Anjany Hum By Ansha Ali Complete Urdu Novel Story - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Wednesday 29 May 2024

Anjany Hum By Ansha Ali Complete Urdu Novel Story

Anjany Hum By Ansha Ali Complete Urdu Novel Story  

Madiha Shah Writer ; Urdu Novels Stories

Novel Genre : Romantic Urdu Novel Enjoy Reading… 

Anjany Hum By Ansha Ali 

Novel Name :Anjany Hum  
 Writer Name : Ansha Ali

New Upcoming :  Complete 

شادی حال میں ہرطرف رونق اور چہل پہل تھی، ہر کوئی خوش گپیوں  میں مصروف کچھ منچلے ہلہ گلہ کر رہ تھے،ا یک دم حال میں سناٹا پھیل گیاکیونکہ آنے والے شخص کو دیکھ کر سب کے چہرے پر سكتے کے آثار تھے۔

 آنے والا کوئی اور نہیں( سیدعالم شاہ کا پوتا اورسید فیروز شاہ کا نواسا تھا )،سب اپنی جگہ حیران تھے، اتنی بڑی جائیدادکے مالک (جن کے کتنے ہی ریسٹورینٹ اور شاپنگ مال تھے)۔وہ معمولی سے میرج حال میں کیا کرنے آئے ہیں کیونکہ لڑکی والوں کے ساتھ تو ان کا کوئ تعلق نہیں تھا،اس بات کا جواب سب جاننے کی کوشش میں تھے۔

"یہ شادی نہیں ہو سکتی کیونکہ میں یہ شادی نہیں ہونے دونگا"۔ خاموش فضا میں سیدزین العابدین شاہ کی آواز گونجی۔

حال میں ہر طرف چہ مگوئیاں ہونے لگیں کہ لڑکی تو بڑی پردے والی شریف اور نیک ہے پھر بھی دیکھوکیسے شادی والے دن تماشا لگایا،پہلے بتا دیتی کہ مجھے شادی نہیں  کرنی،ماں باپ کی عزت کا خیال کر لیتی ویسے ایسی لگتی تو نہیں تھی۔  

"آپ لوگ ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں میں ان کو جانتا ہی نہیں اور نہ ہی وہ مجھے جانتی ہیں"۔  ان کی آواز کو چپ سید زین العا بدین کی زور دار آواز نے لگائ۔

"اگر نہیں جانتے تو شادی رکوانے کیوں آۓ ہو "۔وہ خواتین پھر بھی باز نہیں أئیں۔

"اس بات کا جواب میں دلہن کے گھر والوں کو دوں گا" ۔جبکہ دلہن اور اس کے گھر والے تو ابھی تک صدمےمیں تھے۔ 

ایسا نہیں تھا کہ انکو اپنی بیٹی پے بھروسہ نہیں تھا،ان کو اپنی بیٹی پے یقین تھا وہ تو یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ کیا وجہ ہے جو اتنے بڑے آدمی کو ان کے گھر شادی روکنے آنا پڑا۔

" کیا وجہ ہےجو آپ کو یہاں آنا پڑا جہاں تک میں نے سنا ہے آپ بہت نیک اور اچھے انسان ہیں،آپ کو پورا شہر جانتا ہے"۔لڑکی کے والد چونکہ نرم طبعیت کے اور سلجھے ہوۓ انسان تھے۔ وہ سٹیج سے اترے اور پوچھا۔

"میں آپ کو وجہ سب کے سامنے نہیں بتا سکتا انکل کیا آپ میری بات اکیلے میں سن سکتے ہیں"۔زین شاہ نے ان کو کہا۔ 

"ایسی بھی کیا بات ہےبیٹاآپ مجھے پریشان کر رہے ہیں"۔ انہوں نے گھبراتے ہوئے پوچھا۔

"چلیں میرے ساتھ سب کچھ پتا چل جاۓ گا۔حال میں ایک برائیڈل روم کے ساتھ بالکنی تھی،دونوں اندر داخل ہوۓ، سید زین العابدین شاہ نے کچھ چیزیں ان کے سامنے رکھیں اور پاس پڑی کرسی پر بٹھا یا کہیں صدمے سے وہ گر ہی نہ جائیں ۔فاروق صاحب چونکہ پڑھے لکھے انسان تھے،وہ جوں جوں ساری چیزیں دیکھتے گۓ ان کےچہرے کا رنگ بدلتا گیا اور ہوش وحواس کام کرناہی چھوڑگۓ۔

"اب میں کیا کروں باہر سب کو کیا جواب دوں گا؟کیا کہوں گا؟ یہ شادی کیسے روکوں اپنی بیٹی کو کیسے بچاؤں۔؟کیسے حفاظت کروں میں اپنی بیٹی کی؟پریشانی سے ان کے کندھے جھک گئے۔

"آپ پریشان نہ ہوں سب ٹھیک ہو جاۓ گا"۔زین شاہ نے انہیں تسلی دی۔

"کیسے ٹھیک ہو جاۓ گا،میری بیٹی کی شادی ہو رہی ہے_اگر بارات واپس چلی گئ تو اس سے شادی کون کرے گا،بہت بدنامی ہو گی ہر کوئ میری بیٹی کو قصور وار ٹہراۓ گا، میں کیا کروں کچھ سمجھ نہیں آرہا"۔فاروق صاحب نے روتے ہوئے کہا۔

 "آپ پریشان نہ ہوں میں آپ کی بیٹی کی حفاظت اپنے ذمے لیتا ہوں میں آپ کی بیٹی پر ہلکی سی آنچ بھی نہیں آنے دوں گا"۔زین شاہ نے ان کے شانے تھامتے ہوئے انہیں بھروسہ دلایا۔

 "لیکن میں لوگوں کو کیا کہوں گا کس رشتے سے بھیج رہا ہوں میں اپنی بیٹی کو تمہارے ساتھ"انہوں نے اپنی پریشانی بتائی۔

"ابھی پتا چل جاۓگا"۔زین شاہ نے کہا۔

 آدھے گھنٹے کے بعدسید زین العابدین شاہ کے گارڈ نے کسی کے آنے کی اطلاع  دی ،آنے والی دونوں شخصیات فاروق صاحب کو کھڑا ہونے پر مجبور کر گئیں۔

" أپ لوگ یہاں شاہ صاحب مجھے تو یقین ہی نہیں أرہا کہ یہاں کے گدی نشین میرے پاس آئے ہیں۔پلیز بیٹھیں نہ کھڑے کیوں ہیں"فاروق صاحب نے انہیں  بیٹھنے کو کہا اور پھرجو بات سید عالم شاہ نے کہی فاروق صاحب کو پھر سے کھڑا ہونے  پر مجبور کر گئ۔

  "دیکھیں فاروق صاحب آپ کی بیٹی کی پوری زندگی کاسوال ہے،آپ اس کے باپ ہیں،آخری فیصلہ آپ کا ہو گا،سوچ سمجھ کر فیصلہ کیجیۓ گا،سید فیروز شاہ نے کہا۔ 

"لیکن آپ بہت بڑے لوگ ہیں،اتنا بڑا اورامیر خاندان ہے آپکا ،کتنے ہی ریسٹورانٹ اور ہوٹل ہیںآپ کے اس شہر میں ،آپ تو جہاں چاہے اپنے پوتے کا رشتہ کرسکتے ہیں،آپ کو کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا پھر میری بیٹی سے اپنے پوتے کی شادی کیوں کرنا چاہتے ہیں"۔فاروق صاحب نے اپنے دل کی بات پوچھی۔ 

  "آپ کی بات اپنی جگہ درست ہے لیکن ہمیں اپنے بیٹے کے لیۓ نیک، شریف ،پردے دار اور معصوم لڑکی چاہئے  اور آپ کی بیٹی بلکل ویسی ہے جیسی ہمیں اپنے پوتے کے لیۓ چاہیۓ"۔سید عالم شاہ نے کہا۔

" ہماراپوتا ہم سے کوئ بات بھی نہیں چھپاتا وہ کافی دنوں سے بہت پریشان تھا۔ ہمارے پوچھنے پرسب کچھ ہمیں بتا دیا۔("میں کیسے بچاؤں اس لڑکی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کروں،اب آپ لوگوں کو بتایا ہے،اب بتائیے بتاؤ کیا کروں کچھ سمجھ نہیں آرہا ،اگر شادی رکوانے جاؤں تو لڑکی کی بہت بدنامی ہو گی،لوگ طرح طرح کے سوال کریں گے _اس لڑکی کے کردار پے انگلیاں اٹھیں گی اور پوچھیں گے ۔اتنا بڑا آدمی کیوں شادی رکوانے آیا ہے اور کس رشتے سے یہ لڑکی کو ساتھ لے کر جاۓ گا، اوراصل بات ابھی منظر عام پر نہیں آنی چاہیے،نہیں تو بہت بڑا نقصان ہو جاۓ گا"۔)انہوں نے زین شاہ  کے بولے الفاظ دوہرائے جو اس دن زین شاہ نے دونوں کو کہے تھے۔ 

" ہم سب نے مل بیٹھ کے مسٔلہ کا یہی حل نکالا اور سید زین شاہ سے کہا کہ شادی والے دن آپ کے پاس جا کر بات کرے اور جب بات بن جاے تو ہمیں بلا لیناکیونکہ اگر ہم شادی سے پہلے یہ سب کرتے تو انہیں شک ہو سکتا تھااور وہ چوکنا ہو جاتےہم ان کو بھاگنے کا موقع نہیں دینا چاہتےتھے،اس لیۓ عین شادی والے دن یہ سب کیا"۔سید عالم شاہ نے بتایا۔

  "وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن باہر جو مہمان ہیں اور باراتی ان سب کو کیا جواب دیں گے"۔فاروق صاحب نے پوچھا۔

"اس بات کا حل بھی ہے ہمارے ساتھ پاس"۔سید فیروز شاہ نے کہا۔

 سب لوگ باہر آۓ تو حال میں بہت سے لوگ فضول باتیں  بنا رہے تھے_کوئ کچھ کہ رہا تھا کوئ کچھ،سب ان کو اکٹھا دیکھ کرچپ ہو گۓ کیونکہ اتنے بڑے لوگوں سے وہ کچھ نہیں کہہ سکتے تھے۔

 "ہم آپ سب سے معذرت چاہتے ہیں،یہ شادی نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ بچی میرے پوتے کے نکاح میں ہے"۔سید عالم شاہ نے سب کو جواب دیا۔ 

  لوگ تو سن کے حیران ہی رہ گۓ ۔

" اگر اس لڑکی کا نکاح ہو گیا تھا،تو یہ دوبارہ نکاح کیوں کروا رہے ہیں،یہ تو بہت بڑا گناہ ہے،نکاح پر نکاح تو بہت بڑا گناہ ہے ۔ فاروق صاحب اتنا بڑا گناہ کیسے کر سکتے ہیں"۔دولہے کی ماں بولی۔

 " فاروق صاحب اس نکاح کے بارے میں نہیں جانتے"۔فیروز شاہ نے بتایا۔

"ایسا کیسے ہو سکتا ہے، لڑکی کے باپ کو نکاح کا پتہ نہ ہو یو تو پہلی دفع سنا ہے"۔ وہ پھر سے بولیں

 " اس لیے کیونکہ بچی کا نکاح اس کے داداجان نے کروایا تھا،وہ بھی بچپن میں جب وہ آٹھ سال کی تھی،اس لیے لڑکی کے والد کچھ نہیں جانتے" ۔عالم شاہ نے بتایا۔

 " اگر لڑکی کا نکاح بچپن میں ہوا تھا تو اب تک آپ کہاں تھے اور اس کے دادا کا آپ سے کیا تعلق تھا"۔ دلہے کی ماں بولی۔ 

."وہ میرا اور سید فیروز شاہ کا کالج کے زمانے کا دوست تھا،وہ بہت عرصہ ہمارے ساتھ رہا ہماری دوستی بہت گہری ہو گئ، اس دوستی کو مضبوط کرنے کے لیۓ ہم نے اپنے بچوں کا نکاح کر دیا اور سب کو منع کر دیا کہ گھر والوں کو کوئ نہیں بتاۓ گا، بچوں کو بھی نہیں کیونکہ ہم چاہتے تھے جب بچے بڑے ہو جائیں گےتو سب کو ہی بتا دیں گے اور جہاں تک بات ہے ہم اتنا عرصہ کہاں تھے، ہم کاروبار میں مصروف ہو گئے تھے، آنا جانا بہت کم ہو گیا اور ہمارا پوتا ہائر سٹڈی کے لیۓ کے لۓ آسٹریلیا چلا گیا،دو ماہ پہلے واپس آیا ہے _ہم نےسید زین شاہ کوسب بتا دیا اور اس کو پتا کرنے کو کہا اور ہمیں پتا چلا کہ بچی کی شادی ہو رہی ہے،اس لیۓ ہم آگۓ "۔سید عالم شاہ نے بتایا۔

دلہے کے ماں باپ لڑ جھگڑ کر باتیں سناکرچلے گۓ پھر قریبی رشتےداروں  کے علاوہ سب کو بھیج کر  نکاح کروایا گیا۔  

نکاح کے آدھے گھنٹے بعد سید عالم شاہ نے فاروق صاحب سے رخصتی کی  اجازت لی اور اپنی گاڑیوں میں اپنے سید ولا کی طرف روانہ ہو گۓ ۔

گاڑی گیٹ کے آگے رکی، گیٹ کھولنے کے بعد گاڑیاں راہ داری سے اندر بڑھیں۔

 وہ گھر کم محل زیادہ لگ رہا تھا اور خوبصورتی میں اپنی مثال آپ  تھا۔ گاڑیاں آگے پیچھے رکیں۔ دلہن کے استقبال کے لیۓ کافی ملازمائیں  دروازے میں کھڑی تھیں کیونکہ گھر میں کوئ عورت نہیں تھی ۔اس لئےسارا انتظامات سید عالم شاہ اور سید فیروز شاہ نے خود اپنی نگرانی میں کرواۓ تھے اس لیے کہ ان کے گھر میں کافی عرصے بعد کوئ عورت آرہی تھیوہ بھی انکے لاڈلے بیٹے کی دلہن تو انہوں نے پورے گھر کو دلہن کی طرح سجا دیا۔

&&&&&&&&&&&

دلہن کابہت خوبصورتی سے استقبال کیا گیااور  خوبصورت سے حال میں بٹھایا گیا۔

" جو کمرہ دلہن کے لیۓ تیار کیا ہے ان کو وہاں لے جائیں تاکہ بچی آرام کر لےاور کھانا بھی روم میں دے دیجیۓگا،پتہ نہیں کب کا کھانا کھایا ہوا ہے"۔سید عالم شاہ نے بوا سے کہا۔

"کپڑے تبدیل کر لیں بی بی جی تب تک میں آپ کے لیۓ کھانا لے کر آتی ہوں  " ملازمہ نے اسے اس کا کمرہ دکھایا اور کپڑے دے کر کہا۔

 نور صبا نے پورا کمرہ دیکھا اور کپڑے لے کر باتھ روم گئ۔فریش ہو کر وضو کیا اور جاۓ نماز کےلیۓ ملازمہ کا انتظار کرنے لگی۔ 

لگژری  کمرہ تھا،ہر چیزبہت قیمتی اور خوبصورت تھی،کمرے کی اک سائیڈ پر بہت خوبصورت اورسٹائلش وارڈروب بنی ہوئ تھی ،درمیان میں بڑا بیڈ اوراس کے سامنے کھڑکی تھی۔ جس پر نیٹ کے پردے لگے ہوۓ تھے اوردائیں جانب ڈیسنٹ سا صوفہ رکھا ہوا تھا۔

اتنی دیر میں ملازمہ آ گئ اس نے کھانے والی ٹرالی صوفے کے پاس رکھی اور میز پر کھانا لگایا اور نظر جیسے ہی نور صبا پر گئ تو وہی جم گئ ،نور صبا تھوڑی تذبذ کا شکار ہوئ اور سوچ رہی تھی کہ یہ ملازمہ ایسے کیوں دیکھ رہی ہے،اس نے ملازمہ سے پوچھا تو وہ ہوش میں آئی۔

 "بی بی جی..... آپ تو بلکل چاند کا ٹکڑا ہیں،کتنی خوبصورت ہیں أپ ، ہمارے چھوٹے صاحب کے ساتھ سجتی ہیں،وہ بہت اچھے ہیں اورماشااللہ  خوبصورت بھی بہت ہیں آپ کی جوڑی بہت خوبصورت ہے اللہ نظر بد سے بچاۓ"۔بوا جی نے اس کی دل سے تعریف کی۔

"آپ اب کھانا کھائیں میں آکے برتن لے جاؤں گی آپ کو کچھ چاہیۓ تو بتا دیں"۔ 

."جی ہاں بوا جاۓ نماز چاہیۓ  تھی،نماز پڑھنی ہے"۔نور صبا نے دھیمی آواز میں جواب دیا۔

"بی بی جی آپ کتنا دھیما اور میٹھا بولتی ہیں "بوا تو نورصبا کی دھیمی آوازسن کر ہی نہال ہو رہی تھیں ۔

 نور صبا نے کھانا کھایا۔  بوا برتن سمیٹ کر واپس لے گئیں۔ 

  پھر اس نے نماز پڑھی دعا مانگنے کے لیۓ ہاتھ اٹھائےتو کچھ سمجھ نہ آیا کیا مانگے۔ تو اپنی قسمت کا فیصلہ اللہ کے سپرد کر دیا اورسونے کے لیۓ لیٹ گئ۔ 

***************

صبح اٹھ کے اس نے وضو کیا، نماز پڑھ کے قرآن پاک کی  تلاوت کرنے کے بعد سمجھ نہیں آیا کہ باہر کیسے جاۓ ،تھوڑی دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی ،بوا اس کا ناشتہ لے کر آئیں،ناشتے سے فارغ ہوئی تو سید عالم شاہ کچھ ملازموں کے ساتھ اندر آۓ جن کے ہاتھ میں شاپنگ بیگ تھے ۔ 

"اسلام وعلیکم ...کیسی ہیں بیٹا آپ،کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی"۔داداجان نے پوچھا۔

"نہیں کچھ بھی نہیں چاہیے"۔نور بولی۔

"ہم سید زین شاہ کے دادا ہیں تو اس لحاظ سے آپ کے بھی دادا ہوۓ، آج سے آپ ہمیں داداجان کہیں گی اور آپ سوچ رہی ہونگی کہ کوئ عورت نہیں آئی، آپ سے ملنےتو اس گھر میں کوئ عورت نہیں ہے، ہم تین لوگ رہتے ہیں اس گھر میں،  سید زین شاہ اس کے نانا اور میں ،اب آپ ہماری چھوٹی سی فیملی میں شامل ہوگئ ہیں اور یہ سب آپ کی ولیمے کی شاپنگ ہے، سب کچھ دیکھ لیں اگر کوئ چیز رہ گئ ہو یانا پسند آۓ تو بتا دیجیۓ گا ہم چینج کروادیں گے"۔عالم شاہ نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے کہا۔ 

  ہم آپ کو اپنی فیملی  سی انٹروڈیوس کروانا چاہتے  ہیں،اچانک شادی کی وجہ سے کسی کو بتا نہیں سکے، اس لیۓ دو دن بعد ولیمہ رکھا ھے آپ کو بھی اس حادثے سےباہر نکلنے کا ٹائم مل  جاۓگا ،آپ کو اس کمرے میں ٹھرایا بھی اسی لیۓ ہے ، ولیمے کے بعد آپ کی پراپر رخصتی کی جاۓ گی اور آپ کو آپ کےاصل کمرے میں لے جایا جاۓ گا ، تب تک اپنا گھر دیکھیں دل بھی بہل جاۓ گا اور بور بھی نہیں ہونگی ،میں نے بوا سے کہ دیا ہے وہ آپ کو سارا گھر دکھا دیں گی، کچھ بھی چاہیے ہو تو بیٹا شرمانا نہیں یہ آپ کا اپنا گھر ہے"۔ 

  سید عالم شاہ نے نور صبا کے سر پر پیار دیے۔

  گھر دیکھنے میں اس کو دو گھنٹے لگے،بوا اس کو کچن میں لے آئیں،گھر کی طرح کچن بھی اتنا ہی خوبصورت تھا۔

 " جلدی سے کھانا دیں بوا دیر ہو رہی ہے " سید زین العابدین شاہ کی آواز آئ اور بے دیہانی سے دروازے میں کھڑی نور صبا سے ٹکرا گیا ،اس سے پہلے وہ گرتی زین نے اسکے بازو سے پکڑ کر اس کا رخ اپنی طرف کیا اورجیسے ہی نظر مقابل چہرے پر پڑی نظر ہٹاناہی بھول گیا۔

 " بڑی بڑی کالی آنکھیں ،جن میں  بھر کے کاجل لگایا گیاتھا،موٹی ناک جس میں چھوٹا سا لانگ پہنا ہوا تھا ،باریک پتلے ہونٹ وہ تو بھول ہی گیا تھا کہاں کھڑا ہے اور کیوں کھڑا ہے اور نور صبا تو سن سی ہو گئ کہ اچانک ہوا کیا ہے اور جب ہوش آیا تو ہاتھ چھڑا کر بھاگ کھڑی ہوئی ۔

ہاتھ چھڑانے سے زین شاہ  بھی  ہوش میں آیا اور دیکھا تو بوا مسکرا کر دیکھ رہی تھیں ۔

وہ بوا کی بہت عزت کرتا کیونکہ ایک تو ان کی عمر زیادہ ہے اور وہ پچھلے تیس برس سے یہاں کام کر رہی ہیں، اس لیے وہ بوا سے ہر بات کر لیتا تھا اور تھوڑی بہت شرارت بھی کرلیتا تھا ۔اس لیے اس نے بوا سے پوچھا ۔

" یہ لڑکی کون ہے بوا ، کچن میں کھڑی کیا کر رہی "۔اس نے پوچھا۔

"  کیوں مزاق کر رہے ہیں چھوٹے شاہ جی، آپ کو نہیں پتا یہ کون ہے "۔انہوں نے سمجھا شاید شرارت کر رہا ہے۔

 " بوا میں سچ میں نہیں جانتا اس لیۓ تو آپ سے پوچھ رہا ہوں" ۔اس نے الجھتے ہوئے پوچھا۔

 "  اپنی وہٹی کو نہیں پہچانتے آپ " ۔انہوں نے سوالیا انداز میں کہا۔

 "  کیا کہ رہی ہیں آپ" ۔ وہ حیرت سے بولا۔

 " سچ کہ رہی ہوں میں، بیوی ہے آپ کی اور آپ نے پہچانا ہی نہیں' ۔انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔

 "اوہ۔ مجھے نہیں پتا تھا بوا۔ پہلی دفعہ دیکھ رہا ہے ہوں  آپ کے سامنے "۔وہ حیرت سے نکلتے ہوئے بولا۔

 " اسی لیۓ تو اتنے کھو گۓ تھے ویسے ایک بات کہوں، آپ کی دلہن خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ معصوم بھی بہت ہے،کہیں سے بھی چالاک نہیں  لگی وہ مجھے  اور آپ دونوں کی جوڑی بھی ماشااللہ بہت اچھی لگے گی"۔ بوا مسکرا کر بولیں۔

بوا نے اس کو کھانا دیا  اور وہ اپنے آفس چلا گا  اور دوسری طرف نور صبا دروازے کے ساتھ کھڑی آنکھیں بند کئے  لمبے  لمبے  سانس لے رہی تھی ۔

سفید کاٹن کے سوٹ میں، تھوڑی چھوٹی تھوڑی بڑی آنکھیں ،درمیانی مونچھیں، لمبا  قد  اس نے آج دوسری دفعہ اس کو دیکھا تھا۔ اس کو اپنی قسمت پے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اس کی قسمت میں لکھا تھا۔جس کو پانے کی ہر لڑکی نے خواہش کی تھی۔

نور صبانے پہلی دفعہ اس کو یونیورسٹی کے" Annualfunction"  میں دیکھا تھا۔ جس میں وہ "Chief guest"تھا ۔وہ اپنی دوستوں کے ساتھ حال میں جا رہی تھی۔ جہاں آج کا "function"تھا،  

تم نے سناآج کا"chief guest" کون ہے، میں تو اتنی" exited" ہوں،پتا  ہے آسٹریلیا سے پڑھ کے آیا ہے ،خوبصورت بھی بہت ہے ،روز خبروں میں اسی کا نام اور کام ہے ،تھوڑے عرصے میں اس نے اپنا خودکا نام بنایا ہے حالانکہ بہت رئیس خاندان سےتعلق ہے اسکا، دادا اور نانا کا تعلق سیاست سے ہے پھر بھی سب کچھ اپنے بل بوتے پر کیا ہے اپنی محنت سے۔

نور صبا ان لڑکیوں سے پیچھے تھی، اس لیے سب باتیں آسانی سے سن سکتی تھی ۔وہ سب حال میں داخل ہوئیں تو سب اپنی اپنی جگہ پربیٹھ گئیں۔" function"شروع ہو چکا تھا ۔سب کی زبان پر ایک ہی نام تھا پھراچانک حال میں شور مچ گیا ۔ مہمان خصوصی کا استقبال  کیا گیا۔ان کو "VIP"سیٹ پر بٹھایا گیا، انعامات تقسیم کیۓ گۓ۔ فرسٹ آنے والوں کو ان کی ڈگری دی گئی۔ آخر میں پورے شہر میں ٹاپ کرنے والے کا نام بلایا گیا ۔ اسکو انعام"chief guest"نے دینا تھا۔

 سٹیج پرسید زین العابدین شاہ کو "invite"کیا گیا اور ٹاپر کا نام بلایا گیا۔  نور صبا نے سٹیج پر آکے اپنا پرائز لیا تو زین شاہ نے مبارک  دی ،وہ سٹیج سے اتر گئ۔ اس کی سب کلاس فیلو نے اس کو مبارک دی ۔

آج دوسری ملاقات میں وہ اس کی بیوی کی حثیت سے اس کے گھر میں تھی، وہ سوچ رہی تھی کہ کیا اتفاق ایسے بھی ہوتے ہیں ۔ 

وہ ریلیکس ہوئی وضو کرکے ظہر کی ،نمازادا اپنے لیۓ اور سب کے لیۓ بھلائی کی دعا مانگی اور آج کے واقعہ کے بارے میں سوچنے لگی کیا اس کوبھی میں یاد  ہوں یا نہیں میں کیسے یاد ہونگی میں تو پردے میں تھی۔ اسلیۓ  میں ان کو یاد نہیں ۔ سر جھٹک کروہ تھوڑی دیر لیٹی رہی تواس کی آنکھ لگ گئی۔

  &&&&&&&&&

دو دن بہت مشکل سے گزرے آج ولیمہ تھا،اس کو بیوٹی پارلر سے تیار کروایا گیا لیکن حجاب کا خاص خیال رکھا گیا کہ اس کے بال اور چہرہ نظر نہ آۓ سپرائیٹ کلر کا  خوبصورت فراک جس کے گلے،بازو اورگھیرے پر گولڈن  اور سرخ موتیوں کا کام کیا گیاتھا۔ آنکھوں پر گولڈن میک اپ اور سرخ لپ اسٹک وہ اس قدر خوبصورت لگ رہی تھی کہ دیکھنے والے حیران ہی رہ جائیں ،سب خواتین باری باری گھونگھٹ ہٹا کر دیکھ رہی تھیں۔

سید زین العابدین شاہ آف وائیٹ سوٹ کے اوپر گولڈن واسکٹ پہنے حال میں داخل ہوا،سلام کے بعد نور صبا کے پاس آکے بیٹھا۔ 

" آپ آرام سے بیٹھ جائیں تھوڑی دیر بعد ہم لیڈیز کی طرف چلیں گے"۔وہ اس کی بے چینی نوٹ کر چکا تھا۔

لیڈیز چونکہ یہاں بھی تھیں پر ماڈرن فیملیز کی،باقی لیڈیز جو پردہ کرتی تھیں اور فیملی کی خواتین وہ دوسری طرف تھیں۔

  سید گھرانہ چونکہ پردے کا پابند تھا، اس لئے خواتین کے علیحدہ انتظامات کرواۓ گئے تھے،سید زین العابدین کے نانا اور دادا دونوں سٹیج پر آۓ۔

سید عالم شاہ نے" Seiko Spring Drive" کی واچ   اپنے پوتے کو گفٹ کی، اورنانا نے"bmw 7 series"   کار گفٹ کی۔

عالم صاحب نے اپنا گھر نور صبا کے نام کر دیا اور فیروز شاہ نے ڈایمنڈ سیٹ اور اپنا ایک فلیٹ اس کے نام کر کیا۔

نور صبا کے گھر والوں کو لانے کے لئے  عالم صاحب نے خود ڈرائیور بھیجا تھا۔،وہ لوگ بھی پہنچ گئے تھے، اپنی بیٹی کی قسمت پر اللہ کا شکرادا کیا، اس کے اچھے نصیب کی دعائیں کیں۔ 

 اس کو لیڈیز کی طرف لے جایا گیا وہاں  چونکہ خواتین ہی تھیں،اسلیۓ اسکا حجاب اتار دیا گیا،اچھے سے دوپٹا سیٹ کیا گیا، اب دلہن کو باری باری سب دیکھنے آئے اور منہ دکھائی بھی دی،اس کی تعریف بھی کی سب کو دلہن بہت پسند آئی۔

 " دلہے صاحب آگئے ہیں چلو بھئ دلہے کو بیٹھنے کی جگہ دو ،دلہے کو بٹھانے کے بعد کزنوں نے تھوڑا ہنسی مذاق کیا۔اس کے بعد ایک بڑا سا شیشہ لائے  ان کی رسم کرنے کے لئے، ان دونوں کے درمیان شیشہ رکھا گیا  اوپر بڑا سا دوپٹا ڈالا گیا اب شیشے میں وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ سکتے تھے، زین تو نور صبا کو دیکھ کر ہی فریز ہو گیا،اس دن سادگی میں اتنی پیاری لگ رہی تھی اور آج تیار ہو کر تو اس کے مکمل ہوش اڑا رہی تھی ۔

وہ تو اس کو دیکھے ہی جا رہا تھا نور صبا نے ایک نظر ڈال کر پلکیں جھکا لیں کیونکہ اس سے نظریں اٹھائی ہی نہیں جا رہی تھیں،اس کی مشکل زین کے کزنوں  نے دور کی، وہ ذین کو ہوش میں لائے۔

"دلہا صاحب کہاں کھو گئے آپ کی ہی ہیں، اب تو ساری زندگی ان کو دیکھنا ہے زرا ہوش میں آئیں اور ہمیں نیگ دیں"۔اس کی کزنز نے کہا۔

" کس بات کا نیگ وہ تو دودھ پلائی کا ہوتا ہے "۔اس نے بھی دوبدوجواب دیا۔

"دودھ پلائی سے تو آپ بچ گئے ہیں،آپ کی دلہن کی منہ دکھائی تو کروائی ہے نا اس کا نیگ"۔انہوں نے اور گھیرا ڈالا۔

"لیکن میں تو نہیں لایا وہ اپنی مسکراہٹ دبا گیا' ۔وہ بھی کسی سے کم نہیں تھا۔

"کیا .....لیکن ہمیں تو چاہیۓ"۔انہوں نے چیختے ہوئے کہا۔

" میں مذاق کر رہا تھا یہ لو تم لوگوں کے گفٹ"۔ اس نے چاروں کزنوں کو گولڈ کے بریسلٹ دیۓ ،جسے دیکھ کر سب بہت خوش ہوئیں اور شکریہ کہ کر چلیں گئیں۔ 

انہیں گھر پہنچتے رات کے گیارہ بج گئے۔

 نور صبا کا بھرپورطریقے سے  استقبال کیا گیا،انگوٹھی چھپائی کی رسم کی گئی۔ جس میں جیت زین شاہ کی ہوئی۔

" چلو سب اب دلہن تھک گئی ہے دلہن کو اس کے کمرے میں لے کر جاؤ "۔عالم شاہ نے کھڑے ہو کر سب کو اٹھنے کے لئے کہا۔

دلہن کو زین شاہ کے کمرے میں لے جایا گیا ،سب لڑکیوں نے اسے بیٹھنے میں مدد کی زین شاہ کے آنے کے بعد سب کزنیں چلی گئیں ۔

کمرے کا دروازہ لاک کرکے وہ بیڈ پر آ کر بیٹھا۔ وہ نور کو دیکھ رہا تھا ۔جو اپنے ہاتھ مروڑ رہی تھی۔

سلام کرنے کے بعد اس نے بات کا آغاز کیا ۔

"میں جانتا ہوں.... آپ کیا سوچ رہی ہیں۔ آپ پریشان نہ ہوں ،میں آپ کو وقت دوں گااس رشتے کو قبول کرنے کے لئے،جو کچھ بھی ہوا اتنی جلدی میں ہوا کہ کسی کو کچھ سوچنے کا وقت ہی نہیں ملا،آپ جتنا چاہیں وقت لے سکتی ہیں،میں آپ کو پریشان نہیں کروں گا،ریلکس ہو جائیں اور یہ آپ کی منہ دکھائی کا گفٹ "۔زین نے ایک کیس اس کے ہاتھ میں دیا ۔

" کھول کے نہیں دیکھیں گی" ۔اس نے أہستہ سے اس کے ہاتھ میں تھمایا۔

نور صبا نے  نے کیس کھول کر دیکھا تو اس میں بہت خوبصورت اور قیمتی ڈائمنڈ کا بریسلٹ تھا ۔

 " کیسا لگا آپ کو یہ گفٹ،اگر اچھا نہیں لگا تو بتا دیں میں چینج کروا دونگا" ۔ زین نے پوچھا۔

 "نہیں .....ایسی بات نہیں ہے بہت پیارا ہے اور قیمتی بھی" ۔اس نے أہستگی سے جواب دیا۔

"اب آپ چینج کر لیں ۔تھک گئی ہوں گی،وہ سامنے ڈریسنگ روم ہے،جائیں چینج کر لیں،زین نے اس کی مشکل أسان کی۔ 

وہ چپ چاپ کھڑی رہی،جیسے کچھ کہنے سے ہچکچا رہی ہو ۔

" کیا بات کچھ کہنا چاہتی ہیں،کہیں پلیز ہچکچائیں نہیں" ۔زین نے پوچھا۔

"وہ میراسامان نہیں ہے یہاں ،سارا سامان دوسرے روم میں ہے"۔نور صبا نے دھیمی أواز میں کہا۔

" آئیں میرے ساتھ."۔ زین نور صبا کو لے کر ڈریسنگ روم  گیا ۔وہاں بہت بڑی کبڈ تھی اور ساری کبڈ کھول کے دکھائیں،جس میں اس کے کپڑے،جوتے،جیولری سارا سامان  موجود تھا،جو بلکل نیا اور پیک کیا ہوا تھا،

" یہ سب آپ کی چیزیں ہیں اور ضرورت کا سارا سامان موجود ہے ،کپڑے وغیرہ بھی دیکھ لیں اگر پسند نہ آئیں یا سائز کا فرق ہو توبتا دیجئےگا"۔

 زین چلا گیا تو وہ  اپنے لئے ڈریس دیکھنے لگی، سب ڈریسز وزنی اور کام والے تھے، وہ سب دیکھ رہی تھی، پھر اس نے قدرے ہلکے کام والا لائٹ پنک کلر کا ڈریس نکالا اور باتھ روم سے وضو کر کے آئی، تب تک زین بھی ڈریس چینج کرکےآگیا۔  

"مجھے جائے نماز چاہئے ،کہاں ہے مجھے پتا نہیں ہے" ۔

زین دو جائے نماز لے کر أیا۔پھر دونوں نے نماز ادا کی۔نئی زندگی کاأغاز کرنے کے لئے نوافل پڑھےاور ایک ساتھ دعا مانگی۔

دونوں نماز پڑھ کر فارغ ہوئے تو زین نے اس سے کھانے کا پوچھا،اسے پتا تھا کہ ولیمے کی وجہ سے اس نے برائے نام ہی کھانا کھایا تھا۔

نور صبا نے أہستہ سے سر ہلایا کیونکہ بھوک اسے بہت تیز لگی تھی، اب برداشت سے باہر ہو رہی تھی،یہ بھی شکر تھا کہ اس نے پوچھ لیا ورنہ وہ ایسے ہی خالی پیٹ سونے کا سوچنے لگی اسے پتہ تھا خالی پیٹ اسے نیند نہیں أئےگی

زین اسے شرمندگی سے سر ہلاتا دیکھ رہا تھا،جو صرف ہاں بولنے پر شرمندہ ہو رہی تھی،زین نے ملازمہ کو کال کر کے کھانا منگوایا ۔ملازمہ کھانا ٹیبل پر رکھ کر چلی گئی۔

بہت اچھے طریقے سے ٹرے سیٹ کی گئی، اچار گوشت،قورمہ،بریانی،سیلڈ،رائتہ اور چکن پکوڑہ تھا،اب دونوں صوفے پر بیٹھ کر کھانا کھانے لگے،زین نے ایک ہی پلیٹ میں دونوں کے لئے کھانا نکالا،وہ ہچکچا رہی تھی تواس نے نوالا بنا کر اس کی طرف بڑھایا، جسے اس نے کچھ جھجھک کر منہ میں لے لیا،اس طرح أہستہ أہستہ دونوں نے مل کر کھانا کھایا، نور صبا اب خود اپنے ہاتھوں سے کھا رہی تھی لیکن نظریں جھکی ہوئی تھیں۔

" چاہےلے گی یا کافی منگواؤں آپ کے لئے ،میں اپنے لئے کافی منگوانے لگا ہوں۔زین نے اس سے پوچھا۔

" چاہے منگوا لیں"۔اس نے کہا۔

زین نے ملازمہ سے فون پے چائے اور کافی کا کہا اور ساتھ برتن لیجانے کا بھی کہ دیا۔

دس منٹ میں ہی ملازمہ چائے اور کافی لے آئی اور ٹرے اٹھا کر لے گئ ،زین نے اپنے لئے کافی اٹھا کر چائے کا مگ نور صبا کو دیا۔

نور نے چائے کا خالی مگ ٹیبل پر رکھا اور صوفے پر بیٹھ کر انگلیاں چٹخانے لگی، اس کو اب سمجھ نہیں أرہی تھی کہ  کیا کرے، اب اسے بہت نیند أرہی تھی لیکن مسئلہ یہ تھا سوئے کہاں۔

زین کافی پیتا گاہے بگاہے اسے نوٹ کر رہا تھا،اس کو صوفے پر بیٹھا دیکھ اپنی مسکراہٹ مگ کے پیچھے چھپا گیا،اس کو سمجھ أگیا کہ وہ کیا سوچ رہی ہے،اس نے مگ ٹیبل پر رکھا اور اس کے پاس آکر بیٹھ گیا،

اس کا ٹھنڈا ہاتھ اپنے گرم ہاتھ میں لے کر اس کو حرارت دینے لگا، اس طرح کرتے وہ نور کا چہرہ اپنی نظروں کے حصار میں لئے ہوئے تھا۔

" میں جانتا ہوں آپ کے لئے یہ قبول کرناآسان نہیں ہے لیکن ایک بات آج میں آپ کو اپنے بارے میں بتا دوں ،میں نے اپنی ساری زندگی بغیر عورت کے گزاری ہے،آپ پہلی عورت ہیں جو میری زندگی میں آئی ہیں،اس رشتے کو دل سے قبول کیا ہے میں نے،آپ کو بنا دیکھے ہی قبول کیا ہےاور نکاح کے وقت اس رشتے کو دل سے اپنانے کا عہد خود سے کیا ہے،میں جانتا ہوں آپ کو کچھ وقت چاہیے اس رشتے کو اپنانے کے لئے،جتنا چاہے وقت لے سکتی ہیں، میں آپ کو فورس نہیں کروں گا لیکن تب تک ہم اچھے دوست بن کر تو رہ سکتے ہیں،اس لئے آپ کو جو بھی بات کرنی ہو آرام سے بلا جھجھک کہ سکتی ہیں،کوئی بھی بات دل میں ہو فوری کہنی ہے،یہ گھر جتنا میرا ہے اتنا آپ کا بھی ہے ،جیسے مرضی رہ سکتی ہیں، کوئی پابندی اور روک ٹوک نہیں ہو گی،اب أرام کریں کافی لیٹ ہو گئی ہے' ۔زین نے اس کی ساری پریشانیاں ختم کیں جو اس رشتے کو لے کر اس کے دل میں تھیں،اب وہ کافی حد تک ریلکس ہو گئی تھی۔

$$$$$$$$$$$$

" میں بھی اپنی طرف سے پوری کوشش کروں گی اس رشتے کو نبھانے کی، آپ کو اپنے بارے میں سب کلئیر کرنا چاہتی ہوں،میری شادی جہاں ہو رہی تھی وہ رشتہ میرے والدین کی رضا سے جڑا اور  میں نے اس رشتے کو لے کر کوئی بھی خیال  ذہن میں نہیں آنے   دیا ۔میرے ذہن میں ہمیشہ یہی بات رہی ہے کہ اصل رشتہ شادی کے بعد شروع ہوتا ہے،عورت اور مرد کے درمیان خلوص اور محبت شادی کے بعد پروان چڑھتا ہے کیونکہ ان کے درمیان نکاح جیسا پاکیزہ رشتہ ہوتا ہے، میں نے نکاح سے پہلے ایسی کسی بات کو اپنے دل میں أنے کی اجازت نہیں دی"۔نور صبا نے أہستہ آہستہ اپنے دل کی ساری باتیں زین کو بتا دیں کیونکہ وہ اس کا محرم تھا۔ اس کا پورا حق بنتا تھا اس کے بارے میں ہر بات جاننے کا تاکہ اس کے دل میں کوئی بدگمانی نہ رہ جانےاور جب زین نے ہر بات اس سے شیئر کی تو وہ کیوں اسے بے اعتباری کی مار مارتی۔

" مجھے اس رشتے سے کوئی اعتراض نہیں ہے میں نے نکاح کے وقت ہی اس رشتے کو دل سے قبول کر لیا اور أپ میرے شوہر ہیں میرے محرم ،میں گنہگار نہیں بننا چاہتی نہ ہی اس رشتے کو بے اعتباری کی نظر کرنا چاہتی ہوں" ۔اس نے ہر بات کلئیر کر دی۔

زین کے خوبرو چہرے پر جاندار مسکراہٹ چھا گئی،اس رشتے کا احساس کس قدر خوبصورت تھا،اسے آج اندازہ ہوا تھا_اس نے اس کی صبیح پیشانی پر جھک کر  اپنے نئے رشتہ کا أغاز کیا۔

" چلیں اب بہت نیند أرہی ہے،صبح جلدی اٹھنا بھی ہے" ۔ زین نے اس کا ہاتھ تھام کر اٹھایا۔ 

وہ اٹھ کر بیڈ کی طرف بڑھی کیونکہ جتنا خیال زین نے اس کا کیا تھا،اس کو اس رشتے کے ہونے کا اعتماد دیا اگر وہ اس وقت پیش قدمی نہ کرتی تو اس رشتے کو بے اعتبار کر دیتی جو کہ وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔

وہ بیڈ کی دائیں جانب آکر کمبل اوڑھ کر لیٹ گئی۔بس دوپٹہ اس نے نہیں اتارا تھا۔

تھوڑی دیر بعد زین بھی دوسری طرف آکر لیٹ گیا۔

$$$$$$$$$$$$$

صبح کا آغاز بہت خوبصورت تھا،نور صبا اس کی طرف کروٹ لے کر سو رہی تھی،وہ صبح جلدی اٹھنے کا عادی تھا۔نور کی خوبصورت آنکھیں بند تھیں، ناک میں لونگ پہنی ہوئی،پنک ہونٹ آپس میں جڑے ہوئے،دوپٹا اب سر پر نہیں تھا جس کی وجہ سے بال کھلے ہوئے تھےلیکن ان کی لینتھ کا اندازہ نہیں ہو رہا تھا۔

آذانیں شروع ہو گئیں تھیں۔وہ خود بھی اٹھا اور نور صبا کو آہستہ سے ہلایا ۔کیونکہ اس کو پتا تھا وہ بھی نماز پڑھتی ہے۔

"  اٹھیں نور نماز پڑھ لیں دیر ہو رہی ہے"۔اسنے اسے اٹھاتے ہوئے کہا۔

اس نے آنکھیں کھولی تو زین کو سامنے بیٹھے پایا۔اس نے جلدی سے اٹھ کر سر پر دوپٹہ لیا۔

" وضو کر لیں نماز کے لیۓ دیر ہو رہی ہے" وہ اٹھی پانچ منٹ میں وضو کر کے آئی،زین جو اس کا ویٹ کر رہا تھا،اس کے آتے ہی وضو کرنے چلا گیا۔

وہ آیا تو نورویسے ہی کھڑی تھی تواس نے وجہ پوچھی۔

" میں آپ کے ساتھ نماز پڑھنا چاہتی ہوں۔اس لئے أپ کا انتظار کر رہی تھی" ۔اس نے دھیمے لہجے میں کہا۔

پھر دونوں نے مل کے نماز ادا کی۔

نماز پڑھ کے نور قرآن پاک کی تلاوت کرنے لگ گئی،تو زین اس کے پاس بیٹھ گیا،اس نے اسے اشارے سے اونچی آواز میں پڑھنے کا کہا۔وہ جو سورہ رحمن کی تلاوت کر رہی تھی اس کے کہنے پر زرہ بلند آواز میں پڑھنے لگی۔

تلاوت ختم کرنے کے بعد دونوں تھوڑی دیر کے لئے لیٹ گئےپھر دونوں آٹھ بجے اٹھے۔فریش ہونے کے بعد ناشتہ کرنے کے لئے ڈائینگ ٹیبل پر آئے جہاں زین کے داداجان اور نانا جان بیٹھے ان کا انتظار کررہے اور ساتھ صبح کا اخبار پڑھ رہے تھے،ان دونوں کے آنے بعد انہوں نے ناشتہ شروع کیا۔ناشتہ کرنے کے بعد سب ڈرائنگ روم میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔

" ہم آپ کو کچھ بتانا چاہتے ہیں نور بیٹا،آپ کے گھر والے یہاں آرہے ہیں رہنے کے لئے، ہم نے بھی بہت مشکل سے ان کو یہاں رہنے کے لئے راضی کیا ہے،آپ سے اس لئے کہ رہے ہیں،أپ ان کی بیٹی ہیں أپ کی بات ضرور مانے گے ،کچھ عرصے کی بات ہے جب حالات بہتر ہو جائیں گےتو پھر جیسا ان کو ٹھیک لگے گا ویسا ہی ہو گا ۔اور أپ بھی تو کچھ عرصہ گھر سے باہر نہیں نکل سکتیں۔ان سے ملنا نہیں ہو سکے گا، اس لئے ان کو یہاں بلا رہے ہیں،آج شام تک یا کل صبح تک وہ لوگ آجائے گے، آپ ان کے رہنے کا انتظام بوا سے کہ کر کروالیں،جو جو روم صاف کروانے ہیں کروا لیں،بوا کے ساتھ مل کر کھانے کا انتظام وغیرہ بھی کر لیں،اب یہ آپ کا اپنا گھر ہے،جو دل چاہے کر سکتی ہیں"۔عالم صاحب نےنور کو حالات سے آگاہ کیا۔

" أپ کے دادا جان ٹھیک کہ رہے ہیں_أپ اب اس گھر کا فرد ہیں_أپ کو کوئی کام بھی کرنا ہہ کسی سے بھی پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے_أرام سے ریلکس ہو کر جو چاہیں کریں کوئی روک ٹوک نہیں ہے،۔فیروز صاحب نے بھی اس کو سمجھایا۔

نور نے بوا ملازمہ کے ساتھ مل کر دو روم صاف کروائے،  ایک اپنے ماں اور بابا کے لئے اور ایک بھیا بھابھی کے لئے_انکا ایک ہی بیٹا تھاعفان جو کہ نور کے ساتھ بہت اٹیچ تھا،وہ دو سال کا تھااور سمجھدار اور شرارتی تھا۔

اس کو کام کرتے شام کے چار بج گئے تھے،وہ فری ہو کر فریش ہوئی اور بھابھی کو کال ملائی۔ 

" کب آرہے ہیں آپ لوگ بھابھی سب ویٹ کر رہے ہیں"۔ اس نے پوچھا۔ 

" ہم لوگ نکلنے لگے ہیں تمہارے سسرال سے گاڑی بھی آگئی ہے، ڈرائیور نے سارا سامان گاڑی میں رکھ دیا ہے ایک گھنٹے میں پہنچ جائیں گے'۔ بھابھی نے تفصیل سے بتایا۔  

نور کچن میں بوا کے پاس آئی ۔ان کے ساتھ مل کر کھانا بنوایا۔اب وہ فارغ تھی۔

اپنے روم میں آکر اس نے وضو کیا عصر کی نماز ادا کی، ایک نفیس اور خوبصورت کام والا لیمن کلر کا سوٹ نکال کر چینج کیا ،اب وہ ڈریسنگ ٹیبل کے آگے کھڑی اپنے بال بنا رہی تھی،زین دروازہ کھول کر اندر أیا،نور کے بال بناتے ہاتھ تھم گئے ،اس کے بال کسی نے آج تک نہیں دیکھے تھے،اس کے بابا اور بھائی کے سامنے بھی أج تک اس نے دوپٹہ نہیں اتارا تھا،اس کے بال بہت خوبصورت اور لمبے تھے،کمر سے بھی نیچے آتے۔اسنے ہمیشہ اپنے بال باندھ کر رکھے،کبھی کھلے نہیں چھوڑے ،اب بھی زین کے آنے سے وہ گھبرا گئی تھی۔

زین جو کہ اپنے ہی دھیان میں اندر آرہا تھا یکدم اسے دیکھ کر چونک گیا۔

وہ اتنی پیاری لگ رہی تھی اس سے نظر ہی نہیں ہٹ رہی،لیمن کلر کے ایمبرائڈری کے سوٹ میں لائٹ پنک کلر کی لپ سٹک اور آنکھوں میں کاجل کی خوبصورت لائن وہ تو جیسے مسمرائز ہو گیا،وہ ویسے ہی چلتا ہوا اس تک آیا۔اک کا رخ موڑ کر اپنی طرف کیا ۔

" بہت خوبصورت لگ رہی ہیں آپ،کیا بات ہےآج تو بڑی سپیشل تیاری کی ہے کوئی خاص بات ہے "۔اس نے ٹھوڑی سے پکڑ کر اس کا جھکا سر اوپر کیا اور اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔

 "ایسی بات نہیں ہے۔وہ میرے گھر والے آ رہے ہیں تو اس لئے تھوڑا سا تیار ہوئی ہوں"۔اس نے کانپتے لہجے میں کہا۔

"اوہ تو یہ مہربانی اس لئے ہوئی ہے،اگر مجھے پتا ہوتا تو میں پہلے ہی ان کو لے أتا،کم از کم اپنی بیوی کا اتنا خوبصورت روپ تو دیکھنے کو ملتا،ویسے اگر میں فرمائش کروں روز میرے لئے اتنا سجنے سنورنے کی تو کیا آپ میرے لئے روزانہ یہ تکلف کر سکتی ہیں،مجھے بہت خوشی ہو گی جب أپ میرے لئے یہ تیاری کریں گی۔"زین نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئےخوبصورت لہجے میں اپنے بات مکمل کی۔

زین فریش ہونے کے لئے باتھ روم چلا گیا،نور  کانپتے ہاتھوں سے اپنے بال سمیٹنے لگی،دروازے پر دستک ہوئی_اس نے دروازہ کھولا تو ملازمہ نے اسے سب کے آجانے کی اطلاع دی۔پہلے تووہ جانے لگی پھر یہ سوچ کر رک گئی کہ زین کے ساتھ جائے گی۔

زین فریش ہو کر أیا تو اس کو بیڈ پر بیٹھے دیکھ اس کی طرف آگیا۔

"گئیں نہیں ابھی آپ ،اب تو سب لوگ آچکے ہوں گے"۔زین نے اسے پوچھا۔

"وہ ....میں آپ کا انتظار کر رہی تھی أپ کے ساتھ ہی جاؤں گی نیچے"۔نور نے سر جھکا کر کہا۔

"چلیں پھر میں نیچے ہی جا رہا ہوں"۔زین نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔

وہ دونوں نیچے آئے تو سب ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے،انہوں نے سب کو ایک ساتھ سلام کیا سب اٹھ کر ان سے ملے، نور سب سے مل کر اپنے بھتیجے کے پاس آئی تو وہ بھی اسے دیکھتے اس کی گود میں أگیا،عفان تو اسے دیکھتے ہی چہکنے لگا کبھی اس کے منہ پر ہاتھ رکھتا تو کبھی اس کو پیار کرتا جیسے یقین کرنا چاہ رہا ہو کہ آیا یہ اس کی پھپھو ہی ہیں نہ،سب ان دونوں کا یہ پیار بھرا انداز دیکھ رہے تھے۔ 

سب کے لئے ریفریشمنٹ بوا ملازمہ کے ساتھ مل کر لگوا چکی تھی۔ 

نور بیٹا !سب کو ان کے کمرے دکھائیےتھک گئے ہو گے"۔ عالم شاہ نے کہا۔ 

"نہیں ...نہیں ہم بلکل بھی نہیں تھکے آپ لوگ پریشان نہ ہوں"۔فاروق نے جلدی سے کہا۔

"چلیں پھر کھانا لگوا دیں سب ایک ساتھ کھائے گے، کتنے سالوں بعد آج ہمارے گھر میں یوں رونق لگی ہے ،سب لوگ اکھٹے ہوئے ہیں،ہمیں بہت خوشی ہورہی ہے"۔عالم صاحب نے دل سے کہا۔

###########

"یہ تو آپ کا ظرف ہےشاہ صاحب، ہمیں اتنی عزت دے رہے ہیں،آپ سید لوگ ہیں یہاں کے گدی نشین رہے ہیں ،اب آپ کے پوتے بھی گدی نشین ہیں،یہ تو ہماری بیٹی کی قسمت اچھی ہے کہ اس کو آپ جیسے اچھے لوگ ملے ہیں،میں تو اپنے اللہ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہےکہ اس نے میری بیٹی کا اتنا اچھا نصیب لکھا ہے"۔فاروق صاحب شکریہ ادا کرتے ہوئے بولے۔

" ہمیں بہت مایوس کیا ہے آپ نے،آئندہ ایسی باتیں مت  کیجئے گا ،شکریہ تو ہمیں ادا کرنا چاہئے کہ ہمیں اتنی پیاری اور اچھی لڑکی ملی ہے اپنے پوتے کے لئے، بہت نیک بچی ہے آپ کی ۔ہمیں تو ڈھونڈھنے سے بھی نہیں ملنی تھی ،یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں ذریعہ بنایا بچی کو بچانے کا اور وہ ہمارے پوتے کی زندگی میں بہار بن کر آئی ہے" ۔عالم شاہ بولے 

 "یہ تو دیکھنے والے کی نظر ہے آپ لوگ خود اتنے اچھے ہیں ،اس لئے سب کو اپنی نظر سے دیکھتے ہیں"۔فاروق صاحب نے کہا۔

کھانا کھانے کے بعدسب لوگ ڈرائنگ روم میں آئے نور سب کے لئے چائے بنانے چلی گئی کیونکہ سب ملازمائیں بوا کے ساتھ برتن سمیٹنے میں لگی تھیں۔وہ سب کے لئے چائے بنا کے لائی۔سب نے اس کی چائے کی بہت تعریف کی۔

رات کے دس بجے سب سونے کے لئے جارہے تھے نور نے پہلے اپنے ماں، بابا کو ان کا روم دکھایا پھر بھیا،بھابھی کو ان کے روم میں لے گئی۔

" تمہارا گھر تو بہت ہی خوبصورت ہے نور، بہت خوش قسمت ہو تم،تمہارے سسرال والے بھی بہت اچھے ہیں"۔بھابھی اشتیاق سے بولیں۔

" گھر کا مجھے نہیں پتا لیکن دادا جان اور نانا جان بہت ہی اچھے ہیں میرا بہت خیال رکھتے ہیں بلکل بیٹی کی طرح" ۔وہ بولی۔

"اور آپ کے شوہر نامدار کیا وہ اچھے نہیں ہیں،تمہارا  خیال نہیں رکھتے"بھابھی نے شرارت سے کہا۔

"ایسی تو کوئی بات نہیں ہے بھابھی،وہ بھی بہت اچھے ہیں"۔وہ شرم سے سر جھکا کر بولی۔

"اوئے ہوئے... اہم اہم ،کیا بات ہے بھئی تمہارے وہ ہمممم"۔انہوں نے پھر سے شرارت کی۔

بھابھی ...پلیز نہیں کریں نہ "۔نور تو شرم سے سر ہی نہ اٹھا سکی۔

"اچھا بھئی کچھ نہیں کہ رہی اب جاؤ زین بھائی انتظار کر رہے ہوں گے "۔وہ مسکراہٹ دبا کر بولیں۔

"بھابھی......"۔وہ بے بسی سے بولی۔

اچھا اچھا نہیں کہ رہی کچھ ،اب جاؤ رات بہت ہو گئی ہے "۔وہ مسکرائیں اور اسے جانے کا کہا۔

وہ روم میں أئی تو زین بیڈ پر لیٹنے کےانداز میں بیٹھا کوئی کتاب پڑھ رہا تھا،اس کو دیکھنے کے بعد کتاب سائیڈ ٹیبل پر رکھ دی۔

"بہت دیر کر دی آنے میں آپ نے،بہت خوش لگ رہی ہیں أج"زین نے اس کے خوشی سے لال ہوتے چہرے کو دیکھ کر کہا۔اس کاچہرہ خوشی سے چمک رہا تھا۔ 

" جی...بھابھی سے باتیں کر رہی تھی،وقت کا پتا نہیں چلا اور اپنے گھر والوں سے اتنے دن بعد مل رہی ہوں پہلے ان کے بغیر کبھی ایک دن بھی نہیں رہی اس لئے "۔نور بولی۔

" آپ کی خوشی کا اندازہ  آپ کے چہرے سے لگایا جا سکتا ہے، ویسے بھی ہمارے گھر میں کوئی ہوتا نہیں آپ کو کمپنی دینے کے لئے،آپ گھر میں اکیلی بور ہو جاتی ہوں گی،اب جتنے دن آپ کے گھر والے آپ کے ساتھ ہیں آپ کا بھی دل لگا رہے گا" ۔زین نے اس کی دلجوئی کی۔ 

"اب سو جائیں صبح جلدی اٹھنا ہے گیارہ تو بج گئے ہیں "زین نے بات ختم کرتے کہا۔ 

*************

صبح آٹھ بجے سب ناشتے پر مصروف تھے۔ عفان ہر بار کی طرح آج بھی نور کے ہاتھ سے ناشتہ کرنے میں مصروف تھا۔ یہ اس کی شروع سے عادت تھی ۔اپنی ماں سے زیادہ وہ نور سے اٹیچ تھا۔زیادہ تر اسی کے پاس پایا جاتا۔ اب اس کو عادت ہی پڑ گئی، نور کا بھی سارا دن اسی کے ارد گرد گھومنا،کبھی کبھی تو اس کی وجہ سے اپنے کاموں کو گول کر جاتی اور کبھی کبھی تو کا کھانا بھی چھوٹ جاتا،پر جو خوشی اس ننھی جان سے اس کو ملتی وہ سارے دن کی تھکن اتاردیتی زیادہ یاد وہ عفان کو کرتی ۔

سب ناشتہ کرنے کے بعد باری باری آفس چلے گئے، دادا جان اور نانا جان کی 9 بجے  امپورٹنٹ میٹنگ تھی، زین نے ان کو بعد میں جوائن کرنا تھا،نور کے بابا چونکہ کالج میں کلرک تھے، اس لئے انہوں نے 9 بجے پہنچنا تھا اور اس کے بھائی سوفٹ ویئیر انجینیئر تھے، بہت ہی اچھی کمپنی میں منیجر کی پوسٹ پر تھے۔

" آپ نے بلیک کلر کی فائل دیکھی ہے روم میں ،میں کافی دیر سے ڈھونڈ رہا ہوں مل نہیں رہی اس لئے آپ سے پوچھا"۔زین نے سیڑھی پر کھڑے ہوتے جلدی سے پوچھا۔

"نہیں میں نے تو نہیں دیکھی لیکن میں ڈھونڈ دیتی ہوں روم میں ہی ہو گی"۔وہ اس کی طرف دھیان دیئے بغیر اوپر گئی وہ بھی پیچھے آگیا۔

"یہاں تو نہیں ہے کہیں بھی آپ نے لاسٹ ٹائم کہاں رکھی تھی"۔نور ہر جگہ ڈھنڈ کر بولی وہ فائل کہیں نہیں تھی۔

" یہ رہی وہ فائل مل گئی، کب سے ڈھونڈ رہاتھا نظر ہی نہیں آرہی اب ملی ہے"۔زین نے اس کا بازو پکڑ کر اس کارخ اپنی طرف کیا۔

"وہ جو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ کہاں ملی فائل اس کے ہاتھ میں بھی نہیں تھی اسکے ایسا کرنے سے وہیں جم گئی"۔

ک....کہاں ہے وہ ف...فائل مجھے تو نظر نہیں أرہی"۔وہ ہکلاتے ہوئے بولی۔

"یہ رہی میرے سامنے بلیک کلر کی فائل جسے میں پڑھنا چاہتا ہوں پر وہ میرے ہاتھ ہی نہیں آرہی"۔زین کے ایسا بولنے سے اس نے خود کو دیکھا تو آج بلیک کلر کا ڈریس پہنا تھا۔اسے اب ساری سمجھ آگئی کہ وہ اس کی توجہ خود پر کروانے کی کوشش میں ہے جسے وہ کل سے اگنور کر رہی تھی۔

اسے اب خود کو دیکھ کر یاد آیا اس نے بلیک ڈریس پہنا ہے۔ زین اسکے دونوں بازو پکڑ کر قریب لایا اور اس کی پیشانی پر جھک گیا جبکہ وہ تو شرم أنکھیں ہی جھکا گئی۔ زین جا چکا تھا اور وہ بیڈ پر بیٹھی اپنی سانسیں بحال کرنے میں لگی تھی جب اس کے ہواس بحال ہوئے تو اپنے ماتھے پر رکھتے شرمیلی سی مسکان اس کے چہرے کو چھو گئی۔

%%%%%%%%

شام میں جب زین شاہ اپنے دادا اور نانا جان کے ساتھ واپس آیا تو وہ بہت خوش تھا ۔سب مل کر کھانا کھانے بیٹھے۔

"ہماری بیٹی تو سچ میں ہمارے گھر کا نور بن کر آئی ہے۔آج ہمارے پوتے کو اسکا ڈریم پروچیکٹ مل گیا ہے جو کہ کروڑوں کی مالیت کا ہے،کھانے کے بعد سب کا منہ میٹھا کروائیں گے ۔اس خوشی میں کل کا ڈنر ہماری طرف سے سب باہر مل کر کریں گے"۔سید عالم شاہ نے سب کو اپنی خوشی کا اظہار کیا۔

زین شاہ کا ڈریم پروجیکٹ تھا۔جس میں اس نے غریب لوگوں کے چھوٹے چھوٹے لیکن خوبصورت گھر بنانے کا خود سے عہد کیا تھا ۔اس دنیا میں اگر برے لوگ ہیں تو کچھ اچھے بھی ہیں، جیسے ہی اس نے اپنا پروجیکٹ پیش کیا۔حشمت خانزاد جو کہ بہت بڑے انڈیسٹریلٹس  تھے اپنے بیٹے ابراہیم خانزادہ اور پوتے آذان خانزادہ کے ساتھ اور دوسری طرف عباد رؤف اپنی بیٹی اجیہ رؤف کے ساتھ شامل تھے۔انہوں نے اس پراجیکٹ کو خوب سراہا اور اپنی اپنی رضامندی بھی ظاہر کی ۔

حشمت خانزادہ سید عالم شاہ اور فیروز شاہ کو کافی سالوں سے جانتے تھےاور کاروبار کی وجہ سے ان کا ایک دوسرے کے آفس میں آنا جانا لگا رہتا تھا۔ کافی پراجیکٹس انہوں نے ایک ساتھ کئے تھے۔سید زین شاہ کے ولیمے پر بھی آئے تھے چونکہ ان دنوں وہ کافی بزی تھے اس لئے جلدی چلے گئے۔ 

"بہت بہت مبارک ہو زین بیٹا ،خوب ترقی کرو اور شادی کی بھی بہت مبارک ہو آپ کو ،کسی دن لے کر آئیے گا ہماری بہو کو گھر اب تو آنا جانا لگا رہے گا"۔حشمت صاحب نے کہا۔

" کیوں نہیں بھئی حشمت صاحب اتنے سالوں کا ساتھ ہے ہمارا ضرور آئیں گے بچے"۔عالم صاحب نے کہا۔

***********

دوسرے دن وہ سب آفس سے جلدی آگئے تھے۔تیار ہونے میں دو گھنٹے کیسے گزرے پتا ہی نہیں چلا ۔نور خود تیار ہو کر نیچے آگئی زین شاہ ابھی فریش ہو رہے تھے۔وہ بھابھی کے روم میں آئی تو عفان ان کو تنگ کر رہا تھا۔وہ تیار ہو رہی تھیں اور وہ بار بار ان کی تیاری خراب کر رہاتھا۔

"عفان تیار ہو گیا ہے بھابھی میں اسے اپنے ساتھ اپنے کمرے میں لے کر جارہی ہوں_تب تک آپ تیار ہو جائیں ورنہ یہ تنگ کرتا رہے گا ،آپ کو تیار بھی نہیں ہونے دے گا"۔نور اسے گود میں لیتے ہوئے بولی ۔وہ بھی جھٹ سے اس کی گود میں چڑھ گیا۔

"بہت شکریہ نور تم آگئی ورنہ تو میں آج گھر ہی رہ جاتی،یہ کب سے تنگ کر رہا ہے،اس کو میں نے کب سے تیار کردیا ہےلیکن یہ مجھے تیار ہونے نہیں دے رہا"۔وہ پریشانی سے بولیں۔

"تیار ہو جائیں آپ میں اسے لے کر جا رہی ہوں"۔نور اسےلے کر اپنے روم میں آگئی وہ چونکہ تیار ہو گئ تھی بس گاؤن پہننا تھا۔حجاب اس نے پہلے ہی سیٹ کر لیا تھا بس پلو چہرے پر  کر کے پن لگانی تھی۔

وہ آئی تو زین اپنی گھڑی پہن رہاتھا اسے دیکھتے ہی اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ گیا۔

 "یہ تو أج بہت پیارا لگ رہا ہے ماشاءاللّٰه "۔زین عفان کو دیکھتے بولا۔

" ادھر آئیں انکل کے پاس"۔اس نے اپنے دونوں ہاتھ آگے کئے گود میں لینے کے لئے پر وہ نور سے چپک گیا۔وہ اجنبی کے پاس نہیں جاتا تھا۔

"جاؤ عفی انکل کے پاس"۔نور نے اسے زین کی گود میں دیا۔

زین اسے پکڑ کر عفان کے گال کو چومنے کے لئے جھکا،

عفان نے ویسے ہی اپنا چہرہ پیچھے کر لیا، نور جو کے پیچھے ہٹنے والی تھی زین کے لب اسکے گال چھو گئے۔یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ دونوں ہے گھبرا گئے،زین اس سیچویشن سے باہر نکلنے کے لئے عفان کو لے کر روم سے چلا گیاجبکہ نور جو ابھی تک سکتے میں تھی دروازہ زور سے بند ہونے کی آواز پر ہوش میں آئی جو کہ زین نے اسے ہوش دلانے کے لئے بند کیا تھا تاکہ وہ اس سکتے سے نکل آئے۔اس نے ہوش میں آتے ہی اپنے اسی گال پر ہاتھ رکھا۔اسے پتا تھا زین نے جان بوجھ کر نہیں کیا۔عفان کے لاسٹ مومنٹ پر پیچھے ہٹنے سے ہوا تھا یہ سب۔وہ تو بس یہ سوچ رہی تھی کہ اب وہ اس کا سامنا کیسے کرے گی۔

*************

وہ سب کو اپنے ریسٹورنٹ میں لے کر آئےجو کہ بہت بڑا اور اچھا،وہاں پردے کا بھی پورا انتظام تھا۔ان کو علیحدہ فیملی کیبن میں لے گئے۔

"مینیو دیکھ لیں سب پھر جس نے جو آرڈر کرنا ہے بتا دیں"،سب نے مینیو دیکھاپر کچھ سمجھ نہیں آیا کیا آرڈر کریں،زین نے خود ہی سب کے لئے أرڈر دے کر ان کی مشکل آسان کی۔

سب سے پہلے ویٹر نےجوس پیش کئے۔اس کے بعد تین چار ویٹرز نے کھانا لگایا،ملائی بوٹی،گریوی چکن،سجی یخنی پلاؤ اور لزانیہ ان کے آگے پیش کیا گیا۔

سب نے بڑی رغبت سے کھانا کھایا ان کو سب کچھ بہت اچھا لگا اور دل کھول کر تعریف بھی کی۔

رات دس بجے وہ لوگ گھر کے لئے نکلے ٹوٹل پانچ گاڑیاں تھیں۔فرنٹ والی دونوں گارڈز کی اور سینٹر والی دونوں میں فیملی تھی اور لاسٹ والی بھی گارڈز کی تھی۔

" کچھ گڑ بڑ لگ رہی ہے سر دو گاڑیاں ہمارا پیچھا کر رہے ہیں ان کے پاس بھاری مقدار میں اسلح بھی ہے ابھی ہم نے انہیں شک نہیں ہوے دیا کہ ہمیں پتہ چل گیا ہے وہ ہمارے تعاقب میں ہیں آپ بتائیے کیا کرنا ہے"گارڈ نے بنا گھبرائے زین کو فون کیا۔

"میں کمشنر صاحب کو کال کرتا ہوں تم ابھی کسی کو شک نہ ہونے دینا ایسے ہی چلتے رہو ابھی فیملی ساتھ ہے ورنہ ابھی ان کو بتاتے کہ ہمارا پیچھا کرنے کا انجام کیا ہوتا ہے"۔ زین شاہ نے کہا۔ 

وہ بنا کسی کو پتا چلے ان سب کا دھیان ڈائیورٹ کر کے سب کو گھر پہنچا گیا اور کمشنر صاحب کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔ 

وہ اپنے روم میں جانے لگا تو عالم شاہ نے اسے پکارا،وہ سٹڈی روم کی طرف بڑھ گئے،جب وہ اندر آیا تو فیروز شاہ بھی بیٹھے تھے۔

" آئیں برخوردار بیٹھئے بہت بڑے ہو گئے ہیں، اب اپنے بڑوں سے بھی باتیں چھپانے لگے ہیں، بتانا پسند کریں گے واپسی پر کون لوگ تھے یا ہم اپنے سورسز استعمال کریں۔ہم نے ابھی تک پتہ نہیں کروایا کیونکہ ہم آپ کے زبانی سب کچھ سننا چاہتے تھے"۔ عالم شاہ نے اس کا چہرہ کھوجتے ہوئے پوچھا۔

أپ کو کیسے پتا چلا سب جبکہ میں نے گارڈز کو منع بھی کیا تھاپھر بھی انہوں نے آپ دونوں کو بتا دیا۔"اس نے کہا۔

" اگر آپ بھول رہے ہیں تو ہم آپ کو یاد کروادیتے ہیں کہ ہماری ساری زندگی ان چیزوں سے ہو کر گزری ہے،آج جس مقام پر ہم ہیں ،ان سب سے نکل کر پہنچے ہیں،تم تو ابھی اس میں داخل ہوئے ہو،ہمیں گارڈز نے کچھ نہیں بتایا،جب گاڑیاں ہمارا پیچھا کر رہی تھیں ہمیں تب ہی پتا چل گیا تھا، ہم سب کو پریشان نہیں کرنا چاہتے تھے اس لئے کسی کو پتہ نہیں چلنے دیا۔اب بتائیں کون لوگ تھے وہ کیا چاہتے تھے ۔"عالم صاحب کے چہرے پر سختی تھی۔

"ایم سوری دادا جان میں بس اتنا چاہتا تھا کہ سب لوگ پریشان نہ ہوں خاص کر نور اور اس کے گھر والے،نور کو تو ابھی تک کچھ نہیں پتہ اور اس کے گھر والوں کو بھی میں نے چھوٹا سا مسئلہ ہے کہ کر ٹال دیا تھا، وہ بہت ڈینجڑیس ہیں،ان کی جڑیں کافی پھیلی ہوئی ہیں اور بیک گراؤنڈ بھی بہت مضبوط ہےلیکن آپ پریشان نہ ہوں کمشنر صاحب شروع سے ہی اس کیس میں انوالو ہیں،میں بھی پرسنلی سب کچھ ہینڈل کر رہا ہوں إنشاءاللّٰه جلد ہی سب کچھ  ٹھیک ہو جائے گا"۔زین نے ان کی پریشانی ختم کرنے کی کوشش کی۔

"أپ کی بات ٹھیک ہے بیٹا لیکن خیال سے سب کچھ کیجئے گا،ایسے لوگ بہت خطرناک ہوتے ہیں،کچھ بھی کر سکتے ہیں،اگر ہماری کسی مدد کی ضرورت ہو تو ضرور بتائیے گا"۔فیروز شاہ نے اس کو حوصلہ دیتے کہا۔ 

"جائیں اب  نور آپ کا انتظار کر رہی ہو گی اب خیال رکھا کیجئے آپ کی ایک عدد بیوی ہے جو آپ کی ذمہداری ہےاور بیوی کو زیادہ انتظار نہیں کرواتے"۔انہوں نے اسے روم میں بھیجا۔ 

وہ روم میں آیا تو نور نماز پڑھ کر جائے نماز تہ لگا رہی تھی،وہ بیڈ پر آکر بیٹھ گیا ،نور بھی بیڈ کی دوسری طرف بیٹھی سورہ واقعہ کی تلاوت کر رہی تھی،اس نے قرآن پاک غلاف میں لپیٹ کر کبڈ میں رکھااور بیڈ پر آکر لیٹ گئی۔ 

" سونے لگی ہیں بات نہیں کریں گی آج"، زین نے اس سے پوچھا۔ 

 "نیند آرہی تھی کافی لیٹ بھی ہوگئے ہیں،صبح جلدی اٹھنا ہوتا ہے اس لئے سونے لگی ہوں" ۔نور نے آہستہ سے کہا۔وہ بات کرتے وقت ہچکچا رہی تھی۔

صبح والا اتفاق اس کے ذہن میں نہیں تھا، اس لئے وہ اس سے نارمل انداز سے بات کر رہا تھا یا پھر وہ بھولنے کی ایکٹنگ کررہا تھا،نور سمجھ نہیں پائی جبکہ زین کے تو ذہن  میں تو اس وقت کچھ اور چل رہا تھا۔وہ سوچ رہا تھا جب تک سارا معاملہ حل نہیں ہو جاتا، نور اور اس کی فیملی کو باہر نہیں جانے دے گا۔

" بات تو سنیں پھر سو جائیے گا ،ادھر آئیں"۔زین نے کہا۔

وہ اس کے پاس آئی تو اسے بیڈ پر بیٹھنے کو کہا۔

" کیا بات ہے بہت چپ چپ ہیں باہر جانا اچھا نہیں لگا یا کھانا پسند نہیں آیا"۔زین نے اس کا ہاتھ پکڑتے پوچھا۔

" ایسی بات نہیں ہے،کھانا بہت اچھا تھا اور باہر جا کر بہت مزہ آیا،کافی ٹائم بعد فیملی کے ساتھ باہر گئی ہوں،پس نیند آرہی تھی اس لئے۔ اور کوئی بات نہیں ہے"۔ وہ بولی۔ 

آج بہت خوبصورت لگ رہی تھیں آپ ،پتہ ہے میں نے اتنا ٹائم کیسے خود کو روکا ہوا تھا آپ کی طرف دیکھنے سے۔سب کے سامنے آپ کو دیکھنے سے پرہیز کیا لیکن اب روم میں آپ کو جتنا دل چاہے دیکھ سکتا ہوں، اب کوئی پرہیز نہیں ہے"۔زین نے مسکراتے ہوئے اسے اپنے قریب کیا ۔

کیا کر رہے ہیں پلیز...ایسی باتیں نہیں کریں"۔وہ آہستہ سے پیچھے ہٹتے ہوئے بولی۔

" کیا ہو؟ ا کیا اب میں اپنی بیوی کو دیکھ نہیں سکتا تعریف نہیں کر سکتا"۔زین نے مسکراتے ہوئے کہا۔

پلیز.....جبکہ نور تو شرم سے ہی دوہری ہو رہی تھی،اس کے ماتھے پر پسینہ آنے لگا۔

زین اس کی پیشانی چومتے پیچھے ہٹا،تو اس کا شرم سے لال چہرہ دیکھ کر مسمرائز ہوا کیونکہ اس کا چہرہ بلکل لال ٹماٹر ہو رہا تھا، وہ اتنی خوبصورت لگ رہی تھی کہ وہ ہوش میں ہی نہیں رہا،کتنی دیر سے وہ اسے دیکھے گیا۔

" نور.... آپ تو سچ میں نور ہیں یعنی روشنی اور میں بہت خوش نصیب ہوں کہ یہ روشنی میری قسمت میں لکھی ہے کیونکہ یہ میرے حصے میں آئی ہے،میں نے اپنی زندگی میں اتنا خوبصورت اور پاکیزہ چہرہ کبھی نہیں دیکھا"۔زین نے اسے کہتے ہوئے خود میں سمو لیا جبکہ وہ تو کانپ رہی تھی۔

"اب آپ سو جائیں میں نماز پڑھ کر سوؤں گا"۔زین نے اسے بیڈ پر لیٹاتے ہوئے کمبل اوڑھایا ۔

اس نے وضو کر کے نماز پڑھی اور دعا مانگنے لگا ،آج وہ بہت ڈر گیا تھا،بہت خطرناک لوگوں سے اس کا واسطہ پڑا تھا ، وہ نور کو کھونا نہیں چاہتا اب اسے لگتا ہے کہ نور کے بغیر اسی زندگی کچھ بھی نہیں ہے،آج اگر اسے کچھ ہو جاتا یہ بات اب وہ سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا اسنے نور کی لمبی زندگی کی دعا کی ۔

اس نے سوچ لیا تھا کہ اب وہ جلد ہی ان کا کچھ کرے گا صبح ہی وہ کمشنر صاحب سے ملنے کا ارادہ رکھتا تھا۔اس نے سوچ لیا تھا اب وہ انتظار نہیں کرے گا بلکہ جلد ہی اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرے گا ۔

$$$$$$$$$

اتوار تھا آج سب کو چھٹی تھی ڈرائینگ روم میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔

"ایک بات پوچھوں آپ سے دادا جان برا تو نہیں مانے گے"۔ردا بھابھی نے پوچھا۔

پوچھیں بیٹا، ہمیں برا نہیں لگے گا آپ بھی ہماری بیٹی ہیں اب ،اور بیٹیاں اجازت نہیں لیتیں"۔عالم صاحب نے محبت سے جواب دیا۔ 

" آپ کے گھر میں کوئی عورت نہیں ہے اور نہ ہی لڑکی ایسا کیوں"۔ردا نے پوچھا۔

############

ماضی

سید عالم شاہ اور سید فیروز شاہ جدی پشتی رئیس انسان تھے۔وہ دونوں تھے تو کزن لیکن سگے بھائیوں سے بڑھ کر تھے۔اور رہتے بھی ایک ہی گھر میں تھے۔دونوں کے والدین سگے بھائی تھے۔عالم شاہ کی بیوی اس کی پھپھو کی بیٹی تھیں اور فیروز شاہ کی بیوی ان کی خالہ زاد تھی۔اتفاق سے وہ دونوں بچپن کی دوست تھیں اور ایک ہی گھر میں ان کی شادی ہو گئی۔ دونوں دیورانی جیٹھانی کی خوب اچھی بنی اور انکا گھر امن کا گہوارہ بن گیا۔

سید عالم شاہ کے دو بیٹے تھے سید تجمل شاہ بڑا اور چھوٹا مزمل شاہ جبکہ فیروز شاہ کی ایک ہی بیٹی تھی در عدن۔وہ پہلی لڑکی تھی ان کے گھر کی۔سب کی لاڈلی سب کی جان کیونکہ دونوں کی کوئی بہن بھی نہیں تھی۔ اس لئے سارا پیار اس کے لئے تھا سب نے اس کے لاڈ اٹھائے۔تجمل اور مزمل جب گھر ہوتے تو سارا دن اس کے ارد گرد گھومتے ،دن گزرتے گئے ،دن مہینوں میں بدلے اور مہینے سالوں میں تجمل جوانی کی سرحدوں کو چھونے لگا وہ جیسے جیسے پروان چڑھا ایک اور چیز تھی جو بچپن سے ہی اس کے ساتھ پروان چڑھی اور وہ تھی در عدن سے اس کی محبت جو کہ" BA" کر چکی تھی ۔اب آگے اس کے پڑھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ادھر اس کی پڑھائی ختم ہوئی اوردوسری طرف اس کی شادی کی بات شروع ہونے لگی۔جیسے ہی یہ خبر تجمل تک پہنچی وہ بھاگا بھاگا اپنے والدین کے پاس آیا اور اپنی عرضی پیش کی ۔

وہیں اس کو پتہ چلا کہ اس کی بات اس کے بڑوں نے أپس میں بچپن سے طے کر رکھی تھی ۔یہ بات سن کر اس کی خوشی کی انتہا ہی نہیں رہی اور آناً فاناً سب کچھ طے ہوا۔اور ٹھیک پندرہ دن بعد در عدن اس کے کمرے میں دلہن بن کر بیٹھی اس کا انتظار کر رہی تھی۔وہ دونوں اس شادی سے بے انتہا خوش تھے۔دونوں کی زندگی انتہائی پر سکون گزر رہی تھی۔

ادھر مزمل کو جب اپنی چچا بننے کی خبر ملی تو بے انتہا خوش ہوا۔اس نے تو باقاعدہ بھنگڑا ڈال کر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔سب اس کو منع کر رہے تھے۔ کہیں اسے کسی کی نظر نہ لگ جائے۔

زین جب پیدا ہوا تو مزمل BSC کر کے فارغ تھا۔سارا سارا دن زین کے ساتھ کھیلتا ۔اسے تو جیسے کوئی کھلونا مل گیا تھا۔کبھی کہتا عدن یہ ہمیشہ میرے پاس رہے گا کبھی کہتا میں اس کو اپنا داماد بناؤں گا۔ساری باتیں وہ سوچتا تھا۔زین جب دو ماہ کا ہوا تو اس کے دوستوں نے مری جانے پلان بنایا لیکن وہ جانا نہیں چاہتا تھا۔اس کے دوستوں نے یہ کہ کر منا لیا کہ یہ أخری مہینہ ہے پھر پڑھائی سٹارٹ ہو جائے گی پتہ نہیں کب موقع ملے ،اس لئے چلتے ہیں اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی حامی بھر لی، وہ زین کو چھوڑکر جانا نہیں چاہتا تھا۔

اچانک عالم شاہ کو فون آیا اور وہ وہیں ڈھیر ہوگئے۔تجمل جو کہ پاس ہی بیٹھا تھا فوراً فون اٹھا کر کان سے لگایا ،أگے سے جو خبر سننے کو ملی پورے گھر میں کہرام برپا ہو گیا۔مزمل جو کہ مری دوستوں کے ساتھ گھومنے گیا تھا۔وہاں کے حالات خراب ہو گئے۔ان کی ویگن کھائی میں گرنے لگی تھی،ان کو ریسکیو کیا گیا،جب مزمل کی باری آئی تو اس نے جمپ کیا ۔باقی سب بچ گئے جبکہ مزمل کا سر بڑے سے پتھر پر لگا اور وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا چار کندھوں پر گھر أیا۔اس کی ماں کو بار بار غشی کے دورے پڑتے۔

وقت کا کام ہے گزر جانا اور مزید پانچ سال گزر گئے۔ زین اب سکول جانے لگا تھا۔ان کی فیملی میں کوئی شادی تھی ۔زین کے ماں، بابا،نانی ،دادی شادی میں جانے کی تیاری کر رہے تھے ۔زین نے جانے سے منع کر دیا۔کیونکہ انہوں نے رات کو واپس آجاناتھا۔ویسے بھی وہ عالم صاحب کے ساتھ کافی اٹیچ تھا۔کبھی بھی تو ان کے پاس سو بھی جاتا۔سب شادی پے جا چکے تھے،فیروز شاہ ،عالم شاہ اور زین ڈرائینگ روم میں بیٹھے تھے۔یکدم سارن کی آواز ان کے دلوں کو دہلا گئی۔

جو شادی میں گئے تھے سب کی میت گھر پہنچی۔گاڑی کا بہت برا ایکسیڈینٹ ہوا تھا۔جب تک کوئی ان کو ہسپتال پہنچاتا۔ تب تک ان کی روح پرواز کر چکی تھی اور گھر سارا ویران کر کے جا چکے تھے۔ پہلے جوان بیٹے کی موت اور اب سب گھر والوں کو اس حال میں دیکھنا قیامت سے کم نہ تھا۔ لیکن ان دونوں نے اپنے آپ کو سنبھالا  صرف اپنے پوتے اپنے لخت جگر زین کے لئے ۔انہوں نے حوصلے اور ہمت سے فیروز شاہ کے ساتھ مل کا زین کو اس قابل بنایا کہ وہ آج اس مقام پر پہنچا، ان دونوں کی محنت رنگ لائی۔ اور زین نے بھی ان دونوں کا سر جھکنے نہیں دیا۔ 

**********

" بہت کچھ کھویا ہے اللہ آپ کو صبر دے ورنہ ان حالات میں ہوش وہواس کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں،کچھ سمجھ نہیں آتا کہ انسان کیا کرے"۔ فاروق صاحب نے کہا۔ 

"صحیح کہ رہے ہیں آپ لیکن اگر فیروز شاہ کا ساتھ نہ ہوتا تو میں کب کا ٹوٹ چکا ہوتا، ہم دونوں نے اپنا خاندان کھویا اور ایک دوسرے کا سہارا بنے، ایک دوسرے کو ٹوٹنے سے بچایا،خود کو بکھرنے سے بچایا۔ اور سمیٹا تو صرف زین کے لئے، ماں باپ بن کر اس کو سمیٹا۔اب زین کو اس پوزیشن میں دیکھ کر دل کو سکون ملتا ہے۔دل کو بہت خوشی ملتی ہے فخر ہوتا ہے"۔عالم صاحب نے جوباً کہا۔

"أپ ٹھیک کہ رہے ہیں ورنہ أج کل کے لڑکے جس راہ روی کا شکار ہیں۔بہت دکھ ہوتا ہے ان کو دیکھ کر۔یہ تو أپ کی تربیت ہے جو أپ کے پوتے اتنے نیک اور اچھے دل کے

مالک ہیں أج کل ایسے جوان کہاں ملتے ہیں۔فاروق صاحب نے کہا۔

***********

زین اور نور صبا سپیشل۔

صبح اٹھتے ہی زین اپنے سارے کام نمٹا کر کمشنر صاحب سے ملنے گیا،ان سے ساری اپڈیٹس لینے کے بعد سارا پلان ڈسکس کیا۔تسلی لینے کے بعد اب وہ گھر روانہ ہوا،ابھی وہ  گھر سے دس منٹ کی دوری پر تھا کہ ایک گاڑی جان بوجھ کر اسے ٹکر مار کے چلی گئی، جس سے اس کی گاڑی ایک پلر سے جا ٹکرائی،وہ ٹھیک ٹھاک زخمی ہوا،اس کے گارڈز بھاگ کر اس کی گاڑی پر آئے کیونکہ اس گاڑی نے سائیڈ سے ٹکر ماری تھی جس کی وجہ سے زین سے گاڑی سنبھلی نہیں۔ 

گارڈر اسے فوری ہوسپٹل لے گئے اور عالم  صاحب کو جلدی سے کال ملا کر ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔

عالم شاہ فیروز شاہ کو ساتھ لے کر ہوسپٹل پہنچے،ڈاکٹر سے ساری معلومات لیں۔ 

"  پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے شاہ صاحب !سر پر ہلکی سی چوٹ أئی ہے، ان کا سر ہلکا سا زخمی ہوا ہے، اللہ کا شکر ہے کہ گاڑی کی سائیڈ لگنے کی وجہ سے ان کو کوئی نقصان نہیں ہوا، آپ لوگ اب مل سکتے ہیں،وہ ہوش میں آچکے ہیں،آپ چاہیں تو انہیں گھر بھی لے جا سکتے ہیں"۔ڈاکٹر نے انہیں تسلی دیتے ہوئے گھر لے جانے کا کہا۔

وہ دونوں زین کے پاس گئے تو وہ ٹیک لگا کربیٹھا تھا، اس کے سر پر معمولی سے چوٹ أئی تھی۔وہ دونوں اس کے پاس جا کر بیٹھے۔

" یہ سب کیا ہے زین کیسے ہوا یہ،اس لئے آپ کو گاڑی خود چلانے سے منع کرتے ہیں لیکن آپ اپنے شوق کی وجہ سے باز نہیں آتے، دیکھیں اب اپنا حال،اس لئے منع کرتے تھے خدانخواستہ اگر تمہیں کچھ ہو جاتا  تو ہم دونوں کا کیا ہوتا ،ہماراتوآپ کے سوا کوئی ہے ہی نہیں آپ ہی ہم دونوں کے جینے کی وجہ ہیں آپ کو کچھ ہو گیا تو ہمارا کیا ہو گا"۔عالم صاحب نے اس کے ماتھے پر ہات رکھتے کہا جبکہ فیروز شاہ چپ تھے جیسے اس سے ناراض ہوں۔

" میں بلکل ٹھیک ہوں أپ دونوں پریشان نہ ہوں،دیکھیں آپ کے سامنے بیٹھا ہوں بس سر پر ہلکی سی چوٹ لگی ہے"۔زین نے انہیں تسلی دی۔

" ٹھیک ہے اب گھر چلتے ہیں _ہم نے نور کو کچھ نہیں بتایا وہ آپ کو ایسے دیکھ کر پریشان ہو جائے گی، بہت حساس بچی ہے وہ"۔فیروز صاحب نے کہا ۔

" یہ سب ہوا کیسے_جتنا تک میں آپ کو جانتا ہوں آپ گاڑی احتیاط سے چلاتے ہیں"۔فیروز صاحب نے پوچھا۔

" ہم گھر واپس آرہے تھے،سب گاڑیاں سائیڈ سے گزر رہیں تھیں کہ ایک گاڑی گزرتے ایک سائیڈ سے میری گاڑے سے ہٹ کر کےچلی گئی_ یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ گاڑی کنٹرول میں نہیں آئی اور پلر سے ٹکرا گئی جس سے میرا سر سٹیٔرنگ سے ٹکرایا_جتنا میں سمجھا ہوں یہ ایکسیڈینٹ  پراپر پلین کے تحت ہوا ہے_جان بوجھ کر میری گاڑی سے ٹکر ماری گئی ہے"۔زین نے بتایا۔

" ہمیں بھی ایسا ہی لگ رہا ہے_آپ پریشان نہ ہوں ہم سب دیکھ لیں گے،اب ہم اپنے طریقے سے سب ہینڈل کریں گے اب آپ اکیلے نہیں ہم دونوں آپ کے ساتھ ہیں"۔

فیروز شاہ نے کہا۔  

"  گھر چلتے ہیں، آپ دو دن ریسٹ کرنا اس کے بعد سوچتے ہیں کیا کرنا ہے ،میرا ایک دوست کرنل ہے اس سے بھی بات کرتے ہیں اس کے بعد کچھ کرتے ہیں"۔ عالم شاہ نے کہا۔

*★*★*★*★

وہ گھر پہنچے تو شام کے چھ بج رہے تھےسب ابھی ڈرائنگ روم میں ہی بیٹھے سب کے آنے کا انتظار کر رہی تھی،ڈنر سب اکٹھے ہی کرتے ،جب وہ دونوں زین کو لے کر اندر آئے تو اسے زخمی حالت میں دیکھ کر سب کے ہواس کام کرنا ہی چھوڑ گئے'۔سب زین کی طرف بھاگے۔

" یہ سب کیسے ہواشاہ صاحب ؟کیا ہوا ہے انہیں؟"۔فاروق صاحب نے ہواس باختہ ہوتے پوچھا۔

" آپ لوگ پریشان نہ ہوں معمولی سی چوٹ ہے کل تک ٹھیک ہوجائے گی،ڈاکٹر نے تسلی دی ہے"۔عالم صاحب نے کہا۔

" کیسے پریشان نہ ہوں کپڑوں پر بھی کیسے خون کے دھبے لگے ہیں،یہ سب ہواکیسے "۔فاروق صاحب نے پوچھا۔

"ان سے گاڑی ڈسبیلنس ہو گئی اور سر سٹیٔرنگ پر لگنے سےہلکی سی چوٹ لگ گئی"۔فیروز صاحب نے بتایا۔

" آپ ہم لوگوں سے کچھ چھپا رہے ہیں،یہ سب ہم لوگوں کی وجہ سے ہوا ہے،ہمیں بچانے کے لئے آپ اپنے پوتے کی زندگی کیوں خطرے میں ڈال رہے ہیں،ہم لوگ کل ہی یہاں سے  چلے جائیں گے اور ہم نہیں چاہتے ہماری وجہ سے آپ کا آخری سہارا بھی آپ سے دور ہو"۔فاروق صاحب نے کہا۔

" آپ پریشان کیوں ہو رہے ہیں،دراصل وہ لوگ یہ سب بوکھلاہٹ کی وجہ سے کر رہے ہیں کیونکہ ہمارے اثرواسوخ کی وجہ سے ہم جلد ھی ان تک پہنچ گئے ہیں،انہیں اندازہ نہیں تھا کہ اتنی جلدی ہم ان تک پہنچ جائیں گے،یہ سب بھی انہوں نےہمیں ڈرانے کے لئے کیا ہے تاکہ ہم پیچھے ہٹ جائیں،ویسے بھی آپ کو لگتا ہے کہ  ہم آپ لوگوں کو ان حالات میں اکیلا چھوڑ دیں گے تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے،آپ لوگ جانتے ہیں کہ ہماری یہی چھوٹی سے فیملی ہے،اب آپ لوگ ہماری فیملی میں شامل ہو چکے ہیں، أپ لوگ ہماری فیملی کاحصہ ہیں"۔عالم صاحب نے کہا۔

"عادل بیٹاآپ زین کو ان کے کمرے میں چھوڑ کے آئیں، زین آپ نے نہانے سے پرہیز کرنا ہے أج "۔عالم صاحب  نےعادل سے کہتے ہوئے زین کو ہدایت دی کیونکہ وہ اس کی نیچر جانتے تھے۔

نور جو کہ بیڈ پر بیٹھی پانی پی رہی تھی، دروازہ کھلنے پر چونکی اور زین کو اس حالت میں دیکھتے ہی اس کے ہاتھ سے گلاس چھوٹ کر گرا اور ٹکرے ٹکڑے ہو گیا_ اس کی آنکھوں میں روانی سے آنسو جاری ہوئے اور وہیں کھڑی جم گئی۔عادل جو کہ نور کے اس رئیکشن سے واقف تھا اسے لے کر زین کے پاس آیا۔

" چھوٹے شاہ جی بلکل ٹھیک ہیں نور ،بس سر پر ہلکی سی چوٹ آئی ہے، نہیں یقین أرہا تو خود چھو کر دیکھ لو تمہارے سامنے بلکل ٹھیک کھڑے ہیں"۔عادل نے ہوش دلانے کے لئے زین کے پاس لا کر کھڑا کیا۔ 

" آپ پریشان نہ ہوں یہ شروع سے ایسی ہے کسی کو تکلیف میں دیکھ کر ایسے ہی جم جاتی ہے ہمیں مریض کو چھوڑ کر اسے سنبھالنا پڑتا ہے کیونکہ پھر یہ سانس بھول جاتی ہے اور اپنی طبیعت خراب کر لیتی ہے" ۔ عادل نے اسے آگاہ کیا اور خود کمرے سے چلا گیا۔روم اوٹومیٹک لاکڈ ہو گیا۔ 

" نور ادھر دیکھیں میں بلکل ٹھیک ہوں آپ کے سامنے ہوںُ اگر کچھ  ہوتا تو کیا ڈاکٹر مجھے ہوسپٹل سے جلد ڈسچارج کرتے"۔زین نے اسے کندھوں سے تھاما۔ 

" بات تو کریں آپ مجھے پریشان کر کر رہی ہیں،میں آپ کے سامنے کھڑا ہوں، دیکھیں مجھے کچھ بھی نہیں ہوا "۔زین نے اسے جھنجھوڑا تو وہ ہوش میں أئی۔

" ،آ ....آپ أپکو کیا ہواہے ؟ یہ چوٹ کیسے آئی؟ ٹھیک تو ہیں نہ بتائیں مجھے"۔نور ہکلاتے ہوئے اس کے زخم کو چھو کر دیکھنے لگی،جیسے تسلی کرنا چاہ رہی ہو کہ وہ ٹھیک ہے یہ نہیں۔

" ادھر بیٹھیں پانی پیئیں اور میری بات غور سے سنیں میں بلکل ٹھیک ہوں مجھے کچھ بھی نہیں ہوا ،بس گاڑی موڑتے وقت ہلکا سا جھٹکا لگا اور سر سٹیئرنگ کو چھو گیا،ہلکی سی چوٹ ہے ڈاکٹر نے کہا ہے کل تک ٹھیک ہو جائے گی"۔زین نے اسے پانی پلاتے ہوئے تسلی دی۔

"یہاں لیٹیں آپ میں آپ کے لئے ہلدی والا دودھ اورمیڈیسن لے کر آتی ہوں آپ آرام کریں"۔وہ اٹھتے ہوئے بولی ۔

" یہاں بیٹھیں مجھے اس وقت کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں ہے، میں نے میڈیسن بھی لےلی ہے بس بھوک لگ رہی ہے اور وہ ابھی ملازمہ روم میں دے جائے گی، آپ صرف روم میں رہیں میں بلکل ٹھیک ہوں"۔زین نے اسے اپنے پاس بیٹھاتے کہا۔

" مجھ سے وعدہ کریں زین، ہمیشہ اپنا خیال رکھیں گے، مجھ سے کسی کی چھوٹی سی بھی تکلیف نہیں دیکھی جاتی ،شروع سے ہی جب میں کسی کو زخمی دیکھتی ہوں یا تکلیف میں دیکھتی ہوں تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا میں کیا کروں میرے ہاتھ پاؤں جیسے جم جاتے ہیں اور پاؤں میں طاقت نہیں ہوتی کہ اس کے پاس جا سکوں"۔نور نے زین سے کہا۔

" ایسا کب سے ہوتا ہے أپ کے ساتھ کوئی تو وجہ ہو گی "۔زین نے استفسار کیا۔

" جی ہے وجہ میں چھ سال کی  تھی جب بابا مجھے بائیک پر سکول چھوڑنے جا رہے تھے  میں نے اپنی آنکھوں سے ایکسیڈینٹ ہوتے دیکھا ،جن کا ایکسیڈینٹ ہوا تھا وہ موقع پر ہی دم توڑ گئے اور ہر طرف خون ہی خون تھا ،وہ لمحہ أج بھی مجھے نہیں بھولتا،اس لئے میں ایسے ریئکٹ کرتی ہوں"۔نور نے بتایا ۔

" پریشان نہ ہوں سب ٹھیک ہے بس آپ اللہ سے دعا کیا کریں سب ٹھیک ہو جائے گا"۔زین نے اسے تسلی دی۔

" مجھے کوئی ایزی سی شرٹ نکال دیں میں چینج کر لوں بہت الجھن ہو رہی ہے اس شرٹ میں "۔زین نے اس کا دھیان بٹانے کے لئے کہا۔

" سوری ...سوری  ۔میں نے دھیان ہی دیا آپ کو تو گھبراہٹ ہو رہی ہو گی میں ابھی شرٹ لے کر آتی ہوں"۔

نور شرٹ لے کر آئی ۔

" نہایئےگا نہیں آپ ،ابھی زخم کچے ہیں پانی لگنے سے خراب ہوجائیں گے"۔ زین اس سے شرٹ لے باتھ روم میں جانے لگا تو وہ جلدی سے بولی۔

" میں بس ہاتھ منہ دھو کر آجاؤں گا آپ پریشان نہ ہوں، ڈاکٹر نے مجھے منع کیا ہے نہانے سے"۔زین نے اسےبتایا۔

وہ باتھ روم سے واپس آیا تو شرٹ اس کے ہاتھ میں تھی۔

" أپ نے شرٹ کیوں نہیں چینج کی "۔ نور نے پوچھا۔

" بازو میں بہت درد ہو رہا ہے لگتا ہے گاڑی کو جھٹکا لگنے سے بازو میں تکلیف ہو رہی ہے حرکت نہی کر رہا ہاتھ منہ بھی اتنی مشکل سے دھویا ہے "۔زین نے بازو دباتےبولا۔

" کیا ہوا ؟ زیادہ درد ہو رہا ہے پہلے کیوں نہیں بتایا ، میں آپ کے ساتھ چلتی مجھے آواز دے دیتے أپ کی ہیلپ کر دیتی ، ادھر صوفے پر بیٹھیں"۔نور جلدی سے بولی۔

زین صوفے پر بیٹھا تو نور اس کے سامنے آکر بیٹھ گئی آہستہ آہستہ کانپتے ہاتھوں سے اس کی شرٹ کے بٹن کھولنے شروع کئے،وہ اس کی طرف دیکھ بھی نہیں رہی رہی تھی پلکیں بھی لرز رہی تھیں لیکن وہ اسے تکلیف میں بھی نہیں دیکھ سکتی تھی،اس لئے اپنی شرم بھلائے اس کی ہیلپ کرنے لگی ،اس نے سارے بٹن کھول دیئے، اب اس کی شرٹ اتارنے کے لئے اس کے اور قریب ہونا تھا، وہ کھڑی ہو گئی اب اس کے ایک بازو سے شرٹ نکالنے کے لئے اسے جھکنا پڑا ،جھکنے سے اس کا چہرا بلکل زین کے چہرے کے پاس آگیا،بازو اوپر کر کے اس کے بازو سے شرٹ نکالی ،اب دوسرے بازو کی باری تھی  اس بازو میں درد کی وجہ سے وہ نیچے بیٹھ گئی کیونکہ وہ بازو اوپر نہیں ہو رہا تھا، اب اس نے دوسرے بازو سے شرٹ نکالی۔اب اسے دوسری شرٹ پہنانی تھی جو کہ بہت مشکل تھا،نور نے اس کی شرٹ کے دونوں بازو جلدی سے پہنائے،اب وہ پھر سے بٹن لگانے کے لئے اس کے سامنےبیٹھ گئی،زین اس کی غیر ہوتی حالت دلچسپی سے دیکھ رہا تھا،اسے نور کا شرمانا بہت اچھا لگ رہا تھا

۔وہ پیور  مشرقی لڑکی تھی، اس کا شرمانا جھجھکنا کانپنا بہت اچھا لگ رہا تھا،وہ کب سے غور سے اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا ،اس نے مشرقی حسن بہت کم دیکھا تھا لیکن اس کو دیکھ کر اسے اپنی قسمت پر ناز تھا، وہ اللہ کا شکر گزار تھا جس نے یہ قیمتی اور نایاب ہیرا اسکی قسمت میں لکھا،

دوسری طرف نور کانپتے ہاتھوں سے اس کی شرٹ کا أخری بٹن لگا کر جلدی سے اٹھنے لگی کیونکہ زین کی شرٹ میں سے تیز پرفیوم ک مہک اس کے دماغ میں چھا گئی، اب اس سے مزید رکنا مشکل ہو گیا، اس سے پہلے وہ بھاگتی اس کی نازک کلائی زین کے ہاتھ  میں آگئی،زین نے اسے اپنے ساتھ صوفے پر بٹھایا،اس کا رخ اپنی طرف کر کے اسے اپنے ساتھ لگایا۔

" اگر میری اتنی فکر کرتی ہیں،میری تکلیف آپ سے نہیں دیکھی جاتی، مجھے اس حالت میں دیکھ کر پریشان ہو جاتی ہیں تو پھر  مجھ سے دور کیوں بھاگتی ہیں میرے قریب آنے سے آپ کو ہچکچاہٹ کیوں"۔زین نے اس کے کان میں ہلکی سی سرگوشی کی جبکہ نور تو اس کی گھمبیر آواز سن کر کچھ بول ہی نہیں پائی شرم سے اس کی زبان تالو سے چپک گئی اور گلہ سوکنے لگا۔" بولیں نہ کچھ میں سن رہا ہوں ،اگر نہیں بولیں تو سزا کے لئے تیار ہو جائیں آپ کو سزا ملے گی ،کیا آپ سزا کے لئے  تیار ہیں؟" ۔زین نے پھر سے سرگوشی کی جبکہ اب نور باقاعدہ لرز رہی تھی،اس نے آہستہ سے نہ میں سر ہلایا۔ 

" نہیں بولیں گی اس کا مطلب آپ سزا کے لئے ریڈی ہیں "۔زین نے اس کی نہ کا الٹا مطلب نکالا،نور کے کچھ بولنے سے پہلے ہی وہ جھکا، اس کی آنکھوں پر، اس کے گالوں پر_ پھر اس کی ناک، اس سے پہلے کہ وہ اس کے ہونٹوں پر جھکتا نور اس کے سینے سے لگ گئی لمبی لمبی سانسیں لینے لگی، اس نے ایسی سزا کا تصور بھی نہیں کیا تھا، وہ نہیں جانتی تھی کہ زین اس قسم کی جسارت بھی کر سکتا ہے وہ بھاگ بھی نہیں سکتی تھی، ایک تو اس کا بازو ابھی بھی زین کی گرفت میں تھا اور دوسرا وہ اس حالت میں اسے چھوڑ کر جانا نہیں چاہتی تھی، اس سے پہلے کہ وہ کوئی بات کرتا دروازہ ناک ہوا، نور اس سے الگ ہوئی خود کو سنبھال کر کانپتے ہاتھوں سے  دروازہ کھولا ۔

 بوا نے ملازمہ کے ہاتھ کھانا بھیجا تھا،نور نے اپنے اور زین کے لئے کھانا نکالا،دونوں کھانا کھا کر فارغ ہوئے ملازمہ چائے اور کافی بنا کر لائی اور برتن سمیٹ کر لے گئی،زین کو اب سخت نیند آرہی تھی،وہ بیڈ پر جا کر لیٹ گیا ۔نور بھی چائے ختم کر کے اس کے برابرآ کر بیٹھ گئی۔ 

" آپ کو کچھ چاہیئے میڈیسن نہیں لینی آپ نے ،کہیں درد وغیرہ تو نہیں ہو رہا"۔نور نے فکر مندی سے پوچھا۔

" نہیں میں ٹھیک ہوں آپ آرام سے لیٹ جائیں، میڈیسن صبح لینی ہے اب کی میڈیسن ڈاکٹر نے نہیں دی"۔اس نے جواب دیا۔

نور بھی برابر آکر لیٹ گئی ،بنا آواز کے پڑھ کر اس کو دم کرنے لگی تاکہ وہ سکون سے سو جائے،وہ اسے دم کرتی رہی یہاں تک کہ وہ سو گیا،وہ ابھی بھی جاگ رہی تھی،وہ اٹھی اور اسکے پاس آکر اس کے ماتھے پر لب رکھ گئی،وہ سوچنے لگی کیا جاگتے ہوئے وہ ایسی جسارت کر سکتی تھی، آج وہ بہت پریشان ہو گئی تھی جس حالت میں اس نے زین کو آج دیکھا تھا وہ اسے پریشان کرنے کے لئے کافی تھا،وہ بچپن سے ہی کافی خوفزدہ تھی، اس ایکسیڈینٹ کے بعد وہ گھر سے بہت کم باہر نکلتی ،زیادہ وہ گھر ہی پائی جاتی۔اگر اسے کوئی باہر نکلنے کا کہتا تو بھی نہیں جاتی ۔اس کی شاپنگ وغیرہ ہر چیز آج تک کی امی کرتی آئیں اور پھر اس کی بھابھی کرنے لگیں اور شادی کے بعد اس کو ضرورت ہی نہیں پڑی ہر چیز اس کے روم میں موجود تھی،پوری کی پوری کبڈ ہر چیز سے بھری پڑی تھی ویسے بھی اسے شاپنگ کا کوئی خاص شوق بھی نہیں تھا ۔

*****************

زین کی صبح سویرے آنکھ کھلی تو دیکھا نور اس کے بلکل قریب ہو کر سو رہی تھی اور اس کی ایک ہاتھ کو اپنی گرفت میں لیا ہوا تھا،اس نے موبائل اٹھا کر ٹائم دیکھا تو آٹھ بج رہے تھے، اسے اپنی اور نور کی نماز قضا ہونے کا افسوس ہوا،اس نے آہستہ سے نور کا کندھا ہلایا۔

" اٹھ جائیں نور صبح ہو گئی ہے، ہم دونوں کی نماز بھی قضا ہو گئی ،آٹھ بج رہے ہیں اٹھیں" ۔زین نے اسے وقت کا احساس دلایا۔ 

" کیا؟ آٹھ بج گئے،میں اتنی لیٹ سوتی رہی"۔وہ جلدی سے ہڑبڑی میں اٹھی اس کا دوپٹہ سر سے پھسل گیا۔ 

" آرام سے کیا کر رہی ہیں ،میں نے اس لئے تو نہیں جگایا آپ کو کہ آپ ایسے ہواس باختہ ہو جائیں "۔زین نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسے ہوش دلایا۔

"وہ ...میں کبھی اتنی دیر تک سوئی نہیں نہ اس لئے ،اور میری نماز بھی تو قضا ہو گئی آج تک میں نے کبھی نماز قضا نہیں کی"۔نور افسردہ سی بولی۔

" میں نے بھی کبھی نماز قضا نہیں کی آج پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے"۔زین نے اسے بتایا۔

وہ اٹھی فریش ہو کر آئی تو زین بھی فریش ہونے کے لئے جانے لگا۔

" میں آپ کی ہیلپ کر دوں رات کو بھی آپ کے بازو میں درد تھا "۔وہ آہستہ سے زین سے بولی۔

" میں کوشش کروں گا اگر نہیں ہوا تو آپ کو بلا لوں گا "۔وہ بولا۔ 

پانچ منٹ گزرے تو اسے زین کی آواز آئی، وہ اسے اندر بلا رہاتھا، وہ اندر گئی تو اس کی شرٹ گیلی ہو چکی تھی اور بازو دبا کر کھڑا تھا۔ وہ جلدی سے اس کے پاس آئی۔ 

" یہ کیا ہوا میں نے آپ سے بولا بھی تھا لیکن آپ نے نہیں سنی، دیکھیں ساری شرٹ گیلی ہو گئی "۔وہ اس کے پاس آ کر بولی۔نور نے اس کا منہ دھلا کر ٹاول سے صاف کیا،اس کی شرٹ کی بٹن کھول کر اسے اتارا ۔

" روم میں چلیں آپ کو دوسری شرٹ چینج کرواتی ہوں"۔نور اس کابازو تھام کر روم میں آئی،

ڈریسنگ روم سے شرٹ نکال کر لائی اور اسے صوفے پر بیٹھنے کو کہا۔ 

اسے شرٹ پہنا کر نیچے لے آئی سب ڈرائینگ روم میں بیٹھے ان کا انتظار کر رہے تھے،دونوں نے سب کو سلام کیا،سب نے باری باری اس کی طبیعت پوچھی۔

" ان کے بازو میں رات سے بہت درد ہوا رہا ہے دادا ابو!  ابھی بھی درد ہے ۔،بازو حرکت نہیں کر رہا کہیں کوئی اندرونی چوٹ نہ آگئی ہو ،میں کہ رہی تھی ایک بار ڈاکٹر کودیکھا لیں تسلی ہو جائے گی" ۔نور نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ 

" آپ نے بتایا کیوں نہیں رات کو ہم ڈاکٹر کو گھر بلا لیتے ،رات سے درد ہو رہا ہے اور اب بھی نور نہ بتاتی تو آپ بھی نہ بتاتے،ایسی لاپرواہی آئیندہ نہیں ہونی چاہئے ورنہ ہم سے برا کوئی نہیں ہو گا" ۔وہ ذرا غصے سے بولے۔ 

" آپ لوگ ناشتہ کر لیں پھر زین کو ڈاکٹر کے پاس لے کر چلتے ہیں"۔فیروز صاحب نے کہا۔ 

%%%%%%%

تقریباً گیارہ بجے وہ اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے ۔ڈاکٹر  نے معائنہ کرنے کے بعد انہیں تسلی دی۔

" پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے شاہ صاحب ،بازو پر ہلکا سا دباؤ پڑا ہے جس کی وجہ سے درد ہو رہا ہے، میں کریم دے دیتا ہوں انہیں دھوپ میں بٹھا کر دو دن مساج کریں تو بازو بلکل ٹھیک ہو جائے گا،ایک بات کہنا تھی ،میں چاہتا ہوں کہ یہ بات آپ کے علم میں ہو، یہ مجھے ایکسیڈینٹ کم اور کسی کا پلان زیادہ لگ رہا ہے، انہوں نے پلان کے تحت معمولی سا ہٹ آپ لوگوں کو ڈرانے کے لئے کیا ہے تاکہ جس کام سے ان کو خطرہ ہے ان سے پیچھے ہٹ جائیں ،میں ایک ڈاکٹر ہوں ہر طرح کے کیس أتے ہیں میرے پاس، صاف بتا سکتا ہوں کہ ایکسیڈینٹ کس نوعیت کا ہوتا ہے باقی جیسے آپ لوگوں کو ٹھیک لگے کیجئے"۔ڈاکٹرنے اپنے تجربے کے مطابق ان کو بات سے أگاہ کیا۔ 

" ہماری کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے ڈاکٹر صاحب۔ نہ ہم نے کبھی کسی کا برا کیا ہے۔اس لئے پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے ۔کیا ہم اسے گھر لے کر جا سکتے ہیں"۔ عالم صاحب نے بات سمیٹتے کہا۔ 

" جی جی بلکل لےکر جا سکتے ہیں یہ کریم ہے۔ آپ لوگ دو ٹائم مالش کرتے رہیں دیکھئے گا بلکل ٹھیک ہو جائیں گے"۔ڈاکٹر نے انہیں جانے کا کہا۔ 

انہوں نے زین کو گھر چھوڑ کر سب کو تسلی دی اور  آفس چلے گئے ۔چونکہ سردیوں کا موسم تھا۔ جنوری کے شروع کے دن تھے ۔نور اورزین اوپر آگئے چونکہ باہر سکیورٹی تھی ۔گھر کے اندر مردوں کو آنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس لئے اوپر چھت پر ہی سب بیٹھتے تھے۔ نور کریم ساتھ لے کر أئی ۔اب پھر سے زین کی شرٹ اتارنی تھی تاکہ اسے کریم لگا سکے۔ 

اس نے شرٹ اتار کر ٹیبل پر رکھی وہ صرف بنیان میں تھا۔ اس نے زین کے بازو پر مالش کرنی شروع کی۔آہستہ آہستہ نرم ہاتھوں سے اس کے بازو کو دبا کر مالش کر رہی تھی۔

" چپ کیوں رہتی ہیں نور آپ ۔لڑکیاں تو اتنا بولتی ہیں کہ چپ نہیں ہوتیں اور آپ تو بلکل کی بات نہیں کرتیں کیا آپ خوش نہیں ہیں اس رشتے سے"۔ زین نے پوچھا۔

" ایسی بات نہیں ہے میں شروع سے ہی بہت کم بولتی ہوں پھر گھر سے بھی کبھی زیادہ دور نہیں رہی اس لئے"۔وہ بولی

" دو بجنے والے ہیں کچھ کھائیں گے تو بنا دوں لنچ کا ٹائم بھی ہو گیا ہے ،بوا کی ہیلپ بھی کروا دوں گی"۔نور نے پوچھا۔

" نیچے ہی چلتے ہیں ویسے بھی دو گھنٹے کافی ہیں،اب بہتر فیل کر رہاہوں آرام سے سب کے ساتھ کھانا کھائیں گے،ویسے بھی بوا نے سب بنا لیا ہو گا وہ ڈیڑھ بجے دوپہر کا کھانا بنا لیتی ہیں "۔زین نے اسے آگاہ کیا۔

وہ دونوں نیچے أئے تو بھابھی عفان کے ساتھ اوپر آرہی تھیں۔ 

" ارے آپ دونوں تو نیچے آگئے میں آپ دونوں کو بلانے ہی آرہی تھی کھانا لگ گیا بس آپ کا انتظار کر رہے تھے ۔

وہ سب کھاناکھا کر فارغ ہوئے۔ ڈرائنگ روم میں جانے لگے تو ردا بھابھی چکرا کر زمین بوس ہو گئیں۔ وہ دونوں جلدی سے ان کی طرف بھاگے انہیں اٹھا کر روم میں لے آئے اور زین نے جلدی سے فیملی ڈاکٹر کو کال ملائی ۔لیڈی ڈاکٹر بیس منٹ میں پہنچیں۔ انہیں روم سے جانے کا کہا۔ڈاکٹر چیک کر کے باہر أئیں تو دونوں پریشانی سے ٹہل رہے تھے ۔

" کیا ہوا انہیں کوئی پریشانی کی بات تو نہیں ہے اچانک کیوں بیہوش ہو گئیں۔"۔نور ان کی طرف أتے ہوئے بولی۔

" پریشانی کی بات نہیں ہے کمزوری کی وجہ سے چکر أئے ہیں۔ بائے دا وے خوشخبری ہے ۔بہت بہت مبارک ہو وہ ماں بننے والی ہیں"۔ڈاکٹر نے خوشخبری سنائی۔

زین نے انہیں شکریہ کہا کیونکہ وہ کسی کا گھر میں جا کر چیک اپ نہیں کرتی تھیں۔ اس کی ریکوسٹ پر آگئیں۔وہ انہیں دروازے تک چھوڑ کر آیا۔پھر عادل کو کال ملائی۔

" کہاں ہیں عادل صاحب جلدی گھر أئیں اور یاد سے مٹھائی لیتے آئیے گا ۔بہت بڑا سرپرائز ہے أپ کے لئے"۔زین نے اسے اصل بات چھپا کر کہا۔وہ اسے سب کے سامنے بتانے والا تھا۔

" کیا بات ہے شاہ جی؟ کیا ہوا ہے کس بات کی مٹھائی"۔عادل نے کنفیوز ہوتے پوچھا۔

"وہ تو گھر أئیں گے تو پتا چلے گا کہا نہ سرپرائز ہے"۔

وہ کال کر کے کمرے میں أیا تو نور ردا کے پاس بیٹھی ان سے باتیں کر رہی تھی انہیں ہوش أگیا تھا۔

" بہت بہت مبارک ہو اور نور آپ کو بھی آپ پھر سے پھپھو بننے والی ہیں"۔ اس نے دونوں کو مبارک دی۔

" اس بار تو پیاری سی گڑیا چاہئے مجھے"۔نور خوشی سے بھرپور آواز میں بولی۔

 "اب تو تم اپنی خواہش خود پوری کر سکتی ہو تم ۔اب تو تمہاری اپنی گڑیا بھی أسکتی ہے"۔بھابھی نے شرارتی مسکراہٹ سے کہا۔

" کیا کہ رہی ہیں بھابھی میری اپنی گڑیا کیسے آسکتی ہے"۔نور ناسمجھی سے بولی جبکہ زین ان کی بات سمجھ گیا تھا ۔

 " یہ تو تم اپنے شوہر سے پوچھو یہ مسئلہ تو وہی حل کر سکتے ہیں"۔ جبکہ نور کو جھٹکا لگا بات سمجھ آنے پر وہ شرم سے بھاگ کھڑی ہوئی۔وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی بھابھی زین کے سامنے ایسی بات کریں گی۔وہ سوچ رہی تھی اب وہ زین کا سامنا کیسے کرے گی۔اس نے شیشے میں دیکھا تو اس کا چہرہ شرم سے لال ٹماٹر جیسا ہو رہا تھا۔

شام میں سب اکٹھے ہوئے تو عادل کے ہاتھ میں مٹھائی دیکھ کر سب اسے حیرانگی سے دیکھ رہے تھے۔

" یہ مٹھائی کس خوشی میں ہے عادل بیٹا ۔کیا پرموشن ہوئی ہے"اس کی ماں نے پوچھا۔وہ ظہر پڑھ قیلولہ کرتی تھیں اور چار بجے اٹھتیں اس لئے انہیں بھی نہیں معلوم تھا۔

" یہ تو چھوٹے شاہ جی بتائیں گے ۔انہوں نے فون پر کہا تھا مٹھائی لے کر أنا أج کوئی خوشخبری ہے"۔اس نے زین کی طرف دیکھ کر کہا۔

" ماں جی ان کی سچ میں پرموشن ہوئی لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ وہ پرموشن أفس میں نہیں ہوئی"۔وہ شرارتی انداز میں بول رہا تھا۔اس کی عادل سے اچھی خاصی دوستی ہو گئی تھی اس لئے اسے تنگ کر رہاتھا۔

" میں سمجھی نہیں اگر آفس مین پرموشن نہیں ہوئی تو پھر"۔ وہ پھر سے بولیں۔

" میں اب مزید تنگ نہیں کر رہا میں ابھی سب کو بتا رہا ہوں۔عادل صاحب کے گھر خوشخبری ہے  ان کے گھر پھر سے ننھا مہمان آنے والا ہے پھر اس نے جو کچھ دن میں ہوا سب بتاتا گیا۔ میں نے عادل کو فون کر کے مٹھائی لانے کا کہا ۔

" جاؤ عادل بھابھی کے پاس وہ تمہارا ویٹ کر رہی ہوں گی جاؤ جلدی سے ۔

" چلیں بھئی منہ میٹھا کریں سب" ۔وہ سب کو مٹھائی دیتے بولا جو ملازمہ پلیٹ میں ڈال کر لے آئی تھی۔

" آپ کب خوشخبری سنا رہے ہیں برخوردار ہمیں انتظار ہے کب أپ بھی ہماری خواہش پوری کریں  گے"۔دادا جان نے پوچھا۔

" ابھی ان جھمیلوں سے فارغ ہو جاؤں پھر کچھ سوچوں گا"۔ابھی وہ بات کر رہا تھا کہ اس کا فون بجا اس نے دیکھا تو کوئی اناؤن نمبر تھا۔اس نے کال پک کر لی۔

" کیسے ہیں چھوٹے شاہ جی.... سنا ہے کل چھوٹا سا ایکسسیڈینٹ ہوا ہے أپکا ۔کچھ ہوا تو نہیں ہو گا أپکو کیونکہ وہ تو ایک ٹریلر تھا"۔بلیک میلر نے زین کے کال اٹھاتے ہی اسے چونکایا۔

" اس سب کا کیا مطلب ہے اور کون ہو تم اور کیوں کال کی ہے مجھے۔ ایکسیڈینٹ کے بارے میں تو ابھی تک کسی کو نہیں پتا"۔جبکہ زین اب فون سپیکر پر ڈال کر دادا جان اور نانا جان کے درمیان میں بیٹھ گیا۔

" کیا کرتے ہیں شاہ جی وزارت میں ہو کر ایک گدی نشین ہو کر پھر بھی أپ نہیں سمجھے کہ وہ ایک پراپر پلیننگ کے تحت ہوا ہے"۔

" کہنا کیا چاہ رہے ہو کھل کر کہو بات کو گھمانا بند کو اصل بات پر أؤ کیا چاہتے ہو" ۔زین نے خود کو کنٹرول کیا۔کیونکہ وہ جان گیا تھا کال کس کی ہے۔

" دیکھیں شاہ جی... صاف اور سیدھی بات ہے۔آپ کا اس لڑکی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے أپ کو تو کوئی بھی ایک سے بڑھ کر ایک لڑکی مل جائے گی۔ اس کو ہمارے حوالےکردیں اور کمشنر صاحب کے ساتھ جو پلیننگ کر رہے ہیں ان سے پیچھے ہٹ جائیں۔آپ سوچ رہے ہوں گے مجھے کیسے پتا تو پولیس میں ہمارے  بھی کوئی جاننے والے ہیں ۔اب سوچ کیا رہے ہیں بتائیں لڑکی ہمارے حوالے کریں گے یا پھر سے کوئی پلان بنائیں ۔یاد رکھئے گا پہلی دفعہ تو ہم نے صرف ڈرانے کے لئے معمولی سا ہٹ کیا تھا ہر بار جان بچ جائے ضروری نہیں" ۔اس نے دھمکی دی۔

" پہلی بات تو یہ کہ جب میرا اس لڑکی سے کوئی رشتہ نہیں تھا تو میں نے اسے محفوظ رکھا ہے۔اب تو وہ میری بیوی ہے اب تو کسی قیمت پر اسے چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اتنا تو تم جانتے ہو کہ سید خاندان کی عورتیں اپنے مردوں کے ساتھ کتنی محفوظ ہوتی ہیں اوراپنی عزت کی خاطر سید خاندان ہر حد پار کرنے والوں میں سے ہے اس لئے یہ جان سے مارنے کی دھمکی کسی اور کو لگانا ورنہ اگلی باری تمہاری بھی ہو سکتی ہے۔ یاد رکھنا لازمی نہیں کہ تم ہر بار کی طرح بچ کر  نکل جاؤ ۔اس بار تمہارا واسطہ غلط بندے سے پڑا ہے۔ تم اپنی جان بچاؤ کیونکہ تم اپنی باری کھیل چکے ہو اب میری باری ہے ۔ایسی مار ماروں گا کہ تمہیں پانی بھی نصیب نہیں ہو گا"۔ اس سے پہلے زین کچھ اور کہتا وہ آدمی کال کاٹ گیا۔ 

" وہ لوگ اس قدر بوکھلا چکے ہیں کہ وہ بھول بیٹھے ہیں کہ دھمکی کس کو دے رہے ہیں۔ میں ابھی کمشنر صاحب سے بات کرتا ہوں"۔ زین نے دونوں کو کہا۔

وہ کال سے فارغ ہو کر دوبارہ ان کے پاس آیا تو جو بات انہیں کمشنر صاحب نے بتائی۔وہ حیرانگی سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے باقاعدہ ایک وڈیو بھی ملی تھی جو کسی نے خفیہ طریقے سے بنا کر فیک آئی ڈی کے ذریعے ان کو بھیج کر اکاؤنٹ بلاک کر دیا گیا۔ لڑکیوں کی کڈنیپنگ اور سمگلنگ میں وفاقی وزیر کا ہاتھ تھا ۔وہ سب تو مہرے تھے۔ ان کا کرتا دھرتااور سردار وفاقی وزیر تھا جو کہ کتنے سالوں سے سیاست کا حصہ تھا اور خود کو ایک نیک اور فرشتہ صفت أدمی دکھا کر عوام کو دھوکہ دے رہا تھا۔ 

" اب کیا کرنا ہے دادا جان اب تو ہمیں سب انفارمیشن مل چکی ہے ۔تو ہم یہ سب ایکسپوز کیسے کریں گے ۔اگر ہم یہ وڈیو بھی دکھاتے ہیں تو کوئی بھی ہمارا یقین نہیں کرے گا۔ الٹا ہمیں سب غلط ٹہرائیں گے ویسے بھی وہ مکر جائیں گے اور کہیں گے آج کل فیک وڈیو کا دور ہے کوئی بھی انہیں ٹریپ کرنے کے لئے بنا سکتا ہے ہمیں تو یہ بھی نہیں پتہ کہ یہ بھیجی کس نے ہے ہمارے دکھانے سے الٹا ہماری پوزیشن ڈاؤن ہو جائے گی عوام ہمیں غلط ٹہرائے گی ۔کہ ہم نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے۔ 

" ٹھیک کہ رہے ہیں آپ ۔یہ سب اتنا آسان نہیں ہے لیکن مشکل بھی نہیں ہے ۔میں نے کرنل سے بات کر لی ہے۔ ساری صورتحال سے آگاہ کیا ہے آج ہم دونوں کی ان سے میٹنگ ہے تو یہ سب انہیں دکھا کر ڈیسائیڈ کریں گے کہ آگے کیا کرنا ہے"۔ عالم صاحب نے کہا

" جیسا آپ سب کو مناسب لگے لیکن میں چاہتا ہوں یہ سب جلدی سے ختم ہو جائے۔ نور کو یہ سب پتہ نہیں چلنا چاہیے وہ بہت خوفزدہ سی رہتی ہیں اگر یہ بات انہیں پتہ چلی تو وہ اور ڈر جائیں گی اور خوفزدہ ہو جائیں گی وہ تو پہلے ہی گھر سے باہر نکلنے سے ڈرتی ہیں یہ سب ان کے لئے بہت زیادہ ہے"۔ زین نے اپنی الجھن بتائی۔

"ٹھیک کہ رہے ہیں آپ۔ بہت معصوم بچی ہے،  ہر چیز سے پاک صاف کوئی بری ہوا اسے چھو کر بھی نہیں گزری۔ اللہ نے بھی ہمیں کتنی قیمتی چیز دی ہے بیٹا، ایسے لوگ بہت کم ملتے ہیں اس دنیا میں اس کی قدر کرنا ۔وہ ہمارے گھر رحمت بن کر أئی ہے ۔بہت بڑا کرم ہے یہ ہم پر ۔تم دیکھنا ہم اسے کسی قیمت پر نہیں کھونے والے ۔یہ تو شکر ہے نور کے سب گھر والے عادل کے کمرے میں ہیں ۔ان کو کچھ بھی پتہ نہیں چلنا چاہئے وہ پہلے ہی خوفزدہ تھے اور ہو جائیں پہلے بھی بہت مشکل سے روکا تھا انہیں گھر میں ۔اب تو فوراً چلیں جائیں گے ۔اس دفعہ وہ نہیں رکیں گے۔

ہم اب جتنا جلدی ہو سکے اس معاملے کو حل کرتے ہیں پہلے ہی دو ماہ ہو چکے ہیں اور لیٹ نہیں کرنا چاہتے۔

#########

"آپ دونوں سے کچھ بات کرنی ہے مجھے "۔زین نے صبح ہی ان دونوں سے اجازت لینی چاہی۔

"کیا بات ہے سن رہے ہیں ہم"۔جم

" گاؤں والے بہت یاد کر رہے ہیں اور کچھ کام بھی پینڈنگ ہیں۔ جرگے کے کچھ فیصلے بھی کرنے ہیں۔وہ سب بھی میرے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ سوچ رہا ہوں چکر لگا لوں۔ دو دن بعد واپس آجاؤں گا"۔اس نے دونوں کو أگاہ کیا۔

" میں تو کہوں گا ایک بار رک جاؤ یہ سارا معاملا حل ہو جائے پھر چلے جانا۔وسے بھی میں چاہ رہا تھا ہم سب ساتھ چلتے ۔ ہم دونوں کا بھی بہت دل کر رہا ہے وہاں جانے گا اور اس دفعہ نور کو بھی ساتھ لے جائیں گے "۔انہوں نے کہا۔

"میں کمشنر صاحب سے ملنے جارہا ہوں کیس میں کچھ حد تک تو کامیابی مل گئی ہے بس اب ان کو جکڑنا کیسے ہے یہ پلیننگ کرنی ہے تب تک آپ کرنل صاحب سے میٹنگ نمٹا کر آجائیے گا"۔

" دھیان سے جانا اور گاڑی ڈرائیو کرنے کی کی کوئی ضرورت نہیں ہے سکیورٹی بھی ڈبل لے کر جانا"۔عالم صاحب نے کہا۔

" جی لیکن سکیورٹی اتنی ہی بہت ہے اب مین خود بھی چوکنا رہوں گا"۔

*************

وہ ٹھیک گیارہ بجے کمشنر صاحب کے پاس گیا۔انہوں نے سارے ثبوت اس کے آگے رکھے۔چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا سب جو بھی اس کیس میں ملوث تھے سب کی ڈیٹیل اس فائل میں تھی۔ اب بس انہیں گھیرنے کے لئے اگلا لائحہ عمل ترتیب دینا تھا۔

" اب تک سب بلکل پرفیکٹ ہوا ہے آگے بھی  إنشاءاللّٰه  سب ٹھیک ہو گا۔ اب میں چلتا ہوں مزید کوئی پیش رفت ہو تو آگاہ کیجئے گا" ۔

کیوں شرمندہ کر رہے ہیں شاہ صاحب۔یہ سب بھی آپ کی مہربانی سے ہوا ہے ورنہ کتنے ہی کیس ردی بنے پڑے ہیں۔یہ تو آپ آگے آئے ہیں۔یہ ساری انفارمیشن بھی تو ہمیں آپ کے اثرواسوخ کی وجہ سے ملی ہے اگر آپ اپنا پرائیویٹ ڈیٹیکٹیو اس کیس میں ہائر نہ کرتے تو جو سب ہمیں ثبوت ملے ہیں کبھی نہیں ملتے پھر سے یہ فائل ردی کی ٹوکری میں ہی جانی تھی۔بہت بہت شکریہ أپ کا ورنہ آج کل کہاں آپ جیسے لوگ ہوتے ہیں جو عوام کے لئے اچھا سوچیں" ۔کمشنر صاحب نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ 

"آپ مجھے شرمندہ کر رہے ہیں کمشنر صاحب ،یہ تو ہمارا کام ہے ۔عوام ہم پر اتنا اعتماد کر کے ہمیں ووٹ دیتی ہے تو ہمارا بھی فرض ہے ان لوگوں کے لئے کچھ کرنا۔اور بس دعا کیجئے ۔اس کیس کی کامیابی سے کتنی ہی لڑکیوں کی زندگی خراب ہونے سے بچ جائے گی ان لڑکیوں کو بچانا ہمارا فرض ہے اب میں چلتا ہوں اللہ حافظ" ۔

" اسے پولیس اسٹیشن سے نکلے دس منٹ ہی ہوئے تھے کہ دوگاڑیاں ان کا پیچھا کر رہی تھیں جو ہو بہو ویسی تھیں جنہوں نے اسے ہٹ کیا تھا۔اسے سمجھ آگیا تھا کہ یہ پھر سے کسی پلاننگ کے تحت آئے ہیں۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے۔اس نے اپنے گارڈز کو گاڑیاں کسی سنسان علاقے کی طرف لے جانے کے لئے کہااور اس بات سے بھی آگاہ کیا کہ انہیں شک نہیں ہونا چاہیے۔

جو گاڑیاں ان کا پیچھا کررہیں تھیں ۔انہوں نے گاڑیوں کا رخ مڑتے دیکھا ۔تو الجھن کا شکار ہوئے کیونکہ ان کی اطلاع کے مطابق اسے کسی انٹرویو کے لئے جانا تھا جو کہ پہاں سے مخالف سمت میں تھا۔دراصل وہ اسے روکنا چاہتے تھے کیونکہ انہیں ڈر تھا کہیں وہ ایکسپوز نہ ہو جائیں۔انٹرویو میں وہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہ دے دے۔

جیسے ہی وہ سنسان جگہ پر پہنچے۔ زین کی تینوں گاڑیاں جھٹکے سے مڑیں اور ان کہ دونوں گاڑیوں کو گھیر کر ٹائروں پر فائر کھول دئیے تب تک پولیس بھی پہنچ گئی۔اس نے فون پر اطلاع دے دی تھی۔ان کی گاڑیوں کو ناکارہ کرنے کے بعد اس کے گارڈز نےانہیں خالی ہاتھ باہر نکلنے کا حکم دیا۔اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو انہیں شوٹ کر دیا جائے گا ۔وہ خالی ہاتھ باہر نکلے تو پولیس نےانہیں  گھیر لیا اور ہتھکڑی لگائی۔ 

ان میں سے ایک کا فون بجنے لگا۔ اس کی کال زین نے اٹھائی۔ وہ وہی آدمی تھا جس  نےاسےدھمکی  دی تھی۔ 

" کہاں مر گئے ہو رفیق ،فون کیوں نہیں اٹھا رہے۔ اچھا یہ سب چھوڑو بتاؤ کام ہو گیا یا نہیں۔  دھیان سے گولی صرف ٹائر پر لگنی چاہئے ہم نے  اسے ڈرانا ہے جان سےنہیں مارنا"۔ 

" کام تو تمہارے آدمیوں کا تمام ہوا ہے جیل جا کر سلام کر لینا۔کہا تھا تم سے لازمی نہیں کہ ہر دفعہ تمہاری جیت ہو۔ میں نے تم سے بولا تھا ہر بار تم بچ نہیں سکو گے تم شاید بھول گئے ہو کہ میں کون ہوں"۔زین نے فاتحانہ انداز میں کہا۔

" کہاں ہیں میرے آدمی کیا کیا ھے أپ نےان کے ساتھ ۔دیکھیں چھوٹے شاہ جی میں نے آپ سےپہلےبھی کہا تھا ہماری آپ سے کوئی دشمنی نہیں ہے ہمارے راستے سے ہٹ جائیں ۔ہم نہیں چاہتے أپ بے قصور مارے جائیں"۔اس نے دھمکی دی۔

" تم کون ہوتے ہو مجھے مارنے والے ،زندہ رکھنے والی اور مارنے والی زات اللہ کی ہے، وہ جسے چاہے زندگی دے اور  جسے چاہے موت ۔اگر میری موت لکھی ہے تو کوئی بھی ٹال نہیں سکتا۔تم جیسے لوگوں کی گیدڑ بھبھکیوں سے ڈرنے والا نہیں ہوں"۔زین نے کہتے ہی کال کاٹ دی۔

اب وہ پولیس کے ساتھ سیدھا تھانے گیا۔ان کے خلاف رپورٹ لکھوا کر ۔ان کے لملئے سخت سے سخت کاروائی کرنے کا حکم  دیا۔اب اس کا ارادہ پنجاب اسمبلی جانے کا تھا کسی ضروری کام کے سلسلے میں جو کافی دنوں سے پینڈنگ پے تھا وہ اپنے بڑوں کو سرپرائز دینا چاہتا تھا۔

 کام ختم کرتے اسے رات کے آٹھ بج گئے ۔اب وہ فارغ ہو کر سیدھا گھر آیا ۔

ڈنر کا ٹائم ہو چکا تھا۔سب اس کے آتے ہی کھانا کھانے لگے۔

ڈنر کرنے کے بعد لائبریری آجائیے گا ضروری بات کرنی ہے آپ سے ۔عالم شاہ نے زین سے کہا۔

آپ کھانا کیوں نہیں کھا رہیں نور بیٹا، بہت چپ چپ ہیں، کوئی بات ہوئی ہے یا زین شاہ نے کچھ کہاہے، بتائیں ابھی آپ کے سامنے ان کے کان پکڑوائیں گے"۔عالم صاحب نے نور سے پوچھا جو کہ کل سے اس کے سامنے آنے سے ہچکچا رہی تھی اور آج بھی اس کو دیکھ کر نظر جھکائے بیٹھی تھی۔عالم صاحب کے اچانک پوچھنے پر وہ چونکی۔

" نہیں نہیں کچھ بھی نہیں ہوا انہوں نے کچھ نہیں کہا وہ بس سر میں ہلکا سا درد ہو رہا تھا لیکن اب بلکل ٹھیک ہے"۔وہ انہیں اصل بات نہیں بتا سکتی تھی اور پریشان بھی نہیں کرنا چاہتی تھی، اس لئے سر درد کا بہانہ کر دیا۔

" تو بیٹا بتانا چاہئے تھا ۔آپ کو میڈیسن دیدیتے یا ڈاکٹر کے پاس لے جاتے"۔فیروز شاہ نے کہا۔

" اب بلکل ٹھیک ہوں صبح تھا اب بلکل ٹھیک ہے أپ پریشان نہ ہوں"۔اس نے جواب دیا۔

کھانا کھانے کے بعد وہ سب ڈرائینگ روم میں بیٹھ گئے۔

' ہم دونوں نے سوچا ہے چھوٹی سی پارٹی رکھ لیں ۔باہر تو ہم جا نہیں سکتے تو سوچا گھر میں پارٹی رکھ لیتے ہیں۔

" پارٹی لیکن کس لیے داداجان" ۔عادل نے پوچھا۔عالم صاحب کے کہنے پر وہ انہیں داداجان کہتا تھا ۔

" ارے تمارے گھر اتنی بڑی خوشی أنے والی ہے اس لئے ہم سوچ رہے تھے چھوٹی سی پارٹی رکھ لیتے ہیں۔گھر کے لان میں ہی سجاوٹ کر لیں اور کیک اور کچھ فاسٹ فوڈ أٹم رکھ لیں گے،کیا کہتے ہیں آپ لوگ"۔انہوں نے سب کی رائے مانگی۔

"نہیں شاہ صاحب، پہلے ہی آپ ہمارے اور ہماری بیٹی کے لئے اتنا کچھ کر رہے ہیں ،مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ،ہم پہلے ہی آپ کے بہت احسان مند ہیں آپ کابہت شکریہ ہمارے لئے اتنا سوچا لیکن اب اور نہیں "۔فاروق صاحب نے انکار کر دیا۔

" لگتا ہےبیٹا جی، أپ ہمیں اپنا نہیں سمجھتے،ورنہ ایسی بات نہیں کرتے ۔عادل ہمارے لیے بھی بیٹے جیسا ہے ۔ہم نے اسے بیٹا کہا نہیں مانا بھی ہے ۔کیا اس کی خوشی منانے کا ہمیں کوئی حق نہیں ۔ٹھیک ہے پھر ہم دوبارہ آپ لوگوں پر کوئی حق نہیں جتائیں گے۔جیسا آپ لوگوں کو ٹھیک لگے کیجئے "۔وہ کہ کر جانے لگے تو فاروق صاحب نے انہیں روک لیا۔

" پلیز ناراض کیوں ہو رہے ہیں، ہماری بات بھی تو سمجھئے ،پہلے ہی آپ لوگ اتنا کچھ کر رہے ہیں اس لئے۔  اور لوگوں کا بھی تو سوچیں پہلے ہم آپ لوگوں کے گھر رہ رہے ہیں، آپ کی گاڑیاں سکیورٹی کے ساتھ ہمیں آفس ڈراپ کرنے جاتی ہیں، ضرورت کی ہر چیز کے علاوہ ہر طرح کی آسائش اور سہولت مہیا کر رہے ہیں، لوگ بھی باتیں بنانے لگے ہیں ۔اس لیے میں دعا کر رہا ہوں کہ جلدی سے خطرہ ٹلے اور ہم اپنے گھر جائیں۔اس لئے پلیز ناراض نہ ہوں، ہم بھی مجبور ہیں لڑکی کے ماں باپ کو لوگ کسی حال میں بھی جینے نہیں دیتے"۔انہوں نے اپنی مجبوری بتائی۔

" جیسا آپ کو ٹھیک لگے، ہم أپ کو فورس نہیں کریں گے۔چلیں ٹھیک ہے ہم پارٹی نہیں کرتے لیکن گھر میں کچھ فیملی کے ساتھ مل کر چھوٹا سا فنکشن کر لیتےہیں۔ہم سب اکٹھے مل کر چھوٹی سی پارٹی کر لیتے ہیں کسی کو بلاتے نہیں ہیں لیکن کھانا سارا باہر سے آرڈر کریں گے ۔اب اس بات پر آپ کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے"۔اس بار فیروز شاہ بھی بولے تو ان کو ماننا پڑی۔

***************

شام میں سب کچھ تیار تھا۔گھر کے لان میں تھوڑی سی سجاوٹ کر کے بڑا سا ٹیبل سیٹ کیا تھا۔ ساتھ چیئرز لگائی گئی تھیں۔ایک سائیڈ پر ایک چھوٹے سائز کی ٹیبل سیٹ کر کے کیک رکھا گیا۔عفان نور کی گود میں تھا۔سب ساتھ کھڑے ہوگئے ۔عادل اور ردا نے کیک کاٹا۔سب ساتھ مل کر کلیپنگ کر رہے تھے۔

کیک سب کو سرو کرنے کے بعد سب کو کھانا کھانے کے لیے بلایا گیا۔سب ملازمین کے لئے بھی ویسا ہی انتظام کیا گیا تھا۔ انہوں نے سب کو بھیجا ۔اب وہ صرف فیملی کے ساتھ بیٹھے تھے۔کھانا بہت ہی اچھا تھا۔سب نے بہت ہی رغبت سے کھانا کھایا۔کھانا کھانے کے بعد عفان لان میں بھاگنے لگا ۔بھاگتے ہوئے وہ ایک درخت کے پاس أیا جو کہ بہت بڑا تھا۔اچانک ایک نقاب پوش درخت کے  پیچھے سے نکل أیا ۔عفان کو اٹھا کر اس کی گردن پر چاقو رکھ گیا۔ایسا کرنے سے عفان رونے لگا۔اس کی آواز سن کر سب بھاگ کر آئے اور سامنے کا منظر دیکھ کر سب کے اوسان خطا ہوئے۔

عالم صاحب سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان کے مینشن میں ان کے مہمانوں کے ساتھ ایسا ہو سکتا ہے ۔وہ سخت طیش میں أگئے۔ 

کون ہو تم اور چھوڑو بچے کو ۔کیوں آئے ہو یہاں۔تم شاید بھول گئے ہو کس کے گھر آئے ہو ۔ہم کہ رہے چھوڑ دو بچے کو ورنہ تم زندہ سلامت یہاں سے جا نہیں سکو گے۔بتاؤ کس کے آدمی ہو یہاں کیوں أئے ہو" ۔وہ گرجے۔

" ہماری أپ سے کوئی دشمنی نہیں ہے ہم بچے کو بھی چھوڑ دیں گے۔وہ لڑکی ہمارے حوالے کردو ہم یہاں سے چلے جائیں گے اور کیس بھی واپس لے لو ورنہ اس چاقو سے بچے کا گلہ کاٹ دوں گا"۔وہ کڈنیپر بولا۔

" بچے کو کچھ ہوا تو ہم تمہاری جان لے لیں گے چھوڑ دو بچے کو ورنہ تم کسی قابل نہیں رہو گے"۔فیروز شاہ نے اسے غصے سے کہا۔

زین أہستہ أہستہ پیچھے ہٹا بنا کسی کی نظروں میں آئے اسی بڑے درخت کے سہارے اس تک پہنچنے کے بارے میں سوچنے لگا کہ کسی بھی طرح اس أدمی کو بھی گرائے اور عفان کو بھی کچھ نہ ہو۔وہ أہستہ آہستہ بلکل اس کے پیچھے جا کر کھڑا ہو گیا۔اپنی پسٹل زور سے اس کے سر کی پشت پر ماری جس سے اس نے سر پکڑا اور وہ جلدی سے عفان کو کھینچ کر اس سے دور لے گیا۔نور بھاگ کر آئی اور اسے گود میں لے کر کر بے تہاشا چومنے لگی سب بھاگ کر نور کے پاس آئے ۔عادل نے عفان کو دیکھا تو وہ بیہوش ہو چکا تھا۔

"عادل تم ردا کے ساتھ جلدی اسے ہو سپٹل لے کر جاؤ ہم یہاں سب سنبھال لیں گے"۔

" میں بھی جاؤں گا ساتھ"فاروق صاحب جلدی سے بولے

۔ٹھیک ہے آپ لوگ جاؤ"۔

نور کو اندر بھیج کر عالم اور فیروز صاحب زین کے ساتھ مل کر اس کڈنیپرکے قریب أئے ۔

" تمہیں پتہ ہے کہ آج تم نے کیا کیا ہے۔جانتے ہو  ہمارے گھر أئے مہمانوں کے ساتھ ایسا کبھی بھی نہیں ہوا۔تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی ہمارے مینشن میں چھپ کر آئے اور وہ سب کیا جو ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔"زین نے اسے بالوں سے پکڑ کر اس کا سر اونچا کیا۔

سپیشل گفٹ ریڈرز کے لئے

عفان کو ہوش آچکا تھا ۔وہ اسے گھر لے أئے۔خوشیاں غم  میں بدل چکی تھیں۔

کیا کہ رہے ہیں ڈاکٹر کیسا ہے اب عفان"۔عالم صاحب نے پوچھا۔

" کہ رہے تھے صدمے کی وجہ سے بیہوش ہوا ہے۔اب سو رہا ہے ،جب اٹھے گا تو ٹھیک ہو جائے گا، بس اللہ کرے سب کچھ بھول جائے"۔عادل نے بتایا۔

ردا اور نور عفان کے ساتھ بیٹھ گئیں/اور سب مرد باہر أگئے۔

" کچھ بتایا اس آدمی نے وہ کس کے کہنے پر یہاں أیا تھا۔ اب کیا کرنا ہے، اس سے پہلے حالات مزید بگڑیں یا کسی کو کچھ ہو ،ہمیں اب ان سب کا خاتمہ کرنا ہے زین، تم کمشنر صاحب سے بات کر کے اس معاملے کو اب ختم کرو ۔اب بس ہماری برداشت ختم ہو گئی ہے۔اس أدمی کا وڈیو بیان ریکارڈ کر لیا ہے ہم نے ،اس سے زیادہ ثبوتوں کی ضرورت نہیں ہے ہمیں۔نہ ہوتے تب بھی میں مزید کوئی نقصان برداشت نہیں کر سکتا۔نور کی جان خطرے میں ہے تم پر بھی دو مرتبہ حملہ ہو چکا ہے اور اب عفان معصوم بچہ ان کی زد میں آگیا"۔عالم صاحب نے مزید رسک لینے سے منع کر دیا۔

" فاروق صاحب ہم بہت شرمندہ ہیں ،ہماری وجہ سے ہمارے گھر میں آپ کے معصوم بچے کے ساتھ یہ سب ہوا ،ہم معذرت چاہتے ہیں لیکن ہم وعدہ کرتے ہیں أئندہ ایسا نہیں ہو گا"۔عالم صاحب نے شرمندگی سے کہا۔

" کیسی بات کر رہے ہیں شاہ جی ۔أپ تو ہمیں اور ہماری بیٹی کو محفوظ رکھنے کے لئے لائے ہیں، ہماری وجہ سے أپ لوگوں پر بھی حملے ہو رہے ہیں زین بیٹے پر بھی دو حملے ہوئے ہیں پھر ہم أپ کو غلط کیسے سمجھ سکتے ہیں"۔انہوں نے کہا۔

" صحیح کہ رہے ہیں بابا ،شاید یہ سب ایسے ہی ہونا تھا، وہاں اگر عفان نہ ہوتا تو شاید آج نور ہمارے درمیان نہ ہوتی ۔اس وقت ہم اسے ڈھونڈ رہے ہوتے ۔اللہ کا شکر ہے نور اور عفان دونوں ٹھیک ہیں یہ تو شکر ہے عفان کی وجہ سے اس نے آدمی کی باتوں کو دھیان نہیں دیا ورنہ اسے سب پتہ چل جاتا"۔عادل نے کہا۔وہ نور سے محبت کرتا تھا ایک تو وہ شروع سے حساس بہت تھی اور وہ دو ہی بہن بھائی تھے اس لئے ایک دوسرے سے بہت زیادہ اٹیچ تھے۔

نور نیچے أئی تو سب بیٹھے تھے ۔ایسا لگ رہا تھا جیسے رات یہیں گزارنے کا ارادہ ہو ۔اتنا برا ہونے کے بعد اب کسے نیند آنی تھی۔

" بہت رات ہو گئی ہے اب سب سونے چلیں ویسے بھی نیند تو کسی کو بھی نہیں أئے گی لیکن صبح سب نے اپنے کام پر  بھی جانا ہے اس لئے روم میں جا کر لیٹ جائیں شاید اس بہانے نیند أجائے"۔فیروز صاحب نے سب سے کہا۔

سب اپنے اپنے کمرے میں چلے گئے۔نور روم میں أئی تو زین صوفے پر کسی گہری سوچ میں بیٹھا تھا۔ وہ اس کے پاس أکر بیٹھ گئی۔

" ایک بات پوچھوں أپ سے ،سچ سچ بتائی گا۔میں جتنا سوچتی ہوں اس بارے میں الجھ جاتی ہوں ،جب کوئی سرا ہاتھ ہی نہیں أتا تو خود کی سوچ جھٹک دیتی ہوں، لیکن أج جو کچھ بھی ہوا وہ اگنور نہیں کیا جاسکتا ،اس لئے پوچھ رہی ہوں، وعدہ کریں سب کچھ سچ سچ بتائیں گے أپ کو میری قسم"نور نے اسے ہر طرف سے گھیرا۔

" پوچھیں کیا پوچھنا چاہتی ہیں" ۔ زین نے بھی ہتھیار ڈال دیئے۔

" میں کئی دن سے نوٹ کر رہی ہوں، أپ سب مجھ سے کچھ چھپا رہے ہیں۔ایسی بات جومجھ سے جڑی ہےاور یہ اب سے نہیں ہے ہماری شادی کے بعد سے شروع ہوا ہے۔اس کے بعد میرے گھر والوں کا یہاں أنا، آپ کا ایکسیڈینٹ مجھے گھر سے باہر نکلنے کے لئے منع کرنا ۔اور اب ہمارے گھر اس طرع سے أدمی کا آجانا۔ أپ سب لوگ سوچ رہے ہوں گے میں نے اس أدمی کی باتیں نہیں سنی کیونکہ میرا سارا دھیان عفان کی طرف تھا تو ایسا بلکل بھی نہیں ہے ۔میں نے اس کے ساری باتیں سنی تھی وہ کہ رہا تھا اس لڑکی کو ہمارے حوالے کردو تو بچے کو چھوڑ دوں گا ۔اس سب کے بعد تو شک کے گنجائش ہی نہیں بچتی ۔بتائیں میں سارا سچ جاننا چاہتی ہوں۔ کیونکہ اتنا تو میں سمجھ چکی ہوں کہ سب کو خطرہ میری وجہ سے ہے، یہ سب جو کچھ ہو رہا ہے اس کی وجہ میں ہوں" ۔اس نے جو کچھ محسوس کیا وہ سب زین کو بتا دیا۔ 

" سچ جاننا أپ کا حق ہے لیکن مجھے کچھ ٹائم دیں میں آپ کو سب کچھ بتاؤں گا ابھی موقع نہیں ہے ۔میں وعدہ کرتا ہوں سب کچھ بتاؤں گا لیکن ابھی نہیں صحیح وقت آنے پر ابھی آپ ٹینشن فری ہو جائیں اور آرام کریں "۔زین نے اسے تسلی دیتے ہوئے وعدہ کیا ۔وہ جانتا تھا نور کو سب بتادیا تو اسے سارا پلان بناتا پڑتا ۔اور جس خطرے میں وہ جارہا ہے وہ کبھی بھی اسے جانے نہیں دے گی۔اور وہ اس کے سامنے کمزور نہیں پڑنا چاہتا۔ ویسے بھی تھوڑے دنوں کی بات تھی وہ اسے سب بتا دے گا۔ 

اس نے فل پلیننگ کر رکھی تھی اب بس اس نے عمل کرنا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا اسی ہفتے میں وہ سب کچھ سیٹ کر لے گا ۔اس لئے اس نے نور سے تھوڑا وقت مانگا تاکہ وہ جلد ہی اپنے مشن کو مکمل کر لے۔

"چلیں اب سوتے ہیں صبح اٹھنا بھی تو ہے پہلے ہی بہت دیر ہوگئی ہے"۔زین  اس کا ہاتھ تھامتے بیڈ پر آیا۔

************

صبح سب ناستے پر اکٹھے تھے۔لیکن برائے نام ہی کھانا کھا رہے تھے۔

" میں چاہتا ہوں یہ ہفتہ سب اپنے آفس سے چھٹی لے لیں اور گھر رہیں ۔اس سب کے پیچھے جس أدمی کا ہاتھ ہے ۔اسے پتہ چل چکا ہے کہ ہم نے اس کا آدمی پکڑ لیا ہے اور ہمیں اس پر شک ہو چکا ہے۔اب وہ پھر سے کچھ کرنے کی کوشش کرے گا۔نور بیٹا آپنے پریشان نہیں ہونا، یہ سب ہمارے سیاسی مخالفین نے کیا ہے وہ ہمیں نقصان پہنچانے کے لئے ایسے ہتھکنڈے  اپناتے ہیں ۔اس لئے ہم سب کو گھر سے باہر نکلنے کے لئے منع کر رہے ہیں"۔ عالم صاحب نے سب کو کہا اور پھر نور کو تسلی دی تاکہ اس کی سوچ کہیں اور نہ جائے۔لیکن انہیں پتہ نہیں تھا کہ وہ آدھا سچ جانتی ہے۔

"ہم ایک ہفتہ گھر کیسے رہیں گے ۔اور ہمیں چھٹی بھی نہیں ملے گی ۔فاروق صاحب نے کہا۔

" چھٹی کی آپ ٹینشن نہ لیں ۔آپ دونوں اپنےآفس کا نمبر دیں چھٹی ابھی کنفرم ہو جائے گی "۔عالم صاحب نے نمبر لے کر دونوں کے آفس کال کر کے چھٹی کی اطلاع دی۔انہوں نے تو ان کا نام سن کر ہی چھٹی دے دی۔کچھ اور کہنے کا ٓموقع ہی نہیں دیا۔

" آپ لوگ پریشان نہ ہوں جو کچھ ہم لوگ کرنے والے ہیں ۔وہ أدمی بوکھلا جائے گا اس لئے گھر میں رہ کر سکیورٹی ڈبل کردی ہے۔اب اس کا قصہ تمام ہو جائے گا اور اسے تمام ثبوت کے ساتھ فوج کے حوالے کر دیا جائے گا کیونکہ ایسے لوگوں کا علاج فوج کے پاس ہے ۔پولیس میں  کچھ رشوت خور اور کارندے ان کے موجود ہوتے ہیں جن سے یہ آسانی سے نکل آئیں گے ۔لیکن فوج میں ان کی شفارشیں اور رشوت کام نہیں آتی" ۔عالم صاحب نے بتایا۔

" کیا أپ اس أدمی کو جانتے ہیں اگر آپ کو برا نہ لگے تو بتا سکتے ہیں کہ وہ آدمی کون نے اور ایسا کیوں کر رہا ہے"۔فاروق صاحب نے پوچھا۔

" ہم جانتے ہیں اسے،آپ لوگ بھی کیا عوام بھی انہیں اچھی طرح جانتی ہے"۔انہوں نے کہا۔

" ہم بھی جانتے ہیں اور عوام بھی جانتی ہے میں سمجھا نہیں"۔

وفاقی وزیر رحمت کمال کو جانتے ہیں آپ لوگ اکثر عوام کی خدمت کرتے پائے جاتے ہیں اور ان کے انٹر ویوز ٹی وی دکھائے جاتے ہیں"۔

" وفاقی وزیر رحمت کمال تو اکثر ٹی وی پر انکے انٹرویو أتے ہیں اور عوام کی دن رات خدمت کرتے ہیں بہت ہی نیک انسان  ہیں وہ  لیکن یہاں انکا کیا ذکر "۔فاروق صاحب نے 

 "انہی کا تو ذکر ہے یہاں وہی شریف اور نیک انسان اس سب کے پیچھے ہے۔ہمارے ساتھ دو ماہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سب کے پیچھے اسی نیک فرشتہ صفت انسان کا ہاتھ ہے جو اپنا بھیڑیے والا خطرناک روپ چھپا کر عوام کو بیوقوف بنا رہا ہے اصل میں وہ ایک درندہ ہے جو لڑکیوں کا کاروبار کرتا ہے شادی کی نام پر لڑکیوں کے ماں باپ کو بیوقوف بناتے ہیں۔ان کے سامنے شریف بن کر اپنے کسی آدمی کے ساتھ مل کر لڑکی سے  نکاح کرواتے  ہیں اسی رات اسے اپنے مالکوں کے حوالے کرتے ہیں جو شپ کے ذریعے انہیں دوسرے ملکوں میں بیچ دیتے ہیں اور ان کا کرتا دھرتا اور مالک ہے یہ رحمت کمال ہمارا وفاقی وزیر"۔عالم صاحب نے انہیں اصلیت بتائی۔

" یہ سب اس نے کیا ہے ۔کتنا خطرناک آدمی ہے یہ ہم تو اسے بہت نیک سمجھتے تھے ۔کیونکہ بہت سے علاقوں میں اس نے کام کروایا ہے۔ ہمارے علاقے میں بھی آیا تھا یہ ۔عادل گھر نہیں تھا تو میں نور کو یونیورسٹی سے واپس لے کر آیا تھا ۔وہیں اس نے نور کو بھی دیکھا تھا اب مجھے سب سمجھ أگئی۔ یہ سب ہمارے ساتھ اس سب کے بعد شروع ہوا ہے ۔پہلے تو ہم بہت سکون سے رہ رہے تھے ۔ہمارا محلہ بھی بہت اچھا ہے اور نور کا وہ رشتہ بھی ان کے توسط سے ہی بھیجا گیا تھا اس لئے تو ہم نے ہاں کر دی اور کوئی چھان بین بھی نہیں کی۔اوہ میرے خدایا یہ سب مجھ کیا ہو گیا۔اگر اس دن نور کی شادی ہو گئی ہوتی تو ہم کیا کرتے"۔فاروق سب پشیمان ہو کر بولے

شکر ادا کریں اس پاک ذات کا جس کی وجہ سے ہماری نور بچ گئی ویسے بھی اللہ اپنے نیک بندوں کے ساتھ کبھی بھی برا نہیں کرتا ۔دنیا لاکھ کوشش کرے لیکن اوپر والا سب دیکھ رہا ہے یہ تو شکر ہے اللہ کا زین نے شادی سے ایک ہفتہ پہلے ان کی پلیننگ سن لی اور سب کچھ اپنے کنٹرول میں لے لیا۔اسی دن زین نے ان کے پیچھے پرائیویٹ جاسوس ہائر کر لیا اور ہر بات اس کو پتہ چل گئی۔جب سب کچھ زین کو پتہ چلا تو اس نے ہن سے مشورہ کیا اور ہم نے ہی اسے شادی روکنے کے لئے کہا ۔کیونکہ ہمیں ابھی اصل گنہگار کو پکڑنا تھا اگر شادی سے پہلے ہم کوئی ایکشن لیتے تو وہ چوکنا ہو جاتے ۔اس لئے ہم نے شادی دن والے دن آکر کہا کہ ہمارے بچوں کا نکاح ہو چکا ہے ۔ورنہ وہ کبھی بھی اس طرح نہ بھاگتے اور وہ ہم سے بھی نہیں بھڑ سکتے تھے کیونکہ وہ ہمارے اثرواسوخ جانتے تھے لیکن یہاں ایک مسئلہ ہو گیا ۔انہوں نے پچاس کے قریب لڑکیوں کی تصاویر بھیجیں تھیں جن میں ہماری نور بھی تھی انہیں اس بات کا بہت فائدہ ہوا کیونکہ سب لڑکیوں سے زیادہ نور کے پیسے انہیں سب سے زیادہ ملنے تھے ۔پیسے انہیں شادی کی رات ملنے تھے لیکن ہماری وجہ سے انہیں واپس جانا پڑا ۔اس لئے وہ بوکھلا گئے ۔اب وہ نور کو دوبارہ اغواہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ رقم انہیں مل سکے ۔باقی ساری لڑکیاں ان کو مل چکی ہیں سوائے نور کے اس لئے پیچھے سے انہیں بلیک میل کیا جارہا ہے کہ وہ لڑکی جلد سے جلد انہیں چاہیے ورنہ انجام کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے ان کے پاس یہ آخری ہفتہ ہے نور کو ان کے حوالے کرنے کا ۔اب وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اس لئے سب کو باہر نکلنے کے لئے منع کیا ہے ۔وہ جاسوس ابھی بھی ان میں شامل ہے اور ساری ڈیٹیل ہمیں مہیا کر رہا ہے ۔بس اب اسی ہفتے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا 

چھوٹے شاہ جی کو پتہ کیسے چلا اس سب کا مطلب شادی سے پہلے انہیں کسی نے بتایا تھا۔عادل نے پوچھا۔

ہمارا ریسٹورینٹ تو آپ نے دیکھا ہے ۔زین وہاں کسی کام کے سلسلے میں گیا تھا اسے رات واپس آنے میں زرا دیر ہو گئی وہ رات دس بجے کے قریب ریسٹورینٹ سے نکلا ۔جب پارکنگ میں پہنچا تو اسے کچھ لوگوں کی آواز آرہی تھی زین نےان کی ساری باتیں سن لیں ۔یہ بھی شکر تھا اس نے شادی کا دن اور میرج حال کا نام اور ٹائم بھی اسی أدمی کو بتا دیا۔وہ رخصتی کے پعد دلہن بنی نور کو بیہوش کر کے أدھے رستے میں کسی اور گاڑی پر اپنے مطلوبہ مقام پر پہنچانا تھا ۔یہ سب زین نے سن لیا اس لئے ہم لوگ پلیننگ کے تحت شادی والے دن گئے تاکہ انہیں سوچنے سمجھنے کا ٹائم نہ ملے اور گیم ان کے ہاتھ سے نکل جائے" ۔عالم صاحب نے گزرا سارا واقعہ ان کے گوش گزار کر دیا۔

یہ سب سن کر تو نور کے گھر والے کچھ کہنے کے قابل ہی نہیں رہے ۔وہ تو ان کا جتنا شکریہ ادا کرتے کم ہے ۔وہ یہی سوچ رہے تھے ۔کہ اگر ان کی بیٹی اس دن ان کے ہاتھ لگ جاتی تو وہ کہاں اپنی بیٹی کو تلاش کرتے ۔

ہم لوگ تو آپ کا جتنا بھی شکریہ ادا کریں کم ہے شاہ جی ۔پتہ نہیں کس نیکی کے عوض اللہ نے أپ جیسے اچھے لوگ ہماری زندگی میں بھیجے ۔آپ کی وجہ سے أج ہم عزت کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ہماری بیٹی کی عزت اور زندگی آپ لوگوں کی وجہ سے محفوظ ہے ۔ہم تو آپ کے.  بہت احسان مند ہیں۔فاروق صاحب نے ان کا شکریہ ادا کیا۔

" ہم تو صرف ایک ذریعہ تھے۔ وسیلہ تو اس پاک ذات نے مہیا کیا ہے۔ یہ تو قدرت کے کام ہیں اگر اس دن زین ان کی ساری باتیں نا سنتا تو آج ہم سب یہاں نہ بیٹھے ہوتے ۔ہمارے بچوں کی شادی کیسے ہوتی ۔یہ ہمارا کمال نہیں ہے یہ تو اوپر والے کا اشارہ تھا جو ہمارے دونوں بچوں کو ملانا چاہتا تھا"۔عالم صاحب نے انہیں حوصلہ دیا۔

"آپ ٹینشن نہ لیں اب سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ہماری ساری پریشانیاں ختم ہو جائیں گی۔پھر ہم بھی سکون سے رہیں گے۔"زین نے انہیں تسلی دی۔

نور کچن میں بوا کے ساتھ بزی تھی۔اب وہ فری ہو کر  و اپنے روم میں فریش ہونے جانا تھا۔ابھی فریش ہو کر وہ ٹاول سے بال خشک کر رہی تھی۔تبھی زین روم میں أیا ۔وہ بھی فریش ہو کر وائیٹ شلوار قمیض پہنے صوفے پر آکر بیٹھا۔

" کیا سوچ رہی ہیں کافی دیر سے دیکھ رہا ہوں أپ کو کھوئی کھوئی سی لگ رہی ہیں" ۔زین اٹھ کر اس کے پاس آیا۔

" کوئی بات نہیں ہے بس ایسے ہی "۔نور بولی۔

" کوئ بات تو ضرور ہے۔ أپ کچھ تو سوچ رہی تھیں"۔زین نے اس سے استفسار کیا۔

" وہ .....جب سارا مسئلہ حل ہو جائے گا ۔تو ماں بابا بھابھی بھیا گھر چلے جائیں گے ۔پھر میں سارا دن گھر میں اکیلی کیا کروں گی"۔وہ اپنے دل کی بات زبان پر لے کر أئی۔

" سہی کہ رہی ہیں أپ پھر تو اس مسئلے کا حل نکالنا چاہئے یہ تو واقعی بہت سیریس مسئلہ ہے ویسے ایک حل ہے میرے پاس جس سے أپ اور ہم سب بور نہیں ہو گے" ۔زین نے سنجیدگی سے کہا۔

"اچھا تو پھر جلدی بتائیں ۔میں تو ابھی سے پریشان ہو رہی ہوں کہ جب سب چلے جائیں گے تو میں کیا کروں گی ۔اب بتائیں کیا حل ہے آپ کے پاس "۔نور نے فوراً پوچھا۔

" ہم کہیں گھومنے چلیں گے جہاں أپ کہیں گی ۔پندرہ دن کا ٹرپ پلان کر لیتے ہیں ۔خوب گھوم پھر کر واپس أجائیں گے۔فارن کنٹری جانا ہو تو ایک ڈیڑھ ماہ جبکہ اگر پاکستان میں ہی  کہیں جانا ہو تو پندرہ دن کا ٹرپ پلان کر لیں گے" ۔زین نے پلان ترتیب دیا۔

" دو تین ماہ تو ایسے ہی گزر جائیں گے اس کے بعد پھر روٹین پر واپس تو آنا پڑے گا نہ پھر بھی میں گھر میں اکیلی ہی ہوں گی"۔وہ اداسی سے بولی۔

" پھر ہم ہمارے أبائی گاؤں چلیں گے ویسے بھی وہاں سب ہمارا اور أپکا بےصبری سے انتظار کر رہے ہیں وہاں ہماری أبائی حویلی اور زمینیں ہیں"۔زین نے بتایا۔

" آپ نے پہلے کبھی بتایا ہی نہیں اپنے گاؤں کے بارے میں، پتہ ہے مجھے کتنا شوق ہے گاؤں دیکھنے کا لیکن کبھی موقع ہی نہیں ملا جانے کا ،اب میں ضرور جاؤں گی اور ہم پہلے گاؤں جائیں گے پھر جہاں أپ کا دل کرے" ۔نور نے خوش ہوتے کہا۔

مجھے پتہ ہوتا کہ آپ کو گاؤں دیکھنے کا اتنا شوق ہے تو میں کب کا گاؤں لے جا چکا ہوتا ۔اب اسی ہفتے کے اینڈ میں ہم گاؤں جائیں گے میں نے دادا اوا نانا جان سے بات کر لی ہے وہ کہ رہے ہیں ہم سب ساتھ چلیں گے وہ بھی بہت یاد کر رہے ہیں اپنے گاؤں کو 

" میں تو بھول ہی گیا آپ کے لئے گفٹ لایا تھا ۔آج شاپنگ مال  چکر لگا تو انہوں نے کہا کہ اپنے لئے کچھ لے لیں تو  میں نے منع کردیا پھر انہوں نے اسرار کیا کہ اپنی بیوی کے لئے کچھ لے لیں تو مجھے انکار کرنا مناسب نہیں لگا اس لئے اپ کے لئے ایک پینڈینٹ پسند أیا تو لے لیا" ۔زین اسے بتا کر ڈریسنگ کے پاس لے گیا اور اسے دکھایا۔ 

" یہ تو بہت ہی خوبصورت ہے ماشاءاللّٰه ۔نور نے اسے دیکھتے کہا۔وہ ڈائمنڈ کا ایک خوبصورت پینڈینٹ تھا جس میں باریک چھوٹے چھوٹے چار ڈائمنڈ لگے تھے جس کی چمک أنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی ۔

" میں پہنا دوں، اتنا تو اس حق ہے نہ میرا آپ پر ۔نور اسے پہننے لگی تو زین اس کا ہاتھ تھامتے بولا۔تو نور نے بنا جھجھکے پینڈینٹ اس کے ہاتھ میں دے دیا۔

زین نے اس کے گلے میں پہنا کر آئینے میں دیکھا تو وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھا۔

" بہت پیاری لگ رہیں ہیں أپ، یہ تو أپ کے لئے ایک چھوٹا سا گفٹ ہے۔آپکے سامنے یہ کچھ بھی نہیں ہے"۔زین نے اسےمحبت سے دیکھتے کہا۔

ایک بات کہوں آپ سے مجھے تم کہ کر پکارا کریں ایسے اچھا نہیں لگتا بار بار أپ کہنا۔تم کہیں گے تو مجھے زیادہ اچھا لگے گا۔

" اوکے میڈم جیسی أپ کے مرضی"۔زین مسکراتے ہوئے بولا 

پھر سے أپ نور نے کہا

 " اوکے بابا سوری جیسے تمہاری مرضی "۔زین اسے گھمانے لگا، گھماتے گھماتے دونوں کو چکرائے تو اس نے ویسے ہی گود میں اٹھا کر بیڈ پر لا کر گرایا اور ساتھ خود بھی دوسری طرف گرا۔ان دونوں کی سانسیں پھول چکی تھیں اور آنکھیں بند کر کے اپنی سانسیں بحال کرنے میں لگے تھے ۔جب دونوں ٹھیک ہوئے تو زین نے بازو پر سر رکھ کر اپنا  رخ اس کی طرف کیا ۔اس کی آنکھیں ابھی بھی بند تھیں ۔

" أنکھیں کھولو نور اور ادھر دیکھو میری طرف۔زین نےاپنے دوسرے سے اس کا چہرہ اپنی طرف موڑا ،

میں سوچ رہا تھا ہم کچھ دن ایک دوسرے کے ساتھ گزاریں دو ماہ ہو گئے ہیں شادی کو ہم نے ساتھ ٹائم سپینڈ نہیں کیا اور میں نے بھی آپ کو ٹائم اس لیے دیا تاکہ أپ اس شادی کو دل سے قبول کر لیں۔میں اب بھی آپ کی ہاں کے بغیر ہمارا رشتہ آگے نہیں بڑھاؤں گا۔جب آپ خود کو اس رشتے کو آگے بڑھانے اور دل سے رضامندی دیں گی تب ہی ہمارا رشتہ مکمل ہو گا۔

میں نے آپ سے پہلے ہی کہا تھا کہ نکاح ہونے کے بعد میں نے یہ رشتہ دل سے قبول کیا ہے أپ میرے شوہر ہیں آپ کا پورا حق ہے مجھ پر آپ کو اجازت لینے یا انتظار کرنے کی بلکل بھی ضرورت نہیں ہے ۔یہ سب  باتیں اپنے دل سے نکال دیں" ۔نور نے سچے دل کے کہا۔

" اگر میں تم سے کہوں کہ میرے لئے اپنی شادی کے دن والا جوڑا پہنو تو کیا تم پہنو گی ۔زین نے اس کا دل لینے کے لئے پوچھا کہ وہ کیا  جواب دے گی۔

" نہیں ....میں وہ ڈریس نہیں پہنو گی بلکہ جو أپ میرے لئے لائیں گے ،وہ پہنو گی کیونکہ وہ میں نے کسی اور کے نام کا پہنا تھا، جب أپ میرے لئے اپنی پسند کا ڈریس لائے گے تو وہ دل سے پہنوں گی" ۔نور نےمسکراتے ہوئے کہا۔

"اپنا وعدہ یاد رکھنا بھولنا مت میں اپنی مرضی سے جو لاؤں گا پہننا پڑے گا"۔زین نےبھی اس سے وعدہ لیا۔

" وعدہ میں ضرور پہنوں گی"۔نور بولی۔

" چلیں اب صبح جلدی اٹھنا ہے اور کام بھی بہت ہیں "۔

زین نے اسے بھی سونے کی ہدایت دی۔

**************

سب گھر ہی موجود تھے ۔زین نے آج کسی کام کے سلسلے میں ریسٹورینٹ جانا تھا ۔دن کے گیارہ بج رہے تھے جب نور کا فون بجا۔

فون سنتے ہی وہ گاؤن پہن کر اکیلی ڈرائیور کے ساتھ بغیر کسی کو بتائے روانہ ہو گئی۔جیسے ہی وہ لوگ سنسان جگہ سے گزرنے لگے تو چار گاڑیوں نے انہیں گھیرے میں لے لیا۔فائرنگ کرکے ڈرائیور کو زخمی کر 

کے سر پر بندوق کے وار سے اسے بیہوش کر دیا اور نور کو گاڑی میں سے زپردستی نکال کر  اپنی گاڑی میں دھکیلا اور اپنے ٹھکانے پر روانہ ہو گئے ۔

وہ لوگ نور کو لے کر اپنے ٹھکانے پہنچے۔وہاں ان کا باس انکا انتظار کر رہا تھا۔وہ نور کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اپنے آدمیوں کو سراہا ۔

" اب ہماری رقم ہمیں مل جائے گی۔ ابھی سیٹھ کو فون کرتا ہوں اور لڑکی کے ملنے کی خبر دیتا ہوں تاکہ ہمیں پیسے جلدی مل جائیں۔ بہت انتظار کیا ہے اس دن کا بس اب اور نہیں۔ أج تو ہر حال میں پیسے لے کر رہوں گا"۔اس نے جلدی سے سیٹھ کو کال ملائی تو اس نے اسے اپنے پرانے اڈے پر بلایا جہاں وہ لڑکیوں کو رکھتےتھے ۔

وہ لوگ شام کو چھ بجے وہ لوگ وہاں پہنچے ۔وہاں لگ بھگ ڈیڑھ سو کے قریب اور لڑکیاں بھی تھیں۔جن میں سے کچھ کو کڈنیپ کیا گیا تھا ۔کچھ گھر سے بھاگی ہوئی تھیں اور کچھ نور کی طرح نکاح کر کے لائی گئی تھیں۔

یہ سب لڑکیاں غریب اور مڈل کلاس گھرانے سے تھیں۔وہ سب باقاعدہ سسکیوں سے رو رہی تھیں جبکہ نور ان کا معائنہ کرنے میں مصروف تھی جیسے اس کے ساتھ کچھ ہوا ہی نہیں وہ اپنی مرضی سے آئی ہو ۔وہ أدمی اسے بند کر کے جاچکے تھے۔وہ اٹھی اور ان کو تسلی دینے لگی جیسے جیسے وہ ان لڑکیوں سے بات کرتی گئی ان  کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلتی گئی ۔جیسے انہیں نئی زندگی کی نوید مل گئی ہو۔

نور نے ارد گرد دیکھ کر صورتحال کا جائزہ لیا اور ایک ٹوٹی ہوئی کھڑکی نظر آئی جس سے وہ باہر کےمنظر دیکھ رہی تھی۔وہاں سے اس نے پانچ چھ کے قریب أدمیوں کو آتے دیکھا۔ اس نے جلدی سے اپنے دائیں ہاتھ میں موجود گھڑی کے بٹن کو پریس کیا اور باقی لڑکیوں کے پاس آکر بیٹھ گئی۔

وہ سب اندر آئے تو لڑکیاں خاموش بیٹھی تھیں۔جیسے انہیں ہمیشہ یہیں رہنا ہو اور یہی ان کا مستقل ٹھکانہ ہو۔وہ ریلکس سی بیٹھی تھیں۔

" واہ بھئی کیا بات ہے، لگتا ہے دل لگ گیا ہے تم سب کا یہاں"۔جبکہ باقی سب لڑکیاں وفاقی وزیر کی یہاں موجودگی سے حیران ہی رہ گئیں۔

" لگتا ہے مجھے دیکھ کر سکتہ ہو گیا ہے تم سب کو،مجھے جانتے ہی ہو گے تم ، پہچانا ، رحمت کمال کہتے ہیں مجھے ،عوام کا ہمدرد،دکھ اور سکھ میں انکا ساتھ دینے والا ان کا غمگسار ،مسیحا،

"سالے بیوقوف ...کیسے میری چکنی چپڑی باتوں میں آجاتے ہیں۔مجھے ان سے کوئی غرض نہیں صرف پیسہ،پیسے سے پیار ہےمجھے ۔پیسہ چاہیئے پیسا۔

میں نے جب یہ دہندہ شروع کیا  تو ہر کوئی ٹانگ اڑانے آ جاتا بیچ میں۔کبھی پولیس آجاتی ،کبھی کوئی تو کبھی کوئی،پھر میرے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا کیوں نا سیاست میں آیا جائے ،اس کے بعد میں نے عوام کے لئے کام کرنا شروع کیا ،دو سال بعد الیکشن تھے اس میں حصہ لیا تو میں جیت گیا پھر آہستہ آہستہ اپنے پیر جمائے اور آج پندرہ سال بعد اس مقام پر پہنچا ہوں ۔اب پولیس تو کیا کوئی مائی کا لال بھی مجھے چھو نہیں سکتا ۔پولیس کو میں جیب میں رکھ کر گھومتا ہوں جو میرا مال بیرون ملک بھیجنے میں میری مدد کرتے ہیں، آج تک کوئی بھی مجھے پکڑ نہیں پایا اور نہ ہی کوئی پکڑ پائے گا"۔اس نے اکڑتے ہوئے غرور سے کہا ۔

" سید عالم شاہ کی بہو کہاں ہے ذرا اس کا دیدار تو کرواؤ جس کو انہوں نے دو ماہ سے چھپا کر رکھا،  میں بھی تو دیکھوں ایسا کیا ہے اس میں جسکو انہوں نے سات پردوں میں چھپا رکھا تھا، ایسی بھی کیا خاص بات ہے اس میں۔بہت بھگایا ہےانہوں نے اپنے پیچھے اب جا کر  ہاتھ لگی ہے"۔اس نے اپنے آدمیوں سے کہا۔

وہ آدمی نور کی طرف بڑھنے لگے تو اس نے ہاتھ روک کر منع کیا اور خود کھڑی ہو گئی۔

"مجھے پکڑ کر لیجانے کی کیا ضرورت ہے میں خود تم لوگوں کے سامنے حاضر ہو جاتی ہوں،اور کہو تو اپنا چہرہ بھی دکھا دیتی ہوں ،بہت شوق ہے نہ مجھ سے ملنے کا میرا چہرہ دیکھنے کا تو لو دیکھو اور کر لو اپنا شوق پورا لیکن یاد رکھنا یہ چہرہ تم ساری زندگی یاد رکھو گے کبھی بھول بھی نہیں پاؤ گے"۔

" ارے  اس نے تو پہلے ہی پردہ اتار دیا میں نے تو سنا تھا بہت ہی پردے والی ہے ان کی بہو لیکن کوئی بات نہیں جب وہ خود ہی سارے پردے گرا رہی ہے تو ہمارا ہی فائدہ ہے ،جیسے ہی اس نے گاؤن اتار کر حجاب اتارا جینز شرٹ میں موجود اس خوبصورت لڑکی کو دیکھ کر سب سکتے میں ہی چلے گئے۔

" یہ کیسے ہو سکتا ہے ارے بیوقوفو یہ کسے اٹھا لائے ہو،تم جانتے بھی ہو یہ کون ہے ،کچھ کچھ بے غیرتو  اب ہمیں کوئی نہیں بچا سکتا تمہیں پتہ ہے اس بار تم نے کس سے پنگا لیا ہے ۔ شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالا ہے تم نے ۔وہ تو انسان کی کھال کھینچ لیتا ہے"۔وہ چیختے ہوئے بولا۔

" یہ کیا کہہ رہے ہیں سیٹھ، ہم عالم شاہ کی بہو کو ہی لے کر آئے ہیں، ان کی گاڑی جیسے ہی گھر سے باہر نکلی تو  ہم نے  چاروں طرف سے گھیر لیا اور اب اسے پکڑ کر آپ کے  سامنے لائے ہیں"۔اس کے آدمی بولے۔

" بیوقوف أدمیوں یہ حشمت خانزادہ کی پوتی ہے۔ عباد رؤف کی بیٹی اور أذان خانزادہ کی بیوی اجیہ خانزادہ  بھول گئے وہ شاپنگ مال کا قصہ بڑے بڑے دہشتگردوں کو ٹھکانے لگایا تھا اس لڑکی نے اور تم لوگ اسے اٹھا لائے ہو" ۔وہ بوکھلاتے ہوئے بولا۔

" لگتا ہے غباروں سے ہوا نکل گئی تم سب کی ،مجھے پہچان لیا آپ نے رحمت انکل، بھول بھی کیسے سکتے ہیں آپ کی جیت میں میں بھی تو شامل تھی جب آپ الیکشن جیتے تھے ہماری سپورٹ بھی تو تھی ہم یہ نہیں جانتے تھے کہ  غلط انسان کی سپورٹ کر رہے ہیں لیکن غلطی ایک بار ہوتی ہے باربار نہیں ،مجھے دیکھ کر حیران ہو گئے ہو گے نہ کہ جسے أپ اغوا کرنے والے تھے اس کی جگہ میں کیسے أگئی۔تو أپ جیسے لوگوں کو بےنقاب کرنے کے لئے ہم خانزادہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں ۔اب بھی آپ اکڑ رہے ہو لیکن اب  بچ نہیں سکتے ،أپ کی باری آچکی ہے " ۔اجیہ ابھی بول ہی رہی تھی کہ یکدم فوج کی بھاری نفری اس کے سر پر پہنچ گئی اور  ان سب کو گھیر لیا ۔رحمت کمال نے جیسے ہی اپنے گرد شکنجہ کسا ہوا محسوس کیا تو وہ بوکھلا گیا، اسے اب اپنی جان کی پڑ گئی وہ سوچ رہا تھا کہ پولیس ہوتی تو وہ بچ کے نکل جاتا لیکن فوج کے شکنجے سے بچنا بہت مشکل ہے اب اسے کوئی راہ دکھائی نہیں دے رہی تھی اس نے ایکدم سے ہی اپنے جوتے سے چاقو نکالا اور اجیہ جو پاس ہی کھڑی تھی اسے دبوچ لیا وہ أسانی سے ہارنے والوں میں سے نہیں تھا

" خبردار جو کوئی أگے بڑھا  اس کی گردن کاٹ دوں اگر کسی نے ایک قدم بھی آگے بڑھایا تو لگتا ہے تم نے مجھے بہت ہلکے میں لے لیا اب مجھے یہاں سے نکلنے کے لئے راستہ دو ورنہ یہیں اس لڑکی کی لاش ملے گی تمہیں"اس نے اشارے سے ان سب کو دروازے سے ھٹنے کے لئے کہا۔

اجیہ ابھی بھی مضبوطی سے کھڑی تھی اس کے چہرے پر گھبراہٹ اور خوف بلکل بھی نہیں تھا۔بلکہ وہ ریلکس تھی  اسے پتہ تھا اس نے کیا کرنا ہے۔

رحمت کمال کے جس ہاتھ میں چاقو تھا اس نے وہ پکڑ کر گھمایا اور مروڑ دیا جبکہ بازو مڑنے پر وہ چلا اٹھا کیونکہ اجیہ نے  مروڑا اسے ایسا لگا جیسے اس کا بازو ٹوٹ گیا ہو لیکن اجیہ نے صرف ہلکا سا  جھٹکا ہی دیا تھا۔وہ فرش پر گرا کراہ رہا تھا۔فوج اسے قبضے میں لےلیا ۔

جب وہ لوگ اس اڈے سے لڑکیوں کو لے کر باہر نکلے تو سب لڑکیوں نے شکریہ ادا کیا خاص کر اجیہ کیا ۔جس نے اپنی جان پر کھیل کر ان سب کی جان بچائی تھی۔

فوج ان سب لڑکیوں کو لے کر جا چک تھی اب صرف کیپٹن اپنی ٹیم کے ساتھ کھڑے تھے اور اتفاق سے یہ وہی کیپٹن تھے جو شاپنگ مال میں دہشتگردوں کو پکڑ کر لے گئے تھے۔

انہوں نےہپھر سے اجیہ کا شکریہ ادا کیا۔

کیسی باتیں کر رہے ہیں سر جیسے آپ لوگوں کا فرض ہے عوام کاخیال رکھنا اس طرح ہمارا بھی کچھ فرض ہے شکریہ تو نجھے کہنا چاہئے جسے اس مشن کے لئے چنا گیا ۔میں خود کو بہت لکی محسوس کر رہی ہوں ۔میں آپ کے کچھ کام آئی۔ آپ نے ہی میرا نام سجیسٹ کیا تھا اس مشن میں ورنہ تو میں اب بھی گھر یا اپنے آفس بیٹھی ہوتی" ۔  اجیہ ان کی شکر گزار ہوئی۔ 

" میں تو اب بھی آپ کو کہوں گا کہ فوج جوائن کر لیں ۔اب بھی آپ کے پاس چانس ہے ۔کیپٹن فارخ نے کہا۔ 

نہیں مجھے نہیں جانا فوج میں میں اپنی فیملی کے ساتھ ٹائم سپینڈ کرنا چاہتی ہوں جو مجھے کافی عرصے بعد ملی ہے اس لئے أئی ایم سوری "۔وہ کہتے ہوئے آذان کی طرف بڑھ گئی جو اسی انتظار میں تھا کہ کب وہ اس کے پاس آئے گی۔ 

" چلیں کوئی بات نہیں جیسے آپ کی مرضی اگر کبھی کوئی پرابلم ہو تو ضرور مجھے یاد کیجئے گا "۔کیپٹن اتنی ٹیم کے ساتھ جاچکے تھے ۔اب وہ سب اکٹھے سید مینشن جارہے تھے وہاں سے انہیں گھر جانا تھا۔

وہ سب گھر پہنچے تو نور کی فیملی ڈرائنگ روم میں بیٹھی تھی۔وہ سب جب اندر أئے سب ان کی ایک ساتھ موجودگی سے حیران ہو رہے تھے۔

**************

وہ لوگ ڈرائینگ روم میں بیٹھے تھے۔زین نے  سارا گزرا واقعہ ان سب کو بتایا۔ سب نے سن کر اجیہ کی بہت تعریف کی۔

" بہت بہادر بچی ہے۔ اللہ سب کی بیٹیوں کو آپ جیسا بہادر اور مضبوط بنائے ۔اللہ آپ کو لمبی زندگی دے۔ بہت شکریہ أپ کا۔ بیٹا ہماری بیٹی کے لئے آپ نے اتنا کچھ کیا ۔ہم آپ کے بہت شکر گزار ہیں"۔نور کے والد بولے۔ 

" مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئی۔ آپ گھر کےاندرکیسے آئیں اور ابایہ کہاں کے ملا آپ کو ہم نےتو آپ کو دیکھا بھی نہیں آتے جاتے ہوئے"۔ردا بھابھی نے پوچھا۔

" میں تو کل رات سے ہی یہیں ہوں دراصل میں پچھلے گیٹ سے اندر أئی تھی ۔زین سر مجھے یہاں لائے ہیں اور روم بھی دیا تھا پھر آج۔  نور بھابھی کا فون بھی کل شام سے میرے پاس ہے ان کا ابایہ صبح مجھے کمرے میں ملازمہ دے گئی اس لئے جیسے ہی انہوں نے مجھے فون کیا میں نور بھابھی کا گاؤن پہن کر نکل گئی۔ سب اپنے روم میں تھے اس لئے مجھے کسی نے نہیں دیکھا"۔اجیہ نے بتایا۔

" میں آپ کو شروع سے سب بتاتا ہوں"۔ زین نے کہا۔

" أپ سب جانتے ہیں داداجان اور نانا جان نے کرنل صاحب سے ملنے جانا تھا۔جب وہ وہاں پہنچے تو انہوں نے ساری بات سن کر اپنے کیپٹن سی ملوایا۔انہوں نے جو پلان بتایا اس کے لئے ہمیں ایک لڑکی چاہئے تھی۔نور کو ہم بھیج نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ بہت جلد خوف زدہ ہو جاتی ہیں اور ہمیں کسی مضبوط اور بہادر لڑکی چاہئے تھی ۔سب نے سوچنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ ہم کسی کیپٹن لڑکی سے رابطہ کرتے ہیں۔ہر جگہ پتہ کرنے پر یہی جواب ملا کہ سب اپنے اپنے مشن پر روانہ ہوگئی ہیں کوئی بھی فری نہیں تھی تو کیپٹن نے ہمیں اجیہ کے بارے میں بتایا ۔شاپنگ مال والا واقعہ تو سب نے اپنی آنکھوں نے دیکھا ہے ۔اس لئے ہم ان کے گھر گئے ۔جب ان سب سے بات کی تو فوراً تیار ہو گئے کیونکہ ان کے گھر والوں کو ان کی صلاحیتوں پر پورا بھروسہ تھا۔ کیپٹن فارخ کو یہ جانتی تھیں اس لئے ان کے کہنے پر وہ ہمارے پلان میں شامل ہو گئیں۔ 

انہوں نے نور کا گیٹ اپ لے کر ان لڑکیوں میں شامل ہونا تھا ۔ان کا مقصد لڑکیوں کو بچانے کے ساتھ ساتھ رحمت کمال کا پردہ بھی فاش کرنا تھا۔ یہ لوگ بھی نہیں جانتے تھے جب اجیہ کے دادا جان کو ساری بات بتائی تو وہ خود بھی حیران ہو گئے تھے پھر میرے پاس ان کی جو وڈیوز تھی وہ بھی دکھا دیں ۔ان سب نے ہمارا ساتھ دیا۔ اجیہ کے ابایہ میں منی  کیمرہ لگا تھا جو بلکل چھوٹا سا تھا۔ جب وہاں پہنچی تو انہوں نے جو باتیں کیں وہ ریکارڈ ہوگئیں۔ تب تک فوج بھی ان کے أدمیوں کو حراست میں لے کر ان کے سر پر پہنچ گئی اچانک ہوئے حملے سے وہ بھی گھبرا گئے تھے ۔اب وہ فوج کے قبضے میں ہے"۔زین نے سب کچھ انہیں بتا دیا۔

" ہم پر کوئی خطرہ نہیں ہے اب ہم جیسے مرضی چاہیں باہر جا سکتے ہیں کوئی پابندی نہیں ہے"۔  عالم شاہ نے کہا۔

" شکر ہے اللہ کا ۔أپ سب کا بھی بہت شکریہ۔ہمارے لئے أپ نے بہت کچھ کیا ہے اب ہم بھی اپنے گھر جا سکیں گے"۔فاروق صاحب نے کہا۔

" اتنی بھی کیا جلدی ہے چلے جائیے گا لیکن ابھی کچھ دن رک جائیں" ۔فیروز شاہ نے کہا۔

" نہیں شاہ صاحب ،پہلے ہی پندرہ دن ہو چکے ہیں اب اور نہیں۔ہم بھی اب اپنے گھر جانا چاہتے ہیں پہلے تو ہماری مجبوری تھی لیکن اب کوئی مجبوری نہیں ہے ہم اب اپنے گھر جائیں گے پلیز اب ہمیں روکئے گا نہیں"۔فاروق صاحب نے التجا کی۔

" جیسے أپ کی مرضی لیکن آج نہیں دو دن بعد جائیے گا ابھی نہیں اتنی سی بات تو ہماری مان ہی سکتے ہیں"۔ 

" لیکن شاہ صاحب پہلے ہی بہت دن ہو چکے ہیں اچھا نہیں لگتا ۔ہماری بیٹی کا سسرال ہے یہاں رہنا مناسب نہیں پلیز ہماری بات سمجھئے أپ ہمیں روکئے مت"۔فاروق صاحب نے کہا۔

" آپ تہہ کر ہی چکے ہیں تو ٹھیک ہے جیسا آپ کو ٹھیک لگے اب صبح ہے جایئے گا  اب نہیں "۔عالم شاہ نے انہیں رکنے کے لئے کہا۔

" نور بھابھی کہاں ہیں مجھے ملنا ہےان سے میں دیکھنا چاہتی ہوں ان کو"۔اجیہ اور أذان ان سے مل کر  جانے والے تھے کو یکدم اجیہ کھڑی ہوئی۔

" چلیں میں آپ کو لے چلتا ہوں"۔ وہ اجیہ کو لے کر اپنے روم میں آیا۔نور بیڈ پر بیٹھی تھی۔

" اجیہ آپ سے ملنا چاہتی ہیں نور"۔ زین اجیہ کو نور کے پاس چھوڑ کر چلا گیا۔ اب وہ دونوں روم میں بیٹھی تھیں۔ 

"کیسی ہیں آپ بہت اچھا لگا آپ سے مل کر ۔آپ کو دیکھ کر ہی اندازہ ہو رہا ہے کہ زین سر نے أپ کو کیوں چھپا کر رکھا ہے ماشااللہ بہت ہے پیاری ہیں أپ۔سچ میں زین سر بہت لکی ہیں"۔ اجیہ نے اسے دیکھتے ہی کہا۔وہ اس کے چہرے کی معصومیت دیکھ کر حیران ہوئی۔

" آپ بھی بہت پیاری ہیں بلکل کسی گڑیا جیسی ،مجھے سب کچھ بتا چکی ہیں ردا بھابھی، آپ کا بہت شکریہ آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر ہم سب کو بچایا میں کبھی نہیں بھولوں گی،میں أپ کو ہمیشہ یاد رکھوں گی ۔أپ کی بہت شکر گزار ہوں میں "۔نور بولی۔

" شکریہ کی کوئی بات نہیں ہے میں خود کو بہت 

 خوش قسمت سمجھتی ہوں جو مجھے اس مشن کے لئے چنا گیا۔ پتہ ہے آپ کو میں ہمیشہ خود کو ہر خطرے کے لئے تیار رکھتی ہوں۔ جیسے ہی مجھے اس پلان کے بارے میں بتایا گیا میں فوری تیار ہو گئی ۔مجھے نئے نئے ایڈوینچر کرنے کا بہت شوق ہے ۔ویسے ایک بات کہوں زین سر آپ سے بہت محبت کرتے ہیں جب بھی أپ کے بارے میں بات کرتے ہیں ان کے چہرے پر بہت ہی خوبصورت سمائل ہوتی ہے اور آنکھوں میں انوکھی سی چمک ہوتی ہے ۔ایسے انسان بہت کم ملتے ہیں اور جن کو ملتے ہیں وہ ان کی قدر نہیں کرتے ۔أپ بہت خوش نصیب ہیں جو أپ کی قسمت میں ایسا انسان لکھا ہے۔ آپ ان کی قدر کرنا۔ ان کی محبت کا جواب محبت دے دیجئے گا"۔اجیہ نے اسے زین کی محبت کا احساس دلایا۔

" میں کوشش کروں گی اور میں جانتی ہوں کہ میں بہت خوش قسمت ہوں جن کو وہ ملے ہیں، وہ بہت اچھے ہیں ،جیسے جیون ساتھی  کی ہر لڑکی خواہش کرتی ہیں اور میں دعا کرتی ہوں کہ ہر لڑکی کو ان جیسا جیون ساتھی ملے"۔نور نے کہا۔

" ایک بات پوچھوں آپ سے شادی سے پہلے آپ نے دیکھا تھا ان کو یا شادی کے بعد ہی ملاقات ہوئی تھی "۔اجیہ نے پوچھا۔

" ملاقات نہیں ہوئی تھی ایک بار دیکھا تھا ان کو یونی میں ہمارے "Annual function "میں أئے تھے اور مجھے پرائز بھی دیا تھا۔سب لڑکیاں ان کو جانتی تھیں سوائے میرے کیونکہ میں نیوز سنتی ہی نہیں اور نہ کبھی سنیں ہیں۔ اس لئے تو آپ کو بھی نہیں پہچان پائی۔میری دوستوں نے بتایا تھا کہ یہ زین شاہ ہیں آسٹریلیا سے ہائر سٹڈی کر کے لوٹے ہیں بہت خوش قسمت ہو گی وہ لڑکی جس کی شادی ان سے ہو گی۔تب میں یہ نہیں جانتی تھی کہ میری ہی شادی ان سے ہو جائے گی۔اس کے چہرے پر بتاتے ہوئے بہت ہی پیاری سمائل آئی جسے اجیہ نے دیکھا۔۔زین جو کہ أذان کے کہنے پر اجیہ کو بلانے آیا تھا۔دروازہ کھلا ہونے کی وجہ سے سب سن چکا تھا۔اور بہت ہے پیاری مسکراہٹ اس کے چہرے کو چھو گئی۔

"آپ کو آذان بلا رہے ہیں کہ رہے ہیں بہت دیر ہو گئی ہےتاشفہ کا فون آیا تھا آپ کی بیٹی اجیارہ بھی رو رہی ہے" ۔ دروازہ ناک کر کے اندر آیا۔اجیہ جا چکی تھی ویسے بھی رات کے دس بج رہے تھے انہوں نے پہنچنا بھی تھا۔

" کیسے ہیں آپ ،ٹھیک تو ہیں نہ بہت دیر سے آئے ہیں۔صبح آٹھ بجے کے گئے ہیں اب آئے ہیں فون بھی نہیں کیا آپ نے "۔نور نے اسکے پاس آکر کر پوچھا۔وہ ابھی نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تھی اس لئے دوپٹہ نماز کے سٹائل میں لیا ہوا تھا۔

" آرام سے کیا ہو گیا ہے میں بلکل ٹھیک ہوں۔آپ کے سامنے  ہوں اور جہاں تک فون کی بات ہے ٹائم نہیں ملا۔

ایک بات تو بتائیں مجھے بتایا کیوں نہیں آپ نے کہ  مجھے پہلے سے جانتی ہیں۔اب بھی میں آپ کی بات نہ سنتا تو مجھے پتا نہیں چلتا۔اب بولیں چپ کیوں ہیں"۔زین نے اسے گھیرتے کہا۔ 

" کیا بتاتی آپ کو اتنی سی تو بات تھی، کوشش بھی بہت کی پر ہمت ہی نہیں ہوئی۔کیا آپ کو یاد ہے یہ سب کیونکہ آپ نے جسے پرائیز دیا تھا وہ میں تھی کیا آپ نے مجھے پہچانا نہیں تھا"۔نور نے بات کو گھمانے کے لئے پوچھا۔

"سچ بتاؤں تو نہیں کیونکہ میں نے آج تک کبھی کسی لڑکی کو دیکھا ہی نہیں ۔میرے ذہن میں شروع سے یہی بات رہی ہے کر جب بھی کسی کو پہلی مرتبہ دیکھوں گا اپنی محرم اپنی بیوی کو دیکھوں گا کیونکہ اللہ پاک فرماتے ہیں" نیک مردوں کے لئے نیک عورتیں"۔ اس لئے ذہن کو کبھی بھٹکنے نہیں دیا اور دیکھو آج مجھے تمہارے جیسی نیک اور معصوم بیوی ملی ہے اور میں بہت خوش ہوں"۔زین نے بتایا۔

" ایک بات کہنی تھی تمہارے گھر والے کل جارہے ہیں۔ میں سوچ رہا تھا کچھ گفٹ وغیرہ لے آئیں جا کر۔ تم سے اس لئے۔پوچھ رہا ہوں کہ ان کی پسند نا پسند اچھے سے جانتی ہو گی"۔اس نے پوچھا۔

"اس سب کی کوئی ضرورت نہیں ہے خواہ مخواہ تکلف میں کیوں پڑ رہے ہیں"۔

"میں تم سے اجازت نہیں لے رہا بلکہ پوچھ رہا ہوں میرے ساتھ چلو گی یا میں خود لے آؤں جا کر" ۔زین نے اسے خفگی سے گھورا۔

"اچھا بھئی ٹھیک ہے جیسے آپ کی مرضی آپ کو جو مناسب لگے لے آئیے میں تو ویسے بھی کبھی شاپنگ کرنے نہیں گئی میری ساری چیزیں پہلےامی لاتی تھیں اور پھر بھابھی۔ شادی کے بعد مجھے کسی چیز کی ضرورت ہی نہیں پڑی ہر چیز میری کبڈ میں موجود ہے۔اور مجھے شاپنگ کا زیادہ شوق بھی نہیں ہے"۔

"پھر کس چیز کا شوق ہے آپ کو مجھے بھی تو پتہ چلے تاکہ میں اپنی بیوی کے شوق پورے کر سکوں"۔

" پڑھائی کا بہت شوق تھا مجھے جو کہ اب پورا ہو چکا ہے باقی اور کوئی شوق نہیں ہے"۔

"شوق سے یاد آیا کہ آپ میری خواہش کب پوری کر رہی ہیں۔مجھے انتظار ہے ۔کب آپ میرے رنگ میں خود کو رنگے گی جبکہ نور اس کی بات سن کر سر جھکا گئی اس کی پلکوں میں لرزش واضع تھی۔

می...میں نے ک.. کب انکار کیا ہے میں نے کہا تھا اپنی مرضی کا جوڈریس لائے گے پہن لوں گی" ۔

" کبڈ کھول کر دیکھیں زرا میں أپ کے لئے ڈریس لے آیا تھا چلیں میرے ساتھ" ۔اس نے کبڈ کھول کر پیک کیا ایک خوبصورت سا باکس نکالا۔اور اسے کھولنے کا اشارہ کیا۔وہ دونوں روم میں آئے تو نور نے باکس بیڈ پر رکھ کر کھولنا شروع کیا۔اس نے پیکنگ اتار کر باکس کھولا تو اس میں بہت ہی خوبصوت بلیک اور ریڈ کلر کی ساڑھی تھی جو بہت ہی ہیوی تھی فل ایمبرائڈری کے کام سے بھری ہوئی تھی بازو بھی فل تھے۔

" ی.....یہ کیا ہے"۔وہ ساڑھی دیکھ کر بوکھلائی۔  

" آپ کو کیا لگ رہا ہے "۔وہ مسکرایا۔

" پ..ر..پر میں نے کبھی نہیں پہنی "۔

"۔نہیں پہنی تو اب پہن لیں"۔ 

" لیکن میں کیسے پہن سکتی ہوں سب کیا کہیں گے"۔وہ گھبراتے ہوئے بولی۔

" میں نے کونسا سب کے سامنے پہننے کے لئے کہا ہے۔یہاں ابھی میرے سامنے اسی روم میں پہنیں اور ابھی چینج کر کے آئیں میرے پاس ٹائم نہیں ہے جلدی جائیں"۔وہ مسکراہٹ دباتے بولا۔

" پلیز میری بات سنیں میں نہیں پہن سکتی ۔کچھ اور کہ دیں وہ پہن لوں گی پلیز یہ نہیں"۔

" جلدی اٹھیں جائیں ورنہ میں اپنے ہاتھوں سے پہناؤں گا پھر کوئی شکایت نہیں کیجئے گا اور میں یہ آخری بار کہ رہا ہوں اگلی بار کہوں کا نہیں بلکہ عمل کروں گا"۔اس سے پہلے کہ وہ  اٹھتا نور ساڑھی اٹھا کر جلدی سے واشروم بھاگ گئی۔

دس منٹ کے بعد وہ نہ آئی تو وہ اس نے واشروم کا دروازہ بجایا۔

" کتنی دیر ہے نور کب سے ویٹ کر رہا ہوں کچھ ہیلپ چاہئے تو بتا دو میں کر دوں گا"۔وہ باہر سے بولا۔

نور باہر نکلی تو اس نے ساڑھی کا پلو پیچھے سے موڑ کر ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا کیونکہ اس سے ساڑھی کے بلاؤز کی ڈوری نہیں بندھی تھی ۔زین نے اس کا رخ اپنی طرف کیا اور اس کا پلو ہٹایا ۔نور نے بالوں کا جوڑا باندھ رکھا تھا ۔زین نے کیچر نکال کر سارے بال کھول دیئے۔اس کے گھنے بالوں سے اس کی پشت چھپ گئی۔

اب وہ اسے لے کر بالکنی میں آیا جہاں اس نے چھوٹا سا ٹیبل سیٹ کروایا تھا۔ٹیبل کے وسط میں کیک رکھا ہوا تھا سارے ٹیبل پر ریڈ گلاب کے پھول پھیلائے گئے اور چاروں کونوں پر خوبصورت جدید ڈیزائن کی کینڈل لگائی گئی تھیں اس نے نور کا ہاتھ تھام کر ٹیبل کے آگے کھڑا کیا اور خود پیچھے کھڑا ہوا اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر نائف پکڑا۔اور کیک کاٹا ۔اس نے ویسے ہی کیک کا پیس لے کر نور کو کھلایا اور اس کو بھی کھلانے کا اشارہ کیا۔ نور جس کی پشت زین کے سینے سے لگی تھی اور ایک ہاتھ اس کے ہاتھ میں تھاوہ شرم سے دوہری ہو رہی تھی۔اس نے کانپتے ہاتھوں سے اسے کیک کھلایا۔زین نے اسے گھمایا اور کمر سے پکڑ کر اپنے ساتھ لگایا۔نور نے لائٹ سا میک اپ کر کے ریڈ کلر کی لپ اسٹک لگائی تھی جس سے اس کی خوبصورتی مزید نکھر گئی تھی۔زین کی تو نظریں اس پر سے ہٹ ہی نہیں رہی تھیں۔ وہ تو جیسے ہر چیز ہی بھول گیا۔ اس نے اسے گود میں اٹھایا اور بیڈ پر لے آیا ۔بیڈ پر بیٹھا کر اس نے سائیڈ ٹیبل سے ایک ریڈ کلر کا کیس نکالا ۔جس میں بہت ہی حوبصورت باریک چین کی طرح پائل کی جوڑی تھی۔زین پائل ہاتھ میں لے کر بیٹھا اور ساڑھی تھوڑی سی اوپر کر کے اس کے پاؤں میں پہنانے لگا۔ نور نے اپنا پاؤں پیچھے کرنے کی کوشش کی تو زین نے اس کا پاؤں تھام لیا۔نور کی جھجھک فطری تھی۔زین نے دونوں پاؤں میں پائل پہنا کر اس کا ہاتھ تھاما اور بلکل پائل جیسا ایک بریسلٹ اس کے بازو میں پہنایا۔

" بہت خوبصورت لگ رہی ہیں آپ اتنی کہ میں تعریف میں بھی بیان نہیں کر سکتا۔ پتہ ہے یہ چیزیں میں نے اسی دن کے لئے سنبھال کر رکھی تھیں۔اور پتہ ہے کب لی تھیں چیزیں۔ جاننا چاہیں گی۔ یہ سب میں نے ہمارے ولیمے کی شاپنگ کے دوران لی تھیں۔تب میں نے آپ کا چہرہ اپنی نظروں میں رکھ کر خریدی تھیں۔ اب آپ کو پہنانے پر مجھے کیا فیل ہو رہا ہے سوچ بھی نہیں سکتیں میں أج بہت خوش ہوں۔ہماری نئی زندگی کا آغاز اس قدر خوبصورت ہو گا۔میں نے سوچا نہیں تھا۔ آج میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ مجھے پہلی ہی نظر میں آپ سےمحبت ہو گئی تھی اور جانتی ہیں ہماری پہلی ملاقات کچن میں ہوئی تھی۔ ا پتہ ہے مجھے ہنسی آتی ہے جب بھی سوچتا ہوں۔میں نے اس دن بوا جی سے پوچھا کہ یہ لڑکی کون ہے اور ہماری گھرمیں کیا کر رہی ہے۔کیونکہ ہمارے گھر میں کبھی کوئی ینگ لڑکی نہیں آئی یہاں تک کہ ملازمہ بھی ہم زیادہ عمر کی یا شادی شدہ رکھتے ہیں۔ تب انہوں نے مجھے پتہ ہے کیا کہا۔انہوں نے کہا کہ میں ان کے ساتھ مذاق کر رہا ہوں ۔ایک دن کی بیوی کو کیسے بھول گئے آپ۔حالانکہ اس دن میں نےآپ کو پہلی دفعہ دیکھا تھا۔ اور أج تک وہ منظر میری آنکھوں میں قید ہے اور ہمیشہ قید رکھنا چاہتا ہوں۔ اس نے کہتے ہوئے اس کے گرد گھیرا تنگ کیا۔ تو نور نے اس کی گردن میں بازو ڈالا  اس کے سینے پر سر رکھا اور آنکھیں موند گئی۔ 

@@@@@@@

کل رات دو بجے ان کی فلائٹ تھی اور اب ان دونوں نے جیسے ہی اپنی نظریں اٹھائیں ۔پہلی ہی نظر خانہ کعبہ پر پڑی تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ أج وہ بہت خوش تھے ایک دوسرے کی سنگت میں أج وہ محرم  بن کر اپنے رب کے حضور پیش ہوئے۔ ان کی آنکھوں میں خوشی کی شدت سے ابھی بھی آنسو تھے دونوں نے خانہ کعبہ کے آگے بیٹھ کر دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی۔

اب وہ دعا مانگ کر ایک ساتھ بیٹھے تھے۔ 

" کتنا اچھا ہوتا کہ سب ہمارے ساتھ آتے ۔کہا بھی تھا ان سے نا  دادا اور نانا جان آئے اور ماں بابا بھیا بھابھی بھی نہیں مانے۔ 

" ماں اور بابا دونوں بھیا بھیا کی وجہ سے نہیں آئے۔وہ کہ رہے تھے بچے کی پیدائش کے بعد آئیں گے۔ 

ان دونوں کی بھی مجبوری تھی۔ میرے بعد سارا کام دادا اور نانا جان سنبھالتے ہیں۔ اب تو نانا جان نے وفاقی وزیر کا حلف لے لیا ہے ان پر دوہری زمہ داری عائد ہو گئی ہے۔

" ویسےانہیں منانا بہت مشکل امر تھا۔ وہ کبھی بھی سیاست میں نہیں آنا چاہتے تھے۔دادا جان نے ان سے پوچھے بنا ہی ان کا نام قومی اسمبلی کے اجلاس میں دے دیا جب نئے  وفاقی وزیر کا انتخاب ہونا تھا تو ان کے ذہن  میں کوئی نام نہیں آرہا تھا۔ دادا جان نے نانا جان کا نام لے لیا۔ وہ سب بھی انکو جانتے تھے اس لئے فوری حامی بھر لی لیکن نانا جان نے سنتے ہی انکار کر دیا۔ 

دو دن وہ دادا جان سے ناراض رہے اور لائبریری سے باہر ہی نہیں نکلے۔وہ تو تم لائبریری گئئ انہیں باہر لے کر أئی انہیں سمجھایا۔

 " عوام کو اچھے لوگوں کی ضرورت ہے ۔آپ نہیں مانے گے تو رحمت کمال جیسا کرپٹ انسان پھر سےآ جائے گا وہ جائے گا تو کوئی اور کرپٹ انسان آئے گا جب تک اچھے لوگ حکومت میں نہیں آئیں گے عوام کی اور ملک کی یہی حالت رہے گی۔ملک قرضوں میں بلکل ڈوب جائے گا اور عوام کی حالت اسے بھی زیادہ بری ہو گی۔ آپ میری خاطر ہاں کر دیں ۔اپنی بیٹی کی بات بھی نہیں مانیں گے یہ سوچ کر ہاں کر دیں کہ یہ آپ کی بیٹی کی خواہش ہے جو أپ نے پوری کرنی ہے دیکھئے گا ساری رستے خود ہی أسان ہوتے جائیں گے۔ 

فیروز شاہ یکدم کھڑے ہو گئے۔انہیں کھڑا ہوتے دیکھ سب ڈر گئے۔انہوں نے اپنا ہاتھ اٹھا کر نور کے سر پر رکھا  اور مسکرائے۔

" ہماری بیٹی نے پہلی دفع ہم سے کوئی فرمائش کی ہے اور ہم ضرور پوری کریں گے۔یہ آپ کے نانا جان کا وعدہ ہے"۔اس دن کے بعد انہوں نے حلف لیا اور وفاقی وزیر برأئےقانون منتخب ہو گئے۔

**********

۱سال بعد

" آج میں بہت خوش ہوں دیکھیں عفان کیسے اپنی بہن کے ارد گرد گھوم رہا ہے ابھی تو چار ماہ کی ہے اور یہ کہ رہا ہے مجھ سے باتیں کرے جب بھی یہاں آتی ہوں تبھی پوچھتا ہے اپو یہ مجھ سے کب باتیں کرے گی۔مجھے بھیا کب بلائے گی"۔

"میں بھی بہت زیادہ خوش ہوں۔أپ کو بولتا دیکھ کر ورنہ أپ بلکل بھی نہیں بولتی تھیں میں ویٹ ہی کرتا رہ جاتا کہ آپ بولیں گی یا کوئی بات کریں گی۔اس طرح آپ کو بولتا اور مسکراتا دیکھ دل پر سکون ہو جاتا ہے میں نے عادل سے کیا وعدہ پورا کر دیا۔وہ بھی مجھے جب بھی ملتا ہے شکریہ ادا کرتا ہے کہ میں نے آپ کو ہنسنا اور بولنا سکھایا۔

" ویسے دو ماہ بعد ہمارا بے بی بھی آنے والا ہے سوچا ہے نام کیا رکھیں گی۔اگر بیٹی ہوئی تو اس کا نام میں رکھوں گا اور اگر بیٹا ہوا تو اس کا نام آپ رکھ لینا"۔

"ایسا کیوں بیٹی سے زیادہ پیار کریں گےاور بیٹے سے کم" ۔نور بولی۔

" ایسی بات نہیں ہے بیٹے سے بھی پیار کروں گا لیکن ہمارے خاندان میں بہت ہی کم کسی کے پاس بیٹی ہے مجھے پہلی بیٹی ہی چاہئے۔بیٹا تو سب کو بہت پیارا ہوتا ہے ۔ویسے کوئی نام سوچے ہیں آپ نے ۔میں  تو اپنی بیٹی کا نام سوچ چکا ہوں"۔ڑین نے پوچھا۔

" میں نے بھی سوچے ہیں دو تین نام ہیں میرے ذہن میں۔زید مصطفٰی، ضیاء مصطفٰی،اور زیاد مصطفٰی ۔کیسے لگے آپ کو یہ نام" ۔نور نے نام بتاتے پوچھا۔

" بہت پیارے ہیں نام تو میری بیٹی کا نام نہیں پوچھے گی" ۔

" پوچھنے لگی تھی بتائیں  میں پوچھ رہی ہوں" ۔

" نورالعین نام رکھوں گا اپنی بیٹی کا آپ جیسا ملتا جلتا ۔میں چاہتا ہوں میری بیٹی بلکل آپ جیسی ہو۔پاک اور معصوم ۔اس کے بال بلکل آپ کی طرح ہونے چاہئے خوبصورت لمبے ریشم جیسے۔

@@@@@@

چھ ماہ بعد

" کیا کر رہی ہیں نور کیوں رلا رہی ہیں اسے میری بیٹی بھی تو آرام سے سو رہی ہے آپکا بیٹا کیوں رو رہا رہے۔رات کے دو بج رہے ہیں۔میری بیٹی کی بھی نیند خراب کرے گا"۔نور اور زین کے جڑواں بچے ہوئے تھے ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھی۔جو کہ چار چار ماہ کے تھے۔

جیسے ہی ہوسپٹل میں ڈاکٹر نے ڈلیوری کے بعد جڑواں بچوں کی اطلاع دی۔عالم صاحب اور فیروز شاہ کے تو خوشی کے مارے پیر ہی زمین پر نہیں لگے

 انہوں نے سب سب پہلے اپنے رب کے حضور شکر ادا کیا پھر انہوں نے جیسے خزانوں کے منہ کھول دیئے۔ صدقہ، خیرات کالے بکرے اور پورے شہر میں میٹھائیاں تقسیم کیں۔ اور اپنے گاؤں کے لوگوں کے لئے دیگیں بٹوائی کی۔

جیسے ہی بچوں کو باہر لایا گیا۔ ایک بچہ عالم صاحب کی گود میں اور دوسرا فیروز شاہ کی گود میں آیا۔ 

بچی کو گود میں لیتے ہی فیروز شاہ کی أنکھوں میں آنسو آئے۔ "میری در عدن آ گئی عالم شاہ دیکھو اللہ نے ہمیں اپنی رحمت سے نوازا ہے کتنے سال ہوگئے بیٹی کی خواہش میں گزر گئے اللہ نے ہماری خواہش پوری کردی۔ 

" مجھے بھی دو میں بھی اپنی بیٹی کو گود میں لینا چاہتا ہوں ۔ڈاکٹر نے ہمیں صرف جڑواں بچوں کا بتایا تھا یہ نہیں بتایا کہ ایک بیٹا ہے اور ایک بیٹی"۔عالم شاہ نے بیٹا فیروز شاہ کو پکڑا کر بیٹی گود میں لی اور اس کی چھوٹی سی پیشانی کو چوما۔ 

@@@@@@@

آج دونوں بچوں کی سالگرہ تھی۔نور کے سارے گھر والے بھی آئے تھے۔ عفان اب چار سال کا ہوگیا تھا۔جبکہ عفیرہ ابھی ڈیڑھ سال کی بھی نہیں ہوئی تھی۔ وہ تھوڑا تھوڑا چلتی تھی لیکن ابھی سنبھل نہیں پاتی  اور گر جاتی۔اس لیے عفان ہر وقت سائے کی طرح اس کے ساتھ رہتا تھا۔ 

سب نے ان کی سالگرہ بہت اچھے سے منائی اور آخر میں سب نے فیملی فوٹو بنوائی جو انہوں نے گھر میں فریم کروانے کے لئے کہا۔

بچوں کی سالگرہ میں اجیہ اور آذان بھی آئے تھے۔ان کے دو بچے اجیارہ اور ضرار تھے۔نور اور زین نے اسپیشلی انہیں انوائیٹ کیا تھا۔

" بہت بہت شکریہ آنے کا ہمارے بچوں کی خوشی میں آپ دونوں شریک ہوئے۔

"آپ دونوں کا بھی بہت شکریہ ہم دونوں کو انوائیٹ کرنے کا۔مجھے بہت ہی خوشی ہوئی ۔آپ سے دوبارہ مل کے اب چلتی ہوں آذان میرا ویٹ کر رہے ہیں اور ضرار ابھی چھ ماہ کا ہے وہ دو منٹ بھی نہیں رکتا میرے بغیر"۔اللہ حافظ۔

********

سب جا چکے تھے۔اب وہ دونوں بچوں کے ساتھ روم میں تھے۔نور بچوں کو بیڈ پر لٹا کر اٹھنے لگی کہ یکدم چکرا گئی۔زین جو کہ پاس ہی کھڑا تھا۔اسے تھام لیا۔وہ اسے لے کر نیچے آیا جلدی سے ملازمہ کو بچوں کے پاس بھیج کر اسے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔

"بہت بہت مبارک ہو أپ پھر سے بابا بننے والے ہیں۔آپ کی وائف پھر امید سے ہیں۔پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔بس کھانے پینے کا خیال رکھئے گا۔وہ بلکل ٹھیک ہیں۔صحت بھی بلکل ٹھیک ہے پچھلی بار کی طرح اس بار بھی نارمل ڈلیوری ہو گی۔

وہ دونوں گھر أئے تو دونوں کو ڈرائینگ روم میں دیکھ کر نور تو شرم سے روم میں چلی گئی۔جبکہ زین نے انہیں پھر سے خوشیوں کی نوید سنائی۔

" بہت بہت مبارک ہو تمہیں زین ہمارے گھر میں دوبارہ سے خوشیوں کی بہار لانے کے لئے ہم دوبارہ اس گھر کو آباد دیکھ کر بہت خوش ہیں اللہ ہمیشہ ہمارے گھر کی خوشیوں کو قائم رکھے۔آمین۔

ختم شد  

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Web by Madiha Shah Writes.She started her writing journey from 2019.Masiha Shah is one of those few writers,who keep their readers bound with them , due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey from 2019. She has written many stories and choose varity of topics to write about

'' Nafrta Se barhi Ishq Ki Inteha '' is her first long novel . The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ❤️.There are many lessons to be found in the story.This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lasson to be learned from not leaving....,many social evils has been repressed in this novel.Different things which destroy today’s youth are shown in this novel . All type of people are tried to show in this novel.

"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second best long romantic most popular novel.Even a year after the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.

Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is a best novel ever 3rd Novel. Novel readers liked this novel from the bottom of their heart. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that, but also how sacrifices are made for the sake of relationships.How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice

 

Anjany HumNovel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Anjany Hum  written Ansha Ali Anjany Hum by Ansha Ali is a special novel, many social evils has been represented in this novel. She has written many stories and choose varity of topics to write about

Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel you must read it.

Not only that, Madiha Shah provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

If you all like novels posted on this web, please follow my webAnd if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

If you want to read More  Madiha Shah Complete Novels, go to this link quickly, and enjoy the All Madiha Shah Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                  

 

Complete Novels Link 

 

Copyrlight Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only share links to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted

 

 

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages