Adhuri Baat Novel By Zarish Mustafa Complete Short Novel Story 9

Adhuri Baat Novel By Zarish Mustafa Complete Short Novel Story 9

 Read ONLINE Free Famous Urdu Novel 

Madiha Shah Writer ; Urdu Novels Stories

Novel Genre : Romantic Urdu Novel Enjoy Reading

Adhuri Baat Afsana By Zarish Mustafa Complete Short Story 9


عماد مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا پلیز ہیلپ می۔

رمیشا نے التجائیہ انداز میں اسے پکارا۔

کیا ہوا ہے مشی کیا سمجھ میں نہیں آ رہا۔

عماد نے فائل سے نظریں ہٹا کر اسے دیکھا۔

بس مجھے نہیں کرنا 

وہ یونہی منہ پھلائے بولی۔

عماد کو ناچاہتے ہوئے بھی ہنسی آ گئی۔

شرم نہیں آ رہی تم ہنس رہے ہو۔

مشی نے خفگی سے عماد کو گھورا۔

سر ظفر کی اسائنمنٹ سے ایسے ہی تمہاری جان جاتی ہے آئی نو۔

عماد نے اپنی ہنسی کو بریک لگاتے ہوئے کہا۔

بس وہ مجھے اچھے ہی نہیں لگتے یہ تو تمہیں بھی پتہ ہے پھر بھی تم میرا مذاق اڑا رہے ہو ۔

وہ روہانسی ہوئی۔

توبہ توبہ میری یہ مجال 

عماد نے اپنے دونوں ہاتھ کانوں کو لگائے۔

وہ خانتا تھا یہ رونا دھونا صرف ڈرامہ ہے

میں یہ اسائنمٹ نہیں کروں گی مجھے کل کہیں جانا ہے۔

وہ دونوں کہنیاں ٹیبل پہ ٹکائے مزے سے بولی۔

کہاں جانا ہے۔

عماد فائل بند کرتے ہوئے اسکی طرف متوجہ ہوا۔

وہ کل ہم فرینڈز کا مووی دیکھنے کا پلان ہے اور شاپنگ کا بھی 

وہ نظریں عماد کے چہرے پہ ٹکائے بولی۔

یہ پلان یقینا ابھی ابھی بنا ہے جب تمہیں یہ سب سمجھ نہیں آیا۔

عماد نے مشی کی آنکھوں میں جھانکا۔

جی نہیں یہ پرسوں بنایا تھا۔

مشی نے نظریں چرائیں۔

پرسوں سبمٹ کروانی ہے ۔

عماد اب بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

ہاں تو کیا ہوا 

وہ لاپرواہی سے بولی ۔

تم فیل ہو سکتی ہو ۔

عماد نے اسے ڈرانا چاہا۔

تمہارے ہوتے ہوئے میں کیسے فیل ہو سکتی ہوں۔

مشی ایک ادا سے کہتی اٹھ کھڑی ہوئی۔

دیکھو یہ چیٹینگ ہے تم ہمیشہ میرے ساتھ ایسے کرتی ہو۔

عماد نے دہائی دی۔

آئی نو کہ تم میرا کام بھی کر دو گے وہ ہنستے ہوئے وہاں سے چلی گئی تھی۔

وہ ہمیشہ اپنا کام عماد سے کرواتی اور وہ بنا لب پہ حرف شکایت لائے اسکا ہر کام خوشی خوشی کرتا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

عماد پلیز جلدی سے آ جاو۔

عماد اسکی اور اپنی آسائنمنٹ کمپلیٹ کرنے بیٹھا تھا۔

جب مشی کی کال دیکھتے ہوئے اسنے فورا رسیو کی تھی۔

کیا ہوا مشی سب خیریت ہے۔

وہ پریشانی سے بولا۔

گاڑی کا ایکسیڈینٹ ہو گیا ہے ۔

وہ ہمشہ ہوا کے گھوڑے پہ سوار رہتی تھی ۔

تم ٹھیک تو ہو نہ۔

وہ پریشانی سے کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔

ہاں ٹھیک ہوں تم آ جاو جلدی ۔

وہ پریشان تو نہیں لگ رہی تھی مگر بے زار ضرور تھی۔

وہ اپنی گاڑی کی چابی اٹھاتے ہوئے باہر کی جانب لپکا۔

تم ہو کہاں یہ تو بتاو

وہ عجلت میں گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے بولا

پولیس اسٹیشن ۔

مشی نے کہتے کے ساتھ ہی کال کٹ کر دی تھی۔

وہ بہت ریش ڈرائیونگ کرتے ہوئے پولیس اسٹیشن پہنچا تھا۔

اور پھر وہ مشی کو لے کر وہاں سے نکلا تھا۔

پولیس والوں کے ساتھ جو سر کھپایا وہ الگ 

گاڑی تقریبا تباہ ہو چکی تھی مگر مشی محفوظ تھی اسے چند ایک چوٹیں آئیں تھیں جن پر اب بینڈیج کر دی گئی تھی۔

ایکسڈنٹ میں غلطی مشی کی تھی وہ بہت ریش ڈرائیونگ کر رہی تھی۔

مشی تم پاگل ہو کچھ سوچتی بھی ہو کہ کرنا کیا ہے 

تم تو آج شاپنگ پہ جانے والی تھی پھر اس ویران سڑک پہ کیا کر رہی تھیں تم ۔

وہ پولیس اسٹیشن سے باہر آتے ہی اس پر برس پڑا تھا۔

موسم اچھا تھا میں تو لانگ ڈرائیو پہ نکلی تھی مجھے کیا پتہ تھا کہ۔

وہ سدا کی لاپرواہ تھی اب بھی اس پہ کوئی خاص اثر نہیں ہوا تھا اس سب کا۔

مشی اپنی انہی حرکتوں کی وجہ سے کسی دن بہت بڑا نقصان اٹھاو گی تم۔

عماد اسے وارن کرتے ہوئے گاڑی کی طرف بڑھا۔

گھر پر کیا بتاو گئی تم۔

وہ گاڑی کا لاک کھولتے ہوئے اچانک اسکی طرف مڑا ۔

یہ ہی کہ ایکسڈنٹ ہوا ہے۔

وہ معصومیت سے بولی۔

مشی تم سچ میں بےوقوف ہو یا شو کرتی ہو۔۔۔

عماد اسکی جانب دیکھتے ہوئے بولا۔

اس بات کا مطلب مشی نے حیرت سے اسکی جانب دیکھا۔

مطلب اگر گھر پہ سچ ہی بتانا تھا تو ضمانت کے لیے اپنے پاپا کو کال کرتی۔

وہ چڑ کر بولا۔

ارے پاگل ایکسڈنٹ کا بتاوں گی ناں تو ون ویک کی لیو مل جائے گئی کالج سے ۔

اگر پولیس کا پتہ چلا بہت ڈانٹ پڑے گئی۔

وہ ہنستے ہوئے بولی۔

اور ایکسیڈنٹ کی وجہ سے نہیں پڑے گی وہ چڑ کر بولا۔

اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہوں مجھے زخمی دیکھ کر نہیں ڈانٹیں گے ۔ مجھے زندہ دیکھ کر خوش ہو جائیں گے۔

اسنے بات ہوا میں اڑائی

عماد اسے دیکھ کر رہ گیا۔

یہ لڑکی کسی بھی بات کو سیریس نہیں لیتی۔

کیا رشتے طھی اس کے لیے مذاق ہیں۔

وہ سوچتے ہوئے گاڑی میں بیٹھا۔

☆▪☆▪☆▪☆▪☆▪☆▪☆▪☆▪☆▪☆

وہ مشی کو گھر ڈراپ کر کے آیا تو رات کے دس بج رہے تھے آج سنڈے تھا۔

گھر کے چھوٹے موٹے کاموں سے فرصت ملی تو آسائنمنٹ بنانے بیٹھا تھا۔

وہ اپنے گھر کا اکلوتا بیٹا تھا تین بہنوں کی ذمے داری تھی اس پر اسکے بابا کا ایک سوپر سٹور تھا جو اچھا چلتا تھا۔

اسی پر ان کی گزر بسر ہوتی تھی۔۔

اور وہ خود اتنی بڑی یونیورسٹی میں اسکالر شپ پہ پڑھ رہا تھا۔

آنے جانے کا مسلہ دیکھتے ہوئے اسکے بابا نے اسے گاڑی لے کے دی تھی جس کی اقساط ہر مہنے ادا کی جاتیں تھیں۔

وہ احساس کمتری کا شکار نہیں تھا مگر پھر بھی یونیورسٹی میں امیر گھرانوں کی لڑکیوں سے اور لڑکوں سے دور رہتا تھا ۔۔۔

مشی سے اسکی دوستی بھی ایک خاص واقع کے بعد ہوئی تھی

مگر پتہ نہیں کب اور کیسے مشی اس کے لیے خاص ہو گئی۔

اسنے اپنی آسائنمنٹ کمپلیٹ کر لی تھی اور اب مشی کے لے کر بیٹھا تھا 

جب مشی کی کال آئی اور وہ سب چھوڑ چھاڑ کر بھاگ نکلا۔

وہ رمیشا زمان کے لیے اسی طرح پاگل تھا کبھی بھی کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتا۔

یونیورسٹی کی لڑکیاں اسکی وجاہت پر مرتی تھیں مگر جب انہیں پتہ چلتا کہ وہ مڈل کلاس کا ایک عام رہائشی ہے تو جوبجود دور ہوتی جاتیں۔

مشی نے اس سب کو نظر انادز کر دیا تھا وہ ایک بہت بڑے بزنس مین کی اکلوتی بیٹی تھی۔

پھر بھی اسے عماد کے غریب ہونے پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔

یا شاید باقی معملات کی طرح وہ اس معمالے میں بھی لاپرواہ تھی۔

اور عماد اس کی معصومیت پر مر مٹا تھا

اففف ابھی یہ سب بھی کرنا ہے۔

عماد نے نے بکھری ہوئی فائلز کو ایک نظر دیکھا۔

اوربیڈ پہ اندھے منہ گر گیا۔

وہ سب ویسے ہی پڑا تھا جیسا وہ چھوڑ کر گیا تھا۔

‏جو بچھا سکوں تیرے واسطے

جو سجا سکیں تیرے راستے

میری دسترس میں ستارے رکھ

میری مُٹھیوں کو گلاب دے

(امجد اسلام امجد)

اسنے سیدھے ہوتے ہوئے اپنا موبائل نکالا اور مشی کو ٹیکسٹ کیا۔

تم مجھے شاعری کیوں سینڈ کر رہے ہو۔

دوسری طرف سے معصومیت بھرا سوال حاضر تھا۔

پاگل لڑکی کچھ سمجھتی ہی نہیں ہے۔

وہ دھیرے سے مسکرا دیا۔

اچھا اور کیا بھیجوں۔

عماد نے نچلا ہونٹ دانتوں تلے دباتے ہوئےاپنی ہنسی روکی۔

گیٹ ویل سون کے میسج بھیجو یار۔

دوسری طرف سے پھر ایک عجیب فرمائش آئی تھی۔

مشی اگر گیٹ ویل سون کے میسج بھجنے سے تم جلدی ٹھیک ہو جاو گئی تو میں ساری رات تمہیں بیٹھ کر میسج کرنے کو تیار ہوں۔

عماد نہ چاہتے ہوئے بھی جذباتی ہو گیا تھا۔

مجھے نیند آ رہی ہے۔

وہ کہتے کے ساتھ ہی گم ہو گئی تھی ۔

یہ لڑکی کچھ سمجھتی کیوں نہیں ہے۔

یا انجان بننے کی کوشش کرتی ہے۔

وہ ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا۔۔۔

☆☆▪☆☆▪☆☆▪☆☆▪☆☆▪☆☆▪☆☆

تمہاری آنکھیں کیوں سرخ ہو رہی ہیں لگتا ہے رات بھر سوئے نہیں۔

اگلے دن وہ یونیورسٹی سے مشی کی عیادت کے لیے اسکے گھر گیا تھا۔

وہ بیڈ پہ لیٹی مزے سے چپس کھانے میں مصروف تھی سامنے کوئی ہالی وڈ کی ایکشن مووی چل رہی تھی۔

جب وہ پھولوں کا بوکے اور گیٹ ویل سون کا کارڈ اسکے قریب رکھتے ہوئے سامنے رکھی کرسی پر براجمان ہوا۔

نہیں بس ایسے ہی سرخ ہو رہی ہیں ۔ میں تو پوری رات مزے سے سویا۔

عماد نے بہانہ بنایا ۔

وہ اب سے کیا کہتا کے آدھی رات آسائنمنٹ بنانے میں گزری اور باقی رات اسے کھو دینے کے خدشات نے اسے سونے نہیں دیا۔

اگر اسے کچھ ہو جاتا اور اگر اسنے انکار کر دیا وہ مختلف تاویلیں دے کر خود کو بہلاتا رہا تھا۔

لگ تو نہیں رہا کہ تم ایک پل کے لیے سوئے ہو ۔

مشی کولڈرنک کا سیپ لیتے ہوئے بولی۔

اسنے اسکی چوری پکڑ لی تھی پر زور نہیں دیا۔

ارے کیا یار میں تم سے ملنے آیا ہوں تم اپنا حال سناو تم تو پنجے جھاڑ کر میرے پیچھے پڑ گئی۔

عماد نے اسے ٹالنے کی کوشش کی تھی۔

دو سال سے ہم ساتھ ہیں اب تو کافی جان گئی ہوں تمہیں۔

اگر نہیں بتانا تو اٹس اوکے۔

وہ خود ہی خاموش ہو گئی تھی۔

تم سناو کیسی ہو ۔

عماد نے شکر کیا کہ اسنے زیادہ اسرار نہیں کیا۔

میں مزے میں ہوں مجھے کیا ہونا ہے۔

وہ کندھے اچکاتے ہوئے بولی۔

ہاں لگ رہا ہے اب تو ریسٹ ہی ریسٹ۔

وہ مسکرایا۔

ہاں جی بلکل وہ زور سے ہنسی۔

گھر سے ڈانٹ پڑی پھر 

وہ اسکے چہرے پہ نظریں جمائے بولا۔

کوئی ایسی ویسی ٹھیک ٹھاک بے عزتی ہوئی ہے۔

وہ منہ بناتے ہوئے بولی

ویسے ہمت ہے تمہارے گھر والوں کی کہ تم جیسے نمونے کو جھیل رہے ہیں۔

عماد نے آنکھوں میں شرارت سموئے اسے دیکھا۔

اچھا میں نمونہ ہوں۔

وہ خفا ہوئی ۔

اور کیا ہو اپنے نام کی ایک ہو ایسے تو نمونے ہی ہوتے ہیں۔

وہ ابھی تک اسی موڈ میں تھا۔

ٹھیک بیٹا اڑا لو مذاق مجھے کیا۔

وہ خفگی سے اسےدیکھتے ہوئے بولی۔

وہ زور سے ہنس دیا۔

ویسے مشی کب عقل آئے گی تمہیں ۔

عماد نے تاسف سے اسے دیکھے۔

کیوں کیا ہوا 

وہ کولڈرنک کا سپ لیتے ہوئی رکی۔

گھر آئے مہمان کو بندہ پانی پوچھ لیتا ہے۔

بندہ نا چیز یونیورسٹی سے سیدھا یہاں آیا ہے۔

وہ اسے جتانے والے انداز میں بولا۔

اوہ سوری تمہارے ساتھ باتوں میں بھول گئی۔

وہ جی بھر کے شرمندہ ہوئی۔

اچھا بڑے بات ہے جناب۔

عماد ظہیر کو دیکھ کر تم سب بھول گئی۔

عماد نے اسکا مذاق اڑایا۔

وہ منظوراں چھٹی پہ ہے روکو میں کچھ لے کے آتی ہوں وہ کہتے ہوئے فورا اٹھی۔

عماد کی نظر اسکے پاوں پہ پڑی۔

نہیں یار میں تو مذاق کر رہا تھا۔

عماد نے فورا اسے رکنے کا اشارہ کیا۔

مگر پھر بھی تمہیں پیاس لگی ہو گی اور میرے پاس تو اس وقت یہ ہی ہے۔

مشی نے پریشانی سے کولڈنک کے گلاس کی طرف اشارہ کیا۔

اور یہ میرا جوٹا ہے۔

وہ سر جھکائے بولی۔

اور اس میں کونسی بڑی بات ہے میں پی سکتا ہوں۔

عماد نے مزید اسکے کچھ کہنے سے پہلے وہ گلاس اٹھایا اور لبوں سے لگا لیا۔

وہ اسے دیکھ کر رہ گئی۔

لو میڈم جی بہت شکریہ۔

آج سے پہلے کولڈرنگ اتنی مزے کی کبھی نہیں لگی۔

وہ گلاس واپس رکھتے ہوئے مزے سے بولا۔

تم میرا مذاق اڑا رہے ہو ۔

مشی نے اسے مشکوک نظروں سے گھورا۔

ظاہر ہے

وہ قہقہہ لگا کے ہنس پڑا۔۔ 

مشی بس اسے گھور کر رہ گئی

وہ جب بھی مشی کے پاس ہوتا اپنی زندگی کی ہر پریشانی بھول جاتا۔۔

▪☆☆☆▪☆☆☆▪☆☆☆▪☆☆☆▪☆☆☆▪

آج وہ پورے ایک ہفتے بعد یونیورسٹی آئی تھی۔

عماد اس دن کے بعد اس کے گھر نہیں گیا تھا۔

روز روز جانا ٹھیک نہیں لگتا تھا اسے۔

البتہ فون پہ دونوں کا رابطہ تھا۔

عماد اسے دیکھ کر کھل اٹھاتھا۔

یار یہ چوٹیں اتنی جلدی ٹھیک ہو گئیں ۔

وہ اپنے صحت یاب ہونے پہ خاصا پریشان تھی۔

مشی تم بہت عجیب ہو یار 

عماد کو ناچاہتے ہوئے بھی ہنسی آ گئی تھی۔

میرا یونیورسٹی آنے کو دل نہیں کرتا وہ تو بس میں تمہارے لیے آ جاتی ہوں۔

وہ بے دھیانی میں کہہ گئی تھی

عماد کا دل زور سے دھڑکا وہ بھی اس کے لیے اسپیشل ہے۔

ایک دوست سے بڑھ کر کچھ اور 

میرے لیے

عماد نے اپنی دھڑکنوں کے شور پہ کان دھرے بنا تصیح کرنا ضروری سمجھا تھا۔

ہاں بھئ تمہاری اور کوئی دوست بھی تو نہیں ہے میرے علاوہ بور ہو جاتے ہو گے۔

وہ لاپرواہی سے بولی۔

کہاں وہ کہاں تم ہر بچے کو کھیلنے کے لیے چاند نہیں ملا کرتا

عماد خود پہ ہنس دیا ۔

مجھے بھوک لگی ہے چلو کینٹین چلو ۔

وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔

مشی بیٹھ جاو کل سر ظفر کے سبجیکٹ کا ٹیسٹ ہے اور نیکسٹ ویک سے فائنل ایگزام شروع ہونے والے ہیں اور تم بلکل سٹڈیز کو سیریس نہیں لے رہیں۔

وہ اس وقت ٹیسٹ کی تیاری میں مصروف تھا۔

اور ہمیشہ ایسے موقعوں پر ہی مشی کو بھوک لگا کرتی تھی۔

ایک تم۔میں تم سے اور سر ظفر سے بہت تنگ ہوں۔

دونوں کے دماغ میں چوبیس گھنٹے پڑھائی کا کیڑا گھسا رہتا ہے۔

اور سر ظفر انسان کم مجھے ڈرائیکولا زیادہ لگتے ہیں۔

وہ ایک دم بھڑک اٹھی تھی۔

جب دیکھو آسائنمنٹ ٹیسٹ پتہ نہیں کیا کیا دیتے رہتے ہیں۔

سب ٹیچرز کے کل ملا کے کے سال کے اتنے ٹیسٹ نہیں ہوتے ہوں گے جتنے سر ظفر کے مہینے میں ہوجاتے ہیں۔

عماد نے اسے ہاتھ سے چپ ہونے کا اشارہ کیا تھا۔

تم مجھے کول ڈاون مت کرو کیونکہ میں نہیں ہوں گی 

غضب خدا کا سر نہ ہو گئے عذاب ہو گئے۔

وہ تو بس سٹارٹ ہی ہو گئی تھی۔

اور عماد کو سٹاپ کا بٹن نہیں مل رہا تھا

عماد نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔

بجائے ہمیں فائنل کی تیاری کروائیں ٹیسٹ پہ ٹیسٹ حد ہو گئی میرے بس میں ہو تو میں سر ۔

مشی تمہارے پیچھے چھپکلی۔

عماد کو آخر سٹاپ کا بٹن مل ہی گیا تھا۔

مشی ایک زور دار چیخ کے ساتھ پیچھے مڑی تھی اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔

مشی کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا تھا۔

وہ بہت بہادر سہی پر اتنی بھی نہیں تھی

سامنے سر ظفر کھڑے تھے۔

عماد نے انہیں سامنے کی کلاس سے آتے دیکھ لیا تھا اس لیے وہ اسے اشارے کر رہا تھامگر وہ نوٹس ہی کب کرتی تھی۔

مشی کی زبان گنگ ہو چکی تھی۔

عماد بھی اٹھ کھڑا ہوا۔

سر ظفر دونون پہ ایک نظر ڈال کر آگے بڑھ گئے۔

پر ان کے چہرے پہ غصے کے تاثرات واضح تھے۔

اب یہ پرنسپل کو بتائیں گے اور پرنسپل سر بابا کو

مشی اپنے کانپتے لرزتے وجود کو سنبھالتی کرسی پہ بیٹھ گئی۔

اسے کب اندازہ تھا کہ یہ سب ہو گا۔

وہ تو صدا کی جذباتی منہ پھٹ اور کچھ بھی کہہ دینے والی لڑکی تھی عماد نے کافی کوشیشوں کے بعد اس کی کافی عادتوں کو بدلنے کی کوشش کی تھی جن میں چند ایک میں وہ کامیاب بھی ہو گیا تھا مگر وہ اسکا بے تکا بولنے کی عادت سے ہار گیا تھا۔

سچ کہوں تو وہی تو اسکا جاصا تھی وہ بے تحاشہ بولتی اور بے تکہ بولتی ہی اچھی لگتی تھی۔۔۔

اب اتنا بے تکہ بولو گی تو یہ سب تو ہو گا۔

معملہ سنگین تھا مگر۔

عماد سیریس نہیں تھا۔

تمہیں پتہ ہے اب میرے ساتھ کیا ہو گا اور تم مجھے بتا نہیں سکتے تھے کیا۔

عہ عماد پر برس پڑی۔

تم سنتی کب ہو کسی کی۔

اشارے کر تو رہا تھا لے کے مجھے بھی شرمندہ کروا دیا۔

وہ بھی اب کافی پریشان تھا۔

اب کیا ہو گا عماد 

وہ پریشانی سے گویا ہوئی۔

بے عزتی۔

عماد غصے سے بولا۔

ٹھیک ہے تم بھی لڑ لو۔ میں جا رہی ہوں

وہ ناراضگی سے کہتی وہاں سے چلی گئی۔۔۔

ارے رکو مشی مشی بات تو سنو وہ اسے آوازیں دیتا اسکے پیچھے لپکا تھا۔

کم آن مشی تم یوں ناراض ہو کر تو مت جاو ۔

عماد نے تیزی سے اگے بڑھتے ہوئے اسکا بازو تھاما۔

تمہیں اچھا طرح پتہ ہے کہ پرنسپل سر پاپا کے بیسٹ فرینڈ ہیں ۔ اور پاپا یہ بات کبھی برداشت نہیں کریں گے کہ میں نے سر ظفر کو برا بھلا کہا۔

وہ تو بس ایسے ہی بول دیا نیت تھوڑی تھی میری۔

وہ اب حققت شرمندہ تھی۔

ایک حل ہے کہ بات گھر تک نہیں جائے گی۔

عماد نے دونوں بازو سینے پہ باندھتے ہوئے اسے دیکھا۔

وہ کیسے۔

مشی نے جھکا سر اوپر اٹھاتے ہوئے اسے دیکھا۔

ہم سر ظفر سے مل کر معافی مانگ لیتے ہیں ۔

ویسے بھی وہ ہمارے ٹیچر ہیں اور کچھ عرصے بعد وہ کہاں ہم کہاں وہ معاف کر دیں گے۔

عماد نے اس سے زیادہ خود کو تسلی دی تھی کہ معافی مل جائے گئی۔

اوکے ۔

مشی خلاف توقع بنا کسی بحث کے مان گئی تھی۔

چلو پھر ۔

عماد اسے اگے بڑھنے کا کہتا

دل ہی دل میں شکر ادا کرتا اس کے ساتھ چل پڑا۔

☆▪☆▪☆▪☆▪☆▪☆▪☆▪☆▪☆▪☆ کل ہمارا لاسٹ پیپر ہے ۔

فائنلی اس یونیورسٹی سے جان چھوٹ جائے گی۔

مشی نے مسرور ہوتے ہوئے کہا۔

جب ساری ذمے داریاں تمہارے نا توں کندھوں پر آئیں گئیں تو تمہیں یہ آزدی کے دن اور یونیورسٹی یاد آیا کرے گی۔

عماد اسے دیکھ کر دھیرے سے مسکرایا۔

کونسی ذمے داریاں۔

مشی نے حیرت سے اسے دیکھا۔

بھئ تمہارے پاپا کابزنس اب تمہیں ہی سنبھالنا ہے اس لیے تھوڑی سی بڑی ہو جاو اب۔

نے اسکے سر پہ چپت لگائی۔

اسکی اس حرکت پر مشی نے اسے گھور کر دیکھا۔

وہ مسکرا دیا

کوئی نہیں میں نہیں کرنے والی کوئی جاب بس مجھے اب ریسٹ کرنا ہے۔

وہ مزے سے بولی۔

کل سر ظفر کا پیپر ہے تمہاری تیاری تو ہے۔

عماد نے اچانک اس سے پوچھا تھا۔

یو نو پورا سال میں نے ان کے لیکچرز کیسے اٹنڈ کئیے ہیں۔

وہ منہ بنا کر بولی۔

ہاں تم تقریبا سوئی ہوتی تھی۔

وہ ہنستے ہوئے بولا۔

بس کل تم تھوڑی سی ہیلپ کر دینا باقی میں کر لوں گی۔

وہ پیلر سے ٹیک لگاتے ہوئے لاپرواہی سے بولی۔

کسی انسان سے اتنی کیا بے زرایت کے بندہ صرف اس لیے سبجیکٹ کو اگنور کر دے ۔

نقصان انکا نہیں تمہارا ہے۔

عماد اسے سمجھاتے ہوئے وہیں اسکے قریب سیڑھیوں پہ بیٹھ گیا۔

بات بے زاریت کی نہیں ہے بس وہ انکا اسٹائل اگر کسی کو کچھ سمجھ نہیں آیا اور اس نے کوسچن کر دیا ہے تو سر اتنے برے طریقے سے اس کی انسلٹ کرتے ہیں کہ دوبارہ بندہ مر جائے پر سوال نہ پوچھے۔

وہ بھی بات کرتے ہوئے اس کے قریب بیٹھ گئی۔

ہاں یہ سب تو تم پہ بیت چکی ہے۔

وہ اپنی مسکرہٹ ضبط کرتے ہوئے بولا۔

ظاہر ہے تم گواہ ہو اس بات کے۔

وہ اسے دیکھتے ہوئے بولی۔

مشی یار تمہارے سوال بھی تو اتنے بے تکے ہوتے ہیں۔

وہ بھی ہنستے ہوئے اسکی طرف دیکھ کر بولا۔

بے شک ٹیچر ما کام ہے جواب دینا وہ بھی پیار سے

سوال کیسا بھی کیوں نہ ہو۔

وہ بضد تھی کہ وہ ہی ٹھیک ہے۔

وہ بس خاموش ہو گیا۔

کچھ دن پہلے کے واقع کو لے لو ایسی کیا شان میں گستاخی کر دی تھی ہم گئے تو تھے نا معذرت کرنے۔ ایک تو اتنی باتیں سنائیں پرنسپل کو بھی کمپلین کی یہاں بھی بس نہیں کیا میرے گھر پہنچ گئے اور پھر مما پاپا نے سر کے سامنے میری جو انسلٹ کی اسکا تمہیں اندازہ نہیں۔

مشی کے تو مانو پرانے زخم تازہ ہو گئے تھے۔

یار پتہ نہیں سر کو خاص طور پر تم سے کیا بیر ہے باقی سب کو تو کچھ نہیں کہتے۔

ہاں مشی تمہاری ہی شرارت ہوگی ہے ہر بار

عماد نے کندھے اچکائے۔

ہاں میں ہی غلط ہوں اور انکو بھلا کیوں نہیں ہو گا مجھ سے بیر میں نے پچھلے جنم میں انکا قتل کیا تھا اس لیے وہ اس جنم میں مجھ سے بدلہ لے رہے ہیں۔

وہ جل کے کہتی اٹھ کھڑی ہوئی۔

وہ نہ ہیں ہی ایسے میرے ساتھ انکا رویہ تم کل خود نوٹس کر لینا۔

وہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

عماد بات سنو عماد سنو تو

پیپر شروع ہوئے ابھی پندرہ منٹ ہوئے تھے اور اس دوران وہ کوئی پچاس بار اسے مخاطب کر چکی تھی۔

کیا ہے ۔

عماد نے ایک نظر سر ظفر کو دیکھا وہ کسی لڑکے کا پیپر چیک کر رہے تھے۔

کوئسچن نمبر سکس کی سمجھ نہیں آ رہی۔

اوہ پریشانی سے بولی۔

یار صبر کرو جو سمجھ آ رہا ہے وہ کرو میں کر کے بتاتا ہوں تمہیں۔

عماد نے مڑ کر ایک نظر اسے دیکھا اور پھر سیدھا ہو بیٹھا۔

اور پھر پورا پیپر کر لینے کے بعد بھی مشی کوئسچن نمبر سکس پہ اٹکی رہ گئی۔

عماد تمہیں کب سے کہہ رہی ہوں بتا دو تھوڑا سا۔

وہ کب سے عماد کو پکار رہی تھی مگر وہ اسکو جواب نہیں دے رہا تھا ۔

مشی کم آن یار سر ہمیں ہی دیکھ رہے ہیں تم تھوڑا صبر کر لو۔

عماد نے سامنے دیکھتے ہوئے آہستگی سے کہا۔

ایک سوال اور تیس منٹ ہیں منٹ ہیں اور تم مجھے اب بھی ویٹ کروا رہے ہو۔

میں باقی بھی کر رہی ہوں 

وہ چڑ گئی تھی۔

عماد سر جھکائے پھر سے لکھنے میں مشغول ہو گیا۔

عماد عماد سنو۔

کتنی دیر پکارنے کے بعد بھی عماد نے کوئی رسپونس نہیں دیا تھا۔

وہ مشی کے ساتھ والی رو میں اس سے کچھ آگے بیٹھا تھا 

مشی نے اگلے تین منٹ ویٹ کیا تھا۔

مگر عماد نے پھر بھی کوئی جواب نہیں دیا۔

مشی نے ایک نظر اپنی ریسٹ واچ کو دیکھا اور دوسری نظر پیپر میں غرق عماد کو اور پھر ہاتھ میں پکڑا پین غصے سے عماد کو کھینچ مارا تھا۔

شو مئی قسمت وہ پین اڑتے ہوئے عماد سے آگے بیٹھے لڑکے کی گردن پہ جا لگا تھا۔

مشی نے فورا اپنا سر جکا لیا تھا۔

اس لڑکے نے پہلے چاروں طرف دیکھ کر یہ اندازہ کرنا چاہا تھا کہ دشمنوں کی فوج نے حملہ کس طرف سے کیا تھا۔

مگر وہ ناکام رہا تھا

سر مجھے کسی نے یہ پین مارا ہے۔

وہ لڑکا زمین پہ گرا اسکا پین ہاتھ میں لیتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔

اسکی اس حرکت کو اس لڑکے نے نظر انداز نہیں کیا تھا۔

اب پکا مرے گی یہ لڑکی

عماد نے پین پہچان لیا تھا۔

کس نے مارا ہے یہ پین ۔

سر ظفر نے وہ پین اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے بلند آواز سے کہا۔

مشی نے اپنے والٹ سے جلدی سے دوسرا پین نکالا تھا۔

دیکھیں جسکی یہ حرکت ہے وہ خود کھڑا ہو جائے ورنہ مجھے خود سے پتہ چلا تو میں اسکا پیر ضائع کر دوں گا۔

وہ چلتے ہوئے عماد اور مشی کی رو کے درمیان کھڑے ہو گئے تھے۔

مشی کے اب ہاتھ کانپنا شروع ہو گئے تھے مگر وہ سر جھکائے یوں ہی شو کرتی رہی جیسے وہ یہ سب سن ہی نہ رہی ہو۔

رمیشا زمان 

سر ظفر نے اسکے قریب آتے ہوئے اسکا نام پکارا۔

مشی نے کبوتر کی طرح آنکھیں زور سے بند کر لیں جیسے بلی اس طرح اسے کچھ نہیں کہے گی۔

اسٹنڈ آپ مس رمیشا زمان 

سر ظفر نے اسکا پیر اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے الٹ پلٹ کر دیکھا۔

سر میں نے پین نہیں مارا اسے۔

مشی نے اپنی صفائی پیش کی۔

میں نے کب پوچھا آپ سے مس رمیشا کہ پین کس نے مارا ہے۔

وہ اسے دیکھ کر مسکرائے۔

مشی کبھی چپ بھی رہ لیا کرو۔

مشی نے زبان دانتوں تلے دبائی۔

ویسے چور تو پکڑا جا چکا ہے۔

انہوں نے اسکے ہاتھ سے دوسرا پین بھی لے لیا۔

مشی نے صدمے سے اپنے ہاتھ سے ان کے ہاتھ کی طرف جاتے پین کو دیکھا۔

سر پین میں نے مارا تھا۔

پیچھے سے آتی عماد کی آواز پر سر ظفر اور مشی دونوں نے اسکی طرف دیکھا تھا۔

عماد تم بہت برلینٹ سٹوڈنٹ ہو مجھے تم سے اس جھوٹ کی امید نہیں تھی۔

سر ظفر اب مکمل اسکی طرف گھوم چکے تھے۔

سر میں جھوٹ نہیں بول رہا۔

وہ یوں ہی سر جھکائے بولا۔

آپ ٹاپ کرتے ہیں ہمیشہ اس لڑکی کے لیے خود کو مشکل میں مت پھنسائیں آپ بہت برلینٹ ہیں۔

سرظفر اسکی اس حرکت پہ ابھی تک حیران تھے۔

سر مشی بھی برلینٹ سٹوڈینٹ ہے۔

اسنے ایک نظر سر کو دیکھا اور پھر سے سر جھکا لیا

تم اسے بچانے کی کوشش کر رہے ہو۔

سر ظفر نے عماد کا پیپر بھی الٹ پلٹ کے چیک کیا تھا۔

ایسی بات نہیں ہے سر

عماد نے اپنی صفائی پیش کی

مشی کو آئیڈنا نہیں تھا کہ سر ظفر اتنا بڑا ایشو کریٹ کر دیں گے۔

اور عماد کو بولنے کیا ضرورت تھی۔

اب کیا ہو گا

وہ پریشانی سے سوچنے لگی۔

چلو میں بتاتا ہوں کے اصل بات کیا ہے۔

سر ظفر نے دونوں پییپرز رول کر کے اپنے ہاتھ میں۔پکڑے 

اصل میں رمیشا نے جس پین سے لکھا وہ بلو تھا۔

اور عماد نے جس پین سے لکھا وہ بلیک تھا۔

سر ظفر چلتے ہوئے اپنی چیئر تک گئے تھے۔

اور ساری کلاس اپنا پیپر چھوڑ کر ان کی طرف متوجہ ہوگئی تھی۔

اور وہ دونوں مجرموں کی طرح سر جھکائے کھڑے تھے۔

جبکہ جو پین اس لڑکے نے مجھے دیا وہ بلو تھا۔

انہوں نے پین سے اس لڑکے کی جانب اشارہ کیا

عماد کے پاس سرے سے بلو پین نہیں ہے اور رمیشا کے ہاتھ سے جو پین میں نے ابھی لیا وہ گرین ہے۔

انہوں نے تینوں پین ان کے سامنے کئے۔

مشی حیرت سے منہ کھولے انہیں دیکھتی رہی۔

اب آپ دونوں عزت سے اس کلاس سے تشریف لے کر جائیں گے یا میں کوئی اور انتظام کروں۔

سرظفر نے انہیں گھورتے ہوئے چبا چبا کر کہا۔

دونوں سر جھکائے کلاس سے باہر چلے گئے

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

سر ظفر نے تھوڑا سا ڈانٹنے کے بعد انکی جان بخشی کر دی تھی۔

نمبر بے شک کم آتے مگر اب انہیں یہ تسلی ضرور تھی کہ وہ لوگ پاس ضرور ہو جائیں گے۔

آج فیئر ول پارٹی تھی۔

یعنی آج کے بعد سب لوگ جدا ہوجاتے کوئی بھی یوں روز روز نہیں مل پاتا جہاں سب کو پاس آوٹ ہونے کی خوشی تھی وہیں بچھڑ جانے کا غم ۔

وہ خوب سج سنور کے آیا تھا بلیک پینٹ کوٹ میں وہ بہت جچ رہا تھا۔

بلیک مشی کا فیورٹ تھا۔

عماد نے خود کو بڑی مشکلوں سے راضی کیا تھا کہ آج وہ مشی سے اپنے دل کی بات کہہ دے گا۔

اگر اسنے اس بات کو بھی سیریس نہ لیا تو۔

وہ پھول اور کارڈ لے کر آ تو گیا تھا مگر کہیں اسے اپنے کم حثیت ہونے کا احساس اندر ہی اندر سے بری طرح کھا رہا تھا۔

اگر اسنے یہ کہہ کر پھول میرے منہ مار دیے کہ وہ مجھے صرف دوست سمجھتی تھی اور میں ہوں کون ایک معمولی جاب تک تو ہے نہیں میرے۔

اگر اسے مجھ سے محبت ہوئی تو اسے فرق نہیں پڑے گا۔ اسنے خود کو تسلی دی

وہ انہی سوچوں میں الجھتا مشی سے پہلے ہی یونیورسٹی پہنچ گیا تھا اور پھول کلاس روم میں چھپا دئیے تھے۔

ارے تم پہلے سے ہی پہنچے ہوئے ہو۔

مشی نے اسے کلاس روم سے نکلتے دیکھا تو اس کے قریب آ رکی۔

بلیک کلر کی سلیولیس فراک میں ریڈ لپ سٹک لگائے کانوں میں ڈائمنڈ کے چھوٹے چھوٹے ٹاپس کانوں میں سجائے وہ سچ مچ آسمان سے اتری ہوئی پری معلوم ہو رہی تھی۔

وہ مبہوت سا اسے دیکھے گیا۔

کہاں کھو گئے۔

مشی نے اسکی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی۔

اسکی کلائی میں پڑی چوڑیاں کھنک اٹھی تھیں ۔

عماد کو اپنے دل کی دھڑکن تیز ہوتی محسوس ہوئی۔

کہیں نہیں۔

اسنے فورا خود کو سنبھالا۔

ویسے آج بڑے جچ رہے ہو خیر ہے ناں 

مشی ایک آنکھ دباتے ہوئے ہنسی۔

وہ مسکرا کر تہ گیا کیا جواب دیتا۔

اچھا آج کیسے آ گئے تم۔تمہیں تو ایسی پارٹیز نہیں پسند 

مشی نے اسے مشکوک نظروں ںسے گھورا۔

آج تو فئیر ول پارٹی تھی اسے کیسے مس کر دیتا ۔

وہ دھیتے سے مسکرایا 

اچھا ٹھیک ہے جناب

مشی نے سر کو ہلاتے ہوئے ادھر ادھر دیکھا۔

مشی مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔

عماد نے ہمت جمع کرتے ہوئے آخر کہہ ہی دیا تھا۔

ہاں بولو کیا بات ہے۔

وہ فورا اسکی طرف متوجہ ہوئی۔

وہ میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ۔

عماد نے ماتھے پہ آئے پسنے کے قطروں کو رومال سے صاف کرت ہوئے ایک نظر اسے دیکھا۔

مشی اسکے اتنا نروس ہونے پہ حیران ہو رہی تھی۔

مگر بولی کچھ نہیں 

مشی وہ بات دراصل یہ ہے کہ۔

ارے مشی تم یہاں ہو اور ہم تمہیں پورے کمپس میں ڈھونڈ ڈھونڈ کے پاگل ہو گئے۔

مشی کی فرینڈز کا گروپ ان کے پاس آ رکا تھا۔

وہ کلاس فیلوز تھیں اور ان سے سب کی اچھی سلام دعا تھی۔

عماد کی بات درمیان میں ہی رہ گئی تھی 

کیوں کیا ہوا مجھے کیوں ڈھونڈھا جا رہا تھا۔

وہ ہنستے ہوئے ان سے باری باری گلے ملنے لگی

عماد خود ہی دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔

یار تم ہمارے ساتھ چلو ہمنے کچھ پکس لینی ہیں سوچا تمہارے ساتھ بھی بنا لیں یاد گار کے لیے۔

ان میں سے ایک نے اپنا مدعا بیان کیا۔

پہلے تم لوگ میری اور عماد کی ایک پک لو۔

مشی نے عماد کا بازو پکڑ کر اسے اپنے پاس کھڑا کیا۔

اور اسکے بازو پہ ہاتھ رکھ کر کھڑی ہو گئی۔

ایک لڑکی جس کے ہات میں کیمرہ تھا اسنے انکی پک لی تھی۔

پرفیکٹ وہ پک لیتے ہوئے ہنسی۔

تم لوگ چلو میں پانچ منٹ میں آتی ہوں

مشی عماد کو اکیلا چھوڑ کر اسکی بات ادھوری چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی تھی۔

نہیں مشی تم جاو میں بعد میں آتا ہوں۔

وہ مشی سے کہتا وہاں سے چلا گیا۔

مشی کی نظروں نے دور تک اسکا تعاقب کیا تھا۔

کچھ ہی لمحوں میں عماد اسکی نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا۔

عماد کا رویہ آج کچھ بدلا بدلا سا تھا کوئی بات تو ضرور تھی

اسے عجیب سی بے چینی محسوس ہوئی تھی۔

اور پھر وہ سر جھٹکتی اپنی فرینڈز کے ساتھ چل پڑی تھی۔

میں بس ان سے فارغ ہو جاوں ابھی بات کرتی ہوں عماد سے۔

وہ خود کو تسلی دیتی ان کے ساتھ چلی گئی۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔۔)افسانہ ادھوری بات 

دوسرا حصہ

کم آن مشی تم یوں ناراض ہو کر تو مت جاو ۔

عماد نے تیزی سے اگے بڑھتے ہوئے اسکا بازو تھاما۔

تمہیں اچھا طرح پتہ ہے کہ پرنسپل سر پاپا کے بیسٹ فرینڈ ہیں ۔ اور پاپا یہ بات کبھی برداشت نہیں کریں گے کہ میں نے سر ظفر کو برا بھلا کہا۔

وہ تو بس ایسے ہی بول دیا نیت تھوڑی تھی میری۔

وہ اب حققت شرمندہ تھی۔

ایک حل ہے کہ بات گھر تک نہیں جائے گی۔

عماد نے دونوں بازو سینے پہ باندھتے ہوئے اسے دیکھا۔

وہ کیسے۔

مشی نے جھکا سر اوپر اٹھاتے ہوئے اسے دیکھا۔

ہم سر ظفر سے مل کر معافی مانگ لیتے ہیں ۔

ویسے بھی وہ ہمارے ٹیچر ہیں اور کچھ عرصے بعد وہ کہاں ہم کہاں وہ معاف کر دیں گے۔

عماد نے اس سے زیادہ خود کو تسلی دی تھی کہ معافی مل جائے گئی۔

اوکے ۔

مشی خلاف توقع بنا کسی بحث کے مان گئی تھی۔

چلو پھر ۔

عماد اسے اگے بڑھنے کا کہتا

دل ہی دل میں شکر ادا کرتا اس کے ساتھ چل پڑا۔

☆▪☆▪☆▪☆▪☆▪☆▪☆▪☆▪☆▪☆ کل ہمارا لاسٹ پیپر ہے ۔

فائنلی اس یونیورسٹی سے جان چھوٹ جائے گی۔

مشی نے مسرور ہوتے ہوئے کہا۔

جب ساری ذمے داریاں تمہارے نا توں کندھوں پر آئیں گئیں تو تمہیں یہ آزدی کے دن اور یونیورسٹی یاد آیا کرے گی۔

عماد اسے دیکھ کر دھیرے سے مسکرایا۔

کونسی ذمے داریاں۔

مشی نے حیرت سے اسے دیکھا۔

بھئ تمہارے پاپا کابزنس اب تمہیں ہی سنبھالنا ہے اس لیے تھوڑی سی بڑی ہو جاو اب۔

نے اسکے سر پہ چپت لگائی۔

اسکی اس حرکت پر مشی نے اسے گھور کر دیکھا۔

وہ مسکرا دیا

کوئی نہیں میں نہیں کرنے والی کوئی جاب بس مجھے اب ریسٹ کرنا ہے۔

وہ مزے سے بولی۔

کل سر ظفر کا پیپر ہے تمہاری تیاری تو ہے۔

عماد نے اچانک اس سے پوچھا تھا۔

یو نو پورا سال میں نے ان کے لیکچرز کیسے اٹنڈ کئیے ہیں۔

وہ منہ بنا کر بولی۔

ہاں تم تقریبا سوئی ہوتی تھی۔

وہ ہنستے ہوئے بولا۔

بس کل تم تھوڑی سی ہیلپ کر دینا باقی میں کر لوں گی۔

وہ پیلر سے ٹیک لگاتے ہوئے لاپرواہی سے بولی۔

کسی انسان سے اتنی کیا بے زرایت کے بندہ صرف اس لیے سبجیکٹ کو اگنور کر دے ۔

نقصان انکا نہیں تمہارا ہے۔

عماد اسے سمجھاتے ہوئے وہیں اسکے قریب سیڑھیوں پہ بیٹھ گیا۔

بات بے زاریت کی نہیں ہے بس وہ انکا اسٹائل اگر کسی کو کچھ سمجھ نہیں آیا اور اس نے کوسچن کر دیا ہے تو سر اتنے برے طریقے سے اس کی انسلٹ کرتے ہیں کہ دوبارہ بندہ مر جائے پر سوال نہ پوچھے۔

وہ بھی بات کرتے ہوئے اس کے قریب بیٹھ گئی۔

ہاں یہ سب تو تم پہ بیت چکی ہے۔

وہ اپنی مسکرہٹ ضبط کرتے ہوئے بولا۔

ظاہر ہے تم گواہ ہو اس بات کے۔

وہ اسے دیکھتے ہوئے بولی۔

مشی یار تمہارے سوال بھی تو اتنے بے تکے ہوتے ہیں۔

وہ بھی ہنستے ہوئے اسکی طرف دیکھ کر بولا۔

بے شک ٹیچر ما کام ہے جواب دینا وہ بھی پیار سے

سوال کیسا بھی کیوں نہ ہو۔

وہ بضد تھی کہ وہ ہی ٹھیک ہے۔

وہ بس خاموش ہو گیا۔

کچھ دن پہلے کے واقع کو لے لو ایسی کیا شان میں گستاخی کر دی تھی ہم گئے تو تھے نا معذرت کرنے۔ ایک تو اتنی باتیں سنائیں پرنسپل کو بھی کمپلین کی یہاں بھی بس نہیں کیا میرے گھر پہنچ گئے اور پھر مما پاپا نے سر کے سامنے میری جو انسلٹ کی اسکا تمہیں اندازہ نہیں۔

مشی کے تو مانو پرانے زخم تازہ ہو گئے تھے۔

یار پتہ نہیں سر کو خاص طور پر تم سے کیا بیر ہے باقی سب کو تو کچھ نہیں کہتے۔

ہاں مشی تمہاری ہی شرارت ہوگی ہے ہر بار

عماد نے کندھے اچکائے۔

ہاں میں ہی غلط ہوں اور انکو بھلا کیوں نہیں ہو گا مجھ سے بیر میں نے پچھلے جنم میں انکا قتل کیا تھا اس لیے وہ اس جنم میں مجھ سے بدلہ لے رہے ہیں۔

وہ جل کے کہتی اٹھ کھڑی ہوئی۔

وہ نہ ہیں ہی ایسے میرے ساتھ انکا رویہ تم کل خود نوٹس کر لینا۔

وہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

عماد بات سنو عماد سنو تو

پیپر شروع ہوئے ابھی پندرہ منٹ ہوئے تھے اور اس دوران وہ کوئی پچاس بار اسے مخاطب کر چکی تھی۔

کیا ہے ۔

عماد نے ایک نظر سر ظفر کو دیکھا وہ کسی لڑکے کا پیپر چیک کر رہے تھے۔

کوئسچن نمبر سکس کی سمجھ نہیں آ رہی۔

اوہ پریشانی سے بولی۔

یار صبر کرو جو سمجھ آ رہا ہے وہ کرو میں کر کے بتاتا ہوں تمہیں۔

عماد نے مڑ کر ایک نظر اسے دیکھا اور پھر سیدھا ہو بیٹھا۔

اور پھر پورا پیپر کر لینے کے بعد بھی مشی کوئسچن نمبر سکس پہ اٹکی رہ گئی۔

عماد تمہیں کب سے کہہ رہی ہوں بتا دو تھوڑا سا۔

وہ کب سے عماد کو پکار رہی تھی مگر وہ اسکو جواب نہیں دے رہا تھا ۔

مشی کم آن یار سر ہمیں ہی دیکھ رہے ہیں تم تھوڑا صبر کر لو۔

عماد نے سامنے دیکھتے ہوئے آہستگی سے کہا۔

ایک سوال اور تیس منٹ ہیں منٹ ہیں اور تم مجھے اب بھی ویٹ کروا رہے ہو۔

میں باقی بھی کر رہی ہوں 

وہ چڑ گئی تھی۔

عماد سر جھکائے پھر سے لکھنے میں مشغول ہو گیا۔

عماد عماد سنو۔

کتنی دیر پکارنے کے بعد بھی عماد نے کوئی رسپونس نہیں دیا تھا۔

وہ مشی کے ساتھ والی رو میں اس سے کچھ آگے بیٹھا تھا 

مشی نے اگلے تین منٹ ویٹ کیا تھا۔

مگر عماد نے پھر بھی کوئی جواب نہیں دیا۔

مشی نے ایک نظر اپنی ریسٹ واچ کو دیکھا اور دوسری نظر پیپر میں غرق عماد کو اور پھر ہاتھ میں پکڑا پین غصے سے عماد کو کھینچ مارا تھا۔

شو مئی قسمت وہ پین اڑتے ہوئے عماد سے آگے بیٹھے لڑکے کی گردن پہ جا لگا تھا۔

مشی نے فورا اپنا سر جکا لیا تھا۔

اس لڑکے نے پہلے چاروں طرف دیکھ کر یہ اندازہ کرنا چاہا تھا کہ دشمنوں کی فوج نے حملہ کس طرف سے کیا تھا۔

مگر وہ ناکام رہا تھا

سر مجھے کسی نے یہ پین مارا ہے۔

وہ لڑکا زمین پہ گرا اسکا پین ہاتھ میں لیتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔

اسکی اس حرکت کو اس لڑکے نے نظر انداز نہیں کیا تھا۔

اب پکا مرے گی یہ لڑکی

عماد نے پین پہچان لیا تھا۔

کس نے مارا ہے یہ پین ۔

سر ظفر نے وہ پین اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے بلند آواز سے کہا۔

مشی نے اپنے والٹ سے جلدی سے دوسرا پین نکالا تھا۔

دیکھیں جسکی یہ حرکت ہے وہ خود کھڑا ہو جائے ورنہ مجھے خود سے پتہ چلا تو میں اسکا پیر ضائع کر دوں گا۔

وہ چلتے ہوئے عماد اور مشی کی رو کے درمیان کھڑے ہو گئے تھے۔

مشی کے اب ہاتھ کانپنا شروع ہو گئے تھے مگر وہ سر جھکائے یوں ہی شو کرتی رہی جیسے وہ یہ سب سن ہی نہ رہی ہو۔

رمیشا زمان 

سر ظفر نے اسکے قریب آتے ہوئے اسکا نام پکارا۔

مشی نے کبوتر کی طرح آنکھیں زور سے بند کر لیں جیسے بلی اس طرح اسے کچھ نہیں کہے گی۔

اسٹنڈ آپ مس رمیشا زمان 

سر ظفر نے اسکا پیر اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے الٹ پلٹ کر دیکھا۔

سر میں نے پین نہیں مارا اسے۔

مشی نے اپنی صفائی پیش کی۔

میں نے کب پوچھا آپ سے مس رمیشا کہ پین کس نے مارا ہے۔

وہ اسے دیکھ کر مسکرائے۔

مشی کبھی چپ بھی رہ لیا کرو۔

مشی نے زبان دانتوں تلے دبائی۔

ویسے چور تو پکڑا جا چکا ہے۔

انہوں نے اسکے ہاتھ سے دوسرا پین بھی لے لیا۔

مشی نے صدمے سے اپنے ہاتھ سے ان کے ہاتھ کی طرف جاتے پین کو دیکھا۔

سر پین میں نے مارا تھا۔

پیچھے سے آتی عماد کی آواز پر سر ظفر اور مشی دونوں نے اسکی طرف دیکھا تھا۔

عماد تم بہت برلینٹ سٹوڈنٹ ہو مجھے تم سے اس جھوٹ کی امید نہیں تھی۔

سر ظفر اب مکمل اسکی طرف گھوم چکے تھے۔

سر میں جھوٹ نہیں بول رہا۔

وہ یوں ہی سر جھکائے بولا۔

آپ ٹاپ کرتے ہیں ہمیشہ اس لڑکی کے لیے خود کو مشکل میں مت پھنسائیں آپ بہت برلینٹ ہیں۔

سرظفر اسکی اس حرکت پہ ابھی تک حیران تھے۔

سر مشی بھی برلینٹ سٹوڈینٹ ہے۔

اسنے ایک نظر سر کو دیکھا اور پھر سے سر جھکا لیا

تم اسے بچانے کی کوشش کر رہے ہو۔

سر ظفر نے عماد کا پیپر بھی الٹ پلٹ کے چیک کیا تھا۔

ایسی بات نہیں ہے سر

عماد نے اپنی صفائی پیش کی

مشی کو آئیڈنا نہیں تھا کہ سر ظفر اتنا بڑا ایشو کریٹ کر دیں گے۔

اور عماد کو بولنے کیا ضرورت تھی۔

اب کیا ہو گا

وہ پریشانی سے سوچنے لگی۔

چلو میں بتاتا ہوں کے اصل بات کیا ہے۔

سر ظفر نے دونوں پییپرز رول کر کے اپنے ہاتھ میں۔پکڑے 

اصل میں رمیشا نے جس پین سے لکھا وہ بلو تھا۔

اور عماد نے جس پین سے لکھا وہ بلیک تھا۔

سر ظفر چلتے ہوئے اپنی چیئر تک گئے تھے۔

اور ساری کلاس اپنا پیپر چھوڑ کر ان کی طرف متوجہ ہوگئی تھی۔

اور وہ دونوں مجرموں کی طرح سر جھکائے کھڑے تھے۔

جبکہ جو پین اس لڑکے نے مجھے دیا وہ بلو تھا۔

انہوں نے پین سے اس لڑکے کی جانب اشارہ کیا

عماد کے پاس سرے سے بلو پین نہیں ہے اور رمیشا کے ہاتھ سے جو پین میں نے ابھی لیا وہ گرین ہے۔

انہوں نے تینوں پین ان کے سامنے کئے۔

مشی حیرت سے منہ کھولے انہیں دیکھتی رہی۔

اب آپ دونوں عزت سے اس کلاس سے تشریف لے کر جائیں گے یا میں کوئی اور انتظام کروں۔

سرظفر نے انہیں گھورتے ہوئے چبا چبا کر کہا۔

دونوں سر جھکائے کلاس سے باہر چلے گئے

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

سر ظفر نے تھوڑا سا ڈانٹنے کے بعد انکی جان بخشی کر دی تھی۔

نمبر بے شک کم آتے مگر اب انہیں یہ تسلی ضرور تھی کہ وہ لوگ پاس ضرور ہو جائیں گے۔

آج فیئر ول پارٹی تھی۔

یعنی آج کے بعد سب لوگ جدا ہوجاتے کوئی بھی یوں روز روز نہیں مل پاتا جہاں سب کو پاس آوٹ ہونے کی خوشی تھی وہیں بچھڑ جانے کا غم ۔

وہ خوب سج سنور کے آیا تھا بلیک پینٹ کوٹ میں وہ بہت جچ رہا تھا۔

بلیک مشی کا فیورٹ تھا۔

عماد نے خود کو بڑی مشکلوں سے راضی کیا تھا کہ آج وہ مشی سے اپنے دل کی بات کہہ دے گا۔

اگر اسنے اس بات کو بھی سیریس نہ لیا تو۔

وہ پھول اور کارڈ لے کر آ تو گیا تھا مگر کہیں اسے اپنے کم حثیت ہونے کا احساس اندر ہی اندر سے بری طرح کھا رہا تھا۔

اگر اسنے یہ کہہ کر پھول میرے منہ مار دیے کہ وہ مجھے صرف دوست سمجھتی تھی اور میں ہوں کون ایک معمولی جاب تک تو ہے نہیں میرے۔

اگر اسے مجھ سے محبت ہوئی تو اسے فرق نہیں پڑے گا۔ اسنے خود کو تسلی دی

وہ انہی سوچوں میں الجھتا مشی سے پہلے ہی یونیورسٹی پہنچ گیا تھا اور پھول کلاس روم میں چھپا دئیے تھے۔

ارے تم پہلے سے ہی پہنچے ہوئے ہو۔

مشی نے اسے کلاس روم سے نکلتے دیکھا تو اس کے قریب آ رکی۔

بلیک کلر کی سلیولیس فراک میں ریڈ لپ سٹک لگائے کانوں میں ڈائمنڈ کے چھوٹے چھوٹے ٹاپس کانوں میں سجائے وہ سچ مچ آسمان سے اتری ہوئی پری معلوم ہو رہی تھی۔

وہ مبہوت سا اسے دیکھے گیا۔

کہاں کھو گئے۔

مشی نے اسکی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی۔

اسکی کلائی میں پڑی چوڑیاں کھنک اٹھی تھیں ۔

عماد کو اپنے دل کی دھڑکن تیز ہوتی محسوس ہوئی۔

کہیں نہیں۔

اسنے فورا خود کو سنبھالا۔

ویسے آج بڑے جچ رہے ہو خیر ہے ناں 

مشی ایک آنکھ دباتے ہوئے ہنسی۔

وہ مسکرا کر تہ گیا کیا جواب دیتا۔

اچھا آج کیسے آ گئے تم۔تمہیں تو ایسی پارٹیز نہیں پسند 

مشی نے اسے مشکوک نظروں ںسے گھورا۔

آج تو فئیر ول پارٹی تھی اسے کیسے مس کر دیتا ۔

وہ دھیتے سے مسکرایا 

اچھا ٹھیک ہے جناب

مشی نے سر کو ہلاتے ہوئے ادھر ادھر دیکھا۔

مشی مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔

عماد نے ہمت جمع کرتے ہوئے آخر کہہ ہی دیا تھا۔

ہاں بولو کیا بات ہے۔

وہ فورا اسکی طرف متوجہ ہوئی۔

وہ میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ۔

عماد نے ماتھے پہ آئے پسنے کے قطروں کو رومال سے صاف کرت ہوئے ایک نظر اسے دیکھا۔

مشی اسکے اتنا نروس ہونے پہ حیران ہو رہی تھی۔

مگر بولی کچھ نہیں 

مشی وہ بات دراصل یہ ہے کہ۔

ارے مشی تم یہاں ہو اور ہم تمہیں پورے کمپس میں ڈھونڈ ڈھونڈ کے پاگل ہو گئے۔

مشی کی فرینڈز کا گروپ ان کے پاس آ رکا تھا۔

وہ کلاس فیلوز تھیں اور ان سے سب کی اچھی سلام دعا تھی۔

عماد کی بات درمیان میں ہی رہ گئی تھی 

کیوں کیا ہوا مجھے کیوں ڈھونڈھا جا رہا تھا۔

وہ ہنستے ہوئے ان سے باری باری گلے ملنے لگی

عماد خود ہی دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔

یار تم ہمارے ساتھ چلو ہمنے کچھ پکس لینی ہیں سوچا تمہارے ساتھ بھی بنا لیں یاد گار کے لیے۔

ان میں سے ایک نے اپنا مدعا بیان کیا۔

پہلے تم لوگ میری اور عماد کی ایک پک لو۔

مشی نے عماد کا بازو پکڑ کر اسے اپنے پاس کھڑا کیا۔

اور اسکے بازو پہ ہاتھ رکھ کر کھڑی ہو گئی۔

ایک لڑکی جس کے ہات میں کیمرہ تھا اسنے انکی پک لی تھی۔

پرفیکٹ وہ پک لیتے ہوئے ہنسی۔

تم لوگ چلو میں پانچ منٹ میں آتی ہوں

مشی عماد کو اکیلا چھوڑ کر اسکی بات ادھوری چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی تھی۔

نہیں مشی تم جاو میں بعد میں آتا ہوں۔

وہ مشی سے کہتا وہاں سے چلا گیا۔

مشی کی نظروں نے دور تک اسکا تعاقب کیا تھا۔

کچھ ہی لمحوں میں عماد اسکی نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا۔

عماد کا رویہ آج کچھ بدلا بدلا سا تھا کوئی بات تو ضرور تھی

اسے عجیب سی بے چینی محسوس ہوئی تھی۔

اور پھر وہ سر جھٹکتی اپنی فرینڈز کے ساتھ چل پڑی تھی۔

میں بس ان سے فارغ ہو جاوں ابھی بات کرتی ہوں عماد سے۔

وہ خود کو تسلی دیتی ان کے ساتھ چلی گئی۔

واہ مشی تم دونوں تو ساتھ میں بڑے جچ رہے تھے۔

نمرہ نے مشی کے ساتھ چلتے ہوئے اسے ٹہکا دیا۔

کیا مطلب 

مشی نے حیرانگی سے اسے دیکھا۔

لو جی اب یہ ہم سے مطلب پوچھ رہی ہے پوری یونیورسٹی جانتی ہے بس ان محترمہ کو ہی نہیں پتہ۔

نمرہ نے باآواز بلند کہا۔

کیا بات ہو رہی ہے۔

وہ لوگ اب ایک کلاس میں رکیں تھیں۔

جب رائمہ نے ان کی بات میں مداخلت کی تھی۔

جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔

نمرہ نے ہنستے ہوئے مشی کو چھیڑا

یار کیا کہہ رہی ہو تم لوگ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔

مشی چڑ گئی تھی۔

ٹھیک ہے اب ہم ڈائریکٹ پوچھ لیتے ہیں۔

نازیہ نے سب کو چپ ہونے کا اشارہ کیا۔

مشی تو ان کی باتوں سے حیران ہو رہی تھی آج سے پہلے تو کبھی اس سے عماد کے بارے میں ایسے سوال نہیں ہوئے تھے۔

یار تم پلیز اپنے اور عماد کے بارے میں سب کچھ سچ سچ ہمیں بتا دو ہم یہ حسرت لے کر نہیں مرنا چاہتے کہ ہم کچھ جان نہیں پائے تم دونوں کے بارے میں۔

نمرہ شوخی سے بولی۔

آج تو عماد پکا پرپوز کرے گا اسے لکھ لو۔

نازیہ نے بھی حصہ لیا۔

مشی کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں۔

مگر مجھے پہلی ملاقات سے لے کر اب تک کی ساری کہانی سننی ہے آج کے بعد پتہ نہیں ہم کہاں تم کہا۔

نائمہ نے ٹھنڈی سانس بھری

اففف کیا چیز ہو تم لوگ یار

مشی نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں گرا لیا۔

ہم تو سن کے رہیں گے بھئی۔

وہ اب بھی بضد تھیں۔

مگر مشی بلکل خاموش بیٹھی تھی۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

عماد کا یونیورسٹی میں کوئی بیسٹ فرینڈ تو نہ تھا مگر سب سے اچھی سلام دعا ضرور تھی۔

مگر واحد احسن کے ساتھ دوستی تھی بس 

وہ بھی ان کے ساتھ بیٹھا باتوں میں مشغول تھا۔

مگر صبح سے  ایک عجیب بے چینی نے اسکے پورے وجود کا احاطہ کر رکھا تھا۔

وہ بے چینی کیوں تھی وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔

وہ لوگ نجانے کون کون سے قصے ڈسکس رہے تھے مگر عماد کا دماغ مشی میں اٹکا ہوا تھا وہ آج کا دن گزرنے نہیں دینا چاہتا تھا۔

آج ہر حال میں اسے فیصلہ چاہیے تھا۔

وہ اب اور انتظار نہیں کر سکتا تھا۔

وہ ان سب سے معذرت کرتا وہاں سے اٹھ آیا تھا۔

ادھر ادھر بے وجہ وہ کافی دیر چکر لگاتا رہا تھا۔

مگر مشی نہیں آ رہی تھی۔

مجھے اسے بلا کے بات کرنی چاہیے ۔

وہ سوچتا ہوا اس جانب بڑھ گیا جہاں مشی اپنی فرینڈز کے ساتھ بیٹھی تھی۔

کبھی کبھی انسان کو اسکی جلدی مروا دیتی ہے۔

کہتے ہیں ہر کام کا ایک مخصوس وقت ہوتا ہے 

نہ وہ جلدی سر انجام پاتا ہے نہ دیر سے اگر اسے ہونا ہوتا ہے تو اپنے مقررہ وقت پہ خوبخود ہو جاتا ہے۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

یار تم چپ چاپ کیا ہمیں گھور رہی ہو کم آن بتا دو پلیز۔

نائمہ تو منت پہ اتر آئی تھی۔

مشی دھیرے سے مسکرا دی۔۔

میں پہلے عماد کے بارے میں کچھ اور ہی سوچتی تھی۔

کتنی پاگل تھی ناں میں

 وہ دھیرے سے ہنسی۔

کیا سوچتی تھی ہمیں بھی بھی تو بتاو

رائنہ آنکھیں مٹکا کر بولی

ہماری پہلی ملاقات بڑی فلمی سٹائل سے ہوئی تھی۔

مگر مجھے وہ کوئی ہیرو نہیں لگا۔

مشی کی آوز سن کر عماد وہیں دروازے پہ رک گیا تھا۔

بس اس نے مجھے گھر ڈراپ کیا اور بات ختم 

مگر کچھ دنون بعد مجھے  مووی دیکھنے جانا تھا کالج سے چھٹی کر نہیں سکتی تھی اور یہاں آ کر واپس کیسے جاتی۔

اور پھر وہ سوچ کر ہنسنے لگی۔

عماد کھڑکی کی اوٹ میں چھپ گیا۔

پھر میں نے زبردستی اسے اپنے ساتھ گھسیٹ لیا۔

سچ کہوں تو پوری کلاس میں بس وہ ڈفر ہی میری باتوں میں آ سکتا تھا۔

عماد کو یہاں آنے سے پہلے اندازہ نہیں تھا کہ یہاں اس ڈسکس کیا جا رہا ہو گا۔

اور پھر میں نے ہر الٹے کام میں اسے شامل کرنا شروع کر دیا۔

وہ بدھو میری بات ایسے مانتا جیسے نوکر مالک کا حکم مانتا ہے۔

مشی نے ہنستے ہوئے کہا

عماد کو مشی کی بات اچھی نہیں لگی تھی وہ ایسی سوچ رکھنے والی لڑکی تو نہیں تھی۔

اور وہ اب اسے کیا بتاتا کہ محبت کرنے والوں کے لیے محبوب کی بات بھی حکم کا درجہ رکھتی ہے۔

یعنی تم نے اسے یوز کیا تمہیں مفت کا نوکر جو مل گیا تھا۔

نازیہ اور نائمہ ہاتھ پہ ہاتھ مار کر ہنسی۔

عماد کو اپنا دل کرچیوں میں تقسیم ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔

وہ اسے کیا سمجھتا تھا اور مشی۔

پہلے پہل مجھے اس سے جیلسی ہوتی تھی کہ وہ ٹاپ کیوں کرتا ہے ہر بار 

پھر میں نے سوچا اس سے دوستی میں حرج بھی کیا ہے

ظاہر ہے اور تو کلاس میں مجھے کوئی جھیل نہیں سکتا تھا ایک وہی ہے جو بن کہے میرے ہر بات مان لیتا ہے۔

بلکل ویسے ٹریٹ کرتا ہے جیسے میرے گھر والے۔

مشی مزے لے لے کر انہیں قصے سنا رہی تھی۔

یہ ہو کیا رہا تھا اسکی ذات کو یوں مذاق کا نشانہ بنایا جا رہا تھا کیوں۔

تو یہ سب سوچتی تھی تم تھی تم

رائمہ نے اسے دیکھا

جب اس سے دوستی ہو گئی تو مجھے نوٹس اور آسائنمٹ کی فکر ہی ختم ہو گئی اور پھر شاپنگ پہ جانا ہو ڈنر پہ آوٹنگ پہ یا مووی دیکھنے ہر جگہ کے لیے میرے لبوں پہ اسکا نام آنے سے پہلے وہ حاضر ہو جاتا۔

وہ کہیں کھوئی ہوئی تھی۔

تمہیں بھی کہیں محبت تو نہیں ہو گئی تھی عماد ظہیر سے۔

بائمہ نے اسے ٹہکا دیا۔

نہیں یار بلکل بھی نہیں۔

وہ چونکی اور پھر مسکرا دی۔

عماد نے دیوار کا سہارہ لیا۔

اس کے خواب زیزہ ریزہ ہو چکے تھے۔

اور اس سے زیادہ وہ سن نہیں سکتا تھا۔

وہ ایک نظر مشی پہ ڈال کر وہاں سے چلا گیا تھا۔

یہ سب میں عماد سے دوستی کے شروع میں سوچا کرتی تھی۔

مجھے اندازہ بھی نہیں تھا کہ یہ سب ہو گا۔

مگر پھر عماد ظہیر نے رمیشا زمان کا دل بدل دیا

پتہ ہی نہیں چلا کب کیسے کہاں وہ میرے دل کی سلطنت پہ قابض ہو گیا کبھی نہ چھوڑنے کے لیے۔

آج اگر اسنے کچھ نہ بھی کہا تو میں ضرور اپنی محبت کا اظہار کر دوں گی۔

وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو آپس میں مسلتے ہوئے ان چاروں کی طرف دیکھ رہی تھی جیسے تائید چاہتی ہو۔

ہاں کیوں نہیں پر مجھے نہیں لگتا کہ اظہار تمہیں کرنا پڑے گا وہ پہل کر لے گا۔

نائمہ نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے تسلی دی ۔

وہ مسکرا دی

 ▪▪☆☆☆☆▪▪☆☆☆☆▪▪☆☆☆☆▪▪

سنگدل کتنے تیرے شہر کے منظر نکلے

جن کی مہماں تھی شبِ غم وہی بے گھر نکلے

ایسی آنکھوں سے تو بہتر تھا کہ اندھے ہوتے

ہم جسے آئینہ سمجھے وہی پتھر نکلے

دن بُرے ہوں تو گُہر پر بھی ہو کنکر کا گماں

بن پڑے بات تو صحرا بھی سمندر نکلے

آبگینوں کو جو توڑا تو وہ ٹھہرے مٹی

سنگیزوں کو جو پرکھا تو وہ "مرمر" نکلے

جن کو نفرت سے ہَوا، راہ میں چھوڑ آئی تھی

آسماں پر وہی ذرے مہ و اختر نکلے

شہر والوں نے جنہیں دار کا مجرم سمجھا

وہ گنہگار محبت کے پیمبر نکلے

خوف سے موت کی ہچکی بھی اٹک جاتی ہے

اس خامشی میں کہاں کوئی سُخنور نکلے؟

میری ہر سانس تھی میزانِ عدالت محسنؔ

جتنے محشر تھے میرے جسم کے اندر نکلے !

وہ اپنے لرزتے وجود کو گھسیٹے ہوئے وہاں سے لایا تھا ۔

یہ سب کیا ہو گیا تھا وہ کیا سمجھے بیٹھا تھا اور اس کی نظر میں تو وہ دوستی کے قابل بھی نہیں تھا۔

اسکی محبت کا بت پاش پاش ہو گیا تھا۔

وہ وہیں سیڑھیوں پہ بیٹھ گیا۔

اسے اپنا سانس رکتا محسوس ہو رہا تھا وہ مجھے یوز کرتی رہی ہے۔

وہ خود کو یقین دلانے کی بھرپور کوشش کرتا رہا تھا۔

نہیں وہ ایسی نہیں ہے 

اسنے خود کو تسلی دی 

وہ اس سے ملے بغیر وہاں سے چلے جانا چاہتا تھا۔

مجرم میں نہیں وہ ہے میں ایسے نہیں جاوں گا میں اپنا بھرم ٹوٹنے نہیں دوں گا۔

وہ دل میں ارادہ باندھتے ہوئے وہیں بیٹھا رہا۔

     ○○●○○○○●○○○○●○○○○●○○

تمہیں اب اس سے بات کرنی چاہیے وہ انتظار کر رہا ہو گا تمہارا نائمہ نے اسے ہاتھ پکڑ کر کھڑا کیا۔

ہاں بھی اسی کے پاس جا رہی تھی۔

وہ مسکرا دی۔

چلو پھر جو بھی بات ہو ہمیں ضرور بتانا۔

نمرہ نے شوخی سے کہا۔

جی نہیں میں کچھ نہیں بتاوں گی۔

وہ انہیں منہ چڑاتے ہوئے وہاں سے چلی گئی

وہ وہاں بیٹھا اپنا ضبط آزما رہا تھا۔

اسے مشی کے ساتھ ہونے والی اپنی پہلی با ضابطہ ملاقات یاد آئی تھی۔

وہ جب اس یونیورسٹی میں آیا تو شروع کے دن تو مشی نے کوئی کلاس اٹینڈ ہی نہیں کی وہ آتی اور پریڈ بنک کر کے باہر بیٹھی رہتی ۔

وہ نہیں جانتا تھا وہ کون ہے اسکی کلاس فیلو ہے کہ نہیں پھر ایک دن اس نے اسے اپنی کلاس میں دیکھا تھا۔

سر کے پوچھنے پہ اسنے اپنا نام بتایا۔

رمیشا زمان اور پھر واپس بیٹھ گئی۔

کسی نے نوٹس نہیں لیا لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ مشی کی مقبولیت زور پکڑتی جا رہی تھی۔

ہر کوئی رمیشا زمان کو جاننے لگا تھا۔

اسکی وجہ شہرت ٹیچرز کو لاجواب کرنا تھا وہ لیکچرر کے دوران ڈھونڈھ کے ایسا مشکل اور بے تکا سوال پوچھتی کہ سر ااے دیکھ کر رہ جاتے ۔

پوری کلاس ہنستی۔

البتہ سر ظفر اسکی اس عادت سے چڑتے تھے اس لیے ان کی کلاس میں وہ اور زیادہ سوال پوچھتی۔

وہ ڈانٹتے مگر اسے کہاں اثر ہوتا تھا۔

شروعات کے کچھ مہینے یونہی گزر گئے تھے۔

وہ اپنی پڑھائی میں مصروف رہتا۔

آج موسم بہت خراب تھا بادل برسنے کو بے تاب تھے۔

اسے اپنی آسائمنٹ بناتے ہوئے دیر ہو گئی تھی وہ جب لائبریری سے باہر آیا تو بارش ہلکی ہلکی شروع ہو چکی تھی۔

اسنے ایک نظر بائیک پہ اور دوسری اپنے ہاتھ میں پکڑی فائلز پہ ڈالی یہ تو بھیگ جائیں گی اور میری ساری محنت ضایع ہو جائے گئ۔

وہ سوچتے ہوئے لائبریری واپس چلا گیا تھا۔

اپنی فائلز لائبریرین کے پاس رکھوا کر جب وہ نکلا تب اسنے مشی کی گاڑی کو باہر جاتے ہوئے دیکھا۔

یہ ابھی تک یہاں کیا کر رہی تھی۔

وہ سوچتے ہوئے اپنی بائیک کی جانب بڑھ گیا۔

راستے میں جاتے ہوئے اس نے عجیب ہی منظر دیکھا تھا۔

عماد نے اپنی بائیک کی رفتار ہلکی کر لی۔

وہ دور سے بھی اس گاڑی کو اور اس لڑکی کو پہچان سکتا تھا۔

تھوڑا قریب آنے پہ اسنے مشی کو اپنی گاڑی کا ٹائر پنکچر کرتے دیکھا تھا۔

اسنے حیرانی سے بائیک پیچھے ہی روک لی اور اسے بغور دیکھنے لگا۔

ٹائر پنکچر کر کے وہ تھوڑا آگے بڑھی تھی جوتا ایک سائیڈ پہ اتار کر وہ ننگے پاوں سڑک پہ چلنے لگی تھی۔

عماد اس پاگل۔لڑکی کو حیرت سے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔

اس نے اپنے بالوں میں پہنا ربڑ بینڈ اتار پھینکا تھا۔

سڑک پہ رش نہ ہونے کہ برابر تھا کوئی پاگل ہی اتنی ٹھنڈ میں باہر آتا۔

وہ لڑکی تو ویسے بھی عقل سے پیدل تھی

یہ سردیوں کی پہلی بارش تھی عماد کا پورا وجود ٹھنڈ سے سن ہو چکا تھا۔

مشی نے اب دونوں بازوں کھولتے ہوئے ہوا اور بارش سے لطف اندوز ہوتے ہوئے گول گول گھومنا شروع کر دیا تھا۔

اسے کیا ٹھنڈ نہیں لگ رہی۔

جینز کہ اوپر چھوٹی سے شرٹ پہنے ہوئے کھلے بال بھی اسکے ساتھ رقص کر رہے تھے۔

یہ لڑکی ٹھنڈ سے مرےگی مجھے اسے روکنا چاہیے وہ سوچتے ہوئے اپنی بائیک لے کر آگے بڑھا۔

محترمہ یہ آپ کیا کر رہی ہیں ۔

عماد بائیک ایک سائیڈ پہ کھڑی کرتے ہوئے اس کے قریب جا کھڑا ہوا۔

آپکی تعریف 

مشی نے رک کر حیرت سے اسے دیکھا۔

وہ تو آپ بعد میں کریں گی ہی

وہ ہنسا

تمہارا نام پوچھ رہی ہوں

مشی کے ماتھے پہ بل۔پڑے

بندہ ناچیز کو عماد ظہیر کہتے ہیں۔

وہ سینے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے تھوڑا سا جھکا

تم وہی کتابی کیڑے ہو ناں جو کلاس میں ایک سائیڈ پہ بیٹھے رہتے ہو

مشی نے آنکھیں سکڑیں 

عماد ہنس دیا اسے مشی کا یہ سب کہنا برا نہیں لگا تھا 

وہ تو کچھ بھی کہہ سکتی تھی

کیا میں پوچھ سکتا ہوں اتنی شدید سردی اور تیز بارش میں آپ کیوں بھیگ رہی ہیں۔

وہ مدعے پہ آیا۔

کیا میں نے تم سے پوچھا کہ تم یہاں کیا کر رہے ہو۔

مشی نے گردن اسکی طرف موڑی۔

نہیں 

عماد نے سر نفی میں ہلایا

کیا میں نے پوچھا کہ تم یہاں کھڑے ہو کر بارش میں کس خوشی میں بھیگ رہے ہوں 

وہ خفا خفا سی بولی۔

کیوں کہ بھیگنا میری مجبوری ہے ۔

کیونکہ میں بائیک پر ہوں۔

عماد نے ایک نظر بائیک پہ ڈالتے ہوئے اسے کہا

میری بھی مجوری ہے۔

وہ اسی طرح منے پھرے بے زراریت سے بولی۔

کیا مجبوری ہے ۔

عماد چلتے ہوئے اسکے سامنے جا کھڑا ہوا۔

میری گاڑی کا ٹائیر پنکچر ہو گیا ہے۔

مشی نے دانت پیستے ہوئے اسے گھورا۔

جان نہ پہچان میں تیرا مہمان ساری انجوائمنٹ کا مزہ خراب کر دیا ۔

مشی دل ہی دل میں سوچ کر بل کھا رہی تھی ۔

ٹائر پنکچر ہوا نہیں کیا گیا ہے۔

عماد نے مسکرا کر اسکی آنکھوں میں دیکھا۔

کیا مطلب

اسکی زبان لڑکھڑائی۔

مطلب یہ کہ میں نے خود دیکھا آپ اپنی گاڑی کا ٹائر پنکچر کر رہیں تھیں۔۔

عماد نے جتانے والے انداز میں اسے دیکھا۔

ہاں تو میری گاڑی ہے میں جو مرضی کروں۔

مشی نے پہلے آنکھیں چرائیں اور پھر ڈھٹائی سے بولی۔

کیا میں پوچھ سکتاہوں اتنی طوفانی بارش میں آپ نے ایسی حرکت کیوں کی۔

وہ سینے پہ بازو باندھے اس کے سامنے کھڑا بولا

میں آپ کو بتانا ضروری نہیں سمجھتی 

وہ کہتے ہوئے فٹ پاتھ پر بیٹھ گئی۔

مگر بتانا تو پڑے گا آپکو ایسے تو میں نہیں چھوڑ کر جاوں گا آپکو۔

وہ بھی اسکے برابر کچھ فاصلے پہ بیٹھ گیا۔

او ہیلو مسٹر یہ تم خود ہی میرے سر پر کیوں سوار ہو رہے ہو جان نہ پہچان مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے کسی کی تم جا سکتے ہوں

مشی نے بے زاریت سے کہتے ہوئے اپنا رخ موڑا۔

یہ علاقہ بہت خطر ناک ہے اکثر چوریاں ہوتی ہیں اغواء بھی ایسے میں میں کیسے چھوڑ کر جا سکتا ہوں آپکو۔

آپ کوئی سالڈ ریزن دے دیں میں چلا جاوں گا۔

وہ بضد تھا۔

تم ایسے جان نہیں چھوڑو گے میری۔

مشی نے ابکے رخ اسکی جانب موڑتے ہوئے اسے دیکھا۔

عماد نے گردن نفی میں ہلائی۔

تو سنو مجھے نہ بارش بہت پسند ہے اور میری حسرت رہی ہے کہ میں یوں اتنی تیز بارش کو کھلے ماحول میں انجوائے کروں۔

مشی نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے بارش کا کچھ پانی اپنے ہاتھ پر جمع کیا۔

مگر ہائے میری قسمت بخار ہو جائے گا بیمار پڑ جاو گی نمونیہ ہو جائے یہ سب سن سن کے میرے کان پک گئے۔

میرے گھر والے مجھے جولائی کی بارش میں بھی نہیں نہانے دیتے ان حالات میں پھر میں ایسی حرکتیں ہی کروں گی۔

مشی نے جمع شدہ پانی عماد پہ پھینکا۔

وہ دونوں مکمل بھیگ گئے تھے۔

بڑی عجیب حسرت ہے ویسے آپکی کیا آپکو کبھی موقع نہیں ملا کیا۔

عماد نے حیرانی سے اسکی طرف دیکھا۔

نہیں نہ یہ چند مہینے ہوئے ہیں کہ گاڑی میں خود ڈرائیو کرتی ہوں ورنہ تو سب کی نظر مجھ ہی ہوتی ہے اکلوتی ہوں ناں۔

وہ منہ بناتے ہوئے بولی۔

اچھا گاڑی کا ٹائر تو آپنے پنکچر کر دیا اب گھر کیسے جائیں گی۔

عماد کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔

بس ابھی بابا کو کال کرنے لگی تھی وہ ڈرائیور کو بھیج دیں گے۔

اسنے پاکٹ سے اپنا موبائل نکالا جو مکمل طور پہ بھیگ چکا تھا۔

اگر آپکو برا نہ لگے تو میں آپکو ڈراپ کر دوں

عماد نے اسے ججھکتے ہوئے آفر کی۔

ہاں ہاں کیوں نہیں مجھے تو ویسے بھی بائیک بہت پسند یے

اندھے کو کیا چاہیں دو آنکھیں وہ فورا مان گئی۔

عماد نے آگے بڑھ کر بائیک سٹارٹ کی وہ پورا راستہ کچھ نہ کچھ بولتی رہی تھی اور عماد خاموشی سے سنتا رہا تھا۔

عماد اسے گھر ڈراپ کر کے اپنے گھر چلا گیا تھا۔

ان دونوں کی یہ بھول تھی کہ اب قصہ ختم ہو چکا ہے

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

اگلے کچھ دن ان میں بات نہیں ہوئی تھی۔

نہ عماد نے اسے مخاطب کیا اور نہ مشی نے۔

آج عماد کلاس روم میں آیا تو مشی اسکی برابر والی کرسی پہ بیٹھی نہ جانے کن سوچوں میں گم تھی۔

آپ یہاں میرے ساتھ

عماد نے بیٹھتے ہوئے اپنی حیرت کا اظہار کیا۔

کیوں۔میں یہاں کوں نہیں بیٹھ سکتی۔

وہ چونکی اور فورا سیدھی ہو بیٹھی 

نہیں میرا کوئی ایسا مطلب نہیں تھا مطلب آپ پہلے کبھی یہاں۔

میں آج سے یہیں بیٹھوں گی تمہیں کوئی مسئلہ ہے تو تم اپنی جگہ بدل لو۔

وہ عماد کے بات پوری کرنے سے پہلے اس پہ چڑھ دوڑی۔

وہ ایک نظر اسے دیکھ کر خاموش ہو گیا۔

سر ظفر کلاس میں آ گئے تھے۔

لیکچر سٹارٹ ہو چکا تھا۔

مگر مشی کا دھیان کہیں اور ہی تھا۔

عماد نے نوٹس کیا تھا کہ وہ چپکے چپکے اسے دیکھ رہی ہے جیسے کچھ کہنا چاہ رہی ہوں۔

او مائے گاڈ عماد تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا۔

مشی کی آواز بہت بلند تھی ۔

عماد نے حیرت سے مشی کی طرف دیکھا۔

پوری کلاس نے مڑ کر ان دونوں کی جانب دیکھا تھا۔

مشی نے عماد کو آنکھوں ہی آنکھوں میں چپ رہنے کا اشارہ کیا تھا۔

وہ ناسمجھی کے عالم میں اسے دیکھے گیا

کیا ہوا ہے مشی۔

سر ظفر چلتے ہوئے ان دونوں کے قریب آ گئے تھے۔۔

سر عماد کے پاپا کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے وہ ہاسپٹل میں ہیں۔

مشی نے کھڑے ہوتے ہوئے جواب دیا۔

اگر ان کے پاپا ہاسپٹل میں۔ہیں تو یہ یہاں کیوں ہیں۔

سر ظفر نے عماد کی طرف دیکھا۔

وہ تو بس حیرت کی وادیوں میں گم تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔

سر ابھی ابھی فون آیا جب آپ کلاس میں آئے آئی ایم سوری سر مگر ہمیں جانا پڑے گا۔

مشی نے عماد کا ہاتھ پکڑ کر اسے کھڑا کیا۔

اس کے ساتھ تو کاٹو تو بدن میں لہو نہیں والا حساب ہوا تھا

بولتا تب بھی مارا جاتا نہ بولتا تب بھی مارا جاتا۔

ہمیں سے کیا مراد ہے آپکی مس مشی 

سر نے سوالیہ نظروں سے مشی کو دیکھا۔

سر یہ اپنے پاپا سے بہت اٹیجڈ ہے ایسی حالت میں ڈرائیو کرے گا تو اسکی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے اور میرا تو یہ بیسٹ فرینڈ ہے ایسی حالت میں اسے اکیلا کیسے جانے دے سکتی ہوں۔

مشی نے ایک نظر سر جھکائے عماد پہ ڈالی اور سر کے قریب ہوتے ہوئے آہستگی سے بولی۔

اٹس اوکے تم لوگ جاو۔

سر ظفر انہیں جانے کا کہہ کر دوبارہ کلاس کی جانب متوجہ ہو گئے تھے۔

یہ کیا حرکت تھی مس رمیشا زمان 

وہ کلاس سے باہر آتے ہی اس پر برس پڑا ۔

آئی ایم سوری کلاس سے نکلنے کے لیے مجھے کوئی اور طریقہ سمجھ نہیں آیا۔

مشی نے لاپرواہی سے کندھے اچکائے۔

ایسی کیا آفت پڑ گئی تھی کہ یوں جھوٹ بول کر آپکو کلاس سے باہر آنا پڑا۔

اور ساتھ مجھے شامل کرنا پڑا

وہ ابھی تک غصے میں تھا۔

میرے پاپا مجھ پہ بہت چیک رکھتے ہیں یونی سے چھوٹی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

وہ ہاتھ ہلاتے ہوئے بولی۔

تو ایسا کیا ہو گیا کہ آپکو یہ سب کرنا پڑا۔

وہ چڑ کر بولا۔

اسکی وجہ سے

مشی نے اپنی پینٹ کی جیب سے دو ٹکٹس نکالیں۔

یہ کیا ہے 

عماد نے سوالیہ نظروں سے اسکی جانب دیکھا۔

یہ مووی کے ٹکٹس ہیں ۔

وہ ٹکٹس ہوا میں لہرا کر بولی

تو میں کیا کروں 

وہ اسی طرح ناراضگی سے بولا

بھئی تم میرے ساتھ مووی دیکھنے چلو۔

مشی نے اسے آفر کی

میں موویز نہیں دیکھتا ۔

وہ یونہی کھڑے بولا۔

بہت بورنگ انسان ہو تم 

مشی نے منہ بناتے ہوئے کہا

اگر آپکو مووی دیکھنی تھی تو یونیورسٹی آنے کی کیا ضروت تھی سیدھا چلی جاتیں۔

وہ اب قدرے ٹھنڈا ہو چکا تھا سو پوچھ لیا۔

توبہ ہے انوسٹی گیشن ہی ختم نہیں ہوتی تمہاری 

مشی نے اپنا سر پیٹ لیا

اگر میں یونیورسٹی نہ آتی تو پاپا کو پتہ چل جاتا مگر مجھے ہر حالت میں ابھی مووی دیکھنی ہے اب اگر ان تک اطلاع گئی بھی تو یہ جائے گی کہ میں کسی دوست کے ساتھ اسکے باپ کے عیادت کے لیے گئی ہوں

وہ مزے سے بولی

ہمارا جھوٹ پکڑا جائے گا۔

وہ پریشانی سے بولا

تب کی تب دیکھیں گے ابھی تم میرے ساتھ چل رہے ہو میں ایک لفظ نہیں سنوں گی۔

ٹائم کم ہے لحاظہ باقی سوال راستے میں کر لینا

وہ دھونس بھرے لہجے میں کہتی اسے اپنے ساتھ لے گئی۔

اور پھر ایسی ہر حرکت اور شرارت میں مشی نے اسے شامل کرنا شروع کر دیا تھا۔

اور پھر انکی دوستی ہو گئی تھی۔

مشی شروع شروع میں مفاد پرست تھی مگر عماد کی اچھائی نے اسے مخلص بنا دیا تھا۔

▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪

ہائے عماد 

عماد مشی کی آواز پر فورا ماضی سے حال میں واپس آیا۔

کیا ہواکہاں کھوئے ہوئے تھے۔

وہ کہتے ہوئے اس کے برابر بیٹھ گئی۔

نہیں کہیں نہیں 

وہ فورا سیدھا ہو بیٹھا

ماضی سے حال اور سراب سے حقیت تک کا سفر اسکے لیے بہت کھٹن ثابت ہوا تھا تکلیف کی شدت سے اسکا دل پھٹا جا رہا تھا مگر اس کے لبوں پہ اب بھی مسکراہٹ تھی۔

وہی جان لیوا مسکراہٹ جو اسکی شخصیت کا خاصہ تھی

تمہیں کوئی ضروری بات کرنی تھی مجھ سے۔

وہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہی تھی۔

مگر وہ سر جھکائے بیٹھا رہا

وہ اس چہرے کو دیکھنے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا۔

وہ چہرہ جو اسکھوں میں بستا تھا

ہاں کرنی تو تھی ۔

عماد یونہی سر جھکائے بولا۔

تو کرو ناں۔

مشی بے چین تھی۔

کچھ بولو بھی پھر مجھے بھی تم سے کوئی ضروری بات کرنی ہے۔

مشی کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔

تم کہو کیا بات کرنی ہے تم نے

اب کے عماد نے گردن اٹھا کر مشی کو دیکھا۔

وہ چہرہ پل میں کتنا اجنبی ہو گیا تھا۔

کاش یہ چہرہ اتنا معصوم نہ ہوتا تو وہ کبھی دھوکہ نہ کھاتا۔

نہیں پہلے تم نے شروع کی تھی تم بولو۔

وہ اٹھلائی۔

ٹھیک ہے میں کہہ دیتا ہوں

عماد محبت کا کچھ بھرم باقی رکھنا چاہتا تھا تھا۔

وہ ہمہ تن گوش ہوئی۔

میری شادی طے ہو گئی ہے۔

مشی کو لگا کسی نے آسمان اسکے سر پہ گرا دیا ہے۔

کب کس سے 

مشی کو اپنی آواز کھائی سے آتی محسوس ہوئی تھی۔

میری کزن ہے

وہ اسکی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔

اگر دیکھ رہا ہوتا تو اسکی دھواں دھواں ہوتی آنکھوں کو دیکھ کر سچ جان لیتا ۔

لو میرج ہے یا ارینج

مشی کے حلق میں آنسووں کا پھندہ پڑ گیا تھا۔

لو میرج ہے۔

وہ جھوٹ پہ جھوٹ بول رہا تھا اور بلا کے اعتماد کے ساتھ اگر دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ لیتے تو جھوٹ پکڑ لیتے۔

کہتے ہیں محبت کرنے والوں کی آنکھیں ہی ہوتی ہیں جن سے سے سچ اور جھوٹ کا پتہ چل جاتا ہے۔

پہلے تو کبھی ذکر نہیں کیا تم نے

مشی نے اپنی آواز کی لغزش پہ قابو پانے کی بھرپور کوشش کی تھی۔

ہاں بس دھیان نہیں رہا میں تمہیں شادی پر بلاوں گا تم آو گی ناں۔

وہ ایسے بات کر رہا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔

وہ اپنی دانست میں اپنی محبت کا بھرم رکھنا چاہ رہا تھا کہ اگر کبھی مشی کو کچھ محسوس ہوا بھی ہے تو وہ بھول جائے۔

مشی نے گردن اثبات میں ہلائی۔

تم کچھ کہہ رہی تھیں۔

اسے اچانک یاد آیا۔

نہیں کچھ خاص نہیں

وہ خود کو نارمل کرتے ہوئے مسکرا دی۔

کچھ تو ضرور ہوا تھا ورنہ عماد اسکی آنکھوں میں میرے لیے محبت وہ سب کیا تھا۔

وہ ابھی تک وہیں الجھی تھی

پھر بھی 

وہ اثرار کرنے لگا۔

نہیں وہ میں تھائیلینڈ جانا چاہ رہی تھی تم سے پوچھنا تھا ساتھ چلو گے۔

مشی کو بروقت جو سمجھ میں آیا کہہ دیا۔

نہیں میں شادی کی تیاریوں میں مصروف ہونگا نہیں جا سکوں گا۔

وہ اس سے کہتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔

مشی کی آنسوؤں سے بھری نگاہوں نے دور تک اسکا پیچھا کیا تھا۔

ایک دوسرے کی نظروں سے اوجھل ہونے کے بعد دونوں کا ضبط ٹوٹ گیا تھا۔

مشی ہاتھوں میں چہرہ چھپائے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

وہ چلبلی کسی رشتے کسی چیز کو سنجدگی سے نہ لینے والی عماد ظہیر کی محبت کو دل سے لگا بیٹھی تھی۔

دل۔کے زخم کب بھرا کرتے ہیں ہیں

ٹوٹی کرچیوں کی چبھن ہمیشہ ستاتی ہے۔

عماد خود کو بڑا حوصلہ دے کر گاڑی تک لایا تھا اور پھر گاڑی میں بیٹھ کر وہ بھی رو دیا۔

اسنے آج اپنی زندگی کی پہلی بڑی قیمتی چیز کھوئی تھی اپنی پہلی اور آخری محبت۔

اسکا دکھ کا نہ مدعاوا تھا اور نہ دوا۔

اس مرض کا تو کوئی علاج بھی نہیں۔

دل دونوں کے ٹوٹے تھے درد دونوں کا برابر تھا شدید تھا

دونوں نے ایک دوسرے کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا تھا۔

اور وجہ ۔۔۔۔؟

وجہ کوئی بھی نہیں تھی عماد نے ادھوری بات سنی اور اسی پہ یقین کر لیا۔

اور مشی اپنے بے فضول بولنے اور صاف گوئی کے ہاتھوں ماری گئی۔

انسان خود کو عقل کل سمجھتا ہے جو دیکھتا ہے جو سنتا ہے بس اسی پہ ایمان لے آتا ہے سامنے والا اگر صحیح بھی ہو تو اسے صفائی کا ایک موقع تک نہیں دیتا۔عماد نے بھی ادھوری بات سن کر اپنے مطلب کا مطلب اخذ کر لیا اور اپنے ہی حساب سے سزا تجویز کر لی ۔

اپنے لیے بھی اور رمیشا کے لیے بھی ۔

اسنے اپنی زندگی کی سب سے بڑی خوشی اپنی محبت کھو دی تھی اگر وہ سن ہی رہا تھا تو مکمل بات سن لیتا ۔

کبھی کبھی آنکھوں دیکھا اور کانوں سنا بھی سچ نہیں ہوتا۔

ہم اکثر نامکمل بات سنتے ہیں اور اپنے مطلب کی چادر اوڑھا دیتے ہیں۔

پھر چاہے حقیت کچھ بھی ہو مگر ہم اپنی بات پہ ڈٹے رہتے ہیں۔

کبھی کبھی وقت اور حالات بھی انسان کا ساتھ نہیں دیتے اور کبھی کبھی انسان خود اپنی نااہلی سے سیدھے وقت کو بھی الٹا کر لیتا ہے

اور یہ ہم اکثر کرتے ہیں ایسا ہوتا ہے۔

کاش کہ ہم سامنے والے کی بات سن لیں کاش کہ ہم جذباتیت میں اتنے سنگین فیصلے نہ کریں۔

کاش کہ ہم فضول گوئی سے پرہیز کریں رشتوں کو سمجھیں نبھائیں نہ کہ اپنے مفاد کے لیے استمعال کریں ۔

ختم شد 


Jaan E Jaana Novel By Asra Khan Complete Short Novel Story 8

السلام و علیکم سر۔۔۔۔۔!

گڈ آفٹر نون سر۔۔۔۔۔!

ویلکم سر۔۔۔۔۔!

وہ جوں ہی شوروم میں داخل ہوا۔۔۔۔۔بہت سی آوازیں اسکے کانوں سے ٹکرائیں۔۔۔۔

سر ہلا کر ہلکی سی سمائل پاس کرتا۔۔۔۔، جو اسکی ذات کا خاصا تھی۔۔۔۔ وہ آفس کی طرف بڑھ رہا تھا۔۔۔۔۔

سر کیا لیں گے۔۔۔۔ جوس یا کافی۔۔۔۔؟؟

اسکا مینیجر موؤدب سا ہاتھ باندھے سوال کر رہا تھا۔۔۔۔

فلحال کچھ نہیں۔۔۔۔۔!

تم جلدی سے اس ویک کا ڈیٹا لاؤ۔۔۔۔

مجھے دوسرے سٹی بھی جانا ہے۔۔۔۔

ہری اپ۔۔۔۔! ٹائم ویسٹ مت کرو۔۔۔۔

وہ کلائ پر بندھی قیمتی گھڑی کی طرف دیکھتا اسے آرڈر کرتا ہوا بولا۔۔۔۔

شیور سر ۔۔۔!

وہ تیزی سے باہر نکل گیا۔۔۔۔

جان نے گردن پیچھے گرا دی۔۔۔۔۔

آنکھیں بند کئے وہ آہستگی سے گنگنانے لگا۔۔۔۔۔

سفید رنگت پر گھنی چھوٹی سی داڑھی۔۔۔، کھڑی ہوئی تیکھی ناک اور لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ۔۔۔۔اسکی وجاہت کو چار چاند لگاتی تھی ۔۔۔

عامر۔۔۔۔۔، عامر یار یہ دیکھو۔۔۔۔ یہ والی گاڑی اچھی ہے ۔۔۔

اسکی سماعتوں سے ایک پتلی سی آواز ٹکرائ۔۔۔۔

جاناں۔۔۔۔، بیٹی دیہاں سے۔۔۔۔گر جاؤ گی ۔۔۔

ایک اور مردانہ آواز اسکے کانوں سے ٹکرائ۔۔۔۔

اس نے جھٹ سے آنکھیں کھولیں۔۔۔۔

"جاناں۔۔۔۔؟" کتنا میچ کرتا ہے نا میرے نام سے ۔۔۔۔۔

خود سے کہتا وہ ہنسا۔۔۔ اور اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔۔

اسے جاناں کو دیکھنے کی خواہش ہوئی۔۔

دروازہ کھول کر اس نے باہر جھانکا۔۔۔۔۔

سامنے ایک بیس بائیس سالہ لڑکی جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس کندھوں پر اسٹول اور پیروں میں جوگرز پہنے ماربل کے چکنے فرش پر سلائڈنگ کرتی ہوئی جوش و خروش سے ایک سے دوسری گاڑی کی طرف بڑھ رہی تھی ۔۔۔

جان اسکی حرکت پر بے اختیار ہنس پڑا۔۔۔۔

اسے وہ کوئی پاگل لگی۔۔۔۔ کیوٹ سی پاگل۔۔۔۔۔ اس نے ذرا اپنی راۓ میں ترمیم کی۔۔ ۔۔

وہ وہیں دیوار سے ٹیک لگاے اسے دیکھنے لگا۔۔۔۔

سر اس فائل میں سارا ڈیٹا ہے۔۔۔۔

یاسر (مینیجر) فائل لئے اسکے پاس آیا۔۔۔۔

جاناں کہیں گاڑیوں کے پیچھے غائب ہوگئی تھی۔۔۔۔

سر۔۔۔۔۔۔؟؟

یاسر نے ذرا حیرانی سے اسے پھر سے پکارا ۔۔۔۔۔

آ۔۔۔۔ہاں۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔۔

وہ چونکا

اسے آفس میں رکھو۔۔۔۔میں آتا ہوں۔۔۔۔

اوکے سر۔۔۔۔۔!

وہ ذرا آگے اسکی تلاش میں بڑھا۔۔۔۔۔

قدم بڑھاتا وہ اسے تلاش کر رہا تھا۔۔۔

وہاں کے ورکرز حیرانی سے اپنے باس دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔

جو اپنے آفس سے ہی بہت کم باہر نکلا کرتا تھا۔۔۔۔

کدھر چلی گئی۔۔۔۔؟

اس نے سوچا۔۔۔۔۔

کہ اچانک اسے زور دار دھکّا لگا۔۔۔۔۔

وہ سنبھلنے کی کوشش سے پہلے ہی زمین بوس ہو چکا تھا۔۔۔۔

سر۔۔۔۔۔! سر۔۔۔اسکے ملازمین بوکھلا گئے ۔۔۔۔ 

اوہ۔۔۔۔ رئیلی سوری۔۔۔۔! 

مم۔۔میں ایسا نہیں چاہتا تھی۔۔۔۔ 

گھبرائ ہوئ آواز پر اس نے نظریں اٹھائیں۔۔۔۔

سامنے وہی تو تھی۔۔۔۔۔

جس کو وہ تلاش کر رہا تھا۔۔۔۔۔

بیشک ملنے کا سٹائل بہت ہی برا تھا۔۔۔۔۔مگر یادگار رہنے والا ضرور تھا ۔۔۔

سر۔۔۔۔۔؟ یاسر فورا اسکی طرف اسے سہارا دے کر اٹھانے کے لئے بڑھا۔۔۔۔

مگر اسکے ہاتھ کے اشارے پر رک گیا۔۔۔۔

جاناں پریشان نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

دکھنے میں تو یہ آدمی اسے بہت امیر کبیر لگتا تھا۔۔۔۔۔

کیا پتا اسکو کیا سزا دیتا۔۔۔۔

مس آپ مجھے اٹھائیں گی۔۔۔۔۔

اس نے جاناں کی طرف انگلی اٹھا کر اسے کہا۔۔۔۔

مم۔۔ میں۔۔۔۔؟

وہ گھبرا گئی ۔۔۔۔

جی گرایا آپ نے ہے۔۔۔۔تو اٹھائیں گی بھی آپ۔۔۔۔ ہے کے نہیں۔۔۔؟؟

وہ مسکرایا۔۔۔۔

جاناں پہلے شش و پنج میں کھڑی رہی۔۔۔۔

پھر نا چاہتے ہوئے بھی اسکی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔۔۔۔

جان بھر پور انداز میں مسکراتا اسکا ہاتھ تھام کر اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔

تھینک یو۔۔۔۔۔!

اس نے سر کو ذرا خم دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔

جاناں بیچاری سر ہلا کر رہ گئی۔۔۔۔

حالانکہ غلطی بھی اسکی ہی تھی ۔۔۔۔

یہ کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔؟؟

عامر کی آواز پر اسے کرنٹ لگا ۔۔۔۔

آ۔۔۔عامر کک۔۔۔کچھ بھی تو نہیں۔۔۔۔

وہ اپنا ہاتھ چھڑوا کر جلدی سے اسکے پاس جا کھڑی ہوئی۔۔۔۔

کون ہے یہ۔۔۔۔؟؟؟

عامر جان کو گھورتا ہوا بولا۔۔۔

"شوروم کا مالک۔۔۔۔"

جواب جان کی طرف سے آیا۔۔۔۔۔

عامر کے تنے ہوۓ نقوش وہیں ڈھیلے پڑ گئے۔۔۔۔۔

ناءس تو میٹ یو۔۔۔۔۔!

عامر اب کھسیانا سا اسکی طرف ہاتھ بڑھاتا ہوا بولا۔۔۔۔

جان نے رسما ہاتھ ملا کر چھوڑ دیا ۔۔۔

وہ بابا آگۓ ۔۔۔۔

جاناں کی آواز پر اس نے سامنے دیکھا۔۔۔۔

ایک ادھیڑ عمر آدمی جن کے ساتھ جاناں چپکی ہوئی تھی ۔۔۔۔

وہ انکا تعارف جان سے کروا رہی تھی۔۔۔۔

جان نے سر کے اشارے سے انہیں سلام کیا۔۔۔۔

آپ کون ہیں انکے۔۔۔۔؟

اس نے عامر سے پوچھتے ہوئے جاناں کی طرف اشارہ کیا۔۔۔۔

یاسر حیرانی سے اپنے باس کو دیکھنے لگا ۔۔۔ 

جو فضول سے فضول تر سوال ان اجنبیوں سے کئے جا رہا تھا۔۔۔۔۔

وہ تو کسی اجنبی سے بات تک کرنا پسند نہیں کرتا تھا۔۔۔۔۔

میں انکی فیانسی ہوں۔۔۔ اور آج بابا اپنے ہونے والے داماد کو گاڑی دلوانے لاۓ ہیں۔۔۔۔

عامر کی بجاۓ جاناں نے خود ہی پورا تعارف کروانے کے ساتھ یہاں آنے کی ریزن بھی بتا دی۔۔ ۔

"اوہ مطلب سسر کے ٹکڑوں پر ۔۔۔۔۔۔ پلنے والے داماد۔۔۔۔"

اسکی بات پر جہاں جاناں کا رنگ پھیکا ہوا۔۔۔۔وہاں عامر کا چہرہ غصّے سے لال پڑ گیا۔۔۔۔

اہم ۔۔۔اہم۔۔۔۔

یاسر کھنکارا۔۔۔۔

اسکا صبر جواب دے گیا تھا۔۔۔۔

اسکا باس ضرور سستی چرس پی کے آیا تھا ۔۔۔۔جو بہکی بہکی باتیں کر رہا تھا۔۔۔۔

اپنی سوچ پر لعنت بھیجتے ہوئے اس نے ایک نظر جان کو دیکھا۔۔۔۔

اور نرمی سے گویا ہوا۔۔۔۔

"سر آپ پلیز اندر چلیں ۔۔۔ہم کسٹمر کو ڈیل کرتے ہیں۔۔۔۔"

جان نے سر ہلا دیا ۔۔۔۔

ایک مسکراتی نگاہ جاناں پر ڈال کر وہ آفس کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔

پیچھے عامر کی کٹیلی نگاہوں نے دور تک اسکا پیچھا کیا۔۔۔۔۔

سنو۔۔۔۔! اس لڑکی کے بارے میں مکمّل انفارمیشن چاہئے مجھے۔۔۔۔

جی باس۔۔۔!

اسکا اشارہ سمجھ کر یاسر نے بغیر حیران ہوئے سر ہلا دیا۔۔۔

اور آفس سے باہر نکل گیا۔۔۔۔

"جان جاناں"

فائل پر جھکا وہ دھیمے سے گنگنایا تھا۔۔۔۔

______________________________

جاناں اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھی۔۔۔۔۔

اسکے والد اکرم صاحب کی کپڑے کی ایک بہت بڑی دکان تھی۔۔۔۔۔

جس میں اللّه پاک نے بہت برکت رکھی تھی۔۔۔۔۔اسکی والدہ نور بیگم گھریلو خاتون تھیں ۔۔۔۔

عامر اسکی پھوپھو کا بیٹا تھا۔۔۔

اسکے والدین کا اسکے بچپن میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔۔۔۔۔

اکرام صاحب نے اسے اپنا بیٹا بنا لیا تھا۔۔۔۔اور ساتھ میں داماد بھی بنانا چاھتے تھے۔۔۔۔۔

جاناں اور عامر ساتھ میں بڑے ہوئے تھے ۔۔۔۔

دونوں میں صرف ایک سال کا فرق تھا۔۔۔ 

وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند بھی کرتے تھے۔۔۔۔ 

جان ایک مشہور بزنس مین تھا۔۔۔۔۔ اسکا گاڑیوں کا شوروم تھا۔۔۔۔جسکی برانچز تقریبا ہر شہر میں پھیلی ہوئ تھیں۔۔۔۔

اسکی والدہ یمنہ نے اسکے بچپن میں ہی اسکے والد سے طلاق لے لی تھی۔۔۔۔

وہ کسی اور کو چاہنے لگی تھیں۔۔۔۔۔

اور اب جان کے والد یوسف صاحب کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تھیں۔۔۔۔

انہوں نے یمنہ کو طلاق تو دے دی۔۔۔۔

مگر کبھی اسے بھلا نہیں پاۓ تھے۔۔۔۔ مگر صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے بھی نہیں دیا۔۔۔

جان ابھی اٹھارہ سال کا تھا۔۔۔۔

جب انکی ڈیتھ ہوگئی۔۔۔۔ انکی موت کا صدمہ بہت بھاری تھا اسکے لئے۔۔۔۔ مگر وہ خود کو سنبھالنا جانتا تھا۔۔۔۔۔

والد کے ساتھ رہتے ہوئے وہ کام سیکھ گیا۔۔۔۔

اسلئے خوب محنت کی۔۔۔۔ اور اپنے والد کی سالوں کی محنت کو ضائع نہیں ہونے دیا۔۔۔۔ 

دنیا کے سامنے تو وہ ہنسنے والا اور خوش باش انسان تھا ۔۔۔ 

مگر کسی کو اسکی ہنسی میں کھوکھلا پن محسوس نہیں ہوتا تھا۔۔۔۔

______________________________

چاۓ۔۔۔۔۔!

شام کے وقت اکرام صاحب اور عامر لان میں ہوا کھا رہے تھے ۔۔۔

اندر کچن میں نور بیگم چاۓ اور کباب تیار کر رہی تھیں۔۔۔۔

ساتھ ہی جاناں انکی مدد کر رہی تھی ۔۔۔۔

جاناں کی آواز پر اکرام صاحب مسکراۓ۔۔۔۔

آگئی میری شہزادی۔۔۔۔!

اکرام صاحب نے محبّت سے کہا۔۔۔۔۔

ملکہ عالیہ نظر نہیں آ رہیں۔۔۔۔۔؟؟

انہوں نے شریر لہجے میں نور بیگم کا پوچھا۔۔۔۔

جاناں ہنس پڑی۔۔۔۔

آ رہی ہیں بھئ ملکہ اپنے بادشاہ کے لئے کباب لے کر۔۔۔۔

وہ آنکھ مار کر سامنے سے آتی نور بیگم کو دیکھ کر بولی۔۔۔۔

اکرام صاحب کا جاندار قہقہہ فضا میں گونجا تھا۔۔۔۔

نور بیگم بس باپ بیٹی کو گھور کر رہ گئیں ۔ ۔۔

تمھیں کیا ہوا۔۔۔۔؟؟

جاناں نے عامر کو ٹہو دیا۔۔۔۔۔

مگر وہ تنے ہوئے نقوش لئے سامنے خلا میں گھورتا رہا۔۔۔ 

ارے بیٹا۔۔۔۔۔ مل جائے گی گاڑی۔۔۔آپ نے آج خود ضد کی کہ یہاں سے نہیں لینی۔۔۔۔

اچھی بھلی چیز آپکو پسند آگئی تھی۔۔۔۔

پھر انکار کرنے کی وجہ ۔۔۔؟؟

۔

۔

۔ خیر ہم کل چلیں گے نا۔۔۔۔آ جائے گی گاڑی بھی۔۔۔۔

چلیں اپنا موڈ اچھا کریں۔۔۔۔

اکرام صاحب نے پیار سے عامر کو پچکارا۔۔۔۔۔

وہ جواب دینے کی بجاۓ چاۓ کا کپ اٹھا کر لبوں سے لگا گیا۔۔۔۔

اکرام صاحب بھی مطمئن سے چاۓ کی طرف متوجہ ہوگئے۔۔۔۔

جاناں نے ناگوار نظروں سے عامر کو دیکھا۔۔۔۔

عامر سے مجبت سہی مگر اسے اپنے باپ کا یوں ذلیل ہونا ہرگز پسند نہیں تھا۔۔۔۔

______________________________

"جان جاناں۔۔۔"

گنگناتے ہوئے اسکے ہاتھ اور آنکھیں اپنے کام کی طرف متوجہ تھے ۔۔۔۔

تصور میں جاناں کا سراپا لئے وہ اسکا سکیچ بنا رہا تھا۔۔  

ایسے ہی کتنے سکیچ اس اپنے باپ کے بناۓ تھے ۔۔۔۔

انکو بناتے وقت اسکی آنکھوں میں آنسو ہوتے تھے۔۔  

مگر آج لبوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔۔۔۔۔

فائنلی ۔۔۔۔۔!!

سکیچ مکمّل کر کہ وہ اسے پوری طرح دیکھتا خوشی سے بولا۔۔۔۔

اسکی گھنٹوں کی محنت رنگ لائی تھی۔۔۔۔

سیل کے بجنے پر اس نے نگاہیں اس طرف اٹھائیں۔۔۔۔۔

یاسر کی کال تھی ۔۔۔۔

اسکے لبوں پر خوشی سے بھرپور مسکان دوڑ گئی ۔۔۔۔

یاسر ہمیشہ اچھی خبر لاتا تھا ۔۔۔۔۔!!!

______________________________

بیگم میں سوچ رہا ہوں۔۔۔۔۔

اس عید پر بچوں کی پراپر انگیجمنٹ کرتے ہیں۔۔۔۔۔

کافی عرصہ ہوگیا ہے۔۔۔کوئی فنکشن نہیں ہوا۔۔۔۔۔

تم کیا کہتی ہو ۔۔۔۔؟؟

اکرام صاحب نے دھلے ہوئے کپڑے تہہ کرتی نور بیگم سے پوچھا۔۔۔۔

میں کیا کہ سکتی ہوں۔۔۔۔۔؟

انہوں نے ایک جوڑا بنا کر سائیڈ پر رکھتے ہوئے لاپرواہی سے کہا۔۔۔۔۔

کیا مطلب کیا کہ سکتی ہوں۔۔۔۔؟؟

شاید وہ دونوں تمھارے بھی بچے ہیں ۔۔۔۔

وہ زچ ہوئے ۔۔۔۔۔

ہاں ہیں تو سہی۔۔۔۔۔

خیر ابھی تو رمضان آنے والا ہے ۔۔۔۔

عید کے تیسرے دن رکھ لیتے ہیں فنکشن۔۔۔۔۔

وہ اطمینان سے بولیں۔۔۔۔

چلو ٹھیک ہے۔۔۔۔

انہوں نے سر ہلا دیا۔۔۔۔

دروازے کے ساتھ کان لگا کر سنتی جاناں خوشی سے اندر بھاگ گئی تھی ۔۔۔۔

عامر۔۔۔۔!

عامر یار کہاں بیزی ہو۔۔۔۔۔

تمھیں ایک خوش خبری سناؤں۔۔۔۔۔

وہ بغیر ناک کۓ اونچی آواز میں کہتی لپک کر کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔۔

اندر فون پر کسی سے بات کرتا عامر جیسے گھبرا گیا۔۔۔۔

اس نے تیزی سے کال کاٹ دی۔۔۔۔

یار جاناں کیا تم میں ذرا سے مینرز نہیں ہیں۔۔۔۔؟؟ 

اتنا نہیں پتا کہ کسی کے کمرے میں جانے سے پہلے دروازہ ناک کرتے ہیں۔۔۔۔۔

وہ شدید ناگواری سے بولا۔۔۔۔

جاناں کو اسکی بات پر دھچکا تو لگا۔۔۔۔

مگر اس نے فورا خود کو سنبھال لیا ۔۔۔

کیا یار۔۔۔۔؟ ہر وقت مرچیں چباتے رہتے ہو۔۔۔۔۔

اس نے اس کے گال پر چپت لگاتے ہوئے ناراضگی سے کہا۔۔۔۔۔

اوکے میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔؟؟

تم بتاؤ کیا بات کرنی تھی۔۔۔۔۔؟

اس نے تیزی سے اپنے چہرے کے بگڑے ہوئے تاثرات ٹھیک کۓ۔۔۔۔۔

ابھی اکڑنے کا وقت نہیں آیا تھا۔۔۔۔

وہ میں نے ابھی بابا اور امی جان کو ہماری انگیجمنٹ کی بات کرتے سنا ہے۔۔۔۔

وہ عید کا تیسرا دن ڈن کر رہے ہیں۔۔۔۔

وہ خوشی سے با مشکل اپنی آواز دبا کر آہستگی سے بولی۔۔۔۔

یہ تو بہت اچھی بات ہے۔۔۔۔۔

عامر جاندار انداز میں مسکرایا۔۔۔۔

ہاں نا۔۔۔۔!

وہ چہکی۔۔۔۔۔

بہت اچھی خبر دی جاناں۔۔۔۔۔

اپنی خوشی میں گم مسکراتی ہوئ جاناں کی طرف دیکھتا وہ بڑبڑایا تھا۔۔۔۔۔

______________________________

ٹھنڈا سلش حلق سے اتارتے ہوئے اس نے ایک نظر شیشے سے باہر دیکھا۔۔۔۔۔

باہر چلچلاتی دھوپ میں کام کرتے لوگ۔۔۔، ریڑھیوں والے۔۔۔۔۔کچھ فٹ پاتھ پر بیٹھے مزدور۔۔۔۔،

اے سی کی ٹھنڈک محسوس کرتے ہوۓ اس نے اللّه کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔۔۔۔۔

اسکا ڈرائیور ساتھ والے جنرل اسٹور سے راشن لینے گیا تھا ۔۔۔۔۔

اس نے جان سے اجازت مانگی تھی۔۔۔۔

اس نے بھی انکار نہیں کیا۔۔۔۔وہ بھلا کیوں انکار کرتا۔۔۔۔۔ 

عامر میں ونیلا آئس کریم کھاؤں گی۔۔۔۔۔

وہی پتلی مگر چیختی ہوئی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائ۔۔۔

زیر لب مسکراتے ہوئے اس نے آواز کی سمت کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔

سامنے آئس کریم پالر کے دروازے پر ہی جاناں فرمائش کرنا شروع ہو گئی تھی۔۔۔۔

اور عامر اسے ناگوار نظروں سے گھور رہا تھا۔۔۔۔

اسے بہت زور سے ہنسی آئ۔۔۔۔

"کیوٹ سی پاگل" کہیں اپنی حرکتوں پر کنٹرول نہیں رکھتی تھی۔۔۔۔

وہ اسی کو دیکھنے میں محو تھا ۔۔۔

جب ہی صدام (ڈرائیور ) نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی۔۔۔۔

سوری سر جی۔۔۔۔دیر ہوگئی۔۔۔۔۔

اس نے معذرت کرنے کے ساتھ ایک نظر جان کو دیکھا۔۔۔۔

وہ اسکی طرف متوجہ ہوتا تو سنتا ۔۔۔۔

کندھے اچکاتا وہ گاڑی سٹارٹ کرنے لگا ۔۔۔۔

انجن کے سٹارٹ ہونے پر جان چونکا۔۔۔۔

اور صدام کو دیکھا۔۔۔۔

جو ذرا حیرانی سے اسے جانچتی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

جان نے فورا نگاہ واپس دوڑائ۔۔۔۔

وہ وہاں نہیں تھی۔۔۔۔

شاید اندر چلی گئی تھی۔۔۔۔

گہری سانس بھر کر اس نے صدام کو چلنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔۔

اسکا دل بار بار یہ اقرار کر رہا تھا۔۔۔۔

کہ جاناں اسے اچھی لگنے لگی تھی۔۔ اسکی جان بن چکی تھی۔۔۔۔

جان کی جاناں۔۔۔۔!!

______________________________

ماموں جان نیا مال لینے جانا ہے۔۔۔۔۔

آپ کہیں تو میں چلا جاؤں۔۔۔۔؟؟

اب آپکی عمر بھی نہیں ہے۔۔۔۔سفر کرنے کی۔۔۔۔

ڈنر کے بعد نور بیگم اور   جاناں تو اپنے کمرے میں چلی گئیں۔۔۔۔

جب کہ عامر ان سے نیا مال لانے کی بات ڈسکس کرنے لگا۔۔۔۔

ارے بھئ۔۔۔۔ میں ابھی اتنا بوڑھا نہیں ہوا۔۔۔۔۔

خود جاؤں گا۔۔۔۔تم ابھی بچے ہو۔۔۔۔لوٹے جاؤ گے۔۔۔۔

وہ ہنستے ہوئے بولے۔۔۔۔۔

آپکو کیا میں اتنا نکما اور بدھو لگتا ہوں۔۔۔۔؟؟

عامر کے تاثرات بگڑے۔۔۔۔

ہاہاہاہا۔۔۔۔۔

انہوں نے قہقہہ لگایا۔۔۔۔

سمجھ نہیں آتی بیٹے۔۔۔۔ آپ اتنا غصّہ کیوں کرنے لگے ہیں۔۔۔۔۔؟؟

آپ ابھی بچے ہو۔۔۔۔ اتنے بڑے نہیں ہوئے۔۔۔۔۔

جب کام کو اچھے سے سیکھ جاؤ گے ۔۔۔۔۔

تب تمھیں تمہاری زمیداری مبارک ۔۔۔۔

ایک دکاندار پہلے گاہک ہوتا ہے۔۔۔اور پھر دکاندار۔۔۔۔۔!!

پہلے تم اچھے گاہک بنو ۔۔۔۔ تو تمھیں اچھا دکاندار بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔۔۔۔

انہوں نے مسکراتے ہوئے نصیحت کی۔۔۔۔

"اچھا ماموں آپکی جو گاؤں میں زمین ہے۔۔۔۔میرا خیال ہے۔۔۔۔اسے بیچ کر ادھر سٹی میں ہی زمین لے لیتے ہیں۔۔۔۔۔

اس نے ایک اور کوشش کرنی چاہی۔۔۔۔۔

کیا بات کرتے ہو بیٹے۔۔۔۔؟؟

ہمارا سالانہ بہت اچھا ٹھیکہ آتا ہے اس زمین سے۔۔۔۔۔

اور جو اس پر ہر سال محنت کرتے ہیں۔۔۔۔

انکا کیا۔۔۔۔

آپ ادھر ادھر کی چھوڑو ۔۔۔۔

اور کام پر دیہاں دو۔۔۔۔

انکو عامر کی ایک ہی رٹ بری لگی۔۔۔۔۔

تب ہی ذرا سخت لہجے میں کہتے وہ وہاں سے چلے گئے۔۔۔۔

پیچھے وہ پر سوچ نظروں سے اسے انہیں دیکھتا رہ گیا۔۔۔۔

مچھلی جال میں نہیں پھنس رہی تھی۔۔۔۔

______________________________

سر کس سے ملنا ہے آپکو ۔۔۔۔؟؟؟

دروازے پر کھڑا چوکیدار اس شاندار پرسنلیٹی والے شخص کو اپنے سامنے دیکھ کر ذرا ادب سے پوچھنے لگا۔۔۔۔

"آپ بس اکرام صاحب کو بلا دیں۔۔۔۔ اس سے زیادہ کوئی سوال نہیں۔۔۔۔"

یاسر نے آگے بڑھ کے کہا۔۔۔۔ چوکیدار نے ایک نظر جان کو دیکھا۔۔۔۔

جو سن گلاسز شرٹ میں اٹکاتا اب اطمینان سے اسکی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

لبوں پر دھیمی سی مسکان دوڑ رہی تھی۔۔۔۔۔

وہ سر ہلا کر اندر کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔

سر آپ پلیز گاڑی میں بیٹھ جائیں تب تک۔۔۔۔۔

یاسر آگے بڑھا۔۔۔۔

اسکی کیئر پر جان ہنس پڑا۔۔۔۔

بس کرو یاسر۔۔۔۔اتنا نازک نہیں ہوں میں جو دو منٹ یہاں کھڑا نا رہ سکوں۔۔۔۔۔

سر میں تو بس۔۔۔۔!

یاسر سے کوئی بات نا بن سکی۔۔۔۔تب ہی سر کھجاتا ہوا شرمندگی سے جملہ آدھا چھوڑ گیا۔۔۔۔

آپ لوگ اندر آجائیں۔۔۔۔

چوکیدار کی آواز پر جان یاسر کو پیچھے آنے کا اشارہ کرتا آگے بڑھ گیا۔۔۔۔

______________________________

ڈریسنگ کے سامنے کھڑی وہ احتیاط سے مسکارا لگا رہی تھی۔۔۔۔

ریڈ شارٹ شرٹ اور سکن کیپری میں چنری والا دوپٹا کندھوں پر لٹکاۓ وہ پورے جوش سے تیاری میں مگن تھی ۔۔۔

ایک تو انگیجمنٹ والی بات کی خوشی اور دوسرا آج ان سب نے نئی گاڑی پر گھومنے جانا تھا۔۔۔۔

جو تھوڑی دیر پہلے اکرام صاحب کی جیب سے خرچہ کروا کر عامر کے نام ہو چکی تھی۔۔۔۔

جان ٹھیک کہتا تھا۔۔۔۔

"سسر کے ٹکڑوں پر پلنے والا داماد"

ریڈ لپسٹک اٹھاۓ وہ ہلکے سے اسے ہونٹوں سے مس کرنے لگی۔۔۔۔

پیچھے ہو کر اس نے اپنا مکمّل جائزہ لیا۔۔۔۔۔

آج تمیز والی ڈریسنگ میں وہ سچ میں بہت حسین لگ رہی تھی۔۔۔۔

یہ کون آگیا۔۔۔۔؟؟

لاؤنچ سے آنے والی آوازوں پر وہ دوپٹا سیٹ کرتی باہر کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔

______________________________

تم اور یہاں۔۔۔۔۔۔؟؟؟

جان کو آرام سے صوفے پر ٹانگ پے ٹانگ چڑھا کر بیٹھا دیکھ کر عامر کو شاک لگنے کے ساتھ شدید غصّہ بھی چڑھا۔۔۔۔۔

"ہاں۔۔۔۔ کیوں میں نہیں آ سکتا کیا۔۔۔۔۔؟؟"

اس نے اٹھنے کی زحمت نہیں کی۔۔۔۔

وہیں اطمینان سے صوفے پر بیٹھا اس سے پوچھنے لگا۔۔۔۔۔

"تمھارے باپ کا گھر ہے۔۔۔۔جو اتنے دھڑلے سے بیٹھے ہو۔۔۔۔؟"

عامر کی لینگویج خراب ہوئی ۔۔۔۔

"گھر تو تمھارے باپ کا بھی نہیں ہے۔۔۔۔"

وہی اطمینان۔۔۔۔۔!!

"تم ہوتے کون ہو مجھے یہ طعنہ دینے والے۔۔۔۔۔؟"

عامر غصّے سے پاگل ہونے کو آگیا۔۔۔۔

کم آن۔۔۔۔! اتنا غصّہ مت کرو۔۔۔۔یاسر جلدی سے  داماد جی کو میری فیوریٹ کینڈی دو ۔۔۔انکے گلے کے ساتھ دماغ بھی ٹھنڈا ہو جائے۔۔۔۔

وہ ذرا ہنس کر بولا۔۔۔۔

اسکی ہنسی عامر کو آگ لگا گئی۔۔۔۔

یہ لیں سر۔۔۔۔۔!

یاسر نے نہایت ادب سے ہیوٹ اسکے سامنے کی۔۔۔۔۔۔

اسکے کہنے پر جان بے اختیار ہنستا چلا گیا۔۔۔

اس سے پہلے کے عامر اسے کچھ کہتا۔۔۔۔

جاناں کی آواز پر اسے خاموش رہنا پڑا۔۔۔۔

ارے آپ ۔۔۔۔۔!؟؟؟

جان کی نظر جو اٹھی تو وہیں کھڑی رہ گئی ۔۔۔۔

واپس جانے سے گویا انکاری ہوگئی۔۔۔۔

دروازے کی چوکھٹ پر خود کو حیرانی سے دیکھتی جاناں کو وہ مبحوت سا دیکھے گیا۔۔۔۔۔ آج وہ اسکے پسندیدہ لباس میں ملبوس تھی۔۔۔

آپ یہاں کیسے۔۔۔۔۔؟۔۔

اسکے پھر سے سوال کرنے پر وہ ہوش میں آیا۔۔۔۔

"جی آپکے بابا سے ملنے آیا تھا۔۔۔۔"

وہ ایک نظر عامر کو دیکھتا اسے وضاحت کرنے لگا۔۔۔۔

وہ بے تکلفی سے اسکے ساتھ دوسرے سنگل صوفے پر آ بیٹھی۔۔۔۔۔

عامر سے یہ نا دیکھا گیا۔۔۔۔

وہ پیر پٹختا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔

"بابا نماز پڑھ رہے ہیں۔۔۔۔وہ آتے ہی ہوں گے۔۔۔۔

تب تک آپ اپنا انٹروڈکشن ہی کروا لیں۔۔۔۔۔"

"آپ سوال کریں میں جواب دینے کے لئے بے تاب ہوں بے چین ہوں۔۔۔۔"

سینے پر ہاتھ رکھ کر ذرا جھکتے ہوۓ اس نے شاعرانہ انداز میں کہا۔۔۔۔۔

جاناں اسکے انداز پر ہنس پڑی۔۔۔

آپکے اور کتنے بہن بھائی ہیں ۔۔۔۔؟؟

ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھے وہ پوری توجہ سے اس سے پوچھنے لگی۔۔۔۔

"کوئی بہن بھائی نہیں۔۔۔۔، نا مما بابا۔۔۔۔نا کوئی اور۔۔۔۔!!"

وہ نرمی سے دھیمی آواز میں بولا۔۔۔۔

اسکے کہنے پر جاناں کو دھچکا لگا۔۔۔۔

آپ اتنے اکیلے ہو کر اتنا خوش کیسے رہ سکتے ہیں۔۔۔۔۔؟؟؟

اسکے لبوں پر کھیلتی مسکراہٹ کو دیکھتی وہ شدید متاثر تھی۔۔۔۔

تو کیا ہوا۔۔۔۔؟؟ مجھے اداس ہونا چاہئے۔۔۔؟ جب میرا اس دنیا میں کوئی ہے ہی نہیں تو دکھی اور اداس کس کے لئے ہونا۔۔۔۔۔؟؟؟ مرنے والوں کو کوئی یاد نہیں کرتا۔۔۔۔۔ بس چند دن کی رسم۔۔۔ پھر زندگی کی مصروفیات میں سب ختم۔۔۔۔!!

ناءس۔۔۔۔۔!

وہ امپریس ہوئی۔۔۔۔

جان فقط مسکرا کر رہ گیا۔۔۔۔

پھر سامنے سے اکرام صاحب کو آتا دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔

خیر ہے جناب اب میرے غریب خانے پر۔۔۔۔۔؟؟

اس سے گلے ملتے ہوئے اکرام صاحب خوش گوار سی حیرت سے بولے۔۔۔۔

جاناں مسکرا کر اٹھی۔۔۔اور وہاں سے چلی گئی۔۔۔۔

دروازے کے پاس چھپ کر وہ وہاں پر ہونے والی باتیں سننے لگی۔۔۔۔۔

اسکی بری عادتوں میں سب سے بری عادت چھپ کر باتیں سننا تھی۔۔۔۔۔

کہئے کیسے آنا ہوا۔۔۔۔؟؟؟

اکرام صاحب نے چاۓ کپ میں انڈیلتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔

"جی آپکی بیٹی کے رشتے کے سلسلے میں آیا ہوں۔۔۔شادی کرنا چاہتا ہوں اس سے۔۔۔۔"

یہ جان کر بھی کہ وہ کسی اور سے جڑی ہے۔۔۔۔اسکا رشتہ مانگتے ہوئے اسکے لہجے میں ذرا سی لڑکھڑاہٹ نہیں آئ۔۔۔

اسکی طرف چاۓ بڑھاتے اکرام صاحب کا ہاتھ رک گیا۔۔۔۔

انہیں بے انتہا حیرت ہوئی۔۔۔۔

دوسری طرف جاناں جیسے فریز ہوگئی تھی۔۔۔۔

کمرے کی کھڑکی سے لاؤنچ کا منظر دیکھتے عامر کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔۔۔۔

وہ اتنی جراّت کر کیسے گیا تھا۔۔۔۔

کہ اسکی منگیتر کا ہاتھ مانگے۔۔۔

اکرام صاحب نے ایک نظر اس وجیہہ شخص پر ڈالی۔۔۔

جو پوری امید سے انہیں دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

ایسا کیا نظر آگیا تھا اس شخص کو انکی بیٹی میں۔۔۔۔جو اسے کسی اور لڑکی میں نظر نہیں آیا تھا۔۔۔۔

انہوں نے فورا خود کو سنبھالا۔۔۔۔

"سوری۔۔۔۔، مگر میری بیٹی کسی اور کی منگیتر ہے۔۔۔۔"

وہ رسانیت سے بولے

"منگیتر۔۔۔۔؟؟

بہت آسان۔۔۔ میں یہ منگنی آرام سے توڑ سکتا ہوں۔۔۔۔"

جان نے ہاتھ جھاڑتے ہوۓ کہا۔۔۔

اکرام صاحب نے پوری آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔۔۔۔

جو اب منگنی توڑنے کا سلیوشن انہیں بتا رہا تھا۔۔۔۔۔ 

"لڑکی کے ہاتھ سے انگوٹھی اتار کر لڑکے۔۔۔۔۔، آئ مین " سسر کے ٹکڑوں پر پلنے والے داماد " کو واپس کریں۔۔۔۔اور اس سے اپنی انگوٹھی واپس لے کر اعلان کر دیں۔۔۔۔کہ بھئ ہم  جاناں کا رشتہ عامر سے توڑ کر جان یوسف سے کرتے ہیں۔۔۔۔

سمپل۔۔۔۔۔۔!

وہ کندھے اچکا کر مزے سے بولا۔۔۔۔

جیسے انہیں کوئ کہانی سنا رہا ہو۔۔۔۔۔

اکرام صاحب نے بسی سے اسے دیکھ کر رہ گئے۔۔۔

عامر کو لگا اسکا دماغ غصّے سے پھٹ جائے گا۔۔۔۔

وہ جھاگ اڑاتا باہر لاؤنچ میں پہنچا۔۔۔۔

"ارے وہ دیکھیں۔۔۔۔ لڑکا خود آگیا منگنی توڑنے ۔۔۔۔۔"

عامر کو کاٹ دار نگاہوں سے خود کو دیکھتا دیکھ کر وہ با مشکل ہنسی روکتا اکرام صاحب کی معلومات میں اضافہ کرنے لگا۔۔۔۔

جاناں نے بے اختیار دروازے کا سہارا لیا۔۔۔۔۔

خوف سے اسکی جان نکلنے کو تھی۔۔۔۔

"گھٹیا انسان میں کہتا ہوں۔۔۔۔۔اٹھو اور یہاں سے دفع ہو جاؤ۔۔ اور دوبارہ یہاں کا رخ مت کرنا۔۔۔۔"

وہ حلق کے بل دھاڑا۔۔۔۔

اسکے اس قدر رعب سے دھاڑنے کا جان پر رتی برابر اثر نہیں پڑا۔۔۔۔

اسکو اگنور کے وہ اکرام صاحب کی طرف جھکا۔۔۔۔

"سسر جی۔۔۔۔، میں زور زبردست کا قائل ہرگز نہیں ہوں۔۔۔۔اور نا ہی کسی کو اپنی طاقت اور دولت کے زور پر دبانا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔ مگر آپکی بیٹی مجھے سچ میں بہت اچھی لگنے لگی ہے۔۔۔۔۔

"دیکھیں نا۔۔۔۔ جاناں عامر نام کتنا بھدا لگتا ہے۔۔۔۔

اور "جان جاناں" ۔۔۔۔۔۔! جیسے دل کے تار چھیڑ دیتا ہے۔۔۔۔"

آپ اسے جان کو سونپ دیں نا۔۔۔۔

ورنہ ایسا نا ہو ۔۔۔کہ مجھے کوئی غلط قدم اٹھانا پڑے۔۔۔

پلیز۔۔۔۔۔!"

اسکی آخری بات پر جہاں اکرام صاحب کا رنگ سفید پڑا۔۔۔

وہاں جاناں کانپ کر رہ گئی۔۔۔۔۔

اللّه حافظ۔۔۔۔۔!

وہ اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔

اور یاسر کو پیچھے آنے کا اشارہ کرتا آگے بڑھ گیا ۔۔۔

لاؤنچ میں خاموشی چھائ ہوئی تھی ۔۔۔

موت کی سی خاموشی۔۔۔۔۔!!

کچن میں کھڑی نور بیگم کو بے چینی ہونے لگی۔۔۔۔

نجانے کس بات کی۔۔۔۔!؟

لاؤنچ سے باہر نکلتے ہوئے وہ جاناں کے پاس رکا ۔۔۔۔

جو دروازے کے سہارے پر کھڑی آنکھوں میں نمی لئے بے بس اور خوف زد نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

تیری پلکوں کی نمی 

آب حیات ہے جاناں

ترے ہونٹوں کی ہنسی

جینے کی بات ہے جاناں

جان جاناں۔۔۔۔!

جان جاناں۔۔۔!!

(از اسری خان)

جان جاناں۔۔۔۔۔!!

صرف جان کی جاناں

وہ اسکے پاس سے گنگناتا ہوا چلا گیا۔۔۔۔

اسکی مسکراہٹ جاناں کی جان نکالنے کا کام کر رہی تھی ۔۔۔

دروازے کے پاس وہ ڈھہ سی گئی۔۔۔۔

پرسکون ندی میں کسی نے زور سے پتھر دے مارا تھا ۔ ۔۔

جیسے جاناں اور عامر کی زندگی میں جان آگیا تھا۔۔۔۔

کمرے میں داخل ہو کر اس نے مڑ کر دروازہ بند کیا۔۔۔۔۔

اور وہی دروازے سے ٹیک لگا کر نیچے بیٹھ گئی۔۔۔۔۔

جان کے جانے کے بعد عامر نے اسے بہت بے عزت کیا تھا۔۔۔۔۔

اسکا کہنا تھا۔۔۔کہ اس نے ہی کوئی ادا دکھائی ہوگی اسے۔۔۔۔تب ہی وہ پہلی ملاقات کے بعد ہی اس کے گھر پہنچ گیا تھا۔۔۔۔۔

اسکی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئیں۔۔۔۔

یہ تو بابا کی دھاڑ بلند ہوئی تھی۔۔۔۔تو عامر کی زبان کو لگام ملی تھی۔۔۔۔ ورنہ عامر نے جاناں کو زلیل کرنے میں کوئ کسر نہیں چھوڑی تھی.....

وہ چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔۔۔۔

دل تھا کہ ڈر سے بیٹھا جا رہا تھا۔۔۔۔۔

فون بجنے پر اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔۔۔۔

بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر پڑا فون مسلسل رنگ کر رہا تھا۔۔۔۔۔

ہاتھ کی پشت سے آنسو رگڑتی وہ اٹھ کر بیڈ کے پاس چلی آئ۔۔۔

کوئی رونگ نمبر تھا۔۔۔۔

اس نے بے زاری سے کال کاٹ دی۔۔۔۔

وہ کبھی رونگ نمبرز سے آنے والی کالز ریسیو نہیں کرتی تھی۔۔۔۔

فون دوبارہ سے بجنے لگا۔۔۔۔

پہلے اس نے مسلسل اگنور کیا ۔۔۔

مگر دوسری طرف والے  نے شاید دھٹائ میں پی ایچ ڈی کر رکھی تھی۔۔۔۔

زچ آ کر اس نے موبائل آف کرنے کا سوچ کر اسے اٹھایا۔۔۔۔

کہ اسی نمبر سے پیغام موصول ہوا. ۔ ۔۔

"جان جاناں"

اٹس می۔۔۔۔۔!

اٹینڈ دی کال....

جاناں کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔۔۔۔

کانپتے ہاتھوں سے اس نے فورا مسیج ریموو کیا ۔۔۔۔

موبائل سائیڈ پر رکھ کر اس نے ساتھ پڑے جگ سے گلاس میں پانی انڈیلا ۔۔۔۔اور غٹاغت حلق سے اتار گئی۔۔۔۔

گہری گہری سانسیں لیتے ہوئے اس نے خوف زدہ نظروں سے موبائل کی طرف دیکھا۔۔۔۔

اسکا نمبر جان کے پاس کیسے پہنچا۔۔۔۔۔؟؟؟

یہ سوال بار بار دماغ میں اٹھ رہا تھا۔۔۔۔

"پاگل ہو تم بھی۔۔۔۔اگر ایک دن میں وہ تمھارے گھر پہنچ سکتا ہے۔۔۔تمہارا رشتہ مانگ سکتا ہے۔۔۔تو نمبر حاصل کرنا کونسا مشکل کام ہے۔۔۔۔۔؟؟؟"

اسکے اندر سے آواز آئ۔۔۔۔

بے اختیار وہ دل تھام کر رہ گئی۔۔۔۔

مسیج کی پھر سے ٹون پر اسکے پسینے چھوٹ پڑے۔۔۔۔

ماتھے پر آیا پسینہ پونچھتے ہوئے اس نے مسیج اوپن کیا۔۔۔

"جان_جاناں"

بیشک تم جان کی کال مت اٹینڈ کرو۔۔۔ مگر ایک دن تمھیں جان کی پناہوں میں ہی آنا ہے۔۔۔۔"

جاناں کا چہرہ سفید پڑ گیا۔۔۔۔یہ شخص بہت ہی بےباک تھا۔۔۔۔

"میں تمھیں کسی قسم کی دھمکی ہرگز نہیں دوں گا۔۔۔۔ کیوں میں اتنا گرا ہوا انسان نہیں ہوں۔۔۔۔جو اپنی ہونے والی بیوی کے ساتھ بدسلوکی کرے۔۔۔۔مگر میں تمھیں یہ بتا دوں۔۔۔۔کہ مجھے تمھارے گھر میں تمھارے کمرے کا نمبر۔۔۔۔، دیواروں پر پینٹ کا کلر۔۔۔، بیڈ شیٹ کا کلر۔۔۔، اور اس وقت تمھارے چہرے کا کلر اچھے سے معلوم ہے۔۔۔۔۔"

کیا یہ دھمکی نہیں تھی۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟

اس نے بے اختیار جیسے تصدیق کیلۓ اپنے سفید پڑتے چہرے پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔

جان کہ تو ٹھیک رہا تھا....

فون کو دور اچھال کر اس نے ایک خوف زدہ نگاہ کمرے پر ڈالی۔۔۔۔

اور تیزی سے بھاگ کر کمرے سے نکلتی چلی گئی۔۔۔۔

______________________________

بھاپ اڑاتی کافی کا مگ لبوں سے لگاۓ اس نے ایک نگاہ موبائل پر دوڑائ۔۔۔۔

شاید کوئی رپلاۓ مل جائے۔۔۔۔

مگر یہ امید۔۔۔۔۔، صرف امید ہی رہی۔۔۔۔

اس نے ایک بار پھر ٹراۓ کیا۔۔۔۔

مگر دوسری طرف سے نمبر بند جا رہا تھا۔۔۔۔

بازو آنکھوں پر رکھے وہ سیدھا ہو کر لیٹ گیا۔۔۔

نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔۔۔۔

"جان جاناں" کہاں پھنسا دیا تم نے جان کو۔۔۔۔

میرے خیالات۔۔۔۔، میرے دماغ پر مسلط ہوگئی ہو ۔۔۔۔

تمھارے لئے بہتر یہی ہوگا کہ شرافت سے میری ہو جاؤ۔۔۔۔۔

ورنہ میں عامر کو بھی تمہارا نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔

بند آنکھوں سے وہ جاناں کو تصور میں لئے بڑبڑایا تھا۔۔۔۔

______________________________

ویسے لڑکا تو بہت اچھا تھا ۔۔۔۔۔

عامر سے لاکھ گنا بہتر۔۔۔۔!

پتا نہیں آپ نے انکار کیوں کر دیا۔۔۔۔۔

دودھ کا گلاس اکرام صاحب کو پکڑاتے ہوئے نور بیگم نے مایوسی سے کہا۔۔۔۔

اکرام صاحب نے نہایت حیرت سے انہیں دیکھا۔۔۔۔

"تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے۔۔۔۔؟؟ اس غیر لڑکے کے لئے میں اپنے بھانجے۔۔۔۔، اپنے خون کو ٹھکرا دوں۔۔۔۔۔؟؟

اور وہ جو دھڑلے سے میرے گھر میں گھس کے مجھے دھمکیاں رہا تھا ۔۔۔تم کیا کہتی ہو میں اسے اپنا داماد بنا لوں۔۔۔۔؟؟؟

انکی آواز غصّے کے شدت سے بلند ہوگئی۔۔۔۔۔

نور بیگم کے اطمینان میں کوئی فرق آیا۔۔۔۔

" اب ایسا بھی کچھ غلط نہیں کیا اس نے۔۔۔۔بڑے مان سے آپکی بیٹی کا رشتہ لینے گھر آیا تھا۔۔۔۔

سڑک پر ٹھہر کر آپکی بیٹی کو پرپوز نہیں کیا ۔۔۔

اگر اتنا بےغیرت ہوتا تو آپکے پاس رشتہ لے کر نا آتا۔۔۔۔"

اس سے پہلے کے وہ انہیں کچھ کہتے۔۔۔۔۔

دھاڑ کی آواز کے ساتھ دروازہ کھلا۔۔۔

روتی ہوئی جاناں بھاگ کر اندر آئ۔۔۔اور ماں کے گلے لگ کر رونے لگی۔۔۔۔

"مما۔۔۔مجھے بچا لیں ۔۔۔پپ۔۔۔پلیز۔۔۔۔!

میں عامر کے علاوہ کسی سے شادی نہیں کروں گی ۔۔۔مجھے بچا لیں۔۔۔۔۔"

جاناں میری بچی۔۔۔۔؟؟

کیا ہوا ہے ۔۔۔۔؟؟

نور بیگم پریشان ہوگئیں۔۔۔

مگر وہ جواب دینے کی بجاۓ انہیں لپٹی رہی ۔۔۔

جاناں بیٹی۔۔۔۔۔؟؟

اکرام صاحب نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا۔۔۔۔

ماں کو چھوڑ کر وہ انکے سینے لگ گئی۔۔۔۔

اور روتے ہوئے اٹک کر ساری حقیقت انہیں بتا دی۔۔۔۔

اکرام صاحب کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔۔۔۔

جاناں کو تھپکتے ہوئے انہوں نے ایک پر سوچ نگاہ نور بیگم پر ڈالی۔۔۔

جو روتی ہوئی جاناں کو چوم کر چپ کروا رہی تھیں ۔۔۔۔

اچانک انکے دماغ میں ایک خیال آیا تھا۔۔۔۔

______________________________

جاناں بیٹی کی پیکنگ ہوگئی۔۔۔۔۔؟؟

اکرام صاحب نے اخبار ٹیبل پر رکھتے ہوئے جاناں کے کمرے سے نکلتی نور بیگم کو دیکھ کر پوچھا۔۔۔۔۔

جی ہوگئی۔۔۔۔بس وہ چینج کر کہ آ رہی ہے ۔۔۔

گڈ مارننگ۔۔۔۔۔!!

نک سک سے تیار عامر خوشبوئیں بکھیرتا وہاں حاضر تھا۔۔۔۔۔

مارننگ۔۔۔۔!

بیٹھو یہاں۔۔۔۔۔!

انہوں نے اپنے ساتھ اسے جگہ دی۔۔۔۔

ساری تیاری ہوگئی۔۔۔۔؟؟؟

جی ماموں ہوگئی۔۔۔۔۔؟؟

ایک عورت کا بندوبست کر دیا ہے۔۔۔۔ جو آل ٹائم جاناں کے ساتھ رہے گی۔۔۔۔

چار گارڈز بھی ہونگے۔۔۔۔

اس نے اکرام صاحب کو ساری انفارمیشن دیں۔۔۔۔۔

اوکے۔۔۔۔۔! بس عامر میری بیٹی ٹھیک رہے ۔۔۔اسے کچھ نہیں ہونا چاہئے۔۔۔۔

انکے لہجے میں فکر تھی۔۔۔۔۔

کچھ نہیں ہوگا اسے ماموں۔۔۔۔

میں ہوں نا۔۔۔آپ بے فکر ہو جائیں۔۔۔۔

وہ ذرا اکڑ کر بولا

اکرام صاحب اسے ممنونیت سے دیکھ کر رہ گئے۔۔۔۔

کال آنے پر وہ ایکسکیوز کرتا باہر چلا گیا۔۔۔۔

پیچھے اکرام صاحب اٹھ کر جاناں کے کمرے کی طرف چلے گۓ۔۔۔۔

سب کے مشورے کے بعد یہی طے پایا تھا ۔۔۔۔

کہ جاناں کو خاموشی سے اکرام صاحب کے فارم ہاؤس بھیج دیا جائے۔۔۔۔۔

 اور عید کے تیسرے دن انگیجمنٹ کی بجاۓ ڈائریکٹ نکاح کیا جائے۔۔۔۔

اس طرح سے وہ جان سے محفوظ رہ سکتی۔تھی۔۔۔۔

یہ فقط انکی سوچ تھی۔۔۔۔۔

______________________________

خود پر اچھے سے پرفیوم کا سپرے کر کے وہ مڑا۔۔۔۔

وائٹ کاٹن کے سوٹ میں ملبوس وہ بے انتہا وجیہہ لگ رہا تھا۔۔۔۔

گنگناتے ہوئے اس نے ٹیبل پر سے بجتا ہوا فون اٹھایا۔۔۔۔

ہاں یاسر۔۔۔۔۔؟؟؟

اسکی جاندار آواز گونجی۔۔۔۔

دوسری طرف سے یاسر نے کچھ کہا۔۔۔۔

جس کو سن کر اسکے لبوں پر مسکان پھیلتی چلی گئی۔۔۔۔

فون کاٹ کر وہ ایک بار پھر ڈریسنگ کے سامنے جا کھڑا ہوا ۔۔۔

اچھی طرف جائزہ لینے کے بعد وہ الماری کی طرف بڑھا۔۔۔۔

اور اس سے کچھ نکال کر مٹھی میں دباتا ہوا گنگناتا باہر نکل گیا۔۔۔

جان جاناں۔۔۔!!

جان جاناں۔۔۔!!

سنئیے جی۔۔۔! نجانے کیوں میرا دل بہت گھبرا رہا ہے۔۔۔۔

نور بیگم نے گہری گہری سانسیں لیتے ہوئے اکرام صاحب کو پکارا۔۔۔۔

خیریت۔۔۔۔؟

وہ اپنا کام چھوڑ کر انکی طرف لپکے ۔۔۔۔

بس جاناں کے لئے دل گھبرا رہا ہے۔۔۔۔

وہ انکا بازو تھام کر بھرائ ہوئی آواز میں بولیں۔۔۔۔

بیگم وہ خیریت سے ہوگی۔۔۔۔

آپ ٹینشن مت لیں۔۔۔

مگر آپ کو خود جانا چاہیے تھا۔۔۔۔اسے چھوڑنے۔۔۔۔آپ نے اسے عامر کے سہارے کیوں چھوڑ دیا ۔۔۔؟؟

دیکھو۔۔۔۔ اگر میں بھی ساتھ چلا جاتا ۔۔۔اور پیچھے سے وہ رئیس زادہ ہمارے گھر آ جاتا۔۔۔۔۔

تو تم انہیں کیا جواب دیتی۔۔۔۔؟؟

اس طرح اسے شک پڑ سکتا تھا ۔۔۔۔

انہوں نے رسانیت سے سمجھایا۔۔۔۔

نور بیگم خاموشی سے سر ہلا کر رہ گئیں۔۔۔۔ اسکے سوا کوئ چارہ بھی نہیں تھا۔۔۔۔

______________________________

چلو تم جاؤ اندر۔۔۔۔!!

عامر نے اسکی طرف کا دروازہ کھول کر اسے باہر نکلنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔

تم نہیں آؤ گے۔۔۔۔؟؟

وہ پریشانی سے پوچھ اٹھی ۔۔۔

نہیں۔۔۔۔، مجھے فرینڈز پارٹی میں جانا ہے ۔۔۔آلریڈی بہت لیٹ ہو چکا ہوں تمھارے چکر میں۔۔۔۔

کلائ پر بندھی گھڑی کی طرف دیکھ کر وہ اسے جتانا نہیں بھولا ۔۔۔۔

"اگر وہ یہاں پہنچ گیا تو۔۔۔۔۔؟؟

وہ بہت خوف زدہ تھی۔۔۔۔

" کیوں یہاں کا اڈریس بھی دے دیا تم نے۔۔۔۔؟"

کوئی تسلی نہیں۔۔۔۔۔کوئی دلاسا نہیں۔۔۔۔

الٹا اسکے طنز تھے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔۔۔۔

وہ چند لمحے تو لب بھینچے ضبط سے اسے دیکھتی رہی۔۔۔۔

پھر خاموشی سے اندر کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔

عامر اسکی گالوں پر پھسلتے آنسو بخوبی دیکھ سکتا تھا۔۔۔۔

شفیق ادھر آ۔۔۔۔!

اس نے اپنے خاص بندے کو بلایا۔۔۔۔

جس نے چند دن پہلے ہی اسے جوائن کیا تھا ۔۔۔

اور دو ہی دنوں میں اسکا بھروسہ جیت لیا تھا۔۔۔۔

جی سر۔۔۔۔؟؟

وہ جھکی جھکی نظریں لئے اسکے پاس ہاتھ باندھے آ کھڑا ہوا۔۔۔۔

بی بی کا بہت خیال رکھنا ہے۔۔۔۔اور ہاں کس سے بات کرے گی کس سے ملے گی۔۔۔۔ساری انفارمیشن مجھے چاہئے۔۔۔۔

اوکے۔۔۔۔؟؟

جی سر۔۔۔۔۔!

اس نے فورا سر جھکا دیا۔۔۔۔۔

وہ بڑے تفاخر سے گلاسز لگاتا گاڑی اڑا کر لے گیا۔۔۔۔

شفیق کے چہرے پر پراسرار سی مسکراہٹ ابھری تھی۔۔۔۔

______________________________

گہری سانس لیتے ہوئے وہ لاؤنچ کا دروازہ آہستہ سے بند کرنے لگی۔۔۔۔

"جان جاناں"۔۔۔۔۔۔۔

سرسراتی ہوئی آواز اسکے کانوں سے ٹکرائ۔۔۔۔۔

اسکا دل جیسے دھڑکنا بھول گیا تھا ۔۔۔۔

پیروں تلے زمین کھسک گئی تھی۔۔۔۔

اللّه کو یاد کرتے ہوئے اس نے یہ دعا مانگی کہ یہ جھوٹ ہو۔۔۔۔

اسکا وہم ہو۔۔۔۔یا کچھ اور۔۔۔۔۔!

مگر سچ نا ہو۔۔۔۔

۔

۔

۔

آہستہ سے وہ پلٹی۔۔۔۔

سامنے صوفے پر وہ نیم دراز سا ٹیبل پر ٹانگیں پر رکھے ہنس رہا تھا۔۔۔۔

خوف سے اسکا رنگ سفید پڑ گیا۔۔۔۔سانس تک لینا اسے بھول گیا تھا ۔۔۔۔

" جان جاناں۔۔۔۔۔"

وہ پھر سے گنگنایا۔۔۔

جاناں نے ایک نظر اسے دیکھا۔۔۔۔

اور پھرتی سے واپس باہر کی طرف بھاگنے کے لئے پلٹی۔۔۔۔

اسکی حرکت پر وہ بے ساختہ ہنس پڑا۔۔۔۔

 یہ کیا۔۔۔۔۔؟؟

دروازہ باہر سے بند ہو چکا تھا۔۔۔۔۔

پتھر بن جانے کے خوف سے وہ مڑی نہیں۔۔۔۔

جان جاناں ۔۔۔۔؟

سسر جی اور ساسو ماں نہیں آئیں گے کیا۔۔۔۔۔؟

نکاح میں شرکت کے لئے۔۔۔۔۔؟

وہ اطمینان سے مسکراتا اس سے سوال کر رہا تھا۔۔۔۔

جاناں کی سانس کہیں اٹک گئی۔۔۔۔

یہ وہ کیا کہ رہا تھا۔۔۔۔

بے بسی کے احساس سے اسکی آنکھیں بھر آئیں تھی۔۔۔۔

پپ۔۔۔پلیز مجھے جانے دو۔۔۔۔

 خوف کی شدّت سے وہ بری طرف کانپ رہی تھی۔۔۔۔

"بھلے کہیں بھی جاؤ۔۔۔۔تمہاری ہر راہ مجھ پر ہی تو آ کر رکتی ہے ۔۔۔"

پلیز سمجھنے کی کوشش کرو۔۔۔ میں عامر سے محبّت کرتی ہوں۔۔۔۔

وہ تھوک نگلتے ہوئے بولی۔۔۔

ششش۔۔۔۔۔۔۔!

وہ اچانک اسکے قریب آ کر سختی سے اپنے لبوں پر انگلی رکھتا اسے خاموش کروانے لگا۔۔۔۔

وہ ڈر کر بے اختیار دو قدم پیچھے ہوئ۔۔۔

جان کی آنکھوں میں اسے واضح سرخ لکیریں اترتی محسوس ہوئیں تھی۔۔۔۔

جاناں نے چور سی نگاہ اردگرد دوڑائ۔۔۔۔

سامنے بیڈ روم کھلا ہوا تھا۔۔۔۔

اسے دیکھنے کے ساتھ ساتھ اس نے ایک نگاہ جان کے چہرے پر دوڑائ۔۔۔۔

جو ذرا سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

ایک زور دار دھکّا جان کو دے کر وہ بیڈ روم کی طرف بھاگی ۔۔۔

تا کہ اندر گھس کے کنڈی لگا لے۔۔۔۔

جان جھٹکے سے پیچھے ہوا۔۔۔۔

اور ایک حیرت سے بھر پور مسکراتی نگاہ اس جنگلی بلی کی طرف ڈالی ۔۔۔۔۔

وہ اتنی بھی ڈرپوک نہیں تھی۔۔۔۔۔

لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہ اسکے پیچھے پہنچا۔۔۔۔

اور اسکے دروازہ بند کرنے سے پہلے ہی بیچ میں پیر اڑا دیا۔۔۔۔۔

جاناں گھبرا کر دو قدم پیچھے ہوئ۔۔۔

جان نے بڑے اطمینان سے لات مار کر پورا دروازہ کھولا۔۔۔۔۔

اور اندر داخل ہوگیا۔۔۔۔۔

اسکے قدم جاناں کی طرف بڑھ رہے تھے۔۔۔۔

جب کے سفید چہرہ لئے پیچھے ہوتی جاناں کے قدم الماری کی طرف بڑھ رہے تھے۔۔۔۔

جان نے اسکے دونوں طرف ہاتھ رکھ کر اسکی آنکھوں میں جھانکا۔۔۔۔۔

پپ۔۔۔پلیز دور رہو ۔۔۔

وہ مرنے کے قریب آگئی۔۔۔۔۔

جان ذرا آگے ہوا۔۔۔۔

اور اپنا ہاتھ بڑھایا۔۔۔۔

جاناں آنکھیں سختی سے بند کئے اللّه کو یاد کرنے لگی ۔۔۔۔

جان کا ہاتھ جاناں کی بجاۓ اوپر الماری کی طرف بڑھا۔۔۔۔۔

اور اسکا پٹ کھولا۔۔۔

اسکے اندر سے ایک خوبصورت نفیس سی چادر نکل کر اس نے نرمی سے اسکے سر پر اوڑھا دی۔۔۔۔

جاناں نے پٹ سے آنکھیں کھولیں۔۔۔۔

جو چادر اس پر ڈال کر اب دو قدم پیچھے ہوگیا تھا ۔۔۔۔

وہ سختی سے چادر کو خود پر لپیٹنے لگی۔۔۔۔۔

 جان نے ایک افسوس بھری نگاہ اس پر ڈالی۔۔۔۔۔

" تو آج تمھیں اسکی قیمت کا احساس ہوگیا۔۔۔۔جب تمہاری عزت کے برباد ہونے کا خطرہ تمھیں لاحق ہوا۔۔۔۔۔۔

اگر عورت ذات خود کو چھپا کر رکھے۔۔۔۔

تو کس کی ہمت ہے کہ اسکا پردہ اٹھا کر اسکو دیکھنے کی جرّات کرے۔۔۔۔"

کیا تم مرد اپنی نگاہوں کو کنٹرول میں نہیں رکھ سکتے۔۔۔۔۔؟؟۔

تھوڑی ہمت پا کر وہ ذرا اونچی آواز میں بولی۔۔۔

" مرد تو ہوس کا پجاری ہوتا ہے۔۔۔۔ جسکی رال آزاد عورت کو دیکھ کر ٹپکنے لگتی ہے۔۔۔۔

تم ایک مثال لے لو ۔۔۔۔جب ہم کسی چیز کو ڈھک کر رکھتے ہیں۔۔۔ چاہے وہ میٹھی چیز ہو۔۔۔۔ یا نمکین۔۔۔۔!

تو مکھیاں کوشش کے باوجود اس تک نہیں پہنچ پاتیں۔۔۔۔ مگر جب تم اسی چیز کو کھلا چھوڑ دو ۔۔۔۔

تو تم انجام تو جانتی ہو گی ۔۔۔"

اسکا لہجے اسکے لبوں پر دوڑتی مسکان کی طرح تھا۔۔۔۔

نرم و میٹھا۔۔۔۔!!

تم بھی مطلب انہیں مردوں میں سے ہو۔۔۔۔۔ جو عورت کو نمائش کرواتا دیکھ کر رال ٹپکاتے ہیں۔۔۔۔۔"

متفق ہونے کے باوجود وہ آخری کوشش کرنا نہیں بولی۔۔۔۔۔

"میں نے تمھاری صورت سے نہیں تمہارے نام سے محبّت کی ہے۔۔۔۔ "

جان جاناں۔۔۔۔!!

نرمی سے کہ کر گنگناتا ہوا وہ کمرہ لاک کر کہ چلا گیا۔۔۔۔۔

جاتے جاتے وہ اسکا سیل اچکنا نہیں بھولا تھا۔۔۔۔

اسکا خطرناک اظہار سن کر وہ واقع ہی ایک لمحے کے لئے سن رہ گئی۔۔۔

اب آخری امید بھی ختم ہوگئی۔۔۔۔

وہ بے بس سی وہیں ڈھہہ گئی۔۔۔۔۔

______________________________

ہے عامر بےبی۔۔۔۔! کم آن ڈانس وتھ می۔۔۔۔!!

پارٹی عروج پر تھی ۔۔۔

چھیتھڑے نما لباس میں تھرکتے وجود۔۔۔۔

دیکھ کر عامر  نشے میں مدہوش اپنی آنکھیں سینک رہا تھا ۔۔۔

جب ہی نشے میں دھت تاشہ اسکے پاس آئ۔۔۔

اور اسے زبردستی اٹھاتے ہوئے بولی۔۔۔۔

نو بےبی۔۔۔۔ !!

اسے دھکّا دے کر پرے ہٹا کر وہ اپنے ڈولتے سر کو سنبھالتا بڑی مشکل سے بولا۔۔۔۔

پانچ گلاس "پی" لینے کے پاس اسے وومٹنگ محسوس ہو رہی تھی۔۔۔۔

فون کے بجنے پر اس نے ٹیبل پر ہاتھ مار کر اٹھانا چاہا۔۔۔۔۔

اکرام صاحب کی کال تھی۔۔۔

مگر وہ اسکے ہاتھ سے پھسلتا ہوا زمین بوس ہوگیا۔۔۔۔

اٹھانے کی ہمت اس میں نہیں تھی۔۔۔۔

ٹیبل پر سر ٹکاۓ وہ وہیں مدہوش ہوگیا۔۔۔۔۔

یہ اسکی اپنے مشن میں غفلت کی پہلی نیند ثابت ہوئ تھی۔۔۔۔

______________________________

جو میں کہ رہا ہوں۔۔۔۔وہی کرنا۔۔۔!

اگر ذرا سی ردو بدل کی ۔۔۔تو اپنا انجام دیکھ لینا۔۔۔۔

میں ذرا سا لحاظ نہیں کروں گا۔۔۔۔

اکرام صاحب کا نمبر ملا کر سیل اسکے ہاتھ میں تھماتا وہ اسے وارن کرتا ہوا بولا۔۔۔۔

جاناں کی آنکھوں سے اسکی بات سن کر سیلاب رواں دواں ہوگیا تھا۔۔۔۔

ابھی انہیں صاف کرنے کا حق نہیں ہے مجھے۔۔۔۔۔

اسکے آنسوؤں کی طرف اشارہ کرتا وہ اطمینان سے بولا۔۔۔۔۔

جاناں لب بھینچ کر رہ گئی۔۔۔۔

وہ اس شخص کے اطمینان کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔۔۔۔

بیل جا رہی تھی ۔۔۔۔۔

جاناں کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوئے جا رہی تھیں۔۔۔۔۔

خشک لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے اس نے رحم طلب نظروں سے جان کو دیکھا۔۔۔۔

مگر وہ نظریں چرا گیا۔۔۔۔

"ہیلو۔۔۔۔؟؟

 جاناں بیٹی آپ ٹھیک ہو ۔۔۔۔۔؟؟؟؟

اکرام صاحب اسکے بے وقت کال کرنے پر گھبرا گئے۔۔۔۔

" بابا پلیز آپ جلدی سے یہاں آ جائیں۔۔۔۔مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔۔۔پلیز تھوڑی دیر کے لئے۔۔۔۔"

جان کو ایک نظر دیکھ کر کہتی وہ بھرائ ہوئی آواز میں بولی۔۔۔۔

پر بیٹا۔۔۔۔۔

پر ور کچھ نہیں بابا۔۔۔۔۔

بس آپ آ جائیں۔۔۔۔۔

وہ تیزی سے کال کاٹ گئی۔۔۔۔

"گڈ گرل۔۔۔۔ مجھے ویسے بھی فرمانبرار بیویاں پسند ہیں۔۔۔۔۔"

اسکے ہاتھ سے فون لیتا وہ مزے سے بولا۔۔۔۔

"کتنی نافرمان بیویاں ہیں آپکی۔۔۔۔؟ جو اب فرمانبردار چاہئے۔۔۔"

غصّے سے وہ چبا چبا کر بولی۔۔۔۔

مسلسل رونے کے باعث اسکی آنکھیں اور ناک سرخ پڑ گئے تھے۔۔۔

"اسکی بات سن کر جان  زور دار قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔۔۔۔۔"

"اوہو ابھی بیگم بنی نہیں۔۔۔۔اور شک پہلے شروع۔۔۔۔"

وہ ہنستا ہوا اسے چھیڑنے لگا۔۔۔۔

وہ غصّے سے اسکی ہنسی کو دیکھے گئی۔۔۔

کل تک تو وہ اسکی ہنسی سے امپریس ہوئی تھی۔۔۔۔ مگر آج یہی ہنسی اسے زہر لگ رہی تھی۔۔۔۔

"یقین کرو۔۔۔۔میں تمہارا ہوں اور ہمیشہ تمہارا رہوں گا۔۔۔۔۔"

ذرا جھک کر اسکے سامنے ہتھیلی پھیلاتا وہ مسکرا کر بولا۔۔۔۔

جاناں ایک تنفر بھری نگاہ اس پر ڈال کر پلٹ گئی۔۔۔۔

جان نے تیزی سے اسکی چادر کا پلو پکڑ 

لیا ۔۔۔۔

ایک جھٹکے سے وہ رک گئی۔۔۔۔

"جان کو اگنور مت کیا کرو۔۔۔۔ وہ مریض عشق ہے۔۔۔ کیا پتا کب جان سے گزر جائے۔۔۔"

جاناں کا چہرہ لال پڑ گیا۔۔۔

ایک جھٹکے سے وہ اپنا پلو چھڑاتی وہاں سے بھاگتی چلی گئی۔۔۔۔

پیچھے وہ جذبے لٹاتی نگاہوں سے اسے دیکھے گیا۔۔۔۔

______________________________

جاناں۔۔۔۔، بیٹی۔۔۔۔ کدھر ہو۔۔۔۔؟؟؟

دیکھو ہم آ گئے۔۔۔۔

ٹیبل پر  جاناں کی پسندیدہ چیزوں کے بھرے ہوئے شاپرز رکھتے ہوئے اکرام صاحب نے آواز لگائی۔۔

نور بیگم انہیں بیٹھنے کا اشارہ کرتی وہیں صوفے پر بیٹھ گئیں۔۔۔

جاناں بیٹی۔۔۔۔؟؟

انہوں نے پھر سے آواز لگائ۔۔۔

دروازہ کھلا۔۔۔

وہ مسکراۓ۔۔۔

مگر سامنے کمرے سے نکلتی شخصیت کو دیکھ وہ دونوں جھٹکے سے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔۔۔۔

ویلکم سسر جی اینڈ ساسو ماں۔۔۔۔۔!

فاتحانہ آواز میں کہا گیا تھا۔۔۔۔

ان دونوں کی آنکھیں پھٹنے کو آگئیں تھیں۔۔

تم۔۔۔۔۔؟؟؟

اکرام صاحب شاک سے نکلتے ہی دھاڑے۔۔۔۔

آرام سے آرام سے ۔۔۔

وہ ہاتھ اٹھا کر قریب آتا انہیں ریلیکس کرنے لگا۔۔۔۔

بکواس بند کرو۔۔۔۔

میری بیٹی کہاں ہے۔۔۔۔؟؟ اسے ابھی اسی وقت بلاؤ یہاں پر۔۔۔۔

وہ غراۓ۔۔۔۔

جی سسر جی۔۔۔۔

جو حکم۔۔۔۔

جان جاناں۔۔۔۔۔

باہر آؤ۔۔۔۔

اس نے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے آواز لگائی۔۔۔۔

اگلے ہی لمحے چادر میں لپٹی جاناں انکے سامنے تھی ۔۔۔۔۔

جسکی روئ روئ آنکھوں نے انکا دل دہلا دیا۔۔۔۔

جاناں۔۔۔۔؟؟

بیٹی تم ٹھیک ہو ۔۔۔۔۔؟؟

انہوں نے جاناں کو سینے سے لگاتے ہوئے وحشت زدہ لہجے میں پوچھا۔۔۔ 

بتاؤ بیٹی۔۔۔۔؟؟۔

انہوں نے اسے جھنجھوڑ دیا۔۔۔۔

بتاؤ بیٹی ۔۔۔؟؟

کیا کیا اس نے تمھارے ساتھ۔۔۔۔؟؟

جان کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے وہ اس سے پوچھنے لگے۔۔۔

کچھ نہیں کہا بابا۔۔۔۔۔

بلکہ یہ چادر بھی اسی نے میرے سر پر ڈالی ہے۔۔۔۔

سر جھکا کر وہ بھرائ ہوئی آواز میں بولی۔۔۔۔

انکے دل کو جیسے سکون مل گیا۔۔۔۔

تم کیا چاھتے ہو۔۔۔؟۔۔

مسکراتے ہوئے جان کو دیکھ کر انہوں نے نہایت غصّے سے سوال کیا۔۔۔۔۔

"جاناں اور میرا نکاح"

ابھی اسی وقت۔۔۔۔!

نہایت اطمینان سے کہا گیا۔۔۔۔

تمم۔۔۔۔۔!!

وہ غصّے سے کانپنے لگے۔۔۔۔

میں تمھیں پہلے بھی منع کر چکا ہوں۔۔۔۔

سمجھ نہیں آتی کیا۔۔۔۔؟؟

اگر آ گئی ہوتی۔۔۔۔تو اتنی لمبی پلاننگ کرتا میں۔۔۔۔؟؟؟

نہایت حیرت سے سوال کیا گیا۔۔۔

دیکھو۔۔۔۔میں تمہاری شادی اپنی بیٹی سے نہیں کر سکتا۔۔۔۔

وہ ہاتھ اٹھاکر ذرا نرمی سے بولے۔۔۔۔

تو کیا آپ اپنی بیٹی کی شادی ایسے شخص سے کریں گے۔۔۔۔؟؟

فون کی سکرین کو ٹچ کرتا وہ مصروف انداز میں پوچھ رہا تھا۔۔۔۔

کیسے شخص سے۔۔۔۔؟؟

وہ ٹھٹکے۔۔۔۔

ایسے ۔۔۔۔!!

موبائل کی سکرین سامنے کر کہ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔۔۔

اکرام صاحب کو لگا ۔۔

لاؤنچ کی چھت ان پر آن پڑی ہو ۔۔

وہ بہت ساری پکچرز تھیں۔۔۔۔۔

جس میں کہیں عامر شراب کے مزے لے رہا تھا۔۔۔۔

اور کہیں بے حیا لڑکیوں کے بیچ میں گھرا ہوا تھا۔۔۔

کانپتے ہوئے انہوں نے آخری پک کو ٹچ کیا۔۔۔۔

جو زوم ہوئ۔۔۔

اسکا لڑکھا ہوا وجود۔۔۔۔

انکے ہاتھ کانپنے لگے

نور بیگم کے چہرے پر جوش در آیا۔۔۔

دیکھا ۔۔۔۔میں کہتی تھی نا۔۔۔۔ کہ مجھے عامر کی سرگرمیاں مشکوک لگتی ہیں۔۔۔۔مگر آپ کی آنکھوں پر تو بھانجے کی محبّت کی پٹی بندھی ہوئی تھی ۔۔۔

وہ چمک کر بولیں۔۔۔۔

جاناں تو کنگ ہوگئی تھی۔۔۔۔

عامر نے اسکے ساتھ اتنا بڑا دھوکہ کیا تھا۔۔۔۔

مارے اذیت کے اسکی آنکھوں میں لالی اتر آئ۔۔۔۔

تو پھر سسر جی بلاؤں مولوی کو۔۔۔۔

نکاح کے لئے۔۔۔۔؟؟

اور ہاں انکار مت کیجئے گا۔۔۔

جان مسکراتے ہوئے اکرام صاحب سے پوچھنے لگا ۔۔

وہ خاموش رہے۔۔۔۔

بابا میں اس سے شادی نہیں کروں گی۔۔۔۔

جاناں روتے ہوئے چیخ کر بولی۔۔۔

سوچ لیں سسر جی۔۔۔

نکاح کئے بنا تو آپ یہاں سے ہل بھی نہیں سکتے۔۔۔

کیونکہ اس وقت آپ اپنے ہی گھر میں بند ہیں۔۔۔۔

اوہ سوری۔۔۔۔! آپکو لگا ہوگا کہ میں اسے اپنا گھر کہوں گا۔۔۔

نہیں آپ بھول رہے ہیں۔۔۔۔

میں عامر نہیں جان یوسف ہوں. ۔۔۔۔

وہ ذرا طنز سے بولا ۔۔۔

میں ایک بار عامر سے بات کرنا چاہتا ہوں۔۔۔

وہ جان کو دیکھتے ہوئے اٹل لہجے میں بولے۔۔۔

"شیور۔۔۔۔"

اس نے رضا مندی ظاہر کی۔۔۔

انہوں نے عامر کا نمبر ملایا۔۔۔

ایک بار۔۔۔۔ دو بار۔۔۔۔تین بار۔۔۔

نمبر مسلسل بیزی جا رہا تھا۔۔۔۔

تھک کر انہوں نے بے بسی سے سر جھکا دیا۔۔۔

بابا۔۔۔ ؟؟

جاناں انکے تاثرات دیکھ کر کانپی ۔۔

اکرام صاحب صاحب نے اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے گویا آنکھوں ہی آنکھوں میں راضی کیا۔۔۔

نہیں بابا۔۔۔ !

وہ انکا ہاتھ تھام کر نفی میں سر ہلاتی رونے لگی ۔۔۔۔

اکرام صاحب نے اسکا ماتھا چوما۔۔۔۔

اور جان کو "ہاں" کا اشارہ کیا۔۔۔۔

بابا ۔۔ ۔۔؟ نہیں ایسا مت کریں۔۔۔

جاناں مسلسل مزاحمت کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔

مگر اسکی نا سنی گئی۔۔۔۔

جان نے فاتحانہ انداز میں مسکراتے ہوئے یاسر کو اشارہ کیا۔۔۔۔

وہ سر جھکاۓ اسکے حکم کی تعمیل کرنے لگا۔۔۔

______________________________

تو ٹھیک ہے پھر سسر جی ۔۔۔ نکاح تو ہو چکا ہے۔۔۔

ولیمے کا فنکشن تو بعد میں ارینج کریں گے۔۔۔

آپکے حکم کے مطابق۔۔۔۔

لیکن میری ایک شرط ہے۔۔۔۔ ولیمے تک جاناں میرے ساتھ ہی رہے گی ۔۔

اور یہ سمپل سی بات ہے۔۔۔ امید ہے آپکو اعتراض نہیں ہوگا۔۔۔۔

اسکی بات پر جہاں اکرام صاحب نے سر اثبات میں ہلایا۔۔۔

وہاں جاناں بے یقینی سے ماں باپ کو دیکھنے لگی ۔۔۔۔ 

مما نہیں پلیز۔۔۔۔!

میں آپکے ساتھ جاؤں گی۔۔۔۔

وہ تیزی سے ماں کی طرف لپکی۔۔۔

مگر بیچ میں ہی جان نے اسکی کلائ پکڑ لی۔۔۔۔

مما ۔۔۔۔۔، بابا۔۔۔۔

وہ کسی بچے کی طرح ضد کرتی اسکی گرفت میں مچلنے لگی۔۔۔۔

مگر وہ دونوں خاموشی سے وہاں سے نکلتے چلے گئے ۔۔ 

بابا. ۔۔۔۔۔۔

مما ۔۔۔۔۔۔

پلیز مجھے چھوڑ کے مت جائیں۔۔۔۔

میں آپکے بغیر نہیں رہ سکتی۔۔۔۔

وہ روتے ہوۓ تھک ہار کر نیچے بیٹھتی چلی گئی۔۔۔۔

جاناں۔۔۔۔

جان نے اسکا گال تھپتھپایا۔۔۔

آج پہلی بار اس نے اسے اسکے نام سے پکارا تھا۔۔۔۔

مگر وہ ساکت نظروں سے سامنے دروازے کو دیکھتی رہی ۔۔۔جہاں سے مما بابا نکلے تھے ۔۔

جان کا دل کٹ کر رہ گیا۔ ۔۔

جاناں کی یہ حالت اسے تکلیف دے رہی تھی۔۔۔۔

میں اسے جلد سنبھال لوں گا۔۔۔

اس نے دل ہی دل میں خود سے وعدہ کیا۔۔۔۔

______________________________

گھڑی پر ٹائم دیکھتے ہوئے اس نے دھیرے سے دروازہ کھولا۔۔۔۔

 رات کے دو بج رہے تھے۔۔۔۔

اور اندر داخل ہوا۔۔۔۔

بنا آہٹ کے کے چلتا ہوا وہ جوں ہی ٹی وی لاؤنچ میں پہنچا۔۔۔

کہ سامنے بے چینی سے ٹہلتے اکرام صاحب اور سر ہاتھوں میں گراۓ صوفے پر بیٹھی نور بیگم پر نظر پڑی ۔۔۔

اسکے چہرے سے ذرا گھبراہٹ جھلکنے لگی۔۔۔

اہم ۔۔۔۔!

وہ ذرا کھنکار کر سر کے اشارے سے انہیں سلام کرتا کمرے کی طرف جانے لگا۔۔۔۔

ادھر آو۔۔۔۔۔

 اکرام صاحب کی آواز پر اسے ایک سرد لہر اپنے جسم میں دوڑتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔۔

جج۔۔۔ جی۔۔۔۔۔؟؟

وہ ذرا اعتماد سے انکے پاس جا کھڑا ہوا ۔۔۔

مگر اگلے ہی لمحے اپنے چہرے پر پڑنے والے زور دار تھپڑ نے اسے لڑکھڑانے پر مجبور کر دیا تھا۔۔۔۔

دروازہ بند کر کہ وہ پلٹا۔۔۔۔۔

سامنے وہ صوفے پر دونوں ٹانگیں اوپر کئے انکے گرد بازوؤں کا گھیرا بناۓ کسی سوچ میں گم تھی ۔ ۔

جان جاناں۔۔۔۔!

اسکے قریب جا کر اس نے دھیرے سے پکارا۔۔۔

وہ کرنٹ کھا کر سیدھی ہوئی۔۔۔

تم۔۔۔۔۔؟؟

جان کو دیکھتے ہی اسکی بھنویں تن گئیں ۔۔۔

ہم ۔۔۔۔میرے علاوہ اور کس کی جرّات جو یہاں میری بیوی کے ساتھ ٹھہرے۔۔۔۔

پر سکون سا کہتا وہ اسکے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھ گیا۔۔۔۔

ہونہہ۔۔۔۔۔!

نفرت سے وہ منہ موڑ گئی ۔۔۔

اچھا بتاؤ۔۔۔۔میرا اور تمہارا نیا گھر کیسا لگا ۔۔۔۔؟؟

وہ دوستانہ لہجے میں پوچھنے لگا۔۔۔۔

یہ میرا گھر نہیں ہے۔۔۔۔اور دیکھنا میں اس گھر سے ایسے بھاگ جاؤں گی۔۔۔۔کہ تمہاری سوچ بھی نہیں جائے گی۔۔۔۔

اور تم ہاتھ ملتے رہ جاؤ گے۔۔۔

منہ پر ہاتھ پھیرتی وہ اسے دھمکاتی ہوئی بولی۔۔۔۔

جان نے ایک نظر اسے دیکھا۔۔۔۔

"سنو۔۔۔۔۔ وہ کھڑکی سے باہر لان کی طرف دیکھو۔۔۔۔۔"

اس نے اشارہ کیا۔۔۔۔

جاناں بے اختیار سسپنس کے مارے باہر دیکھنے لگی۔۔۔۔

مغرب کا وقت تھا۔۔۔۔ وسیع لان اس وقت ہولناک سا بنا سائیں سائیں کر رہا تھا۔۔۔۔

دیکھ لیا۔۔۔۔ایسا کیا خاص تھا۔۔۔۔؟؟

وہ ایک کڑوی نگاہ جان پر ڈالتی اس سے پوچھنے لگی۔۔۔

"کچھ نہیں بس تمھیں بتا رہا تھا۔۔۔۔

اگر گھر سے بھاگنے کا سوچا۔۔۔۔

تو رات کو یہیں باندھ دوں گا۔۔۔

اور اگر اگلے دن دفنانے کی ضرورت بھی پڑی۔۔۔۔

تو یہی جگہ ٹھیک رہے گی تمھارے لئے۔۔۔۔"

جاناں کا سانس اٹک گیا ۔۔۔

تم مجھے دھمکی دے رہے ہو۔۔۔۔؟؟؟

خشک لبوں پر زبان پھیرتی وہ ذرا بہادری سے پوچھنے لگی۔۔۔

خالی دھمکی تو نہیں دیتا میں۔۔۔۔جو کہتا ہوں کر کہ دکھاتا ہوں۔۔۔۔

پتا تو ہوگا تمہیں۔۔۔۔

مسکراہٹ دباۓ وہ جاناں کے چہرے پر امڈتا خوف دیکھنے لگا۔۔۔۔

ہونہہ ۔۔۔۔ میں نہیں ڈرتی کسی سے۔۔۔۔

ہار ماننے والی تو وہ بھی نہیں تھی۔۔۔۔

اچھا آؤ۔۔۔۔

چھت پے چلیں۔۔۔۔

دعا کرو آج رات رمضان کا چاند نظر آ جائے۔۔۔۔

اور اس با برکت مہینے کی شروات میں ہمارا ملن کس قدر خوش قسمتی کی بات ہوگی۔۔۔۔

شٹ اپ۔۔۔۔۔!!

اسکی آخری بات پر وہ بدکی۔۔۔۔

ہاہاہا۔۔۔۔

جان اسکے انداز پر ہنستا ہی چلا گیا۔۔۔۔

اسٹاپ اٹ۔۔۔۔!

اسکو مسلسل ہنستا دیکھ کر جاناں کو کوفت ہونے لگی۔۔۔۔

اچھا آؤ۔۔۔۔ چھت پر چلیں ۔۔۔۔

اسکا ہاتھ تھام کر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔

میں کوئی چھوٹی بچی نہیں ہوں۔۔۔۔

خود چل سکتی ہوں۔۔۔۔

اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے نکالتی وہ ذرا جتا کر بولی۔۔۔۔

مگر اگلے ہی لمحے ٹیبل سے ٹکرا کر گرنے لگی۔۔۔۔

کہ جان نے ہمیشہ کی طرح بتیسی نکالتے ہوئے اسے بازو سے تھام کر بچا لیا۔۔۔۔۔

جاناں کا چہرہ شرمندگی سے پھیکا پڑ گیا۔۔۔۔

اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے نکالتی وہ خاموشی سے آگے بڑھ گئی۔۔۔۔

یہ اچھا ہے۔۔

اسے خاموش دیکھ کر جان ذرا مطمئن سا مسکرایا۔۔۔۔

اور اسکے پیچھے چلا گیا۔۔۔

رمضان کا چاند نظر آگیا۔۔۔۔ مبارک ہو۔۔۔۔

تھوڑی دیر بعد ہر طرف شور مچ گیا تھا۔۔۔۔

______________________________

اپنے گال پر ہاتھ رکھے اسنے بے یقینی سے اکرام صاحب کی طرف دیکھا۔۔۔۔

اور کچھ بولنے کے لئے لب کھولے۔۔۔۔

کہ اگلے ہی لمحے اکرام صاحب ضبط کھو کر اس پر تھپڑوں کی برسات کر چکے تھے۔۔۔۔

بس کریں اب۔۔۔۔

نور بیگم نے آگے بڑھ کر انکے ہاتھ روکے۔۔۔

زمین پر گرے عامر کو ابھی تک یقین نہیں آ رہا تھا۔۔۔۔

کہ یہ تھپڑ ماموں نے اسے مارے تھے۔۔۔

کیوں بس کر دوں۔۔؟؟

ارے آج میرا جی چاہ رہا ہے ۔۔۔۔اسکا قتل اپنے ہاتھ سے کر دوں۔۔۔۔

اپنا بیٹا سمجھ سے پالا تھا۔۔۔۔ذرا فرق نہیں کیا اس میں اور جاناں میں۔۔۔۔

مگر اس نے کیا صلہ دیا۔۔۔۔؟؟

ارے مجھے اس بے حیا کی وجہ سے اپنی بیٹی قربان کرنی پڑی۔۔۔۔

اسکے آنسو۔۔۔۔ بیگم میرا دل کٹے جا رہا ہے۔۔۔

وہ کتنی منتیں کر رہی تھی۔۔۔۔۔ کہ بابا مجھے چھوڑ کہ مت جاؤ ۔۔۔۔

مگر میں کچھ نہیں کر سکا۔۔۔۔

کچھ بھی نہیں۔۔۔

وہ کہتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے۔۔۔ نور بیگم کی آنکھیں بھی بھیگ گئیں۔۔۔۔

عامر بے یقینی اور حیرانی کے ملے جلے جذبات لئے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

وہ کیا بول رہے تھے۔۔۔۔

اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔۔۔۔

ماموں جان۔۔۔۔؟؟؟

اس نے کچھ کہنا چاہا۔۔۔

بکواس بند کرو اپنی۔۔۔۔

ارے اپنی گندی زبان سے میرا نام۔۔۔۔

۔۔۔۔۔

میرا قصور تو بتائیں۔۔۔۔؟؟

انکی بات کاٹ کر وہ دھاڑا

ان دونوں نے ایک نظر ایک دوسرے کو دیکھا۔۔۔

اور پھر نور بیگم نے ٹیبل پر سے وہ لفافہ اٹھایا۔۔۔۔

جو جان نے یہ کہ کر دیا تھا۔۔۔۔

کہ "میرے بچوں کے ماموں کو گفت کر دیجئے گا۔۔۔۔۔"

اور اسکی طرف اچھال دیا۔۔۔

لفافہ ایک جھٹکے سے نیچے گرا۔۔۔۔

اور اس میں سے عامر کی تصویریں نکل کر ادھر ادھر پھیل گئیں۔۔۔

عامر کے پیروں تلے زمین کھسک گئی۔۔۔۔

وہ دونوں ایک دکھ بھری نگاہ اس پر ڈال کر وہاں سے نکلتے چلے گئے۔۔۔

وہ پاگلوں کی طرح اپنی ایک ایک تصویر دیکھنے لگا۔۔۔۔

کچھ تو اتنی شرم ناک تھیں۔۔۔۔

کہ اسے خود کو بھی یقین نہیں ہو رہا تھا کہ وہ نشے میں اس حد تک گر سکتا تھا۔۔۔۔

اسکا سارا پلین اس پر ہی الٹا پڑ گیا تھا۔۔۔

سر ہاتھوں میں گراۓ وہ پاگل ہونے کو تھا۔۔۔

نہیں اتنی آسانی سے مجھے نہیں ہارنا۔۔۔۔

اپنے ماتھے پر آیا پسینہ پونچھتے ہوئے وہ بڑبڑایا۔۔۔

جان یوسف تیری الٹی گنتی شروع۔۔۔۔ تیار رہ۔۔۔۔۔!

______________________________

جان جاناں اٹھو سحری کا ٹائم ہوگیا ہے۔۔۔۔

اٹھ جاؤ روزہ نہیں رکھو گی۔۔۔۔؟؟

جان نے کوئی دسویں بار آ کر اسے پکارا۔۔۔

جاناں نے مندی مندی آنکھیں کھول کر سامنے دیکھا۔۔۔۔

مگر جان کو خود پر جھکا دیکھ کر اسکی آنکھیں پٹ سے پوری کھل گئیں۔۔۔۔۔

پیچھے ہٹو۔۔۔۔

اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر وہ اسے پیچھے دھکیلتی جھٹکے سے سیدھی ہوئی۔۔۔۔

ساتھ ہی اپنے پہلو میں نگاہ دوڑاٰئ۔۔۔

اسکی رات کو بنائی ہوئی تکیوں کی باڑ جو اس نے جان اور اپنے درمیان بنائی تھی ۔۔۔۔۔

بلکل اپنی اصلی حالت میں تھی۔۔۔۔۔

اسنے بے اختیار سکون کا سانس بھرا۔۔۔۔

فریش ہو کر ٹیبل پر آ جانا ۔۔۔

ناشتہ تیار ہے۔۔۔۔

وہ سنجیدگی سے کہتا باہر نکل گیا۔۔۔۔

وہ ذرا حیرانی سے اسکے ایپرن کو دیکھتی رہی ۔۔۔۔

پھر کندھے اچکا کر جمائی کو روکتی بلینکٹ سائیڈ پر کر کہ واشروم کی طرف بڑھ گئی۔۔۔

______________________________

جلدی کرو ٹائم ختم ہونے والا ہے۔۔۔۔

اور تمہاری سستی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔۔۔۔۔

اسکو جوتے گھسیٹتا اور نہایت سست رفتاری سے آتا دیکھ کر جان ذرا غصّے سے بولا۔۔۔

جاناں ذرا حیران ہوئی۔۔۔۔

اسکو پہلی بار وہ غصّے میں دیکھ رہی تھی۔۔۔

"ہونہہ" کرتی وہ کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی۔۔۔۔

لگتا ہے ناشتہ تم نے خود بنایا ہے۔۔۔۔

تب ہی حلق سے نیچے نہیں اتر رہا ۔۔۔

نرم چپاتی کو حلق سے اتارتی وہ اسکا خون جلانا نہیں بھولی۔۔۔۔

جان اسے اگنور کئے اب ٹشو سے ہاتھ صاف کرنے لگا۔۔۔۔

جاناں کا منہ بن گیا۔۔۔۔

اتنا اگنور ہونا اب نجانے اس سے کیوں نہیں برداشت ہو رہا تھا۔۔۔۔۔

ابھی اس نے کوئی چوتھا لقمہ ہی حلق سے اتارا تھا۔۔

کہ سائرن کے بجنے پر اس نے بوکھلا کر جان کی طرف دیکھا۔۔۔۔

جو اب نہایت سکون سے اسکی حالت کا مزا لے رہا تھا۔۔۔

"جان جاناں" یہ سوچنا بھی مت کہ تم آج کا روزہ چھوڑو گی۔۔۔۔

ورنہ پورا دن ویسے بھی میں تمھیں بھوکا رکھوں گا۔۔۔۔

اپنی ہنسی ضبط کئے وہ اسے دھمکاتا ہوا بولا ۔۔

جاناں کی رونے والی شکل دیکھ کر اسکے لب پھر سے پھیل گئے۔۔۔۔  

اٹھو اور برتن سمیٹو میرے ساتھ۔۔۔۔

کام والی آۓ گی تو دھو دے گی۔۔۔

میں نے سوچا تھا پہلی سحری اپنی بیگم کو میں اپنے ہاتھ سے کرواؤں۔۔۔۔

ایک جلا دینے والی مسکان اسکے لبوں پر سجی تھی ۔۔۔

جاناں کے پاس کچھ کہنے کو نہیں بچا۔۔۔۔

ناچار ہو کر اسے اٹھنا ہی پڑا۔۔۔۔

______________________________

دروازے پر دستک ہوئی۔۔۔۔

یس۔۔۔۔۔!!

اکرام صاحب نے اخبار پر نظریں جماۓ اندر آنے کی اجازت دی۔۔۔۔۔

سر جھکاۓ عامر اندر داخل ہوا ۔۔۔

اکرام صاحب کے چہرے پر اسے دیکھتے ہی ناراضگی جھلکنے لگی ۔۔۔

وہ انکے قدموں میں آ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔

انہوں نے پیر سمیٹ لئے۔۔۔۔

ماموں جان مجھے معاف کر دیں۔۔۔۔

وہ سر جھکاۓ نہایت شرمندگی سے بولا۔۔۔۔

وہ خاموش رہے۔۔۔۔

ماموں جان میری کوئی غلطی نہیں ہے۔۔۔۔میرے فرینڈز مجھے عام پارٹی کا کہ کر لے گئے۔۔۔

انہوں نے وہاں جا کر زبردستی مجھے پلا دی۔۔۔

ماموں میں تو ایسے گناہ کا سوچ بھی نہیں سکتا ماموں۔۔۔۔

میرا یقین کیجئے۔۔۔۔

اسکی آواز بھرا گئی اور آنکھیں میں نمی جھلکنے لگی۔۔۔۔

یا اکرام صاحب کو ایسا لگا۔۔۔۔

وہ کچھ دیر اسے پر سوچ نظروں سے دیکھتے رہے۔۔۔۔

پھر اسکی طرف بازو پھیلا دیۓ۔۔۔۔اسکی محبت انکی کمزوری تھی۔۔۔

عامر فورا انکے سینے لگ گیا۔۔۔۔

تمہاری اس غلطی کا ازالہ تو نہیں ہو سکتا۔۔۔۔

کیوں کہ اب تم جاناں کو کھو چکے ہو۔۔۔۔

کوشش کرو کہ اسے بھول جاؤ۔۔۔

اسکا سر تھپتھپاتے ہوئے وہ نرمی سے کہ رہے تھے۔۔۔

جی ماموں۔۔۔۔

اس نے فرمانبرداری کے سارے ریکارڈ توڑتے ہوئے کہا۔۔۔

وہ اپنے آنسو صاف کرنے لگے۔۔۔

یا میں بہت سمارٹ ہوں۔۔۔۔یا آپ بہت بدھو ہیں۔۔۔۔۔

انکے سینے سے لگے عامر نے استہزائیہ انداز میں سوچا تھا۔۔۔۔

______________________________

ہااۓ اللّه جی۔۔۔

میں مر جاؤں گی۔۔۔

ابھی صبح کے گیارہ کا ٹائم تھا ۔۔۔

جان باہر لاؤنچ میں کچھ پپیرز اور فائلز پھیلاۓ کام میں بیزی تھا ۔۔۔

جب ہی جاناں کی آواز پر اسکے لبوں پر مسکان دوڑ گئی۔۔۔۔

اٹھ گئی جان جاناں۔۔۔۔!

پین کو حرکت میں لاۓ وہ اپنا کام کرتا اس سے پوچھنے لگا۔۔۔۔

میرا نام جاناں ہے۔۔۔۔

مجھے اس واہیات نام سے مت پکارا کرو۔۔۔۔

وہ بدتمیزی سے بولی

جان نے فائل سے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔۔۔

وہ اس وقت بنیان اور ٹراؤزر میں ملبوس تھا ۔۔

اچھا بتاؤ میں تمہارا کون ہوں۔۔۔۔؟؟

اسکی طرف مکمّل توجہ کئے وہ اس سے پوچھنے لگا۔۔۔

زبردستی کے شوہر۔۔۔۔!

اس نے ذرا لحاظ نا کیا۔۔۔۔

چلو تم مانتی تو ہو مجھے اپنا شوھر۔۔۔۔!

اس نے اطمینان سے کہا۔۔۔۔

ہاں بلکل مگر زبردستی کا۔۔۔۔!

وہ ٹی وی آن کرنے کے لئے اب ریمورٹ ڈھونڈنے لگی۔۔۔۔

او کم آن۔۔۔۔!

میں نے سنا ہے۔۔۔۔ میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں۔۔۔۔

اور میرے مطابق بعد میں انکا نام بھی ایک ہونا چاہئے۔۔۔۔

جیسے ہمارا ہے۔۔۔۔

جان جاناں۔۔۔۔

کتنا سویٹ ہے نا۔۔۔۔۔

اسکا خون جلانے میں جان نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔۔۔

اور اگر بیوی بور ہو رہی ہو۔۔۔۔تو میاں اسکو تنگ کر کے اسکی بوریت بھی دور کر سکتا ہے۔۔۔۔

جیسے میں تمھیں کرنے والا ہوں۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ جاناں سمجھتی ۔۔۔۔

وہ اسے اپنی مضبوط بازوؤں کے گھیرے میں جکڑ چکا تھا ۔۔۔

جان۔۔۔۔ یہ کیا بدتمیزی ہے۔۔۔۔

چھوڑو مجھے۔۔۔

جان میں کہتی ہوں چھوڑو۔۔۔۔

وہ بوکھلا کر اسے پیچھے کرنے لگی۔۔۔

مگر وہ ڈھیٹ بنا ہنسنے لگا ۔۔۔

جان۔۔۔۔ چیپ آدمی چھوڑو مجھے۔۔۔۔

چھوڑو۔۔۔

اللّه جی میری بیوی مجھے "جان" بھی کہتی ہے۔۔۔اور چھوڑنے کو بھی کہتی ہے۔۔۔

میں کدھر جاؤں آخر۔۔۔۔

اسکی ڈھٹائ عروج پر تھی۔۔۔

نہیں نے تمھیں وہ والا جان نہیں کہا۔۔۔۔

وہ والا کہا ہے۔۔۔۔

وہ بوکھلاہٹ میں نجانے کیا کہے جا رہی تھی۔۔۔۔

کونسے والا۔۔؟

جان ہنس ہنس کے بے حال ہوئے جا رہا تھا۔۔۔۔

ایک تو تمہارا نام اتنا واہیات ہے۔۔۔میں کیا کروں۔۔۔۔

وہ تھک کر اب روہانسی ہو کر بولی۔۔۔۔

اپنے نام پر غور۔۔۔۔!!

اسکو آزاد کرتا وہ استہزائیہ انداز میں بولا۔۔۔

اور ہاں یاد رکھنا۔۔۔۔تمہارے نام زیادہ رومینٹک ہے۔۔۔۔

اسکو آنکھ مار کر وہ اپنے کام میں بیزی ہوگیا ۔۔۔

جاناں نے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔۔اور پیر پٹختی وہاں سے چلی گئی۔۔۔

جان سے وہ دوبارہ کبھی پنگا نہیں لے گی۔۔۔

یہ اس نے عہد کر لیا تھا۔۔۔

نماز پڑھ کر وہ گھر کو لوٹا۔۔۔۔

سامنے جاناں لان میں چہل قدمی کر رہی تھی ۔۔۔

مسکراتا ہوا وہ اسکے پاس آ ٹھہرا

۔۔۔۔۔

بس کر دو۔۔۔۔

اتنا چلو گی تو تھک جاؤ گی ۔۔۔

اسکو مسلسل واک کرتا دیکھ کر اس نے بولنے میں پہل کی۔۔۔۔

نہیں تھکتی میں۔۔۔۔!

وہ دھیمی آواز میں بولی۔۔۔

مگر اسکی آواز سے جھلکتی نمی جان سے چھپی نا رہ سکی۔۔۔۔

جان جاناں۔۔۔؟؟

رو کیوں رہی ہو تم۔۔۔؟؟

اسکا رخ اپنی طرف موڑتے ہوئے وہ نرمی سے پوچھنے لگا۔۔۔۔

تم۔۔۔۔!!

تم وجہ ہو میرے رونے کی۔۔۔۔

اسکے ہاتھ اپنے شانے پر سے ہٹاتی وہ روتے ہوئے بولی۔۔۔

"میں ہمیشہ تمھارے ہنسنے کی وجہ بننا چاہتا ہوں  جان جاناں ۔۔۔۔

رونے کی نہیں۔۔۔۔"

وہ ذرا تھکے تھکے لہجے میں بولا ۔۔۔۔

وہ خاموش رہی۔۔۔۔

کیا چاہتی ہو ۔۔؟

جان کو بتاؤ۔۔۔۔

میں دنیا کی ہر خوشی تمھارے قدموں میں ڈھیر کر دینا چاہتا ہوں۔۔۔۔

مجھے مما بابا کے پاس جانا ہے ۔۔۔

ہاتھوں کی پشت سے آنسو صاف کرتی وہ ذرا التجائیہ لہجے میں بولی ۔۔۔

بس۔۔۔۔؟؟ اتنی سی بات۔۔۔؟؟ جاؤ تیار ہوجاؤ پھر ۔۔

اتنی سی بات کے لئے تم نے اپنے اتنے قیمتی آنسو ضائع کئے۔۔۔

وہ ناراضگی سے بولا۔۔۔۔

جاناں نے حیرانی سے اسے دیکھا۔۔۔

یہ شخص چاہے اسے ستاتا تھا۔۔۔۔ رلاتا تھا ۔۔۔۔

مگر اسکے ہر انداز میں اسکے لئے محبّت ہوتی تھی۔۔۔۔ 

سچی۔۔۔۔؟؟

اسے لگا شاید جان پھر سے اسے تنگ کر رہا ہے۔۔۔

مچی۔۔۔۔!! جاؤ ریڈی ہو جاؤ۔۔۔۔

ہم نکلتے ہیں۔۔۔۔

پھر مل کہ واپس آ جائیں گے۔۔۔۔

اوکے۔۔۔۔۔

وہ خوشی سے اندر بھاگ گئی۔۔۔۔

جان یوسف کون تھا اسکے ساتھ کیوں تھا فلحال اسے یہ سب بھول گیا تھا

______________________________

السلام و علیکم۔۔۔۔۔!!

گھر میں داخل ہوتے ہی وہ اونچی آواز میں بولی۔۔۔۔

جاناں بیٹی۔۔۔۔۔؟؟

نور بیگم کچن سے نکلتیں خوشی سے اسکی طرف لپکیں۔۔۔۔

اسکے پیچھے جان بھی داخل ہوا۔۔۔

میری بچی۔۔۔۔؟؟

کیسی ہو۔۔۔۔؟؟

اسے اپنے ساتھ لگاے وہ بے تابی سے اس سے پوچھ رہی تھیں۔۔۔

کیسے ہو بیٹا۔۔۔۔؟؟

انہوں نے جان کے سر پر ہاتھ رکھا۔۔۔

الحمدلللہ ٹھیک ٹھاک۔۔۔!

وہ نرمی سے بولا۔۔۔

بابا۔۔۔۔۔

باپ کو دیکھ کر جاناں انکی طرف لپکی۔۔۔۔

وہ بے یقینی سے بیٹی کو دیکھنے لگے۔۔۔۔

شور کی آواز سن کر عامر کمرے سے نکلا۔۔۔

سامنے جاناں اور جان کو ساتھ دیکھ کر اسکی آنکھیں جل اٹھیں۔۔۔

سکن اور پرپل کلر کے امتزاج میں مکمل جوڑا پہنے جاناں چہکتی  ہوئی اکرام صاحب سے لپٹی ہوئی تھی۔۔۔۔

اور وہ خوشی سے رو رہے تھے۔۔۔۔

ساتھ ہی جان صوفے پر بیٹھا ٹانگ پے چڑھاۓ مسکراتا ہوا یہ سب دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

اسکی مسکراہٹ سے عامر کو اپنا خون کھولتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔۔

اسکے ایک ایک انداز سے شاہانہ پن جھلکتا تھا۔۔۔۔

گہری سانس لے کر اس نے خود کو کمپوز کیا۔۔۔۔

اور شرافت کا لبادہ اوڑھے انکے پاس چلا آیا۔۔۔۔

سب سے پہلے جان کی نظر اس پر پڑی۔۔۔۔

ایک تمسخرانہ مسکراہٹ لبوں پر سجاۓ وہ اسے دیکھنے لگا ۔۔

جاناں کے چہرے پر نفرت اور دکھ جھلکنے لگے ۔۔۔

اسے اب عامر کی موجودگی اسکی شکل سے بھی نفرت محسوس ہوتی تھی۔۔۔۔

جھکی جھکی نظریں لئے اس نے مصافحہ کے لئے جان کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔۔

جوابا وہ اٹھا اور اسے گلے سے لگا لیا۔۔۔۔

عامر تو عامر۔۔۔۔ وہاں پر بیٹھے تمام نفوس حیرت سے کنگ ہوگئے۔۔۔

ارے آپ سب خاموش کیوں ہو گئے ۔ 

قمیض جھاڑ کر بیٹھتا وہ ذرا حیرانی سے سب سے پوچھنے لگا۔۔۔۔

عامر اپنی حیرت چھپاتا وہیں بیٹھ گیا۔۔۔۔

چلیں میں آپکو ایک شعر سناتا ہوں۔۔۔۔ امید ہے آپکو پسند آۓ گا۔۔۔۔ وہ سنجیدگی سے بولا

" عامر کو اپنے بچوں کا ماموں بنانا چاہتا ہوں۔۔۔

میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں۔۔۔۔"

کس قدر مصومیت تھی اسکے لہجے میں۔۔۔

پہلے پہل تو بلکل خاموشی چھا گئ۔۔۔

اور پھر بے ساختہ اکرام صاحب کا قہقہہ گونجا۔۔۔۔

نور بیگم کچن کا کہ کر وہاں سے چلی گئیں۔۔۔۔

جب کہ جاناں کا چہرہ ہنسی روکنے کی شدّت سے لال ہو رہا تھا۔۔۔

اسکا بدمعاش شوہر کہیں اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتا تھا۔۔۔۔

سرخ چہرہ لئے عامر نے جان کی طرف دیکھا جو بجاۓ مسکرانے کے سنجیدگی سے اسکی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

ایک جھٹکے سے وہ اٹھا اور باہر نکل گیا۔۔۔۔

______________________________

دن گزرتے گئے۔۔۔۔

جان اور جاناں کی اجنبیت بلکل ختم ہوتی گئی۔۔۔۔

جاناں جو پہلے اس سے نفرت کا بھرم بھرتی تھی۔۔۔۔

خود ہی اسکی محبّت کے پنجرے میں قید ہوگئی۔۔

وجہ اسکی بے پناہ پاکیزہ محبّت تھی۔۔ ۔ اس نے کبھی جاناں سے اپنا حق نہیں مانگا تھا۔۔۔۔ 

 تھوڑی بہت نوک جھوک بھی ان کے بیچ چلتی رہتی تھی۔۔۔۔

وہ ہر روز اسے مما بابا سے ملوانے جاتا تھا۔۔۔۔

ہر روز رات کو گھر واپس آنے کے بعد اسکے لئے گفت لاتا تھا۔۔۔۔

کوئی دن ایسا نہیں تھا۔۔۔۔جب وہ اسکے لئے گفت نا لایا ہو ۔۔۔۔بظاہر تو وہ ناک منہ چڑھا کر تحفہ تھام لیتی تھی۔۔۔۔ مگر دل  تھا کہ خوشی اور محبت سے بھر جاتا تھا۔۔۔۔۔

جب کبھی وہ اسے گھر سے باہر گھمانے لے کر جاتا تو اپنے ہاتھوں سے اسے چادر اوڑھاتا تھا ۔۔۔

اور اسکی یہی عادت تھی۔۔۔۔ جس نے جاناں کو اسکی طرف مائل کیا تھا۔۔۔ اسکی قدر تھی جو جاناں کے دل میں بڑھ جاتی تھی۔۔۔

یہ ستائسواں روزہ تھا۔۔۔۔۔

جان بزنس کے سلسلے میں دوسرے شہر گیا ہوا تھا۔۔۔۔۔

عصر کا وقت تھا۔۔۔۔

وہ بالوں کا ڈھیلا سا جوڑا بناتی کچن میں پہنچی۔۔۔

ملازمہ سارے کام کر کہ جا چکی تھی۔۔۔

پتیلی پر سے ڈھکن اٹھا کر وہ کھانے کی مہک محسوس کرنے لگی۔۔۔۔

جوں ہی اس نے لاؤنچ میں قدم رکھا۔۔۔۔

وہاں عامر پہلے سے موجود تھا ۔۔۔

تم اور یہاں۔۔۔۔؟؟

وہ عامر کو دیکھ کر ٹھٹھکی۔۔۔

ہاں میں جان سے ملنے آیا تھا ۔۔۔

کہاں ہے وہ۔۔۔؟؟؟

ضروری کام تھا۔۔

وہ مسکراتے ہوئے جاناں سے پوچھنے لگا ۔۔

گھر پر نہیں ہے وہ ۔۔۔تم جاؤ یہاں سے۔۔

اسے عامر کی موجودگی سے ڈر لگنے لگا۔۔۔

ساتھ ہی وہ تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھی۔۔۔

کہ سامنے پڑے صوفے کو نا دیکھ سکی ۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ گرتی۔۔۔۔

عامر نے آگے بڑھ کر تھام لیا۔۔۔۔

جاناں کی کمر اسکی بازو پر ٹکی ہوئی تھی۔۔  

ایک جھٹکے سے وہ اس سے دور ہوئی۔۔۔۔

پورا جسم پسینے سے شرابور ہوگیا تھا۔۔۔۔

وہ واپس کمرے کی طرف بھاگی۔۔۔

کہ عامر نے اسکا پلو پکڑ کر اسے روک لیا۔۔۔۔

بس تم سے معافی مانگنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا۔۔۔۔

اتنا کہ کر وہ رکا نہیں۔۔۔۔وہاں سے نکلتا چلا گیا۔۔۔۔

ایک نا ختم ہونے والی بے چینی نے اسے آ گھیرا ۔۔۔۔

بھاگ کر وہ کمرے کی طرف بڑھی ۔۔۔۔

اور اندر گھس کر کنڈی لگا لی۔۔۔۔

______________________________

سنئیے جی۔۔۔۔

آپ نے دیکھا تو ہوگا ہماری جاناں کتنی خوش لگ رہی ہوتی ہے روز۔۔۔۔

میں کہتی تھی نا آپ سے۔۔۔۔قدرت کے ہر فیصلے میں حکمت ہوتی ہے۔۔۔۔

یقین مانیں۔۔۔ اپنی بیٹی کو چہکتا دیکھ کر میرا تو سیروں خون بڑھ جاتا ہے۔۔۔۔

چاۓ کا کپ اکرام صاحب کو پکڑا کر وہ انکے ساتھ ہی بیٹھ گئیں  

اکرام صاحب کے چہرے پر خوشی سے بھر پور مسکان آ ٹھہری ۔۔۔

ٹھیک کہتی ہو بیگم۔۔۔۔

جان واقع ہی بہت اچھا لڑکا ہے۔۔۔۔

انکے چہرے پر سکون ہی سکون تھا۔۔۔۔

بھئ ہم تو پوری رسمیں کریں گے۔۔۔۔۔

خالی ولیمے پے نہیں ٹرخانا اس خوشی کو۔۔۔۔

وہ ان سے اپنی خوشی شیئر کرنے لگیں۔۔۔۔

وہ دونوں باتوں میں مصروف ہوگئے۔۔۔۔

اس بات سے انجان کہ دو حسد سے بھری نظریں انکی خوشیوں کو آگ لگانے کو کافی تھیں۔۔۔۔۔

______________________________

سنو پھولوں کے زیور کا ایک مکمّل سیٹ دو۔۔۔۔

اور تمھارے پاس جتنے بھی گجرے ہیں سب پیک کرو۔۔۔۔۔

بٹوے سے ہزار کے کئ کڑک دار نوٹ نکالتا وہ مصروف انداز میں پھولوں والے سے مخاطب تھا ۔ ۔

یاسر مسکراتے ہوئے اپنے باس کو دیکھنے لگا ۔۔۔

جو روز اپنی بیگم کے لئے گفت اپنے ہاتھوں سے لیتا تھا ۔۔۔۔۔

یہ لو یہ سارے رکھ لو۔۔۔۔

دکان دار کے ہاتھ میں پیسے تھماتا وہ سیل نکال کر مسیج چیک کرنے لگا۔۔۔۔

اسکے "خاص بندے" کا مسیج تھا ۔  ۔

کچھ پکس اسے سینڈ کی گئی تھیں۔۔۔۔

وہ وہیں کھڑا انہیں اوپن کرنے لگا۔۔۔۔

انہیں دیکھتے ہی جان کے پیروں تلے زمین کھسک گئی۔۔۔۔

جبڑے تن گئے تھے۔۔۔۔

عامر اور جاناں کی اتنی قریب کی تصاویر دیکھ کر اسے اپنا خون کھولتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔

پھولوں کو وہیں پھینکتا وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا گاڑی کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔

یاسر بوکھلا کر اسکے پیچھے بھاگا ۔  ۔۔

اس عامر کو تو میں نہیں چھوڑوں گا۔۔۔۔

مگر جاناں تم اپنی خیر مناؤ ۔۔۔۔!!

سرخ آنکھوں سے سامنے کی طرف گھورتا وہ تصور میں جاناں سے مخاطب ہوا تھا ۔۔۔ جان کو غصہ بہت کم آتا تھا۔۔۔۔مگر جب بھی آتا تھا تباہی لاتا تھا۔۔۔۔

فریزر سے کباب نکال اس نے پلیٹ شیلف پر رکھی۔۔۔

اور فرائ پین میں آئل انڈیلنے لگی۔۔۔۔

ساتھ ہی ہلکی ہلکی آواز میں وہ آخری سورتوں کی تلاوت بھی کر رہی تھی۔۔۔۔

رمضان ختم ہونے کو تھا ۔۔۔

جلد ہی اسکا ولیمہ ہونا تھا۔۔۔۔

اور وہ اس رشتے میں مکمّل طور پر بندھنے سے پہلے تمام غلط فہمیاں اور کدورتوں کو دل سے نکال دینا چاہتی تھی۔۔۔۔

آج افتاری کے لئے اس نے اپنے ہاتھوں سے جان سے لئے چیزیں بنائیں تھی۔۔۔۔

اگرچہ وہ کوئی اچھی کوک نہیں تھی۔۔۔

مگر جتنا کچھ بنا سکتی تھی۔۔۔۔

وہ اس نے ضرور بنایا تھا۔۔۔۔

کباب تلنے کے بعد اس نے فروٹ چاٹ دہی بڑے اور رول بناۓ۔۔۔۔

ایک تو روزہ تھا اور اوپر سے کچن میں کھڑے ہو کر گرمی میں کام کرنا مشقت طلب کام تھا ۔۔۔

کام سے فارغ ہو کر وہ شاور لینے واشروم میں گھس گئی۔۔۔۔۔

بال ڈرائیر سے خشک کرنے کے بعد اس نے ہلکا ہلکا سا میک اپ کیا۔۔۔۔

گولڈن اور بلیک ڈریس  اسکی گوری رنگت پر خوب جچ رہا تھا۔۔۔۔

اپنی تیاری سے مطمئن ہو کر وہ باہر نکل آئ ۔۔۔

وال کلاک پر نگاہ دوڑائ۔۔۔۔

ابھی افطاری میں ٹائم باقی تھا۔۔۔۔

تھوڑی دیر بعد ٹیبل سیٹ کرنے کا سوچ کر وہ وہیں صوفے پر بیٹھ گئی۔۔۔۔

اور ساتھ پڑی کتاب اٹھا کر پڑھنی شروع کر دی۔۔۔۔

تھوڑا سا ٹائم اور گزرا

۔۔۔۔۔

باہر مین گیٹ کھلا۔۔۔۔

گاڑی گیراج میں داخل ہوئی۔۔۔۔

جان اور یاسر کی ملی جلی آوازیں۔۔۔۔

جاناں نے بے اختیار لب کاٹے۔۔۔۔

جان سے اظھار محبّت کا خیال دل کو دھڑکا دیتا تھا۔۔۔۔

نجانے اسے کیوں جان کی آواز اونچی لگی ۔۔۔

ذرا سی بے چینی اسے اپنے وجود میں دوڑتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔۔۔

کتاب سائیڈ پر رکھے وہ انگلیاں مروڑنے لگی۔۔۔۔

پھر بے چینی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔

بپھرا ہوا جان جوں ہی اندر پہنچا۔۔۔۔

سامنے لش پش سے تیار ٹہلتی ہوئی جاناں پر نظر پڑی۔۔۔۔

اسکی آنکھوں میں ایک تاثر سا ابھرا۔۔۔

جاناں مڑی۔۔۔۔

اپنے سامنے کھڑے جان کو دیکھ کر اسکے لبوں پر شرمگین مسکراہٹ آ ٹھہری۔۔۔۔

جان مضبوط قدم اٹھاتا اس تک پہنچا۔۔۔۔

اور ایک جھٹکے سے اسکی کلائ اپنی گرفت میں لی۔۔۔۔

جاناں نے چونک کر اسے دیکھا۔۔۔۔

جان۔۔۔۔؟؟

اس نے کچھ کہنا چاہا۔۔۔

مگر وہ اسے کلائ سے کھینچتا باہر کی طرف لے جانے لگا۔۔۔۔

جان آپ مجھے کہاں لے کر جا رہے ہیں۔۔۔۔؟؟

وہ اپنی کلائ چھڑوانے کی کوشش کرتی اس سے سوال کر رہی تھی۔۔۔۔

مگر وہ لب بھینچے باہر لے آیا۔۔۔۔

جان میری بات تو سنیں۔۔۔؟؟

پلیز جواب تو دیں۔۔۔۔

جان۔۔۔۔؟؟

شٹ اپ۔۔۔۔!

جسٹ شٹ اپ۔۔۔۔۔!

اسکو اپنی گرفت سے آزاد کرتا ایک دم وہ دھاڑا۔۔۔۔

جاناں منہ پر ہاتھ رکھے دو قدم پیچھے ہوئی۔۔۔۔

ڈر سے جسم کپکپانا شروع ہوگیا تھا ۔۔۔

"میری پیٹھ پیچھے تم یہ سب کرتی ہو ۔۔۔؟؟"

موبائل کی سکرین اسکے سامنے کئے وہ تلخی سے پوچھنے لگا۔۔۔۔

جاناں کے پیروں تلے زمین کھسک گئی۔۔۔۔

"نہیں ۔۔۔۔۔نہیں پلیز جان میرا یقین کریں۔۔۔۔یہ سب کچھ میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا۔۔۔۔

وہ تو میں گرنے لگی تو عامر نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

ششششش۔۔۔۔!!

اسکی بات کاٹ وہ انگلی اسکے ہونٹوں پر رکھتا اسے خاموش کروا گیا۔۔۔۔

"آنکھوں دیکھے کو کیسے جھٹلاؤں۔۔۔؟؟"

اسکی کاٹ دار نظروں سے جاناں کی سانسیں رک گئیں۔۔۔۔

"جان اللّه کی قسم میرا یقین کریں۔۔۔۔۔

میں جھوٹ نہیں بول رہی۔۔۔۔"

بے تحاشا روتے ہوئے وہ اپنی صفائی پیش کر رہی تھی۔۔۔

چپ۔۔۔۔۔!

ایک دم چپ۔۔۔۔!

"میں ہی بیوقوف تھا جو تمھارے پیار میں اندھا ہو کر یہ سب نا دیکھ سکا۔۔۔۔"

اسکا لہجہ اسکی باتیں۔۔۔

جاناں کی روح نکالنے کا کام کر رہے تھے۔۔۔۔

"چلو تم نکلو میرے گھر سے۔۔۔۔!

جاؤ اپنے گھر ۔۔۔اور دوبارہ یہاں مت آنا۔۔۔۔"

اسے کہنی سے پکڑ کر کھینچتا وہ اب آگے بڑھانے لگا۔۔۔۔

"جان میرا یقین کریں۔۔۔۔میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔۔"

اسکے پیچھے کھنچتی وہ اسکی منتیں کر رہی تھی۔۔۔

"جان میں صرف آپ سے پیار کرتی ہوں۔۔۔۔

میری بات کا یقین کریں۔۔۔۔"

اسکی بات سن کر جان ایک لمحے کے لئے رکا۔۔۔۔

اور جاناں کی طرف دیکھا۔۔۔۔

جسکا چہرہ آنسوؤں سے مکمّل بھیگ چکا تھا۔۔۔۔

اگلے ہی لمحے وہ اسے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر دھکیل چکا تھا۔۔۔۔

صدام ۔۔۔۔ جاؤ بی بی کی چادر اٹھا کر لاؤ اندر سے۔۔۔۔

دروازہ باہر سے لاک کرتا وہ صدام کو کہنے لگا۔۔۔۔

"جان میرا یقین کریں۔۔۔میں آپ سے محبّت کرتی ہوں۔۔۔۔"

اس نے جان کے آگے ہاتھ جوڑ دئے۔۔۔۔۔

"مجھے مت چھوڑیں۔۔۔

میں آپکے بغیر مر جاؤں گی۔۔۔۔"

مگر جان نے اسکی ایک نا سنی۔۔۔۔

چادر اسکی طرف پھینک کر اس نے صدام کو اسے اسکے گھر چھوڑ کر آنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔

وہ سر جھکاۓ گاڑی کی طرف بڑھا۔۔۔۔

اور جان کے حکم کی تعمیل کرنے لگا ۔۔۔۔

گاڑی جھٹکے سے حرکت میں آئ۔۔۔۔

جاناں ہچکیوں سے رو رہی تھی۔۔۔۔

جان وہاں سے مڑ کر اندر کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔۔

گیٹ سے باہر نکلنے تک جاناں بے بسی سے اسے دیکھتی رہی۔۔۔۔ مگر وہ اسکی طرف نہیں مڑا تھا

______________________________

کام ہوگیا۔۔۔۔؟؟؟

سیگریٹ کا کش لگاتے ہوئے اس نے دریافت کیا ۔۔۔

جی مالک۔۔۔!

شفیق کی سرگوشی نما آواز گونجی۔۔۔

ہاہا۔۔۔۔۔

اسکا قہقہہ گونجا۔۔۔۔

آنکھوں کی چمک بڑھ گئی تھی۔۔۔۔

جلد تمھیں منہ مانگا انعام ملے گا۔۔۔۔

بس ایک بار مجھے میرے مقصد میں کامیاب ہونے دو۔۔۔۔

ایش ٹرے میں سگریٹ مسلتے ہوئے اس نے شفیق کو خوش کیا۔۔۔۔

اور کال کاٹ دی۔۔۔۔

ایک مطمئن مسکراہٹ اسکے لبوں پر دوڑ رہی تھی۔۔۔۔

"جان یوسف۔۔۔۔

بڑا کم ظرف نکلا۔۔۔۔"

ایک منٹ نہیں لگایا۔۔۔۔

اپنی جاناں کو گھر سے ہی فارغ کر دیا۔۔۔۔

وہ ہنس رہا تھا ۔۔۔ ۔۔۔۔بے تحاشا۔۔۔۔۔!!

وہ فتح کے بہت قریب تھا۔۔۔۔

بہت قریب۔۔۔۔!!

یہ اسکی سوچ تھی۔۔۔۔

______________________________

تھکے تھکے قدم لئے وہ گھر میں داخل ہوئی۔۔۔۔

آنکھوں سے آنسو سیلاب کی طرح رواں دواں تھے۔۔۔۔

مما۔۔۔۔۔!!

اندر داخل ہوتے ہی اس نے بوجھل آواز میں انہیں پکارا۔۔۔۔

ارے جاناں بیٹی ۔۔۔۔!

نور بیگم ذرا حیران ہوتیں حسب معمول کچن سے نکلیں۔۔۔۔

مما۔۔۔۔!!

وہ بچوں کی کہتی زمین پر بیٹھ گئی۔۔۔۔

جاناں بیٹی۔۔۔۔؟؟

اکرام صاحب اسکی عجیب سی حالت دیکھ کر اسے پکارتے کمرے سے نکلے۔۔۔۔

"جان کہاں ہے بیٹا۔۔۔۔؟؟"

مما نے اسے صوفے پر بٹھاتے ہوئے اسکا گال تھپتھاتا کر پوچھا۔۔۔۔

"مما جان نے مجھے چھوڑ دیا۔۔۔"

وہ نا چیخی۔۔۔ نا روئی۔۔۔

اسکے اس ٹھہرے ہوئے لہجے میں جو درد تھا۔۔۔۔

اس نے ان دونوں کا جیسے کلیجہ چیر دیا۔۔۔۔

کیا کہ رہی ہو بیٹا۔۔۔؟؟

اکرام صاحب کا دل دہل گیا ۔۔

"بابا۔۔، جان نے مجھے چھوڑ دیا۔۔۔

وہ کہتا ہے۔۔۔میں بہت بری ہوں۔۔۔اسکی پیٹھ پیچھے عیاشیاں کرتی ہوں۔۔۔۔گندی ہوں ۔۔۔بدقماش ہوں۔۔۔۔ واہیات ہوں۔۔۔۔"

وہ سامنے ایک جگہ پر نگاہیں ٹکاۓ ایک ہی سانس میں بولتی گئی۔۔۔۔

استغفار۔۔۔۔۔!

اکرام صاحب کے منہ سے بےساختہ ادا ہوا۔۔۔۔

نور بیگم شاکڈ سی بیٹی کا زرد چہرہ دیکھے گئیں۔۔۔۔

"اکرام صاحب مجھے اسکی حالت ٹھیک نہیں لگ رہی۔۔۔۔

آپ پلیز جان بیٹے کو فون کریں۔۔۔۔

اور اس سے پوچھیں۔۔۔۔

کیا کیا ہے جاناں نے ۔۔؟؟

جو اسے گھر سے یوں بے عزت کر کہ نکال دیا۔۔۔۔"

انکی آواز ضبط کی شدّت سے کانپ رہی تھی۔۔۔۔

"کیا کیا ہے جاناں نے۔۔۔۔؟؟"

جاناں بڑبڑائ۔۔۔۔

"میری پیٹھ پیچھے تم یہ سب کرتی ہو۔۔۔؟؟"

جان کی آواز ہتھوڑے کی طرح اسکے سر پر بجی۔۔۔۔

اس نے بے اختیار کانوں پر ہاتھ رکھ لئے۔۔۔۔

"میں ہمیشہ تمہارے ہنسنے کی وجہ بننا چاہتا ہوں۔۔۔۔

رونے کی نہیں۔۔۔"

کہیں دور سے جان بولا تھا۔۔۔

وہ وحشت سے اپنے بال نوچنے لگی ۔۔

"میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں۔۔۔۔ویسے ہی انکا نام بھی ایک ہو جانا چاہئے۔۔۔

جیسے ہمارا ہے۔۔۔۔

جان جاناں۔۔۔۔

کتنا سویٹ ہے نا۔۔۔۔۔"

جان۔۔۔۔۔پلیز مجھے چھوڑ کہ مت جاؤ۔۔۔ میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں۔۔۔۔

وہ کانوں پر ہاتھ رکھے چیخنے لگی۔۔۔۔

جاناں بیٹی۔۔۔۔

نور بیگم نے اسے سینے میں بھینچ لیا۔۔۔۔

اگلے ہی لمحات وہ ہوش سے بے گانہ ہوگئی تھی۔۔۔۔

پلیز ڈاکٹر کے پاس چلیں۔۔۔۔

اسکو بے تحاشا چومتیں نور بیگم چیخی تھیں۔۔۔

______________________________

سر بہت اچھا موقع ہے۔۔۔۔

بڈھا۔۔۔، بڈھی اپنی تتلی کو لئے ہوسپٹل کی طرف گئے ہیں۔۔۔۔

کیوں نا ایک ہی وار میں کام تمام کر دیں۔۔۔۔۔

فون کے اس پار عامر کو شفیق کی پر اسرار آواز سنائی دی۔۔۔

نیکی اور پوچھ پوچھ۔۔۔!

اسکا جاندار قہقہہ گونجا۔۔۔۔

اسے ایک ایکسیڈنٹ بنانا ہے۔۔۔۔

اور یہ تمہاری زمیداری ہے۔۔۔۔

الکہل حلق میں انڈیلتے ہوئے وہ سرگوشی کے عالم میں بولا۔۔۔۔

اوکے باس۔۔۔!

کال کٹ گئی۔۔۔۔

عامر سن گلاسز لگاتا اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔

وہ اس گیم کا مزہ لینا چاہتا تھا۔۔۔۔

جو اس نے کھیلی تھی۔۔۔۔

گاڑی کی کیز انگلیوں میں گھماتا وہ باہر نکل گیا۔۔۔۔

دوسری طرف شفیق کے ساتھ کسی اور کا قہقہہ گونجا تھا۔۔۔

عامر کے مقابل بھی کوئی عام شخص نہیں تھا ۔۔۔

______________________________

تیز چلائیں گاڑی آپ پلیز۔۔۔۔!!

نور بیگم جاناں کو دیکھتیں بے چینی سے اکرام صاحب کو کہنے لگیں۔۔۔۔

ساتھ ہی وہ مسلسل جاناں کو ہوش میں لانے کی کوشش کر رہی تھیں۔۔۔

ٹپ ٹپ گرتے انکے آنسو جاناں کا چہرہ بھگو رہے تھے۔۔۔۔

الٰہی خیر۔۔۔۔۔!!

اکرام صاحب کے پیر بے اختیار بریکس پر پڑے۔۔۔۔

ایک طرف سے بڑی اسکول بس اور دوسری طرف سے مال سے فل ٹرک انکی طرف بڑھ رہا تھا۔۔۔۔

اور بیچ میں اتنی ہی جگہ بچی تھی۔۔۔۔

کہ حادثہ ممکن تھا ۔۔۔

ٹرک والے کو بجاۓ بریک لگانے کے خود کی طرف بڑھتا دیکھ کر وہ کلمہ پڑھنے لگے۔۔۔موت کے خوف نے انکے حواس سلب کر لۓ تھے۔۔۔۔۔

نور بیگم کی بے ساختہ چیخیں پوری گاڑی میں گونجنے لگیں۔۔۔

دور اطمینان سے گاڑی میں یہ منظر دیکھتے عامر نے گلاسز لگاۓ۔۔۔

بائے بائے ماموں ممانی اینڈ جان کی ہونے والی مرحوم جاناں۔۔۔۔

بڑے تفاخر سے وہ گاڑی موڑ گیا۔۔۔۔

اسے پتا تھا۔۔۔کہ ابھی ایک زور دار دھماکہ ہونا تھا۔۔۔۔

اور تین لوگوں کی سانس کی ڈوری ٹوٹنی تھی۔۔۔۔

مگر وہ یہ بھول گیا تھا۔۔۔

کہ زندگی اور موت اللّه کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔۔۔۔

وہ اوپر سے جتنا بہادر بنتا تھا۔۔۔۔ اندر سے اتنا ہی ڈرپوک تھا۔۔۔۔

اسلئے اپنے ہی بناۓ ہوئے گیم کو پورا ہوتا نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔۔

کوئی آواز نہیں تھی۔۔۔۔

وہی عام سا روز مرہ کا شور۔۔۔۔!!

اچانک ٹرک کے ٹائر چرچراۓ۔۔۔۔

وہ حیرانی سے پیچھے مڑا۔۔۔

اسکے خیال میں تو وہاں چیخیں ہونی تھیں۔۔۔۔ خون ہونا تھا۔۔۔۔

اور تھوڑی دیر بعد اسے بھی ٹسوے بہاتے ہوئے وہاں جانا تھا ۔۔۔۔

یہ کیا ہوگیا تھا۔۔۔۔

اگلے ہی لمحے پولیس کا سائرن بجنے لگا۔۔۔۔

"مسٹر عامر آپکو اپنے ہی ماموں ممانی اور انکی بیٹی پر قاتلانہ حملے کے جرم میں گرفتار کیا جاتا ہے۔۔۔۔"

اسکے سامنے ہتھکڑی لہرائ۔۔۔

خوف اور حیرانی کی شدّت سے اسکی آنکھیں ابل آئیں۔۔۔۔

وہ اتنا حیران تھا کہ ماموں کی گاڑی کو اپنے سامنے رکتا نا دیکھ سکا۔۔۔

"ہمت بھی کیسے ہوئی۔۔۔ میری بیوی اور میرے سسر ساس کی طرف میلی نظروں سے دیکھنے کی۔۔۔۔"

اب سڑو جیل میں۔۔۔!

جان یوسف تمھیں اتنی آسانی سے باہر نہیں آنے دے گا۔۔۔۔

آنے والی آواز پر اس نے کرنٹ کھا کر دیکھا۔۔۔۔

سامنے جان کے ساتھ شفیق کھڑا ہنس رہا تھا۔۔۔۔

شفیق۔۔۔۔؟؟

اسکے لب بے یقینی کے انداز میں وا ہوئے۔۔۔

"سوری عامر سائیں۔۔۔

پر ہم صرف جان یوسف سر کے لئے کام کرتے ہیں۔۔۔۔

اور آپکے ساتھ کام تو ہم کر رہے تھے۔۔۔

مگر جان سر کے لئے۔۔۔!!"

شفیق کی آواز اسے سنائی دی۔۔۔

"اتنا بڑا دھوکہ کیا اس نے عامر کے ساتھ ۔۔؟؟

یہ کیسے ہو سکتا تھا۔۔۔۔؟"

"جو تم نے اپنے باپ جیسے ماموں کے ساتھ کرنا چاہا۔۔۔

اس کے بعد تم کیا سمجھتے ہو۔۔۔

تمھیں وفا ملتی۔۔۔۔

ارے آگے اپنا انجام دیکھو۔۔۔۔

ضمیر فورا بول پڑا۔۔۔"

اسکے ہاتھ ہتھکڑیوں میں جکڑ دئے گئے ۔۔

ایک باب ٹھپ ہوا۔۔۔۔

 گیم کا لیول اینڈ ۔۔۔۔

جس میں وہ اوور ہوگیا تھا۔۔۔

جان یوسف کے ساتھ وہ مزید گیم نہیں لگاۓ گا۔۔۔

اس چیز کا احساس اسے پولیس موبائل میں ایک مجرم کے طور پر بیٹھ کر ھوگیا تھا۔

ہوسپٹل کا ماحول اس وقت نم دار سا ہو رہا تھا۔۔۔۔

بینچ پر اکرام صاحب سر جھکاۓ بیٹھے تھے۔۔۔۔

نور بیگم بے ہوش پڑی جاناں کے ساتھ بیڈ پے اسکا ہاتھ تھامے بیٹھی تھیں۔۔۔۔۔

آنسو انکی آنکھوں سے مسلسل رواں دواں تھے ۔۔۔

کھڑکی کے پاس کھڑے جان نے پریشانی سے اپنی پیشانی مسلی۔۔۔

"دیکھیں ہوش میں آ رہی ہے میری بیٹی۔۔۔۔"

نور بیگم کی دبی دبی پر جوش سی آواز کانوں میں پڑتے ہی وہ تیزی سے پلٹا۔۔۔

جہاں جاناں کی پلکوں کی لرزش اور ہاتھ کی  حرکت اسکو ہوش میں آتا ظاہر کر رہی تھی۔۔۔۔

جان۔۔۔۔!!

ہوش میں آتے ہی اس کے لبوں سے جو پہلا لفظ ادا ہوا۔۔۔

وہ اس شخص کا تھا ۔۔۔۔

بیٹی وہ رہا جان۔۔۔۔!

اکرام صاحب نے جان کو اپنی طرف آتا دیکھ کر اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بتایا۔۔۔۔

وہ نم آنکھوں میں ہزاروں شکوے لئے جان کو دیکھنے لگی۔۔۔۔

اکرام صاحب نور بیگم کا ہاتھ پکڑے باہر چلے گئے۔۔۔

پیچھے وہ دونوں اکیلے رہ گئے ۔۔۔

جان بیڈ کے قریب چیئر کھینچ کر اسکے پاس بیٹھ گیا ۔۔۔

جاناں ابھی تک اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔

جان نے نرمی سے اسکا ڈرپ والا ہاتھ تھام کر سہلانا شروع کر دیا۔۔۔۔

"کچھ کہو گی نہیں۔۔۔؟"

تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد آخر اسے ہی بولنے میں پہل کرنی پڑی۔۔۔

"اپنے شوہر کی پیٹھ پیچھے عیاشیاں کرنے والی عورت جب رنگے ہاتھوں پکڑی جائے۔۔۔ تو اسکے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہوتا۔۔۔کوئی وضاحت نہیں کوئی صفائی نہیں۔۔۔۔"

اسکی آواز بھیگ گئی۔۔۔

جان نے کرب سے آنکھیں میچ لیں۔۔

"ایسا مت کہو۔۔۔!" 

  اس نے التجا کی۔۔۔

"تو پھر آپ یہ سب کہیں گے۔۔۔؟؟ٹھیک ہے میں خاموش ہوں۔۔۔۔"

"مجھے معاف کر دو۔۔۔ میں اپنی پلاننگ میں یہ بھول گیا۔۔۔۔ کہ میں اس گیم کو تو جیت جاؤں گا۔۔۔ مگر جس کے لئے میں کھیل رہا ہوں۔۔۔۔ کہیں جیتنے کے نشے میں اسے نا ہار جاؤں۔۔۔"

گیم۔۔۔!؟؟

جاناں حیران ہوئی۔۔۔

ہاں۔۔۔!

جان تھکا تھکا سا مسکرایا۔۔۔

پھر چند لمحے بعد گویا ہوا۔۔۔۔

"جب عامر ہمارے گھر آیا۔۔۔۔ تو اسکی یہی چال تھی۔۔۔ کہ تمھارے ساتھ ایسی کوئی حرکت ہو جائے۔۔۔ جس سے وہ تمھیں میری نظروں میں گرا سکے۔۔۔"

شفیق میرا خاص بندہ ہے۔۔۔جسے میں نے خود عامر کے پاس بھیجا تھا۔۔۔۔ وہ دکھنے میں تو عامر کے ساتھ کام کرتا تھا۔۔۔۔ مگر حقیقت میں عامر کی ایک ایک۔ حرکت کی رپورٹ مجھ تک پہنچاتا تھا۔۔۔۔

میں جانتا تھا۔۔۔ کہ وہ سسر جی کی دولت کے پیچھے پڑا ہے۔۔۔۔ جس کے لئے وہ تمہارا استعمال کر رہا تھا۔۔۔۔

تمھیں مہرہ بنا کر وہ اپنی گیم کھیل رہا تھا۔۔۔۔

میں جانتا تھا۔۔۔۔ ہماری اس طرح شادی ہوجانے اور اسکے پول کھلنے کے بعد وہ چپ نہیں بیٹھے گا۔۔۔۔

تب ہی میں نے یہ ساری گیم کھیلی۔۔۔۔

اور دیکھو آج عامر اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے۔۔۔۔"

اتنا کہ کر وہ چپ ہوگیا۔۔۔۔

"میں جس چیز کی وضاحت چاہتی ہوں۔۔۔۔ اسکو تم گول مول کر رہے ہو ۔۔۔۔"

اس نے شکوہ کیا۔۔۔۔

جان مسکرا دیا۔۔۔۔

"اچھا تم بتاؤ جان جاناں۔۔۔ ہمیں ساتھ رہتے ہوئے ایک ماہ ہونے کو تھا۔۔۔۔

اور کوئی دن ایسا نہیں ہوگا۔۔۔۔ جب میں نے تم سے اظھار محبّت نا کیا ہو۔۔۔۔ مگر تم بدلے میں مجھے کیا دیتی تھی۔۔۔۔؟؟

ایک سمائل تک نہیں۔۔۔؟؟

اب کی بار اس نے شکوہ کیا۔۔۔۔

جاناں کا چہرہ شرمندگی سے جھک گیا۔۔۔۔

جان نے ایک نظر اسے دیکھتے ہوئے سلسلہ کلام جوڑا ۔۔

" میں اس دن واقع ہی بہت غصّے میں تھا۔۔۔۔ مگر وہ غصّہ تم پر نہیں۔۔۔۔ عامر پر تھا۔۔۔۔کیوں کہ شفیق نے مجھے بتایا تھا۔۔۔کہ بی بی کا رویہ کیسا تھا عامر کے ساتھ۔۔۔۔ اور مجھے سن کر اچھا لگا تھا۔۔۔۔

مگر مجھے ایسا بھی لگتا تھا

۔۔۔جیسے تم میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔۔۔۔

یہ ایک موقع تھا۔۔۔۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ تم میرے ساتھ رہنا چاہتی ہو کہ نہیں۔۔۔

میں نے تمھیں آزمایا۔۔۔

مگر یقین کرو۔۔۔تمہارا ریکشن دیکھ کر مجھے لگا۔۔

کہ تم محبّت میں مجھ سے بازی لے گئی۔۔۔

مگر مجھے اپنے پلین کو پایہ تکمیل تک پہنچانا تھا۔۔۔۔

اسلئے تمھیں تمھارے گھر بھیج دیا۔۔۔"

وہ خاموش ہوگیا۔۔۔

جاناں لب بھینچے اسے دیکھتی رہی ۔۔۔۔

مطلب یہ سب اسکا پلین تھا۔۔۔۔ اسکی جیتے جی مارنا۔۔۔ حد ہوگئی تھی۔۔۔۔

بہت ہی وہ ہو تم۔۔۔۔!

وہ غصّے سے بولی۔۔۔

وہ کیا۔۔۔۔؟؟

جان ہنستا چلا گیا۔۔۔

جاناں نے مکا اسے مارنا چاہا۔۔۔

کہ درد سے اسکی چیخ نکل گئی۔۔۔۔

وہ ڈرپ والے ہاتھ کو آگے کھینچ کر لے گئی تھی۔۔۔

او۔۔۔ رونا نہیں۔۔۔رونا نہیں پلیز۔۔۔۔

اسکا ہاتھ سہلا کر جان اسے بچوں کے انداز میں بہلانے لگا ۔۔۔

جاناں نے ایک نظر اسے دیکھا۔۔۔۔ 

پھر وہ دونوں کھلکھلا کر ہنس پڑے تھے۔۔۔۔

______________________________

مجھے وہ سائیکل لینی ہے۔۔۔۔

مجھے نہیں پتا۔۔۔۔

مجھے وہ سائیکل چاہئے۔۔۔۔

سات سالہ بچہ زمین پر ٹانگیں مارتا مسلسل روۓ جا رہا تھا۔۔۔

بیٹا ۔۔۔ اگلی باری پکّا۔۔۔

ابھی گھر چلو پیسے نہیں ہیں۔۔۔۔

اسکو مسلسل پیار سے مناتے ہوئے اس نرم سے شخص کو دیکھتے ہوئے سارے لوگ رشک سے اس بچے کو دیکھ رہے تھے۔۔۔

 کہ اسے کس قدر پیار کرنے والا باپ ملا تھا۔۔۔۔

جو بجاۓ جھڑکنے کے اسے پیار سے منا رہا تھا۔۔۔

بابا آپ ایسا کریں۔۔۔۔میری ڈول اور باقی ٹوائز واپس کر کہ عامر کو سائیکل لے دیں۔۔۔۔

عامر کے ہاتھ میں ڈھیروں ٹوائز کو ایک نظر دیکھتی ہوئ باپ کے ساتھ چپکی وہ بچی ضبط سے بولی تھی۔۔۔

ایک جھٹکے سے اس نے آنکھیں کھولیں۔۔۔

وہ اس وقت نا شاپنگ مال میں تھا۔۔۔۔

اور نا ہی اسکے ساتھ وہ شفیق سے ماموں تھے۔۔۔ اور نا ہی انکی بیٹی۔۔۔۔

وہ تو جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید تھا۔۔۔

بے اختیار وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔۔۔

بے بسی کا احساس بڑھ گیا۔۔۔۔

یہ انسان کی فطرت ہے۔۔۔ جب وہ اکیلا اور بے بس ہوتا ہے۔۔۔

تو اسے اپنے چاہنے والے یاد آتے ہیں۔۔۔

عامر کا حال بھی کچھ یوں ہی ہوا۔۔۔۔

سر تھامے وہ بچوں کی طرح روتا چلا گیا۔۔۔۔

دولت کو پانے کے چکر میں وہ عزت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔۔۔۔

بالوں کو نوچتے ہوئے وہ چیخ چیخ کر رونے لگا۔۔۔۔

مگر اب سننے والا کوئی نہیں تھا۔۔۔۔

سواۓ اس رب کی ذات کے۔۔۔

جو اسے اپنے خزانے سے ہدایت کی دولت عطا کرتا۔۔۔

ہاں وہ اسے عطا کر چکا تھا۔۔۔۔

______________________________

کمرے میں داخل ہوتے ہی تازے گلاب کے پھولوں کی بھینی سی مہک اسکے نتھنوں سے ٹکرائ۔۔۔

بیڈ کے آس پاس اصلی گلاب کی لڑیاں لٹک رہی تھیں۔۔۔۔

اوپر سے آتی لڑیوں نے مل کر بیڈ کے اوپر ایک چھتری سی بنا دی تھی ۔۔۔۔

ڈریسنگ اور سائیڈ ٹیبلز پر سرخ اور سفید گلاب کی پتیاں بکھری ہوئی تھیں۔۔۔۔

جنکے بیچ جلتی کینڈلز کمرے کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہی تھیں۔۔۔

اور جو جان کے لئے کمرے کی خوبصورتی کی اصل وجہ تھی۔۔۔۔

وہ بیڈ کے بیچوں بیچ بیٹھی گھونگھٹ نکالے جان کے دل کے تار چھیڑ گئ۔۔۔۔

آج فنکشن میں بھی وہ اسے ٹھیک سے دیکھ نہیں پایا تھا۔۔۔۔

اور آج کتنے دنوں بعد وہ اسکی دسترس میں آئ تھی۔۔۔

مسکراتے ہوئے وہ بیڈ کی طرف بڑھا۔۔۔۔

اور جگہ بنا کر جاناں کے پاس بیٹھا۔۔۔۔

"آج کا دن میرے لئے بہت خاص ہے۔۔۔۔ جب تم اپنی مرضی سے اپنی خوشی سے میرے کمرے میں میری بن کر آئ ہو۔۔۔۔"

اسکی بھاری آواز گونجی۔۔۔

گھوگھنٹ میں چھپا وجود سمٹ کر رہ گیا۔۔۔

جان نے محبّت سے اسکا گھونگھٹ اٹھایا۔۔۔۔

کہ اگلے ہی لمحے وہ کرنٹ کھا کر پیچھے ہوا۔۔۔

اتنا بڑا جھٹکا لگنے سے اسکا رنگ فق پڑ گیا تھا

بانو (کام والی) نے تیزی سے بھاری دوپٹا پیچھے کیا۔۔۔

"صاحب جی۔۔۔ معاف کیجئے گا۔۔۔ بی بی جی نے ایسا کرنے کو کہا تھا۔۔۔۔ میں چلی۔۔۔۔"

بانو یہ کہ نو دو گیارہ ہوگئی۔۔۔۔

موتیوں اور چوڑیوں کی چھن چھن کے ساتھ  کھنک دار ہنسی اسکے کانوں میں پڑی۔۔۔

ناراضگی سے وہ اس طرف مڑا۔۔۔

مگر ڈریسنگ سے نکلتی جاناں کو دیکھ کر اسے اپنی ناراضگی اڑن چھو ہوتی محسوس ہوئی۔۔۔۔

وہ اپنا ولیمے والا ڈریس غالبا چینج کر چکی تھی۔۔۔۔

پیروں تک آتا پٹھانوں کے سٹائل میں گول گھیرے والا سیاہ فراک جسکے گھیرے اور بازوؤں پر سفید موتیوں سے کام کیا گیا تھا۔۔۔۔

کلائیوں میں بھر بھر سیاہ چوڑیاں پہنے وہ ہنستی ہوئی جان کے پاس آئ ۔۔

اور کلائیاں ہلاتی اسکے گرد چکر لگانے لگی۔۔۔

وہ ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھے گیا۔۔۔

 جھٹکا لگا۔۔؟؟

اسکی کھنک دار ہنسی گونجی۔۔۔

جان نے اسے کلائ سے کھینچ کر اپنی گرفت میں لے لیا۔۔۔۔

"بہت تیز ہوگئی ہو۔۔۔۔"

اسکے کانوں میں اس نے دھیمے سے سرگوشی کی۔۔۔۔

"آخر ایک پلیئر کی جو بیوی ہوں۔۔۔۔"

وہ چہکی۔۔۔

مطلب پلیئر کی بیوی بننے کو تیار ہیں آپ۔۔۔؟

اسکے کانوں میں فسوں پھونکتا وہ اسکی دھڑکنیں روک گیا۔۔۔

جاناں نے خاموشی سے اقرار کرتے ہوۓ اسکے سینے پر سر ٹکا دیا۔۔۔۔

جان نے محبت سے اسے اپنی مظبوط پناہوں میں لے لیا ۔۔۔

دور کہیں چاند  مسکرا کر بادلوں کی اوٹ میں چھپ گیا تھا۔۔۔۔

تجھ سے لفظوں کا نہیں روح کا رشتہ ہے میرا۔۔۔

تو میری سانسوں میں تحلیل ہے خوشبو کی طرح۔۔۔!

جان جاناں۔۔۔۔!

جان جاناں۔۔۔۔!

ختم شد۔۔۔!

 مزید ناولز کے لئے نیچے جائیں ، یہاں مکمل اور قسط وار سبھی ناولز کے لنکس دئیے گئے ہیں۔

آپ مزید ناول کی پکس دیکھنے کے لیے نیچے جائیں ، اور ہماری ویب سائٹ کو وزٹ کریں ، اگر آپ نے ابھی تک مدیحہ شاہ کے مکمل اور قسط وار ناولز نہیں پڑھے ۔ تو جلدی سے مدیحہ شاہ کے سبھی ناولز کو پڑھیں اور اپنا فیٹ بائک دیں ۔

 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Web by Madiha Shah Writes.She started her writing journey from 2019.Masiha Shah is one of those few writers,who keep their readers bound with them , due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey from 2019. She has written many stories and choose varity of topics to write about


 

Adhure Rishty Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel     Adhure Rishty written  Irsa Rao.  Adhure Rishty  by  Irsa Rao is a special novel, many social evils has been represented in this novel. She has written many stories and choose varity of topics to write about

Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel you must read it.

Not only that, Madiha Shah provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Forced Marriage Based Novel Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

If you all like novels posted on this web, please follow my webAnd if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

If you want to read More  Mahra Shah Complete Novels, go to this link quickly, and enjoy the All Mahra Shah Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                  

 

Complete Novels Link 

 

Copyrlight Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only share links to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be delete

Previous Post Next Post