Rakhail By Riaz Aqib New Novel Episode 17

Rakhail By  Riaz Aqib New Novel Episode 17

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Rakhail By Raiz Aqib Episode 17

Novel Name: Rakhail 

Writer Name: Riaz Aqib  

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

کبیردادا پرخیال لہجے میں بولا۔”اخلاق حسین اسے تنگ کرے گا ۔“

تو کرتا رہے ۔“پاشا بے پروائی سے بولا ۔” آپ کی ذمہ داری دلاور شیخ تک محدود تھی، اسے پورے پاکستا ن کے مردوں سے بچانے کا ٹھیکا آپ نے نہیں لے رکھا ۔آپ اس کے باڈی گارڈ نہیں ایک گینگ کے سربراہ ہیں ۔خود کو اتنا ہلکا نہ کریں کہ ایک چھوکری کے لیے دوسروں کے ساتھ لڑائی جھگڑا مول لیتے رہیں ۔“

”وہ بہت مظلوم ہے یار !“کبیردادا کا تھکا ہوا لہجہ ظاہر کر رہا تھا کہ اس کے پاس دلائل ختم ہو چکے ہیں ۔

”یقینا وہ پاکستان میں اکیلی مظلوم نہیں ہے ،بلکہ کئی مظلوم تو آپ کے ظلم کا نشانہ بن چکے ہوں گے ۔آپ امام مسجد یا تبلیغی جماعت کے مبلغ نہیں ایک گینگسٹر ہیں ۔کبیر علی خان نہیں کبیردادا ہیں ۔اور دادا کا لفظ آپ کی عمر نہیں عہدے کو ظاہر کر رہا ہے ۔“

”ٹھیک ہے یار، دماغ خراب نہ کرو صبح اسے بھیج دوں گا ۔“وہ اپنے لیے دوسرا گلاس بھرنے لگا ۔

کاشف راجپوت اور پاشا کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوگئی تھی ۔

کاشف نے کہا ۔”اب ہمیں بھی اجازت دیں چند ضروری کام نبٹانے ہیں ۔“

”ٹھیک ہے جائیں ، کل شہاب قصوری کے ہاں ملاقات ہو گی ۔“

پاشا خلوص سے بولا ۔”دادا !....میں جانتاہوں کہ آپ اکیلے بھی ان تمام کا مقابلہ کر سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود میں وعدہ کرتاہوں ہمیشہ ہمیں اپنے دائیں بائیں ہی پائیں گے ۔“

”جانتا ہوں ۔“کبیردادا نے اثبات میں سر ہلادیا۔

ان کے جانے کے دوتین منٹ بعد اس کا سیکرٹری عظیم اجازت مانگ کر اندر داخل ہوا۔

”دادا!.... ساحل والے اڈے پر جانا ہوگا دو دن سے نہیں جا سکے ہیں ۔“

کبیردادا نے دیوارپر ٹنگی گھڑی پر نگاہ دوڑائی سوئیاں ساڑھے دس بجنے کا اعلان کر رہی تھیں ۔ایک لمحہ سوچنے کے بعد وہ اپنے محافظوں کے نام لیتے ہوئے بولا ۔”امتیاز ،باقر وغیرہ کو ساتھ لے جاﺅ میں واپس جا رہا ہوں ۔“

”آپ اکیلے ....“عظیم نے کچھ کہنا چاہا ،مگر کبیردادا کی تیز نظریں دیکھتے ہی گڑبڑا کربات تبدل کردی ۔ ”میرا مطلب ہے کارکے بغیر ۔“

”سوزکی کھڑی ہے نا ،اسی میں چلا جاﺅں گا ۔“کبیردادا نے ہاتھ سے اسے جانے کا اشارہ کیا ۔اور عظیم سرہلاتا ہوا دروازے کی طرف مڑ گیا ۔صحن میں جاتے ہی اس نے امتیاز پارٹی کو تیار ہونے کا حکم دیا ۔

امتیاز نے کہا ۔”کبیردادا کو تو باہر نکلنے دو ۔“وہ چاروں صحن میں کرسیاں لگا کرتاش کھیلنے میں مصروف تھے ۔

”کبیردادا ساتھ نہیں جا رہے ۔وہ واپس گھر جا رہے ہیں ۔“یہ کہتے ہوئے عظیم کبیردادا کی کار کی طرف بڑھ گیا ۔

”اتنی جلدی واپس جا رہے ہیں اور وہ بھی اکیلے۔“باقر نے حیرانی سے کہتے ہوئے ہاتھ میں پکڑے پتے میز پر پھینک دیے ۔

بخش نے کہا۔”تو کیا ....دادا اکیلا بھی دس پندرہ افرادپر تو بھاری ہے ۔“

”بھئی دادا تو گیا کام سے ۔دس بجتے ہی اسے بی بی حجن کی یاد ستانے لگی ۔“باقر کی تقلید میں امتیاز بھی ہاتھ جھاڑتا ہوا کھڑا ہو گیا ۔

”ویسے کیا کہتے ہویہ عشق کب تک قائم رہے گا ۔“ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے امتیاز ، بخش کی طرف متوجہ ہوا ۔

بخش وثوق سے بولا ۔”اتنی جلدی ختم ہوتا نظر نہیں آتا ۔کم بخت بلا کی خوب صورت اور معصوم ہے ۔آج صبح لان میں نماز پڑھ رہی تھی پھر وہیں ٹہلتی رہی ۔دوپٹا بھی سر سے نہیں سرکنے دیتی ۔پتا نہیں ایک گینگسٹر کے ہاتھ کیسے چڑھ گئی ۔“

رخسار نے خیال ظاہر کیا ۔”ایسی لڑکیاں حد درجہ کی شوہر پرست ہوتی ہیں ، خود سے تو اس نے کبھی طلاق نہیں مانگنا ۔“

امتیاز منھ بناتے ہوئے بولا ۔”بات اس کی نہیں کبیردادا کی مرضی کی ہے ۔“

”وہ اپنے حواسوں میں کب ہے ۔“باقر نے قہقہہ لگایا ۔”دیکھتے نہیں کس طرح دس بجتے ہی بھاگ پڑا ہے ۔جبکہ وہ نمازن صبح اور ابھی شام کو گھر سے نکلتے وقت باہر تک کبیردادا کو رخصت کرنے آئی تھی ۔کار کے داخلی دروازے سے نکلنے تک وہیں کھڑی کبیردادا کی طرف متوجہ رہی ۔دادا بھی بار بار مڑ کر یوں دیکھ رہے تھے جیسے مجنوں لیلیٰ کو دیکھا کرتا تھا ۔“

تمام باقر کی بات پر کھل کھلا کر ہنس پڑے تھے ۔

٭٭٭

کار کے ہارن کی آواز کان میں پڑتے ہی وہ اچھل کر کھڑی ہوئی اور بھاگتے ہوئے باہر نکل آئی ۔ڈرائینگ روم کے دروازے سے نکلتے ہی اس کی نظر سیمنٹ کی روش پر رکتی ہوئی سوزکی کار پر پڑی اور اس کی خوشی ایک دم ماند پڑ گئی تھی ۔وہ کبیردادا کی گاڑی نہیں تھی ۔یوں بھی وہ اکیلی کار میں سفر نہیں کیا کرتا تھا ۔وہ واپس مڑنے ہی لگی تھی کہ دروازہ کھول کر طویل قامت کبیردادا کار سے برآمد ہوا ۔

اس کے مایوسی بھرے چہرے پر تبسم نمودار ہوا اور وہ وہیں جم گئی ۔

کبیردادا نے بھی اسے دیکھ لیا تھا ۔کار سے باہر نکل کر وہ اس سے انجان بنتا ہوا چوکیدار کو مخاطب ہوا ۔

”کار گیراج میں کھڑی کروا دو ۔“

”جی دادا!“کہہ کر چوکیدارڈرائیور کو بلانے چل پڑا ۔

وہ دروازے کی طرف بڑھ گیا جہاں تناوش چہرے پر تبسم بکھیرے کھڑی تھی ۔ 

”آگئے آپ ۔“اس کے قریب پہنچتے ہی وہ کبیردادا کے بازو سے چمٹ گئی ۔

”کہا تھا نا کہ تمھارے رومانس جھاڑنے سے مجھے کوفت ہوتی ہے۔“

”ملازمین کے سامنے منع کیا تھا نا ۔“شوخی بھرے لہجے میں کہتے ہوئے وہ اس کے بازو سے چمٹی رہی ۔

”کالج کی یونیفارم کیوں پہنی ہوئی ہے ،اور کپڑے نہیں ہیں کیا ۔“کبیردادا جانتا تھا کہ وہ باز آنے والی نہیں ہے ۔اس لیے موضوع تبدیل کر دیا ۔

”کیوں نہیں ہیں ،لیکن میری سہیلیاں کہتی ہیں کہ یہ لباس مجھ پر بہت پھبتا ہے ۔اور ان کپڑوں میں میں زیادہ خوب صورت نظر آتی ہوں ۔پس اسی لیے پہن لیے ۔“

”سچ ہی کہتی ہیں ۔“کبیردادا کے اندر کہیں دور سے ایک آواز ابھری جسے اس کے ہونٹوں تک رسائی حاصل نہیں ہو پائی تھی ۔

اس نے منھ بنایا۔”تو خوب صورت لگنے سے کیا ہوگا۔“

وہ شرارتی لہجے میں بولی ۔”بیوی کا مقصد اپنے شوہر کو خوش کرنا ہوتا ہے ،سوچا شاید اس طرح آپ کو زیادہ پیاری لگوں ۔“

”دماغ خراب ہے تمھارا۔“

”وہ تو ہے ،اگر خراب نہ ہوتا تو آپ سے پیار کرتی ۔“

”منت کس نے کی ہے ۔“کبیردادا کو جانے کیوں اس کی بات سن کر غصہ آگیا تھا ۔ اپنا بازواس کی گرفت سے آزاد کراتے ہوئے وہ صوفے پر بیٹھ گیا ۔

تناوش کھل کھلاتے ہوئے قالین پر بیٹھ کراس کے بوٹوں کے تسمے کھولنے لگی ۔”غصے میں اور بھی پیارے لگنے لگتے ہو ۔“

”شٹ آپ ۔“اسے لگا تناوش اسے چڑا رہی ہے ۔

”ایسا بھی کیا غلط کہہ دیا ہے ۔“اس کے بوٹ اتار کر ایک جانب رکھتے ہوئے تناوش نے اس کے گھٹنوں پر ٹھوڑی رکھ کر اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگی ۔

وہ بیزاری ظاہر کرتے ہوئے بولا ۔”اگر تمھارے رومانس میں تھوڑا وقفہ آجائے تو میں لباس تبدیل کر لوں ۔“

”کر لینا ،ایسی بھی کیا جلدی ہے ۔“اس کے ساتھ بیٹھ کر وہ ٹائی کی گرہ ڈھیلی کرنے لگی ۔

”پڑھائی ہو رہی تھی ۔“میز پر بکھری کتابیں دیکھتے ہوئے وہ پوچھنے لگا ۔

”ہاں ،سوچا آپ سے اجازت مانگ کر امتحان میں بیٹھ جاﺅں گی ۔ تین چارہفتے بعد ہی امتحان شروع ہوں گے ۔“

”تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے ۔“

”کلاسیں تو اب تک لگ رہی ہیں۔“

”صبح عظیم کو کالج کا نام پتا بتا دینا وہ تین چار دن کی چھٹی کرا دے گا، میرا مطلب تم نے یہاں دو چار دن ہی رہنا ہے اس کے بعد تومیری ذمہ داری ختم ہو جائے گی نا ۔“یہ کہتے ہوئے کبیردادا کو یاد آیا کہ وہ پاشا کو یہ کہہ کر آیا ہے کہ صبح اسے واپس بھیج دے گا ۔مگر تناوش کے سامنے آتے ہی اسے اپنا ارادہ کمزور پڑتا نظر آگیا تھا ۔

وہ کھل کھلاتے ہوئے پر اعتماد لہجے میں بولی ۔”آپ کی مرسڈیز میں بیٹھ کر امتحان دینے جایا کروں گی۔“

”بس شیخ چلی کی طرح منصوبے بناتی رہا کرو۔“

”خوا ب دیکھنے پر پابندی ہے کیا ۔“اس مرتبہ اپنا دکھ چھپا نہیں پائی تھی ۔اس کی بات کبیردادا کو برچھی کی طرح لگی تھی ۔اس کی جانب سر گھماتے ہوئے وہ تسلی دیتا ہوابولا۔

”ٹسوے بہانے کی ضرورت نہیں یہ مرسڈیز تمھاری ہوئی گھر جاتے ہوئے ساتھ لیتی جانا ۔“

”مجھے مرسڈیز نہیں مرسڈیز والا چاہیے ۔“وہ جیسے پھٹ پڑی تھی ۔

”ناممکن ہے ۔“

وہ بگڑ کر بولی ”میں یہیں رہوں گی کہیں نہیں جانے والی سمجھے آپ ۔“

”دماغ خراب نہ کیا کرو ۔“

”ٹھیک کب تھا ۔“

”زیادہ بکواس نہ کیا کرو مار کھاﺅ گی ۔“

”اچھا چھوڑیں نا جھگڑے کو ،یہ بتائیں آج جلدی کیوں لوٹ آئے ۔“ 

”میری پرچون کی دکان نہیں ہے کہ لگی بندھی روزمرہ ہو گی ۔کوئی ضروری کام نہیں تھا تو لوٹ آیا ہوں ،ممکن ہے ابھی کال آجائے اور جانا پڑے ۔“

”ابھی تو نہیں جانے دوں گی ۔“ قریب ہو کر اس نے سر کبیردادا کے کندھے پر رکھ دیا۔

”جانتی ہو تمھاری محبت جتانے اور چاہت کے اظہار پر مجھے اتنی کوفت ہوتی ہے کہ جی چاہتا ہے تمھیں بغیر لمحہ ضائع کیے گھر بھیج دوں ۔“ بیزاری ظاہر کرتے ہوئے بھی کبیر دادا نے اسے دور نہیں دھکیلا تھا ۔

وہ شرارتی لہجے میں بولی ۔”اگر وعدہ کرو کہ ایسا نہ کرنے پر مجھے گھر نہیں بھیجو گے تو کبھی ایسا نہیں کروں گی ۔“

”ابھی تک اس تحفے کو نہیں کھولا ۔“ اچانک کبیردادا کی نظر اخلاق حسین کے دیے ہوئے تحفے پر پڑی جو ویسے ہی پیک شدہ تپائی پر پڑاتھا ۔

”آپ کا دوست بہ ظاہر تو اخلاق کا مظاہرہ کر رہا تھا ،مگر مجھے یوں محسوس ہواجیسے اس نے دل سے یہ تحفہ نہیں دیا ۔“

کبیردادا کو اس چھوٹی سی لڑکی کے مشاہدے پر خاصی حیرانی ہوئی تھی ۔وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولا ۔”صحیح سمجھا ،وہ دوست نہیں ہے ۔بس دوستی کا نقاب پہن کر آیا تھا۔حقیقت میں وہ میرا سب سے بڑا مخالف ہے ۔“

تناوش اس کا بازو چھوڑ کر تپائی کی طرف بڑھی اور تحفے کو اٹھا کر کوڑا کرکٹ کی ٹوکری میں پھینک دیا ۔

”یہ کیوں ؟“کبیردادا نے حیرت بھرے لہجے میں پوچھا ۔

وہ بے پروائی سے بولی ۔”دشمن سے میں زندگی کا تحفہ بھی قبول نہ کروں ۔“

”وہ میرا دشمن ہے ۔“کبیردادا نے اسے یاد دلایا۔

”کیا آپ کے دشمن کو میں خیرخواہ سمجھ سکتی ہوں ۔“

کبیردادا اس کی بات کا جواب دیے بغیر ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گیا ۔تناوش اپنی کتابیں سمیٹ کر اس کے پیچھے بڑھ گئی تھی ۔لباس تبدیل کر کے وہ الماری کی طرف بڑھا۔ تناوش اس کے کپڑے ہینگر میں لٹکانے لگی ۔

”الماری کو تالہ کس نے کیا ہے ۔“

”میں نے ۔“بیڈ کی طرف بڑھتے ہوئے وہ اطمینان بھرے لہجے میں بولی ۔ ”بوتل نکال کر ریک پر رکھ دی ہے نا ۔“

ریک سے بوتل اٹھا کر وہ صوفے پر آ بیٹھا ۔”ایک اور بوتل بھی لے آﺅ۔“

”ایک کافی ہے ۔“تکیے پر نیم دراز ہوتے ہوئے تناوش نے موشگافی کی ۔

”میں سمجھا نہیں ۔“گلاس منھ سے لگاتے ہوئے وہ اس کی طرف متوجہ ہوا ۔

”میں نے کہا ایک بوتل پر گزارہ کریں ۔“

”دماغ جگہ پر ہے تمھارا یا کل والی بے عزتی بھول گئی ہے ۔“

تناوش خاموشی سے اسے گھورتی رہی جواب دینے کی ضرورت اس نے محسوس نہیں کی تھی ۔کبیردادا بھی مزید کچھ کہے پینے کی طرف متوجہ ہو گیا ۔بوتل خالی کر کے وہ اس کی طرف بڑھا۔

”چابی کہاں ہے ؟“اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا ۔

تناوش نے اس کے بازو کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اپنی جانب کھینچا ۔”بس کریں نا ، ایک بوتل کافی ہے ۔“

”دوں گا ایک ۔“ غصے بھرے لہجے میں کہتے ہوئے اس نے تھپڑ تولا۔

”دھمکی نہ دیں ،مار لیں ۔“تناوش نے اپنا رخساراس کی جانب سیدھا کیا ۔

”بکواس بند کرو ....چابی ادھر دو ۔“ کبیردادا کا غصہ بڑھنے لگا ۔

”مجھے آدھا گھنٹا دو ،اگر سلا نہ دیا تو پی لینا ۔“کبیردادا کو زبردستی بٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے تناوش نے لگاوٹ ظاہر کی ۔

وہ زچ ہو تے ہوئے بولا۔”آخر تمھیں مسئلہ کیا ہے ۔“

”مسئلہ یہ ہے کہ جو دو دن یہاں ہوں مجھے بھی وقت چاہیے ۔“

وہ دھاڑا۔”نہیں ہو تم دو دن یہاں ،صبح دفع کر دوں گا تمھیں ۔“

”اتنا غصہ کرتے ہیں آپ ۔ملازم سنیں گے تو کیا کہیں گے کہ چھوٹی سی لڑکی کو ڈانٹ رہے ہیں آپ ۔“وہ اسے بچوں کی طرح پچکارنے لگی ۔

”چابی ادھر کرو ۔“

”کہہ دیا نا نہیں دوں گی ،روزانہ اک بوتل پر گزارا کرنا پڑے گا ۔“

کبیردادا جانتا تھا کہ ایک تھپڑ کھا کر اس نے بے ہوش ہو جانا تھا ۔اور زبانی کلامی وہ مان کے نہیں دے رہی تھی ۔وہ لہجے میں تھوڑی نرمی پیدا کرتا ہوا بولا ۔”دیکھو تناوش ،میرے کاموں میں مداخلت کرنا بند کردو ۔میں اپنا اچھا برا جانتا ہوں ۔“

”اگر اچھی چیز ہے تو میں بھی پیوں گی ۔“

وہ زچ ہوتے ہوئے بولا ۔”تو منع کس نے کیا ہے ۔“

وہ کھل کھلا کے ہنسی ۔”کتنے برے ہیں آپ ،چھوٹی سی بچی کو شراب پینے کی ترغیب دے رہے ہیں ۔“

”چابی ادھر کرو ۔“کبیردادا نے اپنا مطالبہ دہرایا ۔

تناوش نے منت بھرے لہجے میں کہا ۔” اچھا ایک منٹ بیٹھ کر میری بات تو سنیں نا ۔“

”بولو ۔“بادل نخواستہ وہ بیڈ پر بیٹھتے ہوئے مستفسر ہوا ۔

تناوش نے اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر زبردستی دھکا دے کر تکیے پر لٹایا اور بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بولی ۔”میں سلا دیتی ہوں نا ۔“گو کبیردادا اس کے دھکے سے نیچے نہیں گر سکتا تھا مگر جانے کیوں اس نے اپنا بدن اس نرم و نازک لڑکی کے حوالے کر دیا ۔تناوش کی ہٹ دھرمی پر اسے غصہ آرہا تھا ۔غصے کا اظہار بھی اس نے کیا مگر کوئی انتہائی قدم نہ اٹھا سکا ۔ نہ تو اسے تھپڑ رسید کر سکا نہ زبردستی اس سے چابی چھین سکا اور آخر میں اس کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے وہ لیٹ گیا ، یہ سوچ کر کہ دو دن کے بعد یوں بھی چلی جائے گی ۔یا پھر یہ بھی اس کی غلط فہمی تھی ۔شاید وہ جانے کے لیے نہیں لے جانے کے لیے آئی تھی ۔بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے وہ دھیمی آواز میں گنگنانے لگی ،صورت کی طرح اس کی آواز بھی سریلی تھی ۔کبیردادا کی آنکھیں اس بچے کی طرح بند ہونے لگیں جسے لوری سنائی جا رہی ہو ۔

جاری ہے

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes.She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Rakhail Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Rakhail written by  Riaz aqib Kohlar  .Rakhail  by Raiz Aqib Kohlar is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 

Previous Post Next Post