Wahshat E Ishq By Rimsha Mehnaz Urdu Novel Episode 9 to 10 - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Friday 10 February 2023

Wahshat E Ishq By Rimsha Mehnaz Urdu Novel Episode 9 to 10

Wahshat E Ishq By Rimsha Mehnaz Urdu Novel Episode 9 to 10

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Wahshat E Ishq By Rimsha Mehnaz Episode 9'10

Novel Name: Wahshat E Ishq 

Writer Name: Rimsha Mehnaz 

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

اس سے کچھ دوری پہ آزر اپنے کمرے میں بیٹھے سگریٹ پہ سگریٹ پھونک رہے تھے انہوں نے آج تک ان چیزوں کو کبھی ہاتھ نہیں لگایا مگر اب ان گزرے دنوں میں کثرت سے سگریٹ نوشی کر رہے تھے شاید وہ اپنا غم غلط کرنی کی کوششوں میں مصروف تھے مگر وہ نہیں جانتے تھے یہ عشق کا آسیب ہے جو جان تو لے لیتا ہے مگر جان نہیں چھوڑتا۔

ان کی آنکھیں لہو رنگ تھیں شاید ان میں ٹھکرائے جانے کا غم واضح تھا وہ کیسے اپنی محبت سے دستبردار ہو جاتے مگر اب ان کی انا انہی شزرا کی طرف واپس پلٹنے سے روک رہی تھی شاید اب یہ غصہ نفرت میں بدل رہا تھا ہر گزرتا لمحہ شزرا سے نفرت میں اضافہ کر رہا تھا۔

___________________________

دن یونہی پر لگا کے اڑتے گئے آخر کار منگنی کا دن بھی آن پہنچا صبح سے ہی سب لوگ منگنی کی تیاری میں مصروف تھے۔

شزرا کی آنکھ کھلی تو اسے اپنا سر بھاری محسوس ہوا اسے لگا آج وہ معمول سے زیادہ سوتی رہی ہے اس نے گردن گھما کے گھڑی میں ٹائم دیکھا تو گھڑی دن کے گیارہ بجا رہی تھی وہ مضمحل وجود کے ساتھ اٹھ بیٹھی کھڑکی کے پٹ کھلے تھے اور ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اس کے چہرے سے ٹکرائے اس نے آسمان کی طرف دیکھا تو کالے بادل آسمان پہ بسیرا کئے سورج کو ڈھانپے ہوئے تھے ماحول میں ایک عجیب سا حبس تھا اس کا دل بھر آیا آج آزر کسی اور کے ہونے جا رہے تھے اور اسے اپنے چہرے پہ مسکراہٹ سجائے سب کے ساتھ موجود ہونا تھا اس سے تو رونے کا حق بھی چھین لیا گیا تھا یا اس نے خود ہی اپنا حق لینے سے انکار کردیا تھا۔

کمرے میں ملگجا سا اندھیرا چھایا تھا مگر اس اندھیرے میں کھڑی شزرا آزر کو بخوبی دیکھائی دے رہی تھی اس کے ایک ہاتھ میں چھری تھی جس سے وہ اپنی کلائی کی نس کاٹنے والی تھی آزر نے فوراً آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے چھری لے کے دور پھینکی اس اچانک افتاد سے شزرا گھبرا گئی وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے آزر کو دیکھ رہی تھی۔

یکدم ہی آزر کا ہاتھ اٹھا اور اس کے گال پہ اپنے نشان چھوڑ گیا وہ سن سی کھڑی رہی اس کے پتھر کے وجود میں جنبش تک نہ ہوئی آزر کو کسی مجسمے کا گمان ہوا۔

"کیا کرنے جا رہی تھیں یہ تم" انہوں نے غصے سے اس کے دونوں بازو پکڑ کر جھنجھوڑے۔

"خودکشی کرنے جا رہی تھیں۔۔۔پہلے ایک کام کرو مجھے مار دو پھر کرتی رہنا اپنی مرضی" ان کا غصہ کسی صورت کم نہیں ہو رہا تھا وہ اس پہ بری طرح برس رہے تھے اور وہ یک ٹک ان کا چہرہ دیکھ رہی تھی اس کی آنکھیں خالی تھیں۔

آزر نے اسے چھوڑا اور اپنے چہرے پہ ہاتھ پھیر کر خود کو کمپوز کرنے لگے۔

یہ بات سوچ کر ہی دل باہر آنے کو بیتاب تھا کہ اگر وہ تھوڑی سی دیر اور لیٹ ہو جاتے تو پتہ نہیں کیا ہوتا۔

شزرا کو لگا اس کے جسم سے جان ختم ہوتی جا رہی ہے وہ وہیں بیٹھتی چلی گئی۔

شزرا ٹھنڈے فرش پہ گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھی پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔آزر تیزی سے اس کی جانب بڑھے اور اس کے سامنے گھٹنوں نے بل بیٹھ کے اسے دھیرے سے پکارا۔

"شزرا ۔۔۔۔۔۔۔!!" اس نے بے اختیار سر اٹھا کے دیکھا۔

وہ رات بہت سرد سی تھی ہوا ہڈیوں میں گھستی محسوس ہو رہی تھی۔

کھڑکی سے چاند کی روشنی چھن چھن کے اندر آرہی تھی۔شزرا نے سر اٹھا کے دیکھا تو اس کا چہرہ چاندنی کے ہالے میں چمکتا محسوس ہوا آزر پل بھر کو اتنا مکمل حسن دیکھ کے مبہوت ہوئے تھے انہوں نے بے اختیار ہاتھ بڑھا کر اس کے چہرے پہ بکھرے بالوں کو پیچھے کیا۔

کمرے میں مدھم سا اندھیرا پھیلا ہوا تھا مگر شزرا کو یہ مدھم سا اندھیرا بھی بہت گہرا محسوس ہو رہا تھا اسے لگ رہا تھا کہ یہ اندھیرا اس کے رگ و پے میں پیوست ہو چکا ہے۔

"کیوں کیا تم نے یہ سب؟" اس کی سماعتوں سے آزر کی مدھم آواز ٹکرائی۔

"پتا نہیں " اس نے چہرہ دوسری طرف موڑ کے گالوں پہ بہتے آنسو پونچھے۔

"شزرا تم مجھے تکلیف دے رہی ہو" آزر نے اس وقت خود کو بے بسی کی آخری حدوں پہ محسوس کیا۔

"نہیں اب مجھے تکلیف ہونے سے آپ کو درد محسوس نہیں ہوتا" اس نے جیسے ان کو یاد دلایا اس کی صرف آنکھیں ہی نہیں لہجہ بھی بھیگا ہوا تھا۔

"مجھے ہمیشہ لگتا ہے میں تمہارے سامنے ہار جاتا ہوں" آزر نے اس کی یخ بستہ ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا وہ ڈبڈباتی آنکھوں سے انہیں دیکھ رہی تھی وہ چند لمحے اس کے چہرے پہ نظریں جمائے بیٹھے رہے۔

"آپ جانتے ہیں میں آپ کو کبھی ہارتا ہوا نہیں دیکھ سکتی" اس نے ان کی مضمحل چہرے پہ نظریں جمائے قطیعت سے کہا آنسو آنکھوں سے نکل کر گالوں پہ بہہ رہے تھے۔

"تم ہرا چکی ہے ہو۔۔۔۔ایک ایسی ہار جس کے بعد جیت کبھی میرا مقدر نہیں بنے گے" وہ ٹوٹے ہوئے لہجے میں بول رہے اسے اپنا آپ کسی گہری کھائی میں محسوس ہوا۔

"میرے دل میں تو اب جیتنے کی خواہش بھی نہیں رہی" ایک آنسو پلکوں سے ٹوٹ کر شزرا کے ہاتھ کی پشت پہ گرا اس نے بے یقینی کے عالم میں ان کی طرف دیکھا۔

یہ وہ شخص تھا جس نے اسے ٹوٹ کے چاہا تھا اور اس نے کیا کیا ان کے ساتھ۔

اس پل اسے لگا وہ خود کو کبھی معاف نہیں کر پائے گی۔

دونوں کے درمیان ایک طویل چپ نے بسیرا کر لیا۔

"وہ برہان۔۔۔۔۔۔" شزرا نے کچھ کہنا چاہا مگر اس سے پہلے ہی آزر نے اسے خاموش کروادیا۔

"شزرا یہ تمہاری زندگی ہے۔مجھے کوئی حق نہیں ہے میں کوئی فیصلہ کروں میں بھی تو کر رہا ہوں نہ منال سے شادی۔۔۔ تم آزاد ہو اپنے فیصلوں میں" انہوں نے جیسے اپنے دل پہ پتھر رکھ کے یہ سب کہا تھا ان کے جسم میں سوئیاں سی گڑی جا رہی تھیں۔

انہیں لگا اس جملے کے بعد اب وہ ساری زندگی کچھ نہیں بول سکیں گے۔

اور شزرا وہ تو ٹوٹ کے ریزہ ریزہ بکھر رہی تھی۔

ابھی تو اس نے اپنی محبت کا ماتم بھی صحیح سے نہیں منایا تھا اور یکدم ہی یہ کیسی آفت ٹوٹ پڑی تھی۔

وہ آزر کو بتانا چاہتی تھی کہ وہ ان سے کتنی محبت کرتہ ہے مگر اس کے سارے الفاظ اپنی موت آپ مرتے جا رہے تھے۔

اس نے خود ہی تو اس راستے کا انتخاب کیا تھا اور اب اپنے انتخاب پہ پچھتانا کیسا۔

وہ اپنی بات مکمل کر کے اٹھ کے جا چکے تھے مگر وہ ان کے خیال کے ساتھ وہیں بیٹھی رہی۔

تصور میں ان کا چہرہ تکتی رہی۔

ان سے باتیں کرتی رہیں۔

ان کی سنتی رہی۔

_______________________

وہ اس کیفے ٹیریا میں گول میز کے گرد بیٹھی برہان کا انتظار کر رہی تھی مگر یہ انتظار طویل سے طویل تر ہوتا جا رہا تھا۔

بالآخر اسے برہان آتا دیکھائی دیا وہ سیدھا اسی کی طرف آیا وہ سیدھی ہو کے بیٹھ گئی۔برہان کے چہرے پہ سنجیدگی کا تاثر نمایاں تھا جیسے وہ جانتا تھا کہ شزرا کیا بات کرنے آئی ہے۔

"شزرا آپ نے کوئی بات کرنی تھی" برہان نے گم سم بیٹھی شزرا کو مخاطب کیا شزرا نے اپنے خیالوں سے چونک کے اسے دیکھا۔

آج صبح کتنی ہمت مجتمع کر کے اس نے برہان کو ملنے بلایا تھا یہ صرف وہی جانتی تھی۔فون کو کان سے لگائے اس کی آواز بارہا کانپی تھی مگر وہ مضبوط بنی رہی۔

اور جب برہان نے اس سے یہ کہا کہ وہ جانتا ہے وہ اسے ملنے کیوں بلا رہی ہے وہ جی جان سے کانپی تھی۔

اور اب وہ اسکے سامنے تھا تو وہ نظریں بھی نہیں اٹھا پا رہی تھی گلے میں گٹلی سی ابھر کے معدوم ہوئی۔

"شزرا آپ مجھ سے کوئی بات کرنا چاہتی تھیں؟" ایک بار پھر تحمل سے سوال پوچھا گیا۔

"جی۔۔۔۔۔۔" اس نے یک لفظی جواب دیا اور پھر خاموش ہو کے بیٹھ گئی۔

"وہ یہ رشتہ۔۔۔۔۔۔" شزرا نے تھوک نگلتے ہوئے بات کا آغاز کیا مگر دوسری طرف اس کی بات اچک لی گئی۔

"جی میں نے رشتہ بھیجا تھا اب بڑے ڈیسائڈ کر لیں گے" دوسری طرف شان بے نیازی تھی جیسے تمہیں اس سب سے کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے۔

"لیکن مجھے کچھ کہنا ہے" اس نے ایک بار پھر کوشش کی۔

"شزرا یہ بات بڑے ڈیسائڈ کر لیں گے۔برہان نے ایک ایک لفظ پہ زور دے کے کہا۔

"لیکن میں آپ سے شادی نہیں کرنا چاہتی" شزرا نے روہانسے لہجے میں کہا جیسے اب وہ رو دینے کو بےتاب تھی۔

"کیوں نہیں کرنا چاہتیں؟" برہان نے ٹھنڈے لہجے میں کہا۔

"کیا میری مرضی کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟" شزرا نے آنسو پیتے ہوئے کہا۔

"بلکل اہمیت ہے آپ کی مرضی کی لیکن ابھی آپ کو اپنے اچھے برے کا پتہ نہیں ہے" برہان اسے ایسے سمجھا رہا تھا جیسے اس کے سامنے کوئی بچی بیٹھی ہو اس نے زچ آکر برہان کو دیکھا جس کے چہرے پہ بلا کا اطمینان تھا۔

"میں اپنا اچھا برا اب جانتی ہوں آپ میرے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتے" شزرا نے ایک ایک لفظ چبا کے کہا اس کا ضبط جواب دے رہا تھا اس کا دل کیا وہ یہیں بیٹھ کے پھوٹ پھوٹ کے رودے۔

"میں کوئی زبردستی نہیں کر رہا" اس الزام پہ برہان تڑپ ہی تو گیا تھا۔

"پھر یہ زبردستی ہی تو ہے آپ نے میری مرضی کے بغیر رشتہ بھیج دیا" وہ آنسو پیتے ہوئے بولی۔

"کیا جرم کردیا رشتہ بھیج دیا تو" اس بار برہان کا لہجہ تلخ ہوا تھا۔وہ چپ بیٹھی رہ گئی۔

"میں جانتا ہوں آپ آزر کی وجہ سے انکار کر رہی ہیں"اس کا ٹھنڈا لہجہ اسے اپنی رگ و پے میں اترتا محسوس ہوا۔

"یہ مت بھولو کے آزر کی منال سے شادی ہونے والی ہے" وہ انگلی اٹھائے اسے وارن کر رہا تھا وہ حق و دق بیٹھی اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اسے لگا سامنے لگا گرم گرم چائے کا کپ اس کے سر پہ انڈیل دیا ہے اس کی تپش اسے اپنے اندر اترتی محسوس ہوئی۔

"میں کچھ نہیں بھولی اور نہ ہی میں آزر کی وجہ سے انکار کر رہی ہوں آپ کے لئے بہتر ہے کہ آپ میرے راستے میں نہ آئیں" شزرا نے کاٹ دار لہجے میں کہا۔برہان کو اپنا دل اس ظالم لڑکی کے دوپٹے کے رنگین دھاگوں میں الجھتا ہوا محسوس ہوا۔

اس کے دوپٹے کے رنگین دھاگوں نے برہان کے چہرے کے تمام رنگ چرا لئے تھے۔

وہ ہونٹوں پہ مٹھی جمائے پر سوچ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے جس کے نین کٹورے پانیوں سے بھرے تھے۔

"آپ مجھے میری محبت سے دستبردار ہونے کے لئے بول رہی ہیں" جب برہان نے ٹہرے ٹہرے لہجے میں محبت کا نام لیا تو اس کے چہرے پہ ایک تلخ سی مسکراہٹ ابھر کے معدوم ہوئی جسے برہان نے بخوبی محسوس کیا۔

"آپ جانتے بھی ہیں کہ محبت کیا ہے" اس نے کھوئے کھوئے سے لہجے میں پوچھا۔

"بہت اچھے سے جانتا ہوں" اس کے چہرے پہ اس بار کمال کا اطمینان تھا۔

"محبت یہ ہے کہ اپنی بہن کی محبت کے لئے اپنی محبت کی قربانی دے دینا" برہان کا ایک ایک لفظ کسی خنجر کی مانند اسے اپنے دل میں لگتا محسوس ہوا وہ پلکیں جھپکنا بھول گئی کئی ثانیے بس وہ خاموش رہی تھی اس نے اس بار نگاہیں چرانے کی کوشش نہیں کی وہ بیٹھے بیٹھے پتھر کی مورت بن گئی تھی۔

"صحیح وضاحت کی نہ محبت کی" برہان نے ٹھنڈی ہوتی چائے کا گھونٹ بھر کے پوچھا انہیں چائے کا ذائقہ تلخ محسوس ہوا۔

جانے کی چائے کی تلخی تھی یا یہ تلخی اس کیفے ٹیریا کے ماحول میں رچ گئی تھی۔

وہ سر جھکائے اپنے کب کاٹ رہی تھی اور برہان خاموشی سے اس کے چہرے کے اثر چڑھاؤ دیکھ رہے تھے۔

"میں آزر سے پیار نہیں کرتی" اس نے کمزور سی آواز میں احتجاج کیا۔

"میں نے ایسا کب کہا؟" برہان نے ایک آنکھ کی ابرو اٹھا کر اسے دیکھا چہرے پہ اطمینان قابل دید تھا۔

"پلیز برہان آپ مجھے زہنی اذیت مت دیں" بے بسی ہی بے بسی تھی اس نے برہان کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے۔

"میرا ہر گز یہ مطلب نہیں تھا" برہان فوراً سیدھے ہو کے بیٹھ گئے۔

اطمینان رخصت ہوا تھا۔

بے کلی بڑھی تھی۔

درد دل سوا ہوا تھا۔

انہیں ہر جانب دھواں دھواں سا محسوس ہوا۔

کیا وہ سامنے بیٹھی اس چھوٹی سی لڑکی کو ذہنی اذیت دے رہے تھے۔

پل میں سارا اطمینان رخصت ہوا تھا۔

"تم مجھے غلط سمجھ رہی ہو میں تمہیں پسند کرتا ہوں اس لئے رشتہ بھیجا" برہان نے ٹہر ٹہر کے کہا جیسے وہ خود اپنے لفظ تول کے ادا کر رہا ہو۔وہ آپ سے تم پہ آیا تھا۔

"میں نہیں کرنا چاہتی آپ سے شادی خدا کے لئے میرا پیچھا چھوڑ دیں" شزرا نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے۔

"میں آزر نہیں ہوں جو آپ کے آنسو دیکھ کے پگھل جاؤں گا۔یہ میرا آخری فیصلہ ہے" وہ جواب سنا کے اٹھ کھڑا ہوا پھر شزرا نے اسے کیفے ٹیریا کا گلاس ڈور دھکیل کے باہر جاتے دیکھا۔

___________________________

"بابا کیا آپ مصروف ہیں؟" شزرا نے ان کے کمرے میں داخل ہوتے پوچھا اس کے ہاتھ میں چائے کا کپ تھا شزرا کو آتے دیکھ کر دلاور صاحب نے کتاب ایک طرف رکھ دی وہ جا کے بیڈ پہ ان کے برابر میں بیٹھ گئی۔

"بہت شکریہ بیٹا" دلاور صاحب نے اس نے ہاتھ سے چائے کا کپ تھامتے ہوئے کہا۔

"بابا مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے" شزرا نے جھجھکتے ہوئے بات کا آغاز کیا۔

"میں برہان سے شادی نہیں کرنا چاہتی" اس نے سر جھکائے کہا۔

  اس کی آنکھوں ست ایک آنسو ٹوٹ کے دلاور صاحب کے ہاتھ پہ گرا۔

وہ خاموش بیٹھے اسے سن رہے تھے۔

"کیوں نہیں کرنا چاہتیں؟" انہوں نے پیار سے اس کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔

"کیا مرضی کو کوئی اہمیت نہیں دی جائے گی؟" شزرا نے آنسو پیتے ہوئے پوچھا۔

"آپ کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوگا"انہوں نے اس کا ہاتھ تھپکتے ہوئے اسے یقین دلایا۔وہ مسکرا کے ان کے گلے لگ گئی۔

____________

دوسرے دن شزرا دیر تک سوتی رہی وہ بیدار ہوئی تو اس وقت دوپہر ہو رہی تھی پاس پڑا اس کا موبائل مسلسل وائبریٹ ہو رہا تھا اس نے کوفت سے موبائل اٹھایا اسکرین پہ برہان کا نام جگمگا رہا تھا اٹھائے یا نہ اٹھائے وہ اسی سوچ میں پڑ گئی۔

مگر وہاں برہان کی تعداد  مس کالز تھیں اس نے کال پک کر کے موبائل کان سے لگایا تو دوسری جانب برہان کی آواز سنائی دی۔

"مجھے لگا تمہاری عقل ٹھکانے آگئی ہوگی لیکن پتہ نہیں تم کیا سوچ کے بیٹھی ہو" برہان کی غصے میں بھری آواز اسپیکر سے ابھری شزرا کا سر پہلے ہی چکرا رہا تھا اوپر سے برہان کی باتیں۔

"آپ کیا بولنا چاہ رہے ہیں" شزرا نے بیزاری سے پوچھا۔

"تمہارے گھر والوں نے رشتے سے انکار کردیا ہے" پتہ نہیں وہ اطلاع دے رہا تھا یا پوچھ رہا تھا مگر انداز سے برہمی صاف ظاہر تھی۔

"جی" شزرا نے یک لفظی جواب دیا۔

"ٹھیک ہے آزر کی شادی ہونے دو شاید اس کے بعد تمہاری عقل ٹھکانے آجائے" برہان جانے کیا سوچ کے بیٹھا تھا۔

"میں آزر کی شادی کے بعد دوبارہ اپنے پیرنٹس کو بھیجوں گا مجھے یقین ہے پھر تم انکار نہیں کرو گی" برہان نے سنجیدگی سے کہا اور کال کاٹ دی۔

اس دن کے بعد برہان کے ماں باپ نے اس گھر کی دہلیز شزرا کے رشتے کے لئے پار نہیں کی تھی اور نہ کوئی سوال کیا شزرا نہیں جانتی تھی کہ دلاور صاحب نے کیسے منع کیا مگر بہرحال اس دن کے بعد اس بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی اور نہ برہان نے دوبارہ اس موضوع کو چھیڑا۔

آج کل تو گھر میں آزر اور منال کی شادی کی تیاریاں جاری تھیں اس گھر کی پہلی خوشی تھی تائی امی اور دادو کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ پورے شہر کو دعوت نامے بھیج دیں۔

بازاروں کے روانہ چکر لگ رہے تھے اور پھر گھر پہ ایک محاز کھلا ہوتا کسی سوٹ کی فٹنگ کروانی ہے تو کسی دوپٹے پہ دادو کرن لگوانا چاہتیں۔

"اس سوٹ کے دوپٹے پہ کرن لگواو میںری منال پہن کے بہت خوبصورت لگے گی" دادو مختلف سوٹوں کے دوپٹے ہاتھ میں لے کہ کہتیں۔

تو دوسری طرف تائی امی خوب بھرے بھرے کامدار جوڑے منال کے لئے پسند کر رہی تھیں۔

"منال یہ تم بہت ہلکے ہلکے جوڑے کے رہی ہو بھائی زرا بھاری جوڑے دیکھائیں" پھر وہ خود ہی دکاندار سے مخاطب ہوتیں۔

منال کبھی مسکرا کے رہ جاتی تو کبھی اتنے بھاری بھاری جوڑے دیکھ کے پریشان ہو جاتی مگر اس سب سے بڑی سب کی محبت تھی جو وہ خوب سمیٹ رہی تھی۔

اس سب میں شزرا کی ذات کہیں کھو کے رہ گئی تھی مگر وہ خوش تھی منال کو خوش دیکھ کے۔

آزر یہاں نہیں تھے وہ کام کے سلسلے میں لاہور گئے تھے انہوں نے کہا تھا کہ وہ شادی سے دو دن پہلے پہنچ جائیں گے اس بات پہ شزرا نے سکھ کا سانس لیا تھا ورنہ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے اس کے لئے یہ سب بہت مشکل ہو جاتا۔یہ بات تو وہ بھی جانتی تھی کہ آزر یہاں سے جان بوجھ کے گئے ہیں مگر وہ جان کے بھی انجان بنی رہی۔

_________________

آج مایوں کی تقریب تھی اور آزر اب تک نہیں لوٹے تھے جبکہ انہوں نے کہا تھا کہ وہ دو دن پہلے لوٹ آئیں گے گھر میں سب ہی پریشان بیٹھے تھے۔

تایا ابو تو انہیں دو دن سے کال کر کے تھک چکے تھے مگر وہ کال اٹینڈ نہیں کر رہے تھے اب تو سب کو فکر ہونے لگی تھی ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ ان سے رابطہ نہ ہو سکے۔

ابھی بھی دوپہر ہونے کو آئی تھی مگر ان سے رابطہ نہ ہو سکا باہر لان میں مایوں کے لئے اسٹیج سج رہا تھا کچھ ہی دیر میں منال کو بھی مایوں بٹھانا تھا مگر اس سارے منظر سے آزر غائب تھے۔

دلاور صاحب اور امین صاحب دونوں بیٹھے آزر کو فون ملا رہے تھے مگر بیل مسلسل جا رہی تھی کوئی اٹھا نہیں رہا تھا۔

لاہور ان کے آفس میں بلڈنگ میں ہر جگہ فون کر کے معلوم کیا جا چکا تھا مگر وہ کہیں نہیں تھے۔

دادو جائے نماز بچھائے بیٹھی آزر کے صحیح سلامت آنے کی دعائیں مانگ رہیں تھیں۔

تائی امی کا مسلسل رونے سے کام تھا ان کی زبان پہ یہی الفاظ تھے" کہیں سے میرے آزر کو لادو" سب پریشان بیٹھے تھے۔

منال اپنے روم میں بند تھی اس نے صبح سے کچھ کھایا پیا نہیں تھا۔

اور شزرا تو اپنی نگاہیں دروازے پہ جمائے بیٹھی تھی اس کی نگاہیں صرف ایک بار آزر کو دیکھنے کے لئے بے تاب تھیں۔

دوپہر کا آگ برساتا سورج ڈھلا تھا وہ سورج گرم تو نہیں تھا مگر اس گھر کے مکینوں کو تپتا ہوا سا لگا۔

اب شام کے سائے گہرے ہونے کو آئے تھے اور اس گھر میں شادی کا سماء اب خاموشی میں بدل چکا تھا۔

لیکن منال کو مایوں کا جوڑا پہنادیا گیا۔

شزرا لان میں آئی تو پورا لان نہایت خوبصورتی سے سجا تھا پیلے اور سفید پھول جا بجا اپنی بہار دکھلا رہے تھے اس کی آنکھیں صبح سے رو رو کے سوج چکی تھیں۔

مین گیٹ سے لان تک آنے والی راہداری کو پہلے اور سفید پھولوں سے ڈھک دیا گیا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے آسمان پہ پھولوں کی چادر تنی ہو مگر سب ویران پڑا تھا۔

اس پھولوں سے ڈھکے گھر کے باسی اندر بیٹھے ایک دوسرے کو تسلیاں دے رہے تھے۔

اور شزرا پھولوں سے ڈھکی راہداری میں دروازے پہ نظریں جمائے کھڑی تھی اسے پورا یقین تھا آزر اس کا مان کبھی نہیں توڑیں گے مگر آنسو ایک الگ ہی کہانی بیان کر رہے تھے۔

سورج غروب ہونے کے قریب تھا ماحول میں عجب سی پراسراریت پھیلی تھی پیلی اور نارنجی شعائیں آسمان سے زمین کی طرف آرہی تھیں۔

پیلے پھولوں اور نارنجی شعاؤں نے اس راہداری کو ایک الگ کہ رنگ بخش دیا تھا اور وہاں کھڑی وہ غم کا پیکر۔

اسے گیٹ سے کوئی اندر آرا دیکھائی دیا آنکھوں کے سامنے دھند بڑھتی گئی دل کی دھڑکن تھم سی گئی وہ دھندلا سا پیکر اس کے قریب آتے آتے واضح ہوگیا آنکھوں کے سامنے سے دھند چھٹ چکی تھی۔

وہ شاید آزر تھے۔

یقیناً آزر ہی تھے۔

وہ اب اس کے سامنے آکے ٹہر چکے تھے اور نا سمجھی سے اسے دیکھ رہے تھے۔

اس نے ہاتھ بڑھا کر ان کے چہرے کو چھونا چاہا اگر یہ نظروں کا فریب تھا تو یہ فریب اس کی جان لے لے گا۔

اس کا ہاتھ آزر کے گال کو چھو گیا وہ ہوش کی دنیا میں واپس لوٹی اور تڑپ کے آزر کے گلے لگ گئی۔

وہ حیران و پریشان اسے دیکھنے لگے جو ان کے سینے سے لگی زار و قطار آنسو بہا رہی تھی کچھ دیر رونے کے بعد دل کا بوجھ ہلکا ہوا تو اپنی پوزیشن کا اسے احساس ہوا وہ جھجھک کے پیچھے ہٹی اور گالوں پہ پھیلے آنسو ہاتھ کی پشت سے صاف کئے۔

"کیوں رو رہی ہو؟" انہوں نے حیران ہوتے ہوئے اس کے رونے کی وجہ پوچھی۔

"آپ کہاں تھے؟ آپ نے کہا تھا آپ دو دن پہلے آجائیں گے اور آج صبح سے سب آپ کو کال کر رہے ہیں آپ کال بھی پک نہیں کر رہے"  بے ترتیب حلیہ، ہکلایا لہجہ اور آنسوؤں سے بھری آنکھوں کے ساتھ ان کے جینے کی وجہ ان سے سوال کر رہی تھی ان کے دل کو کچھ ہوا۔

"میں کام میں پھنس گیا تھا ورنہ دو دن پہلے ہی آجاتا میری آج صبح کی فلائٹ تھی لیکن فلائٹ لیٹ ہو گئی اور میرا فون شاید سائلنٹ پہ لگا رہ گیا" انہوں نے تفصیل بتاتے ہوئے اپنی جیبوں میں ہاتھ مات کر موبائل تلاش کیا اور موبائل نکال کر دیکھا تو وہ واقعی سائلنٹ پہ لگا تھا۔

"آپ اندر چلیں سب بہت پریشان ہیں" شزرا کو سب کی حالت یاد آئی تو انہیں اندر چلنے کو کہا۔

"شزرا اگر آج میں نہ آتا تو" شزرا کے اندر کی جانب بڑھتے قدم ان کا سوال سن کے رکے تھے راہداری میں تنی پھولوں کی چادر میں سے کچھ پھول ہوا کے ساتھ جھڑے تھے فضا میں پھیلی پیلی روشنی اب مزید گہری ہو گئی تھی۔

وہ بے ساختہ مڑی تھی اس نے اس ملگجی روشنی میں آزر کا چہرہ کا دیکھنے کی کوشش کی مگر وہاں کوئی تاثر نہیں تھا۔

"تو شاید میں زندہ نہیں ہوتی" اس نے اسی بے تاثر لہجے میں کہا اور اندر کی جانب قدم بڑھا دیئے۔

آزر اپنی جگہ سن سے ہوگئے۔

جانے کتنی بار ان کے دل میں آیا تھا کہ کاش وہ یہ شادی نہ کریں والا کراچی نہ جائیں مگر ہر بار انہوں نے دل کی اس بے سروپا خواہش پہ کان نہ دھرے۔

آزر اندر پہنچے تو سب والہانہ انداز میں ان کی طرف بڑھے تھے دادو تائی امی دلاور صاحب امین صاحب سب ان کے گرد جمع تھے وہ سب کو جواب دے دے کے تھک گئے تھے۔

منال کو آزر کے آنے کی اطلاع ملی تو وہ بے اختیار ہی سجدے میں چلی گئی۔

اس گھر میں خوشیاں ایک بار پھر لوٹ آئی تھیں۔

مایوں کی تقریب میں مہمان آنا شروع ہو چکے تھے پورا لان برقی قمقموں سے روشن تھا ہر چہرہ مسکرا رہا تھا۔

شزرا تیار ہو کے اپنے روم سے باہر نکلی تو آزر بھی اسی وقت اپنے روم سے باہر نکلے تھے نگاہوں کا تصادم ہوا تھا۔

سفید شلوار قمیض میں وہ بہت نکھرے نکھرے سے لگ رہے تھے بڑھی ہوئی شیو اور سوجی آنکھیں ایک الگ ہی منظر پیش کر رہی تھیں۔

شزرا گولڈن رنگ کاہنگا پہنے کوئی سنہری پری ہی لگ رہی تھی بالوں کی چٹیا بندھی ایک سائڈ پہ ڈلی جس میں سے کچھ آوازہ لٹیں نکل کر چہرے کے اطراف میں پھیلی ہوئی تھیں۔

آزر نے ایک نظر اسے دیکھا اور اگلے ہی پل نظریں پھیر لیں ان کا یوں نظریں پھیرنا شزرا کے دل کو گھائل کر گیا وہ اسے نظر انداز کئے وہاں سے جا چکے تھے۔

وہ خود کو سنبھالتی ہوئی آگے بڑھی اور منال کے روم کی طرف چلی گئی۔

وہ اندر داخل ہوئی تو منال تیار ہوئی آئینے کے سامنے بیٹھی تھی پہلے اور سبز رنگ کا لہنگا پہنے اس پہ روپ ٹوٹ کے برس رہا تھا۔

شزرا اس پل دل سے اس کے خوش رہنے کی دعا مانگی تھی۔

سویرا اور شزرا منال کو لے کے نیچے پہنچیں تو سب مہمان آچکے تھے لان مہمانوں سے بھرا تھا منال کو لے جا کے آزر کے برابر میں بٹھا دیا۔

شزرا منال کو آزر کے برابر میں بٹھا رہی تھی تو اس وقت آزر کی نظریں شزرا کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں وہ چاہ کے بھی اپنی نظریں نہیں ہٹا پا رہے تھے شزرا آزر کہ نگاہیں خود پہ جمی محسوس کر سکتی تھی۔

وہ گھبراہٹ میں وہاں سے ہٹی اور تیزی سے اسٹیج سے اترنے لگی مگر اسی اثناء میں وہ کسی سے بری طرح سے ٹکرائی تھی مقابل نے اسے نرمی سے پکڑا تھا اس نے پلکیں اٹھا کے دیکھا تو برہان نے اسے گرنے سے بچایا ہوا تھا وہ فورا خود کو سنبھال کے سیدھی ہوئی۔

برہان کے چہرے پہ طنزیہ مسکراہٹ تھی وہ اسے نظر انداز کر کے وہاں سے جانے لگی مگر وہ دوبارہ اس کے راستے میں آگیا۔

"پھر کیا سوچا تم نے؟" برہان نے ایک دل جلانے والی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔

"کیا سوچنا ہے؟" شزرا نے نا سمجھی سے اسے دیکھا۔

"آزر کی شادی ہو رہی ہے" برہان نے بات کا رخ آزر کی طرف موڑا۔

"تو۔۔۔۔" شزرا نے اسی کے لہجے میں اسے جواب دیا جس پہ برہان کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔

"تو یہ روئی روئی سی آنکھیں بلاوجہ تو نہیں" اس نے سنجیدگی سے شزرا کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔

"اگر کوئی ضروری بات نہیں کے تو مجھے بہت کام ہیں" شزرا نے اس وقت اسے نظر انداز کرنا ہے بہتر سمجھا اور وہاں سے چلی گئی۔

مایوں کی تقریب بخیر و عافیت نمٹ گئی تھی۔

کل بارات تھی اور صبح بہت کام تھے اب شزرا نے تمام سوچوں کو اپنے ذہن سے جھٹک دیا تھا۔مگر سوچوں پہ کس کا بس ہے کسی نہ کسی روپ میں اس کے سامنے آ کھڑی ہوتیں بلاآخر رات تمام ہوئی تھی۔

______________________

وہ صبح اپنی ساتھ نئی ہنگامہ خیزیاں لے کہ آئی تھی آج سب کی زندگی بدلنے والی تھی شزرا اپنے حق سے دستبردار ہونے والی تھی جو ہر گز اس کے لئے آسان نہیں تھا مگر اب اسے اپنے دل کو پتھر کرنا آگیا تھا۔

آزر صبح سے ہی اپنے کمرے میں بند تھے انہوں نے باہر آکر کسی بھی کام کو دیکھنے کی زحمت نہیں کی اس وقت شاید وہ صرف اپنی ادھوری محبت کا ماتم کرنا چاہتے تھے مگر ان کے دل میں اس محبت کی جگہ شاید نفرت لے رہی تھی۔

رات میں تائی امی نے ان کی شیروانی ان کے روم میں پہنچائی تو وہ خاموشی سے اٹھ کے تیار ہونے چلے گئے۔

شوخ گلابی رنگ کے لہنگے میں بانوں جو کرل کئے اس وقت شزرا کوئی پری ہی لگ رہی تھی۔

شزرا منال کو لے کہ وینیو پہ پہنچی تو مہمان آنا شروع ہو چکے تھے شزرا منال کو لے کہ اندر چلی گئی کچھ دیر بعد نکاح کی رسم ہونا تھی۔

مولوی صاحب منال سے سائن کروانے آئے تو پل بھر کو شزرا کو اپنا وجود خالی ہوتا محسوس ہوا۔

نکاح کہ رسم کے بعد منال کو لا کے آزر کے برابر میں بٹھا دیا گیا سرخ رنگ کے شرارے ملبوس اس وقت اس پہ روپ برس رہا تھا شزرا اپنے لبوں پہ مسکان سجائے سب سے مل رہی تھی مگر بہت اندر کچھ ٹوٹ چکا تھا۔

برہان نے شزرا سے بات کرنی چاہی مگر شزرا اس وقت کسی قسم کی بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی اس نے اسے نظر انداز کرنا پہتر سمجھا۔

رخصتی کی رسم عافیت سے نمٹ گئی تھی اب سب گھر آکے مختلف رسمیں کر رہے تھے رسموں سے فارغ کو کر منال کو آزر کے روم میں پہنچا دیا گیا۔

رات دبے پاؤں گزرتی جا رہی تھی مگر آزر اپنے روم میں نہیں گئے تھے پتہ نہیں وہ کہا تھے۔سب گھر والے یہی سمجھ رہے تھے کہ وہ اپنے روم میں ہیں شزرا بھی یہی سمجھ رہی تھی۔

اس کا درد دل حد سے سوا ہوا تو وہ باہر لان میں ٹھنڈی ہوا میں آگئی اس نے اب تک کپڑے تبدیل نہیں کئے تھے وہ اب تک سکتے کی سی کیفیت میں تھی۔ 

وہ گلابوں کی کیاری کے سامنے آکھڑی ہوئی آنسو خود بخود پلکوں کی باڑھ توڑ کر چہرے پہ بہنے لگے۔

"بہت خوش ہو نہ مجھے برباد کر کے۔۔۔۔۔۔!!!" عقب سے آنے والی آواز نے شزرا کا دل مٹھی میں جکڑ لیا وہ فوراً اپنے آنسو صاف کر کے پلٹی مگر کچھ نہ بولی وہ جانتی تھی اگر اس نے کچھ کہا تو شاید آنسو اس سے بغاوت کر جائیں۔آزر سینے پہ ہاتھ باندھے اس کے سامنے کھڑے تھے آنکھیں لہو رنگ تھیں۔انہوں نے شزرا کی کلائی پکڑ کر اسے اپنی جانب کھینچا وہ ان کے سینے سے آلگی کانچ کی چوڑیاں ٹوٹ کے اس کی کلائی میں پیوست ہو گئیں مگر مقابل پہ آج کوئی اثر نہ ہوا درد کی شدت سے وہ کراہ اٹھی۔

ہاتھوں کے زخم ایک بار پھر ہرے ہوگئے۔

"آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟" شزرا نے انہیں وہاں موجود دیکھ کے پوچھا۔مگر ضبط کرنے کے باوجود اس کی آنکھیں چھلک پڑیں۔

"مجھے اس وقت تم سے شدید نفرت محسوس ہو رہی ہے" انہوں نے ایک ہاتھ سے اس کا چہرہ دبوچتے ہوئے کہا آزر کی سخت انگلیاں اس کے گال میں گڑی جا رہی تھیں اس نے خود کو چھڑانے کی کوشش کی مگر مقابل کی گرفت حد درجہ مضبوط تھی۔

"چھوڑیں مجھے درد ہو رہا ہے" اس نے روتے ہوئے کہا مگر آج اسکے کسی بھی آنسو کا آزر پہ اثر نہ ہوا۔

"اور جو اذیت تم نے مجھے دی ہے اسکا کیا" وہ دبی دبی آواز میں دھاڑے تھے اور اس کا دل سہم گیا۔

"آج کے بعد میں تم سے صرف اور صرف نفرت کروں گا میں تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا تمہیں دیکھتا ہوں نہ تو مجھے اپنا وجود ایک مذاق لگتا ہے نفرت ہوتی ہے خود سے" وہ جنونی کیفیت میں بول رہے تھے اور وہ برستی آنکھوں کے ساتھ انہیں دیکھ رہی تھی۔

بہت مشکل ہوتا ہے جس کی نظروں میں آپ ہمیشہ خود کے لئے پیار دیکھتے آئے ہوں اسی کی نظروں میں خود کے لئے نفرت دیکھنا اور آج وہ نفرت اسے آزر کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔

وہ یک ٹک ان کا چہرہ دیکھ رہی تھی جیسے اندر تک پڑھ لینے کا ارادہ ہو مگر وہاں اب نفرت کے سوا کچھ نہ تھا۔

شزرا کا روم روم جل اٹھا۔

اس کا دل چاہا وہ چینخ چینخ کر سب کو بتائے اس نے بھی اپنی محبت کی قربانی دی ہے کسی کو اسکا زخم کیوں نہیں دیکھا کیوں آزر صرف اپنی ہی محبت لئے بیٹھے ہیں۔

"چلی جاؤ میری زندگی سے جب بھی تمہیں دیکھوں گا میں زندہ نہیں رہ سکوں گا پل پل مروں گا" آزر کا لہجہ بل گیا تھا اب ان کے انداز میں جارحیت نہیں تھی غصہ نہیں تھا ایک تحمل تھا درخواست تھی۔

وہ سر جھکائے ہونٹ کچل رہی تھی بے نیازی کا چولا اوڑھے وہ خاموش تھی۔

آزر جا چکے تھے اسے چھوڑ کے وہ نہیں جانتی تھی وہ اندر گئے ہیں یا باہر اب وہ جاننا بھی نہیں چاہتی تھی ایک اندھیرا تھا جو اس کی آنکھوں کے سامنے تھا مگر اب سب واضح ہو گیا تھا۔

وہ اس کالی رات میں وہاں کھڑی ایک فیصلے پہ پہنچ چکی تھی ہاں اب اسے صرف اپنے بارے میں سوچنا تھا سب کو پیچھے چھوڑ کر صرف اب اپنا سوچنا تھا۔. 

_______

وہ صبح ایک بوجھل صبح تھی شزرا کو آج سورج کی روشنی کم محسوس ہوئی اسے لگا آج سورج معمول کے مطابق نہیں ہے بلکہ آج کچھ بھی معمول کے مطابق نہیں ہے۔

وہ نیچے آئی تو سب ناشتے کے لئے ڈائننگ ٹیبل پہ موجود تھے۔

گھر میں ایک چہل پہل تھی سب خوش تھے مگر وہاں موجود تین نفوس سب سے اپنی اداسی چھپا رہے تھے۔

منال بہت خاموش خاموش سی تھی اس کی خاموشی شزرا کی نگاہوں سے چھپی نہ رہ سکی وہ اس پل خود سے شرمندہ ہوئی تھی۔

کل رات کو آزر اور شزرا کی بیچ ہونے والی گفتگو صرف ان دونوں تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ وہاں موجود ایک تیسرے شخص نہ صرف سب دیکھا بلکہ سن بھی لیا تھا۔

پوری رات صرف وہ دونوں ہی نہیں بلکہ وہ تیسرا شخص بھی ان کے ساتھ جاگتا رہا۔

مگر ابھی تک سب معمول کے مطابق تھا۔

"بابا میں یہاں سے جانا چاہتی ہوں" ناشتے کے بعد شزرا دلاور صاحب کے سامنے کھڑی تھی وہ اپنی انگلیاں مروڑتے ہوئے بہت گھبرائی ہوئی سی دیکھ رہی تھی۔

"کہاں جانا ہے" دلاور صاحب نے اس کی طرف نظر بھر کے دیکھتے ہوئے کہا۔

"وہ میں نے آپ سے زکر کیا تھا نہ آسٹریلیا کی یونیورسٹی میں میں نے ایڈمیشن کے لئے فارم سبمٹ کیا ہے وہاں سے میل آگئی ہے اور خالہ بھی مجھے بہت یاد کر رہی ہیں" اس نے سر جھکائے جواب دیا۔

یہ میل تو اسے کافی پہلے آگئی تھی مگر جب آزر کی محبت نے اسے سب کچھ بھلا دیا تھا۔

"ٹھیک ہے جاؤ" انہوں نے بغیر کسی پس و پیش کے کہا شزرا نے بے یقینی سے انہیں دیکھا مگر وہ کسی گہری سوچ میں مستغرق تھے ۔

وہ وہاں سر جھکائے واپس آگئی۔

 "شزرا تمہاری شام کی آسٹریلیا کی فلائٹ ہے" دلاور صاحب نے پانی کا گلاس اٹھاتے ہوئے اسے اطلاع دی اس بات سے شزرا کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا نہ صرف شزرا بلکہ وہاں موجود تمام لوگ حیرت سے ان کی شکل دیکھ رہے تھے۔

مگر آزر سب سے لاتعلق سے بیٹھے تھے ان کے پتھر کے وجود میں جنبش تک نہ ہوئی۔

"کیا مطلب ہے؟ شزرا کہاں جا رہی ہے؟" امین صاحب نے پہلے شزرا اور پھر دلاور صاحب کو دیکھتے ہوئے پریشانی سے ہوچھا۔

"شزرا نے آسٹریلیا کی یونیورسٹی میں ایڈمیشن لینا ہے اس لئے وہ آسٹریلیا جا رہی ہے" دلاور صاحب نے سنجیدگی سے بتایا۔

"لیکن کل ولیمہ ہے بابا ولیمے کے بعد چلی جانا" منال نے پریشانی سے کہا۔

"نہیں شزرا آج ہی جائے گی" وہ اپنا فیصلہ سنا کے وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔

دلاور صاحب وہاں سے اٹھ کے اپنے روم میں آگئے۔

انہوں نے کل رات آزر اور شزرا کی باتیں سن کی تھیں وہ اپنی کھڑکی میں جانے کتنی دیر تک بت بنے کھڑے رہے جب انہیں ہوش آیا تو فجر کی اذانیں ہو رہیں تھیں۔

ان کے دل کو ملال نے آگھیرا کاش وہ پہلے ہی شزرا کا رویہ سمجھ لیتے کیوں وہ اپنی بیٹیوں سے اس قدر بے خبر رہے آج دونوں کی زندگی برباد ہونے کے دوراہے پہ کھڑی تھی۔

کیوں وہ جان نہ پائے کے شزرا کا رویہ منال کے ساتھ کیوں بدلا تھا مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی۔

اور صبح شزرا نے یہاں سے جانے کی بات کر کے خود ہی ساری مشکلیں آسان کردی تھیں اور انہیں اپنے دل پہ پتھر رکھ کے شزرا کو یہاں سے بھیجنا تھا۔

انہوں نے اس کی شام کی فلائٹ ہی بک کروادی تھی۔

آسٹریلیا میں شزرا کی خالہ رہتی تھیں وہ بے اولاد تھیں منال اور شزرا سے انہیں بے حد لگاؤ تھا وہ ہر بار فون کر کے ان لوگوں کو آسٹریلیا آنے پہ زور دیتی تھیں مگر زندگی کے کاموں سے کبھی فرصت ہی نہیں ملی تھی۔

مگر اب زندگی نے کی اسے ایسے راستے پہ لاکھڑا کیا تھا جہاں اب کوئی راستہ نہیں تھا۔

شزرا کو یقین نہیں تھا کہ دلاور صاحب اس کے جانے کے لئے مان جائیں گے مگر یہ معجزہ ہو گیا تھا۔

پیکنگ کرتے ہوئے اس کا دل بار بار بھر رہا تھا وہ آنسو صاف کرتے ہوئے پیکنگ کرنے میں مصروف تھی۔

شزرا کا سامان گاڑی میں رکھوایا جا چکا تھا وہ سب سے مل رہی تھی اور آنکھیں مسلسل برس رہی تھیں اور پھر وہ منال مے گلے لگتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کے روئی تھی سب اس کی طرح اچانک جانے پہ حیران تھے کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔

آزر دوپہر میں ہی آفس چلے گئے تھے وہ شزرا کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتے تھے شزرا کی نگاہیں انہیں ہی ڈھونڈ رہی تھیں مگر وہ کہیں نہیں تھے۔

پھر وہ چلی گئی۔

اور ایسی گئی کہ پورے گھر کو ویران کر گئی۔

_______________________

"آزر آپ ناراض ہیں مجھ سے؟" منال آزر کے سامنے کھڑی اس سے سوال پوچھ رہی تھی جس سوال کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

"نہیں۔۔۔میں کیوں ناراض ہوں گا" آزر نے فائل پر سے سر اٹھائے بناء جواب دیا۔

"تو آپ اتنے چپ چپ کیوں رہتے ہیں" منال کو اس کی یہ خاموشی شادی کے بعد زیادہ محسوس ہونے لگی تھی۔

"ایسی کوئی بات نہیں ہے بس کام کا زیادہ پریشر ہے" آزر نے دھیمے سے مسکرا کے کہا۔

"ایک کپ چائے ملے گی؟" آزر نے فائنل سے سر اٹھا کے پوچھا منال اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کمرے سے نکل گئی۔

آزر کے چہرے پہ مسکراہٹ کی جگہ سنجیدگی نے لے لی۔

آزر نے منال کو بیوی کا درجہ دے دیا تھا وہ مان چکے تھے کہ اب منال ہی ان کے لیے سب کچھ ہے وہ اسے خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے مگر یہ کمبخت دل اسی بیوفا میں اٹکا رہتا۔

آزر کا رویہ منال کے ساتھ صحیح تھا مگر جب انہیں وہ سنگدل یاد آتی تو وہ دو دو دن کسی سے بات نہ کرتے یہی چیز منال کو کھلتی تھی ایک دم ہنستے ہنستے انہیں کیوں چپ لگ جاتی ہے۔

کیوں وہ بیٹھے بیٹھے خلاؤں میں گھورنے لگتے ہیں۔

مگر ان سوالات کے جوابات صرف آزر کے پاس تھے۔

_________________________

وہ آسٹریلیا پہنچ چکی تھی خالہ اور خالو اسے ایئر پورٹ پہ پک کرنے آئے تھے خالہ تو اسے گلے لگائے جانے کتنی دیر تک روتی رہیں تھیں۔

یہاں آکر اس نے یونیورسٹی میں ایڈمیشن لے لیا زندگی بہت حد تک مشینی ہو چکی تھی پہلے وہ روز گھر فون کرتی تھی پھر آہستہ آہستہ بلکل کم ہوتا گیا۔

صبح یونیورسٹی اور شام میں اکیڈمی اس نے خود کو بہت مصروف کر لیا تھا مگر سوچیں انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتی اسی طرح آزر کا خیال بھی ہمہ وقت اس کے ساتھ رہتا وہ یہاں آکر بھی ان کے خیالوں سے پیچھا نہیں چھڑا پائی۔

کب کبھی وہ سڈنی کی گلیوں میں نکلتی تو اسے لگتا ابھی آزر کہیں سے نکل کر اس کے سامنے آکھڑے ہوں گے۔

سامنے رکھی چائے ٹھنڈی ہوجاتی اور اسے ہوش نہیں ہوتا اور کبھی گرم گرم چائے بے دھیانی میں منہ سے لگالیتی۔

کلاس میں لیکچر نوٹ کرتے ہوئے یونہی بے دھیانی میں پین کسی غیر مرئی نقطے پہ جم جاتا۔

بعض اوقات تو آزر اس کے سامنے آکھڑی ہوتے وہ انہیں ہاتھ بڑھا کے چھونا چاہتی تو وہ غائب ہوجاتے۔

اس کی دماغی حالت دن بہ دن گر رہی تھی مگر وہ خود کو سنبھالے زندگی کے جھمیلوں میں مگن تھی۔جاری ہے


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Wahshat E Ishq  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Wahshat E Ishq  written by Rimsha Mehnaz  . Wahshat E Ishq    by Rimsha Mehnaz  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link


No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages