Keh Do Agar Pyaar Se By Faryal Khan Complete Romantic Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
![]() |
Keh Do Agar Pyaar Se By Faryal Khan Complete Romantic Novel |
Novel Name: Keh Do Agar Pyaar Se
Writer Name: Faryal Khan
Category: Complete Novel
ہر کہانی کی طرح یہ کہانی بھی مکمل خیالات پر مبنی، یعنی فرضی ہے۔ مگر اس میں پیش آنے والے حالات و واقعات کا حقیقت سے تعلق بہت گہرا ہے۔
ان ہی واقعات میں سے ایک واقعہ آپ قارئین کو اس کہانی میں موجود غضنفر عباس نامی ایک کردار کے ماضی کا ملے گا، اور جو قصہ وہ آپ کو اپنے ماضی کا سناتے ہوئے ملے گا وہ بالکل سچ ہے۔ یہ پورا ناول میرا فرضی خیال ہے، مگر غضنفر کی زبانی بیان کردہ قصۂ ماضی میرے ایک قریبی عزیز کی زندگی کی تلخ حقیقت ہے۔
حقیقت اور خیال کے اس امتزاج کو قلم بند کرنے کا مقصد صرف یہ ہی ہے کہ ان فرضی کرداروں سے سیکھ کر، آپ اصل زندگی جینا سیکھیں۔
********************************
بند آنکھوں پر جھکی سیاہ پلکیں ہلکے ہلکے لرزتے ہوئے حرکت میں آئیں اور پھر آہستہ آہستہ پلکوں کی وہ جھالر اوپر اٹھی جس کے پیچھے کانچ سی سیاہ آنکھیں تھیں۔
ان آنکھوں نے جو سب سے پہلی چیز دیکھی وہ تھی جدید تزئین سے آراستہ سفید چھت کے بیچ و بیچ گھومتا اسٹائلش سا پنکھا۔
پھر اس کے باقی حواس بیدار ہوئے تو محسوس ہوا کہ اس کا وجود کسی نرم سی چیز کے اوپر ہے جو کہ ایک خوبصورت بیڈ تھا۔
چند لمحے یوں ہی ناسمجھی کے عالم میں پڑے رہنے کے بعد وہ آہستہ سے اٹھ بیٹھی اور مزید حیرت سے آس پاس کا جائزہ لینے لگی۔
ہر طرح کے فرنیچر سے آراستہ، سفید اور کتھئی رنگ کے امتزاج سے مزئین یہ ایک خوبصورت سا بیڈ روم تھا۔ جو اس کیلئے بالکل اجنبی تھا۔
ڈبل بیڈ کے بالکل پیچھے والی دیوار پر دائیں طرف ایک کھڑکی تھی جس کے بند کانچ سے دھوپ اندر داخل ہونے میں کامیاب رہی تھی۔
بلیک ٹائیٹس پر لیلن کی لمبی سی فل آستین والی اسکن کلر کی فراک پہنے، گلے کے گرد سیاہ اسکارف لٹکائے جس پر اسکن کلر میں بےشمار چھوٹے چھوٹے پھول بنے تھے۔
دائیں طرف کی مانگ کے ساتھ کمر تک آتے کھلے سیاہ بال سمیت متناسب قد کاٹھ کی یہ سنہری رنگت والی لڑکی تعجب خیز نظروں سے اپنے اطراف میں دیکھتے ہوئے یہ سوچ رہی تھی کہ وہ یہاں کیسے آئی؟
تب ہی روم کے دروازے پر کھٹکا ہوا اور اگلے ہی پل دروازہ دھکیلتے ہوئے ایک شخص اندر آیا جسے دیکھ کر وہ دنگ گئی۔
اس نے سرمئی جینز کے ساتھ اپنے مضبوط جسم پر فل آستین کی فوجی گرین ٹی شرٹ پہن کر اس کی آستینیں کہنیوں تک چڑھا کر بائیں ہاتھ کی کلائی میں بیلٹ والی گھڑی باندھی ہوئی تھی۔
غالباً ہوا سے ماتھے پر بکھرے بالوں سمیت، کھڑے نین نقش والے چہرے پر شیو کے ساتھ، اپنی سنجیدہ سیاہ آنکھوں سے وہ اسے دیکھتا ہوا بیڈ کی جانب آیا جس کے باعث وہ غیر ارادی طور پر سرک کر مزید پیچھے ہوگئی۔
”ت۔۔۔تم!“ وہ بمشکل اتنا ہی کہہ پائی۔
بجائے فوری طور پر کوئی جواب دینے کے اس نے ڈریسنگ ٹیبل کی کرسی کھینچ کر بیڈ کے قریب رکھی اور اس پر آکر بیٹھ گیا۔
”ہ۔۔۔ہاں میں۔“ اس نے نقل اتارتے ہوئے اطمینان سے جواب دیا۔
”کیوں لائے ہو اس طرح مجھے یہاں؟“ اس نے اپنی گھبراہٹ چھپانے کی کوشش کی مگر زیادہ کامیاب نہ ہوئی۔
”گڈ کوئیسچن!“ (اچھا سوال ہے) وہ اثبات میں سرہلاتے ہوئے بڑبڑایا۔
”اس سوال کے جواب میں تمہیں چار آپشن دیتا ہوں، تم بتانا کہ ان میں سے صحیح جواب کون سا ہے؟“ وہ یوں بول رہا تھا گویا دو جگری دوست کوئی کھیل کھیلنے بیٹھے ہیں۔
اسے مزید تعجب ہوا۔
”آپشن اے، کوئی کام نہیں تھا میرے پاس، بیٹھا بیٹھا بور ہو رہا تھا تو سوچا تھوڑی دیر تمہیں کیڈنیپ کرلوں۔“ اس نے بولنا شروع کیا۔
”آپشن بی، کیونکہ میں تم سے گن پائنٹ پر نکاح کرنے والا ہوں۔“ انداز سنجیدہ ہوا۔
”آپشن سی، کیونکہ میں تمہارا ریپ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔“ سنجیدگی مزید بڑھی۔
”آپشن ڈی، میں تمہارا ریپ کرنے کے بعد تمہارا مرڈر کرنے والا ہوں۔“ وہ تھوڑا آگے جھک کر دھیمی آواز سے پراسرار انداز میں بولا۔ جس کے باعث اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی۔
********************************
فائیو اسٹار ہوٹل کے قیمتی صوفوں پر آمنے سامنے براجمان دونوں نفوس کے بیچ چھائی خاموشی بتا رہی تھی کہ غالباً کچھ دیر قبل دونوں کے مابین کوئی بحث مباحثہ ہوا ہے جس کے باعث اب دونوں سنجیدہ سی خاموشی لبوں پر سجائے آس پاس کا جائزہ لے رہے تھے۔
”تو آپ کو اب بھی میری آفر قبول نہیں ہے سالک صاحب؟“ بلآخر ڈارک بیلو ٹو پس پہنے قریب پینتالیس سالہ سُلِیمان شمسی نے خاموشی کو توڑا۔
دراز قد کے ساتھ مضبوط جسامت، کنپٹی پر سے سفید ہوئے بال جو کے سلیقے سے بنے ہوئے تھے، آنکھوں پر لگا سیاہ فریم والا نظر کا چشمہ، اور کھڑے نین نقش پر ہلکی ہلکی سفید ہوتی شیو، یہ سب مل کر انہیں پینتالیس سال کی اس عمر میں بھی قدرے جاذب نظر بنا رہے تھے۔ اور بلاشبہ سلیمان شمسی کا شمار وجیہہ مردوں میں باآسانی کیا جاسکتا تھا۔
”ابھی تو کیا مجھے کبھی بھی یہ آفر قبول نہیں ہوگی مسٹر سُلِیمان۔“ سرمئی ٹو پس پہنے پچپن سالہ سالک صاحب کے انداز میں بےنیازی واضح تھی۔
”آپ بات کو سمجھ نہیں رہے ہیں، ابھی جو مارکیٹ ویلیو آپ کی زمین کی چل رہی ہے میں آپ کو اس سے دو گنا زیادہ دینے کیلئے تیار ہوں، یہ سودا آپ کیلئے بہت فائدہ مند ہے۔“ انہوں نے آگے جھک کر قائل کرنا چاہا۔
”میں اچھی طرح سمجھ رہا ہوں کہ ابھی یہ زمین مجھ سے دوگنی قیمت پر خرید کر چند سالوں بعد آپ اسے دس گنا زیادہ قیمت میں بچنے کا ارادہ رکھتے ہیں، کیونکہ آنے والے دنوں میں اس پراپرٹی کی ویلیو بڑھنے والی ہے، جس میں آپ کا فائدہ ہے اور اسے بیچ کر میرا نقصان۔“ انہوں نے طنزیہ انداز میں ان کے ارادوں کی عکاسی کی۔
”قیمت آنے والے عرصے میں بڑھے گی، جب کہ میں تو ابھی آپ کو دو گنا زیادہ دینے کو تیار ہوں۔“ انہوں نے بات بنائی۔
”مجھے لینی ہی نہیں ہے نہ دوگنی، نہ دس گنی قیمت، وہ زمین میں نے اپنی بیٹی کے نام پر خریدی ہے، اور وہ اسی کیلئے ہے، لہٰذا آپ اس کے پیچھے اپنا اور میرا وقت برباد کرنا بند کریں۔“ انہوں نے دو ٹوک انداز میں بات ختم کی۔
سلیمان ناچاہتے ہوئے بھی لاجواب ہوگئے۔
”لنچ ٹائم ختم ہوگیا ہے، اب میں چلتا ہوں، اور آپ بھی ان کاموں پر توجہ دیں جو کسی کام کے ہوں، اللہ حافظ!“ سالک صاحب گھڑی دیکھ کر کہتے ہوئے اٹھے۔ اور پھر بنا مزید کچھ کہے، سنے وہ بڑے بڑے قدم اٹھاتے باہر کی جانب بڑھ گئے۔
جب کہ سُلِیمان نے ایک گہری سانس لے کر پر سوچ انداز میں صوفے کی پشت سے ٹیک لگالی۔ ان کے تاثر بتا رہے تھے کہ ان کا ابھی بھی ہار ماننے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
********************************
بڑے سے ہال میں رکھا سفید پی۔ٹی۔سی۔ایل فون کافی دیر سے بج رہا تھا جسے آس پاس کوئی موجود نہ ہونے کی وجہ سے ریسیو نہیں کر پایا۔ فون بند ہی ہونے والا تھا کہ کسی نے ریسیور اٹھا کر کان سے لگایا۔
”ہیلو!“ دوسری جانب سے مردانہ آواز آئی۔
”ہیلو کون؟“ ریسیور کان سے لگائے کھڑی لڑکی نے پوچھا۔
"میں عُزِیر ہوں، تم صبیحہ ہی ہو نا!“ اگلے نے اپنا تعارف دیتے ہوئے تائید بھی چاہی۔
”ظاہر ہے، جب میرے گھر فون کیا ہے تو میں ہی ہوں گی۔“ اس نے الٹا جواب دیا۔
”ارے مجھے لگا کہ ملیحہ یا راضیہ آنٹی میں سے کہیں کوئی نہ ہو۔“ اپنی آفس چیئر پر جھولتے عزیر نے اطمینان ہوجانے پر وضاحت کی۔
”ان سے بات کرنی ہے تو انہیں بلا دوں؟“ اس نے پیشکش کی۔
”نہیں یار، تم سے ہی بات کرنی تھی، اور یہ بتاؤ کہ تمہارا موبائل کہاں ہے؟ اتنی دیر تک پہلے اس پر کال کر رہا تھا میں۔“ اس نے نفی کرتے ہوئے سوال اٹھایا۔
”وہ کمرے میں رکھا ہے، اور میں کچن میں تھی اسی لئے آواز نہیں آئی۔“ اس نے عام سے انداز میں وضاحت کی۔
"اچھا! خیر یہ بتاؤ آج شام میں کہیں باہر چلنے کا موڈ ہے؟“ اب وہ اصل موضوع پر آیا۔
”وہ تو ہمیشہ ہی ہوتا ہے، تم لے جانے والے تو بنو۔“ وہ بےنیازی سے بولی۔
”تم چلنے والی بنو، لے جانے والا بھی تیار بیٹھا ہے۔“ اس نے بھی شرارت سے چیلنج کیا۔
”اور اگر لے جانے والے کو اجازت نہیں ملی تو!“ اس نے آنکھیں گھما کر خدشہ ظاہر کیا۔
”کس کی اجازت؟“ وہ سمجھا نہیں۔
”امی اور پاپا کی، اگر انہوں نے منع کردیا تو!“ وہ انگوٹھے سے انگلی کا ناخن کھرچنے لگی۔
”کیوں منع کریں گے؟ نکاح ہوچکا ہے ہمارا، ہم کوئی غیر تھوڑی ہیں۔“ اس نے بھی مطمئن انداز میں یاد دلایا۔
”ہاں یہ بھی ہے۔“
”اچھا بتاؤ کہاں چلنے کا موڈ ہے تمہارا؟ پیکچر یا شاپنگ؟“ اس نے آپشنز دیے۔
"ہمممم! پہلے شاپنگ، پھر پیکچر اور پھر آئس کریم لیتے ہوئے واپس گھر!“ اس نے پل بھر کو سوچ کر جھٹ سے پلان ترتیب دیا۔
”لیکن تمہیں تو آئس کریم پسند نہیں تھی۔“
”وہ تو اب بھی نہیں ہے، لیکن ملیحہ کو پسند ہے تو اس کیلئے لے لیں گے۔“ اس نے وجہ بتائی۔
”اوہ ہو! آج بڑا خیال آرہا ہے بہن کا۔“ اس نے طنزیہ انداز میں چھیڑا۔
”وہ ہے ہی اتنی پیاری کہ اس کا جتنا خیال رکھا جائے کم ہے۔“ وہ جہاں بھر کی محبت لہجے میں سمو کر بولی۔
”ملیحہ کی بچی!“ یکدم ہال میں ایک حیرت میں ڈوبی نسوانی آواز ابھری جسے لائن پر موجود عزیر نے بھی سنا۔
”اوہ ہو!“ ریسیور کان سے لگائے کھڑی وہ لڑکی یوں بولی گویا بھانڈا پھوٹ گیا ہو۔
جب کہ عزیر سمجھ نہیں پایا کہ دوسری جانب چل کیا رہا ہے؟
”رکو ابھی بتاتی ہوں تمہیں۔“ وہ لڑکی کہتی ہوئی جیسے ہی اس کے قریب آئی تو وہ ریسیور چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوئی۔ اور پھرتی دِکھا کر اوپر دوڑ لگادی۔
جب کہ بجائے اس کے پیچھے بھاگنے کے صبیحہ نے نیچے لٹکتا ریسیور اٹھا کر کان سے لگایا جس کے دوسری جانب عزیر ”ہیلو ہیلو“ کر رہا تھا۔
"ہیلو!“
"ہیلو صبیحہ؟ کہاں چلی گئی تھی تم؟“ اس نے ناسمجھی سے پوچھا۔
”گئی نہیں تھی بلکہ ابھی آئی ہوں، مجھ سے پہلے ملیحہ بات کر رہی تھی تم سے۔“ اس نے انکشاف کیا۔
"کیا!“ وہ حیران ہوا۔
”ہاں، وہ تمہیں بےوقوف بنا رہی تھی اور تم بن گئے۔“ اس نے مزید اطلاع دی۔
"ایک تو تم دونوں بہنوں کی آواز بھی تو ایک جیسی ہے یار! اب ایسے میں کیسے پہچانتا میں کہ وہ تم ہو یا ملیحہ!" اس نے اپنا دفاع کیا۔
"وہ چھوڑو یہ بتاؤ کیا بات کر رہے تھے تم اس سے؟" اس نے جاننا چاہا۔
"ڈیٹ پر جانے کی۔" اوپر ریلنگ کے پاس کھڑی ملیحہ نے شرارت سے آواز لگائی۔ جسے صبیحہ سر اٹھاتے ہوئے گھور کر رہ گئی۔
********************************
کچن میں کھڑی زوہا کب سے لائٹر کی مدد سے چولہہ جلانے کی کوشش کر رہی تھی مگر کامیاب نہیں ہوئی تھی کیونکہ شاید لائٹر کی زندگی یہیں تک تھی۔
"کیا مصیبت ہے۔" اس نے غصے کے عالم میں لائٹر کاؤنٹر پر پٹخا۔
"کیا ہوگیا؟ کیوں بےجان چیز پر غصہ نکال رہی ہو؟" عین اسی وقت کچن میں داخل ہوئے عُبید نے پوچھا۔
"چائے کی طلب ہو رہی تھی یار، مگر یہ لائٹر ہے کہ جل کر ہی نہیں دے رہا۔" اس نے منہ بنا کر جواب دیا۔
"تو کسی دوسرے لائٹر یا ماچس سے جلا لو۔" وہ سہولت سے مشورہ دیتا فریج کی جانب آیا۔
"اور کچھ مل ہی نہیں رہا ہے۔" اس نے بتایا تو بوتل منہ سے لگائے پانی پیتا عبید فوری طور پر جواب نہ دے پایا۔
"تمہارے پاس ہے لائٹر یا ماچس؟" اس نے گردن موڑ کر پوچھا۔ تب تک وہ بوتل واپس رکھ چکا تھا۔
"میرے پاس۔۔۔۔۔" اس نے پرسوچ انداز میں کہتے ہوئے اپنی سلیولیس جیکٹ کی جیب پر ہاتھ مارا تو اسے کچھ محسوس ہوا۔ اور لمحے کے ہزارویں حصے میں اس کی رگِ مزاح پھڑک اٹھی۔
"ہاں ہے۔" اس نے کہتے ہوئے اپنی جیب سے ایک چھوٹی ڈبیہ نکال کر زوہا کی جانب بڑھائی۔ جسے تھام کر وہ اسے دیکھنے لگی۔
"یہ کیسی عجیب سی ماچس ہے!" اس نے ایک اسٹک نکال کر حیرت سے کہا۔
"یہ نئی لانچ ہوئی ہے مارکیٹ میں۔" اس نے بات بنائی۔
اس نے بھی بجائے دماغ پر مزید زور دینے کے کندھے اچکاتے ہوئے اگلے ہی پل وہ اسٹک ڈبیہ پر رگڑ دی۔ جو کہ در حقیقت پٹاخہ تھا۔ عبید نے سوچا تھا کہ یہ جلانے سے قبل ہی اسے روک دے گا، مگر اسے موقع نہ ملا۔
"زوہا نہیں!" عبید نے یکدم کہہ کر وہ جلی ہوئی اسٹیک اس کے ہاتھ سے چھین کر کچن سے باہر پھینکی۔
جو عین ہال میں رکھے صوفے پر بیٹھی دردانہ کے نزدیک گری جو کہ بڑے انہماک سے پان بناتے ہوئے ٹی وی پر کوئی ڈرامہ دیکھنے میں مصروف تھیں۔
"یہ کیا حرکت ہے عبید!" زوہا تعجب سے بولی۔ جسے نظر انداز کرتے ہوئے وہ ہال میں بھاگا۔
"دادی پٹاخہ!" عبید نے جلدی سے کہا۔
"آئے ہائے بدتمیز! شرم نہیں آتی دادی کو پٹاخہ کہتے ہوئے!" وہ سٹپٹا کر اس پر برہم ہوئیں۔
اور اس سے قبل کہ وہ کوئی وضاحت کرتا ان کے نزدیک فرش پر پڑا وہ جلتا ہوا پٹاخہ یکدم "پٹاخ" کی زور دار آواز کے ساتھ پھٹ گیا جس سے سب ہی دہل گئے۔
"آئے ہائے! گیا میرا کان۔" انہوں نے دہائی دیتے ہوئے اپنے کان پر ہاتھ رکھا۔
یہ زور دار آواز سن کر صالحہ اور شاہانہ بھی پریشان سی وہاں آئیں۔ اور بدقسمتی سے آفس سے گھر لوٹے مرد حضرات یعنی رفاقت، شفاعت اور عُزیر بھی ابھی ابھی ہال میں داخل ہوئے تھے اور یہ زور دار آواز سن کر حیران رہ گئے تھے۔
"یہ کیسی آواز تھی؟" رفاقت نے حیرانی سے پوچھا۔
"اماں بی آپ ٹھیک تو ہیں نا!" صالحہ فکر مندی سے پوچھتی ان کی جانب آئیں۔
"تایا نے کچھ پوچھا ہے عبید، جواب دو۔" شفاعت نے سخت انداز میں اپنے بیٹے سے کہا۔
"وہ پاپا یہ زوہا کی شرارت تھی۔" وہ سر جھکا کر منمنایا تو زوہا ہکابکا رہ گئی۔
"زوہا! یہ کیا حرکت ہے؟" رفاقت اپنی بیٹی پر برہم ہوئے۔
"نہیں پاپا، یہ جھوٹ بول رہا ہے۔" اس نے جلدی سے نفی کی۔
"اپنی غلطی چھپانے کیلئے میرے بیٹے کو جھٹلا رہی ہو! وہ بھلا جھوٹ کیوں بولے گا!" شاہانہ بھی کہاں پیچھے رہنے والی تھیں۔
"پاپا میں سچ کہہ رہی ہوں یہ تو عبید نے مجھے لا کر دیا تھا۔" اس نے روہانسی انداز میں اپنی بات پر زور دیا۔
"ہاں کیونکہ زوہا نے ہی مجھ سے یہ پٹاخہ منگوایا تھا۔" وہ جھٹ سے جھوٹ بولا۔
"یہ تم سے پٹاخہ کیوں منگوائے گی عبید؟" اپنے بھائی کی شرارتی حرکات سے کچھ کچھ واقف عزیر نے طنزیہ انداز میں پوچھا۔
"سب کا چین سکون برباد کرنے کیلئے، بس یہ ہی تو کام ہے ان دونوں بھائی بہن کا۔" اگلے ہی پل شاہانہ تنفر سے بولیں۔ جس پر صالحہ کا دل کٹ کر رہ گیا۔
"صالحہ بھابھی، آپ اماں کو لے کر اندر جائیں، اور دیکھیں کہیں لگی تو نہیں ان کے!" بات کو الجھتا دیکھ کر شفاعت نے مداخلت کی۔
"اور شاہانہ بیگم آپ چائے بنوائیں سب کیلئے، تب تک ہم فریش ہوکر آتے ہیں۔" وہ کہہ کر اندر کی جانب بڑھ گئے اور اسی عمل کی تقلید باقی سب نے بھی کی۔ جس کے بعد اب وہاں بس عبید اور زوہا رہ گئے۔
"زو۔۔۔۔۔۔۔"
عبید کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ وہ بھی پیر پٹختی ہوئی وہاں سے چلی گئی اور اس کی بات ادھوری رہ گئی۔
********************************
خلاف معمول سورج غروب ہونے کے بعد اس کمرے کی لائٹ آن تھی جہاں ٹریڈمل اور ڈمبلز سمیت ایکسرسائز کا کافی سامان موجود تھا۔ کمرے کی ایک دیوار پر بڑا سا قدم آدم شیشہ نصب تھا جس کے عین برابر میں سفید دیوار پر سیاہ رنگ سے بڑا بڑا
No Pain, No Gain
لکھا ہوا تھا جو شاید کسی نے خود کو موٹیویشن دینے کیلئے لکھا تھا۔ وہ کوئی اور نہیں بلکہ وہ ہی شخص تھا جو اس وقت بنا گلوز کے سیاہ پنچنگ بیگ پر پوری قوت سے یوں مکے برسا رہا تھا گویا یہ بیگ نہیں بلکہ کسی دشمن کا وجود ہے، اور وہ تھا، غضنفر عباس!
صرف بلیک جینز پہنے وہ اس قدر جنونی انداز میں مصروف تھا کہ اسے ان پسینے کے قطروں کا بھی ہوش نہیں تھا جو اس کے شرٹ سے عاری مضبوط کسرتی جسم پر مسلسل پھسلے جا رہے تھے۔
پتا نہیں اور کتنی دیر اس کا یہ پاگل پن جاری رہتا اگر رنگیلا (ملازم) آکر اس میں مداخلت نہیں کرتا۔
"چھوٹے صاحب! آپ کو بڑے صاحب بلا رہے ہیں۔" شلوار قمیض پہنے، درمیانی عمر کے رنگیلا نے دروازے پر رک کر اطلاع دی تو اس نے ہاتھ روک کر اپنی سیاہ سنجیدہ آنکھوں سے اس کی جانب دیکھا۔ جو اس کے جواب کا منتظر تھا۔
بجائے لفظوں میں کچھ کہنے کے اس نے محض ہلکے سے اثبات میں سر ہلایا تو وہ اس کا جواب سمجھتے ہوئے فوراً وہاں سے چلا گیا۔
وہ گہری سانس لے کر خود کو متوازن کرتے ہوئے اس قد آدم آئینے کے سامنے آیا جس کے پاس موجود اسٹول پر سفید تولیہ اور اس کی کتھئی ٹی شرٹ پڑی تھی۔
پہلے اس نے تولیے سے اپنے جسم پر نمودار پسینہ صاف کیا، جھک کر ٹی شرٹ اٹھائی اور ہمیشہ کی طرح اسے پہنے سے قبل اس نے ذرا سا مڑ کر اپنی پیٹھ پر بنا وہ لمبا سا زخم کا نشان دیکھا جو اس رات کی بری یاد کی مانند اس کے ساتھ رہ گیا تھا اور ایسے ہی کئی اندیکھے زخم اس کے ذہن و دل پر بھی نقش ہوگئے تھے۔
بےساختہ پھر اس کے ذہن میں بری یادوں کی آندھی چل پڑی جس کے باعث اس نے سختی سے جبڑے بھینچ رکھے تھے۔
وہ جان بوجھ کر بار بار اس زخم کو دیکھتا تھا تا کہ اس کے اندر کی آگ بھڑکتی رہے، کیونکہ نہ تو وہ خود اتنی آسانی سے سب بھول سکتا تھا اور نہ ہی کسی کو بھولنے دینا چاہتا تھا۔
چند لمحے یوں ہی خود کو شیشے میں دیکھتے رہنے کے بعد اس نے اپنی شرٹ پہنی اور بڑے بڑے قدم اٹھاتا کمرے سے باہر نکل گیا۔
********************************
"پھر وہ ہی بات کہ زمین اسے بیچ دوں، لیکن میں نے بھی منع کردیا کہ بھئی وہ زمین میری بیٹی کے نام ہے لہٰذا اسے بھول جاؤ!" موبائل میں مصروف سالک صاحب نے بےنیازی سے بتایا۔
"لوگوں کو بھی کسی حال میں چین نہیں ہے۔" ان کے سامنے والے صوفے پر بیٹھی راضیہ نے کوفت سے رائے دی۔
"السلام علیکم انکل آنٹی۔" تب ہی عزیر ادب سے سلام کرتا ہوا ہال میں آیا۔ دونوں اس کی جانب متوجہ ہوئے۔
"وعلیکم السلام! آؤ آؤ، خیریت آج یہاں کا راستہ کیسے بھول گئے جناب!" سالک صاحب نے موبائل اسکرین آف کرتے ہوئے خوشدلی سے کہا۔
"اپنی بیگم کو لینے آئے ہیں یہ شاپنگ پر جانے کیلئے اسی لئے۔" اس کے جواب سے قبل ہی ٹائیٹس کے ساتھ کرتی پہنے ملیحہ شوخی سے کہتی یہاں آئی۔ جس نے گلے کے گرد اسکارف لٹکایا ہوا تھا۔
"ملیحہ!" راضیہ نے ہلکے سے ٹوکا۔
"ضرور لے جاؤ، مگر پہلے کھانا تو کھا لو، ڈنر کا ٹائم ہو رہا ہے۔" سالک صاحب سہولت سے بولے۔
"ارے پاپا سمجھا کریں! یہ لوگ تو باہر کینڈل نائٹ ڈنر کریں گے نا!" ملیحہ نے دائیں آنکھ دبا کر پھر چھیڑا تو عزیر ناچاہتے ہوئے بھی جھینپ کر مسکرادیا۔ جس پر سب محظوظ ہوئے۔
"لیجئے، آپ کی بیگم صاحبہ بھی آگئی ہیں سولہ سنگھار کرکے۔" ملیحہ کے کہنے پر بےساختہ سب کی نظریں سیڑھیوں کی جانب گئیں۔
کتھئی ڈائے ہوئے کھلے بالوں کے ساتھ، ہلکے نیلے رنگ میں کاٹن کا سوٹ پہنے، دائیں کندھے پر ہمرنگ دوپٹہ لٹکائے اور اسی کندھے پر پرس لئے صبیحہ متوازن انداز میں سیڑھیاں اترتی نیچے آرہی تھی۔
"تو تم بھی کرلیا کرو سولہ سنگھار، کس نے روکا ہے؟" صبیحہ حساب برابر کرتے ہوئے ان لوگوں کی جانب آئی۔
"انہوں نے۔" ملیحہ نے مسکین صورت بنا کر کہتے ہوئے آنکھوں سے راضیہ کی جانب اشارہ کیا۔ وہ اسے گھورنے لگیں۔
"ہاں تو ظاہر ہے، جب شادی ہوجائے گی تو اپنے شوہر کیلئے سجتی سنورتی رہنا۔" راضیہ نے وضاحت کی۔
"چلیں صبیحہ!" عزیر نے ہلکے سے استفسار کیا۔
"ہاں چلو، اچھا ہم چلتے ہیں پاپا۔" وہ کہتے ہوئے سالک صاحب سے بولی۔
"ہاں ضرور، مگر دھیان سے جانا اور جلدی آجانا۔" انہوں نے اجازت دیتے ہوئے ساتھ ہی تاكید کی۔
"جی انکل، بےفکر رہیں آپ۔" عزیر نے تسلی کروائی۔
"اللہ حافظ!" پھر دونوں کہتے ہوئے باہر کی جانب بڑھ گئے۔
"سنو! میرے لئے آئس کریم لیتے ہوئے آنا یاد سے۔" ملیحہ نے شرارتی انداز میں پیچھے سے ہانک لگائی۔ جس پر دونوں نے کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ اور باہر نکل گئے۔
"بس کردو ملیحہ، بڑی ہوجاؤ اب۔" راضیہ نے ٹوکا۔
"اور کتنی بڑی ہوں!" اس نے مصنوعی حیرت سے اپنی جانب اشارہ کیا۔
"کہنے کو تم دونوں جڑواں ہونے کی وجہ سے ہم عمر ہو، مگر آواز اور عمر کے سوا اور کوئی چیز نہیں ملتی ہے تم دونوں کی۔" انھوں نے افسوس کیا۔
"کہاں سے ہم عمر ہیں! پورے ایک گھنٹے بڑی ہوں میں صبیحہ سے، اگر وہ پچیس سال کی ہے تو میں پچیس سال، ایک گھنٹے کی ہوں۔" اس نے حساب کتاب کیا۔
"صرف عمر سے، ورنہ حرکتیں تو اکثر تمہاری پندرہ سالہ لڑکیوں جیسی ہوتی ہیں۔" وہ بھی ترکی بہ ترکی بولیں۔
"اچھا اب چھوڑیں بھی، یہ کیا بیکار کی ضد بحث لے کر بیٹھ گئی ہیں، کھانا لگوائیں، بھوک لگ رہی ہے مجھے۔" بلآخر سالک صاحب نے ہی مداخلت کی۔
********************************
"اونہہ!" پہلا لقمہ منہ میں لیتے ہی سُلیمان نے بدمزہ ہوکر منہ بنایا جس کے باعث بائیں طرف والی کرسی پر بیٹھے غضنفر نے ان کی جانب دیکھا۔
"کیا ہوا ماموں؟" اس نے چاول سے بھرا چمچا واپس پلیٹ میں رکھتے ہوئے پوچھا۔
"نمک کتنا تیز ہو رہا ہے کھانے میں، رنگیلا! رنگیلا!" انہوں نے بتاتے کے ساتھ ہی بلند آواز سے پکارا تو وہ فوراً حاضر ہوا۔
"جی صاحب!" وہ باادب کھڑا تھا۔
"کھانا کس نے بنایا ہے؟ اتنا نمک ڈالتے ہیں بھلا کھانے میں!" وہ برہمی سے بولیں۔
"میں نے بنایا ہے صاحب، غلطی ہوگئی۔" وہ نادم ہوا۔
"تم نے! لیکن کیوں؟ وہ ملازمہ کہاں ہے جسے پچھلے ہفتے رکھا تھا؟" انہیں حیرت ہوئی۔
"صاحب وہ چلی گئی ہے کام چھوڑ کر، کہہ رہی تھی کہ یہاں صرف مرد ہی ہیں کوئی عورت نہیں ہے اسی لئے اسے ڈر لگتا ہے اور وہ یہاں کام نہیں کرے گی۔" اس نے گھبراتے ہوئے بتایا۔
اس کی بات سن کر سُلیمان کو مزید غصہ آیا جب کہ غضنفر کو یہ کوئی نئی بات نہیں لگی۔
کچھ دیر یوں ہی جبڑے بھینچنے کے بعد انہوں نے طیش کے عالم میں زور سے ہاتھ مار کر ایک خالی پلیٹ فرش پر گرائی جس سے رنگیلا ہل گیا جب کہ غضنفر خاموش رہا۔
وہ زور سے کرسی دھکیل کر اٹھنے کے بعد بڑے بڑے قدم اٹھاتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب چلے گئے۔
"یہ کانچ صاف کرو رنگیلا۔" ان کے جانے کے بعد غضنفر نے حکم دیا تو وہ فوراً حکم کی تکمیل میں لگ گیا۔ جب کہ غضنفر کو بخوبی اندازہ تھا کہ ٹھنڈے مزاج کے حامل سلیمان کس بات پر اس قدر غصے میں ہیں؟
********************************
"کیا فائدہ اتنی ڈاکٹری پڑھنے کا؟ جب ایک مریضِ عشق کیلئے وقت ہی نہیں ہے آپ کے پاس۔" عزیر نے تاسف سے آہ بھری۔
"اچھا! اگر وقت نہیں ہوتا تو ابھی آتی میں تمہارے ساتھ ڈنر پر!" ہوا سے چہرے پر آئی لٹ کو پیچھے کرتے ہوئے صبیحہ نے بےنیازی سے دھیان دلایا۔
دونوں اس وقت ایک اوپن ایئر ریسٹورنٹ کی ٹیبل کے گرد آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ دھیمی آواز میں بجتا میوزک، آس پاس جلتی خوبصورت لائٹس اور وقفے وقفے سے جسم کو چھوتے ہوا کے پر کیف جھونکیں، یہ سب مل کر ماحول کو کافی دلفریب بنانے میں کامیاب رہے تھے۔
"وہ تو کب سے اصرار کر رہا تھا میں تب جا کر راضی ہوئی ہو تم، ورنہ کبھی خود سے کوئی آؤٹنگ کا پلان بنایا ہے تم نے؟ یونیورسٹی میں تو خود ہی کلاسسز بنک کرلیا کرتی تھی گھومنے پھرنے کیلئے، اب کیا ہوا؟" اس نے کہتے ہوئے لقمہ منہ میں لیا۔
"بس یار، جب سے یہ ہاؤس جاب شروع کی ہے تب سے تھوڑا مائنڈ ڈائورڈ ہو گیا ہے۔" وہ بھی کہتے ہوئے کھانا کھانے لگی۔
"اور ویسے بھی بس دو مہینے تو رہ گئے ہیں ہماری رخصتی میں، پھر تمہارے گھر آکر کروں گی تمہارا ٹھیک سے علاج۔" اس نے مسکراتے ہوئے شرارت سے مزید کہا۔
"گھر تو آجاؤ، پھر دیکھتے ہیں کہ کون کس کا علاج کرتا ہے!" وہ بھی معنی خیزی سے بولا۔
"کھانے پر دھیان دو۔" اس نے جھینپ مٹانے کیلئے موضوع بدلا جس سے وہ کافی محظوظ ہوا۔
********************************
اندھیرے کمرے میں راکنگ چیئر پر پشت ٹکائے بیٹھے، سیاہ فریم والے چشمے کے نیچے آنکھیں بند کیے جھولتے سلیمان نجانے کن سوچوں میں گم تھے کہ تب ہی کمرے کی لائٹ نے آن ہوکر ان کی آنکھوں پر دستک دی جس کے باعث وہ آنکھیں کھولتے ہوئے سیدھے ہوئے تو دیکھا کہ غضنفر ہاتھ میں ٹرے لئے ان ہی کی جانب آرہا ہے۔
"آپ نے کھانا نہیں کھایا تھا نا! اسی لئے اپنے ہاتھ سے میں نے آپ کیلئے یہ کھانا آرڈر کیا ہے۔" وہ مسکرا کر کہتا ہوا صوفے کی طرف آیا اور ٹرے میز پر رکھ کر خود صوفے پر بیٹھ گیا۔
"چلیں اب جلدی سے آجائیں یہاں۔" انہیں یوں ہی دیکھ کر اس نے اصرار کیا تو ناچاہتے ہوئے بھی وہ اٹھ کر آکے اس کے برابر میں بیٹھ گئے۔
"اب جلدی سے کھانا شروع کریں کیونکہ پھر میں یہ سب دوبارہ گرم کرکے نہیں لاؤں گا۔" اس نے پلیٹ میں بریانی نکال کر ان کی جانب بڑھائی جسے انہوں نے تھام لیا۔
"ویسے اچھا ہی ہوا کہ وہ ملازمہ خود کام چھوڑ کر چلی گئی، مجھے تو پسند ہی نہیں آیا تھا اس کے ہاتھ کا ذائقہ۔" وہ کھانا کھاتے ہوئے یوں ہی ہلکی پھلکی باتیں کرنے لگا۔ جس کا وہ محض ہاں، ہوں میں جواب دیتے رہے۔
ان کا تو کھانا کھانے کا بھی دل نہیں چاہ رہا تھا۔ مگر غضنفر کا دل رکھنے کیلئے وہ مان گئے تھے۔ اور یوں ہلکی پھلکی باتوں کے دوران دونوں نے کھانا ختم کرلیا۔
"ایک بات پوچھوں ماموں!" غضنفر نے کہتے ہوئے خالی پلیٹ کو میز پر رکھا۔
"پوچھو۔" انہوں نے گلاس واپس رکھتے ہوئے اجازت دی۔
"آپ آج پھر سالک حمدانی سے ملے تھے!" اس نے تائید چاہی۔انہوں نے ہلکے سے اثبات میں سرہلایا۔
"اور انہوں نے پھر زمین بیچنے سے انکار کردیا!" وہ نتیجے پر پہنچا۔
جواب میں انہوں نے نظریں چرالیں جس کے باعث اسے جواب مل گیا۔
"آپ کیوں پیچھے پڑ گئے ہیں اس زمین کے! چھوڑ دیجئے اسے، بھول جائیں۔" اس نے نرمی سے سمجھانا چاہا۔
"تم بھولے ہو ان زخموں کی وجہ جو تمہاری پیٹھ پر ہیں غضنفر! تم نے چھوڑا ہے ماضی کا پیچھا!" انہوں نے براہ راست اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سوال کیا تو وہ لاجواب ہوگیا۔
کمرے میں پھر سے خاموشی چھاگئی جو کہ بہت بھاری محسوس ہوئی۔ لیکن جواب دے کر اس خاموشی کو توڑنا اس سے بھی زیادہ مشکل لگا۔
"کافی دیر ہوگئی ہے، سوجائیے ماموں، گڈ نائٹ۔" وہ ٹرے لے کر سنجیدگی سے کہتا اٹھا اور تیز تیز قدم بڑھاتا کمرے سے باہر نکل گیا۔ جب کہ وہ محض اسے دیکھ کر رہ گئے۔
اپنے ماضی کے تصور سے ہراساں ہوں میں
اپنے گزرے ہوئے کل سے نفرت ہے مجھے
رات کی سیاہی چھٹ کر اب ایک نکھری ہوئی صبح میں تبدیل ہوگئی تھی جس سے لطف اندوز ہونے کیلئے ملیحہ اپنے کمرے کی گیلری میں بیٹھی موبائل میں مصروف تھی۔ جب کہ نرم دھوپ پڑنے کے باعث اس کے سیاہ کھلے بال بھورے لگ رہے تھے۔
"ملیحہ! تم نے میرا لاکٹ دیکھا ہے!" صبیحہ نے گیلری میں جھانک کر پوچھا۔
"ہاں دیکھا ہے، ایس (S) بنا ہوا ہے اس پر۔" اس نے بنا دیکھے جواب نہیں دیا۔
"یار بتاؤ کہاں ہے وہ؟" اس نے چڑ کر پوچھا۔
"میں جیب میں لے کر گھوم رہی ہوں، دوں؟" اس نے طنزیہ انداز میں کہتے ہوئے کرتی کے سنگ پہنی اپنی جینز کی جیب کی طرف اشارہ کیا۔
"تم سے تو بات کرنا ہی فضول ہے۔" وہ بڑبڑاتی ہوئی واپس چلی گئی۔ جب کہ وہ دوبارہ موبائل میں مصروف ہوگئی۔
*********************************
"امی! آج میں نے ہاسپٹل سے چھٹی کی ہے، میں اپنی دوست نگہت کے گھر جا رہی ہوں، پھر اسی کے ساتھ شاپنگ پر چلی جاؤں گی۔" صبیحہ اپنے گلے میں موجود S والے لاکٹ کا لاک لگاتی ہوئی راضیہ کی جانب آئی جو اسے سائیڈ ٹیبل کی دراز سے بلآخر مل گیا تھا۔
"ہاں ہاں تم نے بتا تو دیا تھا رات میں، اچھا ملیحہ اٹھ گئی ہے نا!" کچن میں موجود ملازمہ کو کچھ ہدایت دیتی راضیہ نے رک کر پوچھا۔
"جی اٹھ گئی ہے، اچھا میں چلتی ہوں، اللہ حافظ۔" اس نے اپنے کندھے پر لٹکے بیگ کی بیلٹ پکڑتے ہوئے کہا۔
"اللہ حافظ!"
پھر وہ باہر کی جانب بڑھ گئی جب کہ راضیہ کچن سے نکل کر اوپر ملیحہ کے کمرے کی طرف آئیں۔
"یہ کہاں جانے کی تیاری ہو رہی ہے؟" غیر متوقع طور پر ملیحہ کو ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا تیار ہوتا دیکھ کر وہ چونکیں۔
بیلو جینز کے ساتھ بلیک کرتی، اور اس کے اوپر میرون رنگ کا کمر تک آتا فٹنگ ویسکوٹ پہنے، وہ آدھے بالوں میں کیچر لگا رہی تھی۔
"میں نے بتایا تھا نا کہ وہ جو میری کالج کی دوست ہے سمیرا! جس کی امی ایک فاؤنڈشن چلاتی ہیں، تو بس میں سمیرا کے ساتھ وہیں جا رہی ہوں۔" اس نے کانوں میں چھوٹے چھوٹے ایئر رنگ پہنتے ہوئے بتایا۔
"کس خوشی میں؟" انہوں نے آنکھیں سکیڑی۔
"ایسے ہی، میں وہاں موجود لوگوں سے مل کر انہیں دیکھنا چاہتی ہوں، کیا پتا یہ میرے سائیکالوجی والے آسائنمنٹ میں کچھ کام آجائے!" اس نے کہتے ہوئے بیڈ پر پڑا سیاہ اسکارف اٹھا کر گلے میں ڈالا اور ساتھ ہی ڈریسنگ ٹیبل کی دراز میں کچھ ڈھونڈنے لگی۔
"کہا تھا کہ صبیحہ کے ساتھ ہی میڈیکل میں داخلہ لے لو، مگر نہیں! تمہیں تو پتا نہیں یہ کیا دماغی بیماریوں میں گھسنے کا شوق ہے۔" انہوں نے ہمیشہ والی بات دہرائی۔
"اور میں بھی آپ کو بتا چکی ہوں کہ مجھ سے خون خرابہ نہیں دیکھا جاتا ہے، اسی لئے مجھے کوئی شوق نہیں ہے ڈاکٹر بننے کا، میں سائیکالوجسٹ بن کر ہی خوش ہوجاؤں گی۔" دراز سے مطلوبہ چیز لے کر وہ ان کی جانب پلٹی۔
اس بات کے جواب میں ہمیشہ اس کا یہ ہی جواب ہوتا تھا۔
"اچھا اب میں چلتی ہوں، دوپہر دو، تین بجے تک آجاؤں گی واپس، اللہ حافظ!" وہ بیڈ پر رکھا پرس اٹھاتی باہر نکل گئی۔ جب کہ وہ تاسف سے سر ہلا کر رہ گئیں۔
*********************************
"کیا مطلب؟" سلیمان نے چائے کا کپ واپس ڈائینگ ٹیبل پر رکھتے ہوئے پوچھا۔
"مطلب کہ کل رات آپ نے کہا تھا نا کہ میں بھی تو آج تک کچھ نہیں بھولا ہوں، تو اگر میں سب کچھ بھلا کر ان سے صلح کرلوں تو کیا آپ اس زمین کی ضد چھوڑ دیں گے؟" غضنفر نے بھی دونوں ہاتھ ٹیبل پر رکھتے ہوئے تھوڑی وضاحت کی۔
"تو اس زمین کا تمہاری صلح سے کیا تعلق؟" انہوں نے کہتے ہوئے کپ دوبارہ لبوں سے لگایا۔
"تعلق کوئی نہیں ہے، بس ضد ہے، آپ کی وہ زمین نہ چھوڑنے کی اور میری ان سے صلح نہ کرنے کی، تو اگر میں اپنی ضد چھوڑ دوں تو کیا آپ بھی اپنی ضد چھوڑ دیں گے؟ کہیں! منظور ہے؟" اس نے گویا شرط رکھی۔ وہ سیدھا سودے بازی کر رہا تھا۔
بجائے فوری طور پر کوئی جواب دینے کے وہ پرسوچ انداز میں چائے پینے لگے۔
غضنفر نے ایک بھرپور نگاہ ان پر ڈالتے ہوئے یہ نتیجہ نکال لیا تھا کہ وہ راضی نہیں ہیں۔ اسی لئے بجائے مزید کوئی اور بات چیت کرنے کے اس نے بھی ٹیبل پر سے اپنا سفید چائے سے بھرا کپ اٹھا کر لبوں کے قریب کیا۔
"منظور ہے۔" اگلے ہی پل انہوں نے فیصلہ کیا۔ جسے سن کر کپ کو چھوتے اس کے لب وہیں ساکت ہوگئے۔
*********************************
زوہا کینٹین کے بالکل کونے میں رکھی ٹیبل پر بیٹھی بجائے کچھ کھانے پینے کوئی کتاب ٹیبل پر کھولے اس کا مطالعہ کرنے میں مصروف تھی۔
تب ہی ٹیبل پر کسی نے چاکلیٹ فلیور آئس کریم کا کپ رکھا۔ اس نے بجائے سر اٹھا کر دیکھنے کے ایک سرسری نگاہ کپ پر ڈالی اور دوبارہ مطالعہ میں مصروف ہوگئی۔
پھر اسی کپ کے برابر میں کسی نے دوسرا کپ رکھا جو کہ ونیلا فلیور تھا۔ مگر زوہا نے کوئی رد عمل نہ دیا۔ پھر ان دونوں کپوں کے برابر میں ایک تیسرا کپ رکھا گیا جو کہ اسٹابیری فلیور تھا اور رد عمل بھی جوں کا توں۔
پھر آئس کریم لانے والے نے یوں ہی ایک ایک کرکے ہر طرح کے فلیور کی آئس کریم کپس کا مینار کھڑا کردیا۔ لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔
"یار اب بس بھی کرو زوہا۔" بلآخر تھک کر عبید اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھا۔ مگر اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔
"میں آپ سے بات کر رہا ہوں مس زوہا۔" اس نے دھیان دلایا۔
"مگر مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔" اس نے نپا تلا جواب دیا۔
"کیوں؟" ایک لفظی سوال آیا۔
"کیونکہ کل جو حرکت تم نے کی ہے وہ ابھی تک بھولی نہیں ہوں میں۔" اس نے زور سے کتاب بند کرکے برہمی سے اس کی جانب دیکھا۔
"تو بھول جاؤ نا! تم نے سنا نہیں کہ رات گئی، بات گئی۔" اس نے سہولت سے مشورہ دیا۔
"نہیں سنا، لیکن یہ ضرور سنا ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔" وہ لفظ چباتے ہوئے بولی۔
"سنا تو میں نے بھی ہے، لیکن اب میں تمہیں لات مارتا ہوا اچھا تھوڑی لگوں گا۔" اس نے مصنوعی جھجھک کا اظہار کیا۔ جس پر اس کا مزید خون کھول گیا۔
"بھاڑ میں جاؤ۔" وہ غصے میں کرسی دھکیل کر اٹھنے کے بعد باہر کی جانب بڑھ گئی۔
"ارے یار زوہا، سنو تو!" عبید نے جلدی سے ٹیبل پر سجا آئس کریم کپس کا مینار اپنے دونوں ہاتھوں میں اٹھایا اور اس کے پیچھے بھاگا۔
*********************************
"ہم نے وعدے کے مطابق تمہیں قبضہ دلا دیا ہے، اور تمہارے وعدے کے مطابق تمہیں کل باقی پیسے دینے تھے عمران، مگر تم نے نہیں دیے، اسی لئے ابھی بھی شرافت سے کہہ رہا ہوں میں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔"
"نہیں تو کیا کرلو گے؟" غضنفر بول ہی رہا تھا کہ ٹیبل کی دوسری جانب بیٹھے درمیانی عمر کے عمران نے بری طرح اس کی بات کاٹی۔
"نہیں تو اچھا نہیں ہوگا تمہارے لئے۔" اس نے سنجیدگی سے اپنی بات مکمل کی۔
"نہیں دیتا میں باقی کے پیسے کرلو جو تمہارا دل کرتا ہے۔" اس نے بےنیازی سے کہتے ہوئے ٹیبل پر رکھی کوک کی بوتل اٹھا کر لبوں سے لگائی۔
"اور ویسے بھی اگر میں چاہوں تو پولیس کو بتا سکتا ہوں کہ تم دونوں ماموں بھانجے کار شوروم کی آڑ میں چوری چھپے لینڈ مافیا کا بھی حصہ ہو، جس کے بعد پھر تم دونوں کے ساتھ کیا ہوگا یہ تم اچھے سے جانتے ہو۔" اس نے ان کے کام کے حوالے سے درست بات کرتے ہوئے دھمکی دی۔
غضنفر نے ایک نظر پہلے اسے دیکھا پھر اپنے اطراف کا جائزہ لینے لگا۔
یہ ایک لوکل ہوٹل تھا جہاں مختلف ٹیبلز پر موجود لوگ ایک دوسرے سے اپنے معاملات پر بات چیت کرنے میں مصروف تھے۔
اگلے ہی پل غضنفر کرسی دھکیل کر اپنی جگہ پر سے اٹھا اور اس کی جانب آکر اسے گریبان سے پکڑ لیا۔
"اے! کیا کر رہا ہے یہ تو؟" وہ برہم ہوا۔ اور کچھ لوگ بھی متوجہ ہونے لگے۔
"وہ ہی جو میرا دل کر رہا ہے۔" اس نے دانت پیس کر کہتے ہوئے اپنی کوک کی بوتل اٹھائی اور اسے ٹیبل پر مار کر توڑ دیا جس کے باعث اب پورا ہوٹل ان کی طرف متوجہ تھا۔ جب کہ عمران بھی تھوڑا گھبرایا۔
"اے! چھوڑ مجھے۔" اس نے لاغر سی مزاحمت کی۔
"چیک بک نکال اپنی۔" غضنفر نے ٹوٹی ہوئی کانچ کی بوتل کا نوکیلا حصہ عین اس کی گردن پر رکھا۔
"غضنفر بھائی یہ کیا کرتا ہے تم! چھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
"خبردار جو کوئی آگے آیا۔" ہوٹل والا پٹھان بیچ بچاؤ کروانے کی نیت سے آگے آنے ہی لگا تھا کہ غضنفر نے بوتل اس کی طرف کرتے ہوئے دھمکی دی تو وہ وہیں رک گیا۔
"اور تو، نکلتا ہے چیک بک یا کاٹوں تیرا کنیکشن!" اب وہ دوبارہ بوتل کی نوک اس کی گردن پر رکھے غضبناک ہوا۔
"ن۔۔نکالتا ہوں۔" اس نے گھبرا کر فوراً اپنی قمیض کی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ اور چیک بک نکالی۔
"سائن کر اس پہ، اماؤنٹ میں خود لکھ لوں گا۔" اس نے حکم جاری کیا تو وہ فوری طور پر جیب سے پین نکال کر تکمیل کرنے لگا۔ جب کہ باقی لوگ نے خاموشی سے تماشا دیکھنے میں ہی عافیت جانی ہوئی تھی۔
"یہ لو۔" اس نے چیک غضنفر کی جانب بڑھایا۔ جسے اس نے تھام لیا۔
"اگر یہ چیک باؤنس ہوا نا تو کل تیری نمازِ جنازہ کے بارے میں اناؤنس ہو رہا ہوگا، آئی سمجھ!" اس نے آخری مرتبہ سختی سے دھمکی دی۔ تو اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
"اور جس پولیس کی تو ہمیں دھمکی دیتا ہے نا اسے منہ بند رکھنے کیلئے رقم بھیج دیتے ہیں ہم، اسی لئے دوبارہ یہ دھمکی مت دینا ورنہ اسی پولیس کے ذریعے تجھے کسی کیس میں فٹ کروا دوں گا۔" اس نے علم میں اضافہ کرتے ہوئے سختی سے تنبیہہ کی۔
اور پھر جھٹکے سے اسے چھوڑ کر، بوتل زمین پر پھینکتے ہوئے وہ بڑے بڑے قدم اٹھاتا باہر کی جانب بڑھ گیا۔ جب کہ سب یوں خاموش تھے گویا سانپ سونگھ گیا ہو۔
"یہ کیا شیر خان! وہ اتنا ہنگامہ کرکے چلا گیا اور تم نے کچھ نہیں کہا۔" اس کے جاتے ہی ایک شخص ہوٹل کے مالک سے بولا۔
"اوہ خانہ خراب! تم اس کو نہیں جانتا، اس بددماغ کا منہ کوئی نہیں لگتا، ایک بار پہلے بھی اسی طرح کا ایک جھگڑا میں ایک آدمی بول پڑا تھا، تو اس نے اس کا بھی سر پھاڑ دیا تھا۔" اس نے گزرا قصہ بتایا۔
"کیا! اور کسی نے کچھ نہیں کیا اس کے خلاف؟" وہ حیران ہوا۔
"کیسے کرتا؟ پولیس کو پیسے دے کر منہ جو بند کروا دیتا ہے یہ لوگ، اور پھر وہ خود ہی اس بندے کو ہسپتال پہنچایا تھا اور اس کا خرچہ بھی اٹھایا تھا۔" اس نے مزید بتایا۔
"تو جب ہسپتال ہی لے کر جانا تھا تو پھر مارا کیوں؟" وہ اور حیران ہوا۔
"اوہ یارا وہ ایسا ہی الٹا کھوپڑی ہے، تم نہیں سمجھے گا، جاؤ جا کر اپنا کام کرو، اور چلو تم لوگ بھی رش ہٹاؤ اور چھوٹے تو جلدی یہ سب صاف کروا۔" اس نے چڑ کر بات سمیٹی۔
*********************************
"کچھ دن پہلے ایک جوان لڑکا انہیں یہاں چھوڑ گیا تھا، یہ کہہ کر کہ وہ گھر والوں کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی اور بار بار گھر چھوڑ کر کہیں چلی جاتی ہیں، جب ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے بھی یہ ہی کہا کہ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی، اسی لئے ہم نے انہیں یہاں ایڈمٹ کرلیا۔" سمیرا نے ملیحہ کے ہمراہ چلتے ہوئے بتایا۔
"وہ زیادہ کسی سے بات چیت بھی نہیں کرتی ہیں، کافی سنجیدہ مزاج کی ہیں، بس ان کے برابر والے بیڈ پر سوتی خاتون نے بتایا کہ وہ اکثر نیندوں میں ایک لفظ بڑبڑاتی ہیں۔" وہ مزید بتاتے ہوئے رکی۔
"کون سا لفظ؟" ملیحہ کو جاننے کا تجسس ہوا۔
"مان!"
"مان!" اس نے تعجب سے دہرایا۔
"ہاں مان، اب پتا نہیں یہ لفظ ان کے ذہن میں کیوں اٹکا ہوا ہے؟" اس نے لاعلمی سے کندھے اچکائے۔
"ہوسکتا ہے کسی نے ان کا مان توڑا ہو اور انہیں اسی بات کا صدمہ لگا ہو!" ملیحہ نے خیال ظاہر کیا۔
"شپ اپ یار!" سمیرا کو یہ بات بےتكی لگی۔
"اچھا ابھی کہاں ہیں وہ؟" اس نے دوسرا سوال اٹھایا۔
"وہیں جنرل وارڈ میں، اپنے بیڈ پر خاموش سی بیٹھی ہیں۔" اس نے سامنے کی طرف اشارہ کیا۔
"مس سمیرا! آپ کو میڈم بلا رہی ہیں۔" تب ہی ایک کمسن لڑکی نے آکر اطلاع دی۔
"ملیحہ تم یہیں رکو، میں ابھی آئی۔" وہ کہہ کر لڑکی کے ساتھ آگے بڑھ گئی جب کہ اس نے جواباً سر ہلایا۔
سفید سنگ مرمر سے بنا یہ ایک صاف ستھرا کوریڈور تھا جس کے دونوں اطراف میں تھوڑے تھوڑے فاصلے سے رکھے سبز پودے آنکھوں کو بہت بھلے لگ رہے تھے۔
کچھ دیر یوں ہی کھڑے رہنے کے بعد ملیحہ نے قدم سامنے والے کمرے کی جانب بڑھا لئے جس کے دروازے کے اوپر "جنرل وارڈ" کی تختی لگی ہوئی تھی۔
دروازے پر رک کر اس نے اندر دیکھا تو بالکل کونے میں کھڑکی کے پاس رکھے بیڈ پر ہلکے آسمانی لباس میں ایک قریب چالیس سالہ عورت سرہانے سے ٹیک لگائے خاموش بیٹھی تھی۔
انہیں دیکھ کر یہ اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا تھا کہ عین جوانی کے ایام میں یہ بےحد پرکشش رہی ہوں گی۔ لیکن کہتے ہیں نا کہ حسن قیامت سہی، مگر تا قیامت نہیں۔
*********************************
غضنفر ایک کام کے سلسلے میں کہیں آیا ہوا تھا اور اب کام مکمل ہونے کے بعد وہ بلڈنگ سے نکل کر اپنی کار کی جانب بڑھا۔ ساتھ ہی اس نے اپنی شرٹ پر اٹکے سیاہ سن گلاسسز بھی دھوپ سے بچنے کیلئے آنکھوں پر لگا لئے۔
وہ جیسی ہی کار کے قریب پہنچا تو اس کی نظر روڈ پر بیٹھے ایک بوڑھے فقیر پر پڑی۔ جو آتے جاتے لوگوں سے فریاد کر رہا تھا۔
کچھ سوچتے ہوئے وہ یہ چوڑا سا روڈ پار کرکے اس طرف آیا اور جینز کی جیب سے کچھ نوٹ نکال کر اس کے کشکول میں ڈال دیے۔
"اللہ تمہاری مراد پوری کرے بیٹا۔" فقیر نے روایتی دعا دی۔ جس پر وہ تلخی سے مسکرا کر واپس پلٹا۔
پتا نہیں کیوں؟ اس دعا پر وہ چاہ کر بھی امین نہیں کہہ پایا۔ شاید اسی لئے کیونکہ اسے یقین ہو چلا تھا کہ اس کی مراد کا پورا ہونا ناممکن ہے۔
وہ ان ہی سوچوں میں اس قدر غلطاں تھا کہ اسے ہوش ہی نہ رہا وہ مین روڈ پر اتنا آہستہ چل رہا ہے۔ اور گاڑی کے ہارن کے باعث جب تک اسے ہوش آیا تب تک دیر ہوچکی تھی، ڈرائیور کی لاکھ کوشش کے باوجود بھی وہ زد میں آنے سے نہ بچا اور اچھل کر تھوڑا دور جا گرا۔
پل بھر میں وہاں افراتفری مچ گئی تھی۔ لوگ دائرے کی صورت روڈ پر اوندھے پڑے غضنفر کے گرد اکھٹا ہونے لگے جس کے سر سے گاڑھا خون ابل کر اس کا چہرہ سرخ کر رہا تھا۔ اور لوگوں کی آواز ہتھوڑی کی مانند اس کے سر پر لگ رہی تھیں۔
"آئے ہائے! بیچارے کے سر سے خون نکل رہا ہے۔"
"ارے اس کو اٹھا کر سائیڈ پر لے کر چلو۔"
"نہیں بھئی کوئی ہاتھ مت لگانا ورنہ پولیس ہمیں بھی پھنسا دے گی۔"
"ایمبولینس کو فون کیا کسی نے؟"
"اس کی تلاشی لیتے ہیں۔"
"پولیس کو فون کرتے ہیں۔"
ہر کوئی اپنی اپنی رائے دے رہا تھا۔ کچھ لوگوں نے تو باقاعدہ موبائل سے ویڈیو بھی بنانی شروع کردی تھی۔ مگر کوئی اس کی مدد کو آگے نہیں آیا تھا۔
"تم لوگوں میں ذرا بھی احساس ہے یا نہیں؟ ایک شخص پڑا مر رہا ہے اور تم لوگ کھڑے تماشا دیکھ رہے ہو۔" تب ہی ایک لڑکی غصے سے چلائی۔
غضنفر کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ اسے الفاظ بھی ٹھیک سمجھ نہیں آرہے تھے۔
"میڈم یہ پولیس کیس ہے، اگر پولیس کے آنے سے پہلے اسے ہاتھ لگایا تو پولیس ہم کو بھی اٹھا لے گی۔" ایک آدمی نے بےتكی عقل مندی جھاڑی۔
"اور اگر پولیس کے آنے تک یہ مر گیا تو!" لڑکی نے ترکی بہ ترکی سوال کیا تو وہ کچھ نہ بولا۔
"میں بھی میڈیکل کے اصول اچھے سے جانتی ہوں، ایمرجنسی کی صورت میں تو مجرم کو بھی پہلی فرصت میں ہاسپٹل پہنچایا جاتا ہے پھر باقی کاروائی ہوتی ہے، یہ تو پھر ایکسیڈینٹ کا کیس ہے، اسے جلدی ہاسپٹل لے کر چلو۔" لڑکی نے مزید کہتے ہوئے غضنفر کی جانب اشارہ کیا جس کا خون بہے جا رہا تھا۔
"سوری میڈم! ہم نہیں پڑیں گے کسی پرائے پنگے میں۔" لوگوں نے بےحسی کی انتہا کرتے ہوئے صاف انکار کردیا۔ جس پر اسے افسوس بھری حیرت ہوئی۔
"کتنے بےحس ہیں آپ لوگ، اگر اس کی جگہ آپ کا کوئی اپنا ہوتا تو بھی یہ ہی کہتے!" اس نے غم و غصے سے ملامت کی۔
"میڈم ہم چلتے ہیں انہیں لے کر۔" تب ہی کچھ دوسرے لوگ مدد کیلئے ہمت کرتے ہوئے اگے آئے۔
غضنفر نے محسوس کیا کہ کچھ لوگوں نے اسے اٹھا کر کسی چیز پر لٹایا ہے۔ اور اب اسے کہیں لے جایا جا رہا ہے۔
پھر یہ حرکت رک گئی اور گاڑی اسٹارٹ ہونے کی آواز کے ساتھ ہی اسے لگا کہ زمین چلنے لگی ہے۔
"سنو! تمہیں میری آواز آرہی ہے؟" یہ آواز تو اسی لڑکی کی تھی جو تھوڑی دیر پہلے لوگوں پر چلائی تھی۔
"سنو تمہیں کچھ نہیں ہوا ہے، تم بالکل ٹھیک ہو، ریلیکس، بس معمولی سی چوٹ ہے۔" وہ اسے تسلی دے رہی تھی۔
وہ آنکھیں کھول کر اسے دیکھنا چاہتا تھا مگر اسے اپنی پلکیں من من بھاری محسوس ہو رہی تھیں۔
تب ہی اسے محسوس ہوا کہ شاید وہ اس کی جیب ٹٹول رہی تھی۔ پھر اس نے اس کی جیب سے کچھ نکالا بھی۔ شاید اس کا پرس تھا۔
"سنو غضنفر عباس! تم بالکل ٹھیک ہو۔" اب اس نے باقاعدہ اس کا نام پکارا۔ شاید وہ اس کا شناختی کارڈ دیکھ چکی تھی پرس سے نکال کر۔
"ریلیکس۔" وہ اب اسے تسلیاں دے رہی تھی۔ جس کے بعد آہستہ آہستہ وہ مکمل طور پر ہوش و حواس سے بیگانہ ہوگیا۔
*********************************
"یار میں کب سے سوری کہنے کی کوشش کر رہا ہوں اور تم ہو کہ سن ہی نہیں رہی ہو۔" گاڑی سے اتر کر زوہا تیزی سے اندر جانے لگی تھی تب ہی عبید بھی ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ بند کرتے ہوئے اس کے پیچھے آیا۔
"کیوں سنو میں! ضرورت ہی کیا تھی کل سب کے سامنے مجھ پر جھوٹا الزام لگانے کی!" وہ برہمی سے رک کر پلٹی۔
"یار اگر میں سچ بتاتا تو ڈانٹ پڑتی نا ڈیڈ سے، اور سچی وہ پٹاخہ تو روڈ پر بچے پھاڑ رہے تھے تو میں نے منع کرنے کیلئے ان سے چھینا تھا۔" اس نے وضاحت کی۔
"اور لا کر مجھے پکڑا دیا۔" زوہا نے طنزیہ انداز میں بات جوڑی۔
"میں تو بس مستی کر رہا تھا تمہارے ساتھ مجھے کیا پتا تھا کہ وہ پٹاخہ دادی کے پاس جا کر گرے گا، سوری!" اس نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے پھر معذرت کی۔ جس پر بجائے کوئی جواب دینے کے وہ اسے گھورنے لگی۔
"کیا ہو رہا ہے یہاں؟" تب ہی شاہانہ کہتی ہوئی آئیں تو دونوں چونکے۔
زوہا نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا اور تیزی سے اندر کی جانب بڑھ گئی جب کہ عبید وہیں کھڑا رہا۔
"یہ کس خوشی میں منت سماجت کر رہے ہو تم کل سے محترمہ کی!" اب وہ تیکھے انداز میں اس سے مخاطب ہوئیں۔
"ممی وہ۔۔۔کوئی خاص بات نہیں ہے، بس یونی کا کچھ مسلہ تھا۔" اس نے لمحے بھر کو سٹپٹا کر بات بنائی۔
"حد میں رہو اپنی، کوئی ضرورت نہیں ہے اسے زیادہ سر چڑھانے کی، ویسے ہی ان دونوں بہن بھائی کا دماغ آسمان پر چڑھا رہتا ہے اور تم مزید جی حضوری میں لگے ہوئے ہو۔" ان کے سنجیدہ انداز میں ناپسندیدگی واضح تھی۔ جس کے جواب میں عبید نے خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی۔
"چلو اب جاؤ اندر۔" انہوں نے بات سمیٹتے ہوئے حکم دیا تو وہ فوراً اندر کی طرف بڑھ گیا۔
*********************************
غضنفر نے آہستہ آہستہ لرزتی پلکیں اٹھائیں تو خود کو ایک اجنبی جگہ پر پایا۔ وہ سمجھ نہیں پایا کہ وہ کہاں ہے؟ اس کا ذہن بالکل خالی معلوم ہو رہا تھا۔ جب کہ جسم میں بھی درد کا احساس ہونے لگا تھا۔
"غضنفر!" کسی مانوس آواز نے اس کا نام لیا۔
آواز کے تعاقب میں اس نے بائیں طرف گردن موڑی تو سلیمان کو نزدیک اسٹول پر بیٹھا پایا جو فکر مندی سے اسے ہی دیکھ رہے تھے۔
"کیسی طبیعت ہے بیٹا؟" انہوں نے نرمی سے پوچھا۔
"مجھے۔۔۔۔کیا۔۔۔ہوا؟" اس نے رک رک کر پوچھا۔
"تمہارا ایکسیڈینٹ ہوگیا تھا بیٹا، تم ہاسپٹل میں ہو۔" انہوں نے اصل بات بتائی۔
"وہ۔۔۔کہاں ہے؟" اس نے اسی طرح کیا۔
"کون؟" وہ سمجھے نہیں۔
"وہ۔۔۔وہ۔۔۔لڑکی!"
"کون سی لڑکی؟ اچھا وہ جو تمہیں ہاسپٹل لے کر آئی تھی!" وہ نتیجے پر پہنچے۔ تو اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
"وہ مجھے اطلاع دے کر میرے آنے سے پہلے ہی جاچکی تھی۔" انہوں نے بتایا تو اسے یہ جان کر اچھا نہیں لگا کہ وہ جا چکی ہے۔
"میں ڈاکٹر سے ملا تھا، انہوں نے بتایا کہ کوئی خطرے کی بات نہیں ہے، صرف سر پر تھوڑی چوٹ آئی ہے تمہارے، ایک دو دن تک تمہیں ڈسچارج کردیں گے۔" انہوں نے مزید کہا۔ مگر اس کا دھیان تو اس اجنبی لڑکی پر اٹک گیا تھا جو اس کی جان بچا کر چپکے سے چلی گئی تھی۔
اور اب اسے یہ جاننے کی جستجو ہو رہی تھی کہ وہ کہاں سے آئی تھی؟ کہاں گئی؟ اور کون تھی؟
*********************************
"صبیحہ! اتنی جلدی واپس آگئی تم؟" ہال میں بیٹھی راضیہ اسے دیکھ کر تعجب سے بولیں۔
"جی امی وہ نگہت کی فیملی میں ایک ایمرجنسی ہوگئی تھی، اسی لئے شاپنگ کینسل کردی۔" اس نے تھکے ہوئے انداز میں بتایا۔
"اللہ خیر کرے، کیا ہوگیا!" انہیں فکر ہوئی۔
"اس کا بھتیجا کھیلتے ہوئے سیڑھیوں سے گر گیا تھا، تو پھر ہم سب اسے ہاسپٹل لے کر چلے گئے تھے، ابھی بھی نگہت وہیں ہے، مجھے مزید وہاں رکنا ٹھیک نہیں لگا تو میں واپس آگئی۔" اس نے صوفے کے نزدیک رک کر بتایا۔
"اوہ! تو اب کیسا ہے بچہ؟" انہیں تشویش ہوئی۔
"ٹھیک ہے، بس دو ٹانکیں آئے ہیں، رات تک ڈسچارج بھی کردیں گے اسے۔" اس نے تسلی دی۔
"اللہ پاک رحم کرے۔" انہوں نے دعا دی۔
"امین!"
"تو یہ تمہاری قمیض پر خون اسی کا لگا ہے؟" انہوں نے اس کے دامن کی جانب اشارہ کیا۔
اس نے خود بھی چونک کر دیکھا۔
"اوہ! یہ تو میں نے بھی نہیں دیکھا، شاید فرسٹ ایڈ دیتے ہوئے لگ گیا ہوگا۔" اس نے کہتے ہوئے دامن دیکھا۔
"چلو کوئی بات نہیں، جا کر کپڑے بدل لو۔" انہوں نے سہولت سے مشورہ دیا تو وہ اثبات میں سر ہلا کر آگے بڑھ گئی جب کہ راضیہ دوبارہ ٹی وی کی جانب متوجہ ہوگئیں۔
*********************************
"جی بس یہ آخری سال ہے نا یونی میں! جو کہ تین مہینے بعد پورا ہوجائے گا تو پھر آپ لوگوں کے ساتھ ہی چلوں گا آفس، اور ابھی بھی عزیر بھائی مجھے آفس کے معاملات کے بارے میں کچھ نا کچھ بتاتے ہی رہتے ہیں۔" کرسی پر بیٹھا عبید فرمابرداری سے بولا۔
"سننے میں اور عمل کرنے میں فرق ہوتا ہے، جب تم پریکٹیکلی کاروباری معاملات میں آؤ گے تب پتا چلے گا تمہیں آٹے دال کا بھاؤ۔" شفاعت نے سنجیدگی سے کہا۔
"آٹے دال کا بھاؤ! یہ تم لوگوں نے پرچون کی دکان کب کھولی!" دردانہ نے مصنوعی حیرت کا اظہار کیا۔
"مثال دے رہا ہوں اماں بی، آپ یہ بات بات پر پنچ نہ مارا کریں۔" شفاعت نے ماں کو وضاحت دی۔
تمام گھر والے شام کے وقت حسب معمول چائے پینے کے بہانے لان میں اکھٹا تھے۔ تب ہی باتوں کا رخ کاروباری معاملات سے ہوتا ہے عبید کی جانب گھوم گیا۔
"ارے اب ایسا بھی کوئی بےوقوف نہیں ہے میرا بیٹا، ماشاءاللہ سے میرا عزیر تو کاروبار کے سارے معاملات سمجھ ہی چکا ہے، عبید بھی جلدی سب سیکھ جائے گا، زوہا تو ویسے بھی شادی کرکے یہاں سے رخصت ہوجائے گی، اور کوئی ہے نہیں تو اب آگے عزیر اور عبید کو ہی سنبھالنا ہے نا سب، تو سنبھال لیں گے، فکر نہ کریں آپ، بہت اچھی تربیت کی ہے میں نے اپنے بچوں کی، یہ اوروں کی طرح نہیں ہیں۔" شاہانہ نے اپنی مخصوص بےنیازی سے کہتے ہوئے آخری جملہ طنزیہ انداز میں کہا۔
جس کے باعث صالحہ پہلو بدل کر رہ گئیں۔ جب کہ باقی سب بھی بخوبی ان کا مفہوم سمجھ چکے تھے۔
"عبید! لائٹر دو اپنا۔" اچانک زوہا لان میں آکر سیدھی عبید سے بولی۔
"کیا! میرے پاس لائٹر کہاں ہے؟" وہ سٹپٹایا۔
"تمہاری جیب میں ہے دو جلدی، چائے بنانے کیلئے چولہہ جلانا ہے، کچن کا لائٹر کام نہیں کر رہا ہے۔" اس نے باقاعدہ ہاتھ آگے کیا۔
"یہ کیا کہہ رہی ہو بیٹا؟ عبید کے پاس لائٹر کیوں ہوگا؟" صالحہ نے بھی ٹوکا۔
"کیونکہ یہ سیگریٹ جو پیتا ہے ممی۔" اس نے اطمینان سے جواب دیا تو عبید کی جان پر بن گئی۔
"طبیعت ٹھیک ہے، یہ کیا بول رہی ہو تم؟ میرا بیٹا بھلا کب سیگریٹ پیتا ہے؟" شاہانہ بھی سختی سے بولیں۔
"روز رات کو کھانے کے بعد چھت پر جا کے۔" اس نے اطمینان سے علم میں اضافہ کیا۔
"عبید! یہ کیا سن رہا ہوں میں!" اب شفاعت بھی برہم ہوئے۔
"نہیں ڈیڈ! ایسا نہیں ہے۔" وہ جلدی سے بولا۔
"نہیں چاچو، بالکل ایسا ہی ہے، میں نے خود دیکھا ہے اپنی آنکھوں سے۔" زوہا نے اپنی بات پر زور دیا۔
"میرا بیٹا ایسا نہیں کرسکتا۔" شاہانہ نے نفی کی۔
"آپ کا بیٹا ایسا کرتا ہے، مگر آپ کو دوسروں کے بیٹوں میں نقص نکالنے سے فرصت ملے تو اپنے بیٹے کی حرکت نظر آئے گی نا!" زوہا نے چبھتے ہوئے انداز میں طنز مارا جس پر وہ سلگ کر رہ گئیں۔
"زوہا! یہ کیا بدتمیزی ہے۔" رفاقت نے برہمی سے ڈپٹا۔
"سوری پاپا! مگر یہ بدتمیزی نہیں، حقیقت ہے۔" وہ اب بھی اپنی بات پر قائم تھی۔
"عبید! لائٹر دو زوہا کو تا کہ وہ چائے بنائے۔" عزیر نے بظاہر سنجیدگی سے کہہ کر مزید جلتی پر تیل چھڑکا۔ کیونکہ عبید کی شامت آتی دیکھ اسے بڑا لطف آتا تھا۔
"کیا ہوگیا ہے بھائی میرے پاس نہیں ہے کوئی لائٹر وائٹر۔" اس نے زور و شور سے نفی کی۔
"زوہا! جاؤ میرے کمرے سے لے کر آؤ۔" تب ہی دردانہ نے مداخلت کی۔
"آپ کے پاس لائٹر کہاں سے آیا دادی!" ان کے برابر میں بیٹھے عزیر نے مصنوعی حیرت کا اظہار کیا۔
"ماچس کی بات کر رہی ہوں کمبخت، اگربتی جلانے کیلئے رکھی تھی کمرے میں۔" انہوں نے اس کے سر پر چپت لگاتے ہوئے تصحیح کی۔
*********************************
صبح سے رات ہوچکی تھی اور اس بیچ دوائیوں کے زیر اثر غضنفر کبھی سو رہا تھا، کبھی جاگ رہا تھا۔ جب کہ سلیمان بھی کافی دیر سے اسی کے پاس موجود تھے اور اب نرس کی ہدایت پر کچھ دوائیاں لینے گئے تھے۔
غضنفر پرائیویٹ روم کے بیڈ پر سیدھا لیٹا ہوا تھا۔ اس کے سر اور بائیں ہاتھ پر پٹی بندھی ہوئی تھی، جب کہ دائیں ہاتھ پر ڈرپ لگی تھی۔
مریضوں کے مخصوص نیلے لباس میں، پیٹ تک سفید چادر اوڑھے لیٹا وہ اس لڑکی کے بارے میں سوچ رہا تھا جو اسے یہاں لائی تھی، مگر وہ اس کے بارے میں کچھ نہیں جان سکا تھا۔
تب ہی روم کا دروازہ کھلنے کی آہٹ پر اس نے اس طرف دیکھا تو سفید یونیفارم میں ایک درمیانی عمر کی نرس اس جانب آتی نظر آئی۔ جس کے یونیفارم پر "حنا" نام کا بیج لگا ہوا تھا۔
قریب آکر اس نے غضنفر کی ڈرپ چیک کی جو کہ تقریباً ختم ہوچکی تھی جسے وہ تبدیل کرنے لگی۔
"سسٹر!" اس نے کچھ سوچ کر پکارا۔
"جی؟" وہ متوجہ ہوئی۔
"کیا آپ کو پتا ہے کہ مجھے ہاسپٹل کون لے کر آیا تھا؟" ایک امید کے تحت وہ پوچھ بیٹھا۔
"جی، مجھے تو کیا پورے اسٹاف کو پتا ہے۔" اس نے اسٹینڈ پر لٹکتی ڈرپ اتارتے ہوئے جواب دیا۔
"کیا مطلب؟" وہ الجھا۔
"مطلب اچھا خاصا شور مچا دیا تھا انہوں نے آپ کا ٹریٹمنٹ شروع کروانے کیلئے، ڈاکٹرز کہہ رہے تھے کہ یہ پولیس کیس ہے، تو وہ کہنے لگیں کہ میڈیکل کے رولز انہیں بھی پتا ہیں، لہٰذا آپ کو فوری ٹریٹمنٹ دیا جائے ورنہ وہ ان کی کمپلین کردیں گی، پھر جب آپ کا ٹریٹمنٹ شروع ہوگیا تو پتا نہیں کب وہ چلی گئیں۔" اس نے ڈرپ بدلتے ہوئے تفصیل بتائی۔
"ان کا نام وغیرہ کچھ معلوم ہے آپ کو؟" اس نے مزید کریدا۔
"جی نہیں۔" اس نے نفی کی۔
"اچھا اور کوئی بات، کوئی خاص نشانی؟" وہ کوئی بھی سرا ڈھونڈنا چاہ رہا تھا۔
اس کی بات پر وہ سوچ میں پڑگئی گویا ذہن پر زور دے رہی ہو۔ جب کہ وہ دل میں دعا گو تھا کہ کاش اسے کوئی کام کی بات یاد آجائے۔
"کوئی خاص نشانی تو نہیں تھی، ہاں مگر انہوں نے گلے میں ایک لاکٹ پہنا ہوا تھا جس پر ایس (S) لکھا تھا۔" اس نے بہت سوچنے کے بعد یہ قلیل معلومات فراہم کی۔
"ایس!" وہ بھی زیر لب بڑبڑایا۔
"مطلب اس کا نام S سے آتا ہے۔" وہ خودکلامی کرتے ہوئے نتیجے پر پہنچا۔
*********************************
"صبیحہ بات سنو!" ملیحہ نے بیڈ پر اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے کہا۔
"سناؤ!" وہ لیپ ٹاپ پر نظریں جمائے ہی بولی۔
"میں نے بتایا تھا نا کہ میری دوست سمیرا کی امی کے فاؤنڈیشن میں بہت سی لاوارث خاتون اور لڑکیوں کو پناہ دی جاتی ہے!" اس نے یاد دلایا۔
"ہممم! تو!"
"تو یہ کہ وہاں تھوڑے دن پہلے ایک نئی خاتون آئی ہیں جو کہ کسی سے بات چیت نہیں کر رہی تھیں، مگر وارڈ کی عورت نے نیند میں انہیں ایک لفظ بڑبڑاتے ہوئے سنا ہے۔" اس نے سنسنی پھیلائی۔
"کون سا لفظ؟"
"مان!"
"اس کا کیا مطلب ہوا؟" اس نے نظر اٹھا کر دیکھا۔
"یہ ہی تو ہماری سمجھ میں بھی نہیں آرہا ہے، تمہاری سمجھ میں آرہا ہے کیا کچھ؟" اس نے کہتے ہوئے پوچھا۔
"نہیں، میں انہیں جانتی تھوڑی ہوں۔" اس نے کندھے اچکائے۔
"پھر بھی، کوئی آئیڈیا کہ کیا مطلب ہوسکتا ہے اس کا؟" اس نے اصرار کیا۔ وہ بھی سوچنے لگی۔
"ہوسکتا ہے ان کے بیٹے کا نام ہو، جس نے شادی کے بعد انہیں گھر سے نکال دیا ہو! اور انہیں اسی بات کا صدمہ لگ گیا ہو کہ ان کے مان نے ان کا مان توڑ دیا!" اس نے پر سوچ انداز میں خیال ظاہر کیا۔
"ہمممم! ہوسکتا ہے۔" وہ بھی متفق ہوئی۔
"اگر ایسا ہوا تو پھر اب یہ ٹھیک کیسے ہوں گی؟" ملیحہ نے دوسرا سوال اٹھایا۔
"مجھے کیا پتا! میں ماہر نفسیات تھوڑی ہوں، ہٹو اب کام کرنے دو مجھے۔" وہ چڑ کر کہتے ہوئے دوبارہ لیپ ٹاپ کی جانب متوجہ ہوگئی۔
ملیحہ بھی وہاں سے اٹھ کر بیڈ کی دوسری طرف یعنی اپنے بستر پر آکر بیٹھ گئی۔
"نگہت کا بھتیجا کیسا ہے اب؟ امی بتا رہی تھیں کہ آج سیڑھیوں سے گر گیا تھا وہ اور تم نگہت کے ساتھ اسے ہاسپٹل لے کر گئی تھی۔" ملیحہ نے کمبل اوڑھتے ہوئے پوچھا۔
"ہاں ٹھیک ہے، زیادہ کوئی گہری چوٹ نہیں آئی۔" اس کا انداز بات ختم کرنے والا تھا۔
جس کے بعد پھر ملیحہ اثبات میں سر ہلا کر سونے کیلئے لیٹ گئی۔ جب کہ صبیحہ کچھ دیر مزید اپنے کام میں مصروف رہی۔
*********************************
زیادہ گہری چوٹ نہ ہونے کے باعث غضنفر کو دو روز بعد ہی ہسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا تھا۔ اور ایک ہفتے بعد اس کی پٹی بھی کھل گئی تھی۔ مگر وہ تو ابھی تک اس لمحے میں اٹک کر رہ گیا تھا جب اس اجنبی مسیحا نے اس کی مدد کی تھی۔
اس وقت وہ اپنے چھوٹے سے جم نما کمرے میں موجود، قد آدم آئینے کے سامنے کھڑا بظاہر خود کو دیکھتے ہوئے اسی لڑکی کے بارے میں سوچ رہا تھا جو اس کے دل و دماغ میں بس گئی تھی اور ذہن میں ہر وقت بس ایک ہی لفظ گونج رہا تھا "غضنفر عباس"
اس لڑکی کے لبوں سے لیا گیا اس کا نام اس کے ذہن میں اٹک گیا تھا۔ اور وہ کسی بھی طرح اسے دیکھنے کیلئے، اس سے ملنے کیلئے بےچین تھا۔ مگر کوئی راستہ ہی نہیں مل رہا تھا جو اس تک لے کر جاتا۔ اس لڑکی کی نشانی یا معلومات کے طور پر اس کے پاس بس ایک لفظ تھا S اور مزید اسے کچھ نہیں پتا تھا۔
تب ہی کسی خیال کے تحت وہ یہاں سے کہیں گیا اور جب واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک پینٹ برش اور ایک چھوٹی سی سیاہ رنگ کی بوتل تھی۔
اس نے بوتل کا ڈھکن کھول کر اسے نزدیک موجود اسٹول پر رکھا اور پھر پینٹ برش اس بوتل میں ڈبو کر آئینہ کے دائیں طرف، سفید دیوار پر کچھ لکھنے لگا۔
یہ سارا عمل وہ بڑی دلچسپی اور انہماک سے کر رہا تھا۔ یہ عمل مکمل کرنے کے بعد وہ چند الٹے قدم پیچھے ہٹا اور دیوار پر بنائے گئے نقش کا بغور جائزہ لینے لگا۔
اس سفید دیوار پر بڑی صفائی سے اس نے S لکھا تھا۔ اور اب یوں اسے دیکھ رہا تھا کہ گویا وہ دیوار پر لکھا کوئی بےجان لفظ نہیں بلکہ وہ ہی لڑکی ہے جس سے ملنے کیلئے وہ بےچین تھا۔
*******************************
"صبیحہ تم بتاؤ، تمہیں کون سا سیٹ اچھا لگ رہا ہے؟" راضیہ نے اس کی رائے جاننا چاہی۔
"ارے اس سے کیا پوچھ رہی ہیں! میں کہہ رہی ہوں نا کہ یہ والا فائنل کریں۔" اس کے بجائے بائیں طرف بیٹھی ملیحہ نے مداخلت کی۔
"تم چپ کرو، تمہاری شادی نہیں ہے۔" انہوں نے بنا لحاظ کیے ٹوکا۔
"دونوں ہی اچھے ہیں امی، کوئی سا بھی لے لیں۔" صبیحہ نے کندھے اچکائے۔
تینوں اس وقت ایک جیولر شاپ پر موجود تھیں۔ کیونکہ جیسے جیسے شادی کے دن قریب آرہے تھے ویسے ہی تیاریاں بھی زور پکڑتی جا رہی تھیں۔ اور آج ان کی یہاں موجودگی بھی اسی وجہ سے تھی۔
"ٹھیک ہے، تو پھر یہ والا سیٹ پیک کردیجئے۔" انہوں نے ایک سیٹ فائنل کیا تو دکاندار اثبات میں سر ہلا کر وہ سیٹ پیک کرنے کیلئے لے گیا۔
"چلیں اب چل کر کچھ کھالیتے ہیں۔" ملیحہ نے کوئی تیسری بار یہ بات دہرائی۔
*******************************
"دیکھیں اماں بی ٹھیک ہے نا یہ سوٹ بری کیلئے؟" شاہانہ نے بیڈ پر ایک سوٹ پھیلاتے ہوئے رائے مانگی۔
"ہاں ہاں بہت اچھا ہے، ہیں نا صالحہ!" صوفے پر بیٹھی دردانہ نے اپنے برابر میں موجود خاموش بیٹھی صالحہ سے کہا۔
"جی، بہت پیارا ہے۔" انہوں نے تائید کی۔
"پیارا کیسے نہ ہوگا! میرے بیٹے کی شادی ہے، ایک ایک چیز چھانٹ کر لائی ہوں میں۔" سوٹ تہہ کرتے ہوئے ان کے انداز میں غرور جھلکا۔
"وہ راضیہ کو فون کیا تھا تم نے صبیحہ کے ناپ کیلئے؟" دردانہ نے موضوع بدلا۔
"جی اماں بی، وہ کہہ رہی تھیں کہ آج وہ لوگ بھی شاپنگ کیلئے نکلے ہیں، تو واپسی پر یہاں چکر لگاتے ہوئے صبیحہ کا ناپ دے جائیں گے۔" شاہانہ نے دوسرا سوٹ کھولتے ہوئے جواب دیا۔
*******************************
غضنفر نے آگے بڑھ کر ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھولتے ہوئے سلیمان کو بیٹھنے کا اشارہ کیا تو انہیں تعجب ہوا۔
"تم ڈرائیو نہیں کرو گے؟" انہوں نے سوال کیا۔
"نہیں، کیونکہ میں فی الحال آپ کے ساتھ گھر نہیں آرہا۔" اس نے جواب دیا۔
"تو پھر کہاں جا رہے ہو؟" ایک اور سوال آیا۔
"اپنی ضد چھوڑنے، جس کے بعد آپ کو اپنی ضد چھوڑنی ہوگی، یاد ہے نا!" اس نے بتاتے ہوئے تائید چاہی۔
وہ چند لمحوں کیلئے خاموش ہوگئے اور وہ بغور انہیں دیکھنے لگا۔ دونوں شام ہونے کے بعد اب شوروم کے باہر گھر واپس جانے کیلئے کھڑے تھے۔
"ہاں یاد ہے۔" وہ دھیرے سے بولے۔
"گڈ! تو چلیں آپ گھر جائیں، میں تھوڑی دیر تک وہاں آتا ہوں۔" وہ متوازن انداز میں بولا۔
جس کے بعد وہ ڈرائیونگ سیٹ سنبھال کر آگے بڑھ گئے۔ جب کہ غضنفر نے بھی اپنی کار میں بیٹھ کر اسے اسٹارٹ کرتے ہوئے اس سفر کا آغاز کیا جس پر وہ چاہ کر بھی روانہ نہیں ہو پاتا تھا۔
پورے راستے ڈرائیونگ کے دوران بظاہر اس کا دھیان روڈ پر تھا مگر در حقیقت اندر ہی اندر اس کے ذہن میں یادوں کی آندھیاں چلنا شروع ہوگئی تھیں۔
کچھ دیر بعد یہ سیاہ گاڑی ایک پوش علاقے میں داخل ہوئی اور ایک خوبصورت سے دو منزلہ بنگلے کے آگے رک گئی۔
اسٹیئرنگ کو دونوں ہاتھوں کے ساتھ مضبوطی سے تھامے شاید وہ خود کو اندر جانے کیلئے تیار کر رہا تھا۔
پھر ایک گہری سانس لے کر وہ گاڑی سے باہر آیا۔
گھر کے باہر موجود چوکیدار اسے حیرانی سے یوں دیکھنے لگا گویا پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو۔ جسے غضنفر نے بھی بھانپ لیا۔
"کیسے ہیں جمیل بھائی آپ؟" اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا تو وہ مزید حیران ہوا۔
"غضنفر بابا!" اس نے حیرانی سے تائید چاہی تو اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
"آپ اتنے دنوں بعد!" اس کی حیرانی کم نہیں ہو رہی تھی جس پر وہ کچھ نہ بولا۔
"آئیے آئیے، اندر آئیے!" اس نے کہتے ہوئے جلدی سے بیرونی داخلی دروازہ کھولا تو وہ بھی آگے بڑھ گیا۔
آج کتنے سالوں بعد اس نے اس گھر کی چوکھٹ پر قدم رکھا تھا فی الحال اسے یہ بھی یاد نہیں تھا۔ لیکن اس چوکھٹ سے دوری کی وجہ بھی وہ آج تک نہیں بھولا تھا۔
دھیرے دھیرے قدم اٹھاتے ہوئے وہ سرخ اینٹوں سے بنے ٹریک پر چلتا اندرونی دروازے کی جانب بڑھنے لگا۔
اس گھر سے بہت کچھ جڑا ہوا تھا، جن میں گزرا ہوا کل، اس کا چھینا ہوا بچپن اور بےشمار درد بھری یادیں شامل تھیں۔
وہ ان ہی تلخ سوچوں کے سنگ قدم اٹھاتا ہوا اندر داخل ہوکر ہال میں آیا جہاں موجود صوفوں پر کچھ خواتین اور لڑکیاں بیٹھی غالباً خوش گپیوں میں مصروف تھیں جنہیں دیکھ کر وہ داخلی حصے پر ہی رک گیا۔
تب ہی ایک لڑکی کی نظر اس پر پڑی۔ پہلے تو چند لمحے وہ یوں شاک ہوگئی گویا اپنی آنکھوں پر یقین نہ کر پا رہی ہو۔ پھر اچانک ہی وہ صوفے پر سے اٹھ کر اس کی جانب بھاگتی ہوئی آئی۔
"بھیا!" زوہا خوشی سے کہتے ہوئے اس کے گلے لگ گئی۔
جب کہ باقی سب بھی اسے دیکھ کر حیرانی سے اپنی اپنی جگہ پر کھڑے ہوگئے جن میں دردانہ، صالحہ، شاہانہ، راضیہ، صبیحہ اور ملیحہ شامل تھیں۔
"کیسے ہیں آپ؟" وہ کہتی ہوئی اس سے الگ ہوئی۔
"بالکل ٹھیک، تم کیسی ہو؟" وہ بھی مسکرا کر بولا۔
"غضنفر! تم یوں اچانک!" دردانہ بھی حیرت سے بولیں۔
"السلام علیکم دادی!" جواب دینے کے بجائے وہ سلام کرتا چند قدم آگے آیا۔
"وعلیکم السلام! آؤ ادھر آؤ۔" انہوں نے خوشدلی سے جواب دیتے ہوئے اسے قریب بلایا تو وہ آگے بڑھا۔
شاہانہ کے تاثر ایسے ہو رہے تھے گویا منہ میں کڑوا بادام آگیا ہو۔ صالحہ کو تو شاید اب تک یقین ہی نہیں آیا تھا کہ وہ اتنے سالوں بعد اپنے بیٹے کو دیکھ رہی ہیں۔ جب کہ راضیہ، صبیحہ اور ملیحہ ناسمجھی کے عالم میں کھڑی سب سمجھنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ کیونکہ ان کیلئے وہ بالکل اجنبی تھا۔
"کتنے بدل گئے ہو۔" قریب آنے پر دردانہ نے اپنے سے اونچے غضنفر کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں لیا۔ وہ ہلکے سے مسکرایا۔
"خیر! ان سے ملو، یہ صبیحہ ہے اپنے عُزِیر کی منکوحہ، ایک مہینے بعد شادی ہے ان کی، یہ اس کی بہن ملیحہ ہے اور یہ امی ہیں۔" انہوں نے تعارف کرایا۔
"اور راضیہ یہ صالحہ اور رفاقت کا اکلوتا بیٹا ہے، میرا بڑا پوتا غضنفر عباس۔" اب انہوں نے ان کو بتایا۔
"السلام علیکم!" غضنفر نے سلام کیا۔
"وعلیکم السلام! لیکن رفاقت بھائی نے تو کہا تھا کہ ان کا بیٹا اب اس دنیا میں نہیں رہا، تو پھر۔۔۔۔۔۔۔" راضیہ نے جواب دے کر جھجھکتے ہوئے سوال اٹھایا تو یکدم وہاں خاموشی چھا گئی جب کہ غضنفر کے دل پر زور دار گھونسا پڑا۔
"دراصل۔۔۔۔۔"
"میں اب بھی اپنی بات پر قائم ہوں کہ میرے بیٹے کو مرے ہوئے آٹھ سال ہوچکے ہیں۔" دردانہ وضاحت کرنے ہی لگی تھیں کہ وہاں ایک کاٹ دار آواز گونجی۔
سب نے چونک کر آواز کے تعاقب میں دیکھا تو داخلی حصے پر رفاقت صاحب عزیر اور شفاعت کے ہمراہ بہت سپاٹ تاثر لئے کھڑے تھے۔ غالباً وہ ابھی ابھی آفس سے لوٹے تھے اور ان کی بات سن چکے تھے۔
"پاپا!" غضنفر پکارتا ہوا ان کی جانب بڑھا۔
"خبردار! جو اگر اپنی جھوٹی زبان سے مجھے پکارا تو۔" ان کے درشتی سے ٹوکنے پر اس کے اٹھتے قدم وہیں ساکت ہوگئے۔ باقی سب کے چہروں پر پریشانی جھلکنے لگی۔
"کیا ہوگیا ہے رفاقت!" دردانہ نے بھی آگے آتے ہوئے ٹوکا۔
"آپ بیچ میں مت بولیں اماں بی ورنہ خوامخواہ اس کی وجہ سے میں آپ سے بدتمیزی کر جاؤں گا۔" وہ بہت مشکل سے ضبط کیے ہوئے تھے۔
"تم اچانک یہاں کرنے کیا آئے ہو؟" شفاعت نے بھی پوچھا۔
"یہ کچھ بھی کرنے آیا ہو شفاعت مگر مجھے اس کی شکل نہیں دیکھنی۔" اس سے قبل ہی رفاقت بول پڑے۔
"پاپا پلیز ایک بار میری با۔۔۔۔"
"منع کیا ہے نا میں نے مجھے پکارنے سے، میرے لئے تم اسی دن مر گئے تھے جب اپنے ہی گھر میں چوری جیسی گھٹیا حرکت کرکے تم نے میرا سر شرم سے جھکا دیا تھا۔" وہ بھی برہمی سے کہتے چند قدم آگے آئے۔
"میں کتنی بار کہہ چکا ہوں کہ میں نے چوری نہیں کی تھی۔" اس نے تڑپ کر وضاحت کی۔
"بار بار جھوٹی بات دہرانے سے وہ سچ نہیں ہوتی۔" وہ جبڑے بھینچ کر بولے۔ اس کا دل کٹ کر رہ گیا۔
"ممی! پلیز آپ تو میرا یقین کریں، سمجھائیں نا پاپا کو کہ میں نے کچھ نہیں کیا تھا، یہ کیوں میری بات نہیں مان رہے ہیں!" وہ ایک امید کے تحت خاموشی کا بت بنی صالحہ کی جانب لپکا۔
"کوئی کچھ نہیں بولے گا، اور تم ابھی کے ابھی دفع ہوجاؤ یہاں سے ورنہ میں کچھ کر بیٹھوں گا۔" انہوں نے پھر غصے میں کہا۔
"ممی پلیز! آپ تو میرا یقین کرلیں، آج تو میرا یقین کرلیں۔" اس نے بےبسی سے منت کرتے ہوئے ان کے آگے ہاتھ جوڑ لئے اور ساتھ ہی ایک آنسو اس کی بائیں آنکھ سے ٹوٹ کر گال پر پھسلا۔
صالحہ نے اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے بےساختہ اپنا رخ موڑ لیا۔اور زبان سے اب بھی کچھ نہ بولیں۔ غضنفر کو لگا کہ اس کے دل پر پھر خنجر چل گیا ہے۔
"سنا نہیں تم نے؟ چلے جاؤ یہاں سے۔" وہ غصے سے دھاڑے۔
"نہیں جاؤں گا، آخر یہ میرا بھی گھر ہے، میرا بھی حق ہے، آپ کیوں میری بات نہیں سن رہے ہیں؟ کیوں آپ کو مجھ سے زیادہ دنیا والوں پر یقین ہے؟" وہ دوبدو کہتا ان کے مقابل آ کھڑا ہوا۔
"چٹاخ!" اگلے ہی پل انہوں نے ایک زور دار تھپڑ اسے رسید کیا۔ جس پر سب ہل گئے اور وہ گال پر ہاتھ رکھے پھٹی پھٹی نظروں سے اپنے باپ کو دیکھنے لگا۔ جو اجنبی سے بھی زیادہ غیر لگ رہا تھا۔
"عُزِیر! اسے ابھی کے ابھی یہاں سے باہر نکالو۔" رفاقت نے سختی سے حکم دیا تو وہ بھی مجبور ہوگیا۔
"غضنفر! پلیز چلے جاؤ یہاں سے۔" کوئی چارہ نہ ہوتے ہوئے مجبوراً عزیر نے چند قدم آگے آتے ہوئے معاملہ فہم انداز میں عاجزی سے کہا۔
غضنفر ضبط کے باعث سرخ ہوتی اپنی آنکھوں سے مسلسل رفاقت صاحب کو دیکھتا رہا جو کہ اب نفرت سے اپنا رخ پھیر چکے تھے۔
"ایک معمولی سی امید باقی تھی کہ شاید اب آپ لوگ مجھے سن لیں گے، سمجھ لیں گے، مگر اس آخری امید کو بھی بےدردی سے توڑ ڈالنے کیلئے بہت شکریہ۔" وہ سرخ پڑتے چہرے کے ساتھ کربناک انداز میں سب سے مخاطب ہوا۔
اور پھر اگلے ہی پل اپنی آنکھیں رگڑتے ہوئے وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ایک بار پھر اس گھر کی دہلیز پھلانگ کیا۔
جب کہ پیچھے یہ لوگ ساکت سے کھڑے رہے۔
احباب کا کرم ہے جو خود پر کھلا ہوں میں
مجھے کو کہاں خبر تھی کہ اتنا برا ہوں میں
انتخاب
*******************************
تیزی سے ڈرائیو کرکے گھر آنے کے بعد غضنفر برہم تاثر کے ساتھ سیدھا اپنے جم میں آیا اور بنا ایک پل بھی برباد کیے سامنے لٹکتے سیاہ پنچنگ بیگ پر زور زور سے مکے برسانے لگا اور ساتھ ہی ساتھ اس کی آنکھوں سے بھی برسات شروع ہوگئی۔ مگر وہ ہر چیز سے بےنیاز ہوا جبڑے بھینچے شاید اس عمل سے اپنا غصہ کم کرنے کی کوشش کرنے لگا۔
"رفاقت بھائی نے تو کہا تھا کہ ان کا بیٹا اب اس دنیا میں نہیں رہا۔"
"میں اب بھی اپنی بات پر قائم ہوں کہ میرے بیٹے کو مرے ہوئے آٹھ سال ہوچکے ہیں۔"
"خبردار! جو اگر اپنی جھوٹی زبان سے مجھے پکارا تو۔"
"میرے لئے تم اسی دن مر گئے تھے جب اپنے ہی گھر میں چوری جیسی گھٹیا حرکت کرکے تم نے میرا سر شرم سے جھکا دیا تھا۔"
وہ ساری باتیں اس کے ذہن میں گونجتے ہوئے اس کے دل کو زخمی کر رہی تھیں۔ اور مزید دکھ اسے صالحہ کی خاموشی کا ڈس رہا تھا کہ انہوں نے ایک بار بھی اسے پیار سے نہیں پکارا، گلے نہیں لگایا، اس کی حمایت میں نہیں بولیں۔ اتنا برا ہوگیا تھا وہ ان کیلئے؟
چند لمحوں میں ہی اس کا جسم پسینے سے شرابور ہوگیا اور اس کی سانسیں پھولنے لگیں۔ جب دل و دماغ کے بیچ چلتی اس جنگ سے وہ تھک گیا تو گرنے کے سے انداز میں گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا گویا ٹوٹ گیا ہو۔
"کیا ہوا؟ تھک گئے؟" تب ہی سُلیمان اطمینان سے کہتے ہوئے اس کی جانب آئے تو اس نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔
وہ دوبارہ کھڑا ہوگیا۔
"چھوڑ آئے اپنی ضد؟" انہوں نے دلچسپی سے مزید پوچھا۔
جواباً وہ انہیں خاموشی سے اور وہ اسے اطمینان سے یوں دیکھتے رہے گویا سب جانتے ہوں۔
اور پھر اگلے ہی پل وہ ان کے گلے لگتے ہوئے بلک کر رو پڑا۔
وہ بھی اس کی پیٹھ سہلانے لگے۔
"جھوٹی امید جتنی جلدی ٹوٹ جائے اتنا ہی بہتر ہے۔" وہ تلخی سے بولے۔
مگر وہ اس قدر بلک بلک کر رو رہا تھا کہ کوئی جواب نہ دے سکا۔ اور انہوں نے بھی اسے دل ہلکا کرنے دیا۔
*******************************
"غضنفر ہمیشہ سے ہی تھوڑا ضدی اور نالائق رہا ہے، پڑھائی میں بھی اس کا دل نہیں لگتا تھا، سب اسے بہت سمجھاتے تھے مگر وہ سن کر ان سنا کردیتا تھا، یہاں تک تو ٹھیک تھا لیکن آٹھ سال پہلے جب وہ بیس سال کا تھا، ایک روز تو اس نے حد ہی کردی، اپنے ہی گھر میں چوری کرلی اس نے، اس دن تایا کا ضبط بھی جواب دے گیا، انہوں نے اسے بہت بری طرح مارا تھا مگر اس نے پھر بھی اپنا جرم قبول نہیں کیا جس سے انہیں مزید غصہ آگیا اور انہوں نے اسے ہاسٹل میں ایڈمٹ کروا دیا، مگر وہ وہاں بھی نہ رکا اور وہاں سے بھاگ کر اپنے سلیمان ماموں کے پاس چلا گیا، ان کی ریپیوٹیشن بھی خاندان میں کچھ اچھی نہیں ہے، بظاہر ان کا کار شورم ہے، مگر اندر ہی اندر زمینوں پر غیر قانونی طور پر قبضہ کرنے کے کام میں بھی وہ بہت سرگرم ہیں اور اسی میں اب انہوں نے غضنفر کو بھی اپنے ساتھ انولو کرلیا ہے، اور وہ بھی بہت دھڑلے سے ان کا ساتھ دیتے ہوئے اب مزید ہٹ دھرم ہوگیا ہے، اس چوری والے واقعی کے بعد پھر تایا نے اسے کبھی گھر نہیں آنے دیا، لیکن پتا نہیں آج آٹھ سال بعد اچانک وہ کیوں واپس آگیا ہے؟" اپنے کمرے کی گیلری میں کھڑے عزیر نے فون پر صبیحہ کو کافی تفصیل سے ساری بات بتائی جسے وہ خاموشی سے سنتی رہی۔
"اوہ! یہ تو واقعی بڑی عجیب بات ہے۔" بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھی صبیحہ تعجب سے بولی۔
"کہیں ایسا تو نہیں کہ اتنے سالوں بعد وہ پراپرٹی میں حصہ مانگنے آیا ہو!" صبیحہ نے خدشہ ظاہر کیا۔
"ہمممم! میں بھی یہ ہی سوچ رہا ہوں۔" وہ متفق ہوا۔
"اگر سچ میں ایسا ہوا تو پھر کیا کرو گے تم لوگ؟ کیا اتنا سب ہوجانے کے بعد بھی اسے حصہ دو گے؟" صبیحہ کو جاننے کا اشتیاق ہوا۔
"پتا نہیں!" اس نے الجھا ہوا جواب دیا۔
*******************************
ہسپتال کے صاف ستھرے کمرے میں بیڈ پر مریضوں کا مخصوص نیلا لباس پہنے، پیٹ تک سفید چادر اوڑھے ایک جوان عورت آنکھیں بند کیے لیٹی تھی۔ تب ہی کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک جوان مرد اپنی گود میں ہلکے آسمانی رنگ کے کمبل میں لپٹے اس ننھے وجود کو لئے داخل ہوا جسے تھوڑی دیر قبل ہی اس عورت نے جنم دیا تھا۔
اس شخص نے قریب آکر اس نومولود کو اس عورت کے پہلو میں لٹا دیا جس کے باعث اس نے آہستہ سے آنکھیں کھولیں۔
"دیکھو کون ملنے آیا ہے تم سے!" وہ مسکراتے ہوئے بولے۔
وہ پہلی مرتبہ اپنی بیوی سے اتنے دوستانہ انداز میں مخاطب ہوئے تھے۔ اور وجہ تھی ان کی اولاد۔
جواباً عورت نے مسکراتے ہوئے کروٹ لے کر اس ننھے وجود کو اپنی آغوش میں بھر لیا۔
"بالکل آپ کی طرح ہے نا یہ!" وہ اسے نرمی سے چھوتے ہوئے بولیں۔ جب کہ شوہر کی جانب سے ملنے والی اس توجہ سے بھی انہیں بےحد خوشی ہوئی تھی جو شازو نادر ہی نصیب ہوتی تھی۔
"میرا بیٹا ہے تو میری ہی طرح ہوگا نا! اور تم دیکھنا، میں اپنے بیٹے کی ہر بات ایسے مانوں گا کہ دنیا ہماری محبت کی مثال دے گی۔" انہوں نے محبت سے کہتے ہوئے اس کا ننھا ہاتھ اپنے لبوں سے لگایا۔
"ممی! پلیز آپ تو میرا یقین کریں، سمجھائیں نا پاپا کو کہ میں نے کچھ نہیں کیا تھا، یہ کیوں میری بات نہیں مان رہے ہیں!"
وہ کتنی امید لئے تڑپ کر صالحہ کی جانب لپکا تھا۔ اور وہ جواباً کچھ نہ کہہ سکی تھیں۔
اٹھائیس سال قبل جس کے دنیا میں آنے کے بعد بہت ناز سے اس کے لاڈ اٹھانے کا عہد کیا تھا، آج جب وہ منت کرتے ہوئے ان کے سامنے کھڑا تھا تو کس بےدردی سے اس کی عرضی کو رد کردیا گیا تھا۔
صالحہ بیڈ پر بیٹھی غضنفر کے بچپن کا وہ نیلا کمبل ہاتھوں میں پکڑے تکتے ہوئے ماضی اور حال میں کہیں الجھ رہی تھیں۔ اور آنسو خاموشی کے ساتھ آنکھوں سے رخسار کا سفر طے کر رہے تھے۔
"کیوں آنسو بہا رہی ہو اس کیلئے جسے تمہاری کوئی پرواہ ہی نہیں ہے۔" تب ہی وہاں ایک تلخ آواز سنائی دی۔
انہوں نے چونک کر سر اٹھایا تو معلوم ہوا کہ رفاقت ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے اپنی رسٹ واچ اتار رہے تھے۔
"وہ ہمارا بیٹا ہے۔" انہوں نے کمزور سے انداز میں کہا۔
"بیٹا ہے نہیں، تھا، جو کہ آٹھ سال پہلے مر چکا ہے، اور بہتر یہ ہی ہے کہ اب تم بھی یہ بات سمجھ جاؤ۔" وہ سرد مہری سے کہتے ہوئے باتھ روم کی جانب بڑھ گئے۔ جب کہ وہ بےبسی سے انہیں دیکھ کر رہ گئیں۔
*******************************
اندھیرے کمرے میں، بیڈ پر اوندھے پڑے غضنفر کے آنسو چادر میں جذب ہوکر اب خشک ہوچکے تھے۔ لیکن وہ ہنوز یوں ہی بےسدھ پڑا تھا۔ تب ہی کمرے کی لائٹ آن ہوئی۔
"غضنفر!" سلیمان پکارتے ہوئے آگے آئے۔
جواباً اس نے ان کی طرف کروٹ لی۔
"چلو اٹھو، تیار ہوجاؤ جلدی۔" انہوں نے بیڈ کے نزدیک رک کر کہا۔
"کیوں؟" ایک لفظی سوال آیا۔
"کیونکہ یزدانی صاحب نے اپنے نئے گھر میں پارٹی رکھی ہے آج اور ہمیں بھی وہاں بلایا ہے۔" انہوں نے وجہ بتائی۔
"مجھے کہیں نہیں جانا، آپ جائیں۔" رونے کے باعث بھاری ہوچکی آواز کے ساتھ اس نے بےزاری سے انکار کیا۔
"تمہاری مرضی پوچھنے نہیں آیا ہوں میں، بتانے آیا ہوں کہ آدھے گھنٹے تک ریڈی ہوکر نیچے آجانا، میں انتظار کروں گا۔" انہوں نے اس کا انکار نظر انداز کرتے ہوئے حکم دیا اور واپس چلے گئے۔ اس نے بےزاری سے گردن موڑ لی۔
*******************************
"اوہ! لیکن انہیں سرسری طور پر تو ہمیں بتانا چاہیے تھا نا! یہ کیا بات ہوئی کہ اچھے خاصے زندہ بیٹے کو مرا ہوا بتا دیا۔" ساری بات سن کر ملیحہ تعجب سے بولی۔ جو کہ دائیں طرف کروٹ لے کر، کمر تک کمبل اوڑھے، کہنی تکیے پر رکھے، ہاتھ کی ہتھیلی پر سر ٹکائے غور سے صبیحہ کی بات سن رہی تھی۔
"ان کا بیٹا، ان کی مرضی، ہم کون ہوتے ہیں کچھ کہنے والے!" پیٹ تک کمبل اوڑھ کر سیدھی لیٹی صبیحہ نے کہا جو ساتھ ساتھ موبائل میں بھی مصروف تھی۔
"ہممم! ویسے ایک بات بتاؤ! تم کیوں اسے اتنے غور سے دیکھ رہی تھی!" اب ملیحہ نے تیکھے انداز میں نیا سوال اٹھایا۔
"دماغ ٹھیک ہے! میں کب دیکھ رہی تھی!" صبیحہ یکدم سٹپٹا گئی۔
"آج شام میں۔" اس نے یاد دلایا۔
"کوئی نہیں، میں غور سے نہیں دیکھ رہی تھی بس حیران تھی اسے دیکھ کر۔" اس نے وضاحت کی۔
"کیوں حیران تھی؟" ایک اور سوال آیا۔
"بھئی اتنا تماشا جو کھڑا ہوگیا تھا وہاں، اور تم بھی اب بس کرو اور سو۔" اس نے چڑ کر بات سمیٹی۔
"ذرا ذرا سی بات پر لڑنا شروع کردیتی ہو پتا نہیں بیچارا عزیر کیسے رہے گا تمہارے ساتھ!" ملیحہ نے بڑبڑاتے ہوئے دوسری جانب کروٹ لے لی۔ جس پر صبیحہ نے کوئی دھیان نہیں دیا۔
*******************************
جہاں آدھے سے زیادہ لوگ اس وقت اپنے اپنے گھروں میں موجود آرام فرما رہے تھے۔ وہیں کچھ لوگ اس وقت ایک بنگلے کے جگمگ کرتے لان میں اکھٹا وہاں بجتی دھیمی موسیقی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
مگر ان ساری رنگینیوں سے دور غضنفر ایک کونے کی ٹیبل پر بیٹھا خاموشی سے ڈرنک پیتے ہوئے کسی غیر مرئی نقطے کو تک رہا تھا۔ وہ تو یہاں آنا بھی نہیں چاہتا تھا، مگر سلیمان کے اصرار کو ٹال بھی نہیں سکا۔
"ہائے غضنفر!" تب ہی ایک چہکتی ہوئی آواز آئی۔
اس نے گردن موڑ کر دیکھا تو ایک ماڈرن سی لڑکی اس کے برابر والی کرسی پر بیٹھ چکی تھی۔
"کیا کر رہے ہو؟" اس نے خوشدلی سے پوچھا۔
"لینس لگا کر آنکھوں کی بینائی چلی گئی ہے کیا جو یہ بےتكا سوال کر رہی ہو!" وہ یہاں، وہاں دیکھتے ہوئے بےزاری سے بولا۔
"اوہ کم آن، یو آر سو فنی۔" (کتنے مزاحیہ ہو تم) اس نے ہنستے ہوئے اس کے بازو پر ہاتھ مارا۔ جس کا اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔
"یہاں اکیلے کیوں بیٹھے ہو؟ آؤ ڈانس کرتے ہیں!" وہ اس کے کندھے پر دباؤ ڈالتے ہوئے بولی۔
"مہوش پلیز! مجھے یہ سب نہیں پسند۔" اس نے کوفت سے اس کا ہاتھ ہٹایا۔
"تو پھر کیا پسند ہے؟" وہ معنی خیزی سے کہتی ہوئی اس کی جانب جھکی جس کے باعث اس کا گہرا گلا مزید واضح ہوا۔
وہ جبڑے بھینچ کر رہ گیا۔
"ایکسکیوزمی!" اگلے ہی پل وہ گلاس ٹیبل پر رکھتے ہوئے کھڑا ہوا۔ اور تیز تیز قدم بڑھاتا سلیمان کی جانب چلا گیا۔
وہ اسے یوں ہی دیکھتی رہی۔
*******************************
"یزدانی کی بیٹی کیا بات کر رہی تھی تم سے؟" فرنٹ سیٹ پر بیٹھے سلیمان نے یوں ہی پوچھ لیا۔
"کچھ خاص نہیں۔" ڈرائیو کرتے غضنفر نے مختصر جواب دیا۔
دونوں پارٹی کے بعد اب گھر واپسی کے راستے پر گامزن تھے۔ جو کہ کافی دیر ہوجانے کی وجہ سے خاصا سنسان ہو رہا تھا۔
"ویسے یزدانی بتا رہا تھا کہ اس نے ابھی حال ہی میں اپنی بیٹی کو جہیز میں دینے کیلئے ایک پراپرٹی خریدی ہے جس کی قیمت کروڑوں میں ہے، اور سونے پر سہاگہ وہ اپنا آدھا بزنس میں اپنے داماد کے نام کرے گا۔" انہوں نے بنا پوچھے ہی بتایا۔
"تو یہ سب آپ مجھے کیوں بتا رہے ہیں؟" اس نے بےزاری سے سوال کیا۔
"ایسے ہی، اس کی بیٹی تم میں کافی دلچسپی لیتی ہے، تو میں نے سوچا شاید تم موقعے سے فائدہ اٹھانا پسند کرو!" انہوں نے دبے دبے لفظوں میں شرارت سے وضاحت کی۔
"ماموں پلیز! مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے اس چلتے پھرتے فیشن شو میں۔" اس نے چڑ کر انکار کیا۔
"اچھا ریلیکس! میں بھی مذاق کر رہا تھا۔" انہوں نے خود ہی معاملہ فہمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بات ختم کردی۔ جس کے باعث تھوڑی دیر کیلئے وہاں خاموشی حائل ہوگئی۔
"ماموں!" اچانک اس نے پکارا۔
"ہممم بولو!" وہ متوجہ ہوئے۔
"میں کل سالک حمدانی سے ملنے جا رہا ہوں اسی زمین کے سلسلے میں۔" اس نے ان کی جانب دیکھتے ہوئے اپنا ارادہ بتایا۔
اس کی بات پر وہ یوں مسکرائے گویا یہ پہلے سے ہی جانتے ہوں کہ جو شرط غضنفر نے ان کے آگے رکھی تھی اپنی ضد چھوڑنے کیلئے، اسے وہ ہار جائے گا۔ جس کے باعث اسے تعجب ہوا۔
"آپ مسکرا کیوں رہے ہیں؟" اس نے ناسمجھی سے پوچھا۔
"کیونکہ مجھے پتا تھا کہ آج وہاں یہ ہی سب ہوگا جس کے بعد تم یہ فیصلہ کرو گے۔" انہوں نے اسی اطمینان سے جواب دیا۔ تو وہ کچھ نہ بولا۔
"بیٹا جب پچھلے آٹھ سالوں میں ان لوگوں کا دل نہیں پگھلا تو آج کیسے پگھل جاتا!" وہ نرمی سے مزید بولے۔ وہ خاموش ہی رہا۔
"خیر! تم سالک سے مت ملو۔" وہ واپس اسی موضوع پر آئے۔
"کیوں؟" اس نے ان کی جانب دیکھا۔
"کیونکہ اس سے اپنی بات منوانے کیلئے میں نے دوسرا طریقہ سوچا ہے۔" وہ سامنے نظر آتے سنسان روڈ کو دیکھتے ہوئے پرسوچ انداز میں بولے۔ جس کا مفہوم فی الحال اس کی سمجھ میں نہیں آیا۔
*******************************
اگلے دن کا سورج پھر چڑھ چکا تھا۔ جس کے بعد سارے معاملات پھر سے اپنی پرانی ڈگر پر رواں دواں ہوگئے تھے۔
"آنے سے پہلے فون کردیتے آپ لوگ تو میں تھوڑا احتمام کرلیتی۔" راضیہ مسکراتے ہوئے بولیں۔
وہ اس وقت دردانہ، صالحہ اور شاہانہ کے ہمراہ اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھی ہوئی تھیں۔
"ارے ہم کوئی دعوت پر تھوڑی آئے ہیں، بس ایسے ہی چند باتیں کرنی تھیں، تم زیادہ تکلف میں مت پڑو۔" دردانہ نے سہولت سے کہا۔
"سب خیر تو ہے نا!" انہیں ذرا تشویش ہوئی۔
"ہاں ہاں خیر ہے، بس کل جو کچھ بھی ہوا اس کے بارے میں سوچا تھوڑی وضاحت کردیں تم لوگوں کو۔" دردانہ اب اصل موضوع پر آنے لگیں۔
"دراصل غضنفر صالحہ اور رفاقت کا بڑا بیٹا ہے، اور پھر اس سے چھوٹی زوہا ہے، غضنفر ہمیشہ سے ہی لاپرواہ اور پڑھائی چور رہا ہے، کسی کی نصیحت کا بھی اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا، اور اسی خودسری کا نتیجہ نکلا کہ وہ چوری جیسی حرکت کر بیٹھا، اس کے بعد پانی سر سے اوپر ہوگیا تو رفاقت نے اسے گھر سے الگ کردیا، لیکن وہ آج تک اپنا جرم قبول کرکے معافی مانگنے کو تیار نہیں ہوا ہے اسی لئے ہم لوگوں نے بھی اس سے پچھلے آٹھ سالوں میں کوئی رابطہ نہیں رکھا، اور رفاقت تو اس قدر غصہ تھا کہ اس نے تم لوگوں سمیت سب سے یہ کہہ دیا کہ غضنفر مر چکا ہے۔" انہوں نے آہستہ آہستہ مختصر تفصیل بتائی۔
جسے راضیہ توجہ سے سنتی رہیں۔ صالحہ کا سر مزید جھکتا چلا گیا اور شاہانہ گردن اکڑائے بیٹھی رہیں۔
"یہ تو بہت برا ہوا۔" انہوں نے افسوس کا اظہار کیا۔
"اب جب تربیت ایسی ہوگی تو پھر یہ ہی نتیجہ نکلے گا نا!" شاہانہ نے تحقیر آمیز انداز میں تجزیہ کیا۔ صالحہ نے لب بھینچ لئے۔
"لیکن آپ لوگوں کو ایک بار سرسری سا تو بتانا چاہیے تھا ہمیں ان سب کے بارے میں۔" راضیہ شاہانہ کی بات نظر انداز کرتے ہوئے دردانہ سے بولیں۔
"بتایا تو آپ لوگوں نے بھی نہیں تھا کہ آپ کی ملیحہ کو نکاح کے کچھ ماہ بعد ہی رخصتی سے پہلے طلاق ہوگئی تھی، وہ تو ہمیں خود معلومات کروانے پر پتا چلا تھا، ٹھیک ہے کہ عزیر کا رشتہ صبیحہ سے ہوا ہے مگر ملیحہ بھی تو اس کی سالی لگی نا! کیونکہ گھر کی فرد ہے وہ، جس کے بارے میں آپ لوگوں نے ہمیں اندھیرے میں رکھا۔" شاہانہ نے ترکی بہ ترکی طنز مارا تو راضیہ نے بےساختہ نظریں چرالیں۔
اور عین اسی پل چائے کی ٹرے ہاتھ میں لئے اندر داخل ہوتی ملیحہ وہیں ساکت ہوگئی۔ دردانہ نے آنکھوں سے شاہانہ کو ٹوکا۔
"ارے آؤ آؤ بیٹا، رک کیوں گئی!" دردانہ مسکراتے ہوئے بولیں۔
جواباً وہ بھی زبردستی مسکرا کر خود کو نارمل رکھتے ہوئے ان لوگوں کی جانب آئی۔
"ان سب کی کیا ضرورت تھی بیٹا؟" دردانہ نے ماحول کا تناؤ کم کرنے کیلئے موضوع بدلا۔
"اتنا کچھ خاص احتمام تھوڑی کیا ہے آنٹی، اور ویسے بھی آپ لوگ کون سا روز روز آتے ہیں! خیر یہ کباب چکھ کر بتائیں کیسے بنے ہیں؟ میں نے نئی ریسیپی ٹرائی کی ہے۔" ملیحہ نے ہشاش بشاش انداز میں ٹرے پر سے کباب کی پلیٹ اٹھا کر ان کے سامنے رکھی۔
راضیہ جانتی تھیں کہ وہ سب کچھ سن کر بھی جان بوجھ کر انجان بن گئی تھی۔ کیونکہ اسے اپنے دکھوں کا اشتہار لگانا پسند نہیں تھا۔ اسی لئے وہ ہنستے مسکراتے چہرے اور بچکانہ حرکات کے پیچھے اپنے سارے درد چھپا کر رکھتی تھی۔
نادان ہوں، ناسمجھ ہوں، بیکار ہی سمجھو
دل روتا ہے، ہونٹ ہنستے ہیں، اداکار ہی سمجھو
انتخاب
*******************************
"اور ساتھ ہی اسے فون کرکے پوچھ لینا کہ جن نئی گاڑیوں کا ہم نے آرڈر دیا تھا ان کا کیا اسٹیٹس ہے؟ پھر مجھے انفارم کر دینا۔" کار شورم کے آفس میں بیٹھے سُلِیمان نے کوئی فائل اپنے سامنے کھڑے فاروق کو دیتے ہوئے کچھ ہدایات جاری کیں۔ جو یہاں کے معاملات دیکھتا تھا۔
"اوکے سر!" اس نے فائل لیتے ہوئے فرمابرداری سے اثبات میں سر ہلایا اور روم سے باہر جانے کیلئے اس کانچ کے دروازے کی جانب بڑھا جس کے دھندلے ڈیزائن کے باعث دوسری جانب موجود شخص کا صرف عکس نظر آتا تھا وہ واضح دکھائی نہیں دیتا تھا۔
اس سے قبل کہ وہ آگے بڑھ کر دروازہ کھولتا غضنفر دروازہ دھکیل کر اندر داخل ہوا۔
"گڈ آفٹر نون سر!" اس نے ادب سے وش کیا۔
اس نے سر کی جنبش سے جواب دیا۔ پھر وہ کنارے پر سے ہوکر باہر نکال گیا جب کہ غضنفر سلیمان کی جانب آیا۔
"آپ نے اب تک بتایا نہیں ماموں کہ آپ نے کیا سوچا ہے سالک حمدانی کے بارے میں!" وہ ٹیبل کے گرد رکھی دو میں سے ایک کرسی کھینچ کر بیٹھا۔
"اگر میں تم سے کچھ مانگوں تو کیا تم مجھے وہ دو گے؟" اس کا سوال نظر انداز کرتے ہوئے انہوں نے دونوں ہاتھ آپس میں پیوست کرکے اس ٹیبل پر رکھتے ہوئے ایک غیر متوقع سوال کیا جس پر Suleman Shamsi کے نام کی تختی رکھی ہوئی تھی۔
"آپ کیلئے تو جان بھی حاضر ہے۔" اگلے ہی پل وہ بھی اطمینان سے بولا۔
"کیونکہ آٹھ سال پہلے آپ نے ہی تو سنبھالا تھا مجھے جب میرے اپنے مجھے موت کے داہنے پر چھوڑ گئے تھے۔" اس نے تلخی سے مزید کہا۔ وہ کچھ نہیں بولے۔
"بتائیں! کیا چاہیے آپ کو مجھ سے؟" اس نے یوں جاننا چاہا گویا منہ سے نکلتے ہی ان کی فرمائش پوری کردے گا۔
"بتاتا ہوں۔" ٹیبل کی دوسری جانب سنگل کرسی پر بیٹھے سلیمان ٹیبل کی دراز میں کچھ ڈھونڈنے لگے۔
"سالک کی دو جڑواں بیٹیاں ہیں، صبیحہ اور ملیحہ، اور وہ زمین اس نے اپنی بیٹی ملیحہ کے نام پر لے رکھی ہے جو کہ یہ ہے۔" انہوں نے کہتے ہوئے ایک تصویر ٹیبل پر رکھی۔
جسے وہ ہاتھ میں لے کر دیکھنے لگا۔
"اور یہ زمین اسی لئے نہیں بیچ رہا ہے کیونکہ وہ زمین درحقیقت اس کی بیٹی کی ملکیت ہے۔" انہوں نے مزید بتایا جب کہ وہ ہنوز بغور اس تصویر کو دیکھ رہا تھا جیسے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو۔
"میں نے اس لڑکی کو کہیں دیکھا ہے، کیا دونوں بہنیں ہم شکل ہیں!" اس نے ذہن پر زور دیتے ہوئے پوچھا۔
"نہیں، صرف پیدائش سے جڑواں ہیں، ہم شکل نہیں ہیں۔" انہوں نے جواب دیا۔ جب کہ وہ ہنوز آنکھیں سکیڑے غور کر رہا تھا۔
"ہاں یاد آیا، اسے کل میں نے گھر پر دیکھا تھا، یہ عزیر کی سالی ہے۔" تب ہی اس کے ذہن میں کوندا لپکا۔
"آر یو شیور!" (تمہیں پکا یقین ہے؟) انہوں نے تائید چاہی۔
"ہاں، دادی نے ہی تو تعارف کرایا تھا۔" اس نے تصدیق کی۔ وہ سوچ میں پڑگئے۔
"مگر آپ مجھے اس کے بارے میں تفصیل کیوں بتا رہے ہیں؟" اس نے تصویر ٹیبل پر رکھتے ہوئے ناسمجھی سے پوچھا۔
"کیونکہ تمہیں اس سے شادی کرنی ہے۔" انہوں نے اطمینان سے بتایا تو اس نے یکدم چونک کر انہیں دیکھا۔
"کیا!" وہ حیران ہوا۔
"ہاں، میں نے بہت سوچا کہ کیسے ہم وہ زمین اپنے قبضے میں لے سکتے ہیں؟ مگر کوئی معقول حل نظر نہیں آیا، ہم سالک کے ساتھ زور زبردستی یا بلیک میلنگ نہیں کرسکتے کیونکہ اس کی سورس بھی اوپر تک ہے، لہٰذا ہمیں ایسی چال چلنی ہے جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔" وہ آہستہ آہستہ اپنا ارادہ بتانے لگے۔
"لیکن شادی کا اس زمین سے کیا تعلق؟" وہ بری طرح الجھا۔
"تعلق ہے، بہت گہرا تعلق ہے، جب یہ لڑکی تمہارے نکاح میں آئے گی تو اس کی ہر شے پر پھر تمہارا حق ہوگا، اور اس طرح وہ زمین بھی تمھیں مل جائے گی۔" انہوں نے کڑی جوڑی۔
"میں نہیں کرسکتا ماموں اس سے شادی۔" اس نے سخت بدمزہ ہوکرصاف انکار کیا۔
"ابھی تو جان دینے کی باتیں کر رہے تھے تم!" انہوں نے طنزیہ انداز میں یاد دلایا۔
"وہ اب بھی دے سکتا ہوں، مگر شادی نہیں کروں گا اس سے۔" اس نے اپنی بات پر قائم رہتے ہوئے زور و شور سے نفی کی۔
"کیوں نہیں کرسکتے؟ آخر تمھیں کسی نا کسی سے شادی کرنی ہی ہے نا! تو اسی سے کرلو، تمہاری ضرورت بھی پوری ہوجائے گی اور ہمارا مقصد بھی۔" انہوں نے بھی ہار نہیں مانی۔
"بس مجھے نہیں کرنی اس سے شادی، اگر آپ کو اتنا ہی شوق ہو رہا ہے تو آپ کرلیں اس سے شادی آپ بھی تو ابھی تک كنوارے ہیں۔" اس نے پھر نروٹھے بچے کی مانند انکار کرتے ہوئے توپ کا رخ ان کی جانب کیا۔
"زمین بیٹی کے نام پر ہے، ماں کے نہیں جو میں شادی کرلوں، اور تمھیں آخر مسلہ کیا ہے؟ کیوں نہیں کرسکتے اس سے شادی؟" انہوں نے بھی چڑ کر پوچھا۔
"کیونکہ میں کسی اور کو پسند کرتا ہوں۔" وہ نظریں چرا کر دھیرے سے بولا۔
اس کے ذہن و دل میں وہ حرف S والی لڑکی بس چکی تھی اور وہ کسی بھی طرح اسے ڈھونڈنے کا عہد کیے بیٹھا تھا۔
"واہ! اور یہ کب ہوا؟" انہوں نے طنزیہ انداز میں جاننا چاہا۔
"جب میرا ایکسیڈینٹ ہوا تھا، اس لڑکی نے جان بچائی تھی میری۔" اس نے ٹیبل کا کونا کھرچتے ہوئے مختصر بتایا۔
"شاباش! تو اب ایک انجان لڑکی ماموں سے زیادہ اہم ہوگئی ہے!" انہوں نے ایموشنل بلیک میلنگ کی۔
"وہ بات نہیں ہے ماموں۔" اس نے بےبسی سے نفی کی۔
"نہیں ہے تو پھر کرلو ملیحہ سے شادی۔" سلیمان فوراً بولے تو وہ لب بھینچتے ہوئے خاموش ہوگیا۔ گویا شش و پنج میں مبتلا ہو جسے انہوں نے بھی بھانپ لیا۔
"دیکھو! تم جسے پسند کرتے ہو اسے کرتے رہو پسند، کون روک رہا ہے؟ ابھی فی الحال اس سے شادی کرلو، پھر جب زمین ہمارے نام ہوجائے تو اس لڑکی سے دوسری شادی کرلینا جسے تم پسند کرتے ہو، پھر اگر ملیحہ نے اس لڑکی کو ایکسیپٹ کیا تو ٹھیک ورنہ تم ملیحہ کو طلاق دے دینا۔" انہوں نے سہولت سے حل پیش کیا۔
وہ سوچ میں پڑگیا اور ایک نظر ٹیبل پر پڑی تصویر کو یوں دیکھا گویا اور کوئی راستہ نہ ہو اب اس کے سوا۔
"لیکن کل جو اتنا تماشا ہوچکا ہے ان ہی لوگوں کے سامنے، اس کے بعد مان جائیں گے وہ لوگ مجھ سے شادی کیلئے؟" اس نے تھک کر ضد بحث ترک کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا۔
"تم نے کہا تھا نا کہ تم میرے لئے جان بھی دے سکتے ہو!" انہوں نے یاد دلایا۔
"تو مجھے تمہاری جان نہیں بلکہ اس لڑکی کی رضا مندی چاہیے اس شادی کیلئے، اب تم جھوٹی محبت کا ناٹک کرکے اسے قائل کرو یا زور زبردستی، یہ میں تم پر چھوڑتا ہوں۔" انہوں نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے اپنی فرمائش بتا کر فیصلہ اس پر چھوڑ دیا تھا۔
وہ خاموش بیٹھا بجائے کوئی جواب دینے کے ٹیبل پر رکھی ملیحہ کی تصویر کو دیکھتا رہا جو ہر قسم کی فکر سے آزاد بڑی دلکشی سے مسکرا رہی تھی۔
*******************************
"امی! صبیحہ کی کال آئی تھی، اس نے کہا کہ آپ کو بتا دوں وہ ہاسپٹل سے واپسی پر عزیر کے ساتھ ڈنر پر جا رہی ہے تو تھوڑی لیٹ ہوجائے گی۔" ملیحہ نے کمرے کا دروازہ کھول کر وہیں کھڑے کھڑے اطلاع دی۔
راضیہ جو مغرب کی نماز سے فارغ ہوکر اب بیڈ پر بیٹھی چھوٹے سائز کا قرآن ہاتھ میں لئے پڑھ رہی تھیں اس کی جانب متوجہ ہوئیں اور اشارے سے اسے قریب بلایا۔ وہ اندر آکے ان کے سامنے ہی بیڈ پر بیٹھ گئی۔
"نماز پڑھ لی مغرب کی!" انہوں نے تصدیق چاہی۔
"جی، کیونکہ مجھے یاد ہے کہ جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے کا نام جہنم کے دروازے پر لکھ دیا جاتا ہے اور میں یہ نہیں چاہوں گی کہ میرے سب گھر والے جنت میں مزے کریں اور میں اللہ کو ناراض کرکے جہنم میں جلوں۔" اس نے مسکراتے ہوئے ہلکے پھلکے انداز میں جواب دیا۔
انہوں نے اپنے ہاتھ میں موجود میرون جلد والا خوبصورت سا قرآن پاک بند کرکے اسے عقیدت سے چوما اور پھر احتیاط سے سائیڈ ٹیبل پر رکھا۔
"تم نے شاہانہ کی بات سن لی تھی نا!" وہ سنجیدگی سے اس کی جانب متوجہ ہوئیں۔
"ظاہر ہے، جب اللہ نے کان دیے ہیں تو سنوں گی ہی نا۔" اس کا انداز ابھی بھی ہلکا پھلکا تھا۔
"تمھیں برا نہیں لگا؟" انہوں نے ٹٹولا۔
"نہیں، ایک انسان اپنی باتوں سے اپنی سوچ کی عکاسی کرتا ہے، اور سوچ شخصیت کا حال بتاتی ہے، اب جس کی شخصیت ہی منفی ہو اس کی بات کا برا مان کر میں بھلا اپنا خون کیوں جلاؤں! ہم تو جانتے ہیں نا کہ اصل بات کیا تھی!" وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
"یہ تو ہم جانتے ہیں نا کہ وہ لڑکا غلط حرکتوں میں ملوث تھا، تمہارے ساتھ اس کا رویہ ٹھیک نہیں تھا اسی لئے رخصتی سے پہلے ہمارے مطالبے پر طلاق ہوئی ہے، مگر دنیا والے تو یہ ہی سمجھیں گے کہ خدانخواستہ تم میں کوئی عیب تھا۔" انہوں نے تاسف سے کہا۔
"تو دنیا والوں کے ایسا سمجھنے سے کیا میں عیب دار ہوجاؤں گی! نہیں، میں جو ہوں وہ ہی رہوں گی، چاہے کوئی کچھ بھی کہے، آپ کو پتا ہے واصف علی واصف نے کہا ہے کہ لوگ تمھیں برا سمجھیں اور تم در حقیقت اچھے ہو یہ بہتر ہے اس سے کہ لوگ تمھیں اچھا سمجھیں اور تم در حقیقت برے ہو۔" ان کی بات مکمل ہوتے ہی وہ رسان سے کہنی لگی۔
"وہ بات ٹھیک ہے، لیکن بیٹا ہمیں رہنا بھی تو اسی دنیا کے ان ہی لوگوں کے بیچ ہے نا! اور مجھے تمہاری شادی کی بہت فکر رہتی ہے، خیر سے صبیحہ تو ایک مہینے بعد اپنے گھر کی ہوجائے گی، مگر تمہارے رشتے کی جب بھی بات چلتی ہے تو وہ طلاق والی بات آڑے آجاتی ہے۔" وہ کافی متفکر تھیں۔ وہ بغور انہیں دیکھنے لگی۔
"آپ مجھ سے کتنی محبت کرتی ہیں؟" اس نے ٹھہرے ہوئے انداز میں اچانک سوال کیا۔
"ایک ماں اپنی اولاد سے کتنی محبت کرسکتی ہے! خود سے بھی زیادہ میرے بچے۔" انہوں نے محبت سے کہتے ہوئے اس کے گال پر ہاتھ رکھا۔
"تو اگر آپ کو موقع دیا جائے میری قسمت لکھنے کا تو آپ کیا لکھیں گی میرے لئے؟" اس نے دلچسپی سے جاننا چاہا۔
"خوشیاں ہی خوشیاں۔" انہوں نے اگلے پل جواب دیا۔
"اسی لئے اس نے آپ کو یہ موقع نہ دیتے ہوئے یہ اختیار اپنے پاس رکھا جو مجھ سے ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے۔" وہ مسکرائی۔ جس کا مطلب راضیہ نہیں سمجھیں۔
"آپ نے مٹی کے برتن بنتے ہوئے دیکھے ہیں کبھی؟" اس نے نیا سوال اٹھایا۔ انہوں نے اثبات میں سر ہلایا۔
"تو پھر آپ کو یہ بھی پتا ہوگا کہ بننے کے بعد ان کو آگ میں تپایا جاتا ہے تا کہ وہ مضبوط ہوسکیں!" اس نے پوچھا تو سابقہ رد عمل ملا۔
"ہم انسان بھی مٹی سے بنے ہیں، اور جب تک ہمیں آزمائش کی بھٹی میں تپایا نہیں جائے گا ہم مضبوط نہیں ہوسکیں گے، اگر ہماری زندگی میں صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوں گی تو ہمارا دل سخت ہوجائے گا، اور انسان کو تو پیدا ہی دردِ دل کے واسطے کیا گیا ہے۔" وہ لمحے بھر کو رکی۔
"آپ سوچیں کہ جب آپ مجھ سے اتنی محبت کرتی ہیں کہ میری خوشیاں، میرا بھلا چاہتی ہیں تو جو آپ سے ستر گنا زیادہ مجھ سے محبت کرتا ہے وہ بھلا کیسے میرے ساتھ کچھ برا ہونے دے سکتا ہے؟" اس نے سانس لی۔
"وہ ہمیں آزماتا ہے تا کہ ہم مضبوط ہوسکیں اور ہمیں اس آزمائش کے بدلے انعام سے نوازا جا سکے۔" اس نے آہستہ سے کہا۔
"تمہاری بات ٹھیک ہے، بےشک اللہ ہمیں آزماتا ہے اور ہمیں صبر کرنا چاہئے لیکن ہم دنیا کو بھی تو نہیں جھٹلا سکتے! یہ دنیا، اس کے لوگ، لوگوں کی باتیں، باتوں سے ہونے والا دکھ، یہ سب بھی تو حقیقت ہے!" انہوں نے دوسرے نقطے کی جانب دھیان دلانا چاہا۔
اس نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے انہیں دیکھا۔
"مجھے بتائیں یہ کیا ہے؟" اس نے اچانک کہتے ہوئے سائیڈ ٹیبل پر سے وہ میرون جلد والا قرآن پاک اٹھایا۔
"یہ قرآن پاک ہے۔"
"یہ کس نے لکھا ہے؟"
"یہ کیا بات کر رہی ہو تم!" وہ الجھیں۔
"جواب دیں امی۔" اس نے اصرار کیا۔
"یہ اللہ پاک کی کتاب ہے جو اس نے اپنے محبوب محمد مصطفیٰ ﷺ کے ذریعے ہم تک پہنچائی۔" انہوں نے جواب دیا۔
"مطلب آپ جانتی ہیں کہ اس میں لکھا ایک ایک حرف اللہ کی طرف سے ہے بندوں کیلئے؟" اس نے تائید چاہی۔
"ظاہر ہے، مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم پر فرض ہے اس پاک کتاب پر ایمان لانا۔" انہوں نے فوری طور پر گول مول جواب دیا۔
"یہ ہی تو سارا مسلہ ہے کہ ہم جانتے ہیں، مانتے نہیں ہیں۔" اس نے تاسف سے کہا۔
"کیا مطلب؟" وہ سمجھیں نہیں۔
"مطلب ہم نے بس قرآن پاک کو تلاوت کرنے، عقیدت سے چومنے اور خاص موقعوں پر قرآن خوانی کروانے سے زیادہ کبھی اپنی زندگی میں شامل کیا ہی نہیں ہے، اور ایسا بھی ہم صرف اسی لئے کرتے ہیں کیونکہ بطور مسلمان ہمیں بچپن سے اس پاک کتاب کا احترام کرنا سیکھایا گیا ہے اس پر عمل کرنا نہیں۔" وہ لمحے بھر کو رکی۔
"قرآن انسان کی رہنمائی کیلئے اترا ہے، اس میں جو کچھ لکھا ہے اس پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اسے پڑھنے کا بھی ثواب رکھا گیا ہے، مگر افسوس کے ہم اصل مقصد یعنی عمل بھول گئے اور یاد رہا تو بس وہ ثواب جو اس میں لکھے لفظ پڑھنے سے ملتا ہے، جب کہ ہمیں دونوں کو ساتھ لے کر چلنا تھا۔" اسے دکھ ہوا۔
"اب دیکھیں میں یہ آیات پڑھتی ہوں۔" اس نے کہتے ہوئے احتیاط سے قرآن پاک کھولا۔
اور آلِ عمران کی ایک سورہ پڑھی۔ جسے انہوں نے خاموشی سے سنا۔
"بتائیں یہ پڑھنے سے کیا ہوا؟" اس نے سوال کیا۔
" تمھیں ثواب ملا۔" انہوں نے متوازن جواب دیا۔
"ہاں، لیکن پہلے مجھے وہ کرنا ہے جس کیلئے یہ پاک کتاب نازل ہوئی، یعنی عمل، ان لفظوں پر جنہیں پڑھنے سے مجھے ثواب ملا، اور عمل کیسے ممکن ہے؟ ایسے کہ میں سمجھ سکوں میں نے کیا پڑھا ہے؟" یہ کہتے ہوئے اس نے دوبارہ سر جھکایا۔
"اس آیات کا ترجمہ ہے کہ
"یقیناً تمہارے مالوں اور جانوں سے تمہاری آزمائش کی جائے گی، اور یہ بھی یقین ہے کہ تمھیں ان لوگوں کی، جو تم سے پہلے کتاب دیے گئے اور مشرکوں کی بہت سی دکھ دینے والی باتیں بھی سننی پڑیں گی، اور اگر تم صبر کرلو اور پرہیزگاری اختیار کرو تو یقیناً یہ بہت بڑی ہمت کا کام ہے۔" (سورہ آلِ عمران، آیت 186)
اس نے ترجمہ پڑھ کر سنایا۔
"دیکھیں، ابھی آپ کہہ رہی تھیں نا کہ جو لوگوں کی باتیں دکھ دیتی ہیں اس کا کیا؟ تو قرآن میں لکھا ہے کہ ہمیں آزمایا جائے گا، اور ہمیں لوگوں کی دکھ دینے والی باتیں بھی سننی پڑیں گی اور ساتھ ہی ایسے حالات سے ڈیل کرنے کا طریقہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ اگر ہم صبر کریں گے تو یہ بڑی ہمت کا کام ہوگا، بےشک قرآن میں انبیاء کرام کا ذکر ہے مگر ان ہی کے ذریعے تو ہمیں سمجھایا گیا ہے کہ کب؟ کہاں؟ کیا اور کیسے کرنا ہے؟" اس نے وضاحت کی۔
"یہ اللہ پاک کی کتاب ہے نا! تو کیا وہ جھوٹ بول سکتا ہے؟ بالکل بھی نہیں، وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا، بس ہم ہی اس کی نہیں مانتے ہیں، ہم بولتے ہیں کہ ہاں ہم جانتے ہیں اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ، وہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے لیکن۔۔۔! لیکن ہم بیچ میں یہ "لیکن" لے آتے ہیں، جو ہمارے یقین کو کمزور کردیتا ہے، جب ہم جانتے ہیں کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے تو پھر لیکن ویکن کیوں کرتے ہیں؟ کیونکہ ہم صرف جانتے ہیں، دل سے مانتے نہیں ہیں، دل کے کونے میں ایک ڈر سا چھپا بیٹھا ہوتا ہے کہ اگر ایسا نہیں ہوا تو؟ ہم دعا مانگتے ہیں کہ یااللہ ہماری مدد فرما لیکن دل میں وسوسا ہوتا ہے کہ اگر مدد نہیں ملی تو! ہم کہتے ہیں کہ دعا کر رہے ہیں فلاں بات ہوجائے لیکن اگر ایسا نہیں ہو تو! ارے جب اللہ کے سامنے عرضی پیش کردی ہے تو پھر کیسا لیکن؟ کیسا اگر مگر؟" وہ کافی جذباتی ہوگئی تھی۔
"معاملہ چاہے کوئی بھی ہو دین کا یا دنیا کا، مسلہ چاہے کوئی بھی ہو کہ نوکری نہیں مل رہی، شادی نہیں ہو رہی، اولاد نہیں ہے، حالات تنگ ہیں، کوئی جسمانی عیب ہے، یا کچھ بھی، اللہ سب جانتا ہے، اور اس نے کہا ہے کہ مجھ سے مانگو میں عطا کروں گا، مگر یقین سے مانگو، ایسے نہیں کہ زبان سے دعا کر رہے ہیں مگر دل میں خدشہ ہے کہ اگر دعا قبول نہیں ہوئی تو! یا کب سے تو دعا مانگ رہے ہیں اب تک قبول کیوں نہیں ہوئی؟ ایسے دعا قبول نہیں ہوتی، کیونکہ خدشہ یقین کے پیالے میں اس سوراخ کے جیسا ہے جو آسمان تک پہنچنے سے پہلے ہی آپ کی دعا کا اثر زائل کر دیتا ہے۔" اس نے لمحے بھر کو سانس لی۔
"پتا ہے اللہ کی ذات پر کامل یقین ہونے کی نشانی کیا ہے؟" اس نے سوال کیا۔
"کیا ہے؟" وہ بےساختہ پوچھ بیٹھیں۔
"کہ ہمارے اندر ایک اطمینان سا اتر جاتا ہے، ہمارے حالات اتنی جلدی نہیں بدلتے مگر ہماری حالت بدل جاتی ہے، "کیا ہوگا؟ کیسے ہوگا؟" کی بےچینی کی جگہ "جو ہوگا حق میں اچھا ہوگا" کا اطمینان لے لیتا ہے۔" اس نے رسان سے جواب دیا۔
وہ کچھ نہ بولیں۔
"جب میری طلاق ہوئی تھی تو فطری دکھ ہوا تھا مجھے، مگر پھر میں نے آپ کو دیکھا، آپ بہت پریشان ہوگئی تھیں میرے لئے، آپ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کسی طرح سب ٹھیک کردیں، تب مجھے خیال آیا کہ اللہ پاک تو مجھ سے آپ سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے، تو وہ کیسے میرے ساتھ برا ہونے دے سکتا ہے؟ تب میری سمجھ میں آیا کہ وہ جو چلا گیا وہ میرے لئے اچھا نہیں تھا، اور جو اچھا ہے وہ اب تک ملا نہیں ہے، لہٰذا مجھے صبر کرنا ہے اس کے ملنے تک جو اللہ نے میرے لئے منتخب کیا ہے۔" وہ ہلکے سے مسکرائی۔
"میں جانتی ہوں کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں لڑکی کی عمر پچیس سے اوپر ہوجائے اور شادی نہ ہو تو باتیں بننے لگتی ہیں، اگر رشتہ ٹوٹ جائے تو باتیں بننے لگتی ہیں، اچھی جاب نہ ہو تو باتیں بننے لگتی ہیں، اولاد نہ ہو تو باتیں بننے لگتی ہیں، کوئی جسمانی عیب ہو تو باتیں بننے لگتی ہیں، یہ باتیں بنتی رہیں گی، تب ہی تو اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ تمھیں لوگوں کی بہت سی دکھ دینے والی باتیں بھی سننی پڑیں گی، مگر تم صبر کرنا،صبر کرنے والوں کیلئے انعام ہے، اگر آپ کو لگتا ہے کہ خود کو تسلی دے کر لوگوں کی باتوں کو نظر انداز کرنے سے کچھ نہیں ہوگا، تو لوگوں کی بات کو دل سے لگا کر، ان کی وجہ سے رو کر، اپنا خون جلانے سے بھی کچھ نہیں ہوگا، تو کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ جب دونوں صورتوں میں ہی کچھ نہیں ہونے والا تو اس پہلے آپشن کو اپنایا جائے جس سے کم از کم آپ کا خون تو نہیں جلے گا!" اس کے انداز میں اطمینان تھا۔ جو انہیں لاجواب کر گیا۔
"اگر لوگوں کے پاس چلانے کیلئے زبان ہے تو ہمارے پاس بھی دو کان ہیں، تا کہ ایسی دل جلی باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دی جائیں، یہ فضول باتیں اپنے اندر اسٹور کرنے کیلئے نہیں ہوتی ہیں، کچھ اسٹور کرنا ہے دل و دماغ میں تو بس یہ کریں کہ اللہ ہم سے بہت محبت کرتا ہے، اور محبت کرنے والے ہمیشہ محبوب کیلئے کچھ اچھا ہی منتخب کرتے ہیں، اب یہ محبوب کے اوپر ہے کہ وہ تھوڑے صبر سے کام لے۔" اس نے مسکراتے ہوئے اطمینان سے کہا۔
اس سارے عرصے میں وہ بالکل چپ چاپ، بغور اسے سنے جا رہی تھیں۔
وہ ایسی تھی، کبھی بچوں سے بھی زیادہ بچی بن جانے والی تو کبھی سمجھداری میں ان کی بھی اماں بن جانے والی۔ بظاہر چلبلی سے ملیحہ کے اندر ایک سمجھدار لڑکی رہتی تھی جو اسے سیکھاتی تھی کہ
مشکلوں کا آنا پارٹ آف لائف، اور ان سے ہنس کر نکلنا آرٹ آف لائف۔
وہ عطا کرے تو شکر اس کا
وہ نہ دے تو بھی ملال نہیں
میرے رب کے فیصلے کمال ہیں
ان فیصلوں میں زوال نہیں
انتخاب
*******************************
اندھیرے کمرے میں پہلے دروازہ کھلنے سے تھوڑی روشنی ہوئی اور پھر یکدم لائٹ روشن ہونے پر ہر سو اجالا پھیل گیا جو کہ غضنفر نے آن کی تھیں۔
شورم سے گھر آتے ہوئے وہ پورے راستے سلیمان کی باتوں پر غور کرتا آیا تھا اور اب گھر آکے بھی ان ہی سوچوں میں گم وہ سیدھا اپنے جم میں آکر اب قد آدم آئینے کے آگے کھڑا اسی سوچ میں گم تھا۔
تب ہی اس کی نظر شیشے کی دائیں جانب سفید دیوار پر لکھے سیاہ S پر پڑی۔
وہ چند قدم آگے آکر دونوں ہاتھ اس S کے دائیں، بائیں رکھے دیوار پر یوں ٹکا کر کھڑا ہوگیا گویا وہ ایک بےجان حرف نہیں بلکہ وہ ہی انجان لڑکی ہے جس کے قریب ہوکر اس نے فرار کی راہیں تنگ کردی ہیں۔
"ماموں نے عجیب دو راہے پر لا کر کھڑا کردیا ہے مجھے۔" وہ اس حرف سے باتیں کرنے لگا۔
"مگر ان کا حکم ٹال بھی تو نہیں سکتا، پہلی مرتبہ انہوں نے کچھ مانگا ہے مجھ سے، جو کہ انہیں ہر حال میں دینا ہے۔" اس نے گویا عہد کیا۔
"لیکن تم بےفکر رہو، تمھیں بھی میں کسی صورت نہیں چھوڑوں گا، ایک دن تمھیں ڈھونڈ کر اپنے پاس لے آؤں گا اور پھر کہیں نہیں جانے دوں گا۔" اس نے گھمبیر انداز میں کہتے ہوئے اس حرف پر پیار سے ہاتھ پھیرا۔
*******************************
صبیحہ اپنے گلے میں موجود S والے لاکٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے، کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔ وہ بےزار صورت لئے آس پاس کا جائزہ لیتے ہوئے بھی اب بور ہوگئی تھی۔ وہ اس وقت ایک ریسٹورنٹ میں موجود عزیر کا انتظار کر رہی تھی جس کا ابھی تک کچھ اتا پتا نہیں تھا۔
وہ ٹیبل پر رکھا اپنا موبائل اٹھا کر پھر سے عزیر کو کال کرنے ہی لگی تھی کہ تب ہی وہ سامنے سے آتا ہوا نظر آیا۔
"شکر ہے آج کی تاریخ میں آگئے آپ۔" قریب پہنچنے پر صبیحہ نے طنز مارا۔
"ویری سوری یار! ٹریفک میں پھنس گیا تھا۔" اس نے کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے معذرت کی۔
*******************************
زوہا لان میں رکھے لوہے کے جھولے پر کافی دیر سے جھولتی غیر مرئی نقطے کو تکتے ہوئے کسی سوچ میں گم تھی۔ تب ہی عبید بھی دهپ سے اس کے برابر میں آ بیٹھا۔
"تارے آسمان پر ہیں میڈم، نیچے کیا گھانس گن رہی ہو!" اس نے کہتے ہوئے اس کی نظروں کے سامنے چٹکی بجائی۔ مگر اس نے کوئی رد عمل نہیں دیا۔
"کیا ہوگیا ہے؟ کل سے میوٹ کیوں ہوئی بیٹھی ہو؟ گھر میں بھی سب کا رویہ تھوڑا کھنچا کھنچا لگ رہا ہے، کوئی بات ہوئی ہے کیا؟" اس نے ناسمجھی سے جاننا چاہا۔
"کل بھیا آئے تھے۔" اس نے یوں ہی جواب دیا۔
"کون بھیا؟" وہ سمجھا نہیں۔
زوہا نے گردن موڑ کر اس کی جانب دیکھا۔
"غضنفر بھیا۔" اس نے بتایا تو وہ دنگ رہ گیا۔
"کیا!" اسے حیرت ہوئی۔
"ہاں، بس تب سے ہی سب کے منہ بنے ہوئے ہیں۔" وہ زہر خندہ لہجے میں بولی۔
"بھیا آئے تھے اور تم نے مجھے بتایا نہیں! اتنے عرصے بعد اچانک کیسے؟ اور تایا! انہوں نے کیا کہا؟" اسے مزید جاننے کا تجسس ہوا۔
"کیا ہونا تھا! بھیا بات کرنا چاہ رہے تھے مگر پاپا نے سب کے سامنے انہیں تھپڑ مار کر بری طرح گھر سے نکال دیا۔" اس نے غم و غصے سے بتایا۔
"نہیں یار!" اس نے بےساختہ جھولے پر ہاتھ مارا۔
"تمھیں بھی برا لگ رہا ہے نا بھیا کے ساتھ ایسا ہونے پر!" زوہا نے تائید چاہی۔
"نہیں، مجھے یہ سوچ کر برا لگ رہا ہے کہ کل گھر پر نہ ہونے کی وجہ سے میں نے اتنا زبردست ڈرامہ مس کردیا، کاش میں بھی کل گھر پر ہوتا۔" اس نے خود کو کوسا۔
زوہا حیران رہ گئی۔
"میرے بھائی کو سب کے سامنے اتنی بری طرح بےعزت کیا گیا اور تمھیں یہ سب زبردست ڈرامہ لگ رہا ہے۔" وہ یکدم برہم ہوئی۔
"نہیں میرا وہ مطلب نہیں تھا۔" اب اسے بھی اپنی غلطی کا احساس ہوا۔
"سب سمجھی ہوں میں تمہارا مطلب، تم سب ایک جیسے ہی ہو، بےحس۔" وہ جھولے سے اٹھتے ہوئے غصے میں کہہ کر وہاں سے چلی گئی۔
"ارے زوہا سنو، میں تو عائزہ خان کے ڈرامے کی بات کر رہا تھا۔" وہ بھی جلدی سے بات بناتا اس کے پیچھے لپکا۔
*******************************
"وہ لڑکی ایک انسٹیٹیوٹ سے سائیکالوجی میں ڈپلومہ کر رہی ہے، اکثر فاؤنڈیشنز وغیرہ میں، سوشل ورک بھی کرتی رہتی ہے، دو سال پہلے نکاح کے بعد رخصتی سے پہلے ہی اس کی طلاق ہوچکی ہے، اس کے بعد سے اب تک اس کا کہیں رشتہ نہیں ہوا ہے، اچھی ہنس مکھ طبیعت کی لڑکی ہے، یہ ہی پتا چلا ہے مجھے اس کے بارے میں، مزید تم پتا لگاؤ اور اپنا کام کرو۔" سلیمان نے اپنے پاس موجود معلومات فراہم کی۔
"ہممم! کل رات میں بھی کافی دیر تک اس بارے میں سوچتا رہا کہ کیسے اس لڑکی کو شادی کیلئے راضی کروں! مگر کوئی اسٹرونگ ریزن میری سمجھ میں نہیں آیا۔" غضنفر نے چائے کا گھونٹ لے کر کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
"سوچنا کیا ہے؟ بس جا کر کہہ دو کہ تمہیں پہلی نظر میں اس سے محبت ہوگئی ہے، ویسے بھی لڑکیاں تو بہت آسانی سے یہ پیار، محبت کی باتوں میں آجاتی ہیں۔" سلیمان نے آملیٹ کھاتے ہوئے اطمینان سے مشورہ دیا۔ دونوں اس وقت ڈائینگ ٹیبل کے گرد اکھٹا ناشتے کر رہے تھے۔
"اب پتا نہیں وہ باتوں میں آنے والی لڑکی ہے بھی یا نہیں؟" اس نے الجھتے ہوئے پھر چائے کا گھونٹ لیا۔
"تم بیٹھ کر سوچتے رہو کہ وہ کیسی لڑکی ہے؟ اور تم کیسے اسے شیشے میں اتار سکتے ہو، میں شورم جا رہا ہوں، چاہو تو تم بھی آجانا۔" انہوں نے کہتے ہوئے نیپکن سے ہاتھ صاف کیے اور اٹھ کھڑے ہوئے۔
وہ یہاں سے چلے گئے جب کہ غضنفر چائے پیتے ہوئے ان ہی باتوں پر غور کر رہا تھا۔ جب کہ رنگیلا ٹیبل پر سے دوسرے برتن اٹھانے لگا۔
"چھوٹے صاحب!" اس نے پکارا۔
"ہممم!" وہ متوجہ ہوا۔
"ایک بات کہوں اگر آپ برا نہ مانیں تو!" وہ جھجکا۔
"کہو۔" اس نے اجازت دی۔
"میں نے سنا کہ آپ کسی لڑکی کو ایکسپائر کرنے کا طریقہ سوچ رہے ہیں، میں ایک طریقہ بتاؤں کیا؟" اس نے ڈرتے ہوئے پوچھا۔ تو غضنفر نے ایک تیکھی نگاہ اس پر ڈالی۔
"ایکسپائر نہیں انسپائر۔" اس نے سنجیدگی سے تصحیح کی۔
"ہاں وہ ہی، ایک تو یہ انگریزی بھی نا!" وہ جلدی سے بولا۔
"مطلب متاثر کرنے کا ایک طریقہ بتاؤں؟" اس نے رازداری سے اجازت چاہی۔
"بتاؤ!" اسے سننے لینے میں کوئی حرج نہیں لگا۔
"میں نے نا فلموں میں دیکھا ہے کہ ہیرو پہلے ہیروئن کو خود نقلی غنڈوں سے ڈراتا ہے، اور پھر انہیں مار کر اس کے سامنے ہیرو بن جاتا ہے، پھر دونوں ایک گانا گاتے ہیں اور پھر دونوں کی شادی ہوجاتی ہے۔" اس نے پھولپن سے اپنے تئیں بڑے کام کی بات بتائی۔ جس پر وہ اسے گھورنے لگا۔
"اچھا طریقہ ہے نا چھوٹے صاحب!" اس نے داد وصولنی چاہی۔
"یہ برتن اٹھاؤ، اور کچن میں جاؤ۔" اس نے سنجیدگی سے حکم دیا تو اس کی بتیسی یکدم غائب ہوگئی۔
جس کے بعد وہ پھرتی سے برتن اٹھا کر چلتا بنا جب کہ غضنفر پھر سوچنے لگا کہ آخر کیا کِیا جائے؟
*******************************
"بچوں کی نفسیاتی ضروریات میں سے ایک محبت ہے، لازم ہے کہ والدین کی جانب سے اس ضرورت کو پورا کیا جائے، والدین اگر بچوں سے محبت نہیں کریں گے تو اس کے نتیجے میں بچوں میں محرومی پیدا ہوگی اور محرومی سے بچوں کےلئے بہت سے نفسیاتی روگ اور بگاڑ جنم لیں گے، والدین جب اپنے بچوں سے بغل گیر ہوتے ہیں تو اس سے بچوں کو نفسیاتی سکون اور قلبی قرار ملتا ہے لہٰذا ماں باپ کو اپنی اولاد سے بغل گیر ہونے میں کنجوسی سے کام نہیں لینا چاہیے، یقین جانئے کہ بچوں کو والدین کے ساتھ محبت سے لپٹنے کی، ان کے پیار سے پکارنے کی اتنی ہی ضرورت ہوتی ہے جتنی انھیں کھانے پینے اور سانس لینے کی حاجت ہوتی ہے بلکہ محبت کی چاہت و حاجت خوراک کی حاجت سے بھی بڑھ کر ہے، والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اس فطری حاجت کو پورا کریں، والدین جب بچے کو چومتے ہیں، انہیں پیار سے پکارتے ہیں تو اس سے بچے کے قلب و نفس پر رحمت و شفقت چھا جاتی ہے، اسے امن و امان کا بھرپور احساس ہوتا ہے، ہم بچوں کو بوسہ دے کر ہی انھیں اپنی محبت و شفقت کے احساس سے سرشار کرسکتے ہیں، اگر ہم بچوں کو محبت و شفقت کے بوسے سے محروم کریں گے تو وہ ہم سے دور ہٹیں گے، نفرت و بیزاری اور سنگدلی و سختی ان کے دلوں میں بس جائے گی، وہ بچپن سے ہی دوری اور کم آمیزی میں مبتلا ہوجائیں گے، والدین کی شفقت سے ہی بچوں کے درد دور ہوتے ہیں، صرف اچھا کھلانا، پہنانا اور کبھی کبھی پیار سے پکار لینا ہی کافی نہیں ہوتا، بچوں کو بار بار پیار سے پکاریں، ان کی سنیں، انہیں سمجھیں، کوئی غلطی کردیں تو فوری طور پر کوئی سخت سزا دینے کے بجائے پیار سے سمجھائیں۔" ایک ادھیڑ عمر مگر نفیس سے سر آہستہ آہستہ کہتے جا رہے تھے۔
ان کے مقابل کرسیوں پر بیٹھے اسٹوڈنٹس قلم سے کاغذ پر ان کی باتیں نوٹ کرنے میں مصروف تھے جن میں ملیحہ بھی شامل تھی۔
"دیکھیں کوئی والدین ایسے نہیں ہوتے جو بچوں کے پیدا ہوتے ہی عہد کرلیں کہ اب تو ہم اسے سختی سے ڈانٹ ڈپٹ کر رکھیں گے، اسے ماریں گے، اس کی بات نہیں سنیں گے، سارے والدین ہی بچوں کی پیدائش پر بےحد خوش ہوتے ہیں، اسے خوب پیار کرتے ہیں، اس کیلئے کپڑے، کھلونے لاتے ہیں، اس کے لاڈ اٹھانے کی باتیں کرتے ہیں اور پھر۔۔۔۔۔" وہ لمحے بھر کو رکے۔
"اور پھر یہ سب بھول جاتے ہیں۔" انہوں نے بات مکمل کی۔
"جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا ہے اس پر روک ٹوک شروع ہوجاتی ہے کہ اسے ہاتھ مت لگاؤ، وہاں مت جاؤ، یہ مت کھاؤ، وہ نہ کرو، بےشک یہ سب بچے کے اچھے کیلئے ہی ہوتا ہے، مگر یہ سب اسے اچھا نہیں لگتا ہے، لہٰذا روکنے ٹوکنے کا بھی ایک طریقہ ہونا چاہئے، اب فرض کریں ایک بچے نے کوئی گندا کھلونا اٹھا کر منہ میں ڈال لیا، تو ہم کیا کریں گے فٹافٹ اسے ڈپٹ کر وہ کھلونا چھین لیں گے، جس سے بچہ یکدم سٹپٹا جائے گا، اور رونے لگے گا، آپ اسے دوسرا کھلونا دیں گے وہ نہیں لے گا، پھر دھیرے دھیرے آپ کو غصہ آنے لگے گا اور آپ شاید اس پر ہاتھ اٹھا لیں گے، اور یوں یہ بات معمول بن جائے گی، اس کے برعکس آپ اگر ایسا کچھ دیکھیں تو پہلے مسکراتے ہوئے اس کے پاس آئیں، پھر پیار سے کھیلتے ہوئے وہ کھلونا اس سے لیں اور فوری طور پر کوئی دوسرا کھلونا اسے پکڑا کر اس کے ساتھ کھیلنے لگیں، چند لمحوں میں ہی بچے کا دھیان اس طرف سے ہٹ جائے گا اور کوئی بدمزگی بھی نہیں ہوگی۔" وہ رسان سے کہہ رہے تھے۔
"اصل میں ہوتا یہ ہے کہ ہم خیال رکھتے رکھتے اتنا زیادہ خیال کرنے لگتے ہیں کہ پھر سختی اپنا لیتے ہیں، اور غصے سے بات بنتی نہیں بگڑتی ہے۔" انہوں نے مزید کہا۔
اس وقت جو گفتگو کا موضوع چل رہا تھا اس کے باعث ملیحہ کا ذہن بار بار بھٹک کر اس لڑکے کی طرف جا رہا تھا جسے اس نے پرسوں رفاقت اور صالحہ کی منت کرتے دیکھا تھا۔ مگر انہوں نے اس کی نہیں سنی۔
"اینی کوئیسچن؟" (کوئی سوال؟) وہ سب سے مخاطب ہوئے تو ملیحہ نے ہاتھ بلند کیا۔
"یس!" انہوں نے اجازت دی۔ وہ اپنی جگہ پر کھڑی ہوگئی۔
"سر فار ایگزیمپل (مثال کے طور پر) ایک بیس سالہ لڑکے نے اپنے گھر میں چوری کی تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ اور ایسی صورت میں پھر ماں باپ کو کیا کرنا چاہئے؟' اس نے سرسری انداز میں پوچھتے ہوئے در حقیقت غضنفر کے ماضی کو ٹٹولنے کی کوشش کی تھی۔
تب تک سر نے ٹیبل پر رکھا پانی کا بھرا ہوا گلاس اٹھا کر لبوں سے لگا لیا تھا۔ جسے آدھا پی کر واپس رکھتے ہوئے وہ گویا ہوئے۔
"دیکھو بیٹا یہ جو بیس سال کے آس پاس کی عمر ہوتی ہے نا یہ وہ عمر ہوتی ہے جب ایک نرم ٹہنی، مضبوط شاخ میں بدل رہی ہوتی ہے، اور اس عرصے میں ٹہنی کو جیسا رکھا جائے گا وہ ویسی ہی شاخ بن جائے گی اور پھر اس کا رخ تبدیل نہیں ہوسکے گا، اسی لئے یہ سوچنا بےوقوفی ہے کہ ارے اب تو بچہ بڑا ہوگیا ہے اب اس پر سختی کرنی چاہئے، ٹھیک ہے سختی کریں، مگر نرمی کرنا نہ چھوڑیں، کیونکہ اس عرصے میں انہیں جذباتی سہارے کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔" انہوں نے سانس لی۔
"پھر بات آتی ہے چوری کی، تو اس پر بہت سارے پہلو غور طلب ہیں کہ آخر اس نے ایسا کیوں کیا؟ کیا اس کی ضروریات پوری نہیں ہو رہی تھیں؟ کیا وہ غلط سنگت میں تھا؟ کیا اس نے کسی مجبوری میں ایسا کیا؟ یا پھر ایسے ہی شوق میں کوئی ایڈوینچر کرنے کیلئے کیا؟ یا اسے وہ چیز پسند تھی مگر حاصل نہیں ہو رہی تھی؟ جب اصل وجہ پتا چل جائے گی تو پھر اس سے ڈیل کرنے میں آسانی رہے گی، جیسے ڈاکٹر پہلے مرض کی تشخیص کرتا ہے پھر دوا دیتا ہے، ویسے ہی سزا دینے سے پہلے جرم کی وجہ معلوم کرنا ضروری ہوتا ہے، والدین کا فرض ہے کہ وہ سب سے پہلے وجہ معلوم کریں، اور اگر یہ حرکت پہلی مرتبہ ہوئی ہے تو اسے فوری طور پر ڈانٹنے، مارنے کے بجائے متوازن انداز میں سمجھائیں کہ بیٹا ایسا کیوں کیا؟ کچھ چاہیے تھا تو ہم سے مانگ لیتے، اول تو اگر والدین کا رویہ دوستانہ ہوگا تو وہ شاید ہی ایسی کوئی حرکت کرے، لیکن اگر کر بیٹھا ہے تو پھر والدین کو بہت سوچ سمجھ کر اسے ڈیل کرنا ہوگا ورنہ آئندہ مزید برا بھی ہوسکتا ہے۔" انہوں نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ جسے ملیحہ سمیت پوری کلاس بغور سنتی رہی۔
"اور سر اگر کسی کے ساتھ ایسا ہوجائے، پھر اس کے والدین اس کے ساتھ کافی برا سلوک کریں، یہاں تک کہ گھر سے نکال دیں، وہ شخص بدمزاج ہوکر ان سے بدظن ہوچکا ہو تو پھر ایسے شخص کے ساتھ کیا کرنا چاہئے؟" اس نے دوسرا سوال اٹھایا۔
"محبت!" انہوں مسکراتے ہوئے ایک لفظی جواب دیا۔
*******************************
"امی! وہ جو پچھلے ہفتے ملیحہ کے رشتے کیلئے کچھ لوگ آئے تھے کیا ہوا ان کا؟" صبیحہ نے کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے پوچھا تو بےساختہ راضیہ کے چاول چنتے ہاتھ رک گئے۔
دونوں اس وقت کچن میں رکھی چھوٹی سی میز کے گرد بیٹھی ہوئی تھیں۔
"وہ ہی جو اس سے پہلے والے رشتے کا ہوا تھا۔" انہوں نے دوبارہ اپنا کام جاری کرتے ہوئے تاسف سے جواب دیا۔
"مطلب۔۔۔انہوں نے بھی انکار کردیا!" اس نے تائید چاہی۔
انہوں نے اثبات میں سر ہلایا تو درحقیقت اسے بھی افسوس ہوا اپنی بہن کیلئے۔
"کہہ رہے تھے کہ آپ کی بیٹی طلاق یافتہ ہے، اور کوئی تو وجہ ہوگی نا طلاق کی؟" انھوں نے خود ہی بتایا۔
"تو آپ بتاتی نا وجہ کہ لڑکا غلط حرکتوں میں انولو تھا، اور ملیحہ کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کرتا تھا، ور اس کا صرف نکاح ہوا تھا رخصتی نہیں ہوئی تھی۔" اس نے گویا یاد دلایا۔
"بتایا تھا، مگر وہ نہیں مانے۔" انہوں نے یوں ہی جواب دیا۔ جس کے بعد دونوں کے بیچ خاموشی چھاگئی اور بس ٹرے میں حرکت کرتے چاولوں کی آواز ہی سنائی دینے لگی۔
"تو اب کیا ہوگا؟" اس نے ناسمجھی سے سوال اٹھایا۔
"وہ ہی جو منظورِ خدا ہوگا۔" انہوں نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
*******************************
ڈھلتی دوپہر کے سائے میں ایک سفید کار درمیانی رفتار سے روڈ پر گامزن تھی جس کی پچھلی نشست پر سیٹ سے ٹیک لگائے بیٹھی ملیحہ ابھی تک سر کی باتوں پر غور کرتے ہوئے یہ کڑیاں غضنفر سے جوڑ رہی تھی۔
پرسوں جب اس نے رفاقت کا غضنفر سے یہ تلخ برتاؤ دیکھا تھا تو اسے برا لگا تھا کہ انہیں کم از کم سب کے سامنے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔
اسے اندازہ ہو رہا تھا کہ ضرور غضنفر کی چوری جیسی اس حرکت کے ذمہ دار کہیں نا کہیں اس کے والدین بھی ہیں، کوئی تو خلا انہوں نے اپنے اور اس کے درمیان چھوڑ دیا تھا جس کی وجہ سے یہ نوبت آئی تھی۔
ابھی وہ ان ہی سوچوں میں گم تھی کہ یکدم زور دار فائر کی آواز آئی اور گاڑی ڈگمگاتے ہوئے ٹائر کی چرچراہٹ کے ساتھ رکی جس کے باعث وہ بری طرح سٹپٹا گئی۔
"کیا ہوا رحیم چاچا؟" اس نے ڈرائیور سے پوچھا۔
"پتا نہیں بیٹی!" وہ خود حیران تھے۔
تب ہی ایک بائیک آکر ان کے نزدیک رکی جس پر دو نقاب پوش آدمی سوار تھے۔ وہ دونوں بائیک سے اترے اور ان دونوں کو گاڑی سے باہر نکال لیا۔
"کیا کر رہے ہو؟ چھوڑو مجھے۔" ملیحہ نے مزاحمت کی۔ مگر روڈ سنسان ہونے کی وجہ سے وہ لوگ گھبرائے نہیں بلکہ زور زبردستی جاری رکھی۔
"پیسے اور موبائل نکال فٹافٹ۔" ایک آدمی نے ملیحہ پر گن تانی۔ جب کہ دوسرا رحیم چاچا کو نشانے پر لئے کھڑا تھا۔
"کچھ کہا ہے میں نے۔" وہ زور سے دھاڑا۔
"کیوں دوں؟ میں نہیں دے رہی۔" وہ تھوڑا سنبھل کر دوبدو ہوئی۔ تو وہ سلگ گیا۔
"ابھی بتاتا ہوں۔" اس نے کہتے ہوئے گن کا پچھلا حصہ ملیحہ کے ماتھے پر مارا جس سے وہ زمین پر جا گری اور گن لگنے کی وجہ سے سر سے تھوڑا خون نکلنے لگا۔
"چھوڑ دو بچی کو، تمھیں خدا کا واسطہ۔" رحیم چاچا نے منت کی۔
"منہ بند کرکے کھڑا رہ بڈھے۔" دوسرے آدمی نے انہیں ڈپٹا۔
وہ پہلا شخص اب خود پچھلی نشست پر جھک کر ملیحہ کا پرس تلاشنے لگا جو کہ اسے سامنے ہی پڑا مل گیا۔ جیسے ہی وہ پرس لے کر پیچھے ہٹا تو ایک دوسری کار ان کے نزدیک آکر رکی۔ اور کار سوار کو اترتا دیکھ کر دونوں نے گن کا رخ اس کی جانب کر لیا جو کہ غضنفر تھا۔جسے دیکھ کر روڈ پر گری ملیحہ بھی حیران ہوئی۔
"اوئے! آگے نہیں آنا، نہیں تو بھون کر رکھ دیں گے۔" ایک نے اسے دھمکی دی۔
"نہیں آرہا تمہارے پاس، مگر اس لڑکی کی مدد تو کرنے دو۔" غضنفر دونوں ہاتھ اوپر کیے محتاط سا چند قدم آگے آیا۔
"تجھے اتنی تکلیف کیوں ہو رہی ہے؟" اس نے درشتی سے پوچھا۔
"لگتا ہے اس کی معشوقہ ہے یہ استاد۔" پیچھے والے آدمی نے مذاق اڑایا۔ جس پر ملیحہ کو بےحد غصہ آیا۔
"کہتا تو ٹھیک ہے تو۔" اس نے بھی ہنستے ہوئے ذرا سی گردن موڑ کر اپنے ساتھ کی جانب دیکھا۔
اور عین اسی لمحے غضنفر نے برق رفتاری دیکھاتے ہوئے اس کے ہاتھ پر وار کیا اور گن اس سے چھین لی۔ وہ یکدم چونکا اور اس سے قبل کہ دوسرا ساتھی اس پر وار کرتا غضنفر نے ایک نشانہ اس کے ہاتھ پر داغہ جس کی وجہ سے اس کی گن چھوٹ کر زمین پر گر گئی اور وہ اپنا ہاتھ پکڑ کر بلبلانے لگا۔
وہ پہلے والا آدمی غضنفر کی جانب لپکا مگر غضنفر نے اس کے پیر پر گولی مارتے ہوئے اسے بھی زمین بوس کردیا جس کے باعث وہ زمین پر گرا تڑپنے لگا۔
غضنفر فٹافٹ ملیحہ کی جانب آیا اور اسے سہارا دے کر کھڑا کیا جو لمحوں میں بدلتے حالات کو دیکھ کر ششدر رہ گئی تھی۔
ابھی اس نے ملیحہ کو کھڑا کیا ہی تھا کہ یکدم فائر کی آواز کے ساتھ غضنفر کے بائیں بازو میں درد اٹھا اور خون نکلنے لگا جس کے باعث ہلکی آسمانی ٹی شرٹ کی فل آستین سرخ ہوگئی۔ دونوں جلدی سے پلٹے تو دیکھا کہ پہلے والے شخص نے اپنے ساتھی کی گن اٹھا کر اس پر حملہ کردیا تھا۔
وہ دوسرا فائر بھی کرنی کی تیاری میں تھا کہ غضنفر نے پے در پے کئی فائر اس کے ہاتھ اور پیر پر مارے جس سے وہ بری طرح تڑپنے لگا جب کہ دوسرے والے نے پہلے کا حشر دیکھ کر کچھ کرنے کی ہمت نہیں کی تھی۔
"آپ میری گاڑی میں بیٹھیں جلدی۔" غضنفر نے ایک ہاتھ سے اپنا زخمی بازو تھامتے ہوئے کہا۔
"اور آپ کی چوٹ!" وہ متفکر تھی۔
"مجھے چھوڑیں آپ بیٹھیں فٹافٹ، انکل، آپ گاڑی اسٹارٹ کیجئے۔" اس نے دونوں کو ایک ساتھ ہدایت دی جس پر انہیں عمل کرنا پڑا۔
غضنفر نے ان لوگوں کی گاڑی لاک کی، زمین پر پڑا ملیحہ کا پرس اٹھایا اور خود بھی جلدی سے آکر فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا جس کے بعد رحیم چاچا نے گاڑی آگے بڑھا دی۔ جب کہ وہ دونوں ڈاکو یوں ہی زمین پر پڑے تڑپتے رہے۔ کیونکہ ملیحہ کی گاڑی کا ٹائر ان لڑکوں کی فائرنگ سے بلاسٹ ہوگیا تھا اسی لئے اب وہ سفر کے قابل نہیں رہی تھی۔
"ہیلو پولیس اسٹیشن!" غضنفر نے کال ملا کر موبائل کان سے لگایا۔
*******************************
"گھبرانے والی بات نہیں ہے، گولی بس چھو کر گزری ہے۔" ڈاکٹر نے اسٹول پر بیٹھے غضنفر کے بازو پر پٹی کرتے ہوئے تسلی دی۔
"اور یہ زخم کب تک ٹھیک ہوجائے گا ڈاکٹر صاحب؟" نزدیک کھڑی ملیحہ نے فکرمندی سے پوچھا۔ جس کے ماتھے پر بائیں طرف سنی پلاسٹ لگا ہوا تھا۔
"معمولی سا زخم ہے کچھ روز تک ٹھیک ہوجائے گا۔" انہوں نے پیچھے ہٹتے ہوئے جواب دیا۔ اور اپنی ٹیبل کی جانب بڑھے تو یہ دونوں بھی وہیں آگئے۔
"یہ میں نے کچھ دوائیاں لکھ دی ہے، انہیں دن میں ایک بار لے لیجئے ان شاءاللہ زخم جلد بھر جائے گا۔" انہوں نے ایک پرچی پر کچھ لکھ کر غضنفر کی جانب بڑھایا۔
"اس کی ضرورت نہیں ہے، میں ایسے ہی ٹھیک ہوں۔" غضنفر نے سنجیدگی سے انکار کیا۔
"آپ کی فیس؟" ان کے کچھ کہنے سے قبل ہی اس نے اگلا سوال کیا۔
"باہر کاؤنٹر پر دے دیجئے۔" انہوں نے بتایا تو وہ اثبات میں سر ہلا کر باہر نکل گیا۔
جب کہ ڈاکٹر صاحب ہکابکا سے اسے جاتا ہوا دیکھتے رہے۔ اور یہ ہی کیفیت ملیحہ کی بھی تھی۔
"لائیں یہ مجھے دے دیں۔" تھوڑا سنبھل کر ملیحہ نے ان سے پریسکریپشن لی اور شکریہ ادا کرتی ہوئی باہر آگئی۔
غضنفر کاؤنٹر پر فیس ادا کرنے کے بعد اب باہر کی جانب جا رہا تھا تب ہی وہ بھی فوری طور پر اس کے پیچھے لپکی۔
"سنیے! مسٹر!" وہ پکارتی ہوئی اس کے پیچھے آئی تو وہ رک گیا۔
"یہ دوائی تو لے لیجئے، ورنہ زخم ٹھیک کیسے ہوگا!" اس نے پرچی کی جانب اشارہ کیا۔
"اس سے بھی زیادہ گہرے زخم اپنے سینے پر لئے گھوم رہا ہوں میں، ان معمولی زخموں سے کچھ نہیں ہوگا مجھے۔" وہ تلخی سے بولا۔
"معمولی نظر آنے والی شے درحقیقت زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔" اس نے بھی ترکی بہ ترکی فلسفہ دیا۔ وہ خاموش ہوگیا۔
"خیر چھوڑیں یہ سب، آپ نے پہچانا مجھے! میں ملیحہ ہوں، آپ کے کزن عزیر کی سالی، پرسوں ملاقات ہوئی تھی نا گھر پر آپ سے!" اس نے خود ہی موضوع بدلتے ہوئے یاد دلایا۔ تو وہ کچھ دیر اسے غور سے دیکھتا رہا۔
"اوہ ہاں یاد آیا، آپ بھی تو موجود تھیں نا تب جب میرے باپ نے مجھے سب کے سامنے ذلیل کیا تھا۔" وہ تلخ مسکراہٹ کے ساتھ بولا تو ملیحہ کی مسکراہٹ یکدم سمٹ کر غائب ہوئی۔
"نہیں میرا وہ مطلب نہیں تھا۔" اس نے شرمندہ ہوکر جلدی سے وضاحت کی۔
"آپ کا مطلب کچھ بھی ہو، بات تو وہ ہی رہے گی نا! خیر، چلیں آپ کو آپ کے گھر ڈراپ کردوں۔" اس نے کہتے ہوئے بات بدلی۔
"نہیں تھینکس! میں کیب سے چلی جاؤں گی۔" اس نے انکار کیا۔
"اب جب نیکی کر ہی لی ہے میں نے تو اسے صحیح طریقے سے کرنے دیں، چلیں میں ڈراپ کردیتا ہوں آپ کو۔" اس نے متوازن انداز میں اصرار کیا تو وہ مزید انکار نہیں کر پائی۔
*******************************
"اتنی سی بات! اتنا سب کچھ ہوگیا اور نہ جانے کیا کچھ ہوجاتا اور تم کہہ رہی ہو اتنی سی بات تھی۔" سالک صاحب حیرانی سے بولے۔
"پاپا سائیکالوجی کہتی ہے کہ جو نہیں ہوا اس کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان نہیں ہونا چاہئے۔" بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھی ملیحہ نے تسلی دینا چاہی۔ سب لوگ اس وقت ملیحہ کے کمرے میں اکھٹا تھے۔
"میں نے بتایا نا کہ غضنفر مجھے باحفاظت خود دروازے تک چھوڑ کر گیا ہے۔" وہ مزید بولی۔
"کون غضنفر؟" راضیہ نے پوچھا۔
"وہ ہی رفاقت انکل کا بیٹا۔" اس نے یاد دلایا۔
"وہ ہی جس نے چوری کی تھی اپنے گھر میں!" صبیحہ نے تائید چاہی۔
"بری بات صبیحہ۔" ملیحہ نے ٹوکا۔
*******************************
"اصلی ہیرو بننے کیلئے کس نے کہا تھا؟ جب سیٹینگ پر نقلی غنڈے بھیجے تھے تو گولیاں بھی نقلی رکھتے نا!" سلیمان صاحب نے بیڈ کے سامنے ٹہلتے ہوئے اس کی عقل پر ماتم کیا۔
"کیسی سیٹنگ؟ کون سے نقلی غنڈے؟ میں تو اپنے کام سے جا رہا تھا کہ راستے میں یہ سب ہوگیا۔" بیڈ پر بیٹھے غضنفر نے ان کے اندازے کی نفی کی۔
"کیا! وہ تمہاری پلاننگ نہیں تھی!" وہ حیران ہوتے ہوئے ایک جگہ رکے۔
"نہیں نا! میں تو ابھی تک سوچ ہی رہا تھا کہ اس تک کیسے پہنچوں اور یہ سب ہوگیا، مگر میں نے موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کوشش پوری کی ہے اس کی ہمدردی حاصل کرنی کی، اب دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے!" اس نے بتاتے ہوئے آخر میں کندھے اچکائے۔ تو وہ بھی حیران ہوتے ہوئے سوچ میں پڑگئے۔
*******************************
شام ڈھل کر رات میں تبدیل ہوگئی تھی اور رات آتے ہی سب کی پلکوں پر نیند اترنے لگی تھی مگر بیڈ پر بےچینی سے کروٹ بدلتے غضنفر کو اپنے بازو میں ہوتے درد کے باعث جب لاکھ کوششوں کا باوجود بھی نیند نہیں آئی تو وہ اٹھ بیٹھا۔ اور چند لمحے یوں ہی بیٹھے رہنے کے بعد وہ اٹھ کر کمرے سے نکل کر وہاں آگیا جہاں اسے سکون مل سکتا تھا۔ یعنی جم میں موجود قد آدم آئینے کی بائیں جانب لکھے حرف S کے پاس۔
"بہت تکلیف ہو رہی ہے، کاش تم اس وقت میرے پاس ہوتی تو بالکل ویسے ہی میرا خیال رکھتی جیسے ایکسیڈینٹ کے وقت رکھا تھا۔" وہ پھر دیوانوں کی طرح اس سے باتیں کرنے لگا۔
"خیر! ایک بار ماموں کی دی یہ ذمہ داری پوری کرلوں پھر تم تک آؤں گا، یہ مت سمجھنا کہ ان سب میں تمھیں بھول جاؤں گا میں۔" وہ دھیرے سے کہتے ہوئے اس حرف S پر یوں ہاتھ پھیرنے لگا گویا اسے پیار سے چھو رہا ہو۔
طلب اتنی کہ دل و جاں میں بسالوں تم کو
نصیب ایسا ہے کہ دیدار بھی میسر نہیں
انتخاب
*******************************
صبیحہ صوفے کی پشت پر سر ٹکائے آنکھیں موندے بیٹھی تھی تب ہی بالوں میں محسوس ہوتے لمس کے باعث وہ چونک کر سیدھی ہوئی۔
"امی آپ!" راضیہ کو دیکھ کر اس نے سکھ کی سانس لی۔
"ہاں کیوں، نہیں آسکتی کیا!" انہوں نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
"آسکتی ہیں مگر اس وقت! خیر تو ہے نا!" اس نے وضاحت کی۔
"ہاں، ملیحہ کو دیکھنے آئی تھی کہ سوگئی ہے؟ سر میں درد تو نہیں ہو رہا چوٹ کی وجہ سے، وہ تو سکون سے سو رہی ہے مگر تم کیا لیپ ٹاپ لئے لئے سوگئی، ٹھیک سے بستر پر سو۔" انہوں نے نرمی سے کہا۔ تو اس نے بھی بےساختہ ملیحہ کی جانب دیکھا جو بیڈ پر سکون سے سو رہی تھی۔
"جی بس وہ کام کرتے ہوئے آنکھ لگ گئی۔" اس نے سیدھے ہوتے ہوئے کہا اور لیپ ٹاپ آف کرنے لگی۔
"چلو آرام سے سوجاؤ، شب بخیر۔" انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ ہوئے کہا اور پھر کمرے سے باہر چلی گئیں۔
اس نے بھی لیپ ٹاپ بند کرکے اپنی جگہ پر رکھا، اپنے گلے میں موجود S والا لاکٹ اتار کر ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا اور پھر آکر ملیحہ کے برابر میں کمبل اوڑھ کر سونے کیلئے لیٹ گئی۔
*******************************
معمولی نوعیت کا ہونے کے باعث ملیحہ کے ماتھے کا زخم دو روز میں ہی قدرے بہتر ہوگیا تھا اسی لئے اب سنی پلاسٹ ہٹا دیا گیا تھا۔ البتہ نشان ضرور باقی تھا جو کہ دھیرے دھیرے مٹ جانا تھا۔
بیلو فٹنگ جینز پر وائٹ لانگ کرتی پہنے، گلے میں سترنگی اسکارف لٹکائے، آدھے بالوں کو کیچر لگائے، ملیحہ اپنے پرس کی زپ بند کرتے ہوئے کافی شاپ سے نکلنے ہی والی تھی کہ کسی سے بری طرح ٹکرا گئی۔
سنبھلنے کے بعد جب اس نے ٹکرانے والے کو دیکھا تو حیران رہ گئی۔
"ارے آپ!" وہ خوشگوار حیرت سی بولی۔
"جی، سوری آپ کو کہیں لگی تو نہیں۔" غضنفر نے جلدی سے پوچھا۔
"نہیں نہیں میں ٹھیک ہوں، اِن فیکٹ غلطی میری ہی تھی، میں بنا دیکھے چل رہی تھی۔" اس نے شرمندگی دور کرنی چاہی۔
"آپ یہاں خیریت؟" اس نے یوں ہی پوچھ لیا۔
"ہاں وہ اپنی ایک دوست سے ملنے آئی تھی، اور آپ؟" اس نے بتاتے ہوئے پوچھا۔
"میں بھی کام کے سلسلے میں ہی کسی سے ملنے آیا تھا مگر ابھی فون پر پتا چلا کہ وہ نہیں آرہا ہے، لیکن مجھے کافی کی طلب ہو رہی تھی تو سوچا اب پی لوں۔" اس نے خود ہی وضاحت کی۔
"ویسے اگر آپ چاہیں تو مجھے کمپنی دے سکتی ہیں، اس بہانے کچھ بات چیت بھی ہوجائے گی۔" غضنفر نے مہذب انداز میں پیشکش کی۔
"شیور۔" (ضرور) اس نے بھی مسکرا کر رضا مندی دی تو دونوں ایک ٹیبل کی جانب بڑھ گئے۔
درحقیقت غضنفر جان بوجھ کر ملیحہ کے پیچھے آیا تھا تا کہ اس سے بات چیت بڑھا سکے۔ اور دوسری جانب ملیحہ کو بھی اپنے سائیکالوجی کے سبجیکٹ کی وجہ سے اس میں کافی دلچسپی ہو رہی تھی اسی لئے وہ بھی باآسانی رضا مند ہوگئی۔
"آپ کے بازو کا زخم کیسا ہے اب؟" آرڈر دینے کے بعد ملیحہ نے پوچھتے ہوئے بات شروع کی۔ دونوں ایک ٹیبل کے گرد آمنے سامنے بیٹھ چکے تھے۔
"پتا نہیں، ٹھیک ہی ہوگا۔" اس نے کندھے اچکائے۔
"ہیں! یہ کیا بات ہوئی، آپ کا زخم ہے اور آپ کو ہی نہیں پتا۔" اسے تعجب ہوا۔
"ہاں، اتنے سارے زخم ہیں نا اسی لئے یاد ہی نہیں رہتا کہ کون سا ٹھیک ہو رہا ہے اور کون سا ناسور بنتا جا رہا ہے!" وہ یہاں وہاں دیکھتے ہوئے تلخی سے بولا۔
"ناسور وہ ہی زخم بنتے ہیں جن کا علاج نہ کرتے ہوئے انہیں سڑنے کیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔" اس نے بھی آہستہ سے کہا۔
"لیکن جب کوئی علاج کرنے والا ہی نہ ہو تو!" اس نے سوال کیا۔
"تو خود اپنا معالج بن جانا چاہئے، کیونکہ جتنا خیال ہم خود سے خود کا رکھ سکتے ہیں کوئی اور نہیں رکھ سکتا۔" اس نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ وہ اسے دیکھنے لگا۔
"آپ نے وہ کہاوت سنی ہے، جس تن نوں لگدی او تن جانے؟" غضنفر نے اس بات کی مناسبت سے کوئی جواب دینے کے بجائے الٹی تائید چاہی۔
"جی، اس کا مطلب ہے جس پر گزرتی ہے وہ ہی جانتا ہے۔" اس نے تائید کرتے ہوئے مزید ٹکڑا لگایا۔
"بس وہ ہی حال ہے میرا بھی، جو آپ نہیں سمجھیں گی۔" وہ نظریں جھکائے ٹیبل پر انگلی پھیرنے لگا۔ اور وہ بغور اسے دیکھنے لگی۔
گرے جینز پر بلیک ٹی شرٹ پہنے، سلیقے سے بنے بالوں اور شیو کے سنگ کھڑے نین نقش والا یہ سنجیدہ سا انسان اسے اندر سے بہت اداس لگا۔
اس سے قبل کہ وہ کچھ کہتی ویٹر ان کا آرڈر لے آیا۔ اور دونوں کے کپ ان کے سامنے ٹیبل پر رکھ کر ادب سے واپس چلا گیا۔
"آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ میں نہیں سمجھ سکتی، مگر آپ تو سمجھ سکتے ہیں نا! سوری ٹو سے (معذرت کے ساتھ) مگر آپ کے گھر والوں کی زبانی ہمیں آپ کے بارے میں پتا چلا ہے، جسے سن کر افسوس ہوا، لیکن جو گزر گیا ہے اسے دل سے لگائے رکھنا بھلا کہاں کی عقل مندی ہے؟ آپ سب کچھ بھلا کر ایک نئی زندگی کیوں نہیں شروع کرتے؟" اس نے تحمل سے سمجھانا چاہا۔
"کیسے اور کس کے ساتھ شروع کروں نئی زندگی؟ سب تو میرا ماضی سنتے ہی پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔" اس نے یکدم سر اٹھا کر تلخی سے کہا۔
"سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے۔" اس نے قائل کرنا چاہا۔
"اچھا! اگر ایسی بات ہے تو کیا آپ کریں گی مجھ سے شادی؟ بھیجوں میں اپنا رشتہ آپ کے گھر؟" اس نے براہ راست اس کی آنکھوں میں دیکھتے اچانک ہی سوال کیا۔
"کیا!" وہ بری طرح سٹپٹا گئی۔ اسے بالکل بھی توقع نہیں تھی کہ دوسری ملاقات میں ہی وہ ایسی کوئی بات کردے گا۔
"کیا ہوا؟ بس! خود پر بات آتے ہی گھبرا گئی!" اس نے تلخی سے مسکراتے ہوئے طنز مارا۔
"نہیں۔۔۔ایسی بات نہیں ہے۔" اس نے سنبھل کر کہا۔ درحقیقت اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ابھی کیا رد عمل دے؟
"ایسی ہی بات ہے، آپ جیسے لوگ ہوتے ہیں جو پہلے ہم جیسے لوگوں کے ساتھ نرمی کرتے ہیں، اپنے ہونے کا احساس دلاتے ہیں، بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں اور پھر اچانک پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔" اس نے اس قدر تلخی سے کہا کہ وہ چند لمحوں کیلئے واقعی خود کو مجرم محسوس کرتے ہوئے لاجواب ہوگئی۔
کتنے سلجھے ہوئے طریقے سے
تم نے الجھا کے رکھ دیا مجھے
انتخاب
*******************************
"یہ ایک مہینہ بھی پلک جھپکتے ہی گزر جائے گا بیگم، اسی لئے کہہ رہا ہوں کہ جتنی جلدی زیادہ سے زیادہ کام نمٹا لیا جائے اتنا بہتر ہے۔" صوفے پر بیٹھے سالک صاحب نے کسی فائل کا مطالعہ کرتے ہوئے کہا۔
"کر تو رہے ہیں، اب شادی والے گھر میں ہزاروں کام نکلتے ہی ہیں۔" راضیہ نے تہہ شدہ کپڑے الماری میں رکھتے ہوئے جواب دیا۔
"دلی مراد تھی میری کہ دونوں بہنیں ایک ساتھ اپنے گھر کی ہوجائیں، لیکن ایسا ہوا نہیں۔" وہ الماری بند کرتے ہوئے افسوس سے بولیں۔
"ارے بےفکر رہیں، ان شاءاللہ ہماری ملیحہ کے حق میں بھی سب اچھا ہی ہوگا۔" انہوں نے پر یقین انداز میں تسلی دی۔
"امین!" وہ دل سے بولیں۔
*******************************
"بالکل بھی نہیں، اب بس کچھ ہی دن رہ گئے ہیں شادی میں، اور امی نے کہا ہے کہ اب بس شادی کے بعد ہی گھومنا پھرنا۔" ہاسپٹل کے کاریڈور سے گزرتی صبیحہ نے صاف انکار کیا۔
"ارے یار صرف ایک گھنٹے کی ہی تو بات ہے۔" دوسری جانب سے اپنی آفس چیئر پر جھولتے عزیر نے اصرار کیا۔
"ایک گھنٹے کی نہیں بلکہ ایک مہینے کی بات ہے، پھر لے چلنا جہاں دل چاہے، لیکن تب تک صبر کرو۔" اس نے تلقین کی۔
"یار!" وہ نروٹھےپن سے بولا۔
"کوئی یار ویار نہیں، چلو اب فون رکھو مجھے میرے سینئر ڈاکٹر کا بلاوا آیا ہے۔" صبیحہ نے بات سمیٹی۔
*******************************
"میں نے تیر پھینکا تو ہے اب وہ نشانے پر لگا ہے یا نہیں؟ کچھ کہہ نہیں سکتے۔" غضنفر نے کھانا کھاتے ہوئے کندھے اچکائے۔
"میں ایک بات سوچ رہا ہوں غضنفر۔" سلیمان نے کھانا کھاتا ہاتھ روک کر کہا۔
"وہ کیا؟" اس نے نوالہ چباتے ہوئے جاننا چاہا۔ دونوں ڈنر کے ارادہ سے اس وقت ڈائینگ ٹیبل کے گرد اکھٹا تھے۔
"میں کل سالک کے گھر جاتا ہوں تمہارا رشتہ لے کر ملیحہ کیلئے۔" انہوں نے اپنا ارادہ بتایا تو اس نے چونک کر ان کی جانب دیکھا۔
"کیا! اتنی جلدی! آج ہی تو میں نے شادی کا ذکر چھیڑا ہے، اور کل رشتہ!" وہ سخت حیران تھا۔
"بعد میں بھی تو بات کرنی ہی ہے نا!" انہوں نے دھیان دلایا۔
"ہاں لیکن تب فرق ہوگا، تب تک میں ملیحہ کی تھوڑی مزید برین واشنگ کرلوں گا۔" اس نے وضاحت کی۔
"ان سب میں بہت وقت لگ رہا ہے غضنفر، اور میں چاہ رہا ہوں کہ سب جلد از جلد ہو اور وہ زمین میرے قبضے میں آئے۔" ان کے انداز میں ایک عجیب سا اضطراب، انوکھی سی بےصبری تھی جس کے پیش نظر غضنفر نے مزید ضد بحث نہیں کی۔
*******************************
آسمان پر چاند تو نہیں تھا مگر ننھے ننھے بےشمار تارے ٹمٹماتے ہوئے آنکھوں کو بہت بھلے لگ رہے تھے جنہیں دونوں بازو سینے پر باندھے، گیلری میں کھڑی ملیحہ بےدھیانی سے دیکھنے میں مصروف تھی۔
کبھی کبھی کوئی شرارتی ہوا کا جھونکا اسے چھو کر گزرتا تو اس کے کھلے بال چہرے پر آجاتے جنہیں وہ واپس پیچھے کرلیتی۔
درحقیقت وہ ابھی تک آج شام میں غضنفر سے ہونے والی ملاقات کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ اس کی باتیں اس کیلئے بہت حیران کن اور غیر متوقع تھیں۔
"کیا آپ کریں گی مجھ سے شادی؟ بھیجوں میں اپنا رشتہ آپ کے گھر؟" اس نے براہ راست اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اچانک ہی سوال کیا تھا اور وہ دنگ رہ گئی تھی۔
کہنے کو یہ ان کی دوسری تفصیلی ملاقات تھی اور دونوں ایک دوسرے کے بارے میں سوائے سرسری باتوں کے اور کچھ نہیں جانتے تھے مگر اس نے کس بےباکی سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے یہ پیشکش کی تھی کہ وہ حیران رہ گئی تھی اور ابھی تک تھی۔
"اگر کسی کے ساتھ ایسا ہوجائے، پھر اس کے والدین اس کے ساتھ کافی برا سلوک کریں، یہاں تک کہ گھر سے نکال دیں، وہ شخص بدمزاج ہوکر ان سے بدظن ہوچکا ہو تو پھر ایسے شخص کے ساتھ کیا کرنا چاہئے؟" اسے اپنا پوچھا گیا سوال یاد آیا۔
"محبت!" انہوں مسکراتے ہوئے ایک لفظی جواب دیا تھا۔ اور یہ جواب اتنا مکمل اور پر یقین تھا کہ وہ مزید کوئی سوال نہیں کر پائی تھی۔
"نام کیا ہے اس کا؟" کسی نے سوال کیا۔
"غضنفر!" اس نے کھوئے ہوئے انداز میں ہی جواب دیا۔
اور پھر یکدم ملیحہ نے چونک کر گردن موڑی تو صبیحہ کو پاس کھڑا پایا جس کے سوال کا وہ بےدھیانی میں جواب دے چکی تھی۔
"نام تو کلاس کا ہے۔" اس نے شرارت سے تعریف کی۔
"کس کا؟" وہ گڑبڑائی۔
"اسی کا جس کے خیالوں میں تم گم تھی۔" اس نے شوخی سے اپنا کندھا اسے مارا۔
"ایسا کچھ نہیں ہے۔" اس نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔
"ہاں کچھ نہیں ہے، بلکہ بہت کچھ ہے، چلو اب جلدی سے بتاؤ اچھے بچوں کی طرح۔" وہ بھی اپنی بات پر قائم تھی۔
ملیحہ پہلے چند لمحے اسے یوں ہی دیکھتی رہی گویا شش و پنج کا شکار ہو کہ کیا کرے اور کیا نہیں؟
"ادھر آؤ!" اچانک ملیحہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے وہاں موجود لکڑی کے جھولے کی جانب لے آئی۔
"بیٹھو یہاں۔" اسے کہہ کر وہ خود بھی بیٹھ گئی۔
"لو بیٹھ گئی، اب بتاؤ۔" صبیحہ ہمہ تن گوش تھی۔
"یار وہ جو عزیر کا کزن ہے نا غضنفر وہ۔۔۔۔۔۔۔۔"
ملیحہ نے یاد دلاتے ہوئے آہستہ آہستہ بتانا شروع کیا اور پھر آغاز سے اختتام تک سب کچھ من و عن اسے بتا دیا جسے وہ خاموشی سے بغور سنتی رہی۔ اور گفتگو کی شروعات میں صبیحہ کے چہرے پر جو ایک شرارتی سا تاثر تھا ساتھ ہی ساتھ وہ بھی سنجیدگی میں بدل گیا۔
"اب میں شام سے اسی بات کو لے کر الجھن میں ہوں کہ یہ ہوا کیا ہے؟ اس نے کیسے مجھے دوسری ہی ملاقات میں شادی کی آفر کردی؟ اور مجھے یہ پرپوزل ایکسیپٹ کرنا چاہئے بھی یا نہیں؟" ساری بات بتا کر اس نے آخر میں اپنی الجھن بیان کی۔
"غضنفر نے تمھیں ایسا کہا؟" اب وہ بھی حیران تھی۔
"ہاں۔" اس نے اثبات میں سرہلایا۔
"لیکن یار فیملی میں تو اس کی ریپیوٹیشن بہت خراب ہے، عزیر نے بتایا ہے مجھے اس کے بارے میں۔" اسے تھوڑی فکر ہوئی۔
"یہ ہی تو میں بھی سوچ رہی ہوں، اس کے اپنے گھر والے اس سے ملنا نہیں چاہتے، وہ خود بھی بہت روڈ اور مغرور سا بندا لگتا ہے، ایسے میں شادی کا پرپوزل!" وہ پر سوچ انداز میں بولی۔
"ہوسکتا ہے اس نے تمہارے لیکچر سے تنگ آکر طنز میں یہ بات کہہ دی ہو!" صبیحہ نے اندازہ لگایا تو وہ خفگی سے اسے گھورنے لگی۔
"خیر جو بھی ہو، تمھیں کون سا اس سے شادی کرنی ہے؟ ہم تمہاری شادی کسی شریف اور عزت دار شخص سے کریں گے، غضنفر جیسے کسی آوارہ بدمعاش سے نہیں، لہٰذا تم بھی خواہ مخواہ اس کے بارے میں اتنا مت سوچو، اور اگر وہ دوبارہ اس بارے میں بات کرے تو صاف منع کر دینا۔" صبیحہ نے خود ہی سر جھٹک کر بات سمیٹتے ہوئے تاكید کی۔
وہ پر سوچ انداز میں محض سر ہلانے لگی۔
کہنے کو دونوں ایک ہی ماں باپ سے جنمی سگی بہنیں تھیں، ایک ہی ماحول میں پلی بڑی تھیں مگر دونوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔
صبیحہ بہت ہی صاف گو اور حساب برابر کردینے والے لوگوں میں سے تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ دل کی بری تھی، بس اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی تھی کہ اگلا اس کے بارے میں کیا سوچتا ہے یا اس کی بات کسی پر کیا اثر کرسکتی ہے؟
اس کے برعکس ملیحہ بہت ہی نرم طبیعت کی ہنس مکھ لڑکی تھی جو ہمیشہ دوسروں کو سمجھنے کیلئے کوشاں رہتی تھی اور اسی لئے اس وقت بھی غضنفر کے حوالے سے سوچ میں پڑگئی تھی۔
*******************************
رات ڈھلی تو پھر ایک نیا دن نکل آیا تھا اور آدھا گزر بھی گیا تھا۔ جب کہ معمول کے کام کاج و افراتفری بھی یوں ہی جاری و ساری تھی۔
"عبید! تمہارا دوست آیا ہے، مل لو۔" صالحہ نے ہال میں رہ کر ہی بلند آواز سے پکارا۔
"تم یہیں رکو وہ آتا ہوگا۔" انہوں نے کہا تو اس لڑکے نے فرمابرداری سے اثبات میں سر ہلایا جس کے بعد صالحہ کچن کی جانب چلی گئیں۔ اور وہ وہیں کھڑا رہا۔
"السلام علیکم دادی! کیسی طبیعت ہے آپ کی؟" وقت گزاری کیلئے وہ لڑکا مہذب میں وہیں ہال کے صوفے پر بیٹھی ٹی وی دیکھتی دردانہ سے مخاطب ہوا۔
"وعلیکم السلام! پچھلے کچھ دنوں سے گھٹنوں کا درد بہت بڑھ گیا، کھانستے ہوئے اکثر بلغم بھی آجاتا ہے، اور کل سے قبض بھی ہو رہی ہے، اب بتائیں ڈاکٹر صاحب کوئی علاج۔" وہ جواب دیتے ہوئے بےتکلفی سے بولیں تو وہ بری طرح جھینپ گیا۔
"ارے تم یہاں!" تب ہی عبید کہتا ہوا اس کی طرف آیا۔ تو اس لڑکے نے دل میں شکر ادا کیا۔
"ہاں تم یونی کیوں نہیں آئے آج؟" اس نے سوال کیا۔
"بس ایسے ہی یار، دل نہیں چاہ رہا تھا، اور میں کل بھی نہ آؤں شاید۔" عبید نے بےزاری سے جواب دیا۔
"اچھا! خیر تمہارے پاس میرا ایک جنرل ہے، پلیز وہ دے دو، اس میں کچھ ضروری نوٹس ہیں۔" وہ سیدھا اصل مدعے پر آیا۔
"اچھا تم رکو، میں ابھی لے کر آتا ہوں۔" وہ کہہ کر واپس اندر چلا گیا جب کہ وہ یوں ہی کھڑا رہا۔ اور اس مرتبہ اس نے دردانہ کو مخاطب کرنے کی غلطی نہیں کی۔
وہ یوں ہی منتظر کھڑا تھا کہ پینٹ کی جیب میں موجود اس کا موبائل گنگنا اٹھا جس پر موصول ہوتی کال یس کرتے ہوئے وہ باہر چلا گیا۔
تھوڑی دیر بعد عبید ہاتھ میں ایک جنرل لئے واپس آیا تو اسے غیر حاضر دیکھ کر ٹھٹکا۔
"دادی! مان گیا؟" وہ ان کی جانب متوجہ ہوا۔
"کون ناراض تھا جو مان گیا؟" انہوں نے ناسمجھی سے الٹا سوال کیا۔
"ارے وہ والا مان نہیں، یہ مان جو یہاں کھڑا تھا کہاں گیا؟" اس نے وضاحت کرتے ہوئے پوچھا۔
"پتا نہیں! دیکھو کہیں ٹوٹ کر بکھر تو نہیں گیا؟" انہوں کہتے ہوئے گردن اچکا کر زمین پر دیکھا۔
"آپ بھی نا دادی!" وہ انہیں خفگی سے گھور کر باہر کی جانب بڑھ گیا۔
*******************************
"بس اب جلدی سے چائے بنوادیں بڑی شدت سے طلب ہوتی ہے شام کے وقت چائے کی۔" ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے سالک صاحب نے اپنی ٹائی کھولتے ہوئے تھکے انداز میں فرمائش کی۔
"آپ فریش ہوکر آئیں تب تک چائے بھی ریڈی ہوچکی ہوگی۔" راضیہ نے کوئی کتاب سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے بیڈ پر سے اٹھ کر کہا۔ کہ تب ہی دروازے پر دستک ہوئی۔
"آجاؤ!" سالک نے اجازت دی۔
"صاحب وہ باہر کوئی سلیمان صاحب آئے ہیں آپ لوگوں سے ملنے۔" دروازہ کھولنے کے بعد ملازمہ نے ادب سے اطلاع دی۔ جس پر دونوں چونک کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
*******************************
"جلدی کہو جو بھی بات ہے۔" سالک صاحب کے لہجے میں سرد مہری واضح تھی۔ جب کہ ان کے برابر بیٹھی راضیہ بھی سنجیدہ تاثر کے ساتھ خاموش تھیں۔
"ٹھیک ہے، تو میں سیدھا مدعے پر آتا ہوں۔" مقابل والے صوفے پر بیٹھے سلیمان نے گویا تہمید باندھنے کا ارادہ ملتوی کیا۔ جن کے برابر میں رنگیلا ادب سے ایک چمکیلا ٹوکرا ہاتھ میں لئے کھڑا تھا۔
"بات دراصل یہ ہے کہ میں آپ کی بیٹی ملیحہ کا ہاتھ مانگنے آیا ہوں، اپنے بھانجے غضنفر کیلئے۔" انہوں نے سیدھا اصل بات بتائی تو یہ دونوں دنگ رہ گئے۔
"کیا؟" وہ حیرت سے بولے۔
"ہاں، غضنفر پسند کرتا ہے آپ کی بیٹی کو، اسی لئے میں چاہتا ہوں کہ ہم آپس میں باقاعدہ رشتے داری قائم کرلیں، رنگیلا!" انہوں نے مزید کہتے ہوئے رنگیلا کو اشارہ کیا تو اس نے فوراً آگے بڑھ کر ہاتھ میں پکڑا میٹھائی کا ٹوکرا بیچ میں موجود کانچ کی میز پر رکھ دیا اور واپس اپنی جگہ پر کھڑا ہوگیا۔
"مجھے امید ہے کہ آپ لوگ انکار نہیں کریں گے۔" وہ کافی پرامید تھے۔
"تم نے سوچا بھی کیسے کہ میں تمہارے اس آوارہ بھانجے کے ہاتھ میں اپنی بیٹی کا ہاتھ دے دوں گا!" وہ بری طرح برہم ہوئے۔
"یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ غضنفر ایسا تو نہیں ہے، ماشاءاللہ سے اچھا خاصا شوروم ہے ہمارا جسے وہ پوری ذمہ داری سے سنبھالتا ہے، کسی غلط لت میں مبتلا نہیں ہے۔" انہوں نے اس کا دفاع کیا۔
"اور اپنے ہی گھر میں اس کی چوری جیسی گری ہوئی حرکت بھول گئے!" انہوں نے چبھتا ہوا طنز کیا۔
"وہ سب ایک غلط فہمی تھی۔" انہوں نے صفائی دینی چاہی۔
"کچھ بھی ہو، میں کسی صورت اپنی بیٹی کا رشتہ اس سے نہیں کروں گا، اب تم جاؤ یہاں سے۔" انہوں نے صاف صاف انکار کرکے باہر کا راستہ دکھایا۔
"لیکن تحمل سے میری بات تو سنیں، بھابھی آپ سمجھائیے انہیں۔" وہ راضیہ سے بولیں۔
"مجھے کچھ نہیں کہنا سننا، تم ابھی کہ ابھی نکل جاؤ یہاں سے اور ساتھ اپنی یہ میٹھائی بھی لے کر جاؤ۔" وہ بلند آواز سے کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ تو وہ دونوں بھی اپنی جگہ پر سے اٹھے۔
"یہ آپ ٹھیک نہیں کر رہے ہیں حمدانی صاحب۔" انہوں نے دبا دبا احتجاج کیا۔
"مجھے صحیح، غلط سیکھانے کے بجائے، اپنے اس بھانجے کو سیکھاؤ جو چوری جیسی حرکت کے بعد اپنے گھر سے در گور ہو کر تمہارے گھر پر پڑا ہوا ہے، میں اپنی بیٹی کی شادی کسی شریف عزت دار شخص سے کروں گا، تمہارے بھانجے کے جیسے کسی آوارہ بدمعاش سے نہیں۔" وہ لحاظ مروت کا دامن بالکل چھوڑ چکے تھے۔ جب کہ سلیمان نے بمشکل ضبط کرتے ہوئے اپنے لب بھینچے۔
ان لوگوں کی قدرے بلند آواز سن کر ملیحہ بھی تشویش کے مارے ڈرائینگ روم میں آگئی تھی اور ایک اجنبی پر اپنے باپ کو یوں برہم ہوتا دیکھ کر تعجب کا شکار تھی۔
"اے تم! اٹھاؤ یہ اور نکلو یہاں سے۔" سالک صاحب نے چٹکی بجاتے ہوئے رنگیلا کو مخاطب کرکے ٹوکرے کی جانب اشارہ کیا۔
اس نے ناسمجھی سے سلیمان کی جانب دیکھا جو ایک ضبط کرتی نظر سالک پر ڈال کر بڑے بڑے قدم اٹھاتے باہر نکل گئے۔ تو اس نے بھی آگے بڑھ کر جلدی سے ٹوکرا اٹھایا اور فوراً ان کے پیچھے لپکا۔
ان کے جانے کے بعد سالک صاحب گہری سانسیں لینے لگے گویا خود کو نارمل کر رہے ہوں۔ راضیہ تو ہنوز خاموش ہی تھی جب کہ ملیحہ بھی ناسمجھی سے سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ یہ کیا ہوا ہے یہاں؟
*******************************
"ریڈ!"
"پنک!"
"ریڈ!"
"پنک!"
"ریڈ!"
"پنک!"
"دلہن میں ہوں اسی لئے میں اپنی مرضی کا پنک لہنگا پہنوں گی بس۔" صبیحہ نے فیصلہ سنایا۔
"تم میری دلہن ہو اسی لئے میری مرضی سے ریڈ لہنگا پہنو گی بس۔" دوسری جانب سے عزیر بھی ترکی بہ ترکی بولا۔ دونوں کے مابین فون پر اس وقت لہنگے کے رنگ کو لے کر بحث و تکرار جاری تھی۔
"یار شادی کون سا روز روز ہوتی ہے، پہن لو نا ریڈ لہنگا۔" اب اس نے اپنی آفس چیئر پر جھولتے ہوئے لاڈ سے فرمائش کی۔
"یہ ہی تو میں بھی کہہ رہی ہوں کہ شادی ایک بار ہی ہوتی ہے اور میں اس پر اپنے سارے ارمان پورے کروں گی ورنہ پھر میں شادی ہی نہیں کروں گی۔" ایک فائل ہاتھ میں لئے، سینے سے لگائے صبیحہ، ہلکے آسمانی سوٹ پر سفید کوٹ پہنے ہسپتال کے کوریڈور سے گزرتے ہوئے بولی۔
"مطلب تمھیں مجھ سے زیادہ پنک لہنگا عزیز ہے؟" وہ مصنوعی صدمے میں ڈوبی حیرانی کے باعث چیئر پر سیدھا ہوا۔
"ہاں!" اس نے بھی تنگ کرنے کو جھٹ سے جواب دیا۔
"یار صبیحہ!" وہ نروٹھے پن سے بولا۔
تب ہی صبیحہ کے فون پر "ٹوں ٹوں" کی آواز آنے لگی۔ اس نے موبائل کان سے ہٹا کر دیکھا تو ملیحہ کی کال آرہی تھی۔
"عزیر ملیحہ کی کال آرہی ہے، میں تمھیں تھوڑی دیر تک کال بیک کرتی ہوں۔" اس نے موبائل دوبارہ کان سے لگاتے ہوئے عجلت میں اطلاع دی اور پھر ملیحہ کی کال ریسیو کی جب کہ دوسری جانب وہ "ہیلو ہیلو" بول کر رہ گیا۔
"ہاں ملیحہ بولو!"
"صبیحہ وہ آئے تھے۔" دوسری جانب سے اس کی پریشان آواز آئی۔
"وہ کون؟" وہ سمجھی نہیں۔
"غضنفر کے ماموں۔"
"وہ کیا کرنے آئے تھے۔"
"میرا ہاتھ مانگنے آئے تھے غضنفر کیلئے۔" یہ اطلاع بم کی مانند اس پر گری۔
"کیا!" وہ حیران ہوتے ہوئے ایک جگہ ساکت ہوگئی۔
"تو پھر امی پاپا نے کیا کہا؟" اس نے فوری طور پر سوال کیا۔
*******************************
"وہ بہت بدتمیزی سے بات کر رہے تھے صاحب سے، ٹھیک طرح ان کی بات سنی ہی نہیں، آپ کو بھی بہت برا بھلا کہا، میٹھائی بھی نہیں لی اور زبردستی ہمیں چلتا کردیا۔" رنگیلا فرمابرداروں کی طرح غضنفر کو ایک ایک بات بتا رہا تھا۔ جب کہ ہر بات کے ساتھ پنچنگ بیگ پر غضنفر کے مکے تیز تر ہوتے جا رہے تھے۔
"وہ تو ان کی ملازمہ ہمیں ڈرائینگ روم میں لے آئی تھی ورنہ جتنے غصے میں وہ صاحب تھے وہ تو ہمیں اندر بھی نہ گھسنے دیتے۔" وہ مزید بولا۔ اب غضنفر کے ماتھے سے پسینہ ٹپکنا شروع ہوگیا تھا۔
"وہ کہتے ہیں کہ اپنی بیٹی کی شادی کسی شریف عزت دار شخص سے کریں گے، آپ کے جیسے۔۔۔۔۔۔۔" وہ کہتے ہوئے جھجھک کے مارے رکا۔
"میرے جیسے کیا؟" غضنفر یکدم پلٹ کر حلق کے بل دھاڑا تو وہ بری طرح ہل گیا۔
"آپ کے جیسے کسی آوارہ بدمعاش سے نہیں۔" اس نے جلدی سے بات مکمل کی۔
اس نے بےساختہ سختی سے جبڑے بھینچ لئے جس سے اس کی کنپٹی کی رگیں تن گئیں۔
"بدمعاشی کیا ہوتی ہے، یہ اب میں بتاؤں گا اس حمدانی کو۔" اس نے خودکلامی کرتے ہوئے ایک آخری مگر زور دار مکا پنچنگ بیگ پر رسید کیا۔
*******************************
پچھلی قسط کی جھلک 👇
"وہ کہتے ہیں کہ اپنی بیٹی کی شادی کسی شریف عزت دار شخص سے کریں گے، آپ کے جیسے۔۔۔۔۔۔۔" وہ کہتے ہوئے جھجھک کے مارے رکا۔
"میرے جیسے کیا؟" غضنفر یکدم پلٹ کر حلق کے بل دھاڑا تو وہ بری طرح ہل گیا۔
"آپ کے جیسے کسی آوارہ بدمعاش سے نہیں۔" اس نے جلدی سے بات مکمل کی۔
اس نے بےساختہ سختی سے جبڑے بھینچ لئے جس سے اس کی کنپٹی کی رگیں تن گئیں۔
"بدمعاشی کیا ہوتی ہے، یہ اب میں بتاؤں گا اس حمدانی کو۔" اس نے خودکلامی کرتے ہوئے ایک آخری مگر زور دار مکا پنچنگ بیگ پر رسید کیا۔
اب آگے 👇
*******************************
"بالکل ٹھیک کیا پاپا نے۔" ساری بات سن کر آخر میں صبیحہ اطمینان سے بولی۔
"کیا!" ملیحہ کو شاک لگا۔
دونوں اس وقت اپنے بیڈ پر آمنے سامنے بیٹھی ہوئی تھیں۔ اور ملیحہ اسے آج شام پیش آنے والا واقعہ تفصیل سے بتا رہی تھی۔
"ہاں، آخر کیا سوچ کر وہ اس آوارہ کا رشتے لے کر آئے تھے!" وہ اپنی منہ پھٹ طبیعت سے مجبور ہوکر اسی انداز میں مزید بولی۔
"بری بات ہے صبیحہ، بنا سچائی جانے ہمیں کسی کے بارے میں بھی رائے قائم کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔" اسے یہ رویہ پسند نہیں آیا تھا اسی لئے اس نے ٹوکا۔
"اب کون سی سچائی جاننی ہے تمھیں؟ عزیر اور اس کے گھر والوں نے تفصیل بتائی تو ہے ساری کہ وہ ہمیشہ سے کتنا نالائق رہا ہے اور پھر وہ چوری والی حرکت کوئی چھوٹی بات ہے کیا!" اس نے بھی سب یاد دلایا۔
"جو ان لوگوں نے بتایا وہ یک طرفہ کہانی تھی، جب کہ کہانی کا دوسرا رخ ہم نہیں جانتے۔" وہ حجت کرنے لگی۔
"سائیکالوجی کے مطابق ہر شخص کے ہر اقدام کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے، اگر ایک شخص کوئی جرم کر بیٹھا ہے تو یہ لازم ہے کہ پہلے اس جرم کی وجہ تلاشی جائے۔" اس نے دلیل دینی چاہی۔
"ملیحہ پلیز! یہ سائیکالوجی پڑھ پڑھ کر خود بھی سائیکو ہوگئی ہو تم، خدا کیلئے چھوڑ دو اس ٹاپک کا پیچھا اور سو جاؤ سکون سے۔" صبیحہ نے یکدم اکتا کر بات سمیٹی تو وہ مزید کچھ نہ کہہ پائی۔ بس سوچ کر رہ گئی۔
*******************************
"تین ہفتے رہ گئے ہیں شادی میں، اب تو آفس سے چھٹی کرکے تیاریوں تھوڑا ہاتھ بٹا دیں شفاعت۔" شاہانہ نے پھر وہ ہی موضوع چھیڑ دیا۔
"میں کیا کروں؟" انہوں نے سلائس پر مکھن لگاتا ہاتھ روک کر تعجب سے پوچھا۔ سب لوگ اس وقت ناشتے کی نیت سے ڈائینگ ٹیبل کے گرد اکھٹا تھے۔
"میرے رشتے داروں کے گھر کارڈ دینے جانا ہے، کچھ جیولری خریدنی ہے، اور بھی دس کام ہیں۔" انہوں گنوایا۔
"یہ تو تم بھی کرسکتی ہو، صالحہ بھابھی کے ساتھ چلی جاؤ شاپنگ پر اور کارڈ اماں بی کے ساتھ جا کر دے آنا۔" انہوں نے آرام سے حل پیش کیا۔
"بری بات ہے شفاعت، گھر کی پہلی شادی ہے، تھوڑا تم بھی دھیان دے لو، آخر کو تمہارا بھی بیٹا ہے یہ۔" دردانہ نے رسان سے مداخلت کی۔
"اور نہیں تو کیا، اپنے بیٹے کی شادی پر سب ارمان پورے کرنا چاہتی ہوں میں، جس میں آپ کو بھی میرا ساتھ دینا ہوگا، میں نہیں چاہتی کہ لوگوں کی نظریں کوئی بدمزگی پیدا کریں۔" انہوں نے بظاہر عام سے انداز میں کہا تھا۔ مگر ان کے لہجے میں چھپا پوشیدہ طنز سب بھانپ گئے تھے۔ زوہا نے تو باقاعدہ ناگواری سے ان کو دیکھا تھا۔
"ایسا کرو، کل تم چھٹی کرلینا شفاعت، آفس کے معاملات میں دیکھ لوں گا۔" رفاقت نے کہتے ہوئے موضوع بدلا۔
"اور امی میری شاپنگ کیلئے کب پیسے دیں گی آپ؟" عبید نے ایک آس سے پوچھا۔
"شادی کے بعد۔" عزیر نے تنگ کرتے ہوئے جواب دیا۔
*******************************
"سب کچھ نارمل ہے، مگر وہ خود کسی سے بات نہیں کرنا چاہ رہی ہیں۔" سمیرا ملیحہ سے باتیں کرتے ہوئے اس کے ہمراہ فاؤنڈیشن سے باہر آگئی تھی۔
"ہاں تو کوئی وجہ تو ہوگی نہ ان کے بات نہ کرنے کی!" ملیحہ نے سوال اٹھایا۔
"وہ وجہ ہی تو اب تک پتا نہیں چلی ہے۔" اس نے لاعلمی سے کندھے اچکائے۔
"کوئی بات نہیں، مل جائے گی وجہ بھی، چلو اب میں چلتی ہوں کلاس کا ٹائم ہونے والا ہے۔" ملیحہ نے بات سمیٹی۔
"ہاں ضرور، اللہ حافظ۔" سمیرا کہہ کر واپس اندر چلی گئی۔
جب کہ ملیحہ ذرا فاصلے پر پارک کار کی جانب آئی۔ جس کی ڈرائیونگ سیٹ پر رحیم چاچا اس کا انتظار کر رہے تھے۔
"چلیے چاچا۔" اس نے پچھلی نشست پر بیٹھتے ہوئے کہا تو گاڑی آگے بڑھ گئی۔
وہ انسٹیٹیوٹ جانے سے قبل ایک بار پھر یہاں ان ہی خاتون سے ملنے آئی تھی۔ مگر آج بھی کوئی خاص بات نہیں معلوم ہوسکی۔
گاڑی جیسے ہی ایک سنسان روڈ پر مڑی تو اچانک ایک سیاہ کار آکر عین ان کی گاڑی کے سامنے رکی جس کے باعث انہوں جلدی سے بریک لگایا۔
ملیحہ بھی حیران پریشان سی ابھی سب سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ گاڑی میں سے دو نقاب پوش افراد باہر نکل کر اس کی طرف آئے اور اسے زبردستی کار سے نکال کر لے جانے لگے جس کی اس نے پر زور مزاحمت کی جو کہ بےسدھ رہی۔
رحیم چاچا کی کمزور سی مداخلت بھی کسی کام نہ آئی اور وہ دونوں لوگ ملیحہ کو اپنی گاڑی میں بیٹھانے کی کوشش میں کامیاب ہوگئے۔
"چھوڑو مجھے، کون ہو تم لو۔۔۔۔۔۔!"
وہ گاڑی سے نکلنے کی جدوجہد کرنے ہی لگی تھی کہ ایک آدمی نے اس کے منہ پر کیلورفارم میں تر رومال رکھ دیا جس کے باعث تھوڑی دیر مزاحمت کرنے کے بعد وہ ہوش و حواس سے بیگانی ہوگئی۔
*******************************
زوہا نے کچن میں بری طرح اٹھا پٹخ مچا رکھی تھی جو کہ درحقیقت شاہانہ کی باتوں پر آنے والا وہ غصہ تھا جو اب ان بیچارے برتنوں پر اتر رہا تھا۔
"کیوں اتنا شور مچا رکھا ہے تم نے؟" صالحہ نے کچن میں آتے ہوئے ٹوکا۔
"شور مچانے سے باز رکھنے کی کوشش کر رہی ہوں خود کو۔" اس نے غصے میں دھلی ہوئی پلیٹ سلپ پر پٹخی۔
"کیا مطلب؟ اور تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ تمھیں یونیورسٹی نہیں جانا ہے کیا! تم بھی عبید کی طرح بہت چھٹیاں کرنے لگی ہو۔" انہوں نے جانتے بوجھتے موضوع بدلا۔
"بس یہ ہی کرتی رہا کریں آپ کہ جہاں بولنا ہوتا ہے وہاں چپ رہتی ہیں اور جب بولتی ہیں تو موضوع بدل دیتی ہیں، تب ہی تو چچی جیسے لوگوں کو شہ ملتی ہے۔" اس نے برہم سی تلخی کے ساتھ کہا اور تیز تیز قدم اٹھا کر کچن سے نکل گئی۔
صالحہ کچھ دیر یوں ہی خاموش سی کھڑی رہیں پھر وہ بھی آہستہ آہستہ قدم اٹھا کر اس کے پیچھے اس کے کمرے میں آئیں۔ جہاں اب وہ ڈریسنگ ٹیبل پر چیزیں خواہ مخواہ یہاں سے وہاں کرنے میں مصروف تھی۔
وہ آکر اس کے بیڈ پر بیٹھ گئیں اور خاموشی سے اسے دیکھتی رہیں جو جان کر انجان بنی ہوئی تھی۔
"ادھر آؤ!" بلآخر انہوں نے تحمل سے پکارا۔
اس نے پلٹ کے چند لمحے پہلے انہیں دیکھا پھر سپاٹ تاثر کے ساتھ آکر ان کے سامنے بیٹھ گئی۔ جس کے بعد وہ کچھ کہنے کیلئے گویا ہوئیں۔
"میرے ابو کا انتقال بہت پہلے ہوگیا تھا، جس کے بعد امی نے ملازمت کرکے مجھے اور سلیمان کو پالا، جب میں پچیس اور سلیمان اٹھارہ سال کا تھا تب امی کا بھی انتقال ہوگیا، جس کے بعد پہلے کچھ عرصہ میں نے نوکری کی پھر سلیمان نے اپنی جمع پونجی میں کچھ پیسے اور ملا کر ایک دوست کے ساتھ گاڑیوں کا کاروبار کرلیا، شروعات میں تھوڑا مسلہ ہوا لیکن پھر آہستہ آہستہ سلیمان کو کاروبار کی سمجھ آگئی جس سے وہ پھلنے پھولنے لگا، اماں بی سے میری ملاقات ایک تقریب میں ہوئی تھی، اور وہیں انہوں نے مجھے اپنے بڑے بیٹے کیلئے پسند کرلیا، ہماری حیثیت میں تھوڑا فرق تھا اسی لئے میں جھجھکی، مگر اللہ بخشے تمہارے دادا کو، انہوں نے اور اماں بی نے اس فرق کو پرے رکھ کر مجھے بالکل بیٹیوں جیسا مان دیا اور رشتہ پکا کردیا، میں رفاقت سے کبھی ملی ہی نہیں تھی، بس جن کی بیٹی کی شادی پر میری ملاقات تمہاری دادی سے ہوئی تھی وہ بھی میری ایک جاننے والی تھیں اور پھر انہوں نے ہی میری شادی کے معاملات دیکھے جن میں سلیمان بھی پیش پیش تھا، اور یوں ہماری شادی ہوگئی، جس کے بعد مجھے پتا چلا کہ رفاقت کو تو اس رشتے میں کوئی دلچسپی تھی ہی نہیں، انہوں نے صرف اپنے والدین کی مرضی کے آگے سر جھکایا تھا اور مجھے پہلی ہی رات یہ بتا دیا کہ میں ان سے کسی والہانہ محبت کی کوئی امید نہ رکھوں، میں جو کہانیوں میں پڑھی محبت اور دوستوں کی محبت کے قصے سن کر اپنے لئے بھی کچھ ایسا ہی سوچ بیٹھی تھی اس بات پر دنگ رہ گئی، مجھے لگا کہ میرے سارے خواب ایک ساتھ چکنا چور ہوگئے ہیں، لیکن اب کچھ اور ہو بھی نہیں ہوسکتا تھا اسی لئے میں نے اسے اپنا نصیب سمجھ کر صبر کرلیا، ہماری اور شفاعت کی شادی ایک ساتھ ہی ہوئی تھی، اور شادی کے ایک سال بعد ہی میری گود میں غضنفر آگیا، مگر اس سے پہلے تمہارے دادا کا انتقال ہوگیا، سلیمان بہت پیار کرتا تھا غضنفر سے، آئے دن اس کیلئے کپڑے، کھلونے لے کر یہاں دوڑا چلا آتا تھا اور گھنٹوں اس کے ساتھ رہتا تھا، اسی دوران شاہانہ بھی امید سے تھی تو اس کی چھوٹی بہن فرزانہ یہاں رکنے آئی ہوئی تھی، اس کچھ عرصے میں پتا نہیں کب؟ اسے سلیمان میں دلچسپی ہونے لگی اور عزیر کی پیدائش کے بعد اس نے اپنی پسندیدگی کا اظہار شاہانہ سے کردیا، شاہانہ کا مزاج شروع سے ہی شاہانہ ہے، اس نے کبھی مجھ سے بنانے کی کوشش نہیں کی اور نہ میں نے کوئی اصرار کیا، مگر اپنی بہن کیلئے اس نے اماں بی سے بات کی، اور انہوں نے مجھ سے، مجھے بھلا کیا اعتراض تھا ایک طرح سے اس سے میرا رشتہ اس گھر میں مزید مضبوط ہوجاتا، مگر جب یہ ہی بات میں نے سلیمان سے کی تو اس نے یہ کہہ کر صاف انکار کردیا کہ وہ اپنے دوست کی بہن کو پسند کرتا ہے اور اس کے سوا کسی سے شادی نہیں کرے گا، اس کے انکار سے دلبرداشتہ ہوکر فرزانہ نے خودکشی کی کوشش کی مگر اس کی جان بچ گئی، اسی دوران شاہانہ نے بھی کافی واویلا مچایا اور سلیمان کے بارے میں پتا نہیں کیا کیا باتیں سب کو بتا دیں کہ وہ غیر قانونی کاموں میں ملوث ہے، اس کے پاس کالا پیسا آرہا ہے تب ہی وہ مغرور ہوگیا ہے، اور کچھ ہی عرصے میں شاہانہ کی کہی ایک بات سچ ہوگئی کہ سلیمان واقعی غیر قانونی کاموں میں ملوث ہوگیا، میں نے اسے بہت سمجھایا کہ پیسے کے دھن میں وہ اندھا ہوکر اپنا نقصان کر رہا ہے مگر اس پر تو جنون سوار تھا پیسے کمانے کا، اسی لئے اس نے میری نہیں سنی، اور فرزانہ والے واقعی کے بعد رفاقت نے میرا اس سے ملنا جلنا بند کردیا تھا، تب ہی سلیمان بھی ملک سے باہر چلا گیا اور کافی عرصے بعد لوٹا، اتنے وقت بعد اپنے بھائی کی واپسی کا سن کر میں نے اماں بی سے گزارش کی تو انہوں نے رفاقت سے مجھے اجازت دلوادی، میں بس کبھی کبھی اس سے ملتی اور وہ بہت اصرار کرتا تو غضنفر کو اس سے ملوادیتی تھی، مگر اس کے اس ایک انکار نے اور پھر دوسرے غیر قانونی کاموں نے یہاں میری عزت سب کی نظروں میں کم کردی، اب تم ہی بتاؤ کہ ان سب کے بعد میں کیسے کسی کو کچھ بولوں؟ میرے پیچھے تو کوئی مجھے سہارا دینے والا بھی نہیں ہے جب کہ شاہانہ کا پورا میکہ اس کی ایک آواز پر دوڑا چلا آتا ہے۔" کسی کہانی کی مانند دھیرے دھیرے ساری بات بتا کر وہ آخر میں بےبسی سے بولیں۔
اپنی ماں کی زبانی پہلی مرتبہ یہ سب جان کر اس کے غصے کی جگہ حیرانی نے لے لی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا بولے؟ مگر کچھ تو کہنا تھا۔
"اتنی سی بات کیلئے آپ اتنی باتیں برداشت کرتی ہیں چچی کی!" وہ تعجب سے بولی۔
"تمہارے لئے ہوگی اتنی سی بات، مجھ پر گزری ہے مجھے پتا ہے نا!" وہ خفگی سے بولیں۔
"گزر تو گئی ہے نا! اور گزری باتوں کو پکڑ کر بیٹھے رہنا بھلا کہاں کی عقل مندی ہے؟ وہ فرزانہ آنٹی، عبید کی خالہ، وہ تو آج دبئی میں عیش سے اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ رہ رہی ہیں، اور ایک آپ ہیں کہ قصور نہ ہوتے ہوئے بھی مجرموں کی طرح گھومتی ہیں۔" اسے پھر غصہ آنے لگا۔
"میرے بھائی کی وجہ سے شاہانہ کی بہن کی جان خطرے میں آگئی تھی یہ قصور ہے میرا۔" انہوں نے یاد دلایا۔
"بھائی کی وجہ سے آئی تھی نا! اور بھائی نے بھی خود نہیں کہا تھا جان لینے کو، ان محترمہ کے سر پر بھوت سوار تھا عشق کا، آپ کا ان سب میں کوئی بیچ نہیں تھا، آپ بولتی چچی سے کہ مجھے کیوں سناتی رہتی ہو! میرے بھائی نے کہا تھا کیا تمہاری بہن کو خودکشی کرنے کیلئے!" وہ بنا رکے کہتی گئی۔
"ایک زور دار تھپڑ پڑے گا نا ابھی ساری عقل ٹھکانے آجائے گی۔" انہوں نے ہاتھ اٹھاتے ہوئے اسے ڈپٹا۔
"کچھ غلط نہیں کہہ رہی ہوں میں ممی، سمجھنے کی کوشش کریں کہ جو چپ چاپ دبتا رہتا ہے یہ دنیا اسے مزید دباتی چلی جاتی ہے اور آخر میں کچل کر رکھ دیتی ہے۔" اس نے بنا اثر لئے پھر سے کہا۔
"تم ابھی بچی ہو، تم نہیں سمجھو گی رشتوں کی نزاکتیں۔" انہوں نے نظریں چرائیں۔
"رشتوں کا تو پتا نہیں، مگر مجھے اتنا ضرور معلوم ہے کہ ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھانا بھی ظلم ہے اور ظلم سہنے والا ظالم کیونکہ وہ ظلم برداشت کرکے اپنی جان پر ظلم کر رہا ہوتا ہے، اور اب آپ کو ضرورت ہے ضبط اور ظلم کے بیچ کا فرق سمجھنے کی۔" اس نے لفظوں کے آئینے میں حقیقت دکھائی اور پھر تیزی سے اٹھ کر کمرے سے باہر چلی گئی۔
جب کہ وہ بےبسی سے اسے دیکھ کر رہ گئیں۔
*******************************
بند آنکھوں پر جھکی سیاہ پلکیں ہلکے ہلکے لرزتے ہوئے حرکت میں آئیں اور پھر آہستہ آہستہ پلکوں کی وہ جھالر اوپر اٹھی جس کے پیچھے کانچ سی سیاہ آنکھیں تھیں۔
ان آنکھوں نے جو سب سے پہلی چیز دیکھی وہ تھی جدید تزئین سے آراستہ سفید چھت کے بیچ و بیچ گھومتا اسٹائلش سا پنکھا۔
پھر اس کے باقی حواس بیدار ہوئے تو محسوس ہوا کہ اس کا وجود کسی نرم سی چیز کے اوپر ہے جو کہ بیڈ کا گدا تھا۔
چند لمحے یوں ہی ناسمجھی کے عالم میں پڑے رہنے کے بعد وہ آہستہ سے اٹھ بیٹھی اور مزید حیرت سے آس پاس کا جائزہ لینے لگی۔
ہر طرح کے فرنیچر سے آراستہ یہ سفید اور کتھئی امتزاج کا ایک خوبصورت سا بیڈ روم تھا۔
بلیک ٹائیٹس پر لیلن کی لمبی سی اسکن کلر کی فراک پہنے۔ گلے کے گرد سیاہ اسکارف لٹکائے ملیحہ تعجب خیز نظروں سے اپنے اطراف میں دیکھتے ہوئے یہ سوچ رہی تھی کہ وہ یہاں کیسے آئی؟
تب ہی دروازے پر کھٹکا ہوا اور اگلے ہی پل دروازہ دھکیلتے ہوئے ایک شخص اندر آیا جسے دیکھ کر وہ چونک گئی۔ جو کہ اور کوئی نہیں بلکہ غضنفر تھا۔
اس نے سرمئی جینز کے ساتھ اپنے مضبوط جسم پر فل آستین کی فوجی گرین ٹی شرٹ پہن کر اس کی آستینیں کہنیوں تک فولڈ کی ہوئی تھیں۔
غالباً ہوا سے ماتھے پر بکھرے بالوں سمیت، کھڑے نین نقش والے چہرے پر شیو کے ساتھ، اپنی سنجیدہ سیاہ آنکھوں سے وہ اسے دیکھتا ہوا بیڈ کی جانب آیا جس کے باعث وہ غیر ارادی طور پر سرک کر مزید پیچھے ہوگئی۔
"ت۔۔تم!" وہ بمشکل اتنا ہی کہہ پائی۔
بجائے فوری طور پر کوئی جواب دینے کے اس نے ڈریسنگ ٹیبل کی کرسی کھینچ کر بیڈ کے قریب رکھی اور اس پر آکر بیٹھ گیا۔
"ہ۔۔۔ہاں میں۔" اس نے نقل اتارتے ہوئے اطمینان سے جواب دیا۔
"کیوں لائے ہو اس طرح مجھے یہاں؟" اس نے اپنی گھبراہٹ چھپانے کی کوشش کی مگر زیادہ کامیاب نہ ہوئی۔
"گڈ کوئیسچن۔" (اچھا سوال ہے) وہ اثبات میں سرہلاتے ہوئے بڑبڑایا۔
"اس سوال کے جواب میں تمھیں چار آپشن دیتا ہوں، تم بتانا کہ ان میں سے صحیح جواب کون سا ہے؟" وہ یوں بول رہا تھا گویا دونوں کوئی کھیل کھیلنے بیٹھے ہیں۔
اسے مزید تعجب ہوا۔
"آپشن اے، کوئی کام نہیں تھا میرے پاس، بیٹھا بیٹھا بور ہو رہا تھا تو سوچا تھوڑی دیر تمھیں کیڈنیپ کرلوں۔" اس نے بولنا شروع کیا۔
"آپشن بی، کیونکہ میں تم سے گن پائنٹ پر نکاح کرنے والا ہوں۔" انداز سنجیدہ ہوا۔
"آپشن سی، کیونکہ میں تمہارا ریپ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔" سنجیدگی مزید بڑھی۔
"آپشن ڈی، میں تمہارا ریپ کرنے کے تمہارا مرڈر کرنے والا ہوں۔" وہ تھوڑا آگے جھک کر دھیمی آواز سے پراسرار انداز میں بولا۔ جس کے باعث اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی۔
"دیکھو! تم۔۔۔تم یہ ٹھیک نہیں کر رہے ہو۔" اس نے لاغر سے انداز میں تنبیہہ کی۔
"اور جو تمہارے باپ نے کیا تھا میرے ماموں کے ساتھ وہ ٹھیک تھا!" وہ یکدم ہی بلند آواز سے دھاڑا تو وہ بری طرح سہم گئی۔
"کتنی بری طرح کل ان کو بےعزت کرکے گھر سے نکالا ہے تمہارے باپ نے، اب اس کی سزا تو بھگتنی پڑے گی۔" وہ چہرہ قریب لا کر دھیمے مگر پراسرار انداز میں بولا۔
"دیکھو جو کچھ بھی ہوا اس کیلئے میں تم سے معافی چاہتی ہوں، اور میں پاپا کی طرف سے تمہارے ماموں سے بھی معافی مانگ لوں گی، پلیز مجھے جانے دو۔" اس نے منت کی۔
"کیل گاڑ کر نکال لینے کے بعد بھی دیوار میں سوراخ رہ جاتا ہے، اسی لئے تمہاری یہ معافی اب کسی کام کی نہیں ہے، اب تم بس دیکھتی جاؤ کہ بدمعاشی کیا ہوتی ہے!" وہ یکدم کہتا ہوا کرسی پر سے کھڑا ہوا اور برق رفتاری سے باہر نکل گیا۔
"نہیں پلیز، رک جاؤ، مجھے جانے دو۔" اس نے پیچھے سے دہائی دی جو کہ بند دروازے سے ٹکرا کر واپس لوٹ آئی۔
*******************************
"یااللہ میری بچی!" ساری بات سن کر راضیہ نے دہل کر دل تھاما۔
"اتنا سب کچھ ہوگیا اور کوئی آپ کی مدد کو بھی آگے نہ آیا۔" سالک صاحب پریشانی سے بولے۔
"نہیں صاحب، روڈ پر سناٹا تھا۔" رحیم چاچا نے جواب دیا۔
"پولیس کو اطلاع کردیں پاپا جلدی سے، پتا نہیں کون لوگ ہوں گے وہ۔" صبیحہ بھی سخت گھبرائی ہوئی تھی۔
"مجھے پتا ہے کہ یہ کس کا کام ہوگا!" سالک صاحب نے نتیجے پر پہنچتے ہوئے کہا اور تیز تیز قدم بڑھا کر ہال سے باہر کی جانب بڑھ گئے۔
"یااللہ میری بچی! پتا نہیں کس حال میں ہوگی!" راضیہ روتے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئیں جنہیں صبیحہ دلاسا دینے لگی۔
*******************************
"کیا؟" سب کا حیران کن تاثر بےساختہ تھا۔
"ہاں، مجھے پورا یقین ہے کہ یہ گھٹیا اور گری ہوئی حرکت آپ کے بیٹے کی ہی ہے، اور اگر میری بیٹی کو کچھ ہوا نا تو اچھا نہیں ہوگا۔" سالک صاحب شدید غصے میں تھے۔
"لیکن ہم پہلے بھی بتا چکے ہیں کہ ہمارا غضنفر سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔" رفاقت نے یاد دلایا۔
"آپ کے کہہ دینے سے تعلق ختم نہیں ہوجائے گا، رہے گا وہ آپ کا ہی بیٹا، جس نے رشتے کے انکار پر یہ حرکت کی ہے اور اب مجھے ہر حال میں وہ چاہیے۔" وہ کچھ سننے کو تیار نہیں تھے۔
"کس رشتے سے انکار پر؟" رفاقت نے ناسمجھی سے پوچھا۔
"کل آپ کے سالے صاحب آئے تھے اپنے آوارہ بھانجے کا رشتہ لے کر جس سے میں نے صاف انکار کردیا اسی بات کی ٹسل نکالی ہے اس نے، مجھے اچھی طرح پتا ہے۔" ان کی جہاں دید نظریں سارا معاملا بھانپ چکی تھیں۔
اس مزید انکشاف پر دردانہ، رفاقت، صالحہ، شفاعت، شاہانہ، عزیر، عبید اور زوہا، یہ سب بری طرح ششدر رہ گئے۔
"اور اگر اس نے میری بیٹی کے ساتھ کچھ الٹا سیدھا کیا تو اچھا نہیں ہوگا، اسی لئے مجھے ہر قیمت پر اس کا پتا چاہیے۔" وہ بےحد جنونی ہو رہے تھے۔
"وہ کہاں ہے اس کا پتا صرف ایک ہی انسان کو ہوسکتا ہے۔" رفاقت اگلے ہی پل نتیجے پر پہنچے۔
*******************************
ملیحہ بہت دیر سے دروازے کے ساتھ زور آزمائی کرتے ہوئے اسے کھولنے کی کوشش کر رہی تھی مگر کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ اس کوشش کو ترک کرکے وہ کھڑکی کی طرف آئی مگر یہاں بھی نتیجہ صفر ہی رہا۔
اس نے غصے میں زور سے کھڑکی پر ہاتھ مارا تو الٹا اس کے اپنے ہاتھ میں درد ہوا۔ اس نے درد کم کرنے کیلئے بےساختہ بائیں ہاتھ سے اپنا دایاں ہاتھ تھاما اور ایک امید کے تحت باتھ روم میں آئی کہ شاید یہاں سے کوئی فرار کی راہ مل جائے۔ مگر یہاں آکر بھی اس کی امیدوں پر اوس گر گئی اور وہ کمرے میں آکر واپس بیڈ پر بیٹھ گئی۔
جو جرم اس نے کیا بھی نہیں تھا خواہ مخواہ اس کی سزا بھگتنی پڑ رہی تھی۔ اپنی بےبسی پر اسے رونا آنے لگا جس کے باعث اس نے تھک کر سر دونوں ہاتھوں میں گرا لیا۔
*******************************
"غضنفر! غضنفر!" رفاقت غصے میں چلاتے ہوئے اندر آئے۔ ان کے ہمراہ سالک اور شفاعت بھی تھے۔
ان کی بلند آواز سن کر سلیمان تشویش زدہ سے باہر ہال میں آئے۔ جب کہ کچن میں موجود رنگیلا بھی بوکھلا کر یہاں آیا۔
"رفاقت بھائی آپ یہاں!" وہ حیران ہوئے۔
"کہاں ہے وہ بےغیرت؟" ان کا سوال نظر انداز کرتے ہوئے انھوں نے کاٹ کھانے والے انداز میں پوچھا۔
"ہوا کیا ہے کچھ بتائیں تو سہی۔" انہوں نے جاننا چاہا۔
"زیادہ بھولے مت بنو سلیمان، مجھے اچھی طرح پتا ہے کہ یہ تم دونوں ماموں بھانجے کا مشترکہ پلان ہے، تم ہی نے اس سے کہا ہوگا ملیحہ کو اغوا کرنے کیلئے۔" اب سالک صاحب برہمی سے آگے آئے۔
"کیا اغوا! لیکن میں ایسا کیوں کروں گا؟" وہ سچ میں حیران تھے۔
"کیونکہ میں نے رشتے سے انکار جو کردیا تھا، اب یہ ناٹک بند کرو اور باہر بلاؤ اس کمینے کو۔" وہ سخت طیش میں تھے۔
"لیکن غضنفر گھر پر نہیں ہے۔" انہوں نے پریشان کن انداز میں بتایا۔
"تو فون کرو اسے اور ابھی کے ابھی یہاں بلاؤ۔" اب شفاعت نے سختی سے حکم دیا۔
در حقیقت وہ اچانک آنے والی اس آفت پر حیران رہ گئے تھے کیونکہ انہیں تو کچھ علم ہی نہیں تھا۔ مگر سامنے موجود غصے میں پاگل ہوئے یہ تین لوگ اس وقت ان کی کوئی وضاحت نہیں مانتے اسی لئے انہوں نے مزید ضد بحث کرنے کے بجائے ذرا آگے بڑھ کر ٹیبل پر رکھے پی ٹی سی ایل پر غضنفر کا نمبر ملا کر اسے اسپیکر پر لگا دیا۔
یہ تینوں بھی فون کے قریب آگئے تھے۔ دوسری جانب بیل جانے لگی اور چند لمحوں بعد ہی کال ریسیو ہوگئی۔
"جی ماموں!" اس نے ڈرائیو کرتے ہوئے عام سے انداز میں پوچھا۔
"غضنفر کہاں ہو تم؟ اور ملیحہ کے ساتھ کیا کیا ہے تم نے؟ سالک حمدانی رفاقت اور شفاعت بھائی کے ساتھ بہت غصے میں یہاں آئے ہوئے ہیں۔" وہ ایک ہی سانس میں کہتے گئے۔
"اوہ ہو! تو پہنچ گئے وہ لوگ وہاں تک!" اس نے گاڑی ایک سائیڈ پر روکتے ہوئے کہا تو اس کا انداز ان لوگوں کو مزید سلگا گیا۔
"ذلیل انسان! کہاں ہے میری بیٹی؟" سالک صاحب ضبط کی انتہا پر تھے۔
"میرے پاس ہے۔" اس نے اطمینان سے جواب دیا۔
"غضنفر! یہ تم ٹھیک نہیں کر رہے ہو، ابھی کے ابھی ملیحہ کو صحیح سلامت واپس لے کر آؤ ورنہ۔۔۔۔" رفاقت غصے سے کہتے ہوئے رکے۔
"ورنہ کیا؟" اس نے بنا ڈرے جاننا چاہا۔
"ورنہ میں تمہیں جان سے مار دوں گا۔" انہوں نے دھمکی دی تو وہ بےساختہ پھیکےپن سے ہنسا۔
"مرے ہوئے کو اور کتنا ماریں گے رفاقت صاحب! بقول آپ کے میں تو آٹھ سال پہلے ہی مر چکا ہوں۔" اس نے استہزائیہ انداز میں یاد دلایا۔
"غضنفر! تم جہاں کہیں بھی ہو ابھی کے ابھی ملیحہ کو لے کر گھر آؤ۔" سلیمان نے سختی سے حکم دیا۔
"سوری ماموں، اسے اتنی آسانی سے نہیں چھوڑوں گا میں، اس حمدانی نے جو آپ کی بےعزتی کی تھی اس کی سزا تو اسے ملے گی، تب ہی تو ان لوگوں کو پتا چلے گا کہ بدمعاشی ہوتی کیا ہے؟" وہ زہر خندہ لہجے میں بےخوف و خطر بولا۔
"کمینے انسان تو زندہ نہیں بچے گا میرے ہاتھ سے۔" سالک صاحب غصے سے پاگل ہونے لگے۔
"پہلے ہاتھ میں لے تو لیجئے پھر آپ بھی مارنے کا شوق پورا کر لیجئے گا، کیونکہ یہ ہی تو آتا ہے آپ لوگوں کو، مارنا! کبھی ہاتھوں سے تو کبھی لفظوں سے۔" اس کے طنزیہ لہجے میں غضب کی تلخی تھی۔
"غضنفر تم۔۔۔۔۔۔"
سلیمان کچھ کہنے ہی لگے تھے کہ دوسری جانب سے اس نے لائن ڈسکنیکٹ کردی اور ان کی بات ادھوری رہ گئی۔
"اگر میری بیٹی کو کچھ ہوا نا! تو تم سب کی خیر نہیں۔" سالک نے یکدم سلیمان کو گریبان سے پکڑ کر دھمکی دی جو کہ اس وقت خود بھی بےبس تھے۔
*******************************
ملیحہ بےبس سے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی تب ہی دروازہ کھلا جس کے باعث وہ یکدم چونک کر سیدھی ہوئی۔
سب سے پہلے غضنفر اندر آیا اور اس کے پیچھے چند اجنبی لوگ تھے جن میں سے ایک مولوی اور ایک وکیل لگ رہا تھا۔ ان سب کو دیکھ کر وہ بری طرح سٹپٹا گئی جو کہ غضنفر کے اشارے پر صوفوں کی جانب جا کر ان پر براجمان ہوگئے تھے۔
"کھڑی ہو!" اس نے سنجیدگی سے حکم دیا۔
"کیوں؟" اس نے گھبراہٹ کو چھپاتے ہوئے الٹا سوال کیا۔
غضنفر بجائے جواب دینے کے آگے آیا اور اسے بازو سے پکڑ کر کھینچتے ہوئے صوفوں کی جانب لے آیا اور زور سے ایک خالی صوفے پر بٹھایا۔
"نکاح شروع کیجئے مولوی صاحب!" غضنفر نے حکم دیا تو ملیحہ ششدر رہ گئی۔ جب کہ مولوی صاحب بھی کچھ کم ڈرے ہوئے نہیں تھے۔
"کیا! کس کا نکاح ہو رہا ہے یہ؟" اس نے سر اٹھا کر پاس کھڑے غضنفر سے پوچھا۔
"ہمارا!" ایک لفظی جواب ملا۔
"نہیں! میں یہ نکاح نہیں کروں گی۔" اس نے صاف انکار کیا۔
غضنفر نے اگلے ہی پل ہاتھ پیچھے لے جا کر اپنی شرٹ کے نیچے سے پینٹ میں اٹکی گن نکالی اور لوڈ کرکے ملیحہ کی کنپٹی پر رکھ لی۔ جس کے باعث اس کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے ہی رہ گیا۔
مولوی صاحب اسے سہمی ہوئی نظروں سے یوں دیکھ رہے تھے جس سے اندازہ ہوا کہ غالباً چند لمحوں قبل ان کی کنپٹی بھی اس گن کے نشانے پر آئی تھی۔
بلکہ صرف وہ ہی نہیں، دو لوگوں کو چھوڑ کر وکیل سمیت باقی سب بھی بہت ڈرے سہمے لگ رہے تھے گویا زبردستی لائے گئے ہوں گواہی کیلئے۔
"تمہارے پاس دو آپشن ہیں، اگلے پانچ منٹ بعد یا تو تم مسز غضنفر عباس کہلاؤ گی یا پھر مرحومہ ملیحہ حمدانی، اب بتاؤ کیا کہلوانا پسند کرو گی تم!" اس نے سفاکی سے راستہ تنگ کیا۔
"یہ۔۔۔یہ ٹھیک نہیں ہے، اس طرح زور۔۔۔زور زبردستی سے نکاح نہیں ہوتا ہے۔" ملیحہ نے بمشکل کمزور سی مزاحمت کی۔
"مجھے سیکھانے کی ضرورت نہیں ہے، بس اگر زندگی پیاری ہے تو چپ چاپ ہاں کرو۔" غضنفر نے گن کو اس کی کنپٹی پر مزید دباتے ہوئے لفظ چبا کر کہا۔
"دیکھو پلیز تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
ابھی وہ منت کرنے ہی لگی تھی کہ غضنفر نے اس کے مقابل آکر اس کی طرف کرکے گن چلا دی اور زور دار فائر کی آواز سے پورا کمرہ اور اس میں موجود لوگ ہل گئے۔
گولی ملیحہ کے کان کے برابر سے ہوتے ہوئے صوفے کی پشت پر جا کر پیوست ہوئی تھی جس کے باعث صوفہ پھٹا اور اڑ کر اس کی روئی باہر آگئی۔ جب کہ ملیحہ تو اپنی جگہ پر سن ہوگئی تھی۔ اسے لگا آج اس کی سماعت ختم ہوگئی۔
"ابھی گولی صرف برابر سے گزری ہے، اگر تھوڑی اور چوں چرا کی تو اگلی گولی سیدھا سر کے آر پار جائے گی۔" غضنفر نے ذرا سا جھک کر گن اس کے ماتھے پر رکھتے ہوئے دھیرے سے آگاہ کیا۔
جب کہ ابھی ابھی چلنے کے باعث گن کی گرم نوک سے اس کا ماتھا جلا تو وہ سکتے سے نکل کر اب حیران پریشان سی ہوش میں آئی۔
"نکاح شروع کیجئے مولوی صاحب۔" وہ حکم دیتے ہوئے ملیحہ کے برابر والے سنگل صوفے پر بیٹھ گیا۔ اور ناچاہتے ہوئے بھی مولوی صاحب کو اس کے حکم کی تکمیل کرنی پڑی۔
*******************************
"پتا نہیں میری بچی کہاں ہوگی؟ کس حال میں ہوگی؟" صوفے پر بیٹھی راضیہ رو رو کر تھک چکی تھیں مگر دہائیاں دینا بند نہیں کی تھیں۔
"بس کردیں امی، پاپا گئے تو ہیں نا اسے ڈھونڈنے۔" ان کے برابر میں بیٹھی صبیحہ نے انہیں گلے لگا کر تسلی دی۔
سالک کے اطلاع کرنے کے بعد جب رفاقت اور شفاعت ان کے ساتھ سلیمان کے گھر گئے تو پیچھے سے دردانہ کے کہنے پر عزیر باقی سب کو لے کر ان کے گھر آگیا اور سب لوگ اس وقت حیران پریشان سے ہال میں اکھٹا تھے۔
"میری بیٹی نے کیا بگاڑا تھا اس کا؟" انہوں نے شکوہ کیا۔
"صبر کریں بہن، پتا نہیں اس لڑکے کے دماغ میں کیا چلتا رہتا ہے ہر وقت، کسی کو سکون نہیں لینے دیتا ہے۔" شاہانہ نے ہمدردی میں لپٹا طنز مارا جو کہ سیدھا صالحہ کے دل میں چبھا جب کہ زوہا کے تاثرات بھی بگڑ گئے۔
"فکر نہ کرو راضیہ، غضنفر غصے کا تیز ضرور ہے مگر اتنا برا نہیں ہے کہ کوئی اخلاق سے گری ہوئی حرکت کر جائے۔" دردانہ نے تسلی دینا چاہی۔
"معاف کیجئے گا اماں بی، لیکن اگر اتنی اچھی تربیت ہوتی اس کی تو اس روز چوری اور آج یہ اغوا والی حرکت نہ کرتا وہ۔" شاہانہ اب بھی باز نہیں آئی تھیں۔
"خدا کیلئے کوئی موقع تو چھوڑ دیا کریں چچی میری ماں کو طعنے مارنے کا۔" صبر کا پیمانہ لبریز ہونے پر زوہا بول پڑی۔
"زوہا!" صالحہ نے جلدی سے ٹوکا۔
"سچی باتیں ایسے ہی کڑوی لگتی ہیں بیٹا۔" شاہانہ کا طنز مزید گہرا ہوا۔
"بھیا! فون کرکے پوچھیں ڈیڈ سے کہ کچھ پتا چلا کیا؟" اس تکرار سے تنگ آکر عبید نے عزیر سے مخاطب ہوتے ہوئے مداخلت کی۔ تو اس نے اثبات میں سر ہلا کر پینٹ کی جیب سے موبائل نکالا۔
عین اسی لمحے ڈور بیل بجی تو عزیر کا نمبر ملاتا ہاتھ رک گیا اور ملازمہ دوڑ کر اندرونی دروازہ کھولنے گئی۔
چند لمحوں بعد سالک صاحب رفاقت اور شفاعت کے ہمراہ شکستہ سے اس طرف آتے نظر آئے جن کی جانب سب متوجہ ہوگئے۔
"کیا ہوا سالک؟ کچھ پتا چلا ملیحہ کے بارے میں؟" راضیہ دیوانہ وار پوچھتی ہوئی ان کی طرف لپکیں۔ باقی سب بھی اپنی جگہوں پر کھڑے ہوچکے تھے۔
"وہ اسی خبیث کے قبضے میں ہے۔" وہ دھیمے مگر زہر خندہ انداز میں بولے تو بےساختہ صالحہ کے دل پر بجلی گر گئی جب کہ راضیہ مزید حیران ہوئیں۔
"تو آپ پکڑے نا اسے، پولیس کے پاس جائیں۔" وہ پریشان سے بولیں۔
"خبر کردی ہے پولیس کو مگر وہ ابھی تک اسے ٹریس کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے۔" ان کے بجائے شفاعت نے بتایا۔
"ایک مرتبہ ہاتھ آجائے وہ ایک ہی بار اس کی جان لے کر سارا قصہ ختم کردوں گا۔" رفاقت غصے کی انتہا پر تھے۔ ان کی بات پر صالحہ نے بےساختہ لب بھینچے۔
تب ہی دوبارہ ڈور بیل بجی اور حسب سابق ملازمہ نے جا کر دروازہ کھولا۔ سب لوگ ہنوز ایسے ہی حیران و پریشان کھڑے تھے۔
"پاپا!" پکار پر سب بےساختہ اس کے تعاقب میں پلٹے۔
بجھی بجھی سی ملیحہ خاموشی سے ایک جگہ رک کر ان ہی لوگوں کو دیکھ رہی تھی جو اسے دیکھ کر دنگ رہ گئے تھے۔
"ملیحہ! میری بچی!" راضیہ دیوانہ وار کہتی ہوئی اس کی طرف آئیں اور اسے سینے سے لگایا لیا۔ صبیحہ اور سالک بھی اس کے پاس آچکے تھے۔
"تم ٹھیک ہو نا بیٹا؟ اس نے کچھ کیا تو نہیں نا تمہارے ساتھ؟" راضیہ سے الگ ہونے پر سالک صاحب نے دونوں ہاتھوں سے اس کا چہرہ تھامتے ہوئے پوچھا۔
"کیا ہے پاپا!" وہ روہانسی انداز میں بولی تو سالک اور راضیہ دہل گئے جب کہ باقی سب بھی کسی انہونی کے خدشہ سے پریشان ہوگئے۔ صالحہ کا شدت سے جی چاہ رہا تھا کہ ابھی زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائیں۔
"کیا کیا ہے بیٹا بتاؤ مجھے؟ میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔" وہ بمشکل ضبط کیے ہوئے تھے۔ اور صالحہ کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔
"تم ٹھیک ہو نا بیٹا؟ اس نے کچھ کیا تو نہیں نا تمہارے ساتھ؟" راضیہ سے الگ ہونے پر سالک صاحب نے دونوں ہاتھوں سے اس کا چہرہ تھامتے ہوئے پوچھا۔
"کیا ہے پاپا!" وہ روہانسی انداز میں بولی تو سالک اور راضیہ دہل گئے جب کہ باقی سب بھی کسی انہونی کے خدشہ سے پریشان ہوگئے۔ صالحہ کا شدت سے جی چاہ رہا تھا کہ ابھی زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائیں۔
"کیا کیا ہے بیٹا بتاؤ مجھے؟ میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔" وہ بمشکل ضبط کیے ہوئے تھے۔ اور صالحہ کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔
"اس نے نکاح کیا ہے مجھ سے۔" اس نے روہانسی انداز میں بتایا تو سب پر بم گر گیا۔
"کیا؟" وہ حیران ہوئے۔ اور یہ ہی حال باقی سب کا تھا۔
"اس نے کہا اور تم نے نکاح کرلیا؟ اور اس نے تمہارے ساتھ کوئی جسمانی زبردستی تو نہیں کی؟" انہوں نے مزید کریدا۔
"نہیں! کوئی جسمانی زبردستی نہیں کی، مگر وہ گن لے کر میرے سر پر کھڑا تھا پاپا، اگر میں نکاح کیلئے ہاں نہیں کرتی تو وہ مجھے گولی مار دیتا۔" وہ بتاتے ہوئے آخر میں رو پڑی تو سالک نے اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔
جب کہ یہ جان کر بےساختہ شاہانہ کے سوا باقی سب کی رکی ہوئی سانس بحال ہوئی کہ غضنفر نے بہر حال کوئی اخلاق سے گری ہوئی حرکت نہیں کی تھی۔
"تم ابھی یہاں کیسے آئی بیٹا؟" خیال آنے پر رفاقت پوچھتے ہوئے آگے آئے۔
"وہ خود ہی مجھے گاڑی میں گھر کے باہر چھوڑ کر گیا ہے۔" ملیحہ نے ان سے الگ ہوکر آنسو پونچھتے ہوئے بتایا۔
"چلو پریشان نہیں ہو سب ٹھیک ہوجائے گا، صبیحہ! بیٹا بہن کو اندر لے کر جاؤ۔" سالک نے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
صبیحہ اور راضیہ ملیحہ کو اس کے کمرے میں لے گئیں جب کہ باقی سب یہیں رہے۔ اس سے قبل کہ کوئی کچھ کہتا سالک کا فون بجا اٹھا۔ انہوں نے چیک کیا تو کوئی اجنبی نمبر تھا جسے انہوں نے یس کرکے کان سے لگایا۔
"ہیلو! میری بیوی پہنچ گئی ہے نا صحیح سلامت اپنے میکے ڈیئر سسر جی؟" دوسری جانب غضنفر کا پرسکون لہجہ انہیں سلگا گیا۔
"ذلیل انسان! تو زندہ نہیں بچے گا میرے ہاتھوں سے۔" وہ دانت پیس کر بولے۔ ان کے رد عمل سے سب کو بخوبی اندازہ ہوگیا تھا کہ دوسری طرف کون ہے؟
"بری بات ہے سسر جی، باپ تو اپنی بیٹیوں کو سدا سہاگن رہنے کی دعا دیتے ہیں اور آپ اپنے ہاتھوں اپنی بیٹی کا سہاگ اجاڑنے کی بات کر رہے ہیں، کیسے باپ ہیں آپ؟" اس نے درمیانی رفتار سے ڈرائیو کرتے ہوئے مصنوعی شکوہ کیا۔
"یہ تو نے ٹھیک نہیں کیا، اس کی سزا بہت بھاری پڑے گی تجھے۔" انہوں نے سختی سے وارن کیا۔
"فی الحال تو آپ سزا بھگتیں، کیا کہا تھا آپ نے کہ آپ اپنی بیٹی کی شادی میرے جیسے کسی آوارہ بدمعاش سے نہیں کریں گے؟ لیکن دیکھیں! اب مجھ جیسا کیا! بلکہ میں ہی آپ کا داماد بن گیا، اسی لئے کہتے ہیں کہ بڑے بول نہیں بولنے چاہیے۔" اس نے مزید آگ لگائی۔ وہ لب بھینچ کر رہ گئے۔
"باقی مجھے سزا دینے کی خواہش آپ پلیز بعد میں پوری کرسکتے ہیں؟ کیونکہ فی الحال میں اپنی بیوی کو لے کر ایک رومانٹک ہنی مون ٹرپ پر جانے کے موڈ میں ہوں، اسی لئے میں جلد اسے لینے آؤں گا، تب تک خیال رکھیے گا اس کا۔" ان کے غصے سے محظوظ ہوتے ہوئے اس نے مزید سلگایا۔
اور اب سالک صاحب کا ضبط جواب دے گیا جس کے باعث انہوں نے زور سے اپنا موبائل زمین پر دے مارا۔ اور رابطہ منقطع ہوگیا۔
*******************************
"تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے غضنفر! یہ کیا حرکت کی ہے تم نے اس کا اندازہ ہے تمھیں؟" سلیمان کا غصہ سوا نیزے پر تھا۔
"وہ ہی جو ایسے لوگوں کے ساتھ کرنی چاہئے۔" وہ ترکی بہ ترکی بولا۔
"کیا ضرورت تھی ایسا کرنے کی؟ میں تحمل سے کوشش کر رہا تھا نا!" وہ ٹہلتے ہوئے رک گئے۔
"ان لوگوں نے کل آپ کے ساتھ جو بدتمیزی کی ہے، مجھے آوارہ بدمعاش کہا ہے یہ اسی کا جواب ہے، آپ کو کیا لگا تھا کہ آپ بتائیں گے نہیں تو مجھے پتا نہیں چلے گا کہ وہاں کیا ہوا؟" ان کے سامنے کھڑا غضنفر بھی تھوڑا خفا ہوا۔
"تمھیں کس نے بتایا یہ سب؟" وہ ٹھٹکے۔
"رنگیلہ نے۔" دو لفظی جواب ملا۔
"ایک تو اس کے پیٹ میں کوئی بات نہیں ٹکتی۔" وہ دانت پیس کر بڑبڑائے۔
"بہر حال، تم ابھی چل کر ان سب سے اپنے رویے کی معافی مانگو گے۔" انہوں نے سب پرے رکھ کر پہلے مسلے کا حل نکالا۔
"بالکل بھی نہیں۔" اس نے صاف انکار کیا۔
"غضنفر تم جانتے ہو کہ سالک کی سورس بھی اچھی خاصی ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں لینے کے دینے پڑجائیں۔" انہوں نے دھیان دلاتے ہوئے خبردار کیا۔
"کتنی بھی سورس لگا لیں وہ، لیکن ایک شوہر کو اپنی بیوی پر حاصل حقوق لینے سے قانونی طور پر نہیں روک سکتے۔" اس نے اطمینان سے کہا۔
"کیا مطلب؟ کیسا شوہر؟ کون سی بیوی؟" وہ کچھ سمجھے نہیں۔
"مطلب میں نے ملیحہ سے نکاح کرلیا ہے، اور اب قانونی طور پر حق رکھتا ہوں میں اس پر، وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔" اس نے ہاتھ میں موجود کیچن سے کھیلتے ہوئے انکشاف کیا تو حیرت سے ان کی آنکھیں پھیل گئیں۔
"تم نے زبردستی نکاح کیا ہے اس سے؟" انہوں نے بےیقینی سے تائید چاہی۔ تو اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
"اوہ میرے خدایا!" وہ بےساختہ اپنا سر پکڑتے ہوئے بیڈ پر بیٹھ گئے۔
*******************************
ملیحہ فریش ہونے کے بعد اب بیڈ پر نیم دراز تھی۔ جب کہ اس کے صحیح سلامت گھر واپس آجانے کے بعد وہ سب بھی تھوڑی دیر تک چلے گئے تھے۔ گو کہ یہ نکاح والی بات بھی کوئی کم نہیں تھی لیکن اس سے بڑا نقصان بھی ہوسکتا تھا جو کہ نہیں ہوا تھا اور اسی وجہ سے ابھی تھوڑا اطمینان قائم تھا۔
وہ سوچ رہی تھی کہ اگر غضنفر اس کے باپ سے اپنی اور اپنے ماموں کی بےعزتی کی ٹسل نکالنے کیلئے اسے زیادتی کا نشانہ بنا ڈالتا تب وہ کیا کرتی؟ اس کے گھر والے کیا کرتے؟
ابھی وہ ان ہی سوچوں میں گم تھی کہ سائیڈ ٹیبل پر رکھے اس کے موبائل نے گنگناتے ہوئے اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی۔ اس نے چیک کیا تو اسکرین پر کوئی اجنبی نمبر نظر آیا۔ جسے ناسمجھی سے یس کرکے اس نے کان سے لگا لیا۔
"ہیلو؟"
"ہیلو ملیحہ!" دوسری جانب سے گھمبیر آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ جسے وہ لمحوں میں پہچان گئی۔
"میں ہوں غضنفر، کیا تھوڑی دیر تم سے بات کرسکتا ہوں؟" اس نے مہذب انداز میں اجازت چاہی۔
"مجھے کیڈنیپ کرنے سے پہلے، زبردستی نکاح کرنے سے پہلے اجازت مانگی تھی تم نے مجھ سے؟" اگلے ہی پل وہ کاٹ دار انداز میں بولی۔ دوسری طرف چند لمحوں کیلئے خاموشی چھا گئی۔
"دیکھو میں مانتا ہوں کہ جو کچھ بھی میں نے کیا وہ ٹھیک نہیں تھا، اور اب میں اس پر شرمندہ بھی ہوں، میں بس اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ پاتا، اور آج وہ سب بھی میں غصے میں کر گیا، آئی ایم سوری!" وہ بہت تحمل سے بات کر رہا تھا۔
"اتنا سب کچھ کرنے کے بعد سوری؟" وہ حیرت سے کہتی سیدھی ہوکر بیٹھ گئی۔
"تم نے مجھے اغوا کیا، میرے باپ کو اتنا برا بھلا کہا، مجھ پر گولی چلائی، مجھ سے زبردستی نکاح کرلیا اور ان سب کے بعد تم کہہ رہے ہو سوری!" اس نے غم و غصے سے سب گنوایا۔
"تمھیں پتا ہے غضنفر! اب سے پہلے میرے دل میں تمہارے لئے تھوڑی ہمدردی تھی، اس دن جب رفاقت انکل نے سب کے سامنے تمھیں تھپڑ مارا تھا تو مجھے برا لگا تھا تمہارے لئے، مگر آج جو حرکت تم نے کی ہے اس کے بعد تو لگ رہا ہے کہ ٹھیک ہی کرتے ہیں تمہارے گھر والے تمہارے ساتھ تم اسی لائق ہو۔" وہ ضبط کا دامن چھوڑ کر کہتے ہوئے آخری بات سے اس کا دل چھلنی کر گئی۔
"ٹھیک کہا تم نے، میں اسی لائق ہوں کہ مجھ سے بس نفرت ہی کی جائے۔" اس کی آواز میں درد تھا۔
"لیکن اگر میں اتنا ہی برا ہوں تو کیوں اس روز کافی شاپ پر مجھے زندگی میں کسی کے ساتھ آگے بڑھنے کا مشورہ دیا تھا تم نے؟ کیوں میرے زخموں کی اتنی فکر ہو رہی تھی تمھیں؟ بتاؤ؟" اس نے بھی الٹا سوال اٹھائے تو وہ لمحے بھر کو سٹپٹا گئی۔
"وہ سب بس انسانی ہمدردی کے ناطے کہا تھا میں نے۔" اس نے خود کو نارمل کرتے ہوئے وضاحت کی۔
"یہ ہی تو نہیں کرنا چاہئے تھا تمھیں، مجھے ہمیشہ بس درد ہی ملا ہے، ایسے میں جب تم نے ہمدردی کی تو دل خواہ مخواہ ہی دیوانہ ہونے لگا کہ اسے بھی کوئی ہمدرد مل گیا ہے، لیکن کل جب انکل نے رشتے سے انکار کیا تو میں ڈر گیا تھا کہ کہیں وہ تمہاری شادی کسی اور سے نہ کروادیں، اور میں تمھیں کھو نہ دوں، بس اسی لئے جو ٹھیک لگا میں کر گزرا۔" اس نے شدت جذبات سے چور لہجے میں اپنی صفائی پیش کی۔
"اور تمہیں کیوں فکر ہو رہی تھی میری کہیں اور شادی کی؟" اس نے تیکھے انداز میں پوچھا۔
"کیونکہ۔۔۔" وہ رکا۔
"کیونکہ؟" اس نے جاننا چاہا۔
"کیونکہ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔" اس نے دھیرے سے کہا تو وہ دنگ رہ گئی۔
"کیا؟ محبت؟" اس نے حیرت سے دہرایا۔
"ہاں، اور میں تمھیں کسی اور کا ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔" وہ مزید بولا۔
"تم مجھے جانتے ہی کتنا ہو؟ ہمیں ملے ہوئے دن ہی کتنے ہوئے ہیں جو تمھیں مجھ سے محبت ہوگئی ہے؟" اس کی حیرانی کم نہیں ہوئی تھی۔
"محبت تو ایک پل میں ہوجاتی ہے، اور مجھے بھی ہوگئی ہے۔" اس نے فلسفہ دیا۔
"غلط! محبت ایک پل میں نہیں ہوتی بلکہ آہستہ آہستہ پروان چڑھتی ہے، جو ایک پل میں ہو وہ ضد ہوتی ہے۔" اس نے تردید کی۔
"چلو محبت نہ سہی میری ضد کو ہی قبول کرلو، پھر آہستہ آہستہ تمہارے دل میں محبت بھی پروان چڑھ جائے گی۔" اس نے اسی کی بات اسے لوٹائی تو وہ لاجواب ہوگئی۔
"دیکھو میں چاہتا تو تمہارے ساتھ کوئی جسمانی زبردستی بھی کرسکتا تھا، مگر میں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ میرا ارادہ غلط نہیں تھا، تب ہی تو تمھیں صحیح سلامت خود واپس چھوڑا ہے تمہارے گھر، اگر میرے ارادے غلط ہوتے تو کیا میں تمھیں ایسے چھوڑتا؟ اور اب یوں منت کرتا؟" اس نے دوسرے پہلو اجاگر کیے۔ وہ سوچ میں پڑ گئی۔
"ہمارا نکاح تو ہوگیا ہے، میں سب سے معذرت کرنے کیلئے بھی تیار ہوں، پلیز تم بھی میرے پاس آجاؤ، تم جو کہو گی میں وہ ہی کروں گا۔" اس نے عاجزی سے گزارش کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی۔
"جس طرح تم نے کیا ایسے زبردستی نکاح نہیں ہوتا۔" اس نے صاف صاف باور کروایا۔
"اچھا چلو ہم دوبارہ باقاعدہ سب کی رضا مندی سے سنت کے مطابق نکاح کرلیں گے، مگر پلیز تم مان جاؤ، زندگی میں پہلی مرتبہ کسی سے کچھ مانگ رہا ہوں میں، ورنہ اب تک تو بنا مانگے بس دکھ ہی ملے ہیں۔" اس نے حل نکالتے ہوئے دکھ سے کہا تو وہ خاموش ہوگئی۔
"میں جانتا ہوں کہ جو نقشہ میرے گھر والوں نے تم لوگوں کے سامنے کھینچا ہے اس کی بنیاد پر میں تم لوگوں کیلئے ایک برا انسان ہوں، لیکن ایک موقع تو دے کر دیکھو اس برے کو اچھا بننے کا۔" وہ اسی عاجزی سے مزید کہتا اسے الجھانے لگا۔
اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا بولے؟ کیا رد عمل دے؟
"ملیحہ! تمھیں پاپا بلا رہے ہیں۔" تب ہی صبیحہ نے دروازہ کھول کر اندر جھانکتے ہوئے اطلاع دی تو وہ یکدم چونک گئی۔
"ہاں، ابھی آئی۔" اس نے جواب دیا تو صبیحہ اثبات میں سر ہلا کر واپس چلی گئی جب کہ غضنفر بھی اسے سن چکا تھا۔
"میری باتوں پر دماغ سے نہیں دل سے غور کرنا ملیحہ۔" اس نے پھر سے گزارش کی۔
ملیحہ نے بنا کوئی جواب دیا رابطہ منقطع کردیا، موبائل واپس سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور کمرے سے باہر چلی گئی۔
*******************************
"اف!" غضنفر نے موبائل ٹیبل پر رکھتے ہوئے تھک کر صوفے کی پشت سے ٹیک لگائی۔
"یہ جان دینے والی بات کیوں نہیں بولی تم نے غضنفر؟" اس کے برابر میں بیٹھے سلیمان نے ٹیبل پر رکھی نوٹ بک اٹھا کر ایک سطر پر انگلی رکھتے ہوئے پوچھا۔
"اتنا کہہ دیا نا! بس یہ ہی بہت ہے، مجھ سے نہیں ہوتی یہ پیار محبت میں جان دینے کی باتیں۔" وہ بےزاری سے بولا۔
"مگر اب کرنی پڑیں گی، کچھ بھی کرو سولی پر لٹکو، انگاروں پر چلو مگر اس لڑکی کو یقین دلاؤ کہ تم اس کی محبت میں دیوانے ہوگئے ہو، ورنہ ہماری مشکل بڑھتی چلی جائے گی۔" انہوں نے وہ نوٹ بک واپس ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا جس پر انہوں نے وہ باتیں لکھ کر غضنفر کو دی تھیں جو ابھی وہ فون پر جذباتی انداز میں ملیحہ سے کر رہا تھا۔
"کیا ماموں! اچھا خاصا میں مار پیٹ کر لوگوں سے ریکوری کا کام کرتا تھا، یہ آپ مجھے کیا پیار محبت کے چکر میں پھنسا رہے ہیں!" وہ کوفت سے کہتے ہوئے صوفے پر سیدھا ہوکر بیٹھا۔
"میں بھی اچھا خاصا اس کے باپ سے بات بنانے کی کوشش کر رہا تھا، مگر تم نے غصے میں آکر وہ حرکت کرکے جو رائتہ پھیلایا ہے نا اب اس کو سمیٹو بھی، کیونکہ مجھے وہ زمین ہر قیمت پر چاہیے۔" وہ بھی طنزیہ انداز میں ترکی بہ ترکی بولے۔ تو وہ خفگی سے محض انہیں گھور کر رہ گیا۔
*******************************
"جس دن اس نے چوری کی تھی، میں تو تب ہی سمجھ گئی تھی کہ یہ آگے بھی گل ضرور کھلائے گا، اور دیکھو! وہ ہی ہوا، کردی نہ ایک اور گری ہوئی حرکت، اور خواہ مخواہ پورے خاندان کو ذلیل کروا دیا۔" شاہانہ کھانا کھانے کیلئے کم اور باتیں کرتے ہوئے زیادہ منہ چلا رہی تھیں۔
"اب اس نے ایسا بھی کچھ نہیں کیا ہے شاہانہ۔" دردانہ نے ٹوکا۔
"لو! لڑکی کو زبردستی اٹھا لے گیا، اس سے نکاح کرلیا اور آپ کہہ رہی ہیں کہ ایسا بھی کچھ نہیں ہوا؟" شاہانہ نے حیرت سے آنکھیں پھلائے یاد دلایا۔
سب لوگ اس وقت کھانا کھانے کیلئے ڈائینگ ٹیبل کے گرد اکھٹا تھے۔ اور یہ ہی سنہری موقع لگا تھا انہیں جلتی پر مزید تیل چھڑکنے کا۔
"صرف نکاح کیا ہے، کوئی خدانخوستہ زیادتی نہیں کر ڈالی، اس کا مطلب یہ ہی ہے کہ اس کا ارادہ غلط نہیں تھا۔" دردانہ نے اس کی حمایت کی۔ باقی سب ہنوز خاموشی سے کھانا کھانے میں مصروف رہے۔
"آپ کی ان ہی بےجا حمایتوں کی وجہ سے وہ چوری والی حرکت کرنے پر شہ ملی تھی اسے، جب بھی وہ فیل ہوتا تھا یا کوئی شرارت کرتا تھا اور رفاقت بھائی اسے سبق سکھانے کیلئے مارنے لگتے تھے تو آپ بار بار بیچ میں آجاتی تھیں، اگر وقت پر صحیح تربیت کی گئی ہوتی تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔" انہوں نے دردانہ کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا۔
"میں کھا چکا۔" تب ہی رفاقت آہستہ سے کرسی دھکیل کر کھڑے ہوئے۔ اور پھر ڈائینگ روم سے باہر نکل گئے۔
"ظاہر ہے بھئی، جس کی اولاد ایسی ہو اس کی تو بھوک پیاس اڑ ہی جاتی ہے۔" انہوں نے طنز میں لپٹا اظہار افسوس کیا۔ جس پر صالحہ صبر کا گھونٹ پی کر رہ گئیں۔
*******************************
"دیکھو یار! یہ ماموں مجھے کن چکروں میں الجھا رہے ہیں۔" غضنفر دونوں ہاتھ دیوار پر رکھے لفظ S سے مخاطب تھا۔
"میرا کبھی یہ پیار ویار سے واسطہ نہیں پڑا ہے، بس جب سے تم سے ملا ہوں صرف تمہارے بارے میں ہی کچھ ایسا محسوس کیا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا، اور جو باتیں میں دل سے صرف تمھیں کہنا چاہتا ہوں وہ سب زبردستی ماموں مجھ سے اس سالک کی بیٹی کو کہلوا رہے ہیں، جو پتا نہیں خود کو کتنی بڑی فلاسفر سمجھتی ہے۔" وہ ان سب سے بری طرح بےزار تھا۔
"کاش تم اس روز میرے ہوش میں آنے تک تو کم از کم میرے پاس رکی ہوتی، میں تمھیں ایک بار دیکھ تو لیتا۔" وہ حسرت سے کہتے ہوئے اس لفظ پر ہاتھ پھیرنے لگا۔
"مگر اب جب تک یہ سارے جھمیلے ختم نہیں ہوجاتے تب تک تمھیں ڈھونڈنے کا پلان مزید آگے کرنا پڑے گا، مگر تمھیں ڈھونڈ کر تو میں رہوں گا مس ایس۔" اس نے گویا اپنے آپ سے وعدہ کیا۔
مل رہا ہے، نہ کھو رہا ہے
کتنا دلچسپ ہو رہا ہے
انتخاب
*******************************
"صبیحہ یقین کرو ہم سب خود اس کی حرکتوں سے پریشان رہتے ہیں، اور اسے بھی لگتا ہے مزہ آتا ہے جان بوجھ کر ہم سب کو پریشان کرنے میں، آج جو کچھ بھی اس نے ملیحہ کے ساتھ کیا اس کیلئے ہم سب شرمندہ ہیں۔" بیڈ پر ایک ہاتھ موڑ کر سر کے نیچے رکھے لیٹے عزیر نے خاصی وضاحت کی۔
"وہ بات ٹھیک ہے، لیکن یار وہ اتنا خودسر کیسے ہوگیا ہے کہ اپنے پیرینٹس کی بھی نہیں سنتا۔" گیلری میں کھڑی صبیحہ تعجب سے بولی۔
"یار وہ ہمیشہ سے ہی ایسا ڈھیٹ ہے، اور اسی وجہ سے وہ تایا کے ہاتھوں پٹا بھی بہت ہے، مگر اثر پھر بھی نہیں ہوا اس پر۔" وہ تاسف سے بولا تو وہ خاموش ہی رہی۔
"اچھا صبیحہ ایک بات بتاؤ!" وہ سنجیدہ ہوا۔
"ہممم پوچھو!"
"غضنفر کی ان حرکتوں کا اثر ہمارے رشتے پر تو نہیں پڑے گا نا! مطلب سالک انکل بہت غصے میں تھے آج، تو کہیں وہ غضنفر کے غصے میں ہمارا رشتہ بھی نہ ختم کردیں۔" اسے فکر لاحق ہوئی۔
"پتا نہیں یار!" وہ دھیرے سے بولی۔
"ابھی انکل نے کچھ بات چیت کی کہ کیا کرنے کا سوچا ہے انہوں نے آگے؟" اس نے جاننا چاہا۔
"پاپا کے ایک وکیل انکل دوست ہیں، کل وہ دبئی سے واپس آرہے ہیں، تو ان سے ملیں گے اور ملیحہ کے نکاح والی بات ڈسکس کریں گے، پھر دیکھو وہ کیا مشورہ دیتے ہیں؟" اس نے آہستہ سے بتایا۔
*******************************
ملیحہ نے کروٹ بدل کر صبیحہ کی جانب دیکھا تو وہ بستر پر سے غائب ملی جب کہ گیلری کا دروازہ بھی کھلا ہوا تھا۔
وہ اکثر رات کے وقت گیلری میں کھڑی عزیر سے باتیں کیا کرتی تھی اسی لئے یہ بات ملیحہ کیلئے کوئی غیر معمولی نہیں تھی۔
چند لمحے یوں ہی لیٹے رہنے کے بعد اس نے دوبارہ بائیں طرف کروٹ لے لی اور نائٹ بلب کی روشنی میں کسی غیر مرئی نقطے کو تکتے ہوئے سوچ کے دهاروں پر بہنے لگی۔ اور ان کچھ دونوں میں مختلف اوقات میں سنی گئی باتیں پھر سے اس کے ذہن میں گردش کرنے لگیں۔
"کیا آپ کریں گی مجھ سے شادی؟ بھیجوں میں اپنا رشتہ آپ کے گھر؟" اس نے براہ راست اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اچانک ہی سوال کیا تھا۔
"اگر کسی کے ساتھ ایسا ہوجائے، پھر اس کے والدین اس کے ساتھ کافی برا سلوک کریں، یہاں تک کہ گھر سے نکال دیں، وہ شخص بدمزاج ہوکر ان سے بدظن ہوچکا ہو تو پھر ایسے شخص کے ساتھ کیا کرنا چاہئے؟"
"محبت!" انہوں مسکراتے ہوئے ایک لفظی جواب دیا تھا۔ اور یہ جواب اتنا مکمل اور پر یقین تھا کہ وہ مزید کوئی سوال نہیں کر پائی تھی۔
"یہ آپ ٹھیک نہیں کر رہے ہیں حمدانی صاحب۔" سلیمان نے دبا دبا احتجاج کیا تھا۔
"مجھے صحیح، غلط سیکھانے کے بجائے، اپنے اس بھانجے کو سیکھاؤ جو چوری جیسی حرکت کے بعد اپنے گھر سے در گور ہو کر تمہارے گھر پر پڑا ہوا ہے، میں اپنی بیٹی کی شادی کسی شریف عزت دار شخص سے کروں گا، تمہارے بھانجے کے جیسے کسی آوارہ بدمعاش سے نہیں۔" سالک صاحب لحاظ مروت کا دامن بالکل چھوڑ چکے تھے۔
"اے تم! اٹھاؤ یہ اور نکلو یہاں سے۔" سالک صاحب نے چٹکی بجاتے ہوئے رنگیلا کو مخاطب کرکے ٹوکرے کی جانب اشارہ کیا تھا۔
"دیکھو! تم۔۔۔تم یہ ٹھیک نہیں کر رہے ہو۔" ملیحہ نے لاغر سے انداز میں تنبیہہ کی تھی۔
"اور جو تمہارے باپ نے کیا تھا میرے ماموں کے ساتھ وہ ٹھیک تھا!" وہ یکدم ہی بلند آواز سے دھاڑا تھا۔
"کتنی بری طرح کل ان کو بےعزت کرکے گھر سے نکالا ہے تمہارے باپ نے، اب اس کی سزا تو بھگتنی پڑے گی۔"
"دیکھو جو کچھ بھی ہوا اس کیلئے میں تم سے معافی چاہتی ہوں، اور میں پاپا کی طرف سے تمہارے ماموں سے بھی معافی مانگ لوں گی، پلیز مجھے جانے دو۔"
"کیل گاڑ کر نکل لینے کے بعد بھی دیوار میں سوراخ رہ جاتا ہے، اسی لئے تمہاری یہ معافی اب کسی کام کی نہیں ہے، اب تم بس دیکھتی جاؤ کہ بدمعاشی کیا ہوتی ہے!" وہ غصے میں تھا۔
"میں نے کہا نا کہ یہ سب میں نے غصے میں کیا تھا، کل جب انکل نے رشتے سے انکار کیا تو میں ڈر گیا تھا کہ کہیں وہ تمہاری شادی کسی اور سے نہ کروادیں، بس اسی لئے جو ٹھیک لگا میں کر گزرا، کیونکہ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔" اس نے دھیرے سے کہا تھا۔
"دیکھو میں چاہتا تو تمہارے ساتھ کوئی جسمانی زبردستی بھی کرسکتا تھا، مگر میں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ میرا ارادہ غلط نہیں تھا، تب ہی تو تمھیں صحیح سلامت خود واپس چھوڑا ہے تمہارے گھر؟ اگر میرے ارادے غلط ہوتے تو کیا میں تمھیں ایسے چھوڑتا؟ اور اب یوں منت کرتا؟" اس نے دوسرے پہلو اجاگر کیے تھے۔
"ہمارا نکاح تو ہوگیا ہے، میں سب سے معذرت کرنے کیلئے بھی تیار ہوں، پلیز تم بھی میرے پاس آجاؤ، تم جو کہو گی میں وہ ہی کروں گا۔" اس نے عاجزی سے گزارش کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی تھی۔
"ہم دوبارہ باقاعدہ سب کی رضا مندی سے سنت کے مطابق نکاح کرلیں گے، مگر پلیز تم مان جاؤ، زندگی میں پہلی مرتبہ کسی سے کچھ مانگ رہا ہوں میں، ورنہ اب تک تو بنا مانگے بس دکھ ہی ملے ہیں۔" اس نے حل نکالتے ہوئے دکھ سے کہا تھا۔
"میں جانتا ہوں کہ جو نقشہ میرے گھر والوں نے تم لوگوں کے سامنے کھینچا ہے اس کی بنیاد پر میں تم لوگوں کیلئے ایک برا انسان ہوں، لیکن ایک موقع تو دے کر دیکھو اس برے کو اچھا بننے کا۔" وہ اسی عاجزی سے کہہ رہا تھا۔
"میری باتوں پر دماغ سے نہیں دل سے غور کرنا ملیحہ۔" اس نے پھر سے گزارش کی تھی۔
یہ ساری باتیں مسلسل اس کے ذہن میں گونج کر اسے الجھا رہی تھیں۔ اور وہ الجھتی چلی جا رہی تھی۔ تب ہی سائیڈ ٹیبل پر رکھے اس کے موبائل میں پیغام موصول ہونے کی مخصوص ٹون بجی۔ اس نے موبائل اٹھا کر چیک کیا۔ اسی نمبر سے میسج آیا تھا جس سے شام میں غضنفر نے کال کی تھی۔ اور پیغام شاعرانہ انداز میں تھا۔
"کبھی کبھار ہی لیکن پکارتے ہیں تجھے"
"ہمارا چاہنے والوں میں نام ہوگا نا؟"
"اگر میں آدھا ادھورا ہی لوٹ آؤں"
"نگاہِ ناز! وہ ہی احتمام ہوگا نا؟"
"بس ایک بار محبت سے دیکھنا ہے اِدھر"
"بتاؤ تم سے یہ چھوٹا سا کام ہوگا نا؟"
انتخاب
اس نے اشعار کی صورت پھر اسے قائل کرنا چاہا تھا۔ جسے پڑھ کر کچھ لمحوں کیلئے وہ بھی مبہوت بھی ہوگئی۔ مگر پھر آج جو کچھ بھی ہوا وہ یاد آنے پر وہ گویا واپس ہوش میں آئی اور یہ میسج ڈیلیٹ کرنے کے بعد موبائل واپس رکھ کر سونے کی کوشش کرنے لگی۔
مگر ستم ظرفی ہوئی کہ نیند کے بجائے پھر اس کا خیال آگیا۔ اور اسی کے متعلق ذہن میں باتیں گونجنے لگیں۔ جس کے باعث اس نے آنکھیں کھول لیں۔
"اگر کسی کے ساتھ ایسا ہوجائے تو پھر ایسے شخص کے ساتھ کیا کرنا چاہئے؟"
"محبت!"
"میں تم سے محبت کرتا ہوں۔"
"ایک موقع تو دے کر دیکھو اس برے کو اچھا بننے کا۔"
"اگر کسی کے ساتھ ایسا ہوجائے تو پھر ایسے شخص کے ساتھ کیا کرنا چاہئے؟"
"محبت!"
"میں تم سے محبت کرتا ہوں۔"
"محبت!"
"میں تم سے محبت کرتا ہوں۔"
"محبت!"
"میں تم سے محبت کرتا ہوں۔"
"میں تم سے محبت کرتا ہوں۔"
"میں تم سے محبت کرتا ہوں۔"
اس کے ذہن میں بس اسی بات کی تکرار ہونے لگی جس سے تنگ آکر اس نے پھر کس کے سے آنکھیں میچھ لیں۔ مگر وہ یہ بھول گئی تھی کہ آنکھیں بند کرلینے سے خطرہ ٹل نہیں جاتا۔
میں نے دل کے دروازہ پر لکھا کہ اندر آنا منع ہے
عشق مسکراتے ہوئے بولا، میں اندھا ہوں جناب
انتخاب
*******************************
ڈرائینگ روم میں کہنے کو اس وقت چھے لوگ موجود تھے مگر خاموشی ایسی چھائی ہوئی تھی گویا کسی ذی روح کا نام و نشان بھی نہ باقی ہو۔
"بات کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔" بلآخر دردانہ کی سنجیدہ آواز نے اس خاموشی کو توڑا۔
"اماں بی! یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ!" رفاقت حیران ہوئے۔
یہ ہی کیفیت شاہانہ اور شفاعت کی بھی تھی۔ سلیمان کو اس بات سے کچھ امید ملی جب کہ صالحہ ہمیشہ کی طرح خاموشی سے سر جھکائے بیٹھی رہیں۔
"صحیح کہہ رہی ہوں، غضنفر نے جو کیا وہ غلط نہیں ہے، ہاں جس طرح کیا وہ طریقہ غلط تھا جس کی تلافی کیلئے اگر وہ راضی ہے تو ایک موقع دینا چاہئے۔" وہ مزید بولیں۔
"مگر اماں بی سالک بھائی کبھی نہیں مانیں گے، اور ماننا چاہیے بھی نہیں، بھلا جو حرکت اس نے کی ہے وہ کوئی چھوٹی بات ہے!" شاہانہ کو یہ معاملہ فہمی ہضم نہیں ہو رہی تھی۔
"اس گھر کے سربراہ کی حیثیت سے ابھی میں زندہ ہوں شاہانہ، اسی لئے مجھے فیصلہ کرنے دو۔" دردانہ نے سختی سے ٹوکا۔ وہ منہ بنا کر خاموش ہوگئیں۔
"اور بھولو مت کہ اس گھر سے عزیر اور صبیحہ کے رشتے کی صورت ہمارا تعلق جڑا ہے، جسے برقرار رکھنے کیلئے جوش سے نہیں ہوش سے کام لینا ہوگا، ورنہ اگر سالک نے غضنفر کے غصے میں عزیر اور صبیحہ کا رشتہ بھی ختم کردیا تو اس معاملے کی وجہ سے خواہ مخواہ وہ دونوں بچے بھی زد میں آجائیں گے جن کا ان سب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔" انہوں نے سنجیدگی سے دوسرا نقطہ اٹھایا تو سب سوچ میں پڑ گئے۔
"رفاقت! فون کرکے بلاؤ سالک اور راضیہ کو، کہو کہ مجھے ان سے بات کرنی ہے۔" انہوں نے اسی انداز میں حکم صادر کیا تو انہیں اس کی تکمیل کرنی پڑی۔ جب کہ سلیمان کو بھی بات بن جانے کی امید نظر آنے لگی۔
*******************************
"ملیحہ پلیز! غصے میں کی گئی میری ایک غلطی کی کوئی سنگین سزا نہ دے دینا مجھے۔" غضنفر کے لہجے میں بےتحاشا التجا تھی۔
"آج ماموں بات کرنے گئے ہیں پاپا لوگوں سے، اور مجھے امید ہے کہ آخری فیصلہ تم پر ہی چھوڑا جائے گا، پلیز مجھے سزائے موت نہ سنانا، کیونکہ میں تمہارے ساتھ جینا چاہتا ہوں۔" کیا نہیں تھا اس کے لہجے میں کرب، بےبسی، التجا، تڑپ۔ جسے محسوس کرکے وہ بےساختہ لب بھینچ گئی۔
"ملیحہ! پاپا کہہ رہے ہیں تیار ہوجاؤ، ہمیں چلنا۔" یکدم ہی صبیحہ کہتی کمرے میں آئی تو ملیحہ نے فوری طور پر موبائل کان سے ہٹا کر ہاتھ کمر کے پیچھے کرلیا۔ اور اس نے ایسا کیوں کیا یہ وہ خود بھی سمجھ نہ پائی۔
"کہاں؟" کھڑکی کے نزدیک کھڑی ملیحہ نے ناسمجھی سے پوچھا۔ جب کہ لائن پر موجود غضنفر بھی ان کی باتیں سن پا رہا تھا۔
"رفاقت انکل کا فون آیا ہے، انہوں نے امی پاپا کو بلایا ہے کچھ ضروری بات کرنے کیلئے، مگر پاپا ہم دونوں کو بھی ساتھ چلنے کا کہہ رہے ہیں۔" اس نے مختصر وضاحت کی۔
وہ حیران ہوئی۔ مطلب غضنفر کا خدشہ درست تھا کہ آج کوئی فیصلہ ہونے والا تھا۔
"چلو پانچ منٹ میں نیچے آجاؤ۔" وہ اسے تلقین کرتی ہوئی واپس چلی گئی۔
ملیحہ نے پر سوچ انداز میں موبائل کی جانب دیکھا جس پر ہنوز رابطہ بحال تھا۔ چند لمحے یوں ہی دیکھتے رہنے کے بعد اس نے اسکرین پر نظر آتے سرخ نشان کو چھوتے ہوئے رابطہ منقطع کیا اور آگے بڑھ گئی۔
جب کہ دوسری جانب "ٹوں ٹوں" کی آواز سناتے موبائل کو غضنفر نے بھی پر سوچ انداز میں کان سے ہٹایا۔
*******************************
تھوڑی ہی دیر میں یہ چاروں "عباس ولا" پہنچ چکے تھے۔ جس کے بعد صبیحہ اور ملیحہ کو دردانہ کے کہنے پر زوہا اپنے کمرے میں لے گئی تھی جب کہ سالک اور راضیہ اب ان لوگوں کے ہمراہ ڈرائینگ روم میں موجود تھے۔
"یہ آپ کا ہی احترام ہے اماں بی جو اتنا سب ہونے کے بعد بھی میں اب تک باتوں سے معاملہ حل کرنے کو ترجیح دے رہا ہوں، ورنہ جو حرکت اس نے کی ہے اس کے بعد میرے ہاتھوں سے زندہ بچ جانے پر اسے شکر ادا کرنا چاہئے۔" سالک صاحب درمیانے مگر سخت انداز میں بولے۔
"مجھے پتا ہے بیٹا کہ تم ایک سمجھدار انسان ہو تب ہی معاملات ہمارے بس میں ہیں، اور ہم سب چاہتے ہیں کہ یہ معاملات اب ٹھیک بھی ہوجائیں جس کیلئے تم لوگوں کا تعاون بہت ضروری ہے۔" دردانہ تحمل سے گویا ہوئیں۔
"ہم مانتے ہیں کہ غضنفر نے جو کیا وہ ٹھیک نہیں تھا، لیکن ایک بار ٹھنڈے دماغ سے سوچو تو سہی کہ ساری غلطی اکیلے غضنفر کی نہیں ہے، اس نے پہلے بات کی تھی ہم سے اپنا رشتہ لے کر جانے کی مگر ہم نہیں مانے تو پھر سلیمان اکیلے آیا تھا تمہارے گھر جس سے تم نے انکار کردیا اور غضنفر سے یہ برداشت نہ ہوا، در حقیقت وہ دل کا برا نہیں ہے، بس غصے کا تھوڑا تیز ہے بیٹا۔" انہوں نے رسان سے جھوٹی سچی وضاحت کے ساتھ سمجھانا چاہا۔ جسے سب خاموشی سے سنتے رہے۔
"آپ کی ساری باتیں ٹھیک ہیں اماں بی مگر میں اپنے وکیل سے بات کر چکا ہوں ملیحہ کی طلاق کیلئے، میں کسی صورت یہ زبردستی کا رشتہ قائم نہیں رکھوں گا۔" انہوں نے بھی سنجیدگی سے اپنا فیصلہ سنایا۔
"اور اگر آپ لوگوں نے اس حوالے سے مزید کوئی اصرار کیا تو مجبوراً ہمیں۔۔۔۔ہمیں صبیحہ کا رشتہ بھی ختم کرنا پڑے گا۔" انہوں نے آہستہ سے مزید کہا تو سب چونک کر ان کی جانب دیکھنے لگے۔
"یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی سالک بھائی، بھلا ایک کے چکر میں دوسرے کو کیوں گھسیٹ رہے ہیں آپ!" شاہانہ نے احتجاج کیا۔
"کیونکہ مجھے میری دونوں بیٹیاں عزیز ہیں، اور میں نہیں چاہوں گا کہ دونوں کے ساتھ کچھ بھی برا ہو۔" انہوں نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
"دیکھو بیٹا! یہ عقل مندی نہیں ہے، عزیر اور صبیحہ کی ایک دوسرے کیلئے پسندیدگی ہم سب ہی جانتے ہیں، بلکہ ان کی پسند سے ہی تو یہ رشتہ ہوا تھا، اور یاد کرو اس وقت تم نے کہا تھا کہ تمہارے لئے تمہاری بیٹی کی مرضی سب سے اہم ہے تو کیوں نا اس بار بھی فیصلہ اسے ہی کرنے دیا جائے!" دردانہ نے بیچ کی راہ نکالی۔
"کیا مطلب؟" وہ سمجھے نہیں۔
"مطلب ہمیں ملیحہ سے ہی پوچھ لینا چاہئے کہ وہ کیا چاہتی ہے؟ کیونکہ زندگی اس کی ہے، پھر اس کا جو بھی فیصلہ ہوگا ہم سب کو قبول ہوگا، اور اس فیصلے کا اثر صبیحہ کے رشتے پر نہیں پڑے گا۔" انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے سلیمان کی دی گئی تجویز پیش کی۔ وہ سوچ میں پڑ گئے۔ جب کہ دردانہ کا لحاظ کرتے ہوئے باقی سب بھی بنا کچھ بولے خاموشی سے انہیں سن رہے تھے۔
"ٹھیک ہے۔" ایک گہری سانس لے کر وہ نتیجے پر پہنچے۔
"صالحہ! جاؤ ملیحہ کو لے کر آؤ۔" دردانہ نے ہدایت دی تو وہ فوراً اثبات میں سر ہلاتی اٹھ کھڑی ہوئیں۔
جب تک وہ ملیحہ کو لینے گئیں اس عرصے تک کمرے میں مکمل خاموشی چھائی رہی۔ سب لبوں پر خاموشی سجائے، ذہن میں مختلف سوچیں لئے ملیحہ کے منتظر تھے۔ جو سادے سے جامنی سوٹ میں چند لمحوں بعد صالحہ کے ہمراہ ڈرائینگ روم میں داخل ہوئی۔
"آؤ بیٹا، یہاں بیٹھو۔" دردانہ نے اسے پیار سے بلایا تو وہ آہستہ سے ان کے برابر میں آ بیٹھی۔ جب کہ صالحہ بھی اپنی سابقہ جگہ پر بیٹھ چکی تھیں۔
"دیکھو بیٹا! جو ہوا اس کیلئے ہم سب شرمندہ ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی طرح یہ بگڑی ہوئی بات بن جائے۔" وہ نرمی سے گویا ہوئیں۔
"زبردستی سہی مگر تمہارا اور غضنفر کا نکاح ہوچکا ہے، اور وہ کوئی انجان بھی نہیں ہے، ہمارا اپنا خون ہے اور تمہاری بہن کا جیٹھ بھی ہوا رشتے میں، ہاں مانا کہ ہمارے اور اس کے درمیان معاملات تھوڑے خراب تھے لیکن وہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے، غلطیاں، لڑائی جھگڑے، بدگمانیاں ہر گھر میں ہوتی ہیں، اور سمجھداری اسی میں ہے کہ انہیں نظر انداز کرتے ہوئے دل صاف کرکے آگے بڑھا جائے، اور ہم اب وہ ہی کرنے لگے ہیں، اب سے ہمارا غضنفر ہمارے ساتھ پہلے کی طرح اسی گھر میں رہے گا۔" انہوں نے کافی لمبی تہمید باندھی۔
جسے سن کر سب ہی حیران ہوئے اور صالحہ نے تو باقاعدہ خوشگوار جب کہ شاہانہ نے ناگوار حیرت سے انہیں دیکھا۔
"اچھی بات ہے یہ تو۔" وہ دھیرے سے بولی۔
"ہاں، اسی لئے اب ہم چاہتے ہیں بیٹا کہ تم اپنی مرضی بتاؤ، تم کیا چاہتی ہو، یہ نکاح برقرار رکھنا چاہتی ہو یا ختم کرنا چاہتی ہو؟" انہوں نے سارے پہلو اجاگر کرکے محبت سے اس کی رائے جاننا چاہی جس کے سب ہی منتظر تھے۔
"لیکن دادی اس طرح زور زبردستی نکاح نہیں ہوتا۔" اس نے دھیان دلایا۔
"ہمیں اندازہ ہے بیٹا، اسی لئے ہم باقاعدہ اسلامی قوانین کے حساب سے دوبارہ تم لوگوں کا نکاح کروائیں گے، اب تم بتاؤ کہ کیا تم غضنفر سے نکاح چاہتی ہو؟" انہوں نے حل پیش کرتے ہوئے پھر استفسار کیا تو وہ چپ ہوگئی۔
سب کی نظریں اسی پر ٹکی تھیں۔
"گھبراؤ نہیں بیٹا، جو چاہتی ہو کھل کر بتا دو ہاں یا نہیں؟" انہوں نے پیار سے سر پر ہاتھ پھیرا۔
"ہاں!" اس نے ہلکے سے اقرار کیا تو سب کو لمحے بھر کیلئے اپنی سماعت پر شک گزرا۔
"ملیحہ! بیٹا یہ کیا بول رہی ہو!" سالک صاحب نے حیرت سے اسے دھیان دلانا چاہا۔
"جو مجھے ٹھیک لگا پاپا۔" وہ دھیرے سے بولی۔
"لو بھئی! آگ دونوں طرف برابر لگی تھی، تب ہی تو مہاشے نے یہ قدم اٹھایا تھا اور ہم صرف اسے ہی ذمہ دار ٹھہرا رہے تھے۔" فطرت سے مجبور شاہانہ نے طنزیہ انداز میں تبصرہ کیا۔
"شاہانہ!" دردانہ نے سختی سے ٹوکا۔
"مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی بیٹا!" سالک صاحب تاسف سے بولے۔ یہ ہی کیفیت راضیہ کی بھی تھی۔
"امی پاپا مجھے آپ سے اکیلے میں بات کرنی ہے۔" ملیحہ نے کھڑے ہوکر لجاجت سے گزارش کی جس پر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
"صالحہ! انہیں گیسٹ روم تک چھوڑ آؤ۔" دردانہ نے فوراً ہدایت دی تو صالحہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔
ناچاہتے ہوئے سالک اور راضیہ بھی اپنی جگہ پر سے اٹھے اور پھر تینوں ان کی تقلید میں کمرے سے باہر نکل گئے۔
"تمہارا دماغ ٹھیک ہے شاہانہ! یہاں میں بات بنانے کی کوشش کر رہی ہوں اور تم ہو کہ مزید جلتی پر تیل چھڑکے جا رہی ہو۔" ان کے جاتے ہی دردانہ نے سختی سے خبر لی۔
"ٹھیک ہی تو کہا تھا میں نے اماں بی، دیکھا آپ نے کیسے جھٹ سے ہاں کردی اس نے، مطلب اسی نے اشارہ دیا ہوگا نا اسے اور خواہ مخواہ اتنا تماشا کھڑا کردیا، اور یہ آپ نے کیا کہا کہ غضنفر اب سے یہاں رہے گا؟ بھول گئیں آپ وہ چوری والی حرکت؟" وہ بھی بنا نادم ہوئے تنک کر کہتی گئیں۔
"ملیحہ نے اگر ہاں کی ہے تو اس میں ہم سب کا ہی فائدہ ہے کہ بات بگڑے گی نہیں، اور رہی بات غضنفر کے یہاں رہنے کی تو یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے، اور تم بار بار یہ چوری والی بات بیچ میں نہ لاؤ، شفاعت سمجھا لو اپنی زبان میں اسے، ورنہ پھر تم سے کہے گی کہ آپ کی اماں بی نے مجھے باتیں سنائی ہیں۔" وہ بھی دوبدو حساب کتاب برابر کرتی شفاعت کو بیچ میں لائیں۔
جنہوں نے محض اپنی بیگم کو شکوہ کنا نگاہوں سے گھورنے پر اکتفا کیا جو اس عزت افزائی پر كلس کر رہ گئی تھیں۔
رفاقت اور صالحہ ہمیشہ کی طرح ان کے معاملے میں کچھ نہیں بولے تھے۔ جب کہ اس فیملی ڈرامے کا حصہ بنے سلیمان سب دیکھتے ہوئے منتظر تھے کہ کب وہ لوگ واپس آکر حتمیٰ فیصلہ سنائیں گے!
*******************************
"آپ لوگ بھی تو بھول رہے ہیں کہ مجھ پر طلاق یافتہ کا لیبل لگا ہے، طلاق کے بعد سے اب تک کتنے لوگ مجھے ریجیکٹ کر چکے ہیں جب کہ غضنفر نے خود ہاتھ بڑھایا ہے میری طرف۔" ملیحہ حجت کرنے میں مصروف تھی۔
سالک اور راضیہ ایک ڈبل صوفے پر ساتھ بیٹھے تھے جب کہ ان کے مقابل والے ڈبل صوفے پر بیٹھی ملیحہ انہیں قائل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
"تو طلاق یافتہ ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم تمہارا ہاتھ ایسے ہی کسی کے ہاتھ میں دے دیں۔" راضیہ نے ٹوکا۔
"بیٹا کوئی کمی نہیں ہے تم میں، اچھی شکل و صورت ہے، پڑھی لکھی ہو، ہم جہیز میں بھی تم دونوں کو ایک ایک پلاٹ دینے والے ہیں ہر طرح سے تمہارا بیک گراؤنڈ اسٹرونگ ہے تو پھر تم یہ کامپرمائز کیوں کرنے لگی ہو؟ تمھیں کسی سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، میں ہر صورت تمہارا پیچھا اس سے چھڑاؤں گا۔" سالک نے نرمی سے سمجھانا چاہا۔
"میں کامپرمائز نہیں کر رہی پاپا یہ میری مرضی ہے، غضنفر اتنا برا نہیں ہے جتنا اسے بنا دیا گیا ہے، ہمیں ایک بار اس برے کو اچھا بننے کا موقع دینا چاہئے، وہ خود آیا ہے سوالی بن کر۔" اس نے حمایت کی۔ مطلب غضنفر اپنی کوشش میں کامیاب ہوگیا تھا۔
"میری بیٹی کوئی چانس نہیں ہے جو میں کسی بھی ایرے غیرے کو اٹھا کر دے دوں۔" وہ تھوڑے برہم ہوئے۔
"بھول گئی تم کہ کیسے تمھیں اٹھا کر لے گیا تھا وہ اور زبردستی نکاح کیا تھا!" راضیہ نے بھی یاد دلایا۔
"یہ ہی تو میں بھی کہہ رہی ہوں کہ صرف نکاح ہی کیا ہے، وہ چاہتا تو سلیمان انکل کی بےعزتی کا بدلہ لینے کیلئے میرا ریپ بھی کرسکتا تھا، مجھے قید میں رکھ سکتا تھا، کسی کوٹھے پر بیچ سکتا تھا، مگر اس نے ایسا کچھ نہیں کیا، کیونکہ اس کا طریقہ غلط تھا، ارادہ نہیں۔" اس نے زور و شور سے ایک اور پہلو اجاگر کیا۔
"اور پھر سائیکالوجی بھی یہ کہتی ہے کہ۔۔۔۔۔۔"
"اس وقت ہمیں تمہارا کوئی سائیکالوجی کا لیکچر نہیں سننا ہے ملیحہ۔" وہ کہنے ہی لگی تھی کہ سالک نے سختی سے ڈپٹا۔
"ٹھیک ہے نہیں بولتی کچھ، آپ نے میری مرضی پوچھی، میں نے بتا دی، کیونکہ آپ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ آپ کیلئے سب سے اہم آپ کی بیٹیوں کی مرضی ہے، اب آگے وہ ہی ہوگا جو آپ کی مرضی ہوگی۔" وہ بھی کھینچے ہوئے انداز میں کہہ کر خاموش ہوگئی۔
وہ چند لمحے اسے یوں ہی دیکھتے رہے جو نظریں جھکائے اپنے ناخن کھرچ رہی تھی۔ پھر ایک گہری سانس لے کر کھڑے ہوتے ہوئے اس کے برابر میں آکر بیٹھ گئے۔
"دیکھو بیٹا! اگر بچہ اپنی نادانی میں کانچ کو چمکتی ہوئی خوبصورت شے سمجھ کر پکڑنے کی ضد کرے تو ماں باپ صرف اس کی خوشی کیلئے ہی اسے کانچ نہیں تھما دیتے، تم بھی اس وقت اپنے لئے وہ مانگ رہی ہو جو تمھیں نقصان پہنچا سکتا ہے، اب بتاؤ ہم تمھیں وہ کیسے دے دیں؟" وہ اس کے گرد بازو حمائل کرکے نرمی سے بولے۔
"میں جانتی ہوں پاپا کے میں کانچ مانگ رہی ہوں، مگر وہ جو ٹوٹ کر بکھرا ہوا ہے اور میں اسے جوڑنے کا ہنر رکھتی ہوں، تب ہی تو مانگ رہی ہوں۔" وہ ان کے سینے سے لگتے ہوئے بولی۔
"بیٹا اس کوشش میں تمہارے ہاتھ زخمی ہوسکتے ہیں۔" انہوں نے پھر روکنا چاہا۔
"اگر آپ کی محبت کے گلوز میرے ہاتھوں ہوں گے تو نہیں زخمی ہوں گے۔" اس کا انداز پر یقین تھا جس پر وہ لاجواب ہوگئے۔
*******************************
"ہم اس رشتے پر رضا مند ہیں۔" سالک صاحب نے بلآخر فیصلہ سنایا دیا۔
سلیمان، صالحہ اور دردانہ کے چہرے بےساختہ کھل اٹھے، رفاقت اور شفاعت نے کوئی خاص رد عمل نہیں دیا جب کہ شاہانہ بھی منہ بنائے بیٹھی رہیں۔
"لیکن! ہماری تین شرطیں ہیں۔" وہ سنجیدگی سے مزید بولے۔
"ہاں ہاں بیٹا بولو!" دردانہ نے سہولت سے اجازت دی۔
"سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ نکاح دوبارہ اصل طریقے سے سنت کے مطابق ہوگا۔" وہ بتانے لگے۔
"بالکل! ہم خود بھی اس کے حق میں ہیں۔" انہوں نے بھرپور تائید کی۔
"دوسری یہ کہ غضنفر کو آکر ہم سے معافی مانگنی ہوگی۔" وہ پھر گویا ہوئے۔
"ضرور، یہ بالکل بجا ہے۔" دردانہ کو کوئی اعتراض نہ تھا۔
"اور تیسری شرط؟" سلیمان نے جاننا چاہا تو سالک صاحب نے سنجیدگی سے ان کی جانب دیکھا۔ جب کہ باقی سب بھی اگلی شرط کے منتظر تھے۔
*******************************
"دیکھا آپ نے! کیسی برین واشنگ کی میں نے اس کی، آخر اس نے ہاں کر ہی دی۔" غضنفر فخر سے کہتے ہوئے پھر اسنوکر ٹیبل پر جھکا اور اسٹیک سے بال کا نشانہ لینے لگا۔
"ہممم! پر پلان تو میرا تھا نا! ورنہ تم تو کام بگاڑ کر آگئے تھے۔" ٹیبل کے نزدیک کھڑے سلیمان نے یاد دلایا۔
"چلیں، یہ سہرا بھی باندھ لیں آپ اپنے سر، ویسے مجھے کب باندھنا ہے یہ شادی کا سہرا؟" اس نے پوچھتے ہوئے شارٹ لگایا مگر بال سوراخ میں نہ جا سکی۔
"اس مہینے کی چھبیس تاریخ کو۔" انہوں نے اطمینان سے بتایا۔
"ہممم! اور وہ شادی کی تیسری شرط تو بتائی ہی نہیں آپ نے ابھی تک حمدانی کی، وہ کیا ہے؟" اس نے پھر اسی بال کا نشانہ لیتے ہوئے پوچھا جو سوراخ میں نہیں جا سکی تھی۔
اس کی بات پر سلیمان نے بےساختہ سنجیدگی سے اس کی جانب دیکھا۔
"بتائیں!" اس نے اصرار کیا۔
"کچھ خاص نہیں تھی۔" ان کا انداز ٹالنے والا تھا۔
"لاؤ اسٹیک دو، اب ایک نشانہ میں لگاتا ہوں۔" انہوں نے موضوع بدلتے ہوئے اس کے ہاتھ سے اسٹیک لی۔
پھر ٹیبل پر جھک کر شارٹ مارا اور وہ بال سیدھی سوراخ میں گئی جس کو لے کر غضنفر کب سے ناکام ہو رہا تھا۔
"دیکھا! ایسے کھیلتے ہیں گیم!" انہوں نے فخریہ انداز میں کہا۔
جب کہ غضنفر کو ان کا یوں اچانک بات بدلنا تھوڑا غیر معمولی لگا تھا جس کے باعث وہ محض انہیں دیکھ کر رہ گیا جن کے چہرے پر اب فاتحانہ مسکراہٹ رقصاں تھی۔
دشمن کے ارادوں کو اگر زیر ہے کرنا
تم کھیل وہی کھیلو، انداز بدل ڈالو
انتخاب
*******************************
عباس ولا سے واپس آنے کے بعد ملیحہ اب اپنے کمرے میں موجود بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھی ان ہی سب سوچوں میں گم تھی کہ سائیڈ ٹیبل پر رکھے اس کے موبائل پر پیغام موصول ہونے کا عندیہ ملا۔ وہ چونک کر موبائل کی جانب متوجہ ہوئی اور اسے اٹھا کر پیغام دیکھا۔
"تھینکس!"
غضنفر کی جانب سے یہ ایک لفظی میسج موصول ہوا تھا۔ مطلب اس تک خبر پہنچ گئی تھی اس کی رضا مندی کی۔
اس سے قبل کہ وہ اس پر کچھ رد عمل دیتی صبیحہ دروازہ دھکیلتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔ اس نے موبائل اسکرین آف کردی۔
"کیا کر رہی تھی؟" وہ پوچھتی ہوئی بیڈ کی جانب آئی۔
"کچھ خاص نہیں، تم بتاؤ کیا ڈسکشن چل رہا تھا امی پاپا کے ساتھ؟" ملیحہ نے پوچھتے ہوئے موبائل واپس سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔
"وہ ہی شادی کے حوالے سے، بس تین ہفتے رہ گئے ہیں شادی شروع ہونے میں اور اب ساتھ تمہاری بھی شادی ہے تو بس ارینجمنٹس کی بات چیت کر رہے تھے۔" صبیحہ نے بیڈ پر اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے جواب دیا۔
"ہممم! ویسے دادی نے تو کہا ہے کہ ہم لوگوں کو تیاریوں کے چکر میں زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔" اس نے یوں ہی یاد دلایا۔
"ہاں لیکن جو تھوڑے بہت انتظامات ضروری ہیں وہ تو کرنے ہیں نا!" وہ کندھے اچکا کر بولی تو ملیحہ نے بھی اثبات میں سرہلایا اور پھر دونوں کے بیچ خاموشی حائل ہوگئی۔
"ملیحہ ایک بات پوچھوں؟" اس نے تہمید باندھی۔
"ہاں پوچھو!"
"تم نے کسی دباؤ میں آکر تو یہ فیصلہ نہیں لیا نا!" اس نے نرمی سے ٹٹولنا چاہا۔
"نہیں، میں بھلا کس کے دباؤ میں آؤں گی!" وہ کندھے اچکاتے ہوئے ہنسی۔
"کسی کے بھی جیسے غضنفر نے تمھیں پریشرائز کیا ہو! تم نے بتایا تھا نا کہ اس نے تم سے گن پائنٹ پر نکاح کرلیا تھا تو ایسے ہی اس نے تمھیں ہاں کرنے کیلئے اکسایا ہو! یا پھر اس ڈر سے تو ایسا نہیں کر رہی کہ کہیں میرا اور عزیر کا رشتہ نہ ٹوٹ جائے!" وہ ذہن میں کلبلاتے خدشے زبان پر لائی۔
بےساختہ ملیحہ کے لبوں پر مسکراہٹ نے احاطہ کیا۔
"نہیں پگلی! ایسا کچھ نہیں ہے، نہ ہی غضنفر نے مجھے پریشرائز کیا ہے اور نہ ہی مجھے کوئی ڈر ہے، بلکہ مجھے امید ہے۔" اس نے رسان سے یہ خدشے دور کیے۔
"کیسی امید؟" وہ سمجھی نہیں۔
"کسی بھٹکے ہوئے کو سیدھی راہ پر لے آنے کی، بکھرے ہوئے کو سمیٹ لینے کی، بگڑے ہوئے کو سدھار لینے کی۔" اس نے پریقین لہجے میں کہا جو کہ صبیحہ کو لاجواب کر گیا۔
*******************************
ایک ہفتے بعد
"بس کردو رفاقت! آخر وہ بیٹا ہے تمہارا، در گزر سے کام لو۔" دردانہ نے سمجھانا چاہا۔ انہوں نے خاص طور پر رفاقت کو بات کرنے کیلئے اپنے کمرے میں بلایا تھا۔
"نہیں ہوتا در گزر اماں بی، آج بھی وہ لمحہ جب مجھے یاد آتا ہے جس وقت غضنفر پر چوری کا الزام سچ ثابت ہوا تھا تو اس وقت محسوس ہونے والی شرمندگی اور بےعزتی مجھے اسی روز کے جتنے زور دار ڈنک مارتی ہے۔" رفاقت کے لہجے میں غصہ زیادہ تھا یا بےبسی یہ اندازہ لگا پانا مشکل تھا۔
"تو کیوں اپنے ذہن پر گزرے ہوئے کل کے بچھوؤں کا بوجھ لئے گھوم رہے ہو جو تمھیں بار بار ڈنک مارے، اتار کر پھینک دو انہیں۔" انہوں نے ترکی بہ ترکی کہا۔
"کیسے اماں بی!" انہوں نے سوال کیا۔
"غضنفر کو معاف کرکے۔" انہوں نے ٹھہرا ہوا جواب دیا تو وہ خاموش ہوگئے۔
"آج ہم سب جا رہے ہیں نا سالک کے گھر ملیحہ کی رسم کرنے، وہاں غضنفر کو بھی بلوایا ہے میں نے سلیمان کے ساتھ، اور وہاں سے واپسی پر غضنفر ہمارے ساتھ آئے گا، وہ بھی تمہارے کہنے پر۔" انہوں نے باقاعدہ فیصلہ سنایا۔
وہ بےبسی سے انہیں دیکھ کر رہ گئے۔
*******************************
"دو ہفتے بعد شادی ہے تو پھر یہ رسم وسم کے چکر میں پڑنے کی کیا ضرورت تھی؟" ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ملیحہ نے ٹاپس پہنتے ہوئے کوفت سے کہا۔
وہ ریشم کی کلیوں والی سفید فراک چوڑی دار پاجامے کے ساتھ پہنے، آڑھی مانگ سے کھلے سیاہ بال پشت پر بکھرائے، ہلکے سے میک اپ کے ساتھ تقریباً تیار ہی تھی۔
"کون سا دھوم دھڑکا کر رہے ہیں، صرف گھر والے ہی تو ہیں، اور دادی کی بات ٹال بھی تو نہیں سکتے تھے نا!" نارنجی سوٹ میں ہلکا پھلکا سا تیار ہوئی صبیحہ بولی جو کہ سائیڈ ٹیبل کی دراز میں کچھ ڈھونڈ رہی تھی۔
"السلام علیکم بھابھیز!" تب ہی زوہا چہکتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی تو دونوں چونک کر متوجہ ہوئیں۔
"وعلیکم السلام! آگئے تم لوگ۔" صبیحہ جواب دیتی ہوئی آگے بڑھ کر اس سے گلے ملی۔
"نہیں ابھی راستے میں ہیں۔" زوہا نے اس سے الگ ہوتے ہوئے شرارت سے جواب دیا اور پھر ملیحہ سے گلے ملی۔
"اچھی لگ رہی ہیں آپ بھابھی صاحبہ۔" اس نے بےساختہ ملیحہ کی تعریف کی۔
"آپ بھی اچھی لگ رہی ہیں نند صاحبہ۔" جواباً اس نے گلابی سوٹ میں سادہ سا تیار ہوئی زوہا کا گال کھینچا۔
*******************************
"میں نے جو کچھ بھی آپ لوگوں کے ساتھ کیا، آپ لوگوں سے کہا ان سب کیلئے میں دل سے معافی چاہتا ہوں۔" صوفے پر بیٹھے غضنفر نے آہستہ سے کہتے ہوئے باقاعدہ ہاتھ جوڑے۔ جس کے جواب میں باقی سب خاموش ہی رہے۔
"اور ساتھ ہی ساتھ آپ لوگوں کا شکر گزار بھی ہوں کہ آپ لوگوں نے مجھے ایک موقع دیا۔" وہ مزید بولا۔
"تمھیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے یہ اچھی بات ہے، اور اس سے بھی زیادہ خوشی کی بات تب ہوگی جب تم ایسی کوئی غلطی دوبارہ نہیں دہراؤ گے۔" دردانہ نے مسکراتے ہوئے سب کی ترجمانی کی۔
"نہیں دہراؤں گا دادی۔" وہ فوراً بولا۔
جب کہ اس کے دل کا حال تو وہ ہی جانتا تھا جو ان سب سے سخت بدظن تھا۔
صالحہ تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھیں اپنے بیٹے کو واپس پا کر۔ رفاقت صاحب کی چپ ہی شاید ان کی رضا مندی تھی۔ شفاعت کیلئے بس یہ ہی کافی تھا کہ ان سب میں ان کے بیٹے کا رشتہ متاثر نہیں ہوا۔ شاہانہ کو یہ سب ایک آنکھ نہیں بھا رہا تھا اسی لئے وہ لئے دیے ہی بیٹھی تھیں۔ سالک اور راضیہ بھی اپنی بیٹی کی رضا مندی اور دردانہ کی تسلیوں کے آگے خاموش ہوگئے تھے۔ جب کہ سلیمان اپنی منزل کو قریب ہوتا دیکھ کر اندر ہی اندر بےحد خوش تھے۔
"چلو اب ملیحہ کو بھی بلا لو رسم کر لیتے ہیں۔" دردانہ نے توجہ دلائی۔
"ہاں میں لے کر آتی ہوں اسے۔" راضیہ کہتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئیں۔
تھوڑی دیر بعد صبیحہ، زوہا اور راضیہ کے ہمراہ سفید سوٹ کے ساتھ سر پر سرخ دوپٹہ اوڑھے وہ ڈرائینگ روم میں آئی۔ جس کی جانب سب کی نظریں بےساختہ اٹھیں۔
اس نے بھی ہلکی سی نظر اٹھا کر دیکھا تو نگاہیں سیدھی سامنے صوفے پر بلیک جینز پر میرون شرٹ اور اس کے اوپر بلیک جیکٹ پہنے بیٹھے غضنفر سے جا ملیں جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ اس نے جلدی سے دوبارہ پلکیں جھکالیں۔
اسے غضنفر کے برابر میں ہی بٹھا دیا گیا۔ جس کے باعث ملیحہ کے دھڑکنیں تھوڑی بےترتیب ہوئیں۔ اور پھر دردانہ نے دونوں کی رسم کی۔ جسے عبید ہینڈی کیم میں ریکارڈ کرنے لگا۔
"اچھی لگ رہی ہو۔" موقع پاتے ہی عزیر نے صبیحہ کے کان میں شوخی سے سرگوشی کی۔
"پتا ہے مجھے۔" اس نے دھیمے انداز میں مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے مصنوعی بےنیازی سے جواب دیا۔
غضنفر نے کن انکھیوں سے سب کی جانب دیکھا۔ سب کے چہروں پر ایک خوشی تھی۔ جسے دیکھ کر اسے کوئی خوشی نہیں ہوئی۔
"اللہ بری نظر سے بچائے ہماری خوشیوں کو۔" دردانہ نے دل سے دعا دی تو بےساختہ کئی "امین" سنائی دیں۔
"بری نظر کا تو پتا نہیں، لیکن مجھ سے نہیں بچیں گی آپ لوگوں کی یہ خوشیاں، اب میں بتاؤں گا کہ جب خوشیاں چھنتی ہیں تو کیسا درد ہوتا ہے!" غضنفر نے زہر خندہ انداز سے دل ہی دل میں کہا۔
جب کہ اس کے چہرے پر پر فریب مسکراہٹ ویسے ہی موجود تھی۔ جو اس کے اندر سلگتی آگ کو چھپائے ہوئے تھی۔ جس میں وہ سب کو جلانے کا ارادہ لئے بیٹھا تھا۔
*******************************
"آپ بہت خوش ہیں نا باجی!" سلیمان نے مسکراتے ہوئے تائید چاہی۔
"بہت نہیں، بلکہ بہت زیادہ خوش ہوں۔" صالحہ مسکراتے ہوئے بولیں۔
رسم کے بعد سب کیلئے شاندار ڈنر کا اہتمام تھا جس سے فارغ ہوکر اب سب رخصت کیلئے دروازے پر موجود تھے۔ تب ہی موقع پا کر سلیمان دھیمے انداز سے گویا ہوئے۔
باقی سب بھی گاڑیوں میں بیٹھ رہے تھے۔ غضنفر بھی سلیمان کی کار کی جانب آیا۔
"غضنفر!" اس نے جیسے ہی دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھا کسی نے سرد مہری سے اس کا نام لیا۔
وہ جانتا تھا کہ پکارنے والا کون ہے؟ کیونکہ اس سرد مہری سے اسے بس ایک ہی شخص پکارتا تھا۔ وہ پلٹ تو حسب توقع رفاقت پیچھے کھڑے تھے۔
"تم ہمارے ساتھ گھر چلو گے۔" اس کی سوالیہ نظریں بھانپ کر انہوں نے سنجیدگی سے روکنے کا سبب بتایا تو اسے اپنی سماعت پر یقین نہیں آیا۔ باقی سب بھی ان کی جانب متوجہ تھے۔
"میں گھر چلوں!" اس نے بےیقینی سے پوچھا۔ اسے لگا وہ خواب دیکھ رہا ہے۔
"ہاں، اماں بی کا حکم ہے۔" انہوں نے بنا نظریں ملائے جواب دیا اور عین اسی پل اس کا خواب ٹوٹ کر چکنا چور ہوگیا۔
مطلب صرف اماں بی کے حکم کی تکمیل کی جا رہی تھی۔ اور وہ پاگل کچھ اور ہی سمجھ بیٹھا تھا۔
اس سے قبل کہ وہ کچھ کہتا اسے اپنے دائیں کندھے پر دباؤ محسوس ہوا۔ گردن موڑ کر دیکھنے پر پتا چلا کہ سلیمان نے کندھے پر ہاتھ رکھا ہے۔
"جاؤ بیٹا!" انہوں نے دھیرے سے کہتے ہوئے کندھے پر تھپکی دی۔
رفاقت جا کر گاڑی میں بیٹھ چکے تھے۔ باقی سب بھی تقریباً بیٹھنے ہی لگے تھے۔ وہ بھی آہستہ سے چل کر ایک گاڑی کی جانب آیا۔
"یہاں بیٹھ جائیں بھیا!" عبید نے اس گاڑی کا فرنٹ ڈور کھولتے ہوئے کہا جس کی ڈرائیونگ سیٹ پر عزیر تھا۔ جب کہ پچھلی نشست پر دردانہ، صالحہ اور زوہا بیٹھی تھیں۔
وہ بنا کچھ بولے اثبات میں سر ہلا کر اندر بیٹھ گیا۔
عبید خود پیچھے والی گاڑی کی جانب آکر اس کی پچھلی نشست پر بیٹھ گیا جس کے برابر میں شاہانہ بےنیازی سے بیٹھی ہوئی تھیں۔ فرنٹ سیٹ پر رفاقت تھے اور ڈرائیونگ سیٹ پر شفاعت۔
"اللہ حافظ!" زوہا نے کھڑکی میں سے ذرا فاصلے پر کھڑی صبیحہ کو ہاتھ ہلایا تو جواباً اس نے بھی مسکراتے ہوئے یہ ہی عمل دہرایا۔
پھر آہستہ آہستہ تینوں گاڑیاں حرکت میں آکر ایک دوسرے کے پیچھے آگے بڑھیں۔ سب سے پہلے عزیر آگے بڑھا، اس کے پیچھے شفاعت نے گاڑی آگے بڑھائی اور سب سے آخر میں سلیمان بھی روانہ ہوگئے۔
جب کہ اوپر گیلری میں کھڑی ملیحہ ان سب گاڑیوں کو دور جاتا دیکھتی رہی۔
*******************************
چوکیدار نے عباس ولا کا بڑا سا بیرونی دروازہ کھولا جس کے بعد دو گاڑیاں آگے پیچھے اندر آکر ایک دوسرے کے برابر میں ذرا فاصلے سے رک گئیں اور سب باری باری ان میں سے اترنے لگے۔
غضنفر نے بھی باہر آکر سرخ اینٹوں سے بنی زمین پر اپنا سیاہ جوتوں میں قید قدم رکھا اور ان سب کے ہمراہ اندر بڑھا۔ اندرونی دہلیز پر قدم رکھتے ہی اس کی ساری پرانی یادیں تازہ ہوگئیں جس کے باعث اس کے قدم وہیں رک گئے۔ ذہن میں تھپڑ، طعنوں، ڈانٹ، پھٹکار کی بازگشت گونجنے لگی۔
"کیا ہوا بیٹا؟ رک کیوں گئے؟" دردانہ نے اس کے بازو پر ہاتھ رکھ کر پکارا تو وہ یکدم چونکا۔
تب ہی پتا چلا کہ سب لوگ اندر جا چکے ہیں بس دردانہ اور صالحہ کے ہمراہ وہ ہی یہاں رہ گیا تھا۔
"کچھ نہیں۔" اس نے ٹال دیا۔
"چلو پھر اندر۔" انہوں نے اس کے بازو پر تھپکی دی تو وہ آگے بڑھ گیا۔
دردانہ اپنے کمرے کی طرف چلی گئیں جب کہ صالحہ خوشی خوشی غضنفر کو لے کر اس کے کمرے تک آئیں جہاں سے آٹھ سال قبل اسے بےدخل کردیا گیا تھا۔
کمرے میں ہر چیز جوں کی توں تھی جیسے کہ بیڈ، ڈریسنگ ٹیبل، رائیٹنگ ٹیبل۔ ہاں مگر عین سامنے والی دیوار پر اس کے ہاتھ سے بنائی گئی ڈرائینگ وقت کے ساتھ ساتھ تھوڑی مدھم پڑ گئی تھی مگر پوری طرح مٹی نہیں تھی۔
اس ڈرائینگ میں بچکانہ انداز سے چار لوگوں کو ایک ساتھ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے کھڑا دکھایا تھا جن میں ایک آدمی عورت تھے اور ایک چھوٹے لڑکا لڑکی۔ آدمی اور عورت کی تصویر کے نیچے ممی پاپا لکھا ہوا تھا اور لڑکا لڑکی کے ساتھ غازی اور زوہا لکھا ہوا تھا۔
مگر ایک عجیب بات یہ تھی کہ غازی کی تصویر پر بری طرح لکیریں پڑی ہوئی تھیں جیسے کسی نے شدید غصے کے عالم میں پینسل سے یہ ڈرائینگ اور خاص طور پر غازی کی تصویر خراب کرنے کی کوشش کی ہو۔
یہ ڈرائینگ دیکھتے ہوئے وہ غیر محسوس انداز سے ماضی میں کھو گیا۔
*******************************
فلیش بیک
بارہ سالہ غضنفر اس وقت نیلی جینز کے اوپر سفید ٹی شرٹ پہنے، قریب دو فٹ کے اسٹول پر کھڑا بڑے ہی انہماک سے آئل پینٹ کی مدد سے دیوار پر کچھ رنگین نقش و نگار بنانے میں مصروف تھا۔ اس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں اور سفید شرٹ پر بھی جگہ جگہ رنگ کے نشان پڑ گئے تھے جنہیں نظر انداز کیے وہ ہنوز اپنے کام میں مصروف رہا۔
تب ہی باہر گاڑی رکنے کی آواز آئی جسے سن کر یکدم اس کا چہرہ کھل اٹھا۔
وہ فٹافٹ اسٹول پر سے اترا، کلر کی ٹرے اپنی اسٹڈی ٹیبل پر رکھی اور چند قدم پیچھے ہوکر مسکراتے ہوئے اپنے بنائے گئے اس شاہکار کا جائزہ لینے لگا جس میں ایک مرد و عورت ایک لڑکا لڑکی کے ساتھ کھڑے تھے۔ جن کے ساتھ ممی، پاپا، غازی اور زوہا لکھا ہوا تھا۔
ہر طرح سے مطمئن ہونے کے بعد وہ کمرے سے باہر آیا جہاں ہال میں اسے خاصی رونق ملی۔ کیونکہ آفس سے آکر رفاقت اور شفاعت ہال میں موجود اماں بی سے سلام دعا کر رہے تھے اور صالحہ ان کو پانی پیش کر رہی تھیں۔
"پاپا! ادھر آئیں مجھے آپ کو کچھ دکھانا ہے۔" اس نے جلدی سے آکر رفاقت کا ہاتھ کھینچتے ہوئے انہیں اپنے ساتھ لے جانا چاہا۔
"ارے سانس تو لینے دو باپ کو دو گھڑی، ابھی تھکا ہارا کام سے آیا ہے وہ۔" دردانہ نے ٹوکا۔
"صرف دو منٹ کیلئے آجائیں۔" اس نے منت کی تو انہوں نے قدم آگے بڑھائے۔
"یہ کیا حلیہ بنایا ہوا ہے تم نے؟" وہ چند قدم آگے بڑھ کر عام سے انداز میں اس سے مخاطب ہوئے جو ان کا ہاتھ پکڑے انہیں کمرے میں لے جانا چاہتا تھا۔
"ڈیڈی!" ابھی وہ لوگ تھوڑا ہی آگے بڑھے تھے کہ یکدم گیارہ سالہ عزیر خوشی سے چلاتا ہوا ہال میں آیا اور شفاعت سے چپک گیا جس کے باعث رفاقت بھی رک کر پلٹے۔
"کیا ہوا بھئی! اتنی خوشی کس بات کی ہے؟" شفاعت نے دلچسپی سے جاننا چاہا۔
"ڈیڈی آج ہمارا رزلٹ آیا ہے اور یہ دیکھیں میں فرسٹ آیا ہوں۔" اس نے خوشی سے اپنی رپورٹ کارڈ ان کے آگے لہرائی جسے وہ بھی ہاتھ میں لئے دلچسپی سے دیکھنے لگے۔
"ارے واہ!" انہوں نے تعریف کی۔
"آج تو تمہارا بھی رزلٹ آیا ہوگا نا غضنفر!" رفاقت اپنا ہاتھ اس کے ننھے ہاتھوں سے نکالتے ہوئے سنجیدہ ہوئے تو وہ سر اٹھائے خاموشی سے انہیں دیکھتا رہا اور پھر سر جھکا لیا۔
"کچھ پوچھ رہا ہوں میں، کیا رزلٹ آیا ہے تمہارا؟" وہ تھوڑی سختی سے بولے۔
"وہ ہی آیا ہے بھائی صاحب جو ہر دفعہ آتا ہے، مشکل سے پاس ہوئے ہیں نواب صاحب۔" تب ہی شاہانہ جلتی پر تیل کا کام کرتی اس طرف آئیں۔
ان کی بات پر انہوں نے غصے سے غضنفر کی جانب دیکھا جو اب سر جھکائے مجرموں کی طرح کھڑا تھا۔
"یہ کیا سن رہا ہوں میں۔" وہ اس پر برسے۔
"جانے دیجئے، بچہ ہے۔" صالحہ نے جلدی سے بیچ میں آکر مداخلت کی تو وہ بھی سہم کر ان کر ماں کے پیچھے چھپ گیا۔
"یہ تمہاری شہ کی وجہ سے ہی بگڑا ہے۔" انہوں نے سارا الزام صالحہ کو دیا۔ وہ کچھ نہ بولیں۔
"پاپا میرے۔۔۔میرے۔۔۔۔ڈرا۔۔۔۔ڈرائینگ میں بہت اچھے نمبر آئے ہیں۔" اس نے ہنوز صالحہ کے پیچھے رہ کر ہی ڈرتے ڈرتے بتایا کہ شاید اس سے کچھ بات بن جائے۔
"تو کل کو کسی اچھے کالج یا یونیورسٹی میں ڈرائینگ دیکھا کر ایڈمیشن لو گے تم! یا جب چار لوگ بیٹھ کر اپنے بچوں کی قابلیت پر فخر کر رہے ہوں گے تو میں انہیں تمہاری ڈرائینگ کے نمبر بتاؤں گا!" ان کا غصہ مزید بڑھا۔
غضنفر کا ننھا سا دل بری طرح ٹوٹ گیا۔ باقی سب خاموش ہی رہے۔
"یہ اسی ڈرائینگ کے چکر میں پڑھائی پر دھیان نہیں لگتا ہے تمہارا، ابھی کرتا ہوں میں اس کا علاج۔" وہ گویا نتیجے پر پہنچے اور اگلے ہی پل ان کا رخ غضنفر کے کمرے کی جانب تھا۔
جب وہ باہر آئے تو ان کے ہاتھ میں غضنفر کے کچھ آئل پینٹس اور واٹر کلر کے باکس تھے جنہیں لا کر انہوں نے غصے سے ہال کے فرش پر پھینکا۔ غضنفر بری طرح سہم گیا۔
"اٹھا کر پھینکو انہیں باہر اور اب دوبارہ میں تمہارے ہاتھوں میں رنگ نہ دیکھوں۔" انہوں نے صالحہ کو حکم دے کر غضنفر کو تنبیہہ کی جو بےآواز رونے لگا تھا۔
"اور تم چلو کمرے میں۔" وہ اچانک غضنفر کو گھسیٹنے لگے تو صالحہ نے مزاحمت کی۔
"رفاقت چھوڑ دو اسے بچہ ہے۔" دردانہ نے بھی ٹوکا۔
"بچوں پر سختی ضروری ہوتی ہے اماں بی۔" ان سے قبل ہی شاہانہ بول پڑیں۔
تب تک وہ اسے گھسیٹ کر کمرے میں لے جا چکے تھے۔ جس پر صالحہ بھی کچھ نہیں کر پائیں۔ جب کہ عزیر بھی خوفزدہ انداز میں خاموشی سے یہ سب دیکھ رہا تھا۔
انہوں نے اسے اندر دھکیل کر باہر سے دروازہ بند کردیا جس کے باعث وہ فرش پر گرا۔ جب کہ وہ واپس ہال میں آئے۔
"خبردار جو رات کے کھانے سے پہلے اسے باہر نکالا تو، کچھ دیر سزا کاٹے گا تو عقل ٹھکانے آجائے گی۔" انہوں نے صالحہ کو سختی سے تنبیہہ کی۔
"بہت اچھا کیا آپ نے بھائی صاحب! بہت لاپرواہ ہوگیا ہے وہ پڑھائی کی طرف سے، اور جب ماں ہی توجہ نہ دے تو پھر باپ کو ہی تھوڑی سختی دکھانی پڑتی ہے۔" شاہانہ نے طنزیہ انداز میں انہیں مزید بڑھاوا دیا۔ صالحہ سر جھکائے لب بھینچ کر رہ گئیں۔
دوسری جانب غضنفر فرش پر پڑا اب باقاعدہ بلک بلک کر رو رہا تھا۔ کچھ دیر یوں ہی روتے ہوئے وہ منتظر رہا کہ شاید ابھی اس کی ماں پیار سے اس کا نام لیتے ہوئے آئے گی اور اسے اپنی آغوش میں چھپا لے گی مگر اس کا یہ انتظار طویل سے طویل تر ہوتا گیا۔
جب وہ رو رو کر تھک گیا تو اس نے یوں ہی پڑے پڑے دیوار پر بنائی گئی اپنی اس پینٹنگ کی جانب دیکھا جس کو ایک نگاہ بھی عطا نہیں کی گئی تھی۔
وہ اچانک اٹھا، اس نے اپنی رائیٹنگ ٹیبل پر سے پینسل اٹھائی اور اسٹول پر چڑھ کر جنونی انداز میں اس تصویر میں نقش اپنا عکس بگاڑنے لگا۔
اسے لگ رہا تھا کہ وہ ان سب کے بیچ غیر ضروری اور کوئی بیکار شے ہے تب ہی اس کے ساتھ ایسا سلوک ہوا تھا۔ اس کی ان لوگوں کے بیچ کوئی جگہ نہیں ہے، اسی لئے اس نے اپنے ہاتھوں خود کو مٹا دیا۔
اس کے آنسو تواتر سے بہہ رہے تھے لیکن اب اس کے چہرے پر درد کے ساتھ غصہ بھی تھا۔ جب تک پینسل کی نوک گھس کر ٹوٹ نہیں گئی وہ جنونی انداز میں یہ عمل کرتا چلا گیا۔ اور اپنے ہاتھوں خود کو بگاڑتا چلا گیا۔
اپنے خلاف شہر کے اندھے ہجوم میں
دل کو بہت ملال تجھے دیکھ کر ہوا
نوشی گیلانی
*******************************
حال
"غضنفر!" صالحہ نے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پکارا۔
وہ جو اس مٹی مٹی سی ڈرائینگ کو دیکھ کر دردناک یادوں میں گم ہوگیا تھا یکدم چونک کر پلٹا تو اس کی آنکھوں کی نمی صالحہ سے پوشیدہ نہ رہ سکی۔
"کیا ہوا بیٹا؟" انہوں نے نرمی سے پوچھا۔
"کچھ نہیں۔" اس نے دھیرے سے کہہ کر حلق میں بنتے آنسوؤں کے گولے کو نگلا۔
"بس مجھے کچھ دیر اکیلا چھوڑ دیں۔" وہ آنکھیں رگڑتے ہوئے مزید بولا۔
"اتنے عرصے اکیلے ہی تو تھے، اب تو مجھے اپنے بیٹے سے بہت ساری باتیں کرنی ہیں۔" وہ محبت سے بولیں۔
"مگر مجھے نہیں کرنی، پلیز مجھے اکیلا چھوڑ دیں، بالکل ویسے جیسے پاپا کے ڈانٹنے اور مارنے کے بعد اکیلا چھوڑ دیا کرتی تھیں۔" وہ تلخی سے کہتا ان کے دل پر چھری چلا گیا۔
انہیں لگا تھا کہ شاید ان کا بیٹا واپس آگیا ہے مگر تلخی کی ہوا سے وہ امید کی لو پھر سے پھڑپھڑائی جو ابھی ابھی ان کے دل میں روشن ہوئی تھی۔
"ٹھیک ہے جیسی تمہاری مرضی۔۔۔۔خوش رہو بیٹا۔" انھوں نے زبردستی مسکراتے ہوئے اس گال پر ہاتھ رکھا اور باہر کی جانب بڑھ گئیں۔
دروازے پر پہنچ کر ایک بار انہوں نے پھر پلٹ کر اسے دیکھا۔ اب وہ رخ موڑ کر کھڑکی کی جانب چلا گیا تھا، مطلب وہ ان سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ انہوں نے کچھ دیر بےبسی سے اس کی چوڑی پشت کو دیکھا اور پھر لب بھینچتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئیں۔
اپنے اندر کی گھٹن کم کرنے کی کوشش میں غضنفر نے جیکٹ سے سیگریٹ نکال کر سلگائی اور اس کا دھواں فضا کی سپرد کرتے ہوئے وہ خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کرنے لگا۔
کچھ ایسے لوگ بھی ہیں میرے حلقہ احباب میں فراز
چھین کر خوشیاں میری کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔خوش رہا کرو
انتخاب
*******************************
شادی کی تیاریوں نے اچانک ہی زور پکڑا تھا اور اب سب اس چکر میں گھن چکر بنے ہوئے تھے۔
غضنفر گھر پر صرف سونے کیلئے آتا تھا اور صبح ہوتے ہی شوروم چلا جاتا تھا تا کہ کسی سے بھی سامنا کم ہو۔ اور ابھی کیونکہ سب شادی کی تیاریوں میں اس قدر مصروف تھے کہ کسی اور بات پر خاص دھیان نہ دیا۔
ویسے بھی غضنفر کے گھر آنے سے صرف صالحہ اور زوہا ہی خوش تھیں۔ دردانہ، عبید اور عزیر کو بھی اس سے کوئی مسلہ نہیں تھا۔ شفاعت بھی ہمیشہ سے ہی اپنے کام سے کام رکھنے والے شخص تھے، رفاقت کے سرد ہوئے جذبات بھی جوں کے توں تھے جنہیں پگھلانے کی اس نے کوئی خاص کوشش نہیں کی کیونکہ اس کا اصل مقصد ان لوگوں سے رشتہ بحال کرنا نہیں تھا بلکہ سلیمان کو ان کی منزل تک پہنچانا تھا۔
سلیمان کے کہنے پر وہ اکثر فون پر ملیحہ سے بھی زبردستی چند میٹھی باتیں کرلیتا تھا تا کہ وہ پٹری سے نہ اترے۔
البتہ شاہانہ ضرور کلس کر رہ گئی تھیں اس کی واپسی پر۔ کیونکہ ان کی آنکھوں کو وہ ہمیشہ سے کھٹکتا رہا تھا۔ مگر اماں بی کے فیصلے کے آگے انہیں خاموش ہونا ہی پڑا۔ دوسرا پھر ان کے اپنے بیٹے کی بھی شادی کے دن قریب تھے تو انہوں نے فی الحال ساری توجہ اسی طرف مبذول رکھی۔
*******************************
"اتنے دنوں بعد موقع ملا ہے تم سے بات کرنے کا، جب سے گھر گیا ہوں تب سے مل ہی نہیں سکا تم سے۔" غضنفر پھر سے اس بےجان حرف S سے مخاطب تھا۔
"بس تین دن رہ گئے ہیں شادی میں، اس کے بعد ملیحہ سے وہ زمین اپنے نام کروانی ہے اور پھر اسے ماموں کے حوالے کرکے میرا کام ختم، پھر اس سائیکو کو سائیڈ پر کرکے تمہیں ڈھونڈوں گا، ہم شادی کریں گے اور ایک لمبے عرصے کیلئے میں تمہیں یہاں کے جھمیلوں سے کہیں بہت دور لے جاؤں گا، جہاں ہمیں کوئی تنگ نہ کرسکے۔" وہ خوابناک انداز میں مستقبل کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔
"لیکن دل میں ایک ڈر سا ہے کہ کہیں تب تک تمہیں کوئی اور مجھ سے چرا کر نہ لے جائے!" اس نے خدشہ ظاہر کیا۔
"نہیں، ایسا کچھ نہیں ہوگا، اور اگر ہو بھی گیا تو میں تمہیں اس سے چھین کر اپنے پاس لے آؤں گا۔" اگلے ہی پل اس نے جنونی انداز میں فیصلہ کرتے ہوئے بہت پیار سے اس حرف S پر ہاتھ پھیرا۔
*******************************
"صبیحہ تم سن رہی ہو نا!" عزیر کو خاموشی کے باعث خدشہ ہوا کہ کہیں لائن تو ڈسکنیکٹ نہیں ہوگئی۔
"سن رہی ہوں لیکن مانوں گی نہیں۔" اس نے بےنیازی سے جواب دیا۔
"اچھا! یہ بات ہے!" وہ دلچسپی سے بولا۔
"ہاں بالکل!" انداز وہ ہی تھا۔
"ٹھیک ہے، کرلو ابھی جی بھر کر من مانی، تین دن بعد تمہیں ہمیشہ کیلئے پھر میرے پاس ہی آنا ہے، تب لوں گا گن گن کر بدلے۔" اس نے شریر سی دھمکی دی۔ جس سے محظوظ ہوتے ہوئے وہ خود بھی مسکرادی۔
*******************************
پچھلی قسط کی جھلک 👇
شادی کی تیاریوں نے اچانک ہی زور پکڑا تھا اور اب سب اس چکر میں گھن چکر بنے ہوئے تھے۔ غضنفر گھر پر صرف سونے کیلئے آتا تھا اور صبح ہوتے ہی شوروم چلا جاتا تھا تا کہ کسی سے بھی سامنا کم ہو۔ اور ابھی کیونکہ سب شادی کی تیاریوں میں اس قدر مصروف تھے کہ کسی اور بات پر خاص دھیان نہ دیا۔
ویسے بھی غضنفر کے گھر آنے سے صرف صالحہ اور زوہا ہی خوش تھیں۔ دردانہ، عبید اور عزیر کو بھی اس سے کوئی مسلہ نہیں تھا۔ شفاعت بھی ہمیشہ سے ہی اپنے کام سے کام رکھنے والے شخص تھے، رفاقت کے سرد ہوئے جذبات بھی جوں کے توں تھے جنہیں پگھلانے کی اس نے کوئی خاص کوشش نہیں کی کیونکہ اس کا اصل مقصد ان لوگوں سے رشتہ بحال کرنا نہیں تھا بلکہ سلیمان کو ان کی منزل تک پہنچانا تھا۔
سلیمان کے کہنے پر وہ اکثر فون پر ملیحہ سے بھی زبردستی چند میٹھی باتیں کرلیتا تھا تا کہ وہ پٹری سے نہ اترے۔
البتہ شاہانہ ضرور کلس کر رہ گئی تھیں اس کی واپسی پر۔ کیونکہ ان کی آنکھوں کو وہ ہمیشہ سے کھٹکتا رہا تھا۔ مگر اماں بی کے فیصلے کے آگے انہیں خاموش ہونا ہی پڑا۔
دوسرا پھر ان کے اپنے بیٹے کی بھی شادی کے دن قریب تھے تو انہوں نے فی الحال ساری توجہ اسی طرف مبذول رکھی۔
اب آگے 👇
*******************************
"لے چلو یار!" زوہا نے کوئی چھٹی بار منت کی۔
"کہہ دیا نہیں جا رہا میں کہیں بھی، ویسے ہی سب نے صبح سے کسی نا کسی کام کیلئے بھگا بھگا کر پاگل کیا ہوا ہے۔" صوفے پر لیٹے عبید نے موبائل میں گیم کھیلتے ہوئے بےزاری سے انکار کیا۔ جس کے باعث قریب تھا کہ وہ ابھی رو دے گی۔
"کیا ہوا؟" گرے جینز پر غضنفر اپنی براؤن ٹی شرٹ کی فل آستین کہنیوں تک فولڈ کرتا ہال سے گزر رہا تھا کہ زوہا کی رونی صورت دیکھ کر رک گیا۔
"بھیا! دیکھیں میں اسے کب سے کہہ رہی ہوں کہ مجھے میری دوست کے گھر لے جائے مگر یہ سن ہی نہیں رہا، میں اپنی دوست کو آپ کی شادی کا کارڈ دینا بھول گئی تھی تو اب اسی بات پر ناراض ہے، اگر آج میں اسے منانے نہیں گئی تو وہ کل مہندی کے فنکشن میں بھی نہیں آئے گی، ڈرائیور کو ممی اور چچی شاپنگ پر لے کر گئی ہوئی ہیں اور میں کسی کے ساتھ جا نہیں سکتی۔" وہ جلدی جلدی بولتی ہوئی اس کی جانب آئی۔
"بھیا تھک گیا ہوں میں، یقین کریں صبح سے بھاگ دوڑ کر رہا ہوں بس ابھی تھوڑی فرصت ملی ہے کمر سیدھی کرنے کی۔" اس کے گھورنے پر عبید نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے مظلومیت سے صفائی پیش کی۔
"اور اس کی دوست کے نہ آنے سے مہندی کا فنکشن رک تو نہیں جائے گا۔" وہ طنزیہ انداز میں مزید بولا۔
"دیکھیں، کب سے بس ایسے ہی زبان چلائے جا رہا ہے پر لے کر نہیں جا رہا۔" زوہا نے اس کی شکایات لگائی۔ جسے وہ خاموشی سے سنتا رہا۔
"چادر اوڑھ کر باہر آؤ، میں چھوڑ دیتا ہوں تمھیں۔" اس نے سنجیدگی سے کہا اور آگے بڑھ گیا۔ وہ یکدم خوش ہوگئی۔
"بس ابھی آئی بھیا۔" وہ خوشی سے کہتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بھاگی۔
"اور سنو!" اچانک غضنفر نے پکارا۔
"جی بھیا؟" وہ رک کر پلٹی۔
"اپنے پاپا کو بتاتی ہوئی آنا ورنہ پریشان ہوں گے تمہارے لئے۔" اس نے اسی سنجیدگی کے ساتھ تاكید کی اور تیزی سے باہر نکل گیا۔
جب کہ لفظ "اپنے پاپا" پر بےساختہ عبید اور زوہا نے ایک دوسرے کو دیکھا۔
*******************************
"صبیحہ چائے بنا دو اچھی سی۔" راضیہ ابھی ابھی کہیں باہر سے آکے تھک کر صوفے پر بیٹھی تھیں۔
"امی! کل میری مہندی ہے اور آپ مجھے ہی کام کرنے کا کہہ رہی ہیں!" مقابل والے صوفے پر بیٹھی صبیحہ حیرت سے بولی جو نیل پالش لگانے میں مصروف تھی۔
"تو یہ کون سی کتاب میں لکھا ہے کہ مہندی سے پہلے لڑکی چائے نہیں بنا سکتی؟" انہوں نے الٹا سوال کیا۔
"بھئی کچھ دنوں کی تو مہمان ہوں میں اس گھر میں، اب تو آرام کر لینے دیں۔" اس نے شکوہ کیا۔
"اب سے پہلے تو بڑے پہاڑ تڑوائے ہیں نا میں نے تم سے!" انہوں نے بھی طنز مارا۔
"میں نہیں بنا رہی چائے، ملازمہ سے بولیں۔" اس نے صاف انکار کیا۔
"وہ کھانا بنانے کی تیاری کر رہی ہے، مغرب کے بعد پھوپھو آرہی ہیں تمہاری تو آج ذرا اہتمام زیادہ کرنا ہے اسی لئے وہ مصروف ہے۔" انہوں نے اس کے فرار کی یہ راہ بھی بند کی تو وہ انہیں شکوہ کرتی نگاہوں سے گھورنے لگی۔
"صبیحہ چائے تو پلا دو اپنے ہاتھ کی۔" تب ہی ملیحہ بھی فرمائش کرتی ہوئی اس طرف آئی۔
"توبہ ہے! سب کچھ ہوجائے مگر بندے کو اچھی چائے بنانی نہیں آنی چاہئے۔" وہ نیل پالش سامنے ٹیبل پر پٹخ کر بڑبڑاتی ہوئی اٹھ کے کچن کی جانب چلی گئی۔
"اسے کیا ہوا؟" ملیحہ نے ناسمجھی سے پوچھا۔
*******************************
"پتا ہے اتنی مشکل سے منایا ہے نا میں نے سارہ کو، بس ناراض ہوکر بیٹھی تھی کہ میں نے فون پر کیوں انوائٹ کیا کارڈ کیوں نہیں دیا؟ پھر میں نے اس کو سمجھایا کہ بہت شارٹ نوٹس پر دو شادیوں کی تیاریاں چل رہی ہیں گھر میں، میرے پاس ٹائم نہیں تھا آنے کا تو کہنے لگی کہ ابھی بھی تو آگئی نا! تو میں نے کہا کہ ابھی تو تم ناراض ہوگئی تھی نا تو اس نے کہا کہ ہاں تو اسی بہانے پتا چل گیا کہ اب جب بھی مجھے گھر بلانا ہوگا تو وہ مجھ سے ناراض ہوجائے گی، میں نے بھی کہہ دیا کہ ابھی تو میرے بھائی کی شادی ہے اسی لئے آگئی منانے کہ سب فرینڈز ہوں گی تو مزہ آئے گا، ورنہ بیٹا بھول جاؤ کہ زوہا بار بار آکر تمہاری منت کرے گی۔" فرنٹ سیٹ پر بیٹھی زوہا اپنی دھن میں نان اسٹاپ بولے جا رہی تھی۔ جب کہ غضنفر خاموشی سے ڈرائیو کرنے میں مصروف تھا۔
مغرب کے بعد اب روڈ کے دونوں اطراف میں موجود اسٹریٹ لائٹس آن کردی گئی تھیں۔ جب کہ روڈ پر بھاگتی دوڑتی گاڑیوں کی ہیڈ لائٹ سے بھی ہر طرف خاصی روشنی ہو رہی تھی۔
سگنل بند ہونے کے باعث غضنفر نے بھی گاڑی ایک سائیڈ پر روک لی اور باقی لوگوں کی طرح سبز بتی جلنے کا انتظار کرنے لگا۔ جب کہ زوہا ہنوز اپنی دھن میں بولے جا رہی تھی۔
تب ہی ایک بائیک ان کے عین برابر میں آکر رکی جس پر تین لوفر سے لڑکے سوار تھے اور حسب روایت زوہا پر نظر پڑتے ہی انہوں نے سٹی بچا کر جملے کسنا شروع کردیے جس کے باعث دونوں ان کی طرف متوجہ ہوئے۔
اس سے قبل کہ غضنفر کچھ کہتا عین اسی وقت سبز بتی کے جلتے ہی سب گاڑیاں تیزی سے آگے بڑھنی لگیں اور یہ لڑکے بھی زن سے بائیک اگے لے گئے مگر غضنفر کا خون کھول اٹھا تھا۔
وہ گاڑی آگے بڑھاتے ہوئے ان لڑکوں کے تعاقب میں آیا۔ جب کہ اس قدر تیز رفتاری کے باعث زوہا بھی گھبرا گئی۔
وہ لڑکے اپنی مستی میں مست بائیک دوڑائے آگے جا رہے تھے کہ تب ہی غضنفر نے اپنی گاڑی عین ان کے سامنے لا کر روکی تو انہوں نے یکدم چونک کر بریک مارا۔
غضنفر گاڑی سے اتر کر ان لوگوں کی طرف لپکا اور سب سے پیچھے بیٹھے لڑکے کی گریبان سے کھینچتے ہوئے بائیک سے اتارا۔
تیزی سے گزرتی گاڑیوں کے درمیان، مین روڈ کے بیچ و بیچ یہ منظر دیکھ کر ایک ایک کرکے کئی گاڑیاں رکنے لگیں۔
غضنفر سب سے بےخبر ان تینوں کو روڈ پر گھسیٹنے کے بعد اب بری طرح لاتوں اور مکوں سے پیٹ رہا تھا۔ اور ان کی طرف سے ہونے والی جوابی کاروائی کی وجہ سے وہ خود بھی زخمی ہوگیا تھا مگر اسے پرواہ نہیں تھی۔
تب ہی کچھ لوگ بیچ بچاؤ کروانے کے ارادے سے آگے آئے اور غضنفر کو پکڑ کر پیچھے کھینچا۔
"کیا ہوگیا بھائی؟ کیوں مار رہے ہو بیچاروں کو؟" لوگوں نے جاننا چاہا۔
"میری بہن کے ساتھ بدتمیزی کی ہے ان کتوں نے، جان سے مار دوں گا میں انہیں، چھوڑو مجھے۔" وہ غصے سے پاگل ہو رہا تھا۔ جب کہ زوہا بھی گاڑی سے باہر آکر حیران پریشان سی کھڑی سوچ رہی تھی کہ کیا کرے اور کیا نہیں؟
*******************************
"آٹھ بج گئے ہیں ابھی تک نہیں آئے یہ دونوں، اور زوہا فون بھی نہیں اٹھا رہی ہے۔" صالحہ فکر مند سی ہال میں ٹہل رہی تھیں۔
"ارے آجائیں گے، کوئی چھوٹے بچے تھوڑی ہیں دونوں۔" صوفے پر پان دان لئے بیٹھی دردانہ نے تسلی دی۔
"دادی چونا لگاؤں نا آپ کو!" ان کے سامنے بیٹھے پان بناتے عبید نے شرارت سے جان بوجھ کر پوچھا۔
"وہ تو بیٹا تم لگا ہی دیتے ہو، پان بنانے کی آڑ میں میری آدھی سے زیادہ چھالیہ کھا کر۔" انہوں نے بھی طنزیہ انداز میں حساب برابر کیا۔
"دیکھ لو اپنے بیٹے کے کرتوت۔" اچانک رفاقت صاحب غصے میں چلاتے ہوئے یہاں آئے تو یہ لوگ چونک گئے۔
"کیا ہوا؟" صالحہ نے گھبرا کر پوچھا۔
جب کہ کچن میں کام کرتی شاہانہ اور کمرے میں موجود عزیر و شفاعت بھی اس قدر بلند آواز پر تعجب کے مارے یہاں چلے آئے۔
"تھانے سے فون آیا تھا، بیچ سڑک پر غنڈہ گردی کرتے ہوئے پکڑا گیا ہے وہ اور زوہا بھی اس کے ساتھ تھانے میں ہے۔" انہوں نے غصے کے عالم میں اطلاع دی تو سب ہی ششدر رہ گئے۔
"کیا؟" صالحہ نے بےساختہ منہ پر ہاتھ رکھا۔
"لو بھئی، بس یہ ہی کمی رہ گئی تھی، گھر کی عزت کو بھی تھانے میں گھسیٹ لیا اس نے۔" شاہانہ نے یہ موقع بھی جانے نہ دیا۔
"ارے تو تم لوگ کھڑے کیا ہو! جلدی تھانے جاؤ، دیکھو کیا معاملہ ہے؟" دردانہ نے ان کی عقل پر ماتم کیا۔
وقت کی نزاکت سمجھتے ہوئے فی الحال وہ بنا مزید کوئی لعن طعن کیے شفاعت اور عزیر کے ہمراہ گھر سے روانہ ہوگئے۔
صالحہ کو لگا کہ ان کے پیروں میں سے جان نکل رہی ہے جس کے باعث وہ نیچے بیٹھنے لگیں۔
"تائی سنبھالیں خود کو۔" عبید نے جلدی سے انہیں تھاما اور صوفے پر لا کے بیٹھایا۔
"امی پانی لائیں جلدی۔" اس نے عجلت میں کہا تو وہ منہ بناتی ہوئی کچن کی جانب چلی گئیں جب کہ صالحہ تو بالکل سکتے میں آگئی تھیں۔
*******************************
گھبرائی ہوئی زوہا اس وقت پولیس اسٹیشن میں ایک کونے کی کرسی پر بیٹھی ان لوگوں کے آنے کا انتظار کر رہی تھی۔ تب ہی اسے عزیر اندر آتا ہوا نظر آیا تو وہ فوراً اٹھ کر اس کی جانب لپکی اسی کے پیچھے رفاقت اور شفاعت بھی تھے۔
وہ رفاقت صاحب کے سینے سے لگ کر رونے لگی۔
"عزیر! تم اسے لے کر گھر جاؤ، ہم یہاں کے معاملات دیکھتے ہیں۔" رفاقت نے اسے الگ کرتے ہوئے عزیر کو ہدایت دی۔
"جی ٹھیک ہے تایا، آؤ زوہا۔" اس نے فوراً حکم کی تکمیل کی۔
پھر عزیر اسے لے کر باہر چلا گیا جب کہ یہ دونوں ایک سپاہی سے کچھ بات چیت کرکے اندر ایس۔ایچ۔او کے کمرے میں آئے۔
"صاحب وہ جو لڑکا مار دهاڑ کے کیس میں بند ہے یہ اس کے گھر والے ہیں۔" سپاہی نے تعارف کرایا۔
"اوہ ہو! تو آپ کا لڑکا ہے وہ، آئیں بیٹھیں۔" ایس۔ایچ۔او نے اپنے سامنے موجود فائل بند کرتے ہوئے طنزیہ انداز میں کہا۔
"سر کیا ہوا؟ معاملہ کیا ہے؟" رفاقت نے کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔ ساتھ ہی شفاعت بھی بیٹھ چکے تھے۔
"ہونا کیا ہے جی! بیچ سڑک پر تین لڑکوں کو پکڑ کر کتوں کی طرح دھو دیا آپ کے لڑکے نے، خون میں کچھ زیادہ ہی گرمی ہے کیا اس کے؟ کوئی تمیز تہذیب نہیں سکھائی ہے اسے!" انداز کافی غیر موؤدب تھا۔ جس پر دونوں شرمندہ ہوئے۔
"اوہ بشیر! لے کر آؤ ذرا لڑکے کو۔" انہیں خاموش پا کر انہوں نے سپاہی کو حکم دیا تو وہ اثبات میں سر ہلا کر چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد غضنفر کے ہمراہ واپس آیا۔
اس کے ناک اور ہونٹ سے رسنے والا خون چہرے پر ہی سوکھ چکا تھا، دائیں گال پر ہلکا سا نیل پڑا ہوا تھا جب کہ تاثر بےحد سنجیدہ تھے۔
"لے بھائی آگئے تیرے گھر والے۔" اس کے ٹیبل کے نزدیک آکر کھڑے ہونے کے بعد ایس۔ایچ۔او نے کہا۔ وہ کچھ نہیں بولا۔
"اور کتنا بےعزت کرواؤ گے ہمیں؟ ابھی بھی سکون نہیں ملا ہے تمھیں؟ اپنی نہ سہی کم از کم بہن کی عزت کا ہی خیال کرلیا ہوتا جو تمہاری وجہ سے تھانے میں ڈری سہمی بیٹھی تھی۔" رفاقت صاحب اس کے مقابل کھڑے ہوکر برہمی سے بولے۔
"اسی کا خیال کیا تھا تب ہی یہ ہوا، ان کمینوں نے بدتمیزی کی تھی زوہا کے ساتھ۔" اس نے بھی تھوڑی سختی سے وضاحت کی۔
"تو تم نے انہیں بیچ سڑک پر پیٹنا شروع کردیا، ہم پولیس والے مر گئے ہیں کیا؟ یہاں آتے، پرچہ کٹواتے، لیکن نہیں! آج کل کے لڑکوں پر تو بھوت سوار ہے سلمان خان بننے کا، بس موقع ملنا چاہئے کوئی۔" ایس۔ایچ۔او نے جلتی پر تیل ڈالا۔
"لگتا ہے تم نے قسم کھا رکھی ہے ہمیں ذلیل و رسوا کرنے کی، ایک مرتبہ یا تو ہمیں مار دو یا پھر خود مر جاؤ۔" رفاقت نے پھر لتاڑا۔ اس کے دل پر گھونسا پڑا۔
"آپ کو ہر بار، ہر معاملے میں صرف میں ہی قصور وار کیوں لگتا ہوں؟ دوسرے کی غلطی کیوں نظر نہیں آتی آپ کو؟" اس نے تلخی سے شکوہ کیا۔ وہ کچھ نہ بولے۔
"اوہ! یہ فیملی ڈرامہ بعد میں کرنا، پہلے ذرا کام کی بات چیت کرلو۔" تب ہی ایس۔ایچ۔او نے مداخلت کی تو رفاقت ان کی جانب متوجہ ہوگئے۔ جب کہ غضنفر سر جھٹک کر دوسری طرف موڑتے ہوئے اپنی آنکھوں میں اترتی نمی چھپانے لگا۔
سب جرم میری ذات سے منسوب ہیں
کیا میرے سوا شہر میں سارے معصوم ہیں
انتخاب
*******************************
"بھیا انہیں بری طرح مار رہے تھے، میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں؟ بھیا کو کیسے روکوں؟ پھر شاید کسی نے پولیس کو فون کردیا اور پولیس آکر مجھے اور بھیا کو تھانے لے آئی اور ان لڑکوں کو ہاسپٹل بھیجوا دیا، پولیس اسٹیشن میں انہوں نے بھیا کو لاک اپ میں ڈال دیا اور مجھ سے پوچھ تاچھ کرنے لگے، پھر میں نے ہی انہیں پاپا کا نمبر دیا تھا اطلاع کرنے کیلئے۔" حواس بحال ہونے کے بعد اب زوہا ہال میں صالحہ کے ساتھ بیٹھی تفصیل بتا رہی تھی جسے سب بغور سن رہے تھے۔
"بتاؤ ذرا، اتنی سی بات کیلئے اتنا ہنگامہ کردیا اس نے۔" ساری بات سن کر شاہانہ نے بےنیازی سے کہا۔
"امی ان لڑکوں نے بدتمیزی کی تھی۔" عبید نے دھیان دلایا۔
"تو اس کا مطلب ہے کہ جواباً غنڈہ گردی شروع کردی جائے!" وہ بھی دوبدو ہوئیں۔
"نہیں لیکن ایسے لوگوں کو سبق سیکھنا ضروری ہوتا ہے، یہ نظر انداز کرنے کا ہی نتیجہ ہے کہ ایسے لوگوں کو شہ ملی ہوئی ہے۔" عبید نے متوازن انداز میں اپنی رائے دی۔
"تم زیادہ میرے ابا نہ بنو۔" سب کے سامنے اس کے یوں اختلاف کرنے پر انہیں غصہ آیا۔
"عزیر! بیٹا فون کرکے پوچھو ان لوگوں سے کہ کہاں رہ گئے؟ اتنی دیر ہوگئی ہے۔" ان دونوں کو نظر انداز کرتے ہوئے دردانہ اس سے بولیں۔ تو اس نے اثبات میں سر ہلا کر پینٹ کی جیب سے موبائل نکالا۔
اس سے قبل کہ وہ نمبر ڈائل کرتا رفاقت اور شفاعت ہال میں داخل ہوتے ہوئے نظر آئے تو سب ان کی جانب متوجہ ہوگئے۔
"رفاقت! غضنفر کہاں ہے؟" ان دونوں کو اکیلا دیکھ کر دردانہ نے استفسار کیا۔
"پتا نہیں۔" وہ سپاٹ انداز میں کہتے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئے۔
"کیا مطلب پتا نہیں؟" کیا پولیس نے چھوڑا نہیں اسے؟" وہ متفکر ہوئیں۔ یہ ہی کفیت صالحہ کی بھی تھی۔
"شکر ہے ایف۔آئی۔آر درج نہیں کی تھی ان لوگوں نے اسی لئے کچھ لے دے کر معاملہ رفع دفع کردیا۔" ان کے بجائے شفاعت نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے بتایا۔
"تو پھر غضنفر کہاں ہے؟" وہ الجھیں۔
"پولیس اسٹیشن سے نکل کر پتا نہیں کہاں چلا گیا وہ!" شفاعت نے لاعلمی ظاہر کی۔
"وہ چلا گیا اور تم لوگوں نے جانے دیا! پکڑ کر گھر نہیں لا سکتے تھے؟" اب وہ ان پر برہم ہوئیں۔
"کیا کرتے اماں بی گھر لا کر! اور کون سا اس نے کبھی سنی ہے ہماری جو آج سن لیتا!" رفاقت بےزاری سے بولے۔
"کیا مطلب کیا کرتے؟ کل مہندی ہے اس کی، ایسے میں اگر پھر معاملہ بگڑ گیا تو سالک کو کیا جواب دیں گے؟ پتا تو ہے کہ کتنی مشکل سے مانے ہیں وہ لوگ۔" انہوں نے ان کی عقل پر ماتم کیا۔
"جب اسے خود خیال نہیں ہے تو ہم کیا کرسکتے ہیں؟" وہ لاپرواہی سے بولے۔
"اسے خود ہی چڑھا تھا نا عشق کا بھوت تو اب خود ہی جواب دے گا وہ سالک کو۔" وہ کھڑے ہوتے ہوئے مزید بولے اور پھر بنا رکے وہاں سے چلے گئے۔ جب کہ سب محض انہیں دیکھ کر رہ گئے۔
*******************************
زوہا اس وقت لان میں رکھے جھولے پر ہولے ہولے جھولتی کسی سوچ میں گم تھی تب ہی رات کے اندھیرے میں لان میں جلتی لائٹ میں ایک سایہ اس کی طرف آیا اور آہستہ سے اس کے برابر میں بیٹھ گیا۔
"یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے نا عبید!" وہ ہنوز سامنے دیکھتے ہوئے گویا ہوئی۔
"نہیں تو۔" عبید نے تردید کی۔
"ہاں، نہ میں اپنی دوست کے گھر جانے کی ضد کرتی، نہ بھیا مجھے لے کر جاتے اور نہ یہ سب ہوتا، بھیا میری وجہ سے مشکل میں آگئے۔" اس نے اس کی طرف دیکھ کر خود کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
"نہیں پاگل، بھول گئی دادی کہتی ہیں نا کہ جو ہونے والی بات ہوتی ہے وہ ہوکر رہتی ہے، انسان تو بس ذریعہ بنتے ہیں۔" اس نے تسلی دینے کو یاد دلایا۔
"کل بھیا کی مہندی ہے، اگر وہ واپس نہ آئے تو!" اس نے خدشہ ظاہر کیا۔
"آجائیں گے، انہوں نے خود ہی تو ملیحہ بھابھی کو پسند کیا ہے شادی کیلئے۔" اس نے اطمینان دلایا۔ تو وہ خاموش ہوگئی۔
"پتا نہیں اس وقت بھیا کہاں ہوں گے؟" انہیں چوٹ بھی لگی تھی۔" اسے نئی فکر لاحق ہوئی۔
*******************************
"ماموں میں واپس نہیں جاؤں گا۔" وہ اٹل انداز میں بولا۔
سلیمان نے فرسٹ ایڈ باکس بند کرتے ہوئے خاموشی سے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے غضنفر کو دیکھا جس کے زخموں کو ڈیٹول سے صاف کرنے کے بعد اب انہوں نے اس کے ماتھے پر دائیں جانب سنی پلاسٹ لگا دیا تھا۔ اور پھر باکس سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔
"ٹھیک ہے، مت جاؤ۔" بنا کسی حجت کو وہ مان گئے جو کہ حیران کن تھا۔
"لو یہ کھا لو، درد کم ہوجائے گا۔" انہوں نے اپنے ہاتھ میں موجود پین کلر اس کی جانب بڑھائی۔
غضنفر نے گولی لے کر منہ میں رکھی تو انہوں نے پانی کا گلاس اسے دیا جس کے ذریعے اس نے گولی نگلی۔
"اب سوجاؤ تم آرام سے۔" وہ گلاس لے کر اٹھ کھڑے ہوئے۔
"آپ ناراض نہیں ہیں ماموں!" اس نے تعجب کا اظہار کیا۔
وہ گلاس واپس سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے تلخی سے مسکرائے۔
"ناراضگی کا تو پتا نہیں، لیکن میں اتنا خودغرض نہیں ہوں کہ اپنی غرض، اپنی خواہش کیلئے تمھیں مشکل میں ڈالوں، انسان کی ہر خواہش پوری ہو یہ ضروری تو نہیں نا!" وہ پھیکےپن سے مسکراتے ہوئے بولے۔ وہ لاجواب ہوگیا۔
"خیر چھوڑو! تم سو جاؤ۔" انہوں نے ہلکے سے اس کے کندھے پر تھپکی دی اور پھر کمرے سے باہر چلے گئے۔ جب کہ وہ انہیں جاتا ہوا دیکھتا رہا۔
*******************************
"کیا!" بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھی صبیحہ یکدم چونک کر سیدھی ہوئی۔
جب کہ سامنے صوفے پر بیٹھی ملیحہ اور رمشا (پھوپھو کی بیٹی) بھی اس کی جانب متوجہ ہوئیں جو کل کے فنکشن کے حوالے سے جیولری وغیرہ منتخب کرنے میں مصروف تھیں۔
"کیا ہوا صبیحہ؟" ملیحہ کو تشویش ہوئی۔
"کچھ نہیں، وہ ہاسپٹل میں کچھ ایشو ہوگیا ہے۔" اس نے موبائل کان سے ہٹا کر کھڑے ہوتے ہوئے اطمینان دلایا اور پھر گیلری میں آگئی جب کہ وہ دونوں بھی دوبارہ باتوں میں مصروف ہوگئیں۔
"ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ یہ والے ایئر رنگ ٹھیک رہیں گے نا ملیحہ آپی؟" رمشا نے تائید چاہی۔
"یہ تم کیا کہہ رہے ہو عزیر!" صبیحہ نے گیلری میں آکر سلسلہ کلام وہیں سے جوڑا۔
"وہ ہی جو آج ہوا ہے۔" دوسری جانب سے اس نے جواب دیا۔
"تو پھر اب کل کیا ہوگا اگر غضنفر واپس نہیں آیا تو!" اسے فکر ہوئی۔
"یہ ہی تو ہماری سمجھ میں بھی نہیں آرہا ہے۔" وہ ایک ہاتھ پینٹ کی جیب میں ڈالے دوسرے سے موبائل کان پر لگائے لان میں ٹہل رہا تھا۔
"اور مزید فکر مجھے یہ ہو رہی ہے کہ کہیں غضنفر کی وجہ سے ہمارے رشتے میں کوئی مسلہ نہ آجائے۔ وہ متفکر انداز میں مزید بولا۔
"لیکن ہمارا تو نکاح ہوچکا ہے نا!" اس نے یاد دلایا۔
"میں نے نکاح ٹوٹتے بھی دیکھیں ہیں صبیحہ۔" اس کے انداز میں ڈر تھا۔ جس کے باعث وہ لاجواب ہوگئی۔
"اچھا سنو!" عزیر نے کہا۔
"ہاں بولو!"
"اگر پھر سے معاملات بگڑ گئے اور سالک انکل نے ہمارا رشتہ بھی ختم کرنے کی بات کی تو کیا تم میرا ساتھ دو گی؟" اس نے جاننا چاہا۔
"کیا مطلب؟" اس نے کریدا۔
"مطلب تم میرے لئے ان کے فیصلے کے خلاف جاؤ گی یا چپ چاپ مان لو گی سب کچھ؟" اس نے سوال واضح کیا تو وہ خاموش ہوگئی۔ دوسری جانب وہ منتظر رہا۔
"بتاؤ صبیحہ!" اس نے اصرار کیا۔
"پتا نہیں!" اس نے دھیرے سے جواب دیا۔
*******************************
"بتاؤ مس ایس۔" غضنفر اس حرف S سے مخاطب تھا۔
سارا عالم اس وقت نیند کی آغوش میں تھا اور وہ اس وقت پھر اس حرف کے سامنے کھڑا خود سے ہی باتیں کر رہا تھا۔
"آج بھی پاپا نے وہ ہی کیا جو آٹھ سال پہلے کیا تھا، نہیں سنی میری، بس اپنی سناتے رہے، نہیں سمجھا مجھے، بس مجھے سمجھاتے رہے، اور ان سب کے بعد اب بالکل دل نہیں چاہ رہا ہے میرا وہاں واپس جانے کا، جھوٹے بہانے سے بھی نہیں، اور اب میں نہیں جاؤ گا۔" وہ مزید کہتا گیا۔
"میں ٹھیک کر رہا ہوں نا؟" اس نے حرف پر ہاتھ پھیرتے ہوئے تائید چاہی۔
*******************************
پہاڑ کی اوٹ سے چمکتا ہوا پیلا سورج نکل کر آسمان پر براجمان ہوچکا تھا۔ جس کے بعد سب نیند سے بیدار ہونے لگے تھے۔
سلیمان بھی فریش ہوکر غضنفر کو جگانے کے ارادے سے اس کے کمرے میں آئے مگر وہ بستر پر موجود نہیں تھا۔ وہ سیدھا ڈائینگ روم میں آئے جہاں حسب معمول رنگیلا ناشتہ لگانے میں مصروف تھا۔
"غضنفر کہاں ہے رنگیلا؟" انہوں نے ٹیبل کی طرف آتے ہوئے پوچھا۔
"وہ تو چلے گئے۔" اس نے جوس کا جگ ٹیبل پر رکھتے ہوئے بتایا۔
"کہاں چلے گئے؟"
"میں نے بھی یہ ہی پوچھا تھا کہ کہاں جا رہے ہیں؟ تو کہنے لگے آپ کو بتا دوں کہ وہ اپنی بہن کے پاپا کے گھر جا رہے ہیں۔" اس نے اپنی ازلی معصومیت سے جواب دیا۔ وہ سوچ میں پڑگئے۔
"ویسے ان کی بہن کے پاپا ان کے رشتے میں کیا ہوئے؟" اس نے ناسمجھی سے سوال اٹھایا۔
"اس کی ماں کے شوہر۔" سلیمان جواب دیتے ہوئے دوبارہ روم سے باہر نکل گئے۔
وہ سر کھجاتے ہوئے یہ رشتے داری سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔
*******************************
"آنا تو کل ہی تھا مگر فرصت نہ مل سکی، لیکن دیکھو آج میں صبح ہوتے ہی آگئی، بھئی آخر میرے بھتیجے کی مہندی ہے تو اچھا تو نہیں لگے گا نا کہ پھوپھو مہمانوں کی طرح سیدھا ہال میں آئے، بھلے ہی میں رشتے کی پھوپھو ہوں لیکن ہوں تو نا!" ہال میں بیٹھی خاتون بڑے زور و شور سے بولنے میں مصروف تھیں۔
"ارے بےصبری سانس تو لے لے، کب سے بنا رکے بولے جا رہی ہے۔" دردانہ نے ٹوکا۔
"ارے سانس بھی لے لوں گی خالہ، ویسے بھی گھر میں بچوں پر چلا چلا کر عادت ہوگئی ہے بولتے رہنے کی، اور بچوں سے یاد آیا میرے یہ تینوں ہیں کہاں؟" انہیں اب خیال آیا۔
"نازیہ زوہا کے ساتھ جب کہ آصف اور عارف عبید کے کمرے میں ہوں گے۔" صالحہ نے بتایا۔
"اچھا! اور وہ دونوں دلہے صاحب کہاں ان کی منہ دکھائی تو کروائیں ذرا، سچی بڑا اچھا لگا تھا یہ جان کر کہ غضنفر واپس گھر آگیا ہے، بھئی بچوں سے غلطیاں ہو ہی جاتی ہیں، اچھا کیا جو سب در گزر کردیا، اور اب تو ویسے بھی شادی ہو رہی ہے اس کی، بیوی کے آتے ہی بالکل سیدھا ہوجائے گا ہاں!" وہ پھر مزے سے نان اسٹاپ بولنے لگیں۔
غضنفر کے ذکر پر بےساختہ صالحہ اور دردانہ نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ جب کہ شاہانہ ہنوز تنفر سے گردن اکڑائے بیٹھی تھیں۔
"ارے صالحہ بھابھی بلا بھی دیں اب دونوں کو، کہیں کہ عشرت پھوپھو ملنا چاہ رہی ہیں۔" انہوں نے پھر اصرار کیا۔
"میں عزیر کو بلا کر لاتی ہوں۔" شاہانہ کہتی ہوئی اٹھ کر اندر چلی گئیں۔ اور پھر عزیر کے ہمراہ واپس آئیں۔
"السلام علیکم پھوپھو!" عزیر آکر ادب سے ان کے آگے جھکا۔
"وعلیکم السلام! ماشاءاللہ کتنے بڑے ہوگئے ہو۔" وہ سر پر ہاتھ رکھ کر بولیں۔
"بڑا ہوگیا ہوں تب ہی تو شادی ہو رہی ہے۔" وہ شرارت سے کہتے ہوا سیدھا ہوا۔
"چل بدمعاش!" انہوں نے مسکراتے ہوئے ٹوکا۔
"اور دوسرا دولہا کہاں ہے؟" انہوں نے غضنفر کی بابت پوچھا۔ تو صالحہ پریشان ہوگئیں۔
"السلام علیکم!" تب ہی غضنفر سلام کرتا ہوا ان کی طرف آیا۔ اور سر جھکایا جسے دیکھ کر دونوں کو اطمینان ہوا۔
"وعلیکم السلام! کتنے بدل گئے ہو بھئی تم تو۔" وہ سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے حیرت سے بولیں۔
"پتے شاخ سے ٹوٹ کر الگ ہونے کے بعد رنگ بدل ہی لیتے ہیں۔" وہ تلخ مسکراہٹ کے ساتھ کہتا ہوا واپس سیدھا ہوا۔
"ہیں! کیا؟" وہ سمجھی نہیں۔ مگر صالحہ اور دردانہ اس کا مفہوم بھانپ گئی تھیں۔
"ارے چھوڑو یہ سب باتیں تو ہوتی رہیں گی، تم بتاؤ عشرت، سلیم کا کاروبار کیسا جا رہا ہے؟ اور آئے گا نا وہ آج شام میں!" دردانہ نے یکدم موضوع ہی بدل دیا تو ان کی توجہ اس طرف مبذول ہوگئی۔ غضنفر بھی اپنے کمرے میں چلا گیا۔
وہ کمرے کا دروازہ کھلا چھوڑ کر اندر آیا تو پیچھے پیچھے صالحہ بھی چلی آئیں۔
"مجھے امید نہیں تھی کہ تم واپس آجاؤ گے۔" وہ دھیرے سے بولیں۔
"ابھی آگے ایسا اور بھی بہت کچھ ہوگا جس کی آپ کو امید نہیں ہے۔" وہ ان کے مقابل کھڑا ہوکر سرد مہری سے بولا تو وہ دہل گئیں۔
"صالحہ!" تب ہی باہر سے رفاقت کی پکار سنائی دی۔
"جائیں، آپ کے شوہر بلا رہے ہیں آپ کو۔" وہ طنزیہ انداز میں کہتا واپس پلٹ کر بیڈ کی جانب آگیا۔
کوئی اور موقع ہوتا تو وہ ضرور اس سے بات چیت کرتیں مگر رفاقت کی پکار پر فی الحال انہیں وہاں سے جانا پڑا۔ لیکن ان کا ذہن غضنفر کی بات پر، اور اسے کرنے کے انداز پر اٹک کر رہ گیا تھا۔
میں آہستہ آہستہ پتھر کا ہو رہا ہوں
یہ مجھ پر میرے عزیزوں کی عنایتیں ہیں
انتخاب
*******************************
پچھلی قسط کی جھلک 👇
"مجھے امید نہیں تھی کہ تم واپس آجاؤ گے۔" وہ دھیرے سے بولیں۔
"ابھی آگے ایسا اور بھی بہت کچھ ہوگا جس کی آپ کو امید نہیں ہے۔" وہ ان کے مقابل کھڑا ہوکر سرد مہری سے بولا تو وہ دہل گئیں۔
"صالحہ!" تب ہی باہر سے رفاقت کی پکار سنائی دی۔
"جائیں، آپ کے شوہر بلا رہے ہیں آپ کو۔" وہ طنزیہ انداز میں کہتا واپس پلٹ کر بیڈ کی جانب آگیا۔
کوئی اور موقع ہوتا تو وہ ضرور اس سے بات چیت کرتیں مگر رفاقت کی پکار پر فی الحال انہیں وہاں سے جانا پڑا۔ لیکن ان کا ذہن غضنفر کی بات پر، اور اسے کرنے کے انداز پر اٹک کر رہ گیا تھا۔
میں آہستہ آہستہ پتھر کا ہو رہا ہوں
یہ مجھ پر میرے عزیزوں کی عنایتیں ہیں
انتخاب
اب آگے 👇
*******************************
غضنفر کی واپسی کے بعد خیر خوبی سے مہندی کی رسم ہوگئی تھی جس پر سب نے ہی دل ہی دل میں شکر ادا کیا تھا۔ باقی معاملات بھی ندی میں بہتے پرسکون پانی کی مانند رواں دواں تھے۔ دونوں گھروں میں شادی کی مخصوص رونقیں اور افراتفری بھی شرارت بھرے قہقہوں اور ذمہ دارانہ فکروں کے سنگ جاری و ساری تھیں۔
غضنفر کے ماموں کی حیثیت سے سلیمان کی شرکت پر بھی کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا جب کہ اپنی منزل کے قریب سے قریب تر ہونے پر اندر ہی اندر وہ کافی خوش تھے اور ان کی اس خوشی نے ہی غضنفر کو اس سمجھوتے پر آمادہ کیا تھا۔
ان ہی سب ہنگاموں کے بیچ بلآخر اب وہ رات آ پہنچی تھی جب ملیحہ حمدانی کو مسز ملیحہ غضنفر عباس بن کر مسز صبیحہ عزیر عباس کے سنگ عباس ولا آنا تھا جس کے باعث اپنے اپنے مطابق سب ہی بہت خوش تھے۔ مگر اس خوشی کی عمر کتنی تھی؟ یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔
*******************************
"ارے! یہ کیا بدتمیزی ہے؟" حنائی ہاتھوں سے یکدم فون چھن جانے پر گہرے گلابی لہنگے میں دلہن بنی صبیحہ حیرت سے بولی۔
"بدتمیزی نے آرڈر ہے مامی کا، کہ اب رخصتی تک آپ کو فون سے دور رکھا جائے۔" سبز کامدار سوٹ میں تیار رمشا نے بےنیازی سے تصحیح کی۔
"امی سے میں خود بات کرلوں گی، تم میرا فون ادھر دو۔" وہ کہتے ہوئے ڈریسنگ ٹیبل کی کرسی پر سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
"جی نہیں، آرام سے بیٹھ جائیں اب بارات آنے تک، ملیحہ آپی کو دیکھیں، وہ بھی تو بیٹھی ہیں نا آرام سے۔" اس نے دونوں ہاتھ پشت پر باندھے ہوئے چند قدم پیچھے ہوکر آنکھوں سے ملیحہ کی جانب اشارہ کیا۔
جو میرون لہنگے میں سجی سنوری کرسی پر بیٹھی، دونوں کو نظر انداز کیے اپنی ناک میں موجود بڑی گول سی لانگ اپنے حنائی ہاتھوں سے درست کرنے میں مصروف تھی۔
"رمشا فون دو میرا۔" وہ سختی سے بولی۔
"نہیں دیتی۔" اس نے ڈھٹائی سے کہا اور برق رفتاری سے بھاگتے ہوئے میک اپ روم سے باہر نکل گئی۔ جب کہ وہ غصے و بےبسی سے اسے دیکھ کر رہ گئی۔
*******************************
"جی، بكرا تیار ہی سمجھیں قربان ہونے کیلئے۔" موبائل کان سے لگائے غضنفر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آکر اب اپنا جائزہ لینے لگا۔
سیاہ شیروانی میں وہ تقریباً تیار ہی تھا جس کی آستین اور گلے پر پتلی سی گولڈ کی کڑھائی ہوئی تھی۔
سلیقے سے بنے بالوں اور نفاست سے تراشی ہوئی شیو میں کھڑے نین نقش والا اس کا سنجیدہ چہرہ کافی جاذب نظر لگا۔
"خیر! نوں بج گئے ہیں، ہم لوگ بھی بس نکلنے والے ہیں بارات لے کر آپ راستے سے ہمیں جوائن کرلیجئے گا ماموں۔" اس نے بات سمیٹی۔
اور پھر لائن ڈسکنیکٹ کرکے موبائل شیروانی کی جیب میں رکھتا ہوا وہ کمرے سے باہر آیا۔
ہال میں تو کوئی نہیں تھا البتہ عزیر کے کمرے سے کافی آوازیں آرہی تھیں جس کے باعث وہ بھی وہیں آگیا۔
کمرے کے کھلے دروازے پر پہنچ کر اس نے دیکھا کہ اسکن کلر کی شیروانی میں عزیر بھی تیار ہی تھا اور اب عبید، زوہا، شاہانہ، شفاعت، دوردانہ اور چند مزید کزنز کے جھرمٹ میں وہ مسکراتے ہوئے سہرا پہن رہا تھا۔ جب اسے سہرا پہنا دیا گیا تو شاہانہ اس کی بلائیں لینے لگیں جب کہ شفاعت نے اس کا سر چومتے ہوئے اسے سینے سے لگا لیا۔
یہ منظر دیکھ کر اس کے دل میں ایک پھانس سی چبھی اور سنجیدہ چہرے کا تاثر کرب میں بدلنے لگا۔
اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے وہ جیسے ہی جانے کیلئے پلٹا تو اسی طرف آتے رفاقت اور صالحہ کو دیکھ کر رک گیا۔
"ارے تم تیار ہوگئے!" صالحہ خوشگوار حیرت سے بولیں۔
جب کہ رفاقت اسے نظر انداز کرتے ہوئے کنارے پر سے گزر کر اندر کمرے میں چلے گئے۔
"ماشاءاللہ کتنا پیارا لگ رہا ہے میرا بیٹا۔" رفاقت کے رویے کو نظر انداز کرتے ہوئے صالحہ نے پیار سے اس کا چہرہ تھاما۔ وہ خاموش ہی رہا۔
"ماشاءاللہ! کتنا اچھا لگ رہا ہے ہمارا بچہ۔" تب ہی قریب آچکی دردانہ نے بھی اس کی بلائیں لیں۔
"بھیا! سیلفی۔" اگلے ہی پل نیلے سوٹ میں تیار زوہا بھی موبائل کا فرنٹ کیمرہ آن کیے اس کے پاس آگئی اور سیلفی لینے لگی۔
"گھر سے کب تک نکلنا ہے؟" غضنفر نے سنجیدگی سے پوچھا۔
"نوں تو بج گئے ہیں، بس چلو روانہ ہونے کی تیاری کرو، چلو بھئی! چلنا نہیں ہے کیا!" دردانہ نے کہتے ہوئے آخر میں کمرے کی جانب رخ کرکے باقی سب کو بھی پکارا۔
*******************************
"بیٹا اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے، اب بھی وقت ہے، اگر کوئی پریشانی ہے تو بتا دو، اگر یہ شادی نہیں کرنی تو کوئی زبردستی نہیں ہے منع کردو، میں سب سنبھال لوں گا۔" سالک صاحب دونوں ہاتھوں سے دلہن بنی ملیحہ کا چہرہ تھامے نرمی سے کہہ رہے تھے۔
"نہیں پاپا! کوئی پریشانی نہیں ہے اور میں بہت خوش ہوں، بلیو می۔" (میرا یقین کریں) ملیحہ نے اپنے حنائی ہاتھوں سے اپنے چہرے کے گرد آئے ان کے ہاتھ پکڑ کر یقین دہانی کرائی۔
"پاپا آپ خوامخواہ پریشان ہو رہے ہیں، مانا کہ تھوڑی ٹریجڈی ہوگئی تھی مگر اب تو سب ٹھیک ہے نا، تو پھر آپ کیوں ٹینشن لے رہے ہیں!" صبیحہ بھی کہتی ہوئی قریب آئی۔
"اگر تم دونوں خوش ہو، تو پھر سب ٹھیک ہی ہے۔" انہوں نے کہتے ہوئے دونوں بازوں ان کے گرد حمائل کرتے ہوئے انہیں گلے سے لگا لیا۔ جس کے باعث ان دونوں کا دل بھی بھر آیا۔
سالک صاحب نے کبھی خود کو ایک کمزور بوڑھا بیٹیوں کا باپ نہیں سمجھا تھا۔ بلکہ ان ہی بیٹیوں کیلئے وہ خود کو مضبوط کیے رکھتے تھے تا کہ کوئی انہیں تکلیف نہ پہنچا سکے۔ ان کا ماننا تھا کہ بیٹی کے باپ کو کمزور نہیں پڑنا چاہئے، بلکہ خود کو اتنا مضبوط رکھنا چاہئے کہ سامنے والا کوئی ٹکر لینے سے قبل ضرور سوچے، کیونکہ ایک باپ سے زیادہ مضبوط و بہترین محافظ اور کوئی نہیں ہوسکتا بیٹیوں کا۔
"ماموں! بارات آگئی ہے۔" اچانک رمشا نے میک اپ روم میں جھانکتے ہوئے خوشگوار انداز سے اطلاع دی۔
کیسے سمجھیں گے بادشاہ کا دکھ
وہ جو شہزادی لینے آتے ہیں
انتخاب
*******************************
خوشگوار ماحول میں جاری رہنے کے بعد خیر و عافیت سے یہ تقریب اختتام پذیر ہوگئی تھی، غضنفر اور ملیحہ کا نکاح بھی باقاعدہ شرعی طریقے سے دوبارہ کردیا گیا تھا۔ جس کے بعد ملیحہ اور صبیحہ سسکیوں اور دعاؤں کے سائے میں رخصت ہوکر اب بلآخر "عباس ولا" آچکی تھیں اور چھوٹی موٹی رسموں کے بعد اب دونوں کو ہی پھولوں کی سیج پر پہنچا دیا گیا تھا۔ جس کے بعد اب انہیں اس نئے سفر میں ساتھ چلنے والے ہمسفر کا انتظار تھا۔
"جب تک زمین کے پیپرز ہمارے قبضے میں نہیں آجاتے تمھیں اس کے ساتھ بہت پیار سے پیش آنا ہے غضنفر، آئی سمجھ!" غضنفر نے جیسے ہی دروازے کی ناب پر ہاتھ رکھا تو سلیمان کی بار بار کی گئی نصیحت اس کے ذہن میں گونجی۔
ایک گہری سانس لے کر خود کو نارمل کرتے ہوئے وہ کمرے میں داخل ہوا اور لمحے بھر کو ٹھٹک کر رک گیا۔
بیڈ تو پہلے سے ہی سج چکا تھا جس پر اس نے کوئی خاص توجہ نہیں دی تھی مگر اس وقت نائٹ بلب کی روشنی کے باعث ہوئے اس خوابناک ماحول میں پھولوں کی سیج پر سجی سنوری ملیحہ کو دیکھ کر بےاختیار اس کی دھڑکن پل بھر کو بےترتیب ہوئی۔ مگر اس نے جلد خود پر قابو پا لیا اور متوازن انداز سے چل کر آنے کے بعد وہ اس کے پاس ہی بیڈ پر بیٹھ گیا۔
ملیحہ نے گھونگھٹ نہیں نکالا ہوا تھا بس دونوں ہاتھ گھٹنوں کے گرد باندھے سر جھکائے بیٹھی تھی۔ اور اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ بلاشبہ وہ بہت دلکش لگ رہی تھی۔
دونوں کے بیچ ابھی تک خاموشی حائل تھی جو کہ کچھ زیادہ ہی بھاری محسوس ہو رہی تھی اور دونوں ہی اسے توڑنے میں پہل نہیں کر پا رہے تھے۔
وہ جو بےخوف و خطر لوگوں کو مار پیٹ کر کام نکلوایا کرتا تھا یا ان کا منہ کھلوایا کرتا تھا اب اپنی دلہن کے آگے خود اس کی زبان کو ہی تالا لگ گیا تھا۔
عشق و عاشقی سے، پیار محبت کی باتوں سے اس کا کبھی دور دور تک کوئی واسطہ نہیں پڑا تھا اور اب جب سر پر آ پڑی تھی، وہ بھی زبردستی کی تو اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے اور کیا نہیں؟
"آئی ایم سوری!" کافی دیر بعد وہ ہمت کرکے بس اتنا ہی بولا۔ ملیحہ نے بےساختہ نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔
"کیوں؟" اسے تعجب ہوا۔
"میں نے تمہارے ساتھ بہت برا بی ہیو کیا تھا اس دن۔" اس نے آہستہ سے وضاحت کی۔ تعجب زائل ہونے کے بعد اسے کچھ اطمینان ہوا۔
"غلطی کرنا بری بات ہے، مگر اسے مان کر سدھار لینا زیادہ اچھی بات ہے، جو کہ تم نے سدھار لی، اور یہ اچھی بات ہے۔" اس نے دلکشی سے مسکراتے ہوئے کہا۔ وہ کل کی کوئی گزری بات دہرا کر اپنا آج بدمزہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔
"نہیں، دراصل تم بہت اچھی ہو کہ تم نے مجھے موقع دیا۔" اس نے کہتے ہوئے آہستہ سے اس کا مہندی والا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ میں لیا۔ ملیحہ کے پورے وجود میں سرسراہٹ سی دوڑ گئی۔
زندگی میں پہلی مرتبہ کسی مرد نے محبت سے اس کا ہاتھ پکڑا تھا، اسے چھوا تھا، اور اسے اس بات کی بےحد خوشی تھی کہ وہ اس کا محرم تھا۔
"غلطیاں سب سے ہوجاتی ہیں، اسی لئے ایک موقع حق ہے سب کا، کل کو اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی تو تم بھی مجھے دو گے نا ایک موقع!" ملیحہ نے ہلکے پھلکے انداز میں کہتے ہوئے پوچھا۔
"ضرور! لیکن مجھے تو میرا حق مطلب ایک موقع مل چکا ہے، اب اگر میں نے دوبارہ کوئی غلطی کردی تو!" اس نے قریب جھکتے ہوئے گھمبیر انداز میں پوچھا۔
"تو اسے مان کر پیار سے سوری کہہ دینا، میں بھی مان جاؤں گی۔" اس نے بھی اپنا ماتھا اس کے ماتھے کے ساتھ جوڑتے ہوئے مسکرا کر جواب دیا۔
لو تھام کے تیرا ہاتھ پیا
تجھے سونپ دی اپنا ذات پیا
میں نے تن من تجھ پر وار دیا
میرا حاصل تیری ذات پیا
انتخاب
*******************************
"بہت خوبصورت ہے۔" صبیحہ نے سرخ ڈبے میں موجود لاکٹ کو دیکھتے ہوئے بےساختہ تعریف کی۔
وہ دل کے شیپ میں گولڈ کا لاکٹ تھا جس کی ایک سائیڈ پر S لکھا ہوا تھا اور دوسری طرف U لکھا ہوا تھا۔
"میرا ارادہ تو تمھیں کچھ اور دینے کا تھا منہ دکھائی میں، مگر پھر خیال آیا کہ تمھیں ایلفابیٹ والے لاکٹ بہت پسند ہیں تو یہ آرڈر پر بنوالیا، اب سے یہ پہن کر رکھنا تم، وہ پرانا والا اب نہیں پہننا۔" اس کے نزدیک بیٹھے عزیر نے بتاتے ہوئے آخر میں گویا حکم بھی دیا۔
"اچھا! زبردستی ہے! اگر نہیں پہنوں تو!" اس نے بھی محظوظ ہوتے ہوئے دلچسپی سے پوچھا۔ اور ساتھ ہی باکس بند کرکے بیڈ پر رکھا۔
"تو نہ پہننا، جیسی تمہاری مرضی، کیونکہ محبت میں زبردستی نہیں ہوتی نا!" اس نے کندھے اچکا کر آرام سے کہا۔ اور پھر اس کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا جو لہنگا پھلائے بیڈ پر بیٹھی تھی۔
"اوہ ہو! یہ فرمابرداری ہمیشہ رہنے والی ہے یا بس آج رات تک کے بول بچن ہیں!" اس نے آنکھیں سکیڑ کر تیکھے انداز میں جاننا چاہا۔
"تم میری محبت کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہی ہو!" وہ مصنوعی دکھ سے بولا۔
"ہاں!" اس نے جھٹ سے جواب دیا۔
"اگر اتنا ہی شک تھا تو پھر شادی کیوں کی؟" عزیر نے اس کی كرل ہوئی لٹ کو چھیڑتے ہوئے سوال اٹھایا۔
"یہ سوچ کر کہ کہیں میرے انکار پر تم پاگل نہ ہوجاؤ، اسی لئے ترس کھا کر کرلی تم سے شادی۔" اس نے مصنوعی بےنیازی دکھائی۔
"اچھا! تو چلو اب تھوڑا ترس اور کھا کر کچھ مزید فرمائشیں بھی پوری کردو۔" اس نے صبیحہ کا خود پر جھکا ہوا چہرہ مزید قریب کرتے ہوئے معنی خیزی سے کہا تو وہ بھی بےساختہ جھینپ کر مسکرادی۔
من چاہی ہر منت کی، تجھ پر ہو برسات پیا
میری دعا اک تو ہی ہے، مجھے ملے تیرا ساتھ پیا
*******************************
چاند کے چھپتے ہی اجلا اجلا سورج پھر سے آسمان کے سینے پر چلا آیا تھا جس کے سامنے پرندے چہچہاتے ہوئے اٹکھلیاں کھاتے یہاں وہاں گھوم رہے تھے۔
بیڈ پر اوندھے ہوکر بےخبر سوئے غضنفر کو اپنے چہرے پر کچھ محسوس ہوا جس سے اس کی گہری نیند میں خلل پیدا ہوا۔ اور تھوڑی دیر بعد احساس ہوا کہ یہ لمس گیلا گیلا سا تھا جس کے باعث وہ کوفت سے آنکھیں کھولتا ہوا سیدھا ہوا۔
"گڈ مارننگ!" اس کے بالکل برابر میں بیٹھی ملیحہ نے خوشدلی سے کہا جو کہ ابھی ابھی نہا کر آئی تھی۔
"یہ پانی تم نے گرایا ہے میرے چہرے پر!" غضنفر نے اس کی بات نظر انداز کرکے گال پر سے پانی صاف کرتے ہوئے بےزاری سے پوچھا۔
"ہاں، اپنے بالوں سے۔" اس نے فخر سے بتایا۔
"کیا ضرورت تھی یہ فضول حرکت کرنے کی!" خلاف توقع وہ اٹھ کر بیٹھتے ہوئے برہم ہوا۔ ملیحہ کی مسکراہٹ سمٹ کر غائب ہوئی۔
"میں تو بس تمھیں پیار سے جگا رہی تھی، اگر تمھیں برا لگا تو سوری!" اس نے روہانسی ہوکر آہستہ سے کہا۔
وہ ضبط کرتے ہوئے جبڑے بھینچ کر رہ گیا۔ اور اس سے قبل کہ غصے میں مزید کچھ الٹا سیدھا اس کے منہ سے نکلتا وہ کمبل ہٹاتے ہوئے بیڈ سے اٹھ کر باتھ روم میں چلا گیا جسے وہ دیکھ کر رہ گئی۔
ہوش میں تو چلو دل مار کر وہ پیار محبت کا ڈرامہ کر لیتا تھا، مگر اچانک گہری نیند ٹوٹ پر وہ کچھ لمحوں کیلئے سلیمان کا پڑھایا گیا پیار محبت کا سبق بھول گیا تھا۔ جب کہ ساری حقیقت سے بےخبر ملیحہ نے یہ سوچ کر ایسا کیا تھا کہ شاید اس عمل کا وہ بھی کوئی شریر سا رد عمل دے گا، مگر ایسا نہ ہونے پر اس کا دل ٹوٹ گیا۔
چند لمحے یوں ہی بیٹھے رہنے کے بعد وہ سر جھٹکتی ہوئی بیڈ پر سے اٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل کی جانب آگئی۔ اور اپنے گیلے بال سکھانے لگی۔
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
میر تقی میر
*******************************
"عزیر! یہ کیا حرکت ہے!" صبیحہ یکدم جھنجھلاتے ہوئے اٹھ بیٹھی۔
"بہت ہی رومانٹک سی۔" نزدیک بیٹھے عزیر نے جھٹ سے جواب دیا۔
"بالکل میرے منہ کے اوپر آکر پاگلوں کی طرح اپنے گیلے بال جھاڑنا رومانٹک حرکت ہے تمہارے مطابق!" اس نے کوفت سے اپنا چہرہ صاف کرتے ہوئے لتاڑا۔
"ہاں، میں نے اکثر فلموں میں دیکھا ہے کہ ہیروئن ہیرو کو اپنے گیلے بالوں سے جگاتی ہے، میری بھی خواہش تھی کہ میری بیوی مجھے ایسے جگائے، مگر تم تو خود ہاتھی گھوڑے بیج کر سو رہی تھی، تو میں نے سوچا کہ میں ہی اپنی بیوی کو پیار سے جگا دوں۔" وہ وضاحت کرتے ہوئے آخر میں اس کے نزدیک جھکا۔
"دوبارہ مت کرنا مجھ سے ایسا پیار۔" صبیحہ نے اسے پیچھے دھکیلتے ہوئے چڑ کر ٹوکا اور کمبل ہٹا کر بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
"تو پھر تم ہی بتا دو کہ کیسا پیار کروں؟" عزیر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روکتے ہوئے شرارت سے پوچھا۔
"انسانوں والا۔" اس نے تنک کر جواب دیا۔
"اچھا! وہ کیسے ہوتا ہے؟ پلیز ذرا سکھاؤ گی مجھے۔" اب اس نے کھڑے ہوکر صبیحہ کی پشت اپنے سینے سے لگا لی۔ اور اس کی گردن کے گرد بازو حمائل کیا۔
"عزیر چھوڑو مجھے۔" اس نے گرفت سے نکلنا چاہا۔
"نہیں، پہلے بتاؤ کہ انسانوں والا پیار کیسے ہوتا ہے۔" وہ مکمل طور پر شرارت کے موڈ میں تھا۔
جب صبیحہ کو کوئی طریقہ نظر نہیں آیا آزاد ہونے کا تو اس نے اپنے دانت اس کے ہاتھ پر گاڑ دیئے جس کے باعث اس کی گرفت ڈھیلی پڑی اور اگلے ہی پل وہ اس کے حصار سے نکلنے میں کامیاب ہوگئی۔
"ایسے کرتے ہیں انسانوں والا پیار۔" صبیحہ ہنستے ہوئے کہہ کر جلدی سے جا کے باتھ روم میں بند ہوگئی۔
"اب تم باہر آؤ ذرا، پھر میں تمہیں اپنا پیار دیکھاتا ہوں۔" اپنا ہاتھ سہلاتے ہوئے اس نے بھی معنی خیزی سے آواز لگائی۔
*******************************
"سب ٹھیک ہے نا! کوئی ایسی بات تو نہیں ہوئی جو اسے بری لگے!" موبائل کان سے لگائے سلیمان نے ڈائینگ ٹیبل کی کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے جاننا چاہا۔
"اس کا تو پتا نہیں، مگر ایسی بہت سی باتیں مسلسل ہو رہی ہیں جو مجھے سخت بری لگ رہی ہیں، اور سونے پر سہاگہ آج دن کی شروعات ہی خراب ہوئی۔" غضنفر نے برش سے بال بناتے ہوئے جل کر کہا۔ جب کہ اس نے اپنا فون اسپیکر پر کرکے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا ہوا تھا۔
"کیا مطلب؟ کچھ ہوا ہے کیا تم دونوں کے بیچ؟" وہ ٹھٹکے۔
"ہاں، اچھی خاصی گہری نیند میں سو رہا تھا میں، اپنے گیلے گیلے بالوں سے ساری نیند خراب کردی اس نے میری۔" اس نے بےزاری سے بتاتے ہوئے برش واپس رکھا۔
"تو پھر تم نے کیا کہا اسے؟" انہوں نے دهڑکتے دل سے جاننا چاہا۔
"کیا کہتا؟ ضبط کرکے رہ گیا، مگر تھوڑی سنا دی تھی اسے۔" اس نے نروٹھےپن سے بتایا۔ سلیمان نے بےساختہ اپنا سر پیٹا۔
"الو کے پٹھے! یہ سب شادی کے شروع کے دنوں کی ناز برداریاں ہوتی ہیں، یہ ہی تو موقع ہوتا ہے پیار محبت بڑھانے کا، اور تم نے شادی کے اگلے ہی روز اسی جلی کٹی سنا دی، اگر اس نے ناراض ہوکر سالک سے شکایات کردی تو!" انہیں اس پر سخت غصہ آرہا تھا۔
"ماموں مجھ سے نہیں ہوتیں یہ چونچلے بازیاں، اور بتاتی ہے تو بتا دے، میں ڈرتا نہیں ہوں اس کے باپ سے۔" اس نے بےزاری سے کہتے ہوئے دراز سے گھڑی نکالی۔
"غضنفر تم پٹ جاؤ گے میرے ہاتھ سے، اتنی مشکل سے ہم یہاں تک پہنچے ہیں اور تمہاری الٹی کھوپڑی کی وجہ سے سارا بنا بنایا کھیل بگڑ جائے گا۔" وہ لفظ چبا چبا کر بولے۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور اپنی گھڑی پہننے لگا۔
"ابھی کہاں ہے وہ؟" انہوں نے جاننا چاہا۔
"پتا نہیں، کمرے میں تو نہیں ہے، باہر ہی کہیں ہوگی!" اس نے لئے دیے انداز میں جواب دیا گویا اسے کوئی سروکار نہ ہو۔ اور ساتھ ہی موبائل کا اسپیکر بند کرکے اسے کان سے لگایا۔
"ابھی کے ابھی تم اس سے سوری بولو اور یقین دہانی کرواؤ کہ آئندہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔" انہوں نے حکم جاری کیا۔
"کیا! نیند میری خراب ہوئی اور سوری بھی میں ہی بولوں!" وہ حیران ہوا۔
"ہاں، کیونکہ غرض بھی ہماری ہی ہے اسی لئے جھکنا بھی ہمیں ہی پڑے گا، اب جیسا بولا ہے ویسا کرو، آئی سمجھ!" انہوں نے ترکی بہ ترکی باور کرایا۔
بجائے کوئی جواب دینے کے اس نے سخت بدمزہ ہوکر لائن ڈسکنیکٹ کردی۔
"سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں میں اس لڑکے کا!" سلیمان بھی موبائل ٹیبل پر رکھتے ہوئے بڑبڑائے۔
"پہلی پہلی شادی ہے نا چھوٹے صاحب کی، اسی لئے بیچارے کنفوس (کنفیوژ) ہو رہے ہیں۔" نزدیک کھڑے چائے بناتے رنگیلا نے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے تجزیہ کیا۔
سلیمان نے اسے گھورا تو اس نے فوراً اپنے دانت اندر کرلئے۔
*******************************
ناشتے سے فارغ ہوکر دوسری چھوٹی موٹی باتوں کے بیچ تھوڑی دیر بعد ولیمے کی تیاری کیلئے صبیحہ اور ملیحہ کے پارلر جانے کا وقت ہوگیا۔
ملیحہ اپنا سامان لینے کمرے میں آئی تو غضنفر بھی ناچاہتے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے چلا آیا۔
وہ اس کی موجودگی سے بےخبر الماری میں کچھ ڈھونڈ رہی تھی جب کہ وہ سلیمان کے حکم سے مجبور ہوکر بات چیت کیلئے لفظ ترتیب دینے لگا۔
"سنو!" اس نے چند قدم آگے آتے ہوئے پکارا۔ وہ چونک کر پلٹی۔
"ہممم کہو!" وہ سہولت سے متوجہ ہوئی۔
اس کے انداز میں کوئی ناراضگی، کوئی شکوہ صبح سے ہی نہیں تھا۔ شاید وہ اس بات کو اسی وقت ہی در گزر کر چکی تھی۔ مگر سلیمان کا حکم تو اسے ہر حال میں ماننا تھا۔
"آئی ایم سوری!" وہ سر جھکا کر دھیرے سے بولا۔
"کس لئے؟" وہ سمجھی نہیں۔
"صبح تم پر تھوڑا غصہ کیا میں نے اس کیلئے۔" اس نے سر اٹھا کر وضاحت کی۔
وہ اسے نرم تاثر کے ساتھ پہلے یوں دیکھتی رہی گویا یہ غیر متوقع بات کافی خوشگوار لگی ہو۔ پھر الماری بند کرتے ہوئے وہ اس کی جانب آئی۔
"کوئی بات نہیں، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو عمل ہمیں پسند ہوتا ہے وہ سامنے والے کو پسند نہیں آتا اور رد عمل میں غصہ کر بیٹھتا ہے، یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے، بس ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے، پھر سارے مسلے حل ہوجاتے ہیں۔" وہ مسکرا کر کہتی اس کے مقابل آکر رکی۔
"ابھی تو پہلا ہی دن ہے ہمارا ایک ساتھ اسی لئے مجھے زیادہ پتا نہیں ہے تمہاری پسند ناپسند کے بارے میں، ایک کام کریں گے کہ فرصت میں بیٹھ کر ایک لسٹ بنائیں گے جس میں وہ ساری باتیں لکھیں گے جو ہمیں پسند ہیں اور جو پسند نہیں ہیں، اور پھر انہیں ذہن نشین کرکے ان ساری باتوں سے ہم آئندہ گریز کریں گے جو دوسرے کو پسند نہ ہوں، اس سے کسی کو بھی غصہ نہیں آئے گا، ٹھیک ہے نا!" اس نے دلکشی سے مسکراتے ہوئے معصومانہ انداز میں گردن ذرا سی ٹیڑھی کرکے تائید چاہی۔
بےساختہ اس نے بھی غیر ارادی طور پر مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا۔
"گڈ! چلو اسی خوشی میں اب مجھے اور صبیحہ کو پارلر چھوڑ آؤ اگر فری ہو تو!" اس نے سہولت سے کہا۔
"ہاں، باہر آجاؤ سامان لے کر۔" وہ باآسانی رضا مندی دے کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ جب کہ وہ دوبارہ الماری کی طرف بڑھی۔
ذرا سی لغزش پر توڑ دیتے ہیں سب ہی تعلق دنیا والے
ایسے لوگوں سے تعلق بنانا، پھر بنائے رکھنا کمال یہ ہے
*******************************
ولیمے کی تیاریوں میں ہی ولیمے کا وقت آ پہنچا جس کے بعد اب سب لوگ بلآخر روشنیوں سے جگمگ کرتے اس ہال میں موجود تھے جس کے عالیشان اسٹیج پر اس وقت دو جوڑے سب کی نگاہوں کا مرکز بنے ہوئے تھے۔
ملیحہ نے گولڈن کامدار، گھیر والی میکسی پہنی ہوئی تھی اور میک اپ، جیولری کے ساتھ وہ اپنی دلکش مسکراہٹ کے سنگ بہت پیاری لگ رہی تھی۔ جب کہ اس کے پہلو میں سیاہ ٹو پیس پہنے بیٹھا غضنفر اپنے سنجیدہ تاثر کے ساتھ بھی کافی وجیہہ لگا۔
صبیحہ نے لائٹ پنک میکسی پہنی ہوئی تھی، جب کہ عزیر نے سرمئی ٹو پیس زیب تن کیا ہوا تھا اور دونوں ایک ساتھ ہنستے مسکراتے بہت پیارے لگ رہے تھے۔
مدھم موسیقی کے ساتھ تقریب جاری و ساری تھی، کچھ لوگ آپس میں خوش گپیوں میں مصروف تھے تو کچھ دلہن دولہا کے ہمراہ تصاویر بنوانے میں۔
تب ہی غضنفر کی نظر سلیمان پر پڑی جو کہ ابھی ابھی پہنچے تھے اور اب ان کا رخ اسٹیج کی جانب ہی تھا۔
انہیں دیکھ کر وہ خود اسٹیج سے اٹھ کر نیچے ان کی طرف آیا۔
"ارے تم کیوں آگئے اٹھ کر، میں وہیں آرہا تھا۔" قریب آنے پر انہوں نے سہولت سے ٹوکا۔
"بس ایسے ہی، اتنی دیر سے کیوں آئے آپ!" اس نے یوں ہی پوچھا۔
"کراچی کے ٹریفک کا پتا تو ہے نا تمھیں! خیر یہ بتاؤ تمہارے سسر جی کہاں ہیں؟" انہوں نے سرسری سا بتاتے ہوئے پوچھا۔
"ہوں گے یہیں کہیں، ابھی تھوڑی دیر پہلے تک تو اسٹیج پر ہی تھے۔" اس نے یہاں وہاں دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
"اور ملیحہ سے سوری کہا تم نے؟ مزید کوئی الٹی سیدھی بات تو نہیں ہوئی نا!" انہوں نے دھیمی آواز میں رازداری سے پوچھا۔
"ہاں کہہ دیا، اور کوئی بات نہیں ہوئی۔" اس نے بھی سنجیدہ انداز میں آہستہ سے جواب دیا۔
"ارے سلیمان! اتنی دیر سے آئے تم۔" صالحہ کہتی ہوئی ان کی جانب آئیں۔
"بس باجی ٹریفک کی مہربانی، خیر! مبارک ہو آپ کو، ماشاءاللہ سے بہو والی ہوگئی ہیں اب آپ بھی۔" وہ ہلکے پھلکے انداز میں ان کی طرف متوجہ ہوگئے۔
"ہاں شکر ہے اللہ کا کہ اس نے یہ دن دکھایا۔" ان کے انداز میں تشکر تھا۔
"بس اب مرنے سے پہلے اپنے پوتا پوتی دیکھنے کی ایک خواہش رہ گئی ہے، اللہ وہ دن بھی جلدی دکھائے۔" وہ حسرت سے مزید بولیں۔ تو غضنفر بےساختہ جھینپ کر یہاں وہاں دیکھنے لگا۔
"آپ بھی کمال کرتی ہیں باجی! ابھی تو ولیمہ بھی ختم نہیں ہوا ہے اور آپ کو پوتا پوتی کی فکر لگ گئی ہے۔" سلیمان نے اس بےصبری پر ٹوکا۔
"اچھا چھوڑو یہ سب باتیں، جاؤ ملیحہ سے تو مل لو۔" صالحہ نے خود ہی موضوع بدلا۔
"ہاں ضرور، آؤ غضنفر۔" سلیمان نے کہا اور پھر وہ دونوں ایک ساتھ ہی اسٹیج پر آگئے۔ صالحہ کسی کام سے دردانہ کے پاس آگئیں۔
صبیحہ اور عزیر کو تو چاروں طرف سے عزیر کے ننھیالی کزنز نے گھیرا ہوا تھا جب کہ سلیمان کو اسٹیج پر آتا دیکھ ملیحہ احتراماً اپنی جگہ پر سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ کیونکہ اسے اتنا تو اندازہ ہوگیا تھا کہ غضنفر سلیمان کی بہت عزت کرتا تھا اور اسی لئے اس نے بھی خود پر ہر وہ عمل فرض کرلیا تھا جس میں اسے غضنفر کی خوشنودی محسوس ہوتی تھی۔
"السلام علیکم!" اس نے ادب سے سلام کیا۔
"وعلیکم السلام! بیٹھی رہو بیٹا۔" اسے اٹھتا دیکھ کر انہوں نے ٹوکا۔
"نہیں میں ٹھیک ہوں، آپ اتنی دیر سے کیوں آئے ماموں!" اس نے مسکراتے ہوئے اس بےتکلفی سے پوچھا گویا کب سے آشنا ہو۔ حتیٰ کے بنا کسی ہدایت کے اس نے غضنفر سے جڑے ہر رشتے کو اسی لقب سے پکارنا بھی شروع کردیا تھا جس سے وہ پکارتا تھا۔
"بس بیٹا ٹریفک کی وجہ سے۔" انہوں نے وہ ہی جواب دہرایا۔
"تو آپ جلدی نکلتے نا گھر سے، پتا ہے غضنفر کب سے انتظار کر رہے تھے آپ کا۔" اس نے اسی انداز میں مزید کہا تو سلیمان اور غضنفر نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ گویا انہیں اس قدر بےتکلفی کی امید نہ ہو۔
"بھئی مجھے لگا تھا کہ شادی کے بعد ماموں کی اب پہلے جیسی اہمیت کہاں رہی ہوگی؟" انہوں نے بھی شرارتی انداز میں مصنوعی قیاس کیا۔
"ارے نہیں! شادی ہونے کا یہ مطلب تھوڑی ہوتا ہے کہ انسان باقی رشتوں کو بھول جائے، بلکہ ایسے وقت پر تو زیادہ ضرورت محسوس ہوتی ہے ان لوگوں کی جن سے ہمیں بےحد انسیت ہوتی ہے، اور نو ڈاؤٹ غضنفر کیلئے آپ ان ہی لوگوں میں سے ایک ہیں۔" اس نے مسکراتے ہوئے تحمل سے کہا۔
جس سے وہ کافی متاثر ہوئے جب کہ غضنفر نے اپنی حیرت کا اظہار نہیں کیا۔ مگر ملیحہ کی حد درجہ باریک بینی کا قائل ضرور ہوا تھا اندر ہی اندر۔
"واہ بھئی! بچی تو بہت سمجھدار ہے۔" انہوں نے بےساختہ سراہا۔
"سمجھداری کا تو پتا نہیں! ہاں لیکن امی کہتی ہیں کہ میں بہت ٹھنڈے دماغ کی ہوں۔" اس نے مصنوعی بےنیازی سے کندھے اچکائے۔
"اچھا! تو چلو اب دیکھتے ہیں کہ کیسی گزرتی ہے ایک ٹھنڈے دماغ والی لڑکی کی ایک بددماغ لڑکے کے ساتھ۔" انہوں نے سراہتے ہوئے آخر میں شرارت سے کہا۔
"بہت خوب گزرے گی۔" ملیحہ نے مسکراتے ہوئے یقین دہانی کرائی۔
"اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔" انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی۔ تو جواباً وہ دلکشی سے مسکرا دی۔
*******************************
ولیمے کی تقریب اختتام پذیر ہونے کے بعد سب لوگ واپس گھر کو لوٹ چکے تھے۔ اور تھکن سے چور ان سب لوگوں کی پہلی ترجیح یہ ہی تھی کہ وہ لوگ جلد از جلد اپنی آرام گاہوں میں پہنچیں۔
میک اپ، زیور اور بھاری لباس کی قید سے آزاد ہونے کے بعد اب ہلکا پھلکا سوٹ پہنے باتھ روم سے باہر نکلتی صبیحہ نے بےساختہ ایک گہری سانس لی گویا سکون ملا ہو اور ڈریسنگ ٹیبل کی جانب آئی۔
ڈریسنگ ٹیبل پر سے روز واٹر کی اسپرے بوتل اٹھا کر اس نے اسے اپنے چہرے پر چھڑکا اور پھر بوتل واپس رکھ کر وہ جیسے ہی جانے کیلئے پلٹی تو عین پیچھے کھڑے عزیر سے ٹکرا گئی۔
"سائیڈ پر ہو۔" اس نے ٹوکا۔
"نہیں، پہلے حساب برابر کرو۔" وہ انکاری ہوا۔
"کس بات کا؟" وہ سمجھی نہیں۔
"اس کا۔" اس نے اپنی دائیں کلائی اس کے آگے کی جس پر بہت ہی مدھم ہوچکا دانت سے کاٹنے کا نشان تھا۔
"غلطی تمہاری تھی۔" وہ بےنیازی سے کہہ کر جانے لگی۔
"تو تم ازالہ کرنے میں مدد کردو۔" اس نے بازو سے پکڑ کر صبیحہ کو واپس اپنی جانب کھینچا۔
وہ فوری طور پر کچھ نہ بولی بس اسے دیکھتی رہی۔ جب کہ بےحد نزدیک ہونے کے باعث صبیحہ کے چہرے پر موجود عرق گلاب کی خوشبو اس کی سانسوں میں اتر رہی تھی۔
"اچھا ٹھیک ہے، پہلے تم اپنی آنکھیں بند کرو پھر جب میں کہوں تو کھولنا۔" وہ کچھ سوچ کر رضا مند ہوئی۔
"اوکے!" اس نے بھی فرمابرداری دیکھاتے ہوئے فوراً آنکھیں بند کرلیں۔
صبیحہ نے خاموشی سے ہاتھ بڑھا کر ڈریسنگ ٹیبل پر سے کچھ اٹھایا جس کے باعث اس کے لبوں پر بےساختہ شریر سی مسکان رینگنے لگی۔
"اب کھولو اپنی آنکھیں۔" اس نے اجازت دی۔
عزیر نے جیسے ہی اپنی آنکھیں کھولیں تو صبیحہ نے عرق گلاب کا اسپرے اس کی آنکھوں پر چھڑک دیا جس کے باعث وہ سٹپٹا کر اسے چھوڑتا ہوا چند قدم پیچھے ہوکر اپنی آنکھیں مسلنے لگا۔ جب کہ وہ ہنستی ہوئی جا کر کمبل میں گھس گئی۔
"اب لگتا ہے سود سمیت سارا حساب کتاب مجھے خود ہی برابر کرنا پڑے گا۔" اس نے آنکھیں مسلتے ہوئے شرارت سے دھمکایا۔
*******************************
"سنو!" چینج کرکے آئی ملیحہ نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے پکارا۔
"ہممم؟" بیڈ پر کمبل اوڑھے، سیدھا لیٹا غضنفر آنکھوں پر سے بازو ہٹائے بنا ہی متوجہ ہوا۔
"کیا تم یہاں آسکتے ہو اور میں تمہاری جگہ پر آجاؤں؟" اس نے عاجزی سے پوچھا۔
"کیوں؟" اب اس نے تعجب سے بازو ہٹا کر اس کی طرف دیکھا۔
"کیونکہ مجھے تمہاری لیفٹ سائیڈ پر سونا ہے۔" اس نے وجہ بتائی۔
"بیڈ کے دونوں کنارے سیم ہی تو ہیں، کیا فرق پڑتا ہے کہ لیفٹ پر سو یا رائٹ پر!" اس نے بےزاری سے دھیان دلایا۔
"پڑتا ہے نا، پلیز تم یہاں آجاؤ۔" اس نے نرمی سے اصرار کیا۔
پہلے چند لمحے تو وہ اسے دیکھتا رہا پھر ضبط کرکے ناچاہتے ہوئے بھی کوفت سے اٹھ کر وہ دائیں طرف آگیا جب کہ ملیحہ خوشی خوشی بائیں طرف کمبل اوڑھ کر لیٹ گئی۔
"تھینکس! تم بہت اچھے ہو۔" وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
جس کے جواب میں غضنفر نے اسے یوں دیکھا گویا خود کو کچھ الٹا سیدھا کہنے سے باز رکھ رہا ہو۔
"مجھے نیند آرہی ہے، میں سوجاؤں؟" غضنفر نے بمشکل اخلاق کا دامن تھامے رکھے ہوئے اجازت چاہی کہ کہیں اسے برا نہ لگ جائے!
"ہاں ضرور، تھک گئے ہو گے نا!" اس نے فوراً خوشدلی سے اجازت دی تو غضنفر نے دوسری جانب کروٹ لے کر منہ تک کمبل اوڑھ لیا۔
جب کہ وہ اس کی پشت تکتے ہوئے مستقبل کے حوالے سے سوچ بیچار کرتے ہوئے نہ جانے کب نیند کی وادی میں اتر گئی۔ اس بات سے بےخبر کہ مستقبل میں سب کچھ ہماری سوچ کے عین مطابق نہیں ہوتا۔
*******************************
تمام معاملات سست روی سے اپنی ڈگر پر ہنوز جاری و ساری تھے۔ ان لوگوں کی شادی کو دو ہفتے ہوچکے تھے۔
اس دوران عزیر اور صبیحہ تو عزیر کے ننھیال کی طرف سے دعوتوں میں کافی مصروف رہے جب کہ چند قریبی دعوتوں کو نمٹانے کے بعد ملیحہ خود کو گھر والوں کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کیلئے کوشاں تھی۔
غضنفر بھی سلیمان کے دباؤ میں آکر اب تک ملیحہ سے ٹھیک طرح ہی پیش آرہا تھا بس کبھی کبھی وہ ضبط کھو کر تھوڑا غصہ کر جاتا تھا، جسے ملیحہ اس کے مزاج کا حصہ سمجھ کر فراخ دلی سے نظر انداز کر دیتی تھی۔ کیونکہ اس نے ایک عزم کے ساتھ اس گھر میں قدم رکھا تھا اور وہ تھا ہر صورت اپنی شادی کو کامیاب بنانا۔
*******************************
"دو ہفتے تو ہوگئے ہیں ماموں شادی کو، اب بات کرتا ہوں نا میں اس سے وہ زمین میرے نام کرنے کی۔" غضنفر شاید اب ان سب سے اکتا گیا تھا۔
"نہیں! اس طرح خود تم اپنے منہ سے بولو گے تو مشکوک ہوجاؤ گے۔" اسنوکر ٹیبل کے نزدیک کھڑے سلیمان نے روکا۔
"تو اور کس کے منہ سے بولوں؟" اس نے جل کر سوال کیا۔
انہوں نے نظر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا۔
"کیا بات ہے؟ اتنے بددماغ کیوں ہو رہے ہو تم کہ ہتھیلی پر سرسو جمانے کو بےتاب ہوئے جا رہے ہو؟" انہوں نے پوچھتے ہوئے جھک کر اسٹیک سے بال کا نشانہ لیا۔
"وہ جو بلا آپ نے میرے پیچھے لگائی ہے نا اس سے تنگ آگیا ہوں اب میں ماموں، میں انگلی پکڑاتا ہوں تو وہ گلے لگنے کو تیار ہوجاتی ہے۔" اس نے بےزاری سے مثال کو توڑ مڑوڑ کر اپنا مسلہ بتایا۔
"تو اس میں کیا مسلہ ہے؟ بیوی ہے وہ تمہاری اسے گلے لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے، لگا لو گلے۔" انہوں نے اطمینان سے مشورہ دیتے ہوئے شارٹ مارا تو وہ بےساختہ جھینپ گیا۔
"وہ سب چھوڑیں اور یہ بتائیں کہ اب وہ زمین کیسے کروائیں اپنے نام؟" اس نے واپس اصل موضوع کی جانب توجہ دلائی۔ وہ پر سوچ انداز میں اسے دیکھنے لگے۔
*******************************
غضنفر کا معمول تھا کہ وہ رات دیر سے گھر واپس آتا تھا جب سب لوگ ڈنر سے فارغ ہوکر اپنے اپنے کمروں کا رخ کر چکے ہوتے تھے۔
ابھی بھی جب وہ اندر آیا تو حسب معمول ہال میں کوئی نہیں ملا، وہ ہال عبور کرتا ہوا سیدھا اپنے بیڈ روم میں آگیا جہاں ملیحہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھی کسی کتاب کے مطالعے میں مصروف تھی۔ آہٹ پر اس نے نظر اٹھا کر دیکھا تو غضنفر کمرے کا دروازہ بند کرتا ہوا نظر آیا۔
"السلام علیکم!" اس نے کتاب بند کرتے ہوئے حسب معمول خوش اخلاقی سے سلام کیا۔
"وعلیکم السلام!" وہ سادہ سے انداز میں جواب دیتا اپنی سائیڈ ٹیبل کی جانب آیا۔
"کھانا گرم کرکے لاؤں تمہارے لئے؟" اس نے پیشکش کی۔
"نہیں، میں نے ماموں کے ساتھ کھانا کھا لیا تھا۔" اس نے بیڈ پر بیٹھ کر سائیڈ ٹیبل پر اپنا موبائل چارج پر لگاتے ہوئے جواب دیا۔
جواباً وہ بند کتاب کے اوپری حصے پر ٹھوڑی ٹکائے چند لمحے کچھ سوچتی رہی۔ پھر کسی خیال کے تحت اٹھ کر کہیں چلی گئی جس پر غضنفر نے کوئی توجہ نہیں دی اور اپنی رسٹ واچ اتارنے لگا۔
"فارغ ہو؟" اچانک ملیحہ نے اس کے سامنے کھڑے ہوکر پوچھا۔
اس نے بےساختہ نظر اٹھا کر اسے دیکھا جو دونوں ہاتھ پشت پر باندھے کھڑی تھی۔
ٹائیٹس اور کرتی پہننے والی ملیحہ شادی کے بعد سے اب دوپٹہ سمیت مکمل سوٹ پہننے لگی تھی اور ابھی بھی وہ شیفون کے میرون سوٹ پر، دائیں کندھے پر دوپٹہ لٹکائے، آدھے بالوں میں کیچر لگائے کھڑی تھی۔
"کیوں؟" اس نے سوال کیا۔
"ایک ضروری کام ہے، آؤ میرے ساتھ۔" اس نے کہتے ہوئے اپنے ایک ہاتھ سے غضنفر کا ہاتھ پکڑ کر اسے کھینچا۔ جب کہ دوسرا ہاتھ ہنوز پشت پر ہی تھا۔
"کہاں لے کر جا رہی ہو؟" وہ کھڑا ہوتے ہوئے الجھا۔
"آؤ تو سہی، بتاتی ہوں۔" ملیحہ نے اصرار کرتے ہوئے اسے کھینچا تو ناچاہتے ہوئے بھی اسے چلتا بننا پڑا۔
ملیحہ اسے لے کر کمرے کی گیلری میں آگئی جو کہ لان میں کھلتی تھی۔ گیلری میں ایک طرف لکڑی کا ڈبل صوفہ رکھا ہوا تھا اور اس کے سامنے چھوٹی سی ٹیبل تھی۔
"آؤ یہاں بیٹھو۔" وہ کہتے ہوئے ٹیبل کے پاس سنگ مرمر کے سفید فرش پر بیٹھ گئی۔
"پاگل ہوگئی ہو؟ فرش پر کیوں بیٹھی ہو؟ صوفے پر بیٹھو۔" وہ حیرت سے ہنوز کھڑا تھا۔
"ارے اچھا لگتا ہے ایسے، تم بھی بیٹھو۔" اس نے سہولت سے کہتے ہوئے ہاتھ پکڑ کر اسے بھی کھینچا۔ تو ناچاہتے ہوئے بھی وہ بیٹھ گیا۔
"اس پاگل پن کی وجہ جان سکتا ہوں میں!" اس نے سنبھل کر طنز مارا۔
"ہاں، جاننا ہی تو ہے، ایک دوسرے کو۔" اس نے مبہم مسکراہٹ کے ساتھ کہہ کر ٹیبل پر ایک پتلی سی نوٹ بک کھولی جو وہ اپنے ہاتھ میں لے کر آئی تھی۔
"مطلب؟" وہ سمجھا نہیں۔
"مطلب یاد ہے میں نے کہا تھا کہ ہم فرصت میں ایک دوسرے کی پسند ناپسند جانیں گے تا کہ ایک دوسرے پر غصہ کم سے کم آئے، تو اس کے بعد سے فرصت ملی ہی نہیں، دعوتوں سے فارغ ہونے کے بعد تم ماموں کے ساتھ شوروم میں بزی ہوگئے، آج موقع ملا تو سوچا یہ ضروری کام بھی کرلیں۔" اس نے ہوا سے چہرے پر آئی لٹ پیچھے کرتے ہوئے وضاحت کی۔ وہ کچھ نہیں بولا۔
"تو چلو شروع کرتے ہیں۔" اس نے مزید کہتے ہوئے فرش پر بیٹھے رہ کر دونوں بازو ٹیبل پر رکھے اور پین سنبھالتے ہوئے نوٹ بک پر جھکی۔
"سب سے پہلے یہ بتاؤ کہ تمھیں کھانے میں کیا کیا پسند ہے؟" اس نے سوالوں کا سلسلہ شروع کیا۔
"کچھ خاص نہیں، جو بھی مل جائے۔" اس نے کندھے اچکا کر سرسری جواب دیا۔
"پھر بھی کچھ تو ایسا ہوگا جو کھانا تمھیں اچھا لگتا ہوگا!" اس نے دھیان دلایا کہ شاید کچھ یاد آجائے۔
وہ سوچ میں پڑ گیا کہ اسے کیا پسند ہے؟ کیونکہ آج تک کسی نے اس کی پسند ناپسند پوچھی ہی نہیں تھی۔
"اممم! آملیٹ!" بہت سوچ کر اس نے یہ جواب دیا۔
"ہیں! تمھیں کھانے میں آملیٹ پسند ہے؟" وہ تعجب سے ہنسی۔
"ہاں، ماموں کو یہ ہی ڈھنگ سے بنانا آتا ہے نا تو اسی لئے یہ ہی زیادہ کھایا ہے میں نے۔" اس نے سادگی سے کندھے اچکائے۔ ملیحہ نے مسکراتے ہوئے اسے نوٹ کرلیا۔
"اچھا چلو اب میں تمھیں تین آپشنز دیتی ہوں، تم بتانا کہ ان تینوں میں تم کیا کھانا پسند کرو گے؟" اس نے تہمید باندھی۔
"بریانی، پلاؤ یا قورمہ؟" اس نے آپشنز دیے۔
"کڑاہی!" اس نے الگ ہی جواب دیا۔
"ابھی تو تم کہہ رہے تھے کہ تمھیں کچھ خاص نہیں پسند!" اس نے آنکھیں سکیڑ کر یاد دلایا۔
"ہاں پر تمہارے آپشن دینے پر مجھے یاد آگیا۔" اس نے وضاحت کی۔ غیر ارادی طور پر اسے خود بھی اس سرگرمی میں مزہ آنے لگا تھا۔
"اوکے! اب یہ بتاؤ کہ وہ کون سی بات یا کون سا کام ہے جس کے ہونے سے تمھیں سخت چڑ ہوتی ہے؟" اس نے اگلا سوال کیا۔
"بےشمار ہیں۔" وہ جھٹ سے بولا۔
"فی الحال شمار کر کے کوئی پانچ بتا دو۔" اس نے مشکل آسان کی۔ وہ پھر سے سوچ میں پڑگیا۔
ایک تو ٹھنڈا فرش اور اوپر سے جسم کو وقفے وقفے سے چھو کر گزرتی ٹھنڈی ہوا، رات کی خاموشی اور ہر بات سمجھنے کیلئے تیار بیٹھا ایک پیارا سا انسان، شاید یہ ان سب کے امتزاج کا ہی اثر تھا کہ لئے دیے رہنے والا غضنفر خلاف توقع بھرپور انداز میں اس کا ساتھ دینے لگا تھا۔
"ایک تو جب کوئی مجھے گہری نیند سے اٹھاتا ہے مجھے تب بہت چڑ ہوتی ہے، بلکہ غصہ آتا ہے۔" وہ بتانے لگا۔
"دوسری بات جب کوئی میری ذاتی چیزوں میں گھستا ہے، تیسری بات جب میرے کپڑے دھلے ہوئے نہیں ہوتے یا ٹھیک طرح استری نہیں ہوئے ہوتے، چوتھی بات جب کوئی فون نہیں اٹھاتا ہے اور پانچویں بات جب کوئی میرے جم میں بنا میری مرضی کے آتا ہے۔" اس نے سوچ سوچ کر سارے جواب دیے جنہیں وہ ساتھ ساتھ لکھتی چلی گئی۔
"تمہارا کوئی جم بھی ہے؟" اس نے متاثر کن انداز میں پوچھا۔
"ہاں ماموں کے گھر میں ایک چھوٹے سے کمرے کو جم کی شکل دی ہوئی ہے اور مجھے وہاں وقت گزرانا اچھا لگتا ہے۔" اس نے تفصیلی جواب دیا۔
"گریٹ! تب ہی باڈی اتنی فٹ ہے تمہاری، آئی لائک اِٹ۔" اس نے سراہتے ہوئے اس کا مضبوط بازو اپنے نازک ہاتھ سے دبانے کی ناکام کوشش کی۔ وہ کچھ نہ بولا۔
"اچھا! تو اب یہ بتاؤ کہ تمہارا فیورٹ کلر کون سا ہے؟" وہ پھر سوال کی جانب آئی۔
"بلیک!" اس نے فوراً جواب دیا۔ جسے اس نے نوٹ کرلیا۔
"کیونکہ یہ رنگ باقی رنگوں سے بہت الگ ہے، دوسرے رنگ کسی اور رنگ سے ملتے ہی اپنا رنگ بدل لیتے ہیں، مگر یہ کتنے ہی رنگوں سے کیوں نہ مل جائے اپنی رنگت نہیں کھوتا بلکہ دوسرے رنگ اس میں گم ہوجاتے ہیں۔" وہ کھوئے ہوئے انداز میں مزید کہتا گیا جسے اس نے بغور سنا۔
"رنگوں کےبارے میں کافی نالج ہے تمھیں۔" وہ متاثر ہوئی۔
"نہیں، بس ایسے ہی۔" وہ پھیکےپن سے مسکراتے ہوئے نظر جھکا کر فرش پر انگلیاں پھیرنے لگا۔ جسے وہ بغور دیکھتی رہی۔
"ایک بات کہوں؟" ملیحہ نے اجازت چاہی۔
"ہاں کہو۔" وہ اس کی جانب متوجہ ہوا۔
"تم ہنستے ہوئے بہت اچھے لگتے ہو۔" اس نے پیار سے کہتے ہوئے ہوا کے باعث اس کے ماتھے پر آئے بال پیچھے کیے۔ اس نازک لمس پر اسے کچھ ہوا۔
"اتنا کم کم کیوں ہنستے ہو تم؟ ہنستے رہا کرو نا!" اس نے پوچھتے ہوئے ساتھ فرمائش بھی کی۔
"ہنسنے کیلئے کوئی وجہ بھی چاہیے ہوتی ہے۔" اس نے دھیان دلایا۔
"ہاں وجہ ہے نا۔"
"کیا؟"
"مسکرانا سنت ہے۔" اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا تو وہ بھی بےساختہ مسکرا دیا۔
"تم باتیں بہت کرتی ہو۔" وہ اسی انداز میں بولا۔
"ہاں سب یہ ہی کہتے ہیں، تمھیں اچھا نہیں لگتا کیا میرا باتیں کرنا؟" اس نے کہتے ہوئے جاننا چاہا۔
"نہیں، مجھے بھلا کیوں اچھا نہیں لگے گا!" اس نے ٹالتے ہوئے کندھے اچکائے۔ اور پھر دونوں کے درمیان خاموشی حائل ہوگئی۔
"اچھا تمھیں برا تو نہیں لگتا کہ میں تمھیں تم کہہ کر مخاطب کرتی ہوں!" ملیحہ نے جاننا چاہا۔
"نہیں، اس میں بھلا برا ماننے والی کیا بات ہے؟" اس نے سہولت سے کندھے اچکائے۔
"ہوتا ہے نا کہ کچھ شوہر نہیں پسند کرتے تم کہنا، دراصل میں نے سوچ رکھا تھا کہ میں اپنے شوہر کے ساتھ دوست کی طرح رہوں گی، تا کہ ہمارے بیچ تکلف نہ رہے، لیکن اگر تم چاہو تو میں آپ کہہ لوں گی۔" اس نے خود ہی وضاحت کرتے ہوئے آخر میں پیشکش بھی کی۔
"ارے نہیں، تم ہی ٹھیک ہے، اور ویسے بھی میں نے آپ کہہ کر مخاطب کرنے والی ایسی بیویاں بھی دیکھی ہیں جو شوہر کی بالکل عزت نہیں کرتیں، اسی لئے اہم آپ یا تم کہنا نہیں ہے، بلکہ عزت کرنا ہوتا ہے۔" اس نے سہولت سے پریشانی دور کی تو اسے تھوڑا اطمینان ہوا۔
"میں تو عزت کرتی ہوں نا تمہاری؟" اس نے معصومیت سے تائید چاہی۔
"بالکل!" اس نے برملا اعتراف کیا۔
"تھینکس!" وہ خوش ہوگئی۔
غیر محسوس انداز میں ملیحہ کے چہرے پر رقصاں معصوم سی خوشی اسے اس وقت کافی بھلی لگی۔
"چلو اب تم بھی مجھ سے کچھ پوچھ لو، کب سے بس میں ہی سوال کیے جا رہی ہوں۔" اب اس نے پین ٹیبل پر رکھ کر ہتھیلی پر ٹھوڑی ٹکائی۔
"کیا پوچھوں؟" اس نے ناسمجھی سے الٹا سوال کیا۔
"کچھ بھی!" اس نے کندھے اچکائے تو وہ لمحے بھر کو سوچ میں پڑ گیا کہ کیا پوچھے؟ جب کہ وہ ہنوز اس کی جانب سے سوال کی منتظر تھی۔
"تمہارے نام کا مطلب کیا ہے؟" کچھ سمجھ نہ آنے پر اس نے یہ ہی پوچھ لیا۔
"میرے نام کا مطلب ہے خوش طبع دلکش لڑکی۔" اس نے خوشی سے چہکتے ہوئے بتایا۔
"بالکل پرفیکٹ ہے تمہاری پرسنیلٹی پر!" اس کی ہنس مکھ طبیعت کے پیش نظر اس کے دلکش نین نقش کو دیکھتے ہوئے غضنفر نے بےساختہ اعتراف کیا۔
"تھینکس!" وہ دلکشی سے مسکرائی۔
"ویسے اسکول کالج کے ٹائم پر کافی دیوانے رہے ہوں گے نا تمہاری دلکش مسکراہٹ کے؟" بات نکلنے پر عام سے انداز میں اس نے یوں ہی پوچھا۔
"ارے نہیں! بس کافی ٹائم پہلے میرے خالہ زاد ثوبان نے مجھ میں پسندیدگی ظاہر کرتے ہوئے رشتے کی بات کی تھی، مگر تب میں پڑھ رہی تھی اور اس کے بارے میں کبھی ایسا کچھ سوچا بھی نہیں تھا تو اسی لئے انکار کردیا، جس کے بعد پھر وہ آسٹریلیا چلا گیا اور ہماری دوبارہ ملاقات نہیں ہوئی۔" اس نے سرسری انداز میں مختصر تفصیل بتائی۔ جس پر اس نے کوئی خاص رد عمل نہیں دیا۔
"پھر سے ایک بات پوچھوں!" ملیحہ نے تہمید باندھی۔
"ہمممم!"وہ راضی تھا۔
"برا تو نہیں مانو گے؟" اس نے تسلی چاہی۔
"اس سے پہلے مانا تھا؟" اس نے الٹا سوال کیا۔
"اس سے پہلے یہ سوال بھی نہیں کیا تھا میں نے۔" اس نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ تو وہ لاجواب ہوگیا۔
"اچھا پوچھو!" اس نے ہتھیار ڈالے۔
"تم نے اتنی ضد کرکے مجھ سے شادی کیوں کی؟" اس نے سنجیدگی سے پوچھا تو لمحے بھر کو وہ ٹھٹک گیا۔
"بتایا تو تھا کہ۔۔۔۔کہ مجھے تم سے پیار ہوگیا تھا۔" اس نے سنبھل کر یاد دلایا۔
"ہوگیا تھا، مطلب اب نہیں ہے؟" اس نے جواب میں سے سوال نکالا۔
"نہیں! اب بھی ہے لیکن۔۔۔لیکن اب ایک اطمینان ہے نا کہ ہماری شادی ہوگئی ہے، پہلے فکر تھی۔" اس نے جلدی سے وضاحت کی۔ جس پر وہ کچھ نہ بولی۔
کیونکہ اگر ملیحہ کسی بھی شک میں پڑجاتی تو بات بگڑ سکتی تھی۔ دوسرا اسے خود پر بھی غصہ آیا کہ پچھلے دو ہفتوں میں اس کی جھوٹی گرم جوشی جھاگ کی طرح بیٹھ گئی تھی تب ہی شاید ملیحہ کو خدشہ ہونے لگا تھا۔
"مجھے پتا ہے کہ تم یہ ہی سوچ رہی ہو کہ شادی سے پہلے میں اتنا بےچین تھا اور اب سنجیدہ ہوگیا ہوں، ایسا کیوں؟" وہ کہتے ہوئے سرک کر اس کے مزید قریب آیا تو اس نے ہلکے سے اثبات میں سرہلایا۔
"تم جانتی تو ہو کہ میرے گھر والوں نے کمسنی میں میرے ساتھ کیا سلوک کیا تھا جس کے بعد میں سب سے بدظن ہوگیا تھا، مگر پھر اچانک تم ملی، مختصر ملاقات میں ہی تم سے مل کر ایسا لگا کہ شاید تم مجھے سمجھو گی اسی لئے تمھیں پانے کیلئے میں نے پھر بہت الٹی سیدھی حرکتیں کیں، اور پھر جب فائنلی تم مجھے مل گئی تو مجھے سکون آگیا۔" وہ اس کا ہاتھ پکڑے وضاحت کرنے لگا۔
"میں ہمیشہ ہی جذبات کے اظہار میں بہت اناڑی رہا ہوں، اگر میں اظہار نہیں کرتا تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں تم سے پیار نہیں کرتا، بالکل کرتا ہوں، بس اب مجھے یہ اطمینان ہے کہ تم میری ہو تمھیں مجھ سے کوئی الگ نہیں کرسکتا اسی لئے میں اس طرف سے بےفکر ہوکے اپنے دوسرے معاملات میں الجھ گیا، لیکن اگر تمھیں برا لگا تو آئی ایم سوری۔" اس نے دونوں ہاتھوں سے ملیحہ کا چہرہ تھام کر دیوانہ وار جھوٹی یقین دہانی کرائی۔
"نہیں، مجھے برا نہیں لگا، بس میں ڈر گئی تھی۔" جواباً وہ کہتے ہوئے اس کے سینے سے لگ گئی۔
"میں نے سب کی مخالفت مول لے کر تمہارا ساتھ دیا ہے، مجھے رسوا مت ہونے دینا۔" وہ اس کے سینے میں چہرہ چھپائے، اس کی شرٹ مٹھی میں پکڑے گزارش کر رہی تھی۔
"نہیں ہونے دوں گا۔" اس نے دونوں بازو اس کے گرد لپیٹتے ہوئے تسلی دی۔۔۔۔۔جھوٹی تسلی!
وہ ہنوز آنکھیں بند کیے اس کی خوشبو کو اپنے اندر اتارتے ہوئے اس حصار میں خود کو بہت محفوظ اور پرسکون محسوس کر رہی تھی۔
*******************************
معمول کا سویرا اپنے ساتھ وہ ہی چہل پہل لے کر طلوع ہوچکا تھا جو نظام کائنات کا حصہ تھی۔ جس کے بعد سب لوگ اس وقت ڈائینگ ٹیبل کے گرد ناشتہ کرنے کیلئے اکھٹا تھے۔
"خیر سے پندرہ بیس دن تو ہو ہی گئے ہیں تمہاری شادی کو، اب اگر گھومنا پھرنا ہوگیا ہو تو ذرا آفس آجاؤ صاحبزادے۔" شفاعت سنجیدگی سے عزیر سے مخاطب ہوئے۔
"جی ڈیڈ، کل سے جوائن کرتا ہوں۔" اس نے بھی فرمابرداری کا مظاہرہ کیا۔
"اور تمہارا رزلٹ کب آنے والا ہے؟" اب وہ عبید کی جانب متوجہ ہوئے جو سلائس پر فراخ دلی سے مکھن لگانے میں مصروف تھا۔
"اگلے ہفتے تک آئے گا ڈیڈ۔" اس نے ہاتھ روک کر ادب سے جواب دیا۔
"ہممم! اب کیونکہ یہ تمہارا آخری سال تھا اسی لئے رزلٹ کے بعد تیار رہنا آفس جوائن کرنے کیلئے۔" انہوں نے باور کرایا۔
"جی ڈیڈ!" اس نے فرمابرداری سے گردن ہلائی اور دوبارہ اپنے کام کی جانب متوجہ ہوگیا۔ باقی سب تو پہلے ہی ناشتے میں مصروف تھے۔
"غضنفر! تم بھی اب باقی سب کے ساتھ اپنا دفتر سنبھال لو۔" تب ہی دردانہ گویا ہوئیں تو سب نے چونک کر ان کی جانب دیکھا۔
"نہیں دادی، میں ماموں کے ساتھ شوروم میں ہی ٹھیک ہوں۔" اس نے سنجیدگی سے انکار کرتے ہوئے چائے کا کپ لبوں سے لگایا۔
"وہ بات ٹھیک ہے، لیکن اصولاً تو تمہارا حق اور فرض دونوں تمہارے باپ دادا کے کاروبار میں بنتا ہے، اپنے ماموں کے پاس فارغ وقت میں چلے جایا کرو۔" انہوں نے رسان سے اصرار کیا۔ وہ کچھ نہ بولا۔
"چھوڑیں نا اماں بی، جب اس کا دل نہیں ہے تو کیوں زبردستی کر رہی ہیں آپ؟" شاہانہ نے جلدی سے یوں مداخلت کہ کہیں غضنفر مان ہی نہ جائے!
"ارے زبردستی کیسی؟ کل کو ان ہی لوگوں نے تو سنبھالنا ہے سب، تم ہی کہو رفاقت، میں نے کیا غلط کہا!" اب انہوں نے کہتے ہوئے انہیں بھی گفتگو میں گھسیٹا۔
غضنفر انہیں دیکھتے ہوئے ان کے رد عمل کا ہی منتظر تھا کہ وہ کیا کہتے ہیں اس بارے میں؟ مگر وہ ایک نظر انہیں دیکھ کر خاموش ہی رہے۔ جیسے محسوس سب نے کیا لیکن کہا کچھ بھی نہیں۔
"میں ناشتہ کرچکا۔" غضنفر کرسی دھکیلتے ہوئے اٹھا اور بنا مزید بات چیت کیے ڈائینگ روم سے باہر نکل گیا جس پر کوئی کچھ نہ بولا۔
"دادی میں سوچ رہی تھی کہ اب میں اور صبیحہ بھی گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیتے ہیں؟" تب ہی ملیحہ نے ماحول کا تناؤ کم کرنے کیلئے دوسرا موضوع چھیڑ دیا۔
*******************************
غضنفر کمرے میں آکر اب ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا شوروم جانے کیلئے تیار ہو رہا تھا تب ہی ملیحہ بھی کمرے میں داخل ہوئی اور اسی کی طرف آگئی۔
"شوروم جا رہے ہو؟" اس نے سادگی سے پوچھا تو اس نے شرٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔
"ویسے دادی نے جو کہا وہ بھی ٹھیک ہی ہے، تمھیں اپنے بزنس میں بھی حصہ لینا چاہئے۔" وہ کہتے ہوئے خود اس کی شرٹ کے بٹن بند کرنے لگی تو اس نے اپنے ہاتھ ہٹا لئے۔
"کوئی فائدہ نہیں ہے، کل کو اگر کوئی اونچ نیچ ہوگئی کاروبار میں تو اس کا الزام بھی میرے سر ہی آئے گا۔" وہ تلخی سے بولا۔
"تو تم موقع نہیں دینا نا خود پر الزام لگنے گا، بلکہ خود کو ثابت کرکے دیکھانا۔" اس نے بٹن بند کرکے اب دونوں بازو اس کے کندھوں پر رکھتے ہوئے نئی راہ دکھائی۔ وہ کچھ نہ بولا بس خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔
اس سے قبل کہ وہ کچھ کہتا کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی تو ملیحہ نے آکر دروازہ کھولا۔ سامنے شاہانہ کھڑی تھیں۔
"جی چچی بولیں؟" اس نے خوش اخلاقی سے پوچھا۔
"مجھے تمہارے کمرے کی تلاشی لینی ہے۔" انہوں نے سنجیدگی سے کہا تو وہ حیران ہوئی۔
"کیا؟ تلاشی؟ پر کیوں؟" اس نے حیرت کو الفاظ دیے۔ تب تک غضنفر بھی وہاں آگیا۔
"عبید کا لیپ ٹاپ نہیں مل رہا ہے تو مجھے شک ہے کہ شاید یہاں ہو۔" انہوں نے سپاٹ انداز میں وضاحت کی تو دونوں ششدر رہ گئے۔ وہاں سے گزرتی صالحہ بھی شاہانہ کو دیکھ کر اس طرف آگئی تھیں۔
"کیا؟ اس کا لیپ ٹاپ یہاں کیسے آسکتا ہے؟ اور اس کیلئے تلاشی لینے کی کیا ضرورت ہے؟" ملیحہ کی حیرت عروج پر تھی۔
"تمھیں تو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں اس گھر میں، تمھیں کیا پتا کہ یہاں کیا کیا ہوا ہے اور ہوسکتا ہے؟" انہوں نے تنفر سے کہتے ہوئے آخر میں غضنفر کو دیکھا جس کے تاثر خطرناک حد تک سنجیدہ تھے۔
"شاہانہ! یہ کیسی باتیں کر رہی ہو تم؟" تب ہی صالحہ نے بھی مداخلت کی۔
"سچی باتیں کر رہی ہوں بھابھی، اب اگر کڑوی لگ رہی ہیں تو اس میں میری کیا غلطی؟" انہوں نے طنز کے تیر چلائے۔
"آپ کو کوئی غلط فہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
"آئیں اندر، اور دیکھ لیں۔" ابھی ملیحہ کہنے ہی لگی تھی کہ یکدم غضنفر نے ملیحہ کو بازو سے کھینچ کر کنارے پر کرتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔ اس کے تاثر بتا رہے تھے کہ وہ ضبط کی انتہا پر تھا۔
"ایک ایک کونا دیکھ کر خود تسلی کرلیں، کیونکہ میری جھوٹی زبان پر تو کسی کو یقین آئے گا نہیں۔" اس کی آواز تھوڑی اونچی ہوئی۔
"ممی! مل گیا لیپ ٹاپ، عزیر بھائی کے پاس تھا۔" تب ہی عبید ہاتھ میں سرمئی رنگ کا لیپ ٹاپ لئے اپنی دھن میں انہیں اطلاع دینے آیا مگر سب کو یوں حیران پریشان دیکھ کر ٹھٹک گیا۔
"کیا ہوا؟ آپ سب ایسے کیوں کھڑے ہیں؟" اسے کسی انہونی کا احساس ہوا۔
"اچھا ہوا مل گئی آپ کی قیمتی چیز، ورنہ آپ کی والدہ محترمہ تو پھر ایک بار الزام لگا چکی تھیں مجھ پر چوری کا۔" غضنفر نے استہزائیہ انداز میں کہا۔ تو وہ ششدر رہ گیا۔
"ممی! میں نے تو بس آپ سے سرسری طور پر پوچھا تھا کہ کیا آپ نے میرا لیپ ٹاپ کہیں اٹھا کر رکھ دیا ہے مجھے مل نہیں رہا، اور آپ نے بھیا پر۔۔۔۔۔۔۔۔" اس نے حیرت سے کہتے ہوئے بات ادھوری چھوڑی۔
"چلو ملیحہ!" اچانک غضنفر اس سے مخاطب ہوا۔
"کہاں؟" اس نے ناسمجھی سے پوچھا۔
"کہیں بھی، مگر اس گھر سے چلو، میں اور یہاں نہیں رہ سکتا۔" وہ کہتے ہوئے الماری کی جانب بڑھا اور اسے کھول کر اس میں سے بیگ نکال کر بیڈ پر رکھا۔
"غضنفر! یہ کیا کر رہے ہو؟" صالحہ نے اندر آتے ہوئے ٹوکا۔
مگر وہ سنی ان سنی کرکے غصے کے عالم میں اپنے اور ملیحہ کے ہاتھ آتے کپڑے بیگ میں ڈالنے لگا۔
"غضنفر ممی کی بات تو سن لو۔" ملیحہ نے بھی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوئی۔
شاہانہ ہنوز دروازے پر کھڑی یہ سارا منظر دیکھ رہی تھیں جب کہ عبید گھبرا کر باقی سب کو اطلاع کرنے چلا گیا تھا کہ غضنفر گھر چھوڑ کر جا رہا ہے۔
"غضنفر ہم آرام سے بات کرتے ہیں نا!" صالحہ نے معاملہ سنبھالنا چاہا۔
"مجھے نہیں کرنی کسی سے کوئی بھی بات۔" جو بھی کپڑے ہاتھ آئے تھے انہیں بیگ میں ٹھونس کر زپ بند کرتے ہوئے اس نے صاف انکار کیا۔
ملیحہ اور صالحہ نے بےبسی سے ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور تب ہی باقی سب بھی تشویش زدہ سے اس طرف آگئے۔
"غضنفر! بیٹا کیا ہوا؟" دردانہ پوچھتی ہوئی کمرے میں آئیں۔
"اماں بی دیکھیں نا اسے، یہ پھر گھر چھوڑ کر جا رہا ہے۔" صالحہ بےتابی سے کہتی ان کی جانب لپکیں۔
"کیوں بیٹا؟ کیا ہوگیا؟" وہ اس کی جانب آئیں۔
"وہ ہی ہوا جو آٹھ سال پہلے ہوا تھا، پھر سے چوری کا سہرا باندھا ہے آپ کی بہو نے میرے سر، جس کا بوجھ اب میں برداشت نہیں کرسکتا۔" اس نے شاہانہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تلخی سے بتایا تو سب انہیں دیکھنے لگے۔
"شاہانہ! تمہارا دماغ ٹھیک ہے؟ کیا ضرورت تھی ایسی بات کرنے کی؟" وہ ان پر برہم ہوئیں۔
"میں نے تو بس پوچھا تھا اماں بی، مگر اس نے تو پتنگڑ ہی بنا دیا ہے بات کا۔" انہوں نے گھبرائے بنا اپنی صفائی پیش کی۔ جو غضنفر کو ایک آنکھ نہ بہائی۔
"چھوڑو بیٹا تم دل پر مت لو، اور ایک چھوٹی سی بات پر ایسے گھر چھوڑ کر تھوڑی جاتے ہیں!" انہوں نے تحمل سے روکنا چاہا۔
"چھوٹی سی بات! انہوں نے مجھ پر چوری کا الزام لگا دیا ہے اور آپ کہہ رہی ہیں چھوٹی سی بات!" وہ حیرت سے بولا۔
"معاف کیجئے گا مگر مجھ سے اب اور یہ چھوٹی چھوٹی باتیں برداشت نہیں ہوں گی، اور میں نہیں رہ سکتا وہاں جہاں میری عزت ایک ملازم سے بھی کم ہے۔" تلخی سے کہتے ہوئے بہت ضبط کے باوجود ایک آنسو اس کی آنکھ سے ٹوٹ کر پھسلا۔ جسے بے دردی سے رگڑتے ہوئے وہ بیگ گھسیٹ کر باہر کی جانب بڑھا۔
"غضنفر! بات سنو، رکو۔" وہ اسے پکارتے ہوئے پیچھے آئیں۔
باقی سب بھی خاموش تماشائی بنے اب ہال میں آگئے تھے جہاں غضنفر لمحے بھر کو ان کی پکار پر رکا تھا۔
"بیٹا کسی کے کہہ دینے سے تم وہ ہو تو نہیں جاؤ گے نا جو تم نہیں ہو، تو کیوں اتنا غصہ کر رہے ہو؟" دردانہ نے پھر سمجھانا چاہا۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔
"رفاقت! تم ہی کچھ کہو۔" دردانہ نے انہیں آگے کرنا چاہا۔
"کیا بولوں اماں بی! اس نے کچھ کہنے سننے لائق چھوڑا ہی کب ہے؟ جو دل چاہتا ہے اس کا کرنے دیں اسے۔" انہوں نے نظریں ملائے بنا تلخی سے کہا۔
اور ساتھ ہی امید کا وہ آخر بت گر کر چکنا چور ہوگیا جو غضنفر کے دل کی دیوار پر کہیں کونے میں سجا تھا۔
"ملیحہ! چلو یہاں سے۔" غضنفر نے ٹھہرے ہوئے مگر سنجیدہ لہجے میں کہا۔
"ایک بار دادی کی با۔۔۔۔۔۔۔!"
"چلو ملیحہ!" وہ اصرار کرنے ہی لگی تھی کہ یکدم غضنفر حلق کے بل دھاڑا۔ جس کے باعث لمحے بھر کو سب ہل گئے۔
پھر وہ مزید وہاں نہیں رکا اور تیزی سے باہر نکل گیا جب کہ ناچاہتے ہوئے بھی ملیحہ کو اس کے پیچھے جانا پڑا۔
باقی سب تو ابھی تک خاموش تماشائی ہی بنے ہوئے تھے مگر صالحہ بےبسی سے صوفے پر بیٹھ کر سر پکڑ کے رونے لگیں۔ جنہیں تسلی دینے بمشکل زوہا آگے آئی۔
دکھ یہ نہیں ہے کہ دنیا والے میرے خلاف ہیں
ملال یہ ہے کہ میرے اپنے بھی ان کے ساتھ ہیں
*******************************
"کل ہم نے سارا پلان ڈسکس کیا تھا اور اب اس پر عمل کرنے سے پہلے ہی تم نے یہ نیا ڈرامہ کھڑا کرلیا؟ کیا ضرورت تھی ملیحہ کے ساتھ یہاں آنے کی؟" ساری بات سن کر سلیمان تلملا کر رہ گئے۔
"ماموں انہوں نے پھر چوری کا الزام لگایا تھا مجھ پر۔" اس نے تڑپ کر بتایا۔
"صرف الزام لگایا تھا نا! تم نے کی تو نہیں تھی نا چوری! اب تمہارے اس جذباتی فیصلے کی وجہ سے اپنا پلان ملتوی کرنا پڑے گا۔" انہوں نے ٹہلتے ہوئے کہہ کر اپنا ماتھا مسلا۔
غضنفر نے پہلے چند لمحے انہیں دیکھا پھر جبڑے بھینچتے ہوئے وہ تیز تیز قدم اٹھاتا کمرے سے باہر نکل گیا۔
وہ اسے دیکھ کر رہ گئے۔
*******************************
ملیحہ ناسمجھی کے عالم میں پورے گھر میں یہاں وہاں گھومتے ہوئے گھر کا جائزہ لے رہی تھی۔ یہ چار سو گز پر بنا جدید طرز کا دو منزلہ ایک خوبصورت گھر تھا۔ مگر اس گھر میں گھر والوں کی کمی تھی۔
"بھابھی جی؟" رنگیلا نے پکارا تو وہ بری طرح چونک گئی۔
"کچھ چاہیے آپ کو؟" اس نے فرمابرداری سے پوچھا۔
"آپ کون؟" اس نے سنبھل کر جاننا چاہا۔
"میں رنگیلا ہوں، کہنے کو کافی عرصے سے یہاں پر ملازم ہوں مگر صاحب اور چھوٹے صاحب نے ہمیشہ مجھے گھر کا فرد ہی سمجھا ہے۔" اس نے حسب عادت دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے اپنا تعارف دیا۔
"اچھا!" وہ محض اتنا ہی بولی۔
"آپ کچھ ڈھونڈ رہی تھیں کیا؟" اس نے اندازہ لگایا۔
"ہاں، غضنفر کہاں ہیں کچھ پتا ہے آپ کو؟" اس نے جلدی سے پوچھا۔
"جی پتا ہے، پہلے وہ صاحب کے پاس تھے پھر اپنے جم میں چلے گئے۔" اس نے فوراً بتایا۔
"جم کہاں ہے ان کا؟" اس نے جاننا چاہا۔
"آئیں میں لے چلتا ہوں آپ کو۔" اس نے فرمابرداری سے پیشکش کی تو وہ اس کے ساتھ چل پڑی۔
*******************************
غضنفر اس وقت بےحد سنجیدہ تاثر کے ساتھ اپنے سیاہ پنچنگ بیگ پر مسلسل مکے برسانے میں مصروف تھا جس کے باعث وہ بری طرح پسینے میں شرابور ہوچکا تھا۔ مگر اسے پرواہ نہیں تھی۔ اسے تو بس کسی طرح یہ غصہ باہر نکالنا تھا جو کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
ملیحہ آہستہ سے دروازہ کھول کر کمرے میں آئی تو سامنے ہی اسے غضنفر نظر آگیا جو شاید آس پاس سے بیگانہ تھا۔
وہ دروازہ بند کرکے اس جم نما کمرے کا جائزہ لیتی دھیرے دھیرے اس کی طرف آئی جو اب تک اس کی آمد سے بےخبر تھا۔
"غضنفر!" اس نے ذرا فاصلے پر رک کر پکارا۔
اس پکار پر وہ لمحے بھر کو رک کر پلٹا تو پسینے سے شرابور سنجیدہ چہرے پر ضبط سے سرخ آنکھوں والے غضنفر کو دیکھ کر وہ لمحے بھر کو حیران رہ گئی۔
"کیوں آئی ہو تم یہاں؟" اس نے اسی انداز میں پوچھا۔
"تم سے بات کرنے۔" اس نے سنبھل کر جواب دیا۔
"مجھے نہیں کرنی کوئی بات، جاؤ یہاں سے۔" اس نے کہہ کر دوبارہ بیگ پر مکے مارنا شروع کردیے۔
وہ پہلے چند لمحے اسے دیکھتی رہی پھر نزدیک رکھی ایک بینچ پر آکے بیٹھ گئی۔ اور خاموشی سے اس کی پشت کو تکتی رہی جس پر پسینے کے باعث اس کی سفید شرٹ چپک گئی تھی۔
کچھ دیر بعد جب وہ اس عمل کو کرتے کرتے تھک گیا تو ایک آخری زور دار مکا بیگ پر رسید کرتے ہوئے بینچ کی جانب آنے کیلئے پلٹا۔ اور ملیحہ کو ہنوز وہیں بیٹھا دیکھ لمحے بھر کو چونکا۔ مگر پھر اسے نظر انداز کرتے ہوئے وہ نزدیک آکر نیچے فرش پر بینچ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔
"ہوا دل ہلکا؟" ملیحہ نے اپنے دوپٹے سے اس کا پسینہ صاف کرتے ہوئے نرمی سے پوچھا۔
اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بس گہری گہری سانسیں لیتا رہا گویا خود کو نارمل کر رہا ہو۔
"تمہارا غصہ جائز ہے، اگر تمہاری جگہ میں ہوتی تو یہ ہی کرتی جو تم نے کیا، میں بھی وہاں سے آجاتی۔" وہ مزید کہتے ہوئے خود بھی بینچ سے اتر کر اس کے برابر میں فرش پر بیٹھ گئی۔ وہ اسے اس وقت کوئی نصیحت کرکے خود سے بھی بدظن نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اسی لئے اسے اعتماد دلانے لگی۔
"میں سمجھ سکتی ہوں تمہاری کیفیت۔" اس نے نرمی سے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
"نہیں، تم نہیں سمجھ سکتی۔" اس نے نفی کی۔
"تم نہیں سمجھ سکتی کہ آٹھ سال پہلے کیا ہوا تھا؟ مجھ پر کیا گزری تھی؟ یہ آٹھ سال میں نے کیسے گزارے؟ کس مشکل سے میں واپس وہاں گیا؟ کس ضبط سے اپنے باپ کی سرد مہری جھیلی؟ آج مجھ پر کیا گزری؟ جب میرا باپ خاموش تماشائی بنا ہوا تھا تو مجھے کیسا درد ہوا؟ تم کچھ نہیں سمجھ سکتی، کچھ نہی۔۔۔۔۔۔۔" وہ کہتے ہوئے یکدم دونوں ہاتھوں میں منہ چھپائے رو پڑا۔ وہ بھی بےچین ہوگئی۔
"میں سمجھ سکتی ہوں، میں سب سمجھ سکتی ہوں۔" ملیحہ نے کہتے ہوئے آگے بڑھ کر اسے اپنے حصار میں لے لیا۔ تو وہ بھی اس کے سینے سے لگ کر بلک بلک کے رونے لگا۔
ملیحہ نے اس سے کچھ نہیں کہا، بس اسے جی بھر کر رونے دیا تا کہ اس کے اندر کا سارا غبار باہر آجائے۔
کچھ دیر یہ سلسلہ یوں ہی چلا پھر جب اس کا دل تھوڑا ہلکا ہوگیا تو وہ خود ہی آہستہ سے اس سے الگ ہوا۔
ملیحہ نے ابھی بھی کچھ نہ کہا بس نرمی سے اس کے آنسو صاف کیے۔
"تمھیں یہ ہی لگ رہا ہوگا نا کہ یہ ایک چھوٹی سی بات تھی، وہ لوگ مجھے اتنا روک رہے تھے مگر میں رکا نہیں اور ایک ذرا سی بات کا پتنگڑ بنا کر یہاں چلا آیا!" اس نے رونے کا باعث بھاری ہوچکی آواز میں اندازہ لگایا۔
"نہیں، مجھے اندازہ ہے کہ جو بات مجھے چھوٹی سی لگ رہی ہے وہ تمھیں ضرور تیر کی طرح چبھی ہوگی، کیونکہ ضروری نہیں ہے کہ ایک بات پر جو ہم محسوس کر رہے ہیں سامنے والا بھی وہ ہی محسوس کر رہا ہو۔" اس نے نفی کرتے ہوئے تحمل سے کہا۔
"آج جو میں نے رد عمل دیا اس کی وجہ گزرا ہوا کل ہے، تم جاننا چاہو گی کہ آٹھ سال پہلے میرے ساتھ کیا ہوا تھا؟" اس نے کہتے ہوئے پوچھا۔
شاید آج وہ دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہ رہا تھا۔ اس کی بات پر ملیحہ نے اثبات میں سر ہلایا۔ تو وہ چند لمحے اسے دیکھنے کے بعد گویا ہوا۔
"میری غلطی یہ تھی کہ میں ایک ایسے گھر میں پیدا ہوا جہاں اصل قابلیت سے زیادہ کاغذوں کی اہمیت تھی جو رپورٹ کارڈ اور ڈگریوں کی صورت ہوتے ہیں، جہاں صرف وہ ہی شخص قابل مانا جاتا تھا جس کی رپورٹ کارڈ پر فرسٹ پوزیشن لکھا ہوتا تھا۔
بہت کوشش کی میں نے کہ میں بھی ان کی نظر میں قابل بن جاؤں مگر میری رپورٹ کارڈ کی پوزیشن کبھی پاس (Pass) سے آگے نہیں بڑھ سکی، مجھے صرف ڈرائینگ میں پورے نمبر ملا کرتے تھے اور تھوڑی میتھس میں پوزیشن اچھی تھی، مگر پاپا نے انہیں کبھی دیکھنے کی زحمت ہی نہیں کی۔
وہ نہ مجھے ویک اینڈ پر گھمانے لے کر جاتے تھے، نہ میری کوئی بات سنتے تھے کہ کیسے میں نے اپنے دوستوں کی ڈائگرام بنا کر ان کی ہیلپ کی! کیسے ٹیچر نے مجھے فنکشن پر اچھی کلاس سجانے پر شاباشی دی، کیسے میں نے عبید اور زوہا کو سائیکل چلانا سیکھائی! کیسے میں جب دادی کے ساتھ مارکیٹ جاتا تھا تو پیسوں کا ٹھیک ٹھیک حساب کرتا تھا؟ کیسے ممی کے ساتھ گھر کے کام میں مدد کی! کیسے عزیر کے ساتھ مل کر اسے میتھس کا سوال حل کروایا! کیسے چاچو کے ساتھ مل کر گاڑی کی بیٹری بدلی؟ کیسے دادی کو فون میں نمبر ڈائل کرنا سیکھایا! کچھ نہیں، ان میں سے کچھ بھی کبھی بھی نہیں سراہا انہوں نے اور نہ جاننا چاہا، وجہ! کہ میرا رزلٹ اچھا نہیں آتا، اور جن بچوں کا تعلیمی ریکارڈ اچھا نہیں ہوتا وہ زندگی میں کامیاب نہیں ہوتے، اسی لئے سزا کے طور پر وہ مجھ سے بہت کم بات چیت کرتے تھے۔ ان کی شرط تھی کہ میں فرسٹ پوزیشن لا کر دیکھا دوں تو وہ میری ہر خواہش پوری کریں گے۔
میں نے بھی اپنا سارا زور لگا دیا مگر پرائمریری سے لے کر سیکینڈری میں آنے کے بعد تک بھی میں ان کی یہ شرط پوری نہ کرسکا، اور سونے پر سہاگہ تب ہوتا تھا جب عزیر سمیت باقی کزنز کی اپنی اپنی کلاس میں فرسٹ پوزیشن آتی تھی اور وہ سب فخر سے کسی فیملی گیٹ ٹو گیدر میں اپنے بچوں کی شان میں قصیدے پڑھتے تھے، پرائیمریری تک تو پاپا کی سختیاں کم اور زبانی تھیں، مگر سیکینڈری میں آنے کے بعد ان کے غصے میں شدت آگئی اور انہوں نے باقاعدہ مجھ پر ہاتھ اٹھانا شروع کردیا۔ میرے کھیلنے کودنے، دوستوں سے ملنے اور ٹی وی دیکھنے تک پر پابندی لگا دی گئی، بس گھر میں بند رہ کر مجھے پڑھنا ہی ہوتا تھا، مگر ان سب سے بھی کوئی فرق نہ پڑا بلکہ میرا رزلٹ خراب سے خراب تر ہونے لگا، اور اب میرا بھی ہر چیز سے دل اچاٹ ہوگیا۔
مجھے بس ہر وقت غصہ آتا رہتا تھا، میں چڑچڑا ہوگیا، اور اسی بیچ ایک مرتبہ جب میں میٹرک میں تھا تو ایک لڑکے سے لڑائی کے دوران میں نے اس پر ہاتھ اٹھا لیا جس کی وجہ سے اس کا سر پھٹ گیا اور بات پرنپسل کے آفس جا کر گھر تک پہنچ گئی۔ ممی پاپا کو بلایا گیا، پہلے مجھے اسکول میں سب کے سامنے ذلیل کیا گیا اور پھر گھر لا کر پاپا نے ہاتھ اور زبان دونوں سے غصہ نکالا، پہلے تو اکثر دادی اور ممی مجھے پاپا کی ڈانٹ مار سے بچانے کی کوشش کرتی تھیں۔ دادی انہیں ٹوکتی تھیں، مگر جب یہ سب معمول کا حصہ بن گیا تو دونوں بےبس ہوکر خاموش تماشائی بن گئیں۔
میں ایسے ہی پٹتے ہوئے اسکول سے کالج میں آگیا مگر کم نمبرز کی وجہ سے مجھے عزیر جتنے اچھے کالج میں ایڈمیشن نہ ملا تو ایک ایورج کالج پر اکتفا کرنا پڑا، مگر مارکس کا پریشر ابھی بھی ویسا ہی تھا۔
سب یوں ہی چل رہا تھا کہ ایک روز اچانک گھر میں شور اٹھا کہ شاہانہ چچی کا ایک بہت قیمتی ہار گم ہوگیا ہے، انہوں نے پورا گھر سر پر اٹھا لیا، سب نے انہیں سمجھایا کہ ہار گھر میں ہی کہیں ہوگا مگر وہ بضد تھیں کہ انہیں گھر کی تلاشی لینی ہے، کیونکہ کسی کے دل میں چور نہ تھا اسی لئے سب نے اجازت دے دی کہ وہ اپنی تسلی کرلیں۔ شاہانہ چچی نے خود سب کے کمرے چیک کیے اور آخر کار میرے کمرے سے وہ ہار بر آمد ہوا۔ سب کے ساتھ ساتھ میں خود بھی شاک میں آگیا، اس کے بعد تو چچی نے جو مجھے ذلیل کیا، میرا دل چاہا کہ ابھی زمین پھٹے اور میں اس میں سما جاؤں، مگر ایسا ہوا نہیں۔
میں نے بہت کہا کہ میں نے چوری نہیں کی ہے مگر سب خاموش رہے، اور چچی یہ کہہ کر جلتی پر تیل کا کام کرتی رہیں کہ پاپا نے میری پاکٹ منی بند کر رکھی ہے اسی لئے میں نے گھر میں چوری جیسی گھٹیا حرکت کی۔ پاپا کو بھی ان کی بات درست لگی اسی لئے انہوں نے بجائے میرا ساتھ دینے کہ مجھے مارنا شروع کردیا اور کہنے لگے کہ قبول کرلوں اپنا جرم ورنہ وہ مجھے جان سے مار دیں گے۔ میں نے جو جرم کیا ہی نہیں تھا وہ کیسے قبول کرتا؟
میں نہیں نہیں کرتا رہا اور وہ مجھے بری طرح بیلٹ سے مارتے رہے، یہاں تک کے میری پیٹھ پھٹ گئی اور آج تک وہ نشان موجود ہے، مگر انہیں ترس نہ آیا، انہوں نے مجھے روتا بلکتا چھوڑ کمرے میں بند کردیا، میں پوری رات سسکتا رہا مگر ممی بھی مجھے گلے سے لگانے نہیں آئیں، شاید انہیں پاپا نے منع کیا ہوگا یا وہ خود بھی شک میں پڑ گئی ہوں گی، وجہ چاہے جو بھی تھی مگر اس رات ممی کی طرف سے بھی میرا دل کٹ گیا، کہ کیوں وہ میرے لئے لڑی نہیں پاپا سے؟ کیوں میری ڈھال بن کر آگے نہیں آئیں؟ کیوں لوگوں کو نہیں بتایا کہ ان کا بیٹا چور نہیں ہے؟ بس ایک کونے میں خاموشی سے کھڑی روتی رہیں، شاید اپنی تربیت پر۔
اگلے دن چچی نے پورے خاندان میں یہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیلا دی کہ غضنفر نے گھر میں چوری کی ہے، جس کے بعد رشتے داروں نے جلتی پر تیل چھڑکنے میں ذرا دیر نہیں لگائی۔
پاپا نے اگلے دن پھر مجھ سے پوچھ گچھ کی مگر میرا اب بھی وہ ہی جواب تھا کہ میں نے نہیں کیا، جب میں مسلسل انکار کرتا رہا تو انہوں نے ممی کو میرا سامان باندھنے کا حکم دیا، جس کی انہوں نے تکمیل کی، وہ مجھے سامان سمیت کہیں لے گئے، میں نے ان سے بات کرنے کی کوشش کی مگر انہوں نے جواب نہیں دیا، پہلے انہوں نے ہاسپٹل سے میری بینڈچ کروائی، میری پیٹھ پر ٹانکے لگے تھے، پھر وہاں سے وہ مجھے کہیں لے گئے جہاں پہنچ کر مجھے پتا چلا کہ وہ بورڈنگ اسکول تھا، انہوں نے میرا وہاں ایڈمیشن کروا دیا، میں روتا چیختا رہا کہ میں نے چوری نہیں کی، مجھے یہاں نہیں رہنا، مجھے گھر لے چلیں، مگر وہ مجھے وہاں چھوڑ کر چلے گئے، مجھے وہاں مشکل سے تین دن ہی ہوئے تھے، میں خاموشی سے ایک کونے میں پڑا رہتا تھا، مگر وہاں کے سب لڑکے مجھے چور، چور کہہ کر میرا بہت مذاق اڑاتے تھے، مجھے تنگ کرتے تھے، چوتھے ہی دن میرا ضبط جواب دے گیا اور میں ایک رات چوری چھپے وہاں سے بھاگ نکلا، مجھے پتا تھا کہ میں گھر واپس نہیں جا سکتا تھا اسی لئے میں جیسے تیسے پوری رات بھٹکتا ہوا آخر کار صبح کے وقت ماموں کے گھر پہنچ گیا، وہ مجھے یوں دیکھ کر حیران رہ گئے۔
پتا نہیں کیوں مگر ماموں سے بھی ممی بہت کم ملتی تھیں اور گھر میں بھی کوئی انہیں خاص پسند نہیں کرتا تھا، مگر مجھے ان کے سوا اور کسی کا آسرا نظر نہیں آیا اسی لئے میں ان کے پاس پہنچ گیا، میں نے انہیں روتے ہوئے سب بتایا تو انہوں نے مجھے گلے لگا کر سہارا دیا۔
دوسری طرف اگلے دن بورڈنگ سے گھر پر اطلاع پہنچ چکی تھی کہ میں وہاں سے بھاگ گیا ہوں، اور تب ہی ماموں بھی مجھے پیار سے سمجھا بجھا کر اپنے ساتھ گھر لے کر آئے اور دوبارہ سب گھر والوں سے بات کرنی چاہی، مگر پاپا کچھ سننے کو تیار نہیں تھے، انہوں نے کہا کہ پچھلے بیس سالوں میں ایسا کوئی کام نہیں کیا میں نے جس کے بارے میں وہ چار لوگوں کو فخر سے بتا سکیں، ہمیشہ ان کا سر جھکایا ہی ہے میں نے، اور اب اس چوری والی حرکت کے بعد تو میں ان کیلئے مر گیا ہوں، اسی لئے وہ مجھے یہاں سے لے جائیں، ماموں نے کافی اصرار کیا مگر وہ نہیں مانے اور پھر میرا دل بھی ان لوگوں سے بدظن ہوگیا، میں ہمیشہ کیلئے ماموں کے پاس آگیا، پڑھائی تو میں انٹر میں ادھوری چھوڑ چکا تھا اور مجھے دوبارہ بالکل بھی نہیں پڑھنا تھا، اسی لئے پھر ماموں نے مجھے اپنے ساتھ کاروبار میں شامل کرلیا، ماموں بھی شادی نہ کرنے کی وجہ سے اکیلے تھے اور میں بھی سب کے ہوتے ہوئے تنہا ہوچکا تھا اسی لئے پھر ہم دونوں ہی ایک دوسرے کا سب کچھ ہوگئے۔
اس دوران ایک بات بہت اچھی طرح میری سمجھ میں آگئی تھی کہ کمزور اور مظلوم کو یہ دنیا جینے نہیں دیتی، اسی لئے اگر دنیا میں رہنا ہے تو ظالم بننا پڑے گا، یہاں کوئی کسی پر ترس نہیں کھاتا، میں بےحسی کی اسی ڈگر پر چلے جا رہا تھا، میرے دل میں اگر کسی کیلئے عزت و محبت باقی تھی تو وہ صرف ماموں تھے، جن کیلئے میں جان دے بھی سکتا ہوں اور جان لے بھی سکتا ہوں، جن کا کہا میرے لئے پتھر پر لکیر ہے، تب ہی میں تم سے ملا، اور وہ ہی سوچ ذہن پر حاوی تھی کہ حق مانگنا نہیں ہے چھیننا ہے، جس کی وجہ سے میں نے تمھیں کیڈنیپ کرکے زبردستی نکاح کیا، مگر تب بھی ماموں نے ہی مجھے سمجھایا کہ مجھے دوبارہ گھر والوں سے رابطہ بحال کرنا چاہئے، میں نے پھر سے کوشش کی، جو تھوڑی حد تک کامیاب بھی ہوگئی، مگر آج جو کچھ ہوا، اس نے امید کا وہ آخر بت بھی توڑ دیا جو میں نے دل کی دیوار پر کہیں چھپا کر سجایا ہوا تھا، آج میں پھر ٹوٹ گیا۔"
وہ ماضی میں گم کہتے ہوئے دورانِ گفتگو ہی ملیحہ کی گود میں سر رکھ کر دائیں کروٹ پر لیٹ چکا تھا۔ اس کی آنکھ سے مسلسل بہنے والے آنسو اس کا دامن بھیگو رہے تھے جو بالکل خاموشی سے اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے اسے سن رہی تھی۔
نہ شاخوں نے جگہ دی، نہ ہواؤں نے بخشا
وہ پتا آوارہ نہ بنتا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کیا کرتا؟
دونوں کے درمیان اب بھی خاموشی حائل تھی۔ ملیحہ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اسے تسلی دینے کیلئے کیا کہے؟ اور غضنفر شاید اب تھک گیا تھا کہہ کر اسی لئے بس خاموشی سے آنسوں بہاتا رہا۔ جب کہ ملیحہ نے اس دوران چپکے سے اپنی آنکھیں صاف کیں جو اس کا درد محسوس کرکے نم ہوگئی تھیں۔
پھر چند لمحوں بعد اس کی گود سے سر اٹھاتے ہوئے وہ اٹھ بیٹھا۔ بری طرح رونے کے باعث اس کی آنکھیں سوجھ کر سرخ ہوگئی تھیں جب کہ سر بھی بھاری ہو رہا تھا۔
"تم یہ ہی سوچ رہی ہوگی نا کہ میں کیسا مرد ہوں جو رو رہا ہوں! مرد تو بہت مضبوط ہوتے ہیں، مگر میں کیا کروں؟ آج میں نہیں ضبط کر پایا۔" وہ رندھی ہوئی آواز میں بولا۔
"سب سے پہلے تو تم یہ اندازے لگانا چھوڑ دو کہ میں کیا سوچتی ہوں اور کیا نہیں؟" وہ ہلکے پھلکے انداز میں گویا ہوئی۔
"اور دوسری بات کہ آنسوؤں کا جنس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، یہ ہر اس جاندار کا حصہ ہیں جسے درد ہوتا ہے، اور جب درد حد سے بڑھ جائے تو رو کر دل ہلکا کر لینے میں کوئی برائی نہیں ہے۔" اس نے مسکرا کر کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے اس کا چہرہ تھاما۔
"ہاں مگر یہ خیال ضرور رکھنا چاہئے کہ یہ آنسو یا تو تنہائی میں نکلیں یا پھر صرف اس کے سامنے جو ان کا تماشا نہیں بنائے گا، یہ آنسو بہت قیمتی ہوتے ہیں، انہیں ہر کسی کے سامنے نہیں ضائع کرنا چاہئے۔" اس نے کہتے ہوئے انگوٹھوں سے اس کے آنسو صاف کیے۔
"آئی ایم سوری کہ میں نے اپنے ساتھ ساتھ تمھیں بھی در بدر کردیا، اگر تم چاہو تو اپنے گھر جا سکتی ہو۔" وہ نظریں جھکائے دھیرے سے بولا۔
"میرا در تمہارا دل ہے، اور اب یہاں سے مجھے کہیں نہیں جانا۔" وہ مسکرا کر کہتی اس کے سینے سے لگ گئی۔
غضنفر کے دل کا حال صرف وہ جانتا تھا کہ اسے ملیحہ سے وقتی محبت کرنی ہے۔ مگر اس وقت وہ اس قدر ٹوٹا ہوا تھا کہ ملیحہ کا وجود اسے تپتے صحرا میں سائے کی مانند لگا اسی لئے وہ بنا کچھ سوچے سمجھے اس کی پناہ میں آگیا اور اپنا بھاری ہوتا سر سینے سے لگی ملیحہ کے سر پر ٹکاتے ہوئے دونوں بازو اس کے گرد حمائل کرکے آنکھیں بند کرلیں۔
کل کانٹے کا ارادہ رکھتا ہے وہ جس شجر کو
آج اسی کے ٹھنڈے سائے تلے بیٹھا ہے تھک کر وہ
*******************************
اب آگے 👇
*******************************
"تم نے امی پاپا کو تو کچھ نہیں بتایا نا؟" ملیحہ نے پوچھ کر موبائل ایک کان سے دوسرے میں منتقل کیا۔
"نہیں، مگر تمھیں بتا دینا چاہئے ملیحہ کہ وہ تمھیں لے کر اپنے ماموں کے گھر آگیا ہے۔" صوفے پر بیٹھی صبیحہ نے مشورہ دیا۔
"بتا دوں گی، لیکن خود گھر جا کے طریقے سے، خدا کیلئے تم امی کو فون کرکے پریشان نہ کردینا۔" اس نے کمرے میں ٹہلتے ہوئے اسے سختی سے باز رکھنا چاہا۔
"میرے فون کرنے سے کیا ہوتا ہے؟ یہ بات واقعی پریشانی کی ہے ملیحہ، عزیر نے بتایا ہے مجھے کہ غضنفر بالکل الٹی کھوپڑی کا بندہ ہے، دماغ گھومنے پر وہ کچھ بھی کرسکتا ہے، آج بھی جب صبح ذرا سی بات کا پتنگڑ بنا کر وہ غصے میں تمھیں لے کر گیا تھا تو مجھے فکر ہو رہی تھی کہ وہ غصے میں تم پر ہاتھ واتھ نہ اٹھالے۔" وہ فکر مند ہوئی۔ اس کی بات پر ملیحہ نے بےساختہ گہری سانس لے کر آنکھیں اوپر کو چڑھائیں۔
"غضنفر اتنے بھی جاہل، جنگلی نہیں ہیں صبیحہ کہ مجھے مارنے پیٹنے لگیں، ہاں غصے کے تیز ضرور ہیں اور وہ غصہ بھی جائز ہوتا ہے ان کا، باقی جس بات کو تم چھوٹی سی بات کہہ رہی ہو وہ تم لوگوں کیلئے چھوٹی ہوگی، غضنفر پر وہ کیسی بجلی بن کر گری ہے تمھیں نہیں اندازہ، تمھیں نہیں پتا کہ گھر والوں نے ماضی میں کیا سلوک کیا تھا غضنفر کے ساتھ، تم نہیں سمجھ سکتی کہ وہ شخص اندر سے کتنا اکیلا اور ٹوٹا ہوا ہے۔" وہ بنا رکے اس کی حمایت میں بولتی چلی گئی۔
"اوہ ہو! تو باندھ دی ہے اس نے تمہاری آنکھوں پر اپنی مظلومیت کی پٹی!" اس نے متاثر ہوئے بنا طنز مارا۔
"انہوں نے کوئی پٹی نہیں باندھی ہے۔" اس نے ناگواری سے نفی کی۔
"اور تمھیں پتا ہے سائیکالوجی کہتی ہے کہ اگر کوئی شخص چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی غصہ کرتا ہے، اور دنیا سے کٹنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے تو وہ اندر سے بہت اکیلا ہوتا ہے، اسے کسی کے پیار کی ضرورت ہوتی ہے۔" اس نے دلیل سے دفاع کیا۔
"یار پلیز! مجھ پر اپنے یہ سائیکالوجی کے لیکچر مت جھاڑا کرو، مجھے تو اول روز سے ہی وہ غضنفر کچھ ٹھیک نہیں لگا تھا، بلکہ امی پاپا کی بھی یہ ہی رائے تھی، مگر یہ نفسیات پڑھ پڑھ کر جو ہمدردی کا بھوت تمہارے سر چڑھا ہوا تھا نا اس کے آگے ہار مانتے ہوئے پاپا کو اس شادی کیلئے ماننا پڑا، ورنہ میں تو کبھی قبول نہ کرتی ایک ایسے انسان کو جس سے ملے جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے تھے اور اس نے گن پائنٹ پر نکاح کرلیا، بلکہ میں تو کیا کوئی بھی عقل مند لڑکی وہ نہیں کرتی جو تم نے کیا ہے، اور سونے پر سہاگہ تم اب بھی اسی کی طرفداری کر رہی ہو۔" وہ بھی چڑ کر بنا رکے بولتی گئی جسے اس نے ضبط کرکے سنا۔ کہنے کو دونوں سگی بہنیں تھیں، پر دونوں کی سوچ، مزاج، عادت و اطوار میں بہت فرق تھا۔
"اسی بات کا تو سارا افسوس ہے کہ ہم لوگ ہمیشہ یک طرفہ کہانی پر یقین کرتے ہیں، تصویر کے ایک رخ کو دیکھتے ہیں، دوسرے کی بات سننے کی زحمت ہی نہیں کرتے کہ وہ کیا کہتا ہے؟ بس ایک طرف کی کہانی سن کر سزا، جزا، مجرم اور مظلوم کا فیصلہ کرلیتے ہیں، جیسے تم نے کرلیا ہے عزیر کی زبانی غضنفر کے بارے میں جان کر۔" اس نے بھی دکھ سے مگر مضبوط لہجے میں کہا۔
"میں کوئی دودھ پیتی بچی نہیں ہوں جو کسی کی بھی بات پر یقین کرلوں، میں خود بھی عقل و شعور رکھتی ہوں، اور جو کچھ نظر آرہا ہے میں نے اسے دیکھ کر رائے قائم کی ہے۔" اس نے اپنی حق میں دلیل دی۔
"تو میں بھی کوئی دودھ پیتی بچی نہیں ہوں، الحمدللہ عقل و شعور، ہوش و حواس سب رکھتی ہوں، اور جو کچھ تم لوگوں کو نظر نہیں آرہا میں نے اسے دیکھ کر یہ فیصلہ کیا ہے۔" اس نے بھی ترکی بہ ترکی حساب برابر کیا۔ وہ تلملا کر رہ گئی۔
"تمھیں تو کچھ سمجھانا ہی فضول ہے۔" صبیحہ نے چڑ کر کہتے ہوئے لائن ڈسکنیکٹ کردی۔ دوسری جانب ملیحہ نے بھی موبائل کان سے ہٹا لیا۔
*******************************
"اماں بی غضنفر پھر چلا گیا، آپ نے اسے روکا کیوں نہیں؟" حسب معمول سونے سے قبل صالحہ بیڈ پر بیٹھی دردانہ کے پیروں کی مالش کرتے ہوئے شاید شکوہ کر رہی تھیں۔
"اتنا تو روکا تھا بیٹا، اور کیسے روکتی؟ اس کے دل میں ہمارے لئے جو میل آگیا ہے وہ گھٹنے کے بجائے شاید مزید بڑھ گیا ہے۔" وہ بھی تاسف سے بولیں۔
"مجھے لگتا ہے کہ بس ایک ہی شخص ہے جو غضنفر کو واپس لا سکتا ہے۔" انہوں نے پر سوچ انداز میں مزید کہا۔
"کون؟" انہوں نے ہاتھ روک کر سر اٹھایا۔
"رفاقت، اسی نے غضنفر کو خود سے اور ہم سب سے دور کیا ہے اور وہ ہی اسے واپس لا سکتا ہے۔" انہوں نے بتاتے ہوئے وضاحت کی۔
"وہ کبھی ایسا نہیں کریں گے۔" صالحہ کرب سے کہتے ہوئے دوبارہ مالش کرنے لگیں۔
"کبھی کبھی میں بہت سوچتی ہوں اس بارے میں کہ آج غضنفر جو ہے، اسے ایسا بنانے کا ذمہ دار آخر کون ہے؟" دردانہ کا انداز پر سوچ تھا۔
"رفاقت! کہ اس نے ہمیشہ باپ کی سختی دکھائی اسے، باپ کی شفقت سے دور رکھا یہ سوچ کر کہ شاید اس سے وہ ٹھیک رہے گا؟ تم! کہ تم ہر بار غضنفر کو رفاقت سے بچانے کے بجائے خاموش تماشائی بنی رہی؟ میں! کہ میں رفاقت کو ان سختیوں پر روک نہ سکی؟ یا خود غضنفر! جس نے آج تک اپنا چوری والا جرم قبول نہیں کیا؟" وہ سب کا احتساب کرنے لگیں۔
"آپ جانتی تو ہیں اماں بی کے رفاقت نے مجھ سے شادی صرف آپ کے کہنے پر کی تھی، وہ نہ تو مجھے پسند کرتے ہیں اور نہ میری سنتے ہیں، تو ایسے میں کیسے غضنفر کو ان کے اس اعتاب سے بچاتی میں جس کا میں خود بہت بار شکار ہوئی ہوں!" انہوں نے ہاتھ روک کر کمزور انداز میں اپنی صفائی دی۔ اور دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہوگئیں۔
دردانہ خاموشی سے صالحہ کو پر سوچ انداز میں دیکھنے لگیں۔
شاید انہیں جواب مل گیا تھا اپنے سوال کا، اور جواب تھا ذمہ دار یہ سب سب لوگ تھے۔
*******************************
رات کی سیاہی چھٹی تو اجلا سویرا پھر چلا آیا جس میں پرندوں کی چہچہاہٹ بہت بھلی معلوم ہو رہی تھی۔
ملیحہ نہا کر آنے کے بعد غیر ارادی طور پر آہستہ سے بیڈ پر غضنفر کے برابر میں بیٹھ گئی جو بنا شرٹ کے، کمر تک کمبل اوڑھے بیڈ پر اوندھا سویا ہوا تھا۔
اور جس چیز نے اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی تھی وہ تھا غضنفر کی پیٹھ پر بنا لمبا سا زخم کا نشان۔ جو اس نے پہلے بھی کئی بار دیکھا تھا مگر کل جب اس کی حقیقت معلوم ہوئی تو آج اسے یہ زخم دیکھ کر درد سا ہوا۔
وہ بےاختیاری کے عالم میں نرمی سے، آہستہ آہستہ اس نشان پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ اس کا شدت سے دل چاہ رہا تھا کہ کاش سب کچھ اس کے بس میں ہوتا تو وہ پل بھر میں اس کے سارے دکھ درد دور کر دیتی۔ مگر ساری بات اس "کاش" پر ہی تو آکر رک جاتی تھی۔
یوں ہی بےاختیاری میں اس نے غضنفر کی پیٹھ پر سر رکھ لیا جس کے باعث اس کے گیلے بالوں کے لمس سے اس کی نیند میں خلل پیدا ہوا۔
ناسمجھی سے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولنے کے بعد جب اس نے کروٹ لے کر سیدھا ہونا چاہا تو وہ بھی چونک کر اٹھ بیٹھی۔ اسے اب اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا کہ اس نے پھر انجانے میں اس کی نیند خراب کردی ہے جس سے اسے سخت چڑ ہے۔ جب کہ وہ ہنوز موندی موندی آنکھیں کھولے ناسمجھی سے اسے دیکھ رہا تھا۔
"آئی ایم سوری! میں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا، میں تو بس۔۔۔۔۔" اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا بولے۔
"کیا جان بوجھ کر نہیں کیا تم نے؟" اس نے گھمبیر بھاری آواز میں ناسمجھی سے پوچھا۔ اور ساتھ ہی اٹھ بیٹھا۔
"وه۔۔۔وہ میں نے تمہاری پیٹھ پر سر رکھ دیا تھا اسی لئے تم ڈسٹرب ہوگئے، سوری!" اس نے نظریں جھکا کر شرمندگی سے وضاحت کی۔
پہلے تو وہ چند لمحے اسے سنجیدگی سے دیکھتا رہا پھر بےساختہ ہنس پڑا۔ ملیحہ نے تعجب سے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔
"تو اس میں گھبرانے والی کون سی بات ہے؟ تم تو کئی بار میرے سینے پر بھی سر رکھ چکی ہو، تب بھی تو میں نے کچھ نہیں کہا۔" خلاف توقع وہ سہولت سے بولا۔
"تب تم جاگ رہے ہوتے ہو نا! ابھی میں نے تمہاری نیند خراب کردی۔" اس نے فرق بیان کیا۔
"کوئی بات نہیں، تم پر ایسی ہزاروں نیندیں قربان۔" اس نے محبت سے کہتے ہوئے اسے سینے سے لگا لیا۔
ملیحہ تو اس رد عمل پر ہکابکا رہ گئی تھی۔ وہ اس کے اس دھوپ چھاؤں سے مزاج پر اکثر الجھ جاتی تھی مگر پھر خود ہی اسے اس کی شخصیت کا حصہ سمجھ کر مطمئن ہوجاتی تھی جیسے ابھی ہوگئی تھی۔
مگر اسے پتا نہیں تھا کہ درحقیقت ابھی غضنفر نے صرف لوہا گرم دیکھ کر وہ چوٹ ماری تھی جو اسے آگے چل کر شیشے میں اتارنے کے کام آسکے۔
*******************************
"گڈ مارننگ!" عزیر نے پیچھے سے صبیحہ کے گرد دونوں بازو حمائل کرتے ہوئے کہا جو ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی بال بنا رہی تھی۔
"ہٹو یہاں سے۔" وہ سنجیدگی سے کہتی اس کے حصار سے نکلی۔
"ارے! کیا ہوا؟" وہ حیران ہوا۔
"ہوا ہی تو نہیں ہے۔" اس نے تنک کر کہا۔
"کیا نہیں ہوا؟" وہ سمجھا نہیں۔
"ڈسکشن، میری جاب کے بارے میں، تمھیں کب سے کہہ رہی ہوں کہ ایک بار سب کے سامنے یہ بات چھیڑ دو کہ میں اب ہاسپٹل جوائن کرنا چاہتی ہوں مگر تم بس آج کل کیے جا رہے ہو۔" اس نے نروٹھےپن سے شکوہ کیا۔
"ارے یار! ساری زندگی پڑی ہے جاب کیلئے، ابھی تو ہماری نئی نئی شادی ہوئی ہے، اسے تو ٹھیک سے انجوئے کرلو، بھول گئی یونی ٹائم پر کتنے پلانز بنائے تھے ہم نے اپنی شادی کے حوالے سے!" اس نے کہتے ہوئے دونوں بازو اس کے کندھوں پر رکھے۔
"اور تم بھی شاید بھول گئے ہو کہ یہ اتنی پڑھائی میں نے گھر بیٹھنے کیلئے نہیں کی تھی، خود تو تم میڈیکل کی پڑھائی بیچ سے چھوڑ کر ہی اپنے فیملی بزنس میں آگئے اب کم از کم مجھے تو میرا شوق پورا کرنے دو۔" اس نے اسی انداز میں کہتے ہوئے اس کے ہاتھ ہٹائے۔
"ارے تو کون روک رہا ہے تمھیں، ضرور تم اپنے سارے شوق پورے کرنا، مگر پہلے میرے شوق تو پورے کردو۔" وہ معنی خیزی سے کہتے ہوئے پھر اس کی جانب جھکنے لگا۔
"بالکل بھی نہیں، جب تک تم گھر والوں سے بات نہیں کرو گے، تب تک مجھ سے بھی کوئی امید نہ رکھنا۔" صبیحہ نے سینے پر زور دے کر اسے پرے دھکیلتے ہوئے دوٹوک انداز میں باور کرایا۔ اور بیڈ پر پڑا اپنا دوپٹہ اٹھا کر اوڑھتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔ جب کہ وہ اسے دیکھ کر رہ گیا۔
*******************************
"ٹک ٹک ٹک!" کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔
"آجاؤ!" ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے بال بناتے سلیمان نے اجازت دی۔
"السلام علیکم ماموں!" ملیحہ ادب سے سلام کرتی ہوئی اندر داخل ہوئی۔ جس کی غیر متوقع آمد پر وہ چونک گئے۔
"وعلیکم السلام! ارے بیٹا تم یہاں! سب خریت تو ہے؟" انہوں نے جواب دیتے ہوئے تشویش سے پوچھا۔
"جی جی سب خیریت، بس آپ سے ایک ہیلپ چاہیے تھی۔" اس نے تسلی دیتے ہوئے تہمید باندھی۔
"ہاں ہاں بولو؟" وہ پوری طرح متوجہ تھے۔
"کیا آپ آملیٹ بنا دیں گے؟" اس نے عاجزی سے گزارش کی۔
"کیا!" وہ حیرت سے بس اتنا ہی بولے۔
*******************************
سب لوگ اس وقت ناشتے کی نیت سے ڈائینگ ٹیبل کے گرد اکھٹا تھے۔ تب ہی صبیحہ نے آنکھوں آنکھوں میں عزیر کو بات کرنے کا اشارہ کیا تو وہ لفظ ترتیب دیتے ہوئے گویا ہوا۔
"ڈیڈ! آپ سے ایک بات کرنی ہے۔" اس نے ہمت کرکے پکارا۔
"ہاں بولو؟" وہ ناشتہ کرتے ہوئے بولے۔
"وہ دراصل۔۔۔صبیحہ ہاسپٹل جانا چاہ رہی ہے۔" اس نے آہستہ سے کہا۔ تو سب نے ہی بےساختہ اس کی جانب دیکھا۔
"خیریت! کیا الٹی وغیرہ ہوئی ہے؟ چکر آرہے ہیں؟ کچھ کھٹا کھانے کو جی چاہ رہا ہے؟" شاہانہ نے خوشی کے عالم میں بنا رکے صبیحہ سے پوچھا۔ وہ کچھ اور ہی سمجھی تھیں۔
"ارے نہیں ممی، آپ غلط سمجھ رہی ہیں، کوئی گڈ نیوز نہیں ہے۔" اس نے جلدی سے ٹوکا۔ جب کہ صبیحہ بھی بری طرح جھینپ گئی تھی۔
"تو پھر؟" ان کی مسکراہٹ سمٹی۔
"دراصل صبیحہ ایز آ ڈاکٹر ہاسپٹل جوائن کرنا چاہتی ہے، تو آپ لوگوں کو کوئی اعتراض تو نہیں ہے نا!" اس نے وضاحت کرتے ہوئے جاننا چاہا۔ تو وہ خاموش ہوگئیں۔
"نہیں، ہمیں بھلا کیا اعتراض ہوگا!" دردانہ نے سہولت سے کہا تو اسے کچھ حوصلہ ہوا۔
"ہاں مگر شادی کے بعد عورت گھر داری کرتی اور بچے سنبھالتی اچھی لگتی ہے۔" شاہانہ نے دبا دبا اعتراض کیا۔
"وقت آنے پر وہ بھی کرلوں گی، لیکن ابھی میں ہاسپٹل جوائن کرنا چاہتی ہوں، میں اپنی سالوں کی پڑھائی یوں گھر بیٹھ کر ضائع نہیں کرسکتی۔" صبیحہ نے خود ہی سنبھل کر کہا تو وہ کچھ نہ بولیں اور ناشتے کی جانب متوجہ ہوگئیں۔
"تو پھر کب سے جا رہی ہو تم؟" شفاعت نے پوچھا۔
"بس چند روز میں فارمیلیٹیس پوری کرکے جوائن کرلوں گی۔" اس نے خوشی سے بتایا تو وہ بھی اثبات میں سر ہلاکر ناشتے میں مصروف ہوگئے۔
جب کہ عزیر نے فخریہ انداز میں صبیحہ کو دیکھا۔ جسے مصنوعی بےنیازی سے نظر انداز کرتے ہوئے وہ بھی ناشتہ کرنے لگی۔
*******************************
"ماموں ناشتہ کرنے نہیں آئے، انہیں بتایا نہیں کیا کہ ناشتہ لگ گیا ہے؟" غضنفر نے کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
"بتا دیا ہے، آتے ہوں گے۔" ملیحہ نے سلائس پر مکھن لگاتے ہوئے جواب دیا۔
"یہ لیجئے!" تب ہی کسی نے کہتے ہوئے غضنفر کے آگے آملیٹ کی پلیٹ رکھی۔
اس نے چونک کر سر اٹھایا تو سلیمان اس کے برابر میں کھڑے تھے۔
"یہ کیا ماموں؟" اس نے ناسمجھی سے کہا۔
"آملیٹ ہے، خاص تمہارے لئے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔" وہ کہتے ہوئے اپنی مخصوص سنگل کرسی کھینچ کر بیٹھے۔
"لیکن آپ نے زحمت کیوں کی؟ رنگیلا سے کہہ دیتے نا!" وہ حیرانی سے بولا۔
"بھئی اتنے دن بعد تمہارے ساتھ دوبارہ ناشتہ کرنے کا موقع ملا تو سوچا تمھیں اپنے ہاتھ سے کچھ بنا کر کھلاؤں! اور ویسے بھی تمھیں بہت پسند ہے نا میرے ہاتھ سے بنا آملیٹ؟" وہ کہتے ہوئے گلاس میں جوس نکالنے لگے۔
"ہاں بہت زیادہ، تھینکس دن کے اتنے اچھے آغاز کیلئے۔" وہ دل سے مسکراتے ہوئے بولا۔ تو جواباً وہ بھی مسکرادیے۔
ملیحہ گہری نظروں سے غضنفر کو ہی دیکھ رہی تھی جس کے چہرے پر رقصاں یہ خالص مسکراہٹ شازو نادر ہی دیکھنے کو ملتی تھی۔ اور اسی مسکراہٹ کیلئے اس نے سلیمان سے آج خاص طور پر گزارش کی تھی۔
ملیحہ نے نظروں ہی نظروں میں انہیں شکریہ ادا کیا، جس پر انہوں نے آنکھوں سے "خوش آمدید" کہا اور پھر تینوں خوشگوار ماحول میں ناشتے کی جانب متوجہ ہوگئے۔
اسے مسکراتا دیکھ کر سکون سا ملتا ہے
وہ میرا انتخاب ہے اسے کوئی اداس نہ کرے
انتخاب
*******************************
"زوہا! شاہ رخ خان کی نئی مووی ریلیز ہوئی ہے، دیکھنے چلو گی؟" عبید نے دوسری جانب سے کچن کاؤنٹر پر کہنی ٹکا کر پوچھا۔
"نہیں!" زوہا نے صاف انکار کیا۔ جو کچن میں رکھی ٹیبل کے گرد بیٹھی دوپہر کے کھانے کیلئے سبزی کاٹ رہی تھی۔
"کیوں! تمھیں تو اتنا پسند تھا سینما میں مووی دیکھنا، اب کیا ہوا؟" وہ تعجب سے بولا۔
"میرا دل نہیں چاہ رہا ہے عبید، تم چلے جاؤ۔" اس نے بےزاری سے پھر منع کیا۔
"کیا ہوا؟" تب ہی صالحہ پوچھتی ہوئی کچن میں آئیں۔
"دیکھیں نا تائی اس کو، میں کہہ رہا ہوں کہ مووی دیکھنے چلتے ہیں سب دوستوں کے ساتھ مل کر، تھوڑی آؤٹنگ ہوجائے گی، مگر یہ مان ہی نہیں رہی ہے۔" اب وہ ان کو بیچ میں لے آیا۔
"چلی جاؤ زوہا، تھوڑا دل بہل جائے گا۔" انہوں نے بھی اصرار کیا۔
"میں نے کہا نا کہ مجھے کہیں نہیں جانا، پلیز دوبارہ کوئی نہ بولے۔" وہ یکدم چھری پٹختے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی اور پھر تیزی دیکھاتے ہوئے کچن سے باہر نکل گئی جیسے دونوں دیکھ کر رہ گئے۔
"غصہ تو ہر وقت ناک پر رہتا ہے اس کی۔" عبید نے بڑبڑاتے ہوئے تجزیہ کیا۔ جس پر صالحہ کچھ نہ بولیں۔
*******************************
شام ہوتے ہی موسم کافی سہانا ہوگیا تھا جس سے مزاج پر کافی اچھا اثر پڑ رہا تھا۔ جب کہ آفس سے واپس آنے کے بعد غیر متوقع طور پر ملیحہ کو گھر آیا دیکھ کر سالک صاحب کا مزاج کچھ زیادہ ہی اچھا ہوگیا تھا۔ مگر جب ملیحہ نے تحمل سے بیٹھ کر دونوں کل کی روادار سنائی تو دونوں سنجیدگی سے خاموش ہوگئے۔
"غضنفر کی جگہ اگر میں ہوتی تو شاید یہ ہی کرتی، کیونکہ جس گھر میں بھروسہ اور عزت ہی نہ ہو وہاں کوئی بھلا کیسے رہ سکتا ہے؟" ساری بات بتا کر وہ مزید بولی۔
"لیکن بیٹا یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے، اور نہ ہی یہ کوئی تُک ہے کہ گھر کے ہی فرد پر چوری کا الزام لگایا جائے، غضنفر کو ایسے گھر چھوڑ کر نہیں جانا چاہئے تھا، چلو پہلے کی بات اور تھی وہ اکیلا تھا، مگر اب تمہارے ساتھ یوں اپنے ماموں کے گھر رہنا ٹھیک نہیں ہے۔" سالک متفکر ہوئے۔
"پاپا وہاں کوئی بات کرنے کو تیار ہی نہیں تھا، وہاں تو بس فیصلہ سنایا جاتا ہے، اور سلیمان ماموں بھی بہت اچھے ہیں، مجھ سے بہت اچھے سے پیش آتے ہیں، میں آہستہ آہستہ غضنفر کو قائل کرنے کی کوشش کروں گی گھر واپس چلنے کیلئے، مگر تب تک ہم ماموں کے گھر پر ہی ہیں، اور آپ لوگوں کو بتانے کا مقصد یہ تھا کہ آپ لوگ کسی تیسرے کی باتوں میں آکر پریشان نہ ہوں۔" اس نے تحمل سے وضاحت کی۔
"ہماری پریشانی تو اسی دن شروع ہوگئی تھی جس دن تم نے اس سے شادی کی تھی۔" راضیہ نے جلے دل سے کہا تو وہ انہیں دیکھنے لگی۔
"میں بات کرتا ہوں رفاقت سے اس بارے میں۔" سالک صاحب نے ارادہ کیا۔
"نہیں پاپا، ابھی تو پھر بھی بات سنبھلی ہوئی ہے، کہیں آپ کے بات کرنے سے بات بڑھ نہ جائے! کیونکہ وہ لوگ آپ کی نیت کو نہیں سمجھیں گے، انہیں لگے گا کہ آپ ان کے ذاتی معاملے میں دخل اندازی کر رہے ہیں جس سے بات بگڑ بھی سکتی ہے۔" اس نے فوراً ٹوکا۔
"لو، ہماری بیٹی کا معاملہ ہے، ہم کیوں نہ بولیں!" راضیہ نے مداخلت کی۔
"کیونکہ بیٹی ہی تو منع کر رہی ہے اس لئے، جب مجھے لگے گا کہ آپ لوگوں کا بیچ میں پڑنا ضروری ہے تو میں خود کہوں گی آپ سے، بس ابھی پلیز آپ لوگ پریشان ہوکر کچھ نہ کیجئے گا۔" اس نے عاجزی سے گزارش کی۔
"دیکھ لو بیٹا جیسا تمھیں ٹھیک لگے، مگر جہاں ہماری ضرورت ہو ہم سے کہنا ضرور!" سالک نے اس کی بات مانتے ہوئے آخر میں تاکید کی۔
"ضرور کہوں گی۔" اس نے مسکراتے ہوئے یقین دہانی کرائی۔
*******************************
"مبارک ہو ماموں! پیمنٹ کردی ہے اس فہیم نے۔" غضنفر نے کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے اطلاع دی۔
"ظاہر ہے، اس دن اتنی اچھی خاصی مرمت جو کی تھی تم نے اس کی، لائن پر تو آنا ہی تھا۔" ٹیبل کی دوسری جانب سنگل کرسی پر بیٹھے سلیمان نے کہتے ہوئے ٹیبل پر رکھا لیپ ٹاپ بند کیا۔
"ہمممم! شرافت کی زبان سمجھ میں نہیں آتی ہے کسی کے۔" اس نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر تجزیہ کیا۔
دونوں اس وقت اپنے شوروم کے آفس میں موجود تھے۔ تب ہی غضنفر نے کسی سودے کی بابت انہیں بتائی۔
"تمھیں پتا ہے آج صبح ناشتے میں تمہارے لئے میں نے آملیٹ کیوں بنایا تھا؟" انہوں نے پر سوچ انداز میں یکدم موضوع بدلا۔
"کیونکہ ہم بہت دنوں بعد ساتھ ناشتے کر رہے تھے۔" اس نے کندھے اچکاتے ہوئے جواب دیا۔
"نہیں! کیونکہ ملیحہ نے کہا تھا مجھے ایسا کرنے کو۔" انہوں نے تصحیح کی۔
"کیا! اس نے، مگر کیوں؟" وہ حیران ہوتے ہوئے سیدھا ہوا۔
"ہاں اس نے، صبح تمہارے نیچے آنے سے پہلے وہ آئی تھی میرے کمرے میں یہ فرمائش لے کر، اس کا کہنا تھا کہ کل والے واقعی سے تم بہت ہرٹ ہوگئے ہو اسی لئے اگر میں ایسا کروں تو تمھیں بہت خوشی ہوگی کیونکہ تمھیں مجھ سے بہت انسیت ہے، اور ایسا ہوا بھی۔" انہوں نے تفصیلی وضاحت کی۔ جسے سن کر وہ دنگ رہ گیا۔
"اس کے اطوار بتا رہے ہیں کہ وہ پوری طرح تمہاری مٹھی میں آرہی ہے، لہٰذا یہ ہی صحیح موقع ہے چوٹ مارنے کا۔" انہوں نے سنجیدگی سے کہا۔ وہ ہنوز حیرانی کے عالم میں پر سوچ سا بیٹھا تھا۔
*******************************
شام سرک کر اب رات میں تبدیل ہوگئی تھی اور وعدے کے مطابق غضنفر ملیحہ کو لینے اس کے گھر آیا ہوا تھا۔
"تمہارے اور تمہارے گھر والوں کے بیچ معاملہ چاہے کوئی بھی ہو لیکن اب تمہارے ساتھ ساتھ بات میری بیٹی کی بھی ہے، جس پر ہم کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔" سالک غضنفر کے ہمراہ باہر گاڑی کے پاس کھڑے تھے۔
"میں سمجھ سکتا ہوں آپ کے خدشے جائز ہیں، اور آپ بےفکر رہیں، اگر ملیحہ آپ کی بیٹی ہے تو میری بیوی بھی ہے، میرے یا میرے گھر والوں کی وجہ سے اس پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔" اس نے یقین دہانی کرائی تو انہوں نے اثبات میں سر ہلایا۔ تب ہی ملیحہ بھی راضیہ کے ہمراہ اپنے گرد شال اوڑھتی باہر آگئی۔
"چلیں!" اس نے نزدیک آکر پوچھا۔
"ہاں چلو۔" وہ تیار تھا۔
"اچھا پاپا، اللہ حافظ!" وہ کہتے ہوئے ان کے سینے سے لگی۔
"اللہ حافظ بیٹا، اپنا خیال رکھنا۔" انہوں نے کہہ کر اس کے ماتھے پر بوسہ دیا۔
پھر وہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی جب کہ غضنفر نے بھی ان سے بغل گیر ہونے کے بعد ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور پھر دونوں یہاں سے روانہ ہوگئے۔ جن کی دور جاتی گاڑی کو یہ لوگ نظروں سے اوجھل ہونے تک دیکھتے رہے۔
*******************************
"ہاں تو صبح کوئی شوق شوق کی کچھ بات کر رہا تھا۔" عزیر نے گرنے کے سے انداز میں بیڈ پر لیٹتے ہوئے معنی خیزی سے کہا۔
بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھی صبیحہ نے مسکراہٹ چھپانے کیلئے اپنے ہاتھوں میں موجود کتاب مزید چہرے کے اوپر کرلی۔
"آپ سے بات کر رہا ہوں میڈم، ساری پڑھائی آج ہی کرلیں گی کیا؟" اس نے کہتے ہوئے اس سے کتاب لے لی۔
"یہ کیا بدتمیزی ہے عزیر!" وہ برہم ہوئی۔
"یہ ہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ یہ کیا بدتمیزی ہے؟ میں آپ سے بات کر رہا ہوں اور آپ ہیں کہ سن نہیں رہی ہیں۔" اس نے کتاب سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
"میں سن رہی تھی۔" اس نے گویا اطلاع دی۔
"اچھا! تو پھر جواب کیوں نہیں دے رہی تھی؟" وہ بھی دوبدو ہوا۔
"میری مرضی!" اس نے بےنیازی دکھائی اور منہ تک کمبل اوڑھ کر لیٹ گئی۔
"ٹھیک ہے، تو اب میں بھی اپنی مرضی کروں گا۔" اس نے کہتے ہوئے ہاتھ بڑھا کر کمرے کی لائٹ بند کی اور خود بھی منہ تک کمبل اوڑھ کر اندر گھس گیا۔
*******************************
"تمہاری امی کھانا بہت اچھا بناتی ہیں۔" ملیحہ کے بیڈ پر آکے بیٹھ پر غضنفر نے تعریف کی۔
"تھینکس! اور یہ تو کچھ بھی نہیں تھا، اگر وہ خاص طور پر کچھ اہتمام کرتی نا تو اور مزیدار ہوتا لیکن میں نے منع کردیا تھا۔" اس نے کمبل اوڑھتے ہوئے بتایا۔ اور پھر خود بھی لیٹ گئی۔
"اچھا کیا، کیونکہ ویسے ہی انہوں نے کافی کچھ کرلیا تھا۔" غضنفر نے کہتے ہوئے ہاتھ بڑھا کر لائٹس بند کیں اور لیٹ گیا۔ اب صرف کمرے میں نائٹ بلب کی روشنی ہو رہی تھی۔
"ایک بات پوچھوں؟" غضنفر نے اس کی جانب کروٹ لے کر اجازت چاہی۔
ہاں ضرور۔" اس نے بھی اسی طرف کروٹ لے لی۔
"صبح ماموں کو آملیٹ بنانے کیلئے تم نے کہا تھا نا!" اس نے آہستہ سے استفسار کیا تو اس نے اثبات میں سرہلایا۔
"کیوں؟" اس نے اسی طرح پوچھا۔
"کیونکہ مجھے پتا تھا کہ ایسا کرنے سے تم خوش ہوجاؤ گے۔" اس نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔
"اور تم مجھے خوش کیوں دیکھنا چاہتی تھی؟" اس نے ملیحہ کے گال پر آئے بال نرمی سے پیچھے کرتے ہوئے جاننا چاہا۔
"کیونکہ میں نے کہا تھا نا کہ تم ہنستے مسکراتے، خوش باش اچھے لگتے ہو۔" اس نے یاد دلایا۔
"کیوں اچھا لگتا ہوں ہنستا مسکراتا؟" وہ دلچسپی سے انجان بنا۔
"پتا نہیں! بس محبوب ہنستا مسکراتا اچھا لگتا ہے۔" اس نے بھی کہتے ہوئے جواباً اس کے چہرے پر انگلی پھیری۔
"اور میں تمہارا محبوب کب بنا؟" اس نے جاننا چاہا۔
"جب سے میرے شوہر بنے ہو۔" اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ جس پر اس نے بھی مسکراتے ہوئے اسے سینے سے لگا لیا۔ ایک اور ضرب کاری ثابت ہوئی تھی۔
*******************************
چند روز یوں ہی پرسکون گزرے تھے، کہیں کوئی قابل ذکر بات رونما نہیں ہوئی تھی۔
آج کا دن بھی باقی دنوں کی طرح ہی تھا بس چھٹی ہونے کے باعث آج سب اپنے اپنے گھروں میں تھے۔ یا ویک اینڈ کے منتظر اپنے کام نمٹانے میں مصروف تھے۔
سلیمان کسی کام کے سلسلے میں حیدر آباد گئے ہوئے تھے جب کہ رنگیلا کوئی کام نہ ہونے کی وجہ سے اپنے کواٹر میں تھا۔
حسب معمول تھوڑا ٹائم اپنی پسندیدہ جگہ پر گزارنے کیلئے گرے جینز پر سلیولیس سیاہ ٹی شرٹ پہنے غضنفر جیسے ہی اپنے جم میں داخل ہوا تو لمحے بھر کو ٹھٹک کر رک گیا۔
سامنے ہی بلیک ٹائٹس پر بلیک فٹنگ ٹی شرٹ پہنے، جس کی آستین کہنیوں تک تھی۔ کمر کے گرد میرون اپر باندھے، سیاہ بالوں کی اونچی پونی بنائے ملیحہ اس کے پنچنگ بیگ کا جائزہ لے رہی تھی۔
"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟" وہ حیرت سے کہتا اس کی جانب آیا۔ تو وہ چونک کر پلٹی۔
"تمہارا انتظار۔" اس نے جھٹ سے جواب دیا۔
"کیوں؟" ایک لفظی سوال آیا۔
"کیونکہ مجھے بھی باکسنگ سیکھنی ہے۔" اس نے کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بےنیازی سے فرمائش کی۔
"یہ باکسنگ ہے، میک اپ ٹیٹورئیل نہیں جو تم سیکھنے کھڑی ہوگئی ہو۔" اس نے بھی بےنیازی سے اطلاع دی۔
"پتا ہے مجھے، اور ضروری نہیں ہے کہ لڑکیاں میک اپ کے علاوہ کچھ نہ کرسکیں، بلکہ مجھے تو میک اپ کرنا بھی نہیں آتا۔" اس نے تنک کر کہتے ہوئے آخر میں منہ بسورا۔
"ہاں تو جاؤ جا کر کپڑے بدلو اور یوٹیوب پر میک اپ ٹیٹورئیل دیکھ کر میک اپ سیکھو، اگر ماموں نے تمھیں اس حلیے میں دیکھ لیا تو اچھا نہیں لگے گا۔" وہ سرسری انداز میں کہتا اپنے پنچنگ بیگ کی طرف بڑھا۔
"آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ ماموں کسی کام کے سلسلے میں صبح سے حیدر آباد گئے ہوئے ہیں رات تک واپس آئیں گے، اور رنگیلا بھی اپنے کواٹر میں ہے، گھر پر صرف ہم دونوں ہیں۔" اس نے کہتے ہوئے قریب آکر آخر میں دونوں بازو اس کے کندھوں پر رکھے۔
"تم پکا یہاں باکسنگ سیکھنے ہی آئی ہو!" اس کے انداز پر اس نے آنکھیں سکیڑ کر پوچھا۔
"ہاں، کیوں؟ تم کچھ اور بھی سیکھا سکتے ہو کیا؟" اس کے معنی خیز انداز میں شرارت واضح تھی۔
"نہیں، فی الحال ایک ہی کام پر کانسرٹریٹ کرو۔" اس نے کہتے ہوئے آہستہ سے اس کے ہاتھ اپنے کندھوں پر سے ہٹائے۔
"مطلب تم سیکھا رہے ہو مجھے باکسنگ!" اس نے خوشی سے تائید چاہی۔
"ظاہر ہے، سیکھانی پڑے گی۔" اس نے کندھے اچکا کر گول مول جواب دیا۔
"اوہ! تم بہت اچھے ہو ڈیئر ہسبنڈ۔" وہ خوشی کے مارے اس سے لپٹ گئی۔
"اچھا بس، اصل کام پر فوکس کرو۔" اس نے جلدی سے ٹوک کر دھیان دلایا۔
"اوہ سوری!" وہ بھی سنبھل کر پیچھے ہوئی کہ کہیں اس کا ارادہ نہ بدل جائے۔
پھر وہ دیوار پر بنے کبرڈ کی جانب آگیا اور وہاں سے کچھ نکال کر لے کر واپس اس کے پاس آیا۔ اس کے ہاتھ میں اسکیپنگ روپ اور باکسنگ گلوز تھے۔ گلوز اس نے بینچ پر رکھ دیے۔
"یہ لو، ایک منٹ اسکیپینگ کرو پہلے۔" اس نے رسی اسے دیا۔
"مجھے رسی کودنا آتی ہے، باکسنگ سیکھنی ہے۔" اس نے اپنے تئیں اطلاع دی۔
"یہ بھی باکسنگ کا ہی حصہ ہے، باکسنگ کرنے سے پہلے باڈی کو ریڈی کرنا پڑتا ہے۔" غضنفر نے وضاحت کی تو اس نے رسی تھام لی۔
"بہت اونچی جم نہیں لینا، بس آہستہ آہستہ کرنا۔" اس نے تاکید کی تو وہ اثبات میں سر ہلا کر ہدایت پر عمل کرنے لگی۔
"ہوگئی اسکیپنگ! اب باکسنگ کروں؟" ایک منٹ بعد اس نے رک کر پوچھا۔
"نہیں، اب اسٹیچنگ کرو ایک منٹ، مطلب پہلے اپنے سیدھے ہاتھ سے الٹے پیر کو ٹچ کرو، پھر الٹے ہاتھ سے سیدھے پیر کو۔" اس نے نئی ہدایت دی۔
"اس سے کیا ہوگا؟" اس نے سوالیہ انداز سے کمر پر ہاتھ رکھے۔
"پٹھے کھنچیں گے، باڈی یوز ٹو ہوگی تو آسانی ہوگی باکسنگ میں۔" اس نے وضاحت کی۔
پہلے چند لمحے وہ اسے گھورتی رہی پھر خاموشی سے اس کی بتائی ہوئی ورزش کرنے لگی۔
"ہوگئی اسٹیچنگ، اب کریں باکسنگ؟" اس نے سیدھے ہوتے ہوئے پوچھا۔
"نہیں، پہلے شیڈو باکسنگ کرو، مطلب پنچنگ بیگ کو ایمیجن کرکے ہوا میں مکے مارو۔" اس نے نفی کرتے ہوئے دوسری ہدایت دی۔
"ایمیجن کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ سامنے تو لٹک رہا ہے پنچنگ بیگ اسی پر مارتی ہوں نا!" اس نے اپنے تئیں اطلاع دی۔
"نہیں، ڈائریکٹ اس پر نہیں مارتے، باکسنگ کے بھی کچھ رولز ہوتے ہیں۔" اس نے منع کیا۔
"آج سے پہلے تو میں نے کہیں نہیں دیکھے ایسے رولز، بس فلموں میں ہیرو کمرے میں آکر سیدھا پنچنگ بیگ کو مارنے لگتا ہے، تم سچ میں مجھے سیکھا بھی رہے ہو یا بس بےوقوف بنا رہے ہو!" اس نے کہتے ہوئے آخر میں تیکھے انداز سے کمر پر ہاتھ رکھے۔
"جو پہلے ہی بنا بنایا ہو اسے میں کیا بنا سکتا ہوں۔" وہ یہاں وہاں دیکھتے ہوئے بڑبڑایا۔
"کیا؟" وہ سمجھی نہیں۔
"کچھ نہیں، فلموں میں ٹرینگ نہیں دے رہے ہوتے جو رولز بتائیں گے، اور میں ایسے ہی سیکھاؤں گا، تمھیں سیکھنی ہے تو سیکھو ورنہ جا سکتی ہو۔" اب وہ بھی سنجیدہ ہوا۔
"اچھا ٹھیک ہے، کرتی ہوں۔" اسے بگڑتا دیکھ کر وہ لائن پر آگئی۔ اور اس کے کہے کے مطابق ہوا میں پنچ مارنے لگی۔
"اب کیا کروں؟" ایک منٹ یہ مشق کرنے کے بعد اس نے بنا چوں چرا کیے شرافت سے پوچھا۔
کوئی جواب دینے کے بجائے اس نے آگے بڑھ کر بینچ پر سے گلوز اٹھائے اور اس کی جانب آیا۔
"لاؤ ہاتھ دو۔" اس نے گلوز کھول کر اس کا ہاتھ مانگا تو اس نے خاموشی سے پہلے دایاں اور پھر بایاں ہاتھ باری باری دونوں گلوز میں ڈال دیا۔
"چلو اب پنچ مارو بیگ پر۔" غضنفر نے اسے بازو سے پکڑ کر عین بیگ کے سامنے کھڑا کیا۔
"سچی میں ماروں!" اسے یقین نہیں آیا۔
"اگر نہیں مارنا تو رہنے دو۔" اس نے بےنیازی سے کندھے اچکائے۔
تو اس نے ہاتھوں کو پوزیشن میں لے کر پوری قوت لگا کر بیگ پر پنچ مارا۔ ساتھ ہی وہ جبڑے بھینچے منہ سے "ہی" اور "ہا" جیسے آوازیں بھی نکال رہی تھی جیسے سامنے دشمن موجود ہو اور وہ اسے ڈھیر کرکے ہی دم لے گی۔
غضنفر دونوں بازو سینے پر باندھے اطمینان سے اسے دیکھ رہا تھا جو بمشکل یہ بھاری بھرکم بیگ بس چند انچ ہی ہلا پائی تھی اور اداکاری ایسی کر رہی تھی جیسے دشمن کو ڈھیر کردیا ہو۔
"کیسا رہا!" چند منٹ بعد اس نے رک کر پھولتی سانسوں کے درمیان فخر سے پوچھا۔
"بہت زبردست! ایسا پنچ تو آج تک میں بھی نہیں مار پایا۔" اس نے طنزیہ انداز میں تعریف کی۔
"دیکھا! میں نے کہا تھا نا کہ لڑکیاں میک اپ کے علاوہ بھی بہت کچھ کرسکتی ہیں۔" اس نے فخر سے گردن اکڑائی۔
"چلو اب تم مار کے دکھاؤ ایک پنچ۔" اس نے کہتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے گلوز اتار کر اس کی جانب بڑھائے۔
وہ بجائے گلوز تھامنے کے بیگ کے سامنے آیا اور ایک زور دار مکا بیگ پر رسید کیا جس کے باعث بیگ کئی انچ دور جا کر پیچھے والی دیوار کو چھو کے واپس آیا۔ جب کہ وہ اتنے اچانک حملے پر لمحے بھر کو ساکت ہوگئی۔
"واہ یار! تم نے تو وہ کہاوت سچ کر دکھائی کہ سو سنار کی، ایک لوہار کی۔" وہ کافی متاثر ہوئی تھی۔
"ہاں مگر لوہار کو بھی ایک عرصہ لگتا ہے اپنی ضرب میں اس قدر طاقت لانے کیلئے۔" اس نے سنجیدگی سے فلسفہ دیا۔
"یہ تو ہے۔" وہ متفق ہوئی۔
"اچھا اگر کبھی کسی نے اچانک تم پر اٹیک کردیا تو خود کو کیسے بچاؤ گی؟" اس نے اچانک ہی موضوع بدلتے ہوئے سوال کیا۔
"تم ہو نا مجھے بچانے کیلئے۔" اس نے جھٹ سے جواب دیا۔
"میں ہمیشہ نہیں رہوں گا، بلکہ ضروری نہیں ہے کہ آج جتنے بھی لوگ تمہاری حفاظت کو موجود ہیں وہ ہمیشہ رہیں، اسی لئے اکیلے سرواؤ کرنے کا حوصلہ ہونا چاہئے انسان میں۔" اس نے سنجیدگی سے کہتے ہوئے حقیقت کا تلخ آئینہ دکھایا۔
اس کی مسکراہٹ سمٹ کر غائب ہوئی اور وہ سنجیدہ انداز میں اس اسے دیکھنے لگی جو اس کے جواب کا منتظر تھا۔
اس بات پر بےاختیار اس کا ذہن اس سمت سوچنے لگا کہ اگر واقعی آج موجود سارے محافظ کل نہ رہے اور وہ اکیلی ہوگئی تو کیا کرے گی؟ اس نہج پر پہنچتے ہی کا دل زور سے دھڑکا اور روح کانپ گئی۔ جس کے باعث وہ اگلے ہی پل اس کے سینے سے لگ گئی۔
"اللہ نہ کرے کہ تمھیں یا پاپا کو کبھی کچھ ہو۔" اس نے سہمے ہوئے انداز میں کہا۔ جب کہ اس کی تیزی سے چلتی دهڑکن وہ اپنے سینے پر واضح محسوس کر رہا تھا۔
"ایک تو تم لڑکیاں ایموشنل فوراً ہوجاتی ہو۔" اس نے ہلکے پھلکے انداز میں کہتے ہوئے اسے خود سے الگ کیا۔
"یہ ایک جنرل بات ہے، اور اچھے برے حالات کیلئے ہر باشعور انسان ذہنی طور پر خود کو تیار رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔" اس نے اسے کندھوں سے تھام کر سمجھایا۔
"چلو اب میں تمھیں سیلف ڈیفینس کی کچھ ٹپس بتاتا ہوں، انہیں دھیان میں رکھنا، ہاں!" وہ واپس اصل موضوع پر آیا تو اس نے بھی اثبات میں سر ہلا دیا۔
"سب سے پہلی بات کہ عورت اور مرد میں فرق ہے، عورت کتنی ہی الرٹ یا پھرتیلی سہی لیکن مرد مقابلے وہ نازک ہوتی ہے اور مرد اس کی نسبت طاقتور، اسی لئے جب بھی کوئی مرد تم پر اٹیک کرے تو تمہاری کوشش اٹیک نہیں ڈیفیس ہونی چاہئے، یعنی تمھیں پلٹ کر حملہ کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے سب سے پہلے خود کو بچانا ہے۔" اس نے سنجیدگی سے سمجھانا شروع کیا۔
"خود کو بچانے کیلئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ تم ایک جگہ فریز نہ ہو، بلکہ پر زور مزاحمت کرو، حملہ آور کی آنکھوں میں انگلی مار دو، سینسیٹیو پارٹس پر گھٹنا مار دو اور سب سے اہم جتنی زور سے ہوسکے چلاؤ اور مدد کیلئے پکارو، عورت کی آواز کی فریکوئینسی مرد کی آواز کی نسبت زیادہ ہوتی ہے، یعنی عورت کی آواز زیادہ دور تک جا سکتی ہے، اور ایسی صورت حال میں اس کی مدد کیلئے بھی لوگ ضرور آگے آتے ہیں۔" اس نے کچھ عام سی باتیں گہرائی سے بتائیں۔
"اور اگر حملہ آور پیچھے سے آکر سیدھا کیلورفارم والا رومال منہ پر رکھ کر بےہوش کردے جیسا تم نے کروایا تھا مجھے اور اٹھا کر لے گئے تھے پھر کوئی کیا کرے؟" پرانی بات یاد آنے پر اس نے ہاتھ کمر پر رکھتے ہوئے تیکھے انداز میں پوچھا۔
"تم ابھی تک اس بات کو دل سے لگائے بیٹھی ہو پگلی!" اس نے ہنستے ہوئے ٹالنا چاہا۔
"جی، اور اب مجھے جواب بھی چاہیے۔" وہ دوبدو ہوئی۔
"ویل! سب سے پہلی بات کہ اب تک ہم جو فلموں ڈراموں میں دیکھتے آئے ہیں کہ کیلورفارم والا رومال منہ پر رکھتے ہی چند سیکنڈز میں بندہ بےہوش ہوجاتا ہے وہ سراسر جھوٹ ہے۔" اس نے اطمینان سے بتایا۔
"کیا؟ تو پھر اس دن میں کیسے بےہوش ہوئی تھی؟" اسے حیرت ہوئی۔
"کیونکہ تمہارے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ کیلورفارم کی وجہ سے انسان سیکنڈز میں بےہوش ہوجاتا ہے اور۔۔۔۔۔۔۔"
"اور جس چیز پر ایک بار ہمارے دماغ کو یقین ہوجائے پھر اگر وہ نہیں بھی ہونے والی ہوتی تو ہوجاتی ہے، کیونکہ ہمارا دماغ اپنی بلیونگ پاور سے وہ کیمیکل ری ایکشنز ہماری باڈی میں ریلیز کرنا شروع کر دیتا ہے۔" وہ بول ہی رہا تھا کہ اس نے بات اچک کر مکمل کی۔
"بالکل! اس روز تمہارے ذہن میں بھی یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ تمھیں کوئی کیلورفارم سونگھا رہا ہے اور اب تم جلد ہی بےہوش ہوجاؤ گی، جس وجہ سے تمہارے اوسان خطا ہوگئے اور تم نے جلد خود کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔" اس نے تائید کرتے ہوئے مزید بات جوڑی۔
"لیکن اگر تمھیں یاد ہو تو اس روز بھی تمھیں بےہوش ہونے میں کم از کم تین سے چار منٹ لگے تھے، اس دوران تم ہاتھ پیر چلا کر مزاحمت کرسکتی تھی مگر تم نے پہلے ہی ذہنی طور پر ہار مان لی تھی کہ اب تم پھنس چکی ہو، عام طور پر کیلورفارم سے کسی کو بےہوش کرنے کیلئے پانچ سے چھے منٹ لگتے ہیں یہ سب بس فلموں میں ہوتا ہے کہ سیکنڈز میں بندہ بےہوش۔" اس نے مزید بتایا۔
"تو اگر کوئی پیچھے سے آکر رومال رکھ دے منہ پر پھر کیا کریں؟ کیونکہ بھلے ہی بےہوش ہونے میں پانچ سے چھے منٹ لگتے ہیں مگر کسی مضبوط گرفت سے نکلنا بھی آسان نہیں ہوتا۔" اس نے نیا سوال اٹھایا۔
"اس طرح کی صورت حال میں طاقت نہیں ذہانت کام آئے گی۔" مسکراتے ہوئے اس کی آنکھیں چمکیں۔
"کیا مطلب؟" وہ سمجھی نہیں۔
"مطلب کہ جب کوئی تمہارے منہ پر پیچھے سے آکر رومال رکھے تو چند سیکنڈز کی مزاحمت کرنے کے بعد خود کو یوں ڈھیلا چھوڑ دو کہ تم بےہوش ہوگئی ہو، اس سے وہ شخص تمھیں بےہوش جان کر تم پر سے گرفت ڈھیلی کرے گا، اور جیسے ہی وہ گرفت ڈھیلی کرے تمھیں لمحوں میں پھرتی دیکھا کر اچانک اپنی کہنی پوری قوت سے اس بندے کے پیٹ پر مارنی ہے جس سے وہ لمحے بھر کو ضرور سٹپٹائے گا اور تب ہی تمھیں اس سے دور ہوکر جلد از جلد وہاں سے بھاگ کر مدد کیلئے پکارنا ہے۔" اس نے بھی سنجیدگی سے سمجھایا۔
"لیکن اگر میری مدد کو کوئی نہ آیا تو!" اس نے خدشہ ظاہر کیا۔
"تو پھر تم ایک جگہ کھڑی ہوجانا کہ وہ بندہ آئے، تمھیں پکڑے اور اٹھا کر لے جائے اس سے تم دونوں کا اسٹیمنا بچے گا۔" اس نے چڑ کر جواب دیا۔
"اففو! دور اندیشی طور پر پوچھ رہی ہوں کہ پھر کیا کروں؟" اس نے بھی چڑ کر وضاحت کی۔
"دیکھو! ہمارے ساتھ کب؟ کہاں؟ کیا ہوجائے ہمیں نہیں پتا، اسی لئے بجائے یہ سوچنے کے کہ ہم ایسا کریں گے تو کیا ہوگا؟ ویسا کریں گے تو کیا ہوگا؟ بس ہر وہ عمل کر گزرو جس میں تمہارے بچنے کا ایک فیصد بھی چانس ہو۔" اس نے سنجیدگی سے نصیحت کی تو وہ بھی متفق انداز سے سوچ میں پڑ گئی۔
"چلو اب ایک ایکٹ کرکے دیکھتے ہیں، میں تم پر اٹیک کروں گا اور تمھیں بچنا ہے، ٹھیک ہے؟" وہ پریکٹیکل کی طرف آیا۔
"ٹھیک ہے۔" وہ بھی راضی ہوئی۔
"میں تمھیں پیچھے سے آکر پکڑوں گا، تم میرے پیٹ پر کہنی مار کر مجھ سے آزاد ہونا اور میرے منہ پر پنچ مارنا، اوکے!" اس نے صورت حال سمجھائی۔
"اوکے!"
پھر وہ سیدھی کھڑی ہوگئی جب کہ غضنفر اس کی پشت کی طرف آیا۔ اس نے قریب آکر اسے پیچھے سے پکڑا جس کے جواب میں اس نے فوراً کہنی اس کے پیٹ پر ماری اور پلٹ کا ایک مکا منہ پر رسید کردیا۔ جس سے وہ بلبلا اٹھا۔
"سچ میں مارنے کیلئے تھوڑی کہا تھا پاگل عورت!" وہ اپنی ناک پکڑ کر فرش پر بیٹھتے ہوئے تلملایا۔
"سوری سوری! زیادہ زور سے لگ گئی!" وہ بھی گھبرا کر فٹافٹ اس کے قریب آکے گھٹنوں کے بل بیٹھی۔
"میں نے صرف ایکٹ کرنے کا کہا تھا۔" اس نے ناک پر سے ہاتھ ہٹا کر لتاڑا جو کہ سرخ ہوگئی تھی۔
"سوری یار! مجھے نہیں پتا تھا کہ اتنی زور سے لگ جائے گی۔" اس نے شرمندگی سے کہتے ہوئے اس کی ناک سہلائی۔
*******************************
"ہوسکتا ہے کچھ دنوں میں فرحان بھائی اپنی فیملی کے ساتھ ہمارے گھر آئیں۔" رفاقت نے كف کے بٹن بند کرتے ہوئے سرسری انداز میں اطلاع دی۔
"خیریت؟" بیڈ شیٹ ٹھیک کرتی صالحہ نے یکدم چونک کر پوچھا۔
"ہماری زوہا کیلئے اپنے بیٹے رضوان کے رشتے کی بات کرنے۔" انداز اب بھی بےنیاز تھا گویا اپنی بیٹی کی شادی کا نہیں بلکہ کسی کی شادی اٹینڈ کرنے کا ذکر کر رہے ہوں۔
"پڑھائی پوری ہوگئی ہے اس کی، اس لئے اب جتنی جلدی اس کے فرض سے بھی سبکدوش ہوجائیں اتنا بہتر ہے۔" انہوں نے اسی لئے دیے انداز میں مزید کہا اور پھر بنا ان کی بات سنے کمرے سے باہر نکل گئے۔ جب کہ وہ اپنی جگہ پر یوں ہی ساکت رہ گئیں۔
اتنے اہم معاملے میں ان سے کوئی صلاح مشورہ نہیں کیا گیا تھا بس غیروں کی طرح فیصلہ سنایا دیا گیا تھا۔ اور اب یہ ہی فیصلہ آگے انہیں اس تک پہنچانا تھا جس کی پوری زندگی کا فیصلہ بنا اس سے پوچھے کردیا گیا تھا اور اسے خبر تک نہ تھی۔
*******************************
"واہ! کھانا تو بہت مزے کا بنا ہے۔" سلیمان نے پہلا لقمہ لیتے ہی تعریف کی۔ تینوں اس وقت ڈنر کیلئے ڈائینگ ٹیبل کے گرد اکھٹا تھے۔
"شکریہ! دراصل سب کہتے ہیں کہ ہم دونوں بہنوں کو ہاتھ میں یہ ذائقہ امی سے ورثے میں ملا ہے، امی بھی بہت اچھا کھانا بناتی ہیں۔" ملیحہ نے مسکراتے ہوئے بتایا۔
"بالکل بناتی ہوں گی بھئی، آپ کے پاپا کی فٹ صحت دیکھ کر ہی پتا چلتا ہے۔" انہوں نے شرارتی انداز میں اتفاق کیا تو وہ بھی مسکرادی۔
"پیسوں کا ارینجمنٹ ہوگیا ماموں؟" غضنفر نے سنجیدگی سے مداخلت کی۔
"ہاں، آج بات تو کی ہے حیدر آباد میں ایک جاننے والے سے، بس اب اللہ کرے کہ کل تک وہ پیسے ٹرانسفر کردے میرے اکاؤنٹ میں ورنہ بہت مسلہ ہوجائے گا۔" انہوں نے بھی سنجیدگی سے جواب دیا۔
دونوں کو باتیں کرتا دیکھ ملیحہ خاموشی سے کھانے کی جانب متوجہ ہوگئی تھی۔ جب کہ در حقیقت یہ دونوں اسے ہی سنانے کیلئے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت جان بوجھ کر اس کے سامنے بات کر رہے تھے۔ تا کہ آسانی سے اسے شیشے میں اتار سکیں۔
"لیکن اگر خدانخواستہ کل کو وہ شخص بھی باقی سب کی طرح پیسے دینے سے مکر گیا تو؟ پھر تو ہر صورت شوروم ہاتھ سے جائے گا، اور اگر وہ ہی نہیں رہا تو ہم سرواؤ کیسے کریں گے کیونکہ وہ ہی تو ہمارا کُل اثاثہ ہے۔" غضنفر نے فکر مندی ظاہر کی۔ تو وہ بھی رنجیدہ ہوکر خاموش ہوگئے۔
"کیا ہوا؟ سب خیر تو ہے نا؟" بلآخر ملیحہ نے پوچھ ہی لیا اور یہ ہی تو وہ لوگ چاہتے تھے۔
"کچھ نہیں بیٹا، بس کاروبار کو لے کر ایک چھوٹا سا مسلہ ہوگیا ہے۔" انہوں نے اوپری طور سے ٹالنا چاہا۔
"چھوٹا سا مسلہ! ماموں یہ کوئی چھوٹا سا مسلہ نہیں ہے بہت سیریس میٹر ہے۔" غضنفر نے حیرت سے ٹوکا۔
"ہوا کیا ہے؟" ملیحہ کو بھی تشویش ہوئی۔
"دراصل کچھ ٹائم پہلے ماموں نے ایک بندے سے قرض لیا تھا اور بطور شورٹی شوروم کے کاغذ اس کے پاس رکھ دیے تھے کہ اگر تین ماہ تک پیسے واپس نہ کیے تو وہ شوروم ضبط کرلے گا، ہمیں امید تھی کہ شوروم سے ملنے والے پرافٹ میں سے ہی اسے پیسے واپس کردیں گے، مگر بیڈلک کہ پرافٹ کے بجائے مزید نقصان ہوگیا اور اس نقصان سے سنبھلنے میں ہی تین ماہ پورے ہوگئے ہیں ایک ہفتہ پہلا، اب وہ بندہ سر پر سوار ہے، بڑی مشکل سے اس سے چند دنوں کا مزید وقت مانگا ہے کہ ہم کوشش کرتے ہیں پیسوں کا انتظام کرنے کی، لیکن اگر ان کچھ دنوں میں پیسے نہ دیے تو وہ شوروم ضبط کرلے گا جو کہ ہمارا واحد سہارا ہے۔" غضنفر نے پہلے سے تیار شدہ جھوٹی کہانی پوری سچائی سے اسے سنائی۔
"اوہ! یہ تو بہت برا ہوا۔" اسے در حقیقت افسوس ہوا تھا۔
"لیکن آپ لوگ فکر نہ کریں، اللہ پاک ضرور کوئی نا کوئی راستہ نکال دے گا اس مشکل سے نکلنے کیلئے۔" اس نے اپنائیت سے دونوں کو تسلی دی۔
"ہاں بیٹا ان شاءاللہ! بس کل وہ بندہ پیسے ٹرانسفر کردے تو سب اچھا ہوجائے گا کیونکہ اب وہ ہی آخری امید ہے۔" سلیمان بھی تاسف سے بولے۔
*******************************
"اصولاً تمھیں مجھے ٹریٹ دینی چاہیے تھی کہ کل تمہاری جاب کا پہلا دن ہے، مگر دیکھو میری شرافت کہ میں تمھیں ڈنر کروانے لے آیا۔" عزیر نے اپنا احسانِ عظیم جتایا۔
"کیا فرق پڑتا ہے میں ٹریٹ دوں یا تم! ہم دونوں ایک ہی تو ہیں۔" صبیحہ نے ایک ادا سے جواب دیا۔
"ہائے! میں صدقے جاؤں اس بات پر۔" اس نے گھائل ہوئے انداز میں کہا۔
دونوں اس وقت ایک شاندار ریسٹورنٹ کی ٹیبل کے گرد آمنے سامنے بیٹھے ہوئے خوبصورت ماحول میں لذیز کھانے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
"ایک بات کہوں عزیر!" اس نے لقمہ لے کر تہمید باندھی۔
"آپ کو ایک ہزار باتوں کی اجازت ہے۔" اس نے سر خم کرکے اجازت دی۔
"تمہاری ممی کو شاید اچھا نہیں لگا ہے میرا ہاسپٹل جوائن کرنا!" وہ دل کا خدشہ زبان پر لائی۔ تو بےساختہ ہی لبوں تک چمچ لے جاتا عزیر کا ہاتھ پل بھر کو ساکت ہوا۔
"تم سے کس نے کہا یہ؟" اس نے چمچ واپس رکھتے ہوئے سوال کیا۔
"کسی نے نہیں، میں نے خود نوٹ کیا ہے۔" اس نے نوالہ چباتے ہوئے وضاحت کی۔
"تمہارا وہم ہے یہ اور کچھ نہیں، ممی تو ہیں ہی تیز مزاج کی اسی لئے اکثر ایسا لگتا ہے کہ وہ شاید کسی بات سے خوش نہیں ہیں۔" اس نے لاپرواہی سے ٹالتے ہوئے لقمہ منہ میں لیا۔
"اچھا! لیکن اگر کبھی یہ وہم سچ ہوگیا تو!" اس نے دلچسپی سے جاننا چاہا۔
"تو میں ہوں نا!" اس نے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے مسکرا کر اعتماد دلایا تو جواباً وہ بھی مسکرادی۔
*******************************
ملیحہ کمرے میں آئی تو غضنفر اسے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھا، آنکھیں بند کیے انگلیوں سے ماتھا مسلتا ہوا ملا۔
"شوروم والی بات کو لے کر پریشان ہو؟" ملیحہ نے بیڈ کی دوسری جانب بیٹھتے ہوئے پوچھا تو اس نے چونک کر آنکھیں کھولتے ہوئے اس کی طرف دیکھا جو گلابی ہو رہی تھیں۔
"ہاں!" اس نے مختصر جواب دیا۔
"فکر مت کرو، سب ٹھیک ہوجائے گا ان شاءاللہ!" اس نے تسلی دی۔
"کیسے ٹھیک ہوگا یار! اور مجھے فکر یہ ہے کہ اگر ٹھیک نہ ہوا تو سب بہت بری طرح بگڑے گا۔" اس نے جان بوجھ کر اسے پریشان کیا۔
"اللہ سے اچھی امید رکھو گے تو ضرور سب اچھا ہوگا۔" اس نے ہمت باندھنی چاہی۔ جس پر وہ کچھ نہ بولا۔
"سر میں درد ہو رہا ہے کیا؟" ملیحہ نے اندازہ لگاتے ہوئے جاننا چاہا۔
"ہاں یار، اچانک ہی ہوگیا ہے۔" اس نے تھکے ہوئے انداز میں تصدیق کی۔ یہ پریشانی بھلے ہی جھوٹی تھی مگر اس کے سر میں سچ مچ درد ہو رہا تھا۔
پہلے چند لمحے وہ اسے دیکھتی رہی پھر اٹھ کر کہیں چلی گئی جس پر اس نے کوئی خاص توجہ نہ دی اور ہنوز اپنا ماتھا مسلتا رہا۔
"آؤ میں سر میں تیل لگا دوں۔" وہ تیل کی بوتل لئے دوبارہ بیڈ پر بیٹھی۔
"نہیں بھئی! مجھے نہیں لگوانا، سارے بال چِپچِپ ہوجائیں گے۔" اس نے کراہیت دیکھاتے ہوئے انکار کیا۔
"ارے تو صبح شیمپو كرلینا، سب صاف ہوجائے گا۔" اس نے حل پیش کیا۔
"نہیں، مجھے نہیں لگوانا۔" اس نے پھر منع کیا۔
"سکون مل جائے گا سر میں، جس طرح پودوں کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے ویسے بالوں کو بھی تیل چاہیے ہوتا ہے، تھوڑا سا لگوا لو، اگر بہتر نہ محسوس ہو تو اٹھ جانا، آؤ لیٹو۔" اس نے وضاحت کے ساتھ اصرار کرتے ہوئے اپنی گود میں تکیہ رکھ کر اسے بلایا۔
پہلے تو وہ چند لمحے اسے دیکھتا رہا پھر ناچاہتے ہوئے بھی نزدیک آنے کے بعد اس کی گود میں موجود تکیے پر سر رکھ کر لیٹ گیا۔ کیونکہ اگر اپنی کل منوانی تھی تو آج اس کی ماننا بہت ضروری تھی۔
"زیادہ مت لگانا۔" اس نے پہلے ہی ٹوکا۔
"ہاں ہاں بےفکر رہو۔" اس نے تیل ہاتھ میں نکالتے ہوئے تسلی کروائی اور پھر آہستہ آہستہ اس کے سر کا مساج شروع کیا۔
جیسے ہی اس کی نازک انگلیوں نے اس کے سر پر رینگنا شروع کیا تو اس کے پورے وجود میں ایک انوکھی سے سرسراہٹ دوڑ گئی جو اسے بہت بھلی لگی۔ جس کے زیر اثر اس نے بےاختیار ہوکر آنکھیں بند کرلیں۔
"اچھا ایک بات تو بتاؤ!" ملیحہ نے تہمید باندھی۔
"ہممم!" وہ بس اتنا ہی بولا۔
"تمہارے جم کی ایک دیوار پر S لکھا ہوا دیکھا ہے میں نے، وہ کیوں لکھا ہے تم نے؟ تمہارا نام تو G سے آتا ہے نا!" اس نے سنبھل کر ذہن میں کلبلاتا سوال پوچھا۔
اس بات پر اس کے ذہن کے پردے پر پھر وہ ہی نادیدہ سراپا ابھرا جسے وہ اب تک ڈھونڈنے میں ناکام تھا۔
"وہ اس انسان کے نام کا پہلا حرف ہے جو میری جان بچانے کا ذریعہ بنا تھا۔" اس نے غنودگی کے عالم میں کہا تو وہ پر سوچ انداز میں اس کی بات پر غور کرنے لگی۔
"مطلب سلیمان ماموں!" وہ اپنے تئیں نتیجے پر پہنچی۔
"ہمممم!" وہ بس اتنا ہی بولا۔ کیونکہ نہ ہی وہ کوئی وضاحت کرنے کے موڈ میں تھا اور نہ ہی وضاحت کرسکتا تھا۔
پھر چند لمحوں بعد ہی وہ پتا نہیں اس سکون کے زیر اثر کب نیند کی آغوش میں چلا گیا جو اسے اپنے سر میں محسوس ہو رہا تھا۔ جب کہ اس کی گہری نیند کا اندازہ ملیحہ کو تب ہوا جب اس کے خراٹے گونجنا شروع ہوئے۔
ملیحہ نے مسکراتے ہوئے اس کے ماتھے پر آئے بال پیچھے کیے اور جھک کر بہت آہستہ سے اس کا ماتھا چوم لیا۔
*******************************
صبح کا سورج پرندوں کی چہچہاہٹ کے سنگ پھر سے نکل آیا تھا مگر ملیحہ ابھی تک کمبل اوڑھے گہری نیند میں تھی کہ یکدم کسی نے اسے جھنجھوڑ کر اٹھایا۔
"ملیحہ! جلدی اٹھو۔" غضنفر نے پریشانی کے عالم پکارا۔
"کیا ہوا؟" وہ بھی موندی موندی آنکھوں کے ہمراہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔
"ماموں کی طبیعت خراب ہوگئی ہے، جلدی نیچے آؤ!" اس نے عجلت میں اطلاع دی تو وہ بھی ششدر رہ گئی۔
وہ صوفے پر پڑا اپنا دوپٹہ اٹھا کر اوڑھتی ہوئی غضنفر کے ہمراہ فٹافٹ کمرے سے نکل کر نیچے بڑھی۔ جب کہ اس دوران اس نے اپنے کھلے سیاہ بالوں کو بھی جوڑھے کی شکل میں لپیٹ لیا تھا۔
یہ دونوں کمرے میں پہنچے تو رنگیلا پریشان سا بیڈ کے نزدیک کھڑا تھا جہاں بیڈ پر لیٹے سلیمان کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ ان کی سانس اکھڑ رہی ہے۔ دونوں جلدی سے آکر ان کے دائیں، بائیں بیٹھ گئے۔
"ماموں! کیا ہوا آپ کو؟" ملیحہ نے انہیں پکارا مگر بجائے جواب دینے کے وہ گہری سانس لیتے رہے۔
"ایمبولینس کو فون کیا؟" ملیحہ نے تشویش سے پوچھا۔
"ہاں مگر ابھی تک آئی نہیں ہے۔" غضنفر نے پریشانی کے عالم میں بتایا۔
"ارے تو گاڑی میں لے چلو ہاسپٹل، ایمبولینس پتا نہیں کب آئے!" ملیحہ نے اس کی عقل پر ماتم کیا۔
"ٹھیک ہے، میں گاڑی نکالتا ہوں، تم یہیں رہنا۔" وہ اسے کہتا ہوا عجلت میں باہر بھاگا۔
"ماموں ریلیکس! کچھ نہیں ہوا ہے آپ کو۔" وہ ان کا ہاتھ سہلاتے ہوئے انہیں تسلی دینے لگی۔
*******************************
"فیلنگ نروس ڈاکٹر صاحبہ؟" عزیر نے پیچھے سے دونوں بازو صبیحہ کے گرد حمائل کرتے ہوئے شیشے میں نظر آتے اس کے عکس سے پوچھا۔
"تھوڑی سی، شادی کے بعد پہلا دن ہے نا آج ڈیوٹی کا۔" اس نے معصومیت سے اس کے عکس کو دیکھتے ہوئے ہی جواب دیا۔
"تو اس میں نروس ہونے والی کیا بات ہے؟ بس ایک ہی جملہ تو بولنا ہوتا ہے تم ڈاکٹرز کو کہ سوری! ہم انہیں نہیں بچا سکے۔" اس نے شرارت سے چھیڑا۔
"ہٹو یہاں سے۔" صبیحہ نے تنک کر کہنی مارتے ہوئے اسے خود سے الگ کیا اور اس کی جانب گھومی۔
"بجائے مجھے موٹیویٹ کرنے کے صبح صبح الٹا ڈرا رہے ہو تم۔" وہ خفا ہوئی۔
"لو اس میں ڈرانے والی کیا بات ہے؟ یہ ہی تو بولتے ہو تم ڈاکٹر لوگ۔" وہ محظوظ ہوا۔ جسے نظر انداز کرتے ہوئے وہ صوفے پر سے اپنا پرس اٹھا کر باہر نکل گئی تو وہ بھی ہنستے ہوئے اس کے پیچھے آیا۔
*******************************
"رات تک تو ماموں بالکل ٹھیک تھے، صبح فجر کی نماز کے بعد بھی میں نے چیک کیا تھا تو وہ آرام سے سو رہے تھے، پھر پتا نہیں کب مجھے دوبارہ نیند آگئی اور یہ سب ہوگیا!" ملیحہ تشویش کے عالم میں بولی۔
"مجھے بھی رنگیلا نے ہی گھبرائے ہوئے انداز میں جگایا تھا۔" اس نے آہستہ سے کہا۔
"اللہ خیر کرے۔" وہ دعا گو ہوئی۔
دونوں اس وقت ایک پرائیویٹ ہاسپٹل میں قطار سے لگی کرسیوں میں سے دو پر متفکر سے بیٹھے ہوئے تھے۔ جب کہ سلیمان کو ایمرجنسی میں لے جایا جا چکا تھا۔
"مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ملیحہ، اگر ماموں کو کچھ ہوگیا تو!" اس کے انداز میں کچھ قیمتی شے کھو دینے کا خوف بہت واضح تھا۔
"مت سوچو الٹا سیدھا، کچھ نہیں ہوگا ماموں کو۔" اس نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے تسلی دی۔
ابھی دونوں بات کر ہی رہے تھے کہ اسی اثناء میں ایک درمیانی عمر کی نرس ان کی جانب آئی۔
"ایکسیکیوزمی! مسٹر سلیمان شمسی کے ساتھ آپ لوگ ہیں؟" اس نے قریب آکر تائید چاہی۔
"جی ہم ہی ہیں، کیا ہوا انہیں؟ وہ ٹھیک تو ہیں نا؟" غضنفر نے بےتابی سے پوچھا۔
"وہ فی الحال انڈر آبزرویشن ہیں، آپ لوگوں کو ڈاکٹر شرجیل نے اپنے روم میں بلايا ہے۔" اس نے سرسری طور پر بتاتے ہوئے ان تک پیغام پہنچایا تو دونوں نے بےساختہ ایک دوسرے کو دیکھا۔
*******************************
"اور سناؤ شاہانہ؟ خیر سے ایک ماہ ہوگیا ہے بیٹے کی شادی کو، کوئی خوشبری آئی کیا؟" صوفے پر ان کے برابر بیٹھی خاتون نے اشتیاق آمیز انداز میں جاننا چاہا۔ جو کہ ان کی پڑوسن تھیں۔
"نہیں بلقیس! خوشخبری کیا آنی تھی! الٹا ہماری بہو نے ہسپتال جانا شروع کردیا ہے، اور تمھیں تو پتا ہے کہ نوکری کرنے والی لڑکیوں کو بچے وغیرہ جھنجھٹ ہی لگتے ہیں، اسی لئے ابھی کوئی آثار نہیں ہے۔" شاہانہ نے بےزاری سے جواب دیا۔ جس پر سامنے والے صوفے پر بیٹھی پان بناتی دردانہ انہیں دیکھنے لگیں۔
"ہیں! کیا ضرورت پڑی تھی بھئی نوکری کرنے کی؟ بھلا کمی تھوڑی ہے کسی چیز کی! شادی ہوگئی ہے اب تو گھر داری سنبھالتی۔" انہوں نے بھی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے جلتی پر تیل ڈالا۔
"ایک بات تو بتاؤ بلقیس۔" تب ہی دردانہ نے مصروف انداز سے گفتگو میں حصہ لیا۔
"جی اماں بی کہیں!" وہ ان کی جانب متوجہ ہوئیں۔
"ماشاءاللہ سے پچھلے ماہ تمہاری بیٹی کے گھر لڑکا ہوا ہے نا!" انہوں نے چھالیہ کاٹتے ہوئے تائید چاہی۔
"جی، ماشاءاللہ سے بڑا ہی پیارا ہے، اللہ نظر بد سے بچائے، شادی کے ایک ماہ بعد ہی خوشخبری سنا دی تھی میری بیٹی نے اپنے سسرال والوں کو، اور سب ایسے خوش ہوئے تھے کہ پوچھیں مت۔" انہوں نے پر مسرت انداز میں اضافی جواب دیا۔
"تمہاری بیٹی کی ڈلیوری کس ڈاکٹر نے کی تھی؟" انہوں نے مرعوب ہوئے بنا اگلا سوال کیا۔
"کوئی آصفہ نام کی ڈاکٹرنی تھی، کیوں؟" انہوں نے ذہن پر زور دیتے ہوئے پوچھا۔
"لیڈی ڈاکٹر سے ڈلیوری کروائی تھی؟" انہوں نے نیا سوال اٹھایا جس پر وہ حیران ہوئیں اور بےساختہ شاہانہ کی جانب دیکھا جن کے تاثر مختلف نہ تھے۔
"کیسی باتیں کر رہی ہیں اماں بی! ظاہر ہے عورت کی ڈلیوری لیڈی ڈاکٹر ہی تو کرتی ہے۔" انہوں نے حیرت سے دھیان دلایا۔
"نہیں! مرد ڈاکٹر بھی کرتے ہیں اکثر۔" ان کا اطمینان اب بھی قائم تھا۔
"توبہ توبہ اماں بی! بھلا مرد سے اپنی بہو بیٹی کی ڈلیوری کروائیں گے ہم، اتنے بےحیا تھوڑی ہیں۔" انہوں نے خفگی سے کانوں کو ہاتھ لگایا۔
"کیوں؟ جب شادی کے بعد ساری لڑکیاں ڈاکٹری چھوڑ کر گھر داری سنبھالنے لگیں گی تو پھر مرد ڈاکٹر ہی رہ جائیں گے نا! پھر تو ان ہی سے کروانا پڑے گا اپنی بہو بیٹیوں کا علاج، اس میں بےحیائی کی کیا بات ہے!" انہوں نے بہت ہی سلیقے سے طنز مارا تھا جس کا مفہوم سمجھ کر دونوں لاجواب ہوگئی تھیں۔
"بات صرف سوچ کی ہوتی ہے، مثبت سوچ رکھنے والے اگر کسی انسان کو زمین پر رینگ رینگ کر چلتا دیکھ لیں تو اس کی ہمت کی داد اس نظریہ سے دیتے ہیں کہ دیکھو اس میں منزل تک پہنچنے کی لگن ہے تب ہی اس نے ہمت نہیں ہاری، اور منفی سوچ رکھنے والے اگر کسی انسان کو اڑتا ہوا بھی دیکھ لیں تو اس میں نقص تلاش کرتے ہیں کہ ضرور اس کو چلنا نہیں آتا ہوگا تب ہی یہ اڑ رہا ہے۔" انہوں نے سنجیدگی سے مزید فلسفہ دیا جس پر دونوں خاموشی سے پہلو بدل کر رہ گئیں۔
*******************************
"انہیں کسی بات کا بہت گہرا صدمہ لگا ہے جس کی وجہ سے انہیں ہارٹ اٹیک آیا ہے۔" سنگل کرسی پر موجود ادھیڑ عمر ڈاکٹر نے سنجیدگی سے بتایا تو ٹیبل کی دوسری طرف ان کے مقابل بیٹھے غضنفر اور ملیحہ ششدر رہ گئے۔
"کیا؟ تو ابھی وہ کیسے ہیں؟ کوئی خطرے کی بات تو نہیں ہے نا؟ وہ ٹھیک تو ہوجائیں گے نا؟" اس نے بےتابی سے جاننا چاہا۔ جس پر ملیحہ نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسے پرسکون کرنا چاہا۔
"ابھی تو وہ ٹھیک ہیں نا ڈاکٹر؟" ملیحہ نے امید کے تحت پوچھا۔
"جی ابھی تو ہم نے ان کی حالت سنبھال لی ہے لیکن اگر جلد از جلد انہیں اس فکر سے آزاد نہ کروایا گیا جس کی وجہ سے ان کی یہ حالت ہوئی ہے تو اٹیک دوبارہ بھی ہوسکتا ہے، اور دوسری مرتبہ بچنے کے چانسز بہت کم ہوں گے۔" انہوں نے بنا لگی لپٹی کے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا جس کے باعث دونوں مزید پریشان ہوگئے۔
بلکہ نہیں! صاف گوئی کا مظاہرہ نہیں کیا، بلکہ وہ جھوٹی کہانی سنائی جو غضنفر انہیں پہلے سے گڑھ کر دے چکا تھا۔
*******************************
زوہا حسب معمول صالحہ کے ساتھ کچن میں موجود دوپہر کے کھانے کی تیاری کر رہی تھی۔ صالحہ ہمیشہ ہی اسے کچن کے چھوٹے موٹے کاموں میں اپنے ساتھ رکھتی تھیں تا کہ وہ کچن سے باخبر رہے۔ اور جب سے اس کی پڑھائی مکمل ہوئی تھی اور کوئی خاص مصروفیت نہیں تھی تو وہ خود بھی ان کا ہاتھ بٹا دیا کرتی تھی۔
جیسے ابھی وہ کچن میں موجود ٹیبل پر بیٹھی خاموشی سے ٹماٹر کاٹ رہی تھی جب کہ صالحہ چولہے پر پیاز کو سنہرا کر رہی تھیں۔
کہنے کو دونوں اکثر اوقات ساتھ ساتھ ہی رہتی تھیں مگر دونوں کے مابین بات چیت بہت کم ہوتی تھی۔ زوہا پر ہر وقت سنجیدگی طاری رہتی تھی جس کے باعث صالحہ پہل نہیں کر پاتی تھیں۔ جانے انجانے ان کے اور ان کے بچوں کے بیچ ایک نادیدہ دیوار حائل ہوتے ہوتے اب وہ اتنی اونچی ہوگئی تھی کہ وہ چاہ کر بھی اکثر اسے گرا نہیں پاتی تھیں۔
اور اس دیوار کے حائل ہونے کا سبب کہیں نا کہیں ان کا بزدلانہ رویہ تھا۔ جیسے زوہا کو ہمیشہ یہ شکایات رہتی تھی کہ صالحہ بولتی نہیں ہیں، نہ اپنے حق کیلئے اور نہ ظلم کے آگے جس کی وجہ سے پہلے تو وہ ان پر خوب بگڑتی تھی مگر غضنفر کے دوبارہ گھر سے چلے جانے کے بعد اب اس نے بھی ایک چپ سادھ لی تھی۔
"کٹ گئے ٹماٹر!" وہ پوچھتی ہوئی اس کی طرف آئیں۔
"ہممم!" اس نے مختصر کہتے ہوئے پلیٹ ان کی جانب کھسکائی اور پھر ٹوکری میں سے ہرا دھنیہ اٹھا کر اس کی طرف متوجہ ہوگئی۔
وہ چند لمحے یوں ہی کھڑی اسے کن انکھیوں سے دیکھتی رہیں۔ در حقیقت وہ اس تک رفاقت کا پیغام پہنچانا چاہ رہی تھیں مگر اس کی سرد مہری کو دیکھتے ہوئے ان کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی۔ جس کے باعث وہ پلیٹ اٹھا کر واپس چولہے کی جانب بڑھ گئیں۔
*******************************
"کل میں جس بندے کے پاس گیا تھا۔۔۔۔اس کا فون آیا تھا صبح۔۔۔۔۔۔اس نے بھی مجھے پیسے دینے سے۔۔۔۔۔۔۔انکار کردیا ہے۔" سلیمان نے نقاہت آمیز انداز سے رک رک کر بتایا جس پر دونوں کو دکھ بھری حیرانی ہوئی۔
وہ اس وقت ہاسپٹل کے بیڈ پر لیٹے ہوئے تھے اور انہیں ڈرپ لگی ہوئی تھی۔ غضنفر نزدیک ہی اسٹول پر بیٹھا تھا جب کہ ملیحہ اس کے برابر میں کھڑی تھی۔
"سب ختم ہوگیا غضنفر۔" وہ ٹوٹے ہوئے انداز میں بولے۔
"نہیں ماموں، کچھ ختم نہیں ہوا، آپ پلیز ایسی باتیں مت سوچیں۔" ملیحہ نے جلدی سے ٹوکا۔
"تمھیں اندازہ نہیں ہے بیٹا۔۔۔۔۔۔۔اب شوروم ہمارے ہاتھ سے گیا۔۔۔۔۔۔جس کے بعد ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔" وہ بےحد دکھی تھے۔
"کہیں نہیں جائے گا ہمارا شوروم، ان شاءاللہ جلد پیسوں کا انتظام ہوجائے گا، آپ بس یہ فکریں چھوڑیں اور جلدی سے ٹھیک ہوجائیں۔" وہ انہیں تسلی دینے لگی جب کہ غضنفر اب تک خاموش بیٹھا بس وقفے وقفے سے لب بھینچ رہا تھا۔
"اچھا یہ بتائیں کچھ کھانے کا دل چاہ رہا ہے آپ کا؟ گھر سے بنا کر لاؤں؟" اس نے ہلکے پھلکے انداز میں موضوع بدلا تو انہوں نے نفی میں سر ہلایا۔
اچانک غضنفر اسٹول پر سے اٹھا اور تیز تیز قدم اٹھاتا روم سے باہر نکل گیا جس پر وہ ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔
"جاؤ بیٹا اسے دیکھو، میرے بعد تمھیں ہی تو سنبھالنا ہے اسے۔" سلیمان تاسف سے بولے۔
"اللہ آپ کا سایہ ہم پر سلامت رکھے، کچھ نہیں ہوگا آپ کو۔" اس نے جلدی سے کہا۔
"اور غضنفر آپ سے بہت پیار کرتے ہیں نا اسی لئے آپ کو ایسے دیکھ کر پریشان ہو رہے ہیں، جلدی سے ٹھیک ہوجائیں آپ۔" وہ مسکراتے ہوئے مزید بولی۔ جس پر انہوں نے کچھ نہ کہا۔
"اچھا میں آتی ہوں انہیں دیکھ کر۔" وہ کہتی ہوئی جانے کیلئے پلٹی تو انہوں نے بھی اثبات میں سر ہلادیا۔
*******************************
ملیحہ روم سے باہر آئی تو غضنفر اسے ایک کرسی پر، دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپائے بیٹھا ملا جب کہ اس پاس کوئی خاص چہل پہل بھی نہیں تھی۔ وہ آہستہ سے چلتے ہوئے آکر اس کے برابر والی کرسی پر بیٹھ گئی۔
"یہ کیا بچپانہ ہے؟ بجائے ماموں کی ہمت باندھنے کے تم خود مایوس ہو رہے ہو۔" اس نے ہلکے سے ٹوکا۔
"تو اور میں کیا کروں؟ میرا محسن میری آنکھوں کے سامنے تڑپ رہا ہے اور میں کچھ نہیں کر پا رہا۔" وہ سر اٹھا کر بےبسی سے بولا۔ جب کہ اس کی گلابی ہوتی آنکھیں بھی بہت اداس تھیں۔
"تو اس طرح مایوس ہوکر بیٹھنے سے کیا مسلے حل ہوجائیں گے!" اس نے الٹا سوال کیا۔
"یہ ہی تو سارا مسلہ ہے کہ یہ مسلہ اتنا بڑا ہے، ہمارا گھر بھی اتنی مالیت کا نہیں ہے کہ اسے بیچ کر قرض ادا کردیا جائے۔" اس نے بےبسی سے سر جھٹکا تو وہ کچھ دیر خاموش ہوگئی۔ جب کہ وہ بھی لب بھینچے یہاں وہاں دیکھنے لگا۔
"اگر تم مناسب سمجھو تو میں پاپا سے بات کروں پیسوں کی؟" اس نے جھجھکتے ہوئے پیشکش رکھی۔
"نہیں، یہ کوئی لاکھ، دو لاکھ کا معاملہ نہیں ہے جو ہم کسی سے لے کر دے دیں، اور سالک انکل سے تو بالکل بھی نہیں۔" حسب توقع اس نے نفی کی۔
"پیسے دینے کتنے ہیں؟" ملیحہ نے سوال کیا۔
"ایک کروڑ!" مختصر جواب ملا۔
"ایک کروڑ!" اس نے حیرانی سے دہرایا۔
"ہاں، اور اتنا ادھار اب نہ ہی کوئی دے گا اور نہ ہم لے سکتے ہیں کیونکہ ابھی بھی ہم ایک ادھار تلے ہی دبے ہوئے ہیں۔" اسے ساری راہیں بند نظر آئیں۔ ملیحہ بھی خاموش ہوگئی۔
"ہماری کہیں کوئی ایسی زمین بھی تو نہیں ہے نا جس کی ویلیو کروڑ تک کی ہو اور اسے بیچ کر ہم یہ قرض اتار دیں۔" وہ بےبسی سے بولا۔ اس کی بات پر پرُسوچ سی بیٹھی ملیحہ کے ذہن میں یکدم جھماکا ہوا۔
"غضنفر! زمین ہے۔" وہ یکدم بولی۔
"کہاں ہے؟" اس نے ناسمجھی سے پوچھا۔
"میرے نام پر، پاپا نے بہت پہلے میرے اور صبیحہ کے نام پر ایک ایک زمین لی تھی اور اب اس کی ویلیو پورے ایک کروڑ نا سہی مگر ستر اسی لاکھ کے آس پاس تو ہوگی، جو زمین میرے نام ہے اگر اسے بیچ کر پیسے دے دیے جائیں تو مسلہ حل ہوجائے گا، باقی رہ جانے والے بیس، تیس لاکھ کی ادائیگی کیلئے ہم ان سے مزید وقت مانگ لیں گے۔" اس نے یکدم کڑی سے کڑی ملاتے ہوئے حل نکالا۔ وہ وہاں تک آگئی تھی جہاں تک لانے کیلئے یہ سارا ڈرامہ کیا گیا تھا، وہ جال میں پھنس چکی تھی۔
"نہیں، وہ تمہاری پراپرٹی ہے، ہم وہ نہیں لے سکتے۔" اس نے مصنوعی انکار کیا۔
"ہمارے بیچ کیا میرا تمہارا؟ ہم دونوں ایک ہی تو ہیں۔" اس نے دھیان دلایا۔
"نہیں، یہ ٹھیک نہیں ہے، اور اگر سالک انکل کو پتا چلا تو وہ بھی بہت غصہ ہوں گے۔" اس نے نیا نقطہ اٹھایا۔
"نہیں ہوں گے، انہوں نے وہ زمین مجھے دی ہے، اور میں جو چاہوں وہ کرسکتی ہوں اس کے ساتھ، باقی انہیں میں سمجھا دوں گی، تم بس ابھی جا کر ماموں کو بتاؤ کہ پیسوں کا انتظام ہوگیا ہے۔" اس نے اصرار کیا۔
"یہ سب اتنا آسان نہیں ہے ملیحہ، زمین کو بیچنے خریدنے میں بھی وقت لگتا ہے۔" وہ ہر طرف سے کام پکا کرنا چاہ رہا تھا۔
"ہاں تو آج سے شروع کردو سارا پراسیس، بلکہ زمین ڈائریکٹ اس بندے کو ہی بیچ دو جیسے پیسے دینے ہیں، باقی کاغذی کاروائی کیلئے مجھے جب کورٹ چلنا ہو بتا دینا۔" اس نے لمحوں میں سارا معاملہ ترتیب دے ڈالا تھا۔ جس پر کچھ کہنے کے بجائے وہ اسے دیکھنے لگا۔
"ایسے کیا دیکھ رہے ہو، چلو جلدی سے چل کر ماموں کو یہ خوشخبری سناؤ۔" وہ پر مسرت انداز میں کہتی کرسی پر سے اٹھی تو وہ بھی کھڑا ہوگیا۔
"تم اکثر مجھ سے کہتی ہو نا کہ میں بہت اچھا ہوں، وہ غلط ہے، درحقیقت تم بہت اچھی ہو۔" اس نے نرمی سے کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے اس کا چہرہ تھاما تو وہ مسکرادی۔ غضنفر کے انداز میں محبت تھی۔۔۔۔جھوٹی محبت!
*******************************
"کیا حال ہے ڈاکٹر صاحبہ! صبح سے اب تک کتنے مریضوں کا اوپر کا ٹکٹ کٹوا دیا ہے؟" عزیر نے اپنی آفس چیئر پر جھولتے ہوئے شرارت سے پوچھا۔
"شٹ اپ! میرا کام پیشنٹ کو بچانا ہے۔" اپنی کرسی پر بیٹھی صبیحہ نے کسی فائل کا مطالعہ کرتے ہوئے تصیح کی۔
"کس سے بچانا ہے؟" وہ انجان بنا۔
"بیماری سے، اور تم فون رکھو، ابھی مجھے بہت سارے پیشنٹس کی فائل چیک کرنی ہے۔" اس نے فائل کا صفحہ پلٹتے ہوئے بات سمیٹنی چاہی۔
"پتا ہے پیشنٹس کے حوالے سے تمہاری فکر دیکھ کر میرا بھی دل کرتا ہے کہ کاش کوئی حادثہ مجھے مریض بنا کر تمہارے ہاسپٹل میں لے آئے، اور تم دن رات میری تیمارداری کرو، کیونکہ گھر میں تو تم سے اتنی عزت و توجہ ملنے سے رہی مجھے۔" وہ کرسی پر جھولتے ہوئے حسرت سے بولا۔
"تمھیں میرے پاس کوئی حادثہ نہیں بلکہ معجزہ ہی لا سکتا ہے، کیونکہ تم بھول رہے ہو کہ میں گائناکالوجسٹ ہوں، اب فون رکھو مجھے بہت کام ہے، تمہاری طرح فارغ نہیں ہوں میں۔" اس نے محظوظ ہوتے ہوئے دھیان دلایا۔ اور ساتھ ہی لائن ڈسکنیکٹ کردی۔
*******************************
جو حل ملیحہ اپنے تئیں ان لوگوں کو پیش کرکے خوش تھی وہ درحقیقت ان لوگوں کی سوچی سمجھی سازش تھی اسی لئے ملیحہ کی جانب سے اشارہ ملتے ہی ایک لمحہ بھی برباد کیے بنا غضنفر کاغذی کاروائیوں میں لگ گیا تھا۔ پس پردہ یہ لوگ سب کچھ پہلے ہی تیار کیے بیٹھے تھے اسی لئے چند دنوں میں سلیمان گھر واپس آگئے اور ملیحہ نے وہ زمین زاہد نامی اس شخص کے نام کردی جس کا ملیحہ کے مطابق انہیں قرض ادا کرنا تھا۔
اِدھر ملیحہ نے زمین اس شخص کے نام کی اور اُدھر اس شخص نے منصوبے کے مطابق وہ زمین سلیمان کے نام کردی اور یہ کام کرنے کے بدلے میں اسے طے شدہ دو لاکھ دے دیے گئے۔ کیونکہ وہ لوگ تو اس کے قرض دار تھے ہی نہیں، اس شخص کو تو بس ملیحہ کے سامنے ڈرامہ کرنا تھا جو اس نے کردیا تھا۔
یوں ایک ماہ کے اندر سب کچھ حسب منصوبہ ہوگیا تھا، جس کے بعد اب غضنفر کو ملیحہ سے مزید جھوٹی محبت جتانے کی ضرورت نہیں تھی۔ جب کہ وہ پگلی یہ سوچ کر خوش تھی کہ اب سب کچھ ٹھیک ہے۔
*******************************
سلیمان کے ہاتھ میں اس وقت محض ایک کاغذ کا ٹکڑا نہیں تھا۔ ان کی منزل تھی، ان کے خواب کو تعبیر ملنے کی نوید تھی، ان کا جنون تھا، ان کی ضد تھی جو پوری ہوچکی تھی۔ اور اس کی خوشی اس وقت ان کی چمکتی آنکھوں سے بہت واضح چھلک رہی تھی جو اس فائل پر سے ہٹنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ جب کہ ان کے برابر میں کھڑا غضنفر بھی دلچسپی سے انہیں دیکھے جا رہا تھا کیونکہ آج سے قبل انہیں اتنا خوش اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اور ان کی خوشی کا عالم یہ تھا کہ وہ اس کی آمد سے بھی بےخبر تھے۔
"بس کردیں! اب کیا ساری رات یہاں کھڑے رہ کر اس فائل کو ہی دیکھتے رہیں گے!" غضنفر نے مسکراتے ہوئے دھیان دلایا۔ تو انہوں نے گردن موڑ کر اس کی جانب دیکھا۔
"تم نہیں جانتے غضنفر کہ یہ زمین میرے لئے کتنی اہم ہے۔" وہ فائل بند کرکے اسٹڈی ٹیبل پر رکھتے ہوئے خوشی سے بولے۔ دونوں اس وقت سلیمان کے اسٹڈی روم میں موجود تھے۔
"مجھے جاننا بھی نہیں ہے، آپ خوش ہیں میرے لئے بس یہ ہی بہت ہے۔" وہ دونوں بازو سینے پر باندھتے ہوئے محبت سے بولا۔
"میں خوش نہیں بلکہ بہت خوش ہوں، اتنا خوش کہ آج تم جو مانگو گے تمھیں دوں گا، کیونکہ یہ سب تمہاری وجہ سے ہی تو ممکن ہوا ہے۔" انہوں نے کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے اس کا چہرہ تھاما۔
"تھینک یو بیٹا۔" انہوں نے تشکر سے کہہ کر بےساختہ اس کا ماتھا چوم لیا۔
"آج تک جو کچھ آپ میرے لئے کرتے آئے ہیں اس کے آگے یہ کچھ بھی نہیں جو میں نے کیا ہے۔" اس نے بھی محبت سے اپنے چہرے کے گرد آئے ان کے ہاتھ پکڑے۔
"باقی رہ گئی بات میرے چاہنے کی، تو مجھے اب اس جھوٹی محبت سے آزادی چاہیے۔" اس نے سنجیدہ ہوتے ہوئے اپنا ارادہ بتایا۔
"مطلب؟" وہ سمجھے نہیں۔
"مطلب اب میں ملیحہ کو طلاق دینا چاہتا ہوں۔" اس نے بات واضح کی۔
"لیکن کیوں؟ ایک ساتھ ہنسی خوشی تو رہ رہے ہو تم دونوں، اور ملیحہ بھی اچھی لڑکی ہے۔" انہوں نے اپنے تئیں احساس دلانا چاہا۔
"تب ہی تو کہہ رہا ہوں، وہ اچھی لڑکی ہے اسی لئے اپنے جیسے کسی اچھے ہمسفر کی مستحق ہے، میرے جیسے شخص کی نہیں جس کے دل میں پہلے سے ہی کوئی اور ہے۔" وہ دونوں ہاتھ پینٹ کی جیب میں پھنسا کر کہتا ہوا کھڑکی کی جانب آگیا۔
"مطلب تم اب بھی اس انجان لڑکی کو چاہتے ہو؟" وہ اس کی پشت کو دیکھتے ہوئے نتیجے پر پہنچے۔
"ہاں!" جواب اٹل تھا۔ وہ خاموش ہوگئے۔
"میں ملیحہ کو طلاق دے کر، اس لڑکی کو ڈھونڈ کر اس سے شادی کرکے اپنی زندگی میں خوش رہوں گا اور ملیحہ بھی کچھ عرصے میں یہ سب بھول کر کسی اچھے انسان کے ساتھ آگے بڑھ جائے گی، اور ہم ہنسی خوشی رہنے لگیں گے۔" وہ کھڑکی سے باہر لان میں دیکھتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے لگا۔
"تم ملیحہ کو طلاق نہیں دے سکتے غضنفر۔" وہ آہستہ سے بولے۔
"کیوں؟" وہ چونک کر پلٹا۔
"کیونکہ تمہارے نکاح نامہ پر جو شرائط والا خانہ ہے وہاں لکھا ہے کہ اگر تم نے ملیحہ کو طلاق دی تو ہمیں ہمارا شوروم اس کے نام کرنا ہوگا، مطلب پھر شوروم گیا سمجھو۔" انہوں نے دھیرے سے وضاحت کی جیسے سن کر غضنفر دنگ رہ گیا۔
"کیا؟ یہ کب ہوا؟" وہ حیرت سے کہتا ان کی طرف آیا۔
"جب رشتہ طے ہو رہا تھا تب سالک نے تین شرطیں رکھی تھیں، اور تیسری شرط یہ ہی تھی کہ ہمیں طلاق کی صورت دس لاکھ حق مہر کے علاوہ شوروم بھی اس کے نام کرنا ہوگا۔" انہوں نے یہاں وہاں دیکھتے ہوئے وضاحت کی جب کہ غضنفر پھٹی پھٹی نظروں سے انہیں دیکھے جا رہا تھا۔
"اور آپ نے یہ شرط مان لی!" وہ صدمے سے بےہوش ہونے کے قریب تھا۔
"میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔" انہوں نے نظریں چرا کر گول مول جواب دیا۔
"یااللہ!" غضنفر دونوں ہاتھوں سے سر تھام کر دہائی دیتے ہوئے صوفے پر بیٹھ گیا جب کہ وہ یوں ہی کھڑے رہے۔
"مطلب پوری طرح سے میرا گیم بجا دیا ہے آپ نے ماموں۔" وہ سر اٹھا کر ان پر خفا ہوا۔
"تو مجھے کیا پتا تھا کہ تم اس لڑکی کے عشق میں گوڈے گوڈے ڈوبے ہوئے ہو، مجھے لگا تھا کہ وقتی شوق ہے جلد اتر جائے گا اور شادی کے بعد تم ملیحہ کے ساتھ اپنی زندگی میں سیٹ ہوجاؤ گے جس کے بعد نہ طلاق دینی پڑے گی اور نہ شوروم ہاتھ سے جائے گا۔" اب انہوں نے بھی چڑ کر وضاحت کی۔ وہ ضبط کرتے ہوئے انہیں گھورتا رہا۔
"اور آخر ملیحہ کے ساتھ رہنے میں کیا برائی ہے؟ اتنی اچھی لڑکی تو ہے وہ۔" اب انہوں نے قائل کرنا چاہا۔
"برائی ملیحہ میں نہیں ہے، مجھ میں ہے اور وہ ہے جھوٹ۔" وہ ترکی بہ ترکی کہتا کھڑا ہوا۔
"میں ملیحہ سے جھوٹی محبت کرکے اس کے ساتھ ناانصافی نہیں کرسکتا، میں ایسی زندگی نہیں گزار سکتا جس میں میرے دل میں کوئی اور ہو اور بانہوں میں کوئی اور۔" اس نے بھی ضبط کرتے ہوئے سنجیدگی سے وضاحت کی۔
"تو کیوں بسایا ہوا ہے کسی اور کو دل میں؟ وہاں بھی اسے ہی جگہ دو، اور ملیحہ سے نہ کرو جھوٹی محبت، سچی محبت کرلو۔" انہوں نے بھی سنجیدگی سے مشورہ دیا۔
"اچھا! تو پھر بتائیں کوئی طریقہ اسے دل سے نکالنے کا۔" اس نے طنزیہ انداز میں کہا تو وہ لاجواب ہوگئے۔
"ہم خود سے کسی کو نہیں نکالتے یا بساتے ہیں دل میں، لوگ خود ہی کبھی دل میں اتر جاتے ہیں تو کبھی دل سے اتر جاتے ہیں۔" اس نے بےبسی سے فلسفہ دیا جو کہ درست بھی تھا۔
دونوں کے بیچ اب خاموشی حائل ہوگئی تھی۔ غضنفر پھر سے رخ موڑ بےبس انداز میں کھڑکی کی جانب آگیا تھا۔ جب کہ سلیمان بھی مضطرب سے لب بھینچتے ہوئے کوئی حل سوچنے لگے۔
واقعی اگر اتنا آسان ہوتا کسی کو اپنی مرضی سے دل میں جگہ دینا اور اپنی مرضی سے ہی دل سے نکال دینا تو شاید زندگی کتنی آسان ہوجاتی۔ مگر وہ زندگی ہی کیا جو آسان ہو!
"ایک راستہ ہے تمہاری آزادی کا۔" بلآخر سلیمان کسی نہج پر پہنچے۔
"کیا؟ میں خودکشی کرلوں؟" اس نے بےزاری سے بنا پلٹے اندازہ لگایا۔
"نہیں، شرط کے مطابق شوروم اس صورت میں ملیحہ کے نام کرنا ہے اگر تم طلاق دیتے ہو، لیکن اگر ملیحہ خود سے خلع لے تو!" وہ پر سوچ انداز میں کہتے اس کی جانب آئے۔
"مطلب؟" وہ ناسمجھی سے ان کی جانب پلٹا۔
"مطلب اگر کچھ ایسے حالات پیدا کردیے جائیں کہ ملیحہ خود سے ہی خلع کا مطالبہ کرے تو سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔" انہوں نے رازدانہ انداز میں راہ دکھائی۔ جب کہ ان کی بات پر غضنفر کے تنے ہوئے تاثر بھی نرم پڑے گویا بات سمجھ میں آنے لگی ہو۔
*******************************
گیلے ہاتھ پاؤں، اور چہرے کے ساتھ ملیحہ نے باتھ روم سے باہر نکل کر جب غضنفر کو ابھی تک اوندھا سوتا ہوا پایا تو حیران ہوئی۔ پھر نے دیوار پر لٹکی گھڑی کی جانب دیکھا تو پتا چلا کہ سوا پانچ بج گئے تھے۔ وہ اسے دوبارہ جگانے کے ارادے سے قریب آئی۔
آج سے قبل وہ ایک دو بار میں پکارنے سے ہی فجر کیلئے اٹھ کر مسجد چلا جایا کرتا تھا، اور باقی کی نمازیں وہ سارا دن گھر سے باہر، ملیحہ کی نظروں سے اوجھل ہونے کے باعث گول کر جاتا تھا اور اسے کہتا تھا کہ پڑھ لی۔ مگر آج وہ ابھی تک نہیں جاگا تھا۔
"غضنفر! اٹھو، فجر کا وقت نکل رہا ہے۔" اس نے نرمی سے پکارتے ہوئے اس کا کندھا ہلایا۔
"کیا ہے یار!" وہ بےزاری سے بڑبڑایا۔
"اٹھو مسجد میں جماعت کھڑی ہوگئی ہوگی، فجر کی نماز نہیں پڑھنی کیا؟" اس نے دھیان دلایا۔
"نہیں، تم پڑھ لو۔" اس نے کہتے ہوئے گردن دوسری جانب موڑ لی جس پر اسے تعجب ہوا۔
"ارے! آج سے پہلے تو کتنے آرام سے اٹھ جاتے تھے تم فجر کیلئے، آج کیا ہوگیا؟ طبیعت تو ٹھیک ہے نا!" اس نے کہتے ہوئے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا جو کہ نارمل ہی تھا۔
"ٹھیک ہوں یار، بس سونے دو مجھے۔" اس نے چڑ کر کہتے ہوئے منہ تک کمبل اوڑھ لیا۔ وہ خاموش ہوکر اسے دیکھنے لگی۔
"غضنفر!" اس نے پھر پیار سے پکارا۔
"کیا ہے؟" وہ کمبل کے اندر سے ہی بےزاری سے بولا۔
"مجھے جنت میں بھی تمہارا ساتھ چاہیے۔" اس نے آہستہ سے کہا۔
"مجھے نہیں چاہیے، ورنہ جنت میں بھی تم روز صبح میری اچھی خاصی نیند خراب کرنے سر پر سوار رہو گی۔" اس نے کمبل سے منہ باہر نکال کر کوفت سے کہا۔
"بری بات ہے، ایسے نہیں بولتے۔" اس نے جلدی سے ٹوکا۔
"ٹھیک ہے نہیں بولتا، اب تم جنت میں جانے کی تیاری کرو اور مجھے دنیا میں سکون سے سونے دو، پلیز!" اس نے بےزاری سے کہا اور پھر منہ تک کمبل اوڑھ لیا۔
وہ چند لمحے یوں ہی بیٹھی اسے تاسف سے دیکھتی رہی۔ پھر وقت کی کمی کے باعث بلآخر خود ہی نماز کیلئے اٹھ گئی۔
*******************************
"چلو عزیر! مجھے دیر ہو رہی ہے۔" صبیحہ کرسی کی پشت پر لٹکا اپنا سفید کوٹ اٹھاتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔
"ارے صبر کرو، سکون سے ناشتہ تو کرلینے دو میرے بیٹے کو۔" شاہانہ ٹوکے بنا نہ رہ سکیں۔
"ممی کر چکا میں ناشتہ۔" عزیر نے اپنا خالی کپ میز پر رکھتے ہوئے کہا۔ اور ساتھ ہی اٹھ کھڑا ہوا۔ جس کے بعد دونوں سب کو اللہ حافظ کہتے ڈائینگ روم سے باہر نکل گئے۔
"ذرا خیال نہیں ہے اس لڑکی کو میرے بیٹے کا، بیویاں اپنے شوہروں کا خیال رکھتی ہیں اور ایک یہ ہے کہ ہر وقت میرے بچے کو ہلکان کیے رکھتی ہے۔" شاہانہ جلے دل سے بڑبڑائیں۔ جس پر کوئی کچھ نہ بولا۔
"آج کی میٹنگ والی فائل ریڈی کرلی تھی عبید؟" شفاعت اس سے مخاطب ہوئے۔
"جی ڈیڈ! کل شام میں ہی کرلی تھی اور رات میں تایا کو چیک بھی کروا دی تھی، ان شاءاللہ آج کی میٹنگ بہت اچھی جانے والی ہے۔" آفس ڈریس میں بیٹھے عبید نے پرجوشی سے جواب دیا۔ وہ بھی اب سب کے ساتھ آفس جوائن کرچکا تھا۔اور اپنا بیسٹ دینے کی کوشش کر رہا تھا۔
"زوہا! آج شام کو تیار رہنا، فرحان بھائی کے گھر والے آرہے ہیں۔" تب ہی رفاقت نے ناشتہ کرتے ہوئے سپاٹ انداز میں اطلاع دی۔ جس کے باعث اس نے چونک کر ان کی جانب دیکھا۔
"کیوں خیریت؟" دردانہ نے سب کی ترجمانی کی۔
"رضوان کا رشتہ لے کر زوہا کیلئے۔" انہوں نے اسی طرح بتایا۔ جس پر سب حیران ہوگئے۔
صالحہ خاموشی سے سر جھکائے ناشتے میں مصروف رہیں، زوہا پر یہ خبر بجلی بن کر گری، اور چند ثانیوں قبل تک پرجوش اور خوش باش بیٹھے عبید کا دل یکدم ہر چیز سے اچاٹ ہوگیا۔
"کیا؟ ایسے کیسے اچانک!" دردانہ حیرت سے بولیں۔
"کیا مطلب اچانک! کبھی نا کبھی تو شادی کرنی ہے نا اس کی!" ان کا انداز سرسری تھا۔
"ہاں اور نہیں تو کیا! اچھا ہے کہ لڑکی جلد از جلد اپنے گھر کی ہوجائے، ورنہ تو دھڑکا ہی لگا رہتا ہے کہ کہیں کوئی اونچ نیچ نہ ہوجائے!" شاہانہ نے تیکھے انداز میں تائید کی۔ جس پر کسی نے کوئی خاص رد عمل نہیں دیا۔
"چلیں شفاعت!" وہ نیپکن سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔
"جی بھائی صاحب، چلو عبید۔" وہ بھی کہتے ہوئے ان کی تقلید میں کھڑے ہوئے۔ جب کہ عبید تو چائے کے کپ کو تکتا اپنی جگہ پر سن ہوگیا تھا۔
"عبید!" شفاعت نے دوبارہ پکارا تو اس نے چونک کر سوالیہ نظروں سے ان کی جانب دیکھا۔
"چلو اٹھو۔" انہوں نے دھیان دلایا تو وہ اثبات میں سر ہلاتا اٹھ کھڑا ہوا۔
تینوں اجازت چاہتے ہوئے روم سے باہر نکل گئے جس کے بعد وہاں خاموشی چھا گئی۔
زوہا بھی یکدم کرسی دھکیلتی ہوئی اٹھی اور بنا کچھ بولے تیز تیز قدم اٹھا کر باہر نکل گئی۔ جس پر شاہانہ تنفر سے اور دردانہ تاسف سے اسے دیکھ کر رہ گئیں۔ جب کہ صالحہ اپنی ازلی خاموشی کے ساتھ سر جھکائے برتن سمیٹنے لگیں۔
یہ جو سر نیچے کیے بیٹھے ہیں
جان کتنوں کی لئے بیٹھے ہیں
انتخاب
*******************************
زمین نام ہوتے ہی سلیمان نے اس پر تعمیراتی کام شروع کروا دیا تھا۔ جس کی ملیحہ کو تو کوئی خبر نہیں تھی کیونکہ اس کے مطابق اس زمین کا مالک اب وہ زاہد نامی شخص تھا، مگر سالک تک جلد ہی یہ اطلاع پہنچ گئی تھی کہ اس زمین پر کام جاری ہے اور اسی لئے وہ ذہن میں اٹھتے سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کیلئے اس وقت ملیحہ سے ملنے آئے تھے۔
"بھابھی صاحبہ! آپ کے پاپا جی آئے ہیں آپ سے ملنے، میں نے انہیں ڈرائینگ روم میں بیٹھا دیا ہے۔" کچن کے داخلی حصے پر رک کر رنگیلا نے ادب سے اطلاع دی تو کاؤنٹر پر کھڑی سبزی کاٹتی ملیحہ حیران ہوگئی۔
*******************************
"یااللہ!" ساری بات سن کر سالک نے بےاختیار دونوں ہاتھوں سے سر تھام لیا۔ جب کہ ان کے برابر میں بیٹھی ملیحہ نے لب بھینچے۔
"ملیحہ تم پاگل تو نہیں ہو، تمھیں پتا بھی ہے کہ تم نے کیا بےوقوفی کی ہے!" انہوں نے سر واپس اٹھاتے ہوئے اس کی عقل پر ماتم کیا۔
"کوئی بےوقوفی نہیں کی ہے پاپا، یہ زیور اور زمین جیسی چیزیں اسی لئے تو ہوتی ہیں نا کہ برے وقت میں کام آسکیں۔" اس نے دلیل دی۔
"بالکل! لیکن وہ میں نے تمھیں دی تھی تمہارے استعمال کیلئے، دوسروں کا قرض اتارنے کیلئے نہیں۔" وہ بہت مشکل سے غصہ ضبط کر رہے تھے۔
"ماموں اور غضنفر کوئی دوسرے تھوڑی ہیں میرے اپنے ہی تو ہیں، اس لئے ان سے جڑا ہر مسلہ میرے لئے بھی فکر کا باعث ہے، جس کے حل کیلئے اگر میں نے کچھ کردیا ہے تو اس میں کیا حرج ہے؟ اور ویسے بھی ماموں کہہ رہے تھے کہ وہ جلد از جلد کوشش کریں گے دوبارہ کوئی زمین خریدنے کی، بلکہ وہ لوگ تو راضی بھی نہیں تھی میں نے ہی اصرار کیا تھا۔" اس نے وضاحت کرتے ہوئے انہیں ٹھنڈا کرنا چاہا۔
"ملیحہ میرے بچے، یہ دنیا بہت خطرناک ہے اور دنیا والے دوغلے، یہاں لوگوں کی زبان پر کچھ اور دل میں کچھ اور ہوتا ہے، ضروری نہیں ہے کہ اخلاص میں آکر تم جسے دوست سمجھ رہی ہو وہ بھی تمہارے ساتھ اتنا ہی مخلص ہو، لوگوں کو سمجھنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔" انہوں نے گہری سانس لیتے ہوئے اسے سمجھانا چاہا۔
"نہ مجھے کسی کو سمجھنا ہے اور نہ میں کسی کے دل کا حال جاننا چاہتی ہوں، مجھے بس اپنے دل کا پتا ہے کہ اس میں کوئی کھوٹ نہیں ہے، اور اچھے لوگوں کے ساتھ لوگ تو برا کرسکتے ہیں مگر اللّه برا نہیں ہونے دیتا، اور مجھے اللہ پر یقین ہے۔" وہ اطمینان سے بولی۔
"بیٹا اسی اللہ نے انسان کو عقل و شعور سے نوازا ہے تا کہ وہ اپنا اچھا برا سمجھ سکے اور یوں آنکھ بند کرکے ہر ایک پر اعتبار کرتے ہوئے نقصان نہ اٹھائے۔" وہ ترکی بہ ترکی کہتے ہوئے اسے پل بھر کو لاجواب کر گئے۔ واقعی ان کی بات درست تھی۔
"تو آپ کا مطلب ہے کہ میں رشتوں کو شک کی نظر سے دیکھوں!" اس نے تصدیق چاہی۔
"نہیں بیٹا، نہ شک کی نگاہ سے دیکھو اور نہ نگاہ بند کرکے اندھا اعتماد کرو، بلکہ عقل کی عینک استعمال کرو، تا کہ تم خود بھی نقصان سے بچ سکو اور دوسروں کو بھی بچا سکو۔" انہوں نے تحمل سے تصحیح کی تو وہ خاموش ہوگئی۔
"اچھا چلیں ٹھیک ہے، اب سے خیال رکھوں گی، مگر پلیز ابھی تو غصہ چھوڑ دیں آپ۔" اس نے لاڈ سے منت کی۔
"اور کر بھی کیا سکتا ہوں میں!" وہ اسے گھورتے ہوئے بولے۔
"میرے ہاتھ کی چائے پی سکتے ہیں اور کباب بھی کھا سکتے ہیں، رکیں میں ابھی لے کر آتی ہوں۔" وہ ہلکے پھلکے انداز میں کہتی اٹھ کھڑی ہوئی اور ان کے کچھ کہنے سے قبل ہی باہر کی جانب بڑھ گئی۔ جب کہ وہ بس اسے دیکھ کر رہ گئے۔
*******************************
"اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ پاپا مجھ پر اپنا فیصلہ مسلط کر رہے ہیں، یہ تو ان کی پرانی عادت ہے، لیکن آپ بھی سن لیں کہ اس بار میں ان کا فیصلہ نہیں مانوں گی۔" کمرے کے وسط میں کھڑی زوہا نے صاف انکار کیا۔
"پاگل ہوگئی ہو، باپ ہیں وہ تمہارے، تمہارے لئے اچھا ہی سوچیں گے، تمہارے انکار سے انہیں دکھ ہوگا۔" صالحہ نے چند قدم آگے آتے ہوئے سمجھانا چاہا۔
"اور ان کے اس فیصلے سے مجھے کتنا دکھ ہوا ہے اس کا اندازہ ہے آپ دونوں کو؟" اس نے ترکی بہ ترکی سوال کیا جس کا وہ کوئی جواب نہ دے پائیں۔
"بلکہ نہیں، آپ دونوں کو بھلا کب احساس ہوا ہے اپنی اولاد کے دکھ درد کا! پاپا کو بس ہمیشہ لوگوں کی فکر رہی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے اور آپ کو پاپا کی کہ کہیں وہ ناراض نہ ہوجائیں، باقی ہم جائیں بھاڑ میں۔" اس نے استہزائیہ انداز میں تلخی سے مزید کہا۔
"زوہا!" انہوں نے ٹوکنا چاہا۔
"میں پھر کہہ رہی ہوں کہ میں نہیں کروں گی رضوان سے شادی، بتا دیجئے گا اپنے شوہر کو۔" انہیں نظر انداز کرتے ہوئے اس نے دوٹوک انداز میں فیصلہ سنایا اور تیز تیز قدم اٹھاتی کمرے سے باہر نکل گئی۔ جب کہ صالحہ بس بےبسی سے اسے پکار کر رہ گئیں۔
*******************************
"اتنی بڑی ڈیل ہمارے ہاتھ سے نکل گئی عبید، وہ بھی صرف اور صرف تمہاری خراب پریزینٹیشن کی وجہ سے۔" شفاعت غصے میں یہاں وہاں ٹہلتے ہوئے اس پر برہم ہو رہے تھے۔
"آئی ایم سوری ڈیڈ!" آفس چیئر پر بیٹھا عبید ہلکے سے منمنایا۔
"تمہارے سوری کہنے سے اس نقصان کی تلافی نہیں ہوجائے گی، اور صبح تک تو تم بالکل ٹھیک تھے، اب اچانک تمھیں کیا ہوگیا؟" انہیں اچانک خیال آیا۔
"پتا نہیں!" پیپیر ویٹ پر نظریں جمائے اس نے مختصر جواب دیا۔
"تو پتا کرو، کیونکہ اگر تمہاری کارکردگی ایسی ہی رہی تو پھر سنبھال لیا تم نے بزنس۔" وہ اسے لتاڑنے کے بعد تیز تیز قدم اٹھاتے اس کے روم سے باہر نکل گئے۔ جب کہ وہ بےخیالی میں اس پیپیر ویٹ کو تکتے ہوئے سوچتا رہا کہ آخر اسے کیا ہوا ہے؟
کوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محوِ رقص ہے
تو کوئی گم ۔۔۔۔۔۔۔۔ خیالِ یار میں
یہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عشق کے رنگ ہیں
نہیں کچھ کسی کے اختیار میں
انتخاب
*******************************
پچھلی قسط کی جھلک 👇
"تمہارے سوری کہنے سے اس نقصان کی تلافی نہیں ہوجائے گی، اور صبح تک تو تم بالکل ٹھیک تھے، اب اچانک تمھیں کیا ہوگیا؟" انہیں اچانک خیال آیا۔
"پتا نہیں!" پیپیر ویٹ پر نظریں جمائے اس نے مختصر جواب دیا۔
"تو پتا کرو، کیونکہ اگر تمہاری کارکردگی ایسی ہی رہی تو پھر سنبھال لیا تم نے بزنس۔" وہ اسے لتاڑنے کے بعد تیز تیز قدم اٹھاتے اس کے روم سے باہر نکل گئے۔ جب کہ وہ بےخیالی میں اس پیپیر ویٹ کو تکتے ہوئے سوچتا رہا کہ آخر اسے کیا ہوا ہے؟
کوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محوِ رقص ہے
تو کوئی گم ۔۔۔۔۔۔۔۔ خیالِ یار میں
یہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عشق کے رنگ ہیں
نہیں کچھ کسی کے اختیار میں
انتخاب
اب آگے 👇
*******************************
شام ہوتے ہی مرد حضرات اپنے اپنے کاموں سے اب واپس گھر کو لوٹ آئے تھے۔ اور آج کی شام زوہا کو بہت بری لگ رہی تھی جس سے چھپنے کی کوشش میں وہ اپنے کمرے میں بند پڑی تھی۔
حسب معمول سب کے ساتھ لان میں بیٹھ کر شام کی چائے پینے کے بجائے عبید بھی اپنے کمرے میں جا کر بند ہوگیا تھا جس پر کسی نے کوئی خاص توجہ نہ دی۔
"آج رات کے کھانے میں مہمانوں کیلئے میٹھے میں کسٹرڈ بنا لیجئے گا صالحہ بھابھی، بہت دن ہوگئے ہیں کھائے ہوئے۔" شاہانہ نے فرمائش کرتے ہوئے چائے کا کپ لبوں سے لگایا۔
"کون مہمان آرہا ہے؟" سارے معاملے سے لاعلم عزیر نے پوچھا۔
"زوہا کے رشتے کیلئے بھائی صاحب کے دوست کی فیملی آرہی ہے۔" انہوں نے اسے بتایا۔
"نہیں آرہے وہ لوگ۔" تب ہی رفاقت نے مداخلت کی۔ جس پر سب نے حیرانی سے ان کی جانب دیکھا۔
"ہیں! کیوں؟" شاہانہ نے تعجب سے پوچھا۔
"فرحان کے بہنوئی کو ہارٹ اٹیک آیا ہے تو فی الحال اسی میں مصروف ہیں وہ لوگ، ان سب سے فارغ ہوکر اس معاملے کی طرف آئیں گے۔" انہوں سنجیدگی سے بتایا۔
"اللہ پاک صحت دے اسے۔" دردانہ دعا گو ہوئیں۔
صالحہ نے تھوڑا اطمینان کا سانس لیا کیونکہ زوہا کی وجہ سے بہت فکر مند تھیں وہ۔ لیکن مصیبت ابھی ٹلی نہیں تھی، بس ملتوی ہوئی تھی۔
*******************************
"ارے ڈونٹ وری! پریگنینسی میں کھانے پینے سے دل اچاٹ ہوجانا عام سی بات ہے اور یہ شروعات کے کچھ عرصے میں ہوتا ہے، آپ کو جو خوراک اور دوا میں نے تجویز کی ہے آپ اس کا استعمال کریں اور پرسوں چیک اپ کیلئے لازمی آئیے گا۔" بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھی صبیحہ کسی سے فون پر بات کر رہی تھی۔
"جی ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔ضرور۔۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔۔۔اللہ حافظ!" اس نے مزید کچھ بات کرکے لائن ڈسکنیکٹ کردی۔
"کون تھا؟" اس کے برابر میں لیٹے عزیر نے موبائل میں مصروف رہتے ہوئے پوچھا۔
"ایک پیشنٹ تھی، فرسٹ پریگنینسی ہے نا اس کی تو تھوڑی نروس ہے۔" اس نے موبائل میں آئے میسیجز چیک کرتے ہوئے جواب دیا۔
"ویسے ایک بات ہے۔" وہ موبائل رکھ کر اس طرف کروٹ لیتے ہوئے بولا۔
"کیا؟" اس نے مصروف انداز میں پوچھا۔
"تمہاری پریگنینسی میں تمھیں مسلہ نہیں ہوگا، ہے نا!" اس نے شرارت سے تائید چاہی۔ صبیحہ نے نظروں کا زاویہ بدل کر اس کی طرف دیکھا۔ گویا اس کا مفہوم سمجھ گئی ہو۔
"سوجاؤ! پھر صبح اٹھنے میں ڈرامے کرتے ہو تم۔" اس نے مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے اپنا موبائل سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر بات بدلی۔
"تم سمجھ گئی نا میری بات کا مطلب؟" اس نے معنی خیزی سے تائید چاہی۔
"نہیں، اور مجھے سمجھنا بھی نہیں ہے، اب سوجاؤ، گڈ نائٹ!" اس نے مسکراہٹ چھپاتے ہوئے دوسری طرف کروٹ لے کر کمبل اوڑھ لیا۔ تو عزیر نے بھی محظوظ ہوتے ہوئے کمرے کی لائٹس بند کردیں۔
*******************************
رات ہوچکی تھی مگر آسمان پر کہیں چاند نہیں تھا بس چھوٹے چھوٹے ستارے حسب معمول جگمگ کر رہے تھے جو آج زوہا کو نجانے کیوں پیارے نہیں لگے جو کب سے لان کے جھولے پر بیٹھی خالی خالی نظروں سے انہیں تک رہی تھی۔
"تم سوئی نہیں ابھی تک!" عبید کہتے ہوئے اس کے برابر میں بیٹھا۔ مگر اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور یوں ہی بیٹھی رہی۔
"اپنے متوقع سسرال والوں کے نہ آنے پر افسوس کر رہی ہو؟" اس نے اپنے تئیں اندازہ لگایا۔
"نہیں، اس گھر میں پیدا ہونے پر افسوس کر رہی ہوں جہاں کبھی مرضی نہیں پوچھی جاتی، بس فیصلے سنائے جاتے ہیں۔" وہ اسی انداز میں کرب سے بولی۔
"کیا مطلب؟ تم خوش نہیں ہو اپنی شادی کی بات سے؟" اس نے ٹٹولنا چاہا۔
"تمھیں کیا لگ رہا ہے؟" بجائے جواب دینے کے اس نے سوالیہ انداز میں عبید کی جانب دیکھا۔ اسے زوہا کے چہرے پر کہیں ہلکی سی خوشی بھی نظر نہیں آئی۔
"تمھیں پتا ہے مجھے بھی بالکل اچھا نہیں لگا تھا تمہارے رشتے کی بات سن کر۔" اس نے بجائے جواب دینے کے اپنی کیفیت بتائی۔ جس پر بجائے کچھ کہنے کے وہ پھر سامنے دیکھنے لگی۔
"تم کیوں خوش نہیں ہو اپنے رشتے سے؟" عبید نے پھر سوال اٹھایا۔
"کیونکہ میں اسے پسند نہیں کرتی۔" مختصر جواب ملا۔
"اور تم کیوں خوش نہیں ہو میرے رشتے سے؟" زوہا نے اسی کا سوال دہرایا۔
"کیونکہ میں تمھیں پسند کرتا ہوں۔" وہ اس کی جانب دیکھ کر ترکی بہ ترکی بولا۔
زوہا نے چونک کر اس کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر کوئی مذاق کا عنصر نمایاں نہیں تھا۔ بلکہ آج اس کی آنکھیں کوئی اور ہی کہانی سنا رہی تھیں۔
آج اسے یہ وہ عبید نہیں لگا جس سے وہ ہمیشہ لڑتی جھگڑتی آئی تھی۔ یہ تو کوئی سنجیدہ انسان تھا جو اس کیلئے دل میں کچھ انوکھے جذبات لئے بیٹھا تھا جنہیں جان کر وہ اس قدر حیران ہوئی تھی کہ کچھ بول ہی نہ پائی۔
کچھ دیر سیاہ آنکھوں کی ڈور آپس میں ایسے ہی الجھی رہی پھر اچانک زوہا اٹھ کر تیزی کے ساتھ وہاں سے چلی گئی گویا اسے گہری نیند کے بعد ہوش آیا ہو۔ جب کہ وہ اسے روکے ٹوکے بنا ہنوز وہیں بیٹھا رہا۔
کچھ تو میری آنکھوں کو پڑھنے کا ہنر سیکھ
ہر بار میرے یار بتانے کی نہیں ہوتی
انتخاب
*******************************
"شکریہ بیٹا!" سلیمان نے دوائی کھا کر گلاس ملیحہ کی جانب بڑھایا۔ جیسے اس نے تھام لیا۔
"اب آرام سے سوجائیے گا آپ تا کہ طبیعت فریش رہے۔" اس نے گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے تاکید کی۔
"ارے ہاں اماں جی۔" انہوں نے کمبل اوڑھ کر لیٹتے ہوئے کہا تو وہ بھی مسکرا کر باہر کی جانب بڑھی اور نائٹ بلب آن کرکے کمرے کی لائٹس آف کرتے ہوئے دروازہ بند کرتی باہر آگئی۔
ہال میں لگی بڑی سی گھڑی کی جانب دیکھنے پر پتا چلا کہ رات کے ساڑھے بارہ بج رہے ہیں اور غضنفر ابھی تک گھر نہیں آیا تھا جس کے باعث اسے فکر ہو رہی تھی۔
پھر وہ ہال کی بڑی لائٹس آف کرکے اوپر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔ جس کے بعد اب ہال میں چھوٹی لائٹس کی مدھم روشنی رہ گئی۔
کمرے میں آکر پہلےاس نے غضنفر کو کال جو کہ ریسیو نہیں کی گئی جس کے بعد وہ چینج کرنے باتھ روم میں چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ ہلکی سی کرتی ٹراؤزر کے ساتھ پہنے باتھ روم سے باہر آئی اور سیاہ بال پشت پر کھلے چھوڑ کر ایک بار پھر غضنفر کو کال کرنے لگی۔
اگلے ہی پل بیل جاتے ہی غضنفر کے موبائل کی رنگ ٹون کمرے میں گونجی جس کے باعث وہ چونک کر پلٹی تو دیکھا کہ وہ ابھی ابھی کمرے میں داخل ہوا تھا جس کی جیکٹ کی جیب میں موبائل رنگ ہو رہا تھا۔
"کہاں رہ گئے تھے یار تم!" وہ لائن ڈسکنیکٹ کرکے موبائل بیڈ پر پھینکتی ہوئی اس کی جانب آئی۔
"دوستوں کے ساتھ تھا۔" اس نے ٹی شرٹ کے اوپر پہنی جیکٹ اتارتے ہوئے تھکن زدہ انداز میں جواب دیا۔ جب کہ اس کی آنکھیں بھی گلابی محسوس ہوئیں۔
"اچھا چلو تم فریش ہوجاؤ میں تب تک کھانا گرم کرتی ہوں تمہارے لئے۔" وہ کہتی ہوئی باہر جانے کیلئے آگے بڑھی۔
یکدم غضنفر نے اس کی کلائی پکڑ کر اسے قریب کھینچ لیا۔ وہ سٹپٹا گئی۔
"مجھے بھوک نہیں ہے، بس تم میرے پاس رہو۔" وہ خمار آلودہ انداز میں کہتا ہوا اس کے قریب جھکا اور تب ہی بہت ناگوار بو ملیحہ کی ناک سے ٹکرائی۔
"غضنفر! یہ کیسی اسمیل آرہی ہے تمہارے منہ سے۔" اس نے کراہتے ہوئے اپنا منہ پیچھے کیا۔
"کیا مطلب کیسی؟ جیسی شراب کی اسمیل ہوتی ہے ویسے ہی آرہی ہے۔" وہ اسی بوجھل انداز میں آرام سے بولا۔
یہ سن کر وہ اس قدر حیران ہوئی کہ لمحے بھر کو مزاحمت ترک کرتے ہوئے ساکت ہوگئی۔ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ اس کی گردن کو چومنے میں کامیاب رہا۔
"تم نے شراب پی ہے!" وہ اسے پیچھے دھکیلتے ہوئے بےیقینی سے بولی۔
"ہاں!" اس نے برملا اعتراف کیا۔
"کیوں! یہ گناہ ہے۔" وہ غم و غصے کی حالت میں بولی۔
"یار پلیز! ابھی یہ گناہ ثواب کا لیکچر دے کر میرا موڈ نہ خراب کرو۔" اس نے بےزاری سے ٹوکا۔ وہ بری طرح ششدر تھی۔
"تم ایسے تو نہیں تھے غضنفر!" اسے در حقیقت دکھ ہوا۔
"میں ایسا ہی تھا جانِ من، بس آپ کو پتا آج چلا ہے۔" اس نے ڈھیٹ پن سے کہتے ہوئے اسے دوبارہ قریب کھینچ لیا۔
"دور ہٹو مجھ سے، خبردار جو اپنے ناپاک منہ سے مجھے چھوا۔" اس نے خود کو آزاد کرانا چاہا۔
"کیوں نہیں چھو سکتا، آج سے پہلے تو کبھی نہیں ٹوکا تم نے۔" وہ کمر پر گرفت مزید سخت کرتے ہوئے ہونٹوں پر جھکنے لگا۔
"آج سے پہلے کبھی شراب پی کر بھی نہیں آئے تھے تم۔" اس نے سر پیچھے کرتے ہوئے ترکی بہ ترکی یاد دلایا۔
"آج سے پہلے بھلے ہی نہیں آیا مگر آج کے بعد ضرور آؤں گا، اسی لئے عادت ڈال لو۔" وہ بےحد قریب ہوکر بولا۔
ملیحہ نے اپنے لب کس کر بھینچتے ہوئے اپنا سر نیچے جھکا کر اس کے سینے سے ٹکا دیا کہ وہ اسے چھو نہ سکے۔
"غضنفر تمھیں خدا کا واسطہ ہے رک جاؤ۔" وہ بےساختہ سسک پڑی۔ جس کے باعث اس نے یکدم جھٹکے سے اسے چھوڑا تو وہ الٹے قدم پیچھے ہٹی۔
"ایسا بھی کوئی ظلم نہیں کردیا میں نے جو تم اتنا اوور ری ایکٹ کر رہی ہو یار۔" وہ برہم ہوا۔ ملیحہ کچھ نہ کہہ پائی۔
"سارے موڈ کا ستیاناس کردیا۔" وہ غصے میں بڑبڑاتا باتھ روم کی جانب بڑھا اور اندر جا کے زور سے اس کا دروازہ بند کردیا۔ جب کہ وہ برستی آنکھوں سے بس اسے دیکھ کر رہ گئی۔
*******************************
باتھ روم میں آکر غضنفر نے جلدی سے واش بیسن کا نل کھولا اور کلی کرنے لگا۔ جب اس سے تسلی نہ ہوئی تو اس نے ٹوتھ برش پر کافی سارا پیسٹ نکالا اور اچھی طرح برش کرنے لگا۔
صرف ملیحہ کو تنگ کرنے کیلئے وہ جان بوجھ کر دیر سے گھر آیا تھا اور گھر آنے سے قبل اس نے ایک گھونٹ شراب منہ میں لے کر کافی دیر سے رکھی ہوئی تھی، اسے حلق میں انڈیلا نہیں تھا تا کہ اس کے منہ میں اس کی بدبو رچ بس جائے، اور گھر پہنچ کر، شراب باہر تھوک کر آنے کے بعد اب وہ ایسی اداکاری کر رہا تھا گویا سچ میں پی کر آیا ہو۔
اس میں لاکھ عیب سہی، مگر وہ آج تک شراب و شباب کے قریب نہیں گیا تھا اسی لئے خود بھی اس بو سے اسے کراہیت محسوس ہو رہی تھی۔
جب کافی دیر برش کرنے کے بعد وہ مطمئن ہوگیا تو چینج کرکے واپس باتھ روم سے باہر آیا۔
باہر آکر اس نے دیکھا کہ بیڈ پر بس اس کا تکیہ موجود ہے۔ ملیحہ اپنا تکیہ صوفے پر لے کر، سنگل کمبل منہ تک اوڑھے لیٹی تھی۔ مطلب وہ کامیاب رہا تھا اسے زچ کرنے میں۔
"بات سنو! فجر کیلئے اٹھا کر میری نیند خراب مت کرنا۔" اس نے تھوڑی تیز آواز سے پکار کر سنجیدگی سے پہلے ہی منع کیا۔
"اس ناپاک منہ کے ساتھ اللہ کا ذکر نہ ہی کرو تو بہتر ہے۔" اس نے یکدم منہ سے کمبل ہٹا کر کاٹ دار انداز میں کہا۔ کچھ دیر میں ہی رونے کی وجہ سے اس کی آنکھیں اور ناک بےتحاشا سرخ ہوچکی تھیں، جب کہ آواز بھی رندھی ہوئی ہو رہی تھی۔ جس کے باعث اس نے بےساختہ نظریں چرالیں۔
وہ خاموشی سے اپنے بستر پر آگیا جب کہ وہ بھی دوبارہ منہ تک کمبل اوڑھے سوتی بن گئی۔
آج جو کچھ بھی ہوا تھا وہ شروعات تھی، ابھی آگے ایسے بہت سے مقام آنے تھے۔ ملیحہ کو زچ کرکے خود سے بدظن کرنے کے طریقے سوچتے ہوئے وہ کب نیند کی وادی میں اترا پتا ہی نہ چلا، جب کہ صوفے پر لیٹی ملیحہ چاہ کر بھی سو نہ پائی۔
کل تک تو آشنا تھے مگر آج غیر ہو
دو دن میں یہ مزاج ہیں آگے خیر ہو
داغ دہلوی
*******************************
"السلام علیکم!" عزیر نے کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے سلام کیا۔
"وعلیکم السلام!" سب نے دھیرے سے جواب دیا۔
"آپ کی بیگم صاحبہ کی نیند نہیں پوری ہوئی ابھی تک!" شاہانہ نے تیکھے انداز میں پوچھا۔
"اس کے سر میں درد ہے، اسی لئے آج ہاسپٹل بھی نہیں جا رہی ہے وہ، تو میں نے کہا کہ فی الحال آرام کرلو، بعد میں ناشتہ کرلینا۔" اس نے جوس کا جگ اٹھاتے ہوئے متوازن انداز میں جواب دیا۔
"ایسے کون سے پہاڑ توڑے ہیں محترمہ نے جو تھک گئی ہیں اور آرام فرما رہی ہیں؟" انداز وہ ہی تھا۔
"ڈاکٹری کوئی آسان کام تھوڑی ہے ممی، اور تھوڑی بہت تھکن تو ہر انسان کو ہی ہوجاتی ہے۔" اس نے دفاع کرنے کی کوشش کی۔
"تو ہم نے کہا تھا ڈاکٹری کرنے کو؟ خود ہی کو شوق چڑھا تھا، شادی ہوگئی تھی گھر داری سنبھالتی، لیکن نہیں!" وہ تھوڑی برہم ہوئیں۔
"اور تم مانو یا نہیں لیکن یہ ڈاکٹری بھی بس ایک بہانہ ہے گھر کی ذمہ داریوں سے بچنے کا۔" انہوں نے مزید کہتے ہوئے اپنی مرضی کا مفہوم تراشا تو وہ ضبط کرتے ہوئے انہیں دیکھ کر رہ گیا۔
"اب ایسے گھور کیا رہے ہو؟" انہوں نے اس کے دیکھنے پر ٹوکا تو وہ سر جھٹک ناشتے کی جانب متوجہ ہوگیا۔
تب ہی عبید کو محسوس ہوا جیسے کوئی ڈائینگ روم کے دروازے پر کھڑا ہے۔ اپنے شک کی تصدیق کیلئے جب اس نے اس طرف دیکھا تو چونک گیا۔
"بھابھی!" وہ بےساختہ بڑبڑایا۔
جس کے باعث سب نے ہی اس کے تعاقب میں دیکھا تو صبیحہ کو پتھریلے تاثر کے ساتھ دروازے پر ساکت دیکھ کر یہ سمجھنے میں ذرا دیر نہیں لگی کہ وہ سب سن چکی ہے۔
"ارے وہاں کیوں رک گئی بیٹا؟ آؤ بیٹھو۔" دردانہ نے نرمی سے پکارا۔ تو وہ آہستہ سے آکر عزیر کے برابر والی کرسی پر بیٹھ گئی۔
"اب طبیعت کیسی ہے بیٹا؟ عزیر بتا رہا تھا کہ تمہارے سر میں درد بے۔" انہوں نے ماحول کا تناؤ کم کرنے کیلئے پیار سے پوچھا۔
"اچھی خاصی تو ہے، اور سر درد بھی بھلا کوئی بیماری ہوتی ہے!" شاہانہ خود کو طنز سے باز نہ رکھ سکیں۔
عزیر نے لمحے کے ہزارویں حصے میں ٹیبل کی آڑ میں صبیحہ کا ہاتھ پکڑ کر اس پر دباؤ ڈالا گویا اسے کچھ کہنے سے روک رہا ہو۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ صبیحہ سننے والوں میں سے نہیں سنانے والوں میں سے ہے جس کے باعث معاملہ بگڑ بھی سکتا تھا۔
"صحیح کہہ رہی ہیں آپ، ٹھیک ہوں میں۔" وہ بشکل ضبط کرتے ہوئے سپاٹ انداز میں بس اتنا بولی۔ اگر عزیر کا خیال نہ ہوتا تو شاید وہ چپ نہ رہتی۔
"چلو چھوڑو یہ باتیں، تم ناشتہ کرو۔" دردانہ نے یہ موضوع ہی بدل دیا۔ جس کے بعد سب اپنے اپنے ناشتے کی جانب متوجہ ہوگئے۔
لحاظ کا فرق ہے جو تربیت سے پڑتا ہے
ورنہ جو سن سکتا ہے وہ سنا بھی سکتا ہے
فریال خان
*******************************
ملیحہ سنجیدہ تاثر کے ساتھ حسب معمول کچن میں موجود ناشتہ بنانے میں مصروف تھی۔ چائے کا چولہہ بند کرکے وہ کاؤنٹر پر ٹرے سیٹ کر رہی تھی تب ہی غضنفر نے پیچھے سے آکر اسے حصار میں لیا۔
"گڈ مارننگ!" وہ ہشاش بشاش انداز میں یوں بولا گویا رات کو کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
"ہٹو غضنفر، میں ڈسٹرب ہو رہی ہوں۔" وہ اکتا کر کہتے ہوئے اس کے حصار سے باہر نکلی اور کیبنٹس کی جانب بڑھ گئی۔
"ابھی تک ناراض ہو رات والی بات پر!" اس نے کاؤنٹر سے پشت ٹکاتے ہوئے اندازہ لگایا۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور چائے کی کیتلی لے کر واپس کاؤنٹر کی طرف آئی۔
"اچھا سوری نا! وہ تو بس کل دوستوں نے زبردستی پلا دی تھی۔" اس نے جھوٹی وضاحت کی۔
"انہوں نے پلا دی اور تم نے پی لی، منع نہیں کرسکتے تھے؟" وہ کاٹ دار انداز میں بولی۔
"اب سوری بول تو رہا ہوں۔" اس نے گول مول جواب دیا۔
"اس سے کیا ہوتا ہے! کل پھر پی کر آجاؤ گے، رات میں الٹی سیدھی حرکتیں کروگے اور صبح پھر سوری بول کر دامن بچا لو گے۔" وہ تلخی سے کہتے ہوئے چائے کیتلی میں انڈیلنے لگی۔
"تو مطلب تم ابھی تک ناراض ہو!" وہ نتیجے پر پہنچا۔
"ہاں، اور تب تک رہوں گی جب تک تم یہ حرکتیں سدھار نہیں لیتے۔" اس نے ترکی بہ ترکی کہا اور ٹرے لے کر کچن سے باہر نکل گئی۔ وہ وہیں کھڑا رہا۔
"یہ ہی تو میں چاہتا ہوں بےوقوف۔" وہ معنی خیز انداز میں بڑبڑایا۔
*******************************
"یار پلیز! اچھا ممی کی طرف سے میں سوری بولتا ہوں۔" عزیر بیڈ پر منہ پھلائے بیٹھی صبیحہ کے سامنے بیٹھا منت سماجت کرنے میں مصروف تھا۔
"تم کیوں سوری بولو گے؟ غلطی تمہاری ممی کی ہے، انہیں پہلے دن سے میرا ہاسپٹل جوائن کرنا کھٹک رہا ہے، جب کہ شادی سے پہلے یہ بات کلئیر کردی گئی تھی کہ میں جاب کروں گی، تو اب انہیں اتنا برا کیوں لگ رہا ہے!" اس کا غصہ کم ہونے میں نہیں آرہا تھا۔
"یار وہ ایسی ہی ہیں، تم کیوں ان کی باتیں دل پر لے رہی ہو، ایک کان سے سنو اور دوسرے سے نکال دو۔" اس نے اپنے تئیں حل پیش کیا۔
"عزیر برا مت ماننا مگر یوں چپ چاپ ایسی باتیں نظر انداز کردینے کی وجہ سے ایسے لوگوں کو شہ ملتی ہے اور وہ مزید بولتے ہیں۔" اس نے تلخی سے حقیقت بتائی۔
"وہ زوہا پر کیوں روک ٹوک نہیں کرتی؟ کیونکہ انہیں پتا ہے کہ وہ دو بولوں گی تو آگے سے وہ بھی چار سنا دے گی، جب کہ صالحہ آنٹی کے پیچھے وہ ہر وقت پڑی رہتی ہیں کیوں؟ کیونکہ وہ کچھ نہیں کہتی، ٹھیک ہے کہ ایک چپ میں سو سکھ ہوتے ہیں، لیکن مسلسل چپ رہنا بھی دکھ کی وجہ بن جاتا ہے، ہمیں غلط بات کو روکنا چاہیے، اس کے خلاف بولنا چاہیے عزیر!" وہ ناچاہتے ہوئے بھی کہہ گئی جس پر وہ خاموش ہی رہا۔
"اور تمہارے ڈیڈ بھی انہیں کچھ نہیں کہتے ہیں، بس سارا زور تم پر اور عبید پر چلتا ہے ان کا!" وہ اسی انداز میں مزید بولی مگر اس نے کچھ نہ کہا۔
"اب تم کیوں چپ سادھ کر بیٹھ گئے ہو؟ تم سے بات کر رہی ہوں میں۔" وہ اس پر بگڑی۔
"تمھیں دل کھول کر بولنے کا موقع دے رہا ہوں تا کہ دل کا غبار نکل جائے۔" وہ اطمینان سے بولا۔ وہ مزید سلگ گئی۔
"تم سے بھی بات کرنا فضول ہے۔" وہ غصے میں اٹھ کر جانے لگی۔
"اچھا بات سنو!" عزیر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے واپس بیٹھایا۔
"چھوڑو یہ سب باتیں، آج میں بھی آفس سے چھٹی کرلیتا ہوں، کہیں شاپنگ پر چلتے ہیں، پھر کوئی اچھی سی پکچر دیکھ کر ڈنر بھی باہر سے کر آئیں گے۔" اس نے موڈ بدلنے کیلئے پلان ترتیب دیا۔
"ہاں، تا کہ تمہاری ممی کو پھر موقع مل جائے مجھے باتیں سنانے کا کہ میں ان کے بیٹے کے پیسے فضول خرچی میں برباد کرواتی ہوں۔" اس نے تنک کر بات جوڑی۔
"ارے انہیں کون بتائے گا؟ کہہ دیں گے کہ ایک دوست کے گھر دعوت پر جا رہے ہیں، اب تم موڈ ٹھیک کرکے اٹھو جلدی سے اور تیار ہو، ورنہ پھر میں بھی اپنا موڈ خراب کرلوں گا۔" اس نے حل تراش کر حکم دیتے ہوئے آخر میں دھمکایا بھی۔ تو وہ نروٹھے پن سے اسے گھور کر رہ گئی۔
*******************************
صبح دوپہر میں تبدیل ہوگئی تھی جو کہ اب شام کے قریب جانے لگی تھی۔ غضنفر اور ماموں کے شوروم چلے جانے کے بعد کوئی کام نہ ہونے کے باعث اب ملیحہ بیڈ پر بیٹھی بظاہر کسی کتاب کے مطالعے میں مصروف تھی مگر اس کی سوچیں کہیں اور ہی پرواز کر رہی تھیں۔
تب ہی دروازے پر ہوئی دستک پر وہ چونکی اور اٹھ کر دروازہ کھولنے آئی جس کی دوسری طرف رنگیلا کھڑا تھا۔
"بھابھی جی، دروازے پر کوئی آدمی آیا ہے چھوٹے صاحب کا پوچھ رہا ہے۔" اس نے ادب سے بتایا۔
"کیا پوچھ رہا ہے؟" اسے تعجب ہوا۔
"کہہ رہا ہے کہ مسز غضنفر عباس کا گھر یہ ہی ہے، میں نے کہا ہاں تو کہنے لگا کہ انہیں بلا دیں۔" اس نے جھٹ سے بتایا۔
"بےوقوف وہ میرا پوچھ رہا ہے، مسز کا مطلب بیوی ہوتا ہے۔" ملیحہ نے اس کی عقل پر ماتم کیا۔
"اب مجھے انگریزی کا کیا پتا!" اس نے کھیسانا ہوکر کندھے اچکائے۔
ملیحہ نیچے اتر کر دروازے پر آئی تو مخصوص کوریئر سروس کے لوگو والی شرٹ پہنے ایک درمیانی عمر کا لڑکا باکس ہاتھ میں لئے کھڑا تھا۔
"گڈ آفٹر نون میم! مسز غضنفر عباس آپ ہی ہیں؟" اسے دیکھتے ہی وہ مہذب انداز میں بولا۔
"جی میں ہی ہوں۔" اس نے تصدیق کی۔
"یہ کوریئر آپ کیلئے ہے۔" اس نے مؤدب انداز میں باکس آگے بڑھایا۔
"میرے لئے، کس نے بھیجا ہے؟" اس نے باکس تھامتے ہوئے تعجب سے پوچھا۔
"مسٹر غضنفر عباس نے۔" اس نے ادب سے بتایا جیسے سن کر اسے کافی حیرت ہوئی۔
"یہاں سائن کر دیجئے میم۔" اس نے پین دیتے ہوئے کاغذ آگے کیا۔
پھر دستخط لے کر وہ واپس چلا گیا جب کہ ملیحہ ناسمجھی و حیرانی کے عالم میں باکس لئے یہ سوچتی واپس کمرے میں آئی کہ آخر غضنفر نے کیا اور کیوں کوریئر کروایا ہے؟
بیڈ پر بیٹھ کر اس نے باکس کھول کر دیکھا تو اس میں سے ڈارک میرون رنگ میں شیفون کی بالکل سادی سی ساڑھی بر آمد ہوئی اور اس کا بلاؤز دیکھ کر تو اس کے ہوش ہی اڑ گئے۔ وہ بنا آستین کا گہرے گلے والا بہت مختصر بلاؤز تھا۔
ابھی وہ حیران پریشان سی اس کا جائزہ لے رہی تھی کہ بیڈ پر پڑا اس کا فون بجا۔ اس نے چیک کیا تو غضنفر کی کال تھی جسے ریسیو کرکے اس نے کان سے لگایا۔
"کوریئر مل گیا؟" اس نے پہلا سوال ہی یہ کیا۔
"ہاں، اور اس بےہودہ حرکت کی وجہ جان سکتی ہوں!" وہ برہمی سے بولی۔
"اس میں کیا بےہودگی ہے بھلا؟ میرا دل چاہ رہا تھا تمھیں اس ڈریس میں دیکھنے کا۔" اس نے محظوظ ہوتے ہوئے مزید سلگایا۔
"تم پاگل ہوگئے ہو، گھر پر ماموں بھی ہوتے ہیں، ان کے سامنے میں ایسے کپڑے پہنوں گی!" اس نے حیرت سے دھیان دلایا۔
"گھر پر نہیں پہننے ہیں، آج رات میرے ایک دوست کے گھر پارٹی ہے وہاں پہن کر چلنا ہے۔" اس نے کرسی پر جھولتے ہوئے اطمینان سے بم گرايا۔ وہ ششدر رہ گئی۔
"کیا؟" وہ حیرت سے بس اتنا بولی۔
"ہاں، آج رات گیارہ بجے ریڈی رہنا۔" اس نے حکم دے کر بنا اس کی بات سنے لائن ڈسکنیکٹ کردی۔ وہ ہکابكا سی بیٹھی رہی۔
غضنفر نے موبائل کان سے ہٹا کر کانچ کی ٹیبل پر رکھا اور کرسی پر جھولتے ہوئے تصور کی آنکھ سے ملیحہ کا جلا بھنا تاثر دیکھتے ہوئے محظوظ ہونے لگا۔ اسے پتا تھا کہ یہ ہی رد عمل ملنے والا ہے تب ہی تو اس نے ایسا کیا تھا۔ اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ ملیحہ کسی صورت وہ ساڑھی نہیں پہنے گی جس کی وجہ سے اسے لڑنے کا جواز مل جائے گا۔
ابھی وہ ان سوچوں میں گم تھا کہ اس کے موبائل پر پیغام موصول ہوا۔ اس نے چیک کیا تو ملیحہ کا میسج تھا۔
"میں آگ لگا رہی ہوں اس بےہودہ ساڑھی کو۔" اس نے ایک جملے میں اپنے ارادوں سے آگاہ کیا تو وہ بےساختہ مسکرا دیا۔
"تھینکس ڈیئر وائف، میرا پلان کامیاب کرکے مجھے لڑنے کا موقع دینے کیلئے۔" وہ معنی خیزی سے بڑبڑایا۔
*******************************
دوپہر کے وقت مرد حضرات تو گھر میں ہوتے نہیں تھے۔ اور خواتین اپنے اپنے کمروں میں آرام کر رہی ہوتی تھیں اس لئے گھر میں سناٹا ہی رہتا تھا جیسے ابھی ہو رہا تھا۔
زوہا بیڈ پر لیپ ٹاپ لئے بیٹھی تھی کہ تب ہی اس کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔ وہ بیڈ سے اٹھ کر دروازہ کھولنے آئی تو دوسری جانب آفس ڈریس اپ میں عبید کو کھڑا پایا جو غالباً کسی کام سے اس وقت گھر آیا تھا۔
"کیا ہوا؟" اس نے سرسری انداز میں پوچھا۔
"مجھ سے شادی کرو گی؟" اس نے بنا کسی تہمید کے براہ راست سوال کیا تو وہ دنگ رہ گئی۔
"کیا؟" وہ حیرت سے بولی۔
"مجھ سے شادی کرو گی؟" اس نے پھر اپنا سوال دہرایا جس کے باعث اسے اس کی دماغی حالت پر شبہ ہونے لگا۔
"نہیں!" اگلے ہی پل وہ سنبھل کر سنجیدگی سے کہتے ہوئے دروازہ بند کرنے لگی۔
"کیوں نہیں؟" اس نے دروازہ پکڑتے ہوئے پوچھا۔
"ایک بار اپنی ممی کے سامنے بولو ذرا یہ بات، پتا لگ جائے گا کہ کیوں نہیں؟" اس تڑخ کر کہتے ہوئے اس کا ہاتھ جھٹکا اور زور سے اس کے منہ پر دروازہ بند کردیا۔
*******************************
کب شام ڈھلی اور رات چلی آئی پتا ہی نہیں چلا۔ غضنفر جان بوجھ کر کافی دیر سڑکوں کی خاک چھان کر اب بلآخر ایک بجے گھر لوٹا تھا۔ حسب معمول ہال میں مدھم لائٹس آن تھیں اور پرسکون سناٹا ہو رہا تھا۔
وہ متوازن انداز میں سیڑھیاں چڑھتا دل ہی دل میں ملیحہ سے لڑنے کیلئے جملے ترتیب دے رہا تھا، کیونکہ ساڑھی نہ پہننے والی بات کو وہ اچھا خاصا ایشو بنانا چاہتا تھا۔
مگر جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوا تو دروازے پر ہی ٹھٹک کر رک گیا۔
"ویلکم بیک!" صوفے پر بیٹھی ملیحہ خوش اخلاقی سے بولی جو خلاف توقع اسی ہوش ربا ساڑھی کو زیب تن کیے، ٹانگ پر ٹانگ رکھے اطمینان سے بیٹھی تھی۔ جسے دیکھ کر غضنفر کے ہوش اڑ گئے۔
"تم نے تو کہا تھا کہ تم ساڑھے گیارہ بجے تک آجاؤ گے، مگر اب تو ایک بج گیا ہے۔" وہ اٹھتے ہوئے کہہ کر اس کی جانب آئی۔ اور اس کے جواب کا انتظار کیے بنا دروازہ لاک کیا۔ وہ اسے اس طرح دیکھ کر ششدر ہی رہ گیا تھا مگر اس پر واضح نہیں ہونے دے سکتا تھا۔
"تم تو آگ لگانے جا رہی تھی اس ساڑھی کو!" اس کی بات نظر انداز کرتے ہوئے اس نے سنبھل کر سوال اٹھایا۔
"ہاں جا رہی تھی، مگر پھر سوچا تم نے اتنے پیار سے لی ہے تو پہن ہی لوں، باقی آگ تو ابھی بھی لگا سکتے ہیں۔" اس نے قریب آکر کہتے ہوئے آخر میں معنی خیزی سے دونوں بازو اس کے کندھوں پر رکھے۔
اس نے جو جال ملیحہ کو پھنسانے کیلئے بنا تھا، اس میں اب اپنا آپ ہی پھنستا ہوا محسوس ہو رہا تھا اسے۔
"چلو، اب جب ساڑھی پہن ہی لی ہے تو پارٹی میں بھی چلتے ہیں، ابھی ختم نہیں ہوئی ہوگی۔" اس نے اگلے ہی پل نئی چال چلی۔
"نہیں، یہ میں نے صرف تمہارے لئے پہنی ہے، غیروں کو دیکھانے کیلئے نہیں۔" اس نے آہستہ سے نفی کی۔
"مطلب تم میری بات نہیں مانو گی؟" وہ لڑنے کو جواز تراشنے لگا۔
"غلط بات نہیں مانوں گی، باقی تمہارا ہر حکم سر آنکھوں پر۔" وہ ترکی بہ ترکی بولی۔
"تم نے کہا تم مجھے اس ساڑھی میں دیکھنا چاہتے تھے تو میں نے تمہارے لئے یہ پہن لی، اسی طرح تم مجھ سے جو بولو گے میں وہ کروں گی، تمہاری ہر جائز خواہش اور فرمائش میں خوشی خوشی مانوں گی، بس ایک التجا ہے۔" وہ اس کے بےحد قریب ہوکر آہستہ آہستہ کہتی گئی۔
"کیا؟" وہ بےخودی کے عالم میں پوچھ بیٹھا۔
"دوبارہ کبھی کسی حرام شے کے قریب مت جانا۔" اس نے کہتے ہوئے اپنی شہادت کی انگلی اس کے لبوں پر رکھی۔ جس سے اسے اندازہ ہوا کہ وہ کل شراب پینے والی بات کا ذکر کر رہی ہے۔
"میں تمہاری بیوی ہوں، اور جو ہمارا ہوتا ہے، ہمیں عزیز ہوتا ہے اسے ہم سب سے چھپا کر محفوظ رکھتے ہیں، تمہیں اچھا لگے گا کہ تمہاری بیوی کو کوئی اور بری نظر سے دیکھے!" اس نے تہمید باندھتے ہوئے پوچھا۔
"نہیں!" وہ بےساختہ کہہ گیا۔
"مجھے پتا تھا۔" وہ مسکراتے ہوئے کہہ کر اس کے سینے سے لگ گئی۔ گویا جیت گئی ہو۔
"تم بہت اچھے ہو۔" اس نے سینے سے لگے پھر وہ ہی بات دہرائی۔
وہ اسے اپنے جال میں پھنسانا چاہتا تھا مگر وہ تو خود اس کے سحر میں گرفتار ہوگیا تھا۔ اس نے ایک ایک بات اس ادا سے کی تھی کہ وہ چاہ کر بھی کوئی مخالفت نہ کرسکا۔ اگر یہ کہا جاتا کہ اس وقت اس کے دلی جذبات اس کے ذہن پر حاوی ہوکر اسے سوچنے سمجھنے سے مفلوج کر رہے تھے تو غلط نہ تھا۔ اور بلآخر وہ دل کے آگے ہار گیا۔
جنہیں زیر کرنے کی دھن میں
بڑے چہکتے ہوئے تھے گئے ہم
انہوں نے پیار سے کیا چھوا ہمیں
ہوئے حواس گم اور، بہک گئے ہم
نیا دن پھر سے نکل آیا تھا اور تلملاتے ہوئے سورج کی روشنی سے آنکھوں کو بچانے کیلئے ان پر سیاہ سن گلاسسز لگائے سلیمان اس وقت دونوں ہاتھ اپنی ڈریس پینٹ کی جیبوں میں ڈالے کھڑے بہت انہماک سے اپنے سامنے کھڑی ہوتی اس عمارت کو دیکھ رہے تھے جس کی زمین کو حاصل کرنے کیلئے انہیں کتنے جتن کرنے پڑے تھے۔
وہ جانتے تھے کہ جو کچھ انہوں نے اس زمین کو حاصل کرنے کیلئے کیا وہ صحیح نہیں تھا، مگر سیدھا راستہ بند ملنے کے بعد ہی وہ دل کے آگے مجبور ہوکر اس غلط راستے کی طرف آئے تھے جس پر چل کر انہیں ان کی چاہت تو مل گئی تھی مگر منزل اب بھی لاپتہ تھی۔
تیزی سے چلتا تعمیراتی کام آدھا مکمل ہوگیا تھا، اور باقی آدھا بھی جلد مکمل ہونے والا تھا۔ مگر پھر بھی کہیں کچھ ادھورا تھا۔
زندگی آدھی ہے ادھوری ہے
تیرا آنا بہت ضروری ہے
انتخاب
*******************************
سلیمان آج کل صبح جلدی گھر سے نکل جایا کرتے تھے جب کہ غضنفر تھوڑی دیر سے جاتا تھا اسی لئے ملیحہ اس وقت اپنے گیلے بال پشت پر کھلے چھوڑ کر کافی خوشگوار موڈ سے ناشتہ بنانے میں مصروف تھی۔
شاید کل رات اسے تسخیر کر لینے کی ہی خوشی تھی جو اس کے چہرے سے چھلک رہی تھی۔ اور ساتھ ہی اس کی امید بھی پھر سے پختہ ہوگئی تھی کہ وہ غضنفر کو واپس پہلا جیسا بنالے گی۔
"ملیحہ! ملیحہ!" اچانک ہی غضنفر کی دھاڑ سن کر وہ ہل گئی۔
اس نے سب کچھ جوں کا توں چھوڑا اور برق رفتاری سے اوپر کمرے میں آئی۔ جہاں غضنفر نے غالباً پوری الماری بیڈ پر الٹ رکھی تھی۔
"کیا ہوا؟" اس نے گھبرا کر استفسار کیا۔
"میری نیوی بیلو شرٹ کہاں ہے؟" اس نے خطرناک تیوروں کے ساتھ پوچھا۔
"وہ۔۔۔وہ تو میلی ہے۔" وہ لمحے بھر کو گڑبڑا گئی۔ اس نے جبڑے بھینچ کر اسے گھورا۔
"یاد سے دھلوا نہیں سکتی تھی!" اس نے غصے میں کہتے ہوئے زور سے الماری کا دروازہ بند کیا۔
"سوری۔۔۔میرے ذہن سے نکل گیا تھا۔۔۔۔فی الحال کوئی اور شرٹ پہن لو۔" اس نے گھبرا کر کہتے ہوئے مشورہ دیا۔
"تمہارا دھیان ہوتا کہاں ہے؟ اپنا ہر کام تمھیں یاد رہتا ہے اور میری چیزوں کی تو کوئی پرواہ ہی نہیں ہے۔" وہ غصے میں کہتے ہوئے بیڈ پر سے ایک شرٹ اٹھا کر باتھ روم میں چلا گیا۔
اس کے اس قدر گرجنے پر وہ اپنی صفائی میں کچھ کہہ بھی نہ پائی۔ حالانکہ اس نے کوئی اتنی بڑی غلطی بھی نہیں کی تھی، مگر وہ یوں برہم ہو رہا تھا جیسے پتا نہیں کیا ہوگیا ہو!
اس کے اس طرح چلانے کی وجہ سے وہ بری طرح سہم گئی تھی جس کے باعث ناچاہتے ہوئے بھی اس کی آنکھیں برسنا شروع ہوگئیں۔
وہ اپنی آنکھیں صاف کرتی واپس کچن میں آگئی۔ اور خالی ذہن کے ساتھ کاؤنٹر کے پاس کھڑی ہوگئی۔
اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ آخر یہ اچانک غضنفر کو ہو کیا جاتا ہے؟ کبھی اتنا پیار نچھاور کرنے لگتا ہے تو کبھی کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔ کبھی پاس آنے کو بےقرار ہوتا ہے تو کبھی ایک نظر دیکھتا بھی نہیں۔ ابھی حال ہی کی بات تھی کہ کل کی رات کتنی خوبصورت گزری تھی اور اب صبح صبح خواہ مخواہ اتنا غصہ! وہ اکثر اسے ایسے ہی الجھا دیتا تھا۔
وہ آنسو پونچھتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ اب کیا کرے؟
یوں ہی چپ چاپ روتی رہے؟
دوبدو ہوکر اس سے لڑے؟
پاپا سے اس کی شکایات کرے؟
اس سے ناراض ہوکر بیٹھ جائے؟
لیکن ان سب میں سے کچھ بھی کیوں کرے وہ؟ کیا غضنفر نے اس پر ہاتھ اٹھایا تھا؟ کیا اسے اخلاق سے گری گالیاں دی تھیں؟ یا پھر اسے سب کے سامنے بےعزت کیا تھا؟
ان میں سے کچھ بھی تو نہیں ہوا تھا، بس ایک چھوٹی سی بات تھی جس کا اس نے پتنگڑ بنا دیا، اگر وہ بھی ابھی اس بات کو مزید خراب کرے تو پھر غضنفر میں اور اس میں فرق کیا رہ جائے گا؟
"اگر کشتی میں سوراخ ہوجائے اور پانی اندر آنے لگے تو پانی باہر نکالنے کیلئے کشتی میں دوسرا سوراخ نہیں کرتے، بلکہ سمجھدار لوگ پہلے سوراخ کو بند کرتے ہیں۔"
تب ہی اس کے ذہن میں اپنے کلاس ٹیچر کی کہی گئی بات گونجی۔ جس نے اسے راستہ دیکھا دیا۔
*******************************
کافی دیر بعد جب غضنفر نہا کر باتھ روم سے باہر آیا تو اس کا خیال تھا کہ شاید ملیحہ بیٹھی رو رہی ہوگی مگر غیر متوقع طور پر وہ کمرے میں تھی ہی نہیں، ہاں مگر صوفوں کے بیچ موجود کانچ کی میز پر رکھی ناشتے کی ٹرے نے ضرور اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی۔ وہ ہلکے ہلکے قدم اٹھاتا میز کے قریب آیا۔
براؤن ٹرے پر دو سرخ کافی کے کپ رکھے ہوئے تھے جن کے اوپر چاکلیٹ سے دل بنا ہوا تھا اور اندر چھوٹا سا "I Love You" لکھا گیا تھا۔ ایک پلیٹ میں دو ہاف فرائی انڈے دل کے شیپ میں بڑی نفاست سے رکھے ہوئے تھے۔ اور اسی پلیٹ پر دو سلائس رکھی ہوئی تھیں جن کے اوپر اسٹرابیری جیم کی مدد سے دل بنایا ہوا تھا۔ اور ساتھ ہی ٹرے کے کونے پر ایک چھوٹی سی پیلے رنگ کی چٹ رکھی ہوئی تھی جس پر "I'm Sorry" لکھا ہوا تھا۔
"آئی ایم سوری!" ابھی وہ یہ سب دیکھ ہی رہا تھا کہ پیچھے سے ملیحہ نے آکر اس کی کمر کے گرد بازو حمائل کرکے اپنا سر اس کی پیٹھ پر ٹکاتے ہوئے کہا۔ وہ چونک کر گویا ہوش میں آیا۔
وہ اس کے ہاتھ آہستہ سے ہٹاتے ہوئے اس کی جانب پلٹا جو چہرے پر معصومیت لئے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
"واہ! یہ اچھا طریقہ ہے کہ پہلے غلطی کرو اور پھر اس طرح سوری بول دو۔" اس نے بظاہر سپاٹ انداز میں طنز مارا۔ جب کہ اندر ہی اندر اسے یہ سب کافی متاثر کر رہا تھا۔
ملیحہ کے دل میں آیا کہ بول دے تم بھی تو یہ ہی کرتے ہو کہ پہلے غلطی کی پھر سوری بول دیا۔ مگر وہ اس وقت بات بنانا چاہتی تھی، بگاڑنا نہیں۔ کیونکہ وہ محبت کرنا چاہتی تھی، مقابلے بازی نہیں کہ جیسا وہ کرے وہ بھی ویسا ہی جواب دے۔
"چلو صرف سوری نہیں کہتی، تم اپنی پسند کی کوئی سزا بھی سنا دو، مجھے منظور ہے۔" اس نے فرمابرداری سے سر خم کیا۔ بجائے کچھ کہنے کے وہ اسے گھورنے لگا۔
ملیحہ کے انداز میں، اس کی چمکتی ہوئی سیاہ آنکھوں میں کہیں بھی طنز، شکوہ، غصہ یا ناراضگی نہیں تھی، صرف محبت تھی، بےلوث محبت، اور اس محبت کو ہی تو ختم کرنا تھا اسے، مگر وہ ایسا کر نہیں پا رہا تھا۔
"اور تم نے یہ کیسے کہہ دیا کہ مجھے تمہاری پرواہ نہیں ہے؟ اگر پرواہ نہیں ہوتی تو کیا آج میں یہاں ہوتی؟" اسے خاموش پا کر وہ خود ہی بولی۔
"تم میرے لئے بہت اہم ہو، اگر غلطی سے میں کچھ بھول گئی تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مجھے تمہاری پرواہ نہیں ہے، بلکہ تمہاری اتنی پرواہ ہے کہ تمہارا ہر کام پرفیکشن کے ساتھ کرنے کی دھن میں تمہارا ہی کوئی ایک آدھا کام کرنا بھول گئی، بالکل اس شعر کی طرح کہ
"یہ میرا عشق تھا یا پھر دیوانگی کی انتہا غالب"
"تیرے ہی قریب سے گزر گئے تیرے ہی خیال میں"
اس لئے اس بار دیوانگی کی انتہا سمجھ کر در گزر کردو، دوبارہ غلطی نہیں ہوگی، پرامس!" وہ شریر انداز میں مسکراتے ہوئے اتنے پیار سے بول رہی تھی کہ جواباً وہ کچھ نہ بول پایا۔
"خیر! چلو آؤ ناشتہ ٹھنڈا ہوجائے گا۔" اس نے خود ہی موضوع بدل کر دھیان دلایا۔
"مجھے نہیں کرنا۔" اس نے صاف انکار کیا۔
"دو نوالے کھا لو یار، پلیز! ماموں خاطر۔" اس نے منت کرتے ہوئے اس کی دکھتی رگ چھیڑی۔ وہ خاموش رہا۔
"آؤ بیٹھو جلدی سے۔" ملیحہ نے خود ہی اسے ہاتھ سے پکڑ کر صوفے پر بیٹھا لیا اور خود اس کے برابر میں بیٹھی۔
"یوں چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنا موڈ مت خراب کیا کرو، بس مجھے آرام سے بول دیا کرو میں منٹوں میں مسلہ حل کردوں گی۔" وہ ٹرے آگے کرتے ہوئے اور بھی نہ جانے کیا کیا کہتی رہی مگر وہ بس بےدھیانی سے اس پاگل کو دیکھتا رہا۔
اس کی سمجھ سے باہر تھی یہ لڑکی۔ وہ جتنا اسے زچ کرتا تھا وہ اتنے ہی پیار سے اسے تسخیر کر لیتی تھی اور وہ چپ چاپ کھڑا دیکھتا رہ جاتا تھا۔ شاید کہنے والے ٹھیک کہتے ہیں کہ تکرار سے زیادہ طاقت پیار میں ہوتی ہے۔ جو کام غصہ نہیں کر پاتا وہ پیار کروا لیتا ہے۔ مگر کوئی اتنا پیار بھی کیسے کرسکتا ہے؟ اس کی جگہ اگر کوئی اور لڑکی ہوتی تو شاید اس سے ناراض ہوجاتی، اس سے بات تک نہ کرتی، مگر وہ تو یوں اس کے لاڈ اٹھانے میں مصروف تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ کیونکہ وہ کوئی عام سی لڑکی نہیں تھی۔ وہ ملیحہ تھی، اپنے نام کے جیسے دلکش اور خوش طبع۔
جب عشق زمین پر اتارا گیا
انا بھسم ہوئی، غرور مارا گیا
انتخاب
*******************************
"آجاؤ!" فائل میں مصروف شفاعت نے مصروف انداز میں اجازت دی تو عبید کانچ کا دروازہ دھکیلتے ہوئے اندر داخل ہوا۔
"ڈسٹرب تو نہیں کیا ڈیڈ؟" اس نے ٹیبل کی جانب آتے ہوئے پوچھا۔
"نہیں، کہو کوئی کام تھا؟" انداز ہنوز سادہ اور مصروف تھا۔
"جی، آپ سے ایک بات کرنی ہے۔" وہ کہتے ہوئے کرسی کھینچ کر بیٹھا۔
"ہاں بولو، سن رہا ہوں۔" انہوں نے کہتے ہوئے فائل کا صفحہ پلٹا۔
وہ دونوں ہاتھ ٹیبل پر رکھ کر چند لمحے خاموش ہوا اور پھر جملے ترتیب دے کر خشک ہوتے لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے گویا ہوا۔
"وہ دراصل۔۔۔۔بات یہ ہے کہ۔۔۔۔میں شادی کرنا چاہتا ہوں۔" اس نے نظریں جھکائے رک رک کر کہا۔
انہوں نے سرعت سے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا جو نظریں جھکائے میز پر انگلی پھیر رہا تھا۔
"ہیں! یہ شوق کب اٹھا تمھیں!" وہ حیران ہوئے۔
"کافی ٹائم سے یہ بات کرنا چاہ رہا تھا میں آپ لوگوں سے، ممی سے بات کرنے کی ہمت نہیں ہوئی تو سوچا آپ سے کہہ دوں۔" اس نے اسی انداز میں وضاحت کی۔
"کون ہے وہ بیچاری؟" انہوں نے جاننا چاہا۔
"زوہا!" اس نے نظریں جھکائے ایک لفظی جواب دیا۔ وہ دنگ رہ گئے۔
"کیا! اپنی زوہا؟ بھائی صاحب کی بیٹی؟" انہوں نے بےیقینی سے تصدیق چاہی تو اس نے ہلکے سے اثبات میں سر ہلایا۔
"دماغ ٹھیک ہے تمہارا؟ تم دونوں کی تو آپس میں بنتی ہی نہیں ہے اور تم شادی کی بات کر رہے ہو!" وہ ابھی تک حیران تھے۔
"ڈیڈ لڑائی جھگڑے سب کزنز میں ہوتے ہیں اس کا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ ہم جانی دشمن ہیں۔" اس نے وضاحتی جواب دیا۔
"تم دونوں نہیں ہو مگر تمہاری ماں اور زوہا ہیں، شاہانہ کبھی نہیں مانے گی اس رشتے کیلئے۔" انہوں نے پہلے ہی باور کرایا۔
"تب ہی تو آپ سے کہہ رہا ہوں، آپ بات کریں نا ممی سے۔" اس نے مدد طلب نظروں سے انہیں دیکھا۔
"ناممکن! یاد ہے نا جب عزیر نے صبیحہ سے شادی کی بات کی تھی تو کتنا ہنگامہ کیا تھا تمہاری ماں نے!" انہوں نے یاد دلایا۔
"ہاں لیکن پھر انہوں نے شادی کرلی نا!" وہ بھی فوراً بولا۔
"اس نے خود اپنی ماں سے لڑ جھگڑ کر شادی کی ہے، اگر تم میں بھی ہمت ہے تو کرلو اپنی ماں سے ڈیبیٹ کامپیٹیشن، میں اس معاملے میں کچھ نہیں کرسکتا۔" وہ دامن بچاتے ہوئے دوبارہ فائل کی جانب متوجہ ہوگئے۔
"مطلب آپ میری مدد نہیں کریں گے؟" اس نے تصدیق چاہی۔
"بالکل بھی نہیں!" انہوں نے بنا دیکھے صاف انکار کیا۔
وہ پہلے چند لمحے یوں ہی بیٹھا انہیں گھورتا رہا جو فائل کے مطالعے میں مصروف تھے۔ پھر گویا ناامید ہوکر اٹھتے ہوئے روم سے باہر نکل گیا۔
انہوں نے ایک نظر اٹھا کر اسے جاتا ہوا دیکھا اور پھر دوبارہ فائل میں مصروف ہوگئے۔
*******************************
غضنفر اس وقت شوروم کے آفس میں موجود، کرسی کی پشت پر سر ٹکائے، آنکھیں موندے جھولتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ کیسے ملیحہ کو خود سے کچھ اس طرح دور کرے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے! مگر کوئی حل نظر نہیں آرہا تھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ یہاں معاملہ سانپ کا نہیں بلکہ بڑی سی ناگن کا تھا جس نے غضنفر کے گرد لپٹ کر اسے بےبس کیا ہوا تھا۔
"سر! آپ کیلئے لنچ آرڈر کروں؟" تب ہی کسی آواز پر اس نے چونک کر آنکھیں کھولی۔
دروازے پر ایک درمیانی عمر کا شخص کھڑا تھا جسے شوروم کے دیگر چھوٹے موٹے کاموں کیلئے رکھا ہوا تھا ان لوگوں نے۔
"نہیں!" اس نے مختصر جواب دیا۔ تو وہ اثبات میں سر ہلا کر جانے لگے۔
"فاروق بات سنو!" اس نے سیدھے ہوتے ہوئے اچانک پکارا۔
"جی سر!" وہ رک کر پلٹا۔
"تم شادی شدہ ہو نا!" اس نے تائید چاہی۔
"جی سر، پانچ سال ہوگئے ہیں شادی کو۔" انداز کچھ خاص خوشگوار نہیں تھا۔
"تمہارا کبھی اپنی بیوی سے جھگڑا ہوا ہے؟" اس نے سنبھل کر پوچھا۔
"سر یہ پوچھیں کہ کب جھگڑا نہیں ہوتا؟ ہر وقت تو لڑنے کو تیار رہتی ہے وہ۔" وہ منہ بسور کر بولا۔
"کیوں؟ ایسا کیا کرتے ہو تم؟" اسے جاننے کا اشتیاق ہوا۔
"کچھ بھی نہیں کرتا سر! بس چھوٹی چھوٹی باتوں کا پتنگڑ بنالیتی ہے وہ، جیسے کہ اگر میں کبھی اپنی پسند کا کھانا بنانے کو کہہ دوں تو اتنی باتیں سنا سنا کر جلا بھنا کھانا بناتی ہے، اس کے کسی رشتے دار کی شادی پر اسے نئی شاپنگ نہ کرواؤں تو طعنے دیتی ہے، گھر دیر سے آؤں تو آوارہ گردی کا الزام لگاتی ہے، جلدی چلا جاؤں تو کہتی ہے کہ مجھے کوئی کام نہیں ہے، کھانے میں ہوئی کسی اونچ نیچ پر ٹوک دو تو لڑنے کھڑی ہوجاتی ہے، اور ابھی کل ہی کی بات ہے میرے بہن بہنوئی کو گھر دعوت پر بلا لیا تھا میں نے، تو جلے دل سے ان کی خاطر مدارت کرنے کے بعد آج صبح مجھ سے لڑ کر میکے چلی گئی کہ میں نے تو اسے نوکرانی بنا کر رکھ دیا ہے، اب آپ ہی بتائیں سر کہ میں کروں تو کیا کروں!" وہ شاید دل کی بھڑاس نکالنے کو تیار بیٹھا تھا تب ہی بنا رکے بولتا چلا گیا۔
"تو تم بھی پیار سے رہا کرو نا اس کے ساتھ، خیال رکھا کرو اس کا۔" وہ بےساختہ ہی مشورہ دے بیٹھا۔ شاید ملیحہ کی صحبت کا غیر محسوس اثر تھا۔
"سر ہفتے میں دو بار شاپنگ پر لے کر جاتا ہوں، گھر میں کام والی ماسی بھی آتی ہے، جب اس کا دل ہوتا ہے کھانا پکاتی ہے ورنہ مجھے باہر سے لانا پڑتا ہے، اتنا تو خیال کرتا ہوں، اور تو اور ہمارے تین بچے بھی ہیں، اب اس سے زیادہ کتنا پیار کروں!" اس نے دکھی دل سے سب گنوایا تو غضنفر تھوڑا جھینپ گیا۔
"اچھا ٹھیک ہے، تم جاسکتے ہو۔" کوئی کام کا سرا ہاتھ نہ لگنے کے باعث اس نے بات سمیٹی تو وہ سر ہلاکر چلتا بنا۔
غضنفر ان سوچوں کو جھٹکتے ہوئے میز پر پڑے کاغذات کی جانب متوجہ ہوگیا۔
"سر! ایک بات کہوں۔" فاروق اچانک پلٹ کر بولا۔
"کہو!" اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔
"اگر آپ اپنی زندگی میں سکون چاہتے ہیں تو کبھی شادی مت کیجئے گا۔" اس نے اپنے تئیں بڑا نادر مشورہ دیا۔ وہ اسے گھورنے لگا۔
"یہ ہی کہنا تھا؟" اس نے تائید چاہی۔
"جی سر!"
"تم نے کہہ دیا، میں نے سن لیا، اب جاؤ۔" اس نے سنجیدگی سے باہر کا راستہ دیکھایا تو وہ شرافت سے چلتا بنا۔ جب کہ وہ گہری سانس لے کر رہ گیا۔
"ایک تو ویسے ہی کوئی راستہ نظر نہیں آرہا ہے اوپر سے فالتو کے مشورے۔" وہ بےزاری سے بڑبڑاتے ہوئے کاغذ الٹ پلٹ کرنے لگا۔
وہ بظاہر کام میں مصروف ہوگیا تھا مگر اس کے ذہن میں لاشعوری طور پر ابھی تک فاروق کی بےتکی باتیں گونج رہی تھیں۔
"میرے بہن بہنوئی کو گھر دعوت پر بلا لیا تھا میں نے، تو جلے دل سے ان کی خاطر مدارت کرنے کے بعد آج صبح مجھ سے لڑ کر میکے چلی گئی کہ میں نے تو اسے نوکرانی بنا کر رکھ دیا ہے۔"
اس کا ذہن اس جملے پر آکے اٹک گیا۔ جس کے باعث اس کے ہاتھ ساکت ہوئے اور وہ کچھ سوچنے لگا۔
اگلے ہی پل اس کے ذہن میں کوندا لپکا اور اس نے میز پر رکھا موبائل اٹھا کر کوئی نمبر ڈائل کیا۔ دوسری جانب بیل جا رہی تھی۔
"السلام علیکم!" ملیحہ کی چہکتی ہوئی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔
"وعلیکم السلام! سنو تمھیں ایک ضروری بات بتانی ہے۔" وہ سنجیدہ تھا۔
"ہاں بولو!" وہ ہمہ تن گوش تھی۔
"آج رات میرے کچھ دوست ڈنر پر گھر آرہے ہیں، تو ان کیلئے کھانے کا اہتمام کرلینا۔" اس نے حکم جاری کیا۔
"ٹھیک ہے، ہوجائے گا، اور کچھ؟" اس کے اطمینان میں ذرا فرق نہیں آیا۔
"نہیں، لیکن خیال رہے کہ کم از کم چار پانچ ڈفرنٹ ڈشسز بنانا اور کوئی گڑبڑ نہیں ہونی چاہئے۔" اس نے حکم مزید سخت کیا۔
"ڈونٹ وری! سب کچھ بالکل پرفیکٹ ہوگا۔" اس نے یقین دہانی کرائی۔ وہ تلملا کر رہ گیا کہ یہ غصہ کیوں نہیں ہوتی؟
"چلو اب میں ڈنر کی تیاری کرتی ہوں جا کر، تم اپنا خیال رکھنا، اللہ حافظ!" اس نے نرمی سے کہتے ہوئے بات سمیٹی۔ تو اس نے بھی جواب دیے بنا رابطہ منقطع کر دیا۔
"کیا چیز ہے یہ!" اس نے بڑبڑاتے ہوئے موبائل ٹیبل پر رکھا۔
*******************************
"ممی! میں ایک قریبی دوست کے گھر جا رہی ہوں، مغرب کے بعد تک آجاؤں گی۔" زوہا چادر اوڑھتے ہوئے کہتی ہال میں آئی جہاں دردانہ، صالحہ اور شاہانہ صوفوں پر بیٹھی باتوں میں مصروف تھی۔
"واہ بھئی! یہ ٹھیک ہے کہ نہ پوچھا، نہ اجازت لی بس منہ اٹھا کر بتانے آگئی۔" شاہانہ نے حسب عادت مداخلت کی۔
"آپ بیچ میں نہ بولیں، اپنی ماں سے بات کر رہی ہوں میں۔" اس نے کاٹ دار انداز میں کہا۔ تو وہ دنگ رہ گئیں۔
"زوہا!" تب ہی وہاں رفاقت کی گرج دار آواز گونجی۔
تینوں نے چونک کر تعاقب میں دیکھا تو ابھی ابھی آفس سے لوٹے چاروں مرد حضرات ہال میں داخل ہوچکے تھے۔
"یہ کیا بدتمیزی ہے، ایسے بات کرتے ہیں بڑوں سے!" وہ برہم ہوتے اسی طرف آئے۔جنہیں دیکھ کر صالحہ گھبراتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
"میں ممی سے بات کر رہی تھی یہ خواہ مخواہ ہی بیچ میں بول رہی ہیں۔" وہ ذرا نہیں گڑبڑائی تھی۔
"وہ کچھ بھی کہیں تم اس طرح بات نہیں کرسکتی، سوری بولو انہیں۔" انہوں نے سختی سے کہتے ہوئے حکم دیا۔
سب لوگ کبھی سنجیدہ تاثر لئے کھڑے رفاقت کو دیکھ رہے تھے تو کبھی زوہا کو جس کا چہرہ سپاٹ تھا۔ جب کہ عزیر کو حسب معمول ہونے والے اس فیملی ڈرامے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اسی لئے وہ یہ سب نظر انداز کرتا اپنے کمرے میں چلا گیا۔
"میں نے کچھ کہا ہے زوہا!" انہوں نے لفظ چباتے ہوئے کہا۔ صالحہ کا دل بری طرح دھڑکنے لگا۔
"سوری!" وہ تڑخ کر کہتی تیز تیز قدم اٹھا کر باہر نکل گئی۔
"توبہ توبہ! کیسے قینچی کی طرح زبان چلتی ہے اس کی، اب اس میں سارا قصور بھی اس کا نہیں ہے، ماں کی تربیت کی بھی تو بات ہوتی ہے۔" شاہانہ نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
ان کی بات پر رفاقت نے ایک سخت نگاہ صالحہ پر ڈالی جس کے باعث انہوں نے بےساختہ مجرموں کی طرح سر جھکا لیا۔ اور پھر وہ بڑے بڑے قدم اٹھاتے کمرے کی جانب چلے گئے۔
شفاعت نے عبید کی جانب دیکھ کر آنکھوں ہی آنکھوں میں گویا اسے باور کرایا کہ
"دیکھو! اب کرو گے اس سے شادی!"
اور پھر وہ بھی اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔ جب کہ وہ یوں ہی کھڑا رہا۔
"جاؤ بیٹا، تم بھی منہ ہاتھ دھو لو، تھک گئے ہوگے۔" تب ہی دردانہ نے دھیان دلایا تو گویا وہ ہوش میں آتے ہوئے سر ہلا کر آگے بڑھ گیا۔ جب کہ صالحہ شام کی چائے کا انتظام کرنے کے ارادے سے کچن میں آگئیں۔
*******************************
دن ڈھلنے کے بعد قریب نوں ساڑھے نوں بجے غضنفر جب گھر آیا تو اندر آتے ہی لذیز کھانے کی خوشبو نے اسے "خوش آمدید" کہا جس کے باعث وہ بےاختیار ہوکر وہیں رک گیا۔
"ارے واہ! کیا خوشبو آرہی ہے۔" تب ہی سلیمان بھی کہتے ہوئے اس طرف آئے۔ وہ چونک کر پلٹا۔
"آپ بھی ابھی گھر آئے ہیں!" انہیں باہر سے آتا دیکھ کر اس نے تائید چاہی۔
"ہاں، ایک کام میں مصروف تھا۔" انہوں نے قریب آتے ہوئے جواب دیا۔
"السلام علیکم!" ملیحہ خوشدلی سے سلام کرتی ان کی طرف آئی۔
"وعلیکم السلام! بھئی یہ آج اتنی زبردست خوشبو کیسے آرہی ہے کھانے کی؟ کوئی خاص بات ہے کیا؟" وہ پوچھے بنا نہ رہ سکے۔
"آج غضنفر کے کچھ دوست آنے والے ہیں ڈنر پر، ان ہی کیلئے اہتمام کیا ہے۔" اس نے مسکراتے ہوئے بتایا۔
"اچھا! تو کب آئیں گے بھئی جلدی فون کرکے بلاؤ، مجھے بہت تیز بھوک لگی ہے۔" وہ بےتابی سے بولے۔
"ہاں ساڑھے نوں تو بج گئے ہیں غضنفر، وہ لوگ کب تک آئیں گے؟" ملیحہ کو بھی خیال آیا۔
"وہ لوگ نہیں آرہے، کچھ ایمرجینسی ہوگئی ہے ان کے ساتھ۔" اس نے تیار شدہ جواب پیش کیا۔
"اوہ! لیکن میں نے تو اتنا سب کچھ بنا لیا ہے۔" اسے دکھ بھری حیرت ہوئی۔
"ارے تو ہم ہیں نا کھانے کیلئے، تم جلدی سے کھانا لگاؤ، میں بس ابھی چینج کرکے آیا۔" سلیمان کی بےتابی عروج پر تھی۔
"ٹھیک ہے، تم بھی جلدی سے فریش ہوکر آجاؤ غضنفر، پھر ساتھ کھانا کھاتے ہیں۔" وہ اس سے مخاطب ہوئی۔
"مجھے بھوک نہیں ہے، آپ لوگ کھائیں۔" وہ سنجیدگی سے کہتے ہوئے آگے بڑھ گیا جسے وہ دیکھ کر رہ گئی۔
"چھوڑو اسے، تم کھانا لگاؤ جا کر۔" سلیمان اسے نظر انداز کرتے ہوئے بولے تو وہ اثبات میں سر ہلا کر واپس چلی گئی۔
*******************************
"واہ! قسم سے مزہ آگیا، بہت مزے کا کھانا بنا ہے۔" سلیمان نے دل سے سراہا۔
"شکریہ! آپ پچھلے آدھے گھنٹے سے ہر نوالے کے بعد یہ ہی بول رہے ہیں۔" اس نے مسکراتے ہوئے دھیان دلایا۔
"بھئی کھانا ہے ہی اتنا مزیدار کہ خودبخود تعریف نکل رہی ہے، ہے نا!" انہوں نے کہتے ہوئے ایک کرسی پر بیٹھے رنگیلا سے تائید چاہی۔
"بالکل! کھانا بہت مزے کا بنا ہے بھابھی جی!" اس نے بھی بھرپور تائید کی۔ تو وہ مسکرادی۔
وہ دونوں اس وقت پوری رغبت سے کھانا کھانے میں مصروف تھے جن کا ساتھ دیتے ہوئے وہ بھی اخلاقاً تھوڑا بہت کھا رہی تھی۔ لیکن اگر غضنفر بھی یہاں موجود ان سب کے ساتھ بھلے ہی اس کی تعریف نہ کر رہا ہوتا بس صرف کھانا کھا رہا ہوتا تو اسے اچھا لگتا۔ مگر ایسا ہوا نہیں۔
*******************************
"صبیحہ تم کل ہسپتال نہیں جانا۔" کھانے کے دوران شاہانہ اچانک بولیں تو سب چونک کر انہیں دیکھنے لگے۔
"کیوں؟" وہ حیران ہوئی۔
"کل میری خالہ زاد بہن فہمیدہ دوپہر کے کھانے پر گھر آرہی ہے تو میں چاہتی ہوں کہ کل کے کھانے کا اہتمام تم کرو۔" انہوں نے کھانا کھاتے ہوئے ارادہ بتایا۔
"لیکن کھانا تو صالحہ آنٹی بناتی ہیں، ان کے علاوہ ملازمہ بھی ہے گھر کے کاموں کیلئے، میں بھلا کیوں چھٹی کروں؟" اس نے حجت کی۔
"کیونکہ میں کہہ رہی ہوں، اور کھانے کے علاوہ بھی میں چاہتی ہوں کہ تم مہمانوں کے ساتھ موجود رہو، آخر گھر کی بہو ہو، ایک دن ہسپتال نہیں جاؤ گی تو قیامت نہیں آجائے گی۔" انہوں نے سیدھا سیدھا فیصلہ سنایا۔
ناگوار حیرت سے انہیں دیکھنے کے بعد صبیحہ نے پھر عزیر کی جانب دیکھا جس نے نظروں میں ہی خاموش رہنے کی گزارش کی۔ وہ صبر کا گھونٹ پی کر رہ گئی۔ جب کہ باقی سب کو اس معاملے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی اسی لئے سب کھانا کھانے میں مصروف رہے۔
*******************************
کھانے سے فارغ ہوکر ملیحہ کمرے میں آئی تو غضنفر چینج کرکے بیڈ پر لیٹا موبائل میں مصروف ملا۔
"تم نے کھانا کیوں نہیں کھایا؟" وہ دروازہ بند کرتے ہوئے اس طرف آئی۔
"دوستوں کے ساتھ کھا لیا تھا۔" اس نے روکھا سا جواب دیا۔
اس نے چند لمحے اسے دیکھا پھر سر جھٹک کر چینج کرنے کے ارادے سے باتھ روم کی جانب بڑھی۔
"سنو!" اس نے اچانک پکارا۔
"ہاں بولو!" وہ رک گئی۔
"کل سے میرے کپڑے دھوبی کو دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، تم خود دھونا گھر میں، اور مجھے مشین میں سوکھنے والے کپڑے پسند نہیں ہیں اسی لئے انہیں چھت پر دھوپ میں سکھنا۔" اس نے سنجیدگی سے نیا حکم جاری کیا۔
"ٹھیک ہے۔" اس نے سہولت سے اثبات میں سر ہلایا اور باتھ روم میں چلی گئی۔ جب کہ وہ اس کے رد عمل نہ دینے پر بیچ و تاب کھا کر رہ گیا۔ اس کا ہر وار خالی جا رہا تھا۔
*******************************
"عزیر اب یہ کیا نیا ڈرامہ ہے یار! کل میری اتنی ساری اپائینٹمنٹس ہیں اور تمہاری ممی نے اب یہ نیا حکم جاری کردیا ہے۔" صبیحہ غصے میں یہاں وہاں ٹہل رہی تھی۔
"یار پلیز سمجھنے کی کوشش کرو، ممی نے پہلی مرتبہ تمھیں کچھ کرنے کا کہا ہے، اگر تم نہیں کرو گی تو وہ بات کا پتنگڑ بنا دیں گی۔" بیڈ پر لیپ ٹاپ لئے بیٹھے عزیر نے مصروف انداز میں سمجھانا چاہا۔
"میں بھی پہلی مرتبہ ہاسپٹل میں جاب کر رہی ہوں اس کے بارے میں کیا خیال ہے تمہارا؟" اس نے ایک جگہ رک کر ترکی بہ ترکی سوال اٹھایا۔
"یار پروفیشنل لائف کی اونچ نیچ پھر بھی سنبھال لی جائے گی، لیکن اگر گھر میں کوئی فساد کھڑا ہوگیا نا تو بات بگڑے گی اور کچھ نہیں ہوگا۔" اس نے ڈرانا چاہا۔ وہ کچھ نہ بولی۔ اور تھک کر آکے اپنے بستر پر بیٹھ گئی۔
عزیر نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا جو بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کیے ماتھا مسلتے ہوئے شاید خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
"صبیحہ پلیز! زندگی میں بہت بار ہمیں کچھ اَن چاہے کام بھی کرنے پڑتے ہیں، اٹس آ پارٹ آف لائف۔" (یہ زندگی کا حصہ ہے) اس نے تحمل سے سمجھانا چاہا۔
جواباً اس نے تیز نظر سے اس کی جانب دیکھا گویا کچھ کہنے سے خود کو باز رکھنے کی کوشش کر رہی ہو۔
"یار بیویاں تو محبت میں کیا کچھ نہیں کر جاتی ہیں شوہر کیلئے، اور تم ایک دن کی چھٹی نہیں کرسکتی میرے لئے؟ کیا میری اتنی بھی اہمیت نہیں ہے تمہاری نظروں میں!" وہ لیپ ٹاپ رکھ کر پوری طرح اس کی جانب متوجہ ہوگیا تھا۔ اس کا لہجہ نرم تھا مگر انداز میں شکوہ تھا۔
وہ چند لمحے اسے تیکھے انداز میں دیکھتی رہی پھر یکدم اٹھ کر باتھ روم کی جانب بڑھی اور اندر جا کے زور دار انداز میں دروازہ بند کردیا۔ جب کہ وہ محض ایک گہری سانس لے کر رہ گیا۔
*******************************
رات کافی گہری ہوچکی تھی مگر بہت دیر سے کروٹیں بدلتے غضنفر پر ابھی تک نیند مہربان نہیں ہوئی تھی اور وجہ تھی عروج پر پہنچی ہوئی بھوک۔ اس وقت تو ملیحہ کو ہرٹ کرنے کیلئے اس نے کھانے سے انکار کردیا تھا مگر اب بھوک برداشت سے باہر ہوتی جا رہی تھی۔
اس نے کروٹ بدل کر نائٹ بلب کی روشنی میں پہلو میں لیٹی ملیحہ کو دیکھا جو کہ پرسکون انداز میں سو رہی تھی۔
وہ خود پر سے کمبل ہٹاتے ہوئے آہستہ سے نیچے اترا اور پھر دبے پاؤں کمرے سے باہر آگیا۔
نیچے بھی حسب توقع سناٹا ہی ہو رہا تھا۔ جسے نظر انداز کرتے ہوئے وہ کچن میں آیا اور فریج کھولتے ہی اس کے ارمانوں پر اوس گر گئی کیونکہ فریج میں تو آج بنے کھانے کا کوئی نام و نشان ہی نہیں تھا۔ اسے شدید مایوسی ہوئی۔ اس نے بجھے دل کے ساتھ فریج بند کیا اور جیسے ہی واپس جانے کیلئے پلٹا تو دونوں بازو سینے پر باندھے کھڑی ملیحہ کو دیکھ کر ٹھٹک گیا۔
"بچا ہوا کھانا واچ مین اور رنگیلا کو دے دیا تھا میں نے۔" ملیحہ نے سنجیدگی سے خود ہی بتایا۔
"کیا! لیکن کیوں؟" وہ حیرت سے بولا۔
"میرا مطلب ہے مجھے کیوں بتا رہی ہو؟" اس نے گڑبڑا کر جلدی سے بات بنائی۔
"کیونکہ تم فریج میں کھانا ڈھونڈ رہے تھے نا!" اس نے وضاحت کی۔
"نہیں تو! کس نے کہا؟ میں تو پانی پینے آیا تھا۔" وہ اندر ہی اندر گڑبڑاتے ہوئے بظاہر صاف مکر گیا۔
"مگر پانی تو تمہاری سائیڈ ٹیبل پر رکھا تھا!" اس نے گویا یاد دلایا۔
"میری مرضی میں وہاں پانی پیوں یا یہاں؟ تمہیں کیا مسلہ ہے؟" وہ سنبھل کر سنجیدہ ہوا۔ وہ کچھ نہ بولی۔
اس سے قبل کہ وہ مزید اس سے پوچھ گچھ کرکے اس کی چوری پکڑتی وہ اس کے برابر سے گزر کر چلا گیا جب کہ وہ وہیں کھڑی رہی۔
کچن سے کمرے میں آنے تک کے سفر کے دوران غضنفر نے خود کو خوب کوسا کہ کیا ضرورت تھی اسے کچن میں جانے کی؟ ایک تو ویسے ہی وہ اس سے بددل نہیں ہو رہی تھی اوپر سے یہ حرکات دیکھ کر تو اسے شہ مل جانی تھی۔
یہ ہی سب سوچتے ہوئے وہ گرنے کے سے انداز میں صوفے پر بیٹھا اور پشت سے سر ٹکاتے ہوئے آنکھیں موند لیں۔
اسے یوں بیٹھے ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ اچانک اسے محسوس ہوا کمرے میں روشنی ہوئی ہے۔ اس شک کی تصدیق کیلئے اس نے سر سیدھا کرتے ہوئے آنکھیں کھولی تو پتا چلا کہ ملیحہ کمرے کی لائٹس آن کرکے ہاتھ میں کھانے کی ٹرے لئے اسی طرف آرہی ہے۔
"میں نے بچا ہوا کھانا واچ مین کو دیا تھا، تمہارے حصے کا نہیں۔" اس نے کہتے ہوئے ٹرے کانچ کی میز پر رکھی۔
"اگر تم فریزر بھی کھول کر دیکھ لیتے تو کامیاب رہتے۔" اب وہ خود بھی آکر اس کے برابر میں بیٹھ گئی۔
"یہ کیوں لے آئی؟" اس نے سنجیدگی کا لبادہ اتارا نہیں۔
"کیونکہ تمھیں بھوک لگ رہی تھی نا!"
"یہ تم سے کس نے کہا؟" اس نے آئبرو اچکائی۔
"تمہاری بےچین کروٹوں نے۔" اس نے اطمینان سے کہتے ہوئے اسے لاجواب کردیا۔
"مجھے نہیں کھانا، لے جاؤ۔" اس نے چہرہ دوسری جانب کرتے ہوئے انکار کیا۔ حالانکہ دل تو چاہ رہا تھا کھانے کا مگر کمبخت دماغ بیچ میں آرہا تھا۔
"اچھا چلو کوئی نقص نکالنے کیلئے ہی چکھ لو۔" اس نے مسکراتے ہوئے دوسری راہ دکھائی۔ غضنفر نے گردن موڑ کر اس کی جانب دیکھا۔
"ہر وہ کام گناہ ہے جس سے ہمیں خود تکلیف پہنچے، اور خواہ مخواہ پیٹ کو بھوکا رکھنا بھی خود کو تکلیف دینا ہوتا ہے۔" وہ رسان سے بولی۔
"تم صبح والی بات پر ابھی تک ناراض ہو؟ میں نے کہا نا کہ آئی پرامس میں صبح ہوتے ہی تمہارے سارے کپڑے خود دھو دوں گی، اب پلیز کھانا کھالو، مجھے بھی بھوک لگ رہی ہے میں نے بھی ٹھیک سے کھانا نہیں کھایا ہے۔" وہ نروٹھے بچے کی مانند اس کے نخرے اٹھا رہی تھی۔
وہ اس کی اس حد درجہ فکر و پرواہ کو دیکھتے ہوئے چند لمحوں کیلئے ماضی کی دردناک یادوں میں چلا گیا جب رفاقت مارنے پیٹنے کے بعد اسے بھوکا پیاسا کمرے میں بند کردیتے تھے اور کوئی اس کا حال پوچھنے، اسے تسلی دینے، اسے پیار کرنے نہیں آتا تھا۔ اس نے تو کبھی غلطی سے بھی نہیں سوچا تھا کہ بھلا کوئی اس سے اتنا پیار بھی کرسکتا ہے کہ اس کے غصے اور ناراضگی کو مسلسل نظر انداز کرتے ہوئے اس کی اتنی فکر کرے گا!
"غضنفر!" جب وہ یک ٹک اسے دیکھتا رہا تو ملیحہ نے پکارا۔
"کھانا کھا لو۔" اس نے نرمی سے پھر اصرار کیا۔
"میں تمھیں مسلسل ناراضگی دیکھا رہا ہوں، تنگ کیے جا رہا ہوں، غصہ کر رہا ہوں مگر تم پر کوئی اثر ہی نہیں ہو رہا ہے، تم کیوں مجھ پر اتنا پیار لٹا رہی ہو؟ پاگل ہو کیا!" بلآخر وہ بول ہی پڑا۔ وہ بےساختہ مسکرائی۔
"اگر شوہر سے محبت کرنے کو پاگل پن کہتے ہیں تو ہاں ٹھیک ہے، ہوں میں پاگل۔" اس نے مسکراتے ہوئے کندھے اچکائے۔
"کیوں؟ تمھیں برا نہیں لگتا جب میں تم پر غصہ کرتا ہوں، تمہاری سیلف ریسپیکٹ ہرٹ نہیں ہوتی؟ تمھیں مجھ پر غصہ نہیں آتا؟ مجھے چھوڑ کر جانے کا دل نہیں کرتا؟" وہ کب سے ذہن میں کلبلاتے سوال زبان پر لے آیا جنہیں اس نے خاموشی سے سنا۔
"جب تم مجھ پر غصہ کرتے ہو تو مجھے غصہ آتا ہے، مگر میں یہ سوچ کر چپ رہ جاتی ہوں کہ ہوسکتا ہے شاید کاروباری معاملات کی کوئی جھنجھلاہٹ ہو جو مجھ پر نکال کر اگر تم پرسکون محسوس کرتے ہو تو تمہارے غصے سے مجھے کوئی مسلہ نہیں، پھر بات آتی ہے سیلف ریسپیکٹ یعنی عزت نفس کی تو وہ تب ہرٹ ہوتی ہے جب کوئی بات بری لگتی ہے اور تمہاری تو کوئی بات مجھے کبھی بری لگی ہی نہیں سوائے اس روز شراب پینے کے، ہر انسان کا مزاج مختلف ہوتا ہے، ایسے ہی تم تھوڑے غصے کے تیز ہو یہ بات میں سمجھ گئی ہوں، اور جو بات سمجھ میں آجائے وہ پھر بری نہیں لگتی، اور رہی بات تمھیں چھوڑ کر جانے کی، تو وہ میں کبھی نہیں جاؤں گی۔" وہ مبہم سی دلکش مسکراہٹ کے ہمراہ دھیرے دھیرے کہتی گئی اور وہ اسے سنتا رہا۔
"اور تمھیں کبھی بھی میری کوئی بات بری لگے یا مجھ سے کچھ چاہو تو دل میں رکھنے کے بجائے بلاجھجھک مجھے کہہ دینا، کیونکہ اگر ان بدگمانیوں نے دل میں بسیرا کرلیا نا تو پھر محبت کیلئے دل میں جگہ نہیں بچے گی۔" وہ اسی انداز میں مزید بولی۔ آس پاس ایسا لگ رہا تھا کہ کسی نے کوئی سحر پھونک دیا ہے۔
"اب اگر سوال جواب کا سیشن پورا ہوگیا ہو تو کھانا کھا لیں، مجھے بھی بھوک لگ رہی ہے۔" ملیحہ نے دھیان دلایا۔ اور پھر خود ہی اس کی پلیٹ میں کھانا نکالنے لگی اور وہ ایک بار پھر اس پاگل کے آگے ہار گیا۔
خزاں کی رت میں گلاب لہجے بنائے رکھنا، کمال یہ ہے
ہوا کی زد پر دیا جلانا، جلائے رکھنا، کمال یہ ہے
ذرا سی لغزش پر توڑ دیتے ہیں سب ہی تعلق دنیا والے
سو ایسے ویسوں سے بھی تعلق بنائے رکھنا کمال یہ ہے
*******************************
ایک نیا سویرا پھر جلوا افروز ہوچکا تھا جو کہ صبیحہ کیلئے بالکل بھی خوشگوار نہیں تھا۔ اور وجہ تھے آج دوپہر میں آنے والے مہمان جن کیلئے شاہانہ کی ہدایت کے مطابق وہ اس وقت کچن میں موجود کھانے کی تیاری کر رہی تھی۔
"یہ لو بیٹا، پیاز کاٹ دی ہے میں نے اور ٹماٹر ملازمہ کاٹ رہی ہے، اور کچھ کروا دوں؟" صالحہ نے پیاز کی پلیٹ کو کاؤنٹر پر رکھتے ہوئے پوچھا۔
"نہیں آنٹی بہت شکریہ اتنی ہیلپ کیلئے۔" وہ نرمی سے شکر گزار ہوئی۔
"چلو تم جب تک مصالحہ بھونو گی میں چاول چن دیتی ہوں، فارغ ہی ہوں۔" صالحہ نے کہتے ہوئے چاول کی ٹرے اٹھائی اور وہیں ٹیبل کے گرد کرسی پر بیٹھ گئیں۔
"تمہاری فیملی تو چھوٹی تھی تو گھر میں اتنا کام نہیں ہوتا ہوگا نا!" صالحہ یوں ہی اس سے باتیں کرنے لگیں۔
"جی، اور جو تھوڑا بہت ہوتا تھا وہ امی یا پھر ملازمہ کرلیا کرتی تھیں، باقی کبھی کبھار ملیحہ کو کچھ بنانے کا شوق اٹھتا تھا تو وہ کچن میں گھس جاتی تھی اور صرف اپنے لئے ہی بناتی تھی۔" اس نے بتاتے ہوئے گرم تیل میں پیاز ڈالی۔
"وہ بھی بہت پیاری بچی ہے ماشاءاللہ!" انہوں نے بےساختہ اس کی تعریف کی۔
"پیاری نہیں لکی ہے، ایک تو آپ کے جیسی سیدھی سادی ساس ملی اور اوپر سے سسرال والوں سے دور بھی رہ رہی ہے۔" اس نے شرارتی نروٹھے پن سے کہا۔ درحقیقت اپنی بہن کو خوش دیکھ کر وہ بھی بہت مطمئن تھی۔ جب کہ وہ بےساختہ مسکرادیں۔
"تو تمہاری نظر میں سسرال والوں سے دور ہونا خوش نصیبی ہوتا ہے؟" انہوں نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
"نہیں، سپورٹیو سسرال والوں کا ہونا خوش نصیبی ہوتا ہے جو بہو کو بیٹی سمجھیں۔" اس نے اپنے نظریہ کی وضاحت کی۔ وہ کچھ نہ بولی۔
"اگر آپ برا نہ مانیں تو ایک بات پوچھوں؟" ایک خیال کے تحت وہ کہتے ہوئے پلٹی۔
"ہاں ضرور!" انہوں نے سہولت سے اجازت دی۔
"آپ بھی تو اس گھر کی بڑی بہو ہیں نا! تو پھر آپ سے زیادہ عزیر کی ممی کی کیوں چلتی ہے یہاں؟ آپ کیوں کچھ نہیں بولتی؟" وہ ذہن میں کلبلاتا سوال زبان پر لے آئی۔
ان کا چاول صاف کرتا ہاتھ بےاختیار ساکت ہوا اور انہوں نے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا جو شاید جواب کی منتظر تھی۔
"چاول صاف ہی تھے، کنکر نہیں تھے ان میں۔" اس کے سوال سے کتراتے ہوئے وہ بات بدل کر اٹھ کھڑی ہوئیں۔
"چلو تم کھانا بناؤ میں ذرا اماں بی کو دوا دے کر آتی ہوں ہاں!" انہوں نے دامن بچاتے ہوئے فرار چاہی۔
"آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا، آپ کیوں کچھ نہیں کہتیں؟" اس نے پیچھے سے پکارتے ہوئے سوال دہرایا تو وہ رک گئیں۔
"کیونکہ دلہن وہ ہی جو پیا من بھائے۔" انہوں نے پلٹے بنا ہی مختصر جواب دیا اور پھر کچن سے باہر نکل گئیں۔ جب کہ وہ ناسمجھی سے انہیں دیکھ کر رہ گئی۔
*******************************
"جب سے وہ زمین آپ کے نام ہوئی ہے شوروم پر دھیان ہے کہاں آپ کا؟ بس کنسٹرکشن کی نگرانی میں ہی مصروف رہتے ہیں آپ، تب ہی تو اتنی ضروری فائل گھر بھول آئے۔" غضنفر نے موبائل کان سے لگائے کار سے باہر آکے اس کا گیٹ بند کیا۔
"طنز نہیں مار رہا سچ بتا رہا ہوں، اچھا خیر! میں گھر پہنچ گیا ہوں، تھوڑی دیر میں فائل لے کر آیا بس۔" اس نے کسی بات کے جواب میں کہا اور پھر موبائل پینٹ کی جیب میں رکھ کر اندر کی جانب بڑھ گیا۔
اس نے سلیمان کے اسٹڈی روم میں آکر مطلوبہ فائل لی اور اسے لے کر واپس جانے لگا۔ اس دوران ملیحہ کہیں نظر نہیں آئی تھی، شاید وہ اپنے کمرے میں تھی۔
اچانک اس کے دل میں پتا نہیں کیا آیا کہ اس نے فائل ہال میں موجود میز پر رکھی اور خود اوپر کمرے کی جانب بڑھا۔ مگر وہاں پہنچنے کے بعد اسے یہ دیکھ کے حیرانی ہوئی کہ وہ تو وہاں تھی ہی نہیں۔ ایک خیال کے تحت اس نے باتھ روم میں چیک کیا وہ وہاں بھی نہیں تھی۔
ایسے اچانک بھلا کہاں چلی گئی تھی وہ؟ اس سوال نے اسے تشویش میں مبتلا کردیا۔ اور پتا نہیں کیوں؟ مگر اسے غیر حاضر پا کر وہ بہت بےچین ہوگیا تھا۔
"ملیحہ! ملیحہ!" اس نے کمرے سے باہر آتے ہوئے بلند آواز سے پکارا۔
"ملیحہ!" وہ پکارتے ہوئے واپس اس امید پر نیچے آیا کہ شاید وہ کچن میں ہو۔ مگر وہ وہاں بھی نہیں تھی۔
"ملیحہ! ملیحہ!" وہ بلند آواز سے پکارنے لگا مگر کوئی جواب نہ ملا۔
"چھوٹے صاحب! آپ اتنی جلدی آگئے۔" ڈرائینگ روم کی ڈسٹنگ چھوڑ کر رنگیلا اس کی آواز پر دوڑا چلا آیا۔
"ملیحہ کہاں ہے؟" غضنفر نے اس کی بات نظر انداز کرتے ہوئے بےتابی سے پوچھا۔
"ملیحہ! ملیحہ!" وہ بلند آواز سے پکارنے لگا مگر کوئی جواب نہ ملا۔
"چھوٹے صاحب! آپ اتنی جلدی آگئے۔" ڈرائینگ روم کی ڈسٹنگ چھوڑ کر رنگیلا اس کی آواز پر دوڑا چلا آیا۔
"ملیحہ کہاں ہے؟" غضنفر نے اس کی بات نظر انداز کرتے ہوئے بےتابی سے پوچھا۔
"وہ تو اپنے کمرے میں ہوں گی!" اس نے اندازاً بتایا۔
"وہاں نہیں ہے، میں دیکھ کر آرہا ہوں۔" اس نے نفی کی تو وہ بھی متعجب انداز سے سوچ میں پڑ گیا۔
اگلے پل رنگیلا کے چہرے کے تاثر بدلے گویا اسے کچھ یاد آیا ہو!
"ارے یاد آیا، بھابھی جی آپ کے کپڑے دھو رہی تھیں تو ہوسکتا ہے وہ چھت پر کپڑے سکھا رہی ہوں!" ایک خیال کے تحت اس نے اندازہ لگایا تو غضنفر برق رفتاری سے اوپر چھت کی جانب بڑھا۔
چھت کا دروازہ کھلا ہوا ہی تھا اور حسب توقع گہرے نیلے سوٹ کا دوپٹہ کمر کے گرد باندھے، بالوں کو کیچر میں لپیٹے، چلچلاتی دھوپ میں ملیحہ اسے اپنے دھلے ہوئے کپڑے رسی پر سکھاتی ہوئی ملی۔
غضنفر نے تو محض اسے زچ کرنے کیلئے یوں ہی ایک حکم دے دیا تھا مگر وہ پگلی تو اس کی تکمیل کرنے کھڑی ہوگئی تھی۔ وہ اس کے منہ سے نکلی ہر بات کو پتھر پر لکیر مان کر چلتی تھی جس پر خود وہ بھی حیران رہ جاتا تھا۔
وہ سارے کپڑے سکھا چکی تھی جس کے بعد وہ جیسے ہی بالٹی اٹھا کر جانے کیلئے پلٹی تو داخلی حصے پر اسے کھڑا دیکھ چونک گئی۔
"ارے تم! اس وقت یہاں کیسے؟" وہ خوشگوار حیرت سے کہتی دھوپ میں بمشکل کھلی آنکھوں سے اسے دیکھتی اسی طرف آئی۔
"تم پاگل ہو کیا؟ کیا ضرورت تھی اتنی دھوپ میں آکر کپڑے سکھانے کی، دیکھو کتنے پسینے آرہے ہیں تمھیں۔" وہ اس کی بات نظر انداز کرتے ہوئے فکر مندی سے اسے ڈپٹنے لگا۔
"تم ہی نے تو کہا تھا کل کپڑے دھونے کا۔" اس نے تعجب سے یاد دلایا۔
"وہ تو میں نے ایسے ہی۔۔۔۔۔" وہ کہتے ہوئے یکدم رک گیا۔
ملیحہ اس کی فکرمند سی برہمی دیکھ کر کافی متعجب تھی۔
"چھوڑو یہ باتیں، چلو اب نیچے۔" وہ بات بدل کر اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولا اور پھر دونوں نیچے کی جانب بڑھ گئے۔
"ویسے تم اس وقت گھر کیسے آگئے؟" ملیحہ نے آخری سیڑھی اترتے ہوئے یوں ہی پوچھا۔ دونوں ہال میں آچکے تھے۔
"ایک فائل گھر پر بھول گئے تھے ماموں، بس وہ ہی لینے آیا تھا۔" اس نے سرسری جواب دیا۔ وہ کچھ نہ بولی۔
"اچھا اب میں چلتا ہوں۔" اس نے کہتے ہوئے میز پر سے فائل اٹھائی۔
"ٹھیک ہے، اپنا خیال رکھنا، گھر جلدی آنا، اللہ حافظ!" اس نے خوشدلی سے اسے رخصت کیا۔
وہ باہر کی جانب بڑھ گیا۔ اور جب تک نظروں سے اوجھل نہیں ہوا وہ وہیں کھڑی اسے دیکھتی رہی۔
کبھی یک بہ یک توجہ کبھی دفعتاً تغافل
مجھے آزما رہا ہے کوئی رخ بدل بدل کر
انتخاب
*******************************
"کھانا تو بہت مزے کا بنا ہے بھئی!" فہمیدہ نے بنا بخل کے تعریف کی۔
"ہماری بہو ماشاءاللہ سے ہر کام میں ماہر ہے پھر چاہے وہ گھر کا ہو یا اس کے ہسپتال کا۔" دردانہ مسکراتے ہوئے گویا ہوئیں۔ تو جواباً صبیحہ بھی مسکرائی۔
"ہاں، بس وہ الگ بات ہے کہ گھر کا کام بہت کم کرتی ہے۔" شاہانہ نے طنز کر ہی دیا۔
مرد حضرات تو اس وقت آفس میں ہوتے تھے اسی لئے ساری خواتین فہمیدہ کے ہمراہ اس وقت صبیحہ کے ہاتھ کا بنا لنچ کرنے ڈائینگ روم میں اکھٹا تھیں اور سب کافی خوشگوار ماحول میں کھانا کھا رہے تھے مگر وہ شاہانہ ہی کیا جو ماحول کو تا دیر خوشگوار رہنے دیں۔
"کتنا عرصہ ہوگیا ہے تمہاری شادی کو؟" انہوں نے کھانا کھاتے ہوئے سوال کیا۔
"تقریباً ڈھائی تین مہینے۔" صبیحہ نے اندازاً بتایا۔
"اچھا! تو پھر خیر سے خوشخبری کب سنا رہی ہو؟" انہوں نے معنی خیزی سے پوچھا تو بےساختہ صبیحہ کی مسکراہٹ سمٹ کر غائب ہوئی۔ جسے سب نے ہی محسوس کیا۔
"زوہا! بیٹا اس میں چاول نکال کر لے آؤ اور۔" صالحہ نے موضوع بدلنے کی کوشش میں ٹرے کو زوہا کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا تو وہ ہدایت پر عمل کرتی کرسی پر سے اٹھ گئی۔
"آپ نے سالن نہیں چکھا؟ یہ بھی کھا کر دیکھیں بہت مزے کا بنا ہے؟" صالحہ ان سے مخاطب ہوئیں۔
"ہاں ہاں وہ بھی چکھ لوں گی۔" انہوں نے اطمینان دلایا تو صالحہ مسکرا کر رہ گئیں۔
"ہاں تو بیٹا بتاؤ، کب تک خوشخبری سنانے کا ارادہ ہے؟" وہ واپس اسی موضوع پر آگئیں۔ جس کے باعث صبیحہ کو اب فرار کی راہیں تنگ نظر آئیں۔
"ابھی تو شادی ہوئی ہے، ابھی اتنی جلدی کیا ہے؟" اس نے آہستہ سے سوالیہ انداز میں کہا۔
"لو! بھئی میں نے تو شادی کے دو مہینے بعد ہی خوشخبری سنا دی تھی، اور تم کہہ رہی ہو جلدی! ارے یہ ہی تو دن ہوتے ہیں۔" انہیں کافی دلچسپی ہو رہی تھی اس موضوع میں۔ اور صبیحہ کو کوفت۔
"ارے تم کیا یہ باتیں لے کر بیٹھ گئی ہو؟ کھانا کھاؤ ٹھنڈا ہوجائے گا۔" دردانہ نے مداخلت کی۔ زوہا بھی واپس آکر بیٹھ چکی تھی۔
"وہ بھی کھا رہی ہوں مگر یہ بات بھی تو ضروری ہے، بھئی خیر سے نسل کی بقاء کا معاملہ ہے، اور آج کل کی نوجوان نسل ہے کہ اس چیز کو سنجیدہ ہی نہیں لیتی ہے، اور جب وقت ہاتھ سے نکل جاتا ہے تو پھر ڈاکٹروں کے پیچھے بھاگ رہی ہوتی ہے۔" انہوں نے تاسف بھرے انداز میں طنز کیا اور اب صبیحہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔
"نسل بڑھانے کی فکر ہے بس، اس نسل کی تعلیم و تربیت کا کوئی خیال نہیں ہے۔" وہ یکدم بلند آواز سے بولی جس پر سب حیران ہوگئے۔
"صبیحہ!" شاہانہ نے خفگی سے ٹوکا۔
"اور آپ لوگوں کو کیوں اتنی فکر لگی رہتی ہے ہماری نسل کی؟ آپ لوگ تو بس خوشخبری سن کر آتے ہیں، میٹھائی کھاتے ہیں اور چلے جاتے ہیں پھر خوشخبری کی رٹ کے نام پر کسی اور کا جینا حرام کرنے، ذمہ داری تو ان لوگوں پر آجاتی ہے نا جو اپنی خوشی سے زیادہ رشتے داروں کے پریشر میں آکر بچے پیدا کرتے ہیں، بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارا تعلق ایک ایسے معاشرے سے ہے جہاں شادی کے دو مہینے بعد رشتے داروں کے سامنے بس یہ ثابت کرنے کیلئے پہلا بچہ پیدا کرنا پڑتا ہے کہ میاں بیوی دونوں صحت مند ہیں۔" وہ غصے سے پھٹ پڑی تھی۔ باقی سب دنگ رہ گئے تھے۔
"توبہ توبہ! کیسی بےشرم اور زبان دراز لڑکی ہے یہ۔" فہمیدہ نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔
"صبیحہ! یہ کیا بدتمیزی ہے؟ ایسے بات کرتے ہیں بڑوں سے؟" شاہانہ بھی برہم ہوئیں۔
"جب صرف نام کے بڑے ایسی باتیں کرنے لگیں تو پھر اسی طرح جواب دیا جاتا ہے انہیں کیونکہ اور کوئی زبان ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔" وہ بنا ڈرے ترکی بہ ترکی بولی۔
"اور آپ نے یہ جو بچے کی رٹ لگائی ہوئی ہے ذرا بتائیں گی کہ کیسے مینیج کروں گی میں پہلے نوں مہینے کی پریگنینسی کے ساتھ اور پھر بعد میں اسے گود میں لئے لئے اپنے ہاسپٹل کی جاب؟ کیونکہ آپ تو خوشخبری کی میٹھائی کھا کر چلتی بنیں گی، میرا شوہر بھی صبح کو آفس گیا رات میں گھر آتا ہے اور میری ساس کو تو ابھی میرا گھر کے کاموں میں ہاتھ نہ بٹانا اتنا برا لگتا ہے تو جب میں مزید مصروف ہوجاؤں گی پھر کیا کریں گی یہ!" وہ دوبدو مخاطب تھی۔
"توبہ ہے بھئی! کیسے قینچی کی طرح زبان چل رہی ہے، اور ہم نے نہیں کہا ہے تمھیں ڈاکٹری کرنے کو، عورت کی ذمہ داری گھر اور بچے ہوتے ہیں، گھر میں رہو اور انہیں سنبھالو، اور یہ بچوں کی جلدی ہم نے نہیں مچائی ہوئی بلکہ اسلام حکم دیتا ہے، اگر ڈاکٹری کی کتابوں کی بجائے تھوڑا دین اسلام بھی پڑھا ہوتا تو معلوم ہوتا کہ نکاح کے اہم مقاصد میں سے ایک افزائش نسل بھی ہے، اسی لئے لوگ بہو لاتے ہیں کہ وہ آکر ان کے خاندان کا نام بڑھائے گی، ان کا وارث، ان کے بعد ان کا نام لینے والا پیدا کرے گی۔" انہوں نے بھی ترکی بہ ترکی آئینہ دکھانا چاہا۔ جب کہ باقی سب تو ہکابكا رہ گئے تھے اس سارے تماشے کے آگے۔
"آپ کے دادا کا نام کیا تھا؟" صبیحہ نے اچانک سوال کیا۔
"ہیں!" وہ سمجھی نہیں۔
"دادا کا نام بتائیں اپنے۔" اس نے بلند آواز سے دہرایا۔
"نور محمد!" انہوں نے ناسمجھی سے جواب دیا۔
"اور پر دادا کا نام کیا تھا؟" اس نے اگلا سوال کیا۔
انہوں نے جواب دینے کے بجائے ناسمجھی سے شاہانہ کی جانب دیکھا۔
"دماغ خراب ہوگیا ہے صبیحہ تمہارا؟ یہ کیسے سوال کر رہی ہو؟" شاہانہ نے پھر ٹوکا۔
"جواب دیں آپ کے پر دادا اور پر دادی کا نام کیا تھا؟" اس نے شاہانہ کی بات نظر انداز کرتے ہوئے زور سے ٹیبل پر ہاتھ مارا۔ جس سے لمحے بھر کو سب چونک گئے۔
"مجھے نہیں یاد، اور بھلا کیسے یاد ہوسکتا ہے؟" انہوں نے حیرانی و پریشانی کے عالم میں جواب دیا۔
"کیوں نہیں یاد؟ انہوں نے بھی تو یہ ہی سوچ کر بچے پیدا کیے ہوں گے پھر ان سے پوتا پوتی کی فرمائش کی ہوگی کہ کل کو پوتا پوتی اور ان کے بچے ان کا نام لیں گے،انہیں یاد رکھیں گے جیسے آج آپ کہہ رہی ہیں، مگر افسوس! آپ کو تو ان کا نام یاد ہی نہیں، تو پھر آپ کیسے کہہ سکتی ہیں کہ آنے والی نسل بھی آپ لوگوں کو یاد رکھے گی؟" اس نے ٹھہرے ہوئے غصے میں سوال اٹھایا۔ وہ لاجواب ہوگئیں۔
"اور الحمدللہ دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہمارے ماں باپ نے ہم دونوں بہنوں کو دینی تعلیم بھی دی ہے، ہم صرف قرآن کا سایہ لے کر ان کے گھر سے رخصت نہیں ہوئے ہیں، بلکہ اس قران میں موجود ہدایات کو جانتے بھی ہیں اور ان پر عمل بھی کرتے ہیں، بلاشبہ نکاح کا مقصد افزائش نسل ہے مگر انسانی نسل، یہ نہیں کہ فلاں خاندان کی نسل، اسلام نے مسلمانوں کی نسل بڑھانے پر زور دیا ہے مگر یہاں تو لوگ ایک مسلمان ہونے کے بجائے، ذات اور فرقوں میں بٹ گئے ہیں اور بٹتے چلے جا رہے ہیں، اور یہاں پر بھی بس نہیں ہوجاتی، اگر پوتے کی جگہ پوتی پیدا ہوجائے تو اس پر بھی لوگوں کے منہ بن جاتے ہیں کہ بیٹی پیدا کردی، جس دین اسلام کو آڑ بنا کر در حقیقت آپ لوگ اپنا مفاد پورا کر رہے ہوتے ہیں اگر واقعی اسے پڑھا ہوتا تو پتا چلتا کہ اللہ نے قران پاک میں واضح فرمایا ہے کہ اولاد انسان کے اختیار میں نہیں ہے، وہ جیسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے بیٹی عطا کرتا ہے، جیسے چاہتا ہے دونوں ملا کر عطا کرتا ہے، اور جسے چاہے بانجھ بنا دیتا ہے،
(سورہ الشوریٰ 50-49)
مگر آپ جیسے لوگ سارا ملبہ بیچاری عورت پر گرا دیتے ہیں جو سراسر بےقصور ہوتی ہے۔" وہ سانس لینے کو رکی۔
"اور ٹھیک ہے کہ ڈاکٹری میں اپنی مرضی سے کر رہی ہوں اور بچوں کیلئے اسے چھوڑ کر گھر بیٹھ بھی جاتی ہوں، مگر اس کے بعد بھی بچے کی تربیت ایک بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے، عورت اپنا آپ فراموش کرکے بس بچے کی ہوکر رہ جاتی ہے، اور اپنے شوہر تک کو بھرپور وقت نہیں دے پاتی، کیا حرج ہے کہ اگر شادی کے بعد کم از کم سال بھر میاں بیوی اپنا وقت ایک دوسرے کو دیں، ایک دوسرے کو سمجھیں، آنے والے دنوں کی، اپنی اولاد کی زندگی کی منصوبہ بندی کریں اور پھر بچے کا سوچیں! لیکن نہیں! بس قرآن و حدیث کو اپنی مرضی کا معنی مفہوم پہنا کر، اس کی آڑ لے کر آپ لوگ جو نئے شادی شدہ جوڑے کا جینا محال کرتے ہیں کہ کوئی حد نہیں، بیچارے صرف دو تین ماہ بعد ہی ڈاکٹرز کے پاس بھاگنا شروع کردیتے ہیں کہ شاید ہم میں کوئی خرابی ہے، جب کہ ایسا نہیں ہے، انسان کے نصیب میں جب اولاد لکھی ہے تب ہی ہوتی ہے، اور اگر خدانخواستہ نصیب میں اولاد نہیں ہے تو بھی ایسے ہزاروں لاکھوں لاوارث بچے ہیں جو ماں باپ کی آغوش کو ترس رہے ہوتے ہیں ان میں سے کسی کو گود لیا جا سکتا ہے مگر نہیں! افزائش نسل کا راگ الاپنے والوں کو پھر اپنی ذات و نسل کی فکر لگ جاتی ہے، جب کہ ایک انسان کا کردار اس کی ذات، پات، رنگ نسل سے نہیں بلکہ تربیت سے بنتا ہے، لیکن ہم اچھی تربیت کے سوا ہر چیز کی فکر میں نا صرف خود گھلتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی ہلکان کیے رکھتے ہیں۔" وہ کہنے پر آئی تھی تو ہر وہ بات کہتی چلی گئی تھی جو اس کے منہ میں آرہی تھی جسے سب ہکابكا سے سنتے رہے۔
"جب میرے اور عزیر کے نصیب میں اولاد ہوگی تو ہوجائے گی پھر چاہے وہ شادی کے ایک مہینے بعد ہو یا ایک سال بعد، آپ لوگوں کو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔" وہ برہمی سے مزید کہتی ہوئی کرسی پر سے اٹھی اور تیز تیز قدم اٹھا کر روم سے باہر نکل گئی۔
"توبہ ہے! تمھیں یہ ہی لڑکی ملی تھی اپنی بہو بنانے کیلئے شاہانہ! کتنی بدتمیز ہے یہ۔" اس کے جانے کے بعد انہوں نے جلتی پر تیل چھڑکا۔
"میرے بیٹے کی پسند ہے۔" وہ زہر خندہ انداز میں بولیں۔ جب کہ دل ہی دل میں انہوں نے عزیر سے بات کرنے کا پکا ارادہ کرلیا تھا۔
*******************************
غضنفر اس وقت کرسی کی پشت سے سر ٹکائے آنکھیں بند کیے سوچوں میں الجھا زندگی کی الجھی گرہیں سلجھانے کی کوشش کر رہا تھا مگر افسوس کہ کامیاب نہیں ہو پا رہا تھا۔
وہ ہمیشہ پیار کیلئے ترسا تھا، اس سے کبھی بےلوث محبت کی ہی نہیں گئی تھی۔ صرف ایک سلیمان تھے جنہوں نے اسے مشکل وقت میں تھام کر سہارا دیا تھا اور پھر وہ S حرف کے نام والی انجان لڑکی جس نے اس کی جان بچائی تھی اور بدلے میں وہ اپنا دل اسے دے بیٹھا تھا۔ وہ اب تک اسے ڈھونڈ کر اس تک پہنچ چکا ہوتا اگر ملیحہ بیچ میں نہ آتی۔
ملیحہ بھی اس کی سمجھ سے باہر تھی، اس نے اب تک کی اپنی زندگی میں بس ایک بات ہی سیکھی تھی کہ کوئی بھی ہم سے بلاوجہ پیار نہیں کرتا، اور پیار کیلئے ترستے ہوئے اب وہ اس نہج پر پہنچ چکا تھا کہ ملیحہ کا بےپناہ پیار اس کا والہانہ پن اسے متاثر کرنے کے بجائے الجھا دیتا تھا۔ وہ اس کی مخلصی کو شک کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ اسے لگتا تھا کہ ملیحہ کے اس پیار کے پیچھے بھی کوئی وجہ ہے، مگر اسے وجہ سے کوئی سروکار نہیں تھا، اس کے لئے ملیحہ سے شادی محض ایک وقتی حکم تھا جس کی تکمیل اس نے کردی تھی اور اب اس رشتے سے آزاد ہوکر اسے اس انسان کو ڈھونڈنا تھا جس سے وہ خود پیار کر بیٹھا تھا۔ کیونکہ یہ ہی تو انسانی فطرت ہے نا کہ
ہم کسی کیلئے تڑپیں تو طلب
کوئی ہمارے لئے تڑپے تو مطلب
از فریال خان
*******************************
"عزیر! مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے، میرے کمرے میں آؤ۔" وہ ابھی ابھی باقی سب کے ساتھ ہال میں داخل ہوا تھا کہ گاڑی کی آواز سنتے ہی وہاں آئی شاہانہ نے حکم دیا۔ اور دردانہ تو پہلے ہی حسب معمول صوفے پر بیٹھی پان بنا رہی تھیں۔
"فریش ہوکر آتا ہوں ممی!" وہ تھکے ہوئے انداز میں بولا۔ جب کہ رفاقت، شفاعت اور عبید اپنے اپنے کمروں کی جانب بڑھنے لگے۔
"نہیں! یہیں رکو سب، مجھے ابھی بہت ضروری بات کرنی ہے۔" وہ بضد ہوکر بولیں تو سب وہیں رک گئے۔ رفاقت کیلئے پانی لے کر آئی صالحہ بھی حیرانی سی ایک جگہ رک گئیں۔
"مجھے پتا ہے آپ کو صبیحہ کے بارے میں بات کرنی ہے کہ اس نے فہمیدہ آنٹی سے بدتمیزی کی ہے۔" اس نے سنجیدگی سے کہا۔
"اوہ ہو! تو مطلب پہلے ہی فون کرکے کان بھر دیے ہیں اس نے تمہارے!" ان کے تن بدن میں آگ لگ گئی تھی۔
"کیا ہوگیا ہے ممی! اس نے صرف مجھے آگاہ کیا ہے۔" عزیر نے دفاع کیا۔
"آگاہ نہیں کیا آگ لگائی ہوگی میرے خلاف، سب سمجھتی ہوں میں۔" وہ نتیجہ نکال چکی تھیں۔
"یہ کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ! دادی آپ ہی سمجھائیں انہیں۔" وہ مدد طلب انداز میں دردانہ کو بیچ میں لایا۔
"بیٹا انسان خود جیسا ہوتا ہے دوسروں کو بھی ویسا ہی سمجھتا ہے، ایک وقت تھا جب یہ بطور بہو ذرا ذرا سی بات شفاعت کو میرے خلاف بڑھا چڑھا کر بتاتی تھی اسی لئے آج اپنی بہو کو بھی شک کی نظر سے دیکھ رہی ہے۔" دردانہ نے اطمینان سے کہتے ہوئے چھالیہ کاٹی تو شاہانہ دنگ رہ گئیں۔
"لو بس! یہ ہی الزام باقی رہ گیا تھا، دیکھ لیا آپ نے، یہ سوچتی ہیں آپ کی اماں میرے بارے میں۔" وہ مصنوعی رنج کے عالم میں شفاعت سے بولیں۔
"کیا ہوگیا ہے شاہانہ! کیوں خواہ مخواہ کا تماشا لگا رہی ہو!" شفاعت نے بھی کوفت سے الٹا ٹوکا۔
"واہ بھئی! سب کو میں ہی غلط لگتی ہوں، میری تو کوئی سننے کو تیار ہی نہیں ہے، اچھا ہوتا کہ یہ دن دیکھنے سے پہلے میں مر جاتی۔" وہ رونی صورت بنا کر کہتی اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئیں۔ باقی سب ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
تھکے ہارے عبید نے بےزاری سے یہ فیملی ڈرامہ نظر انداز کیا اور اپنے کمرے کی جانب چلا گیا۔ عزیر کو بھی وہاں رکنا فضول لگا، شفاعت بھی لب بھینچتے ہوئے شاہانہ کے پیچھے لپکے۔ اور صالحہ جلدی سے پانی کا گلاس لے کر رفاقت کے پیچھے پیچھے کمرے میں گئیں۔ جب کہ دردانہ سب سے بےنیاز یوں ہی اپنا پان بنانے میں مصروف رہیں۔
*******************************
"شوروم میں سب خیر ہے نا ماموں؟" ملیحہ نے ان کی پلیٹ میں سالن نکالتے ہوئے پوچھا۔
"ہاں ہاں، کیوں؟" انہوں نے بتاتے ہوئے پوچھا۔
"بس ایسے ہی، آج کل آپ کی اور غضنفر کی آنے جانے کی ٹائمنگ کافی آؤٹ چل رہی ہے نا، کبھی وہ جلدی چلے جاتے ہیں گھر سے تو کبھی آپ، کبھی وہ دیر سے گھر آتے ہیں کبھی آپ، جیسے آج بھی ابھی تک وہ آئے نہیں، ورنہ پہلے تو آپ لوگ ساتھ ہی آتے جاتے تھے نا اس لئے پوچھا۔" اس نے وضاحت کرتے ہوئے ہاٹ پاٹ ان کی جانب بڑھایا۔
"نہیں بس شوروم کے کام کو لے کر ہی مصروف رہتے ہیں ہم، اور اگر ہم میں سے کبھی کسی کا کام پہلے ختم ہوجاتا ہے تو وہ پہلے گھر آجاتا ہے ورنہ دونوں ساتھ ہی سب نمٹا کر واپس آتے ہیں۔" انہوں نے متوازن انداز میں جواب دیا تو اس نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلا دیا۔
*******************************
"عزیر اب تک خیال ہی تو کرتی آرہی تھی، مگر ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے، اور بات صرف گھر میں رہتی تو بھی ٹھیک تھا مگر تمہاری ممی ہر آنے جانے والے کے سامنے میری جاب اور ہمارے بچوں کا ذکر ضرور کرتی ہیں جو اب میں اور برداشت نہیں کرسکتی۔" صبیحہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا۔
"تم برداشت نہیں کرسکتی، ممی خاموش نہیں رہ سکتی اور تم دونوں کے بیچ میں پھنس گیا ہوں میں، اب میں کیا کروں یہ بھی بتا دو۔" بیڈ پر اس کے مقابل بیٹھے عزیر کا ضبط بھی جواب دیا گیا۔
"تو تمہارا مطلب ہے کہ غلطی میری ہے؟ میں نے تمھیں پھنسایا ہے؟" اس نے بےیقینی سے تائید چاہی۔
"نہیں، غلطی میری ہے، جو اپنی ماں اور تمہاری عادت، فطرت اور مزاج کو جانتے ہوئے بھی میں نے یہ سوچ کر تم سے شادی کا فیصلہ کیا کہ شاید ہم سب ایک ساتھ رہ سکیں گے۔" وہ سنجیدگی سے کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔ صبیحہ نے حیرانی سے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
پھر وہ بنا اس سے کوئی بات چیت کیے کمرے کا دروازہ پٹختے ہوئے باہر نکل گیا اور وہ اسے دیکھ کر رہ گئی۔
"عزیر! بیٹا کھانا لگ رہا ہے آجاؤ صبیحہ کے ساتھ ڈائینگ روم میں۔" اسے کمرے سے باہر آتا دیکھ صالحہ اس طرف آئیں۔
"مجھے بھوک نہیں ہے تائی۔" وہ سنجیدگی سے کہتا ہوا باہر کی طرف چلا گیا۔ جب کہ وہ ناسمجھی سے اسے دیکھ کر رہ گئیں۔
*******************************
غضنفر جیسے ہی کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو آہٹ کے باعث صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھی ملیحہ سیدھی ہوگئی۔
"السلام علیکم!" ملیحہ نے حسب معمول خوشدلی سے سلام کیا۔
"وعلیکم السلام!" اس نے سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے دروازہ بند کیا۔
"تم فریش ہوجاؤ میں تب تک کھانا گرم کرکے لے کر آتی ہوں۔" وہ کہتے ہوئے صوفے پر سے اٹھی۔
"مجھے بھوک نہیں ہے۔" اس نے سائیڈ ٹیبل کی جانب بڑھتے ہوئے منع کیا۔
"کیوں؟ کھانا کھا کر آئے ہو کیا دوستوں کے ساتھ؟" اس نے تاسف سے اندازہ لگایا۔
"نہیں، بس میرا دل نہیں چاہ رہا۔" وہ کہتے ہوئے موبائل چارج پر لگانے لگا۔
"لیکن میں نے تمہارا فیورٹ کڑاہی گوشت بنایا ہے۔" اس نے ایک آس سے یاد اطلاع دی۔
"میں نے کہا نا کہ مجھے بھوک نہیں ہے، ضد بحث مت کرو۔" وہ تھوڑی سختی سے کہتے ہوئے اس طرف پلٹا تو وہ خاموش ہوگئی۔
پھر اس کا مزاج بدل گیا تھا جو کہ ملیحہ کی سمجھ سے ہنوز باہر تھا کہ دوپہر کو تو وہ ٹھیک بات کرکے گیا تھا، پھر اب کیا ہوا ہے؟
غضنفر بیڈ پر بیٹھ کر جوتے اتارنے لگا تو وہ بھی آہستہ سے چل کر آکے اس کے برابر میں بیٹھ گئی جس پر اس نے کوئی رد عمل نہیں دیا۔
"کوئی پریشانی ہے کیا؟ شوروم میں کوئی مسلہ ہوا ہے؟" اس نے نرمی سے استفسار کیا۔
"نہیں!" مختصر جواب ملا۔
"مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی ہے کیا؟" اس نے اسی انداز میں دوسرا سوال اٹھایا تو وہ جو جھک کر جوتے اتار رہا تھا آہستہ سے سیدھا ہوا۔
"ہاں!" ایک لفظی جواب ملا۔
"غلطی ہوگئی ہے، مگر تم سے نہیں، مجھ سے۔" وہ اسی سنجیدگی سے مزید بولا۔ وہ الجھی۔
"کیا مطلب؟" اس نے ناسمجھی سے پوچھا۔
"مجھ سے غلطی ہوگئی یہ سمجھنے میں کہ مجھے تم سے پیار نہیں بس وقتی لگاؤ تھا جس کی وجہ سے میں نے تم سے شادی کرلی۔" وہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ اپنی جگہ پر ساکت رہ گئی۔
"میں کسی اور سے پیار کرتا ہوں۔" اس نے بنا اس کی جانب دیکھے اطمینان سے بجلی گرائی اور چلتا ہوا آکر گیلری کے پاس کھڑا ہوگیا۔ اس بات سے یکسر بےنیاز کہ ملیحہ کے دل پر یہ ایک جملہ کتنی بری طرح چبھا تھا۔
لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ روز روز کے رونے سے ایک بار کا رونا بہتر ہوتا ہے۔ بس اسی قول پر عمل کرتے ہوئے غضنفر اب دل کڑا کرکے یہ کھیل ختم کرنا چاہ رہا تھا۔
"کچھ عرصہ پہلے میرا ایک چھوٹا سا ایکسیڈینٹ ہوا تھا، میں روڈ پر بےسدھ پڑا تھا، کوئی میری مدد کو آگے نہیں آرہا تھا، سب بس تماشا دیکھ رہے تھے، بالکل ویسے جیسے پاپا کے مارنے پر کوئی مجھے بچانے نہیں آتا تھا، سب بس خاموش تماشائی بنے رہتے تھے، مگر اس روز ایک انجان لڑکی آئی تھی ان بےحس لوگوں کے بیچ سے نکل کر میری مدد کرنے، اس نے مجھے ہاسپٹل پہنچایا، میری جان بچائی مگر افسوس کے میرے ہوش میں آنے سے پہلے ہی وہ چلی گئی، میں اس سے مل نہیں سکا، اسے دیکھ نہیں سکا، مگر نرس نے بتایا کہ اس نے گلے میں S لیٹر کا لاکٹ پہنا ہوا تھا، مطلب اس کا نام ایس سے آتا ہے، میرے جم کی دیوار پر لکھا لفظ ایس وہ ہی حرف ہے جو میں نے اس کی نشانی کے طور پر لکھا ہے، میں نے اسے ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوا، وہ مجھے نہیں ملی، اور ملتی بھی کیسے؟ میں اس کے بارے میں کچھ جانتا ہی نہیں تھا، اسی دوران میں تم سے ٹکرا گیا، تمہاری پازیٹیو سوچ مجھے بہت اچھی لگی، میں نے سوچا کہ وہ لڑکی تو مجھے مل ہی نہیں رہی ہوسکتا ہے کہ تم ہی میرا نصیب ہو اس لئے میں نے اسے بھول کر تم سے شادی کرلی، مگر!" وہ لمحے بھر کو رکا۔
"مگر میں غلط تھا، میں اسے کبھی بھول ہی نہیں پایا، اور اب وہ میرے ذہن و دل پر کچھ اس طرح سے قابض ہے کہ وہاں تمہارے لئے جگہ نہیں رہی۔" وہ سنجیدگی سے کہتے ہوئے پلٹا۔
ملیحہ اب تک اپنی جگہ پر جوں کی توں ساکت بیٹھی تھی، اس کا چہرہ بالکل سپاٹ ہو رہا تھا، آنکھوں میں بےپناہ حیرت تھی جو کہ آنسو بن کر رخساروں پر پھسلنے لگی۔
"میں نے کوشش کی تھی کہ تمہارے ساتھ رہ کر اسے بھول جاؤں مگر میں کامیاب نہیں ہوا، اور یہ ہی وجہ ہے کہ اکثر میرا مزاج بدل جاتا ہے۔" وہ کہتا ہوا واپس اس کی طرف آیا۔
"تو اب وہ تمھیں مل گئی ہے کیا؟" ملیحہ نے سر اٹھا کر بہتی آنکھوں سمیت رندھی ہوئی آواز میں بمشکل پوچھا۔
"نہیں!" مختصر جواب ملا۔
"تو پھر یہ سب مجھے کیوں بتایا؟" اس کے آنسوؤں میں شدت آنے لگی۔
فوری طور پر کوئی جواب دینے کے بجائے پہلے اس نے لب بھینچ کر اسے دیکھا پھر ایک گہری سانس لے کر واپس اس کے برابر میں بیٹھ گیا۔
"تا کہ تم اپنی اچھی خاصی زندگی میرے ساتھ برباد کرنے کے بجائے اپنا راستہ الگ کرکے کسی اور کے ساتھ آباد ہوجاؤ۔" اس نے متوازن انداز میں جواب دیا۔ کتنے آرام سے اس نے الگ ہونے کی تجویز پیش کردی تھی۔
"میں اپنے راستے پر ہی جا رہی تھی، تم آئے تھے اچانک مجھ سے محبت کے دعویدار بن کر، تم مجھے زبردستی ہاتھ پکڑ کر محبت کے سفر پر لے کے نکلے تھے، تم خود میرے ہمسفر بنے تھے اور اب خود ہی، کتنی آسانی سے بیچ سفر میں میرا ہاتھ چھوڑ کر کہہ رہے ہو کہ میں واپس اس راستے پر چلی جاؤں جس پر سے تم مجھے لے آئے ہو، اور بہت دور لے آئے ہو۔" وہ رنجیدہ انداز میں سسکیاں روکتے ہوئے شکوہ کرنے لگی جو کہ بجا تھا۔ وہ تڑپ گئی تھی اپنے محبوب شوہر کے منہ سے کسی اور کیلئے اقرار محبت سن کر۔ مگر ایک نا ایک دن تو یہ ہونا تھا، اور وہ دن آج ہی تھا۔
"میں نے کہا نا کہ مجھ سے غلطی ہوگئی۔" اس کا لہجہ دھیمہ اور انداز سنجیدہ تھا۔
"اور مجھے جو تم سے محبت ہوگئی ہے اس کا کیا؟" اس نے روتے ہوئے ترکی بہ ترکی سوال اٹھایا۔ وہ براہ راست اس کی سرخ بہتی ہوئی آنکھوں میں دیکھنے لگا جن میں بےانتہا کرب اور شکوہ تھا۔
"نکال کر پھینک دو اس محبت کو اپنے دل سے۔" وہ نظریں چرا کر کہتا اٹھ کھڑا ہوا۔
"اگر واقعی یہ اتنا آسان ہے تو پھر تم نے اب تک اس انجان لڑکی کی محبت کو دل سے نکال کر کیوں نہیں پھینکا؟" وہ بھی دوبدو سوال کرتی کھڑی ہوگئی۔ وہ لمحے بھر کو لاجواب ہوگیا۔
"یہ تمہارا مسلہ نہیں ہے، تمہارے لئے بہتر یہ ہی ہوگا کہ جلد از جلد مجھ سے الگ ہوکر اپنے راستے چلی جاؤ۔" اس نے بنا ملیحہ کی جانب دیکھے درشتی سے کہا اور پھر تیز تیز قدم اٹھاتا کمرے سے باہر نکل گیا جسے وہ برستی آنکھوں سے دیکھ کر رہ گئی۔
حقیقت میں جو میسر نہیں
سرور ان کا سر پہ چڑھا ہے
ہوا منکر طبیب دینے سے دوا
اے دل! تو کس پر جا کے مرا ہے
ہادی نقوی
*******************************
کافی دیر سڑکوں کی خاک چھاننے کے بعد جب عزیر واپس گھر لوٹا تو غیر متوقع طور پر سب کو ہال میں حیران پریشان سا دیکھ کر ٹھٹک گیا۔
"عزیر بھائی آگئے!" اس پر نظر پڑتے ہی زوہا بولی تو سب اس طرف متوجہ ہوئے۔
"کیا ہوا؟ آپ سب اتنے حیران پریشان سے یہاں کیوں جمع ہیں؟" وہ حیرت کو الفاظ دیتا قریب آیا۔
"بیٹا صبیحہ گھر سے چلی گئی ہے۔" دردانہ نے فکرمندی سے بتایا تو وہ بھی پریشان ہوا۔
"کیا؟ کب اور کہاں؟" اسے تشویش ہوئی۔
"تمہارے جانے کے تھوڑی دیر بعد، اس نے ٹیکسی بلائی اور اپنا سامان لے کر میکے جانے کیلئے گھر سے نکلی ہے، ہم سب نے اتنا رکا مگر اس نے کسی کی سنی ہی نہیں۔" انہوں نے مزید بتایا۔
"تو آپ لوگ مجھے فون کر دیتے نا!" اس نے ان کی عقل پر ماتم کیا۔
"کیا تھا، مگر آپ کا فون آپ کے کمرے میں ہی تھا۔" عبید نے علم میں اضافہ کیا۔ تو اسے یاد آیا کہ وہ فون تو لے کر ہی نہیں گیا تھا۔
"تم اس کے گھر چلے جاؤ بیٹا۔" صالحہ نے فکرمندی سے مشورہ دیا۔
"نہیں! ابھی رات ہوگئی ہے گھر جانا ٹھیک نہیں ہے۔" رفاقت نے نفی کی۔
"فی الحال اسے فون کر کے معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کرو اور کل گھر جا کر لے آنا اسے۔" شفاعت نے بھی مزید کہا۔
"کیا ضرورت ہے منت سماجت کرکے گھر لانے کی؟ جیسے تنک کر گئی ہے ویسے ہی آجائے گی۔" شاہانہ نے حسب عادت تنفر سے کہا۔
"ہاں، آپ کو تو خوشی مل گئی ہوگی نا ان سب سے!" عزیر ناچاہتے ہوئے بھی سنجیدگی سے طنز کرتا تیز تیز قدم اٹھاتا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ جس پر وہ دنگ رہ گئیں۔
"دیکھ رہے ہیں آپ اسے؟ کیسے زبان چلنے لگی ہے اس کی؟" وہ اب شفاعت سے مخاطب ہوئیں۔
"مجھے نیند آرہی ہے، آپ سب بھی اپنے اپنے کمروں میں جا کر سوجائیں، شب بخیر!" بجائے انہیں کوئی جواب دینے کے وہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے جن کی تقلید میں باقی سب بھی ایک ایک کرکے اٹھ گئے۔
عزیر نے کمرے میں آکر بیڈ کی جانب دیکھا جس کا دایاں پہلو خلاف معمول آج خالی تھا اور وجہ کیا تھی؟ شاید پتا نہیں!
کسی بات پر کبھی اگر جھگڑ پڑے ہم
تو صلح کی خاطر سن، اے میرے ہمدم
ذرا سا تو بھی، ذرا سا میں بھی
یہ طے ہوا تھا کہ جھکا کریں گے ہم
انتخاب
*******************************
رات بھلے ہی کتنی قیامت کیوں نا ہو بلآخر گزر ہی جاتی ہے اور ایک نیا دن پھر سے نکل آتا ہے جیسے آج نکل آیا تھا۔
آج اتوار تھا اس لئے حسب معمول آج کسی کو اپنے اپنے کام پر پہنچنے کی کوئی جلدی نہیں تھی۔ لیکن سلیمان آج بھی اس زمین پر جاری تعمیراتی کام کی نگرانی کیلئے صبح ہی گھر سے نکل گئے تھے۔
ملیحہ کی جب آنکھ کھلی تو غضنفر کمرے میں موجود نہیں تھا اور وہ یہ سمجھ نہیں پائی کہ وہ رات دیر سے کمرے میں آکر صبح جلدی چلا گیا تھا یا پھر کمرے میں آیا ہی نہیں تھا!
وہ فریش ہوکر نیچے آئی اور بجائے کچن میں جانے کے غضنفر کے جم کی جانب آگئی۔
دروازے کی ناب پر ہاتھ رکھنے کے بعد جب وہ اسے دھکیلتی ہوئی اندر داخل ہوئی تو حسب توقع جینز ٹی شرٹ پہنے وہ اسے پنچنگ بیگ پر مکے رسید کرتا ملا۔
وہ آہستہ سے دروازہ بند کرکے اندر آگئی اور سیدھا اس دیوار کی طرف آئی جہاں شیشے کے برابر میں سیاہ رنگ سے S لکھا ہوا تھا۔ جب کہ پشت اس کی طرف ہونے کے باعث وہ اس کی آمد سے بےخبر رہا۔
وہ دیوار کے نزدیک آکر یک ٹک اس حرف کو یوں دیکھتی رہی گویا اس کے سامنے واقعی اس کا کوئی جانی دشمن کھڑا ہو۔ ملیحہ کو اس حرف سے شدید نفرت محسوس ہو رہی تھی۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ اس کا نام و نشان مٹا دے مگر وہ ایسا کرنے سے قاصر تھی۔
تب ہی غضنفر نے تھک کر وقفہ لیا اور پیچھے پلٹا تو وہاں ملیحہ کو موجود دیکھ کر ٹھٹک گیا۔
"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟" اس نے آنکھیں سکیڑ کر اس طرف آتے ہوئے پوچھا۔
"اپنے رقیب کو دیکھنے آئی تھی۔" اس نے چونکے بنا آرام سے پلٹ کر اس حرف کی جانب اشارہ کیا۔
"رقیب ہی کہیں گے نا اسے؟" اس نے مصنوعی الجھن کے ساتھ تائید چاہی جس پر وہ کچھ نہ بولا۔
"ویسے تم اتنے پاگل ہو رہے ہو اس کے پیار میں اگر اسے تم سے پیار نہیں ہوا تو؟" وہ بازو سینے پر باندھتی اس کے قریب آئی۔
"تو مجھے پرواہ نہیں، میرا پیار کافی ہوگا ہم دونوں کیلئے۔" اس نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
"گریٹ!" وہ طنزیہ انداز میں متاثر ہوئی۔
"لیکن میں بھی تو تم سے پیار کرتی ہوں نا!" اگلے ہی پل وہ معصومیت و آس سے یاد دلانے لگی۔
"مگر میں نہیں کرتا۔" اس نے فوراً نفی کی۔
"تو کیا میرا پیار کافی نہیں ہے ہم دونوں کیلئے؟" اس نے براہ راست اسی کی بات سوالیہ انداز میں دہرائی تو وہ لاجواب ہوگیا۔
"غضنفر پلیز! ایک بار تحمل سے سوچو تو سہی کہ جس کی تمنا تم کیے بیٹھے ہو اگر اسے تمہاری چاہ نہ ہوئی تو! اگر وہ کسی اور کی ہوئی تو!" اس نے اپنا ہاتھ آہستہ سے اس کے سینے پر رکھتے ہوئے تحمل سے سمجھانا چاہا۔
"نہیں! وہ چاہے جہاں بھی ہو، جس کی بھی ہو میں اسے ڈھونڈ کر اپنے پاس لے آؤں گا۔" غضنفر نے یکدم جنونی انداز میں کہتے ہوئے اسے بازو سے پکڑ کر اسی دیوار سے لگا دیا جس پر وہ S لکھا ہوا تھا۔
"چلو لے آنا اپنے پاس، مگر کیا وہ تم سے اتنی محبت کر سکے گی جتنی میں کرتی ہوں؟ کبھی نہیں! تم سے اتنی محبت کوئی نہیں کرسکتا جتنی میں کرتی ہوں۔" اس نے بھی اگلے پل دونوں ہاتھوں سے اس کی شرٹ دبوچتے ہوئے دوبدو ہوکر دیوانگی کے عالم میں باور کروایا۔
"مجھے نہیں چاہیے تمہاری محبت، اس لئے بہتر ہے کہ تم اپنا راستہ الگ کرلو۔" غضنفر نے جھٹکے سے اسے دور کرتے ہوئے کہا اور پھر برق رفتاری سے باہر نکل گیا۔
اور وہ! بےبسی کا بت بنی رہ گئی۔
جس کو تم چاہو وہ محبت
جو تمہیں چاہے اس کا کیا؟
جس کے لئے تم روئے وہ محبت
جو تمہارے لئے روئے اس کا کیا؟
جس کے لئے تم تڑپے وہ محبت
جو تمہارے لئے تڑپے اس کا کیا؟
جس کو تم نے چاہا وہ تم کو ملے
اور جس کو تم نہ ملے اس کا کیا؟
انتخاب
*******************************
ناشتے کے بعد ان لوگوں نے سب سے پہلے سالک صاحب کے گھر کا رخ کیا اور اب رفاقت اور شفاعت دردانہ کے ہمراہ ان کے ڈرائینگ روم میں سالک اور راضیہ کے ساتھ بیٹھے تھے جب کہ عزیر کو صبیحہ سے بات چیت کرنے کیلئے الگ بھیج دیا گیا تھا۔
"جب چار برتن ایک ساتھ ہوں تو کھٹکتے بھی ہیں، نوک جھونک بھلا کس گھر میں نہیں ہوتی! اسی لئے ایسی چھوٹی موٹی باتوں کو نظر انداز کر دینا ہی عقل مندی ہے۔" دردانہ رسان سے گویا تھیں۔
"آپ کی بات ٹھیک ہے اماں بی! ہم نے بھی کل صبیحہ کو کافی سمجھایا، لیکن وہ خود بھی عقل و شعور رکھتی ہے، اگر وہ روٹھ کر آئی ہے تو کوئی وجہ تو ہوگی نا!" راضیہ نے دبے دبے لفظوں میں اپنی بیٹی کی حمایت کی۔
"وجہ چاہے جو بھی ہو اگر غلطی ہماری بیٹی کی ہے تو اسے ہی تلافی کرنی ہوگی اور اگر غلطی اس کی نہیں ہے تو بھی ہم اسے اکیلا نہیں چھوڑیں گے، ہم ہر صورت، ہر وقت اپنی بیٹیوں کے ساتھ ہمیشہ تھے، ہیں اور رہیں گے۔" سالک اپنے مخصوص سنجیدہ انداز میں بولے۔
"ان شاءاللہ سب ٹھیک ہوگا، عُزِیر بات کرنے گیا ہے نا صبیحہ سے تو سمجھا لے گا اس کو، آخر کار دونوں ایک دوسرے کی ہی تو پسند ہیں۔" دردانہ نے مسکراتے ہوئے ماحول کا تناؤ کم کرنا چاہا۔
*******************************
"ذرا سی بات! تم نے کہا کہ مجھ سے شادی تمہاری غلطی تھی، اور یہ اتنی بڑی بات تمھیں ذرا سی لگ رہی ہے!" صبیحہ بےیقینی سے بولی۔
"یار غصے میں انسان کو کہاں کچھ ہوش ہوتا ہے؟ اسی لئے نکل گیا میرے منہ سے، لیکن اس کا یہ مطلب تھوڑی تھا کہ تم گھر چھوڑ کر چلی آؤ۔" اس نے کوفت سے وضاحت کی۔
دونوں اس وقت ایک علیحدہ کمرے میں ایک ڈبل صوفے پر بیٹھے محو گفتگو تھے۔
"یاد کرو جب ہمارا رشتہ طے ہوا تھا تب تم نے کہا تھا کہ تمہاری ممی غصے کی تھوڑی تیز ہیں مگر میں فکر نہ کروں، شادی کے بعد جب بھی کوئی مسلہ ہوگا تو تم میرا ساتھ دو گے، اور کل یہ ساتھ دیا تم نے میرا! شادی کو غلطی کہہ کر!" وہ دکھ سے کہتے ہوئے یکدم رو پڑی۔ وہ بھی سٹپٹا گیا۔
"صبیحہ! اچھا رو تو نہیں نا!" اس نے مزید قریب سرک کر اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے آنسو صاف کیے۔
"روؤں نہیں تو اور کیا کروں؟ تمہاری ممی کم تھیں کیا جو اب تم نے بھی مجھے طعنے مارنا شروع کردیے ہیں!" انداز میں اب بھی شکوہ تھا۔
"میں طعنے نہیں مار رہا بس ایک بات کہہ رہا تھا، لیکن اگر تمھیں بری لگی تو سوری۔" اس نے نرمی سے کہتے ہوئے اسے سینے سے لگا لیا۔
جواباً وہ بھی سینے میں منہ چھپائے "سوں سوں" کرتی رہی۔ مطلب جس سے شکایات تھی اسی کے سینے سے لگ کر شکوہ کیا جا رہا تھا۔ جس سے ثابت ہوا کہ محبت سچ میں بڑی عجیب شے ہوتی ہے۔
میں ضدیں اپنی قربان کر ڈالوں
انا پھینکوں تیرے سر سے وار کے
اک بار جو کہہ دو اگر پیار سے
اک بار جو کہہ دو اگر پیار سے
"اور یاد کرو کہ تم نے بھی کہا تھا شادی کے بعد تم آہستہ آہستہ ایڈجسٹ کرلو گی! اور میں صرف یاد دلا رہا ہوں اب یہ مت کہنا کہ طعنے مار رہا ہوں۔" عزیر نے اس کا سر سہلاتے ہوئے ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔
"یاد ہے، اور میں کوشش کر بھی رہی ہوں سب کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کی بلکہ ساری فیملی کے ساتھ ہی میری اچھی انڈرسٹینڈنگ ہوگئی ہے، مگر تمہاری ممی نے لگتا ہے مجھے اب تک ایکسیپٹ نہیں کیا ہے اور شاید کبھی کریں گی بھی نہیں۔" اس نے کہتے ہوئے آخر میں تلخی سے اندازہ لگایا۔
"تو تم ان کی باتوں کو اتنا سیریسلی مت لیا کرو نا! بتایا تو ہے تمھیں ان کی عادت کا۔" اسے لے دے کر بس یہ ہی حل نظر آتا تھا۔
اس کی بات پر صبیحہ اس سے الگ ہوکر اسے یوں گھورنے لگی گویا کہہ رہی ہو کہ تم سے یہ ہی امید تھی۔
"اچھا اب چھوڑو ان باتوں کو اور گھر چلو جلدی، مجھے تمہارے بنا کل بھی پوری رات نیند نہیں آئی۔" عزیر نے بات سمیٹ کر ختم کرنی چاہی۔
"میں ایک شرط پر تمہارے ساتھ چلوں گی۔" وہ سنجیدگی سے گویا ہوئی۔
"کیسی شرط؟" اس نے جاننا چاہا۔
*******************************
باہر گاڑی رکنے کی آواز سن کر تجسس کے مارے شاہانہ، صالحہ، زوہا اور عبید بھی اپنے اپنے کمروں سے نکل کر ہال میں چلے آئے یہ دیکھنے کہ آیا صبیحہ واپس آئی ہے یا نہیں؟
اور یہ دیکھ کر سوائے شاہانہ کے سب کو خوشگوار حیرت ہوئی کہ ان چاروں کے ہمراہ صبیحہ بھی گھر میں داخل ہوئی تھی۔
"السلام علیکم!" صبیحہ نے ان لوگوں کو آہستہ سے سلام کیا۔
"وعلیکم السلام!" صالحہ نے خوشدلی سے جواب دیا۔
شاہانہ کچھ بھی کہے سنے بنا تنفر سے منہ بناتی واپس اپنے کمرے میں چلی گئیں جسے محسوس تو سب نے کیا مگر کہا کچھ نہیں۔
"جاؤ بیٹا، یہ سامان وغیرہ کمرے میں رکھو۔" دردانہ نے دھیان ہٹانے کو بات بدلتے ہوئے عزیر سے کہا۔
"جی دادی، آؤ صبیحہ۔" وہ فرمابرداری سے کہتا اسے لے کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
رفاقت بھی سیدھا اپنے کمرے میں چلے گئے جب کہ شفاعت اور دردانہ وہیں صوفے پر بیٹھ گئے جس کی باقی تینوں نے بھی تقلید کی۔
"کیا ہوا دادی؟ بھابھی مان گئی تھیں آسانی سے؟ سالک انکل نے کیا کہا اس بارے میں؟" عبید نے سب کے سوالوں کی ترجمانی کی۔
"وہ ہی کہا جو اکثر ایک بیٹی کا باپ کہتا ہے کہ اس کی بیٹی کو تنہا یا لاوارث نہ سمجھا جائے، وہ لوگ ہیں اس کے ساتھ۔" انہوں نے گہری سانس لیتے ہوئے جواب دیا۔
"اور بھابھی آرام سے مان گئیں واپسی کیلئے؟" اب زوہا نے پوچھا۔
"آرام سے نہیں مانی، ایک شرط پر مانی ہے۔" انہوں نے ادھوری بات بتائی۔
"کیسے شرط؟" دونوں نے یک زبان پوچھا۔
بجائے کوئی جواب دینے کے دردانہ اور شفاعت ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ جس سے باقی سب کو کافی تشویش ہوئی۔
*******************************
"اپنے عشق کی داستان سنانے کی کیا ضرورت تھی اسے!" ساری بات سن کر سلیمان حیرت سے بولے۔
"میں تھک گیا تھا ماموں اس چوہے بلی کے کھیل سے، میرے غصے، ناراضگی اور بدتمیزی کا کو اثر ہی نہیں ہو رہا تھا اس پر، اس پر تو بس پیور (خالص) مشرقی بیوی بننے کا جنون سوار ہے، اسی لئے میں نے اسے یہ سب بتا دیا، اور یہ کوئی جھوٹ بھی نہیں ہے۔" غضنفر نے یہاں وہاں دیکھتے ہوئے کوفت سے وضاحت کی۔
اس وقت وہ سلیمان کے ہمراہ سائٹ پر موجود کار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔ زمین پر جاری تعمیراتی کام سلیمان کی کڑی نگرانی کے باعث بہت حد تک مکمل ہونے کے قریب تھا۔
فل آستین والی گرے ٹی شرٹ بلیک جینز کے ساتھ پہنے، آستین کہنیوں تک چڑھائے، دھوپ سے بچنے کیلئے آنکھوں پر سیاہ سن گلاسسز لگائے غضنفر اس وقت کافی سنجیدہ تھا۔
"تو اب اس نے کیا کہا؟" ڈریس پینٹ اور شرٹ میں، آنکھوں پر سن گلاسسز لگائے سلیمان نے جاننا چاہا۔
"کچھ نہیں، بس ناراضگی دیکھا رہی ہے، اور میرا دھیان مس ایس پر سے ہٹانا چاہ رہی ہے، جو کہ ناممکن ہے۔" اس نے یوں ہی بتایا۔
"اور اگر وہ زیادہ خفا ہوکر بات طلاق تک لے گئی تو!" انہوں نے خدشہ ظاہر کیا۔
"تو میں طلاق دوں گا ہی نہیں، اس کے سامنے چوائس رکھ دوں گا کہ یا تو ساری زندگی میرے ساتھ یوں ہی کامپرمائز کرکے رہے، کیونکہ میں تو بہت جلد اس لڑکی کو ڈھونڈ کر اس سے شادی کرنے والا ہوں، ورنہ خلع لے کر اپنے راستے پر چلی جائے، آگے اس کی مرضی۔" اس نے اسی سنجیدگی سے اپنا ارادہ بتایا۔
"اور اگر تمھیں وہ لڑکی ملی ہی نہیں، تو؟" انہوں نے بغور اسے دیکھتے ہوئے سوال اٹھایا۔
"ماموں پلیز! آپ لوگ بار بار یہ "اگر نہیں ملی تو" کا راگ الاپ کر ٹوہ مت لگائیں۔" اس نے یکدم چڑ کر ٹوکا۔
"میں ڈھونڈ لوں گا اسے۔" اس نے اگلے ہی پل گویا خود سے عہد کیا۔ جس پر سلیمان محض اسے دیکھ کر رہ گئے۔
*******************************
صبیحہ گھر آنے کے بعد سے ہی اپنے کمرے میں تھی اور کسی نے زبردستی اسے باہر بلانے پر زور بھی نہیں دیا تھا۔ لیکن شام کے وقت جب حسب معمول سب لان میں چائے پینے کے ارادے سے اکھٹا ہوئے تو وہ خود ہی اخلاق کا تقاضا نبھاتے ہوئے سب کے ساتھ آکر بیٹھ گئی۔
"فرحان کے بہنوئی کی طبیعت کیسی ہے اب؟" دردانہ نے یاد آنے پر استفسار کیا۔
"بہتر ہے، لیکن پوری طرح ٹھیک نہیں ہوئی ہے، اسی لئے ابھی تک ہاسپٹل سے ڈسچارج بھی نہیں کیا ہے اسے۔" رفاقت نے بتانے کے بعد چائے کا گھونٹ لیا۔
اس ذکر پر سب ہی کو یاد آیا کہ وہ لوگ زوہا کے رشتے کیلئے آنے والے تھے جس کے باعث زوہا کی دھڑکن اچانک بےترتیب ہوگئی اور اسے بےساختہ عبید کی خواہش یاد آئی تو اس نے چپکے سے نظر اٹھا کر عبید کی جانب دیکھا جو کہ اسے ہی دیکھتا ہوا ملا۔ اس سے نظریں ملنے پر زوہا نے جلدی سے نگاہ واپس جھکا کر توجہ چائے کی جانب کرلی۔
*******************************
حسب معمول رات دیر سے گھر لوٹنے کے بعد جب غضنفر کمرے میں داخل ہوا تو ملیحہ کو غیر موجود پا کر اسے تعجب ہوا۔ اس نے باتھ روم اور گیلری میں چیک کیا، وہ وہاں نہیں تھی، نیچے ہال میں بھی لائٹس آف تھیں اور سناٹا ہو رہا تھا۔
چند لمحے پر سوچ انداز میں کھڑے رہنے کے بعد وہ کسی خیال کے تحت کمرے سے باہر نکلا جس کے بعد اس کا رخ اوپر چھت پر جاتی سیڑھیوں کی جانب تھا۔
وہ چھت پر پہنچا تو حسب توقع ملیحہ اسے باؤنڈری کے پاس کھڑی آسمان کو تکتی ملی جس پر چاند نہیں تھا اور ستارے بھی آج دل موہ لینے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے۔
"اتنی رات کو یہاں کیا کر رہی ہو؟" وہ سنجیدگی سے کہتا اس کی طرف آیا۔
"اس کی قسمت پر رشک جسے تم نے چاہنے شرف بخشہ ہے، اور اپنی قسمت پر افسوس جس میں تمہاری محبت نہیں ہے۔" وہ ہنوز آسمان کو تکتے ہوئے کرب سے بولی۔ اس کے ٹوٹے ہوئے لہجے کی چبھن اس نے بھی باقاعدہ محسوس کی جو اب اس کے برابر میں آ کھڑا ہوا تھا۔
"افسوس کرنے سے بہتر ہے کہ اپنا راستہ الگ کرو اور کسی ایسے انسان کے ساتھ ایک نئی زندگی شروع کرو جو تم سے محبت بھی کرے۔" اس نے تحمل سے مشورہ دیا۔
"اچھا! اور کہاں ملے گا ایسا انسان؟ ذرا اس کا پتہ بھی بتا دو۔" وہ اس کی جانب دیکھ کر طنزیہ انداز میں مسکرائی۔
"ڈھونڈنے سے سب مل جاتا ہے، اور ویسے بھی تم بہت اچھی لڑکی ہو، سب سے پیار کرنا جانتی ہو تو تم سے تو کوئی بھی آسانی سے محبت کرسکتا ہے۔" خلاف معمول وہ رسان سے سمجھانے لگا کہ شاید ایسے اس کی سمجھ میں آجائے۔
"اگر میں اتنی اچھی ہوں تو تمھیں کیوں نہیں ہوئی مجھ سے محبت؟" اس نے دکھ سے پوچھا۔
"کیونکہ میں پہلے ہی کسی اور سے محبت کرتا تھا، اگر ایسا نہیں ہوتا تو شاید ہو بھی جاتی۔" اس نے گڑبڑائے بنا صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔
"مطلب تمہارے دل میں میرے لئے جگہ نہیں ہے؟" اس نے ٹوٹتی امید کے ساتھ پوچھا۔
"شاید نہیں!" مختصر جواب ملا۔ جو کہ کسی تیر سے کم نہ تھا جو سیدھا دل میں پیوست ہوا تھا۔
"جسے کبھی دیکھا نہیں، جس سے کبھی ملے نہیں اس سے اتنا پیار کیسے کرسکتے ہو بھلا؟" اپنے درد کو دباتے ہوئے اس نے دوسرا سوال اٹھایا۔
"پتا نہیں! ہاں لیکن اتنا ضرور معلوم ہے کہ اس بےحس دنیا میں وہ پہلی لڑکی تھی جس نے بنا کسی مفاد کے میری مدد کی، جب سب خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے تب اس نے مجھے تھاما تھا اور یہ ہی بات اسے میرے لئے خاص بناتی ہے۔" اس نے آسمان پر نظریں دوڑاتے ہوئے جواب دیا۔
"روز سڑک پر ہزاروں ایکسیڈینٹ ہوتے ہیں اور کئی لوگ ہمدردی میں انسانیت کا تقاضا نبھاتے ہوئے زخمی کی مدد کرتے ہیں، اس لڑکی نے بھی شاید یہ ہی کیا ہوگا مگر تم اس ہمدردی کو غلط سمجھ بیٹھے ہو۔" اس نے تصویر کا دوسرا رخ دکھانا چاہا۔
"ہمدردی وہ ہی کرتا ہے جس کے دل میں دوسروں کیلئے درد ہوتا ہے، میں نے ہمیشہ صرف درد ہی سہہ ہے کبھی کوئی ہمدرد نہیں ملا، ایسے میں وہ لڑکی بھلا میرے لئے کیسے عام ہوسکتی ہے!" وہ اس کی جانب دیکھتے ہوئے سوالیہ انداز میں بولا۔
جواباً وہ کچھ نہ بولی۔
ملیحہ اسے یوں دیکھ رہی تھی گویا نظروں میں ہی کہہ رہی ہو کہ میں بھی تو تمہارا درد سمجھتی ہوں، تمہاری دل جوئی کی ہر ممکن کوشش کرتی ہوں، تو پھر میں تمہارے لئے اتنی خاص کیوں نہیں؟ مگر وہ لبوں سے یہ شکوہ نہیں کر پائی اور نتیجاتاً دونوں کے بیچ خاموشی حائل ہوگئی۔
"تمہارے پاس دو راستے ہیں، یا تو ساری زندگی میرے ساتھ یوں ہی کامپرمائز کرکے رہو، مجھ سے کبھی زبردستی محبت کا مطالبہ مت کرنا، کیونکہ میں تو بہت جلد اس لڑکی کو ڈھونڈ کر سے اس سے شادی کرنے والا ہوں، ورنہ خلع لے کر اپنے راستے پر چلی جاؤ، میں تمھیں طلاق نہیں دوں گا، اور اس میں تمہارا ہی فائدہ ہے کہ کل جب تم دوسری شادی کرو گی تو اس بندے کو یہ کہہ سکتی ہو کہ میرا تم سے رویہ ٹھیک نہیں تھا اسی لئے تم نے اپنی مرضی سے مجھے چھوڑا ہے، اگر میں نے تمھیں طلاق دی تو لوگ ضرور تمہارے خلاف باتیں بنائیں گے، خلع کی صورت میں تم بہت سے سوالوں سے بچ جاؤ گی۔" اس نے بہت سنبھل کر اپنا خیال اس کے سامنے رکھا۔
پہلے تو وہ چند لمحے خاموشی سے اسے دیکھتی رہی پھر اچانک ہنسنے لگی جس پر اسے کافی تعجب ہوا۔ اس کی ہنسی میں کوئی خوشی یا شرارت نہیں تھی بلکہ بےانتہا کرب و بےبسی تھی۔ وہ ایسی ہنسی تھی جو رونے سے کم نہ تھی۔
"کیا ہوا؟" اس نے ناسمجھی سے پوچھا۔
"تم شاید پہلے ایسے شوہر ہوگے جو خود اپنی بیوی کو خلع کا راستہ دیکھا رہے ہو۔" اس نے ہنستے ہوئے آنکھ کے نم ہوتے کنارے صاف کیے۔
"ہاں تو اس میں تمہارا ہی فائدہ ہے، ذرا تحمل سے سوچ کر دیکھو۔" اس نے قائل کرنا چاہا۔
"تم ٹھیک کہہ رہے ہو، اب مجھے واقعی سوچنا چاہئے۔" وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے سنجیدہ ہوئی۔ جس کے باعث اسے لگا کہ شاید وہ اس کی بات سمجھ گئی ہے۔
"فی الحال کوئی جلدی نہیں ہے، تم کچھ دنوں تک سوچ کر اپنا فیصلہ بتا دینا کہ تمھیں کامپرمائز کرتے ہوئے میرے ساتھ ہی رہنا ہے یا خلع لے کر الگ ہونا ہے؟ میں انتظار کروں گا۔" اس نے آخری بار دوبارہ دہرایا جس کا اس نے کوئی جواب نہیں دیا بس نظریں جھکائے باؤنڈری پر ہاتھ پھیرتی رہی۔
پھر وہ بنا مزید کوئی اور بات کیے وہاں سے چلا گیا جس کا ملیحہ کی نظروں نے پیچھا کیا اور اس کے نظر سے اوجھل ہوتے ہی ایک آنسو اس کی بائیں آنکھ سے ٹوٹ کر رخسار پر پھسلا۔
بڑے بدنصیب تھے ہم جو قرار تک نہ پہنچے
درِ یار تک تو پہنچے، دلِ یار تک نہ پہنچے
انتخاب
*******************************
"تم تیار نہیں ہوئے آفس جانے کیلئے؟" شاہانہ نے کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے عزیر سے پوچھا۔ صبح ہونے کے بعد سب لوگ حسب معمول ناشتہ کرنے ڈائینگ روم میں اکھٹا تھے۔
"میں آج آفس نہیں جا رہا۔" اس نے نیپکن سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے جواب دیا۔
"کیوں؟" ایک لفظی سوال آیا۔
"کیونکہ آج ہمیں اسٹیٹ ایجنٹ سے ملنا ہے۔" عزیر کے بجائے اس کے برابر میں بیٹھی صبیحہ نے جواب دیا۔ انہوں نے بےساختہ اس کی جانب دیکھا۔
"کیوں ملنا ہے اسٹیٹ ایجنٹ سے؟" انہوں نے ناسمجھی کے عالم میں جاننا چاہا۔
"گھر ڈھونڈنے کیلئے۔" عزیر نے مختصر جواب دیا۔
"کس کو چاہیے گھر؟" انہیں کسی انہونی کا خدشہ ہوا۔
"ہمیں!" صبیحہ نے ایک لفظی جواب دیا۔
"کیوں؟ یہ اتنا بڑا گھر ہے تو، پھر کیا ضرورت ہے دوسرے گھر کی!" ان پر آہستہ آہستہ حیرت ٹوٹنے لگی۔ باقی سب کو خاموشی سے ناشتہ کرنا ہی بہتر لگا۔
"صرف گھر بڑا ہے باقی دل بہت چھوٹے ہیں۔" صبیحہ نے تلخی سے کہا۔
"تم چپ رہو لڑکی، میں اپنے بیٹے سے بات کر رہی ہوں۔" انہوں نے یکدم جھلا کر اسے ٹوکا۔ صبیحہ نے خفگی سے عزیر کی جانب دیکھا گویا کہہ رہی ہو کہ اصل بات بتاؤ انہیں۔
"میں اور صبیحہ الگ ہو رہے ہیں ممی۔" عزیر نے نظریں چرائے آہستہ سے انکشاف کیا جو کسی بم کی مانند ان پر گرا۔
صبیحہ کی اس الگ ہونے والی شرط سے باقی گھر والے تو کل ہی آگاہ ہو چکے تھے اسی لئے وہ زیادہ حیران نہیں ہوئے۔
"کیا!" وہ بمشکل اتنا ہی بولیں۔
"لیکن کیوں؟ آخر کیا ضرورت ہے بیٹا الگ ہونے کی؟" انہوں نے گھبرا کر پیار سے پوچھا۔
"ضرورت ہے ممی، بددلی سے ایک ساتھ رہنے سے بہتر ہے کہ خوشدلی سے دور رہا جائے، آپ کو صبیحہ کا جاب کرنا پسند نہیں ہے نا کیونکہ رشتے دار اور محلے والے باتیں بناتے ہیں تو جب ہم الگ ہوجائیں گے تو کسی کو پتا نہیں چلے گا کہ ہماری زندگی میں کیا چل رہا ہے؟ اور پھر یہ روز روز کے جھگڑے بھی نہیں ہوں گے۔" اس نے دل کڑا کرکے بلآخر کہہ دیا جسے وہ حیرانی سے سنتی رہیں۔
"یہ کیا کہہ رہے ہو بیٹا؟ چھوٹے موٹے جھگڑے بھلا کس گھر میں نہیں ہوتے؟ لیکن ایسے کوئی الگ تھوڑی ہوتا ہے؟ جب دو برتن اکھٹا ہوں تو آپس میں ٹکرا کر آواز تو کرتے ہی ہیں۔" انہوں نے پرشانی کے عالم میں اسے سمجھانا چاہا۔
"جب برتن آپس میں ٹکرانے لگیں تو بہتر ہے کہ انہیں سلیقے کے ساتھ فاصلے پر رکھا جائے، اور میں بھی ابھی وہ ہی کر رہا ہوں۔" اس نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
"اماں بی دیکھیں اسے، یہ کیا بولے جا رہا ہے؟" جب کوئی بات نہ بنی تو انہوں نے دردانہ کو بیچ میں گھسیٹا۔
"میں صرف نام کی بڑی ہوں ورنہ اس گھر میں میری سنتا ہی کون ہے؟ جس کا جو دل چاہتا ہے وہ کرتا ہے۔" انہوں نے دلیے میں چمچ چلاتے ہوئے بنا ان کی جانب دیکھے تلخی سے کہا۔
"چلو صبیحہ!" عزیر کہتے ہوئے کرسی پر سے اٹھا تو صبیحہ نے بھی فوری اس کی تقلید کی۔
"عزیر! بیٹا رکو، بات تو سنو۔" انہوں نے بھی اٹھتے ہوئے روکا۔
"آکر بات کرتے ہیں ممی۔" وہ انہیں ٹال کر صبیحہ کے ہمراہ کمرے سے باہر نکل گیا۔ جسے وہ محض دیکھ کر رہ گئیں۔
"چلو عبید! آفس کیلئے دیر ہو رہی ہے۔" شفاعت نے بھی اٹھتے ہوئے کہا تو ساتھ ہی عبید اور رفاقت اٹھ کھڑے ہوئے اور پھر اماں بی کو خدا حافظ کہتے یہ تینوں بھی روم سے باہر نکل گئے۔
زوہا صالحہ کے ساتھ مل کر برتن اٹھا کر کچن میں لے گئی اور دردانہ بھی اٹھ کر آہستہ آہستہ روم سے باہر چلی گئیں جس کے بعد اب وہاں بس ساکت سی شاہانہ بالکل تنہا بیٹھی رہ گئیں۔
*******************************
"میں نے فیصلہ کرلیا ہے۔" غضنفر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا تیار ہو رہا تھا کہ تب ہی ملیحہ کی سنجیدہ آواز پر چونک کر پلٹا جو دونوں بازو سینے پر باندھے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
"گڈ! تو بتاؤ کیا فیصلہ کیا ہے تم نے؟" وہ کہتے ہوئے مکمل طور پر اس کی جانب متوجہ ہوا۔
"میں خلع لے کر تمہارے اور اس لڑکی کے بیچ میں سے ہٹنے کیلئے تیار ہوں۔" اس نے اسی سنجیدگی سے بتایا تو اسے خوشگوار حیرت ہوئی۔
"گریٹ! مجھے تم سے ایسی ہی عقل مندی کی امید تھی۔" اس نے برملا اپنی خوشی کا اعتراف کیا۔
"تھینکس! مگر خلع لینے سے پہلے میری ایک شرط ہے۔"وہ کہتے ہوئے آگے آئی۔
"کیسی شرط؟" اس نے آئبرو اچکائی۔
"مجھے بدلے میں تم سے کچھ چاہیے۔" وہ اس کے مقابل آکر رکی۔ اس بات پر وہ ٹھٹک کر اپنے تئیں سوچنے لگا کہ آخر وہ کیا مطالبہ کرنے والی ہوگی؟
"کیا چاہیے؟" اس نے سنبھل کر جاننا چاہا۔
"تمہارا آج کا پورا دن اور پوری رات۔" اس نے اگلے ہی پل فرمائش کی۔
"آج ایک دن میرے ساتھ صرف میرے بن کر گزرانے کی اداکاری کرلو، کل چپ چاپ میں تمہاری زندگی سے ہمیشہ کیلئے چلی جاؤں گی، وعدہ!" اس نے نرم مگر جذبات سے چور لہجے میں مزید کہا جس کے باعث وہ سوچ میں پڑ گیا۔
"اس سے کیا ہوگا؟" اس نے سوال اٹھایا۔
"ایک پاگل کو سکون مل جائے گا۔" وہ پھیکےپن سے مسکراتے ہوئے بولی۔ وہ پرسوچ انداز میں بغور اسے دیکھنے لگا۔
*******************************
"تو اس میں اتنا سوچنے والی کون سی بات ہے؟ بلکہ کسی اور فارم ہاؤس جانے کی بھی کیا ضرورت ہے؟ میرے دوست طارق کا فارم ہاؤس ہے نا! وہیں چلے جاؤ، میں طارق سے کہہ کر میں واچ مین کو فون کروا دیتا ہوں کہ فارم ہاؤس کی صاف صفائی کر دے تم دونوں وہاں آرہے ہو پورے دن کیلئے۔" بیڈ پر بیٹھے سلیمان نے جوتے پہنتے ہوئے اطمینان سے کہا۔
"آپ سمجھ نہیں رہے ہیں ماموں، بھلا وہ اچانک مجھے یوں پورے دن کیلئے گھر سے اتنی دور فارم ہاؤس پر کیوں لے جانا چاہتی ہے؟ اور وہ بھی خلع سے عین پہلے۔" ان کے سامنے بےچینی سے ٹہلتے غضنفر نے ایک جگہ رک کر سوال اٹھائے۔
"بھئی بیوی ہے وہ تمہاری تو تمہارے ساتھ اکیلے تھوڑا ٹائم اسپینڈ کرنا چاہ رہی ہوگی۔" وہ جوتے پہن کر اٹھ کھڑے ہوئے۔
"مجھے تو کچھ اور لگ رہا ہے۔" اس کا انداز پر سوچ تھا۔
"کیا لگ رہا ہے؟" وہ پوچھتے ہوئے ڈریسنگ ٹیبل کی جانب آئے۔
"مجھے لگتا ہے کہ وہ گھر سے دور لے جا کر مجھے زہر دے کے جان سے مارنا چاہتی ہے تا کہ میں اس لڑکی کو ڈھونڈ کر اس سے شادی نہ کرسکوں۔" وہ پر اسرار انداز سے نتیجے پر پہنچا۔ گھڑی پہنتے ہوئے سلیمان نے اسے گھورا گویا اس کی دماغی حالت پر شبہ ہوا ہو۔
"اس کیلئے گھر سے دور لے جانے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ کام تو وہ گھر میں بھی کرسکتی ہے اور یہاں زیادہ بہتر کرسکتی ہے۔" انہوں نے خود پر پرفیوم چھڑکتے ہوئے سوال اٹھایا۔
"پتا نہیں! لیکن مجھے یہ بات ہضم نہیں ہو رہی ہے۔" وہ خود بھی الجھا۔
"میں راستے میں طارق کو فون کردوں گا فارم ہاؤس کی صاف صفائی کیلئے اب آگے تمہاری مرضی کہ تم یہ بات ہضم کرو یا الٹی کردو، لیکن جو بھی کرو مجھے تنگ مت کرنا کیونکہ آج نئی گاڑیوں کے بارے میں بہت ضروری ڈیل ہے میری آفریدی کے ساتھ، میں وہاں بزی رہوں گا۔" وہ اپنا موبائل پینٹ کی جیب میں رکھتے ہوئے اسے باور کروا کر کمرے سے باہر نکل گئے۔ جب کہ وہ ہنوز یوں ہی ناسمجھی کے عالم میں کھڑا رہا۔
*******************************
سلیمان سے بات کرکے غضنفر واپس کمرے میں لوٹا تو صوفے پر بیٹھی ملیحہ کو اپنا منتظر پایا۔
"کیا ہوا؟ بتا دیا ماموں کو ہمارے فارم ہاؤس جانے کے بارے میں؟" اسے دیکھتے ہی ملیحہ نے استفسار کیا۔
"ہاں، وہ کہہ رہے ہیں تھے کہ اچھی بات ہے چلے جاؤ، بلکہ ان کے ایک دوست کا فارم ہاؤس ہے، تو وہ کہہ رہے ہیں کہ وہیں چلے جاؤ، اور ساتھ ہی انہوں نے واچ مین کو فون کرکے فارم ہاؤس کی صفائی وغیرہ کا بھی کہہ دیا ہے۔" اس نے اندر آتے ہوئے نارمل انداز میں جواب دیا۔
"گریٹ! تو پھر میں بھی جلدی سے تیار ہوجاتی ہوں۔" وہ مسکراتے ہوئے کہہ کر اٹھی اور ایک جانب جانے لگی۔
"سنو!" غضنفر نے پکارا۔
"ہممم!" وہ رک کر پلٹی۔
"تم فارم ہاؤس جا کر کرو گی کیا؟" اس نے سنبھل کر جاننا چاہا۔
"بتایا تو تھا کہ تمہارے ساتھ تھوڑا وقت گزارنا ہے۔" اس نے سہل انداز میں یاد دلایا۔
"ہاں لیکن وہ تو گھر میں بھی گزارا جا سکتا ہے نا! اتنی دور فارم ہاؤس جانے کی کیا ضرورت ہے؟" وہ ابھی تک مطمئن نہیں ہوا تھا۔
"ضرورت ہے۔" اس نے مسکراتے ہوئے معنی خیزی سے کہا اور پھر بنا مزید کوئی اور بات چیت کیے باتھ روم میں چلی گئی۔
وہ ابھی تک نہیں سمجھ پایا تھا کہ آخر ملیحہ نے یہ عجیب سی فرمائش کیوں کی تھی؟ اور اس کی جانب سے کوئی تسلی بخش جواب بھی نہیں ملا تھا۔ اسی لئے بہت سوچ بیچار کے بعد بلآخر غضنفر نے ملیحہ کی فرمائش پوری کرنے کیلئے یہ سوچ کر ہامی بھر لی تھی کہ اب وہاں جا کر ہی اس سوال کے اصل جواب کا انکشاف ہوگا۔
اس بات سے یکسر بےخبر کہ آج بہت کچھ غیر متوقع ہونے والا تھا۔
*******************************
عزیر اور صبیحہ جب تک گھر لوٹے تو دوپہر ڈھل چکی تھی۔ اور سب کے اپنے اپنے کمروں میں ہونے کے باعث گھر میں بھی تھوڑا سناٹا ہو رہا تھا۔
وہ دونوں سیدھا اپنے کمرے میں آنے کے بعد ابھی سکون سے بیٹھے بھی نہیں تھے کہ شاہانہ ان کے کمرے میں چلی آئیں۔
"کیوں الگ کرنا چاہتی ہو میرے بیٹے کو مجھ سے؟" وہ آتے ہی صبیحہ سے مخاطب ہوئیں جس پر دونوں سٹپٹا گئے۔
"کیا ہوگیا ہے ممی؟" عزیر تعجب سے کہتا ان کی جانب آیا۔
"جواب دو کیوں دور لے کر جانا چاہتی ہو میرے بیٹے کو ہاں؟" انہوں نے یکدم اسے بازؤں سے پکڑ کر جھنجھوڑا تو وہ گھبرا گئی۔
"یہ کیا کر رہی ہیں آپ؟ چھوڑیں مجھے۔" اس نے مزاحمت کی۔
"ممی چھوڑیں اسے، کیا ہوگیا ہے آپ کو؟" عزیر نے صبیحہ کو ان کی گرفت سے آزاد کروایا۔
"پاگل ہوگئی ہوں میں، اور اس نے کیا ہے مجھے پاگل۔" وہ یکدم حلق کے بل چلائیں۔ دونوں دنگ ہوکر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
"اور میں کبھی اسے اس کے ارادوں میں کامیاب نہیں ہونے دوں گی۔" وہ برہمی سے مزید بولیں۔
تب تک دردانہ، صالحہ اور زوہا بھی ان کی قدرے بلند آواز سن کر تشویش کے مارے یہاں چلی آئیں۔
"میں نہیں لے جانے دوں گی تمھیں اپنے بیٹے کو کہیں بھی۔" وہ کافی جنونی ہو رہی تھیں۔
"شاہانہ کیا ہوگیا ہے؟ کیسی باتیں کر رہی ہو؟" دردانہ نے ان دونوں کے ہمراہ کمرے میں آتے ہوئے انہیں سنبھالنا چاہا۔
"اماں بی اس کو بتا دیں کہ میں اسے اپنے بیٹے کو کہیں نہیں لے کر جانے دوں گی۔" وہ قابو سے باہر ہونے لگیں تھیں جس سے یہ لوگ گھبرا گئے۔
مگر خوش قسمتی سے اسی وقت تینوں مرد حضرات بھی آفس سے لوٹے اور چیخ و پکار کی آواز سن کر سیدھا اسی طرف آگئے۔
"یہ کیا بولے جا رہی ہیں آپ؟ میں کہیں نہیں لے کر جا رہی ہوں وہ خود راضی ہوا ہے اور ہمیں ایسا کرنے پر بھی آپ نے مجبور کیا ہے، اگر یہاں سکون سے رہنے دیا ہوتا تو ہمیں کیا ضرورت تھی الگ ہونے کی!" صبیحہ بھی بنا لحاظ کیے دوبدو ہوئی۔
"صبیحہ پلیز تم چپ رہو، میں بات کر رہا ہوں نا!" عزیر نے اسے ٹوکا کہ کہیں بات زیادہ نہ بگڑ جائے۔
"یہ سب کیا ہو رہا ہے یہاں؟" شفاعت نے ناسمجھی سے پوچھا تو سب کو ان کی آمد کی خبر ہوئی۔
"یہ دیکھیں! یہ لڑکی میرے بیٹے کو مجھ سے دور لے جانا چاہ رہی ہے، میں کہیں نہیں جانے دوں گی اپنے بیٹے کو۔" وہ پھر جنونی انداز میں کہنے لگی۔
"ممی میں کوئی چھوٹا بچہ نہیں ہوں جو یہ مجھے کہیں بھی لے جائے اور میں چل پڑوں، مجھے بھی عقل و شعور ہے اور اسی لئے میں نے الگ ہونے کے فیصلے پر ہامی بھری ہے کیونکہ اسی میں سب کی بھلائی ہے۔" عزیر سنجیدگی سے بولا۔
"عزیر! یہ تم بول رہے ہو؟ کل کی آئی ہوئی اس لڑکی کیلئے تم اپنی ماں کے خلاف کھڑے ہو گئے ہو!" ان کے انداز میں بےانتہا دکھ تھا۔
"ہاں، کیونکہ آپ غلط کر رہی ہیں۔" اس نے برملا اعتراف کیا۔
"میں غلطی کر رہی ہوں! میں! جس نے اپنے بچوں کیلئے کیا کچھ نہیں کیا! ہمیشہ میری کوشش رہی کہ گھر اور کاروبار میں تم دونوں سب سے آگے رہو یہاں تک کہ سالوں پہلے تمھیں بچانے کیلئے جو چوری تم نے کی تھی اس کا الزام غضنفر پر لگا دیا تا کہ ناصرف تم سزا سے بچ جاؤ بلکہ آگے بھی کاروبار کی باگ ڈور غضنفر کو نہیں میرے بچوں کو ملے میرا وہ بچہ آج مجھے غلط کہہ رہا ہے!" وہ غم و غصے سے بنا سوچے سمجھے کہتے ہوئے خود ہی اپنا راز فاش کر بیٹھی تھیں۔
جسے سنتے ہی سب بری طرح ششدر رہ گئے جب کہ زوہا نے تو حیرت کے مارے باقاعدہ دونوں ہاتھ منہ پر رکھ لیے۔
"ہاں میں کہہ رہا ہوں، اور مجھے افسوس ہے کہ میں نے بہت دیر کردی کہنے میں، کاش جس دن غضنفر کے سر آپ نے میرا جرم ڈالا تھا اس دن اگر میں نے آپ کو روکا ہوتا تو آج شاید بات اتنی نہ بگڑتی۔" وہ بھی آج شاید کچھ چھپانا نہیں چاہتا تھا۔ جب کہ باقی سب تو سکتے میں آگئے تھے۔
"سالوں پہلے میں کمسن اور ناسمجھ تھا ممی، مگر آپ! آپ تو سمجھدار تھیں نا! آپ چاہتی تو میری چوری والی حرکت سرے سے چھپا سکتی تھیں مگر آپ نے موقع غنیمت جان کر وہ بات اچھالی اور چوری کا الزام غضنفر پر لگا دیا حالانکہ اس نے چوری نہیں کی تھی، کیوں! تا کہ وہ سب کی نظر میں برا بن جائے اور اسے بزنس میں حصہ نہ ملے اور سب ہمارے حصے میں آئے لیکن اب کیا کریں ہم ایسے کاروبار کا جس کے ہوتے ہوئے بھی ہمیں ذہنی سکون میسر نہیں ہے؟ میں اپنی مرضی سے اپنی بیوی کے ساتھ رہ نہیں سکتا، یہ عبید جو زوہا کو پسند کرتا ہے آپ کے ڈر سے کچھ کہہ نہیں پا رہا، زوہا جسے رضوان سے شادی نہیں کرنی مگر تایا کے سامنے اس کی چلے گی نہیں، صالحہ تائی کو آپ لوگوں نے کبھی گھر کے فرد سی اہمیت نہیں دی، دادی کی بات کو بھی اہم نہیں سمجھا جاتا، غضنفر اپنا گھر ہوتے ہوئے دربدر ہے، ہمیں اپنی مرضی سے کوئی فیصلہ لینے کا حق نہیں ان سب باتوں کی وجہ سے پتا ہے کتنا گھٹن زدہ لگتا ہے ہمارے اس عالیشان گھر کا ماحول! اور آپ کہہ رہی ہیں کہ آپ نے ہمارے لئے اتنا سب کچھ کیا، میں پوچھتا ہوں کیوں کیا؟ ہم نے کہا تھا کیا؟ نہیں کرتی آپ اتنا سب کچھ بس ہماری دوست بن جاتی تو وہ ہی کافی تھا ہمارے لئے، مگر آپ نے ایسا نہیں کیا بس چال بازیاں کرتی رہیں اور آپ کی اسی چال باز طبیعت کی وجہ سے آپ کو باقی سب بھی اپنے جیسے ہی چال باز نظر آنے لگے ہیں۔" وہ بھی آج بری طرح پھٹ پڑا تھا۔ اور اس کے منہ سے ہوئے انکشافات سن کر باقی سب اپنی جگہ ساکت رہ گئے تھے۔
"مجھے نہیں چاہیے ایسا بزنس ایسی لیڈر شپ جس میں مجھے ذہنی سکون نہ ملے، یہ سب آپ ہی رکھ لیں اور مجھے معاف کریں، مجھے کچھ نہیں چاہیے۔" اس نے کہتے ہوئے آخر میں ان کے آگے زور سے ہاتھ جوڑے۔
"شاہانہ! یہ ابھی کیا کہا تم نے؟ اور یہ عزیر کیا کہہ رہا ہے کہ تم نے غضنفر پر جان بوجھ کر چوری کا الزام لگایا تھا!" شفاعت بےیقینی سے کہتے ہوئے آگے آئے تو شاہانہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔
"ن۔۔نہیں۔۔۔میرا مطلب تھا کہ۔۔۔۔" ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب کیسے بات بنائیں۔
"مطلب ہی تو تھا، ہر جگہ ہر وقت تم نے اپنے مطلب کو ہی تو ترجیح دی ہے جسے ہم اب تک تمہارے مزاج کا حصہ سمجھتے ہوئے نظر انداز کرتے آئے، لیکن اب بہت ہوگئی، اب بات بچوں کی زندگی پر آگئی ہے۔" شفاعت میں بھی آج وہ ہمت آگئی تھی جو انہیں بہت پہلے دکھانی چاہیے تھی۔
"ہاں کیا ہے میں نے یہ سب، تو کیا غلط کردیا، میں نے جو کیا اپنے اور اپنے بچوں کیلئے کیا تا کہ انہیں غضنفر کا غلام نہ بننا پڑے جیسے آپ اپنے بڑے بھائی کے غلام بنے رہتے ہیں ہر وقت جی بھائی صاحب، جی بھائی صاحب کرتے ہوئے۔" انہوں نے بھی سنبھلنے کے بعد دوبدو ہوکر بنا ڈرے برملا اعتراف کیا۔
"چٹاخ!" اگلے ہی پل شفاعت کا ہاتھ ان کے گال پر نشان چھوڑ چکا تھا۔ جس کے باعث سب ہل گئے۔
"شرم آرہی ہے مجھے تمہارا شوہر ہونے پر۔" وہ غم و غصے سے بولے۔ باقی سب کی کیفیت بھی مختلف نہ تھی۔
ابھی وہ لوگ بات کر ہی رہے تھے کہ اچانک کانچ ٹوٹنے کی آواز پر سب چونکے تو دیکھا کہ رفاقت اپنا سینہ تھامے زمین پر بیٹھتے چلے جا رہے ہیں جب کہ ان کا ہاتھ لگنے سے ہی گلدان زمین بوس ہوا تھا۔
"پاپا!" سب لوگ یکدم گھبرا کر ان کی جانب بڑھے۔
ان کے کانوں میں پڑتی سب کی آوازیں آہستہ آہستہ مدھم پڑنے لگیں اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا جس کے درمیان ان کے ذہن میں صرف دو آوازیں گونجی، پہلی عزیر کی۔
"چوری کا الزام غضنفر پر لگا دیا حالانکہ اس نے چوری نہیں کی تھی۔"
اور دوسری بیس سالہ روتے ہوئے غضنفر کی۔
"میں نے چوری نہیں کی پاپا میرا یقین کریں۔"
جو ہم پر پہ گزرے تھے رنج سارے
وہ خود پر گزرے تو لوگ سمجھے
جب اپنی اپنی محبتوں کے
عذاب جھیلے تو لوگ سمجھے
وہ جن درختوں کی چھاؤں سے
مسافروں کو اٹھا دیا تھا
ان ہی درختوں سے جب اگلے موسم
پھل نہ اترے تو لوگ سمجھے
وہ گاؤں کا ایک ضعیف دہقاں
سڑک بننے پر کیوں خفا تھا
جب ان کے بچے شہر جا کر جو
کبھی نہ لوٹے تو لوگ سمجھے
انتخاب
*******************************
"ملیحہ! اٹھو فارم ہاؤس آگیا ہے۔" غضنفر نے گاڑی روک کر اپنے بازو سے لپٹ کر سوئی ملیحہ کو پکارا تو وہ کسمسا کر سیدھی ہوئی۔
"اتنی جلدی آگئے!" وہ موندی موندی آنکھیں کھول کر بولی۔
"جلدی! تین گھنٹے سے ڈرائیو کرتے ہوئے میری کمر دکھ کر تختہ ہوگئی ہے، دوپہر سے شام ہوگئی ہے اور تم کہہ رہی ہو جلدی!" اس کی بات پر وہ بری طرح تلملا گیا تھا۔
"اچھا سوری! چلو اترو، اندر چلیں۔" اس نے پیار سے کہتے ہوئے غضنفر کا گال کھینچا اور دروازہ کھول کر باہر نکلی۔
جب کہ ناسمجھی سے اسے گھورنے کے بعد وہ بھی کار سے باہر آگیا۔
"سلام صاحب!" انہیں دیکھ کر ایک درمیانی عمر کا شخص اس طرف آیا جسے غضنفر نے سر کی جنبش سے جواب دیا۔ جب کہ ملیحہ آس پاس کا جائزہ لینے لگی۔
"بڑے صاحب کا فون آیا تھا کہ ان کے دوست کا بھانجا یہاں آرہا ہے تو میں نے فوراً ساری صفائی کروادی تھی بس آپ کی ہی انتظار تھا۔" اس نے فخر سے اپنا کارنامہ بتایا۔
"آپ یہیں رہتے ہیں؟" اس نے متاثر ہوئے بنا سوال کیا۔
"جی یہاں سے تھوڑا دور ہی رہتا ہوں، ہر دو دن بعد فارم ہاؤس کی دیکھ بھال کیلئے یہاں آتا رہتا ہوں، اور آج تو صاحب نے خاص طور پر آرڈر دیا تھا۔" اس نے تفصیل بتائی۔
"هممم! لائیں چابی مجھے دے دیں، اب آپ جا سکتے ہیں۔" غضنفر نے کہتے ہوئے ہتھیلی آگے کی۔
"لیکن صاحب اگر آپ کو کسی چیز کی ضرورت پڑ گئی تو!" اس نے چابی دیتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا۔
"نہیں پڑے گی، آپ جا سکتے ہیں، اور صاف صفائی کیلئے شکریہ۔" اس کے بجائے ملیحہ نے سہولت سے کہا۔
پھر وہ اثبات میں سر ہلا کر وہاں سے چلا گیا جب کہ یہ دونوں اندر کی جانب بڑھ گئے۔
یہ شہر سے نسبتاً دور ایک پہاڑی علاقہ تھا جہاں بہت ڈھونڈنے سے بھی کوئی گھر یا انسان شاید ہی نظر آتا۔ اور میدانی حصے پر پھیلا اکلوتا فارم ہاؤس بھی اس سنسان منظر کا ایک خاموش حصہ تھا جس کے عین سامنے یہ دونوں موجود اب اندر بڑھ رہے تھے۔ گو کہ اچھی خاصی شام ہوجانے کے باعث موسم کافی پرسکون و خوشگوار ہو رہا تھا مگر ان سب سے بےنیاز غضنفر کو تو بس ایک ہی فکر ستا رہی تھی کہ آخر ملیحہ اسے یہاں کیوں لائی تھی؟
"کتنی پرسکون جگہ ہے نا یہ!" سرخ اینٹوں سے بنے ٹریک پر چلتی ملیحہ آس پاس کا جائزہ لیتے ہوئے اندر بڑھ رہی تھی۔
"پرسکون نہیں پراسرار کہو۔" سیاہ ہینڈ کیری گھسیٹتے ہوئے غضنفر نے تصحیح کی۔
"پراسرار شے بھی خوبصورت ہوتی ہے، بس نظر نظر کی بات ہے۔" وہ اپنے مخصوص ٹھہرے ہوئے انداز میں بولی۔ جس پر اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔
دونوں اب فارم ہاؤس کے اندر آچکے تھے جو کہ بلاشبہ اندر سے بھی کافی خوبصورت اور صاف ستھرا تھا۔
"لو! آگئے فارم ہاؤس، اب بتاؤ کیا کرنا تھا۔" غضنفر نے ہال کے وسط میں رک کر پوچھا۔
"مجھے نہیں، تمھیں کرنا ہے، مجھ سے پیار، بس صرف آج کیلئے۔" اس نے مقابل کھڑے ہوکر یاد دلایا۔
"سچ کہوں تو تمہاری یہ بےتکی فرمائش سمجھ سے باہر ہے میری۔" اس نے اکتائے ہوئے انداز میں صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔
"سمجھنے کی کوشش کرو بھی مت، بس کچھ دیر کیلئے اپنے دماغ کو تالا لگا کر صرف دل کی چلنے دو۔" اس نے سرگوشی کے انداز میں کہہ کر پہلے شہادت کی انگلی اس کے ماتھے پر رکھی اور بات کے اختتام تک وہ انگلی آہستہ آہستہ اس کے چہرے سے پھیرتے ہوئے سینے پر لے آئی اور عین دل پر لا کر روکی۔
غضنفر کو لگا کہ اس عمل میں کوئی جادو تھا جس نے اسے شاید اپنے سحر میں ایسے جکڑا تھا کہ وہ چاہ کر بھی کچھ کہہ نہ پایا۔
*******************************
گاڑی رکنے کی آواز پر صوفے پر صالحہ سے چپک کر بیٹھی روتی ہوئی زوہا یکدم سیدھی ہوئی جب کہ تسبیح پڑھتی دردانہ، اور صالحہ و صبیحہ بھی چوکنا ہوگئیں۔
تب ہی شکستہ انداز میں چلتے ہوئے عبید اندر آیا جسے دیکھ کر یہ چاروں اپنی جگہ پر سے اٹھ کر اس کی طرف لپکیں۔
"عبید پاپا کیسے ہیں؟ کیا ہوا ہے انہیں؟" زوہا نے بےتابی سے پوچھا۔ یہ ہی کیفیت باقی سب کی بھی تھی۔
"عبید کچھ پوچھا ہے تم سے جواب دو۔" زوہا نے اسے شرٹ سے پکڑ کر جھنجھوڑا۔
"تایا کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔" اس نے سر جھکائے دھیرے سے اطلاع دی۔ جسے سن کر سب شاک میں آگئے۔
"تو اب کیسا ہے وہ؟" دردانہ نے فکرمندی سے جاننا چاہا۔
"انڈر آبزرویشن ہیں۔" اس نے مختصر بتایا۔
"اور ڈاکٹرز کیا کہتے ہیں؟"صبیحہ نے پوچھا۔
"وہ کہتے ہوئے کہ ان کی حالت بہت سیریس ہے ہم دعا کریں۔" اس نے تاسف سے جواب دیا۔
"ہمیں لے چلو ان کے پاس بیٹا۔" صالحہ نے منت کی۔
"آپ کیا کریں گی تائی وہاں جا کر؟ بھائی اور ڈیڈ ہیں نا وہاں، ڈیڈ نے مجھے بھی اسی لئے گھر بھیجا ہے کہ میں آپ لوگوں کے پاس رہوں۔" اس نے سمجھانا چاہا۔
"بیٹا میں ان کو دور سے دیکھ لوں گی، بس مجھے لے چلو۔" انہوں نے روتے ہوئے منت کی۔
"آنٹی ڈاکٹرز آپ کو نہیں ملنے دیں گے ان سے، آپ بس دعا کریں انکل کیلئے۔" صبیحہ نے ان کے گرد بازو حمائل کرتے ہوئے انہیں سمجھانا چاہا۔
"آپ پلیز بیٹھ جائیں تائی، زوہا جاؤ پانی لے کر آؤ۔" عبید نے کہا تو وہ آنسو صاف کرتی ہوئی کچن میں چلی گئی جب کہ یہ لوگ انہیں صوفے پر بیٹھا کر تسلیاں دینے لگے۔
"بھابھی! ممی۔۔۔کہاں ہیں؟" عبید نے جھجھکتے ہوئے دھیرے سے پوچھا۔
"غصے میں اپنا سامان وغیرہ لے کر اپنے بھائی کے گھر چلی گئی ہیں۔" صبیحہ نے دھیرے سے جواب دیا۔ تو اس نے لب بھینچ کر نظریں چرالیں۔ اپنی ماں کی وجہ سے وہ بھی سب کے سامنے شرمندہ ہوگیا تھا۔
*****************************
فارم ہاؤس کافی بڑا تھا لہٰذا اس میں کمرے بھی کافی سارے تھے اسی لئے دونوں فریش ہونے کیلئے الگ الگ کمروں میں چلے گئے تھے۔ ویسے ہی ان لوگوں کو یہاں پہنچتے ہوئے شام ہوگئی تھی اور تھوڑی دیر بعد اب سورج غروب ہونے کے باعث اندھیرا ہوچکا تھا اسی لئے گھر کی لائٹس آن کردی گئی تھیں۔
باتھ روم سے فریش ہوکر آنے کے بعد سیاہ جینز پر فل آستینوں والی میرون ٹی شرٹ پہنے غضنفر نے سلیمان کو کال کرنے کیلئے جب اپنا موبائل بیڈ پر پڑی سیاہ جیکٹ میں ڈھونڈا تو حیران کن طور پر وہ وہاں نہیں ملا۔ گھر سے جب وہ جیکٹ پہن کر نکلا تھا تو اس نے موبائل اسی کی جیب میں رکھا تھا۔ اور ابھی باتھ روم جانے سے پہلے جب اس نے جیکٹ اتار کر رکھی تھی تب بھی موبائل اسی میں تھا لیکن اب اچانک وہ کہاں چلا گیا تھا؟
"موبائل ڈھونڈ رہے ہو؟" تب ہی ملیحہ کی آواز پر وہ پلٹا تو یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ وہ اسی ہوش ربا میرون ساڑھی کو زیب تن کیے دونوں بازو سینے پر لپیٹے کھڑی تھی جو غضنفر نے اسے کچھ عرصہ پہلے کوریئر کروائی تھی۔
"ہیلو!" اسے یک ٹک خود کو دیکھتا پا کر ملیحہ نے دایاں ہاتھ لہرایا تو گویا وہ یکدم چونک کر ہوش میں آیا۔
"میرا موبائل تم نے لیا ہے؟" اس نے سنجیدگی سے پوچھا۔
"ہاں، یہ رہا۔" اس نے کہتے ہوئے پلو کے نیچے سے ہاتھ نکال کر موبائل لہرایا۔
"کیوں لیا ہے؟ واپس دو مجھے۔" اس نے سختی سے کہتے ہوئے ہاتھ بڑھایا۔
"تا کہ کوئی ہمیں ڈسٹرب نہ کرے، اور یہ اب تمھیں صبح ہی واپس ملے گا۔" اس نے اطمینان سے وضاحت کی۔
"میں نے کہا میرا فون ادھر دو۔" وہ برہمی سے کہتا چند قدم آگے آیا۔
"نہیں دیتی، کرلو جو کرنا ہے۔" اس نے مزید تپایا اور فوراً وہاں سے بھاگ کھڑی ہوئی جس کے پیچھے وہ بھی لپکا۔
وہ ہنستے ہوئے بمشکل ساڑھی سنبھالتی آگے بھاگ رہی تھی اور غضنفر اس کے پیچھے تھا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہال کے وسط میں پہنچتے ہی غضنفر نے اسے پیچھے سے آکر دبوچ لیا۔ اب ملیحہ کی پشت اس کے سینے سے لگی ہوئی تھی۔
"فون چھوڑو میرا۔" اس نے موبائل لینا چاہا۔
"نہیں چھوڑوں گی۔" وہ ہنوز شرارت کے موڈ میں تھی۔
تب ہی تھوڑی زور زبردستی کے بعد بلآخر وه اس سے موبائل لینے میں کامیاب ہوگیا۔
مگر جب اس نے موبائل آن کرنا چاہا تو کوئی نتیجہ نہیں نکلا جب کہ وزن میں بھی موبائل معمول کی نسبت تھوڑا ہلکا محسوس ہوا۔ اس نے بیک کوور نکال کر چیک کیا تو پتا چلا کہ موبائل میں سے بیٹری نکال دی گئی تھی۔
اس نے سر اٹھا کر ملیحہ کو گھورا تو وہ اطمینان سے اسے ہی دیکھتی ہوئی ملی۔
"اب میں نے بیٹری کہاں چھپائی ہے یہ تم پتا لگا سکتے ہو تو لگا لو۔" اس نے مزید تنگ کرتے ہوئے اطمینان سے چیلنج دیا۔
"یہ کیا بچپانہ ہے؟ بیٹری دو مجھے ماموں کو کال کرنی ہے۔" وہ خفا ہوا۔
"بچپانہ تو تم کر رہے ہو، اتنے بڑے ہوگئے ہو مگر ابھی تک ماموں کی انگلی نہیں چھوڑی ہے تم نے، بس ہر تھوڑی دیر میں ساری اپ ڈیٹس ان تک پہنچانا ضروری ہے کیا؟" وہ بھی خفگی سے کہتی اس کی جانب آئی۔
"ہاں، اب بیٹری دو شرافت سے مجھے۔" اس نے ضد کی۔
"شرافت سے ہی لے لو جا کر میں نہیں دے رہی۔" اس نے اترا کر کہا تو وہ اسے گھور کر رہ گیا۔
"اچھا چلو ایک گیم کھیلتے ہیں اس میں اگر تم جیت گئے تو میں تمھیں موبائل کی بیٹری دے دوں گی۔" اس نے بیچ کی راہ نکالی۔
"مجھے نہیں کھیلنا۔" اس نے صاف انکار کیا۔
"ٹھیک ہے، تو پھر لے کر گھومو بنا بیٹری کا موبائل۔" اس نے بھی لاپرواہی سے کندھے اچکائے۔ وہ دانت پیس کر رہ گیا۔
"اففو! اچھا بتاؤ۔" ناچاہتے ہوئے بھی وہ ضبط کرکے رضا مند ہوا۔ جس کے باعث ملیحہ کے لبوں پر فاتحانہ مسکراہٹ دوڑ گئی۔
*******************************
عزیر اور شفاعت اب تک ویٹنگ ایرا میں بیٹھے کسی اچھے خبر کے منتظر تھے مگر دوپہر سے رات ہوجانے کے بعد بھی اب تک انہیں کوئی حوصلہ افزاء بات سننے کو نہیں ملی تھی۔
"آٹھ سال پہلے چوری تم نے کی تھی؟" کرسی پر بیٹھے شفاعت نے اسے دیکھے بنا اچانک سوال کیا۔ اس نے چونک کر انہیں دیکھا۔
"جی!" وہ دھیرے سے بولا۔
"کیوں؟" اسی انداز میں ایک لفظی سوال آیا۔
وہ تھوڑا نروس ہوا۔ مگر آج اس کا کہنا ضروری تھا اسی لئے خشک ہوتے لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے وہ گویا ہوا۔
"کالج کے کچھ دوستوں کے ساتھ میں جوا کھیلنے لگا تھا اور تب ہی ایک شرط میں قریب پچاس ہزار روپے ہار گیا، اور جن لوگوں سے ہارا تھا وہ تھے بھی بہت خطرناک، پہلے تو میں ان سے چھپتا رہا مگر انہوں نے مجھے ڈھونڈ ہی لیا اور دھمکی دی کہ اگر پیسے نہ دیے تو وہ مجھے جان سے مار دیں گے، میں بہت ڈر گیا تھا، گھر میں بھی کسی کو کچھ نہیں بتا سکتا تھا، تب ہی میری نظر ممی کے سونے کے نیکلس پر پڑی جس کی قیمت لگ بھگ پچاس، ساٹھ ہزار ہی تھی، میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا اسی لئے میں نے وہ ہار چرا لیا اور اگلے ہی دن ان لوگوں کو دینے پہنچا مگر وہاں پہنچ کے پتا لگا ان لوگوں کو پولیس نے کسی قتل کے الزام میں آریسٹ کرلیا ہے، میرے سر سے مصیبت ٹلی اور میں شکر کرتا ہوا ہار لے کر گھر پہنچا تو دیکھا گھر میں ممی نے ایک ہنگامہ برپا کر رکھا تھا، پہلے میں نے سوچا کہ سب کو بتا دوں، مگر پھر خیال آیا کہ نہیں! سب مجھ پر بہت غصہ کریں گے، اسی لئے اس وقت میں خاموش رہا مگر رات کو اکیلے میں ممی کو ہار لوٹا کر سب بتا دیا اور کہا کہ وہ سب سے کہہ دیں وہ ہار کہیں رکھ کر بھول گئی تھیں اب وہ انہیں مل گیا ہے، میرے بارے میں کسی کو کچھ نہ بتائیں، انہوں نے مجھے تھوڑا ڈانٹ ڈپٹ کر ہار واپس لے لیا، میں پرسکون تھا کہ اب سب ٹھیک ہے مگر اگلی صبح ممی نے کہا کہ انہیں ہار ڈھونڈنے کیلئے سب کے کمروں کی تلاشی لینی ہے، میں حیران ہوا کہ اب تو ہار مل گیا ہے اب یہ سب کیوں؟ لیکن میں کچھ کہہ نہیں سکتا تھا اسی لئے خاموش رہا، اور ممی نے تلاشی لے کر جب غضنفر کے کمرے سے ہار بر آمد کیا تو میں حیران رہ گیا کہ یہ کیسے ہوا؟ اس کے بعد جس بری طرح تایا نے اسے مارا اور باقی گھر والے بھی اس سے ناراض ہوئے تو میں ڈر گیا کہ اگر میں نے سچ بتایا تو اس سے بھی زیادہ برا حشر میرا ہوگا، اسی لئے اس وقت میں خاموش رہا مگر ممی سے بعد میں پوچھا ضرور کہ انہوں نے غضنفر پر جھوٹا الزام کیوں لگایا؟ تو انہوں نے کہا کہ تم ابھی چھوٹے ہو، نہیں سمجھو گے، اگر ابھی غضنفر کو کنارے نہ کیا گیا تو آگے چل کر وہ تم دونوں بھائیوں پر حکمرانی کرے گا، نئی نسل میں بڑا بیٹا ہونے کی حیثیت سے گھر و کاروبار میں پہلا حصہ اس کا ہوگا اور ہم دونوں اس کے غلام بن جائیں گے جیسے آپ تایا سے دب کر ان سے پیچھے رہ گئے ہیں اور ان کا ہر حکم جی بھائی صاحب کرکے مانتے ہیں، ممی نہیں چاہتی تھیں کہ کل کو میں اور عبید بھی اس کی جی حضوری کریں، اسی لئے انہوں نے اس طرح غضنفر کو سائیڈ پر کیا اور مجھے بھی سختی سے منع کردیا کہ کسی کو کچھ نہ بتاؤں، اور یہ ہی میری سب سے بڑی غلطی تھی۔" وہ آہستہ آہستہ سب بتا کر اب خاموش ہوگیا۔
دونوں ایک دوسرے سے نظریں ملائے بنا آس پاس سے گزتے اکا دکا لوگوں کو دیکھ رہے تھے مگر در حقیقت دونوں کا دھیان ایک دوسرے پر ہی تھا۔
"میں جانتا ہوں کہ مجھے سے غلطی ہوگئی ڈیڈ، لیکن اب میں شرمندہ ہوں، اور میں نہیں چاہتا کہ کل کو میرے بچے بھی ہمارے گھر کے گھٹن زدہ ماحول میں، سختیوں میں پل بڑھ کر میرے یا غضنفر کے جیسے بنیں، میں چاہتا ہوں کہ وہ محبت کرنا سیکھیں محبت سے رہنا سیکھیں، اور ان باتوں کا احساس مجھے صبیحہ نے دلایا ہے جو کہ غلط نہیں ہے، اسی لئے میں اس کے الگ ہونے کے فیصلے پر راضی ہوگیا تھا، مگر ہمیں نہیں پتا تھا کہ ایسا کچھ ہوجائے گا۔" انہیں خاموش پا کر وہ وضاحتی انداز میں مزید بولا۔
"تم نے ٹھیک کہا، ہمارے گھر میں واقعی بہت گھٹن ہے، جس کے ذمہ دار خود ہم ہیں۔" وہ کسی غیر مرئی نقطے کو دیکھتے ہوئے اعتراف کرنے لگے جس پر وہ کچھ نہ بولا۔ کیونکہ کہنے کو کچھ تھا ہی نہیں۔
*******************************
"ملیحہ! یار کہاں جا کر چھپ گئی ہو؟" آنکھوں پر سیاہ رنگ کی پٹی باندھے غضنفر دونوں ہاتھوں سے ہوا میں اسے ٹٹولتا آگے بڑھ رہا تھا۔ اور ملیحہ کافی فاصلے پر خاموش کھڑی کافی محظوظ ہو رہی تھی۔
"یار آنکھ مچولی کھیلنے کی بات ہوئی تھی مگر تم نے تو چھپن چھپائی کھیلنا شروع کردیا ہے، کہاں چلی گئی ہو؟ کم از کم آواز سے کوئی ہنٹ تو دو ورنہ میں پٹی اتار دوں گا۔" اس نے ہنوز ہوا میں ٹٹولتے ہوئے کہا تو بلآخر اس کی حالت پر لطف اندوز ہوتی ملیحہ کو ترس آگیا۔
"دل میرا چرایا کیوں؟"
"جب یہ دل توڑنا ہی تھا"
"ہم سے دل لگایا کیوں؟"
"ہم سے منہ موڑنا ہی تھا"
ملیحہ اشارہ دینے کیلئے گانا گانے لگی جس کی آواز کی سمت پر غور کرتے ہوئے اس نے قدم اس طرف بڑھائے۔
"دل کو دھڑکنا تو نے سیکھایا"
"دل کو تڑپنا تو نے سیکھایا"
"آنکھوں میں آنسو چھپے تھے کہیں"
"ان کو چھلکنا تو نے سیکھایا"
"سینے میں بسایا کیوں؟"
"دل سے جب کھیلنا ہی تھا"
"ہم سے دل لگایا کیوں؟"
"ہم سے منہ موڑنا ہی تھا"
"دل میرا چرایا کیوں؟"
اس نے مسکراتے ہوئے گانا شروع کیا تھا مگر اب آہستہ آہستہ اس کی آواز میں درد گھلنے لگا تھا گویا وہ واقعی اس سے شکوہ کر رہی ہو۔ جسے غضنفر نے بھی واضح محسوس کیا جو اس کی آواز کے تعاقب میں بڑھ رہا تھا۔ اور وہ ہال میں بنے دراز قد پلر سے پشت ٹکائے اس سے بےخبر ہوئی اپنے دل کا درد بیان کرنے میں گم تھی۔
"ملتی تھیں نظریں جب بھی نظر سے"
"اٹھتے تھے شعلے جیسے جگر سے"
"سانسوں سے نکلے جیسے دھواں سا"
"بنتا تھا مجھ سے جیتے نہ مرتے"
"آگ کیوں لگائی جب؟"
"بجھا یہ دل چھوڑنا ہی تھا"
"ہم سے دل لگایا کیوں؟"
"ہم سے منہ موڑنا ہی تھا"
"دل میرا چرایا کیوں؟"
"جب یہ دل توڑنا ہی تھا"
"ہم سے دل لگایا کیوں؟"
"ہم سے منہ موڑنا ہی تھا"
گانا ختم ہونے تک ایک آنسو اس کی بائیں آنکھ سے ٹوٹ کر رخسار پر پھسلا جسے صاف کرکے جب وہ غضنفر کو دیکھنے کیلئے پلٹی تو غیر متوقع طور پر اسے یہاں سے غیر حاضر پا کر وہ حیران ہوئی۔
"غضنفر!" وہ اسے پکارتی ہوئی آگے آئی اور ساتھ ہی اس کی تلاش میں یہاں وہاں نظریں بھی دوڑائیں مگر وہ کہیں نظر نہیں آیا۔
ابھی وہ ناسمجھی کے عالم میں کھڑی ہی تھی کہ اس نے یکدم پیچھے سے آکر وہ ہی سیاہ پٹی اس کے گلے کے گرد باندھ دی جو ملیحہ نے اس کی آنکھوں پر باندھی تھی۔
"بہت تنگ کرتی ہو تم، ایک ہی بار گلا دبا کر تمہارا قصہ ختم کردوں؟" غضنفر نے اپنا سینہ اس کی پشت سے لگائے کان میں سرگوشی کی۔ جب کہ پٹی بھی اس کی گردن کے گرد اس نے یوں ہی پکڑ رکھی تھی گویا ابھی گلا گھونٹ دے گا۔
"اگر میرا اختتام میرے محبوب کے ہاتھوں لکھا ہے تو اس سے بڑھ کر خوشی کی بات اور کیا ہوگی میرے لئے!" حسب توقع وہ بنا ڈرے مسکراتے ہوئے بولی۔
جواب میں کچھ کہنے کے بجائے غضنفر نے اس کی گردن سے وہ پٹی ہٹا لی تو وہ بھی آہستہ سے اس کی طرف پلٹ گئی۔ مگر دونوں کے درمیان فاصلہ اب بھی بہت کم تھا۔
"ایک بات کہوں؟" غضنفر نے اجازت چاہی تو اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
"تم بہت اچھی ہو، اپنی اچھائی کو مجھ جیسے برے انسان پر برباد مت کرو۔" وہ اس کے چہرے پر آئی لٹ پیچھے کرتے ہوئے آہستہ سے بولا۔
"وہ اچھا ہے تو بہتر، برا ہے تو بھی ٹھیک"
"عشق میں عیب و ہنر نہیں دیکھے جاتے"
اس نے مسکراتے ہوئے شاعرانہ انداز سے جواب دیتے ہوئے اسے پھر لاجواب کردیا۔
"تم سے باتوں میں جیتنا بہت مشکل ہے۔" اس نے ہلکے پھلکے انداز میں برملا اعتراف کیا۔
"اچھا! تو چلو اب میری جیت کی خوشی میں ڈانس کرتے ہیں۔" وہ چہک کر بولی۔
"کیا! نہیں بھئی، یہ ڈانس وانس مجھے نہیں آتا۔" وہ چند قدم پیچھے ہٹتے ہوئے انکاری ہوا۔
"ارے وہ تو مجھے بھی نہیں آتا مگر ہمیں کون سا کوئی جج کرنے والا ہے؟ چلو ایسے ہی مستی کیلئے کرتے ہیں۔" اس نے کہتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا۔ مطلب آج وہ اپنی ہر ضد پوری کرکے ہی دم لینے والی تھی۔
*******************************
"ایکسکیوزمی! مسٹر رفاقت عباس کے ساتھ آپ لوگ ہیں؟" نرس نے قریب آکر پوچھا تو دونوں کرسی پر سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
"جی ہم ہی ہیں، اب کیسے ہیں وہ؟" شفاعت نے بتاتے ہوئے پوچھا۔
"آپ کو ڈاکٹر احمد نے ارجنٹ اپنے روم میں بلایا ہے۔" اس نے بجائے جواب دینے کے پیشہ وارانہ انداز میں اطلاع دی تو دونوں بےساختہ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
*******************************
"آپ دونوں میں سے غضنفر کون ہے؟" سنگل کرسی پر براجمان ادھڑ عمر کے ڈاکٹر احمد نے ٹیبل کی دوسری طرف اپنے مقابل بیٹھے ان دونوں سے پوچھا۔
"کوئی بھی نہیں، لیکن آپ یہ کیوں پوچھ رہے ہیں؟" شفاعت نے جواب دیتے ہوئے جاننا چاہا۔
"مسٹر رفاقت کو کچھ منٹوں کیلئے ہلکا سا ہوش آیا تھا جس میں بس انہوں نے غضنفر غضنفر پکارا اور وہ پھر غنودگی میں چلے گئے، شاید وہ اس غضنفر نامی شخص سے ملنا چاہتے ہیں، کیا آپ دونوں جانتے ہیں اسے؟" انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے پوچھا۔ تو دونوں نے پل بھر کو پہلے ایک دوسرے کی جانب دیکھا پھر شفاعت ڈاکٹر سے مخاطب ہوئے۔
"غضنفر ان کا بیٹا ہے۔" انہوں نے آہستہ سے بتایا۔
"اوہ! مطلب یہ اپنے بیٹے سے ملنا چاہ رہے ہیں، تو آپ لوگ جلد از جلد انہیں یہاں بلا لیں تا کہ وہ ان سے مل سکیں، کیونکہ پاسیبل ہے کہ اس سے ان کی کنڈیشن میں کوئی پازیٹیو چینج آجائے!" سارے معاملے سے لاعلم ڈاکٹر نے جب پیشہ وارانہ انداز میں یہ کہا تو شفاعت اور عزیر بےساختہ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
"کہاں ہیں ابھی مسٹر غضنفر؟" ڈاکٹر نے دونوں کو خاموش پا کر سوال کیا۔
*******************************
"ہو تم کیا جانو"
"محبت کیا ہے"
"دل کی محفل صنم"
"ہے یہ محفل نہیں دل ہے"
غضنفر اور ملیحہ اس وقت ایک کمرے میں تیز آواز سے میوزک لگائے، ڈسکو لائٹس آن کیے دنیا سے بےخبر اچھلتے کودتے ہوئے بڑا ہی بےتکا ڈانس کرتے ہوئے کافی لطف اندوز ہو رہے تھے۔ انہیں دیکھ کر کہیں سے نہیں لگ رہا تھا کہ کچھ روز بعد دونوں باہمی رضا مندی سے خلع لینے والے تھے۔
"بس! بہت ہوگیا۔" غضنفر نے ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے کہا۔
"ارے! ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔" ملیحہ نے بھی رک کر کمر پر ہاتھ رکھے۔
"ہاں تو اب ختم بھی کردو اس پارٹی کو اور میری بیٹری واپس کرو، تمہارے کہنے پر میں نے آنکھ مچولی بھی کھیل لی اور ڈانس بھی کرلیا۔" اس نے کہتے ہوئے ریموٹ اٹھا کر میوزک بند کیا۔
"اچھا چلو پارٹی ختم کر دیتے ہیں، رومانس شروع کرتے ہیں۔" اس نے معنی خیزی سے کہا تو وہ تعجب خیز انداز میں اس کی جانب پلٹا۔
*******************************
"اوکے! میں ابھی کرتی ہوں۔" صبیحہ نے کہہ کر موبائل کان سے ہٹایا جس پر سب کی سوالیہ نظریں تھیں۔
"کیا ہوا بھابھی؟" عبید نے سب کی ترجمانی کی۔
"عزیر بتا رہے ہیں کہ انکل نے غنودگی کی حالت میں غضنفر کو پکارا ہے، شاید وہ اس سے ملنا چاہتے ہیں، ڈاکٹر نے کہا ہے کہ غضنفر کو جلد از جلد بلا لیا جائے اس سے ان کی حالت بہتر ہوسکتی ہے لیکن اس کا نمبر بند جا رہا ہے، تو میں ملیحہ کو فون کرکے یہ میسج اس تک پہنچاؤں۔" صبیحہ نے بتاتے ہوئے ساتھ کانٹیکٹ لسٹ میں ملیحہ کا نمبر بھی ڈھونڈا۔
"ہاں جلدی فون کرو اسے بیٹا۔" دردانہ بھی فکر مند ہوئیں۔
اس نے نمبر ڈائل کرکے موبائل کان سے لگایا اور پھر اگلے ہی پل واپس ہٹا لیا جس سے سب کو تشویش ہوئی۔
"کیا ہوا؟" دردانہ نے پوچھا۔
"ملیحہ کا نمبر بھی بند ہے۔" اس نے بےبسی سے بتایا۔
"ہوسکتا ہے دونوں سو گئے ہوں!" عبید نے خیال ظاہر کیا۔
"رات کے ساڑھے نوں بجے کون سوتا ہے؟" صبیحہ نے الٹا سوال کیا۔ اب سب سوچ میں پڑ گئے تھے کہ کیا کریں؟
"سلیمان ماموں کو فون کرلیں نا! وہ بتا دیں گے بھیا کو!" یکدم زوہا نے تجویز دی۔ جس سے سب متفق ہوئے۔
"ہاں یہ ٹھیک ہے، جاؤ میرا موبائل لے کر آؤ کمرے سے زوہا۔" صالحہ نے کہا تو وہ فوراً اٹھ کر ہال سے کمرے کی جانب بڑھی اور کچھ ہی لمحوں بعد ان کا موبائل لے کر حاضر ہوئی۔
"نمبر ملا کر دو سلیمان کا۔" صالحہ نے ہدایت دی تو زوہا نمبر ڈائل کرتے ہوئے واپس ان کے برابر میں بیٹھ گئی اور موبائل انہیں پکڑا دیا۔
دوسری جانب بیل جا رہی تھی جس کے ساتھ ساتھ ان کی دھڑکنیں بھی بےترتیب ہو رہی تھیں۔
"ہیلو!"
"ہیلو سلیمان! غضنفر کہاں ہے؟ اسے بلاؤ جلدی۔" وہ ایک ہی سانس میں کہتی گئیں۔
"کیا ہوگیا باجی؟ سب خیریت تو ہے نا؟ اتنی گھبرائی ہوئی کیوں ہیں؟" ان کے انداز پر وہ بھی ٹھٹکے۔
"کچھ خیریت نہیں ہے سلیمان۔۔۔۔رفاقت کو۔۔۔۔ہارٹ۔۔۔۔۔۔" وہ بتاتے ہوئے پھر رونے لگیں جس کے باعث ان کی بات ادھوری رہ گئی اور وہ مزید متفکر ہوئے۔
زوہا اور صبیحہ دردانہ کے ساتھ مل کر انہیں چپ کروانے لگیں جب کہ ان کے ہاتھ سے موبائل لے کر عبید نے اپنے کان پر لگایا۔
"السلام علیکم انکل! میں عبید بات کر رہا ہوں۔" اس نے تعارف دیا۔
"وعلیکم السلام! بیٹا کیا ہوا ہے؟ باجی اتنی پریشان کیوں ہیں؟" انہوں نے فکر مندی سے پوچھا۔
"انکل تایا کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور وہ ہاسپٹلائز ہیں، ڈاکٹر کہتے ہیں کہ وہ بار بار غضنفر بھیا کو پکار رہے ہیں تو آپ پلیز بھیا سے کہیں کہ آکر ان سے مل لیں۔" اس نے اصل بات کی وضاحت کی جسے سن کر وہ بھی دنگ رہ گئے۔
"اوہ! یہ کب اور کیسے ہوا؟" انہیں تشویش ہوئی۔
"آج شام میں ہی ہوا ہے، اور کیسے ہوا یہ بہت لمبی کہانی ہے بس یوں سمجھ لیں کہ آج سچ پتا چل گیا ہے سب کو جو شاید تایا برداشت نہیں کر پائے۔" اس نے دکھ سے مختصر تفصیل بتائی۔
"آپ بس پلیز غضنفر بھیا کو ان کے پاس بھیج دیں۔" اس نے مزید کہا۔
"تم گھبراؤ نہیں بیٹا، میں ابھی غضنفر سے رابطہ کرتا ہوں اور خود بھی وہاں آتا ہوں، کون سے ہاسپٹل میں ہیں وہ؟" انہوں نے تسلی دیتے ہوئے پوچھا تو عبید انہیں ہسپتال کا ایڈریس بتانے لگا۔
"پتا نہیں کیا ہوگیا ہے یہ سب؟ اور یہ غضنفر کہاں ہے؟" صالحہ ہنوز روتے ہوئے بڑبڑا رہی تھیں۔
*******************************
"پل، ایک پل میں ہی تھم سا گیا"
"تو، ہاتھ میں، ہاتھ جو دے گیا"
"چلوں میں جہاں جائے تو"
"دائیں میں تیرے بائیں تو"
"ہوں رت میں ہوائیں تو"
"ساتھیا!"
مدھم روشنی میں ڈوبے کمرے میں، خوبصورت گیت کے دھیمے بول پر ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے دونوں دھیرے دھیرے جھوم رہے تھے۔
ملیحہ نے دونوں ہاتھ اس کے کندھوں پر رکھے ہوئے تھے اور غضنفر نے دونوں بازو اس کی کمر کے گرد حمائل کر رکھے تھے۔
ملیحہ کے انداز میں سکون، اطمینان، مسرت و بےپناہ محبت تھی۔ جب کہ غضنفر بس چپ چاپ اس کا ساتھ دے رہا تھا۔
"سایہ ہے میرا تیری شکل"
"حال ہے ایسا کچھ آج کل"
"صبح میں ہوں تو دھوپ ہے"
"میں آئینہ ہوں تو روپ ہے"
"یہ تیرا ساتھ خوب ہے"
"ہمسفر!"
"تو عشق کے سارے رنگ دے گیا"
"پھر کھینچ کے اپنے سنگ لے گیا"
"کہیں پہ کھو جائیں چل"
"جہاں یہ رک جائیں پل"
"کبھی نہ پھر آئے کل"
"ساتھیا!"
یوں ہی جھومتے ہوئے اب غضنفر نے اسے ہاتھ سے گھما کر اس کی پشت اپنی جانب کرلی تھی۔ وہ دونوں ہنوز ہلکے ہلکے دھن پر جھوم رہے تھے اور ساتھ ساتھ اب غضنفر کی سانسیں اسے اپنے بالوں میں محسوس ہو رہی تھیں۔
"ایک مانگے اگر سو خواب دوں"
"تو رہے خوش میں آباد ہوں"
"تو سب سے جدا جدا سا ہے"
"تو اپنی طرح طرح سا ہے"
"مجھے لگتا نہیں ہے تو دوسرا"
"پل، ایک پل میں ہی تھم سا گیا"
"تو، ہاتھ میں، ہاتھ جو دے گیا"
"چلوں میں جہاں جائے تو"
"دائیں میں تیرے بائیں تو"
"ہوں رت میں ہوائیں تو"
"ساتھیا!"
وہ مدہوش ہوتے ہوئے گھوم کر اب اس کے سینے سے لگ گئی تھی۔ گیت ختم ہوچکا تھا۔ دونوں اپنی جگہ پر رک گئے تھے۔ اور آنکھیں بند کیے اس کے سینے سے لگی ملیحہ پر تو شاید غنودگی طاری ہونے لگی تھی۔ اور کیسے نہ ہوتی؟ کیونکہ محبوب کی آغوش دنیا کی سب سے پرسکون جگہ جو معلوم ہوتی ہے اسی لئے وہ بھی سب کچھ بھلائے بس اس سکون کو اپنے اندر اتار رہی تھی۔
تھوڑے ہی عرصے کی بات تھی اسی لئے غضنفر نے بھی خاموش رہ کر آج اسے اپنی ہر خواہش پوری کرنے دی۔
*******************************
آپ کا ملایا ہوا نمبر فی الحال بند۔۔۔۔۔۔۔" ایک ہی ریکارڈنگ کو دوبارہ سن کر سلیمان نے بددلی سے موبائل کان سے ہٹایا۔
"انکل ہم خود بھی بہت دیر سے اسے کال کر رہے ہیں مگر اس کا نمبر بند آرہا ہے۔" ساتھ کھڑے عزیر نے ان کا رد عمل دیکھ کر کہا۔
"ویسے اچانک وہ فارم ہاؤس کرنے کیا گیا ہے؟" وہیں کھڑے شفاعت نے سوال اٹھایا۔
"فارم ہاؤس کیا کرنے جاتے ہیں شفاعت بھائی؟ ظاہر ہے اپنی بیوی کے ساتھ تھوڑا وقت گزارنے گیا ہے، اب اسے کیا پتا تھا کہ پیچھے یہ سب ہوجائے گا!" انہوں نے کہتے ہوئے غضنفر کے نمبر پر میسج چھوڑا۔
"ہاں تو کم از کم فون تو آن رکھنا چاہئے نا کہ کسی ایمرجینسی کی صورت میں گھر والے رابطہ کرسکیں۔" انہوں نے اپنی بات کی وضاحت کی۔
"اس کے گھر والے تھے ہی کب جو اس سے رابطہ کرتے؟ وہ تو گھر ہوتے ہوئے بھی دربدر اور گھر والوں کے ہوتے ہوئے بھی لاوارثوں کی طرح ہی رہا ہے۔" سلیمان ناچاہتے ہوئے بھی تلخی سے طنز کر گئے۔ جسے سمجھتے ہوئے دونوں لاجواب ہوگئے۔
"ہم نے بتایا نا انکل کہ جو کچھ ہوا اس پر ہم سب شرمندہ ہیں اور اسی لئے تو غضنفر سے رابطہ کرنا چاہ رہے ہیں تا کہ اس سے معافی مانگ سکیں، تایا اس سے مل سکیں، لیکن پتا نہیں وہ کہاں ہے؟" عزیر نے عاجزی سے صفائی دی۔ جس پر وہ خاموش ہی رہے۔
*******************************
"یار میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ جب بھی دو لوگ الگ ہوئے ہیں تو روتے، پیٹتے، لڑتے جھگڑتے، ایک دوسرے کو کوستے ہوئے ہیں، اور ہمارے معاملے میں ایسا کچھ نہیں چاہتی میں، بلکہ میں چاہتی ہوں کہ ہم خوشی خوشی ایک دوسرے کو الوداع کہیں، ٹھیک ہے نا!" ملیحہ نے کہتے ہوئے تائید چاہی۔
"ہمممم!" وہ بس اتنا ہی بولا۔
دونوں اب لان میں رکھے بڑے سے لکڑی کے جھولے پر کچھ یوں نیم دراز تھے کہ پہلے غضنفر پیر سیدھے کرکے جھولے پر لیٹا ہوا تھا اور اس کے بالکل برابر میں ملیحہ اس کے سینے پر سر رکھے لیٹی تھی۔
غضنفر ایک پیر نیچے لٹکائے جھولا ہلانے کا کام بھی سر انجام دے رہا تھا۔ اور ملیحہ چپس کا کھلا ہوا پیکٹ غضنفر کے پیٹ کے اوپر رکھے وقفے وقفے سے اس میں سے چپس نکال کر کھا رہی تھی اور یہ ہی عمل غضنفر بھی دہرا رہا تھا۔
"ہوا اچھی چل رہی ہے مگر آج آسمان پر چاند نہیں ہے، جس سے آسمان خالی خالی لگ رہا ہے نا!" ملیحہ نے سیاہ آسمان کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"ہمممم!" وہ چپس کھاتے ہوئے محض اتنا ہی بولا۔
"تمھیں رومانٹک انداز میں کہنا چاہیے تھا کہ آسمان پر چاند بھلا کیسے ہوگا؟ وہ تو میرے پہلو میں موجود ہے۔" اس نے خفگی سے شکوہ کیا۔
"پہلو میں آنے کی اجازت دی ہے نا اسے ہی غنیمت جانو، باقی چونچلوں کی کوئی امید مت رکھنا مجھ سے، ایک تو ویسے ہی تم نے اچھا خاصا تھکا دیا ہے اوپر سے ابھی تک میرے موبائل کی بیٹری بھی واپس نہیں کی ہے۔" اس نے چپس کھاتے ہوئے بےزار انداز میں جواب دیا۔
"بیٹری تو اب تمھیں صبح ہی واپس ملے گی اسی لئے یہ ضد بحث چھوڑ دو، اور ہاں ایک ضروری بات کہ اگر باتیں کرتے ہوئے میں سوجاؤں تو پلیز مجھے اٹھا کر بیڈ روم میں لے جانا۔" اس نے کہتے ہوئے آخر میں نئی فرمائش کی۔
"کوئی ضرورت نہیں ہے یہاں سونے کی، نیند آئے تو خود اٹھ کر جا کے سوجانا، میں نہیں لے کر جانے والا۔" حسب توقع صاف انکار سننے کو ملا۔
"نہیں تم ہی لے کر جاؤ گے، خیر اب ذرا میرے سوال کا جواب دو۔" اس نے حتمیٰ انداز میں کہتے ہوئے چپس کھائی۔
"پوچھو!" انداز بےزار تھا۔
"شادی سے پہلے تو تم اتنے پاگل تھے میرے پیچھے، پھر اب کیا ہوگیا ہے؟" اس نے وہ ہی سوال اٹھایا جس کا جواب مل چکا تھا۔
"بتایا تو ہے کہ مجھے غلط فہمی تھی کہ مجھے تم سے محبت ہوگئی ہے اسی لئے تم سے شادی کی جس کے بعد پتا چلا کہ وہ محبت نہیں غلط فہمی تھی۔" اس نے سادہ سے انداز میں وہ ہی جواب دہرایا۔
"اچھا کیا تمھیں یاد ہے کہ تم نے زندگی میں سب سے پہلے کس سے محبت کی تھی؟" اس نے دلچسپی سے دوسرا سوال کیا۔
"ہاں، مس ایس سے۔" اس نے جھٹ سے جواب دیا۔
"نہیں، اس سے بھی پہلے، سب سے پہلے۔" اس نے جواب نہ مانتے ہوئے مزید کریدا۔
"نہیں، اس سے پہلے کسی سے محبت نہیں ہوئی۔" انداز سنجیدہ تھا۔
"اچھا اور کیا تمھیں یہ پتا ہے کہ تم سے سب سے پہلے کس نے محبت کی؟" اس نے نیا سوال پیش کیا۔
"نہیں!" مختصر جواب ملا۔
"اچھا! لیکن مجھے پتا ہے کہ تم سے سب سے پہلے سے اور سب سے زیادہ محبت کون کرتا ہے؟" اس نے دلچسپی سے تجسس پھیلایا۔
"کون کرتا ہے؟" اس نے بھی جاننا چاہا۔
"آج سے آٹھائیس سال پہلے جب ایک عورت کو پتا چلا تھا کہ اس کی کوکھ میں ایک نئی زندگی وجود میں آئی ہے تب سے وہ عورت اس گوشت کے لوتھڑے سے اس کی جنس تک جانے بنا محبت کرنے لگی تھی، نوں ماہ کی دشواری کے بعد بےپناہ درد جھیل کر جس عورت نے اس وجود کو جنم دیا، راتوں کو جاگ کر، دو سال اپنا دودھ پلا کر، چلنا، بولنا سیکھایا وہ عورت اس گوشت کے لوتھڑے سے بےپناہ محبت کرتی ہے، تمہارا پتا نہیں مگر تمہاری ماں سب سے پہلے سے اور سب سے زیادہ تم سے محبت کرتی ہے۔" اس نے محبت پاش انداز میں باور کرایا۔
"جھوٹ! میں نہیں مانتا، اگر ایسا ہوتا تو وہ میری حمایت کرتیں یوں خاموش تماشائی بن کر نہ کھڑی رہتی ہر بار۔" اس نے تلخی سے نفی کی۔
"ضروری نہیں ہے کہ اگر وہ لبوں سے نہیں کہتی تو دل میں بھی درد نہیں رکھتیں۔" اس نے قائل کرنا چاہا۔
"کیا فائدہ ایسے درد کا جو مجھے درد میں تڑپتا دیکھ کر بھی باہر نہیں آتا۔" انداز مزید تلخ ہوا۔ کچھ لمحوں کیلئے خاموش ہونے کے بعد وہ پھر گویا ہوئی۔
"کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے پیرینٹس کی شادی کیسے ہوئی تھی؟ مطلب لو میرج تھی یا ارینج؟ دونوں کب کیسے کہاں ملے تھے؟ ان دونوں میاں بیوی کے آپسی تعلقات کیسے تھے؟" اس نے اچانک کچھ غیرمتوقع سوالات اٹھائے۔
"نہیں، مجھے بھلا کیسے پتا ہوگا؟ اور میں کیا کروں گا یہ سب جان کر؟" اس نے بےزاری سے الٹا سوال کیا۔
"مسلہ تب ہی حل ہوتا ہے جب اس کی جڑ معلوم ہو۔" اس نے فلسفہ دیا۔ وہ بجائے کچھ کہنے کے خاموش ہی رہا تو ملیحہ پھر سے گویا ہوئی۔
"تمہارے نانا کا انتقال بہت پہلے ہوگیا تھا، جس کے بعد تمہاری نانی نے ملازمت کرکے صالحہ ممی اور سلیمان ماموں کو پالا، جب ممی پچیس اور ماموں اٹھارہ سال کے تھے تب نانی کا بھی انتقال ہوگیا، جس کے بعد پہلے کچھ عرصہ ممی نے نوکری کی پھر ماموں نے اپنی جمع پونجی میں کچھ پیسے اور ملا کر ایک دوست کے ساتھ گاڑیوں کا کاروبار کرلیا، دادی سے ممی کی ملاقات ایک تقریب میں ہی ہوئی تھی، اور وہیں انہوں نے ممی کو اپنے بڑے بیٹے رفاقت کیلئے پسند کرلیا، اور یوں بڑوں کی پسند سے ان کی شادی ہوگئی، جس کے بعد ممی کو پتا چلا کہ پاپا کو تو اس رشتے میں کوئی دلچسپی تھی ہی نہیں، انہوں نے صرف اپنے والدین کی مرضی کے آگے سر جھکایا تھا، انہیں لگا کہ ان کے سارے خواب ایک ساتھ چکنا چور ہوگئے ہیں، لیکن اب کچھ اور بھی نہیں ہوسکتا تھا اسی لئے انہوں نے اسے اپنا نصیب سمجھ کر صبر کرلیا، اور یہ ہی ان کی غلطی تھی، کہ انہوں نے صرف صبر کیا، اپنے شوہر کے دل میں جگہ بنانے کی کوشش نہیں کی، اور اگر کوشش کی بھی تھی تو اس کے ناکام ہونے کے بعد بھی وہ اس نام کے رشتے میں قید رہیں یہ سوچ کر کہ اب یہ ہی میرا نصیب ہے۔" اس نے صالحہ کی کہانی اپنی زبانی دھیرے دھیرے اسے بتائی جسے وہ بغور سنتا رہا۔
"تمھیں اتنا سب کیسے پتا؟" اس نے تعجب سے سوال کیا۔
"ممی نے یہ سب زوہا کو بتایا تھا اور شادی کے بعد جب ہم گھر پر سب کے ساتھ رہ رہے تھے تب یہ سب زوہا نے مجھے بتایا۔" اس نے الجھن دور کی۔
"تو یہ سب اب مجھے کیوں بتا رہی ہو تم؟" اس نے ایک اور سوال کیا۔
"تا کہ تمھیں پتا چلے کہ تم جو ہمیشہ شکوہ کرتے ہو نا کہ تمہارے پاپا تم سے پیار نہیں کرتے، ممی تمہاری حمایت میں نہیں بولتی وہ اسی لئے کیونکہ یہ ان دونوں کی شخصیت کا خاصا ہے، یہ سب اسپیشلی تمہارے لئے نہیں ہے، پاپا ہمیشہ سے ہی ایک سنجیدہ اور سخت طبیعت کے مالک شخص رہے ہیں جنہوں نے اپنی بیوی کو بھی کبھی بھرپور توجہ نہیں دی، ممی جو کمسنی میں والدین کے سائے سے محروم ہوگئی تھیں جب آنکھوں میں کئی خواب و خواہش لئے پیا دیس آئیں تو یہ جان کر اندر ہی اندر ٹوٹ گئیں کہ وہ تو اپنے پیا کے من کو بھاتی ہی نہیں ہیں، اسی لئے سیدھی سادی سی صالحہ وقت کے ساتھ ساتھ کب بزدل ہوگئیں انہیں خود بھی پتا نہ چلا، اسی تناؤ بھرے ماحول میں تم ان کی گود میں آگئے، تم سے انہیں بےپناہ محبت تھی مگر ساتھ ہی ساتھ پاپا کے اندر موجود سنجیدہ اور اصول پسند شخص اس سوچ کے ساتھ مزید سخت ہوگیا کہ انہیں ہر حال میں اپنے بیٹے کو نمبر ون پوزیشن پر لانا ہے جس کیلئے انہیں جتنی سختی کرنی پڑی کریں گے، ممی نے پہلے دن سے پاپا کی سنجیدگی دیکھی تھی اسی لئے وہ کافی حد تک ان سے ڈر کر رہتی تھیں اور جب وہ کسی غلطی یا شرارت پر تمھیں ڈانٹتے مارتے تھے تو ممی اس ڈر سے تمہارے پاس جانے کی ہمت نہیں کر پاتی تھیں کہ کہیں اس عمل سے پاپا ان سے مزید ناراض نہ ہوجائیں، ایک طرح سے وہ شوہر اور اولاد کے بیچ پس رہی تھیں، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تم بھی ان سے بدظن ہوگئے۔" اب وہ بھی سنجیدگی سے وہ سارے پہلو سمجھانے لگی جو عام نظر سے پوشیدہ تھے۔ مگر نفسیات کا علم ہونے کے باعث وہ مسائل کی جڑ کو بھانپ گئی تھی اور وہ ہی سب غضنفر کو بھی سمجھانا چاہ رہی تھی جو اسے خاموشی سے اسے سن رہا تھا۔
"کوئی انسان کتنا بھی سخت یا بزدل سہی مگر اپنی اولاد کیلئے دل میں تھوڑی محبت تو رکھتا ہے، کبھی تو اس سے پیار جتاتا ہے، لیکن ان دونوں نے تو ایسا نہیں کیا!" وہ آسمان کو تکتے ہوئے دکھ سے کہنے لگا۔
"بہت نہ سہی لیکن تھوڑا بہت پیار تم پر کبھی نا کبھی جتایا ہوگا ممی پاپا نے، یاد کرو۔" اس نے اصرار کیا تو وہ بنا کسی حجت کے ذہن پر زور دینے لگا۔
اس کے ذہن کے پردے پر اس کی گزری ہوئی پوری زندگی کی جھلکیاں کسی فلم کی مانند چلنے لگیں۔ جن میں اسے مختلف اوقات میں ہوئے مختلف واقعات نظر آئے۔
اسے یاد آیا کہ اس نے ایک ایلبم کی کچھ تصاویر میں دیکھا تھا کہ اس کی پہلی سالگرہ بہت دھوم دهام سے کی گئی تھی جس کی ہر تصویر میں رفاقت نے اسے لاڈ سے گود میں اٹھایا ہوا تھا۔
اسے یاد آیا کہ گھر میں سب سے پہلے سائیکل بھی اسی کیلئے لائے تھے رفاقت اور پھر اسے دیکھ کر عزیر نے بھی سائیکل کی ضد کی تھی۔
ایک بار اس نے صالحہ سے پینٹ کلرز مانگے تھے جو اگلے ہی روز وہ اس کیلئے مارکیٹ سے لے آئی تھیں اور انہوں نے اس کے ساتھ مل کر ایک ڈرائینگ میں کلر کیا تھا۔
ایک روز بارش میں بھیگنے کی وجہ سے اسے بہت تیز بخار ہوگیا تھا اس دن رفاقت نے اسے بہت ڈانٹ کر دوا پلائی تھی اور صالحہ ساری رات اس کے سرہانے بیٹھ کر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں اس کے ماتھے پر رکھتی رہی تھیں کہ کہیں بخار دماغ پر نہ چڑھ جائے!
بخار کی وجہ سے وہ گھر کا بنا کوئی کھانا نہیں کھا رہا تھا تو رفاقت دردانہ کے منع کرنے کے باوجود بھی اس کیلئے برگر لے آئے تھے۔ اور آدھا کھا کر چھوڑنے پر اسے ڈانٹا بھی تھا۔
یہ سب سوچتے ہوئے وہ اچانک اٹھ کر بیٹھ گیا جس کے باعث ملیحہ بھی سیدھی ہوکر اس کے برابر میں بیٹھی بغور اس کا چہرہ دیکھنے لگی جس کے تاثرات بہت ہی افسردہ تھے۔
"کیا ہوا؟ یاد آیا؟" ملیحہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے نرمی سے پوچھا۔ دونوں اب جھولے سے نیچے پیر لٹکائے بیٹھے تھے۔
"ہاں، مگر یہ پیار اتنا مختصر کیوں تھا؟" وہ اس سے جواب مانگنے لگا۔
"مختصر نہیں تھا، بس وقت کے ساتھ بدل گیا اور نرم سے سخت ہوگیا، جب تم چھوٹے تھے تو تمھیں چھوٹے بچوں جیسی توجہ دی گئی، جب تم بڑے ہوئے تو تم پر یہ سوچ کر سختی کی گئی کہ جو امیدیں ان لوگوں نے تم سے وابستہ کر رکھی تھیں تم ان پر پورے اترنے کیلئے تیار ہوسکو، پاپا اگر رزلٹ اچھا نہ آنے پر تم سے ناراض ہوتے تھے تو اس کے پیچھے وجہ یہ ہی تھی کہ انہیں لگتا تھا ان کا بیٹا باقی دنیا سے پیچھے رہ جائے گا، دوڑتے ہوئے گھوڑے کو تیز دوڑانے کیلئے جب مالک زور سے چابک مارتا ہے تو اس کا مقصد گھوڑے کو زخمی کرنا نہیں ہوتا ہے بلکہ سب سے آگے لانا ہوتا ہے، بالکل ویسے ہی پاپا کی سختیوں کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ تم سے پیار نہیں کرتے تھے، بلکہ وہ تمھیں سب سے آگے دیکھنا چاہتے تھے۔" اس نے نرمی سے اصل پہلو اجاگر کیا۔
"لیکن میں کوئی بےزبان گھوڑا نہیں تھا ملیحہ جسے کچھ سمجھ نہ آئے، میں ایک انسان تھا، اگر وہ یہ ہی بات مجھے پیار سے بولتے تو میں کیوں نہیں سمجھتا!" اس نے دکھ سے پھر سوال اٹھایا۔
اسے غضنفر کے لبوں سے اس وقت اپنا نام بہت دلکش لگا تھا مگر اس وقت وہ اس کا دھیان اس موضوع پر سے ہٹانا نہیں چاہتی تھی اسی لئے خود پر قابو کرتے ہوئے گویا ہوئی۔
"اگر تم واقعی ایک سمجھدار انسان تھے تو ان سے بدظن ہوکر برائی کی طرف کیوں چل پڑے؟ تم انہیں کسی قابل بن کر دیکھاتے، اگر غلطی ان لوگوں کی تھی تو ٹھیک تم نے بھی نہیں کیا۔" اس نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔
"میں نے کیا غلط کیا؟ غلط تو میرے ساتھ ہوا ہے؟" اس الزام پر وہ اس کی جانب دیکھ کر سوال کرنے لگا۔
"تم نے غلط کو ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کی یہ غلط کیا، تم نے کبھی اپنی ماں کا دوست بننے کی کوشش نہیں کی، ان سے پوچھا نہیں کہ وہ سب سے اتنا ڈر کر کیوں رہتی ہیں؟ اولاد عورت کا سہارا ہوتی ہے، تمہاری ماں کبھی تمہاری حمایت میں زیادہ نہیں بولیں لیکن جب پاپا یا شاہانہ چچی بلاوجہ انہیں باتیں سناتے تھے تم شعور آنے کے بعد کم از کم ان کی حمایت میں کھڑے ہوسکتے تھے نا کہ آپ لوگ کیوں میری ماں کو بلاوجہ کوستے ہیں؟ اس طرح ممی کا دل بڑا ہوجاتا، ان کو حوصلہ ملتا کہ ہاں کوئی ہے ان کے ساتھ جس سے ممکن تھا کہ شاید ان کی بزدلی بہادری بن جاتی۔" اس نے ترکی بہ ترکی لفظوں کا آئینہ دکھایا جس پر وہ خاموش ہی رہا۔
"پاپا تمھیں ہر میدان میں فرسٹ پوزیشن پر دیکھنا چاہتے تھے جس کیلئے انہوں نے تم پر سختی کی، تو اگر تم فرسٹ پوزیشن لے آتے تو پاپا بھلا کیوں خوش نہیں ہوتے تم سے؟" اس نے مزید کہا۔
"میں نے کوشش کی تھی فرسٹ پوزیشن لینے کی مگر کامیاب نہیں ہوا۔" اس نے اپنے تئیں اطلاع دی۔
"تم نے کوشش صرف اسی لئے کی تھی تا کہ تم پاپا کی مار سے بچ سکو، اور اس طرح کی کوششوں میں بےزاری ہوتی ہے اور منزل تک بےزاری کی سواری نہیں جاتی، اس کیلئے جنون کی فراری چاہیے ہوتی ہے، اگر تم میں واقعی خود کو ثابت کرنے کی لگن ہوتی تو تم ضرور کامیاب ہوتے، مگر تم نے دل سے کبھی کوشش کی ہی نہیں۔" اس نے بھی لحاظ بالائے طاق رکھ کر تلخی سے حقیقت دکھائی۔
"مطلب ساری غلطی میری تھی؟" اسے لگا ملیحہ اسے الزام دے رہی ہے۔
"نہیں، آدھی غلطی تمہارے والدین کی ہے اور آدھی تمہاری، کیونکہ تالی دونوں ہاتھوں سے بچتی ہے۔" اس نے نفی کرکے تصحیح کی۔
"اور تمھیں پتا ہے ان معاملوں میں نقصان ہمارا اور فائدہ دشمن کا ہوتا ہے، پاپا نے تم پر سختی کی، تم نے ان کی سختی سے بدظن ہوکر انہیں مایوس کرنے کیلئے خود کو برباد کرلیا اور ان سب میں فائدہ کس کا ہوا؟ کامیاب کون ہوا؟ وہ جو تمھیں برباد دیکھنا چاہتے تھے، کیونکہ تم نے خود کو برباد کرلیا۔" اس نے سنجیدگی سے ایک اور پہلو اجاگر کیا۔
"پتا ہے کسی بھی کھیل میں سب سے مزیدار موڑ کون سا ہوتا ہے؟ کہ جب مخالف ہمارے گرنے کا منتظر ہو اور ہم پورے قد سے پھر اس کے سامنے کھڑے ہوجائیں، اسی لئے جیت کر دکھاؤ ان کیلئے جو تمھیں ہارتا دیکھنا چاہتے ہیں۔" اس نے جوش و جذبے سے اسے احساس دلانا چاہا۔
وہ ہنوز خاموش رہا اور پھر ایک گہری سانس لیتے ہوئے گویا تھک کر اس نے جھولے کی پشت سے ٹیک لگا لی۔
"کوئی بھی والدین اپنی اولاد کے دشمن نہیں ہوتے غضنفر! بس سب کے پیار کرنے کے طریقے الگ الگ ہوتے ہیں۔" اس نے نرمی سے کہتے ہوئے اس کے سینے پر سر رکھ لیا۔
"جب زخم پر پائوڈین لگائی جاتی ہے نا تو بہت جلن مچتی ہے، مگر وہ وقتی جلن مستقبل کے درد سے نجات دلانے کیلئے ہوتی ہے، ہومیو پیتھک میٹھی دوا ہوتی ہے اور ایلو پیتھک کڑوی، مگر ہومیو پیتھک کی نسبت ایلو پیتھک زیادہ جلدی اثر کرتی ہے، جب مٹی کر برتن بن کر تیار ہوجاتے ہیں تو انہیں آگ پر پکا کر مضبوط کیا جاتا ہے، جو برتن آگ کی تپش برداشت نہیں کر پاتے وہ بھٹی میں ہی چٹخ جاتے ہیں اور پھر کسی کام کے نہیں رہتے، اور جو یہ وقتی تپش برداشت کرکے مضبوط ہوجاتے ہیں پھر وہ قیمتی بن جاتے ہیں، یہ اور ایسی کئی مثالیں ہمیں یہ سمجھاتی ہیں کہ ہر مرتبہ سختی کا مطلب نفرت نہیں ہوتا، بلکہ یہ بھی محبت کی، ہمیں فائدہ دینے کی ایک قسم ہے۔" اسے خاموش پا کر وہ دھیرے دھیرے مزید بولتی رہی۔
اور اس کے خاموش ہونے کے بعد پھر وہاں مکمل سکوت طاری ہوگیا۔ جس کے بیچ ہوا کے خاموش ٹھنڈے جھونکے وقفے وقفے سے جھولے کی پشت سے ٹیک لگائے غضنفر اور اس کے سینے پر سر رکھے نیم دراز ملیحہ کو چھیڑتے ہوئے گزرتے رہے۔
در حقیقت یہاں آنے کی وجہ ہی یہ ہی تھی کہ جاتے جاتے وہ غضنفر کو اس کی کھوئی ہوئی خوشیاں لوٹانا چاہتی تھی جو وہ اپنی آنکھوں پر بندھی بدظنی کی پٹی کے باعث دیکھ نہیں پا رہا تھا۔ اور آج وہ ہر صورت یہ پٹی اس کی آنکھوں پر سے اتارنا چاہتی تھی۔ اسی بہانے انہیں ایک ساتھ تھوڑا پرسکون وقت گزارنے کا موقع بھی مل گیا تھا جسے مستقبل میں وہ ایک خوبصورت یاد کے طور پر ہمیشہ اپنے ساتھ رکھنے والی تھی۔
"تمہارے پاپا نے کبھی تم پر سختی کی ہے؟" غضنفر نے اچانک ہی سوال کیا۔
"ہاں بہت بار، اور اکثر تو میں رونے بھی لگتی تھی مگر بعد میں سمجھ میں آجاتا تھا کہ ان کی سختی جائز تھی، اور پتا ہے آخری بار وہ مجھ سے سختی سے کب پیش آئے تھے؟" اس نے کہتے ہوئے تجسس پھیلایا۔
"کب؟" اس نے جاننا چاہا۔
"جب میں نے تم سے شادی کرنے کی ہامی بھری تھی۔" اس نے مزے سے بتایا تو وہ بھی بےساختہ ہلکے سے مسکرادیا۔
"اور اب دیکھ لو ہم الگ ہونے والے ہیں، جب کہ پاپا نے تو شروع میں ہی کہا تھا کہ میں ٹھیک نہیں کر رہی ہوں مگر میں نے ان کی سنی نہیں، تو اس سے ثابت ہوا کہ والدین غلط نہیں ہوتے۔" وہ کہتے ہوئے پھیکےپن سے ہنسی۔
"تو اب جب تم انہیں خلع کا بتاؤ گی تو وہ بہت ناراض ہوں گے نا تم سے؟" اس نے اندازہ لگایا۔
"ہاں تھوڑا بہت تو ہوں گے، مگر پھر مان جائیں گے۔" اس کے انداز میں اطمینان تھا۔
"تمھیں پتا ہے ملیحہ! کبھی کبھی مجھے تم پر بڑا رشک آتا ہے۔" وہ بےاختیار اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے کہنے لگا۔ جس کے باعث ملیحہ کے پورے وجود میں سرشاری اتر گئی۔
"میں اکثر سوچتا ہوں کہ تم ہمیشہ اتنی خوش، مطمئن اور نرمی سے کیسے رہ لیتی ہو؟ پھر خیال آتا ہے کہ تمھیں شاید برداشت کرنا آتا ہے، جیسے کہ اگر کوئی تم سے کچھ کہہ دے تو تم اسے انا کا مسلہ نہیں بناتی بلکہ درگزر کر دیتی ہو اور یہ مجھ سے کبھی نہیں ہوا، میرے لئے چھوٹی چھوٹی باتیں بھی بہت معنی رکھتی ہیں، جیسے کہ پاپا کا مجھے عزیر اور عبید کے سامنے ڈاننا، یا کسی شخص کا میری کسی بات سے انکار کرنا مجھے اپنی انسلٹ لگتا ہے، جب کہ تم شاید یہ باتیں اس طرح چٹکی میں اڑا دیتی ہو جیسے ان کی کوئی ویلیو ہی نہیں، مگر میں نظر انداز نہیں کر پاتا، ہوسکتا ہے کہ نظر انداز کرنا سیکھ کر شاید میں بھی تم جیسا مطمئن ہوجاؤں! لیکن سارا مسلہ ہی یہ ہے کہ میں ایسا کر نہیں پاتا۔" وہ آسمان کو تکتے ہوئے ہنوز اس کے بالوں میں انگلیاں چلا رہا تھا جس سے اس کی پلکیں بھاری ہونے لگی تھیں۔
"پتا ہے دادی اکثر کہتی تھیں کہ میں غصے کے معاملے میں بالکل پاپا پر گیا ہوں، تب ہی ہم دونوں کی آپس میں بنتی نہیں ہے، اور اگر ہمیں بنانی ہیں تو دونوں میں سے کسی ایک کو اپنی انا قتل کرنی ہوگی، اور بات گھوم پھر کر وہیں آجاتی تھی کہ ایسا کرے کون؟ اور اسی "کون!" کے چکر میں بات بڑھتے بڑھتے بگڑ گئی۔" اس نے تاسف سے گہری سانس لی۔
"جب مجھ پر چوری کا الزام لگا تھا تو میں تڑپ گیا تھا، مگر اس کے باوجود بھی میں نے تھوڑی کوشش کی تھی ماموں کے کہنے پر ان لوگوں سے صلح کرنے کی، مگر پاپا راضی ہی نہیں ہوئے، اس کے بعد پھر بھلا میں اور کیا کرتا؟" اس نے دکھ سے کہتے ہوئے آخر میں سوال کیا۔
حسب توقع ملیحہ کی جانب سے کوئی جواب نہ ملا۔ اس نے گردن نیچے کرکے دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ تو آنکھیں بند کیے اس کے سینے پر سر رکھے لمحوں میں ہی نیند کی وادی میں اتر چکی ہے۔ اپنے بالوں میں رینگتی غضنفر کی انگلیاں اسے سکون کے ایک الگ ہی مقام پر لے گئی تھیں۔
وہ خاموش ہوکر نظریں جھکائے اسے دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ یہ جذباتی سی پاگل لڑکی بہت اچھی ہے۔ جسے اس نے اپنے ذاتی مفاد کیلئے وقتی طور پر استعمال کیا جو کہ غلط تھا۔ مگر اس سے قبل کہ اس کے دل میں موجود غضنفر کی محبت کا پودا عشق کا پیڑ بنے ان دونوں کا الگ ہوجانا ہی بہتر ہے۔ تا کہ وہ اپنے ہی جیسے کسی سچے انسان کے ساتھ باقی زندگی بھرپور طریقے سے گزار سکے جو اس سے اس جیسی ہی بےلوث محبت کرے نہ کہ غضنفر کی طرح دیکھاوے کی محبت۔ اور وہ خود بھی اسے ڈھونڈ کر اس کے ساتھ اپنی زدگی گزار سکے جو کب سے اس کے ذہن پر قابض، مگر نظروں سے دور تھی۔
"اگر باتیں کرتے ہوئے میں سوجاؤں تو پلیز مجھے اٹھا کر بیڈ روم میں لے جانا۔" اسے اچانک ملیحہ کی فرمائش یاد آئی۔
بس آج تک کیلئے ہی تو اس نے کچھ معصوم سی فرمائشیں کی تھیں اس سے جسے وہ چاہ کر بھی رد نہ کر پایا اور میرون ساڑھی میں لپٹی ملیحہ کو دونوں بازؤں میں اٹھا کر اندر کی جانب بڑھا۔
کمرے کی لائٹس پہلے ہی آف تھیں بس نائٹ بلب جل رہا تھا جس کی روشنی میں وہ اسے اٹھائے بیڈ تک آیا اور پھر آہستہ سے اسے لٹا کر وہیں کنارے بیٹھے اسے کمبل اوڑھانے لگا۔
کمبل اوڑھا کر جب اس نے جانے کیلئے اٹھنا چاہا تو ملیحہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روک لیا۔ وہ چونکا۔
"پوری رات ساتھ رہنے کی بات ہوئی تھی۔" اس نے غنودگی کے عالم میں یاد دلایا۔
جب وہ صبح سے ناچاہتے ہوئے بھی اس کی اتنی مان چکا تھا تو اب اس آخری خواہش کے آگے بھی خاموشی سے مبہم مسکراہٹ کے ساتھ سر تسلیم خم کردیا۔
لگ جا گلے کہ پھر یہ حسین رات ہو نہ ہو!
شاید پھر اس جنم میں ملاقات ہو نہ ہو!
ہم کو ملیں ہیں آج یہ گھڑیاں نصیب سے
جی بھر کے دیکھ لیجئے ہم کو قریب سے
پھر آپ کے نصیب میں یہ بات ہو نہ ہو
شاید پھر اس جنم میں ملاقات ہو نہ ہو
انتخاب
*******************************
جاگتی آنکھوں کے سنگ ہی رات گزر چکی تھی مگر پہاڑوں کے پیچھے سے نمودار ہوتی صبح بھی ان تین لوگوں کیلئے کوئی مثبت خبر نہیں لا سکی تھی جو کل سے اب تک ہاسپٹل کے ویٹنگ ایرا میں یہاں سے وہاں گھومتے ہوئے رفاقت کے مکمل ہوش میں آنے کے منتظر تھے۔
عزیر اور شفاعت کرسی کی پشت سے سر ٹکائے بےحد تھکن زدہ سے آنکھیں موندے بیٹھے تھے جب کہ سلیمان یہاں سے وہاں ٹہلتے ہوئے وقفے وقفے سے غضنفر کا نمبر ملا رہے تھے جو کہ مسلسل بند جا رہا تھا۔
"آپ کا ملایا ہوا نم۔۔۔۔۔۔۔"
"پتا نہیں کہاں ہے یہ الو کا پٹھا؟" ایک ہی ریکارڈنگ سے زچ ہوکر انہیں نے بڑبڑاتے ہوئے موبائل کان سے ہٹایا۔
*******************************
غضنفر بنا شرٹ کے بیڈ پر اوندھا لیٹا اس وقت میٹھی نیند میں تھا جب ملیحہ نے اس کے برابر میں بیٹھ کر اپنے گیلے بال اس کے گال پر لگائے۔ اس کی نیند میں خلل پیدا ہوا۔ اور وہ کوفت سے کروٹ لے کر سیدھا ہوا۔
"گڈ مارننگ!" اس نے خوشدلی سے وش کیا۔ وہ اسے بس موندی موندی آنکھوں سے گھورنے لگا۔
"ہاں پتا ہے کہ تمھیں ایسے نیند سے جگانا پسند نہیں ہے لیکن یہ آخری بار تھا یار، اسی لئے اگنور کرو۔" اس نے چہرے پر معصومیت طاری کرتے ہوئے کہا تو وہ کچھ نہ کہہ سکا۔
"خیر! یہ لو تمہاری۔۔۔۔۔آئی مین تمہارے موبائل کی بیٹری۔" اس نے خود ہی بات بدلتے ہوئے بیٹری اس کی جانب بڑھائی۔
"بہت مہربانی آپ کی کہ آپ کو یہ واپس کرنے کا خیال آگیا۔" اس نے بیٹری لیتے ہوئے طنز کیا۔
"بس اب شکریہ کہہ کر شرمندہ نہ کرو، جلدی سے فریش ہوجاؤ پھر ناشتہ کرکے ہمیں واپسی کیلئے روانہ ہونا۔" وہ کہتے ہوئے بیڈ پر سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
اسے کوئی جواب دینے کے بجائے غضنفر نے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتے ہوئے سائیڈ ٹیبل پر سے اپنا موبائل اٹھایا اور اس میں بیٹری لگانے لگا تو وہ بھی کمرے سے باہر چلی گئی۔
جب تک موبائل آن ہوا اس نے پاس پڑی اپنی میرون ٹی شرٹ اٹھا کر پہنی اور پھر موبائل پر نوٹیفیکیشن چیک کرنے لگا۔
خلاف توقع سلیمان، شفاعت، عزیر اور عبید کی جانب سے بےتحاشا پیغامات موصول ہونے پر وہ ٹھٹک گیا اور سب سے آخر میں آیا سلیمان کا میسج چیک کیا۔
"رفاقت بھائی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے غضنفر تم جلدی ہاسپٹل پہنچو۔"
یہ میسج پڑھ کر اس کا دل دھک سے رہ گیا اور اس نے اگلے ہی پل سلیمان کو کال کی۔ جو کہ چند لمحوں میں ریسیو ہوگئی۔
"ماموں کیا ہوا پاپا کو؟" اس نے پہلا سوال ہی یہ کیا۔
"پاپا کے بچے تم ہو کہاں رات سے؟ موبائل کیوں بند تھا تمہارا؟" دوسری جانب سے وہ بھی برسے۔
"چارج نہیں تھا تو بند ہوگیا، آپ یہ بتائیں کہ پاپا کیسے ہیں انہیں کیا ہوا؟" اس نے عجلت میں بات بناتے ہوئے پوچھا۔
"انہیں ہارٹ اٹیک ہوا ہے، کل شام سے وہ ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہیں اور وقفے وقفے سے غنودگی میں تمہارا نام پکار کر پھر بےہوش ہو جا رہے ہیں، تم بس جلدی سے یہاں آجاؤ، ہاسپٹل کا ایڈریس سینڈ کیا ہے میں نے تمھیں۔" انہوں نے فکر مندی سے مختصر تفصیل بتائی۔
"ابھی آرہا ہوں ماموں، بس ابھی آرہا ہوں۔" اس نے بھی جلدی سے یقین دہانی کرائی اور لائن ڈسکنیکٹ کردی۔
"ملیحہ! ملیحہ!" وہ خود پر سے کمبل ہٹا کر اسے پکارتا ہوا باہر کی جانب لپکا۔
*******************************
"آنٹی تھوڑا سا کھا لیں پلیز! ایسے تو بیمار ہوجائیں گی آپ۔" صبیحہ نے بھی اصرار کیا۔
"نہیں، مجھے کچھ نہیں کھانا، مجھے رفاقت کے پاس جانا ہے۔" انہوں نے صوفے کی پشت سے سر ٹکائے کمزوری کی حالت میں وہ ہی ضد دہرائی۔
"ممی آپ نے رو رو کر خود کو ہلکان کرلیا ہے آپ سے نہیں چلا جائے گا، پلیز ایک سلائس تو کھا لیں۔" ان کے برابر میں ناشتے کی ٹرے لئے بیٹھی زوہا نے نرمی سے زور دیا۔
سب لوگ ابھی تک ویسے ہی ہال میں اکھٹا تھے جب کہ صالحہ اب رو کر نڈھال ہوچکی تھیں جس کے باعث سب انہیں تھوڑا ناشتہ کروانے کی کوشش کر رہے تھے مگر وہ نہیں مان رہی تھیں۔
"صالحہ! بیٹا اپنی اماں بی کی بات مان لو، کھا لو ذرا سا۔" دردانہ بھی اپنا جگہ سے اٹھ کر پاس آتے ہوئے بولیں تو انہیں جگہ دیتے ہوئے صبیحہ صالحہ کے برابر میں سے اٹھ گئی جس کے بعد وہ وہاں بیٹھ کر ان کے سر پر نرمی سے ہاتھ پھیرنے لگیں۔
"دادی! عزیر بھائی کا فون آیا تھا، غضنفر بھیا سے رابطہ ہوگیا ہے، وہ ہاسپٹل پہنچ رہے ہیں۔" تب ہی عبید نے ہال میں آتے ہوئے ایک بہتر خبر سنائی جس سے سب کو تھوڑا اطمینان ہوا۔
"میرا بیٹا آرہا ہے، مجھے بھی اس کے پاس لے چلو۔" صالحہ کہتی ہوئی سیدھی ہوکر بیٹھ گئیں۔
"ہاں لے چلیں گے مگر پہلو تھوڑا ناشتہ کرو۔" دردانہ نے لوہا گرم دیکھ کر چوٹ ماری۔ اور ساتھ ہی زوہا کو اشارہ کیا جس کی تکمیل کرتے ہوئے وہ انہیں اپنے ہاتھ میں موجود سلائس کھلانے لگی۔
*******************************
صبح مکمل طور پر ابھرنے کے بعد اب دوپہر بن چکی تھی جس کے بعد ہسپتال میں چھائی خاموشی چہل پہل میں بدل گئی۔ بس ایک نہیں بدل پائی تھی تو رفاقت کی حالت ہی تھی۔
"بیٹا گھر چلے جاؤ کل سے یہاں ہو، تھوڑا فریش ہوکر پھر آجانا۔" شفاعت نے ایک طرف کھڑے عزیر کے پاس آتے ہوئے کہا۔
"نہیں ڈیڈ میں ٹھیک ہوں، بلکہ میں تو کہوں گا کہ آپ گھر جا کر تھوڑا آرام کرلیں۔" اس نے سہولت سے بات انہیں لوٹائی۔
"نہیں، جب تک بھائی صاحب کی طرف سے کوئی اچھی خبر نہیں ملتی میں یہیں ہوں۔" انہوں نے تھکن زدہ انداز میں انکار کیا۔ سلیمان بھی ان دونوں کی جانب چلے آئے۔
"آپ دونوں چاہیں تو گھر جا سکتے ہیں، میں یہاں ہوں، اور غضنفر بھی بس راستے میں ہے پہنچنے والا ہے۔" سلیمان نے سہولت سے پیشکش کی۔
"سلیمان! رفاقت کیسے ہیں؟" ان کے جواب دینے سے قبل ہی ایک بےتاب سے نسوانی آواز پر تینوں چونک کر پلٹے تو دیکھا صالحہ ان کی طرف آچکی ہیں اور ان کے پیچھے دردانہ اور عبید بھی تھے۔
"باجی! آپ یہاں کیوں آگئیں؟" وہ حیرانی سے متوجہ ہوئے۔
"مجھے رفاقت سے ملنا ہے، ان کے پاس لے چلو۔" انہوں نے منت کی۔
"بھابھی ابھی بھائی صاحب بےہوش ہیں ڈاکٹر نہیں ملنے دیں گے ان سے۔" شفاعت نے بھی سمجھانا چاہا۔
"تم پاگل تو نہیں ہو! تائی کو یہاں کیوں لے آئے؟" عزیر عبید کے پاس آکر سرگوشی کرتے ہوئے اس پر برہم ہوا جو دردانہ کے ہمراہ کھڑا تھا۔
"صبح سے ضد پکڑ لی تھی انہوں نے، نہ کچھ کھا پی رہی تھیں اور نہ کسی کی بات سن رہی تھیں، بتائیں دادی۔" اس نے وضاحت کرتے ہوئے انہیں بیچ میں گھسیٹا۔
"یہ ٹھیک کہہ رہا ہے بیٹا، صالحہ نے ہلکان کرلیا تھا خود کو، اسی لئے میں نے اس سے کہا کہ ہمیں لے چلے۔" انہوں نے تائیدی انداز میں وضاحت کی۔
وہ خاموش ہوگیا۔ جب کہ صالحہ ہنوز سلیمان اور شفاعت سے ضد کر رہی تھیں۔
"بھیا آگئے!" اچانک عبید نے ایک طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ سب اس طرف متوجہ ہوئے تو غضنفر ملیحہ کے ہمراہ پریشان سا اسی طرف آتا نظر آیا۔
"پاپا کیسے ہیں؟" وہ پوچھتا ہوا قریب آکر رکا۔
"غضنفر!" صالحہ یکدم اس کے گلے لگ کر پھر رونے لگیں۔ جن کا وہ سر سہلانے لگا۔ جب کہ ملیحہ خاموشی سے ایک کنارے پر کھڑی ہوگئی۔
"پاپا ٹھیک تو ہیں نا ماموں؟" اس نے زوروں سے دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا۔
"ابھی تک بےہوش ہیں، بس وقفے وقفے سے تمہارا نام پکار رہے تھے۔" انہوں نے تاسف سے بتایا۔
"میں ڈاکٹر کو بتاتا ہوں کہ غضنفر آگیا ہے اسے ملنے کی اجازت دی جائے۔" شفاعت نے کہا اور جلدی سے آگے بڑھ گئے۔ جب کہ غضنفر صالحہ کو دلاسا دینے لگا۔
*******************************
"مجھے ہمیشہ پاپا پر غصہ ہی آتا تھا کہ وہ کیوں خواہ مخواہ سب سے کھنچے کھنچے رہتے تھے؟ بھیا پر غصہ کرتے تھے، ممی سے ٹھیک طرح بات نہیں کرتے تھے مگر آج ان کی حالت دیکھ کر ڈر کیوں لگ رہا ہے؟" صوفے پر بیٹھی زوہا صبیحہ کے کندھے پر سر ٹکائے تاسف سے بولی۔
"کیونکہ تم ان سے محبت جو کرتی ہو، اور جن سے محبت ہو انہیں تکلیف میں دیکھ کر اچھا نہیں لگتا۔" اس نے نرمی سے وجہ بتائی۔
"تو آج سے پہلے یہ محبت کیوں محسوس نہیں ہوئی تھی؟" اس نے پھر سوال کیا۔
"کیونکہ آج سے پہلے یہ محبت تمہارے غصے کے نیچے دبی ہوئی تھی، آج غصہ راکھ بن کر اڑ گیا ہے اسی لئے محبت محسوس ہو رہی ہے۔" اس نے پھر مشکل آسان کی جس پر وہ کچھ دیر کیلئے خاموش ہوگئی۔
"پاپا ٹھیک ہوجائیں گے نا بھابھی؟" اس نے گویا یقین دہانی چاہی۔
"ان شاءاللہ!" اس نے پر امید انداز میں زوہا کے کندھے کے گرد بازو حمائل کیا۔
*******************************
ڈاکٹر سے اجازت ملنے کے بعد غضنفر روم میں آیا تو سامنے بیڈ پر لیٹے رفاقت اسے صدیوں کے بیمار محسوس ہوئے جن کے آس پاس کئی مشینز لگی ہوئی تھیں اور ایک ہاتھ پر ڈرپ لگی تھی۔
وہ آہستہ سے چل کر آنے کے بعد اسٹول کھینچ کر ان کے نزدیک بیٹھا اور ان کا ڈرپ لگا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ لیا جس سے آج کچھ زیادہ بڑھاپا جھلک رہا تھا۔
کل رات ہی تو ملیحہ کی باتوں پر کافی دیر غور کرنے کے بعد اس نے سوچا تھا کہ اب وہ خود کو بدلنے کی کوشش کرے گا، اس کے والدین جو چاہتے ہیں اس سے وہ انہیں دینے کی جدوجہد کرے گا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ رفاقت کی فطرت ہی سخت تھی، صالحہ ہمیشہ سے ڈرپوک تھیں، تب ہی وہ اسے زیادہ پیار نہیں جتا پائے اسی لئے اب وہ ان سے پیار کرنے کی کوشش کرے گا، مگر ستم ظریفی کہ اس سے قبل ہی یہ سب ہوگیا۔
"پاپا!" اس نے ان کے قریب ہوکر کانپتی ہوئی آواز میں پکارا۔ مگر کوئی جواب نہ ملا۔
چند لمحے انہیں یوں ہی دیکھتے رہنے کے بعد اس نے اسی طرح بیٹھے بیٹھے اپنا سر گال کے بل ان کے پیٹ پر رکھا اور نظریں ان کے چہرے پر مرکوز کرلیں۔
"پاپا! آئی ایم سوری! آپ چاہتے تھے کہ میں ہر میدان میں سب کو ہراؤں مگر میں ایسا نہیں کرسکا اور خود ہار گیا۔" وہ آہستہ آہستہ کہنے لگا۔
"مگر مجھے آپ سے بھی شکایات ہے کہ آپ نے کیوں ہر بار گرنے پر مجھے پیار سے سہارا دینے کہ بجائے سختی کے چابک کا استعمال کیا، آپ ایک بار اگر پیار سے کہہ دیتے نا تو شاید میں جی جان لگا کر جیت بھی جاتا مگر آپ نے کبھی پیار سے پیار کیا ہی نہیں، اپ نے ہمیشہ غصے والا پیار کیا جو میری سمجھ میں ہی نہیں آیا۔" وہ یوں ہی سر رکھے دل کا بوجھ ہلکا کر رہا تھا۔
"اگر آپ اس روز صرف ایک بار سب کے سامنے یہ بول دیتے کہ آپ کا بیٹا چوری نہیں کرسکتا تو آدھی جنگ میں وہیں جیت جاتا، مگر آپ نے تو الٹا مجھے ہی ہرا دیا، کیوں؟ کیا آپ کو اپنے خون پر؟ اپنی تربیت پر یقین نہیں تھا؟ اٹھیں اور جواب دیں مجھے کہ کیوں کیا آپ نے ایسا؟ کیوں؟ کیوں؟" اب وہ ماتھا ان کے پیٹ پر ٹکائے بلک کر رونے لگا۔ آج اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تھا۔
تب ہی اسے اپنے سر پر کچھ محسوس ہوا۔ اس نے سسکیاں روکتے ہوئے بہتی سرخ آنکھوں سمیت سر اٹھا کر دیکھا تو پتا چلا کہ رفاقت آنکھیں کھولے اسے ہی دیکھ رہے تھے اور ان کا ڈرپ والا ہاتھ اس کے سر پر تھا۔
"غازی!" انہوں نے نقاہت آمیز لہجے میں پکارا۔
یہ ہی۔۔۔۔۔ہاں یہ ہی وہ الفاظ تھے۔۔۔وہ لہجہ تھا۔۔۔۔وہ پیار تھا جس کیلئے وہ کب سے تڑپ رہا تھا۔ رفاقت نے بہت کم ہی سہی، مگر پیار سے اسے ہمیشہ غازی کہہ کر پکارا تھا۔ مگر یہ پکار اس کے کانوں کو بہت کم میسر ہوئی۔ لیکن بلآخر آج اس کی تڑپ ختم ہوئی تھی مگر طلب مزید بڑھ گئی تھی۔
"پھر سے کہیں پاپا۔" وہ بےتاب سا ہوکر چہرہ ان کے مزید قریب لایا۔
"غازی۔۔۔۔مجھے۔۔۔۔معاف کر دو۔۔۔۔۔۔بیٹا!" انہوں نے رک رک کر کہا۔ ساتھ ہی ایک آنسو ان کی آنکھ کے کنارے سے پھسلا۔
"ایک شرط پر کروں گا، اسی طرح پھر سے کہہ دیں اگر پیار سے۔" اس نے مسلسل بہتی آنکھوں کے سنگ کانپتی ہوئی آواز میں فرمائش کی۔
"صرف پیار سے۔۔۔۔کہہ دینے سے۔۔۔۔ہماری غلطی۔۔۔کا۔۔۔۔ازالہ نہیں ہوگا۔۔۔۔غازی!" وہ بےحد شرمندہ تھے۔
"تو ٹھیک ہے، پھر ساتھ ساتھ سینے سے بھی لگا لیں۔" اس نے روتی آنکھوں سے مسکرا کر نئی فرمائش کی۔
انہوں نے بنا کسی حجت کے فوراً اپنی بانہیں کھول دیں جن میں ایک لمحہ بھی برباد کیے بنا وہ سرعت سے سما گیا۔ اور پھر دونوں باپ بیٹے ضبط کے سارے باندھ ڈھلے چھوڑ کر اتنا روئے کے آنسوؤں کے ریلے میں ساری بدگمانیاں بہہ گئیں۔
میں سینے سے لگ روؤں تیرے
دل خالی ہو میرا دکھ کے غبار سے
اک بار جو، کہہ دو اگر پیار سے
اک بار جو، کہہ دو اگر پیار سے
*******************************
عزیر، شفاعت، دردانہ اور عبید کو ایک ساتھ ہال میں آتا دیکھ زوہا اور صبیحہ یکدم صوفے پر سے اٹھ کر ان کی جانب لپکیں۔
"چاچو! پاپا کیسے ہیں؟" زوہا بےتابی سے پوچھتی آگے آئی۔
"اللہ کا شکر ہے کہ اب حالت خطرے سے باہر ہے، گھبراؤ نہیں۔" انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بتایا تو اسے لگا کہ کسی نے اس کا دل بند مٹھی سے آزاد کیا ہے۔
"شکر ہے!" صبیحہ نے بھی سکھ کی سانس لی۔
"تو آپ لوگ واپس کیوں آگئے؟ اور صالحہ آنٹی کہاں ہیں؟" صبیحہ نے خیال آنے پر سوال کیا۔
"بھابھی ہاسپٹل میں ہی ہیں غضنفر اور ملیحہ کے ساتھ، اور ہم لوگ تھوڑے دیر کیلئے گھر آگئے، سلیمان بھی گھر گیا ہے، شام تک ان شاءاللہ پھر جائیں گے۔" شفاعت نے تفصیل بتائی۔
"میں بھی چلو گی آپ لوگوں کے ساتھ پلیز!" زوہا نے گزارش کی۔
"ہاں ہاں بیٹا ضرور۔" انہوں نے تسلی کرائی۔
ابھی وہ لوگ باتیں کر ہی رہے تھے کہ تب ہی شفاعت کی نظر داخلی حصے پر اپنے بیگ کے ساتھ کھڑی شاہانہ پر پڑی۔ جو شرمندہ سی ان لوگوں کو ہی دیکھ رہی تھیں۔
"اب کیا کرنے آئی ہو تم یہاں؟ کہا تھا نا کہ اپنی شکل مت دکھانا۔" انہیں دیکھ کر شفاعت کا غصہ عود آیا۔ جس کے باعث سب ان کی جانب متوجہ ہوئے۔
"مجھے معاف کردیں۔" وہ دھیرے سے بڑبڑائیں۔
"تمھیں اب بھی لگتا ہے کہ ان سب کے بعد تمھیں معافی ملنی چاہئے؟ اور تم تو بڑے غرور سے گئی تھی نا اپنے بھائی کے گھر، تو اب واپس کیوں آگئی؟" وہ درشتی سے کہتے چند قدم آگے آئے۔
ان کی بات پر شاہانہ کے ذہن میں اپنے بھائیوں اور بھابھیوں کی وہ باتیں گونجیں جو وہ وہاں سے سن کر آرہی تھیں۔
*******************************
فلیش بیک
"میں بتا رہی ہوں راشد اگر تمہاری بہن اس عمر میں طلاق کا ٹھپہ لے کر میرے گھر آئی تو میں گھر چھوڑ کر چلی جاؤں گی، اسے ابھی چلتا کرو یہاں سے۔" شاہانہ کی بھابھی بنا لحاظ کیے چلائی تھیں۔ سب لوگ اس وقت ہال میں اکھٹا تھے۔
"یہ میرے باپ کا بھی گھر ہے۔" شاہانہ نے سختی سے دفاع کرنا چاہا تھا۔
"ہے نہیں تھا، مرنے سے پہلے اپنے بڑے بیٹے یعنی میری شوہر کے نام کردیا تھا انہوں نے یہ گھر اور انہوں نے میرے، اسی لئے یہاں کی مالکان اب میں ہوں۔" انہوں نے تنفر سے خوش فہمی دور کی جسے سن کر وہ دنگ رہ گئیں۔
"بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں ساجدہ بھابھی! بھلا اس عمر میں اگر تم میکے آکر بیٹھ جاؤ گی تو ہماری بچیوں کے رشتوں پر کیا اثر پڑے گا، میری دو بیٹیاں ہیں، ساجدہ بھابھی اور فوزیہ کی بھی بیٹیاں ہیں، لوگ سو باتیں نہیں بنائیں گے کہ بھلا اس عمر میں پھوپھو کو طلاق کیوں ہوگئی!" دوسرے نمبر والی فرزانہ بھابھی نے جلتی پر تیل ڈالا۔
"ٹھیک کہہ رہی ہیں فرزانہ بھابھی، آپ واپس چلی جائیں شاہانہ باجی۔" سب سے چھوٹی فوزیہ بھابھی نے بھی تائید کی۔ وہ ششدر رہ سی اپنے تینوں بھائیوں کی جانب پلٹیں جو خاموش تماشائی بنے کھڑے تھے۔
"تمہاری بیویاں تمہاری آنکھوں کے سامنے تمہاری بہن کو گھر سے جانے کا کہہ رہی ہیں اور تم لوگ ہو کہ چپ سادھے کھڑے ہو!" وہ اپنے بھائیوں پر برہم ہوئیں۔
"یہ کچھ غلط نہیں کہہ رہی ہیں۔" سب سے بڑے والے راشد بھائی بولے تو وہ حیران رہ گئیں۔
"اور جس طرح تمہاری زبان چلتی ہے نا شاہانہ اس کے ساتھ تو مشکل ہی ہے کہ ہم سب کا ایک ساتھ گزارا ہو پائے، لہٰذا بہتر ہے کہ تم واپس چلی جاؤ اور تمہارے جو بھی مسلے ہیں انہیں خود سلجھا لو۔" دوسرے نمبر والے فاروق بھائی نے بھی صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔
"اور ویسے بھی شاہانہ باجی آپ کا جو بھی حصہ جائیداد میں بنتا تھا وہ سب ابو نے آپ کی شادی کے وقت نقد رقم کی صورت آپ کو دے دیا تھا جسے آپ نے اپنے شوہر کے کاروبار میں لگا لیا اسی لئے اب آپ کا یہاں کوئی حصہ بھی نہیں بنتا۔" سب سے چھوٹے بھائی کامران نے تابوت میں آخری کیل ٹھوکنے کا کام کیا۔
اپنے بھائیوں کا یہ رنگ دیکھ کر وہ تو بالکل سکتے میں آگئی تھیں۔ حالانکہ ان سب میں نیا کچھ نہیں تھا۔ جیسے اب تک "عباس ولا" میں شاہانہ سارے معاملات میں پیش پیش رہ کر سارے فیصلے خود کرتی آئی تھیں، اور اپنے شوہر کو خاموش کروا دیا کرتی تھیں ویسے ہی ان کے وہ ہی بھائی بھی اپنی بیویوں کے سامنے چپ تھے جن پر شاہانہ کو بہت غرور ہوا کرتا تھا۔ اور اب لمحوں میں غرور کا وہ بت ٹوٹ کر چکنا چور ہوا تھا جس کی کرچیاں شاہانہ کو بری طرح چبھتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ اور یہ چبھن ان کی اپنی کوتکوں کے سبب ان کے حصے میں آئی تھی۔
*******************************
حال
"کچھ کہا ہے تم سے! چپ کیوں ہوگئی ہو؟" انہیں خاموشی دیکھ کر شفاعت دھاڑے تو لمحے بھر کو سب ہل گئے۔ جب کہ خیالوں میں پرواز کرتی شاہانہ بھی حال میں واپس آگئیں۔
"کیوں واپس آئی تم؟ جاؤ نا اپنے اسی مرحوم باپ کے گھر جس کی ہمارے بزنس میں معمولی سی انویسمنٹ کو پتا نہیں تم کیا سمجھ بیٹھی تھی؟ اور جن تین بھائیوں پر غرور کرتی پھرتی تھی۔" وہ سخت خفا لگ رہے تھے۔
"ان تین بھائیوں نے ہی تو جگہ نہیں دی مجھے میرے ہی گھر میں۔" وہ دکھی انداز میں دھیرے سے بولیں۔ جسے سن کر سب کو ہی تھوڑی حیرت ہوئی۔
"اوہ! تب ہی کہوں کہ ہر وقت اکڑی رہنے والی گردن ابھی جھکی ہوئی کیوں ہے!" شفاعت نے طنز کیا تو وہ مزید نادم ہوگئیں۔
"مجھے معاف کردیں، مجھ سے غلطی ہوگئی۔" وہ ان کے سامنے آ کر ہاتھ جوڑے منت کرنے لگیں۔
"نہیں، غلطی تو مجھ سے ہوگئی کہ تمہاری بدمزاجی کو اول روز سے تمہاری ادا سمجھ کر نظر انداز کرتا آیا، ہر معاملے میں تمھیں اپنی من مانی کرنے دی کبھی اپنا کوئی فیصلہ تم پر مسلط نہیں کیا جس کا یہ صلہ دیا تم نے مجھے کہ کسی سے نظر ملانے کے قابل نہیں چھوڑا۔" وہ غم و غصے سے کہتے گئے۔ جسے سب نے خاموشی سے سننے میں ہی عافیت جانی۔
"نہیں، آپ بھلا کیوں شرمندہ ہوں گے؟ غلطی تو میں نے کی ہے، اور میں نے جو کچھ کیا اپنے بچوں کیلئے کیا۔" وہ عاجزی سے وضاحت کرنے لگیں۔
"کیوں کیا؟ کیا یہ صرف تمہارے بچے تھے؟ کیا ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے یہاں جو تم نے اتنی گری ہوئی حرکت کی اپنے بچوں کو عہدے پر لانے کیلئے؟" آج شفاعت کا روپ بالکل ہی بدلا ہوا تھا جسے دیکھ کر سب حیران تھے۔
"کہہ تو رہی ہوں کہ غلطی ہوگئی معاف کردیں، اماں بی آپ سمجھائیں نا انہیں۔" اب وہ ان سے مدد مانگنے لگیں۔
"کیا سمجھاؤں؟ میری کوئی سنتا ہی کب ہے؟ بلکہ مجھے تو لگتا ہے کہ جبار کے جانے کے بعد شاید میں سب کو ٹھیک طرح سے سنبھال ہی نہیں پائی، تب ہی تو یہ نوبت آئی ہے ہمارے گھر میں۔" دردانہ نے سنجیدگی سے خود اپنا بھی احتساب کیا۔ جو کہ شاید غلط بھی نہ تھا۔
"عزیر! عبید! تم دونوں تو کچھ بولو بیٹا۔" اب وہ ان کی طرف آئیں۔
"کیا بولیں؟ کچھ بولنے کیلئے چھوڑا ہی کب ہے آپ نے؟" عبید نے تلخی سے کہا۔ جب کہ عزیر کچھ کہنا نہیں چاہتا تھا اسی لئے اس نے لب بھینچ کر گردن موڑ لی۔
"صبیحہ! تم ہسپتال جانا چاہتی تھی نا! تم جاؤ تمھیں کوئی کچھ نہیں بولے گا مگر میرے بیٹے کو لے کر الگ مت ہو، اور انہیں سمجھاؤ کہ مجھ سے غلطی ہوگئی۔" کوئی راستہ نہ ملنے پر وہ صبیحہ کی جانب لپکیں۔
"باقی سب کا پتا نہیں لیکن در حقیقت آپ کو سب سے پہلے غضنفر سے معافی مانگنی چاہئے، کیونکہ اس کا بہت نقصان ہوا ہے آپ کی وجہ سے۔" صبیحہ نے سنجیدگی سے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔ سب بےساختہ ان کی جانب دیکھنے لگے۔
"بھابھی ٹھیک کہہ رہی ہیں، آپ کو بھیا سے معافی مانگنی چاہئے۔" زوہا نے بھی اس کی تائید کی۔
"ہاں ٹھیک ہے، میں اس سے بھی معافی مانگنے کیلئے تیار ہوں مگر آپ لوگ بھی مجھے معاف کردیں۔" انہوں نے رضا مند ہوتے ہوئے پھر گزارش کی۔
"کہا نا کوئی معافی نہیں ملے گی تمھیں، نکلو ابھی کہ ابھی اس گھر سے۔" شفاعت نے غصے میں شاہانہ کا بازو پکڑ کر انہیں زور سے دور جھٹکا تو وہ گرتے گرتے بچیں۔ اس اچانک رد عمل پر سب چونک گئے۔
"نہیں جاؤں گی میں یہاں سے، یہ میرا بھی گھر ہے، اس گھر کی بہو ہوں میں۔" اس حد درجہ بےعزتی پر ان کی آنکھوں سے آنسو نکلنا شروع ہوگئے تھے جنہیں نظر انداز کرتے ہوئے انہوں نے ٹوٹے ہوئے انداز میں اپنا دفاع کرنا چاہا۔
"ٹھیک ہے، تو یہ رشتہ بھی ابھی ختم کردیتا ہوں میں تمہارا اس گھر سے۔" وہ فیصلہ کن انداز میں بولے تو کسی انہونی کے خدشے سے وہ کانپ گئیں۔
"میں شفاعت عباس اپنے پورے ہوش و حوا۔۔۔۔۔۔۔۔"
"شفاعت نہیں، عزیر روکو اسے۔" وہ غصے میں بول ہی رہے تھے کہ دردانہ نے جلدی سے ٹوکا اور لمحے کے ہزارویں حصے میں عزیر نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھ لیا جس سے وہ بات مکمل نہ کر پائے جب کہ شاہانہ تو سکتے میں آگئیں۔
"چھوڑو مجھے عزیر، آج میں یہ قصہ ہی ختم کردوں گا، ذلیل کروا دیا ہے اس عورت نے مجھے سب کے سامنے، یہ صلہ دیا ہے اس نے میری محبت اور نرمی کا۔" شفاعت غم و غصے کی انتہا پر تھے۔
"شاہانہ اندر جاؤ اور ابھی سامنے مت آنا۔" دردانہ نے سختی سے انہیں حکم دیا تو وہ روتے ہوئے اندر چلی گئیں۔
عزیر اور عبید شفاعت کو سنبھالنے لگے جو اب دونوں ہاتھوں میں منہ چھپائے صوفے پر بیٹھ گئے تھے۔ شاید انہیں شرم آرہی تھی اپنی بیوی کے باعث سب سے نظریں ملاتے ہوئے۔
اور باقی سب کے دل بھی یہ رنجیدہ صورت حال دیکھتے ہوئے کٹ کر رہ گئے تھے۔
جو ہم پر گزرے تھے رنج سارے
وہ خود پر گزرے تو لوگ سمجھے
جب اپنی اپنی محبتوں کے سب نے
عذاب جھیلے تو لوگ سمجھیں
انتخاب
*******************************
"فی الحال پاپا دوا کے زیر اثر دوبارہ سوگئے ہیں، تم ممی کے ساتھ بیٹھو تھوڑی دیر، تب تک میں اندر روم میں ہوں، وہ جاگیں گے تو میں تمھیں بلا لوں گی۔" غضنفر کے ہاتھ سے ایک جوس کی بوتل لیتے ہوئے ملیحہ نے کہا تو اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
پھر ملیحہ اندر روم میں چلی گئی جب کہ غضنفر آہستہ سے چلتے ہوئے آکر صالحہ کے برابر میں بیٹھ گیا۔
"جوس پی لیں۔" اس نے باقی رہ جانے والی ایک جوس کی بوتل ان کی جانب بڑھائی۔
"دل نہیں چاہ رہا، تم پی لو۔" انہوں نے اپنے گود میں دھرے ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے دھیرے سے انکار کیا۔
اس نے کوئی ضد بحث کرنے کے بجائے بوتل اپنے بائیں طرف والی خالی کرسی پر رکھی اور دونوں ہاتھ آپس میں پیوست کرکے خاموشی سے بیٹھ گیا۔ دونوں کے بیچ کچھ دیر یوں خاموشی حائل رہی گویا دو اجنبی ساتھ بیٹھے ہوں۔ جسے غضنفر نے توڑنے میں پہل کی۔
"بہت پریشان ہوگئی تھیں نا آپ پاپا کیلئے؟" اس نے سفید فرش کو تکتے ہوئے یوں ہی سوال کیا۔ جواباً انہوں نے ہلکے سے اثبات میں سر ہلایا۔
"پاپا بہت لکی ہیں، کیونکہ کبھی میرے لئے اتنا پریشان نہیں ہوئیں نا آپ!" اس نے پھیکےپن سے مسکراتے ہوئے انہیں دیکھا تو انہوں نے بھی بےساختہ پلکیں اٹھائیں اور انہیں اس کے چہرے پر کرب اور آنکھوں میں شکوہ نظر آیا۔
"ہاں، تمہارے لئے کبھی اتنا پریشان نہیں ہوئی میں۔" وہ دھیرے سے گویا ہوئیں۔
"بلکہ اس سے بھی زیادہ پریشان رہی ہوں، بس کبھی تمھیں بتایا نہیں۔" اگلے ہی پل انہوں نے مزید کہا۔
"کیوں نہیں بتایا؟" اس نے تحمل سے سوال کیا۔
"پتا نہیں! بس ڈر لگتا تھا کہ کہیں کوئی مجھ سے ناراض نہ ہوجائے! کیونکہ میں تمہاری طرف ہوتی تو رفاقت خفا ہوتے اور ان کی طرف ہوئی تو تم ناراض ہوگئے، میں تم دونوں کو راضی نہیں رکھ پائی، بلکہ میں تو اپنے بھائی کیلئے بھی نہیں بول سکی تھی۔" انہوں نے بےبسی سے وضاحت کی۔
"میں نے سب کچھ الٹ پلٹ کردیا، نہ میں اچھی بہن بن سکی، نہ اچھی بیوی اور نہ اچھی ماں۔" وہ کہتے ہوئے یکدم دونوں ہاتھوں میں منہ چھپائے رو پڑیں۔
غضنفر نے بجائے کچھ کہنے کے اپنا بازو ان کے گرد حمائل کرتے ہوئے انہیں سینے سے لگا لیا۔
"آپ بہت اچھی ہیں۔" اس نے ان کا سر تھپتھپاتے ہوئے پیار سے کہا۔
میں خاموشی کو اپنی اتار پھینکوں
دل آزاد ہو میرا ملامت کی خار سے
اک بار جو، کہہ دو اگر پیار سے
اک بار جو، کہہ دو اگر پیار سے
*******************************
رفاقت نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں تو غضنفر کے بجائے اب ملیحہ کو صوفے پر بیٹھا دیکھ کر انہیں تعجب ہوا۔
"غازی!" انہوں نے آہستہ سے پکارا تو ملیحہ متوجہ ہوتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔
"وہ کافی دیر سے آپ کے پاس تھے پاپا، ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی باہر ممی کے پاس گئے ہیں۔" اس نے بیڈ کے پاس آتے ہوئے بتایا اور ساتھ ہی اسٹول کھینچ کر بیٹھ گئی۔
"صالحہ بھی یہاں ہے؟" انہیں مزید تعجب ہوا۔
"جی، جب سے آپ یہاں ایڈمٹ ہوئے ہیں وہ بھی بہت پریشان ہیں اور زبردستی ضد کرکے وہ یہاں آئی ہیں۔" اس نے تفصیلی جواب دیا۔ وہ کچھ نہ بولے۔
"ویسے ایک بات تو ماننی پڑے گی کہ وائف کے معاملے میں بہت لکی ہیں آپ، ممی بہت پرواہ کرتی ہیں آپ کی، کہ اتنی تو شاید غضنفر کی بھی نہیں کی ہوگی۔" اس نے مسکراتے ہوئے ہلکے پھلکے انداز میں احساس دلانا چاہا۔
"میں نے اکثر دیکھا ہے کہ ارینج میرج والے کپلز زیادہ خوش نہیں رہتے، بیویاں شوہروں سے بہت جھگڑا کرتی ہیں مگر یہ دیکھ کر اچھا لگا کہ ممی ایسی بالکل نہیں ہیں، وہ تو آپ کا ہر حکم سر آنکھوں پر رکھتی ہیں، میں تو کہتی ہوں کہ ہر بندے کو ایسی بیوی اور ہر لڑکی کو ایسی ساس ملے جو اتنی سیدھی سادی اور بےلوث محبت کرنے والی ہو۔" وہ بظاہر عام سے انداز میں باتیں کرتے ہوئے ان کے سرد جذبات پر چوٹ مارنے کی کوشش کرنے لگی۔
"ویسے کتنے سال ہوگئے ہیں آپ لوگوں کی شادی کو؟" اس نے سرسری انداز میں پوچھا۔
"شاید انتیس۔۔۔۔یا۔۔۔۔۔تیس سال۔" انہوں نے اندازاً بتایا۔
"ماشاءاللہ! تو کیا ان تیس سالوں میں ممی نے کبھی آپ سے کوئی لڑائی وڑائی کی ہے؟ یا کسی بات سے انکار کر کے چیخی چلائی ہوں یا آپ کی شکایات کی ہو کسی سے؟" اس نے انجان بنتے ہوئے رازداری سے پوچھا۔
اس کے سوال پر بےساختہ ان کے ذہن میں گزری زندگی کی جھلکیاں چلنا شروع ہوگئیں جس کے ہر منظر میں انہوں نے سیدھی سادی، کم گو سی صالحہ کو ہمیشہ اپنا فرمابردار ہی پایا۔
"نہیں!" انہوں نے پر سوچ انداز میں نفی کی۔
ملیحہ نے کچھ نہ کہتے ہوئے انہیں مزید سوچنے دیا اور خاموشی سے اٹھ کر روم سے باہر آگئی۔
باہر غضنفر اور صالحہ کرسیوں پر بیٹھے آہستہ آہستہ باتوں میں مصروف تھے۔ جو کہ ملیحہ کے قریب آنے پر اس کی جانب متوجہ ہوئے۔
"پاپا جاگ گئے ہیں اور آپ کو بلا رہے ہیں ممی۔" اس نے قریب رکتے ہوئے بتایا۔
"کیا! مجھے؟" وہ تعجب سے کہتی اٹھ کھڑی ہوئیں۔
"جی آپ کو، جائیں مل لیں۔" اس نے مسکراتے ہوئے کہا تو انہیں یقین نہیں آیا۔
"جائیں ممی۔" کرسی پر بیٹھے غضنفر نے بھی اکسایا تو وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی روم کی طرف چلی گئیں۔ جب کہ ملیحہ غضنفر کے برابر میں بیٹھ گئی۔
"کیا باتیں کر رہے تھے تم ممی سے؟" اس نے ٹانگ پر ٹانگ رکھتے ہوئے یوں ہی پوچھا لیا۔
"اٹس پرسنل۔" (یہ ذاتی ہے) اس نے شرارتاً بات گھمائی۔
"اوہ! اوکے!" اس نے بھی شرارت سمجھتے ہوئے ضد بحث نہیں کی۔
*******************************
صالحہ روم میں آنے کے بعد اسٹول پر آکے تو بیٹھ گئی تھیں مگر دونوں میں سے اب تک کوئی گفتگو میں پہل نہیں کر پایا تھا اور نتیجاتاً دونوں کے بیچ خاموشی حائل تھی۔
صالحہ ہنوز سر جھکائے گود میں دھرے ہاتھوں کی انگلیاں مڑوڑ رہی تھیں۔ جب کہ بیڈ پر لیٹے رفاقت بھی وقفے وقفے سے انہیں دیکھتے ہوئے خاموش تھے۔
"تم خواہ مخواہ ہاسپٹل کیوں آگئی؟" بلآخر رفاقت نے ہی سنجیدگی سے پہل کی۔
"فکر ہو رہی تھی۔" انہوں نے منمناتے ہوئے جواب دیا۔
"تو یہاں آنے سے کون سا فکر کم ہوگئی؟" انہوں نے سوال اٹھایا۔ بظاہر انداز میں وہ ہی سنجیدگی تھی مگر آج اس سنجیدگی سے سختی کی تپش نہیں آرہی تھی۔
"آپ کو دیکھ کر اطمینان آگیا۔" انہوں نے نظریں اٹھا کر دھیرے سے کہا۔
نظریں ملنے پر رفاقت نے دیکھا کہ بہت دیر رونے کے باعث صالحہ کی آنکھیں کافی سوجھ گئی تھیں اور ان میں نیند نہ پوری ہونے کی تھکن بھی واضح نظر آرہی تھی۔ وہ بےاختیار ہی خود سے شرمندہ ہوتے ہوئے نظریں چراگئے۔
تیری آنکھوں نے آنکھوں کا سسکنا نہیں دیکھا
محبت نہیں دیکھی تڑپنا بھی نہیں دیکھا
نہیں دیکھا تم نے ابھی میری تنہائی کا منظر
کہ اپنے آپ سے میرا الجھنا نہیں دیکھا
ابھی تم نے تمہارے بن میری حالت نہیں دیکھی
ابھی تم نے میرا غم میں بلکنا بھی نہیں دیکھا
ابھی تم نے دعاؤں میں میرے آنسو نہیں دیکھے
خدا کے سامنے میرا سسکنا بھی نہیں دیکھا
انتخاب
*******************************
"انکل کی حالت اب واقعی خطرے سے باہر ہے نا!" عزیر کے باتھ روم سے باہر آتے ہی بیڈ پر بیٹھی صبیحہ نے تصدیق چاہی۔
"ہاں اب ٹھیک ہیں وہ، ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ وہ بس غضنفر سے ملنے کیلئے بےچین تھے اسی لئے ان کی طبیعت نہیں سنبھل رہی تھی۔" سفید تولیے سے اپنا گیلا سر سکھاتے ہوئے اس نے جواب دیا۔
"تو غضنفر نے ٹھیک سے بات کی ان سے؟" اس نے اشتیاق آمیز انداز میں جاننا چاہا۔
"ہاں، سرپرائزلی وہ ٹھیک ملا سب سے، ورنہ مجھے تو ڈاؤٹ ہو رہا تھا کہ کہیں وہ ہاسپٹل آنے سے منع ہی نہ کردے!" اس نے گیلا تولیہ صوفے پر پھینکتے ہوئے اظہارِ خیال کیا۔
کل سے ہسپتال میں ہونے کے باعث وہ کافی تھک گیا تھا اسی لئے اب نہا کر فریش ہونے کے بعد وہ گرنے کے سے انداز میں بیڈ پر لیٹا تو لگا کہ اس کے ایک ایک اعضاء نے آرام ملنے پر گویا اس کا شکریہ ادا کیا ہو جس کے تحت اس نے گہری سانس لے کر آنکھیں بند کرلیں۔
"تم ملے تھے غضنفر سے؟" صبیحہ نے اس کے گیلے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے پوچھا جس کے باعث اس کے وجود پر سرشاری طاری ہونے لگی۔
"ہممم!" اس نے یوں ہی جواب دیا۔
"تم نے سوری کہا اسے؟" اس نے اگلا سوال کیا تو عزیر نے چونک کر آنکھیں کھولیں۔
"کیوں؟" اس نے تعجب سے پوچھا۔
"کیونکہ تمہاری وجہ سے اس پر ایک جھوٹا الزام لگا تھا۔" اس نے متوازن انداز میں وضاحت کی۔ وہ سوچ میں پڑتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گیا۔
"تمھیں پتا ہے مجھے بہت شرمندگی ہوئی تھی کل سب کے سامنے، جب یہ انکشاف ہوا تھا کہ چوری تم نے کی تھی۔" صبیحہ نے نظریں جھکاتے ہوئے تاسف سے کہا تو وہ خود بھی نادم ہوا۔
"آئی ایم سوری یار! مگر اس وقت پتا نہیں کیسے میں یہ سب کر بیٹھا۔" اس نے شرمندگی سے اعتراف جرم کیا۔ وہ کچھ نہ بولی۔
"لیکن میرا یقین کرو کہ وہ پہلی اور آخری بار تھا، پھر میں نے کبھی ایسی کوئی حرکت نہیں کی، بلکہ ان دوستوں سے بھی ملنا چھوڑ دیا جن کی صحبت میں رہ کر یہ نوبت آئی تھی۔" اگلے ہی پل اس نے جلدی سے وضاحت کی تو صبیحہ نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا جس میں کوئی غصہ نہیں تھا۔
"اچھی بات ہے کہ تم سدھر گئے، لیکن اب اصولاً تمھیں غضنفر سے بھی معافی مانگنی چاہئے۔" اس نے دھیرے سے دھیان دلایا۔
"تم ٹھیک کہہ رہی ہو، میں اس سے بات کروں گا۔" بنا کسی حجت کے وہ بھی راضی ہوگیا۔ جس کے بعد چند لمحوں کیلئے دونوں کے بیچ خاموش حائل ہوگئی۔
"اچھا بات سنو!" عزیر نے پکارا۔
"ہممم کہو!"
"کیا اب بھی تم الگ ہونا چاہو گی گھر سے؟" اس نے کھوجتی ہوئی نظروں کے ساتھ سنبھل کر سوال کیا۔
"پتا نہیں!" کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے نظریں جھکا کر ادھورا سا جواب دیا۔
*******************************
دوپہر سے شام ہوئی تو عزیر، زوہا، صبیحہ، دردانہ اور شفاعت بھی دوبارہ ہسپتال آگئے تھے۔ جب کہ سلیمان بھی آرام کے بعد فریش ہوکر اس نیت سے یہاں چلے آئے تھے کہ اب تھوڑی دیر غضنفر کو گھر بھیج دیں گے۔
"کیا؟" غضنفر حیرت سے بس اتنا ہی بولا۔
"ہاں، کل غصے میں عزیر نے یہ سب بتا دیا اور سب کو پتا چل گیا، تب ہی تو سب شرمندہ ہیں تم سے۔" سلیمان نے مزید وضاحت کی۔
دونوں کاریڈور کے کنارے پر کھڑے بات چیت کر رہے تھے کہ تب ہی سلیمان نے اسے ساری بات بتائی کہ در حقیقت وہ چوری عزیر نے کی تھی جس کا الزام شاہانہ نے جان بوجھ کر اس کے سر ڈالا اور اب حقیقت معلوم ہوجانے پر ہی سب نادم ہیں اور رفاقت کی طبیعت خراب ہوئی ہے۔
وہ سمجھ رہا تھا کہ شاید ان سب کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا، لیکن درحقیقت وہ لوگ تو سچ جاننے کے بعد شرمندہ ہوئے تھے، مطلب اگر اب بھی سچ نہ پتا چلتا تو شاید اس کے ساتھ وہ ہی سلوک ہوتا جو ہوتا آیا تھا۔
"سب خیر ہے نا! کیا ہوا؟" تب ہی شفاعت غضنفر کو حیرت زدہ دیکھ اس طرف آئے۔
"حیران ہے یہ بھی وہ سچ جان کر جس کے بعد آپ سب شرمندہ ہیں۔" ناچاہتے ہوئے بھی سلیمان کے اندز سے طنز جھلکا تو وہ شرمندہ ہوئے۔
"ہمیں معاف کردینا بیٹا، ہم سے غلطی ہوگئی۔" وہ بےحد شرمساری سے سر جھکائے بولے۔ وہ خاموشی ہی رہا۔ کیونکہ کہنے کیلئے کچھ تھا ہی نہیں۔
"تم بھی اب گھر چلے جاؤ غضنفر، تھک گئے ہوگے۔" سلیمان نے موضوع بدلا۔
"سلیمان ٹھیک کہہ رہا ہے غضنفر بیٹا! تم اتنے لمبے سفر کے بعد صبح سے یہاں ہو اب تو مغرب ہونے والی ہے، گھر چلے جاؤ تھوڑا آرام کرکے پھر رات تک دوبارہ آجانا۔" شفاعت نے بھی اصرار کیا تو سلیمان کی بات کو حوصلہ ملا۔
"اور نہیں تو کیا؟ دیکھو بیچاری ملیحہ بھی کتنی تھکی ہوئی لگ رہی ہے۔" سلیمان نے کہتے ہوئے تھوڑے فاصلے پر کھڑی ملیحہ کی جانب اشارہ کیا جو کہ صبیحہ کے ساتھ باتوں میں مصروف تھی۔ اور بےحد تھکی ہوئی معلوم ہو رہی تھی۔
"چلو شاباش! اب جلدی گھر جاؤ پھر رات تک آجانا۔" سلیمان نے مزید کہتے ہوئے اس کے کندھا تھپتھپایا تو اسے ہار ماننی ہی پڑی۔
"ملیحہ!" سلیمان نے اسے پکارا تو وہ متوجہ ہوکر اس طرف چلی آئی۔
"جی ماموں؟" اس نے فرمابرداری سے پوچھا۔
"بیٹا غضنفر کے ساتھ گھر چلی جاؤ، کب سے یہاں ہو تھک گئے ہوگے دونوں۔" انہوں نے نرمی سے وضاحت کی تو ملیحہ نے سوالیہ نظروں سے غضنفر کی جانب دیکھا۔
"چلو!" نظریں ملنے پر غضنفر نے بھی کہا۔
پھر دونوں ان سے رخصت لیتے ہوئے باہر کی جانب بڑھنے لگے۔
"صبیحہ نے بتایا مجھے کل جو کچھ بھی گھر میں ہوا اس کے بارے میں۔" ملیحہ نے ساتھ چلتے ہوئے یوں ہی بات چھیڑی۔
"ہممم! مجھے بھی بتا دیا ماموں نے۔" انداز سنجیدہ تھا۔
"چاچو کیا بات کر رہے تھے تم سے؟" اس نے یوں ہی پوچھا۔
"وہ ہی معافی تلافی۔" اس نے سرسری سا جواب دیا۔
"ویسے یہ سوری بھی کیا چیز ہے نا! اتنا برا کرنے کے بعد بس یہ ایک لفظ بول کر انسان چاہتا ہے کہ اس کی ان ساری کوتاہیوں کو نظر انداز کردیا جائے جن کی وجہ سے اکثر کسی کی زندگی تک برباد ہوجاتی ہے۔" وہ زہر خندہ لہجے میں کہتا آگے بڑھتا رہا۔
"ہمممم! معاف کرنا واقعی بہت مشکل ہے۔" اس نے بھرپور انداز میں تائید کی۔
"تب ہی تو اللہ کو یہ عمل بہت پسند ہے، کیونکہ اس کیلئے ہمت چاہیے ہوتی ہے جو ہر کوئی نہیں کر پاتا۔" اگلے ہی پل اس نے جتاتے ہوئے سہل انداز میں مزید کہا تو غضنفر نے چلتے ہوئے گردن موڑ کر اسے گھورا۔ جواباً وہ مسکرادی۔
تھوڑی دیر تک دونوں ہسپتال سے باہر آچکے تھے جہاں سورج غروب ہونے کے بعد سیاہ پڑتے آسمان تلے کئی چھوٹی بڑی لائٹس روشن تھیں اور لوگوں کے اندر، باہر آنے جانے کا سلسلہ بھی جاری و ساری تھا۔
وہیں ان کا سامنا عزیر سے ہوگیا جو غالباً گاڑی پارک کرنے کے بعد اب اندر آرہا تھا۔
"السلام علیکم!" ملیحہ نے سلام کیا۔
"وعلیکم السلام! گھر جا رہے ہو دونوں؟" اس نے جواب دیتے ہوئے اندازہ لگایا۔
"ہاں، ماموں کافی اصرار کر رہے تھے کہ اب ہم بھی تھوڑی دیر گھر چلے جائیں۔" اس نے وضاحتی جواب دیا۔ غضنفر خاموش رہا۔
"ہاں واقعی اتنے لمحے سفر کے بعد بنا آرام کیے کافی دیر سے یہاں ہو تم لوگ، تھک گئے ہوگے۔" اس نے تائیدی انداز میں کہا۔ وہ جواباً مسکرائی۔
"غضنفر! مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے؟" اب وہ براہ راست اس سے مخاطب ہوا۔
"بولو!" وہ سنجیدہ تھا۔
عزیر کے تاثرات سے ملیحہ کو محسوس ہوا گویا وہ اس کے سامنے بات کرنے میں جھجھک رہا ہے۔
"میں گاڑی میں جا کر بیٹھ رہی ہوں غضنفر، تم بات کرکے آجانا۔" معاملہ فہمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ خود ہی بول پڑی۔
"ٹھیک ہے، یہ لو گاڑی کی چابی۔" اس نے کہتے ہوئے پینٹ کی جیب سے چابی نکال کر اسے دے دی۔ جسے لینے کے بعد وہ وہاں سے چلی گئی تو دونوں ایک دوسرے کی جانب متوجہ ہوئے۔
"دراصل بات یہ ہے کہ مجھے تم سے سوری کہنا تھا۔" اس نے لفظ ترتیب دیتے ہوئے کہنا شروع کیا۔
"بڑی جلدی خیال آگیا!" غضنفر طنز کرنے سے باز نہ رہا، جو کہ بجا تھا۔ اس نے بےساختہ نظریں چرائیں۔
"ہاں جانتا ہوں کہ مجھے بہت پہلے ہی سب کو اصل بات بتا دینی چاہئے تھی۔" اس نے نظریں جھکائے کیچین سے کھیلتے ہوئے اعتراف کیا۔
"لیکن یار میں ڈر گیا تھا کہ میری چوری پکڑی جانے پر ڈیڈ اور باقی گھر والے مجھ سے بہت ناراض ہوں گے، اسی لئے۔۔۔۔۔۔۔"
"اسی لئے وہ الزام میرے سر لگتا دیکھ تم اطمینان سے خاموش تماشائی بنے رہے۔" وہ نظر اٹھا کر بول ہی رہا تھا کہ غضنفر نے تلخی سے بات اچک کر مکمل کی۔ وہ مزید نادم ہوگیا۔
"آئی ایم سوری یار!" اس نے شرمندہ سے کہا۔
"سوری!" غضنفر نے نفرت سے سر جھٹکتے ہوئے تلخ انداز میں زیر لب دہرایا۔
"مجھے پتا ہے کہ یہ آسان نہیں ہے اور نہ ہی میرے سوری سے تمہارے گزرے ہوئے آٹھ سال واپس آجائیں گے لیکن۔۔۔! لیکن اگر تم مجھے معاف کردو تو میرے ضمیر کا بوجھ ہلکا ہوجائے گا کم از کم۔" اس نے تسلیم کرتے ہوئے گزارش کی۔
بجائے کچھ کہنے کے وہ خاموشی سے اسے دیکھنے لگا اور وہ بھی اس کے جواب کا منتظر رہا۔
"ٹھیک ہے، معاف کیا۔" اگلے ہی پل غضنفر نے جذبات سے عاری سپاٹ انداز میں اطلاع دی اور بنا اس کی کوئی بات سنے بڑے بڑے قدم اٹھاتا وہاں سے چلا گیا۔
عزیر وہیں کھڑا اسے دور جاتا ہوا دیکھ کر سوچنے لگا کہ اگر غضنفر کی جگہ وہ ہوتا تو شاید وہ بھی ایسا ہی کرتا، کیونکہ غضنفر کے ساتھ ناحق ہوا تھا، اسی لئے اس وقت عزیر کو وہ حق پر لگا۔
غضنفر ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کر گاڑی میں بیٹھا تو سوچوں میں گم ملیحہ بھی اس کی طرف متوجہ ہوگئی جو اب سیٹ بیلٹ باندھ رہا تھا۔
"غضنفر ہماری خلع۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
"پاپا کی طبیعت ٹھیک ہونے دو، پھر بات کریں گے اس معاملے پر۔" وہ کچھ کہنے ہی لگی تھی کہ اس نے سنجیدگی سے بات کاٹ کر ختم کرتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کی۔
اسے بھی اس وقت مزید کچھ کہنا مناسب نہیں لگا تو خاموش ہوگئی جس کے بعد گاڑی اسٹارٹ ہوکر اپنی منزل کی جانب چل پڑی۔
چند روز میں ہی رفاقت کی حالت قدرے بہتر ہوگئی تھی جس کے باعث انہیں ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا تھا اور اب وہ اپنے گھر کے بیڈ پر موجود تھے۔
رفاقت کی حالت کے باعث سب کی پریشانی دیکھتے ہوئے بہت سی باتوں کو بعد کیلئے ملتوی کردیا گیا تھا جیسے عزیر اور صبیحہ کا الگ ہونا یا نہ ہونا؟ غضنفر کا واپس اس گھر میں آنا، اس کا شاہانہ کو معاف کرنا یا نہ کرنا؟ اور شاہانہ کا یہاں رہنا۔
اب جب رفاقت بخیر و عافیت گھر واپس آگئے تھے تو وہ وقت بھی آگیا تھا کہ ان باتوں کا فیصلہ کرلیا جائے اور اسی مقصد کے تحت سب لوگ اس وقت ان کے کمرے میں موجود تھے۔
رفاقت بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے کمبل اوڑھے بیٹھے تھے۔ اور ان کے برابر میں صالحہ موجود تھیں۔
ایک بڑے سے ڈبل صوفے پر دردانہ اور شفاعت موجود تھے، دوسرے ڈبل صوفے پر ملیحہ غضنفر کے ہمراہ اور صبیحہ عزیر کے سنگ بیٹھی تھی۔ جب کہ ایک سنگل صوفے پر مجرم کی طرح شاہانہ سر جھکائے بیٹھی تھیں۔
"اللہ کا شکر ہے کہ کچھ ہی دنوں میں رفاقت کی طبیعت سنبھل گئی اور یہ گھر آگیا۔" دردانہ متوازن انداز میں کہنے لگیں۔
"اسی لئے میں نے سوچا کہ جو باتیں بعد پر ڈال دی گئی تھیں اب ان پر بات کرلی جائے اور اسی لئے تم سب کو یہاں جمع کیا ہے۔" انہوں نے اپنا موقف بیان کیا۔ جسے سب نے خاموشی سے سنا۔
"سب سے پہلے عزیر اور صبیحہ! تم دونوں بتاؤ کہ کیا تم لوگ اب بھی الگ ہونا چاہتے ہو یا اپنا فیصلہ بدل دیا ہے؟" وہ سب سے پہلے ان دونوں کی طرف متوجہ ہوئیں۔
ان کی بات پر دونوں نے پہلے ایک دوسرے کی جانب دیکھا پھر عزیر گویا ہوا۔
"دادی ہم نے الگ ہونے کا فیصلہ اسی لئے کیا تھا کیونکہ یہاں پر ہونے والی روک، ٹوک اور نوک جھونک سے ہم تنگ آگئے تھے، اگر ایسا کچھ نہ ہو تو ہم کہیں نہیں جائیں گے۔" عزیر نے پہلے سے ترتیب دیا جواب گول مول انداز میں پیش کیا۔
"ٹھیک ہے۔" انہوں نے اثبات میں سر ہلایا۔
"رفاقت اور شفاعت، عزیر نے مجھے بتایا زوہا کے حوالے سے عبید کی پسندیدگی کے بارے میں، کیا تم دونوں کو اس رشتے پر کوئی اعتراض ہے؟" انہوں نے سنجیدگی سے پوچھا۔
"نہیں اماں بی، مجھے بھلا کیا اعتراض ہوگا!" رفاقت نے رضامندی دی تو دردانہ نے شفاعت کی جانب دیکھا۔
"بالکل، مجھے بھی کیوں اعتراض ہوگا؟ دونوں اپنے ہی بچے ہیں۔" انہوں نے بھی تائید کی۔
"تم بھی راضی ہو صالحہ؟" دردانہ نے ان سے پوچھا۔
"جی اماں بی، ماشاءاللہ سے عبید دیکھا بھالا، اپنے گھر کا ہی تو بچہ ہے۔" انہوں نے بھی بھرپور رضا مندی ظاہر کی۔
"ٹھیک ہے، تو بس پھر زوہا سے پوچھ کر ہم کچھ دنوں میں ان شاءاللہ باقاعدہ دونوں کا رشتہ طے کردیں گے۔" انہوں نے ایک فیصلہ سنایا۔ جس پر سب نے خاموشی سے رضا مندی دی۔ شاہانہ خود اپنا وہ مقام کھو چکی تھیں جس کے رہتے انہیں کسی فیصلے میں شامل کیا جاتا۔ اور اب باری تھی سب سے اہم بات کی۔
"غضنفر! بیٹا تمہارے ساتھ جو کچھ بھی ہوا اس میں کہیں نا کہیں ہم سب ہی برابر کے شریک تھے۔" انہوں نے عاجزی سے کہنا شروع کیا۔
"گھر کا ماحول بگڑنے میں سب سے پہلی ذمہ دار میں ہی تھی کہ تمہارے دادا کے جانے کے بعد میں سب کو سنبھال نہیں پائی اور سب کو اپنی مرضی کرنے دی، رفاقت کو تم پر سختی کرنے سے یہ سوچ کر کبھی نہیں روکا کہ وہ باپ ہے تو تمہارا اچھا برا زیادہ بہتر جانتا ہے، شاہانہ کو یہ سوچ کر اپنی من مانیاں کرنے دیں کہ چلو منہ پھٹ سہی مگر دل کی بری نہیں ہے یہ، اور اگر گھر پر تھوڑا حق جتاتی ہے تو کوئی برائی نہیں ہے مگر میں غلط تھی جس کے نتیجے میں یہ سب ہوا۔" انہوں نے آہستہ آہستہ کہتے ہوئے اعتراف کیا۔
"اور اب اپنی اپنی غلطیوں پر ہم سب ہی شرمندہ ہیں اور تم سے معافی چاہتے ہیں بیٹا، اور صرف یہ ہی نہیں، بلکہ شاہانہ کا فیصلہ بھی ہم تم پر چھوڑتے ہیں کہ اگر تم چاہو تو اسے معاف کردو یا چاہو تو۔۔۔۔۔تو رشتہ ختم بھی کرسکتے ہو کیونکہ جو غلطی اس نے کی ہے وہ معمولی نہیں ہے۔" انہوں نے تاسف بھری سنجیدگی کے ساتھ ساری صورت حال اس کے سامنے رکھی جسے اس نے خاموشی سے سنا۔
شاہانہ کا سر تو پہلے ہی یہ سب سن کر مزید جھک گیا تھا جب کہ عزیر اور شفاعت کو بھی ان سے قریبی رشتہ ہونے پر کئی احساسات نے ڈنک مارا جن میں سے شرمندگی، غصہ، ناراضگی، افسوس کیا زیادہ حاوی تھا؟ وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہے۔
"کتنا آسان ہے نا کہ پہلے ایک شخص کی زندگی برباد کرو اور بعد میں معافی کا سہارا لے کر بری الذمہ ہوجاؤ۔" بلآخر غضنفر طنزیہ انداز میں گویا ہوا۔
"آٹھ سال پہلے میں نے چوری نہیں کی تھی لیکن آپ لوگوں نے مان لیا تھا کہ ایسا ہوا ہے تو چلیں اسی بات کو مانتے ہوئے بتانا پسند کریں گے کہ تب مجھے معاف کیوں نہیں کیا گیا تھا؟ تب مجھے ایک موقع دینے کے بجائے اتنی سنگین سزا کیوں دی گئی تھی؟" اس نے زہر خندہ انداز میں ایسے سوال اٹھائے جو سب کو مزید شرمندہ کرنے لگے۔
"غضنفر!" ملیحہ نے دھیرے سے پکارتے ہوئے اس کا ہاتھ دبا کر ٹوکا۔
"اور چلیں آپ سب تو بعد میں آتے ہیں، جب میرے والدین نے ہی میرا یقین نہیں کیا تھا تو اب میں کسی اور سے کیا شکوہ کروں؟" وہ ملیحہ کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے اپنا ہاتھ ہٹا کر تلخی سے بولا۔
"بیٹا ہم مانتے ہیں کہ ہم نے غلط کیا اور ہم نے تم سے معافی مانگی تھی اور تم نے مجھے معاف کر بھی دیا تھا ہاسپٹل میں، تو اب یہ شکوہ کیوں؟" رفاقت نے یاد دلاتے ہوئے پوچھا۔
"جی یاد ہے کہ برسوں کے ترسے ہوئے انسان کو اپنی محبت کی بھیک دی تھی آپ نے، لیکن اگر ابھی یہ انکشاف نہیں ہوا ہوتا تو کیا تب بھی ایسے ہی پیار سے پکارتے آپ مجھے؟ ایسے ہی سینے سے لگاتے؟" اس نے تلخی سے سوال اٹھائے تو وہ لاجواب ہوگئے۔
"نہیں! تب ایسا کچھ نہیں کرتے آپ، اور سارا مسلہ یہ ہی تھا۔" اس نے خود جواب دیتے ہوئے بات جاری کی۔
"یہ چوری کا الزام تو آٹھ سال پہلے لگا تھا نا! مگر آپ کی سختیاں تو اس سے بھی پہلے سے چلی آرہی تھیں بس اس واقعی کے بعد ان میں مزید سختی آگئی۔" اس نے اصل شکوہ کیا۔
"کیا ہوگیا ہے غضنفر! کیوں گڑے مردے اکھاڑ رہے ہو؟" ملیحہ نے اسے روکنا چاہا۔
"کیونکہ ان مردوں کا بوجھ اپنے سینے پر لئے اب تھک گیا ہوں میں۔" وہ بلند آواز میں ترکی بہ ترکی کرب سے بولا۔
"اس دن ہاسپٹل میں اسی لئے خاموش رہا تھا میں کہ کہیں مزید بات نہ بگڑ جائے لیکن اب اور خاموش نہیں رہ سکتا میں۔" اس نے اسی انداز میں مزید کہا۔
"تمھیں کوئی نہیں روک رہا بیٹا، کہہ دو جو کہنا ہے، ہم سن رہے ہیں۔" دردانہ نے تحمل سے کہا۔
"عزیر نے چوری کی، چچی نے وہ الزام مجھ پر لگایا وہ سب بعد کی بات تھی اور میرے لئے اتنی اہم نہیں ہے، میرے لئے میرے والدین کا سہارا اہم تھا جو ضرورت پڑنے پر مجھے نہیں ملا، اسی لئے باقی سب سے تو میرا کوئی شکوہ بنتا ہی نہیں ہے۔" ان کی حمایت ملنے پر وہ مزید گویا ہوا۔
"آپ نے کہا کہ چچی کا فیصلہ آپ لوگوں نے مجھ پر چھوڑا تھا تو اب میں ہی یہ فیصلہ آپ لوگوں پر چھوڑتا ہوں کہ آپ کا جو دل چاہے ان کے ساتھ کریں مجھ اس سے کوئی سروکار نہیں، میں نے انہیں معاف نہیں کیا کیونکہ میرا ان سے کوئی شکوہ تھا ہی نہیں، بلکہ ان لوگوں سے تھا جنہوں نے مجھ پر بےاعتباری کرکے ان کا منصوبہ کامیاب کیا۔" وہ بنا کسی کی جانب دیکھے کہنے لگا۔
"اور ان لوگوں کو بھی میں نے معاف کیا، لیکن۔۔۔" وہ لمحے بھر کو رکا۔
"معاف کرنے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ پل بھر میں سب کچھ بھول کر پیار جتایا جائے، سینے سے لگایا جائے، بلکہ یہ ہوتا ہے کہ جو کچھ سامنے والے نے ہمارے ساتھ کیا ہم اس کے ساتھ ویسا کچھ نہیں کریں گے۔" اس نے وضاحت کی۔
"ہاں میرا ارادہ تھا آپ لوگوں کو زچ کرنے کا، نیچا دکھانے کا، خوشیاں چھیننے کا، درد دینے کا، مگر میں چاہ کر بھی ایسا نہیں کرسکا، کیونکہ شاید اس غصے پر کہیں نا کہیں وہ تڑپ غالب آجاتی تھی کہ ایک بار میرے والدین مجھے پیار سے پکار کر سینے سے لگا لیں تو میں سب بھول جاؤں گا، اور ایسا ہوا بھی، مگر افسوس کہ اس میں بھی ان لوگوں کا ذاتی مفاد تھا کہ انہیں اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرنا تھا، مجھ سے محبت نہیں تھی۔" اس نے کہتے ہوئے دکھ سے سر جھکایا۔
"تم غلط سوچ رہے ہو بیٹا، ہم تم سے بہت محبت کرتے ہیں، اور اپنی غلطی مانتے بھی ہیں کہ ہم نے تم سے کبھی اس محبت کا اظہار نہیں کیا۔" رفاقت نے پیار سے سمجھانا چاہا۔
"میں بھی آپ لوگوں سے بہت محبت کرتا ہوں مگر اس محبت کو شکوں کے پیچھے سے ابھر کے آنے میں تھوڑا وقت لگے گا۔" وہ ٹوٹے ہوئے انداز میں ترکی بہ ترکی بولا۔
"میں جب بھی اس گھر میں آتا ہوں تو ناچاہتے ہوئے بھی مجھے وہ سب باتیں یاد آکر تکلیف دیتی ہیں جنہیں بھولنے کیلئے مجھے تھوڑا وقت چاہیے۔" سارا غبار نکال لینے کے بعد اب وہ نرم پڑنے لگا تھا۔
"تمھیں جتنا وقت چاہیے لے لو بیٹا، بس اب ہماری طرف سے اپنا دل صاف کرلو۔" رفاقت نے عاجزی سے گزارش کی۔
"کرلوں گا، مگر برسوں کا میل ہے، اسی لئے صاف ہونے میں وقت لے گا، اور تب تک میں ماموں کے ساتھ ہی رہوں گا۔" اس نے رضا مندی دیتے ہوئے اپنا ارادہ بتایا۔
"کیوں بیٹا؟ تمہارا گھر یہ ہے، تم یہاں رہو۔" اب صالحہ نے مداخلت کی۔
"مجھے پتا ہے کہ یہ میرا گھر ہے مگر میں فی الحال اس انسان کو اچانک سے اکیلا نہیں چھوڑ سکتا جس نے مجھے اکیلے میں سہارا دیا تھا، میں ابھی ماموں کے ساتھ ہی رہوں گا اور ان ہی کا شوروم سنبھالوں گا، اور جب مجھے ٹھیک لگے گا میں یہاں آجاؤں گا۔" اس نے اپنا فیصلہ سنایا۔
"لیکن بیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔"
"ٹھیک ہے بیٹا، جیسی تمہاری مرضی، تم پر کوئی زور زبردستی نہیں کرے گا۔" رفاقت بولنے ہی لگے تھے کہ دردانہ نے مطمئن انداز میں کہتے ہوئے بات کاٹی۔
اب وہ اپنی پچھلی غلطیاں دہرانا نہیں چاہتی تھیں۔ جب کہ سر جھکائے بیٹھی شاہانہ کا فیصلہ بھی ہوچکا تھا کہ انہیں ساری زندگی اب اسی جھکے ہوئے سر کے ساتھ رہنا تھا۔
یہ ہی بہت ہے کہ بیٹھا ہے سر جھکائے
مجھے اجاڑ کر وہ شخص شرمسار تو ہے
انتخاب
*******************************
عبید اپنے بیڈ روم میں بیڈ پر اوندھا لیٹا چادر کی سلوٹوں سے کھیل رہا تھا تب ہی کمرے کا دروازہ کھلنے پر اس نے گردن موڑی تو عزیر کو اندر آتا دیکھا۔
"دادی نے سب کو تایا کے کمرے میں کیوں اکھٹا کیا تھا بھائی؟ کیا ہوا؟" اس نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے بنا تہمید کے پوچھا۔
"کچھ ضروری باتیں کرنی تھیں۔" وہ جواب دیتا ہوا آکر بیڈ پر بیٹھ گیا۔
"تو پھر کرلی؟ کیا تھیں وہ ضروری باتیں؟ اور غضنفر بھیا ہیں یا چلے گئے؟" اس نے مزید سوال اٹھائے۔
"غضنفر اور ملیحہ گھر چلے گئے ہیں تائی نے روکا بھی ڈنر پر لیکن وہ رکا نہیں۔" اس نے سرسری سا بتایا۔
"اور انہوں نے ممی کے حوالے سے کیا فیصلہ دیا؟" اس نے تیزی سے دھڑکتے دل کے سنگ جاننا چاہا۔
"کچھ بھی نہیں، وہ فیصلہ ہم پر چھوڑ گیا ہے۔" اس نے دھیرے سے جواب دیا۔
"تو پھر پاپا اور دادی نے کیا کہا؟" اسے مزید تشویش ہوئی۔
"یہ ہی کہ اب سے وہ ہمارے گھر کا ایک حصہ ہیں، بس!" اس نے تاسف سے بتایا۔ کیونکہ کیسی بھی سہی لیکن ماں تھیں وہ اس کی، اور ان کی اس حرکت سے انہیں بےحد دکھ و شرمندگی ہوئی تھی اسی لئے وہ لوگ چاہ کر بھی ان کا دفاع نہیں کر پائے۔
"اور اگلے کچھ دنوں میں زوہا کا باقاعدہ رشتہ طے ہونے والا ہے۔" اس نے مزید کہتے ہوئے خاموشی کو توڑا تو عبید ٹھٹک گیا۔
"کس کے ساتھ؟" اس نے ڈوبتے دل کو سنبھالے پوچھا۔
"وہ ہی فرحان انکل کے بیٹے رضوان کے ساتھ۔" اس نے سنجیدگی سے غلط بیانی کی۔
اس کی بات پر عبید کو لگا کہ امید کے سمندر میں ڈولتا اس کا دل مایوسی کی گہرائیوں میں جا کر ڈوب گیا ہے۔ جس کا اس نے زبان سے کوئی اظہار نہیں کیا۔ جب کہ عزیر بغور اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا جس پر ایک رنگ سا آ کر گزرا تھا۔
"پاگل!" عزیر نے اچانک ہنستے ہوئے اس کے سر پر چپت لگائی تو وہ حیران ہوا۔
"جب پیار کیا تو ڈرنا کیا؟" عزیر نے مزید کہا۔
"کیا مطلب؟" وہ سمجھا نہیں۔
"مطلب جب زوہا کو پسند کرتے ہو تو گھر والوں کو بتا کیوں نہیں دیتے؟" اس نے وضاحتی انداز میں سوال کیا۔
"آپ کو کیسے پتا چلی یہ بات؟ جھگڑے والے دن بھی آپ نے یہ کہا تھا مگر مجھے پوچھنا یاد نہیں رہا۔" اچانک خیال آنے پر اس نے حیرانی سے پوچھا۔
"پاپا نے سرسری ذکر کیا تھا مجھ سے کہ تم زوہا سے شادی کرنا چاہتے ہو پر ممی سے بات نہیں کر پا رہے، اور اس کے علاوہ بھی مجھے تمہارے رنگ ڈھنگ کچھ بدلے بدلے سے لگ رہے تھے۔" اس نے اطمینان سے انکشاف کیا تو وہ ششدر رہ گیا۔
"بھائی!" وہ حیرت سے بولا۔
"کیا بھائی؟ جب پسند کرتے تھے تو کہا کیوں نہیں گھر والوں سے؟" وہ اس کی کلاس لینے لگا۔
"کیا فائدہ ہوتا کہہ کر؟ اس کا رشتہ تو وہ لوگ ویسے بھی طے کر چکے ہیں۔" اس نے نظریں جھکا کر مایوسی سے کہا۔ جس سے عزیر کافی محظوظ ہوا۔
"ہاں رشتہ تو طے کر چکے ہیں، چلو اب تم بیٹھ کر افسوس کرو، اور کیا بھی کیا جا سکتا ہے؟" عزیر نے مصنوعی تاسف سے کہتے ہوئے اس کا کندھا تھپتھپایا اور اٹھ کر کمرے سے جانے لگا۔ کیونکہ کچھ دنوں میں تو ویسے ہی اسے پتا چل جانے والا تھا اسی لئے عزیر نے فی الحال اسے تھوڑا تنگ کیا۔
"بھائی!" عبید نے اچانک پکارا۔
"ہاں!" وہ رک کر پلٹا۔
"آپ اور بھابھی بھی کیا الگ ہوجائیں گے؟" اس نے دکھی انداز میں جاننا چاہا۔ جس پر عزیر کو بےساختہ پیار آیا۔
"نہیں!" اس نے مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہلا دیا۔
*******************************
"تم خود چلی جاؤ گی کل اپنے میکے یا چھوڑ کر آؤں؟" ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے شفاعت نے اپنی گھڑی اتارتے ہوئے سرسری انداز میں شاہانہ سے پوچھا جو ابھی ابھی کمرے میں آئی تھیں۔
"میں وہاں کیسے جا سکتی ہوں اب؟" انہوں نے رنجیدہ انداز میں آگے آتے ہوئے الٹا سوال کیا۔
"کیوں! میکے میں تین تین بھائی ہیں تمہارے جن پر تمھیں بڑا غرور تھا!" انہوں نے پلٹتے ہوئے یاد دلایا۔
"بتایا تو تھا کہ ٹوٹ گیا ہے وہ غرور، اور کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ عورت کا میکہ بس ماں باپ کے دم سے ہوتا ہے۔" انہوں نے ایک جگہ رکتے ہوئے تاسف سے کہا۔
"تو یہ بات تب سوچنی چاہیے تھی نا جب ہمارے پیار اور بھروسے کا ناجائز فائدہ اٹھا کر یہ چال بازیاں کر رہی تھی تم۔" وہ بھی تلخی سے کہتے ہوئے ان کے مقابل آئے تو انہوں نے لاجواب ہوکر شرمندگی سے نظریں جھکالیں۔
"کس چیز کی کمی تھی شاہانہ تمھیں جو تم نے ایسی حرکت کی؟" وہ دکھ سے شکوہ کرنے لگے۔
"مجھے معاف کردیں، مجھ سے غلطی ہوگئی، میں لالچ میں آگئی تھی۔" انہوں نے عاجزی سے کہتے ہوئے ہاتھ جوڑے۔ انہوں نے نفرت سے گردن موڑ لی۔
"اور پھر آپ نے دیکھا نا کہ غضنفر کو بھی مجھ سے کوئی شکایات نہیں ہے، اور آپ ہی نے کہا تھا نا کہ اگر اس نے مجھے معاف کردیا تو آپ بھی کردیں گے۔" انہوں نے اگلے ہی پل جلدی سے یاد دلایا۔
"ٹھیک ہے، میں نے بھی تمھیں غضنفر کی طرح معاف کیا، کیونکہ اس نے کہا تھا کہ معافی کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ سینے سے لگایا جائے بلکہ یہ ہوتا ہے کہ ہم تمہارے ساتھ وہ نہیں کریں گے جو تم نے ہمارے ساتھ کیا۔" انہوں نے سنجیدگی سے اپنا فیصلہ سنایا۔
"تم اب بھی اس گھر میں رہو گی جیسا اماں بی نے کہا، ایک عام فرد کی طرح، بس! کیونکہ میری نظروں میں اپنا بیوی والا وقار کھو چکی ہو تم، باقی بچوں کا تمہارے بارے میں کیا خیال ہے یہ ان کی مرضی۔" انہوں نے اسی انداز میں انہیں باور کروایا اور بنا ان کی کوئی بات سنے وہ برق رفتاری دیکھاتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئے۔
شاہانہ اپنے خوبصورت بیڈ روم کے وسط میں ساکت سی تنہا کھڑی رہ گئیں۔ انہیں لگا کہ انہوں نے کچھ بےبنیاد خوشیاں پانے کی دھن میں سب بنیادی خوشیاں کھو دیں۔ اور یہ ہی حقیقت تھی۔
*******************************
"تمھیں نہیں لگتا غضنفر کہ تم گھر والوں کے ساتھ کچھ زیادہ ہی روڈ ہوگئے تھے؟" چینج کرکے آنے کے بعد ملیحہ نے بیڈ کے دوسرے کنارے پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
"نہیں!" موبائل میں مصروف غضنفر نے مختصر جواب دیا جو کمبل اوڑھے نیم دراز تھا۔
"مگر مجھے لگتا ہے، وہ سب شرمندہ تھے تو تمھیں بھی اعلی ظرفی دیکھا کر سب در گزر کر دینا چاہئے تھا!" اس نے صاف گوئی سے اپنی رائے کا اظہار کیا۔
"میں نے کب منع کیا درگزر کرنے سے؟ کردوں گا، پر آہستہ آہستہ، کیونکہ یہ کوئی فلم نہیں ہے جہاں زیادتیوں کے بعد اینڈ میں گلے لگا کر سب کو منٹوں میں معاف کردیا جائے، اصل زندگی ہے، جو ہر کام میں وقت مانگتی ہے۔" اس نے موبائل اسکرین آف کرتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔
"مجھے تھوڑا وقت چاہیے خود کو سب کچھ بھلا کر ان کے ساتھ رہنے پر آمادہ کرنے کیلئے، میں ابھی چاہوں تو سب کے ساتھ رہ سکتا ہوں مگر یہ زبردستی ہوگی، اور میں زبردستی نہیں کرنا چاہتا، نہ گھر والوں کے معاملے میں اور نہ تمہارے معاملے میں، میں نے تم سے بھی خلع کا اسی لئے کہا تھا کیونکہ ہم ساتھ رہ تو لیں گے مگر صرف زندگی گزاریں گے، اسے جی نہیں سکیں گے، اور اپنی اپنی زندگی جینے کا حق سب کو ہے، پھر چاہے تم ہو یا میں۔" وہ تحمل سے کہہ رہا تھا۔ اور غضنفر جیسے الٹی کھوپڑی کے بندے سے ایسی تحمل مزاجی بہت غیر متوقع تھی۔
"تم ٹھیک کہہ رہے ہو، ہر شخص خود کو زیادہ بہتر طور پر سمجھتا ہے اور اسی کے حساب سے اپنے فیصلے کرتا ہے جنہیں ہمیں بھی سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔" اس نے تائید کی۔ وہ کچھ نہ بولا۔
"تو اب خلع کب تک لینی ہے؟" ملیحہ نے خود ہی سوال اٹھایا۔
"میرے خیال میں ہمیں کل سے ہی اسٹیپ لے لینا چاہئے۔" اس نے خیال ظاہر کیا۔
"ٹھیک ہے، لیکن ایک مسلہ ہے۔" ملیحہ جھجھکی۔
"کیا؟" اس نے جاننا چاہا۔
"میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ میں امی پاپا کو کیسے راضی کروں گی اس کیلئے؟ مطلب کیا وجہ بتاؤں خلع کی؟ یہ کہ تم کسی اور کو پسند کرتے ہو؟" اس نے کمبل کی سلوٹ سے کھیلتے ہوئے الجھن کا اظہار کیا۔
"نہیں، یہ بات شاید وہ لوگ ویسے نہ سمجھیں جیسے تم سمجھ گئی ہو، اسی لئے میرے غصے والی بات کو تھوڑا مرچ مصالحہ لگا کر بتا دو انہیں کہ میں تم سے اچھا سلوک نہیں کرتا، تمھیں مارتا پیٹتا ہوں۔" اس نے اطمینان سے مشورہ دیا۔
"لیکن تم نے تو کبھی مجھ پر ہاتھ نہیں اٹھایا!" اس نے تعجب سے یاد دلایا۔
"یہ تو ہم جانتے ہیں نا کہ ہم بنا کسی لڑائی جھگڑے کے طریقے سے الگ ہونا چاہئے ہیں، مگر دنیا والے نہیں سمجھیں گے، یہاں اگر کسی کو کہو نا کہ دو لوگ میوچل انڈرسٹینڈنگ (باہمی رضامندی) سے الگ ہونا چاہئے ہیں تو دونوں کو سمجھا بجھا کر ساتھ رہنے پر زبردستی تب تک اکسایا جاتا ہے جب تک بات مار پیٹ تک نہ پہنچ جائے، اسی لئے بہتر ہے کہ دنیا کو اسی کے انداز میں ڈیل کیا جائے۔" اس نے اپنے تئیں بہت کام کی بات بتائی جو کہ ایک پوشیدہ حقیقت تھی۔ وہ بھی سوچ میں پڑگئی۔
"ہممم! بات تو تمہاری ٹھیک ہے۔" وہ اسی پر سوچ تاثر کے ساتھ رضا مند ہوئی۔
"تو اب اس پر عمل بھی جلد ہی کرتے ہیں پھر، فی الحال سوجاؤ، گڈ نائٹ!" اس نے کہتے ہوئے موبائل سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور کمبل اوڑھ کر دوسری جانب کروٹ لے لی۔
ملیحہ نے بھی بورڈ کی جانب ہاتھ بڑھا کر کمرے کے سائیڈ لیمپ بند کیا اور کمبل اوڑھ کر لیٹ گئی۔
*******************************
ایک نیا سویرا پھر سے جلوہ افروز ہوچکا تھا جس کے سائے تلے معمولات زندگی پھر سے رواں دواں ہوگئے تھے۔
"چلیں!" عزیر کی آواز پر صبیحہ یکدم چونکی جو ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی سوچ میں گم تھی۔
اس نے پلٹ کر دیکھا تو وہ آفس ڈریس اپ میں اپنے موبائل پر مصروف نظر آیا اور پھر موبائل پینٹ کی جیب میں رکھتے ہوئے وہ اس کی جانب متوجہ ہوا۔
"کوئی پرابلم ہے؟" عزیر نے نرمی سے استفسار کیا۔
"میری وجہ سے گھر کا ماحول خراب ہوگیا ہے نا!" وہ نظریں جھکا کر دھیرے سے بولی۔
"نہیں تو، کس نے کہا؟" وہ تعجب سے بولا۔
"کسی نے نہیں، میں نے خود نوٹ کیا ہے، اگر میں الگ ہونے کی بات نہیں کرتی تو یہ سب نہ ہوتا۔" اس نے اسی انداز میں مزید کہا۔ تو وہ اسی نرم تاثر کے ساتھ اسے دیکھتا قریب آیا۔
"کہاں خراب ہے گھر کا ماحول؟ سب ٹھیک تو ہے، ابھی تو سب نے روٹین کی طرح ایک ساتھ ناشتہ کیا ہے، ہاں بس ممی اب چپ چپ سی ہوگئی ہیں اور یہ ان کی اپنی غلطی ہے، جس کی تھوڑی سزا ان کیلئے ضروری ہے، تا کہ وہ آگے پھر ایسا کچھ نہ کریں، اور تھوڑا ٹائم لگے گا سب کچھ واپس پہلے جیسا ہونے میں، یا شاید نہ بھی ہو پائے لیکن اس میں تمہاری غلطی نہیں ہے۔" اس نے دونوں بازو اس کے کندھوں پر رکھ کر تحمل سے سمجھایا۔
"سچی!" اس نے نظریں اٹھا کر تائید چاہی۔
"مچی!" اس نے مسکرا کر تصدیق کرتے ہوئے آخر میں اس کے ماتھے پر بوسہ دیا۔ جس کے باعث اس وجود میں اطمینان اتر گیا۔
*******************************
"ماموں پلیز! ہم فیصلہ کرچکے ہیں، اور یہ اپنی مرضی سے واپس جا رہی ہے، آپ کو کوئی ضرورت نہیں ہے خوامخواہ کچھ بھی سمجھانے کی۔" ہال میں موجود غضنفر نے چڑ کر بات ختم کرنی چاہی۔ تو سلیمان نے ملیحہ کی جانب دیکھا جو اپنے ہینڈ کیری کے سنگ خاموشی سے نظریں جھکائے کھڑی تھی۔
"اب تم کیوں چپ ہوگئی؟ بتاؤ انہیں۔" غضنفر نے اسے بھی گھسیٹا۔
"یہ ٹھیک کہہ رہے ہیں ماموں، ہم لوگوں نے بہت سوچ سمجھ کر باہمی رضامندی سے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہمیں الگ ہوجانا چاہئے، اسی میں ہم دونوں کی بہتری ہے۔" اس نے بجھے دل کے ساتھ نظریں جھکائے انگلیوں سے کھیلتے ہوئے جواب دیا۔
"بس! سن لیا آپ نے، اب جائیں ہم؟" غضنفر نے اجازت چاہی۔
"اب جب تم لوگ فیصلہ کر ہی چکے ہو تو پھر مرضی ہے تمہاری۔" بلآخر انہوں نے بھی ہتھیار ڈال دیے۔
"شکریہ، چلو ملیحہ۔" غضنفر نے کہتے ہوئے اس کا ہینڈ کیری پکڑا اور اسے گھسیٹتا ہوا باہر کی جانب بڑھ گیا۔
"اللہ حافظ ماموں!" ملیحہ نے نظر اٹھا کر رنجیدہ انداز میں کہا جس کا انہوں نے سر کی جنبش سے جواب دیا۔ اور پھر وہ غضنفر کے پیچھے چلی گئی۔ جب کہ وہ وہیں کھڑے ان دونوں کو دور ہوتا دیکھتے ریے۔
*******************************
"جانے تو کہاں ہے؟"
"اڑتی ہوا پہ تیرے"
"پیروں کے نشان دیکھے"
"ڈھونڈا ہے زمین پہ"
"جانا ہے فلک پہ"
"سارے آسمان دیکھے"
"مل جا کہیں، سمے سے پرے"
"سمے سے پرے، مل جا کہیں"
"تو بھی انکھیوں سے کبھی"
"میری انکھیوں کی سن"
"ہائے! پتا نہیں کب ملے گی وہ؟ خیر! لو تمہاری منزل تو آگئی!" غضنفر نے گاڑی روک کر کہتے ہوئے ہاتھ بڑھا کر اس میں چلتا ٹیپ بند کیا جس سے یہ بول سنائی دے رہے تھے۔
"چلو اب اتر کر جاؤ اندر، بیگ اتار لو گی نا!" اس نے کہتے ہوئے پوچھا۔
"ہممم!" اس نے مختصر کہہ کر سیٹ بیلٹ کھولی۔ اور پھر گاڑی سے باہر آگئی۔
پچھلی نشست کا دروازہ کھول کر اس پر رکھا اپنا سرخ ہینڈ کیری نکالا اور دروازہ واپس بند کرتے ہوئے چند قدم پیچھے ہٹ گئی۔
"اللہ حافظ!" غضنفر نے مسکراتے ہوئے کہہ کر ہاتھ ہلایا تو جواباً وہ بھی بمشکل مسکرائی۔
پھر غضنفر نے گاڑی آگے بڑھا دی جسے وہ وہیں کھڑی تب تک دور جاتا ہوا دیکھتی رہی جب تک آنکھوں میں آنے والے آنسوؤں کے باعث پورا منظر دھندلا نہیں گیا۔
وہ مجھے چھوڑ کر خوش ہے، تو شکایات کیسی؟
میں اسے خوش نہ دیکھ سکوں، تو محبت کیسی؟
ملیحہ کو ڈراپ کرنے کے بعد گاڑی دوبارہ مین روڈ پر لاتے ہوئے غضنفر نے کافی خوشگوار موڈ میں دوبارہ ٹیپ آن کردیا جس پر ایف۔ایم چل رہا تھا۔
"اوٹ میں چھپ کے دیکھ رہے تھے''
"چاند کے پیچھے، پیچھے تھے"
"سارا جہاں دیکھا"
"دیکھا نہ آنکھوں میں"
"پلکوں کے نیچے تھے"
"آ چل کہیں، سمے سے پرے"
"سمے سے پرے، چل دے کہیں"
"تو بھی انکھیوں سے کبھی"
"میری انکھیوں کی سن"
جو گیت کچھ دیر قبل گاڑی میں چل رہا تھا اب اسی کے آگے کے بول اس کی سماعت سے ٹکرائے۔ جس کی شاعری پر غور نہ کرتے ہوئے وہ اپنی ہی دھن میں مگن ڈرائیو کرتا رہا۔
*******************************
"ٹک ٹک ٹک!" کانچ کے دروازے پر دستک ہوئی۔
"آجاؤ!" موبائل میں مصروف سلیمان نے اسی انداز میں اجازت دی تو فاروق دروازہ دھکیلتا ہوا اندر آیا۔
"سر جن کے بارے میں آپ نے معلوم کرنے کا کہا تھا میں نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
"کچھ پتا چلا ان کے بارے میں؟" ابھی وہ نزدیک آکر بول ہی رہا تھا کہ سلیمان موبائل چھوڑ چھاڑ کر اس کی جانب متوجہ ہوگئے۔
"جی سر وہ ہی بتا رہا ہوں، کل اس بارے میں چھان بین کی تھی میں نے اپنے طور پر، مگر کچھ خاص پتا نہیں چلا، بس وہی باتیں پتا چلیں جو آپ کو بھی پہلے سے پتا ہیں۔" اس نے مہذب انداز میں وضاحت کی تو سلیمان کی آنکھوں میں جلتے امید کے دیے پھر سے بجھ گئے۔ اور چہرے پر مایوسی چھا گئی۔ جس کے باعث فاروق کو بھی تھوڑا افسوس ہوا۔
"گڈ آفٹر نون!" تب ہی غضنفر خوشگوار موڈ میں کہتا روم میں داخل ہوا جس پر دونوں چونک گئے۔
"کیا ہوا؟ سب خیریت ہے نا!" ان دونوں کے سنجیدہ تاثر دیکھ کر وہ لمحے بھر کو ٹھٹکا۔
"ہاں ہاں سب ٹھیک ہے۔" سلیمان نے خود کو نارمل کرتے ہوئے جواب دیا۔
"تو پھر آپ دونوں کے منہ کیوں لٹکے ہوئے ہیں؟" وہ پوچھتے ہوئے ٹیبل کے گرد موجود دو میں سے ایک کرسی کھینچ کر بیٹھا۔
"ارے کچھ نہیں، وہ فاروق کے تایا کا ایکسیڈینٹ ہوگیا ہے بس اسی پر افسوس ہو رہا تھا۔" انہوں نے بات بنائی۔
"کیا؟" فاروق حیرانی سے بےساختہ بولا تو دونوں نے چونک کر اس کی جانب دیکھا۔ جب کہ سلیمان نے اسے آنکھوں سے ڈپٹا۔
"میرا مطلب ہے ہاں سر، آج صبح ہی اطلاع ملی ہے۔" اس نے گڑبڑا کر جلدی سے غضنفر کو وضاحت دی۔
"اللہ صحت دے انہیں، چلو اب تم جاؤ۔" سلیمان نے کہتے ہوئے اسے چلتا کیا کہ کہیں غضنفر کو ان پر شک نہ ہوجائے۔ تو وہ بھی فرمابرداری سے سر ہلا کر روم سے باہر نکل گیا۔
"کوئی ایکسیڈینٹ نہیں ہوا ہوگا بس چھٹی کرنے کے بہانے ہیں یہ۔" اس کے جانے کے بعد غضنفر نے اپنے تئیں نتیجہ نکالا۔
"چھوڑو اسے، تم بتاؤ کہاں تھے؟" انہوں نے موضوع بدلتے ہوئے میز پر پڑی فائل کھولی۔
"پہلے ملیحہ کو اس کے گھر ڈراپ کیا، پھر وہاں سے ایک کام نمٹاتا ہوا سیدھا یہاں شوروم آرہا ہوں۔" اس نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے بتایا۔
"تو سالک سے ملاقات نہیں ہوئی تمہاری؟" انہوں نے فائل کا صفحہ پلٹتے ہوئے پوچھا۔
"نہیں، بس اسے باہر سے ہی ڈراپ کرکے آگیا تھا۔" اس نے سرسری جواب دیا۔
"فی الحال تو تم آگئے مگر یہ خلع والا انکشاف ہوتے ہی وہ بری طرح پھٹے گا، سنبھل کر رہنا اس سے۔" انہوں نے نظر اٹھا کر مشورہ دیا۔
"ہاں ذہنی طور پر تیار ہوں میں۔" اس نے گہری سانس لیتے ہوئے جواب دیا۔
"اور آپ کو کیا ضرورت تھی صبح ملیحہ کے سامنے اوور ایکٹنگ کرنے کی کہ بیٹا ایسے گھر سے مت جاؤ، رک جاؤ، سوچ لو، اگر وہ سچ میں رک جاتی تو!" اس نے اچانک یاد آنے پر سیدھے ہوکر ان کی نقل اتارتے ہوئے باز پرس کی۔
"وہ تو میں ایسے ہی کہہ رہا تھا، بیچاری بہت اداس لگ رہی تھی۔" انہوں نے کندھے اچکاتے ہوئے وضاحت کی۔
"آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ کتنی مشکل سے راضی کیا ہے میں نے اس "بیچاری" کو خلع کیلئے، اور وہ بس ابھی اداس ہے، جب کسی اچھے انسان سے شادی کرکے زندگی میں آگے بڑھی گی تو سب بھول بھال جائے گی۔" اس نے کہتے ہوئے مستقبل کے حوالے سے اندازہ لگایا۔ جواب میں کچھ نہ کہتے ہوئے وہ پھر فائل کی جانب متوجہ ہوگئے۔
"اب بس کسی طرح مس ایس کو ڈھونڈنا ہے، پھر لائف میں سکون ہی سکون ہوگا۔" اس نے پھر کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے خودکلامی کی۔
سلیمان نے ایک نظر اسے دیکھ کر نفی میں یوں سر ہلایا گویا کہہ رہے ہوں کہ
"اس کا کچھ نہیں ہوسکتا۔"
*******************************
"پاپا!" رفاقت آنکھیں بند کیے بیڈ پر نیم دراز تھے کہ اس مدھم سی پکار پر وہ آنکھیں کھولتے ہوئے سیدھے ہوئے۔
"شام کی دوائی کا وقت ہوگیا ہے۔" زوہا نے کہتے ہوئے سائیڈ ٹیبل پر سے جگ گلاس اٹھا کر گلاس میں پانی نکال کر انہیں پکڑایا۔ اور پھر دوا نکال کر ان کی ہتھیلی پر رکھی جسے منہ میں رکھ کر انہوں نے پانی پی لیا۔
"تمہاری ممی کہاں ہیں؟" انہوں نے گلاس واپس دیتے ہوئے پوچھا۔
"وہ عصر کی نماز پڑھ رہی ہیں۔" اس نے گلاس لیتے ہوئے مختصر بتایا اور پھر گلاس رکھ کر جانے کیلئے پلٹی۔
"زوہا!" انہوں نے اچانک پکارا۔
"جی؟" وہ رک کر پلٹی۔
"یہاں بیٹھو۔" انہوں نے نرمی سے کہتے ہوئے اپنے برابر میں اشارہ کیا تو پہلے چند لمحے حیران ہونے کے بعد وہ جھجھکتے ہوئے آکر ان کی طرف رخ کرکے بیٹھ گئی۔
"تمھیں پتا ہے گھر میں تمہارے رشتے کی بات چل رہی ہے عبید کے ساتھ؟" انہوں نے رسان سے تصدیق چاہی۔ اس نے نظریں جھکا کر اثبات میں سر ہلایا۔
"تم خوش ہو اس رشتے سے؟" انہوں نے اس کی رائے جاننا چاہی تو وہ بےساختہ نظریں اٹھا کر انہیں حیرانی سے دیکھنے لگی گویا اس سوال کی امید نہ ہو۔
"اگر خوش نہیں ہو تو میں منع کردیتا ہوں شفاعت کو۔" انہوں نے پیشکش کی۔
"نہیں نہیں!" اس نے بےاختیار جلدی سے ٹوکا۔ اور پھر اگلے ہی پل خود اپنی اس حرکت پر جھینپتے ہوئے نظریں چرالیں۔ اس کی بوکھلاہٹ دیکھ کر رفاقت بےساختہ ہنس پڑے۔
"مطلب خوش ہے میری بیٹی!" انہوں نے مسکراتے ہوئے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔
اس عمل پر پتا نہیں کیوں؟ بےساختہ اس کا دل بھر آیا اور بجائے کچھ کہنے کے وہ ان کے سینے سے لگ گئی۔ شاید جس شفقت بھری توجہ کی اسے ہمیشہ سے چاہ تھی آج وہ مل جانے کی خوشی تھی جو بےاختیار آنکھوں سے چھلک پڑی تھی۔
"ارے ابھی رخصتی میں بہت ٹائم ہے۔" انہوں نے اس کا سر سہلاتے ہوئے ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔
وہ بجائے لبوں سے کچھ کہنے کے بس پوری شدت سے ان لمحات کو شاید اس ڈر سے خود میں اتارنے کی کوشش کر رہی تھی کہ پتا نہیں یہ پھر ملیں نہ ملیں؟
اور دوسری جانب رفاقت کو بھی اندر ہی اندر تھوڑا ملال ہوا کہ کاش! وہ آج سے پہلے بھی ایک ذمہ دار باپ کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کے اچھے دوست بن کر بھی رہے ہوتے!
*******************************
"تمھیں مجھے صبح اسی وقت ہی آفس فون کرنا چاہئے تھا جب یہ گھر آئی تھی، خیر! اٹھو اور چلو میرے ساتھ۔" سالک صاحب بمشکل ضبط کرتے ہوئے صوفے پر سے اٹھ کر ملیحہ کی جانب بڑھے۔
"پاپا پوری بات تو سن لیں تحمل سے۔" ملیحہ نے بھی اٹھتے ہوئے روکا جب کہ راضیہ بھی اپنی جگہ پر سے اٹھ چکی تھیں۔
"کیا سنوں اور؟ اب اس کے بات کچھ سننے سمجھنے کیلئے بچا ہے کہ میری بیٹی کے اوپر خلع کی نوبت آگئی ہے!" وہ سخت برہم تھے۔
سالک صاحب ابھی ابھی آفس سے لوٹے تھے اور جہاں ملیحہ کو دیکھ کر انہیں خوشگوار حیرت ہوئی تھی وہیں اس کے آنے کا سبب جان کر اب ان کا غصہ سوا نیزے پر پہنچ گیا تھا۔
"امی آپ سمجھائیں نا!" انہیں بگڑتا دیکھ کر اس نے راضیہ سے مدد مانگی۔
"کیا سمجھاؤں؟ ٹھیک تو کہہ رہے ہیں تمہارے پاپا کہ اس دن کیلئے ہم نے تمہاری شادی کی تھی!" وہ تو ویسے ہی صبح سے اس سے خفا تھیں۔
"چلو تم ابھی میرے ساتھ، ابھی جا کر سارے کس بل نکالتا ہوں اس کے۔" انہوں نے پھر اسی انداز میں کہا۔
"کیا ہوگا میرے جانے سے؟ فی الحال سب بڑوں کے بیچ میں معاملہ رفع دفع ہوجائے گا مگر بعد میں پھر وہ ہی سب کریں گے وہ میرے ساتھ جس کی وجہ سے خلع کی نوبت آئی ہے، ہم دونوں کے مزاج میں بہت فرق ہے اور جب وہ خود کو بدلنے کیلئے تیار ہی نہیں ہیں تو میں کیا کروں وہاں جا کر؟" اس نے روہانسی ہوکر تصویر کا دوسرا رخ دکھانا چاہا۔
"تو یہ بات تب یاد نہیں آئی تھی اسے جب وہ تم سے شادی کیلئے پاگل ہو رہا تھا اور تم نے بھی ہماری نہیں سنی تھی؟" وہ یکدم غصے سے چلائے جس کے باعث لمحے بھر کو راضیہ بھی ہل گئیں۔
"مجھے کیا پتا تھا تب کہ بعد میں ایسا کچھ ہوجائے گا۔" وہ بےبسی سے کہتے ہوئے یکدم رو پڑی تو لمحوں میں ان کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ اور انہوں نے ایک بےبس نگاہ سے راضیہ کی جانب دیکھا جو خود بھی شش و پنج کی کیفیت میں تھی کیونکہ انہیں بیک وقت اپنی بیٹی پر غصہ بھی آرہا تھا اور ترس بھی۔
"اچھا بیٹھو ادھر، راضیہ پانی لے کر آؤ۔" انہوں نے تحمل سے کہتے ہوئے اسے بازو سے پکڑ کر صوفے پر بیٹھایا۔ جب کہ وہ پانی لینے چلی گئیں۔
"رو نہیں، رونے سے مسلے حل نہیں ہوتے۔" انہوں نے خود بھی اس کے برابر میں بیٹھتے ہوئے اسے سینے سے لگایا۔ مگر وہ ہنوز روتی رہی۔ شاید محبت کی حرارت ملنے پر اس کے اندر کب سے منجمند غم اب پگھل کر آنکھوں کے ذریعے باہر آرہا تھا جسے سالک نے بہہ جانے دیا۔
"یہ لیں!" راضیہ نے ٹھنڈے پانی کا گلاس ان کی طرف بڑھایا۔
"یہ لو، پانی پیو۔" انہوں نے گلاس لے کر اسے خود سے الگ کیا اور اپنے ہاتھ سے ہی گلاس اس کے لبوں پر لگایا جسے ہلکا سا سہارا دے کر اس نے بس دو گھونٹ حلق میں اتار کر منہ پیچھے کرلیا۔
سالک نے گلاس واپس راضیہ کو دیا جسے وہیں موجود کانچ کی ٹیبل پر رکھتے ہوئے وہ خود بھی ملیحہ کے دائیں جانب بیٹھ گئیں۔ جو کہ اب سنبھل کر اپنے آنسو صاف کر رہی تھی۔
"دیکھو بیٹا! شادی کرنا اور پھر اسے ختم کردینا بچوں کا کھیل نہیں ہے۔" اب وہ تحمل سے گویا ہوئے۔
"اپنی طرف سے جذباتی ہوکر خلع وغیرہ کی بات مت کرو، ہم آج ملتے ہیں غضنفر کے گھر والوں سے، اور سب کے ساتھ بات چیت کرکے دیکھتے ہیں کہ کیا حل نکلتا ہے!" انہوں نے سوچ سمجھ کر معاملات ترتیب دیے۔
"کوئی فائدہ نہیں ہوگا پاپا بات کرنے سے، وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر مجھے ان کے ساتھ رہنا ہے تو کامپرمائیز کرکے رہنا ہوگا، ورنہ میں الگ ہوجاؤں، تو پھر کیا فائدہ ایسی شادی کا جو زبردستی چلے!" اس نے سوں سوں کرتی سرخ ناک کے ساتھ دکھ سے کہا۔
"اچھا چلو تم پریشان نہیں ہو، ہم بات کرتے ہیں۔" انہوں نے بات سمیٹتے ہوئے پر سوچ انداز میں اس کے سر پر ہاتھ رکھا جس کے جواب میں وہ کچھ نہ بولی۔
*******************************
حسب توقع سالک صاحب نے جب فون پر رفاقت کو یہ سب بتایا تو وہ بھی ششدر رہ گئے اور انہوں نے بنا وقت برباد کیے فوراً سلیمان کے ہمراہ غضنفر کو طلب کیا جو کہ خلاف توقع باآسانی چلا آیا۔ اور اب سورج کے رخصت ہوتے ہی سب "عباس ولا" کے ڈرائینگ روم میں بےحد سنجیدہ اور مختلف تاثرات کے ساتھ موجود تھے۔
غضنفر کے چہرے پر مکمل اطمینان تھا، سالک نے بمشکل اپنا غصہ ضبط کیا ہوا تھا۔ ملیحہ خاموش سی بیٹھی تھی جبکہ سلیمان، شفاعت، دردانہ، صالحہ اور راضیہ سمیت باقی سب خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے۔
"یہ ہم کیا سن رہے ہیں غضنفر؟ تم یہ کن چکروں میں پڑ گئے ہو؟" دردانہ نے سختی سے باز پرس شروع کی۔
"کسی چکر میں نہیں پڑا ہوں دادی، بس ایک غلط فہمی تھی جو دور ہوگئی ہے اور اندازہ ہوا ہے کہ میرا ملیحہ سے شادی کا فیصلہ ٹھیک نہیں تھا۔" سنگل صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے، ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھے غضنفر نے اطمینان سے جواب دیا۔ جو سالک کو ایک آنکھ نہ بھایا۔
"شادی کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے غضنفر کے جب دل چاہا کرلی جب دل چاہا توڑ دی۔" رفاقت بھی برہم ہوئے۔
"بالکل! لیکن شادی کوئی زبردستی کا سودا بھی نہیں ہے کہ ناچاہتے ہوئے بھی دو لوگوں کو زبردستی ایک رشتے میں باندھ کر رکھا جائے۔" اس نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
"تم شاید بھول رہے ہو کہ جس شادی کو تم زبردستی کا کہہ رہے ہو یہ تمہاری ہی ضد تھی جسے پورا کرنے کیلئے تم کڈنیپنگ جیسی گری ہوئی حرکت کرنے سے بھی نہیں چوکے تھے۔" سالک نے زہر خندہ انداز میں اسے یاد دلایا۔
"مجھے یاد ہے اور میں مانتا ہوں کہ یہ میری غلطی تھی، بلکہ غلط فہمی تھی کہ مجھے ملیحہ پسند ہے، مگر شادی کے بعد احساس ہوا کہ ہم دونوں بہت الگ ہیں اور ہمارا ایک ساتھ گزارا ممکن نہیں ہے۔" اس نے تمیز کے دائرے میں رہتے ہوئے اعتراف کیا۔ انہوں نے غصے سے اسے گھورا۔
"میرے خیال میں تم دونوں کو اپنے رشتے کو تھوڑا مزید وقت دینا چاہئے، کیونکہ ابھی صرف چار مہینے ہی تو ہوئے ہیں شادی کو۔" اچانک ہی سلیمان نے مداخلت کی تو سب ان کی جانب متوجہ ہوئے جن میں حیران سا غضنفر بھی شامل تھا۔
"نہیں ماموں، ایسا کرنا صرف وقت کی بربادی ہوگی، کیونکہ زبردستی کے رشتے زیادہ دیر نہیں چلتے۔" کافی دیر سے چپ بیٹھی ملیحہ نے بھی لب کھولے۔
"لیکن بیٹا جلد بازی کے فیصلے بھی ٹھیک نہیں ہوتے ہیں۔" سلیمان نے نرمی سے قائل کرنا چاہا۔
"یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ماموں؟ جب وہ نہیں چاہتی ساتھ رہنا تو آپ اسے کیوں فورس کر رہے ہیں؟" غضنفر نے بلبلا کر دبے دبے لفظوں میں انہیں ٹوکا۔
"ٹھیک کہہ رہا ہے سلیمان، بھلا کون سے میاں بیوی میں جھگڑے نہیں ہوتے، ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ صبیحہ بھی تو عزیر سے روٹھ کر میکے چلی گئی تھی تو کیا شادی ختم کرلی انہوں نے!" دردانہ بھی تائید انداز میں مزید بولیں۔
"ان دونوں کی بات اور ہے، ہماری بات الگ ہے۔" غضنفر نے فرق واضح کرنا چاہا۔
"کوئی الگ نہیں ہے، میاں بیوی سب ایک جیسے ہوتے ہیں۔" اب شفاعت بھی بولے۔
"ملیحہ ہمارے ساتھ گھر چلے گی بس ہوگیا فیصلہ۔" سلیمان نے بات ختم کی۔
"یہ تو آپ کہہ رہے ہیں نا! اپنے بھانجے کی مرضی تو پوچھیں!" راضیہ نے طنزیہ انداز میں دھیان دلایا۔ تو سلیمان نے غضنفر کی جانب دیکھا۔
"آپ زبردستی کر رہے ہیں ماموں۔" اس نے دبا دبا احتجاج کیا۔
"ٹھیک ہے تو پھر تم ابھی اسی وقت ملیحہ کو طلاق دو۔" اچانک سالک نے کہا تو سب حیرانی سے انہیں دیکھنے لگے۔
"میں اسے طلاق کیوں دوں؟" اس نے سٹپٹا کر سوال کیا۔
"کیونکہ تم اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے نا!" انہوں نے یاد دلایا۔
"وہ تو یہ بھی نہیں چاہتی تو یہ خلع لے لے، میں طلاق نہیں دے رہا۔" اس نے نظریں چراتے ہوئے انکار کیا۔
"الگ ہونے کا فیصلہ تم دونوں کا ہے، اگر تم ملیحہ کے ساتھ رہنا چاہو اور وہ نہ رہنا چاہے تو خلع کا آپشن آتا ہے، جب کہ یہاں تو تم ہی ساتھ رہنے پر راضی نہیں ہو تو پھر خلع کے چکر میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ ابھی یہیں طلاق دو اور اس کا حق مہر ساری شرائط کے ساتھ لوٹا کر معاملہ ختم کرو۔" سالک دو ٹوک فیصلہ کرنے کے موڈ میں تھے جس کے باعث وہ بری طرح پھنس گیا تھا۔
"بیٹا یہ مسلے کا حل نہیں ہے، ہم بات چیت سے کوئی حل نکالتے ہیں نا!" دردانہ نے معاملہ فہمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مداخلت کی۔
"اب بات بچی ہی کہاں ہے اماں بی جو کوئی حل نکلے گا؟" انہوں نے بےزاری سے دھیان دلایا۔
"ٹھیک ہے کہ ہم دونوں الگ ہونا چاہتے ہیں مگر ملیحہ کی مرضی زیادہ ہے اس میں، اسے میرا دیر سے گھر آنا، غصہ کرنا، ڈانٹنا ڈپٹنا، دوستوں میں رہنا پسند نہیں ہے، ان ہی باتوں کو لے کر ہمارے بیچ جھگڑے ہوئے تو میں نے کہہ دیا کہ اگر اسے مجھ سے اتنا ہی مسلہ ہے تو الگ ہوجائے اور اگر الگ نہیں ہونا تو ساتھ رہتی رہے لیکن میں ایسا ہی ہوں اور ایسا ہی رہوں گا اسی لئے مجھ سے کوئی شکایات نہ کرے، تو اب جب اس نے مجھ سے الگ ہونے کا فیصلہ لیا تو اس میں مسلہ ہی کیا ہے؟" غضنفر نے بمشکل بات بنانے کی کوشش کی۔
"کیوں ایسے رہو گے تم؟ دماغ زیادہ خراب ہوگیا ہے؟" رفاقت نے برہمی سے ڈپٹا۔
"غضنفر! ملیحہ! تم دونوں تھوڑی دیر باہر جاؤ، ہمیں آپس میں کچھ بات کرنی ہے۔" تب ہی دردانہ نے کچھ سوچتے ہوئے دونوں کو حکم دیا۔
ان کی بات پر پہلے غضنفر جھٹکے سے اٹھ کر ڈرائینگ روم سے باہر نکلا اور پھر ملیحہ بھی متوازن انداز میں چلتی کمرے سے باہر آگئی۔ جس کے بعد دردانہ ان لوگوں سے مخاطب ہوئیں۔
*******************************
"تم بول کیوں نہیں رہی ہو سب کے سامنے کہ تمھیں میرے ساتھ نہیں رہنا۔" اپنے بیڈ روم میں آنے کے بعد اب وہ ملیحہ پر اپنی جھنجھلاہٹ نکال رہا تھا۔
"بولا تو تھا مگر کسی نے نہیں سنی میری تو اب اس میں میری کیا غلطی ہے؟" اس الزام پر وہ بھی برہم ہوئی۔ تو وہ بمشکل ضبط سے جبڑے بھینچتے ہوئے یہاں وہاں ٹہلنے لگا۔ جب کہ صوفے پر بیٹھی ملیحہ اسے دیکھنے لگی۔
"اور ویسے بھی بات کو تم نے الجھایا ہے، اگر نہیں رہنا میرے ساتھ تو ابھی تین طلاق دے کر ختم کرو یہ معاملہ، کیوں خواہ مخواہ خلع کے چکر میں الجھ رہے ہو؟" صبح سے اب تک غور و فکر کے بعد ذہن میں آنے والی بات وہ زبان پر لائی۔
"میں تمھیں طلاق نہیں دے سکتا۔" وہ اس کی جانب رخ کرکے رکا۔
"کیوں؟" ایک لفظی سوال آیا۔
"کیونکہ۔۔۔۔۔کیونکہ۔۔۔" اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ فوری طور پر کیا بولے؟ کیونکہ اسے تو وہ اصل وجہ بتا نہیں سکتا تھا کہ وہ در حقیقت شوروم بچانا چاہتا تھا۔
"بتاؤ!" اسے خاموش پا کر اس نے پھر زور دیا۔
"کیونکہ میرے طلاق دینے سے تم مشکوک ہوجاؤ گی لوگوں کی نظر میں، جب کہ خلع کی صورت تم سارے عیب میرے سر ڈال سکتی ہو۔" اس نے سابقہ جواز کے ساتھ بات بنائی۔
"جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں نا یہاں چاہے عورت کی طلاق ہو، خلع ہو یا وہ بیوہ ہوجائے، ہر صورت قصور وار عورت کو ہی سمجھا جاتا ہے اسی لئے یہ سوچ تو تم ذہن سے نکال دو، باقی میں پہلے بھی ایک طلاق کو ڈیل کرچکی ہوں تو دوسری کو بھی کرلوں گی، میں "لوگ کیا کہیں گے" کے ڈر کی وجہ سے خود اپنے ہاتھوں اپنا جینا محال نہیں کرسکتی۔" اس نے تلخی سے حقیقت کا آئینہ دیکھاتے ہوئے کہا۔
"یہ اچانک کیوں دورا پڑ گیا ہے تمھیں طلاق کا؟ ہمارے بیچ سب طے تو ہوچکا تھا نا کہ کب؟ کیا؟ کیسے کرنا ہے؟" اس نے بات کا رخ بدلتے ہوئے سوال اٹھایا۔
"کیونکہ آپ کے ساتھ رہ کر جو میری سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ختم ہو رہی تھی آپ سے دور ہونے کے بعد وہ واپس حرکت میں آگئیں ہیں جس کے بعد مجھے محسوس ہوا ہے کہ میں خواہ مخواہ جھمیلوں میں پڑ رہی ہوں۔" وہ بھی صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اٹھ کر اس کے مقابل آئی۔ اور اب دونوں ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے براہ راست آنکھوں میں دیکھ رہے تھے۔
"ٹھیک کہہ رہی ہو تم، ان چار مہنوں میں جو ملیحہ میرے ساتھ تھی آج تم وہ نہیں ہو، آج تم سالک حمدانی کی بیٹی ہو۔" وہ بغور اسے دیکھتے ہوئے طنزیہ انداز میں بولا۔
"ٹھیک کہہ رہے ہو، جو ملیحہ کل تک تمہارے ساتھ تھی وہ صرف محبت میں اندھی ہوئی پڑی تھی، آج اس کی آنکھیں کھل گئی ہیں۔" اس نے بھی تلخی سے تائید کی۔
"ہاں میں چاہتی تھی تمہارے ساتھ رہنا، بلکہ شاید اب بھی چاہتی ہوں، لیکن اب یہ چاہت صرف مجھ تک محدود ہے، میں اسے زبردستی تم پر تھوپنا نہیں چاہتی، اور اس کا آسان حل یہ ہی ہے کہ ہم اپنے راستے الگ کرلیں، کیونکہ کسی دانا کا قول ہے کہ بار بار کی تکلیف سے ایک بار کی تکلیف بہتر ہے۔" اس نے کرب سے مزید کہا۔
"ہاں تو ہوجاؤ الگ، کون روک رہا ہے تمھیں!" اس نے سہولت سے راستہ دکھایا۔
"ٹک ٹک ٹک!" دونوں بات کر ہی رہے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔
"آجاؤ!" غضنفر نے اجازت دی۔
"بھیا آپ دونوں کو دادی بلا رہی ہیں۔" زوہا نے دروازہ کھول کر پیغام پہنچایا۔
*******************************
"آج سے ٹھیک ایک ماہ بعد ہم نے عبید اور زوہا کا نکاح طے کیا ہے سادگی سے، باقی رخصتی دو سال بعد ہوگی، تو تم لوگوں کے پاس ان کے نکاح تک کا وقت ہے یعنی ایک ماہ، تب تک ایک ساتھ رہو اور اچھی طرح اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرلو، اگر اس بیچ تم دونوں کی صلح ہوجاتی ہے تو بہت اچھی بات ہے، ورنہ غضنفر تم ملیحہ کو باقاعدہ حق مہر کے ساتھ طلاق دے دو گے۔" دردانہ نے سنجیدگی سے سب کے بیچ طے پانے والا فیصلہ سنایا۔ صوفے پر بیٹھی ملیحہ خاموش رہی جب کہ اس کے مقابل بیٹھا غضنفر حیران ہوگیا۔
"کیا؟ خواہ مخواہ ایک مہینے تک کیوں کھینچ رہے ہیں آپ لوگ اس بات کو؟" اس نے حیرانی کو الفاظ دیے۔
"خواہ مخواہ نہیں ہے، کچھ سوچ سمجھ کر ہی سب بڑوں نے فیصلہ کیا ہے، جس پر تمھیں ہر صورت عمل کرنا ہوگا۔" رفاقت نے سختی سے باور کرایا۔
"ٹھیک ہے، مجھے منظور ہے۔" ملیحہ نے آہستہ سے رضا مندی دی۔ جس پر غضنفر کو بےحد غصہ آیا۔
"مگر میری ایک شرط ہے۔" وہ مزید بولی۔
"کیسی شرط بیٹا؟" دردانہ نے پوچھا۔
"اس ایک مہینے تک میں امی پاپا کے ساتھ اپنے گھر میں ہی رہوں گی۔" اس نے نظر اٹھا کر اپنا ارادہ بتایا۔ جس پر سب نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔
"لیکن بیٹا ساتھ رہو گے تب ہی تو حل نکلے گا نا!" سلیمان نے دھیان دلایا۔
"اب تک بھی ساتھ ہی تھے ماموں تب ہی تو مسلہ ہوا، اب دور رہ کر بھی دیکھ لیتے ہیں۔" اس نے مہذب انداز میں ترکی بہ ترکی کہا تو وہ لاجواب ہوگئے۔
"اس فیصلے میں ملیحہ کے ساتھ ہوں میں۔" سالک نے بھی اس کی حمایت کی۔
"ٹھیک ہے بیٹا، جیسی تمہاری مرضی۔" بلآخر دردانہ نے اس کی مان لی۔ جب کہ غضنفر بنا بنایا منصوبہ بگڑنے پر محض دل ہی دل میں بیچ و تاب کھا کر رہ گیا۔
*******************************
عباس ولا میں کافی دیر مذاکرات کے بعد اب وہ تینوں واپس گھر آگئے تھے۔ راستے بھر اور گھر آنے کے بعد بھی سالک اور راضیہ کافی دیر تک اس کی دلجوئی کرتے رہے جس کا اس نے کبھی بھرپور تو کبھی کھوئے ہوئے انداز میں جواب دیا۔
اور اب جب رات گہری ہونے لگی تو وہ دونوں اپنے کمرے کا رخ کر چکے تھے جب کہ ملیحہ اپنے کمرے کی گیلری میں رکھے لکڑی کے جھولے پر بیٹھی خالی خالی نظروں سے سیاہ آسمان کو تک رہی تھی جو اسے اپنی زندگی کے جیسا ہی لگا، خالی خالی۔
وہ چاہ کر بھی اپنا دھیان اس دشمن جاں پر سے نہیں ہٹا پا رہی تھی جس نے کبھی زبردستی اس کی زندگی میں شامل ہوکر اس سے محبت کے دعوے کیے تھے اور اب خود ہی ان کا منکر ہو بیٹھا تھا، اور وہ بھی تب، جب اسے بھی اس سے محبت ہو چکی تھی۔
مگر وہ اس کی طرح محبت میں زبردستی کی قائل نہیں تھی۔ تب ہی تو اس کی خوشی کیلئے وہ دل پر پتھر رکھ کر اس سے الگ ہونے کو تیار ہوگئی تھی۔ ورنہ وہ تو اس کی بےرخی بھی برداشت کرتے ہوئے اس کے ساتھ آرام سے گزارا کر سکتی تھی۔ لیکن وہ ایسا نہیں چاہتا تھا، اور محبت میں تو محبوب کی چاہت ہی پہلی ترجیح ہوتی ہے، پھر چاہے وہ اس سے دور ہونا ہی کیوں نا ہو۔
جو روز بدلتے ہیں معیار محبت کے
وہ ہوتے نہیں حقدار محبت کے
اب دل بھی ہمارا تو سنسان سا جنگل ہے
باقی ہیں مگر اس میں آثار محبت کے
اظہارِ محبت بھی تم نے ہی کیا تھا نا؟
تم نے ہی کیے راستے دشوار محبت کے
تم ہاتھ چھڑاؤ تو وہ ہاتھ چھڑا لیں گے
کچھ لوگ تو ہوتے ہیں خوددار محبت کے
وقار بن یونس
*******************************
"جب اچھا خاصا سب کچھ پلان کے مطابق چل رہا تھا تو آپ کو کیا ضرورت تھی بیچ میں اپنی ٹانگ اڑانے کی؟" غضنفر ضبط کے باوجود بھی خاصا برہم ہوچکا تھا۔
"میں نے کب ٹانگ اڑائی؟ باجی نے فون کرکے بلايا تھا ہمیں، اور یہ ایک مہینے کے انتظار والا فیصلہ بھی سب کا مشترکہ ہے۔" صوفے پر بیٹھے سلیمان نے اپنا دامن بچایا۔
"ہاں لیکن صبح جب ملیحہ جا رہی تھی تب تو آپ نے اسے روکا تھا نا! اور اس وقت وہاں سب کے سامنے بھی آپ نے ہی کہا تھا کہ ملیحہ ہمارے ساتھ چلے گی، وہ سب کیا تھا؟" ٹہلتے ہوئے غضنفر نے ان کے مقابل رک کر یاد دلایا۔
"صبح اس کا چہرہ بہت اداس لگ رہا تھا، اسی لئے میں نے روکا تھا اور ابھی بھی اسی لئے ایسا کہا کہ کہیں کوئی مجھ پر ہی شک نہ کرنے لگے۔" انہوں نے وضاحت کی۔
جواب میں ایک گہری سانس لے کر سر جھٹکتے ہوئے وہ پھر یہاں سے وہاں ٹہلنے لگا گویا ضبط کر رہا ہو۔
"اب شوروم تو گیا سمجھیں آپ کے ہاتھ سے، کیونکہ ایک مہینے بعد جب اسے طلاق دوں گا تو ڈیفینیٹلی حق مہر ادا کرکے شرط پوری کرنی پڑے گی۔" اس نے مستقبل کی پیشن گوئی کی۔ وہ بغور اسے دیکھتے رہے۔ گویا کچھ کہنے کیلئے الفاظ ترتیب دے رہے ہوں۔
"تو کیا طلاق دینا ضروری ہے؟ تم دونوں ساتھ نہیں رہ سکتے؟" انہوں نے سنبھل کر پوچھا تو وہ یکدم ایک جگہ رک کر انہیں یوں دیکھنے لگا جیسے ان کی دماغی حالت پر شبہ ہو۔
"ہوش میں ہیں آپ؟" اس نے حیرانی سے تائید چاہی۔
"ہاں، تب ہی تو کہہ رہا ہوں، ملیحہ اچھی لڑکی ہے، اور تمھیں پسند بھی کرتی ہے، ایک اچھی بیوی والے سارے گن ہیں اس میں، تو پھر مسلہ کیا ہے اس کے ساتھ رہنے میں؟ آخر بعد میں بھی تو کسی سے شادی کرو گے نا تم؟" انہوں نے سنجیدگی سے کچھ پہلو اجاگر کیے۔
"مسلہ یہ ہے کہ میں اس سے محبت نہیں کرتا، اور بعد میں اسی سے شادی کروں گا میں جس سے میں محبت کرتا ہوں، جس نے میری جان بچائی تھی۔" اس نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
"اور جس کے پیچھے تم پاگل ہوئے پڑے ہو اگر اسے تم سے محبت نہیں ہوئی تو؟" انہوں نے سوال اٹھایا۔
"مجھے پرواہ نہیں، بس میں اس سے محبت کرتا ہوں میرے لئے یہ ہی کافی ہے، اور میں اسے ہر قیمت پر اپنے ساتھ رکھوں گا، چاہے وہ رہنا چاہے یا نہیں۔" اس نے دو ٹوک انداز میں فیصلہ سنایا۔
"تو پھر تمہاری اطلاع کیلئے عرض ہے کہ تمھیں اس سے محبت نہیں ہے۔" وہ کہتے ہوئے اٹھ کر اس کے مقابل آئے جس پر اسے تعجب ہوا۔
"محبت وہ ہے جو ملیحہ تم سے کرتی ہے کہ تم نے ہاتھ چھڑانا چاہا اس نے چھوڑ دیا، جب کہ جو تم کر رہے ہو وہ محبت نہیں ضد ہے، اور ضد کا انجام ہمیشہ اچھا نہیں ہوتا۔" انہوں نے براہ راست اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے آئینہ دکھایا جس پر وہ لاجواب ہوگیا۔
پھر وہ بنا مزید کوئی اور بات چیت کیے تیز تیز قدم اٹھاتے کمرے سے باہر نکل گئے۔ جب کہ وہ ہنوز جوں کا توں کھڑا رہا۔
*******************************
ایک نیا سویرا پھر سے پر پھیلا زمین پر اتر چکا تھا جس کے باعث گھروں سے مختلف اقسام کے ناشتے کی خوشبوئیں اٹھنا شروع ہوگئی تھیں۔
"آپ سے ایک اجازت چاہیے پاپا۔" ڈائینگ ٹیبل کے گرد بیٹھی ملیحہ نے ناشتے سے ہاتھ روک کر تہمید باندھی۔
"جی بیٹا، بولو؟" وہ ناشتہ کرتے ہوئے ہی متوجہ ہوئے۔ جب کہ راضیہ گلاس میں جوس نکالنے لگیں۔
"میں سمیرا کی ممی کا فاؤنڈیشن ایز آ سائیکو تھراپسٹ جوائن کرنا چاہتی ہوں۔" اس نے سنبھل کر بتایا۔ انہوں نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
"اب یہ بیٹھے بیٹھائے کیا نیا شوق چڑھ گیا ہے تمھیں؟" ان کے بجائے راضیہ نے تعجب سے پوچھا۔ سالک دوبارہ ناشتے کی جانب متوجہ ہوگئے۔
"نیا نہیں ہے، آپ لوگ جانتے تو ہیں کہ مجھے سائیکالوجی میں ہمیشہ سے دلچسپی رہی ہے، اور پھر میں نے ڈپلومہ بھی تو اسی لئے کیا تھا نا! مگر شادی کی وجہ سے اس طرف سے رجحان کم ہوگیا تھا، ابھی کوئی مصروفیت نہیں ہے تو سوچا یہ ہی کرلوں۔" اس نے متوازن انداز میں وضاحت کی۔
راضیہ سالک کی جانب یوں دیکھنے لگیں گویا کہہ رہی ہوں کہ "دیکھیں اپنی بیٹی کے کام۔"
"اچھا ٹھیک ہے، کرلو جوائن۔" انہوں نے اطمینان سے اجازت دیتے ہوئے چائے کا گھونٹ لیا۔ اس کا چہرہ کھل اٹھا۔
"تھینکس!" وہ شکر گزار ہوئی۔
جب کہ راضیہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے جوس پیتے ہوئے سوچنے لگیں کہ کچھ نہیں ہوسکتا ان باپ بیٹیوں کا۔
*******************************
"میں پہلے بھی یہاں آیا تھا مگر مجھے کہا گیا تھا کہ وہ نرس حنا اپنی شادی کی چھٹی پر گئی ہوئی ہے ایک مہینے بعد آئے گی، اب تو دو مہینے ہوگئے ہیں، اسی لئے میں دوبارہ یہاں آیا ہوں مگر آپ کہہ رہی ہیں کہ وہ اب تک نہیں آئی ہیں، ایسا کیسے ہوسکتا ہے!" ریسیپشنٹس کا جواب سنتے ہی غضنفر کا پارا ہائی ہوگیا تھا۔
"سر آپ نے میری پوری بات ہی نہیں سنی، وہ نرس چھٹی پر گئی تھی مگر پھر اسی دوران اس نے یہاں سے جاب چھوڑ دی، اور اب وہ ہاسپٹل نہیں آتی، اس کی جگہ کسی اور نے جوائن کرلیا ہے۔" لڑکی نے تحمل سے سمجھانا چاہا۔
"کیا! جاب ہی چھوڑ دی!" اسے شدید دھچکا لگا۔ لڑکی نے جواباً اثبات میں سرہلایا۔
وہ لمحے بھر کو سکتے میں آگیا تھا کہ اب کیا کرے؟ کیونکہ ایک یہ نرس ہی تو واحد امید تھی جس نے غضنفر کو ہسپتال لانے والی لڑکی کو دیکھا تھا اور بتایا تھا کہ اس نے S حرف کا لاکٹ پہن رکھا تھا۔ اور اب وہ نرس بھی غائب ہوگئی تھی۔
"اچھا کیا آپ مجھے اس نرس کا پتہ بتا سکتی ہیں؟" کچھ سوچتے ہوئے اس نے اچانک کہا۔
*******************************
"کچھ دنوں پہلے تک لگ رہا تھا کہ اب سب ٹھیک ہوگیا ہے، مگر اب جیسے دوبارہ سب کچھ بکھر سا گیا ہے۔" بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھے رفاقت تاسف سے بولے۔ نزدیک ہی الماری سیٹ کرتی صالحہ ان کی باتوں کا جواب بھی دینے میں مصروف تھیں۔
"پتا نہیں غضنفر کیوں صحیح رہتے رہتے اس طرح کی ہٹ دھرمیوں پر اتر آتا ہے؟" وہ خود سے ہی گویا سوال کرنے لگے۔
"پہلے خود ہی اپنی پسند سے ضد کرکے ملیحہ سے شادی کی، اور اب خود ہی اتنی اچھی لڑکی کو چھوڑنے کی بات کر رہا ہے۔" وہ الجھے۔
"بچپن سے اب تک اس کا مزاج کبھی ایک سا نہیں رہا ہے، اور میں نے ہمیشہ غصے کو اس کے مزاج پر حاوی دیکھا ہے۔" صالحہ نے بھی کام کرتے ہوئے کہا۔
"اس کے بلاوجہ کے غصے کو لگام دینا بہت ضروری ہے صالحہ، ورنہ یہ یوں ہی اپنا اور ہمارا نقصان کرتا رہے گا۔" وہ پرسوچ انداز میں بولے۔
"ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ، لیکن یہ ہوگا کیسے؟" وہ الماری بند کرکے تائیدی انداز میں کہتی ان کی جانب پلٹیں۔
"غصہ تو کر کے دیکھ لیا ہے، اب پیار کی زبان بھی آزما لینے چاہیے ایک بار۔" انہوں نے کہتے ہوئے صالحہ کی جانب دیکھا۔
"تم اسے فون کرکے کہو کہ آج رات کا کھانا وہ یہاں آکر ہمارے ساتھ کھائے۔" انہوں نے کسی خیال کے تحت ہدایت دی تو انہوں نے جواباً اثبات میں سر ہلایا۔
*******************************
"ہاں میں نے پاپا سے بات کرلی ہے، اب تم بس آج اپنی مما سے بات کرکے مجھے کنفرم جواب دو تا کہ میں جلد از جلد جوائن کروں ورنہ پھر کہیں اور ٹرائی کروں۔" موبائل کان سے لگائے بیڈ پر بیٹھی ملیحہ نے چادر کی سلوٹ سے کھیلتے ہوئے کہا۔
"نہیں یار، تم جانتی تو ہو کہ میرا ورک ایکسیرینس زیرو ہے، کیونکہ ٹائم ہی کہاں ملا تھا پڑھائی کے بعد جاب کا؟ سیدھا شادی ہوگئی تھی۔" کسی بات کے جواب میں اس نے گویا یاد دلایا۔
"بی بی جی! بیگم صاحبہ بلا رہی ہیں آجائیں، کھانا لگ گیا ہے۔" تب ہی ملازمہ نے کمرے کے دروازے پر رک کر ادب سے اطلاع دی۔ ملیحہ نے جواباً اثبات میں سر ہلایا تو وہ واپس چلی گئی۔
"اچھا سمیرا میں ڈنر کرنے جا رہی ہوں، مگر تم یاد سے پوچھ لینا ہاں آنٹی سے۔" اس نے بات سمیٹتے ہوئے پھر تاکید کی۔
"اوکے! اللہ حافظ!" اس نے کہہ کر رابطہ منقطع کیا اور پھر موبائل سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے اٹھ کر باہر کی جانب بڑھ گئی۔
*******************************
زوہا سالن کی ڈش لے کر ڈائینگ روم میں داخل ہوئی تو اس کے پیچھے پیچھے ہاٹ پاٹ اٹھائے عبید بھی چلا آیا جسے وہ کب سے نظر انداز کر رہی تھی۔
ڈائینگ روم میں فی الحال کوئی نہیں آیا تھا۔ زوہا ڈش ٹیبل پر رکھ کر جانے کیلئے پلٹی تو عبید نے ہاٹ پاٹ ٹیبل پر رکھنے کے بعد اس کا راستہ روک لیا۔
"ہٹو سامنے سے۔" اس نے سنجیدگی سے کہا۔
"پہلے میرے سوال کا جواب دو، تم خوش نہیں ہو کیا ہمارے رشتے سے؟" اس نے سوال دہرایا۔
"کس نے کہا یہ تم سے؟" اس نے الٹا سوال کیا۔
"تمہاری اتری ہوئی شکل نے۔" اس نے انگلی سے چہرے کی جانب اشارہ کیا۔
"میری شکل ہمیشہ سے ہی ایسی ہے۔" اس نے بےنیازی سے اطلاع دی۔
"اچھا! مگر زبان تو کبھی اتنی شانت نہیں رہی جتنی آج کل ہوئی ہے، بہت دن ہوگئے تم نے مجھ سے کوئی لڑائی جھگڑا نہیں کیا، اسی لئے مجھے لگا شاید تم مجھ سے ناراض ہو!" اس نے ترکی بہ ترکی کہتے ہوئے وضاحت کی۔
"ممی نے کہا تھا کہ تم سے کم الجھا کروں، مگر لگتا ہے کہ تمھیں عزت راس نہیں آرہی ہے۔" اس نے طنزیہ انداز میں کہا۔
"ایگزیکلی! مجھے وہ پرانی والی، لڑتی جھگڑتی زوہا واپس چاہیے۔" وہ بھی اطمینان سے بولا۔ وہ اسے گھورنے لگی۔
"اگر عشق لڑانے سے فرصت مل گئی ہو تو کھانا لگا لو، سب یہیں آرہے ہیں۔" تب ہی غضنفر سنجیدگی سے کہتا ٹیبل کی جانب آیا جس پر دونوں سٹپٹا گئے۔
زوہا تو برق رفتاری دیکھاتے ہوئے جھینپ مٹانے کیلئے فوراً وہاں سے نکل گئی۔ مگر غضنفر کی سنجیدہ نظروں کے حصار میں ہونے کے باعث عبید اپنی جگہ پر ساکت ہوگیا تھا۔ بھلے ہی وہ سب آپس میں کزنز تھے مگر ایک بھائی کے سامنے اس کی بہن سے یوں باتیں کرتے ہوئے پکڑے جانا کوئی ہلکی بات نہیں تھی۔
غضنفر کرسی کھینچ کر بیٹھ چکا تھا جب کہ عبید ابھی تک یوں ہی کھڑا تھا۔ تب ہی باقی سب بھی ایک دوسرے کے پیچھے ڈائینگ روم میں داخل ہوئے تو اس کی سانس بحال ہوئی۔
*******************************
"شوروم کیسا چل رہا ہے سلیمان کا؟" رفاقت صاحب نے ہلکے پھلکے انداز میں دریافت کیا۔
"ٹھیک!" مختصر جواب ملا۔
غضنفر اس وقت رفاقت کے کہنے پر کھانے کے بعد ان کے کمرے میں موجود تھا۔ رفاقت لان کی جانب کھلنے والی کھڑکی کے نزدیک کھڑے تھے جب کہ غضنفر دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں پیوست کیے ایک ڈبل صوفے پر بیٹھا تھا۔
"تو پھر ہمارا بزنس کب تک جوائن کرنے کا ارادہ ہے تمہارا؟" وہ پوچھتے ہوئے اس کی جانب آئے۔
"فی الحال تو نہیں ہے، جب ہوگا تب بتا دوں گا۔" سنجیدہ سا جواب ملا۔
وہ فوری طور پر کچھ نہ بولے اور اثبات میں سر ہلاتے ہوئے آہستہ سے چل کر آکے اس کے برابر میں ہی بیٹھ گئے۔
"ابھی تک ناراض ہو ہم سے غازی؟" انہوں نے نرمی سے استفسار کیا۔
"اگر ناراض ہوتا تو آپ کے بلانے پر آتا نہیں۔" اس نے گھما کر جواب دیا۔
"لیکن اگر ناراض نہیں ہوتے تو بنا بلائے ہی چلے آتے، ہمیں کہنا نہیں پڑتا۔" وہ بھی اس کے باپ تھے۔ جواباً وہ لاجواب ہوکر خاموش ہوگیا۔
"چلو چھوڑو یہ باتیں، یہ بتاؤ ملیحہ نے جب بھی تم سے بدتمیزی کی تو کیا تم نے جواباً اس پر ہاتھ اٹھایا کبھی؟" انہوں نے اچانک ہی موضوع بدلتے ہوئے غیر متوقع سوال اٹھایا۔
"ملیحہ نے مجھ سے کبھی بدتمیزی نہیں کی۔" اس نے تعجب خیز انداز میں نفی کی۔
"اچھا! تو کبھی تمہاری کوئی بات ماننے سے انکار کیا؟" انہوں نے اگلا سوال کیا۔
"نہیں!" پھر انکار ہوا۔
"اچھا تو پھر اپنی تعلیم کا یا اپنے باپ کی دولت کا رعب جھاڑتی ہوگی تم پر!" انہوں نے خود ہی اندازہ لگایا۔
"نہیں! اس نے کبھی ایسا کچھ نہیں کیا، وہ بہت اچھی لڑکی ہے۔" وہ بےساختہ اس کا دفاع کرنے لگا۔
"اچھا! تو پھر تم اس سے الگ کیوں ہونا چاہئے ہو؟" انہوں نے دلچسپی سے پوچھا تو وہ لمحے بھر کو لاجواب ہوگیا۔ جب کہ وہ بغور اس کے پر سوچ تاثرات پڑھنے کی کوشش کرنے لگے۔
"میں نہیں وہ مجھ سے الگ ہونا چاہتی ہے۔" اس نے نظریں چراتے ہوئے بات بنائی۔
"کیوں الگ ہونا چاہتی؟" وہ انجان بنے۔
"بتایا تو تھا کہ اسے میری کچھ عادتیں پسند نہیں ہیں، بس ان ہی کو لے کر لڑتی ہے کہ میں انہیں بدلوں جو کہ میں نہیں بدل سکتا۔" اس نے بوکھلاہٹ چھپاتے ہوئے وہ ہی جواب دہرایا جو وہ اب تک سب کو دیتا آیا تھا۔
"لیکن ابھی تو تم نے کہا کہ وہ بہت اچھی ہے اور تم سے کبھی نہیں لڑی؟" انہوں نے یاد دلایا تو وہ اندر ہی اندر سٹپٹا گیا۔
"نہیں مطلب۔۔۔۔کبھی کبھی لڑتی ہے۔" اس نے بات سنبھالنی چاہی۔
"تو بیٹا جن باتوں پر یہ کبھی کبھی کی لڑائی ہوتی ہے انہیں ختم کرلو نا اپنے اندر سے، تا کہ زندگی ہمیشہ سکون سے گزرے۔" انہوں نے لوہا گرم دیکھ کر نرمی سے چوٹ ماری۔
"میں کیوں ختم کروں؟" اس نے بچنے کیلئے سوال کیا۔
"کیونکہ اس میں تمہارا ہی فائدہ ہے۔" انہوں ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ وہ لب بھینچ کر رہ گیا۔
"پتا ہے اماں بی اکثر ایک بات کہا کرتی ہیں کہ جب کشتی میں سوراخ ہوجائے اور سمندر کا پانی اندر آنے لگے تو وہ پانی باہر نکالنے کیلئے اس میں دوسرا سوراخ نہیں کرتے، بلکہ پہلے سوراخ کو بند کرتے ہیں، تمہارے رشتے کی کشتی میں بھی اختلاف کا سوراخ ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے بدگمانیوں کا پانی اس میں بھر رہا ہے، اسی لئے اب تم بھی کشتی میں اپنی ضد کا دوسرا سوراخ نہ کرو بلکہ سمجھداری کے تختے سے اس سوراخ کو بند کرنے کی کوشش کرو، ورنہ تمہارے رشتے کی کشتی ڈوب جائے گی بیٹا۔" انہوں نے رسان سے اسے سمجھانا چاہا۔ جسے وہ خاموشی سے سنتا رہا۔ کیونکہ اور وہ کر بھی کیا سکتا تھا؟
*******************************
کافی دیر عباس ولا میں رکنے کے بعد اب قریب رات کے ساڑھے گیارہ بجے غضنفر واپس گھر لوٹا تھا۔ سلیمان کو کیونکہ اس نے پہلے ہی اپنے دیر سے آنے کی اطلاع دے دی تھی اسی لئے وہ رنگیلا کے ہمراہ کھانا کھا کر شاید سو چکے تھے تب ہی گھر میں مدھم روشنی کے سنگ سناٹا بھی پھیلا ہوا تھا۔
وہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آنے کے بعد جیسے ہی اپنے کمرے میں داخل ہوا تو سامنے موجود خالی صوفے پر نظر پڑتے ہی اسے ملیحہ کی یاد آئی جو اکثر اس پر بیٹھی اسی کی منتظر ہوتی تھی۔
"کہاں رہ گئے تھے اتنی دیر سے؟ چلو جلدی سے فریش ہوجاؤ میں کھانا گرم کرکے لاتی ہوں۔" اس کا حسب معمول والا جملہ بھی اس کے کانوں میں گونجا۔
وہ دروازہ بند کرکے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا آگے آیا۔ اس نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی کھول کر ڈریسنگ ٹیبل پر رکھی تو معمول کی نسبت وہ بھی اسے خالی خالی لگی۔ کیونکہ اب اس پر ملیحہ کی چوڑیوں کا باکس، اس کا پرفیوم اور دوسری چند کریمز نہیں تھیں۔ صرف غضنفر کا پرفیوم اور ہیئر برش رکھا تھا۔ بےدھیانی میں ٹیبل پر ہاتھ پھیرنے کے بعد وہ چینج کرنے کیلئے باتھ روم میں چلا گیا۔
چینج کرکے آنے کے بعد اس نے کمرے کی لائٹس بند کیں اور کمبل اوڑھ کر بستر پر لیٹ گیا۔ کچھ دیر آنکھیں بند کرکے پرسکون ہونے کے بعد جب اس نے آنکھیں کھول کر غیر ارادی طور پر بائیں جانب دیکھا تو خالی جگہ دیکھ کر پھر سے وہ یاد آنے لگی۔
"سنو!"
"ہممم؟"
"کیا تم یہاں آسکتے ہو اور میں تمہاری جگہ پر آجاؤں؟"
"کیوں؟"
"کیونکہ مجھے تمہاری لیفٹ سائیڈ پر سونا ہے۔"
"بیڈ کے دونوں کنارے سیم ہی تو ہیں، کیا فرق پڑتا ہے کہ لیفٹ پر سو یا رائٹ پر!"
"پڑتا ہے نا، پلیز تم یہاں آجاؤ۔"
"تھینکس! تم بہت اچھے ہو۔"
شادی کے اگلے ہی روز قدرے معصومیت کے ساتھ ملیحہ نے اس سے یہ عجیب فرمائش کی تھی۔ جسے اس نے بےزاری سے مان تو لیا تھا مگر اس کی وجہ اب تک سمجھ نہیں پایا تھا۔
یکدم کسی خیال کے آتے ہی اس نے سائیڈ ٹیبل پر سے اپنا موبائل اٹھایا اور کوئی نمبر ڈائل کرتے کرتے رک گیا۔
"کیا اسے فون کرسکتا ہوں میں؟" اس کے دماغ نے خود سے سوال کیا۔
"ہاں کرسکتا ہوں، ہم باہمی رضامندی سے ہی تو الگ ہوئے ہیں، کوئی ایک دوسرے کے جانی دشمن تھوڑی ہوئے ہیں جو بات بھی نہ کرسکیں!" اس کے دل نے جواب تراشا تو اس نے مطمئن ہوکر نمبر ڈائل کر دیا۔
*******************************
ملیحہ اس وقت کمرے کی لائٹس آف کیے، بائیں کروٹ پر لیٹی اپنے موبائل پر موجود اپنی اور غضنفر کی شادی کی تصاویر دیکھ رہی تھی کہ تب ہی اسکرین پر غضنفر کی کال موصول ہوئی جس پر پہلے اسے یقین نہیں آیا اور پھر اگلے ہی پل اس نے جھٹ سے کال ریسیو کرکے موبائل کان سے لگایا۔
"ملیحہ!" اس کی مخصوص گھمبیر آواز میں اپنا نام سن کر اس کی دھڑکن بےترتیب ہوئی۔
"ہممم!" وہ بمشکل کہہ پائی۔
"ڈسٹرب تو نہیں کیا؟" اس نے پہلے تصدیق چاہی۔
"نہیں، بولو!" اس نے انداز نارمل ہی رکھا۔
"تم سے ایک بات پوچھنی تھی۔" اس نے تہمید باندھی۔
"پوچھو!"
"شادی کی دوسری رات سے جب تک ہم ساتھ رہے تب تک تم ہمیشہ میری لیفٹ سائیڈ پر سوئی ہو، ایسا کیوں؟" اس نے سنبھل کر استفسار کیا۔ وہ بےساختہ مسکرا دی۔
"اچانک یہ خیال کیوں آیا؟ کیا بیڈ کی خالی لیفٹ سائیڈ دیکھ کر میری یاد آرہی ہے؟" اس نے پھیکےپن سے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ وہ لاجواب ہوگیا۔ کیونکہ وہ درست تھی۔ مگر یہ بات وہ اس پر عیاں نہیں کرنا چاہتا تھا۔
"نہیں، بس ایسے ہی خیال آگیا تھا، خیر تم سوجاؤ، ڈسٹرب کرنے کیلئے سوری۔" اس نے سنجیدگی سے کہتے ہوئے رابطہ منقطع کردیا۔ وہ دور ہوکر بھی نظریں چرا گیا تھا۔ مطلب وہ درست ثابت ہوئی تھی۔
*******************************
"کیا ضرورت تھی اسے فون کرنے کی؟" غضنفر نے موبائل سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر بڑبڑاتے ہوئے خود کو کوسا اور پھر سونے کی نیت سے آنکھیں بند کرلیں۔ جب کہ اندر ہی اندر اس کی اپنی کیفیت اس کی سمجھ سے بالا تر تھی۔
ابھی چند لمحے ہی گزرے تھے کہ موبائل پر پیغام موصول ہونے کی مخصوص ٹون بجی۔ اس نے دوبارہ آنکھیں کھولتے ہوئے موبائل اٹھا کر چیک کیا تو ملیحہ کا میسج ملا جسے اس نے فوری طور پر اوپن کیا۔
"ہر انسان کا دل لیفٹ سائیڈ پر ہوتا ہے، اور میں بھی ہمیشہ تمہارے دل کے قریب رہنا چاہتی تھی اسی لئے لیفٹ سائیڈ پر سوتی تھی، مگر مجھے اندازہ نہیں تھا کہ دل کے قریب سونے میں اور دل کے اندر ہونے میں فرق ہوتا ہے، میں ان لوگوں میں سے ہوں جن کیلئے کسی نے یہ شعر کہا تھا کہ
"بڑے بدنصیب تھے ہم جو قرار تک نہ پہنچے"
"درِ یار تک تو پہنچے، دلِ یار تک نہ پہنچے"
اس نے تلخ سے انداز میں وضاحتی جواب دیا تھا۔ جسے پڑھ کر بےساختہ اس کا دل بھی بوجھل ہوگیا۔ چند لمحے یوں ہی موبائل پکڑے رہنے کے بعد اس نے موبائل بند کرکے واپس رکھا اور کروٹ لے کر سونے کی کوشش کرنے لگا۔ مگر اتنی آسانی سے کامیاب نہ ہو پایا۔
پہلے خواب بھی آتے تھے مجھے
اب نیند بھی آجائے تو غنیمت ہے
انتخاب
*******************************
ایک نیا دن، پرانے نظام کے ساتھ پھر نکل آیا تھا۔ آج غضنفر معمول کی نسبت دیر سے اٹھا تھا جو کہ رات دیر سے سونے کا نتیجہ تھا۔ اسی لئے وہ آج شوروم بھی نہیں گیا تھا اور سلیمان اکیلے ہی روانہ ہوگئے تھے۔
فریش ہونے کے بعد وہ یوں ہی سست روی سے اپنے جم میں آگیا جہاں کبھی وہ دیوار پر بنے حرف S سے گھنٹوں باتیں کیا کرتا تھا آج اس حرف تک جانے سے قبل پنچنگ بیگ پر نظر پڑتے ہی اسے پھر ملیحہ کی یاد نے گھیر لیا۔
وہ بےاختیار ہی اس کی طرف چلا آیا اور اس پر دھیرے دھیرے ہاتھ پھیرنے لگا۔ ذہن میں اس روز کا منظر ابھرا جب ملیحہ نے باکسنگ سیکھنے کی ضد کی تھی۔
"چلو اب ایک ایکٹ کرکے دیکھتے ہیں، میں تم پر اٹیک کروں گا اور تمھیں بچنا ہے، ٹھیک ہے؟"
"ٹھیک ہے۔"
اور پھر غضنفر اس کی پشت کی طرف آیا تھا۔ اس نے قریب آکر اسے پیچھے سے پکڑا جس کے جواب میں اس نے فوراً کہنی اس کے پیٹ پر ماری اور پلٹ کا ایک مکا منہ پر رسید کردیا تھا۔ جس سے وہ بلبلا اٹھا تھا۔
"سچ میں مارنے کیلئے تھوڑی کہا تھا پاگل عورت!"
"سوری سوری! زیادہ زور سے لگ گئی! مجھے نہیں پتا تھا کہ اتنی زور سے لگ جائے گی۔" اس نے شرمندگی سے کہتے ہوئے اس کی ناک سہلائی تھی۔
یہ سب یاد کرتے ہوئے بےساختہ ایک دلکش سی مسکان نے اس کے لبوں کو چھوا۔
"اچھا اگر کبھی کسی نے اچانک تم پر اٹیک کردیا تو خود کو کیسے بچاؤ گی؟"
"تم ہو نا مجھے بچانے کیلئے۔"
"میں ہمیشہ نہیں رہوں گا، بلکہ ضروری نہیں ہے کہ آج جتنے بھی لوگ تمہاری حفاظت کو موجود ہیں وہ ہمیشہ رہیں، اسی لئے اکیلے سرواؤ کرنے کا حوصلہ ہونا چاہئے انسان میں۔"
"اللہ نہ کرے کہ تمھیں یا پاپا کو کبھی کچھ ہو۔" وہ سہمے ہوئے انداز میں کہتی اس کے گلے لگ گئی تھی۔ جب کہ اس کی تیزی سے چلتی دهڑکن غضنفر نے اپنے سینے پر واضح محسوس کی تھی جو اسے ابھی تک یاد تھی۔
اس کا خوف یاد آتے ہی اس کی مسکراہٹ سمٹ کر غائب ہوئی تھی۔ اور وہ بےساختہ چند الٹے قدم پیچھے ہٹتے ہوئے تیزی کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گیا۔
ملیحہ کی یادوں نے اسے کچھ اس طرح گھیرا تھا کہ آج اسے اپنے پسندیدہ حرف سے بات چیت کرنے کا بھی دھیان نہ رہا۔
بھول جانا اسے مشکل تو نہیں، لیکن
کام آسان بھی ہم سے کہاں ہوتا ہے
فاخرہ بتول
*******************************
"بس! اتنی سی بات تھی اور تم خواہ مخواہ اتنی ٹینشن لے رہی تھی۔" سمیرا نے آفس روم سے باہر آتے ہوئے اطمینان سے کہا۔
"بس یار تھوڑی جھجھک تھی کہ پتا نہیں تمہاری مما کو میرا فاؤنڈیشن جوائن کرنا کیسا لگے؟" ساتھ چلتی ملیحہ نے خدشہ ظاہر کیا۔ دونوں کاریڈور میں لگی کرسیوں میں سے دو پر آکے بیٹھ گئیں۔
"مگر انہیں اتنا اچھا لگا کہ اگلے ہفتے سے ہی بلا رہی ہیں وہ تمھیں۔" اس نے مسکراتے ہوئے دھیان دلایا تو وہ بھی ہنس دی۔
"آنٹی بہت اچھی ہیں۔" اس نے بےساختہ تعریف کی۔
"بالکل میری طرح نا!" سمیرا نے شرارت سے تائید چاہی۔
"جی نہیں۔" اس نے خوش فہمی دور کی۔
"تم میرے بارے میں یہ رائے رکھتی ہو اس کا اندازہ تو مجھے تب ہی ہوگیا تھا جب نہ تو تم نے مجھے اپنی شادی پر بلایا اور نہ اپنے ہسبنڈ سے ملوایا۔" اس نے مصنوعی شکوہ کیا۔
"بیٹا جی آپ بھول رہی ہیں کہ جب میری شادی ہوئی تھی تب آپ اپنے کزنز کے ساتھ سیر سپاٹوں کیلئے نکلی ہوئی تھیں۔" اس نے بھی طنزیہ انداز میں یاد دلایا۔
"چلو تب نہ سہی مگر بعد میں تو اپنے ہسبنڈ سے ملوا سکتی تھی نا! آفٹر آل تمہاری کالج کی اکلوتی فرینڈ ہو میں، مگر تم سے یہ بھی نہ ہوا، اور اب تو ویسے ہی تم دونوں الگ ہوگئے ہو۔" وہ بھی ہار ماننے والی نہیں تھی۔
"چھوڑو یار، اچھا ہی ہے تم نہیں ملی ان سے۔" ملیحہ نے تاسف سے کہتے ہوئے نظریں جھکائیں تو سمیرا کو محسوس ہوا کہ اسے یہ بات نہیں کرنی چاہئے تھی۔
"دیکھو ملیحہ! مجھے نہیں پتا کہ تمہارے ذاتی معاملات کیا ہیں؟ لیکن اگر کبھی چاہو تو مجھ سے کہہ کر دل کا بوجھ ہلکا کرلینا، میں کسی کو نہیں بتاؤں گی۔" سمیرا نے گود میں دھرے ملیحہ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے آخری جملہ شرارت بھری رازداری سے کہا تا کہ تناؤ تھوڑا کم ہوسکے۔
"جو حکم سرکار!" وہ بھی مسکرا کر بولی۔
*******************************
"میرے پاس ایک ہی ذریعہ تھا اس لڑکی کو ڈھونڈنے کا جو کہ وہ نرس تھی جس نے اسے دیکھا تھا، میں نے سوچا تھا کہ اس سے مل کر میں مس ایس کا اسکیچ بنوا لوں گا، مگر پہلے تو وہ ہاسپٹل میں ملی نہیں، انہوں نے کہا کہ وہ شادی کی چھٹی پر گئی ہوئی ہے اور اب پتا چلا کہ اس نے ہاسپٹل ہی چھوڑ دیا ہے، اور سونے پر سہاگہ اس کا پتہ بھی نہیں ہے ان لوگوں کے پاس، یا ہے بھی تو لیکن دینا نہیں چاہ رہے، اب میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ میں کیا کروں؟" غضنفر جلے پاؤں کی بلی کی طرح شوروم کے آفس میں یہاں سے وہاں تلملایا ہوا ٹہل رہا تھا۔ جب کہ سنگل کرسی پر بیٹھے سلیمان اس کی طرف سے لاپرواہ ہوئے کسی فائل کے مطالعے میں مصروف تھے۔
"ایک کام کرو غضنفر!" انہوں نے کہتے ہوئے پر سوچ انداز میں فائل بند کی۔
"کیا؟" وہ ٹیبل کی جانب آکر کرسی کی پشت پر ہاتھ رکھ کے کھڑا ہوا۔
"یہ فائل جاتے ہوئے آفریدی کو دیتے ہوئے جانا، ابھی شام کے پانچ بجے ہیں وہ اپنے آفس میں ہی ہوگا، اس میں کچھ نئے ماڈلز کی ڈیٹیلز ہیں۔" انہوں نے توقع کے برعکس بات کرتے ہوئے وہ فائل اس کی جانب بڑھائی۔
"اففو ماموں! مجھے لگا کہ آپ اسے ڈھونڈنے کیلئے کوئی آئیڈیا بتانے لگے ہیں۔" اس نے کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے خفگی سے شکوہ کیا۔
"میرے پاس اتنا فالتو دماغ اور وقت نہیں ہے۔" انہوں نے صاف کہتے ہوئے فائل میز پر رکھ دی جسے غضنفر نے نہیں تھاما تھا۔
"پھر بھی کوئی آئیڈیا تو دے دیں کہ کیا کروں میں؟" اس نے ایک آس سے منت کی۔
"اسے بھول جاؤ۔" انہوں نے لیپ ٹاپ کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے سپاٹ مشورہ دیا۔
"یہ نہیں ہوسکتا۔" وہ نروٹھے پن سے انکاری ہوا۔
"ہاں تو پھر میرا دماغ خراب نہ کرو، خود جا کے ڈھونڈو اسے، اور جاتے ہوئے فاروق کو بھیجتے ہوئے جانا، اسی کے ہاتھوں یہ فائل بھجوا دوں گا۔" انہوں نے مصروف انداز میں بات ختم کی۔
وہ کچھ دیر کھڑا پر شکوہ نگاہوں سے انہیں گھورتا رہا۔ انہوں نے کوئی رد عمل نہیں دیا۔ اور پھر وہ بڑبڑاتا ہوا روم سے باہر نکل گیا۔ جس پر ایک نظر ڈال کر وہ دوبارہ کام میں مشغول ہوگئے۔
*******************************
صبیحہ اور عزیر کا شام میں شاپنگ پر جانے کا موڈ بن گیا تھا جس کے باعث عزیر صبیحہ کو ہسپتال سے پک اپ کرتے ہوئے شاپنگ پر لے گیا تھا۔ اب دونوں واپس گھر لوٹے تھے اور اس وقت ہال میں، صالحہ، دردانہ اور زوہا کے ہمراہ بیٹھے سب کو ان کیلئے لائی گئی چیزیں دے رہے تھے۔
"اور یہ تمہارے لئے ہے زوہا!" عزیر نے پیلے رنگ کا پیک شدہ سوٹ اس کی جانب بڑھایا۔
"میرے لئے!" اس نے کہتے ہوئے سوٹ تھاما۔
"لیکن پیلا رنگ تو مجھے پسند ہی نہیں ہے۔" اس نے مسکینیت بھرے نروٹھے پن سے کہا۔
"تم نے پیلے رنگ سے پوچھا کہ اس کی تمہارے بارے میں کیا رائے ہے؟" تب ہی عبید بھی کہتا ہوا اسی طرف آکے ایک صوفے پر بیٹھا۔
"ارے تو تم ان دونوں میں سے کوئی لے لو، اسے چھوڑ دو، وہ میں پہن لوں گی۔" صبیحہ نے سہولت سے کہتے ہوئے دو مختلف رنگوں کے سوٹ اس کی طرف بڑھائے۔
"لیکن یہ تو آپ کے ہیں نا بھابھی!" وہ جھجکی۔
"ارے نہیں، نام تھوڑی لکھا ہے کہ فلاں اس کا ہے اور فلاں اس کا، میں نے تو یہ سوچ کر لیا تھا کہ جس کو جو پسند آئے گا وہ اس کا۔" اس نے پیکٹ ٹیبل پر رکھتے ہوئے متوازن انداز میں وضاحت کی۔
"اچھا! تو پھر میں یہ والا لے رہی ہوں۔" اس نے خوشی سے کہتے ہوئے ہلکے آسمانی رنگ کا سوٹ اٹھا لیا تو جواباً صبیحہ بھی مسکرائی۔
"بیٹا کیا ضرورت تھی یوں سب کیلئے لے کر آنے کی؟ تم دونوں اپنے لئے شاپنگ کر لیتے بس۔" صالحہ نے نرمی سے کہا۔
"اپنے لئے بھی لائے ہیں اور اپنوں کیلئے بھی۔" عزیر نے مسکراتے ہوئے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
"دادی آپ کو شال اچھی لگی؟" صبیحہ نے جاننا چاہا۔
"ہاں ہاں بہت پیاری ہے۔" انہوں نے اپنی گود میں دھری سرمئی شال پر ہاتھ پھیرتے ہوئے تعریف کی۔
"اور میرے لئے کیا لائے؟" عبید کو بھی اشتیاق ہوا۔
"کچھ بھی نہیں۔" عزیر نے صاف انکار کیا۔ وہ اسے خفگی سے گھورنے لگا۔
"تمہارے لئے یہ شرٹ لی ہے، دیکھو۔" صبیحہ نے بیگ میں سے ایک چیک والی پیک شرٹ نکال کر اسے دی۔ جسے تھام کر وہ دیکھنے لگا۔
"اتنی ڈھنگ کی پسند بھائی کی تو نہیں ہوسکتی۔" اس نے ستائشی انداز میں شرٹ کو دیکھتے ہوئے طنز مارا۔
"یہ شرٹ جس کی پسند ہے وہ بھی میری ہی پسند ہے آپ شاید بھول گئے ہیں۔" اس نے بھی یکدم شارٹ مارا۔ جس پر وہ لاجواب ہوگیا۔
"کھانا تیار ہے؟ لگا لوں کیا؟" تب ہی شاہانہ نے وہاں آکر آہستہ سے پوچھا تو سب ان کی جانب متوجہ ہوئے۔ اب ان کا وہ رعب، غرور، اکڑ سب جیسے کہیں کھو سا گیا تھا۔ اور باقی تھی تو بس ندامت جو نظریں جھکائے رکھنے پر مجبور کرتی تھی۔
"ہاں لگا لو۔" دردانہ کی جانب سے عندیہ ملتے ہی وہ سر ہلاکر جانے لگئی لگیں۔
"ممی!" عزیر نے پکارا۔
وہ رک کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگیں۔ کیونکہ اب انہیں بہت کم مخاطب کیا جاتا تھا۔
"یہ آپ کیلئے لائے ہیں ہم۔" اس نے ایک پیک ہوا سوٹ ان کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا تو شاہانہ کو یقین نہ آیا۔ باقی سب نے کوئی خاص رد عمل نہیں دیا۔
"لیجئے!" انہیں جوں کا توں کھڑا دیکھ کر اس نے دھیان دلایا۔ تو انہوں نے آہستہ سے آگے آکر سوٹ تھاما۔
"شکریہ بیٹا!" وہ دھیرے سے بولیں۔ جواباً وہ بھی مسکرا دیا۔
کیونکہ انہوں نے جو کیا وہ ان کا اپنا فعل تھا۔ اب اپنی ماں کی بےادبی کرکے وہ کم از کم اپنا نامہ اعمال خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔
*******************************
"فاؤنڈیشن میں زیادہ تر وہ عورتیں ہیں جن کی اولادوں نے انہیں یہاں چھوڑ دیا ہے یا پھر بیوگی اور طلاق کے بعد کوئی رشتے دار نہ ہونے کی وجہ سے کئی عورتیں اور لڑکیاں وہاں رہ رہی ہیں، تو بس یوں سمجھ لو کہ اپنی باتوں سے انہیں امید کے کچھ جگنو تھمانے ہیں، یہ سمجھانا ہے کہ وہ ہمت نہ ہاریں، بلکہ اپنے لئے جینا سیکھیں، روزانہ ایک گھنٹے کا سیشن ہوگا یہ، جس کا ایک ہفتے بعد پہلا دن ہے، مطلب اگلے ہفتے جوائن کروں گی میں۔" موبائل کان سے لگائے گیلری میں کھڑی ملیحہ نے تفصیل سمجھائی۔
"گڈ! باتیں بنانے میں تو تم ویسے بھی ماہر ہو تو کر لو گی آرام سے یہ کام۔" صبیحہ نے ایک ہاتھ سے بیڈ شیٹ ٹھیک کرتے ہوئے کہا۔
"ہاں، اور طلاق کا تجربہ بھی ہے۔" ملیحہ نے تلخی سے مسکراتے ہوئے مزید بات جوڑی۔ تو وہ کچھ نہ کہہ سکی۔
"بات ہوئی کیا تمہاری غضنفر سے اب تک کوئی؟" صبیحہ نے جاننا چاہا۔
"ہونا نہ ہونا ایک ہی بات ہے۔" اس نے گول مول جواب دیا۔
"خیر! تم بتاؤ وہاں سب خیریت ہے؟ پاپا کی طبیعت کیسی ہے اب؟" ملیحہ نے خود ہی موضوع بدل دیا۔
"ہاں الحمدللہ اب تو بالکل ٹھیک ہیں رفاقت انکل، بلکہ کل سے وہ دوبارہ آفس بھی جوائن کر رہے ہیں، اب تک تو ریسٹ پر تھے۔" اس نے بیڈ پر بیٹھ کر تکیے درست کرتے ہوئے جواب دیا۔
"ایک کپ کافی تو پلا دو جانم۔" تب ہی عزیر اپنی دھن میں فرمائش کرتا چینج کرکے باتھ روم سے باہر آیا۔ جس کی آواز ملیحہ نے بھی سنی۔ جب کہ صبیحہ نے اسے آنکھوں سے ٹوکا۔
"چلو صبیحہ، اب میں بھی سونے لگی ہوں، پھر بات ہوگی۔" اس نے خود ہی بات سمیٹی۔
"ٹھیک ہے، اللہ حافظ!" اس نے بھی کہہ کر رابطہ منقطع کردیا۔
صبیحہ کیلئے عزیر کی وارفتگی اس سے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ اور یہ سب دیکھ کر اسے صبیحہ پر بےحد رشک آتا تھا۔
ایک وقت پر اس کی بھی خواہش ہوا کرتی تھی کہ کوئی اس سے بھی یوں والہانہ پن جتائے۔ مگر افسوس کہ ایسا ہو نہیں پایا تھا۔ اور جو نہیں ہوا اس کے بارے میں سوچ کر اداس ہونے کے بجائے وہ دل ہی دل میں دونوں کی خوشیوں کی دعا مانگتی اپنے کمرے میں چلی گئی۔
*******************************
غضنفر دن بھر کا تھکا ہارا اب گھر لوٹا تھا اور اسے بھوک کے ساتھ ساتھ اس وقت چائے کی بھی شدید طلب ہو رہی تھی۔ گھر میں داخل ہوتے ہی اسے حسب معمول سب جگہ مدھم روشنی ملی، مطلب رنگیلا اور سلیمان ماموں سو چکے تھے۔
وہ بجائے اوپر اپنے کمرے میں جانے کے تھکن زدہ سا وہیں صوفے پر گرنے کے سے انداز میں بیٹھا اور سر پشت سے ٹکانے کے بعد انگلیوں سے اپنی پیشانی مسلنے لگا جو کہ درد کم کرنے کی ادنی سی کوشش تھی۔
اس کا شدت سے دل چاہ رہا تھا کہ کاش ملیحہ کہیں سے آکر اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے ہمیشہ کی طرح اس کا درد دور کردے، مگر اب ایسا ممکن نہیں تھا، اور اس بات کو ناممکن بھی اس نے خود بنایا تھا۔
"رنگیلا!" جب برداشت نہ ہوا تو اس اسی انداز میں پکارا۔
"رنگیلا!" آواز قدرے بلند ہوئی۔ مگر جواب نہ آیا جس کے باعث اسے شدید کوفت ہونے لگی۔
"کیوں گلا پھاڑ رہے ہو؟" خلاف توقع سلیمان کہتے ہوئے اس کی طرف آئے۔ جو کہ اپنے کمرے میں جاگ ہی رہے تھے اور اس کی آواز سن چکے تھے۔
"ماموں سر میں بہت درد ہو رہا ہے اور بھوک بھی لگ رہی ہے، رنگیلا سے کہیں کھانا دے کر چائے بنا دے اسٹرونگ سی۔" اس نے تھکے ہوئے انداز میں فرمائش کی۔
"وہ سو گیا ہے اپنے کواٹر میں جا کر، فریج میں کھانا رکھا ہے گرم کرکے کھا لو اور چائے بھی خود بنا لو۔" انہوں نے صاف صاف جواب دیتے ہوئے مشورہ فراہم کیا۔
"ہمت نہیں ہو رہی ہے میری۔" وہ بےزاری سے بولا۔
"کیوں؟ پہلے بھی تو تم دیر رات سے گھر آکے یا تو ٹھنڈا کھانا کھاتے تھے تا پھر ایسے ہی سو جاتے تھے، تب تو کبھی فرمائش نہیں کی تم نے!" انہوں نے طنزیہ انداز میں یاد دلایا۔
"تب کی بات اور تھی ماموں، اب مجھے عادت ہوگئی ہے۔" وہ روانی میں کہہ گیا۔
"اور جس نے تمھیں یہ عادت ڈالی ہے وہ اب جا چکی ہے، لہٰذا یہ عادت بدل لو۔" انہوں نے بھی ترکی بہ ترکی باور کرایا تو وہ لاجواب ہوگیا۔
پھر بنا مزید کوئی بات چیت کیے سلیمان واپس چلے گئے جب کہ وہ یوں ہی ساکت سا صوفے پر بیٹھا ان کی بات کو سوچتا گیا۔ اس کے ذہن میں پھر ملیحہ کی یاد تازہ ہوئی۔
"یہ کیوں لے آئی؟"
"کیونکہ تمھیں بھوک لگ رہی تھی نا!"
"یہ تم سے کس نے کہا؟"
"تمہاری بےچین کروٹوں نے۔"
"مجھے نہیں کھانا، لے جاؤ۔"
"اچھا چلو کوئی نقص نکالنے کیلئے ہی چکھ لو۔" اس نے مسکراتے ہوئے دوسری راہ دکھائی تھی۔
جب وہ تھی تب اس نے قدر نہیں کی اس کے خلوص کی۔ اور اب نہیں تھی تو بس یادیں رہ گئی تھیں اس کی۔ جو بہت شدت سے اس پر حملہ آور ہو رہی تھیں۔
اب عادت ہوگئی ہے تیرے شام و سحر کی
اب تیری یاد کے معمول کو کیسے بدلیں؟
انتخاب
*******************************
"دنیا بھر میں کل کتنے لوگ ہیں؟ یہ میں کنفرم نہیں بتا سکتی، ہاں لیکن یہ کنفرم ہے کہ اس کل آبادی کا ہر شخص ہی کسی نہ کسی قسم کی پریشانی میں ہر وقت مبتلا رہتا ہے، کہنے کو سب کا غم مختلف ہوتا ہے، لیکن ہر انسان کو اپنا غم بڑا اور دوسرے کا دکھ معمولی لگتا ہے، بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ اب غموں کی نوعیت میں لوگوں نے ریس لگانا شروع کردی ہے کہ ہمارا غم زیادہ بڑا لگنا چاہیے۔" متوازن انداز میں کہتے ہوئے ملیحہ آخر میں مسکرائی۔
اس وقت وہ گہرے نیلے رنگ میں کاٹن کا سادہ سا استری شدہ سوٹ پہنے، ہمرنگ دوپٹہ کندھے پر لٹکائے، آدھے بالوں میں کیچر لگائے، دائیں کلائی میں نازک سی سلور رسٹ واچ اور کانوں میں ننھے سے سلور ایئر رنگ پہنے ایک ہال نما کمرے میں موجود سست روی سے ٹہلتے ہوئے ان سب خواتین و لڑکیوں سے مخاطب تھی جو قطار در قطار کرسیوں پر بیٹھی بغور اسے سن رہی تھیں۔
"آپ سب کی بھی اپنی اپنی کہانی ہے، کوئی بیوگی کی چادر اوڑھے یہاں آگئی ہے، کسی کے بچے اسے یہاں چھوڑ گئے ہیں، تو کسی کا کوئی ولی وارث نہیں ہے، لیکن!" وہ کہتے ہوئے لمحے بھر کو رکی۔
"جو ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے وہ اب بھی آپ کے ساتھ ہے۔" اس نے مسکرا کر بات مکمل کی۔
"اشفاق احمد صاحب کہتے ہیں ایک بار ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﻝ ﮐﺮ رﻭﮈ ﭘﺮ ﭼﻼ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ کہ ﺍﯾﮏ ﺑﺎبا ﻧﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﺳﮯ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺳﯽ ﭨﮩﻨﯽ ﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﺵ ﭘﺮ ﺭﮔﮍ ﮐﺮ ﺑﻮﻻ، ﻟﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺑﻨﺪﮦ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻧﺴﺨﮧ ﺑﺘﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ، ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻮﺍﮨﺸﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﮔﮯ ﻧﮧ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﺩﻭ، ﺟﻮ ﻣﻞ ﮔﯿﺎ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺷﮑﺮ ﮐﺮﻭ، ﺟﻮ ﭼﮭﻦ ﮔﯿﺎ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ، ﺟﻮ ﻣﺎﻧﮓ ﻟﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺩﮮ ﺩﻭ، ﺟﻮ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﺳﮯ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎؤ، ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺁﺋﮯ ﺗﮭﮯ، ﺑﮯ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﻭﺍﭘﺲ ﺟﺎؤ ﮔﮯ، ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺟﻤﻊ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ، ﮨﺠﻮﻡ ﺳﮯ ﭘﺮﮨﯿﺰ ﮐﺮﻭ، ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﮐﻮ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﺑﻨﺎؤ، ﺟﺴﮯ ﺧﺪﺍ ﮈﮬﯿﻞ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺣﺘﺴﺎﺏ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ، ﺑﻼ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺳﭻ ﻓﺴﺎﺩ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ، ﮐﻮﺋﯽ ﭘﻮﭼﮭﮯ ﺗﻮ ﺳﭻ ﺑﻮﻟﻮ، ﻧﮧ ﭘﻮﭼﮭﮯ ﺗﻮ ﭼﭗ ﺭﮨﻮ، ﻟﻮﮒ ﻟﺬﺕ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﻟﺬﺗﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﺑﺮﺍ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ، ﺩﯾﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺷﯽ ﮨﮯ، ﻭﺻﻮﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻏﻢ، ﺩﻭﻟﺖ ﮐﻮ ﺭﻭﮐﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺧﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﺭﮎ ﺟﺎؤ ﮔﮯ، پھر ﺑﺎﺑﮯ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻟﻤﺒﯽ ﺳﺎﻧﺲ ﻟﯽ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﭼﮭﺘﺮﯼ ﮐﮭﻮﻟﯽ، ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ، ﺟﺎؤ ﺗﻢ ﭘﺮ ﺭﺣﻤﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﯾﮧ ﭼﮭﺘﺮﯼ ﺁﺧﺮﯼ ﺳﺎﻧﺲ ﺗﮏ ﺭﮨﮯ ﮔﯽ، ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﭼﯿﺰ ﮐﺎ ﺩﮬﯿﺎﻥ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺧﻮﺩ ﻧﮧ ﭼﮭﻮﮌﻧﺎ، ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﻓﯿﺼﻠﮯ ﮐﺎ ﻣﻮﻗﻊ ﺩﯾﻨﺎ، ﯾﮧ ﺍللہ ﮐﯽ ﺳﻨﺖ ﮨﮯ، اللہ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﮐﻮ ﺗﻨﮩﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﺗﺎ، ﻣﺨﻠﻮﻕ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌﺗﯽ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﺩﮬﯿﺎﻥ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺟﻮ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﺍﺳﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﺩﯾﻨﺎ ﻣﮕﺮ ﺟﻮ ﻭﺍﭘﺲ ﺁ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺑﻨﺪ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ، ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺍللہ ﮐﯽ صف ﮨﮯ، ﺍﻟﻠﮧ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻼ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ، اور معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے، اس کے بعد ﻣﯿﮟ ﻭﺍﭘﺲ ﺁ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﻨﺪﮦ ﺑﻨﻨﮯ ﮐﺎ ﻧﺴﺨﮧ ﻣﻞ ﮔﯿﺎ۔" اس نے سانس لینے کو توقف کیا۔
"جب کبھی کوئی اپنا یا کوئی پسندیدہ شخص ہمیں چھوڑ کر چلا جاتا ہے تو اس پر دل دکھنا ایک فطری عمل ہے، اور اس بات پر رو کر دل کا بوجھ ہلکا کر لینے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے، بلکہ اس طرح کبھی کبھی رونا صحت کیلئے اچھی بات ہے، لیکن روگ لگا لینا کسی صورت ٹھیک نہیں ہے، جیسا کہ اشفاق احمد نے کہا کہ جو بھول جائے اسے بھول جاؤ، خوامخواہ اس کی یاد میں خود کو اذیت نہ دو، آگے بڑھو، پھر سے جیو، خود کیلئے جیو، اس ایک شخص کیلئے پوری دنیا سے مت کٹو۔" وہ ٹہلتے ہوئے مسلسل ہاتھوں کو بھی حرکت دے رہی تھی۔
"اور اگر چھوڑ کر جانے والا ہی ہمارے لئے ہماری پوری دنیا ہو تو؟" عورتیں کے اس ہجوم سے اچانک مرجھائی ہوئی آواز میں ایک سوال آیا۔ سب نے چونک کر گردن موڑی۔ خود ملیحہ بھی آواز کے تعاقب میں دیکھنے لگی۔
سوال کرنے والی سرمئی رنگ کے سادے سے شلوار قمیض میں، سر پر دوپٹہ اوڑھے ایک چالیس، اکتالیس سالہ خاتون تھی۔ جن کے چہرے پر صدیوں کی تھکن رقم تھی۔ ملیحہ کو ان کا چہرہ کچھ جانا پہچانا لگا۔
"تو اللّه پاک نے پہلے ہی قرآن میں فرما دیا ہے کہ یہ دنیا ایک فریب ہے، اور فریب پر بھلا کیا بھروسہ کرنا!" اس نے مسکراتے ہوئے تحمل سے جواب دیا۔ وہ کچھ نہ بولیں۔
"آپ کا نہیں خیال کہ ایک فریبی کے پیچھے خود کو ہلکان کرنا کوئی عقل مندی نہیں ہے، جب وہ آپ کے سارے خلوص کو چھوڑ کر آگے بڑھ گیا تو آپ کیوں اب تک اس کے پیچھے رو رہی ہیں؟ کیا اللہ نے آپ کو اسی لئے بنایا تھا کہ آپ ایک فریبی کے پیچھے خود کو برباد کرلیں! کیا آپ کے والدین نے آپ کی پرورش اسی لئے کی تھی؟" اب وہ ان سے سوال کرنے لگی جس کے جواب میں وہ خاموش ہی رہیں۔ جب کہ باقی سب انہیں سنتے رہے۔
"آپ کا نام جان سکتی ہوں میں میم؟" اس نے مہذب انداز میں استفسار کیا۔
"روبینہ!" ایک لفظی جواب ملا۔
"روبینہ جی پتا ہے اللہ پاک نے انسان کو پانی سے وجود دیا ہے، اور سائنس بھی کہتی ہے کہ ہمارے جسم میں ستر فیصد پانی ہے، اور میری ناقص عقل کہتی ہے کہ انسانوں کو پانی سے بنانا ایک اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ انسان ہر سانچے میں ڈھل سکتا ہے، جو چاہے کرسکتا ہے، اسے ایک جگہ رکنا نہیں ہے، جیسے پانی بنا رکے کہیں نہ کہیں سے اپنا راستہ بناتے ہوئے گزر جاتا ہے ویسے ہی انسان کو بھی زندگی کے برے فیس سے گزر کر آگے بڑھ جانا چاہئے۔" اس نے سمجھانا شروع کیا۔
"ہاں اس میں وقت ضرور لگتا ہے، ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ کسی بھی ٹرامہ یا فیس سے نکلنے کیلئے انسان کو زیادہ سے زیادہ آٹھارہ مہینے لگتے ہیں، اگر کسی کی ول پاور اچھی ہو تو یہ چند مہینوں میں بھی ممکن ہے، لیکن حد سے حد آٹھارہ مہینے لگتے ہیں، اس کے بعد بھی اگر کوئی اس برے فیس سے نہیں نکل پا رہا تو اس کا مطلب ہے کہ اس بندے نے خود اس دکھ کو پکڑ لیا ہے اور وہ باہر آنا ہی نہیں چاہتا، اور کہتا ہے کہ میں فلاں کو بھول نہیں پا رہا، ارے بھئی جب تم مسلسل اکیلے بیٹھ کر "میں پھر بھی تم کو چاہوں گی" جیسے گانے سنتے رہو گے تو کیسے باہر آؤ گے اس فیس سے؟" سنجیدگی سے کہتے ہوئے آخر میں اس نے مزاحیہ عنصر دیا تو سب بےساختہ ہنس پڑے۔ مگر روبینہ ہنوز خاموش تھیں۔
"سننا ہے تو اس طرح کے گیت سنو کہ "اس میں تیرا گھاٹا، میرا کچھ نہیں جاتا" اور سب بھول بھلا کر آگے بڑھو۔" اس نے اسی انداز کو برقرار رکھتے ہوئے مزید کہا۔
"خیر یہ تو میں نے مذاق میں کہا، اور آپ لوگ بھی ماشاءاللہ جس ایج میں ہیں تو آپ کے ساتھ وہ "صنم بےوفا" والا معاملہ تو ہوگا نہیں، ظاہر ہے آپ سب ہی اپنے رشتے داروں کی بےعتنائی کا شکار ہوئی ہوں گی، لیکن ضروری نہیں ہے کہ یہ "آگے بڑھنے" والا فلسفہ صرف ان ہی لوگوں کیلیے ہے جن سے کوئی بےوفائی کر گیا، بلکہ ہر اس شخص کیلئے ہے جس کے دل میں کوئی نہ کوئی دکھ ضرور ہے، اس دکھ کو آہستہ آہستہ اپنے دل سے کھرچنے کی کوشش کریں، کیونکہ دل بہت خوبصورت چیز ہے، اس پر اس طرح کا بوجھ ڈال کر اس پر ظلم نہ کریں۔" وہ کہتے ہوئے پھر سے مسکرائی۔
کوئی خواب ٹوٹا ہے اگر تمہارا تو
اس کی کرچیاں دل سے نہ لگاؤ
پھر ہمت کرو کچھ نیا کر دیکھانے کی
ایک نیا خواب پھر سے پلکوں پر سجاؤ
فریال خان
*******************************
غضنفر نے الماری کھولی تو یہ دیکھ کر اسے شدید حیرت کا دھچکا لگا کہ اس کی ساری دھلی ہوئی استری شدہ شرٹیں ختم ہوکر اب میلے کپڑوں کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئی تھیں اور نتیجاتاً اس کی الماری خالی ہو رہی تھی۔
"رنگیلا!" وہ الماری زور سے بند کرتے ہوئے بلند آواز سے چلایا۔
"رنگیلا!" وہ دھاڑا۔
"جی چھوٹے صاحب؟" اگلے ہی پل وہ بوتل کے جن کی مانند حاضر ہوا۔
"میرے کپڑے کہاں ہیں؟" اس نے سنجیدگی سے استفسار کیا۔
"آپ نے پہنے ہوئے تو ہیں۔" اس نے جھجھکتے ہوئے دھیان دلایا۔ غضنفر نے رات کو چینج نہ کرنے کے باعث ابھی تک کل والی جینز ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔
"میں دھلے ہوئے کپڑوں کی بات کر رہا ہوں ایڈیٹ!" اس نے غصے میں کہتے ہوئے پھر سے الماری کھولی جو کہ خالی ہو رہی تھی۔
"پتا نہیں چھوٹے صاحب، شاید میلے پڑے ہوں گے۔" اس نے لاعلمی سے اندازہ لگایا۔
"تو دھلوائے کیوں نہیں تم نے؟" اس نے دانت پیسے۔
"جب سے بھابھی جی آئی تھیں انہوں نے مجھے آپ کا کوئی بھی کام کرنے سے منع کردیا تھا، وہ آپ کا ہر کام خود کرتی تھیں، اسی لئے میں صرف بڑے صاحب کے کپڑے دھوبی کو بھیجتا ہوں۔" اس نے ڈرتے ہوئے وضاحت کی۔ اس نے کوفت سے سر جھٹکا۔
"یہ بات تب کی ہے جب ملیحہ یہاں تھی، اب وہ یہاں سے جا چکی ہے، اب سے سارے کام ویسے ہی روٹین سے ہوں گے جیسے اس کے آنے سے پہلے ہوا کرتے تھے، آئی سمجھ!" اس نے درشتی سے باور کرایا تو وہ زور زور سے اثبات میں سر ہلانے لگا۔
پھر غضنفر نے پٹخ کر الماری بند کی اور تیز تیز قدم اٹھاتا کمرے سے باہر نکل گیا۔
"پتا نہیں کیا ہوگیا ہے آج کل انہیں!" رنگیلا ناسمجھی سے زیر لب بڑبڑایا۔
*******************************
"تو کیسا رہا آج تمہارا پہلا دن؟" مسز فاروقی نے نرمی سے پوچھا۔
"الحمدللہ بہت اچھا!" ملیحہ نے بھی مسکرا کر جواب دیا۔
وہ اس وقت ان کے نفیس سے آفس میں ٹیبل کے گرد بیٹھی تھی۔ مسز فاروقی سمیرا کی والدہ اور اس فاؤنڈیشن کی ہیڈ تھیں۔ کاٹن کے پرنٹیڈ سوٹ پر، دوپٹہ کندھے پر لئے، ہائی لائٹ ہوئے کندھے تک آتے آدھے بالوں کو کچر لگائے انہوں نے اپنے آپ کو کافی مینٹین رکھا ہوا تھا۔
"سمیرا نے بہت تعریف کی تھی تمہاری تو مجھے امید تھی کہ تم اچھا ہی پرفارم کرو گی۔" انہوں نے مزید کہا۔
"تھینکس! ویسے سمیرا ہے کہاں؟ نظر نہیں آئی ابھی تک؟" اس نے خیال آنے پر پوچھا۔
"بہت دنوں سے نئی گاڑی لینے کی دھن سوار تھی میڈم کو، تو فائنلی آج وہ شوروم گئی ہے کار پسند کرنے، پہلے وہ اپنی کسی دوست کے گھر جانا کا کہہ رہی تھی اور وہاں سے پھر شوروم جائے گی۔" انہوں نے متوازن انداز میں بتایا۔
"اوہ! مطلب ٹریٹ کیلئے تیار رہوں میں؟" وہ شرارتاً بولی تو جواباً مسز فاروقی بھی مسکرا دیں۔
*******************************
صبیحہ اس وقت راؤنڈ پر نکلی ہوئی تھی مگر پچھلے چند روز سے بوجھل ہوئی اپنی طبیعت کے باعث وہ ٹھیک طرح کام پر فوکس نہیں کر پا رہی تھی۔
ابھی بھی جنرل وارڈ میں ایک پیشنٹ کی ڈرپ چیک کرکے جیسے ہی وہ جانے کی نیت سے پلٹی تو اس کا سر چکرانے لگا، ٹانگیں بےجان ہوگئیں اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا جس کے باعث اگلے ہی پل وہ زمین بوس ہوئی۔ تو آس پاس موجود نرس اور چند مزید لوگ جلدی سے گھبرا کر اس کی جانب آئے۔
*******************************
"ہیلو!" آپ ڈاکٹر صبیحہ کے ہسبنڈ عزیر بات کر رہے ہیں؟" لائن پر موجود مرد نے تائید چاہی۔
"جی، آپ کون؟" اس نے تعجب سے پوچھا جو اس وقت اپنے آفس روم میں موجود تھا۔
"میں ہیلتھ کیئر ہاسپٹل سے بات کر رہا ہوں، آپ پلیز جلدی یہاں آجائیں، آپ کی وائف کی تھوڑی طبیعت خراب ہوگئی ہے۔" اس نے اطلاع دی تو وہ ہل گیا۔
"کیا ہوا ہے اسے؟" اس نے گھبرا کر پوچھا۔
"ابھی ڈاکٹر ان کا چیک اپ کر رہی ہیں، آپ یہاں آجائیں تو وہ آپ کو ڈیٹیل بتا دیں گی۔" اس نے پیشہ وارانہ انداز میں کہا۔
"ٹھیک ہے، میں بس ابھی آیا۔" اس نے عجلت میں کہتے ہوئے فون رکھا اور پھر برق رفتاری سے اٹھ کر باہر نکل گیا۔
*******************************
ملیحہ فاؤنڈیشن سے واپس گھر لوٹی تو اسے گھر میں غیر معمولی خاموشی محسوس ہوئی۔ حلانکہ عام طور پر بھی سالک کے آفس اور راضیہ کے کام میں مصروف ہوجانے کے بعد گھر میں سناٹا ہی ہوتا تھا، لیکن آج کی خاموشی تھوڑی غیر معمولی تھی۔
"امی!" ہال میں موجود ملیحہ نے کندھے پر سے بیگ اتار کر صوفے پر رکھتے ہوئے پکارا۔ مگر کوئی جواب نہ ملا۔
"مینا!" اس نے ملازمہ کو آواز دی مگر نتیجہ صفر رہا۔
"کہاں چلے گئے یہ لوگ؟" وہ تعجب سے بڑبڑاتے ہوئے آگے بڑھی۔
تب ہی اچانک کسی نے پیچھے سے آکر اسے دبوچتے ہوئے ایک ہاتھ اس کے منہ پر رکھ لیا کہ وہ چیخ نہ پائے۔ وہ جو کوئی بھی تھا اس کی مردانہ گرفت بہت سخت تھی اور اس اچانک ہوئے حملے پر وہ بری طرح سٹپٹا کر مزاحمت کرنے لگی جو کہ کسی کام نہ آئی۔
"جب کوئی تمہارے منہ پر پیچھے سے آکر رومال رکھے تو چند سیکنڈز کی مزاحمت کرنے کے بعد خود کو یوں ڈھیلا چھوڑ دو کہ تم بےہوش ہوگئی ہو، اس سے وہ شخص تمھیں بےہوش جان کر تم پر سے گرفت ڈھیلی کرے گا، اور جیسے ہی وہ گرفت ڈھیلی کرے تمھیں لمحوں میں پھرتی دیکھا کر اچانک اپنی کہنی پوری قوت سے اس بندے کے پیٹ پر مارنی ہے جس سے وہ لمحے بھر کو ضرور سٹپٹائے گا اور تب ہی تمھیں اس سے دور ہوکر جلد از جلد وہاں سے بھاگ کر مدد کیلئے پکارنا ہے۔"
اسے غضنفر کی دی گئی سیلف ڈیفینس والی ہدایات یاد آئیں۔
اس نے اگلے ہی پل اس پر عمل کرتے ہوئے پہلے دھیرے دھیرے مزاحمت کم کی اور پھر خود کو یوں ڈھیلا چھوڑا گویا بےہوش ہو رہی ہو۔ حسب توقع مخالف نے اس پر سے گرفت ڈھیلی کی اور بس تب ہی ملیحہ پوری قوت سے اپنی کہنی کے پیٹ پر مارتی ہوئی اس سے علیحدہ ہوگئی۔
"ہائے امی! مر گیا میں۔" وہ خوش شکل نوجوان اپنا پیٹ پکڑ کر دہائی دینے لگا۔
"ثوبان تم!" اسے دیکھتے ہوئے وہ حیرت سے بولی۔ تب تک راضیہ بھی ان لوگوں کی جانب آچکی تھیں۔
"یہ کیا کِیا ملیحہ؟" وہ فکر مندی سے ثوبان کی جانب آکر ملیحہ کو لتاڑنے لگیں۔
"جان سے مار دیا خالہ آپ کی بیٹی نے۔" وہ ہنوز پیٹ پکڑے کراہ رہا تھا۔
"ہاں تو کیا ضرورت تھی یہ بےہودہ حرکت کرنے کی؟" ملیحہ الٹا اس پر برہم ہوئی۔
"سرپرائز دینا چاہتا تھا بیچارہ تمھیں۔" انہوں نے اس کی وکالت کی۔
"لیکن یہاں تو میرے سر پر ایسی پڑی کہ آئز (Eyes) باہر آگئیں۔" اس نے مزید ٹکڑا لگایا۔
"چلو اب زیادہ نوٹنکی نہ کرو، اتنی زور سے بھی نہیں لگی ہے، دیکھیں نا کیسے فرفر زبان چل رہی ہے اس کی۔" وہ اسے لتاڑتے ہوئے راضیہ کو دھیان دلانے لگی۔
"ہاں تو پیٹ پر لگی ہے زبان پر نہیں۔" وہ اب بھی باز نہیں آیا تھا۔
"دیکھا آپ نے!" ملیحہ نے فوراً نشان دہی کی۔
"اچھا اب بس بھی کرو دونوں، چلو تم یہاں صوفے پر بیٹھو، اور ملیحہ تم، جاؤ پانی لے کر آؤ اس کیلئے۔" بلآخر انہوں نے معاملہ رفع دفع کرتے ہوئے ہدایت جاری کی۔
جس کے بعد ملیحہ اسے گھور کر وہاں سے چلی گئی جب کہ وہ راضیہ کے ہمراہ جان بوجھ کر لنگڑاتے ہوئے صوفے پر آکے یوں بیٹھا گویا کتنی بےدردی سے پیٹا ہو اسے۔
"لو پکڑو۔" ملیحہ نے پانی سے بھرا کانچ کا گلاس اس کی جانب بڑھاتے ہوئے احسان عظیم کیا۔
"زہر تو ملا کر نہیں لائی نا!" اس نے گلاس تھامتے ہوئے مزید تنگ کیا۔
"نہیں، ڈھونڈا تو تھا مگر ملا نہیں۔" وہ بھی حساب برابر کرتی ہوئی سامنے والے سنگل صوفے پر بیٹھ گئی۔ جب کہ راضیہ دونوں کو دیکھ کر رہ گئیں۔
"ویسے تم نے کراٹے وغیرہ کی ٹریننگ لے لی ہے کیا جو اتنا سالڈ حملہ کردیا!" اس نے خالی گلاس میز پر رکھتے ہوئے پوچھا۔
"ہاں، یہ سوچ کر کہ پتا نہیں کب کہاں تم جیسے ٹھرکیوں سے پالا پڑ جائے!" اس نے ٹانگ پر ٹانگ رکھتے ہوئے بےنیازی سے جواب دیا۔
"واہ! زبان میں بھی نئے سیل ڈالے ہیں لگتا ہے، کافی تیز چل رہی ہے۔" اس نے متاثر ہوتے ہوئے طنز مارا۔
"میری چھوڑو، تم اپنی بتاؤ، یہاں کیسے آگئے؟ آسٹریلیا کی گورنمنٹ نے دھکے مار کر نکال دیا کیا وہاں سے؟" اس نے بھی طنزیہ انداز میں استفسار کیا۔
"اب بس بھی کرو دونوں، اتنے عرصے بعد ملے ہو اور ملتے ہی طنز شروع۔" تب ہی راضیہ نے مداخلت کی۔
"آپ کی بیٹی نے شروعات کی تھی خالہ۔" ثوبان نے سارا الزام اس کے سر ڈالا۔
"اور آپ نے کنٹنیو کرلیا۔" وہ بھی ترکی بہ ترکی بولی۔ جس کے باعث راضیہ بےبسی سے نفی میں سرہلا کر رہ گئیں۔
*******************************
"غضنفر کا فون آیا تھا صبح، کہہ رہا تھا کہ کڑاہی گوشت بنا دوں آج وہ کھانا ہمارے ساتھ کھائے گا، تو بس اسی کی تیاری کر رہی ہوں، بہت سالوں بعد اس نے کوئی فرمائش کی ہے اماں بی، مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ میں بتا نہیں سکتی۔" کچن کاؤنٹر پر ٹماٹر کاٹتی صالحہ نے خوشی سے بتایا۔
"دیکھا! آرہا ہے نا خود ہی آہستہ آہستہ پٹری پر، اب دیکھنا ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ وہ پھر سے ہمارے ساتھ رہنے بھی لگے گا۔" کاؤنٹر کی دوسری جانب کھڑی دردانہ نے بھی خوشگوار انداز میں پیشن گوئی کی۔
"امین، اللہ کرے جلد آئے وہ دن۔" صالحہ دعا گو ہوئیں۔
"دادی! ممی! تائی! زوہا!" اچانک عزیر کی پکار سنائی دی جس پر دونوں چونکیں۔
"یہ عزیر اس وقت گھر پر؟ ابھی تو چار بجے ہیں۔" دردانہ تعجب سے بولیں۔
"چلیں دیکھتے ہیں۔" صالحہ نے ٹشو سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے کہا تو دونوں ہال کی جانب آگئیں۔ جہاں شاہانہ اور زوہا بھی حیران حیران سی پہنچی تھیں۔
"ارے! تم دونوں اتنی جلدی آگئے!" دردانہ نے عزیر کے ہمراہ صبیحہ کو بھی دیکھ کر تعجب سے پوچھا۔
"بات ہی کچھ ایسی تھی کہ جلدی آنا پڑا۔" وہ پرجوشی سے بولا۔ خوشی اس کے چہرے پھوٹ رہی تھی اور یہ ہی حال جھینپی ہوئی سی صبیحہ کا بھی تھا۔
"کیا بات تھی ہمیں بھی بتا دو، اور تمہارے ہاتھ میں ڈبہ کس چیز کا ہے؟" دردانہ نے جاننا چاہا۔
"میں گیس کروں؟" یکدم زوہا نے پرجوشی سے مداخلت کی۔
"کرو!" عزیر نے دلچسپی سے اجازت دی۔
"میں پھوپھو بننے والی ہوں نا!" اس نے بےتابی سے تائید چاہی تو عزیر نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سرہلایا۔ جس کے باعث سب کے چہروں پر خوشی دوڑ گئی۔
"ارے واہ! ماشاءاللہ! ماشاءاللہ!" دردانہ نے کہتے ہوئے آگے بڑھ کر صبیحہ کو گلے لگایا۔
"بہت مبارک ہو بیٹا۔" صالحہ نے بھی آگے آکر اس کا ماتھا چوما۔
"دیکھا سہی گیس کیا نا میں نے!" زوہا بھی کہتی ہوئی اس سے گلے ملی۔ پھر عزیر نے باری باری سب کا منہ میٹھا کروایا۔
*******************************
"بس بہت ہوگیا تھا، اپنوں کی یاد آنے لگی تھی، یا یوں کہہ لو کہ دل بھر گیا تھا وہاں سے، اسی لئے فیصلہ کیا کہ ثوبان بیٹا جتنا کمانا تھا کما چکے، اب واپسی کی تیاری کرو۔" ثوبان نے کہتے ہوئے چائے کا گھونٹ لیا۔
"اور واپس جا کر وہ ساری کمائی برباد کردو، ہے نا؟" ملیحہ نے مزید بات جوڑتے ہوئے تائید چاہی۔
دونوں اس وقت شام کے سہانے موسم سے لطف اندوز ہوتے ہوئے لان میں رکھی ٹیبل کے گرد آمنے سامنے بیٹھے چائے پی رہے تھے۔
"نہیں، وہ سارے پیسے یہاں ایک کاروبار میں انویسٹ کروں گا، پھر اسی کاروبار کو بڑھاؤں گا، ساری پلاننگز کر رکھی ہیں میں نے۔" اس نے نفی کرتے ہوئے وضاحت کی۔
"اچھا لگا آپ کے نادر خیالات کے بارے میں جان کر۔" وہ طنزیہ کہہ کر چائے پینے لگی۔ جس کے بعد چند لمحوں کیلئے دونوں کے بیچ خاموشی حائل ہوگئی۔
"ویسے پہلے سے کافی بدل گئی ہو تم!" ثوبان نے اسے دیکھتے ہوئے تجزیہ کیا۔
"بہتر ہوگئی ہوں یا بدتر؟" اس نے دلچسپی سے جاننا چاہا۔
"بہترین ہوگئی ہو۔" اس نے الگ ہی جواب دیا تو وہ بےساختہ مسکرا دی۔
"لیکن تم ابھی تک ویسے ہی ہو۔" اب ملیحہ نے اپنی رائے دی۔
"کیسا؟ اسمارٹ یا ہینڈسم؟" اسے جاننے میں دلچسپی ہوئی۔
"عقل سے پیدل۔" اس نے خوش فہمی دور کی۔
"بس رہنے دو، مجھے پتا ہے میں اسمارٹ ہوں، اب تم مان نہیں رہی ہو یہ الگ بات ہے۔" اس نے مصنوعی تکبر کا مظاہرہ کیا۔
"اتنے ہی اسمارٹ ہوتے نا تو اب تک کنوارے نہیں گھوم رہے ہوتے۔" اس نے آئینہ دیکھانا چاہا۔
"اب تک شادی نہ کرنے کی صرف یہ وجہ تو نہیں ہوسکتی۔" اس نے گھما پھرا کر نفی کی۔
"تو پھر کیا وجہ ہے؟" ملیحہ نے آنکھیں سکیڑیں۔
"کچھ نہیں، جانے دو۔" اس نے نظریں چراتے ہوئے بات ختم کردی تو ملیحہ نے بھی زیادہ نہیں کریدا اور چائے پینے لگی۔ تھوڑی دیر کیلئے ان کے مابین پھر خاموشی کی دیوار اٹھ گئی۔
"تمہاری شادی کے بارے میں پتا چلا مجھے۔" بلآخر وہ کپ پر نظریں مرکوز کیے بولا۔
"کیا پتا چلا؟ یہ کہ ہوچکی ہے یا پھر یہ کہ ختم ہونے والی ہے؟" ملیحہ نے بھی بنا اس کی جانب دیکھے تلخی سے پوچھا۔
"دونوں۔" ایک لفظی جواب ملا۔ اور پھر خاموشی چھا گئی۔
"میں امی کو دیکھ کر آتی ہوں، پتا نہیں کہاں رہ گئیں!" اگلے ہی پل وہ کہتے ہوئے اٹھی اور ایک جانب بڑھ گئی۔
جب کہ وہ اسے دور جاتا ہوا دیکھ سمجھ گیا تھا کہ وہ اس موضوع سے کترا رہی تھی۔
*******************************
غضنفر ملگجے سے حلیے میں کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھا بےزاریت بھرے انداز میں کافی دیر سے کانچ کی میز پر خاموشی سے پیپر ویٹ گھمائے جا رہا تھا۔ جسے ٹیبل کی دوسری جانب والی سنگل کرسی پر بیٹھے بظاہر لیپ ٹاپ میں مصروف سلیمان وقفے وقفے سے دیکھ رہے تھے۔
وہ اس وقت گرے جینز پر فل آستین والی مٹی کلر کی ٹی شرٹ پہنا ہوا تھا۔ تراش خراش نہ ملنے پر شیو بھی بےترتیب ہو رہی تھی۔ بالوں پر بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی تھی اور مزید اس کے چہرے پر چھائی افسردگی نے اس پر گھن لگایا ہوا تھا۔
"طبیعت تو ٹھیک ہے نا تمہاری؟" بلآخر وہ پوچھ بیٹھے۔ وہ یکدم چونکا۔
"ہاں! کچھ کہا آپ نے؟" اس نے ناسمجھی سے ان کی جانب دیکھا۔
"میں نے کہا کہ طبیعت تو ٹھیک ہے نا تمہاری؟ کچھ دنوں سے عجیب بیمار سے لگ رہے ہو، نہ کھانے پینے کا ہوش ہے نہ پہنے اوڑھنے کا، اور بات بات پر چڑچڑے الگ ہو رہے ہو، سب ٹھیک ہے نا!" انہوں نے وضاحتی انداز میں سوال دہرایا۔
"ہاں سب ٹھیک ہے، بس کچھ دنوں سے دل اچاٹ سا ہوگیا ہے ہر چیز سے۔" وہ سرسری سا کہتے ہوئے دوبارہ پیپر ویٹ کی جانب متوجہ ہوا۔
"اور دل کیوں اچاٹ ہے؟" انہوں نے کریدا۔
"پتا نہیں!" اسی انداز میں جواب ملا۔
"ملیحہ چلی گئی ہے اسی لئے؟" انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا۔ تو وہ پیپر ویٹ روک کر ان کی طرف دیکھنے لگا۔
"ملیحہ کا ان سب سے کیا تعلق؟" اس نے سنجیدگی سے پوچھا۔
"بیوی ہے وہ تمہاری، تین چار مہینے رہے ہو اس کے ساتھ، اور اب دو ہفتوں میں دیکھو کیا حالت ہوگئی ہے تمہاری اس کے بنا، جب اتنا پیارا اور محبت کرنے والا انسان اچانک چلا جائے تو اس کی یاد تو آتی ہے جس کی وجہ سے دوسری کوئی شے اچھی نہیں لگتی۔" انہوں نے وضاحت کی۔
"ایسا کچھ نہیں ہے۔" اس نے نظریں چراتے ہوئے نفی کی۔
حقیقت وہ ہی تو جو سلیمان نے بتائی اور اس کا اندازہ اب غضنفر کو بھی ہونے لگا تھا کہ وہ نہیں رہ سکتا تھا ملیحہ کے بغیر، مگر وہ ماننے کو تیار نہیں تھا، اس بات کو فراموش کرکے کہ نہ ماننے سے حقیقت بدل نہیں جاتی۔
سلیمان بغور اسے دیکھنے لگے۔ جس سے انہیں اندازہ ہوا کہ شاید وہ خود بھی اپنی حالت سمجھ نہیں پا رہا تھا یا سمجھنا نہیں چاہ رہا تھا۔
"دیکھو غضنفر! اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے، تم چاہو تو ملیحہ کے ساتھ ایک خوشگوار زندگی شروع کرسکتے ہو، جس میں تمہارا ہی فائدہ ہے۔" انہوں نے لوہا گرم دیکھ کر چوٹ ماری۔
وہ انہیں یوں دیکھنے لگا گویا سوچ میں پڑ گیا ہو۔ آج اس نے خلاف معمول ان سے بحث نہیں کی تھی۔
"ٹک ٹک ٹک!" تب ہی کانچ کے دروازے پر ہوئی دستک کے باعث وہ چونکا۔
"آجاؤ!" سلیمان نے اجازت دی۔
"سر! ایک میڈم آئی ہیں گاڑی پسند کرنے۔" فاروق نے ادب سے آکر اطلاع دی۔
"جاؤ غضنفر، ڈیل کرو اسے۔" سلیمان نے اس کے ذمہ کام لگایا۔
جس کی تکمیل کیلئے وہ بنا کچھ بولے کرسی پر سے اٹھا اور فاروق کے ہمراہ روم سے باہر نکل گیا۔ جب کہ سلیمان بھی دوبارہ اپنے کام کی طرف متوجہ ہوگئے۔
*******************************
غضنفر آفس روم سے نکل کر سفید ماربل والے ہال میں آیا جہاں ایک ترتیب سے کچھ چمکتی ہوئی بالکل نئی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ جن کے بیچ جینز کرتی پہنے، شولڈر کٹ بالوں کی پونی بنائے ایک لڑکی کندھے پر پرس لٹکائے ٹہلتے ہوئے مختلف گاڑیوں کا جائزہ لے رہی تھی۔
"گڈ ایوننگ میڈم!" فاروق کے ہمراہ غضنفر نے اس کے قریب رک کر مہذب انداز میں کہا تو وہ چونک کر اس کی جانب پلٹی۔
"گڈ ایوننگ!" سمیرا نے بھی خوشدلی سے جواب دیا۔
"کہیے! کیا مدد کرسکتا ہوں میں آپ کی؟" اس نے پیشہ وارانہ انداز میں پوچھا۔
"آپ مجھے ایک کلو آلو اور دو کلو پیاز تول دیں۔" اس نے نارمل انداز میں کہا۔
"کیا؟" وہ متعجب ہوا۔ اور یہ ہی کیفیت فاروق کی بھی تھی۔
"ارے بھئی جب کار شوروم ہے تو کار ہی لینی ہوگا نا مجھے۔" سمیرا نے اس کی عقل پر ماتم کیا۔ جس پر بےساختہ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔
"تو پسند آئی آپ کو کوئی کار؟" غضنفر نے اپنی بےزاری کو قابو میں رکھتے ہوئے پوچھا۔
"ابھی کہاں سے، ابھی تو آپ مجھے سارے ماڈلز کی ڈیٹیلز بتائیں پھر فیصلہ کروں گی میں۔" اس نے آنکھیں گھما کر کہا۔ تو غضنفر نے بےساختہ گہری سانس لی۔
"فاروق! میڈم کو ڈیٹیلز بتاؤ۔" اس نے فاروق کو آگے کیا۔
"ارے! مینیجر آپ ہیں نا! تو آپ بتائیں۔" اس سے قبل ہی وہ بول پڑی۔
"پوچھیں کیا پوچھنا ہے آپ کو؟" انداز لیا دیا ہی تھا۔
"وہ جو وائٹ والی کار ہے، اس کے بارے میں کچھ بتائیں۔" اس نے دور کھڑی ایک آلٹو کار کی جانب اشارہ کیا۔
"آئیں!" غضنفر نے آگے چلنے کی پیشکش کی۔
"میں میڈم کیلئے کولڈ ڈرنک لے کر آتا ہوں۔" فاروق نے خیال آنے پر کہا اور تیزی سے باہر نکل گیا۔ جب کہ وہ دونوں گاڑی کی جانب آئے۔
غضنفر اسے گاڑی کی تفصیلات بتانے لگا جب کہ وہ بغور اسے یوں دیکھنے لگی گویا کچھ کھوج رہی ہو اس کے چہرے پر۔ جسے غضنفر نے بھی محسوس کیا۔
"آپ پلیز کار پر دھیان دیں گی۔" بلآخر اس کے گھورنے سے زچ ہوکر اس نے ٹوک ہی دیا۔
"مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میں نے آپ کو کہیں دیکھا ہے۔" وہ ذہن پر زور دینے لگی۔ جس میں اسے کوئی دلچسپی نہیں ہوئی۔
"کہاں دیکھا ہے؟" وہ بڑبڑائی۔
"ارے ہاں! یاد آیا!" وہ اچانک چہکی۔
"آپ وہ ہی ہیں نا جن کا چار پانچ مہینے پہلے روڈ پر ایکسیڈینٹ ہوا تھا، اور میں آپ کو ہاسپٹل لے کر گئی تھی۔" اس نے پرجوشی سے کہا تو یکدم اس کا دل زور سے دھڑکا۔
"کیا نام تھا آپ کا؟ میں نے دیکھا تھا آپ کے شناختی کارڈ پر۔" وہ پھر ذہن پر زور دینے لگی۔
"ہاں! غضنفر، غضنفر عباس! یہ ہی نام ہے نا آپ کا؟" سمیرا نے تائید چاہی تو اس نے ٹرانس کی سی کیفیت میں سر ہلایا۔
وہ تو بالکل سکتے میں آگیا تھا اچانک اسے اپنے سامنے دیکھ کر جیسے دیکھنے کیلئے وہ کب سے تڑپ رہا تھا۔
دودھیا رنگت پر نیلی آنکھیں، اونچی پونی میں قید شہد رنگ بال جن کی ایک لٹ اس کے چہرے پر جھول رہی تھی۔ اور خوبصورتی سے تراشے ہوئے گلابی ہونٹ، وہ بلاشبہ ایک حسین لڑکی تھی، اتنی کہ غضنفر نے تصور میں بھی اسے اتنا حسین نہیں سوچا تھا۔
سمیرا پتا نہیں اور بھی کیا کچھ کہہ رہی تھی مگر وہ تو جیسے سن ہی ہوگیا تھا۔ اور تب ہی اس کی نظر سمیرا کے چہرے پر سے ہوتی ہوئی اس کی گردن پر لٹکتی سلور چین پر آکے رکی جس پر حرف S والا لاکٹ جھول رہا تھا۔
"آپ وہ ہی ہیں نا جن کا چار پانچ مہینے پہلے روڈ پر ایکسیڈینٹ ہوا تھا، اور میں آپ کو ہاسپٹل لے کر گئی تھی۔" اس نے پرجوشی سے کہا تو یکدم اس کا دل زور سے دھڑکا۔
"کیا نام تھا آپ کا؟ میں نے دیکھا تھا آپ کے شناختی کارڈ پر۔" وہ پھر ذہن پر زور دینے لگی۔
"ہاں! غضنفر، غضنفر عباس! یہ ہی نام ہے نا آپ کا؟" سمیرا نے تائید چاہی تو اس نے ٹرانس کی سی کیفیت میں سر ہلایا۔
وہ تو بالکل سکتے میں آگیا تھا اچانک اسے اپنے سامنے دیکھ کر جیسے دیکھنے کیلئے وہ کب سے تڑپ رہا تھا۔
سمیرا پتا نہیں اور بھی کیا کچھ کہہ رہی تھی مگر وہ تو جیسے سن ہی ہوگیا تھا۔ اور تب ہی اس کی نظر سمیرا کے چہرے پر سے ہوتی ہوئی اس کی گردن پر لٹکتی سلور چین پر آکے رکی جس پر حرف S والا لاکٹ جھول رہا تھا۔
"ت۔۔۔تم وہ لڑکی ہو جس نے میری جان بچائی!" بلآخر وہ بمشکل بولا۔
"ہاں، اور صرف آپ کیا بلکہ آپ کی جگہ کوئی بھی ہوتا تو میں اس دن یہ ہی کرتی، کیونکہ یہ میرا اخلاقی فرض ہے، بلکہ لوگ تو کھڑے بس تماشا دیکھ رہے تھے اور موبائل سے ویڈیو بنا رہے تھے، میں نے کہا کہ آپ کو اٹھا کر ہاسپٹل لے کر جائیں تو کہنے لگے کہ نہیں پولیس کیس ہے، میں نے بھی کہہ دیا کہ میڈیکل کے اصول مجھے بھی پتا ہیں آفٹر آل میری مما پورا فاؤنڈیشن چلاتی ہیں، پھر کچھ میرے جیسے اچھے لوگوں نے مل کر آپ کو ہاسپٹل پہنچایا، مگر اس دن میں لیٹ ہو رہی تھی ورنہ ضرور آپ سے ہوش میں آنے کے بعد مل کر جاتی۔" وہ حسب عادت بنا رکے بولتی گئی۔ جب کہ وہ پھر لاجواب ہوکر سوچ رہا تھا کہ اب کیا بولے؟
"آپ کا نام کیا ہے؟" اس نے خیال آنے پر جاننا چاہا۔
"ایس فار سمیرا (S For Sameera)۔" اس نے اپنے لاکٹ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فخر سے بتایا۔ تو اس کی نظر پھر لاکٹ پر اٹک گئی۔
"اب تو ہماری جان پہچان بھی نکل آئی ہے تو اسی خوشی میں ڈسکاؤنٹ تو بنتا ہے، میں چاہ رہی تھی کہ ریزینیبل پرائز پر اچھی چیز مل جائے، ویسے میں کسی بڑے شوروم میں بھی جا سکتی تھی، لیکن میرا بجٹ اتنا نہیں تھا۔" وہ اپنی دھن میں بنا رکے بولی جا رہی تھی اور وہ اسے دیکھتے ہوئے بےدھیانی سے سنتا جا رہا تھا۔
اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا بولے اور کیا نہیں؟ کب سے جسے ڈھونڈ رہا تھا اب جب وہ مل گئی تھی تو وہ کیوں اسے اپنا حالِ دل نہیں سنا پا رہا تھا؟
نہ جی بھر کے دیکھا انہیں نہ کچھ بات کی
بڑی آرزو تھی جن سے ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ملاقات کی
بشیر بدر
*******************************
"ارے یار! اب چھوڑو بھی۔" صبیحہ نے ملیحہ کے حصار سے خود کو آزاد کروانا چاہا جو کب سے اسے بھینچے کھڑی تھی۔
"کیا مسلہ ہے بھئی، تمھیں تھوڑی میں نے تو اپنے ہونے والے بھانجے یا بھانجی کو گلے لگایا ہوا تھا۔" ملیحہ نے الگ ہوتے ہوئے کہا۔
"جب پیدا ہوجائے گا نا تب لگائے رکھنا اپنے سینے سے۔" اس نے بےنیازی سے کہا۔
"ارے تم بےفکر رہو، وہ تم سے زیادہ میرے پاس رہے گا۔" وہ پرجوشی سے کہتے ہوئے اسے لے کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔
"سچی اتنی خوشی ہوئی تھی مجھے جب میں گھر آئی تھی اور امی نے تمہارے بارے میں بتایا، اور پتا ہے امی پاپا کا تو کل آنے کا ارادہ تھا مگر میں نے کہا کہ نہیں ہم آج ہی چلیں گے۔" اس نے اپنی کیفیت بتائی۔
"ویسے تم کل ہی آتی تو بہتر تھا۔" وہ نظریں جھکا کر بولی۔
"کیوں؟" اسے تعجب ہوا۔
"کیونکہ زوہا بتا رہی تھی کہ آج غضنفر بھی آرہا ہے، وہ اکثر ڈنر ہمارے ساتھ ہی کرتا ہے۔" صبیحہ نے اس کی جانب دیکھ کر بتایا تو وہ پل بھر کو خاموش ہوئی۔
"آنے دو اگر آرہے ہیں تو، میرا ان سے کوئی پردہ تھوڑی ہے۔" اگلے ہی پل وہ عام سے انداز میں بولی۔ صبیحہ نے اسے دیکھا۔
"ویسے تم نے کیا سوچا ہے اپنے اور غضنفر کے رشتے کے بارے میں؟" صبیحہ نے ٹٹولنا چاہا۔
"مطلب تم اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہو یا الگ ہونا چاہتی ہو؟" اس نے سوال مزید واضح کیا۔
"رہا وہاں جاتا ہے صبیحہ جہاں ہمارے لئے جگہ ہو، پھر چاہے بات گھر کی ہو یا دل کی۔" وہ نظریں جھکا کر دھیرے سے بولی۔ تو صبیحہ محض لب بھینچتے ہوئے اسے دیکھ کر رہ گئی۔
"اچھا امی بتا رہی تھیں کہ ثوبان پاکستان واپس آگیا ہے۔" صبیحہ نے خود ہی موضوع بدلا۔
"ہاں، کل آیا ہے، اور آج دوپہر سے گھر بھی آیا ہوا تھا، شام کو ہی تو گھر واپس آگیا ہے اور پھر ہم یہاں آگئے۔" اس نے تائیدی انداز میں بتایا۔
"تم ملی اس سے؟" صبیحہ نے کھوجتی نظروں سے دیکھا۔
"ظاہر ہے، وہ گھر آیا ہوا تھا تو میں کیسے نہیں ملتی اس سے؟" اس نے الٹا سوال کیا۔
"وہ صحیح طرح ملا تم سے؟" اس نے مزید کریدا۔
"ہاں نا بھئی! کیوں ایسے الٹے سیدھے سوال کر رہی ہو!" وہ یکدم چڑ گئی۔
"مجھے لگا کہ تمہارے رشتے سے انکار کی وجہ سے شاید اس کا رویہ بدل گیا ہو!" اس نے اپنے خیال کا اظہار کیا۔
"نہیں، وہ ویسا ہی ہے۔" اس نے چادر کی سلوٹ سے کھیلتے ہوئے دھیمے انداز میں جواب دیا تو وہ اسے دیکھنے لگی۔
*******************************
ڈنر کے وقت جب غضنفر عباس ولا پہنچا تو غیر متوقع طور پر سالک کی گاڑی گھر کے باہر کھڑی دیکھ کر وہ ٹھٹکا۔ پھر اسے صبیحہ کے متعلق صالحہ کی دی گئی خوشخبری یاد آئی تو اسے اندازہ ہوا کہ ضرور وہ لوگ اپنی بیٹی سے ملنے آئے ہوں گے۔ یعنی سب اکھٹا ہوکر، پر مسرت ماحول میں خوشیاں منا رہے ہوں گے۔ تو ایسے میں اس کا وہاں کیا کام؟
اسی لئے اس نے باہر سے ہی گاڑی واپس موڑ لی تھی۔ اس بات سے بےخبر کہ کوئی تھا جو اندر اس کا منتظر تھا۔
"کسی کا انتظار کر رہی ہیں بھابھی؟" زوہا نے رک کر ملیحہ سے پوچھا جو منتظر انداز میں داخلی دروازے کے پاس ٹہل رہی تھی۔
"نہیں تو۔" وہ صاف مکر گئی۔
"تو پھر یہاں کیا کر رہی ہیں، چلیں سب ڈائینگ روم میں آرہے ہیں کھانا کھانے۔" اس نے سہولت سے اطلاع دی تو وہ اثبات میں سر ہلا کر اس کے ساتھ ہولی۔
اتنے دن ہوگئے تھے اسے غضنفر کو دیکھے ہوئے، اس کی آواز سنے ہوئے۔ جس کے باعث وہ اندر ہی اندر کافی بےچین تھی۔ اور ابھی تھوڑی دیر قبل جب صبیحہ کی زبانی اسے اس دشمنِ جان کے آنے کی خبر ملی تو اس خواہش نے شدت اختیار کرلی۔ وہ کب سے اس کی منتظر تھی جو باہر سے یہ سوچ کر ہی پلٹ گیا تھا کہ بھلا یہاں کس کو اس کا انتظار ہوگا؟
تو پلٹ آیا دہلیز سے ہی کیوں
آگے بڑھ کر تو دیکھتا او بےخبر
آنکھوں میں دید کی پیاس لئے
کوئی دہلیز کے پار تھا منتظر
فریال خان
*******************************
غضنفر گھر واپس آیا تو حسب معمول گھر میں مدھم لائٹس آن تھیں مگر خلاف معمول سلیمان بھی ہال کے صوفے پر موبائل میں مصروف ملے۔ تو وہ بھی ان ہی کی جانب چلا آیا۔
"آپ سوئے نہیں ابھی تک؟" وہ پوچھتے ہوئے ان کے برابر میں بیٹھ گیا۔
"نیند ہی نہیں آرہی تھی، تم بتاؤ کہاں سے آوارہ گردی کرکے آرہے ہو؟" وہ موبائل اسکرین آف کرتے ہوئے اس کی جانب متوجہ ہوئے۔
"کہیں سے بھی نہیں، بس سڑکوں کی خاک چھان رہا تھا۔" اس نے سرسری سا جواب دیا۔
"کیوں؟ تم تو آج باجی کے ہاتھ کا بنا کڑاہی گوشت کھا کر آنے والے تھے، باجی کا فون آیا تھا، بتا رہی تھیں وہ کہ تم نے فرمائش کی ہے۔" انہوں نے بتاتے ہوئے پوچھا۔
"عزیر اور صبیحہ کو گڈ نیوز ملی ہے آج، اسی خوشی میں شاید ملیحہ اور اس کے پیرنٹس بھی وہاں آئے ہوئے تھے، ظاہر ہے خوشی کا موقع تھا، سب ایک ساتھ خوشگوار ماحول میں ہنس بول رہے ہوں گے، اب ایسے میں کیا میں وہاں جا کر رنگ میں بھنگ ڈالتا؟ اور کون سا وہاں کوئی میرا انتظار کر رہا تھا؟" اس نے پھیکےپن سے کہتے ہوئے پشت سے ٹیک لگائی۔
"تمھیں کیسے پتا چلا کہ تمہارے وہاں جانے سے رنگ میں بھنگ پڑ جاتی؟" انہوں نے سوال اٹھایا۔
"اندازہ لگایا میں نے۔" اس نے سادہ سا جواب دیا۔ وہ چند لمحے خاموش رہنے کے بعد گویا ہوئے۔
"پتا ہے، ہم انسانوں میں نا ایک یہ بھی پرابلم ہے کہ ہم خود سے اندازے بہت لگاتے ہیں، جیسے کہ اگر کہیں کوئی تقریب ہے اور میزبان مہمانوں میں الجھ کر ہم سے حال چال پوچھنا بھول گیا تو اندازہ لگا لیا کہ دیکھو! ہماری تو کوئی اہمیت ہی نہیں ہے، کوئی کسی وجہ سے ہمارا فون اٹھا پا رہا تو اندازہ لگا لیا کہ وہ تو ہم سے بات کرنا ہی نہیں چاہتا، اگر کوئی ہمارے دعوت دینے پر نہ آسکے تو اندازہ لگا لیا کہ وہ تو ہم سے ملنا ہی نہیں چاہتا، کیا ضروری ہے کہ ہر بار ہمارے لگائے گئے اندازے صحیح ہوں؟ تصویر کا دوسرا رخ بھی تو ہوسکتا ہے نا!" وہ رسان سے کہتے گئے۔
"باتوں کو اندازے کے مطابق اپنی مرضی کا مفہوم پہنانا کوئی عقل مندی نہیں بلکہ بہت بڑی بےوقوففی ہے، تم خود ایمانداری سے بتاؤ کہ اگر تم وہاں جاتے، خوش اخلاقی سے سب سے ملتے تو بھلا کون برا مانتا؟" انہوں نے کہتے ہوئے سوال کیا۔ جس کے جواب میں وہ خاموش رہا۔
"سیدھی اور آسان سی بات ہے کہ اگر ہم اچھے ہیں، تو سامنے والا بھی اچھا ہے، اور اگر سامنے والا اچھا نہیں ہے تو آپ پھر بھی اچھائی کرتے رہو تا کہ دنیا سے کم از کم ایک برا انسان تو کم ہو۔" انہوں نے زندگی کا فلسفہ سمجھایا۔ جسے اس نے خاموشی سے سنا۔
"پتا ہے تم غیر محسوس انداز میں خودترسی کا شکار ہوگئے ہو غضنفر، خودترسی پتا ہے نا کسے کہتے؟ خود کو تنہا اور مظلوم سمجھنا، یہ سوچنا کہ تمہاری تو کوئی اہمیت ہی نہیں ہے، تمھیں بس یہ ہی لگتا ہے کہ کوئی تم سے پیار نہیں کرتا، جب کہ در حقیقت تم کسی کو خود سے پیار کرنے ہی نہیں دیتے، پھر چاہے وہ رفاقت بھائی ہوں، صالحہ باجی ہوں یا پھر ملیحہ۔" انہوں نے لفظوں کے آئینے میں حقیقت دیکھائی۔
وہ خاموشی سے سیدھا ہوکر بیٹھ گیا اور انہیں دیکھنے لگا۔
"خودترسی کے اس خول سے باہر آؤ بیٹا، اور اگر تمھیں لگتا ہے کہ کوئی تم سے پیار نہیں کرتا تو تم لوگوں سے پیار کرنا شروع کردو، پیار کرنا اور نبھانا سیکھو، ابھی پوری زندگی پڑی ہے تمہارے آگے۔" اب انہوں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے سمجھایا۔ جس کے بعد تھوڑی دیر کیلئے دونوں کے بیچ خاموشی حائل ہوگئی۔
"آج مجھے وہ ملی ماموں۔" تھوڑی دیر بعد غضنفر بولا۔ مگر موضوع کچھ اور تھا۔ جب کہ سلیمان اسی موضوع پر کسی جواب کی توقع کر رہے تھے۔
"کون ملی؟" وہ سمجھے نہیں۔
"وہ ہی، جس نے میری جان بچائی تھی، جسے میں کب سے ڈھونڈ رہا تھا، مس ایس۔" اس نے دونوں ہاتھوں کو آپس میں پیوست کرتے ہوئے جواب دیا تو وہ دنگ رہ گئے۔
"ہیں! وہ کہاں مل گئی تمھیں؟" انہوں نے حیرانی سے پوچھا۔
"آج شام جو ہمارے شوروم پر لڑکی آئی تھی، وہ ہی تھی۔" اس نے مختصر بتایا۔
"تو پھر؟ تم نے بتایا اسے اپنے پاگل پن کے بارے میں؟" انہوں نے جاننا چاہا۔
"نہیں!"
"کیوں؟"
"کیونکہ میں بتا ہی نہیں پایا۔" اس نے کھوئے ہوئے انداز میں جواب دیا تو انہیں اس کی دماغی حالت پر شبہ ہوا۔
"جیسا میں نے سوچا تھا نہ تو وہ ویسی تھی اور نہ مجھے اس سے مل کر ایسا کچھ محسوس ہوا جیسا اب تک میں سوچتا آیا تھا۔" وہ بتانے لگا۔
"کیا مطلب؟ خوبصورت نہیں تھی وہ؟" انہوں نے اندازاً پوچھا۔
"نہیں، خوبصورتی کی بات نہیں ہے، دیکھنے میں اچھی تھی وہ، مگر۔۔۔" وہ نفی کرتے ہوئے رکا۔
"مگر کیا؟" وہ الجھے۔
"مگر اس کی نیلی آنکھوں میں وہ چمک نہیں تھی جو ملیحہ کی کالی آنکھوں میں مجھے دیکھ کر آتی ہے، اس کے سفید چہرے پر وہ مسکراہٹ نہیں تھی جو ملیحہ کی گندمی صورت کو دلکش بناتی ہے، وہ صرف خوبصورت تھی، ملیحہ کے جیسی دلکش نہیں تھی۔" وہ کھوئے ہوئے انداز میں بےساختہ موازانہ کرتا گیا۔
"میں تو اسے اپنے لئے بہت خاص سمجھتا تھا، مگر وہ تو ایک عام انسان سے بھی زیادہ عام لگی مجھے، میں سمجھتا تھا کہ اس سے ملتے ہی دھڑکن لے بدلے گی، ہواؤں گنگنانے لگیں گی، میں اس کے چہرے پر سے نظر نہیں ہٹا پاؤں گا، مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، وہ آئی اور چلی بھی گئی لیکن میں نے کچھ بھی محسوس نہیں کیا۔" وہ کسی غیر مرئی نقطے کو تکتے ہوئے بولا۔
"یہ سب فلموں میں ہوتا ہے گدھے۔" انہوں نے اگلے ہی پل اس کے سر پر چپت لگائی۔
"نہیں ماموں! یہ سب حقیقت ہے، اور میں نے یہ سب محسوس بھی کیا ہے، پتا ہے کب؟" اس نے نفی کرتے ہوئے تجسس پھیلایا۔
"کب؟" انہوں نے جاننا چاہا۔
"ملیحہ کے ساتھ۔" اس نے بلآخر اعتراف کیا۔
"جب وہ مجھے چھوتی تھی تو لگتا تھا کہ میرے سارے درد منٹوں میں ختم ہوگئے، اور رواں رواں جھوم اٹھتا تھا، میری دھڑکنیں لے بدل لیتی تھیں، جب وہ بولتی تھی تو لگتا تھا کہ سب کچھ بہت اچھا ہے اور اگر نہیں بھی ہے تو جلد ٹھیک ہوجائے گا، جب وہ مسکراتی تھی تو لگتا تھا کہ موسم بہت خوبصورت ہوگیا ہے اور دنیا بھی بہت حسین ہے، اور اب اس کے جانے کے بعد سب کچھ ویران اور بےجان ہوگیا ہے۔" وہ کرب سے کھوئے ہوئے انداز میں کہتا گیا۔ مگر افسوس! کہ اس نے کہنے میں دیر کردی تھی۔
"جس لڑکی کیلئے میں نے ملیحہ کو نظر انداز کیا وہ لڑکی تو اس کی دھول کی برابر بھی نہ لگی مجھے، ملیحہ جیت گئی ماموں! اور میں ہار گیا۔" اس نے شکستہ انداز میں قبول کیا۔
"میں سب کچھ ہار گیا، کیونکہ میں ملیحہ کو ہار گیا۔" وہ شدید کرب کی حالت میں تھا۔
"جس چمکتی چیز کو میں ہیرا سمجھ رہا تھا وہ تو بس کانچ کا ایک ٹکڑا نکلا۔" اس نے دکھ سے اپنی نادانی کا اعتراف کیا۔
"یااللہ!" سلیمان نے بےساختہ اپنا سر پیٹا۔ تو اس نے تعجب سے انہیں دیکھا۔
"غضنفر تم پاگل تو نہیں ہو؟ پہلے اتنے عرصے ایک اجنبی لڑکی کے پیچھے پاگل رہے، اسی کی وجہ سے اتنی اچھی بیوی کو چھوڑ دیا اور اب جب وہ لڑکی ملی تو وہ بھی تمھیں پسند نہیں آئی، تو پھر چاہتے کیا ہو تم؟" انہیں اب اس پر غصہ آنے لگا۔ جس کے جواب میں وہ خاموش رہا۔ اور انہوں نے بھی ضبط کرتے ہوئے لب بھینچ لئے۔
"میری مانو تو اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے، ملیحہ کو جا کر واپس لے آؤ، تا کہ تم دونوں ساتھ ایک اچھی زندگی شروع کرو اور میرے سر سے شوروم جانے کا خدشہ ٹلے۔" انہوں نے بلآخر حل تراشا۔
"نہیں ماموں! ملیحہ بہت اچھی لڑکی ہے، اور وہ اپنے جیسے ہی اچھے پارٹنر کی مستحق ہے، میرے جیسے نہیں، میں نے آج تک اسے دھوکے اور دکھ کے سوا بھلا دیا ہی کیا ہے؟" اس نے تاسف سے نفی کی۔
"بس تو پھر بیٹھے رہو اکیلے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر ساری زندگی۔" وہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تھا۔ جس کے جواب میں وہ کچھ نہ بولا۔
پھر سلیمان تیز تیز قدم اٹھاتے کمرے میں چلے گئے جب کہ وہ وہیں بیٹھا رہ گیا، افسردہ سا، تنہا سا۔
یہ جو سناٹے ہمارے حصے میں آئے ہیں
ہم نے خود اپنے ہاتھوں ہی تو کمائے ہیں
گمان تھا بڑا کہ آپ کو یاد تک نہ کریں گے
اور ستم دیکھیں کہ بھول ہی نہ پائے ہیں
جس کی تلاش میں نکلے تھے آپ کو چھوڑ کر
آج اس سے مل کر بھی اسے چھوڑ آئے ہیں
اب کیسے کہیں؟ کہ آپ بن ہمارا جی نہیں لگتا
بمع سامان آپکو گھر تک ہم ہی تو چھوڑ کر آئے ہیں
فریال خان
*******************************
چپکے سے یہ چند مزید دن بھی سرک گئے تھے۔ اور ان گزشتہ روز میں ملیحہ فاؤنڈیشن میں سب سے کافی گھل مل گئی تھی۔ آج بھی حسب معمول سیشن ختم ہونے کے بعد جب سب خواتین اٹھ کر ہال سے باہر جانے لگیں۔ تو ملیحہ بھی وہاں سے نکل کر روبینہ کے پیچھے آئی جو اپنے مخصوص لئے دیے انداز میں ایک طرف بڑھ رہی تھیں۔
"ایکسکیوزمی روبینہ جی!" وہ پکارتے ہوئے ان کی طرف آئی تو وہ رک کر پلٹیں۔
"آپ سے کچھ دیر بات کر سکتی ہوں؟" اس نے مہذب انداز میں اجازت چاہی۔
"کہو!" انداز سادہ تھا۔
"سکون سے بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔" بجائے اصل مدعے پر آنے کے ملیحہ نے پیشکش کی تو وہ اسے دیکھتے ہوئے سوچ میں پڑ گئیں۔
*******************************
دوپہر کا وقت ہونے کے باعث دھوپ تو کافی ہو رہی تھی۔ مگر فاؤنڈیشن کے داخلی حصے میں بنے بڑے سے ہرے بھرے لان میں لگے چند سبز پیڑوں کے نیچے کی چھاؤں بڑی بھلی معلوم ہو رہی تھی۔
ان ہی میں اس ایک پیٹر کے نیچے نصب لکڑی کی بینچ پر ملیحہ اور روبینہ ذرا فاصلے سے بیٹھی ہوئی تھیں۔
"جس دن میرا پہلا سیشن تھا اور آپ نے مجھ سے سوال کیا تھا تب مجھے لگا تھا کہ میں نے آپ کو کہیں دیکھا ہے، پھر بعد میں یاد آیا کہ قریب چار پانچ مہینے پہلے کوئی نوجوان آپ کو یہاں چھوڑ گیا تھا، اور کسی سے بات تک نہیں کر رہی تھیں، آپ بس اکثر نیند میں ایک ہی لفظ بولتی تھیں "مان" ملیحہ نے آہستہ آہستہ بات شروع کی۔
"اب جب میں نے آپ کو دیکھا تو مجھے خوشی ہوئی آپ کو پہلے سے بہتر حالت میں دیکھ کر، لیکن ابھی بھی آپ کافی خاموش خاموش رہتی ہیں، کسی سے بات چیت نہیں کرتیں، جب کہ باقی خواتین کی تو آپس میں کتنی اچھی دوستی ہے، اگر آپ کو کوئی بات پریشان کر رہی ہے تو آپ مجھ سے شیئر کر سکتی ہیں۔" اس نے نرمی سے انہیں دیکھتے ہوئے پیشکش کی جو کسی غیر مرئی نقطے کو تکنے میں مصروف تھیں۔
"کیا کرو گی تم میرے بارے میں جان کر؟" انہوں نے اسی انداز سوال کیا۔
"آپ سے دوستی۔" اس نے اپنائیت سے جواب دیا۔
"مجھے دوست بنانا پسند نہیں۔" انداز اب بھی وہ ہی تھا۔
"اچھا! تو چلیں بیٹی سمجھ کر بتا دیں۔" اب اس نے دوسری چال چلی جس پر انہوں نے گردن موڑ کر ملیحہ کی جانب دیکھا جو پر امید سی ان کے جواب کی منتظر تھی۔
"بانٹنے سے دل کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے۔" اس نے مسکراتے ہوئے انہیں اعتماد دلانا چاہا اور کامیاب بھی رہی۔
"میرا تعلق ایک درمیانے طبقے سے تھا، گھر میں بس میں، ابا اور بھائی ہوا کرتے تھے، ابا ایک کلرک تھے جن کی تنخواہ میں گزارا ہوجاتا تھا، بھائی مجھ سے چھے سال بڑا تھا مگر سدا کا پڑھائی اور کام چور تھا، اس کی بس ایک ہی ضد تھی کہ شارٹ کٹ طریقے سے پیسا کمانا ہے جس کے ابا سخت خلاف تھے، انہیں بری صحبت سے دور رکھنے کیلئے ابا نے انہیں ایک دوست کی فیکٹری میں سوپر وائزر لگوا دیا اور کچھ ہی عرصے میں یہ سوچ کر ان کی شادی بھی کردی کہ شاید ذمہ داری پڑے گی تو ذمہ دار بن جائیں گے وہ، مگر سونے پر سہاگہ تب ہوا جب بھابھی بھی لالچی فطرت کی نکلیں، انہیں تھوڑے بہت میں شکر کرنا نہیں آتا تھا اور وہ بھیا کو مزید پیسے کمانے کیلئے اکساتی رہتی تھیں، اس وقت بھیا کا ایک دوست بھی ہوا کرتا تھا جس کا ہمارے گھر بےحد آنا جانا تھا، اور ابا کو بھی اس کی مہذب طبیعت کی وجہ سے بھیا کی اس دوستی پر کوئی اعتراض نہ تھا، سب یوں چل رہا تھا کہ بھیا کو اچانک بیرون ملک جانے کا شوق چڑھ گیا، کہ وہ وہاں جا کر کوئی چھوٹا سا کاروبار شروع کریں گے، ابا نے سمجھایا کہ یہ سب اتنا آسان نہیں ہے، ان سب کیلئے بہت پیسے چاہیے ہوتے ہیں، تو انہوں نے بتایا کہ پیسوں کا انتظام کر لیا ہے انہوں نے اپنے اسی دوست کے ساتھ مل کر، اسی لئے ابا خاموش ہوگئے اور بھیا بیرون ملک روانہ ہوگئے، ان کا دوست بھی ان کے ساتھ گیا تھا، کچھ عرصہ سب ٹھیک رہا پھر اچانک بھیا سے ہر قسم کا رابطہ ختم ہوگیا، ہم سب بہت پریشان تھے کہ کیا کریں؟ کہ تب ہی ہم پر ایک اور آفت ٹوٹی کہ کچھ لوگ ہمارا گھر خالی کروانے آگئے، اور ابا نے جب ان سے ضد بحث کی تو پتا چلا کہ وہ بینک والے تھے اور انہوں نے بتایا کہ بھیا نے گھر کے کاغذات رکھ کر بینک سے قرضہ لیا تھا، اور اب ان کی طرف سے نہ کوئی قسط ادا ہوئی ہے نہ ہی وہ کسی رابطے میں ہیں اسی لئے قانون طور سے اب وہ گھر اپنے قبضے میں لینے آئے تھے، یہ سنتے ہی ابا ٹوٹ گئے، کیونکہ وہ محض اینٹ سمنٹ کا دو منزلہ مکان نہیں تھا، وہ ابا کی محنت کی کمائی سے بنا گھر تھا، جسے میری امی نے رہتی زندگی تک اپنی محبت سے جنت بنایا تھا، جہاں ہم پیدا ہوئے تھے، جہاں بہت سی اچھی بری یادیں موجود تھیں، بھیا نے پیسوں کیلئے ان سب کا سودا کر لیا تھا، ابا یہ صدمہ برداشت نہیں کر سکے اور چل بسے، پہلے بھیا لاپتا تھے، پھر سر سے چھت چھنی اور پھر ابا کا سایہ بھی چلا گیا، میں تو جیسے سکتے میں ہی آگئی تھی، مجھے کچھ ہوش نہیں تھا کہ کب محلے والوں نے بھابھی کے میکے والوں کے ساتھ مل کر ابا کی تدفین کی اور کب میں اپنا گھر چھوڑ کر بھابھی کے ساتھ ان کے میکے آگئی؟ لوگوں کے سوالوں کا تھوڑا اندیشہ تھا اسی لئے بھابھی نے مجھے ساتھ رکھ لیا کہ جب لوگ پوچھتے جوان نند کا کیا کیا تو کیا جواب دیتی؟ لیکن میری حیثیت ملازمہ سے زیادہ نہ تھی، میرا کام بس ان کے بچے سنبھالنا اور حکم بجا لانا تھا جو میں چپ چاپ کرتی گئی، پھر قریب ایک سال بعد ایک دن بھیا لوٹ آئے، بہت بکھرے ہوئے حال میں، اور پوچھنے پر پتا چلا کہ ان کے اسی دوست نے بیرون ملک جا کر انہیں دھوکہ دے دیا تھا، وہ وہاں بہت بری طرح پھنس گئے تھے، اور اب بڑی مشکل سے وطن واپس آئے ہیں، خیر پھر کچھ عرصے میں بھیا نے دوبارہ نوکری شروع کی اور ایک کرائے کا گھر لے کر بھابھی کے میکے سے الگ ہوگئے، کچھ وقت سب یوں ہی چلا اور بھیا دوبارہ ہیرا پھیری کرکے پیسا بنانا شروع کردیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے حالات بدلنے لگے، مگر مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں تھا، میری دنیا تو کب کی لٹ چکی تھی، میں تو بس چپ چاپ زندگی گزارے جا رہی تھی، تب ہی ایک روز میں نے بھابھی کو ان کی امی سے کہتے سنا کہ بھیا میری شادی کرنا چاہ رہے تھے مگر بھابھی میری شادی نہیں کریں گی کیونکہ میری صورت انہیں ایک مفت کی قابل بھروسہ ملازمہ جو ملی ہوئی تھی، مجھے بھی شادی کا کوئی شوق نہیں تھا اسی لئے کوئی ضد بحث نہیں کی، یوں ہی سب کے بیچ وقت بائیس سال آگے چلا گیا، بھیا نے اچھا خاصا پیسا بنا لیا تھا، سب عیش سے رہ رہے تھے کہ چھے مہینے پہلے کار حادثے میں بھیا کا بھی انتقال ہوگیا، اور ان کے جانے کے کچھ ہی دنوں بعد جہاں ان کے بیٹے نے کاروباری معاملات سنبھال لئے وہیں بھابھی کا بھی شاید مجھ سے دل بھر گیا اسی لئے وہ میرے لئے طلاق یافتہ اور رنڈوے بڈھوں کے رشتے دیکھنے لگیں، کیونکہ اب انہیں میرا گھر بسانے کا خیال آیا تھا، مگر میں شادی نہیں کرنا چاہتی تھی اسی لئے میں نے انکار کردیا، تو انہوں نے دوٹوک انداز میں میرے سامنے دو راستے رکھے پہلا، ان کی مرضی سے شادی کرلوں، اور دوسرا، گھر چھوڑ کر کسی فلاحی ادارے میں چلی جاؤں، میں نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور یوں میرا سگا بھتیجا مانی مجھے خود یہاں چھوڑ گیا۔"
ماضی میں کھو کر دھیرے دھیرے اپنی کہانی سنانے کے بعد اب وہ خاموش ہوگئی تھیں، گویا تھک گئیں ہوں۔
وحشت نے زندگی کی روانی اُجاڑ دی
ایک واقعے نے ساری کہانی اُجاڑ دی
کم سِن بدن پہ بوجھ ہے بُوڑھے دماغ کا
سنجیدگی نے میری جوانی اُجاڑ دی
انتخاب
ملیحہ بھی چپ چاپ انہیں دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ اتنی دل سوز آپ بیتی سنانے پر بھی ان کی آنکھ سے آنسو کیوں نہیں نکلا؟ اور پھر خود ہی نتیجے پر پہنی کہ شاید اب رو رو کر یہ آنکھیں خشک ہو چکی تھیں۔
"بہت افسوس ہوا سب جان کر۔" بلآخر ملیحہ نے ہی خاموشی کو توڑا۔ جس کے جواب میں وہ کچھ نہ بولیں۔
"اچھا ایک سوال اور تھا!" اس نے تہمید باندھی۔
"آپ کو اکثر نیندوں میں "مان" لفظ بڑبڑاتے ہوئے سنا گیا ہے، کیا مطلب ہے اس کا؟" اس نے سنبھل کر جاننا چاہا۔
اس کی بات پر انہوں نے یوں اس کی جانب دیکھا گویا ملیحہ نے انجانے میں ان کا کوئی پرانا زخم کرید دیا ہو جس کا احساس خود ملیحہ کو بھی ہوا مگر اب تو تیر کمان سے نکل چکا تھا۔
"ملیحہ! یہاں کیا کر رہی ہو؟" اچانک سمیرا کی چہکتی ہوئی آواز نے دونوں کا ارتکاز توڑا۔
دونوں نے چونک کر بےساختہ نظر اٹھائی تو پتا چلا کہ سمیرا نزدیک آچکی ہے۔
"میں سمجھ رہی تھی کہ شاید تم سیشن کے بعد مجھ سے ملے بنا ہی گھر چلی گئی، اور تم یہاں بیٹھی ہو!" وہ کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس کے مقابل کھڑی ہوئی۔ تو وہ دونوں بھی اپنی جگہ پر سے اٹھ گئیں۔
"ہاں بس ایسے ہی، پیڑ کی چھاؤں اچھی لگ رہی تھی تو یہیں بیٹھ گئی۔" اس نے متوازن جواب دیا۔
روبینہ بنا کوئی بات چیت کیے خاموشی کے ساتھ وہاں سے چلی گئیں۔ جسے دونوں نے دیکھا پر کہا کچھ نہیں۔
"یہ ہی ملی تھیں تمھیں ساتھ بیٹھنے کیلئے جو پتا نہیں کب سے میوٹ موڈ پر لگی ہوئی ہیں۔" ان کے جانے کے بعد سمیرا نے رازداری سے کہا۔
"بری بات!" ملیحہ نے ٹوکتے ہوئے اس کے بازو پر چپت لگائی۔
"اچھا خیر چھوڑو یہ باتیں، مجھے تمھیں بتانا تھا کہ ایک جگہ بہت زبردست بک فیئر لگا ہے، بالکل تمہارے مطلب کا، میں کل گئی تھی، تم بھی آج ٹائم نکال کر ضرور جانا۔" وہ خود ہی موضوع بدل کر نان اسٹاپ بولنا شروع ہوگئی تھی۔
*******************************
"طلحہ؟"
"نہیں!"
"احد؟"
"نہیں؟"
"میسم؟"
"نہیں!"
"شایان؟"
"نہیں!"
"اچھا اب لڑکیوں کے نام، مدیحہ؟"
"نہیں!"
"خدیجہ؟"
"نہیں!"
"طہور؟"
"نہیں!"
"عروج؟"
نہیں!"
"یار کوئی ایک نام تو پسند کرلو۔" عزیر نے جھنجھلا کر کتاب بند کی۔
"ابھی تمھیں اتنی جلدی کیا پڑ گئی ہے نام سوچنے کی؟ ابھی نوں مہینے ہیں۔" بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھی صبیحہ نے بےنیازی سے کہتے ہوئے گود میں رکھی پلیٹ سے سیب کا ٹکڑا اٹھا کر کھایا۔
"نوں مہینے بعد بھی تو سوچنا ہی ہے نا کوئی نام! تو ابھی سوچ لیتے ہیں۔" اس کے برابر میں بیٹھے عزیر نے دھیان دلاتے ہوئے پلیٹ سے سیب اٹھا کر منہ میں رکھا۔
"ہاں تو تم سوچو بیٹھ کر، میں باہر جا رہی ہوں، صبح سے کمرے میں بیٹھے بیٹھے اوب گئی ہوں۔" اس نے پلیٹ بیڈ پر رکھتے ہوئے پیر بیڈ سے نیچے کیے اور اٹھ کھڑی ہوئی۔
"باہر کہاں جا رہی ہو؟ تمھیں ابھی آرام کی ضرورت ہے، بیٹھو یہاں سکون سے۔" عزیر نے بھی سیدھے ہوتے ہوئے ٹوکا۔
"باہر ہال میں جا رہی ہوں باقی لوگوں کے پاس، اور آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ میں خود بھی ڈاکٹر ہوں اسی لئے مجھے پتا ہے کہ مجھے کب اور کتنا آرام کرنا ہے!" وہ کندھے پر موجود دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے بےنیازی سے بولی۔
"بڑی آئی ڈاکٹر! اپنی خود کی پریگنینسی کا تو پتا چلا نہیں تھا تمھیں ڈاکٹر کے بتانے سے پہلے۔" اس نے مصنوعی طنز مارتے ہوئے اطمینان سے سیب کھایا۔
"مجھے آئیڈیا تھا، میں بس کنفرم کرکے بتانے والی تھی تمھیں لیکن اس سے پہلے ہی طبیعت خراب ہوگئی میری، خبردار جو میری ڈاکٹری کو شک کی نگاہ سے دیکھا تو۔" اس نے برہمی سے اپنا تکیہ اٹھا کر اسے کھینچ کے مارا۔ اور پھر تیزی کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گئی۔
"آہستہ قدم اٹھاؤ، میرے بچے کی جنت ہل رہی ہے۔" عزیر نے پیچھے سے آواز لگائی۔
*******************************
سورج غروب ہونے کے بعد ملیحہ سمیرا کے بتائے ہوئے بک فیئر میں آئی ہوئی تھی۔ اور کافی دیر سے مختلف اسٹالز پر گھومتے ہوئے کتابوں کا جائزہ لے رہی تھی۔ باقی سب بھی اپنی اپنی پسند کی کتابیں ڈھونڈنے میں مصروف تھے اور وہاں ایک پرسکون سی چہل پہل جاری تھی۔
بلآخر ایک بک اسٹال پر سے کتاب خرید کر اسے بیگ میں رکھتے ہوئے وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی کہ تب ہی ایک شخص اچانک اس سے ٹکرایا اور اس کا ہاتھ اس کی کمر سے لگتا ہوا گزرا جس کے باعث اس نے سٹپٹا کر اس اجنبی کی جانب دیکھا۔
"سوری!" نظریں ملنے پر وہ آدمی خباثت سے مسکرایا تو وہ سمجھ گئی کہ یہ ٹکراؤ اتفاقی نہیں تھا۔
"یہ کیا بےہودہ حرکت تھی؟" وہ برہم ہوئی۔
"کون سی حرکت میڈم؟" وہ انجان بنا۔
"ابھی تم مجھ سے جان بوجھ کر ٹکرائے اور مجھے ہاتھ لگایا۔" اس کی آواز بلند ہوئی تو آس پاس کے لوگ بھی متوجہ ہونے لگے۔
"اچھا! کہاں ہاتھ لگایا تھا میں نے؟" اس نے بھی ڈھیٹ بن کر اس گمان میں جاننا چاہا کہ شاید وہ لڑکی شرم کے مارے سب کے سامنے بتائے گی نہیں۔
ابھی ملیحہ نے غصے کے عالم میں کچھ کہنے کیلئے لب وا کیے ہی تھے کہ اگلے ہی پل اس شخص کے منہ پر زور دار مکا پڑا اور وہ سٹپٹا کر زمین بوس ہوا جس پر سب حیران رہ گئے۔
ملیحہ نے بھی گردن موڑ کر دیکھا تو بےحد خطرناک تاثرات کے ساتھ اسے غضنفر پاس کھڑا ملا جو کہ اب پھر اس شخص کی جانب لپکا تھا۔
غضنفر نے اسے گریبان سے پکڑ کر اٹھایا اور پھر دو تین زور دار مکے رسید کیے۔ تب تک دوسرے لوگ بھی بیچ بچاؤ کیلئے آگے آئے۔ اور غضنفر انہیں بھی پیٹ کر پھر اس شخص پر برسنے لگا۔
"تیری ہمت کیسے ہوئی میری بیوی کو ہاتھ لگانے کی؟" غضنفر نے اس کا لہو لوہان جبڑا بری طرح دبوچ کر غصے سے کہا۔ مگر وہ تکلیف کے مارے جواب بھی نہ دے پایا۔
"غضنفر چھوڑو اسے، مر جائے گا وہ۔" ملیحہ نے اسے بازو سے پکڑ کر کھینچنا چاہا۔
"یہ ہی تو میں چاہتا ہوں۔" اس نے جنونی انداز میں کہتے ہوئے پوری قوت سے ایک اور مکا اسے رسید کیا جس کے باعث وہ منہ کے بل زمین پر گرا۔
"پاگل ہوگئے ہو؟ خواہ مخواہ پولیس کیس بن جائے گا۔" ملیحہ نے اسے باز رکھنا چاہا۔
"بن جائے، میں ڈرتا نہیں ہوں کسی سے۔" وہ اپنا بازو چھڑاتے ہوئے پھر اس کی طرف لپکنے لگا۔
ملیحہ سمیت کچھ مزید لوگوں نے بیچ میں آکر دونوں کو ایک دوسرے سے دور کیا۔ شروعاتی ہاتھا پائی میں تھوڑی چوٹ غضنفر کو بھی لگی تھی جس کے باعث اس کے ہونٹ اور ناک سے خون رسنے لگا تھا، مگر اسے تو گویا اپنا ہوش ہی نہیں تھا۔ پھر اس بندے کو فٹافٹ ہسپتال پہنچانے کا بندوبست کیا گیا جب کہ ملیحہ بھی اسے کھینچتی ہوئی لے کر باہر نکل کر پارکنگ میں آگئی جہاں خاص چہل پہل نہیں تھی۔
"تمہارے پاس دماغ نام کی چیز ہے بھی یا نہیں؟ کیا ضرورت تھی اسے اتنی بری طرح پیٹنے کی؟ اگر پولیس کیس بن گیا تو!" اب وہ اس کی کلاس لینے لگی۔
"کیا ضرورت تھی!" اس نے تعجب سے دہرایا۔
"اس نے ہاتھ لگایا تھا تمھیں اور میں اسے جانے دیتا، اگر تم لوگ بیچ میں نہیں آتے تو میں سچ میں اسے مار بھی ڈالتا۔" اس نے برہمی سے اپنا ارادہ بتایا۔ وہ اسے گھورنے لگی۔
"اور تمہیں بھی کیا ضرورت تھی گھر سے اکیلے باہر نکلنے کی؟" اب وہ اس کی کلاس لینے لگا۔
"میں کوئی ننھی بچی نہیں ہوں، اور نہ پہلی مرتبہ اکیلے باہر آئی ہوں۔" اس نے بھی تنک کر جواب دیا۔
"ننھی بچی ہو یا جوان لڑکی، عورت کا اکیلے باہر نکلنا کسی صورت ٹھیک نہیں ہے، آئی سمجھ!" وہ برہمی سے اس پر حکم چلا رہا تھا۔ مگر بات اس کی درست تھی۔
"اچھا ٹھیک ہے، یہ بحث ہم بعد میں کر لیں گے، تم پہلے ڈاکٹر کے پاس چلو، تمھیں بھی چوٹ لگی ہے۔" اس نے ہار مانتے ہوئے موضوع بدلا۔
"نہیں، میں ٹھیک ہوں۔" اس نے نفی کی۔
"کوئی ٹھیک نہیں ہو، گاڑی کہاں ہے تمہاری؟ میں کیب میں آئی تھی ورنہ اپنی گاڑی میں ہی لے جاتی تمھیں۔" اس نے کہتے ہوئے متلاشی نظروں سے اس کی کار ڈھونڈنی۔
"وہ رہی، چلو اب۔" مطلوبہ کار نظر آنے پر اس نے کہتے ہوئے غضنفر کو بازو سے پکڑ کر کھینچا تو اسے بھی چلنا پڑا۔
ہماری رنجیشیں تو ہیں ہنوز اپنی جگہ
مگر تیرا فکر کرنا میری مجھے اچھا لگا
فریال خان
*******************************
"ویسے تمھیں تو کتابوں کا شوق ہے نہیں، تو پھر تم اس بک فیئر میں کیا کر رہے تھے؟" خیال آنے پر ملیحہ نے استفسار کیا۔ایک نظر اسے دیکھنے کے بعد غضنفر دوبارہ سامنے دیکھتے ہوئے ہاتھ میں موجود پیکٹ میں سے پاپ کارن نکال کر کھانے لگا۔
ڈاکٹر سے چیک اپ کروانے کے بعد اب دونوں سمندر سے کافی دور گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑے پاپ کارن کھاتے ہوئے ایسے باتوں میں مصروف تھے گویا کتنا گہرا یارانہ ہو دونوں کے بیچ۔
"میں نے کچھ پوچھا ہے غضنفر!" ہوا سے چہرے پر آئے بال دائیں ہاتھ سے پیچھے کرتے ہوئے اس نے دوبارہ دھیان دلایا کیونکہ اس کے بائیں ہاتھ میں پاپ کارن کا پیکٹ تھا۔
"ایک کام نمٹا کے گھر واپس جا رہا تھا کہ راستے میں ایک کیب میں تمھیں سوار دیکھا تو تمہارے پیچھے آگیا۔" اس نے سرسری انداز میں سچ بتایا۔
"مطلب تم پیچھا کر رہے تھے میرا؟" اس نے نتیجہ نکالتے ہوئے آنکھیں سکیڑیں۔
"پتا نہیں!" اس نے پاپ کارن کھاتے ہوئے گول مول جواب دیا۔ تھوڑی دیر کیلئے دوبارہ دونوں کے بیچ خاموشی حائل ہوگئی۔ بس ہواؤں اور لہروں کی آواز سماعت سے ٹکراتی رہی۔
"ماموں کیسے ہیں؟" ملیحہ نے یوں ہی پوچھا لیا۔
"ٹھیک ہیں، اکثر تمھیں یاد کرتے ہیں۔" اس نے مختصر جواب دیا۔
"اور تم یاد کرتے ہو؟" ملیحہ نے کھوجتی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے جاننا چاہا۔ جو نظریں جھکائے پیکٹ میں پاپ کارن کے دانوں کھیل رہا تھا۔
"نہیں!" اسی انداز میں ایک لفظی جواب ملا۔
جو کہ درحقیقت جھوٹ تھا ورنہ وہ تو ایک لمحے کیلئے بھی نہیں بھولا تھا اسے۔ اور اس کی اندرونی کیفیت سے بےخبر ملیحہ کو لگا کہ کسی نے اس کی ننھی سی امید کا گلا گھونٹ کر اسے بےدردی سے مار دیا۔
"گڈ! اور سناؤ، تمہاری مس ایس ملی تمھیں؟" اس نے اپنے اندر کے دکھ کو اندر ہی چھپائے ہوئے موضوع بدل کر سرسری انداز میں پوچھا۔ شاید وہ اس کے سامنے کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی۔
اس سے قبل کہ غضنفر کچھ کہتا گاڑی کی پچھلی نشست پر رکھے پرس میں موجود ملیحہ کا فون بج اٹھا۔
"یہ پکڑنا۔" اس نے اپنے پاپ کارن غضنفر کو پکڑا کر کھڑکی کے ذریعے پرس سے موبائل نکالا۔
"السلام علیکم پاپا!" سالک کی کال تھی۔
"جس بس آرہی ہوں، راستے میں ہی ہوں۔۔۔۔۔جی۔۔۔۔ڈونٹ وری۔۔۔۔۔اوکے۔۔۔۔۔اللہ حافظ!" اس نے مختصر بات کرکے لائن ڈسکنیکٹ کی۔
"چلو تمھیں گھر چھوڑ دوں۔" غضنفر نے اس کا پیکٹ اسے واپس کرتے ہوئے کہا تو اس نے بھی اثبات میں سر ہلایا۔
پھر دونوں گاڑی میں سوار ہوگئے جس کے پہیے حرکت میں آتے ہوئے انہیں ان کی منزل کی جانب لے جانے لگے جو بدقسمتی سے جدا جدا تھیں۔
پورے راستے دونوں کے درمیان مزید کوئی خاص بات چیت نہیں ہوئی۔ کیونکہ باتیں تو بہت تھیں مگر انہیں زبان تک لانے کی ہمت نہیں تھی دونوں میں۔ اور اسی معنی خیز خاموشی کے ساتھ بلآخر کچھ دیر بعد دونوں ملیحہ کے گھر پہنچ گئے۔ جس کے باعث اس نے کار کی رفتار آہستہ کرتے ہوئے کار روک دی۔
"کوشش کرنا کہ جلد از جلد کوئی ایک فیصلہ کرکے مجھے اس الجھن سے آزاد کرسکو غضنفر۔" بلآخر ملیحہ نے ہی دبے دبے لفظوں میں سنجیدگی سے گزارش کی۔
"کیوں؟" ایک لفظی سوال آیا۔ جس کا فوری طور پر کوئی جواب نہ ملا۔
"تا کہ میں بھی اپنی زندگی میں کسی کے ساتھ آگے بڑھ سکوں۔" اس نے اسی سنجیدگی سے جواب دیا۔ تو اب تک ایک ہاتھ اسٹیئرنگ پر رکھے سامنے دیکھتے غضنفر نے یکدم گردن موڑ کر اس کی جانب دیکھا۔ جو نظریں جھکائے ناخن سے کھیل رہی تھی۔
"تو مطلب مل گیا ہے تمھیں تمہاری طرح کا کوئی اچھا انسان!" غضنفر نے خود کو نارمل رکھتے ہوئے نتیجہ نکالا۔
"ہاں کیوں؟ نہیں ملنا چاہئے تھا کیا؟" اب وہ بھی اس کی جانب دیکھ کر پوچھنے لگی۔
"نہیں، میں نے ایسا کب کہا؟" اس نے گول مول جواب دیتے ہوئے دوبارہ سامنے دیکھا۔ شاید حالِ دل کی چغلی کھاتی نظریں نہیں ملانا چاہتا تھا اس سے۔
"تو پھر کب کر رہے ہو مجھے اس رشتے سے آزاد؟" اس نے جاننا چاہا۔
"میں نے قید ہی کب کیا تھا؟" اس نے الٹا سوال کیا۔
"تم چاہو تو کل خلع کیلئے کورٹ چلی جاؤ۔" وہ اسی انداز میں مزید بولا۔
"پاپا ان چکروں میں نہیں پڑنے دیں گے، اور میں خود بھی نہیں چاہتی، اسی لئے بہتر ہے کہ تم مجھے سیدھی طرح طلاق دے دو۔" اب اس نے بھی سامنے دیکھتے ہوئے دو ڈوک بات کی۔
"باقی رہا حق مہر اور شرائط وغیرہ، تو وہ میں چھوڑتی ہوں۔" اس نے نظر جھکا کر دھیرے سے مزید کہا تو غضنفر اسے دیکھنے لگا۔
"مگر طلاق کی صورت ملنے والا حق مہر تو حق ہے تمہارا!" نجانے کیوں بےاختیار وہ یہ کہہ گیا۔
"حقوق تو اور بھی بہت تھے میرے، وہ بھی تو نہیں ملے مجھے۔" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے تلخی سے مسکرائی۔ تو اس نے بےساختہ نظریں چرالیں۔ شاید سمجھ گیا تھا اس کا مفہوم۔
"جلد کوئی فیصلہ کرکے ہم دونوں کو اس الجھن سے آزاد کرو غضنفر، میں انتظار کروں گی۔" ایک گہری سانس لیتے ہوئے اس نے بات ختم کی جس پر وہ کچھ نہ بولا۔
پھر اس کے کار سے اترنے کے بعد وہ بنا اس کی جانب دیکھے کار آگے بڑھا لے لیا گیا اور وہ وہیں کھڑی پر سوچ انداز میں دور جاتی گاڑی کی سرخ لائٹ کو تب تک دیکھتی رہی جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہوئی۔ جب کہ اس کے ذہن میں غضنفر کی اداس آنکھیں بس گئی تھیں۔ جنہوں نے اسے الجھا دیا۔
ہم تو چاہتے تھے زندگی ساتھ بِتانا
مگر خواہش کو ہماری تم نے نہ مانا
اب ہماری اداسی تو چلو آتی ہے سمجھ
مگر تم کیوں اب بھی اداس ہو جاناں؟
*******************************
ملیحہ کو چھوڑ کر جب دیر رات غضنفر گھر واپس لوٹا تو وہ ہی سناٹے اس کے منتظر تھے جنہیں نظر انداز کرتے ہوئے وہ سست روی سے چلتا اپنے جم میں آگیا۔
کمرے کی لائٹس آف تھیں۔ مگر وہاں بنی ایک کھڑکی سے چاند کی روشنی کمرے میں آرہی تھی اور کھڑکی والی دیوار کے بالکل برابر والی دیوار پر پڑ رہی تھی جس کے باعث اس پر لکھا سیاہ حرف S الگ ہی نظر آرہا تھا۔
وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا عین اس کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا اور بغور اسے دیکھتے ہوئے اس روز سے اب تک کے بارے میں سوچنے لگا جب پہلی مرتبہ اس کا اس حرف سے تعارف ہوا تھا۔
اتنے عرصے سے وہ جس کے پیچھے پاگلوں کی طرح خوار تھا، جس کیلئے اس نے سب کچھ نظر انداز کردیا تھا، اب جب وہ ملی تھی تو ویسا کیوں محسوس نہیں ہوا تھا جیسا وہ سوچتا آیا تھا؟
جسے دیکھے بنا وہ اسے سب سے چرا لے جانے کا ارادہ کیے بیٹھا تھا کیوں اسے دیکھ کر دل باغی نہیں ہوا؟
کیوں ذہن نے اس پر حق نہیں جتایا؟
کیوں اس روز وہ حادثہ ہوا؟
کیوں یہ حرف اس کی زندگی میں آیا؟
کیوں وہ اس کے پیچھے دیوانہ ہوگیا؟
کیوں وہ بروقت اس سے مل نہ پایا؟
کیوں اچانک ملیحہ ان کے بیچ چلی آئی؟
کیوں وہ اسے اتنی اہمیت دینے لگی؟
کیوں اس کے کہنے پر وہ الگ ہونے کو راضی ہوگئی؟
کیوں اس پر بےزاریت طاری تھی؟
کیوں اسے خود پر غصہ آرہا تھا؟
آخر کیوں؟
"غضنفر پلیز! ایک بار تحمل سے سوچو تو سہی کہ جس کی تمنا تم کیے بیٹھے ہو اگر اسے تمہاری چاہ نہ ہوئی تو! اگر وہ کسی اور کی ہوئی تو!" اسے وہ لمحات یاد آئے جب ملیحہ نے اپنا ہاتھ آہستہ سے اس کے سینے پر رکھتے ہوئے تحمل سے سمجھانا چاہا تھا۔
"نہیں! وہ چاہے جہاں بھی ہو، جس کی بھی ہو میں اسے ڈھونڈ کر اپنے پاس لے آؤں گا۔" غضنفر نے یکدم جنونی انداز میں کہتے ہوئے اسے بازو سے پکڑ کر اسی دیوار سے لگا دیا تھا جس پر وہ S لکھا ہوا تھا۔
"چلو لے آنا اپنے پاس، مگر کیا وہ تم سے اتنی محبت کر سکے گی جتنی میں کرتی ہوں؟ کبھی نہیں! تم سے اتنی محبت کوئی نہیں کرسکتا جتنی میں کرتی ہوں۔" اس نے بھی اگلے پل دونوں ہاتھوں سے اس کی شرٹ دبوچتے ہوئے دوبدو ہوکر دیوانگی کے عالم میں باور کروایا تھا۔ اور وہ واقعی درست ثابت ہوئی تھی۔
"مجھے نہیں چاہیے تمہاری محبت، اس لئے بہتر ہے کہ تم اپنا راستہ الگ کرلو۔" غضنفر نے جھٹکے سے اسے دور کرتے ہوئے کتنے تکبر سے اس کی محبت کو ٹھکرادیا تھا۔
"حقوق تو اور بھی بہت تھے میرے، وہ بھی تو نہیں ملے مجھے۔" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے تلخی سے مسکرائی تھی۔ کتنا درد تھا ملیحہ کے لہجے میں جو سراسر اسی کا دیا ہوا تھا۔
یہ ہی سب سوچتے ہوئے اس کے سپاٹ چہرے کے تاثرات آہستہ آہستہ کربناک انداز میں بدلے اور پھر یکدم اس نے اپنا بایاں ہاتھ پوری قوت سے اس حرف کے برابر میں نصب قد آدم آئینے پر مارا جس کے باعث وہ لمحوں میں زور دار آواز کرتا چکنا چور ہوگیا۔
نتیجاتاً اس کے ہاتھ سے بھی خون نکلنے لگا، مگر تیز تیز سانسیں لیتے ہوئے غضنفر کو تو شاید کسی چیز کا ہوش ہی نہیں تھا۔ وہ بس ملیحہ کو تکلیف پہنچانے کے جرم میں اب خود کو سزا دینا چاہتا تھا۔۔۔۔۔دردناک سزا۔
چند لمحوں میں جب ہاتھ کی تکلیف بڑھی تو اس نے بےساختہ اپنا ہاتھ آگے کرکے دیکھا جو اسی کے خون میں ڈوب کر سرخ ہوچکا تھا۔ اور ساتھ ہی ساتھ خون ٹپک کر سفید فرش پر بھی گر رہا تھا۔
کچھ پل یوں ہی ہاتھ کو تکتے رہنے کے بعد وہ اگلے ہی لمحے ہاتھ پر لگا سارا خون جنونی انداز میں اس حرف S پر یوں ملنے لگا گویا اس حرف کو مٹانے یا چھپانے کی کوشش کر رہا ہو۔ جب کہ یہ وحشی پن دیکھانے کے باعث اس کے ہاتھ کا درد اور خون کا بہاؤ مزید بڑھ گیا تھا۔ مگر وہ تو اس قدر آپے سے باہر تھا کہ اسے یہ بھی نہیں پتا چلا اس کی آنکھوں سے آنسو نکلنا شروع ہوگئے ہیں۔
جسے دیوانوں کی طرح تھا ڈھونڈا کبھی
اسے پا کر خود ہی کھو رہا ہوں ابھی
فریال خان
"غضنفر!" اچانک پکار کے ساتھ کمرے کی لائٹ آن ہوئی۔
جس پر غضنفر نے تو کوئی توجہ نہ دی مگر سلیمان اسے یوں جنونی انداز میں دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ جو پاگلوں کی طرح اپنے ہاتھ سے نکلنے والا خون اس حرف پر ملنے میں مصروف تھا۔
"غضنفر!" وہ حلق کے بل چلاتے ہوئے اس کی جانب لپکے۔ مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔
"یہ کیا پاگل پن ہے؟" انہوں نے اسے بازو سے پکڑ کر سیدھا کیا تو اس کی بہتی ہوئی سرخ آنکھیں دیکھ کر انہیں مزید تشویش ہوئی۔
وہ پھر اپنا بازو ان سے چھڑا کر پاگلوں کی طرح وہ ہی عمل دہرانے لگا گویا آج اس حرف کو مٹا کر ہی دم لے گا۔
"چٹاخ!" اگلے ہی پل سلیمان نے اسے دوبارہ سیدھا کر کے زور دار تھپڑ رسید کیا تا کہ اس کے حواس بحال ہوں۔
وہ اچانک ساکت ہوکر پتھرائی ہوئی نظروں سے انہیں یوں دیکھنے لگا گویا پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو۔
"کیا ہوگیا ہے غضنفر تمھیں؟" انہوں نے دونوں ہاتھوں سے اس کا چہرہ تھاما۔
"میں اکیلا ہوگیا ہوں ماموں، میں نے سب کچھ کھو دیا۔" اگلے ہی پل وہ کہتے ہوئے یکدم ان کے گلے لگ کر رو پڑا۔
"میں ہوں نا بیٹا تمہارے ساتھ!" وہ اس کی پیٹھ سہلاتے ہوئے تسلی دینے لگے۔
"میں نے اپنے ہاتھوں اپنی ملیحہ کو کھو دیا۔" وہ یوں ہی بلکتے ہوئے زمین پر بیٹھاتا چلا گیا جس کے ساتھ وہ بھی بیٹھ گئے۔
وہ شدت سے پچھتا رہا تھا اس وقت، جس کے باعث سلیمان کا دل بھی کٹ گیا۔ اور وہ اس کی پیٹھ سہلاتے ہوئے کچھ نہ کہہ پائے۔ جب کہ وہ بھی بچوں کو طرح بلک بلک کر نجانے کتنی دیر تک یوں ہی روتا رہا۔
تیرے پاس تھا تو تب تجھے نہ جانا
اب ہوا دور تو ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پہچانا
آوارگی میں بن گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیوانہ
میں نے کیوں سادگی کو نہیں جانا
اپنے ستم کا میں خود گناہ گار ہوں
تھا بےوفا کبھی، اب تیرا پیار ہوں
انتخاب
*******************************
رات کا وقت ہونے کے باعث ہسپتال میں بھی کوئی خاص چھل پہل نہیں تھی بس نائٹ ڈیوٹی والا اسٹاف اپنی ذمہ داری نبھانے میں مصروف تھا۔
غضنفر کی بینڈج کروانے کے بعد وہ اس کے ساتھ درمیانی رفتار سے چلتے ہوئے اب ہسپتال سے باہر آگئے تھے۔ اب تک دونوں کے درمیان کوئی خاص بات چیت نہیں ہوئی تھی۔
"آؤ یہاں بیٹھتے ہیں۔" اچانک سلیمان نے رک کر ایک طرف اشارہ کیا تو وہ بھی رک گیا۔ اور پھر خاموشی سے ان کی پیروی میں چل پڑا۔
ہسپتال کی حدود کے اندر ہی ایک چھوٹے سے حصے میں سبز گھانس اگا کر اس پر فاصلوں سے کچھ لکڑی کی بینچز نصب کی گئی ہوئی تھیں۔ ان ہی میں سے ایک بینچ پر یہ دونوں بھی بیٹھ گئے جب کہ آس پاس بالکل سناٹا ہو رہا تھا۔
"کیا ہوا ہے؟" انہوں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے نرمی سے پوچھا۔
وہ فوری طور پر کوئی جواب دینے کے بجائے پہلے خاموشی سے انہیں دیکھنے لگا گویا کشمکش کا شکار ہو۔ جب کہ رو کر سوجھی ہوئی اس کی آنکھوں میں اب بھی سرخی باقی تھی۔ اس نے گردن دوبارہ سامنے کرلی۔
"ملیحہ مجھ سے الگ ہونا چاہتی ہے۔" اس نے ایک جملے میں سپاٹ جواب دیا۔
"تو پریشانی کی کیا بات ہے؟ تم بھی تو یہ ہی چاہتے تھے نا؟" انہوں نے پوچھتے ہوئے دھیان دلایا۔
"میں کیا چاہتا تھا اور کیا چاہتا ہوں یہ ہی تو آج تک میں بھی سمجھ نہیں پایا۔" اس نے تلخی سے خود کو کوسا۔
"جس کے بنا چین نہ آئے ہم اسی کو چاہتے ہیں۔" انہوں نے گویا نشانی بتائی۔
"اب بتاؤ کس کی دوری تمھیں بےچین کر رہی ہے؟ اس S والی لڑکی کی؟ یا ملیحہ کی؟" انہوں نے سوال کیا۔
"اس لڑکی کے بنا تو اتنے مہینوں سے رہ رہا تھا میں، مگر ملیحہ کے بنا دو ڈھائی ہفتوں میں ہی صبر جواب دے گیا ہے میرا، اب آپ بتائیں کہ میں کس کو چاہتا ہوں؟" اس نے سر جھکا کر کہتے ہوئے ان سے جواب مانگا۔ تو وہ ہلکے سے مسکرائے۔
"تو اس میں اتنا پریشان ہونے والی کیا بات ہے، وہ بیوی ہے تمہاری، کل جا کر اسے واپس لے آؤ۔" انہوں نے سہولت سے حل پیش کیا۔
"یہ ہی تو اب ممکن نہیں ہے۔" اسے ملال ہوا۔
"کیوں؟" وہ سمجھے نہیں۔
"کیونکہ اب وہ مجھ سے الگ ہونا چاہتی ہے۔" اس نے لفظ "وہ" پر زور دیتے ہوئے دھیرے سے بتایا۔ تو انہیں تعجب ہوا۔
"یہ تم سے کس نے کہا؟" انہوں نے جاننا چاہا۔
"خود اسی نے، آج ملا تھا میں اس سے، تب ہی اس نے کہا کہ میں جلد از جلد کوئی فیصلہ کرکے اسے اس الجھن سے آزاد کر دوں تا کہ وہ کسی اور کے ساتھ اپنی زندگی میں آگے بڑھ سکے۔" کس قدر مشکل سے اس نے ملیحہ کے الفاظ دہرائے تھے یہ وہ ہی جانتا تھا۔ اس بات پر سلیمان کو بھی حیرت انگیز افسوس ہوا۔
"تو تم اسے بتاؤ نا کہ تم اس کے بارے میں کیا محسوس کرنے لگے ہو اور اس سے الگ نہیں ہونا چاہتے۔" انہوں نے اپنے تئیں مشورہ دیا۔
"کس منہ سے بتاؤں ماموں؟ آج تک اس کے حقوق پورے ہی کب کیے ہیں میں؟ اس کے حصے کی توجہ اور محبت کب دی ہے اسے؟ کب اس کی محبت کی قدر کی ہے؟ ہمیشہ جلی کٹی سنا کر بس تنگ کیا ہے اسے، اب ایسے میں وہ صرف مجھ سے پناہ ہی چاہیے گی، میری پناہ نہیں چاہے گی۔" اس نے اپنا احتساب کرتے ہوئے کرب سے کہا۔
"ہاں لیکن یہ سب تو تم جان بوجھ کر اب تک اسی لئے کر رہے تھے نا تا کہ وہ خلع لینے پر مجبور ہوجائے اور ہمیں شرط کے مطابق شوروم نہ دینا پڑے! لیکن اب جب تمھیں اس سے الگ ہونا ہی نہیں ہے تو بتا دو اسے اپنی محبت کے بارے میں۔" انہوں نے یاد دلاتے ہوئے حل پیش کیا۔
"آپ کو لگتا ہے کہ ایک بار میری جھوٹی محبت پر یقین کرنے کے بعد، اس یقین کے ٹوٹنے کے بعد اب وہ پھر مجھ پر یقین کرے گی؟" اس نے ان کی جانب دیکھتے ہوئے سوال اٹھایا۔ وہ لمحے بھر کو لاجواب ہوگئے۔
"جب اس نے تمہاری جھوٹی محبت پر یقین کرلیا تھا تو پھر سچے جذبے تو بہت طاقتور ہوتے ہیں، وہ منوالیتے ہیں اپنا آپ، تم کوشش تو کر کے دیکھو۔" انہوں نے فلسفی دلیل دیتے ہوئے اصرار کیا۔
"نہیں، میں دوبارہ اسے اپنے ساتھ باندھ کر اس کے ساتھ ناانصافی نہیں کرنا چاہتا، وہ مجھ سے بہتر شخص کی مستحق ہے جو شاید اسے مل بھی گیا ہے، بس! بات ختم۔" اس نے اٹل انداز میں نفی کرتے ہوئے بات ختم کی اور اٹھ کھڑا ہوا۔ جب کہ اس کے انداز سے کرب ٹوٹ کر چھلک رہا تھا۔
"چلیں گھر چلتے ہیں، رات بہت ہوگئی ہے۔" اس نے بنا ان کی جانب دیکھے کہا اور پھر آگے بڑھ گیا۔ وہ وہیں بیٹھے اس پاگل کو دور جاتا ہوا دیکھتے رہے۔
*******************************
ملیحہ اس وقت کمرے کی لائٹس بند کیے، سرہانے کی طرف پیر اور پیرہانے کی طرف سر رکھ کر لیٹی ہوئی تھی۔ اس کے سیاہ بال بیڈ سے نیچے لٹک رہے تھے اور خود وہ یک ٹک چھت کو تکتے ہوئے نجانے کن سوچوں میں گم تھی؟ جنہیں پڑھنے کیلئے کمرے کی کھڑکی سے چاندنی بھی اندر آکے اس پر برس رہی تھی مگر اس کی سوچ پڑھنے میں کامیاب نہیں ہو پائی تھی۔
"تیری ہمت کیسے ہوئی میری بیوی کو ہاتھ لگانے کی؟" غضنفر نے اس کا لہو لوہان جبڑا بری طرح دبوچ کر غصے سے کہا تھا۔
"اس نے ہاتھ لگایا تھا تمھیں اور میں اسے جانے دیتا، اگر تم لوگ بیچ میں نہیں آتے تو میں سچ میں اسے مار بھی ڈالتا۔" اس نے برہمی سے اپنا ارادہ بتایا تھا۔
"ایک کام نمٹا کے گھر واپس جا رہا تھا کہ راستے میں ایک کیب میں تمھیں سوار دیکھا تو تمہارے پیچھے آگیا۔" اس نے سرسری انداز میں بتایا تھا۔
"اور تم یاد کرتے ہو مجھے؟"
"نہیں!" ایک لفظی جواب ملا تھا۔
جس نے ملیحہ کی ننھی سی امید کا گلا گھونٹ کر اسے بےدردی سے مار دیا تھا۔
اس کی سوچوں کی بھنور ابھی تک اس شخص کے گرد گھوم رہا تھا جس کا دھوپ چھاؤں کی طرح پل پل بدلتا مزاج وہ ابھی تک سمجھنے سے قاصر تھی۔ کبھی تو وہ اس کی اتنی پرواہ کرتا تھا کہ بس اسے سب سے چھپا کر رکھنے کی کسر باقی رہ جاتی تھی۔ اور کبھی ایسی بےرخی دیکھاتا تھا گویا وہ اسے نظر ہی نہ آرہی ہو۔ اور یہ ہی چیز اسے پریشان کر رہی تھی۔
ابھی وہ ان ہی سوچوں میں گم تھی کہ سائیڈ ٹیبل پر رکھا اس کا موبائل گنگنا اٹھا جس کے باعث وہ بھی اٹھ بیٹھی۔ رات کے اس پہر اسے بس ایک شخص کا خیال آیا اور اس نے فوراً آگے بڑھ کر موبائل چیک کیا تو اسکرین پر غیر متوقع طور پر ثوبان کا نام دیکھ کر اس کا دل بجھ گیا۔ کیونکہ وہ تو کچھ اور ہی توقع کر رہی تھی۔
"ہیلو!" اس نے موبائل کان سے لگایا۔
"ڈسٹرب تو نہیں کیا؟" دوسری جانب سے مہذب انداز میں پوچھا گیا۔
"نہیں، بولو! سب خیر ہے نا!" اس نے کہتے ہوئے جاننا چاہا۔
"ہاں سب خیر ہے۔" اس نے تسلی کروائی۔
"بس تم سے ایک ضروری بات کرنی تھی۔" اس نے مزید کہتے ہوئے تہمید باندھی۔ اس کے سنجیدہ انداز پر وہ تھوڑی ٹھٹکی۔
"ہاں کہو، سن رہی ہوں۔" اس نے خود کو نارمل رکھتے ہوئے جاننا چاہا تو دوسری جانب سے وہ گویا ہوا۔
*******************************
نکھری نکھری سی صبح پھر پہاڑوں کی اوٹ سے نکل آئی تھی۔ اور معمولات زندگی پھر سے اپنی ڈگر پر چلنے لگے تھے۔
کتھئی سوٹ پہنے اپنے مخصوص انداز میں ملیحہ کوریڈور سے گزرتی ہوئی اسی ہال کی طرف جا رہی تھی جہاں حسب معمول سیشن ہوا کرتا تھا۔
"ایکسکیوزمی مس ملیحہ!" تب ہی کسی نے اسے پکارا۔
وہ رک کر پلٹی تو دیکھا کہ ایک والینٹیئر اسی کی جانب آرہی تھی۔
"آپ سے کوئی ملنے آیا ہے۔" لڑکی نے مہذب انداز میں اطلاع دی۔
"مجھے سے!" اس نے تعجب سے آنکھیں سکیڑ کر دہرایا۔
"کون آیا ہے؟" ملیحہ نے جاننا چاہا۔
*******************************
"پرسوں کڑاہی گوشت پکوا کر خود کہاں غائب ہوگئے تھے تم؟" صوفے پر بیٹھی صالحہ نے اپنائیت سے کلاس لی۔
"کیوں؟ آپ انتظار کر رہی تھیں میرا!" ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹے غضنفر نے تعجب خیز دلچسپی سے جاننا چاہا۔
"تو! مگر تم آئے ہی نہیں۔" انہوں نے گویا علم میں اضافہ کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا۔ جب کہ وہ اندر ہی اندر شرمندہ ہوا کہ خواہ مخواہ ہی اس نے اپنی طرف سے منفی اندازے لگائے ہوئے تھے۔
"ایک کام میں الجھ گیا تھا ممی، اسی لئے نہیں آسکا۔" اس نے بہانہ تراشا۔
"ایسا کریں آج بنا لیجئے گا۔" اگلے ہی پل اس نے پھر فرمائش کی۔
"ہاں، تا کہ تم پھر غائب ہوجاؤ۔" انہوں نے اس کے سر پر چپت لگائی۔
"نہیں ہوں گا نا، ویسے بھی چوٹ کی وجہ سے ماموں نے شوروم سے چھٹی دی ہوئی ہے، تو سمجھیں آج یہیں ہوں میں سارا دن۔" اس نے وضاحتی انداز میں یقین دہانی کرائی۔ کیونکہ چوٹ کے حوالے سے تو وہ پہلے ہی سب کو جھوٹی کہانی سنا چکا تھا۔
"اور ہمیشہ کیلئے کب آؤ گے؟" انہوں نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے لوہا گرم دیکھ کر چوٹ ماری۔
"آجاؤں گا جلدی۔" اس نے دھیرے سے جواب دیا۔ تو وہ کچھ نہ بولیں کہ کہیں وہ پھر سے بگڑ نہ جائے!
"تائی! ممی کہاں ہیں؟" تب ہی عزیر نے ہال میں آتے ہوئے پوچھا۔ جس کے ہمراہ صبیحہ بھی تھی اور دونوں کہیں جانے کیلئے تیار تھے۔
"بیٹا وہ چھت پر نوری (ملازمہ) کے ساتھ اماں بی کی نگرانی میں مرچیں سکھانے گئی ہوئی ہیں۔" انہوں نے تفصیلی جواب دیا۔
"اچھا انہیں بتا دیجئے گا کہ میں صبیحہ کو اس کی خالہ کے گھر ڈراپ کرتے ہوئے آفس جا رہا ہوں، اور رات کا کھانا وہیں کھا کر آئیں گے ہم، صبیحہ کا کزن بنگلادیش سے واپس پاکستان آیا ہے نا تو یہ اس سے ملنا چاہ رہی تھی۔" اس نے سرسری طور پر بتاتے ہوئے آخر میں صبیحہ کو چھیڑنے کیلئے شرارت سے کہا۔
"بنگلادیش سے نہیں، آسٹریلیا سے آیا ہے وہ۔" صبیحہ نے اس کے بازو پر مکا مارتے ہوئے تصحیح کی۔ جس پر وہ کافی محظوظ ہوا مگر غضنفر یکدم ٹھٹک گیا۔
"کیا نام ہے تمہارے کزن کا؟" غضنفر نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
"ثوبان!" صبیحہ نے ایک لفظی جواب دیا۔ تو وہ سوچ میں پڑ گیا۔
"ٹھیک ہے بیٹا، میں بتا دوں گی، تم دونوں سنبھل کر جانا، اللہ حافظ!" تب ہی صالحہ کی آواز پر غضنفر کا ارتکاز ٹوٹا۔
"اللہ حافظ!" وہ دونوں بھی کہتے ہوئے باہر کی جانب بڑھ گئے۔
"میں ذرا زوہا کو دیکھ آؤں، گوشت صاف کرنے کا کہا تھا اسے۔" صالحہ بھی بڑبڑاتی ہوئی صوفے پر سے اٹھ کر کچن کی جانب چلی گئیں۔
اب وہاں صرف غضنفر رہ گیا تھا۔ جس کے ذہن میں ایک ہی لفظ کی بازگشت گونج رہی تھی، ثوبان!
*******************************
حسب وعدہ غضنفر نے ڈنر سب کے ساتھ ہی کیا۔ شاید وہ اپنے خودساختہ، خودترسی کے خول سے باہر آنے کی کوشش کرنے لگا تھا۔ جس میں رفاقت اور صالحہ سمیت باقی سب نے بھی اس کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔
کھانے سے فارغ ہونے کے بعد جب وہ واپس جا رہا تھا تو عزیر اور صبیحہ بھی لوٹ آئے اور یوں ان سے ملنے کے بعد اب وہ گھر واپسی کیلئے اپنی گاڑی میں سوار ہوگیا تھا جو اس وقت شہر کی ایک مصروف سڑک پر رکی سگنل کھلنے کے انتظار میں رکی ہوئی تھی۔
دونوں ہاتھوں سے اسٹیئرنگ تھامے غضنفر نے وقت گزاری کیلئے کھلی کھڑکی سے باہر جھانکا تو لمحے بھر کو اسے یہ نظر کا دھوکہ لگا، مگر غور کرنے پر پتا چلا کہ یہ تو حقیقت تھی۔
اس سے تھوڑے فاصلے پر ایک سفید کار کی فرنٹ سیٹ پر ملیحہ بیٹھی ہوئی تھی جو کہ ڈرائیونگ سیٹ پر موجود نوجوان سے باتیں کرتے ہوئے مسکرا رہی تھی۔
ابھی وہ حیرانی سے انہیں دیکھ ہی رہا تھا کہ ان کی کار آگے بڑھ گئی اور ساتھ ہی اسے ہارن کا شور سنائی دینے لگا۔ اس نے یکدم چونک کر آس پاس دیکھا تو پتا چلا کہ سگنل کھل گیا تھا۔
اس نے بھی جلدی سے گاڑی آگے بڑھائی اور غیر ارادی طور پر اس سفید کار کا پیچھا کرنے لگا جو تھوڑی دور جانے کے بعد ایک آئس کریم شاپ کے سامنے رک گئی تھی۔
غضنفر نے بھی اپنی سیاہ کار ان کے برابر میں لا کر روکی اور فٹافٹ اتر کر باہر آیا۔
دوسری جانب وہ دونوں بھی کار سے اتر چکے تھے اور ملیحہ اسے دیکھ کر دنگ رہ گئی تھی جو کہ اس کے مقابل آ کھڑا ہوا تھا۔ جب کہ ثوبان اس اجنبی کی یوں آمد پر متعجب ہوا۔
"ایکسیکیوزمی! آپ کون؟" ثوبان نے سوال اٹھایا۔
"میرے ہسبنڈ ہیں۔" اس کے بجائے ملیحہ نے نارمل انداز میں جواب دیا۔
"اور میری بیوی کے ساتھ آپ کون ہیں؟" اب غضنفر نے لفظ "میری بیوی" پر زور دیتے ہوئے اس سے پوچھا۔
"میں آپ کی بیوی کا کزن ہوں، ثوبان!" اس نے مسکرا کر کہتے ہوئے مصحافے کیلئے ہاتھ بڑھایا۔
جسے غضنفر نے ناچاہتے ہوئے بھی تھامنے کے بعد اتنی زور سے دبایا گویا ہاتھ کی ہڈی توڑ ڈالے گا۔ ثوبان کو تکلیف ہوئی، اس کی مسکراہٹ سمٹ کر غائب ہوئی اور اس نے ہاتھ واپس کھینچ لیا۔
"تم یہاں کیسے غضنفر؟" ملیحہ نے استفسار کیا۔
"یہ سوال تو مجھے آپ دونوں سے پوچھا چاہیے۔" اس کے لہجے میں چبھن اور آنکھوں میں تپش تھی جسے ملیحہ نے واضح محسوس کیا۔
اس کے سوال پر ثوبان نے بےساختہ ملیحہ کی جانب دیکھا گویا اس سوال پر گڑبڑا گیا ہو اور اس کی مدد چاہتا ہو۔
"صبیحہ اور عزیر آئے ہوئے تھے خالہ کے گھر تو صبیحہ نے مجھے بھی وہیں بلا لیا تھا، تھوڑی در پہلے ہی دونوں گئے ہیں تو اب ثوبان مجھے بھی گھر ڈراپ کرنے جا رہا تھا۔" اس نے متوازن انداز میں وضاحت کی تو ثوبان کو اطمینان ہوا۔ جب کہ غضنفر بغور ملیحہ کو دیکھتا رہا۔
"تو یہ ہے آپ کا گھر؟" غضنفر نے جدید طرز کی اس آئس کریم شاپ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے طنزیہ انداز میں پوچھا۔ جس کے سامنے یہ تینوں کھڑے ہوئے تھے۔
"میرا دل چاہ رہا تھا آئس لکریم کھانے کا، اسی لئے میں نے ہی اسے کہا تھا یہاں آنے کو۔" ملیحہ نے اطمینان سے وضاحت کی۔ وہ کچھ نہ بولا۔ بس جبڑے بھینچے گہری نظروں سے اسے یوں دیکھتا رہا گویا ضبط کر رہا۔ جب کہ ملیحہ کا اطمینان ہنوز قائم تھا۔
"آپ بھی ہمیں جوائن کر لیجئے۔" ثوبان نے اخلاق کا تقاضا نبھاتے ہوئے پیشکش کی۔
"نہیں شکریہ! مجھے رنگ میں بھنگ بننے ڈالنے کا شوق نہیں ہے۔" اس نے ہنوز ملیحہ کو دیکھتے ہوئے اسے جواب دیا۔ تو وہ مزید کچھ نہ بولا۔
"چلتا ہوں میں، آپ لوگوں کو ڈسٹرب کرنے کیلئے سوری۔" اگلے ہی پل غضنفر نے خود بات سمیٹی اور پلٹ کر برق رفتاری سے اپنی کار میں سوار ہونے کے بعد وہ زن سے آگے بڑھا دی۔ جسے دونوں وہیں کھڑے دیکھتے رہے۔
"کافی غصے والا معلوم ہوتا ہے تمہارا ہسبنڈ! اچھا ہی ہوا جو اس سے الگ ہونے کا فیصلہ کرلیا تم نے۔" اس کے جانے کے بعد ثوبان نے اپنا ہاتھ سہلاتے ہوئے تجزیہ کیا۔ مگر وہ جواباً کچھ نہ بولی۔
دوسری جانب تیزی سے ڈرائیو کرتے غضنفر نے بیک ویو مرمر سے ایک تلخ نگاہ ملیحہ پر ڈالی جو اس کے پہلو میں اطمینان سے کھڑی تھی۔ اور پھر وہ ضبط کرتے ہوئے تیزی سے موڑ مڑ گیا۔
الہی کیوں نہیں اٹھتی قیامت ماجرا کیا ہے؟
ہمارے سامنے پہلو میں وہ غیر کے کھڑے ہیں
داغ دہلوی
*******************************
گھر آنے کے بعد غضنفر سیدھا اپنے کمرے میں آیا اور دروازہ بند کرکے گرنے کے سے انداز میں بیڈ پر چت لیٹ کر گہری گہری سانسیں لینے لگا۔
"کافی ٹائم پہلے میرے خالہ زاد ثوبان نے مجھ میں پسندیدگی ظاہر کرتے ہوئے رشتے کی بات کی تھی، مگر تب میں پڑھ رہی تھی اور اس کے بارے میں کبھی ایسا کچھ سوچا بھی نہیں تھا تو اسی لئے انکار کردیا، جس کے بعد پھر وہ آسٹریلیا چلا گیا اور ہماری دوبارہ ملاقات نہیں ہوئی۔" بہت پہلے ملیحہ کی بتائی گئی بات اس کے ذہن میں گونجی۔
"کوشش کرنا کہ جلد از جلد کوئی ایک فیصلہ کرکے مجھے اس الجھن سے آزاد کردو تا کہ میں بھی اپنی زندگی میں کسی کے ساتھ آگے بڑھ سکوں۔" اسے ملیحہ کی سرد سی گزارش یاد آئی۔
"مطلب تمھیں مل گیا ہے کوئی؟"
"ہاں!"
"صبیحہ کا کزن واپس پاکستان آیا ہے۔" اسے عزیر کا جملہ یاد آیا۔
"میں آپ کی بیوی کا کزن ہوں، ثوبان!" اسے ثوبان کا خیال آیا۔
ان سارے خیالات کی کڑی آپس میں جڑ گئی تھی۔ جس کے بعد اس پر بہت واضح وہ انکشاف ہوا جو اس سے برداشت نہیں کیا جا رہا تھا کہ ملیحہ کی زندگی میں کوئی اور آچکا تھا۔ وہ اس وقت خود کو بےحد اذیت میں محسوس کر رہا تھا اور یہ ہی اذیت اس کی آنکھ کے کنارے سے بہنے بھی لگی۔
آج اسے بخوبی اندازہ ہو رہا تھا کہ زندگی کا سب سے اذیت ناک لمحہ ہوتا ہے اپنے محبوب کو کسی اور کے پہلو میں دیکھنا۔ دل چھلنی ہوکر رہ جاتا ہے اور محبوب کی آبرو کی خاطر ہم کچھ بھی نہیں کہہ پاتے۔
آج اس کی سمجھ میں بہت اچھے سے آیا تھا کہ ملیحہ کو کتنی تکلیف ہوتی ہوگی اس کے لبوں سے کسی اور عورت کیلئے اظہار محبت سن کر۔ اسے کسی اور کی چاہ کرتا دیکھ کر۔ یہ سمجھ میں آتے ہی اسے لگا کہ اس کے ساتھ جو ہو رہا ہے بالکل ٹھیک ہو رہا۔ شاید وہ اسی کے لائق ہے۔ کیونکہ بےلوث محبت ٹھکرانے والوں کا انجام شاید یہ ہی ہوتا ہے۔
دیکھ کر آج کسی اور کے پہلو میں تجھے
اپنے دیکھنے کی حس سے نفرت ہوئی مجھے
فریال خان
*******************************
"ایک ڈیڑھ ہفتہ رہ گیا ہے زوہا اور عبید کے نکاح میں، بھلے ہی نکاح سادگی سے ہے مگر قریبی لوگوں کو تو بلانا ہے نا! تو اس کیلئے کچھ انتظام وغیرہ کیا تم دونوں نے؟" بیڈ پر بیٹھی دردانہ نے ذرا فاصلے پر رکھے ڈبل صوفے پر موجود رفاقت اور شفاعت سے پوچھا۔ کھانے کے بعد ان دونوں کو دردانہ اپنے کمرے میں کچھ بات کرنے کیلئے بلایا تھا۔
"جی اماں بی، جب رشتے کی بات طے ہوئی تھی تب ہی ہم نے سب سیٹلمنٹ کرلیا تھا، اب بس عمل کرنا ہے۔" رفاقت نے تسلی کرائی۔
"اور باقی جو خواتین کی تھوڑی بہت خریداری وغیرہ ہوتی ہے وہ آپ لوگ ایسا کریں کل پرسوں سے شروع کرلیں۔" شفاعت نے بھی کہا۔
"هممم! یہ سب تو ہوجائے گا، ساتھ ہی ساتھ غضنفر اور ملیحہ والا معاملہ بھی تو رہتا ہے۔" دردانہ نے متفکر انداز میں یاد دلایا۔ تو وہ دونوں بھی ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
"جی یاد ہے اماں بی، اور اسی معاملے پر بات چیت کرنے کیلئے آج سالک سے بھی ملا تھا میں۔" رفاقت نے ان کی جانب دیکھتے ہوئے بتایا۔
"اچھا! پھر کیا بات ہوئی؟" انہیں جاننے کا اشتیاق ہوا۔
"گڈ مارننگ سر!" فاروق نے انہیں دیکھ کر خوش اخلاقی سے وش کیا۔
"گڈ مارننگ!" سلیمان جواب دیتے ہوئے اپنے آفس روم میں آگئے۔
مگر اندر آتے ہی غیر متوقع طور پر غضنفر کو پہلے سے ٹیبل کے گرد موجود کرسی پر براجمان دیکھ کر وہ ٹھٹک گئے جو کسی فائل پر کچھ لکھنے میں مصروف تھا۔
"ارے! یہ آج سورج کہاں سے نکلا ہے؟" وہ خوشگوار حیرت سے کہتے ہوئے اپنی سنگل کرسی کی جانب آئے تو اس نے بھی سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔ جو گزشتہ عرصے کی نسبت آج تھوڑا بہتر لگ رہا تھا۔ شاید حقیقت کو قبول کر لینے کا نتیجہ تھا۔
"جب میں گھر سے نکلا تھا تو مجھے لگا تم سو رہے ہو گے اسی لئے تمھیں ڈسٹرب نہیں کیا، مگر یہاں تو کایا ہی پلٹ گئی، بول بول کر صبح شوروم آنے والا آج مجھ سے بھی پہلے پہنچا ہوا ہے۔" وہ حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی سنگل کرسی پر بیٹھ گئے۔
"بس ایسے ہی ماموں، صبح جلدی اٹھ گیا تھا تو سوچا یہیں آجاؤں، تا کہ کام کی وجہ سے دھیان بٹا رہے۔" اس نے متوازن انداز میں جواب دیا۔
"کس طرف سے دھیان ہٹانا تھا تمھیں؟" انہوں نے آنکھیں سکیڑ کر پوچھا۔ وہ نظریں جھکائے خاموش رہا جس کے باعث انہیں جواب مل گیا۔
"تم نے بات کی ملیحہ سے؟" انہوں نے خود ہی اگلا سوال کیا۔
"اس کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔" اس نے فائل بند کی۔
"کیوں؟"
"کیونکہ کل میں ڈائریکٹ اس سے مل کر آرہا ہوں جو اب میری جگہ پر آچکا ہے۔" وہ پین کی نوک میز پر ہلکے ہلکے رگڑنے لگا۔
"سیدھی طرح بتاؤ گے؟" اس کی الٹی سیدھی باتوں سے وہ زچ ہوئے۔
"ملیحہ کا ایک کزن ہے ثوبان، جو پہلے بھی اس سے شادی کرنا چاہتا تھا مگر تب ملیحہ نے پڑھائی جاری ہونے کی وجہ سے انکار کردیا تھا اور وہ آسٹریلیا چلا گیا تھا، مگر اب وہ واپس آگیا ہے، اور ملیحہ مجھ سے الگ ہوکر اسی کے ساتھ اب زندگی میں آگے بڑھنا چاہتی ہے۔" اس نے تاسف سے مختصر تفصیل بتائی۔
"یہ سب تمھیں کس نے بتایا؟" انہوں نے سنجیدگی سے جاننا چاہا۔
"کسی نے بھی نہیں، میں نے خود ساری کڑیاں جوڑ کر اندازہ لگایا ہے۔" اس نے نفی میں گردن ہلا کر بتایا۔
"یااللّه! ایک تو میں تمہارے اندازوں سے بہت تنگ ہوں۔" انہوں نے بےساختہ اپنا سر پیٹ لیا۔ وہ کچھ نہ بولا۔
"الو کے پٹھے! ایک بار اس سے کھل کر بات تو کرو۔" انہیں اب اس پر غصہ آنے لگا۔
"کیا ہوگا ماموں بات کرنے سے؟ بلکہ شاید میں نہیں برداشت کر سکوں گا اس کے لبوں سے کسی اور کیلئے اظہار محبت، مجھ میں نہیں ہے ملیحہ کے جتنا حوصلہ۔" اس نے نظریں چرا کر افسردگی سے اعتراف کیا۔
"اور جو کچھ بھی میں نے ملیحہ کے ساتھ کیا ہے، جس طرح اس کی بےلوث محبت کو ٹھکرایا ہے اس کے بعد میرے ساتھ یہ ہی ہونا چاہئے تھا۔" اس نے خود کو ملامت کی۔ وہ اسے گھورنے لگے۔
"اگر وہ میرے بجائے کسی اور کے ساتھ خوش ہے تو یہ ہی سہی، میں اس کے ساتھ ویسی کوئی زور زبردستی نہیں کروں گا جو مس ایس کے ساتھ کرنے کا سوچتا تھا، کیونکہ محبت میں زبردستی نہیں کی جاتی، یہ آپ ہی نے کہا تھا نا!" اس نے کہتے ہوئے آخر میں یاد دلاتے ہوئے انہیں دیکھا۔
"اور اب مجھے واقعی محبت ہوگئی ہے۔" اس نے دوبارہ نظریں جھکاتے ہوئے برملا اعتراف کیا تو وہ لاجواب ہوگئے۔
وہ مجھے چھوڑ کر خوش ہے تو، شکایات کیسی؟
میں اسے خوش نہ دیکھ سکوں تو، محبت کیسی؟
انتخاب
*******************************
"کل تم لوگوں کے جانے کے بعد ثوبان ہی اصرار کرکے مجھے گھر ڈراپ کرنے آیا تھا، اور راستے میں بات کرنے کیلئے ایک آئس کریم شاپ پر رک گئے تھے ہم، وہیں اس نے مجھ سے یہ سب کہا جو ابھی میں نے تمھیں بتایا ہے، اور پھر رات میں کال بھی آئی تھی اس کی تب بھی اس نے اسی حوالے سے بات کی، اب تم کوئی مشورہ دو کہ میں کیا کروں؟" موبائل کان سے لگائے، ہینڈ بیگ کندھے پر لٹکائے، جامنی لباس میں ملیحہ درمیانی رفتار کے ساتھ کاریڈور سے گزرتی باہر کی جانب جا رہی تھی۔
"کیا کروں مطلب؟ فوراً امی کو بتاؤ۔" دوسری جانب سے صبیحہ نے جھٹ سے حکم نما مشورہ دیا۔
"لیکن اگر وہ نہیں راضی ہوئیں تو؟" ملیحہ نے خدشہ ظاہر کیا۔ اور ساتھ ہی قریب سے گزری لڑکی کے سلام کا سر کی چنبش سے جواب دیا۔
"اپنی طرف سے اندازے لگانے سے بہتر ہے کہ تم امی سے بات کرلو، سارا معاملہ کلئیر ہوجائے گا۔" وہ اب بھی اپنی بات پر قائم تھی۔
"اچھا! چلو میں گھر ہی جا رہی ہوں ابھی فاؤنڈیشن سے، پھر کرتی ہوں امی سے بات۔" وہ پر سوچ انداز میں رضا مند ہوئی۔
"اور بات کرکے مجھے بتانا ضرور کہ انہوں نے کیا کہا!" اس نے تاكید کی۔
"ٹھیک ہے، اللہ حافظ!" اس نے جواب دے کر موبائل کان سے ہٹایا اور لائن ڈسکنیکٹ کرتی ہوئی باہر نکل گئی۔
*******************************
"اس ماڈل کی مارکیٹ میں کافی ڈیمانڈ ہے، کیونکہ کم بجٹ میں ایک مڈل کلاس آدمی یہ گاڑی آرام سے افورڈ کر سکتا ہے، اسی لئے ماموں چاہ رہے تھے کہ اس بار ہم صرف اسی ماڈل پر انویسٹ کریں۔" غضنفر نے ایک کتاب پر بنی گاڑی کی تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ اس وقت کسی کے آفس میں بیٹھا ہوا تھا۔
"وہ بات ٹھیک ہے، لیکن کبھی کبھی کچھ نیا بھی ٹرائی کر لینا چاہئے انسان کو۔" سنگل کرسی پر بیٹھے ادھیڑ عمر شخص نے پیشہ وارانہ انداز میں مشورہ دیا۔
"پچھلے سال کیا تھا کچھ نیا ٹرائی، گلے میں آگیا تھا وہ ہمارے، اسی لئے اب کوئی رسک نہیں لینا۔" اس نے یاد دلاتے ہوئے انکار کیا۔
اس سے قبل کے دونوں کے مابین مزید کوئی بات ہوتی، فل آستینوں والی بیلو ٹی شرٹ کے ہمراہ پہنی بلیک جینز کی جیب میں رکھا اس کا موبائل بج اٹھا۔ جسے جیب سے نکال کر اس نے کان سے لگایا۔
"ہاں فاروق بولو؟" وہ اس کا جواب سننے لگا۔
"کیا؟ لیکن کیسے؟" وہ یکدم پریشان ہوا۔ تو وہ آدمی بھی چونک گیا۔
"گھر کیوں لے گئے ایڈیٹ! ہاسپٹل لے کر جاؤ نا!"وہ غصے میں کہہ کر دوسری جانب کا جواب سننے لگا۔
"ٹھیک ہے، میں ابھی آیا۔" وہ تشویش سے کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔ اور لائن ڈسکنیکٹ کی۔
"کیا ہوگیا؟" آدمی کو بھی تشویش ہوئی۔
"ماموں کی طبیعت خراب ہوگئی ہے اچانک، میں چلتا ہوں۔" اس نے موبائل جیب میں رکھتے ہوئے عجلت میں جواب دیا اور کانچ کی میز پر سے کار کی چابی اٹھاتے ہوئے برق رفتاری سے باہر بھاگا۔
*******************************
غضنفر زور زور سے دھڑکتے دل کے ساتھ بھاگتا دوڑتا گھر پہنچا تو رنگیلا اسے ہال میں ہی ٹہلتا ہوا مل گیا گویا اس کا منتظر ہو۔
"ماموں کہاں ہیں؟" اس نے رک کر عجلت میں پوچھا۔
"اپنے کمرے میں۔" اس نے جلدی سے بتایا تو وہ فٹافٹ ان کے کمرے کی جانب بھاگا۔ مگر کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ غیر متوقع منظر دیکھ کر ٹھٹک گیا۔
جامنی لباس میں ملیحہ صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی جب کہ سلیمان بالکل صحیح سلامت اپنی ڈریس پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے ٹہل رہے تھے جو کہ اسے دیکھ کر رک گئے تھے اور ملیحہ بھی اسی کی طرف متوجہ تھی۔
"لو! یہ بھی آگیا۔" سلیمان ملیحہ سے یوں بولے گویا ابھی اسی کا ذکر ہوا ہو یہاں۔
"آپ تو بالکل ٹھیک ہیں ماموں، مگر فاروق نے کہا کہ۔۔۔۔۔۔۔"
"ہاں اسے میں نے ہی کہا تھا ایسا کرنے کیلئے۔" ابھی وہ حیرت کو الفاظ دینے ہی لگا تھا کہ سلیمان بول پڑے۔
"اور ملیحہ کو بھی میں نے اسی طرح یہاں بلوایا ہے۔" انہوں نے مزید بتایا۔
"کیوں؟" وہ پوچھتا ہوا آگے آیا۔
"کیونکہ سیدھی طرح تم دونوں ہاتھ نہیں آتے۔" انہوں نے اطمینان سے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔ وہ کچھ نہ بولا۔
"اب تم دونوں اپنے اپنے اندازے ایک سائیڈ پر رکھ کر ذرا تھوڑی دیر ٹھنڈے دماغ سے ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرلو، میں تب تک ایک ضروری کال کر کے آتا ہوں۔" انہوں نے یوں کہا گویا اب ان کا کام ختم ہوگیا ہو۔ اور پھر وہ اسی اطمینان کے ساتھ کمرے کا دروازہ بند کرتے ہوئے باہر چلے گئے۔
اب کمرے میں بس یہ دونوں تھے اور ان کے بیچ حائل گہری خاموشی۔ جسے غضنفر نے توڑنے میں پہل کی۔
"کیسی ہو؟" اس نے چند قدم آگے آتے ہوئے یوں ہی پوچھ لیا۔
"ویسی ہی جیسی کل رات تھی۔" اس نے کھڑے ہوتے ہوئے متوازن انداز میں جواب دیا۔
"مطلب کہ بہت خوش؟" اس نے تائید چاہی۔
"شاید ہاں، کیوں؟ نہیں ہونا چاہئے تھا؟" وہ جواب دے کر سوال کرتی ہوئی آگے آئی۔
"نہیں، بالکل ہونا چاہئے، خوشیوں پر تمہارا بھی حق ہے۔" اس نے عاجزی سے کہا۔
چند لمحوں کیلئے پھر خاموشی نے سر اٹھایا۔ ملیحہ اس سے کوئی بات چیت کرنے کے بجائے خاموشی سے بک شیلف کی جانب آگئی تھی گویا غضنفر سے زیادہ اہم اس وقت وہ بک شیلف ہو۔ جب کہ وہ وہیں پر کھڑا رہا۔
"ماموں نے بتایا کہ تمہارے سر سے مس ایس کا بھوت اتر چکا ہے، کیا یہ سچ ہے؟" ملیحہ نے سرسری طور پر کتابوں کا جائزہ لیتے ہوئے پوچھا تو وہ بےساختہ پھیکےپن سے مسکرایا۔
"ہاں، آخر کار اتر ہی گیا۔" اس نے اسی انداز میں تائید کی۔
"تو اب کیا محسوس کر رہے ہو؟" اس نے گردن موڑ کر اسے دیکھتے ہوئے محتاط انداز میں جاننا چاہا۔
"تین چیزیں بہت شدت سے محسوس ہو رہی ہیں مجھے۔" اس نے تجسس پھیلایا۔
"اور وہ کیا؟" اس نے آئبرو اچکائی۔
"پچھتاوا، بہت پچھتاوا، بہت زیادہ پچھتاوا۔" اس نے نظریں جھکا کر کرب سے جواب دیا تو وہ لمحے بھر کو خاموش ہوگئی۔
بجائے اسے کوئی جواب دینے کے وہ اپنا رخ شیلف کی طرف اور پشت غضنفر کی جانب کر چکی تھی۔ شاید خود کو کچھ کہنے سے روک رہی تھی۔ اور وہ اسی کے بولنے کا منتظر تھا۔ مگر وہ اس سے نظریں نہیں ملانا چاہتی تھی ورنہ وہ اس کی جیلیسی بھانپ جاتا۔
"مطلب اس نے ٹھکرا دیا تمھیں؟ تو تب کیسا لگا تھا جب اس نے تمہاری محبت کو قبول نہیں کیا؟" ہنوز کتاب ٹٹولنے کی اداکاری کرتی ملیحہ نے چبھتے ہوئے پر تپش لہجے میں پوچھا۔
"وہ قبول تب کرتی نا جب میں نے پیش کی ہوتی، میں نے تو اس سے کچھ کہا ہی نہیں۔" اس نے علم میں اضافہ کیا۔
"کیوں؟ کیا وہ دکھنے میں خوبصورت نہیں تھی؟ یا اتنی خوبصورت تھی کہ اس کا طلسماتی حسن دیکھ کر زبان پر تالا لگ گیا تھا؟ " اس نے تلخی سے ہنستے ہوئے طنز مارا۔
"نہیں، بلکہ یہ سمجھ میں آگیا تھا کہ جسے اب تک میں ہیرا سمجھ کر بیٹھا تھا وہ در حقیقت کانچ تھا، جسے میں محبت سمجھتا آیا تھا وہ بس ایک غلط فہمی تھی۔" اس نے دھیرے سے اعتراف کیا۔ وہ اس کی جانب پلٹی۔
"لگتا ہے تمھیں زندگی میں محبت کے نام پر ہمیشہ غلط فہمی ہی ہوئی ہے، پہلے میرے ساتھ، پھر اس اجنبی لڑکی کے ساتھ، اور اب پتا نہیں کس کی باری ہے؟" اس نے تلخی سے حقیقت کا آئینہ دکھایا۔ جب کہ اس کے لہجے و انداز میں کرب واضح تھا۔
اپنی بات مکمل کرکے اس نے اپنا رخ دوبارہ اس کی طرف سے موڑ لیا تھا۔ شاید اس کے سامنے اپنے تاثرات کا اظہار نہیں کرنا چاہتا تھی۔ مگر پھر بھی اپنے اندر اٹھتی غم و غصے کی شدید لہر کو روکنا اس وقت اس کیلئے بہت مشکل ہو رہا تھا۔
وہ اس کا گریبان پکڑ کر چیخ چیخ کر اس سے پوچھنا چاہتی تھی کہ اس غلط فہمی میں اس کے جذبات کیوں برباد کیے؟ وہ بلک بلک کر رونا چاہتی تھی اپنی محبت کی ناقدری پر، مگر اس کے سامنے کمزور بھی نہیں پڑنا چاہتی تھی اسی لئے رخ موڑے بہت مشکل سے ضبط کر رہی تھی۔
ابھی وہ خود کو نارمل کرنے کی کوشش میں ہی تھی کہ تب ہی پیچھے سے آہستگی کے ساتھ اس کے گرد ایک مضبوط حصار قائم ہوا۔ جو اس کے لاوے کی طرح ابلتے غصے پر یکدم ٹھنڈی پھوار کی مانند برسا، کیونکہ محبوب کا لمس مریض عشق کیلئے آبِ حیات سے کم نہیں ہوتا۔
"اب پھر سے تمہاری باری ہے، کیونکہ پہلی بھی تم تھی اور آخری بھی تم ہو، بیچ میں بس غلط فہمی آئی تھی۔" اس نے گھمبیر انداز میں کان کے نزدیک سرگوشی کی تو اس کی سانسیں محسوس ہوتے ہی اس کے پورے وجود میں سرسراہٹ دوڑ گئی۔
"پلیز واپس آجاؤ ملیحہ!" اس نے اسی انداز میں دل سے گزارش کی۔ جو سیدھا اس کے دل پر لگی۔
"یاد کرو شادی کی پہلی رات تم نے کہا تھا کہ اگر کبھی مجھ سے دوبارہ کوئی غلطی ہوجائے تو میں اسے مان کر پیار سے سوری بول دوں، تو تم بھی مان جاؤ گی!" اس نے اسی انداز یاد دلایا تو ملیحہ کو بھی بےساختہ پہلی رات کا وہ منظر یاد آگیا۔
"میں مانتا ہوں کہ مجھ سے غلطی ہوگئی تھی ملیحہ کہ میں تمہاری محبت کو پہچان نہیں پایا، اور اب میں اپنی یہ غلطی سدھارنا چاہتا ہوں، پلیز مجھے معاف کردو اور واپس آجاؤ میرے زندگی میں۔" اس نے حصار مزید تنگ کرتے ہوئے اسی گھمبیرتا سے گزارش کی گویا اسے خود میں چھپانا چاہ رہا ہو جس کے باعث ملیحہ نے بجائے کچھ کہنے کے بےساختہ لب بھینچ لئے۔
اس کے وجود سے اٹھتی خوشبو کو سانسوں میں اتارنے کی کوشش کرتے ہوئے بےاختیار غضنفر نے اپنے لب اس کے کندھے پر رکھ دیے جس کے باعث وہ تڑپ کر اس کی طرف پلٹی۔ جیسے غضنفر نے حصار ڈھیلا کرتے ہوئے کامیاب ہونے دیا۔
"میں تمھیں گیلے بالوں سے جگانے پر بھی نہیں ڈانٹوں گا، بلکہ تم جو چاہو وہ کرنا میرے ساتھ، بس واپس آجاؤ، پلیز!" اس نے یقین دہانی کراتے ہوئے معصوم بچے کی مانند پھر منت کی۔
"کس لئے آؤں واپس؟ تا کہ تم پھر میرے سامنے کسی اور کی محبت میں آہیں بھرتے پھرو؟" تلخی سے کہتے ہوئے ضبط کے باوجود ایک آنسو اس کی بائیں آنکھ سے ٹوٹ کر پھسلا۔ جس سے غضنفر کا دل کٹ گیا۔
"وہ محبت نہیں تھی، وہ بےوقوفی تھی، جو اب میں نہیں کروں گا، اب مجھے محبت کرنی ہے، اور صرف تم سے کرنی ہے۔" وہ نرم انداز میں اپنے پٹی بندھے ہاتھ سے اس کا آنسو صاف کرتے ہوئے ذرا سا باقی رہ جانے والا فاصلہ بھی مٹانے کی کوشش میں اپنا چہرہ اس کے مزید قریب لایا۔
"مگر اب میں نہیں کرسکتی۔" وہ اسے سینے پر ہاتھ رکھ کر پیچھے کرتے ہوئے خود بھی دور ہوئی۔ تو وہ اسے دیکھنے لگا۔
"محبت کوئی کھیل نہیں ہے کہ جب دل چاہا کھیل لیا جب دل چاہا چھوڑ دیا۔" اس نے دکھ سے کہا۔
"میں نے کتنے جتن کیے تھے غضنفر تمہارے دل میں جگہ بنانے کیلئے، مگر تم نے کبھی ان کی قدر نہیں کی۔" آج شاید وہ پرانا حساب کتاب کرنا چاہ رہی تھی۔
"یہ ہی سوچ کر تو آج پچھتا رہا ہوں میں۔" اس کی بات مکمل ہوتے ہی وہ بےتابی سے بولا۔
"اور تمہارے کل کے وہ جتن بیکار نہیں گئے تھے اس کا ثبوت میری آج کی یہ بےقراری ہے، اگر میرے دل میں تمہارے لئے جگہ نہیں ہوتی تو میں کیوں کہتا تمہیں واپس آنے کا؟" اس نے کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے اس کا چہرہ تھاما۔
"کہتے ہیں نا کہ دور ہونے پر ہی قدر محسوس ہوتی ہے، سچ کہتے ہیں، اسی لئے اب واپس آجاؤ ملیحہ پلیز!" اس نے منت کرتے ہوئے اپنا ماتھا اس کے ماتھے سے لگایا۔
وہ بہت مشکل سے اپنے بےساختہ آنسو روکے ہوئے تھی جو بلک بلک کر رونے کو بےقرار تھے۔ جب کہ غضنفر نے بھی بڑے جتن کرکے اپنے ان جذبات کو قابو میں رکھا ہوا تھا جو اتنے دنوں بعد اسے پھر سے قریب پا کر بےچین ہونے لگے تھے۔
"کل ثوبان نے مجھ سے شادی کی بات کی ہے۔" اس نے غضنفر کی منت نظر انداز کرتے ہوئے سپاٹ انداز میں اطلاع دی تو وہ چونکتے ہوئے ہاتھ ہٹا کر ذرا سا پیچھے ہوا۔ اس کا خدشہ درست ثابت ہوا تھا۔
"تو تم نے کیا کہا؟" اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ جاننا چاہا۔
"کیا کہنا چاہیے تھا مجھے؟" اس نے براہ راست آنکھوں میں دیکھتے ہوئے الٹا سوال کیا۔
وہ سوچ میں پڑ گیا۔ یکدم اس کے ذہن کے پردے پر ایک ایک کرکے بےترتیبی سے وہ سارے منظر لہرائے جن میں کبھی اس نے ملیحہ پر بےجا غصہ کیا تھا، کبھی اسے تنگ کیا تھا اور سب سے بڑھ کر اسے زمین کیلئے دھوکہ دیا تھا۔ ان سب مناظر میں محبت تو کہیں بھی نہیں تھی۔ اور جہاں تھی وہاں بہت مختصر اور جھوٹی تھی۔
"میں آج گھر جا کر امی سے اس متعلق بات کرنے والی تھی کہ راستے میں ماموں کی طرف سے بلاوا آگیا، مگر اب میں گھر جا کر انہیں بھی اس بارے میں بتانے والی ہوں۔" اسے خاموش دیکھ کر وہ خود ہی بولی۔
"ایک لڑکی کی یہ ہی خواہش ہوتی ہے کہ اسے ایک عزت و محبت دینے والا ساتھی ملے جو اسے سمجھتا بھی ہو، اور ثوبان ایسا ہی ہے۔" اس نے مزید کہتے ہوئے اس کے دل پر چھری چلائی۔ اور اسی لمحے سے تو وہ ڈر رہا تھا۔
"تو مطلب وہ جیت گیا مجھ سے!" اس نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں بمشکل تائید چاہی۔
"ہاں، اور مجھے پتا ہے کہ اب تم غصے میں آکر پہلے اسے مارو گے اور پھر مجھے بھی زبردستی یہاں سے کہیں دور لے جاؤ گے، مگر میں ایسا ہونے نہیں دوں گی۔" اس نے اندازہ لگاتے ہوئے پہلے ہی باور كرایا۔
بجائے فوری طور پر کوئی جواب دینے کے وہ مزید آگے آیا اور دونوں ہاتھوں سے اس کا چہرہ تھاما۔
"اگر تم بھی مجھ سے محبت کرتی اور ہمارے بیچ دنیا والے آرہے ہوتے تو خدا کی قسم میں ایسا ہی کرتا اور تمھیں سب سے اتنی دور لے جاتا کہ پھر کبھی کوئی ہمیں ڈھونڈ نہیں پتا۔" اس نے آہستگی سے گھمبیر جنونی انداز میں تائید کی۔
"لیکن ابھی صرف میں تم سے محبت کرتا ہوں تم مجھ سے محبت نہیں کرتی اور دور جانا چاہتی ہو، اسی لئے میں تمہارے ساتھ کوئی زور زبردستی نہیں کروں گا، کیونکہ اس بار ضد نہیں، محبت ہے مجھے۔" اس نے آنکھوں میں سسکتی محبت کے ہمراہ دکھ سے کہا۔ جس پر وہ کچھ نہ کہہ پائی۔
"اور محبت میں محبوب کی خوشی ہی پہلی ترجیح ہوتی ہے، پھر چاہے وہ ہم سے دور جانے میں ہی کیوں نہ ہو!" وہ پرنم آنکھوں کے سنگ اسی کی بات دہراتے ہوئے کرب سے مسکرایا۔
ملیحہ نے بہت کچھ سوچ رکھا تھا اسے کہنے کیلئے، بلکہ وہ تو باقاعدہ لڑنا چاہتی تھی اس سے پچھلی ہر ناانصافی پر، لیکن اس کا یہ بدلا ہوا انداز اس کا غصہ نگل گیا تھا۔ کیونکہ یہ ہی تو وہ انداز تھا جس کی اسے ہمیشہ سے طلب تھی مگر افسوس! کہ اب جب طلب پوری ہوئی تھی تو بہت دیر ہوچکی تھی۔
"خوش رہو! اللہ حافظ!" غضنفر نے کہتے ہوئے آہستہ سے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا جس کے دوران بےاختیار ملیحہ نے آنکھیں بند کرلیں۔
پھر وہ پیچھے ہٹ کر برق رفتاری کے ساتھ اپنی آنکھیں صاف کرتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔
جب کہ وہ بےحس و حرکت اپنی جگہ پر یوں ہی ساکت رہ گئی جس کے ماتھے پر اب تک اس کا لمس زندہ تھا جو کہ اس کی سانسوں کی طرح ہی جلتا ہوا محسوس ہوا۔
بات بھی کرنا کل تلک جنہیں نہ تھا گوارا
ہمارے بن مشکل ہوا ہے آج ان کا گزارا
ہماری موجودگی کی جنہیں قدر نہ تھی
انہیں ہماری چند دن کی جدائی نے مارا
جو خود چاہتے تھے کبھی دوریاں ہم سے
آج وہ ہی کہہ رہے ہیں کہ لوٹ آؤ خدارا
واپسی ممکن نہیں اب، ہم نے بھی کہہ دیا
اب مشکل ہے کہ ہم لوٹ آئیں واپس دوبارہ
ہم نے لٹائی تھی آپ پر کبھی شدیں اپنی
مگر آپ نے دیا تھا ہمیں صرف خسارہ
بات سن کر ہماری وہ رنجیدہ ہوئے یوں
جیسے ڈوبتے کو نہ ملا ہو تنکے کا سہارا
ہم خوش تھے اپنی انا کی جیت پر
کہ حساب برابر کر لیا تھا ہم نے سارا
مگر اتنی بےرخی کے بعد بھی کیوں؟
ماتھا چوما انہوں نے جاتے جاتے ہمارا
فریال خان
*******************************
وہاں سے نکلنے کے بعد ملیحہ سیدھا گھر جانے کے بجائے دوبارہ فاؤنڈیشن آگئی تھی۔ اور اس نے ایسا کیوں کیا تھا؟ یہ وہ بھی نہیں جانتی تھی، بس اسے اتنا معلوم تھا کہ اس وقت وہ اس رنجیدہ صورت کے ساتھ کسی کے بھی سوالات کے جوابات دینے کی حالت میں نہیں تھی۔ اور اس جگہ کے سوا اس کی نظر میں فی الحال اور کوئی جگہ بھی نہیں تھی کہ جہاں وہ تھوڑی دیر تنہا بیٹھ سکے۔
واچ مین اسے جانتا تھا اسی لئے ان نے روکا ٹوکا نہیں اور سست روی سے چلتی ملیحہ لان والے حصے میں آکر ایک پیڑ کی چھاؤں میں لکڑی کی بینچ پر بیٹھ گئی۔
دوپہر کے قریب تین بج رہے تھے اور سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا جس کے باعث گرمی بھی کافی تھی۔ مگر اس ٹھنڈے سائے کے نیچے بیٹھی ملیحہ کو اس وقت باہر کے موسم کی کوئی خبر نہیں تھی۔
"خوش رہو!" اس کے ذہن میں غضنفر کی کرب میں ڈوبی آواز گونجی اور ساتھ ہی اس کے بوسے کا لمس ماتھے پر دوبارہ محسوس ہونے لگا جس کے باعث بےساختہ اس نے اپنا ماتھا چھوا۔
"تم ٹھیک ہو؟" نسوانی آواز میں کیے گئے سوال پر اس نے سر اٹھایا تو روبینہ پاس ہی کھڑی تھیں۔
"جی۔" اس نے مختصر جواب دیا۔
"لیکن لگ تو نہیں رہا۔" وہ کہتے ہوئے اس کے برابر میں بیٹھ گئیں۔
"بس ایسے ہی تھوڑا سر میں درد ہے۔" اس نے سرسری انداز میں ٹالنا چاہا تو وہ بغور اسے دیکھنے لگیں۔
"بانٹنے سے دل کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے۔" انہوں نے اسے اسی کی بات لوٹائی تو وہ بےساختہ ان کی جانب دیکھنے لگی جو شاید اسے سننے کی منتظر تھیں۔
"پہلے میں نے سنایا اور تم نے سنا، آج تم سناؤ اور میں سنتی ہوں۔" انہوں نے نرمی سے اکسایا تو وہ سوچ میں پڑ گئی۔ اور پھر اس بوجھ سے آزاد ہونے کیلئے بلآخر اس نے لب وا کیے۔
اس نے آہستہ آہستہ انہیں سب بتایا کہ کیسے غضنفر اس کی زندگی میں آیا؟ کیسے ان کی شادی ہوئی؟ کیسے اس کا مزاج بدلا؟ کیسے وہ کسی اور کی محبت میں مبتلا نکلا، کیسے اس نے الگ ہونے کی بات کی؟ کیسے دونوں الگ ہوئے؟ اور اب کیسے وہ دوبارہ اس کیلئے بےقرار ہو رہا ہے۔ جسے وہ بغور سنتی رہیں۔
"سچ کہوں تو میری سمجھ میں ہی نہیں آرہا ہے کہ اس وقت میں کیا فیصلہ کروں؟" ساری بات بتانے کے بعد آخر میں وہ تھک کر بولی۔
"اگر میں تمہاری جگہ ہوتی تو پتا ہے کیا کرتی؟" وہ سنجیدگی سے گویا ہوئیں۔
"کیا کرتیں؟" اس نے جاننا چاہا۔
"میں کبھی بھی اس شخص کے پاس واپس نہ جاتی جس نے کبھی میری عزت نہیں کی۔" ان کا انداز اٹل تھا۔
"چاہے وہ آپ کی کتنی منتیں کیوں نہ کرتا؟" اس نے سوال کیا۔
"ہاں!" کسی غیر مرئی نقطے کو تکتے ہوئے انہوں نے دو ڈوک جواب دیا۔ وہ انہیں دیکھنے لگی۔
*******************************
"میں نے کہا تھا نا کہ میری جگہ پر کوئی اور آگیا ہے۔" دونوں ہاتھ مضبوطی سے کھڑکی پر رکھ کر کھڑے غضنفر نے کرب سے کہا۔
"تو کوئی اور تمہاری جگہ پر ہے اور تم چپ چاپ اسے قبضہ کرنے دے رہے ہو، تم تو چیزوں پر لڑ جانے والے شخص تھے، اور اب جب بات تمہاری بیوی کی ہے تو خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہو، تمھیں کیا ہوگیا ہے؟ کیوں اب تم وہ پہلے والے غضنفر نہیں رہے؟" اس کے پیچھے کمرے کے وسط میں کھڑے سلیمان نے اس کی پشت کو تکتے ہوئے حیرت سے سوال کیا۔
"کیونکہ اب مجھے محبت ہوگئی ہے۔" وہ کہتے ہوئے ان کی جانب پلٹا۔
"اوہ پلیز! اپنی بزدلی کو تم محبت کا نام نہ دو، اگر میں تمہاری جگہ ہوتا اور کوئی میری بیوی کی زندگی میں اس طرح چلا آتا تو کب کا اسے قتل کرکے اپنی بیوی کو کہیں دور لے جا چکا ہوتا، سیدھی سی بات ہے کہ تم چاہتے ہی نہیں ہو ملیحہ کو واپس پانا۔" بلآخر اب وہ بھی عاجز آگئے تھے۔
"بھلے ہی آپ کی بیوی آپ کے ساتھ خوش نہ رہتی؟ پھر بھی آپ زبردستی اسے اپنے ساتھ باندھ کر رکھتے؟" وہ پوچھتا ہوا ان کی جانب آیا۔
"ہاں!" انہوں نے جھٹ سے جواب دیا۔
"پھر یہ ضد ہوئی، خودغرضی ہوئی لیکن محبت تو نہ ہوئی، کیونکہ محبت تو محبوب کی خوشی کا نام ہے۔" وہ ان کے مقابل آکر رکا۔
"اور رہی بات لڑنے جھگڑنے کی اور مرنے مارنے کی، تو اس کیلئے میں اب بھی تیار ہوں، وہ بھی ہر اس شخص سے جو ملیحہ اور اس کی خوشیوں کے بیچ آئے گا۔" اس کا انداز چٹان سا سخت تھا۔ وہ دنگ رہ گئے۔ وہ آج کل انہیں یوں ہی بات بات پر حیران کر رہا تھا۔
"میں نے بینک سے لون کی بات کی ہے، میری کوشش ہے کہ میں شوروم کی جتنی مالیت ہے اتنی یا اس کے لگ بھگ رقم طلاق دے کر ملیحہ کو حق مہر کے علاوہ شرط کے مطابق دے دوں، اس نے تو منع کردیا ہے حق مہر سے بھی مگر یہ اس کا حق ہے جو کہ اسے ضرور دینا ہے، کیونکہ اور تو کچھ میں دے نہیں پایا اسے۔" وہ بتاتے ہوئے آخر میں پھیکےپن سے مسکرایا۔
"یہ لون میں شوروم کی فائل کے بدلے ہی لوں گا اور آہستہ آہستہ اسے چکا کر فائل صحیح سلامت واپس نکال لاؤں گا یہ وعدہ ہے، آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔" اس نے تسلی کرواتے ہوئے ان کے کندھے پر تھپکی دی۔ وہ کچھ نہ کہہ پائے۔
"اگلے ہفتے عبید اور زوہا کا نکاح ہے، ممی کہہ رہی تھیں کہ سب گھر والے چاہتے ہیں میں اس سے پہلے ہی ملیحہ سے صلح کرلوں، مگر اب ایسا ممکن نہیں ہے، اسی لئے میں اس سے پہلے ہی اسے طلاق دے کر یہ چیپٹر کلوز کردوں گا۔" اس نے تاسف سے اپنا ارادہ بتایا جسے وہ سنتے رہے۔
پھر مزید اور کوئی بات کرنے کے بجائے وہ پلٹ کر جانے ہی لگا تھا کہ کچھ یاد آنے پر دوبارہ ان کی طرف گھوما۔
"اور ہاں، ہم دونوں کا آمنا سامنا کروانے کیلئے شکریہ، اس سے میری رہی سہی امید بھی ختم ہوگئی۔" اس نے کرب سے مسکراتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا اور پھر تیزی کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گیا۔ جب کہ اپنی جگہ پر ساکت ہوئے سلیمان بس اسے دیکھ کر رہ گئے۔
*******************************
ملیحہ کافی دیر فاؤنڈیشن میں رہنے کے بعد جب گھر پہنچی تو شام کے پانچ بج چکے تھے۔ جب کہ گھر کے باہر موجود گاڑی دیکھ کر کسی مہمان کی آمد پر حیران ہوتی ہوئی وہ اندر آکے سیدھا ڈرائینگ روم کی جانب بڑھی جہاں سے باتوں کی آواز بھی آرہی تھی۔
وہاں پہنچ کر اسے پتا چلا کہ دردانہ، رفاقت، شفاعت اور صالحہ کے ہمراہ آئی ہوئی تھیں اور سب اس وقت سالک اور راضیہ سے متوازن انداز سے بات چیت میں مصروف تھے۔
"لو! ملیحہ بھی آگئی۔" تب ہی اس پر نظر پڑتے ہی دردانہ نے کہا تو سب اس کی جانب متوجہ ہوئے۔
"السلام علیکم!" وہ سلام کرتی ہوئی آگے آئی۔
"وعلیکم السلام! جیتی رہو، خوش رہو۔" دردانہ نے خوشدلی سے جواب دیا۔
"آؤ بیٹھو نا بیٹا۔" انہوں نے اپنے برابر میں ہی اشارہ کیا تو وہ وہاں بیٹھ گئی۔
"کیسی ہو؟" انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے نرمی سے استفسار کیا۔
"الحمدللہ ٹھیک ہوں، آپ کیسی ہیں؟ اور پاپا آپ کی طبیعت کیسی ہے اب؟" وہ جواب دیتے ہوئے رفاقت سے مخاطب ہوئی۔
"میں تو الحمدللہ اب بالکل ٹھیک ہوں بیٹا۔" انہوں نے خوشدلی سے جواب دیا۔ جواباً وہ مسکرائی۔
"تمھیں یاد ہے ایک ہفتے بعد کیا ہے؟" دردانہ نے ٹٹولا۔
"عبید اور زوہا کا نکاح ہے نا!" اس نے سوالیہ انداز میں تائید چاہی۔
"ہاں، اسی کی دعوت دینے آئے تھے ہم تم لوگوں کو۔" انہوں نے مسکراتے ہوئے تصدیق کی۔
"اور ساتھ ہی ایک ضروری بات بھی کرنے آئے تھے۔" اب وہ سنجیدہ ہوتیں اصل موضوع کی جانب آئیں جسے ملیحہ بھانپ گئی۔
"تمھیں یاد تو ہوگا نا بیٹا کہ ہم نے تمھیں اور غضنفر کو ایک مہینے کا وقت دیا تھا اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کیلئے!" انہوں نے تہمید باندھی تو اس نے اثبات میں سر ہلایا۔ جب کہ باقی سب خاموشی سے ان کی گفتگو سن رہے تھے۔
"تو پھر کیا فیصلہ کیا بیٹا تم نے؟ کیونکہ غضنفر سے ہم نے پوچھا تھا مگر اس نے کوئی واضح جواب نہیں دیا۔" انہوں نے پوچھتے ہوئے بتایا تو وہ نظریں جھکا کر خاموش ہوگئی۔
"دیکھو بیٹا! بھلا کون سے میاں بیوی میں جھگڑے نہیں ہوتے؟ بہت ساری عادتیں بھی ان کی الگ ہوتی ہیں جن پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے، کیونکہ مکمل اور عیب سے پاک تو کوئی انسان نہیں ہوتا۔" اسے خاموش دیکھ کر انہوں نے تھوڑا سمجھایا۔
"ویسے تو ہم سب ہی یہ چاہتے ہیں کہ تم دونوں کے بیچ صلح ہوجائے اور تم دونوں ایک ساتھ خوش و آباد رہو، لیکن ہم تم پر زبردستی بھی نہیں کریں گے، تمہارا جو بھی فیصلہ ہے تم بلاجھجھک ہمیں بتا دو بیٹا۔" انہوں نے نرمی سے تحفظ کا احساس دلايا۔ وہ ہنوز خاموش تھی۔
"پلیز واپس آجاؤ ملیحہ!" اسے غضنفر کی گزارش یاد آئی۔
"اگر میں تمہاری جگہ ہوتی تو میں کبھی بھی اس شخص کے پاس واپس نہ جاتی جس نے کبھی میری عزت نہیں کی۔" اس کے ذہن میں روبینہ کی آواز گونجی۔
"ملیحہ!" اسے خاموش دیکھ کر سالک نے نرمی سے پکارا۔
"میں نے فیصلہ کرلیا ہے۔" بلآخر وہ بولی۔
"کیا فیصلہ کیا ہے بیٹا؟" دردانہ نے جاننا چاہا۔ اور یہ ہی کیفیت باقی سب کی بھی تھی۔
*******************************
سورج ڈھلنے کے بعد آسمان پر اندھیرا چھا گیا تھا جسے مات دینے کی ادنی سی کوشش میں اہل زمین نے مصنوعی روشنیوں کا سہارا لے لیا تھا۔
مگر بیڈ سے نیچے پیر لٹکائے، بیڈ پر چت لیٹے غضنفر نے اندھیرا دور کرنے کیلئے کمرے کی لائٹس آن کرنے کی زحمت نہیں کی تھی۔ کیونکہ اسے لگتا تھا کہ اب یہ مصنوعی روشنیاں اس اندھیرے کو شکست نہیں دے سکتی تھیں جو اس کی خود کی کوتاہیوں کے باعث اس کے حصے میں آیا تھا۔
ابھی وہ ان ہی سوچوں میں گم تھا کہ کوئی کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آیا اور کمرے کی لائٹ آن کردی۔ اور یکدم آنکھوں پر پڑنے والی روشنی کی وجہ سے غضنفر نے پل بھر کو آنکھیں میچھ لیں۔
"غضنفر!" سلیمان پکارتے ہوئے آگے آئے۔
"جی ماموں؟" اس نے یوں ہی کہا۔
"آجاؤ کھانا کھا لو بیٹا۔" انہوں نے نرمی سے پکارا تو ناچاہتے ہوئے بھی وہ اٹھ بیٹھا۔ جب کہ اس کے چہرے پر چھائی افسردگی دیکھ کر بےساختہ ان کا دل کٹ کر رہ گیا۔
"آپ چلیں میں آتا ہوں۔" اس کا دل نہیں تھا مگر ان کی خاطر وہ رضا مند ہوگیا تو وہ اثبات میں سر ہلا کر پلٹے۔
"اچھا بات سنو!" انہیں اچانک کچھ یاد آیا۔
"وہ آڈیٹ کی فائل مجھے مل نہیں رہی ہے، تم دیکھنا کہیں تمہارے پاس تو نہیں ہے!" انہوں نے کہتے ہوئے کام ذمہ لگایا۔
"ٹھیک ہے، میں ابھی دیکھتا ہوں۔" اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
"ارے ابھی نہیں، پہلے کھانا کھا لو، پھر ڈھونڈ لینا۔" انہوں نے ٹوکا۔
"آپ چلیں میں بس پانچ منٹ میں آتا ہوں۔" وہ کہتے ہوئے بیڈ پر سے اٹھا۔
"ٹھیک ہے، مگر آجانا پانچ منٹ میں۔" انہوں نے رضا مند ہوتے ہوئے تاکید کی۔ تو اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
پھر سلیمان دوبارہ کمرے سے باہر چلے گئے جب کہ وہ فائل ڈھونڈنے کے ارادے سے شیلف کی جانب آیا۔ وہاں سے ناکام ہونے کے بعد وہ الماری کی طرف بڑھا اور اپنے خانے میں چیک کرنے لگا مگر نتیجہ صفر ہی رہا۔
اس طرف سے بھی مایوس ہونے کے بعد اس کی نظر برابر والے خانے پر گئی جو پہلے ملیحہ کے استعمال میں تھا اور اب اس کے جانے کے بعد خالی پڑا تھا۔ یہ دیکھ کر اس کا دل مزید اداس ہوگیا۔ جس کا دھیان بھٹکانے کیلئے اس نے یوں ہی خانے میں بنا لکڑی کا ایک اور تجوری نما خانہ کھول لیا جس کے اندر کچھ کاغذات وغیرہ پڑے تھے۔
خوش قسمتی سے اسی خانے میں اسے وہ فائل مل گئی جو وہ ڈھونڈ رہا تھا۔ جسے باہر نکالتے ہوئے اسے یاد آیا کہ اسی نے تو یہ فائل ملیحہ کو سنبھال کر رکھنے کیلئے دی تھی۔
وہ فائل لے کر خانہ بند کرنے ہی لگا تھا کہ اس کی نظر ایک نوٹ بک پر پڑی جو اسے تھوڑی جانی پہچانی سی لگی۔
اس نے فائل خالی خانے پر رکھ کر یوں ہی وہ پتلی سی نوٹ بک اٹھا لی اور جب اسے کھول کر دیکھا تو پہلے پیج پر ایک کالم بنا ہوا نظر آیا جس پر پہلی ہیڈنگ تھی "غضنفر کی پسندیدہ باتیں" اور دوسری ہیڈنگ تھی "غضنفر کی ناپسندیدہ باتیں"
اسے یاد آیا کہ یہ تو وہ ہی نوٹ بک تھی جس پر شادی کے شروعاتی دنوں میں ملیحہ نے اس کی پسند ناپسند درج کی تھی۔
"یاد ہے میں نے کہا تھا کہ ہم فرصت میں ایک دوسرے کی پسند ناپسند جانیں گے تا کہ ایک دوسرے پر غصہ کم سے کم آئے، تو اس کے بعد سے فرصت ملی ہی نہیں، آج موقع ملا تو سوچا یہ ضروری کام بھی کرلیں۔" ملیحہ نے ہوا سے چہرے پر آئی لٹ پیچھے کرتے ہوئے وضاحت کی تھی۔
وہ غیر ارادی طور پر صفحات پلٹے ہوئے انہیں پڑھنے لگا۔ ہر صفحے پر بس اسی کی پسند ناپسند لکھی تھی، جب کہ ملیحہ نے کہا تھا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کی پسند ناپسند جانیں گے مگر غضنفر نے تو اس سے کبھی کچھ پوچھا ہی نہیں تھا اس کی پسند ناپسند کے بارے میں!
اور اس روز بھی ملیحہ نے بس چند باتیں ہی لکھی تھیں باقی سب غالباً وہ وقت کے ساتھ ساتھ لکھتی گئی تھی۔ اس نے سب کچھ اردو میں لکھا تھا اور اس بات سے بھی وہ بےحد متاثر ہوا کہ اس کی طرح اس کی لکھائی بھی پیاری تھی۔
چند صفحات پر مشتمل یہ پتلی سی نوٹ بک ختم ہوگئی تھی جس کے ہر صفحے پر بس اسی کا ذکر تھا اور آخری صفحے پر بس ایک جملہ لکھا ہوا تھا کہ
"جو غضنفر کو پسند وہ ہی میری پسند۔"
یہ جملہ پڑھ کر اس کے دل پر ایک گھونسا لگا۔ مطلب اس نے اپنے آپ کو پوری طرح اس میں گم کردیا تھا۔ وہ خود کو ایک طرف رکھ کر جیسے بھول گئی تھی، یاد تھا تو بس ایک شخص جس کے گرد اس کی کل کائنات تھی۔ اور اس شخص نے بدلے میں کیا دیا تھا اسے؟ صرف بےرخی!
اسے اس وقت ملیحہ پر ٹوٹ کر پیار اور خود پر بےتحاشا غصہ آیا جو کہ اس کے چہرے سے بھی چھلکنے لگا تھا۔ اسے اب قدر محسوس ہوئی تھی اس کی جو اب اس سے بہت دور جا چکی تھی، اور جو دور جانے کے بعد ہو وہ قدر نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پچھتاوا ہوتا ہے۔
وہ تو چپ ہوچکی اب رو دھو کر
جس نے محبت تم پر کبھی واری ہے
مگر قسمت نے پلٹی ہے کایا اپنی
اب پچھتانے کی باری تمہاری ہے
فریال خان!
*******************************
"ثوبان نے تم سے یہ بات کب کی؟ بلکہ تم سے یہ بات کیوں کی؟ وہ مجھ سے یا آپا سے بات نہیں کرسکتا تھا اس بارے میں؟" راضیہ کسی بات پر کافی خفا تھیں۔
"کل رات ہی تو کہا ہے اس نے، اور آپ لوگوں سے ڈائریکٹ بات کرتے ہوئے وہ جھجھک رہا تھا شاید!" ملیحہ نے اس کا دفاع کیا۔
"بات کرتے ہوئے جھجھک رہا تھا، عشق کرتے ہوئے شرم نہیں آئی!" ان کی ناراضگی کم نہیں ہوئی تھی۔ جس کے باعث اس نے بےساختہ نظریں چرالیں۔
ابھی دونوں ملیحہ کے بیڈ پر بیٹھی محو گفتگو تھیں کہ تب ہی سالک بھی کمرے کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے اندر آئے جن کی جانب یہ دونوں متوجہ ہوئیں۔
"بیٹھو جاؤں میں بھی تھوڑی دیر یہاں؟" وہ اجازت چاہتے ہوئے قریب آئے۔
"جی پاپا، آپ کو بھلا اجازت کی کیا ضرور؟" وہ سہولت سے بولی تو سالک ڈریسنگ ٹیبل کی کرسی کھینچ کر وہیں بیٹھ گئے۔
"آج شام کو جو اپنا فیصلہ تم نے سنایا وہ تم نے سوچ سمجھ کر لیا ہے؟" وہ نرم مگر سنجیدہ انداز میں مخاطب ہوئے۔
"جی پاپا! بہت سوچ سمجھ کر لیا ہے۔" وہ نظریں جھکائے دھیرے سے بولی۔
"اور تم اب بھی اس پر قائم ہو؟" انہوں نے تائید چاہی۔
"جی قائم ہوں اور رہوں گی۔" اس نے اٹل انداز میں تصدیق کی۔ جس پر سالک اور راضیہ نے ایک دوسرے کو دیکھا۔
"اور وجہ بھی میں آپ کو سمجھا چکی ہوں اسی لئے اب مجھے امید ہے کہ آپ لوگ میرا ساتھ دیں گے۔" وہ ان کی طرف دیکھتے ہوئے ایک آس سے مزید بولی۔
"بالکل! جیسے پہلے دیا تھا۔" وہ ہلکا سا مسکرائے۔ تو اسے بھی تھوڑا اطمینان ہوا۔
"آپ کل جا کر بات کیجئے نادیہ آپا سے ثوبان کے متعلق، ہم ہیں ان کے ساتھ۔" اب وہ راضیہ سے مخاطب ہوئے۔
*******************************
ایک نئی صبح پھر سے زمین پر پاؤں رکھ چکی تھی جس کے باعث سب اپنے اپنے معاملات میں ایک بار پھر سے مصروف ہونے لگے۔
"سالک کا فون آیا تھا میرے پاس۔" سلیمان نے ناشتہ کرتے ہوئے عام سے انداز میں بتایا مگر غضنفر نے ناشتے سے ہاتھ روک کر ان کی جانب دیکھا۔
"کیا کہہ رہے تھے؟" اس نے جاننا چاہا۔
"کل سب بڑے گئے تھے ان کے گھر زوہا کے نکاح کی دعوت دینے اور ساتھ ملیحہ کا فیصلہ پوچھنے، اور اس نے اپنا حتمیٰ فیصلہ سنا دیا ہے۔" وہ بھی پوری طرح اس کی جانب متوجہ ہوئے۔
"کیا فیصلہ کیا ملیحہ نے؟" اندازہ ہونے کے باوجود بھی اس کا دل زور سے دھڑکا۔
"وہ تم سے طلاق لے کر اپنے کزن سے شادی کرنا چاہتی ہے۔" انہوں نے نظریں جھکاتے ہوئے بجلی گرائی۔ اور بلآخر امید کا آخری بت بھی گر کر پاش پاش ہوگیا جس کے باعث اسے بےحد تکلیف ہوئی مگر اسے ضبط کرنا پڑا۔
"اسی لئے سالک چاہتا ہے کہ جلد از جلد طلاق کے بعد کاغذی کاروائی مکمل کرلی جائے تا کہ ملیحہ عدت پوری کرکے نکاح کرسکے، تو اسی لئے اس نے تمھیں گھر بلایا ہے۔" انہوں نے مزید تفصیل بتائی جسے اس نے بمشکل سنا۔
"تو تم چلے جانا شام تک وہاں، پھر جو بھی معاملات ہوں مجھے بتانا۔" انہوں نے افسردگی سے یوں کہا گویا اب سب ختم ہونے کے بعد کچھ بچا ہی نہ ہو۔ جب کہ غضنفر نے محض اثبات میں سر ہلانے کیلئے کس قدر دشواری کے ساتھ ہمت اکھٹا کی تھی؟ یہ بس وہ ہی جانتا تھا۔
*******************************
دیکھتے ہی دیکھتے صبح اب دوپہر میں تبدیل ہوچکی تھی جس کی گرمی سے بچنے کیلئے ملیحہ اور روبینہ دونوں حسب سابق اسی پیڑ کے نیچے نصب بینچ پر بیٹھی ہوئی تھیں۔
"تو پھر کیا فیصلہ کیا تم نے؟" انہوں نے جاننا چاہا۔
"میں نے آپ کی بات مان لی کہ جس شخص نے کبھی ہماری عزت ہی نہ کی ہو اسے ایک اور موقع نہیں دینا چاہئے۔" اس نے سامنے دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
"میں نے ٹھیک کیا نا؟" اس نے ان کی طرف دیکھ کر تصدیق چاہی۔
"بہت اچھا کیا تم نے، کیونکہ عزت سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا، محبت بھی نہیں۔" انہوں نے اٹل انداز میں تائید کی۔
*******************************
ہوا کے گرم تھپڑ اب نرمی میں بدل گئے تھے جس کے باعث موسم کافی سہانا ہو رہا تھا۔ مگر متوازن رفتار سے کار ڈرائیو کرتے غضنفر کو اس وقت ہر چیز سے شدید نفرت محسوس ہو رہی تھی، جس میں اس کا اپنا آپ سرِ فہرست تھا۔
وہ بہت مشکل سے خود کو تیار کر پایا تھا یہاں آنے کیلئے ورنہ اس کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ کیسے وہ خود جا کر اپنے ہی ہاتھوں اس پرندے کو اپنے نام کی قید سے آزاد کرے جس میں اب اس کی جان بسنے لگی تھی۔ مگر ایسا کرنا بھی تو ضروری تھا کیونکہ اس پنچھی کی خوشی اسی آزادی میں تھی۔
ان ہی سوچوں میں غرق بلآخر وہ "حمدانی پیلس" پہنچ گیا۔ گھر کے باہر ہی گاڑی سے اترنے کے بعد وہ اندر کی جانب بڑھا تو چوکیدار نے شناسائی ہونے کی وجہ سے اسے اندر جانے دیا۔
درمیانی رفتار سے چل کر آنے کے بعد اس نے اندرونی دروازے کی بیل بجائی تو تھوڑی دیر میں ملازمہ دروازہ کھول کر اسے اندر لے آئی جہاں خلاف معمول اسے سناٹا محسوس ہوا۔
"سب کہاں ہیں؟" اس نے آس پاس دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"آئیے میرے ساتھ۔" بجائے جواب دینے کے اس نے چلنے کا کہا تو غضنفر اس کی پیروی میں ایک کمرے کے اندر داخل ہوا جو کہ غالباً گیسٹ روم تھا۔
"آپ یہیں رکیں، میں ملیحہ بی بی کو بتاتی ہوں۔" وہ کہہ کر چلی گئی۔
ڈارک گرے جینز پر بلیک فل آستینوں والی ٹی شرٹ پہنے، کہنیوں تک آستین چڑھائے، دائیں کلائی پر بیلٹ والی گھڑی باندھے، دونوں ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں پھنسائے وہ وقت گزاری کیلئے کمرے کا جائزہ لینے لگا۔
جدید طرز کے فرنیچر سے آراستہ یہ ایک خوبصورت اور کشادہ بیڈ روم تھا۔ جو شاید مہمانوں کیلئے مزئین کیا گیا تھا۔ کیونکہ گھر کے مکینوں کے بیڈ روم تو اوپر کی طرف بنے ہوئے تھے۔
ابھی وہ اسی میں مصروف تھا کہ کمرے کے دروازے پر کھٹکا ہوا۔ اس نے چونکتے ہوئے پلٹ کر دیکھا تو ملیحہ دروازہ بند کرتے ہوئے اسی طرف آتی نظر آئی۔ جو کہ میرون رنگ کے سادے سے سوٹ میں کافی ہشاش بشاش لگی۔ اور وہ اسے یوں دیکھے گیا گویا یہ آخری دیدار ہو۔
"سلام دعا کرنا بھی بھول گئے ہو کیا؟" اس نے مقابل رک کر غضنفر کے آگے چٹکی بجائی۔ وہ چونکا تو نہیں مگر ہوش میں ضرور آگیا۔
"آپ پر ہمیشہ سلامتی، رحمت اور برکت نازل ہو اور آپ کو کبھی کوئی دکھ نہ پہنچے۔" اس نے مہذب انداز میں دعا دی۔
"اچھا! یہ تم کہہ رہے ہو! جو مجھے دکھی کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔" وہ استہزائیہ انداز میں ہنسی۔
"رہتا تھا، لیکن اب جب غلطی محسوس ہونے کے بعد خوشی دینی چاہی تو تم نے حق ہی چھین لیا۔" اس نے بھی ترکی بہ ترکی تلخی سے شکوہ کیا۔ وہ کچھ نہ بولی۔
"خیر! ماموں نے بتایا کہ تم لوگ جلد از جلد طلاق چاہتے ہو، مگر انکل آنٹی تو کہیں نظر ہی نہیں آرہے۔" اس نے خود ہی بات بدلی۔
"وہ دونوں خالہ کے گھر گئے ہوئے ہیں، تمھیں پاپا نے نہیں میں نے بلاوایا تھا۔" اس نے بتاتے ہوئے انکشاف کیا۔
"کیوں؟" اسے تھوڑا تعجب ہوا۔
"تمہاری جان لینے کیلئے۔" ملیحہ نے پراسرار انداز میں کہتے ہوئے یکدم اس کی ٹی شرٹ دونوں ہاتھوں سے دبوچ لی۔ جس کے نتیجے میں دونوں کے درمیان فاصلہ نہ ہونے کے برابر رہ گیا۔
"وہ تو تم الگ ہونے کا فیصلہ کرکے پہلے ہی لے چکی ہو۔" وہ بنا مزاحمت کیے تلخی سے مسکرایا۔
"ہاں تو تم نے ہی مجبور کیا تھا اس فیصلے کیلئے، ورنہ میں تو رہ رہی تھی تمہارے سارے ناز نخرے اٹھا کر تمہارے ساتھ۔" اس نے نروٹھےپن سے شکوہ کیا جب کہ شرٹ ہنوز ہاتھوں میں تھی۔
"اسی بات کا تو سارا افسوس ہے کہ تب میری عقل پر تالے پڑے ہوئے تھے، اور جب ہوش آیا تو بہت دیر ہوچکی تھی۔" اس نے دکھ سے خود کو کوسا۔ وہ اسے دیکھتی گئی۔
"ویسے افسوس کے علاوہ کچھ اور بھی کرسکتے ہو تم!" اس نے سنجیدگی سے دھیان دلانا چاہا۔
"ہاں جانتا ہوں کہ تمھیں طلاق دے سکتا ہوں اور وہ ہی دینے آیا ہوں۔" اس نے دھیرے سے اعتراف کیا۔
"میں غضنفر عباس، اپنے پورے ہوش و حواس میں تمھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
ابھی وہ نظریں جھکا کر دکھی دل سے طلاق کا لفظ کہنے ہی لگا تھا کہ یکدم ملیحہ نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے خاموش کروا دیا۔
لمحے بھر کو وہ بھی ٹھٹکا اور اس کی جانب تعجب سے دیکھنے لگا۔ جو بس خاموشی سے اسے تکتے ہوئے آخر کیا چاہ رہی تھی اس بات کا اندازہ اس کے چہرے سے لگا پانا مشکل تھا۔
چند لمحے یوں ہی نینوں کی ڈور الجھائے رکھنے کے بعد نجانے غضنفر کے دل میں کیا سمائی کہ پہلے اس نے آہستہ سے ملیحہ کا ہاتھ ہٹایا اور پھر اسے قریب کرکے چوم لیا۔ جس پر اس نے کوئی مزاحمت نہیں کی۔
"گستاخی معاف! مگر دوبارہ مجھے یہ موقع نہیں ملے گا۔" اس نے اس گستاخی کی وضاحت کی۔
"اب تو تم چومو گے ہاتھ میرے"
"اب تم دنیا جو دیکھ آئے ہو"
ملیحہ نے تلخی سے مسکراتے ہوئے شاعرانہ انداز میں طنز مارا تو جواباً وہ بھی پھیکےپن سے ہنس دیا۔
"چلو میں تو دنیا دیکھ کر آرہا ہوں اسی لئے ہاتھ چوم لیا؟ لیکن تمھیں کیا ہوا جو میرے جھوٹے لبوں پر ہاتھ رکھنے کی نوبت آئی؟" اس نے کرب آمیز دلچسپی سے پوچھا۔
"تم پوچھو گے نہیں کہ میں نے کل کیا فیصلہ کیا ہے؟" اس نے بھی الٹا سوالیہ انداز میں ٹٹولا۔
"ماموں بتا چکے ہیں مجھے۔" مختصر جواب ملا۔
"ماموں نے تمھیں وہ بتایا ہے جو میں نے انہیں بتانے کا کہا تھا۔" اس نے سنجیدگی سے اطلاع دی۔
"مطلب؟" وہ سمجھا نہیں۔
"مطلب کل جب مجھ سے پوچھا گیا کہ میں نے کیا فیصلہ کیا ہے تو میں نے کہا کہ میں تمہارے ساتھ رہنا چاہتی ہوں پاگل، اتنا نہیں سمجھ پا رہے تم!" اس نے تاسف سے بتایا گویا اس کی عقل پر افسوس ہوا ہو۔ غضنفر کو تو اپنی سماعت پر ہی یقین نہیں آیا۔
"کیا؟" وہ بےیقینی سے بولا۔
"مگر تم تو۔۔۔تم تو اپنے کزن سے شادی کرنے والی تھی نا!" اس نے حیرت سے یاد دلایا۔
"نہیں تو! میں نے ایسا کب کہا؟" وہ دونوں بازو اس کے کندھے پر رکھتے ہوئے انجان بنی۔
"کل ہی تو تم نے کہا تھا کہ۔۔۔۔کہ ثوبان نے تم سے شادی کی بات کی ہے۔" حیرت کے مارے اس نے گڑبڑاتے ہوئے یاد دلایا۔
"ہاں کہا تھا، لیکن یہ تھوڑی کہا تھا کہ مجھ سے شادی کی بات کی ہے، بلکہ وہ آسٹریلا میں شادی کر آیا ہے اور اس شادی کے بارے میں وہ چاہتا ہے کہ میں گھر والوں کو بتاؤں کیونکہ وہ ڈر رہا ہے سب کے رد عمل سے۔" اس نے اطمینان سے اصل حقیقت بتائی تو اس کی حیرت مزید بڑھ گئی۔
"تم واقعی سچ کہہ رہی ہو؟" وہ ابھی تک یقین نہیں کر پا رہا تھا۔
"اور نہیں تو کیا! پھر سے اتنا ڈانٹا ہے امی پاپا نے مجھے اور میں نے اتنی مشکل سے انہیں سمجھایا کہ اب تم بدل گئے ہو، مگر تم ابھی تک ویسے ہی ہو، بالکل اٙن رومانٹک!" اس نے نروٹھےپن کے ساتھ اس سے الگ ہوتے ہوئے بتایا۔
"مطلب۔۔۔تم۔۔۔تم سچ میں واپس چل رہی ہو؟" اس نے خوشی سے کانپتے ہوئے لہجے میں اسے بازؤں سے پکڑا۔
"اگر یقین نہیں ہے تو باہر چل کر دیکھ لو، بیگ تیار رکھا ہے میرا، میں نے امی پاپا سے کہا تھا کہ تم مجھے لینے آرہے ہو، اور ماموں کے ذریعے تمہیں بلایا تھا کہ سرپرائز دوں گی تو تم خوشی سے پاگل ہوجاؤ گے، مگر تم تو صرف پاگل ہوگئے ہو۔" اس نے مصنوعی خفگی سے وضاحت کی۔
"تم میرے ساتھ مذاق تو نہیں کر رہی نا؟" اسے ابھی تک یقین نہیں آرہا تھا۔
"چھوڑو مجھے، اب میں نہیں جا رہی تمہارے ساتھ۔" وہ اس کے ہاتھ ہٹاتے ہوئے چڑ کر جانے کیلئے پلٹی۔ جسے اس نے فوراً روک کر دوبارہ اپنی طرف موڑا۔
"آئی ایم سوری! لیکن مجھ۔۔۔مجھے۔۔۔یقی۔۔۔۔۔" بولتے ہوئے اس کا گلا رندھ گیا اور آنکھوں سے آنسو چھلکے جس کے باعث ملیحہ کی ساری جھوٹی بےزاری بھی جھاگ کی طرح بیٹھ گئی جو بس وہ اسے تنگ کرنے کیلئے دیکھا رہی تھی۔
"تو یقین کرو نا پاگل!" ملیحہ نے دونوں ہاتھوں کے ساتھ نرمی سے اس کے آنسو صاف کیے تو غضنفر نے بےساختہ اسے سینے سے لگا کر بھینچ لیا۔
جواباً اس نے بھی دونوں ہاتھ اس کے گرد لپیٹ لئے۔ جب کہ وہ اس پر یوں گرفت کستا جا رہا تھا گویا کسی قیمتی شے کو کھونے سے روک رہا ہو۔ جب کہ آنسو بھی ملیحہ کے مہکتے بالوں میں ہی گم ہوگئے تھے۔
"پھر سے مجھ سے الگ ہونے کی بات تو نہیں کرو گے نا اب تم؟" ملیحہ نے بھی نم ہوتی آنکھوں کے سنگ تائید چاہی۔
"کبھی بھی نہیں، اور اگر کی نا تو۔۔۔۔۔تو تم اسی وقت جان۔۔۔۔۔۔۔۔۔جان لے لینا میری۔" اس نے خوشی سے کانپتے ہوئے انداز میں یقین دہانی کراتے ہوئے اجازت بھی دی۔ وہ بےساختہ مسکرادی۔ جب کہ غضنفر کے آنسوؤں میں مزید شدت آگئی تھی۔
اسے تشکر کے مارے رونا آگیا تھا کہ گناہگاروں کی خاموش دعائیں بھی قبول ہوجاتی ہیں؟ چاہت مل جاتی ہے؟ معاف کردیا جاتا ہے؟ اور ان سب کا جواب دل نے دیا کہ، ہاں! لیکن ندامت کے ساتھ یقینِ کامل شرط ہے۔
ہم نے تاخیر سے سیکھیں ہیں اصول محبت کے
ہم پر لازم ہے کہ تیرا عشق دوبارہ کرلیں
یہ بھی ممکن تھا کہ تجھے دل سے بھلا دیں ہم
مگر طے ہوا کہ اب تجھے جان سے بھی پیارا کرلیں
انتخاب
*******************************
"ایک ہفتے بعد"
سورج کو غروب ہوئے ابھی کچھ دیر ہوئی تھی جس کے بعد بڑے سے لان میں لگی خوبصورت لائٹس آن کردی گئی تھیں جس کے باعث اب نفاست سے سجا ہوا لان اور بھی دیدہ زیب لگ رہا تھا۔ جہاں فاصلوں پر رکھی ٹیبلز پر مہمان براجمان آپس میں خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
"آنٹی! زوہا کو باہر لے آئیں، دادی بلا رہی ہیں۔" گہرے گلابی سوٹ میں تیار صبیحہ نے کمرے کا دروازہ کھول کر پیغام پہنچایا۔ جہاں ڈریسنگ ٹیبل کی کرسی پر سجی سنوری بیٹھی زوہا کے عقب میں صالحہ کھڑی غالباً اس سے کوئی بات کر رہی تھیں۔
"اونہہ! زوہا نہیں، مسز عبید بولو، آج دوپہر میں میڈم کا ڈیزیگنیشن بدل گیا ہے بھئی!" تب ہی ڈارک بیلو سوٹ میں ملیحہ بھی شرارت سے تصحیح کرتی اس کی طرف آئی۔
"اوہ سوری! مائی میسٹیک! تو آجائیں مسز عبید، مسٹر عبید انتظار کر رہے ہیں آپ کا۔" اس نے بھی شوخی سے فرمابرداری دکھائی۔ تو وہ بےساختہ جھینپ کر مسکرادی۔
پھر صالحہ، صبیحہ اور ملیحہ کے ہمراہ زوہا لان میں آئی تو سب کی نظریں بےساختہ اس کی جانب اٹھیں جو ہلکے آسمانی رنگ کی زمین کو چھوتی فراک کے ساتھ، سر پر ریشم کا سرخ دوپٹہ اوڑھے، مناسب میک اپ اور جیولری کے ساتھ بہت پیاری لگ رہی تھی۔
اسے لا کر لائٹ گرے کرتا پاجامہ پہنے عبید کے پہلو میں، لان میں موجود سجے ہوئے اسی جھولے پر بیٹھا دیا گیا جس پر اکثر یہ لوگ بیٹھ کر باتیں کیا کرتے تھے، اسی جھولے پر تو عبید نے اپنی پسند کا اظہار کیا تھا اور اب بلآخر اسی پر وہ دونوں ایک بار پھر سے ساتھ تھے، اور اس بار حق سے ساتھ تھے۔
ان کے بیٹھنے کے بعد کزنز وغیرہ نے انہیں سیلفی کیلئے گھیر لیا جب کہ باقی سب بھی کسی نا کسی کام میں الجھ گئے۔
سیاہ کرتے پاجامے میں غضنفر بھی ایک طرف کھڑا خوشگوار موڈ میں سلیمان کے ساتھ محو گفتگو تھا۔
"غضنفر!" تب ہی کوئی پکارتا ہوا قریب آیا۔
اس نے پلٹ کر دیکھا تو رفاقت ایک درمیانی عمر کے شخص کے ہمراہ نزدیک آچکے تھے۔
"ان سے ملو، یہ صداقت صاحب ہیں، ہمارے پراجیکٹ پارٹنر۔" انہوں نے تعارف کرایا تو غضنفر نے مہذب انداز میں سلام کرتے ہوئے ان سے مصحافہ کیا۔
"یہ میرے سالے صاحب ہیں سلیمان، اور یہ میرا بیٹا ہے غضنفر!" انہوں نے اب ان دونوں کا تعارف دیتے ہوئے غضنفر کے کندھے کے گرد بازو حمائل کیا۔
"یہ اپنے ماموں کے ساتھ ہی ان کا کار شوروم سنبھالتا ہے، اور بہت ہی بہترین پبلک ڈیلر ہے ماشاءاللہ سے میرا بیٹا۔" انہوں نے فخر سے بتایا۔
ان کا یہ اندازِ تعارف، یہ تعریف، لہجے سے چھلکتا فخر، پیار بھرا انداز، یہ سب سلیمان سمیت غضنفر کو خوشگوار طور پر مبہوت کر گیا۔ ایک وقت تھا کہ اس نے امید ہی چھوڑ دی تھی رفاقت کے منہ سے اپنے لئے ایسے کلمات سننے کی جو آج سن کر اس کا دل بھر آیا تھا مگر محفل کا خیال کرتے ہوئے اس نے خود پر قابو رکھا۔ اور بلآخر دیر سے ہی سہی مگر اسے اس کا درست مقام مل گیا تھا۔
*******************************
سب مہمان اس وقت ٹیبل کے گرد کرسیوں پر بیٹھے کھانا کھانے میں مصروف تھے اور میزبان نگرانی کر رہے تھے کہ کہیں کسی کو کچھ چاہیے تو نہیں! جب کہ شدید بھوک کے باعث دردانہ سے اجازت لے کر صبیحہ بھی کھانا کھانے بیٹھ گئی تھی تب ہی عزیر اس کے سر پر آ پہنچا۔
"پاگل ہوگئی ہو؟ اتنا مرچوں والا کھانا مت کھاؤ۔" عزیر نے اچانک صبیحہ کے آگے سے سالن کی پلیٹ کھینچ لی۔
"دماغ ٹھیک ہے؟ اس میں کہاں سے مرچیں ہوگئیں؟ وائٹ کڑاہی ہے یہ۔" صبیحہ نے تعجب سے تصحیح کرتے ہوئے پلیٹ واپس لینے چاہی۔
"وائٹ ہو یا ریڈ تم مرچ مصالحہ نہیں کھاؤ گی بس، میرے بچے کو مرچیں لگ گئیں تو! وہ تو پانی بھی نہیں مانگ سکتا۔" اس نے حتمی فیصلہ سنایا تو وہ اسے گھورنے لگی جو اب اسی کی پلیٹ ہاتھ میں پکڑے اس میں سے بوٹیاں اٹھا کر منہ میں رکھ رہا تھا۔
*******************************
سالک اور راضیہ بھی ایک ٹیبل کے گرد چند مہمانوں کے ہمراہ بیٹھے خوش گپیوں میں مگن کھانا کھانے میں مصروف تھے کہ تب ہی راضیہ کے حلق میں نوالہ پھنسنے کے باعث اچانک انہیں پھندا لگا اور وہ زور زور سے کھانسنے لگیں۔
"ارے رے! پانی پیئں!" کسی نے عجلت میں کہا تو سالک نے جگ اٹھایا مگر اتفاق سے وہ خالی ہوچکا تھا۔
ذرا فاصلے پر ایک ٹیبل کے نزدیک کھڑی مہمانوں سے بات کرتی ملیحہ بھی اس طرف متوجہ ہوئی اور تشویش زدہ سی اس طرف بڑھی۔
مگر اس کے نزدیک پہنچنے سے قبل ہی غضنفر پانی کا گلاس لے کر راضیہ کے پاس آ چکا تھا جسے دیکھ کر ملیحہ وہیں رک گئی جب کہ پانی پی کر راضیہ کی جان میں جان آئی۔ جس کے بدلے میں غالباً انہوں نے غضنفر کو دعا دی جس کا اندازہ ملیحہ نے اس کے تشکر آمیز تاثر سے لگایا۔ کیونکہ دور ہونے کی وجہ سے وہ ان کی باتیں سن نہیں پائی تھی۔ مگر یہ سب اسے بہت اچھا لگا۔
"بیٹا اگر سسرال والوں کی خدمات سے فرصت مل جائے تو ایک عدد غریب ماموں کو بھی پوچھ لینا، جس نے کولڈ ڈرنک مانگی تھی۔" ذرا فاصلے پر بیٹھے سلیمان نے مصنوعی بچارگی سے آواز لگائی تو جواباً غضنفر نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا۔
پھر سالک کی ٹیبل پر پانی رکھوا کر جب وہ سلیمان کی جانب بڑھا تو یہ دیکھ کر وہیں رک گیا کہ ملیحہ انہیں کولڈ ڈرنک سرو کرتے ہوئے خوشدلی سے ان کے ساتھ باتوں میں بھی مصروف تھی۔ اور یہ سب اسے بہت اچھا لگا۔ اور یہ ہی تو محبت کی خوبصورتی ہوتی ہے کہ اس میں محبوب سے جڑا ہر رشتہ بےحد عزیز معلوم ہوتا ہے۔
*******************************
"وہ تو سب راضی تھے اور بہت خوش تھے اس رشتے سے اسی لئے میں نے بھی ہاں کردی تھی، ورنہ تم کوئی پسند کرنے والی چیز ہو!" بظاہر سامنے مہمانوں کو دیکھتی زوہا نے بےنیازی سے کسی بات کا جواب دیا۔
"اچھا! مطلب اتنی فرمابردار ہو تم کہ گھر والوں کیلئے ہاں کردی!" اس کے برابر میں بیٹھے عبید نے بھی مصنوعی تعجب کا اظہار کیا۔ دونوں ہنوز اسی جھولے پر بیٹھے تھے۔
"نہیں، صرف فرمابرداری کی وجہ سے ہاں نہیں کی تھی!" اس نے بات کو گول مول کیا۔
"تو پھر؟ اور کیا وجہ تھی؟" اس نے دلچسپی سے جاننا چاہا تو زوہا نے بھی گردن موڑ کر اس کی جانب دیکھا۔ دونوں کی نظریں ملیں اور اس سے قبل کہ زوہا کے گلابی لب کچھ کہتے عزیر وہاں آ پہنچا۔
"عبید! پیچھے جا کر کیٹر سے بولو کہ مزید سیخ کباب تیار کرے فٹافٹ۔" اس نے عجلت میں حکم جاری کیا۔
اس کی اچانک آمد پر جہاں زوہا نے جھینپ کر نظریں جھکائی وہیں عبید تعجب سے اسے دیکھنے لگا۔
"بھائی! میں دولہا ہوں۔" اس نے یاد دلانا چاہا۔
"تو؟" جھٹ سے سوال آیا۔
"تو میں کام کیوں کروں؟" اس نے احتجاج کیا۔
"کیونکہ تمہارے نکاح کا ہی فنکشن ہے۔" اس نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
"اب جاؤ جلدی، مجھے اور بھی دوسرے کام ہیں۔" وہ عجلت میں کہتا وہاں سے چلا گیا جب کہ وہ محض اسے دیکھ کر رہ گیا۔
"اپنے نکاح پر بھی نہیں بخشا ان لوگوں نے مجھے۔" وہ برہمی سے بڑبڑاتے ہوئے اٹھ کر لان کے پچھلے حصے کی جانب چلا گیا جہاں کھانے کا انتظام تھا۔
جب کہ زوہا پھر وقت گزاری کیلئے سامنے نظریں دوڑانے لگی جہاں ٹیبل کے گرد بیٹھے مہمان خوشگوار ماحول میں کھانا کھانے میں مصروف تھے۔
"زوہا آپی! ایک سیلفی لیں؟" ایک دس گیارہ سالہ بچی موبائل لے کر اس کے پاس آئی۔
"ہاں ضرور!" اس نے خوشدلی سے اجازت دی اور پھر بچی کے ساتھ سیلفی لینے لگی۔
"تھینک یو!" وہ بچی کہہ کر ایک طرف بھاگ گئی۔ جب کہ اس کے جاتے ہی غضنفر وہاں آگیا۔
"میں یہاں بیٹھ جاؤں؟" اس نے اجازت چاہی۔
"جی بھیا!" وہ سہولت سے بولی۔ تو وہ آہستہ سے اس کی دائیں طرف بیٹھ گیا۔
"بہت پیاری لگ رہی ہو تم۔" اس نے دل سے سراہا۔
"تھینکس!" وہ مسکرائی۔
"تمھیں یاد ہے جب تم چھوٹی سی تھی تو میں تمہارے لئے ممی کا میک اپ چرا چرا کر لاتا تھا تا کہ تم اپنی گڑیا کا میک اپ کرکے اسے دلہن بنا سکو!" اس نے ایک پرانی یاد تازہ کی۔
"جی یاد ہے، اور یہ بھی یاد ہے کہ پھر بعد میں میری وجہ سے آپ کو ڈانٹ بھی پڑتی تھی۔" اس نے مسکرا کر تائیدی انداز میں مزید کہا۔
"اور آج تم اتنی بڑی ہوگئی ہو کہ خود دلہن بن گئی ہو ماشاءاللہ!" وہ اسے دیکھتے ہوئے پیار سے بولا تو جواباً وہ مسکرائی۔
"تم خوش ہو نا بیٹا اس رشتے سے؟" اس نے ٹٹولنا چاہا۔
"جی بھیا! خوش ہوں۔" اس نے یقین دہانی کرائی۔
"اللہ تمھیں ایسے ہی خوش رکھے۔" اس نے دل سے دعا دیتے ہوئے اسے سینے سے لگا لیا۔
جب کہ دور کھڑی صالحہ نے یہ منظر دیکھ کر دل ہی دل میں اپنے بچوں کی نظر اتارتے ہوئے ان کی سدا بہار خوشیوں کی دعا کی۔
*******************************
مہمانوں کے جانے کے بعد بلآخر اب سب گھر والے چینج کرکے ڈائینگ روم میں خود کھانا کھانے کیلئے اکھٹا ہوئے تھے، جن میں رفاقت، شفاعت، صالحہ، دردانہ، عزیر، صبیحہ، غضنفر، ملیحہ اور عبید شامل تھے۔ جب کہ تھکن کے باعث زوہا تو چینج کرکے سونے کیلئے لیٹ چکی تھی۔
"تم پھر کھانا کھانے بیٹھ گئی؟" صبیحہ کے بیٹھتے ہی عزیر نے اسے تنگ کرنے کیلئے ٹوکا۔
"ہاں تو! نہیں بیٹھ سکتی!" اس نے بھی ترکی بہ ترکی کہتے ہوئے چاول کی ٹرے اپنی طرف کھسکائی۔
"اصولاً تو نہیں بیٹھنا چاہئے تھا، ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی فنکشن میں سب مہمانوں کے ساتھ کھانا کھایا ہے آپ نے!" اس نے کہتے ہوئے نوالہ منہ میں لیا۔
"اونہہ! کیوں اس کو کھانے پینے پر ٹوک رہے ہو؟" دردانہ نے ٹوکا۔
"دیکھیں نا دادی! اس وقت بھی یہ ہی کیا تھا انہوں نے۔" ان کی شہ ملتے ہی صبیحہ نے بھی شکوہ کیا۔ جس پر وہ اسے آنکھیں سکیڑ کر گھورنے لگا۔
سب لوگ کھانا کھانے میں مصروف تھے جب کہ شاہانہ ملازمہ کے ساتھ مل کر سب کو سرو کر رہی تھیں اور ابھی تک خود کھانے نہیں بیٹھی تھیں۔
"آپ بھی بیٹھ جائیں چچی۔" ملیحہ نے متوازن انداز میں کہا۔
"نہیں بیٹا، آپ لوگ کھاؤ میں بعد میں کھا لوں گی۔" انہوں نے گلاس میں پانی نکالتے ہوئے دھیرے سے انکار کیا۔
"بیٹھ جاؤ شاہانہ!" تب ہی شفاعت نے بظاہر کھانا کھاتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔
آج کافی عرصے بعد شفاعت نے انہیں مخاطب کیا تھا جو کہ ان کیلئے خوشگوار حیرت کا سبب تھا۔ اسی لئے وہ مزید کوئی ضد بحث کیے بنا خاموشی سے ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گئیں۔ کیونکہ ایک بات تو سب ہی بہت اچھی طرح سمجھ گئے تھے کہ ایک چھت کے نیچے رہتے ہوئے بہت بار در گزر کرکے کام لینا پڑتا ہے، یہ زندگی کا حصہ ہے۔
*******************************
کھانے سے فارغ ہوکر سب سمیٹنے کے بعد ملیحہ جب کمرے میں آئی تو خلاف معمول غضنفر اسے بیڈ پر نہیں ملا۔ جب کہ کمرے کی لائٹس آف ہونے کے بعد اب صرف نائٹ بلب آن تھا جس کا مطلب تھا کہ غضنفر کمرے میں آیا تو تھا۔ اسی لئے گیلری کا دروازہ کھلا ہونے کے باعث وہ اس طرف آگئی۔
دونوں اب "عباس ولا" واپس آگئے تھے جس سے سب ہی خوش تھے۔ جب کہ غضنفر کو ان کے خاندانی کاروبار میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اسی لئے کسی نے اس پر زور زبردستی نہیں کی اور وہ سلیمان کے ساتھ ہی جڑا رہا۔
ملیحہ نے گیلری میں جھانکا تو وہ اسے وہاں بھی نہیں ملا جو کہ تعجب کا سبب تھا۔
"کسی کو ڈھونڈ رہی ہو؟" تب ہی اس کے بالکل پیچھے سے آواز آئی۔
"ہاں، اپنی امی کے داماد کو۔" وہ بھی چونکے بنا کہتی اس کی طرف پلٹی۔
"عزیر سے اس وقت کیا کام ہے تمھیں؟" اس نے مصنوعی تعجب کا اظہار کیا۔
"چھوڑو، تم کیا کرو گے جان کر!" وہ بھی بےنیازی دیکھاتی اس کے کنارے سے نکل کر آگے بڑھی۔
تب ہی غضنفر نے اسے پکڑ کر واپس اپنی طرف کھینچتے ہوئے کمر کے گرد بازو حمائل کر لئے۔
"اچھا مجھے بھی تم سے ایک کام تھا۔" وہ آہستہ سے بولا۔
"بولو!" اس نے کہتے ہوئے دونوں بازو اس کے کندھوں پر رکھے۔
"عزیر مجھ سے ایک سال چھوٹا ہے اور صبیحہ تم سے ایک گھنٹہ چھوٹی ہے، مگر دیکھو دونوں چھوٹے ہم سے آگے نکل گئے۔" اس نے حساب کتاب کرتے ہوئے کہا۔
"کس معاملے میں؟" وہ سمجھی نہیں۔
"گڈ نیوز کے معاملے میں۔" اس نے وضاحت کی۔
"اس میں میری غلطی تو نہیں ہے۔" اس نے لاپرواہی سے کندھے اچکائے۔
"ہاں پتا ہے، میری غلطی ہے۔" اس نے برملا اعتراف کیا۔
"تو اب میں سوچ رہا تھا کہ اپنی اس غلطی کا ازالہ کرلوں۔" اس نے معنی خیزی سے کہتے ہوئے اسے مزید قریب کیا۔ جس سے وہ بھی محظوظ ہوئی۔
"ابھی بھی صرف سوچ رہے ہو تم!" وہ بھی چہرہ اس کے نزدیک کرتے ہوئے شرارت سے بولی۔
نائٹ بلب کی خوابناک روشنی میں بھیگتے ہوئے یہ دونوں باقی رہ جانے والا یہ معمولی فاصلہ بھی مٹا کر مزید قریب آنے ہی لگے تھے کہ عین اسی وقت کمرے کے دروازے پر ہوتی دستک نے اس میں خلل پیدا کردیا۔
ملیحہ کو اس سے الگ ہوکر دروازہ کھولنے آنا پڑا جب کہ وہ بدمزہ ہوکر بیڈ پر لیٹ گیا۔
"ممی آپ؟ سب خیریت ہے؟" اسے دروازہ کھولنے پر تعجب ہوا۔
"بیٹا سر درد کی گولی ہوگی تمہارے پاس؟ تمہارے پاپا کے سر میں درد ہو رہا ہے۔" انہوں نے عاجزی سے پوچھا۔
"جی ایک منٹ، ابھی دیتی ہوں۔" وہ کہہ کر دروازہ کھلا چھوڑ کر ہی سائیڈ ٹیبل کی جانب آئی اور وہاں سے دوا لے کر واپس آئی ان کی طرف۔
"یہ لیجئے!" اس نے دوا ان کی جانب بڑھائی۔
"بہت شکریہ بیٹا! اور ڈسٹرب کرنے کیلئے سوری۔" انہوں نے دوا لیتے ہوئے کہا۔
"کوئی بات نہیں۔" وہ مسکرائی۔
"شب بخیر!" پھر وہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گئیں۔ وہ بھی دروازہ بند کرتی ہوئی اپنے بستر کی جانب آگئی۔
"کیا ہوا تھا؟" غضنفر نے پوچھا۔
"پاپا کے سر میں درد تھا تو اسی لئے دوا لینے آئی تھیں ممی۔" اس نے کمبل اوڑھتے ہوئے جواب دیا۔
پھر اس کے لیٹنے پر غضنفر نے ہاتھ سیدھا کیا تو ملیحہ اس پر سر رکھ کر اس کے سینے سے لگ کر لیٹ گئی۔
"اچھا بات سنو! کل تو تمھیں کام زیادہ ہے تو پرسوں میرے سیشن کے بعد تم مجھے لینے آجانا فاؤنڈیشن سے، مجھے ثوبان کے ولیمے کیلئے کچھ شاپنگ کرنی ہے۔" ملیحہ نے یاد آنے پر کہا۔
"کون ثوبان؟" وہ اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے انجان بنا۔
"وہ ہی، جس سے تم جیلیس ہونے لگے تھے۔" اس نے شرارت سے یاد دلایا۔
"ہاں تو تمہاری غلط بیانی کی وجہ سے ہوا تھا، پہلے ہی سیدھی نہیں طرح بتا سکتی تھی کہ وہ آسٹریلیا میں شادی کرکے آیا ہے اور تم سے اس نے گھر والوں کو اس رشتے کیلئے راضی کرنے کی بات کی تھی!" اس نے مصنوعی خفگی دکھائی۔
"نہیں! اگر سیدھی طرح بتا دیتی تو تمہارے اتنے پیارے پیارے جلے بھنے ایکسپریشن کیسے انجوئے کر پاتی؟ خاص طور پر وہ آئس کریم شاپ کے باہر والی جیلیسی۔" اس نے محظوظ ہوتے ہوئے غضنفر کا گال کھینچا۔ جس پر اس نے کچھ نہیں کہا۔
"وہ تو شکر ہے کہ تھوڑی ضد بحث کے بعد خالہ نے سونیا کو قبول کرلیا، ورنہ بیچارہ ثوبان بہت پریشان رہتا۔" وہ اپنی دھن میں مزید بولی۔
"آئی ایم سوری ملیحہ!" اچانک غضنفر نے سنجیدگی سے کہتے ہوئے اس پر گرفت تنگ کی۔
"کس لئے؟" وہ سمجھی نہیں۔
"مجھے بعد میں اندازہ ہوا تھا کہ تمھیں بھی کتنا برا لگتا ہوگا جب میں تمہارے سامنے اس کا ذکر کرتا تھا جسے۔۔۔۔۔" وہ وضاحت کرنے ہی لگا تھا کہ یکدم ملیحہ نے ذرا سا اوپر اٹھ کر شہادت کی انگلی اس کے لبوں پر رکھی۔ اب وہ اس کے اوپر جھکی ہوئی تھی اور وہ خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا۔
"گزری باتیں جانے دو، اور گزرے ہوئے کل پر پچھتانے سے بہتر ہے کہ آنے والے کل کو بہتر بنانے کا سوچو۔" وہ ہاتھ ہٹاتے ہوئے آہستہ سے بولی۔ غضنفر کو اس کی مثبت سوچ پر بےانتہا پیار آیا۔
"وہ ہی تو سوچ رہے تھے کہ ممی آگئیں۔" وہ شرارت سے کہہ کر اسے پیچھے دھکیلتے ہوئے اب خود اس کے اوپر جھکا۔
"چلو پھر سے سوچتے ہیں۔" ملیحہ نے بھی اس شرارت میں اس کا ساتھ دیتے ہوئے شوخی سے سرگوشی کی۔ تو جواباً غضنفر نے کمبل کھینچ کر دونوں کے اوپر کرکے سر تک اوڑھ لیا۔
کوئی شام مجھ میں قیام کر
میرے رنگ روپ کو نکھار دے
جو گزر گئی سو گزر گئی
میری باقی عمر کو سنوار دے
انتخاب
*******************************
ایک خوبصورت صبح نازکت سے پھر زمین پر اتری تھی جسے چڑیاؤں نے میٹھی نغمے گنگناتے ہوئے خوش آمدید کہا۔ اور وہ ان کا جواب دے کر مسکراتی ہوئی کھڑکی کے ذریعے پردوں کو چھوتی ہوئی اس کمرے میں داخل ہوئی جہاں بیڈ پر، کمر تک کمبل اوڑھے ابھی تک غضنفر اوندھا لیٹا سو رہا تھا۔
جب یہ صبح بھی اسے بیدار کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی تو ملیحہ کو شرارت سوجھی اور اپنے سارے گیلے بال دائیں کندھے پر آگے کرتے ہوئے وہ بیڈ پر آ بیٹھی۔
وہ ابھی تک پرسکون انداز میں محو خواب تھا کہ ملیحہ نے جھک کر اپنے گیلے بال اس کے چہرے پر پھیرے۔ اس میٹھی نیند میں خلل پیدا ہوا اور اس نے کسمسا کر آنکھیں کھولی۔
"صبح بخیر!" اسے بیدار ہوتا دیکھ کر ملیحہ نے کان میں سرگوشی کی۔ وہ موندی موندی آنکھیں کھولے سیدھا ہوکر لیٹا۔
"تم نے پھر مجھے گیلے بال لگائے نا!" اس نے اپنے چہرے پر سے پانی صاف کرتے ہوئے بوجھل آواز میں پوچھا۔ جب کہ نیند بھی کافی حد تک جا چکی تھی۔
"ہاں، اور تم نے وعدہ کیا تھا کہ تم غصہ نہیں کرو گے۔" اس نے تصدیق کرتے ہوئے جھٹ سے یاد بھی دلایا۔ تو وہ اسے دیکھنے لگا جو ہشاش بشاش سی اس نکھری صبح کا ہی حصہ لگ رہی تھی۔
"ہاں میں نے کہا تھا کہ میں غصہ نہیں کروں گا، لیکن!" وہ کہتے ہوئے رکا۔
"لیکن کیا؟" اس نے آئبرو اچکائی۔
"لیکن سزا تو دے سکتا ہوں نا!" اس نے شرارتی انداز میں کہتے ہوئے یکدم اسے اپنی طرف کھینچ لیا۔
*******************************
"تم نے ٹھیک سے کوشش ہی نہیں کی ہوگی!" سلیمان نے بےزاری سے کہتے ہوئے لیپ ٹاپ بند کیا۔
"کیا بات کر رہے ہیں سر! جتنا اور جہاں تک ممکن تھا میں نے ڈھونڈا لیکن کچھ خاص نہیں پتا چلا تو اس میں میری کیا غلطی؟" سامنے کھڑے فاروق نے اپنا دفاع کیا۔ تو وہ کچھ نہ بولے بس اضطرابی کیفیت میں سوچ میں پڑگئے۔
"السلام علیکم!" تب ہی غضنفر ہشاش بشاش انداز میں کہتا اندر داخل ہوا جس پر دونوں چونکے۔
"وعلیکم السلام!" انہوں نے سنبھل کر جواب دیا۔
"کیا ہوا؟ سب خیر تو ہے نا؟" ان دونوں کی سنجیدگی کے پیش نظر وہ پوچھتے ہوئے کرسی کھینچ کر بیٹھا۔
"ہاں ہاں سب خیر ہے، تم جاؤ فاروق۔" سلیمان نے جلدی سے کہتے ہوئے اسے چلتا کیا تو وہ اثبات میں سر ہلا کر باہر نکل گیا۔
"تم بتاؤ آج جلدی آگئے!" وہ اس کی جانب متوجہ ہوئے۔
"جی آج ملیحہ کو شاپنگ پر لے کر جانا تھا اسی لئے مجھے جلدی واپس جانا ہے تو سوچا کہ جلدی شوروم آجاؤں۔" اس نے سادگی سے وضاحت کی۔
*******************************
"جیسے ہر تالے کی چابی الگ ہوتی ہے، ویسے ہی ہر کسی کی سوچ اور نظریات بھی مختلف ہوتے ہیں، ضروری نہیں ہے کہ ایک چیز کو لے کر جو ہم سوچ رہے ہیں اگلا بھی بالکل وہ ہی سوچ رہا ہو۔" ملیحہ حسب معمول چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر ٹہلتی متوازن انداز میں کہہ رہی تھی۔
جسے کرسیوں پر موجود خواتین و لڑکیاں بہت دھیان سے سن رہی تھیں۔
"میں آپ کو ایک مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں جو کہ میں نے خود بھی کہیں پڑھی تھی، فرض کریں ایک اسٹوڈنٹ بیگ لیے موبائل فون اٹھائے جا رہا ہے اور اسے تین مختلف لوگ دیکھ رہے ہیں، تینوں نے اس کے بارے میں مختلف رائے قائم کی، پہلا دیکھ کر سوچ رہا ہے کہ یہ سج دھج کے جا رہا ہے، ضرور کسی لڑکی کا چکر ہوگا، دوسرا سوچ رہا ہے کہ یہ کتنا اچھا اسٹوڈنٹ ہے، پڑھائی کے لئے جا رہا ہے اور ایک میرے بچے ہیں جو کہ پڑھائی کا نام نہیں لیتے، تیسرا سوچ رہا ہے یہ دیکھو آج کل کی نسل کو، چلتے پھرتے موبائل میں گھسے رہتے ہیں، انہوں نے کیا ملک کو سنبھالنا ہے؟ اب دیکھیں ہر کوئی صرف اپنی ڈکشنری کے مطابق اس کا مطلب نکال رہا ہے، پہلے شخص کی ڈکشنری میں ایسے تیار ہو کے گزرنا صرف لڑکی کے لئے ہی ہوتا ہے، جب کہ دوسرے شخص کی ڈکشنری میں وہ اچھا ہے وہ صرف پڑھائی کے لئے جاتا ہے، تیسرے شخص کی ڈکشنری میں موبائل میں گھسے رہنا صرف تباہی کی علامت ہے، وہ یہ نہیں سوچتا کہ وہ موبائل سے کوئی لیکچر یا کوئی اصلاحی بیان پڑھ یا سن رہا ہو! سائیکالوجی کے مطابق اس لڑکے کے گزرنے کو ایک ایونٹ (event) کہیں گے، جبکہ لوگوں کی سوچ کو رسپانس (response) کہیں گے، ایونٹ ایک ہے لیکن رسپانس بہت زیادہ ہیں، وہ لڑکا منہ سے نہیں بولا اور نہ ہی اسے کوئی جانتا تھا، لیکن پھر بھی ہر کسی نے اپنی اپنی رائے بنائی، ہر کوئی اپنے مطابق سوچتا ہے اور اپنے مطابق ہی بات کرتا ہے، آپ کے بات کرنے کے یا کسی کام کرنے کے معنی ہر کسی کی ڈکشنری میں مختلف ہیں، اگر آپ کے کچھ خواب ہیں اور آپ کوئی کام کرنا چاہتے ہیں تو لوگوں کی باتوں اور تنقید سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ لوگ اپنی ڈکشنری سے سوچیں گے، آپ کچھ بھی کرلیں لوگوں کی تنقید سے نہیں بچ سکتے، اگر آپ صحیح کام کر رہے ہیں اور اپنے کام سے مطمئن ہیں تو وہ کرتے رہیں، لوگوں کے منفی رویے اور منفی باتوں کی پروا نہ کیجیے، ایلبرٹ ہوبارٹ نے کہا تھا
"To Avoid Criticism Do Nothing, Say Nothing, Be Nothing"
"اگر تنقید سے بچنا چاہتے ہیں تو کچھ نہ کیجئے، کچھ نہ کہیے، ختم ہو جائیے۔"
"اس کا مطلب ہے کہ آپ لوگوں کی باتوں سے بچنا چاہتے ہیں تو کچھ نہ کیجئے، نہیں پھر بھی آپ نہیں بچ پائیں گے، اس لئے کچھ نہ کہیے، نہیں پھر بھی آپ نہیں بچ پائیں گے، اس لیے آپ ختم ہو جائیے، یہ ہی ایک طریقہ ہے لوگوں کی باتوں سے بچنے کا، لوگوں کی باتیں ہر انسان پر اثر کرتی ہیں لیکن مضبوط لوگ اس کی پرواہ نہیں کرتے، وہ اپنے کام کو لوگوں کی وجہ سے نہیں روکتے، جب کہ کمزور انسان لوگوں سے گھبرا جاتے ہیں، وہ اپنی خواہشوں اور خوابوں سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں، اور مزے کی بات بتاؤں! وہ پھر بھی لوگوں کی تنقید سے نہیں بچ پاتے، آپ لوگوں کی رائے سے نہیں بچ سکتے وہ کوئی نہ کوئی رائے دیں گے، اور وہ رائے ان کی اپنی ڈکشنری کے مطابق ہوگی، ان کی اپنی ہوگی آپ کے ارادے اور نیت کے مطابق نہیں ہوگی۔" وہ لمحے بھر کو رکی۔
"ان مثالوں کو جس نے ترتیب دے کر ایک تحریر کی شکل دی ہے اسی تحریر میں ان کا کہنا تھا کہ میں اپنی مثال دوں تو میں سفر کے دوران ہینڈ فری لگا کے آڈیو کتابیں سنتا ہوں، مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دوسرا کیا سوچے گا؟ شاید کچھ لوگ سوچتے ہو کہ یہ گانے سن رہا ہے، کوئی سوچتا ہے تو سوچتا رہتا ہے اور میں اس دوران چار سے چھے گھنٹوں میں دو کتابیں مکمل کر لیتا ہوں یا پہلی پڑھی ہوئی کتابوں کو دہرا لیتا ہوں، آپ کسی دوسرے کے دل میں گزرنے والے خیالات کو نہیں روک سکتے اور روکنے کی ضرورت بھی کیا ہے؟ اگر آپ کسی محفل میں بیٹھے ہیں اور بہت باتیں کر رہے ہیں تو کچھ لوگ سوچیں گے کہ یہ اوور سمارٹ بننے کی کوشش کر رہا ہے، اگر آپ بالکل چپ کر جائیں گے تو کچھ لوگ سوچیں گے کہ اس میں ایٹیٹیوڈ آگیا ہے، فلاں فلاں وجہ سے مغرور ہو گیا ہے، اس لیے آپ ہمیشہ اپنے دل اور ذہن کی سنیں، جو کام بھی اچھا لگے وہ کیجئے، کیونکہ تنقید ہر صورت ہوگی جب تنقید ہونی ہی ہے تو پھر کیوں نہ اپنی مرضی کا کام کیا جائے!" اس نے مسکراتے ہوئے بات مکمل کرکے سب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی۔
اور سب کے تاثر دیکھ کر اسے اندازہ ہوا کہ شاید سب اس نقطے پر سوچنے لگے تھے جسے وہ سمجھانا چاہتی تھی۔
*******************************
دوپہر کے وقت سلیمان کسی کام سے کہیں گئے ہوئے تھے جب کہ فاروق بھی گھر سے لے کر آیا کھانا کھانے میں مصروف تھا تب ہی غضنفر بھی آفس روم سے نکل کر اس کے پاس آگیا۔
"ارے سر آپ! کوئی کام تھا؟" اسے دیکھ کر فاروق نے ہاتھ روک کر ادب سے پوچھا۔
"نہیں، تم کھاؤ کھانا۔" وہ سہولت سے کہتے ہوئے کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا تو وہ بھی دوبارہ کھانا کھانے لگا۔
"آپ نے لنچ نہیں کیا سر!" فاروق نے یوں ہی پوچھ لیا۔
"ہاں ماموں آجائیں تو پھر میں جا رہا ہوں، اپنی وائف کے ساتھ ہی مال میں لنچ کرلوں گا، اسے شاپنگ کیلئے لے کر جانا ہے۔" اس نے بھی سرسری وضاحت کی تو فاروق نے اثبات میں سر ہلایا۔
"فاروق تمھیں یاد ہے ایک بار شوروم پر ہی میرا ایک بندے سے جھگڑا ہوگیا تھا کیونکہ وہ ماموں سے بدتمیزی کر رہا تھا، تو میں نے اسے کیسے مارا تھا؟" غضنفر نے ٹیبل کی سطح پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اچانک ہی سرسری انداز میں پوچھا۔
"جی جی یاد ہے، اس دن ایک لوہے کی راڈ یہاں پڑی تھی آپ نے وہ ہی اٹھا کر اس کے سر پر مار دی تھی، بیچارے کا سر پھٹ گیا تھا، پھر سلیمان سر اسے جلدی سے ہاسپٹل لے کر بھاگے تھے اور بعد میں وہ راڈ اسٹور میں پھنکوا دی تھی۔" اس نے مزے سے بتایا۔
"واہ! کافی اچھی یادداشت ہے تمہاری۔" غضنفر نے تعریف کی تو وہ دانتوں کی نمائش کرنے لگا۔
"ویسے کیا وہ راڈ لا کر دے سکتے ہو تم مجھے؟ ایک کام تھا اس سے۔" غضنفر نے گزارش کی۔
"جی سر ضرور، ابھی لایا۔" وہ فرمابرداری سے کہتا اپنی کرسی پر سے اٹھ کر ایک طرف چلا گیا۔ اور تھوڑی دیر بعد ہاتھ میں ایک درمیانی سائز کی زنگ آلود راڈ لے کر واپس آیا۔
"یہ لیجئے سر۔" وہ راڈ اسے دے کر واپس بیٹھ گیا۔
"تھینک یو!" غضنفر نے راڈ کا معائنہ کرتے ہوئے کہا۔ جب کہ وہ دوبارہ کھانا کھانے میں مصروف ہوگیا تھا۔
"اچھا فاروق ایک بات تو بتاؤ۔" وہ راڈ میز پر رکھتے ہوئے بولا۔
"جی سر؟"
"میں کچھ ٹائم سے نوٹ کر رہا ہوں کہ تم اور ماموں کچھ مشکوک سرگرمیوں میں لگے ہوئے ہو جو کہ مجھ سے چھپائی جا رہی ہیں، کیا یہ درست ہے؟" اس نے سنجیدگی سے پوچھا تو لمحے بھر کو وہ بھی ٹھٹک گیا۔
"ن۔۔نہیں تو سر!" اس نے جلدی سے نفی کی۔
"اچھا! پکا؟" غضنفر نے کہتے ہوئے راڈ پر ہاتھ پھیرا۔
اس کے ارادے بھانپتے ہوئے فاروق نے بمشکل منہ میں موجود نوالہ نگلا۔ کیونکہ غضنفر کی الٹی کھوپڑی سے وہ اچھی طرح واقف تھا اسی لئے اسے اندازہ تھا کہ اگر اس نے منہ نہیں کھولا تو غضنفر اس کی کھوپڑی کھول دے گا۔
*******************************
"تم جیسی سمجھدار لڑکی سے یہ امید نہیں تھی مجھے۔" روبینہ نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔
"اچھا! تو پھر کیا امید تھی مجھ سے؟" ملیحہ نے مسکراتے ہوئے دلچسپی سے پوچھا۔ دونوں حسب معمول پیڑ کے نیچے بینچ پر بیٹھی ہوئی تھیں۔
"یہ ہی کہ تم ایسے شخص کے پاس واپس نہیں جاؤ گی جس نے کبھی تمہاری عزت نہیں کی تھی۔" انہوں نے وضاحت کی۔ تو اس کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔
"آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں، میں واقعی کبھی بھی ایسے شخص کے پاس واپس نہیں جاتی جس نے کبھی میری عزت نہ کی ہو، مگر غضنفر نے کبھی میری بےعزتی بھی نہیں کی۔" اس کے لہجے میں اطمینان تھا۔
"غضنفر سے یہ میرا دوسرا نکاح ہے اس سے پہلے بھی میرا کسی اور سے نکاح ہوا تھا مگر پھر طلاق ہوگئی، پتا ہے کیوں؟" اس نے کہتے ہوئے تجسس پھیلایا۔
"کیوں؟" انہوں نے جاننا چاہا۔
"کیونکہ وہ میری عزت نہیں کرتا تھا، وہ بنا موقع اور ماحول دیکھے مجھے سب کے سامنے جھڑک دیتا تھا، اسے ایک شوپیس کی طرح مجھے سجا کر اپنے دوستوں کے سامنے پیش کرنا اچھا لگتا تھا، اس نے دو بار امی سے بھی بہت بدتمیزی کی تھی، اور ان سب کے باوجود ایک بار بھی میں نے اسے نادم نہیں دیکھا۔" وہ بتا کر خاموش ہوئی۔
"مگر غضنفر اس کے جیسے نہیں ہیں، ہاں وہ غصے کے تیز ہیں، کسی اور کی طرف مائل بھی تھے، انہوں نے مجھے نظر انداز بھی کیا، مجھے الگ ہونے پر مجبور بھی کیا مگر کبھی مجھ پر ہاتھ نہیں اٹھایا، کبھی مجھے کوئی اخلاق سے گرا لفظ نہیں بولا، کبھی بھری محفل میں میری بےعزتی نہیں کی، جو کیا چار دیواری کے اندر کیا اور اتنا کیا کہ جس کا ازالہ بھی ممکن تھا، اور ان سب پر شرمندہ ہوکر اسے قبول کرکے انہیں معافی بھی مانگی مجھ سے۔" وہ آہستہ آہستہ کہنے لگی۔ اس کے انداز سے اپنے شوہر کیلئے محبت بہت واضح چھلک رہی تھی۔
"اور ایک بات کہ وہ میرے والدین سے بھی عزت سے جھک کر ملتے ہیں، ان کی آنکھوں میں میرے گھر والوں کیلئے احترام ہوتا ہے، اور یہ ہی چیز انہیں میرے لئے سب سے زیادہ خاص بناتی ہے۔" اس کے لہجے میں فخر تھا۔
"آپ کو پتا ہے بانو قدسیہ نے کہا ہے کہ محبت میں انا نہیں ہوتی، اور جہاں انا ہو وہاں محبت نہیں ہوتی، پہلے مجھے غضنفر سے محبت ہوئی تو میں اپنی انا بھلائے دن رات ان پر نچھاور ہونے لگی، ان کی ہر بےرخی کو نظر انداز کیا، حتی کہ انہوں نے الگ ہونا چاہا تو وہ بھی مان لیا میں نے، اور آپ کو پتا ہے میں نے جان بوجھ کر الگ ہونے کے فیصلے پر ہامی بھری تھی۔" اس نے کہتے ہوئے انکشاف کیا۔
"کیوں؟" ایک لفظی سوال آیا۔
"کیونکہ کہتے ہیں نا کہ دور ہونے پر ہی قدر محسوس ہوتی ہے، اسی لئے میں چاہتی تھی کہ کچھ وقت اکیلے رہ کر وہ اپنی چاہت کو پہچان لیں، وہ خود کو سمجھ لیں اور سمجھا لیں کہ آخر انہیں کیا چاہیے؟ اور وہ ہی ہوا، جب انہیں ان کی چاہت کا ادراک ہوا تو پھر وہ اپنی انا بھلائے میرے پاس چلے آئے، اور کسی کے سامنے بنا کسی غرض کے اپنی انا ترک کر دینا محبت ہی تو ہے، اور جس سے میں محبت کرتی تھی اسے بھی مجھ سے محبت ہوگئی، میری محبت کا احساس ہوگیا اس سے زیادہ اور کیا مانگتی میں!" اس نے آخر میں مسکرا کر انہیں دیکھا۔ جو چپ چاپ اسے سن رہی تھیں۔
"تمھیں نہیں لگتا کہ تمھیں غضنفر سے بھی بہتر شخص مل سکتا تھا!" وہ اب بھی مطمئن نہیں ہوئی تھیں۔
"اور اگر غضنفر سے بدتر شخص مل جاتا تو!" اس نے ترکی بہ ترکی الٹا سوال کیا تو وہ لاجواب ہوگئیں۔
"اسی لئے بہتر کی تلاش سے بہتر ہے کہ اگر کوئی بدتر سے بہتر بننا چاہ رہا ہو تو اسے ایک موقع دینا چاہئے، تا کہ دنیا سے ایک برا انسان کم ہوسکے۔" اس نے مسکراتے ہوئے مزید کہا۔ تو وہ فوری طور پر کچھ نہ بولیں۔ شاید اندر ہی اندر لفظ تول رہی تھیں۔
"ارے وہ دیکھیں! غضنفر بھی آگئے مجھے لینے۔" اچانک ملیحہ نے ایک جانب دیکھ کر کہا تو انہوں نے بھی بےساختہ اس کے تعاقب میں دیکھا۔
بلیک جینز پر ڈارک براؤن ٹی شرٹ پہنے، حسب عادت فل آستین کہنیوں تک چڑھائے، آنکھوں پر دھوپ سے بچنے کیلئے سیاہ سن گلاسسز لگائے غضنفر ان ہی کی طرف آتا دکھائی دیا۔ جس کے نزدیک آنے پر دونوں اپنی جگہ پر سے اٹھ گئیں۔
"ان سے ملو غضنفر! یہ ہیں روبینہ جی، جن کے بارے میں بتایا تھا میں نے، اور روبینہ جی یہ ہیں میرے ہسبنڈ، غضنفر عباس!" ملیحہ نے خوشدلی سے دونوں کا تعارف کرایا۔
"السلام علیکم!" اس نے گلاسسز اتارتے ہوئے مہذب انداز میں سلام کیا۔
"وعلیکم السلام!" انہوں نے بھی سادگی سے جواب دیا۔
"چلیں ملیحہ؟" وہ اس سے مخاطب ہوا۔
"ہاں چلو، تمہارا ہی انتظار کر رہی تھی میں۔" وہ بھی رضا مند ہوئی۔ اور پھر انہیں اللہ حافظ کہتی اس کے ساتھ چل پڑی۔ تو روبینہ بھی فاؤنڈیشن کے اندرونی حصے کی طرف بڑھ گئیں۔
"یہ آنٹی مجھے اتنے سیریس انداز میں کیوں دیکھ رہی تھیں؟" غضنفر نے چلتے ہوئے پوچھا۔
"ارے وہ ایسی ہی ہیں، تھوڑی سنجیدہ مزاج کی۔" اس نے بات بنائی۔ کیونکہ وہ اسے نہیں بتانا چاہتی تھی کہ روبینہ اسے کچھ خاص پسند نہیں کرتی ہیں۔
"ملیحہ!" تب ہی کسی نے کافی فاصلے سے پکارا تو دونوں رک کر پلٹے۔ پکارنے والی سمیرا تھی جو ان ہی کی طرف آرہی تھی۔
کافی دور ہونے کے باوجود بھی غضنفر ایک نظر میں اسے پہچان گیا تھا اور ممکن تھا کہ قریب آکر غور کرنے پر وہ بھی اسے پہچان جاتی جس کے بعد پھر سے وہ باتیں سر اٹھانے لگتی جنہیں وہ دونوں بھول جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
"ملیحہ چلو ہمیں دیر ہو رہی ہے۔" غضنفر نے جلدی سے گلاسسز لگاتے ہوئے چلنا چاہا۔
"ارے ایک منٹ! یہ میری دوست ہے سمیرا، اس سے تو مل لو۔" اس نے روکنا چاہا۔
"تم مل کر آجانا، مجھے ایک ضروری کال کرنی ہے۔" وہ عجلت میں کہتے ہوئے برق رفتاری سے آگے بڑھ گیا جسے ملیحہ تعجب سے دیکھ کر رہ گئی اور تب ہی سمیرا بھی اس کے نزدیک پہنچی۔
"یہ بندہ کون تھا اور اتنی جلدی میں کیوں تھا؟" سمیرا نے تعجب سے پوچھا۔
"میرے ہسبنڈ ہیں، ضروری کال آگئی تھی اسی لئے چلے گئے۔" اس نے تعارف دیتے ہوئے وضاحت کی۔
*******************************
غضنفر اور ملیحہ اس وقت ایک مال میں موجود آس پاس بنی شاپس کا جائزہ لیتے ہوئے سست روی سے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔
"یار کہہ تو رہا ہوں کہ ایک ضروری کال کرنی تھی کسی کو اسی لئے میں باہر چلا گیا تھا۔" غضنفر نے کوئی تیسری بار وضاحت کی۔
"میں نے کچھ کہا؟" ملیحہ نے سپاٹ انداز میں اس کی جانب دیکھا۔
"کہا نہیں لیکن یوں منہ لٹکا کر گھومنے کی یہ ہی وجہ ہے کہ میں تمہاری دوست سے ملے بنا چلا آیا۔" اس نے اپنے تئیں نتیجہ نکالا۔
"ہاں تو ظاہر ہے کیا سوچ رہی ہوگی وہ؟ کہ پتا نہیں تم کیوں ایسے چلے گئے!" اس نے بھی نروٹھےپن سے شکوہ کیا۔
"اچھا اگلی بار اسے گھر دعوت پر بلا لینا پھر مل لوں گا، اب تم پلیز اپنا موڈ ٹھیک کرو، مجھے کوفت ہو رہی ہے۔" بلآخر اس نے ہتھیار ڈالتے ہوئے آرڈر بھی دیا۔ وہ چلتے چلتے ایک جگہ رک گئی۔
"اب کیا ہوا؟" اس نے بھی رک کر پوچھا۔
"میں اپنا موڈ اسی لئے ٹھیک کروں کیونکہ تمھیں میرے خراب موڈ سے کوفت ہو رہی ہے، ورنہ تمھیں میری کوئی پرواہ نہیں!" اس نے غم و غصے سے نیا شکوہ کیا۔
"میں نے ایسا کب کہا؟" اس نے حیرانی سے پوچھا۔
"ابھی ابھی!" ملیحہ نے فوراً یاد دلایا۔
"اف!" غضنفر نے بےساختہ اپنا سر پیٹ لیا۔
*******************************
آفس سے آنے کے بعد عبید بہانے بہانے سے گھر میں یہاں وہاں گھوم رہا تھا کہ کسی طرح زوہا کہیں نظر آجائے مگر وہ تو شاید کمرے میں مائیوں بیٹھ گئی تھی۔ بلکہ اسے لگ رہا تھا کہ وہ جان بوجھ کر اسے تنگ کرنے کیلئے کہیں چھپی بیٹھی ہے۔
"عبید!" صالحہ کے اچانک پکارنے پر وہ اچھل پڑا۔
"جی تائی؟" اس نے ان کی جانب پلٹ کر پوچھا۔
"کسی کو ڈھونڈ رہے ہو؟" انہوں نے اندازاً پوچھا۔
"نہیں، نہیں تو۔" اس نے خود کو نارمل رکھتے ہوئے نفی کی۔
"اچھا بیٹا ایک کام کردو گے؟" انہوں نے اس کی مشکوک حرکات پر کوئی توجہ نہ دیتے ہوئے بات بدلی۔
"جی بولیں!" اس نے فرمابرداری کا مظاہرہ کیا۔
"صبح جب تم لوگ آفس گئے ہوئے تھے تو زوہا کی دوست آئی تھی اسے لینے، کہہ کر گئی تھی کہ واپسی بھی چھوڑ جائے گی، مگر اب میڈم کا فون آیا ہے کہ ان کی ممی گاڑی لے کر کہیں چلی گئیں ہیں اور انہیں آنے میں دیر ہوجائے گی تو میں گھر سے کسی کو بھیج دوں، غضنفر ملیحہ کو گھر چھوڑ کر دوبارہ شوروم چلا گیا ہے، عزیر بھی صبیحہ کو لے کر چیک اپ کیلئے ہاسپٹل جا رہا ہے اور تمہارے تایا کو میں بول نہیں سکتی، ایسے میں بس تم ہی نظر آئے، مجھے پتا ہے کہ تم بھی آفس سے تھکے ہوئے آئے ہو مگر بیٹا کیا تم جا کر زوہا کو لا سکتے ہو؟" انہوں نے خاصی وضاحت کرتے ہوئے پوچھا۔ جب کہ عبید کے دل میں تو لڈو پھوٹ پڑے تھے۔
"جی تائی، آپ بےفکر رہیں، میں ابھی چلا جاتا ہوں۔" وہ فوراً رضا مند ہوگیا تھا کیونکہ اندھے کو کیا چاہیے ہوتا ہے؟ دو آنکھیں، جو کہ اسے مل رہی تھیں۔
*******************************
جب تک عبید زوہا کو لینے پہنچا تو مغرب ہوچکی تھی جس کے باعث آسمان نارنجی ہوکر اب سیاہ پڑنے لگا تھا اور ہوائیں بھی ٹھنڈی ہوگئی تھیں جو کہ کافی پر لطف معلوم ہو رہی تھیں۔
ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا عبید سیٹی پر کوئی دھن گنگناتے ہوئے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں اسٹیئرنگ پر بجاتا زوہا کے گھر سے باہر آنے کا انتظار کر رہا تھا۔ جو کہ تھوڑی دیر میں اختتام پذیر ہوا۔
ہلکے گلابی سوٹ کے اوپر آتشی رنگ کی شال اوڑھے کار کی طرف آتی زوہا اس سادے سے حلیے میں بھی اسے معمول سے زیادہ پیاری لگی۔ جس کے ہاتھ پر پرسوں والی مہندی کا رنگ ابھی تک جوں تا توں تھا اور یہ اسے مزید دلکش بنا رہا تھا۔ شاید رشتہ بدلتے ہی جذبات بھی بدل گئے تھے۔
وہ اسے دیکھنے میں اس قدر غرق ہوا تھا کہ اسے گاڑی کا لاک کھولنے کا بھی ہوش نہیں رہا اور یہ خیال اسے تب آیا جب زوہا نے برہمی سے کھڑکی پیٹی۔ اس نے جلدی سے لاک کھولا۔
"ہوش و حواس گھر پر چھوڑ آئے ہو کیا؟" زوہا نے کار میں بیٹھتے ہوئے برہمی سے پوچھا اور سیٹ بیلٹ باندھنے لگی۔
"نہیں ساتھ ہی لایا تھا، مگر تمھیں دیکھ کر گم ہوگئے۔" وہ اسے دیکھتے ہوئے گھمبیر انداز میں بولا۔ سیٹ بیلٹ باندھتی زوہا نے لمحے بھر کو رک کر اسے یوں دیکھا گویا دماغی حالت پر شبہ ہوا ہو۔
"اگر ٹھرک سے فرصت مل گئی ہو تو گاڑی اسٹارٹ کرلو۔" وہ متاثر ہوئے بنا بولی۔
"تم کتنی اَن رومانٹک ہو۔" اس نے بدمزہ ہوکر کار اسٹارٹ کی۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور کار اسٹارٹ ہوکر حرکت میں آگئی۔
"ویسے پرسوں ہی نکاح ہوا ہے اور تم نے آج سے ہی گھومنا پھرنا شروع کردیا۔" وہ گاڑی مین روڈ پر لاتے ہوئے بولا۔
"نکاح ہوا ہے، کوئی عمر قید کی سزا نہیں ہوئی ہے مجھے جو میں گھر میں بند ہوکر بیٹھ جاؤں۔" حسب عادت ٹکا سا جواب دیا اس نے۔
عبید نے لمحے بھر کو گردن موڑ کے زوہا کی جانب دیکھا جو سنجیدہ تاثر کے ساتھ سامنے نظریں مرکوز کیے بیٹھی تھی۔ پھر ایک گہری سانس لیتے ہوئے عبید نے بھی ساری توجہ ڈرائیونگ پر مبذول کرلی۔
درمیانی رفتار سے گاڑی روڈ پر رواں دواں تھی جب کہ دونوں کی بیچ خاموشی بھی ہنوز قائم تھی کہ تب ہی زوہا کو یہ راستہ کچھ انجان سا لگا جس کے باعث وہ ٹھٹکی۔
"عبید! یہ راستہ تو ہمارے گھر نہیں جاتا۔" اس نے تعجب سے دھیان دلایا۔
"پتا ہے مجھے۔" مختصر جواب ملا۔
"تو ہم اس پر کیوں جا رہے ہیں؟" وہ الجھی۔
"کیونکہ میری مرضی۔" اس نے ڈرائیو کرتے ہوئے جواب دیا۔
"تم مجھے کہاں لے کر جا رہے ہو؟" اب اسے تشویش ہونے لگی۔
"کینڈنیپ کرکے شہر سے دور۔" سپاٹ جواب ملا تو وہ حیرانی سے اسے دیکھنے لگی جو ہنوز سامنے دیکھتے ہوئے ڈرائیورنگ میں مصروف تھا۔
"یہ کیا بےہوده مذاق ہے عبید! گاڑی واپس موڑو۔" وہ برہم ہوئی۔ مگر اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔
"میں کچھ کہہ رہی ہوں عبید!" وہ غصے میں چلائی۔
مگر وہ بھی ڈھیٹ بنا رہا جس کے باعث وہ غصے سے سر جھٹک کر سامنے دیکھنے لگی کیونکہ اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا۔
تھوڑی دیر بعد گاڑی کراچی پورٹ گرینڈ پر آکر رکی اور وہ اسے اترنے کا کہہ کر خود بھی کار سے باہر آگیا۔
"مجھے گھر جانا ہے عبید!" زوہا نے باہر آکر سختی سے کہا۔
"ٹھیک ہے، چلی جاؤ۔" وہ بےنیازی سے کہہ کر آگے بڑھ گیا۔
کچھ دیر جبڑے بھینچے اسے دیکھنے کے بعد بلآخر وہ بھی اس کے پیچھے چلی آئی۔
فارمیلیٹیس پوری کرتے ہوئے اب دونوں پورٹ کے صاف ستھرے روڈ پر قدم رکھ چکے تھے جہاں ایک قطار سے بےشمار کھانے پینے اور دوسری مختلف چیزوں کے اسٹال لگے ہوئے تھے اور اس روڈ کے کنارے سے نظر آتے تاحد نگاہ پھیلے ہوئے سمندر پر رات کے وقت پڑتی اسٹالز کی لائٹس کافی پرکشش لگ رہی تھیں۔
دراصل یہ پوری جگہ سمندر کے اوپر ہی تعمیر تھی اور یہ ہی بات اسے ممتاز بناتی تھی جسے دیکھنے کیلئے لوگ دور دور سے یہاں آتے تھے۔ ورکنگ ڈے ہونے کی وجہ سے فی الحال یہاں زیادہ رش نہیں تھا ورنہ ہالیڈے پر یہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد لطف اندوز ہونے آتی تھی۔
آس پاس کا جائزہ لیتی سست روی سے چلتی زوہا نے جب گردن موڑ کر عبید کی جانب دیکھا تو ٹھٹک کر ایک جگہ رک گئی۔ کیونکہ وہ وہاں موجود ہی نہیں تھا۔
اس نے گھبرا کر جلدی سے اس کی تلاش میں آس پاس نظریں دوڑائیں مگر نتیجہ صفر رہا جس سے اس کی فکر بڑھی۔
وہ پریشان سی پلٹی ہی تھی کہ عبید پیچھے کھڑا ملا جس کے ہاتھ میں دو پاپ کارن کے پیکٹس تھے۔
"کہاں چلے گئے تھے؟" وہ برہم ہوئی۔
"پاپ کارن لینے۔" اس نے سادگی سے جواب دیا۔
"لو!" عبید نے ایک پیکٹ اس کی جانب بڑھایا۔ جسے اس نے تھام لیا۔
"کھانے پینے کے معاملے میں کبھی انکار نہیں کرتی۔" وہ دھیرے سے بڑبڑایا۔
"آؤ یہاں چلتے ہیں۔" عبید کہتے ہوئے آگے بڑھا تو وہ بھی اس کے پیچھے آگئی۔
دونوں کنارے پر آکے باؤنڈری کے پاس کھڑے ہوگئے تھے جہاں سمندر کے پانی پر پڑتی رنگ برنگی روشنیاں اور وقفے وقفے سے جسم کو چھوتی ہوائیں بہت دلفریب لگ رہی تھیں۔
"ایک بات بتاؤ گی سچی سچی؟" وہ پاپ کارن کھاتے ہوئے گویا ہوا۔
"نہیں!" حسب توقع جواب ملا۔
"تم اس شادی سے خوش نہیں ہو کیا؟" اس نے سنجیدگی سے جننا چاہا۔ تو بجائے فوری طور پر کوئی جواب دینے کے وہ نظریں جھکائے پاپ کارن سے کھیلنے لگی۔
"میں تمھیں بچپن سے جانتا ہوں کہ تم غصے کی بہت تیز ہو، تمہارا مزاج پل پل بدلتا رہتا ہے، لیکن اب کبھی کبھی میں گھبرا جاتا ہوں ان سب سے۔" اس کی خاموشی کے باعث وہ خود ہی مزید بولنے لگا۔
"جیسے جب میں نے تم سے شادی کا پوچھا تھا تم نے کوئی واضح جواب نہیں دیا، پھر مجھے پتا چلا کہ تم اس رشتے کیلئے مان گئی ہو، نکاح ہونے تک تمہارا مزاج دھوپ چھاؤں سا رہا، پرسوں نکاح پر تم بہت خوش لگ رہی تھی، مگر اس کے بعد تم نے مجھ سے کوئی بات ہی نہیں کی، اور ابھی بھی خواہ مخواہ خفا خفا سی ہو، ایسا کیوں ہے زوہا؟ کیا کوئی پریشانی ہے؟" عبید نے لفظوں کے آئینے میں اسے اس کا روپ دیکھا کر نرمی سے استفسار کیا۔
جواباً وہ اب بھی نظریں جھکائے سابقہ سرگرمی میں مصروف رہی لیکن اسے دیکھ کر یہ اندازہ باآسانی ہو رہا تھا کہ شاید وہ بولنے کیلئے لفظ ترتیب دے رہی ہے۔
"سچ کہوں، تو میں خود بھی نہیں جانتی کہ میں ایسا کیوں کرتی ہوں؟" بلآخر وہ بےبسی سے گویا ہوئی۔
"مجھے پتا ہے کہ میری طبیعت میں بہت چڑچڑاپن ہے، مگر میں نہیں جانتی کہ ایسا کیوں ہے؟ اور رہی بات شادی کی تو نہ میں اس رشتے سے خوش ہوں اور نہ دکھی، نہ میں تمھیں بہت زیادہ پسند کرتی ہوں اور بالکل ہی ناپسند بھی نہیں ہو تم، شاید میری اپنی شخصیت ہی الجھ گئی ہے۔" اس نے تاسف سے کہتے ہوئے اپنی نظریں سمندر کے پانی پر مرکوز کرلیں۔ اور عبید نے اس پر۔
"پتا ہے میں نے اس بات کا ذکر ملیحہ بھابھی سے کیا تھا کہ تم مجھے کچھ الجھی ہوئی اور اس رشتے سے خوش نہیں لگتی، تو ایسے میں مجھے کیا کرنا چاہئے؟" عبید نے پاپ کارن کھاتے ہوئے یوں ہی بتایا تو اس نے حیرانی سے اس کی جانب دیکھا۔
"تو انہوں نے کیا کہا؟" اسے جاننے کا تجسس ہوا۔
"ان کا کہنا تھا کہ تمہاری طبیعت کا چڑچڑاپن، اور شادی کے معاملے میں تمہاری سرد مہری شاید تایا تائی کے سرد تعلق کا نتیجہ ہے۔" وہ بتانے لگا۔
"سائیکالوجی کہتی ہے کہ والدین کا آپسی تعلق بچوں کی شخصیت پر بہت گہرا اثر رکھتا ہے، اور ریسرچز سے یہ بات ثابت ہے کہ وہ جوڑے جن کے آپسی تعلقات زیادہ اچھے نہیں رہے ہوں ان کے بچوں کی شخصیت بھی پھر ادھوری یا الجھ کر رہ جاتی ہے، جیسے تم اور غضنفر بھیا۔" وہ لمحے بھر کو رکا۔
"بھابھی نے بتایا کہ بھیا بھی تمہاری طرح ہی ہیں، کبھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ ہوجاتے ہیں، تو کبھی بہت کیئر کرنے لگتے ہیں، کبھی خواہ مخواہ ہی چڑچڑے ہوجاتے ہیں تو کبھی موڈ بہت اچھا ہوتا ہے، یعنی بھیا کی سمجھ سے خود ان کی اپنی حرکتیں باہر ہیں، اور وجہ ہے وہ بنیاد جو بچپن سے ہی شخصیت سازی کا اہم حصہ ہوتی ہے، یعنی والدین کی توجہ اور پیار۔" اس نے پھر توقف کیا۔ وہ بغور اسے سن رہی تھی۔
"ابھی تو ماشاءاللہ سے تایا کا غصہ بہت کم ہوگیا ہے اور وہ تائی سے اچھی طرح بات چیت کرنے لگے ہیں، مگر اس سے پہلے بلکہ بچپن سے تم نے اور بھیا نے تایا کو تائی پر غصہ کرتے ہی دیکھا ہے، اسی لئے تم لوگوں کا ذہن الجھ کا شکار ہوا کہ آخر یہ دونوں ساتھ ہنستے بولتے کیوں نہیں ہیں؟ یہ سوال تم لوگ کسی سے پوچھ نہیں سکتے تھے اسی لئے اندر ہی اندر تم دونوں ان کے لڑائی جھگڑوں سے چڑنے لگے اور وہ ہی چڑچڑاہٹ تم لوگوں کے مزاج میں آگئی، اور صرف یہ ہی نہیں، بلکہ شادی جیسے خوبصورت رشتے کو لے کر بھی تم لاشعوری طور پر اِن سیکیور ہوگئی کہ جب تمہارے پاپا کبھی تمہاری ممی سے محبت سے نہیں پیش آئے تو پتا نہیں تمہارا شوہر تمہارے ساتھ کیا کرے؟ کزن ہونے کے باوجود بھی اندر کہیں نا کہیں تمھیں ڈر ہے کہ اگر تم مجھ سے دب کر رہی تو میں بھی تمہارے ساتھ وہ ہی کروں گا جو تمہارے پاپا نے تمہاری ممی کے ساتھ کیا، ہے نا؟" اس نے کہتے ہوئے تائید چاہی تو زوہا نے کھوئے ہوئے انداز سے اثبات میں سرہلایا۔
"نہیں! میرا مطلب۔۔۔" اگلے ہی پل زوہا نے جلدی سے نفی کرنی چاہئے مگر اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا بولے؟
"ریلیکس! غلطی تمہاری نہیں ہے، اس ماحول کی ہے جس میں تم پلی بڑی ہو۔" عبید نے اسے اطمینان دلاتے ہوئے مطمئن کیا۔
"مگر اب بھی تمہارے ہاتھ میں بہت کچھ ہے، اب بھی تم خود کو سمجھا سکتی ہو کہ سارے مرد ایک جیسے نہیں ہوتے، ساری شادیاں ناخوشگوار نہیں ہوتیں، ضروری نہیں جو کسی ایک کے ساتھ ہوا تھا وہ تمہارے ساتھ بھی ہو، اگر تمہارے والدین میں سے کسی میں کوئی کمی تھی تو بجائے اسے خود پر سوار کرکے کڑھنے کے تم خود سے عہد کرو کہ تم کبھی ویسی نہیں بنو گی، بلکہ تم ان سے بہت اچھی بن کر دکھاؤ گی، کیونکہ قدرت کا قانون ہے کہ ہم اچھے ہیں، تو سب اچھے ہیں۔" اس نے رسان سے سمجھا کر الجھن دور کرنی چاہی اور شاید اس میں کامیاب بھی رہا۔
"تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔" وہ دھیرے سے بولی۔ مطلب وہ سمجھنے لگی تھی جو کہ اچھی بات تھی۔
"باقی تم نے ابھی کہا کہ تم مجھے پسند کرتی ہو تو یہ جان کر میری بھی تھوڑی ٹینشن کم ہوگئی۔" وہ پاپ کارن کھاتے ہوئے اطمینان سے بولا۔
"میں نے ایسا کب کہا؟" اسے تعجب ہوا۔
"ابھی تو تم نے کہا کہ تم مجھے بہت زیادہ پسند نہیں کرتی، مطلب بہت زیادہ نہیں، لیکن پسند تو کرتی ہو نا! آہستہ آہستہ بہت زیادہ بھی کرنے لگو گی۔" اس نے شرارتاً وضاحت کی تو وہ بھی بےساختہ مسکرادی۔
"خوش فہمی ہے تمہاری۔" زوہا نے اپنی جھینپ مٹانے کیلئے مصنوعی بےنیازی دیکھاتے ہوئے سامنے دیکھا اور پاپ کارن کھانے لگی۔
جو بجائے جلانے کے کردے منور
میں وہ نور بن جاؤں نار سے
اک بار جو کہہ دو اگر پیار سے
اک بار جو کہہ دو اگر پیار سے
*******************************
ڈنر کے بعد حسب معمول سب لوگ اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے۔ غضنفر بھی اپنے کمرے میں صوفے پر لیپ ٹاپ گود میں لیے بیٹھا تھا مگر کسی غیر مرئی نقطے کو تکتے ہوئے وہ گہری سوچ میں گم تھا۔
"کیا سوچ رہے ہو؟" پیچھے سے ملیحہ نے دونوں بازوں اس کے گرد حمائل کرتے ہوئے نرمی سے پوچھا۔
"ماموں کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔" اس نے چونکے بنا جواب دیا۔
"کیا ہوا انہیں؟" اس نے اسی طرح اگلا سوال کیا۔
"ادھر آکے بیٹھو۔" غضنفر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے آگے بلايا۔
تو وہ گھوم کر آکے صوفے پر بیٹھ گئی۔ جب کہ اپنے گود میں رکھا لیپ ٹاپ بند کرکے میز پر رکھنے کے بعد غضنفر بھی اس کو گود میں سر رکھ کر صوفے پر لیٹ گیا۔
"پچھلے کچھ ٹائم سے میں نوٹ کر رہا تھا کہ ماموں مجھے بنا بتائے کسی کام میں لگے ہوئے ہیں، پھر کچھ ٹائم بعد فیل ہوا کہ فاروق بھی اس میں شامل ہے، اپنا ڈاؤٹ دور کرنے کیلئے آج میں نے فاروق کو کھنگالا، اور وہ ہی ہوا جس کا مجھے خدشہ تھا۔" اس نے سنجیدگی سے بتایا۔
"کیا ہوا؟" اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتی ملیحہ کو بھی تجسس ہوا۔
"ماموں پچھلے کچھ عرصے سے ایک لڑکی کو ڈھونڈ رہے ہیں، مگر کامیاب نہیں ہوئے ہیں، کیونکہ ان کے پاس سوائے ایک تصویر کے اور کچھ نہیں ہے۔" اس نے فاروق کی زبانی پتا چلنے والی بات بتائی جسے سن کر وہ بھی حیران ہوئی۔
"کیا؟ لیکن کیوں؟" اسے تعجب ہوا۔
"یہ ہی تو میری سمجھ میں بھی نہیں آرہا ہے۔" وہ الجھا۔
"تو تم نے ماموں سے پوچھا اس بارے میں؟" اس نے اگلا سوال کیا۔
"نہیں، پتا نہیں انہوں نے مجھ سے یہ بات کیوں چھپائی ہے اور مجھے یہ پتا چل گیا ہے یہ جان کر کہیں وہ پریشان نہ ہوجائیں، اسی لئے ابھی میں نے ان سے کوئی بات نہیں کی۔" اس نے نفی کرتے ہوئے وضاحت کی تو ملیحہ بھی سوچ میں پڑ گئی۔ کیونکہ یہ بہت ہی غیر متوقع بات تھی۔
"غضنفر کہیں ایسا تو نہیں کہ ماموں نے جوانی میں کسی سے شادی کی ہو اور پھر کسی وجہ سے اسے چھوڑ دیا ہو! اب انہیں پتا چلا ہو کر وہ عورت مر گئی ہے اور ان کی ایک بیٹی بھی ہے جسے اب وہ ڈھونڈنا چاہ رہے ہوں؟" ملیحہ نے اپنے تئیں کہانی گڑھی۔
"کل والی فلم کے اثرات اب تک گئے نہیں تمہارے دماغ سے!" غضنفر نے طنزیہ انداز میں نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔
"ارے یار ہوسکتا ہے ایسا بھی، ورنہ اور کیا وجہ ہوگی جو ماموں ایک لڑکی کو تلاش کر رہے ہیں؟" اس نے کہتے ہوئے پھر وہ ہی سوال اٹھایا جس کا جواب ہنوز لاپتہ تھا۔
"اچھا اس لڑکی کو ڈھونڈ کیسے رہے ہیں وہ؟ مطلب کوئی نشانی وغیرہ ہے؟" ملیحہ کو یکدم دوسرا خیال آیا۔
"ہاں فاروق بتا رہا تھا کہ اپنی یادداشت کی مدد سے ماموں نے اس کا اسکیچ بنوایا تھا، رکو میں دکھاتا ہوں تمھیں، میں نے فاروق سے لی تھی تصویر۔" اس نے کہتے ہوئے پینٹ کی جیب سے موبائل نکالا۔
"دیکھو، یہ ہے۔" اس نے تصویر لگا کر موبائل ملیحہ کو دیا جسے تھام کر وہ بغور دیکھنے لگی۔
وہ کسی بائیس، چوبیس سالہ خوش شکل لڑکی کا اسکیچ تھا جسے دیکھ کر ملیحہ بےساختہ اپنے ذہن پر زور دینے لگی۔
"میں نے اسے کہیں دیکھا ہے غضنفر!" وہ پرسوچ انداز میں بولی۔
"کیا؟" وہ بھی حیرت سے اٹھ بیٹھا۔
"کہاں دیکھا ہے؟" غضنفر نے جاننا چاہا۔
"یہ ہی تو یاد نہیں آرہا، لیکن دیکھا ضرور ہے۔" وہ ذہن پر زور دینے لگی۔
"یاد کرو کہ کہاں دیکھا ہے؟" غضنفر کو بھی بےتابی ہوئی۔
ملیحہ بغور تصویر کو دیکھتے ہوئے یاد کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
وہ ایک ایک کرکے ان سب لوگوں کو یاد کرنے لگی جن سے زندگی میں کبھی نہ کبھی تو وہ ضرور ملی تھی۔ اور تب ہی ایک چہرے پر آکے اس کی سوچوں کو لگام لگی۔
"آگیا یاد!" وہ یکدم بولی۔
"بتاؤ جلدی کون ہے یہ؟" غضنفر کو بھی جاننے کی بےچینی ہوئی۔
وہ کسی بیس بائیس سالہ خوش شکل لڑکی کا اسکیچ تھا جسے دیکھ کر ملیحہ بےساختہ اپنے ذہن پر زور دینے لگی۔
"میں نے اسے کہیں دیکھا ہے غضنفر!" وہ پرسوچ انداز میں بولی۔
"کیا؟" وہ بھی حیرت سے اٹھ بیٹھا۔
"کہاں دیکھا ہے؟" غضنفر نے جاننا چاہا۔
"یہ ہی تو یاد نہیں آرہا، لیکن دیکھا ضرور ہے۔" وہ ذہن پر زور دینے لگی۔
"یاد کرو کہ کہاں دیکھا ہے؟" غضنفر کو بھی بےتابی ہوئی۔
ملیحہ بغور تصویر کو دیکھتے ہوئے یاد کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
وہ ایک ایک کرکے ان سب لوگوں کو یاد کرنے لگی جن سے زندگی میں کبھی نہ کبھی تو وہ ضرور ملی تھی۔ اور تب ہی ایک چہرے پر آکے اس کی سوچوں کو لگام لگی۔
"آگیا یاد!" وہ یکدم بولی۔
"بتاؤ جلدی کون ہے یہ؟" غضنفر کو بھی جاننے کی بےچینی ہوئی۔ اور اس کے بعد جو ملیحہ نے بتایا وہ سن کر غضنفر بھی ششدر رہ گیا۔
*******************************
ایک نئی صبح پھر سے نکل آئی تھی جس کے بعد کچن سے ناشتے کی مخصوص خوشبو اٹھنا شروع ہوگئی تھی۔ اور ساتھ ہی ساتھ ابھی تک بستر میں گھسے لوگوں کو بھی مجبور کر رہی تھی کہ وہ بستر چھوڑ کر ڈائینگ روم میں آجائیں۔
"کل شام میں نے زوہا سے بات کی بھابھی۔" کچن کاؤنٹر کی دوسری جانب کھڑے عبید نے تہمید باندھی۔
"اچھا! تو پھر کیا ہوا؟" انڈا پھینٹتی ملیحہ نے بھی جاننے میں دلچسپی لی۔
"وہ ہی جس کی آپ نے پیشن گوئی کی تھی، خود بھی الجھ گئی تھی وہ، مگر بعد میں مجھے فیل ہوا کہ آہستہ آہستہ اس کی سمجھ میں آگئی تھی میری بات۔" اس نے کاؤنٹر پر انگلی پھیرتے ہوئے بتایا۔
"یہ تو بہت اچھی بات ہے، اور اب تم دیکھنا کہ زوہا کی چڑچڑاہٹ میں کمی ضرور آئے گی۔" اس نے کہتے ہوئے انڈا پین میں ڈالا۔
"بس تم ہمت ہار کر پیچھے نہ ہٹنا، کیونکہ اب وہ تمہاری بیوی ہے، تمہاری شریک حیات، اور یہ ہمارا فرض ہے کہ اگر ہمارے پارٹنر کو کوئی الجھن ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں، کوئی بات تنگ کر رہی ہے تو اس پر بات کریں، روٹھ جانا، چھوڑ دینا مسلوں کا حل نہیں ہوتا۔" اس نے مزید کہتے ہوئے چولہے کی آنچ تیز کی۔
"ڈونٹ وری! پیچھے ہٹنے کیلئے شادی تھوڑی کی ہے، اور پھر جب آپ غضنفر بھیا جیسے الٹی کھوپڑی کے انسان کے ساتھ رہ سکتی ہیں تو پھر میرے لئے زوہا کیا چیز ہے۔" اس نے یقین دہانی کرواتے ہوئے آخر میں شرارت سے کہا۔
"اچھا! بتاؤں ابھی میرے شوہر کو میرے سامنے الٹی کھوپڑی کا کہہ رہے ہو!" ملیحہ نے مصنوعی خفگی دکھائی۔
"میں نہیں کہہ رہا، دنیا والے کہتے ہیں۔" اس نے تصحیح کی۔
"دنیا والوں کا تو کام ہے کہنا، عقل مندی اسی میں ہے کہ ان کی نہ سنی جائے۔" اس نے اطمینان سے کہتے ہوئے انڈا پلٹا۔
*******************************
"لنچ کرنے کے بعد تم سب سے پہلے لاشاری کے پاس جاؤ اور کچھ سن گن لو اس کی کہ زندہ ہے یا مر گیا؟ ریکوری کے ٹائم پر سب غائب ہوجاتے ہیں۔" سلیمان نے فاروق کو کچھ ہدایت دی جس پر وہ اثبات میں سر ہلا کر روم سے باہر نکل گیا۔ اور تب ہی کانچ کی میز پر رکھا ان کا فون گنگنا اٹھا۔
"ہاں غضنفر! مجید نے کنفرم کردیا ہے، پیمنٹ پہنچ گئی ہے۔" وہ کال ریسیو کرتے ہی کسی کام کے متعلق بولے۔
"ماموں ایک پرابلم ہوگئی ہے۔" دوسری جانب سے اس کی گھبرائی ہوئی آواز آئی۔
"کیا ہوگیا؟" وہ بھی فکرمند ہوئے۔
"فاؤنڈیشن سے فون آیا تھا ملیحہ کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی ہے، اور میں اس وقت بہت دور ہوں، آپ پلیز اس کے پاس چلے جائیں جلدی۔" اس نے عجلت میں کہا۔
"ٹھیک ہے میں ابھی جاتا ہوں، تم پریشان مت ہو۔" وہ بھی فوراً رضا مند ہوئے اور لائن ڈسکنیکٹ کرکے فوری طور پر اٹھ کھڑے ہوئے۔
*******************************
"کیا ہوا؟" فرنٹ سیٹ پر بیٹھی ملیحہ نے غضنفر کے کال کاٹنے پر پوچھا۔
"آرہے ہیں ماموں۔" ڈرائیونگ سیٹ پر موجود غضنفر نے موبائل ڈیش بورڈ پر رکھتے ہوئے بتایا۔
"گریٹ!" وہ خوش ہوئی۔ وہ دونوں اس وقت فاؤنڈیشن کے باہر گاڑی میں بیٹھے ہوئے تھے۔
"اب بھی سوچ لو ملیحہ، اگر تمہاری بات غلط نکلی تو!" اس نے خدشہ ظاہر کیا۔
"نہیں نکلے گی۔" اس کے انداز میں یقین تھا۔
*******************************
آدھے گھنٹے کے اندر ہی سلیمان فاؤنڈیشن پہنچ چکے تھے اور سیدھا ریسیپشن پر آکے جب انہوں نے ملیحہ کی بابت پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ تو جا چکی ہے جس سے انہیں کافی حیرت ہوئی۔
وہ متعجب سے غضنفر کا نمبر ملاتے ہوئے باہر آئے تا کہ اسے یہ سارا ماجرا بتا سکیں۔
"مان!" ان کے قریب ایک حیرت میں ڈوبی نسوانی پکار ابھری۔ جسے سن کر موبائل اسکرین پر حرکت کرتی ان کی انگلیاں ساکت ہوگئیں۔
انہوں نے سرعت سے پلٹ کر پیچھے دیکھا تو دنگ رہ گئے۔ روبینہ حیرت زدہ سی انہیں ہی دیکھ رہی تھیں جب کہ سلیمان کو بھی اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔
"روبی!" ان کے لب بھی بےساختہ پھڑپھڑائے۔
ایسا لگ رہا تھا کہ زندگی کی کتاب کے پننے یادوں کی ہوا کے باعث پلٹ کر بہت پیچھے چلے گئے ہیں۔
جب کہ ان دونوں سے بہت دور ایک پیڑ کی اوٹ میں کھڑے غضنفر اور ملیحہ نے بےساختہ خوشگوار حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا۔
*******************************
فلیش بیک
"یاد کرو کہ کہاں دیکھا ہے؟" غضنفر کو بھی بےتابی ہوئی۔
ملیحہ بغور تصویر کو دیکھتے ہوئے یاد کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
وہ ایک ایک کرکے ان سب لوگوں کو یاد کرنے لگی جن سے زندگی میں کبھی نہ کبھی تو وہ ضرور ملی تھی۔ اور تب ہی ایک چہرے پر آکے اس کی سوچوں کو لگام لگی۔
"آگیا یاد!" وہ یکدم بولی۔
"بتاؤ جلدی کون ہے یہ؟" غضنفر کو بھی جاننے کی بےچینی ہوئی۔
"یہ روبینہ جی ہیں، وہ ہی جن سے آج تم فاؤنڈیشن میں ملے تھے۔" اس نے بتاتے ہوئے یاد دلایا۔
"کیا؟ یہ وہ کیسے ہوسکتی ہیں؟ وہ تو بہت ایجڈ ہیں۔" اسے کافی تعجب ہوا۔
"ہاں تو یہ تصویر ان کی جوانی کی لگ رہی ہے، دیکھو غور سے۔" اس نے کہتے ہوئے موبائل غضنفر کو دیا۔ جسے تھام کر وہ بغور دیکھنے لگا۔
"لیکن ماموں انہیں کیوں ڈھونڈیں گے؟" وہ اب بھی الجھن کا شکار تھا۔
"اور یہ بھی کنفرم نہیں ہے کہ ماموں انہیں ہی ڈھونڈ رہے ہیں یا نہیں؟ تمھیں مغالطہ بھی تو ہوسکتا ہے نا!" اس نے نئے خدشے اٹھائے۔
"ٹھیک ہے، تو ہم پہلے کنفرم کر لیتے ہیں کہ کیا واقعی ماموں انہیں ڈھونڈ رہے ہیں؟" اس نے حل نکالا۔
"اور وہ کیسے ہوگا؟" اس نے سوال کیا۔
"ہم کل دونوں کا سامنا کرواتے ہیں۔" اس نے تجویز پیش کی۔
"کیسے کروائیں گے؟" پھر سوال نے سر اٹھایا۔
*******************************
حال
دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر اپنی جگہ پر منجمند ہوگئے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کسی نے دونوں کو پتھر کا کردیا ہو۔ لیکن جلد ہی بےقابو ہوتے جذبات نے ان پتھروں پر ضرب ماری اور پہل سلیمان نے کی۔
"روبی! تم نے۔۔۔۔تم نے پہچان لیا مجھے!" وہ خوشی سے کانپتی آواز میں بمشکل بولے۔
"پہچان ہی تو نہیں پائی تھی۔" وہ تلخی سے بولیں۔
"پتا ہے تمھیں کب سے ڈھونڈ رہا تھا میں، اور مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا کہ تم میرے سامنے ہو۔" ان کی تلخی نظر انداز کرتے ہوئے انہوں نے اپنی کیفیت بتائی۔
"کیوں ڈھونڈ رہے تھے تم مجھے؟ اتنا برباد کرکے بھی چین نہیں ملا؟" ان کی تلخی میں زہر گھلنے لگا۔
"یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟" وہ حیرانی سے کہتے چند قدم آگے آئے۔
"وہیں رک جاؤ، قریب مت آنا۔" انہوں نے درشتی سے کہتے ہوئے الٹے قدم اٹھائے۔ تو وہ ایک جگہ رک گئے۔
"کیا ہوگیا ہے روبی؟ تم ایسے بات کیوں کر رہی ہو مجھ سے؟" انہوں نے دکھ بھری حیرت سے پوچھا۔
"جو کچھ تم نے ہمارے ساتھ کیا ہے اس کے بعد تو تمہاری شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں ہے مجھے، بات تو بہت دور کی بات ہے۔" انہوں نے نفرت سے کہتے ہوئے سر جھٹکا۔
"کیا کردیا میں نے؟" وہ مزید الجھے۔
"کیا کردیا؟ روحیل بھیا کو جھوٹ بول کر بیرون ملک لے گئے، وہاں جا کر انہیں دھوکہ دے دیا، ہمارا گھر بکوا دیا، ابا اس صدمے سے چل بسے، میں یہاں لاوارثوں کی طرح پڑی ہوئی ہوں، اور پوچھتے ہو کہ کیا کردیا میں نے؟ سب برباد کردیا تم نے سُلِیمان۔" انہوں نے غم و غصے سے لتاڑا۔ جب کہ ان کی بات پر وہ تو دنگ رہ گئے تھے۔
"کیا؟ میں نے ایسا کب کیا؟ اور تم سے یہ سب کس نے کہا؟" ان کی سمجھ سے سب باہر ہو رہا تھا۔
"اب ان سب باتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے، بہتر ہے کہ تم یہاں سے چلے جاؤ، مجھے تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنی ہے مان!" انہوں نے بنا وضاحت کے بات ختم کی اور پلٹ کر تیز تیز قدم اٹھاتی اندر چلی گئیں۔
"روبی! روبی! میری بات تو سنو!" وہ انہیں پکارتے ہوئے ان کے پیچھے لپکے۔
مگر ایک ولینٹیئر نے آکر انہیں مزید اندر جانے سے روک لیا۔ تب تک غضنفر اور ملیحہ بھی ان کے پاس آچکے تھے۔
"کیا ہوا ماموں؟" غضنفر نے انہیں مخاطب کیا۔
"غضنفر دیکھو روبی کو، میری بات نہیں سن رہی ہے۔" وہ اپنی دھن میں بولے۔ اس بات کو یکسر فراموش کرکے کہ وہ یہاں کس کام سے آئے تھے؟ اور غضنفر بھی روبینہ کو نہیں جانتا۔
"غضنفر تم ماموں کو لے کر باہر بیٹھو، میں روبینہ جی کو دیکھتی ہوں۔" ملیحہ نے عجلت میں اسے ہدایت دی۔ جس پر عمل کرتے ہوئے وہ انہیں باہر لے گیا جب کہ ملیحہ بھی جلدی سے ان کی جانب بڑھی۔
*******************************
"ایک دوست کے توسط سے ہی میری روحیل سے ملاقات ہوئی تھی، اور اس کی فلاسفی بھی میری طرح ہی تھے یعنی شارٹ کٹ میں پیسے بنانا اسی لئے ہماری اچھی بننے لگی اور میرا اس کے گھر آنا جانا شروع ہوگیا۔" سلیمان اسی پیڑ کے نیچے نصب بینچ پر غضنفر کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے جہاں ملیحہ اور روبینہ بیٹھا کرتی تھیں۔
"اس کے گھر میں صرف اس کے بوڑھے والد، بیوی، دو بچے اور ایک جوان بہن روبینہ تھی، مجھے آج بھی یاد ہے جب بائیس سال پہلے میں نے پہلی مرتبہ اسے دیکھا تھا۔" وہ باتیں کرتے ہوئے پھر سے ماضی میں کھو گئے۔
*******************************
"بائیس سال پہلے"
وہ گرمیوں کی ایک بھری دوپہر تھی، اور منظر تھا ایک کشادہ گلی کا، جہاں ایک ترتیب سے دو، تین منزلہ مکان بنے ہوئے تھے۔ اور گرمی سے بچنے کیلئے مکین اپنے گھروں میں ہی محفوظ تھے۔
گلی کے کونے میں لگا ایک سر سبز گھنا پیڑ ہوا سے لہرا رہا تھا جس کی ٹھنڈی چھاؤں اس وقت کسی نعمت سے کم نہ تھی۔ اور اسی پیڑ کی چھاؤں کے نیچے ایک گولا گنڈے والا اپنا ٹھیلا لئے کھڑا تھا جس کے ارد گرد کچھ بچے موجود اپنی باری آنے کا انتظار کر رہے تھے۔
اور کچھ منچلے دھوپ کی پرواہ کیے بنا پسینے میں شرابور ہوتے ہوئے کرکٹ کھیلنے میں مصروف تھے۔ کیونکہ شام ہونے کے بعد پھر انہیں گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔
تب ہی بیٹنگ کرتے لڑکے نے اتنی زور سے شارٹ مارا کہ سفید بال اڑتی ہوئی ایک دو منزلہ گھر کے صحن میں جا گری جس کے باعث سب نے بےساختہ سر پکڑ لیا۔
"یہ کیا کردیا کاشف؟ پھر سے گیند وہاں پھینک دی!" ایک لڑکے نے اسے لتاڑا۔
"میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا یار!" اس نے خود پر مسکینیت طاری کرتے ہوئے صفائی دی۔
"اب کیا کریں؟ اب تو باجی بال بھی نہیں دیں گی، پہلے ہی دو بار ڈانٹ پڑ چکی ہے۔" ایک دوسرے لڑکے کو فکر لاحق ہوئی۔ باقی سب بھی مایوسی سے منہ بنائے کھڑے تھے۔
تب ہی ایک بائیک اس گھر کے آگے آکر رکی جس پر ایک اجنبی جوان سوار تھا۔ جو کہ بائیک اسٹینڈ پر لگا کر اس سے اترنے کے بعد دروازے کی جانب بڑھا۔
"اے! ان سے بولتے ہیں کہ بال لے کر دے دیں۔" اچانک ایک لڑکے نے تجویز پیش کی۔ جو سب کو پسند آئی۔
"ہاں یہ ٹھیک ہے، چلو!" اس کی تائید کرتے ہوئے یہ چھے سات لڑکوں پر مشتمل ٹولہ اس شخص کے پاس آیا۔
جو بجائے دروازے پر دستک دینے کے وہاں رک کر اپنے ہاتھ میں موجود ٹائپ موبائل پر کچھ کرنے لگا۔ اس وقت موبائل بھی ہر کسی کے پاس دستیاب نہیں ہوتا تھا۔ اور جس کے پاس ہوتا تھا اس کے انداز ہی نرالے ہوتے تھے۔
"بھائی ایک مدد چاہیے!" ایک بچہ ترجمان بن کر آگے آیا۔
"جی بولو؟" وہ شائستگی سے متوجہ ہوا۔
"ہماری گیند اندر گھر میں چلی گئی ہے، آپ دروازہ بجا کر ہماری گیند دلا دیں، کیونکہ ہم مانگیں گے تو باجی بہت ڈانٹیں گی۔" بچے نے جلدی جلدی مدعہ بیان کیا۔
جسے سننے کے بعد اس نے پہلے ایک طائرانہ نظر ان کمسن لڑکوں پر ڈالی پھر اثبات میں سر ہلا کر سرخ رنگ کے لوہے کے دروازے کے قریب آکے بائیک کی چابی سے اس پر دستک دی، مگر کوئی جواب نہیں آیا تو اس نے ذرا زور سے دروازہ بجایا۔
"آرہی ہوں آرہی ہوں، صبر کرلو ذرا۔" کسی لڑکی کی جھنجھلائی ہوئی آواز سنائی دی۔ اور پھر کھٹ پٹ کے بعد دروازہ کھل گیا۔
دروازہ کھولنے والی ہلکے گلابی سوٹ میں ایک لڑکی تھی۔ جس نے لمبے سیاہ بالوں کو چوٹی کی صورت قید کرکے ہمرنگ دوپٹہ سینے پر اوڑھ کر کمر کے گرد باندھا ہوا تھا۔ جب کہ اس کے پنڈلیوں تک گیلے پائینچے اور آدھے آدھے گیلے ہاتھ اطلاع دے رہے تھے کہ غالباً وہ کپڑے دھونے کا کام چھوڑ کر دروازہ کھولنے آئی تھی اور سامنے ہی ایک اجنبی کو دیکھ کر یکدم سٹپٹا گئی تھی جو یک ٹک اسے دیکھے جا رہا تھا۔
"جی کس سے ملنا ہے؟" اس نے جلدی سے دروازے کی آڑ میں ہوتے ہوئے سخت انداز میں پوچھا۔ تو یکدم وہ بھی چونک کر ہوش میں آیا۔
"وہ آپ کے گھر بال آئی ہے وہ دے دیجئے۔" اس نے سنبھل کر گزارش کی۔
"پھر سے بال آگئی! منع کیا تھا نا میں نے کہ اب بال نہیں آنی چاہئے!" اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔
"اور تم اچھے خاصے سمجھدار انسان لگتے ہو، مگر بجائے بچوں کو منع کرنے کے اتنی دوپہر میں خود ان کے ساتھ کھیلنے میں لگے ہوئے ہو۔" اس نے ساتھ ساتھ اس کی بھی کلاس لے ڈالی۔
"ارے نہیں آپ غلط سمجھ رہی ہیں، میں تو۔۔۔۔۔۔۔"
"سب سمجھتی ہوں میں، اور اب کوئی بال وال نہیں ملے گی کسی کو، چلو جاؤ یہاں سے، کپڑے دھونا محال کردیا ہے میرا۔" وہ اس کی بات کاٹ کر کہتے ہوئے بڑبڑا کر دروازہ بند کرچکی تھی۔ جب کہ وہ وضاحت بھی نہیں کرسکا۔
دروازہ بند ہونے کے بعد اس نے بےبسی سے بچوں کی جانب دیکھا جو پہلے ہی مایوس شکلیں لے کر کھڑے ہوئے تھے۔ اور اب کوئی حل نہ ملنے پر بلآخر وہ لوگ بھی مرے مرے قدموں سے واپس ہولیے۔
ابھی وہ وہیں کھڑا ان سب کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ ایک بائیک سوار اس کے پاس آکر رکا۔
"ارے سلیمان! تم باہر کیوں کھڑے ہو؟ میں نے کہا تھا نا کہ اندر چلے جانا۔" روحیل نے بائیک پر سے اترتے ہوئے کہا۔
"بس ابھی ابھی پہنچا ہوں کہ تم بھی آگئے۔" اس نے سچی جھوٹی وضاحت کی۔
پھر روحیل نے آگے بڑھ کر دستک دی اور چند لمحوں میں ہی دروازہ کھل گیا۔
"السلام علیکم بھیا!" اس لڑکی نے جلدی سے سلام کیا جو پہلے دروازے پر آئی تھی مگر اب اس کی ٹون بدلی ہوئی تھی۔ جب کہ سلیمان کو ابھی تک یہاں موجود دیکھ کر وہ تھوڑی متعجب ہوئی۔
"وعلیکم السلام! بیٹھک کا دروازہ کھولو روبینہ جا کر۔" اس نے جواب دیتے ہوئے حکم جاری کیا تو وہ فوری طور پر سر ہلا کر اندر چلی گئی۔
پھر روحیل سلیمان کو لے کر ڈرائینگ روم نما کمرے میں آگیا جہاں لکڑی کے صوفے رکھے ہوئے تھے اور ان میں سے ایک ڈبل صوفے پر یہ دونوں بیٹھ گئے۔ باہر کی گرمی کی نسبت گھر کافی ٹھنڈا ہو رہا تھا جس سے کافی سکون محسوس ہوا۔
دونوں کام کے متعلق بات چیت کرنے میں مصروف تھے کہ تب ہی کمرے کے دروازے پر رک کر اس نے پکارا۔
"بھیا!" اس کی پکار پر روحیل اٹھ کر دروازے کی جانب بڑھا اور جب واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک ٹرے تھی جس پر ٹھنڈے روح افزاء سے بھرے دو کانچ کے گلاس رکھے ہوئے تھے۔ جسے اس نے سامنے میز پر رکھ دیا۔
"ارے تم تو شربت نہیں پیتے ہو، تمہارے لئے چائے بنوا دوں؟" روحیل کو بیٹھے ہوئے خیال آیا۔
"نہیں نہیں، یہ ہی ٹھیک ہے۔" سلیمان نے نفی کرتے ہوئے ایک گلاس اٹھا لیا۔
وہ واقعی شربت نہیں پیتا تھا۔ مگر اس تصور سے محظوظ ہوتے ہوئے اس نے گلاس لبوں سے لگا لیا کہ نجانے اس لڑکی نے کتنے جلے بھنے انداز میں اس کیلئے شربت بنایا ہوگا جسے تھوڑی دیر قبل اس نے جھڑک دیا تھا۔
*******************************
"وہ میری اس سے پہلی ملاقات تھی، پھر آہستہ آہستہ میرا ان کے گھر آنا جانا بڑھا تو اکثر وہ نظر آجایا کرتی، کبھی دروازہ کھولنے پر یا کبھی دروازے کی اوٹ میں چائے، شربت دیتے ہوئے، اور اکثر جب اس کی اتنی سی جھلک بھی نہیں دکھتی تھی، یا اس کے بجائے اس کی بھابھی دروازہ کھولتی تھیں تو کچھ ادھورا ادھورا سا لگتا تھا۔
مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ میرے بارے میں کیا سوچتی ہے؟ مگر میں اس کیلئے کچھ بہت ہی غیر معمولی محسوس کرنے لگا تھا۔"
*******************************
"سلیمان میرے بھیا کا دوست تھا، ایک روز اچانک ہی اس اجنبی کو اپنے گھر کے دروازے پر دیکھ کر میں ٹھٹک گئی، مجھے لگا وہ گلی کا کوئی آوارہ لڑکا ہے اور غلط فہمی میں اسے جھڑک دیا، مگر پھر بعد میں بھیا نے بتایا کہ وہ ان کا دوست ہے اور وہ اسے اپنے ساتھ اندر لے آئے، مجھے لگا تھا کہ اس نے ضرور بھیا کو میری شکایات لگائی ہوگی کہ میں نے اس کے منہ پر دروازہ بند کیا ہے، جس کی وجہ سے اب بھیا اس کے جانے کے بعد مجھے ڈانٹیں گے۔" روبینہ کاریڈور میں لائن سے لگی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھی سفید سنگ مرمر کے فرش کو دیکھتے ہوئے گویا تھیں۔ جب کہ ان کے برابر میں بیٹھی ملیحہ خاموشی سے انہیں سن رہی تھی۔
"میں دل ہی دل میں اس پر غصہ ہوتی شربت بنا کر انہیں دے آئی کہ یہ پہلے نہیں بتا سکتا تھا کہ وہ بھیا کا دوست ہے؟ مگر غیر متوقع طور پر اس کے جانے کے بعد بھی بھیا نے مجھے کچھ نہیں کہا، مطلب اس نے میری کوئی شکایات نہیں کی تھی، جس پر مجھے کافی تعجب ہوا۔
پھر آہستہ آہستہ اس کا ہمارے گھر آنا جانا بڑھ گیا، میری اس سے بس دروازہ کھولنے پر ہی ملاقات ہوتی تھی، وہ ایک نظر مجھے دیکھتا اور پھر نظریں جھکا کر سیدھا بیٹھک میں چلا جاتا، پتا نہیں کیوں؟ مگر مجھے اس کا یہ مہذب انداز اچھا لگنے لگا تھا، اور میری کوشش ہوتی تھی کہ اس کے آنے پر دروازہ میں ہی کھولوں لیکن اکثر مجھ سے پہلے یا صحن میں ہونے کی وجہ سے بھابھی دروازہ کھول دیتی تھیں تو وہ جو ایک نظر کی ہماری ملاقات ہوتی تھی وہ نہیں ہوپاتی تھی، جس کی وجہ سے مجھے کہیں کچھ خالی خالی سا لگتا۔"
*******************************
"اس مختصر سے عرصے میں جو کچھ بھی میں اس کے بارے میں محسوس کرنے لگا تھا اسے جلد اس تک پہنچانا چاہتا تھا، اس سے بات کرنا چاہتا تھا، اسے بتانا چاہتا تھا کہ میں نےکتنے خواب دیکھ لئے ہیں مستقبل کے حوالے سے اس کے ساتھ، لیکن حال دل اسے کیسے سناؤں؟ یہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا، کیونکہ ایک ڈر سا لگا ہوا تھا کہ پتا نہیں وہ کیا رد عمل دے؟ پتا نہیں وہ بھی میرے بارے میں ایسا سوچتی ہے یا نہیں؟ کہیں یہ سب جاننے کے بعد وہ مجھ سے خفا نہ ہوجائے! لیکن پھر ایک دن سارے خدشے ایک طرف رکھ کر میں نے ہمت کر ہی لی۔"
*******************************
ماضی
وہ بھی گرمیوں کی ایک سنسان دوپہر تھی جب سلیمان نے ان کے گھر کے آگے بائیک روکی اور اس پر سے اتر کر آنے کے بعد وہ دروازے کے نزدیک رک گیا۔ وہ گہری سانس لے کر خود کو بات کرنے کیلئے تیار کر رہا تھا۔
پھر بےترتیب ہوتی دھڑکنوں کے سنگ اس نے بائیک کی چابی سے دروازے پر اپنے مخصوص انداز سے دستک دی اور دروازہ کھلنے تک کا مختصر انتظار بھی اسے صدیوں کی مانند لگا۔
"کون؟" روبینہ نے بلند آواز سے پوچھا۔
"میں ہوں، سلیمان!" اس نے تعارف دیا۔ تو کھٹ پٹ کے بعد ہلکا سا دروازہ کھلا جس کی اوٹ سے وہ جھانکنے لگی۔
"بھیا بھابھی کو لے کر ہسپتال گئے ہوئے ہیں، اور ابا بھی گھر پر نہیں ہیں، آپ شام کو آجائیے گا۔" اس نے اسی انداز میں بنا پوچھے بتایا۔
"جی مجھے پتا ہے کہ روحیل گھر پر نہیں ہے۔" اس نے اطلاع پہنچائی۔
"تو پھر آپ یہاں کیوں آئے ہیں؟" اسے تعجب ہوا۔
"مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔" وہ آہستہ آہستہ اصل بات کی جانب آنے لگا۔
"مجھ سے!" روبینہ نے حیرانی سے دہرایا۔
"جی، آپ سے گزارش ہے کہ پہلے میری بات سن لیجئے گا پھر جو کہنا ہو آپ کہہ سکتی ہیں۔" اس نے تہمید باندھی۔ وہ مزید حیران ہوئی۔
"مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی ہے، آپ جائیں یہاں سے، کوئی دیکھے گا تو غلط سمجھے گا۔" اگلے ہی پل روبینہ نے سختی سے کہتے ہوئے دروازہ بند کردیا۔ وہ لفظ زبان پر لئے بند دروازے کو دیکھ کر رہ گیا۔
"مجھے پتا تھا آپ میری بات نہیں سنیں گی، لیکن مجھے یہ بھی پتا ہے کہ آپ ابھی بھی دروازے کے پیچھے ہی کھڑی ہیں، مجھے آپ کے پیر نظر آرہے ہیں۔" سلیمان نے اپنے اندازے کے درست ہونے کا بتاتے ہوئے آخر میں روبینہ کے علم میں اضافہ کیا۔ جس کے باعث اگلے ہی پل وہ پیر وہاں سے غائب ہوئے۔ وہ بےساختہ مسکرایا۔
اس نے اپنی شرٹ کی جیب سے ایک تہہ شدہ کاغذ نکالا اور جھک کر اسے دروازے کے نیچے سے اندر پھینک دیا۔
"یہ پڑھ کر اس کا جواب ضرور دیجئے گا، میں انتظار کروں گا۔" اس نے بند دروازے سے مخاطب ہوکر کہا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ وہیں موجود ہے۔
اور پھر بنا کوئی مزید بات چیت کیے وہ جس طرح آیا تھا ویسے ہی واپس چلا گیا۔ مگر اب اسے انتظار کی سولی پر نجانے کتنی دیر لٹکے رہنا تھا؟ یہ وہ نہیں جانتا تھا۔
ڈرتا ہوں کہنے سے کہ محبت ہے تم سے
میری زندگی بدل دے گا، تیرا اقرار بھی، انکار بھی
فیض احمد فیض
*******************************
"ایک روز جب گھر پر کوئی نہیں تھا تب وہ پھر آیا، اور جب میں نے اسے بتایا کہ گھر پر کوئی نہیں ہے تو اس نے کہا کہ اسے مجھ سے ہی بات کرنی ہے، یہ سن کر میرا دل زور سے دھڑکا، اور لمحوں میں ہی کئی خیال ذہن میں آنے لگے، جن میں سرفہرست یہ ہی تھا کہ اگر کسی نے ہمیں ایسے بات کرتے ہوئے دیکھ لیا تو بہت مسلہ ہوجائے گا، اسی لئے اسے سننے کی خواہش کو دل میں دباتے ہوئے میں نے دروازہ بند کردیا، مگر میں وہاں سے جا نہیں سکی اور بند دروازے کے پاس ہی کھڑی ہوگئی، اور تب اس نے کہا کہ وہ جانتا تھا میں یہ ہی کروں گی اور اسے یہ بھی پتا ہے کہ میں یہیں ہوں کیونکہ دروازے کے نیچے سے اسے میرے پیر نظر آگئے تھے، یہ سن کر میں جلدی سے خود کو کوستی ہوئی ایک کنارے پر ہوگئی، پھر دروازے کے نیچے سے ایک کاغذ اندر آیا اور اس نے کہا کہ وہ میرے جواب کا انتظار کرے گا، پھر جب بائیک اسٹارٹ ہونے پر مجھے اندازہ ہوا کہ وہ چلا گیا ہے تو میں نے زور زور سے دھڑکتے دل کے ساتھ جھک کر کاغذ اٹھایا اور اسے لے کر اتنی تیزی سے اندر کمرے میں بھاگی کہ ابھی کوئی میری چوری پکڑ لے گا، میں نے کمرے میں آکر دروازے کی چٹکی چڑھائی اور اپنے پلنگ پر بیٹھ کر پھولتی ہوئی سانسوں کو قابو کرنے لگی، یہ سب کچھ بہت نیا اور انوکھا تھا میرے لئے، دل بہت تیز تیز دھڑک رہا تھا اور ہاتھ پیر کانپنے لگے تھے۔
پھر میں نے ہمت کرکے اپنی مٹھی میں دبا وہ سفید کاغذ کھولا جس پر تحریر الفاظ پڑھ کر مجھے لگا کہ یہ تو اس نے میری حالت بیان کردی ہے، میں بھی تو یہ ہی سب محسوس کرنے لگی تھی اس کیلئے، اور آخر میں اس نے لکھا تھا کہ اگر میرا جواب "ہاں" ہے تو بس میں ایک بار کسی بہانے سے سلیمان کو مان کہہ کر پکار دوں، وہ سمجھ جائے گا، کیونکہ تصور میں جب وہ ہم دونوں کو ساتھ دیکھتا ہے تو وہ مجھے پیار سے روبی کہتا ہے اور میں اسے مان کہتی ہوں، اور وہ چاہتا ہے کہ یہ تصور حقیقت ہوجائے۔
یہ پڑھ کر مجھے لگا کہ میں کسی اور دنیا میں ہی پہنچ گئی ہوں۔ مجھے سب کچھ بہت خوبصورت لگنے لگا، لیکن لگنے میں اور ہونے میں فرق ہوتا ہے۔"
*******************************
"جس روز میں نے خط کے ذریعے اس سے اظہار محبت کیا اسی روز شام کو روحیل نے بتایا کہ بیرون ملک جانے کیلئے پیسوں کا انتظام ہوگیا ہے، ہم کافی عرصے سے باہر جانے کی جدوجہد میں لگے ہوئے تھے اسی لئے یہ میرے لئے بہت بڑی خوش خبری تھی، مگر مجھے روبینہ سے جواب چاہیے تھا، اور قسمت کی ستم ظریفی کہ جب اگلے روز میں جواب جاننے کیلئے گھر پہنچا تو باتوں باتوں میں روحیل نے بتایا کہ روبینہ اپنی کزن کی شادی میں حیدر آباد گئی ہوئی ہے اور روحیل کی روانگی سے ایک دن پہلے لوٹے گی، یہ جان کر میں افسردہ ہوگیا اور خود ہی اندازے لگانے لگا کہ پتا نہیں خط پڑھ کر اس نے کیا رد عمل دیا ہوگا؟ پتا نہیں وہ مجھے جواب دے پائی گی بھی یا نہیں؟ اور ڈر بھی لگا ہوا تھا کہ کہیں وہ انکار نہ کردے، ان ہی خدشوں کے بیچ وہ ایک ہفتہ گزرا اور بلآخر ہماری روانگی کا دن آ پہنچا۔"
*******************************
"اس نئی نئی محبت کے خمار میں یہ بالکل ہی بھول گئی تھی میں کہ مجھے ایک کزن کی شادی میں حیدر آباد جانا تھا جس کی ساری تیاری مکمل تھی، اسی لئے پھر اگلے روز صبح صبح بھیا مجھے حیدر آباد چھوڑ آئے اور میں وہاں رہ کر بھی اسی احساس کے زیر اثر رہی کہ سلیمان میرے جواب کا انتظار کر رہا ہوگا، میں اسے کیا جواب دوں؟ کیسے جواب دوں؟ اور پھر خدشہ ہوا کہ کہیں یہ سب جان کر بھیا غصہ نہ ہوجائیں! حالانکہ وہ تو مجھ سے شادی کرنا چاہتا تھا اور اس نے مجھ سے اجازت مانگی تھی بھیا سے اس بارے میں بات کرنے کیلئے، مگر مجھے جواب دینے کا وقت ہی نہیں ملا، سلیمان کے حوالے سے میں ہاں اور نہ کی کشمکش میں جھول رہی تھی، لیکن میں نے سلیمان کے حق میں ہاں والے پلڑے کو نیچے جھکتے ہوئے بہت واضح محسوس کیا تھا۔
بڑی مشکل سے ایک ہفتہ گزرا اور میں بھیا کے جانے سے ایک دن پہلے رات کو کزن کے ساتھ کراچی واپس پہنچی، اگلے روز بھیا اور سلیمان روانہ ہونے والے تھے، اسی لئے سلیمان اپنا سامان لے کر ہمارے گھر ہی آگیا اور وہاں سے دونوں ساتھ ایئر پورٹ جانے والے تھے، اس روز ابا بھی گھر پر تھے اسی لئے میں سلیمان کے سامنے نہیں آسکی، ابا ان دونوں کو کافی دیر نصیحتیں کرتے رہے، سونے پر سہاگہ بھابھی کے میکے والے بھی آگئے تھے اور یوں ہمارے ملنے کی ساری رہیں بند ہوگئیں، اور وہ چلا گیا، جانے سے پہلے دروازے پر کھڑے جب ہم سب بھیا کو الوداع کہہ رہے تھے تب چند لمحوں کیلئے میری نظریں اس سے ملیں، اور اس کی آنکھوں میں مجھے بےتحاشا سوالات نظر آئے جن سے گھبرا کر میں نے نظریں چرالیں اور جب تک نظر دوبارہ اٹھی وہ نظروں سے اوجھل ہوچکا تھا۔
اب مجھے انتظار کرنا تھا اس کے لوٹ کے آنے کا، مگر میرا انتظار ختم نہیں ہوا، بلکہ دم توڑ گیا جب بھیا سے سارے رابطے منقطع ہوئے، ہمارا گھر بک گیا، ابا دنیا سے رخصت ہوگئے اور میں اپنی بھابھی کے رحم و کرم پر آگئی، میری نئی نویلی محبت کی نازک سی بیل، جو آہستہ آہستہ دل کی دیوار پر سجنے لگی تھی یہ جان کر اپنی موت آپ مر کر مرجھا گئی کہ سلیمان بھیا کو دھوکہ دے کر فرار ہوچکا ہے، اور سب ختم ہوگیا۔"
*******************************
"جس روز مجھے اور روحیل کو روانہ ہونا تھا اس دن وہ مجھے بہت مشکل سے بس جاتے وقت دروازے پر نظر آئی، ورنہ گھر میں موجود مہمانوں کی وجہ سے ہمارا سامنا نہیں ہو پایا تھا، میں اس سے بات کرنا چاہتا تھا، پوچھنا چاہتا تھا کہ اس کا جواب کیا ہے؟ مگر ہمیں موقع نہیں ملا، اور جب میں نے آنکھوں آنکھوں میں اس سے بات کرنے کی کوشش کی تو وہ نظریں چرا گئی جس کا مطلب میں نہیں سمجھ پایا کہ وہ اقرار کی حیا تھی یا انکار کی بےرخی؟
اپنے ادھورے سوالات دل میں لئے بلآخر میں نے اپنے وطن کو الوداع کہہ دیا، اور باہر پہنچنے کے بعد میری پوری کوشش تھی کہ جلد از جلد یہاں سے کامیاب ہوکر لوٹوں تا کہ پھر باقی کی زندگی اس کے ساتھ گزار سکوں، جس بندے کے توسط سے ہم وہاں گئے تھے اس نے وہاں جاتے ہی ہم سے ہمارے پاس پورٹ یہ کہہ کر لے لئے کہ وہ انہیں اپنے پاس محفوظ رکھے گا، ہمارا بھی یہ بیرون ملک آنے کا پہلا تجربہ تھا اسی لئے اپنی عقل لگانے کے بجائے اس کی بات پر عمل کرتے رہے، کچھ عرصہ سب ٹھیک رہا، ہم یہاں ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کرنے کے ارادے سے آئے تھے اور اسی پر کام کرنے لگے، لیکن پھر آہستہ آہستہ میں نے محسوس کیا کہ روحیل مجھ سے کٹنے لگا ہے اور اس کی حرکتیں بھی کچھ مشکوک لگنے لگی تھیں مجھے، اور پھر ایک روز روحیل اچانک مجھے چھوڑ کر پتا نہیں کہاں چلا گیا؟ اور کاروبار کیلئے جو پیسے ہم ساتھ لائے تھے وہ بھی اپنے ساتھ لے گیا، میں نے اس بندے سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو وہ بھی نہیں ملا، بس پھر یوں سمجھو کہ انجان ملک کے اجنبی لوگوں کے بیچ میں بنا پاس پورٹ کر چھپتا چھپاتا واپس پاکستان آنے کی جدوجہد میں لگ گیا، اور اس عرصے میں مجھے پتا چلا کہ روحیل نے اس بندے کے ساتھ مل کر مجھے دھوکہ دیا ہے، کیونکہ کاروبار کیلئے کچھ پیسے روحیل لایا تھا اور کچھ میں، اور روحیل وہ سب لے کر فرار ہوگیا تھا جس کے بعد میں خالی ہاتھ رہ گیا تھا کیونکہ اس بندے نے روحیل کو کوئی نیا لالچ دے دیا تھا، مگر کہتے ہیں نا کہ لالچ کا انجام برا ہوتا ہے، وہ ہی ہوا، وہ بندا بھی بعد میں روحیل کو دھوکہ دے کر فرار ہوگیا جس کے بعد پتا نہیں کیسے وہ پاکستان پہنچا اور وہاں سب کو جھوٹی کہانی سنا دی کہ میں نے اسے دھوکہ دیا تھا، میں یوں ہی در در بھٹکتے ہوئے بہت لمبے عرصے کے بعد وطن واپس لوٹا، مگر یہاں بہت کچھ بدل چکا تھا، باجی تو ان کی دیوارانی کی بہن کے رشتے سے انکار کے بعد مجھ سے پہلے ہی خفا تھیں اور میری غیر موجودگی میں وہ پوری طرح اپنے گھر اور بچوں میں مگن ہوگئیں، کیونکہ انہیں شاید اندازہ تھا کہ میں اب ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہوں، اسی لئے میں سیدھا روحیل کے گھر پہنچا تو پتا چلا کہ اس کے ابا کا انتقال ہوچکا ہے جب کہ بیوی بچے اور بہن بھی یہاں سے جا چکے ہیں، جب کہ گھر کو بینک نے ضبط کرکے بیچنے کے بعد اپنے پیسے وصول کرلئے ہیں، میں نے بہت کوشش کی ان لوگوں کو ڈھونڈنے کی، مگر میرے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھا ان تک پہنچنے کا، وقت آہستہ آہستہ گزرتا چلا گیا اور جس جگہ پر روحیل کا گھر تھا اس جگہ کو کسی بڑے بلڈر نے خرید لیا جس کے بعد وہاں کے سارے گھر گرا کر انہیں خالی زمین کی صورت دے دی گئی، جب کہ وہاں کے مکینوں کو اس کے بدلے پیسے دے دیے گئے، ایک وہ گھر ہی تو پہلی اور آخری نشانی تھا ہماری محبت کی، اسے بھی دنیا والوں نے قائم نہیں رہنے دیا، بلڈر نے وہ زمینیں مختلف لوگوں کو بیچ دیں جس کے بعد کچھ مالکان نے وہاں تعمیراتی کام شروع کروا دیا اور کچھ نے ویلیو مزید بڑھنے تک زمین کو یوں ہی چھوڑ دیا، روحیل کے گھر سمیت ایک گھر اور ملا کر جو زمینی حصہ جس بندے نے خریدا تھا اس نے بھی اب تک کوئی تعمیراتی کام وہاں شروع نہیں کروایا تھا، اسی لئے میری کوشش تھی کہ کسی طرح میں وہ زمین اس سے خرید لوں، مگر وہ شخص نہیں مانا، اور اس شخص کا نام تھا سالک حمدانی، جس نے اپنی بیٹی ملیحہ کو بطور شادی کا تحفہ دینے کیلئے وہ زمین اسی کے نام پر وقف کردی تھی، میں نے پیار سے تکرار سے، ہر طرح کوشش کرلی مگر وہ نہیں مانا، اس دوران زمین کی ویلیو لاکھوں میں تھی لیکن میں کروڑ تک بھی دینے کو تیار تھا جس کا انتظام بھی جیسے تیسے کر لیتا، مگر وہ اسے بیچنے کیلئے تیار ہی نہیں تھا، اسی لئے مجبوراً مجھے چال بازی کا سہارا لینا پڑا اور میں نے تمھیں مہرا بنایا غضنفر! مگر قسمت سے ملیحہ ایک اچھی لڑکی نکلی اسی لئے زمین مل جانے کے باوجود بھی میری کوشش رہی کہ تم دونوں الگ نہ ہو، اور اللہ کا شکر ہے کہ ایسا ہی ہوا، آج تم دونوں بھی ساتھ ہو، وہ زمین بھی میرے پاس ہے، میں اس پر گھر بھی تعمیر کروا چکا ہوں مگر!
مگر جس کیلئے میں نے اتنا سب کچھ کیا وہ تو مجھ سے خفا ہوئی بیٹھی ہے، جسے دیکھنے کیلئے میں کب سے ترس رہا تھا وہ تو مجھے دیکھنا ہی نہیں چاہتی، میں نے سالوں پہلے اس سے کہا تھا کہ اگر اسے میری محبت قبول ہو تو بس ایک بار مجھے مان کہہ کر پکار دے، میں سمجھ جاؤں گا، اور آج بائیس سال بعد اس نے کہا بھی تو کیا! کہ
"مجھے تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنی ہے مان!"
اب تم ہی بتاؤ کہ میں اسے کیا سمجھوں؟ اقرار یا انکار؟ محبت یا نفرت؟"
ہے یاد ملاقات کی وہ شام ابھی تک
میں تجھ کو بھلانے میں ہوں ناکام ابھی تک
آ تجھ کو دکھاوں کہ تیرے بعد ستمگر
ویران پڑے ہیں درو بام ابھی تک
گو ترک تعلق کو ہوا ایک زمانہ
ہونٹوں پہ مچلتا ہے تیرا نام ابھی تک
محسوس یہ ہوتا ہے کہ وہ ہم سے خفا ہیں
کیا ترک محبت کا ہے الزام ابھی تک
میخانے میں بھولے سے چلے آئے تھے لیکن
احباب کی نظروں میں ہیں بدنام ابھی تک
انتخاب
قصۂ ماضی سنانے کے بعد اب وہ تھک کر خاموش ہوئے یک ٹک کسی غیر مرئی نقطے کو تک رہے تھے۔ جب کہ اس سارے عرصے میں خاموشی سے انہیں سنتا غضنفر بھی ان نئے و پرانے انکشافات پر کافی حیران تھا۔ اسے آج پتا چلا تھا کہ جس زمین کو وہ معمولی یا پھر ان کے قبضہ مافیا کام کا حصہ سمجھتا آیا تھا در حقیقت وہ ان کی محبت کی نشانی تھی۔ تب ہی تو وہ اس حد تک چلے گئے تھے اسے حاصل کرنے کیلئے۔ مگر حاصل کے بعد بھی شاید وہ لاحاصل ہی رہ گئے تھے۔
"تو آپ بتائے نا انہیں جا کر کہ آپ کے جذبات اب بھی ان کیلئے وہ ہی ہیں۔" کافی دیر بعد بلآخر غضنفر نے خاموشی کو توڑا۔
"کیسے بتاؤں؟ وہ تو مجھ سے بات تک نہیں کرنا چاہتی۔" انہوں نے تاسف و بےبسی سے اس کی جانب دیکھا۔
"انہیں شاید کوئی غلط فہمی ہوگئی ہے آپ کے بارے میں، اگر وہ دور ہوجائے گی تو شاید ان کی ناراضگی ختم ہوجائے!" غضنفر نے کچھ سوچ کر نتیجہ نکالتے ہوئے حل تجویز کیا۔ جس پر وہ اسے دیکھنے لگے۔
*******************************
"مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی ہے، بھیا نے خود بتایا تھا کہ سلیمان انہیں دھو دے کر، ساری رقم لے کر فرار ہوگیا تھا۔" روبینہ ملیحہ کی کسی بات پر بھڑک اٹھی تھیں۔
"اگر اس نے ایسا نہ کیا ہوتا تو سب ٹھیک رہتا، بھیا واپس آجاتے، ہمارا گھر نہیں بکتا، ابا زندہ ہوتے اور میں یوں لاوارث نہ پڑی ہوئی ہوتی۔" وہ غم و غصے سے مزید بولیں۔ ملیحہ کو اندازہ ہوا کہ وہ اپنی طرف سے نتیجہ نکال کر اس پر مہر لگائے بیٹھی ہیں۔
"معذرت کے ساتھ، لیکن ہوسکتا ہے آپ کے بھیا نے آپ سے جھوٹ کہا ہو!" ملیحہ نے سنبھل کر دوسرے پہلو کی جانب توجہ دلائی۔
"وہ ایسا کیوں کریں گے؟" انہوں نے سرعت سے اسے دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
"تا کہ وہ خود کو بچا سکیں، اسی لئے انہوں نے الٹی کہانی سنا کر سارا الزام سلیمان ماموں کے سر ڈال دیا۔" اس نے ترکی بہ ترکی جواز پیش کیا۔
"ماموں!" روبینہ حیرت سے بڑبڑائیں۔
"جی، وہ میرے ماموں سسر ہیں۔" اس نے الجھن دور کرنے کو وضاحت کی۔ جس کے جواب میں وہ کچھ نہ بولیں۔
"سمجھنے کی کوشش کریں روبینہ جی! ضروری نہیں ہے کہ ہر بار سچ وہ ہی ہو جو نظر آرہا ہو، یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ سامنے والے نے سچ کے لبادے میں در حقیقت جھوٹ پیش کیا ہو!" انہیں خاموش دیکھ کر اس نے نرمی سے مزید سمجھانا چاہا۔
"مجھے کچھ بھی نہیں سوچنا سمجھنا، اور تم بھی اس سے کہہ دینا کہ آئندہ مجھے اپنی شکل نہ دکھائے۔" وہ یکدم کہتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئیں۔ اور پھر بات ختم کرکے تیز تیز قدم اٹھاتی اندر کی جانب چلی گئیں۔ جنہیں وہ بےبسی سے دیکھتے ہوئے گہری سانس لے کر رہ گئی۔
*******************************
غضنفر اور سلیمان ابھی تک وہیں بیٹھے تھے کہ ملیحہ کو اپنی جانب آتا دیکھ دونوں بینچ پر سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
"کیا ہوا بیٹا؟ تم نے بات کی اس سے؟ کیا کہا اس نے؟" سلیمان نے بےتابی سے پوچھا۔ غضنفر کو بھی جاننے کا اشتیاق ہو رہا تھا۔
"یہ ہی کہ آپ آئندہ اپنی شکل نہ دکھائیے گا انہیں۔" اس نے نظریں جھکا کر دھیرے سے بتایا تو ان کے دل پر ایک گھونسا لگا۔
"مطلب وہ ابھی تک ناراض ہیں ماموں سے؟" غضنفر نے تائید چاہی۔
"ناراض نہیں بہت سخت ناراض ہیں، اور بس یہ ہی کہتی ہیں کہ ماموں ان کے بھائی کو دھوکہ دے کر فرار ہوگئے تھے جس کی وجہ سے یہ سب ہوا۔" اس نے تصحیح کرتے ہوئے مزید بتایا۔
"لیکن ماموں نے ایسا کچھ نہیں کیا تھا، دھوکے بازی تو ان کے بھائی نے کی تھی ماموں کے ساتھ۔" غضنفر نے نفی کرتے ہوئے وضاحت کی۔
"یہ ہی میں نے بھی سمجھانے کی کوشش کی تھی انہیں، مگر وہ کچھ بھی سننے، سمجھنے کو تیار نہیں ہیں۔" ملیحہ نے بےبسی سے کندھے اچکائے۔
اب تک خاموشی کا بت بنے سلیمان بنا دونوں سے کوئی بات چیت کیے اچانک تیز تیز قدم اٹھا کر باہر کی جانب بڑھ گئے۔ شاید وہ بھی دلبرداشتہ ہوگئے تھے۔
دونوں نے پہلے انہیں دور جاتے ہوئے دیکھا اور پھر ایک دوسرے کو۔
"اب ہم کیا کریں گے غضنفر؟" اس نے فکرمندی سے سوال اٹھایا۔
"کچھ نا کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔" اس نے پرسوچ انداز میں جواب دیا۔
*******************************
بعد مدت اسے دیکھا، لوگو
وہ ذرا بھی نہیں بدلا، لوگو
خوش نہ تھا مجھ سے بچھڑ کر وہ بھی
اس کے چہرے پہ لکھا تھا، لوگو
اسکی آنکھیں بھی کہے دیتی تھیں
رات بھر وہ بھی نہ سویا، لوگو
اجنبی بن کے جو گزرا ہے ابھی
تھا کسی وقت میں اپنا، لوگو
دوست تو خیر کوئی کس کا ہے
اس نے دشمن بھی نہ سمجھا، لوگو
رات وہ درد مرے دل میں اٹھا
صبح تک چین نہ آیا، لوگو
پیاس صحراؤں کی پھر تیز ہوئی
ابر پھر ٹوٹ کے برسا، لوگو
پروین شاکر
گھر واپس آنے کے بعد اب سلیمان اپنے کمرے میں اندھیرا کیے اپنی ایزی چیئر پر پشت ٹکائے بیٹھے آنکھیں بند کرکے دھیرے دھیرے جھولتے ہوئے خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ مگر سکون تھا کہ پتا نہیں کہاں جا کر روٹھ بیٹھا تھا۔
باہر سورج غروب ہوچکا تھا جس کے باعث اندر بھی اندھیرا ہو رہا تھا جسے دور کرنے کی انہوں بالکل بھی زحمت نہیں کی۔
وہ بند آنکھوں میں ابھی تک اس ظالم کا چہرہ لئے بیٹھے تھے جس نے برسوں بعد ملنے پر بھی حال تک نہ پوچھا بلکہ الزامات کے تیر سے چھلنی کرتے ہوئے حال سے بےحال کردیا۔
اتنے لمبے عرصے کے بعد بھی وہ پوری طرح نہیں بدلی تھیں۔ ہاں چہرے کی شادابی ضرور ماند پڑ گئی تھی، جسم تھوڑا کمزور ہوگیا تھا اور کچھ شرارتی لٹوں میں بھی چاندی گھلنے لگی تھی مگر ناک پر وہ ہی غصہ جوں کا توں تھا جس کی جھلک برسوں پہلے بھی پہلی ملاقات پر دیکھنے کو ملی تھی۔
اس غصے کو تو وہ ادا سمجھتے ہوئے ہنس کر قبول کرسکتے تھے مگر اس کے ساتھ جو ناراضگی تھی وہ انہیں جان لیوا محسوس ہو رہی تھی۔ اور مزید ستم ظریفی یہ کہ اسے رفع کرنے کا کوئی حل بھی نہیں سجھائی دے رہا تھا۔
*******************************
ڈنر کے بعد غضنفر لان میں کھلتی گیلری کی ریلنگ پر دونوں ہاتھ رکھے کھڑا سوچ رہا تھا کہ کیسے اپنے اس ماموں کی مدد کرے جس نے مصیبت کے وقت اس کی مدد کی تھی اور ضرورت پڑنے پر ہمیشہ سہارا دیا تھا۔
"ماموں کے بارے میں سوچ رہے ہو؟" تب ہی ملیحہ نے پیچھے سے دونوں ہاتھ اس کے گرد حمائل کرکے اپنا سر اس کی پیٹھ پر ٹکاتے ہوئے پوچھا جو ابھی ابھی وہاں آئی تھی۔
"ہممم!" مختصر جواب ملا۔
"پتا ہے یہ غلط فہمی بہت بری چیز ہے، غلط فہمی کی دیمک رشتوں کی لکڑی کو کب کھا کر کھوکھلا کر دیتی ہے پتا ہی نہیں چلتا، ہمیں ان دونوں کے اس بےنام رشتے کو بچانا ہوگا جس پر دیمک لگنا شروع ہوگئی ہے۔" وہ اسی انداز میں مزید بولی۔ بجائے فوری طور پر کوئی جواب دینے کے وہ رخ بدل کر اس کی جانب پلٹا۔
"یہ ہی تو سوال ہے کہ کیسے دور کریں ان کی غلط فہمی؟" اس نے بےبسی سے کہتے ہوئے دونوں بازو ملیحہ کے کندھوں پر رکھے۔ وہ بھی سوچ میں پڑگئی۔
تب ہی بہت دنوں سے غضنفر کو تنگ کرتا ایک خیال پھر اس کے ذہن میں ابھرا کہ اسے ملیحہ کو سب سچ بتا دینا چاہئے کہ در حقیقت اس نے ملیحہ سے زمین کیلئے ہی شادی کی تھی اور اب وہ اس بات پر شرمندہ ہے کیونکہ اس سچ سے وہ اب تک ناواقف تھی۔
"ملیحہ!" اچانک اس نے آہستہ سے پکارا۔
"ہمم بولو!" وہ متوجہ تھی۔
"میں تمھیں کچھ بتانا چاہتا ہوں۔" اس نے تہمید باندھی۔
"ہاں بتاؤ!" اس کا انداز نارمل تھا۔
"پہلے وعدہ کرو کہ تم غصہ نہیں ہوگی۔" غضنفر نے اس کی کمر کے گرد بازو حمائل کرتے ہوئے اسے قریب کیا۔
"اگر ایسی کوئی بات ہے جس کی وجہ سے کسی خفگی کا خدشہ ہے تو پھر نہ ہی بتاؤ، ایسی صورت میں کبھی کبھی کچھ باتوں سے لاعلم رہنا ہی بہتر ہوتا ہے۔" اس نے بھی سہولت سے کہتے ہوئے دونوں بازو اس کے کندھوں پر رکھے۔ اس کی بات سے اور اسے کرنے کے انداز سے غضنفر کا ارادہ بھی بدل گیا۔
"میں بس یہ سوچ رہا تھا کہ ہم شادی کے بعد ہنی مون پر نہیں گئے تھے، تو اب کہیں چلتے ہیں، مگر تمہارے کزن کا ولیمہ آگیا بیچ میں۔" وہ اصل بات گول کرتے ہوئے دوسری بات پر آگیا۔
"تو کوئی بات نہیں، ولیمے کے بعد چلیں گے۔" اس نے سہولت سے حل پیش کیا۔
"بلکہ اس وقت ثوبان کے ولیمے سے زیادہ ماموں کا پیچ اپ ضروری ہے، اسی لئے اس معاملے پر سوچو، پھر ماموں کی شادی کے بعد ہم ہنی مون پر چلے جائیں گے۔" وہ مزید کہتے ہوئے سب ترتیب دینے لگی۔
"واؤ! کتنا یونیک لگے گا نا کہ شادی ماموں کی ہوگی اور ہنی مون پر بھانجا جائے گا۔" اسے سوچ کر ہی بڑا لطف آیا جس کا اس نے اظہار کیا۔
"ہاں تو بھانجے کی اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے ہوگا ایسا۔" وہ بھی طنز کرنے سے چوکی نہیں۔
"چلو پھر ڈن، پہلے ماموں کی شادی پھر ہمارا ہنی مون۔" اس نے فیصلہ کیا۔
"اوکے!" وہ بھی رضا مند تھی۔
"اور ہاں، ہنی مون پر جاتے ہوئے اپنی وہ ساڑھی بھی ضرور ساتھ رکھنا۔" غضنفر نے یاد آنے پر فرمائش کی۔
"کون سی ساڑھی؟" وہ انجان بنی۔
"وہ ہی جسے تم آگ لگانے والی تھی مگر پھر اس سے ہی آگ لگا دی تھی۔" اس نے بھی شرارت سے یاد دلایا۔
"اوہ! وہ کیوں؟" اس نے مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے مصنوعی ناسمجھی ظاہر کی۔
"آگ لگانے کیلئے!" اس نے اسے مزید قریب کرتے ہوئے معنی خیزی سے سرگوشی کی۔ تو جواباً اس نے بھی مسکرا کر اپنا چہرہ اس کے سینے میں چھپا لیا۔
*******************************
معمول کے مطابق ایک نیا دن پھر سے نکل آیا تھا۔ جس کے بعد مرد حضرات آفس جا چکے تھے جب کہ خواتین اپنے روز مرہ کے کام میں مصروف تھیں۔
ملگجے حلیے میں جمائی لیتے ہوئے عبید کمرے سے نکل کر ہال میں آیا تو اسے وہاں کوئی نہیں ملا جس نے طبیعت کی ناسازی کے باعث آج آفس سے چھٹی کرلی تھی اور اب سو کر اٹھا تھا۔
"اب کیسی طبیعت ہے؟" اس سوال پر وہ چونک کر پلٹا تو معلوم ہوا کہ زوہا قریب آچکی تھی۔
"الحمدللہ اب بہتر ہے، مگر سر کا درد ٹھیک نہیں ہوا ہے۔" اس نے تھکے ہوئے انداز میں جواب دیا۔
"ہوسکتا ہے بھوک کی وجہ سے ہو رہا ہو، تم ڈائینگ روم میں چلو میں ناشتہ لے کر آتی ہوں۔" اس نے اندازہ لگاتے ہوئے کہا۔
"تم ناشتہ لاؤ گی میرے لئے؟" اسے خوشگوار حیرت ہوئی۔
"ہاں، کیوں؟" اس نے بھی الٹا سوال کیا۔
"نہیں ایسے ہی، اچھا باقی سب کہاں ہیں؟" اس نے خود ہی بات بدل دی۔
"پاپا، چاچو اور عزیر بھائی آفس چلے گئے ہیں، صبیحہ بھابھی ہاسپٹل جا چکی ہیں، غضنفر بھیا بھی ملیحہ بھابھی کو فاؤنڈیشن چھوڑتے ہوئے شوروم چلے گئے ہیں، چچی ملازمہ کے ساتھ کچھ سامان لینے مارکیٹ گئی ہیں، دادی اپنے کمرے میں ظہر کی نماز کی تیاری کر رہی ہیں، ممی کچن میں ہیں اور میں تمہارے سامنے ہوں۔" اس نے تفصیلی جواب دیا۔ تو اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
"چلو اب تم ڈائینگ روم میں جاؤ میں آتی ہوں ناشتہ لے کر۔" وہ اسے تاكید کرتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔ وہ بھی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ڈائینگ روم میں آگیا۔
تھوڑی ہی دیر میں زوہا ناشتے کی ٹرے لے کر وہاں آئی اور اسے میز پر رکھ کر جانے ہی لگی تھی کہ عبید نے اس کی کلائی پکڑ لی۔
"تم نہیں کھا رہی؟" اس نے روکنے کا سبب واضح کیا۔
"میں سب کے ساتھ ناشتہ کرچکی ہوں۔" اس نے متوازن انداز میں وضاحت کی۔
"اچھا تو بیٹھ ہی جاؤ میرے ساتھ۔" اس نے نئی فرمائش کی تو وہ انکار نہیں کر پائی۔ اور سنگل کرسی پر بیٹھے عبید کے قریب ہی چیئر پر بیٹھ گئی۔
"ناشتہ تم نے بنایا ہے؟" اس نے ناشتے کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے پوچھا۔
"ہاں!" مختصر جواب ملا۔
"کیوں؟" پھر سوال آیا۔
"ناشتہ کیوں بناتے ہیں عبید؟" اس نے تعجب سے الٹا سوال کیا۔ تو بجائے جواب دینے کے وہ مسکرانے لگا۔
"اب کیوں بتیسی نکال رہے ہو؟" اس نے طنزیہ انداز میں پوچھا۔
"کیونکہ اتنے دن بعد تمہارے منہ سے اپنا نام سن کر، اور پرانی زوہا کی جھلک دیکھ کر اچھا لگا مجھے۔" اس نے ناشتہ کرتے ہوئے اطمینان سے بتایا تو وہ پھر نرم پڑ کر خاموش ہوگئی۔
"جب سے نکاح ہوا ہے تم نے تو میرا نام لینا ہی چھوڑ دیا ہے۔" اس نے اپنائیت بھرا شکوہ کیا۔
"ممی نے منع کیا تھا کہ شوہر کا نام لے کر اسے مخاطب نہیں کرنا چاہئے۔" اس نے نظریں جھکا کر وضاحت کی۔
"یہ حکم اس صورت میں ہے جب شوہر کو بیوی کا نام پکارنا ناگوار گزرتا ہو، لیکن اگر شوہر کو یہ پسند ہو تو بیوی نام لے سکتی، اتنا تو مجھے بھی پتا ہے دین اسلام کے بارے میں۔" اس نے بات کو مکمل کرکے وضاحت کی۔
"تو اب سے تم نام لے کر ہی مخاطب کرنا مجھے۔" اس نے مزید کہتے ہوئے اسے تاكید کی۔
"ٹھیک ہے۔" وہ مان گئی۔
"فی الحال اس بات پر عمل کرو، پھر۔۔۔" وہ کہتے ہوئے رکا۔
"پھر کیا؟" اس نے جاننا چاہا۔
"پھر میں بعد میں مزید بتاؤں گا کہ شوہر کی اور کون کون سی باتیں ماننی چاہیے۔" اس نے معنی خیزی سے اسے دیکھتے ہوئے بات مکمل کی۔
"ناشتے پر دھیان دو۔" وہ مسکراہٹ ضبط کرکے کہتی جھینپ کر وہاں سے چلی گئی جس سے وہ کافی محظوظ ہوا۔
*******************************
"میں اس بےفکری میں شوروم نہیں گیا تھا کہ تم وہاں چلے گئے ہوگے، اور تم الٹا یہاں چلے آئے، اور خود تو آئے ہی آئے اسے بھی ساتھ لے آئے۔" ملگجے سے حلیے میں صوفے پر آکے بیٹھتے ہوئے سلیمان نے کہا۔
"مجھے پتا تھا کہ آپ شوروم نہیں گئے ہوں اسی لئے میں یہاں آگیا، اور یہ خود آئی ہے ضد کرکے میرے ساتھ۔" غضنفر نے وضاحت کرتے ہوئے اپنے برابر میں بیٹھی ملیحہ کی جانب اشارہ کیا۔
"ہمیں پتا ہے ماموں کل جو کچھ بھی ہوا اس کی وجہ سے آپ کافی ہرٹ ہوئے ہیں۔" ملیحہ دل جوئی کرتے انداز میں مخاطب ہوئی۔ وہ بےساختہ پھیکےپن سے مسکرائے۔
"لیکن جو کچھ بھی ہوا وہ ایک فطری عمل تھا، عورت جذبات کے معاملے میں بہت حساس ہوتی ہے، اور چھوٹی سے چھوٹی بات بھی محسوس کرجاتی ہے، اور پھر یہاں تو معاملہ دل کا تھا، اسی لئے روبینہ جی نے ایسا برتاؤ کیا، مگر غصہ اتر جانے کے بعد ممکن ہے کہ وہ سب سمجھنے کے قابل ہوچکی ہوں، تو آپ دوبارہ بات کرکے اس غلط فہمی کی وضاحت کرنے کی کوشش کریں۔" ملیحہ نے تہمید باندھتے ہوئے پھر سے اکسایا۔
"نہیں بیٹا، وہ بہت ضدی ہے، وہ اس بات پر دل و جان سے یقین کرکے بیٹھی ہے کہ روحیل کو میں نے دھوکہ دیا تھا، اسی لئے میری ساری دلیلیں اور وضاحتیں بیکار ہیں۔" انہوں نے افسردگی سے نفی کی۔
"آپ کوشش تو کرکے دیکھیں انہیں منانے کی، لوگ تو محبت میں کیا کچھ نہیں کرجاتے اور آپ ایک کوشش نہیں کر رہے ہیں۔" غضنفر نے بھی اصرار کیا۔
"اچھا! تو اب تم مجھے سکھاؤ گے!" انہوں نے طنزیہ انداز میں اس کی جانب دیکھا۔
"سیکھا نہیں رہا، بتا رہا ہوں، کیونکہ بس ہم چاہتے ہیں کہ آپ کی لائف میں بھی سب کچھ ٹھیک ہوجائے۔" اس نے اسی اطمینان سے وضاحت کی۔
"وہ تو میں بھی چاہتا ہوں، مگر ایسا ہو نہیں سکتا۔" انہوں نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔
"صرف چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا، چاہت کو حاصل کرنے کیلئے جتن بھی کرنے پڑتے ہیں۔" ملیحہ نے فلسفہ دیا۔
"اب بہت دیر ہوچکی ہے بیٹا، اب ان سب کا کوئی فائدہ نہیں ہے، ہم دونوں کی عمریں نکل چکی ہیں۔" انہوں نے مایوسی کا اظہار کیا۔
"کوئی عمر نہیں نکلی ہے، آپ پینتالیس سال کے ہیں اور وہ بھی شاید چالیس، اکتالیس سال کی ہوں گی، اور اس عمر میں کوئی بڑھاپا تھوڑی آتا ہے بھلا! بلکہ یہ تو ایک پختہ عمر ہوتی ہے، سلمان خان کو دیکھا ہے؟ پچاس سال سے بھی اوپر کا ہے یعنی آپ سے بھی بڑا اور ابھی تک کیسا فٹ رکھا ہوا ہے اس نے خود کو۔" غضنفر نے ان کی فکر ہوا میں اڑاتے ہوئے دھیان دلایا۔
"وہ سلمان ہے، میں سُلِیمان ہوں۔" انہوں نے فرق واضح کرنا چاہا۔
"ارے کوئی بھی ہو، تھوڑی سی ٹریٹمنٹ سے ساری جوانی واپس لوٹ آتی ہے اب، بس بال کلر کرکے ڈریسنگ چینج کرنے کی دیر ہے، میں شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ میرے بڑے بھائی لگیں گے آپ۔" غضنفر نے چٹکی بجاتے ہوئے پیشن گوئی کی۔ جس پر ملیحہ اور سلیمان اسے دیکھنے لگے۔
"واہ! سب کو چھوڑو پہلے تو باجی اور رفاقت بھائی پوچھ گچھ کریں گے کہ مجھ پر اچانک یہ جوانی کیوں چڑھ رہی ہے؟" انہوں نے پھر نیا مسلہ اٹھایا۔
"چھوڑیں انہیں، آپ بس اپنی پرواہ کریں، آپ کی زندگی پر آپ کا حق ہے۔" اس نے یہ بات بھی ہوا میں اڑائی۔
"تم اتنے اتاولے کیوں ہوئے جا رہے ہو میری شادی کیلئے؟" انہوں نے الجھ کر پوچھا۔
"کیونکہ میں آپ کو آپ کی مکمل زندگی میں خوش دیکھنا چاہتا ہوں، میں نے ہمیشہ آپ کو اکیلا اور ادھورا ہی دیکھا ہے، جب جب مصیبت پڑنے پر آپ مجھے سنبھالتے تھے تو میں سوچتا تھا کاش میں بھی آپ کیلئے کچھ کر پاتا، اور اب لگ رہا ہے کہ قسمت نے روبینہ جی کی صورت یہ موقع دیا ہے مجھے، جسے میں گنوانا نہیں چاہتا۔" اس نے جذباتی انداز میں وضاحت کی تو انہیں اپنے اس پاگل بھانجے پر بےساختہ ٹوٹ کر پیار آیا۔
"اور آج سے پہلے تک خود آپ ہی تو انہیں ڈھونڈ رہے تھے نا؟ کیوں؟ تا کہ ان کے ساتھ مل کر وہ ادھورے خواب پورے کرسکیں جو کبھی آپ نے دیکھے تھے، مگر ان کا کل والا رد عمل دیکھ کر آپ کی ہمت ٹوٹ گئی، ہے نا؟" ملیحہ نے بھی کہتے ہوئے تائید چاہی تو انہوں نے نظریں جھکا کر اثبات میں سرہلایا۔
"تو پھر سے ہمت باندھیں کیونکہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں، ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں، محبت کر تو ہر کوئی لیتا ہے، مگر اسے منزل تک صرف باہمت لوگ ہی لے کر جا پاتے ہیں، اور آپ کو اب ہمت دیکھانی ہے، اگر آپ کے جذبات سچے ہیں تو!" انہیں خاموش دیکھ کر وہ مزید بولتی گئی۔ جسے دونوں نے خاموشی سے سنا۔
"آہ! تو اب تم لوگ ہی بتاؤ کہ میں کیا کروں میں؟" انہوں نے گہری سانس لیتے ہوئے گویا ہار مانی۔ تو ان دونوں نے فاتحانہ انداز میں بےساختہ ایک دوسرے کو دیکھا۔
"گڈ! یہ ہوئی نا بات، اب ہم کوئی حل بھی ڈھونڈ لیں گے۔" ملیحہ نے سراہتے ہوئے حوصلہ افزائی کی۔
"ویسے میرے پاس ایک آئیڈیا ہے۔" تب ہی غضنفر بولا۔
"کیا؟" دونوں نے یک زبان پوچھا۔
"اگر ہم ان سے کہیں کہ ان کی ناراضگی سے دلبرداشتہ ہوکر آپ پہاڑ سے کود کر خودکشی کرنے جا رہے ہیں تو!" اس نے تجویز پیش کرکے رائے مانگی۔
"تو وہ خود چل کر آئے گی، مجھے بچانے کیلئے نہیں بلکہ دیکھنے کیلئے کہ کیا میں واقعی کود رہا ہوں؟ اور اگر نہیں تو خود اپنے ہاتھوں سے دھکا دے دے گی مجھے۔" انہوں نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ تو وہ لاجواب ہوکر رہ گیا۔
"چھوڑو یہ بیکار کی باتیں، ہم پھر سے دہراتے ہیں۔" ملیحہ نفی کرتے ہوئے بولی۔
"کیا؟" دونوں نے بیک وقت جاننا چاہا۔
"پہلی ملاقات!" وہ معنی خیزی سے مسکراتے ہوئے بولی۔
*******************************
جو منصوبہ ان لوگوں نے ترتیب دیا تھا اس میں انہیں دو لوگوں کی مزید ضرورت تھی اسی لئے ان لوگوں نے زوہا اور عبید کو بھی اپنا رازدار بنا لیا تھا۔ اور بنا وقت برباد کیے منصوبے پر عمل درآمد کرنے لگے تھے۔
"سمجھ گئی نا زوہا کہ کیا بات کرنی ہے؟" ملیحہ نے اس کے ساتھ چلتے ہوئے پھر سے تائید چاہی۔
"جی بھابھی، بےفکر رہیں۔" اس نے اطمینان سے تسلی کروائی۔
"اور وہ تم نے اپنی بیوٹیشن دوست سے بات کرلی ہے نا پارلر کیلئے؟ کیونکہ انہیں وہیں لے کر جانا ہے۔" اس نے دوسرے کام کا پوچھا۔
"جی اور اسے سب سمجھا دیا ہے اور وہ سمجھ بھی گئی ہے، وہ بالکل ایسا ظاہر کرے گی کہ انہیں شک نہیں ہوگا۔" اس نے یقین دہانی کرائی۔
اگلے دن یعنی اس وقت ملیحہ زوہا کو لے کر فاؤنڈیشن آئی تھی تا کہ وہ حسب منصوبہ کام کر سکے۔
دونوں باتیں کرتی ہوئی اندر داخل ہوئیں تو روبینہ انہیں کاریڈور میں ہی مل گئیں۔
"السلام علیکم! کیسی ہیں؟" ملیحہ نے خوشدلی سے سلام کیا۔
"وعلیکم السلام! میں ٹھیک ہوں لیکن تم کل آئی کیوں نہیں تھی؟" انہوں نے اپنائیت سے جواب دیتے ہوئے پوچھا۔
"ایک ذاتی مسلے میں الجھ گئی تھی، خیر! ابھی مجھے آپ کی ہیلپ چاہیے ارجنٹ۔" وہ سرسری سا بتاتے ہوئے اصل بات کی جانب آئی۔
"ہاں بولو؟"
"یہ میری نند ہے زوہا، یہ ایک بیوٹیشن ہے اور دراصل اسے ہی آپ کی مدد چاہیے۔" اس نے تہمید باندھتے ہوئے زوہا کی جانب اشارہ کیا۔
"میں کیا مدد کرسکتی ہوں؟" وہ سمجھیں نہیں۔
"دراصل میم جہاں سے میں بیوٹیشن کا کورس کر رہی ہوں وہاں ہم سب کو کچھ نئے نئے ٹاسک ملتے رہتے ہیں، تو اس بار کا میرا ٹاسک ہے کہ کس طرح فورٹی پلس ہونے کے باوجود ایک عورت خود کو مینٹین کروا سکتی ہے؟ اور اس کیلئے مجھے ایک لیڈی کی ضرورت ہے، جو کہ ہمیں کہیں نہیں مل رہی، میری ممی نے بھی صاف انکار کردیا ہے، تو بھابھی نے آپ کا بتایا تھا، اسی لئے ہم بڑی امید لے کر آپ کے پاس آئے ہیں۔" زوہا نے حسب منصوبہ رٹی ہوئی کہانی سنائی۔
"میں اب بھی نہیں سمجھی کہ تم لوگ کیا کہہ رہی ہو؟" وہ الجھن کا شکار تھیں۔
"ہم چاہتے ہیں کہ آپ ایز آ ماڈل ہمارے ساتھ چلیں تا کہ یہ آپ پر ٹریٹمنٹ کرکے اپنا ٹاسک پورا کرسکے۔" ملیحہ نے مزید وضاحت کی۔ اور اب دونوں ان کے جواب کی منتظر تھیں۔
"نہیں، میں یہ سب نہیں کروا سکتی، تم لوگ کسی اور سے بات کرلو۔" چند لمحے سوچنے کے بعد انہوں نے صاف انکار کیا اور وہاں سے چلی گئیں۔
"یہ تو بڑی عجیب ہیں۔" زوہا نے دھیمی آواز سے تبصرہ کیا۔
"اور جو ہم کر رہے ہیں وہ کون سا نارمل ہے؟ تم رکو یہیں میں آتی ہوں۔" وہ اسے جواب دے کر فٹافٹ ان کے پیچھے لپکی۔ زوہا وقت گزاری کیلئے آس پاس کا جائزہ لینے لگی۔
"روبینہ جی، پلیز ایک منٹ!" وہ پکارتی ہوئی ان کے پیچھے آئی تو وہ رک کر پلٹیں۔
"کیا آپ اسی لئے میری مدد کرنے سے انکار کر رہی ہیں کہ میرا سلیمان ماموں سے رشتہ جڑا ہے؟" اس نے کھوجتی ہوئی نظروں سے جاننا چاہا۔
"نہیں! مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں ہے، اور بہتر ہے کہ تم بھی دوبارہ اس کے بارے میں بات نہ کرو۔" انہوں نے فوری طور پر نفی کی۔
"اگر سچ میں ایسا ہے تو پھر مدد کردیجئے ہماری۔" اس نے پھر عاجزی سے اصرار کیا تو وہ پر سوچ انداز میں اسے دیکھنے لگیں۔
*******************************
"یار یہ کتنی دیر میں سوکھے گا؟ خارش ہو رہی ہے میرے سر پر۔" سلیمان نے بےچینی سے یہاں وہاں ٹہلتے ہوئے کوئی تیسری بار کوفت سے پوچھا۔ جن کے سر پر غضنفر اور عبید نے ہیئر کلر لگایا ہوا تھا۔
"بتایا تو ہے ماموں کہ کم از کم آدھا گھنٹہ رکھنا ہے اسے، ابھی دس منٹ باقی ہیں، صبر کریں تھوڑا۔" غضنفر نے بیڈ پر بکھرے کپڑوں کا جائزہ لیتے ہوئے جواب دیا۔
"اففو! پتا نہیں کب ہوں گے دس منٹ پورے؟" وہ کوفت سے بڑبڑائے۔
"صرف ایک کلر لگانے پر آپ کو اتنی بےچینی ہو رہی ہے انکل، اگر آپ کی جگہ میں ہوتا نا تو اپنی روٹھی محبوبہ کو منانے کیلئے پلاسٹک سرجری تک کروا لیتا۔" صوفے پر بیٹھ کر موبائل میں گیم کھیلتے عبید نے بےنیازی سے کہا۔
"بیٹا پلاسٹک سرجری سے کم میں تمہارا کام بنتا بھی نہیں، تمھیں اسی کی ضرورت تھی۔" انہوں نے بھی ترکی بہ ترکی حساب برابر کیا تو وہ خفگی سے انہیں گھورنے لگا۔
"بس یہ فائنل ہے، آپ یہ پہن رہے ہیں ماموں!" بلآخر غضنفر نے ایک پلین ڈارک بیلو شرٹ اور بلیک جینز ہاتھ میں پکڑ کر لہراتے ہوئے فیصلہ سنایا۔
"یہ پہنوں میں؟ کوئی ڈریس پینٹ نہیں لائے تم عبید؟" انہوں نے ناپسندیدگی ظاہر کرتے ہوئے اس سے پوچھا۔
"نہیں، بھیا نے کہا تھا کہ صرف جینز اور شرٹس ہی خریدنی تھیں، اسی لئے میں یہ ہی لایا۔" اس نے کندھے اچکاتے ہوئے جواب دیا۔
"جوانی میں جب آپ مامی پر لائن مارنے جاتے تھے تو جینز ہی پہنی ہوتی تھی نا آپ نے!" غضنفر نے یاد دلایا۔
"ہاں لیکن تب کی بات اور تھی اب کی بات اور ہے۔" انہوں نے انکار کرنا چاہا۔
"کوئی اور نہیں ہے، آپ بس یہ ہی پہن رہے ہیں، اب جا کر سر دھو لیں، کلر آگیا ہوگا۔" اس نے بات ختم کرتے ہوئے کہا۔ تو بنا کوئی ضد بحث کیے وہ سیدھا باتھ روم میں چلے گئے۔
"آپ کے ماموں کا فیشن سینس بالکل زیرو ہے بھیا۔" عبید نے موبائل میں محو رہتے ہوئے بےنیازی سے تبصرہ کیا۔
"ہاں، بالکل تمہارے آئی کیو لیول کی طرح۔" غضنفر نے بھی ترکی بہ ترکی حساب برابر کیا تو وہ خفگی سے اسے گھور کر رہ گیا۔
*******************************
ملیحہ اس وقت پارلر کے ویٹنگ ایرا میں بیٹھی وقت گزاری کیلئے کوئی میگزین پڑھ رہی تھی۔ جب کہ زوہا روبینہ کے ساتھ اندر تھی۔
کچھ ہی دیر میں یہ انتظار اختتام پذیر ہوا اور زوہا کے ہمراہ روبینہ باہر آئیں جنہیں دیکھ کر وہ اپنی جگہ پر سے اٹھتی خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوگئی۔
ہلکے گلابی کاٹن کے سوٹ میں، ہمرنگ دوپٹہ طریقے سے دائیں کندھے پر سیٹ کیا ہوا تھا۔ جگہ جگہ سے ہلکے سفید ہوتے بالوں کو کلر کی مدد سے پھر سیاہ کرکے آدھے بالوں میں کیچر لگا کر باقی بالوں کو پشت پر کھلا چھوڑا ہوا تھا۔ فیشل کے باعث ان کے چہرے پر کافی شادابی آگئی تھی اور اس نفیس سے حلیے میں بلاشبہ وہ بہت اچھی لگ رہی تھیں۔
"ماشاءاللہ! آپ نے تو ہمیں بھی کامپلیکس کا شکار کردیا۔" ملیحہ تعریف کرتی ہوئی ان کی جانب آئی تو وہ بےساختہ مسکرادیں۔
"اب ایسی بھی بات نہیں ہے، دراصل یہ سارا کمال تو ان لوگوں کا ہے۔" انہوں نے زوہا اور اس کی بیوٹیشن دوست کی جانب اشارہ کیا۔
"ہاں لیکن آپ کا بھی شکریہ کہ آپ نے ہمارے ساتھ تعاون کیا۔" زوہا نے بھی مسکراتے ہوئے کہا۔
"ویسے اگر آپ اسی اسکن کیئر روٹین کو اپنائے رکھیں تو آپ کی ایج اصل سے بہت کم لگے گی میم۔" اس لڑکی نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔
"جب ذہن ہی تھک کر بوڑھا ہوجائے تو پھر اسکن پر کوئی کیئر کام نہیں آتی۔" ناچاہتے ہوئے بھی وہ تاسف سے کہہ گئیں۔ جس پر تینوں لڑکیوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔
"خیر! اگر تم لوگوں کا کام ہوگیا ہو تو اب میں کپڑے بدل لوں؟" انہوں نے اگلے پل خود ہی موضوع بدلا۔
"نہیں!" ملیحہ تقریباً چیخ پڑی۔ جس پر تینوں نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
"میرا مطلب کہ ابھی چینج نہ کریں، فاؤنڈیشن جا کر کرلیجئے گا۔" اس نے جلدی سے وضاحت کی۔
"نہیں، میں اس طرح واپس نہیں جاؤں گی، مجھے بہت عجیب لگے گا۔" انہوں نے انکار کیا۔
"پلیز! جہاں آپ نے اتنی ہیلپ کی وہاں تھوڑی اور بھی کردیں، اچھا ہے آپ کی اس لک کے بہانے ہم وہاں مزید ان خواتین کو بھی اپنی کیئر کرنے کیلئے قائل کرسکیں گے، جو بیچاری پتا نہیں کون کون سے غم سینے سے لگائے خود کو جیسے بھلا ہی بیٹھی ہیں۔" اس نے جذباتی دباؤ ڈالنا چاہا تو وہ سوچ میں پڑ گئیں۔
"اچھا، چلو ٹھیک ہے۔" بلآخر انہوں نے ناچاہتے ہوئے بھی رضا مندی دی تو زوہا اور ملیحہ نے فاتحانہ نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا۔
"گڈ! تو چلیں چلتے ہیں۔" ملیحہ خوشی سے بولی۔
پھر زوہا کی دوست کو الوداع کہتے ہوئے وہ تینوں باہر آکر گاڑی میں بیٹھ گئیں۔
ملیحہ نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی، زوہا اس کے ساتھ ہی فرنٹ سیٹ پر بیٹھی جب کہ روبینہ پچھلی نشست پر براجمان ہوگئیں جس کے بعد گاڑی منزل کی جانب چل پڑی۔
"ویسے ایک بات ہے میم، جوانی میں آپ یقیناً بہت خوبصورت رہی ہوں گی!" زوہا نے بیک ویو مرمر سے دیکھتے ہوئے یوں ہی بات چھیڑ دی۔
"جوانی کتنی ہی خوبصورت کیوں نا ہو، ایک دن ڈھل کر ختم ہوجاتی ہے۔" انہوں نے تاسف سے جواب دیا۔
"ہاں لیکن اگر آپ کی سوچ پازیٹیو ہو تو آپ لمبے عرصے تک صحت مند رہ سکتے ہیں، ایسا میں نہیں سائنس کہتی ہے۔" ملیحہ نے بھی ڈرائیو کرتے ہوئے گفتگو میں حصہ لیا۔
"جب زندگی میں ہزار مسلے ہوں تو بھلا مثبت کیا سوچیں ہم؟" انہوں نے تھکن زدہ انداز میں گویا سوال کیا۔
"یہ سوچیں کہ اگر مسلے ہیں تو ان کا حل بھی ہوگا، لیکن یہ حل منفی سوچ نہیں ہے، بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ مثبت سوچنے سے مسلے حل نہیں ہوتے، تو میں انہیں کہتی ہوں کہ وہ تو منفی سوچنے سے بھی نہیں ہوتے، ہاں لیکن آپ کی صحت ضرور خراب ہوجاتی ہے، تو کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ مثبت سوچ کر کم از کم صحت تو اچھی رکھی جائے!" اس نے اپنے مخصوص اندازہ میں اپنا نقطہ نظر بیان کیا۔ جس پر وہ کچھ نہ بولیں اور کار میں خاموشی چھا گئی۔
تب ہی ملیحہ نے آنکھوں آنکھوں میں زوہا کو کوئی اشارہ کیا جسے سمجھتے ہوئے سر ہلا کر زوہا نے پرس سے اپنا موبائل نکال کر ملیحہ کا نمبر ڈائل کیا۔ جس کے باعث ڈیش بورڈ پر رکھا ملیحہ کا موبائل گنگنا اٹھا۔
"ارے! گھر سے کال آرہی ہے۔" ملیحہ نے موبائل اسکرین دیکھتے ہوئے جھوٹی خودکلامی کی اور پھر کال ریسیو کرکے موبائل کان سے لگا لیا۔
"جی ممی بولیں؟" وہ جھوٹی بات کرنے لگی۔
"کیا!۔۔۔۔۔۔کیسے؟۔۔۔۔۔اچھا ہم آتے ہیں آپ پریشان نہ ہوں۔" ملیحہ نے تشویش پھیلاتے ہوئے موبائل کان سے ہٹایا۔
"کیا ہوا بھابھی؟" زوہا بھی انجان بنی۔
"دادی کی طبیعت اچانک خراب ہونے لگی ہے اور گھر پر کوئی ہے بھی نہیں، ممی نے جلدی بلایا ہے۔" اس نے پرشانی کے عالم میں بتایا۔
"اوہ گاڈ! تو جلدی چلیں گھر۔" زوہا نے بھی گھبراہٹ ظاہر کی۔
"ہاں لیکن روبینہ جی کو فاؤنڈیشن بھی تو چھوڑنا ہے۔" ملیحہ نے دھیان دلایا۔
"ارے بیٹا پہلے گھر چلی چلو وہ زیادہ اہم ہے۔" تب ہی روبینہ بھی بول پڑیں اور یہ لوگ یہی تو چاہتے تھے۔
"ٹھیک ہے۔" ملیحہ نے کہہ کر گاڑی کی رفتار مزید بڑھا دی۔
پورا راستہ خاموشی سے طے ہوا اور مطلوبہ ایریا میں پہنچ کر روبینہ کے چہرے پر تعجب کے آثار نمایاں ہونے لگے۔
بھلے ہی وہ بیس، بائیس سال بعد اس جگہ پر آئی تھیں، اور یہاں پر سب کچھ ہی یکسر بدل چکا تھا، پرانے طرز کے کچے پکے مکانوں کی جگہ اب خوبصورت بنگلوں نے لے لی تھی، کچی پکی سڑک پختہ اور صاف ہوگئی تھی، مگر انہیں لمحہ لگا تھا اس جگہ کو پہچاننے میں۔
ابھی وہ حیرت زدہ سی سب دیکھ ہی رہی تھیں کہ گاڑی ایک دو منزلہ جدید طرز پر بنے نئے گھر کے سامنے آکر رکی اور وہ دونوں کار سے اتر گئیں۔
"آئیے!" ملیحہ نے پچھلی نشست کا دروازہ کھول کر انہیں دعوت دی تو ایک ٹرانس کی سی کیفیت میں وہ باہر آگئیں۔
جس گھر کے آگے یہ لوگ رکے تھے اس جگہ پر پہلے ان کا پرانا گھر ہوا کرتا تھا جو ایک دھوکے کی وجہ سے ان سے چھین لیا گیا تھا اور اب وہاں ایک جدید طرز کا خوبصورت گھر تھا۔
"یہ۔۔۔یہ گھر!" وہ اسے دیکھتے ہوئے بمشکل بس اتنا ہی بولیں۔
"آئیں اندر چلیں۔" بجائے انہیں جواب دینے کے وہ ان کے ہمراہ آگے بڑھی اور اپنے پاس موجود ڈوپلیکیٹ چابی سے دروازہ کھول کر ان دونوں سمیت اندر آگئی۔
اندر داخل ہوتے ہی سفید سنگ مرمر کا ایک کشادہ صحن تھا اور پھر اندرونی دروازے سے اندر جانے کے بعد کمرے وغیرہ بنے ہوئے تھے۔ جب کہ داخلی دروازے کی بائیں جانب بنی سنگ مرمر کی سیڑھیاں اوپری منزل پر جا رہی تھیں اور اس سے اوپر چھت تھی۔
جدید انداز میں بھی یہ گھر اسی طرز پر بنایا گیا تھا جیسا بائیس سال قبل ہوا کرتا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کسی نے اپنے ذہن میں اس گھر کا پرانا نقشہ محفوظ کرکے اس کی مدد سے یہ گھر تعمیر کروایا ہو۔
وہ صحن کے بیچ و بیچ کھڑی اس قدر پرانی یادوں میں غرق تھیں کہ انہیں نہ کوئی سوال کرنے کا خیال آیا اور نہ یہ محسوس ہوا کہ وہ دونوں انہیں یہاں تنہا چھوڑ کر خاموشی سے اندر جا چکی ہیں۔
وہ ان ہی سوچوں میں غلطاں تھیں کہ کسی نے چابی کی مدد سے دروازے پر مخصوص انداز سے دستک دی جس پر وہ یکدم چونکیں، یہ آشنا سا انداز پہچانتے ہوئے ان کا دل زور سے دھڑکا، اور پھر وہ بےاختیار ہی دروازہ کھولنے آگے بڑھیں۔
دروازہ کھولتے ہی سامنے بلیک جینز پر ڈارک بیلو شرٹ پہنے، سیاہ بالوں کے ساتھ کلین شیو چہرے پر نرم سی سنجیدگی لئے انہیں سلیمان کھڑے ملے۔
روبینہ کو آج ان میں وہ ہی پرانا سلیمان نظر آیا تھا جو بائیس سال پہلے اسی طرح ایک روز ان کے دل کے گھر میں چلا آیا تھا۔
"کیسی ہو روبی؟" انہوں نے مبہم مسکراہٹ کے ساتھ آہستہ سے پوچھا۔
روبینہ کے تو گویا الفاظ زبان سے نکلنے کیلئے انکاری ہوگئے تھے۔ اور حلق میں آنسوؤں کا گولہ بننے لگا تھا۔ جس کے باعث آنکھوں کے کنارے نم ہونے لگے اور چہرے پر کرب واضح تھا۔
"میں تمہارا جواب جاننے آیا ہوں روبی۔" وہ اسی انداز میں مزید بولے۔ گویا یہ لوگ ابھی تک سن انیس سو ننانوے میں ہوں، اور خط کے اگلے روز اب وہ جواب لینے آئے ہوں۔ جب کہ یہ اگلا روز آنے میں بائیس سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔
بےساختہ پھر سے سارا ماضی ان کے ذہن میں بہت تیزی سے گردش کرنے لگا۔ ان کا پرانا گھر، اس گھر میں گزرا ان کا بچپن و لڑکپن، باپ کا لاڈ پیار، جوانی کی شوخیاں، سلیمان کی آمد، ان کے بدلے ہوئے جذبات، روحیل کی گمشدگی، ابا کی موت، گھر کا سودا، دنیا کے ستم، سلیمان کی دھوکے بازی، اور اب لاوارثوں سی زندگی۔
"م۔۔مان!" بہت مشکل سے انہوں نے یہ لفظ ادا کیا اور پھر اگلے ہی پل پھوٹ پھوٹ کر رو پڑیں جس کے باعث وہ بھی گھبرا گئے۔
"روبی!" وہ انہیں سنبھالنے کی کوشش کرتے ہوئے اندر صحن میں آگئے۔
"میں۔۔۔میں کب سے۔۔۔۔۔انتظار کر رہی تھی۔۔۔۔۔تمہارا۔۔۔۔۔اور تم۔۔۔۔اب آئے ہو۔۔۔۔بائیس سال بعد!" وہ بری طرح روتے ہوئے کہتی سرخ پڑچکی تھیں۔ سلیمان کا دل بھی کٹ گیا مگر انہوں نے روبینہ کو بولنے دیا۔
"کیوں جھوٹے خواب دیکھانے کے بعد چھوڑ کر چلے گئے تھے تم؟ کیوں؟" اب وہ ان کی شرٹ دونوں ہاتھوں میں دبوچے انہیں جھنجھوڑ رہی تھیں۔
"نہ وہ خواب جھوٹے تھے، اور نہ میں تمھیں چھوڑ کر گیا تھا، بس واپسی کا راستہ بھول گیا تھا میں، مگر اب یاد آگیا ہے۔" انہوں نے اپنی شرٹ کو دبوچے روبینہ کے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھتے ہوئے آہستگی سے کہا۔
ان کے رونے میں مزید شدت آگئی تھی اور اب وہ بےاختیاری میں ماتھا ان کے سینے پر ٹکائے بری طرح ہچکیوں سے رو رہی تھیں۔ ان کی آنکھیں بھی نم ہونے لگیں اور دلاسا دینے کیلئے ترتیب دیے ہوئے الفاظ بھی دم توڑتے محسوس ہوئے۔
تب ہی اچانک روبینہ کی ہچکیوں میں کمی آئی، شرٹ پر سے ان کی گرفت ڈھیلی ہوئی اور وہ نیچے کی طرف گرنے لگیں۔
سلیمان نے جلدی سے گھبرا کر فرش پر بیٹھتے ہوئے انہیں تھاما۔ وہ روتے ہوئے اچانک خاموش ہوتی بند آنکھوں سمیت بےجان ہوکر ان کی بانہوں میں جھول گئی تھیں۔
"روبی!" وہ حلق کے بل کرب سے چلائے۔
نئی رُتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے
وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے
یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
کہ اب تو جا کہ کہیں دن سنورنے والے تھے
جمال احسانی
*******************************
کمرے کی لائٹس بند تھیں، صرف نائٹ بلب اور بیڈ کے دونوں اطراف سائیڈ لیمپ جل رہے۔
ملیحہ حسب معمول نائٹ سوٹ میں ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی اپنی مخصوص نائٹ کریم لگا رہی تھی اور یہ عمل بھی تقریباً مکمل ہوچکا تھا۔
تب ہی غضنفر نے پیچھے سے آکر اس کے گرد بازو حمائل کرلئے۔ جس پر وہ چونکی نہیں کیونکہ وہ شیشے میں اسے دیکھ چکی تھی۔
"آج بہت تھکے ہوئے لگ رہے ہو تم، جاؤ چینج کرکے لیٹ جاؤ۔" اس نے کریم کا جار بند کرتے ہوئے عام سے انداز میں کہا۔
"ہم کل ہنی مون پر جا رہے ہیں۔" اس کی بات نظر انداز کرتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا۔
"اچھا! کہاں لے کر جا رہے ہو؟" اس نے مسکرا کر شیشے میں اس کے عکس کو دیکھتے ہوئے جاننا چاہا۔
"دل تو چاہ رہا ہے کہ تمھیں دنیا سے ہی باہر لے جاؤں لیکن ایسا ممکن نہیں ہے۔" اس نے پراسرار سنجیدگی سے کہتے ہوئے اس پر گرفت مزید تنگ کی۔ اس کے لہجے میں عجیب سی سرد مہری تھی۔
آج اس کی گرفت میں کچھ زیادہ ہی سختی تھی جس کے باعث اس کی مسکراہٹ لمحوں میں غائب ہوئی اور وہ تھوڑا کسمسائی۔
"پھر بھی کچھ تو بتاؤ کہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟" اس نے گرفت سے نکلنے کی کوشش کرتے ہوئے جاننا چاہا۔
بجائے کوئی جواب دینے کے غضنفر نے یکدم جھٹکے سے اس کا رخ پلٹ کر اپنی جانب کیا اور پھر دونوں بازو اس کی کمر کے گرد حمائل کرتے ہوئے اس پر گرفت کس لی۔
"اتنی بےتاب کیوں ہو رہی ہو جاننے کیلئے، مجھ پر بھروسہ نہیں ہے کیا کہ میں تمھیں کسی اچھی جگہ پر ہی لے کر چلوں گا!" اس نے حصار مزید تنگ کرکے چبھتے ہوئے انداز میں پوچھا۔
"مجھے تکلیف ہو رہی ہے غضنفر!" اس نے بےساختہ دہائی دیتے ہوئے اسے دور کرنا چاہا۔
"تکلیف!" اس نے استہزائیہ انداز میں دہرایا۔
"اچھا سوری!" پھر اگلے ہی پل نرم پڑتے ہوئے اس پر سے گرفت ڈھیلی کردی جس سے اسے سکون ملا۔
"میں چینج کرکے آتا ہوں، پھر اپنے ہنی مون کے حوالے سے پلاننگ کرتے ہیں ہم، ٹھیک ہے نا!" غضنفر نے اس اس کی لٹ چہرے پر سے ہٹاتے ہوئے پیار سے کہا اور پھر اس کے ماتھے پر بوسہ دے کر چینج کرنے چلا گیا۔
وہ حیران پریشان سی وہیں کھڑی یہ سمجھنے کی ناکام کوشش کرنے لگی کہ آخر اسے اچانک کیا ہوگیا ہے؟
ہے عجیب مزاج کا شخص وہ کبھی ہم نفس کبھی اجنبی
کبھی چاند اس نے کہا مجھے کبھی آسمان سے گرا دیا
انتخاب
*****************************************
ختم شد
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Keh Do Agar Pyaar Se Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Keh Do Agar Pyaar Se written by Faryal Khan .Keh Do Agar Pyaar Se by Faryal Khan is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment