔۔

 وہ فوراً مسجد کی طرف بھاگا شاید پہلی دفعہ وہ بھی عفاف کے لیے۔۔۔

وہ رب کے حضور جھک کر گڑگڑا رہا تھا, منتیں کر رہا تھا اپنی زندگی میں پہلی بار وہ اس در پر آیا تھا اور وہ بھی کیا مانگنے؟؟ اپنی بیوی کی زندگی؟؟

" اے میرے رب میں تیرا بہت گنہگار بندہ ہوں,

 میں شاید کبھی کوئی نیکی کر ہی نہیں پایا, تو مجھے نعمتوں پر نعمتیں عطا کرتا گیا اور میں اس کی ناشکری کرتا گیا۔۔۔۔

 اور کبھی تیرے در پر آ کر تیرا شکر ادا نہیں کیا۔۔۔

 میں سوچتا تھا ہر چیز تو ہے میرے پاس بھلا مجھے مانگنے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔

 مگر آج سب کچھ ہوتے ہوئے بھی میں تنہا رہ گیا ہوں۔۔۔

یہ مال یہ دولت میرے کسی کام کی نہیں۔۔۔ سچ کہتے ہیں لوگ جب انسان پاس ہوتا ہے تو اس کی قدر نہیں ہوتی کہ جب وہ چلا جاتا ہے تب ہمیں اس کی اصل قدر ہوتی ہے۔۔۔

 اور یہی میرے ساتھ بھی ہوا۔۔۔

 میں تیری عبادت کرنے میں ناکام ٹھہرا۔۔۔

 مجھے معاف کردے میرے رب۔۔۔

مجھے معاف کر دے"۔۔۔

وہ زار و قطار رو رہا تھا کہ اسکی ہچکیاں بندھ گئیں۔۔۔

مسجد میں موجود لوگ اسے حیرت سے دیکھنے لگے تھے۔۔

کیسا دیوانہ تھا یہ۔۔۔

" بس ایک بار, بس ایک بار عفاف کو زندگی لوٹا دے میں زندگی بھر تیرا شکریہ ادا کرتے ہوئے نہ تھکوں گا۔۔

 ہمیشہ تیری عبادت کرتا رہوں گا اور تجھ سے ہی مدد مانگوں گا۔۔۔۔

 بس ایک بار اس کو اس کی زندگی لوٹا دے چاہے اسے میری عمر ہی لگا دے۔۔۔

 میں لاکھ برا سہی مگر وہ تو تیری بندی ہے نا خدارا مجھ پر رحم کر"

اسکی فریاد تھی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔۔۔۔

 صبح سے رات ہونے کو آئی تھی مگر وہ وہیں کا وہیں سجدے میں گرا رہا۔

 اس کے لب پر بس ایک ہی دعا تھی اور وہ تھی عفاف کی زندگی"۔۔۔۔

 اس کے سب دوستوں نے بے یقینی سے یہ منظر دیکھا تھا۔۔

 وہ جب ڈھونڈتے ہوئے سردار کو مسجد میں پہنچے تو انہیں وہاں کے لوگوں سے معلوم ہوا تھا کہ یہ دیوانہ صبح سے رات تک یہاں سجدے میں گرا دعائیں مانگ رہا ہے"

 یہ ان کے لیے نہایت قابل یقین منظر تھا اور اس سے بھی ناقابل یقین حقیقت جہان کے لئے تھی یہ۔۔۔۔

 جس شخص نے کبھی مسجد کا چہرہ تک نہ دیکھا تھا۔

 وہ شخص آج خدا کے حضور سجدے میں گرا اس کی خالہ کی زندگی کی دعائیں کر رہا تھا۔۔۔

 کیا وہ شخص واقعی اتنا انمول تھا۔۔

 مگر وہ پھر بھی آگے بڑھ کر اس کو یہ نہ بتا پایا کہ اس کی دن رات کی دعائیں رنگ لے آئیں ہیں۔۔۔

 اور عفاف کو ہوش آ چکا ہے۔۔۔۔

 اس نے یلدرم کو ایک نظر دیکھا جو اس کی بات کا اشارہ سمجھ کر سردار کے پاس گیا۔۔۔۔

"سردار اٹھو میری بات سنو سردار"

 یلدرم نے اسے ہلاتے ہوئے کہا جو اٹھ کر اس کی طرف دیکھنے لگا تھا...

 آنکھیں رو رو کر سوجھ چکی تھیں جب کہ آنکھوں کی پتلیاں سرخ پڑ چکی تھیں۔۔۔

 شاید ہی یہ بدتر حال کبھی سردار کا کسی نے دیکھا ہو۔۔۔

 اگر شگفتہ بیگم اسے اس حال میں دیکھتی تو یقیناً غش کر رہ جاتیں۔۔۔

" مجھے واپس نہیں جانا تم جاؤ یہاں سے"

 سردار ابھی بھی یہی سمجھا تھا کہ یہ سب اسے پہلے کی طرح واپس لے جانے آئے ہیں۔۔

 مگر اس نے بھی خدا سے یہ ضد لگا رکھی تھی کہ جب تک عفاف ہوش میں نہیں آ جاتی وہ یہاں سے نہیں اٹھے گا۔۔۔

"سردار میری بات سنو عفاف کو ہوش آ چکا ہے"

 یلدرم نے سردار کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا جو اسے بے یقینی سے دیکھنے لگا تھا اور فوراً اٹھا۔۔۔

 کیا اس کی دعائیں رنگ لائیں تھیں۔۔۔

کیا واقعی عفاف کو اللہ نے ایک اور زندگی دے دی تھی۔۔۔

 کیا وہ اس لائق تھا کہ اس کی بھی دعائیں قبول ہوتیں۔۔۔۔

" تم سچ کہہ رہے ہو سردار نے کام کرتے ہوئے لہجے میں یلدرم سے پوچھا تو اس نے نماز آنکھوں سے سر اثبات میں ہلا دیا اس کی تصدیق کرنے پر سردار سجدہ شکر بجا لایا تھا۔۔

 سب کی آنکھیں اس کو اس حال میں دیکھ کر نم ہو گئی تھیں۔۔

 وہ وہاں سے دیوانہ وار بھاگتا ہوا اسپتال کے لئے نکلا تھا لیکن جب وہ ایمرجنسی میں جانے لگا تو جہان نے اسے روک دیا تھا۔۔۔

عفاف آپ سے نہیں ملنا چاہتیں میں انہیں کوئی سٹریس نہیں دینا چاہتا۔۔۔

 اس لیے آپ کے لیے بہتر ہے کہ یہاں سے چلے جائیں تاکہ ان کی طبیعت پر کوئی اثر نہ پڑے اور مجھے یقین ہے کہ آپ بھی یہی چاہتے ہوں گے..."

 جہان نے اس کی نظروں میں دیکھتے ہوئے کہا۔۔

 وہ جو خوشی خوشی یہاں آیا تھا مگر اپنی زندگی کو ایک نظر بھی نہیں دیکھ پایا تھا دل گرفتہ ہوتے وہ واپس قدم بڑھانے لگا اور شکستہ حال واپس لوٹ گیا۔۔۔

                         ***

سردار ہر روز اس کے در پر اس سے ملنے کے لیے جاتا مگر وہ اس سے ملے بغیر اسے باہر سے ہی لوٹا دیتی۔۔۔

 وہ باہر ہا اسے معافی کے پیغامات بھیجوا چکا تھا۔۔

مگر عفاف نے وہ سرے سے نظر انداز کر دیے تھے۔

وہ اپنے دل کو مضبوط کرنا چاہتی تھی۔

وہ نہیں چاہتی تھی کہ بس ایک اور ٹھیس لگتے ہی اس کا دل ٹوٹ جائے۔۔۔

وہ جانتی تھی کہ اب کی بار وہ ٹوٹی تو کبھی جڑ نہیں پائے گی۔۔۔۔

وہ کٹھور تھی نہیں بن رہی تھی۔۔ 

لاکھ اس کا دل چاہتا کہ وہ سردار سے صلح کر لے مگر اپنے دماغ کے روکنے پر رک جاتی۔۔

 جو اسے بارہا کہتا تھا کہ اب کہ چوٹ لگی تو سہ نہیں پاؤ گی۔۔۔

 دل سردار کی طرف جانے کو ہمکتا تھا۔۔

 مگر وہ اسے ڈپٹ کر خاموش کرا دیتی کیونکہ وہ جان گئی تھی۔۔

غلطی سردار کی نہیں تھی وہ ماریہ تھی جو سردار کو ورگلانے آئی تھی۔۔

 مگر سردار اپنے ارادوں میں پختہ رہا نہ ہی وہ اس کی طرف مائل ہوا تھا اور نہ ہی اس کی طرف قدم بڑھائے۔۔۔

 اب وہ سوچ چکی تھی۔

اس سب کا یہی حل تھا کہ وہ اس ملک سے دور چلی جاتی۔

 اس لیے وہ تیار تھی یارم اور جہان کے ساتھ اس ملک کو خیر آباد کہنے کے لئے۔

جانے سے پہلے وہ ایک آخری بار کسرے سردار آئی تھی۔۔۔

 جہاں شگفتہ بیگم چہرے پر رعونیت لیے اسے دیکھ رہی تھیں۔۔

 اور اسے دیکھتے ہوئے تمسخرانہ انداز میں بولیں دیکھ لیا آخر نہیں ٹک پائیں نہ تم میرے سامنے۔۔۔

 ہار گئی تم اور جیت گئی میں"

 انہوں نے قہقے لگاتے ہوئے کہا۔۔۔۔

" آپ مجھ سے تو جیت گئیں مگر آپ اپنا بیٹا ہار گئیں اور ایک ماں کے لئے اس سے بڑی ہار کیا ہوگی۔۔۔

 جس کا بیٹا ہی اسے چھوڑ کر چلا جائے اور پلٹ کر تک نہ دیکھے"

عفاف نے انہیں تاسف سے دیکھتے ہوئے سچائی سے آگاہ کرایا۔

جسے سن کر وہ ایک دم چپ ہو گئیں کیونکہ وہ سچ ہی تو کہہ رہی تھی۔۔۔

 مگر ماننا انہیں اپنی انا کے خلاف لگ رہا تھا۔۔۔

"جو بھی کہو میں تم سے جیت گئی ہا ہا ہا تم مجھے ہرا نہیں پائی۔۔۔

سردار میرا بیٹا ہے۔۔۔

وہ میرا ہی رہے گا تمہارے پاس نہیں آئے گا ہا ہا ہا"

سردار کی جدائی نے انہیں پہلے ہی پاگل کر رکھا۔۔

عفاف کے احساس دلانے پر انہیں شدت سے احساس ہوا تھا جسے محسوس کرتی وہ پاگلوں کی طرح بہکی بہکی باتیں کرنے لگی تھیں۔۔۔ 

انہیں کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔۔۔

 عفاف انہیں ترحم بھری نگاہوں سے دیکھنے لگی۔۔

 اور اس گھر پر ایک آخری نگاہ ڈالتے وہاں سے نکلتی چلی گئی تھی کبھی نہ واپس آنے کے لئے۔۔۔

 شگفتہ بیگم کی عمر بھر کے لیے یہی سزا تھی جو انہوں نے بویا تھا وہ وہی کاٹ رہی تھیں۔۔۔

                  ******

سردار ہر روز کی طرح آج بھی عفاف کے گھر کے باہر اسے منانے آیا تھا۔۔۔

 وہ ہر روز اسے منانے آتا تھا بے شک وہ باہر نہیں آتی تھی مگر سردار رات تک وہیں کھڑا رہتا۔۔۔

 وہ اکثر کھڑکی کا پردہ ہٹا کر اسے دیکھا کرتی تھی سردار کے لیے یہی بہت تھا۔۔۔

 وہ جانتا تھا ایک نہ ایک دن عفاف اسے ضرور معاف کردے گی۔۔۔

 اور وہ تب تک یہاں آتا رہے گا مگر آج گھر پر تالا لگا دیکھ اسے کسی انہونی کا احساس ہوا تھا۔۔۔۔

چوکیدار اسے پہچان کر اس کے پاس آیا تھا..

 سردار صاحب یہ میڈم جی آپ کے لیے دی گئی ہیں اس نے عفاف کا دیا ہوا خط سردار کے ہاتھ میں پکڑ آتے ہوئے کہا..

 جسے اس نے کام کرتے ہوئے ہاتھوں سے پکڑ لیا تھا اور گاڑی میں جا کر بیٹھا..

 اس نے خط اپنے قریب کیا تو عفاف کی خوشبو کا ایک جھونکا آیا تھا ...

جو اس نے اپنے اندر اترتا ہوا محسوس کیا تھا..

سکون کی لہر تھی جو اس کے پورے جسم میں دوڑ گئی تھی۔۔۔۔

سردار نے اپنی آنکھوں کو نم ہونے سے روکا اور فوراً خط کھولا جس میں عفاف کی ہینڈ رائٹنگ میں لکھا تھا۔۔۔

""سردار مجھے یقین ہے کہ جب تک یہ  خط تمہیں ملے گا میں تم سے بہت دور جا چکی ہوں گی۔۔۔۔

 کبھی سوچا نہیں تھا کہ تم سے اتنی زیادہ محبت ہو جائے گی کہ تم سے دور جانا میرے لئے اتنا مشکل ہو جائے گا۔۔۔"

اسے لگا تھا یہ لکھتے ہوئے عفاف نم آنکھوں سے مسکرائی تھی۔۔۔۔

" جانتے ہو میرا دل مجھے تمہارے پاس آنے کے لئے اکساتا ہے مگر۔۔۔

ایک بار پھر ٹوٹ جانے سے ڈرتی ہوں تمہارے دور جانے سے ڈرتی ہوں...

 کہ کہیں اس بار تم مجھ سے دور چلے گئے تو جی نہیں پاؤں گی اس لیے میں خود ہی جا رہی ہوں...

 نہیں جانتی کہ اب ہم ملیں گے یا نہیں مگر اتنا یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ تمہیں کبھی بھول نہیں پاؤں گی...

 میری بارہ بجے کی لندن کی فلائٹ ہے جہان اور یار بھی میرے ساتھ ہی ہیں میں ان کا بہت خیال رکھوں گی...

 امید تو نہیں کہ تم مجھے یاد رکھو گے لیکن اگر کبھی یاد کیا بھی تو اچھے لفظوں میں یاد کرنا .....

                    ****

ایک بات کہوں برا تو نہیں مانو گے"

 عفاف کے معصومیت سے پوچھنے پر سردار کی آنکھوں سے آنسو نکلتے ٹپ ٹپ خط پر برسنے لگے تھے۔۔۔

"تم میرے وہ سوداگر تھے جسے میں دلدار بنا بیٹھی اور اس بات پر مجھے کئی بار پچھتاوا بھی ہوا ۔

مگر اس سے زیادہ میں نے تمہارے محبت محسوس کی۔ تمہارے لمس کی عادت میری رگ رگ میں سکون بن کر دوڑنے لگی۔۔۔

 کہ جب تم مجھ سے الگ ہوئے میں پاگل ہو بیٹھی تھی۔

 مجھے لگا تھا کہ میں ہار ہوں میری سانسیں رک جائیں گی اور روح فنا ہو جائے گی۔

 مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔۔۔

 میں بچ گئی میں نے تمہاری جدائی کا زہر پیا اپنے آپ کو اتنا مضبوط بنایا کہ تمہارے آگے کبھی بھی بکھر نہ پاؤں۔۔۔

 مگر یہ میری صرف خام خیالی تھی کہ میں اپنی محبت کو دفن کر چکی ہوں۔۔

 میں ایسا نہیں کر پائی نہ مرتے دم تک کرسکتی ہوں۔

 اب تو لگتا ہے تمہاری محبت میری قبر تک جائے گی۔۔"

 آگے آنسوؤں کے نشان تھے جن پر اب سردار کے آنسو بکھر رہے تھے...

 سردار کے دل میں انکہا درد اٹھ رہا تھا۔جسے وہ لفظوں میں بیان بھی نہیں کرسکتا تھا۔

کتنا دردناک خط تھا یہ یا عفاف کی آپ بیتی۔۔۔

مجھے کس کس موڑ پر تم نہیں یاد آتے۔۔ میرا تو شاید کوئی دن بھی ایسا نہیں جس میں تمہارا ذکر یا تمہاری یاد نہ ہو۔۔۔

 جیسے اب مجھ میں میرا کچھ بچا ہی نہیں۔۔

 کہنے کو تو میں نے تم سے محبت ختم کر دی تھی مگر میں یہ بس میں جانتی ہوں کہ کہنے اور کرنے میں کتنا فرق ہے۔۔

 میں کہہ کر بھی تم سے محبت ہے تم نہیں کر پائی۔۔۔

 ماریہ کو تمہارے ساتھ دیکھ کر میں حسد کا شکار تھی ,جلن کا شکار تھی۔

 میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی تھی کہ ایسا کیا ہے اس میں جو اتنے سال میں تمہیں نہ دے پائی۔۔۔

 جبکہ حقیقت تو یہ تھی کہ تم صرف ماریہ کے ساتھ مجھے جلانے کے لئے تھے اور میں سچ میں جلن کا شکار ہوئیں بھی اس میں کوئی شک نہیں۔۔۔

 اب بھی میں چاہ کر بھی تمہاری محبت خود میں سے ختم نہیں کر پائی اور یہ بھی جانتی ہوں کہ اب اگر ایک دفعہ بھی تم مجھ سے معافی مانگنے پر آئے تو میرا دل دٍا کر جائے گا اور تمہیں معاف کر دے گا۔۔۔

 اس لئے جا رہی ہوں تم سے دور تمہاری محبت سے دور۔۔۔

 تاکہ پھر کوئی غم ہم دونوں کی زندگی برباد نہ کر پائے ....

" دار کی عفاف"

  اس کے بعد خط ختم ہو چکا تھا مگر سردار کے آنسوؤں کا نا رکنے والا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔۔۔

سردار ایک دم چونک اٹھا تھا ابھی ساڑھے گیارہ بجے تھے جبکہ بارہ بجے عفاف کی فلائٹ تھی۔۔۔

ابھی بھی وقت تھا۔

وہ اسے جانے سے ابھی بھی روک سکتا تھا۔۔

 اس نے فوراً بغیر وقت ضائع کیے گاڑی کو تیزی سے دوڑایا تھا اور رش ڈرائیونگ کرتا ہوا ایئرپورٹ پہنچا تھا۔۔۔

 تیز بھاگتے بھاگتے اس کا سانس بری طرح پھیل چکا تھا۔

اس نے اطراف میں نگاہیں دوڑائی مگر اسے کہیں بھی عفاف یارم یا جہان میں سے کوئی بھی نظر نہ آیا۔۔۔۔

 اس نے اندر جانے کی کوشش کی مگر سکیورٹی گارڈ نے اس کو اندر نہ جانے دیا۔۔۔

لوگ پاس آؤٹ کر کے اندر جاتے جا رہے تھے۔۔۔

 سردار بے چینی سے اندر جانے کا منتظر تھا مگر یہ گارڈ تھا کہ اسے اندر ہی نہیں جانے دے رہا تھا۔۔۔

اس کی نسیں پھٹنے کو ہوئی تھیں رت جگوں کو مسلسل سٹریس نے اسکے ذہن پر بہت برا اثر کیا تھا کہ اسے ایک دم زور کا چکر آیا۔۔۔

سب کچھ دھندلا دکھنے لگا تھا۔اسنے سر جھٹک کر دھند کو دور کیا اور پھر اس کی بے قرار نظروں کو قرار آ گیا تھا۔۔۔

 کیوں کہ اس کی نظروں نے عفاف کو ڈھونڈ لیا تھا جو یارم اور جہان کے ساتھ بس اندر جانے ہی والی تھی۔۔۔

 وہ جتنا اونچی ہو سکا تھا اتنی زور سے چیخ اٹھا تھا ۔۔۔

"عفا اااااااف"

                 ******

" کیا آپ یہ ٹھیک کر رہی ہیں"

 جہان نے ایئر پورٹ پر پہنچ کر عفاف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے اس کو جانچتے ہوئے پوچھا۔۔۔

" کیا مطلب تمہاری اس بات کا"

 عفاف نے سر جھٹک کر کہا۔

" میرا کہنے کا مطلب ہے کیا آپ اس سب سے خوش ہیں "

جہان نے اسے آزمانہ چاہا جس کی آنکھیں جہان کی بات پر نم ہوئی تھیں۔۔۔

" خوش ہوں خوش کیوں نہیں ہوں گی بہت خوش ہوں میرے ساتھ تم دونوں جو ہو "

اس نے باری باری یادم اور جہان کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

مگر اس کا لہجہ, اس کی آواز اس کی آنکھوں کا ساتھ نہیں دے رہی تھیں۔۔۔

 جو یارم اور جہان نے بہت غور سے دیکھیں تھی۔۔۔

 وہ دونوں وہ سمجھ گئے تھے جو عفاف سمجھنا نہیں چاہتی تھی کہ سردار کے بغیر اس کا گزارا ممکن نہیں۔۔۔

"کاش ہم ایک ساتھ رہ پاتے مجھے مما اور ڈیڈی دونوں کا پیار چاہیے تھا۔

پہلے ڈیڈی تھے تو ماما نہیں تھیں اور اب ماں آگئی ہیں تو ڈیڈ نہیں ہوں گے"

 یارم نے اداسی سے کہا جبکہ عفاف کے دل پر گھونسا پڑا تھا۔۔۔۔

 وہ چھوٹا تھا معصوم تھا لیکن کہہ تو وہ سچ ہی رہا تھا جو عفاف سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہی تھی۔۔۔

 کیا وہ اپنی خود غرضی کی وجہ سے اپنے بچے کی زندگی تباہ کر سکتی تھی۔۔۔

 اس کے دل سے صدا آئی تھی کہ نہیں کبھی نہیں۔۔۔

 عفاف ایک بار پھر سوچ لیں کیونکہ میں نے اسے سجدے میں گر کر آپ کی زندگی کی دعا مانگتے دیکھا ہے۔۔

 میں اس کی طرف داری کبھی نہ کرتا اگر اس کی سچی محبت آپ کے لئے محسوس نہ کرتا۔

 مگر یہی سچ ہے کہ جتنا سردار آپ کو چاہ سکتا ہے

 جتنی قدر وہ آپ کی کر سکتا ہے اور کوئی نہیں کر سکتا" جہان پہلی دفعہ آج سردار کے حق میں بولا تھا...

 کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اگر آج وہ دونوں الگ ہوگئے تو پھر کبھی نہیں ملیں گے۔۔۔

 اور اسے عفاف اور یارم دونوں کی خوشیاں چاہیے تھیں۔۔۔

 اس کی بات سن کر عفاف نے اسے بے یقینی سے دیکھا جیسے یقین کرنا چاہ رہی ہو کہ اس کا سردار کیا اس سے اتنی محبت بھی کر سکتا ہے۔۔۔

 کہ خدا سے اس کی زندگی مانگے کیا وہ اتنی انمول تھی اسکے لیے"

 یہ سوچ کر ہی اس کی آنکھیں خوشی سے نم ہوئی تھیں جبکہ یارم نے جہان کو تھمز اپ کا اشارہ کیا تھا۔۔۔

 "عفاااااااف"

عفاف کے نام کی پکار پر وہ سب جھٹکے سے اس طرف پلٹے جہاں سردار سکیورٹی گارڈ کے پاس کھڑا نم آنکھوں سے دیکھتا ہوا اسے پکار رہا تھا...

 جہان اور یارم بیک وقت خوش ہوئے تھے۔۔۔۔

"دار "

اس کے منہ سے بے یقینی سے نکلا..

 تو آخر وہ اپنی محبت کے لیے پہنچ ہی گیا تھا۔

 تو اس کی محبت سچی ٹھہری تھی۔عفاف اسے دیکھ کر مسکرائی مگر اگلے ہی لمحے اس کی مسکراہٹ زائل ہوئی تھی۔۔

 کیوں کے اس کی نظروں کے سامنے سردار لڑکھڑا کر نیچے گرا تھا۔

 اسے زمین پر گرتے دیکھا

 وہ تینوں تیزی سے بھاگتے ہوئے اس تک پہنچے تھے...

"سردار اٹھو دار اٹھو آنکھیں کھولو"

عفاف نے اس کا منہ تھپتھپاتے ہوئے کہا۔۔

مگر سردار میں جنبش نہ ہوئی۔۔۔۔

" یہ آنکھیں کیوں نہیں کھول رہا ہے"

 اس نے نم آنکھوں سے جہان کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

 جو خود کافی پریشان لگ رہا تھا۔

"ہمیں انہیں ہسپتال لے کر جانا ہوگا "

وہ فوری طور پر اسے ہسپتال لے گئے تھے جہاں ڈاکٹر نے اسے ایڈمیٹ کیا تھا ...

"کیا ہوا ہے ڈاکٹر سردار کو "

جب ڈاکٹر باہر آیا تو اس نے بے چینی سے پوچھا فکر مت کریں کئی راتوں سے جاگنے کی وجہ سے اور بھوکے رہنے کی وجہ سے ان کی یہ حالت ہو گئی.

 کمزوری کی وجہ سے انہیں چکر آیا اور وہ بے ہوش ہوگئے تھے.

 مگر اب وہ ٹھیک ہے مگر ان کا خیال رکھیے گا تاکہ آئندہ ایسا نہ ہو"

 ڈاکٹر انہیں ہدایت دیتا ہوا جا چکا تھا جب کہ وہ شکر کا سانس بھر کر رہ گئے اور عفاف اندر اس سے ملنے بھاگی تھی۔۔۔۔۔۔

" کیسے ہو تم"

 عفاف نے فورا اندر داخل ہوتے ہوئے پوچھا وہ جو سٹریچر پر لیٹا اسے ہی دیکھ رہا تھا معنی خیز سا مسکرا دیا۔۔۔

" جس بیوی کے پیچھے پہلے میں بھاگ رہا تھا وہی بیوی اب میرے پیچھے بھاگ رہی ہے تو اس صورت میں مجھے کیسا ہونا چاہیے"

 اس نے عفاف کو دیکھتے ہوئے آنکھ مارتے کہا اور ایک ہاتھ سے اپنے قریب آنے کا اشارہ کیا۔۔۔

وہ اس کا ہاتھ تھام کر اس کے قریب آئی تھی اور فوراً گلے لگ گئی تھی۔۔۔

"بدتمیز جان نکال دی تھی میری"

عفاف نے اسکے کندھے پر مکا مارتے کہا جس پر سردار کھلکھلا کر ہنس دیا۔۔۔

عفاف کو سردار نے قیمتی متاع کی طرح اپنے اندر سمیٹے تھا۔ اس کی رگ رگ میں سکون کی لہر دوڑ گئی تھی۔

 شاید ہی کتنی دیر بعد اسے سکون کا پل میسر آیا تھا۔ جس پر وہ دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کرنا نہ بھولا تھا۔۔۔

" اب کہیں چھوڑ کر تو نہیں جاؤں گی "

سردار کی بات پر عفاف نے ٹھوڑی اس کے سینے پر ٹکاتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔۔

"کیوں کیا اتنا پیار کرتی ہو مجھ سے"

 سردار نے آنکھوں میں اندیشہ لیے کہا...

 "کیونکہ میرا سوداگر ہی میرا دلدار ٹھہرا"

 عفاف نے ایک جذب سے کہا تھا جس پر سردار نے اس کے لبوں کو اپنے سلگتے لبوں کی دسترس میں لے کر اپنی شدت لٹانا شروع کی تھی۔

عفاف کی سانسیں سردار اپنے اندر کھینچتا اسے مکمل خود میں جزب کر لینے کے در پر تھا۔۔۔

اسکی سانسیں مہکا رہی تھیں سردار کا وجود۔۔۔

عفاف سے سانس لینا دشوار ہو گیا تھا۔۔۔

 ابھی بھی وہ پتا نہیں کتنی دیر یوں ہی ایک دوسرے میں گم رہتے۔

 جب یارم اور جہان اندر آئے تھے جس پر عفاف جھٹ اس سے دور ہوئی تھی نہایت ایمبیریسنگ موومنٹ تھا۔۔۔۔۔

 سردار نے غصے سے جہان کو گھور کر دیکھا۔

جیسے ساری غلطی اسی کی ہو جس پر جہان بڑے لاتے ہوئے انداز میں کندھے اچکا کر رہ گیا۔۔۔۔

" لوگوں کو وقت اور ماحول کا خیال ہونا چاہیے"

 جہان نے اس پر لطیف سا طنز کرتے ہوئے کہا..

"لوگوں کو بھی دوسروں کے پرائیویٹ موومنٹ سپائل کرنے سے پہلے ناک کر کے آنا چاہیے"

 سردار نے ایک ایک لفظ چباتے ہوئے کہا۔

جس پر عفاف کے کان شرم سے سرخ پڑ گئے تھے۔۔۔

 اور جہان قہقہ لگا کر ہنسا تھا

" آخر کار سب کچھ ٹھیک ہو گیا اب ہم سب ساتھ رہیں گے"

 یارم خوشی سے چلایا تو وہ سب کھلکھلا کر ہنسے تھے۔۔۔ خوشیاں لوٹ آئی تھیں۔۔۔

اور اب انکی قسمت دکھوں سے دور بدلنے والی تھی۔۔۔

                  *****

ختم شد


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Web by Madiha Shah Writes.She started her writing journey from 2019.Masiha Shah is one of those few writers,who keep their readers bound with them , due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey from 2019. She has written many stories and choose varity of topics to write about

'' Nafrta Se barhi Ishq Ki Inteha '' is her first long novel . The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ❤️.There are many lessons to be found in the story.This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lasson to be learned from not leaving....,many social evils has been repressed in this novel.Different things which destroy today’s youth are shown in this novel . All type of people are tried to show in this novel.

"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second best long romantic most popular novel.Even a year after the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.

Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is a best novel ever 3rd Novel. Novel readers liked this novel from the bottom of their heart. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that, but also how sacrifices are made for the sake of relationships.How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice

 

Mera Sodagar Mera Dildar Season 2 Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Mera Sodagar Mera Dildar Season 2  written Aiman Raza Mera Sodagar Mera Dildar Season 2 by Aiman Raza is a special novel, many social evils has been represented in this novel. She has written many stories and choose varity of topics to write about

Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel you must read it.

Not only that, Madiha Shah provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

If you all like novels posted on this web, please follow my webAnd if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

If you want to read More  Madiha Shah Complete Novels, go to this link quickly, and enjoy the All Madiha Shah Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                  

 

Complete Novels Link 

 

Copyrlight Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only share links to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted

 

 

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages