Wahshat E Ishq By Rimsha Mehnaz Urdu Novel Episode 7 to 8 - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Thursday 9 February 2023

Wahshat E Ishq By Rimsha Mehnaz Urdu Novel Episode 7 to 8

Wahshat E Ishq By Rimsha Mehnaz Urdu Novel Episode 7 to 8

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Wahshat E Ishq By Rimsha Mehnaz Episode 7'8

Novel Name: Wahshat E Ishq 

Writer Name: Rimsha Mehnaz 

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

اس سے کچھ دوری پہ آزر اپنے کمرے میں بیٹھے سگریٹ پہ سگریٹ پھونک رہے تھے انہوں نے آج تک ان چیزوں کو کبھی ہاتھ نہیں لگایا مگر اب ان گزرے دنوں میں کثرت سے سگریٹ نوشی کر رہے تھے شاید وہ اپنا غم غلط کرنی کی کوششوں میں مصروف تھے مگر وہ نہیں جانتے تھے یہ عشق کا آسیب ہے جو جان تو لے لیتا ہے مگر جان نہیں چھوڑتا۔

ان کی آنکھیں لہو رنگ تھیں شاید ان میں ٹھکرائے جانے کا غم واضح تھا وہ کیسے اپنی محبت سے دستبردار ہو جاتے مگر اب ان کی انا انہی شزرا کی طرف واپس پلٹنے سے روک رہی تھی شاید اب یہ غصہ نفرت میں بدل رہا تھا ہر گزرتا لمحہ شزرا سے نفرت میں اضافہ کر رہا تھا۔

___________________________

دن یونہی پر لگا کے اڑتے گئے آخر کار منگنی کا دن بھی آن پہنچا صبح سے ہی سب لوگ منگنی کی تیاری میں مصروف تھے۔

شزرا کی آنکھ کھلی تو اسے اپنا سر بھاری محسوس ہوا اسے لگا آج وہ معمول سے زیادہ سوتی رہی ہے اس نے گردن گھما کے گھڑی میں ٹائم دیکھا تو گھڑی دن کے گیارہ بجا رہی تھی وہ مضمحل وجود کے ساتھ اٹھ بیٹھی کھڑکی کے پٹ کھلے تھے اور ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اس کے چہرے سے ٹکرائے اس نے آسمان کی طرف دیکھا تو کالے بادل آسمان پہ بسیرا کئے سورج کو ڈھانپے ہوئے تھے ماحول میں ایک عجیب سا حبس تھا اس کا دل بھر آیا آج آزر کسی اور کے ہونے جا رہے تھے اور اسے اپنے چہرے پہ مسکراہٹ سجائے سب کے ساتھ موجود ہونا تھا اس سے تو رونے کا حق بھی چھین لیا گیا تھا یا اس نے خود ہی اپنا حق لینے سے انکار کردیا تھا۔

وہ بیڈ سے اٹھ نے اپنے کپڑے نکال کر شاور لینے چلی گئی وہ شاور لے کہ واپس آئی تو اس نے اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا جہاں مہندی اپنی بہار دیکھا رہی تھی مہندی کا رنگ اس کے ہاتھوں پہ خوب چڑھا تھا اس کے چہرے پہ ایک تلخ مسکراہٹ ابھر کے معدوم ہوئی۔آئینے کے سامنے کھڑے ہو کے گیلے بالوں کو سلجھا کے اس نے کھلا ہی چھوڑ دیا ہلکے گلابی رنگ کی شارٹ شرٹ اور سفید ٹراؤزر پہنے اور سفید دوپٹہ گلے میں ڈالے اس کا وجود جگمگا رہا تھا وہ نیچے آئی تو سب اپنی اپنی تیاریوں میں مصروف تھے منال کسی بات پہ سر پکڑے بیٹھی تھی جبکہ آزر کہیں جانے کے لئے تیار کھڑے تھے اسے نیچے آتے دیکھ کر منال اس کی طرف لپکی۔

"دیکھو شزرا ٹیلر نے میری شرٹ خراب کردی" منال نے روہانسی آواز میں کہا شزرا نے ایک ایک نظر اس کے ہاتھ میں پکڑی شرٹ کی طرف دیکھا جو اتنی زیادہ خراب نہیں تھی ٹیلر اسے صحیح کر سکتا ہے۔

"آپی اتنی خراب نہیں ہے یہ صحیح ہو جائے گی" شزرا نے اسے تسلی دی۔

"پھر تم جا کے کروا کے کے آؤ دادو مجھے نہیں جانے دے رہیں" منال نے اس کا ہاتھ پکڑ کر التجا کی۔

"ٹھیک ہے میں چلی جاتی ہوں ڈرائیور کے ساتھ" شزرا نے اس کے ہاتھ سے شرٹ لیتے ہوئے کہا۔

"شزرا ڈرائیور کو میں نے سامان لینے بھیجا ہے تم آزر کے ساتھ چلی جاؤ آزر بھی اسی طرف جا رہا ہے" تائی امی نے ان دونوں کی باتیں سن کے کہا آزر کا نام سن کے شزرا کے چہرے کا رنگ فق ہوا تھا اس نے گھبرا کے آزر کی طرف دیکھا جو موبائل کان پہ لگائے کسی سے باتوں میں مصروف تھے۔

"آپی آپ خود چلی جاؤ نہ میں کیسے اسے بتاؤں گی" شزرا نے منماتے ہوئے کہا آزر کا نام سن کے ہی اس کی روح فنا ہونے لگی تھی۔

"لڑکی تمہیں جانے میں کیا مسئلہ ہے آج منال گھر کے باہر نہیں جائے گی تم جا کے کروا کے لاؤ" دادو نے چشمے کے نیچے سے اسے گھورتے ہوئے کہا اب آزر ان لوگوں کی طرف ہی متوجہ تھے۔

"امی میرے پاس اتنا ٹائم نہیں ہے مجھے دیر ہو رہی ہے" آزر نے خشک لہجے میں کہا۔

"آزر پانچ منٹ کا تو کام ہے جاؤ شزرا صحیح کروا کے کے آؤ" تائی امی نے آزر کی بات نظر انداز کر کے شزرا سے کہا شزرا نے کانپتے ہاتھوں سے منال کی شرٹ پکڑ کے شاپر میں ڈال لی آزر بناء کچھ کہے باہر چلے گئے۔

شزرا باہر آئی تو آزر اس کا گاڑی میں ویٹ کر رہے تھے ان کی تیوریوں کے لا تعداد بل دور سے ہی نظر آ سکتے تھے اور اپنا دھڑکتا دل سنبھال کے فرنٹ ڈور کھول کے بیٹھ گئی اس کے بیٹھتے ہی آزر نے ایک جھٹکے سے گاڑی آگے بڑھائی۔دونوں کے بیچ خاموشی حائل تھی ٹھنڈی ہوا کھلے شیشوں سے اندر آرہی تھی شزرا کے لمبے بال اڑ کے آزر کے کندھے سے ٹچ ہو رہے تھے وہ بار بار ہاتھ سے انہیں سنبھال رہی تھی مگر ہوا پہ کس کا زور ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!

آزر کا دھیان بار بار بھٹک کے اس کی کھلی زلفوں میں الجھ جاتا اس کے بالوں سے اٹھنے والی خوشبو ان کے حواسوں پہ چھا رہی تھی انہوں نے اپنی کیفیت سے تنگ آکے ایک جھٹکے سے گاڑی روکی گاڑی کے ٹائر چرچرائے تھے۔

__________

گاڑی اس قدر شدید جھٹکے کے ساتھ رکی کہ شزرا کا سر ڈیش بورڈ پہ لگنے والا تھا مگر اس سے پہلے ہی آزر نے اس کا بازو پکڑ اس اسے سیدھا کیا وہ اس اچانک افتاد سے گھبرا گئی تھی آنکھوں میں سراسیمیگی لئے وہ انہیں حیرت سے تک رہی تھی ماتھے پہ بل ڈالے وہ شدت ضبط سے اسے دیکھ رہے تھے۔

وہ غصے میں گاڑی سے اترے اور باہر جا کھڑے ہوئے وہ کسی بھی طرح خود کو اسے کچھ بھی کہنے یا غصہ کرنے سے روک رہے تھے وہ شاید ضبط کے آخری مراحل پہ تھے شزرا کار کا لاک کھول کے باہر آئی آزر اس کی طرف پشت کئے کھڑے تھے اس نے ڈرتے ڈرتے انہیں پکارا۔

"آزر۔۔۔۔۔۔۔۔!!" آواز میں لرزش تھی انہوں نے پلٹ کے دیکھا ان کی آنکھوں میں بے پناہ محبت اور تکلیف کے آثار تھے وہ جیسے اندر ہی اندر ریزہ ریزہ ہو چکے تھے۔

"کیوں کر رہی ہو تم میرے ساتھ ایسا؟" آزر نے شزرا کا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسے گاڑے کے شیشے کے ساتھ لگایا یکدم ہی بادل گرج کے برسے تھے وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے نفرت سے اسے دیکھ رہے تھے شزرا سہم گئی تھی۔

وہ انہیں صرف خود سے دور نہیں بلکہ شاید انہیں موت سے روشناس کروا رہی تھی آزر نے جانا کہ محبوب جدا ہو تو دل پہ کیا گزرتی ہے۔

ارد گرد گرتی بارش کی بوندیں دونوں کو بھگو گئیں تھیں بارش نے شزرا کا مان رکھ لیا تھا اس کے آنسو بوندوں میں جذب ہو گئے تھے مگر یہ اس کی خام خیالی تھی کہ آزر اس کے آنسو اس بارش میں نہیں دیکھ سکتے وہ دیکھ رہے تھے اور غور بھی کر رہے تھے۔

شدید بارش نے ہر منظر دھندلا کردیا تھا وہ اب ٹھنڈ سے کانپ رہی تھی اسے کانپتے دیکھ کے آزر ہوش کی دنیا میں لوٹے۔

"گاڑی میں بیٹھو"انہوں نے نرمی سے کہا اور اس کے لئے ڈور کھولا وہ سردی کی شدت سے کانپتے ہوئے اندر بیٹھ گئی آزر نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے ہیٹر چلادیا انہیں نہیں سمجھ آرہا تھا وہ کیسے ری ایکٹ کریں وہ کیسے شزرا کو خود سے دور جانے دیں وہ خود کو بے بس محسوس کر رہے تھے انہوں نے خود ہی کہا تھا وہ شزرا کی رائے کا احترام کریں گے پھر اب کیوں ان کا دل بغاوت کر رہا تھا وہ آج جس مقام پہ تھے شاید ہی انہوں نے کبھی اس بارے میں سوچا ہوگا وہ ان کے سامنے تھے مگر اس پہ کوئی حق نہیں تھا انہوں نے جھنجھلا کے کار اسٹارٹ کی دونوں کے بیچ خاموشی حائل تھی بہت کچھ کہتی کوئی خاموشی۔۔۔۔۔!!!

شزرا کو گاڑی میں ہی چھوڑ کر وہ ٹیلر کو شرٹ دے آئے  تھے اس نے خود ہی گھر پہنچانے کا کہہ دیا تھا انہوں نے واپس گاڑی گھر کی جانب موڑ لی گھر پہنچ کر شزرا سیدھے اپنے روم میں جا چکی تھی آزر بھی اپنے روم میں چلے گئے۔

___________________

منگنی کی تقریب لان میں رکھی گئی تھی پورے لان کو گلابی اور سفید پھولوں سے سجایا گیا تھا ایک طرف بنا اسٹیج خوبصورتی میں اپنی مثال تھا اسٹیج پہ بھی گلابی اور سفید پھولوں کا استعمال کیا گیا تھا اسٹیج کے بیچ میں شاہانہ طرز کے صوفے رکھے تھے گیٹ سے لان میں آنے والی روش کو انتہائی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا سجاوٹ اپنی مثال آپ تھی۔

منگنی کی تقریب میں مہمان آنا شروع ہو چکے تھے دلاور صاحب اور امین صاحب استقبال کے لئے گیٹ پہ کھڑے تھے آزر بھی تیار ہو کے نیچے آگئے بلیک ٹیکسڈو میں وہ مردانہ وجاہت کا مکمل شاہکار تھے سلیقے سے سیٹ ہوئے بال اور ہلکی بڑھی ہوئی شیو مگر سرخ آنکھوں کے ساتھ نیچے موجود تھے۔

منال بھی تیار ہو کے اپنی روم میں موجود تھی شہر کی مشہور بیوٹیشن سے اس کا میک اوور کرایا گیا تھا گلابی رنگ کے لہنگے چولی میں ملبوس وہ کوئی اپسرا ہی لگ رہی تھی اس پہ ہلکا ہلکا میک اپ اور نازک سی جیولری نے چار چاند لگا دیئے تھے وہ آئینے کے سامنے تیار ہو کے بیٹھی تھی جب شزرا اس کے روم میں داخل ہوئی اس نے ایک نظر سجی سنوری منال کو دیکھا جس کے چہرے پہ قوس قزح کے رنگ بکھرے تھے۔

شزرا آزر کی لائی ہوئی پیچ کلر کی میکسی میں ملبوس اپنے لمبے بالوں کو کرل کئے کمر پہ پھیلا رکھے تھے اس پہ ہلکا سا میک اپ کسی کو بھی دل تھامنے پہ مجبور کردیتا مگر آنکھیں روئی روئی سی تھیں۔

اور منال کی طرف بڑھی اور آئینے میں نظر آتے اس کے عکس کو دیکھ کے اس کے چہرے پہ مسکان ابھری۔

"بہت پیاری لگ رہی ہیں آپ" شزرا نے مسکراتے ہوئے اس کی تعریف کی منال نے ایک آسودہ سی نظر شزرا پہ ڈالی۔

"تم بھی بہت پیاری لگ رہی ہو" اس نے اپنی چھوٹی بہن کو دیکھا جو آج کسی اور روپ میں ہی اس کے سامنے تھی۔

"آپ خوش ہو نہ آپی؟" شزرا نے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔

"بہت خوش ہوں" منال نے آئینے کے سامنے سے کھڑے ہوتے ہوئے کہا اور اس کے سامنے آکھڑی ہوئی۔

"پتا ہے شزرا میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا مجھے آزر اتنی آسانی سے مل جائیں گے" منال نے کھوئے کھوئے لہجے میں شزرا سے کہا اس کی بار سن کے شزرا کے دل میں ایک ہوک سی اٹھی یہ آسانی کوئی شزرا سے پوچھتا اس نے اپنے دل کو کیسے پتھر کیا تھا کیسے وہ اس راستے سے ہٹی تھی اس کے لئے تو کچھ بھی آسان نہیں تھا اس نے تو اپنی جان ماری تھی شزرا کا دل سنسنا اٹھا لب ہلنے سے انکاری تھے مگر اگلے ہی پل اس نے خود کو سنبھالا۔

"میری آپی ہیں ہی اتنی اچھی پھر کیسے کوئی انکار کر سکتا ہے" شزرا اس کا دوپٹہ درست کرتے ہوئے کہا ہاتھوں کی لرزش واضح تھی۔

"مگر مجھے کبھی کبھی لگتا ہے آزر کے دل میں میرے لئے کوئی جگہ نہیں" منال نے اپنی آنکھوں کی نمی چھپاتے ہوئے کہا شزرا کا دل کانپا تھا اس نے منال کی طرف دیکھا جس کے چہرے پہ چھائی آزردگی بہت کچھ کہہ رہی تھی اس نے آنکھیں جھپکا کے منال کو دیکھا ایک پل کے لئے وہ اجنبی ہوئی تھی۔زندگی اسے بے رحم معلوم ہوئی وہ اپنی ہی نظروں میں چور ہوئی تھی۔

"ایسی بات تو نہیں آپی" شزرا اس کے پاس سے ہٹ کر ڈریسنگ ٹیبل پہ بکھرا سامان سمیٹنے لگی جو شاید بکھرا ہوا نہیں تھا۔

"آزر کم گو ہیں تھوڑے سنجیدہ ہیں اس لئے شاید آپ کو لگا" شزرا نے آنکھوں میں آئی نمی آنکھیں جھپکا کے اپنے اندر انڈیلی۔ایک لمحے میں اسے اپنی یہ قربانی رائیگاں جاتی  محسوس ہوئی۔

کیا محبت اپنا روپ بدل رہی تھی اس نے تو آزر کا محبت بھرا روپ ہی دیکھا تھا اب یہ نفرت بھرا روپ بھی شاید وہ سمجھی اس کے لئے ہی تھا مگر یہاں وقت اپنی چال بدل رہا تھا اسے اپنا دل کانوں میں دھڑکتا محسوس ہوا۔

"منال آپی کو نیچے بلا رہے ہیں سب" سویرا نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا دونوں یکدم چپ ہوئی تھیں۔

"چلیں آپی" شزرا نے خود کو سنبھالتے ہوئے منال سے کہا۔

شزرا اور سویرا منال کو لے کہ نیچے آئیں تو لان مہمانوں سے بھرا تھا ہر طرف رنگ و بو کا سیلاب امڈ آیا تھا ہر چہرہ خوشی سے کھلا تھا سوائے دو نفوس کے جو شاید اپنی محبت کا ماتم منا رہے تھے۔

منال کو لا کے آزر کے برابر میں بٹھا دیا گیا آزر کے چہرے پہ سجی بیزاری کسی کی آنکھوں سے ڈھکی چھپی نہیں تھی آزر نے ایک  نظر شزرا کے سجے سنورے روپ کو دیکھا اس نے ان کا لایا ہوا جوڑا زیب تن کیا تھا وہ جانتے تھے شزرا اسے ضرور پہنے گی انہیں شزرا اپنے دل کے بہت قریب محسوس ہوئی۔

تائی امی نے آگے بڑھ کے آزر کے ہاتھوں میں منگنی کی انگوٹھی تھمائی آزر نے بے دلی سے منال کے ہاتھوں میں پہنادی برستے پھولوں میں منگنی کی  رسم ادا ہوئی۔

شزرا پھولوں کا تھال کے گھر کے اندر آئی تو اس کا سامنا برہان سے ہوا جو شاید اسی وقت باہر آرہا تھا۔

"کیسی ہو"برہان نے رک کر اس کے سجے سنورے سرتاپے کا جائزہ لیا۔

"ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں؟" شزرا نے چہرے پہ آئی لٹوں کو پیچھے کرتے ہوئے پوچھا۔

"بہت پیاری لگ رہی ہو" برہان نے جواب دینے کے بجائے اس کی تعریف کی شزرا نے ٹھٹھک کے اسے دیکھا مگر اخلاقیات نبھاتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کیا اور جانے لگی۔

"بات تو سنو" برہان نے اس کی راہ میں حائل ہوتے ہوئے کہا۔

"جی" شزرا نے اس کی طرف دیکھا برہان کچھ بولتا اس سے پہلے ہی آزر کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔

"شزرا کیا کر رہی ہو یہاں؟" آزر نے قریب آتے کاٹ دار نگاہوں سے شزرا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

"وہ میں۔۔۔۔۔یہ پھول" شزرا نے گھبرا کے آزر کی طرف دیکھا جو سنجیدہ چہرہ لئے اسی جو دیکھ رہے تھے۔

"جاؤ رکھو" آزر نے اسے کہا شزرا فورا وہاں سے چلی گئی۔

آزر نے برہان جو دیکھا جو چہرے پہ مسکراہٹ لئے انہی کو دیکھ رہے تھے۔

"کیا سمجھوں میں اس سب سے" برہان نے آزر کی طرف دیکھتے ہوئے طنزیہ لہجے میں کہا۔

"دور رہو شزرا سے" آزر نے انگلی اٹھا کر اسے وارن کیا۔

"کیوں دور رہوں؟" برہان نے بھی کاٹ دار لہجے میں کہا ایک پل کو آزر چپ ہوئے تھے۔

"شاید تم بھول رہے ہو تمہاری منگنی ہو چکی ہے تھوڑی دیر پہلے" برہان نے جیسے اسے یاد دہانی کروائی آزر نے تنفر سے اسے دیکھا 

" تو" ان کا یک لفظی جواب سن کے برہان کے ماتھے پہ بل پڑے۔

"تو یہ اب شزرا سے تم دور رہو" برہان نے قریب آکر ان کے کالر  سے نادیدہ گرد جھاڑی آزر کی مٹھیاں طیش سے بھینچ گئیں تھیں۔

"چند دنوں میں میرے پیرنٹس رشتہ لے کہ آجائیں گے شزرا کے لئے جو کرنا ہے کرلو" برہان نے طنزیہ کہا اور وہاں سے چلا گیا پیچھے آزر سنسناتے دماغ کے ساتھ اسے جاتا دیکھتے رہے غصے سے ان کی کنپٹی کی رگیں تن گئیں تھیں چہرہ سرخ ہو چکا تھا شزرا کے کسی کسی اور کا ہونے کا خیال ہی ان کے لئے جان لیوا تھا۔

کچھ دیر بعد شزرا واپس آتی دیکھائی دی وہ انہیں نظر انداز کر کے ان کے برابر سے گزری تو اس کا ہاتھ ان کے مضبوط شکنجے میں تھا آزر نے اس کا بازو سختی سے پکڑا اور اسے لے کہ اوپر کی طرف بڑھے شزرا ان سے اپنا ہاتھ چھڑواتی رہ گئی مگر وہ ان سنی کئے اسے لے کے اپنے روم میں آگئے اور اسے بیڈ پہ دھکا دیا۔

اب ایک پاؤں بیڈ پہ گھٹنے کے بل جھکے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں کی سخت انگلیوں میں دبوچا۔

"آپ۔۔۔۔۔!" شزرا کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے سیاہ کاجل اس کی آنکھوں سے بہہ رہا تھا ایسے جیسے اس کے بخت میں سیاہی بھر رہی تھی۔

"میں یہ منگنی ابھی ختم کر رہا ہوں" آزر نے طیش سے اسے جھٹکا دیتے ہوئے کہا یہ سن کے شزرا جیسے زمین کی گہرائیوں میں دفن ہوئی تھی۔

___________

وہ اسے وہیں چھوڑ کے غصے سے باہر کی طرف بڑھے شزرا جیسے ہوش کی دنیا میں واپس لوٹی اور لپک کے ان پیچھے گئی۔

"آپ ایسا کچھ نہیں کریں گے" اس نے کمرے سے باہر جاتے آزر کا بازو سختی سے پکڑا آزر نے ایک قہر زدہ نظر اس پہ ڈالی جو رو رہی تھی۔

بے تحاشا رو رہی تھی۔

اس سے ہاتھ چھڑا کے باہر جانے لگے۔

"آزر آپ کو خدا کا واسطہ ہے ایسا نہیں کریں" وہ ان کا مضبوطی سے ہاتھ تھامے فرش پہ بیٹھتی چلی گئی آزر کے بڑھتے قدم رکے تھے انہوں نے حیرت سے اپنے قدموں میں بیٹھی سر جھکائے گے تحاشا روتی اس لڑکی کی طرف دیکھا جس میں ان کی جان بستی تھی اور آج وہ ان کے سامنے کیسے ٹوٹ کے ریزہ ریزہ ہو رہی تھی وہ سرد سی نگاہوں سے اسے دیکھتے رہے پھر خود بھی اس کے سامنے فرش پہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے۔

"تم کیا سمجھتی ہو کر بار اپنے آنسوؤں سے یا ضد کر کے اپنی بات منوا لو گی" انہوں نے اس کا چہرہ اوپر کرتے ہوئے اس کے آنسو اپنی پوروں پہ چنتے ہوئے کہا وہ امید سے ان کی طرف دیکھ رہی تھی۔

"پلیز ایسا نہیں کریں میری آپی کو بہت دکھ ہوگا" وہ بولتے بولتے پھر رو پڑی اس کی ہچکیاں بندھ گئی تھیں آزر چہرے پہ سرد سے تاثرات لئے اسے دیکھ رہے تھے۔

"جو دکھ مجھے ہو رہا ہے اس بارے میں سوچا کبھی تم نے؟" شزرا نے ان کی آنکھوں میں نمی پھیلتی دیکھی تھی وہ بے اختیار نظریں چرانے پہ مجبور ہوئی۔

"میری بات کا جواب دو۔۔۔۔۔میرے دکھ کا اندازہ ہے تمہیں؟" انہوں نے اپنے لہجے کو ہموار کرتے ہوئے کہا شزرا سر جھکائے خاموشی سے فرش کو تک رہی تھی آزر نے اسے افسوس سے دیکھا اور ایک جھٹکے سے وہاں سے کھڑے ہوئے انہیں غصے میں کھڑے ہوتا دیکھ کے شزرا ان کے سامنے آکھڑی ہوئی۔

"آزر پلیز میری بہن کے ساتھ ایسا نہیں کریں۔۔۔۔وہ مر جائیں گی۔۔۔۔آپ جو بولیں گے میں کروں گی میں وعدہ کر رہی ہوں" شزرا نے ان کے یخ بستہ ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا چہرے کے سرد تاثرات کے ساتھ ان کے ہاتھ بھی سرد تھے شزرا کو یہ سردی اپنی رگ رگ میں دوڑتی محسوس ہوئی آزر نے ایک نظر اس کے روئے روئے سے چہرے پہ ڈالی جو رونے کی شدت سے سرخ ہو رہا تھا پھر اپنے دل کو ٹٹولا وہ کیوں اس قدر کٹھور ہو رہے تھے اس کی یہ حالت دیکھ کے ان کے دل نے انہیں ملامت کی وہ ہر بار اس کے سامنے ہار جاتے تھے وہ اپنی تمام باتیں ان سے منوالیتی تھی اس بار بھی وہ منوا چکی تھی وہ تھک ہار کے جا کے صوفے پہ بیٹھ کہ اپنا اشتعال دبانے کی کوشش کرنے لگے۔

برہان کی زبان سے شزرا کا نام سن کے وہ اپنے آپ میں نہیں رہے تھے شزرا پہ کسی اور کا حق ہونے کے خیال نے ہی ان کی روح تک کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا تھا۔

شزرا ان کے سامنے زمین پہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور ان کے سرد ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لئے اس کی کلائیوں سے ہلکا ہلکا خون رس رہا تھا آزر کی سخت گرفت کی وجہ سے اس کی چوڑیاں ٹوٹ کے کلائی میں چبھ گئی تھیں مگر وہ اپنی ہر تکلیف سے بے نیاز تھی۔

"آپ مجھ سے وعدہ کریں" اس نے آزر کی سرخ آنکھوں میں جھانکتے نم لہجے میں کہا اس کا ٹوٹا بکھرا لہجہ اپنی الگ ہی کہانی بیان کر رہا تھا۔

"تمہارا ہاتھ" آزر نے تڑپ کے اس کے زخموں پہ اپنا ہاتھ رکھا اس نے ضبط سے نچلا ہونٹ دانتوں تلے دبا لیا آنکھوں سے اشک رواں ہو گئے۔

"آپ آپی کو کبھی کوئی تکلیف نہیں دیں گے" اس نے ان کی بات نظر انداز کر کے کہا وہ کمال ضبط سے اپنی تکلیف چھپا گئی تھی۔

"میں کبھی جان کے ایسا نہیں کروں گا" آزر نے اسے نظریں چراتے ہوئے کہا اور اپنی جیب سے رومال نکال کے اس کے زخموں پہ ابھرا خون صاف کرنے لگے وہ ایک بات پھر تکلیف سے دو چار ہوئی وہ اس بار تکلیف کی وجہ نہیں جان پائی۔

"انجانے میں بھی نہیں" اس نے ضدی لہجے میں کہا آزر نے ایک نظر اسے دیکھا۔

اس کے زخموں پہ لگا خون صاف ہو چکا تھا وہ اب اس کے ہاتھ میں پہنی کانچ کی چوڑیاں اتارنے لگے۔

کیونکہ جب تک وہ یہ چوڑیاں پہنی رہتی اس کا زخم ہرا ہوتا رہتا۔

شزرا نے آزر کو اپنے ہاتھوں سے چوڑیاں اتارتے دیکھا وہ پل بھر کو ٹھٹکی تھی۔

آزر نے وہ وجہ ہی ختم کردی تھی جس کہ وجہ سے اسے زخم لگا تھا اور دوبارہ اس کا زخم ہرا ہوتا۔

لمحے کے ہزارویں حصے میں اس نے خود کو آزر کی زندگی سے دور لے جانا چاہا۔

وہ بھی تو ٹوٹ گئی تھی انہیں کانچ کی چوڑیوں کی طرح اور اب آزر کا زخم ہرا کر رہی تھی۔

اس نے کمرے میں اردگرد پھیلی کانچ کی چوڑیوں کی جانب نگاہ دوڑائی وہ سن سی ہوئی تھی ہر طرف ٹوٹیں ہوئی چوڑیاں بکھری تھیں جو اب بھی اسے تکلیف پہنچا سکتی تھیں۔

آزر اب اس کے ہاتھ پہ کوئی مرہم لگا رہے تھے اور خالی خالی نگاہوں سے بیٹھی انہیں تک رہی تھی۔

"تم بھی ایک وعدہ کرو" آزر کی سپاٹ سی آواز اسے سنائی دی۔

"جی" اس کے منہ سے صرف اتنا ہی نکل سکا۔

"تم صرف میری ہو کسی اور کا تم پہ کوئی حق نہیں ہے" سرد و سپاٹ لہجے میں بولتے ہوئے پتا نہیں وہ وعدہ لے رہے تھے یا اسے باور کرا رہے تھے۔

"وعدہ کرو" اس وقت وہ شزرا کو صحیح معنوں میں کھونے کے ڈر سے گزر رہے تھے۔

"لیکن آزر" شزرا نے کچھ بولنا چاہا۔

"ٹھیک ہے میں ابھی جا کے یہ منگنی ختم کردوں گا" انہوں نے سفاک لہجے میں کہا شزرا نے بے یقینی سے انہیں دیکھا یہ وہ آزر تو نہیں۔ تھے جن سے اس نے پیار کیا تھا یہ شخص تو کوئی اور ہی تھا اپنی محبت میں کر حد پار کردینے والا اس نے کرب سے آنکھیں میچ لیں۔

"ٹھیک ہے وعدہ" اس نے سر جھکائے آنسو ضبط کرتے ہوئے کہا۔

آزر نہیں جانتے تھے کہ وہ اب محبت میں خود غرض ہو چکے ہیں وہ سمجھ رہے تھے کہ اسے اس وعدے میں باندھ کے اسے ہمیشہ اپنے پاس رکھیں گے اسے کبھی خود سے دور نہیں جانے دیں گے اسے برہان سے دور کر لیں گے مگر یہ سب کی خام خیالی ثابت ہونے والی تھی کیونکہ آج تک قسمت پہ کسی کا زور نہیں چلا ہے۔

قسمت تو جب ناچ نچانے پہ آئے تو کٹھ پتلی بنا کے اپنی مرضی سے جہاں چاہے نچادے۔

ابھی آزر قسمت کی اس ستم ظریفی سے بے خبر تھے۔

"اپنا حلیہ درست کر کے نیچے آؤ" آزر نے اس کے گال پہ بہتے آنسو دیکھ کے نرمی سے کہا اور اٹھ کے چلے گئے وہ خاموشی سے انہیں جاتا دیکھتی رہی۔

شزرا نے ان کے جانے کے بعد آٹھ کے آئینے میں ایک نظر خود کو دیکھا پل بھر میں جیسے وہ اجڑ گئی تھی اسے اپنے چہرے کے نقوش مٹتے ہوئے محسوس ہوئے اس نے اپنا میک اپ ٹھیک کیا اپنے زخمی ہاتھوں کو دوپٹے کے نیچے چھپایا اور چہرے پہ ایک نرم سی مسکراہٹ سجا کے نیچے چلی گئی کوئی نہیں جان سکتا تھا کہ اس کے دل پہ کیا گزری ہے وہ سب کے بیچ ایک بار پھر ہنستی مسکراتی موجود تھی۔

وہاں موجود برہان اسے دیکھ کے الجھ سا گیا تھا کچھ تھا جو ان سب کی نظروں سے چھپایا جا رہا تھا۔

آزر جس طرح اسے گھسیٹ کے لے کہ گیا تھا وہ برہان کی نگاہوں سے چھپا نہ رہ سکا تھا۔

مگر وہ خاموش تھا اسی اثناء میں اس کی نظر شزرا کے دوپٹے میں سے جھلکتے اس کے ہاتھ پہ پڑی وہ پلکیں جھپکنا بھول گیا اس کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا شزرا کے ہاتھوں پہ جا بجا زخموں کے نشان تھے وہ تیزی سے شزرا کی طرف بڑھا۔

شزرا ایک کونے میں خاموش بیٹھی تھی وہ اس کے سامنے جا کے بیٹھ گیا اسے دیکھ کے شزرا یکدم گھبرا کے کھڑی ہوئی۔

"شزرا میری بات سنو" برہان نے نرمی سے کہا مگر شزرا کے ماتھے پہ چمکتے ٹھنڈے پسینے کے قطرے اس کی نگاہوں سے چھپے نہ رہ سکے مگر شزرا وہاں رکنا نہیں چاہتی تھی۔

"شزرا بس دو منٹ کے لئے بیٹھو" اس بار برہان نے سختی سے کہا وہ نہ چاہتے ہوئے بھی بیٹھ گئی۔

شزرا کو اندازہ ہو گیا تھا کہ آزر کا یہ رویہ برہان کء ساتھ بات کرنے سے تھا مگر اب تو برہان نے اسے محفل میں مخاطب کیا تھا وہ نہیں جانتی تھی کہ آزر کب آپے سے باہر ہو جائیں مگر اس وقت آزر اسے کہیں نظر نہ آئے وہ جیسے زبردستی بیٹھ گئی۔

"یہ کیا ہوا کے تمہارے ہاتھوں پہ؟" برہان نے کسی لگی لپٹی کے بغیر اس کے ہاتھوں کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔

"کک۔۔۔کچھ نہیں" وہ اس اچانک افتاد سے گھبرا گئی۔

" یہ آزر نے کیا ہے؟" دوسرا سوال پہلے سے بھی زیادہ غیر متوقع تھا وہ اب صحیح معنوں میں ڈری تھی اس کی زبان نے اس کا ساتھ نہ دیا وہ بس بے بسی سے برہان کو دیکھ کے رہ گئی۔

"میں کچھ پوچھ رہا ہوں شزرا" اس بار برہان نے قدرے سختی سے کہا ابھی آزر کے رویے سے وہ ٹھیک طور پہ سنبھلی نہ تھی کہ اب برہان۔۔۔۔۔!!!!

"وہ میں گر گئی تھی" شزرا نے اس کی طرف دیکھے بغیر جھوٹ کا سہارا لیا وہ گہرا سانس کھینچ کے رہ گیا۔

"میں جانتا ہوں یہ سب آزر نے کیا ہے" برہان نے پورے وثوق سے کہا  شزرا کی آنکھوں سے موتی ٹوٹ کے گرنے لگے اس نے فوراً اردگرد دیکھا مگر سب اپنی ہی موج میں مگن تھے۔

"میں آپ کو بول رہی ہوں میں گر گئی تھی تو آپ یقین کیوں نہیں کر رہے" اس بار شزرا نے قدرے ترش لہجے میں کہا اور اٹھ کے وہاں سے چلی گئی مگر اس کا جیسے باہر آنے کو بیتاب تھا۔

تقریب ختم ہوئی تو شزرا نے سکھ کا سانس لیا اور فورا اپنے کمرے میں چلی گئی اسے کچھ دیر تنہا رہنا تھا آج اس کے اعصاب بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکے تھے۔

آج آزر کا رویہ اسے بری طرح توڑ چکا تھا وہ اب بھی صدمے اور بے یقینی کی کیفیت میں گھری بیٹھی تھی پہلے آزر کا رویہ اور پھر برہان وہ جیسے اپنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں کھوتی جا رہی تھی۔

وہ اٹھ کے کپڑے چینج کرنے چلی گئی وہ چینج کر کے اور منہ ہاتھ دھو کے ہاہر آئی تو اس نے آزر کا اپنا منتظر پایا وہ خاموشی سے انہیں تکتی رہ گئی۔

" یہ میڈیسن لے کو دودھ کے ساتھ" آزر نے سائڈ ٹیبل پہ پہن کلر اور دودھ کا گلاس رکھتے ہوئے کہا اور اس کی طرف دیکھے بغیر اس کے روم سے چلے گئے۔

آزر نے اپنے روم میں آکے جیسے ڈھے سے گئے آج انہوں نے شزرا کو بہت تکلیف دی تھی وہ جانتے تھے مگر یہ اس تکلیف سے بہت کم تھی جو وہ سہہ رہے تھے ٹھنڈے پانی سے شاور مے کہ انہوں نے خود کو کافی حد تک ریلیکس کیا وہ بھی اعصابی طور پہ بے حد تھک چکے تھے بس اب سونا چاہتے تھے مگر نیند ہی آنکھوں سے جیسے روٹھ گئی تھی ان کی نظروں میں بار بار شزرا کے آنسو آکے ٹہر جاتے اور وہ بے چین ہو جاتے بالآخر نیند بھی ان پہ مہربان ہو ہی گئی۔

__________

اگلے کچھ دن خاموشی کی نظر ہوئے تھے شزرا اور آزر دونوں ہی ایک دوسرے سے بچتے پھرتے دونوں حتی الامکان کوشش کرتے ایک دوسرے سے سامنا نہ ہو مگر ایک گھر میں رہتے ہوئے یہ ممکن نہیں تھا مگر شزرا نے اس ناممکن کو ممکن بنا لیا تھا اب وہ آزر کی موجودگی میں اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلتی اس بات کو آزر شدت سے محسوس کرتے تھے۔

ان کے منگنی والے دن کے رویے کے بعد شزرا ان سے بہت دور چکی گئی تھی اتنا دور کہ وہ سامنے بیٹھی ہوتی ہو بھی میلوں کے فاصلے پہ لگتی مگر اب یہ فاصلہ پار کرنا آسان نہیں تھا۔

وہ صبح بھی ایک عام سی صبح تھی مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ رات ہوتے ہوتے اپنے ساتھ کتنے ہنگامے لائے گی۔

صبح سے ہی شزرا کا دل جیسے کسی انہونی کا پتہ دے رہا تھا۔

آزر کے ماموں مامی کی دوپہر میں کال آئی تھی کہ وہ رات تک آئیں گے کچھ ضروری بات ہے۔

بس جب سے ہی شزرا کا دل ہول رہا تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس منظر سے وہ خود کو غائب کر لے۔اس کا دل جس خدشے کے تحت دھڑک رہا تھا وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ خدشہ صحیح ثابت ہو پھر آزر کو سنبھالنا اس کے بس سے باہر تھا۔

ابھی بھی وہ پریشانی کے عالم میں بھری دوپہر میں گھر کے پچھلے باغ میں بنی چھت پہ جاتی سیڑھیوں پہ سر جھکائے بیٹھی تھی۔

"شزرا تم یہاں بیٹھی ہو میں نے تمہیں پورے گھر میں ڈھونڈ لیا" منال نے گھر کے پچھلے میں شزرا کو خاموشی بیٹھے دیکھ کے کہا۔

"جی آپی کوئی کام تھا" شزرا فورا سیدھی ہو بیٹھی۔

"نہیں۔۔۔کوئی کام نہیں تھا۔۔۔۔بلکہ سب کاموں سے فارغ ہو کے تمہیں ڈھونڈ رہی تھی" منال نے مسکرا کے کہا اور اس کے برابر میں بیٹھ گئی۔

"ہہمم۔۔۔۔" شزرا نے اثبات میں سر ہلا کے نظریں سامنے کھڑے درخت پہ جما دیں جہاں پرندوں کے بے شمار گھونسلے تھے مگر زیادہ تر شاید خالی تھے اکا دکا گھونسلوں میں سے ان کے بچوں کے چہچہانے کی آواز آجاتی جو اس بھری دوپہر میں نہایت بھلی لگ رہی تھی۔

پھر اس نے کسی پرندے کی درد تکلیف سے کراہنے کی آواز سنی وہ بے چین ہو اٹھی۔

"آپی یہاں کوئی پرندہ درد سے کراہ رہا ہے" اس نے اس پیڑ کی سمت دیکھتے ہوئے بے چینی سے کہا۔

"ہم کچھ نہیں کر سکتے ان کے لئے اگر ہم قریب بھی گئے تو چیل کوئے ہمیں ہی نقصان پہنچائیں گے" منال نے سرسری لہجے میں کہا۔

وہ صرف اسے دیکھ کے رہ گئی۔

وہ بھی تو درد سے کراہ رہی تھی اور منال بے نیاز تھی اسے خبر ہی نہیں تھی کہ شزرا کے دل پہ کیا گزر رہی ہے اسی طرح منال اس پرندے کے دکھ سے بھی بے خبر تھی۔

وہ اتنی بے خبر کیسے ہو سکتی تھی۔

اس کا دل یکدم ہی دکھ سے بھر گیا۔

"آپی کیا آپ کو اس پرندے کی تکلیف محسوس نہیں ہو رہی؟" اس نے ایک موہوم سی امید کے تحت پوچھا پتہ نہیں وہ کہا سننا چاہتی تھی وہ کہا پوچھ رہی تھی۔

وہ اس وقت اس پرندے کی جگہ خود کو محسوس کر رہی تھی وہ سننا چاہتی تھی کہ ہاں منال کو اس کا درد محسوس ہوتا ہے وہ اپنی محبت میں اس کی ذات سے بے خبر نہیں ہوئی ہے۔

مگر دوسری طرف بے نیازی تھی۔

"شزرا اس پرندے کے لئے ہم کیا خود کو مشکل میں ڈالیں" منال اس کے بے سروپا سوالات سے عاجز آ چکی تھی۔

"کیوں کیا ہم کسی دوسرے کے لئے خود کو مشکل میں نہیں ڈال سکتے" اس نے ایک موہوم سی امید کے تحت ایک اور سوال کیا۔

"ڈال سکتے ہیں۔۔۔بلکل ڈال سکتے ہیں" منال نے چمکتی آنکھوں سے کہا اور اٹھ کے اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔

"مگر ہمیں یہ بھی تو یقین ہو کہ ہمارا یہ عمل سامنے والے کے لئے خوشی کا باعث بنے گا۔۔۔۔۔ہم اپنی بیوقوفی میں کوئی غلطی تو نہیں کرنے جا رہے۔۔۔۔۔جسے ہم بھلائی سمجھ رہے ہیں کہیں وہ سامنے والے کے لئے مشکل نہ کھڑی کردے" منال آرام  سے اسے سمجھا رہی تھی اور شزرا کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھا کر اسے لے کہ تھوڑا آگے بڑھی۔

"یہ دیکھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" اس نے قدرے نیچی ڈالی پہ بنے ایک گھونسلے کی طرف اشارہ کیا غالباً یہں سے آواز سے آرہی تھی وہ کسی کبوتر کا گھونسلہ تھا وہاں کوئی درد سے نہیں کراہ رہا تھا بلکہ وہ چھوٹے چھوٹے بناء پروں کے بچے ایک دوسرے سے کھیلنے میں مصروف تھے۔

"شاید پل بھر کو کوئی رویا ہو مگر اگلے ہی پل یہ پھر سب بھول بھال کے کھیلنے میں مگن ہیں" منال نے شزرا کے چہرے کی طرف بغور دیکھتے ہوئے کہا شزرا سن سی کھڑی یہ سب دیکھ رہی تھی۔

"اگر ہم اپنے جوش میں گھونسلہ ڈھونڈنے کھڑے ہوتے تو نہ جانے کتنے پرندوں کو اڑا دیتے مگر جب غور کیا تو یہ آواز یہاں سے آرہی تھی" منال بول تھی اور وہ سن رہی تھی اور صرف سن ہی رہی تھی اس کا دماغ کچھ نہیں سوچ رہا تھا۔

اسے منال کی باتشسن کے ایک پل کو یہ لگا کے اس نے شاید جلدی میں کوئی غلط فیصلہ کرلیا ہے اسی بات پہ اس کا دل کچھ پلوں کے لئے دھڑکنا بھولا مگر اگلے ہی پل اس نے خود کو تسلی دی تھی کہ شاید آزر کا رویہ شروع میں تھوڑا خراب رہے پھر شاید وہ سب کچھ بھول کر اپنی زندگی میں مگن ہو جائیں۔

اس کے دل سے منال کے ہمیشہ خوش رہنے کی دعا نکلی تھی۔

_______________________________

رات میں آزر کے ماموں مامی اور سویرا ان کے گھر آکے تھے برہان ساتھ نہیں آیا تھا۔

شزرا کا دل پل پل سمٹ کے مٹھی میں آرہا تھا مگر وہ خود کو سنبھالے ادھر اُدھر مصروف تھی۔

اس وقت بھی سب ڈرائینگ روم میں بیٹھے باتیں کرنے میں مصروف تھے اور شزرا کچن میں منال کا ہاتھ بٹا رہی تھی اسی اثناء میں آزر اسے آفس سے آتے دیکھائی دیئے وہ سیدھا اپنے روم کی طرف بڑھے مگر ڈرائینگ روم سے آتی آوازوں نے ان کے قدم جکڑ لئے وہ اپنے روم میں جانے کے بجائے کچن کی طرف آگئے۔

"کوئی آیا ہے کیا گھر میں؟" انہوں نے شزرا کو نظر انداز کر کے منال کو مخاطب کیا اور فریج سے پانی کی بوتل نکال کر گلاس میں پانی انڈیلنے لگے۔

"جی وہ آپ کے ماموں مامی آئے ہیں" منال نے جواب دیا۔یہ پہلا موقع تھا جب آزر نے خود سے منگنی کے بعد منال کو مخاطب کیا تھا۔

شاید گلاس میں سے پانی چھلکا تھا انہوں نے ایک قہر زدہ نظر شزرا کے جھکے سر پہ ڈالی جو کانپتے ہاتھوں سے سلاد کے لئے سبزیاں کاٹنے میں مصروف تھی اس نے آزر کی نگاہیں خود پہ محسوس کر لی تھیں گھبراہٹ میں یکدم ہی اس کی انگلی میں گہرا کٹ لگا۔

"آہ۔۔۔۔" اس کے منہ سے کراہ نکلی آزر پانی کا گلاس چھوڑ کر فوراً اس کی طرف بڑھے زخم کافی گہرا لگا تھا اس کی انگلی سے خون بھل بھل بہہ رہا تھا۔

"منال فرسٹ ایڈ باکس لے آؤ" انہوں نے شزرا کے زخم کو بغور دیکھتے ہوئے کہا منال گھبرا کے جلدی سے کچن سے نکل کر باکس لینے چلی گئی۔شزرا نے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی مگر انہوں نے گرفت مضبوط کردی۔

"پلیز چھوڑیں میرا ہاتھ" اس نے بھیگے لہجے میں کہا۔

"منال کو آنے دو زخم گہرا ہے" انہوں نے رسان سے کہا اور ٹشو پیپر سے اس کے ہاتھ سے بہتا خون صاف کر نے لگے۔

"آج تمہارا زخم دیکھ کے مجھے تکلیف نہیں ہو رہی" آزر نے ایک تلخ سی مسکراہٹ کے ساتھ سرد و سپاٹ لہجے میں کہا۔ان کی بات پہ شزرا کے دل میں ایک ٹیس سی اٹھی۔

اسے کیوں درد ہو رہا تھا وہ یہی تو چاہتی تھی کہ آزر اس کے راستے سے ہٹ جائیں اس سے محبت نہ کریں تو کیوں اس کی آنکھیں بھیگی ہیں۔

"اچھی بات ہے نہ" اگلے ہی پل اس نے خود خود کو سنبھال کے ان کی طرف دیکھتے ہوئے نرمی سے کہا جیسے کوئی معمول کی بات کی گئی ہو۔وہ پل بھر کو ششدر ہوئے۔

کیا سامنے کھڑی لڑکی اتنی ہی ظالم تھی کہ اسے ان کی آنکھوں سے چھلکتی محبت نہیں دیکھ رہی تھی۔وہ پلک تک نہ جھپک سکے۔

"تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا اس بات سے تو یہ آنسو کیوں؟" انہوں نے اس کی پلکوں کے کنارے پہ اٹکا موتی اپنی پوروں پہ چنتے ہوئے  نرمی سے کہا مگر شزرا کو ان کا لہجہ تمسخر اڑاتا لگا۔مگر وہ تو اس کے چہرے پہ کسی دکھ کی تحریر پڑھنے کی کوشش کر رہے تھے مگر وہاں اجنبیت کے سوا کچھ نہیں تھا۔

"لیں یہ فرسٹ ایڈ باکس" منال نے کچن میں آتے ہی باکس ان کے سامنے کیا۔

"تم کردو" انہوں نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا اور وہاں سے لمبے لمبے ڈنگ بھرتے چلے گئے۔وہ ان کے قدموں کی مخصوص چاپ کو خود سے دور ہوتا محسوس کرتی رہی۔

وہ دونوں چائے لے کہ ڈرائنگ روم میں گئیں تو سب بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے وہ دونوں سب کو چائے سرو کرنے لگیں۔

اسی اثناء میں آزر بھی آگئے وہ آکے امین صاحب کے برابر میں بیٹھ گئے۔

"شزرا بیٹی ادھر آؤ" آزر کی مامی نے جہاں آرا بیگم نے پیار سے شزرا کو اپنے پاس بلایا۔

شزرا کو سمجھ نہیں آیا انہوں نے کیوں اسے اپنے پاس بلایا ہے لیکن وہ جا کے ان کے برابر میں بیٹھ گئی۔

"بھائی صاحب اگر آپ لوگوں کا جواب ہاں میں ہوا تو ہمیں بہت خوشی ہوگی" انہوں نے امین صاحب اور دلاور صاحب کو مخاطب کر کے کہا اور شزرا کے ہاتھ پہ پیسے رکھے۔

شزرا کو اپنے قدموں مے نیچے سے زمین ہلتی محسوس ہوئی اس کا ڈر اس مے سامنے آکھڑا ہوا وہ ساکت سی نگاہوں سے اپنے ہاتھوں پہ رکھے شگون کے پیسوں کو دیکھ رہی تھی۔اس نے بے چینی سے پہلو بدلا۔اسے لگا اس کے حواس اس کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ نظر اٹھا کر سامنے صوفے پہ بیٹھے آزر کی طرف دیکھ لیتی۔

دوسری جانب آزر کے دل و دماغ میں بجلیاں سی کوند گئیں وہ حیرت و بے یقینی کی تصویر بنے بیٹھے تھے۔

اس کی نظریں صرف آزر کے قدموں پہ جمی تھیں پھر اس نے ان قدموں کو وہاں سے جاتے دیکھا کچھ دیر بعد وہ بھی اٹھ کے اپنے روم میں آگئی۔

آنسو تواتر سے بہنے لگے کچھ ہی دیر میں جانے کتنے آنسو نکل کر بے مول ہوئے تھے۔

رات کے دو بج رہے تھے مگر آزر گھر نہیں لوٹے تھے۔

جانے کہاں کہاں کی خاک چھان رہے تھے۔

پچھلے کئ گھنٹوں سے وہ مسلسل گاڑی سڑکوں پہ دوڑا رہے تھے ان کے دماغ میں اس وقت جھکڑ چل رہے تھے۔

ان کی آنکھیں اس وقت لہو رنگ تھیں۔

کسی بہت اپنے کو کھونے کا دکھ کیا ہوتا ہے یہ کوئی آزر سے پوچھتا جو پل پل اس اذیت سے گزر رہے تھے۔

کچھ دیر بعد وہ گھر پہنچے تو سب سو چکے تھے گھر میں سناٹا طاری تھا مگر جب شزرا کے روم کے سامنے سے گزرنے لگے تو اندر سے رونے اور سسکنے کی آوازیں آرہی تھیں وہ بلا ارادہ ہی دروازہ کھول کر اندر بڑھے مگر اگلے ہی پل سامنے کا منظر دیکھ کے دنگ رہ گئے۔

جاری ہے


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Wahshat E Ishq  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Wahshat E Ishq  written by Rimsha Mehnaz  . Wahshat E Ishq    by Rimsha Mehnaz  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link


No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages