Jannat Ky Pattay By Nimra Ahmed Complete Famous Urdu Novel
Madiha Shah Writer ; Urdu Novels Stories
Novel Genre : Romantic Urdu Novel Enjoy Reading…
“ ناول :جنت کے پتے
قسط:1
لیپ ٹاپ تکیے پر رکھا ہوا تھا، وہ سامنے کوہنیوں کے بل اوندھی لیتی ہوئی تھی.
اسکرین کی روشنی اسکے چہرے کو چمکا رہی تھی. وہ تھوڑی تلے ہتھیلی رکھے دوسرے ہاتھ
کی ایک انگلی لیپ ٹاپ کے ٹچ پیڈ پر پھیر رہی تھی. لمبے سیدھے سیاہ بال پر پڑے تھے.
اسکی آنکھیں بھی ویسی ہی تھیں.سیاہ بڑی بڑی آنکھیں کے چاندنی جیسی چمک تھی.
اور چہرہ ملائی کا بنا لگتا تھا، سفید، صاف اور چکنا سا. وہ اسی مگن انداز میں سکرین
پر نظریں مرکوز کے ٹچ پیڈ پر انگلی پھیر رہی تھی. ایک کلک کے بعد کوئی صفہ کھلا تو
اسکی متحرک انگلی روک گئی.
سکرین پر جمی آنکھوں میں ذرا تفکر ابھرا اور پھر بے چینی اسنے جلدی جلدی دو
تین بٹن دباتے. لوڈنگ............................... اگلے صفحے کے لوڈ ہونے کے
انتظار کرتے ہوے اسی مضطرب انداز میں اسنے انگلی سے چہرے کی دائیں طرف سے پھسلتی
لٹیں پیچھے کیں. چند سیکنڈ میں صفحہ لوڈ ہوگیا. وہ بے چین ہو کر چہرہ سکرین کے قریب
لائی تو اسکے بالوں کی چند
لٹیں پھسل کر پھر چہرے کے سامنے آگئیں. جیسے جیسے وہ پڑھتی گئی اسکی آنکھیں
حیرت سے پھیلتی گئیں. لب ذرا سے کھل گئے. اور پورا وجود بے یقینی این ڈوب گیا. ڈھیر
سارے لمحے لگے تھے اسکو خود کو یقین دلانے میں جو وہ پڑھ رہی تھی. بلکل سچ ہے اور
جیسے ہی اسکے ذھن نے یقین کی دھرتی کو چھوا، وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی. اسکا فون
سائیڈ ٹیبل پر رکھا تھا. اسنے ہاتھ بڑھا کر سیل اٹھایا اور جلدی جلدی کوئی نمبر
ڈائیل کیا. رات کی مقدس خاموشی میں بٹنوں کی آواز نے ذرا ارتعاش پیدا کیا. اسنے
فون کان سے لگایا دوسری طرف بیل جا رہی تھی. "ہیلو ذرا!" شاید رابطہ مل
گیا تھا. تب ہی وہ بےحد شوخی سے چہکی. کسی ہو؟ سو تو نہیں گئی تھی؟ دوسری طرف اسکی
دوست کچھ کہ رہی تھی. وہ لمحے بھر کو سننےکے لئے رکی، اور پھر ہنس پڑی. "ساری
باتیں چھوڑو میرے پاس جو بڑی خبر ہے وہ سنو! اسنے عادتا اپنے بالوں کی لٹ کو انگلی
پر لپٹتے ہوے کہا. " تم یقین نہیں کرو گی میں جانتی ہوں"
"ارے نہیں یار دلاور بھائی کی شادی کے بارے میں نہیں ہے."
دوسری طرف ذرا نے کچھ کہا تو اسنے فورا تردید کی. "بلکے تم ایسا کرو گیسس کرو
میں تمہیں کیا بتانے والی ہوں"؟ اسنے ایک ہاتھ سے لیپ ٹاپ سائیڈ پر کیا اور
تکیہ نکال کر بیڈ کروائن سے ٹیک لگا کر کہا. پھر اسنے ٹیک لگا کر پاؤں سیدھے کر
لئے. ساتھ ساتھ وہ زارا کے اندازوں کی تردید بھی کے جا رہی تھی. "نہیں! بلکل
نہیں" "ایسا تو بلکل بھی نہیں" "ارے میری شادی بھی نہیں ہو رہی"
"جی نہیں! ارم کی بھی نہیں ہو رہی" "سیریسلی زارا ! تمہاری سوچ بس یہی
تک ہے. اب کان کھول کر سنو تم، وہ آرمدیوس ایکسچینج پروگرام. یاد
ہے جسکے لئے ہم نے apply کیا تھا. can you believe it zara? ؟ یورپین یونین نے
مجھے سکالر شپ کے لئے سلیکٹ کیا ہے. دوسری جانب زارا اتنی زور سے چیخی کے موبائل
کا سپیکر بینڈ ہونے کے باوجود بھی اسکو چیخ پورے کمرے میں گونجی تھی. "بلکل
سچ کہ رہی ہوں زارا! ابھی پندرہ منٹس پہلے مجھے یونیورسٹی کی میل ملی ہے. اور ساتھ
ہی پرے لیپ ٹاپ کا رخ اپنی طرف موڑ کر دوبارہ غور سے سکرین کو دیکھا. "حہاں
پندرہ منٹ پہلے ہی سلیکشن میل آئی ہے. تم بھی فورا چیک کرو تم نے بھی
apply کیا تھا تمہیں بھی میل آئی ہوگی. وہ فون ایک ہاتھ
میں پکڑ کر دوسرے ہاتھ سے لیپ ٹاپ آف کر رہی تھی.
لیپ ٹاپ کی سکرین پر اندھیرا ہوا تو اسنے ہاتھ پڑھا کر سکرین کو بند کیا
اور سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا. حہاں میں نے سبانجی کو نیٹ پر دیکھا ہے. بہت ہی
خوبصورت یونیورسٹی ہے. مگر...... وہ تھوڑی دیر کو خاموش ہوگئی. دوسری طرف سے
استفسار پر وہ پھر سے بولی تھی. بس ایک چھوٹا سا مسلۂ ہے ہم اپنی فیملیز کو اسکے
بارے میں نہیں بتائیں گے. دھیمی آواز میں بولتے ہوے اسنے بند دروازے کو دیکھا.
دراصل سانجی می لڑکیوں کے ہیڈ سکارف پر پابندی ہے. ادھر سر ڈھکنا منع ہے. گھر
والوں کو بتا کر متفکر کرنے کے بجے اس بات کو گول کر جانا. ویسے بھی ہم دونوں ہی
سکارف نہیں لیتیں. اس پل کھڑکی
کے بہار کچھ کھڑکا تھا. وہ چونک کر دیکھنے لگی. قد آدم کھڑکیوں کے آگے بھاری
پردے گرے ہوے تھے. البتہ پیچھے جالیاں کھلی ہوئی تھیں. شاید اسکا وہم تھا وہ سر
جھٹک کر فون کی طرف متوجہ ہوگئی. "ابا نے مجھے کبی سکارف لینے یا سر ڈھکنے پر
مجبور نہیں کیا!تھنک گاڈ" ہاں ارم گھر کے باہر سکارف لیتی ہے اسکے ابو، تیا،ور
فرقان کچھ سخت ہیں نہ. پھر وہ بیڈ سے ٹیک لگاتے ہوے نیم دراز ہو کر بتانے لگی.
"پرمشن کا تو کوئی مسلۂ نہیں ہے. ابا اسپین جانے کی اجازت نہ دیتے مگر ترکی میں
سبین کی پھوپھو رہتیں ہیں تو وہ مان گئے تھے. ویسے بھی انہیں اپنی بیٹی پر پورا
بھروسہ ہے.
پھر وہ چند لمحے اپنی دوست کی باتیں سنتی رہی. زارا خاموش ہوئی تو اسنے پھر
نفی میں سر ہلایا. "کل نہیں! داور بھائی کی مہندی کل ہے تم آرہی ہوں
نہ"؟ 'اور ہان میں اور ارم لہنگا پہن رہے ہیں" "سارے کزنز بہت
excited ہیں خاندان کی پہلی شادی ہے نہ" "
اوکے! اب تم جا کر میل چیک کرو، میں بھی سوتی ہوں رات بہت ہوگئی ہے. الوادعی کلمات
بولنے پی بعد اسنے فون تکیہ پر اچھال دیا. پھر جانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی. باہر
لاؤنج خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا. حیا نے آہستہ سے اپنے کمرے کا دروازہ بند کیا.
ننگے پاؤں چلتے لاؤنج سے کچن میں آئی. سیاہ قمیض اور کھلے ٹراوزر
میں اسکا قد اور بھی دراز لگ رہا تھا. کچن میں اندھیرا پھیلا ہوا تھا. وہ
دروازے پر رکی اور ہاتھ بڑھا کر کچن کی لائٹ جلائی.سری بتیاں جل گئیں. اسنے اگے
بڑھ کر فرج کا دروازہ کھولا اور پانی کی بوتل نکلنے کو جھکی. جھکنے سے بال پھسل کر
سامنے آگے. حیا نے نرمی سے انکو پیچھے ہٹایا اور پانی کی بوتل لے کر سیدھی ہوئی.
کونٹر پر رکھے ریک سے گلاس اٹھایا اور پانی گلاس میں انڈیلنے لگی. اسکی نگاہ کونٹر
پر رکھی سفید چیز پر پڑی. وہ جیسے چونک اٹھی بوتل وہی رکھ کر آگے آئی. وہ سفید آدھ
کھلے گلابوں کا بکے تھا. ساتھ ایک سفید لفافہ بھی تھا حیا نے گلدستہ اٹھایا اور
دھرے سے پاس لا کر آنکھیں موندھے اسکو سونگھا. دلفریب تازگی بھری مہک اس میں اتر
گئی. پھول بلکل تازہ تھے جسی ابھی توڑے ہوں، جانے کون یہاں رکھ گیا. اسنے بند
لفافہ اٹھیا اور پلٹ کر دیکھا. اسکے پتے والی جگہ پر "حیا سلمان "لکھا
ہوا تھا. بھیجنے والی کا کوئی پتا نہیں لکھا تھا بس کوریور کی ٹکٹ لگی ہوئی تھی.
اور ٹکٹ پر ایک روز قبل کی تاریخ لکھی ہوئی تھی. اسکو تو کبھی کسی نے یوں پھول نہیں
بھیجے، یہ کیا معامله تھا. الجھتے ہوے حیا نے لفافہ چاک کیا. اس این ایک موٹا کاغذ
تھا. اسنے دو انگلیاں دال کر کاغذ باہر نکالا. سفید کاغذ بلکل صاف تھا نہ کوئی لکیر
نہ ڈیزائن. بس
اسکے وسط میں ٣ لفظ لکھے ہوے تھے. "welcome to
Sabanci" " وہ سناتے میں رہ گئی. یہ کیا مذک
تھا؟ بھلا خط بھیجنے والی کو کیا معلوم کے میں سانجی جا رہی ہوں. خط پر تو ایک روز
قبل کی تاریخ لکھی ہوئی تھی. جب کے قبولیت کی میل تو ابھی پندرہ منٹ پہلے ملی. تو
پھول بھیجنے والی کو ایک دن پہلے کیسے پتا چل گئی. اگر زارا کو اسنے خود نہ بتایا
ہوتا تو وہ یہی سمجھتی کے یہ اسکی حرکت ہے. یہ خط سبانجی یونیورسٹی کی طرف سے بھی
نہیں آسکتا تھا. کیوں کے اس پر لوکل کوریور کی موہر لگی ہوئی تھی. پھر کسنے بھیجا
ہے یہ؟ وہ پانی کا گلاس وہی سلیب پر رکھ کر بکے اتھاہ کر سوچتی ہوئی اپنے کمرے میں
کھلی گئی.
اسنے لاک میں چابی گھمائی ہی تھی کے گیٹ کے پار سے زارا آتی دکھائی دی. وہ
دروازہ کھول کر مسکراتی ہوئی سیدھی ہوئی. "حیا مجھے تو کوئی میل نہیں ملی."
زارا آدھ کھلے گیٹ کو دھکیل کر اندر قدم رکھا. اسکے چہرے پر اداسی تھی. "کوئی
بات نہیں ایک دو دن میں آجاتے گی، فکر مت کرو." ہم نے ایک ساتھ ہی
apply کیا تھا مجھے آگیا ہے تو تمہیں بھی آجاے گی.
"مگر سکولر شپ کوارڈینیٹر کے آفس کے باہر تھی اس میں بھی میرا نام نہیں
ہے". "اور میرا"؟ "صرف تمہارا ہے ہمرے ڈیپارٹمنٹ میں سے اور اینورومنٹل
سائنسز کی ایک لڑکی خدیجہ کا ہے". مجھے لگتا ہے میرا سلیکشن ہی نہیں ہوا.
"اوہ " اسے واقع افسوس ہوا تھا
اسکی زارا سے اب بات ہو رہی تھی. "خیر! تم کہی رہیں تھی"؟ زارا
چہرے پر بشاشت لاتے ہوے بولی. "ہاں مارکیٹ ارم کے ساتھ، کل داور بھی کی مہندی
کا فنکشن ہے نہ اور لحنگے کے ساتھ کی ہائی ہیلز گم ہوگئیں ہیں. شاید کام والی اٹھا
کر لے گئی ہے. اب نیے جوتے خریدنے پڑیں گے. تم چلو گی ساتھ.؟ وہ گاڑی کوہنی ٹیکاتے
ہوے کہا. وہ ہلکی آسمانی لمبی قمیض اور تنگ چوری دار پاجامے میں ملبوس تھی. قمیض
کا دامن ٹخنوں سے ذرا اپر تھا. ہم رنگ دوپٹہ گلے میں تھا اور بل کمر پر کھلے تھے.
"ہاں ! چلو جلدی نکلتے ہیں. زارا فورن تیار ہوگئی اور فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی.
"ارم کو بھی لینا ہے" حیا نے بیٹھ کر کہا.
" ویسے تمہارے سخت سے تایا ارم کو تمہارے ساتھ جانے کی اجازت دے
دیتے ہیں"؟ ارم ان دونوں سے جونیئر تھی اور اسکا ڈیپارٹمنٹ بھی دوسرا تھا. سو
زارا سے اسکی زیادہ ملاقات نہیں تھی. "انکی سختی صرف سکارف تک ہے. ایسے ویسے
نہیں ہیں وہ" وہ کار باہر گیٹ پر لے آئی. ارم کا گھر زارا کے ہمساے میں تھا.
دونوں گھروں کے درمیان کی دیوار میں آنے جانے کا رستہ تھا. لیکن سے جب بھی ارم کو
پک کرنا ہوتا تو وہ اسکے گیٹ پر ہارن کیا کرتی تھی. اب بھی زور سے ہارن کیا تو چند
لمحوں میں ارم باہر اگئی. کاسنی لمبی قمیض اور ٹراؤزر اور ہم رنگ دوپٹے سینے پر پھیلاے
اور چہرے پر کاسنی سکارف
لپیٹے وہ تقریبآ بھاگتی ہوئی پچھلی سیٹ کے دروازے پر آئی. "ہیلو حیا !
ہیلو زارا ! وہ چہکتی ہوئی کہ کر بیٹھی اور دروازہ بند کیا. حیا کے ساتھ اووٹنگ کے
پروگرام پر وہ یوں ہی خوش ہوا کرتی تھی. "کسی ہو ارم ! تم سے تو اب ملاقات ہی
نہیں ہوتی". اسنے رخ موڑ کر اسکو دیکھا. "آپ کا ڈیپارٹمنٹ دور پڑتا ہے،
تب ہی اور ہاں، حیا بتا رہی تھی کے آپ لوگوں کا ترکی میں سلیکشن ہوگئی ہے. "میں
سلیکٹ نہیں ہوئی، ہی ہوگئی ہے، خیر ! اسی میں کوئی بہتری ہوگی. تم نے
apply نہیں کیا تھا؟" "ابّا اجازت دیتے تب
نہ"؟ اسنے اداس ہوکر کہا. "ویسے پرنٹس کو اتنا سخت نہیں ہونا چاہیے"
زارا نے کہا.
حیا نے تادیبی نظروں سے زارا کو دیکھا کے پہلے احساس کمتری میں مبتلا ارم
مزید اداس نہ ہو جاتے. "ابا بھی پتا نہیں اتنے سخت کیوں ہیں؟ گرمی میں سکارف
لینا اتنا آسان تو نہیں ہے. اور پھر کل مہندی کے لہنگے کی بھی آدھی آستیں رکھنے نہیں
دیں. حیا کی بھی تو آدھی آستیں ہیں. مگر ابّا ذرا بھی سلمان چچا جیسے نہیں ہیں.
"ارم! تمہیں آج کیا لینا ہے؟ میں نے تو جوتے لینے ہیں. اسنے کوفت چھپاتے ہوے
بات کو بدلہ. ارم ہر وقت یہی رونا روتی رہتی تھی. "چوریاں لینی ہیں! مگر پوری
آستیں کی بلاؤز کے ساتھ چوڑیاں اچھی کہاں لگیں گی" وہ منہ بسورے پھر سے شروع
ہونے لگی تو حیا نے کیسٹ پلیئرآن کر دیا. عا طف اسلم کا گنا پوری آواز میں گونجنے
لگا تو ارم کو چپ ہونا پڑا. "مارکیٹ پوھنچنے کے بعد ارم تو چوڑیاں ڈھونڈھنے
نکل گی اور وہ دونو میٹرو آگئیں. " یہ گولڈن والا جو تیسرے نمبر پر رکھا ہے
وہ دکھائیں " بہت دہر بعد ایک اونچی ہیل اسکی نظر میں جچی تھی. "یہ والا
میم" سیلز مین نے جوتا نکل کر اسکے سامنے کیا. وہ زمین پر پنجوں کے بل بیٹھا
تھا اور وہ دونوں کاؤچ پر بیٹھی تھیں. "پہنا دوں میم" بہت مؤادب اور
شائستہ لہجے میں سیلز مین نے مسکرا کر پوچھا.
"میرے ہاتھ نہیں ٹوٹے ہوے میں خود پہن سکتی ہوں" "جی
شیور یہ لیجیے" سیلز مں نے مسکراتے ہوے جوتا اسکی طرف بڑھایا. اسنے اسے یوں
پکڑ رکھا تھا کے پکرتے وقت حیا کی انگلیاں لازمی اسکے ہاتھ سے مس ہوتیں. "سامنے
رکھ دو میں اٹھا لوں گی". اسکو روکھے انداز پر سیلز میں نے گنگناتے ہوے جوتا
سامنے رکھ دیا. پھر بل کی ادائیگی کے بعد کاؤنٹر پر کھڑے لڑکے نے بقیہ رقم اسکی
طرف بڑھائی تو حیا نے دیکھا کے پیسوں کے اوپر پانچ کا سکا رکھا ہوا ہے اور لڑکے نے
سکا یوں پکڑ رکھا تھا جیسے سیلز میں نے جوتا.... "شکریہ" ہی نے نوتے کو
کنارے
سے پکڑ کر کھینچا تو سکا لڑکے کے ہاتھ میں ہی رہ گیا. "میم! آپ کا سکہ
" لڑکے نے فاتحانہ مسکراتے ہوے کہا کے اب تو لازمی پکڑے گی اور...... "یہ
سامنے پڑے صدقے کے باکس میں ڈال دو". وہ بے نیازی شوپپر تھامے پلٹی تو زارا
نے بے اختیار قہقہہ لگایا. " اس لڑکے کی شکل دیکھنے والی تھی" "اس
لڑکے کی شکل دیکھنے والی تھی حیا" دل کر رہا تھا اسکی شکل پر شاپ میں پڑے
سارے جوتے مار دوں. پتا نہیں ہمارے ذہنیت کب بدلے گی. یوں گھورتے بار لڑکی دیکھی
ہو. وہ تنفر سے ناک سکوڑتی غصّے سے سیڑھیاں اتر رہی تھی، جب قریب ہی سے آواز آئی.
"تو اتنا بن سنور کے باہر مت نکلا کرو بی بی !" وہ چونک کر
آخری سیڑھی پر روک گئی. ایک ممر خاتون تھی. بڑی سی چادر لپیٹی ہوئی، ناگواری بھری
نگاہ اس پر ڈال کر اوپر زینے پر چڑھ گئیں. "ایک تو لوگوں کو راہ چلتے تبلیغ
کا شوق ہوتا ہے" زارا اسکو کوہنی سے تھامے ہوے وہاں سے آئی. تب ہی ارم سامنے
سے آتی دکھائی دی. اسکا سینے پر پھیلا دوپٹہ اب سمٹ کر گلے میں جا چکا تھا. اسنے
کوئی خاص شاپنگ نہیں کی تھی. شاید وہ اسکے ساتھ صرف اوٹنگ کے لئے آئی تھی. میٹرو
سے وہ "اسکو پ" چلی آئیں، تاکہ کچھ کھا پی لیں. رات کی دعوت تو تایا
فرقان کی طرف تھی، جو بیٹے کی شادی کے لئے آے ہوے
لوگوں کو دے رہے تھے. "میرے لئے پائن ایپل منگوانا میں ذرا بیکری سے
کچھ .لے آؤں. ارم جھپٹ کر باہر کو لپکی. حیا نے گہری سانس لیتے ہوے اپنی سائیڈ کا
شیشہ .نیچے کیا، سرد ہوا کا تھپیڑا اندر آیا. مگر اتنی سردی میں سلش پینے کا اپنا
ہی مزہ ہوتا ہے. وہ پارکنگ لاٹ میں ماجود تھیں اور ٹھنڈی ہوا نے سبکو گھیرا ہوا
تھا. "ارم خاصی کمپلیسڈ لگی ہے نہ"؟ ارم دور ہوگئی تو زارا اسکی طرف مڑی.
"اور تم اسکے کمپلیکس کو ہوا دے رہی ہو". وہ الٹا اسی پر خفا ہوئی.
"تایا فرقان صرف سکارف کی سختی کرتے ہیں. وہ بس اس بات پر خود ترسی کا شکار
ہے اور تم بھی اسکا ساتھ دے رہی ہو.
"میں نے کہا کے بے چاری......" "نہیں ہے وہ بے چاری،
اب اسکو بھی یہی سمجھانا ہے کے خام خواہ کی خود ترسی سے نکل آے." ویٹر ہاتھ میں
کارڈ پکڑے حیا کی طرف آچکا تھا. "تمہیں یاد ہے زارا! جب پچھلے سال یونیورسٹی
والوں نے ہمیں ترکی کے ٹریپ کی آس دلائی تھی اور آخر میں آکر سارا پروگرام کینسل
کر دیا تھا". آرڈر کر کے شیشہ اپر چڑھا کر کر وہ یاد کرنے لگی. "میں تو
اتنی مایوس ہوگئی تھی سوچا بھی نہ تھا کے کبھی جا سکون گی." اسکی آواز میں اس
جڑنے کی خوشی دار آئی تھی. زارا اور وہ ایل ایل بی کے پانچویں سال میں تھیں. انکا
ساتواں سمسٹر کا درمیان تھا جب یورپی یونین کے سکلور شپ کا اعلان ہوا. جسکے تحت یورپی
اور اشیا کی یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس کا تبادلہ ہوگا. جب درخواست دینے کی باری
آئی تو اسکو ترکی کی سبانجی یونیورسٹی کا فارم سب سے آسان لگا، پھر ایک ہسپانوی یونیورسٹی
میں بھی ساتھ ہی apply کیا بلا آخر سبانجی نے اسکا انتخاب کر لیا. ساتواں سمسٹر پورا کر کے اسکو
پانچ ماہ کے لئے ترکی جانا تھا. جہاں اسکے مضامین تو نہ تھے کے ترکی کا قانون
پاکستان کے قانون سے مختلف تھا. سو پانچ ماہ کے لئے وہ اپنی مرضی سے کوئی بھی
مضمون پڑھ سکتی تھی. پھر پاکستان واپس آکر آٹھواں سمسٹر شروع کرنا تھا. "کتنا
مزہ آے حیا، کوئی رومانٹک سا ہینڈ سم سا ہم سفر تمہیں مل جاتے تو تمہارا سفر کتنا
خوبصورت ہو جاتے.
"ہم سفر کوئی نہیں ،ملنے والا، پاکستان سے ہم صرف دو لڑکیاں
سباجنی جا رہی ہیں، اور پھر ہم ٹھہرے وومین یونیورسٹی میں پڑھنے والی".
"وہ خدیجہ رانا جو تمہارے ساتھ جا رہی ہے اس سے کوئی بات ہوئی." ویٹر سے
شیشہ بجایا تو حیا نے شیشہ نیچے کیا. "نہیں! خدیجہ رانا کو تو میں جانتی بھی
نہیں ہوں. اسنے سلش کے گلاس پکڑے، زارا کا اسکو تھمایا ارم کا ڈیش بورڈ پر رکھا.
بے دہانی میں وہ شیشہ بند کرنا بھول گئی اسکے علم میں نہ رہا. دفعتاً!
زارا کا موبائل بجا. زارا نے سپ لیتے ہوے فون کان سے لگایا. "ہیلو
اماں! جی کیا ہوا؟ آواز خراب ہے، ایک منٹ. زارا کے فون پر سگنل ٹھیک نہیں آرہے
تھے، وہ سلش کا گلاس ہاتھ میں پکڑے باہر نکل گئی. حیا اپنے گلاس سے چوٹھے چوٹھے سپ
لیتے ہوے ونڈ سکرین سے بہار دیکھنے لگی. اب وہ دور درخت کے پاس کھڑی بات کر رہی تھی.
"ہیلو مائی بیوٹی!" کوئی ایک دم سے اسکے بلکل قریب آکر بولا تھا. وہ ڈر
کر اچھلی. ذرا سر جوس بھی کپڑوں پر گرا.
کھلی کھڑکی پر ایک خوبصرت عورت جھکی ہوئی تھی. میک اپ سے بھرا چہرہ، آئی شیڈو
سے چمکتی آنکھیں، بھڑکتی ہوئی سرخی، بالوں کا جوڑا اور چم چم کرتے کپڑے. وہ عورت
نہیں تھی مگر مرد بھی نہیں تھا. "ڈرو نہیں سوہنیو! میں تمہاری دوست ہوں ڈولی
کہتے ہیں مجھے" "ہٹو، ہٹو جاؤ. وہ گھبرا گئی. خواجہ سرا کے وجود سے سستے
پرفیوم کی خوشبو اٹھ رہی تھی اسے کراہیت سی آئی. "اچھا سوہنیو! ذرا بات کو
سنو. اسنے اپنا چہرہ اور جھکایا اسے پہلے کے وہ آگے بڑھتا حیا نے سلش کا بھرا گلاس
اسکے منہ پر الٹ دیا. ٹھنڈی ٹھار برف منہ پر گری تو وہ بلبلا کر پیچھے ہوا.. اسنے
پھرتی سے شیشہ اوپر کر لیا. "سنو جی!
وہ مسکرا کر چہرہ صاف کرتے ہوے شیشہ بجانے لگا. بند سیشے کی وجہ سے اسکی
آواز کم آرہی تھی اب وہ کوئی گانا گا رہا تھا. کپکپاتے ہاتھوں سے اسنے اگنیشن میں
چابی گھمائی، اور گاڑی وہاں سے نکل لائی. بیکری کے داخلی دروازے کے سامنے گاڑی روکی
اور پیچھے مڑ کر دیکھا. وہ درختوں کے پاس ڈولی نامی خواجہ سرا ابھی تک وہی کھڑا
تھا. وہ اسکے پیچھے نہیں آیا تھا اب وہ گا بھی نہیں رہا تھا. بس خاموش گہری نظروں
سے اسے دیکھ رہا تھا. اسے بے اختیار جھرجھری سی آئی. "کہاں رہ گئیں ہیں دونوں".اسنے
جھنجھلا کر ہارن پر ہاتھ رکھ دیا. پھر گردن موڑ کر دیکھا، وہ ابھی تک اسی کو دیکھ
رہا تھا.
ارم اور زارا کو ڈراپ کر کے وہ اپنے کمرے میں آئی. ڈنر کا وقت ہونے والا
تھا. اس نے کپڑے بھی ڈنر کی مناسبت سے پہنے تھے. مگر جوس چھلکنے کی وجہ سے ذرا داغ
پڑ گیا تھا. اس نے جلدی سے اتنا دوپٹہ دھو کر استری کیا. اسے رہ رہ کر وہ خواجہ
سرا یاد آرہا تھا. اس برادری کے لوگ اکثر آکر پیسے مانگتے تھے مگر ایسی حرکت تو
کبھی کسی نے نہیں کی. اس خواجہ سرا کی نگاہیں اور انداز اسکو پھر سے جھرجھری آگئی.
پھر جب وہ اپنی تیاری سے مطمین ہوکر باہر آئی تو دروازے کے باہر پاؤں کسی چیز سے
ٹکرایا. وہ چونک گیا. دروازے کہ ساتھ فرش پر وہ سفید ادھ کھلے گلابوں کا بکے پڑا
تھا. ساتھ میں ایک بینڈ لفافہ بھی تھا. وہ دونوں چیزیں اٹھا کر سیدھی ہوئی لفافہ
کھولا جس پر " حیا سلمان " لکھا ہوا تھا. اندر ووہی سفید بے سطر چوکور
کاغذ تھا. اسکے وسط میں اردو میں لکھا تھا. "امید کرتا ہوں آپکا آج کا ڈنر
اچھا گزرے گا.". اسنے لفافہ پلٹ کر دیکھا اس پر اور کچھ نہیں لکھا تھا بس
لفافے پر گزشتہ روز کی مہر لگی تھی. "یہ کون تھا اور کیوں اسے پھول بھیج رہا
تھا"؟ وہ خط اور بکے
کمرے میں رکھ کر سرے معاملے سے الھجتی باہر آگئی. تایا فرقان کے گھر خوب
چہل پہل تھی. سب کزنز لونج میں بیٹھے تھے. ایک طرف خواتین کا گروپ خوش گپیوں میں
مصروف تھیں. مرد حضرات یقیننا ڈرائنگ روم میں تھے. اسکے خاندان میں کزنز کی بے
تکلفی کو بری نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا. تایا فرقان تمام بہن بھائیوں میں بہت
سخت تھے اور انکی سختی صرف ارم کے سکارف لینے اور گھر سے باہر لڑکوں سے بات کرنے
تک تھی. ارم اور باقی کزنز بھی گھر کے کزنز کے علاوہ لڑکوں سے بات نہیں کرتی تھیں.
حیا اور ارم تو پڑھتی بھی ویمن یونیورسٹی میں تھیں. ہاں دوسرے چچا اور خود سلمان
صاحب اپنے بچوں کی شادیاں مکس گیدرنگ میں کریں گے. انکا خاندان زیادہ بڑا نہیں
تھا. وو لوگ تین بھی اور ایک بہن تھے. تایا فرقان سب سے بڑے تھے. داؤد، فرخ، ارم
اور سمیع انکے بچے تھے. فررخ میڈیکل کر چکا تھا اور آج کل پولی کلینک میں ہاؤس جاب
کر رہا تھا، اور حیا سے تین سال بڑا تھا اور سمیع فرخ سے سال بھر چھوٹا تھا اور ایم
بی اے کر کے جاب کر رہا تھا. سب سے بڑے داؤد کی شادی ہو رہی تھی.
فرقان صاحب کے بعد سلمان تھے انکی ایک ہی بیٹی حیا اور بیٹا روحیل تھا. روحیل
پڑھائی کے سلسلے میں امریکا میں ہوتا تھا. پھر زاہد چچا تھے. انکی بڑی دو جڑواں بیٹیاں
مہوش اور سحرش تھیں. پھر بیٹا رضا انجنیئر تھا. سب سے چھوٹی بیٹی ثناہ اے لیول کر
رہی تھی. اس وقت علاوہ روحیل کے جو امریکا میں تھا اور داوؤد کے جو ڈرائنگ روم میں
تھا باکی سب کزن لونج میں بیٹھے تھے. لڑکیاں کارپٹ پر دائرہ بنا کر بیٹھی تھی ارم
ڈھولک بجا رہی تھی. اسکا دوپٹہ سر سے ڈھلک کر کندھے پر آگیا تھا. ( اگر ابھی تایا یہاں
آجاتے تو وہ فورن دوپٹہ سر پر لے لیتی) وہ مہوش، سحرش کے ساتھ سر ملا رہی تھی اور
لڑکے اپر صوفے پر بٹہے ان پر فقرے اچھال رہے تھے. " ہیلو ایوری ون" وہ سینے
پر ہاتھ
بندھے چلتی ہوئی انکے قریب آکر رکی سب کی نظریں اس پر رکی. سفید چہرے کے
ارد گرد کالے بال اور کاجل سے لبریز آنکھیں. وہ تھی ہی اتنی حسین کے ہر اٹھی نگاہ
میں ستائش ابھر آتی. "حیا کیسی ہو"؟ " آؤ ان لڑکوں کو ہراتے این".
"بیٹھو نا" بہت سی آوازیں اس سے ٹکرائیں اسنے کندھے اچکاے اور کہا.
"پہلے میں صائمہ چچی کی کچن میں مدد کروں گی اسنے ارم کی امی کا نام لیا تھا،
جنوں نے اسکو آتا دیکھ کر فورا کچن کا رخ کیا تھا. صائمہ تائی نے یقیننا اسکو نہیں
دیکھا تھا ورنہ فورا اسکو بلوا لیتیں. ارم سے زیادہ سمجھ دار تو بقول انکے حیا تھی.
صائمہ تائی کے پیچھے زاہد چچا کی بیگم عابدہ چچی بھی کچن میں چلی گئیں. اب صوفے پر
حیا کی امی فاطمہ بیگم اکیلی بیٹھیں تھیں.
" اماں! میں ذرا تائی کی مدد کروادوں ". انکو اپنی طرف دیکھا
پا کر میں نے کہا تو انہوں نے اطمینان سے سر ہلا دیا. وہ مطمین سی آگے بڑھ گئی. وہ
راہداری سے گزر کر کچن کے دروازے کی طرف بڑھی تب صائمہ تائی کی تیز آواز اسکی
سماعت سے ٹکرائی. "جسی میں جانتی نہیں نہ یہ سارے رنگ ڈھنگ کس لئے ہیں، ایک میرے
ہی بیٹے ملی ہیں اسکو پاگل بنانے کے لئے". وہ بے اختیار دو قدم پیچھے ہو کر دیوار
سے جا لگی. یہ صائمہ تائی کس کی بات کر رہی ہیں. " تب ہی میں کہوں بھابھی، یہ
رضا کیوں ہر وقت حیا حیا کرتا رہتا ہے. یہ عابدہ چچی تھیں. وہ اسکے بارے میں کہ رہیں
تھیں وہ کہ رہیں تھیں. "پچھلی دفع جب ہم سلمان بھائی کی طرف کھانے پر گئے تو
کس طرح ناک سک سی تیار پھر رہی تھی. تب سے رضا میرے پیچھے پڑا ہے کہ حیا کا رشتہ
مانگیں". " اس لڑکی کو لڑکوں کا دل جیتنے کا فن آتا تھا. کتنی مشکل سے
داوؤد کے دل سے اسکا خیال نکالا تھا میں نے اور فرقان نے وہ تو آڑ ہی گیا تھا شادی
کروں گا تو حیا سے مگر جب فرقان نے سختی کی کہ اسی بے پردہ ور آزاد
خیال لڑکی کو اپنی بہو بنا کر ہم نے اپنی آخرت خراب کرنی ہے تب کہی جا کر
وہ مانا اور اب یہ فرخ کو پتا نہیں کیا ہوگیا تھا. کیا کروں اس لڑکے کا، اب وہ پھر
کیل کانٹوں سے لیس ہوکر آجاے گی اور اسکے جاتے ہی فرخ ضد لگا کر بیٹھ جاتے گا. اب
میری ارم بھی ہے مجال ہی گھر سے باہر سر پر دوپٹہ لئے بغیر نکلے". صائمہ تائی
بہت فخر سے کہ رہیں تھیں اور وہ دھواں دھواں ہوتے چہرے کے ساتھ دیوار سے ٹیک لگاتے
کھڑی تھی. اسے لگا کہ اس نے مزید کچھ سنا تو اسکے اعصاب جوواب دے جایئں گے. بدقت
اپنے وجود کو سمبھالتے وہ واپس مڑی. کسی بات پر ہنستے ہوے فرخ کی نگاہ اس پر پڑی
تو اسکو راہداری سے آتا دیکھ کر اسکی ہنسی رک گئی. وہ مسکرایا. بہت مناسب سی شکل و
صورت کا تھا فرخ اور ٹف روٹین کی وجہ سے اسکا رنگ مزید سانولا ہوگیا تھا مگر مثلا
اسکی واجبی صورت اور حیا کی بے پردگی کا نہیں تھا مگر اصل بات سب جانتے تھے تو پھر
رضا اور فرخ سے ایسا سوچا بھی کیسے؟ وہ ایک سپاٹ نگاہ فرخ پر دال کر صوفے پر فاطمہ
بیگم کے ساتھ آبیٹھی تمہیں کیا ہوا"؟ " کچھ نہیں اماں" وہ بدقت خود
کو نارمل کر پائی. وہ مطمین ہوگئیں تو وہ صائمہ تائی کے بارے میں سوچنے لگیں جنکا
"حیا میری جان" کہتے منہ نہ تھکتا تھا اور فرقان تایا کی تو وہ بڑی بیٹی
تھی مگر انکے دل میں ایسے خیالات تھے یہ وہ گمان بھی نہیں کر سکتی تھی. " اور
وہ پھول! وہ بھی فرخ یا رضا نے بھیجے تھے مگر جب پہلی بار اسکو پھول آئے تھے تو
فرخ شہر سے بہار تھا اور رضا تو اسلام آباد میں ہی تھا مگر ان میں سے کسی کو اسکی
سبانجی سلیکشن کا کسی کو پتا نہیں تھا. شاید جب وہ زارا کو فون پر بتا رہی تھی تب
کھڑکی کے باہر کچھ کھڑکا تھا. وہ جو کوئی بھی تھا اسنے کھڑکی کے باہر سے سری بات
سن لی تھی اور اس نے پھولوں کی ساتھ خط لکھ کر رکھ دیا ہوگا مگر کوریر پر تو ایک
دن پہلے کی مہر لگی ہوئی تھی. شاید اسنے کوئی جعلی مہر استعمال کی ہوگی. مگر اس
طرح کے جھمیلوں میں فرخ اور رضا جسی جاب والے
مصروف بندے کیوں پڑیں گے بھلا؟ اسکا دل کہ رہا تھا کہ پھول بھیجنے والا کوئی
اور ہی ہے خیر دفع کرو جو بھی ہو. ان دونوں کا دماغ تو میں ابھی تھک کرتی ہوں. وہ
تیزی سے اٹھ کر لڑکے لڑکیوں کے گروپ کی طرف چلی آئی. "ارم! اسنے اپنے مخصوص
انداز میں سینے پر ہاتھ بندھے هوئرے ارم کو مخاطب کیا تو سب روک کو اسکو دیکھنے لگی.
"کیا"؟ "تم لوگوں نے سبین پھوپھو کو شادی کا کارڈ بھیجا تھا ترکی"؟
آنکھوں سے اسنے فرخ اور رضا کے چہروں کو ماند پڑتا دیکھا. "سلمان چچا کو کارڈ
دیا تھا انہوں نے بھجوا دیا ہوگا اور سبین پھوپھو کو ابو نے فون کر کہ کہ دیا تھا
کہ سبین پھوپھو آئیں گی؟" " آنا تو چاہیے، قریبی رشتہ ہے تم سے نہ سہی،
ہم سے تو ہے". اسنے قریبی رشتے پر زور ڈالتے هوئے فرخ اور رضا پر ایک نظر ڈالی
انکے چہرے پھیکے پڑے تھے اور دونوں ہی سوچ میں گم تھے. پھر کھانے کے وقت صائمہ تائی
نے سب سے پہلے اسکو بلایا
"حیا! میری جان! تم تو سمجھدار ہو یہ ارم تو بس، تم نے ٹیبل پر
خیال رکھنا ہے جیسے ہی کوئی ڈش خالی ہو یا آدھی ہوجاے تو فورا ظفر (کک ) کو آواز
دے دینا". "ٹھیک"؟ "شیور ! تائی میں خیال رکھوں گی." وہ
بدقت مسکراتی ہوئی سرو کرنے لگی. چند منٹ بعد سب کھڑے اپنی اپنی پلیٹوں میں کھانا
نکال رہے تھے. تایا جان اپنے سلاد نہیں لیا وہ رشین سلاد کا پیالہ ہاتھ میں لئے
ابو اور تایا فرقان کی طرف آئی، جو اپنے دھن میں باتیں کر رہے تھے اسکے پکارنے پر
چونکے. "تھینک یو بیٹا!" تایا فرقان نے مسکراتے ہوے سلاد اپنی پلیٹ میں
نکالا. وہ شلوار کرتے میں ملبوس تھے اور شال لی تھی اور بارعب چہرے پر مونچھیں.
سلمان صاحب انکے بار عکس
کلین شیو ، ڈنر سوٹ میں بہت سمارٹ لگ رہے تھے. دونوں کی سوچیں انکے حلیوں جیسی
تھیں. 'ابااپ بھی لیں نہ" "سلمان تم نے سبین کو کارڈ پوسٹ کر دیا
تھا؟" تایا کو اچانک شاید اسکی شکل دیکھ کر یاد آیا تھا. سلمان صاحب کا چمچے
میں سلاد بھرتا ہاتھ ذرا سست پڑا اور چہرے پر کڑواہٹ پھیل گئی. بہت آہستہ آہستہ
انہوں نے چمچہ پلیٹ میں پلٹا. "کر دیا تھا". انکے لہجے میں کاٹ تھی جو حیا
کے لئے نئی تھی. "ابا! سبین پھپھو شادی پر آئیں گی"؟ وہ پوچھے بنا رہ نہ
سکی. " کل مہندی ہے آنا ہوتا تو آج آچکی ہوتی". "تیس سالوں میں جو
عورت صرف کچھ دفعہ ملنے آئی ہو تو وہ اب بھی نہ آے تو بہتر ہے. فرقان تایا بھی دنگ
رہ گئے. "سلمان کیا ہوا ہے؟
تھینک یو بیٹا! سلمان صاحب نے حیا کو کہا اسکا مطلب تھا کہ اب تم یہاں سے
جاؤ. اور وہ اشارہ سمجھ کر سر جھکاتے وہاں سے آگئی. بہت آہستہ سے سلاد کا پیالہ میز
پر رکھا اور اپنی آدھی بھری پلیٹ اٹھا لی مگر اب کچھ کھانے کو جی نہیں چاہ رہا
تھا. " یہ ابا کو کیا ہوگیا تھا وہ پھوپھو کے بارے میں ایسی باتیں کیوں کر
رہے تھے.؟ پھر اس سے رہا نہیں گیا وہ اپنی پلیٹ اٹھا کر ستوں کے ساتھ کھڑی ہوگئی
جسکی دوسری طرف ابا اور تایا کھڑے تھے. بظاھر اپنی پلیٹ پر نظر جھکاتے کان ان
دونوں کی باتوں کی طرف تھے. حیا کے لئے لغاری نے اپنے بیٹے کا پرپوزل دیا ہے.
سلمان صاحب نے اپنے دوست کا نام لیا تو حیا کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی پلیٹ لرز گئی. یہ
کیا کہ رہے ہو؟ فرقان تایا ششدر رہ گئے. "بھائی ! اس میں حیرت
کی کیا بات ہے؟ ولید اچھا لڑکا ہے کل مہندی پر آئے گا تو ملواؤں گا. سوچ
رہا ہوں حیا سے پوچ کر ہاں کر دوں" "مگر، مگر سلمان یہ کیسے ہو سکتا
ہے"؟ "کیوں نہیں ہو سکتا بھی"؟ " تم یہ شادی کیسے کر سکتے
ہو"؟ "باپ ہوں اسکا کر سکتا ہوں، فاطمہ بھی راضی ہے اور ،مجھے یقین ہے حیا
کو کوئی اعترض نہیں ہوگا". " اور جہاں! جہاں کا کیا ہوگا"؟
"کون جہاں؟" سلمان سحاب یکسر انجن بن گئے. "تمہارا بیٹا! سبین کا بیٹا،
جس سے تم نے سبین کا نکاح کیا تھا تم کیسے بھول گئے ہو". وہ اکیس سال پرانی
بات ہے اور حیا اب بائیس سال کی ہوگئی ہے بیوقوفی کی تھی میں نے سبین پر اعتبار کر
کے اپنی بچی کا نکاح کر دیا اکیس برسوں میں کبھی سبین نے مر کر پوچھا کہ نکاح کا کیا
ہوگا؟ چھ ماہ میں ایک بار فون کر لیتی ہے اور تین
منٹ بات کر کے رکھ دیتی ہے. اور آپکو واقع لگتا ہے کہ وہ لوگ رشتہ قائم
رکھنا چاہتے ہیں"؟ "مگر سبین تو سکندر کی وجہ سے تم تو جانتے ہو الٹے
دماغ کا انسان ہے..... " میں کیسے ماں لوں کہ اپنے مغرور اور بعد دماغ شوہر کی
وجہ سے نکاح کو بھول جاتے. اتنے برس بیت گئے اسنے ایک بار بھی اس شادی کی بات منہ
سے نہیں نکالی. میں اس سے کیا امید رکھوں"؟ "مگر جہاں تو اچھا لڑکا ہے
تم اس سے ملی تو تھے جب پچھلے سال تم استنبول گئے تھے. " جی! جہاں سکندر!
اچھا لڑکا ہے. مائی فٹ." انھوں نے بہت تلخ ہوکر کہا. "اسکے تو مزاج ہی
نہیں ملتے، ترکی میں پیدا ہوا ہے، نہ اسکو اردو آتی ہے، نہ پنجابی اور کبھی اس نے
ماموں کا حال پوچھا ہے؟ کبھی فون کیا ہے بھائی؟ میں یہ سب بھول جاتا مگر پچلے سال
میں ترکی گیا تو یقین کریں بھائی میں اٹھارہ دن وہاں رہا روز سبین کے گھر جاتا تھا
سکندر تو خیر الگ بات ہے مگر جہاں آخری روز مجھے ملا وہ بھی پندرہ منٹ کے لئے بس.
وہ بھی جب اسکی ماں نے میرا نام بتایا تو کافی دیر سوچنے کے بعد اسکو یاد آیا کہ میں
اسکا دور پرے کا ماموں لگتا ہوں وہ مجھ سے ملا اور وہ بھی پندرہ منٹ کے لیےبس اور
پوچھنے لگاکیا پاکستان میں روز بم دھماکےہوتے ہیں اور کیا وہاں انٹرنیٹ کی سہولت
موجود ہے۔
پھر اس کا فون آیا اور وہ اٹھ کھڑا ہوا اور چلا گیا۔ میں کبھی حیا کے لیےکورٹ
سے خلع لینے کا نہ سوچتا اگر میں اس روز ایک ترک لڑکی کو جہان کے ساتھ اس کے گھر
ڈراپ کرتے نہ دیکھتا.
جب میں فلاییٹ پکڑنے سے قبل مبین کو خدا خافظ کہنے گیا تھا۔ اس لڑکی کے
ساتھ اس کی بے تکلفی ۔۔۔۔ الامان ۔۔۔ وہ سکنرر شاہ کا بیٹا ہے اور وہ اپنے باپ کا
ہی پرتو ہے۔ میں سمجھتا تھاکہ اگر احمدشاہ جیسے عظیم انسان کا بیٹا ہو کر سکندر ان
کے برعکس نکلا تو ویسے ہی جہان بھی اپنے باپ کے برعکس نکلے گا۔اور ایک اچھا انسان
ہو گااور وہ اسی مغرور آدمی کا بیٹا ہے۔حیا کون ہے اس کس ان سے کیا تعلق ہے یہ بات
نہ جہان کو یاد ہے نہ سبین کو ۔
سبین تو اب یہ زکر ہی نہیں کرتی اب میں اپنی بیٹی کو زبردستی ان کے گھر بھیج
دوں کیا خیر کل ولید سے ملواوں گا آپ کو اب جو رشتہ بھی اچھا لگا میں حیا کی ادھر
شادی کردونگا ۔حیا میں اب مزید سننے کی تاب نہ تھی وہ سفید چہرہ لیے بوجھل قدموں
سے چلتی ان سے دورہٹ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہان سکندرکو اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا بس بچپن سے اسے اپنے اور اس کے
رشتہے سے متعلق سنا تھا۔وہ سال بھر کی تھی جب سبین پھوپھوپاکستان آییں اور فرط
جزبات میں اپنے آٹھ سالہ بیٹے کے لیے اس کا رشتہ مانگ لیا۔ جزباتی سی کارواییُ ہوئی
اور دونوں بہن بھاییُ نے بچونکا نکاح کر دیا ۔تب آٹھ سالہ جہان ان کے ساتھ تھا
۔پھر وہ ترکی چلا گیا۔ اکیس سال گزر گیُےوہ ترکی میں ہی رہا کبھی پاکستان نہیں آیا
اور اس وزٹ کے بعد سبین پھوپھو بھی نہیں آیُں نہ کبھی انھوں نے کوئی تصویر بھیجی
نہ خط لکھا اگر کبھی کوئی ترکی چلا جاتاتو ان سے رابطہ کر لیتا رابطہ نہ ہونے کے
برابر تھا۔انٹرنیٹ وہ استعمال نہیں کرتی تھیں اگر کرتا تھا جہان سکندر بھی تواس کا
کوئی ای میل فیس بک ٹویٹرکسی کے پاس کچھ نہیں تھا۔ارم وغیرہ اسے فیس بک پر سرچ
کرتے کرتے تھک گیے تھے۔مگر ترکی کا کوئی جہان سکندر ان کو نہیں ملتا تھا۔شروع کے
چند دن پھوپھو بہت فون کرتی تھیں۔پھر آہستہ آہستہ یہ رابطے زندگی کی مصروفیات میں
کھوگیے ۔تین ماہ میں ایک فون ان کا آجاتا تین ماہ میں ایک فون ادھر سے چلا جاتا۔یوں
چھ ماہ میں دو دفعہ سہی بات ہو جاتی رسمی علیک سلیک موسم کا حال احوال سیاست پر
بات اور الّٰلہ خافظ۔
ان تمام باتوں کے باوجود وہ خود کو زہنی طور پر جہان سے وابستہ کر چکی تھی
نکاح کے وقت کی تصاویر آج بھی اس کے پاس محفوظ تھیں۔آٹھ سالہ بھورے بالوں اورسنہری
رنگت والاخوبصورت لڑکا جس کو اس نے کبھی اپنے روبرو نہیں دیکھا تھا۔اور شاید ترکی
جانے کی ساری خوشی کی وجہ بھی یہی تھیجس پر ابا نے پانی پھیر دیاتھا اس روز اسے رہ
رہ کر جہان پر غصہ آرہا تھا جس کی بے رخی کے باعث اب یہ رشتہ ایک سوالیہ نشان بن گیا
۔
مگر خیرد اور بھائی کی شادی ہوجاےُ اور سمسٹر ختم ہوجائیں تو وہ ترکی جاےُ
گی اور ان کو ضرور ڈھونڈھے گی۔
----------------------------------------
حیا حیا کدھر ہو؟
وہ لابی میں آویزاں آئنے کے سامنے کھڑی ماتھے پر ٹیکا درست کر رہی تھی جب
فاطمہ بیگم اسے پکارتی آئیں ۔ ہر طرف گہما گہمی تھی ایک نا قابل فہم شور سا مچا
تھا مہندی کافنگشن شروع ہو چکا تھاسب باہر جانے کی جلدی مچاےُ ادھر ادھر بھاگ رہے
تھےاور وہ ابھی تک وہیں کھڑی تھی کیا ہوا اماں؟
وہ ٹیکے کے ساتھ الجھی ہوئیتھی جو ماتھے پر سیٹ ہو کر نہیں دے رہا تھا سونے
کا گول سکے کی شکل کا ٹیکاجس کے نیچے ایک سرخ روبی لٹک رہا تھا۔بار بار ادھر ادھر
جھول جاتاٹیکے کو ٹھیک کرتے ہوےُمسلسل اس کی چوڑیاں کھنک رہی تھیں جلدی آوُ تمھارے
ابا بلا رہے ہیںکسی سے ملوانا ہےتمھیں۔ ان کی آواز میں خوشی کی رمق تھیوہ چونک گئی۔ان
کو دیکھنے لگی۔
نفیس سی سلک کی ساڑھی اور ڈائمنڈز پہنے وہ خاصی باوقار اور خوش لگ رہی تھیںاس
کی انگلیوں نے ٹیکا چھوڑ دیا دل زور سے دھڑکا ۔کیا پھو پھو آگئیں تھیںاور ان کا
مغرور بیٹا بھی۔۔۔۔۔۔۔
کدھر ہیں ابا؟وہ دھک دھک کرتے دل کے ساتھ ان کے پیچھے باہر نکلی گیٹ کے قریب
سلیمان کھڑے دکھائ دے رہے تھے ان کے ساتھ ایک خوبرو سا لڑکا کھڑا تھا۔جس کے شانے
پر ہاتھ رکھے وہ بات کر رہے تھے سامنے خاصے باوقارسے سوٹ میں ملبوسایک صاحب اور ایک
ڈیسنٹ سی خاتون تھیں۔
وہ دونوںپہلووں سے لہنگا سنبھالتی ان کے قریب آئی ۔ یہ حیا ہےمیری بیٹی !
سلیمان صاحب نے مسکرا کر اسے شانوں سے تھاما۔
اسلام علیکم اس نے سر کو جنبش دیتے ہوےُمدہم آواز میں سلام کیا
و علیکم سلام بیٹا !وہ تینوں دلچسپی سے اسے دیکھنے لگے۔
اس نے ڈل گولڈن کلر کا لہنگا پہنا تھاکامدار بلاوز کی آدھی سے بھی چھوٹی
آستین اور ان سے نکلتے اس کے دودھیا بازوسنہرے موتیوں کی شعاعوں میں سنہرے دکھ رہے
تھے۔بھاری کامدار دوپٹہ اس نے گردن میں ڈال رکھا تھابال ہمیشہ کی طرح کھلے کمر پر
گرے تھے۔ٹیکے کے ساتھ کے سنہرے جھمکے کانوں سے لٹک رہے تھے اور ملائی سے بنا چہرہ
ہلکے میک اپسے دلکش لگ ریا تھا اس نے کاجل سے لبریز پلکیں اٹھائیں وہ تینوں اسے
ستائش سے دیکھ رہے تھے
اور حیا یہ میرے دوست ہیں عمیر لغاری یہ مہناز بھا بھی ہیں اور یہ ان کے
صاحبزادے ہیں ولید
اس کے دل پر بوجھ سا آگرا۔ آنکھوں میں بے اختییار نمکین پانی بھر آیا جسے
اس نےاندر اتار لیا نائس ٹو میٹ یو ۔۔ وہ۔۔۔ وہ مہمان آنے لگے ہیں میں پھول کی پتییاں
ادھر رکھ آئی تھی سب مجھے ڈھونڈھ رہے ہونگے تو میں ۔ ۔۔۔۔۔۔
ہان ہاں تم جاوُ انجوائے کرو سلیمان صاحب نے آہستگی سے اس کے شانوں سے ہاتھ
ہٹالیئے وہ معزرت خواہانہ مسکراتی ہوئ گیٹ کی جانب بڑھ گئی۔ باہر آ کر اس نے بے
اختیار آنکھوں کے بھیگے ٗگوشے صاف کیے اور ایک نظر ان کو پلٹ کر دیکھا، پھر سر
جھٹک کر آگے بڑھ گئی۔
ان کے گھر کے ساتھ خالی پلاٹ میں شامیانے لگا کر مہندی کا فنکشن ارینج کیا
گیا تھا۔ مہندیاں دونوں گھروں کی الگ الگ تھیں۔
گیندے کے پھولوں اور موتیے کی لڑیوں سے ہر کونا سجا تھا۔ تقریب سیگریگیٹڈ
تھی۔ مرد الگ، عورتیں الگ۔ ہاں عورتوں کی طرف خاندان کے مردوں کا آنا جانا لگا
تھا۔مریم بھی سلور کامدار لہنگے میں ادھر ادھر گھوم رہی تھی۔ وہاں ڈی جے ، مووی
والے اور ریفریشمنٹ سرو کرتے باہر کے مرد تھے مگر آج تو شادی کا ایک فنکشن تھا،
پھر سر ڈھکنے کی پابندی کیسے ہوتی؟ شادیوں پہ تو خیر ہوتی ہے نا۔
”حیا! ڈانس شروع کریں؟” ارم اپنا لہنگا سنبھالتی ہوئی اس کے پاس آئ۔
”ہاں! ٹھیک ہے ،تم گانا لگواؤ اور٠٠٠٠٠٠٠٠ یہ کون ہے؟“ سامنے والی کرسیوں کی
قطار کے ساتھ کھڑی ایک لڑکی کرسی پہ بیٹھی خاتوں سے جھک کر مل رہی تھی۔ اس نے سیاہ
عبایا اور اوپر اسٹول لے رکھی تھی۔ عجیب بات تھی کہ اس لڑکی نے انگلیوں سے نقاب
تھام رکھا تھا۔
”کون”؟ ارم نے پلٹ کردیکھا، پھر گہری سانس لے کر مڑی ۔ ”یہ ایلین ہیں”۔
”کون؟” حیا نے حیرت سے کہا۔
”ایلین، ارے شہلا بھابھی ہیں یہ۔ پوری دنیا سے الگ ان کی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد
ہوتی ہے۔ بس توجہ کھینچنے کے لیے فنکشنز پر بھی عبایا، نقاب میں ملتی ہیں۔ اب
پوچھو، بھلا عورتوں کے فنکشن میں کس سے پردہ کر رہی ہیں؟”
”ہاں، واقعی، عجیب ہیں یہ بھی!” اس نے شانے اچکائے۔ وہ ان کے ایک سیکنڈ کزن
کی وائف تھیں اور سال بھر پہلے ہی شادی ہوئی تھی۔
ڈی جے نےگانا سیٹ کر دیا۔
انہوں نے مووی والے کو ڈانس کی مووی بنانے سے منع کر دیا اور پھر اپنا
مہارت سے تیار کردہ رقص شروع کیا۔ ایک سنہری پری لگ رہی تھی تو دوسری چاندی کی۔ جب
پاؤں دکھ گئے اور خوب تالیاں بجیں تو وہاں ہنستے ہوئے کرسیوں کی طرف آئیں۔
"السلام علیکم شہلابھابھی!" وہ لڑکی بھی اسی میز پر موجود
تھی۔ ارم نے فوراً سلام کیا، حیا نے بھی پیروی کی۔
”وعلیکم السلام٫ کیسی ہو تم دونوں؟“ وہ مسکرا کر خوش دلی سے ملی۔ ایک ہاتھ
کی دو انگلیوں سے اس نے ابھی تک سیاہ نقاب تھام رکھا تھا۔
بالکل ٹھیک٫ شہلا بھابھی! نقاب اتار دیں٫ ادھر کن ہے؟“
شہلا نے جواباً مسکرا کر سر ہلایا، مگر نقاب اسی طرح پکڑے رکھا۔
” ما شاءاللہ تم دونوں بہت پیاری لگ رہی ہو“۔
وہ بات کرتے کرتے ذرا سی ترچھی ہوگئ۔ حیا نے حیرت سےدیکھا۔ شاید اس طرف مووی
والا فلم بنا رہا تھا، اسی لیے۔
عجیب عورت ہے، اتنی بھی کیا بے اعتباری، ہماری فیملی مووی ہے، ہم کون سا
باہر کسی کو دکھائیں گے۔حیا بڑبڑائ۔
پھر وہ جلد ہی وہاں سے اٹھ گئ۔ اماں جانے کدھر تھیں۔ کس سے پوچھے سبین
پھوپھو آئی ہیں ی نہیں۔ کافی دیر اسی شش و پنچ میں مبتلا رہی، پھر گھر چلی آئی اور
ٹی وی لاؤنج میں فون کے ساتھ رکھی ڈائری اٹھائی۔ تھکن کی وجہ سے دھم سے صوفے پر گری
۔ ار سبین پھوپھو کا نمبر تلاش کرنے لی۔ اس نے کبھی ان کو یوں فون نہیں کیا تھا،
مگر آج دل کے ہاتھوں ہار گئی تھی۔ ترکی کا وہ نمبر مل ہی گیا۔ اس نے ریسیور اٹھایا
اور نمبر ڈائل کیا۔ گھنٹی جانے لگی تھی۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ پانچویں
گھنٹی پر فون اٹھا لیا گیا۔
ہیلو“۔
بھاری مردانہ آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔ ”اسلام علیکم“۔ اس نے خشک لبوں
پر زبان پھیری۔
جواباً وہ کسی انجان زبان میں کچھ بولا۔
”میں پاکستان سے بات کر رہی ہوں“، گڑبڑا کر انگریزی میں بتانے لگی۔
پاکستان سے کون؟ اب کے وہ انگریزی میں پوچھ رہا تھا۔
اس کی آنکھوں میں پانی بھرنے لگا۔
میں سبین سکندر کی بھتیجی ہوں۔ پلیز ان کو فون دے دیں۔
وہ تو جواہر گئی ہیں، کوئی میسج ہے تو بتا دیں۔ وہ مصروف سے انداز میں کہہ
رہا تھا۔ اب یہ جواہر کیا تھا، اسے کچھ اندازہ نہ تھا۔
وہ۔۔۔۔۔ وہ سبین پھوپھو نے پاکستان نہیں آنا کیا داور بھائی کی شادی پر؟
نہیں وہ بزی ہیں۔ شاید وہ فون رکھنے ہی لگا تھا کہ وہ کہہ اٹھی۔
آپ۔۔۔۔۔۔ آپ کون؟
ان کا بیٹا۔۔۔۔۔۔۔ جہاں! کھٹ سے فون رکھ دیا گیا۔
اس نے بھیگی آنکھوں سے ریسیور کو دیکھا اور پھر زور سے کریڈل پہ پٹخا۔ آنسو
صاف کیے اور اٹھ کر باہر آئی تو گیٹ کی طرف سے ظفر چلا آ رہاتھا۔ اس کے ہاتھ میں
سفید ادھ کھلے گلابوں کا بکے تھا۔
وہ بے اختیار ٹھٹکی کر رکی، پھر لہنگا سنبھالتی، زینے اتر آئی۔
یہ کیا ہے ظفر؟
اوہ تسی اتھے ہو؟ یہ کوریئر والے نے دیا ہے تہاڈے لیے۔ ظفر نے گلدستہ اور ایک
بند لفافہ اس کی طرف بڑھایا۔ وہ پچھلے سات سال سے تایا فرقان کا ملازم تھا۔
ٹھیک ہیے تم جاؤ۔اس نے بوکے کو بازو اور سینے کے درمیان پکڑا اور دونوں
ہاتھوں سے بند لفافہ کھولنےلگی۔
حسب معمول اس میں سفید سادہ کاغذ تھا، جس کے بالکل درمیان میں اردو میں ایک
شطر کھی تھی۔
”اس لڑکی کے نام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کبھی کسی ان چاہے رشتے کے بننے کے خوف سے روتی
ہے تو کبھی کسی بن چکے ان چاہے رشتے کے ٹوٹنے کے خوف سے“۔
وہ سن رہ گئی پھر گبھرا کر ادھر ادھر دیکھا۔
گیٹ کھلا تھا۔ مہندی والی جگہ سے بہت سے لوگ آ جا رہے تھے۔ ایسے میں کیا
کوئی ادھر تھا جو بغور مشاہدہ کر رہا تھا؟
اس نے لفافے کو پلٹا۔ کوریئر کی مہر ایک روز قبل کی تھی۔
ابھی دس منٹ قبل وہ جہان کے ساتھ پہلی دفعہ بات کرکے روئی تھی۔
بن چکا ان چاہا رشتہ۔
اور گھنٹہ بھر پہلے ولید اور اس کے والدین سے ملی تھی۔
پان چاہے رشتے کے بننے کے خوف۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کون تھا جو اتنا با خبرتھا؟ ایک دن قبل ہی اسے کیسے علم ہواکہ وہ آج دو
دفعہ روئے گی؟
وہ خوف زدہ سی کھڑی بار بار وہ تحریر پڑھے جارہی تھی۔
جاری ہے
Jannat k pattay is the most beautiful and stunning novel of
Nimra Ahmed novels. you can download in pdf from the below link,
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this
link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful
Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read
Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and
enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others
Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers
Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this
link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Web by Madiha Shah Writes.She started her
writing journey from 2019.Masiha Shah is one of those few writers,who keep
their readers bound with them , due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey from 2019. She has written
many stories and choose varity of topics to write about
'' Nafrta Se barhi Ishq Ki Inteha '' is her first long
novel . The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the
end of love ❤️.There are many lessons to be found in
the story.This story not only begins with hatred but also ends with love. There
is a great 👍 lasson to be learned from not
leaving....,many social evils has been repressed in this novel.Different things
which destroy today’s youth are shown in this novel . All type of people are
tried to show in this novel.
"Mera Jo Sanam Hai Zara
Beraham Hai " was his second best long romantic most popular novel.Even a year after
the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.
Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha
Shah is a best novel ever 3rd Novel. Novel readers liked this novel
from the bottom of their heart. Beautiful wording has been used in this novel.
You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of
relationships.
The novel tells the story of a couple of people who
once got married and ended up, not only that, but also how sacrifices are made
for the sake of relationships.How man puts his heart in pain in front of his
relationships and becomes a sacrifice
Jannat Ky PattayNovel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic
novel. Jannat k pattay is the
most beautiful and stunning Urdu novel of Nimra Ahmed novels. This is an
amazing novel by Nimra Ahmed. It is read by millions of readers every day. This
novel Written in Urdu Novel is illustrated with the help of great artists. Jannat k pattay is simple and easy to
understand. The story of Jannat
k pattay will
make you smile. The story is about those who love the beautiful girls of
Pakistan, and who are willing to sacrifice themselves for their beloveds. The
story about the girls who never renounce their.
Hope you like this Story and to Know More about the
story of the novel you must read it.
Not only that, Madiha Shah provides a platform for
new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If
you can all write, then send me any novel you have written. I have published it
here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are
waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ آفیشل ویب مدیحہ شاہ رائٹس کا ذریعہ ہے۔ انہوں نے اپنے لکھنے کا سفر 2019 سے شروع کیا ۔مدیحہ
شاہ ان چند ادیبوں میں سے ایک ہے ، جو اپنے انوکھے تحریر ✍️ اسلوب کی وجہ سے
اپنے قارئین کو اپنے ساتھ جکڑے رکھتی ہیں۔ انہوں نے اپنے لکھنے کا سفر 2019 سے
شروع کیا تھا۔ انہوں نے بہت ساری کہانیاں لکھی ہیں اور ان کے بارے میں لکھنے کے
لئے مختلف موضوعات کا انتخاب کیا ہے
نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا
ان کا پہلا طویل ناول ہے۔ اس کی کہانی بچپن کی نفرت
سے شروع ہوتی ہے اور محبت کے اختتام تک پہنچ جاتی ہے۔
کہانی میں بہت سارے اسباق مل سکتے ہیں۔ یہ کہانی نہ صرف نفرت سے شروع ہوتی ہے بلکہ
اس کا اختتام محبت کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ اس ناول میں بہت ساری اجتماعی باتیں سیکھی
جارہی ہیں .... ، بہت ساری معاشرتی برائیاں اس ناول میں دبا دی گئیں۔ مختلف ناولوں
سے جو آج کے نوجوانوں کو تباہ کرتی ہیں وہ اس ناول میں دکھائے گئے ہیں۔ اس ناول
میں ہر طرح کے لوگوں کو دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔
میرا جو صنم ہے ذرا بے رحم ہے
ان کا دوسرا بہترین طویل رومانٹک سب سے زیادہ مقبول ناول تھا۔ مدیحہ شاہ کے
ناول کے اختتام کے ایک سال بعد بھی قارئین اس کو بے شمار بار پڑھ رہے ہیں۔
میری راہیں تیرے تک ہے مدیحہ
شاہ کا اب تک کا ایک بہترین ناول ہے۔ ناول
پڑھنے والوں کو یہ ناول دل کی انتہا سے پسند آیا۔ اس ناول میں خوبصورت الفاظ
استعمال کیے گئے ہیں۔ اس ناول میں ان دو لوگوں کی کہانی بیان کی گئی ہے جنہوں نے
ایک بار شادی کی اور اس کا خاتمہ ہوگیا ، نہ صرف یہ ، بلکہ
یہ بھی کہ تعلقات کی خاطر کس طرح قربانیاں دی جاتی ہیں۔
انسان کس طرح اپنے رشتوں کے سامنے اپنے دل کو درد میں ڈالتا ہے اور قربانی
بن جاتا ہے ، آپ اسے پڑھ کر پسند کریں گے۔
نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا ناول
مدیحہ شاہ نے ایک نیا اردو سماجی رومانوی ناول نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا تحریر مدیحہ شاہ پیش کیا۔ نفرت سے بڑھی عشق کی
انتہا از مدیحہ شاہ ایک خاص ناول ہے ، اس ناول میں بہت سی معاشرتی
برائیوں کی نمائندگی کی گئی ہے۔ یہ ناول ہر طرح کے تعلقات کو ظاہر کرنے کی کوشش
کرتا ہے۔امید ہے کہ آپ کو یہ کہانی پسند آئے گی اور ناول کی کہانی کے بارے میں
مزید جاننے آپ اسے ضرور پڑھیں۔
اتنا ہی نہیں مدیحہ شاہ نئے لکھنے والوں کو آن لائن لکھنے اور ان کی تحریری
صلاحیتوں اور مہارت کو ظاہر کرنے کے لئے ایک پلیٹ فارم دیں۔ اگر آپ سب لکھ سکتے ہو
تو اپنا لکھا ہوا کوئی بھی ناول مجھے سسینڈ کریں میں اسکو یہاں اپنی اس ویب پر
شائع کروں گئی اگر آپ کو یہ اردو رومانٹک ناول کی کہانی کامنٹ بلو پسند ہے تو ہم
آپ کے مہربان جواب کے منتظر ہیں۔
آپ کی مہربانی سے تعاون کرنے کا شکریہ
/کزن فورس میرج پر مبنی ناولر ومانٹک اردو ناول
مدیحہ شاہ نے بہت سے ناول لکھے ہیں ، جن کو ان کے پڑھنے والوں نے ہمیشہ
پسند کیا۔ وہ اپنے ناولوں کے ذریعہ نوجوانوں کے ذہنوں میں نئے اور مثبت خیالات
پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ بہترین لکھتی ہیں۔
Forced
Marriage Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her
readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young
minds through her novels. She writes best.
If you all like novels posted on this web, please
follow my webAnd if you like the episode of the novel, please leave a nice
comment in the comment box.
Thanks............
If you want to read More Mahra Shah Complete Novels, go to this link
quickly, and enjoy the All Mahra Shah Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Copyrlight Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only share links
to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever
including torrent files as we gather links from the internet searched through
world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer
finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently
links here would automatically be deleted
No comments:
Post a Comment