Ishq Main Hari Novel By Ana Ilyas Episode 13 to 14 - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday 29 January 2023

Ishq Main Hari Novel By Ana Ilyas Episode 13 to 14

Ishq Main Hari Novel By Ana Ilyas Episode 13 to 14

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...



Ishq Main Hari By Ana Ilyas Novel Episode 13'14


Novel Name: Ishq Main Hari 

Writer Name: Ana Ilyas

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

شہاب کے بندے فائق کو اسکے گھر کے قريب ہی چھوڑ آۓ تھے۔ ساتھ ميں اسکے ضرورت کے مطابق کچھ نشہ آور انجکشن بھی اسے دے دئيے تھے۔ 

فائق تو اس مہربانی پر حيران تھا۔ 

مگر شکر بھی کيا کہ جان چھوٹی۔ 

گھر آکر اب فکر اس بات کی لگی کے چند دن تو ان انجکشنز پر گزارا کر لے گا اسکے بعد کيا کرے گا۔ 

کچھ سوچ کر کمرے ميں گيا۔ 

مطيبہ کا اپائنٹمنٹ ليٹر قسمت سے اسکی جيب ميں تھا۔ 

يا شہاب نے جان بوجھ کر ڈالا تھا۔ 

اسے ياد نہيں تھا۔ 

اس ليٹر پر درج پتہ پڑھا۔ 

کچھ سوچ کر تہہ کرکے واپس جيب ميں ڈالا۔ 

کتنے دنوں سے شہاب نے اسے نشہ استعمال کرنے نہيں ديا تھا۔ 

اس کا پورا جسم ٹوٹ رہا تھا۔ جلدی سے ايک سرينج نکالی جس ميں نشہ بھرا ہوا تھا۔ بازو کی آستين اوپر کی اور جلدی سے سرينج بازو ميں گھسائ۔ 

چند ہی لمحوں ميں وہ ہوش و خرد سے بيگانہ ہو چکا تھا۔ 

وہی ميٹھا سا احساس اسے اپنی لپيٹ ميں لے چکا تھا کہ جس کے بعد اسے ہوش نہ رہتا تھا کہ دنيا ميں اسکے علاوہ ۔۔ اسکے اردگرد بھی کوئ ہے۔

_____________________

"اف ميں اتنی ايکسائيٹڈ ہو رہی ہوں" مشال ڈھيروں شاپرز لے کر مطيبہ کے سامنے بيٹھی پر جوش انداز ميں اسے ايک ايک چيز دکھا رہی تھی۔ 

جبکہ مطيبہ خاموش نظروں اور بے دلی سے وہ سب دیکھ رہی تھی۔ 

يہ کيا ہورہا تھا اس نے تو صرف اپنے بچاؤ کے لئے اس گھر ميں پناہ لی تھی۔ 

وہ يہ سب نہيں چاہتی تھی۔ وہ يہاں کی مالکن يا رئيد کی زندگی ميں کوئ مقام حاصل کرنے کی خواہاں نہيں تھی۔ 

اسکے اجسانوں کا اس قدر بوجھ وہ اٹھانے کی متحمل نہيں تھی۔ 

"جيسے ہی صبح مجھے رئيد بھائ کی کال آئ کہ ميری ريسيپشن کی تياری آج ہی اور تمہيں ہی کرنی ہے۔۔ سمجھو ميرے تو ہاتھ پاؤں پھول گۓ۔ 

اکيڈمی منزہ کے حوالے کرکے ميں تو بھاگم بھاگ بازاروں کی خاک چھاننے پہنچ گئ۔ اب منہ بند کرکے يہ سب رکھو اور کل پہن لينا۔" مشال ہميشہ کی طرح اپنی ہی سناۓ جارہی تھی يہ ديکھے بغير کے مطيبہ سب چيزيں ديکھ کر ہی خاموش ہوچکی ہے۔ 

حسن کے کہنے پر ان کا ريسيپشن کل ہی ديا جارہا تھا۔ 

ان کے مطابق اس سب کو اب زيادہ دير چھپا نہيں رہنا چاہئيے کہ کہيں شہاب کو کوئ وار کرنے کا موقع نہ مل جاۓ۔ 

ايک مضبوط بندھن ميں دنيا کے سامنے آتے ہی رئيد اور مطيبہ کے بارے ميں کوئ کيچڑ نہيں اچھال سکے گا۔ 

مطيبہ کو مجبوری ميں يہ سب ماننا پڑ رہا تھا۔ آخر کو رئيد نے اسی کی خاطر اپنی جان تک خطرے ميں ڈال رکھی تھی۔ 

اگر شہاب کو اسکی اتنی اوپر تک اپروچ کا اندازہ نہ ہوتا تو وہ کب کا رئيد کو زير کرکے مطيبہ کو وہاں سے اغوا کروا چکا ہوتا۔ 

مگر رئيد کا اثر و رسوخ اسے باز رکھے ہوۓ تھا۔ 

اور يہ سب وہ کس کے لئيے کررہا تھا 'مطيبہ' کے لئے تو وہ کيسے اپنے محسن کو برا رويہ دکھاتی۔ 

اسے يہ سب ماننا تھا۔ چاہے مجبوری ميں ہی سہی۔ 

"ابھی کچھ دير ميں بيوٹيشن آکر تمہارا فيشل وغيرہ کرجاۓ گی۔ اور کل دوپہر ميں وہ تمہيں تيار کرنے کے لئے آۓ گی۔ ميں بھی تب تک آچکی ہوں گی۔" مشال نے اسے بتاتے ہوئ تسلی دی۔ 

"يار يہ سب سروسز لينا ضروری ہے کيا۔ ميں ايسے ہی ٹھيک ہوں" مطيبہ کو الجھن ہوئ

"ارے۔۔۔۔ اپنے اتنے پيارے سے شوہر کے سامنے ايسے ہی سر جھاڑ منہ پھاڑ جاؤ گی کيا۔۔ کچھ تو بن سنور کر جاؤ نا۔ آخر کو ريسيپشن ہے تمہارا اور شادی بندہ زندگی ميں ايک ہی بار کرتا ہے۔ بار بار يہ موقع تھوڑی آتا ہے" مشال نے اسے اچھا خاصا جھاڑا۔ 

"وہ روز ميری يہی سر جھاڑ منہ پھاڑ شکل ديکھتے ہيں" مطيبہ نے اسے اطلاع دی۔ 

"تو بھئ ابھی تک تمہاری رخصتی نہيں ہوئ تھی نا۔ کل تو رخصتی بھی ساتھ ہو گی۔ اس کمرے سے اس کمرے تک" مشال کی بات پر وہ چونکی۔ 

يہ تو کہيں طے نہيں پايا تھا۔ 

مطيبہ فی الحال خاموش ہی رہی۔ مشال کو اتنی ذاتی بات بتانی بنتی نہيں تھی۔ 

اسی لئے اسے کچھ کہنے کی بجاۓ وہ خاموش رہی۔

مشال کے جانے کے بعد وہ رفيعہ کے سر ہوئ۔ 

"يہ ميری رخصتی والا کيا معاملہ ہے" کمر پر ہاتھ رکھ کر کچن ميں سلاد کاٹتی رفیعہ سے استفسار کيا۔ سلمان کچن ميں نہيں تھا۔ 

رئيد اور حسن رئيد کے آفس ہی گۓ ہوۓ تھے۔ 

"کيا؟" انہون نے ناسمجھی سے کہا۔ 

"اماں ۔۔۔ميری رخصتی کيوں ہورہی ہے کل۔۔ مجھے مشال نے کہا ہے اور ايسے ہی اس نے نہيں کہہ ديا ہوگا۔ کوئ تو وجہ ہے اسکے پيچھے" مطیبہ کو محسوس ہو گيا تھا کہ وہ جان بوجھ کر انجان بن رہی ہيں۔ 

"مطيبہ رئيد کے کچھ رشتہ دار دو تين دن يہيں رہيں گے۔ اب ہر کسی کو تو انہوں نے يہ مسئلہ نہيں بتايا نا۔ اسی لئے مجبورا تم دو تين دن کے لئے اسکے کمرے ميں شفٹ ہوجاؤ انکے جاتے ہی واپس ميرے پاس آجانا" رفيعہ کی بات پر اسکی سانس سينے ميں ہی اٹک گئ۔ 

'دو تين دن' وہ تو چند پل اسکے سامنے نہيں ٹک پاتی تھی۔ 

پھر رئيد کا بدلتا رويہ۔۔ کچھ کہتی کچھ کھوجتی نظريں مطيبہ کا اعتماد ہر وقت گڑبڑا ديتی تھيں۔ افف اسے لگا اب اسکی زندگی کا سب سے مشکل امتحان ہونے جارہا ہے۔ 

شايد شہاب سے بچنے سے بھی زيادہ مشکل۔

دل آجکل ويسے ہی اسکی سننے سے انکاری تھا۔ اوپر سے يہ سب حالات۔

مطيبہ شديد بے بس تھی۔

شام ميں لڑکی آئ مطيبہ نے زندگی ميں پہلی بار سب سروسز ليں۔ شديد الجھن ہو رہی تھی فيشل اور باقی سب کام کرواتے۔۔

مگر کچھ دير بعد اپنا ہی چہرہ ديکھ کر حيران رہ گئ۔ 

عجيب سی چمک چہرے کا نکھار بڑھا رہی تھی۔ 

رات ميں رئيد کی خود پر پڑنے والی نظريں مطيبہ کو مضطرب کر رہی تھيں۔ 

وہ اپنے اور اسکے درميان موجود کلاس ڈيفرنس کو اچھے سے سمجھتی تھی۔ 

وہ دوسری رفيعہ نہيں بننا چاہتی تھی۔ 

مگر اسے سمجھ نہيں آرہا تھا کہ رئيد کی آنکھوں سے لپکتے جذبوں کو کيسے روکے۔ 

اسے رئيد سے اتنی نون پريکٹيکل اپروچ کی توقع نہيں تھی۔

___________________

"وہ بڈھا ابھی تک وہاں پہنچا کہ نہيں" شہاب نے زبير سے پوچھا۔ جب سے فائق کو اسکے گھر چھوڑا تھا۔ 

شہاب نے زبير کو اسکے پيچھے لگا ديا تھا تاکہ وہ ہر وقت اسکی نگرانی کرے اور جيسے ہی وہ رئيد کے آفس پہنچے اسے اطلاع دے۔ 

"آقا جی آج اسکی سرنجيں ختم ہو جائيں گيں اور مجھے يقين ہے آج وہ لازمی اسکے آفس پہنچے گا" اسے گھر کے باہر چھوڑتے زبير نے اتنی ہی سرنجيں اسکے ہاتھ تھمائيں تھيں۔ کہ جو بمشکل ڈيڑھ دن نکاليں۔ اور پھر دوسرے دن ہی وہ رئيد کے آفس پہنچ جاۓ۔ 

"ٹھيک ہے ٹھيک ہے۔۔ ليکن اگر آج وہ اسکے آفس نہ گيا تو ميں تجھے نہيں چھوڑوں گا" شہاب نے فون بند کرتے اسے دھمکی دی۔ 

"آقا جی فکر ہی نہ کرو۔۔" زبير نے پريقين لہجے ميں کہا۔ 

"اچھا اچھا ٹھيک ہے" شہاب نے بے زار آواز ميں کہا۔ 

شہاب کو اميد نہيں تھی کہ يہ معاملہ اتنا لٹک جاۓ گا۔ 

وہ جلد ہی اب اسے ختم کرنے کے چکروں ميں تھا۔ 

اس نے سوچ لیا تھا کہ اب اگر فائق والا کام نہ بنا تو وہ رئيد کے گھر نقب لازمی لگاۓ گا۔

اس کے بغير گزارا نہيں تھا۔ 

وہ اپنے دشمن کو اتنی آسانی سے چھوڑتا نہيں تھا۔ 

اور رئيد نے اس سے دشمنی مول لے لی تھی۔

_______________________

اگلے دن رئيد نے آفس سے چھٹی لے رکھی تھی۔ 

چند مہمان صبح ميں ہی آگۓ تھے۔ 

يہ سب رئيد کے ننھيالی تھے جو دبئ سے آۓ تھے۔ 

سب کو فون پر ہی اطلاع دی گئ تھی۔ 

اور وجہ يہ بتائ گئ تھی کہ حسن نے رشتہ پہلے ہی کريا تھا اور انہيں اپنے آفس کے کسی کام پر ارجنٹ چھ ماہ کے لئے امريکہ جانا تھا لہذا وہ چاہتے تھے کہ رئيد کی شادی کا معاملہ انکے امريکہ جانے سے پہلے نمٹا ديا جاۓ اسی لئے يہ سب ارجنٹ ہوا۔ 

سب جانتے تھے کہ حسن ايک امريکن اين جی او ميں اعلی عہدے پر کام کرتے تھے۔ لہذا وہ بے حد مصروف رہتے تھے۔ 

کسی نے بھی اعتراض نہيں کيا۔ بلکہ سب خوشی خوشی شريک ہونے پہنچ چکے تھے۔ 

مشال اور منزہ بھی صبح سے رئيد کی طرف آچکی تھيں۔ مہمانوں کو ريسيو اور سرو وہی کر رہی تھيں۔ مطيبہ بس ايک بار کمرے سے باہر آئ سب سے سلام دعا کرکے وہ پھر سے اندر کمرے ميں بند ہوچکی تھی۔ 

"يا اللہ کس مصيبت ميں پھنس گئ ہوں" اسے ان سب حالات سے شديد الجھن ہورہی تھی۔ 

دوپہر کا وقت بھی آگيا۔ بيوٹيشن اسے سجانے سنوارنے کو پہنچ چکی تھی۔ 

باہر سے بھی شوروغل کی آوازيں آرہی تھيں۔ 

مطيبہ نے گہرا سانس لے کر ايک بار پھر خود کو حالات کے دھارے پر بہنے کے لئے چھوڑ ديا۔ 

خاموش بيٹھی سامنے شيشے ميں نظر آتے اپنے عکس اور بيوٹيشن کے ماہرانہ ہاتھوں کو ديکھ رہی تھی۔ 

ذہن اس لمحے بالکل خالی تھا۔ 

اس لمحے وہ ڈل گولڈ اور مہندی رنگ کے شرارے ميں اور لانگ شرٹ ميں ملبوس تھی۔ شرٹ اور دوپٹے کے کناروں پر پنک اور ريڈ کلر کا بارڈر تھا اور انہی رنگوں کا کام شرٹ اور شرارے پر ہوا تھا گولڈن رنگ کے ہمراہ۔ 

زيور کے نام پر چھوٹا سا سيٹ تھا پھنکڑی نيکلس اور پنکھڑی کی ہی شکل ميں جھمکے تھے۔ چھوٹا سا ٹيکہ اور خوبصورت سا جھومر لگاۓ وہ کوئ اور ہی مطيبہ لگ رہی تھی۔ 

اسکی اپنی نظر خود پر سے نہيں ہٹ رہی تھی۔ 

يکدم آئينے ميں دو گہری ہيزل آنکھيں ابھريں۔ مطيبہ کی پيشانی عرق آلود ہوئ۔ 

ابھی تو وہ اسکے سامنے نہيں تھی تو دل کی حالت غير ہورہی تھی۔ 

وہ خود کو سنبھال رہی تھی جب مشال کمرے ميں آئ۔ 

"واؤ" کھلے دل سے اس نے مطيبہ کی تعريف کی۔ 

"چلو بھئ سب تمہيں ديکھنے کو بے چين ہيں۔۔ تمہارے دلہا سميت۔۔۔ آج تو تمہيں بھابھی کہہ سکتی ہوں" مشال مسلسل شرارتی لہجہ اپناۓ اسے تنگ کرنے ميں مصروف تھی۔ 

مطيبہ نے بس ايک نظر اسے ديکھا۔ 

منزہ بھی اندر آچکی تھی۔ 

دونوں کی ہمراہی ميں مطيبہ باہر لاؤنج ميں آئ جہاں سب خوش گپيوں ميں مصروف تھے۔ 

آنکھيں جھکاۓ بھی وہ بے شمار نظروں کو خود پر محسوس کررہی تھی۔ 

جن ميں سب سے نماياں رئيد کی نظريں تھيں۔ کچن کے دروازے کے قريب کھڑا اپنے کسی کزن سے باتوں ميں مصروف تھا جب سامنے والے کمرے کا دروازہ کھلتے مطيبہ کو منزہ اور مشال کے ہمراہ باہر آتے دیکھا۔

ساکت نظريں ۔۔۔ درہم برہم سانسيں اس حسن کے پيکر کو ديکھ رہی تھيں۔ 

وہ اس لمحے کتنی خوبصورت لگ رہی تھی کاش ايک بار رئيد کی نظروں ميں ديکھ ليتی تو شايد اسکی محبت کو احسان نہ سمجھتی۔ 

حسن اور رفيعہ نے باری باری آگے بڑھ کر اسے پيار کيا۔ 

مشال اور منزہ نے اسے لاؤنج ميں موجود ايک صوفے پر بٹھا ديا۔ 

"بھائ صاحب اب آپ تشريف رکھيں گے۔۔ تاکہ ہم کچھ تصويريں لے سکيں" آف وائٹ شلوار قميض پر بليک واسکٹ پہنے رئيد کو مشال نے مخاطب کيا۔ ہاتھ ميں تھاما جوس کا گلاس کچن کی سليب پر رکھ کر واسکٹ کو ہاتھوں سے صحيح کرتا مسکراہٹ دباۓ مطيبہ کے ساتھ براجمان ہوا۔ 

مطيبہ سمٹ سی گئ۔ 

کسی اور نے يہ بات محسوس کی ہو يا نہيں مگر رئيد کی تيز حسيات سے يہ بات مخفی نہيں رہ سکی۔ 

اسکے لبوں پر مسکراہٹ رينگ گئ۔ 

"آخر تم نے انوکھے طرز پر شادی کرکے ہم سب کو خاموش کروا ہی ديا" طلحہ جو کہ مشال کا بھائ تھا۔ رئيد کو طعنہ دئيے بغير نہ رہا۔ 

"ہم جو کہتے ہيں کرکے دکھاتے ہيں۔ الفاظ سے پھرنے والا بندہ نہيں ہوں" رئيد نے صوفے کی پشت سے ٹيک لگا کر اطمينان سے بيٹھتے ہوۓ کہا۔ 

مطيبہ کو لگا يہ بات اس نے خاص مطيبہ کو سنائ ہے۔ 

"جی جی۔ مان گۓ سرکار ۔۔ اب تيرے ہنی مون والے ايڈونچر کے لئے بھی ہم تيار ہيں" مطيبہ کے کان طلحہ کی بات پر کھڑے ہوۓ۔ 

رئيد قہقہہ لگا کر رہ گيا۔ 

"وہ بھی پورا ہوگا۔ ڈونٹ وری" رئيد نے سر اثبات ميں ہلاتے مسکراہٹ روک کر بمشکل کہا۔ 

"بھابھی کو بتا چکے ہو اپنے ارادے يا ميں ہی سرجيکل سٹرائيک کروں" لگتا تھا طلحہ سے اسکی کافی بنتی ہے۔ تبھی وہ مسلسل اسے فوکس ميں رکھے ہوۓ تھا۔ 

"نہيں جناب ابھی تمہاری بھابھی نے موقع نہيں ديا۔۔" رئيد نے ايک نظر اپنے ساتھ خاموش بيٹھی مطيبہ پر ڈالی۔ جس کی خاموشی اس لمحے اسے عجيب سے احساس سے دوچار کررہی تھی۔

"تو سنيں بھابھی۔۔۔ آپکے شوہر نامدار کا ارادہ ہنی مون کے نام پر۔۔ لوکل بسوں پر خجل ہو کر ناردن ايريا جانے کا ہے۔ وہاں يہ کسی جنگل ميں کيمپ لگاۓ گا اور چند دن وہيں رہے گا۔جنگلی جانوروں کے بيچ۔کيا آپ اسکا ساتھ دينے کو تیار ہيں؟" طلحہ کی جگہ اب اسکے ماموں کے بيٹے ذيشان نے رئيد کا متوقع ارادہ بتايا۔ 

مطيبہ نے نظر اٹھا کر انہيں ديکھا۔ جو بڑے اشتياق سے مطيبہ کے تاثرات دیکھنے کو بے چين تھے۔ 

"نہيں" مطيبہ نے يک لفظی جواب دے کر انہيں قہقہے لگانے پر مجبور کرديا۔ 

"چل بيٹا تو انسانوں والے ہنی مون پر ہی جانا" طلحہ کی ہنسی رکنے کا نام نہيں لے رہی۔ 

مطيبہ کو ان کی اس ہنسی مذاق سے چڑ سی ہورہی تھی۔

رئيد کی نظروں سے اسکی کوفت چھپی نہيں رہ سکی تھی۔

_____________________

مطيبہ کو ان کی اس ہنسی مذاق سے چڑ سی ہورہی تھی۔

رئيد کی نظروں سے اسکی کوفت چھپی نہيں رہ سکی تھی۔

_____________________

"ہيلو آقا جی" کيف نے معمول سے ہٹ کر رئيد کے گھر چہل پہل ديکھی تو ٹھٹھک گيا۔ 

فورا شہاب کو فون ملايا۔ 

"ہاں بول کيف" شہاب کسی منسٹر سے مل کر واپس گھر کی جانب آرہا تھا۔ جب کيف کی کال ريسيو کی۔ 

بليک شيشوں والی مرسڈيز کی پچھلی سيٹ پر بيٹھا مزے سے اخبار پڑھنے ميں مصروف تھا۔ 

"آقا جی آج يہاں بہت چہل پہل لگ رہی ہے" کيف کی بات پر اس نے اخبار تہہ کرکے سائيڈ پر رکھا۔ اب وہ پوری طرح فون کی جانب متوجہ تھا۔ 

"کيا کہہ رہا ہے" شہاب کچھ چونکا۔ 

"آقا جی بہت سارے لوگ يہاں آۓ ہوۓ ہيں۔ مگر آپکے حکم کے مطابق ہم کوئ کاروائ نہيں کرسکتے۔۔ اور تو اور ابھی ايک جرنل کی گاڑی بھی ديکھی ہے ميں نے يہاں" کيف کی بات پر شہاب کے ہاتھوں طوطے اڑے۔ 

وہ اتنا تو سمجھ گيا تھا کہ رئيد کی پہنچ کافی ہے مگر فوجيوں سے تعلقات ہوں گے اس کا اندازہ نہيں تھا۔ 

"نہيں کوئ کاروائ کرنی بھی نہيں ہے۔۔ تو ايک کام کر کل رات اگر گھر ميں زيادہ لوگ نہ ہوۓ تو اندر جاکر تھوڑی تانک جھانک کرکے ديکھ کہ آخر ہے کون کون يہاں۔۔ يہ کمينہ تو کوئ بہت اونچی چيز لگ رہا ہے" شہاب دانت پيس کر بولا۔ 

"اور سن۔۔ اس طرح جانا کے پکڑے نہ جاؤ۔۔ يہ نہ ہو لينے کے دينے پڑ جائيں۔۔ کس جنجال ميں پھنس گيا" شہاب اب کی بار جھنجھلايا۔ 

"ارے آقا جی ۔۔آج تک کبھی پکڑا گيا ہوں" کيف نے ہنستے ہوۓ کہا۔ 

"اچھا ٹھيک ہے" لہجہ کوفت زدہ تھا۔ فون بند ہوچکا تھا۔

__________________

کھانا کھا کر سب مہمان باری باری رخصت ہونا شروع ہوۓ۔سواۓ ان چند مہمانوں کے جو دبئ سے آۓ ہوۓ تھے۔ 

مشال اور منزہ نے مطيبہ کو رئيد کے کمرے ميں پہنچا ديا۔ 

تازہ گلاب کی پتيوں سے سجا کمرہ۔۔ بيڈ کے چاروں اطراف نيٹ کے پردے کے اوپر پتيوں کو بے حد خوبصورتی سے سجايا گيا تھا۔ کمرے ميں ڈريسنگ۔۔۔ رائيٹنگ ٹيبل اور بيڈ کی سائيڈ ٹيبلز پر جابجا اليکٹرک کينڈلز سجائ ہوئيں تھيں۔ 

مطيبہ نے ايک گہرا سانس کھينچا۔ 

منزہ اور مشال اسے بيڈ کے بيچوں بيچ بٹھا کر چلی گئيں۔ 

مطيبہ نے بے دلی سے يہ سب ديکھا۔ 

اسے سانس لينا دشوار ہونے لگا۔ 

اٹھ کر رائيٹنگ ٹيبل کے ساتھ رکھے بين بيگز کے بنے صوفے پر جابيٹھی۔ 

اب تک تو سب ڈرامہ خوش اسلوبی سے پلے کر ليا تھا۔ 

مگر کمرے ميں اندر آکر رئيد کی سيج سجانے والا ڈرامہ کرنے کی کوئ ضرورت نہيں تھی۔ 

تو وہ کيوں خوامخواہ ميں يہ سب کرتی۔ کچھ سوچ کر اپنی جگہ سے اٹھی۔ 

صبح ميں ہی مشال اسکے وہ چند کپڑے جو اب تک اس نے خريدے تھے۔ 

رئيد کی الماری ميں سيٹ کرگئ تھی۔ 

مطيبہ الماری کی طرف بڑھی۔ 

الماری کھولی۔ سامنے ہی رئيد کے کپڑے ٹنگے تھے۔ کريڈ کی خوشبو نے اسے اپنے حصار ميں لے ليا۔ 

رئيد سے اکثر اسی پرفيوم کی خوشبو آتی تھی۔ 

مطيبہ نے سر جھٹک کر اپنے کپڑے پکڑے الماری بند کرکے وہ جيولری اتارنے کے لئے ابھی ڈريسنگ کے سامنے کھڑی ہی ہوئ تھی کہ رئيد دروازہ ناک کرکے اندر داخل ہوا۔ 

کانوں سے زيور اتارتے ہاتھ کانپے۔ 

رئيد نے دروازہ بند کرتے ايک نظر مطيبہ کے سجے سنورے مگر کسی قدر بے گانے روپ پر ڈالی۔

گھڑی اور موبائل سائيڈ ٹيبل پر رکھا۔ 

ابھی وہ واسکٹ اتارنے ہی لگا تھا کہ پيچھے سے آتی مطيبہ کی آواز پر ٹھٹھک کر ہاتھ روکے۔ 

"آئم سوری کہ ميری وجہ سے آپ کو ان سب حالات سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ ميں يہ سب نہيں چاہتی تھی۔ 

مگر مجبوری ميں يہ سب کرنا پڑ رہا ہے۔ ابھی دو تيں دن آپ کو مجھے اپنے کمرے ميں بھی برداشت کرنا پڑے گا۔۔ کيا ہم اس کا کوئ اور حل نہيں نکال سکتے؟" مطيبہ کا شرمندہ لہجہ رئيد کو اسکی جانب مڑنے پر مجبور کرگيا۔

"آپ ہميشہ متبادل راستے ہی کيوں تلاش کرتی ہيں؟ جو ہورہا ہے اسے ويسے ہی قبول کيوں نہيں کرتيں؟" رئيد کے سوالوں پر اس نے چونک کر اسکی مسکراتی نظروں ميں ديکھا۔

"اسی لئے کہ ميں حقيقت پسند ہوں اور سراب کے پيچھے نہيں بھاگتی۔ کيونکہ ميں جانتی ہوں سراب کے پيچھے بھاگنےوالے خالی ہاتھ رہ جاتے ہيں۔ اور ميں يہ بے وقوفی کبھی نہيں کرنا چاہتی" مضبوط لہجے ميں وہ بولتی۔ بنا سنگھار کے بھی سيدھا رئيد کے دل ميں اتر رہی تھی۔ 

وہ مطيبہ کے اسی اعتماد کا تو ديوانہ تھا۔ 

"محبت کبھی بھی سراب نہيں ہوتی" رئيد کی بات پر اس نے ايک سنجيدہ نگاہ اسکے مسکراتے چہرے پر ڈالی۔  

واسکٹ اتار کر بيڈ پر رکھتے اب وہ پوری طرح اسکی جانب متوجہ تھا۔ جس کا دوپٹہ سر سے اتر کر کندھوں کو ڈھانپے ہوۓ تھا۔ 

"ميرے نزديک محبت صرف ايک کشش ہے" مطيبہ نے اپنا خيال ظاہر کيا۔ 

"اور ميرے نزديک يہی سب کچھ ہے۔۔ ہاں کشش تو يہ واقعی ہے اور اسی لئے آج مجھے آپ بھی بہت بہت پرکشش لگ رہی ہيں" رئيد کے اتنے واضح اظہار پر مطيبہ ششدر رہ گئ۔ 

"ميک اپ کا کمال ہے" مطيبہ کے صاف گو انداز پر وہ قہقہہ لگاۓ بغير نہ رہ سکا۔ يہ

"پہلی لڑکی ديکھی ہے جو يہ کہنے کی بجاۓ کہ يہ نيچرل بيوٹی ہے ۔۔مزے سے اپنے خوبصورت لگنے کو ميک اپ کا کمال کہہ رہی ہے" رئيد نے اسکی بات کو خوب انجواۓ کيا۔ 

:"پليز۔۔ ميں اس بات سے اچھی طرح واقف ہوں کہ مجھ جيسی ايک عام سی شکل و صورت والی لڑکی تو کبھی آپکی چوائس نہيں ہوسکتی۔ تو پھر ميں کيوں خود کو دھوکے ميں رکھوں" مطيبہ نے آخر کا ر دل کڑا کرے وہ سب کہہ ديا جو وہ اب تک رئيد کے لہجے ميں محسوس کررہی تھی۔ 

رئيد کے بدلتے انداز اسے بہت اچھے سے سمجھ آرہے تھے۔ 

وہ ان سب پر بند باندھنا چاہتی تھی اور اس سب کے لئے اب اسے کھل کر بات کرنی تھی۔

"افسوس لوگوں کو جاننے کا دعوی آپ کا ميرے بارے ميں تو غلط ثابت ہوا ہے" رئيد نے اپنی گہری ہيزل آنکھوں ميں اسکے خوبصورت چہرے کو جکڑا۔ 

"کيا مطلب" اس نے الجھ کر رئيد کو ديکھا۔ سواليہ نظروں نے رئيد کو بے چين کيا۔ 

"ميرے لئے ظاہری خوبصورتی کبھی کوئ معنی نہيں رکھتی۔۔ ميرے لئے تو اندر کی خوبصورتی کشش رکھتی ہے۔ اور افسوس آپ اپنی اندر کی خوبصورتی کو مجھ سے چھپانے ميں ناکام ہوئيں۔۔ مجھے تو اس اندر کی مطيبہ سے محبت ہے جو صاف۔ کھری ہے۔ جس کے چہرے پر خوبصورت لہجے کا ماسک نہيں چڑھا۔ جو اندر باہر سے بالکل شفاف آئينے کی طرح دکھتی ہے۔۔" رئيد کے اتنے واضح اظہار نے مطيبہ کو گنگ کرديا۔ 

کيسا شخص تھا وہ جس نے نہ اسکی آنکھوں کی تعريف کی تھی۔ نہ ہونٹوں پر مر مٹنے کے دعوے کئيے تھے۔ جس کے نزديک نہ اسکے گال کوئ معنی رکھتے تھے۔ نہ گھنيری زلفوں کی تعريف ميں اس نے دنيا جہان کے قلابے ملاۓ تھے۔ 

وہ تو اسکے باطن پر فدا تھا۔ وہ تو اس کے اندر تک جھانک چکا تھا۔۔وہ اسکی سچائ کا معترف تھا۔ 

مطيبہ ششدر اسے دو قدم اور بڑھتے ديکھ رہی تھی۔ 

جو اسکے قريب آتے دھيرے سے اسکے ہاتھ تھام چکا تھا۔ 

"سر"

"اونہہ" مطيبہ کچھ کہنے والی تھی کہ اسکے سر کہنے پر رئيد گمبھير آواز ميں اسے ٹوک گيا۔

"مگر ميری زندگی کی کسی بھی پليننگ ميں محبت کہيں نہيں ہے" مطيبہ اسکے ہاتھ تھامنے پر چونکی۔ 

اسکی بولتی نظروں سے نظريں چراتے سر جھکا گئ۔ 

رئيد اپنی محبت کے سامنے اس کا يہ بس بس انداز ديکھ کر مسکراۓ بغير نہ رہ سکا۔ 

"محبت تو پليننگ سے ہوتی ہی نہيں۔۔۔ اور جو محبت پليننگ سے ہو وہ تو صرف سودا ہوتا ہے۔ خواہشوں کا سودا۔۔ ہوس کا سودا۔۔ اور جيسے ہی يہ خواہشيں پوری ہوتی ہيں محبت جھاگ کی طرح بيٹھ جاتی ہے" رئيد اسکی جانب تھوڑا سا جھکا۔ 

اسکا ايک ايک لفظ مطيبہ کے دل ميں اتر رہا تھا۔

"ميری محبت آپ کو کبھی مجبور نہيں کرے گی۔۔ مگر آپکی بے اعتنائ کے باوجود ميں خود کو آپ سے محبت کرنے سے روک نہيں سکتا۔۔نہ آپ روک سکتی ہو" رئيد کا ہٹ دھرم لہجہ مطيبہ کو ساکت کر گيا۔ 

"ميں اب بھی اپنے الفاظ پر قائم ہوں۔ جو آپ سے نکاح یے وقت کئيے تھے۔ اس نکاح کو رشتے ميں نہيں بدلنا چاہو گی تو ميں کبھی مجبور نہيں کروں گا۔" رئيد نے اسے پھر سے يقين دلايا۔ اپنے الفاظ کا۔۔

"محبت کی يہ واردات تو مجھ پر ہوئ ہے۔ آپ کو اسکی سزا کبھی نہيں دوں گا" محبت سے چور لہجہ مطيبہ کی دھڑکنيں بے ترتيب کررہا تھا۔ 

عقيدت کے پھول اسکی پيشانی پر سجاتے رئيد نے اسکے ہاتھ چھوڑے ۔

خاموشی سے مڑ کر الماری کی جانب بڑھا۔ 

اور پھر کپڑے نکال کر واش روم ميں بند ہوگيا۔

واردات تو مطيبہ کے دل پر بھی ہوئ تھی اور وہ سزا جھيل رہی تھی۔ 

مگر رئيد کے احسان کو محبت کے روپ ميں کيسے بدل ديتی۔ 

رئيد کے باہر آتے ہی وہ خاموشی سے کپڑے لئے واش روم ميں چلی گئ۔ 

باہر آئ تو تمام لائٹس بند تھيں۔ 

صرف اليکٹرک موم بتياں پورے کمرے کو روشن کررہی تھيں۔ 

واش روم کا دروازہ بند کرکے آگے بڑھی۔ 

رئيد بيڈ کے ايک کنارے پر کروٹ لئيے ليٹا تھا۔ 

باقی کا پورا بيڈ خالی تھا۔ 

مطيبہ کچھ سوچ کر سامنے رکھے بينز بيگ کے بنے صوفے کی جانب بڑھی۔ 

رئيد اسکی موجودگی محسوس کرتے ہوۓ سيدھا ہوا۔ 

"مطيبہ۔۔" اس سے پہلے کے وہ اسے ٹوکتا۔ 

مطيبہ اسکے کچھ کہنے سے پہلے ہی بولی۔ 

"پليز۔۔ مجھے پہلے ہی بہت ندامت ہورہی ہے کہ ميری وجہ سے آپ کا آرام بھی خراب ہورہا ہے۔ ميں يہاں پر ٹھيک ہوں" مطيبہ نے اسکی بات کاٹی۔ 

"ابھی تک آپ اتنا تو جان چکی ہوں گی۔ کہ ميں کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے والا شخص نہيں۔ آپ دو تين دن ميرے کمرے ميں ميری مہمان ہيں۔ اور مہمانوں کے ساتھ ميں برا سلوک نہيں کرتا" رئيد کی بات پر وہ اسے بے بسی سے ديکھ کر رہ گئ۔ 

"آپ آرام سے بنا کسی خوف کے يہاں آکر ليٹ جائيں۔۔پليز" رئيد کے انداز پر وہ ہاتھ مروڑنے لگی۔ 

"ويسے بھی آپ جتنی بااعتماد ہيں۔۔ مجھ بيچارے کو تو کسی خاطر ميں لاتيں ہی نہيں۔۔ تو پھر مجھ سے خوف کيسا" رئيد نے ہاتھ سر کے پيچھے باندھتے اس کا جائزہ ليا۔ 

ليمن کلر کے ديدہ زيب سوٹ ميں وہ پہلی بار اسکے دوپٹے کو کندھوں پر ديکھ رہا تھا۔ 

ورنہ وہ ہميشہ دوپٹہ سر پر اور جسم پر لپيٹ کر رکھتی تھی چادر کے سے انداز ميں۔ 

"مرد کبھی بيچارہ نہيں ہوتا" مطيبہ اس پر چوٹ کرتی خاموشی سے بيڈ کے دوسری جانب آکر بيٹھ گئ۔ 

"آپ بيٹھے بيٹھے سوتی ہيں" رئيد اسے بيٹھے دیکھ کر مصنوعی حيرت سے بولا۔ 

"نہيں ليٹ بھی جاتی ہوں۔ ليکن اسکے لئے شرط يہ ہے کہ آپ اپنا رخ دوسری جانب کريں" مطيبہ نے اسے احساس دلانا چاہا کہ وہ مسلسل اسے گھور رہا ہے۔ 

"ميں آپ پر کڑی نظر رکھے ہوۓ ہوں۔ کہ کہيں ميرے منہ دوسری جانب کرتے ہی آپ پھر سے نہ بھاگ کھڑی ہوں" رئيد اس کا امتحان لينے پر تلا ہوا تھا۔ 

"بھاگ کر بھی کہاں جاؤں گی۔ اسی کمرے ميں ہوں گی" مطيبہ نے جان بوجھ کر بے چاری سی شکل بنا کر کہا۔ 

"ہاہاہا۔۔۔۔ ابھی تو دو تين دن بقول آپکے آپ مجھ پر مسلط رہيں گی" رئيد نے اسکی بات کا مزہ ليا۔ 

"جی بالکل۔۔۔" مطيبہ نے اسی طرح بيٹھے بيٹھے پھر جواب ديا۔ 

""اوکے دين گڈ نائٹ" رئيد اس کا مزيد امتحان نہيں لينا چاہتا تھا لہذا اب کی بار شرافت سے کروٹ دوسری جانب بدل کر ليٹ گيا۔ 

اسکے ليٹتے ہی مطيبہ بھی چپ چاپ کروٹ دوسری جانب لئے ليٹ گئ۔

____________________

جاری ہے


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Ishq Main Hari  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Ishq Main Hari  written by Ana Ilyas . Ishq Mian Hari  by Ana Ilyas is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link



  

 


No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages