Khwabon Ki Pari By Aaira Shah Complete Short Story Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Thursday 16 May 2024

Khwabon Ki Pari By Aaira Shah Complete Short Story Novel

Khwabon Ki Pari By Aaira Shah Complete Short Story Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Khwabon Ki Pari By Aaira Shah Complete Short Story Novel 


Novel Name: Khwabon Ki Pari 

Writer Name:  Aaira Shah 

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

سرخ گلابوں سے سجی خوبصورت سیج پر سرخ بھاری کام سے سجے شرارے میں ملبوس انیس سالہ لڑکی پر پریوں سا روپ آیا تھا۔۔۔ ماں نے کئ بار نظر اتاری غرض یہ کہ جس آنکھ نے آج اسے دیکھا ان میں اس کے لئے ستائش تھی ۔۔۔

اس کی سکھیوں نے بھی خوب چھیڑا کے آج تو دولہے میاں کے ہوش اڑے ہی اڑے ۔۔۔۔

 ایسا ہونا بھی تھا ۔۔۔۔۔۔مگر !!!! اس لڑکی کی باطنی حالت بالکل مختلف تھی اس کے دل میں نئی نویلی دولہن والے جذبات نہ تھے بلکہ اسکا ذہن تیزی سے کچھ سوچنے میں مگن تھا۔۔۔

 ایک نتیجے پر پہنچ کر وہ اپنے بھاری کام سے مزین لہنگے کو سنبھالتی ہوئی کھڑی ہوئی اور تیزی سے سنگھار میز کے سامنے آئ۔۔۔۔۔۔ ایک نظر خود پر ڈالنے کے بعد اپنا زیور اتار کر سنگھار میز پر پٹخنے لگی جس کے نتیجے میں کچھ چوڑیاں زمین پر بکھر کر ٹوٹ گئی ۔۔۔۔۔

 آہ !!!!!! انسان کا دل بھی تو ان کانچ کی چوڑیوں جتنا نازک ہوتا ہے ذرا سی چوٹ پر یونہی تو ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔۔۔۔ جیسا اس وقت شیشے کے سامنے کھڑی اس نازک سی لڑکی کے ساتھ ہوا تھا "

خود کو سارے زیورات سے آزاد کروانے کے بعد باتھ روم کی جانب بڑھی۔۔۔۔۔۔ 

کچھ وقت کے بعد وہ سادہ سے کاٹن کے گلابی لباس میں باہر آئ۔۔۔۔۔۔ ایک ہاتھ میں سرخ شرارہ رول کی صورت میں پکڑا ہوا تھا جسے غصے سے ایک کونے میں پھینکنے کے بعد بستر کی جانب بڑھی۔۔۔۔۔۔

سائیڈ ٹیبل سے پانی کا جگ اٹھا کر بستر کی ایک سائیڈ بھگونے کے بعد اطمینان سے ہاتھ جھاڑتی ہوئی بستر کی دوسری جانب دراز ہو کر لائٹ آف کرکے کمفرٹر منہ تک لے لیا۔

جبکہ اس وسیع و عریض کمرے کے کونے میں پڑا ڈیزائنر لہنگا جسے کبھی پہننے کے وہ کبھی خواب دیکھتی تھی اپنی بے قدری پر آٹھ آنسو بہا رہا تھا۔

                           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"زوہا ۔۔۔۔ زوہا کہاں ہو میں کب سے آواز دے رہی ہوں"

"جی مماں آئ ابھی "۔۔۔ 

ستواں ناک ، بڑی بڑی شرارتی آنکھیں ،  گلابی گال ، بھرے بھرے لب ، مناسب قد کی نازک سی لڑکی نے سیڑھیوں پر سے پھلانگنے کے سے اترتے ہوئے آواز لگائ۔

"آپ نے بلایا مماں" ۔۔۔۔۔ زوہا نے کیچن کے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔۔

" کہاں تھی میں کب سے آواز دے رہی تھی یقینا لگی ہوگی اس موبائل میں اب جلدی سے سلاد بنائو پتا ہے ناں تمہارے بابا سلاد کے بغیر کھانا نہیں کھاتے"۔۔۔۔

 نسرین بیگم نے اسے بولنے کا موقع دیئے بغیرخود ہی سوال جواب کرتے ہوئے اسے حکم دیا ساتھ ہی ان کے ہاتھ تیزی سے روٹی بنانے میں مصروف تھے ۔

ذوہا نے ان کی بات سن کر برے برے منہ بنا کر سلاد بنانا شروع کر دی۔۔۔۔۔

 تھوڑی دیر بعد ایک مردانہ بھاری آواز گونجی ۔۔

" زوہا ااااااااااا "۔۔۔۔ 

"بابا" ۔۔! 

زوہا سب کام چھوڑ چھاڑ آواز کی جانب لپکی ۔۔۔ 

"زوہا آرام سے" ۔۔ نسرین بیگم نے پیچھے سے ہانک لگائ ۔۔۔۔

"بابا میری آئیسکریم لائے آپ ؟؟؟" ۔۔۔۔۔۔۔۔

 اس نے خوشی سے لائونج میں موجود اپنے باپ کے گلے لگتے ہوئے پوچھا ؟؟؟؟

"سوری بیٹا وہ تو میں لانا بھول گیا "۔۔۔۔۔ 

اظہار صاحب نے افسردہ منہ بناتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔۔۔

"میں آپ سے بات نہیں کروں گی" ۔۔۔۔ ناراضگی سے کہتی زوہا صوفے پر بیٹھی۔۔۔۔۔ 

"آہ پھر تو جو آئیسکریم میں لایا وہ ساری اذان کی"۔

آپ بھی سوچ سوچ رہے ہونگے جان نہ پہچان کس کے گھر لے آئی۔۔۔۔ میں آپکو تو چلیں تعارف کے لئے تھوڑی زحمت کریں اور دوبارہ باہر چلیں ۔۔۔۔۔

یہ جو دو منزلہ عمارت آپ دیکھ رہے ہیں اس پر ضیاءالدین (مرحوم ) کا نام جلی حروف میں درج ہے۔۔۔ اس گھر میں ان کے دو بیٹے رہائش پذیر ہیں ۔ 

بڑے بیٹے انوار صاحب اور چھوٹے اظہار صاحب ۔

 انوار صاحب کی تین اولادیں ہیں ۔۔۔

سب سے بڑے پچیس سالہ فائز جو اپنی میڈیکل کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد آجکل ہائوس جاب میں بزی ہیں ۔

 ان سے چھوٹے اکیس سالہ مائز یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں ۔

 اور سب سے چھوٹی اٹھارہ سالہ رمشا جو کہ آجکل بارھویں کے امتحان دے کر فارغ ہونے کے بعد میڈیکل کالج میں داخلے کی تیاری کر رہی تھی ۔

 اظہار صاحب کی دو اولادیں ہیں۔۔۔۔

 سب سے بڑی زوہا جو کہ رمشا ہی کی ہم عمر ہے اور اس کے ساتھ ہی داخلے کی تیاری کر رہی تھی اور دونوں میں خوب گاڑھی چھنتی ہے۔۔۔۔۔

 اور اس سے چھوٹا اذان جو کہ میٹرک کا طالبعلم ہے ۔

 نسرین بیگم اور عائلہ بیگم ( انوار صاحب کی زوجہ ) میں روائتی دیورانی جیٹھانی والہ رشتہ نہ تھا۔۔۔۔

 یہ ایک خوشحال متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والہ گھرانہ تھا جہاں چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہی ان کے جینے کی وجہ تھی ۔ 

                           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نسرین رات کے دو بجے کچن میں پانی پینے جا رہی تھی ۔۔کہ انہوں نے دیکھا کہ زوہا کے کمرے کی لائٹ جل رہی تھی ۔

 انہوں نے اس کے کمرے کمرے میں جھانک کر دیکھا تو زوہا پڑھنے میں مصروف تھی ۔

" زوہا بیٹا سو جائو رات بہت ہو گئی اب ۔"

" نہیں مماں مجھے پڑھنا ہے آپکو پتا ہے ناں میڈیکل کالجز میں داخلے کے لئے کومپیٹیشن کتنا ٹف ہو گیا ہے ۔ اور ڈاکٹر بننا میری زندگی کا سب سے بڑا خواب ہے تو اسے پورا کرنے کے لئے میں کچھ بھی کروں گی ۔ "

"بیٹا آپ کی بات ٹھیک ہے پر خود کو تھکائو مت ورنہ بیمار پڑ جائو گی تو کام کیسے چلے گا ۔"

" اچھا میری پیاری مماں پریشان نہ ہوں بس پندرہ منٹ اور پھر سورہی ہوں میں ۔ "

"چلو بس پندرہ منٹ اور پھر سو جانا"۔۔۔۔۔۔

 نسرین بیگم اسے ہدایت کرتے ہوئے چلی گئیں ۔۔۔۔۔۔

ان کے جانے بعد اس نے باقی بچا ہوا کام نبٹایا اور اپنی کتابیں سمیٹ کر سونے کے لئے لیٹ گئی ۔ 

مستقبل کے سنہرے خوابوں کو آنکھوں میں سجائے وہ نجانے کب نیند کی وادی میں اتر گئی ۔ 

"آہ لیکن کون جانے کہ ان خوابوں کو پورا کرنے کے لئے اس نازک سی لڑکی کو کن کن راستوں سے گزرنا پڑے گا ۔"

                           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ٹھااااااااہ ۔۔۔۔۔۔ گولی کی تیز آواز اس خاموش جنگل کی خاموشی کو چیرتے ہوئے درختوں پر موجود پرندوں جو کہ اس شور سے نامانوس تھے کو ان کے گھونسلوں سے اڑا گئی تھی ۔ 

"واہ سائیں واہ آپ سے اچھا نشانہ اس پورے گائوں میں تو کیا آس پاس کے کے کسی گائوں میں کوئی نہیں لگا سکتا ۔" بخشو نے ہاتھ جوڑ کر خوشامدی انداز اپنایا ۔

 اس سنہری آنکھوں والے شہزادے کے گہری مونچھوں تلے دبے عنابی لب مسکرائے تھے ایسے تعریفی جملے سننے کا وہ عادی تھا ۔ 

چھ فٹ سے نکلتا قد ، کسرتی جسم ، لمبی مغرور سی ناک ، عنابی لب ، سنہری آنکھیں وہ ایسا تھا جو ایک بار دیکھے دوبارہ دیکھنے پر مجبور ہو جائے ۔ 

وائٹ کاٹن کے کلف لگے سوٹ میں اس کا سراپا نمایاں تھا جس کو سندھی اجرک نے چار چاند لگا دیئے تھے

"سائیں آگے کا کیا ارادہ ہے ؟؟ "

بخشو نے داور سے پوچھا ۔۔ 

"اللہ ڈنو سے کہو گاڑی تیار کرے حویلی کے لئے"۔۔۔۔

 داور نے ہاتھ میں پہنی ہوئی قیمتی گھڑی میں ٹائم دیکھتے ہوئے کہا ۔۔ 

"جو حکم سائیں" ۔ 

بخشو ہاتھ جوڑ کر کہتا ہوا پلٹ گیا ۔۔۔۔ 

گاڑی کے حویلی میں جا کر رکتے ہی ایک ملازم بھاگتا ہوا آیا اور داور کی جانب کا دروازہ کھولا ایک شان سے وہ شہزادہ گاڑی سے اتر کر آگے بڑھا ۔۔۔۔۔

 راستے میں آنے والے ملازموں کے سلام کے جواب سر کے اشارے سے دیتا ہوا حویلی میں داخل ہوا اور سیدھا اپنی ماں کے کمرے کی طرف بڑھا ۔۔۔۔۔

دستک دے کر اندر داخل ہوا جہاں ایک ادھیڑ عمر کی عورت بیڈ کرائون سے ٹیک لگا کر بیٹھی ہوئی تھی ۔ داور ان کو سلام کرتا ہوا ان کے دونوں ہاتھ اپنی آنکھوں سے لگا کر ان کے سامنے بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔

ان خاتون کی آنکھوں کی چمک داور کو دیکھ کر بڑھ گئی انہوں نے اس کے سلام کا جواب دے کر آگے بڑھ کر اسکا ماتھا چوما ۔

" کیسی ہیں اماں سائیں آپ ؟؟"

 داور نے پوچھا ۔۔۔۔ 

"وہ عورت کیسی ہو سکتی ہے جسکا جوان بیٹا ہوتے ہوئے بھی وہ پوتا پوتی بھی نہیں کھلا سکتی "۔۔۔۔ 

گلزار بیگم نے ناراضگی سے بھرپور لہجے میں جواب دیا ۔۔۔۔۔

" او میری پیاری اماں سائیں ہو جائیگی شادی بھی اتنی بھی کیا جلدی ہے "۔ 

داور نے ہلکے پھلکے انداز میں بات کو ٹالتے ہوئے کہا ۔ 

"یہ جلدی ہے تو پھر دیر کیا ہوگی ۔" گلزار بیگم نے کہا ۔ "بتیس کا ہو گیا اب کیا بوڑھا ہو کر شادی کرے گا ۔"

 آج ایسا لگ رہا تھا گلزار بیگم اس سے ہاں کرواکے ہی مانیں گی ۔ 

"اچھا اماں سائیں کرلوں گا بس تھوڑا سا ٹائم اور ۔۔۔۔۔"

" بس اب اور کوئی ٹائم نہیں ۔۔ "

گلزار بیگم نے اس کی بات کاٹ کر بولی ۔۔

" اماں سائیں بس تھوڑا سا ٹائم اور جہاں اتنا ٹائم دیا وہاں تھوڑا سا اور ۔۔۔ " 

داور بولا ۔۔ 

"ٹھیک ہے چھ ماہ بس چھ ماہ کا ٹائم ہے تمہارے پاس۔ اسکے بعد میں تمہاری ایک نہیں سنوں گی۔ " گلزار بیگم حتمی انداز میں بولی ۔

 داور نے ان کے ہاتھ چومے اور کہا ۔۔۔۔۔!!!!!!

 شکریہ اماں سائیں اب بھوک لگ رہی ہے۔ چلیں کھانا کھائیں ۔۔"

" ہاں میں کھانا لگواتی ہوں تم فریش ہو کر آجائو "

                              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"مماں میں اوپر رمشا سے نوٹس لے کر آ رہی ہوں "

زوہا رمشا بیگم کو بتا کر اوپر چلی آئی ۔

 اوپر پہنچ کر اس نے رمشا کو دو تین آوازیں لگائی کوئی جواب نہ پا کر وہ اس کے کمرے کی طرف بڑھی کہ سامنے سے عجلت میں آتے فائز سے زوردار تصادم ہوا جس کے نتیجے میں وہ زمین بوس ہوتی جاتی کہ فائز نے آگے بڑھ کر اسے تھام لیا ۔ 

وہ دونوں ہاتھ اس کی کمر کے گرد باندھے مدہوش سا اس کے چہرے کو تک رہا تھا ۔ 

کہ زوہا کی آواز اسے ہوش کی دنیا میں واپس لائی۔۔۔۔۔۔۔

 "فائز بھائی چھوڑیں مجھے "

 "یار بھائی بولنا لازمی ہے ؟؟؟؟"

  جھنجھلا کر گویا ہوا ۔۔۔ 

"کیوں فائز بھائی رمشا بھی تو آپکو بھائی ہی بولتی ہے کیا آپ میں آپکے لئے رمشا جیسی نہیں ہوں ۔۔۔۔"

 "ارے تم میرے لئے کیا ہو اور کیا نہیں اس بات کو پھر کسی وقت کے لئے اٹھا رکھو فلحال یہ بتائو آج اس چاند نے ہمارے گھر کا رخ کیسے کر لیا "

فائز نے پوچھا ۔۔۔۔

" ارے ہاں وہ فائز بھائی میں وہ رمشا سے نوٹس لینے آئی تھی کہاں ہی وہ ؟؟؟؟"

 زوہا نے پہلے سر پر ہاتھ مار کر اسکے سوال کا جواب دیا پھر اس سے سوال کیا ۔۔۔۔۔۔

" رمشا اور مماں تو مارکیٹ گئے ہیں ۔۔۔ "

فائز نے بتایا ۔۔۔۔۔۔ 

"چلو پھر میں چلوں رمشا آئے گی تو پھر لے جائوں گی نوٹس"

 یہ کہہ کر وہ جانے لگی ابھی وہ مڑی ہی تھی کہ فائز نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اس کا رخ اپنی جانب موڑا اور تھوڑا قریب ہو کر گھمبیر لہجے میں بولا۔۔۔۔۔

" کبھی گھڑی دو گھڑی ہم سے بھی بات کر لیا کرو ۔۔"

 زوہا نے گھبرا اس سے ہاتھ چھوڑایا 

" وہ مماں مجھے آواز دے رہی ہیں۔۔۔۔۔"

 یہ کہہ کر تقریبا بھاگتے ہوئے نیچے چلی گئی 

پیچھے کھڑے فائز نے مسکرا کر بالوں میں ہاتھ پھیرا

                          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زوہا نیچے آ کر بغیر ادھر ادھر دیکھے سیدھی اپنے کمرے میں چلی آئی دروازہ بند کر کے اس سے ٹیک لگا کر لمبے لمبے سانس لینے لگی

وہ بچی نہیں تھی جو فائز کی نظروں میں مچلتے پیغام کو نہ پڑھ پائے پر وہ فلحال ان چیزوں سے دور رہنا چاہتی تھی ۔۔۔ 

حواس تھوڑے بحال ہونے پر وہ بیڈ پر آ کر بیٹھ کر اپنی بکس کھول کر پڑھنے لگی کیونکہ جو بھی تھا اس کی پہلی ترجیح اس کے خواب ہی تھے ۔۔۔۔ 

"پر کون جانے آگے جا کر زندگی اس کے لئے کیا سوغات لانے والی تھی "

                           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فائز اپنے کیبن میں بیٹھا کسی مریض کی فائل اسٹڈی کر رہا تھا کہ ایک دھاڑ کے ساتھ دروازہ کھلا۔ آنے والے کے انداز سے وہ پہچان گیا کہ کون ہوگا۔

" کام کے ٹائم کیوں نازل ہو گئے ہو سر پر میرے؟ "

وہ سر اٹھائے بغیر بولا۔

" یار وہ اصل میں ناں میری منگنی ہو رہی ہے۔ پہلے تو فالتو لوگوں کو بلانے کا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ پر تیری اس مسکین سی صورت پر رحم آگیا۔ اسی لیے دعوت نامہ لے کر آیا ہوں۔ اور ہاں اب ایک اہم بات بغیر گفٹ کے آنا ممنوع ہے۔ میرے پہرے دار صرف اسی کو اندر آنے دیں گے جس کے ہاتھ میں گفٹ ہوگا۔ "

زوار نے تقریر کے سے انداز میں بات مکمل کی۔

" ہو گیا تیرا؟ تو انویٹیشن کارڈ یہاں رکھو اور تشریف لے جائو۔ میں مصروف ہوں ابھی۔ "

اس نے ابھی بھی نظر اٹھا کر نہیں دیکھا تھا۔

زوار اپنے نظر انداز کیے جانے پر اس کی ساری فائلز بکھیر کر چلا گیا۔

زوار اور فائز بچپن سے ساتھ تھے۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں بھی ساتھ ہی تھے۔ اور اب جاب بھی ساتھ کر رہے تھے۔ ان کی دوستی مثالی تھی۔

                              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اچانک اپنے گلے پر دبائو محسوس کرکے اسکی آنکھ کھلی۔

خود پر جھکے خوفناک شکل کا ماسک پہنے وجود کو دیکھ کر جو ہلکے ہلکے اسکا گلا دبا رہا تھا اس کی فلک شگاف چیخوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔

کہ کسی نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھا اور رمشا کی آواز   اسکے کانوں میں پڑی جسے سنکر اس نے آہستہ سے آنکھیں کھولی۔

 آنکھ کھولتے ہی سب سے پہلے اس نے رمشا کو دیکھا۔

 اسکے بعد نظر گھمانے پر اسکے بابا ہاتھ میں کیک لئے کھڑے ہوئے دکھائی دیئے ۔

 ان کے برابر میں اذان وہ خوفناک شکل والا ماسک لئے کھڑا تھا ۔ پورے کمرے میں نظر دوڑانے پر پتہ چلا کہ اسکا پورا خاندان اسے برتھ ڈے وش کرنے کے لئے اس کے کمرے میں موجود تھا ۔ وہ ایک دم سے اذان کو مارنے کے لئے لپکی کہ اظہار صاحب نے کیک ٹیبل پر رکھ کر اسے کاٹنے کے لئے بلالیا۔

سب کی تالیوں کے شور میں اس نے کیک کاٹا اور سب سے پہلے اظہار صاحب کو کھلایا پھر نسرین بیگم کو اور پھر باری باری سب کو۔

جب فائز کو کھلانے کے باری آئی تو اس نے آنکھوں میں معنی خیز سی چمک لئے اس کا ہاتھ پکڑ کر کیک کھایا اور نا محسوس انداز میں اس کی انگلیوں کو اپنے لبوں سے چھوا کسی اور نے محسوس کیا ہو یا نہ کیا ہو زوہا نے محسوس کرکے ہاتھ فورا کھینچا ۔۔ 

اس کی اس حرکت سے فائز کے لبوں پر مسکراہٹ ابھری۔

 سب اس کو باری باری تحفے دے رہے تھے کہ رمشا کی بات پر سارے فائز کی طرف متوجہ ہوئے۔

 "ارے !!! فائز بھائی آپ زوہا کے لئے گفٹ نہیں لائے۔ "

 فائز نے افسردہ سی شکل بناتے ہوئے جواب دیا۔

" گفٹ تو میں لانا بھول گیا۔ " 

"کوئی بات تم آ گئے ہماری خوشی میں شامل ہو گئے ہمارے لئے یہی بہت ہے۔ "

جواب اظہار صاحب کی جانب سے آیا۔

" جی جی فائز بھائی کوئی بات نہیں اگر آپ بھول گئے تو۔ "

 زوہا نے بھی باپ کی تائید کی۔

 پھر ایک ایک کرکے سب اس کے کمرے سے چلے گئے سب کے جانے کے بعد وہ دروازہ بند کرکے بیڈ پر بیٹھ کر سب کی محبتوں کے بارے میں سوچ کر مسکرانے لگی۔

 کہ اسے لگا کہ اس کے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی ہے وہ اسے اپنا وہم جان کر نظر انداز کر گئی۔

 پر دوبارہ دستک ہونے پر اس نے دروازے کے پاس جا کر پوچھا کون تو جواب آیا۔

"دروازہ کھولو میں ہوں فائز۔ "

 اس نے دروازہ کھولا تو فائز نے اندر آ کر دروازہ بند کر دیا۔

 "فائز بھائی آپ اتنی رات کو یہاں سب ٹھیک تو ہے۔ "

 زوہا نے پوچھا۔

" ہاں وہ تمہارا برتھ ڈے گفٹ دینے آیا تھا۔ " 

" پر وہ تو آپ لانا بھول گئے تھے ناں۔ "

" پاگل ہو میں تمہارا برتھ ڈے گفٹ لانا بھول سکتا ہوں بھلا۔ "

 فائز نے اس کے سر پر ہلکی سی چپت لگاتے ہوئے کہا۔

"وہ تو بس میں تمہیں کچھ الگ انداز میں دینا چاہتا تھا۔ "

 پھر اپنے ٹراؤزر کی جیب میں سے ایک چھوٹی سی مخملی ڈبی نکال کر اس کے سامنے کی۔

" یہ کیا ہے۔ "

 زوہا نے اس کے ہاتھ سے ڈبی لیتے ہوئے کہا۔

"کھول کر دیکھو۔ "

 زوہا نے کھول کر دیکھا تو اس میں خوبصورت سی سونے کی انگوٹھی جگمگا رہی تھی۔

"یہ میرے لیے؟ "

زوہا نے اس کی طرف بے یقین نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ 

"ہاں صرف تمہارے لئے۔ "

" پر یہ تو بہت مہنگی ہے سوری فائز بھائی میں اسے نہیں رکھ سکتی۔ "

 زوہا نے انگوٹھی کی ڈبیا اسکی جانب بڑھاتے ہوئے کہا۔

"  میرے تحفے کی کوئی حیثیت نہیں تمہاری نظر میں یعنی یہ ہے میری اوقات کہ تم میرے لائے ہوئے تحفے کو قبول بھی نہیں کر رہی۔ "

" میرا وہ مطلب نہیں تھا فائز بھائی۔ "

 زوہا جلدی سے بولی۔

" تو پھر یہ رکھو تم۔ "

"پر "

زوہا منمنائی۔

" پر ور کچھ نہیں بلکہ لائو یہ مجھے دو۔ "

 فائز نے اس کے ہاتھ سے انگوٹھی لے کر اس کے بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی میں پہنا دی اور ایک نظر زوہا پر ڈال کر کمرے سے باہر نکل گیا۔

                            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"زوہا ۔۔ زوہا ۔۔ زوہا۔ "

 رمشا ایک ہی سانس میں اسکو آواز دیتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔

"ہاں کہو۔ " 

زوہا نے کتابوں میں منہ دیئے ہوئے ہی اسے جواب دیا۔

"یار بات سنو میری۔ " 

رمشا نے اس کی کتابیں ایک طرف کرکے خود اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے کہا۔

 "یار ہم اتنے دن سے گھر میں رہ کر تیاری کر رہے ہیں تو میں تو بور ہو گئی تو فائز بھائی کے ایک دوست کی منگنی کا انویٹیشن آیا ہے۔ انہوں نے ہمیں بھی چلنے کا کہا ہے۔ تو میں تم سے پوچھنے آئی تھی کپڑے کون سے پہن کر چلیں؟؟؟؟   "

"نہیں رمشا میں تو نہیں جا پائوں گی۔ "

زوہا نے انکار کیا۔

"یار کچھ نہیں ہوتا ایک دن کی تو بات ہے تم ایک رات زیادہ جاگ کر پڑھ لینا بیلینس ہو جائے گا۔ " 

رمشا سمجھی زوہا اپنی پڑھائی کی وجہ سے منع کر رہی ہے پر ایسا نہ تھا وہ اصل میں فائز کے ساتھ کہیں جانا نہیں چاہتی تھی کیونکہ فائز کی بدلتی نظریں اور انداز اسے پریشان کر رہے تھے۔

"نہیں رمشا تم چلی جائو میرا موڈ نہیں۔ " زوہا نے پھر انکار کیا ۔

"موڈ ووڈ کو چھوڑو وہ خود ہی اچھا ہو جائے گا وہاں جا کر خود ہی بن جائے گا ارے پوچھو تو سہی منگنی ہے کس کی اور کہاں ہے۔ "

"کہاں ؟؟؟؟؟ " 

زوہا نے بے دلی سے پوچھا۔

" ارے وہ جو فائز بھائی کے دوست ہیں نا زوار بھائی ان کی منگنی کا فنکشن ہے اور یو نو واٹ گائوں کا فنکشن ہے۔ آج سے پہلے ہم نے گائوں کا کوئی فنکشن بھی اٹینڈ نہیں کیا تو میں بہت ایکسائیٹڈ ہوں فنکشن اٹینڈ کرنے کے لئے تو چلو نہ پلیز پلیز۔ چل لو میرے لئے۔ " 

وہ جو منع کرنے والی تھی رمشا کے اتنے اصرار کرنے پر ذہن سے ساری سوچوں کو جھٹک کر جانے کے لئے مان گئی۔

 اب دونوں سر جوڑ کر فنکشن میں پہنے والے کپڑوں کو ڈسکس کرنے لگیں۔

                           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

داور ۔۔۔۔۔ "

داور جو عجلت میں اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا ۔۔۔۔ گلزار بیگم کی آواز پر ان کی طرف مڑا ۔۔۔۔۔

"جی اماں سائیں بولیں ۔۔۔۔۔۔ "

"داور ساری تیاریاں مکمل ہیں ناں دیکھو کوئی کمی نہ رہ جائے ۔۔۔۔۔"

 گلزار بیگم متفکر سی بولیں۔۔۔۔

"اماں سائیں کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ ۔۔۔میری لاڈلی بہن کی منگنی ہے بھلا میں کوئی کمی رہنے دے سکتا ہوں ۔۔۔۔"

 داور نے کہا

"مجھے پتا ہے بیٹا پر بیٹی کی ماں ہوں نہ پریشانی ہو جاتی ہے ۔۔۔۔۔ گلزار بیگم نے جواب دیا ۔۔۔۔۔ "

"اماں سائیں آپ ٹینشن نہ لیں ان شا اللہ سب اچھا ہو جائے گا ۔۔۔۔" 

داور نے انہیں تسلی دی ۔

 " ان شا اللہ اور تم جا کر جلدی سے مشعل (داور کی بہن ) کو پارلر سے لے آئو پہلے ہی تمہارے بابا نے اتنی مشکل سے پارلر جانے کی پرمیشن دی تھی ۔ اگر دیر ہو گئی تو وہ غصہ کریں گے اور تم تو جانتے ہی ہو ان کے غصے کو ۔۔۔۔" 

گلزار بیگم پریشانی سے گویا ہوئیں ۔۔۔۔

 " جی اماں سائیں میں تیار ہو جائوں پھر جا رہا ہوں آ کر مجھے ٹائم نہیں ملے گا ویسے بابا سائیں ہیں کہاں ۔۔۔۔۔"

 داور نے انہیں جواب دیتے ہوئے سوال کیا ۔۔۔۔۔

 "وہ بھی تیار ہونے گئے ہیں اب تم بھی دیر نہ کرو "

 گلزار بیگم نے جواب دیتے ہوئے اسے ہدایت کی ۔۔۔۔۔۔۔ 

" جی اماں سائیں "

 یہ کہہ کر داور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا 

اور گلزار بیگم بھی ملازموں سے کہہ کر بقیہ کام ختم کروانے لگیں   

                              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"زوہا اگر تم تیار ہو تو چلیں فائز بھائی باہر ویٹ کر رہے ہیں" ۔۔۔۔۔۔۔۔ 

رمشا زوہا کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔

 "ہاں میں تیار ہوں" ۔۔۔۔۔

 زوہا کان میں جھمکا ڈالتی ہوئی بولی ۔۔۔۔

 "ارے ارے زوہا تھوڑا رحم ۔۔۔۔!!!! کیوں لوگوں کو قتل کرنے پر تلی ہوئی ہو تم ۔۔۔ 

رمشا نے اس کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے اسے چھیڑا ۔۔۔۔

 بلیک کلر کی گھٹنوں تک آتی انگرکھا فراک ، بلیک پاجامہ اور بلیک ہی بڑا سا دوپٹہ ایک کندھے پر ڈالے ،  لمبے بال کھلے ہوئے ، دودھیا سفید پائوں میں بلیک کھسے پہنے ، نفاست سے کئے میک اپ میں بہت حسین لگ رہی تھی ۔

 "کم تو تم بھی نہیں لگ رہی " 

زوہا نے رمشا کو کہا جس نے بالکل زوہا جیسی ڈریسنگ کی ہوئی تھی بس کپڑوں کا کلر مختلف تھا ۔ زوہا کے بلیک جبکہ رمشا کے وائٹ تھے ۔ وہ دونوں بچپن ہی سے سیم ڈریسنگ کرتی آئیں تھیں ۔

 رمشا بھی ان کپڑوں میں بہت جچ رہی تھی ۔

 ابھی وہ باتوں میں مصروف تھی کہ نسرین بیگم آئی اور بولی

 " لڑکیوں جلدی کرو فائز غصہ کر رہا ہے "

 "اوہ نو ۔۔۔!!!!" 

رمشا سر پر ہاتھ مارتی ہوئی بولی ۔۔۔ 

" فائز بھائی نے مجھے تمہیں لانے بھیجا تھا اور میں باتوں میں لگ گئی میں جا رہی ہوں تم آجائو"

 کہہ کر جلدی سے باہر بھاگی۔۔۔۔۔۔

زوہا نے بھی جلدی سے بالوں میں برش پھیرا ۔

"امی میں جارہی ہوں"

 کہہ کر باہر کی جانب بھاگ گئی ۔۔۔۔۔

" آرام سے زوہا ۔۔۔ ان دونوں کا پتا نہیں کیا بنے گا ۔۔۔۔ " 

زوہا بھاگتی ہوئی آئی اور بیک ڈور کھل کر گاڑی میں بیٹھ گئی 

اور بولی ۔۔۔ 

" چلیں فائز بھائی "

 فائز نے پیچھے مڑ کر اسے دیکھا تو نظر جھکانا بھول گیا اور یک ٹک اسے دیکھے گیا 

کہ آگے بیٹھی رمشا نے اسکا کندھا ہلایا اور کہا 

" چلیں بھائی ۔۔۔۔"

" آہ ۔۔۔ ہاں "

 فائز ہڑبڑا کر ہوش میں آیا اور گاڑی اسٹارٹ کرنے لگا ۔۔۔

 زوہا بھی سر جھٹک کر باہر دوڑتے مناظر کی طرف متوجہ ہو گئی۔۔۔۔۔

                             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 داور مشعل کو پرلر سے حویلی لے کر آگیا تھا اسے اس کے کمرے میں بٹھا کر کمرے سے جانے لگا کہ وہ اس سے لپٹ کر زار و قطار رو دی ۔۔۔

 "مشعل !! میری جان کیا ہوا ایسے کیوں رو رہی ہو پاگل آج صرف منگنی ہے تمہاری رخصتی نہیں شاباش چپ ہو جائو ۔۔۔۔۔ "

 وہ اسے پچکارتے ہوئے بولا ۔۔ 

" بھائی مجھے نہیں کرنی کوئی منگنی ۔۔۔۔۔"

 مشعل روتے روتے بولی  ۔۔۔۔۔ 

" ارے کیوں نہیں کرنی "

 داور نے پوچھا ۔۔۔۔۔ 

" کیوں کہ آپ لوگ مجھے خود سے دور کر دیں گے " 

" چلو تمہارے لئے گھر جمائی رکھ لیں گے تمہارے والا تو یہ بھی کر لے گا بس بابا سائیں کو راضی کرنا تمہارا کام ہے "

 وہ اسے چھیڑتے ہوئے بولا ۔۔۔۔ 

" بھھھھھھھا ئئ "

 مشعل چلا کر بولی ۔۔۔۔۔ 

"اچھا اب رونا بند کرو اتنے پیسے خرچ کر کے تم کو خوبصورت بنوایا تھا رو رو کر سارا میک اپ دھو دو گی اور واپس تمہارا چڑیل روپ باہر آ جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔ "

"جائیں بھائی مجھے آپ سے بات ہی نہیں کرنی ۔۔۔۔۔" 

 مشعل نروٹھے انداز میں بولی ۔۔۔۔۔ 

"اچھا اچھا سوری ناراض مت ہو ہو ۔۔۔۔۔ " 

داور اسے  مناتے ہوئے بولا ۔۔۔۔ 

" جائیں معاف کیا ۔۔۔ کیا یاد رکھیں گے ۔۔۔۔"

 مشعل احسان کرنے والے انداز میں بولی ۔۔۔۔۔۔۔

" اچھا میں جا کر کام دیکھوں ورنہ بابا سائیں مجھے الٹا لٹکا دیں گے ۔۔۔۔ "

داور اسے ہنسانے کی خاطر بولا ورنہ صفدر علی شاہ کی جان تھی اپنے بیٹے میں ۔۔۔۔ 

بچپن میں اگر اسے چھینک بھی آجاتی تھی تو وہ ڈاکٹروں کی فوج کھڑی کر دیتے تھے ۔ 

جس چیز پر وہ ہاتھ رکھ وہ اسے دلانا اپنا فرض سمجھتے تھے پر ان سب آسائیشوں کے باوجود بھی وہ بگڑا نہیں تھا ۔۔۔۔۔

 اس میں روایتی جاگیرداروں والی کوئی بات نہیں تھی ۔۔۔۔۔ اس نے ہمیشہ عورت ذات کی عزت کی تھی ۔۔۔۔۔۔ 

"پر وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کے باپ کی محبت اس کی زندگی میں کیا طوفان لانے والی تھی ۔۔۔۔۔"

                           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"زوہا یہاں سب ارینجمنٹ کتنی اچھی کی گئیں ہیں مجھے تو یقین نہیں ہو رہا کہ یہ کسی گاوں کا فنکشن ہے ۔۔۔۔ "

رمشا کھوئے ہوئے انداز میں بولی ۔۔۔۔

فنکشن حویلی کے لان میں منعقد کیا گیا تھا ۔۔۔۔ پورا نہایت ہی خوبصورتی سے پھولوں سے سجایا گیا تھا ۔۔ جا بجا لگی اسپاٹ لائٹ سے رات دن کی طرح روشن ہو گئی تھی۔۔۔

 کہ زوہا نے اس کے بازو پر چٹکی بھری۔۔۔۔۔۔

" آہ ۔۔! زوہا کیا کر رہی ہو ۔۔۔۔۔ " 

اس نے اپنا بازو سہلاتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔۔۔

"تمہیں یقین دلا رہی ہوں کہ یہ واقعی گائوں ہی کا فنکشن ہے ۔۔۔۔۔"

" کیا یار ۔۔۔۔۔ "

ابھی الفاظ اس کے منہ میں تھے کہ زوہا اس کی بات کاٹتے ہوئے بولی ۔۔۔ 

  " یار فائز بھائی تو ہمیں یہاں چھوڑ کر اپنے دوست کے ساتھ مصروف ہو گئے ہیں ہم تو یہاں کسی کو جانتے بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔"

" کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو پر زوہا یہ گائوں ہے یہاں مکس گیدرنگ ممنوع ہے اسی لئے تو بھائی ہمیں یہاں لائے ہیں " 

 ابھی وہ باتوں میں مصروف تھی کہ ایک باوقار سی خاتون ان کے نزدیک آئی اور ان سے پوچھا ۔۔۔۔۔

" آپ دونوں غالبا فائز کی بہنیں ہیں ناں ؟؟؟"

 " جی " 

زوہا نے مختصر جواب دیا ۔۔۔۔

 "میں زوار کی والدہ ہوں آئیں میں آپکو زوار کی ہونے والی بیوی سے ملوائوں " یہ کہہ کر وہ ان کو لے کر حویلی کی جانب بڑھ گئیں ۔۔۔۔۔۔ 

                                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ ان کو لے کر مختلف راہداریوں سے ہو کر اندر کی جانب بڑھ رہی تھیں ۔۔۔

 آگے آگے نجمہ بیگم (زوار کی والدہ) چل رہیں تھیں ۔۔ 

راستے میں ان کو بہت سی ملازمائیں کام کرتی ہوئی نظر آئیں ۔۔۔

" رمشا یہ حویلی ہے یا کوئی محل ؟؟؟؟؟ "

زوہا نے رمشا کے کان میں سرگوشی کی ۔۔۔۔

" مجھے تو لگ رہا ہے بھول بھلیا ہے کوئی مجھے تو راستہ بھی یاد نہ ہو ایک دفعہ میں ۔۔۔۔ "

رمشا نے بھی اسی کے انداز میں جواب دیا ۔۔۔۔

 اس سے پہلے زوہا جواب دیتی۔۔۔۔۔۔

 نجمہ بیگم ایک کمرے کا دروازہ کھولتی اندر داخل ہوئی ۔۔۔۔

" یہ زوار کی منگیتر ہے مشعل اور مشعل یہ جو زوار کا شہر والا دوست ہے نا فائز اس کی بہنیں ہیں ۔۔۔۔۔"

 نجمہ بیگم نے بیڈ پر بیٹھی خوبصورت سی لڑکی سے ان کا تعارف کرواتی ہوئی بولی۔۔۔۔۔۔

 جو پستہ رنگ کی میکسی زیب تن کئے ہوئے تھی اور بہت خوبصورت لگ رہی تھی  ۔۔۔۔۔۔

 زوہا اور رمشا نے مشعل سے مصافحہ کیا ۔۔۔۔۔۔

 اور پھر وہ باتوں میں مصروف ہو گئی ۔۔۔۔۔ 

مشعل ایک زندہ دل اور خوش مزاج سی لڑکی تھی ۔۔۔۔

 جلد ہی ان کی دوستی ہو گئی اور وہ یوں باتیں کر نے لگی جیسے پتا نہیں کب سے ایک دوسرے کو جانتی ہوں ۔ 

نجمہ بیگم انہیں باتیں کرتا ہوا چھوڑ کر باہر مہمانوں کے پاس چلی گئیں ۔۔۔۔۔۔ 

                              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

داور حویلی کے اندر کسی کام سے داخل ہوا کہ گلزار بیگم نے اسے آواز دی ۔۔۔۔۔

 "داور "

 "جی اماں سائیں کوئی کام ہے کیا " 

داور نے پوچھا ۔۔۔۔۔

 " ارے تم کام وغیرہ کو چھوڑو اور میرے ساتھ آئو ۔۔۔۔۔۔  " 

وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر حویلی کے اندر لے جانے لگی ۔۔۔۔۔۔

 " ارے اماں سائیں کہاں لے جا رہی ہیں آپ مجھے "

 داور نے پوچھا ۔۔۔۔ 

" نظر اتارنے کے لئے ۔۔۔۔ آج تو مجھے لگ رہا ہے میری ہی نظر لگ جائے گی تمہیں ۔۔۔۔ اور باہر تو پھر بہت سے حاسد موجود ہیں ۔۔۔۔۔ "

 گلزار بیگم نے جواب دیا ۔۔۔۔

 " ارے اماں سائیں اب ایسا بھی کوئی شہزادہ گلفام نہیں لگ رہا میں ۔۔۔۔۔ "

 داور نے کہا ۔۔۔۔

 حالانکہ آج سیاہ شلوار قمیص پہ اسکن کلر کی شال لئے وہ سب مردوں میں نمایاں تھا ۔۔۔ 

" اچھا اب نظر تو اتر گئی جائو جا کر مشعل کو لے آئو "

 گلزار بیگم اس کی نظر اتارنے کے بعد بولی ۔۔۔۔۔

 " جی بہتر اماں سائیں آپ چلیں میں مشعل کو لے کر آتا ہوں " 

داور انہیں جواب دیتا ہوا مشعل کے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔

 کمرے کے باہر پہنچ کر اس نے دستک دی اور بائیں جانب دیکھتا ہوا دروازہ کھلنے کا انتظار کرنے لگا

                                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابھی وہ تینوں باتوں میں مصروف تھی کہ مشعل کے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی ۔۔۔۔۔۔

" زوہا پلیز تم دیکھ لو کہ دروازے پر کون ہے " 

مشعل زوہا سے بولی ۔۔۔۔

 " تو اس میں پلیز کی کیا بات ہے تم ویسے ہی بول دو میں کھول دوں گی دروازہ ۔۔۔۔۔ "

 زوہا آٹھ کر دروازے کی جانب جاتی ہوئی بولی اور دروازہ کھول دیا ۔۔۔۔۔۔

                              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے دروازے کی طرف دیکھا اور اسے لگا اس کے آس پاس کے سارے مناظر رک سے گئے ہیں ۔۔۔۔۔

دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے دروازے کی طرف دیکھا اور اسے لگا اس کے آس پاس کے سارے مناظر رک سے گئے ہیں۔

 اس کی برسوں کی تلاش اس کے سامنے کھڑی اس چھوٹی سی لڑکی پر آ کر ختم ہو گئی ہے۔

 وہ یک ٹک اسے دیکھے جا رہا تھا۔

 اسے خود کو اس طرح تکتا پا کر زوہا نے اسے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ

 پیچھے سے مشعل کی آواز آئی۔

 " ارے داور بھائی آپ ! وہاں کیوں کھڑے ہیں اندر آئیں ناں۔ " 

مشعل کی آواز سے وہ حوش کی دنیا میں واپس لوٹا۔

 " آں ! ہاں ! آیا۔ " 

زوہا نے ایک طرف ہو کر اسے راستہ دیا۔

اس نے اپنے قدم اندر کی جانب بڑھائے۔

زوہا بھی کمرے میں ایک جانب رکھے صوفے پر بیٹھ گئی۔

 داور مشعل کے قریب پہنچ کر بولا

 " اماں سائیں تمہیں باہر بلا رہی ہیں۔ " 

"

آپ چلیں ہم مشعل کو لے کر آتے ہیں۔ "

جواب رمشا کی جانب سے آیا ۔۔۔۔۔

" ٹھیک ہے۔ " 

وہ رمشا کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔

 اور ایک بھرپور نظر زوہا پر ڈال کر کمرے سے باہر نکل گیا۔

" ٹھرکی ، چھچھورا ، نظر باز۔ " 

زوہا اس کو دل ہی دل میں مختلف القابات سے نوازتی ہوئی بیڈ پر بیٹھی رمشا اور مشعل کی جانب بڑھ گئی۔

 "چلو باہر چلنے سے پہلے سیلفی ہو جائے۔ " 

زوہا ان کے قریب پہنچ کر بولی۔

" ہاں کیوں نہیں " رمشا نے جواب دیا۔

 اور تینوں سیلفی کے لئے پوز کرنے لگی ۔

                             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مشعل کو بائیں جانب سے رمشا اور دائیں جانب سے زوہا تھام کر باہر لائیں۔

 ابھی انہوں نے لان میں قدم رکھا ہی تھا کہ ان پر پھولوں کی بارش ہونے لگی۔

 سارے کیمروں کا رخ ان کی جانب ہو گیا۔

 داور  نے آگے بڑھ کر دائیں جانب سے مشعل کی طرف ہاتھ بڑھایا اور اس کا ہاتھ تھام کر اسے اسٹیج پر کے پاس لے گیا اور اس کا ہاتھ اسٹیج پر موجود زوار کے ہاتھ میں دے دیا۔

زوار نے اسے اوپر اسٹیج پر لے جا  کر بیٹھا دیا اور خود بھی اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔

پھر اس کے بعد دو ملازمائیں پھولوں سے سجے تھال میں انگوٹھیاں رکھ کر اوپر اسٹیج پر لے کر گئیں۔

ایک نے زوار کو انگوٹھی دی اور دوسری نے مشعل کو۔

اس کے بعد سب کی تالیوں کے شور میں انہوں نے ایک دوسرے کو انگوٹھی پہنائی۔

 سب گھر والوں نے دونوں کو باری باری پیار دیا اور اسکے بعد زوار اٹھ کر مردوں والی سائیڈ چلا گیا۔

اس کے جانے کے بعد وہ دونوں اسٹیج پر بیٹھی مشعل کے پاس جا کر بیٹھ گئیں اور اسے مبارک باد دینے لگی۔

                             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

" نجمہ یہ مشعل کے ساتھ دو بچیاں کون ہیں ؟؟؟؟ پہلے تو کبھی نہیں دیکھا انہیں۔ " 

گلزار بیگم نے پوچھا۔

 " ارے وہ اپنے زوار کا شہر والا دوست ہے نا فائز اس کی بہنیں ہیں۔ آئیں ملوائوں آپکو۔ "

 نجمہ بیگم ان کی بات کا جواب دے کر انہیں لے کر اسٹیج کی جانب بڑھ گئیں۔

" داور بھائی کہاں ہیں نظر نہیں آرہے۔ "

فائز نے زوار سے پوچھا۔

" یار آج سارے انتظامات انہیں ہی دیکھنے پڑ رہے ہیں تو مصروف ہونگے کہیں۔ وہ دیکھو وہ آرہے سامنے سے۔ "

زوار سامنے کی طرف اشارہ کرتا ہوا بولا۔

" داور بھائی۔ "

زوار نے آواز لگائی۔

" ہاں بولو کیا کام ہے۔ ارے فائز کیسے ہو تم۔ "

داور ان کی طرف آتا ہوا بولا۔

" میں ٹھیک ہوں ابھی زوار سے آپ ہی کا پوچھ رہا تھا۔ "

فائز نے جواب دیا۔

" ہاں بس آج کچھ زیادہ مصروف ہوں میں۔ "

داور نے کہا۔

زوار کا یہ پولائٹ سا کزن فائز کو بہت پسند تھا۔ جس میں غرور نام کو نہیں تھا۔ وہ بھی زوار کی طرح اسکی دل سے عزت کرتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

" زوہا ، رمشا ان سے ملو یہ ہیں مشعل کی اماں اور زوار کی تائی۔ "

 نجمہ بیگم نے اسٹیج پر پہنچ کر ان کا تعارف گلزار بیگم سے کروایا۔

 دونوں نے کھڑے ہو کر انہیں سلام کیا۔

گلزار بیگم نے دونوں کو باری باری گلے لگا کر پیار دیا۔

اسی اثناء میں رمشا کا موبائل بجا اس نے دیکھا تو فائز کا میسج تھا وہ انہیں باہر بلا رہا تھا۔

" اچھا آنٹی اب ہم چلتے ہیں فائز بھائی بلا رہے ہیں۔ "

 رمشا بولی۔

تو گلزار بیگم نے کہا

 " بیٹا تھوڑی دیر اور رک جاتی ہمیں اچھا لگتا۔ " 

" آنٹی پھر کبھی۔ ابھی دیر ہو رہی ہے۔ ویسے ہمیں بہت اچھا لگا یہاں آکر۔ "

 زوہا نے متانت سے جواب دیا۔

" بیٹا ہمیں بھی بہت اچھا لگا آپ یہاں آئے۔ " 

گلزار بیگم بولیں۔

"اچھا اب ہم چلتے ہیں۔ آپ بھی آئیے گا ہمارے گھر۔  "

 زوہا نے انہیں دعوت دی۔

" جی ضرور بیٹا۔ " 

پھر وہ سب سے مل کر باہر گاڑی میں آکر بیٹھ گئیں جہاں فائز انکا انتظار کر رہا تھا۔

                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

" کتنی اچھی بچیاں تھی۔ گھلنے ملنے والی۔ لگتا ہے بہت اچھے ہاتھوں میں تربیت ہوئی ہے ورنہ آج کل کے شہری بچوں کو تو جیسے بھول ہی گیا ہے بڑوں کا ادب واحترام۔ "

 گلزار بیگم ان کے جانے کے بعد بولیں۔

 " کہہ تو آپ سہی رہی ہیں۔ " 

نجمہ بیگم نے بھی ان کی تائید کی۔

" بس اللہ نصیب اچھے کرے۔ " 

گلزار بیگم دعا دیتے ہوئے بولیں۔

" آمین "

 جوابا نجمہ بیگم نے بھی قبولیت کی دعا بخشی۔

                               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

" یار کتنے اچھے لوگ تھے لگ ہی نہیں رہا تھا ہم پہلی بار ملے ہیں۔ اسپیشلی گلزار آنٹی کتنی پولائٹ خاتون تھی۔ " 

گاڑی میں رمشا کی آواز گونجی۔

گلزار آنٹی کے نام پر اس کے ذہن کے پردے پر داور کی تصویر لہرائی۔

( ہنہ یہ جاگیر دار ہوتے ہی ٹھرکی ہیں۔ اپنے پیسے کا کچھ زیادہ ہی گھمنڈ ہوتا ہے)

 وہ اپنی سوچوں میں میں مصروف تھی کہ پیچھے مڑ کر رمشا نے اسکا ہاتھ ہلایا۔

" کہاں کھوئی ہو؟ زوہا تم سے بات کر رہی ہوں میں۔ " 

"آں ہاں۔ "

 وہ ہڑبڑا کر اپنی سوچوں سے باہر نکلی اور بولی۔

" ہاں مجھے بھی گلزار آنٹی بہت پسند آئی۔ " 

" ہاں اور انہیں تم جس طرح سے تمہیں دیکھ رہی تھیں ! لگتا ہے تمہیں اپنی بہو بنا کر ہی چھوڑیں گی۔ " 

رمشا نے اسے چھیڑا۔

 اس سے پہلے زوہا کوئی جواب دیتی فائز نے اسے ڈانٹ کر چپ کرا دیا۔

 " رمشا !! اب مجھے تمہاری آواز نہ آئے۔ " 

فائز نے اتنے غصے سے رمشا کو ڈانٹا تھا کہ وہ آگے سے کچھ بول ہی نہ پائی۔

 رمشا کی بات نے فائز کا موڈ بہت بری طرح آف کردیا۔ باقی کا سارا راستہ تینوں نے اپنی سوچوں میں مگن گزارا۔

 فائز اس بات پہ کڑھتا رہا کہ وہ اسے وہاں لے کر ہی کیوں گیا۔

 رمشا یہی سوچتی رہی کہ اس نے ایسا بھی کیا کہہ دیا جو فائز اتنا غصے میں آگیا۔ 

جبکہ زوہا کی سوچوں کا محور " داور علی شاہ " کی ذات تھی۔

                             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

داور رات گئے سارے مہمانوں کو فارغ کر کے اپنے کمرے میں آیا  ۔ 

شال اتار کر صوفے پر رکھی اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہو کر واچ اتارنے لگا کہ کسی کا چہرہ اس کے تصور میں آیا اور اس کے لب خود بخود مسکرادیئے۔ 

جس کے دل کو آج تک کوئی تسخیر نہیں کر پایا تھا وہ آج ایک چھوٹی سی لڑکی کے آگے ہار گیا تھا۔ 

شادی کا فیصلہ جو وہ اماں  سائیں کے بار بار اصرار پر بھی نہیں کر پایا تھا آج وہ اتنی آسانی سے ہو گیا تھا۔

 کپڑے بدل کر اماں سائیں کو صبح خوشخبری دینے کا ارادہ کرکے بستر پر دراز ہو گیا اور اس پری پیکر کے خیالوں میں کھو گیا۔

پھر کچھ یاد آنے پر اپنے والٹ سے ایک چھوٹا سا کارڈ نکالا جو اسے فوٹوگرافر دے کر گیا تھا اور اپنے موبائل میں ڈالا۔

 اس نے فوٹوگرافر سے خاص طور پر بول کر زوہا کی الگ سے تصویریں بنوائی تھی۔ 

تھی تو یہ ایک غیر اخلاقی حرکت۔

 پر وہ کہتے ہیں ناں

 " محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔"

 پھر وہ اطمینان سے اس کی ایک ایک تصویر زوم کرکے دیکھنے لگا۔ کہ نیند تو اسے ویسے بھی نہیں آنی تھی۔

"" کیونکہ آج تو محبت کی پہلی رات تھی اور محبت تو نام ہی محبوب کے حسین خیالوں میں کھو کر راتوں کو جاگنے کا ہے۔  "" 

اور اسے تو ابھی ایسی بہت سی راتیں جاگ کر گزارنی تھیں۔

"کہیں ممکن ہوا 

کہیں واجب

کہیں فانی 

کہیں بقا دیکھا 

یار کو ہم نے جا بجا دیکھا"!

                                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلے دن صبح ناشتے کے بعد داور ، گلزار بیگم کے کمرے میں آیا۔ صفدر علی شاہ بھی کمرے میں موجود تھے۔

وہ گلزار بیگم کے سامنے بیٹھا اور جھجکتے ہوئے بولا۔

" اماں سائیں ایک بات کرنی تھی آپ سے۔ "

 " ایسی کیا بات ہے جس کو کہنے کے لئے داور علی شاہ کو اتنی تمہید باندھنی پڑھ رہی ہے۔ " 

جواب صفدرعلی شاہ کی جانب سے آیا تھا۔

 " وہ اماں سائیں اور بابا سائیں میں نے لڑکی پسند کرلی ہے۔ "

" ماں صدقے ! ماں قربان ارے تو یہ بہت خوشی والی بات ہے ۔۔ بتائو کون ہے ، رہتی کہاں ہے ، کیسی ہے۔ جلدی بتائو میں آج ہی رشتہ لے کر جائوں گی۔ " 

گلزار بیگم کی تو دلی مراد بر آئی ، انہیں نے آگے بڑھ کر اسکا ماتھا چومتے ہوئے ایک ہی سانس میں انہوں نے اتنے سارے سوال پوچھ لئے۔

 " ارے اماں سائیں سانس تو لیں سب بتاتا ہوں میں آپکو۔ میں نے خود اسے کل ہی دیکھا ہے مشعل کے کمرے میں۔ کالے رنگ کے کپڑوں میں۔ اچھا رکیں میں تصویر دکھاتا ہوں آپکو۔ " 

یہ کہہ کر وہ ان کو موبائل میں تصویر دکھانے لگا ۔۔۔۔۔

 " ارے! زوہا یہ تو۔ بڑی پیاری بچی ہے مجھے تو بہت پسند ہے ۔۔۔ زوار کے دوست فائز کی بہن ہے یہ۔ " 

وہ اسے پہچانتی ہوئی بولیں۔

 " بس ٹھیک ہے آج کا دن ہے تمہارے پاس گلزار۔ رشتہ لے جانے کی تیاری کر لو ہم کل ہی جائیں گے رشتہ لے کر۔ انگوٹھی بھی خرید لینا ہم کل ہی پہنا کر آئیں گے اسے۔ "

 اب کی بار جواب صفدر علی شاہ کی جانب سے آیا تھا۔ 

" کیونکہ انکار کا جواز ہی نہیں۔ بلکہ وہ تو خود کو خوش قسمت جانیں گے ۔ جب ان کو پتا چلے گا کہ داور علی شاہ کے لئے ان کی بیٹی کو چنا گیا ہے۔ " 

یہ کہہ کر انہوں نے داور کو گلے لگا لیا۔

" زرینہ ارے زرینہ۔ " 

گلزار بیگم ملازمہ کو آواز دیتے ہوئے بولیں۔

 " جی بی بی جی۔ "

 زرینہ بوتل کے جن کی طرح نازل ہوئی۔

 " جائو ! اللہ ڈنو سے کہہ کر صدقے کے بکروں کا انتظام کروائو۔ "

 گلزار بیگم زرینہ کو ہدایت دیتے ہوئے بولیں۔ 

" جی بہتر۔ " 

یہ کہہ کر زرینہ وہاں سے چل دی۔

                               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گلزار بیگم ، داور علی شاہ اور صفدر علی شاہ اس وقت اظہار صاحب کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔ 

اظہار صاحب اتنے بڑے لوگوں کی اپنے گھر میں موجودگی سے حیرت میں تھے۔ 

حال احوال کے بعد اظہار صاحب بولے۔

" خیریت اپ لوگ ہمارے غریب خانے پر تشریف لائے۔ "

 " آج یہاں ہم کسی خاص مقصد سے آئے ہیں۔ " 

صفدر علی شاہ بولے۔ 

"جی کہیئے۔ "

  "پہلے آپ اپنی بیٹی زوہا کو یہاں بلالیں۔ "

 " زوہا کو ! پر کیوں؟ "

 " دراصل ہم اسی کے بارے میں بات کرنے کے لئے آئیں۔ "

 " جائو نسرین زوہا کو بلائو۔ " 

اظہار صاحب نسرین بیگم سے بولے۔

" جی۔ " 

یہ ایک لفظ کہہ کر نسرین بیگم زوہا کو بلانے چلدیں۔ تھوڑی دیر بعد زوہا نسرین بیگم کے ساتھ اندر داخل ہوئی۔ 

وہ بلیو جینز کے اوپر پنک گھٹنوں سے اوپر آتی چھوٹی سی فراک پہنے ہوئی تھی اور ریڈ دوپٹہ گلے میں مفلر کی طرح لپٹا تھا۔

 جہاں وہ اس عام سے حلیے میں بھی داور کے دل کے تار چھیڑ گئی تھی وہیں صفدر علی شاہ کو اس کی ڈریسنگ قدرے نا گوار گزری تھی۔

 پر وہ بیٹے کی وجہ سے خاموش رہنے پر مجبور تھے۔

 " یہاں آئو بیٹی میرے پاس بیٹھو۔ "

 گلزار بیگم اپنے اور صفدر علی شاہ کے درمیان اس کے لئے جگہ بناتی ہوئی بولیں۔ 

زوہا نے ایک نظر ماں کو دیکھا اور ان کا مثبت  اشارہ پا کر زوہا ان کے درمیان بیٹھ گئی۔

 گلزار بیگم نے اس کے بیٹھنے کے بعد ڈبی سے ایک خوبصورت ہیرے کی انگوٹھی نکال کر زوہا کے بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی میں ڈال دی۔ 

ابھی وہ اور سامان دیتی کہ انوار صاحب کمرے میں داخل ہوئے اور آگے بڑھ کر صفدر صاحب اور داور سے مصافحہ کیا وہ داور کو فائز کی وجہ سے جانتے تھے بولے۔

" جی کہیئے کیسے آنا ہوا۔ " 

" ہم اپنے بیٹے داور علی شاہ کے لئے آپکی بیٹی زوہا کا ہاتھ مانگنے آئے ہیں۔ "

 صفدر علی شاہ نے ان کے سروں پر بم پھوڑا۔ 

" پر ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ "

 انوار صاحب بولے۔ 

" کیوں آخر کیا کمی ہے میرے بیٹے میں ۔ ارے آپ کو تو خوش ہونا چاہیئے کہ اتنے بڑے گھر سے آپ کی بیٹی کے لئے رشتہ آیا ہے۔ " 

صفدر علی شاہ ایک دم جلال میں آئے۔

" بابا سائیں آرام سے۔ "

 داور نے انہیں کہا۔ حالانکہ اسے خود اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔

 " پہلی بات تو یہ کہ ہم خاندان سے باہر رشتہ نہیں کرتے اور دوسری بات زوہا میرے بیٹے کے ساتھ منسوب ہے اور بہت جلد ہم انکا نکاح کرنے والے ہیں۔ " 

انوار صاحب نے کہا۔

 " بس بابا سائیں چلیں۔ " 

داور سے جب مزید سنا نہیں گیا تو وہ یہ کہہ کر باہر نکل گیا۔

 صفدر صاحب اپنے گارڈز کو داور کے پیچھے  جانے کا اشارہ کرکے انوار صاحب کی جانب مڑے۔ 

اور بولے۔ 

" آپ نے صفدر علی شاہ کے لاڈلے بیٹے کا دل دکھایا ہے۔ اس بیٹے کا جس کی ہر خواہش میں نے اس کے منہ سے نکلنے سے پہلے پوری کی ہے۔ آپ کو پچھتانا پڑے گا۔ میں مجبور کر دونگا آپ کو پچھتانے پر۔ " 

یہ کہہ کر وہ نکلنے لگے کہ پیچھے سے انوار صاحب کی آواز آئی۔

 " رکییے۔ "

 اور پھر انہوں نے زوہا کی انگلی سے انگوٹھی اتا ری اور بولے۔

" یہ انگوٹھی اور اپنا سامان لے جائیے۔ "

 وہ اس سامان جس میں مٹھائی کے ٹوکرے اور تحائف شامل تھے کی طرف اشارہ کر کے بولے۔ 

" ہم ایک دفعہ جو چیز دے دیں وہ واپس نہیں لیا کرتے۔ یہ ہمارے بیٹے کا صدقہ سمجھ کے ہم نے تمہیں دیا۔ "

 یہ کہہ کر صفدر علی شاہ بغیر پیچھے مڑے باہر نکل گئے۔ گلزار بیگم بھی ان کے پیچھے باہر نکل گئیں۔ 

ان کے جانے کے بعد زوہا اپنے کمرے میں چلی گئی۔ 

پیچھے سے اظہار صاحب سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور پریشانی سے گویا ہوئے۔ 

" بھائی صاحب میرا دل بہت گھبرا رہا ہے بڑے لوگ ہیں کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ "

 تو انوار صاحب ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے۔ 

" پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ، تم بس زوہا اور فائز کے نکاح کی تیاریاں کرو۔ جب نکاح ہو جائے تو کوئی کچھ نہیں کر پائے گا۔ "

  " پر بھائی صاحب کیا فائز مان جائے گا۔ " 

انہیں ایک اور فکر لاحق ہوئی۔ 

" اس بات کی ٹینشن نہ لو۔ اول تو فائز مان جائے گا اور اگر نہ مانا تو مائز ہے ناں۔ "

 " شکریہ بھائی صاحب میرا اتنا ساتھ دینے کے لئے۔ " 

" شکریہ کی بات زوہا میری بھی بیٹی ہے۔ بس اب جلدی سے نکاح کی تیاری کرو۔ تاکہ وہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہ رہیں " 

" جی بہتر بھائی صاحب۔ " 

                             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حویلی پہنچ کر وہ سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا۔

 گلزار بیگم نے اسے روکنا چاہا تو اس نے نہایت ہی سرد لہجے میں بولا۔ 

" اماں سائیں مجھے کچھ وقت کے لئے اکیلا چھوڑ دیا جائے۔ "

 اسکا لہجہ سن کر گلزار بیگم کچھ بولنے کی ہمت ہی نہیں جوڑ پائیں اس نے پہلی بار کسی سے اس لہجے میں بات کی تھی ۔

 " شاہ جی کچھ کریں ورنہ میرا بچہ ٹوٹ جائے گا۔ "

 گلزار بیگم روتی ہوئی بولیں۔

 " تم فکر مت کرو میں نے سوچ لیا ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ دولہن تو وہ داور علی شاہ کی ہی بنے گی۔ " 

وہ کچھ سوچتے ہوئے بولے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کے جس بیٹے نے کبھی کسی عورت کی طرف میلی نگاہ نہیں اٹھائی ۔۔۔ اس نے اس لڑکی کی خواہش کی ہے تو وہ کس حد تک سنجیدہ ہوگا۔  

                           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کمرے میں آتے ہی اس نے اپنا ضبط کھودیا سب سے پہلے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھے برانڈڈ پرفیومز کو ہاتھ مار کر گرادیا۔

 جب اس سے بھی غصہ کم نہ ہوا تو ٹیبل پر رکھا واز اٹھا کر ڈریسنگ کے شیشے پر مارا ایک چھن سے شیشہ ٹوٹ کر نیچے بکھر گیا۔

اس کے بعد کمرے کی ساری چیزیں ایک ایک کرکے توڑنے کے وہ تھک کر نیچے زمین پر بیٹھ گیا بیڈ سے ٹیک لگا کر۔

کہ یکدم موبائل فون کی آواز نے کمرے کی خاموشی میں ارتعاش سا پیدا کر دیا۔

پہلے تو اس کا جی چاہا کہ فون نہ اٹھائے پر کچھ سوچ کر اس نے اٹھالیا۔

تو دوسری طرف اس کا دوست سجاول تھا جو کہ ایک عیاش وڈیرا تھا۔

 دنیا کی ہر برائی موجود تھی اس میں۔ سجاول جیسے شخص کے ساتھ رہ کر بھی داور ہر قسم کی برائی سے دور تھا۔ آج محفل رکھی تھی سارے دوستوں نے ڈیرے پر داور کے رشتہ ہونے کی خوشی میں۔ 

" بولو سجاول۔ " 

داور بھاری آواز میں گویا ہوا۔

" خیریت داور آج ڈیرے پر نہیں آئے تم؟ "

 " ہاں وہ بس کچھ طبیعت اچھی نہیں تھی۔ " 

" یار یہاں ہم تیرے رشتے کی خوشی میں محفل جمائے بیٹھے ہیں اور تو طبیعت خراب کر کے بیٹھا ہے۔ "

" بس ویسے ہی طبیعت کچھ عجیب ہو رہی ہے۔ "

" خیر ہے کونسا روگ لگ گیا میرے یار کو۔ ہمیں پتا چلے تو کچھ علاج کریں ہم "

 " سجاول تیرے یار کے اس روگ کا کوئی علاج نہیں۔ " 

" بھابھی کی طرف سے انکار ہوگیا؟ "

وہ بھی اسی کا دوست تھا فورا داو ر کی نبض پکڑ لی۔

" پریشان کیوں ہو رہا ہے بول تو ڈھیر لگا دوں گا تیرے قدموں میں ایسی ہزار لڑکیوں کا۔ "

" نہیں سجاول مجھے چاہ نہیں ہے ہزار لڑکیوں کی۔ "

" آہ !! سمجھ گیا سمجھ گیا۔ عشق کا روگ لگا بیٹھا ہے میرا یار۔ یہ عشق کا نشہ تو جام خاص ہی سے اترے گا۔ " 

وہ داور کے بکھرے لہجے سے اندازہ لگاتا ہوا بولا۔

" سجاول اس سے نشہ اترے گا نہیں چڑھے گا "

وہ منکر ہوا۔

 " ارے ارے سائیں جیسے لوہا لوہے کو کاٹتا ہے ایسے ہی نشہ نشے کو کاٹے گا۔ "

 " اگر ایسا ہے تو بھیج دے دوا سجاول۔ " 

آخر کار گھٹنے ٹیک دیئے گئے تھے۔

" جو حکم سائیں ابھی بھجواتا ہوں۔ اعلی اور نایاب قسم بھیجوں گا۔ "

 یہ کہہ کر اس نے فون رکھ دیا۔

 ابھی اسے فون رکھے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ دروازہ بجا۔

 " آ جائو۔ "

 اس نے اجازت دی۔ 

دروازہ کھلا اور اس کا ملازم خاص اندر آیا۔

 "بولو۔ " 

اس نے اپنی لہو رنگ آنکھیں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

" سائیں یہ سجاول سائیں کی طرف سے تحفہ ہے ان کی ہدایت تھی کہ آپکو ابھی پہنچایا جائے یہ اسی لئے آگیا۔ "

 اس نے ڈرتے وضاحت دی اصل میں وہ اس کی سرخ آنکھیں دیکھ کر ڈر گیا کیونکہ ابھی کسی کو داور کے کمرے میں آنے کی اجازت نہیں تھی۔ ابھی بھی وہ سجاول کے ملازم کے کہنے پر ڈرتے ڈرتے اندر آیا تھا۔

 یہ وہ داور تھا جس نے کبھی ملازموں سے غصے میں بات نہیں کی تھی۔

سب ملازمین اپنے جان سے پیارے مالک کی یہ حالت دیکھ کر پریشان تھے۔

" کسی کو پتا تو نہیں چلا۔ " 

داور نے اپنی بھاری آواز میں پوچھا۔

" نہیں سائیں۔ " 

" ٹھیک ہے پتا چلنا بھی نہیں چاہیئے۔ " 

بظاہر لہجہ عام سا تھا پر انداز بہت کچھ باور کرانے والا تھا۔

" جج۔جی سائیں "

 ملازم ہکلاتا ہوا بولا۔

 داور کے اشارہ کرنے پر وہ چلا گیا۔

 داور نے ہاتھ بڑھا کر پیکٹ اٹھایا۔

 اس میں سے بوتل نکالی اور ڈھکن کھول کر بوتل سیدھا منہ سے لگا لی اور بغیر زائقے کی پرواہ کئے پی گیا۔

 آج پہلی دفعہ اس نے یہ حرام شے منہ کو لگائی۔

بس پھر کیا تھا اپنا درد کم کرنے کے چکر میں وہ جام پہ جام چڑھاتا مدہوش ہوتا گیا۔

                            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انوار صاحب نے فائز کو فون لگایا۔ دو تین  بیلوں کے بعد فون اٹھالیا گیا۔ 

" بابا سب خیریت آپ نے فون کیا۔ " 

فائز کی پریشان سی آواز اسپیکر میں ابھری کیونکہ انوار صاحب انتہائی ضرورت کے وقت ہی فائز کو فون کرتے تھے۔

 " تم اسی ٹائم گھر پہنچو۔ " 

انوار صاحب بولے۔

 " پر بابا اس ٹائم تو میں ہاسپیٹل میں ہوں سب خیریت؟ "

" ہاں تم گھر پہنچو پھر بات ہوتی ہے۔ " 

" ٹھیک ہے بابا میں آتا ہوں۔ " 

۔۔۔۔ پھر وہ چالیس منٹ کا راستہ بیس منٹ میں طے کرکے گھر پہنچا اور گھر میں داخل ہو کر بھاگتے ہوئے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آیا۔

" ماما !!! بابا کہاں ہیں۔ " 

اس نے عائلہ بیگم سے پوچھا۔

 " اپنے کمرے میں۔ "

 ان کا جواب سن کے انوار صاحب کے کمرے کی طرف آیا اور دستک دے کر اندر داخل ہوا۔

" جی بابا بلایا آپ نے۔ " 

" ہاں آئو ادھر بیٹھو۔ " 

پھر انہیں نے آج ہونے والی ساری بات اس کے گوش گزار دی۔

" ان کی ہمت کیسے ہوئی ہمارے گھر میں کھڑے ہو کر ہم ہی کو دھمکی دینے کی۔ چھوڑونگا نہیں میں انہیں۔ اور زوار اس نے مجھے بتایا بھی نہیں اتنی بڑی بات ہو گئی۔ "

 فائز ساری بات سن کر ایک دم غصے میں آگیا۔

" فائز یہ ٹائم جوش سے نہیں ہوش سے کام لینے کا ہے۔ اس لئے ہم نے طے کیا ہے ہم تمہارا اور زوہا کا نکاح کروا دیں۔ بولو تمہیں منظور ہے؟ " 

" مم۔۔میرا اور زوہا کا نکاح؟ " 

فائز کا سارا غصہ انوار صاحب کی یہ بات سن کر اتر گیا تھا۔

" بولو تمہیں منظور ہے یا نہیں ورنہ ہم مائز سے بات کریں۔ " 

" نہیں نہیں میں راضی ہوں۔ "

 فائز جلدی سے بولا۔ 

فائز کی جلدبازی دیکھ کر ان کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی جسے وہ رخ موڑ کر چھپا گئے اور مطمئن انداز میں گویا ہوئے۔

" ٹھیک ہے اب تم جائو "

                                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انوار صاحب اور اظہار صاحب دونوں اس وقت زوہا کے کمرے میں اس سے بات کرنے کے لئے موجود تھے۔

" زوہا بیٹا جو بات میں اس وقت تم سے کرنے جا رہا ہوں وہ غور سے سننا۔ اور مجھے یقین ہے کہ تم میرا مان رکھوگی۔ "

اظہار صاحب کے انداز پر زوہا کا دل یک دم بہت زور سے دھڑکا۔

پر وہ خود کو کمپوز کرتی ہوئی بولی۔

" بابا آپ کو جو بات کرنی ہے کھل کر کریں۔ "

" بیٹا جس طرح کے حالات ہیں ان کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے ایک فیصلہ لیا ہے کہ تمہارا اور فائز کا نکاح کردیا جائے۔ " 

" پر بابا میں ابھی پڑھنا چاہتی ہوں۔ " 

" ابھی صرف نکاح ہو گا رخصتی نہیں۔ اور تمہاری پڑھائی پر کوئی پابندی نہیں ہوگی اس بات کی میں ضمانت دیتا ہوں۔ "

 جواب انوار صاحب کی جانب سے آیا۔

" پر بڑے بابا کیا نکاح کرنا ضروری ہے؟ "

 " بیٹا حالات کا تقاضا ہی یہی ہے۔ " 

" ٹھیک ہے پھر جیسا آپ کو صحیح لگے۔ "

  اس کی بات پر خوش ہو کر دونوں نے باری باری اسے گلے لگا کر پیار دیا۔

 اظہار صاحب بولے۔

 " مجھے پتا تھا میری بیٹی میری بات سے اختلاف کر ہی نہیں سکتی۔ "

                               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گلزار بیگم اس وقت داور کے کمرے کے دروازے کے باہر موجود تھیں۔

 ساتھ میں ملازمہ ہاتھ میں کھانے کی ٹرے لئے کھڑی تھی۔ 

داور دوپہر میں وہاں سے آنے کے بعد سے کمرے میں بند تھا اور اب رات ہونے کو آئی تھی۔

 گلزار بیگم جب اس کے باہر نکلنے کا انتظار کرکے تھک گئیں تو دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس کے لئے کھانا لے کر آئی تھی۔

پر اب کئی بار کی دستک کے بعد بھی جب دروازہ نہ کھلا تو ان کو تشویش ہونے لگی۔

انہوں نے ہینڈل پر ہاتھ رکھ کر گھمایا تو وہ ان لاک ہونے کی وجہ سے کھلتا چلا گیا۔

 انہوں نے قدم اندر کی جانب بڑھائے تو انکا دل دہل گیا۔ پورے کمرے میں سامان اور ٹوٹے ہوئے کانچ کی کرچیاں بکھری ہوئی تھیں۔

 پر انہیں داور کہیں نظر نہیں آیا۔

 وہ کانچ اور بکھرے سامان سے بچتی بچاتی آگے بڑھیں تو بیڈ کے دوسری جانب کا منظر دیکھ ان کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا ۔ 

بے ساختہ انکا ہاتھ ان کے دل پر رکھا گیا۔

وہاں پر داور نیچے زمین پر حوش و حواس سے بیگانہ پڑا تھا۔ اور ساتھ ہی مشروب کی ٹوٹی ہوئی بوتل پڑی ہوئی تھی۔

" داااااااورررر " 

وہ چیخ مار کر اس کی جانب بڑھیں اور اس کا سر اٹھا کر اپنی گود میں رکھ لیا اور اسے پکارنے لگیں۔

 پر اگر وہ حوش میں ہوتا تو جواب دیتا ناں۔

 " زرینہ جائو شاہ جی کو بلائو۔ "

 زرینہ جلدی سے بھاگ کر صفدر علی شاہ کے پاس گئی اور بولی۔

 " بڑے سائیں وہ دیکھیں آکر چھوٹے سائیں کو پتا نہیں کیا ہو گیا ہے " 

زرینہ کی بات سن کر وہ بھاگ کر داور کے کمرے میں آئے۔ وہاں کی حالت دیکھ کر انہیں لگا جیسے کسی نے انکا دل مٹھی میں لے کر مسل دیا ہو وہ داور کی جانب بڑھے۔

" اللہ ڈنو کو بلائو۔ " 

صفدر علی شاہ چلائے۔

اللہ ڈنو اور دو تین اور ملازموں کی مدد سے اسے گاڑی میں ڈال کر اسپتال لے کر آئے کہ داور جیسے مرد کو اٹھانا دو لوگوں کے بس کی بات نہیں تھی۔

                           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پوری شاہ فیملی اس وقت آئی سی یو کہ باہر موجود تھی۔ زوار گلزار بیگم کو بازووں کے حلقے میں لئے بیٹھا تسلی دے رہا تھا۔ وہ اپنے ماموں کی عیادت کے لیے دوسرے شہر گیا ہوا تھا کہ حویلی پہنچنے پر اسے شاعر کی طبیعت کا پتا چلا تو وہ سیدھا ہسپتال چلا آیا۔ 

نجمہ بیگم مشعل کو سینے سے لگائے خود بھی رونے میں مصروف تھیں۔

 صفدر علی شاہ ایک جانب پژمردہ سے کھڑے تھے۔

پہلی دفعہ ہی میں اس کے اس قدر زیادہ پینے کی وجہ سے اس کی حالت بگڑ گئی تھی۔

 ڈاکٹر اس کا معدہ واش کر رہے تھے۔

ڈاکٹر نے اگلے چوبیس گھنٹے انتہائی اہم قرار دیئے تھے اگر ان چوبیس گھنٹوں میں اسے ہوش آگیا تو ٹھیک ہے ورنہ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔

ابھی وہ سب دعائوں میں مشغول تھے کہ ایک دم آئی سی یو کا دروازہ کھلا اور ڈاکٹر صاحب باہر نکلے۔

صفدر علی شاہ ان کی طرف لپکے اور داور کی حالت کے بارے میں پوچھا۔

 " دیکھیئے ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا ۔۔ پیشنٹ کی حالت انتہائی نازک ہے۔ ہم اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہے ہیں آپ بھی دعائیں جاری رکھیں۔ " 

ڈاکٹر تسلی دیتے ہوئے بولے۔

 " میرے بیٹے کو کچھ نہیں ہونا چاہیئے۔ تمہیں جتنے پیسے چاہیئے لے لو۔ پر! اگر میرے بیٹے کو کچھ ہوا ناں تو تمہارا پورا ہسپتال تباہ کر دونگا میں۔ " 

صفدر صاحب نے ڈاکٹر کا گریبان دبوچا۔

 زوار نے آگے بڑھ کر انہیں ڈاکٹر سے دور کیا اور انہیں جانے کا اشارہ کیا ۔ 

" تایا سائیں کیوں پریشان ہوتے ہیں۔ داور بھائی کو کچھ نہیں ہوگا۔ پورا گاوں ان کے لئے دعائوں میں مشغول ہے۔ ارے جس انسان کے ساتھ اتنی دعائیں ہوں اسے بھلا کچھ ہو سکتا ہے۔ " 

زوار خود پریشان تھا کہ داور جو ان برائی سے کوسوں دور رہتا تھا وہ کیسے اس حرام چیز کو ہاتھ لگا گیا۔ پر ابھی صفدر صاحب یا کوئی بھی اسے بتانے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ وہ داور کے ٹھیک ہونے پر ساری بات پوچھنے کا ارادہ رکھتا تھا۔

" میں ان لوگوں کو بالکل نہیں چھوڑونگا جن کی وجہ سے میرا بیٹا اس حال میں پہنچا ہے۔ "

صفدر شاہ دل میں مصمم ارادہ کیا۔

                           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زوہا کے گھر میں نکاح کی تیاریاں زور و شور سے کی جا رہی تھیں۔

رمشا کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا آخر کو اس کی عزیز از جان دوست اور کزن اس کی بھابھی بننے والی تھی۔

فائز ایک بار زوار سے بات کرنا چاہتا تھا پر اس کا فون نہیں لگ رہا تھا۔ وہ اس سے پوچھنا چاہتا کہ جب وہ جانتا تھا کہ فائز زوہا کو پسند کرتا ہے تو وہ کا طرح اپنے کزن کا رشتہ زوہا کے لیے آنے دے سکتا ہے۔

 گھر میں سب ہی مطمئن تھے سوائے زوہا کے جس نے اظہار صاحب کی وجہ سے ہاں تو کردی تھی پر وہ مطمئن نہیں ہو پا رہی تھی۔

اس کی چھٹی حس اشارہ کر رہی تھی کہ کچھ غلط ہونے والا ہے پر وہ سب کے مطمئن چہرے دیکھ کر اپنی ساری سوچوں کو ذہن سے نکالنے کی کوشش کر رہی تھی۔

نکاح ایک ہفتے بعد ہونا قرار پایا تھا۔

رمشا زوہا کو بلانے آئی تھی وہ نکاح کا ڈریس لانے جا رہی تھی۔ تو عائلہ بیگم بولی زوہا کو بلا لو وہ اپنی مرضی کا لے لے گی۔

" رمشا تم جا کر لے آئو ہماری پسند کون سی الگ ہے۔ " 

" زوہا کیا ہو گیا ہے تمہیں۔ تم تو ہمیشہ شاپنگ کے لئے ریڈی ہوتی ہو پھر آج کیا ہو گیا ہے تمہیں۔ تم خوش تو ہو ناں؟ "

" رمشا ایسی کوئی بات نہیں ہے تم غلط سوچ رہی ہو۔ میری بس طبیعت کچھ ٹھیک نہیں۔ " 

" کیوں کیا ہوا تمہاری طبیعت کو اچھی بھلی تو بیٹھی ہو۔ "

 رمشا اسکا ماتھا چھوتی ہوئی بولی۔

 " ہاں وہ سر میں درد ہے مجھے۔ "

 " تم اٹھو !!! شاپنگ کرکے تمہارا سر کا درد خود ہی غائب ہو جائے گا۔ ورنہ میں فائز بھائی کو بھیج دیتی ہوں اب وہی کریں گے تمہارے سر درد کا علاج۔ "

 رمشا زبردستی اس کا ہاتھ پکڑ کر اٹھاتی اسے چھیڑتے ہوئے بولی ۔۔۔

 " فضول بکواس مت کرو۔ چھوڑو مجھے چل رہی ہوں میں " 

زوہا ہار مانتی ہوئی بولی۔

                        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بائیس گھنٹے ہونے کو آئے تھے پر داور کو ابھی تک ہوش نہیں آیا تھا اب تو ڈاکٹرز بھی مایوس ہو رہے تھے داور کی حالت کو دیکھ کر۔

مشعل پریئر روم میں جائے نماز پر بیٹھی اپنے بھائی کی زندگی کے لیے دعائوں میں مشغول تھی۔

گلزار اور نجمہ بیگم آئی سی یو کے باہر تسبیحات میں مشغول تھیں۔

 گلزار بیگم کی آنکھیں ایک منٹ کے لئے بھی خشک نہیں ہوئی تھیں۔

زوار صدقہ کرنے گیا ہوا تھا۔

جبکہ صفدر علی شاہ ایک کونے میں کھڑے کسی سے فون پر مصروف تھے۔

 " ہاں بولو کیا رپورٹ ہے۔ " 

صفدر علی شاہ نے پوچھا۔

" سر ان کے گھر میں نکاح کی تیاریاں چل رہیں ہیں ایک ہفتے بعد نکاح ہے اور وہ لڑکی ابھی خریداری کے لئے نکلی ہے اگر آپ حکم کریں تو۔ " 

" نہیں لڑکی کو کچھ نہیں ہونا چاہیئے۔ آگے کیا کرنا ہے یہ ہم تمہیں بتا دیں گے۔ بس تم آنکھیں اور کان کھلے رکھو۔ "

 صفدر علی شاہ اس کی بات کاٹ کر بولے۔

 " جی بہتر۔ " 

میرے بیٹے کو اس حال میں پہنچا کر خود اپنے گھر میں شہنایاں بجا رہے ہیں۔ چھوڑوں گا نہیں تباہ کر دوں گا۔

 فون رکھ کر وہ دل ہی دل میں بولے۔

                                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چوبیس گھنٹے ختم ہونے میں آدھا گھنٹا باقی تھا کہ نرس ان کے لئے زندگی کی نوید لے کر آئی۔

" آپ کے پیشنٹ کو ہوش آگیا ہے۔ " 

" یا اللہ تیرا شکر ہے۔ " 

سب کے منہ سے بے اختیار نکلا۔

گلزار بیگم نے اپنے ہاتھ سے ایک قیمتی انگوٹھی اتاری اور نرس کو دیتے ہوئے بولیں۔

 " تم نے اتنی مبارک خبر ہمیں سنائی ہے۔ یہ تمہارا انعام ہے۔ "

نرس نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ گلزار بیگم بولیں۔

" بیٹا منع مت کرنا۔ ایک ماں کا پیار سمجھ کر رکھ لو۔ "

 وہ اسے زبردستی  انگوٹھی پکڑاتی ہوئی بولیں۔

" کیا ہم مل سکتے ہیں اپنے بیٹے سے۔ "

انہوں نے بے قراری سے پوچھا۔

" جی ہم انہیں روم میں شفٹ کر رہے ہیں۔ پھر آپ مل سکتے ہیں۔ "

 نرس یہ کہہ کر چلدی۔

" میں ذرا شکرانے کے نفل ادا کرلوں اور مشعل کو بھی خوشخبری سنا دوں۔ "

 گلزار بیگم یہ کہہ کر پریئر روم کی طرف چلی گئیں۔

                            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

" آپکے پیشنٹ کو روم میں شفٹ کر دیا گیا ہے۔ آپ اب مل سکتے ہیں انہیں۔ " 

نرس نے انہیں اطلاع دی۔

وہ سب داور کے کمرے میں داخل ہوئے۔

گلزار بیگم نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی سسکیوں کا گلا گھونٹا۔

کیونکہ سامنے لیٹا ہوا داور کہیں سے بھی وہ داور نہیں لگ رہا تھا جو دو دن پہلے انہیں اپنی پسند سے آگاہ کر رہا تھا۔ کیسی چمک تھی اسکے چہرے پر۔

اور اب وہ دو دن میں ہی صدیوں کا بیمار لگ رہا تھا۔

 " داور میرے شیر۔ " 

صفدر صاحب نے اسے پکارا۔

ان کی آواز سن کر اس کی پلکوں میں جنبش ہوئی اور دھیرے دھیرے اس نے اپنی آنکھیں کھولی اور سامنے کھڑے صفدر صاحب کو دیکھ کر نقاہت سے مسکرایا۔

 پر وہ باپ تھے ناں اس کی مسکراہٹ میں چھپا درد پہچان گئے۔

" داور میرے بچے میری جان۔ " 

گلزار بیگم اسکی جانب بڑھی۔

ان کو دیکھ کر اس نے بیٹھنا چاہا پر اس سے بیٹھا نہ گیا تو آگے بڑھ کر زوار نے اسے سہارا دے کر بٹھایا۔

 گلزار بیگم اس کے پاس بیٹھیں اور اسکا ماتھا چوم کر بولیں.

 " داور تجھے اپنی بوڑھی ماں کا ایک دفعہ بھی خیال نہ آیا. کیا اس کی دو دن کی محبت ہماری برسوں کی محبت پر غالب آ گئی. "

 " اماں سائیں معاف کردیں مجھے میں ہوش میں نہیں تھا. مجھے تو حرام حلال کا فرق بھی بھول گیا تھا۔ اب میں اپنے خدا کو کیا منہ دکھائوں گا. " 

داور ان کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے سر جھکا کر رو دیا۔ شاید اپنی بتیس سالہ زندگی میں ہوش سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ رویا تھا.

" نہیں میرے لعل تیری کوئی غلطی نہیں تو دل پر نہ لے.وہ اللہ بہت بڑا ہے وہ سب کو معاف کردیتا ہے. "

 وہ اس کے ہاتھ کھولتے ہوئے بولیں.

صفدر صاحب نے آگے بڑھ کر داور کو سینے سے لگایا اور اس کی پیٹھ تھپکتے ہوئے بولے. 

" میرے شیر سب ٹھیک ہو جائے گا تو فکر مت کر. "

 " میں ٹھیک ہوں بابا سائیں. "

 وہ ان سے الگ ہوتا ہوا منہ صاف کرتا ہوا بولا.

پھر اس کی نظر ایک کونے میں کھڑی روتی ہوئی مشعل پر پڑی.

 " کیا ہوا میری چڑیل نہیں ملے گی کیا مجھ سے. " 

تو مشعل ایک دم سے بھاگ کر اس کے سینے سے لگ گئی اور تیز تیز رونے لگی.

" ارے چڑیل ابھی زندہ ہوں میں خاموش ہو جائو. " 

اور اسے خود سے الگ کر کے اسکے آنسو صاف کئے۔.

" دیکھو بالکل ٹھیک ہوں میں اگر تم اور روئی نہ تو زوار مجھ سے ناراض ہو جائے گا کہ میں تمہیں رلا رہا ہوں. " 

اس نے ایک نظر زوار کو دیکھا جو اسی کی جانب دیکھ رہا تھا  اور شرما کر سر جھکا کے روتے روتے مسکرا دی۔

" ہاں وہ ایسا ہی تھا خود تکلیف میں ہوتے ہوئے بھی روتوں کو ہنسانے والا۔ "

سُدھ بُدھ اپنی

گنوا بیٹھا ہوں

اُلٹ سُلٹ میں جیون

الجھا بیٹھا ہوں

سانس کی ڈور زور لگائے

جیون میرا روز گھٹائے

اکھیاں جو پونچھوں

اکھیاں پھر بھر آئیں

من گھومت گھامت

پھر بھید یہ پائے

تم بن میرا من گھبرائے

پیا تُو مورے جی کو بھائے  !!!

Copied

                               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

داور کو دو دن بعد ہسپتال سے چھٹی مل گئی تھی اور آج وہ دو دن بعد گھر آ رہا تھا۔

زوار اور صفدر صاحب داور کے ساتھ تھے باقی سب کو انہوں نے پہلے ہی گھر روانہ کر دیا تھا۔

گلزار بیگم داور کا کمرہ اپنی سرپرستی میں صاف کروا رہیں تھیں۔ ان دو دنوں میں صفدر صاحب نے اس کے کمرے کو بالکل پہلے جیسا کروا دیا تھا۔

 مشعل اس کے لئے پرہیزی کھانا بنوا رہی تھی۔

 اسی اثناء میں میں گاڑی کا ہارن بجا دونوں اپنے اپنے کام چھوڑ کر باہر کی جانب بھاگی۔

داور ، زوار کے سہارے چلتے ہوئے حویلی کے اندر داخل ہو رہا تھا۔

" زوار !!! داور کو اس کے کمرے میں لے جائو۔ " 

صفدر صاحب زوار سے بولے۔

" جی تایا جان۔ "

 یہ کہہ کر زوار داور کو لئے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ کمرے میں پہنچ کر زوار نے اسے بیڈ کرائون سے ٹیک لگا کر بیٹھا دیا اور بولا۔

 " بھائی آپ ایسے تو نہ تھے۔ ایک لڑکی کے لئے آپ نے اپنا یہ حال کر لیا۔ "

 " یار تجھے بن مانگے تیری محبت مل گئی ناں اسی لئے ایسا بول رہا ہے۔ مجھے تو ایک دن نہیں ہوا تھا محبت ہوئے کہ مجھے پتا لگا کہ میری محبت تو میری ہے ہی نہیں۔ " 

" ہاں فائز اسے بچپن سے پسند کرتا تھا۔ وہ مجھے پر غصہ ہو رہا گا کہ میں نے سب جانتے ہوئے بھی آپ لوگوں۔کو نہیں روکا۔ پر اس نے یہ کبھی نہیں بتایا تھا کہ اس کی منگنی ہو چکی ہے۔ " 

" اس کے گھر والوں نے یہی کہا ہے کی اس کی بات فائز سے طے ہے۔ "

" نکاح ہے دو دن بعد انکا۔ " 

داور کو اسکے ملازم خاص سے پتا چلا تھا۔

" مطلب اس نے زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ لے لیا اور مجھے بتایا بھی نہیں۔ حالانکہ ہم تو اپنی ہر بات ایک دوسرے سے شیئر کرتے تھے۔ " 

زوار دکھ سے بولا ۔۔۔ 

" اچھا تم دکھی نہ ہو۔ تم اس سے مل کر ساری بات کلیئر کر لینا۔ "

وہ ایسا ہی تھا سب کی فکر کرنے والا اپنے غم میں بھی دوسروں کا خیال کرنے والا۔

" اور کام کیسا چل رہا ہے۔ ؟؟؟  وہ اس کا دھیان بٹانے کی خاطر کاروباری باتوں میں مشغول ہو گیا۔

اندر داخل ہوتے ہوئے صفدر صاحب کے قدم ان کی باتوں نے روک لئے۔ یعنی ان لوگوں نے غلط بیانی کی ہم سے۔ اس کے بعد وہ کسی کو فون لگا کر ہدایت کرنے لگے۔

                            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نکاح کی تیاریوں میں یہ ہفتہ پر لگا کر اڑ گیا۔ اور آج نکاح کا دن بھی آگیا۔

ٹائم کم ہونے کی وجہ سے کارڈ کے بجائے موبائل کا استعمال کیا گیا تھا سب کو دعوت دینے کے لئے۔

 جس کو بھی دعوت کی کال کی گئی اسی نے سو طرح کے سوال کئے اتنی جلدی نکاح رکھنے پر۔ وہ عاجز آگئے تھے لوگوں کے سوال جواب سے۔ کیونکہ آج تک زوہا کے جتنے بھی رشتے آئے تھے انہیں یہ کہہ کر ہی منع کیا گیا تھا کہ وہ ابھی پڑھ رہی ہے تو اس طرح اچانک سے اس کے نکاح کا سن کر لوگوں نے طرح طرح کی باتیں بنائی تھیں۔

 زوہا کو دوبارہ گھر سے باہر نکلنے نہیں دیا گیا ، بیوٹیشن کو بھی گھر ہی بلایا گیا تھا صفدر صاحب کی دھمکی کی کال کی وجہ سے۔

( دو دن پہلے )

اظہار صاحب کو ایک انجان نمبر سے کال موصول ہوئی۔

" ہیلو! کون؟ "

 " ارے اتنی جلدی بھول گئے ہمیں آپ۔ ابھی تو آپ کی طرف ہمارے بہت سے حساب باقی ہیں۔ "

 " صفدر علی شاہ " 

اظہار صاحب کے منہ سے سرگوشی کے انداز میں اتنا ہی نکلا۔

 " ارے آپکا حافظہ تو بہت اچھا ہے۔ جی میں ہی بات کر رہا ہوں صفدر علی شاہ۔ "

 " کیوں فون کیا آپ نے؟ جب ہم آپ کو جواب دے چکے ہیں۔ "

 " صرف اتنا بتانے کے لئے کہ دلہن تو آپکی بیٹی میرے ہی بیٹے کی بنے گی۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کیسے بناتے ہیں۔ عزت سے یا پھر۔ " 

صفدر صاحب نے بات ادھوری چھوڑی۔

" دیکھیں میں اپنی بیٹی کے بارے میں کسی بھی طرح کا فیصلہ لینے کا اہل ہوں۔ آپ مجھے ایسے دھمکا نہیں سکتے۔ "

 " میں دھمکا نہیں رہا سمجھا رہا ہوں آپکو۔ سمجھ جائیں تو ٹھیک ورنہ انجام کے ذمہ دار آپ خود ہونگے۔ ہم نے عزت سے آپ کی بیٹی کو اپنی عزت بنانا چاہا پر آپ کو شاید عزت پیاری نہیں ہے اپنی۔ اب جو ہو گا وہ سب دیکھ لیں گے۔ "

یہ کہہ کر صفدر صاحب نے کال کاٹ دی۔

اظہار صاحب سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ انوار صاحب جو اظہار صاحب کے پاس کسی کام سے آرہے تھے اظہار صاحب کو سر پکڑے دیکھ کر پریشانی سے انکے پاس چلے آئے۔ 

" اظہار خیریت اس طرح سر پکڑے کیوں بیٹھے ہو؟ "

 " بھائی صاحب وہ۔ " اور انہوں نے صفدر صاحب سے ہونے والی ساری گفتگو ان کے گوش گزار دی۔

" بھائی صاحب انہوں نے صاف الفاظ میں دھمکی دی ہے اب کیا ہو گا؟ میرا دل بہت گھبرا رہا ہے۔ " 

اظہار صاحب پریشانی سے گویا ہوئے۔

" تم فکر مت کرو۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ بس تم نکاح تک زوہا کو گھر سے باہر مت نکلنے دو۔ نکاح ہو جائے گا تو وہ کچھ نہیں کر سکیں گے۔ "

 " ہمممم صحیح ہے۔ "  

( حال )

دن کے بارہ بجے کا وقت تھا۔ فائز اپنے کمرے میں لیٹا ہوا تھا۔

 نکاح عصر کے بعد ہونا طے پایا تھا۔

وہ زوار کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ جو بھی تھا وہ اسکا بچپن کا ساتھی تھا۔

 اس نے کب سوچا تھا کہ اپنی زندگی کے اتنے بڑے دن پر وہ اسے نہیں بلائے گا۔ ابھی تک اس کا زوار سے رابطہ بھی نہیں ہو سکا تھا۔

وہ دونوں اکثر پلاننگ کیا کرتے تھے کہ ایک دوسرے کی شادی پر وہ کیا کریں گے کیسے کپڑے بنوائیں گے۔ پر داور کی وجہ سے کیا ہوگیا تھا۔ اس نے ہمیشہ داور کو ایک بڑے بھائی کی طرح عزت دی اور آج اسکی وجہ سے ہی وہ اپنے سب سے اچھے دوست سے دور تھا۔

 " نجانے کیوں انسان اپنی پلاننگ میں اسے بھول جاتا ہے۔ وہ جو اوپر بیٹھا انسان کے پیدا ہونے سے پہلے ہی اس کی تقدیر لکھ دیتا ہے اور بے شک وہ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے۔ "

 وہ ذہن سے ساری سوچیں جھٹک کر زوہا کے بارے میں سوچنے لگا۔

وہ ابھی انہی خیالوں میں کھویا ہوا تھا کہ اس کے فون کی گھنٹی بجی اس نے چونک کر فون کی جانب دیکھا۔

اس نے موبائل ہاتھ میں اٹھایا تو پتا چلا کہ ہوسپٹل سے فون ہے۔

اس نے سلائیڈ کو ٹچ کر کے فون کان سے لگایا تو اسے ایمرجنسی کی اطلاع ملی۔

" میں آرہا ہوں۔ " 

 یہ الفاظ کہہ کر اس نے فون کاٹ دیا۔

 اور اٹھ کر الماری سے کپڑے نکالتا ہوا چینج کرنے چلا گیا۔

چینج کرکے اس نے اپنا ضروری سامان اٹھایا اور کمرے سے باہر نکل کر عائلہ بیگم کے پاس آیا اور انہیں ایمرجنسی کا بتایا اور جلدی آنے کا کہہ کر سیڑھیاں اتر کر باہر نکل گیا۔

                             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

داور صبح سے کمرے میں بند اپنی محبت کے کسی اور کا ہو جانے کا دکھ منا رہا تھا۔

 وہ یہ جاننے کے بعد بھی کہ وہ آج ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اسکی دسترس سے چلی جائے گی وہ کچھ نہیں کر پا رہا تھا۔

اپنے ہاتھ اسے بندھے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔

ملازمہ دو بار اسکا دروازہ کھٹکھٹا چکی تھی ناشتے کے لئے پر اس نے منع کر دیا تھا۔

 اور دوبارہ اسے ڈسٹرب کرنے سے منع کیا تھا۔

اب تیسری مرتبہ اسکا دروازہ بج رہا تھا وہ جھنجھلا کر اٹھا اور جا کر دروازہ کھولتے ہی بولنا شروع کردیا۔

 " منع بھی کیا تھا۔ "

 کہ گلزار بیگم کو دیکھ کر اس کی چلتی زبان کو بریک لگا۔

" ارے اماں سائیں آپ! آئیے ناں۔" 

وہ انہیں تھام کر صوفے  تک لایا اور انہیں صوفے پر بٹھا کر خود نیچے زمیں پر بیٹھ کر ان کی گود میں سر رکھ لیا۔

" داور میں بہت ڈر چکی ہوں۔ اس لئے تمہیں دیکھنے کے لئے آگئی۔ داور تمہیں میری قسم ہے دوبارہ ایسا مت کرنا ورنہ اب میں سہہ نہیں پائونگی۔ " 

گلزار بیگم کے دل میں ڈر بیٹھ چکا تھا۔ داور کو صبح سے کمرے میں بند دیکھ کر انکا دل گھبرانے لگا تھا اسی لیے اسے دیکھنے کے لیے آگئیں۔

" مجھے معاف کردیں۔ بہت دکھ دیئے ہیں ناں میں نے آپکو۔ "

وہ ان کے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوا بولا۔

 " نہیں ایسا نہیں بول۔ تکلیف ہوتی ہے مجھے۔ بھلا میں ناراض ہو سکتی ہوں اپنی جان سے۔ "

 وہ اس کے ہاتھ کھول کر اپنے ساتھ بٹھاتی ہوئی بولیں۔

 " بس اب بھول جا اسے اور پہلے جیسا ہو جا اپنی ماں کے لئے ، اپنی بہن کے لئے ، اپنے بابا سائیں کے لئے وہ بھی تیرے لئے بہت پریشان ہیں۔ " 

" اماں سائیں آج کا دن بس آج کا دن مجھے اپنی محبت کے بچھڑنے کا سوگ منانے دیجئے۔ آج وہ ہمیشہ کے لیے کسی اور کی ہونے جا رہی ہے۔ مجھے اپنے دل کو سمجھانے کا موقع دے دیجیئے۔ "

 وہ ان کے کندھے پر سر رکھ کر بولا۔

" وہ کوئی آخری لڑکی تھوڑی تھی۔ میں اپنے چاند کے لئے خود دولہن ڈھونڈوں گی اور تیری ایک نہیں سنوں گی۔ "

 " اماں سائیں کیوں کسی معصوم کی زندگی برباد کریں گی اسے مجھ جیسے انسان کے ساتھ باندھ کر۔ میرے پاس اب کچھ نہیں بچا کسی کو دینے کے لئے کچھ نہیں۔ "

 گلزار بیگم کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا وہ اسے سینے سے لگا کر رو دیں۔ وہ بھی ممتا کی ٹھنڈی آغوش پا کر بے آواز آنسو بہانے لگا۔

                          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زوہا کو بیوٹیشن ریڈی کرکے جا چکی تھی۔

 ریڈ اور اسکن کلر کی فراک میں وہ غضب ڈھا رہی تھی۔ چہرے پر چھائی سوگواریت نے اسکے حسن کو اور زیادہ نکھار بخشا تھا۔

 وہ کہتے ہیں ناں حسن سوگوار ہو تو زیادہ حسین لگتا ہے۔ عصر ہونے میں آدھا گھنٹہ تھا اور فائز کا کچھ اتا پتا نہ تھا۔

 انوار صاحب بیگم پر برس رہے تھے کہ انہوں نے فائز کو جانے ہی کیوں دیا۔

" جب تمہیں منع کیا تھا فائز کو باہر بھیجنے سے تو تم نے کیوں جانے دیا۔ " 

" وہ ہاسپیٹل میں ایمرجنسی ہو گئی تھی۔ آدھے گھنٹے میں آنے کا کہہ کر گیا تھا۔ " 

عائلہ بیگم نے اپنی صفائی پیش کی۔

" یا خدا! کہاں ڈھونڈوں میں اسے۔ فون بھی بند آرہا ہے اسکا۔ اب تو مہمان بھی آنے لگے ہیں۔ "

 " بھائی صاحب اس کے ہاسپیٹل پتا کروا لیں۔ "

 " ہاں مائز کو بلوائو وہ جا کر پتا کر آئے گا۔ "

 پھر انہوں نے مائز کو ہاسپیٹل بھیج دیا فائز کا پتا کرنے کے لئے۔ ابھی وہ سب بیٹھے تھے کہ اظہار کا فون بجا تھا۔

" صفدر علی شاہ کا فون ہے۔ "

 اظہار صاحب بولے۔

" فون اٹھائو اور اسپیکر پر ڈالو۔ " 

انوار صاحب نے ہدایت دی۔

" ہیلو۔ اب فون کرنے کا مقصد؟ "

 اظہار صاحب فون اٹھا کر بولے۔

" ہم نے سمجھایا تھا تمہیں کہ ہم اپنے کی کوئی بیٹے کی کوئی بات نہیں ٹالتے۔ تمہاری بیٹی ہمارے ہی بیٹے کی دولہن بنے گی۔ پر بات تمہاری سمجھ میں نہیں آئی۔ اب انجام کے ذمہ دار خود ہوگے۔ ویسے سنا ہے تمہارا بیٹا اپنے نکاح سے بھاگ گیا۔ تو سوچا ہم بھی فون کرکے افسوس کرلیں۔ " 

" یعنی فائز آپ لوگوں کے پاس ہے۔ دیکھیں آپ لوگ فائز کو کچھ نہ کہیں۔ اسے چھوڑ دیں۔ آپ جیسا چاہیں گے ویسا ہی ہوگا۔ "

اظہار صاحب شکستہ سے لہجے میں بولے۔

 " ہوگا گا تو وہی جیسا ہم چاہیں گے۔ پر تھوڑا سبق سکھانا تو بنتا ہے ناں۔ آخر کو آپ نے صفدر علی شاہ کو انکار کرنے کی جرات کی تھی۔ "

 " پلیز میرے بیٹے کو چھوڑ دیں اسے کچھ نہ کریں۔ "

 اب کی بار عائلہ بیگم روتی ہوئی بولیں۔

" معاف کیجیئے گا بھابھی پر جو چوٹ آپ لوگوں نے میرے بیٹے کو پہنچائی تھی اسکا تھوڑا تو بدلہ بنتا ہے ناں۔ اور کچھ بھیج رہا ہوں آپکے موبائل پر دیکھ لیجئے گا ہماری طرف سے تحفہ ہے آپکے لئے۔ " 

یہ کہہ کر انہوں نے فون کاٹ دیا۔

 تھوڑی دیر بعد ان کا فون بجا ۔۔ دیکھا تو کچھ تصویریں تھیں انہیں کھولا تو جو انہیں دیکھنے کو ملا اسے دیکھ کر انہیں حیرت کا جھٹکا لگا اور فون انکے ہاتھ سے چھوٹ کر دور جا گرا۔

                       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انوار صاحب نے آگے بڑھ کے موبائل لیا تو ان کا بھی وہی حال ہوا۔

" ایسا کیا ہے اس میں دکھائیں مجھے۔ " 

عائلہ بیگم نے ان کے ہاتھ سے موبائل لیا تو دیکھا اسکرین پر زوہا اور داور کی تصویر تھی جس میں داور نے زوہا کے سامنے ہاتھ کیا ہوا تھا اس کا ہاتھ تھامنے کے لئے۔ 

اصل میں یہ تصویر مشعل ی منگنی کی تھی جس میں داور نے مشعل کے آگے ہاتھ بڑھایا ہوا تھا۔ پر زوہا مشعل کے ساتھ کھڑی ہوئی تھی اور تصویر میں مشعل کو اس طرح کروپ کیا گیا تھا کہ لگ رہا تھا داور زوہا کا ہاتھ تھام رہا ہے۔ اس کے علاوہ چند ایک اور بھی اسی طرح کی تصویریں تھیں جس میں زوہا اور داور شاعر کو ساتھ دکھایا گیا تھا۔

" زوہا ایسی نکلے گی میں تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ بھائی صاحب آپ ایک دفعہ اپنی بیٹی سے پوچھ تو لیتے وہ کیا چاہتی۔ اس کی وجہ سے آج میرا بیٹا مشکل میں آگیا۔ اگر میرے بیٹے کو کچھ ہوا ناں تو میں آپ میں سے کسی کو معاف نہیں کروا گی سن لیں آپ۔ "

 عائلہ بیگم یہ کہہ کر وہاں سے نکل گئیں۔

لاکھ وہ زوہا کو اپنی بیٹی سمجھ لیں پر اپنی جوان اولاد کو مشکل میں دیکھ کر اور جو کچھ اب ہوا اس کے بعد وہ بھی زوہا سے بد ظن ہو ہی گئیں۔

" اب جو ہونا تھا ہو گیا تم سنبھالو خود کو اور صفدر علی شاہ کو بات کرکے جتنی جلدی ہو سکے زوہا کی شادی داور سے کروا دو اگر اپنی بچی کچھی عزت بچانی ہے تو۔ میں ذرا مہمانوں کو دیکھوں جا کر۔ " 

انکا اپنا بیٹا غائب تھا اور نجانے کس حال میں تھا۔ مگر وہ اپنی فکر کو سینے میں دبائے بھائی کا ساتھ دے رہے تھے۔

پھر جیسے تیسے بہانہ کرکے انہوں نے مہمانوں کو رخصت کیا۔

پہلے اتنی جلدی نکاح اور پھر فائز کا غائب ہو جانا لوگوں نے ان کے سامنے سوالوں کے پہاڑ کھڑے کر دیئے تھے جن کے جواب میں ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔

نسرین بیگم اور عائلہ بیگم دونوں کا رو رو کر برا حال تھا۔ دونوں ہی اپنی اپنی اولاد کے غم میں نڈھال تھیں۔

 فائز ابھی تک گھر نہیں آیا تھا۔

 مائز کو بھی انوار صاحب نے ساری صورتحال بتا کر گھر واپس بلا لیا تھا۔

                          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اظہار صاحب زوہا کے کمرے میں داخل ہوئے اور رمشا جو زوہا سے باتیں کر رہی تھی اور آج ہونے والے سارے واقعے سے لا علم تھی اس کو مخاطب کر کے سرد لہجے میں بولے۔

 " رمشا مجھے زوہا سے اکیلے میں کچھ بات کرنی ہے۔ "

 رمشا ان کی بات کا مطلب سمجھتے ہوئے بولی۔

" اچھا زوہا میں آتی ہوں۔ " 

یہ کہہ کر وہ باہر چلی گئی۔

 پر وہ اپنے ہمیشہ ہنسنے مسکرانے والے چچا کا یہ لب و لہجہ سن کے حیران تھی۔

یہی حالت اندر بیٹھی رمشا کی تھی۔

 " یہ کیا ہے۔ " 

اظہار صاحب نے موبائل اس کے سامنے کیا۔

 زوہا نے نا سمجھی سے اظہار صاحب کی جانب دیکھا پھر اس کے بعد اسکرین کی طرف دیکھا تو دیکھا تو اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹ جانے کی حد تک کھل گئیں۔ کچھ کہنے کی خواہش میں اس کے لب پھڑپھڑا کر رہ گئے۔ اس کے قدم لڑکھڑا گئے۔ اس نے بروقت دیوار کا سہارا لے کر خود کو گرنے سے بچایا۔

 " تم پہلے سے جانتی تھی اس لڑکے کو۔ "

 اظہار صاحب درشتگی سے بولے۔

انہوں نے زندگی میں پہلی بار زوہا سے اس لہجے میں بات کی تھی۔

" نہیں بابا وہ۔ "

 " زوہا میں نے بچپن سے تمہیں ہر طرح کی آزادی دی۔ تم پر اعتبار کیا۔ یہ صلہ دیا اس کا تم نے مجھے۔ تماشہ بنا دیا ہے تم نے میرا۔ کہیں منہ دکھانے کے لئے نہیں چھوڑا تم نے مجھے۔ " 

" بابا کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ۔ کیا ہو گیا ہے آپ کو یہ میں نہیں ہوں بابا۔ " 

" کیا ہو گیا ہے یہ تم مجھ سے پوچھ رہی ہو۔ یہ تصویر تمہاری ہی ہے تصویر میں پہنے کپڑے تمہارے ہیں اور تم کہہ رہی ہو کہ یہ تم نہیں ہو۔ اٹھوا لیا ہے فائز کو صفدر علی شاہ نے صرف تمہاری وجہ سے ۔ " 

" کک۔ کیا فائز بھائی کو۔ " 

" ہاں۔ زوہا اگر تم پہلے بتا دیتی تو میں خود تمہاری داور سے شادی کروا دیتا۔ بھائی صاحب تو ہمارا ہی بھلا چاہ رہے تھے۔ پر ہماری وجہ سے انکا بیٹا مشکل میں آگیا۔ اب کیا منہ دکھائوں گا میں ان کو۔ "

 " بابا یہ جھوٹ ہے سب کچھ آپ یقین کریں میرا۔ بابا آپ تو جانتے ہیں آپ کی زوہا ایسا نہیں کر سکتی۔ بابا یقین کریں میرا داور علی شاہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ "

 زوہا نے اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی۔

" یقین! یقین ہی تو کیا تھا تمہارا جس کا مجھے یہ صلہ ملا ہے مجھے۔ آج سے تمہارا اور میرا ہر رشتہ ختم۔ " 

" نہیں بابا ایسا مت کہیں۔ " 

وہ تڑپ کر بولی۔

 " اب میں خود داور سے تمہاری شادی کروائوں گا۔ اب جتنے دن بھی تم یہاں ہو مجھے اپنی شکل مت دکھانا۔ "

یہ کہہ کر وہ باہر نکل گئے۔

 " نہیں بابا ایسا مت کریں۔ آپکی بیٹی بے گناہ ہے آپ تو اس کا یقین کریں۔ " 

زوہا پیچھے روتی ہوئی چلائی۔

پھر ایک ایک کر کے اپنا زیور نوچ کر پھینک دیا۔

 " خدا تمہیں غارت کرے داور علی شاہ۔ سکون کو ترسو تم۔ میری ہنستی بستی زندگی میں طوفان کھڑا کر دیا ہے تم نے۔ " 

وہ نیچے کارپٹ پر بیٹھ کر روتے ہوئے داور کو کوسنے لگی۔ " تم مجھ سے میرا سکون چھین کر اپنی زندگی میں شامل کر رہے ہو ناں اگر تمہاری زندگی کو مشکل نہ بنا دیا تو میرا نام زوہا نہیں۔ "

ہاں ٹوٹی تھی کچھ پل کے لئے 

اب ایک ایک ٹکڑا اٹھاؤں گی 

چل اب تو بھی دیکھ 

میں کیا خوبصورت قصہ بناؤں گی

Copied

                               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کے دس بجے تھے اور وہ سب ڈرائنگ روم میں میں پریشان بیٹھے تھے کیونکہ فائز اب تک گھر نہیں آیا تھا۔

 زوہا اپنے روم میں تھی کیونکہ اظہار صاحب نے اسے باہر نکلنے سے منع کر دیا تھا۔

اظہار صاحب نے موبائل اٹھایا اور صفدر صاحب کو کال لگائی۔

تین چار بیلوں کے بعد فون اٹھالیا گیا۔

اور صفدر صاحب کی آواز ابھری۔

" جی کہیئے اظہار صاحب کیسے فون کیا۔ " 

" صفدر صاحب میں تیار ہوں اپنی بیٹی کی شادی آپکے بیٹے کے ساتھ کرنے کے لئے۔ آپ میرے بھتیجے کو چھوڑ دیجئے۔ "

 اظہار صاحب شکستہ لہجے میں گویا ہوئے۔

 " آپ کا بھتیجا اگلے دس منٹ میں آپکے پاس ہوگا۔ پر دوسرا کام ذرا مشکل ہے۔ اب آپ خود ہی سوچئے ایک عزت دار آدمی کیسے ایک ایسی لڑکی کو اپنی بہو بنا سکتا ہے جسکا منگیتر عین نکاح والے دن اسے چھوڑ کر بھاگ گیا۔ یقینا لڑکی میں کوئی کمی ہی ہوگی۔ "

 " صفدر صاحب ایسا مت بولئے میری عزت اب آپکے ہاتھ ہے۔ "

 اظہار صاحب گڑگڑائے۔

 " ہاہاہاہا کہا تھا نا ہم نے کہ آپ خود کریں گے مجھے فون اب۔ چلیں آپ اتنی منتیں کر رہے ہیں تو ہم مان جاتے ہیں۔ "

 صفدر صاحب احسان کرنے والے انداز میں بولے۔

" پھر آپ کب آئیں گے اپنی امانت لینے؟ "

 " یہ ہم خود طے کرکے آپ کو بتا دیں گے۔ " 

یہ کہہ کر انہوں نے فون کاٹ دیا۔

 " کیا کہا انہوں نے؟ "

 عائلہ بیگم نے فون بند ہوتے ہی پوچھا۔

" کہہ رہیں ہیں تھوڑی دیر تک آجائے گا فائز۔ " 

فون بند ہوئے تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ فائز لڑکھڑاتا ہوا اندر داخل ہوا۔

" فائز !!! میرا بچہ۔ "

 عائلہ بیگم اس کے خون میں بھرے ہوئے کپڑے دیکھ کر دہل کر کھڑی ہوئیں۔

مائز نے اسے آگے بڑھ کر سہارا دیا اور صوفے پر لاکر بٹھا دیا۔ 

" میں زوہا کو بتاتی ہوں فائز بھائی آگئے۔ "

 رمشا یہ بول کر جانے لگی کہ فائز کی آواز نے اسکے بڑھتے قدم روک دیئے۔

" کوئی ضرورت نہیں ہے اسے بتانے کی۔ اسے تو پتا ہوگا آخر کو وہ برابر کی شریک تھی۔ "

 " نہیں بھائی زوہا ایسی نہیں ہے۔ "

 " خاموش ہو جائو تم۔ زوہا ایسی نہیں ہے۔ ارے اسی کا پھیلایا ہوا ہے یہ سارا کا سارا فساد۔ چلو اوپر تم اور دوبارہ میں تمہیں زوہا کے ساتھ نہ دیکھوں۔ اور مائز بھائی کو بھی لے آئو اوپر۔ "

 یہ کر وہ رمشا کو لے کر اوپر چلی گئیں۔

                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

" بیگم داور کہاں ہے؟ "

 صفدر صاحب نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔

" وہ صبح سے کمرے میں بند ہے آج اس لڑکی کا کسی اور سے نکاح ہے۔ بس اسی بات کا غم منا رہا ہے۔ " 

گلزار بیگم نے آنسو بہاتے ہوئے جواب دیا۔

" اچھا! چلو میرے ساتھ اسکے کمرے میں۔ "

 " نہیں داور نے منع کیا ہے کہ آج کوئی اس کے کمرے میں نہ جائے۔ " 

" جب میں تمہیں چلنے کا کہہ رہا ہوں تو بس چلو۔ "

 یہ کہہ کر وہ کمرے سے باہر نکل گئے۔

 گلزار بیگم بھی آنسو پونچھتی ہوئی ان کے پیچھے ہو لیں۔

داور کے کمرے کے پاس پہنچ کر وہ دستک دے کر اندر چلے آئے اور بولے۔

 " کیسا ہے میرا شیر جوان۔ " 

صفدر صاحب کی آواز سن کر داور نے چونک کر آنکھوں سے ہاتھ ہٹائے اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اور ایک ناراض نظر گلزار بیگم پر ڈالی کہ وہ منع کرنے کے باوجود بھی اس کے کمرے میں آ گئے۔ گلزار بیگم اس سے نظریں چرا کر رہ گئیں۔

 اور بولا۔

" ارے بابا سائیں! آپ آئیں بیٹھیں۔ "

 " اگر آج ہم تم سے کچھ مانگیں۔ تو منع تو نہیں کرو گے؟ " 

صفدر صاحب اس کے پاس بیٹھتے ہوئے بولے۔

گلزار بیگم پیچھے صوفے پر بیٹھ گئیں۔

" بابا سائیں۔ یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ آپ کے لئے تو جان بھی حاضر ہے۔ آپ حکم کریں۔ "

 وہ ان کے ہاتھ تھام کر بولا۔

" ہم نے تمہارا رشتہ طے کر دیا ہے۔ "

 داور کو اپنے آس پاس دھماکے ہوتے ہوئے محسوس ہوئے۔

 " صفدر صاحب یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ۔ "

 پیچھے سے گلزار بیگم بولیں۔

 " یہ میرا اور میرے بیٹے کا معاملہ ہے۔ بولو داور کیا کہتے ہو تم۔ " 

وہ گلزار بیگم کو تنبیہہ کر کے داور سے بولے۔

" بابا سائیں کیوں آپ کسی لڑکی کی زندگی برباد کرنا چاہتے ہیں۔ مجھ جیسا انسان جو اندر سے بالکل خالی ہے وہ کسی کو کیا دے سکتا ہے۔ میں کسی معصوم کی بد دعا نہیں لینا چاہتا۔ "

اس نے اپنے گود میں دھرے ہاتھوں کو دیکھ کر جواب دیا۔

" داور کیا وہ ایک لڑکی تمہیں اتنی پیاری ہو گئی ہے کہ تم اس کے پیچھے ہماری برسوں کی محبت کو بھول جائو۔ کیا ہمارا دل نہیں چاہتا تمہاری خوشیاں دیکھنے کا۔ "

" بابا سائیں کچھ وقت نہیں مل سکتا کیا؟ "

 داور خود کو سنبھالتے ہوئے بولا۔

" ارے ابھی صرف بات ہوئی ہے۔ شادی جب تم بولو۔ "

 " ٹھیک ہے۔ جیسے آپ کی مرضی۔ "

 وہ دل پر پتھر رکھ کر بولا۔ 

وہ انہیں مزید دکھ نہیں دینا چاہتا تھا۔

 " مجھے پتا تھا تم منع نہیں کرو گے۔ میرا مان رکھ لو گے۔ پوچھو گے نہیں کون ہے وہ۔ " 

صفدر صاحب اسکا ماتھا چومتے ہوئے بولے۔

" بس آپ جانتے ہیں۔ میرے لئے وہی کافی ہے۔ " 

" پھر بھی جاننا حق ہے تمہارا۔ " 

" اچھا! پھر خود ہی بتا دیں آپ۔ " 

" تم جانتے ہو انہیں۔ وہ اظہار صاحب ہیں ناں اپنے زوار کے دوست کے چاچو انکی بیٹی زوہا۔ " 

" اچھا۔ "

 پہلے تو وہ بےدھیانی میں بول گیا۔

 پر جب اسے بات سمجھ آئی تو وہ اچھل پڑا۔

 " یہ کیا کہہ رہے ہیں بابا سائیں آپ۔ اسکا تو نکاح تھا آج۔ " 

وہ حیرت سے چور لہجے میں بولا یہی حال پیچھے بیٹھی گلزار بیگم کا تھا۔ 

" ہاں تھا۔ پر وہ میرے بیٹے کے نصیب میں لکھی تھی تو اس کا نکاح اور کسی سے کیسے ہوسکتا تھا۔ عین نکاح والے دن اسکا منگیتر غائب ہوگیا۔ پورے خاندان میں انکی بہت بدنامی ہوئی۔ فون آیا تھا انکا۔ گڑگڑارہے رہے تھے کہ میری عزت بچا لو اسی لئے ہاں کردی میں نے۔ اب بتائو شہزادے کب کرنی ہے شادی۔ " 

" جب آپکو صحیح لگے۔ "

 داور اپنی مسکراہٹ  چھپاتے ہوئے بولا۔ 

" چلیں دو سال کا ٹائم دے دیتے ہیں۔ " 

صفدر صاحب مصنوعی سنجیدگی سے بولے۔ 

"کیوں میرے بچے کو تنگ کر رہے ہیں بس ایک مہینے بعد کی تاریخ رکھ لیں۔ مجھے بھی سو تیاریاں کرنی ہیں۔ "

 گلزار بیگم داور کے پاس بیٹھ کر بولیں۔

 " ٹھیک ہے۔ "

 یہ کر صفدر صاحب چلے گئے۔ 

تھوڑی دیر گلزار بیگم بھی اس سے باتیں کرنے کے بعد اس کے ماتھے پر پیار کرکے ہمیشہ خوش رہنے کی دعا دے کر چلیں گئیں۔ 

داور کے ہونٹوں سے مسکراہٹ ہی جدا نہیں ہو رہی تھی یوں لگ رہا تھا جیسے اسے دوبارہ زندگی مل گئی ہو۔ 

                              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسرے طرف گھر میں سب نے زوہا کا مکمل بائیکاٹ کر رکھا تھا اظہار صاحب نے نسرین بیگم کے ذریعے اسے یہ اطلاع پہنچا دی تھی کہ داور کے ساتھ اسکی شادی طے کردی ہے ایک مہینے بعد۔ 

زوہا کے دل میں داور کے لئے نفرت بڑھتی جا رہی تھی۔ 

کیا کیا نہیں سوچا تھا اس نے اپنی زندگی کے لئے۔

داور نے اس کے سارے خواب توڑ دیئے تھے۔

 اس نے سوچ لیا تھا سکون میں اگر وہ نہیں تو داور کو بھی نہیں رہنے دے گی۔

 اسے کھانا کھانے کے لئے بھی باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ 

نسرین بیگم ہی اسے کمرے میں کھانا دے جاتی تھیں۔

 یہ کمرہ اس کے لئے قید خانہ بن کر رہ گیا تھا۔

 رمشا کو بھی عائلہ بیگم نے نیچے آنے اور زوہا سے ملنے سے منع کر دیا تھا۔

 اس کو جان سے زیادہ چاہنے والے اس کی ایک خراش پر تڑپ اٹھنے والے بالکل اجنبی ہو گئے تھے۔

آج وہ اظہار صاحب کو منانے کی ایک آخری کوشش کرنے کے لیے ان کے کمرے میں آئی تھی۔ دروازے کے باہر کھڑے ہو کر اس نے دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے اظہار صاحب کی آواز آئی۔

" آ جائو۔ "

اجازت ملنے پر زوہا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔

" بابا! "

اس نے پکارہ۔

ذوہا کی آواز پر وہ جو کچھ رجسٹر لیے حساب کتاب میں مصروف تھے۔ انہوں نے چونک کر سر اٹھایا اور کرخت آواز میں استفسار کیا۔

" تم یہاں کیا کر رہی ہو۔ بولا تھا نا میں نے تمہیں کہ میں تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا پھر کیوں آئی ہو یہاں۔ "

" بابا ایک بار میری بات سن لیں۔ مجھے ایک بار تو صفائی دینے کا موقع دیں۔ "

وہ گڑگڑائی۔

" مجھے نا تمہاری بات سننی ہے اور نا ہی تمہاری کوئی صفائی چاہیے۔ تم جا سکتی ہو۔ "

اں کا لہجہ درد ہی تھا۔

" بابا پلیز میرا یقین کریں میں نے کچھ نہیں کیا۔ "

اس نے ایک کوشش اور کی۔

" مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔ میں آخری دفعہ بول رہا ہوں تم یہاں سے چلی جائو۔ "

اب کہ وہ دو ٹوک انداز میں گویا ہوئے۔

زوہا کوئی امید نا پا کر شکستہ قدموں سے نا مراد لوٹ گئی۔

                                 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاہ حویلی میں تیاریاں زوروشور سے جاری تھی۔ 

گلزار بیگم کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا۔

 روز وہ شہر جا رہی تھیں خریداری کرنے کے لئے۔ 

وہ چاہتی تھیں زوہا سب کچھ اپنی مرضی سے لے پر اظہار صاحب نے سہولت سے انہیں انکار کر دیا تھا اسی لئے وہ خود ہی خرید رہی تھیں یا کبھی کبھار داور ان کے ساتھ چلا جاتا۔ 

آج بھی وہ داور کے ساتھ جارہی تھیں برات کا سوٹ لینے۔ 

زیور کا جو آرڈر انہوں نے دیا ہوا تھا وہ بھی آج ہی ملنا تھا۔ 

تو انہوں نے آج سوچا آج ہی زوہا کو سوٹ اور زیور دے کر آجائیں گی۔

 شادی میں ایک ہفتہ ہی بچا تھا۔

                                   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نسرین بیگم ابھی زوہا کو کمرے میں سامان دے کر گئی تھیں جو اس کے سسرال سے آیا تھا۔

 سامان دیکھ کر اسکے سارے زخم پھر سے ہرے ہو گئے تھے۔

 اس نے لہنگا اٹھا کر دیکھا جو اپنی قیمت چیخ چیخ کر بتا رہا تھا۔ 

کبھی اس کے دل میں خواہش تھی کہ وہ اپنی شادی پر ڈیزائنر لہنگا پہنے گی۔ 

پر آج اس کی خواہش پوری ہوئی بھی تو کب! جب اس کے دل میں کوئی خواہش نہیں رہی تھی۔

 اسے بے اختیار رمشا یاد آئی کیا کیا نہیں سوچا تھا انہوں نے ایک دوسرے کی شادی کے لئے۔ 

پر کون جانتا تھا کہ نوبت یہاں پہنچ جائے گی۔ 

کہ وہ اس کی شادی میں شریک بھی نہیں ہو سکے گی۔

 وہ بے آواز رو رہی تھی۔ 

اب تو اس کے آنسو بھی ختم ہونے لگے تھے رو رو کر۔

 عائلہ بیگم نے سارے خاندان میں یہ بات پھیلا دی تھی کہ اسے ایک امیر لڑکا مل گیا تو وہ فائز سے کیسے شادی کرتی۔ 

عائلہ بیگم کی باتوں پر مہر لگ جائے گی۔ جب وہ یہ سب پہنے گی۔

 پر اسے لوگوں کی باتوں کی فکر نہیں تھی کیونکہ اس پر تو اس کے ماں باپ ہی نے یقین نہیں کیا تھا لوگ تو دور ہیں پھر۔

 اس کے دل میں موجود داور کے لئے نفرت کے درجے اور بڑھ گئے۔

                                  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آخر کار مہندی کا دن آن پہنچا۔

 پوری حویلی کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔ مہندی کی مناسبت سے پوری حوہلی کی دیواروں پر گیندے کے پھولوں کی لڑیاں لگائی گئی تھیں۔ حویلی کے لان میں ہی ایک جانب اسٹیج بنایا گیا تھا۔

داور سفید کلف لگے سوٹ میں گلے میں گرین دوپٹہ مفلر کی طرح ڈالے شہزادہ لگ رہا تھا۔

 ہونٹوں پہ مدھم سی مسکراہٹ تھی جو اس کی اندرونی خوشی کو ظاہر کر رہی تھی۔

 گلزار بیگم تو بار بار اس کی نظر اتار رہی تھیں۔ 

داور کی مسکراہٹ صفدر صاحب کے دل کو ٹھنڈک پہنچا رہی تھی۔

 خلاف معمول وہ ہر چھوٹے بڑے سے مسکرا کر مل رہے تھے۔ 

دوسری طرف اظہار  صاحب سادگی سے شادی کرنا چاہتے تھے پر دنیا دکھاوے کے لئے انہیں ہر کام شاندار کرنا پڑرہا تھا۔

 زبردستی کی مسکراہٹ بھی ہونٹوں پر لانی پڑ رہی تھی۔

زوہا پیلے اور ہرے سوٹ جس پر خوبصورت کام ہوا تھا زیب تن کئے ہوئے تھی۔ 

پھولوں کے زیور پہنے ہوئے بہت ہی خوبصورت لگ رہی تھی۔

 سوگواریت نے اس کے حسن کو چار چاند لگا دیئے تھے۔ مہندی کا رنگ بہت گہرا چڑھا تھا اسکا

 فنکشن لائونج میں ہی منعقد کیا گیا تھا۔ 

ایک طرف صوفے کو پھولوں سے سجایا گیا تھا۔ قالین اور گائو تکیے لگا کر مہمانوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا۔ 

عائلہ بیگم نہ ہی خود آئی تھیں اور نہ ہی رمشا کو آنے دیا تھا۔

زوہا کی نظریں بار بار سیڑھیوں کی جانب اٹھ رہی تھیں کہ شاید رمشا آجائے پر اسے ہر دفعہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

 نسرین بیگم پورے فنکشن میں صرف ایک دفعہ آکر بیٹھی تھیں اس کے پاس وہ بھی صرف مہندی لگانے کے لئے۔ 

باقی کا پورا فنکشن یا تو وہ مہمانوں کو سنبھالتی رہیں یا پھر مختلف کاموں کا بہانہ کر کے ادھر ادھر لگی رہیں۔ 

اظہار صاحب نے تو یہ کہہ کر آئے ہی نہیں تھے کہ 

" عورتوں کا فنکشن ہے اس میں میرا کیا کام۔ " 

                                 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج زوہا کی بارات تھی۔ بیو ٹیشن کو گھر ہی بلوا لیا گیا تھا جب کہ رخصتی ہال سے ہونی تھی۔ 

" ماشاءاللہ۔ " 

بیو ٹیشن کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ 

" آپ تو بہت حسین لگ رہی ہیں۔ آپ کے دولہے تو ہوش ہی کھو بیٹھیں گے آج اپنے۔ " 

وہ اس کی بات پر جبرا مسکرائی اور نگاہ اٹھا کر شیشے میں دیکھا۔ 

ایک دفعہ تو وہ بھی حیران رہ گئی خود کو دیکھ کر۔ اسے یقین ہی نہیں آرہا تھا خود پر۔

 اس قدر ٹوٹ کر روپ آیا تھا آج اس پر۔ 

" تھینکس۔ " 

زوہا کے منہ سے یہ ایک لفظ ادا ہوا۔

 " ہوگئی تیار تو۔ " 

نسرین بیگم بولتی ہوئی اندر داخل ہوئیں پر زوہا دوہا کو دیکھ کر انکی چلتی زبان کو بریک لگ گیا۔

 وہ بے اختیار اس کی طرف بڑھیں اور اسے سینے سے لگا لیا۔

 لاکھ ناراضگی سہی ان کی زوہا سے پر آخر کو تھیں تو ایک ماں ہی نہ۔ اور ہر ماں کی خواہش ہوتی ہے اپنی بیٹی کو دولہن کر روپ میں دیکھنے کی۔

 اس کا ماتھا چوم کر نظر کا ٹیکا لگایا۔

 اور اسے ہمیشہ خوش رہنے کی دعا دی۔

                              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسری طرف داور بھی بلیک شیروانی پہنے کسی سے کم نہیں لگ رہا تھا۔ 

حویلی کے سامنے شاندار آتش بازی کا مظاہرہ کیا جا رہا تھا۔ 

فائرنگ بھی زور و شور سے جاری تھی۔

 پوری فضا اس وقت گولیوں اور پٹاخوں کے شور سے گونج رہی تھی۔

 دل کھول کر پیسہ بھی لٹایا جا رہا تھا۔

 آخر کو بڑی حویلی کے اکلوتے وارث کی شادی تھی۔ 

 صفدر صاحب کے اشارہ کرنے پر داور جا کر پھولوں سے سجی گاڑی میں بیٹھ گیا پیچھے صفدر صاحب اور گلزار بیگم بیٹھ گئے۔

 باقی سب بھی اپنی اپنی گاڑیوں کی جانب بڑھ گئے۔ 

اسطرح شہزادہ اپنے اس شاندار قافلے کے ساتھ اپنی شہزادی لانے کے لئے چل پڑا۔

                                 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بارات ہال کے باہر پہنچ چکی تھی۔

 سڑک پر آتے جاتے لوگ رک رک کر اس بارات کو دیکھ رہے تھے۔

 جس میں اسلحے کی نمائش پر پابندی ہونے کے باوجود دل کھول کر فائرنگ کی جا رہی تھی۔

 صفدر صاحب کے کچھ بڑے لوگوں سے تعلقات تھے اور کچھ پیسے دے کر انہوں نے پولیس کا منہ بند کروا دیا تھا۔

 تقریبا آدھے گھنٹے کی فائرنگ اور آتشبازی کے بعد بارات ہال کے اندر داخل ہوئی۔

 عورتوں کو پہلے ہی بھیج دیا گیا تھا اندر۔ 

زوار کا ارادہ آج فائز سے مل کر ساری بات کلیئر کرنے کا تھا۔ کیونکہ فون وہ اس کا اٹھا نہیں رہا تھا پر یہاں آ کر اسے معلوم ہوا کہ وہ تو شادی میں شریک ہی نہیں ہوا۔

                                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زوہا اپنی کزنز کے ساتھ برائیڈل روم میں بیٹھی تھی اور رمشا کو یاد کر رہی تھی۔ جو اس سے دور دور ہی تھی۔

 اس کی شادی کے فنکشن میں صرف اس کے تایا تائی اور رمشا ہی شامل ہوئے تھے۔ فائز شہر سے باہر تھا اور مائز کو گھر پر ہی روک دیا تھا عائلہ بیگم نے۔

اس کی کزنز اسے چھیڑ رہی تھیں پر اس کے دل میں کوئی جذبات نہ تھے۔ 

وہ زبردستی اس کی باتوں پر مسکرا رہی تھیں۔

 ابھی سب باتوں میں مشغول تھے کہ بارات آنے کا شور اٹھا ساری لڑکیاں بارات دیکھنے باہر کی جانب بڑھ گئیں۔

کچھ دیر بعد ان کی واپسی ہوئی تو سب کی زبان پر دولہے کے چرچے تھے۔

کچھ دل اسکی قسمت پر رشک کر رہے تھے جبکہ کچھ حسد سے جل رہے تھے۔

 اس کی ایک کزن داور کی ویڈیو بنا کر لائی تھی جس میں وہ گاڑی سے اتر رہا تھا۔

 اس نے موبائل زوہا کے آگے کردیا۔ زوہا نے ایک نظر موبائل کو دیکھا اور نظر جھکالی۔ 

سب اسکی اس حرکت کو اسکی شرم و حیا سمجھ کر اسے تنگ کرنے لگی۔

اتنے میں برائیڈل روم کا دروازہ بجا۔ ایک لڑکی نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تو اظہار اور انوار صاحب کھڑے تھے مولوی کو لے کر۔

 نسرین بیگم بھی آگئیں۔ انھوں نے سندھی کڑھائی  کی چادر سے زوہا کا گھونگھٹ کر دیا۔

سب آکر اس کے پاس رکھی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔

 نسرین بیگم اس کے ساتھ بیٹھ گئیں۔

 " مولوی صاحب شروع کریں۔ "

 اظہار صاحب گویا ہوئے۔

 " زوہا بنت اظہار احمد آپ کو حق مہر پچاس لاکھ روپے سکہ رائج الوقت کے عوض داور علی شاہ ولد صفدر علی شاہ کے نکاح میں دیا جاتا ہے ۔ کیا آپکو قبول ہے؟ "

 اجازت طلب کی گئی۔

" زوہا جواب دو۔ "

 نسرین بیگم نے اس کو ساکت بیٹھے دیکھ کر بولا۔

 " قبول ہے۔ " 

یہ دو لفظ ادا کرتے ہوئے اسے ایسا لگا جیسے کسی نے خنجر اس کے دل میں اتار دیا ہو۔

 " زوہا بنت اظہار احمد آپ کو حق مہر پچاس لاکھ روپے سکہ رائج الوقت کے عوض داور علی شاہ ولد صفدر علی شاہ کے نکاح میں دیا جاتا ہے۔ کیا آپکو قبول ہے؟ "

 دوبارہ پھر اجازت طلب کی گئی۔

" ق۔قبول ہے۔ " 

اسے لگا خنجر واپس نکال کر دوبارہ اس کے دل میں پیوست کر دیا گیا ہو۔

" زوہا بنت اظہار احمد آپ کو حق مہر پچاس لاکھ روپے سکہ رائج الوقت کے عوض داور علی شاہ ولد صفدر علی شاہ کے نکاح میں دیا جاتا ہے ۔ کیا آپکو قبول ہے؟ " 

ایک دفعہ پھر پوچھا گیا۔

 " قبول ہے "

 ایک آخری وار اور اس کے دل کا خاتمہ اور سب ختم ہو گیا۔ جسم سے جسم نکال لی گئی۔ اب اس گھر سے جو رخصت ہو گا وہ ایک خالی جسم ہو گا۔ کو جس میں صرف انتقام ہے۔ اظہار صاحب اور انوار صاحب مولوی کے ساتھ باہر چلے گئے۔ ورنہ اس موقع پر ایک باپ اپنی بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھتا ہے اسے سینے سے لگاتا ہے اسے خود سے الگ کر کے ہمیشہ مضبوط رہنے کی ہمت دیتا ہے کہ وہ آنے والے تمام مصائب کا بہادری سے مقابلہ کر سکے۔

                            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اظہار صاحب اور انوار صاحب کے جانے کے بعد مشعل نے ذوہا کی چادر ہٹائی جو اسے نکاح کے وقت اڑائی تھی اور بولی۔

 " اف اللہ! زوہا بھابھی کتنی پیاری لگ رہی ہیں آپ تو۔ ہم تو پہچانے ہی نہیں آپ وہی زوہا ہیں۔ ویسے داد دینی چاہیئے آپکو تیار کرنے والی کی۔ " 

مشعل شرارتی انداز میں گویا ہوئی۔

 زوہا نے اسکی بات پر صرف مسکرانے پر اکتفا کیا۔

" یار چیک کرائو تم ہماری زوہا ہی ہو یا تم زبان گھر پر بھول آئی ہو۔ اور یہ رمشا کو کیا ہوا ہے وہ کیوں اتنی دور دور ہے۔ " 

مشعل اس کے قریب جھک کر بولی کیونکہ جب وہ پہلی بار ان سے ملی تھی تو ان کی دوستی دیکھ چکی تھی۔

مشعل کی بات نے زوہا نے چونک کر اس کی طرف دیکھا کیونکہ اس کی باتوں سے تو یہی لگ رہا تھا کہ مشعل سارے واقعے سے انجان ہیں۔

اس کے دل میں موجود داور کے لیے نفرت کے گراف میں ایک درجہ اور بڑھ گیا۔ عورتیں کتنی معصوم ہیں اس گھر کی اور مرد کیسے شیطان صفت ہیں۔

 وہ اب چاہ کر بھی اپنا رویہ اس کے ساتھ خراب نہیں کر سکتی تھی۔ اسے پہلے ہی ملاقات میں اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ صاف دل کی بے ضرر سی لڑکی ہے۔ اور اب تو اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ سارے معاملے سے بے خبر ہے۔

" ماشااللہ ۔ اللہ نظر بد سے بچائے " 

گلزار بیگم نے آگے بڑھ کر اسکا ماتھا چوما۔

" چلیں اب زوہا کو لے کر باہر چلیں۔ مییرا بچا کب سے انتظار کر رہا ہے " 

گلزار بیگم نسرین بیگم سے بولیں۔

 زوہا کا موڈ جو ان دونوں کی وجہ سے تھوڑا بہت خوشگوار ہوا تھا داور کے ذکر پر اسکا حلق تک کڑوا ہو گیا۔

                             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

داور نے ایجاب و قبول کے مراحل طے کر لئے تھے۔

 اب وہ شہزادہ اسٹیج پر بیٹھا بے صبری سے اپنی شہزادی کا انتظار کر رہا تھا کہ یکلخت ہال کی ساری لائٹیں بند ہو گئیں۔

 اور ایک اسپاٹ لائٹ جلی جو اسکی شہزادی کو فوکس کئے ہوئی تھی۔

اسے دیکھ کر وہ پلکیں جھپکانا بھول گیا کہ وہ لگ ہی اتنی حسین رہی تھی۔ اسے اپنی قسمت پر رشک آنے لگا۔

 وہ سہج سہج کر قدم اٹھاتی ہوئی اسٹیج کے پاس آ کھڑی ہوئی وہ ابھی بھی مدہوش سا اسے تکے جا رہا تھا کہ کیمرہ مین کی آواز اسے ہوش میں لائی۔

" سر آپ میم کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اسٹیج پر لے کر آئیں۔ "

 آں ہاں۔ " "

 اس نے زوہا کے آگے ہاتھ بڑھایا۔

زوہا نے اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو دیکھ کر ایک نظر نسرین بیگم پر ڈالی انکا مثبت اشارہ پا کر زوہا نے جھجکتے ہوئے اپنا ہاتھ داور کے ہاتھ میں دے دیا۔

 داور نے نرمی سے اس کے ہاتھ پر دبائو ڈال کر اسے اسٹیج پر آنے میں مدد دی۔

 وہ جا کر اسٹیج پر رکھے کائوچ پر بیٹھ گئے۔

وہ ساتھ میں بیٹھے صحیح معنوں میں چند سورج کی جوڑی لگ رہے تھے۔

فوٹو سیشن اور کچھ رسموں کے بعد آخر کار وہ لمحہ آہی گیا جس میں ہر لڑکی کی زندگی کا سب سے مشکل مرحلہ طے کرنا پڑتا ہے۔

بچپن سے لے کر جوانی جن کے ساتھ گزاری ہوتی ہے ، جس میں انکی جان بستی ہے انہیں چھوڑ کر انجان لوگوں میں جا کر بسنا ہوتا ہے۔

 نسرین بیگم نے اسے ساتھ لگا کر اسٹیج سے نیچے اتارا۔ اذان پیچھے اس پر قرآن کا سایہ کئے ہوئے چل رہا تھا۔ اظہار صاحب نے آگے بڑھ کر اسکے سر پر ہاتھ رکھا۔ 

زوہا جو کب سے خود پر ضبط کے کڑے پہرے بٹھائے ہوئے تھی یہاں آکر اسکا ضبط ٹوٹ گیا اور وہ باپ کے سینے سے لگ کر رو دی۔

 اظہار صاحب اس سے لاکھ ناراض صحیح پر تھی تو وہ ان کی لاڈلی جس کی بچپن سے آج تک کوئی بات نہیں ٹالی تھی۔

 انہوں نے بھی آبدیدہ ہو کر اسے سینے میں بھینچ لیا۔ اسکے بعد تو زوہا اس شدت سے روئی کہ اس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ 

باپ بیٹی کے محبت کے اس مظاہرے کو دیکھ وہاں موجود لوگوں کی بھی آنکھیں نم ہوگئیں۔

 آخر اظہار صاحب نے اسے خود سے الگ کیا اور اسے لئے باہر کی جانب بڑھ گئے۔

 گاڑی میں زوہا کے ایک جانب مشعل تھی اور دوسری جانب گلزار بیگم۔ 

داور آگے ڈرائیور کے ساتھ براجمان تھا۔

جبکہ صفدر علی شاہ دوسری گاڑی میں تھے۔

 زوہا مسلسل رو رو کر خود کو ہلکان کئے جا رہی تھی۔

 مشعل اور گلزار بیگم اسے چپ کروا رہے تھے پر اسکے آنسو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ آگے بیٹھے داور کے دل پر گر رہے تھے آنسو گر رہے تھے پر وہ مشعل اور گلزار بیگم کی موجودگی کی وجہ سے خاموش تھا۔

                            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ایک درمیانے درجے کے ہوٹل کا کمرہ تھا جہاں کوئی نیچے زمین پر لیٹا اپنی بکھری ہوئی محبت کی کرچیاں سمیٹنے میں لگا ہوا تھا۔ محبت کے بچھڑنے سے زیادہ اعتبار ٹوٹنے کا ماتم کیا جا رہا تھا۔ جس انسان کو بچپن سے اپنے دل کے قریب رکھا جس کی شخصیت کے ایک ایک پہلو سے آپ کی واقفیت ہو ایسے میں اچانک ایک ایسی بات سامنے آئے جو آپ کے دل کو ٹکڑوں میں بانٹ دے اس وقت جو ایک انسان محسوس کرتا ہے وہی اس وقت فائز کی کیفیت تھی۔ وہ شہر سے باہر جانے کا بول کر یہاں ایک ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔ بار بار اسے وہ منظر یاد آرہا تھا جب صفدر علی شاہ کے غنڈوں نے اسے اٹھایا تھا۔

فائز ایمرجنسی کیس نمٹانے کے بعد پارکنگ میں آیا تھا کہ ایک آدمی بھاگتا ہوا اس کے پاس آیا۔

" وہ ادھر گاڑی میں میری بیوی ہے اس کی طبیعت بہت خراب ہے پلیز آپ اسے آ کر ایک بار دیکھ لیں۔ آپ کا بہت احسان ہو گا۔ "

وہ ہاتھ جوڑتا ہوا بولا۔

" دیکھیں آپ ہاتھ مت جوڑیں۔ میں دیکھتا ہوں آپ کی بیوی کو چلیں۔ "

یہ کہہ کر وہ اس کے پیچھے چل دیا۔

" کہاں ہیں آپ کی بیوی؟ "

وہ گاڑی کے پاس پہنچ کر بولا۔ تبھی اچانک پیچھے سے کسی نے اس کے منہ پر رومال رکھا۔ اس نے مزاحمت کرنی چاہی پر اس کا ذہن تاریکیوں میں ڈوبنے لگا اور وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہوگیا۔

اسے جب ہوش آیا تو خود کو ایک تاریک کمرے میں کرسی پر موجودموجود پایا۔ اس کے دونوں ہاتھ کرسی کے ہتھوں سے بندھے ہوئے تھے جب کہ پاوں آپس میں بندھے ہوئے تھے۔ کمرے میں ایک گول روشن دان بنا ہوا تھا جس سے ہلکی سی روشنی کمرے میں آ رہی تھی۔

کہ ایک چرچراہٹ کے ساتھ کمرے کا دروازہ کھلا۔ دروازہ کھلنے کے ساتھ ہی پورا کمرا روشنی میں نہا گیا۔ ایک دم سے روشنی سے فائز کی آنکھیں روشنی سے مانوس نا ہو سکی۔ تھوڑی دیر بعد جب وہ آنکھیں کھولنے کے قابل ہوا تو اس نے دیکھا سامنے صفدر علی شاہ ایک کرسی پر براجمان تھے۔ ان کے ساتھ چار پانچ گن مین کھڑے تھے۔

" آپ! آپ نے مجھے یہاں کیوں بلوایا ہے اور یہ مجھے ایسے کیوں باندھ رکھا ہے؟ "

اس نے حیرت سے انہیں دیکھ کر اپنے بندھے ہوئے ہاتھوں کی طرف اشارہ کیا۔

" ہم نے یہاں تمہیں اپنی مرضی سے نہیں بلایا۔ تمہیں یہاں بلانے کا مقصد تمہارے کسی اپنے کو اس کی خوشی دلوانا ہے۔ "

وہ اطمینان سے بولے۔

" آپ صاف صاف بتائیں کیا بات ہے پہیلیاں کیوں بجھوا رہے ہیں۔ "

" تو ٹھیک ہے ہم صاف بات کرتے ہیں۔ تمہاری کزن زوہا اور میرا بیٹا داور علی شاہ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ تم ان کے درمیان سے ہٹ جائو۔ "

" دماغ خراب ہو گیا ہے آپ کا۔ زوہا تو داور کو جانتی تک نہیں۔ میں چھوڑوں گا نہیں آپ کے بیٹے کو۔ "

وہ ایک دم طیش میں آکر بولا۔

" نہیں نہیں غصہ صحت کے لیے اچھا نہیں ہوتا۔ بس یہ دعا کرو ہمیں غصہ نا آ جائے۔ ہمارے بیٹے کے خلاف بولنے کی پہلی غلطی تو ہم معاف کر رہے ہیں۔ آئندہ ایسی غلطی نہیں ہونی چاہیے۔ اور زوہا کیسی تو اس کا ثبوت ابھی تمہاری مہمان نوازی کے لیے کچھ لوگ آ رہے ہیں وہ بتا دیں گے تمہیں۔ "

یہ کہہ کر وہ باہر چلے گئے۔

فائز نے جب وہ تصویریں دیکھیں تو اس کو رمشا کی بات یاد آ گئی جب وہ بول رہی تھی کہ زوار کی تائی زوہا کو بہو نا بنالیں۔ یعنی زوہا داور کو پہلے سے جانتی تھی اور وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند بھی کرتے ہیں۔

                            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حویلی پہنچنے پر جب وہ گاڑی سے اتری تو دونوں جانب ملازمائیں پھولوں کے تھال لے کر انکے استقبال کے لئے کھڑی تھیں۔

حویلی کے دروازے پر پہنچ کر ان دونوں سے کالے بکروں کو ہاتھ لگوا کر صدقے کے لیے بھیج دیا گیا۔

اس کے بعد وہ اندر داخل ہوئے۔

 اندر سے حویلی کو اور بھی شاندار انداز میں سجایا گیا تھا۔ 

اسے لے جا کر لائونج میں رکھے صوفے پر بٹھایا گیا۔ مشعل نے اسکی چادر ہٹا دی۔

 گائوں کی ساری عورتیں حویلی کی بہو کو دیکھنے کے لئے جمع تھی۔

 زوہا کو دیکھ کر گائوں کی ساری عورتوں کی نظروں میں ستائش ابھری۔ 

ساری عورتیں حسرت سے خوبصورت لباس اور بیش قیمت زیورات پہنے اس مومی گڑیا کو دیکھ رہی تھیں۔

 ان کے مسلسل دیکھنے پر اسے الجھن ہونے لگی۔

 " مشعل یہ مجھے ایسے کیوں دیکھ رہی ہیں۔ مجھے گھبراہٹ ہو رہی ہے۔  "

 زوہا پاس بیٹھی مشعل کے کام میں آہستہ سے بولی۔ 

" یار تم لگ ہی اتنی حسین رہی ہو کہ وہ نظریں نہیں ہٹا پا رہی تم سے۔ ویسے سوچو جب انکا یہ حال ہے تو میرے بھائی کا کیا ہوگا۔ "

 مشعل نے اسے چھیڑا۔

 " بدتمیزی مت کرو تم۔ " 

زوہا نے اسے گھورا۔

 " اچھا یہ رسموں کے لئے بیٹھی ہیں وہ دیکھ کر ہی جائیں گی۔ میں بھائی کو دیکھتی ہوں۔ " 

یہ کہہ کر مشعل جانے لگی تو زوہا نے اسکا ہاتھ پکڑ کر روکا۔

 " یار مشعل میں تھک گئیں ہوں۔ بعد میں کر لیں گے یہ رسمیں۔ "

 وہ داور کا سن کے بولی۔

"زوہا بس تھوڑی دیر لگے گی۔ میں بس ابھی آئی۔ " 

یہ کہہ کر مشعل چلی گئی۔

 تھوڑی دیر بعد داور کے ساتھ اسکی واپسی ہوئی۔

تب تک گلزار بیگم بھی آچکی تھیں۔

 داور اسکے ساتھ آکر بیٹھ گیا۔

صوفہ چھوٹا ہونے کی وجہ سے دونوں کے کندھے آپس میں مل رہے تھے۔

 زوہا دوپٹہ ٹھیک کرنے کے بہانے دوسری جانب کھسکی تو داور بھی نا محسوس انداز میں اس کے ساتھ اور زیادہ جڑ کر بیٹھ گیا۔

 زوہا اب چاہ کر بھی دور نہیں ہو سکتی تھی ایک تو صوفہ چھوٹا تھا اور دوسرا اسکا دوپٹہ داور کے نیچے دب گیا تھا۔

اللہ اللہ کرکے رسمیں تمام ہوئیں تو داور کھڑا ہوا۔

" اماں سائیں میں دوستوں کے پاس جا رہا ہوں۔ تھوڑی دیر تک آتا ہوں۔ " 

" داور بیٹے پر یہ کونسا ٹائم ہے جانے کا۔ "

 گلزار بیگم نے اعتراض کیا۔

 " اماں سائیں وہ دوستوں نے میری شادی کی خوشی میں محفل رکھی ہے اگر نہیں گیا تو وہ ناراض ہو جائیں گے۔ بس تھوڑی دیر میں آ جاوں گا۔ فکر مت کریں آپ۔ " 

وہ ان کو مطمئن کرتا وہاں سے چل دیا۔ 

" مشعل جائو دولہن کو اسکے کمرے میں چھوڑ آئو اور کچھ دودھ پھل بھی دے دو اسے۔ "

 " جی اچھا۔ "

مشعل اسے داور کے کمرے میں چھوڑ کر جا چکی تھی۔

                               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

داور سرشار سا اپنے کمرے کے باہر کھڑا تھا۔ 

ہینڈل گھما کر دروازہ کھولا اور ہزار ارمان دل میں لئے کمرے میں داخل ہوا۔

بیڈ کی جانب دیکھا تو وہ دشمن جان کمبل لپیٹے سوئی ہوئی تھی۔ 

اسکے دل میں چھن سے کچھ ٹوٹا تھا۔ 

وہ جا کر صوفے پر بیٹھ گیا اور اس کو دیکھنے لگا جو اس کے ارمانوں کا خون کرکے خود خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھی۔

 وہ اٹھ کر اس کے پاس گیا اور گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔ زوہا ایک ہاتھ گال کے نیچے رکھے بچوں کے سے انداز میں سوئی ہوئی بہت معصوم لگ رہی تھی۔

 بال سارے چہرے پر آئے ہوئے تھے۔

اس نے ہاتھ بڑھا کر اسکے بالوں کو پیچھے کیا اور اس پر جھکنے لگا پر پھر ایک جھٹکے سے اٹھا اور واش روم کی جانب بڑھ گیا کیونکہ وہ اسکی بے خبری کا فائدہ نہیں اٹھانا چاہتا تھا۔

 کچھ دیر بعد وہ چینج کرکے باہر آیا اور بیڈ کی دوسری جانب جا کر لیٹ گیا۔

ابھی اسے لیٹے چند لمحے ہی ہوئے تھے کہ وہ کچھ گیلا محسوس کر کے اٹھا تو دیکھا وہ پوری سائیڈ گیلی ہوئی تھی۔

 اس نے زوہا کو دیکھا اسے حیرت ہوئی کہ یہ معصوم صورت ایسے کارنامے بھی انجام دے سکتی تھی۔

مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق وہ اپنا تکیہ اٹھا کر صوبے کی جانب بڑھ گیا۔

 یہ تو شکر تھا کہ صوفہ بڑا تھا جو وہ آرام سے لیٹ گیا۔

وہ زوہا کے اس رویے کے پیچھے کی وجہ کو سوچنے لگا پر کوئی سرا اس کے ہاتھ نہ لگا۔

یہی سوچتے سوچتے نا جانے کب وہ نیند کی وادی میں اتر گیا۔

                                 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کو دیر سے سونے کے باوجود زوہا کی آنکھ فجر کی اذان کے ساتھ کھل گئی۔

آنکھ کھلنے کے فورا بعد تو اسے سمجھ ہی نہیں آیا کہ وہ کہاں ہے آہستہ آہستہ اس کے حواس بحال ہوئے تو اسے سب یاد آگیا۔

کمرے میں چاروں طرف نظر گھمانے پر اس نے سوئے ہوئے داور کو دیکھا۔

وہ لمبا چوڑا مرد صوفے پر بے ترتیب انداز میں پڑا تھا۔

 پھر وہ اٹھی اور وضو کرکے نماز ادا کرنے کے لئے کھڑی ہوگئی۔

کمرے میں روشنی ہوجانے پر اور شور سے داور کی آنکھ کھل گئی۔

وہ اٹھ کر بیٹھنے لگا کہ درد کی ایک لہر اسکی گردن سے ہوتی ہوئی ریڑھ کی ہڈی تک پہنچ گئی۔

وہ جو ہمیشہ نرم بستر پر سویا تھا اس صوفے کی بے آرامی کو اسکا جسم برداشت نہیں کر پایا تھا۔

خیر وہ اٹھا اور واش روم میں گھس گیا۔

واپس آیا تو زوہا اسے کہیں بھی نظر نہیں آیا کہ اسکی نظر گیلری کے کھلے ہوئے دروزے پر پڑی۔

وہ زوہا سے بات کرنے کے ارادے سے آگے بڑھا پر اسے یہ وقت مناسب نہیں لگا اور وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔

                                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تقریبا سات بجے کے قریب داور واپس آیا۔

زوہا سادہ سا سوٹ پہنے بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی۔

" آپ کپڑے بدل کر تیار ہو جائیں پھر ہم ناشتے کے لئے چلتے ہیں۔ " 

داور اسے مخاطب کرکے بولا۔

 " اتنی جلدی۔ " 

زوہا حیرانی سے اسکی جانب دیکھتی ہوئی بولی۔

 " یہ گاوں ہے۔ یہاں سب سحر خیز ہوتے ہیں۔ " 

داور نے ہلکے پھلکے انداز میں جواب دیا۔

پر زوہا کو اسکا لہجہ طنزیہ محسوس ہوا۔

وہ بغیر کوئی جواب دیئے ڈریسنگ روم کی جانب بڑھ گئی۔

پیچھے موجود داور کی سوچوں کی ڈور کو مزید الجھا گئی۔

تھوڑی دیر بعد جب وہ واپس کمرے میں آئی تو اسکن اور پنک امتزاج کا کڑھائی والا سوٹ پہنا ہوا تھا۔

 ہونٹ پنک لپ اسٹک سے سجے تھے۔

 داور کی نظر جب اس پر پڑی تو پلٹنا بھول گئی۔

 " چلیں۔ " 

زوہا کی آواز اسے ہوش میں لائی۔

 " ہاں چلو۔ "

یہ کہہ کر باہر کی جانب بڑھ گیا۔ زوہا بھی اسکے پیچھے چل دی۔ پھر کچھ یاد آنے پر وہ ایک دم سے رہا اور بولا۔

" ایک منٹ! میرے ساتھ آئیں یہاں۔ "

یہ کہہ کر وہ اس کا ہاتھ تھام کر ڈریسنگ کے پاس لے گیا۔ پھر اس کا ہاتھ چھوڑ کر دراز میں سے کچھ نکالنے لگا۔

" یہ آپ کی منہ دکھائی۔ دینی تو رات کو ہی تھی پر آپ نے موقع نہیں دیا۔ اس لیے ابھی دے رہا ہوں۔ "

وہ اس کا بایاں ہاتھ تھام کر اس کے کچھ سمجھنے سے پہلے اسے انگوٹھی پہنا چکا تھا۔ زوہا نے جواب دیئے بغیر جلدی سے ہاتھ چھڑایا اور باہر کی طرف چل دی۔ داور بھی بالوں میں ہاتھ پھیرتا اس کے پیچھے ہو لیا۔

                               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دونوں آگے پیچھے لائونج میں داخل ہوئے۔ 

مشعل اور گلزار بیگم وہاں موجود تھیں۔ 

" اسلام و علیکم اماں سائیں۔ " 

داور نے بلند آواز میں سلام کیا۔

اور گلزار بیگم کے آگے جھکا۔

" وعلیکم اسلام۔ ہمیشہ خوش رہو۔ "

 گلزار بیگم نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔

 زوہا بھی داور کی تقلید میں گلزار بیگم کو سلام کرتی ہوئی انکے سامنے جھکی۔

 انہوں نے زوہا کی پیشانی چومتے ہوئے اسے دعائوں سے نوازا۔

اسکے بعد جا کر وہ مشعل کے ساتھ بیٹھ گئی۔

 لاشعوری طور پر وہ اپنے گھر والوں کا انتظار کر رہی تھی۔

دل میں ابھی بھی امید تھی کہ اسکے گھروالے سسرال میں اسکا مان رکھیں گے۔

ابھی وہ سوچوں میں گم تھی کہ ملازمہ نے ناشتہ لگ جانے کی اطلاع دی۔

" چلو ناشتہ کرلیں۔ " 

گلزار بیگم بولتی ہوئی کھڑی ہوئیں۔ 

زوہا یہ بھی نا کہہ سکی کہ میرے گھر والوں کا انتظار کرلیں اور چپ چاپ ناشتہ کرنے چلدی۔

                             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ولیمے میں وہ سلور کلر کی میکسی پہنے ماہر ہاتھوں کے گئے میک اپ میں بہت حسین لگ رہی تھی۔

تقریب عروج پر تھی پر اسکے گھر والے ابھی تک نا پہنچے تھے۔

تقریب کا انعقاد حویلی کے لان میں ہی کیا گیا تھا۔

لان کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصہ مردوں اور ایک حصہ عورتوں کے لئے مختص کر دیا گیا تھا۔

گلزار بیگم اور مشعل سب مہمانوں نے زوہا کا تعارف کروا رہی تھیں۔

داور مردوں کی سائیڈ پر تھا۔

ابھی ملنے ملانے کا سلسلہ جاری تھا کہ اسکے گھر والوں کی آمد ہوئی۔

انوار صاحب کی فیملی سے صرف وہی شریک ہوئے تھے۔ اظہار صاحب اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر مردوں والے حصے کی طرف بڑھ گئے۔

نسرین بیگم نے اسے گلے لگایا۔ زوہا کی آنکھوں میں میں آنسو آگئے جنہیں بڑی مشکل سے اس نے چھپایا۔ 

" اللہ نظر بد سے بچائے۔ "

انہوں نے زوہا سے الگ ہو کر اسے دعا دی۔

اور پھر گلزار بیگم انہیں لے گئیں مہمانوں سے ملانے کے لئے۔

  واپسی پر کسی نے بھی زوہا کو ساتھ چلنے کا نہیں بولا اور اظہار صاحب تو اس سے ملے بغیر ہی چلے گئے۔

 اسی طرح ولیمے کی تقریب بھی اختتام کو پہنچی۔

                  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

داور جب کمرے میں داخل ہوا تو زوہا سنگھار میز کے سامنے کھڑی اپنی جیولری اتار رہی تھی۔

 وہ چلتے ہوئے اس کے پیچھے جا کھڑا ہوا۔

" اس رویے کی وجہ جان سکتا ہوں تمہارے؟ "

 داور کی آواز پر زوہا کے جیولری اتارتے ہاتھ رکے۔

 " میں آپکو جوابدہ نہیں ہوں۔ "

 یہ کہہ کر وہ دوبارہ اپنے کام میں مگن ہوگئی۔

 " کیوں جوابدہ نہیں ہو۔ بیوی ہو تم میری۔ نکاح ہوا ہے ہمارا۔ "

وہ اسکا رخ اپنی جانب موڑتا ہوا بولا۔

" نکاح ہوا ہے۔ خریدا نہیں ہے آپ نے مجھے۔ آپ جاگیرداروں کا مسئلہ یہی ہے۔ آپ اپنی بیوی کو بیوی نہیں بلکہ اپنی زر خرید غلام مانتے ہیں۔ "

 وہ غصے سے پھنکاری۔

 " صرف ایک ہی دن میں میرے کونسے رویے نے تمہیں یہ بتا دیا کہ میں تمہیں بیوی نہیں بلکہ اپنی غلام مانتا ہوں۔ "

داور اسکی آنکھوں میں جھانک کر بولا۔ 

" جو کچھ آپ میرے ساتھ کرچکے ہیں وہ مجھے یہ احساس دلانے کے لئے کافی ہے۔ " 

" کیا کیا ہے میں نے تمہارے ساتھ یہ زرا مجھے بھی تو پتہ چلے۔ " 

" واہ! انجان بننے کی اداکاری تو بہت اچھی کرلیتے ہیں آپ۔ " 

زوہا نے تالی بجا کر داد دی۔

" زوہا یہ پہیلیاں مت بجھائو اور مجھے صاف صاف ساری بات بتائو۔ ایسی باتیں کرکے تم مجھے الجھا رہی ہو۔ " 

" میں کیا الجھائوں گی۔ زندگی تو آپ نے میری الجھا کر رکھ دی ہے۔ " 

" میں نے؟ " 

وہ حیرت سے گویا ہوا۔ 

" جی آپ نے۔ سارے خواب توڑ ڈالے اپ نے میرے۔ میرے گھر والوں کو بھی مجھ سے دور کر دیا۔ "

 وہ منہ ہاتھوں میں چھپا کر رو دی۔

 " اوہ تو یہ بات ہے۔ پر تم خود دیکھو شادی کر کے ہر لڑکی کو دوسرے گھر جانا ہوتا ہے اور پھر میں کونسا تم پر کوئی پابندی لگا رہا ہوں جب دل چاہے تم انکل آنٹی سے مل آنا۔ "

 وہ اس کے آنسوؤں کو گھر والوں سے دوری کے باعث سمجھ کر اسے بہلانے کے لیے بولا اور اسکے چہرے سے ہاتھ ہٹانے لگا۔

 جسے زوہا نے جھٹک دیا۔

" ہاتھ مت لگائیں مجھے۔ " 

وہ درشتگی سے بولی۔ 

" اوکے اوکے نہیں لگاتا۔ ریلیکس ہو جائو تم اور پلیز رونا بند کرو۔ "

پر زوہا اسکی بات کو نظرانداز کرکے رونے میں مصروف رہی۔ داور ایک بے بس سی نظر اس پر ڈال کر صوفے پر جاکر لیٹ گیا اور آنکھیں موند لیں۔

                                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

اگلے دن جب داور اٹھ کر آیا تو زوہا پہلے ہی وہاں موجود تھی۔

 گلزار بیگم کو سلام کرنے کے بعد وہ بولا۔

" اماں سائیں ناشتہ لگوا دیں مجھے زمینوں پر جانا ہے۔ " 

" ارے پاگل ہوئے ہو کیا۔ ابھی ایک دن ہوا ہے تمہاری شادی کو اور تمہیں کام کی پڑ گئی ہے۔ ارے نئی دولہن ہے اسکو گھوماو پھرائو۔ بلکہ ایسا کرو آج اپنے سسرال چلے جائو اچھا ہے زوہا بھی اپنے گھر والوں سے مل لے گی۔ "

" ٹھیک ہے لے جائونگا آج شام میں۔ چار بجے تک تیار رہنا۔ "

 اس نے بیک وقت دونوں کو مخاطب کیا۔

 زوہا محض سر ہلا کر رہ گئی۔

                                  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شام میں زوہا تیار ہو کر بیٹھی داور کا انتظار کر رہی تھی کہ گلزار بیگم آئیں اور اسے دیکھ کر بولیں۔

" زوہا بیٹا تیار نہیں ہوئی تم۔ داور آتا ہی ہوگا۔ " 

زوہا جو تیار بیٹھی تھی حیرانی سے بولی۔ 

" آنٹی میں تو تیار ہوں۔ " 

وہ اسکن کلر کا ہلکی کڑھائی والا سوٹ پہنے میک اپ کے نام پر صرف لپ اسٹک لگائے ہوئی تھی۔

 " یہ آنٹی کیا ہوتا ہے جیسے میں داور اور مشعل کی ماں ہوں ویسے ہی تمہاری بھی۔ اسی لئے مجھے اماں سائیں بولو۔ اور یہ کیسے تیار ہوئی۔ لگ ہی نہیں رہا کہ تم شاہوں کی بہو ہو۔ نہ ہاتھ میں چوڑیاں ناں ہی کوئی زیور۔ رکو میں مشعل کو کہتی ہوں وہ تمہیں تیار کردے گی۔ " 

بغیر زوہا کو بولنے کا موقع دیئے وہ مشعل کو بلانے چل دیں۔

مشعل نے آکر زوہا کے خوبصورت سے کام کا نیلے رنگ کا سوٹ نکالا اور اسے دیتی ہوئی بولی۔

" جائو یہ پہن کر آئو۔ "

" مشعل پر یہ بہت ہیوی ہے۔ "

زوہا ہچکچائی۔

" کوئی ہیوی نہیں ہے جائو شاباش جلدی سے چینج کرکے آئو۔ "

مشعل نے مزید اسکی آنے بغیر اسے واش روم مین دھکیل دیا۔

" زبردست۔ "

مشعل کے منہ سے زوہا کو تیار کرنے کے بعد نکلا۔

" آج تو میرے بھائی کی خیر نہیں۔ " 

بلیو سوٹ میں نفاست سے کئے میک اپ ، کلائیوں میں سونے کی چوڑیاں ، گلے میں سونے کا گلوبند اسی کے ساتھ کے ہی بندے پہنے وہ غضب ڈھا رہی تھی۔

ابھی مشعل بول ہی رہی تھی کہ داور کی آمد ہوئی۔

" اتنی دیر کردی بھائی آپ نے آنے میں۔ "

" ہاں وہ میں۔ "

کہ اسکی نظر زوہا پر پڑی اور وہ اپنے الفاظ بھول گیا۔

"اہم ۔۔ اہم ۔ میں یہاں ہی ہوں ابھی۔ "

اسے مسلسل زوہا کو تکتے پاکر اس نے داور کو چھیڑا۔

" میں چینج کرکے آتا ہوں۔ "

یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔

" چلو تم اپنی ساس صاحبہ کو اپنا چہرہ دکھا دو تاکہ انہیں اطمینان ہو جائے۔ "

" صحیح چلو۔ " 

                                 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

داور کے ساتھ وہ اپنے گھر کے باہر موجود تھی۔

دستک دے کر وہ دروازہ کھلنے کا انتظار کر رہے تھے۔

کہ فائز نے آکر دروازہ کھولا۔

" فائز۔ "

داور کچھ بولنے ہی لگا تھا کہ فائز اسکی بات کاٹتا ہوا بولا۔

" مجھے کچھ ضروری کام ہے۔ "

 اور گھر سے باہر نکل گیا۔

داور فائز کا رویہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ تو خود ہی زوہا سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا اب جبکہ اسکی خواہش پوری ہوگئی اس پر اسکا یہ انداز اور دوسری جانب زوہا کا رویہ وہ الجھ کر رہ گیا۔

 وہ دونوں گھر میں داخل ہوگئے۔

" بابا! مماں! کہاں ہیں آپ۔ "

زوہا کی آواز سن کر نسرین بیگم آئیں اور اسے گلے سے لگا لیا۔

پھر داور نے آگے بڑھ کر ان سے سلام کیا اور ان کے آگے سر جھکا دیا۔

انہوں نے بھی خوش دلی سے اسکے سلام کا جواب دے کر اسکے سر پر ہاتھ پھیرا۔

اس کے بعد اظہار صاحب آئے۔

" اسلام و علیکم بابا ! کیسے ہیں آپ۔ "

" وعلیکم اسلام! میں بالکل ٹھیک۔ "

اور اسکے سر پر ہاتھ پھیر کر داور کی طرف متوجہ ہوگئے۔ 

اپنے بابا کے اس روئیے پر زوہا نے بڑی مشکل سے اپنے آنسوؤں کو پیا۔

داور سے وہ بغل گیر ہوئے۔

اب جو بھی تھا جیسا بھی تھا داماد تھا انکا۔

سب لائونج میں بیٹھ کر باتوں میں مشغول ہو گئے۔

نسرین بیگم اٹھ کر کچن میں گئیں تو زوہا بھی انکے ساتھ ہولی۔

" ماما میں رمشا سے مل آئوں۔ "

زوہا جھجکتے ہوئی بولی۔

" جو تم انکے ساتھ کرچکی ہو۔ اس کے بعد بھی تمہیں لگتا ہے وہ تم سے ملیں گے؟ "

" مماں آپکو بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ میں غلط ہوں۔ آپ کو مجھ پر یقین نہیں؟ "

" زوہا یقین ایک بار ہوتا ہے اور وہ کرچکے ہم تم پر اور انجام بھی بھگت چکے اسکا۔ "

نسرین بیگم سرد لہجے میں گویا ہوئیں۔

زوہا چند لمحے انہیں ڈبڈبائی آنکھوں سے دیکھتی رہی اور پھر اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی۔

                                   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گھر آکر زوہا گلزار بیگم کو سلام کرکے اپنے کمرے میں آگئی اور بغیر ڈریس تبدیل کئے بیڈ پر اوندھے منہ گر کر رونے لگی۔

کافی دیر بعد داور کمرے میں آیا تو دیکھا زوہا اسی حالت میں لیٹی ہوئی ہے۔

" زوہا " 

اس نے آہستہ سے پکارا۔

پر جواب ندارد۔

اس نے آگے بڑھ کر اسے کندھے سے پکڑ کر سیدھا کیا۔

اس کے چہرے پر آنسوؤں کو دیکھ کر اسے لگا جیسے کسی نے اسکا دل مٹھی میں مسل دیا ہو۔

اس کی نظر اسکی جیولری پر پڑی اس نے آہستہ سے اسکی ساری جیولری اتار دی۔

" آخر ایسی کیا بات ہے جو تمہیں اندر ہی اندر کھا رہی ہے۔ جس نے تمہیں مجھ سے متنفر کردیا ہے۔

آخر تم مجھ سے کھل کر بات کیوں نہیں کر لیتی۔ 

میں ساری تمہاری غلط فہمیاں دور کر دوں گا۔

بس ایک بار صرف ایک بار مجھ پر بھروسہ کرکے دیکھو۔ "

 وہ آہستہ آواز میں اس سے بات کرنے لگا۔

جو ظاہر ہے زوہا نے نہیں سنا۔

وہ گہری نیند میں تھی۔

پھر ایک فیصلہ کرکے وہ اٹھا۔

" تم تو کچھ بتا نہیں رہی۔ اب مجھے ہی اپنے طریقے سے پتہ لگانا پڑے گا۔ "

اس نے سوچ لیا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے اور جا کر صوفے پر لیٹ گیا۔ کیونکہ اب زوہا زوال کا رویہ کچھ عجیب ہی لگ رہا تھا۔ اگر ماں باپ سے جدائی کا غم تھا تو بھی اب تک سنبھل جانا چاہیے تھا پر زوہا کا رویہ عجیب ہی ہوتا جا رہا تھا۔

                                   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح فجر کے وقت ہی زوہا کی آنکھ کھل گئی۔

تھوڑے حواس بحال ہوئے تو دیکھا سائیڈ ٹیبل پر اسکی ساری جیولری رکھی ہوئی تھی تو اس نے فورا اپنے گلے کی طرف ہاتھ بڑھایا تو وہ خالی تھا۔

پھر اسکی نظر صوفے پر سوئے داور پر پڑی تو ساری کہانی اسکی سمجھ میں آگئی۔

اسے اس کی اس دیدہ دلیری پر غصہ آنے لگا۔

وہ غصے سے اٹھی اور جا کر ایک جھٹکے سے داور کا کمبل کھینچ کر اتارا۔

داور ہڑبڑا کر اٹھا۔

" کیا ہوا؟ "

زوہا کو دیکھ کر اس نے بھاری آواز میں پوچھا۔

" آپ کی ہمت کیسے ہوئی مجھے ہاتھ لگانے کی؟ "

" میں نے تمہیں کب ہاتھ لگایا۔ کیا بولے جارہی ہو؟ ہوش میں تو ہو۔ "

داور نیند میں اٹھائے جانے کی وجہ سے جھنجھلا کر بولا۔

" اچھا! آپ نے ہاتھ نہیں لگایا؟ تو رات کو میری جیولری آپکے فرشتوں نے اتاری تھی۔ "

" ہاں تو وہ میں نے تمہارے آرام کی وجہ سے اتاری تھی۔ تم ڈسٹرب ہو رہی تھی اسکی وجہ سے۔ "

وہ بولا اور پھر اسکو شانوں سے جکڑ کر اپنے قریب کیا۔

" دوسری بات۔ بیوی ہو تم۔ جب چاہوں تمہیں ہاتھ لگا سکتا ہوں۔ ٹائم دے رہا ہوں تمہیں اسکا یہ مطلب نہیں کہ جو تمہارے دل میں آئے گا کروگی۔ "

پھر ایک جھٹکے سے اسے چھوڑکر واشروم کی جانب بڑھ گیا۔

پیچھے زوہا سکتے میں آگئی وہ کیسے بھول گئی کہ وہ ایک مرد ہے وہ بھی ایک عیاش مرد (زوہا کی نظر میں) آخر کب تک بچ سکتی ہے اس سے۔ 

                                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسری طرف داور کو خود پر غصہ آرہا تھا کہ کیسے وہ زوہا سے اس لہجے میں بات کرگیا۔

اسے نیند میں سے اٹھائے جانے پر ہمیشہ غصہ آتا تھا۔

دوسرا زوہا کے رویے کی ٹینشن۔

وہ ساری فریسٹریشن زوہا پر نکال گیا۔

وہ اس وقت ڈیرے پر موجود تھا ۔۔گھر سے ناشتہ لئے بغیر ہی نکل آیا تھا۔

گلزار بیگم بولتی ہی رہ گئیں۔

یہاں آکر اسنے اپنے خاص ماتحت کو بلوایا۔

" جی سائیں! حکم کریں۔ "

اس کا ملازم عاجزی سے بولا۔

" ہاں ایک خاص کام ہے تم سے۔ یاد رہے بات تمہارے اور میرے درمیان رہنی چاہیے۔ "

" سائیں اپ کا راز میرا راز۔ حکم کریں آپ۔ "

" یہ جو فائز ہے اپنے زوار کا دوست۔ "

اس نے زوہا کا حوالہ دینے سے گریز کیا۔

" جی سائیں کیا کرنا ہے اسکا؟ "

" پتا تو کرو کہ اپنی شادی سے کیوں بھاگا تھا وہ۔ "

" سائیں کام ہو جائے گا۔ "

" دو دن۔ دو دن کا وقت ہے تمہارے پاس۔ دو دن میں مجھے ساری خبر چاہیے۔ "

" جو حکم سائیں۔ " 

                                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"زوہا! بات سنو۔ " 

داور شام میں کمرے میں آیا اسے دیکھ کر زوہا کمرے سے جانے لگی تو داور نے اسے پکارا۔ 

زوہا اس کی بات کو نظر انداز کرکے جانے لگی تو داور نے آگے بڑھ اسکا ہاتھ پکڑا۔

" ہاتھ چھوڑیں میرا۔ "

زوہا ہاتھ چھڑاتی ہوئی بولی۔

" ادھر آئو ایک دفعہ اطمینان سے میری بات سن لو۔ "

اس نے لے جا کر اسے بیڈ پر بٹھایا۔

" میں تم سے صبح والے رویے پر معافی چاہتا ہوں۔ میں پریشان تھا اسی پریشانی میں تم پر غصہ کرگیا۔ "

" ہاں آپ جاگیرداروں کا عورتوں پر ہی تو بس چلتا ہے۔ "

وہ غصے سے اسے دیکھتی بولی۔

" آف تمہیں کس نے اتنی غلط خبریں دی ہوئی ہیں جاگیرداروں کے بارے میں۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔ "

وہ ماتھے پر ہاتھ مارتا ہوا بولا۔

" مجھے سب اب پتا ہے مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پہلے ہی بہت مسئلے ہیں میری زندگی میں۔ "

" یار اتنی بدگمانی کیوں ہے مجھ سے۔ کیا پریشانی ہے مجھ سے بتائو۔ میں اسے حل کرنے میں پوری طرح تمہارا ساتھ دوں گا۔ "

" یہ اچھا ہے پہلے مشکلات پیدا کریں اور بعد میں بولیں میں ختم کر دونگا ساری مشکلات۔ "

" کیا مشکلات پیدا کی ہیں میں۔ یہی پوچھ رہا ہوں اگر آپ بتانا پسند کریں تو۔ "

وہ جھنجھلا کر بولا۔

" واہ پہلے فائز بھائی کو اغوا کروایا۔ پھر وہ تصویریں۔ میرے ماں باپ کو مجھ سے بدگمان کردیا۔ پوری دنیا میں انکا تماشہ بنا دیا۔ اب انجان بن کر پوچھ رہے ہیں میں نے کیا کیا۔ "

زوہا روتے ہوئ بولی۔

جب کے داور تو کتنی دیر تک اپنی جگہ سے ہل ناں سکا یہ کیا کہہ رہی تھی وہ۔

" زوہا م۔میری بات سنو۔ میں نے کچھ نہیں کیا ایسا خدا گواہ ہے۔ "

" بس کردیں آپ کم از کم اپنا جھوٹ سچ ثابت کرنے کے لئے خدا کو تو بیچ میں مت لائیں۔ "

اس سے پہلے وہ کچھ بولتا اس کا فون بجا اس نے جیب سے فون نکالا تو اس کے ماتحت خاص کا نام جگمگا رہا تھا۔ 

اس نے لب بھینچ کر فون ریسیو کرکے کان سے لگایا۔ اور بالکونی کی جانب بڑھ گیا۔

" ہاں بولو۔ کیا خبر ہے؟ "

" سائیں لڑکا بھاگا نہیں تھا۔ کسی نے اٹھوایا تھا اسکو اور کافی مار پیٹ کرکے چھوڑا تھا۔ "

" ہممممم۔ اب تمہارا اگلا کام یہ ہے کہ پتا لگوائو اٹھوایا کس نے تھا اسے۔ "

"  سائیں کام ہو تو جائے گا پر ذرا مشکل سے۔ جس نے بھی یہ سب کیا ہے بڑی رازداری سے کیا ہے۔ "

" جتنی جلدی ہو سکے پتا کرو۔ "

" جو حکم سائیں۔ "

 یہاں ایک مسئلہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا آجاتا۔ اب یہ تصویروں کا پتا نہیں کیا چکر ہے۔ داور نے غصے سے گرل پر مکہ مارا۔ 

                                   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"مماں کتنی مرتبہ کہہ دیا آپ سے کہ مجھے شادی نہیں کرنی ابھی۔ تو کیوں فورس کر رہی ہیں آپ مجھے۔ "

عائلہ بیگم آج پھر مختلف لڑکیوں کی تصویریں لئے موجود تھیں جس پر فائز جھنجھلا کر ان سے بولا۔

" کیوں نہیں کرنی شادی۔ جس کا سوگ تم منا رہے ہو وہ تو خوشیاں منا رہی ہے اپنی زندگی میں۔ ابھی آئی تھی ناں تو دیکھتے تم کیا ٹھاٹھ تھے اس کے۔ ارے اسے جب وہ آسائیشوں والی زندگی مل رہی تھی تو وہ کیوں تم سے تعلق رکھتی۔ اتنا بڑا جگیردار اس کے سامنے تھا تو وہ کیوں تم جیسے نو سے پانچ جاب کرنے والے انسان سے شادی کرتی۔ وہ اپنی زندگی میں مگن ہوچکی ہے۔ تم بھی بھول جائو اور بڑھو اپنی زندگی میں آگے۔ "

 " ٹھیک ہے جو آپ کے دل میں آئے وہ کریں۔ "

" یہ ہوئی ناں بات۔ اب جلدی سے ان میں سے کوئی لڑکی پسند کر لو۔ "

وہ خوشی سے پھولی ناں سماتے ہوئے اسے تصویریں دکھانے لگی۔

" جو آپ کو ٹھیک لگے دیکھ لیں آپ مجھے آپکی پسند پر کوئی اعتراض نہیں۔ "

وہ جان چھڑاتے ہوئے بولا۔

" بس پھر دیکھنا اس زوہا سے لاکھ درجے بہتر دولہن لائوں گی اپنے بیٹے کے لئے۔ "

یہ کہہ کر وہ چلی گئیں۔ فائز نے اپنا سر ہاتھوں میں گرا لیا اور خود کلامی کرتا ہوا بولا۔

" کیوں۔ کیوں کیا زوہا تم نے ایسا۔ دل ابھی بھی ماننے کو تیار نہیں کہ تم ایسا کر سکتی ہو۔ پر اس کا کیا کروں جو نظر آتا ہے۔ تم اپنی زندگی میں خوش ہو تو میں بھی اب تمہیں خوش رہ کر دکھائوں گا۔ بھول جائونگا تمہیں۔ " 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                    وہ اس وقت گلزار بیگم اور مشعل کے ساتھ لان میں بیٹھی چائے سے لطف اندوز ہورہی تھی۔

اور ساتھ میں باتیں بھی جاری تھیں کہ زوہا گلزار بیگم کو مخاطب کرتی ہوئی بولی۔

" اماں سائیں! ایک بات کرنی تھی آپ سے۔ "

" ہاں بولو بیٹا کیا بات ہے۔ "

  " وہ مجھے مماں اور بابا کی یاد آرہی ہے۔ اگر آپ پرمیشن دیں تو میں کچھ دن ان کو پاس رہ آئوں؟ "

" بیٹا اس میں اجازت کی کیا بات ہے۔ آپ جائو اور رہ کر آجائو۔ بس داور سے پوچھ لینا۔ "

انہوں نے اجازت دیتے ہوئے کہا۔

" آپ خود بول دیجیئے گا انہیں۔ "

زوہا نے جھجکتے ہوئے کہا۔

گلزار بیگم کو عجیب تو لگا کہ وہ آجکل کے زمانے کی لڑکی ہو کر وہ بھی شہر کی لڑکی ہونے کے نا وجود بھی اپنے شوہر سے خود بات کرنے کے بجائے اپنی ساس کا سہارا لے رہی تھی۔ پر انہوں نے کچھ ظاہر کیے بغیر کہا:

" ٹھیک ہے میں بول دوں گی داور سے۔ "

" کیا بولنا ہے اماں سائیں مجھے سے ۔ "

داور ابھی زمینوں سے گھر آیا تھا۔ تو سب خواتین کو لان میں بیٹھا دیکھ کر خود بھی ادھر آگیا۔ اور گلزار بیگم کے سامنے جھکتا ان سے پوچھنے لگا۔

" ماشاءاللہ سے بڑی لمبی عمر ہے میرے بیٹے کی۔ ہم ابھی آپ ہی کا نام لے رہے تھے۔ "

وہ داور کا ماتھا چومتے ہوئے بولیں۔

" یہی تو میں پوچھ رہا ہوں کہ مجھے کس سلسلے میں یاد کیا جا رہا ہے۔ "

داور نے زوہا کے برابر ہی کرسی سنبھالی اور اسکا چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے بولا۔

داور کے اس عمل پر زوہا کو غصہ تو بہت آیا پر وہ کچھ بولی نہیں۔ بس داور پر ایک ناگوار سی نظر ڈال کر رہ گئی۔ جسے داور نظر انداز کرکے مزے سے چائے پینے لگا۔

" ہاں وہ میں بول رہی تھی کہ بہو کو کچھ دن کے لیے اس کے گھر چھوڑ آئو۔ بچی کا دل چاہ رہا ہے اپنے گھر والوں سے ملنے کا۔ "

" تو محترمہ یہ بات خود نہیں بتا سکتی تھی مجھے۔ "

داور منہ میں بڑبڑایا۔ جسکی سمجھ پاس بیٹھی زوہا کے علاوہ کسی کو نہیں لگی۔

" کیا کہہ رہے ہو بیٹا۔ "

گلزار بیگم نے پوچھا۔

اس سے پہلے کہ داور جواب دیتا مشعل بول پڑی۔

" بھائی بول رہے ہیں بھابھی چلی جائیں گی تو انکا دل نہیں لگے گا۔ کیوں صحیح کہا ناں بھائی۔ "

" زیادہ زبان نہیں چل رہی تمہاری۔ چپ رہنا بھی سیکھو ورنہ زوار بولے گا کس کان کھانے والی مشین کو میرے پلے باندھ دیا۔ "

داور نے اسے مصنوعی غصے سے ڈانٹا۔ اس کی بات پر وہاں موجود سب کے چہروں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔

" اماں سائیں آپ دیکھ لیں ادا سائیں کو۔ "

مشعل چیخی۔

"  میں کہہ رہا تھا کل ڈیرے سے واپس آکر چھوڑ آئوں گا۔ "

داور نے گلزار بیگم کو جواب دیا۔

" زوہا بیٹا تم پیکنگ کر لینا۔ "

گلزار بیگم نے زوہا سے کہا۔

" جی ٹھیک ہے۔ "

اس نے آہستہ سے سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔

                             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلے دن زوہا داور کے ساتھ اپنے گھر آگئی۔ داور کچھ دیر بیٹھ کر اسے چھوڑ کر چلا گیا۔ زوہا نسرین بیگم کے ساتھ ان کے کمرے میں چلی گئی اور دونوں باتوں میں مشغول ہوگئی۔ ابھی نسرین بیگم کسی کام سے باہر گئی تھیں کہ انکے کمرے کا دروازہ بجا۔

دروازہ کھلا اور رمشا بولتی ہوئی اندر داخل ہوئی۔

" چچی! یہ امی۔ "

زوہا کو دیکھ کر رمشا کی چلتی زبان کو بریک لگا۔

"میں بعد میں آتی ہوں۔ "

یہ کہہ کر رمشا واپس جانے لگی۔

"رمشا! پلیز ایک دفعہ میری بات سن لو۔ تمہیں ہماری دوستی کی قسم۔ "

زوہا بولی۔

" بولو۔ میں سن رہی ہوں۔ "

رمشا بغیر مڑے بولی۔

زوہا رمشا کے پاس گئی اور اسکا رخ اپنی طرف موڑتی ہوئی بولی۔

" میری آنکھوں میں دیکھو۔ اور بولو کہ میں ایسا کرسکتی ہوں۔ تم تو بچپن سے رہی ہو میرے ساتھ۔ میری ہر اچھی بری عادت سے واقف ہو۔ اسکے باوجود بھی تم مجھے قصوروار مانتی ہو؟ "

" یہ سب باتیں اپنی جگہ۔ پر زوہا میں اپنے بھائی کی حالت بھی نظرانداز نہیں کرسکتی جو تمہاری وجہ سے ہوئی ہے۔ یہ سب دیکھنے کے بعد مجھے لگتا تم وہ زوہا نہیں ہو جسے میں جانتی تھی۔ پر خیر جو ہونا تھا ہو چکا۔ اسے بدلا تو نہیں جا سکتا۔ جیسے تم اپنی زندگی میں آگے بڑھ گئی ہو اپنی خوشی کو حاصل کرچکی ہو ویسے ہی اب بھائی بھی اپنی زندگی میں آگے بڑھ گئے ہیں۔ یہی بتانے اور مٹھائی دینے کیلئے امی نے مجھے بھیجا تھا۔ لو مٹھائی کھائو۔ "

رمشا زوہا کے منہ رس گلا ڈالتی ہوئی بولی۔

" ایک خوشخبری تو یہ کہ فائز بھائی کی منگنی ہوگئی ہے اور دوسرا میرا میڈیکل کالج میں ایڈمیشن ہوگیا ہے۔ "

رمشا کی بات سن کر زوہا کو اپنے ادھورے خواب پھر سے یاد آگئے تھے۔

" مبارک باد نہیں دو گی زوہا مجھے۔ "

" ہاں ہاں۔ بہت مبارک ہو تمہیں۔ فائز بھائی کو بھی دینا مجھے کچھ کام ہے میں آتی ہوں ابھی ۔ "

زوہا بڑی مشکل سے اپنی بات کہہ کر وہاں سے چلی گئی۔

                                  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر زوہا جو کچھ دن رہنے کے لیے آئی تھی۔ اگلے دن ہی گلزار بیگم کو فون کر کے داور کو بلوایا اور واپس آگئی۔

زوہا کے دل میں داور کے لئے نفرت میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔

" ویسے یار تم سے میری ایک رات کی بھی جدائی برداشت نہیں ہوئی۔ ایک دن تو اور رک جاتی آنٹی انکل کو برا لگے۔ "

" لگتا ہے خاصے خوش فہم انسان ہیں آپ۔ پر بے فکر رہیں کسی کو کچھ برا نہیں لگے گا۔ کیونکہ آپکی وجہ سے میری محبت کا گراف ان کے دلوں میں اتنا بڑھ گیا ہے کہ میرے قریب یا دور رہنے سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ "

زوہا کا طنز سے بھرپور جواب سن کر داور سوچ میں پڑ گیا کہ جو بھی  غلط ہے وہ اس کو صحیح کرکے ہی رہے گا۔

                                 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زوہا کو گھر چھوڑنے کے بعد داور ڈیرے پر چلا گیا تھا۔ اس کا ماتحت خاص اسکے پاس آیا۔

" وہ جی حضور ایک بات کرنی تھی آپ سے۔ "

اس نے ہاتھ جوڑتے ہوئے اجازت چاہی۔

" ہاں بولو کیا بات کرنی ہے۔ جو کام تمہیں دیا تھا وہ پورا ہوگیا؟ "

داور نے پوچھا۔

" سائیں پتا تو چل گیا ہے جی پر چھوٹا منہ بڑی بات ہوجائے گی۔ "

" تم بے فکر ہو کر بتائو کہ کیا خبر ملی ہے تمہیں۔ "

" وہ سائیں۔ "

ملازم ہچکچایا۔

" پہیلیاں کیوں بجھوا رہے ہو۔ صاف بات کرو۔ "

اس بار داور نے سخت لہجہ اپنایا۔

" سائیں فائز کو اور کسی نے نہیں بلکہ بڑے سائیں نے اغوا کروایا تھا۔ "

" یہ کیا بکواس کر رہے ہو۔ ہوش میں تو تم۔ پتا بھی ہے تمہیں کہ کیا بول رہے ہو؟ "

داور غصے سے غضب ناک ہو کر دھاڑا۔

" س۔سائیں معاف کردیں۔ مجھے یہی خبر ملی تھی۔ "

ملازم نے گھبرا کر ہاتھ جوڑے۔

" پر ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ بابا سائیں ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔ تم دوبارہ تحقیق کروائو۔ "

" سائیں خبر پکی ہے۔ میں نے ہر طرح سے تسلی کروائی ہے۔ "

" سوچ لو۔ ایک بار پھر۔ اگر جو یہ خبر جھوٹ نکلی تو تمہارا وہ حشر کرونگا کہ تم سوچ نہیں سکتے۔ اب کھڑے منہ کیا دیکھ رہے ہو میرا جائو یہاں سے۔ "

داور نے وارن کرنے والے انداز میں کہا۔

" بابا سائیں! اگر آپ نے ایسا کیا ہوگا تو زوہا کو میں کیا منہ دکھائوں گا۔ "

داور خود کلامی کے انداز میں بولا۔

"  زوہا بھی یہی بول رہی تھی کہ فائز کو میں نے اغواء کیا ہے تو اس کا مطلب۔۔۔ نہیں پر کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے مجھے ساری بات جاننی ہوگی اوفر سب کچھ مجھے زوہا ہی بتا سکتی ہے۔ "

یہ سوچ کر وہ فورا گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔

                              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زوہا گھر آنے کے بعد گلزار بیگم کو سلام کرکے اپنے کمرے میں آگئی اور تب سے اب تک وہ مسلسل روئے جا رہی تھی۔ ابھی وہ رونے میں ہی مصروف تھی کہ یکدم زور سے دروازہ کھلا اور داور اندر داخل ہوا۔

اسے دیکھ زوہا کھڑی ہوگئی اور اس پر ایک زخمی نگاہ ڈال کر وہاں سے جانے لگی۔ داور نے اسکی کلائی تھام کر اسے جانے سے روکا۔

" یہ کیا بدتمیزی ہے ہاتھ چھوڑیں میرا۔ "

داور بغیر کوئی جواب دیئے اسے کھینچ کر صوفے تک لایا اور اسکے کندھوں پر دبائو ڈالتے ہوئے اسے صوفے پر بٹھایا۔ اور خود بھی ساتھ بیٹھ گیا۔

" پلیز کچھ دیر کے لیے غصہ چھوڑ کر میری بات غور سے سن لو۔ یہ بات اس وقت کلیئر ہونا بہت ضروری ہے۔ ہماری زندگی جڑی ہے اس سے۔ اس لیے کچھ وقت کے لیے غصہ چھوڑ کر مجھے کچھ باتوں کے جواب دے دو۔ "

" کن باتوں کے جواب چاہیئے آپ کو مجھ سے؟ "

زوہا نے پوچھا۔

" تم مجھے ا سے ے تک وہ سارے واقعات معمولی یا غیر معمولی جو ہمارے رشتہ ہونے سے شادی تک ہوئے ہوں مجھے بتائو۔ "

" آپ ہی نے تو سب کچھ کیا تھا اور اب آپ ہی پوچھ رہے ہیں۔ "

" اگر میں جانتا ہوتا تو تم سے پوچھتا کیوں۔ "

داور کو غصہ آگیا پر اس نے غصہ دبا کر دھیمی آواز میں کہا۔

" انجان بننے کی اداکاری تو خوب کررہے۔ "

وہ اسکے غصے کو خاطر میں لائے بغیر بولی۔

" پاگل ہو تم۔ یہاں میں اپنی بے خبری پر پاگل ہورہا ہوں اور تمہیں اداکاری لگ رہی ہے۔ "

اب کی بار وہ خود پر قابو ناں رکھ سکا اور چلایا۔

زوہا کی ڈر سے ہچکی نکلی۔

زوہا کو ڈرتے دیکھ کر داور سمجھ گیا کہ نرمی سے وہ کچھ نہیں بتائے گی اس لیے اپنا لہجہ سخت بناتے ہوئے بولا۔

" اب تم ایک بھی فضول سوال پوچھے بغیر مجھے سب سچ بتائو گی ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔ "

اس کے بعد زوہا نے روتے روتے اسے سب بتانا شروع کیا۔ جیسے جیسے وہ سنتا جا رہا تھا اسے لگ رہا تھا جیسے اسکے ارد گرد دھماکے ہورہے ہوں۔

پوری بات بتاتے بتاتے زوہا کی ہچکیاں بندھ گئی تھیں۔ داور کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا بولے۔ اسکی وجہ سے کسی کہ زندگی میں اتنا بڑا طوفان آگیا تھا اور اسے پتا بھی نہیں چلا تھا۔

زوہا وہاں سے چلی گئی تھی اور وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔

                                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کتنی ہی دیر وہ وہاں سر پکڑ کر بیٹھا رہا۔ پھر اس نے بابا جان سے بات کرنے کا سوچ کر ان کے کمرے میں آیا۔

" اماں سائیں! بابا سائیں کدھر ہیں؟ "

اس نے گلزار بیگم سے پوچھا۔

" وہ تو ڈیرے کی طرف گئے ہیں۔ سب خیریت تم کیوں اتنے پریشان ہو۔ سب ٹھیک تو ہے۔ "

آخر ماں تھیں بیٹے کی پریشانی ایک نظر میں بھانپ گئیں۔

" نہیں سب خیریت ہے۔ کچھ کاروبار کے متعلق بات کرنی تھی۔ میں وہیں مل لیتا ہوں ان سے جاکر۔ "

یہ کہہ کر وہ تیزی سے کمرے سے نکل گیا۔

ڈیرے پر پہنچ کر وہ سیدھا صفدر صاحب کے پاس پہنچا جو بیٹھے ہوئے گاوں والوں کے مسائل سن رہے تھے۔

" بابا سائیں مجھے آپ سے اکیلے میں کچھ بات کرنی ہے۔ "

" ہاں آئو۔ بولو کیا بات ہے۔ "

انہوں نے وہاں بیٹھے لوگوں اور اپنے ملازمین کو جانے کا اشارہ کیا اور داور سے پوچھا۔

" بابا سائیں آپ نے اظہار صاحب کو زوہا کی مجھ سے شادی کے لئے کیسے منایا تھا۔ "

داور نے اپنے لہجے کو سرسری رکھتے ہوئے استفسار کیا۔

صفدر صاحب اسکی بات سن کر چونکے پر ظاہر کیے بغیر بولے۔

" منانا کیا تھا۔ اپنے جس بھتیجے سے وہ زوہا کا نکاح کروا رہے تھے وہ عین نکاح والے دن گھر سے بھاگ گیا تھا تو انہوں نے خود مجھسے تمہاری اور زوہا کی شادی کی بات کی تھی۔ "

" فائز بھاگا تھا یا آپ نے اسے اغواء کروایا تھا۔ "

صفدر صاحب اسکی بات سن کر حیران رہ گئے پر پھر اپنے لہجے کو سخت بناتے ہوئے بولے۔

" تم اپنے باپ پر الزام لگا رہے ہو۔ "

" بابا سائیں! بس اب اور نہیں۔ مجھے سچ جاننا ہے۔ ورنہ میں پاگل ہو جائونگا۔ "

وہ اپنے بالوں میں انگلیاں پھنساتے ہوئے بولا۔

" ہاں میں نے ہی کروایا تھا اغواء۔ کیونکہ میں اپنے جوان بیٹے کو تڑپتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ وہ بیٹا جس کو میں نے خراش تک نہیں آنے دی تھی اسے یوں تڑپ تڑپ کر مرنے کے لیے چھوڑ دیتا۔ "

" پر بابا سائیں آپ نے اپنے بیٹے کی زندگی بچانے کے لیے کتنی زندگیاں برباد کی پر پھر بھی آپ کا بیٹا خوش نہیں ہے۔ زوہا نفرت کرتی ہے مجھسے۔ اس سب کا ذمہ دار مجھے سمجھتی ہے۔ "

داور ہارے ہوئے لہجے میں بول کر نیچے بیٹھ گیا۔

صفدر صاحب اسکی حالت دیکھ کر تڑپ اٹھے۔

" میرے بیٹے تو پریشان مت ہو میں ثابت کرونگا تیری بے گناہی۔ میں زوہا کو سب بتادوںگا۔ "

وہ اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں بھرتے ہوئے بولے۔

" نہیں اب آپ کچھ نہیں کریں گے۔ اب جو کروں گا وہ میں کروں گا۔ کھائیں میری قسم آپ کسی کو کچھ نہیں کہیں گے زوہا سے یا کسی سے بھی۔ "

وہ انکا ہاتھ اپنے سر پر رکھتے ہوئے بولا۔

" پر داور۔ "

"  نہیں اب کچھ نہیں۔ اگر اپنے بیٹے کی زندگی چاہتے ہیں تو کھائیں قسم۔ "

داور قطعی انداز میں بولا۔

" ٹھیک ہے۔ تمہاری قسم میں کسی سے کچھ نہیں کہوں گا۔ "

صفدر صاحب ہار مانتے ہوئے بولے۔

" ٹھیک ہے اب آپ جائیں یہاں سے۔ "

" تم بھی چلو ساتھ۔ "

" پلیز بابا سائیں! آپ جائیں۔ میں اسوقت کسی کا بھی سامنا کرنے کی حالت میں نہیں ہوں۔ میرے اعصاب تھک چکے ہیں۔ میں کچھ دیر اکیلا رہنا چاہتا ہوں۔ جب کچھ سنبھل جاوں گا تو آجائوں گا گھر۔ اور پلیز یہاں کوئی نہیں آئے سارے ملازمین کو منع کرکے جائیگا۔ "

صفدر صاحب اسے نا مانتے دیکھ کر وہاں سے چلے گئے۔ وہ پوری رات داور نے وہاں کھلے آسمان تلے بیٹھ کر گزاری۔

                                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زوہا کی صبح فجر کی اذان سن کر آنکھ کھلی تو اس نے صوفے کی طرف دیکھا تو داور کو نا پا کر خود کلامی کے انداز میں بولی۔

" یہ کیا پوری رات گھر نہیں آئے۔ خیر مجھے کیا ان جاگیر داروں کے لیے راتیں باہر گزارنا تو عام سی بات ہے۔ "

پھر وہ وضو کے لئے واشروم کی جانب چل دی۔

ابھی وہ نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تھی کہ داور کمرے عجلت میں داخل ہوا اور بولا۔

" جلدی سے تیار ہو جائو۔ ہمیں کہیں جانا ہے۔ "

" مجھے کہیں نہیں جانا آپ کے ساتھ۔ "

" بے فکر ہوجائو۔ یہ آخری بار تمہیں کہیں لے کر جارہا ہوں۔ اسکے بعد کبھی پریشان نہیں کرونگا۔ اسی لیے بغیر کوئی سوال کئے تیار ہوجائو۔ "

زوہا اسکی بات سن کر حیرانگی سے اس کو دیکھنے لگی۔ پھر کچھ سوچ کر تیار ہونے چلی گئی۔

                                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

داور پورے راستے خاموشی سے ایک ہاتھ کی مٹھی بناکر منہ پہ رکھے ڈرائیو کررہا تھا۔ زوہا نے بھی کوئی بات نہیں کی۔

وہ اپنے خیالوں میں مگن تھی کہ گاڑی اس کے گھر کے سامنے رکی۔ اس نے چونک کر داور  کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا ابھی وہ کچھ بولنا ہی چاہتی تھی کہ داور گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلا اور دوسری طرف آکر زوہا کی طرف کا دروازہ کھولا۔

" اترو۔ "

یہ ایک لفظ بول کر وہ اسکے اترنے کا انتظار کرنے لگا۔

 زوہا نا سمجھی سے اسکی طرف دیکھتی گاڑی سے اتری۔ پھر آگے پیچھے دونوں گھر میں داخل ہوئے۔

 اظہار صاحب جو آفس جانے کے لیے نکل رہے تھے ان دونوں کی اتنی صبح دیکھ کر حیران رہ گئے۔

" خیریت تم لوگ اتنی صبح۔ "

انہوں نے داور سے ملتے ہوئے پوچھا۔

" ہاں کچھ ضروری بات کرنی تھی آپ سے۔ "

" ایسی کیا بات ہے جسے کرنے کے لیے تمہیں اتنی صبح آنا پڑا۔ سب ٹھیک تو ہے ناں۔ "

" جی سب ٹھیک ہے آپ آنٹی اور انوار انکل کی فیملی کو بھی بلالیں۔ "

" ٹھیک ہے داور تم ڈرائنگ روم میں بیٹھو میں انوار بھائی کو بلاتا ہوں۔ زوہا تم اپنی ماں کو بلا لو۔ "

تھوڑی دیر بعد سب کمرے میں موجود تھے اور داور کے بولنے کے منتظر تھے۔

" میں آج آپ لوگوں کے سامنے کچھ رازوں سے پردہ اٹھانا چاہتا ہوں۔ "

پھر وہ ساری بات سچ بتاتا گیا خود کو بے گناہ ثابت کیے بنا۔ اس نے کل کی پوری رات سوچا اور وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ اپنے باپ کو شرمندہ نہیں کروائے گا اور اس نے سارا الزام اپنے سر لے لیا کہ صفدر صاحب نے اس کے مجبور کرنے پر ہی یہ سب کچھ کیا تھا۔

 پر اس نے اپنی محبت کا حق ادا کردیا تھا اس نے زوہا کو بے گناہ ثابت کردیا تھا۔

اظہار صاحب بالکل خاموش بیٹھے تھے وہ داور کو کیا کہتے جب انہوں نے ہی اپنے خون پر اعتبار نہیں کیا تھا۔ فائز کا بھی سر جھکا ہوا تھا۔

" اب اگلا فیصلہ زوہا کا ہوگا۔ وہ جب چاہے گی میں اسے آزاد کر دونگا۔ "

داور نے بڑی مشکل سے یہ الفاظ اپنے منہ سے نکالے اور یہ کہہ کر وہ رکا نہیں اور اٹھ کر چلا گیا۔

" بابا اب تو آپ مجھ سے ناراض نہیں ہیں ناں۔ "

زوہا اظہار صاحب سے بولی۔

اظہار صاحب نے اسکو گلے لگا لیا اور بولے۔

" ناراض کیا ہونا بلکہ میں تو تم سے معافی مانگنا چاہتا ہوں۔ بیٹیاں باپ سے صرف اعتبار ہی تو چاہتی ہیں اور میں تو اپنی بیٹی کو اعتبار بھی نہ دے سکا۔ مجھے معاف کردے۔ "

" نہیں بابا آپ کیوں معافی مانگ رہے ہیں اس میں آپ کی کوئی غلطی نہیں۔ اس وقت جیسے حالات تھے آپ کی جگہ کوئی بھی ہوتا وہ یہی کرتا۔ "

آخر کو تھی تو وہ ایک بیٹی ہی ناں اور بیٹی کب اپنے باپ کو شرمندہ دیکھ سکتی ہے۔

اظہار صاحب نے اسکا ماتھا چوم لیا۔

انوار صاحب اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر چلے گئے۔

عائلہ بیگم مارے شرمندگی کے کچھ ناں بول پائی اور اٹھ کر چلی گئیں۔

فائز بولا تو فقط اتنا۔

" زوہا ہو سکے تو مجھے معاف کردینا۔ "

پھر وہ بھی چلاگیا۔

 پیچھے وہ تینوں رہ گئے۔ زوہا نے جب اپنے باپ کو شرمندہ دیکھا تو بولی۔

" بس اب پرانی باتوں کو کوئی یاد نہیں کریگا۔ جو ہونا تھا ہوگیا۔ سب کچھ ایک برا  خواب سمجھ کر بھول جائیں۔ اور بابا آج آپ آفس نہیں جائیں گے بلکہ آج پورا دن میرے ساتھ گزاریں گے۔ اور اذان کالج سے آجائے تو ہم سب باہر چلیں گے۔ کیوں مماں۔ "

وہ نسرین بیگم کے گلے میں بانہیں ڈالتی ہوئی بولی۔

" ہاں ہاں کیوں نہیں۔ "

وہ اپنے آنسو صاف کرتی ہوئی بولیں۔

" ہاں آج کا پورا دن میں اپنی بیٹی کے ساتھ گزاروں گا۔ "

                            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

داور ٹوٹی بکھری ہوئی حالت میں گھر میں داخل ہوا۔ گلزار بیگم کو جب سے ملازمہ نے داور اور زوہا کے جانے کا بتایا تھا وہ پریشان سی ٹہل کر انکا انتظار کررہی تھیں۔ داور کو دیکھ کر اسکی جانب بڑھی۔ اسکی حد درجہ سرخ آنکھیں دیکھ کر دہل گئیں اور اپنے دل پر ہاتھ رکھ لیا۔

" داور سب ٹھیک تو ہے میرے بچے۔ اور زوہا کو کہاں چھوڑ آئے؟ "

" اماں سائیں۔ بس اتنا جان لیں اپنی محبت کا حق ادا کرکے آیا ہوں اسے سب کی نظروں میں سرخرو کرکے آیا ہوں۔ اور اپنی زندگی ہار آیا ہوں۔ "

وہ ٹوٹے ہوئے لہجے میں بولا۔

" داور کھل کر بتائو کیا بول رہے ہو۔ میرا دل پھٹ جائے گا۔ "

" اماں سائیں! ابھی کچھ دیر کے لیے اکیلا چھوڑ دیں۔ مت پوچھیں مجھ سے کچھ ورنہ میں ٹوٹ جائوں گا۔ مجھے سنبھلنے دیں۔ "

یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے کی جانب چل دیا۔

وہ صفدر صاحب کو بتانے کے ارادے سے اندر کی جانب بڑھ گئیں۔

" پلیز داور کو دیکھیں ناں اسے کیا ہوگیا ہے وہ زوہا کو بھی کہیں چھوڑ آیا ہے۔ "

" کیا ہوگیا ہے تمہیں۔ چھوڑ کر آیا ہوگا اسکے میکے۔ تم پریشان مت ہو۔ "

" پر صفدر صاحب۔ "

" کچھ نہیں ہے تم بلاوجہ پریشان ہو رہی ہو۔ جائو میرے لیے ناشتہ بنوائو۔ "

پریشان تو وہ بھی ہوگئے تھے۔ پر انہوں نے اپنے پریشانی ظاہر نہیں کی۔

                                 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

داور کمرے میں لیٹا ہوا تھا کہ دروازہ بجا۔

" کون ہے۔ "

داور نے لیٹے لیٹے ہی پوچھا۔

" وہ چھوٹے سائیں! بیگم سائیں آپ کو کھانے پر بلا رہی ہیں۔ "

" ٹھیک ہے آرہا ہوں۔ "

تھوڑی دیرکے بعد داور کھانے کی میز پر آیا۔

" مجھے آپ لوگوں سے کچھ بات کرنی ہے۔ "

" پہلے کھانا کھا لو پھر کرتے ہیں بات۔ "

صفدر صاحب کے کہنے پر سب کھانے میں مشغول ہوگئے۔

" داور بیٹا ٹھیک سے کھائو ناں۔ "

گلزار بیگم نے داور کو کھانا بے دلی سے کھاتے دیکھ کر ٹوکا۔

" بس اماں سائیں مجھے کچھ خاص بھوک نہیں۔ "

" داور کیا بات ہے؟ "

گلزار بیگم نے اسے جانچتی نظروں سے دیکھ کر پوچھا۔

" بابا سائیں! اماں سائیں! میں نے ملک سے باہر جانے کا سوچ لیا ہے۔ اگلے ہفتے تک میں ملک سے باہر چلا جائونگا۔ "

داور نے وہاں موجود سب افراد کے سروں پر دھماکہ کیا۔

" داور یہ کیا کہہ رہے ہو تم۔ اسطرح تم ہمیں چھوڑ کر کیسے جاسکتے ہو۔ "

گلزار بیگم نے روتے ہوئے کہا۔

" اماں سائیں میں آپ کو چھوڑ کر نہیں جا رہا بلکہ مجھے وہاں ایک اچھی جاب کی آفر ہوئی ہے۔ "

" ایسا کیا ہے اس نوکری میں جو تم چند پیسوں کے لئے اپنا سارا عیش و عشرت چھوڑ کر جارہے ہو۔ تمہیں کیا ضرورت ہے نوکری کی۔ منع کردو تم کہیں نہیں جارہے ہو۔ "

صفدر صاحب جانتے تھے کہ وہ کس وجہ سے جارہا ہے۔ پر انہوں نے گلزار بیگم اور مشعل پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔

" بابا سائیں معاف کیجیئے گا۔ پر میں فیصلہ کر چکا ہوں اور یہ میرا آخری فیصلہ ہے جسے میں نہیں بدلوں گا۔"

داور نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔

" پر بھائی ہم کیسے رہیں گے آپ کے بنا۔ آپ تو جانتے ہیں ہمیں آپ کے بغیر رہنے کی عادت نہیں۔ "

مشعل نے بھی روتے ہوئے اس کے فیصلے سے باز رکھنا چاہا۔

پر داور فیصلہ کر چکا تھا۔

" ارے تو تمہیں جب میری یاد آئے مجھے فون کرلینا۔ بلکہ میں خود اپنی گڑیا بہن کو روز فون کرونگا۔ "

وہ اسے خود سے لگاتے ہوئے بولا۔

                                  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زوہا بہت خوش تھی اپنے گھر واپس آکر، اپنے ماں باپ کا پیار دوبارہ سے حاصل کرکے۔

" زوہا پھر تم نے کیا سوچا ہے داور کے ساتھ رہنا ہے یا نہیں۔ "

وہ سب ساتھ بیٹھے باتوں میں مشغول تھے جب نسرین بیگم نے زوہا سے پوچھا۔

" مماں میں اس انسان کے ساتھ نہیں رہ سکتی جسے میری عزت کی پرواہ ناں ہو۔ جو اپنی ضد پوری کرنے کے لیے کسے بھی حد تک جاسکتا ہے۔ مجھے بدنام کرسکتا ہے مجھے میرے ماں باپ کی نظروں سے گرا سکتا ہے۔ "

" پر زوہا کچھ بھی ہو جائے اب شوہر ہے تمہارا۔ ایک موقع دے کر دیکھ لو اسے۔ "

نسرین بیگم جانتی تھی کہ ایک طلاق یافتہ عورت کا معاشرے میں کیا مقام ہوتا ہے۔

بھلے ہی داور نے اسے بےگناہ ثابت کردیا تھا۔ پر دنیا میں جو بدنامی ہو چکی تھی اس کے بعد اگر طلاق ہو جائے گی تو زوہا کا جینا اور مشکل کردیں گے لوگ۔

" بس بیگم اب آپ کچھ نہیں کہیں زوہا جیسا چاہتی ہے ویسا ہی ہوگا۔ "

اظہار صاحب نے زوہا کی طرف داری کی۔

" آپ تو سمجھدار ہیں۔ آپ بھی اسکے ساتھ مل کر بچوں جیسی باتیں کررہے ہیں۔ "

نسرین بیگم ناراضی سے گویا ہوئیں۔

" بس اب اور کوئی بات نہیں۔ اب وہی ہوگا جو میری بیٹی چاہے گی۔ پہلے ہی ہم اسکے ساتھ بہت برا کر چکے ہیں۔ اب مزید نہیں۔ "

اظہار صاحب نسرین بیگم کی ناراضگی کو خاطر میں لائے بغیر بولے۔

نسرین بیگم نا چاہتے ہوئے بھی خاموش رہنے پر مجبور تھیں۔

                                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

داور کے جانے کی ساری تیاریاں مکمل ہوگئی تھیں۔ آج شام پانچ بجے کی اسکی امریکہ کی فلائٹ تھی۔ ابھی دن کو بارہ بج رہے تھے کہ صفدر صاحب اسکے کمرے میں آئے۔

" داور میں ایک بار پھر بولتا ہوں مت جائو۔ "

وہ شکستہ سے لہجے میں بولے۔

ان کے انداز پر داور کو افسوس تو ہوا پر وہ اگر یہاں رکتا تو زوہا سے دور نہیں رہ پاتا۔ اسی لیے وہ دل کو مضبوط کرکے بولا۔

" بابا سائیں مجھے معاف کر دیجیئے گا۔ پر آپکی یہ بات ماننا میرے بس میں نہیں۔ "

" معافی تو مجھے تم سے مانگنی چاہیئے۔ میں تمہاری زندگی سنوارنے کے لئے غلط راستہ اپناتا تمہاری زندگی برباد کر گیا۔ "

وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولے۔

داور نے تڑپ کے انکے بندھے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے اور انہیں چومتے ہوئے بولا۔

" بابا سائیں کیوں آپ ایسا کرکے مجھے گنہگار کر رہے ہیں۔ مجھے آپ سے کوئی گلہ نہیں۔ آپ نے جو کیا میری محبت میں کیا۔ یہ تو میری قسمت ہی خراب تھی۔ اس میں آپ کا 

کوئی قصور نہیں۔ "

صفدر صاحب نے اس کی بات سن کر اسے زور سے خود میں بھینچ لیا۔

کافی دیر گلے لگے رہنے کے بعد داور ان سے الگ ہوتے ہوئے بولا۔

" زوہا کی طرف سے پیپرز آئے تو وہ مجھے بھجوا دیجئے گا۔ "

داور نظریں چراتا ہوا بولا۔

" میں ایک بار پھر کہوں گا کہ سوچ لو۔ "

" بابا سائیں اب سوچنے کے لئے کچھ نہیں بچا ہے۔ "

" چلیں۔ اماں سائیں کے پاس چلیں۔ میرا بھی جانے کا ٹائم ہورہا ہے۔ "

وہ بیگ اٹھاتا ہوا بولا اور باہر نکل گیا۔

اسکے پیچھے صفدر صاحب بھی شکستہ قدموں سے اسکے پیچھے چل دیئے۔

کھانا کھانے کے بعد داور جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔

" اچھا اب مجھے اجازت۔ "

وہ گلزار بیگم کے سامنے جھکتا ہوا بولا۔

وہ جو اتنی دیر سے آنسوئوں کو پینے کی کوشش کرنے میں لگی تھیں ایک دم سے روپڑیں۔

" داور مت چھوڑ کر جائو میرے بچے۔ کس بات کی سزا دے رہے ہو تم ہمیں۔ "

" اماں سائیں کیسی باتیں کررہیں ہیں۔ سزا کس بات کی دونگا میں آپ کو۔ چھوڑ کر نہیں جارہا۔ میں فون پر بات کرونگا آپ سے۔ "

وہ انہیں بہلاتے ہوئے بولا۔

" اچھا اب میں چلتا ہوں۔ شہر میں ٹریفک بہت ہوتی ہے۔ اور تم گڑیا اماں سائیں اور بابا سائیں کا دیہان رکھنا۔ میں روز فون کرکے پوچھوں گا۔ "

وہ مشعل کو گلے لگاتا ہوا بولا۔

پھر صفدر صاحب سے ملا۔

ملازم اسکا سامان اٹھا کر گاڑی میں رکھ چکا تھا۔

سب سے مل کر وہ باہر کی طرف چل دیا۔ چند قدم چل کر رکا اور پیچھے مڑ کر ایک الوداعی نگاہ ان پر ڈالی اور پھر تیزی سے نکلتا چلا گیا۔

وہ ایئرپورٹ بھی کسی کو ساتھ لے کر نہیں جارہا تھا کہ اگر ان میں سے کوئی ساتھ ہوا تو اسکا جانا اور مشکل ہو جائے گا۔

گاڑی میں بیٹھتے ہی جو وہ خود پر کب سےضبط کررہا تھا اس کے آنسو بہہ نکلے۔

آخر اپنے خونی رشتوں کو چھوڑ کر جانا آسان تھوڑی ہوتا ہے۔ جن رشتوں سے وہ کبھی کچھ دن سے زیادہ دور رہا تھا۔ پتا نہیں اب انہیں کبھی دیکھ بھی پائے گا یا نہیں۔

                               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پانچ سال بعد

" سدیس! آجائو۔ نانو کو تنگ مت کرو۔ کھانا ختم کرلو جلدی سے اپنا۔ پھر بابا بھی آنے والے ہیں آپ کے۔ جلدی سے کھانا کھا لو پھر آپ کو ریڈی کر دوں گی میں پھپھو کی مہندی ہے آج۔ "

زوہا اپنے چار سال کے بیٹے کو ڈانٹتی ہوئی بولی جو اظہار صاحب کی گود میں چڑھا انکے چشمے سے چھیڑ چھاڑ کر رہا تھا۔

" ارے کیوں ڈانٹ رہی ہو میرے شیر کو تم۔ "

اظہار صاحب نے مصنوعی غصے سے زوہا کو ڈانٹا۔

اتنے میں فائز کمرے میں داخل ہوا۔

سدیس اسے دیکھ کر دوڑ کر اس کے پاس پہنچا۔

" میری چاکلیٹ؟ "

اس نے فائز کے سامنے ہاتھ پھیلایا۔

" چاکلیٹ تب ملے گی جب سدیس سے مجھے کسی ملے گی۔ "

سدیس نے چاکلیٹ کے لالچ میں جھٹ اس کے دونوں گال چومے۔

" آپ لوگوں نے کچھ زیادہ ہی سر پر چڑھا لیا ہے اسے۔ "

" ہاں تو تمہیں کیا مسئلہ ہے۔ "

" جائو سدیس یہ بہن کو دے آئو۔ "

وہ اسے بول ہی رہا تھا کہ ساڑھے تین سالہ وفا دوڑتی ہوئی آئی اور فائز کی گود میں چڑھ گئی۔

" پاپا بھائی کو نہیں دیں ورنہ یہ خود کھا جائیں گے اور مجھے نہیں دیں گے۔ "

وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔

" چلو زوہا جا کر خود بھی تیار ہو جاو اور رمشا خو بھی کردو۔ تھوڑی دیر میں مہمان آنے شروع ہو جائیں گے تو وقت نہیں ملے گا۔ "

عائلہ بیگم نیچے آتے ہوئے بولیں۔

" جی بس جاتی ہوں۔ سدیس آجاو آپ بھی تیار ہو جاو۔ "

وہ سدیس کو لے کر اوپر چلی گئی۔

                                     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چلو فائنلی یہ تیاری والا کام تو ختم ہوا۔ ما شاء اللہ بہت روپ آیا ہے تم پر۔ "

وہ رمشا کو دیکھتی ہوئی بولی جو ست رنگی شرارے اور پیلی کرتی میں پھولوں کے زیور پہنے گڑیا لگ رہی تھی۔ تو دوسری طرف زوہا خود بھی پیلے، نارنجی اور ہرے رنگ کے امتزاج کی فراک پہنے بہت حسین لگ رہی تھی۔

" کم تو تم بھی نہیں لگ رہی۔ "

وہ زوہا سے بولی۔

" ہاں تو ہم کیوں کم لگیں ہم کسی سے کم ہیں کیا۔ "

وہ شرارت سے مسکراتی ہوئی بولی۔

" زوہا! رمشا کو لے کر آجائو۔ "

عائلہ بیگم کمرے میں داخل ہوتی ہوئی بولیں۔

" جی آپ چلیں رمشا بس تیار ہے میں اسے لا رہی ہوں۔ "

زوہا رمشا کا گھونگھٹ نکالتی ہوئی بولی۔

" ٹھیک ہے۔ سدیس تم آجائو تمہارے بابا بلا رہے ہیں۔ "

عائلہ بیگم کی بات سن کہ وہ بابا بابا کی گردان کرتا ہوا ان کے ساتھ چلا گیا۔

رمشا کو اسٹیج پر بٹھایا جا چکا تھا۔ سب بڑے رسم کرچکے تھے تو عائلہ بیگم نے زوہا کو اسٹیج پر آنے کا بولا تو وہ پورے وہ اپنے شوہر کو ڈھونڈنے لگی۔

تو اسے ایک جانب ایک جیسے سدیس کرتا شلوار اور ہرے رنگ کی جامہ وار کی واسکٹ پہنے داور اور  سدیس نظر آئے تو اس کے ذہن میں پانچ سال پہلے والے مناظر گھوم گئے۔

                                  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

داور نے جب سے باہر جانے کا فیصلہ کیا تھا صفدر صاحب بہت پریشان تھے۔

وہ جانتے تھے اگر ایک بار داور چلا گیا تو وہ دوبارہ واپس نہیں آئے گا اور وہ اپنے اکلوتے بیٹے کی صورت دیکھنے کے لئے ترس جائیں گے۔ انکی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ داور کو واپس جانے سے کیسے روکیں۔ 

" صفدر صاحب روک لیں میرے بیٹے کو جانے سے۔ میں کیسے رہوں گی اس کی صورت دیکھے بغیر۔ آپکی تو وہ کوئی بات نہیں ٹالتا ناں۔ روک لیں آپ اسے۔ "

" میرے بس میں ہوتا تو کب کا روک لیتا۔ میں تو وہ بدنصیب باپ ہوں جو اپنے بیٹے کی زندگی میں خوشیاں لانے کے چکر میں اسکا دامن کانٹوں سے بھر گیا۔ "

انہوں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔

" یہ آپ کیا کہہ رہےہیں۔ "

گلزار بیگم نے رونا بھول کر حیرت سے انکی جانب دیکھا۔

" ہاں میں ہی ہوں اسکی خوشیوں کا قاتل۔ "

" آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں کھل کر بتائیں۔ ورنہ میرا دل بند ہوجائے گا۔ "

وہ پے در پے ملنے والوں جھٹکوں سے ہواس باختہ تھیں۔

پھر صفدر علی شاہ آہستہ آہستہ انہیں ساری بات سے آگاہ کرتے گئے۔ ساری بات سن کر گلزار بیگم نے اپنے دل پر ہاتھ رکھ لیا۔

" یہ کیا کردیا آپ نے۔ زوہا اگر اس کو ناں ملتی تو شاید جی بھی لیتا۔ پر اسے پانے کے بعد دوبارہ کھو کے کیسے جیئے گا وہ۔ ہم زوہا کو ساری حقیقت سے آگاہ کردیں مجھے یقین ہے وہ ضرور ہماری بات سنے گی۔ "

گلزار بیگم لہجے میں آس لیے ہوئے بولی۔

" ہم نہیں بتا سکتے کسی کو کچھ۔ کیونکہ میرے پائوں میں داور کی دی ہوئی قسم کی بیڑیاں ہیں۔ "

صفدر علی شاہ شکستہ لہجے میں گویا ہوئے۔

" پر کوئی قسم ہمارے بیٹے کی خوشیوں سے تو بڑھ کر نہیں ناں۔ قسم اس نے آپ کو دی ہے مجھے تو نہیں۔ میں نہیں چاہتی کہ اس بڑھاپے میں میں اپنے بیٹے کی صورت دیکھنے کے لئے ترسوں۔ میں کل جاکر زوہا کو سب سچ بتا دونگی اور مجھے یقین ہے وہ میری بات ضرور سنے گی۔ "

وہ فیصلہ کرتی ہوئی بولیں۔

                                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلے دن گلزار بیگم اور صفدر علی شاہ شہر میں کسی رشتے دار سے ملنے کے بہانے زوہا کے پاس آگئے۔

" آپ لوگ کیوں آئے ہیں اب یہاں۔ "

اظہار صاحب انہیں دیکھ کر برہمی سے گویا ہوئے۔

" بھائی صاحب ایک بار ہماری بات سن لیں۔ "

گلزار بیگم نرم لہجے میں بولیں۔

" ہمیں آپکی کوئی بات نہیں سننی آپ جا سکتے ہیں یہاں سے۔ "

اظہار صاحب باہر کی طرف اشارہ کرکے بولے۔

" ایک دفعہ سن تو لیں کیا کہنا چاہ رہے ہیں وہ۔ "

نسرین بیگم بولیں۔

" ٹھیک ہے بولیں۔ "

اظہار صاحب بولے۔

" زوہا کو بھی بلالیں۔ "

گلزار بیگم نے کہا۔

اظہار صاحب نے کچھ بولنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ نسرین بیگم جلدی سے بولیں۔

" میں بلاتی ہوں۔ "

یہ کہہ کر وہ زوہا کو بلانے چلی گئیں۔

زوہا کے آنے پر گلزار بیگم نے پوری بات ان کے گوش گزار دی۔

" یہ کیا تماشہ لگایا ہوا ہے آپ لوگوں نے۔ پہلے پوری دنیا میں ہماری عزت اچھالتے ہیں۔ پھر اپ کا بیٹا آکر سارا الزام اپنے سر لے لیتا ہے۔ اب آپ آگئے ہیں اسے بے گناہ ثابت کرنے۔ آخر آپ چاہتے کیا ہیں۔ "

اظہار صاحب غصے سے بولے۔

" میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں۔ میرا بیٹا بے گناہ ہے۔ تم سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ اسے اسکی مسکان واپس لوٹا دو۔ اسے روک لو۔ "

صفدر علی شاہ زوہا کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولے۔ آج وہ کہیں سے بھی ایک جاگیر دار نہیں لگ رہے تھے۔ بلکہ آج وہ ایک عام انسان تھے جو اپنے بیٹے کے لئے کسی کے آگے ہاتھ جوڑ کر کھڑا تھا۔ آج انکی انا کا بت پاش پاش ہو گیا تھا۔ کسی نے سچ ہی کیا کہ اولاد کی محبت انسان سے بھیک بھی منگوالیتی ہے۔

" انکل یہ آپ کیا کررہے ہیں۔ پلیز ایسے مت کریں۔ "

زوہا انکے بندھے ہاتھ دیکھ کر شرمندگی سے گویا ہوئی۔

" زوہا میں نے تو ہمیشہ تمہیں ایک بیٹی کی طرح پیار دیا ہے۔ آج ایک ماں اپنی بیٹی سے درخواست کررہی ہے اپنے بیٹے کے لیے۔ "

" اماں سائیں مجھے سوچنے کے لئے کچھ وقت چاہیئے۔ "

وہ ان سے نظریں چراتے ہوئے بولی۔

" وقت لے لو۔ پر اتنا نہیں کہ سب کچھ ہاتھ سے نکل جائے۔ "

یہ کہہ کر وہ چلے گئے۔

" زوہا پھر کیا سوچا کیا کرنا ہے تمہیں۔ "

اظہار صاحب نے اس سے پوچھا۔

" پتا نہیں بابا مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ "

وہ پریشان سی بولی۔

" بیٹا تم آرام سے سوچو۔ تمہارا ہر فیصلہ ہمیں منظور ہے۔ تمہیں کسی کے دبائو میں آنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ "

یہ کہہ کر وہ اسکا سر تھپتھپاتے ہوئے چلے گئے۔

" زوہا ایک طلاق یافتہ لڑکی کا اس معاشرے میں کوئی مقام نہیں ہوتا۔ شادی ناکام ہونے کا ذمہ دار لڑکی کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے۔ اور سب سے اہم بات میں نے داور کی آنکھوں میں تمہارے لیے محبت دیکھی ہے۔ آگے تم خود سمجھدار ہو۔ "

وہ جاتے جاتے زوہا کے لیے سوچوں کے نئے در کھول گئیں۔

                                 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زوہا کے بہت سوچنے کے بعد آخر کار اسکے دل نے زوہا کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا۔

مشعل نے اسے میسج کرکے داور کی فلائٹ کا بتایا تھا اور کہا تھا کہ اب تمہارے ہاتھ میں ہے چاہے تو تم ہمیں بھائی سے دور کردو یا ہمارے ساتھ رہنے دو۔

زوہا ایئرپورٹ کے ویٹنگ ایریا میں کھڑی داور کو ڈھونڈ رہی تھی۔ کہ وہ اسے ایک کرسی پر سر جھکائے بیٹھا ہوا نظر آیا۔ 

وہ آہستہ سے چلتی ہوئی اسکے برابر کرسی پر بیٹھ گئی۔ 

داور نے سر اٹھا کر اسکی طرف دیکھا پھر بغیر کوئی ردعمل دیئے بغیر دوبارہ چہرہ جھکا لیا۔

" جب میری زندگی سے چلی گئی ہو تو میری سوچوں سے کیوں نہیں چلی جاتی۔ "

داور نے اسے اپنا خیال سمجھ کر پوچھا۔

" ناں خود جائونگی ناں ہی آپ کو جانے دونگی۔ "

داور نے حیرت سے اسکی جانب دیکھا۔

" بولئے کریں گے باقی زندگی کا سفر میرے ساتھ۔ "

زوہا نے اسکے سامنے ہاتھ پھیلایا۔

داور ابھی بھی اسکی جانب دیکھے جارہا تھا۔

" ہاتھ لگا کر دیکھ لیں اصلی ہوں۔ "

زوہا نے شرارت سے کہا۔

داور نے ہاتھ آگے بڑھا کر اس کا ہاتھ تھاما۔

" یہ سچ ہے۔ تم اب تو نہیں جائو گی ناں مجھے چھوڑ کر۔ "

اس نے تصدیق کرنی چاہی۔

" میں کہاں آپ ہی جارہے ہیں مجھے چھوڑ کر۔ "

" تم روکو گی تو میں رک جائونگا۔ "

" لیں تو اور کیسے روکوں۔ ایئرپورٹ آگئی وہ کافی نہیں ہے۔ "

زوہا منہ بناتی ہوئی بولی۔

اسکی اس ادا پر داور نے اسے بانہوں کے حصار میں لینا چاہا کہ زوہا یہ بولتی ہوئی کھڑی ہوئی۔

" ایئرپورٹ پر ہیں ہم۔ چلیں گھر چلیں سب انتظار کررہے ہیں ہمارا۔ "

" مماں مماں۔ "

ابھی وہ ماضی میں ہی کھوئی ہوئی تھی کہ سدیس کی آواز سے ہوش میں آئی جو اسے بابا کے ساتھ اسٹیج پر چلنے کے لیے بول رہا تھا۔ تو وہ مسکراتی ہوئی ان کے ساتھ چلی گئی۔

 ان پانچ سالوں میں بہت کچھ تبدیل ہوگیا۔ داور نے زوہا کا خواب پورا کرنے کے لئے اسکی ہر طرح سے مدد کی۔ آج وہ ایک ڈاکٹر تھی۔ وہ دونوں ایک پیارے سے بیٹے کے ماں باپ بن چکے تھے۔

مشعل کی شادی ہو چکی تھی۔

فائز نے بھی سب کچھ بھلا کر شادی کرلی تھی وہ بھی ایک بیٹی وفا اور بیٹے سالار کا باپ بن چکا تھا۔ زوار اور اس کے درمیان ساری غلط فہمیاں دور ہو گئی تھی۔

وہ لاسٹ سیمسٹر کے پیپر ختم ہونے کے بعد اپنے میکے آئی ہوئی تھی۔ آج داور رمشا کی مہندی میں شریک ہونے کے لیے آیا تھا پر اپنے باپ کو دیکھ کر سدیس نے واپس جانے کی ضد کر لی ہے اسے گھر جانا ہے دادا دادی یاد آ رہے ہیں۔ داور تو ویسے بھی اس کی بات نہیں تالتا تھا اس لیے انہیں لے کر رات کے وقت ہی گھر جانے کا فیصلہ کرلیا۔

پھر تھوڑی دیر بعد وہ گاڑی داور کے ساتھ بیٹھی اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگئی تھی۔ زوال کے بار بار بولنے کے باوجود بھی سدیس مسلسل جاگ کر ان پر سوالات کی بوچھاڑ کئے ہوئے تھا جن کے زیادہ تر جواب دور ہی دے رہا تھا۔ وہ داور کے ساتھ پر جتنا شکر ادا کرتی اتنا کم تھا۔ کیونکہ جتنی محبت داورنے اسے دی تھی اتنی محبت شاید ہی اسے کوئی دوسرا انسان دے پاتا۔ اس کے دل میں جاگیرداروں کو لے کر جو بھی غلط فہمی تھی وہ داور نے دور کردی تھی۔ داور نے جو سفر "م" سے شروع کیا تھا وہ اب "ع" تک پہنچ گیا ہے جس میں زوہا اب اس کے شانہ بشانہ ہے۔


ختم شُد۔۔۔۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Khwabon Ki Pari Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Khwabon Ki Pari written by  Aaira Shah . Khwabon Ki Pari by Aaira Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages